اقبال کی ابتدائی زندگی ڈاکٹر سید سلطان محمود حسین اقبال اکادمی پاکستان دیباچہ پانچ چھ برس پہلے کی بات ہے،میں ایک سرکاری فرض کی ادائیگی کے سلسلہ میں سیال کوٹ میں قیام پذیر تھا۔ کہ شہر کی ایک معروف اور ہر دل عزیز شخصیت سے ملاقات ہوئی۔ تحقیق وجستجو پر گفتگو کے دوران اقبال کے سودائی نے راقم کو اقبال کے بچپن پر کام کرنے کا مشورہ دیا،میں نے یہ کہہ کر معذوری ظاہر کی کہ اقبال کے بچپن میں کیا انوکھی بات ہوگی؟۔پیدا ہوا، بچپن ولڑکپن گزارا،اسکاچ مشن سکول وکالج میں پڑھا۔ اور ۱۸۹۵ع میں مزید تعلیم کے لئے لاہور سدھارا اور بات آئی گئی ہو گئی۔ مولوی سید میر حسن (حیات وافکار) نامی تالیف کے سلسلے میں اسکاچ مشن ہائی سکول سیال کوٹ کی ۳۱ سال کی رپورٹیں دیکھ چکا تھا۔مذکورہ کتاب کے ایک حوالے کے لئے جب میں نے یہ رپوڑٹیں دوبارہ دیکھیں،تو اقبال کی پہلی جماعت پاس کرنے کی رپورٹ ملی،رپورٹ پا کر میری مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ حیات اقبال کے سلسلے کی یہ پہلی قدیم ترین تحریری دستاویز تھی۔ جو دانشوروں کی نظر سے ا وجھل رہی۔میرے ہمراہ میرے ایک دوست طاہر تھے۔ میں نے ان کو اس در بے بہا کی دستیابی سے آگاہ کیا،اور اسے اس کو راز میں رکھنے کی استدعا کی۔ مذکورہ رپوڑٹ کو میں ایک مجلے کی زینت بنانا چاہتا تھا۔ کہ ایک صدیق دوست نے اسے تحقیقی کام کی رپورٹ بنانے کا مشورہ دیا۔میں نے شعور میں اس رپورٹ کو وسعت دی۔اقبال کے سودائی کی خواہش کی تکمیل ہوتی نظر آئی۔ رپورٹ کو بنیاد بنا کر میں نے اقبال کے بچپن پر کام کرنے کا عزم کیا۔اقبال اکادمی پاکستان لاہور میں مرحوم دوست ڈاکٹر محمد ایوب قادری سے ملاقات ہوئی۔انہوں نے تحقیق کے لئے اقبال کی ابتدائی زندگی کا نام تجویز کیا ،جو دل کو بھلا لگا۔ اقبال ہمارے قومی شاعر ہیں ۔ان کی شاعری کو شاعری کی معراج تسلیم کیا گیا ہے۔ انہوں نے جذبات انسانی کو فکر کا درجہ دیا ہے۔ ملت اسلامیہ میں حریت پسندی اور حق گوئی کے جذبات کی آب یاری کی ہے۔ ان کی زندگی ا ور سخن گوئی کو ہر محب وطن کے لئے مشعل راہ سمجھا گیا ہے۔لیکن کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ان کی سوانح عمری مکمل اور ٹھوس حالت میں ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔ یوں تو ملت اسلامیہ کے اس عظیم دانش ور اور شاعر پر سینکڑوں کتابیں اور مضامین لکھے گئے ہیں۔ لیکن بقول استادی ڈاکٹر وحید قریشی: ’’ عقیدت مندی اور اقبال پرستی کے پردے کو ہٹا کر دیکھا جائے تو اس کئی سو من کتابوں کے ڈھیر میں اقبال کے کارناموں کا قابل قدر جائزہ صرف چند مختصر سی کتابوں تک محدود ہو کر رہ جائے گا۔ کئی بزرگ اصحاب حیات اقبال پر مستند ہونے کے دعویٰ دار ہیں۔ ایسے مستند حضرات اب دنیا سے کوچ کر گئے ہیں۔اور چند ایک باقی ہیں۔ہمارے محقق ان کی روایات کو سند کے طور پر استعمال کرتے چلے آرہے ہیں۔ لیکن تحقیقی نقطہ نظر سے ان کی روایات میں سچائی کا عنصر کم ہے۔ ان کی زندگی کا کوئی بھی پہلو مکمل اور جامعیت کے ساتھ پیش نہیں کیا گیا۔ڈاکٹر وحید قریشی جیسے محقق بھی تسلیم کرتے ہیں کہ: ’’ اقبال کی زندگی کے بعض اہم واقعات اور سنین اصلاح طلب دکھا ئی دیتے ہیں۔ اقبال کے بچپن اور لڑکپن کے ساتھی کون تھے؟۔ چند ایک کے نام بتاتے جاتے ہیں۔ ہم مکتب کون کون تھے، ایک آدھ کا نام مل جاتا ہے۔ اقبال نے سیال کوٹ کی کس شاعری فضا میں شعر کہنے شروع کیے۔ اقبالیات کے ماہر جواب دینے سے قاصر ہیں۔مولوی سید میر حسن کے علاوہ اقبال نے اسکول میں کن کن اساتذہ سے تعلیم حاصل کی؟۔ کالج میں کن کن پروفیسروں سے پڑھنے کا موقع ملا، بہت کم معلومات ملتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کی سوانح عمرہ ٹھوس اور مکمل حالت میں ہمارے سامنے موجود نہیں، خصوصا ان کی ابتدائی زندگی پر تو ایک صدی کا دبیز پردہ پڑا ہوا ہے۔ اس دبیز پردے کو ہٹانے کی راقم نے یہ کوشش کی ہے۔ کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں اقبال کے آبا واجداد کا سرسری ذکر ہے۔ گھر کی وہ فضا بیان کی ہے، جس میں اقبال پیدا ہوا۔بچپن ولڑکپن اور ابتدائے جوانی کا زمانہ بسر کیا۔ پیدائش سے لے کر انٹر میڈیٹ پاس کرنے تک زندگی کے مختلف ادوار کو ترتیب سے بیان کیا ہے۔ دوسرے باب میں گزشتہ صدی کے نصف آخر کی سیالکوٹ کی معاشرتی زندگی بیان کی ہے۔ جس میں دانائے راز نے اپنی زندگی کے ابتدائی سال گزارے۔ کسی انسان کی شخصیت اور کلام کو جاننے کے لئے اس ماحول کا جائزہ لینا اشد ضروری ہے۔ جس میں وہ زندگی بسر کرتا ہے ۔اور پروان چڑھتا ہے۔ اس دور کی درس گاہوں کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے۔ تاکہ ہمیں اندازہ ہو سکے کہ سکاچ مشن کی سر گرمیاں کس طرح لوگوں کے ذہن کو پراگندہ کر رہی تھیں۔ لوگوں نے مسیحیت کے سیلاب کو روکنے کے لئے کس طرح یہ تعلیمی ادارے قائم کیے۔؟۔ سیال کوٹ شروع ہی سے اہل علم کا مرکز چلا آرہا ہے۔اس دور کی ا ن علمی شخصیات کا ذکر کیا ہے۔ جو اپنی اپنی درس گاہوں میں ہمہ تن مشغول درس و تدریس تھیں۔ ان کے کتب خانوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ جہاں سے علم وادب کے شیدائی اپنی علمی پیاس بجھاتے تھے۔ سیال کوٹ سے چھپنے والے اخبار اگر لوگوں کو مقامی ،صوبائی اور ملکی خبروں کے علاوہ عالم میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات سے آگاہ رکھتے تھے۔ تو یہاں کے رسائل علم وادب کے شائقین کی ضرورتوں کو پورا کرتے تھے۔ اس دور کی سیاسی، مذہبی، اور علمی وادبی تنظیموں کی مکمل تصویر بھی پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔کھیل ،تماشوں اور عرسوں اور تہوار میں ہر کوئی شرکت کرتا ہے۔ خصوصا لڑکے اور جوان لوگ ان میں بڑے ذوق وشوق سے حصہ لیتے ہیں۔اس پہلو کو بھی تشنہ نہیں چھوڑا گیا۔ اقبال کی ابتدائی زندگی کا یہ ایک حصہ تھے۔ تیسرے باب میں سکاچ مشن ہائی سکول پر سیر حاصل تبصرہ کیا گیا ہے۔ کہ سکاچ مشن دو حیثیتوں سے ہمارے سامنے آتا ہے۔ اس کی پہلی اور اولین حیثیت ایک تبلیغی مشن کی تھی۔ یعنی دین مسیحت کی تبلیغ واشاعت اس کا مطمح نظر تھا۔ اس میں مشنری لوگ بڑی حد تک کام یاب ہوئے۔ دوسری حیثیت تعلیم کی روشنی پھیلانے سے متعلق ہے۔ ۱۸۵۶ع سے ۱۸۹۵ء تک سکاچ مشن کی رپورٹیں اور دوسرا تحریری ریکارڈ پڑھنے سے اس چیز کی وضاحت ہوتی ہے۔ کہ دوسری حیثیت پہلی حیثیت کے تابع تھی۔ یہ ہماری خوش بختی ہے کہ مشن کی درس گاہوں سے غیر شعوری طور پر تعلیم کی روشنی چاروں طرف پھیلی، جہالت کی تیرہ وتاریک فضا منور ہوئی۔ یہاں کے تعلیم یافتہ اصحاب مذہب، سیاست اور علم وادب کے آسمان پر ستارے بن کر چمکے۔ ان میں اقبال بدر کمال بن کر چمکا، جس کی ضیا کے سامنے ان ستاروں کی روشنی ماند پڑ گئی۔ سیال کوٹ کے علاوہ سکاچ مشن کے دوسرے مراکز وزیر آباد، گجرات اور ڈسکہ کی تبلیغی اور تعلیمی سرگرمیاں بھی جامعیت کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔ تاکہ سکاچ مشن کا کوئی پہلو ہماری نظروں کے سامنے سے اوجھل نہ رہے۔ چوتھے باب میں اقبال کی سکول اور کالج کی زندگی کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ پہلی جماعت سے لے کر بارہویں جماعت تک طالب علمی کی زندگی مکمل اور جامع صورت میں پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ ہر جماعت کو الگ الگ بیان کیا ہے۔ ہر جماعت کا نصاب ،اساتذہ،مڈل، انٹرس اور انٹر میڈیٹ جماعتوں کا یونیورسٹی کا نصاب،امتحانی پرچوں کی تفصیل،غرض کہ سکول وکالج کی تعلیمی زندگی کی ہر چیز یک جا کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ پانچویں باب میں اقبال کے عہد کی شخصیات کے حالات زندگی بیان کیے گئے ہیں۔ یہ شخصیات تعداد میں ۱۶۱ ہیں۔سب سے پہلے اقبال کے گھر کے افراد کا احا طہ کیا گیا ہے۔ اقبال کے وہ عزیز جن کے درمیان وہ پیدا ہوئے۔ شیر خوارگی اور بچپن کا زمانہ گزارا۔ ان کی مختصر اور محدود آرزوؤں کو پورا کرنے والے شفیق اور ناز بردار عزیز، یہ لوگ سراپا محبت ہیں، ان میں خلوص ہے اور انتہا درجے کی گرم جوشی۔ بچپن سے گزرے تو لڑکپن کا زمانہ آیا ،اب انہیں محلہ کے لڑکوں سے ملنے جلنے کا موقعہ ملا۔ برانچ سکول، پھر سٹی سکول، اور اس کے بعد سکاچ مشن کالج کے ہم جماعت لڑکوں کی پر خلوص دوستی اور ان کے ساتھ کھیلنا کودنا، علمی وادبی اور تفریحی مشاغل سکول وکالج کی پڑھائی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کا جذبہ،پہلی جماعت میں ان کے ساتھ پڑھنے والے لڑکے، مڈل اور انٹرس میں کام یاب ہونے والے لڑکے۔ سکاچ مشن کالج کی فرسٹ ایر میں داخل ہونے والے لڑکے،اور یونیورسٹی کے امتحان میں کامیاب ہونے والے لڑکے، غرض کہ اقبال کے ساتھ پڑھنے والے تمام لڑکوں کے حالات زندگی جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان لڑکوںکا بھی ذکر ہے۔ جو اقبال سے قبل حصول علم میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے کی وجہ سے شہر میں جانے پہچانے جاتے تھے۔ تیسرے نمبر پرسکاچ مشن کے مشنری لوگ ہیں،جو اس دور کی معاشرتی زندگی کا ایک اہم حصہ تھے۔انہیں اس معاشرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ان کی زندگیوں اور مشاغل نے اس عہد کے لوگوں کو متاثر کیا۔ سکاچ مشن سیال کوٹ کے سکول وکالج کے تمام اساتذہ کا مکمل تذکرہ ہے۔ ان میں وہ خوش نصیب اساتذہ بھی ہیں۔ جن سے اقبال نے تعلیم حاصل کی۔ آخر میں شہر کی دوسری اہم اور ہم عصر نمایاں شخصیات کا ذکر ہے۔ جو سیال کوٹ کی معاشرتی زندگی کا اہم جزو تھے۔ ان لوگوں سے اس دور کے شہری متاثر تھے۔ ان کے گن گاتے تھے۔ سرکاری وغیر سرکاری سطح پر یہ لوگ خصوصی اہمیت کے حامل تھے۔ آخری باب میں سکول وکالج کی نصابی کتب کی فوٹو سٹیٹ دی گئی ہیں۔ انٹرس اور انٹر میڈیٹ کے نصابی پرچے بھی شامل کر دیے گئے ہیں۔ تاکہ ہم اندازہ لگا سکیں کہ اس دور کے اور آج کے نصاب میں کتنا فرق ہے۔آج ہم تعلیمی لحاظ سے کیوں پست ہیں؟۔نصاب تیار کرنے والی کمیٹیوں کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیئے۔ اقبال کی ابتدائی زندگی معلوم کرنے کے لئے میں نے اصل ماخذوں سے مدد لی ہے۔ سب سے پہلے اقبال کے قریبی عزیزوں سے ملا، شیخ اعجاز احمد حال مقیم کراچی سے بذریعہ خط وکتابت معلومات حاصل کرنے کی سعی کی۔ لیکن انہوں نے بہت کم معلومات فراہم کیں۔کیونکہ یہ زمانہ ان کی پیدائش سے قبل کا ہے۔ پھر بھی میں ان کا ممنون ہوں کہ پیرانہ سالی کے باوجود وہ مجھے جوابات سے نوازتے رہے۔ تھیو لاجیکل سیمینری کے پرنسپل اقبال نثار نے سکاچ مشن سے متعلق قدیم ریکارڈ مہیا کرکے علم دوستی کا ثبوت دیا ہے۔ سیمینری میں جس خلوص ومحبت سے وہ پیش آتے رہے، الفاظ کے ذریعہ میں ان کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا۔ ڈاکٹر حامد حسن بلگرامی سابق وائس چانسلر بہاول پور یونیورسٹی،ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹر غلام مصطفے خان، اور محمد عبد اللہ قریشی کا ممنون ہوں کہ چند شخصیات سے متعلق معلومات بہم پہنچانے میں بھر پور تعاون کیا اور رہنمائی کی۔ ریٹائرڈ جسٹس محمد منیر فاروقی، اور ڈاکٹر محمد جمال بھٹہ نے اپنے آبا واجداد سے متعلق معلومات فراہم کیں۔ بیگم سلمیٰ تصدق حسین خالد نے اپنے والد ماجد کے حالات زندگی مہیا کیے۔ بیگم صاحبہ کے بھتیجے ڈاکٹر محمد شریف نے فضل الہیٰ کا اردو کلام مہیا کیا۔ میں ان سب کا ممنون ومشکور ہوں۔ سکاچ مشن سکول سٹی وصدر سیالکوٹ کے ہیڈ ماسٹر صاحبان اور مرے کالج سیال کوٹ کے پرنسپل نے پرانا ریکارڈ مہیا کرکے بھر پور تعاون کیا۔ پنجاب یونیورسٹی لائبریری،پنجاب پبلک لائبریری،فارمن کرسیچن کالج لائبریری،گورنمنٹ کالج لاہور،اقبال اکادمی پاکستان لاہور،اور مرے کالج سیال کوٹ کے لائبریرین صاحبان کا مشکور ہوں کہ ان صاحبان نے فراہمی کتب میں بہت تعاون کیا۔ حیات اقبال کے سلسلے میں اقبال اکادمی پاکستان لاہور کے فرخ دانیال نے ایک نایاب کتاب مہیا کرکے اقبال دوستی کا ثبوت دیا ہے۔ ایک سرکاری کام کے سلسلے میں گجرات میں تین ہفتے قیام رہا۔ وہاں اقبال کے پہلے خسر ڈاکٹر عطا محمد کے گھرانے سے متعلق معلومات حاصل کرنے کی سعی کی۔ محمد شریف کنجاہی،اور تحقیق وجستجو کا شوق رکھنے والے دوسرے اصحاب سے ملا، بڑے بوڑھوں سے ملا، قبرستان کا وہ مخصوص احاطہ دیکھا جس میں ڈاکٹر شیخ عطا محمد اور ان کے بیٹے شیخ غلام محمد آسودہ لحد ہیں۔ ڈاکٹر احمد حسین قلعہ داری نے ان کا آبائی گھر دکھایا،پیر محمد علی نے اس گھرانے سے متعلق معلومات فراہم کرنے میں بڑی تگ ودو کی۔ بیگم رشیدہ آفتاب اقبال حال مقیم کراچی،اقبال کی بڑی بہو ہیں۔ بیگم صاحبہ نے بھر پور تعاون کیا۔ انہوں نے گجرات کے ڈاکٹر شیخ عطا محمد اور ان کے اہل خانہ سے متعلق معلومات فراہم کرکے کتاب کو زیادہ سے زیادہ مکمل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔تصاویر اور دستاویزات فراہم کرکے عظیم اقبال کی عظیم اولاد ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ میں بیگم صاحبہ کا بہت سپاس مند ہوں کہ ان کی مدد سے پہلی بار اقبال کی پہلی بیگم اور ان کے اعزہ واقربا کے صحیح حالات سامنے آرہے ہیں۔ چیف جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کا شکریہ ادا کرنا بھی مجھ پر واجب ہے۔اسی طرح صدر شعبہ اردو جامعہ سندھ کے ڈاکٹر سید سخی احمد ہاشمی کا بھی سکاچ مشن کے سدر دفتر واقع اسکاٹ لینڈ سے خط وکتابت کی، ریورنڈ ولیم جی ینگ حال مقیم روز شائر نے بھی مشن سے متعلق کچھ اہم معلومات فراہم کی ہیں۔ایڈن برگ یونیورسٹی لائبریری اور نیو کالج لائبریری ایڈن برگ نے بہت تعاون کیا ہے۔ نیو کالج لائبریری ایڈن برگ نے تو ۱۸۵۶ء سے ۱۸۹۶ع تک سکاچ مشن پنجاب کی سالانہ رپورٹیں اور پنجاب مشن سے متعلق دوسرا مواد فوٹو اسٹیٹ کی صورت میں قیمتا ارسال کیا۔ میں ان غیر ملکی اداروں کا بے حد سپاس گزار ہوں۔یونیورسٹی آف رڑکی بھارت کے وائس چانسلر نے بھی شیخ عطا محمد کے سلسلے میں کالج سے قدیم ترین معلومات فراہم کیں۔ شخصیات کے سلسلے میں میں نے ملکی اور غیر ملکی اخبارات میں مراسلے شائع کرائے،بھارت کے اردو اخبار ہند سما چار ،جالندھر کے شمارہ ۲۱ ،اپریل ۱۹۳۸ع میں میرا مراسلہ پڑھ کر سردار کرتار سنگھ چیمہ،۱۷۸ ماڈل ٹاؤن لدھیانہ نے اقبال کے کالج کے ایک ہندو ساتھی کے متعلق معلومات فراہم کیں۔اور اخبار کا تراشا بھی بھیجا۔سردار صاحب کے اس خلوص وتعاون کا میں بے حد شکر گزار ہوں۔ اقبال کے سودائی محمد اصغر سودائی ڈائریکٹر آف ایجوکیشن ڈیرہ غازی خان ڈویژن کا مشکور ہوں کہ وہ اس تصنیف کے محرک ہوئے۔ہمارے کالج کے آفس کلرک عبد القیوم نے انگریزی کے اقتباسات ٹائپ کرنے میں مدد دی ہے۔ اس کے لئے میں ان کا شکر گزار ہوں۔ نام کے سلسلے میں میں اس کی وضاحت کردینا مناسب سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب اقبال کے ’’علامہ‘‘ حضرت علامہ، ’’حکیم الامت‘‘ ’’ڈاکٹر صاحب‘‘ یا سر بننے سے پہلے سے تعلق رکھتی ہے۔ بچپن ولڑکپن میں ان توصیفی وتعظیمی القابات کا استعمال کچھ اچھا معلوم نہیں ہوتا۔ اس لئے خاکسار نے سیدھے سادے الفاظ میں ہر جگہ ’’اقبال‘‘ نام لکھا ہے۔ کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں اقبال اکادمی پاکستان لاہور کا میں ممنون واحسان مند ہوں کہ حیات اقبال کے ابتدائی حصہ شائع کرکے قوم کی ایک اہم ضرورت کو پورا کیا ہے۔ ڈاکٹر سید سلطان محمود ایم،اے،پی، ایچ،ڈی لیکچرار اردو گورنمنٹ ڈگری کالج پسرور تعارف ڈاکٹر سید سلطان محمود صاحب نے گزشتہ چند برسوں میں یکے بعد دیگرے اہم موضوعات پر کتابیں اور مضامین لکھ کر اپنی اہمیت منوا لی ہے۔ ۱۹۸۱ع میں اقبال اکیڈمی پاکستان لاہور نے ان کی ایک اہم تحقیقی کتاب بعنوان ’’ علامہ اقبال کے استاد شمس العلماء سید میر حسن ‘‘ شائع کی اور اس کے ذریعے پہلی دفعہ اس نامور شخصیت کے مستند سوانحی حالات سامنے آئے، ورنہ اس سے پہلے اقبال کے بارے میں سوانحی کتب لکھنے والوں نے ان کے بارے میں سر سری اور سنی سنائی کتابوں پر قیاس کی عمارت تعمیر کر ڈالی تھی۔ اور جب اس کتاب کو ۱۹۸۲ع کے داؤد ادبی انعام برائے تحقیق وتنقید کا مستحق قرار دیا گیا ،تو مجھے خوشی ہوئی کہ ’’حق بحق دار رسید‘‘ حال ہی میں مجلس ترقی ادب لاہور نے ان کی ایک اور کتاب ’’یورپ میں اردو کے مراکز‘‘ انیسویں صدی میں شائع کی ہے ،جس سے معلوم ہو جاتا ہے۔ کہ انیسویں صدی کے یورپ میں اردو کو ایک اہم زبان کی حیثیت دی جاتی تھی،اور مختلف ممالک میں اردو کی تدریس کے مراکز موجود تھے۔ جہاں کئی مستشرقین مصروف تحقیق تھے۔اور اب ڈاکٹر صاحب نے ایک اور اہم کام مکمل کیا ہے۔ اس کام کے نتائج کو انہوں نے ’’اقبال کی ابتدائی زندگی‘‘ کا عنوان دے کر مرتب ومنضبط کیا ہے۔ اس کتاب کے مسودے کو میں نے ایک نظر دیکھا ہے۔ اور طائرانہ نظر سے دیکھنے کے باوجود اس کی اہمیت اجاگر ہو گئی ہے۔ علامہ اقبال شاعر مشرق،شاعر پاکستان، شاعر اسلام اور ایک عظیم مفکر اور عہد ساز شخصیت ہیں۔اہل پاکستان کے لئے ان کی اہمیت اس سے بھی زیادہ ہے۔ جتنی کہ اہل برطانیہ کے لئے شیکسپئیر کی ہے۔ اس لئے اگر چہ اقبال پر بہت کچھ تحقیقی وتنقیدی کام ہو چکا ہے۔مگر ابھی تک بہت سے تاریک گوشوں پر روشنی ڈالنے کی ضرورت باقی ہے۔ خصوصا علامہ مغفور کی ابتدائی زندگی کے بارے میں بہت سی باتیں ابھی واضع نہیں ہیں۔ سال ولادت سے لے کر ابتدائی زندگی تک کی بہت سی تفصیلات ہنوذ ناقص یا تشنہ ہیں۔ جب محققوں نے اس موضوع پر کام کیا ہے، ان میں سے بیشتر حضرات کو اصل ماخذ دستیاب نہیں ہو سکے، کیونکہ ان کی تلاش کے لئے جس محنت ،کاوش ،لگن،فرصت اور جستجو کی ضرورت ہے، وہ ان کے پاس نہیں ہے۔ اور یہ کام دیدہ ریزی وعرق ریزی کا متقاضی ہے۔ ڈاکٹر صاحب موصوف نے اصل ماخذ کے حصول میں جو کوشش کی ہے، وہ غیر معمولی ہے۔اور اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ اقبال کی ابتدائی تعلیم کا خاکہ مکمل کرنے میں بہت حد تک کامیاب ہو گئے ہیں۔علاوہ ازیں اس زمانے کے سیال کوٹ کی ایک زندہ تصویر پیش کرنے میں بھی انہیں کام یابی حاصل نہیں ہوئی۔ایک ڈیڑھ صدی پہلے کی سیال کوٹ کی تعلیمی، سماجی، اور ادبی زندگی کی ایسی جھلکیاں ہماری آنکھوں کے رو برو آ جاتی ہیں۔کہ ہم اس نو عمر اقبال کو اس ماحول کے پس منظر میں چلتا ،پھرتا، اور تعلیم حاصل کرتا ہوا دیکھ لیتے ہیں۔علاوہ ازیں اس دور کی شخصیات،اقبال کے افراد خانہ،قرابت دار،محلے دار اور ہم جماعت وغیرہ سب سے ہماری کچھ نہ کچھ شناسائی ہو جاتی ہے۔ پھر اس دور کے نصابات اور امتحانی پرچے بھی ہماری معلومات میں قابل قدر اضافہ کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے بعض نتائج تحقیق سے سب کو اتفاق نہ ہو،۔۔۔۔ اور سو فی صد اتفاق تحقیق کی دنیا میں ویسے بھی ناپید ہے۔۔۔ لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ علامہ اقبال کی ابتدائی زندگی کے دور کے متعلق اتنا اہم مواد پہلی دفعہ سامنے آرہا ہے۔ یہ مواد علامہ اقبال کی سوانح عمری لکھنے والوں کے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوگا۔اورا س شمع سے مستقبل میں بہت سی شمعیں روشن ہوں گی۔ خواجہ محمد ذکریا صدر شعبہ اردو پنجاب یونورسٹی اورنٹئیل کالج لاہور باب۱ آبا ؤاجداد اقبال کے آبا واجداد ہندو برہمن تھے۔ کشمیر کے ایک پنڈت گھرانے سے ان کا تعلق تھا۔ کشمیری پنڈت اعلیٰ درجے کا سیاسی فہم رکھنے کے ساتھ ساتھ فارسی میں اچھی دسترس رکھتے تھے۔ ’’سپرو‘‘ کشمیری لفظ ہے۔ اس کے معنی میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اقبال بھی اپنی حیات میں لفظ ’’سپرو‘‘ کے صحیح معنی کا کھوج نہیں لگا سکے تھے۔ ابھی تک اس کے تین معنی سامنے آئے ہیں۔ بقول محمد دین فوق: ’’وہ لڑکا جو چھوٹی عمر میں بڑوں کی سی ذہانت دکھائے۔‘‘ بقول شیخ نور محمد کے: کشمیر کے برہمنوں میں سے سب سے پہلے جس گروہ نے مسلمانوں کے علوم وزبان یعنی فارسی کی طرف توجہ کی ،اور اس میں امتیاز حاصل کرکے حکومت اسلامی کا اعتماد حاصل کیا۔‘‘ یعنی وہ شخص جو سب سے پہلے پڑھنا شروع کر دے۔ دیوان ٹیک چند کمشنر پنجاب نے اقبال کو بتایا کہ: لفظ سپرو‘‘ تعلق ایران کے قدیم بادشاہ شاہ پور سے ہے۔ سپرو اصل میں وہ ایرانی ہیں،جو اسلام سے بہت پہلے ایران کو چھوڑ کر کشمیر چلے آئے تھے، اور اپنی ذہانت وفطانت سے برہمنوں میں داخل ہو گئے تھے۔ پنجاب میں اقبال کے سوا کوئی ایسا مسلمان گھرانا نظر نہیں آتا جو کشمیری برہمن سپرو سے تعلق رکھتا ہو۔ بھارت میں ہندو ’’سپروؤں‘‘ کے چند گھرانے ملتے ہیں۔۱؎ ۱۔ ڈاکٹر سر تچ بہادر سپرو: ایک معروف شخصیت تھے، وکالت کرتے تھے۔ماہوار رسالہ کشمیر درپن نکالا کرتے تھے۔ اقبال نے ان کا ذکر کیا ہے۔ ۲:۔ پنڈت تربہون سپرو: اردو کے شاعر تھے، ہجر تخلص کرتے تھے۔ ان کے والد پنڈت بشمر ناتھ سپرو المتخلص صابر (۱۸۳۲ء ۱۸۷۳ع) دہلی کالج کے پڑھے ہوئے تھے۔اور اردو کے شاعر تھے۔ پنڈت کے دادا سدا سکھ حیدر آباد میں ریو نیو کمشنر تھے، اور رانا پنڈت لچھمی نرائن کول شاعر اور انشاء پرداز تھے۔پنڈت رادھا کشن بھی سپرو خاندان سے تھے۔ موجودہ صدی کے ابتداء میں مظفر نگر میں ڈپٹی کلکٹر تھے۔ ان چند سپرو اصحاب سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس گوت کے بیشتر افراد علم وادب اور قانون کے پیشے سے وابستہ تھے۔اقبال بھی اعلیٰ پایے کے قانون دان تھے۔منجھے ہوئے سیاست دان تھے، فلاسفر تھے، اردو اور فارسی کا اعلیٰ اور صاف ستھرا ذوق رکھتے تھے۔اردو اور فارسی کے بہترین شاعر تھے۔ وہ اعتراف کرتے ہیں:۔ میں اصل کا خاص سومناتی آبا میرے لاتی ومناتی اس وابستگی کے باوجود وہ کس فخر سے کہتے ہیں کہ: مرا بنگر کہ در ہندوستان دیگر نمی بینی برہمن زادئہ رمز آشنائی روم وتبریز است ترجمہ: مجھے دیکھو،کیونکہ مجھ سا کوئی دوسرا تم ہندوستان میں نہیں دیکھو گے۔کہ ایک برہمن زادہء روم وتبریز کے اسرار ورموز سے آشنا ہے۔ محقیقین اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اقبال کے جد اعلیٰ بابا لول حج موضع چک پرگنہ آدون کے تھے۔ بابا صاحب پندرھویں صدی میں مسلمان ہوئے تھے۔ اور شیخ نور الدین ولی کے چوتھے خلیفہ نصر الدین رشی کے مرید ہوئے۔۳؎ بابا لول حج کی نسل سے ایک بزرگ شیخ اکبر نام کے ہوئے ،جو اپنے مرشد کے داماد بنے۔ شیخ اکبر کی دوسری یا تیسری پشت سے جمال الدین ہوئے ،جو اقبال کے پردادا تھے۔ یہ بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ شیخ اکبر کشمیر سے ہجرت کرکے پنجاب میں آباد ہو گئے تھے۔جمال الدین یا ان کے چاروں فرزند اٹھارویں صدی کے آخر میں یا انیسویں صدی کے شروع میں سیال کوٹ چلے آئے۔ جمال الدین کے تین صاحب زادے۔محمد رفیق، عبد الرحمن ،محمد رمضان نے شہر سیال کوٹ میں رہائش رکھی،چوتھے صاحب زادے عبد اللہ موضع جیٹھی کے میں آباد ہو گئے۔قیاس اغلب ہے کہ یہ چاروں بھائی کاروبار کرتے تھے۔ شروع شروع میں محمد رفیق نے سیال کوٹ کے محلہ کھیٹکاں میں رہائش رکھی،یہیں اقبال کے والد شیخ نور محمد اور چچا شیخ غلام محمد پیدا ہوئے۔۴؎ ۱۸۶۱ء میں دو دروازہ مسجدکے قریب محلہ کشمیری میں ایک مکان خرید کر رہنے لگے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس مکان میں اضافہ ہوتا رہا۔ یہ مکان بعد میں اقبال منزل کہلایا۔اس وقت یہ مکان یک منزلہ تھا۔ اور مکان کے صحن کا دروازہ محلہ چوڑی گراں کی جانب کھلتا تھا۔اسی مکان کی ایک تنگ وتاریک کوٹھری میں اقبال پیدا ہوئے۔۵؎ ۱۸۸۹ع کے لگ بھگ شیخ نور محمد نے اسی مکان سے ملحقہ ایک دومنزلہ مکان خریدا،اور مکان کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کے لئے میونسپل کمیٹی میں درخواست دی۔کچھ عرصہ بعد پہلے مکان کی پشت پر بازار چوڑی گراں کی جانب دودکانیں بھی خرید لی گئیں۔ بعد میں شیخ عطار محمد نے جدی مکان سے ملحق ایک اور دکان خرید لی، اسی طرح سب قطعات پر ایک سہ منزلہ عمارت تعمیر کی گئی ۔جو اب اقبال منزل کی شکل میں موجود ہے۔ شیخ نور محمد نے بازار چوڑی گراں میں ایک اور مکان خرید کر کرائے پر چڑھا دیا۔۱۸۹۲ع میں سمند خان اور اللہ بخش کرایہ دار کی حیثیت سے رہ رہے تھے۔ پیدائش اقبال کی تاریخ پیدائش یوں تو سرکاری طور پر ۹ نومبر ۱۸۷۷ع قرار پائی،لیکن بعض محقیقین ومورخین کو اس تاریخ سے اتفاق نہیں۔ دوران تحقیق راقم کو سکاچ مشن ہائی سکول سیال کوٹ کا پرانا ریکارڈ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ سکول کی ۳۱ سال کی رپورٹیں ۱۸۶۵ع سے ۱۳۹۵ ء تک لاگ بک کی صورت میں ملیں۔ ان میں ایک رپورٹ۱۸۸۵ء کی ہے۔ جس میں اقبال کی پہلی جماعت پاس کرنے کا ذکر ملتا ہے۔۶؎ رائے گوپال سنگھ اسٹنٹ انسپکٹر آف سکولز حلقہ لاہور نے سکاچ مشن سکول کے حصہ پرائمری کا سالانہ امتحان لیا تھا۔ مذکورہ رپورٹ سے یہ چیز واضع ہوتی ہے کہ اقبال عام بچوں کی طرح سکول کی پہلی جماعت میں داخل ہوئے تھے۔ یہ کہنا یا قیاس کرنا کہ اقبال اپنی ذہانت کی وجہ سے براہ راست سکول کی کسی بالائی جماعت میں داخل ہوئے تھے، غلط اور بے بنیاد ہے۔ یہ بات بھی غلط ہے کہ ابتداء میں میر حسن سے ابتدائی کتب پڑھ کر وہ سکول کی دوسری یا تیسری یا چوتھی جماعت میں داخل ہوئے تھے۔ رپورٹ کے مطالعے کے بعد اس قیاس کو کلی طور پر ختم ہو جانا چاہیئے۔کرم ۷؎ بی بی کی یہ شہادت کہ اس نے اور اقبال نے عمر شاہ کے مکتب میں پانچ جماعتیں پڑھی تھیں،درست نہیں،۱۸۸۵ء میں پہلی جماعت پاس کرتے وقت اقبال کی عمر کیا تھی؟۔کچھ علم نہیں،اس کے بعد اقبال کی آٹھویں جماعت پاس کرنے کی پنجابیونیورسٹی کی سند ہے۔ ۲۶ فروری ۱۸۹۱ء کو پنجاب یونیورسٹی نے مڈل امتحان کے نتائج کا اعلان کیا تھا۔۸؎نتیجہ باقاعدہ پنجاب گزٹ ۱۸۹۱ء پارٹ تھری میں شائع ہوا تھا۔نتیجہ میں اقبال کی عمر پندرہ سال بتائی گئی ہے۔ امتحان کا فارم پر کرتے وقت اقبال کی یہ عمر تھی۔ فارم نومبر ۱۸۹۰ء میں پر کیا گیا تھا۹؎۔اس سے یہ بات عیاں ہے کہ نوبمبر۱۸۹۰ء میں اقبال کی عمر ۱۵ برس کی تھی۔ اس طرح سال ولادت ۱۸۷۵ء کے اواخر کا بنتا ہے۔ ۱۸۹۳ء میں اقبال نے انٹرس (میٹرک) کا امتحان پاس کیا۔گزٹ میں نتیجہ میں ۱۷ برس عمر بتائی گئی ہے۔۱۰؎ جو مڈل سے مطابقت رکھتی ہے۔ اس لئے پہلی سرکاری دستاویز یعنی مڈل کی سند پر درج شدہ عمر کو تسلیم کرنے میں کیا چیز مانع ہے؟۔ یعنی اقبال ۱۸۷۵ء کے آخر مہینوں میں پیدا ہوئے تھے۔ اس دور میں عمر میں کمی بیشی کرنے کا خیال بھی ذہن میں جنم نہیں لیتا۔ یہ جواز پیش کرنا کہ میونسپل کمیٹی سیال کوٹ کے رجسٹر پیدائش میں شیخ نور محمد یا شیخ نتھو یا نتھو خیاط کے ہاں ۱۸۷۵ء میں کسی لڑکے کی پیدائش کا اندراج نہیں،درست نہیں۔ چند محقیقین کا خیال ہے کہ دو ایک بچوں کا اندراج میونسپل کمیٹی میں نہیں کرایا گیا۔اس لیے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ۱۸۷۵ء میں اقبال کی پیدائش کا اندراج ہی نہ کرایا گیا ہو۔رجسٹر میں عدم اندراج عدم پیدائش کا ثبوت قرار نہیں دیا جا سکتا۔۱۱؎ اقبال نے ڈاکٹریٹ کے مقالہ میں اپنی تاریخ پیدائش سنہ ہجری میں تحریر کی ہے۔ جو ۹ نومبر ۱۸۷۷ء سے مطابقت رکھتی ہے۔اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہاقبال نے اپنی عمر میں دو سال کی کمی کر دی ہو۔ کیونکہ سرکاری ملازمت کے حصول میں عمر کو بھی تو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ بچپن ولڑکپن اور ابتدائے جوانی اقبال کی پیدائش کے وقت شیخ نور محمد کا گھر زیادہ بڑا نہیں تھا۔متوسط طبقہ کا یہ گھرانا تھا۔ گھر میں سات آٹھ افراد تھے۔ نور محمد ٹوپیاں یا کلاہ سیتے تھے۔ اس فن میں انہیں مہارت حاصل تھی۔ دکان میں شاگرد تھے، لیکن تصدیق سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انہوں نے ملازم بھی رکھے تھے۔ لوگ ان کو شیخ نتھو ٹوپیاں والا کہتے تھے۔ماں باپ ننھے منے بچے اقبال سے بہت پیار کرتے تھے۔ شیخ نور محمد کے شاگرد لڑکے بھی اقبال کو اٹھاتے اور کھلاتے۔ بڑا بھائی شیخ عطا محمد جو ان سے عمر میں تقریبا سترہ برس بڑا تھا،چھوٹے بھائی اقبال کو گود میں اٹھا کر پیار کرتا،کھلانے کے لئے باہر لے جاتا۔اقبال کی بڑی بہن فاطمہ بی بی کی اس وقت کیا عمر تھی؟۔ کچھ معلوم نہیں ،ماں امام بی بی گھر کا کام کاج کرتیں۔اور فاطمہ چھوٹے بھائی کو کھلاتی، دوسری بہن طالع بی بی تقریبا پانچ برس کی بچی تھی۔ وہ بھی اپنے چھوٹے بھائی سے پیار کرتی، اٹھانے کی ضد اورسعی کرتی،لیکن بے جی اور فاطمہ اسے اٹھانے نہ دیتیں کہ کہیں گرا نہ دے۔ اقبال کے ننھال والے بھی ا سے اٹھاتے اور پیار کرتے،چچی بھی معصوم بچے سے پیار کرتی۔وہ حسرت بھری نظروں سے بچے کو دیکھتی کہ اللہ نے سولہ سترہ برس بعد اس کی جیٹھانی کو ایک خوب صورت بچے سے نوازا ہے۔ جب کہ وہ بچے سے ابھی تک محروم ہے۔ اس کی جیٹھانی نے چند سال ہوئے اپنا بچہ دیا تھا،لیکن وہ زندہ نہ رہ سکا، جیٹھانی کے اس جذبہ خلوص اور محبت کی وہ قدر کرتی تھی۔ اور نومولود کی زندگی اور روشن مستقبل کے لئے دعا گو ہوتی۔ بچے کے دادا شیخ محمد رفیق اور چچا غلام محمد بچے کو نہ دیکھ سکے۔ کیونکہ اس کی پیدائش سے قبل ہیضہ کی وبا میں دونوں روپڑ میں چل بسے تھے۔ اقبال دو سال کے ہوئے تو ایک بیماری کے علاج کے لئے ان کی بے جی نے ان کی داہنی آنکھ کے قریب جونکیں لگوائیں۔جونکوں نے فاسد خون چوس لیا بیماری جاتی رہی،لیکن آنکھ کی بینائی متاثر ہوئی۔یہاں تک کہ عمر کے ساتھ ساتھ یہ بینائی بالکل جاتی رہی۔۱۲؎ قیاس اغلب ہے کہ چھ سات برس کی عمر میں بے جی نے ان کو پڑوس میں عمر شاہ کے پاس قرآن پاک ناظرہ پڑھنے کے لئے بھیج دیا۔ عمر شاہ محلہ کی مسجد حکیم حسام الدین میں مسلمان لڑکے اور لڑکیوں کو قرآن مجید ناظرہ پڑھایا کرتے تھے۔ان میں ایک لڑکی کرم بی بی بھی پڑھا کرتی تھی، اس کا کہنا ہے کہ : ’’ ہم ایک ساتھ پڑھتے،پڑھائی کے وقت کھیل کود میں وقت گزرتا،اقبال بڑا شریر تھا۔ طرح طرح کی شرارتیں کرتا ،خود ہنستا اور ہمیں بھی ہنساتا تھا۔ پڑھنے لکھنے میں بلا کا تیز معلوم ہوتا تھا۔ اسے پہلے ہی سب کچھ یاد تھا۔۱۳؎۔ کچھ عرصہ بعد عمر شاہ نے بچوں کو پڑھانا بند کر دیا۔ شیخ نور محمد اپنے بچے اقبال کو مولانا غلام حسن کے پاس پڑھنے کے لئے لے گئے۔ مولانا غلام حسن ان دنوں تیجہ سنگھ شوالہ کی مسجد میں بچوں کو پڑھایا کرتے تھے۔۱۴؎ اس کے ساتھ ساتھ شیخ نور محمد نے اقبال کو سکاچ مشن کے برانچ سکول واقع قلعہ کی پہلی کچی جماعت میں داخل کرا دیا۔یہ ۱۸۸۳ء کی بات ہے۔ پہلی کچی جماعت میں داخل کرانے کا کوئی ثبوت تو نہیں ہے۔ لیکن اس جماعت میں داخلہ لینے کا قوی امکان ہے۔ اسے ہم بغیر سوچے سمجھے رد نہیں کر سکتے۔کچھ عرصہ کے لئے شیخ نور محمد کا کام مندا پڑ گیا۔۱۵؎ گھر میں غربت ومفلسی نے ڈیرہ جما لیا۔دو وقت کی روٹی مشکل ہو گئی۔ عطا محمد اور اقبال،اکرام کے باپ اور چچا کے ہاں کاغذ کوٹنے کے لئے جانے لگے۔ اجرت میں دونوں بھائیوں کو روٹی کھانے کو مل جاتی تھی۔ اس زمانہ میں اقبال کی سکول کی تعلیم وقتی طور پر رک گئی۔عطا محمد کا راٹھور خاندان میں رشتہ طے کر دیا گیا۔ عطا محمد بلند قامت کے خوبصورت اور سجیلے جوان تھے۔ ان کے سسرال والوں نے عطا محمد کو فوج میں بھرتی کرادیا۔بیٹا تنخواہ کے روپے گھر بھیجنے لگا۔اس طرح گھر سے غربت اور مفلسی ختم ہو گئی۔ شیخ نور محمد کا کاروبار بھی چل نکلا، اقبال کی تعلیم بھی دوبارہ جاری ہو گئی۔ ۱۸۸۵ء میں اقبال نے پہلی جماعت پاس کی،جماعت میں اول آئے، پہلی جماعت پاس کرنے کے بعد وہ میر حسن سے پڑھنے لگے۔ مولانا غلام حسن سے میر صاحب اقبال کو خود ہی اپنے پاس لے گئے۔ مسجد حکیم حسام الدین کے قریب ایک چھوٹے سے کمرے میں میر صاحب بچوں کو پڑھایا کرتے تھے۔اقبال یہاں پڑھنے لگے۔ شیخ عطا محمد کی شادی ہو گئی۔ بھاوجہ دس گیارہ سالہ اقبال سے پیار ومحبت سے پیش آتی۔ شیخ عطا محمد کے ہاں ایک لڑکی برکت بی بی پیدا ہوئی۔ اقبال اسی معصوم سی بھتیجی سے پیار کرتے،اٹھاتے اور کھلاتے۔ شیخ عطا محمد کا اس بیوی سے نبھاہ نہ ہو سکا، اور اسے طلاق دے دی۔ تھوڑے عرصہ بعد شیخ عطا محمد نے مہتاب بیگم سے دوسری شادی کر لی۔اقبال کی عمر اس زمانہ میں بارہ برس کے لگ بھگ تھی۔ وہ سکول کی چوتھی جماعت کے طالب علم تھے۔اردو کی چھوٹی چھوٹی کتابیں اور قصے کہانیاں روانی سے پڑھنے لگے تھے۔ پنجابی کے چھوٹے چھوٹے منظوم قصے بھی وہ ترنم سے پڑھتے تھے۔چھوٹے چھوٹے مصرعے بھی گھڑنے لگے تھے۔ اقبال کی بھاوجہ مہتاب بیگم کا کہنا ہے : ’’اقبال بڑے خوش گلو اور پر سوز آواز کے مالک تھے، بچپن میں وہ ہمیں منظوم قصے بڑے پیارے لحن کے ساتھ سنایا کرتے تھے۔ اکثر اوقات قصے پڑھتے پڑھتے اپنی طرف سے بھی کوئی فقرہ (مصرعہ) اس میں جڑ دیتے تھے۔اور ان کا فقرہ (مصرعہ) ایسا پر اثر ہوتا کہ ہم سب انہیں بے ساختہ داد دیتے تھے۔ اس وقت ان کی عمر بمشکل دس بارہ سال کی تھی۔‘‘ ۱۶؎ اس سلسلے میں مولوی سید میر حسن کے صاحب زادے سید محمد ذکی اقبال کی بھاوجہ کی زبانی سنیئے: ’’ عورتیں رات کو ازار بند بنا کرتی تھیں۔اور دیر تک ہم اس کام میں لگی رہتیں۔ ڈاکٹر صاحب اس زمانے میں چھوٹے تھے،اور دودو پیسے کے قصے بازار سے خرید کر لاتے تھے، جب تک عورتیں ازار بند بنا کرتیں،ڈاکٹر صاحب قصے پڑھتے رہتے۔ چونکہ آواز بہت اچھی تھی۔اس لئے عورتیں خوشی سے سنتیں۔۱۷؎ مولوی سید میر حسن کے گھر پڑھنے کی وجہ سے ان کی علمی استعداد میں اضافہ ہو گیا تھا۔غالبا دوسری اور تیسری جماعت ایک سال میں پاس کی، چھوٹی ہی عمر میں اقبال بڑے حاضر جواب تھے۔سکول میں طلباء کے درمیان بڑے ہر دل عزیز تھے۔ اساتذہ بھی ذہین اقبال سے پیار ومحبت سے پیش آتے۔روایت ہے کہ ایک روز آپ دیر سے جماعت میں پہنچے۔استاد نے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی،تو جواب دیا جناب اقبال دیر سے ہی آیا کرتا ہے۔ ’’بقول مصنف اقبال درون خانہ :‘‘ ’’ ایک ناپختہ ذہن سے ایسے با معنی جواب نے استاد کو چونکا دیا،اس نے پس منظر میں جھلکتی ہوئی ایک عظیم شخصیت کا پرتو دیکھا تو سینے سے لگا لیا۔‘‘۱۸؎ اس عمر میں انہوں نے کمرے میں اپنے والد بزرگ وار کو روشنی کے ہالے میں وجدانی کیفیت میں دیکھا۔صبح ماں کے ہمراہ باپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔پوچھنے پر شیخ صاحب نے وجدانی کیفیت کی وضاحت کی۔ اقبال باپ کے ہمراہ کابل سے شہر کی طرف آنے والے قافلے کی طرف روانہ ہوئے۔ شیخ صاحب نے قافلہ میں ایک بیمار شخص کے جسم کے متاثرہ حصے پر خاک کی شکل کی کچھ چیز مل دی۔ خدا کی قدرت وہ بیمار شخص اچھا ہو گیا۔۱۹؎ اس واقعہ نے اقبال کو بڑا متاثر کیا۔ باپ کی بزرگی وپارسائی اقبال کے دل میں گھر کر گئی۔ اپریل ۱۸۸۸ء میں اقبال چھٹی جماعت کے طالب علم تھے۔ اس جماعت میں انہیں براہ راست مولوی سید میر حسن سے اردو ،فارسی اور عربی پڑھنے کا موقع ملا۔ اس زمانہ میں انہوں نے سکول کی غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔جماعت میں بیت بازی کے مقابلوں میں پیش پیش ہوتے۔سکول میں تقریری مقابلوں میں حصہ لیتے۔ ادبی مجالس میں شرکت کرتے،سکول کے کھیلوں میں وہ ذوق شوق سے حصہ لیتے،گھر آکر وہ کبوتر بازی کرتے،ان دنوں شرفاء کے بچوں کا کبوتر اڑانا معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔کبوتر بازی میں ان کے دست راست مولوی میر حسن کے منجھلے صاحب زادے سید محمد تقی تھے، دونوںگھنٹوں اپنے اپنے مکانوں کی چھتوں پر نظریں آسمان سے لگائے کبوتروں کی اڑان سے لطف اندوز ہوتے،دونوں دوست کبوتر بازی میں اتنے ماہر ہو گئے تھے کہ دور نیل گوں فضا میں محو پرواز کبوتروں کو فورا پہچان لیتے کہ کون سی قسم ہے؟۔اور کون سی نسل؟۲۰؎ آج کے دور کی طرحاقبال کے دور میں بھی سیال کوٹ میں پتنگ بازی بڑے زور شور سے کی جاتی تھی۔اقبال بھی پتنگ اڑایا کرتے تھے۔ گھر میں ہمیشہ اپنی ہمشیرہ کریم بی بی کی گڑیوں کو کبھی صحیح حالت میں نہیں رہنے دیتے تھے۔ بہن کی غیر حاضری میں اس کی گڑیا کی ناک کا ٹ دیتے۔آنکھیں پھوڑ دیتے، دونوں ٹانگوں سے پکڑ کر گڑیا کو پھاڑ ڈالتے، ذرا بڑے ہوئے تو پہلوانوں کے اکھاڑے میں جانے لگے، لنگر لنگوٹ باندھ کر اکھاڑے میں اترتے تھے۔ تیل کی مالش کرتے، ڈنڈ بیٹھک نکالتے، اکھاڑے میں کس کو استاد بنایا تھا،کچھ معلوم نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال کو قدرت نے شاعر پیدا کیا تھا۔ سکول میں انہوں نے شعر کہنے شروع کر دیئے تھے۔ کس عمر میں پہلا موزوں شعر کہا ،کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ سید نذیر نیازی کا یہ کہنا کہ شاعری کا باقاعدہ آغاز ۱۸۸۵ء میں یا شاید اس سے کچھ پہلے ہو گیا تھا، درست نہیں معلوم ہوتا۔۱۸۸۵ء میں تو وہ پہلی جماعت پاس کرتے ہیں۔ پہلی جماعت پاس کرنے والے لڑکے میں اتنا شعور کہاں، کہ وہ شعر کہہ سکے یا شعر سمجھ سکے۔ سکول کے درجہ مڈل میں طالب علمی کے دوران شعر کہنے شروع کر دیے ہو ں گے۔موزوں شعر کہنے کا زمانہ ۱۸۸۸ سے ۱۸۹۰ع تک کا ہو سکتا ہے۔ آٹھویں جماعت میں وہ سیال کوٹ کے شعری جماعتوں میں شرکت کرنے لگے تھے۔اقبال تخلص اختیار کیا۔ یہ کہنا کہ انہوں نے کالج کے زمانہ میں اقبال تخلص اختیار کیا ،درست نہیں ،کیونکہ اس زمانہ میں عموما یہ دیکھا گیا ہے کہ مبتدی شاعر پہلے ایک تخلص اختیار کرتا ہے۔ اس عمر میں انہیں موسیقی سے بھی لگاؤ پیدا ہو گیا تھا۔طبیعت حسن وجمال کی طرف مائل ہونے لگی تھی۔ لطیف جذبات واحساسات جنم لینے لگے تھے۔ زبان وتحریر میں ایک عالم کی سی جھلکیاں ظاہر ہونے لگیں۔اقبال اپنی کتابوں پر عموما انگریزی کی یہ تحریر لکھا کرتے تھے۔ ’’Steel not the book for fear of shame, Look down and see my power ful name Mohammad iqbal,’’ صفحہ ۲۳؎ اس زمانے میں شعری نشستیں منعقد کرنے والے کون کون صاحب تھے۔ کون کون سے شعراء ان مشاعروں میں اپنا کلام سناتے تھے۔حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔مولوی سید میر حسن کا یہ کہنا کہاس دور کے شاعر عشق پیچہ ہوا کرتے تھے۔۲۴؎ غالبا ان کی صدارت میں یہ مشاعرے ہوتے۔اس دور کے چند شاعر جن کا راقم کھوج لگا سکا ہے۔ یہ ہیں: سید حامد شاہ حامد، پادری امام دین شہباز،غلامی سیال کوٹی، میراں بخش جلوہ سیال کوٹی، محمد اسماعیل ساغر، غلام قادر فصیح، محمد ابراہیم میر، نور الحسن نقش بندی، غلام محمد شگفتہ۔ غلام قادر فصیح کے شاعر ہونے کا کوئی ثبوت نہ مل سکا۔ تخلص سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ شاعری کا ذوق رکھتے تھے۔ نویں یا دسویں جماعت میں اقبال نے مرزا داغ دہلوی کی طرف رجوع کیا۔ سلسلہ تلمذ قائم ہو گیا۔ استاد نے کہہ دیا کہ شاگرد کے کلام میں اصلاح کی ضرورت نہیں، بذریعہ داک تعلقات قائم ہوئے۔دونوں میں بالمشافہ ملاقات نہ ہو سکی۔ اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ میر حسن نے داغ کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ سکاچ مشن کالج میں تعلیم کے دوران چند اور طلباء شعراء کا اضافہ ہو گیا تھا۔مثلا فضل الہیٰ بیدل، لچھمن داس نیر، اور خواجہ مسیح پال امین حزین، اس دور میں اقبال اپنی غزلیں باہر کے ادبی رسائل میں بھیجنے لگے۔ رسالہ زبان دہلی کی جلد شمارہ۵ کے صفحہ۳ پر اقبال کی پہلی غزل دستیاب ہوئی ہے۔ نومبر ۱۸۹۳ء کا یہ شمارہ ہے۔ اقبال ان دنوں فرسٹ ایر کے طالب علم تھے۔ ایڈیٹر نے غزل کے لئے طرح مصرع خوب طوطی بولتا ہے ان دنوں صیاد کا یاد فریاد قافیہ دیا ہوا تھا۔ اقبال نے آٹھ اشعار پر ایک غزل کہی جس کا پہلا شعر یہ ہے: کیا مزہ بلبل کو آیا شیوہ بیداد کا ڈھونڈتی پھرتی ہے جو اڑ اڑ کر گھر صیاد کا اس رسالہ کی جلد ۴ شمارہ ۲ میں بابت فروری ۱۸۹۴ء کے صفحہ ۲پر اقبال کی دوسری غزل چھپی ہے۔ طرح مصرع تھا۔ یہ اشارے مجھے پیغام قضا دیتے ہیں اس طرح مصرع پر اقبال نے دس اشعار کی ایک غزل کہی۔اس کا پہلا شعر ملا حظہ ہو: جان دے کر تمہیں جینے کی دعا دیتے ہیں پھر بھی کہتے ہو کہ عاشق ہمیں کیا دیتے ہیں مقطع ہے: گرم ہم پر کبھی ہوتا ہے جو وہ بت اقبال حضرت داغ کے اشعار سنا دیتے ہیں اس شمارے میں اقبال کو شاگرد ہند حضرت داغ دہلوی لکھا ہے۔ ان غزلوں کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ شاعری کی دنیا میں قدم رکھنے والا ایک نیا شخص ہے۔ اشعار میں کوئی خاص اور اچھوتی بات نہیں،کوئی نیا وبلند خیال نہیں،گھسے پٹے خیالات ہیں نہ قافیہ پیمائی ہے۔اور نہ خیال آرائی ،سادہ سے جذبات ہیں۔اشعار کی بنیاد مجازی محبوب ہے۔ روایت پرستی ہے۔ حالانکہ اقبال کی پیدائش سے ایک سال پہلے لاہور میں جدید شاعری کا آغاز ہو چکا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیال کوٹ کے استاد شعراء اور مبتدی شعراء روایت کی پابندی کا عہد کیے ہوئے ہیں۔سید نذیر نیازی کا یہ کہنا کہ ’’محمد اقبال شعر کہتے ہیں، میر حسن اصلاح دیتے ہیں۔ میر حسن کا ذوق شعر نہایت بلند تھا۔ ان سے شعرو شاعری کی نزاکتوں، عروض اور قوافی کی خوبیوں ،کلام کے محاسن،اورا س کے معائب، غرض کہ ہر اس بات کا سبق سیکھا،جس کا تعلق اس فن کے لوازم سے تھا۔‘‘۲۵؎ اس اقتباس میں میر حسن کے ذوق شعر کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے۔ وہ تو درست ہے، میر حسن سے اصلاح لینے والی بات مصدقہ نہیں۔کیونکہ گزشتہ صدی میں میر حسن صاحب نے شعر کہنے میں اپنے کسی شاگرد کی ہمت افزائی نہیں کی۔ یہ درست ہے کہ اقبال نے شاعری کے لوازمات سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے مولوی صاحب کی طرف رجوع کیا ہوگا۔ اشعار کے معائب اور محاسن سے یقینا آگاہی حاصل کی ہوگی۔لیکن اپنے کلام پر ان سے اصلاح لینا درست معلوم نہیں ہوتا۔ اقبال کا ابتدائی کلام یعنی ۱۸۹۵ء تک اس پایہ یا معیار کا نہیں کہ میر صاحب اس کی تعریف وتوصیف کرتے۔اور زبان دہلی میں چھپی ہوئی متذکرہ غزلوں کی داد دیتے۔ان غزلوں میں رندمی ہے۔ شوخی ہے، ہجر ووصال کے جھگڑے ہیں۔ حسن وعشق کی چپلقش ہے۔میر صاحب جیسا پرہیز گار اور متقی شخص ایسے کلام پر شاباش نہیں دے سکتا تھا۔ اس زمانے میں سیال کوٹ سے وکٹوریہ پیپر، وزیر ہند، شیخ چلی اور وزیر الملک شائع ہوتے تھے۔ چونکہ اس دور کے اخبار ورسائل دستیاب نہیں اس لئے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔کہ آیا ان میں اقبال کا کلام شائع ہوتا تھا یا نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ لکھنئو کا رسالہ ’’پیام یار ‘‘ سیال کوٹ گھر گھر میں پڑھا جاتا تھا۔اوراس میں ان کا کلام چھپتا تھا۲۶؎ ۔اس سلسلے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ جہلم سے ان دنوں اخبار ’’سراج الاخبار‘‘ نکلتا تھا۔ اس میں تو اقبال کا کوئی کلام نہیں ملا، جب کہ میراں بخش جلوہ سیالکوٹی،ساغر سیالکوٹی، اور چند دوسرے سیالکوٹی شعراء کا کلام اس اخبار میں شائع ہوتا تھا۔زبان دہلی کی غزلیں پڑھ کر یہ یقین ہوتا ہے کہ اقبال نے ابھی فارسی میں شعر کہنا شروع نہیں کیا تھا۔ کچھ محقیقین کا یہ خیال کہ فارسی میں بھی شعر کہنے کا آغاز سیال کوٹ میں ہو گیا ہوگا۔۲۷؎ درست معلوم نہیں ہوتا۔کیونکہ اردو کے کلام میں اگر متانت اور پختگی آگئی ہوتی تو پھر وہ فارسی میں شعر کہنے کی طرف مائل ہو سکتے تھے۔ شہر میں مختلف مذاہب اور مختلف عقائد کے حامل افراد کی اپنی اپنی انجمنیں تھیں۔ انجمن پنجاب سیال کوٹ،اور نیشنل کانگریس سیالکوٹ ایسی انجمنیں تھیں ،جن میں ہندو ،سکھ،مسلم اور عیسائی شرکت کرتے تھے۔اقبال ان انجمنوں میں شرکت کرتے،ان کی کاروائیوں میں حصہ لیتے۔ انجمن اسلامیہ سیالکوٹ مسلمان طبقہ کی فلاح وبہبود کے لیے مخصوص تھی، اقبال اس کے اجلاس میں ضرور شرکت کرتے،اوراس کی کاروائیوں میں گہری دل چسپی لیتے۔ سکاچ مشن کالج میں داخلہ لینے سے ایک روز قبل اقبال کی شادی گجرات میں ڈاکٹر عطا محمد کی بڑی صاحب زادی سے ہو گئی۔مئی ۱۸۹۳ء کا مہینہ دعوتوں اور سسرال آنے جانے میں گزرا۔ شادی کے بعد ان کی شاعری میں ایک تبدیلی آگئی ہوگی۔اب تو وہ ان دیکھے مجازی محبوب کی بجائے اصل محبوب سے مخاطب ہوتے ہوں گے۔ اپنے لطیف جذبات واحساسات کو الفاظ کا جامہ پہنا کر شعروں کی صورت میں پیش کرتے ہوں گے۔ صد افسوس اس دور کا کلام محفوظ نہیں،ورنہ ہم اندازہ کر سکتے کہ شادی کے بعد ان کی شاعری میں کس قسم کی تبدیلی آئی تھی۔خواجہ محمد مسیح پال امین حزیں کہتے ہیں کہ : ’’وہ آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے اور اقبال سیکنڈ ایر میں ،مجھے خوب یاد ہے کہ اس زمانے میں ڈاکٹر صاحب نے (اقبال) ایک دفعہ کالج سے سکول تشریف لا کر اپنے کچھ شعر مجھے سنائے تھے۔۲۸؎ امین حزیں کا سال ولادت ۱۸۸۴ئ۲۹؎ ہے۔ اقبال ۱۸۹۴ئ۹۵۔ میں امین حزیں آٹھویں جماعت کے طالب علم کس طرح ہو سکتے تھے۔؟ تیسری یا چوتھی جماعت کے طالب علم ہو سکتے تھے۔ یہ ماننے والی بات نہیں ہے کہ سیکنڈ ایر کا ایک لڑکا تیسری یا چوتھی جماعت میں پڑھنے والے لڑکے کو اپنے اشعار سنائے۔ ڈسکہ کے چوہدری جلال الدین ۱۸۹۵ء میں سیالکوٹ میں دسویں جماعت کے طالب علم تھے۔اور اقبال کالج میں زیر تعلیم تھے۔ چوہدری جلال الدین نے انٹرس کرنے کے بعد ۱۸۹۵ء میں جب گورنمنٹ کالج لاہور میں فرسٹ ایر میں داخلہ لیا ،تو اقبال نے بھی یہاں تھرڈ ایر میں داخلہ لیا تھا۔ چوہدری جلال الدین نے اپنے عزیز غلام بھیک نیرنگ سے اقبال کا تعارف بطور ایک شاعر کے کرایا تھا ۳۰؎ شیخ نور محمد کا گھرانا ایک خالص پنجابی گھرانا تھا۔ روز مرہ کی زندگی میں سیال کوٹ کے مخصوص لب ولہجہ میں بات چیت ہوتی،اقبال نے اس ماحول میں پرورش پائی۔ساری عمر سیالکوٹ کے مخصوص لب ولہجہ کو سینہ سے لگائے رہے۔اس سے ہٹ کر انہوں نے بات نہیں کی۔ اگر کسی نے ان کو کسی لفظ کے تلفظ پر ٹوکا تو اسے دو ٹوک جواب دیا: ’’ میری ماں نے تو مجھے یہی سکھایا ہے، میں اپنی ماں کی تعلیم کو فراموش نہیں کر سکتا‘‘۔۳۱؎ حواشی باب ۱۔کشمیر درپن،جلد۱۔ نمبر۹،ستمبر۱۹۰۳ء جلد۱۔ نمبر۱۱۔ نومبر ۱۹۰۳ء ۲۔ زندہ رود جاوید اقبال۔حصہ اول ص۴ ۳۔زندہ رود۔جاوید اقبال۔ حصہ اول ص۶ ۴۔۵ ص۱۸ ۶۔یہ رپورٹ پہلی بار اقبال ریویو۔اقبال اکادمی پاکستان لاہور جولائی ۱۹۸۳ء میں شائع ہوئی۔یہ یاد رہے کہ گزشتہ صدی کے نصف آخر میں محمد اقبال کے علاوہ ایک اور لڑکا اقبال سنگھ سیالکوٹ میں موجود تھا۔جو شام سنگھ ہندو کھتری کا لڑکا تھا۔اقبال ۱۲ ساڑھے بارہ سال کی عمر میں یکم اپریل ۱۹۰۰ء کو انتقال کر گیاتھا۔ محلہ دیارو وال میں رہتا تھا۔دیکھیے رجسٹر اموات سیالکوٹ حوالہ نمبر ۳۲۲ ۷۔نقوش لاہور۔اقبال نمبر۔۲ شمارہ ۱۲۳۔دسمبر ۱۹۷۷ء ص ۱۵ ۸۔پنجاب گزٹ ۱۸۹۱ء پارٹ ۲ ص ۲۷۰ ۹ پنجاب یونیورسٹی کیلنڈر ۹۔۱۸۹۰ء ص۱۷ ۱۰ ۔پنجاب گزٹ ۱۸۹۳ء پارٹ تھری ص۶۹۱ ۱۱۔زندہ رود جاوید اقبال ۔حصہ اول ص۴۶ ۱۲۔دانائے راز۔ڈاکٹر وحید قریشی نے یہ انٹرویو ۱۹۷۳ء میں لیا تھا۔ ص۱۳ نقوش ۔اقبال نمبر ۲ ص۱۶ ۱۴۔علامہ اقبال کے استاد،شمس العلماء مولوی سید میر حسن ص۱۲۹ ۱۵۔روایات اقبال۔پروفیسر منظور احمد ،ہمشیرہ زادہ علامہ اقبال کا انٹرویو ص۱۸۰ ۱۶۔ اقبال درون خانہ۔خالد نظیر صوفی لاہور ۱۹۷۱ء ص۱ ۱۷۔ روایات اقبال ص۳۹ ۱۸۔اقبال ۔درون خانہ ص۹ ۱۹۔اقبال ۔ از عطیہ بیگم،اقبال اکادمی کراچی ۱۹۵۶ء ص۴۔۵۔۶۔۶ ۲۰۔ دانائے راز۔ سید نذیر نیازی ص۶۷ ۲۱۔اقبال ۔درون خانہ ص۷۵ ۲۲۔دانائے راز ص۲۱۲ ۲۳۔دانائے راز ص۱۷ ۲۴۔نقوش مکاتیب نمبر،جلد۲،میر حسن کا مکتوب محمد دین فوق کے نام ص۸۰۵ ۲۵۔دانائے راز ص۷۷ ۲۶۔ دانائے راز ص۸۳ ۲۷۔دانائے راز ص۸۷ ۲۸۔روایات اقبال ص۱۸۹ ۲۹۔ تاریخ سیالکوٹ،رشید نیاز ،مکتبہ نیاز سیالکوٹ ۱۹۵۸ء تاریخ پیدائش ۱۴ اگست ۱۸۸۴ء ہے۔ معاصرین اقبال کی نظر میں محمد عبد اللہ قریشی ص۲۰۰ مجلس ترقی ادب لاہور ۱۹۷۷ء ص۵۳۳ ۳۰۔چند یادیں چند تاثرات۔عاشق حسین بٹالوی،آئینہ ادب لاہور ،۱۹۶۹ء ص۱۵۰ ۳۱۔اقبال درون خانہ ص۱۵ باب نمبر ۲ سیالکوٹ کی معاشرتی زندگی ۱۔ضلع اسکول فروری ۱۸۴۹ء میں انگریزوں نے گجرات کے مقام پر سکھوں کو شکست دے کر کلی طور پر پنجاب پر قبضہ کر لیا۔زندگی کے ہر شعبہ میں اصلاحات نافذ کیں۔انتظامی لحاظ سے ہر شعبہ کو پختہ بنیادوں پر قائم کیا۔بڑے بڑے شہروں میں ضلع سکول کے نام سے تعلیمی ادارے قائم کیے۔سیالکوٹ میں بھی ۱۸۵۴ء میں حکومت نے ایک ضلع سکول قائم کیا۔اسی سکول میں مولوی سید میر حسن نے آٹھویں تک تعلیم حاصل کی تھی۔ یہ اسکول اینگلو ورنیکلر مڈل سکول تھا۔ حکومت ۱۲۰ روپے ماہوار مالی امداد دیتی تھی۔ اپریل ۱۸۵۶ء کے ایک اجلاس میں امریکن مشن سکول مسٹر اسٹیونسن(Stevenson) کی تحویل میں دے دیا گیا۔ ڈائریکٹر آف پبلک انسٹرکشن نے امریکی مشن سکول کو ہر طرح مدد کا یقین دلایا اور یہ وعدہ بھی کیا کہ اس کے مد مقابل ضلع سکول کو بند کر دیا جائے گا۔۱؎ لیکن یہ ضلع سکول تو بند نہ ہو سکا، امریکی سکول بند ہو گیا۔ مئی ۱۸۶۸ء میں حکومت نے نصف قیمت پر ضلع سکول کو سکاچ مشن کے ہاتھ فروخت کردیا۲؎۔ مشن نے دو ہزار روپے میں ضلع سکول کی وسیع وعریض پختہ عمارت خرید لی۳؎ ۲۔امریکی مشن سکول۴؎ ۱۸۵۴ء میں حکومت کے ایما ء پر ایک امریکی شخص ریورنڈ ٹی،ایچ، فٹنر پیٹرک (Rev,T,H,Fitzpartrick) نے شہر سیالکوٹ میںایک پرائمری سکول قائم کیا۔ یہ شخص امریکن یونائیٹڈ پریزبائیٹرین مشن سے تعلق رکھتا تھا،اس سکول میں تیس لڑکے پڑھتے تھے۔ یہ لڑکے ہندو،سکھ اور مسلمان گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔پہلی جماعت ہی سے بائیبل پڑھائی جاتی تھی۔ ایک مقامی مسلمان کو سکول کا ہیڈ ماسٹر مقرر کیا گیا۔ تیس روپے ماہوار خرچہ تھا۔فٹنر پیٹرک خود تو امرتسر میں رہتا تھا۔ لیکن سکول کا انتظام ایک لوکل کمیٹی کے سپرد تھا۔ لوکل کمیٹی میں میجر ڈیوس (DAVIS) سی،ایم، فٹنر گیر لڈ (C,M,Fitzger ald) اور لیفٹیننٹ اے ،ہیتھ (A,Heath) شامل تھے، چند ماہ کمیٹی نے سکول کو چلایا۔اسی دوران اینڈریو گورڈن امریکہ سے اگست ۱۸۵۵ء میں سیال کوٹ پہنچا۔اس کی ملاقات کیپٹن سر جان میل سے ہوئی (J,Mill)۔فٹنر گیرلڈ سے بھی ملاقات ہوئی۔اس نے مذکورہ سکول کوگورڈن کو تحویل میں دینے کی پیش کش کی۔گورڈن لوکل کمیٹی کے دوسرے ارکان سے ملا، کمیٹی کے اراکین سکول کے لئے وقت نہیں نکال سکتے تھے۔اس لئے انہوں نے گورڈن سے کہا کہ وہ نصف گھنٹہ سکول کو دیا کرے،گورڈن رضا مند ہو گیا۔ اپریل ۱۸۵۶ء میں سکول کمیٹی کا اجلاس ہوا۔اجلاس میں سکول کو ریو رنڈ اسٹیونسن (E,H,Stevenson) کی تحویل میں دینے کا فیصلہ کیا گیا۔سکول کی کار کردگی کو مشنری کاموں کے لیے سود مند تسلیم کیا گیا۔اجلاس میں مشن کے تحت ایک یتیم خانہ کھولنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پنجاب کے ڈائریکٹر آف پبلک انسٹرکشن بھی اجلاس میں موجود تھے۔ انہوں نے حکومت کے ضلع سکول کو بند کرنے کا وعدہ کیا، تاکہ مشن کا یہ سکول ترقی کر سکے۔ ۱۲ فروری ۱۸۵۷ء کو سکول کی پہلی سالانہ رپورٹ ایک اجلاس میں پیش کی گئی۔۱۱ مئی ۱۸۵۷ ء کو سکول کی پہلی سالانہ رپورٹ ایک اجلاس میں پیش کی گئی۔۱۱ مئی ۱۸۵۷ء کو میرٹھ سے فوجوں نے جنگ آزادی کی ابتداء کردی، بذریعہ تار سیالکوٹ کے انگریز حکام کو اس واقعہ کی اطلاع دی گئی۔سر جان لارنس نے تمام انگریزوں کولاہور قلعہ میں پناہ لینے کو کہا۔ سکاچ مشن کے پادری نے پناہ لینے سے انکار کر دیا۔امریکن مشنری ۱۱ جون کو صبح نو بجے سیالکوٹ سے چلے، اور ۱۳ جون کو آٹھ بجے صبح لاہور قلعہ میں پہنچ گئے۔ امن وامان قائم ہونے پر یہ لوگ ۲۲ جولائی کو واپس سیالکوٹ آگئے۔ سکاچ مشن کے پادری ہمنگامہ میں قتل ہو چکے تھے۔ اس لیے سکاچ مشن وقتی طور پر بند ہو گیا۔ امریکی مشن نے سکاچ مشن کے محمد اسماعیل کو امریکن سکول میں ملازمت کرنے کی پیش کش کی۔ سکاچ مشن کے نہ ہونے کی وجہ سے محمد اسماعیل نے یہ پیش کش قبول کرلی۔اور کچھ عرصہ اس سکول میں کام کیا۔ فنڈ کی کمی کی وجہ سے امریکی مشن کو دقت کا سامنا کرنا پڑا۔۱۸۶۲ء میں مشن نے اپنی کچھ اراضی واقع بارہ پتھر میں پندرہ سوپونڈ میں سکاچ مشن کو فروخت کر دی۔ ۱۸۶۳ء میں امریکن مشن نے سکول بند کر دیا۔اور سکول کی عمارت کو سکاچ مشن کے ہاتھوں فروخت کردیا۔ ۲۸ نومبر ۱۸۶۴ء کو اینڈریو گورڈن واپس امریکہ چلا گیا۔اس کے جانے کے بعد ریورنڈ جیمز ایس بار (Rev,James ,S,Barr)۔۔۔۔۔ امریکی مشن کا سربراہ مقرر ہوا۔بار نے فروری ۱۸۶۵ء میں نئے سرے سے امریکن مشن سکول قائم کیا۔ایک مقامی شخص کو سکول کا ہیڈ ماسٹر مقرر کیا۔ اس دفعہ سکول کے قیام میں ایک ٹھہراؤ پیدا ہو گیا۔لڑکوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا۔ لائق اساتذہ کو ملازم رکھا گیا۔ ۱۸۷۶ء میں یہ سکول ہائی درجہ پر ترقی پا گیا۔ ۱۸۷۸ء میں پہلی بار یہاں لڑکوں نے انٹرس کا امتحان دیا۔صرف دو لڑکے ایسر داس ،اور بسنت کمار کامیاب ہوئے۔ سکاچ مشن سکول کے لڑکوں کی طرح یہاں کے لڑکوں کو بھی کلکتہ یونیورسٹی کا امتحان دینا پڑتا تھا۔۱۸۸۰ء میں یہاں کے دو لڑکوں نے کلکتہ یونیورسٹی کا امتحان دیا۔ دونوں میں سے کوئی بھی کامیاب نہ ہوسکا، دونوں انگریزی میں فیل ہوئے۔اس کے علاوہ ایک اور لڑکا ریاضی میں فیل ہوا۔ پنجاب یونیورسٹی میں بھی کوئی کامیابی حاصل نہ کرسکا۔ ۱۹۲۵ء میں یہ سکول بند کر دیا گیا۔اراضی شہریوں کو فروخت کر دی گئی۔ وجہ یہ تھی کہ امریکن مشن نے بارہ پتھر کے اپنے کرسچین ٹریننگ انسی ٹیوٹ کو ہائی کا درجہ دے دیا تھا، اس لیے شہر میں سکول کی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔ امریکن مشن کے پادریوں اورا س مشن سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے تقریبا چار ہزار روپیہ اکٹھا کرکے شہر میں حاجی پورہ میں ایک شان دار چرچ تعمیر کیا۔۱۴ اگست ۱۸۵۹ء کو چرچ کی بلڈنگ مکمل ہوئی۔ ۳۔ سنگھ سبھا اینگلو ورنیکلر اسکول ۱۸۸۴ء میں سیال کوٹ شہر کے سکھوں نے ’’گرو سنگھ سبھا ‘‘ کے نام سے اپنی ایک تنظیم قائم کی تھی ۵؎۔ا س سبھا کے تحت انہوں نے ایک اینگلو ورنیکلر سکول بھی قائم کیا۔سکول کے قیام میں سردار بدھ سنگھ کی کوششوں کو بڑا دخل حاصل تھا۔ سردار صاحب سکول کے پہلے ماسٹر مقرر ہوئے۶؎ میو نسپل کمیٹی نے سیال کوٹ نے ۱۸۷۷ء میں جب جدید سکول قائم کیا تو اس اینگلو ورنیکلر سکول کو جدید سکول میں مدغم کر لیا۔ ۴۔گورنمنٹ ہائی سکول سیالکوٹ میں امریکی مشن اور سکاچ مشن کا بنیادی مقصد مسیحت کی ترویج واشاعت تھا۔ یوں تو یہ ادارے ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ آزادی سے قبل قائم ہو چکے تھے۔ لیکن ان کو استحکام ۱۸۵۷ء کے بعد ملا، ۱۸۵۷ء کے بعد پہلی بار ایک چوہڑا جوہری دین مسیح میں داخل ہوا، ۷؎ مئی ۱۸۶۸ء میں حکومت نے ضلع سکول سکاچ مشن کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ مئی ۱۸۷۷ء میں سکاچ مشن سکول میں تین لڑکے اپنا آبائی مذہب چھوڑ کر عیسائی ہو گئے۔ان میں ایک مسلمان تھا ،اور دو ہندو۔شہریوں میں بڑی بے چینی پھیلی۔ وہ مشنری اداروں کے خطرناک عزائم سے سہم گئے۔سیال کوٹ میں سید وزیر علی ایکسٹرا اسٹنٹ کمشنر تھے۔ لوگ ان سے ملے، میونسپل کمٹیی کے سیکرٹری سے ملاقات کی، اور فیصلہ ہوا کہ میونسپل کمیٹی خود ایک سکول کھولے، چار صد ماہوار اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا۔۸؎ یہ ادارہ دس برس تک پورا نہ ہوسکا، کیونکہ عیسائی حکام راستہ میں حائل تھے۔ اواخر دسمبر ۱۸۸۶ء اور ابتدا جنوری ۱۸۸۷ میں سیال کوٹ کے ڈپٹی کمشنر نے ڈائرکٹر مدارس پنجاب کے مشورہ سے شہر میں ایک جدید سکول کھولنے کی منظوری دے دی۔ شہر کے روساء اور میونسپل کمیٹی کے ممبران نے بھر پور تعاون کا یقین دلایا۔مجوزہ سکول میں عربی، فارسی، سنسکرت اور انگریزی علوم انٹرس تک پڑھائے جانے کا اعلان کیا گیا۹؎ ۔اس سلسلے میں ایک خبر ملا حظہ ہو۔ ’’ جدید سکول پختہ طور پر منظور ہو گیا ہے۔ اس کا نام ہائی سکول ہوگا، سات ہزار دو سوروپیہ سالانہ خرچ ہوگا۔ ایک ثلث بلدیہ وشہری دیا کریں گے۱۰؎ شہر کے چوبیس معززین نے کمشنر کو ایک تحریر دی کہ وہ پانچ برس تک اپنا چندہ باقاعدگی سے دیا کریں گے۔سکول کے لئے اساتذہ کا انتظام بھی کر لیا گیا۔ ۱۶ فروری ۱۸۸۷ء کو ملک کے دوسرے شہروں کی طرح سیالکوٹ میں بھی جشن جوبلی منایا گیا۔ سرکاری سطح پر لوگوں سے چندہ وصول کیا گیا۔ آتش بازی چھوڑی گئی۔ ناچ مجرا بھی کرایا گیا۔ ان تفریحات سے بچی ہوئی رقم جدید سکول کے فنڈ میں دے دی گئی۔۱۱؎ سید وزیر علی کا مکان کرایہ پر حاصل کرکے یکم مارچ ۸۸۷اء کو پرائمری مدرسہ نے اپنا کام شروع کر دیا۔گرو سنگھ سبھا کا مدرسہ بھی اس میں مدغم ہو گیا۔ سنگھ سبھا مدرسے کے ہیڈ ماسٹر بدھ سنگھ کو اس نئے پرائمری سکول کاپہلا ہیڈ ماسٹر مقرر کیا۔۱۸۸۶ء میں چھٹی جماعت بھی شروع کی گئی۔ ۱۸۸۷ء میں یہی جماعت ساتویں جماعت میں ترقی پا گئی۔ یہاں تک کہ سکول کی آٹھویں جماعت نے پہلی بار ۶ جنوری ۱۸۹۰ء کو پنجاب یونیورسٹی لاہور کے تحت مڈل کا امتحان دیا۔ سولہ لڑکے کامیاب ہوئے ۱۲؎۔ امتحانی مرکز سکاچ مشن ہائی سکول سیال کوٹ تھا۔ امتحان کے سپر نٹنڈنٹ پادری ینگسن تھے۔ ۲۳ اگست ۱۸۹۰ء کو میونسپل کمیٹی کے ٹاؤن ہال میں ایک جلسہ تقسیم انعامات منعقد ہوا۔ڈپٹی کمشنر صدر تقریب تھے۔تقریب میں گزشتہ تین برس کی کار کردگی کا تفصیلی جائزہ ایک رپورٹ کی صورت میں پڑھا گیا۔ تقریب میں عربی ،فارسی،اردو ،انگریزی اور سنسکرت میں نظمیں پڑھی گئیں۔تقریب بڑی بارونق تھی، شہریوں نے بڑے جوش وخروش سے حصہ لیا۔ تقریب کے اختتام پر طلبہ کو جیب گھڑی اور کتب انعامات میں دی گئیں۱۳؎ ۱۸۹۰ء میں مڈل کا امتحان پاس کرنے والے طلباء پر مشتمل نویں جماعت کا اضافہ کیا گیا۔اس طرح ہائی سکول بن گیا۔۱۸۹۲ء میں یہاں کے لڑکے پہلی بار پنجاب یونیورسٹی لاہور کے تحت انٹرس (میٹرک) کا امتحان دیتے ہیں۔اس امتحان میں کامیاب ہونے والے طلبا یہ تھے ۴؎ رول نمبر نام حاصل کردہ نمبر ڈویژن ۸۴ گنپت رائے ۲۰۴ دوئم ۸۱۸ علی محمد ۲۳۷ فرسٹ ۸۱۹ اللہ رکھا ۲۱۶ سکینڈ ۸۲۱ غلام رسول ۲۶۰ فرسٹ ۸۲۵ تیجہ سنگھ ۳۳۴ فرسٹ سکول دو حصوں پر مشتمل تھا۔حصہ پرائمری کے ہیڈ ماسٹر بدھ سنگھ تھے۔حصہ ہائی کے ہیڈ ماسٹر بابو مولا مل تھے۔مولا مل ۱۵ اپریل ۱۸۹۲ء کو یہاں تعینات کیے گئے تھے۔۱۴ فروری ۱۸۹۳ء کے اجلاس میںمیونسپل کمیٹی سیالکوٹ نے ان کو مستقل طور پر ہیڈ ماسٹرمقرر کر دیا، اور ایک صد روپیہ مشاہرہ مقرر کیا۔ مذکورہ اجلاس میں بابو صاحب کی کار کردگی کی تعریف بھی کی گئی۔۱۵؎ جولائی ۱۸۹۳ء میں سکول کا نام ’’وکٹوریہ جوبلی ہائی سکول‘‘ رکھا گیا۔ ۳۰ جنوری سے دو فروری ۱۸۹۴ء سکول میں ضلعی سکولوں کے طلباء کے درمیان کھیلوں کے مقابلے ہوئے۱۶؎ ۱۸۹۴ء کے یونورسٹی کے انٹرس کے امتحان میں سکول کے ۲۳ لڑکوں میں سے ۱۷ لڑکوں نے کامیابی حاصل کی۔ اسی سال مڈل کے امتحان میں یہاں کا ایک لڑکا پنجاب میں اول رہا ۱۷؎ گزشتہ صدی کے آخری یا موجودہ صدی کے ابتدائی سالوں میں ڈسکہ کے مولوی محمد فیروز الدین یہاں کے مدرس فارسی تھے۔ نومبر ۱۹۰۴ء میں لدھا سنگھ بی ،اے یہاں کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ حکومت پنجاب نے نئی تعلیمی اسکیم کے تحت ضلع اور ہیڈ کوارٹرز کے ہائی سکولوں کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ اور اس طرح ۱۹۰۶ء میں یہ ’’گورنمنٹ ہائی سکول‘‘ کہلایا جانے لگا۔ تبدیلی نام کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی تعداد اور مشاہرے میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ اساتذہ کو سبک دوشی کے بعد پنشن کا حق دار قرار دیا گیا ۱۸؎ ۴ فروری ۱۹۰۹ء کو ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کی زیر صدارت ساڑھے دس بجے سکول میںایک انعامی جلسہ منعقد ہوا۔جلسہ بڑا پر رونق تھا۔دل پذیر تقریروں اور نظموں سے سامعین کو مسحور کیا گیا۔امتحانات میں پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء کو انعامات دیئے گئے۔۱۹؎ ۱۰ فروری ۱۹۱۷ء کو سکول ہذا میں انجمن ترقی علوم (The Socity for promoting Scientific Knowledge) کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔مہمان خصوصی ڈپٹی کمشنر تھے۔ مرے کالج سیالکوٹ کے پروفیسر لالہ رام رتن ایم، ایس ،سی نے اس تقریب میں بڑی سر گرمی سے حصہ لیا ۲۰؎ موجودہ عمارت کا سنگ بنیاد لاہور کے ڈائریکٹر آف پبلک انسٹرکشن نے ۱۸ جنوری ۱۹۱۶ء کو رکھا۔دو سال میں یہ وسیع وعریض عمارت مکمل ہوئی۔آج کل اس کا نام گورنمنٹ پائلٹ سیکنڈری سکول ہے۔ ۵۔سکول برائے یورپی طالبات ۲۱؎ سیالکوٹ چھاؤنی میں لڑکیوں کے لئے ایک پرائیویٹ سکول ۱۸۸۲ء میں موجود تھا۔اس میں یورپ اور یوریشیا کی ۳۰ سے زائد غیر ملکی لڑکیاں تعلیم حاصل کرتی تھیں۔سیالکوٹ کے ایک مشنری ادارے کانونٹ آف جیزز میری نے اسے قائم کیا تھا۔ اور یہاں کی نن (NUNS) ان کو تعلیم دیتی تھیں۔فیسوں سے سکول کے اخراجات پورے کیے جاتے تھے۔ ۶۔کرسچین ٹریننگ انسی ٹیوٹ ۱۸۸۰ء کے لگ بھگ انڈیانہ (Indiana) کے آرچی بالڈ اسٹیوارٹ (ARchibald Stewart) نے بورڈ آف فارن مشن کو چالیس ہزار پونڈ کا عطیہ دیا۔ کہ اس سے ہندوستان اور مصر میں تبلیغی مشن کے مراکز قائم کیے جائیں۔سیالکوٹ مشن نے اپنا حصہ الہایات کی تعلیم کے لئے مختص کر دیا۔ امریکن مشن نے بارہ پتھر سیالکوٹ میں سکاچ مشن سے اراضی خرید کر کرسچین ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ قائم کیا۔۱۸۸۲ء میں یہاں مڈل درجہ تک تعلیم دی جانے لگی۔دنیاوی تعلیم کے علاوہ یہاں مسیحت کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ امریکن مشن اپنے مبلغوں کو یہاں دینی تعلیم دے کر تیار کرتا۔اور ان سے تبلیغی کام لیتا۔ انسٹی ٹیوٹ میں ’’السٹیوارٹ ہال‘‘ بھی موجود تھا،جو آرچی ہالڈ اسٹیوارٹ کی یاد دلاتا ہے۔انسٹی ٹیوٹ میں طلباء کے لئے رہائش کی سہولتیں بھی موجود تھیں۔ پادری امام دین شہباز نے جب امریکن مشن میں شمولیت اختیار کی،تو وہ اس درس گاہ میں کئی برس تک دینی ودنیاوی تعلیم دیتے رہے۔ مشن نے ان کی خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ کے ہوسٹل کو ان کے نام سے منسوب کر دیا۔ ۱۹۲۳ء میں یہاں نویں جماعت کا اضافہ کیا گیا۔ ۱۹۲۵ء میں پہلی بار یہاں کے لڑکوں نے یونیورسٹی میں میٹرک کا امتحان دیا۔اس طرح ۱۹۲۵ء سے یہاں ہائی درجہ تک تعلیم دی جانے لگی۔ سیالکوٹ شہر میں امریکن مشن نے اپنا ہائی سکول بند کر دیا۔کیونکہ اس ہائی سکول کے ہوتے ہوئے اب شہر کے ہائی سکول کی ضرورت نہ رہی تھی۔ ۱۸۸۲ء میں سکول کے ہیڈ ماسٹر رابرٹ اسٹیوارٹ تھے۔ کتب خانے واساتذہ سیالکوٹ سیاست سے زیادہ علمی وادبی مرکز رہا ہے۔ مغلیہ دور میں استاذی مولانا کمال الدین ہوئے ہیں،جو سیالکوٹ کی مسجد وارث میں درس دیا کرتے تھے۔ان کے شاگرد ملک العلماء علامہ عبد الحکیم (م۔۱۰۶۷ھ۔ ۱۶۵۶ئ) اور حضرت مجدد الف ثانی (۶۴۔۱۵۶۳ء سے ۱۶۲۴ئ) تھے ، جن کی علمیت اور قابلیت کا زمانہ معترف ہے۔ایک طرف تو یہ سینکڑوں طالب علموں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے تھے، تو دوسری طرف اساتذہ کے کتب خانوں میں نادر سے نادر قلمی کتب جمع تھیں۔ ان کے شاگرد اور علم وادب سے شغٖف رکھنے والے حضرات مستفیض ہوتے،علامہ عبد الحکیم خود بھی مصنف تھے۔ اور صاحب درس وتدریس بھی تھے۔بادشاہ وقت نے ان کو جاگیر بھی عطا کی تھی۔اس لئے حصول کتب میں انہیں کوئی دشواری پیش نہ آتی تھی۔ان کا کتب خانہ مولانا سید میر حسن(۱۹۲۹ء ۔۱۸۴۴) کی ابتدائی زندگی میں موجود تھا۔ یہ نادر کتب خانہ سکھوں کی دہشت گردی کا شکار ہوا۔ اس کا بچا کھچا حصہ ۱۸۴۸ء اور ۱۸۵۷ء کے ہنگاموں کی نذر ہو گیا۔ مولوی سید میر حسن محمد دین فوق کے نام اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں: ’’ افسوس خلف وہ نہ نکلے جو سلف تھے۔ سلف بنانے کے لئے آئے تھے، خلف برباد کرنے کے لئے پیدا ہوئے تھے۔وہ کتب خانہ نااہلوں کے پاس آکر رفتہ رفتہ تباہ ہو گیا۔ یہاں تک کہ سکھوں کے زمانے میں جب سیالکوٹ لوٹا گیا،شہر میں آگ لگائی گئی،تو مولوی عبد الحکیم کا نادر کتب خانہ بھی جو اپنے زمانے میں شمالی ہند کا لا جواب دار الکتب تھا، سکھوں نے جلا دیا‘‘ ۲۴؎ سکھ عہد کے اختتام تک شہر میں کوئی بڑا کتب خانہ وتعلیمی مرکز نہیں تھا۔مساجد سکھوں کی بربریت سے بچی رہی تھیں۔ اس لیے یہاں درس وتدریس میں سے منسلک علماء وفضلاء اپنے فرائض منصبی میں مگن رہے۔ ۱۸۵۰ء سے ۱۹۰۰ء تک سیالکوٹ میں درج ذیل علماء وفضلا درس وتدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ ان اساتذہ کے اپنے کتب خانے بھی تھے۔جن سے وہ خود اور ان کے شاگرد استفادہ کرتے تھے۔ ۱۔ مولانا شیر محمد ۲۔ مولوی سید میر حسن ۳۔ مولوی غلام حسن ۴۔ مولانا غلام مرتضیٰ ۵۔ مولوی غلام مصطفیٰ : میانہ پور میں رہتے تھے۔ علامہ عبد الحکیم کی اولاد میں سے تھے۔ ان کے ہاں درس وتدریس کا کام نہ تھا۔ لیکن ذاتی مطالعہ کے لیے ایک ذخیرہ کتب موجود تھا ۲۴؎ ۶۔مولوی محبوب عالم: سرکاری مدرسہ میں ملازم تھے۔ ملازمت سے مستعفیٰ ہو کر گوشہ نشین ہو گئے۔ان کی فارسی دانی کی بہت شہرت تھی،۲۴؎ روایت ہے کہ مولوی سید میر حسن نے ان سے کچھ عرصہ تعلیم حاصل کی تھی۔سکاچ مشن سکول،سکاچ مشن کالج،امریکن مشن سکول اور میونسپل بورڈ ہائی سکول کے اپنے اپنے کتب خانے تھے۔طلباء ان سے ضرور استفادہ کرتے تھے۔میونسپل کمیٹی ۱۸۶۷ء میں قائم ہوئی۲۵؎۔چند سالوں بعد کمیٹی نے اپنا ایک کتب خانہ قائم کیا۔ جہاں شہری کتب بینی کے علاوہ اخبار اور رسائل بھی پڑھتے تھے۔۱۸۹۱ء میں اس کتب خانے کا نام ’’منٹگمری لائبریری ‘‘ تھا۔۲۶؎ ۔۱۸۹۵ء میں اسے پبلک لائبریری کے نام سے پکارا جانے لگا۔۲۷؎ ان دنوں اسے علامہ اقبال میموریل لائبریری کا نام دیا گیا ہے۔ انجمنیں ۱۔گرو سنگھ سبھا سیالکوٹ کے سکھوں نے ۱۸۸۴ء میں اسے قائم کیا۲۸؎۔ سردار بدھ سنگھ کو اس کا بانی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس تنظیم کا مقصد گرومکھی رسم الخط کی اشاعت تھا۔گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں اس کا صدر پریم سنگھ مہنت بابا کی بیری تھا ۲۹؎۔ اس سبھا کے تحت بدھ سنگھ نے ایک اینگلو ورنیکلر سکول بھی قائم کیا تھا۔ جو بعد میں جدید سکول میں مدغم ہو گیا۔۳۰؎ ۔موجودہ اقبال چوک میں بھی اس سبھا نے ایک پرائمری مدرسہ قائم کیا تھا۔ جو بعد میں پل ایک پر خالصہ ہائی سکول کے نام سے موسوم ہوا۔ اوبرائے خاندان کے گنڈا سنگھ،جھبنڈا سنگھ، اور شب دیو سنگھ اس سبھا کے سرگرم رکن تھے۔ ۲۔جین سبھا شہر میں جین مت عقائد کے حامل ہندوؤں نے ۱۸۹۰ء میں اس جماعت کو قائم کیا ۳۱؎ ۳۔برہمو سماج یہ تنظیم بھی اقبال کی ابتدائی زندگی کے دوران موجود تھی۔ اس کا مقصد خدا ئے واحد کی پرستش اور ترک بت پرستی،ستی کی وحشیانہ رسم کو ختم کرنا بھی اس کے مقاصد میں شامل تھا۔ ہندوستان میں راجا رام موہن رائے (۱۸۳۳۔۱۷۸۲) نے ۱۸۳۰ء میں اس تنظیم کو قائم کیا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ملک بھر میں اس کی شاخیں قائم ہو گئیں۔ ۴۔آریہ سماج ۱۸۸۴ء میں یہ جماعت قائم ہوئی۔اس کا مقصد ویدوں کی تعلیم اور سنسکرت زبان وادب کی اشاعت تھا، مگر عملی طور پر سیاست کو اس میں زیادہ دخل تھا۔ سیالکوٹ کے وکیل لالہ گنگا رام ۱۹۰۵ء میں اس کے سیکرٹری تھے۔۳۳؎۔ لالہ بھیم سین معروف وکیل بھی اس کے سرگرم رکن تھے۔ اس جماعت کے اراکین اسلام اور عیسائیت پر آئے دن تنقید کرتے رہتے تھے۔ شہر کے منشی کریم بخش نے ۱۸۹۸ء میں سیالکوٹ نے پندرہ روزہ رسالہ انوار السلام جاری کیا۔ اس رسالہ میں آریہ سماج کے اعتراضات کے مدلل جوابات دیئے جاتے تھے۔ ہندوستان میں سوامی دیا نند (پ،۱۸۲۴ء ) نے ۱۰ ،اپریل ۱۸۷۵ء کو بمبئی شہر میں بنیاد رکھی تھی۔۳۴؎ ۵۔نیشنل کانگرس ملکی سطح پر نیشنل کانگرس کی بنیاد ۱۸۸۵ء میں رکھی گئی۔ یہ خالصتا ایک سیاسی جماعت ہے۔ سیالکوٹ میں گزشتہ صدی کی دسویں دہائی کے ابتدائی سالوں میں یہ جماعت قائم ہوئی۔۱۳ اکتوبر ۱۸۹۳ء کو لالہ نہال چند بیرسٹر کے مکان پر نیشنل کانگرس کا ایک اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں ہندوؤں کی تعداد زیادہ تھی،اور مسلمان آٹے میں نمک کے برابر تھے۔ زیادہ تعداد طلباء کی تھی۔ ہر اتوار کو جلسہ ہوتا تھا۔ طلباء بڑے شوق سے اس میں شرکت کرتے تھے۔ان کے لئے یہ ایک بہترین شغل تھا۔۳۵؎ ۶۔سناتن دھرم شہر کے ہندوؤں نے ۱۸۸۹ء میں سناتن دھرم کے نام سے ایک تنظیم قائم کی۔ اس کا مقصد شاستروں کی تعلیم پھیلانا اور ہندو مت کو اصل حالت میں پیش کرنا تھا۔ سیاست سے زیادہ مذہب کو اس میں عمل دخل تھا۔۳۶؎ اس جماعت کے بانی منشی گلاب سنگھ تھے۔ جنہیں حکومت نے ۱۸۹۷ء میں ’’رائے صاحب‘‘ کا خطاب عطا کیا تھا۔منشی صاحب کی وفات کے بعد لالہ روپ لال اس کے صدر اور خزانچی مقرر ہوئے،۳۷؎ ۷۔ انجمن پنجاب سیالکوٹ انیسویں صدی کی ساتویں اور آٹھویں دہائی ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں علمی وادبی انجمنیں قائم ہوئیں۔ ان کا مقصد یہاں کے لوگوں کو مغربی علوم وفنون سے روشناس کرانا اور ہندوستانیوں کی فلاح وبہبود تھا۔ انجمن پنجاب لاہور کی طرز پر ۱۸۶۶ء میں سیالکوٹ حصار اور دہلی میں بھی انجمنیں قائم ہوئیں۔ مشہور محب اردو وفرانسیسی مستشرق گار سیس وتاسی (۱۸۷۸۔۱۰۹۷) کہتا ہے :۔ ’’ اس قسم کی (انجمن پنجاب لاہور) تین اور انجمنیں حال میں پنجاب میں قائم ہوئیں۔ایک سیالکوٹ میں ،ایک حصار میں ،اور ایک دہلی میں، مقصد لاہور کی انجمن کی طرح یہ ہے ۔کہ ہندوستانیوں کی عام فلاح وبہبود کے ساتھ علمی ترقی کی طرف قدم اٹھایا جائے۔ بغیر اس کے ان میں کوئی اصلاح ممکن نہیں ‘‘۳۸؎ اس اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۸۶۶ء میں سیالکوٹ میں یہ انجمن موجود تھی۔ مذکورہ انجمن نے ڈاکٹر لیٹنر کو ان کی خدمات کے صلے میں سونے کی ایک انگوٹھی پیش کی تھی۔۳۹؎ ۸۔انجمن اسلامیہ شہر کے چند سرکردہ مسلمانوں نے مارچ ۱۸۹۰ء میں انجمن اسلامیہ کی بنیاد رکھی۔ اس کا ابتدائی اجلاس ۴ مارچ ۱۸۹۰ء کو ہوا۔ دوسرا اجلاس مذکورہ ماہ کی پانچ تاریخ کو اور تیسرا اجلاس ۱۶ مارچ کو ہوا۔ تیسرے اجلاس میں سید محمود شاہ نے اسلام کے موضوع پر تقریر کی۔انجمن کا مقصد مسلمانوں کی فلاح وبہبود تھا،۴۰؎ ۴۱؎ ۱۸۹۴ء میں انجمن کے صدر شیخ میراں بخش تھے۔ جو مہاراجہ جموں وکشمیر کے پرائیویٹ سیکر ٹری رہ چکے تھے۔ انجمن نے فروری ۱۸۹۴ء میں سر سید احمد خان اور ڈپٹی نذیر احمد کی سیالکوٹ میں آمد کے انتظامات کیے تھے۔۴۲؎ ،لیکن وہ کسی وجوہ کی بناء پر نہ آسکے تھے۔ مذکورہ انجمن انجمن اسلامیہ سے مختلف تھی۔موجودہ انجمن اسلامیہ نومبر ۱۹۱۱ء میں قائم ہوئی تھی۔انجمن تائید الاسلام، انجمن مدرستہ القرآن،اور انجمن شان المسلیمین کو یکجاکرکے ۲۱ نومبر ۱۹۱۱ء کو موجودہ انجمن کی بنا رکھی گئی تھی۔۴۳؎ ۹۔ انگریزی بولنے والے نوجوانوں کی انجمن۴۴؎ ریورنڈ رابرٹ پیٹرسن ۱۸۶۰ء میں جان ٹیلر کے ہمراہ سیالکوٹ آئے تھے۔انہوں نے دوسرے غیر ملکی لوگوں کے ساتھ مل کر ۱۸۶۲ء میں ایک تنظیم قائم کی ،جس کا پورا نام یہ تھا۔(A Young man ,s Socity for english Speaking Baboos’’ ) اس انجمن میں انگریزی بولنے والے ہندوستان کے لوگ بھی شامل تھے۔ یہ انجمن کب تک قائم رہی۔اور اس کے بڑے بڑے مقاصد کیا تھے؟۔ کچھ معلوم نہیں؟۔ اخبار ورسائل ہندوستان میں پہلا چھاپہ خانہ ۱۸۰۱ء میں فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں قائم ہوا۔۴۵؎ ۔یہاں سے کسی اردو اخبار کا اجراء تو نہ ہوا، لیکن اردو نثر میں ابتدائی کتب چھپیں۔۱۸۲۲ء میں مشن پریس کلکتہ سے منشی سدا سنگھ نے پہلا اردو اخبار جام جہاں نما جاری کیا۔۴۶؎ پنجاب میں پہلا چھاپہ خانہ امریکن مشن کے پادریوں نے ۳۶۔۱۸۳۵ء میں لدھیانہ میں قائم کیا۔۴۷؎ یہاں سے لدھیانہ اخبار نکلتا تھا۔ ۱۸۵۰ء میں گوجرانوالہ اور سیال کوٹ میں چھاپہ خانے قائم ہوئے ،جہاں سے اردو کے اخبارات کوہ نور ،گلزار پنجاب اور خورشید عالم جاری ہوئے۔۴۸؎ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ صدی کے وسط میں صحافت کے میدان میں سیالکوٹ پیش پیش تھا۔ انیسویں صدی کے نصف آخر میں سیالکوٹ سے نکلنے اخبارات ورسائل کی تفصیل درج ذیل ہے۔ ۱۔ بقول محمد صدیق خورشید عالم اخبار منشی دیوان چند نے ۱۸۵۰ء میں جاری کیا۔۴۶؎۔ اختر شہنشاہی کے مطابق اس کا اجرا یکم جولائی ۱۸۵۲ء کو ہوا۔۵۰؎ ۲۔ ۳۰ جنوری ۱۸۵۱ء کو دیوان چند نے ماہوار رسالہ نورا علی نور جاری کیا۔۵۱؎ ۳۔ جون ۱۸۵۳ء میں منشی دیوان چند نے مطبع چشمہ فیض قائم کیا۔ چشمہ فیض کے نام سے اس مطبع میں ایک ہفتہ وار اخبار بھی شائع ہوتا تھا۔منشی صاحب کی رپورٹ کے مطابق اس وقت ان کے پاس کاری گروں کی کمی تھی۔ اس وجہ سے اگست تک مطبع پوری طرح کام شروع نہیں کر سکا تھا۔۵۲؎۔ چشمہ فیض کے ایڈیٹر نے ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ آزادی کے دوران انگریزوں کی مخالفت اور باغی ہندوستانیوں کی حمایت کی۔ ایڈیٹر کو حکم دیا گیا کہ وہ اخبار کو سیالکوٹ سے لاہور منتقل کر دے۔ دارالسلطنت لاہور میں چشمہ فیض کی کڑی نگرانی کی گئی ۔۵۳؎ ۴۔ معلم العلماء کا اجراء ۱۸۵۶ء میں ہوا۔ یہ ماہوار رسالہ تھا۔ ۵۴؎ ۵۔ اپریل ۱۸۵۷ء میں پندرہ روزہ چشمہ خورشید جاری ہوا، مہتمم دیوان چند تھے۔۵۵؎ ۶۔ یکم اپریل ۱۸۶۶ء کو بیر بر جاری ہوا، یہ ایک ہفت روزہ اخبار تھا۔ مالک گیان چند اور مہتمم برج لال تھے ،۵۶؎ ۷۔ یکم اپریل ۱۸۷۳ء کو ہفت روزہ رفاہ عام کا اجراء ہوا۔ مالک دیوان چند اور ایڈیٹر گیان چند تھے۔ چھاپہ خانہ کا نام بھی رفاہ عام تھا۔۵۷؎ ۸۔یکم جنوری ۱۸۸۰ء کو برج لال نے وکٹوریہ پیپر جاری کیا۔ گیان چند اس کے مالک تھے، ہفتہ میں دو بار چھپتا تھا۔۵۸؎ ۱۸۸۴ء میں روز نامہ تھا،۵۹؎ ۹۔ مرزا موحد جالندھری نے ۱۵ اپریل ۱۸۸۴ء کو وزیر ہند جاری کیا۔ یہ ایک ہفت روزہ تھا۶۰؎۔ ۱۸۸۴ء میں روز نامہ تھا۔ ۱۰۔ مان سنگھ اہلو والیہ نے ۱۶ اکتوبر ۱۸۸۵ء کو شیخ چلی جاریکیا۔۶۲؎ ۱۱۔مرزا غلام احمد نے یکم جنوری ۱۸۸۶ء کو وزیر الملک اخبار جاری کیا۔یہ ہفتہ میں دو بار چھپتا تھا ۔۶۳؎ ۱۲۔۱۸۹۴ء میں ایک ہفتہ وار اخبار خیر خواہ پنجاب تین سو کی تعداد میں چھپتا تھا۔۶۴؎ ۱۳۔ ۱۸۹۴ء میں ہفت روزہ پنجاب گزٹ اینڈ ہسٹورین دو سو کی تعداد میں نکلتا تھا۔۶۵؎ ۱۴۔ غلام قادر فصیح نے ۱۸۹۳ء میں ماہوار رسالہ الحق جاری کیا۔ اس میں اسلام کی تائید اور دوسرے مذاہب کے متعلق نہایت برجستہ مضامین لکھے جاتے تھے۔ ہسپتال انگریزوں کی آمد سے قبل لوگوں کے علاج معالجہ کے لئے حکیم ہوا کرتے تھے۔ سیالکوٹ میں مولوی سید میر حسن کے آبا واجداد بھی حکمت کے پیشے سے وابستہ تھے۔ انگریزوں کی آمد سے جہاں زندگی کے ہر شعبہ میں تبدیلیاں پیدا ہوئیں،وہیں علاج معالجہ کی وافر سہولتیں میسر ہوئیں۔ حکومت نے شہر میں ۱۸۴۹ء میں ایک ہسپتال قائم کیا۔۶۶؎ جسے ۱۸۵۸ء میں نئی طرز پر پختہ بنیادوں پر استوار کیا۔ ڈپٹی کمشنر مسٹر مرسر Mercer کے قائم کردہ حکیم سسٹم کے تحت شہر کے حکماء کے لڑکوں کو ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے لاہور میڈیکل سکول میں بھیجا گیا۔ مولوی سید میر حسن کے بڑے صاحب زادے سید علی نقی نے حکیم سسٹم کے تحت شہر کے لاہور میڈیکل سکول سے تعلیم حاصل کی، ۱۸۶۵ء ۶۶ ئ) میں سیالکوٹ کے تحصیل ہیڈ کواٹرزمیں سرکاری ڈسپنسریاں قائم کی گئیں۔ آبادی کے لحاظ سے یہ طبی سہولتیں بہت کم تھیں۔ مشنری لوگ تبلیغ کے لئے دیہاتوں میں جاتے تو وہاں طبی سہولتوں کا فقدان پاتے، ۱۸۷۱ء میں سکاچ مشن نے ڈاکٹر جان ہوچی سن کی سربراہی میں ایک میڈیکل مشن قائم کیا۔اس مشن کا مقصد: Not only the relief of bodly Sufferings,but also the preaching of the Gospel of the king dom in conformity with that word wich saith Heal the Sick , and say uanto Them ,the King dom of God is come nigh Unto you’’ ۶۷؎ مئی ۱۸۷۱ء میں سکاچ مشن نے ایک ڈسپنسری قائم کی،پہلے سال بارہ سو مریضوں کو علاج معالجہ کی سہولتیں فراہم کی گئیں۔پیچیدہ اور متعدی بیماریوں کے مریض سول اسپتال منتقل کر دیئے جاتے۔ کرایہ کی عمارت میں یہ ڈسپنسری تھی، صبح کے وقت ساڑھے تین گھنٹے ڈسپنسری کھلی رہتی،اکتوبر کے وسط میں تبلیغ کے لئے ڈسپنسری بند کر دی جاتی تھی۔ کیونکہ مشنری لوگ یہاں کی گرمی کی حدت برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ اس لئے گرمی کے دنوں میں وہ دیہاتوں میں تبلیغ کے لئے نہیں جا سکتے تھے۔ سردیوں میں دیہاتوں میں جانے کے لئے انہیں کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔ تبلیغ کے دوران بھی باہر دیہاتوں میں ڈاکٹر ہوچی سن لوگوں کو طبی سہولتیں بہم پہنچاتے تھے۔ امراء دیسی حکماء سے علاج کراتے اور بھاری فیس برداشت کرنے کی سکت رکھتے تھے۔ جب کہ غرباء سرکاری اور مشنری طبی مراکز سے رجوع کرتے،۶۸؎ شہر میں سرکاری ہسپتال اور ڈسپنسری ہونے کی وجہ سے مشن کا میڈیکل مشن زیادہ سود مند ثابت نہ ہوسکا۔ اس لیے اس طبی شعبہ کو ریاست چمبہ (Chumba) منتقل کر دیا۔ ڈاکٹر ہوچی سن بھی ۱۸۷۴ء میں چمبہ تبدیل ہو گئے۔۶۹؎ ۱۸۸۸ء میں ڈاکٹر ہوچی سن دوبارہ سیالکوٹ آئے۔ اور ڈسکہ کے گرد ونواح میں تبلیغ کے ساتھ ساتھ لوگوں کا علاج بھی کرتے۔ مریضوں کے چھوٹے چھوٹے آپریشن بھی کیے جاتے۔۷۱؎ ۔اس طرح دیہاتیوں کا اعتماد حاصل کرکے انہیں مسیحیت کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتے۔ ۱۸۹۰ء میں ڈاکٹر ہوچی سن نے موضع ساہو والہ میں سرائے سے متصل ایک چھوٹی سی ڈسپنسری کھول کر لوگوں کا علاج کرنا شروع کیا۔۷۲؎۔ اسی سال ضلع میں ملیریا بخار نے مہلک صورت اختیار کر لی۷۳؎۔ اموات کی شرح میں اچھا خاصا اضافہ ہوا۔ آبادی کا تقریبا آٹھ فی صد حصہ اس بیماری کا شکار ہو گیا۔ اس موقع پر مشن نے شہر سیالکوٹ میں ڈسپنسری کھول کر لوگوں کی طبی سہولتیں مہیا کیں۔ تقریبا چار سو معمولی آپریشن کیے۔ ڈاکٹر ہوچی سن کی غیر حاضری میں ان کا نائب بابو قصل دین کام کرتا۔ہسپتال کی کار کردگی کی تفصیل ڈاکٹر ہوچی سن کے حالات میں بیان کر دی ہے۔۱۸۹۳ء میں مریضوں کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوا۔۷۴؎ ڈسپنسری سارا دن کھلی رہتی، مریضوں کا مفت علاج ہوتا تھا۔ مریضوں میں عورتوں اور لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہوتی۔۱۸۹۵ء میں ڈاکٹر ہوچی سن دوبارہ چمبہ تبدیل ہو گئے۷۵؎۔ ان کے بعد بابو فضل دین ہسپتال کا کام کرنے لگا۔ اس نے بڑی محنت اور جان فشانی سے اس کام کو سنبھالا۔ ۳۰ دسمبر ۱۸۹۰ء کو شفا خانہ زنانہ کی رسم افتتاح ادا کی گئی۔ سکاچ مشن کے پادریوں نے عورتوں کے علاج ومعالجہ کے لئے خصوصی طور پر اس شفا خانہ کو قائم کیا۔ پادری امام دین شہباز نے افتتاح کے موقع پر رپورٹ پڑھی (سراج الاخبار ۶ جنوری ۱۸۹۰ئ) مواصلات گزشتہ صدی کی چھٹی ساتویں دہائی میں سیالکوٹ میں ڈاک خانہ قائم ہو چکا تھا۔ اس سے قبل تار گھر فوجی مقاصد کے لئے چھاونی کے علاقہ میں قائم ہو چکا تھا۔ ۱۸۹۴ء میں چھاؤنی تار گھر کی ایک شاخ شہر میں موجود تھی، جو ڈاک خانے سے منسلک تھی۔۷۶؎ سیالکوٹ سے وزیر آباد ۲۷ میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ یکم جنوری ۱۸۸۴ء کو سیالکوٹ اور وزیر آباد کے درمیان ریل گاڑی چلی۷۷؎۔ جموں سیالکوٹ سے ۲۴ میل دور ہے۔ سیالکوٹ سے جموں ۱۳ مارچ ۱۹۹۰ء کو ریل گاڑی چلنی شروع ہوئی۔پہلے دو روز ہر شخص کو مفت سفر کرنے کی اجازت تھی۔اقبال اور اس کے دوستوں نے ممکن ہے اس رعایت سے فائدہ اٹھایا ہو۔اور پہلی بار ریل کا سفر کیا ہو۔ جموں کے لئے پانچ آنے کرایہ مقرر ہوا تھا۔۷۸؎ سیالکوٹ ، نارووال کے درمیان ۱۶ جنوری ۱۹۱۶ء کو ریل گاڑی چلی،۷۹؎ ریل گاڑی سے پہلے لوگ ٹانگے کے ذریعے پسرور ،نارو وال وغیرہ آتے جاتے تھے۔ سیالکوٹ قدیم عرصہ سے ایک اہم مرکز رہا ہے۔مغل خاندان کا بانی ظہیر الدین بابر براستہ سیالکوٹ شہر دہلی گیا تھا۔ابراہیم لودھی سے نبرد آزما ہوا تھا۔ہم دیکھتے ہیں کہ سیال کوٹ ملک کے دوسرے حصوں سے بڑی بڑی سڑکوں کے ذریعے ملا ہوا تھا۔۸۰؎۔سیالکوٹ سے ۱۔ وزیر آباد براستہ سمبڑیال ایک پختہ سڑک ۱۸۹۴ء میں موجود تھی۔ ۲۔ گوجرانوالہ براستہ گھنیکے اور ڈسکہ کچا راستہ تھا۔ ۳۔ لاہور براستہ ایمن آباد (بھلو والی، اکبر، دھرم کوٹ) ۴ ۔ امرتسر براستہ ہڈیانہ پسرور اور رعیہ کچھ کچی کچھ پکی۔ ۵۔ گور داس پور براستہ پھلورہ اور دھمتھل کچی سڑک تھی۔ ۶ ۔ پٹھان کوٹ براستہ پھلورہ ظفر والی، کچی تھی۔ ۷ ۔ جموں پختہ سڑک تھی۔ ۸ ۔ اکھنور جموں کچی تھی۔ ۹ ۔ گجرات براستہ سمبڑیال کچی سڑک تھی۔ ۱۰ ۔ چپرار ،کچا راستہ تھا ۔ ۱۱ ۔ وزیر آباد کو ایک کچا راستہ بھی جاتا تھا۔ کھیل تماشے عرس وتہوار مختلف قسم کے کھیل تماشے انسان کی ابتدائی زندگی یعنی بچپن اور لڑکپن کا لازمی جزو ہیں۔ لڑکا ان میں بڑے ذوق شوق سے حصہ لیتا ہے۔ جو ان کھیل تماشوں میں حصہ نہیں لیتا، اسے ذہین ،عقل مند اور دانا سمجھا جاتا ہے۔ لیکن عموما ایسا نہیں ہوتا۔سر سید کی سوانح عمری سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی زندگی میں انہوں نے گیند بلا، کبڈی، گیڑیاں ،آنکھ مچولی اور چیل چلو وغیرہ کھیلے تھے۔۸۱؎ ۔ صرف شرط یہ تھی کہ کسی کھیل کو چھپا کر کھیلو،اس لئے کھیلوں کے کھیلنے کو کسی شخصیت کی پرکھ کے لئے بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔ اقبال نے بھی بچپن اور لڑکپن میں عام کھیل کھیلے تھے۔ جو اس زمانہ میں سیالکوٹ میں رایج تھے۔ مثلا۔ ۱۔ کشتی کرنا۔ ۲ ۔ مگدر ہلانا ۔ ۳۔ ناچ یا بھنگڑا ڈالنا ۴ ۔کوڈی Kaudi کبڈی ۵ ۔ کوٹلہ چھپاکی Kotla Chupaki ۶ ۔ بینی پکڑنا Bini Pakrana ۷ ۔ شاہ شٹاپو Shah Shatapu ناچ یابھنگڑا ڈالنا عموما سکھوں کا کھیل ہے۔شادی بیاہ کے علاوہ خصوصا بیساکھی کے موقع پر سکھ کسان بھنگڑا ڈال کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔اقبال نے اس کھیل میں حصہ نہیں لیا ہوگا۔ کشتی رانی پنجاب میں صدیوں پرانا کھیل ہے۔ گزشتہ صدی کے نصف آخر اور موجودہ صدی کے ربع اول میں یہ کھیل اپنے عروج پر تھا۔ شہر میں مختلف اساتذہ اپنے شاگردوں کو مقابلے کے لئے تیار کیا کرتے تھے۔ اقبال جسمانی لحاظ سے تندراست جسم کے مالک تھے۔سکول اور کالج کے دنوں میں وہ لال دین پہلوان کے اکھاڑے میں جایا کرتے تھے۔ تیل مالش کرتے، ڈنٹر پیلتے اور اپنی صحت برقرار رکھتے ،لاہور آکر بھی وہ اس شوق کو نہ چھوڑ سکے۔ کوچہ ہنومان کے اکھاڑے میں جا کر اپنا شوق پورا کیا کرتے تھے۔۸۳؎ اس زمانے میں بانا پہلوان اور کریم بخش پہلوان کا ڈنکا بجتا تھا۔ باناں موضع گودھپور (سیالکوٹ) کا رہنے والا تھا۔اس کی شہزوری آج تک پنجابی زبان میں مشہور ہے۔ جا اوئے توں کوئی بانا ایں ۸۴؎ کبوتر بازی ایک اجتماعی شغل نہیں تھا۔ بلکہ لڑکے انفرادی طور پر اس کے شوقین تھے۔ اس لیے گزٹئیر میں اس کا ذکر نہیں، گزشتہ صدی کے نصف آخر اور موجودہ صدی کے ربع اول میں شہر سیالکوٹ میں کبوتر بازی ایک سلجھا ہوا شغل تھا۔ لوگوں نے گھر گھر کبوتر پال رکھے تھے۔ لڑکے گھنٹوں کبوتروں کو نیل گوں فضا میں اونچے اڑتے ہوئے دیکھتے تھے۔ اقبال کبوتر بازی کے بڑے ماہر تھے۔ مولوی سید میر حسن کے منجھلے صاحب زادے سید محمد تقی کبوتر بازی میں اقبال کے دست راست تھے۔ کبوتر بازی کی ابتدا کے سلسلے میں اقبال کہتے ہیں: اول اول تو ہم شوالہ تیجہ سنگھ کے پاس کھلے میدان میں شام کے قریب کبوتر بازی کے ماہروں کو کبوتر اڑاتے دیکھتے۔ کبوتر فضائے نیل گوں میں طرح طرح سے اور بل کھا کھا کے اڑتے۔ اقبال کی نگاہوں میں چمک پیدا ہو جاتی۔ سید محمد تقی سے کبوتر پالنے اور اڑانے کا ذکر کیا۔ وہ دو جوڑے کبوتروں کے لے آئے۔ گھر کی چھت پر کاوک تیار کیا اوراس طرح کبوتر بازی کی ابتدا ہوئی۔اقبال ایک شعر کہتے ہیں:۔ جی میں آئی جوتقی کے تو کبوتر پالے کوئی کالا کوئی سپید ہے ،دو مٹیالے۸۵؎ اقبال کہتے ہیں کہ جب کبوتروں کو پنہائے فضا میں پرواز کرتے دیکھتا تو محسوس کرتا،جیسے میں بھی ان کے ساتھ آسمان کی وسعتوں میں اڑ رہا ہوں۔ افلاک کی سیر ہو رہی ہے۔کبوتر کا سینہ تان کر ایک شان تمکنت اور طمطراق سے چلنا اقبال کو بہت بھاتا تھا۔ کرکٹ کی ابتدا ڈسکہ میں ریو رنڈ ولیم اسکاٹ کے آتے ہی ۱۸۹۲ء میں ہو چکی تھی۔کرکٹ کے لئے ایک بڑا خوب صورت میدان موجود تھا۔اس کھیل نے طلباء کو کئی لحاظ سے بہتر بنا دیا تھا۔ اس سلسلے میں اسکاٹ کہتے ہیں: ’’Ihave found that a little cricket improves these villages lads in many ways’’‘ ۸۶؎ گزشتہ صدی کے آخری عشرہ میں سیالکوٹ شہر کے بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں کرکٹ کا کھیل شروع ہو چکا تھا۔اقبال انٹرس اور انٹر میڈیٹ کلاسوں میں یہ کھیل ضرور کھیلتے ہوں گے۔ شطرنج اور چوسر پڑھے لکھے گھرانوں میں کھیلا جاتا تھا۸۷؎ ۔ مولوی سید میر حسن اور بھیم سین کے شطرنج کھیلنے کا ذکر ملتا ہے۔۸۸؎ اقبال شطرنج کھیلتے ہوں گے۔ میر صاحب کے لڑکے اس کھیل میں ان کے ساتھ ہوتے ہوں گے۔ ان دنوں ہائی سکولوں میں باقاعدہ ضلعی سطح پر دیسی اور یورپی کھیلوں کے مقابلے ہوتے تھے۔ سکولوں کے طلباء بڑھ چڑھ کر ان کھیلوں میں حصہ لیتے تھے۔ اس طرح کے مقابلے ایک بار ۳۰ جنوری سے دو فروری ۱۸۹۴ء کو سیالکوٹ میں ہوئے تھے، ضلع سیالکوٹ کے سکول کے لڑکوں نے اس میں حصہ لیا۔ ۸۹؎ کھیلوں کے علاوہ شہر میں دوسری تفریحات بھی میسر ہوا کرتی تھیں۔ مثلا ۱۶ فروری ۱۸۸۷ء کو سیالکوٹ شہر میں جشن جوبلی منایا گیا۔ انگلستان کی ملکہ وکٹوریہ (۱۹۰۱ء ۔۱۸۱۹ئ) کی پچاسویں سالگرہ بڑی دھوم دھام سے منائی گئی تھی۔ جشن جوبلی کی رونق کو دوبالا کرنے کے لئے دیہاتی سکولوں سے بھی لڑکوں کو اس میں شرکت کے لئے لایا گیا تھا۔ ہر طالب علم کو آٹھ خرچ خوراک دیئے گئے تھے۔ سیالکوٹ کے طلباء نے بھی اس میں بڑے جوش وخروش سے حصہ لیا تھا۔۹۰؎ ۱۸۹۴ء میں فروری کے دوسرے ہفتہ میں سیالکوٹ میں چھتری سرکس کمپنی نے ایک ہفتہ تک قیام کیا۔اور کھیل تماشوں سے بچوں بوڑھوں کو تفریح کا سامان بہم پہنچایا۹۱؎ شہر میں ’’ہارس شو‘‘ بھی ہوا کرتا تھا۔ ۲ مارچ ۱۸۹۳ء کو ایک ہارس شو کے سلسلے میں عام تعطیل تھی۔ ۲۲ مارچ کو سکھوں کا تہوار ہولا مہالا (Hola Mohalla) منایا جاتا تھا۔ ۱۳ نومبر کے گورو نانک کے یوم پیدائش پر عام تعطیل ہوتی تھی۔ بیساکھ کی پہلی تاریخ کو بیساکھی کے میلہ میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شرکت کرتے تھے۔ حضرت امام الحق کے مزار اور قلعہ پر پیر مراد کے مزار بھی سالانہ عرس ہوتے،ہزاروں مسلمان مرد عورت بچے بوڑھے عرس میں شریک ہوتے۔ حواشی باب ۲ 1.Our India Mission .....A Gordon , P 117 ۲ ۔ لاگ بک، سکاچ مشن ہائی سکول سیالکوٹ ،مملوکہ تھیو لاجیکل سیمینری گوجرانوالہ۔ ۳ ۔ سیالکوٹ ڈسٹرکٹ گینر ٹئیر ۸۴، ۱۸۸۳ء ص۴۰، ۴ ،ان ماخذوں سے مدد لی گئی ہے۔ 4...Our India Mission ..... A Gordon, 11۔ پنجاب یونیورسٹی کیلنڈر ۸۲،، ۱۸۸۱ء ۱۱۱۔کلکتہ یونیورسٹی کیلنڈر ۸۱، ۱۸۸۰ء 1v،،،،المشیر راولپنڈی۔جنوری مارچ ۱۹۷۷ء ۵۔ سیالکوٹ ڈسٹرک گینر ٹئیر ۹۵۔ ۱۹۹۴ء ص ۸۲۔۸۳۔ ۶۔ سراج الاخبار ۔ ۲۸ مئی ۱۸۹۴ء ۷ ۔ Our India Mission ..... A Gordon,،،، P,177 ۸۔ پنجابی اخبار لاہور،جلد۱۳ نمبر ۲۲،۲۲ مئی ۱۸۷۷ء ۹۔ سراج الاخبار جلد ۳۔نمبر۱۔۳۰ جنوری ۱۸۸۷ء ۱۰ ۔ سراج الاخبار ،،، ۲۴ جنوری ۱۸۸۷ء ۱۱ ۔ سراج الاخبار ،،، ۱۴ فروری ،،، ۲۱ فروری ۱۸۸۷ء ۱۲ ۔ سراج الاخبار ،،، ۲۴ جنوری ۱۸۹۰ء ۱۳ ۔ سراج الاخبار ،،، یکم ستمبر ۱۸۹۰ء ۱۴ ۔ پنجاب گزٹ ۱۸۹۲ء پارٹ ٹو ص۸۶ ۱۵ ۔ سراج الاخبار ،،، ۱۳ فروری ۱۳ مارچ ۱۸۹۳ء ۱۶ ۔ سراج الاخبار ،،، ۱۲ فروری ۱۸۹۴ء ۱۷ ۔ سراج الاخبار ،،، ۲۸ مئی ۱۸۹۴ء ۱۸ ۔ سراج الاخبار ،،، ۳ جولائی ۱۹۰۶ء ۱۹ ۔ سراج الاخبار ،،، ۹ فروری ۱۹۰۹ء ۲۰ ۔ سراج الاخبار ،،، ۱۹ فروری ۱۹۱۷ء ۲۱۔ سیالکوٹ ڈسٹرکٹ گیزٹئیر ۸۲،، ۱۸۸۳ء ص۸۸ کانونٹ آف جینز میری ۱۸۵۶ء میں صدر میں قائم ہوا تھا۔ ۲۲۔۔ ملک العلماء علامہ عبد الحکیم،محمد دین فوق لاہور ،۱۹۲۴ء ص ۲۶ ۲۳ ۔ نقوش لاہور مکاتیب نمبر، جلد ۲ ،میر حسن کا مکتوب محمد الدین فوق کے نام۔ ص۸۰۵ ۲۴۔۔۔۔۔ ایضا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۵۔ سیالکوٹ ڈسٹرکٹ گیزٹئیر ۸۴،۱۸۸۳ء ص۱۰۲،،، ۲۶۔سراج الا خبار ۔،،،۲۴ جنوری ۱۸۹۱ ء ۲۷۔ سراج الاخبار ،،،، ۱۱ فروری ۱۸۹۵ء ۲۸ ۔۔ سیالکوٹ ڈسٹرکٹ گیزٹئیر۹۴ ۔۱۸۹۵ ص۶۸،۸۳، ۲۹۔ پریم سنگھ کا ایک لڑکا سندر سنگھ ۴۷ برس کی عمر میں ۹ اکتوبر ۱۹۰۰ء میں انتقال کر گیا تھا۔ ۳۰ ۔ سراج الاخبار ،، ۲۸ مئی ۱۸۹۴ء ۳۱ ۔۔۔ سیالکوٹ ڈسٹرکٹ گیزٹئیر ۹۵،، ۱۸۹۴ء ص۶۸ ۳۳ ۔ سراج الاخبار ۔ ۳ اکتوبر ۱۹۰۵ء 34 -The Arya Samaj...Lajpat Rai ,London 5191ء p 52 ۳۵۔ سراج الاخبار ۔۷ فروری ۱۸۹۷ء ۳۶۔سیالکوٹ ڈسٹرکٹ گیزئیٹر ۹۵۔۱۸۹۴ء ۳۷۔ سراج الاخبار ۔ ۷ فروری ۱۸۹۷ء ۳۸۔ خطبات کا سیس وتاسی ،خطبہ ۱۶ مورخہ ۳دسمبر ۱۸۶۶ء 39.Report of the Anjuman Punjab for the year 1869 .73.Lahore ۴۰۔ سراج الاخبار ۔۲۴ مارچ ۱۸۹۰ء ۴۱۔ سراج الاخبار ۔ ۱۹ فروری ۱۸۹۴ء ۴۲۔ سراج الاخبار ۔ ۱۹ فروری ۱۸۹۴ء ۴۳۔مولوی سید میر حسن (حیات وافکار) ص۶۱ ۴۴۔رپورٹ سکاچ مشن مئی ۱۸۶۲ء ص۳۲ ۴۵۔ ہندوستانی اخبار نویسی (کمپنی کے عہد میں) محمد عتیق صدیقی ص ۴۴۹ ۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔ ایضا۔۔۔۔۔۔۔۔ ص۱۶۰،۱۶۱،۴۴۹ ۴۷۔۔۔۔۔۔۔۔ ایضا۔۔۔۔۔۔۔۔ ص۴۵۰ ۴۸۔۔۔۔۔۔۔۔ ایضا۔۔۔۔۔۔۔۔ ص۴۵۴ ۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔ ایضا۔۔۔۔۔۔۔۔ص۴۵ ۵۰۔ قومی زبان کراچی جولائی ۱۹۶۷ئ ص۶۸ ۵۱۔ قومی زبان کراچی نومبر ۱۹۶۷ئ ص۳۷ ۵۲۔ صوبہ شمالی ومغربی کے اخبارات ومطبوعات ،محمد عتیق صدیقی ص۱۱۹ ۵۳۔ ہندوستانی اخبار نویس (کمپنی کے عہد میں) محمد عتیق صدیقی ص۔۵۳،۳۹۸،۳۹۹ ۵۴۔ اختر شنشاہی قومی زبان کراچی اکتوبر ۱۹۶۷ئ ص۶۶ ۵۵۔۔۔۔۔۔ ایضا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جون ۱۹۶۷ء ص۵۴ ۵۶۔۔۔۔۔۔۔۔ ایضا۔۔۔۔۔۔۔۔ جون ۱۹۶۷ء ص۵۰ ۵۷۔۔۔۔۔۔۔۔ ایضا۔۔۔۔۔۔۔۔ جولائی ۱۹۶۷ء ص۷۲ ۵۸۔۔۔۔۔۔۔۔ ایضا۔۔۔۔۔۔۔۔ نومبر۱۹۶۷ء ص۳۸ ۶۰۔۔۔۔۔۔۔۔ ایضا۔۔۔۔۔۔۔۔ اگست ۱۹۶۷ء ص۱۰۶ ۶۱۔رپورٹ مجموعی انتظام ممالک پنجاب ۸۵۔۱۸۸۴ء ص۷۴ ۶۲۔۔۔۔۔۔۔۔ ایضا۔۔۔۔۔۔۔۔ ص۵۶ ۶۳۔ اختر شہنشاہی ،قومی زبان کراچی جولائی ۱۹۶۷ء ص ۶۹ سے معلوم ہوتا ہے کہ گوجرانوالہ سے گیان چند شوق نے جون ۱۸۶۶ء کو یہ اخبار جاری کیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ بعد میں اسے سیالکوٹ منتقل کر دیا ہو۔ ۶۵۔سیالکوٹ دسٹرکٹ گیزئیٹر ۱۸۹۴ء ۱۸۹۵ئ ص۷۴ ۶۶۔سیالکوٹ دسٹرکٹ گیزئیٹر ۱۸۸۳ء ۱۸۸۴ء ص۹۹ ۶۷۔ رپورٹ سکاچ مشن ۱۸۷۲ئ ص۱۳۷،۱۳۸ ۶۸۔ رپورٹ سکاچ مشن۱۸۷۳ئ ص۱۳۰،۱۳۱، ۱۳۲ ۶۹۔ رپورٹ سکاچ مشن ۱۸۷۵ئ ص۲۳۴ ۷۰۔ رپورٹ سکاچ مشن ۱۸۸۹ئ ص۱۰۹ ۷۱۔ رپورٹ سکاچ مشن ۱۸۹۰ئ ص۱۲۴ ۷۲۔ رپورٹ سکاچ مشن۱۸۹۱ئ ص۱۱۴،۱۱۵ ۷۳۔ رپورٹ سکاچ مشن ۱۸۹۱ئ ص۱۱۷ ۷۴۔ رپورٹ سکاچ مشن۱۸۹۴ئ ص۱۱۰ ۷۵۔ رپورٹ سکاچ مشن ۱۸۹۶ئ ص۱۰۷ ۷۶۔ سیالکوٹ ڈسٹرکٹ گیزئیٹر ۹۴،۱۸۹۵ء ص۱۴۱ 7Hundred years of pakistan Railways ,M ,B, K, Malik,Karchi 1962, P.204 ۸۷ ۔سراج الاخبار ۲۴ مارچ ۱۸۹۰ء ۷۹۔ تاریخ پسرور ۔ڈاکٹر سید سلطان محمود حسین ص۱۱۸ ۔ ۸۰۔ سیالکوٹ ڈسٹرکٹ گزئیٹر ۱۸۹۴ء ۹۵، ص ۱۳۷ ۸۱۔ حیات جاوید الطاف حسین حالی عشرت پبلشنگ ہاؤس لاہور ۱۹۶۵ء ص ۵۷ ۸۲۔۔ سیالکوٹ ڈسٹرکٹ گزئیٹر ۱۸۹۴ء ۹۵ء ص ۵۸ ۸۳۔ دانائے راز ،سید نذیر نیازی ص۶۷ 86. Church of Scot land Home and Foreign Mission Record , June,1895 P.195 ۸۷۔۔ سیالکوٹ ڈسٹرکٹ گزئیٹر ۱۸۹۴ء ۹۵ ص۵۸ ۸۸۔ مرے کالج میگزین ،میر حسن نمبر حصہ انگریزی ص۲ ۸۹۔ سراج الاخبار۔ ۱۲ فروری ۱۸۹۴ء ۹۰۔۔ سراج الاخبار۔ ۲۱ فروری ۱۸۸۷ء ۹۱۔ ۔ سراج الاخبار۔ ۱۲ فروری ۱۸۹۴ء ۹۲۔ پنجاب گزٹ دسمبر ۱۸۹۳ء پارٹ تھری ص۴۶۱ باب ۳ سکاچ مشن تبلیغی وتعلیمی سرگرمیاں ۱؎ سکاٹ لینڈ کے شہریوں نے ۱۸۲۳ء میں ’’سکاچ مشنری سوسائٹی‘‘ کے نام سے ایک تبلیغی جماعت بنائی ، کہ اس کے ذریعے دنیا کے مختلف ممالک میں مسیحیت کی تبلیغ کی جائے اور زیادہ سے زیادہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو حلقہ مسیحیت میں داخل کیا جائے،سکاٹ لینڈ کے ایک شخص مسٹر مرے (Murray)نے اپنی ہمشیرہ مسز کیمبل (Mrs Campbell of Lochnell) کو مرتے وقت ایک خاص رقم وصیت میں دی ،کہ اس کو مشن کے رفاہی کاموں میں صرف کیا جائے۔ورثا نے یہ پابندی لگائی کہ کیپٹن مرحوم نے ملازمت کا بڑا حصہ جن لوگوں میں گزارا ہے۔ ان لوگوں کی فلاح وبہبود کے لئے اس رقم کو خرچ کیا جائے۔ایک مقامی بینک میں یہ مخصوص رقم جمع کر ادی گئی۔ سکاچ مشن کی رپورٹ مئی ۱۸۶۲ء سے اس بات کی نشان دہی ہوتی ہے کہ سکاٹ لینڈ کے ایک بنک میں ایک فنڈ ’’مرے فنڈ‘‘ کے نام سے موجود تھا۔ اس فنڈ کا سالانہ سود مشن اپنے استعمال میں لاتا تھا۔اس رپورٹ سے مزید پتا چلتا ہے کہ سال کے اختتام پر ۱۵ ،اپریل ۱۸۸۲ء کو مشن کو/9/2 ۷۰ پونڈ سود ملا تھا۔ سکاچ مشنری سوسائٹی یا مختصرا سکاچ مشن نے ریورنڈ ہنٹر کو مسیحیت کی تبلیغ کے لئے ہندوستان بھیجا،وہ براستہ بمبئی ،ملتان ،جہلم، گجرات جنوری ۱۸۵۷ء کے وسط میں سیالکوٹ پہنچا،بمبئی سے اس نے محمد اسماعیل کو اپنے ہمراہ لیا۔سیالکوٹ چھاونی (صدر) میں بچوں کے لئے دو پرائمری سکول کھولے۔ اتوار کے روز ہنٹر اپنے اہل خانہ اور ملازمین کا مذہبی خطبہ(Sermon) دیا کرتا تھا۔خطبہ سننے والے پانچ افراد ہوتے تھے۔ پورے چار ماہ بعد یعنی مئی ۱۸۵۷ء کا ہنگامہ برپا ہوا۔ہندوستانی فوجیوں نے فرنگی حاکموں کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا۔ سیالکوٹ بھی اس کی لپیٹ میں آگیا۔ ہنگامہ کی وجہ وہی نئے کارتوسوں کو دانتوں سے کاٹنا تھا۔ ہندو اور مسلمان فوجیوں نے مل کر اس کے خلاف آواز اٹھائی۔سیالکوٹ چھاؤنی میں مقیم ہندو اور مسلمان فوجیوں میں اس نئے حکم کے خلاف شکوک وشبہات پیدا ہو چکے تھے۔۲ اپریل ۱۸۵۷ء کی سیالکوٹ کی ایک خبر ملاحظہ ہو:۔ از روئے ایک چٹھی سیالکوٹ کے ظاہر ہوا کہ یہاں کے سپاہی بھی نئے کارتوسوں کے قواعد سے ٹکراتے ہیں۔اور بجائے دانتوں کے ہاتھوں سے کارتوس توڑتے ہیں۔لوگوں کے دل کا شک ابھی بالکل رفع نہیں ہوا۔‘‘۲؎ ۱۴ مئی ۱۸۵۷ء کو ضلع سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنر نے امریکن مشن کے سربراہ کو اس بغاوت کی اطلاع پہنچائی۔۹ جولائی کو سیالکوٹ چھاؤنی میں ہندوستانی فوجیوں نے بغاوت کر دی۔جیل پر حملہ کرکے قیدیوں کو آزاد کرا لیا۔ چھاؤنی میں مقیم انگریزوں کی کوٹھیوں پر حملے کیے۔ انگریزی اور مشنری لوگ پناہ کے لئے قلعہ میں اکٹھے ہونے لگے۔ریورنڈ ہنٹر اور اس کی بیوی قلعہ میں پناہ لینے جا رہے تھے کہ باغیوں نے ان کو راستے میں قتل کر دیا۔ ہنٹر کے قتل کے بعد سکاچ مشن جزوی طور پر بند ہو گیا۔محمد اسماعیل بچا رہا۔ ہنگامہ فرو ہونے پر اس نے امریکی مشن کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔اور چرچ آف سکارٹ لینڈ کو سیالکوٹ میں جنرل اسمبلی انسٹی ٹیوشن کھولنے کا مشورہ دیا۔ اور یہاں پڑھانے کا وعدہ بھی کیا۔۳؎ سکاچ مشن کے ارباب اختیار سیالکوٹ پنجاب میں دوبارہ مشن قائم کرنے کا ارادہ کر رہے تھے کہ انہیں یکم مئی ۱۸۵۹ء سے کچھ روز قبل بیس پونڈ کا عطیہ ایک خاتون کی طرف سے ملا،۴؎ یہ خاتون پہلے بھی مشن کے جنرل فنڈ میں بڑی فراخ دلی سے چندہ دیا کرتی تھی۔کمیٹی نے اس عطیہ کو پاکر بڑی مسرت کا اظہار کیا۔ اور سیالکوٹ میں دوبارہ مرکز قائم کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ سکاچ مشن نے ریورنڈ رابرٹ پیٹرسن اور جان ٹیلر کو ۱۸۵۹ء کے آخر میں ہندوستان روانہ کیا۔جنوری ۱۸۶۰ء میں وہ بمبئی پہنچے۔ماہ فروری میں وہ اسماعیل کے ہمراہ کراچی پہنچے،کراچی میں دو ہفتہ قیام کے بعد ملتان کے راستہ ۱۶ مارچ کو لاہور پہنچے۔دو روز بعد تینوں سیالکوٹ پہنچے۔ سال کا زیادہ حصہ دونوں مشنریوں نے ایک منشی کی مدد سے عوام کی زبان اردو سیکھنے میں صرف کیا۔۵؎۔ اور رومن کیتھولک سے ساٹھ روپے ماہوار کرایہ پر ایک بنگلہ لیا۔ ریورنڈ ہنٹر کی یاد میں ایک چرچ تعمیر کرنے کے لئے حصول اراضی کے لئے کوششیں شروع کر دیں۔تھوڑے ہی عرصے میں میجر راس Ross کی مدد سے انہوں نے ایک قطعہ اراضی حاصل کر لیا۔ ۱۸۶۰ء کے اواخر میں صدر میں لڑکوں کے لئے ایک پرائمری سکول کا آغاز کیا۔محمد اسماعیل کو سکول کا ہیڈ ماسٹر مقرر کیا۔ ۱۸۶۲ء میں مذکورہ سکول کو پرانی خانقاہ old Convent سے صدر مین بازار یعنی موجودہ جگہ پر منتقل کیا۔۶؎ اسی سال پیٹرسن اس سکول کے ایک مسلمان لڑکے ملائم دین کو عیسائی بنانے میں کامیاب ہوا۔ یہ ایک یتیم بچہ تھا۔یہاں سے پڑھ کر لڑکوں کے یتیم خانہ کے سکول میں مدرس ہو گیا،بعد میں یہ مولویوں سے مناظرے کرنے لگا۔۷؎ ۲۹ جولائی ۱۸۶۱ء کو سیالکوٹ میں ’’کارس پونڈنگ بورڈ آف دی چرچ آف سکارٹ لینڈ‘‘ قائم ہوا۔مذکورہ تاریخ کو اس بورڈ کا پہلا اجلاس ہوا۔ مشن کا مرکزی دفتر سیالکوٹ چھاؤنی سے تین میل دور مغرب کی طرف اور شہر سے دو میل دور شمال کی جانب بارہ پتھر میں لایا گیا۔اسی سال یتیم بچوں کے لئے ایک عمارت تعمیر کی گئی۔ ۱۸۶۲ء میں ہنٹر میموریل چرچ کی بنیاد رکھی گئی۔ ایک یتیم خانہ کھولا گیا۔ امریکن مشن سے دو مشن ہاؤس اور عیسائی کسانوں کے لئے اراضی پندرہ سوپونڈ میں خریدی گئی۹؎ ۱۸۶۳ء میں پیٹرسن نے وزیر آباد میں سکاچ مشن کی ایک شاخ قائم کی،یہاں ایک پرائمری مدرسہ بھی قائم کیا گیا، حکومت نے وزیر آباد کا ضلع سکاچ مشن کی تحویل میں دے دیا۱۰؎ ۱۸۶۴ء میں امریکن مشن نے سیالکوٹ شہر میں اپنا سکول بند کر دیا۔ سکاچ مشن نے سکول کی عمارت کو خرید لیا۔اور اس میں اپنا سکول کھولا،۱۱؎ مئی ۱۸۶۵ء میں پیٹر سن نے گجرات میں بھی سکاچ مشن کی شاخ قائم کی۔ حکومت نے گجرات کا گورنمنٹ اینگلو ورنیکلر مڈل سکول سکاچ مشن کی تحویل میں دے دیا۔۱۲؎ اسی سال سکاچ مشنری فرگوسن نے چمبہ۱۳؎ ریاست میں سکاچ مشن سینٹر قائم کیا۔ ۱۸۶۷ء میں ٹیلر سکارٹ لینڈ چلا گیا۔مئی ۱۸۶۸ء میں حکومت نے سیالکوت کے ضلع سکول کو سکاچ مشن کی تحویل میں دے دیا۔اور سکول کی عمارت نصف قیمت میں خرید لی۔سکاچ مشن نے ان دونوں سکولوں کو مدغم کر لیا۔اور سٹی سکاچ مشن مڈل سکول کا نام دیا۔ محمد اسماعیل کو مذکورہ سکول کا ہیڈ ماسٹر مقرر کیا۱۴؎ جنوری ۱۸۶۹ء میں پیٹر سن خرابی صحت کی بناء پر اسکاٹ لینڈ چلا گیا۔ اسکی جگہ جے پی لینگ سکول کے مینجر کی حیثیت سے کام کرنے لگا۔ لینگ ۱۸۷۴ء میں بمبئی تبدیل ہو گیا۔ ۱۸۷۰ء میں ڈاکٹر جان ہوچی سن نے سیالکوٹ میں میڈیکل مشن قائم کیا۱۵؎ ۱۸۷۱ء میں سٹی سکاچ مشن مڈل سکول بن گیا۔۱۶؎ ۱۸۷۲ء میں ڈاکٹر جان ہوچی سن تبدیل ہو گیا۔ ۱۸۷۳ء میں ریورنڈ ہارپر سکاٹ لینڈ سے آیا،گجرات میں چند ماہ کام کرنے کے بعد سیالکوٹ چلا آیا ۱۷؎ ۷۷،۱۸۷۶ء میں ڈسکہ میں سکاچ مشن نے اپنا ایک مرکز قائم کیا۔ یہاں نتھو مل مسیحیت کی تبلیغ کرنے پر مامور ہوا ،۱۸؎ دسمبر ۱۸۷۵ء میں ڈاکٹر یلگسن سکاٹ لینڈ سے تشریف لائے۔گجرات اور وزیر آباد کے مرکز کا انتظام سنبھالا۔ ہارپر کے وطن واپس لوٹ جانے پر ڈاکٹر صاحب سیالکوٹ آگئے۔ ۱۸۸۱ء میں ایک تجویز یہ بھی تھی کہ گورنمنٹ کالج لاہور کا شعبہ انگریزی سکاچ مشن کے سپرد کیا جائے۔ فنڈ کی کمی کی وجہ سے سکاچ مشن یہ قبول نہ کر سکا۔۱۹؎ اسی زمانے میں لاہور کے ایک سکھ نے لاہور میں ایک کالج قائم کرنے کے لئے اڑھائی ہزار پونڈ کی پیش کش کی۔لیکن مشن نے اس پیشکش کو قبول نہ کیا۔۲۰؎ ۱۸۸۵ء میں رابرٹ میگچین پیٹرسن سیالکوٹ آیا۔۱۸۸۸ ء میں ڈسٹرکٹ کمیٹی نے ضلع سیالکوٹ کے چار سانسی سکول مشن کے سپرد کر دیئے۔اور چالیس روپے ماہوار مالی معاونت بھی کی ۲۱؎ ۱۸۸۹ء میں سکاچ مشن کالج قائم ہوا۔۲۲؎ ۱۸۹۱ء میں ڈاکٹر ینگسن رخصت پر سکاٹ لینڈ چلے گئے،ان کی جگہ ریورنڈ واخ ھشنری سربراہ ہو گئے۔ نومبر ۱۸۹۱ء میں سکاٹ آئے اور ۱۸۹۲ء کے شروع میں ڈسکہ کے سکاچ مشن مرکز کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لیا۔۲۳؎ سیالکوٹ ،وزیر آباد، گجرات۔ڈسکہ اور چمبہ کے مشن مراکز کو ایک بورڈ کنٹرول کرتا تھا۔ جو ۲۹ جولائی ۱۸۶۱ء کو سیالکوٹ میں قائم ہوا تھا۔اور چونکہ ان مراکز میں سیالکوٹ ایک بڑا شہر تھا۔اور وسط میں تھا، اس لئے بورڈ کے اجلاس یہاں منعقد ہوتے تھے۔مشنری سر براہ عموما سیکرٹری اور خزانچی ہوا کرتا تھا۔ بورڈ میں فوج اور سول محکموں سے تعلق رکھنے والے اصحاب کو شرکت کی دعوت دی جاتی تھی۔ عموما ضلع کا ڈپٹی کمشنر یا سول جج بورڈ کا چیر مین ہوا کرتا تھا۔مشنری سربراہ عموما سکول کا معائنہ کیا کرتا تھا۔ مراکز کے مشنری سربراہ ہر سال اپنے مرکز سے متعلق ایک جامع رپورٹ اپنے صدر دفتر اسکاٹ لینڈ ارسال کرتے تھے۔بورڈ کے ابتدائی سالوں میں ای اے پرنسیپ سٹیلمنٹ کمشنر چیر مین تھے۔ ۱۸۸۸ ء سے اپریل ۱۹۹۴ء تک ضلع کے ڈپٹی کمشنر کرنل منٹگمری چیر مین رہے۔ان کے بعد ان کی جگہ پر آنے والے کمشنر کیپٹن ڈنلوپ اسمتھ چیر مین مقرر ہوئے تھے، ۱۸۶۷ء میں بورڈکے ممبر یہ تھے: چئیر مین : ای اے پرنسیپ سٹیلمنٹ کمشنر ممبران : ریورنڈ ہگ ڈرنیان چلپین ریورنڈ ولیم فرگوسن چمبہ ریورنڈ رابرٹ پیٹر سن گجرات ریورنڈ جان ٹیلر،سیالکوٹ سیکرٹری اور خزانچی جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ مشن کے قیام کے لئے مرے فنڈ قائم کیا گیا۔ بعد میں ایک خاتون نے عطیہ میں کچھ رقم دی کہ پنجاب میں مشن کو دوبارہ قائم کیا جائے۔اس کے علاوہ دوسرے ذرائع آمدنی یہ تھے ،جن سے مشن کے اخراجات پورے کیے جاتے تھے۔ تعلیمی اداروں میں طلباء سے ماہوار فیس وصول کی جاتی تھی، تقریبا تمام تعلیم ادارے اپنا خرچہ خود برداشت کرتے تھے۔ یعنی خود کفیل تھے۔ ۳۔ سیالکوٹ میں مقیم انگریزی ملازمین بھی چندہ دیا کرتے تھے۔ اور اس طرح دوسرے مراکز میں بھی انگریز ملازمین چندہ دیا کرتے تھے۔ ۴ ۔۔ ہندوستان میں واقع دوسرے مشنری ادارے حسب توفیق سکاچ مشن سیالکوٹ کو عطیات بھیجا کرتے تھے۔ ۵۔ سیالکوٹ،مری ،اور شملہ کی چھاونیوں میں مقیم انگریز فوجیوں کو سکاچ مشن کے پادری مذہبی درس دیا کرتے تھے۔ حکومت ان فوجیوں کی ماہوار تنخواہ سے ایک روپیہ فی فوجی منہا کرکے سکاچ مشن کو ادا کرتی تھی۔ اس سے خاطر خواہ ماہوار آمدنی ہو جاتی تھی۔۲۴؎ ۶۔۔ بوقت ضرورت سکاچ مشن دوسرے لوگوں سے قرض لیا کرتا تھا۔ ۷۔ چرچ میں عبادت کے وقت عبادت کرنے والوں سے چندہ لیا جاتا تھا۔ ۷۔ پنجاب رلیجس بکس سوسائٹی بھی مشن کو مالی امداد دیتی تھی۔ ۸۔ سکاٹ لینڈ کی چار تنظیمیں سکاچ مشن میں کام کرنے والے مبلغین ومدرسین کے اخراجات خود برداشت کرتی تھیں۔ سکاچ مشن کا بڑا مقصد دین مسیح کی اشاعت اور ترویج تھا، زیادہ سے زیادہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو مسیحیت میں داخل کرنا سکاچ مشن کا مطمح نظر تھا۔اس میں انگریز حکام ہر طرح سکاچ مشن کی مدد کرتے تھے۔ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو ضلع کا چئیر مین مقرر کرکے سرکاری مشنر ی کو اپنے قابو میں کر لیا جاتا۔یہاں تک کہ صوبے کا انگریز گورنر بھی مشن کی مدد کرتا تھا۔ ۱۔ سکاٹ لینڈ کے لوگ سکاٹ لینڈ کے صدر دفتر میں عطیات اور چندہ دیا کرتے تھے۔ ۲۔ سکاچ مشن کے مراکز سیالکوٹ ،ڈسکہ، گجرات،اور چمبہ میں قائم کردہ مدد کرنا باعث فخر سمجھتا، مشن نے تبلیغ کے لیے یا اپنے پاؤں جمانے کے لیے تعلیم کے میدان کو اپنایا،اپنے مرکز میں سب سے پہلے انہوں نے بچوں کے لئے سکول کھولے۔معصوم بچوں کو بائبل کی تعلیم دینا شروع کی۔ یہاں تک کہ مڈل ،ہائی اور کالج سطح پر بھی دن میں ادھ گھنٹہ مسیحیت کی تعلیم کے لئے وقف ہوتا تھا۔اور مسیحیت کی تعلیم لازمی دی جاتی تھی۔درس گاہوں کو ذریعہ تبلیغ اپنانا ایک بہت بڑا ہتھیار تھا،کیونکہ ان کی نظر میں تعلیم اور مذہب آپس میں بہن اور بھائی ہیں۔۲۵؎ We are bound to employee the school as a powerful means with God in his providence has so wnderfully put in to our hands in india for the advancement of his truth and the extension of his kingdom’’۲۶؎ مسیحیت کی تعلیم میں ایک باقاعدگی تھی۔ جوان ذہنوں کو مسیحیت کی طرف راغب کرنا تعلیم آسان اور موثر ترین ذریعہ تھا:۔ Religious education is given very systematically in our Shool...... by its means we have daily 287 souls under christan infl uence..... our school are un question ably the best and most Convenient means of impressing christan instructions on young minds ,,27سکاچ مشن خالصتہ ایک تبلیغی مشن تھا:۔ The character of Mission, as distinctively a preaching or Evangelistic mission has been Kept up,and while schools are faintained as not only an important but nece ssary agency for the advancement of christian truth’’ ۲۸؎ لوگوں کو مشن کے اس حربے کا علم ہو چکا تھا۔ ہندو ،سکھ اور مسلمان بخوبی جانتے تھے کہ تعلیم کے ذریعے مشنری لوگ مسیحیت کی تعلیم دے رہے ہیں:۔ we are told that we give secular education only as a bribe to get children to come and listen to Bible instructions, You don,t teach English or persian your school will be a failure,,,,۲۹؎ ۱۸۷۷ء کی ایک خبر ملاحظہ ہو:۔ یہاں مشن سکول میں تین لڑکے ایک مسلمان دوہندو عیسائی ہو گئے،عمائد شہر نے تجریک وتجویز سید وزیر علی صاحب بہادر ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر و سیکرٹری میونسپلٹی ایک مدرسہ جاری کرنے کا ارادہ کیا ہے، جس میں تقریبا چار سوروپے ماہوار خرچ ہو گا اور انتظام نہایت عمدہ کیا جائے گا۔‘‘ ۳۰؎ دس برس بعد مجوزہ تجویز پر عمل در آمد ہو سکا۔ مشنری لوگ موسم سرما میں باہر دیہاتوں میں جا کر تبلیغ کرتے۔یہاں کی گرمی کی شدت مشنریوں کے لئے نا قابل برداشت ہوتی تھی۔ اس لئے گرمیوں کے دنوں میں یہ لوگ شہروں میں تبلیغ کرتے مسٹر مرسر Mercer نے لاہور میں مشنری کانفرنس منعقد ۶۳۔۱۹۶۲ء میں یہ تجویز پیش کی تھی، کہ سردیوں میں سکول مکمل طور پر بند کر دیئے جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ وقت تبلیغ کو دیا جا سکے۔۳۱؎ سکول کی ابتدائی جماعتوں کو سکول کے مسیحی اساتذہ بائیبل کی تعلیم دیتے تھے۔ بڑی جماعتوں کو عموما مشنری سربراہ بائیبل اور دوسری دینی کتب پڑھاتا۔ بائیبل کے علاوہ عیسائیت سے متعلق درج ذیل کتب بھی پڑھائی جاتی تھیں،۳۲؎ Genesis 2, The four Gospel 3, The Acts of Apostles, 4..The Epistle ti The Romans 5,The Epistle to the Her brews, 6.Barth,s Scripture History 7..Mutlashi ...I..Din (Religious Inquirer) 8..Mr Murray Mitchell,s Letters to indian Youths, 9..Mitchell,s Evidences of christian for indian Youths in Hindustani and english. 10..Dr, Harper ,s, Divine Realities in English. 11,Dr Forma ,s Christian Sword and Shield . 12,Nur Afshan...Aweekly Semi Religious Paper Published by the .. Amer ican Missionaries of Loodhiana شہروں میں سکول قائم کرنے کے علاوہ مشنری لوگ شہر کے بازاروں میںمقامی زبان یعنی اردو میں تبلیغ کرتے۔ ان غیر ملکی مشنریوں کے ہمراہ دیسی عیسائی بھی ہوا کرتے تھے۔ یہ لوگ دینی کتابچے تقسیم کرتے،دینی کتب فروخت بھی کرتے،لوگوں کو طبی سہولتیں مہیا کرکے بھی ان کو مسیحیت کی طرف راغب کیا جاتا۔ شہر میں باقاعدہ ایک ڈسپنسری کھولی گئی۔،انڈروز مریضوں کے لئے وارڈز تعمیر کیے گئے۔آپریشن بھی کیے جاتے تھے۔ مشنری لوگ دیہاتوں میں تبلیغ کے ساتھ ساتھ ان کا علاج بھی کرتے،دیہاتی لوگوں میں انہیں بڑی کامیابی ہوتی،خصوصا کم ذات اور چھوٹی سطح لے لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے میں انہیں کوئی دقت پیش نہ آتی تھی۔ ابتدا میں انہوں نے سانسی قبیلے کو مسیحیت میں داخل کرنے کی سعی کی، ۱۸۵۹ء میں ۳۷۲ سانسی اور ۳۸۱ پکھی وار بنجر زمین پر بسائے گئے۔ان کا پیشہ چوری اور ڈکیتی تھا۔ حکومت نے ان کو کاشت کے لئے اراضی دی تاکہ رہزنی چھوڑ دیں۔۳۲؎ ۱۸۶۲ء میں ریورنڈ پیٹرسن وزیر آباد جاتے ہوئے سانسیو ں کے دیہات میں گیا۔ان لوگوں کے متعلق پیٹرسن اپنے ایک مکتوب میں لکھتا ہے:۔ The sanyasees may be regarded as the lowest class in the scale of indian Society,They are the gipsies of the east. ۳۴؎ ان کے بود وباش کے سلسلے میں وہ تحریر کرتا ہے:۔ They live in the jungle apart from the habitations of man,their houses little staw Sheds ,They Support Them selves by hunting, begging and Stealing, سانسیوں کا گروہ مالن شاہ تھا،(Malim Shah) تھا۔ یہ لوگ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔ معاشرے میں وہ ذلت کی گہرائیوں میں گرے ہوئے تھے۔:۔ ’’They are very degraded in every respect, indeed,their intellectual and moral nature appears to have reached the lowest point, ہندوؤں ،سکھوں اور مسلمانوں کی نسبت اس قبیلے کے لوگوں کو مسیحیت میں داخل کرنا بہت آسان تھا، اس قبیلے کی طرح ایک اور طبقہ بھی نیچ کہلاتا تھا۔یہ لوگ چوہڑے تھے۔ ان کا بھی کوئی دین مذہب نہ تھا۔معاشرے میں یہ دھتکارے ہوئے لوگ تھے۔ پنجاب کے ہر دیہات میں ان کے گھرانے موجود ہیں۔مشنری لوگوں نے ان کو مسیحیت کی تبلیغ کی،یہ لوگ جوق درجوق مسیحیت میں داخل ہو ئے۔ریورنڈ جان موری سن (Morrison)اپنی تصنیف میں لکھتے ہیں۔ The Moral And MATerial ProGress OF INDIA. The Lepchas at DArgeelling are among these aborigienes like wise the Chuhras among whom our mission in the punjab has worked with Success,,,35 ۳۵؎ چوہڑے کے لڑکے کو کسی سکول میں داخل نہیں کیا جاتا تھا،ان لوگوں کو فوج اور پولیس میں بھی بھرتی نہیں کیا جاتا تھا۔۳۶؎ ۱۸۵۷ء میں چوہڑوں میں سے جوہری کو پہلا عیسائی بنایا گیا۔۳۷؎ مشن نے ان لوگوں کو مسیحیت میں داخل کرکے عملی فنون سکھائے۔اور ملازمتیں دلائیں۔ان کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے اپنے سکولوں میں داخل کیا۔ اس سلسلے میں ۲۱ مئی ۱۸۹۴ء کی ایک خبر ملا حظہ ہو:۔ ’’ سکاچ مشن سکول کی ششم جماعت میں ایک عیسائی طالب علم کو جو پہلے چوہڑہ تھا،مشن والوں نے داخل کرنا چاہا۔ مگر طلباء نے اس کی شمولیت سے انکار کرکے سکول چھوڑنا چاہا۔ آخر یہ تجویز قرار پائی کہ وہ لڑکا الگ سٹول پر چڑھ کرکے اور دیگر امیدوار بنچوں پر بیٹھ کر تعلیم پاویں،نیچے سے فرش اٹھا لیا جاوئے جس پر طالب علم خوش ہو گئے۔‘‘ ۳۸؎ مشنری لوگ مختلف قسم کے ساز بھی بجاتے تھے۔کیونکہ گانا بجانا مسیحیت میں عبادت کا ایک حصہ سمجھا جاتا ہے۔چھوٹی ذات کے یہ لوگ گانا بجانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ بقول ڈاکٹر ینگسن:۔ We found Music to be a very Powerful aid inpreaching to the villagers, ان لوگوں کے لئے ،،Music is aGod,s gift to them, ہندو ،سکھ اور مسلمان زیادہ موسیقی نہیں جانتے تھے،لیکن یہ لوگ شاندار گویے تھے۔ Low cast people are splended Singers ..,, گیتوں کے ذریعے مسیحیت کی تبلیغ بڑی بہتر اور موثر طریقے سے ہوتی تھی۔: ’’I believe that more christian ieaching is con veyed by means of hymns than by all the other means put together,,, گوہر شاہ دوتارہ کا ماہر تھا۔ مانڈو دیانہ بجانے میں ماہر تھا۔ودھاوا چکارا بجاتا تھا۔ مانڈو ایک بوڑھا شخص تھاق،خود شاعر تھا ،گیت لکھ کر گایا کرتا تھا۔ دکھائی جانے والی مذہبی فلموں کی وہ بڑے موثر انداز میں تشریح کرتا۔اس زمانے میں سرکاری حکام ان لوگوں سے مفت کام بھی کراتے۔حکومت کے کارندے سرکاری حکام کی آمد کے موقع پر ان لوگوں سے مفت کام بھی کراتے۔ حکومت کے کارندے سرکاری حکام کی آمد کے موقع پر ان لوگوں کو ہفتوں بیگار میں پکڑ کر لے جاتے تھے۔ پنجاب کے لفٹیننٹ گورنر نے کرسمس کے موقعہ پر ایک حکم کے ذریعے ان سے بیگار میں کام لینا ممنوع قرار دے دیا۔مشنریوں نے اسے نئے سال کا ایک تحفہ خیال کیا ،اور تحفہ قرار دیا۔۴۰؎ ہندوؤں ،سکھوں اور مسلمانوں میں بہت سے کم لوگوں نے مسیحیت قبول کی۔سکاچ مشن کے ریکارڈ سے ان لوگوں کی نشان دہی ہوتی ہے۔جنہوں نے اپنے مذاہب چھوڑ کر دین مسیح کو قبول کیا۔ سینکڑوں کی تعداد میں مسیحیت قبول کرنے والے نیچ زات کے لوگ تھے۔ جنہیں ہندو ،سکھ اور مسلمان نا پسند کرتے تھے۔ اورا پنے معاشرہ میں جگہ نہیں دیتے تھے۔ وزیر آباد پہلا مشنری ریورنڈ پیٹرسن ۶۲۔۱۸۶۱ء میں تبلیغی مقصد کے لئے وزیر آباد گیا۴۱؎ وزیر آباد کے نواح میں بڑی تعداد میں سانسی اور پکھی وار آباد تھے۔ ان لوگوں کا کوئی دین مذہب نہ تھا۔ معاشرے کے دھتکارے ہوئے انسان تھے۔رہزنی اور ڈکیتی ان کا پیشہ تھا۔ حکومت نے تین تین سو کی تعداد میں ان لوگوں کو پانچ بڑے بڑے قطعہ نما گاؤں میں آباد کیا تھا۔ حکومت نے ان کے ایک گاؤں میں ایک سکول بھی قائم کیا۔جہاں ۲۲ لڑکے تعلیم حاصل کرتے تھے۔ سکاچ مشن نے یہ سکول حاصل کرنے کے لئے سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنر مسٹر پر نسیپ کو ایک دوخواست دی۔۱۸۶۳ء میں سکاچ مشن نے وزیر آباد شہر میں ایک شاخ قائم کی۔۴۲؎ اور ایک پرائمری مدرسہ بھی کھولا۔حکومت نے وزیر آباد کا ضلع سکول مشن کی تحویل میں دے دیا۔اور پچاس روپے ماہوار مالی امداد بھی دی۔ ضلع سکول میں ۸۸ لڑکے تعلیم حاصل کرتے تھے۔ سکاچ مشن نے دونوں اداروں کو مدغم کر دیا۔ اور سکاچ مشن مڈل سکول کا نام دیا۔۱۸۶۶ء میں لڑکوں کی تعداد ۱۱۳ تھی۔ اس سال طلباء نے فارسی اور اردو میں مناسب ترقی کی۔۴۳؎ ۱۸۶۷ء ،میں حکومت نے دس روپے ماہوار مدد کا اضافہ کیا۔۴۴؎ ۶۸۔۱۸۶۷ء ریورنڈ ڈاکٹر واٹسن نے سکاچ مشن کے تعلیم مراکز کا دورہ کیا۔ سب سے پہلے ڈاکٹر صاحب نے وزیر آباد سکول کا معائنہ کیا۔ پیٹرسن یہاں کا مشنری تھا۔۴۵؎ ایک سولڑکے یہاں پڑھتے تھے۔ شہر میں مشن نے ایک برانچ سکول بھی کھولا تھا۔ جہاں ساٹھ لڑکے تعلیم حاصل کرتے تھے۔اس برانچ سکول میں صرف ہندی اور حساب پڑھایا جاتا تھا۔ لڑکیوں کے لئے دو سکول قائم کیے۔ جہاں ۲۵،۲۵ لڑکیاں پڑھتی تھیں۔ہندو عورتیں یہاں پڑھاتی تھیں۔کسی مرد کو ان مدرسوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ ۱۸۷۰ء میں مین سکول میں پاندہ کرم بخش حساب پڑھاتے تھے۔پاندہ شہر میں تبلیغ بھی کرتا تھا۔۴۶؎ ۱۸۷۲ء میں وزیر آباد کے ساتھ ساتھ گجرات کو بھی سکاچ مشن مرکز بھی ریورنڈ محمد اسماعیل کے ماتحت تھا۔ ۴۷؎ ان دنوں ایک عیسائی مبلغ اور مدرس قطب الدین شہر میں تبلیغ کیا کرتا تھا۔ وہ سکول میں مڈل جماعتوں کو بائیبل بھی پڑھاتا تھا۔۴۴؎ سکول کے ہیڈ ماسٹر منشی احمد شفیع بڑے محنتی اور فرض شناس تھے۔فروری ۱۸۷۲ء میں طلباء کی تعداد ۰اا تھی۔ جب کہ گزشتہ برس اسی ماہ یہ تعداد ۱۲۹ تھی۔ حکومت پہلے ۸۴۰ روپے سالانہ مالی مدد دیتی تھی۔ اب ۹۶۰ روپے مالی مدد دینے لگی۔ بلدیہ وزیر آباد نے بھی ساٹھ روپے ماہوار مالی مدد دینا منظور کی۔ ۱۸۷۴ء میں یعقوب بازار میں تبلیغ کرتا تھا۔ شہر میں عالم فاضل علماء اور وہابی فضلا نے عیسائی مبلغین کی کوششوں کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔۴۹؎ ۳۱ مارچ کو طلباء کی تعداد ۱۳۰ تھی۔مشنری سربراہ جیمز بی لینگ تھے،جو وزیر آباد اور کٹھالہ کے یورپی ریلوے ملازمین کو وعظ کیا کرتے تھے۔ ۱۸۷۵ء میں ولیم ہارپر مشنری سربراہ مقرر ہوئے۔منشی احمد شفیع کی جگہ کسی عیسائی ہیڈ ماسٹر کو تعینات کرنے کی تجویز پیش ہوئی ۵۰؎ ۱۸۷۶ء میں طلباء کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ تعداد ۲۰۹ تک پہنچ گئی۔چند اساتذہ کو سکول کی ملازمت سے سبک دوش کر دیا گیا۔ریورنڈ ینگسن نئے مشنری سربراہ مقرر ہوئے ۵۱؎ ۱۸۷۷ء میں برج لال کو ہیڈ ماسٹر مقرر کیا۔یہ عیسائی تھے۔ ان کے ماتحت سات اساتذہ تھے۔ طلباء کی تعداد ۱۳۳ تھی ،۵۲؎ ۱۸۷۹ء میں پربھو داس سنہا ہیڈ ماسٹر ہوئے،اسی سال ماہ ستمبر میں مسٹر ولز لی سی بیلی (WELLSLEY , C , BAULEY) مشیر (EVANGELIST) کی حیثیت سے یہاں آئے تھے۔انہوں نے شہر میں رہائش رکھی۔۱۸۸۰ء میں رلیا رام کو ہیڈ ماسٹر مقرر کیا گیا۔۵۴؎ ۱۸۸۴ء میں کے،ایم ،بوس (BOSE)ہیڈ ماسٹر تھے۔ ان کے تحت ( D, PEOPLES) عیسائی مدرس تھا۔۵۵؎ ۱۸۸۷ء میں لازرس جرمی (LAZARUS JEREMEY) ہیڈ ماسٹر کی حیثیت سے تشریف لائے،کے ،ایم ،بوس میرٹھ تبدیل ہو گئے۔۵۶؎ انسپکٹر آف سکولز ان سکولوں کے متعلق لکھتا ہے :۔ Iwould record that mr Jeremy has the whole school in a most Satisfactory State,,. Daniel PEOPLES .. ALLEY MARKS ..G, L GORDEN ۱۸۸۹ء میں طلباء کی تعداد ۵۴۶ تھی۔ اور اس میں جرمی کے علاوہ دوسرے مسیحی اساتذہ بھی تھے۔ اپریل ۱۸۸۷ء میں سکول ہائی درجہ پر ترقی پا گیا۔ اس میں جرمی کی کوششوں کو بڑا دخل تھا۔ ۹۳،۱۸۹۴ ء کی رپورٹ میں جرمی کی کوششوں کو بڑا سراہا گیا۵۹؎ ۱۸۹۵ء میں طلباء کی تعداد ۵۴۶ ہے۔ حکومت پچاس روپے ماہوار مالی امداد دیتی تھی۔ ۶۰؎ ۱۸۸۸ء میں ریورنڈ حاکم سنگھ ‘‘ مخصوص پاسبان کی حیثیت سے یہاں آیا۔اس کی بیوی نے شہر میں لڑکیوں کے لئے ایک سکول کھولا، جہاں ۲۷ لڑکیاں پڑھتی تھیں ۔۶۱؎ لازرس جرمی آگرہ کے قریشی مسلمان گھرانے سے ان کا تعلق تھا۔ان کے والد ریورنڈ ڈیوڈ جرمی نے ۱۸۴۲ء میں مسیحیت قبول کی۔ لازرس جرمی ۱۸۷۷ء میںسکاچ مشن سکول وزیر آباد میں ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے۔ہائی جماعتوں کو انگریزی پڑھایا کرتے تھے۔ انہوں نے سکول کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کی سعی کی۔ سکول کو ہائی درجہ پر ترقی دلوائی،طلباء کی تعداد میں بھی خاصی اضافہ ہوا۔انسپکٹر آف سکولز نے دوران معائنہ ان کی کار کردگی کی بڑی تعریف کی۔ سکاچ مشن کی ملازمت سے ۱۹۱۳ء میں سبک دوش ہوئے ۔ ایک طویل عمر پا کر ۱۹۵۰ء میں وزیر آباد میں انتقال کیا۔ لازرس جرمی نے ڈاکٹر نارمن میکوڈ کی انگریزی کتاب (The Gold Threads) کا اردو میں ترجمہ کیا۔ انگریزی کی کتاب کو بھی اردو زبان میں پیش کیا۔ ان کے علاوہ اسمتھ کی (Biblical Dictionary)کا بھی اردو میں ترجمہ کرنا شروع کیا تھا۔۶۲؎ لازرس جرمی کا ایک بیٹا اے ایس ،جرمی تھا۔اس نے ۱۸۹۲ء میں الہ آباد سے ایم،اے انگریزی کیا۔ اور یوپی کی سول سروس میں شمولیت اختیار کی۔ اے،ایس جرمی کے صاحب زادے آر،اے جرمی لاہور ہائی کورٹ میں ایڈوکیٹ ہیں،اور مزنگ روڈ پر رہائش پذیر ہیں۔۶۳؎ گجرات ۶۴؎ سکاچ مشن کے پادری پیٹرسن نے مئی ۱۸۶۵ء میں گجرات شہر میں مشن کا ایک مرکز قائم کیا۔ شہر میں پہلے سے ایک مڈل سکول موجود تھا۔ جہاں چالیس لڑکے پڑھتے تھے۔حکومت نے یہ مڈل سکول سکاچ مشن کی تحویل میں دے دیا۔ شہر سے شمال میں نصف میل کے فاصلے پر چار سوپونڈ میں ایک مشن ہاؤس خریدا گیا۔ پیٹرسن کے علاوہ مرکز اور سکول سے منسلک یہ لوگ تھے۔ بابو را مول : مناد تھا۔منشی نظام الدین بائیبل پڑھنے والا تھا۔سکول کے ہیڈ ماسٹر احمد شفیع تھے۔ منشی نور احمد اور امام الدین فارسی کے استاد تھے۔ بابو محمد بخش شہر کے پرائمری سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ بدر الدین اور گل خان دینی کتب وکتابچے فروخت کرتے تھے۔ ان میں ایک کے اخراجات برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی اور دوسرے کے اخراجات پنجاب بائیبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی برداشت کرتی تھی۔ سکول میں لڑکوں کی تعداد ۷۲ ہو گئی۔مالی امداد کے علاوہ ڈائریکٹر آف پبلک انسٹرکشن کو درخواست دی گئی۔بابو محمد بخش کی جگہ پورنیا چند ہیڈ ماسٹر ہوئے۔بابو صاحب جونئیر مدرس فارسی مقرر ہوئے۔بابو برج لال مدرس کے ساتھ ساتھ مناد بھی تھا۔منشی شیخ عمر مدرس فارسی کا اور اضافہ ہوا۔ مئی ۱۸۶۸ء میں طلباء کی تعداد ایک سو تھی۔ لاہور سے بھی ایک مسیحی استاد یہاں تبلیغ کے لئے آیا کرتے تھے۔اسے یہاں مدرس کی حیثیت سے ملازم رکھ لیا گیا۔ نظام الدین کو بھی سکول میں مدرس رکھ لیا۔ڈائریکٹر آف پبلک انسٹرکشن نے مشن کو تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے خصوصی گرانٹ دی۔ سکاٹ لینڈ سے ایک دوست نے ایک بکس (R. NAISMITH . STONE HOUSE) کی معرفت بھیجا۔اخراجات وغیرہ منہا کرکے بکس کو فروخت کرنے سے ۷۰ پونڈ کی آمدنی ہوئی۔یہ رقم شہر میں سکاچ مشن کی عمارت کی تعمیر کے لئے مختص کر دی گئی۔یہ عمارت چرچ کے ساتھ ساتھ سکول کا کام بھی دے گی۔مئی ۱۸۶۹ ء میں ڈاکٹر واٹسن نے گجرات کے سکاچ مشن مرکز کا معائنہ کیا۔ ۱۸۶۹ء میں پیٹرسن ناسازیء طبیعت کے باعث سکاٹ لینڈ چلا گیا۔اور گجرات کا مرکز سکاٹ لینڈ کے تحت ہو گیا۔ پورن چند کی جگہ نانک چند ہیڈ ماسٹر تعینات ہوئے۔انگریزی کے لئے بابو مولا مل کا تقرر ہوا۔ ہندی کی تدریس کے لئے پاندہ کرم بخش کو ملازم رکھا۔ بعد میں انہیں وزیر آباد تبدیل کر دیا گیا۔شہر میں لڑکیوں کے لئے بھی ایک سکول قائم کیا۔یہاں پانچ خواتین لڑکیوں کو پڑھانے پر مامور ہوئیں۔نظام الدین سکول میں بچوں کو بائیبل پڑھانے لگے ۔ ۱۸۶۹ء کے اواخر میں مولوی غلام محمد کو مدرس رکھا گیا۔اور ان کے آنے پر سکول میں کئی ضروری تبدیلیاں اور اصلاحات کی گئیں۔۱۸۷۱ء میں سیالکوٹ سے ریورنڈ محمد اسماعیل مشنری سربراہ کی حیثیت سے یہاں آئے۔ سکول کے ہیڈ ماسٹر کی ذمہ داریوںکو بھی سنبھالا۔ کیونکہ ہیڈ ماسٹر کی تنخواہ ادا کرنے کے لئے مشن کے پاس فنڈ نہیں تھا۔اسمعیل اپنی رہائش گاہ کے ایک کمرے میں اردو میں وعظ کیا کرتا تھا۔ جب کہ ضلع گجرات کے ڈپٹی کمشنر مسٹر ایچ ،ای پرکنز ( H , E , PERKINS) اسٹیشن چرچ میں انگریزی میں وعظ کیا کرتے تھے۔ نومبر ۱۸۷۲ء میں پہلی بار یہاں کے دو لڑکوں نے فرسٹ ڈویژن میں مڈل کا امتحان پاس کیا۔ ان کے علاوہ کئی اور لڑکوں نے مڈل کا امتحان نچلے درجے میں پاس کیا۔فروری ۱۸۷۳ء میں طلباء کی تعداد ۱۳۰ تھی۔ حکومت ۲۴۰ روپے سالانہ امداد دینے لگی۔محمد اسماعیل ۱۶ اکتوبر ۱۸۷۳ء کو اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کی جگہ جے ،پی لینگ نے سربراہ بن کر آیا۔جنوری ۱۸۷۴ء میں مسٹر ہارپر ان کی جگہ آئے۔ ہارپر انگریزی کی اسپیشل کلاس بھی پڑھایا کرتا تھا۔ اس میں مسیحیت سے متعلق انگریزی کتب پڑھائی جاتی تھیں۔ ۷۵۔ ۱۸۷۴ء میں برج لال سکول کے نئے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے۔برج لال اعلیٰ جماعتوں کو بائیبل پڑھاتے تھے۔سکول کرایہ کی ایک نئی عمارت میں منتقل کیا گیا۔ ۱۸۷۶ء میں ریورنڈ ینگسن مشنری سربراہ بن کر آئے۔اس سال لڑکوں کی تعداد ۲۳۱ ہو گئی۔ برج لال وزیر آباد تبدیل ہو گئے۔ ابی ناش چند مکر جی (ABINASH CHANDRA MOOKARJI) ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے۔ مکرجی پہلے مڈل سکول گجرات میں ایک مدرس تھے۔ اور عیسائی تھے۔ سکول میں کرسچین ورنیکلر ایجوکیشن سوسائٹی کی چھپی ہو ئی کتابیں نصاب میں پڑھائی جاتی تھیں۔ مڈل کے حصہ چھٹی جماعت میں (Lethrbridge) کا انتخاب اور لوئر سکولوں کی نچلی جماعتوں میں لدھیانہ سیریز پڑھائی جاتی تھیں۔ینگسن پانچویں اور چھٹی جماعت کو بائیبل پڑھاتے تھے۔ ۱۸۷۹ء میں یہاں ایک مین سکول،ایک لوئر سکول اور دو برانچ سکول تھے۔ یہاں ۲۱۷ لڑکے پڑھتے تھے۔ مسیحیت کی روشنی میں ’’قربانی‘‘ کے موضوع پر ایک مضمون نویسی کا مقابلہ ہوا۔ مقابلہ میں حصہ لینے والوں کئی ایک طالبات کو انعام دیئے گئے۔ ۱۸۸۰ء میں مسٹر کالڈول ( Cald well) سکول کے نئے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے۔ ان سے قبل چند ماہ تک ینگسن نے بطور ہیڈ ماسٹر کام کیا۔ کالڈول کے دور میں سکول نے خاطر خواہ ترقی کی۔مڈل سکول میں لڑکوں کی تعداد ۴۷ ،پرائمری سکول میں ۱۴۳ اور دو برانچ سکولوں میں ۱۳ تھی۔ ہر لڑکے کے لئے بائیبل کی تعلیمل لازمی تھی۔ ۸۲۔۱۸۸۱ ء میںمسٹر ایمرسن ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے۔ان کے ماتحت ۱۱ استاد تھے،طلباء کی تعداد ۳۵۴ کی بجائے ۳۹۰ ہو گئی۔دیدار سنگھ مناد کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔۱۸۸۳ء میں سکول کے لئے گجرات میں میونسپل کمیٹی سے نصف قیمت پر ایک عمارت بارہ صد روپے میں خریدی گئی۔ دیدار سنگھ مین سکول میں بچوں کو بائیبل پڑھانے پر مامور تھا۔ اس سکول کے پرانے ہیڈ ماسٹر مسٹر ڈیوڈ کا انتقال ہوگیا۔ بھنگیوں کے بچوں کے لئے ایک CASTE سکول کھولا گیا،مذکورہ سکول میں بوڑ ہی تعلیم دیتا تھا۔ ۱۸۸۵ء میں شہر میں ہندوؤں اور مسلمانوں نے مسیحیت کے مقابلے میں اپنی اپنی تنظیمیں قائم کیں۔سال رواں میںنیگسن سیالکوٹ تبدیل ہوگئے۔ ان کی جگہ رابرٹ میکچین پیٹرسن مشنری سر براہ بن کر آئے۔ ۱۸۸۸ء میں جان ڈئینیل سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ ۱۸۹۰ء میں طلباء کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر گجرات میونسپل کمیٹی سے پندرہ روپے ماہوار کرایہ پر ایک ’’یور ہاؤس‘‘ لیا گیا۔ ڈائرکٹر آف پبلک انسٹرکشن نے ہائی جماعتوں کے لئے سال روان میں مالی مدد دینے سے انکار کر دیا۔ سکول کے سالانہ نتائج بہت اچھے رہے۔ اس لئے ڈسٹرکٹ کمیٹی اور میونسپل بورڈ نے طلباء کے لئے تین کمرے بنوا کر دیئے۔ ۱۸۹۱ء میں ۲۷ برس بعد سکاچ مشن جمع شدہ چندہ سے عبادت کے لئے ایک ہال اور تعلیم کے لئے سکول کی عمارت تعمیر کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ ۱۸۹۲ء میں میکچین پیٹرسن وطن واپس چلے گئے۔ ان کی جگہ ریورنڈ جارج داخ آئے۔اس سکول کا اسٹاف درج ذیل اصحاب پر مشتمل تھا۔ ہیڈ ماسٹر: جان ڈینیل اساتذہ : ایس باصل،آرمنوحا۔ دیدار سنگھ۔ دیدار سنگھ ۶۵ بگھیل سنگھ کے لڑکے تھے۔ جو سکھ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا قریبی عزیز تھا۔شادی وال ضلع گجرات کے رہنے والے تھے۔ گجرات میں بیس برس کی عمر میں ۲۹ ستمبر ۱۸۷۸ء کو عیسائیت قبول کی۔تبدیلی مذہب کے بعد یہ سیالکوٹ چلے آئے۔ ان کے رشتے دار ان کو بھرے بازار میں پکڑ کر اپنے ساتھ لے گئے۔اور شہر کے ایک بااثر شخص کے گھر میں چھپا دیا۔پولیس کی مدد سے دیدار سنگھ کو چھڑا لیا گیا۔ اس کے بعد یہ گجرات چلے گئے۔ بعد میں ان کے عزیزوں نے چوری کے الزام میں سزا دلوانا چاہی۔ کئی ہفتے عدالتی کاروائی کے بعد باعزت بری ہوگئے۔۱۸۸۱ء میں دیدار سنگھ سکاچ مشن سکول گجرات کے مناد (CATECHIST) تھے۔۱۸۸۳ء سے وہ گجرات کے مشن سکول میں بائیبل کے استاد مقرر ہوئے۔۴۰ برس مدرس اور مبلغ رہنے کے بعد ۱۲ نومبر ۱۹۱۷ء کو گجرات میں انتقال کیا۔اسینٹ اینڈ ریوز چرچ گجرات میں ان کی مشنری خدمات کے صلے میں ان کے نام کا ایک کتبہ نصب ہے۔ گجرات میں ان کی ایک کوٹھی تھی۔ گوجرہ ضلع لائل پور میں ان کی اراضی تھی۔ دیدار سنگھ بڑے خدا ترس انسان تھے۔قحط کے دنوں میں بے سہارا اور یتیم بچوں کو پناہ دی۔ دہلی دربار میں جشن تاجپوشی کے موقع پر ان کو قیصر ہند کے تمغہ سے نوازا گیا۔ گجرات کی بزرگ شخصیت سائیں کرم الہیٰ المعروف کانواں والی سرکار کو بہت چاہتے تھے۔ ان سے میل ملاپ تھا۔ دیدار سنگھ کی اولاد میں ۵ لڑکے اور ۴ لڑکیاں تھیں۔ ان کی ایک چھوٹی لڑکی ویڈا ان دنوں راولپنڈی میں رہائش پذیر ہے۔ ڈسکہ ۶۶؎ مئی ۸۷۷اء میں نتھو مل ڈسکہ اور اس کے گرد ونواح میں دین مسیح کی تبلیغ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ نتھو مل کے اخراجات سٹوڈنٹس مشنری ایسوسی ایشن گلاسکو یونیورسٹی برداشت کرتی تھی۔ یہ اپنی کار کردگی کی ماہوار رپورٹ مشنری کو بھیجا کرتا تھا۔ ۸۲۔۱۸۸۱ء میں اس نے ڈسکہ میں ایک مدرسہ قائم کیا۔اس مدرسہ میں انگریزی اور بائیبل پڑھائی جاتی تھی۔ ۱۸۸۳ء میں خاکروبوں (SWEEPERS) کے بچوں کے لئے ایک سکول کھولا گیا۔شروع شروع میں بچوں کی حاضری اچھی تھی۔بعد میں ان کی تعداد کم ہو گئی۔یہاں تک کہ ماہ نومبر میں سکول بند کرنا پڑا۔۱۸۸۴ء میں اس سکول کو نئے سرے سے شروع کیا،اور اس کا نام CASTE سکول رکھا گیا۔ایک مسیحی مدرس کھیون سنگھ کو ملازم رکھا گیا۔عمر کو تبلیغی کتابچے تقسیم کرنے پر مامور کیا گیا۔ ۱۸۸۶ء کی رپورٹ میں ڈسکہ میں ’’تھیو لاجیکل سکول‘‘ کا ذکر ملتا ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ CASTE سکول کو نئے سرے سے ترتیب دے کر یہ نام دیا گیا۔ تھیو لاجیکل سکول میں نتھو مل کے علاوہ جواہر مسیح کو بطور مدرس ملازم رکھا گیا۔ اپریل ۱۸۸۷ء کو نتھو مل کوتبلیغ کے لئے مختص کیا گیا۔ ۱۸۸۷ء میں یہاں تیس لڑکے پڑھتے تھے۔ ان میں سے چھ لڑکوں نے فرسٹ گریڈ ریڈرز امتحان پاس کیا۔ اس سکول کو School of Prophets, کہا جانے لگا۔کینڈا مشن کے مسٹر ولکی Wilkie نے اس سکول کا معائنہ کیا،اور تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا۔ چرچ مشن کے مسٹر بیٹ مین (BATEMAN) نے بھی معائنہ کے دوران سکول کے بچوں کی تعریف کی۔ لڑکیوں کے لئے بھی ایک سکول اسی سال کھولا گیا۔نتھو مل کی بیوی لڑکیوں کے سکول کی منتظم تھی۔اگلے برس لڑکیوں کے لئے ایک اور سکول کھولا گیا۔اس طرح ایک سکول سکھ لڑکیوں کے لئے اور دوسرا سکول مسلمان لڑکیوں کے لئے مخصوص کیا گیا۔ ان میں بائیبل لازمی پڑھائی جاتی تھی۔ ۱۸۸۸ء میں ۲۵ اور ۲۲ لڑکیاں پڑھتی تھیں۔ ۱۸۸۹ء میں نتھو مل کو ا موترہ (AMOTRAH) کے چرچ میں پادری بنا کر بھیج دیا گیا۔ ان کی جگہ مسٹربنجمن سکول کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے۔۱۸۸۹ء میں یہاں کے چھ لڑکوں نے یہاں کا مقررہ دینی نصاب مکمل کر لیا۔ مزید تعلیم کے لئے وہ سیالکوٹ نیگسن کے پاس چلے گئے۔ ۱۸۹۰ء میں مسٹر بنجمن نے سکول کو بڑی ترقی دی۔اسے پختہ بنیادوں پر استوار کیا۔ہندوگھرانوں کے لڑکے بھی یہاں تعلیم حاصل کرنے لگے تھے۔ ۵۶ہندو اور مسلمان طالب علم ۳۴ عیسائی طلباء کے ساتھ پڑھتے تھے۔کرکٹ کھیلتے اور غسل کرتے۔ ۲۸ نومبر ۱۸۹۱ء کو ولیم سکاٹ سیالکوٹ آئے۔ ۱۸۹۲ء میں وہ مشنری سربراہ کی حیثیت سے یہاں یعنی ڈسکہ آئے۔ ہیڈ ماسٹر مسٹر بنجمن وفات پا گئے۔ ان کی وفات پر مسٹر اسکاٹ نے اظہار غم کیا۔ ولیم سکاٹ کے اخراجات ڈانڈی کا مشن۔۔۔۔۔ SAINT MARK برداشت کرتا تھا۔بنجمن کی وفات کے بعد ٹی ایم ،ٹیگور سکول کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے،دوسرے مسیحی مدرس ٹی ڈبلیو ٹیمو تھی (TIMOTHY) تھے . ٹیگور صاحب پہلے گجرات کے سکول میں بائیبل کے استاد تھے۔ ۱۸۹۵ء میں ٹھاکر داس یہاں کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ سکاٹ کے دور میں سکول کے لڑکوں میں کھیلوں کو فروغ حاصل ہوا۔ کرکٹ کے کھیل نے انہیں نئی زندگی دی۔ ۱۸۶۲ء میںگھسیٹا سنگھ ڈسکہ کے علاقہ میں مبلغ تھے۔ ان کے لڑکے جے مارٹن سے سیالکوٹ چھاؤنی میں راقم نے ملاقات کی تھی۔ ۱،سکاچ مشن سکول۔ صدر۶۷؎ انگریزوں نے ۲۹ مارچ ۱۸۴۹ء کو پنجاب پر مکمل طور پر قبضہ کر لیا۔اس وقت فوج کا ہیڈ کوارٹر وزیر آباد میں تھا۔ ۱۸۵۰ء میں سیالکوٹ شہر کے شمال میں دو میل کے فاصلے پر سیالکوٹ چھاؤنی قائم کی گئی۔جہاں سے سکاچ مشن نے اپنی تبلیغی اور تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ سکاچ مشن کے تبلیغی پروگرام کے تحت ریورنڈ تھامس ہنٹر جنوری ۱۸۵۷ء میں سیالکوٹ آئے۔ ان کے ہمراہ محمد اسماعیل تھے، جن کو وہ اپنے ہمراہ بمبئی سے لائے تھے۔سیالکوٹ چھاؤنی میں انہوں نے اپنی رہائش اختیار کی۔ چھاؤنی کے علاقہ میں انہوں نے دو پرائمری سکول کھولے۔ ایک لڑکوں کے لئے، دوسرا لڑکیوں کے لئے، پہلے لڑکیوں کا سکول قائم کیا گیا۔ بعد میں لڑکوں کا۔ یعنی فروری ۱۸۵۷ میں ہنٹر کی بیوی لڑکیوں کو پڑھانے لگی تھی۔لڑکوں کے سکول میں اسماعیل اردو پڑھانے پر مامور ہوا۔ ۹ جولائی ۱۸۵۷ء کو دوسرے انگریزوں کے ہمراہ ہنٹر اور اس کی بیوی اور ان کا بچہ حریت پسندوں کے ہاتھوں مارے گئے۔اس طرح پانچ چھ ماہ کے اندر یہ مشنری ادارہ ختم ہو گیا،اوراس کے منصوبے بھی خاک میں مل گئے۔ سکاٹ لینڈ سے سکاچ مشن کے صدر دفتر نے دو مشنری دوبارہ بھیجے،رابرٹ پیٹرسن اور جان ٹیلر مارچ ۱۸۵۹ء میں سیالکوٹ آئے۔۱۸۵۹ء اور ۱۸۶۰ء دونوں نے مقامی زبان یعنی اردو سیکھنے میں صرف کیا۔ ۱۸۶۰ء کے اواخر میں انہوں نے صدر میں ایک سکول کھولا۔ محمد اسماعیل کو سکول کا ہیڈ ماسٹر مقرر کیا۔ ۱۸۶۱ء میں یہاں ساٹھ لڑکے تعلیم حاصل کرتے تھے۔ان میں بارہ لڑکے انگریزی پڑھتے تھے۔ فارسی کے لیے ایک استاد کا اضافہ کیا گیا۔مشن کے ذرائع اتنے وسیع نہیں تھے کہ وہ اس سکول کے اخراجات برداشت کر سکے۔ حکومت کی طرف سے کوئی مالی امداد نہیں ملتی تھی۔ فوج کے سکاچ پادری(CHAPLAIN) فرگوسن (Ferguson) اس مشکل وقت میں مشن کی مدد کے لئے آگے بڑھے۔ دو ماہ تک سو سو روپیہ مدد دی، بعد میں وہ پچاس روپے ماہوار مدد دینے لگے، اس طرح یہ درس گاہ جاری رہی۔ ۱۸۶۲ء میں پانی جانقاہ سے موجودہ جگہ پر صدر بازار میں سکول منتقل ہو گیا۔ حکومت بھی تیس روپے مدد دینے لگی۔ پادری پیٹرسن کے اثر ورسوخ کی وجہ سے ایک یتیم لڑکا ملائم دین عیسائی ہو گیا۔ بعد میں یہی لڑکا اس سکول میں ۱۸۶۷ء تک مدرس رہا۔۱۸۶۲ء میں کرم الہیٰ فارسی کے استاد تھے۔ محمد اسماعیل انگریزی پڑھاتے تھے۔ اکتوبر ۱۸۶۲ء میں اسماعیل سکاچ مشن سکول وزیر آباد تبدیل ہو گئے۔۱۸۶۵ء میں سکول اپر پرائمری سے مڈل درجہ تک ہو گیا۔اور اینگلو ورنیکلر مڈل سکول کہلانے لگا۔ روزانہ حاضر طلباء کی اوسط ۵۵ تھی۔طلباء سے کل دو روپیہ ماہوار فیس وصول کی جاتی تھی۔ جب کہ ماہوار اخراجات ۶۲ روپے تھے۔ ۱۸۶۷ء میں بابو عزیز اللہ سکول کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے۔اگلے سال نصر اللہ نے ان کی جگہ لے لی۔نصر اللہ انگریزی کے استاد تھے۔ ۱۸۷۰ء میں پنڈت پالا مل ہیڈ ماسٹر ہوئے۔۱۸۷۱ء میں حکومت پچاس روپے امداد دینے لگی۔ ۱۸۷۹ء میں محکمہ تعلیم نے دوبارہ سکولوں کو منظم کیا تو صدرکا یہ سکول پرائمری سکول رہ گیا۔ پانچویں جماعت پاس کرنے والے لڑکے سکاچ مشن سکول سٹی چلے گئے۔ اساتذہ کی تعداد میں کمی کر دی گئی۔ ۱۸۸۰ء میں ہیڈ ماسٹر پالا مل کے ساتھ دو مسیحی استاد رامول اور امام دین تھے۔ ان کے علاوہ دو غیر مسیحی استاد تھے۔ یہاں عوام کے مزاج کے مطابق لڑکوں کو تعلیم دی جاتی تھی۔ فوج کے افسروں کے ملازم لڑکے اور صدربازار کے دوکانداروں کے لڑکے یہاں پڑھتے تھے۔ چھاؤنی میں نئے آنے والے فوجیوں کے لڑکے بھی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ان تمام لڑکوں کو ان کے والدین کے پیشوں کی مناسبت سے تعلیم دی جاتی تھی۔ یعنی زیادہ سے زیادہ پرائمری تک تعلیم حاصل کرنا ان کے لئے مناسب تھا۔ اسی سال صدر میں مشن کے مقابل مسلمانوں نے ایک سکول کھولا۔ جس کی وجہ سے مشن کے اس سکول میں لڑکوں کی تعداد کم ہو گئی۔ ۸۲۔۱۸۸۱ء میں یہاں ایک سنڈے سکول کھولا گیا۔ اور اس میں ہندو اور مسیحی لڑکوں کو ایک مسیحی استاد اعزازی طور پر پڑھاتا تھا۔ریورنڈ ہارپر عیسائی خواتین کو بائیبل پڑھاتا تھا ۔ پڑھائی کے بعد سکول کے ہال میں ہندو مسلم لڑکے اور عیسائی لڑکے مل کر مذہبی گیت گاتے۔آخر میں مشنری وعظ کرتا۔۱۸۸۳ء میں کرم چند یہاں کا ہیڈ ماسٹر تھا۔ ۱۸۸۴ء میں طلباء کی تعداد ۱۰۶ تھی۔ زیادہ تعداد ہندو طلباء کی تھی۔ اپر پرائمری سکول اسٹینڈرڈ کے امتحان میں چھ طلباء میں سے چار طلباء نے کامیابی حاصل کی۔ لوئر پرائمری میں ۲۰ میں سے ۱۳ طلباء کامیاب ہوئے۔گورنمنٹ انسپکٹر آف سکولز نے ماہ نومبر میں سکول کا معائنہ کرتے ہوئے رپورٹ میں تحریر کیا: Fair work has been done During the year.,, ۱۸۸۶ء میں گوپال چند ایک سال کے لئے سکول کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے۔ ایک سال بعد یعنی ۱۸۹۳ء میں ان کی جگہ پالا مل کو سکول کا ہیڈ ماسٹر مقرر کر دیا گیا۔۱۸۹۵ء میں الیگزینڈر مارکس ہیڈ ماسٹر کی حیثیت سے تشریف لائے۔ اپریل ۱۹۴۰ء میں یہ سکول ہائی ہوا۔ موجودہ صدی میں یہاں کے ہیڈ ماسٹر صاحبان کے نام،ادوار اور تنخواہیں ملاحظہ ہوں۔۶۸؎ ۱۔ آر ،بی،فرینکلن جنوری ۱۹۰۸ء تنخواہ بیس روپے ۲ لالہ لچھمن داس جولائی ۱۹۰۸ء سے دسمبر ۱۹۱۲ء تک تنخواہ پچاس روپے ۳ آئی ،سی حپڑ جی جنوری ۱۹۱۳ء سے ستمبر ۱۹۱۳ء تک تنخواہ ۶۵ روپے ۴ شیخ عطا اللہ اکتوبر ۱۹۱۳ء سے مارچ ۱۹۱۹ء تک تنخواہ ستر روپے ۵ لالہ سنت رام ڈھینگر اپریل ۱۹۱۹ء سے مارچ ۱۹۳۷ء تک تنخواہ ۹۵ روپے ۶ ہتا رام رائے اپریل۱۹۳۷ء ۱۹ء سے دسمبر ۱۹۳۹ء تک تنخواہ ۱۳۲ روپے ۷ این،ایس،میسی،میسیس،میسی جنوری ۱۹۴۰ء اگست ۱۹۵۲ء تنخواہ ایک سوپچیس روپے ۲۔سکاچ مشن ہائی سکول سٹی ۶۹ امریکن مشن نے شہر میںاپنا سکول ستمبر ۱۸۷۴ء میں بند کر دیا۔۔سکاچ مشن نے اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا سکول قائم کر لیا۔ حکومت نے بھی سابقہ امداد بحال رکھی۔ انسپکٹر آف سکولز مسٹر سی ،پیرسن کی رپورٹ بابت ۱۸ دسمبر ۱۸۵۶ء کے مطابق ایک سولڑکے یہاں پڑھتے تھے۔ ان میں سے بیس لڑکے انگریزی کے طالب علم تھے۔ طلباء کی تعداد اس طرح تھی، پہلی جماعت ۱۹ دوسری جماعت ۲۲ تیسری جماعت ۱۵ چوتھی جماعت ۱۱ پانچویں جماعت ۲۲ طلبا کی اوسط حاضری ۸۰ تھی۔ سکول کا وقت صبح دس بجے سے چار بجے تک کا تھا۔ انگریزی کی جماعت تسلی بخش تھی۔ لیکن شعبہ ورنیکلر غیر تسلی بخش تھا۔طلباء میں ڈسپلن کا فقدان تھا۔حکومت کے معیار پر نہیں تھا۔ ۳۱ دسمبر ۱۸۶۷ء کو مسٹر سی، پیرسن نے سکول کا معائنہ کرتے ہوئے لکھا:۔ 1v CLASS ,4 BOYS read and explain 1v BOOK.write Didtation .read, AKHLAQ.I.Mushani. work arth matic,and compound rules.. answer Questions in waqiat .I.Hind all very fairy. v11 CLASS 10 Boyes read and explain Fairly.write english Dictation neatly ,but not very correctly. can read gulistan fairly 3, belong to alower vernacular class know about the map of asia,all failed in acompouned Division sum. 1x CLASS,4 boys read and spell english fairly from secondbook. work simple multiplication. x CLASS,7 read 1 book and spell though not very well, in the vernacular shool (exclusive of the boys of the v1 ,v11 english classes) 11 boys can read and write easy persian Dictation neatly and correctly. There are 92 boys on the roll of the average attendance for the month is 75.The school has been reorganised s, now costs 150> per mensum in place of RS =!oo = it is still not much more ,better than i have yet seen and promises to do well. سکول کی کار کردگی کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت نے شہر کا اپنا ایک ضلع سکول یکم مئی ۱۸۶۸ء کو سکاچ مشن کے سپرد کر دیا۔ مشن نے حکومت سے دو ہزار روپے میں سکول کی وسیع وعریض عمارت بھی خرید لی۔اس طرح اب شہر کا پورا نظام تعلیم سکاچ مشن کے ہاتھوں میں تھا۔ ابتدائی جماعت ہی سے بائیبل کی تعلیم لازمی تھی۔ نصابی کتب اس قسم کی تھیں،جن سے دین مسیح کی تعلیم واشاعت اجاگر ہوتی تھی۔ مشن نے اپنے سکول اور ضلع سکول کو مدغم کر لیا اور ایک سکول قائم کیا۔اس سکول کے ہیڈ ماسٹر محمد اسماعیل مقرر ہوئے۔ ۲۴ ستمبر ۱۸۶۸ء کو انسپکٹر آف سکولز نے معائنہ کرتے ہوئے لکھا:۔ This school formely the zila School,was Transferred to the mission on the faist may last.the missinary teaches three hours a day.The head master is mouhammad ismail late head master of the zila school at NURPUR.there reside 9 teachers some of whom are employed in the two branch of shool, the Details of my examination will show what subjects require attuntion, class 111 ,3 read and explain Entrance course, english Dictation = Good Arith matic = Good CLASS v and 4 ,read 11 english book fairly,pronun clation incorrectly by four,but they had not seen the lesson before, english Dictation .. Good except from one , CLASS v11,1o english Dictation from old lesson bad,expect from 2 boys,english reading three book Satisfactory, Artih matic compound long Division right by two boys only,and badly done by most,They use Hindustani ftgures, read Bostan fairly well,but they appear not to have been well taught. CLASS V!!!,9 read and spell 111 madras Book not very well, on the whole school seems to be in a very Satisfactory Stage and liklely to improve,But it appears to be that amore comptant and also for english in the v111 ۳۰ جنوری ۱۸۶۹ء کو مسٹر پیٹر سن نے ہیڈ ماسٹر محمد اسماعیل کے متعلق لکھا:۔ ’’i Think it would be impossible to find more efficient mangers than the mission who have had charge,or ,a better . Head master than muhamm ad ismail, اس سال کلکتہ کے بشپ نے سکول کا معائنہ کیا۔نصاب میں کرسچین ورنیکلر ایجو کیشن کی کتب پڑھائی جاتی تھیں۔ دسمبر ۱۸۷۹ء میں سکول درج ذیل سٹاف پر مشتمل تھا۔ ہیڈ ماسٹر : محمد اسماعیل سیکنڈ ماسٹر : مولوی غلام محمد جونئیر انگلش ماسٹر :۔ بابو گنپت رائے پرشین ٹیچر ؛ منشی کاشی ناتھ عربی ٹیچر : مولوی میر حسن اور چھ اسٹنٹ۔ ۱۸۷۱ء میں اسکول ہائی درجہ پر ترقی پا گیا۔ اسکول کو نئے سرے سے منظم کیا،فیسوں کا نیا نظام مقرر کیا۔ نصابی کتب کی پرانی سیریز کو ختم کرکے نئی اور مفید سیریز شروع کی گئی۔ یہاں تک کہ آہستہ آہستہ کلکتہ کے مشنری اداروں کا نصاب رائج ہوا۔ابتداء میں ان تبدیلیوں میں کچھ مشکلات پیش آئیں۔ چند لڑکے بھی چھوڑ کر چلے گئے۔لیکن بہت جلد ان مشکلات پر قابو پا لیا گیا۔ ۳۱ مارچ ۱۸۷۸ء کو ۱۲۸ لڑکے یہاں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ہائی کلاسیں یعنی نویں اور دسویں جماعتیں ایک عیسائی منتظم برج لال سیکنڈ ماسٹر کے تحت کی گئیں۔ سکول میں سب لڑکوں کو نصف گھنٹہ بائیبل پڑھائی جاتی تھی۔ کچھ لڑکے پنجاب یونیورسٹی کالج کا امتحان دیتے تھے۔اور کچھ کلکتہ یونیورسٹی کا، ۱۸۷۲ء میں پہلی بار یہاں کے ۴ لڑکوں نے کلکتہ یونیورسٹی کا امتحان دیا، لیکن کوئی لڑکا کامیاب نہ ہو سکا۔یہ سب انگریزی میں فیل ہوئے۔چاروں تاریخ جغرافیہ میں بھی ناکام رہے۔ تین لڑکے ریاضی میں فیل ہوئے۔ ان چاروں لڑکوں نے پنجاب یونیورسٹی کے تحت انٹرس کا امتحان دیا۔ ان میں احمد ھسن اور ہری چند کامیاب ہوئے۔ ۱۸۷۲ء میں اے،ایم ایمرسن سکول کے نئے ہیڈ ماسٹر صاحب آئے۔حکومت نے مالی امداد ایک سوستر روپیہ کر دی۔ پہلے سکول سے باہر کے لوگ لڑکوں کو بائیبل پڑھایا کرتے تھے۔ ۱۸۷۳ء میں اسکول کے تین انگریزی کے اساتذہ کے سپرد بائیبل کی تعلیم کر دی گئی۔ کلکتہ یونیورسٹی کا انٹرس کا امتحان دینے والی جماعت ہیڈ ماسٹر ایمرسن کے تحت کر دی گئی۔ اس بار صرف ایک لڑکے نے انٹرس کا امتحان دیا،لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکا۔پنجاب یونیورسٹی کالج کے تحت کسی نے امتحان نہ دیا۔اس جماعت کو مشنری سربراہ جے،پی،لینگ بائیبل پڑھایاکرتے تھے۔ ۱۸۷۲ء کی ایک رپورٹ میں لینگ کہتے ہیں : All the children in this school,as in all our school,even in the lowest forms, are instructed daily in religious truth,and one are request,i have made the teachers is, that they not merely teach the Bi ble as a class book, but show their pupils how God s ,truth,which itformally proclaims is to be found too in Secular Books they read, and how they all which is sweet and cheer ful on earth is the product of that love which brought Christ in to the world to save them and all men,’’ بائیبل کے علاوہ دوسری دینی کتب بھی پڑھائی جاتی تھیں۔ اسی رپورٹ میں میر حسن کے متعلق کہا گیا ہے :۔ our oriental literature under Molvi Mir Hasan we are,i think justly proud of, He is by for the best and most thorough teacher i ever met waith and it, is not long before the pupil cathes his enthusiasm for Arabic philosophy and persain poetry. حصہ مڈل برج لال کے تحت تھا۔اس سال سکول کے ماہوار اخراجات یہ تھے۔ میجر : ۵۰ روپے ہیڈ ماسٹر: ۱۰۰ روپے سیکنڈ ہیڈ ماسٹر : ۵۲ روپے ہیڈ اورنٹئیل ٹیچر ۲۵ روپے سیکنڈ اورنٹئیل ٹیچر ۲۵ روپے تھرڈ اورئنٹیل ٹیچر ۱۵ روپے فورتھ اورنٹئیل ٹیچر ۱۰ روپے مشن کی یہ انتہائی کوشش رہی کہ سکول میں زیادہ سے زیادہ مسیحی اساتذہ کو ملازم رکھا جائے۔غیر مسیحی اساتذہ کی تعداد کو کم سے کم کیا جائے۔دو سال پیشتر آٹھ اساتذہ میں دومسیحی اساتذہ تھے۔ ۱۸۷۴ء میں چار مسیحی اور پانچ غیر مسیحی اساتذہ تھے۔طلباء کی تعداد ۱۳۲،اس سال چار لڑکوں نے کلکتہ یونیورسٹی میں انٹرس کا امتحان دیا،چاروں کامیاب ہوئے۔ان لڑکوں نے پنجاب یونیورسٹی کالج کا امتحان بھی دیا۔ ان میں ایک فیل ہوا۔ تین کامیاب ہوئے۔کامیاب ہونے والے دت مل،چڑت سنگھ اور غلام علی تھے۔۱۸۷۵ء میں طلباء کی تعداد ۱۵۱ تھی۔ طلباء کے لئے کلکتہ یونورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی کالج کا امتحان دینا ضروری قرار دے دیا گیا تھا۔ ۱۸۷۵ء میں سکاچ مشن سکول اور امریکن مشن سکول یکجا کرنے کی تجویز پیش ہوئی ۔لیکن ناکامی ہوئی۔اس سال کسی لڑکے نے انٹرس کا امتحان نہ دیا۔ ۱۸۷۶ء میں مسٹر ہزیکیہ ڈیوڈ ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے۔اس سال سکول کے دو لڑکوں نے کلکتہ یونیورسٹی کا انٹرس کا امتحان دیا۔ دونوں ناکام رہے۔پنجاب یونیورسٹی کالج کے امتحان انٹرس کے امتحان میں غلام محمد اور قمر الدین نے کامیابی حاصل کر لی۔ ۲۷ فروری ۸۷۷اء کو سکول کے ایک طالب علم امام الدین نے مسیحیت قبول کی۔ وہ آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ اور شہر کے زرگر کا لڑکا تھا۔ اس موقع پر کئی لوگوں نے اپنے بچوں کو سکول سے اٹھا لیا۔ کئی لڑکے امریکن مشن سکول چلے گئے۔ ہندوؤں نے اپنا ایک الگ سکول کھول لیا۔ سکول میں لڑکوں کو مدراس سیریز کی کتب نصاب میں پڑھائی جاتی تھیں۔نومبر ۱۸۷۷ء میں پنجاب یونیورسٹی کالج کے تحت مڈل اور انٹرس کے سالانہ امتحان نہ ہوئے۔کیونکہ ان امتحانوں کو ماہ اپریل میں ہونا قرار پایا تھا۔پانچ لڑکوں نے انٹرس کا امتحان کلکتہ یونیورسٹی کے تحت ماہ نومبر میں۱۸۷۷ء میں دیا۔صرف دو لڑکے کامیاب ہوئے وجہ یہ تھی کہ ان لڑکوں کا امتحان دینے کا آخری موقعہ تھا۔ ۱۸۷۸ء میں پنجاب یونیورسٹی کالج سے ان پانچ لڑکوں نے انٹرس کاامتحان پاس کیا۔سچیت سنگھ ،ہیرا لال، رام جی داس ،مولا مل، اور محمد حنیف ۱۸۸۰ء میںچار لڑکوں نے کلکتہ یونیورسٹی کا امتحان دیا۔ لیکن سب ناکام رہے۔ پنجاب یونیورسٹی کالج سے صرف ایک لڑکے نے امتحان دیا ، لیکن وہ بھی کامیاب نہ ہوسکا۔ ۱۸۸۱ء میں طلباء کی تعداد ۴۶۲ تھی۔ جب کہ گزشتہ برس یہ تعداد ۳۷۰ تھی۔ ۱۸۸۲ء میں ایک اور لڑکے نے پنجاب یونیورسٹی کالج کا امتحان دیا اور کامیاب ہوگیا۔ میونسپل کمیٹی ضلع سکول کو ۱۹ روپے ماہوار مالی امداد دیتی تھی۔ سکاچ نے جب سکول اپنی تحویل میں لیا تو اتنی ہی امداد جاری رہی۔ ۱۸۸۲ء میں امداد ۴۰ روپے ماہوار ہو گئی۔ ۱۸۸۲ء اور اس کے بعد پنجاب طلباء نے کلکتہ یونیورسٹی میں انٹرس کا امتحان دینے کا سلسلہ بند کر دیا، کیونکہ لاہور میں ۱۴ اکتوبر ۱۸۸۲ء کو پنجاب یونیورسٹی معرض وجود میں آگئی تھی۔ اب یہاں کے لڑکے صرف پنجاب یونیورسٹی کا امتحان دینے کے پابند تھے۔ ۱۸۸۳ء میںپنجاب یونیورسٹی کے تحت چار لڑکوں نے انٹرس کا امتحان پاس کیا۔پاس ہونے والے خورشید احمد، مکند لال، گلاب دین اور نرنجن داس تھے۔ ہر سال لڑکوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ جگہ کی قلت محسوس ہوئی،مقامی انگریزوں نے تگ ودو سے ڈسٹرکٹ کمیٹی نے میو نسپل کمیٹی کے ساتھ مل کر دو کمروں کی تعمیر کے لئے دو ہزار روپے اضافی دینا منظور کیا۔اس رقم سے ۱۵ضرب ۲۰ فٹ کے تین کمروں کی تعمیر ہو سکے گی۔حکومت نے ایک اور منصوبہ پیش کیا جو زیادہ بہتر تھا۔ اس کے لئے ۳۶۰۰ روپے کی ضرورت تھی۔ اگر حکومت اپنی جانب سے ایک ہزار روپے کی خصوصی امداد دے تو یہ منصوبہ مکمل ہو سکتا تھا۔۱۸۸۷ء میں حکومت نے ایک ہزار روپے کی خصوصی امداد دے دی۔ اتنی ہی رقم ہوم کمیٹی نے فراہم کی،اس طرح مطلوبہ کمرے تعمیر کر لیے گئے۔ اس سال لڑکوں کی تعداد میں خاصی کمی واقع ہو گئی۔اس کی دو وجوہات تھیں۔پہلی وجہ تو شہر میں میونسپل بورڈ کے سکول کا قیام تھا۔اور دوسری وجہ فیسوں میں اضافہ تھا۔ ۸۹۔۱۸۸۸ء میں پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر سر الفریڈ لائل نے سکول کا معائنہ کیا اور سکول کی کار کردگی سے متاثر ہوا۔ گورنر نے کہا،: Much pleased with all he had heard and i seen of it, ۱۸۹۱ء میں سکول کے ہیڈ ماسٹر نرسنگ داس تھے۔ دو ہوسٹل تھے، ایک ہوسٹل میں ۲۷ ہندو تھے۔ اور دوسرے میں ۱۳ مسلمان ہوسٹل کے سپرنٹنڈنٹ جارج واخ تھے۔ اگست میں طلباء کی تعداد اس طرح تھی۔ پہلی جماعت ۶۰ دوسری جماعت ۳۹ تیسری جماعت ۳۷ تیسری جماعت اسپیشل ۳۱ چوتھی جماعت ۴۷ پانچویں جماعت ۴۳ میزان = ۲۵۷ سیکنڈری ڈیپارٹمنٹ چھٹی جماعت سپیشل ۱۷ چھٹی جماعت ۴۶ ساتویں جماعت ۳۳ آٹھویں جماعت ۳۱ نویں جماعت ۲۱ دسویں جماعت ۳ میزان=۱۶۱ اس سال نو لڑکوں نے انٹرس کا امتحان دیا ۔صرف دو کامیاب ہوئے،فیل ہونے والوں کی تفصیل یہ ہے:۔ حساب میں ۵ فیل ہوئے۔انگریزی=۱ عربی =۱ تاریخ وجغرافیہ = 3 ۹۳۔۱۸۹۲ء میں تین بر آمدے تعمیر کیے گئے۔ ان میں ایک سولڑکوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔۱۸۹۵ء میں ۲۰ طلباء نے انٹرس کا امتحان دیا۔تین طلباء نے وظیفہ حاصل کیا۔ اس طرح پنجاب میں یہ سکول اول رہا۔ ستمبر۱۸۹۳ء میں مڈل اور ہائی جماعتوں کو پڑھانے والے اساتذہ یہ تھے۔: نرنجن داس ہیڈ ماسٹر: دسویں جماعت کو انگریزی تاریخ نویں جماعت کو انگریزی پڑھائی آٹھویں جماعت کو انگریزی ہرنام سنگھ: دسویں جماعت کو ریاضی،سائنس ،جغرافیہ، آٹھویں جماعت کو انگریزی مولوی سید میر حسن ، آٹھویں جماعت کو اردو ،فارسی،نویں جماعت کو عربی ،فارسی ،دسویں جماعت کو عربی ،فارسی جگن ناتھ نویں جماعت کو انگریزی ترجمہ اردو سے انگریزی میں، ساتویں جماعت کو انگریزی ،پانچویں جماعت کو انگریزی سکول کی باقاعدہ ایک ادبی تنظیم (لٹریری) سو سائٹی تھی۔کالج کے طلباء بھی اسی ایک سوسائٹی سے وابستہ تھے۔ جمعہ کے روز اس کا اجلاس منعقد ہوتا تھا،اور ہر کاروائی ضبط تحریر میں لائی جاتی تھی۔ سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحبان اور ان کے ادوار ملاحظہ ہوں۔ ۱۔محمد اسماعیل ۱۸۶۷ء ۱۸۷۰ء ۲، ریورنڈ جے پی لینگ ۱۸۷۰ء ۱۸۷۱ء ۳،اے،ایم، ایمرسن ۱۸۷۳ء ۱۸۷۴ء ۴۔ہزیکیہ ڈیوڈ ۱۸۷۶ء ۱۸۸۲ء ۵،ٹہل سنگھ ۱۸۸۳ء ۱۸۸۶ء ۶،پربھو داس سنگھ ۱۸۸۷ء ۱۸۸۸ء ۷۔سیموئیل رابرٹس ۱۸۸۹ء ۱۸۹۰ء ۸،لالہ نرسنگھ داس بی ،اے ۱۸۹۱ء ۹،لالہ جگن ناتھ ۱۸۹۲ء ۱۸۹۳ء ۱۰ لالہ نرنجن داس ۱۸۹۳ء ۱۸۹۴ء ۱۱،لالہ جگن ناتھ ۱۸۹۴ء ۱۸۹۵ء ۱۲ جے اسماعیل ۱۸۹۶ء یہ ریورنڈ اسمعیل کا لڑکا تھا ۱۳،ہرنام سنگھ ۱۹۰۱ء ۱۴،لالہ جگن ناتھ ۱۹۰۹ء ۱۵امر ناتھ وڈہرہ ۱۹۱۰ء مئی ۱۹۲۱ء ۱۶،پنڈت بہاری لال جون ۱۹۲۱ء ۱۹۴۷ ۳۔سکاچ مشن کالج سیالکوٹ میں سکاچ مشن ہائی سکول اور امریکن مشن ہائی سکول طلباء کو انٹرس تک تعلیم دیتے تھے۔کالج سطح تک کوئی بندوبست نہ تھا۔لاہور میں گورنمنٹ کالج موجود تھا۔ مشن کالج لاہور (فار من کرسچین کالج) ۱۸۶۹ء میں بند ہو چکا تھا۷۰؎ کیونکہ کالج سیکشن کے انچارج مسٹر ہنری ۱۸۶۹ء میں انتقال کر چکے تھے۔ ۱۸۸۲ء میں لاہور میں پنجاب یونیورسٹی قائم ہو چکی تھی۔ اس لیے ایک پرائیویٹ کالج کی کمی بڑی شدت سے محسوس کی جانے لگی تھی۔ دوسرے مشنوں سے منسلک لوگوں نے سکاچ مشن کے پادریوں کو پنجاب کے لیے لاہور میں ایک کالج کھولنے کی استدعا کی۔ ۸۲۔۱۸۸۱ء میں ایک صاحب ثروت سکھ نے کالج کے قیام کے لئے اڑھائی ہزار پونڈ کی مالی مدد دینے کی پیش کش کی۔ سکاچ مشن کی فارن کمیٹی نے اس استدعا اور پیش کش کو قبول کرنے سے معذوری ظاہر کی ۔۷۱؎ ۱۸۸۸ء میں حکموت پنجاب نے سیالکوٹ میں ایک کالج کھولنے کی خواہش کا اظہار کیا۔۷۲؎ سکاچ مشن کو کالج قائم کرنے کی پیش کش کی گئی۔لیفٹیننٹ گورنر پنجاب سر جیمز لائل نے میو نسپل بورڈ سیالکوٹ کے بجٹ ۱۸۸۹ ء سے کالج کے لیے کچھ رقم بھی مخصوص کردی۔۷۳؎ مئی ۱۸۸۹ء میں سکاچ مشن نے سیالکوٹ میں سکاچ مشن ہائی سکول سٹی کی عمارت ہی کالج کی پہلی جماعت یعنی فرسٹ ایر کی ابتدا کر دی۔بارہ لڑکوں سے ابتداء ہوئی۔۷۴؎ ریورنڈ جے ڈبلیو نیگسن کالج کے پہلے پرنسپل مقرر ہوئے،کالج کا اسٹاف ڈاکٹر نیگسن کے علاوہ نرنجن داس، ہرنام ،سنگھ اور مولوی سید میر حسن پر مشتمل تھا۔۷۵؎ مضامین انگریزی، فلاسفی، ریاضی، کیمسٹری، فزکس اور عربی ،فارسی، پڑھائے جاتے تھے۔۷۶؎ یعنی ڈاکٹر ینگسن انگریزی ،فلاسفہ لالہ نرنجن داس ریاضی لالہ ہرنام سنگھ کیمسٹری اور فزکس مولوی سید میر حسن عربی اور فارسی کالج کے طلباء کے لئے دو ہوسٹل بھی شہر میں کرایہ پر لے لیے گئے۔۱۸۹۰ء میں فرسٹ ایر کے طلباء سیکنڈ ایر میں ترقی پا گئے۔اور اس طرح ۱۸۹۰ء میںسکاچ مشن کالج مکمل طور پر قائم ہو گیا۔ ۱۸۹۱ء میں پہلی بار اس کالج کے طلباء نے پنجاب یونورسٹی لاہور کا انٹرمیڈیٹ کا امتحان دیا۔ گیارہ لڑکوں میں سے سات لڑکوں نے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔یہ نتیجہ بڑا حوصلہ افزا تھا۔ سکاچ مشن کے ارباب اختیار نے کالج کے پہلے نتائج کو قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ کالج سے منسلک اساتذہ کی علمیت اور قابلیت کا کھلے دل سے اعتراف کیا گیا۔ شہریوں نے بھی کالج کی کار کردگی کی بڑی تعریف کی۔ تیسرے سال سسنسکرت کی تعلیم بھی کالج میں دی جانے لگی۔ اس کے لیے پنڈت تیرتھ رام کا تقرر ہوا۔ ۱۰ مارچ ۱۸۹۳ء کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہائی سکول اور کالج کے طلباء پر مشتمل ایک لٹریری سوسائٹی بھی تھی۔ فرسٹ ایر میں گیارہ لڑکے تھے۔ایک ڈیبیٹنگ کلب بھی تھا۔(Debating) اس کا اجلاس جمعہ کے روز ہوتا تھا۔اجلاس کی کاروائی باقاعدہ ضبط تحریر میں لائی جاتی تھی۔اساتذہ طلباء کی رہنما ئی کرتے تھے۔۷۷؎ ۲۰ سال تک ہائی سکول اور کالج کی کلاسیں ایک جگہ لگتی رہیں۷۸؎۔ ۱۹۰۱ء میں کالج کے لئے نئے کمرے تعمیر کیے گئے۔ ۲۳ اپریل ۱۹۰۱ء کو ان کمروں کی رسم افتتاحی ادا کی گئی۔ اس تقریب کا آنکھوں دیکھا حال ملاحظہ ہو:۔۷۹؎ ۲۳ اپریل کو صبح ساڑھے سات بجے سکاچ مشن سیالکوٹ میں کالج مذکور کے نئے کمروں کی افتتاحی رسم ادا کرنے کا جلسہ بڑی دھوم دھام سے ہوا۔صاحب ڈپٹی کمشنر اور صاحب سیشن جج بہادر کے علاوہ دیگر صاحبان یورپین مع لیڈی صاحبان اور صاحبان ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر بہادر، وتحصیل دار صاحبان ووکلا، ومختاران وممبر میونسپلٹی ودیگر معززین وشرفاء وایڈیٹران اخبار وغیرہ شریکک جلسہ تھے۔چوکیاں اور بنچیں اور دریاں بڑے قرینے سے بچھائی گئی تھیں۔ جب سب صاحبان تشریف لا چکے تو اول پادری جارج واخ صاحب ایم،اے ،بی،ڈی پرنسپل سکاچ مشن کالج سیالکوٹ نے استادہ ہو کر انجیل کا وعظ کیا۔ بعد ازاں پادری ینگسن صاحب ایم،اے نے دعا مانگی۔اور ان کے بعد پھر پادری داخ صاحب نے سکول کی مفصل رپورٹ انگریزی میں پڑھ کر سنائی۔ جس کا ترجمہ ماسٹر ہرنام سنگھ صاحب بی،اے ،ہیڈ ماسٹر سکاچ مشن کالج، سکول سیالکوٹ نے سنایا۔ ان کے بعد مولوی نیاز علی صاحب بی،اے،ڈسٹرکٹ انسپکٹرس مدارس ضلع سیالکوٹ۸۰؎ نے اردو میں بڑی برجستہ اور مدلل تقریر کی۔جن کے بعد منشی میراں بخش صاحب جلوہ سیالکوٹی نے مندرجہ ذیل نظم پڑھی۔بعد ازاں صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے ایک فصیح وبلیغ تقریر کے بعد کالج کے نئے کمروں کی رسم افتتاحی دست مبارک سے فرمائی۔اور جلسہ برخاست ہوا۔ پادری واخ صاحب کی تقریر کا خلاصہ اور جلوہ سیالکوٹی کی نظم درج ذیل میں ہے۔ تقریر پادری واخ صاحب:۔ ’’ اس کالج میں پانچ ہروفیسر صاحبان کام کرتے ہیں۔آٹھ مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔باراں سال میں ۲۰۵ طلباء داخل ہوئے۔جن میں سے بہت سے اپنا کورس مکمل ہونے سے پہلے چلے گئے۔مگر ۵۷ طالب علم امتحان ایف ،اے میں پاس ہو چکے ہیں۔نتیجہ پنجاب کے اور کالجوں کے برابر رہا ہے۔پہلے طلباء میں سے ۲۱ بی ،اے۔تین ایم،اے اور دو ایل ایل بی کا امتحان پاس کر چکے ہیں۔جن میں سے بعض اب اعلیٰ عہدوں پر ممتاز ہیں۔تین اسٹنٹ پروفیسر ہیں۔تین وکیل ہیں اور ایک منصف،ایک اسٹنٹ سرجن ہے اور ۱۸ مدرس ہیں،جن میں سے ایک ہائی سکول کا ہیڈ ماسٹر ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے ایف ،اے کے امتحان میں چار دفعہ ہمارے طلباء میں سے کوئی نہ کوئی ایک خاص مضمون میں اول رہا ہے۔ ۱۸ طلباء کو سرکاری وظیفہ ملا ہے۔ کالج کا خرچہ مشن کے فنڈ یا فیس سے ہوتا ہے۔اور پچاس روپیہ بطور امدادمیونسپلٹی اور ڈسٹرکٹ بورڈ سے ملتی ہے۔اور ۲۶ طلباء کو لوکل وظائف سے امداد ملتی ہے۔ کالج اور ہائی سکول کے متعلق ایک لائبریری ہے۔ جس میں ۵۶۰ کتابیں ہیں۔اور ایک لٹریری سوسائٹی جس میں موسم سرما میں ہفتہ وار لیکچر دیئے جاتے ہیں۔ اور بحث ومباحثہ ہوتا ہے۔ نظم جلوہ صاحب :۔ کروں پہلے تعریف رب کریم کہ ہے ذات اس کی غفور رحیم ازاں بعد ہیں جس قدر انبیاء میں ہر اک کی کرتا ہوں دل سے ثناء یاں جس قدر بیٹھے ہیں حاضرین ہیں سب قابل مدحت وآفرین جو صاحب ہیں ٹالنٹن باکمال وہ ڈپٹی کمشنر ہیں فرخندہ فال وہ ہیں ان دنوں ضلع کے حکمران عدالت میں بے شک ہیں نوشیروان گئے بھاگ ہیں ان کے ڈر سے شریر ثنا خوان ہیں ان کے کبیر وصغیر عدالت سے ان کی ہر اک شاد ہے ضلع امن سے خوب آباد ہے ہیں صاحب سیشن جج عالی تبار سدا خوش رہے ان پر پروردگار بہت سوہڈی صاحب ہیں فرخندہ فر وہ ہیں صدر منصف خجستہ سیر وہ سب جج مشہور آفاق ہیں پسندیدہ سب ان کے اخلاق ہیں ولی شاہ ہیں اک فرشتہ اثر ہیں سلطان احمد بھی بس نامور ملائک صفت ہیں ملک مغل خان ہمیشہ خدا ان پہ ہے مہربان وہ سردار ہیں چڑت سنگھ باوفا ہوا ضلع میں ان کا شہرہ بڑا ہیں تحصیل منصف بڑے نیک خو کرے ان کی پوری خدا آرزو بہت نیک نیت ہیں تحصیل دار وہ نائب بھی ان کے ہیں پرہیز گار ہوئے ہیں اکٹھے یہ سب ہم صلاح کہ جلسہ خوشی سے کریں افتتاح بنے ہیں جو کالج کے کمرے نئے کہ ہیں آج کے دن وہ کھولے گئے اس واسطے ہے یہ جلسہ ہوا ہر اک اس کے لیے بولایا گیا یہ ہے پادری داخ صاحب کاکام ولایت تلک پایا کالج نے نام ہیں ہر نام سنگھ ماسٹر خوش نہاد یہ کالج ہے ان کے سبب سے آباد خصوصا جو ہیں مولوی میر حسن کہ ہے ختم تعلیم کا ان پہ فن غرض سارے استاد ہیں نیک نام جبھی خوب چلتا ہے کالج کا نام ہوا جب سے قائم ہے کالج یہاں نظر آتے ہیں لوگ سب شاد مان بہت مشن کے لوگ مشکور ہیں کہ کالج کے بننے سے مسرور ہیں دعا کیجیئے مل کے سب حق کے پاس کہ توفیق دے کھولیں بی،اے کلاس کہ تکلیف لاہور جانے میں ہے مصیبت بڑی خرچ اٹھانے میں ہے دعا پر کروں نظم کا اختتام کہ جلوہ فزا ہو یہ محفل مدام ۱۹۰۹ء میں کالج کی ایک باقاعدہ عمارت تعمیر کی گئی۔کیپٹن مرے مرحوم کے ورثاء نے پندرہ سوپونڈ کالج کی تعمیر کے لئے دیئے۸۱؎ ۲۰ اکتوبر ۱۹۰۹ء کو پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر سر لوئی ڈین (Luis Dane) نے اس نئی عمارت کا افتتاح کیا۔۸۲؎ ۱۔ریورنڈ ڈاکٹر جان ینگسن ۱۸۸۹ء ۱۸۹۰ء ۲۔ریورنڈ جارج داخ ۱۸۹۱ء ۳۔ریورنڈ ڈاکٹر جان ینگسن ۱۸۹۲ء ۱۸۹۳ء ۔۱۸۹۴ء ۴۔ریورنڈ جارج واخ ۱۸۹۴ء ۱۹۱۴ء تک ۵۔ریورنڈ ولیم اسکاٹ ۱۹۱۴ء سے ۱۹۲۳ء تک ۶۔ریورنڈ جان گیرٹ ۱۹۲۳ء ۱۹۴۵ء ۴۔ سٹی برانچ سکول سیالکوٹ شہر کے شمال میں سکاچ مشن نے ۱۸۶۸ء میں ایک برانچ سکول قائم کیا۸۳؎۔ میجر مرسر سے عمارت کرایہ پر لے کر سکول کا آغاز کیا۔۸۴؎ ۔ابتداء میں یہاں ساٹھ لڑکے داخل ہوئے۔ سکول کے ہیڈ ماسٹر محمد علی تھے ،جو دس روپے مشاہرہ پاتے تھے۔۱۸۶۹ء میں طلباء کی تعداد پچاس ہو گئی۔ انسپکٹر آف سکولز نے ۳۰ جون ۱۸۶۹ء کو سکول کا معائنہ کیا ۔اور اپنے تاثرات لکھے کہ:۔ The school not be considred Satisfactory,if taught by a village,teacher on RS = 10.,, ido,nt think the mission should remain content to spend ,30\ rupees amonth on it,it appears to me that Muhammad Ali continues to do next to nothing,beyond whwt he used to do when he was aprivate matser at the Masjid ,, 85؎ یہاں ابتدائی دو جماعتیں پڑھائی جاتی تھیں۔یعنی پہلی اور دوسری جماعت،پہلی جماعت کے دو حصے تھے۔ پہلی کچی اور پہلی پکی۔ پہلی کچی کو INFANTکلاس کہا جاتا تھا۔آج کل اسے نرسری کلاس کہتے ہیں۔سکول کو آٹھ روپے ماہوار امداد ملتی تھی۔یہاں گورنمنٹ ورنیکر سکول کا نصاب پڑھایا جاتا تھا۔عموما غرباء کے بچے یہاں پڑھتے تھے۔بچوں کو دین مسیح کی تعلیم یہاں لازمی دی جاتی تھی۔ ۱۸۷۲ء میں طلباء کی تعداد ۱۰۵ تھی۔ریورنڈ جے پی لینگ لینگ اپنی رپورٹ محرر ۲۵ اپریل ۱۸۷۲ء میں لکھتا ہے :۔ There is flourishing branch shool,chifly designed to meet the wants of poor classes and to act as a feeder to the main school..,, اس سال دوران معائنہ انسپکٹر آف سکولز کے اساتذہ کی تعلیمی قابلیت اور طلباء کی تعلیمی استعداد سے بہت خوش ہوا، ۱۸۷۰ء کے قریب سکول کی عمارت بھی نصف قیمت ۲۰ پونڈ میں خرید لی گئی۔ ۱۸۷۴ء میں طلباء سے ۲۲ روپے فیس وصول کی گئی۔ ۱۸۷۵ء میں لڑکوں کی تعداد باسٹھ تھی۔۸۶؎ ۱۸۸۴ء کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۸۸۲ء میں رنگ پورہ میں ایک برانچ سکول موجود تھا۔۸۸؎ ۱۸۶۹ء کی رپورٹ سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ ۱۸۸۲ء میں رنگ پورہ کا برانچ سکول فنڈ نہ ہونے کے باعث بند کر دیا،۸۹؎ اس سکول کے ستر لڑکے دوسری برانچ سکول میں چلے گئے۔جو قلعہ پر واقع تھا۔ قلعہ والے برانچ سکول میں لڑکوں کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوگیا۔ ۱۸۸۴ء میں یہاں لڑکوں کی تعداد ۸۰ تھی۔ ۱۸۸۵ء میں یہ تعداد ۱۱۲ ہو گئی ۹۰؎ اقبال بھی غالبا قلعہ پر برانچ سکول کیINFANTکلاس میں ۱۸۸۳ء میں داخل ہوئے:۔ ۵۔بائیبل سکول سیالکو ٹ کے قرب وجوار کے دیہات میں زمیندار اپریل مئی کے مہینوں میں گندم کی فصل کاٹنے ،گاہنے اور اس کا ذخیری کرنے میں مصروف رہتے تھے۔دیہاتوں میں رہنے والے عیسائی بھی اس میں مشغول رہتے ہوں گے۔لیکن سکاچ مشن کے پادریوں نے ان عیسائی دیہاتیوں کو ان دنوں میں مسیح کی تعلیم دینے کا ایک جامع پروگرام بنایا۔ ۱۸۹۲ء میں ہنٹر پورہ چرچ میں ’’بائیبل سکول ‘‘ کھولا۔ جہاں امریکی وسکاچ مشن کے مبلغین،مدرسین اور دیہات میں رہنے والے عیسائی مردوں اور عورتوں کو بائیبل کی تعلیم دی جاتی تھی۔ ۵ مئی ۱۸۹۳ء کو اس طرح کا ایک اجتماع شروع ہوا۔ جو جون کے پہلے ہفتے تک جاری رہا۔اس دینی اجتماع میں حصہ لینے والوں کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ ۱۔پہلی جماعت ان ضعیف العمر لوگوں پر مشتمل تھی،جو بائیبل تو جانتے تھے اور دیہاتیوں کو اس کی تعلیم دے سکتے تھے۔ لیکن یہ لوگ پڑھ نہیں سکتے تھے۔ ان کا نصاب GENSIS and GOSPELS تھا۔ ۲۔ وہ لوگ جو بائیبل تو پڑھ سکتے تھے لیکن دوسرا دنیاوی علم نہیں رکھتے تھے۔ان کا نصاب ، ACTS ,First Epistle to the s corinthians تھا ۔ ۳۔ وہ لوگ جو فارسی اور اردو پڑھ سکتے تھے ،ان کا نصاب یہ تھا:۔ Judges ,First Epistle to the Corinihians., ۴۔ وہ لوگ جو سب سے زیادہ پڑھ سکتے تھے، ان کا نصاب یہ تھا؛ Epistles to the Galatians and the Herbrews. پہلی اور تیسری جماعت کو ڈاکٹر مارٹن اور مسز مارٹن پڑھاتے تھے۔دوسری اور چوتھی جماعت کو ڈاکٹر ینگسن اور مسٹر فف(Fif)پڑھاتے تھے۔ عیسائی خواتین کو مس مارٹن،مس ولسن اور امس (M,CULLOCH)پڑھاتی تھیں۔ شام کے وقت پہلے دو ہفتہ PADTOR THEOLGY پر مسٹر مورسن اور مسٹر کالڈول نے لیکچر دیئے۔ہفتہ کی صبح کو نتھو مل، ٹھاکر داس اور امام دین شہباز نے لیکچر دیئے۔مہینہ کے آخر میں ان لوگوں کا امتحان لیا جاتا۔اور میرٹ کے لحاظ سے فہرست تیار کی جاتی۔رات کے وقت مذہبی فلم دکھائی جاتی۔ فضل دین پنجابی میں فلم کی تشریح کرتا۔منگل کے روز تقریبا ایک ہزار عیسائی جمع ہوئے اور سب نے مل کر کھانا کھایا۔اس موقع پر ایک میلہ سا لگ گیا،ہر سال یہ دینی اجتماع وتربیتی پروگرام ہوتا۔ انڈسٹریل سکول ۹۲؎ ۱۸۶۳ء کے لگ بھگ سکاچ مشن نے شہر میں ایک انڈسٹریل سکول قائم کیا۔ اس ادارہ کے ذریعے عیسائیت قبول کرنے والے لوگوں کو روزگار کی سہولت فراہم کرنا تھا۔یہاں صابن،تیل،تار پین کا تیل اور موم بتی وغیرہ تیار کرکے فوجیوں کو مہیا کی جاتی تھیں۔ لاہور میں منعقدہ ایک صنعتی میلے (State Fair) میں اس صنعتی سکول کی مصنوعات کو انعام بھی ملاتھا۔ ۱۸۹۴ء سے قبل یہ سکول بند ہو گیا تھا۔ ۴۔لڑکوں کا یتیم خانہ ۱۸۵۶ء کے ایک اجلاس میں سیالکوٹ شہر میں لڑکوں کے لیے ایک یتیم خانہ کھولنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ضلع کے ڈپٹی کمشنر نے ہر ممکنہ تعاون کا یقین دلایا۔اسی عرصہ میں مہلک بخار نے تباہی مچا دی۔ صرف ظفر وال میں گیارہ سو افراد لقمہ اجل ہوئے۔اس واقعہ نے ارادہ کو تقویت دی۔۱۸۵۷ء کے ابتداء میں ۲۲ یتیم بچے جمع کر لیے گئے۔شہریوں نے احتجاج کیا۔ ۱۸۶۲ء میں سکاچ مشن نے سیالکوٹ شہر میں باقاعدہ ایک یتیم خانہ قائم کیا۔ ۱۸۶۶ء میں یتیم لڑکوں کے لئے ایک بڑا سکول عبادت کرنے کا کمرہ، اور سونے کے لئے پانچ کمرے تعمیر کیے۔یتیم لڑکوں کو بابو ملائم دین پڑھاتے تھے۔ پہلی جماعت میں انوار سہیلی،تاریخ ،جغرافیہ ،گرائمر،حساب اور انگریزی پڑھائی جاتی تھی۔دوسری اور تیسری جماعت کے طلباء کو گلستان،جغرافیہ،گرائمر، آسان حساب اور فارسی ریڈر پڑھائی جاتی تھیں۔ ۱۸۶۶ء میں چار نئے یتیم لڑکے داخل کیے گئے۔ ایک لڑکا چل بسا۔ رامول لڑکوں کو دینی اور اخلاقی تعلیم دیتا تھا۔ یہ شخصیتیم خانے کا منتظم بھی تھا۔ریجہہ مل (REJHA MULL) دوسری تعلیم کا انچارج تھا۔ گزشتہ برس یہاں سے ایک لڑکا امرتسر کالج بھیجا گیا۔ جہاں سے اس نے ٹیچرز ڈپلومہ حاصل کرنا تھا۔ اپریل ۱۸۶۸ء میں یتیم بچوں کا انچارج غلام مسیحی انتقال کر گیا۔۱۸۶۹ء کے شروع میں اس ادارے کے حالات بڑے خراب تھے۔ستمبر۱۸۶۹ء میں یہاں لڑکوں کی تعداد صرف نو تھی۔دسمبر میں یہ تعداد ۲۲ ہو گئی۔ برج لال کو منتظم مقرر کیا گیا۔ ایک نیا طریقہ تعلیم رائج کیا گیا،ضبط ونظم بہتر بنایا گیا۔یہاں کا ایک غالیچہ بان (Carpet manfacturer) اس ادارے میں رہنے کے لئے آیا۔ اس نے غالیچہ بنانے کا فن سب لڑکوں کو سکھانے کا وعدہ کیا۔چار پانچ لڑکوں نے اس کام کو سیکھنے میں بڑی دل چسپی کا اظہار کیا۔ سکاچ مشن کے صدر دفتر نے لڑکوں کے اس یتیم خانے کے اخراجات برداشت کرنے سے معذوری ظاہر کی،جس کی وجہ سے ۱۸۷۲ء میں اس ادارے کو بند کرنا پڑا۔اور یہاں کے لڑکوں کو سہارن پور کے یتیم خانے بھیج دیا۔ ۸۔لڑکیوں کا یتیم خانہ ۹۴؎ سکاٹ لینڈ کی خواتین کا ادارہ: Scottish Ladies Association for the Advancement of Female Education in india. ایک الگ اور خود مختار ادارہ ہے۔۱۸۶۱ء میں اس ادارہ نے شہر میں لڑکیوں کے لئے ایک یتیم خانہ کھولا۔ ریورنڈ ٹیلر اور ریورنڈ پیٹرسن کو اس کا نگران مقرر کیا۔ دو برس سے دس برس تک کی عمر کی ۱۵ لڑکیاں اس میں داخل کی گئیں۔جو بہت غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی تھیں۔۱۸۶۶ء میں کلکتہ سے مس ٹونٹی مین (Miss Twenty man)اس یتیم خانہ کی نگران بن کر سیا لکوٹ آئی،اس سال یہاں سترہ لڑکیاں تھیں۔ان کو مسیحیت اور عام تعلیم دی جاتی تھی۔ مس ٹونٹی مین خرابی صحت کی بناء پر اپریل ۱۸۶۷ء میں انگلستان چلی گئی۔اس کی جگہ مس جے اسمتھ (Miss J. Smith) سپرنٹنڈنٹ بن کر آئی۔پہلی جماعت میں چھ لڑکیاں تھیں جو انگریزی آسانی سے پڑھ سکتی تھیں۔اس کے علاوہ معمولی جغرافیہ اور حساب بھی جانتی تھیں۔ تمام لڑکیاں سلائی اور کڑھائی کاکام بھی جانتی تھیں۔ ڈپٹی کمشنر میجر مرسر (Mercer) اور ان کی بیگم نے اس یتیم خانہ کا معائنہ کیا۔لڑکیوں کا امتحان لیا،اور ضرورت مند لڑکیوں کو انعامات سے نوازا۔ یہاں لڑکیوں کو خوراک اور راہائش کے علاوہ لباس بھی مفت فراہم کیا جاتا تھا۔سکاٹ لینڈ اور کئی دوسرے مقامات سے چندہ اکٹھا کرکے اس کے اخراجات پورے کیے جاتے۔۱۸۶۹ء میں مس اسمتھ متسعفی ہو گئیں۔ اس موقع پر مرحوم ریورنڈ ٹیلر کی بیوہ نے اپنی خدمات پیش کیں۔مسز ٹیلر کی غیر حاضری میں محمد اسماعیل کی بیوی سیلی (SALLY) نے کچھ عرصہ اس ادارے کو چلایا۔۱۸۶۹ء میں یہاں لڑکیوں کی تعداد ۲۲ تھی۔ ۱۸۷۰ء کے شروع میں مسز ٹیلر نے اس کا چارج اپنے ہاتھوں میںلے لیا۔ ۱۸۷۲ء میں مسز ہوچی سن اس کی سپرنٹنڈنٹ تھی۔ ۱۸۷۹ء میں اس یتیم خانہ کو بند کر دیا گیا۔اس کی اراضی اور ہاؤس کو بھی فروخت کر دیا گیا۔ ۸۸۹اء میں مس پلمب (PLUMB) کی زیر نگرانی اس یتیم خانہ کو دوبارہ ابردین (ABERDEEN) کی AUXILIARYCOMMITTE for ZENANA MISSION کے تحت قائم کیا گیا۔ ۱۸۹۵ء میں اس کی سپرنٹنڈنٹ مس ( BLACK) تھی۔ اس کے ساتھ دواور مشنری خواتین تھیں۔مس بلیک مددگار تھیں۔ اور مس اینا کاڈل (INA CADELL) طبی پیشہ سے تعلق رکھتی تھی۔ ہنٹر پورہ ۹۵؎ ۹ جولائی ۱۸۵۷ء کو سکاچ مشن کا سر براہ تھامس ہنٹر اس کی بیوی اور ایک شیر خوار بچہ حریت پسندوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ مشن کے ارباب اختیار نے ان کے قتل کو بڑی قدر کی نگاہوں سے دیکھا۔ ’’Doubtless they died in the faith and hope of being for ever with the Lord ,,. مارچ ۱۸۶۰ء میں سکاٹ لینڈ سے دو مشنری ریورنڈ جان ٹیلر اور ریورنڈ رابرٹ پیٹرسن سیالکوٹ آئے۔ انہوں نے آتے ہی تھامس ہنٹر کی یاد میں ایک چرچ تعمیر کرنے کے لیے حصول اراضی کی کوشش شروع کر دی۔کیونکہ سکاٹ لینڈ اور کلکتہ کے لوگوں کی بڑی تمنا تھی کہ مرحوم ہنٹر کی یاد میں ایک چرچ تعمیر کیا جائے۔ میجر راس (ROSS) کے اثر ورسوخ کی وجہ سے شہر سے دومیل دور شمال میںاور صدر سے تین میل دور مغرب میں ایک قطعہ اراضی حاصل کر لیا۔ ۱۸۶۲ء میں چرچ کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔چرچ کی تعمیر کے لیے مختلف ذرائع سے قرض حاصل کیا گیا۔ سیالکوٹ کے سیٹلمنٹ کمشنر مسٹر ای اے پرنسیپ نے ۱۸۶۲ء میںسیالکوٹ اور دوسرے شہروں سے نو سو پونڈ اکٹھا کرکے مشن کو دیئے۔بہت تھوڑے عرصے میں گوتھک طرز پر اس چرچ کی تعمیر ہوئی۔ ۱۸۶۷ء تک چرچ کی تعمیر کے لیے لیا گیا تمام قرض ادا ہو گیا۔ ۱۸۶۷ء میں پہلی بار ’’لارڈذ ڈے‘‘ کے موقع پر اس چرچ میں ساٹھ ستر عیسائی جمع ہوئے۔ ۱۸۶۹ء سے باقاعدگی سے یہاں عبادت کی جانے لگی۔پادری لینگ اردو میں وعظ کیا کرتا تھا۔چند سال بعد محسوس کیا گیا کہ چرچ شہر سے بہت دور ہے۔اس لئے عبادت کے موقع پر عیسائیوں کی برائے نام حاضری ہوتی ہے۔ ہنٹر میموریل چرچ کی تعمیر میں یہ منصوبہ بھی شامل تھا کہ چرچ کے گرد مسیحی گھرانوںکو آباد کیا جائے۔اس منصوبہ پر عمل در آمد چرچ کا سنگ بنیاد رکھتے وقت شروع ہو گیا تھا۔ ۱۸۶۲ء میں امریکی مشن سے ستر ایکڑ اراضی خریدی گئی۔حکومت نے اس اراضی پر ٹیکس معاف کر دیا۔ جس سے مشن کو ڈھائی صد روپے سالانہ کی بچت ہونے لگی۔اس اراضی میں کنکر پایا جاتا تھا، جو سڑکوں کے بنانے میں کام آتا تھا۔کنکر کے اس ذخیرے سے تقریبا چھ صد روپیہ حاصل کیا گیا۔یہ تمام آمدنی مسیحی گھرانوں کو آباد کرنے کے لئے مختص کی گئی۔ ۸۷۔۱۸۸۶ء میں چرچ کے گرد دس مسیحی گھرانوں کو آباد کیا گیا۔آباد کاری کے لئے مشن نے ان کو مدد دی۔دروازوں اور چھتوں کے لیے لکڑی مہیا کی۔ان گھرانوں سے معمولی سالانہ کرایہ ادا کرنا طے پایا۔ پادری ٹہل سنگھ کو چرچ کا پادری مقرر کیا گیا۔اگلے برس دو اور مسیحی گھرانے آباد کیے۔ان گھرانوں نے یہاں کاشت کاری شروع کی۔ گندم اور گنے کی فصل بڑی شاندار ہوئی۔ ہنٹر پورہ میں لڑکے اور لڑکیوں کے لیے ایک سکول بھی قائم کیا گیا۔اس کانام کرسچین ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ رکھا گیا۔ ۱۸۹۱ء میں یہاں مڈل تک تعلیم دی جاتی تھی۔ ۱۸۹۴ء میں اس سکول کی سپرنٹنڈنٹ مس پلمب تھی۔(PLUMB)تھی۔ آج ہنٹر پورہ گنجان آباد علاقہ ہے۔ عیسائیوں کی بہت بڑی آبادی یہاں آباد ہے۔بارہ پتھر کی سی بات ختم ہو چکی ہے۔ یہ علاقہ شہر سے مل چکا ہے۔ سکاچ مشن کا دفتر آج بھی موجود ہے۔ حواشی: ۱۔ان ماخذوں سے مدد لی گئی ہے:۔ 1.The church of Scot land...Home and Foreign Mission Record. 11.Our india Mission , Gordon. 111 Report of the Committee for the Propagation of the Gospels in Foreign Parts, Especially in india ,to the General Assembly of the church of Scotland. GlasGow from1856 to 1896. 1v المشیر راولپنڈی جنوری ،مارچ ۱۹۹۷ء ۲ ہندوستانی اخبار نویسی کے عہد میں محمد عتیق صدیقی ص۳۹۶ ۳ المشیر راولپنڈی ص۶۳ ۴ رپورٹ سکاچ مشن ۱۸۵۹ء ص۷،۸ ۵ المشیر راولپنڈی ص۶۳ ۶ ایضا ص۶۴ ۷ ایضا ۸ ایضا ص۶۵ 9=Our india Mission,A Gordon p208 10رپورٹ سکاچ مشن ۱۸۶۶ء ص۶۹ ۱۱ رپورٹ سکاچ مشن ۱۸۶۶ء ص۲۹ ۱۲ ایضا ص۲۰ 13,The church of Scot land ,Home and Foreign Mission Record. p.242. ۱۴ لاگ بک سکاچ مشن ہائی سکول سیالکوٹ ۱۵ رپورٹ سکاچ مشن ۱۸۷۲ء ص۱۳۷،۱۳۸ ۱۳۸ ۱۶ ڈسٹرکٹ گیزٹرسیالکوٹ ۸۴،۱۸۸۳ء ص۴۰ ۱۷ رپورٹ سکاچ مشن ۱۸۷۴ء ص۱۲۷ ۱۸ ایضا ۸۷۷اء ص۱۱۸ ۱۹ ایضا ۱۸۸۲ء ص۹۳ ۲۰ ایضا ص۹۳ The Church of Scotland Home and Foreign Mission Record March i, 2881. p.71. 21 رپورٹ سکاچ مشن ۱۸۸۹ء ص۱۰۷ ۲۲ رپورٹ ۱۸۶۹ء ص ۲۳ ایضا ۱۸۹۲ء ص۱۲۵ ۲۴ ایضا ۱۸۸۷ء ص۹۸ ۲۵ ایضا ۱۸۷۳ء ص۱۲۹ ۲۶ ایضا ۱۸۶۹ء ص۱۱۲ ۲۷ ایضا ۱۸۷۰ء ص۱۶۴ ۲۸ ایضا ۱۸۷۱ء ص۱۰۵ ۲۹ ایضا ۱۸۷۳ء ص۱۲۹ ۳۰ پنجابی اخبار لاہور جلد۱۳ ،شمارہ۲۲ٍ ۲۶ مئی ۱۸۷۷ء 31=Report of the punjab Mission Conference held at Lahore .in Dec.Jan.1862,63. Lahore.1863 p.87 32 رپورٹ سکاچ مشن ۱۸۷۶ء ۱۸۷۸ء ص۱۰، ۱۷۹ ۳۳ رپورٹ مجموعی انتظام ممالک پنجاب ۱۸۶۱ء ۱۸۶۰ء لاہور، ۱۸۶۱ء ص۲۳ ۲۴ رپورٹ سکاچ مشن ۱۸۶۲ء ص۱۲، ۱۳،۱۴، 35=Church of Scotland Home and Foreign Mission Record..Aug.1892.p.562. 36=our India Mission ,AGordon p.173,174. 37=........Do.......P.177 38. سراج الاخبار ۔۲۱ مئی ۱۸۹۴ء ص۴ 39= Cgurch of Scotland Home and Foreign Mission Record. Sep.1895. P,547 ۴۱ رپورٹ سکاچ مشن ۱۸۶۲ء ص۱۲۔ ۱۳ ۴۲ گوجرانوالہ ڈسٹرکٹ گیزیٹر ۱۸۹۳ء ۱۸۹۴ء ص۴۹ ۴۳ رپورٹ سکاچ مشن ۱۸۶۶ء ص۳۰ ۴۴ ایضا ۱۸۶۷ء ص۲۳ ۴۵ ایضا ۱۸۶۹ء ص۱۶۵،۱۶۶ ۱۶۶، ۴۶ ایضا ۱۸۷۰ء ص۱۶۵،۱۷۰ ۴۷ ایضا ۱۸۷۳ء ص۷۹، ۱۴۰ ۴۸ ایضا ۱۸۷۳ء ص ،۱۳۵،۱۳۹ ۴۹ ایضا ۱۸۷۴ء ص۱۷۶ ۵۰ ایضا ۱۸۷۵ء ص۲۳۶ ۵۱ ایضا ۱۸۷۶ء ص۱۳۲ ۵۲ ایضا ۱۸۷۷ء ص۱۲۳ ۵۳ ایضا ۱۸۷۸ء ص ۶۹ ۵۴ ایضا ۱۸۸۰ء ص ۶۹ ۵۵ ایضا ۱۸۸۵ء ص۹۷ ۵۶ ایضا ۱۸۸۸ء ص ۱۰۴ ۵۷ ایضا ۱۸۸۹ء ص۱۱۱ ۵۸ ایضا ۱۸۹۰ء ۱۲۰ ۵۹ ایضا ۱۸۹۴ء ص ۱۰۹ ۶۰ ایضا ۱۸۹۶ء ص۱۰۶ ۶۱ ایضا ۱۸۸۹ء ص ۱۱۰،۱۱۱ ۶۲ ایضا ص۱۱۱ ۶۳ ایضا ص۱۱۱ ۶۳ راوی ،اے ا،آر جرمی، ایڈوکیٹ لاہور سے مدد لی گئی،مزنگ روڈ لاہور ۱سکاچ مشن کی رپورٹیں: ۱۸۶۶ء ۱۸۶۸ء ۱۸۷۰ء ۱۸۷۳ء ۱۸۸۲ء ۱۸۸۴ء ۱۸۸۶ء ۱۸۸۹ء ۱۸۹۱ء ۱۸۹۲ء ۱۱ المشیر۔راولپنڈی ۔ ص ص۸۱،۵۱ ۵۱ ۶۵۔دیدار سنگھ کے نواسے ڈبلیو سی ،بنجمن،حال مقیم راولپنڈی نے کچھ حالات مکتوب کی صورت میں بھیجے تھے۔ اس کے علاوہ سکاچ مشن کی رپورٹیں : ۱۸۸۹ئ، ۱۸۸۴ء ۱۸۸۵ئ۔ ۶۶۔ان ماخذوں سے مدد لی گئی ہے:۔ تاریخ سیالکوٹ،منشی امین چند۔ ص۱۷ ۱۱،امشیر رالپنڈی ،جنوری ،مارچ ۱۹۷۷ء ۱۱۱۔سکاچ مشن کی رپورٹیں ،۱۸۵۷ء ۱۸۹۲ء ۶۸،رجسٹر مملوکہ سکاچ مشن ہائی سکول سیالکوٹ صدر۔ ۶۹،ان ماخذوں سے مدد لی گئی۔ ۱، لاگ بک سکاچ مشن ہائی سکول سیالکوٹ مملوکہ گوجرانوالہ (۱۱) سکاچ مشن کی رپورٹیں ۱۸۵۷ء سے ۱۸۹۶ء ۱۱۱) سیالکوٹ ڈسٹرکٹ گیزٹیر ۱۸۸۲ء 1v، المشیر،راولپنڈی جنوری،مارچ ۱۹۷۷ء v، پنجاب یونیورسٹی کیلنڈر ۔۱۸۷۶ء ،۱۸۸۱ء تک v11) اورنٹئیل کالج میگزین لاہور ۔یونیورسٹی صد سالہ نمبر (v111) ہیڈ ماسٹر صاحب نمبر ۱۳ سے ۱۶ تک رجسٹر مملوکہ سکاچ مشن ہائی سکول سیالکوٹ سٹی۔ ۷۰ ۔۱۸۸۶ء میں کالج کی کلاسوں کا دوبارہ اجراء ہوا تھا۔لدھیانہ میں ۱۸۸۵ء میں ایک مشنری نے کالج کی فرسٹ ایر کلاس شروع کر دی گئی۔دیکھیئے۔فولیو فار من کرسچین کالج لاہور ۔صد سالہ نمبر ص۱۶ ۷۱،رپورٹ سکاچ مشن ۱۸۸۲ئ ص۹۳ ۷۲۔پنجاب یونیورسٹی کیلنڈر ۱۸۹۴ء ۱۸۹۵،ص ۳۷۰ ۷۳ ایضا ۷۴۔ رپورٹ سکاچ مشن ۱۸۹۰ء ص۱۲۳ ۷۵۔ ایضا ص۱۲۰ ۷۶۔ پنجاب یونیورسٹی کیلنڈر ۱۸۹۲ء ۱۸۹۳ء ص۳۴۳ ۷۷۔لاگ بک ، سکاچ مشن ہائی سکول سیالکوٹ ۷۸۔مرے کالج میگزین سیالکوٹ ۳۹،۱۹۳۸ء ص۳ ۷۹ ۔سراج الاخبار ۔۲۹ اپریل ۱۹۰۱ء ۸۰۔ مولوی نیاز علی پسرور کے تھے۔ دیکھیئے تاریخ پسرور ،ص۲۸۳ 81.ٖForty years of the punjab Mission ,young son, p. 75. ۸۲،مرے کالج میگزین ۳۹،۱۹۳۸ء ص۶ ۸۳ رپورٹ سکاچ مشن ۱۸۶۸ء ص۱۰۷ رپورٹ ۱۸۶۹ء کے ص۱۰۶،اور ۱۱۳ سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۸۶۹ء ایک دوسرا برانچ سکول موجود تھا،جہاں ۹۴ لڑکے پڑھتے تھے۔ ۸۴ رپورٹ سکاچ مشن ۱۸۷۰ء ص۱۶۹ ۸۵ لاگ بک سکاچ مشن ہائی سکول سیالکوٹ ۸۶ رپورٹ سکاچ مشن ،۱۸۷۲ء ص۸۰ ۸۷ ایضا ۱۸۷۵ء ص۲۳۸ ۸۸ ایضا ۱۸۸۴ء ص۸۰ ۸۹ ایضا ۹۰ ایضا ۱۸۸۵ء ص ۹۲ 91= The Church of Scotland Home and Foreign Mission Record .sep .1.,1893 اور رپورٹ سکاچ مشن ۱۸۹۴ء ص۱۰۷ 92= Our india Mission ..A Gordon P. 181. سیالکوٹ گیزیٹر ۱۸۹۵ء ۱۸۹۴ء ص۱۵۰ ۹۳۔ان ماخذوں سے مدد لی گئی ہے:۔ Our india Mission . A Gordon . p. 117.. 811 11,۔ سیالکوٹ ڈسٹرکٹ گیزیٹر ۱۸۹۵ئ۱۸۹۴ء ص۳۸ ۹۵۔ان رپورٹوں سے مدد لی گئی ہے۔ ۱۸۸۸ء ۱۸۸۸۷ء ۱۸۸۸۵ء ۱۸۶۷ء ۱۸۶۶ء ۱۸۶۰ء ۱۸۵۸ء ۱۸۹۴ء باب ۴ اقبال علم کے زینے پر ابتدائی تعلیم شیخ نور محمد سیالکوٹ کی مسجد دودروازہ کے شمال میں کشمیری محلہ میں رہتے تھے۔ ۱۸۶۱ء میں ان کے والد شیخ محمد رفیق نے یہ مکان خریدا تھا۔اسی مکان میں اقبال پیدا ہوئے ۔۱؎ ۱۸۸۳ء کے لگ بھگ عام مسلمان بچوں کی طرح انہیں محلہ میں قریب ترین مسجد سید حسام الدین میں قرآن پاک ناظرہ پڑھنے کے لئے بھیج دیا گیا۔ یہ مولوی سید میر حسن کے برادر عم زاد حکیم حسام الدین نے ۱۸۷۶ء میں تعمیر کی تھی۔۲؎ یہاں حکیم صاحب کے بہنوئی سید عمر شاہ بچوں کوقرآن پاک ناظرہ پڑھایا کرتے تھے۔ کرم بی بی نے اس بات کی تصدیق کی ہے۔ کہ عمر شاہ کے مکتب میں انہیں اقبال کے ساتھ پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے۔۳؎اقبال نے قرآن مجید کا ابتدائی حصہ یہاں پڑھا ہے۔ کچھ عر صہ بعد عمر شاہ نے بچوں کو پڑھانے کا سلسلہ بند کر دیا۔اقبال مولانا غلام حسن کے پاس پڑھنے کے لئے جانے لگے۔مولانا موصوف شیخ نور محمد کے بہت گہرے دوست تھے۔اور شوالہ تیجہ سنگھ کی مسجد میں مسلمان بچوں کو پڑھایا کرتے تھے۔ اقبال یہاں ۱۸۸۵ء تک پڑھتے رہے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ برانچ سکول کی پہلی کچی جماعت میں۱۸۸۳ء داخلہ بھی لے چکے تھے۔۱۸۸۵ء میں جب اقبال نے پہلی پکی پاس کی ۲؎ تو وہ مولانا غلام حسن کے پاس ہی مسجد میںقرآن پڑھتے تھے۔ ایک روز مولوی میر حسن مولانا غلام حسن کو ملنے مسجد میں آئے۔دوران ملاقات انہوں نے اقبال کو دیکھا،استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ شیخ نور محمد کا صاحبزادہ ہے۔مولوی سید میر حسن نے خوداس بچے کو پڑھانے کی پیش کش کی۔مولانا غلام حسن کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا؟۔میر صاحب نے شیخ نور محمد سے بھی کہا کہ وہ اپنے بچے کو ان کے ہاں پڑھنے کے لئے بھیجا کریں۔اس طرح اقبال مولوی سید میر حسن کے ہاں پڑھنے کے لئے جانے لگے۔۵؎ آج بھی برصغیر پاک وہند میں مسلمان گھرانوں میں یہ طریقہ رائج ہے کہ بچہ مسجد میںقرآن پاک پڑھنے کے ساتھ ساتھ سکول کی پہلی کچی جماعت میں داخل ہوتا ہے۔ اقبال کے والد نے بھی یہی کیا۔یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ۲۔پرائمری۔ پہلی کچی جماعت سیالکوٹ شہر میں سکاچ مشن کا ایک برانچ سکول موجود تھا۶؎۔جہاں ۱۸۷۲ء میں ایک سو پانچ لڑکے پڑھتے تھے۔۷؎۔برانچ سکول اور پرائمری سکول دو الگالگ اصطلاحات ہیں۔ برانچ سکول: میں صرف دو ابتدائی جماعتیں پڑھائی جاتی تھیں۔یعنی پہلی اور دوسری جماعت۔پہلی جماعت کے دو حصے تھے۔پہلی کچی اور پہلی پکی۔ پہلی کچی کو ان دنوں (Infant class) کہا جاتا تھا۔آج کل اسے نرسری کہتے ہیں۔ پرائمری سکول: پرائمری سکول : میں ابتدائی چار جماعت پڑھائی جاتی تھی۔۱۸۷۵ء میں ان جماعتوں کو اس طرح پکارا جاتا تھا: Ist Lower school 2nd Class Lower School 3rd Class :3rd Primary School Vernaular 4th. Class : 4Th Vernacular or anglo .vernacular گزشتہ صدی کی نویں دہائی کے شروع سال میں شہر میں برانچ کے دوسکول موجود تھے۔ایک رنگپورہ میں ،دوسرا قلعہ پر۔ ۱۸۸۲ء میں رنگ پورہ کے سکول کو فنڈ نہ ہونے کے باعث بند کر دیا گیا۔اوراس کے ستر طلباء کو قلعہ پر واقع برانچ سکول میں منتقل کر دیا گیا۔جہاں اسی لڑکے پڑھتے تھے۔۸؎ قلعہ پر واقع برانچ سکول کشمیری محلہ کے قریب تھا۔ اس لیے شیخ نور محمد نے ۱۸۸۲ ء میں اقبال کو اس برانچ سکول کی پہلی کچی (Infant class) میں داخل کرایا۔یہ روایت کمزور ہے کہ مولوی سید میر حسن نے انہیں سکول میں داخل کرایا تھا۔ پہلی کچی جماعت کی ماہوار فیس ایک آنہ (موجودہ چھ نئے پیسے تھی)۹؎ پہلی کچی جماعت میں اقبال نے میجر ڈبلیو آر،ایم ہال رائڈ ڈائریکٹر آف پبلک انسٹرکشن پنجاب لاہور کا مرتب کردہ اردو قاعدہ پڑھا۔ یہ قاعدہ آٹھ صفحات پر مشتمل تھا۔ سائز ۱۱ضرب ۹ سم، ہر صفحہ پر ۱۸ سطور۔قاعدہ میں تصویریں نہیں تھیں۔ اس جماعت میں حساب کی ابتدائی گنتی سکھا ئی گئی ہوگی۔ پہلی پکی جماعت: ۱۸۸۴ء میں اقبال پہلی کچی جماعت پاس کرکے سکاچ مشن برانچ سکول کی پہلی پکی جماعت میں داخل ہوئے۔ماہوار فیس ایک آنہ تھی۔ برانچ سکول میں دو مسیحی اساتد تعلیم دیتے تھے۔ان کے ناموں کا علم نہیں ہو سکا۔ ۱۸۸۴ء میں برانچ سکول کی تعداد ۱۱۲ تھی۔۱۸؎۔ رائے گوپال سنگھ لاہور سرکل کے اسٹنٹ انسپکٹر آف سکولز تھے۔ انہوں نے اپریل ۱۸۸۵ء کی پہلی،دوسری اور تیسری تاریخ کو سکاچ مشن کے پرائمری حصہ کا امتحان پاس کیا۔۸ اپریل ۱۸۸۵ء کو اپنی رپورٹ تحریری طور پر دی۔ رپورٹ میں ہر جماعت کے طلباء کے نام بھی درج کیے ہیں۔جن کا رائے صاحب نے امتحان لیا۔ اس رپورٹ سے یہ تصدیق ہوتی ہے کہ اقبال نے اپریل ۱۸۸۵ء میں پہلی پکی جماعت پاس کی۔۱۱؎ اقبال کی جماعت میں کل ۴۰ لڑکے تھے۔ ان میں سے ۲۴ لڑکے پاس ہوئے۔چھ لڑکوں کو رعایتی نمبر دے کر پاس کیا گیا۔دس لڑکے فیل ہوئے۔فیل ہونے والے لڑکوں کے نام درج نہیں ہے۔ اقبال کے سلسلے میں رپورٹ کا کچھ حصہ ملاحظہ ہو : چھوٹی سطح کے امتحان کے لیے چھہتر (76)طلباء تھے ۔ان کی تفصیل یہ ہے : پہلی جماعت: ۴۰ (کچی اور پکی) دوسری جماعت : ۳۶ ان میں سے صرف تینتالیس (۴۳) کامیاب ہوئے،یعنی پہلی جماعت میں سے ستائیس (۲۷) پاس ہوئے۔ان میں سے چھ لڑکوں کو رعایتی نمبر دے کر پاس کیا گیا۔دوسری جماعت میں سولہ لڑکے پاس ہوئے۔ ان میں پانچ طلباء کو رعایتی نمبر دے کر پاس کیا گیا۔یہ نتیجہ جو دوسری جماعت کا ہے۔زیادہ تسلی بخش نہیں ہے۔ فیل ہونے طلباء میں زیادہ تعداد ان طلباء کی ہے ۔جو اردو املا میں ناکام ہوئے۔ طلباء ج ولوئر پرائمری سب سٹینڈرڈ کے امتحان میں کامیاب ہوئے: ۱۔اقبال ۲۔اللہ رکھا ۳۔دیوان چند ۴۔کریم بخش ۵۔میراں بخش ۶ ۔جلال الدین ۷۔البرٹ ۸۔ محمد دین ۹۔لبھو مل ۱۰۔بشیو داس ۱۱۔فضل حسین ۱۲۔واجد علی ۱۳۔بلونت سنگھ ۱۴۔دیوان چند ۱۵۔کیلاگ ۱۶۔رام دھاری ۱۷۔ گیان چند ۱۸ اللہ رکھا ۱۹۔نرائن داس ۲۰۔ ہیرا لال ۲۱۔ صادق علی۔ رعایت حاصل کرنے والے لڑکے ۲۲۔سوہن لال ۲۳،بخش اللہ ۲۴ ۔ اصغر علی ۲۵۔ جھنڈا خان ۲۶۔ محمد علی ۲۷۔ محمد دین (۱۱) ہندو ،سکھ ،عیسائی طلباء میں صحیح طور پر تمیز نہیں ہو سکی۔کیونکہ مسیحیت قبول کرنے والے ہندو ،سکھ اپنے نام شاذ ونادر ہی تبدیل کرتے تھے۔ البرٹ اور کیلاگ عیسائی تھے۔اقبال کے ان ہم جماعتوں میں صرف کیلاگ اور جھنڈا خان کی پہچان ہو سکی ہے۔ ان کا تفصیلی ذکر شخصیات میں کر دیا گیا ہے۔ دوسرے لڑکوں کا علم نہیں ہو سکا۔ اقبال اپنی جماعت میں اول رہے۔اس امتحان میں پوزیشن حاصل کرنے والوں کو وظیفہ نہیں ملتا تھا۔۱۲؎ پہلی پکی جماعت میں اقبال نے اردو کی پہلی کتاب پڑھی،جسے مولوی محمد حسن اسٹنٹ پروفیسر عربی کالج لاہور نے میجر ہال رائڈ کے حکم سے مرتب کیا تھا اور ماسٹر پیارے لال آشوب کے اتہمام سے سرکاری چھاپہ خانہ سے چھپی تھی۔کتاب کی قیمت ایک آنہ تین پائی تھی۔ دوسری اور تیسری جماعت: قرین قیاس ہے کہ اقبال نے دوسری اور تیسری جماعت ایک سال میں پاس کیں۔ ۱۸۸۵ء میں وہ پہلی جماعت پاس کرکے مولوی سید میر حسن سے پرائیویٹ طور پر گھر پر پڑھتے لگے تھے۔ جس کی وجہ سے ان کی تعلیمی استعداد میں اضافہ ہوا۔اور اس طرح وہ ایک سال میں دو جماعتیں پاس کرنے میں کامیاب ہو سکے۔ ۱۸۸۶ء میں اقبال نے تیسری جماعت پاس کی۔اس امتحان کو لوئر پرائمری سکول ایگزیمینشین کہا جاتا تھا۔اس امتحان میں اقبال نے کیا پوزیشن حاصل کی تھی۔کچھ علم نہیں۔ دوسری جماعت میں اردو کی دوسری کتاب پڑھی۔ تیسری جماعت میں آپ نے یہ نصاب پڑھا،۱۳؎ ۱۔اردو کی تیسری ،چوتھی کتاب:۔ ان کتابوں میں سے اردو کی املا لکھوائی جاتی تھی۔ ۲۔ فارسی کی پہلی اور دوسری کتاب۔ حساب ۔ سود مرکب ۳۔ پنجاب اور ہندوستان کا نقشہ اردو کی تیسری کتاب ماسٹر پیارے لال آشوب سنٹرل بک ڈپو گورنمنٹ پنجاب نے میجر ہال رائڈ کے حکم سے مرتب کی تھی۔۱۸۷۶ء میں کتاب کا پورا ایڈیشن پانچ ہزار کی تعداد میں شائع ہوا تھا۔کتاب کی قیمت چار آنہ فی جلد تھی۔ کل صفحات ۸۷ تھے۔ کتاب کی ابتداء اردو زبان کی حقیقت سے ہوتی تھی۔ چوتھی جماعت۔۔اپر پرائمری سکول اپر پرائمری سکول میں دوجماعتیں ہوتی تھیں۔ یعنی چوتھی اور پانچویں جماعت۔ان جماعتوں میں انگریزی اور ورنیکلر دونوں قسم کی تعلیم دی جاتی تھی۔۱۴؎ ۱۸۸۷ء میں اقبال نے چوتھی جماعت پاس کی۔چوتھی جماعت میں ایک اسپیشل جماعت بھی ہوا کرتی تھی۔ سکاچ مشن کی چوتھی جماعت میں انگریزی بھی پڑھائی جاتی تھی۔ مذکورہ انگریزی کتاب کا با محاورہ اردو ترجمہ غلام حیدر سیکنڈ ماسٹرپنڈ دادنخان ضلع جہلم نے کیا تھا۔اسی کا ساتواں ایڈیشن ۱۸۸۶ئ۱۵؎ میں چھپا تھا۔ کتاب کے ۴۵ اسباق تھے۔ منشی گلاب سنگھ مالک مطبع مفید لاہور نے اسے طبع کیا تھا۔قیمت فی جلد پانچ آنہ چھ پائی تھی۔ اقبال نے چوتھی جماعت میں انگریزی پڑھی۔ روایت ہے کہ انہوں نے انگریزی کا پہلا سبق سید حامد شاہ سے لیا تھا،۱۶؎ ان دنوں سکول میں جماعتوں کی حد بندی اس طرح تھی۔۱۷؎ پہلی جماعت فرسٹ کلاس پرائمری کہلاتی تھی۔اسی طرح دوسری جماعت سیکنڈ کلاس پرائمری تیسری جماعت تھرڈکلاس پرائمری چوتھی جماعت فورتھکلاس پرائمری پانچویں جماعت ففتھ کلاس پرائمری چھٹی جماعت فرسٹ مڈل ساتویں جماعت سیکنڈ مڈل آٹھویں جماعت تھرڈ مڈل نویں جماعت فورتھ ہائی دسویں ففتھ ہائی چوتھی اور چھٹی کلاس کی ایک اسپیشل جماعت بھی ہوا کرتی تھی۔ پانچویں جماعت ۱۸؎ ۱۸۸۷ء میں نے پانچویں جماعت یعنی اپر پرائمری سکول کا امتحان پاس کیا۔امتحان پاس کرنے پر پنجاب یونیورسٹی کی جانب سے حلقہ کا انسپکٹر آف سکولز باقاعدہ ایک سند جاری کرتا تھا۔اس سند پر امیدوار کو باقاعدہ سرکاری ملازمت مل جاتی تھی۔امتحان میں پوزیشن حاصل کرنے والے لڑکے کو ڈسٹرکٹ بورڈ اور مونسپل کمیٹی تین روپے ماہوار وظیفہ دیتی تھی۔۱۹؎ اقبال نے اس امتحان میں کتنے نمبر حاصل کیے۔ ان کی پوزیشن کیا تھی؟۔ کچھ علم نہیں۔یہ روایت درست معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے امتحان میں نمایاں پوزیشن حاصل کرکے وظیفہ حاصل کیا تھا:۔۲۰؎ پانچویں جماعت میں آپ نے درج ذیل نصاب پڑھ کر اپر پرائمری سکول کا امتحان پاس کیا تھا،۲۰؎ ۱۔ انگریزی : فرسٹ ریڈر ۲۔اردو کا انتخاب : گرائمر ،ترکیب نحوی ،ترجمہ ۳۔ حساب : مشق کرنا۔رول آف تھری،مربع کی پیمائش۔سود ۴۔فارسی کا انتخاب : گرامر ،ترکیب نحوی،ترجمہ ۵۔ جغرافیہ :۔ دنیا کے ملکوں کے نام، ان کے دار الحکومت ،اور ان ممالک کی خاص قدرتی تقسیم اور پچھلے اسباق کو دہرانا۔ اپر پرائمری سکول کے امتحان میں نمبروں کی تقسیم اس طرح تھی : ۲۱؎ ۱۔انگریزی ۱۰۰ نمبر ۲۔اردو ۱۰۰ نمبر ۳۔فارسی ۷۵ نمبر ۴۔ حساب ۱۰۰ نمبر ۵۔ جغرافیہ ۵۰ نمبر کل نمبر ۴۲۵ رول آف تھری کی تشریح یہ ہے : RULE OF THREE (Arith) that rule which directs,when three trems are given how,to find a fourth,which shall have the same ratio to the third term as the second has to the first proportion. جغرافیہ کی کتاب کا نام مفتاح الارض تھا۔منشی امیر حیدر چند مدرس ریاضی،میونسپل بورڈ سکول بھیرہ نے ۱۸۸۹ء میں امیر الجغرافیہ تالیف کیا تھا، جسے مطبع اسلامیہ لاہور نے مولوی کرم بخش کے اتہمام سے شائع کیا۔اس میں مفتاح الارض کے کئی نقائص کو دور کیا گیا۔ اردو میں اردو کی پانچویں کتاب زیر مطالعہ رہی۔اردو گرامر کے سلسلے میں قواعد اردو پڑھی،جو حسب الحکم ڈاکٹر جی ،ڈبلیو لیٹنر قائم مقام ڈائرکٹر سر رشتہ تعلیم ممالک پنجاب وغیرہ لاہور کے سرکاری مطبع میں ماسٹر پیارے لال آشوب کیوریٹر کے اہتمام سے چھپی تھی۔ اس کا اکیسواں ایڈیشن ۱۸۷۹ء میں ۴۸۰۰ کی تعداد میں ۱۱۶ صفحات پر شائع ہوا تھا۔ کتاب کی قیمت فی جلد پانچ آنے تھی۔ ۳۔مڈل حصہ مڈل میں چھٹی، ساتویں اور آٹھویں جماعت کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اقبال ۱۸۸۸ء میں اپر پرائمری سکول کا امتحان پاس کرکے حصہ مڈل کی چھٹی جماعت میں داخل ہوگئے۔اقبال نے اپر پرائمری کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا ہوگا۔ اسی لئے ان کے والد نے ان کو مزید تعلیم دلانے کا ارادہ کیا۔ ورنہ اپر پرائمری امتحان میں کامیابی کے بعد ان کو ملازمت کرا سکتے تھے۔ اپریل ۱۸۸۸ء میں اقبال چھٹی جماعت میں پڑھنے لگے۔ یہاں انہیں پہلی بار جماعت میں براہ راست مولوی سید میر حسن سے اردو ،فارسی اور عربی پڑھنے کا موقع ملا۔۲۲؎ چھٹی جماعت میں یہ مضامین پڑھائے جاتے تھے۔ لازمی: انگریزی،اردو،ریاضی، تاریخ وجغرافیہ آپشنل : عربی یا فارسی ۔۔ان دونوں مضامین میں سے اقبال نے کس مضمون کا انتخاب کیا،کچھ علم نہیں۔ ساتویں جماعت ۱۸۸۹ء میں اقبال چھٹی جماعت پاس کرکے ساتویں جماعت میں دا خل ہو گئے۔اس جماعت میں بھی آپ کو سید مولوی میر حسن سے عربی،فارسی اور اردو پڑھنے کا موقع میسر ہوا۔ ساتویں جماعت میں جبر ومقابلہ پڑھا۔ سررشتہ تعلیم پنجاب کے زیر اہتمام سرکاری چھاپہ خانہ سے ڈائرکٹر تعلیمات پنجاب نے شائع کیاتھا۔اس کا نواں ایڈیشن ۱۸۸۶ء میں دس ہزار کی تعداد میں ۱۶۳ صفحات پر شائع ہوا۔ اس کی قیمت چار آنے چھ پائی تھی۔ مڈل آٹھویں جماعت مارچ ۱۸۹۰ء میں اقبال نے ساتویں جماعت پاس کی۔اپریل ۱۸۹۰ء میں مڈل کے آخری درجہ یعنی آٹھویں جماعت میں ترقی پائی۔ آٹھویں جماعت میں مندرجہ ذیل اساتذہ سے مختلف مضامین پڑھے :۱۴؎ نر سنگھ اور ہرنام سنگھ سے انگریزی پڑھی۔ اردو ،فارسی اور عربی کے استاد مولوی سید میر حسن تھے۔ ماسٹر ہرنام سنگھ سے ریاضی، علم مساحت اور حفظان صحت کے مضامین بھی پڑھے۔ جغرافیہ کے استاد بھی ماسٹر ہرنام سنگھ تھے۔ ہیڈ ماسٹر نرنجن داس سے تاریخ پڑھی۔ اس جماعت میں اقبال سیالکوٹ کی شعری محفلوں میں شرکت کرنے لگے۔اور اپنا کلام شریک مشاعرہ کو سنانے لگے۔ ابتداء میں مڈل کا سالانہ امتحان ڈائریکٹر مدارس سر رشتہ ء تعلیم کے تحت ہوا کرتا تھا۔ ۸۴،۱۸۸۲ء میں یہ تجویز پیش ہوئی کہ اب یہ امتحان پنجاب یونیورسٹی کے تحت ہو۔۲۵؎ کیونکہ لاہور میں پنجاب یونیورسٹی ۱۴ ،اکتوبر ۱۸۸۲ء کو قائم ہو چکی تھی۔۲۶؎پہلے سال ہر طالب علم سے امتحان کے لئے ایک روپیہ فیس لی گئی۔۱۸۸۵ء میں دو روپے امتحانی فیس کر دی گئی۔اور ساتھ ہی ۱۸۸۶ء کے لئے تین روپے کا اعلان کر دیا گیا۔۲۷؎ ۱۸۸۷ء میں اس میں اور اضافہ کر دیا گیا۔ اور پانچ روپے فیس ہو گئی۔ امتحان کے لئے داخلہ فارم بھیجنے کی آخری تاریخ ۵ ،نومبر ۱۸۹۰ء تھی۔ فارم کے ساتھ کریکٹر سرٹیفکیٹ پیش کرنا بھی لازمی تھا۔ امتحان کی فیس پانچ روپے ادا کی گئی۔ انگریزی ،اردو ،ہندی ،گرمکھی (پنجابی) میں سے کسی ایک زبان میں طالب علم پرچہ حل کر سکتا تھا۔چھ سے زیادہ مضامین لینے کیا جازت نہیں تھی۔ چار لازمی اور دو اختیاری۔ اکتوبر ،نومبر ۱۸۹۰ء میں پنجاب میں عام بخار کی وبا پھیلی۔بخار نے وبائی صورت اختیار کر لی۔ خصوصا بچے اس وبائی مرض کا شکار ہوئے۔اخبار کے مدیر نے لوگوں کی استدعا یونیورسٹی کے حکام تک پہنچانے کی سعی کی کہ مڈل کا امتحان ملتوی کر دیا جائے۔ یونیورسٹی نے مڈل کے امتحان کے نمبروں میں بھی کچھ رد وبدل کیا۔ اس سلسلے میں ایک خبر ملا حظہ ہو:۔ قابل توجہ پنجاب یونیورسٹی: ’’ خصوصا پچھلے دنوں سے محض بنظر ہمدردی طلباء امتحان کے نمبروں کی تعداد بجائے ساڑھے تین فی صدی کے 1/4 کر دی ہے۔ اس روز طلباء اور ان کے ورثا کو از حد خوشی ہو رہی ہے۔ گزشتہ ماہ سمتبر کے شروع سے تمام پنجاب میں بیماری بخار نے جو تہلکہ برپا کر رکھا ہے۔ اور بے چاری خلق خدا کی جان و مال پر جو تباہی نازل ہو رہی ہے۔ وہ کسی بیان کی محتاج نہیں،اور دنیا میں ایک مدت تک یاد رہنے کے قابل ہے ۔۲۸؎ بچے اس کا شکار ہوئے ۔وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ گئے ہیں۔اس لیے امتحان مڈل جو جنوری ۱۸۹۱ء میں لیا جانے والا تھا۔ اب فروری ۱۸۹۱ء میں لیا جائے۔لیکن یونیورسٹی نے اس استدعا کو منظور نہ کیا۔ کیا اقبال بھی اس وبائی بخار میں مبتلا تھے، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ۵ جنوری ۱۸۹۱ء بروز سوموار کو اقبال نے رول نمبر ۱۷۹۹ کے تحت اینگلو ورنیکلر مڈل کا امتحان دیا۔۲۹؎ امتحانی سنٹر سکاچ مشن سکول سیالکوٹ ہی تھا۔ سنٹر کے نگران پادری ینگسن تھے۔کیونکہ اس سے پچھلا امتحان بھی ان کی نگرانی میں ہوا تھا۔۳۰؎ سیالکوٹ میں دوسرا امتحانی سینٹر امریکن مشن سکول تھا۔ سیالکوٹ کے علاوہ پنجاب میں مڈل کے چھبیس دوسرے سینٹر تھے۔ لاہور دہلی حصار کرنال انبالہ شہر لدھیانہ جالندھر شہر کانگڑہ کولو ہوشیار پور امرت سر گوروداسپور گوجرانوالہ گجرات جہلم راولپنڈی شاہ پور پشاور ملتان شہر جھنگ فیروز پور ڈیرہ اسماعیل خان بنوں ڈیرہ غازی خان پورٹ بلیئر جے پور مڈل میں یہ مضامین لیے: لازمی: انگریزی ،اردو ،ریاضی، علم مساحت ،جنرل نالج،جنرل نالج میں تاریخ وجغرافیہ اور ابتدائی حفظان صحت شامل تھی۔ اختیاری: عربی ،فارسی عربی کے مقابلے میں سنسکرت کامضمون اختیاری تھا۔ ایلی مینٹری سائنس اور اصول اقلیدس،اور الجبرا کے مضامین بھی اختیاری تھے۔اقبال نے صرف عربی اور فارسی بطور اختیاری مضامین لیے۔۳۱؎ ۲۶ فروری ۱۸۹۱ء کو مڈل امتحان کے نتائج کا اعلان ہوا۔۴۲؎ اقبال نے اچھے نمبروں سے کامیابی حاصل کی۔ ۸۵۰ نمبروں میں سے ۵۷۹ نمبر حاصل کیے۔سکول میں آرٹس کے طلباء میں اول رہے۔سکاچ مشن سکول سے ۱۷ لڑکوں نے مڈل کا امتحان دیا تھا۔ان میں پندرہ لڑکے کام یاب ہوئے۔ دو لڑکے ناکام رہے۔یونیورسٹی کمرہ ا متحان میں لڑکوں کو کاغذ اور سیاہی خود مہیا کرتی تھی۔کاغذ کتاب کی صورت میں بند ہوا کرتے تھے۔اخبار عام لاہور کی اشاعت ۲۲ مارچ ۱۸۸۴ء سے ہم کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اعلیٰ مضمون کے ممتحن کا محنتانہ دوسو روپیہ تھا۔بشرطیکہ امیدواروں کی تعداد دو سو یا اس سے نیچے ہو۔ زیادہ ہونے کی صورت میں ہر سو امیدواروں کے لئے ۵۰ روپے زیادہ۔ادنیٰ مضمون کے لیے پہلی حالت میں پچاس روپے سے لے کر سوروپے تک،دوسری حالت میں ۲۵ روپے سے لے کر ۵۰ روپے تک۔ زبانی امتحان کے لیے جتنی کوڑیاں امیدوار ہوں گے۔اتنے ہی سولہ روپے ملیں گے۔سکاچ مشن سکول کے مڈل کا نتیجہ درج ذیل ہے :۴۳؎ رولنمبر نام طالبعلم مذہب عمر حاصل کردہ نمبر اختیاری مضامین جن میں طالب علم پاس ہوا ۱۷۹۹ محمد اقبال مسلمان ۱۵ برس ۵۷۹ عربی،فارسی ۱۸۰۰ پرودہنداس ہندو ۱۵سال ۵۴۲ سنسکرت ،سائنس ۱۸۰۱ بھولا ناتھ ایضا ۱۷ سال ۳۵۷ فارسی،عربی ۱۸۰۲ سیموئیل بانگبٹن عیسائی ۱۳ سال ۴۱۴ عربی ،سائنس ۱۸۰۳ گنیش داس ہندو ۱۸سال ۳۶۴ فارسی،سائنس ۱۸۰۴ بسنت بہاری ہندو ۱۴ سال ۳۳۹ فارسی،سائنس ۱۸۰۵ پران ناتھ ہندو ۱۵ سال ۲۶۹ ۔۔۔۔۔ ۱۸۰۶ فیروز دین مسلمان ۱۳ سال ۳۹۴ عربی، فارسی ۱۸۰۷ تیجہ سنگھ سکھ ۱۶ سال ۴۲۷ فارسی،سائنس ۱۸۰۸ احمد خان مسلمان ۱۶ سال ۴۳۱ فارسی،سائنس ۱۸۰۹ عبداللہ مسلمان ۱۶ ۴۳۱ فارسی،سائنس ۱۸۱۰ محمد دین مسلمان ۱۵ سال ۳۴۸ فارسی،سائنس ۱۸۱۱ محمد حسین مسلمان ۱۵ ۴۳۶ فارسی،سائنس ۱۸۱۲ حاکم خان مسلمان ۱۵ ۳۱۰ سائنس ۱۸۰۵ حیدر خان مسلمان ۱۸ ۳۲۶ سائنس نتائج کی فہرست سے معلوم ہوتا ہے کہ آرٹس میں چھ لڑکے تھے۔ان میں اقبال نے سب سے زیادہ نمبر حاصل کیے۔ جب کہ سائنس میں نو لڑکوں میں سے پردوہن داس نے سب سے زیادہ نمبر حاصل کیے۔ اقبال مڈل کے امتحان میں کوئی وظیفہ نہ حاصل کر سکے۔اس سال یعنی ۱۸۹۱ء میں سیالکوٹ کے طلباء کے لئے چار وظائف تھے۔ یہ چاروں وظائف میونسپل بورڈ وکٹوریہ جوبلی ہائی سکول کے تین طلباء نے حاصل کیے۔ان کی تفصیل یہ ہے: نام طالبعلم رولنمبر حاصل کردہ نمبر کیفیت ۱،گنپت رائے ۱۸۱۷ ۶۵۹ سلور میڈل مالیتی بیس روپے صوبے میں بہترین طالب علم قرار پایامنشی گلاب سنگھ پروپرائٹر مفید عام پریس اینڈ گورنمنٹ پبلیشرز ۲،گنڈا سنگھ ۱۸۲۳ ۶۰۳ انگریزی میں ۱۱۸ نمبر حاصل کیے ۵ روپے انگریزی میں سب سے زیادہ نمبر حاصل ،کییلالہ چتر مل تھرڈ ماسٹر ایم بی،جے وی ہائی سکول سیالکوٹ کی جانب سے ۳گنپت رائے ۱۸۱۷ ۶۵۹ سلور میڈل مالیتی ۱۵ روپے ضلع سیالکوٹ کے اینگلو ورنیکلر سکولوں میں اول آیا، آغا شہباز خان رئیس سیالکوٹ کی جانب سے دس روپے خریداری کتب ۴،ظفر علی ۱۸۲۷ ۵۰۶ سلور میڈل مالیتی ۱۵ جمع دس روپے سیالکوٹ کے مسلم طلبا میں سائنس میں اول آیا جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ اقبال نے چار لازمی مضامین کے علاوہ عربی اور فارسی دو اختیاری مضامین لیے تھے۔ ہر مضمون کے دو ،دو پرچے دو دو گھنٹے دورانیہ کے تھے۔ کل نمبر۸۵۰ تھے۔۲۵؎امتحان میں پاس ہونے کے لئے یونیورسٹی کے نئے قوانین کے تحت: انگریزی میں۳۳ فی صد نمبر لازمی تھے۔جب کہ گزشتہ برس ۲۵ فیصد نمبر حاصل کرنا لازمی تھا۔ ۲۔دوسرے سب مضامین میں ۲۵ فیصد نمبر۔ ۳۔مجموعی طور پر ۳۳ فیصد نمبر حاصل کرنا ضروری تھا۔ اختیاری مضمون میں فیل ہونے والے طالب علم کے اختیاری مضمون کے حاصل کردہ نمبر کل نمبروں میںشامل نہیں کیے جاتے تھے۔امتحان میں ڈویژن نہیں دی جاتی تھی۔ بلکہ کامیابی کے کل نمبر بتا دیئے جاتے تھے۔ پرچوں اور ان کے نمبروں کی تقسیم اس طرح تھی: انگریزی؛ تین پرچے ۱۷۵ نمبر کے ہوتے تھے۔دو پرچے دو دو گھنٹے دورانیے کے ہوتے اور ایک پرچہ املا کا پندرہ منٹ کا۔ پرچہ اے،ترجمہ انگریزی سے اردو زبانمیں:۵۰ نمبر پرچہ بی ،ترجمہ اردو سے انگریزی میں: ۶۰ نمبر گرامر: ۴۰ نمبر پرچہ سی،کیلی گرافی: ۲۵ نمبر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کل نمبر : ۱۷۵ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اردو: پرچہ اے،دیئے ہوئے پیرے کی تشریح اور کمپوزیشن: ۶۰ نمبر گرامر: ۴۰ نمبر پرچہ بی کیلی گرافی: ۲۵ نمبر کل نمبر : ۱۲۵ ریاضی اور مساحت ۱۸۹۰ء میں پنجاب یونیورسٹی نے مڈل کے نصاب میں جو چند تبدیلیاں کی تھیں۔ ۱۸۹۱ء میں ان پر عمل درآمد ہوا۔۴۶؎ ۱۸۹۰ء اور اس سے قبل ریاضی اور علم مساحت کے ستر ستر نمبر تھے۔ لیکن ۱۸۹۱ء میں: پرچہ اے ریاضی ،دوگھنٹہ وقت: ۹۰ نمبر پرچہ بی علم مساحت دوگھنٹہ وقت: ۵۰ نمبر کل نمبر : ۱۴۰ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جنرل نالج: تین پرچے ہوتے تھے۔ دو پرچے دودو گھنٹے کے اور ایک پرچہ ایک گھنٹہ کا۔ پرچہ اے ،تاریخ ،دوگھنٹے وقت: ۵۰ نمبر پرچہ بی جغرافیہ: ۵۰ نمبر پرچہ سی: ابتدائی حفظان صحت: ۴۰ نمبر کل نمبر: ۱۴۰ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عربی پرچہ اے،ترجمہ عربی سے اردو: ۷۵ نمبر پرچہ بی ترجمہ عربی سے اردو میں:۷۵ نمبر کل نمبر :(وقت ایک گھنٹہ) ۱۵۰نمبر فارسی: تین پرچے ہوتے تھے۔ دو پرچے آدھ آدھ گھنٹہ کے اور ایک پرچہ ایک گھنٹے کا: پرچہ اے ترجمہ فارسی سے اردو: ۴۵ نمبر پرچہ بی ترجمہ اردو سے فارسی میں:۴۵ نمبر پرچہ گرامر: ۳۰ نمبر کل نمبر: ۱۲۰ نمبر: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انگریزی نصاب میں پہلے پیٹرسن ریڈر (PEARSON READER) کتاب پڑھائی جاتی تھی۔ ۱۸۸۷ء سے انگریزی کی نئی کتاب پیارے چرن سرکار کی ریڈر پڑھائی جانے لگی۔مذکورہ ریڈر کو منشی گلاب سنگھ مالک ڈپو پنجاب نے شائع کیا تھا۔۳۷؎ جنرل نالج میں تاریخ کے لیے مختصر تاریخ ہند پڑھی جاتی تھی۔اس کا بارہواں ایڈیشن منشی گلاب سنگھ نے مطبع مفید عام لاہور سے ۱۸۰۱ء میں دس ہزار کی تعدادمیں شائع کیا تھا۔ قیمت فی جلد بارہ آنے تھی۔یہ اصل میں لیژج کی انگریزی تاریخ کا اردو ترجمہ ہے۔ پرچہ سی، حفظان صحت کے لئے نصابی کتاب تھی۔(CUNNINGAHAHM