بِسْمِ اﷲ الرَّحمٰنِ الرَّحیم ہ اظہارِ تشکر! {مَا یَفْعَلُ اﷲُ بِعَذَابِکُمْ اِن شَکَرْتُمْ وَاٰمَنْتُمْ ج وَکَانَ اﷲُ شَاکِرًا عَلِیْمًا ہ} ’’آخر اﷲ کو کیا پڑی ہے کہ تمہیں خواہ مخواہ سزا دے اگر تم شکر گذار بندے بنے رہو اور ایمان کی روش پر چلو اﷲ بڑا قدردان ہے اور سب کے حال سے واقف ہے‘‘ (النسائ: ۱۴۷) تشریح: ’’شکر کے اصلی معنی اعتراف نعمت یا احسان مندی کے ہیں۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم اﷲ کے ساتھ احسان فراموشی اور نمک حرامی کا رویہ اختیار نہ کرو، بلکہ صحیح طور پر اُس کے احسان مند بن کر رہو، تو کوئی وجہ نہیں کہ اﷲ تعالیٰ خواہ مخواہ تمہیں سزا دے۔ ایک محسن کے مقابلے میں صحیح احسان مندانہ رویہ یہی ہوسکتا ہے کہ آدمی دل سے اُس کے احسان کا اعتراف کرے، زبان سے اُس کا اقرار کرے اور عمل سے احسان مندی کا ثبوت دے۔ انہی تین چیزوں کے مجموعہ کا نام شکر ہے۔ اور اس شکر کا اقتضاء یہ ہے کہ اولاً آدمی احسان کو اُسی کی طرف منسوب کرے جس نے دراصل احسان کیا ہے، کسی دوسرے کو احسان کے شکریہ اور نعمت کے اعتراف میں اُس کا حصہ دار نہ بنائے۔ ثانیاً آدمی کا دل اپنے محسن کے لئے محبت اور وفاداری کے جذبہ سے لبریز ہو اور اُس کے مخالفوں سے محبت و اخلاص اور وفاداری کا ذرّہ برابر تعلق بھی نہ رکھے۔ ثالثاً وہ اپنے محسن کا مطیع و فرمانبردار ہو اور اُس کی دی ہوئی نعمتوں کو اُس کے منشاء کے خلاف استعمال نہ کرے۔ اصل میں لفظ ’’شاکر‘‘ استعمال ہوا ہے جس کا ترجمہ ہم نے ’’قدردان‘‘ کیا ہے۔ شکر جب اﷲ کی طرف سے بندے کی جانب ہو تو اُس کے معنی ’’اعترافِ خدمت‘‘ یا قدردانی کے ہوں گے، اور جب بندے کی طرف سے اﷲ کی جانب ہو تو اُس کو اعتراف نعمت یا احسان مندی کے معنی میں لیا جائیگا۔ اﷲ کی طرف سے بندوں کا شکریہ اداکئے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ ناقدر شناس نہیں ہے، جتنی اور جیسی خدمات بھی بندے اُس کی راہ میں بجا لائیں، اﷲ کے ہاں اُن کی قدر کی جاتی ہے، کسی کی خدمات صلہ و انعام سے محروم نہیں رہتیں، بلکہ وہ نہایت فیاضی کے ساتھ ہر اُس شخص کو اُس کی خدمت سے زیادہ صلہ دیتا ہے۔ بندوں کا حال تو یہ ہے کہ جو کچھ آدمی نے کیا اُس کی قدر کم کرتے ہیں اور جو کچھ نہ کیا اُس پر گرفت کرنے میں بڑی سختی دکھاتے ہیں۔ لیکن اﷲ کا حال یہ ہے کہ جو کچھ آدمی نے نہیں کیا اُس پر محاسبہ کرنے میں وہ بہت نرمی اور چشم پوشی سے کام لیتا ہے، اور جو کچھ کیا ہے اُس کی قدر اُس کے مرتبے سے بڑھ کر کرتا ہے‘‘ (تفہیم القرآن جلد اول، صفحہ ۴۱۲،۴۱۳) علامہ اقبالؒ کے فارسی کلام سے خوشہ چینی کرکے ’’روحِ دین کا شناسا۔۔۔۔۔۔اقبالؒ‘‘ کے نام سے جنوری ۲۰۰۸ئ؁ سے ۱۶؍مارچ۲۰۰۸ئ؁ تک دہلی میں قیام کے دوران میں کچھ صفحات ترتیب پاگئے۔ اس کام کے لئے اولین حیثیت میں جس ذات اقدس کا شکر بجا لانا فرض ہے اُس کی تشریح اور توضیح کے لئے قرآن پاک کی آیت کا حوالہ دیکر شکروسپاس کی اصل روح آپ کے سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ حقیر کام کسی حال میں بھی انجام نہ پاتا اگر ربّ ذولجلال کی مدد اور نصرت شامل حال نہ ہوتی۔ صحت کی صورت حال اظہر من الشمس ہے۔ دل کے عارضہ کے لئے Escorts جانا پڑتا تھا۔ 3/4واحدگردے کی دیکھ بھال کے لئے Apolo کے چکر لگانا اور دانتوں کے عوارض کے لئے Batra کا طواف کرنا پڑتا تھا۔ رہائش گاہ پر اگر اہلیہ محترمہ، بیٹی آنسہ کلثوم اور جبینہ خدمت گذاری کا حق ادا نہ کرتیں تو مجھ جیسے ناتواں کے لئے کام کرنا مشکل ہوتا۔ بیٹی آنسہ نے ضرورت کی ہر چیز مہیا کردی۔ اﷲ تعالیٰ سے عاجزانہ التماس ہے کہ ان کی خدمات کا صلہ اور اجر عطا کرے۔آمین! سید عبدالرحمٰن گیلانی صاحب نے ’’لغات کشوری‘‘ فراہم کرکے مشکل الفاظ کے معانی تلاش کرنے میں مدد فراہم کردی۔ سید افتخار گیلانی صاحب نے بھی ضرورت کی کتابیں فراہم کرنے میں نہایت فراخ دلی کا مظاہرہ کیا ۔ جماعت اسلامی ہند کے صدر دفتر اور مکتبہ سے کتابوں کی فراہمی میں جس وسعت طرفی سے کام لیا گیا اُس کا حق ادا کرنے کیلئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ اس جماعت کو اسلام کے غلبہ اور احیاء کے لئے صبرو استقامت کی توفیق عطا کرے اور بھارت کی ایک ارب سے زائد آبادی کے لئے اسلام کا حیات بخش پیغام پہنچانے کے لئے پورے ملک میں جماعت کو اپنی منصبی ذمہ داریاں انجام دینے کے لئے ذرائع اور وسائل کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ابتلا وآزمائش سے محفوظ و مصئون رکھے اور مظلوموں کے حق میں آوازاُٹھانے کے لئے دین کے تقاضے پورے کرنے کی ہمت اور حوصلہ بھی عطا کرے۔ ۱۶؍مارچ کو دہلی سے سرینگرکی طرف پرواز کرنے سے پہلے ہی میں نے تحریراً محترم جناب محمد اشرف خان صحرائی جنرل سیکریٹری تحریک حریت جموں کشمیر سے خواہش ظاہر کی کہ وہ اس مسودہ کو اپنی نگرانی میں محترم شبیر احمد اور محترم ملک فیاض سے کمپوز کرواکر پروف ریڈنگ کرکے اشاعت کے قابل بنانے میں حسنِ توجہ مبذول فرمائیں۔میں ان تینوں رفیق سفر حضرات کا دل کی عمیق گہرائیوں کے ساتھ شکر گذار ہوں۔ اول الذکر عزیزان نے محنت کے ساتھ کمپوز کرنے کے فرائض انجام دئے اور آخرالذکر محترم نے تنظیمی مصروفیات اور خرابی صحت کے باوصف بڑی عرق ریزی کے ساتھ مسودہ کا پروف دیکھ کر بھرپور اور مخلصانہ تعاون کا مظاہرہ کیا۔ اﷲ برتروبزرگ ان کو دنیوی اور اُخروی سعادتوں سے سرفراز فرمائے اور زیادہ سے زیادہ تحریکِ حریت کے اہداف اسلام، آزادی اور اتحاد ملّت کے لئے کام کرنے کے مواقع فراہم فرمائے۔ تحریک حریت کے کاروان کا ہر فرد موجودہ دورِ پرآشوب میں روشن چراغ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اُن سب کو سیرت وکردار کی تعمیر میں قرآن وسنت سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے فرداً فرداً بھی اور اجتماعاً بھی جدید جاہلیت کی اندھیاریوں کو دُور کرنے کا چلینج قبول کرکے مردانہ وار اس جدوجہد میں ہر اول دستہ کاکام انجام دینا چاہئے۔ اﷲ غالب وقاہر اپنی مدد اور نصرت سے ضرور نوازے گا۔ ’’ وَماَا النصر اِلاّ مِن عِنداﷲ العزیز الحکیم ‘‘ ’’روحِ دین کا شناسا۔۔۔۔۔۔اقبالؒ‘‘ کا دیباچہ لکھنے والے فرد کا بھی میں نے دہلی ہی میں انتخاب کیا تھا اور محترم صحرائی صاحب کو اس بارے میں مطلع کردیا تھا۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے رہنمائی فرمائی اور ڈاکٹر شریعتی صاحب نے قیمتی وقت نکال کر ’’چہرہ‘‘ کے عنوان سے مختصر دیباچہ لکھ کر کتاب کی افادیت کو اُجاگر کیا ہے۔ کتاب کا مواد میرا تخلیقی کارنامہ نہیں ہے بلکہ فکرِ اقبالؒ کی حدِاستطاعت تک ترجمانی کی کوشش ہے اور ابھی اس ضمن میں مزید کوشش کی ضرورت ہے۔ میں قارئینِ کتاب سے انتہائی عجزو انکسار کے ساتھ التماسِ ِدُعا کروں گا کہ وہ میرے لئے پر خلوص دُعا کریں کہ اﷲ ربّ کائینات مجھے مہلتِ زندگی اور صحت وعافیت عطاکرے تاکہ میں اس کوشش کو جاری رکھ سکوں اور فکرِ اقبالؒ سے مزید خوشہ چینی کرکے اپنی تمناؤں اور خوابوں کو حقیقت کا جامہ پہنا سکوں۔ وَمَا ذَالِک علی اﷲ بعزیز! کتاب کی چھپائی دہلی میں ہوگی انشاء اﷲ! یہ فریضہ محترم الطاف احمد شاہ صاحب انجام دیں گے میں اُ ن کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ سے دست بدعا ہوں کہ میری اس کوشش سے ہماری نوجوان پود، لڑکے اور لڑکیاں خاص طور یونیورسٹی، کالج اور اسکولوں کے طلباء اور معاشرے کا پڑھا لکھا طبقہ فکرِ اقبالؒ سے شناسائی حاصل کرسکے اور اپنی سیرت اور کردار میں اس فکر کی چھاپ پیدا کرکے ایک خوشگوار اور صالح انقلاب لانے میں اپنا بھرپور حصہ ادا کرسکیں۔ وَما توفیقی اِلا بااﷲَ علی العظیم۔ وَآخر دعوانا ان الحمد اﷲ ربّ العٰلمین! خیر اندیش سید علی گیلانی بتاریخ ۳۰؍اپریل۲۰۰۸ئ؁ بِسْمِ اﷲ الرَّحمٰنِ الرَّحیم ہ چہرہ نقد ونظر کی کسوٹی اور پیمانے پر وہی شعر وادب اپنے لا زوال اور سدا زندہ ہونے کا اعتراف کراتا ہے جو زمان و مکان کی حد بندیوں سے بالا تر ہو۔اس قسم کے ا علیٰ شعر و ادب کا اعلیٰ انسانی اقدار کے ساتھ ہم آہنگ اور آئینہ دار ہونا اس کی روح ہوتی ہے۔اس اعلیٰ معیاری شعر و ادب کے تخلیق کارآفتاب نیم روز کی ماننداپنے شہکار فن پاروں کی صورت میں ضیا پاش ہوتے ہیں۔جب انسانیت اور اعلیٰ انسانی و اخلاقی اقدار کے سامنے شر کی قوتیں سیاہ رات بن کرکھڑی ہو جاتی ہیں تو انسانی اور تعمیری ادب اپنی شعاعیں بچھا کرمجبور انسانیت کے کارواں کی راہ نمائی میں اپنا حصہ ادا کرتا ہے۔ آسمان ادب کے درخشندہ آفتابوں میں علامہ اقبالؒ بیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں ملتِ اسلامیہ کے افق پرایک نمایاں شناخت کے ساتھ نمودار ہوئے۔جس منبع نور سے اقبال ؒ نے روشنی مستعار لی وہ سدا زندہ اور سدا درخشندہ ہے۔سایہ اور شب اقبالؒ کے جہانِ فکر میں ناپید ہے۔فکرِ اقبال میں راہِ منزل کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ ظلال اور ظلام کی عیاںو پنہاں پناہ گاہوں کی مکمل تصویر موجود ہے۔فروغِ انسانیت کی راہ میں جتنی بھی مرئی اور غیر مرئی رکاوٹیں حائل ہیں اس نابغئہ روزگارمفکّر شاعر نے ا ن کے ازالہ کیلئے راہنمائی کی۔علامہ اقبالؒ کو اس جہان فانی سے رخصت ہوے ۷۰ برس ہوے لیکن انہوں نے اپنی فکر رسااور اخاذنظرسے جو نتائج اخذ کئے ہیںوہ آج بھی صد فیصد صحیح ثابت ہو تے ہیں۔اس وقت امتِ مسلمہ کو اپنے فکری اور نظریاتی ورثے سے دست بردار کرانے کیلئے تمام لا دین قوتیں مغرب کی امامت میں ایک جٹ ہو کر ہر محاذ پر فعال ہیں۔مکتب سے مقتل تک کوئی محاذ نہیں جو ملت اسلامیہ کی ہیتِ اصلی کی جڑیں کھودنے کیلئے سرگرم نہیں ہے۔اسی تہذیبی جارحیت سے مفکرِ ملت اقبالؒ نے بہت پہلے خبر دار کیا ہے ؎ اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ دنیا کی کمزور قومیں خاص کر مسلم امّہ مغرب اور اس کی ہم مزاج طاقتوں کے ہاتھوں بحرِ خون میں غوطے کھا رہی ہے۔اکثر لوگوں کی قسمت میں آہ وبکا کے سوا کچھ نہیں ہے۔بارود کی بو سے فضا مسموم ہے۔انسانوں کے علاوہ چرند وپرند اور حیوانات ونباتات بھی مغرب کی تخریب کی زد پر ہیں۔مغرب کے سامنے اس کی تباہ کاریوں اور چیرہ دستیوں پر زبان کھولنا نا قابلِ معافی جرم بن گیا ہے۔ جس کی پاداش میں نہتے انسانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔آباد اور حوشحال بستیوں کو کھنڈرات میں بدل دیا جاتا ہے۔آزاد اور خود مختار ملکوں پر فوج کشیاں کی جاتی ہیں۔اقتصادی پابندیاں عاید کر کے بے بس عوام کو افلاس اور امراض کا شکار بنایا جاتا ہے۔مظلوموں کو ظالم کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے اور ظلم کو انصاف کا نام دیا جاتا ہے۔ علامہ مرحومؒ نے پون صدی سے زائد عرصہ پہلے ان حالات کا نقشہ کھینچا ہے جن کا سامنا اس وقت دنیا کی آبادی کے ایک قابل لحاظ تعداد کو ہے۔علامہؒ نے کمزوریوں کے اس بجا احتجاج کو کم و بیش آٹھ دہائیاں قبل شعری پیرائے میں یوں پیش کیا ہے ؎ باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے یور پ زِرہ میں ڈوب گیا دوش تاکمر حضرت علامہ ؒکومغرب کے ان تمام فکری رجحانات ،نظریاتی فتنہ سامانیوں اوتہذیبی ریشہ دوانیوں کا نہ صرف ادراک اور احساس تھا،بلکہ وہ اس ہیبت ناک انجام سے بھی باخبر تھے جس کے آثار اور خدو خال مغرب کے خونین افق پر ابھر رہے تھے اور جن کا سایہ ملّت اسلامیہ پر منڈلانا متوقع تھا۔ایک ہولناک تاریکی اور ہمہ جہت طوفان بلا خیز کے احساس نے اقبالؒ کوگراں خواب مسلمان کو جگانے پر مجبور کیا۔علامہ مرحومؒ نے مسلمان کو اس تازہ ستیزہ کاری میں کامیاب ہونے کیلئے اپنے آبا واسلاف کا وہی آزمودہ نسخہ کیمیا برتنے کا مشورہ دیا جو سالارِ بدؐر کو تھما دیا گیا تھا۔جب جب موجِ طوفان امتِ مسلمہ کے حصار کے کسی بھی حصے سے ٹکرانے لگتی ہے تو کاشانہء نبیؐ(امتِ مسلمہ) کی بے خواب بلبلیں اقبالؒ کے سرودِ سحر آفریں کو اپنے درد انگیز لہجے میں ڈھال کر ایک ارتعاش اور انقلاب کی فضا پیدا کرتی ہیں۔ اقبال کے آبائی وطن کشمیر کے چمنستان میں بھی ایسی ہی ایک بے خواب اور بیباک بلبل ہے جو نہ صرف نغمہ ریز ہے بلکہ شاہین جگر بھی ہے۔یہ شاہین جگر پرندہ شب،خزاں،زاغ وزغن اور صیاد وگلچین سے پنجہ آزما ہونے کے ساتھ ساتھ اہلِ گلشن کی گراں خوابی کو نو خیز کلیوں کی چشم کشائی سے بدل دینا چاہتا ہے۔صبحِ بہاراں کا متلاشی یہ نغمہ خواں پرندہ سید علی گیلانی ہے۔ سید علی گیلانی ملّت اسلامیہ کے ایک ایسے جتھے کا پرچم تھامے ہوے ہیں جس کی چیخیں عشروں سے فلک بوس برفیلی چوٹیوں کے ساتھ ٹکراتی رہی ہیں،جس کی آہیں پنبہ رنگ بادلوں کی صورت میں برسنے کے قریب ہیں اور جس کے سینے پر غلامی اور محکومی کے زخم ولرؔ اور ڈلؔ کی سی گہرائی اور کشادگی رکھتے ہیں۔ ملّت اسلامیہ کی مجموعی زبوں حالی اور اقبالؒ کے محبوب آبائی وطن کشمیر کی خوں چکانی پر اپنے احساسات اور جذبات کا اظہار کرنے کیلئے سید علی گیلانی فکرِ اقبال اور شعرِ اقبال کو ایک وسیلئہ گرہ کشا سمجھتے ہیں۔ ملّت اسلامیہ کی عظمتِ رفتہ کی بازیافت کی امنگ بیدار کرنے،خشک رگوں میں تازہ خون دوڑانے،لا دین تہذیبی جارحیت کے سیلاب کو روکنے اور مسلمان نوجوان کو خود آشنا اور خدا آشنا کرنے کیلئے جو لازوال نسخہ کیمیا(کلام ا ﷲ اور سیرتِ رسول اﷲؐ) مسلمانوں کے پاس موجود ہے اس کی ترغیب،تفسیر اور تشہیر فکر اقبال کے ترکیبی نظام میں نمایاں اہمیت رکھتی ہیں۔ کلامِ اقبال اس نسخہء کیمیا کے سمجھنے اور برتنے میں شاہ کلید کا حکم رکھتا ہے۔ سید علی گیلانی فکرِ اقبال کے اس اہم اور بنیادی پہلو سے اس قدر متاثر ہیں کہ وہ علامہ مرحومؒ کو نہ صرف اپنا روحانی مرشد بلکہ’’ روحِ د ین کا شناسا‘‘ کہتے ہیں۔ سید علی گیلانی صاحب نے اسی منفرد نکتہ نظر سے دیکھ کر مفکرِ ملّت حضرت علامہ اقبالؒ پر ــ’’روح دین کا شناسا۔۔۔۔۔۔۔۔اقبالؒ ‘‘ کے عنوان سے ۳۰۰ صفحات پر مشتمل تصنیف لکھی ہے جس کا تعارف لکھنے کا اعزاز اور افتخار مجھے نصیب ہو رہا ہے۔الحمد ﷲ علیٰ ذالک! اقبال کے روحانی مرید سید علی گیلانی صاحب نے اپنی اس تازہ تصنیف کیلئے جو عنوان چنا ہے وہ موصوف کی اسلام شناسی اور اقبال شناسی پر یکساں طور دال ہے۔اقبالؒ کے فکر اور فلسفہ پر مختلف زاویہ ہائے نظر سے علمی مباحث اور تحریری سر گر میاں تسلسل کے ساتھ جاری ہیںمگر جو پہلو گیلانی صاحب کی اس تصنیف کی روح ہے وہ پیام اقبالؒ کو فکر و عمل کے سانچے میںڈھالنے کی ترغیب اور تشویق ہے۔ ’’روحِ دین کا شناسا ۔۔۔۔۔اقبالؒ‘‘ اگر چہ اقبالؒ کے فارسی کلام کے ایک چیدہ اور چنیدہ حصے (جاوید نامہ اور پس چہ باید کرد؟ ،خطاب بہ جاوید،مسافر، مردِ حر، حکمتِ کلیمی،حکمتِ فرعونی،لا الہ الا اﷲ وغیرہ) ہی سے ماخوذ عصارئہ فکر پر محیط ہے مگر اسے فکر اقبالؒ کی جوہر کی حیثیت حاصل ہے۔ سید علی گیلانی صاحب فکرِ اقبال کا آئینہ سامنے رکھ کر مایوسی، شکست خوردگی، مرعوبیت،گروہ بندی،غرب زدگی،دنیا پرستی، آخرت فراموشی، تن آسانی اور اس طرح کے بے شمار بدنما داغ اور دھبوں سے ملتِ اسلامیہ اور مردِ مسلمان کو اپنا چہرہ صاف کرنے کی تحریک دے رہے ہیں۔روحِ دین کا شناسا۔۔۔۔۔۔۔۔اقبالؒ! کے مقصدِ تصنیف پر آپ خود ان الفاظ میں روشنی ڈالتے ہیں۔ ’’ملت کے جوانوں کو آج خدا بیزار اور آخرت فراموش تہذیب ہر چہار طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔اس گھیرے سے نکالنے کیلئے اقبالؒ کا دردو سوزسے پُر کلام کششِ ثقل کی حیثیت رکھتا ہے۔اسی مقصد کے پیشِ نظر میں نے اپنی بے علمی،بے بضاعتی،بے ما ئیگی اور ناتوانی کے باوصف ان کے حیات بخش پیغام اور کلام کی خوشہ چینی کی ہے‘‘ (روحِ دین کا شناسا۔۔۔۔۔اقبالؒ ) گیلانی صاحب نے اقبال کی فارسی شاعری سے چیدہ چیدہ نظم پاروں کے حسنِ انتخاب اور ترجمے کے ساتھ سا تھ تہذیبی اور تشریحی عبارات میں اپنے احساسات اور جذبات کی عطر بیزی اور رنگ آمیزی کر کے ایک روح پرور، کیف آور، نظر نواز اور انقلاب آفرین سماں پیدا کیا ہے۔سید علی گیلانی صاحب اقبالیاتی ادب میں اپنا قیمتی حصہ ڈال کر نوخیز نسل کو اقبال مرحومؒ کی چھوڑی ہوی فکری وراثت کو دامنِ دل میں سمیٹنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ؎ گر نیابی صحبتِ مردِ خبیر از اب و جد آنچہ من دارم بگیر اقبالؒ ’’روحِ دین کا شناسا۔۔۔۔۔۔۔اقبالؒ ‘‘ اسلامی تہذیب،تاریخ،ادب،سیاست،مسئلہ کشمیراور اقبایات میں دلچسپی رکھنے والے حلقوں کیلئے ایک مفید، معلوماتی اور دلچسپ کتاب ہے۔ مسلمان نوجوانوں کیلئے گیلانی صاحب کی اس کتاب کو ایک گنجینئہ گراں مایہ کی حیثیت حاصل ہے۔امید ہے کہ کہنہ مشق سیاست دان،انقلابی راہ نما ،صاحبِ طرز مصنف،روحِ دین کے رمز شناس اور اقبالؒ کے شیدائی سید علی گیلانی صاحب کی یہ گراں قدر تصنیف علمی ،ادبی ،اور تحریکی حلقوں میں خاطر خواہ پذیرائی حاصل کرے گی۔انشااﷲ! ہم نشین کنج قفس میں مطمئن نہ رہ ورنہ حرف آئے گا تیری جرأت پرواز پر (ماہر القادری) ڈاکٹر شفیع شریعتیؔ سری نگر کشمیر بِسْمِ اﷲ الرَّحمٰنِ الرَّحیم ہ اظہارِ تمنا کا سبب نقطہ پرکارِ حق مردِ خدا کا یقین اور یہ عالم تمام وہم وطلسم ومجاز اقبالؒ میں شاید علامہ اقبالؒ کے ساتھ اپنی دلی محبت اور ذہنی وابستگی کی وجہ اور بنیاد کی وضاحت اور نشاندہی الفاظ میں کرسکنے کی قوت اور صلاحیت سے محروم ہوں۔ اﷲ غفور ورحیم مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اﷲ علیہ کی مغفرت فرمائے! اُن کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مرتبہ اور مقام عطا کرے اور ملّتِ مرحومہ کو اُن کی دینی اور عملی خدمات سے استفادہ کی توفیق عطا فرمائے! انہوں نے نقوشِ اقبالؒ میں میرے جذبات اور احساسات کی ہو بہ ہو ترجمانی کرتے ہوئے میری مشکل کو آسان کردیا ہے: ’’سب سے بڑی چیز جو مجھے اُن کے فن کی طرف لے گئی۔ وہ بلند حوصلگی، محبت اور ایمان ہے جس کا امتزاج اُن کے شعر اور پیغام میں ملتا ہے اور جس کا اُن کے معاصرین میں کہیں پتہ نہیں لگتا میں بھی اپنی طبیعت اور فطرت میں انہی تینوں کا دخل پاتا ہوں۔ میں ہر اُس ادب اور پیغام کی طرف بے اختیارانہ بڑھتا ہوں جو بلند نظری، عالی حوصلگی اور احیاء اسلام کی دعوت دیتا اور تسخیر کائینات اور تعمیر انفس و آفاق کے لئے ابھارتا ہے۔ جو مہرو وفا کے جذبات کو غذا دیتا اور ایمانی شعور کو پیدا کرتا ہے، جو محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی عظمت اور اُن کے پیغام کی آفاقیت و ابدیّت پر ایمان لاتا ہے۔ میری پسند اور توجہ کا مرکز وہ اسی لئے ہیں کہ وہ بلند نظری، محبت اور ایمان کے شاعر ہیں۔ ایک عقیدئہ دعوت اور پیغام رکھتے ہیں۔ وہ مغرب کی مادی تہذیب کے سب سے بڑے ناقد اور باغی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اسلام کی عظمت رفتہ اور مسلمانوں کے اقبالِ گزشتہ کے لئے سب سے زیادہ فکرمند، تنگ نظر قومیتِ ووطنیت کے سب سے بڑے مخالف اور انسانیت و اسلامیت کے عظیم داعی ہیں‘‘ (نقوشِ اقبالؒ ،ص۲۹) ان ہی صفات اور خصوصیات کی وجہ سے مجھے اقبال مرحومؒ سے اتنی محبت اور قلبی وابستگی ہے جس کے اظہار کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ میرے دل میں مدت سے یہ خواہش اور تمنا پل رہی ہے کہ میں اپنے محبوب شاعر اور روحانی پیشوا اقبالؒ پر کچھ لکھوں۔ مجھے قطعاً یہ دعویٰ نہیں ہے کہ میں اقبالؒ جیسے عظیم انسان پر قلم اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہوں جن پر آج تک بلا مبالغہ دوہزار سے زاید کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں علامہ اقبالؒ مرحوم کے فکروفن، فلسفہ اور پیغام کی بھرپور انداز میں وضاحت کی گئی ہے اور جن سے عالمی سطح پر استفادہ کیا جارہا ہے اور اقبالؒ کے پیغام کو پڑھا اور سمجھا جاتا ہے۔ میں اپنی بے بضاعتی اور علمی کم مایہ گی کے باوصف بھی آخر اپنی تمنّاؤں اور آرزؤں کی تصویر کشی کے لئے کیوں اپنے آپ کو مجبور پاتا ہوں۔ اس کے لئے میرے پاس کوئی منطقی دلیل نہیں ہے۔ یہ ایک غالب جذبے کی کرشمہ سازی ہے۔ اسی جذبے کی جس نے مصر کی ایک نادار خاتون میں یوسفؑ کی خریدار بننے کا شوق بھڑکایا۔ روائیتوں میں آیا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں سے نکال کر مصر پہنچا دیا گیا ، جہاں اُن کو غلام کی حیثیت سے فروخت کیا جانے لگا۔ ایک طرف عزیز مصر تھے دوسری طرف ایک بوڑھی خاتوں تھی جو سوت کی ایک گانٹھ لے کر نکلی تاکہ وہ بھی یوسف علیہ السلام کے خریداروں میں شامل ہوجائے ۔ میری مثال اسی خاتوں کی سی ہے جو حقیر سرمایہ لے کر ایک عظیم المرتبت انسان اور پیکر حُسن کو خریدنے کی تمنالے کر نکل کھڑی ہوئی۔ وہ اُن کو خرید نہ سکی لیکن خریداروں کی لمبی فہرست میں اُس کا نام شامل ہوگیا اور یہی اُس کے لئے بہت بڑا اعزاز ہے۔ اقبالؒ کے کلام کا مطالعہ کرتے ہوئے جو چیز مجھے سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے وہ اس فلسفہ کے سمندر کی اتھاہ گہرائیوں کے غواص کی روحِ دین کی شناسائی ہے اور میں اسی نسبت سے اُن کے اردو اور فارسی کلام سے خوشہ چینی کرکے ’’روحِ دین کا شناسا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اقبالؒ‘‘ کے عنوان سے اپنے جذبات احساسات اور تاثرات کی ترجمانی کرنے کی بساط بھر کوشش کروں گا۔ اﷲ برترو بزرگ میری مدد اور نصرت فرمائے اور مجھے اقبالؒ کے کلامِ بلاغت نظا م سے بھرپور استفادہ کی صلاحیت اور استطاعت سے سرفراز فرمائے! ربِّ زدنی علما۔ربِّ زدنی علما۔ربِّ زدنی علما۔ رَبَّنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم پرندے کی فریاد: میں نے ’’قصئہ درد‘‘ ، ’’دیدو شنید‘‘اور ’’رودادِ قفس‘‘ میں اپنی ابتدائی زندگی کے کچھ واقعات لکھے ہیں اُن کو دہرانا مقصود نہیں ہے۔ البتہ اس طرف قند مکّرر کے طور پر اشارات لازمی ہیں۔ میرے والد بزرگوار مرحوم سید پیرشاہ گیلانی نہر زینہ گیر میں سیزنل قلی(Seasonal Quli) تھے یعنی صرف سینچائی کے چند مہینوں کیلئے۔ وہ ماہوار دس روپیہ تنخواہ لیتے تھے۔ خود ان پڑھ تھے مگر بچوں کو پڑھانے کا بہت شوق اور تمنا رکھتے تھے۔ میرے بڑے بھائی مرحوم سید میرک شاہ گیلانی اور میں ’’زوری منز‘‘ سے بوٹینگو زینہ گیر کے پرائمری سکول میں پڑھنے جاتے تھے۔ ننگے پاؤں، کبھی بھوکے پیاسے اور دودھ کے بغیر ’’ٹیٹھ چائے‘‘ پی کر۔ زوری منز اور بوٹینگو کے درمیان بابا شکورالدین رحمۃ اﷲ علیہ کی پہاڑی حائل تھی اور دوسرا راستہ نہر زینہ گیر کے کنارے کنارے جاتا تھا۔ ہم لوگ اکثر پہاڑی راستہ ہی اختیار کرتے تھے کیونکہ وہی زیادہ نزدیک پڑتا تھا۔ بڑے بھائی نے پرائمری سکول سے فارغ ہوکر ہردوشیوہ سوپور میں ایک دینی عالم مرحوم سید ثناء اﷲ شاہ کے مکتب میں داخلہ لیا اور وہاں قرآن پاک، کریما، گلستان، بوستان اور دوسری کتابوں کا درس لینا شروع کیا۔ میں نے بوٹینگو سکول میں تیسری اعزازی پوزیشن حاصل کرکے سرکاری وظیفہ دئے جانے کی برکت سے سوپور ہائی سکول میں داخلہ لیا۔ ساتویں جماعت تک میں بڑے ذوق وشوق کے ساتھ پڑھتا رہا۔ مشکلات اور تنگ دستی کے باوجود میں امتیازی نمبرات کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا کہ میری تقدیر میں ایک نیا پڑاؤ آگیا۔ مرحوم محمد الدین فوقؔ، اﷲ اُن کی مغفرت فرمائے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، سیم پورہ زینہ گیر میں سکونت پذیر اپنے رشتہ داروں کے یہاں لاہور سے تشریف لائے تھے۔ میرے بڑے بہنوئی مرحوم سید عبدالعزیز شاہ ہمدانی جو لاہور وومنز کالج میں ملازمت کررہے تھے، یہاں مرحوم غلام محمد صادق اور محترمہ محمودہ بیگم بھی زیر تعلیم تھے، لاہور میں قیام کے دوران میں اُن کا مرحوم فوق صاحب کے ساتھ تعارف تھا۔ اُن کے بڑے بھائی سید مبارک شاہ ہمدانی ڈورو سوپور میں ہی اپنے آبائی گھر میں مقیم تھے۔ تعلیم کے ساتھ میری دلچسپی، ذرائع اور وسائل کی کمی نے اُن کو میرے بارے میں فکرمند بنایا تھا۔ انہوں نے مجھے اپنے ساتھ لے کر مرحوم محمد الدین فوقؔ کی خدمت میں حاضری دی تاکہ وہ اس بارے میں ہماری کچھ مدد اور رہنمائی کرسکیں۔ مرحوم فوق صاحب نے مجھے دیکھ کر بڑے پیار اور محبت کا اظہار کیا اور مرحوم مبارک صاحب کو مشورہ دیا کہ آپ اس لڑکے کو میرے ساتھ لاہور بھیج دیں۔ میں ان کو وہاں پڑھاؤں گا اور اپنی بڑی لڑکی کے گھر میں ان کے قیام کا انتظام کراؤں گا۔ چنانچہ تعلیم کے شوق میں والدین نے سینے پر پتھر رکھ کر مجھے مرحوم فوق صاحب کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی۔ بارہ، تیرہ سالہ خوبرو لڑکا لاہور پہنچ کر، مُزنگ نامی بستی کے ایک گھرانے میں بٹھا دیا گیا۔ مرحوم فوق صاحب کے داماد محکمہ ڈاک خانہ جات میں بڑے آفیسر تھے اور صوبہ سرحد میں ڈیوٹی دے رہے تھے۔ اُن کی دو تین لڑکیاں تھیں جو مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں۔ پڑھائی کا تو انتظام نہ ہوسکا لیکن میں گھریلو نوکر کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔ اقبالؒ کی نظم ’’پرندے کی فریاد‘‘ میں نے غالباً ہائی سکول سوپور میں پڑھی تھی اور پوری نظم مجھے ازبر تھی۔ اس عرصے میں میراکام صرف اور صرف اس نظم کا پڑھنا، مکان کے صحن یا چھت پر بیٹھ کر رونا اور آنسو بہانا تھا۔ آتا ہے یاد مجھ کو گذرا ہوا زمانہ وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا آزادیاں کہا ںوہ اب اپنے گھونسلے کی اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا لگتی ہے چوٹ دل پر آتا ہے یاد جس دم شبنم کے آنسوؤں پر کلیوں کا مسکرانا وہ پیاری پیاری صورت وہ کامنی سی مورت آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانا آتی نہیں صدائیں اُس کی میرے قفس میں ہوتی میری رہائی اے کاش میرے بس میں کیا بد نصیب ہوں میں گھرکو ترس رہاہوں ساتھی تو ہیں وطن میں، میں قید میں پڑا ہوں آئی بہار کلیاں پھولوں کی ہنس رہی ہیں میں اس اندھیرے گھر میں قسمت کو رورہا ہوں اس قید کا اِلٰہی دکھڑا کسے سناؤں ڈر ہے یہیں قفس میں، میں غم سے مرنہ جاؤں جب سے چمن چھُٹا ہے یہ حال ہوگیا ہے دل غم کو کھارہا ہے غم دل کو کھارہا ہے گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے دکھّے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے آزاد مجھ کو کردے او قید کرنے والے میں بے زباں ہوں قیدی تو چھوڑ کر دُعا لے (بانگِ درا) میں یہ نظم پڑھتا تھا اور پھوٹ پھوٹ کر روتا تھا۔ مجھے وُلر کے کنارے اپنی چھوٹی سی بستی یاد آتی تھی۔ عقب کی پہاڑی اور اُس پر کبھی کبھی زیرہ کی تلاش میں چکوروں کی طرح اُچھلنا کودنا، اپنے غریب والدین کی محبت، اُن کا پیار، میری جدائی میں اُن کے دکھ درد اور اُن کے آنسو بہانا، یہ سب کچھ مجھے بے حد اُداس اور غمگین بناتا تھا۔ مرحوم فوق صاحب کی نواسیاں مجھے دلاسا دیتی تھیں۔ اُن کی بڑی بیٹی بھی اپنی اولاد کی طرح میری دیکھ بھال اور پیار کرتی تھیں۔ لیکن مجھے اپنی تعلیم کے چھوٹ جانے اور گھر سے دور ہوجانے کا غم برابر اُسی طرح ستاتا اور بے چین بناتا تھا جس طرح پرندہ قفس میں بندہوکر اپنی فریاد کررہا ہے۔ اقبال مرحومؒ کے بارے میں مجھے کچھ معلوم نہیں تھا سوائے اس نظم کے جو میرے حال پر حرف بحرف چسپاں ہوتی تھی اور جس کو پرندے کے بجائے میری زبان دہراتی تھی۔ میری بے چینی، بے بسی اور محرومی تقریباً ایک سال تک میرا تعاقب کرتی رہی۔ ایک سال کے بعد میں کیسے اکیلے اور تنہا لاہور سے بذریعہ ٹرین جموں پہنچا اور جموں سے سرینگر، سرینگر سے سوپور، سوپور سے زوری منز اپنے منتظر والدین کی خدمت میں، یہ ایک معجزاتی عمل تھا جس سے میں گذرا۔ جس کی یادیں ایک ڈراؤنے خواب کی شکل میں میرے تحت الشعور میں منقّش ہیں۔ گھر پہنچ کر کچھ دیر کئے بغیر میں نے پھر اپنا سلسلہ تعلیم شروع کیا اور سوپور میں دوبارہ داخلہ لے کر زوری منز سے پیدل سوپور اور واپس زوری منز آنے جانے کی روزانہ کی اس مشقت نے مجھے نڈھال بنا دیا۔ اس عرصے میں بڑی ہمشیرہ کی شادی ڈورو میں عبدالعزیز شاہ ہمدانی کے ساتھ ہوئی جو لاہور وومنز کالج میں ملازمت کررہے تھے میری روزانہ کی مشقت پر ترس کھاکر، مرحوم مبارک شاہ ہمدانی نے مجھے ڈورو آکر تعلیم جاری رکھنے کی پیشکش کی۔ چنانچہ اب ڈورو زینہ گیر سے طلباء کے ایک بڑے گروپ کے ساتھ میں سوپور ہائی سکول میں زیرتعلیم رہا۔ یہاں سے فراغت پاکر مجھے دوبارہ لاہور کے آب ودانہ نے بلالیا۔ اس عرصے میں بڑے برادر سید میرک شاہ مرحوم کو بہنوئی کی وساطت سے اسی کالج میں ملازمت مل گئی تھی۔ مگر اب کی بار لاہور میں میرے پیش نظر صرف تعلیم تھی کوئی اور مقصد نہیں۔ پنجاب کے ہر شہر میں بالعموم، لاہور اور امرتسر میں بالخصوص کشمیر کے طلباء کی اچھی خاصی تعداد زیرتعلیم ہوا کرتی تھی۔ یہاں رواج تھا کہ کشمیری طلباء مساجد میں رہتے تھے اور مساجد سے وابستہ محلوں کے لوگ ان طلباء کی خدمت، کھانا، پینا، لباس اور کتابیں بڑے خلوص اور محبت کے ساتھ فراہم کرتے تھے۔ میں موچی دروازہ، لال کنواں اور مسجد پیر گیلانیاں میں باری باری قیام کرتا رہا۔ میں نے مسجد وزیرخان میں حفظِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا جو سورۃ بقرہ اور آلِ عمران کے بعد منقطع ہوگیا۔ موچی دروازہ میں ’’مقام شہید میر بوٹینگو‘‘ کے غلام محی الدین رفیقی صاحب کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ مسجد پیر گیلانیاں میں مرحوم حفیظ اﷲؔ شِتلوہ رفیع آباد کی سرپرستی اور نگہبانی حاصل ہوئی۔ اسی عرصے میں شاہی مسجد کی طرف آنا جانا رہا۔ مرحوم سید علی مصدرؔ کی شفقت حاصل رہی جو نورالقمرین کے والد بزرگوار تھے اﷲ اُن کی مغفرت فرمائے! اقبال مرحومؒ کو دوسال رحلت فرمائے گذرچکے تھے۔ اُن کی تربت کی مٹی ابھی تازہ اور تابندہ تھی۔ مجھے اُن کی تربت کی قربت میں اتنا قلبی سکون اور طمانیت حاصل ہوتی تھی کہ میں گھنٹوں وہاں ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہتا تھا۔ اقبالؒ کے کلام اُن کے مرتبہ اور مقام سے میں بالکل بے خبراور نابلد تھا۔ مگر یہ کشش اور وابستگی کیوں تھی؟ یہ میرے لئے ایک معمہ تھا۔ اسی دوران میں مجھے معلوم ہوا کہ دہلی دروازے لاہور میں ایک کالج ہے جہاں دفتری اوقات کے بعد مشرقی علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ میں نے وہاں جاکر دریافت کیا مرحوم آقا بیدار بخت خان وہاں پرنسپل تھے۔ انہوں نے ایک معصوم کشمیری لڑکے کو دیکھا تو کھل اٹھے۔ بغیر کوئی فیس لئے مجھے ادیب عالم میں داخلہ دیا، حالانکہ ابتدائی درجہ ادیب کا تھا۔ مگر انہوں نے میرے بول چال اور چہرہ مہرہ سے اندازہ لگا لیا کہ کشمیریوں کی تردماغی کا کچھ نہ کچھ حصہ یہاں بھی موجود ہے۔ کالج میں داخلہ لینے کے بعد لاہور کے ادبی رسائل، ا دبی محفلیں، مشاعرے اور مباحثے اب میری مصروفیات کا اہم حصہ بن گئیں۔ ’’ادیب‘‘، ’’ہمایوں‘‘، ’’نقوش‘‘، ’’الہلال‘‘، ’’مخزن‘‘اور ’’البلاغ‘‘ اُنہی ایام میں میرے مطالعہ میں آئے۔ انجمن حمایت الاسلام کی کوئی تقریب مجھ سے چھوٹتی نہ تھی۔ مرحوم رفیقی صاحب ان ساری ادبی مصروفیات میں میرے ہمدوش رہتے تھے۔ اﷲ اُن کی مغفرت فرمائے! مقام شہید میر کے بزرگ، خدادوست اور نہایت ہی متدین شخصیت مرحوم شریف الدین رفیقی اُن کے والد بزرگوار تھے۔ اﷲ اُن کی مغفرت فرمائے! آج کل اُن کی پڑپوتی میرے لڑکے نسیم الظفر گیلانیؔ کے عقدِ نکاح میں ہے۔ کالج میں پرنسپل صاحب نکات سخن، محمد حسین آزاد مرحومؔ، مولانا حالی مرحوم اور دوسرے مضامین خود ہی پڑھاتے تھے۔ اقبالیات مرحوم پروفیسر عاشق حسین پڑھاتے تھے۔ اقبالؒ کی جان پہچان، اُن کے کلام کا تعارف، اُن کے فلسفہ خودی اور ۱۹۰۸ئ؁ کے بعد اُن کے ارتقائی منازل سے انہوں نے ہی واقفیت بہم پہنچائی اور مجھے تربت اقبالؒ پر غیر شعوری طور حاضری دینے کا راز معلوم ہوگیا۔ بانگ درا، ضرب کلیم، بال جبریل، درساً پڑھ کر مجھے معلوم ہوا کہ اقبالؒ اﷲ کی طرف سے پوری ملّت کے لئے ایک انعام تھا۔ کاش ملّت اس انعام اِلٰہی کی قدر کرتی تو آج کے زوال، انحطاط اور ادبار سے محفوظ و مصئون رہتی۔ ادیب عالم سیکنڈ ڈویژن میں پاس کرکے میں ادیب فاضل میں داخلہ لینا چاہتا تھا کہ میری تقدیر نے پھر پلٹا کھایا۔ والد مرحوم نے کسی سے خط لکھوایا کہ میں بیمار ہوں آپ ملاقات کے لئے جتنا جلد ممکن ہوسکے گھر چلے آؤ۔ میرے دل ودماغ میں زبردست زلزلہ آیا۔ کالج کی پڑھائی، اساتذہ خاص طور پرنسپل اور پروفیسر عاشق حسین کی محبت، دلجوئی اور کرم فرمائی نے مجھے دُنیا و مافیھا سے بالکل لاتعلق بنا دیا تھا، لاہور کے علمی اور ادبی ماحول نے میرے پرو بال میں اُڑان کی شاہینی قوت پیدا کردی تھی۔ مجھے سب ارمانوں کا خون کرکے واپس آنا پڑا اور مرحوم ٹھیک ٹھاک تھے یہ صرف میری دید کا شوق تھا کہ بہانہ بنایا گیا۔ پھر لاہور مجھ سے اتنا دور ہوگیا کہ آج ۶۵ برس گذرجانے کے بعد بھی اُن مانوس گلی کوچوں، اُن ادبی محفلوں، اُن محبّوں اور کرم فرماؤں اور خوبرو شاعروں اور ادیبوں کو نہ دیکھ سکا جو قیامِ لاہور میں میری روح اور جان بن چکے تھے۔ اقبالؒ مرحوم نے نہ صرف میری ذات کے لئے بلکہ ہماری پوری مظلوم اور محکوم قوم کے لئے فرمایا تھا: ؎ لیکن نگاہِ نکتہ بین دیکھے زبوں بختی مری رفتم کہ خار از پا کشم محمل نہاں شد از نظر ’’یک لحظ غافل گشتم و صد سالہ راہم دور شُد‘‘ بعد کے مراحل کا تذکرہ ’’دیدوشنید‘‘ اور دوسری کُتب میں آچکا ہے۔ اس لئے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ فکر اقبالؒ کے ترکیبی عناصر : قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں جذب باہم جو نہیں، محفل انجم بھی نہیں (اقبالؒؔ) اقبالؒ بڑا خوش نصیب بلکہ خوش بخت اور خوش اطوار تھا کہ وہ جس گھر میں پیدا ہوا وہ بڑا دیندار گھر تھا۔ اُن کے والد بزرگوار مرحوم شیخ نور محمد بڑے دیندار، متقی اور پرہیزگار مسلمان تھے۔ انہوں نے اقبالؒ کو بچپن سے ہی دین کی طرف رغبت دلائی۔ تلاوتِ قرآن، پابندیٔ اوقات کے ساتھ نماز کی ادائیگی، حسنِ اخلاق، بڑوں کا احترام اور چھوٹوں کے ساتھ شفقت، یہ صفات انہوں نے گھر کے ماحول میں ہی اپنے اندر پرورش کئے، پروان چڑھائے اور جزئو زندگی بنائے۔ والد بزرگوار نے اُن کو ابتدائی دور میں ہی کہا تھا کہ بیٹا جب تلاوت کیا کروگے تو یہ جان کر قرآن پڑھاکرو کہ یہ تم پر ہی نازل ہورہا ہے۔ یہ اتنی بڑی اور اہم بات تھی کہ اُس نے اقبالؒ کی زندگی کو صحیح رُخ دیا۔ مسلمان گھرانوں میں عام طور پر قرآن پاک کی تلاوت کی جاتی ہے۔ آج کے مقابلے میں پچھلے دور میں اس کا عام چلن تھا۔ آج مغربی اور غیراسلامی تہذیب کے اثرات نے اس برکت کو ہم سے چھین لیا ہے۔ لیکن جو پڑھتے بھی ہیں محض ثواب کمانے کی خاطر پڑھتے ہیں یہ جان کر نہیں کہ یہ کتاب زندگی ہے زندگی کو بنانے، سنوارنے، صالح اور نیک بنانے کے لئے نازل ہوئی ہے اور پوری دُنیا میں بدیوں کو مٹانے اور نیکیوں کو پھیلانے کے لئے نازل ہوئی ہے۔ ظلم و عدوان کو مٹانے اور عدل وانصاف کو قائم کرنے کے لئے اُتری ہے اور ہر پڑھنے والے کو مخاطب بناتی ہے اور معروف کا حکم دیتی اور منکر سے پرہیز کرنے کی تلقین کرتی اور تعلیم دیتی ہے۔ ؎ فاش گویم آنچہ در دل مضمر است این کتابے نیست چیزے دیگر است اقبالؒ کو ابتدائی عمر میں ہی اس زندہ کتاب کی طرف ذہن کو متوجہ کرنے کی ترغیب دیدی گئی۔ آج جب ہم اپنے گھروں کو اور اپنے بزرگوں کے رویّے اور انداز کو دیکھتے ہیں بہت کم گھرانے آپ کو ملیں گے جو اقبالؒ کے والد بزرگوار کی طرح اپنے بچوں کو قرآن کی اس اصل کی طرف راغب اور متوجہ کرتے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری نئی نسل اور پود قرآنی تعلیمات سے دن بدن اور روزبروز دور ہوتی جارہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے گھروں میں بیٹوں اور بیٹیوں کو ذہن نشین کریں کہ جب تک قرآن کی تعلیمات کو سمجھنے اور عملانے کی ضرورت کو ہم پورا نہیں کریں گے ہم مسلمانوں کی حیثیت سے نہ زندگی گذارسکتے ہیں اور نہ مسلمانوں کی حیثیت سے دُنیا سے رخصت ہوسکتے ہیں۔ ؎ گر تومی خواہی مسلمان زیستن نیست ممکن جز بقرآن زیستن گھر میں آدابِ فرزندگی انجام دینے کے بعد جب اقبالؒ کو مدرسہ میں داخل کردیا گیا تو اُن کی خوش نصیبی ہی تھی کہ اُن کو سیّد میر حسن مرحوم جیسا اُستاد ملا جو اپنے دور کا عربی اور فارسی علوم کا ماہر اور جیّد عالم تھا۔ انگریزوں نے بھی اُن کے علمی مرتبے اور مقام کا اعتراف کرتے ہوئے اُن کو شمس العلما ء کا خطاب عطا کیا تھا۔ مرحوم میر حسن نے جب اقبالؒ کے ذہن اور قوتِ اخذو قبول کی خدادادصلاحیت کا مشاہدہ کیا تو انہوں نے اس گوہر آبدار میں تابندگی اور درخشندگی پیدا کرنے میں خوب محنت کی اور اُستاد کا حق ادا کرنے میں کسی قسم کے بخل سے کام نہیں لیا۔ عربی اور فارسی زبان میں ادراک اور استعداد اقبالؒ کو حاصل ہوئی وہ اﷲ کی ودیعت کے بعد مرحوم مغفور سید میر حسن کی خصوصی توجہ اور محنت کا ہی ثمر تھا۔ اﷲ برتروبزرگ اُستاد اور ہونہار شاگرد دونوں کو اپنے سایہ رحمت میں جگہ دے اور انہوں نے جو خدمات انجام دی ہیں اﷲ اُن کو درجہ قبولیت عطا کرے اور امت مرحومہ کو اُن کے خوابوں کی تعبیر کرنے کی توفیق اور ہمت عطا کرے! سیالکوٹ کے مدارس سے فراغت حاصل کرنے کے بعد اقبالؒ نے لاہور کا رُخ کیا۔ وہاں کالج میں اُن کو فلسفہ کے اُستاد پروفیسر آرنالڈ جیسی علمی شخصیت کے آگے زانوئے تلمذّ تہ کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے بھی اقبالؒ کی صلاحیت کی بھرپور انداز میں تربیت کی اور اقبال ؒ علمی مدارج طے کرنے میں اپنے معاصرین سے سبقت حاصل کرتا گیا۔ یہ سب ذرائع خارجی نوعیت کے تھے، داخلی اور اندرونی محرکات جو اقبالؒ کو اسم بامسمّیٰ بنانے میں مددگار بنے وہ اقبالؒ کے قرآن پاک سے رہنمائی حاصل کرنے اور صاحب قرآنؐ کے ساتھ عشق ومحبت کے وہ جذبات تھے جن کی مثال آج کے دور میں بہت کم ملتی ہے۔ قرآن پاک کے بارے میں وہ اپنے والد بزرگوار کی نصیحت پر سختی کے ساتھ عمل پیرا رہے اور اس جذبے کے تحت انہوں نے مسلم نوجوانوں کو بھی اس کی تاکید اور تلقین کی ہے کہ وہ محض کتاب خواں نہ بنیں بلکہ صاحبِ کتاب بننے کی سعی جمیل کریں۔ ؎ خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو کتاب خواں ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں انسان کے جسم میں گوشت کا لوتھڑا، جس کو عرف عام میں دل کہتے ہیں، جب تک یہ بدل نہ جائے، جب تک اس میں دردوسوز اور گداز وتپش پیدا نہ ہوجائے اُس وقت تک ظاہری اور خارجی محرکات بے اثر اور بے نتیجہ ثابت ہوجاتے ہیں۔ دل کی دنیا میں انقلاب لانے کی صلاحیت کسی فلسفہ سائنس، منطق، ریاضی اور جغرافیہ کو حاصل نہیں ہے یہ صلاحیت اور قوت صرف اور صرف اﷲ ربّ کائینات کے کلام کو حاصل ہے۔ اسی لئے اﷲ نے اس کو نصیحت اور دلوں کی بیماریوں کے لئے شفاء قرار دیا ہے۔ یہ ہدایت اور رہنمائی کا سرچشمہ اﷲ خالقِ جن وانس کی طرف سے فضل اور رحمت اور دنیاوی مال ومتاع، جاہ و حشمت اور لاؤولشکر کے مقابلے میں زیادہ قیمتی اور وقیع قرار دیا گیا ہے۔ { یَاَیُّھَالنَّاسُ قَدْ جَآئَتْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَآئٌ لِّمَا فِیْ الصُّدُوْرِ وَھُدًی وَرَحْمَۃٌ لِّمُؤْمِنِیْنَ ہ قُلْ بِفَضْلِ اﷲِ وَبِرَحْمَتِہِ فَبِذَٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوا ھُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ} ’’لوگو ! تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے نصیحت آگئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفاء ہے اور جو اسے قبول کرلیں اُن کے لئے رہنمائی اور رحمت ہے۔ اے نبیؐ کہو کہ یہ اﷲ کا فضل اور اُس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اُس نے بھیجی۔ اس پہ تو لوگوں کو خوشی منانی چاہئے یہ اُن سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں۔‘‘ (یونس: ۵۷، ۵۸) اقبالؒ نے ابتداء سے ہی اس کتاب کو دل میں اُتارنے کی راہ اختیار کی۔ وہ قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے تھے۔ بعض اوقات قرآن پاک کے اوراق بھی اُن کے آنسوؤں سے تر ہوجاتے تھے۔ وہ قرآن پاک کے معانی و مفاہیم کو سمجھتے تھے اور اُس کے آئینے میں اپنی زندگی، اپنی ملّت کی زبوں حالی اور قرآن سے مسلمان کی دُوری کا بھی بھرپور اادراک کرتے تھے۔ اس لئے فطری طور وہ قلق اور رنج محسوس کرتے تھے۔ اُن کی سیرت کی تعمیر میں یہ بنیادی محرک کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی کتاب نے اُن کی سوچ اور فکر میں انقلاب لایا اور وہ عام شعراء کی سطح اور صف سے بلند وبالا ہوکر اسلام کے داعی اور پیغام رساں بن گئے۔ اسی لئے اُنہوں نے بجا طور فرمایا ہے۔ ؎ تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب گرہ کُشا ہے رازی نہ صاحب کشّاف ایک موقع پر طلباء کا ایک گروپ اُن کی خدمت میں کچھ سوالات لے کر آگیا۔ اُن کو اندازہ تھا کہ اقبالؒ فلسفہ اور قانون کی کتابوں کی ورق گردانی کرکے جوابات دینگے۔ لیکن انہوں نے قرآن پاک کھول کر سوالات کے جوابات دئیے۔ اس طرح انہوں نے بقولِ مولانا مودودیؒ قرآن پاک کو شاہ کلید کی حیثیت سے رہنمائی اور ہدایت کے سرچشمہ کی حیثیت سے قبول کیا تھا۔ عملی زندگی میں قرآنی تعلیمات کو رہنمائی کا مقام دیدیا جائے تو فی الواقع یہ master key ثابت ہوگی۔ اقبالؒ کی تربیت اور پرداخت جس ماحول میں ہوئی تھی اُس کے اثرات اُن میں اتنے راسخ اور نقش بر سنگ ہوگئے تھے کہ وطن میں بھی اور وطن سے باہر بھی جب وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے لندن اور جرمنی میں تھے، اُن کی نمازیں، تلاوت قرآن اور سحر خیزی اُن کے لازمی مشاغل تھے۔ اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بچے کو گھر کا ماحول جیسا ہوگا ویسا ہی اُس کی سیرت اور کردار کی تعمیر ہوتی ہے۔ ہماری آج کی مسلم سوسائٹی میں اس انداز سے بچے کی سیرت اور کردار بنانے میں مجرمانہ غفلت برتی جارہی ہے اس لئے ہمارا معاشرہ برق رفتاری کے ساتھ بگاڑ اور فساد کا شکار ہوا جارہا ہے۔ اقبالؒ کو ایک مثالی کردار کی حیثیت سے سامنے رکھ کر ہماری نئی نسل کو اپنے اندر یہی خدوخال اور اوصاف پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ جب تک کسی قوم میں اخلاقی برتری نہ ہو وہ اپنے وجود اور تشخص کو محفوظ نہیں رکھ سکتی۔ اس کے دینی اور ملّی وجود کو تہذیبی جارحیّت کے ہلکے جھونکے سے ہی زمین بوس کیا جاسکتا ہے۔ اقبالؒ لندن میں تھے وہاں بھی اُن کی تہجد کی نماز اور سحرخیزی کی عادت برقرار رہی جیسا کہ وہ خود فرماتے ہیں۔ ؎ زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحر خیزی عادات و اطوار کا استقلال اور استحکام محض خواہش اور نیک تمناؤں کی ہی دین نہیں ہوتی۔ جب تک اُن میں تواتر اور تسلسل نہ ہو اور مسلسل عمل سے اُن کو زندگی کا حصہ نہ بنایا جائے اس کے لئے ان اعمال کے بارے میں پختہ یقین ہونا چاہئے کہ یہ میری زندگی کے بناؤ اور نکھار میں بنیادی محرکات (Factor) ہیں اورپھر ایسے اعمال کی ترسیل و ترویج کا جذبہ بھی موجود ہونا چاہئے۔ اقبالؒ اس معنیٰ میں بھی اپنی ملّت کی نئی پود کی رہنمائی فرماتے ہیں۔ ؎ نہ چھین لذّت آہِ سحرگاہی مجھ سے نہ کر نگہ سے تغافل کو التّفات آمیز اُن کے جذبہء خیر خواہی اور مروّت کی داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں نے ربّ کائینات کی بار گاہ میں دُعائیں مانگی ہیں کہ نوجوان نسل کو میری ان صفات کا حامل بنادے تاکہ وہ اپنی سیرت اور کردار کی تعمیر کرکے باطل اور اسلام دُشمن قوتوں کے لئے ترنوالہ نہ بن جائے۔ ؎ جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے مرا عشق میری نظر بخش دے یہ سوز جگر اور مقاصد زندگی کے ساتھ عشق اور وارفتگی جب تک پیدا نہ ہوجائے کوئی معرکہ سر نہیں کیا جاسکتا ۔ اسی لئے اس مردِ مؤمن نے بڑی دل سوزی اور گریہ و زاری کے ساتھ دُعا کی ہے۔ ؎ جوانوں کو مری آہِ سحر دے پھر ان شاہین بچوں کو بال و پر دے خدایا آرزو میری یہی ہے میرا نورِ بصیرت عام کردے! آج کے اس دور انحطاط میں اُمتِ مرحومہ کے نوجوانوں کو مادّی مفادات کا لالچ دے کر بہکایا اور بھٹکایا جاتا ہے۔ مرحوم و مغفورؒ کے زمانے میں اتنا زوال اور اِدبار نہیں تھا۔ انگریزوں کا دورِ اقتدار تھا۔ وہ نظامِ تعلیم کے ذریعے اپنی تہذیب اور کلچر مسلط کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے تھے لیکن مسلمانوں میں قوتِ مزاحمت اور مدافعت آج کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی۔ اُس دور کے پڑھے لکھے دینی مدرسوں سے فراغت حاصل کئے ہوئے افراد انگریزوں کی غلامی کے احساس سے نڈھال تھے اور اس سے نجات حاصل کرنے کیلئے ہر اٹھنے والی آواز کا ساتھ دیتے تھے۔ انگریزوں کی وفاداری کا بھی ایک عنصر تھا لیکن اُن کے اثر میں عام لوگ نہیں ہوا کرتے تھے۔ ہندوستان میں جب انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی لہر اُٹھی تو سب سے پہلے انڈین نیشنل کانگریس کے گرد لوگ جمع ہوگئے۔ لیکن قریب رہ کر کانگریس کے مذموم عزائم سے مسلمان واقف ہوگئے تو انہوں نے ملّی تشخص کے تحفظ کے لئے مسلم لیگ کا جھنڈا بلند کیا اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے پیچھے صف بند ہوگئے۔ انگریزوں کی سیاسی غلامی سے تو لوگ آزاد ہوگئے مگر اُن کی ذہنی غلامی اتنی راسخ ہوچکی تھی کہ آج اس غلامی کو لوگ آزادی سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کے خلاف اُٹھنا تو درکنار اس کے رنگ میں رنگ جانا ہی پسند کرتے ہیں۔ اس تناظر میں اقبالؒ کا کلام اور پیغام آج کی نسل کے لئے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اقبالؒ کی زندگی کے خدوخال، اسلام کے ساتھ اُن کی ذہنی اور قلبی وابستگی، روح دین سے اُن کی شناسائی، آزادی کا صحیح اور حقیقی تصور جو انہوں نے اپنے کلام میںواضح کیا ہے آج کے دور کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اسی ضرورت کا احساس مجھے اپنی بساط بھر کوشش کی طرف کھینچ رہا ہے۔ جس طرح اقبالؒ کو اپنے دور کے حالات نے مایوس نہیں کیا ہے برابر اُسی طرح حالات کی سخت ترین نامساعدت کے باوصف بھی میں مایوس اور نااُمید نہیں ہوں۔ لیکن مایوس نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم ہاتھ پیر سمٹ کر، غفلت کی چادر تان کر بیٹھ جائیں۔ بلکہ جتنی تاریکی چھا چکی ہے اُتنی ہی دیے جلانے کی ضروت ہے اور رہنمائی کے سرچشموں کی طرف رجوع کرکے اقبالؒ کی طرح سوز جگر پیدا کرکے ملّت کو جگانے اور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ وَمَا ذٰلِکَ علیٰ اﷲ بعزیز! ؎ نہیں ہے نااُمید اقبالؒ اپنی کشتِ ویران سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ نہ ہو نو مید، نومیدی زوال علم وعرفان ہے اُمید، مردِ مؤمن ہے خدا کے رازدانوں میں اسرار انسانیت سے آگاہ پیرِ رومیؒ: مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اﷲ علیہ کی مثنوی علامہ اقبالؒ کے لئے ایک اور سرچشمہ قوت قلبی و ذہنی اور روحانی سکون و طمانیت کا مصدر و منبع ہے۔ مثنوی شریف کی روحِ معنویت کے بارے میں مولانا جامیؒ نے کہا ہے: مثنوی و مولوی و معنوی ہست قرآن درزبان پہلوی فارسی زبان میں قرآن کے مضامین اور افکار و نظریات کی ترجمانی ہے۔ مولانا رومیؒ کے مقاصد اور اہداف کو جاننے کیلئے اُن کے یہ اشعار شاہ کلید کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دَی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر کز دام و دد ملولم و انسانم آرزوست زیں ہمرہانِ سُست عناصر دلم گرفت شیرِ خدا ورستمِ دستانم آرزوست گفتم کہ یافت می نشود جُستہ ایم ما گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست کل ایک بزرگ چراغ لیکر شہر کے گردگھوم رہا تھا اور کہہ رہاتھا کہ میں درندوں اور چوپائیوں سے بہت ہی دل گرفتہ ہوں اور مجھے انسان کی تلاش ہے۔ میں اپنے ان ساتھوں کی سست روی اور تن آسانی سے رنجیدہ خاطر اور بددِل ہوں۔ مجھے حضرت علیؓ اور ایران کے مشہور سپہ سالار رستم جیسے جرأت مند اور بہادر ساتھیوں کی ضرورت ہے۔پیر رومی کہتا ہے کہ میں نے کہا کہ جس انسان کی ہمیں تلاش ہے وہ ہم کو دستیاب نہیں ہوتا ہے۔مشعل بردار بزرگ نے جواب دیا کہ جو چیز نہیں مل رہی ہے اور کمیاب ہے اُسی کی مجھے تلاش اور جستجو ہے۔ مولانا رومی نے جس طرح اپنے دور میں انسان کو عنقا پایا تھا آج بھی برابر اُسی طرح انسان ناپید ہے۔ انسان کے نام سے زمین کی پُشت پر جو مخلوق چل پھر رہی ہے، جو انسان سمندروں کے سینوں کو چیر کر گہرائیوں میں جا اُترا ہے ، جس نے فضائے بسیط میں اپنے جھنڈے گاڑ دئے ہیں اور جس نے زمین کے قریب ترین ہمسائے چاند پر بھی اپنے وجود کا مظاہرہ کیا ہے ۔ انسانیت کے پیمانے پر وہ پورا نہیں اُتر تا ہے اُس کو انسانوں کی طرح زمین پر چلنا، پھرنا نہیں آتا ہے اور نہ ہی وہ ایک دوسرے کے ساتھ انسانوں جیسا سلوک کررہا ہے۔ اسلئے آج بھی انسان کی تلاش انسان دوستی کا جذبہ رکھنے والوں کیلئے واحد مشغلہ اور فریضہ ہے۔ جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا مولانا رومی کے دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی نہیں کی تھی۔ آج کا انسان ان ترقیوں اور نئی نئی ایجادات کو انسان کُشی، قتل وغارت گری اور ظلم وعدوان کو فروغ دینے کیلئے استعمال کررہاہے۔ آج کے انسان نے قرآن کی اس پیشنگوئی کو پورا کیا ہے۔ ظہر الفساد فی البرّ والبحر بما کَسَبَتْ ایدی الناس! اقبال علیہ الرحمہ نے مثنوی مولانا روم سے خوب استفادہ کیا ہے اور مولاناؒ کو اپنا معشوق اور روحانی مرشد قرار دیا ہے۔ اُن کے کلام ِبلاغت نظام میں جابجا مولانا کا تذکرہ ہے اور اُن کی تعلیمات کی طرف اُمّت کو متوجہ کیا ہے۔ ؎ غلط نِگر ہے تیری چشم نیم باز اب تک تیرا وجود تیرے واسطے ہے راز اب تک تیرا نیاز نہیں آشنائے ناز اب تک کہ ہے قیام سے خالی تیری نماز اب تک گُسستہ تار ہے تیری خودی کا ساز اب تک کہ تو ہے نغمہ رومیؔ سے بے نیاز اب تک نغمہ رومی سے بے نیازی اور محرومی نے تیری خودی کے ساز کی تاروں کو کاٹ ڈالا ہے۔ اس لئے تجھے پیر روم سے استفادہ کرکے اپنے کھوئے ہوئے مقام کو باز یافت کرنا چاہئے۔ صحبت پیر روم نے مجھے یہ بتایا ہے کہ عقل ودانش کے دعویدار کوئی انقلاب نہیں لاسکتے۔ اس کے لئے کلیمی واحد نسخہ اور راستہ ہے۔ صحبتِ پیر روم سے مجھ پہ ہوا یہ راز فاش لاکھ حکیم سر بجیب، ایک کلیم سربکف اقبال ایک صالح اور خوشگوار انقلاب کے لئے رومیؔ کی ضرورت محسوس کررہے ہیں۔ ؎ نہ اُٹھا پھر کوئی رومیؔ عجم کے لالہ زاروں سے وہی آب وگِل ایران، وہی تبریز ہے ساقی ٭٭٭٭٭ بکامِ خود دِگر آں کہنہ مَے ریز کہ باجامش نیرزد ملکِ پرویز اشعارِ جلال الدین رومی بہ دیوارِ حریم دل بیاویز اپنے حلق میں دوبارہ وہی پرانی شراب ڈال دے کہ جس کی پیالی کے مقابلے ہیںملک پرویز بھی کوئی حیثیت اور اہمیت نہیں رکھتا ہے۔ جلال الدین رومیؔ کے اشعار سے اپنے دل کی دیواروں کو زینت بخش۔ یعنی اُن کی مثنوی کا مطالعہ کرکے اپنے دل کو ایمان و ایقان سے معمور بنا دے۔ علامہ اقبالؒ نے مولانا رومیؔ کو پیرو مرشد کا مرتبہ اور مقام دیا ۔ چنانچہ کلیات اردو میں مرید ہندی اور پیر رومی کے درمیان سوال وجواب کا ایک شعری مکالمہ بھی موجود ہے۔ ؎ چشم بینا سے ہے جاری جوئے خون علم حاضر سے ہے دیں زارو زبوں (مرید ہندی) اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ علم حاضر نے دینی اور اخلاقی اقدار کو بری طرح پامال کیا ہے اور جو لوگ بصیرت کی نگاہ رکھتے ہیں وہ فی الواقع اس صورتِ حال کو دیکھ کر خون کے آنسو روتے ہیں۔ آج کی تعلیم خدا سے بے زار کرتی ہے، آخرت فراموش بنادیتی ہے اور علم کو محض روزی کمانے اور پیٹ پالنے تک ہی محدود کرتی ہے۔ یہ علم وحدت آدم کو پارہ پارہ کرتا ہے اور خاص طور ملّت مرحومہ کو دورِ جدید کے علم نے مرکز رُشدو ہدایت سے دور لے جاکر خس وخاشاک میں بدل دیا ہے۔ اس کو بھی دنیا پرست اور شکم پرست بنادیا ہے۔ ؎ علم رابرتن زنی مارے بود علم را بردل زنی یارے بود ( پیر رومیؔؒ) علم اگر آپ محض جسم کو پالنے اور دنیا بنانے کیلئے پڑھیں گے اور استعمال کریں گے تو یہ آپ کے دین، اخلاق، انسانیت، شرم وحیا، دیانت و امانت اور عدل وانصاف کی قدروں کے لئے سانپ کی حیثیت اختیار کرے گا اور تجھے ڈس کر زہر ہلاہل کی طرح بحیثیت مسلمان اور بحیثیت انسان کے ہلاک کردیگا۔ اگر علم کو دل سے قبول کرے گا اور علم پڑھ کر دین اور دنیا دونوں کو آباد کرنے کی راہ اختیار کرے گا تو یہ علم تیرا دوست بن کر تجھے قدم قدم پر رہبری اور رہنمائی کریگا۔ تیرے وجود سے دُنیا امن و آشتی کا گہوارہ بنے گی۔ انسان اور اخلاقی اقدار کی بالادستی ہوگی اور تو عالم انسانیت کے لئے رحمت وبرکت کا پیغام بن کر آئے گا۔ ؎ پڑھ لئے میں نے علومِ شرق وغرب رُوح میں باقی ہے ابتک دردوکرب (مرید ہندی) دستِ ہر نا اہل بیمارت کند سوئے مادر آکہ تیمارت کند (پیرِ رومیؒ) یہ جو آپ نے علوم مشرق ومغرب پڑھ لئے ہیں لیکن پھر بھی آپ کی روح دردوکرب میں مبتلا ہے۔ اس کرب اور قلق کا علاج تیرے پڑھے ہوئے علوم نہیں کرسکتے ہیں۔ یہ نااہل ہاتھ ہیں جن سے تو علاج کروارہا ہے۔ تیری روح، قلب اور ذہن کا علاج نہیں ہوپائے گا۔ تجھے اپنی ماں کی طرف آنا چاہئے جو تیری تیمارداری کرے جب کہیں جاکر تیرا دردوکرب دور ہوجائے گا۔ ’’مادرت‘‘ (تیری ماں) سے مراد قرآن وسنت کی تعلیمات ہیں جو انسان کی روحانی اور اخلاقی بیماریوں کا حقیقی اور مؤثر علاج ہے۔ ملّت مرحومہ کی موجودہ بیماریوں کا علاج صرف اور صرف یہی ہے کہ وہ قرآن وسنت کی طرف رجوع کرے ۔ اسی حیات آفرین نسخے میں انسانی برادری کا بھی علاج موجود ہے۔ بیا نقشِ دگر ملّت بہ ریزیم کہ ایں ملّت جہاں را بارِ دوش است آؤ مل جُل کر ایک نئی اور تازہ دم ملّت کی بنیاد ڈالیں۔ کیونکہ موجودہ اُمت پوری دُنیا کے لئے ایک بوجھ بن گئی ہے ایک ارب ساٹھ کروڑ کی تعداد میں ہونے کے باوجود وہ ذلیل وخوار اور لادین سیاست اور نظام کی علمبردار قوتوں کے لئے ترنوالہ بن چکی ہے۔ واحسرتا! ؎ ہے نگاہِ خاوراں مسحورِ غرب حورِ جنّت سے ہے خوشتر حورِ غرب (مرید ہندی) ظاہر نقرہ گر اسپید ست ونو دست وجامہ ھم سیہ گردد ازو (پیر رومی) مشرقیوں کی نگاہ مغرب کی خوبصورتی اور گورے چٹے جسموں کے جاوو میں گرفتار ہوچکی ہے۔ اس کے نزدیک جنت کی حوروں کے مقابلے میں مغرب کی حوریں ہی زیادہ بہتر اور خوبصورت ہیں۔ پیر رومیؔ جواب دیتے ہیں۔ چاندی بظاہر سپید اور نئی دکھائی دیتی ہے مگر جب آپ اُس کا استعمال کریں گے تو آپ کے ہاتھ بھی اور آپ کے کپڑے بھی سیاہ ہوجائیں گے۔ ظاہری رنگ وروپ کے دھوکے اور فریب میں نہیں آنا چاہئے۔ نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی یہ ضاعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے! (مرید ہندی) ہم نفس میرے سلاطین کے ندیم میں فقیرِ بے کلاہ و بے گلیم (پیر رومیؔؒ) بندئہ یک مردِ روشن دل شوی بہ کہ بر فرقِ سرِ شاہاں روی میرے ساتھی اور ہم دم بادشاہوں کے مقرب اور مصاحب بن گئے ہیں۔ میں ایک بے کلاہ اور بے سروسامان درویش ہوں۔ پیر رومیؒ جواب دیتے ہیں کہ تجھے اس پر افسوس اور غم نہیں کرنا چاہئے۔ اگر تو کسی روشن دل، خداپرست اور آخرت پسند انسان کی صحبت اختیار کریگا تو یہ تیرے لئے بہتر ہوگا کسی بادشاہ کے سر کا تاج بن جانے سے! کاروبارِ خسروی یا راہبی؟ کیا ہے آخر غایتِ دین نبیؐ؟ (مرید ہندی) مصلحت در دینِ ما جنگ و شکوہ مصلحت در دینِ عیسیٰؑ غارو کوہ (پیر رومی) مرید ہندی سوال کرتا ہے کہ اسلام میں دین ودنیا کی سرداری اور بالادستی ہے یا راہبی؟ یعنی دنیا کو فاسقوں اورفاجروں، باغیوں اور طاغیوں کے حوالہ کرنا اور خود رہبانیت اور خانقاہیت اختیار کرنا۔ پیر رومیؒ جواب دیتے ہیںکہ ہمارے دین کا مزاج جنگ وشکوہ، دنیوی اور اُخروی کامیابیاں اور کامرانیاںہے۔ دین کو دین کی تعلیمات کے مطابق اپنانا اور پوری دُنیا میں انسانیت، امن وآشتی اور عدل وانصاف کی بالادستی قائم کرنا۔ غار وکوہ، خانقا ہیت اور رہبانیت کا دین نبیؐ کے ساتھ کوئی تعلق اور رشتہ نہیں ہے۔ رہبانیت عیسائیت کی تعلیم ہے۔ اسلام کا اعلان ہے لا رہبانیۃ فی الاسلام! ؎ نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیریؓ کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دل گیری کس طرح قابو میں آئے آب و گِل؟ کس طرح بیدار ہو سینے میں دل؟ (مرید ہندی) بندہ باش و برزمیں رَو چوں سمند چُوں جنازہ نے کہ برگردن برند (پیر رومیؒ) مرید ہندی پوچھتا ہے کہ خاکی و مادی جسم کو کس طرح قابو میں لایا جائے اور سینوں میں مردہ اور پژمردہ دلوں کو کیسے بیدار کیا جائے۔ پیر رومیؒ جواب دیتے ہیں کہ اﷲ کا فرماں بردار اور مخلص بندئہ بن جا اور زمین پر تیز رو گھوڑے کی طرح دوڑ۔ اس طرح دنیا کیلئے بوجھ نہ بن جا۔ جس طرح مردہ کے جنازے کو لوگ گردنوں پر اٹھاتے ہیں۔ مسلمان کو دنیا کا قائد اور رہبر اور رہنما بن جانا ہے۔ دوسروں کے سہارے جینا اور خدا کے سرکش بندوں کا طفیلی بن کر زندگی گذارنا مسلمان کے شایان شان نہیں ہے۔ ؎ تجھ پر روشن ہے ضمیرِ کائینات کس طرح محکم ہو ملّت کی حیات (مرید ہندی) دانہ باشی مرغکانت برچنند غنچہ باشی کود کانت برکنند دانہ پنہاں کن سراپا دام شَو غنچہ پنہاں کن گیاہِ بامِ شو (پیر رومیؔؒ) مرید ہندی کو ملّت کا غم کھائے جارہا ہے۔ بار بار ملّت کی زبوں حالی کے بارے میں سوال کرتا ہے۔ ملّت کی اجتماعی موت کے اسباب کیا ہیں؟ اور اسکی حیاتِ نو کے لئے کیا پیغام ہے؟ پیر رومیؒ فرماتے ہیں اگر تو دانہ کی شکل اختیار کرے گا یعنی زیرِدست اور بے اختیار ہوکر زمین پر پڑا رہے گا تو پرندے آکر تجھ کو چگ لیں گے۔ اگر تم دنیا کے باغ میں غنچہ بن کر رہیگا تو کھیل کود کرنے والے بچے تجھے توڑ کر مسل دیں گے۔ اس لئے تو دانہ پوشیدہ رکھ اور جال بن جا جس میں جانور گرفتار ہوجائیں گے۔ غنچہ بننے کے بجائے بالائے چھت اُگنے والا سبزہ بن جا۔ پیر رومی کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان مسلے جانے کے لئے نہیں آیا ہے وہ تو ایک پیغام اور مشن کا علمبردار ہے۔ اُسے اپنے پیغام اور ابدی حیات کی طرف دنیا کو بلانا ہے تاکہ اپنے حیات بخش پیغام کے سہارے وہ دنیا کی امامت اور سربراہی کا مقام حاصل کرے۔ مسلمان کو زیردست اور سرنگوں ہوکر زندہ گی کی بھیک مانگتے نہیں رہنا چاہئے۔ وہ دین کو ہردو عالم کی کامیابیوں اور کامرانیوں سے سرفراز کرنے کے لئے آیا ہے۔ دُنیا کے ظالموں اور جابروں کے پنجہء استبداد میں جکڑے رہنے کے لئے نہیں آیا ہے۔ ؎ علم و حکمت کا ملے کیوں کر سراغ؟ کس طرح ہاتھ آئے سوزو دردو داغ؟ مرید ہندی علم و حکمت زاید از نانِ حلال عشق و رقّت آید از نانِ حلال! پیرِ رومیؔؒ مرید ہندی پوچھتے ہیں کہ اس اصلی علم و حکمت کا سراغ کیسے مل جائے گا جس سے دل روشن ہوجائیں اور جس سے دلوں کا سوز اور جگر کا درد اور گداز پیدا ہوجائے؟ پیر رومیؒ جواب دیتے ہیں کہ علم وحکمت کے ثمرات رزقِ حلال سے ہی حاصل ہوجاتے ہیں۔ اپنے خالق ومالک کے ساتھ عشق ومحبت کا تعلق اور دلوں کا گداز بھی رزق حلال سے حاصل ہوجاتا ہے۔ آج کی دُنیا میں یہی رزق ناپید اور عُنقا ہے۔ اس لئے دلوں کا گداز، رقت اور بارگاہ اِلٰہی میں حضوری کی کیفیت، سب کچھ چھن گیا ہے۔ ؎ بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے مسلمان نہیں راکھ کا ڈھیر ہے! اقبالؒ نے عالم افلاک کی سیر کے دوران میں پیررومیؒ سے بار بار ملاقات کرکے زندگی کے مسائل میں رہنمائی حاصل کی ہے۔ کہیں ’’زندہ رود‘‘ کہیں ’’جہاں دوست‘‘ کہیں ’’مرید ہندی‘‘ کہیں ’’عارف ہندی‘‘ کہیں جلوہ ’’سروش‘‘ کے نام سے فلک قمر میں رومیؔ اور جہاں دوست کے درمیاں مکالمہ ہورہا ہے۔ ؎ آدمی شمشیرو حق شمشیر زن عالم ایں شمشیر را سنگِ فسن! پیر رومیؒ دنیا میں انسان کی مثال شمشیر ہے اور حق شمشیر کے استعمال کا استحقاق رکھتا ہے۔ یہ دُنیا اس شمشیر کے لئے وہ پتھر ہے جس پر شمشیر کو تیز اور تابدار بنایا جاسکتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دُنیا امتحان گاہ ہے اور یہ انسان کے لئے آزمائش ہے کہ وہ حق وصداقت کا علمبردار بن کر اس دُنیا کے سنوارنے اور بناؤ میں ایک مؤثر کردار ادا کرے۔ ؎ شرقؔ حق را دید و عالم را ندید غربؔ در عالم خزید، از حق رمید مشرقی اقوام نے حق کو پہچانا، لیکن اس نے دین کو پہچاننے میں کوتاہی اور غفلت برتی ۔ مغربی اقوام نے دُنیا کو کھنگالا، پہچانا اور استعمال میں لایا، لیکن حقیقتِ نفس الامری سے دور ہوگئے ؎ چشم برحق باز کردن بندگی است خویش را بے پردہ دیدن زندگی است انسان کا اصل کام اور مقام یہ ہے کہ وہ آنکھیں کھول کر حق کو دیکھے، یہی اُس کی بندگی کا تقاضا اور مطالبہ ہے۔ اپنے آپ کو پہچاننا اور کسی چیز کو اس پہچان میں حائل نہ ہونے دینا، اصل زندگی ہے۔ جب اﷲ کا بندہ زندگی کے حقائق کو پہچانتا اور بندگی کے فرائض انجام دیکر اس کو زینت بخشتا ہے تو خود اﷲ اس بندے پر رحمت برساتا اور اُس کو اپنی عنایات اور نوازشات سے نوازتا ہے۔ ؎ ہر کہ از تقدیرِ خویش آگاہ نیست خاکِ اُو با سوزِ جاں ہمراہ نیست! جو بندئہ اپنی تقدیر سے آگاہ اور باخبر نہیں ہے اس کا جسم اُس کی روح کے سوزوگداز سے بے خبر رہتا ہے۔ وہ چلتا پھرتا انسان تو دِکھتا ہے مگر اُس میں انسانی روح اور انسانیت کے اوصاف و اطوار ناپید ہوتے ہیں۔ جہاں دوست کا استفسار: رومیؒ کے روح پرور خیالات کے جواب میں ’’جہاں دوست‘‘ اپنے تاثراتِ قلبی کا بڑی تفصیل سے تذکرہ کرتا ہے۔ چند اشعار کا انتخاب ملاحظ ہو۔ ؎ اے خوش آں قومے کہ جانِ اُو تپید از گِلِ خود خویش را باز آفرید! وہ قوم کتنی خوش بخت اور خوش نصیب ہے کہ جس کی روح میں تابندگی اور جوش و حرکت پیدا ہوگئی جس نے اپنے خاکی وجود سے ماوراء اپنی انسانی اور روحانی زندگی کا سراغ پالیا اور دُنیا کی امتحان گاہ میں اپنا مقام پہچان کر اپنے فرائض منصبی انجام دینے کا راستہ اختیار کرلیا۔ ؎ عرشیاں را صبحِ عید آں ساعتے چُوں شود بیدار چشمِ ملّتے جہاں دوست کہتا ہے کہ آسمان کے فرشتوں کیلئے وہ گھڑی اور ساعت عید کی صبح کی طرح روح افزا اور خوش کن ہوتی ہے جب وہ کسی خُفتہ اور اپنے بنیادی مقاصد سے غافل قوم میں بیداری کے آثار پاتے ہیں۔ ؎ پیر ہندی اند کے دم درکشید باز درمن دیدو بے تابانہ دید ہندیوں کیلئے پیرا ور رہنما جہاں دوست کے یہ خیالات سن کر کچھ دیر کے لئے خاموش ہوگئے پھر میری طرف بے تابانہ اور مضطربانہ نگاہوں سے دیکھا اور کہا۔ ؎ گفت مرگِ عقل؟ گفتم ترکِ فکر گفت مرگِ قلب؟ گفتم ترکِ ذکر کہا عقل کی موت کیسے واقع ہوجاتی ہے؟ میں نے کہا جب فکر سے کنارہ کشی کی جائے۔ فکر کا مطلب ہے نظریہ، تدبر، نصب العین، مقصدِ زندگی اور فلسفہ زندگی۔ پھر پوچھا کہ دل کی موت کے کیا وجوہ اور اسباب ہیں؟ میں نے کہا اﷲ کی یاد سے غفلت برتنا۔ الا بذکر اﷲ تطمئن القلوب ’’اﷲ کی یاد سے ہی دلوں کا اطمینان حاصل ہوجاتا ہے۔‘‘ گفت تن؟ گفتم کہ زاد از گردِ رہ گفت جاں؟ گفتم کہ رمزِ لا الہٰ پوچھا جسم کیا ہے؟ میں نے کہا اس کی پیدائش مٹی اور گردِ را ہ سے ہوئی ہے۔ پوچھا روح؟ میں نے کہا اﷲ ربِّ کائینات کا حکم اور امر۔ جس کے بغیر کوئی خالق اور معبود نہیں ہے۔ گفت آدم؟ گفتم از اسرارِ اوست گفت عالم؟ گفتم او خود روبرواست پوچھا انسان کیا ہے؟ میں نے کہا اﷲ کے رازوں میں سے ایک راز۔ پوچھا دنیاکیا ہے؟ میں نے کہا وہ تو خود سامنے ہے۔ مظاہر کائینات تو ہر چہار طرف بکھرے ہوئے ہیں کوئی دیکھنے والا ہو تو خالق کائینات کی طرف رہنمائی کرنے والا ٹھوس ثبوت ہے۔ بقولِ شیخ سعدیؒ ؎ برگِ درختان سبز در نظر ہوشیار ہر ورقے دفتر یست معرفتِ کرد گار ٭٭٭٭٭٭ گفت این علم و ہنر؟ گفتم کہ پوست گفت حجّت چیست؟ گفتم روئے دوست پوچھا یہ علم و ہنر کیا ہے؟ میں نے کہا یہ تو محض چھلکا ہے۔ جب تک حقیقت ابدی کی طرف رہنمائی نہ کرے۔ پوچھا دلیل کیا ہے؟ میں نے کہا دوست کا رُخِ زیبا۔ ؎ گفت دینِ عامیاں؟ گفتم شنید گفت دینِ عارفاں؟ گفتم کہ دید پوچھا عام لوگوں کے دین کی بنیاد کیا ہوتی ہے؟ میں نے کہا جو کچھ دوسروں سے سنتے ہیں اُس پر اُن کے دین کی بنیاد ہے۔ پوچھا کہ عارفوں یعنی اﷲ کی معرفت رکھنے والوں کا دین کیا ہے؟ میں نے کہا عینی مشاہدہ۔ جیسے اﷲ تعالیٰ پیغمبروں کو کرواتا ہے۔ عارف ہر تخلیق کو دیکھ کر تخلیق کار کی عظمت اور قدرت پر غور کرتا ہے۔ قرآن پاک میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ یہ ایک پیغمبر کو عین الیقین کی حد تک مشاہدات کے ذریعہ ایمانیات کا یقین پیدا کردیتاہے تاکہ وہ پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ انسانوں کو اﷲ، آخرت، جنت، دوزخ اور مابعد الطبعیات کے بارے میں یقین پیدا کریں اور خود ان کے اپنے دل بھی مطمئن ہوجائیں۔ جیسے حضرت ابراہیمؑ نے عرض کیا لیطمئن قلبی ۔ تاکہ میرا دل مطمئن ہوجائے کہ آپ مردوں کو زندہ کرتے ہیں۔ ؎ از کلامم لذّتِ جانش فزود نکتہ ہائے دلنشیں برمن کشود میرے کلام سے اُن کی روح کی لذت اور تازہ گی میں اضافہ ہوگیا اور بڑے دلنشین نکات مجھ پر واشگاف انداز میں ظاہر کردئے۔ ایک اور مقام پر پیر رومیؔ ’’زندہ رود‘‘ سے محو گفتگو ہوتے ہوئے اس صاحبِ دِل مفکر شاعر کے سامنے ملّت اسلامیہ کی زبوں حالی کا جگر خراش نقشہ رکھ کر اس کی حالت بدل دینے کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ حضرت رومیؒؔ کی زبان میں مفکّرِ ملّت علامہ اقبالؒ نہ صرف ملّتِ اسلامیہ کی خستہ حالی، پسماندگی اور خودفراموشی کی عبرت ناک تصویر ابھارتے ہیں، بلکہ وہ فکروعمل میں انقلاب پیدا کرنے اور راستے میں حائل چٹانوں کو پاش پاش کرنے کیلئے شعور کی آمادگی کے ساتھ اٹھ کھڑے ہونے کی بھی دعوت دیتے ہیں۔ علامہ مرحومؒ حضرت رومیؒ کا جوہر فکر پیش کرتے ہوئے پیغام دیتے ہیں کہ مسلمان کو راہ حق کی صبر آزما صعوبتوں سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہئے۔ اسی فکر کے سوتے جگانے سے مسلمان اور ملّت اسلامیہ کی عظمت رفتہ کا احیائِ نو ممکن ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبالؒ اپنے فکری مرشد مولانا رومیؒ کی راہنمائی کو شعر کا جامہ یوں پہناتے ہیں۔ باز درمن دید وگفت اے زندہ رود بادُو بَیتے آتش افگن درو جود اے زندہ رُود! (مسلمان اور امت مسلمہ کے) وجود میں حرارت پیدا کر اور اس کے بے حس اور مردہ جسم میں اپنے اشعار سے آگ لگادے۔ ایسے آتش فشاں اشعار کی ضرورت اس لئے کہ ناقئہ ماخستہ و محمل گراں تلخ تر باید نوائے سار باں ہماری اونٹنی نحیف ونزار اور خستہ حال ہے اور اس پر جو بوجھ اور محمل ہے وہ بہت بوجھل، ثقیل اور بھاری ہے۔اس لئے اونٹنی کی لگام پکڑنے والے ساربان کی آواز کو بہت ہی تیز اور ترش ہونا چاہئے تاکہ اونٹنی اس بھاری بوجھ کو سہارسکے اور اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہے۔ پیر رومیؔ نے اس شعر میں ملّت مرحومہ کی مثال پیش کی ہے کہ وہ اپنے فرضِ منصبی کے بھاری بوجھ کو اُٹھا نہیں سک رہی ہے۔ وہ اخلاقی، دینی، روحانی اور اسلامی اقدار اور کردار کے لحاظ سے بہت کمزور ہے۔ اس لئے اس قافلے کی قیادت کرنے والوں کو اپنی حُدی خوانی کوزیادہ زوردار اور اثر آفرین بنانا چاہئے۔ اس مضمون کو اقبالؒ نے ایک اور جگہ یوں ادا کیاہے۔ ؎ نوارا تلخ ترمی زن چو ذوق نغمہ کم یابی حُدی را تیز ترمی خوان چو محمل را گراں بینی جب تم اپنے سامعین، نغمہ سننے والوں میں بے حسی اور کم ذوقی محسوس کروگے تو خاموش اور بددل ہوکر زبان بندی کے بجائے اپنی آواز کو اور زیادہ تیز اور تلخ بناؤ۔ جب سواری پر بوجھ کا وزن زیادہ ہو اور وہ نقاہت اور کمزوری کا مظاہرہ کررہی ہو تو حُدی خوان یعنی قافلہ کے آگے چلنے والے اور اونٹنی کی لگام تھامے قائدین کو اپنی آواز میں سختی اور کرختگی پیدا کرنی چاہئے۔ پیر رومیؒ پھر فرماتے ہیں۔ ؎ امتحانِ پاک مرداں از بلاست تشنگاں را تشنہ ترکردن رواست اﷲ تعالیٰ کے صالح اور نیکوکار بندوں کے لئے آزمائشیں اُن کا امتحان ہیں۔ جو لوگ پیاسے ہوں اُن کی تشنگی اور پیاس کو اور زیادہ بڑھا دینا چاہئے تاکہ وہ اپنے مقاصد زندگی کے حصول کیلئے زیادہ سرگرم عمل ہوجائیں۔ قرآن پاک میں جگہ جگہ اس ابدی حقیقت کو اجاگر کیا گیا ہے کہ ایمان لانے کے بعد آزمائشیں اور امتحان لوازمات میں سے ہیں۔ ان سے فرار اور مفر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ {اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْ خُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَأْ تِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْ امِنْ قَبْلِکُمْ مَّسَّتْھُمُ الْبَاْسَآئُ وَالضَّرَّآئُ وَزُلْزِلُوا حَتَّیٰ یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہُ مَتَیٰ نَصْرُ اﷲِ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اﷲِ قَرِیْبٌ } ’’پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنت کا داخلہ تمہیں مل جائے گا، حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گذرا ہے، جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گذرچکا ہے۔ اُن پر سختیاں گذریں، مصیبتیں آئیں، ہلا مارے گئے، حتیٰ کہ وقت کا رسولؑ اور اُس کے ساتھی اہل ایمان چیخ اُٹھے کہ اﷲ کی مدد کب آئیگی۔ اُس وقت انہیں تسلی دی گئی کہ ہاں اﷲ کی مدد قریب ہے‘‘۔ (البقرہ: ۲۱۴) {اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوٓا اَنْ یَّقُوْلُوٓا آمَنَّا وَھُمْ لاَ یُفْتَنُوْنَ ہ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اﷲُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ ہ } ’’کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دئے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے‘‘ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالانکہ ہم اُن سب لوگوں کی آزمائش کرچکے ہیں جو ان سے پہلے گذرے ہیں۔ اﷲ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون۔‘‘ (العنکبوت: ۲،۳) درگذر مثلِ کلیمؑ از رُودِ نیل سُوئے آتش گامزن مثلِ خلیلؑ! نغمہ ء مردے کہ دارد بُوئے دوست ملّتے رامی بُرد تا کُوئے دوست! پیر رومیؒ زندہ رود کو پیغام دے رہے ہیں کہ اﷲ کی بندگی کے راستے میں دریائے نیل اور آتش نمرود آئے گی۔ جس طرح حضرت موسیٰ کلیم اﷲ دریائے نیل سے اﷲ کی مدد اور نصرت سے پار اُتر گئے اور حضرت ابراہیم خلیل اﷲؑ آتش نمرود میں کود کر سرخرو ہوکر نکل گئے۔ آگ کو اﷲ تعالیٰ نے گلزار میں بدل دیا۔ برابر اسی طرح آج بھی اﷲ اپنے بندوں کی مدد کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ دریائے نیل پر پُل بنانے والا اور آگ کو باعث سلامتی بنانے والا اﷲ آج بھی وہی قدرت اور طاقت رکھتا ہے۔ مگر آج موسیٰؑ اور حضرت ابراہیمؑ کی طرح ابتلا اور آزمائشوں میں پڑنے والے اﷲ کی مدد اور نصرت پر توکل اور بھروسہ کرنے والوں کی کمی ہے ورنہ آج بھی یہ معجزات اور اﷲ کی قدرت کے کرشمے دیکھے جاسکتے ہیں۔ ؎ آج بھی ہو جو براہیمؑ کا ایمان پیدا آگ کرسکتی ہے انداز گلستان پیدا پیر رومیؒ ایک طرف ابتلا اور آزمائش کو راہ حق کے لازمی مراحل قرار دیتے ہیں۔ دوسری طرف ایک بنیادی بات کی طرف ’’زندہ رود‘‘ کو متوجہ کرتے ہیں کہ قوموں کی قیادت میں جب تک ’’بوئے دوست‘‘ نہ ہو ملّت کو منزل مقصود تک نہیں پہنچایا جاسکتا ہے۔ ’’بوئے دوست‘‘ سے مراد ہے اﷲ کی رضا، خوشنودی، اُس کے دین کی سربلندی، اعلائے کلمۃ الحق، اسلامی تعلیمات کے مطابق فرد، معاشرہ اور ریاست کی تعمیر و تشکیل، بنی نوع انسان کی فلاح، انسان کے ساتھ امتیازی سلوک سے اجتناب وغیرہ۔ سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۸میں اہل ایمان کو بتایا گیا ہے۔ {یَٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ لِلَّہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَلاَ یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنآنُ قَوْمٍ عَلَیٰٓ اَلَّا تَعْدِلُوْا ج اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِتَّقْوَیٰ وَاتَّقُوْ اﷲَ ج اِنَّ اﷲَ خَبِیْرٌ مّ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ہ } ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اﷲ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ عدل کرو یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اﷲسے ڈر کر کام کرتے رہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو اﷲ اُس سے پوری طرح باخبر ہے۔‘‘ (المائدہ: ۸) پیر رومیؒ نے ’’زندہ رود‘‘سے فرمائش کی تھی کہ کچھ اشعار سناؤ جن سے خاکی وجود میں آگ لگ جائے۔ چنانچہ ’’زندہ رود‘‘ غزل پیش کرتے ہیں۔ اس میں اُن سوالات کے جواب آگئے ہیں جو ملّت کو درپیش ہیں اور جس کے نتیجے میں ملّت زوال و ادبار سے دوچار ہے اور اس کو وہ قیادت نصیب نہیں ہورہی ہے جو ’’بوئے دوست‘‘ رکھتے ہوئے اُس کو اپنا منصبی فریضہ یاد دلائے اور اپنے کھوئے ہوئے مقام کی بازیافت کیلئے فعال اور متحرک کرے۔ ؎ معنیء تازہ کہ جوئیم و نیابیم کجاست مسجدو مکتب و میخانہ عقیم اند ہمہ زندگی کے مسائل اور سوالات کے بارے میں جن تازہ اور جاودان معانی کی تلاش اور جستجو ہے کہیں دستیاب اور مہیا نہیں ہیں۔ مسجد، مکتب اور مے خانہ سب بانجھ ہوچکے ہیں۔ نہ مسجد اور نہ ہی مکتب، زندگی کے حقائق کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نہ ہی وہ مقامات جہاں ناؤنوش کی محفلیں جمی ہوئی ہیں۔ سب بے نتیجہ اور بے ثمر ہیں۔ حرفے از خویشتن آموز ودراں حرف بسوز کہ دریں خانقہ بے سوزِ کلیم اند ہمہ خود ہی تلاش اور کوشش کر اور زندگی کے حقائق کی پہچان کیلئے سرچشمہ ہدایت کی طرف رجوع کر اور اُس حقیقت اور معانی کی یافت کے بعد اپنی تمام تر صلاحتیں جو قدرت نے ودیعت کی ہیں تج دینے کیلئے تیار ہوجا۔ جن خانقاہوں اور جامدو بے جان تربیت گاہوں کی طرف تم دیکھ رہے ہو وہ سب کلیم ُ الّٰہی کے سوز اور جذبے سے خالی ہیں۔ فکر انقلابی سے سب محروم ہوچکے ہیں۔ بے روح و بے جان مراقبئے اور عبادتیں ہیں۔ ؎ از صفا کوشئی ایں تکیہ نشیناں کم گوئے موئے ژولیدہ و ناشُستہ گلیم اند ہمہ خانقاہوں اور تکیوں میں بیٹھنے والوںکی صفا کوشی کے بارے میں کم سوچنا اور کم باتیں کرنا ہی بہتر ہے۔ ان کے پاس پریشان بال اور میلے کچلے کمبلوں کے سوا کیا ہے؟ چہ حرمہا کہ درونِ حرمے ساختہ اند اہل توحید یک اندیش و دونیم اند ہمہ ایک ہی حرم میں انہوں نے بہت سارے حرم بنارکھے ہیں۔ قومیت، وطنیت، شکم، رنگ، نسل، زبان، دنیوی جاہ وحشمت، ملوکیت، لادین نظامِ زندگی، استعماری قوتوں کی ذہنی اور عملی غلامی۔ یہ نئے نئے بُت حرم کی طرح پوجے جارہے ہیں۔ اہل توحید، جن کو اﷲ کی وحدانیت، حاکمیت، بالادستی اور نظامِ زندگی عطا کرنے والے کی حیثیت سے مُقتدرِّ اعلیٰ اور سرچشمہ قوت ماننا چاہئے تھا ایک ہی فکر کے امانت دار ہوتے ہوئے ٹکروں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ؎ مشکل ایں نیست کہ بزم از سرِ ہنگامہ گذشت مشکل این است کہ بے نقل و ندیم اند ہمہ مشکل یہ نہیں ہے کہ مجلس ہنگامہ کے دوران میں ہی ختم ہوگئی یہ تو قانون قدرت ہے۔ ؎ ’’ثبات اِک تغیّر کو ہے زمانے میں‘‘ اصل مشکل اور المیہ یہ ہے کہ بغیر کوئی نشان اور نمونہ چھوڑے سب رخصت ہوگئے۔ ’’زندہ رود‘‘ اپنے دور کے حالات کی طرف توجہ مبذول کرارہے ہیں کہ آنے والے تو جانے والے ہی تھے لیکن اُن کو بعد میں آنے والوں کیلئے نقوش پا چھوڑ دینے چاہئے تھے، لیکن وہ نہ چھوڑ سکے۔اخلاف اپنی اپنی راہ چل پڑے اور پوری دُنیا میں بکھر کر رہ گئے۔ فاعتبروایا اولی الابصار! افلاک کی سیر کے دوران میں فلک مریخ میں فرعون، ایک خاتوں جس نے دعویٰ نبوت کیا تھا شہر مرغدین جو مریخ کے شہروں میں سے ایک شہر کا نام ہے۔ پیر رومی اور زندہ رود‘‘ مکالمات کرتے ہیں۔ ان سب مکالمات کی تفصیل طوالت طلب ہے۔ آخر پر پیر رومیؒ ’’زندہ رود‘‘ کو اپنا پیغام دیتے ہیں جو دراصل روحِ دین کے شناسا اقبالؒ کا پیغام ہے۔ ؎ مذہبِ عصرِ نو آئینے نگر حاصلِ تہذیبِ لادینے نگر! نیا آئین، قانون اور نظام جو آپ کے گردو پیش میں فروغ پارہا اور غلبہ حاصل کررہا ہے۔ جس کی بنیاد لادینیت پر ہے ، اس لادین، خدا بے زار اور آخرت فراموش تہذیب کے ثمرات اور حاصل کو دیکھ لیجئے گا۔ ؎ زندگی را شرع و آئین است عشق اصل تہذیب است دین، دین است عشق! یہاں پیر رومیؔ لادین تہذیب کی طرف صرف شارہ کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ اُس کے نتائج اور ثمرات دوسرے مقامات پر سامنے لائے گئے ہیں۔ یہاںوہ انسان اور خاص طور مسلمان کو زندگی کے اصل اور اساس کی طرف بلاتے ہیں۔ زندگی کے لئے شریعت و آئین، اﷲ ، اُس کے دین اور اُس کے بندوں کے ساتھ غایت درجہ کی محبت جو اقبالؒ کے نزدیک عشق کہلاتا ہے انسانی تہذیب کی اصل بنیاد اور اساس ہے اﷲ کا پسندیدہ دین ہے اور دین کی حقیقت کیا ہے کہ اﷲ، اُس کی کتاب، اُس کے رسولؐ اور آخرت کی زندگی پر ناقابل شکست یقین اور محبت ہو۔ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا اَشَدُّ حَباً لِلَّہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اﷲ کو محبوب رکھتے ہیں۔ اﷲہی کیلئے زندہ رہتے ہیں۔ اُسی کیلئے اپنی زندگی قربان کرتے ہیں اور اُسی کیلئے اُس کے پسندیدہ دین اور نظامِ زندگی کو غالب کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں کیونکہ یہی اور صرف یہی دین اﷲ کے بندوں کو امن وآشتی اور عدل وانصاف فراہم کرسکتا ہے۔ ؎ ظاہرِ اُو سوزناک و آتشیں باطنِ اُو نورِ ربّ العٰلمیں! اُس کا ظاہر بڑا ہی خوف ناک اور جلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے لیکن اُس کا باطن اﷲ ربّ العالمین کا نور، اُس کی رحمت اور اُس کا بے پایاں کرم اور عفو ودرگذر ہے۔ پہلے مصرعہ کا مطلب ہے کہ اسکی راہ میں سخت ترین آزمائشیں آتی ہیں لیکن جب یہ نظام غالب ہوجاتا ہے تو زمین اپنا سینہ کھول کر اﷲ کے بندوں پر رزق کے دروازے کھولتی ہے اور آسمان اپنی رحمتیں برسا کر ہر چہار سو شادابی اور ہریالی پھیلاتا ہے۔ ؎ دین نہ گردد پختہ بے آدابِ عشق دین بگیر از صحبتِ اربابِ عشق! دین کے ساتھ وابستگی اور پختگی عشق کے بغیر حاصل نہیں ہوجاتی ہے۔ دین کو ارباب عشق کی صحبت میں حاصل کیا جاسکتا ہے۔ آج کے دور میں اس حقیقت کو بہ چشمِ سر دیکھا جاسکتا ہے کہ مسلمان جو دین کا نام لیوا ہے مگر دین کے ساتھ عشق ومحبت کا تعلق نہ رکھنے کی وجہ سے رُسوا اور مظلوم ومحکوم بن چکا ہے۔ ان تمام بیماریوں کا علاج صرف اور صرف یہی ہے کہ وہ دین کے لئے اپنے اندر عشق کی صفت پیدا کرے جیساکہ اﷲ تعالیٰ نے رسول رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم سے فرمایا ہے۔ {قُلْ اِنَّ صَلاَ تِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلَّہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ہ لاَ شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذَالِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ ہ} ’’آپ کہدیجئے بے شک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اﷲ رب العٰلمین کے لئے ہے جس کا کوئی شریک و سہیم نہیں۔ مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے اس پر عمل کرنے والا مسلمان ہوں۔‘‘ (الانعام:162,163) فلک مریخ کے بعد فلک مشتری میں علامہ مرحومؒ کی ملاقات ارواح جلیلہ حلّاجؔ، غالبؔ وقرۃ العین طاہرہؔ کے ساتھ ہوتی ہے۔ ان ملاقاتوں میں بھی زمینی حقائق اور مابعد الطبیعات مسائل پر گفتگو ہوتی ہے۔ دلِ مضطر کو کسی جگہ آرام اور سکون نہیں مل رہا ہے۔ وہ تلاش حق میں کبھی ایک آسمان اور کبھی دوسرے آسمان کی سیر کرتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی آیات اور نشانیوں کی کوئی انتہا نہیں ہے اور جب اس راہ پر کوئی نکل پڑتا ہے تو اُس کی کوئی منزل نہیں ہوتی ہے۔ ؎ زانکہ آیاتِ خدا لا انتہاست اے مسافر جادہ را پایاں کجاست؟ کارِ حکمت دیدن و فرسودن است کارِ عرفاں دیدن و افزودن است! آں بدست آورد آب وخاک را این بدست آورد جانِ پاک را! حکمت و تدبر اور علم وہنر سے مادی وسائل اور ذرائع پر گرفت کی جاسکتی ہے اور اُن کو استعمال میں لاکر زندگی کی مادی ضرورتوں کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ لیکن جب عرفان اور نظر کا سہارا لیا جائے تو روح کی بالیدگی اور نشونما حاصل ہوجاتی ہے۔ روح کی پاکیزگی مادی وسائل اور ضرورتوں سے استغنا نہیں ہے بلکہ اُن کے صحیح اور جائز استعمال کا راستہ مل جاتا ہے اور انسان حقیقی معنیٰ میں انسانی صفات اور اخلاق سے مُزَّیَّن اور مُتَّصَف ہوکر خیرُ الانام کا مقام اور مرتبہ حاصل کرلیتا ہے۔ ؎ در تلاشِ جلوہ ہائے پَے بہ پَے طے کنُم افلاک و می نالم چُونَے! مختلف اور مسلسل جلووں اور نظاروں کی تلاش میں افلاک کی سیر کرتا ہوں اور بانسری کی طرح نالہ وفریاد کرتا رہتا ہوں۔ یہ سب کچھ مجھے ایک پاک باز مردِ خدا کی محبت اور نظرِ کرم سے حاصل ہورہا ہے جس نے اپنے دردوسوز کو میرے دل اور جان میں اُتاردیا۔ ایں ہمہ از فیضِ مردے پاک زاد آنکہ سوزِ اُو بجانِ من فَتاد! ہمارے کاروان نے مشتری کے کنارے پر پڑاؤ کیا وہ دُنیا اور نہ ختم ہونے والا خاکدان اُس کے طواف میں کئی چاند تیز تیز دوڑرہے ہیں۔ وہاں جو چاند اور تارے چمک رہے ہیں اُن کی روشنی اور تابندگی سے نصف شب، نصف النہارکی مانند دکھائی دے رہا ہے۔ نہ اُس کی ہوا میں ٹھنڈک ہے اور نہ ہی گرمی نہایت ہی معتدل اور خوشگوار ہے۔ اس مقام پر پہنچ کر جب میں نے آسمان کی طرف دیکھا میں نے تاروں کو اپنے قریب دیکھا۔ اس نظارہ کی ہیبت نے میرے ہوش وحواس اُڑا دئے۔ دُور ونزدیک کی تفریق مٹ گئی۔ اس حال میں، میں نے اپنے سامنے تین پاکیزہ روحوں کو دیکھا۔ اُن کے سینوں کی آگ اور تپش دنیا کو پگھلانے والی لگ رہی ہے۔ لالہ گوں جُبّے اُن کے جسموں پر ہیں۔ سوزِ دروں اور جذبہ ہا ئے اندروں سے اُن کے چہرے درخشندہ ہیں۔ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کے جواب میں جوبلٰی کہا گیا ہے اُس کے نشئہ میں یہ مست اور مدہوش دکھائی دیتے تھے۔ اس حال میں میرے رہبر ورہنما، پیرو مرشد مولانا رومیؒ نے مجھ سے کہا۔ اس قدر اپنے ہوش وحواس سے ماوراء نہ ہوجاؤ۔ ان پاکیزہ روحوں کی آتش نوائی سے تجھے نئی زندگی اور توانائی مل جانی چاہئے۔ غالبؔ، حلّاج اور خاتون عجم، انہوں نے حرم کی روح میں اضطراب و ارتعاش پیدا کردیا۔ ان ارواح کی آوازیں روح کوثبات، دوام اور سکون و طمانیت عطا کرتی ہیں۔ ان کی گرمی اور تپش کائینات کے اندر سے آرہی ہے۔ انہوں نے اپنے وجود اور پوری کائینات کو اﷲ کی بخشی ہوئی نظر اور بصیرت سے دیکھا ہے۔ اِتَقُوْابِفَرَاسَتَ الْمُؤمن اِنَّہٗ یَنْظُرُ بَنُوْرِاﷲ ’’مؤمن کی فراست اور دیدہ وری سے ڈرو۔ وہ اﷲ کے بخشے ہوئے نور سے دیکھتا ہے‘‘۔ اس روحانی محفل میں سب سے پہلے منصور حلّاج جن کو اَنا الحق کہنے پر اپنے دور کے کرم فرماؤں نے تختہ دار پر لٹکا دیا گویا ہوتے ہیں۔ اپنے وجود سے گرمی، ایمان و یقین اور حرکت وعمل تلاش کر جو ابھی تک دیکھنے میں نہیں آرہی ہے۔ دوسروں کی تجلی، گرمی، حرارت تقاضائے ایمان و یقین نہیں ہے۔ میں نے اپنے وجود، اپنے نفس اور اپنے ایمان ویقین کی گرمی اور حرارت پر اسطرح نظریں جمالیں کہ جلوئہ دوست نے پورے عالم کو اپنی گرفت میں لے لیا مگر مجھے اُس کو دیکھنے کی فرصت ہی نہ ملی۔ جمشید بادشاہ کے زیر نگیں مملکت کے بدلے اور معاوضے میں بھی، میں مشہور ومعروف ایرانی شاعرنظیریؔ کا یہ مصرع دینے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ ’’کَسے کہ کُشتہ نہ شد از قبیلہء مانیست‘‘ جو اﷲ کی راہ میں مارا نہ جائے وہ ہمارے قبیلہ اور زمرئہ خدا رسیدہ گان میں سے نہیں ہے۔ اﷲ اکبر! اﷲ اکبر!اﷲ اکبر!کیا شان، کیا وابستگی، کیا مقام فنا فی اﷲ اور کیا مقامِ بندگی! مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خدا وندی ہم ہیں کہ خدا کی بندگی کا بھی دعویٰ، اُس کے دین کی خدمت اور بالادستی کا بھی نعرہ اور جانوں کے بچاؤ کی بھی پریشانی اور پراگندگی۔ ببیں تفاوت راہ از کجاست تا بَکُجا حلّاجؔ، زندہ رودؔ اور مولانا رومیؒ۔ کیونکہ دونوں ایک دوسرے کی ہمراہی میں فلک مشتری کی سیرگاہ میں وادر ہوچکے ہیں۔ عقلِ فسون پیشہ نے جس کو اقبالؒ نے مکروفن خواجگی سے تعبیر کیا ہے، بہت بھاری لشکر اور فوج تیار کررکھی ہے لیکن تجھے دل گرفتہ اور دل شکستہ نہیں ہونا چاہئے۔عشق بھی تہنا نہیں ہے۔ بقول شیخ سعدی علیہ الرحمہ ؎ دشمن اگر قوی است دوست قوی تر است اگر دشمن طاقتور ہے مگر ہمارا دوست ، حامی، ناصر، مددگار ربِّ کائینات زیادہ قوی اور طاقتور ہے۔ مگر افسوس صد افسوس ہم زبان سے تو دعویٰ کرتے ہیں اﷲ کی مدد اور نصرت کا مگر یقین اور اعتماد کے ساتھ اُس کی مدد اور نصرت پر بھروسہ کرکے اُس کی بندگی اور فرماں برداری کے تقاضے پورے کرنے سے کنی کتراتے ہیں۔ { مَاقَدَرُو اﷲَ حَقَّ قَدْرِہٖ اِنَّ اﷲَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ } ’’اﷲ برترو بزرگ کو پہچاننے اور جاننے کا حق ادا نہیں ہوتا ہے۔ بے شک اﷲ طاقتور اور غلبہ کا مالک ہے‘‘ تُو اس روحانی اور وجدانی راستہ سے باخبر نہیں ہے ورنہ وہ کون سا نغمہ ہے جو محبوبہ کے باجے پر نہ گایا جارہا ہو۔ مگر اُس کو سننے اور جاننے والے ہونے چاہئیں۔ کوئی ایسا قصہ اور واقع سناؤ جہاں نہنگوں اور درندوں کو تو نے قید یا شکار کیا ہو۔ یہ بہانہ اور عذر مت پیش کرو کہ ہماری کشتی دریا کے راستے سے واقف نہیں تھی۔ میں اُس مسافر کے جذبہ، ہمت اور حوصلہ کا مرید اور شیدائی ہوں جو اُس راستہ پر قدم نہیں رکھ رہا ہے جس میں کوہ، جنگل اور دریا نہ آرہے ہوں۔ یعنی مشکلات اور نشیب وفراز۔ سہل انگار، مصلحت پسند، تن آسان مداہنت پسندانہ اور آسان راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ ایسے لوگ ہمارے کارواں کے ہمراہ نہیں چل سکتے ہیں۔ تم کو اُن رندان کے حلقہ میں شامل ہونا چاہئے جو بادہ پیما ہوں، جمود کے شکار نہ ہوں، حرکت اور عمل کے دلداہ ہوں۔ بہار ہوکہ خزاں محو سفر ہوں۔ ؎ یہ نغمہ فصلِ گل ولالہ کا نہیں پابند بہار ہو کہ خزان لا الہ الا اﷲ تجھے اُس پیر کی بیعت سے پرہیز کرنا چاہئے جو مردِ غوغانہ ہو۔ یعنی جو باطل قوتوں سے برسرِ جدوجہد اور شریک کشمکش نہ ہو۔ صدائے سوزناک: نوائے غالب: روحِ غالب اپنی خودداری اور استغنا کا مظاہرہ کرتے ہوئے زندہ رودؔ اور رومیؔ کو بتا رہی ہے۔ آجاؤ! ہمارے ساتھی اور ہم نشین بن جاؤ۔ ہم آسمان کی گردش کو بھی لوٹا دینگے، قضا کو بھی رطل گراں سکوں کے عوض لوٹا دینگے۔ اگر بادشاہ کے دربار سے بھی تحفہ آجائے ہماری غیرتمندی اُس کو لوٹا دیگی اور قبول نہیں کریگی۔ اگر کلیم یعنی حضرت موسیٰؑ بھی ہم سے بات کرنا چاہیں گے ہم بات نہیں کرینگے۔ اگر خلیلؑ بھی ہمارے مہمان بننا چاہیں گے ہم اُن کو بھی لوٹا دینگے۔ یہ استغنا اور غیرت مندی کس بنیاد اور بل بوتے پر۔ ؎ زحیدریمؓ من وتو زما عجب نبود گر آفتاب سوئے خاوراں بگردانیم ہم حضرت علیؓ کے پیروکار ہیں۔ اس لئے اگر آفتاب کو بھی مشرق کی طرف لوٹا دینگے تو کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ یہ اشارہ ہے اُس واقعہ کی طرف کہ حضرت علیؓ کی نماز عصر قضا ہوئی تھی۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دُعا مانگی آفتاب لوٹ آیا اور اُنہوں نے غروب آفتاب سے پہلے پہلے نمازِ عصر ادا کی۔ واﷲ عالم باالصواب۔ نوائے طاہرہ: اپنے محبوب کی طرف ۔ اگرمیں تمہارے چہرہ اور روئے مبارک کو رو بہ رو دیکھ لوں، تمہارے غم اور دل کے حال کو نکتہ بہ نکتہ اور موبمو تشریح اور توضٰح کرونگی ۔میں نسیم سحری کی طرح تیرے رخسار کو دیکھنے کیلئے نکل پڑی ہوں۔ میں ہر گھر، ہردروازے، ہر کوچے اور ہر گلی میں تلاش کررہی ہوں۔ تیرے فراق اورتیری محبت میں میری دونوں آنکھوں سے خونِ دل بہہ رہا ہے۔ مانند دریائے دجلہ، سمندرسمندر، چشمہ بچشمہ اور جوبجو۔میرے غمگین دل نے جان کے پردے پر تمہاری محبت کا نقشہ ہو بہ ہو بُنا ہے۔ یعنی میری جان کا تاروپود تمہاری محبت اور تمہارے عشق سے عبارت ہے۔ طاہرہؔ اپنے دل میں گھومی پھری اور پوری تلاش کے بعد اس نے تیرے (اپنے محبوب کے) بغیر کچھ بھی نہیں دیکھا۔ دردمند عاشقوں کے سوزو ساز نے میری روح میں نیا ہنگامہ پیدا کیا۔ اپنے خالق ومالک کے لئے یکسوئی اور خلوص کے تعلق کی نشاندہی پرانی اور دیرینہ مشکلات نے سر اُبھارا ہے۔ انہوں نے دوبارہ میرے اندیشوں اور ظن و تخمین پر شبخون مارا ہے۔ شیطانی اور ابلیسی وساوس۔ میرا وجود از سرتاپا اضطراب اور بے چینی کا شکار ہے جیسے کوئی سمندر طوفان کی لہروں سے تہہ و بالا ہورہا ہو اور خود اُس کا ساحل اُس کی لہروں کی زد سے خراب ہورہا اور کٹ رہا ہو۔ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ طوفان کے وقت خود سمندر کا ساحل بھی شکست وریخت کا شکار ہوجاتا ہے۔ قلب کی بے اطمینانی اور بے چینی سے انسان کا جسمانی وجود بھی تہہ وبالا ہوجاتا ہے۔ اضطراب، بے چینی اور بے بسی کے عالم میں، خاتونِ عجم طاہرہ کی ڈھارس بندھانے اور تسلی دینے کیلئے پیرومرشد رومیؒ گویا ہوتے ہیں۔ ؎ گفت رومیؔ وقت را ازکَف مدہ اے کہ می خواہی کشودِ ہر گِرہ! رومیؒ نے کہا اس قیمتی وقت کو ضائع مت ہونے دو۔ اگر تم اپنے دل کی گہرائیوں کی کشادگی چاہتے ہو، خدا رسیدہ بزرگوں کی صحبت میں وقت کو غنیمت جان کر اپنے دل کا حال بتادینا چاہئے تاکہ اُن کی رہنمائی سے دل کا اضطراب اور قلق دور ہوجائے۔ ایمان اور یقین کی پژمردہ گی اور اضمحلال کو دور کرنے کیلئے اہل دل حضرات کی صحبت بھی کارگر نسخہ ہے۔ ؎ کوئی اندازہ کرسکتا ہے اُس کے زورِ بازو کا نگاہِ مردِ مؤمن سے بدل جاتی ہے تقدیریں چند در افکارِ خود باشی اسیر این قیامت را بروں ریز از ضمیر کب تک تم اپنے خیالات اور افکار کے اسیر اور شکار رہوگے۔ یہ تو قیامت خیز منظر اور صورتِ حال ہے۔ اس کو جتنا جلد ممکن ہوسکے اپنے دل سے دور کردو۔ ؎ کارسازِ ما بفکر کار ما فکرِ مادر کار ما آزارِ ما (شیخ سعدیؒ) ہمارا کارساز حقیقی ہمارے کاموں کی فکر میں ہے، ہماری یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ہم صرف اور صرف اُس کے بن جائیں۔ وہ از خود ہمارے کاموں کیلئے راستے اور آسانیاں فراہم کریگا۔ اپنے کاموں کے لئے خود ہی فکرمند ہونا اپنے آپ کو آزار پریشانی اور ایذا پہنچانے کے مترادف ہے {وَکَفیٰ بااﷲِ وَکِیْلاً ہ حَسْبُنْا اﷲ وَنَعْمَ الْوَکِیْلَ ہ نَعْمَ الْمُوْلاَ وَ نَعْمَ النَصِیْرَ} یہ ہم زبان سے تو دہراتے ہیں، لیکن ہمارا عمل اس یقین اور اعتماد کا مظاہرہ نہیں کررہا ہے۔ زندہ رودؔ بھی اپنی مشکلات انِ ارواحِ مقدسہ کی خدمت میں پیش کرنے کی ہمت اور جرأت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ سب سے پہلے وہ روحِ حلّاج کی طرف مخاطب ہوتے ہیں۔ ؎ از مقامِ مومناں دُوری چرا؟ یعنی از فردوس مہجوری چرا؟ مؤمنوںکے مقام جنت سے آپ کی دُوری کیوں ہے؟ فردوس بریں سے ہجرت اور نامحرمی کیوں؟ روحِ حلّاج جواب دیتی ہے۔ ؎ مردِ آزادے کہ داند خوب و زشت می نگنَجد روحِ اُو اندر بہشت! جسے اچھے اور بُرے کی پہچان ہوتی ہے۔ اس کی روح بہشت میں بھی سما نہیں سکتی ۔ جنّتِ مُلّا مَے و حُور و غلام جنتِ آزاد گاں سیرِ دوام! ملّاؤں کی جنت شراب، حوریں اور غلام ہیں۔ آزاد لوگوں کی جنّت مسلسل گردش اور حرکت سے عبارت ہے۔ وہ اﷲ کی یاد میں اُس کے مظاہر کی دید میں ہی راحت اور آرام محسوس کرتے ہیں۔ ؎ جنت مُلّا خور و خواب و سرود جنّتِ عاشق تماشائے وجود! ملّاؤں کی جنت خوردونوش اور ساز وسرود ہے۔ اﷲ کے چاہنے والوں کو اپنے محبوب کی دید اور تماشا مطلوب ہوتا ہے۔ ؎ یہ جنّت مبارک رہے زاہدوں کو کہ میں آپ کاسامنا چاہتا ہوں ٭٭٭٭٭ علم بر بیم ورجادارد اَساس عاشقان را نَے اُمیدو نَے ہراس علم کی بنیاد بیم ورجا ،خوف اور اُمید پر ہے۔ جو لوگ اﷲ کی محبت اور عشق میں سرشار ہوتے ہیں اُن کو خوف وہراس کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔ لاخوفٌ علیھم ولا ھُم یحزنون! علم ترساں از جلالِ کائینات عشق غرق اندر جمالِ کائینات علم و آگہی جلالِ کائینات سے خوف زدہ ہے اور عشق کائینات کے جمال اور حسن میں گم ہوجاتا ہے۔ ؎ آتشِ مارا بیفزاید فراق جانِ مارا ساز گار آید فراق! ہمارے عشق ومحبت کی آگ کو دوری بڑھا دیتی اور اضافہ کا مؤجب بن جاتی ہے۔ ہماری جان اور روح کیلئے فراق سازگار اور موافق ہے۔ ؎ بے خِلشہا زیستن نازیستن باید آتش درتہِ پازیستن! اپنے مقاصدِ زندگی کے لئے اضطراب، بے چینی اور کشمکش وجدوجہد کے بغیر زندہ رہنا کوئی زندگی نہیں ہے۔ زندگی حصول مقصد کیلئے اس طرح گذارنی چاہئے جیسے پاؤں تلے آگ جل رہی ہو۔ زیستن ایں گونہ تقدیرِ خودی است از ہمیں تقدیر تعمیرِ خودی است! آتش زیرپا ہوکر زندگی گذارنا، خودی کی تقدیر اور قسمت ہے۔ اسی انداز اور طرز عمل سے خودی کی تعمیر ہوتی ہے۔ ’’زندہ رود‘‘ ،’’حلّاج‘‘ سے مختلف سوالات پوچھتے ہیں۔ اُن کو اس بات کا شدید احساس ہے کہ بار بارسوالات پوچھنا سوئِ ادبی ہے مگر اُن سے رہا نہیں جاتا ہے۔ جو شکوک وشبہات اُن کے دل میں اُبھر آتے ہیں اُن کو دور کرنے اور اپنی وساطت سے دوسروں کے دلوں سے اُن کے مٹانے کا جذبہ واحد محرک (Factor) ہے۔ ؎ از تو پُرسم گرچہ پُرسیدن خطاست سرِّ آں جوہر کہ نامش مصطفیٰؐ ست! آدمے یا جوہرے اندر وجود آں کہ آید گاہے گاہے در وجود! میں آپ سے پوچھتا ہوں، اگرچہ پوچھنا خطاہے کہ اس جوہر کا راز مجھے بتا دیجئے کہ جس کا نام مصطفیٰؐ ہے۔ کیا وہ آدم میں یا انسانی وجود میں کوئی جوہرہے جوکبھی کبھی وجود پذیر ہوتا ہے۔ ’’حلّاج‘‘ اس سوال کے جواب میں ’’زندہ رود‘‘ کو بتاتے ہیں کہ اُن کے سامنے ساری دنیا فرسودہ ہے۔ انہوں نے خود اﷲ خالق کائینات کے بندہ کی حیثیت سے اپنی نجات کرائی ہے۔ عبدہٗ کے معنی اور حقیقت تیرے فہم وادارک سے بالاتر ہے۔ کیونکہ وہ آدم بھی ہے اور بیک وقت جوہر بھی ہے۔ اُس کا جوہر نہ تو عربی ہے اور نہ ہی عجمی۔ وہ ان بندشوں اور خانہ بندیوں سے ماوراء ہے۔ پوری عالم انسانیت کے لئے رحمت و ہدایت لے کر آئے ہیں۔ عبدہٗ اﷲ کا بندہ جس کے ذریعہ اور وساطت سے اﷲ اپنے بندوں کی تقدیر بناتا اور ویران دلوں، ذہنوں اور سیرتوں کی تعمیر کرتا ہے۔ عبدہٗ جانفزا، روح پرور اور سیرت ساز بھی ہے اور اُس کے پیغام اور مشن کی خدمت کے لئے قربانی اور جانفشانی کا تقاضا بھی ہے۔ یہ تیشہ بھی اور سنگِ گراں بھی ہے۔ رحمت ورافت بھی اور جانِگُسل جدوجہد اور سعی وعمل بھی ہے۔ عبد عام حیثیتِ میں آدم ہے۔ عبدہٗ عموم سے خصوصیت کا مقام اور مرتبہ ہے۔ عبد سراپا انتظار ہے، عبدہٗ مُنتَظَر ہے، جن کو خالقِ کائینات اپنے دربارِ ذی شان میں بلاکر اُن کو مُنتَظَر بناتا ہے جس کا انتظار کیا جائے۔ عبدہٗ پوری کائینات کو بندگی کا رنگ دینے آتا ہے۔ اس معنیٰ میں اُن کو دہر اور دُنیا کی زیب وزینت، ہدایت، سرفرازی، آبادی اور آزادی کا مرکز و محور قراردیا گیاہے۔ انسانوں کی تو مختلف شناختیں اوررنگ ہیں، جبکہ عبدہٗ کا ایک ہی رنگ ہوتا ہے۔ اﷲ کی بندگی کا رنگ۔ صِبْغَۃْ اﷲِ وَمَنْ آحَسَنُ مِنْ اﷲِ صِبْغَۃً ہ ’’اﷲ کا رنگ اور سب سے بہتر اور پسندیدہ رنگ اﷲ ہی کا رنگ ہے۔‘‘ عبدہٗ با ابتدا اور بے انتہا ہے۔ اُن کا پیغام اور مشن، ابدی اور آفاقی حیثیت رکھتا ہے۔ اُن کے لئے عام انسانوں کے صبح اور شام نہیں ہوتے ہیں۔ وہ اپنے مولا کی بندگی، اطاعت، فرمان برداری، رضا جوئی اور خوشنودی کے لئے ہر لمحہ اور ہرآن سرگرم و منہمک ہوتے ہیں۔ عبدہٗ کے راز اور سرِ سے عام انسان واقف نہیں ہوتے ہیں۔ وہ عام لوگوں کے لئے بہترین نمونہ عمل ہوتے ہیں۔ لیکن اُن کی جو اپنے ربّ کے ساتھ معاملات اور تعلقات کی نوعیت ہوتی ہے وہ عام انسانوں کے ادارک سے باہر ہے۔ عبدہٗ الا اﷲ کی طرف سے راز اور سِر ہوتا ہے۔ یعنی اﷲ کی طرف سے ان کو جو مقام اور مرتبہ حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ لا الہ کے مقام سے انسان کو اُپر اُٹھا کر الا اﷲ کی منزل تک پہنچا دیں۔ لا الہ ایک ایسی تلوار ہے جو ما سواء اﷲ کے دعاوی کو بیخ وبُن سے اُکھاڑ دیتی ہے۔ عبدہٗ اس تلوار کی تاب، چمک اور دم خم ہے۔ واضح اور غیر مبہم ادارک ہو تو اﷲ کے آخری پیغمبرؐ کو اس نام سے پکارو کہ وہ اﷲ کے خاص بندے ہیں جن پر اﷲ نے وحی نازل کی تاکہ وہ اﷲ کے بندوں کی رہبری اور رہنمائی کرسکیں۔ عبدہٗ کائینات کے راز سمجھاتا، اس کے خالق کی پہچان پیدا کرتا، اس کے وجود میں آنے کی غرض وغایت بیان کرتا اور اس طرح رازِ کائینات کی حقیقت سے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ ان دو اشعار سے مدعا واضح نہیں ہوجاتا ہے۔ آپ کو اُس وقت تک عبدہٗ کی حقیقت فہم و ادراک میں نہیں آئے گی جب تک آپ وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلَٰکِنَّ اﷲَ رَمَیٰ!کی حقیقت کا ادارک نہیں کریں گے۔ یہاں سورہ انفال کی روشنی میں آیت کی طرف اشارہ ہے۔ { فَلَمْ تَقْتُلُوْھُمْ وَلَٰکِنَّ اﷲَ قَتَلَھُمْ ج وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلَٰکِنَّ اﷲَ رَمَیٰ ج وَلُیِبْلِیَ الْمُؤْمِنِیْنَ مِنْہُ بَلَآئً حَسَناً ج اِنَّ اﷲَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ہ} ’’پس حقیقت یہ ہے کہ تم نے اُنہیں قتل نہیں کیا بلکہ اﷲ نے اُن کو قتل کیا اور تو نے نہیں پھینکا بلکہ اﷲ نے پھینکا (اور مؤمنوں کے ہاتھ اس کام میں استعمال کئے گئے)۔یہ تو اس لئے تھا کہ اﷲ مؤمنوں کو ایک بہترین آزمائش سے کامیابی کے ساتھ گزار دے۔ یقیناً اﷲ سننے اور جاننے والا ہے۔‘‘ (الانفال:۱۷) تشریح: معرکہ بدر میں جب مسلمانوں اور کفار کے لشکر ایک دوسرے کے مقابل ہوئے اور عام زدوخورد کا موقع آگیا تو حضورؐ نے مٹھی بھر ریت ہاتھ میں لے کر شاھَتِ الوَجُوہ کہتے ہوئے کفار کی طرف پھینکی اور اس کے ساتھ ہی آپؐ کے اشارے سے مسلمان یکبارگی کفار پر حملہ آور ہوئے۔ اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ (تفہیم القرآن: جلد ۲) حلّاج نے ’’زندہ رود‘‘ سے کہا سننے اور کہلوانے سے بالاتر ہوکر اپنے وجود کے اندر غرق ہوجا۔ اپنی حقیقت پہچان اور عبدہٗ کی زندگی سے پیغام اور مشن سامنے رکھتے ہوئے، اپنا محاسبہ کر، کہ تم اُس کے لئے کیا کررہے ہو۔ ’’زندہ رود‘‘ پھر دریافت کرنا چاہ رہا کہ میں عشق کو بہت کم جانتا ہوں کہ اس کی حقیقت اور تقاضے کیا ہیں۔ مجھے عبدہٗ کے دیدار کا شوق اور تمناّ ہے۔ مجھے بتاؤ کہ یہ سعادت اور نعمت کیسے نصیب ہوسکتی ہے۔ ’’حلاج‘‘ معنی دیدارِ آں آخرزماںؐ حکمِ اُو برخویشتن کردن رواں درجہاں زِی چوں رسولِؐ انس وجاں تا چو اُو باشی قبولِ انس وجاں باز خود را بین، ہمیں دیدارِ اوست سنّتِ او سِرّے از اسرارِ اُوست نبی آخرزمان صلی اﷲ علیہ وسلم فداہٗ ابی و اُمی جسمی و روحی ، کے دیدار اور زیارت کے حقیقی معانی یہ ہیں کہ انہوں نے جو زندگی گذارنے کا طریقہ اور راستہ بتایا ہے اُس پر عمل کیا جائے ۔ {وَمَآئَ اتَٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھَٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا} ’’جو کچھ تمہیں رسولؐ عطا کرے۔ اُس کو اختیار کرو(لے لو) اور جس سے وہ منع کرے اُس سے رُک جاؤ اور پرہیز کرو۔‘‘ (الحشر:۷) دُنیا میں اُسی طرح زندگی گذار جس طرح آنحضورؐ نے زندگی گزاری ہے ۔ تاکہ اُنہی کی طرح انسان بھی اور جن بھی آپ کو پسند کریں، قبول کریں اور باعث رحمت و برکت تصور کرکے آپ کے طرزعمل کی تقلید اور پیروی کریں۔ یہ طرزِ عمل اختیار کرنے کے بعد اپنی زندگی پر نظر ڈالو۔ اپنے آپ کو دیکھو۔ یہی رسول اﷲؐ کی زیارت اور دیدار ہے۔ اسی لئے قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے۔ لَقَدْ کاَنَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلُ اﷲِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃً تمہارے لئے رسول اﷲؐ کی زندگی میں بہترین نمونہ عمل ہے یہ از مہد تالحد مکمل، بہترین اور زندگی کے ہر شعبہ میں کامل رہنمائی ہے۔ کسی مسلمان کیلئے اس کامل اور بہترین نمونہ زندگی کے مقابلے میں کسی اور نمونہ عمل کو اختیار نہیں کرنا چاہئے۔ آج کے دور میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ موت کے بعد کی زندگی کے لئے اُن کی تعلیمات، نجات کا باعث بن سکتی ہیں مگر دُنیاوی زندگی کے لئے دوسرے نمونے اپنائے جاسکتے ہیں جن کی پیروی میں دُنیاوی خوشحالی، امن اور فراغت حاصل کی جاسکتی ہے، حالانکہ رسول اﷲؐ دُنیا اور آخرت دونوں زندگیوں کیلئے بہترین اور باعث فلاح و نجات نمونہ ہیں۔ اس میں تفریق اور تقسیم کرنے کی کوئی گنجائش اور ضرورت نہیں ہے۔ رسول اﷲؐ سے پوچھا گیا کہ بہترین دُعا کیا ہے جو اﷲ تعالیٰ سے مانگی جائے۔ آپؐ نے فرمایا { رَبَّنَا آتِنَا فِیْ الدُنْیا حَسَنَۃٌ وَّ فِیْ الّاٰخِرَۃِ حَسَنَۃٌ وَّقِنَا عَذَابً النَّار} ’’اے میرے ربّ مجھے دنیا اور آخرت کی فلاح اور بھلائی عطاکر اور جہنم کے عذاب سے نجات بخش‘‘ رسول اﷲؐ کا اسوئہ حسنہ فرد، معاشرہ اور نظام کے لئے ہر حیثیت اور ہر جہت سے باعث فلاح و کامرانی ہے۔ اُمّت مسلمہ کی حرماں نصیبی اور زبوں بختی ہے کہ اس نے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اس بہترین نمونہ عمل کو ترک کرکے محدود دائرے تک سمیٹ لیا ہے۔ پوری دُنیا میں اس کے زوال، انحطاط ، ادبار، ذلّت، محکومی و غلامی کی یہی بنیادی وجہ اور سبب ہے۔ ؎ بہ مصطفیٰؐ برساں خویش راکہ دین ہمہ اوست اگر بہ اونہ رسیدی تمام بو لہبی است ’’زندہ رود‘‘ ، ’’حلّاج‘‘ سے پھر سوال کرتے ہیں: ؎ چیست دیدار خدائے نُہ سپہر آں کہ بے حکمش نہ گردد ماہ و مہر؟ رسول اﷲؐ کے دیدار کی حقیقت سمجھانے کے بعد اب مجھے اﷲ کے دیدار کی حقیقت سے آشنائی بخش دے۔ اُس غالب وقاہر خدا کی زیارت، دیدار کی حقیقت سے جو آسمان و زمین کا خالق اور مالک ہے اور جس کے حکم کے بغیر چاند اور آفتاب کی گردش ممکن نہیں ہے۔ ’’حلّاج‘‘ نقشِ حق اوّل بجاں انداختن باز اُو را در جہاں انداختن! اﷲ تعالیٰ کے وجود، اُس کی ذات والا صفات پر یقین کامل اور اس کے احکامات و ہدایات پر عمل۔ سب سے پہلے اپنی زندگی اس سانچے میں ڈھالی جائے اُس کے بعد گردوپیش کی دنیا میں اﷲ پر ایمان اور اُس کی بندگی کی طرف دعوت دینا اور پوری دُنیا میں اُس کے کلمہ اور اُس کے پسندیدہ دین کو قائم و کارفرما بنانا۔ ؎ سروری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے حکمران ہے اک وہی باقی بُتانِ آزری! جب اپنی زندگی میں بندگی کے آثار اور تقاضے روبعمل لائے جائیں، اﷲ تعالیٰ کے نیکو کار اور پسندیدہ بندوں کا عمل جب انسانی برادری دیکھے گی تو حق کا دیدار، دیدارِ عام بنے گا۔ گویا اﷲ برترو بزرگ کو اپنا، خالق، مالک، حاکم اور مقتدرِ اعلیٰ تسلیم کیا جائے اور پھر اس زندہ حقیقت کو عام کرنے کا منصبی فریضہ انجام دیا جائے گا تو یہ اﷲ کی ذاتِ اقدس کا دیدار عام ہوگا۔ ؎ نقشِ جاں تا در جہاں گردد تمام می شود دیدارِ حق دیدارِ عام! اے خنک مردے کہ ازیک ہوئے اُو نُہ فلک دارد طوافِ کوئے اُو! اے معتدل مزاج کے مردِ مؤمن، شعور کی بیداری اور دل کی حضوری کے ساتھ اُس کے وجود اور ذاتِ اقدس کا اقرار اور اعتراف، اتنی قوت اور طاقت بخشتا ہے کہ نو آسمان اُس کے کوچے کا طواف کرنے لگتے ہیں۔ ؎ وائے درویشے کہ ہوئے آفرید باز لب بربست و دم در خود کشید افسوس اور واویلا اُس ظاہر پرداز شخص پر جو اﷲ ہو کی آواز بلند کرتا ہے، اُس کی معرفت اور پہچان کا دعویٰ تو کرتا ہے لیکن ذکر لسانی کے بعداپنی زبان پر تالے چڑھاتا ہے اور اﷲ کا حکم بلند کرنا اور اُس کی زمین پر اُس کی حاکمیت کا حق منوانا، فرض منصبی جانتے ہوئے سمجھاتا نہیں ہے۔ ؎ حکمِ حق را درجہاں جاری نکرد نانے از جو خورد و کرّاری نکرد واویلا اس پر جو اﷲ تعالیٰ کے احکامات اُس کے دین اور اُس کی پسندیدہ راہ کو دنیا میں عام کرنے اور اُس کو قوتِ نافذہ عطا کرنے سے غفلت اور کوتاہی برت لیتا ہے۔ خوف کی وجہ سے یا آزمائش اور ابتلاء کے اندیشوں سے جدوجہد اور کشمکش کی زندگی سے اجتناب برتتے ہوئے کوہ وغار کے رہن اور گرِؤ ہوجاتا ہے۔ جَوکی روٹی تو کھاتا ہے مگر حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی طرح دین حق کے غلبہ کے لئے کرّاری، شجاعت، بہادری اور غیرت مندی کا مظاہرہ نہیں کرتا ہے۔اگر ایمان تازہ دم اور مستحکم ہے تو فقروغناسے شان حیدریؓ کا مظاہرہ کیا جاسکتا ہے۔ ؎ تیری خاک میں ہے اگر شرر تو خیالِ فقروغِنانہ کر کہ جہاں میں نانِ شعیر پر ہے مدارِ قُوتِ حیدریؓ! مسلم معاشرہ میں کچھ نانِ جویں پر جیئے رہنے کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر قوتِ حیدری کا مظاہرہ کرکے، اُن کے اس دعویٰ کی حقیقت پادر ہوا ثابت ہوجاتی ہے۔ یٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْ الِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالاَ تَفْعَلُوْنَ ’’اے ایمان کا دعویٰ کرنے والو! وہ باتیں کیوں کرتے ہو جن پر عمل نہیں کرتے ہو‘‘۔ خانقاہے جست واز خیبر رمید راہبی و رزیدو سلطانی ندید! اس ظاہردار عابد وزاہد مسلمان نے خانقاہ کی راہ لی اور یہ خیبر سے بھاگا۔ اس نے رہبانیت کو اپنا شعار بنایا اور اس نے حکمرانی نہیں دیکھی۔ یعنی اس نے رسمی تلاوت کرنے، تسبیح پھیرنے، مراقبے کرنے اور گوشہ نشینی اختیار کرنے تک ہی دین کو محدود رکھا۔ سیاست، تجارت، ثقافت اور حکومت پر دین کا غلبہ قائم کرنے کی کوشش میں آزمایش اور ابتلاء سے گزرجانے کے تقاضوں سے اس نے آنکھ چرانے میں ہی عافیت سمجھی ہے۔ عشرت پسندی اور عافیت کوشی کے ساتھ دل لگی اور جہدوعمل سے گریز نے اس درویش نما مسلمان میں رہبانیت پسندی پیدا کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج کا مسلمان ہر جگہ محکوم اور مغلوب نظر آتا ہے۔ وہ دُنیا پر حکمرانی کے لئے آیا تھا مگر اب دُنیا اُس پر حکمران ہے ۔ وہ غلامانہ زندگی پر قانع ہے۔ اس نے حکمرانی کی نہ تمنا کی، نہ اس کے لئے جدوجہد کی اور ناہی اس نے حکمرانی کی۔ نقشِ حق داری؟ جہاں نخچیرِ تست ہم عناں تقدیر با تدبیرِ تُست اے مردِ خنک مزاج: اگر تو اﷲ کی بندگی کا حقیقی نقش اور نظام قائم کریگا تو ساری دُنیا تیرے زیر نگین آجائے گی۔ تیری تقدیر، تیری تدبیر ، حکمت عملی اور جدوجہدِ زندگی کے ساتھ ہم عناں اور ہم سفر بن جائے گی۔ ؎ عصرِ حاضر باتومی جوید ستیز نقشِ حق بر لوحِ ایں کافر بریز! موجودہ زمانہ، جس کا نظام، طرزِ زندگی، فلسفہ حیات، الحاد ، مادہ پرستی اور تفریق دین وسیاست کی بنیادوں پر قائم ہے، تیرے ساتھ ہمیشہ برسرِ جنگ اور ستیزہ کار رہنا چاہتا ہے۔ ؎ ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز چراغ مصطفویؐ سے شرارِ بولہبی یہ ستیزہ کاری کسی بھی دور میں نئی اور وقتی نہیں ہے، بلکہ لادین تہذیب کی سرشت اور مزاج میں حق دُشمنی اور اسلام دُشمنی ازل سے موجود ہے۔ یہ گویا اُس کی سرشت اور خمیرمیں گُند ھی ہوئی ہے۔ اسی لئے اقبالؒ نے افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ کو پیغام دیا تھا۔ ؎ لیکن از تہذیب لادینے گریز زانکہ اُو با اہل حق دارد ستیز تجھے لادین تہذیب کو اپنے ملک کے سیاسی اور اجتماعی نظام سے دور رکھنا چاہئے کیونکہ یہ تہذیب اور نظام ہر دور اور ہرزمانے میں اہل حق کے ساتھ برسرپیکار رہی ہے۔ اس لئے ’’حلّاج‘‘، ’’زندہ رود‘‘ سے کہتا ہے۔ اس کافر کی لوحِ قلب و ذہن پر اﷲ کی حاکمیت اور اُس کے دین کی عظمت اور غضب کا نقش پیدا کرنے کی ذمہ داری انجام دیدے۔ ’’حلّاج‘‘ کی طرف سے یہ پیغام دئے جانے کے بعد ’’زندہ رود‘‘ اس بات کی ضرورت محسوس کررہا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے دین کی اقامت اور انسانی برادری پر نقشِ حق ثبت کرنے کے لئے کیا طریقِ کار اور طرزِ عمل اختیار کیا جائے۔ ’’زندہ رود‘‘ نقشِ حق را درجہاں انداختند من نمی دانم چساں انداختند؟ اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کے دین کی کاملیت اور عظمت کا نقش دُنیا پر ثابت اور غالب کرنے کی بات تو سامنے آگئی لیکن مجھے معلوم نہیں کہ کیسے اس کو قائم و غالب کیا جائے۔ اقبالؒ کے نزدیک اقامتِ دین کا تصور کتنا واضح اور غیر مبہم ہے۔ اس بارے میں اب تک اتنی واضح اور مبرہن تصویر سامنے نہیں لائی جاچکی ہے۔ اس لئے دین کی روح کا شناسا اقبالؒ اپنے لافانی اور آفاقی پیغام کی نسبت سے اس خدمت اور حق ادائیگی کا سزاوار ہے کہ اُس کو اپنے کلام اور پیغام کی روشنی میں سمجھا اور سمجھایا جائے۔ اس مردِ مؤمن کے بارے میں کتنا بڑا ظلم اور ناانصافی ہے کہ اِسے سوشلزم اور اشتراکیت کا علمبردار کہا جائے۔ اس کے کلام کے چند اشعار کا سہارا لے کر اس کو جامد روحانیت اور رہبانیت کا پرستار گردانا جائے۔ ’’حلّاج‘‘ کے ساتھ مکالمہ میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح نقشِ حق کو سمجھا جارہا ہے۔ پھر اُس کے غالب کرنے کے طریق کار کے بارے میں دریافت کیا جارہا ہے۔ قرآن پاک میں اقامتِ دین کو جس طرح واضح طور اُمّت مسلمہ کے لئے فریضہ قرار دیا جارہا ہے، برابر اسی طرح نقشِ حق کے نام سے اقبالؒ اس کے غلبہ اور طریق کار کی طرف متوجہ کررہا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ {شَرَعَ لَکُم مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصَّیٰ بِہٖ نُوْحًا وَالَّذِیٓ اَوْ حَیْنَآ اِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖ اِبْرٰھِیْمَ وَمُوْسَیٰ وَعِیْسَیٰٓ اَنْ اَقِیْمَوْاالدِّیْنَ وَلاَ تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ج } ’’اُس نے تمہارے لئے دین کا وہی طریق کار مقرر کیا ہے جس کا حکم اُس نے نوحؑ کو دیا تھا اور جسے (اے محمدؐ) اب تمہاری طرف وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو دے چکے ہیں۔ اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو دین کو اور اُس میں متفرق نہ ہوجاؤ۔‘‘ قائم کرو اس دین کو: نقشِ حق را درجہاں انداختند اقبالؒ اس کے قیام اور غالب کرنے کے طریق کار کے بارے میں استفسار کرتے ہیں۔ من نمی دانم چساں انداختند؟ میں نہیں جانتا ہوں کہ ہمارے اسلاف نے اُس کو کیسے قائم اور غالب کیا۔ ’’حلّاج‘‘ جواب دیتے ہیں۔ ؎ یا بزورِ دلبری انداختند یا بزورِ قاہری انداختند! زانکہ حق درد لبری پیدا تراست دلبری از قاہری اَولیٰ تراست! پہلا طریق کار اور طرزِ عمل یہ ہے کہ تبلیغ، تفہیم، حسنِ اخلاق، حکمت وتدّبر، رافت ورحمت، شفقت و محبت سے انہوں نے دنیا میں نقش حق قائم کیا۔ ؎ یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم جہادِ زندگانی میں، ہیں یہ مردوں کی شمشیریں ہمارے لئے بھی یہی طریقہ کار جائز ہے۔اس طریقِ کار سے اگر مثبت نتائج برآمد نہ ہوں تو قاہری کا بھی سہارا لیا جاسکتا ہے۔ یہ مجبوری کا عمل ہے۔ اصل اور اولیٰ طریقِ کار دلبری اور دل جوئی ہی قرار دی جاسکتی ہے۔ وقت کے تقاضوں کے تحت اس میں تقدیم و تاخیر ہوسکتی ہے۔ لیکن اصل مقصود کو حالات کی نامساعدت سے کبھی ساقطِ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ’’روحِ دین کا شناسا۔۔۔۔۔۔۔۔ اقبالؒ‘‘ کا بنیادی اور اصل پیغام صرف اور صرف یہی ہے کہ اسلام اور دین اسلام غالب ہونے کے لئے بھیجا گیا ہے محکوم، مجبور اور زیردست وغلام رہنے کے لئے نہیں آیا ہے۔ دلبری اور دل جوئی کے ذریعہ حق زیادہ بہتر طریقے پر ظاہر ہوجاتا ہے جیسا کہ رسول رحمتؐ کی حیثیت کے بارے میں اﷲ تعالیٰ اُمّت پر بطور احسان جتلاتا ہے۔ فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اﷲِ لِنْتَ لَھُمْ ’’اﷲ تعالیٰ کا احسان ہے کہ پیغمبر آخرالزماںؐ کو ان کے لئے نہایت ہی نرم، شفیق، رحم و رافت کا مجسمہ بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ سورئہ ن والقلم میں فرمایا وَاِنَّکَ لَعَلیٰ خُلْقٍ عَظِیْمٌ ہ آپؐ بہترین اخلاق کے مالک ہیں۔ خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ بُعِثْتُ لِاُتِّمَمَّ مَکَارِمَ الاخْلَاق مجھے بہترین اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث فرمایا گیا ہے قرآن پاک اور احادیث نبویؐ سے اس نظریہ کی تائید ہوتی ہے۔ ؎ دلبری از قاہری اولیٰ ترست! صحبتِ آدم سے عاجز ابلیس کی فریاد: فلک مشتری سے رخصت ہوجانے سے پہلے ’’نالہ ابلیس‘‘ بھی سُنایا جارہا ہے جس میں ابلیس اﷲ کے بندوں کے ساتھ پیش آمدہ روش کی تصویر کشی کرکے بتا رہا ہے کہ میں نے اﷲ کے ان بندوں کو جن کے سامنے سجدہ نہ کرنے کی پاداش میں مجھے راندئہ درگاہ بنادیا گیا، کیسا پایا۔ ؎ اے خدا وندِ صواب و ناصواب من شُدم از صحبتِ آدم خراب! اے نیک وبد، خیروشر کے خالق و مالک، میں دُنیا میں آدم کی صحبت میں بہت خراب ہوگیا ہوں۔ ؎ ہیچ گہ از حکمِ من سربر نتافت چشم از خود بست و خودرا درنیافت! اس آدم زاد نے کسی بھی وقت میرے حکم سے سرتابی نہ کی۔ اپنے وجود سے اس نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور اپنی حقیقت کو اس نے پہچانا نہیں ہے۔ خاکش از ذوق ’ابا‘ بیگانہء از شرارِ کبریا بیگانہئ! اس کا خاکی وجود انکار کے ذوق اور لذّت سے بے گانہ اور محروم ہے۔ ابلیس اﷲ کے حکم کی سرتابی اور انکار کی یاد دلا رہا ہے کہ مجھے اپنے خالق اور مالک کے حکم کی سرتابی میں کتنی لذّت نصیب ہوئی۔ مگر یہ انسان یہ تو میری فرماں برداری میں کوئی کمی نہیں برتتا ہے۔ اﷲ کی طرف سے ناراضی کے اظہار سے بھی یہ بیگانہ ہے۔ یعنی میری فرماں برداری کے نتیجے میں اس کو اﷲ کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑیگا۔ لیکن اُس انجام سے بھی یہ بے خبر ہے۔ حالانکہ اس کو بتایا گیا ہے۔ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوّمُبِیْن ’’یہ تمہارا کھلا دُشمن ہے‘‘ صید خود صیّاد را گوید بگیر الاماں از بندئہ فرماں پذیر! شکار خود شکاری کو اپنا آپ حوالہ کررہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ مجھے شکار بنالے، میں تو اس (شیطان کے فرماں بردار) بندے سے پناہ مانگ رہا ہوں۔ از چُنیں صیدے مرا آزاد کُن طاعتِ دیروزئہ من یاد کُن ابلیس ربّ ذولجلال سے فریاد کررہا ہے کہ مجھے ایسے شکار سے پناہ بخش دے۔ منکر ہونے سے پہلے کے دور کی میری اطاعت کا پاس ولحاظ کرکے میری یہ التجا اور درخواست قبول فرما۔ پست ازوآں ہمّتِ والائے من وائے من، اے وائے من، اے وائے من! اس کم ہمت، کم حوصلہ بندئہ نفس سے تو خود میرا حوصلہ بھی ٹوٹ رہا ہے۔ میری ہمت اور غیرت بھی بُرباد ہورہی ہے۔ مجھ پر افسوس، صد افسوس اور صد افسوس ہے! فطرتِ اُو خام و عزمِ اُو ضعیف تابِ یک ضربم نیارد ایں حریف اے اﷲ تیرے اس شاہکار انسان کی فطرت خام اور اس کا عزم وارادہ بہت ہی کمزور اور ضعیف ہے۔ میرا یہ حریف، میری ایک ضربِ بھی برداشت نہیں کرتا ہے۔ بندئہ صاحب نظر باید مرا یک حریفِ پختہ تر باید مرا! مجھے کوئی صاحبِ نظر بندہ چاہئے۔ ایسا حریف اور مقابل جو پختہ ہو، باغیرت، باہمت، باحوصلہ، باعزم اور مضبوط ارادے کا مالک ہو۔ لعبتِ آب وگل ازمن بازگیر می نیاید کودکی از مردِ پیر! مٹی کا یہ کھلونا مجھ سے واپس لے لے۔ ایک معمر کو طفلگی اور بچوں کی طرح کھیلنا، کودنا زیب نہیں دیتا ہے۔ آب و گل سے مراد انسان ہے۔ ابنِ آدم چیست؟ یک مُشتِ خس است مشتِ خس رایک شرار ازمن بس است! یہ آدم کی اولاد اس کی حیثیت اور حقیقت گھاس کے تنکوں کے برابر ہے اور مشُتِ خس کے جلانے اور نیست ونابود کرنے کے لئے میری ایک چنگاری کافی ہے۔ اندریں عالم اگر جز خس نبود ایں قدر آتش مرادادن چہ سود؟ اگر اس انسانی دُنیا میں گھاس کے تنکوں کے بغیر کچھ اور نہیں تھا تو اے خالقِ جن و انس، مجھے اتنی قوت، طاقت اور آتشِ تپاں دینے کی کیا ضرورت تھی؟ شیشہ را بگداختن عارے بود سنگ را بگداختن کارے بود! شیشہ پگھلانا، ایک طاقت ور کے لئے شرم کی بات ہے۔ ہاں! پتھر کو پگھلانا ہو تو کارے دارد معاملہ ہے۔ ابلیس کی فریاد یہ ہے کہ انسان کو فریب دینا اور اپنے جھانسے میں لانا میرے لئے کچھ مشکل نہیں ہے کیونکہ یہ تو بہت کمزور اور عزم وارادہ کی نعمت سے محروم ہے۔ اس لئے اس کو اپنے دامِ تزویر میں لانا کوئی کمال کی بات نہیں ہے۔ اگر پختہ ارادے اور عزم راسخ کا کوئی انسان ہوتا، تو اُس کو فتح کرنا اور ابلیسی جال میں پھنسانا بڑا کام تھا۔ ابلیس دورِ جدید کے مسلمان کا ضعف دیکھ کر نالاں ہے کہ اتنے کمزور حریف کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا ابلیسی شان کے بھی شایاں نہیں ہے۔ آنچناں تنگ از فتوحات آمدم پیشِ تو بہرِ مکافات آمدم میں انسانوں کو فتح کرتے کرتے بالکل تنگ آگیا ہوں۔ مجھے تو کہیں بھی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑرہا ہے۔ میں تیرے دربار میں بدلہ اور صلہ حاصل کرنے کے لئے آیا ہوں۔ یہ تیرا پیدا کردہ انسان، میرے آگے ٹک نہیں رہا ہے۔ مجھے اپنی قوت اور آتشین خصلت کا مظاہرہ کرنے کی کہیں بھی ضرورت نہیں پڑرہی ہے۔ منکر خود از تو می خواہم بدہ سوئے آں مردِ خدا راہم بدہ ربّ کائینات مجھے ایسا انسان دکھا جو میرا منکر ہو۔ میری اطاعت اور فرمان برداری سے سرتابی والا ہو۔ جو کسی بھی حال میں اور کسی بھی کام میں میری تابعداری نہ کرے، بلکہ صرف اور صرف تیرا ہی فرماں بردار اور بندئہ مخلص ہو۔ مجھے ایسے ہی کسی مردِ خدا کی طرف رہنمائی فرما اور راستہ بتادے کہ میں اُس تک پہنچ سکوں۔ بندئہ باید کہ پیچد گردنم لرزہ اندازد نگاہش در تنم میرے مولا! مجھے ایسا بندئہ چاہئے جو میری گردن موڑ دے۔ جس کی نظر سے میرے وجود میں لرزہ طاری ہو۔ آں کہ گوید ’از حضورِ من بَرو‘ آں کہ پیشِ اُو نیرزم باد و جو میرے پرور دگار! مجھے تیرے بندوں میں سے ایسے بندے کی تلاش ہے جو مجھے اپنے قریب آنے سے بھی روک دے اور جب بھی میں اُس کے سامنے حاضر ہوجاؤں، اپنی بات منوانے کے لئے تو وہ مجھے دھتکار دے اور مجھ سے کہے، ابلیس دور ہوجا۔ جس کی نگاہوں میں میری حقیقت اور وقعت جَو کے دو دانوں کے برابر بھی نہ ہو۔ اے خُدا یک زندہ مردِ حق پرست لذّتے شاید کہ یابم درشکست! اے اﷲ قہارو جبار! مجھے آپ کے بندوں میں سے کسی ایسے مردِ حق پرست کی تلاش ہے جو مجھے شکست دیدے۔ مجھے اپنی چالوں اور حربوں میں ناکام بنادے۔ کم از کم مجھے اپنی شکست کھانے کی لذّت اور چاشنی نصیب ہوجائے۔ نالہ ابلیس سے، انسانی معاشرہ کی جو تصویر کشی کی گئی ہمیں احتساب کرنا چاہئے کہ اس تصویر کشی میں کیا کوئی دقیقہ فروگذاشت رکھا گیا ہے جب ابلیس کے آگے انسان کی سربزیری اور افگندگی کا بھرپور مظاہرہ نہ ہورہا ہو۔ابلیس کے آگے انسان اور خاص طور مسلمان کی تابعداری اور فرماں برداری اس لئے ہورہی ہے کہ مسلمان ایمان کی قوت اور طاقت سے محروم ہوچکے ہیں۔ قرآن اور صاحبِ قرآن علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہدایت اور رہنمائی سے دور جا پڑے ہیں۔ ابلیس کی ازلی دُشمنی اور اُس کے مکرو فریب سے بے خبری اور لا اُبالی، اﷲ کی نافرمانی کی پاداش میں دنیا کی بربادی اور آخرت کے عذاب اور عتاب سے بے یقینی کی کیفیت کا شکار ہوجانا۔ اقبال علیہ الرحمہ نے ابلیس کی زبانی ہمارے شب وروز کی صورتحالِ کی عکاسی کرکے ہم کو متنبّہ کیا ہے، کہ ہم ایک طرف تو ابلیس سے نجات مانگتے رہتے ہیں۔ اکثروبیشتر ، اعوذُ باﷲِ مِنْ الشیطانِ الرحیم پڑھتے رہتے اور وردِزبان رکھتے ہیں، مگر عملی دنیا اور عملی زندگی اُسی کی خواہشات اور منشاء و مرضی کی تابعداری میں گذارتے ہیں۔ زندگی کے اس تضاد اور تناقض کو جب تک ہم دُور نہیں کریں گے ہماری موجودہ صورتِ حال میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی ہے۔ یہی قانونِ قدرت ہے۔ اِنَّ اﷲَ لا یُغِیْرُ مَابِقَوْمٍ حَتیٰ یُغَیْرُّوْ مَابِاَنْفُسِھِمْ ہ (سورہ الرعد) خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا مولانا حالیؔ عالم افلاک کا لرزہ خیز سفر: ’’حلّاج‘‘ نے ایک آتش پرست اور ایک سعید روح مسلمان کا واقعہ بیان کیا ہے۔ اِس واقعہ سے ایک حقیقی اور خداپرست مسلمان کے رتبہ اور مقام کی عکاسی ہوتی ہے۔ ؎ بُود گبرے درزمانِ بایزیدؔ گفت اُو رایک مسلمانِ سعید بایزید بُسطامی رحمۃ اﷲ علیہ کے زمانے میں ایک آتش پرست تھا اُس سے ایک نیک مسلمان نے کہا۔ ؎ خوش تر آں باشد کہ ایمان آوری تابدست آید نجات و سروری تیرے لئے بہتر ہوگا کہ تو ایمان لائے۔ اسلام قبول کرے۔ تجھے آخرت کے عذاب سے نجات اور سرخروئی حاصل ہوجائے گی۔ گفت ایں ایمان اگر ہست اے مرید آں کہ داردشیخ عالم بایزیدؒ آتش پرست نے اس نیکو کار مسلمان سے کہا کہ اگر یہ ایمان اور اسلام لانا بایزید بُسطامی جیسا ایمان اور اسلام ہو۔ من نہ دارم طاقتِ آں، تابِ آں کاں فزوں آمدز کوشش ہائے جاں میں ایسا ایمان اور اسلام لانے کی طاقت اور قوت نہیں رکھتا ہوں کیونکہ ایمان لانے کے بعد ایسا عمل اور کردار میری جانِ ناتوان سے ممکن نہیں ہوسکتا۔ یہ شہادت گہ اُلفت میں قدم رکھنا ہے لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلمان ہونا خواجہ بایزید بُسطامی رحمۃ اﷲ علیہ کے بارے میں مولانا ابوالکلام آزاد رحمۃ اﷲ علیہ نے ’’قولِ فیصل‘‘ میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ بغداد میں ایک زبردست ڈاکو تھا جس نے ڈاکہ زنی کی پاداش میں دونوں ہاتھ عدالت کے احکامات کے مطابق کٹوائے تھے مگر پھر بھی ڈاکہ زنی سے باز نہیں آیا تھا۔ حضرت بایزید بُسطامیؒ پشمینہ کا کاروبار کرتے تھے۔ ایک روز یہ ڈاکو اُن کے گھر میں ڈاکہ ڈالنے کے لئے داخل ہوگیا۔ بزرگ گھر میں موجود تھے انہوں نے ایک غیر شخص کو داخل ہوتے ہوئے دیکھ لیا اور اندازہ کرلیا کہ یہ مال واسباب لوٹنے کے لئے آگیا ہے۔ روشنی نہیں تھی وہ اٹھے اور موم بتی لے کر اُس کمرے میں داخل ہوگئے جہاں ڈاکو پشمینہ کی چادریں لپیٹ رہا تھا۔ اُن کو دیکھ کر کہا کہ میں نے سوچا اندھیرے میں تم کیسے کام کروگے۔ ڈاکو نے سمجھا کہ میرے ہی پیشہ اور قبیل کا کوئی ڈاکو ہے۔ انہوں نے اُن کو شریک کار سمجھ کر اپنے کام میں شریک کرلیا۔ اس دوران میں بزرگ نے کچھ دودھ بھی لایا اور اُن کو پلایا یہ کہہ کر کہ آپ بھوکے ہوں گے۔ ڈاکو نے دو گٹھے باندھ لئے۔ ایک بزرگ کو اُٹھانے کے لئے کہا اور دوسرا خود اُٹھالیا۔ قیام گاہ کی طرف جاتے ہوئے بزرگ کہیں دم سستانے کے لئے بیٹھ گئے۔ ڈاکونے اُن کو ٹھوکر مار کر اُٹھنے اور ساتھ چلنے کیلئے کہا۔ ڈاکو کی پناہ گاہ پر پہنچ کر وہ بزرگ کچھ لینے کے بغیر لوٹ گئے۔ ڈاکو کو بڑا تعجب ہوا کہ میں تو اس کو شریک کار سمجھا تھا مگر یہ خالی ہاتھ لوٹ گیا۔ دوسرے روز ڈاکو شہر کی طرف نکلا۔ جس مکان میں یہ رات کو ڈاکہ ڈالنے گیا تھا وہاں لوگوں کی بھیڑ دیکھی۔ پوچھا یہ کس کا گھر ہے۔ بتایا گیا تجھے معلوم نہیں یہ تو ولی وقت خواجہ بایزید بُسطامی رحمۃ اﷲ کا دولت کدہ ہے۔ لوگ عقیدت اور محبت کے ساتھ اُن کی خدمت میں آتے رہتے ہیں۔ ڈاکو اندرگیا، دیکھا کہ وہی بزرگ ہیں جن کے ساتھ ڈاکہ زنی کے دوران میں اُن کا واسطہ پڑا تھا۔ عرقِ ندامت سے شرابور ہوکر سوچا ایسے بھی خدا کے بندے ہوتے ہیں جو دیکھتے بھالتے ایک ڈاکو کی ڈاکہ زنی میں شریک ہوکر اُس کی دلجوئی کا سامان فراہم کرسکتے ہوں۔ یہ ڈاکو زانوئے ادب تہہ کرتے ہوئے خلوصِ دل کے ساتھ تائب ہوا اور ہمیشہ کے لئے اُن کے ارادت مندوں میں شامل ہوگیا۔ مولانا آزاد مرحوم نے اس واقعہ کو بیان کرنے کے بعد نتیجہ اخذ کیا ہے کہ قانونِ تعزیرات نے تو اس کے دونوں ہاتھ کاٹ دئے تھے مگر پھر بھی وہ ڈاکہ زنی سے باز نہ آیا، مگر ایک بزرگ کے اخلاق کریمہ نے اس کے دل کی حالت میں انقلاب لایا اور اُس کی زندگی سدھر گئی۔ دلبری از قاہری اولیٰ تراست یہاں یہ نقطہ بھی پیشِ نظر رکھا جائے کہ اُس دور میں اسلام کا عادلانہ نظام قائم تھا۔ گوکہ خلافت راشدہ کے مثل خلفاء کا کردار اور سیرت معیار مطلوب کی نہ تھی۔ مگر تعزیراتی قوانین کے نفاذ سے بدیوں کا بہت کم عمل دخل تھا اور نیکیوں کا غلبہ تھا۔ جب نظام کی بنیاد ہی انسانی اور اخلاقی اقدار کے خلاف ہو، ظلم و استبداد اور منکرات کا غلبہ ہو تو ایسے دور میں حسبِ ضرورت قوت کا استعمال لازمی ہے جیساکہ رسول اﷲ صلی علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ من ریٰ منکم منکراً فلیغیرہٗ بیدہٖ فَانْ لم یستطع فبلسانہٖ فَاِنْ لم یستطع فبقلبہ۔ وذالک اضعف الایمان۔ جب تم کسی منکر اور بدی وبرائی کو دیکھو تو ہاتھ کی قوت سے اُسے مٹادو اور دور کرو(یہاں ہاتھ کی طاقت سے مراد نظام اور قوتِ نافذہ)۔ اگر یہ استطاعت نہ ہو یعنی اسلام کے ہاتھ میں قوت، عدالت، فوج، پولیس اور اقتدار اعلیٰ نہ ہو، جیسا کہ آج کے دور کی حالت ہے تو بدیوں اور منکرات کے خلاف زبان سے جہاد کرو۔ اس میں قلم، ذرائع ابلاغ، پریس اور دوسرے اس نوعیت کے ذرائع شامل ہوں۔ اگر باطل اور غالب قوتوں کا اتنا غلبہ اور تسلط ہو کہ تم زبان بھی نہیں کھول سکتے، کچھ کہہ بھی نہیں سکتے، پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا بھی تمہاری دسترس سے باہر ہو تو کم از کم اپنے دین وایمان کے تحفظ کے لئے دل میں بدیوں، برائیوں اور باطل نظریات اور قوتوں کے ساتھ نفرت رکھو۔ یہ ایمان کا ضعیف ترین درجہ ہے۔ مطلوب درجات صرف دو ہی ہیں۔ قوتِ نافذہ اور زبان وقلم کی طاقت۔ فلک زحل: اقبالؒ اپنے پیرومرشد مولانا رومیؒ کی سربراہی اور رہنمائی میں فلک زحل میں داخل ہوجاتے ہیں۔ یہاں ایسی روحیں ہیں جنہوں نے اپنے مادی اور ذاتی مفادات کی خاطر ملک وملّت کے ساتھ غدّاری کی ہے۔ دوزخ بھی اُن کو قبول نہیں کرتی ہے۔ پیر رومیؒ اقبالؒ کو اس فلک کے بارے میں تعارف اور جان پہچان فراہم کرتے ہیں اور دوزخ کا مشاہدہ کرواتے ہیں۔وہ دوزخ میں دو روحیں دیکھتے ہیں۔ اندرونِ اُو دُو طاغوتِ کہن روحِ قومے کشتہ از بہردو تن! دوزخ کے اندر ایسی دو روحیں ہیں جو طاغوت کہن کی حیثیت رکھتی ہیں۔ طاغوت سے مراد، سرکش، باغی، اﷲ کی بندگی کی حدود سے باہر باطل قوتوں کے آلہ کار جو اپنے مادی اور جسمانی مفادات حاصل کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ قوموں اور ملّتوں کے اجتماعی، دینی اور تہذیبی مفادات کو تاراج کرکے اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دیکر درہم و دینار کے پرستار بن جاتے ہیں۔ اس طرح یہ اپنے منافقانہ طرزِ عمل سے قوم اور ملّت کی روح کو قتل کرنے کے مجرم بن جاتے ہیں۔ اقبالؒ کے دور میں ہندوستان کی حدود کے اندر، برطانوی استعمار کے خلاف جدوجہد چل رہی تھی۔ اُس جدوجہد کو نقصان پہنچانے اور سامراجی قوتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ اور ساز باز کرکے جنہوں نے اس تسلط کو دوام بخشنے کی پالیسی اختیار کرلی۔ اُن کے دو سرغنہ غداروں کی روحیں یہاں عذاب وعتاب میں مبتلا ہیں۔ جعفر از بنگال و صادق از دکن ننگِ آدم، ننگ دیں، ننگِ وطن! ناقبول و ناامید و نامراد مِلّتے از کارِشاں اندر فساد! مِلّتے کوبندِ ہر ملّت کشاد ملک و دینش از مقامِ خودفتاد! می ندانی خِطہء ہندوستاں آں عزیزِ خاطرِ صاحب دلاں خطہء ہر جلوہ اش گیتی فروز درمیانِ خاک و خوں غلطد ہنوز درگِلش تخمِ غلامی راکہ کشت؟ ایں ہمہ کردارِ آں ارواحِ زشت! درفضائے نیلگوں یک دم بایست تامکافاتِ عمل بینی کہ چیست بنگال میں جعفرؔ نے نواب سراج الدولہ کو دھوکہ دیکر انگریزوں کے لئے راستہ ہموار بنادیا۔ انہوں نے نواب کو شکست دیکر بنگال پر قبضہ کرلیا اور یہاں سے ہی انگریزوں کے پورے ہندوستان پر اپنا اثرونفوذ اور سامراجی تسلط قائم کرنے کا دروازہ کھل گیا۔ میر صادقؔ نے شہید ٹیپو کو فریب دیکر انگریزوں کے ساتھ ساز باز کرکے قلعہ کے اندر داخل ہوکر اُن کو شہید کروادیا۔ اُس غدّار اور منافق کو اپنی اس بے ایمانی اور غداری کا معاوضہ ملا کہ انگریزوں نے اُس کو موت کے گھاٹ اُتاردیا یہ کہہ کر کہ تم نے اپنے وطن اور اپنے لیڈروں کے ساتھ وفاداری نہیں کی ہمارے ساتھ کیا وفاداری کرے گا۔ یہ دُنیا میں ہی اُن کا انجامِ بد تھا۔ اب آخرت کے عذاب کی کیفیت یہ تھی کہ دوزخ کی آگ بھی ان کو قبول نہیں کررہی ہے۔ اُن کے کار ناشایان سے پوری ملّت اور ہندوستانی قوم فساد اور انتشار میں مبتلا ہوگئی جو ملّت اپنے حیات بخش پیغام اور نظام کی بدولت دوسری اقوام کیلئے باعث رحمت و باعث فلاح و بہبود ثابت ہوسکتی۔ ملّت اپنے ملک اور دین وتہذیب کے مقام اور مرتبہ سے محروم ہوگئی۔ تم ہندوستان کے خطہ اور سرزمین کو نہیں جانتے۔ یہ سرزمین اصحابِ دل کے لئے سازگار وموافق خطہ ارض تھا۔ اس کا ہر جلوہ اور منظر پوری دُنیا کے انسانوں کے لئے باعث رونق و تابندگی ہے۔ ان غداروں کی غداری کے نتیجے میں یہ خطہ ابھی تک خاک و خون میں غلطان ہے۔ ہندوستان کی اس سرزمین میں غلامی کے بیج کس نے بوئے؟ یہ سب کچھ ان مردود و ناقبول ارواح کی سازش اور غداریوں کا نتیجہ اور ثمر ہے۔ اس فضائے نیلگوں میں کچھ لمحات کی فرصت ہونی چاہئے تاکہ ایسی زشت ارواح کے ان اعمالِ خبیثہ کا انجام ملاخطہ کیا جاسکے کہ کس نوعیت کے عذاب وعتاب میں مبتلا کردی گئی ہیں۔ قلزمِ خونین: آنچہ دیدم می نگنجد در بیاں تن زسہمش بے خبر گردد زجاں جو کچھ میں نے دیکھا اُس کا بیان کرنا انسان کے بس سے باہر ہے۔ اس ہیبت ناک صورتِ حال کے خوف اور سہم سے جسم روح سے بے خبر ہوا جارہا ہے۔ یعنی اتنا خونین اور دل ہلادینے والا منظر کہ دیکھنے والا جسم وروح کے اتصال سے بھی محرومی محسوس کررہا ہے۔ من چہ دیدم؟ قلزمے دیدم زخوں؟ قُلمزمے‘ طوفان بروں‘ طوفان دروں! میں نے کیا دیکھا۔ خون کا ایک بہت بڑا سمندر ہے۔ یہ خون کا سمندر ہمہ طوفان ہے۔ بحر ساحل را اماں یک دم نداد ہر زماں کہ پارئہ درخوں فتاد خون کا یہ سمندر، ساحل کو ایک لمحہ کے لئے بھی امان اور سکون نہیں دے رہا ہے۔ ہر لمحہ اور ہر آن خون کی موجوں میں تیزی آتی ہے۔ موجِ خوں با موجِ خوں اندر ستیز درمیانش زور قے در اُفت وخیز! خون کے اس وسیع و عریض سمندر میں، خون کی موجیں اور لہریں ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرارہی ہیں۔ اسی خون کے سمندر میں ایک چھوٹی سی کشتی ہچکولے کھارہی ہے۔ اندراں زورق دُو مردِ زرد روے زرد رُو، عُریاں بدن، آشفتہ موے! خون کے اس سمندر میں، کشتی غوطے کھارہی ہے۔ اس میں دو مرد، زرد روئے، عریاں بدن اور پریشان موئے دیکھے گئے۔ یہ دونوں (جعفر اور صادق) غداران وطن تھے۔ اس دوران میں آسمان پھٹ گیا اور ایک پاکباز حور ظاہر ہوگئی۔ اس نے اپنے چہرہ سے پردہ ہٹایا اُس کی پیشانی لازوال نور اور نار سے درخشندہ تھی۔ اُس کی دونوں چشموں میں لازوال سرور اور سکون تھا۔ ابر سے بھی زیادہ ہلکا اور حسین لباس اُس کے جسم پر تھا۔ اُس لباس کے تانے بانے برگ گلاب سے چُنے گئے تھے۔ ان خوبیوں اور دلفریبوں کے باوصف وہ قیدوبند کی صعوبتوں کا شکار تھی۔ اُس کے ہونٹوں پر دردناک نالے اور فریاد تھی۔ پیر رومی نے کہا یہ ہندوستان کی روح ہے جس کو تم دیکھ رہے ہو۔ اسکی آہ وفغان سے جگر میں جلن اور تپش پیدا ہورہی ہے۔ گُفت رومیؔ روحِ ہند است ایں نگر از فغانش سوزہا اندر جگر! روحِ ہند کی آہ! ہندوستان انگریزوں کی غلامی اور استبداد کے شکنجے میں کسے ہوئے ہے۔ ایک غلام، مجبور ومحکوم قوم کی جو صورتحال ہوسکتی ہے اُس کے بارے میں آہ وزاری اور نالہ و فریاد کی جارہی ہے۔ ہندوستان کے چراغ میں روشنی ختم ہوگئی ہے۔ ہندوستان کے عوام اپنی عزت اور ناموس سے بے گانہ ہوچکے ہیں۔ اپنی حقیقت اور مقام سے بے خبر ہوچکے ہیں۔ اپنی تارپر زخمہ لگا کر اُس کا نغمہ سننے سے محروم ہیں۔ اپنے ماضی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اُس کی افسردگی، پژمردگی اور بُجھی ہوئی آتش سے جگر سوختہ ہوجاتا ہے۔ جعفر اور میر صادق کے منافقانہ اور غدارانہ طرزِ عمل سے میرے ہاتھ پاؤں غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ہماری نالہ و فریاد کی نارسائی انہی کی وجہ سے ہے۔ اُس فقر اور مسکنت سے پرہیز کیا جانا چاہئے۔ جو عریانی اور بے بسی کا مؤجب اور سبب بنے۔ فقر کی اصل یہ ہے کہ سلطانی کا مقام اور مرتبہ حاصل ہوجائے۔ ظلم، جبر، استبداد سے بھی نجات اور اُس صبرو برداشت سے بھی نجات جو ظلم کو سہنے کا عادی بنائے۔ جابر اور مجبور دونوں کے لئے جبر زہر کی حیثیت رکھتا ہے۔ جبرو استبداد، مجبور ومحکوم کو صبر کا عادی بنادیتا ہے اور جابرو ظالم کو جبرو ظلم پر جرّی بنادیتا ہے۔ دونوں کے لئے ستم گری سہنے میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ میرے دل کا یہ درد، دکھ اور الم، کاش میری مظلوم قوم سمجھ لیتی۔ یا لیت قومی یعلمون ہندوستان کی رات کب صبحِ آزادی سے بدل جائے گی۔ جعفر غدار تو مرگیا، نیست و نابود ہوگیا مگر اُس کی روح ابھی زندہ ہے۔ غداری کا کردار ابھی موجود ہے اور جب تک یہ کردار اور سیرت موجود ہے کسی قوم کو جبرو استبداد اور ظلم وستم اور سامراجی تسلط اور غلبہ سے نجات نہیں مل سکتی ہے۔ ایک غدار سے نجات مل جاتی ہے تو یہ منافقانہ کردار اور طرزِ عمل دوسرے انسانی وجود میں اپنا گھونسلہ بناتا ہے۔ ایسے غداروں، نمک حراموں، دین وملّت کے دشمنوں کا کبھی کلیسا کے ساتھ ساز باز ہوتا ہے، کبھی بت پرستوں کی دہلیز پر سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔ اُن کا دین اور آئین صرف سوداگری ہے۔ یہ درویشی لباس میں فریب کاری اور دھوکہ دہی کا کاروبار کرتے ہیں۔ قوموں اور ملّتوں کی تقدیر اور مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں محض اپنی جنسی اور مادی منفعت کے حصول کے لئے زمانے کے رنگ وروپ اور انداز بدلنے کے ساتھ ساتھ ان غداروں کے رسم و آئین بھی بدلتے رہتے ہیں۔ درمع الدّہر کیف الدار چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی! آج کے زمانے سے پہلے ان کے مسجود لات، منات، عزیٰ اور ہُبل تھے۔ ہمارے زمانے میں ان فریب کاروں اور ساحروں کا معبود اور مسجود وطن بن گیا ہے۔ مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور تہذیب کے آذر نے تراشوائے صنم اور ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اُس کا ہے ،وہ مذہب کا کفن ہے یعنی جہاں وطنیت کا بُت پوجا جائے گا وہاں مذہب ، اخلاق، دین اور انسانی اقدار کا جنازہ نکلتا ہے اور سب اقدار زمین بوس ہوجاتی ہیں۔ ان دھوکہ بازوں اور فریب کاروں کا ظاہر دیندارانہ ہوتا ہے وہ آپ کو کفر وباطل اور استعماری قوتوں کا غلام اور محکوم بنانے کیلئے قرآن پڑھیں گے۔ مساجد اور زیارت گاہوں پر کنٹرول کریں گے اور اپنے آپ کو خدا کے نیکوکار بندوں کا محب اور پرستار ظاہر کریں گے۔مگر ان جعفران وقت کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ مذہب اور دینداری کا لبادہ اوڑھ کر پوری قوم اور ملک کو کفر والحاد، شرک و بُت پرستی کا پرستار بنا تے ہیں۔ اِن کا باطن بُت پرستوں کی طرح زنار بند ہوتا ہے۔ جعفر جس لباس اور بدن میں بھی ہوں یہ ملّت کُش، دین دشمن اور استعماری قوتوں کے ایجنٹ اور زرخرید غلام ہوتے ہیں۔ یہ منافقانہ لباس میں اپنے آپ کو مسلمان کہلانے والے ہر دور میں ملّت کُش ہوتے ہیں۔ کاش وقت کا مسلمان اتنا باشعور اور دین شناس ہوکہ وہ ایسے فریب کاروں اور بھیس بدل کر غداروں کا کردار ادا کرنے والوں کو ببانگ دہل کہہ سکے کہ بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش من اندازِ قدت را می شناسم یہ منافق اور دشمنانِ ملّت آپ کے ساتھ بڑی خندہ پیشانی اور بظاہر محبت سے پیش آئیں گے۔ آپ کو مادی مفادات اور مادی ترقی کے سبز باغ دکھائیں گے مگر ان کی اس ظاہری صورت پر فریفتہ نہیں ہونا چاہئے۔ سانپ اور اژدھا اگر خنداں بھی ہو لیکن اُس کی اصل حقیقت بدلتی نہیں ہے۔ اُس کی زہریلی خاصیت اُس خنداں چہرے سے بدل نہیں جائے گی۔ ان منافقوں کے نفاق کی وجہ سے قوم اور ملّت کی وحدت دونیم ہوگئی ہے۔ ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی ہے۔ پوری ملّت ان غداروں اور منافقوں کے طرزِ عمل سے بدنام اور نالائق اور ناقابل اعتماد بن چکی ہے۔ ملّتِ مرحومہ میں جہاں کہیں بھی غارت گری دیکھنے میں آرہی ہے وہاں اُس کی اصل اور بنیاد صادقؔ اور جعفرؔ کے کردار کے ساتھ مناسبت اور مطابقت رکھتی ہے۔ ؎ الاماں از روحِ جعفرؔ الاماں الاماں از جعفرانِ ایں زماں! قلزمِ خونین سے ایک غدار کی فریاد: جعفرؔوصادقؔ کی غداری اور منافقانہ کردار سے امان اور پناہ مانگتے ہوئے اقبالؒ خونین سمندر میں ہچکولے کھانے والی کشتی میں سوار ایک غدار کی فریاد کو زبان بخشتے ہیں۔ ’’نہ ہم کو ماضی قبول کرتا ہے اور نہ حال۔ افسوس اور حسرت ہے اس بے مہری پر جو ہم سے برتی جارہی ہے۔ ہم نے مشرق ومغرب کو چھان مارا اب ہم دوزخ کے دروازے پر دردوکرب میں مبتلا پہنچا دئے گئے ہیں۔ دوزخ کو بھی ہمارے ساتھ اتنی نفرت اور بے زاری ہے کہ جعفر اور صادقؔ پر ایک چنگاری بھی نہیں برساتے اور نہ ہی خاک کی مٹھی تک ہم بدبختوں اور بدکرداروں پر پھینکنا اُسے گوارا ہے۔ دوزخ کا کہنا ہے کہ اِن دو بد روحوں کو جلانا مجھے گوارا نہیں۔ ان کے مقابلے میں خس وخاشاک میرے لئے بہتر ہے۔ میرا شعلہ آتشِ ان دو کافروں کے مقابلے میں میرے لئے زیادہ پاک اور بہتر ہے۔ ہم نو آسمانوں کی طرف گئے۔ ناگہانی موت کی طلب میں ہم اُس کے پاس گئے۔ ناگہانی موت نے کہا روح میرے پوشیدہ اسرار میں سے ایک راز ہے۔ روح کی حفاظت اور جسم کا گُھلانا اور مٹانا میرا کام ہے۔ زشت اور منافق وغدار کی روح اگرچہ بہت ہی حقیر اور جَو کے دو دانوں کے برابر ہے تم مجھ سے چاہتے ہو کہ تمہارے جسموں کو نیست ونابود کروں اور تم کو دایمی عذاب سے نجات مل جائے یہ کام مجھ سے نہیں ہوسکتا ہے۔ تم چلے جاؤ موت سے تم جیسے بد روحوں اور ناپاک جسموں کو مٹانا، نیست ونابود کرنا مجھے گوارا اور پسند نہیں ہے۔ غداروں کی روحوں کو موت سے بھی نجات اور راحت نہیں مل سکتی ہے۔ اب ان غداروں، ملّی، دینی اور قومی مفادات سے کھلواڑ کرنے والوں کی روحیں تیز ہوا ؤں، خون کے دریاؤں، زمین اور نیلگوں آسمان سے فریاد کرتی ہیں۔ تاروں، آفتاب و مہتاب، قلم، لوح وکتاب، سفید جسم کے بتوں اور مغرب کی حسینوں، دُنیا، جس کو حرب وضرب کے بغیر ہی حاصل کرلیا گیا ہے، کو وہ پکاررہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آفتاب ومہتاب، تارے اور زمین وغیرہ جس دُنیا پرچھائے ہوئے ہیں وہ انہوں نے جنگیں لڑکر حاصل نہیں کی ہیں۔ یہ دُنیا جس کی طرف غداروں کی روحیں رجوع کررہی ہیں یہ وسیع و عریض دُنیا نہ اِس کی ابتداء ہے اور نہ انتہا۔ غدار ان تمام سہاروں کو پکاررہا ہے کہ اس غدار بندے کا مالک کہاں ہے؟ مطلب یہ ہے کہ غدار اپنی غداریوں کے خمیازے سے چھٹکارا پانے کیلئے خدائے قاہر وغالب سے فریاد کرتا ہے۔ غدار نے جن دنیاوی سہاروں کے نام لے لے کر خدا سے نجات کی درخواست کی ہے اصل میںیہی سہارے دُنیا میں اس غدار کے معبود رہے ہیں۔ آہ و فغان اور نالہ و فریاد کے نتیجے میں اچانک ایک ہولناک آواز گونج اُٹھی، صحرا ور دریا کا سینہ اس آواز کی ہیبت سے چاک چاک ہوگیا۔ دُنیا کا پورا نظام درہم برہم ہوگیا۔ پہاڑ بادلوں کی طرح اڑنے لگے۔ بانگ صور کے بغیر ہی عالمی انہدام کا منظر دیکھنے میں آگیا۔ بجلیاں اور برقِ سیاہ اندرونی جوش وجلال سے بے تاب ہوکر خون کے دریا میں پناہ تلاش کرنے اور آشیان حاصل کرنے کی فکر میں لگ گئے پر شور موجیں اٹھنے لگیں اور کوہ وبیابان خون میں غرق ہوگئے۔ عالم عیاں ونہاں پر جو کچھ گذری تارے دیکھتے رہے اور بے اعتنائی کے ساتھ گذرے۔ خلاصہ یہ کہ غداروں کی اس آہ وزاری اور نالہ وفریاد کی طرف قدرت کے کسی مظاہر نے کوئی توجہ نہ دی۔ اس لئے کہ غداروں کا کوئی مولیٰ اور آقا ہی نہیں تو آقا اور مولیٰ کی مخلوقات ان کی فریاد کی طرف کیوں توجہ دیتی اور اِن کے دردوکرب کا مداوا اور علاج کیوں تلاش کرتیں۔ وَمَا دُعَائُ الْکَافِرِیْنَ اِلافِیْ ضَلَال اقبالؒ اپنے وطن کی آزادی کے لئے کتنے بے تاب اور بے چین تھے۔ اس کی تصویر کشی آپ نے اُن کے کلام کی روشنی میں تفصیل کے ساتھ دیکھ لی۔ اُس وقت کے جعفرؔ اور صادقؔ کی غداری، وطن دشمنی، غاصب اور جابر قوتوں کے ساتھ اُن کی دوستی اور ہم نشینی، اُن کے استعماری اور سامراجی خاکوں میں رنگ بھرنے کی ان کی منافقانہ کارروائیوں پر وہ کس قدر درد اور کرب محسوس کررہے ہیں۔ یہ صورتِ حال بھی سامنے لائی گئی۔ اقبالؒ کی وفات کے تقریباً نو سال بعد ہندوستان تقسیم ہوگیا۔ انگریزوں کے فوجی اور سیاسی تسلط سے آزاد ہوگیا۔ اقبالؒ کی آرزؤں اور تمناؤں کا خواب، پاکستان بھی وجود میں آگیا۔ پاکستان کا تصور مرحومؒ کا ہی دیا ہوا تصور تھا۔ چنانچہ مرحوم اپنی وفات سے قبل مرحوم مولانا سید ابوالحسن ندویؒ کے ساتھ ایک ملاقات میں فرماتے ہیں۔ ’’ہندوستان میں اسلام کی تجدید واحیاء کی بات نکلی تو شیخ احمد سرہندیؒ شاہ ولی اﷲ دہلویؒ، سلطان محی الدین عالمگیرؒ کی بڑی تعریف کی اور فرمایا کہ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ اگر ان کا وجود اور اُن کی جدوجہد نہ ہوتی تو ہندوستانی تہذیب اور فلسفہ، اسلام کو نگل جاتا۔ پاکستان کے بارے میں فرمایا کہ جو قوم اپنا ملک نہیں رکھتی وہ اپنے مذہب وتہذیب کو بھی برقرار نہیں رکھ سکتی۔ دین و تہذیب حکومت و شوکت ہی سے زندہ رہتے ہیں۔ اس لئے پاکستان ہی مسلم مسائل کا واحد حل ہے اور یہی اقتصادی مشکلات کا حل بھی ہے۔ ضمناً انہوں نے نظامِ زکوٰۃ اور بیت المال کا بھی ذکر کرلیا‘‘ (نقوشِ اقبالؒ :ص ۳۱،۳۲) ۱۴؍اگست۱۹۴۷ئ؁ کو پاکستان کے منصئہ شہود پر آنے کا اعلان ہوا اور ۱۵؍اگست کو بھارت کی آزادی کا اعلان ہوا۔ پاکستان دوحصوں (مشرقی اور مغربی) پر مشتمل تھا۔ لیکن پاکستان کو وجود میں آنے کے وقت سے ہی سب سے پہلے بانی پاکستان قائد اعظم علی محمد جناحؒ کی وفات کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ چند برس بعد پہلے وزیر اعظم شہید لیاقت علی خان کی شہادت کا سانحہ دیکھنا پڑا۔ اُس کے بعد پاکستان مسلسل اپنوں اور غیروں کی سازشوں کا نشانہ بنتا رہا۔ صرف ۲۵ سال بعد اس کا مشرقی بازو کاٹ دیا گیا۔ لسانی بنیادوں پر بنگلہ دیش بنادیا گیا۔ بچے کھچے حصے مغربی پاکستان کو بھی وہ قیادت نصیب نہ ہوسکی جو پاکستان کی نظریاتی بنیادوں پر اُس کی ہمہ جہتی تعمیر کرتی۔ پاکستان کے استحکام کے لئے سب سے بڑا خطرہ مسئلہ کشمیر بنادیا گیا۔ انڈین نیشنل کانگریس اور انگریزوں کی سازش، جس کے نتیجے میں ضلع گورداسپور کی تقسیم ۲۵؍جولائی۱۹۴۷ئ؁ کو مقرر کی گئی بنیادوں کے مطابق نہ ہوئی۔ جموں کشمیر میں ڈوگرہ حکمرانی، سیاسی قیادت کی کوتاہ اندیشی اور لادین سیاست کی روایتی کرشمہ سازی اور ملّت دُشمنی، اُس وقت کی پاکستانی حکومت اور سیاسی قیادت کی اقدامی صلاحیت سے محرومی۔ مسئلہ کشمیر کے گذشتہ ساٹھ برس سے لٹکے رہ جانے کے اسباب بنے ہیں۔ پاکستان کو بھارت کے ساتھ تین دفاعی لڑائیاں لڑنا پڑیں۔ اقبالؒ کو ۷۰ برس دُنیا سے رخصت ہوئے گذر چکے ہیں لیکن اُن کی روح مسلسل اضطراب اور بے چینی کا شکار ہوگی کہ اُن کا آبائی وطن کشمیر بھارت کے فوجی قبضے اور تسلط میں ہے اور پاکستان اپنی تاریخ کے سب سے بڑے انتشار اور عدم استحکام کا شکار ہے۔ اقبالؒ جعفرؔ اور صادقؔ کی غداریوں کے عین گواہ کی حیثیت سے آتش زیر پا تھے۔ مگر آج پوری ملّت، جس کی عددی طاقت ایک ارب ساٹھ کروڑ سے زیادہ ہے،۵۷ ملکوں میں قومی حکومتیں قائم، ہیں لیکن یہ ہرملک اورہر خطے میں ’’جعفرانِ این زمان‘‘ کے نرغے اور گھیرے میں ہے۔ مغرب کی لادین تہذیب اور مشرق کی مشرکانہ تہذیب کے ذہنی غلام ہیں۔ ملّی تشخص سے محروم، تعلیمی اور اقتصادی نظام ہیں دوسروں کے نقال اور اپنے تابناک ماضی سے بے زار سمندر پار جن استعماری طاقتوں کی سیاسی غلامی میں مبتلا تھے۔ آج اُن کی ذہنی غلامی کے شکار، اپنی شناخت، اپنی خودی تک کا سوداکرنے کے روادار ہیں۔ پاکستان کی سیاسی قیادت اور حکمران طبقہ کو اقبالؒ جیسے محسن اور بہی خواہ کے فلسفہ، فکر اور تصورِ دینِ کے ساتھ صرف اتنا سا تعلق رہ گیا ہے کہ شاہی مسجد کے صحن میں اُن کی تربت پر حفاظتی پہرہ بیٹھا دیا گیا ہے۔ اُن کے یومِ وصال اور یومِ ولادت پر پہرے کی تبدیلی ہوتی ہے اور اُن کے کلام کی قوالیاں گائی جاتی ہیں جو اُن کا حیات بخش پیغام تھا اُس کو نسیاً منسیاً کردیا گیا ہے۔ ؎ گلہء جفائے وفا نما کہ حرم کو اہل حرم سے ہے کسی بتکدے میں بیان کروں تو کہے صنم بھی ’ہری‘ ’ہری‘! یہ صرف جعفر اور صادق کے منافقانہ کردار اور رول کی نسبت سے بات آگئی ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے تفصیلات بعد میں آنے کا امکان ہے۔ انشاء اﷲ! پیامِ مشرق۔۔۔۔۔شاعر مشرق کا شکوہ شرربار: ’’مشرق بالخصوص اسلامی مشرق نے صدیوں کی مسلسل نیند کے بعدآنکھ کھولی ہے۔ مگر اقوام مشرق کو یہ محسوس کر لینا چاہیے کہ زندگی اپنے حوالی میں کسی قسم کا انقلاب پیدا نہیں کر سکتی جب تک کہ پہلے اس کی اندرونی گہرایئوں میں انقلاب نہ ہو۔ ہر کوئی نئی دنیا خارجی وجود اختیار نہیں کر سکتی جب تک کہ اس کا وجود پہلے انسانوں کے خمیروں میں متشکّل نہ ہو۔ فطرت کا یہ اٹل قانون جس کو قرآن نے اِنَّ اﷲِ لا یُغِیْرُ مَابِقَوْمٍ حَتیٰ یُغَیْرُّوْ مَابِاَنْفُسِھِم کے سادہ اور بلیغ الفاظ میں بیان کیا ہے۔ زندگی کے فردی اور اجتماعی دونوں پہلؤں پر حاوی ہے اور میں نے اپنی فارسی تصانیف میں اسی صداقت کو مدِ نظر رکھنے کی کوشش کی ہے‘‘ (’’اقبالؒ‘‘، دیباچہ پیامِ مشرق: ص ۱۲) حکیم الامّت علامہ مرحومؒ نے ’’پیامِ مشرق‘‘ کے دیباچہ میں اس تاریخی اور زندہ حقیقت کی نشاندہی کی ہے۔ اُن کی رحلت کے بعد مشرق خاص طور مسلم مشرق استعماری قوتوں کے پنجئہ استبداد سے سیاسی طور آزاد ہوچکا ہے۔ مگر اس آزادی کا تصور اور خاکہ چونکہ اندرونی سطح پر نہ فرداً اور نہ ہی اجتماعاً وجود پاچکا تھا۔ اس لئے یہ آزادی اور انقلاب، محض ہاتھوں اور چہروں کی تبدیلی تک ہی محدود رہ گیا۔ بلکہ اس انقلاب نے استبدادی اور استعماری قوتوں کے مقابلے میں زیادہ تباہی اور بربادی کا سامان پیدا کیا۔ استعماری قوتوں کی ریشہ دوانیاں اور مسلم مشرق کی اخلاقی اور دینی قدروں کی پامالی کا جو نظام مسلط کیا تھا اُس کے بارے میں عام تاثر یہ تھا کہ استعماری قوتوں سے اس کے بغیر کسی چیز کی توقع نہیں رکھی جاسکتی ہے۔ ان کے تسلط سے آزاد ہوجائیں گے تو سب خرابیاں دور ہوجائیں گی۔ مگر یہ خواب آج تک شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکا ہے۔ اس لئے کہ ذہنوں نے کسی نئے انقلاب کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ کوئی نیا سیاسی نظام سامنے نہیں لایا گیا تھا کوئی نیا نظامِ تعلیم متعارف نہیں کرایا گیا تھا۔ کوئی نیا معاشی نظام آزمایا نہیں گیا تھا۔ قیادت کیلئے اقدار اور معیار نہیں تھے، بلکہ استعماری قوتوں کے سایے میں جو لوگ پل چکے اور پروان چڑھ چکے تھے وہی قیادت کے مناصب پر فائز ہوگئے اور انہوں نے سیاسی طور آزاد شدہ قوم کو وہی شراب پلائی جو اُن کو استعماری اور جابر قوتیں پلارہی تھیں۔ البتہ انہوں نے نام بدل دئے۔ سوشلزم کی شراب پلانے کیلئے ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کی اصطلاح ایجاد کی گئی۔ رقص وسرود اور ناچ نغموں کی تہذیب کو ’’اسلامی ثقافت‘‘ کا نام دیا گیا۔ سودی کاروبار کو معشیت کے استحکام کیلئے وقت کی ضروت بتلایا گیا۔ مغربی جمہوریت کو سیاسی نظام قرار دے کر دین و اخلاق سے بالاتر بناکر لادین سیاست کی حیثیت سے اختیار کیا گیا۔ آزاد ملکوں کو’’ اسلامی جمہوریہ‘‘ کا نام دے کر انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو غیر اسلامی رنگ وروپ اور خدوخال دے کر ایک معاشرہ تشکیل دے دیا گیا جو اسلامی جمہوریہ کے سائے تلے وہی کچھ کرتا اور برتتا رہا جو اُن کے مغربی آقا پسند کرتے تھے۔ مسلم مشرق کے کسی ملک میں اس صالح اور خوشگوار انقلاب کے اثرات اور نشانات نہیں دیکھے جاسکتے ہیں جو جدوجہدِ آزادی کے دوران میں خواب دیکھے گئے تھے۔ آج صورتحال اتنی ناگفتہ بہ ہے کہ مسلم مشرق میں اضطراب اور بے چینی کی کیفیت نے ٹکراؤ اور تصادم کی وہ صورت اختیار کرلی ہے کہ مسلمان مسلمان کا خون بہارہا ہے۔ عزتیں اور عصمتیں لوٹی جارہی ہیں۔ نئے سامراج اور نئے استعمار ذہنی اور تہذیبی تسلط جمارہے ہیں اور پورے مشرقی خطہ میں فسادات اور خون خرابہ کا بازار گرم ہے۔ استعماری قوتیں ہر مسلم ملک میں اپنا تسلط جمارہی ہیں۔ تعلیمی نظام، معشیت، سیاست، داخلی اور خارجی معاملات سب کچھ دُنیا کے طاقتور ملکوں کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے گرو رکھے گئے ہیں۔ ملّت مرحومہ کے چند افراد کا ٹولہ اپنے اقتدار، کرسیوں اور مادی منفعت کی خاطر دینی اور ملّی غیرت کا سودا کر چکے ہیں اور اپنے دینی تشخص کا جنازہ خود اپنے کندھوں پر اُٹھا کرآمادہ تدفین ہیں۔ انقلاب کیلئے ذہنوں اور دلوں کو بدلنے کی بنیادی ضرورت سے غفلت اور لاپرواہی کا انجام جو آج ایک پر آشوب اور قیامت خیز شکل میں دیکھنے میں آرہا ہے اس مجرمانہ غفلت سے بیداری کے آثار ابھی دیکھنے میں نہیں آرہے ہیں۔ آج بھی ذہوں کے بجائے پیٹ سے سوچنے کا فکری روّیہ عام ہے۔ آج بھی ایک ظالم اور آمر ٹولہ سے نجات حاصل کرنے کیلئے نظریہ اور اصولی انقلاب کو پیشِ نظر نہیں رکھا جارہا ہے، بلکہ نظام کی تبدیلی کے بجائے ہاتھوں کو بدلنے کے منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ ’’پیامِ مشرق‘‘ کی تصنیف کا محرک جرمن ’’حکیمِ حیات‘‘ گوئٹےؔ کا ’’مغربی دیوان‘‘ ہے۔ جس کی نسبت جرمنی کا ایک اسرائیلی شاعر ’’ہائنا تھا‘‘۔ لکھتا ہے ’’یہ ایک گلدستہ عقیدت ہے جو مغرب نے مشرق کو بھیجا ہے۔ اس دیوان سے اس امر کی شہادت ملتی ہے کہ مغرب اپنی سرد روحانیت سے بے زار ہوکر مشرق کے سینے سے حرارت کا متلاشی ہے‘‘ ’’پیامِ مشرق‘‘ کو علامہ اقبال مرحومؒ نے اُس وقت کے والیٔ افغانستان امیر امان اﷲ خانؒ کی خدمت میں ہدیہ کی حیثیت سے پیش کیا تھا۔ ؎ اے امیرِ کامگار اے شہر یار نوجوان و مثلِ پیراں پختہ کار چشمِ تو از پردگیہا محرم است دل میانِ سینہ ات جامِ جم است عزمِ تو پایندہ چوں کہسارِ تو حزمِ تو آساں کند دُشوارِ تُو ہمتِ تو چوں خیالِ من بلند ملّتِ صد پارہ را شیرازہ بند ہدیہ از شاہنشہاں داری بسے لعل ویاقوتِ گراں داری بسے اے امیر، ابنِ امیر، ابنِ امیر ہدیہء از بے نوائے ہم پذیر! اے بادشاہ، والئی افغانستان، باصلاحیت اور کارآمد شہر یار، عمر کے لحاظ سے نوجوان ہو لیکن فکر اور تدبر کے لحاظ سے بزرگوں کی مانند ہو۔ جو چیزیں درپردہ ہیں آپ کی بصیرت اور نگاہوں کے سامنے کھلی اور واشگاف ہیں۔ تیرے سینے میں جامِ جمشید کی مانند دل ہے۔ تیرا عزم اور ارادہ تیرے ملک کے کوہساروں کی طرح پختہ اور محکم ہے۔ تیرا تدبر اور تفکر، تیری مشکلات اور مسائل کو آسان بنا دیتا ہے۔ جس طرح میرے خیالات بلند اور آفاق گیر ہیں اسی طرح تیری ہمت اور حوصلہ بلند اور ارفع ہے۔ تیرا وجود اور منصب ملّتِ صدپارہ کے لئے شیرازہ بندی کے مترادف ہے۔ بادشاہوں اور مختلف ملکوں کے سربراہوں سے تحفہ جات اور ہدایاآپ کے پاس بے شمار اور ان گنت ہیں۔ لعل و جواہر اور سیم وزر وافر مقدار میں آپ کے پاس موجود ہے۔ اس مادی دولت اور لعل وجواہر کے ہوتے ہوئے مجھ بے نوا شاعر سے بھی یہ ہدیہ ’’پیامِ مشرق‘‘ قبول فرما۔ بعد کے اشعار میں اقبالؒ شاعرالما نویؔ گوئٹے کا تعارف، اُن کا پیغام، اُن کا ایرانی شعراء خاص طور شیخ سعدیؒ کے کلام سے متاثر ہونا اپنے اور اُن کے گردوپیش کے ماحول کا تفاوت اور تبایُن، اُن کی قوم کی بیداری اور خودداری،اپنی اور اپنی قوم کی بے مائیگی، بے بسی اور اپنے وجود سے بے خبری اور نا شناسی، اپنے تہذیبی اور اخلاقی سرمایہ کی بے قدری اور بے ترجیحی، بڑے دردمندانہ انداز میں بیان کرتے ہیں۔ گو ئٹے نے مغرب سے مشرق کو سلام بھیجا ہے اور میں اُن کے اس سلام اور پیغام کا جواب دے رہا ہوں۔ اپنے جواب میں، میں نے مشرق کی شام اور تاریکی پر نیر تابان کی روشنی اور ضیاپاشی کی ہے۔ میں اپنا شناسا تو ہوں، لیکن اپنے آپ کو دیکھنے والا اور اپنی قدر پہچاننے والا نہیں ہوں۔ میں آپ کو یہ بتاؤں گا کہ وہ کون ہیں اور میں کون ہوں۔ گوئٹے مغرب کے نوجوانوں کے لئے برقِ تپاںکی مانند ہے۔ یعنی اُس کے پیغام اور اُس کے اشعار نے اپنی قوم میں بیداری اور حرکت پیدا کی۔ اُن کے اندر پہچان پیدا کی۔ وہ بیدار ہوگئے اور انہوں نے ایک انقلاب اور تبدیلی کا آغاز کیا۔ میرا شعلئہ جوالہ مشرق کے بزرگوں اور پیروں کا رہینِ منت ہے۔ اُس نے گلستان کو جنم دیا اور اُس کی پرورش اور پرداخت کی۔ میں مردہ زمین سے اُگ آیا ہوں۔ یہاں مغربی اقوام کی بیداری اور اقبالؒ کے مخاطب قوم کی بے حسی اور بے توجہی کی طرف اشارہ ہے۔ وہ اپنے چمن میں بلبل کی طرح نغمہ خواں اور فرد وس گوش ہے اور میں لق ودق صحرا میں صدائے جرس کے مانند نالہ وفریاد کررہا ہوں۔ ہم دونوں (گوئٹے اور اقبال) ضمیرِ کائینات کی حقیقت کے شاسا اور رمز آشنا ہیں۔ دونوں کا پیغام موت کی وادی میں حیات اور زندگی کا پیغام ہے۔ ہم دونوں کا پیغام فاسد نظام کے لئے خنجر کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہمارے درمیان فرق یہ ہے کہ وہ نیام سے باہر ہے اور میں ابھی تک نیام کے اندر ہی ہوں۔ ہم دونوں گوہر آبدار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دونوں کا مصدر اور منبع ایک ناپیدا کنار دریا ہے۔ یعنی ہم دونوں کائینات کے رموز اور اسرار جاننے کی کوششوں میں سرگرم و کوشاں ہیں۔ وہ اپنی شوخی اور اپنے پیغام کی تندی وتیزی کی وجہ سے دریا کی تہہ تک پہنچ کرصدف کو توڑ چکا ہے اورمیں ابھی تک صدف کے اندر ہی ہوں۔ میں سمندر کے ضمیرمیں ابھی تک ایک نایاب موتی کی طرح صدف میں بند ہوں۔ اقبالؒ کی اس شکوہ، سنجی کا مطلب قوم کی بے حسی اور اُن کے حیات بخش پیغام کی طرف عدم توجہی اور غفلت شعاری ہے۔ میرا دوست، آشنا، واقفِ کار، ملّت کا نوجوان اور باشعور طبقہ، مجھ سے بیگانگی برت رہا ہے۔ مجھ سے دُور بھاگتا ہے ۔ وہ میرے خمستان سے خالی پیالہ اور پیمانہ لے کر جارہا ہے۔ اقبالؒ کے پیغام کو جاننے اور سمجھنے کی جو ضرورت ہے اُس کے بارے میں اقبالؒ شاکی ہے اور حقیقتِ حال بھی یہی ہے جس کی حکیم الامت شکایت کررہے ہیں۔ میں اپنے حیات بخش پیغام کے ذریعہ اُس کو شکوہ خسروی دینا چاہتا ہوں۔ کسریٰ کا تاج اُس کے قدموں میں ڈال دینے کا عزم اور ارادہ لے کر اُٹھا ہوں اور اس کو وہ مشن یاد دلارہا ہوں جس کے مناظر تاریخ نے دکھا دئے ہیں۔ مگر افسوس صد افسوس وہ مجھ سے عشق ومحبت کی داستانیں سننا چاہتا ہے۔ وہ مجھ سے گل وبلبل کے نغمے سننا چاہتا ہے۔ شاعر ی کے رنگ وروپ اور حسن ونزاکت تلاش کررہا ہے۔ میرے مخاطب اور میری قوم کم نظر، حق ناشناس ہے۔ وہ میرے قلب وذہن کی بے تابی اور بے چینی نہیں دیکھ رہی ہے۔ میرے ظاہری حال اور خدوخال کو دیکھ رہی ہے۔ میرے باطن اور دل کی اندرونی کیفیت سے شناسائی حاصل کرنے کی وہ کوشش نہیں کررہی ہے۔ میری انقلابی اور حق بین فطرت نے عشق کو گلے لگایا ہے۔ خاشاک اور آتش کو یکجا کردیا ہے۔ آگ جس طرح خاشاک کو جلا ڈالتی ہے برابر اسی طرح میں نے اپنے آپ کو آگ کے حوالہ کردیا ہے۔ مقاصدِ زندگی کے ساتھ جب تک عشق و وارفتگی کا تعلق نہ ہو اُن کی خدمت اور اُن کے ساتھ خلوص کی وابستگی کا اظہار نہیں ہوسکتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنی آخری کتابِ ہدایت اور اسوئہ رسولؐ کی وساطت سے ملک ودین کے رموز مجھ پر واضح کردئے ہیں۔ غیر اﷲ اور ماسو اﷲ کے نقوش میرے قلب وذہن اور نگاہ ونظر سے دور کردئے۔ میرے مضامین سے پھول کے پتے رنگین ہیں۔ میری شاعری کا یہ مصرع گویا میرے خون کا قطرہ ہے۔ تم یہ گمان نہ کرو یہ دیوانگی کی باتیں ہیں۔ کمالِ جنون کی سطح پر یہی فرزانگی اور دانشمندی ہے۔ مجھے منعم حیقی اﷲ تعالیٰ نے یہ ہنر ودیعت کرکے سرمایہ دار بنادیا ہے۔ مگر ہندوستان جیسے ہمارے باغ کے لالہ وگل میری درد بھری اور حقیقت کی ترجمانی کی آواز سے بے بہرہ اور بے نصیب ہیں۔ میں ایسا پرندہ ہوں جو خود اپنے باغ میں ہی اجنبی اور پردیسی ہے۔ مختصر یہ کہ یہ بے ضمیر آسمان کمینہ اور بدفطرت لوگوں کا پالنہار ہے۔ایسے حالات اور ماحول میں ایسے فرد پر افسوس ہے جو صاحب جوہر اور باصلاحیت ہو اور لوگ اُس کی قدر نہ کررہے ہوں۔ اے تخت وتاج کے مالک بادشاہ، دیکھا آپ نے پوری ملّت کا آفتاب شان وشوکت اور غلبہ وسطوت مسلسل حجاب اور پردے میں ہے۔ بطحا کا مسافر یعنی رسول اﷲؐ کا اُمتی اپنے ہی دشت میں راستہ بھول گیا ہے۔ اُس کی رگوں اور روح میں الاﷲ کا سوز، یقین اور جذبہ باقی نہیں۔ مصری قوم دریائے نیل کے گرداب میں ڈوب چکی ہے۔ تورانیوں کی رگ سست و نرم پڑچکی ہے۔ یعنی ان کی دینی غیرت اور حمیت مرچکی ہے۔ آلِ عثمان روزگار کے چکر میں ہیں۔ مشرق اور مغرب اُس کے خون سے لالہ زار ہیں۔ ایمان کے لئے سلمان فارسی کاجذبہ مٹ چکا ہے۔ ایران کی سرزمین تو موجود ہے مگر خود ایرانی موجود نہیں ہے۔ اُس کے خاکی وجود سے سوزوساز رخصت ہوچکا ہے۔ اس کے دل میں ماضی کا جذبہ ایمان اور دینی حرارت سرد پڑ چکے ہیں۔ ہندوستان کا مسلمان شکم کا بندہ بن چکا ہے۔ اپنے آپ کو دنیوی مفادات کے عوض بیچ رہا ہے۔ اس کے دل کے اندر سے دین اور اسلام کی محبت اور درد نکل چکا ہے۔ مسلمان میں شانِ محبوبی باقی نہیں رہی ہے۔ نام کا مسلمان تو ہے۔ خالدؓ فاروقؓ اور ایوبیؓ نہیں باقی ہیں۔ دورِ اوّل کے مسلمان جنہوں نے اسلامی انقلاب لاکر پوری دُنیا کو ایک منصفانہ اور عادلانہ نظام دیا تھا۔ اے شاہِ افغان!۔۔۔۔۔۔۔ قدرت نے تجھے پاک ضمیر سے نوازا ہے۔ دین کے غم سے آپ کا سینہ صد چاک ہے۔ اپنے دورِ حکومت اور زیر نگین ملک میں حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کے آئین اور نظامِ حکومت کو دوبارہ زندہ کردے۔صحرا کے گُل لالہ پر نسیم صبح کی طرح گذر تاکہ اُس میں شادابی، سرسبزی اور طراوت پیدا ہوجائے جو اُس کی زندگی کی علامت اور نشانی ہے۔ وہ ملّت جو کوہ ودمن میں منتشر ہوچکی ہے، یعنی وطنیت کے حصار میں محصور ہوچکی ہے، اُس کی رگوں میں شیروں کا خون دوڑا دے۔ اُس میں جذبہ جہاد اور شوقِ شہادت پیدا کردے تاکہ وہ دین کے غلبہ کے لئے سرگرم جدوجہد ہوجائے۔ زیرک، نازک بدن اور روشن جبین، جس کی نظر باز کی طرح تیز بیں اور دوربیں ہے اُس دُنیا سے یہ اپنا حصہ حاصل کرنے میں ناکام اور نامراد ہے۔ اس کی تقدیر کا ستارہ نہیں چمکا ہے۔ گویا وہ دنیا کو باغی اور سرکش بندوں کے حوالہ کرکے خود لاتعلق ہوگیا ہے۔ جیسے وہ دنیا کو سنوارنے، آباد کرنے اور دنیا کے انسانوں کو عدل وانصاف اور امن وآشتی دینے کا ذمہ دار نہیں بنایا گیا تھا۔ کوہستانوں میں اس نے خلوت گزینی اختیار کرلی ہے۔ زندگی کی رَستخیزی، کشمکش اور ستیزہ کاری اس نے دیکھی نہیں ہے۔ مسلسل مشکلات پر صبر کا خوگر ہے۔ تو افغان قوم کی تہذیب، تربیت، کردار سازی اور اُس کی غیرت مندی کو جلا بخشنے میں کوشان رہئے۔ تاکہ اس اُمت کے صدیقوں میں آپ کا شمار ہوجائے اور دین کے لئے آپ ایک سرمایہ اور قوت بن جائیں۔ انسان کی زندگی، جدوجہد اور کشمکش ہے۔ یہ استحقاق اور بلا محنت صلہ نہیں ہے۔ زندگی انفس اور آفاق کے علم کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے تاکہ دنیا کا نظامِ صالحیت اور صلاحیت کے ساتھ آئین اِلٰہی اور خالق کائینات کی مرضی اور منشاء کے مطابق چلایا جائے۔ حکمت اور دانائی کو خدا نے خیر کثیر سے تعبیر کیا ہے۔ جہاں کہیں آپ اس کو پائیں گے اس کو اختیار کرکے دین کے غلبہ اور بنی نوع انسان کی فلاح کے لئے استعمال کیجئے۔ سیدِ کل سرور عالمؐ جن پر اُم الکتاب، قرآن پاک، نازل ہوا ہے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے علم لَدُنی عطا کئے جانے کے بعد اُن کے ضمیر پر سب کچھ روشن تھا وہ بھی اﷲ تعالیٰ سے اپنے علم اور علم اشیاء کے بارے میں ربِّ زدنی علما کا ورد فرماتے تھے۔ اس کے بعد علامہ اقبالؒ امیر افغان مرحوم امان اﷲ خان سے کہتے ہیں کہ آپ کی مملکت کی بنیاد مضبوط اور مستحکم ہونی چاہئے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ کے اندر مردم شناسی کا وصف بدرجہ اتم موجود ہونا چاہئے۔ بعض اوقات بظاہر زہدو تقویٰ کے مجسمے ابلیسی سوچ اور کردار کے حامل ہوتے ہیں اور بعض اوقات بظاہر رندِ صفت اور اوباش لوگ، بڑے کار آمد اور اخلاص کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اے صاحب نظر، سربراہ مملکت! ہر ایک پتھر جو بظاہر چمکتا اور تابندہ دکھائی دیتا ہے موتی اور گہر نہیں ہوتا ہے۔ کسی شخص کے ظاہر کوہی نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ اُس کے کردار، اُس کی سوچ اور اُس کے اخلاص کا جائزہ لے کر اُس پر اعتماد کرنا چاہئے۔ اقبالؒ امیر افغانستان کو یاد دلاتے ہیں کہ مجھے پیر رومیؒ نے زندگی اور موت کی حقیقت سے آشنا کیا ہے۔ پیر رومیؒ حکیمِ پاک زاد ہیں۔ اُن کی نصیحت، اصلاح احوال کے لئے سیرت سازی اور کردار سازی کے لئے نسخہ کیمیا کی حیثیت رکھتی ہے۔ پیر رومیؔ نے کہا ہے کہ پیش رو قوموں کی ہلاکت اور زوال کا سبب یہ بنا ہے کہ انہوں نے ہر سرسوں کو عودیعنی ا سپند پر محمول کرلیا اور اپنے قریب ترین مصاحبوں کے ہاتھوں سے بھی دھوکہ اور فریب کے شکار ہوئے۔ ہمارے دین اسلام میں سرداری اور سروری اﷲ کے بندوں کی خدمت کرنے میں مضمر ہے۔ ہمارے دین کے ستون حضرت فاروق اعظمؓ کا دیا ہوا عادلانہ نظام اور حضرت علیؓ کا فقر، شجاعت، جرأت، ہمت اور حوصلہ ہے۔ کاروبارِ حکومت اور مشاغل دین میں سے آپ ضرور خلوت گزینی کیلئے وقت نکالا کریں۔ جہاں آپ صرف اپنے دل کے ساتھ محو گفتگو ہوں۔ اپنے اعمال کا محاسبہ کررہے ہوں اور اپنی دل کی کیفیت اور حال کا مشاہدہ کررہے ہوں۔ جو شخص ایک لمحہ کیلئے بھی اپنے دل کی کمین گاہ میں خلوت گزیں ہوا اُس کی گرفت سے کوئی شکار بھاگنے میں کامیاب نہیں ہوجاتا ہے۔ یعنی وہ اﷲ کی مدد اور نصرت کا حقدار بنتا ہے اور اﷲ تعالیٰ زندگی کے ہر مرحلے اور نشیب وفراز پر اُس کی مدد اور نصرت فرماتا ہے۔ کوئی تدبیر ناکام ونامراد نہیں ہوجاتی ہے۔ بادشاہی کے لباس میں درویش صفت زندگی گذارنے کی روش اختیار کر۔ بیدار چشم اور خداترسی کی صفت سے مزین زندگی کا وطیرہ اور انداز اختیار کر۔ امیر امان اﷲ کو حکیم امتؒ گذرے ہوئے خدا ترس اور آخرت پسند بادشاہوں کے کردار کی یاد دہانی کررہا ہے اور فرماتے ہیں ان مسلمانوں نے اپنے وقت میں میری، سرداری اور حکومت کی ہے۔ مگر فی الحقیقت انہوں نے شہنشاہی کے ظاہری لباس میں فقیری اختیار کی تھی۔ وہ دُنیا کے جاہ وحشمت اور مال ومتاع کے گرویدہ اور پرستار نہیں تھے۔ امارت اور سرداری میں انہوں نے اپنی فقیرانہ اور درویشانہ زندگی کو زیادہ سے زیادہ اپنایا اور اختیار کیا۔ حضرت سلمان فارسیؓ کی طرح رہے۔ جیسے وہ مدائن کے سربراہ کی حیثیت سے زندگی گذارتے تھے۔ یہ لوگ حکمران تھے مگر سازوسان سے خالی تھے۔ اُن کے ہاتھوں میں قرآن اور تلوار کے سوا کچھ اور نہیں ہوتا تھا۔ جس مسلمان کے پاس عشق مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم کا سامان اور سرمایہ ہوتا ہے خشکی اور تری اس کے دامن میں سمٹ کر آجاتی ہیں۔ اے امیرِ افغانستان اﷲ تعالیٰ سے حضرت صدیق اکبرؓ اور حضرت علیؓ کا سوز، عشق اور اسلام کے ساتھ والہانہ وابستگی کی دُعا مانگا کریں۔ اﷲ تعالیٰ سے عشقِ نبیؐ کا ایک ذرّہ بھی نصیب ہوجائے تو وہ دنیا و مافیہا سے افضل اور بہتر ہے۔ ملّتِ مرحومہ کی زندگی اور حیات عشق نبیؐ پر منحصر ہے۔ کائینات کی تمام نعمتیں رسول اﷲؐ کی ذاتِ اقدس اور اُن کے حیات بخش نظامِ زندگی کے ساتھ والہانہ عشق ومحبت سے ہی میسئر آتی ہیں۔ اُن کے جلوہ، اسوئہ حسنہ کے خدوخال اپنے کردار اور طرز حکومت سے واشگاف کردے۔ اُن پوشیدہ خوبیوں اور بہترین اخلاق کو اپنے طرزِ عمل سے وجود بخش دے۔ انسانی روح، خاص طور مسلمان کی روح کو اُن کی معیت اور عشق کے بغیر آرام اور راحت نصیب نہیں ہوتی ہے۔ اُن کی ذات اور پیغام کے ساتھ عشق ایسا دن ہے جس پر شام کبھی سایہ افگن نہیں ہوتی ہے۔ یعنی وہ ہمیشہ روزِ روشن کی طرح تابندہ اور درخشندہ رہتا ہے۔ امیر امان اﷲ! اﷲ کا نام لے کر اٹھ کھڑا ہو جا۔ عشق ومحبتِ رسول کا جام گردش میں لے آ۔ افغانستان، جیسے کوہستان میں رسول اﷲؐ کے دین، اسوئہ حسنہ اور نظامِ زندگی کے ساتھ عشق و وابستگی کا پیغام تازہ اور زندہ کرنے کا منصبی فریضہ انجام دیدے۔ ؎ خیزو اندر گردش آور جامِ عشق در قہستاں تازہ کن پیغامِ عشق مثنوی مسافر۔۔۔۔۔ افغانستان میں اقبال کی آہ وفغان: اکتوبر ۱۹۳۳ئ؁ میں علامہ مرحوم نے افغانستان کا دورہ کیا۔ اب چونکہ مرحوم امان اﷲ خان والئی افغانستان کے حوالہ سے بات آتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ افغانستان کی سیاحت کے دوران میں جو کچھ اُن کے ارشادات، جوابات، احساسات اور فرمودات مثنوی کے صفحات میں زینت پاچکے ہیں۔ اُن کے جستہ جستہ حصے ہدیہ قارئین کئے جائیں۔ علامہ مرحوم کا کلام خاص طور فارسی زبان میں بحر بے کران ہے۔ اس کا احاطہ کرنا مجھ جیسے ناتوان اور ہیچ مدان شخص کے لئے ناممکنات میں سے ہے جیسا کہ میں نے ابتدائی سطور میں گذارش کی ہے کہ میری صرف یہ کوشش ہے کہ اقبالؒ کی اس بنیادی صفت اور خصوصیت کو امکانی حد تک اُجاگر کروں کہ وہ فلسفی، بارایٹ لا اور مغربی فلسفہ اور تہذیب وتمدن کے شناور ہونے کے ساتھ ساتھ کس طرح روحِ دین کے شناسا اور واقفِ حال تھے اور کس طرح انہوں نے اپنے کلام میں اسلام کی اصل روح کو اُجاگر کرنے اور ذہن نشین کرنے کی کوشش کی ہے۔ اُن کے دل میں اسلام اور ملّت کے لئے کتنا درد کتنا اضطراب اور کتنی بے چینی تھی۔ اس کا اندازہ اُن کے فارسی کلام کے مطالعہ سے ہوجاتا ہے۔ وہ ملّتِ مرحومہ کے تابناک اور شاندار ماضی سے واقف تھے۔ اُن کی نگاہوں میں قرونِ اولیٰ کے مسلمان تھے۔ اُن کی نظروں میں رسالتمآب صلی اﷲ علیہ وسلم کا دورِ سعادت تھا۔ پھر اُن کی تربیت میں تشکیل پذیر وہ کردار اور سیرت تھی جنہوں نے خلافت راشدہ کے مثالی دور کی نقش بندی کی تھی اور ہمہ جہت انقلاب کی داغ بیل ڈال کر تاصبح قیامت ایک بے مثال اور بے نظیر معاشرہ کی تشکیل کرکے بنی نوع انسان کی آرزؤں اور تمناؤں کو مرکز اور محور بنایا تھا۔ صدیاں گذرجانے کے بعد بھی وہ مثالی دور دیکھنے میں نہیں آرہا ہے۔ اقبالؒ کی تمنا اور آرزو صرف یہ تھی کہ ملّت مرحومہ اُسی مثالی دور کی یادیں تازہ کرکے اور اسی کا آئینہ سامنے رکھ کراپنا منصبی فریضہ انجام دینے کے لئے سرگرم عمل ہوجائے۔ وہ ملّت کی موجودہ حالت دیکھ کر ماہیء بے آب کی طرح تڑپتے تھے۔ اس کے ذہنی اور عملی انحطاط اور زوال کو دور کرنے کے لئے آتش زیرپا تھے۔ وہ ملّت کی اس صورتِ حال کی تشخیص کرچکے تھے اور برملا کہتے تھے کہ ملّت قرآن اور سنتِ مطہرہ سے دور اور بے گانہ ہوچکی ہے اور یہی اُس کے امراض کی جڑ اور کُنہ ہے۔ انہوں نے ملّت کے موجودہ انتشار اور افتراق کی تصویر کشی کرکے اُس کے اعتماد اور اتفاق کیلئے دردمندانہ آواز بلند کی تھی۔ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر جو کریگا امتیاز رنگ و خون مٹ جائے گا ترک خرگاہی ہو یا اعرابئی والا گہر نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہوگئی اُڑ گیا دُنیا سے تو مانند خاک رہ گذر تاخلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار لاکہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر خلافتِ علیٰ منہاج نبوّت کا قیام نہ صرف ملّت مرحومہ کی بیماریوں کا علاج ہے بلکہ یہ ملّت اسلامیہ کی ذمہ داری بھی ہے۔ آج کی دُنیا میں انسان جس بے چینی اور اضطراب اور نوع بنوع مسائل سے دوچار ہے، انسان کا خون پانی کی طرح ارزان ہے اور سارے ازم انسان کو امن وآشتی اور خوشحالی وفراغت دینے میں مکمل طور ناکام ہوچکے ہیں جب تک خلافت راشدہ کے صالح نظام کی بنیادوں پر وحدتِ الہٰ اور وحدتِ آدم کا تصور عام کرکے عدل وانصاف کا نظام قائم نہ ہو انسان موجودہ خون ریزی اور استحصال سے نجات نہیں پاسکتا ہے۔ افغانستان کی سرزمین پہ قدم رکھتے ہی علامہ مرحومؒ نادر شاہ مرحومؒ کی تُربت پر حاضری دیتے ہیں اور اپنی عقیدت، محبت،اور ان کے اوصاف حمیدہ کی تعریف کرتے ہیں۔ نادرشاہؔ یقیناً اسم با مسمیٰ ایک نادراور درویش صفت سربراہ مملکت تھے۔اللہ تعالی کی رحمت بے پایاں ان کی تربت پاک پر ہو۔ ان کی تدابیر اور حکمت عملی کے نتیجے میں ملت مرحومہ کے اجتماعی وجود میں استحکام اور استقلال پیدا ہوا تھا۔اُن کی شمشیر بُرّاں دین کی حفاظت کے لئے تھی۔ علامہ اقبالؒ کے نزدیک اس حقیقت کا واضح ادراک اور اعتراف تھا کہ مسلمان کی تلوار، ظلم وجبر اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے لئے نہیں ہوتی ہے، بلکہ وہ صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کے پسندیدہ دین اسلام کے احیاء کیلئے اور اُس کے دئے ہوئے عادلانہ نظام کو قائم کرنے کیلئے استعمال ہوتی ہے کیونکہ پوری انسانی برادری کے لئے اس دین مبین میں فلاح و بہبود اور امن و آشتی ہے۔ نادرؔ شاہ مرحوم حضرت ابو ذر غفاریؓ کی طرح نماز میں سوزوگذار کا مجسمہ ہوتے تھے اور جب دُشمن کے ساتھ مقابلہ ہوتا تھا اور کوئی معرکہ آرائی ہوتی تھی اُن کی شمشیر کی ضرب اور کاٹ پتھروں کو بھی شق کرتی تھی۔ افغانستان کے اس بادشاہ کے زمانے میں اُن کی حکمرانی کے انداز اتنے حسین و جمیل تھے کہ عہد صدیق کی یادیں تازہ ہوجاتی تھیں۔ یعنی اُن کے دورِ حکومت میں حضرتِ ابوبکر صدیقؓ کا انداز حکمرانی زندہ کردیا گیا۔ یہ علامہ اقبالؒ کی تمناؤں اور آرزوؤں کی عکاسی ہے۔ اُن کے جلال اور دبدبے سے عہد فاروقی کی یادیں تازہ ہوگئیں۔ جس طرح گلِ لالہ کے سینے میں اُس کا سیاہ داغ اُس کی شناخت اور پہچان ہوتی ہے اسی طرح نادر شاہ کے دل میں دین مبین کا غم اور درد ہوتا تھا۔ مشرق کی تاریک رات میں اُن کے وجود کی مثال روشن چراغ کی تھی۔اس کی نگاہ میں ارباب ذوق کی مستی اور اس کی روح کا جوہر سراپا جذب وشوق ہے۔ شمشیر خسروی اور درویشانہ نگاہ ۔ یہ دونوں موتی لاالہٰ کے سمندر سے ہی حاصل ہوسکتے ہیں۔ یعنی اسلام کی بنیادی تعلیمات میں اُنہی کے اثر اور عمل آوری کے نتیجے میں اقتدار پر براجمان بادشاہ، درویش صفت متقی، خداترس، آخرت پسند اور انسان دوست ہوتے ہیں۔ فقر اور شاہی کا ایک ساتھ ہونا، یہ صرف رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت پاک اور اسوئہ حسنہ کی دین اور کرشمہ سازی ہے۔ یہ برکتیں، رحمتیں اور سیرت وکردار کی عظمتیں صرف رسولِ رحمتؐ کی ذات مبارکہ کی جلوہ سامانیاں ہیں۔ یہ دونوں قوتیں مؤمن کے کردار کی نمایاں صفات اور خصوصیات ہیں۔ یعنی دنیوی اقتدار، قوت، طاقت اور شان وشوکت اُن کی ذات، خاندان، قوم یا خدا بے زار افراد کے لئے نہیں بلکہ مجموعی طور انسان کی فلاح اور کامرانی و کامیابی کے لئے حکومت کی یہ طاقت استعمال کی جاتی ہے۔ مؤمن کی زندگی میں قیام وسجود، زندگی کے دوپرتو ہوتے ہیں۔ حکومت کا اقتدار، اُن کے قیام اور سجود اُن کے لئے بندگی کا مظاہرہ اور اعلان ہوتا ہے۔ فقر، سوز، درد، داغ اور آرزو ہے۔ فقر کو رگ وریشہ میں اُتارنا، داخل کرنا، آبرومندی ہے۔ نادر نے فقر کو اپنے رگ و ریشہ اور خون میں داخل کردیا تھا۔ یہی فقر اُن کی زندگی کا شعار اور نشان بنا تھا۔ اس مردِ شہید افغانستان کے درویش صفت بادشاہ نادرؔ کے اس اندازِ فقر پر صد آفرین اور ہزار بار تحسین! اے باد صبح کے تیز گام مسافر! نادرؔ کے مرقد پر نرم رَو اور سَبُک سرہوکر طواف کرلے۔ نادرؔ شاہ اپنے مرقد میں محواستراحت ہیں۔ اس لئے بادصبا! اپنے قدم آہستہ آہستہ رکھ لے ۔ تیری آمد سے جو غنچے کھِل اٹھتے ہیں اُن کی گر ہیں آہستگی سے کھول لے۔ میری طرف سے عقیدت کے یہ پھول نچھاور کرنے کے بعد اُن کی طرف سے میرے لئے فرمان صادر ہوا۔ اس فرمانِ شاہی نے میرے خاکی وجود میں تازہ روح اور زندگی کی لہر دوڑا دی۔ فرمانِ شہ نادرؒ: ’’ اے مسافر! تیری درد بھری اور پرتپش آواز سے میں جل اُٹھا۔ وہ قوم کتنی خوش بخت، خوش نصیب اور لائق صد آفرین ہے جو تیری زندگی کے راز، تیرے دل کی دھڑکن، تیری تمنا، تیری آرزو اور تیرے مقاصد و اہداف سے واقف اور جانکاری رکھتی ہو۔ اے میرے عقیدت مند! تیرے اس غمِ دین وملّت سے ہماری قوم پوری طرح آشنا اور واقف راز ہے۔ ہماری ملّت اور قومِ افغان جانتی ہے کہ دردواخلاص سے پُر یہ آواز کہاں سے آرہی ہے۔ ہمارے آغوش سحاب میں بجلی کی طرح کڑکنے والے تیرے نور اور تیری پرسوز آواز سے پورا مشرق روشن اور تابندہ ہے۔ ایک طویل عرصے تک ہمارے کوہساروں میں درخشندگی اور تابناکی کا مظاہرہ کرلے۔ دین اسلام اور رسولِ رحمت ؐ کے ساتھ ہمارا ایمان، محبت اور عشق میں وہی تابندگی، استحکام اور استقلال پیدا کردے جو مطلوب و مقصود ہے۔ تم کب تک بندشوں اور حصاروں میں بندھے اور گھیرے رہو گے۔ تیرا پیغام کلیمی ہے۔ تجھے سینا کی وادیوں کی تلاش میں سرگرمِ سفر رہنا چاہئے۔ اس نادر شاہی فرمان کے بعد اقبالؒ افغانستان میں اپنی سیاحت کے بارے میں فرماتے ہیں: میں نے افغانستان میں باغ، مرغزار اور دشت وصحرا چھان مارے، باد صبا کی طرح میں نے افغانستان کے پہاڑ اور ٹیلے دیکھ بھال لئے۔ درّہ خیبرؔ مردانِ حق آشنا سے نامانوس نہیں ہے۔ اس کے دل میں تو ہزاروں افسانے، واقعات اور تاریخی شواہد پوشیدہ ہیں۔ اس راہ کے نشیب وفراز اور پیچ وخم کی طرح میں نے بہت کم راستے دیکھے ہیں۔ اس کے پیچ وخم میں تو انسان کی نظر بھی گم ہوجاتی ہے۔افغانستان کے کہساروں کے دامن میں آپ سبزہ تلاش نہ کریں ۔اس کے ضمیر میں رنگ وبو کی نمود اور اٹھان نہیں ہے۔ اس سر زمین کے چکور شاہین صفت اور شاہین مزاج ہیں۔اس سر زمینِ غیرت مند کے ہرن شیروںسے بھی خراج وصول کرتے ہیں۔ ان اشعار میںافغانیوںکی غیرت مندی، حوصلہ، ہمت، جوان مردی اور بہادری کی تعریف کی گئی ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ افغانیوں نے برطانوی سامراج،روسی سامراج اوراشتراکی مزاج اور فلسفہ کو شکست دیدی۔آج جب اقبالؒ کے کلامِ بلاغت نظام کے حوالہ سے افغان کا تذکرہ آرہا ہے۔افغان کے غیرت مند عوام آج امریکی اور اس کے اتحادیوں کے ظلم و جبر،انسان کشی اور بدترین قسم کی سامراجی چالوں اور فریب کاریوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ نیٹو کی فوجیں افغانیوں کی ہمت اور حوصلہ مندی بزبانِ حال معترف ہیں۔ بہت جلد وہ روسی سامراج کی طرح وہاں سے نکل کھڑی ہونگی۔ انشاء اﷲ اور افغان قوم اپنی دینی اور ملی تشخص کو پھر بحال کرنے میں کامیاب وکامران ہوگی۔ انشاء اﷲ! طالبان اور القاعدہ کے نام محض ایک بہانہ ہے۔ امریکی اور اُن کے اتحادی سامراج کے مقابلے میں براہ راست افغان عوام معرکہ آرائی میں مصروف ہیں۔ اُن کے معصوم بچے، خواتین اور عام شہری، سامراجی قوتوں کی بم باری کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ؎ ’’ہے کہاں روزِ مکانات اے خدائے دیر گیر!‘‘ شاعر مشرق افغانیوں کی غیرت مندی کا بھرپور انداز میں اعتراف کرتے ہیں، لیکن وہ اُن کی بے مرکزیت پر حسرت و افسوس کے آنسو بھی بہا رہے ہیں۔ افغان قوم، بے نظام، ناتمام اور نیم سوز ہے جس کی وجہ سے سامراجیوں کے پنجہء استبداد سے نجات حاصل کرنے کے بعد بھی اُن کی آشفتہ سری ختم نہیں ہوجاتی ہے۔ اس کا تازہ ترین تجربہ روسی سامراج کے شکست خوردہ ہو جانے کے بعد افغان قیادت کا بکھراؤ ہے بار بار حرم پاک کے سایہ تلے معاہدے کرنے اور عہدنامے لکھنے کے بعد بھی وہ آپس میں متحد نہ ہوسکے ۔ یہاں تک کہ طالبان منصئہ شہود پر آگئے اور اکتوبر ۲۰۰۱ئ؁ میں امریکہ کی اسلام اور مسلم دشمن حکومت نے 9/11 کے افسوسناک اور قابل مذمت سانحہ کے بعد، اُسامہ بن لادن کو مہمان بنانے کی پاداش میں اپنی بدترین ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرکے ان سطور کے سپرد قرطاس کئے جانے کے وقت تک خون کی ارزانی کا بازار گرم کررکھاہے۔ ؎ ’’حذر اے چیرہ دستان سخت ہیں فطرت کی تعزیریں!‘‘ افسوس اور واویلا اُس قوم پر جس کی زندگی میں تب وتاب، انقلاب اور اضطراب نہ ہو۔ جس کی دنیا پیش آنے والے حادثات و واقعات سے کوئی سبق حاصل نہ کرے۔ فکری اور عملی انتشار کی یہ کیفیت ہے کہ ایک سجدہ ریز ہے اور دوسرا ابھی قیام میں ہے۔ان کا اجتماعی نظام بے امام نمازیوں کی مانندہے۔ان کی اپنی سنگ زنیوں سے خود ان کا مینا ریزہ ریزہ ہے۔افسوس ان کے آج پر جس کا کوئی فردا یعنی کل نہیں ہے۔مطلب یہ ہے کہ قوم قربانیاں دے رہی ہے،مگر منزل اور مقصد کے حصول کے لییٔ ان میں جو فکری اور عملی اتحاد اور شیرازہ بندی ہونی چاہے اس کا ہر سطح پر فقدان ہے۔ خطاب بہ اقوام سرحد: اے اپنی نظروں سے اوجھل اپنے آپ کو دوبارہ حاصل کرنے اور جاننے کی کوشش کر۔ مسلمانی میں اپنے وجود کو پوشیدہ رکھنا اور اپنی منصبی ذمہ داریاں انجام دینے سے کنی کترانا حرام ہے۔ مسلمان، داعی اور مبلغ ہے۔ یہ ایک مشن کا علمبردار ہے۔ یہ بدی مٹانے والا اور نیکی قائم کرنے والا ہے۔ یہ ایسے دین اور نظام کا امین اور علمبردار ہے جو دُنیا میں غالب ہونے اور پوری انسانیت کوشرک، ظلم اور عدوان سے نجات دلانے کے لئے آیا ہے۔ جو اس دین کا امانتدار ہے جب تک وہ اس دین کو اپنی زندگی ، اپنے گھر، اپنے معاشرے اور پھر اجتماعی نظام میں غالب کرنے کی جدوجہد میں ہر لمحہ اور ہر آن مصروفِ عمل نہیں ہوجاتا وہ نہ خود اپنے وجود سے آگاہ ہے اور نہ اپنے زمانے کو اپنے سے باخبر اور آگاہ کررہا ہے۔ بتاؤں تجھ کو مسلمان کی زندگی کیا ہے یہ ہے نہایتِ اندیشہ و کمالِ جنون (اقبالؒ) غوروفکر اور تدبر وتفکر کے بعد اسلام بحیثیت مکمل نظامِ زندگی قبول کرنا اور اس کے قیام اور پھیلاؤ کیلئے بھرپور دیوانگی اور جنونی کیفیت کا مظاہرہ کرنا مسلمانی ہے۔ جنونی کیفت تو کسی بھی حال میں پوشیدہ نہیں رہتی ہے۔ اس لئے حکیم الامتؒ قومِ سرحد کو اپنے آپ کو پہچاننے کی تلقین اور تعلیم دے رہا ہے۔ تم جانتے ہو کہ رسول اﷲؐ کے لائے ہوئے دین کی اصل اور حقیقت کیا ہے؟ اپنے آپ کو خوب اچھی طرح جان لینا، اصل شہنشاہی اور اپنے مقام کی بازیافتگی ہے۔ دین کیا ہے؟ اپنے آپ کو دریافت کرنا، اپنے مقصدِ وجود کی جانکاری اور پہچان پیدا کرنا ہے۔ اس مقام اور مرتبہ سے بے خبری اور غفلت اصلی مرگ اور حقیقی موت ہے۔ انسان ایک حیوان کی طرح اور ایک زندہ لاشے کی طرح چلت پھرت کرتا ہے لیکن اپنے اصل مقصد اور کام سے بے خبر اور بے گانہ رہنا فی الحقیقت موت کی زندگی ہے۔ جو مسلمان اپنے آپ کو پہچان کر زندگی گذارتا ہے وہ پوری دُنیا میں اپنا وجود منواتا ہے اور اپنی بالادستی اور بنی نوع انسان کے لئے اپنی بہی خواہی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ کائینات کی اصل اور حقیقت سے وہی مسلمان آگاہ ہوتا ہے جو اپنے کو پہچانے، اُس کی تیغ لَا موجُودَ اِلا اﷲ ہے۔ یعنی مسلمان شعور کی بیداری کے ساتھ لا الہٰ ٰ کہتا ہے اور پوری دنیا کے معبودان باطل کے خلاف اعلانِ جنگ کرتا ہے۔ پھر اُس کی تلوار، اُس کی تیغ، اُس کی سپاہ، اُس کی پناہ، اُس کی جوہری طاقت، سب کچھ لا موجود الا اﷲ بن جاتا ہے۔ وہ اﷲ غالب وقاہر کے بھروسے پر سرگرمِ عمل ہوجاتا ہے۔ پھر اُس کا یہ حال ہوتا ہے۔ کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ مؤمن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی دُنیا اور مافیہا میں باشعور اور بامقصد مسلمان کی زندگی اور وجود کا غوغا اور آوازہ بلند ہوتا ہے۔ نو آسمان اُس کی وسعت میں سرگردان ہیں۔ مسلمان کا دل اﷲ تعالیٰ کے اسرار، صفات اور قدرت کا ملہ کا رازدار اور امانت دار ہے اور اگر ایسی کیفیت مسلمان کی نہ ہو تو ایسے مسلمان پر حیف اور افسوس ہے جو اپنے آپ کی پہچان اور شناخت سے بھی محروم اور بے نصیب ہے۔ بندئہ حق، اﷲ کا مخلص اور یکسو بندہ ہوتا ہے جس طرح حضرت ابراہیمؑ کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ { اِنَّ اِبْرَاھِیْمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِّلّٰہِ حَنِیْفاً وَلَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ہ} ’’بے شک ابراہیمؑ اپنی ذات سے ایک پوری اُمّت تھا، اﷲ کا مطیعِ فرمان اور یکسو۔ وہ کبھی مشرک نہ تھا۔‘‘ (النحل، ۱۲۰) وہ فردِ واحد کے باوصف ایک اُمت کا کردار اور کانامہ انجام دیتا ہے۔ فرمان بردار، اور سب معبودانِ باطل سے کٹ کر، صرف اﷲ کا بندئہ اور اطاعت گذار ہوتا ہے وہ اﷲ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک و سہیم نہیں ٹھہراتا ہے۔ ایسا ہی مخلص اور یکسو بندئہ حق، پیغمبروںؑ کا وارث اور قائمقام ہوتا ہے۔یعنی جس مشن اور اﷲ کے دین کے قیام اور غلبہ کیلئے پیغمبروں کو معبوث کیا جاتا ہے اُسی مشن اور کام کیلئے مسلمان کو منتخب کیا گیا ہے۔ {کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ } ’’اب دُنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لئے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکیوں کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اﷲ پر یقین رکھتے ہو۔‘‘ (آل عمران:۱۱۰) ایسے ہی بندئہ حق کی تلاش اﷲ کو، اﷲ کے پیغمبروں کو اور حکیم الامت علامہ اقبالؒ کو ہے۔ ایسا بندئہ حق دوسروں کی دُنیا میں نہیں سما سکتا ہے۔ یعنی وہ انسانوں کے تخلیق کردہ نظامِ ہائے زندگی میں ، زندگی نہیں گذارسکتا۔ وہ مسلمان ہے وہ صرف اور صرف اﷲ کے دین کے سایے تلے ہی انفرادی اور اجتماعی زندگی گذارنے کا روادار ہوتا ہے۔ وہ غیر اسلامی نظریہ زندگی کے تحت زندہ رہنے کیلئے پیدا ہی نہیں کیا گیا ہے۔ بندئہ حق وارثِ پیغمبراںؑ اونہ گنجد درجہانِ دیگراں بندئہ حق کا اصل کام یہ ہے کہ وہ اپنے دین، اپنی تہذیب اور اپنے ورثہ کے مطابق اپنی دُنیا بناتا اور تعمیرکرتا ہے۔ گردوپیش کی دُنیا کو جو اُس کے مولیٰ اور معبود کی مرضی اور منشا کے مطابق نہ ہو وہ اُسے درہم برہم کر دیتا ہے۔ تہہ وبالا کردیتا ہے۔ انقلاب لاتا ہے اور اﷲ کے دین کو غالب کرکے اُس کے احکامات اور ہدایات کے مطابق زندگی گذارتا ہے۔ زندہ اور باشعور مسلمان غیر حق سے فراغ، آزادی اور نجات حاصل کرتا ہے۔ اپنے وجود اور مقام کی پہچان اُس کے لئے روشنی اور چراغ کی حیثیت رکھتی ہے۔ خیروشر کی ستیزہ کاری سے اُس کے قدم محکم اور مضبوط ہوتے ہیں۔ اﷲ کی یاد اور ذکر اُس کے لئے شمشیر اور اس کی فکر حقیقت کی سپر رکھتی ہے۔ اُس کی فکر، اُس کا تدبر اور اپنے دین کے بارے میں اُس کا شعور نہایت پختہ اور مستحکم ہوتا ہے۔ { یَٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوٓا اِذَالَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْاوَاذْکُرُوا اﷲَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تَفْلِحُوْنَ ہ} ’’اے ایمان کا دعویٰ کرنے والو! جب تمہیں کسی گروہ کے ساتھ مقابلہ آرائی ہو تو ثابت قدم رہو۔ اﷲ کو کثرت سے یاد کرو۔ شاید کہ تم فلاح پاؤ۔‘‘ بندہ یعنی مؤمن کی صبح اذانِ سحر گاہی سے شروع ہوجاتی ہے۔ اذان کے یہ الفاظ ظاہری ہی نہیں ہوتے بلکہ یہ روح اور دل کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلی ہوئی آواز ہوتی ہے۔ اس میں انقلاب آفرین قوت اور طاقت ہوتی ہے۔ بندئہ حق کی صبح مشرق سے ابھرتے ہوئے آفتاب کی شعاوں کی محتاج اور منتظر نہیں ہوتی ہے۔ اس میں لطیف اشارہ ملّت کے اُن افراد کی طرف ہے جو سحرخیزی کے بجائے، آفتاب طلوع ہوکر ہی بسترِ استراحت سے بیدار ہوتے ہیں۔ ایسے تن آسان فرزندانِ ملّت کے بارے میں اقبالؒ نے فرمایا ہے۔ تیرے صوفے ہیں افرنگی، تیرے قالین ایرانی لہو مجھ کو رُلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی بندئہ مؤمن کی فطرت، دُنیا میں رہتے ہوئے، حدبندیوں اور سرحدوں کی پابند نہیں ہوتی ہے۔ وہ باشعور ہو تو اُس کا مقام اور مرتبہ حریم مطاف ہے اور پوری کائینات اُس کے گرد طواف کرتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مسلمان جس دین اور نظامِ زندگی کا امانت دار ہے۔ اگر وہ اس رحمت کو عام کرے تو پوری دُنیا اُس کے گرد جمع ہوجائے گی۔ یہ نہیں کہ وہ دوسرے ازموں اور سرابوں کی نذر ہوجائے۔ بندئہ حق، تو ایسا ذرّہ ہے جس کے راستے کی گرد آفتابِ درخشندہ ہے۔ آپ کے اس مقام اور مرتبہ کی گواہی اور شہادت اﷲ کی کتاب’’القرآن‘‘ ہے۔ اَنْتُمْ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ بندئہ حق کی فطرت کی کشادگی اور وسعت ملّت کی وجہ سے ہے۔ یعنی اُس کی اصل طاقت اور قوت ملّت کے ساتھ جڑے رہنے اور ملّی وابستگی سے ہے۔ اُس کی آنکھوں کی بینائی اور روشنی ملّت کے اتحاد اور ملّی رشتے کی اُستواری سے ہے۔ اے بندئہ حق: کچھ دیر کے لئے اپنے آپ کو قرآن اور سُنت کی ہدایات اور تعلیمات میں گم کردے۔ پھر اپنے آپ کو احتساب کی نظر سے دیکھ لے کہ ان تعلیمات کی روشنی میں آپ کس حد تک معیار مطلوب پر پورا اُترتے ہیں۔ کیونکہ تیری کامیابی کا معیار صرف اور صرف اطاعتِ اﷲ اور اطاعتِ رسولؐ ہے۔ وَمَنْ یُّطِعِ اﷲَ وَرِسُوْلَہٗ فَقَدْ فَاذَفَوْزاً عَظِیْماً ’’جس نے اﷲ اور اﷲ کے رسولؐ کی اطاعت کی اُسی نے بڑی کامیابی اور کامرانی حاصل کی‘‘۔ اے بندئہ مؤمن۔ آج تیرا کیا حال ہے۔ پوری دُنیا میں تم بے چارگی اور آوارہ گی کی حالت سے دوچار ہوگئے ہو۔ ملّی وحدت کا رشتہ تم گم کرچکے ہو جس کے نتیجے میں سینکڑوں ٹکڑوں میں بٹ چکے ہو۔ غیر اﷲ کی غلامی کے بندھنوں میں تم جکڑے ہوئے ہو۔ تمہاری پیشانی پر ندامت اور خجالت کے جو داغ لگے ہوئے ہیں اُنہی میں سے میں بھی ایک داغ ہوں۔ یعنی ملّت کی اس صورتحال سے میں اپنے آپ کو علٰحیدہ نہیں کرسکتا ہوں۔ قبیلے اور قافلے کے سردار! اسلام اور ملّت دُشمن قوتوں کی پوشیدہ چالوں اور مکروفریب سے غافل اور بے خبر مت رہ۔ افغانیوں کی روح کے ضائع ہونے سے ترس کھالے۔ افغانیوں کی دین اور مذہب سے وابستگی، غیرت، ہمت، حوصلہ، خودداری اور خودی باطل قوتیں اس کا یہی سرمایہ لوٹ لینا چاہتی ہیں۔ قوم کا سردار ہونے کے ناطے، آپ کو ان مکروفریب کی چالوں سے بے خبر نہیں رہنا چاہئے۔ سامراجی قوتوں کی چالیں بڑی خطرناک ہوتی ہیں۔ {وَقَدْ مَکَرُوا مُکْرَھُمْ وَعِنْدَاﷲِ مَکْرُھُمْ وَاِنْ کَانَ مَکْرُھُمْ لِتَزُولَ مِنْہُ الْجِبَالُ ہ} ’’دین اور اسلام دُشمن قوتیں مکروفریب کی چالیں چلتی ہیں۔ اﷲ اُن کی چالوں کو ناکام بنانے کی چالیں اور تدبیریں کرتا ہے۔ درآنحالیکہ اُن کی چالیں اتنی خطرناک ہوتی ہیں کہ پہاڑ بھی ہل جاتے ہیں۔‘‘ (ابراہیم: ۴۶) افسوس کہ پوری دُنیا کا مسلمان اِن چالوں کو سمجھنے سے قاصردکھائی دیتا ہے۔ اُس کی بنیادی وجہ اُس کی دینی، سیاسی اور معاشی غلامی ہے۔ اسی لئے علامہ مرحوم نے فرمایا ہے۔ موت ہے اک سخت تر جس کا غلامی ہے نام مکروفنِ خواجگی کاش سمجھتا غلام اے کہ غلامی سے ہے روح تیری مضمحل سینہء بے سوز میں ڈھونڈ خودی کا مقام اے بندئہ حق! میں آپ کو مردانِ حق کی مثالیں دیکر تیری پژمردگی اور جمود کو توڑنا چاہتا ہوں۔تجھ کو حرارت اور سوز و گداز سے آراستہ کرنا چاہتا ہوں۔پیر رومؒ کی تعلیمات اور فرمودات تجھ کو سمجھانااور ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں۔ پیر روم کا پیغام: ’’رزق اﷲ سے طلب کر۔کسی زید یا عمر سے طلب نہ کر۔ جوش وجذبہ اور مستی اﷲ کے ساتھ بندگی کا تعلق استوار کر کے حاصل کرنے کی کوشش کر۔بھنگ اور شراب سے مستی اور نشہ تلاش مت کر۔مٹی مت کھاو۔مٹی مت خریدو۔اور مٹی کی تلاش میں مت پھرو۔ کیونکہ مٹی کھانے والا ہمیشہ زرد رو رہتا ہے۔ دل کو تلاش کرو تاکہ ہمیشہ جاودان و جوان رہو۔ اﷲ کی معرفت سے تمہارا چہرہ گلاب کی مانند ہوگا۔ اﷲ کا بندہ بن کر زندگی گذارنے کا طریقہ اور راستہ اختیار کرلے اور زمین پر تیز رو گھوڑے کی طرح رہو۔ جنازے کی طرح نہیں جو دوسروں کی گردنوں اور شانوں پر اُٹھایا جاتا ہے۔‘‘ پیرِ رومیؒ کا پیغام پہنچانے کے بعد حکیم الامت کا کلام پھر شروع ہورہا ہے: نیلے آسمان کی شکایت مت کرو۔ انسان کی زندگی میں جو حادثات، واردات اور رنج ومحن آتے ہیں اُن کو اکثر گردشِ آسمان اور تقدیر سے وابستہ کیا جاتا ہے۔ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ اپنی ذات کو محور بناؤ۔ اپنی ہی ذات کے آفتاب کے گرد طواف کرنے پر قناعت کرو۔ آسمان کی شکایت گردشِ دوران کی شکایت لاحاصل عمل ہے۔ذوق وشوق کے مقام سے آگاہ ہوجاؤ۔ اگر تم ذرّئہ خاک ہو مگر سورج اور چاند کو اپنی کمند میں لا۔عالم موجود، گردوپیش کی دُنیا کو جاننے کی کوشش کرو اور دُنیا میں اپنا پیغام اور مشن عام کرنے کی کوشش میں جُٹے رہو۔ اس طرح تم دُنیا میں جانے جاؤ گے اور تمہارا آوازہ بلند ہوگا۔ کائینات کا نظام وحدت کا مظہر ہے۔ اس دُنیا میں وحدت سے ہی زندگی قائم ہے۔ وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اﷲِ جَمِیعاً وَلا تَفَرَّقُوْا ’’اﷲ کے دین کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رکھو۔ الگ الگ راستے اختیار مت کرو۔‘‘ رنگ، زبان، نسل، وطن اور ذات پات پُرانے بتوں سے نجات حاصل کرو۔ دورِ جاہلیت کی خواہشاتِ نفسانی اور رسم ورواج سے پناہ مانگو۔ ان جاہلیت کی رسموں کی قیمت اور حقیقت جَو کے دو دانوں کے برابر بھی نہیں ہے۔ تازہ آرزوؤں کی نقشبندی کرو۔ مطلب آخری دین، جس کے بارے میں فرمانِ اِلٰہی ہے۔ { اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْناً } ’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے‘‘ (المائدہ:۸) انسان کی زندگی، آرزوپر بنیاد اور اَساس رکھتی ہے۔ اپنے آپ کو اپنی تمناؤں اور آرزوؤں کے حوالہ سے پہچانو۔ جیسے معروف اور متداول قول ہے: ’’دُنیا بہ اُمید قائم است!‘‘ مؤمن اور بندئہ حق کی اُمید اور تمنا اﷲ کی رضا، خوشنودی اور اُس کے دین کی سربلندی، دُنیا کی کامرانی اور آخرت کی فلاح ہے۔ اس کے لئے اﷲ کا بتایا ہوا راستہ اختیار کرنا ہے۔ انسان کی آنکھیں، کان، ہوش وحواس، آرزو سے ہی متحرک اور زندہ رہتے ہیں۔ یہ مشت خاک، اولادِ آدم، آرزو سے ہی لالہ خیز بن جاتی ہے۔ ایسی مٹی جس میں گلِ لالہ اُگتے اور نشونما پاتے ہیں۔ جس انسان نے آرزوؤں اور تمناؤں کے بیج اپنی کشتِ دل میں نہ بوئے وہ پتھروں اور اینٹوں کی طرح دوسروں کی پامالی کا شکار اور نشانہ بنتا ہے۔ نیک تمنائیں، بلند ارادے اور مقصدِ زندگی کے حوالہ سے خوش آئیند آرزوئیں، ہر بادشاہ اور سردار کا سرمایہ حیات ہے۔ آرزو ہر فقیر کیلئے جامِ جہاں بین کی حیثیت رکھتی ہے۔ انسان جو آب وگلِ کا مجسمہ ہے اس کو آزروہی انسان بنادیتی ہے۔ آرزو ہم کو اپنی پہچان اور شناخت بتادیتی ہے۔ آرزو آگ کی چنگاری کی طرح ہمارے جسم سے بلند ہوتی ہے۔ ایک خاک کے ذرّے کو آسمانی وسعت اور پنہائی سے ہمکنار کردیتی ہے۔ آذر کی اولاد نے کعبہ تعمیر کیا۔ ایک نگاہِ خدا شناس و خدا بین نے خاک کو اکسیر بنادیا۔ تم بھی اپنے بدن میں خودی پیدا کرو اور اپنی مشت خاک کو اکسیر بناؤ۔ کابل میں شاہِ افغان اور اقبالؒ: افغان کے سفر کے دوران میں اقبالؒ کابل شہر میں وارد ہوجاتے ہیں اور بادشاہ وقت کے دربار میں ملاقات کے لئے آتے ہیں۔ اپنے کلام میں سب سے پہلے کابل شہر کی تعریف کرتے ہیں۔ اس پورے خطے میں کابل جنت کی مانند ہے۔ اُس کے انگوروں سے آبِ حیات جیسا رَس حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مرزا صائبؔ جو ایران کے مشہور ومعروف شاعر تھے اُن کے بارے میں تاریخ بتارہی ہے کہ غنی کشمیریؒ کے کلام میں ’’کرالہ پن‘‘ کے معنی دریافت کرنے کیلئے وہ ایران سے کشمیر آئے تاکہ غنی کشمیری سے اس کشمیری لفظ کے معنی دریافت کریں۔اقبالؒ کابل کے بارے میں صائبؔ کے شعر کا حوالہ دیتے ہیں۔ جس میں صائبؔ نے کہا ہے۔ خوشا وقتے کہ چشمم از سوادش سرمہ چیں گردد‘‘ کابل کی دید اور زیارت کا وقت میرے لئے کتنا خوشگوار اور مسرت آگین تھا کہ میری آنکھیں سرمہ چیں ہوگئیں، یعنی اُن کی بینائی اور بصارت میں اُسی طرح تازگی اور افزودگی پیدا ہوگئی جیسے سرمہ لگانے سے ہوجاتی ہے۔ اقبالؒ اس سرزمین کے لئے دُعا مانگتے ہیں کہ یہ سرزمین روشن اور پائندہ رہے! رات کی تاریکیوں میں اس کے سمن زار دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ سہانی صبح اس کی بساطِ سبزہ میں غلطان و پیچاں رہتی ہے۔ یہ پاک وطن، خوشیوں اور مسرتوں کا مسکن، اس کی ہوائیں شام اور روم کی ہواؤں سے بہتر ہیں۔ یہاں کا پانی چمکدار اور یہاں کی مٹی درخشندہ اور تابندہ ہے۔ اس کی ہواؤں کی لہروں سے مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے۔ اس سرزمین کے راز اور اسرار کا احاطہ نہ حروف میں اور نہ ہی کلام میں کیا جاسکتا ہے۔ مختصر یہ کہ اس کے کہساروں میں کئی آفتاب آرام فرما ہیں۔ کابل شہر کے بسنے والے آسودہ خاطر اور دل لبھانے والے موتی ہیں، مگر یہ لوگ اپنے کمالات، جوہر، خوبیوں اور ایمان ویقین کی طاقت سے اسی طرح بے خبر ہیں جس طرح تلوار اپنی طاقت اور قوت سے بے خبر ہوتی ہے۔ قصر سلطانی کا نام بہت ہی دل کُشا اور دلِ رُبا ہے۔ زائرین کے لئے اس کی راہ کی گردَ کیمیا کے برابر ہے اس بلند وبالا محل میں، میں نے شاہِ افغان کو دیکھا اس طرح جیسے بادشاہ کے سامنے دردمنددل رکھنے والا کوئی فقیر ہو۔ اس کے خُلقُ نے دلوں کی سلطنتوں کے دروازے کھول دئے۔ یہاں روایتی طور بادشاہوں کے درباریوں کے رسم ورواج اور ہٹو بچو کی آوازیں سننے میں نہیں آئیں۔ میں اُن کے دربار میں ایسے ہی تھا کہ حضرت عمرفاروقؓ کے دربار میں کوئی عام انسان اور بے نوا فرد ہو۔ ان کے کلام سے میری روح میں سوز وگداز پیدا ہوگیا۔ میں نے محبت سے سرشار ہوکر اُن کے ہاتھ کو بوسہ دیا۔ میں نے اس بادشاہ کو دیکھا۔ وہ بڑا ہی خوش کلام اور سادہ لباس زیبِ تن کئے تھا۔ اپنے فرائض کی انجام دہی میں سخت کوش، نرم گفتار اور نرم مزاج اور گرم جوش تھا۔ اُن کی نظروں سے ہی صدق واخلاص ٹپک رہا تھا ۔ اُن کے وجود سے ان کی سلطنت میںدین اور حکومت دونوں اُستوار اور محکم دکھائی دیتے تھے۔ وہ بشرہی تھے ، مگر فرشتوں سے بھی پاکیزہ تر اخلاق میں اور طرزِ گفتگو اور نرم مزاجی میں یہ فقروشاہی دونوں مقامات کی اصل اور حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے۔ مشرق اور مغرب کے حالات ان کی نگاہوں میں روشن تھے۔ یعنی وہ حالاتِ زمانہ اور گردوپیش کی دُنیا سے بے خبر اور لاتعلق نہیں تھے۔ ان کی حکمت اور شاہانہ تدّبر مشرق ومغرب کے مسائل اور حالات سے پوری طرح باخبر اور با علم تھے۔ مدّبر اور دانا لوگوں کی طرح یہ بادشاہ شہریارنکتہ رس اور نکتہ دان تھا اور قوموں اور اُمَّتوں کے حال سے واقف تھا۔ اپنی گفتگو میں انہوں نے معانی کے دروازے اور پردے کھول دئے۔حکومت اور دین کے رموزونکات واشگاف کئے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ دین اور ملّت کے لئے جو درد ِ چُبھن اور جذبہ میں نے آپ کے اندر دیکھا اور محسوس کیا اُس کی بدولت میں آپ کو اپنے قریب اور عزیز ترین افراد میں شمار کرتا ہوں۔ ہر اُس شخص کو، جس میں محبت، نرمی، حسنِ اخلاق کی بوباس ہو، میری نگاہوں میں ہاشم اور محمود غزنوی کا مقام حاصل ہے۔ اس اخلاق کریمہ کے مالک، شاہ افغان کی خدمت میں میں نے قرآن پاک کا نسخہ ہدیتاً پیش کیا۔ نسخہ کیمیا پیش کرتے ہوئے اس نے کہا کہ اہل حق کا یہی سرمایہ ہے۔ اس کی تعلیمات میں دنیوی اور اخروی زندگی، کی جاودانی اور ابدیت پائی جاتی ہے۔ یعنی اس کی تعلیمات پر عمل کرنے والوں کی دنیا بھی بہتر ہوتی ہے اور آخرت کی ابدی زندگی بھی فلاح اور کامرانی سے ہم کنار ہوتی ہے۔ اس کتاب زندگی میں ہر ابتداء کی انتہا ہے۔ یعنی یہ زندگی کے ہر راز سے آگاہ کرتی ہے۔ ہر مسئلے کا کامیاب حل پیش کرتی ہے۔ اس کی طاقت اور قوت کے بل بوتے پر حضرت علیؓ حیدرِ کرّار نے خیبر کُشا کردار انجام دیا۔ میری ان معروضات کا نشہ اُس کی رگوں میں اور خون میں گردش کرنے لگا۔ اس کا اظہار اس طرح ہوا کہ اُن کی دونوں آنکھوں سے قطرہ قطرہ آنسو ٹپکنے لگے۔ یہ ان کے دلِ مؤمن کی اندرونی کیفیت کا دیدنی اظہار تھا۔ نادرؔنے کہا کابل فتح کرنے سے پہلے جب میں اپنے وطن سے دور یورپ میں زندگی بسر کررہا تھا تو بہت پریشان تھا۔ دین اور وطن کے غم میں گھلا جارہا تھا۔میرے اپنے وطن اور ملک کے کوہ ودشت میرے قلبی اضطراب اور بے چینی سے ناواقف تھے۔ میرے بے حساب غم و فکر سے بالکل بے خبر تھے۔ ہزار داستان کی طرح میں نے نالہ زاری کی۔ موسم بہار میں جوبن پر آئی ہوئی آبجو کے ساتھ میں نے اپنے اشک اور آنسو بہا دئے۔ اُس وقت قرآن کے بغیر میرا کوئی غمگسار نہ تھا۔ اس کتاب کی قوت اور رہنمائی نے میری ہر مشکل آسان بنادی۔ غیرِ قرآں غمگسارے من نہ بود قوتش ہر باب را برمن کشود اس عالی مرتبت خسرو افغانستان کے حکیمانہ اور درد مندانہ کلام سے دوبارہ میرے قلب و ذہن میں جذبات اُمنڈ آئے۔ اسی گفتگو کے دوران میں نمازِ عصر کی اذان کی آواز بلند ہوئی۔ وہ اذان جو مؤمن کو دُنیا ومافیہا سے بے خبر بنادیتی ہے اور وہ دیوانہ وار اذان کی آواز پر سجدہ ریز ہونے کیلئے بے تاب ہوجاتا ہے۔ انتہائی اور ناقابل بیان عاشقانہ سوزو گداز کے ساتھ میں نے اُن کی امامت اور اقتداء میں نماز ادا کی۔ ’’اس نماز کے قیام اور سجود کی لذت، چاشنی اور گداز دلوں کی کیفیت سے آگاہ لوگوں کے بغیر کسی اور کے سامنے بیان نہیں کی جاسکتی۔‘‘ راز ہائے آں قیام و آں سجود جُز ببزمِ محرماں نتواں کشود! مغل بادشاہ بابر کے مقبرے پر: آجائیے! فرنگ کے ساز کی آواز اُبھر کر سامنے آگئی ہے۔ اس پردہ ساز کے پیچھے نغمہ نہیں بلکہ فریاد ہے۔ فریاد وہی کررہا ہے جو درد سے کراہ رہا ہو۔ اُن کی اس فریاد سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کا باطل نظام اور اخلاق باختہ سیاست خود ان کے لئے بھی اور پوری عالمی برادری کے لئے بھی عذاب جان بن رہی ہے۔ وہ نجات کا راستہ تلاش کررہے ہیں۔ لیکن جو اُن کو اس راہ کی طرف رہنمائی کرنے والے تھے وہ خود سوگئے ہیں۔ زمانہ بڑے غور سے سن رہا تھا ہمیں سوگئے، داستان کہتے کہتے زمانے نے پرانے اور کہنہ بتوں کو ہزار بارنئے لباس پہنائے ہیں۔ لات، منات، ہُبل، عزیٰ کی جگہ آج، وطن، قوم، نسل، رنگ، زبان، روشن خیالی، خوشحالی، ترقی اور معاشی برتری کے نام پر لوگوں کو ان کی پوجا اور پرستش کے لئے پکارا جارہا ہے۔ اسلام کی اساس قرآن اور سنت پر ہے۔ جو فرد یا قوم ان بنیادوں اور اساس سے واقف ہو اور شعور کی بیداری کے ساتھ ان پر ایمان اور ایقان رکھتی ہو وہ کبھی ان بدلے لباس میں آنے والے بتوں اور باطل خداؤں کی بندگی اور اطاعت کی طرف راغب نہیں ہوسکتے۔ اقبالؒ اسی حقیقت کی ترجمانی ان الفاظ میں کررہے ہیں: زمانہ کُہنہ بُتاں را ہزار بار آراست من از حرم نہ گذشتم کہ پختہ بُنیاد است اقبالؒ روحِ بابر کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ عثمانیوں کا جھنڈا پھر بلند ہورہا ہے۔ میں آپ سے کیا کہوں کہ تیموریوں کے ساتھ کیا گذری ہے۔ وہ کن کن صبر آزما مراحل سے گذرے ہیں۔ انگریزوں کے اقتدار میں اُن کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا گیا۔ یہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ اقبالؒ ان عبرت انگیز اور بصیرت افروز واقعات کی طرف اشارہ کرنے پر ہی اکتفا کررہے ہیں۔ بابرؔ! آپ بڑے خوش نصیب ہیں کہ آپ کی آرام گاہ یہاں، فرنگی اقتدار اور استبدادو غلبہ سے آزاد سرزمین میں ہے، کیونکہ یہ سرزمین انگریزوں کی جادوئی انداز حکمرانی سے پاک وصاف ہے۔ کابلؔ دلّی شہر سے جو اُس وقت انگریزوں کے زیر انتداب تھا ہزار درجہ بہتر اور افضل ہے۔ دلّی تو بڑھیا دلہن کی طرح ہے جس کے ایک نہیں ہزاروں داماد ہیں۔ آج جب ہم اقبالؒ کی روح کو اپنے وارداتِ قلب سے آگاہی بخشنا چاہتے ہیں، صورتحال یہ ہے کہ کابلؔ امریکی اور اُس کے اتحادی سامراجوں کے پنجہء استبداد میں ہے۔ وہاں کے غیرت مند عوام بھرپور مزاحمت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ دلّی انگریزوں کے جسمانی غلبہ سے تو آزاد ہے، مگر ذہن دہی سامراج اور استبدادی مزاج کا ہے۔ انگریزوں کی غلامی سے بظاہر آزادی حاصل کرنے کے بعد دہلی کے حکمرانوں نے عددی لحاظ سے کمزور اور اقلیت میں قوموں کو سیاسی اور تہذیبی طور نگل لینے کا منصوبہ اور پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ خاص طور جموں کشمیر کے متنازعہ اکثریتی خطے کو سیاسی ریشہ دوانیوں اور فوجی طاقت کے بل بوتے پر گذشتہ ساٹھ برس سے پنجہء استبداد میں جکڑ رکھا ہے۔ اس کے باوجود یہ دُنیا کی سب سے بڑی ’’جمہوریت‘‘ ہے دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری (اقبالؒ) میں اپنی آنکھوں کے اندر خونین آنسو ؤں کی حفاظت کررہا ہوں۔ یہ احساس اور جذبہ دین و ملّت کی وہ دولت ہے، جو مجھ فقیر بے نوا کو قدرت کی طرف سے عطا ہوئی ہے۔ فی الواقع اقبالؒ کو یہ ایمان، ایقان، ملّی درد، دین کی محبت، قرآن اور صاحبِ قرآنؐ کے ساتھ عشق اور والہانہ محبت، جنون کی حد تک روحِ دین کی بھرپور اور کامل شناسائی سب کچھ عطائے اِلٰہی ہے۔ ایں سعادت بزورِ بازو نیست تانہ بخشد خدائے بخشندہ! ملّت مرحومہ میں لاکھوں فلاسفر، بار ایٹ لا، پی ایچ ڈی گذرے ہیں مگر اقبالؒ جیسا دین پسند، اسلام نواز، قرآن میں غوطہ زن، شاذونادر ہی دیکھنے میں آرہا ہے۔ پیرِ حرم لا الہٰ کا ورد تو کرتا ہے مگر نگاہِ دوربین وحق شناس کہاں؟ جو فولاد کی طرح باطل اور غیر اسلامی نظریات کا توڑ کرے۔ اگرچہ پیرِ حرم وردِ لا الہٰ دارد کُجا نگاہ کہ برّندہ ترز پولاد است! غزنیؔ کا سفر اور مزار حکیم سنائیؒ پر حاضری: افغانستان کے بادشاہ کی نوازشات کی برکت سے اس سرزمین پر میرے صبح وشام جیسے عید کے صبح وشام ہوتے ہیں خوشیوں اور مسرتوں سے بھرپور۔ ہندی فقیر ( اقبالؒ) جو مشرقیوں کا نکتہ سنج ہے شاہ افغان کے مہمان ہیں۔ میں نے اُن کے شہر یعنی کابلؔ سے جو سفر کا آغاز کیا۔ یہ سفر اُن کی توجہ اور انتظامات کے سہارے ہمارے حضر سے زیادہ آرام دہ رہا۔ میں نے اس ہوا کیلئے اپنا سینہ کھولا جس کے فیض سے پچھلے سال کوہسار میں گُلِ لالہ کھل اٹھا تھا۔ علم وفن کا محور اور حریم غزنیؒ مردانِ کہن کے شیروں کا مرغزار یعنی ہرا بھرا جنگل کیا خوب ہے۔ محمود غزنویؒ کی مملکت خوبصورت دُلہن ہے۔ اس کی حنا بندی طوس کے دانش وروں نے کی ہے۔ اس خاک میں حکیم غزنوی بھی آرام فرما ہیں جن کی دردمندانہ آواز سے دلوں میں قوت اور توانائی پیدا ہوتی ہے۔ وہ (حکیم غزنوی) اسرارغیبی کو سمجھنے والا اور صاحب مرتبہ ہے جس کے بارے میں مولانا رومیؒ نے کہا ہے۔ ترک جوشی کردہ ام من نیم خام از حکیم غزنوی بشنو تمام میں ظاہر کا نغمہ خواں ہوں اور وہ باطن کا نغمہ خواں، دونوں کے لئے سرمایہ اور سرچشمہ قوت ذوقِ حضور ہے۔ ظاہر سے مراد فطرت جلوہ افروزیاں اور پوشیدہ سے مراد باطن کا سفر وگداز ہے۔ اُس نے ایمان کے چہرہ سے نقاب اُلٹ دی یعنی ایمان کی حقیقت واشگاف الفاظ میں بیان کردی۔ میرے فکر اور فلسفہ نے مؤمن کی تقدیر کو مُبَر ہَن کردیا۔ دونوں کے لئے حکمتِ قرآن سے رہنمائی ملتی ہے وہ حق کی ترجمانی کرتے ہیں اور میں حق پر چلنے والوں اور حق وصداقت کا عَلم بلند کرنے والوں کی بات کرتا ہوں۔ اُس کے مرقد کی فضاؤں میں، میں عشق ومحبت کی آگ میں جھلس گیا ہوں۔ یہاں تک مجھے نالہ وفریاد کرنے کا سرمایہ اور متاع حاصل ہوگئی۔ میں نے کہا اے روح کے اسرار ورموز جاننے والے تجھ پر دونوں جہاں واضح ہیں۔ (یہاں سنائیؒ کی روح مُراد ہے) ہمارا دور اور زمانہ آب وگِل میں گرفتار ہے۔ یعنی مادی ضروریات اور انسان کو محض بندئہ شکم سمجھ کر، اُس کے شہوانی اور جسمانی تقاضوں کی برآری پیشِ نظر ہے۔ اس دور میں اہل حق بے پناہ مشکلات اور موانعات کے شکار ہیں۔ مسلمان نے انگریزوں کے دورِ اقتدار میں جو کچھ دیکھا، دیکھ لیا۔ حرم پاک میں فتنہ ہا ظاہر ہوگئے ہیں۔ یعنی اسلام کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کی جارہی ہیں اور اس کا مرکز بھی اعدائِ دین کی فتنہ سامانیوں سے محفوظ نہیں ہے۔ دورِ حاضر کے مسلمان نے چونکہ دل کی طرف توجہ نہیں دی ہے۔ وہ محض جسم کی خاطر جی رہا ہے۔ افرنگ کی ظاہری چمک دمک نے اُس کو اپنے فریب کا شکار بنایا ہے۔ حکیم غیب، امام عارفان( یہاں بھی روح سنائی مراد ہے) !تیرے فیض اور تیری روحانی تربیت سے خام عارف پختہ بن گئے ہیں۔ جو کچھ پردہ غیب میں ہے کہہ دے شاید کہ آب رفتہ ہمارے آبجو میں واپس آجائے۔ مطلب یہ کہ ملّتِ مرحومہ کا ماضی پھر واپس آجائے۔ مسلمانوں کی شان وشوکت دین وملک، جس کے وہ مالک اور وارث تھے واپس لوٹ آئے۔ آنچہ اندر پردئہ غیب است گوئے بوکہ آبِ رفتہ باز آید بجوئے حکیم سنائیؒ کی روح بہشتِ بریں سے جواب دیتی ہے: میں فقر کی وجہ سے رازدانِ خیروشر بنا ہوں۔ میں زندہ اور صاحبِ نظر فقر کی وجہ سے ہی بنا ہوں۔ وہ فقر جو راستہ جانتا ہے خودی کے نور سے اﷲ کو دیکھتا ہے۔ وہ خودی جس کا نقطہ آغاز اپنے نفس کی پہچان ہے۔ مَنْ عَرَفَ نَفْسَۃٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ ’’جس نے اپنے وجود اور نفس کو پہچانا، اُس نے اپنے ربّ کو پہچانا‘‘ جو اپنے وجود کے اندر لاالہٰ کی تلاش کرتا ہے یعنی اپنے دل، ذہن اور دماغ کی چھان بین کرتا ہے کہ کہیں کوئی باطل معبود دل میں تو نہیں ہے۔ کیا میں لفظاً اور معناً لاالہٰ کہتا ہوں۔ شعور کی بیداری کے ساتھ لا الہٰ کہنے والا شمشیر کے سایے میں بھی لاالہٰ کہتا ہے۔ یہ نہیں کہ اگر معبودانِ باطل کی تلوار کے آگے لاالہٰ کہوں گا تو قتل ہوجاؤں گا وہ اس اندیشے سے بالاتر ہوکر لاالہٰ کا نعرہ دیتا ہے۔ اپنی روح کی حفاظت کا خیال رکھ۔ خواتین کی طرح اپنے جسم کی زینت میں مگن ومست مت ہوجاؤ۔ جواں مردوں کی طرح گیند میدان میں پھینک دے۔ آب وگِل کی اس دُنیا میں سلطنت اور بادشاہی کی قیمت خون دل کا ایک قطرہ ہے۔ اس نیلے آسمان کے نیچے مؤمن عشق کی بدولت زندہ ہیں نہ کہ کھانے پینے کی وجہ سے۔ کیا تم جانتے نہیں ہو کہ عشق ومستی کہاں سے آتی اور حاصل ہوجاتی ہے؟ یہ رسولِ رحمتؐ کے آفتابِ عالم تاب کی شعاع ہے۔تم بحیثیت مؤمن اور مسلمان اُسی وقت تک زندہ ہو جب تک آپؐ کا سوز اور درد تمہاری روح میں موجود ہے۔ یہ تمہارے ایمان کا محافظ اور نگہدار ہے۔ آب وگِل کی حقیقت اور اصلیت سے واقف ہوجاؤ اور اس آب وگل پر دل کی اِکسیر ڈال دے۔ یعنی آپ کے دل میں جو ایمان، ایقان اور عشق رسولؐ کا سونا ہے وہ اس آب وگل کے جسم کو اُس اِکسیر میں تبدیل کردے۔ دین کی بدولت دل ہر قوت، طاقت اور توانائی کا سرچشمہ ہے۔ دین اہل دل کی صحبت کے معجزات کا نام ہے ۔ وہ اہل دل، جن کے دلوں کا مرکز اور محور دین اور ایمان ہے۔ حالِ دل سے بے خبر! دین صرف کتابوں کی ورق گردانی سے تلاش نہیں کیا جاتا۔ کتابوں سے علم وحکمت کو حاصل کیا جاسکتا ہے، دین نظر سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ بُو علی سیناؔ آب وگل کا جاننے والا اور واقف ہے۔ وہ دل کی خستگی سے بے خبر ہے۔ ناؤنوش، یعنی جسمانی ضرورتیں اور علاج معالجہ کے لئے بو علی سینا بہتر ہے۔ دل کی چارہ سازی کے لئے اہل دل ہی کام آسکتے ہیں۔ محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم، سمندر ہیں اُن کی موج اور لہربہت بلند ہے۔ اُٹھو اس رحمت اور ہدایت کے سمندر کو اپنے دل کی جوئے میں بند کردو۔ تم کافی مدت سے ساحل پر پیچ وتاب کھاتے رہے۔ اس سمندر کی موجوں کے ساتھ مل جانے کی لذت تم نے دیکھی ہی نہیں ہے۔ کچھ وقت کے لئے اپنے آپ کو دریا میں ڈال دو تاکہ تمہارے جسم سے نکلی ہوئی روح دوبارہ لوٹ آجائے۔ اﷲ تعالیٰ کی رحمتِ عام سے کبھی ناامید مت ہو جاؤ۔ پردہ ہٹاؤ، قربت اور آشنائی اختیار کرو تاکہ تیرے سجدہ سے زمین لرز اُٹھے۔ کل میں نے بے تاب اور بے چین فطرت کو دیکھا۔ اُس روحِ ہنگامہ اسباب کو دیکھا۔ اُس کی نگاہیں کائینات کے خوب وزشت پر لگی ہیں۔ کائینات کے غیوب اُس کی نگاہ میں ہیں۔ اُس کا ہاتھ کائینات کے آب وخاک کے ساتھ برسرپیکار ہے۔ وہ ہاتھ مربوط اور مضبوط ہے جبکہ یہ آب و گل ریزہ ریزہ ہے۔ میں نے اس بے چین اور مضطرب فطرت سے پوچھا کہ تم کس کی تلاش میں ہو؟ تم کس تانے بانے کی تلاش میں ہو؟ اُس نے جواب میں کہا کہ نعمتیں عطا کرنے والے اﷲ کے حکم سے میں اس مٹی سے نیا انسان بنانا چاہتی ہوں۔ اس نے مشتِ خاک (انسان)کو سینکڑوں طریقوں سے آزمایا۔ مسلسل تواتر کے ساتھ کبھی تابندہ کیا، کبھی سنجیدہ اور کبھی اضافہ کیا۔ آخر اس مشت خاک یعنی انسان کو لالہ کا رنگ دیدیا گیا۔ اُس کے ضمیر میں لاالہٰ ڈال دیا گیا۔ تم قیام کرو، انتظار کرو تاکہ تم ایک نئی بہار دیکھ سکو، گذری ہوئی بہار سے زیادہ رنگین اور دلپسند! مطلب آج کا انسانی معاشرہ، خاص طور ملّت کی صورتِ حال بدل جائے گی۔ ماضی کی بہار کے مقابلے میں، اُس کی نئی صورتِ حال اور زیادہ بہتر ہوگی۔ تیرا رقیب (یعنی اسلام دشمن قوتیں) ہر زمانے میں تدبیریں اور چالیں چلتا ہے تاکہ تم اپنی بہار کو نہ دیکھ سکو اور اُس کا حصہ حاصل نہ کرسکو۔ لیکن میں پھول کی شاخ کے اندر نظر رکھتا ہوں۔ میں پھول کے غنچوں کو سفر میں دیکھ رہا ہوں یعنی وہ ضرور کِھل کر رہیں گے۔(انشاء اﷲ) گُلِ لالہ کو وادیوں اور گھاٹیوں میں کھلنے سے روکنا ناممکن ہے۔ رقیب اور دُشمن کی کوئی چال ان گلوں کو کھلنے سے روکنے میں کامیاب نہیں ہوجائے گی۔ ایک صاحبِ تلاش آدمی وہ نغمہ بھی سُنتا ہے جو ابھی گلے میں ہی ہے۔ یعنی وہ مستقبل کی پکار پر لبیک کہتا ہے۔ آنے والے صالح اور خوشگوار انقلاب کو دُنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔ اﷲ کی رحمت سے کبھی مایوس اور ناامید نہیں ہونا چاہئے۔ یہ سنائیؒ کی روح بہشتِ بریں سے پیغام دے رہی ہے۔ بشنود مردے کہ صاحبِ جستجو است نغمئہ را کُوہنوز اندر گلو است! فریاد مردِ شوریدہ: روحِ حکیم سنائی کی طرف سے جواب سننے کے بعد علامہ اقبالؒ سلطان محمود غزنویؒ کے مزار پر بھی حاضری دیتے ہیں۔ وہاں اُن کے کارناموں کو گناتے ہیں۔ اُن کی سطوت، شجاعت، بہادری اور بُت شکنی پر تحسین وآفرین کے پھول برساتے ہیں۔ زمین پر اُن کا جھنڈا اﷲ کی ایک نشانی ہے۔ اُن کی تربت پر فرشتے قرآن خوانی کرتے رہتے ہیں۔ اسی دوران میں ایک مرد شوریدہؔ فریاد کرتا ہے۔ گردوپیش کی دُنیا کے حالات دیکھ کر وہ بے اختیار ہوجاتا ہے اور بارگاہ ربّ العزت میں گریہ وزاری کرتے ہوئے کہتا ہے۔ گل لالہ آفتاب کی ایک کرن کا محتاج ہوتا ہے۔ جب تک یہ کرن اُس کو کھل اٹھنے میں مددگار نہیں بنتی ہے وہ پیچ وتاب میں ہوتا ہے۔ بہار جب اُس کو بے نقاب کرتی ہے تو اس سے کہتی ہے کہ یہاں زیادہ دیر قیام مت کرو۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے ممددومددگار بنتے ہیں۔ لیکن میں یہ فلسفہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ زندگی بہتر ہے یا موت۔ زندگی جہدِ مسلسل ہے۔ خوردونوش اور پوشش کے لئے آج کی رونق کل کے عمل کے نتیجے میں وجود پذیر ہوتی ہے۔ مگر دُنیا کے انسان کا بگاڑ، نفاق، اخلاق باختگی، بے ایمانی، حسد، کینہ، بغض اور انسان دشمنی۔ ان چیزوں نے تو دُنیا کو جہنم زار بنادیا ہے۔ شوریدہ سر زمانے کے مکروفن اور فتنہ فساد سے پناہ مانگتا ہے۔ الاماں از مکرِ آیّام الاماں الاماں از صبح و ازشام الاماں اے روح اور جسم کی نقشبندی کرنے والے خدا یہ شوریدہ سر تجھ سے ایک بات جاننا چاہتا ہے اس دُنیا میں، میں فتنوں کے سوا کچھ نہیں دیکھ رہا ہوں۔ خلوت میں بھی فتنے اور جلوت میں بھی فتنے۔ یہ دُنیا آپ کے بنانے سے وجود میں آئی ہے یاکسی دوسرے خدا نے اس کو وجود بخشا ہے؟ کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ ظاہر ایک اور باطن دوسرا۔ ظاہری طور تو صلح، اتفاق اور امن وآشتی کی باتیں کی جاتی ہیں مگر اصلاً جنگ وجدال، قتل وغارت گری اور ظلم واستبداد کی چکی چلائی جاتی ہے۔ اِن حالات کو دیکھ کر دل والے لوگوں کا شیشہ دل ریزہ ریزہ ہوتا جاتا ہے۔ صدق، اخلاص، قلب وذہن کی صفائی سب کچھ ختم ہوچکا ہے۔ ’’آں قدح بشکت وآں ساقی نماند‘‘ وہ پیالہ بھی ٹوٹ چکا ہے اور وہ پلانے والے بھی نہیں رہے ہیں۔ سب کچھ بدل چکا ہے اے انسان کو وجود بخشنے والے خدا تیری نگاہ لالہ رُخ افرنگیوں پر ہے۔ اُن کی پرفریب سیاست اور فسون کاری سے انسان بے رنگ وبُو بن چکا ہے۔ یہ کائینات کس سے ربط وضبط حاصل کرتی ہے۔ اے لات ومنات کے غمزہ پر جان دینے والے۔ مردِ حق، تیری پہچان اور ایمان رکھنے والا، حق پسند مسلمان جو روشن نفس تھا اور جس کو تونے اس دُنیا میں اپنا نائب اور خلیفہ بنایا تھا وہ تھا اب نہیں ہے۔ اِنّی جَاعِلٌ فِیْ الارضِ خَلِیْفہ وہ چاندی، سونا، فرزند اور زن کی محبت میں گرفتار ہوچکا ہے۔ وہ اپنا منصب اور مقام بھول چکا ہے۔ اے اﷲ! اگر تجھ سے ہوسکے تو اس کا سومنات توڑ دے۔ یعنی اس نے دُنیا کو ہی اپنا معبود بنایا ہے اور اسی کی پوجا کرتا ہے۔ جیسے بُت پرست سومنات کے بتوں کی پوجا کرتے ہیں۔ یہ اپنے آپ کو مسلمان کہلانے والا یہ کس کا پرستار اور بندہ بن چکا ہے۔ اس کے گریبان میں ایک بھی ہنگامہ نہیں ہے۔ اس کا سینہ بے سوز اور اس کی روح مردہ اور بے خروش ہے۔ وہ سرافیل ہے مگر اُس کا صورخاموش ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ دُنیا میں صالح انقلاب لانے کا مکلف اور ذمہ دار تھا مگر وہ دُنیا پرست اور شکم پرست بن کر اپنا کام اور منصب بھول چکا ہے۔ اُس کا دل نامحکم اور اس کی روح افسردہ ہے اسکی تجارت کا مال کھوٹا ہے۔ زندگی کی جنگ اور جدوجہد میں وہ ثابت قدمی کا مظاہرہ نہیں کرتا ہے۔ کبھی ادھر اور کبھی اُدھر۔ اُس کی آستین میں لات ومنات چھپے ہوئے ہیں۔ کافروں کی طرح وہ موت کو ہلاکت اور فنا سمجھتا ہے۔ اسلام نے موت کو ابدی زندگی کی طرف سفر کہا تھا اور آج کا مسلمان موت سے خوف زدہ ہے اور اس کو فنا سے تعبیر کرتا ہے۔ اُس کا یہ تصور اور یقین معدوم ہوچکا ہے کہ نظر اﷲ پہ رکھتا ہے مسلمانِ غیور موت کیا شئے ہے؟ فقط عالم معنیٰ کا سفر! مسلمان کے دل سے موت کا یہ تصور ختم ہوچکا ہے۔ اُس کی آگ مٹی سے بھی کم بہا اور بے قیمت بن چکی ہے۔ اے اﷲ! اُس کی خاکستر سے ایمان وایقان کا وہ شعلہ دوبارہ پیداکر۔ وہ طلب، وہ جذبہ، وہ شوق اور مقاصد زندگی کے حصول کی تڑپ جو اُس کا سرمایہ حیات تھا اُس کو دوبارہ عطا کر۔ اُس کو جذبہ اندروں دوبارہ دیدے۔ وہ جنون اور دیوانگی اُس کو دوبارہ دیدے جو اُس کا طرئہ امتیاز تھا۔ قولو الاالہٰ الااﷲ حتیٰ یقول الناس مجنون ’’لا الہٰ الااﷲ کا کلمہ شعور کی بیداری کے ساتھ پڑھو اور پھر اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے دیوانہ وار کام کرو۔‘‘ اے خالق بشر: مسلمان کو ایمان وایقان کی وہ دولت عطا کر کہ اُس کا وجود مشرق کے لئے بیداری اور استواری کا ذریعہ اور سبب بن جائے۔ اُس کے وجود سے اُس کا روشن اور تابدار مستقبل پیدا کردے۔ اُس کے عصائے کلیمی سے بحر احمر میں شگاف پیدا کردے۔ اُس کی شان وشوکت اور سطوت سے کوہِ قاف میں لرزہ پیدا کردے۔ شوریدہ سر کی اس فریاد کا واحد مقصد ومدعا صرف اور صرف یہ ہے کہ پوری دُنیا ظلم کدہ بن چکی ہے۔ مسلمان کو اپنا بھولا ہوا سبق پھر یاد دلادے تاکہ وہ صالح اور خوشگوار انقلاب لاکر اس بتکدے میں اﷲ کے دین کی روشنی اور تابندگی پیدا کردے۔ شوریدہ سر کے نام سے اصل میں یہ اقبالؒ کے اپنے احساسات اور جذبات ہیں۔ اقبالؒ نے شوریدہ سر کا نام اس مرد مؤمن کو دیا ہے جو اﷲ کی زمین پر اﷲ کا نظام قائم کرنے کیلئے بیتاب اور بے چین ہے۔ وہ مسلمان کی زبوں حالی، دین سے بے خبری اور بے زاری اور مغرب کی فسوں کاری کا شکار ہوجانے اور نفاق و دورنگی کا لباس زیبِ تن کئے جانے سے جنونی کیفیت کا شکار ہوجاتا ہے اور اُسی کا اظہار شوریدہ سر اس فریاد میں کررہا ہے۔ اس فریاد کے بعد عالم مستی میں اقبالؒ ایک پرسوز غزل گاتے ہیں جس میں اُن کے دل کا درد پوری شدت کے ساتھ ابھر آتا ہے۔ پھر وہ ملّت افغانیہ کے موسس احمد شاہ باباؒ کے مزار پر تشریف لے جاتے ہیں۔ اُن کے بارے میں بھی اقبالؒ رطبُ اللسان ہیں۔ جس کے نتیجے میں اُن کی روح اقبالؒ کے ساتھ ہم کلام ہوجاتی ہے۔ نکتہ سنج و عارف و شمشیر زن روحِ پاکش بامن آمد درسخن باریکیوں کا جاننے والا، عارف باﷲ اور حق کی بالادستی کے لئے شمشیرزن۔ اُن کی پاک روح میرے ساتھ ہم کلام ہوجاتی ہے۔ کہا کہ میں بخوبی واقف ہوں کہ تیرا مقام اور مرتبہ کیا ہے۔ تیرا کلام، تیرا پیغام، انسانوں کے لئے ایمان اور سیرت وکردار کی تعمیر کے لئے کیمیا کی حیثیت رکھتا ہے۔ تیرے فیض اور برکت سے خشت وسنگ دل کا روپ دھارن کرتے ہیں۔ دل کے سمندر تیری گفتار اور فلسفہ زندگی سے روشن اور تابندہ تر بن جاتے ہیں۔ دوست کے کوچے سے واقف! میرے پاس تھوڑی دیر بیٹھ جائیے۔تجھ سے دوست کی مہک آرہی ہے۔وہ کتنا خوش نصیب ہے جس نے خودی سے آئینہ تراشا اور اس آئینے میں دیکھ کر دُنیا کو پہچان لیا۔ آئینہ سے مراد وہ فلسفہ زندگی ہے جو اقبالؒ نے اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں پیش کیا ہے۔ یہ زمین اور آسمان بوڑھے ہوچکے ہیں۔ آفتاب کی بے مہری کی وجہ سے چاند بھی اندھا بن چکا ہے۔ اس صورتحال میں ایک انقلاب کی ضرورت ہے۔ ایک ہنگاء مہ رُستخیز کی ضرورت ہے۔ ایک جہد مسلسل کی ضرورت ہے تاکہ فتنہ وفساد سے بھری ہوئی دُنیابدل دی جائے۔ اور انسان کیلئے انسانی اور اخلاقی اقدار پر مبنی ایک نئی دُنیا آباد کی جائے تاکہ دورِ اول کے وہ رنگ وروپ دوبارہ دیکھنے میں آجائیں جو انسان کو انسان کی حیثیت سے تعمیر کرنے کا منصوبہ سامنے رکھتے تھے۔ بندئہ مؤمن کو اسرافیلی کردار ادا کرنا ہے۔ صورِ اسرافیل قیامت اور ردوبدل کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ اسی طرح آج کی اس دُنیا کو بدلنے کا فریضہ بندئہ مؤمن کو انجام دینا ہے۔ اُس کی آواز اُس کی صدا، اُس کی بامقصد جدوجہد اور سرگرمی ہر خستہ اور پرانی شئے کو برہم اور تہہ وبالا کرتی ہے۔ اے میرے مخاطب، یعنی اقبالؒ اﷲ نے تجھے ایک مُضطر وبے چین روح عطا کی ہے۔ تجھے ملک ودین کے راز معلوم ہیں۔ دین وسیاست کی ہم آہنگی کی برکتوں اور رحمتوں سے تو بخوبی آگاہ ہے۔ نادرؔ کے اخلاف واولاد کے پاس جاکر کھل کر اُن سے یہ راز اور کام کی بات کہہ دے۔ اپنے دل کے ان تعمیری، دینی، اخلاقی اور آفاقی ارادوں اور خیالات کو افغانستان کے سریر آراء اعلیٰ حضرت ظاہر شاہ کی خدمت میں جاکر بیان کردے۔ فاش گو باپورِ نادر فاش گوے باطنِ خود را بہ ظاہر فاش گوے اعلیٰ حضرت ظاہر شاہؒ کے دربار میں: اقبالؒ کے دورہ کے موقع پر ظاہر شاہ بحینِ حیات تھے اور انہوں نے بالمشافہ ملاقات میں اپنے زریں خیالات کا اظہار کیا۔ جس کی تفصیل ان اشعار میں آتی ہے۔ اے والئی افغانستان بادشاہت کا لباس تیرے جسمِ پر راست آتا ہے۔ یعنی تو اپنی سوچ، فکر اور علم کی نسبت سے اس کا حقدار اور مستحق ہے۔ تیرا سایہ، تیرا وجود ہماری سرزمین اور خاک وطن کیلئے کیمیا کی حیثیت رکھتا ہے۔ الناس علی دین ملوکہم ’’لوگ اپنے بادشاہوں اور سربراہان مملکت کے طریقہ کار اور طرزِ زندگی کی نقل کرتے ہیں‘‘۔ اگر وہ نیک سیرت، نیک کردار، صالح اور شریف النفس ہوں تو عام لوگوں پر اُن کے اس صالح کردار کی ضرور چھاپ پڑتی ہے۔ پھر اُن کے دورِ حکومت میں، ملک اور ریاست کے جو ذرائع اور وسائل ہوتے ہیں وہ اُن کو عدل وانصاف کے ساتھ استعمال میں لاتے ہیں۔ عام انسانوں کے ساتھ اخوت اور برابری کا سلوک کرتے ہیں۔ نظام تعلیم اور معاشرت کے ذریعہ سدھار پیدا کرنے، لوگوں کے ذہن اور سیرت کو صحیح اور صالح بنیادوں پر تعمیر کرکے ایک ایسا معاشرہ وجود میں لانے کی کوششوں میں تن من دھن سے مصروف رہتے ہیں۔ ایسے ہی سربراہانِ مملکت باعث رحمت ہوتے ہیں۔ اُن کے دور میں امن وآشتی کا دور دورہ ہوتا ہے۔ مساوات اور برابری کی اقدار کو فروغ ملتا ہے۔ اخوت اور بھائی چارے کا ماحول پروان چڑھتا ہے۔ فتنہ وفساد مٹ جاتا ہے۔ نسلی، گروہی، علاقائی، لسانی، لونی اور معاشی تعصبات اور اختلافات قریب قریب مٹ جاتے ہیں اور جہاں کہیں یہ سر اُٹھانے کی کوشش کرتے ہیں ان کو دبایا جاتا ہے۔ رسول اﷲؐ کے دورِ سعادت میں اوس اور خزرج کے بھائی چارے اور جذبہ اخوت کو ایک موقع پر زک پہنچانے کی کوئی حرکت ہوئی تو رسول اﷲؐ خود اُس مقام پر تشریف لائے اور فرمایا میرے جیتے جی تم پرانے جھگڑے اور تعصبات کو اُبھارتے ہو۔ اوس اور خزرج کو اپنے اپنے قبیلوں کی بنیاد پر پکارنے اور للکارنے پر آپؐ نے زبردست ناراضی کا اظہار فرمایا۔ اس طرح یہ فتنہ دب گیا اور دین کی جن بنیادوں پر یہ معاشرہ متحد اور مستحکم ہوگیا تھا اُن کو کوئی رخنہ نہیں پہنچنے دیا گیا۔ انہی غیراسلامی تعصبات کا ہمیشہ کے لئے قلع قمع کرنے کے لئے آپؐ نے تاصبحِ قیامت یہ ہدایت فرمائی۔ من مات علیٰ عصبیۃٍ فقد مات موت الجاھلیہ ’’جو کسی نوعیت کی عصبیت پر مرا وہ جاہلیت کی موت مرا!‘‘ کسی ملک کے حکمران اور سربراہ کا براہ راست معاشرہ اور نظام پر اثر پڑتا ہے۔ اسی لئے اسلام نے سربراہوں کے لئے تقویٰ کا معیار مقرر کررکھا ہے اور جب تک ملّت مرحومہ کے اجتماعی معاملات پر خدا ترس اور آخرت پسند افراد اور شخصیتوں کی گرفت تھی معاشرے میں سدھار کا غلبہ رہا اور بگاڑ دب کر رہ گیا۔ جب یہ صورت حال نہ رہی تو معاشرہ کی وہ حالت بنی جو ہم آج سر کی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ تیرے وجود سے خسروی اور بادشاہت کو وقار اور معیار عطا ہوا ہے۔ تیری حکومت اور سطوت و دبدبہ پورے ملک کے حصار اور قلعہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اے سرمایہ فتح و ظفر! تیری بدولت مملکتِ افغانستان یعنی احمد شاہؒ کے تخت کو نئی شان اور نئی آن حاصل ہوگئی ہے۔ تیری محبت کے بغیر دل کا ویران رہنا ہی بہتر ہے۔ دل اور دل کی تمناؤں اور آرزؤں سے محروم رہنا ہی بہتر ہے۔ چمکدار اور تابدار تیغ جو تیری کمر میں بندھی رہتی ہے نصف رات جو تاریکی میں ڈوبی ہوتی ہے آپ کی اس تلوار کی چمک سے سحر میں بدل جاتی ہے۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تیری تلوار اصل میں نادرشاہ کی تلوار ہے۔ میں کیا کہوں اس کا باطن ظاہر ہے۔ یعنی یہ اپنے اسلاف کی ترجمان ہے۔ بالفاظ دیگر ظاہر شاہؔ بھی نادرشاہؔ ہی کی طرح شجاع اور دوراندیش ہے۔ ظاہر شاہؒ کے اوصاف کی نشاندہی کرنے کے بعد اقبالؒ اُن کی خدمت میں عرض کرتے ہیں۔ حرفِ شوق آوردہ ام از من پذیر از فقیرے رمزِ سلطانی بگیر میرے شوق اور جذبات کی قدر کرتے ہوئے اور اُن کو شرفِ قبولیت بخشتے ہوئے مجھ فقیر سے بادشاہت اور حکومت کے راز جاننے کی طرف متوجہ ہوجائیے۔ آپ کی نگاہ شاہین کی نظر سے بھی تیز تر ہے۔ اﷲ کی بخشی ہوئی اس خداداد مملکت پر نگاہ رکھئے گا۔ یہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں کس کی کارسازی سے ہے؟ وہ کونسی شئے ہے جو ہونی چاہئے تھی اور نہیں ہے؟ یعنی مطلوبہ معیار سامنے رکھتے ہوئے دیکھنا ہے وہ موجود ہے اُس کے حصول کی کوشش ہورہی ہے۔ اُس کو کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اُسی طرف اقبالؒ ظاہر شاہ کی توجہ مبذول کررہے ہیں۔ صبح وشام کی گردش ہماری تقدیر بنارہی ہے اس نسبت سے کہ ہم جو کچھ دن رات میں کرتے رہیں گے اُس کے اثرات لازماً ہماری زندگی، ہماری تقدیر، ہمارے مستقبل ہمارے آنے والے کل پر پڑیں گے۔ اے محنتی اور سخت کوش نوجوان، میں آپ کو بتاؤں گا تمہارا کل کیا ہے؟ وہ امروز اور گذرے ہوئے کل کی بیٹی ہے۔ یعنی اُس کا انجام اور نتیجہ ہے۔ یہ مسلسل گردش میں آسمان، کس کے گرد گھومتا ہے جو اپنے آج کو مقصدیت کے ساتھ بامعنیٰ طور گذارتا ہے۔ پوری دُنیا کے لئے ایسا انسان اور ایسا فرد آبرو ، عزت اور افتخار کا ذریعہ اور سبب بن جاتا ہے۔ گذرا ہوا کل آج اور آنے والاکل اُس کے عمل کا نتیجہ اور اُسی کی میراث ہوتی ہے۔ مردِ حق، باشعور مسلمان، اﷲ کی معرفت رکھنے والا، صبح ومساکا سرمایہ ہے۔ اس لئے کہ وہ اپنی تقدیر کا ستارہ ہوتا ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتا ہے کہ میری تقدیر کیا ہے۔ میں اُس کا انتظار کروں گا، بلکہ اُس کا عمل یہ ہوتا ہے کہ تقدیر کیا ہے؟ مجھے صرف اﷲ کے احکامات کے مطابق زندگی گذارنے کا حکم ہے میں اُس کی تعمیل کرتا رہوں گا۔ تقدیر کے پابند نباتات وجمادات مؤمن فقط احکامِ اِلٰہی کا ہے پابند اﷲ کا جو بندہ صاحبِ نظر ہوتا ہے۔ بصیرتِ مؤمنانہ کا مالک ہوتا ہے۔ وہ پوری اُمت کا رہبر اور امام ہوتا ہے۔ اُس کی نگاہ تقدیر اُمم سے واقف اور آگاہ ہوتی ہے۔ اتقو ابفراست المؤمن انہٗ ینظر بنورِ اﷲ ’’مؤمن کی فراست سے ڈرو، وہ اﷲ کے بخشے ہوئے نور سے دیکھتا ہے۔‘‘ بندئہ مؤمن کی نگاہ سے تیز تر کوئی شمشیر نہیں ہوتی ہے۔ ہم سب شکار ہوجاتے ہیں مگر وہ کبھی باطل کی فریب کاریوں اور ابلیس کی مکاریوں کا شکار نہیں ہوجاتا ہے۔ اس پختہ کار کی تدبیروں اور اندیشوں سے وہ تمام حادثات لرز اٹھتے ہیں جو ابھی تک زمانے کے شکم میں ہی ہوتے ہیں۔ وہ فرد اور قوم کے آج کے عمل اور کردار سے یہ اندازہ لگانے میں کامیاب ہوجاتا ہے کہ ایسے افراد اور ایسی قوم کا مستقبل اور آنے والا کل کیا ہوگا۔ جس طرح آپ کے والد اپنی قوم اور ملک کے اہل ہنر کو دوست رکھتا تھا اُسی طرح آپ بھی اپنی قوم اور ملک کے اصحابِ نظر کو دوست بنائیں اور منظور نظرِ رکھیں۔ آپ بھی اپنے خلد نشیں والد بزرگوار کی سخت کوشی، بیداری، مستعدی اور شجاعت وبہادری کا پیکر بن کر زندگی گذارنے کی کوشش کریں۔ آپ جانتے ہیں کہ کرّار کے کیا معنیٰ ہیں؟ یہ حضرت علیؓ کے اوصاف اور مقامات میں سے ایک مقام اور کردار ہے۔ اس ناپائیدار اور بے ثبات دُنیا میں اُمتوں اور قوموں کو صفت اور خصوصیت کراری کے بغیر زندگی حاصل نہیں ہوجاتی ہے۔ تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات آلِ عثمان کی سلطنت کا انجام دیکھ لیجئے۔ وہ مغرب کی فریب کاریوں کا شکار ہوکر جگر خون ہوگئے ہیں۔ ترکی کی سلطنت عثمانیہ کی طرف اشارہ ہے جہاں خلافت کے باقی ماندہ نشانات موجود تھے۔ مگر انگریزوں کی ریشہ دوانیوں کا شکار ہوکر وہ قومی عصبیت کا شکار ہوگئے اور کمال اتا ترک نے قومیت کا نعرہ بلند کرکے پوری ملّت کو انتشار اور افتراق کا نشانہ بنایا۔ اُس وقت کے عرب حکمران بھی مغرب کی چالبازیوں اور ملّت دُشمن اقدامات کے اثر میں عرب قومیت کے بُت کے پُجاری بن گئے۔ اقبالؒ ظاہرشاہؒ کو یہی واقعات یاد دلارہے ہیں کہ آپ قومیت کے بُت کے پرستار نہ بنیں جب تک ان میں کراری اور شجاعت و جرأت مندی کا وصف موجود رہا ان کا عَلم سربلند رہا۔ ہندوستان کے مسلمان نے کیوں میدان چھوڑ دیا اور شکست خوردگی اور ہزیمت کا نشان بن گیا؟ اُس کی ہمت اور حوصلہ میں وصفِ کراری موجود نہیں تھا اُس کی مُشتِ خاک اس حد تک سرد ہوچکی ہے کہ میری آواز کی گرمی اور تُندی بھی کوئی کام نہیں کرسکی۔ اقبالؒ کو اُس وقت بھی ہندستان کے مسلمان کے بارے میں یہ شکایت تھی آج ستر سال گذرجانے کے بعدبھی مسلم ہندی میں جرأت، ہمت، حوصلہ، اور کراری دیکھنے میں نہیں آرہی ہے۔ پاکستان وجود میں آنے کے بعد بھی اُس کی دینی اور ملّی حس بیدار نہیں ہورہی ہے۔ آج تو ہندی مسلمان تین حصوں میں بٹ چکا ہے۔ بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش تینوں خطوں میں منقسم ہوجانے کے باوصف اُس میں احساسِ زیاں پیدا نہیں ہورہا ہے۔ وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا آپ کے خون میں نادری اوصاف، ذکروفکر موجود ہیں۔ قاہری اور دلبری دونوں صفات آپ کے خون میں گردش کررہی ہیں۔ اسی خون کے اثر میں آپ اپنی مملکت کے معاملات سرانجام دیں۔ جوانوں اور بزرگوں کی نگاہوں کے نور اپنی حکومت کا طرزِ عمل اور لائحہ عمل ہاشم اور محمود غزنوی کے مطابق اختیار کرنے کی کوشش کریں اُس مردِ جواں ہمت کی طرح جس کی تلوار کے شور سے کوہ ودشت میں حق کا آوازہ بلند ہوگیا۔ والیٔ افغانستان والا حضرت شاہ ولی خانؒ کی طرف اشارہ ہے۔ رات دن سوزوگداز میں رہا جاسکتا ہے اور نیا زمانہ پیدا کیا جاسکتا ہے۔ قرآن پاک کی تعلیمات میں غرق ہو کر صد جہاں تعمیر کئے جاسکتے ہیں۔ اُس کی آیات میں اپنے آپ کو جلا ڈالئیے۔ افغان قوم کو قرآن کا سوز وجذبہ دے کر اُس کے زمانے اور دور کو نوروز کی درخشان صبح سے روشناس کرنے کی کوشش کریں۔ پہاڑوں اور ٹیلوں میں غم گشتہ قوم کی پیشانی میں، میں نے دوسرے ہی اطوار اور آثار دیکھے۔ جو کچھ میرے دل میں سوز اور درد تھا حق تعالیٰ نے مجھے اُس کی تقدیر اور انجام سے آگاہ کردیا ہے۔ (افغان قوم کی تقدیر سے) اُس کی کارکردگی، ہمت و حوصلہ کو میں بہتر طور سمجھ چکا ہوں جو کچھ پوشیدہ اور چھپا ہوا ہے اُس کو بالکل عریاں اور ظاہر شکل میں دیکھ رہا ہوں۔ مردِ میدان اﷲ ہُو سے زندہ ہوتا ہے۔ یعنی وہ اﷲ کا مخلص اور یکسو بندہ ہوتا ہے۔ ہر چہار طرف اُس کے زیر پا ہوتے ہیں۔ جو بندہ اﷲ کے بغیر کسی اور طاقت کی بالادستی قبول نہیں کرتا ہے وہ اپنے شیشے سے پتھر کو بھی شکست وریخت کرسکتا ہے۔ بندئہ حق چون وچند اور قیل وقال کی دُنیا میں نہیں رہ سکتا ہے۔ اس سمندر پر ساحل کا متلاشی ہونے کا الزام نہیں دیا جاسکتا ہے۔ وہ جب اپنی پہچان اور معرفت حاصل کرکے خداشناس بن جاتا ہے وہ حساب بھی، ثواب بھی اور عذاب بھی بن جاتا ہے۔ یعنی وہ اپنا محاسبہ کرتا ہے۔ وہ نیکی اور خوشنودی ربّ کا راستہ بھی اختیار کرتا ہے۔ اس کو اﷲ کی بندگی کے راستے سے ہٹ جانے کی پاداش میں دنیوی اور اخروی عذاب کا بھی شدید احساس ہوتا ہے۔ ہماری دنیاوی اور اخروی کامیابیوں اور کامرانیوں کا مرکز ومحور اﷲ کی کتاب اور حکمت ہے۔ یہ دونوں قوتیں ملّت مرحومہ کیلئے اعتبار و شان وشوکت کا مؤجب اور سبب بن جاتی ہیں۔ حکمت سے مراد اسوئہ رسول اﷲؐ ہے۔ کیونکہ وہ قرآن کی عملی تصویر اور قابل تقلید نمونہ ہے۔ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُول اﷲِ اُسْوَۃٌ حَسَنَہ (الاحزاب) حکمتِ اشیاء فرنگی زاد نیست اصلِ اُوجُز لذّتِ ایجاد نیست کائینات کے مظاہر پر غور وفکر کرنا اُن سے استفادہ کرنا، اُن سے انسانی زندگی کی مادّی ضروریات پوری کرنے کا طریقہ ایجاد کرنافرنگیوں کا ہی کارنامہ نہیں ہے۔ اُن کو تو ایجادات کی لذّت کشش اور طلب ہے اور وہ اس کے لئے جان جوکھوں میں ڈال کر محنت و مشقت کرتے ہیں۔ اگر تم صحیح معنی میں حقیقتِ حال جاننے کی کوشش کروگے یہ سب کچھ مسلمانوں کی دین ہے۔ یہ وہ موتی ہے ، جوہر ہے، جو مسلمان کے ہاتھ سے گر گیا ہے، چھوٹ گیا ہے اور انگریزوں نے اس کو اٹھایا اور انہوں نے اُس کو خوب استعمال کیا۔جب اسلام کے دورِ اقتدار میں عربوں نے یورپ کی طرف رُخ کیا انہوں نے ہی علم وحکمت کی بنیاد ڈالی، دانش و تدبر کے موتی بکھیر دئے۔ اُن صحرا نشینوں نے دانے بو دئے فصل اور حاصل افرنگیوں نے حاصل کیا۔ یہ پری، جو اس وقت یورپی ممالک میں رنگ وروپ دکھارہی ہے یہ ہمارے اسلاف کی دینی اور علمی کاوشوں کا نتیجہ اور ثمر ہے۔ گویا ہمارے ہی شیشہ کا عکس ہے۔ آپ اس کو دوبارہ اپنی گرفت میں لاؤ کیونکہ یہ تو ہمارے کوہ ودمن سے نکلی ہوئی ہے۔ یہ تو علمی اور سائنسی ایجادات ہیں ان پر کسی قوم کی اجارہ داری تسلیم نہیں کی جاسکتی ہے۔ بلکہ پوری انسانی برادری کی فلاح اور بہبود کیلئے استعمال میں لائی جانے والی نعمتیں ہیں۔ ان کا غلط استعمال انسانیت کو تباہی اور بربادی سے ہی دوچار کرسکتا ہے۔ جیسا کہ آج کی دُنیا میں دیکھا جاسکتا ہے۔ علامہ مرحومؒ، ظاہر شاہؒ مرحوم کو مغرب کی ان ایجادات سے استفادہ کرنے سے روکتے نہیں ہیں، بلکہ اسلام کے اصولی مؤقف کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ’’خُذْمَا صَفَا وَ دَعْ ما کَدِر‘‘ ’’اچھی اور مفید چیزیں لے لو اور جو کچھ مضر اور نقصان دہ ہے اُس سے اجتناب کرو‘‘ اب نقصان وہ اور ایمان و ایقان، اسلامی تہذیب و تمدن کی جڑیں اکھاڑنے والے نظریات کی نشاندہی کرتے ہیں اور اُن سے ہر حال میں اجتناب برتنے پر زور دیتے ہیں۔ لیکن از تہذیبِ لادینے گریز زاں کہ او با اہلِ حق دارد ستیز فتنہ ہا ایں فتنہ پرداز آورد لات وعزّیٰ در حرم باز آورد از فسونش دیدئہ دل نابصیر روح از بے آبی ء او تشنہ میر! لذّتِ بے تابیء دل می برد بلکہ دل زیں پیکرِ گل می برد کہنہ دُزدے غارتِ او برملاست لالہ می نالد کہ داغِ من کجاست! لادین تہذیب سے ہر حال میں پرہیز کیجئے۔ کیونکہ یہ تہذیب اور اس کے علمبردار تاریخ کے ہردور میں اہل حق کے ساتھ برسرپیکار رہے ہیں۔ یہ فتنہ پرور الحادی اور تفریق دین وسیاست کی بنیاد پر پرورش پانے والی تہذیب ہر زمانے میں نئے نئے فساد پیدا کرتی ہے۔ اس تہذیب نے دورِ اول کے بُت ، لات، منات اور عزیٰ پھر حرم پاک میں داخل کئے ہیں۔ ان تمام بتوں کو اسلام نے تاخت وتاراج کیا تھا۔ آج کی لادین تہذیب ان کہنہ بتوں کو نئے نئے لباس پہنا کر پھر انسانیت کو گمراہ کرنے کیلئے اپنے تمام ذرائع اور وسائل کا سہارا لیکر مسلط کررہی ہے۔ زمانہ کہنہ بتاں را ہزار بار آراست من از حرم نگذشتم کہ پختہ بنیاد است لادین تہذیب اس پختہ بنیاد کو مسمار کرکے بے دینی، خدا بیزاری اور آخرت فراموشی کی تہذیب کو بزورِ قوت مسلط کررہی ہے اور اس جبری عمل میں اُس کا خاص نشانہ صرف اور صرف ملّت مرحومہ ہے، کیونکہ اِسی کے پاس اس اخلاق باختہ تہذیب کا توڑ کرنے کیلئے حیات بخش نظریہ اور نظامِ زندگی ہے۔ اس تہذیب کی جادوگری، شعبدہ بازی اور فسون کاری سے دل کی نگاہیں بے بہرہ اور اندھی ہوجاتی ہیں۔ انسان کی روح اس تہذیب کی الحادی اور مادی بنیادوں کی وجہ سے تشنہ میر ہے۔ یعنی اس فسوں کاری سے انسانی روحیں موت کا شکار ہوجاتی ہیں۔ انسان چلتے پھرتے ہوتے ہیں، بڑی بڑی عمارتوں اور شیش محلوں میں سکونت پذیر ہوتے ہیں، ہواؤں میں پرندوں کی طرح اُڑتے اور سمندروں میں مچھلیوں اور مگرمچھوں کی طرح تیرتے پھرتے ہیں مگر زمین ان کی انسانیت سوز پالسیوں اور بربریت و حیوانیت کے نظاروں سے جہنم زار بن جاتی ہے۔ ماضی اور حال کے آئینے میں اس حقیقت کو بچشم سر دیکھا جاسکتا ہے۔ قرآنی الفاظ میں اس کی یوں نشاندہی کی گئی ہے۔ ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِوَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ ’’خشکی اور تری فساد سے بھرگئی ہے۔ یہ انسان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے‘‘ (الروم :۴۱) یہ دین بے زار تہذیب انسان کے دل سے انسانیت کی فلاح اور بہبود اور اُس کے دنیوی اور اُخروی نجات کیلئے جدوجہد کے جذبے کو سرد بنالیتی ہے۔ گویا دل سے بے تابی اور مقاصد کے حصول کیلئے جذبہء اضطراب چھین لیتی ہے۔ اتنا ہی نہیں یہ تو اس جسمانی ڈھانچے سے دل ہی اُٹھا کرلے جاتی ہے۔ یہ لادین تہذیب آج ہی کی اختراع اور پیداوار نہیں ہے، بلکہ جب سے دُنیا وجود میں آئی ہے اور اس امتحان گاہ میں انسان کو لایا گیا ہے اُسی وقت سے اس تہذیبِ ابلیسی نے بھی جنم لیا ہے۔ اس نسبت سے یہ بہت پرانا ڈاکو ہے۔ عام ڈاکو تو مال ومتاع چھین لیتے ہیں یا اس لالچ میں کوئی انسان جو مزاحمت کرے تو اُس کی زندگی بھی چھین لیتے ہیں، مگر یہ شیطانی تہذیب انسان سے اُس کا اخلاق، اُس کی انسانیت، اُس کی حیا، اُس کی شرم، اُس کی دیانت، اُس کی امانتداری، اُس کی اپنی تہذیب، مذہب، وفائے عہد، انسانیت کا احترام اور قدرومنزلت سب کچھ چھین لیتی ہے۔ ماضی قریب میں اس نے ۹۴۵ائ؁ میں ناگا ساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بم گرا کر پوری انسانیت کو لرزہ بر اندام کردیا۔ لاکھوں انسانوں کی جانیں لے کر لاکھوں کو معذور اور بے سہارا بنا کر بربریت کا ننگا ناچ کھیلا۔ آج بھی امن عالم کیلئے اقوام متحدہ کا ادارہ برائے نام کاغذی گھوڑے دوڑانے تک محدود ہے اور جارحیت کا بدترین اور انسانیت سوز مظاہرہ ہر طرف کیا جارہا ہے۔ فلسطین، لبنان، بوسینیا، چچنیا، عراق، ایران،افغانستان، پاکستان، جموں کشمیر اور دوسرے کمزور ممالک اور کمزور قومیں اس لادین تہذیب کے جبرو تشدد اور بربریت وحیوانیت کا کھلے عام نشانہ بنائے جارہے ہیں۔ ان سب انسانیت سوز کارروائیوں کو جمہوریت، آزادی، ترقی، خوشحالی، روشن خیالی،ترقی پسندی اور امن وآشتی کا نام دیا جارہا ہے۔ جنگ عظیم اول اور دوم بھی اسی لادین تہذیب کے خونین کارنامے ہیں اور آج بھی اس تہذیب کے علمبردار اپنی ننگی جارحیت کے جنون کا مظاہرہ کرکے دُنیا کو تیسری عالمگیر جنگ اور جوہری تصادم اور ٹکراؤ کی طرف برق رفتاری کے ساتھ لے جارہے ہیں اور الزام اُن کمزوروں پر تھوپ رہے ہیں جو اپنے بنیادی حقوق، اپنی تہذیب و تمدن، دین و مذہب اور ایمان وعقائد کے تحفظ کے لئے مزاحمت کررہے ہیں۔ اُمّتِ مسلمہ کے زوال اور انحطاط کے اسباب میں تفریقِ دین وسیاست اور لادین تہذیب کوہی اولین سبب قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ مولانا ابوالحسن علی ندویؒ نے اپنی مشہور ومعروف کتاب ’’انسانی دُنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر‘‘ میں لکھا ہے۔ مسلمانوں کے تنزل کا آغاز اور اس کے اسباب: ’’ایک ادیب نے خوب کہا ہے کہ انسانی زندگی میں دو ایسے واقعات ہیں جن کا بالکل ٹھیک وقت ہم نہیں بتاسکتے۔ ان میں سے ایک جس کا تعلق فرد کی زندگی سے ہے نیند آنا ہے، کوئی شخص آج تک اُس خاص لمحہ کا تعین نہیں کرسکا جب جاگنے والا سوجاتا ہے۔ دوسرا واقعہ جس کا تعلق قومی زندگی سے ہے تنزل یا زوال ہے۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ فلاں قوم کا زوال کس تاریخ سے شروع ہوا۔ سب کو اس کی خبر اُس وقت ہوتی ہے جب وہ زور پکڑا جاتا ہے‘‘۔ ’’یہ حقیقت اکثر قوموں کے بارے میںمنطبق ہے لیکن امّتِ اسلامیہ کی زندگی میں زوال وتنزل کا آغاز دوسری قوموں کی زندگی کے مقابلے میں زیادہ واضح اور روشن ہے۔ اگر ہم کمال وزوال کی درمیانی حد کو مقرر کرنا چاہیں تو ہم اپنی انگلی اس تاریخی خط پر رکھ دیں گے جو خلافتِ راشدہ اور ملوکیتِ عرب یا مسلمانوں کی بادشاہی کے درمیان حدِ فاصل رہے۔‘‘ (انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر صفحہ ۱۵۸) آنکہ حَییُّ وَ لایموت آمد حق است زیستن با حق حیات مطلق است ہر کہ بے حق زیست جز مردار نیست گر چہ کس در ماتمِ او زار نیست جس ذاتِ اقدس کی یہ ابدی حقیقت ہے کہ وہ زندہ جاوید اور لا فانی ہے۔وہی ذاتِ والا صفات حق ہے۔اور بنی نوعِ انساں میں سے جو اس حق پر ایمان لا کر اس کے احکامات اور تعلیمات کے مطابق زندگی گذارتے ہوںوہی فی الحقیقت زندہ ہیںاور ان ہی کو زندہ انسان کہا جا سکے گا۔جو لوگ ذاتِ حق پرایمان اور یقین کے بغیر زندہ ہوتے ہیں وہ مردار ہیں۔یعنی حقیقی معنٰی میں وہ انسان نہیں ہیںدنیا میں ایسے لوگ چلتے پھرتے اور دنیا بنانے اور دنیا کو استعمال کرنے میںپیش پیش ہوتے ہیں۔مگر ذاتِ حق کے انکار سے اور ذاتِ حق کو تسلیم نہ کرنے سے اور اس کی بندگی میں زندگی گذارنے سے انحراف کرتے ہوے وہ مردوں میں شمارہونگے۔اگرچہ کوئی ان کی موت پر افسوس نہ کرتا ہو کوئی آنسو نہ بہاتا ہواور ان کی موت پر واویلا اور دکھ کا اظہار نہ کرتا ہو۔ بر خور از قرآں اگر خواہی ثبات در ضمیرش دیدہ ام آبِ حیات اقبالؒ والٔی افغانستان سے کہتے ہیں کہ قرآنِ پاک سے رہنمائی حاصل کریں۔قرآن زندگی کے ابدی اور آفاقی اصولوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔اﷲتعالیٰ نے اس کی صفات خود گنائی ہیں۔ ھدیََ لِلنّاَسِ وَبَیّنَاتِِ مِّنَ الْھُدی والفرقان یہ قرآن تمام انسانوں کیلئے ہدایت اور رہنمایٔ کا سر چشمہ ہے۔ہدایت اور رہنمایٔ کے واضح اور غیر مبہم اصولوں سے پُر ہے۔اور حق و باطل میں تمیز اور فرق کر دینے والی کسوٹی ہے۔اگر تم ان حیات بخش اصولوں کی رہنمائی قبول کرو گے تو تم میں ثابت قدمی اور دوام پیدا ہو جایگا۔میں نے اس کتاب کے اندر انسانوںکے لٔے آبِ حیات پایا ہے۔ { یَٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلَلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ } ’’اے ایمان لانے والو اﷲ اور اسکے رسول کی پکار پر لبیک کہوجبکہ رسول تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہو۔‘‘ (الانفال:۲۴) فی الحقیقت قرآن نے عرب کے ان چرواہوں کو جو اونٹ،بکریاںاور بھیڑوں کے ریوڑ پالتے تھے،جو تہذیب و تمدّن سے نا آشنا تھے،جو جہالت اور اخلاقی انحطاط کی انتہاوں کو چھو رہے تھے،شراب جنکی گٹھی میں پڑی ہوی تھی اور شراب نوشی کے جو مضرات ہیں وہ سب انکی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں پائے جاتے تھے وہ جنگ وجدال میں ایکدوسرے کا خون بہانے میں لذت محسوس کرتے تھے۔وہ عصمت دری اور بدکاری کے واقعات علی الا علان اور برملا بڑے بڑے مجمعوں میں فخراََ بیان کرتے تھے۔وہ بتوں کی پوجا کرنے اور خود اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوے لات،منات،ہبل اور عزّی کے آگے سجدہ ریز ہو جانے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ان کے آگے چڑھاوے چڑھاتے اور نذرانے پیش کرتے تھے۔ان کی قسمیں کھاتے اور ان سے امیدیں وابستہ کرتے تھے۔ان سے حاجتیں طلب کرتے تھے۔ان کے ناراض ہو جانے کا خوف رکھتے تھے۔ان کو اپنی سجدہ ریزی اور قربانیوں سے خوش رکھنے کی کوششوں میں ہمہ تن مصروف رہتے تھے۔وہ ان خود تراشیدہ معبودانِ باطل کی پرشتش ہی اپنی زندگی کا منتہا اور مدعا قرار دیتے تھے۔ایسے بگڑے ہوے معاشرے میں جب قرآن نازل ہوا تو اول اول انہوں نے اس کی زبردست مخالفت کی۔اس ذاتِ اقدسؐ کو جو یہ قرآن ان کے سامنے پیش کرتی تھی اَذّیتوں،سنگباری اور الزام تراشیوں کا نشانہ بناتے تھے۔جو گنے چنے افراد اس آواز پر کان دھرتے اور اس پیغام اور دعوت کو قبول کرتے تھے ان کو ریگستانوں میں تپتی ریت پرگھسیٹتے تھے، ان کے سینوں پر بھاری پتھر رکھتے تھے اوران کو گرم گرم سلاخوں سے داغتے تھے۔ان کو اذیتیں پہنچا کر جان سے مار ڈالتے تھے۔ان کی زندگیاں اس حد تک اجیرن بنا دی گیںکہ وہ ہمسایہ ملک حبشہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔لیکن جب ان بے پناہ مظالم کے باوصف لوگ قرآن کے پیغام کی طرف لپک پڑے اور اپنی زندگیاں انہوں نے قرآنی تعلیمات کے مطابق بدل دیں تو ان کی کایا پلٹ گئی اور انہوں نے قلیل عرصے میں پورے عرب میں ایک صالح اور خوشگوار انقلاب لایا اور پھر اس انقلاب کے اثرات پوری دُنیا میں سرایت کرگئے۔ اس طرح اس دعویٰ کی من وعن تصدیق ہوگئی۔ لما یحیکم۔ یہ قرآن تم کو زندگی بخش دے گا۔ شاہ ظاہر شاہؒ کو بھی اقبالؒ انہی حقائق کے پیشں نظر اس آبِ حیات کی طرف دعوت دے رہا ہے۔ اقبالؒ کا یہ پیغام خود ہمارے لئے بھی ہے۔ دُنیا کے سارے مسلمانوں کے لئے ہے۔ کاش ہم اس حیات بخش پیغام کو قبول کریں اور اپنی زندگیاں اس کی تعلیمات کے مطابق بدل دیں ہماری دُنیا بھی بدل جائے گی۔ ہم غلامی کی لعنت سے نجات پائیں گے اور تمام اخلاقی اور سماجی برائیوں سے چھٹکارہ حاصل کریں گے۔ یہ قرآن ہمیں لا تخف کا پیغام دیتا ہے اور بالفعل ہم کو فرداً اور اجتماعاً بھی لا تخف کے مقام تک پہنچا بھی دیتا ہے۔ دُنیا میں انسان کو اعلیٰ اور ارفع مقاصد کے لئے کام کرنے میں سب سے بڑی رُکاوٹ جو آتی ہے وہ خوف ہے۔ موت کا خوف، مال کے چھن جانے کا خوف، باطل اور ظالم قوتوں کے ناراض ہوجانے کا خوف، قیدوبند کی صعوبتوں کا خوف، عیش وآرام کے لُٹ جانے کا خوف، بیوی بچوں کی محبت میں اُن کے مصائب کا شکار ہوجانے کا خوف یعنی ان گنت خوف۔ ان سب سے نجات حاصل کرنے کے لئے ایک ہی اﷲ پر ایمان راسخ انسان کو بے خوف اور نڈر بنادیتا ہے۔ یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات بادشاہوں اور سرداروں کی قوت، طاقت اور سطوت کا اصل منبع اور سرچشمہ لا الہٰ ہے۔ فقیر اور دنیوی سازوسامان سے محروم، بندئہ حق کی اصل قوت اور طاقت بھی صرف لا الہٰ الااﷲ ہے۔ لا تخف، قرآن پاک میں کئی مقامات پر آیا ہے۔ خاص طور حضرت موسیٰؑ کے بارے میں سورۃ طہٰ میں جب اﷲ تبارک وتعالیٰ نے آپؐ سے پوچھا آپ کے ہاتھ میں کیا ہے؟ {وَمَاتِلْکَ بِیَمِیْنِکَ یَٰمَوْسیٰ ہ قَالَ ھِیَ عَصَایَ اَتَوَکَّؤُا عَلَیْھَا وَاَھُشُّ بِھَا عَلَیٰ غَنَمِی وَلِیَ فِیھَا مَئَارِبُ اُخْرَیٰ ہ قَالَ اَلْقِھَا یَٰمَوسَیٰ ہ فَاَلْقَٰھَا فَاِذَا ھِیَ حَیَّۃٌ تَسْعَیٰ ہ قَالَ خُذْھَا وَلاَ تَخَفْ سَنُعِیْدُھَا سِیْرَتَھَاالْاُوْلَیٰ ہ} ’’اے موسیٰؑ یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے؟ موسیٰؑ نے جواب دیا۔ یہ میری لاٹھی ہے۔ اس پر ٹیک لگا کر چلتا ہوں۔ اس سے اپنی بکریوں کیلئے پتے جھاڑ تاہوں اور بھی بہت سے کام ہیں جو میں اس سے لیتا ہوں۔ فرمایا پھینک دے اس کو موسیٰؑ۔ اُس نے پھینک دیا اور یکایک وہ ایک سانپ تھی جو دوڑ رہا تھا۔ فرمایا پکڑ لے اس کو ڈرو نہیں ہم اسے پھر ویسا ہی کردیں گے جیسی یہ تھی‘‘۔ سورئہ قصص میں بیان کیا گیا ہے کہ جب حضرت موسیؑ مصر سے مدینؔ کی طرف ہجرت کرکے گئے کیونکہ فرعون کے دربار میں فیصلہ ہوا تھا کہ موسیٰؑ کو قتل کریں گے۔ مدینؔ میں آپ حضرت شعیبؑ کی خدمت میں پہنچے اور اپنی داستان سُنائی۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے فرمایا: {قَالَ لَا تَخَفْ نَجَؤتَ مِنَ الْقَؤمِ اظَّٰلِمِیْنَ ہ} ’’کہا کچھ خوف نہ کرو۔ اب تم ظالم لوگوں سے بچ نکلے ہو‘‘ تادو تیغِ لا واِلاَّ داشتیم مَاسِوَاﷲ رانشاں نگذاشتیم! جب تک ہمارے ہاتھ میں یہ دوتلواریں ہوں گی لا یعنی تمام باطل قوتوں اور طاغوتی طاقتوں سے اعلانِ برأت اور الا اﷲ اﷲ واحد القہار کی طاقت، سطوت اور قوت پر ایمان راسخ کے نتیجے میں ماسوااﷲ کی طاقتیں زیر ہو جائیں گی۔ اُن کی قوتِ اسکندری وچنگیزی نیست ونابود ہو کر رہ جائے گی۔ خاوراںؔ ازشعلئہ من روشن است اے خنک مردے کہ در عصرِ من است از تب وتابم نصیبِ خود بگیر بعد ازیں ناید چومن مردِ فقیر! تمام مشارق میرے بے باک اور حق پسند شعلوں سے روشن اور تابندہ ہیں۔ یعنی میرے کلام ترجمانِ حقیقت سے مشرقی اقوام استفادہ کررہے ہیں۔ آپ کی ذات بھی خوش نصیبوں میں سے ہے جو میرے زمانے میں سریر آرائے مملکت افغانستان ہے۔ میرے کلام میں سے جو فی الحقیقت قرآن کے مصدرِ ہدایت اور نبی آخرُ زماں صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ سے خوشہ چینی کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے آپ بھی اپنا حصہ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ میرے دُنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد میری فکر، میرے فلسفہ، میرے اسلام کے بارے میں واضح اور شستہ تصور، روحِ دین کی شناسائی رکھنے والا کوئی مردِ فقیر آپ نہیں پائیں گے۔ اﷲ برترو بزرگ دونوں مردانِ مؤمن کو اپنی جوارِ رحمت میں جگہ دے اور اُن کی صالح فکر سے پوری ملّت خاص طور فرزندانِ و دخترانِ ملّت کو استفادہ کرنے کی توفیق ارزانی فرمائے! این دُعا از من واز جملہ عالم آمین باد ٭٭٭٭٭ گوہرِ دریائے قرآں سفتہ ام شرح رمزِ صِبْغَۃُاﷲ گفتہ ام بامسلماناں غمے بخشیدہ ام کہنہ شاخے رانمے بخشیدہ ام قرآن پاک کے موتیوں کو میں نے لڑی میں پرودیا ہے۔ صبغۃ اﷲ کے حقائق اور راز میں نے واشگاف انداز میں بیان کردئے ہیں صِبْغَۃَ اﷲِ وَمَنْ اُحْسَنُ مِنَ اﷲ صِبْغَۃ اﷲ کا رنگ اور اﷲ کے رنگ سے اور کس کا رنگ بہتر اور افضل ہوسکتا ہے۔ اﷲ کے بندوں کو اﷲ کی صفات اپنے اندر پیدا کرکے اﷲ کا رنگ اختیار کرنے کی کوشش میں لگے رہنا چاہئے۔ جیساکہ رسول اﷲؐ نے فرمایا ہے تَخْلَّقُوْابِاَ خْلَاقِ اﷲ ’’اپنے اندر اﷲ کے اخلاق اور صفات پیدا کرو۔‘‘ اﷲ اپنے بندوں سے بے پناہ محبت رکھتا ہے۔ اﷲ کے مخلص بندوں کو بھی اﷲ کے بندوں کے ساتھ محبت اور رافت کا تعلق پیدا کرنا چاہئے۔ اﷲ غفورورحیم ہے۔ اﷲ کے بندوں کو بھی عفو ودرگذر اور شفقت ورحمت کی صفات اپنانی چاہئیں۔ اﷲ غیرت مند ہے۔ اﷲ کے یکسو بندوں کو بھی غیرت مند ہونا چاہئے۔ اُن کو خودی بیچ کر نام پیدا کرنے کی ناپسندیدہ صفت کا حامل نہیں ہونا چاہئے۔ اﷲ دوئی کو پسند نہیں کرتا ہے۔ اﷲ کے بندوں کو بھی اﷲ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرانا چاہئے۔ باطل دوئی پسند ہے، حق لا شریک ہے شرکت میانِ حق وباطل نہ کر قبول اﷲ فیاض اور داتا ہے۔ اﷲ کے بندوں کو بھی دوسرے انسانی رشتے کے بھائیوں کے ساتھ فیاضی کا سلوک کرنا چاہئے۔ بخیل نہیں بن جانا چاہئے۔ {وَلاَ تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُولَۃً اِلَیٰ عُنْقِکَ وَلاَ تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ } ’’اپنے ہاتھوں کو گردنوں کے ساتھ مت باندھے رکھو اور نہ ہی بالکل ہی کھلا چھوڑ دو! کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جاؤ‘‘ (بنی اسرائیل:۲۹) یعنی نہ تو بخیل بنو کہ ہاتھ بندھے رہیں اور نہ کھلا چھوڑ دو کہ خود اپنی ضروریات کے لئے محتاج بن جاؤ۔ اعتدال اور میانہ روی اختیار کرو تاکہ ندامت اور ملامت زدہ نہ بن جاؤ۔ میں نے مسلمانوں کو دین اور اسلام کا غم بخش دیا ہے۔ جیسے خشک شاخ میں، میں نے نمی اور طراوت پیدا کردی ہے۔ مسلمان دین کے غم سے فارغ ہوگئے ہیں۔ وہ دین کے پرستار تو بن چکے ہیں لیکن دین کی مظلومیت کا اُن کو کوئی احساس نہیں ہے۔ میں نے اپنے خون جگر سے اس کلام کی وساطت سے اُن کا سویا ہوا جذبہ بیدار کرنے کی کوشش کی ہے۔ عشقِ من از زندگی دارد سراغ عقل از صہبائے من روشن ایاغ نکتہ ہائے خاطر افروزے کہ گفت؟ بامسلماں حرفِ پرُسوزے کہ گفت؟ ہمچونَے نالیدم اندر کوہ ودشت تامقامِ خویش برمن فاش گشت مجھے اﷲ اور رسولؐ کے ساتھ جو محبت اور قلبی و ذہنی وابستگی ہے جس کو عشق سے تعبیر کیا جانا چاہئے یہ مجھے زندگی کے حقائق کی خبر دے رہا ہے۔ جن لوگوں کو ایمان وایقان کی ان بنیادوں کے ساتھ محض رسمی تعلق ہوتا ہے اُن کو زندگی کا سراغ نصیب نہیں ہوتا ہے۔ میرے اس جذبہ عشق سے عقل بھی روشن ہوگئی۔ دلوں کو روشن کرنے والے نکتے کس نے کہے؟ مسلمانوں سے پُرسوز حروف اور پیغام کس نے کہے؟ میں بانسری کی طرح پہاڑوں اور جنگلوں میں نالہ وزاری کرتا رہا یہاں تک کہ مجھ پر میرا اصل مقام واضح ہوگیا۔ حرفِ شوق آموختم و اسوختم آتشِ افسردہ باز افروختم! بامن آہِ صبحگاہے دادہ اند سطوتِ کوہے بکاہے دادہ اند شوق وولولہ کا جذبہ میں نے سیکھا اور اُس کو واشگاف کردیا۔ اس طرح کہ بجھی ہوئی آگ کو دوبارہ جلادیا اور روشن کردیا۔ اقبالؒ کے فرمانے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان اپنے مقصدِ زندگی کو بھُلا چکا ہے۔ اس کا جذبہ ایمان ویقین پژمردہ اور افسردہ ہوچکا ہے۔ میں نے اپنے پیغام اور ان اشعار کے ذریعہ اُس کے جذبہ افسردہ کو دوبارہ زندہ کرنے اور روشن کرنے کی کوشش کی ہے۔ مجھے اﷲ کی طرف سے سحرخیزی کا وصف عطا کیا گیا ہے اس کی مثال ایسی ہے کہ پہاڑ کا شکوہ اور دبدبہ مجھ جیسے پرکاہ کو عطا کیا گیاہے۔ دارم اندر سینہ نورِ لا الہٰ در شرابِ من سرورِ لاالہٰ فکرِمن گردوں مُسیّر از فیض اوست جوئے ساحل ناپذیر از فیضِ اوست پس بگیر از بادئہ من یک دو جام تادرخشی مثلِ تیغِ بے نیام! میرے سینے میں لاالہٰ کا نور موجود ہے۔ میری شراب میں( مقصد میرے اشعار اور پیغام میں) لا الہٰ کا سرور اور لذّت وچاشنی ہے۔ مگر خیالات اور میری فکر لا الہٰ الااﷲ کی برکت سے ہی آسمانوں کی سیر کررہی ہے۔ یہ آبجو لاالہٰ کے فیض سے ساحل ناپذیر ہے ۔ مطلب یہ کہ لا الہٰ الاﷲ کے کلمہ توحید نے مجھے آسمانوں تک خیالات اور ارادوں کی سیر کرنے کی قوتِ ایمانی عطاکردی ہے اور میرے دین وایمان کی جوئے آب اتنی وسیع وعریض ہے کہ اس کا کوئی کنارہ اور ساحل دیکھنے میں نہیں آرہا ہے۔ اس کی وسعت اور پہنائی احاطہء تصور و تخیل سے بلندوبالا ہے۔ جب لا الہٰ الاﷲ کے کلمہ حق نے مجھے اتنی وسعت اور قوتِ پرواز عطا کی ہے تو اے مسلمان تجھے میرے اس یقین وایمان کی شراب سے ایک دو پیالے پی لینے چاہئے تاکہ تم اس تلوار کی مانند چمکنے لگوگے جو میان سے باہر ہو۔ ظاہر شاہ والئی افغانستان کے واسطہ سے یہ پیغام دُنیا کے تمام مسلمانوں کے لئے بالعموم اور مسلمان حکمرانوں کے لئے بالخصوص ہے کہ وہ اسلام کے مبادیات کی بنیاد پر اپنی سیرت اور کردار کی تعمیر کریں تو دُنیا میں وہ دوبارہ اپناگمشدہ مقام حاصل کرسکتے ہیں اور دُنیا جس حیات کی تلاش میں سرگردان ہے وہ اسلام کی شکل میں اُس کو نصیب ہوگی۔ اس کی ساری ذمہ داری وقت کے مسلمان پر عائد ہوتی ہے جو پیغامِ امن وآشتی اور دُنیوی واُخروی سعادتوں کا امانت دار بنایا گیا ہے۔ درد ملّت کادرمان جُو اقبالؒ: قصر شرف النسائ: پیرومرشد مولانا رومیؒ کی رہنمائی میں علامہ اقبالؒ عالم بالا کی سیر کرتے ہیں۔ حکیم المانوی سے ملاقات، جنت الفردوس کی سیر اور وہاں کے مناظر کی تفصیل۔ اس کے بعد لاہور میں شرف النساء خاتون کے محل کو دیکھتے ہیں جو عبدالصمد کے خاندان کی چشم وچراغ تھی۔ اس خاتون کے اوصاف کا تذکرہ، قرآن کے ساتھ اس کے شغف اور پھر قرآن کے ساتھ قوت اور طاقت کی نشانی تلوار ان دونوں کے ساتھ اس خاتون کے تعلق اور مرنے کے بعد دونوں کو اپنی تربت پر رکھنے کی وصیت۔ شاعر مشرقؒ پیررومیؒ سے سوال کرتے ہیں۔ گفتم ایں کاشانہء از لعلِ ناب آنکہ می گیرد خراج از آفتاب! ایں مقام، ایں منزل، ایں کاخِ بلند حوریاں بردرگہش احرام بند! اے تو دادی سالکاں را جستجوئے صاحبِ او کیست؟ بامن باز گوئے یہ بے بہا اور قیمتی جواہرات سے بنا کاشانہ، جو آفتاب سے خراج وصول کرتا ہے، یہ جگہ، یہ منزل اور یہ بلند وبالا عمارت، جنت کی حوریں اس بارگاہ میں احرام بند ہیں یعنی نگرانی اور حفاظت کے لئے کمربستہ ہیں، کس کا ہے؟۔ مجھے واقف کریے اور آگاہی بخشئے! اے سالکوں کو جستجو دینے والے! گفت ایں کاشانئہ شرف النساست مرغِ بامش با ملائک ہم نواست! قلزمِ ما ایں چنیں گوہر نزاد ہیچ مادر ایں چنیں دختر نزاد! خاکِ لاہورؔ از مزارش آسماں کس نداند رازِ اُو را درجہاں! آں سراپا ذوق و شوق و درد و داغ حاکمِ پنجاب را چشم و چراغ آں فروغِ دودئہ عبدالصمدؔ فقرِ اُو نقشے کہ ماند تا ابد! مولانا رومیؒ نے کہا یہ شرف النسا کا کاشانہ، جائے مدفن اور آرام گاہ ہے۔ اس محل کی چھت کا پرندہ، آسمان کے فرشتوں کے ساتھ ہم کلام ہے۔ مطلب اس محل کے گنبد کا تقدس اس قدر ہے کہ اس پر بیٹھنے والا ایک پرندہ سینکڑوں فرشتوں کے ساتھ اﷲ کی حمد کرتاہے۔ ہمارے سمندر یعنی ہماری ملّت نے آج تک ایسا گوہر آبدار پیدا نہیں کیا ہے۔ کسی ماں نے اس مرتبہ، مقام اور فکر کی حامل بیٹی کو جنم نہیں دیا ہے۔ لاہورؔ جس شہر میں اس خاتون نامدار کا مزار اور مقبرہ ہے، کی مٹی کو اس نے آسمان کی بلندی عطا کی ہے۔ دُنیا میں اس کے راز اور اس کے پوشیدہ اوصاف اور نیک عزائم کی کسی کو خبر نہیں ہے۔ یہ خاتون مجسمہء ذوق وشوق، دردِ دل اور غمِ ملّت تھی۔ پنجاب کے سربراہِ مملکت کے گھر کی چشم وچراغ۔ عبدالصمد کے خاندان کے لئے باعث افتخار ونشانِ امتیاز، اس کے فقر، خدا ترسی اور سیرت کی تابندگی، تاابد اس کے نشانات اور نقوش قائم ودائم رہیں گے۔ قرآن پاک کی حیات بخش تعلیمات سے اپنی روح اور اپنے جسم کو پاکیزہ بنانے کے لئے یہ مسلسل قرآنِ پاک کی تلاوت میں مصروف رہتی تھیں۔ تاز قرآں پاک می سوزد وجود ازتلاوت یک نفس فارغ نبود درکمر تیغِ دورُو قرآں بدست تن بدن ہوش و حواس اﷲ مست! خلوت و شمشیر و قرآن و نماز اے خوش آں عمرے کہ رفت اندر نیاز! برلبِ اُو چوں دمِ آخر رسید سوئے مادر دید و مُشتاقانہ دید! گفت اگر از رازِ من داری خبر سوئے ایں شمشیر و ایں قرآں نگر ایں دو قوت حافظِ یک دیگراند کائیناتِ زندگی را محور اند! اندریں عالم کہ میرد ہر نفس دخترت را ایں دو محرم بود و بس! وقتِ رخصت باتُو دارم ایں سخن تیغ و قرآں را جُدا از من مکُن دل بہ آں حرفے کہ می گویم بنہ قبرِ من بے گنبد و قندیل بہ! مؤمناں را تیغ باقرآں بس است تربتِ مارا ہمیں ساماں بس است! خلوت گزینی، شمشیر، تلاوتِ قرآن اور نماز اس خاتونِ ملّت کی مشغولیات اور مصروفیات تھیں۔ کیا مبارک اور باعث صد آفرین و تحسین وہ زندگی جو اﷲ کی بندگی اور اُس کے آگے عجزو نیاز کے ساتھ گذرے! جب اس نیک بخت خاتون کا دمِ واپسین آں پہنچا۔ اپنی والدہ کی طرف مشتاقانہ اور مُحبّانہ انداز سے دیکھا۔ کہا اے مادر مہربان! اگر آپ کو میرے راز اور میرے شب وروز کے بارے میں خبر ہے تو آپ اس قرآن پاک اور تیغِ دم دار کی طرف دیکھ لیں۔ یہ دونوں قوتیں ایک دوسرے کی محافط اور نگران ہیں۔ پوری کائینات کی گردش کا محور اور مرکز ہیں۔ قرآن جو ضابطہ حیات دے رہا ہے اُس کے ساتھ جب تک قوت طاقت اور محافظت کا سامان اور اہتمام نہ ہو یہ اپنے ثمرات سے انسانیت کے کام ودہن کو لذّت آشنا نہیں بنا سکتا ہے۔ اسی لئے صاحبِ قرآن علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہجرت سے پہلے خود خدائے کائینات نے یہ دُعا سکھائی ہے۔ { وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِی مُدْخَلَ صِدْقٍ وَاَخْرِجْنِی مُخْرَجَ صِڈْقٍ وَاجْعَل لِّی مِن لَّدُنْکَ سُللْطَٰنًا نَّصِیْرًا ہ} ’’اور دُعا کرو کہ پروردگار! مجھ کو جہاں بھی تُو لے جا ئے سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال لے سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار میرا مددگار بنا دے۔‘‘ (بنی اسرائیل:۸۰) تشریح: ’’ یعنی یا تو مجھے خود اقتدار عطا کر یا کسی حکومت کو میرا مددگار بنادے تاکہ اُس کی طاقت سے میں دُنیا کے اس بگاڑ کو درست کرسکوں۔ فواحش اور معاصی کے اس سیلاب کو روک سکوں اور تیرے قانونِ عدل کو جاری کرسکوں۔ یہی تفسیر ہے اس آیت کی جو حسن بصریؒ اور قتاوہؒ نے کی ہے اور اسی کو ابن جریرؒ اور ابن کثیرؒ جیسے جلیل القدر مفسرین نے اختیار کیا ہے اور اسی کی تائید نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ حدیث کرتی ہے۔ اِنَّ اﷲ لَیَنزُعُ بِسُلْطَانٍ ماَلاَ یَزَعُ بالْقُرْآنِ‘‘ ’’یعنی اﷲ تعالیٰ حکومت کی طاقت سے اُن چیزوں کا سدِ باب کردیتا ہے جس کا سدباب قرآن سے نہیں کرتا اس سے معلوم ہوا کہ اسلام دُنیا میں جو اصلاح چاہتا ہے وہ صرف وعظ وتذکیر سے نہیں ہوسکتی، بلکہ اس کو عمل میں لانے کے لئے سیاسی طاقت بھی درکار ہے۔ پھر جبکہ یہ دُعا اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کو خود سکھائی ہے تو اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اقامتِ دین اور نفاذِ شریعت اور اجرائے حدوداﷲ کے لئے حکومت چاہنا اور اس کے حصول کی کوشش کرنا نہ صرف جائز بلکہ مطلوب و مندوب ہے اور وہ لوگ غلطی پر ہیں جو اسے دُنیا پرستی یا دُنیا طلبی سے تعبیر کرتے ہیں۔ دُنیا پرستی اگر ہے تو یہ کہ کوئی شخص اپنے لئے حکومت کا طالب ہو۔ رہا خدا کے دین کے لئے حکومت کا طالب ہونا تو یہ دُنیا پرستی نہیں بلکہ خدا پرستی ہی کا عین تقاضا ہے۔ اگر جہاد کے لئے تلوار کا طالب ہونا گناہ نہیں تو اجرائے احکامِ شریعت کے لئے سیاسی اقتدار کا طالب ہونا آخر کیسے گناہ ہوجائے گا۔‘‘ (تفہیم القرآن:جلد۲، صفحہ۶۳۷،۶۳۸) اس دُنیا میں ہر ذی جان نے موت کا مزہ چکھنا ہے۔ تمہاری بیٹی کے لئے صرف یہی دو محرم اور رازدار تھے۔ یعنی قرآن اور تلوار۔ کُلُّ نَفْسٍ ذائِقَۃُالْمَوت دُنیا سے رخصت ہوتے ہوئے میں آپ سے یہ بات کہنا چاہتی ہوں کہ تلوار اور قرآن کو مجھ سے الگ نہ کریئے۔ جو بات صرف میں آپ سے کہہ رہی ہوں اس کو دل میں جگہ دیجئے۔ میری قبر پر گنبد اور چراغ نہ رکھنا ہی بہتر رہیگا۔ اہل ایمان کے لئے تلوار اور قرآن کافی ہے۔ میری تربت اور قبر کے لئے بھی بس یہی سامان کافی وشافی ہے۔ عمرہا در زیرِ ایں زرّیں قباب بر مزارش بود شمشیر و کتاب مرقدش اندر جہانِ بے ثبات اہلِ حق را داد پیغامِ حیات! تامسلماں کرد باخود آنچہ کرد گردشِ دوراں بساطش در نورد مردِ حق از غیرِ حق اندیشہ کرد شیرِ مولا روبہی را پیشہ کرد! از دلش تاب و تبِ سیماب رفت خود بدانی آنچہ بر پنجاب رفت! خالصہ شمشیر و قرآن را بُبرد اندراں کشور مُسلمانی بمُرد طویل مدت تک اس زریں آسمان کے نیچے، شرف النساء کے مزار پر یہ دونوں چیزیں تلوار اور قرآن موجود تھے۔ اس خاتونِ فردوس نشین کا مرقد اور آرام گاہ بے ثبات دُنیا میں، اہل حق کو یہ پیغامِ حیات پہنچاتا رہا کہ قرآن اور سیاسی حکومت، لازم وملزوم ہیں۔ جب تک مسلمان نے اپنے ساتھ وہ کیا جو اس نے کیاگردش دوران نے اُس کی بساط اُلٹ نہیں دی۔ مسلمانوں کی حکومت، طاقت اور سطوت ختم ہوگئی۔ جو حق پسند اور اہل ایمان تھے جن کو خدا اعتمادی اور خود اعتمادی کے ساتھ دین کے تحفظ کے لئے مردانہ وار جدوجہد کرنا چاہئے تھی وہ باطل نظریات کے علمبرداروں سے خوف کھانے لگے۔ جن اہل ایمان کو اﷲ کے شیروں کی مانند ہونا چاہئے تھا اُنہوں نے لومڑی کا کردار اپنایا۔ خوف زدہ ہوگئے۔ اُن کے دلوںسے ایمان اور یقین کی تاب اور جرأت وہمت اور سیماب صفتی ختم ہوگئی۔ رومیؒ اقبالؒ سے فرماتے ہیں کہ اس صورتحال سے، جو پنجاب میں پیدا ہوگئی، آپ خود واقف ہیں۔ پنجاب کے سکھہ منظم ہوئے۔ مسلمانوں کے ہاتھ سے اقتدار وقوت چھین لی گئی۔تلوار اور قرآن، دونوں قوتوں سے مسلمان محروم ہوگئے اور اس پورے خطے میں مسلمان گویا مرگئے، زمین بوس ہوگئے ۔ پنجاب پر سکھوں کا غلبہ ہوگیا جنت نصیب شرف النسا نے جو پیغامِ حیات دیا تھا افسوس مسلمانوں نے اُس کی قدر اور حفاظت نہیں کی اور اس انجام بد سے دو چار ہوگئے۔ {اِنَّ اﷲَ لاَ یُغَیِّرُ مَابِقَوْمٍ حَتّیٰ یُغَیِّرُوا مَابِاَنْفُسِھِمْ } ’’حقیقت یہ ہے کہ اﷲ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘ خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا مولانا حالیؔ زیارت امیر کبیر حضرت سید علی ہمدانیؒ وملاً طاہر غنی کشمیریؒ: لاہور پنجاب کا دل ہے۔ علامہ مرحومؒ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ کالج کی تعلیم لاہور میں حاصل کی اور پھر لاہور میں ہی سکونت بھی اختیار کی۔ اس نسبت سے پنجاب کے بارے میں اُن کے جذبات بڑے نازک اور حساس تھے۔ پنجاب میں مسلمانوں کے زوال و انحطاط سے وہ قدرتی طور بہت دل شکستہ اور رنجیدہ خاطر ہوچکے تھے۔ قصرِشرفُ النساء کے حوالہ سے پیررومیؔ نے جو پیغام اُن کو دیا تھا اُس سے وہ بہت متاثر ہوچکے تھے، چنانچہ حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانیؒ اور غنی کشمیریؒ کی ارواح کے ساتھ ملاقاتیں انہی مجروح جذبات کی عکاسی ہے۔ حرفِ رومیؔ در دلم سوزے فگند آہ پنجاب! آں زمینِ ارجمند! از تپِ یاراں تپیدم در بہشت کہنہ غمہا را خریدم در بہشت! تادراں گلشن صدائے دردمند از کنارِ حوضِ کوثر شُد بلند! پیر رومیؔ کے الفاظ نے میرے دل میں سوزوتپش پیدا کردی۔ میرے دل سے آہِ سرد نکل آئی۔ پنجابؔ، میرے زاد وبوم کی یاد نے مجھے تڑپا دیا۔ اے سرزمین ارجمند پنجاب، اپنے دوستوں اور احباب کی یادیں تازہ ہوئیں اور میں بہشت بریں میں بھی بے چین و بے قرار ہوگیا۔ پنجاب، وہاں کے مسلمانوں کے زوال اور انحطاط اور سکھوں کے غلبہ اور اُن کی حکمرانی کے انداز، میں نے یہ سارے الم اور غم جنت میں بھی گویا خود ہی خرید لئے۔ ان غموں کے تازہ ہوجانے کی طرف اشارہ ہے۔ میرے ان غم ہائے کہنہ کے تازہ ہوجانے کے دوران میں ہی اس گُلشن میں ایک پُردرد آواز حوضِ کوثر کے کنارے سے بلند ہوئی۔ یہ آواز پیر رومیؔ کی تھی۔ گفت رومیؔ آنچہ می آید نگر دل مدِہ با آنچہ بگذشت اے پسر! شاعرِ رنگیں نوا طاہر غنی فقرِ او باطن غنی، ظاہر غنی! نغمہء می خواند آں مست مدام درحضورِ سیّدِ والا مقام سیّد السّادات، سالارِ عجم دستِ اُو معمارِ تقدیرِ اُمم! تا غزالی درسِ اﷲ ھُوْ گرفت ذکرِ و فکر از دُودمانِ او گرفت! پیر رومی نے سب سے پہلے ملّا طاہر غنی کا یہ شعر سُنایا۔ ’’جمع کردم مُشتِ خاشا کے کہ سوزم خویش را گُل گماں دارد کہ بندم آشیاں درگلستاں‘‘ میں نے اپنے آپ کو جلانے کیلئے خس وخاشاک جمع کئے۔ باغ کا پھول سمجھتا ہے کہ باغ میں آشیانہ بنانے کیلئے یہ سب کچھ جمع کررہا ہوں۔ بندئہ حق دنیوی زندگی میں جولوازماتِ زندگی جمع کرتا ہے لوگوں کی نگاہوں میں وہ اس کی دُنیا داری اور دُنیا طلبی ہوتی ہے۔ مگر حقیقت میں خدا کی بندگی اور محبت میں وہ گم گشتہ ہوتا ہے۔ یہ سامان حرص، طمع اور لالچ جیسی خواہشاتِ نفسانی کو زیر کرنے کا عمل ہوتا ہے۔ ملّا طاہر غنی کا یہ شعر سنانے کے بعد پیر رومیؔؒ اقبالؒ سے کہتے ہیں۔ جو کچھ تیرے سامنے آجائے، تو دیکھتا جا، جو کچھ گذر چکا اُس کی طرف اپنے دل کو متوجہ نہ کر۔ اے میرے فرزند، جو کچھ پنجاب میں ہوا، جو رنجدہ صورتِ حال تو نے دیکھی، جو اپنی ملّت کی غفلت، لاپرواہی، دین بے زاری، دنیا طلبی، عیش وعشرت کی زندگی اور اپنے منصبی فرائض اور ذمہ داریوں سے غفلت اور کوتاہی یہ سب کچھ آپ جیسے دلِ حساس اور دردِ ملت رکھنے والے کے لئے یقیناً تکلیف دہ ہے۔ مگر ملّت خوابیدہ کو بیدار کرنے کا جو بہت بڑا کام آپ نے انجام دینا ہے اُس کا یہ تقاضا ہے کہ جو کچھ ہوا آپ اُس کا اثر اپنے دل پر قبول نہ کریں۔ ان واردات کو قلب پر اثر انداز نہ ہونے دیں اور کام کرنے کیلئے تازہ دم ہوکر اُٹھ کھڑا ہوجا۔ شاعر رنگین نوا، ملّا طاہرغنیؔ، اُس کی درویشی، اُس کا فقر، اُس کی بے نفسی اور استغنا، ظاہر وباطن کی حقیقی تصویر ہے۔ اس مست حال شاعر نے دردوسوز سے پُر نغمہ گایا ہے۔ سید والا مقامؒ کی خدمتِ اقدس میں یہ امیر کبیر حضرت سید علی ہمدانی نورّ اﷲ مرقدہٗ کی ذاتِ گرامی ہے۔ گروہ سادات کا میر کارواں، عجم کا سالار اور رہبر، جن کے دستِ مبارک اُمتوں کی تقدیر کے معمار ہیں حضرت امیر کبیرؒ ایران سے خطہ جنت نظیر، کشمیر تشریف آور ہوئے جہاں بت پرستی اور مشرکانہ تہذیب کا غلبہ تھا۔ آپؒ نے اسلام کے حیات بخش دین اور نظام کی طرف دعوت دی۔ اﷲ کی توفیق سے اور اُن کی مخلصانہ کوشش اور جدوجہد سے وادی کشمیر میں باشندگانِ کشمیر مَشَرف بہ اسلام ہوئے۔ اسی نسبت سے علامہ اقبالؒ نے اُن کو معمار تقدیر امم کے لقب سے یاد کیا ہے۔ امامِ غزالیؒ نے اﷲ تعالیٰ کی معرفت اور اُس کے پسنددیدہ دین اسلام کی تعلیمات سے جو آگاہی بخشی تھی اور شریعت ومعرفت کے جو پیغام دئے تھے امیر کبیرؒ نے اسی معرفت اِلٰہی کے منبع اور مصدر سے رہنمائی حاصل کی تھی، اسی خداپرستی اور معرفت اِلٰہی کا پیغام سالارِ عجم نے خطہ کشمیر کے باشندگان تک پہنچایا جس کی برکت اور رحمت سے وہاں کفرو شرک کی ظلمت دور ہوگئی اور اسلام کا نیرِ تابان وہاں ضو فشان ہوگیا۔ فالحمد ﷲ علیٰ ذالِکَ! مُرشدِ آں کشورِ مینو نظیر میر و درویش و سلاطیں رامشیر! خطّہ را آں شاہِ دریا آستیں داد علم و صنعت و تہذیب و دیں آفرید آں مرد ایرانِ صغیر باہنر ہائے غریب و دلپذیر یک نگاہِ اُو کُشاید صد گرہ خیزو تیرش را بدلِ راہے بدہ خوبصورت اور دلپذیر مملکت کے مرشدو رہنما، سرداروں، درویشوں اور بادشاہوں کے مشیر۔ جنہوں نے ’’ذخیرۃ الملوک‘‘ لکھ کررموز واسرار مملکت سے بادشاہوں اور قوموں کے امیروں اور سرداروں کی رہبری اور رہنمائی کی ہے۔ اس جنتِ نظیر خطہ کو (یعنی کشمیر کو) اُس شاہِ دریا آستین نے یعنی جس کے ہاتھ دریاؤں کی طرح فیض عام کے مرکز ومنبع تھے، علم، صنعت اور تہذیب و دین سے سرشار وسرفراز کیا۔ ایرانِ صغیر کو اس مرد قلندر اور مؤمن کامل نے ہنر ہائے دلپذیر سے بھی آراستہ و پیراستہ کیا۔ اُس کی ایک نگاہ قلندرانہ اور مؤمنانہ نے صدہا گرہوں اور مسائل کو حل کردیا۔تجھے چاہئے کہ بیدار ہوکر اُس کے پیغام کو اپنے دل میں جگہ دیدے اور جس طرح اُس نے اپنی جانفشانی اور محنتِ شاقہ سے اس کفرستان کو اسلام کے شاداب گلستان سے بدل دیا۔ تم بھی اسی طرح اسلام کے داعی اور سپاہی بن کر اسلام کے باغ کو سرسبزوشاداب بناکر بنی نوع انسان اور اپنے وطن کے بھائیوں کو کفرو ضلالت سے نجات دلاکر دنیوی و اخروی سعادتوں سے ہم کنار کردے۔ درحضورِ شاہِ ہمدانؒ: ’’زندہ رود‘‘ از تو خواہم سرِّ یزدان را کلید طاعت از ما جست و شیطاں آفرید زشت و ناخوش را چناں آراستن! در عمل از ما نکوئی خواستن! از تو پُرسم ایں فسوں سازی کہ چہ! باقمارِ بدنشیں بازی کہ چہ! مشتِ خاک و ایں سپہر گرد گرد خود بگومی زیبدش کارے کہ کرد؟ کارِ ما‘ افکارِ ما‘ آزارِ ما دست بادنداں گزیدن کارِ ما! زندہ رود (اقبالؒ) میر سید علی ہمدانیؒ سے پوچھتے ہیں۔ میں آپ سے اﷲ تعالیٰ کے سربستہ رازوں کی کلید، چابی اور گرہ کشائی چاہتا ہوں۔ ہم سے یعنی اُس پر ایمان لانے والوں سے اطاعت چاہتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی شیطان کو بھی پیدا کیا جس کے بارے میں خودہی اپنے بندوں کو متنبہ کیا۔ اِنَہٗ لَکُمْ عَدَوٌ مُّبِیْن ’’یہ ابلیس تمہارا کھلا دُشمن ہے‘‘۔ بدیوں اور برائیوں کو اتنا آراستہ اور باعث کشش بنایا کہ بندوں کا اُن کی گرفت میں آنا بڑا آسان بن جاتا ہے اور اُن سے اپنے آپ کو بچانا اور محفوظ رکھنا بڑا ہی مشکل اور کٹھن ہے۔ ایک طرف یہ، دوسری طرف بندوں سے حسنِ عمل کا مطالبہ۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ یہ جادوگری کیا ہے۔ ایک بدکردار اور بدنشین کے ساتھ مصاحبت اور ہم نشینی کیا معنی رکھتی ہے؟ یہ عجیب کھیل کیا ہے؟ انسان ایک مُشتِ خاک اور یہ وسیع وعریض کائینات۔ آپ ہی بتائیے کہ کیا اﷲ ربّ کائینات کو ایسا کام کرنا زیب دیتا ہے؟ ہمارے کام، ہمارے خیالات، ارادے اور عزائم ہمارے لئے باعث آزار اور مؤجب رنج ومحن ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم خود اپنے ہی دانتوں سے اپنے ہاتھ کاٹیں۔ فارسی میں اس تضاد اور ٹکراؤ کے لئے ایک ضربِ المثل ہے: کج دار ومریز! یعنی پانی سے بھرئے ہوئے گلاس کو ہاتھ میں ٹیڑھا رکھنا مگر گرانا نہیں۔ انسان سے ایسے ہی روّیے اور طرزِ عمل کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ اﷲ کی بندگی کرو مگر بندگی کے راستے سے ہٹانے والا بھی میں نے ہی پیدا کیا ہے۔ ابلیس۔ یہ کشمکش اور یہ ٹکراؤ اسی عقدہ کُشائی کے لئے زندہ رود، حضرت شاہِ ہمدان رحمۃ اﷲ علیہ کی خدمت میں سوال کرتا ہے۔ شاہِ ہمدانؒ بندئہ کز خویشتن دارد خبر آفریند منفعت را از ضرر! بزم بادیو است آدم را و بال رزم بادیو است آدم را جمال! خویش را برا ہرمن باید زدن تو ہمہ تیغ آں ہمہ سنگِ فسن! تیز تر شو تافتد ضربِ تو سخت ورنہ باشی در دو گیتی تیرہ بخت! اﷲ کا جو بندہ اپنی حقیقت اور اپنے وجود سے بخوبی آگاہ ہوگا وہ ضرر رسان چیزوں کو بھی اپنے لئے باعث فائدہ اور منفعت بنالیتا ہے۔ انسان کو روز ازل سے ہی بتایا گیا ہے کہ تجھے اﷲ کی بندگی سے ہٹانے اور نفسانی خواہشات کا پرستار بنانے کے لئے تیرا دشمن ابلیس تیرے تعاقب میں ہے۔ اُس (شیطان) نے چلینج کیا ہے کہ میں انسان کے آگے، پیچھے، دائیں اور بائیں ہر چہار طرف سے اس پر حملہ آور ہوں گا اور اس کو اپنے ڈھب پر لانے اور اپنا پیروکار بنانے کے لئے پورا زور لگاؤں گا۔ دُنیا کو اس کے سامنے اتنا پرکشش اور دیدہ زیب بناؤںگاکہ وہ اس کے پیچھے دوڑنے میں خود اپنے آپ کو بھی بھول جائے گا۔ اپنے پیدا کرنے والے آقا اور مولا کو بھی بھول جائے گا۔ اُس کی تمام نعمتوں کا ناشکرگذار اور کفران کرنے والا بنے گا۔ اس حقیقت کے پیشِ نظر، انسان کو چاہئے کہ وہ ابلیس کے ساتھ ہم نشینی اور مُصاحبَت سے احتراز کرے۔ ابلیس کے ساتھ بزم آرائی انسان کیلئے وبال ہے۔ ابلیس کے ساتھ رزم آرائی، کشمکش، جنگ وجدال، اُس کے ہر حکم اور فرمائش کو روندنا اور پامال کرنا، یہ انسان کے لئے باعث عظمت اور باعث افتخار وجمال ثابت ہوگا۔ انسان کو چاہئے کہ وہ ابلیس اور اہرمنؔ پر اس طرح وار کرے جیسے ہتھوڑے سے پتھر پر وار کیا جاتا ہے۔ شاہِ ہمدان علیہ رحمہ اقبالؒ کی وساطت سے بندگانِ خدا کو بالعموم اور مسلمانانِ عالم کو بالخصوص یہ پیغام زیست وحیات دے رہے ہیں کہ ابلیس کے ساتھ دوستی کا رشتہ باندھنے کے بجائے اُس کے ساتھ رزم آرائی کی روش اپنائی جائے۔ فرماتے ہیں تم تیغ وتلوار کی حیثیت رکھتے ہو۔ ابلیس تمہارے لئے فسن کی حیثیت رکھتا ہے۔ فسن کیا ہے جس پر رگڑ کر خنجر، چاقو یا تلوار کو تیز اور چکمدار بنایا جاتا ہے۔ اس طرح شاہِ ہمدان کا یہ فرمان روبعمل آئے گا کہ ضرر سے نعمت حاصل ہوگی۔ ابلیس کے ساتھ اس روّیے اور روش کو زیادہ سے زیادہ کامیاب و نتیجہ خیز بنانے کیلئے انسان اور بندئہ خدا کو زیادہ سے زیادہ تیز تر تلوار بن جانا چاہئے تاکہ اپنی ضرب کاری سے ابلیس کے ہر حربے اور چال کا کامیابی کے ساتھ توڑ کرے۔ اگر ایسا نہیں کرے گا حضرت شاہِ ہمدانؒ فرماتے ہیں ’’ورنہ باشی در دو گیتی تیرہ بخت!‘‘ ورنہ دونوں دنیاؤں یعنی دُنیا اور آخرت میں سیاہ بختی اور حرماں نصیبی کا شکار ہوجاؤگے۔ حضرت شاہ ہمدانؒ کے اس پیغام کی روشنی میں جب ہم اپنا اور اپنے معاشرے، فرد اور ملّت کے کردار اور سوچ اور عمل کا جائزہ لیں گے تو کسی کو اس حقیقت کے اعتراف سے انکار نہیں ہوگا کہ آج کے دور میں ہم نے ابلیس کے ساتھ دوستی اور ہم آہنگی کے رشتے زیادہ سے زیادہ استوار کئے ہیں۔ خوشی ہو یا غمی، سیاست ہو یا معیشت ہو، تعلیم ہو، رہن سہن ہو، عادات و اطوار ہوں، وضع قطع ہو، اصول اور نظریات کے ساتھ وابستگی ہو، معاملات اور لین دین ہو، معاشرتی زندگی ہو یا سیاسی تگ ودو ہو، ہم زندگی کے کسی مرحلے پر ابلیس کو ناراض نہیں کرتے ہیں۔ بلکہ اُس کی خوشنودی اور رضامندی ہمارے لئے اﷲ اور رسولؐ کی رضامندی پر غالب اور مافوق ہے۔ ہمارے زوال، ادبار اور انحطاط کی یہی بنیادی وجہ اور سبب ہے۔ اقبالؒ نے جواب شکوہ میں یہی رونا رویا ہے: کون ہے تا رک آئین رسول مختارؐ؟ مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟ کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار؟ ہوگئی کس کی نگہ طرزِ سلف سے بیزار؟ قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں کچھ بھی پیغام محمدؐ کا تمہیں پاس نہیں ابلیس کے چلینج کا تذکرہ آگیا ہے۔ قرآن پاک میں اس کا تذکرہ ان آیات میں آیا ہے۔ {قَالَ مَا مَنَعَکَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْاَمَرْتُکَ قَالَ اَنَاخَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِی مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَہُ مِن طِیْنٍ ہ قَالَ فَاھْبِطْ مِنْھَا فَمَا یَکُوْنُ لَکَ اَن تَتَکَبَّرَ فِیْھَا فَاخْرُجْ اِنَّکَ مِنَ الصَّٰغِرِیْنَ قَالَ اَنظِرْنِیٓ اِلَیٰ یَوْمِ یُبْعَثُونَ ہ قَالَ اِنَّکَ مِنَ الْمَنْظَرِیْنَ ہ قَالَ فَبِمَآاَغْوَیْتَنِی لَاَقْعُدَنَّ لَھُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ ہ ثُمَّ لَاَ تِیَنَّھُمْ مِّن م بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ وَمِنْ خَلْفِھِمْ وَعَنْ اَیْمَٰنِھِمْ وَعَنْ شَمَآئِلِھِمْ وَلاَ تَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شَٰکِرِیْنَ ہ} ترجمہ ’’پوچھا ’’تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے روکا جبکہ میں نے تجھ کو حکم دیا تھا‘‘؟ بولا ’’میں اُس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اُسے مٹی سے‘‘، فرمایا ’’اچھا ، تو یہاں سے نیچے اُتر، تجھے حق نہیں ہے کہ یہاں بڑائی کا گھمنڈ کرے، نکل جا۔ در حقیقت تو اُن لوگوں میں سے ہے جو خود اپنی ذلت چاہتے ہیں‘‘۔ بولا ’’مجھے اُس دن تک مہلت دے جب کہ یہ سب دوبارہ اُٹھائے جائیں گے‘‘۔ فرمایا ’’تجھے مہلت ہے‘‘۔ بولا’’ اچھا تو جس طرح تو نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا ہے میں بھی اب تیری سیدھی راہ پر ان انسانوں کی گھات میں لگارہوں گا۔ آگے اور پیچھے، دائیں اور بائیں ہر طرف سے ان کو گھیروں گا اور تو اُن میں سے اکثر کو شکر گذار نہ پائے گا‘‘۔ (الاعراف:۱۲ تا ۱۷) تشریح: اصل میں لفط صاغرین استعمال ہواہے۔ صاغر کے معنیٰ ہیں الرَّاضی بالذُّل۔ یعنی وہ جو ذلت اور صغار اور جھوٹی حیثیت کو خود اختیار کرے۔ پس اﷲ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ بندئہ اور مخلوق ہونے کے باجود تیرا اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا ہونا اور اپنے ربّ کے حکم سے اس بناء پر سرتابی کرنا کہ اپنی عزّت و برتری کا جو تصور تو نے خود قائم کردیا ہے اس کے لحاظ سے وہ حکم تجھے اپنے لئے مؤجب تو ہین نظر آتا ہے۔ یہ دراصل یہ معنیٰ رکھتا ہے کہ تو خود اپنی ذلت چاہتا ہے۔ بڑائی کا جھوٹا پندار، عزت کا بے بنیاد اِدِّعا اور کسی ذاتی استحقاق کے بغیر اپنے آپ کو خواہ مخواہ بزرگی کے منصب پر فائز سمجھ بیٹھنا، تجھے بڑا اور ذی عزت اور بزرگ نہیں بنا سکتا۔ بلکہ چھوٹا اور ذلیل اور پست بنائے گا اور اپنی اس ذلّت وخواری کا سبب تو آپ ہی ہوگا۔ یہ وہ چلینج تھا جو ابلیس نے خدا کو دیا۔ اُس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ یہ مہلت جو آپ نے مجھے قیامت تک کے لئے دی ہے۔ اس سے فائدہ اٹھا کر میں یہ ثابت کرنے کے لئے پورا زور صرف کروں گا کہ انسان اُس فضیلت کا مستحق نہیں ہے۔ جو آپ نے میرے مقابلہ میں اسے عطا کی ہے میں آپ کو دکھادوں گا کہ یہ کیسا ناشکرا، کیسا نمک حرام اور کیسا احسان فراموش ہے۔ یہ مہلت جو شیطان نے مانگی اور خُدا نے اُسے عطا فرمادی اس سے مراد محض وقت ہی نہیں ہے بلکہ اُس کام کا موقع دینا بھی ہے جو وہ کرنا چاہتا تھا۔ یعنی اُس کا مطالبہ یہ تھا کہ مجھے انسان کو بہکانے اور اُس کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر اُس کو نااہلی ثابت کرنے کا موقع دیا جائے اور یہ موقع اﷲ تعالیٰ نے اُسے دیدیا۔ چنانچہ سورئہ بنی اسرائیل آیات ۶۱،۶۵ میں اس کی تصریح ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اُسے اختیار دے دیا کہ آدم اور اُس کی اولاد کو راہِ راست سے ہٹا دینے کے لئے جو چالیں وہ چلنا چاہتا ہے چلے۔ ان چالبازیوں سے اُسے روکا نہیں جائے گا۔ بلکہ وہ سب راہیں کھلی رہیں گی۔ جس سے وہ انسان کو قتنہ میں ڈالنا چاہے گا۔ لیکن اس کے ساتھ یہ شرط لگادی کہ اِنَّ عبادی لیس لک علیھم سلطانٌ یعنی میرے بندوں پر تجھے کوئی اقتدار نہ ہوگا۔ تو صرف اس کا مجاز ہوگا کہ اُن کو غلط فہمیوں میں ڈالے۔ جھوٹی اُمیدیں دلائے۔ بدی اور گمراہی کو اُن کے سامنے خوش نما بناکر پیش کرے۔ لذتوں اور فائدوں کے سبز باغ دکھا کر اُن کو غلط راستوں کی طرف دعوت دے۔ مگر یہ طاقت تجھے نہیں دی جائے گی کہ اُنہیں ہاتھ پکڑ کر زبردستی اپنے راستے پر کھینچ لے جائے اور اگر وہ خود راہِ راست پر چلنا چاہیں تو ،تُواُنہیں چلنے نہ دے۔ یہی بات سورہ ابراہیم آیت نمر ۳۲ میں فرمائی گئی ہے کہ قیامت کی عدالتِ اِلٰہی سے فیصلہ صادر ہوجانے کے بعد شیطان اپنے پیرو انسانوں سے کہے گا۔ {وَماَ کَانَ لِیَ عَلَیْکُم مِّن سُلْطَٰنٍ اِلَّآ اَن دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِی فَلاَ تَلُومُونِی وَلُو مُوٓ اَنْفُسَکُمْ } ’’یعنی میرا تم پہ کوئی زور تو تھا نہیں کہ میں نے اپنی پیروی پر تمہیں مجبور کیا ہو۔ میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ تمہیں اپنی راہ پر بلایا اور تم نے میری دعوت قبول کرلی۔ لہٰذا اب مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو‘‘ (ابراہیم: ۲۲) تشریح :’’اور یہ جو شیطان نے خدا پر الزام عائد کیا ہے کہ تو نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ شیطان اپنی معصیت کی ذمہ داری خدا پر ڈالتا ہے۔ اُس کو شکایت ہے کہ آدم کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دے کر تو نے مجھے فتنے میں ڈالدیا اور میرے نفس کے تکبر کو ٹھیس لگا کر مجھے اس حالت میں مبتلا کردیا کہ میں نے تیری نافرمانی کی۔ گویا اس احمق کی خواہش یہ تھی کہ اُس کے نفس کی چوری پکڑی نہ جائے۔ بلکہ جس پندارِ غلط اور جس سرکشی کو اُس نے اپنے اندر چھپایا رکھا تھا اُس پر پردہ ہی پڑا رہنے دیا جاتا۔ یہ ایک کھلی ہوئی سفیہانہ بات تھی جس کا جواب دینے کی کوئی ضرورت نہ تھی اس لئے اﷲ تعالیٰ نے سرے سے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ (تفہیم القرآن: جلد ۲، صفحہ ۱۲،۱۳،۱۴۰) حضرتِ شاہِ ہمدان رحمۃ اﷲ علیہ کی طرف سے اقبالؒ کو شیطان کے بارے میں ہدایات اور رہنمائی کے ضمن میں ضروری تھا کہ شیطان راندئہ بارگاہ ہوجائے۔ اس کے چلینج اور اس پر عمل درآمدکے طور طریقے قرآنی آیات کی روشنی میں سامنے لائے جائیں۔ اس لئے ان آیات اور تفہیم القرآن کی روشنی میں اس کی تشریح سامنے لائی گئی۔ قارئین اس کو غیر ضروری اضافہ نہ سمجھیں۔ اب ہم پھر اصل موضوع کی طرف رجوع کرتے ہیں: زندہ رود:اقبالؒ شاہِ ہمدانؒ کی خدمت میں گردوپیش کی دُنیا خاص طور اپنے وطن مالوف کی صورتِ حال بڑے دردمندانہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔ زیرِ گردوں آدم آدم را خورد ملّتے بر ملّتے دیگر چرد! جاں زِ اہلِ خطّہ سوزد چوں سپند خیزد از دل نالہ ہائے دردمند! زیرک و درّاک و خوش گل ملّتے است درجہاں تردستئی اُو آیتے است ساغرش غلطندہ اندر خونِ اوست در نَے من نالہ از مضمونِ اوست! از خودی تابے نصیب اُفتادہ است در دیارِ خود غریب اُفتادہ است! آسمان کے نیچے اس زمین پر انسان انسان کو کھاتا اور اُس کا خون چوستا اور اُس کی زندگی سے کھلواڑ کرتا ہے۔ ایک قوم دوسری قوم کو زیر کرتی، غلام بناتی اور ظلم واستبداد کا نشانہ بناتی ہے۔ اپنے اس وطن مالوف بدنصیب خطہ جنت نظیر، یہاں کے مکینوں اور باسیوں کی صورتحال دیکھ کر میری روح اسپند کی مانند جل اٹھتی ہے۔ میرے دل سے نالہ ہائے دردمند اُبھر آئے ہیں۔ یہ ملت (کشمیری قوم) ترودماغ، زیرک، دانا دراک اور شعور رکھنے والی ہے۔ یہ انتہائی خوبصورت اور دلپذیر قوم ہے۔ اس قوم کی ہنرمندی پوری دُنیا میں ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔ اُس کا ساغر اپنے ہی خون میں غلطان وپیچان ہے۔ میری بانسری میں اُسی کے بارے میں آہ زاری اور نالہ وفریاد ہے۔ یعنی میرے ان اشعار کا موضوع اور عنوان یہی حرماں نصیب قوم ہے۔ یہ قوم اپنی خودی سے بے نصیب اور محروم ہوچکی ہے۔ اپنے ہی وطن میں بے وطن اور مسافر ہوکر رہ گئی ہے۔ دست مزدِ اُو بدستِ دیگراں ماہئی رُودش بہ شَستِ دیگراں! کاروانہا سوئے منزل گام گام کارِ اُو ناخوب و بے اندام و خام! از غلامی جذبہ ہائے اُو بمرد آتشے اندر رگِ تاکش فسرد! تانہ پنداری کہ بود است ایں چنیں جبہہ را ہموارہ سُود است ایں چنیں! درزمانے صف شکن ہم بودہ است! چیرہ و جانباز و پُردم بودہ است! اس کی کمائی دوسروں کے ہاتھ میں ہے۔ اُس کے دریا کی مچھلی دوسروں کے جال میں ہے۔ دیگر اقوام اپنی اپنی منزلوں کی طرف قدم قدم بڑھ رہے ہیں۔ اس قوم کا کام ناخوب، بے منزل اور ناکارہ ہے۔ غلامی کی وجہ سے اس کاجذبہ، اس کاحوصلہ اور اس کی تمنائیں اور آرزوئیں، مردہ ہوچکی ہیں۔ اس کی رگِ انگور کی آگ بجھ چکی ہے۔ آپ یہ گمان نہ کریں کہ یہ قوم ماضی میں بھی ایسی ہی تھی۔ اس کی سرخمی اور جبہ سائی ہمیشہ ایسی ہی تھی۔ نہیں! ایک زمانے میں یہ قوم بھی صف شکن، بہادر، حوصلہ مند اور تازہ دم قوم تھی۔ کشمیری قوم کے بارے میں ان تاثرات کے اظہار کے بعد اقبالؒ یہاں کے قدرتی مناظر کی طرف بھی حضرت شاہِ ہمدان کی توجہ طلب کررہے ہیں۔ کوہ ہائے خنگ سارِ اُو نگر آتشیں دستِ چنار اُو نگر در بہاراں لعل می ریزد زسنگ خیزد از خاکش یکے ظوفانِ رنگ! لکہ ہائے ابر در کوہ و دمن پنبہ پرّاں از کمانِ پنبہ زن! کوہ و دریا و غروبِ آفتاب! من خدا را دیدم آنجا بے حجاب! بانسیم آوارہ بودم در نشاط ’بشنواز نے‘ می سرودم در نشاط مرغکے می گفت اندر شاخسار باپشیزے می نیرزد ایں بہار! لالہ رُست و نرگسِ و شہلا دمید بادِ نوروزی گریبانش درید! عمر ہا بالید ازیں کوہ و کمر نستراز نورِ قمر پاکیزہ تر خنگ سار، سفید سر، پہاڑوں کی چوٹیاں برف سے ڈھکی ہوئی دیکھ لے، اس کے چناروں کے آتشین ہاتھ دیکھ لے۔ جس کے پتے خاص طور پت جھڑ کے موسم میں آگ کے شعلوں کی مانند دکھائی دیتے ہیں۔ بہار کے موسم میں یہاں پتھروں سے بھی لعل وجواہر پیدا ہوجاتے ہیں۔ اس کی خاک سے مختلف رنگوں کے گویا طوفان جنم لیتے ہیں۔ پہاڑوں اور دامنِ کوہ میں بادلوں کے ٹکڑے اس طرح دورڑتے پھرتے اور گھومتے دکھائی دیتے ہیں جیسے نداف روٹی دھون رہا ہو اور اُس کے ریشے اور گالے ادھر اُدھر اُڑتے پھررہے ہوں۔ اس جنت نظیر سرزمین پر پہاڑ، دریا ، آبشار اور اس پسِ منظر میں آفتاب کا غروب ہوجانا ایسے دلکش اور فطرت کے ترجمان نظارے ہیں کہ اﷲ خالق کائینات کو بے حجاب اور بے پردہ دیکھا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ میں نے محسوس کیا۔ کائینات کے یہ مناظر خالق کائینات اور صانع گیتی کی پہچان اور معرفت کے مناظر اور آیات ہیں۔ بقولِ مصلح الدین شیخ سعدیؒ ’’برگ درختانِ سبز در نظر ہوشیار ہرورقِ دفتر یست معرفتِ کرد گار۔‘‘ قرآن پاک میں جگہ جگہ مظاہر کائینات کی اِن نشانیوں کی طرف انسان کو متوجہ کیا گیا ہے: {وَاِلَٰھُکُمْ اِلَٰہٌ وَاحِدٌ لَّآ اِلَٰہَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمَٰنُ الرَّحِیْمُ ہ اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمَٰوَٰتِ وَالْاَرْضِ وَخْتِلَٰفِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِی تَجْرِی فِی الْبَحْرِ بَما یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اﷲُ مِنَ السّمَآئِ مِن مَّآئٍ فَاَحْیَا بِہٖ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا وَبَثَّ فِیْھَا مِن کُلِّ دَآبَّۃٍ وَتَصْرِیْفِ الرِّیَٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ لَاَیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَعْقِلُونَ ہ} ’’تمہارا خد ایک ہی خدا ہے۔ اُس رحمان ورحیم کے سوا کوئی اور خدانہیں ہے (اس حقیقت کو پہچاننے کے لئے اگر کوئی نشانی اور علامت درکار ہے تو)۔ جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں۔ اُن کیلئے آسمانوں اور زمین کی ساخت میں، رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں۔ اُن کشتیوں میں جو انسان کی نفع کی چیزیں لئے ہوئے دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں۔ بارش کے اُس پانی میں جسے اﷲ اوپر سے برساتا ہے۔ پھر اس کے ذریعے سے زمین کو زندگی بخشتا ہے اور اپنے ہی انتظام کی بدولت زمین میں ہر قسم کی جاندار مخلوق کو پھیلاتا ہے۔ ہواؤں کی گردش میں اور اُن بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بناکر رکھے گئے ہیں بے شمار نشانیاں ہیں‘‘۔ (سورہ بقرہ آیات: ۱۶۳،۱۶۴) اقبالؒ نے ’’خضرِ راہ‘‘ میں بھی مظاہر کائینات سے خالقِ کائینات کے وجود کی طرف رہنمائی کا تذکرہ فرمایا ہے۔ کیوں تعجب ہے میری صحرانوردی پر تجھے یہ تگا پوئے دمادم زندگی کی ہے دلیل اے رہینِ خانہ تونے وہ سماں دیکھا نہیں گونجتی ہے جب فضائے دشت میں بانگ رحیل ریت کے ٹیلے پہ وہ آہو کا بے پروا خرام وہ خضر بے برگ وسامان وہ سفر بے سنگ ومیل وہ نمودِ اخترِ سیماب پا ہنگامِ صبح یانمایاں بام گردوں سے جبیں جبرئیلؑ وہ سکوتِ شامِ صحرا میں غروب آفتاب جس سے روشن تر ہوئی چشمِ جہاں بین خلیلؑ اور وہ پانی کے چشمے پر مقامِ کاروان اہل ایمان جس طرح جنت میں گرِدِ سلبیل تازہ ویرانے کی سودائے محبت کو تلاش اور آبادی میں تُو زنجیریٔ کشت و نخیل پختہ تر ہے گردشِ پیہم سے جامِ زندگی ہے یہی اے بے خبر راز دوامِ زندگی ایسے ہی خدائی مناظر کی دید نے اقبالؒ سے یہ کہلوایا۔ ’’من خدا دیدم آنجا بے حجاب‘‘ میں صبح کی ہوا کے ساتھ نشاط باغ میں آوارہ تھا۔ میری بانسری سے سنو جو کچھ میں نشاط باغ سرینگر میں نغمہ گا رہا ہوں۔ ایک درخت کی شاخ سے ایک معصوم پرندے نے آواز دی کہ یہ دلکش اور مست مد ہوش بنادینے والی بہار مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ گلِ لالہ اُگ آئے اور خوبصورت آنکھوں والے گل نرگس کھل اُٹھے ہیں۔ بہارنو کی ہوا نے اُس کا گریبان چاک کیا ہے۔ یعنی وہ غنچہ سے کھلتا ہوا پھول بنا۔ اس کوہ وکمر میں عمر ہا پرورش و پرداخت ہوئی ہے۔ یعنی کئی نسلیںاور کئی پشتیں اس جنت مثال ماحول میں جنم لے چکی، پرورش پاچکی اور مہلتِ زندگی ختم کرکے گذر چکی ہیں۔ چاندنی کے نور سے گلِ نستر زیادہ پاکیزہ، خوبصورت اور دلکش ہے۔ صدیوں تک پھول کھلے۔ اُن کے خیرہ کردینے والے نظارے دیکھے گئے مگر افسوس کہ عمر ہا گل رخت بربست وکشاد خاکِ ما دیگر شہابُ الدّین نزاد! جنت نظیر کشمیر میں،باغ و بہار تو آتے رہے لالہ نرگس، ونسترن کھلتے اور دمکتے رہے۔مگر اس سرزمین کو دوسرا سلطان شہاب الدینؒ والیٔ کشمیر جس نے کشمیر میں دینی اور اخلاقی بنیادوں پر نظام چلایااور عدل و انصاف کے پھول کھلائے اور لوگوں کو آرام و آسائش اور راحت پہنچائی، نصیب نہیں ہُوا۔ نالہء پرسوزِ آن مرغِ سحر داد جانم را تب و تابِ دگر! تایکے دیوانہ دیدم درخروش آنکہ بُرد از من متاعِ صبر و ہوش! مُرغ سحر کی پرسوزِ اور درد بھری آواز نے میری روح میں نئی تڑپ اور نیا ولولہ اور اضطراب پیدا کیا۔ ایسے ہی مست مدہوشی کے عالم میں، میں نے دیکھا ایک دیوانہ آہ وزاری اور نالہ وشیون میں مستانہ وار فریاد کررہا تھا۔ اس کی اس درد بھری آواز اور خروش نے میری متاعِ صبرو ہوش چھین لی۔ یعنی مجھ میں نہ صبر رہا اور نہ ہوش! ’’بگذر زما و نالہء مستانہ ء مجوے بگذر زشاخِ گل کہ طلسمے است رنگ وبُوے گفتی کہ شبنم از ورقِ لالہ می چکد غافل دلے است ایں کہ بگرید کنارِ جوئے! ایں مشتِ پر کجا و سرودِ ایں چُنیں کجا روحِ غنی ؔاست ماتمئی مرگِ آرزوئے! بادِصبا اگر بہ جنیواؔ گذر کُنی حرفے زما بہ مجلسِ اقوام باز گوئے دہقان وکشت وجوئے و خیابان فروختند قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند!‘‘ ہم کو اپنے حال پر چھوڑ دو اور ہم سے نالہ مستانہ کی تلاش اور امید مت کرو۔ پھول کی ٹہنی سے بھی صرفِ نظر کرو۔ یہ تو محض رنگ وبو کا جادو اور طلسم ہے۔ کہتے ہو کہ شبنم گل لالہ کی پتی سے ٹپکتی ہے۔غافل یہ ایک دل ہے جو ندی کے کنارے رو رہا ہے۔ دل اور گلِ لالہ اور شبنم اور آنسو میں ایک دردانگیز مناسبت ہے۔ یہ مشتِ پر کہاں اور اس معیار اور درجے کا نغمہ کہاں؟ یعنی ایک نڈھال اور سوختہ جان پرندے سے ایسا پرسوز نغمہ کہاں ممکن ہے ۔ اصل میں یہ ملّا طاہر غنیؒ کی روح اُمیدوں اور آرزوؤں کی موت پر ماتم کررہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کشمیری قوم پر مایوسی طاری ہوچکی ہے۔ اُمیدوں اور آرزوؤں کے چراغ بجھ چکے ہیں۔ اس ملّت اور قوم کے بہی خواہ، دل میں اس کا درد اور اس کی فلاح وبہبود کی تمنا رکھنے والے، غنی کشمیری ؔ ہو، اقبالؒ ہو، شاہِ ہمدانؒ ہو یا سلطان شہاب الدینؒ ہو سب اس قوم کی بے ہمتی اور غلامی کے خوگر بن جانے پر ماتم کُنان ہیں۔ اے نسیمِ صبح! اگر تم جنیواؔ کی طرف رُخ کروگی تو مجلس اقوام تک کشمیری قوم کی طرف سے یہ پیغام پہنچا دو۔ کسان،اُس کا کھیت، آبجوئیں، باغ وراغ فروخت کردئے گئے ہیں۔ پوری ایک قوم کو فروخت کردیا گیا ہے اور کتنا سستا اور ارزان بیچ ڈالا گیا ہے۔ واحسرتا! یہ اُس شرم ناک بیع نامہ کی طرف اشارہ ہے جو پوری بنی نوع انسان کے ماتھے پر ایک کلنک کے ٹیکے کی حیثیت سے تاریخ کے صفحات پر تاصبح قیامت رقم رہے گا۔ برطانوی سامراج نے جو انسانی حقوق کے محافظ، جمہوریت اور آزادی کے چمپیئن کی حیثیت سے اپنے آپ کو پیش کررہا ہے۔ مارچ1846؁ء میں جموں کشمیر کے پورے خطے کو انسانوں سمیت جموں کے ایک ڈوگرہ، آنجہانی مہاراجہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں 75 لاکھ نانک شاہی سکوں کے عوض بیچ دیا۔ اُس وقت جو اس خطے کی آبادی تھی اُس کے رُو سے ایک انسان کی قیمت سات روپئے بنتی تھی۔ گویا سات روپئے میں انگریز ’’آزادی پسند ‘‘ نے جموں کشمیر کے مظلوم، بے بس، نہتے اور بے سروسامان انسان کو بھیڑ بکریوں کی قیمت سے بھی کم قیمت کے عوض فروخت کردیا۔ ابوالاثر مرحوم حفیظ جالندھریؔ نے ’’بیعنامہ امرتسر‘‘ کے شرمناک اور عبرت انگیز انسانی سانحہ پر یوں واویلا کیا ہے۔ لوٹ لی انسانیت کی قسمت پچھتّر لاکھ میں بگ گئی کشمیر کی جنّت پچھتّر لاکھ میں مرد کا سرمایئہ محنت پچھتّر لاکھ میں عورتوں کا جوہر عصمت پچھتّر لاکھ میں مُلک وملّت قوم ومال وجان پچھتّر لاکھ میں ہاں پچھتّر لاکھ میں ہاں ہاں پچھتّر لاکھ میں حفیظ جالندھریؔ کہنہ دذدے غارتِ او برملاست لالہ می نالد کہ داغِ من کجاست اس ڈوگرہ خاندان نے برابر ایک سو سال تک اس چرب دست اور تردماغ قوم کو تمام انسانی اور اخلاقی اقدار کو پامال کرکے خاندانی راج کے شکنجے میں کس کے رکھ دیا۔ اس کی چیخ وپکار، نالہ وفریاد، آہ وزاری اور دردوکرب کی طرف کسی نے دھیان نہیں دیا۔ یہاں تک کہ 1947؁ء میں برطانوی سامراج کو جنگِ عظیم دؤم کے بعد معاشی بحران کا شکار ہوجانے کی وجہ سے متحدہ ہندوستان کو آزاد کردینا پڑا اور اس کے ساتھ ہی بالواسطہ کنٹرول میں پونے چھ سو کے قریب ریاستیں، راجواڑے اور جاگیریں ان کی ظالمانہ گرفت سے آزاد ہوگئیں مگر شومٔی قسمت سے جموں و کشمیر کے عوام کی غالب اکثریت سیاسی قیادت کی ریشہ دوانیوں اور میکا ولی سیاست کی شکار ہو کرسو سالہ ڈوگرہ خاندان کی غلامی کے بعدنوزائیدہ سامراجی قوت کے استبدادی پنجوں میں پھنسا دی گئی۔فَرَّمِنَ الْمَائِ وَقَعَ فِی الْمِیْزَاب۔’بارش سے بھاگ کر پرنالے کی زد میں آگئی۔‘ شامتِ اعمالِ ما صورتِ عبداﷲ گرفت ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۴۷ئ؁ کی بھارتی فوج کی ننگی اور کھلی جارحیت کی تائید کرنے والے اس وقت کے سارے لیڈراس جرمِ عظیم کے مرتکب اور ذمہ دار ہیں۔ مشہور ومعروف کارٹونسٹ بشیر احمد بشیر سری نگر ٹائمز۔ اپنے ایک کارٹوں میں ۴۷ کی پوری قیادت کو ایک طرف کھڑا کرتے ہیں، کشمیر کی زبان سے فریاد کرتے ہوے ایک سر برہنہ خاتون ان قائدین کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہہ رہی ہے: ’’ان ہی لوگوں نے چھینا ہے ڈوپٹہ میرا‘‘ ۱۹۴۶ئ؁ سے پہلے ہی ہندوستان کے آزاد ہوجانے اور برطانوی سامراج کے دن گنے جانے کے آثار نمایاں ہو گئے تھے۔کشمیری قیادت جو ڈوگرہ شاہی کے خلاف آواز اُٹھا رہی تھی۔انہوںنے وقت کی نبض پہچانے بغیر ’’بیع نامہ امرتسر توڑ دو کشمیر ہمارا چھوڑ دو‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔ ڈوگرہ مہاراجہ نے لیڈرشپ کو نظر بند کردیا۔ یہاں تک کہ تقسیم ہند کے بعد ستمبر۱۹۴۷ئ؁ میں اُن کو جیل سے رہا کردیا گیا۔ یہ رہائی بھی انڈین نیشنل کانگریس اور نیشنل کانفرنس کی بہت پہلے سے ملی بھگت اور ساز باز کے نتیجے میں عمل میں آئی تھی۔ ۱۹۴۶؁ء میں یہ بے محل اور بے وقت کی راگنی گانے کے بجائے متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد کے حالات پر غوروفکر اور تدبروتفحص کیا جانا چاہئے تھا۔ ڈوگرہ مہاراجہ کی سازش کیا ہوسکتی ہے؟ تقسیم ہند کی نوعیت اور ہیت کیا رہے گی؟ پونے چھ سو کے قریب ریاستوں کے مستقبل کے بارے میںحتمی طور کیا لائحہ عمل طے پائے گا؟ جموں کشمیر کے مستقبل کے بارے میں یہاں کی ۸۰ فیصد سے زائد آبادی کے رحجانات، تہذیبی، تمدنی، دینی، ملّی اور معاشی مفادات کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں اور خاص طور تقسیم ہند کے بعد نوزائیدہ دونوں مملکتوں کے تعلقات کیسے خوشگوار اور دوستانہ رہ سکتے ہیں۔ فریب کارانہ سیاست کے علمبرداروں اور برطانوی سامراج کے منصوبے اور خاکے کیا ہوں گے۔ کہیں وہ کوئی ایسی چال تو نہ چلیں کہ ہندوستان سے سیاسی طور دست بردار ہونے کے بعد بھی وہ دونوں ملکوں کے درمیان نفرت اور عداوت کے ایسے بیچ بودیں کہ پھر دونوں ملکوں کو استعماری پنجہء استبداد سے نجات حاصل کرنے کے بعد بھی آپس میں ہی دست بہ گریبان نہ کریںاور مادی اور سیاسی قوت کو تعمیر وترقی کے کاموں میں استعمالی لانے کے بجائے باہمی جنگ وجدل میں ضائع کرنے کی راہ اختیار نہ کریں۔ یہی سب کچھ ہوا اور وجہ صرف اور صرف جموں کشمیر کا مسئلہ بنا۔ ۱۹۴۹ئ؁ سے ۱۹۵۳ئ؁ تک مجاہد منزل میں قیام کے دوران میں، میں نے اکثر وبیشتر لیڈران کرام سے سنا کہ ۱۹۴۶ئ؁ کا نعرہ بے وقت و بے محل تھا۔ ہمیں تقسیم ہند کا انتظار کرنا تھا اور بعد کے حالات پر سوچ بچار کرنا چاہئے تھا۔ بعد کے حالات تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔۶۰ سال گذرجانے کے بعد نہ تو مسئلہ کشمیر کا کوئی مستقل اور پائیدار حل تلاش کیا جاسکا ہے نہ بھارت اور پاکستان کے درمیان پائیدار اور حقیقی امن کی بنیادیں رکھی جاسکتی ہیں۔ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنائے جانے کے بعد بھی امن وآشتی اور دوستی اور برادری کا وہ ماحول دیکھنے میں نہیں آرہا ہے جس کی تینوں ملکوں کے عوام کو ضرورت تھی۔ اس ساری صورتِ حال کی وجہ صرف اور صرف مسئلہ کشمیر ہے۔ بھارت طاقت کی بنیاد پر قابض ہے۔ نہ خطہ کے عوام کی اکثریت اور نہ پاکستان جبری قبضہ کو تسلیم کرتے ہیں اور جب تک بھارت قومی اور بین الاقوامی سطح پر کئے گئے وعدوں کو ایفاء کرتے ہوئے، حقِ خودارادیت کی بنیاد پر اس رستے ناسور کو مندمل کرنے کا اقدام نہیں کریگا اُس کا قبضہ غیرقانونی، غیر اخلاقی، غیر جمہوری، غیر انسانی ہی رہیگا اور اس کے خلاف مزاحمت ہمیشہ جاری رہے گی۔ انشاء اﷲ! دہقان وکشت و جوئے وخیابان فروختند قومے فروختند وچہ ارزاں فروختند! مجلس اقوام کی موجودگی میں یہ سب کچھ ہوا اور وہ ’’ٹُک ٹُک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ کی عملی تصویر تھی۔ آج ساٹھ سال گذر چکے۔ ۱۹۴۵ئ؁ میں مجلس اقوام کا نام بدل کر اقوام متحدہ کے نام سے عالمی اتحاد کا نیا ڈرامہ رچایا گیا اس کا بھی برابر وہی حال ہے جو آنجہانی مجلس اقوام کا تھا۔ اس کا چارٹر انسانی حقوق کا بہترین نمونہ اور ضمانت ہے مگر عملاً وہی کچھ ہورہا ہے جو طاقت ور ممالک چاہتے ہیں۔ اس کی بنیادی خرابی یہ ہے کہ پانچ جوہری طاقتوں کو ویٹو پاور حاصل ہے۔ وہ کوئی بھی ایسا ریزولیشن پاس نہیں ہونے دیتے اور نہ کوئی اقدام کرنے دیتے ہیں جو اُن کے اپنے مفادات کے خلاف ہو۔ انسانی حقوق کی ضمانتیں کاغذ پر موجود ہیں۔ مگر عملاً پوری عالمی برادری ان حقوق کی پامالی کی شکار ہے۔ دُنیا کے کونے کونے اور گوشے گوشے میں انسانی خون کی ارزانی اور دلدوز مناظر دیکھنے میں آرہے ہیں۔ ادارہ اقوامِ متحدہ عضوِ معطل بن چکا ہے۔ اس طویل تاریخ کو اقبال مرحومؒ نے اپنے ایک شعر میں سمودیا ہے جیسے سمندر کو کوزے میں بھردیا ہو۔ غیرِ حق چوں ناہی و آمر شود زورور برناتواں قاہِر شود اﷲ ربّ کائینات کے بغیر جب بھی کوئی انسان، کوئی پارلیمنٹ کوئی ڈکٹیٹر حکم دینے والا بن جائے تو اُس کا نتیجہ صرف اور صرف یہ نکلتا ہے کہ طاقت ور کمزور پر جابراور قاہربن کر قابض ہوتا ہے۔ فلسطین، لبنان، عراق، افغانستان، چچنیا، پاکستان ، برما، جموں کشمیر اس کی زندہ اور خون بہاتی ہوئی مثالیں ہیں۔ زندہ رود: شاہِ ہمدانؒ سے سوال کرتے ہیں۔ گفتئہٖ از حکمتِ زشت و نکوئے پیرِ دانا نکتہء دیگر بگوئے مرشدِ معنیٰ نگاہاں بودئہ ا محرمِ اسرارِ شاہاں بودئہ ا مافقیرو حکمراں خواہد خراج چیست اصلِ اعتبار تخت وتاج؟ آپ نے نیک وبد کی تخلیق میں حکمتِ ایزدی سے آگاہی بخشی۔ زیرک و دانا پیر بزرگ کچھ اور نکات بھی فرمائیے۔ آپ نگاہوں کے راز اور معانی کی رہبری اور رہنمائی فرمانے والے ہیں۔ بادشاہوں اور حکمرانوں کے راز اور اسرار بھی آپ کی نگاہِ نکتہ بین کے سامنے واضح اور مبرہن ہیں۔ یہاں حضرت شاہِ ہمدانؒ کی تصنیف ذخیرۃ الملوک کی طرف اشارہ ہے جس میں انہوں نے بادشاہوں اور سربراہان مملکت کے سامنے حکومت چلانے اور اپنے ماتحت لوگوں اور انسانوں کو عدل وانصاف، مساوات و برابری اور زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کے خدوخال اور آداب واطوار سکھائے ہیں۔ یہ بہت ہی اہم تصنیف ہے جو فارسی زبان میں ہے۔ ہم لوگ یعنی عوام محتاج، دست نگر اور اکثروبیشتر حاجت مندی کی صورتِ حال سے دوچار ہوتے ہیں۔ لیکن ایسے حال میں جو ہمارے حکمران ہوتے ہیں وہ ہم سے خراج طلب کرتے ہیں جیسے ڈوگرہ راج میں کشمیر کے مظلوم عوام سے چمنی لگانے، کھڑکی بنانے، پھر بکریاں پالنے پر بھی ٹیکس لگائے جاتے تھے۔ بیگار لینے یعنی بغیر اُجرت اور مزدوری دئے سرکاری کام کرنے اور رسد کا سامان گریز، لداخ اور سرحدی علاقوں تک پہنچانے کے لئے کشمیری مسلمانوں کے کندھوں پر بوجھ اُٹھائے موت کے منہ میں جانے پر مجبور کردیا جاتا تھا۔ آپ حکمرانی کے اسرار ورموز سے واقف ہیں۔ ہمیں بتائیے کہ تخت وتاج کی اصل حقیقت کیا ہے؟ ’’زندہ رود‘‘ کی طرف سے پوچھے گئے ان سوالات کا جواب حضرت شاہِ ہمدانؒ دیتے ہیں۔ شاہِ ہمدانؒ اصلِ شاہی چیست اندر شرق و غرب؟ یا رضائے اُمتاں یا حرب و ضرب فاش گویم باتو اے والا مقام باج را جز با دوکس دادن حرام! یا اُولی الا مرے کہ ’’منکم‘‘ شانِ اوست آیئہ حق حجت و برہانِ اوست یاجواں مردے چو صر صر تند خیز شہر گیرو خویش باز اندر ستیز روزِ کیں کشور کُشا از قاہری روزِ صلح از شیوہ ہائے دلبری می تواں ایرانؔ و ہندوستاؔن خرید پادشاہی را زکس نتواں خرید جامِ جم را اے جوانِ با ہنر کس نگیردِ از دُکانِ شیشہ گر وربگیرد مالِ اُو جُز شیشہ نیست شیشہ را غیر از شکستن پیشہ نیست مشرق ومغرب میں حکمرانی اور پادشاہی کے حصول کی صرف دو صورتیں اور شکلیں ہیں۔ یاتو لوگوں کی مرضی انتخابات کے ذریعہ حاصل کرکے اقتدار تک پہنچا جاسکتا ہے یا فوجی طاقت کی بنیاد پر جنگیں لڑ کر زمینوں پر قبضہ اور لوگوں پر حکمرانی مسلط کردی جاتی ہے۔ اے بلند مرتبت سائل (اقبالؒ) میں آپ سے بغیر کسی ابہام اور شک و ریب کے کہدیتا ہوں باج اور خراج صرف دو شخصوں کو ہی دیا جاسکتا ہے یا وہ اولی الامر، جس کی شان اور پہچان ’’منکم‘‘ ہو۔ اس کے لئے اﷲ تعالیٰ کی آیت حجّت اور دلیل کی حیثیت سے پیش کی جاسکتی ہے۔ {یَاَیُّھَاالَّذِینَ آمَنُوٓااَطِیْعُوااﷲَ وَاَطِیْعُواالرَّسُوْلَ وَاُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ} ترجمہ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اﷲ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں۔‘‘ (النسائ:۵۹) حضرتِ شاہِ ہمدانؒ نے اسی آیت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اﷲ اور اﷲ کے آخری رسولؐ کی اطاعت کے بعد اُن لوگوں کی اطاعت کی تلقین اور تعلیم دی جاتی ہے جو اﷲ اور رسولؐ کی اطاعت کرنے والے ہیں اور پھر اہل ایمان کی رضامندی سے صاحبِ امر بنائے جائیں۔ اس کے بغیر اہل ایمان کے لئے کسی حاکم، بادشاہ یا آمر کی اطاعت واجب نہیں ہے اور نہ اُن کو خراج، ووٹ، سپورٹ اور تعاون دیا جاسکتا ہے۔ آج پوری ملّت کی سطح پر یہ معیار نظر انداز کردیا گیا ہے جس کے نتیجے میں اُمت پر کہیں فوجی طاقت کے سہارے اور کہیں ووٹ شماری کے سہارے تسلط قائم کردیا جاتا ہے اور اطاعت اﷲ واطاعتِ رسولؐ کی حدود سے باہر ایسے قوانین بنائے جاتے ہیں جو قرآن وسنت اور اسلامی تعلیمات کے منافی ہوتے ہیں۔ پھر بھی مسلمان ان کی اطاعت کرتے ہیں۔ ان کو ووٹ دیتے ہیں۔ ان کے لئے زندہ باد کے نعرے بلند کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی خوشنودی رضامندی حاصل کرنے کے لئے یا دنیوی مفادات کے لئے، جانیں تک قربان کردی جاتی ہیں۔ گلہء جفائے وفانما جو حرم کو اہل حرم سے ہے کسی بتکدے میں بیان کروں تو کہے صنم بھی ہری ہری اقبالؒ حالانکہ مسلمان کو غیر مبہم الفاظ میں بتایا گیا ہے۔ لاَطَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِی مَعَصِیَۃ الخالق ’’اﷲ تعالی کی نافرمانی کے کام میں کسی مخلوق کی اطاعت حرام ہے۔‘‘ اُولیٰ الامر کے بعد اگر کسی کو خراج اور باج ادا کیا جاسکتا ہے وہ ایسا جوان، یا جوانوں کا گروہ ہے جو تیز ہواؤں کی طرح سائحون، گھومنے پھرنے والے ہوں۔ اﷲ کے دین کیلئے، اعلائِ کلمۃ اﷲ کے لئے اور ظلم وجبر اور استحصال واستبداد کے خلاف سرگرم عمل اور متحرک وفَعّال ہوں۔ ایک طرف اﷲ کے بندوں تک پہنچے اﷲ کی بندگی کے دائرے میں قَریہ قَریہ اور شہر شہر کو لانے کے ساتھ ساتھ اپنے نفس کو بھی اﷲ کی اطاعت کا پابند بنانے کے لئے معرکہ آرائی کررہا ہو۔ ایسے جواں مردوں کی دیگر صفات یہ ہیں کہ وہ باطل اور ظالم قوتوں اور طاقتوں کے ساتھ جنگ اورستیزہ کاری کے روادارہوں۔ وہ پوری قوت، طاقت، پامردی اور ثابت قدمی کے ساتھ سرفروشی کا کردار ادا کررہے ہوں اور صلح، امن کی بات ہو، تو اس مرحلے پر بھی اِن جوانوں کو دلبری اور دلجوئی میں سبقت لینے والے پایا جائے۔ ایران، ہندوستان اور دیگر ممالک کو خریدا جاسکتا ہے۔ لیکن پادشاہت، سرداری اور سربراہی کو خریدا نہیں جاسکتا ہے۔ اس کے لئے جو اوصاف مطلوب ہیں جب تک اُن اوصاف اور خدوخال کے حامل انسان تیار نہ ہوجائیں ملکوں اور قوموں کی سربراہی کا عظیم منصب اُن کو نہیں دیا جاسکتا ہے۔ جمشیدبادشاہ کا جام، جس میں کہا جاتا ہے کہ ساری دُنیا کا نقشہ دیکھا جاتا تھا۔ اے ہنرمند، ذہین وفطین نوجوان کسی شیشہ گرکی د کان سے خریدا نہیں جاسکتا ہے۔ اگر کوئی خرید بھی لے تو اُس کی حیثیت شیشہ کے بغیر کچھ اور نہیں ہے اور تم جانتے ہو کہ شیشہ کا انجام اور مآل شکست و ریخت کے بغیر کچھ اور نہیں ہے ملا طاہر غنی کشمیریؒ ہند را ایں ذوقِ آزادی کہ داد؟ صید را سودائے صیّادی کہ داد؟ آں برہمن زادگانِ زندہ دل لالہء احمر زِ روئے شاں خجل! تیز بین و پختہ کار و سخت کوش از نگاہِ شاں فرنگ اندر خروش! اصلِ شاں از خاکِ دامنگیرِ ماست! مطلعِ ایں اختراں کشمیرِ ماست! خاکِ مارا بے شرر دانی اگر بر درونِ خود یکے بکشا نظر! ایں ہمہ سوزے کہ داری از کجاست؟ ایں دمِ بادِ بہاری از کجاست؟ ایں ہماں باد است کز تاثیرِ اُو کوہسارِ مابگیرد رنگ وبُو! ہندوستان کو آزادی کے حصول کا ذوق، شوق، جذبہ اور ولولہ، کس نے دیا؟ شکار کو شکاری کا حوصلہ اور تمنا کس نے دیا؟ وہ برہمن زادگان، کشمیری پنڈتوں اور برہمنوں کی اولاد، زندہ دل، اُن کے چہروں کی سرخی، خوبصورتی دیکھ کر گلِ لالہ بھی شرمندہ ہوجاتا ہے۔ گل لالہ کی سرخی تمام پھولوں کی جنس میں نمایاں اور ممیز ہے۔ دور اندیش، پختہ کار اور پختہ ذہن، محنتی اور سخت کوش، اُن کی دور بینی اور پختہ فکری سے برطانوی سامراج جو ہندوستان پر قابض ہے پریشان اور فکر مند ہیں ان کی اصل سرزمین کشمیر ہے جو ہمارا وطن اور ہمارے لئے سامانِ کشش ہے۔ ان چمکتے ستاروں کا مطلع، طلوع ہونے کی جگہ، ہمارا کشمیر ہے۔ اقبالؒ اگر تم ہماری سرزمین اور ہماری خاک کو فسردہ اور بے شررپا رہے ہو یعنی یہاں آپ کو کسی انقلاب کی توقع نہیں ہے اور یہاں کے لوگوں کو تم غلامی پر قانع دیکھ رہے ہو توذرا اپنے آپ کو دیکھو۔ آخرآپ بھی اسی سرزمین سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ میں یہ سوز وساز، یہ تب وتاب، یہ اضطراب، یہ فکر اور یہ ولولہ کہاں سے آگیا ہے؟ یہ بادِ بہاری، جو تیرے کلام اور جذبہ درون سے ٹپک رہی ہے۔ کہاں سے آگئی ہے؟ یہ اس سرزمین کے اثرات ہیں جس طرح انگریزوں کی غلامی کے خلاف ہندوستان میں آواز اُٹھانے والے ہیں، وہی خون آپ کی رگوں میں بھی دوڑ رہا ہے۔ اقبالؒ یہ وہی ہوا ہے جس کی تاثیر سے ہمارے کوہسار رنگ وبو حاصل کرتے ہیں۔ ان اشعار میں ملا طاہر غنی کشمیریؒ نے آنجہانی پنڈت جواہر لال نہرو کی طرف اشارہ کیا ہے جو برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہدِ آزادی کے سرخیل اور صفِ اول کے لیڈر اور قائد تھے۔ مگر افسوس، صد افسوس، آنجہانی نہرو نے برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کرنے کے بعد جو پالیسی اور سیاست اختیار کی اُس میں وہی انداز اور طریق کار تھا جو برطانوی سامراج نے دُنیا کے اکثر وبیشتر ملکوں کو اپنی غلامی کے شکنجے میں کس کے رکھنے کے لئے اپنایا تھا۔ زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا طریقِ کو ہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی (اقبالؒ) جو حیلہ سازی اور سیاسی شعبدہ بازی، برطانوی سامراج کی خصوصیات تھیں وہی حیلے اور وہی شعبدہ بازی بھارت کے لیڈروں نے آزادی حاصل کرنے کے بعد اختیار کی۔ آنجہانی پنڈت نہرو بھی برطانیہ میں ہی تعلیم حاصل کرچکے تھے۔ اُن کا ذہن اور اُن کی سیاست وہی تھی جو برطانیہ کا خاصہ تھا۔ ہاتھوں اور چہروں کے بدلنے سے کبھی صالح اور خوشگوار انقلاب نہیں آتا ہے۔ چنانچہ ہندوستان کو آزاد ہوئے پورے ۶۰ سال گذر چکے ہیں آزادی کے بعد یہ ملک اب تین حصوں میں بٹ چکا ہے۔ تینوں حصوں میں امن وآشتی، خوشحالی اور فراغت، انسان دوستی، محبت، مروت، جان و مال، عزت اور آبرو کا تحفظ اب بھی لوگ تلاش کررہے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ۶۰ سالہ عرصے میں تناؤ اور ٹکراؤ کا جو ماحول بنا رہا اُس کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر کو متنازعہ بنانے میں آنجہانی پنڈت نہرو کا سب سے زیادہ حصہ ہے۔ تقسیم کے وقت ریڈ کلف ایوارڈ میں بددیانتی اور خیانت کے ارتکاب میں پنڈت جی کا لارڈ مونٹ بیٹن کے ساتھ گھریلو تعلقات ہونا اور اس اثرو رسوخ میں ضلع گورداسپور کا بھارت کے نقشے میں ڈالنا، انڈین نیشنل کانگریس اوربرطانوی سامراج کی مشترکہ کوشش تھی ورنہ تقسیم ہند کی بنیادوں کی رُو سے جموں کشمیر کے خطے کا بھارت کے ساتھ ملایا جانا کسی طرح بھی اُن بنیادوں کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ حیدرآباد اور جونا گڑھ پر قبضہ کرنے کیلئے جو دلیلیں پیش کی گئی تھیں وہی معیار اور اصول جموں کشمیر کے بارے میں اختیار کیا گیا ہوتا تو اس پورے خطے کا بھارت کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں بنتا تھا۔ مگر آنجہانی پنڈت نہرو چونکہ میکاولی کی فریب کارانہ سیاست کے علمبردار تھے۔ اس لئے دیانت، امانت، سچائی اور صداقت سب اخلاقی اقدار کو پامال کرتے ہوئے لومڑی کی چال چل کر جموں کشمیر کے خطے کو ہتھیا لیا گیا۔ جو ۶۰ سال گذرجانے کے بعد عذاب اور عتاب میں مبتلا ہے۔ میں بلاخوفِ تردید یہ بات نوٹ کروانا چاہتا ہوں کہ اگر جموں کشمیر کا مسئلہ متنازعہ نہ بنایا گیا ہوتا، اگر بھارت نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر کئے گئے وعدوں کا ایفا کیا ہوتا، جموں کشمیر کے عوام کو اپنا مستقبل طے کرنے کا موقع دیدیا گیا ہوتا تو بھارت اور پاکستان کے درمیان تین جنگیں ہرگز نہ ہوچکی ہوتیں۔ بنگلہ دیش نہ بنا ہوتا۔ دونوں ملک ہتھیاروں کی دوڑ میں ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرنے میں نہ لگ چکے ہوتے، دونوں ملکوں کو جوہری طاقت بننے کی ضرورت نہ پڑتی۔ آنجہانی سویت یونین اور مغربی ممالک کو یہاں کے معاملات اور سیاست میں ٹانگ اڑانے کا بہانہ نہیں ملتا۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات خوشگوار ہوتے اور دونوں ملک عالمی سیاست میں ایک فعال اور مؤثر کردار ادا کرنے کی پوزیشن حاصل کرچکے ہوتے۔ دونوں ملک اپنے دفاعی بجٹ اور فوجی طاقت، اسلحہ کی ذخیرہ اندوزی میں، اپنے ذرائع کا بیشتر حصہ اپنے عوام کی غربت، بیماری اور ناخواندگی کو دور کرنے میں بری طرح ناکام نہ ہوچکے ہوتے۔ اب بھی دونوں ملکوں میں ۴۰ فیصد سے زیادہ لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گذارتے ہیں۔ اب بھی لاکھوں لوگ سر چھپانے کی جگہوں سے محروم فٹ پاتھوں پر کیڑے مکوڑوں کی طرح پڑے رہنے پر مجبور نہ ہوتے۔ دونوں ملکوں میں امیر لوگ، تاجر، صنعت کار، سیاست دان زیادہ سے زیادہ زندگی کی سہولتوں سے فیض یاب ہیں اور غریب طبقہ روز بروز غربت اور افلاس کی دلدل میں پھنسے چلا جارہا ہے۔ یہ صورتحال آنجہانی پنڈت نہرو کی فریب کارانہ پالسیوں کی پیداکردہ ہے۔ وہ ۱۷ سال تک بھارت کے وزیر اعظم رہے۔ سیاہ وسفید کے مالک تھے۔ اُن کی سیاست کی بنیاد اگر صداقت کے اصولوں کی تابع ہوتی تو یہ روز بہ روزکی خونریزیاں جو گذشتہ نصف صدی سے زاید عرصے سے جاری ہیں ڈیڑھ ارب عوام کو دیکھنا نہ پڑتیں۔ پنڈت نہرو کی طوطا چشمی کا تجربہ سب سے زیادہ اُن کے گہرے دوست مرحوم شیخ محمد عبداﷲ کو سہنا پڑا۔ جنہوں نے ۱۹۴۷ئ؁ کے توسیع پسندانہ عزائم کے تکمیل میں مدد دی اور ۹؍اگست۱۹۵۳ئ؁ اُنہی کے ہاتھوں گرفتار ہوکر دو دورانیوں پر مشتمل ۱۱ سال کی قیدو بند کی صعوبتوں میں مبتلا کردئے گئے۔ پھر ۲۲ سالہ جدوجہدِ آزادی کو آوارہ گردی سے تعبیر کرکے پنڈت نہرو کی بیٹی آنجہانی اندرا گاندھیؔ کے ساتھ ایکارڈ کرکے وزارتِ اعلیٰ کی لنگڑی کرسی حاصل کرلی جس نے صرف سات سال تک ہی اُن کے ساتھ وفا کی۔ اقبالؒ نے ملا طاہر غنی کشمیریؒ کی زبان سے اس ’’لالہ احمر‘‘ کی جو تعریف کی ہے وہ اُن کے سیاسی کردار اور میکاولی سیاست کے علبردار ہونے کی بنیاد پر ’’برعکس نہند نام زنگی کافور‘‘ کے مصداق ہے۔ ملا طاہر غنی کشمیری اپنا کلام اور پیغام جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ہیچ میدانی کہ روزے در وُلرؔ موجہء می گفت با موجِ دگر چند در قلزم بیک دیگر زنیم خیز تایک دم بساحل سرزینم زادئہ مایعنی آں جوئے کہن شورِ اُو در وادی و کوہ و دمن! ہرزماں برسنگِ رہ خود رازند تا بنائے کوہ را برمی کند آں جواں کو شہر و دشت و درگرفت پرورش از شیرِ صد مادر گرفت سطوتِ اُو خاکیاں را محشرے است ایں ہمہ از ماست‘ نے از دیگرے است زیستن اندر حدِ ساحل خطاست ساحلِ ماسنگے اندر راہِ ماست باکراں در ساختن مرگِ دوام گرچہ اندر بحر غلطی صبح و شام زندگی جولاں میانِ کوہ و دشت اے خنک موجے کہ از ساحل گذشت! کچھ جانتے ہو کہ ایک روز جھیل ولر میں ایک لہر نے دوسری لہر (موج) سے کہا کہ کب تک ہم پانی کے اندر (در قلزم) ایک دوسرے سے ٹکراتی اور سرمارتی رہیں۔ آجا کچھ دیر کیلئے پانی کے اندر ٹکرانے کے بجائے ساحل کے ساتھ سر ٹکرائیں۔ ہماری پروردہ یعنی وہ پرانی ندی، جس کا شورو غوغا وادی، پہاڑ اور دامنِ کوہ میں برپا ہے وہ ہر وقت اپنی راہ کے پتھروں کے ساتھ ٹکراتی ہے تاکہ وہ پہاڑوں کی بنیاد کو ہلاسکے اور ڈھاسکے۔ وہ جواں جو شہر، قریہ اور دشت کو اپنی گرفت میں لاتا ہے۔ جس نے سینکڑوں ماؤں کے دودھ سے پرورش پائی ہے اُس کا دبدبہ اور رُعب، زمین والوں کے لئے محشر سامان ہے۔ یہ سب کچھ ہماری وجہ اور ہماری برکت سے ہے۔ کسی اور کی وجہ سے، کسی اور کے سہارے اور مدد سے نہیں ہے۔ ساحل کے اندر جینا اور زندہ رہنا خطا ہے۔ ساحل ہماری منزل کی راہ میں سنگِ گران یعنی رکاوٹ ہے۔ کنارے کے ساتھ نبھاہ کرنا مرگ مسلسل ہے اگرچہ تم سمندر میں صبح وشام پیچ وتاب میں ہی رہے گی۔ زندگی پہاڑوں اور صحرائوں کے درمیان ایک میدان ہے ۔ کیا خوب اور لائق صد تحسین ہے وہ موج جو ساحل پر ٹھہرے بغیر سمندر کی لہروں سے ٹکراتی اور ساحل کی عافیت کوشی پر قناعت نہیں کرتی ہو۔ ان اشعار کی روح اور مغزیہ ہے کہ ٹکراؤ اور کشمکش سے گریز، فرد اور قوموں کیلئے پیغام مرگ ہے۔ جو قومیں تن آساں عافیت کوش اور زندگی کے تقاضوں سے گریزِ ان رہتی ہیں وہ ہمیشہ ذلّت اور غلامی کی دلدل میں پڑی رہتی ہیں اور کبھی عزت، وقار اور سربلندی کا مقام حاصل نہیں کرپاتی ہیں۔ اے کہ خواندی خطّہِ سیمائے حیات اے بہ خاور دادہ غوغائے حیات اے ترا آہے کہ می سوزد جگر توازو بے تاب و ما بے تاب تر! اے زتو مرغِ چمن را ہائے دہُو سبزہ از اشک تومی گیرد وضو! اے کہ از طبعِ تو کشتِ گل ومید اے زامیدِ تو جانہا پُر اُمید! کاروانہا را صدائے تودرا تو زِ اہل خِطّہ نومیدی چرا؟ اے وہ (اقبالؒ)! جس نے زندگی کے نقرئی خط کو پڑھا ہے۔ اے وہ! جس نے مشرق میں نغمہ زندگی چھیڑ کر شوروشیون پیدا کیا ہے۔ اے وہ کہ تمہاری آہ میں جگر سوزی کا عنصر موجود ہے۔ اس سوز جگر سے تم (اقبالؒ) بے تاب ہو اور ہم (غنی کشمیریؒ) بیتاب تر ہیں۔ تیری وجہ سے چمن کے پرندوں میں نیا جوش وولولہ پیدا ہوا ہے۔ پرندوں میں شوروغوغا کی آوازیں، چہک اور پھڑک تیرے ولولہ انگیز کلام سے پیدا ہوئی ہے۔ تیرے درد بھرے اور پُرسوز آنسوؤں سے سرزمین وطن کا سبزہ وضو کررہا ہے۔ یعنی اُس میں طراوت اور تازگی پیدا ہوجاتی ہے۔ تیری طبع آزمائی سے یعنی تیرے انقلاب آفرین اور ہنگامہ خیز کلام سے یہاں کی سرزمین پر پھولوں کی کھیتی اگ آئی ہے۔ تیری اُمید دلانے سے یہاں کے مایوس لوگوں کی اُمیدیں جاگ اٹھی ہیں۔ ہمارے قافلہ اور محوِ سفر کا روانوں کے لئے تیری آواز، درا ہے۔ گھنٹی کی آواز، کارواں میں ولولہ اور ذوقِ سفر پیدا کرتی ہے۔ ایسے پسِ منظر میں آپ اہل خطہ یعنی کشمیر کے عوام سے نا اُمید کیوں ہیں؟ دل میانِ سینئہ شاں مردہ نیست اخگرِ شاں زیریخ افسردہ نیست! باش تابینی کہ بے آوازِ صُور ملّتے بر خیزِد از خاکِ قبور! غم مخور اے بندئہ صاحبِ نظر برکش آں آہے کہ سوزد خشک و تر شہر ہا زیرِ سپہرِ لاجورد سوخت از سوزِ دلِ درویش مرد سلطنت نازک تر آمد از حباب از دمے اُو را تواں کردن خراب از نوا تشکیلِ تقدیرِ اُمم از نوا تخریب و تعمیرِ اُمم نشترِ تُو گرچہ در دلہا خلید مر ترا چونانکہ ہستی کس ندید! پردئہ تو از نوائے شاعری است آنچہ گوئی ماورائے شاعری است! تازہ آشوبے فگن اندر بہشت! یک نوا مستانہ زن اندر بہشت! اقبالؒ !ہمارے لوگوں یعنی کشمیری قوم کے سینوں میں دل مردہ نہیں ہے۔ اُن کے ایمان اور جذبہ آزادی کی آگ کے انگارے برف کی سلّوں سے سرد نہیں ہوگئے ہیں۔ چلہ کلان، چلہ خورد اور چلہ بچہ کی یخ بستہ ہواؤں میں بھی اُن کے جذبات گرم اور متحرک ہیں۔ وہ غلامی کے خلاف برسر جدوجہد ہیں۔ ملا طاہر غنیؔ اقبالؒ کی مایوسیوں اور ناامیدیوں کو دور کرنے کیلئے ایمان وایقان کا درس دیتے ہیں۔ اقبالؒ! ٹھہروجاؤ، قیام کرو! صبر اور استقامت کا مظاہرہ کرو۔ دیکھتے جاؤ، تم دیکھ لو گے کہ بانگ اسرافیل کے بغیر ہی یہ قوم اُس طرح اُٹھے گی جس طرح محشر کے روز لوگ قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اے بصیرت رکھنے والے! غم و اندوہ کا شکار نہ ہوجایئے۔ ایسی آواز بن جائیے جو دل کی گہرائیوں سے اُبھرے اور اُس میں اتنا جوش، جذبہ اور ولولہ ہو کہ خشک وتر خاکستر ہوجائے۔ یعنی گردوپیش میں انقلاب کی لہر دوڑ جائے۔ اس لاجورد آسمان کے تلے شہرہا اور قریہ ہا کو خدادوست، خدا پرست درویشوں اور دردِ دل رکھنے والی آوازوں نے تلپٹ کرکے رکھدیا ہے۔ یہ جو حکومتیں اور سلطنتیں ہوتی ہیں یہ پانی کے بلبلوں کی حیثیت رکھتی ہیں بلکہ اس سے بھی کمزور تر! ان کو ایمان وایقان کی بنیاد پر سوزو درد سے پُر دل سے نکلنے والی آہوں سے مٹایا اور نیست ونابود کیا جاسکتا ہے۔ آوازوں اور صدائے درد مندانہ سے اُمتوں کی تقدیر تعمیر کی جاسکتی ہے۔ بعض پُرسوز صداؤں سے امتیں تعمیر ہوتی ہیں اور بعض صداؤں سے امّتوںکی تخریب ہوتی ہے۔ اگرچہ آپ کے صدائے درد مندانہ اور دل کی گہرائیوں سے نکلنے والے تیرو نشتر سے دلوں میں خلش پیدا ہوجاتی ہے۔ لیکن تمہاری حقیقت کو کسی نے نہیں سمجھا یعنی تجھ جیسے انسان کو کسی نے نہیں دیکھا ہے۔ حیات بخش باطل شکن اور حق نواز، شاعری تیرے دل کے احساسات اور جذبات کے لئے ایک پردہ ہے۔ یعنی کچھ لوگ آپ کو محض شاعر سمجھتے ہیں۔ مگر فی الحقیقت جو کچھ آپ اپنی شاعری کے ذریعہ پیغام دے رہے ہیں وہ عام شاعری سے ماوراء ہے۔ اقبالؒ کو خود بھی اس کا گلہ اور شکوہ تھا کہ لوگ میرے پیغام کو کم سمجھتے ہیں اور مجھے محض شاعر سمجھ کر اتنی اہمیت اور مقام نہیں دیتے ہیں جو میرے حیات بخش پیغام کا تقاضا ہے۔ من اے میرے اممؐ داد از تو خواہم مرا یاراں غزل خوانے شُمردند اس جنتِ نظیر، بہشت میں تازہ انقلاب لانے کا آغاز کر اور اس بہشت میں مستانہ وار اپنی آواز اور صدائے درد مندانہ بلند کر! ڈوگرہ شاہی کے استبدادی دور میں ملا طاہر غنیؒ اور علامہ اقبالؒ کے ان جذبات اور احساسات کا مظاہرہ سب سے پہلے ۱۹۲۴ئ؁ میں ریشم خانہ کی تحریک سے ہوا تھا۔ پھر ۱۹۳۱ئ؁ میں قرآن پاک کی توہین کے خلاف مجروح جذبات کی صدائے بازگشت، ۱۳؍جولائی کو خونین رنگ اختیار کر گئی جب عبد القدیر خان کے مقدمے کی سماعت کے دوران میں، سرینگر سنٹرل جیل کے احاطے میں جمع ہوئے لوگوں نے احتجاج کیا۔ ڈوگرہ فوج نے اُن پر بے تحاشا گولیاں برسائیں اور ۲۲ نہتے افراد کو شہید کردیا۔ ان شہداء کے جسد ہائے خاکی بھی نقشبند صاحبؒ کی تربت کے صحن میں آرام فرما ہیں۔ ان شہداء کے مقدس خون کے ساتھ قیادت نے انصاف نہیں کیا۔ اس شہادت کا پسِ منظر صرف اور صرف اسلامی اور دینی جذبہ تھا۔ اس جذبے اور مقصدِ شہادت کا پاس ولحاظ رکھا جاتا تو ۱۹۳۸ئ؁ میں مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں تبدیل نہ کردیا گیا ہوتا۔ یہ محض تنظیم کا نام بدلنے کا عمل نہیں تھا بلکہ ایک خالص دینی اور اسلامی نظریہ کو سیکولر اور لادین نظریہ سے بدلنا تھا۔ کیونکہ نیشنل کانفرنس کی قیادت انڈین نیشنل کانگریس کے نظریہ اور پالیسی کی ہم نوا بن چکی تھی اور وہ اعلاناً دو قومی نظریہ کی مخالفت کرتے تھے اور کانگریس کے نظریہ وطنیت کا علمبردار بن چکی تھی۔ مسلم کانفرنس کی قیادت کو نظریہ کی بنیاد پر جس ہمت اور عزم کے ساتھ اس تبدیلی کی مخالفت اور مزاحمت کرنا چاہئے تھی وہ اُس کا حق ادا نہیں کرسکی۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد جموں کشمیر کو ۸۵ فیصد مسلم اکثریت کے بعد بھی بھارت کی غلامی کے چنگل میں پھنسانے کا آغاز میرے نزدیک ۱۹۳۸ئ؁ میں ہی ہوا تھا۔ لادین سیاست کی علمبردار، اس قیادت نے ملّت کے ساتھ اپنی بے مہری اور لاتعلقی کا مظاہرہ اُس وقت کیا جب اکتوبر، نومبر ۱۹۴۷ئ؁ میں صوبہ جموں میں ایک منصوبہ بند طریقے پر لاکھوں مسلمانوں کو تہہ تیغ کردیا گیا۔ اس قیادت کی غیرت نے اس خونین سانحہ کو کیسے دیکھا؟ برداشت کیا؟ اس کے خلاف کوئی موثر احتجاج نہیں کیا۔ بھارت کی غلامی کا قلادہ گردنوں سے اُتار کر پھینک نہ دیا۔ اور بھارت کی حکومت، فوج اور فرقہ پرست ہندو انتہا پسند تنظیموں کو نامزد کرکے جموں کشمیر کے عوام کو منظم کرکے مستقبل کے خطرات کا اندازہ کرکے تحفظ کا کوئی اقدام نہیں کیا؟ بجا فرمایا ہے حکیم الامتؒ نے ملّتے را ہر کجا غارت گرے است اصلِ اُو از صادقےؔ یا جعفرےؔ است الاماں از روحِ جعفرؔ الاماں الاماں از جعفرانِؔ ایں زماں! بارگاہِ الٰہی میں اقبالؒ کی رازجوئی و رازدانی: گرچہ جنت از تجلّی ہائے اوست جاں نیا ساید بجز دیدارِ دوست! ما زِ اصلِ خویشتن در پردہ ایم طائریم و آشیاں گُم کردہ ایم! علم اگر کج فطرت و بدگوہر است پیشِ چشمِ ما حجابِ اکبر است علم را مقصود اگر باشد نظر می شود ہم جادہ وہم راہبر می نہد پیشِ تو از قَشرِ وجود تا تو پُرسی چیست رازِ ایں نمود جادہ را ہموار سازد ایں چنیں شوق را بیدار سازد ایں چنیں درد و داغ و تاب و تب بخشد تُرا گریہ ہائے نیم شب بحشد تُرا روحِ اقبالؒ بہشت بریں میں محوِ سفر تھی اور مقتدر ارواح کے ساتھ ہم کلام تھی۔ مگر اس کے باوصف اُن کو جنت میں مولائے کریم کے دیدار کی چاہت اور خواہش تھی۔ اگر یہ حقیقت اُن کے سامنے روشن تھی کہ جنت ربّ کائینات کی تجلیات ہی میں سے ہے لیکن روح کو دیدار اِلٰہی کے بغیر راحت اور آسائش نصیب نہیں ہوتی ہے۔ ہم اپنی اصل اور اپنی حقیقت سے بے خبر اور پردے میں ہیں۔ ہم ایسے پرندے ہیں جو اپنے گھونسلے کو گُم کرچکے ہیں۔ دُنیا کی زندگی میں ہم جو علم حاصل کرتے ہیں اگر وہ معرفتِ اِلٰہی میں مددگار اور رہنما ثابت نہ ہوسکے تو وہ کج فطرت اور بدگوہر ہے۔ یعنی اپنے خالق اور مالک کی پہچان حاصل کرنے میں بندے اور طالب علم کی رہنمائی نہیں کرتا ہے۔ ایسا علم ہماری نگاہوں میں بہت بڑا حجاب اور پردہ ہے۔ جیسا کہ آج کی دُنیا میں علم نے برابر یہی صورت اختیار کرلی ہے کہ وہ آسمان کی فضاؤں اور زمین کی گہرائیوں کی توسیر کراتا ہے لیکن اس علم سے انسان نہ اپنے وجود کی حقیقت کو جانتا ہے اور نہ ہی اپنے خالق اور مالک کو پہچان کر اُس کی بندگی کا راستہ قبول کرتا ہے۔ اگر علم سے مقصود نظر، یعنی معرفتِ نفس اور معرفتِ ربّ ہو تو یہ علم راستہ بھی بنتا ہے اور رہبر بھی بنتا ہے۔ یعنی انسان کی دنیوی زندگی میں صراطِ مستقیم کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور دُنیا میں زندگی گذارنے کے لئے ضابطہ حیات بھی دیتا ہے اور قدم قدم پہ رہنمائی کا فریضہ بھی ادا کرتا ہے۔ تمہارے سامنے اپنے وجود کا چھلکا رکھتا ہے تاکہ تمہارے لئے سوال پیدا ہوجائے کہ اس نمود اور اظہار کا راز کیا ہے؟ اس طرح تمہارے لئے راستہ ہموار بنادیتا ہے اور تمہارے شوق، ولولہ اور جستجو کی تلاش کا جذبہ اُبھارتا ہے۔اس طرح ربّ کائینات تمہارے اندر ، درد، جذبہ، تابندگی اور اضطراب پیدا کرتا ہے اور اس کی زندہ اور مرئی علامت کیا ہوتی ہے کہ تم کو گر یہ نیم شبی کی سعادت اور تڑپ عطا کی جاتی ہے۔ خالقِ کائینات کو اپنے بندے کی گریہ نیم شبی بہت ہی پسند اور مرغوب ہے۔ اس لئے اس طرزِ بندگی سے اُس کے دل کا گداز اُجاگر ہوتا ہے اور اس کی بندگی کے اثرات اشکوں کی صورت میں آنکھوں سے ٹپکنے لگتے ہیں جس طرح ماں بچے کی ضد کے وقت اس کے رونے کی ادا سے بے باکانہ اُس کی طرف توجہ کرکے اُس کو اپنی گود میں دبوچ لیتی ہے اور پیار سے اُس کے ماتھے اور رخساروں کو چومتی ہے۔ یہی انداز ربّ ذولجلال کا اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہے۔ گریہ نیم شبی میں شیشہ دل ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے اور اس حال میں یہ دل بہت محبوب بن جاتا ہے۔ جیسے شاعرِ مشرق نے فرمایا ہے تو بچا بچاکے نہ رکھ اسے، تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں ٭٭٭٭٭ علم تفسیرِ جہانِ رنگ و بُو دیدہ و دل پرورش گیرد ازو بر مقامِ جذب و شوق آرد تُرا باز چوں جبرئیل بگدازد تُرا! عشق کس را کے بخلوت می بُرد او زِ چشمِ خویش غیرت می برد! اوّلِ اُو ہم رفیق و ہم طریق آخرِ اُو راہ رفتن بے رفیق! علم اس رنگین دُنیا کی تفسیر بتاتا ہے۔ یعنی اس کی حقیقت اور اس کے صانع اور خالق کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ کیونکہ تفسیر کسی چیز کی گرہ کُشائی کا نام ہے۔ اس طرح اس رنگ وبو کی دُنیا کی تفسیر علم ہے اور اس علم سے دیدہ ودل کی پرورش، پرداخت اور نشونُما ہوتی ہے۔ یہ علم تجھے جذبہ اور شوق کی دُنیا اور مقام پر لے آتا ہے اور پھر تجھے جبرئیل کی طرح گذارتا ہے۔ جو تمہیں اس جذبے اور شوق کے جواب میں عرش برین سے ہدایت اور رہنمائی کا پیغام لاتا ہے۔ جبرئیل کو سپرد کرنے کا مطلب یہی ہے کہ بندہ براہِ راست ربِّ ذولجلال سے ہم کلام نہیں ہوسکتا ہے۔ بندے اور معبود کے درمیان رشتے کی جو کڑی ہے وہ حضرت جبرئیلؑ ہیں۔ عشق کسی کو کب خلوت میں لے جاتا ہے؟ وہ نگاہوں سے غیرت لے لیتا ہے۔ اس کی ابتداء یہ ہے کہ رفیق بھی ہے اور راستہ بھی، اور انتہا یہ ہے کہ منزل کی طرف بغیر کسی رفیق اور رہبر کے یکہ وتنہا سفر جاری رکھنے کا عزم اور حوصلہ عطا کرتا ہے۔ نگاہوں سے غیرت لینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ربّ ذولجلال کے دربار میں جرأت دید پیدا کرتا ہے۔اس رنگین نوا شاعر نے اسرار معراج کو نہایت ہی معنی خیز انداز میں شعر کا لباس پہنایا ہے۔ درگذشتم زاں ہمہ حور و قصور زورقِ جاں باختم در بحرِ نور! غرق بودم در تماشائے جمال ہر زماں در انقلاب و لایزال! گم شُدم اندر ضمیرِ کائینات چوں رباب آمد بچشمِ من حیات! آنکہ ہر تارش رباب دیگرے ہر نوا از دیگرے خونین ترے! ماہمہ یک دُو دمانِ نار و نور آدم و مہرومہ و جبرئیل و حور! پیشِ جاں آئینہء آویختند حیرتے را با یقین آمیختند! صبحِ امروزے کہ نورش ظاہر است در حضورش دوش و فردا حاضر است! حق ہویدا باہمہ اسرارِ خویش بانگاہِ من کند دیدارِ خویش! دیدنش افزودنِ بے کاستن! دیدنش از قبرِ تن بر خاستن! عبد و مولا در کمینِ یک دگر ہر دو بے تاب اندازِ ذوقِ نظر! زندگی ہر جاکہ باشد جستجو است! حل نشدایں نکتہ من صیدم کہ اوست! عشق جاں را لذّتِ دیدار داد باز بانم جرأت گفتار داد اے دو عالم از تُو بانور و نظر اند کے آں خاکدانے را نگر بندئہ آزاد را ناساز گار بردمد از سُنبلِ اُو نیشِ خار! غالبان غرق اند در عیش و طرب کارِ مغلوباں شمارِ روز و شب! از ملوکیّت؟ جہانِ تو خراب تیرہ شب در آستین آفتاب! دانشِ افرنگیاں غارت گری دیر ہا خیبر شُد از بے حیدری! آنکہ گوید لاالہ بے چارہ ایست فکرش از بے مرکزی آوارہ ایست! چار مرگ اندر پیء ایں دیر میر سود خوار و والئی و مُلّا و پیر ایں چُنیں عالم کجا شایانِ تست آب وگِل داغے کہ بردامانِ تست! میں نے حوروقصور کی طرف التفات نہیں کیا۔ میں نے روح کی کشتی کو نور کے سمندر میں گنوادیا۔ میں ربّ ذولجلال کے نور کے دیدار اور تماشا میں غرق ہوگیا۔ ہر لمحہ اور ہر ساعت مجھ میں لایزال انقلاب اور تبدیلیاں آتی رہیں۔ آخر اس عظمت اور سطوتِ ایزدی کے سامنے مشتِ خاک کی کیا حیثیت اور بساط ہے اس کی طرف اشارہ ہے۔ میں کائینات کے دل اور ضمیر میں گم ہوگیا جس طرح رباب کی تاروں میں ہاتھ لگانے سے حرکت اور جان آجاتی ہے اسی طرح میری نگاہوں میں زندگی کی حرارت اور حرکت آگئی۔ اس رباب کی ہر تار ایک دوسرے سے مختلف تھی یعنی جو کیفیت اور صورتِ حال بنتی تھی وہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف اور جداگانہ ہوتی تھی۔ رباب کی اِن تاروں کی ہر آواز اور آہنگ ایک دوسرے کے مقابلے میں زیادہ خونین، پرسوز اور پُردرد ہوا کرتی تھی۔ ہر آواز تو خونین ہوتی تھی لیکن ہر دوسری آواز پہلے کے مقابلے میں زیادہ خونین رنگ لئے ہوئے ہوتی تھی۔ اس صورتحال نے مجھ پر یہ حقیقت واضح کردی کہ انسان، آفتاب، ماہتاب، فرشتے اور حوریں، ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ خاندان نور اور نار کا ہے۔ کچھ نور سے بنائے گئے ہیں اور کچھ نار سے۔ خالق کائینات کے دربار میں حاضری سے اس حقیقت کا اظہار ہوا کہ کائینات کا خالق، مالک اور حاکم ایک ہی ذاتِ اقدس ہے کوئی دوسرا اس کائینات کا خالق اور مالک نہیں ہے۔ میری روح کے آگے آئینہ لگا دیا گیا۔ اس طرح ایک طرف حیرت اور دوسری طرف یقین۔ دونوں کو ملاکر دکھا دیا گیا۔ حیرت اس بات پر کہ جمالِ ربّ ارض کا اور یقین اس بات کا کہ فی الواقع ہم ایک ہی خدا کی پیدا کردہ مخلوق ہیں جس کا عینی مشاہدہ کروایا جارہا ہے۔ گویا عین ُ الیقین کا منظر ہے۔ آج کی صبح کے بارے میں اُس کی روشنی اور نور دلیل روشن ہے لیکن جس دربار اِلٰہی میں ہم حاضر تھے وہاں گذرے کل اور آنے والے کل کی کوئی تمیز اور تفریق نہیں ہے۔ وہاں دوش وفردا دونوں حاضر ہیں۔ اس دربار میں حق اپنے تمام پوشیدہ اسرار کے ساتھ ظاہر وباہر ہے اور ہماری نگاہوں سے اپنا دیدار کرتا۔ یعنی ہم حق کے اسرار ورموز دیکھتے تھے اور وہ ہمارے بارے میں جانکاری حاصل کرتے تھے۔ دونوںدوبدو اور روبرو تھے۔ اُن کا دیکھنا، بغیر کسی کمی اور گھٹ جانے کی کیفیت کے (بے کاست) اضافہ کرنا ہے۔ اوراس کا دیکھنا گویا قبر سے جسم کو اٹھا دینا تھا۔ عبد اور مولا گویا ایک دوسرے کی گھات میں ہیں۔ ذوقِ نظر اور اشتیاق دید سے دونوں بے تاب اور پر اضطراب تھے۔ اس مرحلے پر بھی اس ابدی حقیقت سے صرفِ نظر نہ کیا جائے کہ زندگی جہاں کہیں بھی ہو جستجو، تلاش اور طلب ہے۔ اس موقع پر بھی یہ نکتہ حل نہ ہوا کہ میں شکار ہوں کہ وہ؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ مولا کو زیادہ چاہتا، یا مولا اپنے بندے کے ساتھ زیادہ محبت اور پیار کرتا ہے۔ جہاں تک اﷲ کی نعمتوں اور انسان کو دی گئی صلاحیتوں اور قوتوں کا تعلق ہے اﷲ اپنے بندوں کے ساتھ بہت ہی گہرا تعلق اور لگاؤ رکھتا ہے۔ خود اُس کی تخلیق، پھر اُس کے لئے ضرورت کی ہر چیز اور خصوصیت کے ساتھ ہدایت اور رہنمائی کے لئے کتاب اور کتاب پر عمل سکھانے کے لئے رسالت کا اہتمام اور انتظام۔ بندے کا روّیہ اور عمل جب دیکھیں گے تو اکثریت کی حد تک وہ نافرمان اور ناشکرا ہی ثابت ہوگیا ہے۔ اِنّ الانسان لظلومٌ کفّار ’’بے شک انسان ظالم اور ناشکرا ہے!‘‘ بارگاہ ایزدی میں اقبالؒ فرماتے ہیں: میرے عشق اور میری محبت نے میری روح کو لذّت دیدار سے فیضیاب کیا اور پھر ساتھ ہی مجھے پُرنم نگاہوں کے ساتھ ربّ کائینات کے ساتھ فریاد اور گفتار کی بھی جرأت اور ہمت عطا کی۔ اب اقبالؒ دُنیا کی صورتِ حال کے بارے میں عینی گواہ کی حیثیت سے احوال بیان کرتا ہے۔ اس پر قارئین وناظرین کو خصوصی توجہ دینی چاہئے کہ کس طرح انسان کے کردار کی کامیاب اور حقیقت کے مطابق عکاسی اور تصویر کشی کی گئی ہے اور اس صورتِ حال کو جب تک بدلا نہ جائے اُس وقت تک انسانیت کے فلاح اور بہبود کی توقع نہیں رکھی جاسکتی ہے۔ اے وہ ذاتِ والا صفات! دونوں دنیا تیری رحمت اور کرم فرمائی سے ہی نور اور نظر ہیں۔ کچھ دیر کے لئے آپ اپنی اس دُنیا کو اور اس میں کام کرنے والے انسان کو ذرا دیکھ لے۔ یہ انسان جو تیری صنعت اور کاریگری کا شاہکارہے ۔ اس کا کتنا بُرا حال ہے۔ تیرے آزاد بندوں کی ناسازگاری کا یہ عالم کہ اس کے سنبل سے چبھنے والا کانٹا اگتا ہے ۔ تیری دُنیا کے انسانوں کا وہ گروہ جو مال ودولت، اقتدار وحشمت کا امانت دار تھا وہ اپنی دولت اور ثروت کو اپنی عیش وعشرت کے لئے خرچ کرتا ہے اور پوری زندگی میں عیش وطرب میں ڈوبے رہتا ہے اور جو لوگ دنیوی مال ودولت سے محروم ہیں یا طاقت وروں کے مقابلے میں مغلوب اور محکوم ہیں اُن کا حال یہ ہے کہ وہ دن رات کا شمار کرتے ہیں۔ دن کٹ گیا، رات کیسے کٹے گی، رات کٹ گئی اب دن کیسے گذرے گا۔ یہی ان کے شب وروز اور صبح وشام کی کیفیت ہے۔ محتاجی، محکومیت، بے بسی، ظلم واستبداد کی چکی میں پسے جانے والے بے بس لوگ! تیری یہ دُنیا، انسانوں کی حاکمیت کے نتیجے میں تباہ وبرباد ہوگئی ہے۔ ملوکیت، چاہے بادشاہوں کی ہو یا نام نہاد جمہوریت کے نام پر کسی قوم کی اکثریت کا راج تاج ہو دُنیا امن وآشتی اور خوشحالی و فراغت سے محروم، ظلم واستبداد کا شکار ہے۔ یہ تاریکی میں ڈوب چکی ہے درآنحالیکہ اس کے پاس ہدایت اور رہنمائی موجود ہے لیکن وہ اُس کو استعمال میں لانے سے کسی نہ کسی بہانے اور عذر سے انحراف کررہا ہے۔ مغربی دُنیا کی دانش وری، علم وسائنس اور ٹیکنالوجی، عالمی سطح پر غارت گری، تباہی، بربادی، خونِ انسان کی ارزانی، قوموں اور ملکوں کے لئے جنگ وجدال کی وجہ بنی ہوئی ہے۔ آج کی دُنیا میں معرکہ خیبر میں مرادِ شجاعت دینے والا کوئی حیدرِ کرارؓ نہیں ہے۔ اس لئے تمام بُت خانے قلعہ خیبر کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ اُن کو توڑنے اور فتح کرنے والا کوئی دیکھنے میں نہیں آرہا ہے۔ اب جس لا الہ کہنے والے پر نظر تھی وہ لاچار اور بے بس بن چکا ہے۔ دُنیا کو سدھارنے اور رُشدوہدایت کا مرکز بنانے کی ذمہ داری اُسی پر عائد ہوتی تھی۔ {کُتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاﷲِ} ’’تم بہترین اُمت ہو تم کو لوگوں میں سے چن لیا گیا ہے۔ تم نیکیوں کا حکم اور بدیوں سے روکنے والے ہو اور تم اﷲ پر ایمان لانے والے ہو۔‘‘ (آل عمران:۱۱۰) اس مسلمان اور خیر اُمت کو کیا ہوگیا ہے؟ آنکہ گوید لا الہٰ بے چارہ ایست فکرش از بے مرکزی آوارہ ایست یہ اس کے تمام امراض کی جڑ اور بنیاد ہے۔ اس کے لئے مرکز اور مصدر مقرر کردیا گیا تھا مگر یہ اپنے مرکز سے ہٹ گیا ہے اور اس نے دُنیا میں جنم لینے والے نظریاتی بتوں کی پرستش شروع کردی ہے۔ اس کو بتایا گیا تھا: {وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اﷲِ جَمِیْعاً وَلا تَفَرَّقُوا} (آل عمران:۱۰۳) ’’اﷲ کے دین کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو۔ الگ الگ راستے اختیار مت کرو‘‘ رسولِ رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس لاالہ کہنے والے کو دوٹوک اور غیر مبہم الفاظ میں کہدیا تھا۔ {تَرَکْتُمْ فِیْکُمْ اَمْرَیْنِ لَنْ تُضِلُّوْا اِنْ تَمَسَّکْھُمْ بِھِمَاَ کِتَابُ اﷲِ وَسُنَّۃَ رَسُوْلِہ } ’’میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں۔ اگر ان دونوں چیزوں کو تم مضبوطی کے ساتھ پکڑے رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہیں ہو جاؤ گے۔۱۔ اﷲ کی کتاب القرآن۔ ۲۔ اسوئہ رسول اﷲؐ‘‘ آج پوری دُنیا میں لاالہ کا اقرار کرنے والا ان دونوں فکری بنیادوں سے کٹ کر رہ گیا ہے۔ وطنیت، قومیت، نسل، رنگ، زبان، روٹی کپڑا اور مکان، سوشلزم، کمیونزم، نیشنلزم، خانقاہیت، عبادات کی حد تک مذہب کا محدود تصور مسلکی اختلافات، مادیت، اباحیت، تشدد کا سہارا، اس فکری آوارہ گی کے نتیجے میں مسلمان میں تعمیری سوچ کے بجائے تخریبی سوچ غالب ہورہی ہے اور آج کی دنیا میں وہ صرف ایک ’’دہشت گرد‘‘ کی حیثیت سے ہی پیش کیا جاتا ہے۔ وہ طاقتیں، قومیں، حکومتیں جو کمزوروں کو دبانے اور زیر کرنے میں بے محابا فوجی طاقت کا استعمال کررہی ہیں وہ مسلمان پر الٹا الزام دھر کر اپنے state terrorism پر پردہ ڈال رہی ہیں۔ یہ سب کچھ مسلمان کے فکری انتشار اور اپنے مرکز سے دور ہوجانے کے شاخسانے ہیں۔ اس سخت جان ’’دیر میر‘‘ کے تعاقب میں ایک عزرائیل (روح قبض کرنے والے فرشتے) کے بجائے چار عزرائیل ہیں۔ سود خوارو والئی مُلّا و پِیر: اقبالؒ کو اﷲ جل شانہٗ اپنی رحمت کے سایے میں جگہ دے! اس نَبّاض نے ملّت کے امراض کی صحیح اور ٹھیک ٹھیک تشخیص کی ہے۔ اس کی دینی اور ملّی روح کو قبض کرنے والا پہلا عزرائیل اس ملّت کا سرمایہ دار سودخوار ہے جو ہوس زر کا شکار ہوکر حلال وحرام کی تمیز سے بالاتر ہوکر ھل مِنْ مزّید کا حال و قال سے مطالبہ کرتا رہتا ہے۔ عیش وعشرت کی فراوانی، اسباب وجائیداد کی کثرت اس انداز سے اس پر غالب ہوچکی ہے کہ قرآن پاک کی یہ آیت اس پر چسپان ہوجاتی ہے۔ {اَلْھَٰکُمْ التَّکَا ثُرُ ہ حَتَّیٰ زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ہ} ’’تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر، دُنیا حاصل کرنے کی دُھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے۔ یہاں تک کہ اسی فکر میں تم لب گور تک پہنچ جاتے ہو‘‘ (التکاثر:۱،۲) یہ کثرت کی تمنا صرف مال وجائیداد تک ہی محدود نہیں ہے اس میں دُنیا کے تمام فوائد و منافع، سامانِ عیش، اسباب لذّت اور وسائل قوت واقتدار کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی سعی و جہد کرنا، ان کے حصول میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا اور ایک دوسرے کے مقابلے میں اُن کی کثرت پر فخر جتانا، اس کے مفہوم میں شامل ہوجاتا ہے۔ مسلم معاشرے میں اس طبقے سے وابستہ افراد اور گروہ، اپنی ذات، خاندان اور برادری کے دائرے سے باہر نہیں سوچتے ہیں۔ گردوپیش میں انسانی اور دینی رشتے کے افراد کس حال میں ہیں، اُن کے شب وروز کیسے گذرتے ہیں اس بارے میں یہ لوگ بہت کم فکر مند رہتے ہیں۔ ملّی اور دینی تقاضے کیا ہیں۔ انسانی برادری اور خاص طور ملّت کس صورتِ حال سے دوچار ہے اور ایسے حالات میں ہم پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اس طبقے کی غفلت اور لاپرواہی، ملّت کی انتشاری اور شکستہ حال کیفیت میں بہت زیادہ اضافہ کررہا ہے۔ یہ طبقہ دینی اقدار کو فروغ دینے کے بجائے اخلاقی قدروں کی پامالی کا سامان فراہم کرنے سے بھی نہیں چوکتا ہے۔ شراب خانوں کے لائسنس حاصل کرنا، سینما ہال کھولنا، لادین نظریات اور سیاست کا ساتھ دینا، وقت کے ظالم اور غاصب حکمرانوں کا ساتھ دینا، تاکہ دنیوی مفادات کے حصول کی راہ آسان ہوجائے، ان کی کوششوں اور تگ ودو کا ہدف ہوتا ہے۔ سرمایہ دار، سود خوار، جاگیردار طبقہ مسلم معاشرے میں مُنکَرَات کو فروغ دینے کا ذریعہ اور وسیلہ بھی بنتا ہے۔ کمزور اور نانِ شبینہ کا محتاج معاشرے کا حصہ ان کی استحصالی سوچ اور فکر کا خاص طور نشانہ بنتا ہے۔ وہ اِن کی قوتِ کار کا بے تحاشا استعمال کرتے ہیں لیکن ان کی ضروریاتِ زندگی، تعلیم، صحت اور ان کے بہتر مستقبل کی فکر سے بالکل عاری ہوتے ہیں۔ فحاشی، عُریانی، خوشی اور غمی کے مواقع پر اِسراف، انسانی اور اخلاقی اقدار کی پامالی میں یہ طبقہ تاریخ کے ہردور میں ایک دوسرے کے مقابلے میں سبقت حاصل کرنے کی دوڑ میں لگا رہتا ہے۔ انہی اسباب ووجوہ کی بنیاد پر قرآنِ پاک میں فرمایا گیا ہے کہ بستیوں پر عذاب اور قہر نازل ہونے میں اس طبقے کی روش اور کردار فطری سبب بن جاتا ہے۔ {وَاِذَآ اَرَدْنَآ اَن نُّھْلِکَ قَرْیَۃً اَمَرْنَا مَتْرَفِیھَا فَفَسَقُوا فِیْھَا فَحَقَّ عَلَیْھَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَٰھَاتَدْ مِیْراً} ’’جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں، تب عذاب کا فیصلہ اس بستی پر نازل ہوجاتا ہے اور ہم اسے برباد کرکے رکھ دیتے ہیں‘‘۔ (بنی اسرائیل: ۱۶) تشریح: اس آیت میں حکم سے مراد حکم طبعی اور قانونِ فطری ہے۔ یعنی قدرتی طور ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی قوم کی شامت آنے والی ہوتی ہے تو اس کے مترفین فاسق ہوجاتے ہیں۔ہلاک کرنے کے ارادے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اﷲ تعالیٰ یونہی بے قصور کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرسکتا ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی انسانی آبادی بُرائی کے راستے پر چل پڑتی ہے اور اﷲ فیصلہ کرلیتا ہے کہ اسے تباہ کرنا ہے۔ تو اس فیصلے کا ظہور اس طریقے سے ہوتا ہے۔ دراصل جس حقیقت پر اس آیت میں متنبہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک معاشرے کو آخری، جوچیز تباہ کرتی ہے وہ اس کے کھاتے پیتے، خوشحال لوگوں اور اونچے طبقوں کا بگاڑ ہے۔ جب کسی قوم کی شامت آنے کو ہوتی ہے تو اس کے دولت مند اور صاحبِ اقتدار لوگ فسقِ وفجور پر اُتر آتے ہیں۔ ظلم وستم اور بدکاریاں اور شرارتیں کرنے لگتے ہیں اور آخر یہی فتنہ پوری قوم کو لے ڈوبتا ہے۔ لہذا جو معاشرہ آپ اپنا دشمن نہ ہو اُسے فکر رکھنی چاہئے کہ اُس کے ہاں اقتدار کی باگیں اور معاشی دولت کی کنجیاں کم ظرف اور بداخلاق لوگوں کے ہاتھوں میں نہ جانے پائیں‘‘۔ معاشرے کا یہ طبقہ انسانی فلاح وبہبود اور خاص طور ملّت کی سطح پر دین اور اخلاقی اقدار کی حفاظت اور پاسداری کے لئے جس جذبہ انفاق اور مالی قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے اس سے یہ مجرمانہ غفلت برتتا ہے۔ یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ عام لوگ دینی تعلیم سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اسلام کے مخالف لوگ اور قوتیں اپنی تہذیب اور اپنا کلچر جگہ جگہ تعلیمی ادارے کھول کر مسلط کرنے کی کوششوں میں دن رات مصروف رہتے ہیں۔ وسیع ذرائع اور سرمایہ پانی کی طرح بہاکے اپنے استحصال اور اپنی مشرکانہ اور جاہلیت کی تہذیب کو ہماری نئی نسل پر غالب کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا توڑ کرنے کیلئے ملّت کو جس مالی مدد اور تعاون کی ضرورت ہے معاشرے کا یہ خوشحال اور صاحبِ ثروت طبقہ اُس ضرورت کو پورا نہیں کررہا ہے۔ اس طرح تہذیبی، دینی، اخلاقی زوال وانحطاط اور ہلاکت کی صورتحال کی طرف پوری ملّت دھکیلی جارہی ہے۔ قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں اہل ایمان کو متنبہ کیا ہے۔ {وَاَنْفِقُوْافِیْ سَبِیْلِ اﷲِ وَلاَ تُلْقُوْا اِاَیْدِیْکُمْ اِلَیْ التَّھْلُکَۃِ وَاَحْسِنُوٓا اِنَّ اﷲَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ہ} ’’اﷲ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ احسان کا طریقہ اختیار کرو کہ اﷲ محسنوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (البقرہ: ۱۹۵) تشریح: ’’اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے سے مراد اﷲ کے دین کو قائم کرنے کی سعی وجہد میں مالی قربانیاں کرنا ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم خدا کے دین کو سربلند کرنے کے لئے اپنا مال خرچ نہ کروگے اور اس کے مقابلے میں اپنے ذاتی مفاد کو عزیز رکھو گے تو یہ تمہارے لئے دُنیا میں بھی مؤجب ہلاکت ہوگا اور آخرت میں بھی۔ دُنیا میں تم کفار سے مغلوب اور ذلیل ہوکر رہوگے اور آخرت میں تم سے سخت باز پرس ہوگی۔‘‘ (تفہیم القرآن: جلد ۱ صفحہ ۱۵۳) اس صورت حال کو پوری مسلم دُنیا کی سطح پر ہم بچشم سر دیکھ رہے ہیں۔ ان ناقابل تردید حقائق کی روشنی میں اقبالؒ کا یہ فرمانا کہ’’ دیر میر‘‘ مسلمان کی موت اور زوال کا پہلا سبب اور factor سرمایہ دار، جاگیردار اور سود خوار ہے حقیقت حال کی ترجمانی ہے۔ دوسرا عزرائیل والی اور حکمران طبقہ ہے۔ حضرت شاہ ہمدانؒ کی طرف سے باج اور اخراج کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں والی اور حکمران کے لئے شرط کا تذکرہ آچکا ہے کہ اُس کی قبولیت کا معیار ’’منکم‘‘ ہونا چاہئے۔ اس معیار اور کسوٹی پر جب ہم آج کے دور کے حکمرانوں کو پرکھتے اور تولتے ہیں تو شاذونادر ہی کوئی اس معیار پر اُترتاہے۔ مسلمانوں کے حکمران یا تو خاندانی راج کے تواتر اور تسلسل میں ملّت پر سوار ہیں یا نام نہاد جمہوریت کے نام پر مسلّط ہوچکے ہیں۔ یا فوج کی طاقت کا سہارا لے کر مغربی اور استعماری طاقتوں کے ایجنٹ اور آلہ کار بن کر مسلمانوں کی گردنوں پر سوار ہوچکے ہیں۔ جو بھی صورت ہو یہ طبقہ مسلمانوں کو اپنے ماضی سے کاٹ کر، لادین سیاست اور جدید جاہلیت کے شکنجے میں کسنے کیلئے خود مسلمانوں کے ذرائع اور وسائل کو استعمال کرکے اپنا اقتدار اور اپنی کرسیاں بچانے کے لئے نت نئے حربے اور مکروفن کے جال بنتے رہتے ہیں۔ انہوں نے پوری ملّت کو ڈیڑھ ارب سے زائد تعداد میں ہوتے ہوئے بھی بے وزن اور بے وقار بنادیا ہے۔ آج کی دُنیا میں مسلمانوں کے حال کا نقشہ خود حکیم الامتؒ نے کھینچا ہے۔ مسلمان فاقہ مست و ژندہ پوش است زکارش جبرئیلؑ اندر خروش است بیا نقشِ دگر ملّت بہ ریزیم کہ ایں ملّت جہاں را بارِ دوش است آج کے دور کے مسلمان کا حال اس کے خدا فراموش اور آخرت بے زار حکمرانوں نے کیا بنایا ہے اس کے کردار، کارکردگی، اس کی سیرت، اس کی بے بسی، محکومی، غلامی اور ادبار کا حال دیکھ کر حضرت جبرئیل امینؑ بھی دل خراش اور رنجیدہ خاطر اور فریاد کُنان ہے۔ آجاؤ، میری مدد اور معاونت کرو تاکہ ہم اسلام کی ابدی اور حیات بخش بنیادوں اور قرونِ اولیٰ کے طرزِ پر دوسری ملّت کی بنیاد رکھیں۔ کیونکہ آج کا مسلمان نہ صرف انفرادی حیثیت میں بلکہ اجتماعی حیثیت میں بھی پوری دُنیا کے لئے بوجھ بنا ہوا ہے۔ اس صورتِ حال کے پیدا کرنے کی ذمہ داری مسلمان حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔ { الناس علی دین ملوکھم } ’’لوگ اپنے بادشاہوں اور حکمرانوں کے طرزِ عمل اور طریقِ زندگی کی پیروی کرتے ہیں‘‘ امّت مسلمہ کو برتری اور سرداری کا معیار بتا دیا گیا تھا کہ { اِنَّ اَکْرَمَ کُمْ عِندَاﷲِ اَتْقَاکُمْ } ’’اﷲ کے نزدیک تم میں سے عزت اور بڑھائی والے وہ لوگ ہیں تو تم میں سے سب سے زیادہ متقی اور پرہیز گار ہوں۔‘‘ مسلمانوں کو بتایا گیا تھا کہ دُنیا تمہارے لئے امتحان گاہ ہے۔ اصل میں تمہارے پیشِ نظر آخرت کی فلاح اور کامیابی ہونا چاہئے۔ { تِلْکَ الدَّارُ الْاَ خِرَۃُ نَجْعَلُھَا لِلَّذِیْنَ لاَ یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِیْ الْاَرْضِ وَلاَ فَسَادًا ج وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ ہ} ’’وہ آخرت کا گھر تو ہم ان لوگوں کے لئے مخصوص کردیں گے جو زمین میں اپنی بڑائی نہیں چاہتے اور نہ فساد کرنا چاہتے ہیں اور انجام کی بھلائی متقین ہی کے لئے ہے‘‘۔ (القصص: ۸۳) تشریح: آخرت کے گھر سے مراد جنت ہے جو حقیقی فلاح کا مقام ہے۔ یعنی جو خدا کی زمین میں اپنی بڑائی قائم کرنے کے خواہان نہیں ہیں جو سرکش و جبار اور متکبّر بن کر نہیں رہتے بلکہ بندے بن کر رہتے ہیں اور خدا کے بندوں کو اپنا بندہ بناکر رکھنے کی کوشش نہیں کرتے‘‘ مسلمان پر یہ بھی واضح کردیا گیا تھا کہ جب اﷲ تعالیٰ تم کو زمین کے کسی حصے پر تمکن اور اقتدار عطا کرے گا تو تمہارا کام کیا ہونا چاہئے۔ { اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنَّاھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلَوٰۃَ وَاٰتُواالزَّکَوٰۃَ وَاَمَرُوا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ ہ} ترجمہ ’’یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے۔ زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجام کار اﷲ کے ہاتھوں میں ہے‘‘ (الحج: ۴۱) تشریح ’’یعنی اﷲ کے مددگار اور اُس کی تابعداری کرنے والے اور نصرت کے مستحق لوگوں کی صفات یہ ہیں کہ اگر دُنیا میں اُنہیں حکومت، فرمان روائی بخشی جائے تو ان کا ذاتی کردار فسق و فجور اور کبروغرور کے بجائے اقامتِ صلوٰۃ ہو، اُن کی دولت عیاشیوں اور نفس پرستیوں کے بجائے ایتائے زکوٰۃ میں صرف ہو، اُن کی حکومت نیکی کو دبانے کے بجائے اُسے فروغ دینے کی خدمت انجام دے اور اُن کی طاقت بدیوں کو پھیلانے کے بجائے اُن کے دبانے میں استعمال ہو۔ اس ایک فقرے میں اسلامی حکومت کے نصب العین اور اس کے کارکنوں اور کارفرماؤں کی خصوصیات کا جوہر نکال کر رکھ دیا گیا ہے۔ کوئی سمجھنا چاہئے تو اسی ایک فقرے سے سمجھ سکتا ہے کہ اسلامی حکومت فی الواقع کس چیز کا نام ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن: جلد ۳، صفحہ ۲۳۴) اسی معیار اور پیمانے کو سامنے رکھتے ہوئے دُنیا کے نقشے پر ۵۷ مسلم ممالک کا حال دیکھا جائے اور اُن کی حکومتوں کی کارکردگی، اُن کے کارکنوں کی سیرت وکردار اور اُن کے اہداف پر نظر ڈالی جائے تو حسرت ویاس اور دستِ تاسف مَلنے کے بغیر کچھ اور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ استعماری قوتوں سے بظاہر نجات حاصل کرنے کے بعد، وہ اُن کی ذہنی غلامی میں مبتلا ہوکر اُن کے آلہ کاروں اور ایجنٹوں کی حیثیت سے اپنے ملک، اپنی قوم، اپنی تہذیب اپنے کلچر حتیٰ کہ اپنے دین اور ایمان کو بھی گرو رکھے ہوئے ہیں۔ صرف اس شرط پر کہ اُن کا اقتدار اور اُن کی کرسیاں محفوظ رہیں۔ اُن کا بلند معیارِ زندگی برقرار رہے۔ اُن کو عیش وعشرت اور جاہ وحشمت کے ساتھ زندگی گذارنے کے مواقع نصیب ہوں۔ اُن کو سامراجی اور استبدادی قوتوں سے تحفظ اور حمایت کی ضمانت ملے۔ چاہے اُن کی اپنی قوم اور عالمی سطح پر اجزائے ملّت اُن کے وجود کو ایک ناخوشگوار بوجھ ہی محسوس کریں۔ لیکن وہ اقتدار کے ساتھ چمٹے رہنے کیلئے استعماری قوتوں کے محلوں اور عشرت کدوں کا طواف کرکے، اُن کی خوشنودی حاصل کرنے کے در پے رہتے ہیں۔ آزاد شدہ مسلم ممالک کے حکمرانوں کو نہ صرف اپنی قوم، اپنے ملک اپنی تہذیبی اور دینی اقدار کی حفاظت مطلوب تھی، بلکہ اُن پر یہ ذمہ داری بھی عائد کردی گئی تھی کہ وہ دُنیا کی کمزور اور غلام قوموں کو بھی استبدادی اور جابر وظالم قوتوں کے پنجہء استبداد سے نجات حاصل کرنے میں مدد کریں۔ { وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَٰتِلُوْنَ فِی سَبِیْلِ اﷲِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھَٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُھَا وَاجْعَل لَّنَامِن الَّدُنْکَ وَلیًّا وَّاجْعَل لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیراً} (النسائ:۷۵) ترجمہ ’’آخر کیا وجہ ہے کہ تم اﷲ کی راہ میں اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبائے گئے ہیں اور فریاد کررہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی ومددگار پیدا کردے‘‘ تشریح: ’’اشارہ ہے اُن مظلوم، بچوں، عورتوں اور مردوں کی طرف جو مکہ میں اور عرب کے دوسرے قبائل میں اسلام قبول کرچکے تھے، مگر نہ ہجرت پر قادر تھے اور نہ اپنے آپ کو ظلم سے بچاسکتے تھے۔ یہ غریب طرح طرح سے تختہء مشق ستم بنائے جارہے تھے اور دُعائیں مانگتے تھے کہ کوئی انہیں اس ظلم سے بچائے‘‘ (تفہیم القرآن: جلد ۱،صفحہ ۳۷۲،۳۷۳) آج دُنیا میں مسلمانوں کی کافی تعداد ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہے۔ فلسطینی، لبنانی، عراقی، چچنیا، افغانستان، جموں کشمیر اور بھارت کی اقلیتیں بالعموم مسلمان خاص طور۔ ۵۷ مسلم ممالک کے پاس ذرائع اور وسائل کی کمی نہیں۔ آج کی دُنیا میں اُن کو لڑنے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ ہتھیار، بم اور میزائیل استعمال کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔ وہ سفارتی سطح پر اُن ملکوں پر دباؤ ڈال سکتے تھے جن کے پنجہء استبداد میں مسلمان کَسے جاچکے ہیں اور بدترین قسم کے ظلم واستبداد کا نشانہ بنائے جارہے ہیں۔ مسلم ممالک کے سربراہان نہ صرف یہ کہ مظلوموں کی مدد نہیں کرتے بلکہ ستم بالائے ستم یہ کہ وہ ظالموں کے مددگار بن چکے ہیں اور اُن کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے خود بھی ظالموں اور قاتلوں کا روپ دھارن کرچکے ہیں۔ تَفُو بر تو اے چرخِ گردون تَفُو! مسلم ممالک کے حکمرانوں کی اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے حکیم الامتؒ کا یہ فرمانا کتنا حسبِ حال ہے۔ خود اندازہ کریے اور اُن کی فکر پختہ کی داد دیجئے: ہنوز اندر جہاں آدم غلام است نظامش خام وکارش نا تمام است غلامِ فقرِ آں گیتی پناہیم کہ در دینش ملوکیت حرام است دُنیا میں ابھی تک انسان غلام ہے۔ اُس کا نظام خام، ناکارہ اور تجربہ گاہ میں مکمل طور ناکام ہوچکا ہے۔ میں دُنیا کو پناہ دینے والے نبی آخرُ الزمانؐ کے فقر کا غلام ہوں۔ جس کے دین میں ملوکیت حرام ہے۔ اسی ملوکیت کا نتیجہ اور ثمر ہے جس کی وجہ سے پوری انسانی برادری کا کام و دہن زہر آلودہ ہوچکا ہے۔ فاعتبروایا اولی الابصار! سودخوار اور والی کے بعد تیسرا عزرائیل اور مرگ جو ’’دیر میر‘‘ مسلمان کے تعاقب میں ہے ملّا ہے۔ جہاں تک ملّا کے لغوی معنیٰ کا تعلق ہے یہ مبالغہ کا صیغہ ہے۔ یعنی بہت بھرا ہوا۔ مراد اس سے وہ شخص جو علم سے بھرا ہوا اور پُر ہو یعنی بہت پڑھا ہوا۔ بڑا عالم مگر آج کے دور میں اس لفظ کو تضحیک، استہزاء اور تحقیر کے معنیٰ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں تک علامہ اقبالؒ نے بھی اس لفظ کو اسی معنیٰ میں جگہ جگہ استعمال کیا ہے۔ میں جانتا ہوں انجام اُس کا جس معرکے میں ملّا ہو غازی ملّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت نادان یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد زمن بر صوفی وملّا سلامے کہ پیغام خدا گفتند مارا ولیکن تاویل شان در حیرت انداخت خدا وجبریل و مصطفیٰؐ را سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ علماء دین کو سوچنا چاہئے کہ ہمارے طرز عمل میں کیا کمی اور کوتاہی ہے کہ ہم کو حقیر اور نکمّا سمجھتے ہوئے ملّا کہا جاتا ہے۔ علماء کے عام طور پر دو طبقے اور گروہ ہیں۔ ایک علماء ربّانی اور دوسرا علمائِ سُوئ۔ علماء ربّانی نے ہمیشہ دین کے مزاج اور تقاضوں کو سمجھ کر اس کو صحیح رنگ اور صحیح انداز میں تحریر اور تقریر کے ذریعہ لوگوں تک پہنچایا ہے اور دین کے تقاضوں کے مطابق لادین نظریات کے مقابلے میں اس کے غلبہ اور احیاء کے لئے بھی کام کیا ہے۔ مگر علمائِ سُوء نے ہمیشہ دینی تقاضوں کو نظرانداز کرکے رائج الوقت نظام کی تائید وحمایت کرکے مادی مفادات کے حصول کو زندگی کا مقصد بنایا۔ انہوں نے لوگوں تک دین صحیح اور حقیقی شکل میں پہنچانے کا فریضہ انجام نہیں دیا۔ دین کی انقلابی روح سے انہوں نے لوگوں کو ہمیشہ بے خبر رکھا اور دین کی وہی تعبیر کی جو حکومت اور برسر اقتدار طبقہ کی خوشنودی کا ذریعہ اور وسیلہ بن جاتی تھی۔ سب سے بڑا نقصان جو ان شکم پرست مُلاؤں کے ہاتھوں دین کو پہنچا وہ یہ ہے کہ انہوں نے تفریقِ دین وسیاست کا لادین نظریہ خود بھی قبول کیا اور لوگوں کو بھی اسی کا درس دیا۔ اس کا واحد مقصد ان کے سامنے یہ تھا کہ حکمران طبقہ چونکہ دین کے کامل اور جامع ہونے کا نظریہ قبول نہیں کرتا ہے۔ اس لئے ہمارے ذریعہ بھی یہی فلسفہ لوگوں کے ذہنوں میں اُتارنا چاہئے۔ چنانچہ ایک طرف وہ دین کے مبلغ اور داعی کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوانا چاہتے تھے اور دوسری طرف وقت کے حکمرانوں کے حاشیہ نشین بن کر سرکاری ایوانوں میں بھی پذیرائی چاہتے تھے۔ یہاں تک کہ لادین سیاست کے علمبرداروں کے ہاتھوں دین کی بیخ کُنی کے اقدامات پر بھی یہ طبقہ یاتو خاموش رہتا تھا یا توجہیہ کرکے ان کا جواز پیش کرتا تھا۔ دوسرا بڑا نقصان جو ان کے ہاتھوں پہنچا وہ یہ کہ انہوں نے دین کی بنیادوں کی طرف دعوت دینے کے بجائے اپنے اپنے فقہی مسلکوں کی طرف دعوت دینا شروع کردیا۔ اس طرح ملّت کو قرآن وسنت کی تعلیمات پر جمع کرنے کے بجائے حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، جعفری، اہل حدیث جیسے فقہی مسالک کو انہوں نے تبلیغ اور ترسیل دین کی بنیاد بنایا حالانکہ تمام مسالک اور مذاہب کی بنیاد قرآن وسنت ہے۔ ان حضرات کو اصل مرکز اور منبع کی طرف دعوت دینا چاہئے تھی تاکہ ملّت قرآن اور اسوئہ حسنہ کے سرچشمہ ہدایت کی طرف رجوع کرتی اور سب مسالک کو اصل کی فرع تصور کرکے اختلافات کا شکار نہ ہوجاتی۔ تیسرا بڑا نقصان یہ ہوا کہ مساجد اور منابر پر قرآن وسنت کی باتیں ہی ہورہی ہیں لیکن زندگی کے مسائل کا حل جو قرآن اور سنت میں موجود ہے کی طرف لوگوں کو متوجہ نہیں کیا گیا۔ لوگ محض ثواب کی خاطر ان باتوں کو سنتے ہیں مگر زندگی کے مسائل کے بارے میں اس سسٹم اور نظام کی طرف رجوع کرتے ہیں جو دین کے خلاف اور دین سے دور کررہا ہے۔ نتیجہ کے طور پر لوگ دین سے بدظن ہوتے گئے اور یہ سمجھنے لگے کہ دورِ جدید میں دین ہمارے مسائل کو حل کرنے کی استطاعت اور استعداد نہیں رکھتا ہے۔ حالانکہ دین مکمل ہے اور زندگی کے ہر چھوٹے بڑے مسئلے کا کامیاب اور قابل عمل حل پیش کرتا ہے۔ {اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْناً } ’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے‘‘ (المائدہ:۸) دورِ جدید میں دین تمہارے سارے مسائل حل کرسکتا ہے۔ تمہارے لئے دین میں کوئی تنگی نہیں ہے۔ {وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ } ’’اور دین میں تُم پر کوئی تنگی نہیں رکھی‘‘ (الحج:۷۸) ان حیات بخش ہدایات کو ہمارے علماء نے مکمل طور نظرانداز کردیا اور جو کچھ لادین سیاست کے علمبرداروں کے ہاتھوں سامنے آگیا اُس کو بغیر کسی ہچکچاہٹ اور کراہت کے منظور اور تسلیم کرلیا۔ علماء کی زندگیوں کا یہ تضاد اُن کے مقام، مرتبہ اور وقار کو گرانے میں کلیدی کردار ادا کررہا ہے۔ لوگ سوچتے ہیں خاص طور تعلیم یافتہ طبقہ، جو خود بھی قرآن وسنت سے رہنمائی حاصل کرنے کا جذبہ رکھتا ہے۔ علماء کے اس فکری اور عملی دورنگی سے سخت بدظن اور بدگمان ہے۔ ہمارے علماء احساس کمتری کے شکار ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ آج لوگ پڑھے لکھے ہیں، ڈاکٹر ہیں، انجینئر ہیں، پروفیسر ہیں، سائنس دان ہیں، سیاسی میدان کے کھلاڑی ہیں ہم دینی تعلیم سے واقف ہیں اس جدید تعلیم یافتہ طبقہ سے ہم کیسے مقابلہ اور Race کرسکتے ہیں۔ ہمارے علماء کو اس احساس کمتری سے ذہناً اور عملاً بالاتر ہوجانا چاہئے۔ وہ اگر قرآن پاک کی تعلیمات پر تڈبر اور تفکر کریں گے تو وہ اس بات کو بغیر کسی شک وریب کے تسلیم کریں گے کہ قرآن انسانی زندگی کے تمام مسائل کے حل کے لئے شاہ کلید(Master Key) کی حیثیت رکھتا ہے۔ تاریخ ہم کو بتاتی ہے کہ جب بھی مسلمانوں نے قرآن کا انقلابی پیغام خود اپنایا اور اس کی پیروی میں اپنے نظام اور معاشرے میں انقلاب لانے کی جدوجہد کی تو ایک صالح معاشرہ اور ایک خوشگوار انقلاب کی نیو اور طرح استوار ہوگئی۔ قرآن پاک میں ایک جگہ اس کی رہنمائی کی گئی ہے سورہ النمل کی آیت ۷۷ میں بتایا گیا ہے: {وَاِنَّہٗ لَھُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ہ} ’’اور یہ (قرآن) ہدایت ورحمت ہے ایمان لانے والوں کے لئے‘‘ اس آیت کی تشریح میں صاحب تفہیم القرآن رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں: ’’یعنی اُن لوگوں کے لئے جو اس قرآن کی دعوت اور وہ بات مان لیں جسے یہ پیش کررہا ہے ایسے لوگ اُن گمراہیوں سے بچ جائیں گے جن میں اُن کی قوم مبتلا ہے۔ اُن کو اس قرآن کی بدولت زندگی کا سیدھا راستہ مل جائے گا اور ان پر خدا کی وہ مہربانیاں ہوں گی جن کا تصور بھی کفار قریش آج نہیں کرسکتے۔ اس رحمت کی بارش کو بھی چند ہی سال بعد دُنیا نے دیکھ لیا کہ وہی لوگ جو ریگ زارِ عرب کے ایک گوشہء گُمنامی میں پڑے ہوئے تھے اور کفر کی حالت میں زیادہ سے زیادہ ایک کامیاب چھاپہ مار بن سکتے تھے اس قرآن پر ایمان لانے کے بعد یکایک وہ دُنیا کے پیشوا قوموں کے امام، تہذیب انسانی کے اُستاد اور روئے زمین کے ایک بڑے حصے پر فرماں رواں ہوگئے‘‘ (تفہیم القرآن: جلد ۳، صفحہ ۶۰۳) ہمارے ملّا جن کو اقبالؒ نے اُمت مسلمہ اور ’’دیرمیر‘‘ مسلمان کے لئے مرگ قرار دیا ہے فی الواقع فکری اور عملی انتشار کی وجہ سے جسدِ ملّت سے روحِ دین ختم کرنے میں اہم حصہ ادا کررہے ہیں۔ ان کو قرآن نے جس کے نام پر یہ طبقہ ملّت کی گردنوں پر سوار ہے ایمان باﷲ سے پہلے کفر بالطاغوت کا حکم دیا تھا۔ {لاَ اِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ قَد تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ج فَمَنْ یَکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِن م بِاﷲِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقَیٰ لَا انفِصَامَ لَھَا وَاﷲُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ہ} ترجمہ ’’دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ اب جو کوئی طاغوت کا انکار کرکے اﷲ پر ایمان لائے۔ اُس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیاجو کبھی ٹوٹنے والا نہیں اور اﷲ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے‘‘۔ (ابقرہ: ۲۵۶) تشریح: ’’یہاں ’’دین‘‘ سے مراد اﷲ کے متعلق وہ عقیدہ ہے جو اوپر آیۃ الکرسی میں بیان ہوا ہے اور وہ پورا نظامِ زندگی ہے جو اس عقیدے پر بنتا ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ ’’اسلام‘‘ کا یہ اعتقادی اور اخلاقی و عملی نظام کسی پر زبردستی نہیں ٹھونسا جاسکتا۔ یہ ایسی پسند ہی نہیں جو کسی کے سر جبراً منڈھی جاسکے‘‘ ’’طاغوت‘‘ لغت کے اعتبار سے ہر اُس شخص کو کہا جائے گا جو اپنی جائز حدِ سے تجاوز کرگیا ہو۔ قرآن کی اصطلاح میں طاغوت سے مراد وہ بندہ ہے۔ جو بندگی کی حد سے تجاوز کرکے خود آقائی و خداوندی کا دم بھرے اور خدا کے بندوں سے اپنی بندگی کرائے۔ خدا کے مقابلے میں ایک بندے کی سرکشی کے تین مرتبے ہیں۔ پہلا مرتبہ یہ ہے کہ بندئہ اصولاً اُس کی فرماں برداری کو حق مانے، مگر عملاً اُس کے احکام کی خلاف ورزی کرے۔ اس کا نام فسق ہے۔ دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ اس کی بندگی سے اصولاً منحرف ہوکر یا تو خود مختار بن جائے یا اُس کے سوا کسی اور کی بندگی کرنے لگے۔ یہ کفرہے۔ تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ مالک سے باغی ہو کر اُس کے ملک اور اُس کی رعیت میں خود اپنا حکم چلانے لگے۔ اس آخری مرتبے پر جو بندئہ پہنچ جائے اُسی کا نام طاغوت ہے اور کوئی شخص صحیح معنوں میں اﷲ کا مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اس طاغوت کا منکر نہ ہو‘‘۔ (تفہیم القرآن: جلد ۱، صفحہ ۱۹۵،۱۹۶) ہمارے مُلّاقرآن کے دئے ہوئے اس آئینے میں اپنے عمل، کردار اور رویے کو دیکھیں تو وہ پائیں گے کہ طاغوت کی کھلے عام بندگی ہوتی ہے۔ لادین سیاست کے نام پر جو لوگ ملّت پر سوار ہوچکے ہیں ہمارے ملّا اُن کے دست وبازو بنے ہیں۔ اُن کی دستار بندیاں کرتے ہیں۔ اُن کا استقبال کرتے ہیں۔ اُن کو ووٹ دیتے ہیں۔ اُن کی مدد اور سپورٹ کرتے ہیں۔ اُن سے مفادات اور مراعات حاصل کرتے ہیں، مساجد، معابد، مکاتب، جلسے، جلوس اور دوسری نوعیت کی محافل میں بیٹھ کر اُن کی زینت بنتے ہیں اور پھر منبروں پر کھڑے ہوکر قرآن اور حدیث کی تعلیمات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ یہ ہمالیہ جتنا تضاد اور نفاق پوری ملّت کے دین وایمان کے لئے سمِ قاتل کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ اسی صورتحال سے متاثر ہوکر اقبالؒ نے دُکھ بھرے دل کے ساتھ فرمایا ہے۔ چنیں دور آسماں کم دیدہ باشد کہ جبرئیلِ امیں را دل خراشد چہ خوش دَیرے بنا کردند آنجا پرستد مؤمن و کافر تراشد آج کے اس پُر فتن دور میں جس سے ہم گذررہے ہیں چشم فلک نے بہت کم ایسے ادوار دیکھے ہوں گے۔ اس دل گذار، ایمان سوز اور اخلاق باختہ دور کو دیکھ کر جبرئیل امینؑ کا دل بھی زخمی ہواجارہا ہے۔ آج کے اس دور میں وقت کے آذرؔ نے ایسا پرکشش بُت خانہ تعمیر کیا ہے جس کی نرالی اور حیران کن امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ کافر بُت تراش رہا ہے اور مؤمن اس کی پرستش اور پوجا کررہا ہے۔ جتنا ہم ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ اس پر غور کریں گے خاص طور ہمارے علماء دین، مفتیانِ کرام، واعظین وخطبائِ عظام، محراب و منبران کی زینت بنے حضرات وہ تسلیم کریں گے کہ وطنیت، رنگ، نسل، مادیت، اباحیت، قوم پرستی، رنگ اور زبان پرستی اور سب سے بڑھ کر تفریق دین وسیاست اور میکاولی فلسفہ سیاست، سب کفر وشرک کے علمبرداروں کے تراشیدہ بت ہیں اور آج کا مسلمان ان کی پرستش میں محو ومگن ہو کر فخر محسوس کرتا ہے، اپنے آپ کو روشن خیال اور ترقی پسند کہتا اور کہلواتا ہے۔ چار مرگ اندرپئے ایں دیر میر سود خوارؔ و والئی و ملّا و پیر چوتھا مرگ اور عزرائیل: ’’پیر‘‘ ہے پیر کا مطلب سب جانتے ہیں کہ عمر رسیدہ اور بزرگ کو کہتے ہیں۔ پیر رہبر اور رہنما کو بھی کہتے ہیں۔ پیر متقی، پرہیزگار اور نیک سیرت مسلمان کو بھی کہتے ہیں۔ اقبالؒ نے پیر رومیؒ کو اپنا پیر اور رہنما تسلیم کیا ہے۔ تو یہاں ’’پیر‘‘ کو اقبالؒ نے لاالہ کہنے والے کے لئے مرگ، موت اور روح قبض کرنے والے زمرے میں کیوں شمار کیا ہے؟ اس کی معقول وجہ یہ ہے کہ آج کے مسلمان نے پیر مریدی رشتے کو اپنے اصل معیار اور مقصد سے بہت دور کرکے مکمل بگاڑ اور دین سے دوری کا سبب اور ذریعہ بنایا ہے۔ پیر مریدی کا رشتہ اور سلسلہ نہایت ہی مقدس اور تبلیغ وترسیل اور اشاعتِ دین کا ایک فطری اور سہل الحصول ذریعہ اور وسیلہ تھا لیکن دونوں جانب سے اس کی روح اس طرح پامال کردی گئی کہ یہ معاشی استحصال اور مرکز رُشدوہدایت سے دوری کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے نیکو کار بندے جن کو ہم اولیاء کرام کے ناموں سے پکارتے ہیں اُن کا اصل تعارف قرآن پاک ان الفاظ میں کررہا ہے۔ {اَ لَا اِنَّ اَوْلِیَائَ اﷲِ لاَ خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ ہ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ ہ لَھُمُ الْبُشْرَیٰ فِی الْحَیَوٰۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاَخِرَۃِ لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اﷲِ ج ذَالِکَ ھُوَالْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ہ وَلاَ یَحْزُنکَ قَوْلُھُمْ اِنَّ الْعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا ج ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ہ} ترجمہ سنو! جو اﷲ کے دوست ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا اُن کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔ دُنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں اُن کے لئے بشارت ہی بشارت ہے۔ اﷲ کی باتیں بدل نہیں سکتیں۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔ اے نبیؐ جو باتیں یہ لوگ تجھ پر بناتے ہیں وہ تجھے رنجیدہ نہ کریں۔ عزت ساری کی ساری خد ا کے اختیار میں ہے اور وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے‘‘۔ (یونس: ۶۲ تا ۶۵) اولیاء کرام رحمھم اﷲ اجمعین پیر مریدی کے رشتے کی بنیاد ہے اور اولیا کرام کے بارے میں اﷲ کا فرماں بالکل واضح اور ناطق ہے کہ اﷲ کے دوست بندے ایمان اور تقویٰ کی صفاتِ حسنہ سے مُتَّصَف ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی میں ایمان اور تقویٰ کی بنیادوں کی طرف دعوت دی ہے۔ خود بھی یہ صفات قرآن وسنت کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے اندر پیدا کیں اور اپنے اپنے دور میں یہی صفات اپنے محبین، متوسلین اور حلقہء ارادت میں پیدا کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ جموں کشمیر کے خطہء ارض کے بارے میں جب ہم بات کریں گے تو یہاں حضرتِ میر سید علی ہمدانی رحمۃ اﷲ علیہ کی تشریف آوری سے اسلام کی اشاعت ہوئی۔ لوگ جُوق در جُوق اسلام کی آغوش میں آگئے۔ ایران سے جب وہ تشریف لائے اُن کے ساتھ سادات کی ایک بڑی تعداد تشریف آور ہوئی۔ جہاں جہاں لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے وہاں وہاں آپ نے ان خلفاء کو متعین کردیا کہ آپ ان لوگوں تک دین کی باتیں پہنچائیں۔ اسلام کے دورِ اول میں ہی اﷲ تبارک وتعالیٰ نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہدایت فرمائی تھی کہ سب لوگ تو گھروں سے نکل کر دین سیکھنے کے مراکز تک نہیں جاسکتے۔ بستیوں میں سے کچھ لوگ نکل جانے چائیں جو دین سیکھ کر، اپنی اپنی بستیوں کے لوگوں تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیں چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: {وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوا کَآفَّۃً ج فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوا فِی الدِّیْنَ وَلِیُنْذِرُوا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوٓا اِلَیْھِمْ لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ ہ} ترجمہ ’’اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ اُن کی آبادی کے ہر حصہ میں سے لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرنے اور واپس جاکر علاقوں کے باشندوں کو خبردار کرتے تاکہ وہ غیر مسلمانہ روش سے پرہیز کرتے‘‘ (التوبہ: ۱۲۲) اسی ہدایت کی اتباع میں اولیا کرام، بزرگانِ دین، علماء کرام نے اپنے اپنے زمانے میں اپنی تربیت میں تیار کئے ہوئے افراد کو مختلف علاقوں، شہروں اور بستیوں میں تعینات کیا کہ وہ لوگوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کریں تاکہ وہ محض اقرار کی حد تک ہی اپنے آپ کو مسلمان نہ کہیں بلکہ پوری زندگی اسلام کے سانچے میں ڈھال کر کفروشرک، بدعت اور گمراہی کے طریقوں اور راستوں سے بچ سکیں۔ چنانچہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ کشتواڑ کی چوٹیوں سے لے کر کرناہ اور پھر لداخ کرگل اور گوشہ گوشہ اور چپے چپے پر ان سادات کے مزار اور آرام گاہیں موجود ہیں۔ انہی بزرگوں کی نسل اور اولاد عام طور پر پیر اور مرشدگان طبقے سے موسوم ہوئی۔ ان حضرات کا کام یہ تھا کہ وہ اُن لوگوں تک جو بزرگوں کی نسبت سے ان کے ساتھ وابستہ ہوگئے تھے قرآن وسنت کی تعلیمات سے آگاہ کرتے۔ اُن کا ذہن اور کردار اسلام کے سانچے میں ڈھالتے، اُن کے گھروں میں جاکر اُن کی زندگی کے ہر چھوٹے بڑے کام میں بھی اُن کو دین کی پیروی پر ابھارتے اور تربیت کرتے۔ وہ اُن کو اسلام سمجھانے کے ساتھ ساتھ غیر اسلام سے بھی واقف کرتے تاکہ وہ اُن کاموں اور حرکتوں سے اجتناب کرتے جو اسلام کے خلاف ہوں۔ بزرگان کرام نے قرآن وسنت کی روشنی میں لٹریچر اور کتابیں بھی تیار کیں تاکہ پڑھے لکھے طبقے تک کتابوں کے ذریعہ بھی دین پہنچ جائے۔ آپ دیکھ لیجئے کہ حضرتِ شاہِ ہمدانؒ نے ذخیرۃ المَلُوک کے علاوہ اورادِ فتحیہ لکھ کر کتنا بڑا احسان کیا ہے۔ اس میں آپؒ نے توحید اور اسلام کی بنیادوں کا اس خوبی کے ساتھ تعارف کرایا ہے جس کی نظیر ملنا بہت مشکل ہے۔ کشمیرمیں چونکہ لوگ ہندو مذہب سے نکل کر اسلام کی گود میں آئے تھے۔ مگر تعلیم چونکہ عام نہ تھی۔ اس لئے اسلامی تعلیمات کی بنیادی اور جزئیات سے لوگ پوری طرح واقف نہ تھے۔ اس لئے اسلام قبول کرنے کے بعد اُن کے ساتھ ہندومذہب کی روایات، عادات واطوار اور فکروعمل کے آثار موجود رہے۔ ان اثرات کو دُور کرنے کا کام پیر برادری کی ذمہ داری تھی۔ دورِ اول میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بدوی لوگ اسلام کا غلبہ اور تَمَّکُن دیکھ کر اسلام تو لائے مگر ذہنی طور وہ اتنے راسخ العقیدہ نہ بن سکے کہ اسلام کے سارے تقاضے بطیب خاطر پورے کرلیتے۔ چنانچہ قرآن پاک میں اس کی نشاندہی فرمائی گئی ہے۔ {اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ کُفْرًا وَنِفَاقاً وَاَجْدَرُ اَلَّا یَعْلَمُوْا حُدُوْدَ مَآ اَنْزَلَ اﷲُ عَلَیٰ رَسُولِہِ وَاﷲُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ ہ} ترجمہ ’’یہ بدوی عرب کفر ونفاق میں زیادہ سخت ہیں اور ان کے معاملہ میں اس امر کے امکانات زیادہ ہیں کہ اس دین کے حدود سے ناواقف رہیں جو اﷲ نے اپنے رسولؐ پر نازل کیا ہے۔ اﷲ سب کچھ جانتا ہے اور حکیم ودانا ہے۔‘‘ (التوبہ :۹۷) اس آیت کی وضاحت میں جو تشریحی نوٹ لکھا گیا ہے میں ضرورت محسوس کررہا ہوں کہ اُس کو بھی شامل کیا جائے جو صورتحال سمجھنے میں مددگار بنے گا، کیونکہ اسلام کے بارے میں ہمارے معاشرے کا قریب قریب یہی حال ہے جو اُس وقت بدوی اور اعرابی معاشرہ اور ماحول کا تھا۔ تشریح:’’جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں۔ یہاں بدوی عربوں سے مراد وہ دیہاتی عرب ہیں جو مدینہ کے اطراف میں آباد تھے۔ یہ لوگ مدینہ میں ایک مضبوط اور منظم طاقت کو اٹھتے دیکھ کر پہلے تو مرعوب ہوئے پھر اسلام اور کفر کی آویزشوں کے دوران میں ایک مدّت تک موقع شناسی، ابن الوقتی کی روش پر چلتے رہے۔ پھر جب اسلامی حکومت کا اقتدار حجاز اور نجد کے ایک بڑے حصے پر چھا گیا اور مخالف قبیلوں کا زور اس کے مقابلہ میں ٹوٹنے لگا تو ان لوگوں نے مصلحتِ وقت اسی میں دیکھی کہ دائرہ اسلام میں داخل ہوجائیں۔ لیکن ان میں کم لوگ ایسے تھے جو اس دین کو دینِ حق سمجھ کر سچے دل سے ایمان لائے ہوں اور مخلصانہ طریقہ سے اس کے تقاضوں کو پورا کرنے پر آمادہ ہوں۔ بیشتر بدویوں کے لئے قبولِ اسلام کی حیثیت ایمان و اعتقاد کی نہیں بلکہ محض مصلحت اور پالیسی کی تھی۔ اُن کی خواہش یہ تھی کہ اُن کے حصہ میں صرف وہ فوائد آجاتیں جو برسر اقتدار جماعت کی رُکنیت اختیار کرنے سے حاصل ہوا کرتے ہیں، مگر وہ اخلاقی بندشیں جو اسلام اُن پر عائد کرتا تھا، وہ نماز روزے کی پابندیاں جو اس دین کو قبول کرتے ہی اُن پر لگ جاتی تھیں، وہ زکوٰۃ جو باقاعدہ تحصیل داروں کے ذریعے سے اُن کے نخلستانوں اور اُن کے غلوں سے وصول کی جاتی تھی، وہ ضبط ونظم جس کے شکنجے میں وہ اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسے گئے تھے، وہ جان ومال کی قربانیاں جو لوٹ مار کی لڑائیوں میں نہیں بلکہ خالص راہِ خدا کے جہاد میں آئے دن اُن سے طلب کی جاتی رہی تھیں، یہ ساری چیزیں ان کو شدت کے ساتھ ناگوار تھیں اور وہ ان سے پیچھا چھڑانے کے لئے ہر طرح کی چالبازیاں اور بہانہ سازیاں کرتے رہتے تھے۔ اُن کو اس سے کچھ بحث نہ تھی کہ حق کیا ہے اور اُن کی اور تمام انسانوں کی حقیقی فلاح کس چیز میں ہے۔ انہیں جو کچھ بھی دلچسپی تھی وہ اپنے معاشی مفاد، اپنی آسائش، اپنی زمینوں، اپنے اونٹوں اور بکریوں اور اپنے خیمے کے آس پاس کی محدود دینا سے تھی۔ اس سے بالاتر کسی چیز کے ساتھ وہ اس طرح کی عقیدت تو رکھ سکتے تھے جیسی پیروں اور فقیروں سے رکھی جاتی ہے کہ یہ اُن کے آگے نذرونیاز پیش کریں اور وہ اس کے عوض ترقی، روزگار اور آفات سے تحفظ اور ایسے ہی دوسرے اغراض کے لئے اُن کو تعویذ گنڈے دیں اور اُن کے لئے دُعائیں کریں، لیکن ایسے ایمان واعتقاد کے لئے وہ تیار نہ تھے جو اُن کی پوری تمدنی، معاشی اور معاشرتی زندگی کو اخلاق اور قانون کے ضابطہ میں کس دے اور مزید برآں ایک عالمگیر اصلاحی مشن کے لئے اُن سے جان ومال کی قربانیوں کا بھی مطالبہ کرے۔ ان کی اسی حالت کو یہاں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ شہروں کی نسبت یہ دیہاتی وصحرائی لوگ زیادہ منافقانہ رویہ رکھتے ہیں اور حق سے انکار کی کیفیت اُن کے اندر زیادہ پائی جاتی ہے۔ پھر اس کی وجہ بھی بتادی ہے کہ شہری لوگ اہل علم اور اہل حق کی صحبت سے مستفید ہوکر کچھ دین کو اوراس کی حدود کو جان بھی لیتے ہیں مگر یہ بدوی چونکہ ساری عمر بالکل ایک معاشی حیوان کی طرح شب وروز رزق کے پھیر ہی میں پڑے رہتے ہیں اور حیوانی زندگی کی ضروریات سے بلند تر کسی چیز کی طرف توجہ کرنے کا انہیںموقع ہی نہیں ملتا اس لئے دین اور اس کے حدود سے اُن کے ناواقف رہنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ یہاں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کردینا غیر موزوں نہ ہوگا کہ ان آیات کے نزول سے دو سال بعد حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کے ابتدائی عہد میں ارتداد اور منعِ زکوٰۃ کا جو طوفان برپا ہوا تھا اُس کے اسباب میں ایک بڑا سبب یہی تھا جس کا ذکر اِن آیات میں کیا گیا ہے‘‘ (تفہیم القرآن: جلد۲، صفحہ ۲۲۶،۲۲۷) اس طویل اقتباس میں جو دورِ اول کے بدویوں اور اعرابیوں کا حال بیان کیا گیا ہے اُس کی اصلاح کے لئے صحابہ کرام، خلفاء راشدین کا دور سعادت و عدل وانصاف اور سب سے بڑھ کر اسلام کے ہاتھ میں قوتِ نافذہ تھی۔ چنانچہ صدیقِ اکبرؓ نے مانعینِ زکوٰۃ کے خلاف اعلان جہاد کیا اور انحراف اور تقسیم دین کے رحجان کو رد کردیا کہ نماز اورروزہ کے فرائض انجام دیں گے مگر زکوٰۃ نہیں دیں گے۔ آج جو بگاڑ ہمارے معاشرے میں پیدا ہوگیا ہے کسی محدود خطے کی بات نہیں۔ جو صدیوں سے غلامی کی لعنت کا شکار اور ذلت وخواری کی دلدل میں گھٹنوں پھنس چکا ہے۔ بلکہ عالمی سطح پر جو ۵۷ مسلم اکثریت والے ممالک ہیں وہاں بھی یہی حال ہے کہ مسلمان کے ہاتھ میں قوت و اختیار ہے مگر اسلام ان ممالک میں بھی غربت ، مظلومیت، اجنبیت اور بے بسی اور بے اختیاری کی دردناک صورتحال سے دوچار ہے۔ معاشرے کی اس صورتحال میں اپنے آپ کو ’’پیر‘‘ کے لقب سے پکارے جانے والے اس ذمہ داری کے مکلف بنائے گئے تھے کہ آپ عام لوگوں سے رابطہ قائم کرکے جو آپ کے رشتہ عقیدت اور مریدیت میں منسلک ہیں اُن تک صحیح رنگ میں دین پہنچانے کا فریضہ انجام دیں۔ قرآن پاک میں اس بارے میں واضح ہدایت اور رہنمائی موجود تھی۔ چنانچہ ارشاد ربّانی ہے۔ {وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَدْعُوْنَ اِلَیْ الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ج وَاُوْلَٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ہ} ترجمہ ’’تم میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہونے چاہیں جو نیکی کی طرف بُلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔‘‘ (آلِ عمران:۱۰۴) مگر ہمارے پیر حضرات قرآن وسنت کی رہنمائی سے بے نیاز ہوکر اپنے متوسلین اور معتقدین سے ارادت، عقیدت، محبت، احترام اور مالی منفعت تو حاصل کرتے ہیں مگر اُن تک قرآن وسنت کی تعلیمات پہنچانے میں مجرمانہ غفلت برتتے ہیں۔ مسلم معاشرے کے بگاڑ کا سب سے زیادہ یہی طبقہ ذمہ دار ہے۔ یہ لوگ اپنے نسلی تفاخر میں مبتلا ہوکر گروہ بندیوں کے شکار ہیں، بلکہ بنی اسرائیل کی طرح جب خاتم النبیّنؐ فداہٗ ابی و اُمی جسمی و روحی، اسلام کا پیغام لے کر تشریف لائے تو پیغمبروں کو ماننے والے، تورات پر ایمان کا دعویٰ کرنے والے حضرت موسیٰؑ کی رسالت کو ماننے والے انکار اور مخالفت کرنے والوں کی صفِ اول میں شامل ہوگئے۔ اسی لئے قرآن میں ان سے کہا گیا تھا۔ { وَلاَ تَکُوْنُوٓااَوَّلَ کَافِرِ مِ بِہٖ ہ } ’’تم انکار کرنے میں سبقت لینے والے مت بن جاؤ‘‘ آج کے مسلم معاشرے میں ہر جگہ یہ صورتحال دیکھنے میں آرہی ہے کہ جب جب اور جہاں جہاں قرآن وسنت کی طرف، احیاء اسلام کی طرف، غلبہء اسلام کی جدوجہد کی طرف کوئی آواز، کوئی منظم جماعت سامنے آتی ہے تو ہمارے پیر حضرات اُس کی مخالفت کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت کرنے والوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ عام لوگوں کی بے خبری اور بے علمی کا استحصال کرتے ہوئے یہی لوگ لادین نظام، لادین سیاست، دین بے زار تعلیم، آخرت فراموش نظام اور الحادی طرزِ زندگی کا ساتھ دیتے ہیں اور غلبہء دین اور طاغوتی قوتوں کی مخالف آوازوں کو دبانے میں اُن کا بھرپور ساتھ دیتے ہیں۔ اولیاء کرام کے مزاروں اور آرام گاہوں پر عام لوگ، یعنی دین سے بے خبر لوگ، جس شرک میں مبتلا ہوچکے ہیں پیر حضرات اُن سے نذرونیاز حاصل کرکے شرک کے پھیلاؤ میں مددگار بنتے ہیں۔ ان زیارت گاہوں پر عرس منائے جاتے ہیں۔ ان میں ایک طرف اختلاطِ مردوزن ہوتا ہے اور دوسری طرف کھلے عام ان مقامات پر لادین سیاست کے علمبردار، ظالم اور غاصب قوتوں کے حامی، حاشیہ بردار اور زرخرید ایجنٹ لوگوں کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی لادین سیاست کا جال بچھاتے ہیں۔ عام لوگوں کو سبز باغ دکھاکر، جھوٹے وعدے دیکر، باطل اور جابر قوتوں کی غلامی پر رضامند رہنے اور قانع بننے پر ذہنی اور عملی طور تیار کرتے ہیں۔ ان زیارتوں کے مجاور اور سرپرست عام طور پر ’’پیر حضرات‘‘ ہی ہوتے ہیں اور سب کچھ انہی کی سرپرستی، نگرانی اور اہتمام کے تحت ہوتا ہے۔ جو لوگ ان حرکتوں پر قرآن وسنت کی روشنی میں ٹوکتے اور نشاندہی کرتے ہیں اور عامۃ المسلمین کے ساتھ جذبہ خیرخواہی کے پیشِ نظر اﷲ تعالیٰ کی ناراضی اور آخرت کی شدید باز پرس سے بچانے کی کوششیں کرتے ہیں اُن کو ’’پیر حضرات‘‘ ہی بد اعتقاد اور اولیاء مخالف ہونے کا گھناونا الزام دیکر لوگوں کوبھڑکاتے ہیں اور اسلام دشمن طاقتوں کو ’’خوش اعتقادی‘‘ کے نام پر باطل نظریات کو غالب کرنے میں مددگار بنتے ہیں۔ اسی لئے اسلام کی زبوں حالی کی اقبالؒ نے ترجمانی کی ہے۔ من از بے گانگاں ہرگز نہ نالم کہ بامن آنچہ کرد آں آشنا کرد یہ آشنا لوگ ہی اسلام پر یہ ظلم وستم ڈھاتے ہیں۔ اسلام کو دن بدن کمزور اور مظلوم بنانے میں مددگار بنتے ہیں۔ شرکیات اور بدعات کا ساتھ دیتے ہیں۔ عُریانی ،فحاشی، اختلاط مردوزن اور بدعات کو فروغ دینے اور قرآن وسنت کے سرچشمہ ہدایت سے دور کرنے میں ممد ومعاون بنتے ہیں۔ چو کفر از کعبہ بر خیزد کجا ماند مسلمانی ان ناقابل تردید حقائق کو دہرانے میں ہرگز یہ مقصد اور مدعا نہیں ہے کہ میں سماج اور معاشرہ کے اس سربر آواردہ طبقے کی توہین، تضحیک اور سُبکی کروں۔ حاشا وکلا! میں تو خود بھی اسی طبقے سے تعلق رکھتا ہوں۔ میں نے سنِ شعور تک پہنچتے پہنچتے مخلص مریدوں کے گھروں میں ہی کھایا پیا ہے اور وہیں پلا بڑا ہوں۔ مجھے ذاتی تجربہ ہے کہ مریدوں کو اپنے پیروں کے ساتھ کتنی محبت، عقیدت اور مخلصانہ تعلق اور وابستگی ہوتی ہے۔ اگر پیر حضرات مریدوں کی صحیح رہنمائی کریں، اُن کو اسلامی تعلیمات سے بلا کم وکاست آگاہی بخشیں اُن کو سرچشمہ ہدایتِ قرآن اور اسوئہ حسنہ و کاملہ کی طرف رہنمائی کریں تو باطل، طاغوت اور لادین طبقہ کی ساری ریشہ دوانیاں اور مکروفن کے شیطانی اور ابلیسی حربے ناکام و بے اثر ہوجاہیں گے۔ مجھے اس میں رتی برابر بھی شک وشبہ نہیں ہے۔ کاش ہمارے پیر حضرات وقت کی نزاکت، اسلام کے خلاف عالمی سطح کی سازشیں، اسلام کو دہشت گردی کا بے بنیاد الزام دینے والے دہشت گرد ملک اور حکومتیں اور اُن کی منظم اسلام دُشمن منصوبہ بندی اور پانی کی طرح سرمایہ بہاکر عام مسلمانوں کو ذہنی اور علمی ارتداد کا شکار بنانے کی کھلے عام کوششوں کا ادراک کرکے اپنے روّیے اور طرز عمل میں اسلامی تعلیمات کے مطابق تبدیلی لاتے تو حالات بدلنے میں کچھ دیر نہیں لگتی۔ اپنے گردوپیش پر نظر ڈال کر اس حقیقت کے اعتراف میں کوئی تصنع اور تفخر نہیں ہے کہ پیر حضرات جدید تعلیم میں صفِ اول میں شمار کئے جاسکتے ہیں اگرچہ بالعموم آج کے دور میں تعلیم عام ہے۔ اس میں سب کے لئے خوشی اور مسرت کا مقام ہے مگر دین سے بے خبری اور دین کی روح سے محرومی بھی عام ہے۔ اس محرومی کو دور کرنے میں زیر بحث حضرات بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ میں اس تاثر کو بھی دور کرنا چاہتا ہوں کہ نسل اور ذات کی بنیاد پر کسی کو فضیلت حاصل نہیں ہوسکتی۔ رسولِ رحمتؐ کا ارشاد ہے: { یَا اَیُّھَاالنَّاسُ، اَلاَ اِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ لاَ فَضْلَ لِعَرَبِیِّ عَلیٰ عَجَمِیَّ وَّلاَ لِعَجَمِیٍّ عَلیٰ عَرَبِیٍّ وَّلاَ لِاَسْوَدَ عَلیٰ اَحْمَرَ وَلاَ لِاَحْمَرَ عَلیٰ اَسْوَدَ اِلاَّ بِالتَّققوَیٰ، اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاﷲِ اَتْقٰکُمْ۔ اَلاَھَلْ بَلَّغْتُ؟ قَالُوْابَلیٰ یَا رَسُولَ اﷲ، قَالَ فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِب۔کُلُّکُمْ بَنُوْاٰدَمَ وَاٰدَمُ خُلِقَ مِنْ تُرَابٍ } ’’لوگو، خبردار رہو، تم سب کا خدا ایک ہے۔ کسی عرب کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عرب پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے مگر تقویٰ کے اعتبار سے اﷲ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو۔ بتاؤ، میںنے تمہیں بات پہنچادی ہے! لوگوں نے عرض کیا ہاں یا رسول اﷲؐ ۔فرمایا، اچھا تو جو موجود ہے وہ اُن لوگوں تک یہ بات پہچا دے جو موجود نہیں ہیں ۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے تھے۔‘‘ ساری دُنیا کے انسان آدم کی اولاد ہیں اور مسلمان بھی آدم کی اولاد ہیں۔ اسلام میں فضیلت اور برتری کی بنیاد صرف اور صرف تقویٰ ہے۔ اس کا تذکرہ گذشتہ صفحات میں آچکا ہے۔ یہ جو ہم نے گروہ بندیاں بنائی ہیں، گیلانی،سروری، قادری، حسینی، مخدومی، فاروقی، صدیقی، عثمانی، نقشبندی وغیرہ وغیرہ بہت سی ’’چھوٹی یائے والے‘‘ یہ سب محض پہچان کے لئے ہیں۔ وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوٓا ’’ہم نے جو تمہارے قبیلے اور گروہ بنائے ہیں یہ سب تعارف اور پہچان کیلئے‘‘ پیر حضرات سے خاص طور نئی نسل سے جو میری توقعات ہیں کہ اگر یہ گروہ مجموعی طور ذہناً اور عملاً اسلام کا ہوجائے یعنی اسلام کے غلبہ اور احیاء کیلئے کام کرے تو باطل اور غیراسلامی نظام ہائے زندگی کے مقابلے میں اسلام کے عادلانہ اور منصفانہ نظام کے قیام اور غلبہ کے لئے کام کرے تو بہت ہی مؤثر اور فعال کردار ادا کرسکتا ہے۔ ناموں کی نسبت سے تو سب مسلمان ہیں مگر کام قریب قریب سب کے مختلف ہیں اور مُلا طاہر غنی کشمیریؒکا یہ شعر ہمارے جوانوں کے فکروعمل کی صورت حال پر صادق آتا ہے۔ غنی روزِ سیاہ پیرِ کنعاں را تماشا کن کہ نور دیدہ اش روش کندچشمِ زلیخا را اقبالؒ کے اشعار میں اتنا عمق اور گہرائی ہے کہ ایک ایک مصرعہ پر ایک ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے اس لئے قارئین حضرات کو تعجب نہیں ہونا چاہئے کہ مرحوم کے ایک شعر چار مرگ اندرپے این دیر میر سودخوار و والئی و ملاّ و پیر پہ اتنے صفحات کیوں سیاہ کرائے گئے ہیں۔ اس میں ابھی اور بھی بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے کیونکہ اس ایک شعر میں حکیم الامّت نے امّتِ مسلمہ کے زوال اور ادبار کے اسباب و وجوہ اور موجودہ صورت حال کے پیدا کرنے کی ذمہ داری جن چار عناصر پر ڈال دی ہے اگر یہ چاروں عناصر بدل جائیں اور اسلام امّتِ مرحومہ اور بنی نوع انسان کی فلاح وبہبود، دنیوی اور اُخروی کامیابی اور کامرانی کے لئے مطلوبہ کردار ادا کریں تو زہے قسمت! دلِ دردمند کی اپیل: صفِ جنگاہ میں مردانِ خدا کی تکبیر جوشِ کردار سے بنتی ہے خدا کی آواز ہے مگر فرصتِ کردارنفس یادونفس عوضِ یک نفس قبر کی شب ہائے دراز گردوپیش میں دنیا کے حالات، فرنگیوں کی فتنہ سامانیاں، لاالہٰ کا اقرار کرنے والے کی بے بسی اور درماندگی، اُس کے تعاقب میں چار مرگ یا چار ملک الموت کا تعاقب، یہ سب روداد گزارش کرنے کے بعد اقبالؒ ربّ کائینات کی خدمت میں فریاد کرتا ہے این چنیں عالم کجا شایانِ تست آب و گل داغے کہ بردامانِ تست آپ کی تخلیق کردہ دنیا کے یہ حالات کہاں تیری شانِ عظمت کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں؟ یہ انسان جو خاک وآب کا مرکب ہے یہ تیرے دامنِ عظمت پر ایک داغ ہے ندائے جمال: طوالت کے خوف سے ہم اس کا خلاصہ پیش کریں گے۔حق کے قلم نے خوب وزشت کے نقوش سے ہماری پسند اور رضا کے مطابق جو لکھنا تھا لکھدیا۔ اے نیک بخت جانتے ہو زندگی اور زندہ ہونا کیا ہے؟۔ اصل زندگی یہ خاکی وجود نہیں بلکہ اﷲ تعالیٰ کی ذات کی معرفت اور اُس سے اپنی بساط کے مطابق حصہ حاصل کرنا زندگی ہے۔ اپنے اندر اپنے محبوب کی تلاش کا جذبہ اور ولولہ پیدا کرنا، پھر اپنے آپ کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا یعنی معرفت اِلٰہی حاصل کرکے دوسروں کی تربیت اور رہنمائی کا فریضہ انجام دینا۔ یہ اسلامی مزاج نہیں ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا قرب اور معرفت حاصل ہوجائے اور پھر مسلمان لب بند اور گوش بند ہو جائے۔ نہیں اُسے اپنی داعیانہ حیثیت کو مستحضر رکھ کر داعیانہ کردار ادا کرنے کے لئے متحرک اور فعال بن جانا چاہئے۔ جیساکہ ارشاد ربانی ہے: اَدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجٰدِلْھُمْ بِالَّتِی ھِیَ اَحْسَنُ ج اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِیلِہِ وَھُوَ اَعلَمُ بِالمُھْتَدِینَ ہ ترجمہ ’’ اے نبیؐ اپنے ربّ کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو۔ تمہارا ربّ ہی بہتر جانتا ہے کہ کون اُس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہِ راست پر ہے۔ (النحل:۱۲۵) تشریح :’’یعنی دعوت میں دو چیزیں ملحوظِ نظر رہنی چاہیں۔ ایک حکمت، دوسرے عمدہ نصیحت، حکمت کا مطلب یہ ہے کہ بے وقوفوں کی طرح اندھادُھند تبلیغ نہ کی جائے بلکہ دانائی کے ساتھ مخاطب کی ذہنیت، استعداد اور حالات کو سمجھ کر، نیز موقع ومحل کو دیکھ کر بات کی جائے۔ ہر طرح کے لوگوں کو ایک ہی لکڑی سے نہ ہانکا جائے۔ جس شخص یا گروہ سے سابقہ پیش آئے پہلے اُس کے مرض کی تشخیص کی جائے۔ پھر ایسے دلائل سے اُس کا علاج کیا جائے جو اُس کے دل ودماغ کی گہرائیوں سے اُس کے مرض کی جڑ نکال سکتے ہوں۔ عمدہ نصیحت کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ مخاطب کو صرف دلائل ہی سے مطمئن کرنے پر اکتفانہ کیا جائے بلکہ اُس کے جذبات کو بھی اپیل کیا جائے۔ برائیوں اور گمراہیوں کا محض عقلی حیثیت ہی سے ازالہ نہ کیا جائے بلکہ انسان کی فطرت میں اُن کے لئے جو پیدائشی نفرت پائی جاتی ہے اُسے بھی اُبھارا جائے اور اُن کے برے نتائج کا خوف دلایا جائے۔ ہدایت اور عمل صالح کی محض صحت اور خوبی ہی عملاً ثابت نہ کی جائے بلکہ اُن کی طرف رغبت اور شوق بھی پیدا کیا جائے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ نصیحت ایسے طریقہ سے کی جائے جس سے دل سوزی اور خیر خواہی ٹپکتی ہو۔ مخاطب نہ سمجھے کہ ناصح اُسے حقیر سمجھ رہا ہے اور اپنی بلندی کے احساس سے لذّت لے رہا ہے، بلکہ اُسے یہ محسوس ہو کہ ناصح کے دل میں اُس کی اصلاح کے لئے ایک تڑپ موجود ہے اور وہ حقیقت میں اُس کی بھلائی چاہتا ہے۔ ‘‘ مباحثہ کے طریقہ کی تشریح ہے: ’’یعنی اُس کی نوعیت محض مناظرہ بازی اور عقلی کُشتی اور ذہنی دنگل کی نہ ہو۔ اُس میں کج بحثیاں اور الزام تراشیاں اور چوٹیں اور پھبتیاں نہ ہوں۔ اُس کا مقصود حریف مقابل کو چُپ کرادینا اور اپنی زبان آوری کے ڈنکے بجادینا نہ ہو، بلکہ اس میں شیرین کلامی ہو، اعلیٰ درجہ کا شریفانہ اخلاق ہو اور معقول اور دل لگتے دلائل ہوں۔ مخاطب کے اندر ضد اور بات کی پچ اور ہٹ دھرمی پیدا نہ ہونے دی جائے۔ سیدھے سیدھے طریقے سے اُس کو بات سمجھانے کی کوشش کی جائے اور جب محسوس ہو کہ وہ کج بحثی پر اُتر آیا تو اُسے اُس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ گمراہی میں اور زیادہ دُور نہ نکل جائے‘‘ (تفہیم القرآن: جلد۲،صفحہ ۵۸۱،۵۸۲) آفریدن؟ جستجوئے دلبرے وانمودن خویش را بردیگرے یہ جو دُنیا کا ہنگامہ دیکھ رہے ہو ہمارے حکم اور جمال کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا ہے۔ کُن فیکون کا ثمر اور نتیجہ ہے۔ انسانی زندگی فانی بھی ہے اور باقی بھی۔ یہ خَلّاقی اور مُشتاقی کا مجموعہ اور اتصال ہے۔ فانی اس حوالہ سے کہ دُنیا کی امتحان گاہ میں اُسے ایک مختصر وقت کے لئے رہنا ہوتا ہے اور باقی اس حوالہ سے کہ موت کے بعد کی زندگی اس کے لئے ابدی اور دایمی ہے۔ اس لئے دُنیا میں انسان کو ایسا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہئے جو اُس کی ابدی زندگی کے لئے رحمت اور آسائش کا سامان بن سکے۔ قوتِ تخلیق اور پھر ارفع اور اعلیٰ مقاصد کے لئے عشق اور جدوجہد کا جذبہ اور ولولہ۔ اگر تم فی الواقع زندہ ہو پھر تم کو لازماً مُشتاق اور خَلّاق بننا ہوگا۔ جس طرح ہم پوری دُنیا کا احاطہ کئے ہوئے ہیں اُسی طرح تم کو بھی اپنے منصب اور اِلٰہی نظریہ حیات کی پیروی میں اور اُس کے غلبہ کی شکل میں دُنیا کا احاطہ کرنا چاہئے۔ یہی تیرا اصل مقام اور اصل کام ہے۔ گردوپیش میں جو کچھ تیرے نظریہء حیات کے خلاف ہے اُس کو زیروزبر کردے۔ اپنے ایمان اور ضمیر کی آواز کے مطابق نئی دُنیا تعمیر کر۔ اﷲ کے جو بندے اپنے جیسے دوسرے بندوں کے غلام نہیں ہوتے ہیں بلکہ اﷲ کی بندگی کے بغیر انسانوں کی غلامی کی زنجیریں کاٹ کر آزاد ہوتے ہیں اُن کے لئے دوسروں کی دُنیا میں زندگی گذارنا بہت گراں اور ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ندائے جمال میں انسان کو یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ بندوں کی غلامی انسان کے لئے کسی حال میں قابل قبول نہیں ہونی چاہئے۔ جس میں قوتِ تخلیق نہ ہو وہ ہمارے نزدیک کافر اور زندیق ہے۔ قدرت نے انسان کے لئے زمین وآسمان اور بحروبر میں جو نعمتیں اور خزانے پیدا کئے ہیں جب تک قوتِ تخلیق کے استعمال سے اُن کی افادیت کو اُجاگر نہ کیا جائے اور انسانیت کو فائدہ پہنچانے کا فریضہ انجام نہ دیا جائے انسان کا منصبی کام انجام نہیں پاسکتا۔ خاص طور جو لاالہٰ کہنے والے ہیں اُن کو کائینات کی تسخیر سے خالقِ کائینات کی معرفت اور بندگی کا راستہ ہموار کرنا چاہئے۔ جس بندے نے ہمارے جمال اور جلال سے اپنا حصہ حاصل نہ کیا اُس نے نخلِ زندگانی سے کوئی پھل اور ثمر حاصل نہ کیا۔مردِ حق، اﷲ کا مخلص اور یکسو بندہ، بندئہ حنیف، شمشیر کی طرح چمکدار اور تیز کاٹ رکھنے والا بن جا۔ اپنی دُنیا کے لئے اپنی تقدیر خود بنانے والا بن جا۔ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے زندہ رود: پیررومیؔنے علامہ اقبالؒ کو یہ لقب دیا۔ متلاطم دریاکیونکہ اقبالؒ رہین خانہ نہیں ہوتے تھے بلکہ بوقلموں دنیا کی زنگینیوں سے اپنے شعورو ادراک کو جلا دینے کی کوشش میں مصروف رہتے تھے ۔ جمالِ ربّ ذولجلال سے استفسار کرتے ہیں۔ چیست آئینِ جہانِ رنگ و بُو جُز کہ آبِ رفتہ می ناید بجو! اس رنگ وبو کی دُنیا کا آئین اور حقیقت کیا ہے؟ اس کی مثال اس پانی کی ہے جو ایک دفعہ بہہ گیا پھر دوبارہ ندی میں واپس نہیں آتا ہے۔ زندگانی را سرِ تکرار نیست فطرتِ اُو خوگرِ تکرار نیست! زیرِ گردوں رجعت اُو نار و است چُوں زپا اُفتاد قومے برنخاست! ملّتے چوں مُرد کم خیزد زقبر چارئہ او چیست غیراز قبر و صبر! انسان کی زندگی، دُنیا میں دوبارہ نہیں آسکتی۔ اُس کی فطرت اور جبلّت میں دوبارہ آنے کی خاصیت اور صلاحیت نہیں ہے۔ آسمان کے نیچے اور زمین پر اُس کا واپس لوٹنا ناروا ہے۔ جیسے کوئی قوم پستی میں گرجاتی ہے پھر دوبارہ نہیں اُٹھتی ہے۔ کوئی ملّت اور قوم جب مرجاتی ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ جسمانی طور مرجائے بلکہ مقصدِ حیات اور روح کے اعتبار سے جب وہ غالب قوتوں کے آگے سرنگوں ہوجاتی ہے وہی اُس کے لئے اصل موت ہوتی ہے۔ ایسی قوم اس معنوی اور جوہری موت کی قبر سے بہت کم دوبارہ اٹھ کھڑی ہوجاتی ہے۔ اُس کے لئے آخری چارہ کار صرف یہی ہے کہ وہ قبر اور صبر کا سامنا کرے۔ زندہ رود ربّ ذوالجلال کی بارگاہ میں اپنی ملّت اور اپنی ازخود رفتہ قوم پر نوحہ کنان ہے۔ ندائے جمال: جمالِ ذوالجلال زندہ رود کے اس نوحہ کا جواب دیتے ہیں اور ملّت کے زوال، انحطاط اور قبرو صبر کی حرماں نصیبی سے دوچار ہوجانے کا علاج بتا رہے ہیں۔ زندگانی نیست تکرارِ نفس اصلِ اُو از حیّ و قیوم است و بس! انسان کی زندگی محض سانس لینا اور چھوڑنا نہیں ہے۔ اُس کی اصل زندہ اور قائم ودائم ذاتِ حق کے ساتھ تعلق سے وابستہ ہے۔ جتنا اُس کا اپنے مالک اور خالق کے ساتھ قرب اور تعلق ہوگا وہ زندئہ جاوید ہے۔ قربِ جاں باآنکہ گفت اِنِّی قَرِیْبُٗ از حیاتِ جاوداں بر دن نصیب! انسان کی روح اپنے خالق ومالک کی قربت سے نوازی گئی ہے جیساکہ اُس سے کہا گیا ہے۔ {وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَاِنِّی قَرِیْبٌ اُجِیبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوالِی وَلْیُؤْمِنُوا بِی لَعَلَّھُمْ یَرْ شُدُونَ ہ} ’’اور اے نبیؐ میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں بتادو کہ میں اُن سے قریب ہی ہوں، پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے میں اُس کی پکار سُنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انہیں چاہئے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔ یہ بات تم انہیں سُنادو شاید کہ وہ راہِ راست پالیں۔‘‘ اس واضح اور غیر مبہم یقین دہانی کے بعد، بندوں کا اﷲ کو چھوڑ کر دوسروں کی طرف رجوع کرنا اور دوسروں سے اُمیدیں باندھنا، دوسروں سے اولاد طلب کرنا، بیماری کی حالت میں شفاء ڈھونڈنا، محتاجی اور غربت کی حالت میں کشادگی اور وسعتِ دست تلاش کرنا، مصیبت اور رنج ومحن، ابتلا اور آزمائش سے نجات حاصل کرنے کی دُعائیں مانگنا اور اﷲ کی مخلوق کے ہاتھ میں اختیار اور رفعِ حاجت کی استطاعت کا یقین رکھنا، یہ سب اﷲ تعالیٰ کے نزدیک بندے کی نافرمانی، ناعاقبت اندیشی اور اﷲ کی ذاتِ اقدس کے ساتھ بے یقینی اور بد اعتمادی ہے جس کو اﷲ تعالیٰ کبھی معاف نہیں کریگا۔ یہ کھلا اور جلی شرک ہے اور شرک سب سے بڑا ظلم اور گُناہِ کبیرہ ہے۔ بندے کا ہر حیثیت اور ہر پہلو سے اﷲ کا ہوکر رہنا زندگی جاودان سے بہرہ ور ہونا ہے۔ فرد از توحید لاہوتی شود ملّت از توحید جبروتی شود! بایزید و شبلی و بوذر ازوست اُمّتاں را طغرل و سنجر ازوست! بے تجلّی نیست آدم را ثبات جلوئہ ما فرد و ملّت را حیات! ہردو از توحید می گیرد کمال زندگی این را جلال آں را جمال! ایں سلیمانی است، آں سلمانی است آں سراپا فقر و ایں سلطانی است! آں یکی را بیند ایں گرددیکی درجہاں با آں نشیں باایں بزی! لاہوت۔ عالم ذاتِ اِلٰہی کا جس میں سالک کو مقام فنافی اﷲ حاصل ہوتا ہے۔ واضح ہوکہ مرتبہ صفات کو جبروت اور مرتبہ اسماء کو ملکوت کہتے ہیں۔ بحوالہ لغت کشوری، صفحہ ۴۱۰۔ یہ مقام بندئہ مؤمن کو توحید کا عقیدہ راسخ کرنے سے حاصل ہوجاتا ہے اور جب توحید کا عقیدہ ایک پوری ملّت شعور کی بیداری کے ساتھ اختیار کرلیتی ہے اُسے مقامِ جبروت حاصل ہوجاتا ہے۔ آج ملّت کا فرد بھی اور ملّت بحیثیت مجموعی توحید کی نعمت اور دولتِ بے پایان سے محروم ہوچکی ہے۔ اس لئے لاہوت اور جبروت دونوں مقامات سے دُور ہوچکی ہے۔ ملّت اسلامیہ علمی، فکری اور عملی انتشار کے باعث دُنیا کے معاملات پر دست رس سے مکمل طور محروم کرائی گئی ہے۔ توحید فرداور ملّت کی تعمیر اور سیرت وکردار کی پختگی اور بلندی کی واحد ضمانت ہے۔ یہ ضمانت مسلمان ملّت سے اُن کے مشرکانہ سوچ، فکر اور عمل کی وجہ سے چِھن گئی ہے ۔ مولانا حالی مرحوم نے مسدس میں خونِ جگر سے اس کا نقشہ یوں کھینچا ہے۔ کرے غیر گر بُت کی پوجا تو کافر جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر جُھکیآگ پر بہرِ سجدہ تو کافر کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر مگر مؤمنوں پر کُشادہ ہیں راہیں پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں نبیؐ کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں اماموں کا رتبہ بنیؐ سے بڑھائیں مزاروں پہ دن رات نذریں چڑھائیں شہیدوں سے جاجاکے، مانگیں دُعائیں نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے وہ دین جس سے توحید پھیلی جہاں میں ہوا جلوہ گر حق، زمین وزمان میں رہا شرک باقی نہ وہم وگمان میں وہ بدلا گیا آکے ہندوستان میں ہمیشہ سے اسلام تھا جس پہ نازاں وہ دولت بھی کھو بیٹھے آخر مسلمان اﷲ تعالیٰ کی ذاتِ والا صفات پر یقین، اُس کی وحدانیت، حاکمیت، خالقیت، رزاقیت پر بلا شرکت غیرے ایمان وایقان نے ہی بازید بسطامیؔ، شبلیؔ اور ابوذر غفاریؓ جیسے صحابی اور ولی اﷲ پیدا کئے۔ اسی عقیدے اور یقین نے ملّت کو طغرل اورسنجر کی جیسی حکومتیں اور تخت وتاج عطا کئے تھے۔ اﷲ تعالیٰ کی معرفت اور کامل بندگی کے بغیر انسان کو ثبات دوام اور اصل مقام حاصل نہیں ہوجاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی، رضامندی، محبت اور نصرت ہی میں فرد اور ملّت کے لئے حیات اور زندگی ہے۔ ۔ جیساکہ فرمایا گیا ہے۔ {یَٰٓاَیّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُو اسْتَجِیْبُوا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُولِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ } ’’اے ایمان لانے والو، اﷲ اور اُس کے رسولؐ کی پکار پر لبیک کہو۔ جبکہ رسولؐ تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے‘‘ (الانفال :۲۴) اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔ جلوئہ ما فرد و ملّت راحیات دونوں، فرد بھی اور ملّت بھی توحید کے عقیدے اور دولت سے ہی کمال حاصل کرسکتے ہیں۔ توحید فرد کے لئے جلال اور ملّت کے لئے جمال ہے۔ توحید سلیمانی بھی ہے اور سلمانی بھی۔ یعنی اس کی برکت سے ملتِ مرحومہ کو سلیمانؑ کی طرح قوت، سلطنت اور اختیار واقتدار نصیب ہوتا ہے اور کردار کے لحاظ سے حضرت سلمان فارسیؓ جیسے افراد تربیت اور تشکیل پاتے ہیں جن سے پوچھا گیا تھا کہ آپ کی ولدیت اور زادو بُوم کیا ہے تو اُن کا جواب تھا سلمان اِبن اسلامؓ۔ انفرادی سطح پر فقراور غیرت کی زندگی اور اجتماعی سطح پر سلطانی و سرداری۔ توحید کا اثر اور ثمر یہ ہے کہ جب فرد اﷲ کی وحدانیت اور احدّیت کا یقین راسخ بناتا ہے تو یہ بھی اپنی انفرادیت میں خدائی رنگ اختیار کرتا ہے اور ملّت افراد کی اس خصوصیت کا اجتماعی طور مظاہرہ کرتی، توحید کی لڑی میں پرو دیئے جاتے ہیں۔فطرت ربّانی اقبالؒ سے کہتی ہے توحید پرست فرد کے ساتھ ہم نشینی اختیار کر اور ملّت کی سطح پر سلطانی وجہاں بانی کی زندگی اختیار کر۔ ملّت کو یہ مقام صرف توحید کی برکت سے نصیب ہوگا۔ چیست ملّت اے کہ گوئی لا اِلہٰ؟ با ہزاراں چشم بودن یک نگہ! ابل حق را حجّت و دعویٰ یکے است ’خیمہ ہائے ما جدا دلہا یکے است‘! ذرہ ہا از یک نگاہی آفتاب یک نگہ شو تا شود حق بے حجاب! یک نگاہی را بچشمِ کم مبیں از تجلّی ہائے توحید است ایں! مِلّتے چوں می شود توحید مست قوت و جبروت می آید بدست! اے لا الہٰ کہنے والے مسلمان، ملّت کا مطلب اور مقصد کیا ہے؟ ہزاروں نگاہوں کے ہوتے ہوئے ایک نگاہ سے دیکھنا۔ مطلب فکر، سوچ اور approach یکسان ہو جس کو فکری ہم آہنگی کہہ سکتے ہیں۔ یہ فکری ہم آہنگی پوری ملّت میں عُنقا ہوگئی ہے۔ رنگ، نسل، زبان، وطن، علاقہ ، معاش اور شکم ہمارے نقطہ ہائے نگاہ بن گئے ہیں۔ حق پرست لوگوں کے لئے ایک ہی حجت اور دعویٰ ہے اور وہ ہے اﷲ کی کتاب القرآن اور رسولِ رحمتؐ کا اسوئہ حسنہ۔ اس مرکز سے دوری اور جدائی ملّت کے انتشار اورافتراق کی بنیادی وجہ ہے۔ ہمارے خیمے الگ الگ ہیں یعنی دُنیا کے مختلف ملکوں اور گوشوں میں افراد اور اجزائے ملّت رہ بس رہے ہیں مگر ہمارا دل ایک ہی ہے۔ جیساکہ رسولِ رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم فداہ ابی و اُمّی و روحی! کا ارشاد ہے: اَلْمُؤمِنُ لِلْمُؤمِنِ کَالبُنْیَانُ یَشُدُّ بَعْضَہٗ بَعْضاً وَشَبَّکَ بَیْنَ اَصَابِعِہٖ ترجمہ ’’مؤمن مؤمن کے لئے عمارت کی اینٹوں کی طرح ہے جو ایک دوسرے کی مضبوطی اور استحکام کا مؤجب ہیں اور حضورؐ نے اپنی انگلیوں کو آپس میں جال کی طرح ملادیا۔‘‘ تشریح:’’ اس حدیث میں مسلمان سوسائٹی کو عمارت سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح اس کی اینٹیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کو آپس میں چمٹے رہنا چاہئے اور پھر جس طرح ہر اینٹ دوسری اینٹ کو قوت اور سہارا دیتی ہے اسی طرح اُنہیں بھی ایک دوسرے کو سہارا دینا چاہئے۔ نیز جس طرح بکھری ہوئی اینٹیں باہم جُڑ کر مضبوط عمارت کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اُسی طرح مسلمانوں کی قوت کا راز اُن کے آپس میں جڑنے میں ہے۔ اگر وہ بکھری ہوئی اینٹوں کی مانند رہے تو اُن کو ہوا کا جھونکا اُڑالے جاسکتا ہے اور پانی کا ہر ریلا بہالے جاسکتا ہے۔ آپؐ نے حقیقت کو ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوست کرکے محسوس شکل میں بیان فرمایا‘‘۔ (’’راہِ عمل‘‘، ص ۱۸۱،۱۸۲) ریگ زار کے ذرّ ے مل کر، اور یکجاویک نگاہ ہو ں تو آفتاب درخشندہ بن سکتے ہیں۔ ملّت کی یک نگاہی اور فکری ہم آہنگی سے ہی حق بے حجاب ہوسکتا ہے۔ آج ۵۷ ملکوں میں مسلمانوں کی قومی حکومتیں ہیں لیکن اﷲ کے پسندیدہ دین کی ملّت اور بنی نوع انسان کے لئے اس کی رحمت، بے حجاب اور آفتاب کی طرح ظاہر نہیں ہورہی ہے۔ جس یک نگاہی کی طرف تجھے دعوت دی جارہی ہے اس کو حقیر نگاہوں سے مت دیکھو اور کمتر درجہ نہ دیدو۔ یہ تو توحید کی تجلّی ہے جو ملّت کے فکری اتحاد کی شکل میں مطلوب ہے۔ ملّت جب توحید کی نعمت اور دولت سے بہرہ ور ہوجائے صرف اُسی حالت میں قوت اور طاقت کی وہ امانت دار بنائی جاسکتی ہے۔ روحِ ملّت را وجود از انجمن روحِ ملّت نیست محتاجِ بدن! تا وجودش را نمود از صحبت است مُرد چوں شیرازہء صحبتِ شکست! مردئہ ا ؟ ازیک نگاہی زندہ شو بگذر از بے مرکزی پایندہ شو وحدت افکار و کردار آفریں تاشوی اندر جہاں صاحبِ نگیں! ملّت کی روح کا وجود جذبہ اخوت اور یگانگت پر منحصر ہے۔ ملّت کی روح کو جسم اور بدن کی ضرورت نہیں ہے۔ اصل زندگی تو روح ہے۔ اگر کسی جسم میں روح ہی موجود نہ ہو تو وہ جسم سپردِ خاک کردیا جاتا ہے۔ ملّت کی روح اس کا دین، اس کا مشن، اس کا نظام اور اُس کی فکری وعملی ہم آہنگی ہے۔ جب تک اُس کے وجود کی نمود اُس کے اتحاد اور صحبتِ پر ہے۔ شیرازہء صحبت کے ٹوٹ جانے کے ساتھ ہی ملّت مردہ ہوجاتی ہے جیسا کہ آج کے دور میں بچشم سر دیکھا جاسکتا ہے۔ تم مردہ ہو۔ اپنے اندریک نگاہی اور فکری اتحاد پیدا کرکے زندگی حاصل کرو۔ بے مرکزیت سے نجات حاصل کرو۔ پایندگی اور ابدی حیات حاصل کرو۔ فرداً اور اجتماعاً وحدتِ افکار اور کردار پیدا کرو۔ ساری دُنیا میں غالب اور صاحبِ نگین بن جاؤ گے۔ اَنْتُمُ الاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤمِنِیْنَ ’’تم ہی غالب رہو گے اگر تم مؤمن بنوگے‘‘ ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشیدِ مبین ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے (ابُوالمجاہد زائدؔ) زندہ رود: من کیم؟ تو کیستی؟ عالم کجاست درمیانِ ما و تُو دُوری چراست؟ من چرا در بندِ تقدیرم بگوئے تو نمیری من چرا میرم بگوئے! میں کون ہوں؟ تو کون ہے؟ اور دُنیا کہاں ہے؟ بندے اور مولا کے درمیان دوری کیوں ہے؟ میں تقدیر کی بندشوں میں کیوں ہوں؟ بتائیے تم نہیں مرتے ہو تو میں کیوں مرتا ہوں؟ بتائیے۔ ندائے جمال: بودئہا اندر جہانِ چار سو ہر کہ گنجد اندر و میرد درو زندگی خواہی خودی راپیش کن چار سو را غرق اندر خویش کن باز بینی من کیم توکیستی! درجہاں چوں مُردی و چوں زیستی! تم اس وسیع و عریض دنیا میں رہتے ہو اور جو انسان جہاں میں سماتا ہے وہ اسی میں مرتا ہے۔ اگر تم زندگی چاہتے ہو تو اپنی خودی ظاہر کرو۔ پوری دُنیا کو اپنے اندر غرق کرلو۔ اُس کے بعد تم جان سکو گے کہ میں کون ہوں اور تم کون ہو اور یہ بھی جان سکو گے کہ دُنیا میں کس طرح زندہ رہنا ہے اور کس طرح مرنا ہے۔ ’’زندہ رود‘‘ پوزشِ ایں مردِ ناداں در پذیر پردہ را از چہرئہ تقدیر گیر انقلابِ روس و الماں دیدہ ام شور در جانِ مسلماں دیدہ ام دیدہ ام تدبیر ہائے غرب و شرق وانما تقدیر ہائے غرب و شرق مجھ نادان کی معروضات پر توجہ فرمائیے۔ تقدیر کے چہرے سے پردہ سرکائیے۔ میں نے روسؔ اور جرمنیؔ کے انقلاب دیکھ لئے ہیں۔ مسلمان کی روح میں بھی میں نے اضطراب، بے چینی اور شورش و ہنگامے دیکھے ہیں۔ مغرب اور مشرق کی تدبیریں اور ریشہ دوانیاں میں نے دیکھ لی ہیں۔ آپ مغرب اور مشرق کی تقدیر کے بارے میں مجھے آگاہ فرمائیے۔ زندہ رود کی اس داد وفریاد کی پذیرائی فرماتے ہوئے ربّ کائینات کی تجلّی کا پرتویوں پڑتا ہے۔ اُفتادن تجلّی جلال: ناگہاں دیدم جہانِ خویش را آں زمین و آسمانِ خویش را غرق در نورِ شفق گوں دیدمش سُرخ مانندِ طبر خوں دیدمش! زاں تجلی ہاکہ در جانم شکست چوں کلیم اﷲؑ فتادم جلوہ مست! نورِ اوہر پردگی را وا نمود تابِ گفتار از زبانِ من ربود! از ضمیرِ عالمِ بے چند و چوں یک نوائے سوزناک آمد بروں! اچانک میں نے اپنی دُنیا کو مرئی شکل میں دیکھ لیا۔ اپنی زمین وآسمان کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ میں نے اسے نورِ اِلٰہی کے شفق کی مانند رنگ میں ڈوبا ہوا دیکھ لیا۔ خون کی طرح اُس میں سرخ رنگ دیکھا۔ اس نور کا پرتوجب میری روح اور جان میں سراہت کرگیا تو میں حضرت موسیٰؑ کی طرح مست ومدہوش ہو کر گرپڑا۔ اس تجلی نے میرے پردے کو مٹادیا اور میری زبان سے بات کرنے کی سکت اور طاقت بھی سلب کرلی۔ اس حقیر اور بے قیمت دُنیا کے ضمیر سے ایک سوزناک صدا بلند ہوئی۔ بگذر از خاور و افسونئی افرنگ مشو کہ نیر زد بجوئے ایں ہمہ دیرینہ و نو آں نگینے کہ تو با اہر مناں باختئہٖ ہم بجبرئیل امینے نتواں کرد گرو! زندگی انجمن آرا و نگہدارِ خوداست اے کہ در قافلئہٖ بے ہمہ شُد باہمہ رو! تو فرو زندہ تر از مہرِ منیر آمددئہا آنچناں زی کہ بہر ذرّہ رسانی پر تو! چوں پرِکاہ کہ در رہگذرِ باد فتاد رفت اسکندرو دارا و قباد و خسرو!ؔ از تنک جامئی تو میکدہ رسوا گردید شیشئہ گیر و حکیمانہ بیا شام و برو! مشرق کی گرفت سے بھی آزاد ہو جاؤ اور افرنگ کی جادوگری سے بھی اپنے قلب وذہن کو محفوظ کرلو۔ یہ دونوں فلسفے جن کی بنیاد الحاد اور مادیت پر ہے، جو کے ایک دانے کے برابر بھی نہیں ہیں۔ وہ نگینہ یعنی جوہر آبدار (ایمان ویقین کی دولت بے پایاں) جو تم نے ابلیس کی نذر کردیا ہے یہ تو اتنا ہی قیمتی اور انمول سرمایہ ہے جس کو جبرئیل امینؑ کے ہاتھ بھی گرو نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ انسان کی زندگی، اجتماعیت کی محتاج ہے اور اسی سے اُس کی حفاظت ہوسکتی ہے۔ اے زندہ رود تو سب کے ساتھ چلتے ہوئے بھی اپنی منزل پر نظر رکھ۔ ایک باشعور مسلمان کی حیثیت سے تیرا مقام ایک داعی کا مقام اور منصب ہے۔ اس نسبت سے تیرا مرتبہ اور مقام آفتاب عالم تاب سے زیادہ روشن اور منّور ہے۔ تمہیں زندگی گذارنے کا ایسا طریقہ اختیار کرلینا چاہئے کہ دُنیا کے ذرّے ذرے تک تیرا وہ پرتو پہنچے اور دُنیا کے ہر فرد تک تیرا وہ پیغام پہنچے جو حیات بخش اور حیات آفرین ہے اور دنیوی و اخُروی برکتوں اور سعادتوں کا امین اور ضامن ہے۔ دُنیا کے بڑے بڑے بادشاہ، طاقت ور، فوج والے، خزانے رکھنے والے، ملکوں کو فتح کرنے والے، جیسے اسکندرؔ، داراؔ، قبادؔ اور خسرو اس دُنیا سے اس طرح اٹھ گئے جس طرح تیز ہوا راستے پر پڑے گھاس کے تنکے کو اُڑالے جاتی ہے ۔ خاکش چُناں بجورد کہ اُستخواں نہ ماند! (سعدی شیرازیؒ) زندہ رود! تیرا چھوٹا پیالہ دیکھ کر سارا میکدہ رُسوا اور شرمندہ ہوا۔ یعنی تجھے جس طرح اس دُنیا میں آکر تجلّیء ربّ سے استفادہ کرنا چاہئے تھا آپ نے نہیں کیا۔ اس طرح دُنیا زیادہ تر آپ کے مشن سے محروم ہی ہے۔ اب جتنا تیرا نصیب اور وسعتِ قلب وذہن ہے اس میکدہء معرفت اِلٰہی سے اپنا حصہ لے لے۔ پروقار اور خودداری کے ساتھ پی لے اور چلے جاؤ یہ زندہ رود کو ندائے جمال کی طرف سے الوداعی پیغام تھا۔ زمانہ بڑے غور سے سن رہا تھا ہمیں سوگئے داستان کہتے کہتے! چراغِ راہ بناؤ بڑا اندھیرا ہے: ابوجہل جو قریش کے سرداروں میں شامل تھا پورے چالیس برس تک محمد بن عبداﷲؐ کی حیثیت سے رسول اﷲؐ کو جانتا، مانتا اور قابل احترام سمجھتا تھا۔ صادق اور امین کا لقب دینے میں وہ بھی قریش مکّہ کا ہم نوا تھا۔ تاریخ میں کہیں بھی یہ تذکرہ نہیں ہے کہ جب قریشِ مکہ نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دیانت، امانتداری، صلاحیت اور حسنِ اخلاق و حسنِ کردار کا عینی مشاہدہ کیا تو انہوں نے بجا طور پر رسول اﷲؐ کو یہ القاب دئے۔ ابوجہل کے بارے میں تاریخی واقعات میں آیا ہے کہ رسول اﷲ ؐ کے مشن اور پیغام کے ساتھ زبردست مخالفت کے باوصف وہ آپؐ کے کردار سے اتنا متاثر اور مرعوب تھا کہ قبیلہ دُوس کا ایک شخص جس سے ابوجہل نے اونٹ خریدا تھا مگر قیمت دینے میں لیت ولعل کررہا تھا۔ یہ شخص قریش مکہ کے سرداروں کے پاس فریاد لے کر آیا۔ قریش مکہ نے اس کو آپؐ کی خدمت میں جانے کا مشورہ دیا۔ اُس شخص کو معلوم نہیں تھا کہ انہوں نے کیوں مجھے، اس شخص کے پاس بھیجا۔ رسول رحمتؐ نے جو مجسمہ رحمت ورافت تھے، اس شخص کی فریاد سُنی اور اس کے ساتھ ابو جہل کے مکان پر گئے اور دستک دی ابوجہل باہر آگیا، دیکھا رسول رحمتؐ دروازے پر کھڑے ہیں اور اونٹ بیچنے والا اُن کے ساتھ ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اس کے اونٹ کی قیمت ادا کرو۔ ابوجہل خاموشی کے ساتھ بغیر کچھ کہے اندر گیا اور اونٹ کی قیمت لاکر اُس شخص کے حوالہ کردی۔ قریش مکہ کی چال یہ تھی کہ ابوجہل اسلام اور رسول اﷲؐ کی دُشمنی اور عناد کی وجہ سے برہم ہوں گے اور اس طرح اس شخص کے سامنے اُن کی توہین اور تضحیک ہوگی۔ لیکن رسول پاکؐ کے کردار اور پاک باز وپاک طینت شخصیت کا اتنا اثر تھا کہ قریش کا منصوبہ خاک ہوکر رہ گیا اور کردار وعمل کی عظمت نے اپنا اثر دکھایا اور ابوجہل جیسا کڑا دُشمن بھی رسوا ہو کر رہ گیا۔ رسول اﷲؐ کی بعثت کے بعد، جب آپؐ نے خدائے واحد کی بندگی اور قرآن کی طرف دعوت دی تو ابوجہل مشرکین اور مخالفین کے سرغنہ کی حیثیت سے تاریخ کے صفحات میں نمایاں مقام حاصل کرگئے۔ محمد بن عبداﷲ کی حیثیت سے قریش مکہ کو اُن کا احترام بھی تھا اور عزت بھی کرتے تھے۔ آپؐ نے اُن کو حجراسود کے خانہ کعبہ کی دیوار میں چننے کے لئے حکم بھی دیا۔ مگر جب محمد بن عبداﷲ رسول اﷲؐ کی حیثیت سے اﷲ کی طرف سے معبوث ہوئے تو قریش مکہ مخالف ہوگئے۔ ظاہر ہوا کہ قریش مکہ اُس مشن اور پیغام کے خلاف تھے جو آپؐ لے کر آئے۔ آج کی دُنیا میں بھی آپ دیکھیں گے کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی لوگ تعریف کرتے ہیں۔ اُن کی سیرت کی، اُن کے اخلاق کی، عظمت کی اوربنا برآں، اُن کی انسانیت پر احسانات کا خوب تذکرہ کرتے ہیں۔ مگر اُن کے مشن، اُن کے پیغام، اُن کی تعلیم، اُن کی لائی ہوئی کتاب القرآن، اُن کے لائے ہوئے دین کو آج کی دُنیا میں قابل عمل نہیں سمجھتی۔ اُن کے دین کے بارے میں اعلاناً کہتے ہیں کہ وہ آج چلنے والا نہیں ہے۔ اس میں صرف کفار اور مشرکین ہی نہیں بلکہ مسلمان نام کے لوگ بھی اس انکار اور بغاوت میں شامل ہیں۔ انہی باغی مسلمانوں، جو مسلمان نام کا استحصال کرتے ہیں کے خلاف رسول اﷲؐ کے پیغام اور مشن پر خلوص کے ساتھ ایمان لانے والوں کو جہاد کرنا ہے۔ قرآن اور اسوئہ حسنہ کے مطابق سب سے پہلے بگڑے ہوئے مسلمانوں کو، دین کو تقسیم کرنے والے نام نہاد مسلمانوں کو ببانگ دہل کہتا ہے اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرُونَ بِبَعضٍِ ج فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَفْعَلُ ذَالِکَ مِنْکُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَیَوٰۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّونَ اِلَیٰ اَشَدِّ الْعَذَابِ وَمَا اﷲُ بِغٰفِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ہ ’’کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں اُن کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دُنیا کی زندگی میں ذلیل وخوار ہوکر رہیں گے اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دئے جائیں۔ اﷲ ان حرکات سے بے خبر نہیں ہے جو تم کررہے ہو۔‘‘ (البقرہ:۸۵) سورہ بقرہ کی یہ آیت یہودیوں کے طرزِ عمل پر نازل ہوئی تھی جو کتاب اﷲ کے منشاء کے خلاف ایک دوسرے کے خلاف جنگ کرتے تھے، جس سے ان کو منع کیا گیا تھا۔ مگر جب ایک قبیلے کے لوگ دوسرے قبیلے کے ہاتھوں گرفتار کرکے قید کئے جاتے تھے توفدیہ دیکر اُن کو چھڑاتے تھے اور کتاب اﷲ سے دلیل لاتے تھے کہ فدیہ لے کر چھڑانا ہمارے لئے جائز ہے۔ مگر کتاب کا یہ حکم کہ آپس میں جنگ مت کرو، ایک دوسرے کو اپنے گھروں اور اپنی جائدادوں سے محروم نہ کرو وہ اس حکم سے سرتابی اور خلاف ورزی کرتے تھے۔ آج کے مسلمانوں کا طرزِ عمل یہودیوں کے طرزِ عمل کے ساتھ مکمل طور مطابقت رکھتا ہے۔ اس لئے جو سزا یہودیوں کے لئے سنائی گئی ہے وہی آج کے اُن نام نہاد مسلمانوں کے لئے ہے جو کتاب کے احکامات اور ہدایات کو تقسیم کرتے ہیں۔ ابوجہل کی روح کا نوحہ حرم کعبہ میں پڑھئے اور دیکھئے کہ آج مسلمان کے عمل سے رسول اﷲؐ کی روحِ اقدس کے بجائے ابوجہل کی روح کو ہی سکون پہنچ رہا ہوگا۔ کیونکہ قرآن اور اسوئہ رسول اﷲؐ کی تعلیمات کے مطابق جو تبدیلیاں اُس وقت کی جاہلانہ طرزِ زندگی میں لائی گئی تھیں اور جو ابوجہل کو ناگوار گذررہی تھیں جاہلیت کی وہ تہذیب آج کے مسلمانوں کے ہاتھوں پھر زندہ ہورہی ہے۔ رسولِ رحمتؐ کی روح کو اذیت پہنچ رہی ہے۔ ابوجہل کی روح فرحان وشادان ہے۔ ابوجہل جس تہذیب پر مٹ جانے کا غم اور نوحہ کررہے تھے آج خود رسول اﷲؐ کے امتیوں، ماننے والوں، آپؐ کی ذات پر درود وسلام بھیجنے والوں اور آپؐ کی تربت کی زیارت کرنے والوں کے ہاتھوں زندہ ہورہی ہے۔ واحسرتا! سینئہ ما از محمدؐ داغ داغ از دمِ او کعبہ را گُل شد چراغ! از ہلاکِ قیصر و کسریٰ سرود نوجواناں را زدستِ ما ربُود ساحرو اندر کلامش ساحری است ایں دو حرفِ لا الہٰ خود کافری است تا بساطِ دینِ آبا در نورد با خدا وندانِ ما کرد آنچہ کرد! پاش پاش از ضربتش لات و منات انتقام از وے بگیر اے کائینات! دل بغائب بست و از حاضر گسست نقشِ حاضر را فسونِ او شکست دیدہ بر غائب فرو بستن خطاست آنچہ اندر دیدہ می ناید کجاست! پیشِ غائب سجدہ بردن کوری است دین نَو کوراست و کوری دُوری است خم شدن پیشِ خدائے بے جہات! بندہ راذ و قے نہ بخشد ایں صلٰوت! محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نسبت اُن کی لائی ہوئی کتاب، اُن کا ایک الہٰ کی بندگی کی طرف دعوت، ہمارے بتوں کی خدائی سے انکار اس انقلاب آفرین پیغام سے ہمارے دل اور سینہ داغ داغ ہوچکے ہیں۔ اُن کی بعشت اور اعلانِ رسالت سے کعبہ کا چراغ بجھ گیا ہے۔ وہاں جو تین سو ساٹھ بت رکھے گئے تھے اُن کی پوجا اور پرستش نہ ہونے سے کعبہ کی رونق ختم ہوگئی ہے۔ قیصر وکسریٰ، روم اور فارس کی شہنشاہیت اور سامراجیت کے مٹائے جانے کا رسول اﷲؐنے پیغام سُنایا ۔ اُن پر ایمان لانے والے شاداں وفرحان ہیں۔ لیکن اس انقلابی پیغام نے ہمارے نوجوانوں کو ہم سے چھین لیا ہے یہ اس بات کی طرف شارہ ہے کہ اسلام کی طرف مکہ میں زیادہ تر نوجوان ہی کھچے کھچے آرہے تھے اور اس طرح قریش کو اپنا مستقبل تاریک دکھائی دے رہا تھا۔ نوجوان طبقہ ہر قوم اور ہر ملّت کا سرمایہ اور اساس ہوتا ہے۔ یہ اسلام کے نظام کے لئے بھی اثاثہ ہے اور نظامِ باطل کے لئے بھی۔ اس لئے تاریخ کے ہر دور میں جاہلیت اور لادین تہذیب کے علمبرداروں نے جوانوں کو گمراہ کرنے، دین واخلاق سے بے زار کرنے اور اُن کے ذہنوں اور دلوں کو مسخ کرنے کیلئے ہمیشہ خزانوں کے دروازے کھولے ہیں اور پانی کی طرح سرمایہ بہا کر اُن کو اپنی لادین اور مشرکانہ تہذیب کا گرویدہ بنانے کے لئے نت نئے جال بچھا دئے ہیں۔ یہ نیا دین لانے والا جادوگر ہے۔ اس کے کلام میں جادو کا اثر ہے اور یہ جو لا الہٰ کا کلمہ لایا ہے یہ تو خود بھی کفر ہے، یعنی ہر باطل معبود سے انکار۔ اس کے پیغام سے ہمارے آبا واجداد کے دین کی بساط اُلٹ دی گئی ہے۔ ہمارے خداوندوں لات، منات، ہبل، عزیٰ کے ساتھ جو کچھ انہوں نے کیا ہے ظاہر و باہر ہے۔ اُس کی ضربت کاری سے یعنی لا الہٰ کی ضربت سے ہمارے لات اور منات کی خداوندی پاش پاش ہو کر رہ گئی ہے۔ اے کائینات! ۔۔۔۔۔ محمدؐ سے انتقام لے لے۔ ان کا لایا ہوا دین غائب پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے۔ یومنؤن بالغیب۔ حاضر یعنی بتوں کے مجسموں سے جو دیکھے اور چھوئے جاسکتے ہیں اُن سے یہ دور کررہا ہے۔ اُس کے جادونے نقش حاضر ریزہ ریزہ کردیا ہے۔غائب پر دل لگانا اور غائب کا ربّ اور معبود تسلیم کرنا یہ تو عقل و ادارک کے نزدیک بالکل غلط اور خطاکاری ہے جو طاقت اور ذات آنکھوں سے دیکھی نہ جاسکے اُس کا وجود کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے؟ غیر مرئی وجود کے آگے سجدہ ریز ہونا کور چشمی ہے۔ اندھاپن، یہ نیا دین اندھا ہے اور اندھاپن حقائق سے دوری ہے۔ اُس مالک اور ربّ کے آگے سجدہ ریز ہونا جس کی کوئی سمت اور جہت ہی نہ ہو ایک انسان کو یہ سجدہ ریزی، یہ نماز شوق وذوق کی تشنگی دور نہیں کرسکتی ہے۔ مذہبِ او قاطعِ ملک و نسب از قریش و منکر از فضلِ عرب! ’درنگاہِ او یکے بالا و پست با غلامِ خویش بریک خواں نشست‘ قدرِ احرارِ عرب نشناختہ با کلفتانِ حبش در ساختہ احمراں با اسوداں آمیختند آبروئے دودمانے ریختند! ایں مساوات‘ ایں مواخات اعجمی است خوب می دانم کہ سلماںؓ مزد کی است ابن عبداﷲ فریبش خوردہ است رستخیزے بر عرب آوردہ است! عترتِ ہاشم زخود مہجور گشت از دو رکعت چشمِ شاں بے نور گشت اعجمی را اصلِ عدنانی کُجاست گنگ را گفتارِ سحبانی کُجاست چشم خاصانِ عرب گردیدہ کور بر نیائی اے زُہیرا از خاکِ گور؟ اے توؐ مارا اندریں صحرا دلیل بِشکن افسونِ نوائے جبرئیل! محمدؐ جو دین لائے ہیں اُس میں ملک ونسب کی برتری کا کوئی جواز اور اعتبار نہیں ہے وہ تو قریش اور عرب کی برتری اور فضیلت سے بھی انکاری ہیں۔ آج کے مسلمان کا کیا حال ہے؟ شور ہے ہوگئے دنیا سے مسلمان نابود ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلمان موجود وضع میں تم ہو نصاریٰ، تو تمدن میں ہنُود یہ مسلمان ہیں، جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟ اُن کی نگاہ میں آقا اور غلام کی کوئی تمیز اور تفریق نہیں ہے وہ سب کو انسان، خدا کا بندئہ اور بغیر کسی تمیز رنگ ونسل، زبان ووطن کے قابل احترام سمجھتے ہیں۔ یہ اُن کا صرف نظریہ ہی نہیں، بلکہ اُن کا عمل اور کردار بھی اس کی بھرپور عکاسی اور نمائندگی کرتا ہے۔ وہ اپنے خادم اور غلام کے ساتھ ایک ہی دسترخواں پر بیٹھ کر کھایا کرتے ہیں۔ محمدؐ عرب کے آزاد لوگوں کی، قدر ومنزلت نہیں پہچانتے ہیں۔ اس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ وہ حبش کے سیاہ فام لوگوں سے روابط رکھ رہا ہے اور اُن کے ساتھ گھل مل کر رہتا ہے۔ گورے رنگ کے لوگوں کو سیاہ فاموں کے ساتھ خلط ملط کردیا ہے۔ انہوں نے ہمارے معزز اور محترم خاندان کی بے حرمتی اور بے عزتی کی۔ محمدؐ! جس طرح کے معاملات، برابری اور اخوت وبرادری کی تعلیم دیتے ہیں یہ تو عرب اور قریش کی روایات نہیں ہیں۔ یہ تو عجم کی تہذیب اور تمدن ہے۔ مجھے ٹھیک طرح معلوم ہے کہ سلمان فارسیؓ مزدکی ہیں، مزدک، جو اشتراکیت کا علمبردار تھا۔ ایران کا رہنے والا اور باشندہ تھا اور حضرتِ سلمانؓ بھی وہاں کے ہی رہنے والے ہیں جس کو محمدؐ نے اپنا رفیق اور مصاحب بنایا ہے۔ (محمدؐ)ابن عبداﷲ اس کے فریب میں آگیا ہے (العیاذُ بااﷲ) اور اُس نے عرب میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ خاندانِ ہاشم کی عزت ووقار اور پاکیزگی دور ہوگئی ہے۔ ان دو رکعتوں سے جو محمدؐ کے نماز کا حکم دینے سے یہاں پڑھی جاتی ہیں خاندانِ ہاشم کی آنکھیں بے نور ہوگئی ہیں۔ یہ اعجمی لوگ کہاں ہمارے عدنانؔ کے مقام اور مرتبت تک پہنچ سکتے ہیں۔ جو لوگ گونگے ہوں وہ ہمارے فیض اللسان سحبانؔ کے مرتبے تک کہاں پہنچ سکتے ہیں۔ یہ اعجمی لوگ تو ہمارے نزدیک گونگے ہیں۔ یہ ہمارے مشہور معروف شاعر زہیر کے مقام اور مرتبہ تک کہاں پہنچ سکتے ہیں۔ عرب کے خاص الخاص لوگوں کی آنکھیں بے نور اور اندھی ہوگئی ہیں۔ اے زہیرؔ تو اپنی قبر سے باہر آکر اس گھمبیر صورتِ حال میں ہماری مدد نہیں کرسکتا ہے؟ اے زہیر اس ریگستان اور صحرا میں تو ہمارا رہبر اور رہنما ہے۔ تو قبر سے باہر آکر اپنے شہرہ آفاق کلام سے جبرئیلؑ کی وحی سے پیدا شدہ جادو کا توڑ کرکے عرب قوم پر احسان کر۔ باز گوئے اے سنگِ اسود باز گوئے آنچہ دیدیم از محمدؐ باز گوئے اے ہُبل، اے بندہ را پوزش پذیر خانہء خود راز بے کیشاں بگیر گلہء شاں را بگر گاں کن سبیل تلخ کُن خرمائے شاں را بر نخیل! صر صرے دہ باہوائے بادیہ اَنَّھُمَ اَعجازُ نخلٍ خَاوِیہَ اے منات، اے لات، ازیں منزل مرو گرز منزل می روی ازدل مرو اے تُرا اندر دو چشمِ ما وثاق مہلتے اِنْ کُنْتِ اَز مَعْتِ الْفِرَاق ابوجہل سنگِ اسود سے فریاد کررہا ہے۔ اے حجر اسود آپ بھی بیان کریں۔ آپ بھی وہ صورتحال دہرائیے جو محمدؐ کی بعشت کے بعد ہم پر گذری ہے۔ پھر اپنے محبوب بت ہبل کو مخاطب بنارہا ہے۔ اے ہبل جو اپنے بندوں کی فریاد سنتا ہے۔ اپنے گھر کو ان ’’بے دین‘‘ لوگوں کی گرفت اور قبضے سے آزاد کرلے اور اپنی گرفت اور قبضے میں رکھ لے۔ ہبل سے ابوجہل کہہ رہا ہے۔ محمدؐ کی پیروی کرنے والوں کے ریوڑ بھیڑیوں کی دسترس میں لادے۔ بھیڑیوں کے لئے اُن تک پہنچ کا راستہ آسان بنادے۔ ان کے کھجوروں کے باغوں میں درختوں پر لگے ہوئے کجھوروں کو تلخ اور ترش بنادے۔ اُن کی مٹھاس اور تیزی چھین لے اور ختم کردے۔ ان باغوں، راغوں اور جنگلوں، صحراؤں کو باد صرصر (تیزوتند ہواؤں) کی زدمیں لاکر ایسا بنادے کہ وہ اوندھے گرپڑیں۔ ابوجہل اپنے معبودوں منات، لات سے درد بھرے لہجے میں فریاد کرتا ہے کہ یہاں سے مت جاؤ۔ ہم کس کی پوجا اور پرستش کریں گے۔ اگر تم اس مقام اور منزل سے جاؤ گے بھی لیکن ہمارے دلوں سے رخصت مت ہوجاؤ۔ ہمارے دلوں میں جگہ بنائے رکھو۔ تم بتوں کو ہماری دونوں آنکھوں میں پناہ ہے۔ اب اگر تمہیں جائے بغیر چارہ نہیں ہے تو کم از کم کچھ مدت کیلئے اور ٹھہرو۔ یہ مصرع عربی زبان کے مشہور ومعروف شاعر اُمرء ا لقیس کے شعر کا ایک حصہ ہے جو اپنے محبوب سے کہہ رہا ہے۔ اگر تم نے جدائی کا فیصلہ کر ہی لیا ہے کم از کم کچھ عرصہ کے لئے مہلت دیدے۔ اتنی جلدی کیا ہے جانے کی۔ ابوجہلؔ کے دل کی بھڑاس آپ نے دیکھ لی کہ وہ محمدؐ کے دین کی آمد پر کتنا دُکھ، رنج اور قلق محسوس کررہا ہے اور کس طرح اسلام قبول کرنے والوں کو کوستا اور بددعائیں دے رہا ہے۔ آج کے مسلمان کو سوچنا چاہئے کہیں ہمارے عمل، اسلام، قرآن اور اسوئہ حسنہ سے ہماری دوری اور مہجوری ابوجہل کی روح کو سکون وراحت تو نہیں پہنچا دیتی ہے۔ کیونکہ آج کے پُرفِتن دور میں جب ملّت کا یہ حال ہے تو فکر اقبالؒ کا بے داغ آئینہ سامنے رکھنے کی انتہائی ضرورت ہے۔ رہِ حیات میں سوزِ یقین کو اے زاہدؔ چراغ راہ بناؤ بڑا اندھیرا ہے (ابوالمجائدؔ زاہد) خطاب بہ جاوید‘‘نئی نسل کیلئے مشعل راہ: جاوید اقبالؒ علامہ مرحومؒ کے فرزند ارجمند ہیں۔ ان سطور کے صفحہ قرطاس پر بچھ جانے کے وقت تک وہ بحمد اﷲ بحین حیات ہیں۔ وہ لاہور ہائی کورٹ میں جج رہے ہیں اور وہیں سے چیف جیسٹس کی حیثیت سے ریٹائر ہوچکے ہیں۔ اُن کی نسبت سے حکیم الامت پوری ملّت کے فرزندان سے مخاطب ہورہے ہیں۔ اﷲ برترو بزرگ جس کے اختیار اور قبضے میں لوگوں کے دل ہیں سے عاجزانہ التماس ہے کہ وہ ہمارے بیٹوں اور بیٹیوں کے دلوں میں اسلام کی محبت ڈال دے تاکہ لادینیت اور تہذیبی جارحیت کے اس سیلاب کو روکنے میں وہ فعال کردار ادا کرسکیں! ملّت کے جوانوں کو آج کی خُدا بے زار اور آخرت فراموش تہذیب ہر چہار طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ اس گھیرے سے نکالنے کے لئے اقبالؒ کا دردوسوز سے پُرکلام کشش ثقل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی مقصد کے پیش نظر میں نے اپنی بے علمی، بے بضاعتی، بے مائیگی اور ناتوانی کے باوصف اُن کے حیات بخش پیغام اور کلام کی خوشہ چینی کی ہے۔ ایں سخن آراستن بے حاصل است بر نیاید آنچہ در قعرِ دل است! گرچہ من صد نکتہ گفتم بے حجاب نکتہء دارم کہ ناید در کتاب! گر بگویم می شود پیچیدہ تر حرف و صَوت او را کند پوشیدہ تر! سوزِ او را از نگاہِ من بگیر یازِ آہِ صبح گاہِ من بگیر! احساسات قلب کو الفاظ کا جامہ پہنا کر، یہ سمجھنا کہ اُن کی ٹھیک ٹھیک ترجمانی اور ترسیل ہوئی ہے واقعات کے ساتھ بہت کم مطابقت رکھتا ہے۔ اسی لئے علامہ اقبالؒ مرحوم اپنے وارداتِ قلب کی ترجمانی کرتے وقت اس بات کا کھل کر اظہار کرتے ہیں کہ سخن آرائی ایک لاحاصل عمل ہے۔ فی الواقع دل کی گہرائیوں میں جو جذبات موجزن ہوتے ہیں اور جن کے بارے میں صاحبِ قلب کی تمنا ہوتی ہے من وعن مخاطب کے قلب وذہن میں غلبہ پالیں ممکن نہیں ہوتا ہے۔ از دل خیزد، بردل ریزد والی مثال بہت کم عملی شکل اختیار کرتی ہے۔ دل کی گہرائیوں میں جو کچھ چھپا ہوا ہوتا ہے باہر نہیں آتا ہے۔ اگرچہ میں نے صد ہانکتے بے پردہ کہے ہیں لیکن میرے پاس ایسا نکتہ اور پیغام ہے۔ جو کتاب میں سما نہیں سکتا ہے۔ اگر میں کہہ دوں وہ اور زیادہ پیچیدہ اور گنجلگ بن جائے گا۔ الفاظ اور آواز اُس پر پردہ ڈال دیں گے۔ اُس نکتے کا سوز اور اُس کی روح میری نگاہ یا آہِ صبح ِگا ہی سے حاصل کریں۔ مادرت درسِ نخستیں باتو داد غنچہء تو از نسیمِ اُو کُشاد! از نسیمِ او ترا ایں رنگ و بوست اے متاعِ ما بہائے تو ازوست دولتِ جاوید ازو اندوختی از لبِ اُو لاالہٰ آموختی اے پسر! ذوقِ نگہ از من بگیر سوختن در لاالہٰ از من بگیر! لاالہٰ گوئی؟ بگو از روئے جاں تاز اندامِ تو آید بوئے جاں! مہرومہ گردد زِسوزِ لااِلہٰ دیدہ ام ایں سوز را در کوہ وکہ! ایں دو حرفِ لااِلہٰ گفتار نیست لااِلہٰ جُز تیغِ بے زنہار نیست! زیستن باسوزِ اُو قہّاری است لااِلہٰ ضرب است و ضربِ کاری است! تیری والدہ نے تجھے پہلا درس دیدیا ہے۔ آپ ادھ کھلا پھول تھے، اُس کی ہوائے رافت سے آپ کھل اٹھے ہیں۔ والدہ کی محبت اور شفقت ہی سے آپ کا روپ دھارن ہے۔ آپ ہماری متاع اور سرمایہ حیات ہیں آپ والدہ کی بدولت ہی انمول بنے ہیں۔ کردار اور فکر صالح کا ابدی سرمایہ آپ نے آغوش مادر سے ہی حاصل کیا ہے۔ اُنہی کے دہانِ مبارک سے آپ نے کلمہ لا اِلہٰ پڑھا، سیکھا اور یاد کیا ہے۔ اے میرے دلبند! نظر کی پاکیزگی اور ذوق، مجھ سے حاصل کرنے کی کوشش کرلے۔ لااِلہٰ کا کلمہ پڑھ کر اس کی روح اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنا اور اُس کے معانی میں اپنے آپ کو گھلانا اور جلانا مجھ سے سیکھ لے۔ لااِلہٰ کا کلمہ پڑھتے ہو تو پڑھو مگر زبان سے ہی الفاظ کو نہیں دہرانا ہے۔ روح اور قلب وذہن کی بھرپور یکسوئی کے ساتھ اس انقلابی کلمہ کو پڑھیے۔ اس طرح پڑھئے کہ آپ کے جسم کے انگ انگ سے اُس کی خوشبو اور روح کی زندگی کا مظاہرہ ہو۔ لا اِلہٰ کے کلمے میں اتنی قوت اور طاقت ہے کہ آفتاب و ماہتاب اُسی کے سوز اور ولولہ سے گردش میں ہیں۔ میں نے اس روح پرور کلمے کے سوز اور جذبے کو کوہ وکاہ میں بھی دیکھا اور محسوس کیا ہے۔ لا الہٰ کے دو حرف محض گفتار اور زبان کی حرکت نہیں ہے۔ لااِلہٰ تو شمشیر اور تلوار بے زنہار کے سوا کچھ نہیں ہے۔ زنہار کے مختلف معانی ہیں۔ پناہ، امان، بچاؤ، عہد، بیان، امانت، خوف، شکوہ، شکایت، پرہیز، حسرت، افسوس، شتاب، جلد، ہوش، آگاہی، بمعنیٰ ہرگز کے بھی ہیں۔ ’’لُغتِ کشوری :ص ۲۳۱‘‘میرے نزدیک یہاں بے زنہار کا مطلب بے خوف اور بے باک ہے۔ واﷲ اعلم۔ لا اِلہٰ کے سوز اور جذبے کے ساتھ جینا قہاری ہے۔ یعنی اﷲ کے بغیر تمام معبودان باطل سے انکار اور معبود حقیقی پر یقین اور اعتماد، ایسی قوت اور طاقت پیدا کرنا ہے جس کے بل بوتے پر دُنیا میں باطل قوتوں کو زیر کیا جاسکتا ہے اور اس کے لئے جس قہاریت اور سطوت وطاقت کی ضرورت ہے وہ لا الہٰ کے شعوری اعلان کے ساتھ ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ لاالہٰ، تمام غیر الٰہی نظام ہائے زندگی، قیصر اور کسریٰ کی طاقتوں کے لئے محض سادہ اور آسان توڑ نہیں بلکہ ضرب کاری ہے جس سے کوئی جانبر نہیں ہوسکتا۔ اسلام کے دورِ اول میں اس کے عملی مظاہر دیکھے جاچکے ہیں۔ آج بھی اگر لا الہٰ کہنے والے اپنی ایمانی اور اخلاقی طاقت کا مظاہرہ کریں تو آج کے قیصر وکسریٰ کا زور بھی ختم کیا جاسکتا ہے جنہوں نے پوری دُنیا کو مقتل بنادیا ہے اور جُوعُ الارض کے مرض میں مبتلا ہوکر جنونی کیفیت کا شکار ہوگئے ہیں۔ مؤمن و پیشِ کساں بستن نطاق! مؤمن و غدّاری و فقر و نفاق! با پشیزے دین و ملّت را فروخت ہم متاعِ خانہ و ہم خانہ سوخت! لااِلہٰ اندر نمازش بود و نیست ناز ہا اندر نیازش بود و نیست! نور در صوم و صلوٰتِ اُو نماند جلوئہ در کائیناتِ اُو نماند! آنکہ بود اﷲ او را سازو برگ فتنہء اُو حُبِّ مال و ترسِ مرگ! رفت از و آں مستی و ذوق و سرور دینِ اُو اندر کتاب و اُو بگور! صجتش باعصرِ حاضر در گرفت حرفِ دیں را از دو ’پیغمبر‘ گرفت آں ز ایراں بود و ایں ہندی نثراد آں زحج بیگانہ و ایں از جہاد! تا جہاد و حج نماند از و اجبات رفت جاں از پیکرِ صوم و صلوٰت روح چوں رفت از صلوٰت و از صیام فرد ناہموار و ملّت بے نظام! سینہ ہا از گرمیٔ قرآں تہی از چنیں مرداں چہ اُمیدِ بہی! از خودی مردِ مسلماں در گذشت اے خضر دستے کہ آب از سرگذشت! ان اشعار میں علامہ اقبالؒ موجودہ دور کے مسلمانوں کی رہنمائی اور اخلاقی کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور اپنے لخت جگر کے حوالہ اور واسطہ سے پوری ملّت کو مخاطب بناتے ہیں اور اُن کی پستی اور زوال کے اسباب کی طرف متوجہ کرتے ہوئے، اُن کا علاج کرنے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ یہ اپنے آپ کو مسلمان کہلانے والے مؤمن، ہر کس و ناکس کے آگے سرخم رہتے ہیں۔ ایک طرف مؤمن ہونے کا دعویٰ اور دوسری طرف جب ان کے انفرادی اور اجتماعی کردار کی طرف دیکھتے ہیں یہی غدار بھی ہیں، مفلوک الحال بھی اور نفاق کے مرض میں بھی مبتلا ہیں۔ یہ چڑھتے سورج کے پجاری دو کوڑیوں کے عوض دین وملّت کو فروخت کرتے ہیں۔ متاعِ خانہ کو بھی اور ساتھ ہی گھر کو بھی خاکستر میں بدل دیتے ہیں۔ متاعِ خانہ سے مراد افراد ملّت اور خانہ سے مراد اُن کے وطن اور جائے پناہ سب کچھ غداروں اور منافقین کے ہاتھوں تباہ وبرباد ہورہا ہے۔ لا الہٰ کا سوز اور درد اُن کی نمازوں میں تھا مگر افسوس اب نہیں رہا ہے۔ اﷲ ربّ کائینات کی بارگاہ میں اُس کے عجزو انکسار پر ناز اور فخر تھا مگر اب نہیں رہا ہے۔ اپنے آپ کو مسلمان کہلانے والے کی نمازوں اور روزوں میں نور اور روشنی ایمان ویقین پیدا کرنا تھا۔ اب اُس کی اپنی زندگی میں وہ جلوہ اور وہ تابندگی نہیں رہی ہے جو ایک زمانے میں اس کی شناخت اور پہچان تھی۔ وہ مسلمان جس کو ہر حال میں اﷲ کا رسازِ حقیقی پر بھروسہ، اعتماد اور یقین تھا اُس کے لئے مالِ دنیا فتنہ بن گیا ہے اور وہ موت کے خوف میں مبتلا ہوگیا ہے۔ اس کی زندگی سے عبادات اور طرزِ عمل کی چاشنی، ذوق وشوق اور سرور و طمانیتِ قلب، سب کچھ رخصت ہوچکا ہے۔ اُس کا دین کتابوں میں محفوظ ہے اور خود مسلمان قبروں میں مدفون ہے۔ حقیقتِ حال کی ترجمانی مسلمان کو عصرِحاضر نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ دین کی تعلیم وہ قرآن اور صاحب قرآنؐ کے بجائے نبوت کا دعویٰ کرنے والوں سے حاصل کررہا ہے۔ ایک ایران کا محمد علی باب جو تحریک باب کا بانی ہے۔ دوسرا ہندی نژاد مرزا غلام احمد قادیانی جس نے پیغمبری کا دعویٰ کرکے قادیانی مذہب کی بنیاد ڈالی۔ ایک حج سے انکاری ہے اور دوسرے نے جہاد سے انکار کیا ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے کہا ہے کہ انگریزوں کے خلاف اب جہاد کی ضرورت نہیں۔ اب قلم اور قرطاس سے دین کی خدمت کی جاسکتی ہے۔ جب حج اور جہاد دو بنیادی ستون اور ارکان اسلام، مسلمانوں پر واجب نہ رہے نماز اور روزوں کی روح ختم ہوگئی۔ اسلام میں عبادت کی روح اور جان یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا پسندیدہ دین دُنیا میں غالب کیا جائے۔ جہاد عبادت کی چوٹی ہے۔ نماز، روزہ اور حج، زکوٰۃ اس بڑے فریضہ کو انجام دینے کیلئے قوت وطاقت کا سرچشمہ ہیں۔ برطانوی سامراج نے عبادات کی روح کو سلب کرنے کیلئے یہ سازش رچائی ہے اور مسلمان کہلانے والوں کو ہی اپنی مکروہ اور اسلام دشمن سازشوں کی تکمیل کیلئے آلہ کار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ صلوٰۃ، صیام اور دوسری عبادات کی روح ہی جب ختم کردی گئی تو ملّت کا ہر فرد ناہموار اور بے راہ ہوگیا اور پوری ملّت بے نظام اور بے امام بن کر انتشارِ فکرو عمل کا شکار ہوکر رہ گئی۔ مسلمان کا سینہ قرآن کی حرارت اور گرمی سے خالی ہوگیا ہے جو قرآن اس کی زندگی میں انقلاب لانے کیلئے آیا تھا اُسی قرآن کے ساتھ مسلمان کا تعلق رسمی ہوکر رہ گیا ہے۔ ایسے افراد ملّت سے کسی بہی خواہی اور خیر خواہی کی اُمید کیسے رکھی جاسکتی ہے؟ مسلمان اپنی خودی اور دینی شناخت سے محروم اور بے بہرہ ہوکر رہ گیا ہے۔ علامہ اقبالؒ مسلمانوں کی اس برگشتہ صورتحال سے نالان اور فریاد کُنان ہیں اور حضرت خواجہ خضرؒ سے فریاد کرتے ہیں کہ سیلاب ہمارے سروں سے اوپر گذر چکا ہے۔ آپ ہماری مدد کیلئے اور اس سیلاب ارتداد ونفاق سے بچانے کے لئے اپنا ہاتھ بڑھائیے۔ سجدئہ کزوے زمیں لرزیدہ است برمرادش مہرومہ گردیدہ است سنگ اگر گیرد نشانِ اں سجود در ہوا آشفتہ گردد ہم چو دُود! ایں زماں جز سربزیری ہیچ نیست اندرو جز ضَعفِ پیری ہیچ نیست! آں شَکوہِ ربی الاعلیٰ کجاست ایں گناہِ اوست یا تقصیرِ ماست؟ ہر کسے بر جادئہ خود تند رَو ناقہء ما بے زمام و ہرزہ رَو! صاحبِ قرآن و بے ذوقِ طلب العجب ثم العجب ثم العجب! ایمان ویقین رکھنے والے اور شعور کی بیداری کے ساتھ لا اِلہٰ پڑھنے والے مسلمان کے سجدہ سے زمین ہلتی تھی۔ زمین پر لرزہ طاری ہوجاتا تھا۔ اس سجدہ کرنے والے مسلمان کے منشاء اور مرادوں کے مطابق آفتاب و ماہتاب کی گردش ہوتی تھی۔ اگر معاصر مسلمان کے سجدے سے پتھر پر بھی نشان پڑجائے پھر بھی وہ سجدے دھویں کی طرح ہوا میں بکھر جاتے ہیں۔اب سربزیری کے بغیر اس کی کوئی حیقیت اور مقام نہیں رہا ہے۔ آج کے مسلمان کے سجدے میں ضعفِ پیری کی کیفیت کے بغیر کچھ اور محسوس نہیں کیا جاسکتا ہے۔ آج مسلمان کے سجدے کی یہ کیفیت ہے: جو میں سربہ سجدہ ہوا کبھی، تو زمین سے آنے لگی صدا ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں اقبالؒ ربی الاعلیٰ پڑھنے کا شکوہ، دبدبہ اور قوت و سطوت کا اثر کہاں ہے؟ اقبالؒ سوالیہ انداز میں پوچھتے ہیں کہ ہماری یہ کیفیت اسی کا گناہ ہے یا ہمارا قصور اور بے یقینی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب اقبالؒ کے نزدیک بھی یہی ہے اور ہمارے نزدیک بھی کہ ہم مسلمانوں کا اپنا قصور، ایمان، یقین کی کمزوری اور کردار وسیرت کی ناپختگی ہے۔ باطل قوتوں کے آگے سربزیری اور سجدہ ریزی۔ ربی الاعلیٰ کا کوئی گناہ نہیں ہے۔ العیاز باﷲ! مسلمانوں کی گروہ بندیاں اور فرقہ بندیاں ہیں۔ ہر گروہ اور فرقہ نے اپنے اپنے راستے اور طریقے اختیار کئے ہیں اور ہر ایک اس راہ پر بگ ٹٹ دوڑ رہا ہے۔ ہماری اونٹنی، یعنی ہماری ملّت بے زمام اور بے لگام، بے منزل ومقصد اور بے ہودگی کے ساتھ دوڑ رہی ہے۔ قرآن پاک کا حامل وقت کا مسلمان اور اس کی اپنے مقصدوجود اور قرآن کی رہنمائی اور سرفرازی کی طلب سے محرومی اور بے ذوقی، تعجب ہے، تعجب اور تعجب ہے! تکرار کے ساتھ اظہار تعجب علامہ مرحوم کے قلبی اور ذہنی اضطراب کی بھرپور نشاندہی کرتاہے۔ باچشمِ ترہماری دُعا ہے آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے سبزہء نَورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے ٭٭٭٭٭ گر خدا سازد ترا صاحب نظر روزگارے راکہ می آید نگر! عقلہا بے باک و دلہا بے گداز چشمہا بے شرم و غرق اندر مجاز! علم وفن، دین و سیاست، عقل و دل زوج زوج اندر طوافِ آب و گل! آسیا آں مرز و بومِ آفتاب غیر بیں، از خویشتن اندر حجاب! قلبِ او بے وارداتِ نَو بنَو حاصلش راکس نگیرد باد و جو روزگارش اندریں دیرینہ دیر ساکن و یخ بستہ و بے ذوق سیر! صیدِ مُلّایانِ و نخچیرِ ملوک آہوئے اندیشہء او لنگ و لوک! عقل و دین و دانش و ناموس وننگ بستہء فتراکِ لُردانِ فرنگ! تاختم بر عالمِ افکارِ اُو بر دریدم پردئہ اسرارِ اُو! درمیانِ سینہ دل خوں کردہ ام تا جہانش را دگر گوں کردہ ام فرزندِ دلبند! اگر اﷲ تجھے صاحب بصیرت بنائے تو جو وقت اور زمانہ تیرے سامنے آجائے اُس پر بصیرت کی نگاہ سے دیکھ لے۔ اس دَور اور زمانے کے لوگوں کا کیا حال ہے میں اس کی نشاندہی کرتا ہوں۔ اس زمانے کے لوگوں کی عقل بے باک اور بے خوف ہے اور دل سخت،ما نند سنگ، بے دردوگداز اور بے سوز وساز۔ آج کے زمانے کے لوگوں کی نگاہیں شرم وحیا سے محروم ہیں اور مجازی عشق میں غرق ہیں۔ علم وفن، سائنس اور ٹیکنالوجی، دین اور سیاست، عقل اور دل، گروہ درگروہ صرف اور صرف آب و گل، جسم اور مادیت کے پرستار ہیں۔ ایشیا جو آفتاب کی جائے پیدائش ہے یعنی رسالت کا مرزوبوم۔ دوسروں پر نظر رکھ رہا ہے اور اپنے وجود سے بے خبر اور محروم ہے۔ مغربی فلسفہ حیات کا خوشہ چین اور نقال اور اپنے آب حیات سے گریزان۔ آج کے انسان خاص طور مسلمان کا دل نوع بنوع حالات، واردات اور انقلابات سے غافل اور محروم ہے۔ اُس کے حاصل یعنی محنت کا ثمر اور پھل جو کے دو دانوں کے برابربھی نہیں رہا ہے۔ مطلب اس کا دُنیا میں کوئی وزن اور قیمت نہیں ہے۔ دنیا کے اس دیرینہ بُت کدے میں، اُس کا حال جمود کا شکار ہے، جوش وجذبے سے محروم سرد اور یخ بستہ ہے اور خلیفہ الارض کی نعمت اور لذت سے بے نصیب کہیں بے یقین اور کم سواد ملاؤں کا اور کہیں ظالم وسفاک حکمرانوں کا ترنوالہ اور شکار ہے۔ اُس کے خیالات کا ہرن لنگڑا اور لولا ہے۔ عقل، دین، دانش، خرد، عزت وناموس، سب کچھ اس نے انگریزی لارڈوں(lords) کے حوالہ کردیا ہے۔ میں نے اُس کے فکروخیال کی دُنیا پر، اپنے ایمان وایقان کے ہتھیاروں سے حملہ کردیا ہے۔ میں نے اُس کے حالِ زار سے پردہ ہٹادیا ہے۔ یعنی اُس کے انتشار فکرو عمل کی نشاندہی کرکے اُس کو جگانے اور بیدار کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں نے اپنے سینے میں دل کا خون کردیا ہے۔ یعنی خونِ جگر سے میں نے اُس کو اپنی حالت سے باخبر کرکے اُس کی دُنیا کو بدل دیا ہے۔ اُس کے افکار و خیالات میں انقلاب لایا ہے۔ تا جہانش را دگر گوں کردہ ام ٭٭٭٭ من بطبعِ عصرِ خود گفتم دو حرف کردہ ام بحرین را اندر دو ظرف! حرفِ پیجا پیچ و حرفِ نیش دار تاکنم عقل و دلِ مرداں شکار! حرفِ تہ دارے با ندازِ فرنگ نالہء مستانہء از تارِ چنگ! اصلِ ایں از ذکر و اصلِ آں زفکر اے تو بادا وارثِ ایں فکر و ذکر! آبجویم از دو بحر اصلِ من است فضلِ من فصل ست وہم وصلِ من است! تامزاجِ عصرِ من دیگر فتاد طبعِ من ہنگامئہ دیگر نہاد! میں نے اپنے زمانے کی نسبت سے دوحروف کہے ہیں گویا میں نے دو سمندروں کو، دو ظرفوں میں بند کردیا ہے۔ دریا کو کنویں میں بند کرنا۔ پیچیدہ اور نوکیلے حروف، تاکہ اپنے زمانے کے دانشوروں، اصحاب دل کو شکار بناؤں۔ یہاں اشارہ ہے تشکیل جدید الہیات اسلامیہ جو علامہ مرحومؒ نے انگریزی زبان میں لکھی ہے۔ اس کتاب میں مختلف معانی کے حامل الفاظ، انگریزی زبان اور فرنگی انداز میں لکھے گئے ہیں۔ گویا چنگ کی تاروں پر نالہ مستانہ گایا گیا ہے۔ ایک حرف کی اصل اور منبع اﷲ کی یاد اور ذکر ہے۔ دوسرے حرف کی اصل اور بنیاد فکر اور تخیل ہے۔ میرے فرزند دلبند میری تمنا ہے کہ تم ان دونوں حروف ذکر وفکر کے وارث بن جاؤ۔ میں ایک آبجو ہوں اور میری اصل انہی دو سمندروں سے ماخوذ ہے۔ یہ میری متاع، جائداد اور پیداوار ہے اور یہی میری مرادوں کا حصول اور اصل ہے۔ ذکرو فکر کے اس اِلٰہی فلسفہ کی طرف بلانے سے میرے دور کے مزاج میں انقلاب اور تبدیلی آگئی۔ میرے مزاج اور فطرت کی اس نہج اور ساخت نے ایک نئے ہنگامے کی بنیاد ڈال دی ہے۔ نوجواناں تَشنہ لب، خالی ایاغ شستہ رو، تاریک جاں، روشن دماغ! کم نگاہ، و بے یقین و ناامید چشم شاں اندر جہاں چیزے ندید! ناکساں منکرز خود مؤمن بغیر خشت بند از خاکِ شاں معمارِ دیر! مکتب از مقصودِ خویش آگاہ نیست تا بحذبِ اندرونش راہ نیست! نورِ فطرت راز جانہا پاک شست یک گلِ رعناز شاخِ اُونرست خشت را معمارِ ماکج می نہد خوئے بطہ با بچئہ شاہیں دہد! علم تاسوزے نہ گیرد از حیات دل نگیرد لذتے از واردات! علم جز شرحِ مقاماتِ تو نیست علم جز تفسیرِ آیات تو نیست! سوختن می باید اندر نارِ حس تا بدانی نقرئہ خود را زمس! علم حق اول حواس‘ آخر حضور آخرِ او می نگنجد در شعور! میرے فرزند! آپ کے گردوپیش میں جو نوجوان ہیں اُن کا حال، مقصد زندگی اور ایمان ویقین کے حوالہ سے بہت ہی مایوس کن ہے۔ یہ نوجوان تشنہ لب، بہت پیاسے، مگر اپنی پیاس بجھانے کے لئے جو آب حیات اُن کو چاہئے تھا اُس کے حوالہ سے اُن کے پیالے خالی ہیں۔ چہرے تو اُن کے بڑے صاف اور دھلے ہوئے(clean shaved) ہیں۔ رُوحیں تاریک اور دماغ اُن کے بڑے روشن ہیں۔ کم نگاہ، بے یقین اور نا امید ہیں۔ یہ تینوں اوصاف اُن کے مسلمان ہونے کے دعویٰ کے ساتھ کوئی مناسبت اور مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔ یہ اتنے کوتاہ بین ہیں کہ گردوپیش کی کائینات میں اِن کو کوئی چیز نظر ہی نہیں آتی ہے، حالانکہ مسلمان کو بظاہر کائینات پر غور وفکر اور تدبر وتفکر کرکے صانع ازلی کی معرفت اور پھر تسخیرِ کائینات کے منصبی فریضہ کی جانب بڑھنا چاہئے تھا، مگر وہ ایسا نہیں کررہے ہیں۔ یہ ناہنجار اور ناکس ہیں۔ اپنے وجود سے انکار اور دوسروں کے وجود پر ایمان لانے والے۔ مطلب اپنی دینی تہذیب اور تمدن کی خوبیوں کا ان کو کوئی علم نہیں ہے۔ یہ مغربی اور لادین تہذیب پر فریفتہ ہیں۔ بُت خانے کا معمار ان کی خاک سے اینٹیں بناکر اپنے صنم کدہ کی تعمیر کررہا ہے۔ ہمارے جو مکاتب ہیں اُن کو ہماری نئی نسل کو ذہنی اور عملی طور اسلام کے فدائی اور چلتے پھرتے ماڈل بنانا چاہئے تھا مگر وہ اپنے بنیادی مقصد اور مدعا سے ہی غافل اور بے خبر ہیں۔ اسی لئے ان مکاتب سے استفادہ کرنے والوں کے اندرونی جذبات تک مقصدیت کو راستہ ہی نہیں ملتا ہے۔ یعنی حقیقت کی تعلیم سے اُن کا جذب اندرون پیدا ہی نہیں ہوتا ہے۔ ان بے روح نظام اور سسٹم رکھنے والے مکاتب نے نوجوانوں کے نورِ فطرت کو اُن کے دلوں اور اُن کی روحوں سے دھو ڈالا ہے۔ان کے نظام سے ایک بھی پر کشش اور خوبصورت پھول نہیں کھلا ہے۔ یعنی کوئی ایسے افراد پیدا نہیں ہوئے ہیں جو ملّت کے جوانوں کو مقاصد زندگی کی آبیاری کے لئے تیار کرتے۔ہمارے معمار نے تعمیر ملّت کی دیواروں کے سنگ بنیاد کو ہی ٹیڑھا اور کج رکھا ہے۔ وہ شاہین بچوں کو بطخ مزاج بناتے ہیں۔ بزدل، کم ہمت اور کم حوصلہ۔ علم جب تک زندگی سے سوزِ حیات حاصل نہ کرسکے انسان کا دل پیش آمدہ واقعات اور واردات سے وہ لذت حاصل نہیں کرسکتا ہے جو مقصودو مطلوب ہے۔ علم انسان کے مقامات کی شرح اور تشریح کے بغیر کچھ نہیں ہے، علم تیری آیات اور نشانیوں کی تفسیر کے بغیر کچھ اور نہیں ہے۔ یعنی حقیقی علم وہ ہے جو انسان کو اپنے وجود اور مقصدِ حیات سے واقف کرے اور کائینات میں اس کے مقام اور مرتبے کی نشاندہی کرے۔ انسان کے دبے ہوئے جذبات اور احساسات کو ابھارے اور پھر اُن کو حصولِ مقصد کیلئے رواں دواں اور مصروف جدوجہد وتگ وتاز کرے۔ انسان کو اپنی حس کی آگ میں جل جانا چاہئے۔ مطلب اپنے اندرونی جذبات اور احساسات کی تپش محسوس کرنی چاہئے تاکہ مس اور چاندی میں فرق کرسکے۔ کھرے اور کھوٹے کو پہچان سکے۔ علمِ حق کیا ہے؟ اس کی ابتدائی منزل حواس ہیں جو خالق بشر نے اس کو عطا کئے ہیں جن کی وساطت اور صحیح استعمال سے وہ اپنی اور کائینات کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ اس کی آخری منزل ہے معرفت اِلٰہی۔ حضوری کی کیفیت انسانی شعور میں سما نہیں سکتی ہے۔ اس آخری منزل کے حصول کے بعد مسلمان کو اﷲ کے بندوں تک معرفت اِلٰہی کا پیغام پہنچانا ہے اور پھر اﷲ کی زمین پر اﷲ کا کلمہ اور اُس کی پسند کا نظام قائم کرنا ہے تاکہ معرفت اِلٰہی کی حقیقت سے اﷲ کے بندے بھرپور استفادہ کرسکیں۔ صد کتاب آموزی از اہل ہنر خوشتر آں درسے کہ گیری از نظر ہر کسے زاں مے کہ ریزد از نظر مست میگردد باندازِ دگر! از دمِ بادِ سحر میرد چراغ لالہ زاں بادِ سحر مَے درایاغ! کم خور و کم خواب و کم گفتار باش گردِ خود گردندہ چوں پرکار باش! منکرِ حق نزدِ مُلاّ کافر است منکرِ خود نزدِ من کافر تراست آں بانکارِ وجود آمد ’عجول‘ ایں عجول‘ وہم ’ظلوم‘ وہم ’جہول‘ شیوئہ اخلاص را محکم بگیر پاک شو از خوفِ سلطان و امیر عدل در قہر و رضا از کف مدہ قصد در فقر و غنا ازکف مدہ حکم دُشوار است؟ تاویلے مجو جُز بقلبِ خویش قندیلے مجو حفظِ جاں ہا ذکر و فکرِ بے حساب حفظِ تن ہا ضبطِ نفس اندر شباب حاکمی در عالمِ بالا و پست جز بحفظِ جان و تن ناید بدست لذّتِ سیر است مقصودِ سفر گرنگہ بر آشیاں داری مپر ماہ گردد تا شود صاحب مقام سیرِ آدم را مقام آمد حرام! زندگی جز لذتِ پرواز نیست آشیاں بافطرتِ او ساز نیست! رزقِ زاغ و کرگس اندر خاکِ گور رزقِ بازاں در سوادِ ماہ و ہور اے نورِ چشم! تو نے اہل ہُنر سے سینکڑوں کتابوں کا سبق حاصل کیا ہے۔ ان سب اسباق سے سب سے بہتر وہ سبق ہے جو اہل دل اور اہل حق کی نظر سے حاصل کرتے ہو۔ ہر وہ شخص جو اہل بصیرت کی نظر سے مے معرفت حاصل کرے۔ وہ نرالے انداز میں، مست و مدہوش ہوجاتا ہے یعنی اُس میں ایما ن و یقین کی حرارت پیدا ہوجاتی ہے۔ صبح کی ہوا سے چراغ بجھ جاتے ہیں۔ اسی باد سحر سے گل لالہ جام شراب کی شکل اختیار کرتا ہے۔ یعنی باد سحر سے جس طرح گلہ لالہ کھل اٹھتا ہے برابر اُسی طرح اہل بصیرت کی نگاہوں سے ایمان ویقین اور عشق ومستی کے پیالے بھر جاتے ہیں۔ فرزند دلبند! اانسان کو زندہ رہنے کیلئے کھانے، پینے، آرام اور آسائش کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں آپ کو اس بارے میں نصیحت کرتا ہوں کہ غذا کم کھایا کریں، کم سویا کریں اور کم بولا کریں، ہروقت اور ہر لمحہ اپنے وجود پر غور وخوض کیا کریں۔ جس طرح پرکار مرکزی نقطہ کے گرد گھومتا ہے اسی طرح آپ کو بھی اپنے وجود پر غوروفکر اور تدبر کرنا چاہئے۔ علامہ اقبالؒ نے ایک اور رباعی میں بھی اس طرف رہنمائی کی ہے۔ بیا بر خویش پیچیدن بیا موز بہ ناخن سینہ کاویدن بیا موز اگر خواہی خُدارا فاش ہینی خودی را فاش تردیدن بیا موز آجاؤ اپنے گرد گھومنا سیکھ لے۔ اپنے ناخنوں سے سینہ کھرچنے کا عمل سیکھ لے۔ اگر تم چاہتے ہو کہ خدا کو صاف وشفاف مرئی شکل میں دیکھ سکو تو سب سے پہلے اپنے وجود اور اپنی حقیقت اور اپنی خودی کو زیادہ سے زیادہ نمایاں طور دیکھنا سیکھ لے۔ ملّا کے نزدیک منکر حق کافر ہے۔ میرے نزدیک جو شخص اپنے وجود سے انکار کرے وہ کافر تر ہے۔ خدا کے وجود کا منکر حیران و ششدر کہلایا جاسکتا ہے۔ مگر اپنے وجود سے انکار کرنے والا عجول ہی نہیں بلکہ ظلوم اور جہول بھی ہے۔ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُو ماََ جَہُو لَاَ’’الاحزاب:۷۳‘‘۔ اپنے اندر اخلاص پیدا کر اور اس میں استحکام اور استقامت کی صفت پیدا کر۔ بادشاہوں اور سرداروں کے خوف سے اپنے آپ کو پاک کردے۔ اخلاص کے بارے میں رسولِ رحمتؐ کی اس نصیحت کو یاد رکھا جائے جو آپ نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو اُس وقت کی جب اُن کو یمن کا گورنر بناکر رخصت کرنا تھا۔ آپؐ اُن کو سواری پر بٹھا کر خود پیدل مُشایعت کرکے ساتھ نکلے۔ جب رخصتی کا وقت آیا حضرت معاذ بن جبلؓ سواری سے نیچے اُترے اور عرض کیا: اَوصِنِی یا رسول اﷲؐمجھے نصیحت فرمائیے۔ آپؐ نے فرمایا۔ اخلض دینک یکفک العمل القلیل۔ اپنے دین کو خالص بناؤ تھوڑا عمل بھی کافی ثابت ہوگا۔ کسی بھی حال میں عدل وانصاف سے سرتابی نہ کرو۔ چاہئے غمی میں ہو یا خوشی میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کرو چاہے تنگدستی ہو یا وسعت دست ہو۔ اﷲ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا اگر تمہیں دشوار لگ رہا ہو تم اپنی سہولیت اور خواہش نفس کی پیروی میں تاویلات مت کرو۔ اپنے ضمیر اور قلب مؤمن کو اپنی رہنمائی کے لئے قندیل اور مشعل سمجھو۔ جیسے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مشتبہ معاملات میں جہاں احکامات واضح نہ ہوں۔’’ اِسْتَفْتِ قَلْبُکَ‘‘ (اپنے دل سے فتویٰ پوچھو!) روحوں کی بالیدگی اور حفاظت کے لئے بے حساب ذکر اور فکر کا اہتمام کرو۔ جسم کی حفاظت کیلئے عالم شباب میں ضبطِ نفس کی ضرورت ہے {یَٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا اذْکُرُوا اﷲَ ذکْرًا کَثِیرًا ہ وَسَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَاَصِیْلاً ہ) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو اﷲ کو کثرت سے یاد کرو اور صبح وشام اُس کی تسبیح کرتے رہو‘‘۔ صاحبِ تفہیم القرآنؒ نے ذکر کے بارے میں ایک حدیث نقل کی ہے۔ اقبالؒ نے اسی ذکرِ مسلسل کی طرف جاوید اقبال کی وساطت سے جوانان ملّت کو تلقین کی ہے۔ {عن معاذ بن انس الجھنی عن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ان رجلاً سألۃ ای المجاھدین اعظمُ اجرًا یا رسُول اﷲ؟ قال اکثرھم لِلّٰہِ تعَالیٰ ذکرًا۔ قَال ایُّ الصائمین اکثرا جرا؟ قال اکثرھم لِلّٰہِ عزّوجل ذکرًا۔ ثم ذکر الصّلوٰۃُ والزکوٰۃ ولحجّ والصَّدَقَۃَ کل ذالک یقول رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اکثرھم لِلّٰہِ ذکرَّا} ’’معاذ بن انس جہینی روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جہاد کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر اجر پانے والا کون ہے؟ فرمایا جو اُن میں اﷲ تعالیٰ کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا ہے۔ اُس نے عرض کیا روزہ رکھنے والوں میں سب سے زیادہ اجر کون پائے گا؟ فرمایا جو ان میں سب سے زیادہ اﷲ کو یاد کرنے والا ہو۔ پھر اُس شخص نے اسی طرح نماز، زکوٰۃ، حج اور صدقہ ادا کرنے والوں کے متعلق پوچھا اور حضورؐ نے ہر ایک کا یہی جواب دیا کہ جو اﷲ کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا ہو۔‘‘ (تفہیم القرآن جلد۴، ص ۹۷) عالم بالا وعالم سفلٰی میں جسم وروح کی حفاظت کے بغیر حاکمی اور بالادستی حاصل نہیں ہوسکتی ہے۔ سفر کا مقصود لذّتِ سیر ہے۔ اگر تم اپنے مسکن اور آشیانے کی طرف ہی نظریںجمائے رکھو گے پھر تمہیں پروازکے لئے نکلنا ہی نہ چاہئے۔ چاند گردش کرتا ہے تاکہ بدر عالم بن کر اپنا اصل مقام حاصل کرے لیکن آدم اور انسان کے لئے رہینِ خانہ بن کر رہنا حرام ہے۔ زندگی کی اصلی لذّت اور حقیقت محو پرواز رہناہے۔ انسان کی فطرت اور جبلت کے ساتھ ایک ہی جگہ ٹھہرے رہنا اورآشیاں کا بندہ بننا ساز گار اور موافق حال نہیں ہے۔ کوؤں اور گدھوں کا رزق خاک گور میںہے۔ عقابوں اور بازوں کا رزق چاند اور تاروں کی وسعت میں ہے یعنی کوے اور گدھ مردار کھاتے ہیںجبکہ عقاب اڑتے جانوروں کا شکار کرتا ہے۔ سرِّ دیں صدقِ مقال، اکلِ حلال خلوت و جلوت تماشائے جمال! در رہِ دیں سخت چوں الماس زی دل بحق بربندو بے وسواس زی! سرّے از اسرارِ دیں بر گویمت داستانے از مظفرؔ گویمت اندر اخلاصِ عمل فردِ فرید پاد شاہے با مقامِ بایزیدؔ پیشِ اُو اسبے چو فرزنداں عزیز سخت کُش چوں صاحبِ خود در ستیز سبزہ رنگے از نجیبانِ عرب باوفا، بے عیب، پاک اندر نسب مردِ مؤمن را عزیز اے نکتہ رس چیست جز قرآن و شمشیر و فرس؟ من چہ گویم وصفِ آں خیر الجیاد کوہ و روئے آبہا رفتے چو باد روزِ ہیجا از نظر آمادہ تر تند بادے طائف کوہ و کمر! درتگِ او فتنہ ہائے رستخیز سنگ از ضربِ سُمِ او ریز ریز روزے آں حیواں چو انساں ارجمند گشت از دردِ شکم زار و نژند کرد بیطارے علاجش از شراب اسبِ شہ را وار ہاند از پیچ و تاب شاہِ حق بیں دیگرآں یکراں نخو است شرعِ تقویٰ از طریقِ ماجد است اے ترابخشد خُدا قلب و جگر طاعتِ مردِ مسلمانے نگر! دین اسلام کی روح صدقِ مقال اور اکل حلال ہے۔ سچ بولنا اور حلال کھانا، خلوت ہو یا جلوت، یعنی تنہائی ہو یا عام مجالس ہیں اﷲ ربّ کائینات کے استحضار کا یقین وایقان۔ دین کی راہ میں الماس کی طرح سخت کوش اور راسخ العقیدہ بن جا۔ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ اپنا قلبی تعلق پیدا کر اور بے خوف وخطر زندگی گذارنے کا طریقہ اختیار کر۔ قرآنِ پاک کی اس آیت کے مصداق: {یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اﷲُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّھُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ یُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ وَلاَ یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ ط ذٰلِکَ فَضْلُ اﷲِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ ط وَاﷲ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ہ} ترجمہ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم میں سے کوئی دین سے پھرتا ہے (تو پھرجائے) اﷲ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کردے گا جو اﷲ کو محبوب ہوں گے اور اﷲ اُن کو محبوب ہوگا، جو مؤمنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے، جو اﷲ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے۔ یہ اﷲ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ اﷲ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے‘‘۔ (المائدہ:۵۴) تشریح: ’’مؤمنوں پر نرم‘‘، ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص اہل ایمان کے مقابلے میں اپنی طاقت کبھی استعمال نہ کرے۔ اُس کی ذہانت، اُس کی ہوشیاری، اُس کی قابلیت، اُس کا رسوخ واثر ، اُس کا مال، اُس کا جسمانی زور، کوئی چیز بھی مسلمانوں کو دبانے اور ستانے اور نقصان پہنچانے کے لئے نہ ہو۔ مسلمان اپنے درمیان اُس کو ہمیشہ ایک نرم خو، رحم دل، ہمدرد اور حلیم انسان ہی پائیں۔ ’’کفار پر سخت‘‘ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک مؤمن آدمی اپنے ایمان کی پختگی، دینداری کے خلوص، اصول کی مضبوطی، سیرت کی طاقت اور ایمان کی فراست کی وجہ سے مخالفین اسلام کے مقابلہ میں پتھر کی چٹان کی مانند ہو کہ کسی طرح اپنے مقام سے ہٹایا نہ جاسکے۔ وہ اُسے کبھی موم کی ناک اور نرم چارہ نہ پائیں۔ اُنہیں جب بھی اُس سے سابقہ پیش آئے اُن پر یہ ثابت ہوجائے کہ یہ اﷲ کا بندہ مرسکتا ہے مگر کسی قیمت پر بک نہیں سکتا اور کسی دباؤ سے دب نہیں سکتا۔‘‘ (تفہیم القرآن: جلد ۱ ،ص۴۸۲،۴۸۳) میں آپ کو دین کے اسرار اور راز میں سے ایک راز بتاؤں گا۔ گجرات کے سلاطین میں ایک سلطان مظفرؒ نام کا گذرا ہے۔ اُن کی ذات سے متعلق ایک واقعہ ہے وہ دین اور عمل کے بارے میں مردِ فرید تھا ۔ یعنی ایک امتیازی اور منفرد مقام رکھنے والا۔ ایسا بادشاہ، جو تقویٰ اور پرہیزگاری کے بارے میں حضرت بایزید بُسطامی کے مرتبہ کا تھا۔ اُس کے پاس ایک گھوڑا تھا جو اُسے اپنے فرزندوں کی طرح عزیز اور پیارا تھا۔ وہ گھوڑا اپنے مالک کی طرح جنگ کے موقع پر بہت ہی سخت کُش اور دلیر تھا۔ گہرے سبز رنگ کا باوفا، بے عیب اور اپنے نسب میں پاک تھا۔ اے میرے نقطہ رس بیٹے ایک مردِ مؤمن کے لئے قرآن، شمشیر اور وفادار گھوڑے کے بغیر کوئی اور چیز عزیز اور پیاری نہیں ہوسکتی ہے۔ میں اُس بہترین حسب ونسب والے گھوڑے کی کیا تعریف اور توصیف کروں۔ پہاڑوں اور سمندروں میں ہوا کی طرح دوڑتا اور اُڑان کرتا تھا۔ جنگ وجدال کے موقع پر انسان کی نگاہ کی طرح ہروقت حاضر اور آمادہ کار ہوتا تھا۔ تیز وتند چلنے والا، پہاڑوں اور میدانوں کا طواف کرنے والا۔ اُس کی دوڑ اور رفتار میں، قیامت کی طرح فتنے دبے ہوتے تھے۔ دوڑتے وقت اُس کی سُم کی ضرب سے پتھر ریزہ ریزہ ہوجاتے تھے۔ ایک روز وہ حیوان، جو اپنی صفات اور امتیازی خصوصیات کی وجہ سے انسانوں کی مانند تھا پیٹ کے عارضہ میں مبتلا ہوکر نہایت ہی نحیف اورنڈھال تھا۔ ایک حکیم کو لایا گیا۔ جس نے اُس کی بیماری کا اعلاج شراب سے کیا۔ گھوڑا اس پیچش اور تکلیف سے مکمل طور صحت یاب ہوگیا۔ شاہ مظفرؔ حق بین، خدا ترس اور متقی و پرہیزگار، اس کے بعد اس گھوڑے پر سوار نہیں ہوا۔ ہمارے طریق کار اور طرزِ عمل کے مقابلے میں اس بادشاہ کا تقویٰ اور پرہیزگاری کے مقام کا اندازہ کرلیا جائے چونکہ اﷲ تعالیٰ نے شراب حرام کی ہے۔ جس گھوڑے نے شراب پی ہو اُس پر بایزید بُسطامیؒ جیسا کردار رکھنے والا سوار نہیں ہوسکتا۔ اے میرے بیٹے جاویدؔ! اﷲ برترو بزرگ آپ کو مؤمنانہ قلب وجگر عطا کرے! ایک مسلمان مرد کی اطاعت اور اﷲ کی فرماں برداری کا مقام اور مرتبہ دیکھ لے۔ دیں سراپا سوختن اندر طلب انتہایش عشق و آغازش ادب! آبروئے گُل زرنگ و بوئے اوست بے ادب، بے رنگ و بو، بے آبروست! نوجوانے را چُو بینم بے ادب روزِ من تاریک می گردد چو شب تاب و تب درسینہ افزاید مرا یادِ عہدِ مصطفےؐ آید مرا! از زمانِ خود پشیماں می شوم در قرونِ رفتہ پنہاں می شوم! سترِ زن یا زوج یا خاک لحد سترِ مرداں حفظِ خویش از یارِ بد حرفِ بد را برلب آوردن خطاست کافر و مؤمن ہمہ خلقِ خداست! آدمیت احترامِ آدمی باخبر شو از مقامِ آدمی! آدمی از ربط و ضبط تن بہ تن بر طریقِ دوستی گامے بِزن بندئہ عشق از خدا گیرد طریق می شود بر کافر و مؤمن شفیق! کفر و دیں را گیر در پہنائے دل دل اگر بگریزد از دل، وائے دل! گرچہ دل زندانیء آب و گل است ایں ہمہ آفاق آفاقِ دل است! دین کی روح یہ ہے کہ دیندار، مسلمان اپنے آپ کو دین کے تقاضے پورے کرنے کے لئے حقِ جدوجہد ادا کرے۔ جس کو علامہ اقبالؒ مرحوم سوختن سے تعبیر کرتے ہیں۔ یعنی اپنے آپ کو جلاتا رہے۔ اس کا ابتدائی مرحلہ یہ ہے کہ ادب سیکھا جائے اور انتہا اس کی یہ ہے کہ عشق اور جنون کی کیفیت پیدا کی جائے۔ اس بات کا بار بار تذکرہ آیا ہے ارفع اور بلند مقاصد کے لئے جب تک عشق، محبت، کا جذبہ پیدا نہ ہوجائے محض رسمی تعلق سے حق ادا نہیں ہوسکتا۔ پھول کی آبرو اور عزت اُس کے رنگ وبو پر منحصر ہے جس انسان میں بالعموم اور مسلمان میں بالخصوص ادب نہ ہو وہ بے رنگ وبو ہی نہیں بلکہ بے آبرو بھی ہے۔ جب میں کسی نوجوان کو ادب سے محروم دیکھ رہا ہوں۔ میرا دن، رات کی تاریکی میں بدل جاتا ہے۔ اندازہ کریے کہ علامہ اقبالؒ ادب اور اخلاقِ حسنہ کو کتنی اہمیت اور مقام عطا کرتے ہیں۔ جوانانِ ملّت کو خاص طور زندگی کے آداب واطوار کے سانچے میں ڈھالنے کی طرف خصوصی توجہ دیدینی چاہئے۔ میرے سینے اور دل میں تابندگی اور جذبہ وولولہ بڑھ جاتا ہے۔ جب سے رسولِ رحمت کے دورِ سعادت کی یاد آجاتی ہے۔ جب میں اپنے زمانے کے خدوخال اور رنگ وروپ دیکھتا ہوں تو مجھے بہت ہی ندامت اور شرمندگی ہوجاتی ہے اور میں مسلمانوں کی تہذیب وتمدن اور آدابِ زندگی کے دورِ اول میں پناہ لیتا ہوں۔ دخترانِ ملّت کے لئے حکیم الامتؒ فرماتے ہیں کہ خاتون کیلئے پردہ یا تو اُس کا حصارِ نکاح ہے یا قبر اور لحد ہے۔ مردوں کی پاکدامنی اور حقط اخلاق کا نسخہ یہ ہے کہ وہ غلطکار اور اخلاق باختہ لوگوں کی صحبت اور دوستی سے پرہیز کریں۔ زبان کو گالی گلوچ اور بدکلامی سے بچائے رکھنا چاہئے۔ کیونکہ یہ بہت ہی ناپسندیدہ اور ناخوشگوار عمل ہے۔ ایک مسلمان کے ذہن میں بڑی وسعت اور کشادگی ہونی چاہئے۔ انسان ہونے کے ناطے اُس کو کافر اور مؤمن میں کوئی تمیز اور تفریق نہیں برتنی چاہئے۔ کیونکہ مخلوق ہونے کے ناطے سب اﷲ تعالیٰ کے بندے اور پیدا کردہ ہیں۔ انسانیت یہ ہے کہ سب انسانوں کو رنگ، نسل، زبان، وطن، معاش اور پیشہ کی تفریق سے بالاتر ہوکر احترام اور قدرو منزلت کی نگاہوں سے دیکھا جانا چاہئے۔ ایک مسلمان کو خاص طور آدمیت کے احترام سے باخبر ہونا چاہئے اور اُس کے رویے اور طرزِ عمل سے کسی بھی انسان کے ساتھ امتیاز نہیں برتا جانا چائیے۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے۔ وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیٓ اٰدَمَ ’’ہم نے فرزند آدم کو احترام اور قدرو منزلت عطا کی ہے۔‘‘ انسان کا ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ اور انسانی بنیادوں پر رشتہ کی اصل آدمیت ہے۔ فرزندِ دلبند! آپ کو بھی ہر ایک انسان کے ساتھ دوستی اور پیارومحبت کا رشتہ اُستوار کرنا چاہئے۔ اﷲ تعالیٰ کا محبوب اور پسندیدہ بندہ اپنے خالق اور مولا سے طریقِ زندگی حاصل کرتا ہے اور اُس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ کافر اور مؤمن سب کے لئے رحمت، رزق ورساں اور پیارو شفقت رکھتا ہے۔ اپنے دل میں اتنی وسعت اور کُشادگی پیدا کیجئے کہ کفر اور دین کی بنیاد پر کسی بھی انسان کے ساتھ تفریق نہ برتی جائے۔ دل میں انسانیت کے لئے پیار اور محبت نہ ہو تو وہ اصل دل سے گریز کرتا ہے اور اُس کا دل محض نام کا ہی ہے اور اُس پر افسوس اور واویلا کے سوا کیا کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ انسان کا دل، آب وگِل کے جسم کا زندانی ہے ، مگر حقیقت نفس الامری یہ ہے کہ یہ ساری کائینات دل کی کائینات ہے گرچہ باشی از خداوندانِ دہ فقر را از کف مدہ، از کف مدہ سوزِ او خوا بیدہ درجانِ تو ہست ایں کہن مے از نیا گانِ توہست! درجہاں جز دردِ دل ساماں مخواہ نعمت از حق خواہ واز سلطاں مخواہ! اے بسا مردِ حق اندیش و بصیر می شود از کثرتِ نعمت ضریر! کثرتِ نعمت گداز از دل برد ناز می آرد نیاز از دل بُرد سالہا اندر جہاں گردیدہ ام نم بچشمِ منعماں کم دیدہ ام! من فدائے آنکہ درویشانہ زیست وائے آں کو از خُدا بیگانہ زیست! میرے محبوب فرزند! اگر تم بستی اور شہر کے حاکموں اور سرداروں، یا جاگیرداروں کا مرتبہ بھی حاصل کرلو گے لیکن فقر اور استغنا کو کبھی اپنے ہاتھ سے اور اپنی زندگی کے طرزِ عمل سے جُدا نہ کریں۔ جہاں بینی اور جہانگیری میں مسکنت اور فقرِ غیور، تیری روح میں موجود ہے۔ اشارہ ہے اپنے آباؤ واجداد اور پھر قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی طرف یہ فقرو مسکنت کی پُرانی شراب تمہارے اسلاف کی وراثت اور نعمت ہے۔ دُنیا میں دردِ دل کے بغیر کسی اور سامان کی طلب نہ کر۔ زندگی کے لوازمات اور ضروریات اﷲ تعالیٰ کی ذاتِ بابرکات کے سوا کسی بادشاہ سے طلب نہ کر بہت سارے، مردِ حق اندیش و صاحب بصیرت، دنیوی مال ومتاع کی کثرت سے معنوی طور نابینا اور اندھے ہوجاتے ہیں۔ دُنیوی مال وجائیداد کی کثرت، دل کا گداز، نرمی، شفقت اور جذبہء محبت چھین لیتی ہے۔ کبر، غرور اور گھمنڈ پیدا کرتا ہے۔ عجزو انکسار اور نیازمندی کے اوصاف بھی چھین لیتی ہے۔ میں برسہا برس دُنیا میں گھوما پھرا ہوں۔ میں نے اصحابِ ثروت میں آنکھوں کی نمی بہت کم دیکھی ہے۔ یعنی معاشی لحاظ سے کمزور طبقے کے لئے اُن میں جذبہء ہمدردی اور مروت کا وصف بہت کم پایا ہے۔ میں اُس انسان اور خاص طور مسلمان کی زندگی کا فدائی ہوں جو درویشانہ طرزِ زندگی گذارتا ہے۔ مجھے اُس انسان پر افسوس اور واویلا ہے جو خدا بے زار زندگی گذار تا ہے۔ در مسلماناں مجوآں ذوق و شوق آں یقیں، آں رنگ و بُو، آں ذوق وشوق! عالماں از علمِ قرآں بے نیاز صوفیاں درّندہ گرگ و مُودر از! گرچہ اندر خانقاہاں ہائے و ہوست کو جوانمردے کہ صہبادر کدوست! ہم مسلمانانِ افرنگی مآب چشمہء کوثر بجویند از سراب! بے خبراز سرِّدین اند ایں ہمہ اہل کین اند اہل کین اند ایں ہمہ! خیر و خوبی برخواص آمد حرام دیدہ ام صدق و صفا را در عوام! اہل دیں را بازداں از اہلِ کیں ہم نشینِ حق بجو با او نشیں! کرگساں را رسم و آئیں دیگر است سطوتِ پروازِ شاہیں دیگر است! آج کے مسلمان میں وہ ذوق وشوق، جذبہ اور ولولہ، تلاش نہ کریں۔ وہ یقین وایقان، وہ پرکشش اخلاق وکردار کے خدوخال آج کے مسلمانوں میں دیکھنے میں نہیں آرہے ہیں۔ مسلمانوں میں عالم کہلانے والے لوگ قرآنی تعلیمات سے بے نیاز اور بے پرواہ ہیں۔ صوفیوں اور نام نہاد درویشوں کی حالت درندہ بھیڑیوں اور لمبے لمبے بال رکھنے والوں کی ہے ۔ کچھ درویش الف ننگا پھررہے ہیں اور مسلمانِ معاشرہ اس حد تک اخلاقی زوال اور انحطاط کا شکار ہوا ہے کہ ان الف ننگا درویشوں کے گرد طواف کرنے والی زیادہ تر خواتین ہوتی ہیں۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون! اگرچہ خانقاہوں اور زیارت گاہوں پر ہائے و ہُو کا بہت شور وغوغا ہے لیکن کوئی ایسا جوانمرد دیکھنے میں نہیں آرہا ہے کہ جس کے پیالے میں شرابِ معرفت دیکھی جاسکتی ہے۔ گویا سب عالم، صوفی اور خانقاہوں کے مجاور روحِ دین اور روحِ قرآن سے محروم اور کوسوں دور ہیں مغربی رنگ میں رنگے ہوئے مسلمان بھی سراب میں چشمہ آب کوثر تلاش کررہے ہیں۔ گویا مغربی تعلیم ، تہذیب، کلچر اور اُن کی استبدادی حکمرانی میں، دینداری اور اسلامی اخلاق وکردار کی تمنا رکھتے ہیں جیسے آج پاکستان، بھارت خاص طور متنازعہ جموں کشمیر کے مسلمان، لادینی، مشرکانہ اور سامراجی غلبہ اور اقتدار میں دینداری اور معرفت اِلٰہی کے حصول کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ ترسم کہ نہ رسی بکعبہ اے اعرابی کہ ایں راہ کہ تو مے روی، بَتُرکستان است (سعدیؒ) اے کعبہ جانے کی تمنا رکھنے والے اعرابی، میں ڈرتا ہوں کہ تو کعبہ نہیں پہنچ پائے گا کیونکہ جس راستے پر تو جارہا ہے وہ تو کعبہ کے بجائے ترکستان کی طرف جارہا ہے۔ یہ سارے لوگ جن کی نشاندہی کی گئی ہے۔ دین کی روح اور اصل حقیقت سے بالکل بے خبر اور بے بہرہ ہیں۔ یہ سب لوگ دلوں میں کینہ اور بغض رکھنے والے ہیں۔ مسلمان معاشرہ میں خوشحال اور معاشی لحاظ سے آباد اور صاحب ثروت طبقہ، خیر وخوبی سے خالی، جیسے کہ ان پر حرام ہو۔ میں نے صدق وصفا عوام میں دیکھا ہے۔ آج جبکہ علامہ مرحومؒ کے دردِ دل کی ترجمانی ہورہی ہے۔ عوام اور خواص ایک ہی رنگ میں رنگے جاچکے ہیں۔ لادین خدا بے زار اور آخرت فراموشوں کے نظامِ زندگی نے معاشرے پر اثر انداز ہونے والے سارے رشتوں اور جسموں پر اپنی گرفت مضبوط کی ہے اور وہ ان وسیع ذرائع اور وسائل کو استعمال میں لاکر مسلمانوں کی شناخت مٹانے میں برق رفتاری سے دوڑ رہے ہیں۔ اے میرے فرزند! آپ اہل دین اور اہل کین میں تمیز پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔ بگڑے ہوئے معاشرے میں اہل حق کو تلاش کرکے اُنہی کی صحبت اختیار کریے۔ گدھ، جیسے پرندوں کی راہ ورسم جداگانہ ہے۔ شاہین جیسے پرندوں کی سطوت، شان اور انداز پرواز بالکل مختلف اور جداگانہ ہے۔ مردِ حق از آسماں اُفتد چو برق ہَیزمِ اُو شہر و دشتِ غرب و شرق ماہنوز اندر ظلامِ کائینات او شریکِ اہتمامِ کائینات او کلیمؑ و او مسیحؑ و او خلیلؐ او محمدؐ، او کتاب، او جبرئیلؑ! آفتابِ کائیناتِ اہلِ دل از شعاعِ اُو حیاتِ اہلِ دل اول اندر نارِ خود سوزد تُرا باز سلطانی بیاموزد تُرا ماہمہ باسوزِ اُو صاحب دلیم ورنہ نقشِ باطلِ آب و گلیم ترسم ایں عصرے کہ تو زادی دراں دربدن غرق است وکم داند زِجان! چوں بدن از قحطِ جاں ارزاں شود مردِ حق درخویشتن پنہاں شود! درنیابد جستجو آں مرد را گرچہ بیند روبر و آں مرد را! تو مگر ذوقِ طلب از کف مدہ گرچہ درکارِ تو اُفتد صد گرہ! گرنیابی صحبتِ مردِ خبیر ازاب وجد آنچہ من دارم بگیر پیرِ رومیؔ را رفیقِ راہ ساز تا خدا بخشد ترا سوز و گداز زانکہ رومیؔ مغزرا داند زِپوست پائے اُو محکم فتد در کوئے دوست شرح اُو کردند اُو راکس ندید معنیء اُو چوں غزال از مار مید رقصِ تن از حرفِ اُو آموختند چشم را از رقصِ جاں بر دوختند! رقصِ تن در گردش آرد خاک را رقصِ جاں برہم زند افلاک را! علم و حکم از رقصِ جاں آید بدست ہم زمیں ہم آسماں آید بدست! فرد ازوے صاحبِ جذبِ کلیم ملّت ازوے وارثِ ملکِ عظیم! رقصِ جاں آموختن کارے بود غیرِ حق را سوختن کارے بود تازِ نارِ حرص و غم سوزد جگر جاں برقص اندر نیاید اے پسر ضعفِ ایمان است و دلگیری است غم نوجوانا!’ نیمہء پیری است غم‘! می شناسی؟ حرص فقرِ حاضر است من غلامِ آنکہ بر خود قاہر است اے مرا تسکینِ جانِ ناشکیب تو اگر از رقصِ جاں گیری نصیب سرِّ دین مصطفیٰؐ گویم ترا ہم بقبر اندر دُعا گویم ترا! مردِ حق، اﷲ ربّ کائینات پر ایمان کامل رکھنے والا اور اُس کی بندگی کا حق ادا کرنے والا آسمان سے بجلی کی طرح گرتا ہے۔ اُس بجلی کا نشانہ شرق وغرب کے شہر اور جنگل بن جاتے ہیں جس طرح آگ لکڑی کو جلا دیتی ہے مطلب اس کا یہ ہے کہ حق پرست انسان باطل قوتوں اور نظریات کے لئے بجلی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اُس کے وجود میں آنے سے زمین پر شہروں، دیہات اور دشت وصحرا میں ہمہ گیر صالح انقلاب آتا ہے۔ جو علامہ اقبالؒ کا خواب تھا۔ ہم لوگ ابھی کائینات کے اندھیرے میں گم ہیں۔ مردِ حق، کائینات کے اہتمام میں شریک ہوتا ہے، کیسے شریک ہوتا ہے؟ وہ کائینات کو خالقِ کائینات کی مرضی کے مطابق تعمیر کرنے میں مصروفِ عمل رہتا ہے۔ مردِ حق، کلیمؑ بھی ہے، مسیحؑ بھی ہے اور خلیلؑ بھی ہے۔ وہی محمدؐ، اُن کی لائی ہوئی آخری کتابِ ہدایت، القرآن اور جبرئیلؑ بھی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ پیغمبروں کے مشن کا امانتدار اور علمبردار ہوتا ہے۔ آخر دُنیا میں جتنے پیغمبر تشریف آور ہوئے ہیں ان سب کا مشن ایک ہی تھا کہ زمین پر اﷲ کا حکم بلند ہو۔ اﷲ کا پسندیدہ دین غالب ہو اور مردِ حق یہی مشن رکھتا ہے اور مشن کی کامیابی اور کامرانی کے لئے سب کچھ قربان کرنے اور تج دینے کے لئے تیار ہوتا ہے۔ پوری دُنیا میں اہل دل کے لئے مردِ حق آفتاب کی حیثیت رکھتا ہے اُس کی کرن اور شعاع اہل دل کیلئے حیات اور زندگی ہے۔ مردِ حق، سب سے پہلے تجھے اپنی حقیقت اور اصلیت کا ادراک پیدا کرکے عشق ومحبت کی آگ میں جلاتا ہے۔ پھر آپ کو جہاں بانی کے آداب سکھا کر سلطانی سکھاتا ہے، کیونکہ دُنیا میں اﷲ تعالیٰ کی حکمرانی کا فریضہ مردِ حق ہی انجام دے سکتا ہے۔ دوسروں کو بھی وہی تیار کرتا ہے۔ ہم سب لوگ(اہل ایمان) مردِ حق کے بخشے ہوئے سوز سے ہی اہل دل بن گئے ہیں۔ ورنہ ہماری حقیقت آب وگل کے نقشِ باطل کے بغیر کیا ہے۔ میرے نورِ چشم! مجھے بہت ہی رنج اور غم ہے کہ تو نے جس زمانے میں جنم لیا اُس زمانے کے عالم جسم میں غرق ہیں۔ روح کے بارے میں آج کے زمانے کے لوگ بہت کم جانتے ہیں۔ جب انسانوں کے بدن روح کے قحط سے ارزان ہوجاتے ہیں تو مادّیت کے غلبہ کی وجہ سے ایسے حالات اور زمانے میں مردِ حق اپنے آپ میں ہی پوشیدہ ہوجاتا ہے۔ گردوپیش کے ماحول میں، اُس کے روبرو ہونے کے باوصف نہ تو اُس کی تلاش کی جاتی ہے اور نہ ہی اُس کی پہچان ہوتی ہے۔ میرے فرزند دلبند! تو مردِ حق کی تلاش میں سرگرم رہنا،ا گرچہ اُس کی تلاش میں تجھے مشکلات اور مصائب بھی درپیش آجائیں لیکن تجھے اُس کی طلب سے دستکش نہیں ہونا چاہئے۔ اگر تم کو کسی مردِ خود آگاہ کی صحبت نصیب نہ ہوسکے تو تجھے جو کچھ اپنے آباواجداد سے ورثے میں ملا ہے، اُس کو اپنے قلب وذہن میں جگہ دیکر سنبھالنے کی کوشش کرتے رہنا۔ ہماری نصیحت اور آبائی ورثہ یہ ہے کہ پیررومیؔ کو اپنا رہنما اور رفیق راہ بنالے۔ تاکہ اﷲ تجھے سوز وگداز عطا کرے۔ رومیؔ کوکھرے اور کھوٹے کی صحیح پہچان حاصل ہے۔ اس لئے اس کا قدم محبوب کے کوچے میں صحیح پڑتا ہے۔ اُس کے کلام کی تشریح تو کی جاتی ہے، مگر فی الحقیقت اُس کی جان پہچان اور شناخت کو بہت کم جاناجاتا ہے۔ اُس کے کلام کے اصلی اور حقیقی معانی ہم سے ہرن کی طرح بھاگ گئے ہیں۔ اُس کے کلام کو پڑھنے والوں نے صرف جسم کی پرداخت اور بناؤ ہی سیکھ لیا ہے۔ انہوں نے اپنی روح کی پرورش اور نگہداشت سے اپنی آنکھیں بند کرلی ہیں۔ جسم کا رقص دھول اڑاتا ہے۔ جب روح میں زندگی، بالیدگی اور معرفت اِلٰہی رچ بس جاتی ہے تو افلاک سے بھی انقلاب آجاتا ہے۔ یعنی روح کے رقص سے آسمانوں میں ہنگامہ برپا ہوجاتا ہے۔ روح کے رقص سے علم وحکمت کی دولت ہاتھ آجاتی ہے۔ زمین وآسمان کی حاکمیت اور بالادستی حاصل ہوجاتی ہے۔ روح کی زندگی سے فرد حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح جذبہء دین اور غلبہ دین کی تمناؤں اور کوششوں کا حامل بن جاتا ہے اورملّت، سلطنت ومملکت کی وارث بن جاتی ہے۔ روح میں حیات اور معرفت حق پیدا کرنا، مؤمن اور بندہ مسلم کے لئے ایک کارنامہ ہے۔ اﷲ کی بندگی اور فرماں برداری کے ساتھ غیر حق کی اطاعت وبندگی سے نجات حاصل کرنا اور باطل نظریات اور اصولوں کو جلانا اور زمین بوس کرنا، مؤمن کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ اے میرے پسر! جب تک حرص اور غم کی آگ سے جگر جلتا ہے اُس وقت تک روح رقص نہیں کرتی۔ غم کھانا، ایمان کی کمزوری اور دلگیری ہے۔ اے جواں سال لخت جگر! غم بڑھاپے کا نصف ہے۔ یعنی غم و اندوہ سے بڑھاپا چھا جاتا ہے۔ کیا تم جانتے ہو کہ موجودہ زمانے میں حرص ہی فقر ہے۔ میں تو اُس مردِ حق کا غلام ہوں۔ جو اپنے نفس پر قابو پالیتا ہے۔ اپنے نفس پر حکمرانی کرتا ہے اور حرص و آز کا شکار ہو کر نفس کی غلامی کے بندھن میں گرفتار نہیں ہوتا ہے۔ اے میرے راحتِ قلب وجگر! اگر تو روح کے رقص کی کیفیت کا کچھ حصہ پاسکو گے۔ میں جناب محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دینِ مقدس کی روح اور راز تیرے سامنے واشگاف الفاظ میں بیان کرتا ہوں۔ دل کی گہرائیوں سے ابھرنے والی اُمیدوں اور تمناؤں کا اگر تو امین، حامل اور محافظ بنے گا میں قبر میں بھی تیرے لئے دُعا گو رہوں گا۔ علامہ اقبالؒ ایک دقیق نکتے کی گرہ کُشائی کرتے ہیں کہ روح کی بیداری کا راز جانے بغیر اسلام کی روح کا سمجھنا ناممکن ہے۔ علامہ ؒ اپنے فرزند جاوید سے مخاطب ہوکر نو خیز نسل کو سرِ دین سے آگاہ کرتے ہیں۔ اقوامِ مشرق کیلئے نسخہ کیمیا اثر: گماں مبر کہ خرد را حساب و میزان نیست نگاہِ بندئہ مؤمن قیامتِ خرد است وحی اِلٰہی کو پس پشت ڈال کر، محض عقل وخِرد پر انحصار کرکے، فرد اور معاشرے کی تعمیر کرکے جو نظام تشکیل دیا جارہا ہے اُس کے نتائج اور ثمرات آج بنی نوع انسان کے خونِ انسان کی ارزانی، ظلم واستبداد اور جبرو تشدد کی صورت میں بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ علامہ مرحومؒ نے’’پسِ چہ باید کرد‘‘ کے عنوان کے تحت جو حقیقت بیانی کی ہے وہ صورتِ حال سے نجات حاصل کرنے کا واحد ذریعہ اور راستہ ہے۔ کتاب پڑھنے والے سے چند اشعار کہے گئے ہیں جن میں سے آخری شعر کا انتخاب کیا گیا ہے۔ ’’تم کو یہ گمان نہیں ہونا چاہئے کہ عقل و خرد کی بے راہ روی کے نتیجے میں جو کچھ سامنے آرہا ہے اُس کا کوئی حساب ومحاسبہ نہیں ہوگا۔ بندئہ مؤمن کی نگاہ اس کے لئے قیامت کی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘ مگر افسوس بندئہ مؤمن کی نگاہ عنقا ہوگئی ہے اور تہذیب حاضر کی ملمع کاری اور جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری نے مسلمان کی نظروں کو بھی خیرہ کردیا ہے۔ وہ ذہنی مرعوبیت کا شکار ہے اور وہ اس حقیقت سے آنکھیں موند رہا ہے۔ نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے مسلمان کو نورِ اِلٰہی اور اسوئہ حسنہ کی رہنمائی میں بنی نوع انسان کے لئے نجات دہندہ کی حیثیت سے سامنے آنا چاہئے تھا مگر وہ خود بھی لادین سیاست کا علمبردار بن کر ظلم واستبداد، استعماری اور سامراجی طاقتوں کا حامی ومددگار بنا ہے۔ جس لادین جمہوریت نے پوری انسانیت کا قافیہ حیات تنگ کردیا ہے وہ بھی اُسی کے گیت گارہا ہے اور اُسی تاریکی میں خود بھی غوطے لگارہا ہے حالانکہ اُس کی سفاکیت اور بربریت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے۔ دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادیٔ کی ہے نیلم پری ابلیس بھی اپنی مجلس شوریٰ میںمغرب کے جمہوری نظام کی اصلیت سُنا رہا ہے: تُو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام چہرہ روشن، اندرون چنگیز سے تاریک تر کتاب کی تمہید میں حکیم الامتؒ پیررومیؒ کے بارے میں خیالات کا اظہار کررہے ہیں۔ ان صفحات کی ابتداء میں چونکہ مولانا رومیؒ کے بارے میں کئی جگہ تذکرہ آیا ہے۔ اس لئے یہاں تکرار کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بعد ’’خطاب بہ مہر عالمتاب‘‘ میں فکر اقبالؒ کی ترجمانی ہے۔ اس میں سے ہم آخری آٹھ اشعار کا انتخاب کرتے ہیں۔ جس میں علامہ مرحومؒ تطہیر فکرکی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ فکرِ شرق آزاد گردد از فرنگ از سرودِ من بگیرد آب و رنگ زندگی از گرمیء ذکر است و بس حُریت از عفّتِ فکر است و بس چوں شود اندیشہ ء قومے خراب ناسرہ گردد بدستش سیم ناب میرد اندر سینہ اش قلبِ سلیم درنگاہِ او کج آید مستقیم بر کراں از حرب و ضربِ کائینات چشم او اندر سکوں بیند حیات موج از دریاش کم گردد بلند گوہرِ او چُوں خزف نا ارجمند پس نخستیں بایدش تطہیرِ فکر بعد ازاں آسان شود تعمیرِ فکر اقوامِ مشرق کی فکر(میرے انقلابی کلام سے) افرنگ کے افسون اور جادو سے آزاد ہوجائے گی۔ میرے سرور اور نغمہ سے آب ورنگ حاصل کرے گی۔ مطلب یہ کہ میرے فکروخیال سے رہنمائی حاصل کری گی۔ اقبالؒ کا فلسفہ حیات جس کی بنیاد قرآن اور اسوئہ حسنہ ہے اپنی رہنمائی کے لئے اختیار کریں۔ انسانی زندگی اﷲ کی یاد اور ذکرِسے عبارت ہے۔ حریت فکر کی پاکیزگی اور عفت مآبی سے ہے۔ جب کسی قوم کا اندیشہ، خیال اور فکر خراب ہوجاتی ہے اُس کے ہاتھوں خالص چاندی بھی کھوٹی اور ناقص بن جاتی ہے۔ جن لوگوں اور جس قوم کی فکر ناپختہ ہوتی ہے یا اُس کی بنیادیں، الحاد، شرک اور باطل نظریات کی بنیاد پر تعمیر ہوتی ہے تو ایسے قوم اور لوگوں کے سینے میں دل مردہ ہوجاتا ہے۔ دلوں کے مردہ ہوجانے کے بعد وہ ہر سیدھے راستے کو ٹیڑھا اور کج تصور کرتے ہیں۔ کتنی زندہ حقیقت ہے!‘‘ ایسے لوگ جن کی فکر خام اور ناپختہ ہوتی ہے وہ کائینات کی جدوجہد، ضرب وحرب اور مدو جزر سے بالکل کنارہ کش ہوجاتے ہیں۔ اُن کی نگاہیں سکون کو ہی زندگی سمجھتی ہیں۔ اُن کی زندگی کے دریاؤں سے بہت کم لہریں بلند ہوتی ہیں۔ اُن کی صلاحتیں اور گوہر زندگی ٹھیکرے کی طرح بے قیمت اور نا ارجمند ہوکر رہ جاتا ہے۔ فکر کی ناپختگی اور خام ہونے کے جب یہ خراب نتائج ہوتے ہیں تواس لئے ضروری ہے کہ قوموں کے بہتر مستقبل کے لئے اولین مرحلے پر ہر فرد کو تطہیر فکر کرنا چاہئے اس کے بعد ہی تعمیر فکر کا کام آسان ہوجاتا ہے۔ ان چند اشعار میں علامہ مرحومؒ نے بہت ہی اہم اور بنیادی ضرورت کی طرف توجہ دلائی ہے۔ تطہیر فکر کے بغیر جہاں کہیں بھی تعمیر کا کام ہاتھ میں لیا گیا ہے اُس کے نتائج ہمیشہ توقعات اور امیدوں کے خلاف برآمد ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر گذشتہ چند دہائیوں میں مسلم اکثریت والے ممالک استعماری دست برد، غلبہ اور قبضہ سے آزاد ہوگئے۔ مگر بغیر کسی ابہام کے کہا جاسکتا ہے کہ اُن ممالک کے عوام میں تطبیرفکر کا کوئی کام نہیں ہوا۔ اس لئے یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے یا ذہنی غلامی میں مبتلا ہوگئے یا ظلم وجبر کی علامت بن گئے۔ علامہ مرحومؒ جس سرزمین میں آرام فرما ہیں، اﷲ تعالیٰ اُن کی روح کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے، وہ سرزمین عظیم اور بے مثال قربانیوں کے بعد اور خاک وخون کے دریا عبور کرکے منصئہ شہود پر آگئی تھی۔ لیکن فکر ناپختہ تھی۔ قیادت کی بھی اور عوام کی بھی۔ جدوجہد کے دوران میں اُن کی کج فکری کا کوئی علاج تلاش نہیں کیا گیا۔ ساٹھ سال گذرجانے کے بعد بھی وہاں مطلوبہ نتائج اور مقاصد حاصل نہیں ہوسکے ہیں۔ اولاً ۲۵ برس بعدہی لسانی بنیادوں پر وہ ملک دولخت ہوگیا۔ آج بھی وہاں، لسانی، لونی، علاقائی اور معاشی اختلافات اور تضادات موجود ہیں۔ آج بھی وہاں برادر کُشی کا خونین ماحول دیکھنے میں آرہا ہے۔ آج بھی وہاں عدمِ استحکام اور عدمِ تحفظ ہے۔ آج بھی دُنیا کی طاقت ور حکومتیں اُن کے اندرونی معاملات تک میں کھلی اور اعلاناً مداخلت کرتی ہیں۔ آج بھی اُس ملک کے حکمران ذاتی مفادات، مناصب کی حرص اورلالچ کا شکار ہوکر ملکی اور ملّی مفادات کو بڑی ڈھٹائی اور بد دیانتی کے ساتھ تج رہے ہیں۔ قربان کررہے ہیں اورگِرو رکھ رہے ہیں۔ جس قومی اور ملی تشخص کی حفاظت کے لئے یہ سرزمین حاصل کرلی گئی تھی آج خود حکمرانوں کے ہاتھوں اس تشخص کو پامال اور برباد کیا جارہا ہے۔ آج بلند اور ارفع مقاصد کے مقابلے میں روٹی، کپڑا اور مکان جیسے پیٹ کے مسائل پر انفرادی اور اجتماعی قوتیں دائو پر لگا لی جارہی ہیں۔ دین وایمان، اخلاق وکردار، انسانیت، رحمت ورافت، شرافت ومحبت، دیانت وامانت سب انمول اور قیمتی قدریں، دہشت گردی کی نذر ہورہی ہیں۔ یہ دل خراش اور جگر سوز صورتِ حال صرف اور صرف اس لئے دیکھنے میں آرہی ہے کہ نہ تو جدوجہد کے دوران میں اور نہ ہی ساٹھ سال کے عرصے میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر تطہیر فکر کی بنیادی ضرورت کو پورا کرنے کا اہتمام کیا گیا اور نہ ہی اس کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے مگر اقبالؒ کا کلام جسے تعمیر فکر، تعمیر ملت اور تعمیرملک میں رہنمایانہ مقام حاصل ہونا چاہئے تھا، قوالی اور نغموں میں گایا جارہا ہے اور اُن کے کلام کو مالِ تجارت کی حیثیت سے چھاپا اور بیچا جارہا ہے۔ اسی ’’خطاب بہ مہر عالم تاب‘‘ میں اقبالؒ اپنی فکر اور کلام کی امتیازی خصوصیت کا تذکرہ فرماتے ہیں۔ از نوائے پختہ سازم خام را گردشِ دیگرد ہم ایّام را میں اپنی درد بھری آواز سے خام کو پختہ بنا رہا ہوں اور زمانے کی گردش کو اپنے پختہ فکر کے کلام سے طرحِ دیگر دیتا ہوں۔ مگر افسوس شاہی مسجد لاہور کے صحن میں آرام فرما اس مردِ قلندر، مردِ مؤمن اور مردِ حق آگاہ کی قدرو منزلت نہیں پہچانی جارہی ہے اور نہ تعمیر فرد، تعمیر ملّت اور تعمیر مستقبل میں اُن کی فکر سے کوئی رہنمائی حاصل کی جارہی ہے۔ میں ارضِ پاک کے باسیوں کو بالعموم اور لاہور شہر کے ’’پتنگ بازوں‘‘ کو جن کی پتنگ بازی سے بہت قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور ہمارے قلب وذہن کے سکون کو غارت کررہی ہے، کو بالخصوص اقبالؒ کا یہ پیغام یاد دلانا چاہتا ہوں: جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی روحِ اُمم کی حیات کشمکش انقلاب صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم کرتی ہے جو ہر زمان اپنے عمل کا حساب نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر حکمتِ کلیمی تانبوّت حُکمِ حق جاری کُند پشتِ پا بر حُکمِ سلطاں می زند درنگاہش قصرِ سلطاں کہنہ دیر غیرتِ او برنتابد حُکمِ غیر پختہ سازد صحبتش ہر خام را تازہ غوغایء دہد ایّام را درسِ اُو اﷲ بس باقی ہوس تانیفتد مردِ حق دربندِ کس از نمِ اُو آتش اندر شاخِ تاک درکفِ خاک از دمِ اُو جانِ پاک معنیء جبرئیل و قرآن است اُو فِطْرۃُاﷲ را نگہان است اُو حکمتش برترز عقلِ ذو فنوں از ضمیرش اُمّتے آید بروں حکمرا نے بے نیاز از تخت و تاج بے کلاہ و بے سپاہ و بے خراج از نگاہش فرودیں خیزد زدَے دُردِ ہر خُم تلخ تر گردد زِمَے اندر آہِ صبحگاہِ اُو حیات تازہ از صبحِ نمودش کائینات بحرو بر از زورِ طوفانش خراب درنگاہِ اُو پیامِ انقلاب حکمتِ کلیمی سے مراد علامہ اقبالؒ کے نزدیک رسالت کا نظام ہے۔ خالق کائینات نے اپنا نظام اور انسان کے لئے ہدایت ورہنمائی کا انتظام و اہتمام دو طریقوں سے کیا ہے۔ ایک طریقہ مظاہر کائینات پر غوروفکر اور تدبر کرکے انسان اﷲ کی بخشی ہوئی فطری صلاحیتوں کی وساطت سے اخذ کرسکتا ہے۔ اس طرح انسان کائینات میں پوشیدہ، اشیاء سے استفادہ کے لئے نئی نئی چیزیں ایجاد کرسکتا ہے، تاکہ انسان کی مادّی ضرورتوں کی تکمیل ہو۔ یہاں براہ راست اﷲکی طرف سے کوئی علم آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ دوسرا طریقہ جو انسان کے لئے ہدایت اور رہنمائی کا سرچشمہ قرار دیا جاسکتا ہے، وحی کے ذریعہ فراہم کیا جاتا ہے۔ اس لئے اﷲ تعالیٰ نے یہ طریقہ اختیار نہیں کیا ہے کہ ہر انسان کو الگ الگ کوئی پیغام بھیجدے، بلکہ اپنی حکمت بالغہ کی رو سے اﷲ تعالیٰ نے انسانوں میں سے برگزیدہ ہستیوں کو منتخب کیا اُن تک اپنا پیغام ہدایت بھی پہنچایااور اُن پر یہ ذمہ داری ڈال دی کہ وہ دوسرے انسانوں تک اس پیغام کو پہنچا دیں اور اپنے عمل اور کردار سے اس کی تصدیق اور وضاحت بھی کریں اور ان ہدایات کے مطابق ایک نظام بھی قائم کریں تاکہ مکمل طور اﷲ کی مرضی کا مظاہرہ ہو اور انسان ایک مستند اور صالح ترین نظام کے تحت زندگی گذار کر بنی نوع انسان کے لئے ایک ماڈل سامنے آجائے۔ مزید وضاحت کے لئے ایک اقتباس ملاخط ہو: ’’دُنیا میں ایک قسم کی چیزیں وہ ہیں جنہیں ہم اپنے حواس کے ذریعہ سے محسوس کرسکتے ہیں یا اپنے فنی آلات سے کام لے کر اُن کا ادراک کرسکتے ہیں اور ان ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کو مشاہدات، تجربات اور فکرو استدلال کی مدد سے مرتب کرکے نئے نئے نتائج تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس نوعیت کی اشیاء کا علم خدا کی طرف سے آنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ہماری اپنی تلاش و جستجو، غوروفکر اور تحقیق واکتشاف کا دائرہ ہے۔ اگرچہ اس معاملے میں بھی ہمارے خالق نے ہمارا ساتھ بالکل چھوڑ نہیں دیا ہے۔ تاریخ کے دوران میں وہ غیر محسوس طریقے سے ایک تدریج کے ساتھ اپنی پیدا کی ہوئی دُنیا سے ہمارا تعارف کراتا رہا۔ علم اور واقفیت کے دروازے ہم پر کھولتا ہے اور وقتاً فوقتاً الہامی طور پر کسی نہ کسی انسان کو ایسی بات سمجھاتا رہا ہے جس سے وہ کوئی نئی ایجاد یا کوئی نیا قانونِ فطرت دریافت کرنے پر قادر ہوسکا ہے۔ لیکن فی الجملہ ہے یہ انسانی علم کا دائرہ جس کے لئے خدا کی طرف سے کسی نبی اور کتاب کے آنے کی حاجت نہیں ہے ۔ اس دائرے میں جو معلومات مطلوب ہیں اُنہیں حاصل کرنے کے ذرائع انسان کو دیدئے گئے ہیں۔ دوسری قسم کی چیزیں وہ ہیں جو ہمارے حواس اور ہمارے فنی آلات کی پہنچ سے بالاتر ہیں۔ جنہیں ہم تول سکتے ہیں نہ ناپ سکتے ہیں، نہ اپنے ذرائع علم میں سے کوئی ذریعہ استعمال کرکے اُن کے متعلق وہ واقفیت بہم پہنچاسکتے ہیں جسے علم(knowledge) کہا جاسکتا ہو۔ فلسفی اور سائنس دان ان کے بارے میں اگر کوئی رائے قائم کرتے ہیں تو وہ محض قیاس (guess) اور ظن و تخمین(speculation) ہے۔ جسے علم نہیں کہا جاسکتا یہ آخری حقیقتیں(ultimate realities) ہیں جن کے متعلق استدلال کو خود وہ لوگ بھی یقینی قرار نہیں دے سکتے جنہوں نے اُن نظریات کو پیش کیا ہے اور اگروہ اپنے علم کی حدود کو جانتے ہوں نہ اُن پر خود ایمان لاسکتے ہیں نہ کسی کو ایمان لانے کی دعوت دے سکتے ہیں۔ یہی وہ دائرہ ہے جس میں انسان حقیقت کو جاننے کے لئے خالق کائینات کے دئے ہوئے علم کا محتاج ہے اور خالق نے یہ علم بھی اس طرح نہیں دیا ہے کہ کوئی کتاب چھاپ کر ایک ایک آدمی کے ہاتھ میں دے دی ہو اور اُس سے کہا ہو کہ اسے پڑھ کر خود معلوم کرے کہ کائینات کی اور خود تیری حقیقت کیا ہے اور اس حقیقت کے لحاظ سے دُنیا کی زندگی میں تیرا طرزِ عمل کیا ہونا چاہئے؟ اس علم کو انسانوں تک پہنچانے کے لئے اُس نے ہمیشہ انبیاء کو ذریعہ بنایا ہے۔ وحی کے ذریعے سے اُن کو حقائق سے آگاہ کیا ہے اور اُنہیں اس کام پر مامور کیا ہے کہ علم لوگوں تک پہنچا دیں‘‘۔ (بحوالہ اسلام کیا ہے: ص ۸،۹) از سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ اس پسِ منظر کو ذہن میں رکھ کر ہم علامہ اقبال مرحومؒ کے ’’حکمتِ کلیمی‘‘ کے زیر عنوان کلام اور پیغام کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تو آسانی ہوگی۔ بنوت کا اہتمام اس لئے کیا گیا ہے تاکہ انبیاء کرام اﷲ تعالیٰ کا حکم جاری و نافذ کریں۔ بادشاہوں کے حکم اور دعویٰ حاکمیت کو ٹھکرادیں۔انبیاء چونکہ براہ راست، حکم اور وحی کے امانت دار ہوتے ہیں اس لئے اُن کی نگاہوں میں بادشاہوں کے محل، پرانے بت خانے اور صنم کدے ہوتے ہیں۔ انبیاء کی اﷲ کی بخشی ہوئی غیرت ایمانی اﷲ کے بغیر کسی اور کا حکم تسلیم نہیں کرسکتی۔ قرآن پاک کا اس بارے میں حکم ناطق ہے۔ {وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اﷲُ فَاُؤلَٰٓئِکَ ھُمُ الْکَٰفِرُوْنَ} ’’ جو لوگ اﷲ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں {وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اﷲُ فَاُؤلَٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ} ’’جو لوگ اﷲ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں‘‘ {وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اﷲُ فَاُؤلَٰٓئِکَ ھُمُ الْفَٰسِقُوْنَ} ’’ جو لوگ اﷲ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں‘‘ (المائدہ: ۴۴،۴۵،۴۷) انبیاء کرام کی صحبت ہر خام کو پختہ بنادیتی ہے۔ ہر دور میں وہ نیا پیغام دیتے اور نیا ولولہ، انسانی معاشرے میں پیدا کرتے ہیں۔ تمام انبیاء کا صرف اور صرف یہی سبق اور درس ہوتا ہے کہ اﷲبس باقی ہوس اور فانی ہے تاکہ حق پرست بندے بندوں کی غلامی کے بندھنوں میں نہ کَسے جائیں۔ انگور کی شاخ میں اس کی نمی کی وجہ سے آگ موجود ہے۔ مٹی کے بنے انسان کے ہاتھ میں پاکیزہ روح اُنہی کی بدولت آجاتی ہے۔ وہ نبی، جبرئیل اور قرآن کا معنی، مقصد اور مرادو منشاء ہوتا ہے۔ انسانی فطرت، جو خالق کائینات کی تخلیق ہے حکمتِ کلیمی اُس فطرت کی نگہبان اور محافط ہوتی ہے۔ نبی کی حکمت اور تعلیم چونکہ ربّ کائینات کی طرف سے ہوتی ہے۔ اس لئے وہ انسانی عقل اور فنون سے بالاتر ہوتی ہے۔ اُن کی حکمت اور ربانی تعلیم سے ایک امت وجود میں آجاتی ہے۔ وہ ایسا حکمران ہوتا ہے جو تخت وتاج سے بے نیاز ہوتا ہے۔ اس کی نہ تو کلا ہ ہوتی ہے اور نہ ہی سپاہ اور نہ خراج۔ اُس کا نعرئہ اعلان ہوتا ہے۔ ’’ہم تم سے معاوضہ اور بدلہ نہیں چاہتے۔ ہم صرف اﷲ سے اجر اور معاوضہ کی طلب رکھتے ہیں‘‘۔ اُن کی پاک باز نگاہوں کے فیض سے سرما بہارمیں بدل جاتا ہے۔ یہ شراب کے مٹکے کی چھانٹ اُن کی توجہ سے شراب سے زیادہ تلخ اور اثر رکھتی ہے۔ یعنی اُن کی تعلیمات کے اثرات بڑے دور رس ہوتے ہیں۔ یہ صرف اُن کے اپنے زمانے تک ہی محدود نہیں ہوتے۔ اُن کی صبحگاہی کی دُعاؤں میںانسانوں کے لئے زندگی ہوتی ہے۔اس کی صبح کی نمودسے کائینات تازہ اور پُردم ہوجاتی ہے۔ اُن کے پیغام کی طوفانی لہروں سے باطل نظام کے بحرو بربرباد ہوجاتے ہیں۔ اُن کی نگاہ میں انقلاب کا پیغام ہوتا ہے۔ درسِ لاَ خَوْفٌ عَلَیْھِمْ می دہد تادِلے درسینہء آدم نہد عزم وتسلیم و رضا آموزدش درجہاں مثلِ چراغ افروزدش من نمیدانم چہ افسوں میکند روح را درتن دگر گوں میکند صحتِ او ہر خزف را دُر کُند حکمتِ اُو ہر تہی را پُر کند بندئہ درماندہ را گوید کہ خیز ہر کہن معبود را کُن ریز ریز مردِ حق! افسونِ ایں دیرِ کہن از دو حرف رَبِیَّ الْاَعْلیٰ شکن فقر خواہی؟ از تہیدستی منال عافیت در حال ونے درجاہ و مال صدق و اخلاص و نیاز و سوز و درد نے زر و سیم و قماشِ سرخ و زرد بِگذرا از کاؤس وکَے اے زندہ مرد طوفِ خود کُن گردِ ایوانے مگرد از مقامِ خویش دور افتادئہ ا کر گسی کم کن کہ شاہین زادئہ ا مرغک اندر شاخسارِ بوستاں بر مرادِ خویش بندَد آشیاں تُو کہ داری فکرتِ گردوں مسیر خویش را از مرغکے کمتر مگیر دیگر ایں نُہ آسماں تعمیر کُن بر مُرادِ خُود جہاں تعمیر کُن چوں فنا اندر رضائے حق شود بندئہ مؤمن قضائے حق شود انبیاء کرام اہل ایمان اور بندگان خدا کو درس دیتے ہیں کہ مؤمن خوف اور غم سے پاک ہوتے ہیں اس طرح انسان کے سینے میں وہ ایسا دل رکھتے ہیں جو ماسوای اﷲ کے خوف سے پاک وصاف ہو۔ یہاں اشارہ ہے قرآن پاک کی اس آیت کی طرف: {اَلاَلاَ خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَ ھُمْ یَحْزَنُون ہ} ’’سنو اﷲ تعالیٰ کے راست بندے خوف اور غم سے پاک ہوتے ہیں‘‘ حکمت کلیمی کے علمبردار، عزم ، تسلیم و رضاء کی تعلیم دیتے ہیں۔ دُنیا میں وہ روشن چراغ کے مثل ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ایک اور جگہ علامہؒ نے فرمایا ہے۔ گمان آباد ہستی میں یقین مردِ مسلمان کا بیابان کی شبِ تاریک میںقندیل رہبانی میں نہیں جانتا ہوں کہ یہ کون سا جادو پھونک دیتے ہیں کہ جسموں میں روح کی حالت دگرگوں کردیتے ہیں۔ ان کی صحبت اور ان کی تعلیمات، عمل، ہر ٹھیکرے کو موتی بنادیتی ہیں۔ اُن کی حکمت اور اُن کا لایا ہوا ضابطہء حیات(اسلام) ہرخالی چیز کو بھردیتا اور پُر کرتا ہے۔ یہ کمزوراور دبے ہوئے لوگوں کو کھڑا کردیتے اور ظلم واستبداد کے خلاف سینہ سپر ہونے کے لئے تیار کرتا ہے اور ہر باطل قوت اور بت کو ریزہ ریزہ کرنے کی ہمت اور حوصلہ پیدا کرتا ہے۔ اے مردِ حق! اس پرانے بت کدے کے ہر بُت کو ربی الاعلیٰ سے ریزہ ریزہ کر کہ سب سے بڑا (sole supper power) صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس ہے۔ربی الاعلیٰ کا اعلان اﷲ کی حاکمیت کو زمین پر قائم کرنے کا اعلان ہے۔ حکمتِ کلیمی کا یہی مقصد، مشن اور ہدف ہے۔ اگر تم غیرت مندی اور ففر غیور چاہتے ہو تو تنگدستی سے نالاں مت ہوجاؤ، کیونکہ عافیت حال میں ہے جاہ وحشمت اور مال و جائیداد میں نہیں۔ حال سے مراد اﷲ تعالیٰ کی یاد میں محو اور مست ہوجانا ہے اَلاَ بِذِکْرِ اﷲِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ ہ ’’سنو! صرف اﷲ برترو بزرگ کی یاد سے ہی دلوں کا اطمینان حاصل ہوجاتا ہے۔‘‘ (الرعد:۲۸) صدق، سچائی، خلوص، اﷲ کے سامنے عجزوانکسار اور دلوں کا سوز و گداز، بندئہ حق کا اصل سرمایہ ہے۔ سونا، چاندی، لعل وجواہرسرخ وزرد پارچے اصل متاع نہیں ہے۔ یہ سب کچھ فنا ہونے والا اور زوال پذیر مال ومتاع ہے۔ اے زندہ انسان! قیصر و کسریٰ کے تاج سے دامن کش ہو جا۔ اپنی ذات کے گرد طواف کر، نہ کہ بادشاہوں اور سلاطین کے محلوں اور ایوانوں کے گرد۔ اے بندئہ مؤمن! تم اپنے اصل اور منصبی مقام سے بہت دور جاپڑے ہو۔ تم کو گِدھوں کا کردار ادا نہیں کرنا چاہئے۔ تم تو شاہین زادے ہو۔ اپنی حقیقت کو کیوں بھول جاتے ہو؟ پرندہ باغ کی اس شاخ پر اپنا گھونسلا بناتا ہے جو اُس کی اپنی پسند اور اپنے مزاج کے موافق ہوتی ہے۔ تم بندئہ مؤمن، آسمانوں کی سیر کے عزائم اور ارادے کے مالک ہو، اسلئے اس چھوٹے پرندے کے معیار سے بھی خود کو کمتر مت سمجھو۔ خدا ایں سخت جان را یار بادا کہ اُفتاداست از بام بلندے (اقبالؒ) خدا اس سخت جان مسلمان پر رحم کرے! یہ بہت بلندی سے نیچے گرگیا ہے۔ اعلیٰ علیین سے اسفل السافلین میں۔ تمہاری غیرت ایمانی کا تقاضا ہے کہ تم نئے نو آسمان بناؤ، اپنی پسند، اپنے ایمان اور دین کے تقاضوں کے مطابق اپنی دُنیا تعمیر کر۔ جب مرد مؤمن اﷲ کی رضا اور خوشنودی کے لئے اپنی جاں نچھاور کرتاہے تو وہ اﷲ کی رضا بن جاتا ہے۔ ہاتھ ہے اﷲ کا بندئہ مؤمن کا ہاتھ غالب و کارآفرین، کارکُشا کار ساز ٭٭٭٭٭ چار سوئے بافضائے نیلگوں از ضمیرِ پاکِ او آید بروں در رضائے حق فنا شو چُوں سلف گوہرِ خود را بروں آر از صدف در ظلامِ ایں جہانِ سنگ و خشت چشمِ خود روشن کن از نورِ سرشت تانہ گیری از جلالِ حق نصیب ہم نیابی از جمالِ حق نصیب ابتدائے عشق و مستی قاہری است انتہائے عشق و مستی دلبری است مردِ مؤمن از کمالاتِ وجود اُو وجود و غیرِ او ہر شے نمود گر بگیرد سوز و تاب از لااِلہٰ جُز بکامِ او نہ گردد مہرومہ حکمتِ کلیمی کے نتیجے میں اُس کے ضمیر پاک کی برکت سے فضائے نیلگوں ہر طرف وجود پذیر ہوتی ہے۔ اے مردِ مؤمن اپنے اسلاف کی طرح اﷲ کی رضا اور خوشنودی کے لئے جان عزیز قربان کرلے۔ اپنے اصلی جوہر کو صدف سے باہر نکال لا۔ یعنی تیری زندگی کا اصل مقصد اور مشن یہ ہے کہ اعلائے کلمۃ اﷲ کے لئے اپنی جان تک نچھاور کی جائے۔ یہی ایمان و ایقانِ مؤمن کا اصل مقصد اور جوہر ہے۔ اس سنگ وخشت کی تاریکی میں تو فطرت سے اپنی نظروں کو روشن کردے تو اس مادی دُنیا کی بندگی کے لئے پیدا نہیں کیا گیا ہے، بلکہ اپنے خالق ومالک کی بندگی میں دُنیا کی ظلمتوں کو دور کرکے فطرت اﷲ کو غالب کرنا تیرا کام ہے۔ جب تک تم اﷲ کے جلال اور کمال میں سے اپنا حصہ حاصل نہ کروگے اُس کے جمال سے بھی تم بہرہ ور نہیں ہوسکتے ہو۔ اُس کے جلال کا تقاضا ہے کہ مایوسی اور سرکشی سے بچا جائے اور اُس کے جمال کا تقاضا ہے کہ اُس کی رحمت سے تمام انسانی برادری کو فیض یاب کیا جائے۔ اﷲ تعالیٰ کی ذاتِ کے ساتھ پختہ ایمان (جس کو علامہ اقبالؒ مرحوم نے عشق ومستی کا نام دیا ہے) کا تقاضا ہے کہ غیر اﷲ کی حاکمیت اور بندگی کو مٹانے کے لئے قوت کا استعمال کیا جائے اور اس کی انتہا یہ ہے کہ رحمۃ اللعٰلمینؐ کا نظام غالب کرکے مظلوم انسانیت کو انسانوں کی بندگی کی لعنت سے آزاد کیا جائے اور ان پر محبت وشفقت اور رحمت ورافت کی بارش برسائی جائے۔ قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان مردِ مؤمن کائینات کے موجودات میں اﷲ کا کمال اور شاہکار ہے۔ اصل کائینات وہی ہے باقی سب مظاہر کائینات ہیں۔ اگر وہ لا الہٰ کے کلمہ حق سے سوز وتاب حاصل کرتے تو اُس کے منشاء اور مرضی کے بغیر آفتاب وماہتاب بھی گردش نہیں کرسکتے۔ گر بگیرو سوز وتاب از لاالہٰ جُز بکام اُو نہ گردد مہرومہ حکمتِ فرعونی: حکمت ارباب دیں کردم عیاں حکمتِ اربابِ کین را ہم بداں حکمتِ اربابِ کیں مکر است و فن مکروفن؟ تخریبِ جاں تعمیرِ تن! حکمتے از بندِ دیں آزادئہ از مقامِ شوق دور افتادئہ مکتب از تدبیرِ او گیرد نظام تابکامِ خواجہ اندیشد غلام! شیخِ ملّت با حدیثِ دلنشیں بر مرادِ اوکند تجدیدِ دیں از دمِ اُو وحدتِ قومے دو نیم کس حریفش نیست جُز چوبِ کلیم وائے قومے کُشتہء تدبیرِ غیر کارِ او تخریبِ خُود، تعمیرِ غیر می شود در علم و فن صاحب نظر از وجود خود نگردد باخبر! نقشِ حق را از نگینِ خود ستُرد در ضمیرش آرزو ہا زاد و مُرد بے نصیب آمدز اولادِ غیور جاں بہ تن چو مُردئہ در خاکِ گور از حیا بیگانہ پیرانِ کہن نوجواناں چُوں زَناں مشغولِ تن در دلِ شاں آرزو ہا بے ثبات مردہ زایند از بَطُونِ اُمّہات دخترانِ اُو بزلفِ خود اسیر شوخ چشم و خودنما و خردہ گیر ساختہ، پرداختہ، دل باختہ ابرواں مثلِ دوتیغِ آختہ ساعدِ سیمینِ شاں عیشِ نظر سینئہ ماہی بموج اندر نگر ملّتے خاکسترِ اُو بے شرر صبحِ او از شامِ او تاریک تر ہرزماں اندر تلاشِ ساز و برگ کارِ او فکرِ معاش و ترسِ مرگ مُنعِمانِ اوبخیل و عیش دوست غافل از مغز اندو اندر بندِ پوست قوّتِ فرمانروا معبودِ اُو درزیانِ دین و ایماں سُودِ اُو از حدِ امروزِ خود بیروں نجست روزگارش نقش یک فردانہ بست از نیاگاں دفترے اندر بغل الاماں از گُفتہ ہائے بے عمل! دینِ اُو عہدِ وفا بستن بغیر یعنی از خشتِ حرم تعمیرِ دیر آہ قومے دل زحق پرداختہ مردومرگِ خویش را نشناختہ حکمتِ فرعونی سے مراد وہ حکمت ہے جو خالق ومالک، حاکم و رازق اﷲ کی حاکمیت کے انکار اور بغاوت پر مبنی ہو۔ جو انسانی ذہن، سوچ اور خواہشاتِ نفسانی کی بنیاد پر تعمیر ہورہی ہو۔ جس کے پاس اگر کہیں کسی گوشے میں خدا کا تصور ہو تو وہ زندگی کے اجتماعی معاملات سے مکمل طور بے دخل ہو۔ اُس کے پاس وحدتِ آدم کا تصور نہیں ہے وہ زندگی کے بعد موت کے تصور سے خالی ہے۔ اُس کے پاس طاقت ہی معیارِ حق ہے۔ اُس کے پاس اخلاق کا کوئی معیار اور قدر نہیں ہے۔ انسانی سماج کی تقسیم، رنگ، زبان، نسل، وطن، ذات پات اور معاش کی بنیاد پر اُس کا اصول ہے۔ انسانی سماج کی بنیادی اکائی خاندان کا کوئی تصور نہیں ہے۔ عورت ذات حکمتِ فرعونی کے نزدیک ایک کھلونا ہے۔ اُس کی عریانی، بے حیائی، اُس کی عزت اور عصمت کی بے حرمتی اس نظام کے علمبرداروں کے نزدیک ترقی اور آزادیٔ نسواں ہے۔ سماج میں برائیوں کو فروغ دینا، انسانی اور اخلاقی اقدار کی پامالی، اس کی منصوبہ بند پالیسی ہوتی ہے۔ طاقت ور کو اپنی طاقت کے بے تحاشا استعمال سے کوئی روک نہیں سکتا۔ وہ کمزوروں کو غلام بنا سکتا ہے۔ اُس کا ہاتھ کوئی باندھ نہیں سکتا ہے۔ قانون اُس کی لونڈی ہے جس کروٹ چاہیے اُس کو لِٹاسکتا ہے۔ اُس کے جبل خانے، شریفوں،دیانتداروں، خدا پرستوں، آخرت پسندوں، دین داروں اور ظلم واستبداد کے خلاف آواز اُٹھانے والوں کے لئے کھلے ہیں۔ زانی، شرابی، سودخوار، لٹیرے، قاتل، چور اُچکّے، اس کے زیر سایہ پلتے رہتے ہیں۔ اُن کو بڑے بڑے مناصب پر براجمان کیا جاتایہ اُس کے نظام کے استحکام کی بنیاد ہے۔ لوگوں کی آزادی بندوق کی نوک پر چھیننا اُس کی جمہوریت اور آزادی ہے۔ قوموں کے ساتھ قومی اور بین الاقوامی سطح پر وعدوں، معاہدوں اور قراردادوں کی دَھڑِلّے سے انحراف اور انکار اُس کی کامیاب سیاست ہے۔ بے بنیاد اور فرضی الزامات پر ملکوں پر قبضہ کرنا، بم باری کرنا، اُن کے ذرائع آمدن پر کنٹرول کرنا، اُن کی تہذیب اور کلچر کو ملیامیٹ کرنا، اُس کا world order) ( ولڈ آرڈر ہے۔ یہ ہے حکمتِ فرعونی۔ حکمتِ فرعونی بنیادی طور پر حکومتِ فرعونی کا فکری سرمایہ ہے۔ جس کا نقشہ حکیم الامّت ؒ نے علیٰ وجہہ بصیرت نہایت کامیابی کے ساتھ کھینچا ہے۔ میں نے ارباب دین کی حکمت کو واشگاف الفاظ میں بیان کیا ہے۔ اب ارباب کین کی حکمت کو بھی جاننے اور پہچاننے کی کوشش کریں۔ ارباب کین کی حکمت، مکروفن ہے۔ مکروفن کیا ہے؟ روح کی تخریب اور جسم کی تعمیر۔ حکمتِ فرعونی، دین کی بندش اور پابندیوں سے آزادی، شوق اور یقین وایمان کے اعلیٰ مقامات سے افتادگی، گرجانا، محروم ہوجانا، پستی میں پڑ جانا ہے۔ مدرسے اور تعلیم گاہیں اُسکی تدبیروں اور منصوبوں کے مطابق نظام اختیار کرتے ہیں تاکہ غلام قوم اپنے آقاؤں کی سوچ اور فکر کے مطابق سوچ پیدا کریں۔ ہمارے واعظ، شیخِ ملّت، جبہ اور قبا والے، مجاور، اپنے دل نشین کلام سے فرعونی حکمت کے علمبرداروں کی مرضی کے مطابق دین کی تعبیر اور تجدید کرتے ہیں۔ فرعونی فکر کے علمبرداروں کی ’’حکمتِ عملی‘‘ ملّت کو تقسیم در تقسیم کرتی ہے۔ اس کا دشمن چوبِ کلیم کے بغیر کوئی نہیں ہے۔ یعنی قوت اور طاقت حکمت کلیمی کے علمبرداروں کے ہاتھ میں ہو۔ افسوس ہے اس قوم پر، جو دوسروں کی تدبیر سے قتل ہوچکی ہو۔ اُس قوم کا کام اپنی تخریب اور بربادی اور دوسروں کی تعمیر ہوتا ہے۔ (یہ سب کچھ اُمّتِ مسلمہ کے حکمران اور قائدین کررہے ہیں)۔ یہ قوم جو فرعونی حکمت عملی کے علمبرداروں کی ذہنی اور سیاسی غلامی کی دلدل میں پھنس چکی ہوتی ہے علم وفن میں آگے بڑھتی ہے۔ لیکن وہ اپنے اصل مقام اور منصب سے با خبر نہیں ہوتی ہے۔ ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر، سائنس دان، سیاست دان ، سب کچھ ہوگی مگر اپنے اصل مقام اور مرتبے سے بے خبر نظامِ فرعونی کے غلام ہونے پر نازاں ہوگی۔ اس نے انگھوٹی سے نقش حق خود ہی مٹا دیا۔ اس کے دل میں اُمیدیں اور آرزوئیں پیدا ہوگئیں۔ لیکن ساتھ ہی مر بھی گئیں۔ وہ اپنی تمناؤں کے خاکوں میں رنگ بھرنے کی ہمت اور حوصلہ ہار چکی ہے۔ یہ قوم جو لادین اور فرعونی نظام کی غلام بن چکی ہے۔ غیرت مند اولاد سے محروم ہوتی اس کے جسم میں روح قبر میں مردے کی طرح ہے۔ اس قوم کے پیرانِ کہن بڑے بڑے بزرگ، خاندانی لوگ، شرم وحیا کی قدروں سے بے گانہ ہوچکے ہیں۔ اس قوم کے نوجوان، عورتوں کی طرح اپنے جسموں کو سجانے اور نت نئے فیشن اپنانے میں مشغول ہیں۔ اُن کے دلوں میں بے ثبات آرزوئیں اور تمنائیں ہوتی ہیں۔ وہ اپنی ماؤں کے بطن سے مردہ حالت میں جنم لیتے ہیں۔ ایمان، یقین، حوصلہ، جوانمردی، ظلم واستبداد کے خلاف سینہ سپر ہونے کا شوق اور ولولہ مرچکا ہوتا ہے۔ اصل موت تو یہی ہے۔ اس قوم کی بیٹیاں اپنی زلفوں کی اسیر ہوتی ہیں۔ ننگے سرگھومتی پھرتی ہیں، مغربی تہذیب کی نقال، اپنی حیا آفرین تہذیب سے نا آشنا بھی اور بے زار بھی ہیں۔ عریاں نگاہیں، خودنمائی اور خوردہ گیری، چھوٹی چھوٹی باتوں پر اُلجھنا اور بحثا بحثی کرنا اُن کا پیارا مشغلہ ہوتا ہے۔ بنی بنائی، سجی سجائی، پلی بڑھی، دل ہاری ہوئیں، اُن کی بھویں دو تلواروں کی طرح کھینچی ہوتی ہیں۔ اُن کی چاندی کی سی کلائی نظربازوں کی دلکشی کا سامان بنی ہوتی ہیں۔ گویا موجِ آب میں مچھلی کا سینہ نمودار ہے۔ حکمتِ فرعونی کی دلدل میں پھنسی ہوئی قوم ایسی خاکستر میں بدل چکی ہے جس میں کوئی چنگاری تک موجود نہیں رہی ہے۔ اُس کی صبح اُس کی شام سے زیادہ تاریک ہے۔ اس قوم کا حال یہ ہے کہ ہمیشہ پیٹ کے دھندوں میں پھنسی رہتی ہے۔ اُس کی زندگی کا مقصد اور مشن صرف اور صرف فکرِ معاش اور ترسِ مرگ ہے۔ اس قوم کے آسودہ حال لوگ نجیل اور عیش پرست ہوتے ہیں۔ وہ مغز سے بے فکر اور چھلکے کی حرص میں گرفتار ہیں۔ دین کی اصل بنیادوں کو سمجھنے اور جاننے کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔ ابلیس جو حکمتِ فرعونی کا ترجمان ہے یہی بات اپنے مشیروں سے کہتا ہے۔ ہے یہی بہتر الہٰیات میں اُلجھا رہے یہ کتاب اﷲ کی تاویلات میں اُلجھارہے تم اسے بے گانہ رکھو عالم کردار سے تابساطِ زندگی پہ اس کے سب مُہرے ہوں مات خیر اسی میں ہے قیامت تک رہے مؤمن غلام چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہانِ بے ثبات حکمتِ فرعونی کے اس غلام کا معبود اور مسجود قوتِ فرماں روا ہے۔ دین وایمان کے زیاں ہی نہیں بلکہ غارت گری میں ہی یہ اپنا فائدہ سمجھتا ہے۔ طاغوتی نظام کے علمبرداروں کو خوش کرنے کیلئے یہ اپنی ملّت کو تاراج اور غارت کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتا ہے۔ مسلم ممالک کے موجودہ حکمران اور سامراجی پنجہء استبداد میں جکڑے ہوئے مسلمانوں کے لیڈران اس حقیقت کی زندہ مثالیں ہیں۔ یہ قوم اپنے آج کی حدود سے باہر نہیں آتی ہے۔ یعنی اس کو مستقبل کی کوئی فکر نہیں ہے۔ اس کے حال نے کل کا نقشہ اور منصوبہ نہیں بنایاہے۔ یعنی آنے والی نسلیں، کس دین، تہذیب اور تمدن میں زندگی گزاریں گی؟ غلامی کے بندھنوں سے اُس کو آزاد کرنے کی ذمہ داری، ہم کس طرح ترجیحی بنیاد پر انجام دینے کی کوشش کریں اس اہم ترین تقاضے سے مجرمانہ غفلت برتی جاتی ہے۔ اس قوم کے افراد خاص طور اس کے واعظوں، مقرروں، لیڈروں، پیروں، بزرگوں، سرمایہ داروں اور دانش وروں کے بغل میں اسلاف کے کارناموں کے دفتروں کے دفتر، ضخیم اور بڑی بڑی کتابیں، ملفوظات اور مخطوطات ہوتے ہیں۔ اُن کے کارناموں کو خوب اُچھالیں گے اور لچھے دار تقریروں میں اُن کی خوبیاں، صفات حسنہ اور خدمات جلیلہ گنائیں گے مگر خود اس پر عمل کرنے والے نہیں ہوں گے۔ ان کی لفاظی اور گفتہ ہائے بے عمل سے الامان و الحفیظ! اس کا دین غیروں سے عہد وفا باندھنا ہے۔ یعنی حرم کی اینٹوں سے بت خانہ تعمیر کرنا جیسا کہ ہمارے لیڈروں نے دین وملّت کے مفادات کو تج کر مشرکانہ تہذیب اور سامراج کے ساتھ دوستی کا رشتہ باندھا ہے۔ آہ قومے دل زحق پرداختہ مُرد و مرگِ خویش را نشناختہ افسوس اور واویلا اُس قوم پر جس نے اپنا دل اﷲ کی ذاتِ اقدس، اُس کے دینِ حق اور اُس کے آخری پیغمبرؐ اور اُس کی آخری کتابِ ہدایت سے فارغ کردیا ہے۔ اس طرح یہ قوم فی الحقیقت مر گئی۔ مگر اس کو اپنی موت کا احساس اور ادراک نہیں ہے۔ وائے ناکامی متاعِ کاروان جاتا رہا کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا! لا الہٰ اِلاّّ اﷲ: یہ چند حروف کا کلمہ ، ایک انقلابی مشن اور پروگرام کا عنوان اور دیباچہ ہے۔ لاالہٰ تمام معبودانِ باطل کے خلاف بغاوت کا نعرہ ہے۔ نفس، غلط رسم ورواج، نظامِ طاغوت، جو انسان پر اپنی بندگی اور فرماں برداری کے لئے دباؤ ڈالتے ہیں۔ انسان میں جو خواہشِ نفس رکھی گئی ہے سب سے پہلے وہ مطالبہ کرتی ہے کہ اُس کو خوش رکھا جائے۔ اُس کا ہر مطالبہ صحیح ہو یا غلط پورا کیا جائے۔ کسی قید اور پابندی کے بغیر جو کچھ وہ چاہئے اُس کو بلا چوں وچرا قبول کیا جائے اور عملایا جائے۔ یہ نفسِ امّارہ ہر انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ { اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارۃُم بِالسُّوٓئِ اِلاَّ مَارَحِمَ رَبِّی ج اِنَّ رَبِّی غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ہ} ترجمہ’’ نفس تو بدی پر اُکساتا ہی ہے۔ الا یہ کہ کسی پر میرے ربّ کی رحمت ہو۔ بے شک میرا ربّ بڑا غفور ورحیم ہے‘‘ ( یوسف،۵۳) انسان جب نفس کی تابعداری کرتا ہے تو وہ نفس کو الہٰ تسلیم کرتا ہے۔ چاہے وہ زبان سے ایسا نہ کہے اور لاالہٰ دہراتا رہے۔ لیکن اصل اعتبار عمل کا ہے۔ چنانچہ جن انسانوں نے دُنیا کی زندگی میں خواہشات نفس کی پیروی کی ہو وہ جب آخرت میں شفیع المذ نبین صلی اﷲ علیہ وسلم کی شفاعت کی درخواست کریں گے تو اﷲ تعالیٰ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے خطاب فرمائے گا۔ {اَرَئَ یْتَ مَنِ اَتَّخَذَ اِلٰھَہُ ھَوَاہُ اَفَاَنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیْلاً ہ} ترجمہ ’’کبھی تم نے اُس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو۔ کیا تم ایسے شخص کو راہِ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو‘‘َ (الفرقان: ۴۳) تشریخ: ’’خواہشِ نفس کو خدا بنالینے سے مراد اُس کی بندگی کرنا ہے اور یہ بھی حقیقت کے اعتبار سے ویسا ہی شرک ہے جیسا بُت کو پوجنا، یا کسی مخلوق کو معبود بنانا۔ حضرتِ ابو امامہؓ کی روایت ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ، اس آسمان کے نیچے اﷲ تعالیٰ کے سوا جتنے معبود بھی پوجے جارہے ہیں۔ اُن میں اﷲ کے نزدیک بدترین معبود خواہشِ نفس ہے جس کی پیروی کی جارہی ہو‘‘۔ (تفہیم القرآن: جلد۳،صفحہ۴۵۲،۴۵۳) اس کے بعد آباؤ واجداد کی پیروی بغیر دیکھے کہ وہ اﷲ اور رسولؐ کے بتائے ہوئے طریقے اور طرزِ عمل کے مطابق ہے کہ نہیں الہٰ کا درجہ حاصل کرتی ہے۔ تیسرے مرحلے پر اﷲ کے باغی اور سرکش بندے آتے ہیں۔ جن کے ہاتھوں میں اقتدار، قوت، حکومت، فوج، پولیس، ذرائع تبلیغ، زندگی کی ضرورتیں، تعمیری کام، نظامِ تعلیم، سیاست، معشیت، تہذیب، ثقافت، تمدن سب کچھ ہوتا ہے۔ وہ اپنے تمام ذرائع اور وسائل اختیار کرتے ہیں کہ لوگ اُن کے احکامات کی اطاعت اور پیروی کریں جو لوگ لاالہٰ تو پڑھتے ہیں مگر زندگی کے اجتماعی اور انفرادی معاملات میں اُن تینوں معبودانِ باطل کی پیروی کرتے ہیں اُن کا لاالہٰ پڑھنا محض چند الفاظ کا دہرانا ہے اور کچھ نہیں۔ انہی حقائق کی طرف حکیم الامّتؒ نے ان اشعار میں اُمت کی توجہ مبذول کی ہے: نکتئہ می گویم از مردانِ حال اُمّتان را لا جلال اِلاَّ جمال لا وَ اِلاَّ احتسابِ کائینات لا وَ اِلاَّ فتحِ بابِ کائینات ہر دو تقدیرِ جہانِ کاف و نون حرکت از لا زاید از اِلاَّ سکوں تانہ رمزِ لا اِلہٰ آید بدست بندِ غیراﷲ را نتواں شکست درجہاں آغازِ کار از حرفِ لاست ایں نخستیں منزلِ مردِ خداست ملّتے کز سوزِ اُو یک دم تپید از گِل خود خویش را باز آفرید پیشِ غیراﷲ لا گفتن حیات تازہ از ہنگامئہ اُو کائینات از جنونش ہر گریباں چاک نیست در خورِ ایں شعلہ ہر خاشاک نیست جذبئہ اُو در دلِ یک زندہ مرد می کند صد رہ نشیں را رہ نورد بندہ را با خواجہ خواہی درستیز؟ تخمِ لا درمُشتِ خاکِ او بریز ہر کرا ایں سوز باشد درجگر ہولش از ہولِ قیامت بیشتر لامقامِ ضرب ہائے پے بہ پے ایں غوِرعد است نے آوازِ نے ضربِ اُو ہر بُود را سازد نبود تابروں آئی زگرِدابِ وجود میں آپ کو مردانِ حال کے بارے میں کچھ بتاؤں گا۔ ( مردانِ حال سے مراد، اﷲ وحدہٗ لاشریک کی معرفت حقیقی کے امانت دار ) اُمتوں کے لئے لا کہنا اور اقرار کرنا، شوکت وعظمت کی دلیل اور آغاز ہے۔ پھر اﷲ واحد کو دیکھنے کا اقرار اُن کے لئے سکونِ قلب اور امن وآشتی کا پیغام لے کر آتا ہے۔ لا اور اِلا دونوں مل کر پوری کائینات کا احتساب ہے۔ لاوالا شعور کی بیداری کے ساتھ کیا جائے تو پوری کائینات کو مسخر کرنے کا آغاز ہوتا ہے۔ دونوں لا اور الا کاف و نون سے وجود پذیر ہونے والی دُنیا کی تقدیر ہے۔ اشارہ ہے لفظ کُن، فیکون ، ہم نے کہا ہوجا اور دُنیا وجود میں آگئی۔ لا کہنے سے انقلاب کی حرکت پیدا ہوجاتی ہے اور اِلا سے سکون وجود پاتا ہے۔ جب تک انسان کو لا الہٰ کا اصل مفہوم، مدعا، مقصد اور راز معلوم نہ ہوجائے وہ ماسوای اﷲ کی قید، بندشوں اور غلامی کے چنگل سے آزاد نہیں ہوسکتا ہے۔ دُنیا میں انقلاب لانے کا آغاز صرف لا کے اعلان سے ہوتا ہے۔ معبوددانِ باطل کے خلاف اعلانِ جنگ لا ہے۔ اﷲ کے مخلص اور یکسو بندوں کے لئے انقلاب لانے کی یہ پہلی منزل ہے۔ وہ ملّت جو لاالہٰ اِلااﷲ کے سوز سے تپش محسوس کرتی ہے وہ آب وگل کے وجود سے اپنے حقیقی وجود کی بازیافت کرتی ہے۔ یعنی شعور کی بیداری کے ساتھ لا الہٰ کا اعلان اُس کو اپنے اصل منصب اور مقام کی شناخت پیدا کرتا ہے۔ اﷲ کی بندگی اور حاکمیت کے مقابلے میں معبودانِ باطل کے سامنے لا کا نعرہ اور اعلان اصل زندگی اور حیات ہے۔ اس کے نتیجے میں جو ہنگامہ اور انقلاب پیدا ہوگا وہ پوری کائینات کی زندگی اور حیات ہے۔ لا اِلہٰ الا اﷲ کا انقلابی نعرہ بلند کرنا ہر ایک کے نصیب کی بات نہیں ہے۔ خس وخاشاک کا ہر ذرہ اور تنکا اس انقلابی شعلہ کے اہل نہیں ہوسکتا ہے۔ ایں سعادت بزور باز و نیست تانہ بخشد خدائے بخشندہ لا الہٰ الا اﷲ کا جذبہ اور جنون اگر ایک زندہ مرد کے دل میں موجزن ہوجائے وہ سینکڑوں راہ نشینوں کو سرگرم سفر بناسکتا ہے آگ اُس کی پھونک دیتی ہے برنا وپیر کو لاکھوں میں ایک بھی ہو اگر صاحبِ یقین کیا تم غلاموں کو جابر اور ظالم حکمرانوں اور آقائوں کے خلاف برسرپیکار بنا دینا چاہتے ہو؟ اُن کی مشتِ خاک میں لاالہٰ کے بیچ بو دو (اس کے بغیر اُن میں حقیقی اور پائیدار انقلاب کا ولولہ اور شوق پیدا نہیں ہوسکتا۔ لا الہٰ کی بنیاد کے بغیر جو بھی انقلاب لائیں گے وہ صرف آقاؤں کے ہاتھ اور چہرے بدلنے کا انقلاب ہوگا۔ بندوں کی غلامی سے نکل کر ایک اﷲ کی بندگی کا قلادہ گردن میں نہیں ہوگا)۔ جس انسان کے جگر اور دل میں الا الہٰ الااﷲ کا سوز اور ولولہ پیدا ہوگا اس کا ہول، ہنگامہ اور تہہ وبالا قیامت سے بھی زیادہ ہوگا۔ لا، پے بہ پے ضرب لگانے کا مقام ہے۔ یہ نہیں کہ ایک باطل الہٰ کے خلاف، ایک دفعہ آپ نے لا کا نعرہ لگایا اور بس! نہیں یہ مسلسل اور تواتر کے ساتھ کرنے کا کام ہے۔ لا الہٰ الا اﷲ کا نعرہ بجلی کا کڑکا ہے۔ یہ بانسری کی آواز نہیں ہے۔ ضربت پیہم سے ہوجاتا ہے آخر پاش پاش حاکمیت کا بُتِ سنگینِ دل و آئینہ رُو غوِّ ر عد پر مولانا حالیؔؒ کی مُسدس کے یہ اشعار حسبِ حال ہیں: وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی عرب کی زمین جس نے ساری ہلادی نئی اک لگن دل میں سب کے لگادی اک آواز میں سوتی بستی جگادی پڑا ہر طرف غل یہ پیغامِ حق سے کہ گونج اُٹھے دشت وجبل نامِ حق سے لا الہٰ الا اﷲ کی ضرب ہر باطل بود کو نابود بنادیتی ہے اور اسی نعرے کی برکت سے انسان باطل معبودوں کے گرداب سے نجات حاصل کرلیتا ہے باتو میگوئم زِایّامِ عرب تا بدانی پُختہ و خامِ عرب ریز ریز از ضربِ اُو لات و منات در جہات آزاد از بندِ جہات ہر قبائے کہنہ چاک از دستِ اُو قیصر وکسریٰ ہلاک از دستِ اُو گاہ دشت از برق و بارانش بدرد گاہ بحر از زورِ طوفانش بدرد عالمے در آتشِ اُو مثلِ خس ایں ہمہ ہنگامہء لا بود و بس اندریں دیر کہن پیہم تپید تاجہانے تازہء آمد پدید بانگِ حق از صبح خیز یہائے اوست ہر چہ ہست از تخم ریز یہائے اوست اینکہ شمعِ لالہ روشن کردہ اند از کنارِ جوئے اُو آوردہ اند لَوحِ دل از نقشِ غیر اﷲ شُست از کفِ خاکش دوصد ہنگامہ رُست میں آپ کو عرب کی تاریخِ بتاؤں گا تاکہ تم عرب کے لوگوں میں سے کچے اور پختہ لوگوں کے کردار کو جان سکو۔ عربوں کی جان پہچان اس لئے ضروری ہے کہ لا الہ الاﷲ کے وارث تھے جن کو آخری رسولؐ کی وساطت سے اس انقلابی پیغام کا وارث بنایا گیا۔ انہوں نے جس خلوص اور یکسوئی کے ساتھ رسول اﷲؐ کو یہ انقلابی پیغام پھیلانے، عام کرنے اور غالب کرنے میں مال، جان اولاد، اعزہ اور اقارب اور قلب وذہن کی بھرپور آمادگی کے ساتھ تعاون دیا وہ اسلامی تاریخِ کاز رّیں اور بے مثال باب ہے۔ ان لوگوں نے کسی بھی آزمائش اور معرکہ آرائی کے مرحلے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے امتیوں کی طرح یہ نہیں کہا۔ {فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقٰتِلَآ اِنَّا ھَٰھُنَا قٰعِدُوْنَ ہ} ’’آپ اور آپ کا ربّ جائیں اور ان دشمنوں کے ساتھ لڑیں۔ ہم یہاں بیٹھ کر انتطار کریں گے۔‘‘ (المائدہ:۲۴) جنگ بدر کے موقع پر جب ایک طرف قریش کا تجارتی قافلہ آرہا تھا اور دوسری طرف مکہ سے قریش کا لشکر چلا آرہا تھا تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مہاجر اور انصار رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو جمع کرکے جاننا چاہا کہ قافلہ اور قریش میں سے کس طرف یہ لوگ جانا چاہتے ہیں۔ آپؐ کے پوچھے جانے پر سب سے پہلے مہاجرین میں سے حضرت مقداد بن عمرؓ نے اُٹھ کر کہا: ’’یا رسول اﷲؐ جدھر آپ کا ربّ آپؐ کو حکم دے رہا ہے اُسی طرف چلئے۔ ہم آپؐ کے ساتھ ہیں جس طرف بھی آپؐ جائیں ہم بنی اسرائیل کی طرح یہ کہنے والے نہیں ہیں کہ جاؤ تم اور تمہارا خدا دونوں لڑیں ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ نہیں ہم کہتے ہیں کہ چلئے آپؐ اور آپؐ کا خدا دونوں لڑیں اور ہم آپؐ کے ساتھ جانیں لڑائیں گے۔ جب تک ہم میں سے ایک آنکھ بھی گردش کررہی ہے‘‘۔ مہاجرین کا عندیہ دیکھ کر آپؐ نے انصار کی طرف رُخ فرمایا کیونکہ انصار اب تک کسی معرکہ آرائی میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ چنانچہ انصاری حضرت سعد بن معاذؓ اُٹھے اور انہوں نے عرض کیا شاید حضورؐ کا روئے سخن ہماری طرف ہے؟ فرمایا ہاں۔ انہوں نے کہا: ’’ہم آپؐ پر ایمان لائے ہیں۔ آپؐ کی تصدیق کرچکے ہیں کہ آپؐ جو کچھ لائے ہیں وہ حق ہے اور آپؐ سے سمع وطاعت کا پختہ عہد باندھ چکے ہیں۔ پس اے اﷲ کے رسولؐ جو کچھ آپؐ نے ارادہ فرمالیا ہے اُسے کر گذر ئیے۔ قسم ہے اُس ذات کی جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اگر آپؐ ہمیں لے کر سامنے سمندر پر جا پہنچائیں اور اُس میں اُتر جائیں تو ہم آپؐ کے ساتھ کودیں گے اور ہم میں سے ایک بھی پیچھے نہ رہے گا۔ ہم کو یہ ناگوار نہیں ہے کہ آپؐ کل ہمیں لے کر دُشمن سے جابھڑیں۔ ہم جنگ میں ثابت قدم رہیں گے۔ مقابلہ میں سچی جان نثاری دکھائیں گے اور بعید نہیں کہ اﷲ آپؐ کو ہم سے وہ کچھ دکِھوادے جسے دیکھ کر آپؐ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں۔ پس اﷲ کی برکت کے بھروسے پر آپ ؐ ہمیں لے چلیں‘‘۔ (تفہم القرآں: جلد۲، صفحہ۱۲۴،۱۲۵) یہ اقتباسات میں نے تفہیم القرآن جلد دؤم، سورۃ انفال کے دیباچہ سے صرف اس لئے نقل کئے ہیں تاکہ علامہ مرحومؒنے عربوں کے بارے میں جن خیالات کا اظہار اپنے اشعار میں کیا ہے اُس کے پسِ منظر سے ہم آگاہ ہوجائیں اور اس حقیقت کا اداراک کریں کہ نبی آخر الزماں صلی اﷲ علیہ وسلم فداہُ ابّی و اُمّی، جسمی و روحی کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے سرفروشوں کی وہ جماعت عطا کی تھی جو اپنے وعدوں اور قول وقرار کی پابند تھی اور جس چیز کو وہ حق سمجھ چکے تھے اُس پر اپنا سب کچھ حتیٰ کہ جانِ عزیز تک قربان کرنے کے لئے تیار تھے۔ اُنہیں لوگوں کے ایثار، قربانیوں، جان نثاریوں اور سرفروشیوں کی برکت سے اسلام کو غلبہ نصیب ہوا۔ حالانکہ وہ تعداد میں زیادہ نہ تھے۔ معرکہ بدر میں ایک اور تین کی نسبت تھی مگر وہ موت کے خوف سے بالاتر ہوکر نکلے اور اﷲ تعالیٰ نے فی الواقع رسول رحمتؐ کو وہ کچھ دکھایا جن سے آپؐ کو آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب ہوئی۔ آج مسلمانوں کی تعداد ایک ارب ساٹھ کروڑ سے زائد بتائی جاتی ہے مگر آج کا مسلمان حُبِ دُنیا اور کراہیت الموت کے مرض میں مبتلا ہوچکا ہے۔ اس لئے وہ پوری دُنیا میں غلامی، ذلت، اِدبار، محکومیت اور مظلومیت کا شکار ہے۔ جب تک آج کے مسلمانوں میں دورِ اول کے مسلمانوں کی طرح اسلام کے احیاء اور غلبہ کے لئے سرفروشی کا جذبہ پیدا نہ ہوجائے وہ اس پستی اور ذلت کی زندگی سے نجات حاصل نہیں کرسکیں گے۔ نہ ملّت دنیوی اور اُخروی فلاح سے ہمکنار ہوگی اور نہ ہی بنی نوع انسان سامراجی قوتوں کے پنجہء استبداد سے نجات حاصل کرسکے گی۔ غیرِ حق چوں ناہی و آمرِ شود زور ور بر ناتواں قاہر شود (اقبالؒ) عربوں نے جب لا الہٰ الاﷲ کا کلمہ شعور کی بیداری کے ساتھ پڑھا اور اس کے تقاضوں کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا ڈھانچہ تشکیل دیا تو اُن کی ضرب پیہم سے لات اور منات کے بُت ریزہ ریزہ ہوگئے۔ ملک کی حدود میں رہتے ہوئے بھی وہ آفاقی اور ہمہ جہت بن گئے۔ اُن کے ہاتھوں سے پرانی قبائیں اور عبائیں چاک ہوگئیں۔ نیز رسم و رواج اور سماجی بندھنوں کے تاروپود بکھر رہ گئے۔ اُن کے ہاتھوں سے قیصر وکسریٰ کی سامراجیت اور بربریت ختم ہوگئی۔ اُن کی بجلیوں سے کبھی دشت لرز اُٹھے اور کبھی سمندر اُن کے طوفانوں سے تلاطم خیز بن گئے۔ پوری دُنیا اُن کے ایمان ویقین کی آگ میں گھاس کے تنکوں کی طرح بھسم ہوکر رہ گئی۔ یہ سب کچھ کلمہ لا الہٰ کی ہنگامہ آرائی تھی اور کچھ نہیں! اس پرانی دُنیا میں وہ مسلسل سرگرمِ عمل رہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنے نظریہ حیات کے مطابق نئی دُنیا تعمیر کی۔ حق وصداقت کی آواز اُن کی سحر خیزیوں کی برکت سے ہے۔ جوکچھ ہم ایمان وعمل کے نظارے اور مناظر دیکھ رہے ہیں یہ اُنہی کی تخم ریزی کے نتائج اور ثمرات ہیں۔ انہوں نے گلِ لالہ کی شمع روشن کی یعنی کلمہ توحید کا نعرہ بلند کیا اور گردوپیش کی دُنیا کو اُس کی آبجو کے کنارے پر جمع کردیا۔ انہوں نے دل کی تختیوں سے ماسویٰ اﷲ کے نقش پوری طرح دھوڈالے۔ اُن کی کفِ خاک سے سینکروں ہنگامے اور واردات وجود پاگئے۔ ہم چناں بینی کہ در دورِ فرنگ بندگی با خواجگی آمد بجنگ روسؔ را قلب و جگر گردیدہ خوں از ضمیرش حرفِ لا آمد بروں آں نظامِ کہنہ را برہم زِدست تیز نیشے بررگِ عالم زِدست کردہ ام اندر مقاماتش نگہ لا سلاطیں، لا کلیسا، لا الہٰ فکرِ اُو در تُند بادِ لا بماند مرکبِ خود را سوئے اِلاَّ نراند آیدش روزے کہ از زورِ جنوں خویش را زیں تند باد آرد بروں درمقامِ لا نیاساید حیات سُوئے اِلاََّ می خرامد کائینات لا و اِلاَّ ساز و برگِ اُمتّاں نفی بے اثبات مرگِ اُمتّاں در محبت پختہ کے گردد خلیلؑ تا نگردد لا سوئے اِلاَّ دلیل ایں کہ اندر حجرہ ہا سازی سخن نعرئہ لا پیش نمرودے بزن ایں کہ می بینی نیر زد باد و جَو از جلالِ لا اِلہٰ آگاہ شو ہرکہ اندر دستِ او شمشیرِ لاست جملہ موجودات را فرمانرواست ایسا ہی کچھ تم دیکھ رہے ہو کہ انگریزوں کے دورِ اقتدار میں بندگی نے خواجگی کے ساتھ معرکہ آرائی اور جنگ شروع کردی۔ روس میں لوگوں میں انقلاب کی لہر دوڑ گئی۔ دل وجگر خون میں لت پت ہوگئے۔ اُن کے دلوں سے لا کا نعرہ بلند ہُوا۔ لا کا مطلب یہ تھا کہ پرانا نظامِ زندگی، جو شاہی اور خاندانی راج کی شکل میں تھا، اُس کو درہم برہم کردیا گیا۔ عالمی سطح پر انہوں نے خنجر سے انقلاب لانے کا آغاز کیا۔ ان اشعار میں علامہ مرحومؒ نے روس میں ۱۹۱۷ئ؁ میں بالشویک کمیونزم انقلاب کی طرف اشارہ کیا تھا۔ میں نے جب انقلاب کے اندر جھانکنے کی کوشش کی کہ اس کی روح اور بنیادی ستون کیا ہے تو معلوم ہوا کہ اس نظام میں کوئی بادشاہت یا کوئی مذہب اور کوئی الہٰ تسلیم نہیں کیا جاتا ہے۔ گویا اس سرخ انقلاب کی بنیاد الحاد ہے۔ اس انقلاب کے فکر اور فلسفہ نے نفی کی تیز ہواؤں میں پناہ لی۔ یہ اپنی سواری لا سے اِلّا اﷲ کی طرف نہ لے جاسکا۔ علامہؒ فرماتے ہیں کہ کوئی دن ضرور آئے گا کہ یہ سرخ انقلاب اپنے زور جنون سے یا خود کو اس تیز ہوا کی گرفت سے باہر نکالے گا۔اس لئے کہ لا، یعنی نفی الحاد کا فلسفہ اور نظریہ حیات کائینات کو امن وسکون نہیں دے سکتا ہے۔ کائینات دھیرے دھیرے الا اﷲ کی زندہ حقیقت کی طرف گامزن ہے جو واحد نظام ہے۔ یہ امن وآشتی، عدل وانصاف، انسانی اور اخلاقی اقدار کا محافظ اور امانت دار نظام ہے۔ لا اور الا امتوں کیلئے سامانِ زیست ہے۔ الا اﷲ کے بغیر محض لا پر فلسفہ زندگی کی بنیاد رکھنا امتوں کیلئے موت کا پیغام ہے جیسا کہ آج کی دُنیا میں دیکھا جارہا ہے کہ لا دینیت کے نام پر کس طرح قوموں، ملکوں اور عام انسانوں کو طاقت کے بل بوتے پر غلام بناکر اُن کے بنیادی حقوق پامال کئے جارہے ہیں۔ بم برسائے جارہے ہیں۔ ایٹم بم، ہائیڈروجن بم، مزائیل اور ہلاکت آفرین ہتھیاروں کی دوڑ لگی ہوئی ہے اور سب کچھ امن، ترقی، جمہوریت اور آزادی کے نام پر کیا جارہا ہے یہ ساری دین ’’لا‘‘ کے فلسفہ زندگی کی ہے۔ حضرت ابراہیم علیٰ نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام اﷲ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس کے ساتھ اُن کی محبت اور وابستگی کیسے پختہ اور مستحکم ہوسکتی تھی اگر نفی سے وہ اثبات کی طرف رہنمائی حاصل نہ کرلیتے یعنی جب انہوں نے تاروں، چاند اور آفتاب کی ربوبیت سے انکار کیا تو لا کے تقاضے پورے ہوگئے۔ اگر وہ یہاں ہی رُک جاتے تو اﷲ تعالیٰ کی معرفت اور اُسکی حاکمیت اور معبودیت کا اداراک اور یقین اُن کو کیسے حاصل ہوجاتا۔ چنانچہ انہوں نے مظاہر کائینات کی آقائیت سے انکار کرکے اعلان کیا: ’’میں اپنا رُخ اُس ذاتِ اقدس کی طرف کرتا ہوں جس نے زمین اور آسمان کو وجود بخشا ہے۔ میں یکسو ہوکر اُس کا بندہ ہوں۔ میں اُس کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا ہوں‘‘۔ علامہ مرحومؒ لا سے الااﷲ کی طرف ذہناً اور عملاً بڑھنا ہی ملّت کی زندگی اور بقا کیلئے لازم قرار دیتے ہیں۔ اب وہ لاالہٰ کہنے والے مسلمان سے فرماتے ہیں اے حجروں، مسجدوں اور خانقاہوں میں سخن سازی کرنے والے مسلمان! تیرا فریضہ تو یہ ہے کہ تو وقت کے نمرودوں کے خلاف نعرہ لابلند کر۔ یہ نہیں کہ وقت کے فرعونوںؔ، نمرودوںؔ، ہامانوںؔ اور یزیدوںؔ کے ساتھ تو ساز باز کرکے خلوت گاہوں میں بیٹھ کر لا الہٰ کی تسبیحات جپتا رہے تاکہ وقت کے طاغوت کے ساتھ تیری معرکہ آرائی نہ ہو۔ جب تک لا الہٰ کہنے والا وقت کے نظامِ باطل کے خلاف بغاوت کا نعرہ بلند نہ کرے وہ لاالہٰ کہنے میں مخلص اور یکسو تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ اقبالؒ تم کو یہ حقیقت سمجھاتے ہیں کہ جس دُنیا پر تو فریفتہ ہورہا ہے تیرے دین، ایمان، یقین اور مقصدِ آخرت کے مقابلے میں اس کی قیمت جَو کے دو دانوں کے برابر بھی نہیں ہے۔ کاش تو! لا الہٰ کے جلال اور سطوت ودبدبہ سے آگاہ ہو جائے۔ جس فرد کے ہاتھ میں لا کی شمشیر اور تلوار ہے وہ ساری کائینات میں فرماں روائی کا مقام حاصل کرسکتا ہے۔ مگر اے لا الہٰ کے وارث باقی نہیں ہے تجھ میں گفتارِ دلبرانہ کردارِ قاہرانہ تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے کھویا گیا ہے تیرا جذب قلندرانہ (بال جبرئیل) فقر چیست فقر اے بندگانِ آب و گِل یک نگاہِ راہ بیں، یک زندہ دل فقر کارِ خویش سنجیدن است بر دو حرفِ لااِلہٰ پیچیدن است فقرِ خیبر گیر، بانانِ شعیر بستہء فتراکِ اُو سلطان و میر فقر ذوق و شوق و تسلیم و رضاست ماامینیم ایں متاعِ مصطفیٰؐ است فقر بر کرّوبیاں شبخوں زند برنوامیسِ جہاں شبخوں زند بر مقامِ دیگر اندازد ترا از زجاج الماس می سازد ترا برگ وسازِ اُوز قرآنِ عظیم مردِ دوریشے نہ گُنجد در گلیم گرچہ اندر بزم کم گوید سخن یک دمِ اُو گرمیء صد انجمن بے پراں را ذوقِ پروازے دہد پشّہ را تمکینِ شہبازے دہد باسلاطیں درفتد مردِ فقیر از شکوہِ بوریا لرزد سریر از جنوں می افگند ہوئے بہ شہر وارہاند خلق را از جبر و قہر می نہ گیرد جزبآں صحرا مقام کاندرو شاہیں گریزد از حمام قلبِ اُو را قوت از جذب و سلوک پیشِ سلطاں نعرئہ اُو لا ملوک! آتشِ ما سوزناک از خاکِ اُو شعلہ ترسد از خس و خاشاکِ اُو بر نیفتد ملّتے اندر نبرد تا در و باقیست یک درویشِ مرد آبروئے ماز استغنائے اوست سوزِ ما از شوقِ بے پروائے اوست خویشتن را اندر ایں آئینہ بیں تاترا بخشند سلطانِ مبیں حکمتِ دیں دل نوازی ہائے فقر قوتِ دیں بے نیازی ہائے فقر اے مٹی کے بندگان! معلوم ہے فقر کیا ہے؟ ایک رہنمایانہ نگاہ اور ایک دلِ زندہ کا نام فقر ہے۔ یہ غریبی، مسکینی، گداگری، محتاجی، بے بسی اور سرزیری نہیں ہے۔ یہ فقر غیور غیرت مندی، دنیوی اسباب وسائل پر نگاہ اور بھروسہ رکھنے کے بجائے اﷲ غالب وقاہر کی قوت پر بھروسہ اور اعتماد فقر اپنے آپ کا تولنا، جائزہ لینا اور احتساب کرنا، لاالہٰ کے دو حرفوں پر اپنے آپ کو گُھمانا، یعنی لا الہٰ پر غوروفکر کرنا اور پھر عملی زندگی میں دیکھنا کہ کہیں لا الہ کہنے کے باوجود میں دُنیا کے مظاہر، بادشاہوں، سرمایہ داروں، فوج اور طاقت رکھنے والوں کے آگے سرنگوں تو نہیں ہورہا ہوں۔ فقر کی اصل تعبیر علامہ اقبالؒنے بیان فرمائی ہے کہ فقر وہ ایمانی غیرت ہے جس نے قلعہ خیبر کو فتح کیا اور فاتح کون تھا؟ مرغن غذائیں کھانے والا، صوفوں اور نرم وگداز بستروں پر بیٹھنے والا مال ودولت اور جاہ وحشمت کا گرویدہ نہیں بلکہ یہ حضرت علیؓ تھے جو جَو کی روٹی کھانے والے تھے اور اسی پر ان کی طاقت اور قوت کا دارومدار تھا۔ اصل میں علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ مؤمن کا فقر، اﷲ پر مکمل بھروسہ اور توکل ہے اور باطل قوتوں کے ساتھ معرکہ آرائی۔ جو کی سوکھی روٹی کے ساتھ فقر خیبر کی گرفت میں امیر اور وزیر ہیں۔ فقر ذوق وشوق اور رضائے مولا کے سامنے تسلیم و رضا ہے۔ اصل میں انسانیت کو بالعموم اور اُمّتِ مرحومہ کو بالخصوص رسول رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم کی دی ہوئی متاع اور سرمایہ کا امانت دار بنایا گیا ہے۔ فقر کیا ہے؟ فرشتوں پر شبخون مارنا اور قدرت کی پوشیدہ قوتوں کو مسخر کرنا ہے۔ فقر انسان کو اس مادی جسم سے بالاتر کرکے دوسرے ہی مقام پر بٹھا دیتا ہے جس کی مثال یہ دی جاسکتی ہے کہ نازک ترین شیشہ کو الماس، فولاد بناتا ہے۔ فقر کا سازو سامان قرآن عظیم سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مردِ فقر کمبل میں سما نہیں سکتا ہے۔ یعنی فقر سے مُتَّصَفْ درویش کمبل اوڑھے نہیں بیٹھتا بلکہ وہ قرآنی تقاضوں کے مطابق متحرک رہتا ہے۔ یہ مردِ فقر، مجالس میں بہت کم باتیں کرتا ہے لیکن اس کے ایمان اور کردار کی ایک سانس صدہا مجالس کو گرمانے اور ایمان کی حرارت پیدا کرنے کا مؤجب بنتی ہے۔ وہ کمزوروںکو معرکہ آرائی کا ذوق عطا کرتا ہے۔ وہ ادنیٰ پرندے کو تمکین شہبازی بخشتا ہے۔ مردِ فقر، بادشاہوں اور سلاطین کے ساتھ معرکہ آرائی کرتا ہے۔ اُس کی چٹائی کی شان وشوکت سے بادشاہوں کے تخت لرز اُٹھتے ہیں۔ اپنے ایمان کی قوت اور حرارت سے وہ پورے شہر میں غوغا مچادیتا ہے اور اُس کی غوغا آرائی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ باطل اور سامراجی قوتوں نے غلام اور زیردست بنائے ہوتے ہیں اُن کو وہ اس جبر واستبداد سے آزاد کرالے۔ وہ اُن صحراؤں کے بغیر کہیں مقیم نہیں ہوتا ہے جہاں سے شاہین بھی کبوتر سے بھاگ جاتا ہے۔ یعنی طاقت وروں کی بالادستی نہیں ہوتی ہے۔ مردِ فقر کے دل کو جذب سلوک، یعنی معرفت اِلٰہی سے قوت اور طاقت حاصل ہوجاتی ہے۔ بادشاہوں کے سامنے اُس کا نعرہ مستانہ ہوتا ہے۔ لا ملوک یعنی انسانوں کی حاکمیت اور بادشاہت ہم کو تسلیم نہیں ہے۔ مردِ فقر کی خاک سے ہمارے خاکی وجود میں ایمان ویقین کی آگ اور زیادہ سوزناک بن جاتی ہے۔ مردِ فقر کے خس وخاشاک سے آگ کے شعلے بھی خوف کھاتے ہیں۔ کوئی قوم، کوئی ملک، معرکہ آرائی کے میدان میں شکست آشنا نہیں ہوسکتی ہے جب تک اُس میں ایک بھی درویش مرد موجود ہوتا ہے۔ پوری ملّت کی آبرو، ایسے مردانِ غیور وفقر کے جذبہ استغناء سے ہوتی ہے۔ ہمارے دلوں میں ایمان کی حرارت ایسے درویش صفت افراد کے شوقِ بے پروا کی رہین منت ہوتی ہے۔ یہ جو میں نے فقرِ غیور کا آئینہ آپ کو دکھایا ہے آپ اپنے آپ کو اسی آئینے کی روشنی میں دیکھ لیجئے یہ آپ کے لئے ترازو اور پیمانہ ہے۔ اگر تم اس پیمانے پر پورے اتروگے تو آپ کو اﷲ کی طرف سلطانِ مبین عطا ہوگا۔ واضح اور نمایاں قوت وطاقت! حکمتِ دیں دل نوازی ہائے فقر قوتِ دیں بے نیازی ہائے فقر دین کی حکمت اور مصلحت، فقر کی دل نوازی ہے اور دین کی قوت فقر کی بے نیازی ہے۔ یعنی ملّت مرحومہ کے افراد میں اور مجموعی طور پوری ملّت میں حقیقی فقر کی صفات پیدا ہو جاتیں تو فرد اور ملّت دونوں حکمتِ دین اور قوتِ دین سے بہرہ ور ہوں گے۔ پھر دُنیا کی کوئی مادی طاقت چاہئے کتنی بڑی اور عظیم ہو اُن کو زیر نہیں کرسکتی۔ مؤمناں راگفت آں سلطانِ دیںؐ مسجدِ من ایں ہمہ روئے زمیں الاماں از گردشِ نُہ آسماں مسجدِ مؤمن بدستِ دیگراں سخت کوشد بندئہ پاکیزہ کیش تا بگیرد مسجدِ مولائے خویش اے کہ از ترکِ جہاں گوئی مگو ترکِ ایں دیرِ کہن تسخیرِ اُو راکبش بودن ازو وارستن است از مقامِ آب و گِل برجستن است صیدِ مؤمن ایں جہانِ آبِ و گل باز را گوئی کہ صیدِ خود بہل؟ حل نشد ایں معنیء مشکل مرا شاہیں از افلاک بگریزد چرا وائے آں شاہیں کہ شاہینی نکرد مرغکے از چنگ اُو نامد بدرد درکنامے ماند زار و سرنگوں پرنہ زد اندر فضائے نیلگوں جناب نبی آخرُ الزَّمان صلی اﷲ علیہ وسلم نے اہل ایمان سے کہا ہے کہ ساری روئے زمین میرے لئے مسجد بنادی گئی ہے۔ یہ ایک حدیث کی طرف اشارہ ہے۔ اس کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ مسلمان کو نماز کی ادائیگی کے لئے ہر جگہ اور ہر موقع پر مسجد تلاش کرنے کا مکلف نہیں ٹھہرایا گیا ہے بلکہ جہاں کہیں بھی صاف جگہ پائے وہاں وہ آسانی کے ساتھ نماز ادا کرسکتا ہے۔ مگر اس کا اصل مفہوم اور مقصد دینی یہ ہے کہ ساری کائینات اﷲ کی ہے اور اس پر صرف اور صرف اﷲ کی حاکمیت ہونی چاہئے اور حاکمِ حقیقی کی طرف سے جو لوگ خلافت کے منصب پر فائز ہوں وہی اس کے حقدار ہیں۔ اُنہی کے ہاتھوں میں نظم ونسق کا اہتمام اور انصرام ہو۔ علامہ مرحومؒ کے نزدیک اس حدیث پاک کی طرف اشارہ کرنے کا مقصد اور مدعا بھی یہی ہے اس لئے وہ فرماتے ہیں۔ میں آسمانوں کی گردش سے پناہ مانگتا ہوں کہ مسلمانوں کی مسجد دوسروں کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ دوسرے لوگ انسان ہونے کے ناطے، وہ بھی خلافت کے منصب پر فائز ہیں مگر وہ خلیفہ بنانے والے حاکم کو تسلیم ہی نہیں کرتے ہیں۔ اس لئے از خود خلافت کے منصب سے محروم ہورہے ہیں۔ اس لئے خلافت کے اصل حقدار صرف اور صرف وہ لوگ ہیں جو اﷲ کو وحدہٗ لا شریک مانتے ہیں اُس کو احکم الحاکمین تسلیم کرتے ہیں۔ اُس کو مالک مانتے ہیں۔ اُس کے قانون کو عدل وانصاف کا منبع اور مخرج گردانتے اور مانتے ہیں۔ اُس کو نہ صرف اپنا، بلکہ موت کے بعد کی زندگی میں مالک اور جزاوسزا دینے والا مانتے ہیں۔ مالکِ یوم الدین، لیکن حقیقتِ حال یہ ہے کہ خلافت کا حقدار اپنے اس حق سے بے دخل کردیا گیا ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اُس کے پاس اس مسجد پر کنٹرول کرنے اور اس کا نظم ونسق سنبھالنے، اس کی امامت اور قیادت کرنے اور اس میں نمازیوں کے اوصاف رکھنے والے، صف بندی کرنے والے، خشوع وخضوع کے ساتھ مسجد میں آنے والے، اس کو صاف وپاک اور پُرکشش بنانے والے ہاتھ ہی نہیں ہیں۔ اس لئے خلافت کے حقدارہوتے ہوے بھی اپنی نا اہلیت کی وجہ سے محروم ہوگئے ہیں۔ علامہؒ فرماتے ہیں کہ اﷲ کے مخلص اور پاکیزہ کرداربندے ہر دور میںبر سرِ جدو جہد رہتے ہیں۔جُوعُ الارض مٹانے کیلئے نہیں ،بلکہ اپنے آقا کی مسجد پر کنٹرول حاصل کرنے کیلئے۔تاکہ یہاں ظلم نہ ہو،نا انصافیاں نہ ہوں،حق ماریاں نہ ہوں،زبر دست کمزوروں کو زیرِ دست نہ بنائیں۔شراب نہ ہو،سود خوری نہ ہو،قتلِ انسانیت نہ ہو،نسوانیت پامال نہ ہو، بدکاری سے زمین پاک ہو، مہلک ہتھیاروں سے انسانیت کو نجات ملے اور اﷲ کا عادلانہ نظام قایم اور غالب ہو۔ اے مسلمان! تم جو ترکِ دنیا کی بات کررہے ہو،ایسا نہیں کہنا چاہے۔ یہ عزلت نشینی تجھے زیب نہیں دیتی ہے۔اس دیرینہ بتکدے کو ترک کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو مسخر کیا جائے۔تاکہ یہاں نام بدل بدل کر نئے نئے بتوں کی پرشتس اور پوجا نہ ہو۔یہاں اقبالؒ مسلمانوں کورہبانیت اور ترکِ دنیا سے باز رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔اس دنیا پر سوار ہونا،اس کے غلبہ اور قبضہ سے اپنے آپ کو آزاد کرنا ہے۔مادّیت کے مقام سے بالا تر ہونا ہے۔جو مسلمان اور اہلِ ایمان کا اصل مقام اور مرتبہ ہے۔یہ مادی دنیا تو مسلمان کا شکار ہے۔کیا تم پھر دوبارہ کہہ سکتے ہو کہ اپنے شکار کو اپنے ہاتھو ں سے چھوڑ دیں گے؟یعنی دنیا کو فاسدوں،فاسقوں،باغیوں، ملحدوں،سرکشوں اور طاغوتی قوتوں کے حوالہ کر کے تم غار و کوہ،حجروں اور خانقاہوں کے مجاور بن کر رہو۔ اقبالؒ مئومنانہ سادگی کے ساتھ فرماتے ہیںکہ یہ مشکل آسانی سے حل نہیں ہوئی کہ شاہین افلاک کی پرواز سے کیوں بھاگتا اور جی چراتا ہے؟شاہین سے مراد مئومن اور افلاک سے مراد دنیا اور کائنات۔یعنی یہ تو اسی کی میراث ہے۔یہ کیوں اپنی میراث چھوڑ کر کنارہ کش ہو رہا ہے؟ افسوس ہے اس شاہین پرکہ شاہیں تو ہے مگر شاہینی اوصاف اور کردار کا مظاہرہ نہیں کر رہا ہے۔ایک چھوٹا سا پرندہ بھی اس کے پنجوں کی مضبوط گرفت میں نہیں آ رہا ہے۔مرغک سے مراد دنیا اور شاہین جس کو اس پر فرمان روا ہونا چاہئے تھا وہ اپنے شاہینی اوصاف کھو کر اس پرندے پر قابو نہیں پاسکتا۔ یہ شاہین اپنے گھونسلے میںزارو نحیف اور سر نگوں ہو کر بیٹھ گیا ہے اور اس سے باہر نہیں آتا ہے۔کاش یہ اپنے آشیانہ سے باہر آکراس وسیع و عریض فضاء میںپر مارتا تو اس کو اپنی قوتِ پرواز کا علم ہو جاتا۔ فقرِ قرآں احتسابِ ہست و بود نے رباب و مستی و رقص و سرود فقرِ مؤمن چیست؟ تسخیرِ جہات بندئہ از تاثیرِ او مولا صفات فقرِ کافر خلوتِ دشت و دراست فقرِ مئومن لرزئہ بحر و بر است! زندگی آں را سکونِ غار و کوہ زندگی ایں را زمرگِ با شکوہ! آں خُدا را جستن از ترکِ بدن ایں خودی را بر فسانِ حق زدن آں خودی را کُشتن و وا سوختن ایں خودی را چوں چراغ افروختن فقرِ چوں عریاں شود زیرِ سپہر از نہیبِ او بلرزد ماہ و مہر فقرِ عریاں گرمئی بدر و حنین فقرِ عریاں بانگِ تکبیرِ حسینؓ فقر را تا ذوق عریانی نماند آں جلال اندر مسلمانی نماند قرانِ پاک نے جس فقر کی تعلیم دی ہے وہ ہے احتسابِ دنیا ومافیھا۔یہ وہ فقر نہیں ہے جس میں رباب،مستی،نشہ،شراب،چرس اور ر قص وسرود ہو جو آج کے مسلمان نے اختیار کر رکھا ہے۔سر دُھن دھن کر قوالیاں گاتا ہے۔بزرگوں اور ولیوں نے اپنی پوری زندگی اسلام پھیلانے اور غالب کرنے میں گذاری ہے۔آج مسلمان ان کی قبروں کے گرد طواف کرتے،طبلہ و رباب بجاتے،محفلیں سجاتے اور مستی ومدہوشی کے مناظر کا مظاہرہ کرتے ہیں۔اور زوال وپستی کی انتہاوں کو چھو رہے ہیں۔غیر مسلم ان کی اِن مجنونانہ حرکتوں کی خوب تشہیر کرتے ہیںکیونکہ یہ لوگ خوب جانتے اور سمجھتے ہیں کہ مسلمان کے اس زوال میں ہی ہماری بقا اور غلبہ کا مقام ہے۔ مست رکھو ذکر وفکر صبحگاہی میں اسے پختہ تر کردو مزاجِ خانقاہی میں اسے مؤمن کا فقر کیا ہے؟۔تسخیرِحیات ۔اوراﷲ کا بندہ اس فقرِ غیور کی بدولت مولا صفات بن جاتا ہے۔ کافر،منکرِخدا،مشرک،منافق،ملحد۔ان کا فقر جنگلوں اور وادیوں میں خلوت گزینی ہوتا ہے۔مؤمن کا فقر بحر و بر میں لرزہ پیدا کرتا ہے۔یعنی مئومن کا فقر ایک صالح اور خوشگوار انقلاب لانے کیلئے سر گرمِ عمل رہتا ہے۔ کافر کیلئے زندگی غار و کوہ میں رہنااور سکون حاصل کرنا ہے۔مؤمن کی زندگی یہ ہے کہ وہ اپنی تمام ترخداداد صلاحیتوںاور قوتوں کو اس کی رضا اور اس کے دین کے غلبہ کیلئے استعمال کرتا ہے اور اسی راہ میں شہادت کا مقام حاصل کرتا ہے۔با شکوہ اور باوقار مرگ یہی ہے جس کی تمنا رسولِ رحمتؐ بھی فرماتے تھے۔ کافر کا خدا کو تلاش کرنا بدن کو گھلانا اور مارنا ہے۔مؤمن اپنی خودی کو حق کی فسان پر رگڑتا،اور حق کے غلبہ کیلئے ہمہ تن سر گرمِ عمل رہتا ہے۔کافر خودی کو مارتا اور جلا ڈالتا ہے۔مئومن اپنی خودی کے چراغ کو روشن کرکے اپنی زندگی اور گردوپیش کے سماج اور معاشرہ کواسلام کی حیات بخش تعلیمات کے دائرے میں لاتا ہے۔فقرِ حقیقی یعنی قرآن کادیا اور سکھایا ہوا فقر،اور رسولِ رحمت ؐ کا سکھایا ہوا فقرِغیورجب زیرِ آسمان نمایاں اور واشگاف ہوتا ہے تواس کے خوف اور دبدبہ سے چاند اورآفتاب بھی لرز اٹھتے ہیں۔ فقر کا نمایاں اور کھل کر سامنے آنابدر و حنین کی معرکہ آرائی ہے۔فقرِ عریاں کربلا کے ریگ زار میں شہیدِاعظم حضرتِ حسینؓکا یزید کے مقابلے میںتکبیرلا الہ الّا اﷲ بلند کرنا ہے۔ نقشِ اِلاَّاﷲ بر صحرا نوشت سطرِ عنوانِ نجاتِ ما نوشت جب فقرِ قرانی کو ذوقِ نمود نہ رہا تومسلمان میں بھی وہ ذوقِ جلال و جمال نہ رہاجو اس کا ورثہ اور منصب تھا۔ وائے ما اے وائے ایں دیرِ کہن تیغِ لا درکف نہ تو داری، نہ من دِل زغیر اﷲ بہ پرداز اے جواں ایں جہانِ کہنہ درباز اے جواں تاکجا بے غیرتِ دیں زیستن اے مسلماں مردن است ایں زیستن مردِ حق باز آفریند خویش را جزبہ نورِ حق نہ بیند خویش را بر عیارِ مصطفیٰؐ خود را زند تاجہانے دیگرے پیدا کند افسوس ہم پراور افسوس اس پرانے بتکدے پر۔لاالہ کی تلوارنہ تیرے ہاتھ میں ہے اور نہ میرے ہاتھ میں ہے۔ لاالہ کے فلسفہء حیات کی طرف دنیا کے انسانوں کودلبری اور قاہری دونوں اوصاف سے متصف ہو کر بلایا گیا ہوتا تو یہ بتکدہ جوں کا توں نہ رہا ہوتا۔یہاں توحید کا پیغام عام ہو چکا ہوتا اور کفر و شرک کی ظلمت مٹ چکی ہوتی۔اس افسوس اور واویلا کے بعداسلام کے غلبہ کی محبت اور تمنامیں اقبال ؒملت کے نوجوانوں کو دردمندانہ آواز میں مُخَاطَبْ بناتے ہیں۔اے ملت کے نوجوان اپنے دل کوماسویَ اﷲ کی بندگی اور پرشتس سے پاک و صاف کر ۔اس پرا نی دنیا کو،جو ظلمت کدہ بن چکی ہے بدلنے اورتبدیل کرنے کی ذمہ داری پوری کر لے۔ اے جوانانِ ملت؛دین کی بے بسی،بے غیرتی،محکومی،غلامی اورزیر دستی کے ساتھ زندہ رہناکب تک؟اس حالت میں رہنا تم زندگی سمجھتے ہو،نہیں ہر گز نہیں یہ تو موت اور مرگ ہے۔ حق پرست لوگ اپنی مردہ حالت پر قناعت نہیں کرتے۔حق پرست اپنے آپ کو دوبارہ زندہ کرتا اور اپنی آب و تاب کیساتھ دنیا میں اپناکھویا ہوا مقام حاصل کئے بغیر نہیں رہتا ہے۔وہ ااﷲ تعالیٰ کے بخشے ہوے نور سے اپنے آپ کو دیکھتا اور اسی رنگ میں اپنے آپ کو رنگتا ہے۔ مردِ حق کے سامنے پرکھنے کا معیارجناب محمد رسواﷲؐ کی پاک سیرت اور اسوئہ حسنہ ہے۔اس پر پرکھنے کے بعد ہی وہ اس دنیا کو اپنے دین اور ایمان کے تقاضوں کے مطابق بدل ڈالتا ہے۔ آہ زاں قومے کہ از پا بر فتاد میر و سلطاں زا دو درویشے نزاد داستانِ اومپرس از من کہ من چوں بگویم آنچہ ناید در سخن در گلویم گریہ ہا گردد گرہ ایں قیامت اندرونِ سینہ بہ مسلمِ ایں کشور از خود نا امید عمر ہا شد با خدا مَردے ندید لا جرم از قوتِ دیں بد ظن است کاروانِ خویش را خود رہزن است ازسہ قرن ایں امتِ خوار و زبوں زندہ بے سوز و سرورِ اندروں پست فکرودوں نہادو کور ذوق مکتب و مُلایء او محرومِ شوق زشتیء اندیشہ او را خوار کرد افتراق اورا زِخود بیزار کرد تا نداند از مقام و منزلش مُرد ذوقِ انقلاب اندر دلش طبعِ او بے صحبتِ مردِ خبیر خستہ و افسردہ و حق نا پذیر بندئہ رد کردئہ مولاست او مفلس و قَلاشّ و بے پرواست او نے بکف مالے کہ سلطانے برد نے بدل نورے کہ شیطانے برد شیخِ او لُردِ فرنگی را مُرید گرچہ گوید از مقامِ با یزید گفت دیں را رونق از محکومی است زندگانی از خودی محرومی است دولتِ اغیار را رحمت شُمرد رقص ہا گِردِ کلیسا کرد و مُرد ان اشعار میں علامہ مرحومؒ نے اُمّت کی زبوں حالی کا رونا رویا ہے۔اس میں جو ذہنی اور عملی زوال اور انحطاط آیا ہے اس پر اپنے دلی رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ فرماتے ہیں۔ افسوس اور واویلا اس قوم پر جو اپنے مقام اور مرتبہ سے گر چکی ہے۔اس نے بادشاہ،حکمران اور سردار تو پیدا کئے مگر کوئی مردِ حق در ویش پیدا نہ کر سکی۔مجھ سے اس زوال پذیر قوم اور ملت کی داستان مت پوچھ۔میں اپنے دل کی کیفیت کیسے بیان کروںکہ الفاظ اور بیان اس کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ میرے گلے میںگریہ ہا ،رک گئے ہیں۔اضطراب،بے چینی اور گریہ وزاری کی یہ قیامت سینے میں ہی بند رہے تو بہتر ہے۔اس خطہء بے نصیب کا مسلمان اپنے وجود اور اپنی پوشیدہ صلاحیتوں سے نا امید ہے۔اس نے اپنی عمر کا بہت سا حصہ گزارا مگر کوئی مردِ خدا نہیں دیکھ سکا۔ بے شک یہ اپنے دین کی قوت اور طاقت سے بد ظن اور بد گمان ہے۔ یہ خود اپنے کاروان اور قافلہ کیلئے رہزن بن چکا ہے۔ تین صدیوں سے یہ امت ذلیل و خوار اور زار و زبوں ہے۔زندہ تو ہے مگر بے سوزو سرورِ اندروں۔یعنی اس کا جذبہ اور ولولہ فی الواقع مر چکا ہے۔ہاں زندہ لاشیں دوڑتی پھر رہی ہیں۔ اس کے خیالات پست اور سطحی ہیں۔اندرون اس کا فساد سے بھرا ہے۔ذوق اس کا نابینا اور بے بصیرت ہو چکا ہے۔اس کا مکتب،مدرسہ اور اس کے واعظ، مقرر اور ملا،ذوق وشوق اور جذبہ و ولولہ سے محروم ہو چکے ہیں۔ بد اندیشی نے اس کو ذلیل و خوار کر دیا ہے۔ باہمی افتراق و انتشاراور اختلافات نے اس کو خود اپنے وجود سے بے زار کر دیا ہے۔ یہ امت اپنے مقام اور اپنی منزل اور مرتبت سے بے خبر ہے۔اس کے دل سے انقلاب کا ذوق اور ولولہ مر چکا ہے۔ اس کی طبعیت اور مزاج کسی مردِ خودآگاہ کی صحبت سے محروم ہے۔ یہ امت خستہ حال،پژ مردہ،اور حق کو قبول نہیں کر رہی ہے۔اس کی مثال اس بندے کی ہے جس کو اپنے مولا اور آقا نے رد کر دیا ہو۔یہ مفلس، قلاش اور بے پرواہ ہے۔نہ اس کے پاس مال و دولت اور نہ جاہ وحشمت ہے جس کو کوئی بادشاہ اور سلطان چھین سکے۔نہ اس کے دل میں سوزِ ایمان وایقان ہے جس کو شیطان چھین سکے۔ اس کا شیخ یعنی تربیت اور رہنمائی کرنے والے بزرگ ،سجادہ نشیں،افرنگ کے لارڈ کا مُرید ہے۔اگر چہ اپنی جگہ وہ بڑی لن ترانیاں سُنا رہا ہے اور اپنا منہ میاں مٹھو بنتے ہوے اپنے آپ کو حضرت با یزید بسطامیؒ کا مرتبہ اور مقام دے رہا ہے۔ ملت کا یہ شیخ بتا رہا ہے کہ دین کو باطل قوتوں اور نظریات کی غلامی ہی زیب دیتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ خودی کی زندگی محرومی اور حرماں نصیبی ہے۔یہ غیروں کی دولت، حکومت ،سرتاجی اور سربراہی اپنے لئے رحمت اور برکت شمار کرتا ہے۔ زندگی بھر کلیسا کا طواف کر کے مر جاتا ہے۔ یعنی برطانوی سامراج کی چاکری اور غلامی کر کے آخر کار سپردِ گور ہو جاتا ہے۔ علامہؒ مرحوم کے دورِ حیات میں برطانیہ کا ہی راج تاج تھا۔۱۹۴۷ئ؁ میںبظاہر برطانوی سامراج کا اخراج ہوا۔مگر حکیم الامتؒ نے اس وقت کے مسلمان کی تصویر کشی کی تھی۔ان کی وفات کے ۷۰ سال بعدبھارت،پاکستان،بنگلہ دیش،افغانستان اور عالمی سطح پرمسلمان کا یہی حال ہے۔اس میں اضافہ ہی ہو رہا ہے کمی نہیں۔ اے تہی از ذوق و شوق و سوز و درد می شناسی عصرِ ما باما چہ کرد! عصر ما مارا زما بیگانہ کرد از جمالِ مصطفیٰؐ بیگانہ کرد سوزِ او تا از میانِ سینہ رفت جوہرِ آیئنہ ازآیئنہ رفت باطنِ ایں عصر را نشناختی داوِ اول خویش را در باختی تا دماغِ تو بہ پیچاکش فتاد آرزوئے زندئہ دردل نزاد احتسابِ خویش کن از خود مرو یک دو دم از غیرِ خود بیگانہ شو تا کجا ایں خوف و وسواس و ہراس اندر ایں کشور مقامِ خود شناس ایں چمن دارد بسے شاخِ بلند بر نگوں شاخ آشیانِ خود مبند نغمہ داری در گلو اے بے خبر جنسِ خود بشناس و بازاغان مپر خویشتن را تیزیء شمشیر دہ باز خود را در کفِ تقدیر دہ اندرونِ تُست سیلِ بے پناہ پیشِ او کوہِ گراں مانندِ گاہ سیل را تمکیں زنا آسودن است یک نفس آسودنش نابودن است من نہ مُلّا، نے فقیہِ نکتہ ور نے مرا از فقر و درویشی خبر در رہِ دیں تیز بین و سُست گام پختہء من خام و کارم ناتمام تا دلِ پُر اضطرابم دادہ اند یک گرہ از صد گرہ بکشادہ اند از تب و تابم نصیبِ خود بگیر بعد ازیں ناید چو من مردِ فقیر اے مسلماں! تو ذوق و شوق اور درد و سوز سے خالی ہے۔تم جانتے ہو کہ ہمارے زمانے نے ہمارے ساتھ کیا کیا ؟ہمارے زمانے دورِ حاضر نے ہم کو اپنے وجود سے بیگانہ بنا دیا ہے۔نبی آخرالزماںؐ فداہٗ ابی و امی روحی و جسمی کے جمال ان کے مشن،ان کے پیغام،ان کے اسوئہ حسنہ،ان کی پاکیزہ زندگی،ان کی جدو جہد اور باطل قوتوں سے کشمکش اور معرکہ آرائی پھر غلبئہ دین کابے مثال دورِ سعادت اس سب سے موجودہ زمانے کی فسوں کاری نے ہم کو بیگانہ بنا دیا ہے۔ جب ان کا دیا ہوا جذبہ،ولولہ،سوز اور دردِ دل،مسلمان کے دل سے دور ہو گیاجو آیئنہ کا اصل اور جوہر ہے۔اس سے وہ محروم ہو جاتا ہے۔یعنی ہمارے لیئے تو رسولِ رحمتؐکا لایا ہوا دین ہی ہماری زندگی اور تابندگی کا سرمایہ ہے۔جب یہ ہمارے دلوں سے چھین لیا گیاتو ہمارے پاس کچھ بھی سامانِ زیست نہیں رہتا ہے۔ اے مسلمان! تو نے اس دور کے فتنوں کی حقیقت اور اصلیت نہیں پہچانی ہے۔ تم تو پہلے ہی داو میں بازی ہار گئے ہو تو نے جاہلیت کے مقابلے میں کوئی مزاحمت نہیں کی ہے۔ تمہارا دماغ بحث و تمحیص اور مُوشگافیوں میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ تمارے دل میں کوئی نئی آرزو پیدا ہی نہیں ہو گئی۔جس کو پورا کرنے میں تم جدو جہد اور کشمکش کے دور سے گذرتے۔علامہ مرحومؒ،موجودہ دور کے پیدا شدہ نتایئج سے آگاہ کرنے کے بعد مسلمان کو نصیحت کرتے ہیں۔ اپنے آپ کا احتساب کرو۔اپنے وجود اور اپنی شناخت سے اپنی غفلت اور لا پرواہی کی وجہ سے محروم مت ہو جاو۔کچھ لمحات کیلئے دوسروں کی توجہ سے اپنے آپ کو دور کرو اور خالص اپنی طرف متوجۃ ہو جا۔اپنی شناخت اور پہچان کو حاصل کرنے کی کوشیش کرو۔ تو کب تک خوف،وسواس ،اور ہراس کا شکار رہے گا۔اس دنیا میں اپنے کھوئے ہوے مقام اور مرتبہ کو پہچاننے کی کوشش کر۔ دنیا کے اس باغ میںہر ایک درخت میں بلند شاخیں ہیں۔ان بلند شاخوں پر کمند ڈالنے کے بجائے تو نچلی شاخوں پر ہی اپنا آشیانہ بنا رہا ہے۔گویا اپنی تن آسانی اور خوف و ہراس کی وجہ سے تو نے خود اپنے لیئے پستی کا مقام چن لیا ہے۔ تو ہی نادان چند کلیوں پر قناعت کر گیا ورنہ گلشن میں علاجِ تنگئی داماں بھی ہے اے اپنے وجوداوراپنے ایمانی اور حیات بخش نظام ونظریہ زندگی کی قُوت و طاقت سے بے خبر مسلمان۔تم اپنے سینے میں جاندار نغمہ اور پیغام رکھتے ہو۔اپنی جنس کوپہچان لے تو اپنے مشن کی نسبت سے شاہین ہے۔تجھے کووّں کے ساتھ پرواز نہیں کرنا چاہئے۔ اپنے آپ کو شمشیر کی طرح تابدار اور چمکدار بنا دے۔پھر اپنے آپ کو تقدیر کے حوالے کر دے۔شمشیر سے مراد مسلمان کا مشن اور دین ہے۔اس کو قولاََ اور عملاََ اپنے خالص اور اصلی رنگ میں پیش کر دے۔نتیجہ اﷲ کے حوالہ کر دے۔ اے غافل اور از خود بے خبر مسلمان۔تیرے اندر بے پناہ سیلاب ہے۔تیرے پاس عالمگیراور آفاقی پیغام ہے ۔اس کے آگے بڑے بڑے پہاڑبھی پرِ کاہ کی مانند ہیں تو ان دنیا کے باطل نظاموں اور قوتوں سے خوف کھا رہا ہے۔کاش تو اپنی حقیقت کو پہچان کردینِ حق کو لیکر اٹھتا۔تو دیکھ لیتا کہ یہ گھاس کے تنکوں کی طرح بہہ جاتے ان میں حق کے آگے ٹکنے اور ٹھہرنے کی کوئی قوت اور طاقت نہیں ہے۔ وَ قُل جَائَ الحَقُّ وَزَھَقَ البَا طِلَ اِنَّ البَاطِلَ کَا نَ زَھُو قاََہ ’’اور علان کر دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔‘‘ بنی اسرائیل ) تشریح: ’’یہ اعلان اس وقت کیا گیاتھا جب مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مکہ چھوڑ کر حبش میں پناہ گزیں تھی اور باقی مسلمان سخت بے کسی اور مظلومیت کی حالت میں مکہ اور اطرافِ مکہ میں زندگی بسر کر رہے تھے اور خود نبی صلہ اﷲ علیہ وسلم کی جان ہر وقت خطرے میں تھی۔اس وقت بظاہر باطل ہی کا غلبہ تھااور غلبہ حق کے آثار کہیں دور دور تک نظر نہ آتے تھے۔مگر ایسی حالت میںنبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو حکم دے دیا گیاکہ تم صاف صاف ان باطل پرستوں کو سنادوکہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ایسے وقت میں یہ عجیب ا علان لوگوں کو محض زبان کا پھاگ محسوس ہوا۔اور انہوں نے اپنے ٹھٹھوں میں اڑا دیا۔مگر اس پر نو برس ہی گذرے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اسی شہرِ مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوے جو تین سو ساٹھ بُتوں کی صورت میں وہاںسجا کررکھا گیا تھا اور آپ نے کعبہ میں جاکر اس باطل کو مٹا دیا۔ بخاری شریف میں حضرت عبداﷲ بن مسعوؓد کا بیان ہے کہ فتح مکہ کے دن حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کعبہ کے بتوں پر ضرب لگا رہے تھے اور آپ صلہ اﷲ علیہ وسلم کی زبان پریہ الفاظ جاری تھے۔ جَائَ الحَقُّ وَزَھَقَ البَا طِلَ اِنَّ البَاطِلَ کَا نَ زَھُو قاً۔ جَائَ الحَقُّ ومَا یُبدیُ الّبَا طِل وَمَا یعید۔ آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ حقِ اسلام غالب ہو گیا ہے۔ اب باطل نہ تو ظاہر ہوگا اور نہ لوٹ کر آئے گا۔ سیلاب کی فطرت یہ ہے کہ اس کے بہتے رہنے میں ہی اس کو تمکن حاصل ہے۔ایک لمحہ کیلئے بھی اگر وہ رک جائے،ٹھر جائے تو وہ نابود ہو جائے گا۔ایک نظریاتی مشن اور پیغام کیلئے رواں دواں رہنا ہی اس کی زندگی اوراس کا دوام ہے۔اس پر جمود طاری ہو جانااس کی موت ہے۔اے میرے دینی بھائی مسلمان! میں جو ملّت کے درد میں مضطرب و بے قرار ہوں۔میرے بارے میں تجھکو جان لینا چاہئے کہ میں نہ ملا ہوں نہ نکتہ دان فقیہ اور نہ ہی مجھے فقر اور درویشی کے بارے میں کوئی خبر ہے۔ قلندر جز دو حرفے لا الہ کچھ بھی نہیں رکھتا فَقہیہ شہر قارون ہے لُغت ہائے حجازی کا دین کی راہ میںتیز بین ہوں۔یعنی دین کی روح اور اصل حقیقت سے بخوبی آگاہ ہوں مگرسُست گام ہوںیعنی عملی میدان کا مجاہد نہیں ہوں میرا پختہ یقین و اذعان میری عملی کمزوری کی وجہ سے خام ہے۔اور اسی لیئے میرے کام نا تمام ہیں۔یعنی اسلامی انقلاب لانے میں عملی کردار ادا نہیں کرپا رہا ہوں۔ ہاں ، مجھ پرمنعمِ حقیقی اﷲ تعالٰی نے بہت بڑا احسان کیا ہے۔کہ مجھے مضطرب دل اوردردِ دین و ملت کا وافر حصہ عطا کیا گیا ہے۔سینکڑوں مشکلات میں سے ایک مشکل کا حل اور گرہ کشائی کی گئی ہے۔ میرے اس مُضطرب اور دردو سوز سے پُرمیرے دل سے اپنا حصہ حاصل کرنے کی کوشش کیجئے۔میرے بعد مجھ جیسا مردِ فقیر دوبارہ نہیں آئے گا۔جیسا کہ علامہ مرحوم نے اس رباعی میں فرمایا ہے۔ سرودِ رفتہ باز آید کہ ناید نسیمے از حجاز آید کہ ناید سر آمد روز گارِ ایں فقیرِے دیگر دانائے راز آید کہ نا آید گایا ہوا نغمہ دوبار ہ و اپس آئے گا یا نہیں،حجاز عرضِ مقدس سے روح پرور ہوا آ ئے گی یا نہیںمجھ مردِ فقیر کی دنیوی زندگی کا آخری مرحلہ آن پہنچا ہے۔ اب کوئی اور دانائے راز آئے گا یا نہیں آئے ؟ یہ علامہ مرحومؒ کی آخری رباعی تھی۔اور اس کے بعد وہ ۲۱ ؍اپریل ۱۹۳۸ئ؁ کو ہمیشہ کیلئے اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے۔اﷲ ان کی مغفرت فرمائے! کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور انھوں نے اپنے فارسی اور اردو کلام میںقرآن اور اسوئہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے حیات بخش نظام کی طرف جس دردمندی اور جگر سوزی کے ساتھ دعوت دی ہے امتِ مرحومہ کو اس کی طرف رجوع کرنے اور اس سے فیض حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!