اقبال کے حضور سیّد نذیر نیازی اقبال اکادمی پاکستان جملہ حقوق محفوظ ہیں ناشر: ناظم اقبال اکادمی پاکستان چھٹی منزل ، ایوان اقبال ، لاہور Tel: [+92-42] 6314-510,9203573 Fax: [+92-42] 631-4496 Email: iqbalacd@lhr.comsats.net.pk Website: www.allmaiqbal.com ISBN 969-416-029-4 طبع اوّل: ۱۹۹۵ء طبع دوم: ۲۰۰۸ء (اضافوں کے ساتھ) تعداد : قیمت: مطبع : محل فروخت :۱۱۶ میکلوڈ روڈ ، لاہور ، فون نمبر ۔ ۷۳۵۷۲۱۴ فہرست مضامین ز مقدمہ ز اقبال کے حضور، نشستیں اور گفتگوئیں ز استدراک ز ضمیمہ ز اشاریہ ئ…ئ…ئ…ء بلامقدمہ حضرت علامہ کے حضور راقم الحروف کی نشستوں اور گفتگوؤں کی یہ روداد، جو اساساً حضرت علامہ کے ارشادات اور طویل ایام علالت کی روزمرہ کیفیتوں کے بیان پر مشتمل ہے، بلا مقدمہ شائع ہورہی ہے اور ہونی چاہیے بھی۔ مقدمے کی نوبت تو جب ہی آئے گی جب اس روداد کی از اول تا آخر تکمیل ہوجائے ۔ یہ روداد نہایت طویل ہے اور ۱۹۱۸ء سے لے کر، جب راقم الحروف پہلے پہل حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا، ۱۹۳۸ء تک کہ ان کا سال وفات ہے، کم و بیش بیس برس کی مدت پر حاوی۔ اس دوران میں ابتدا، یعنی ۱۹۱۹ء کے پر آشوب ایام میں جب مارشل لا کا دور دورہ تھا اور پھر تحریک ترک موالات کے باعث جس سے سلسلۂ تعلیم درہم برہم ہورہا تھا یہ صورت ہی نہیں تھی، نہ ایسی کوئی تقریب کہ حضرت علامہ کے حضور باریابی کی درخواست کی جاتی، الا یہ کہ حضرت علامہ کسی جلسے میں تشریف لائے یا ایسا کوئی اور اتفاق ہوا تو ان کے ارشادات سے مستفید ہونے اور تھوڑی بہت گفتگو کا موقع بھی مل گیا۔ پھر جب ۱۹۲۰ء میں راقم الحروف نے لاہور سے علی گڑھ کا رخ کیا اور علی گڑھ سے ۱۹۲۵ء میں دہلی کا تو اس وقت سے ۱۹۳۶ء تک معمول یہ تھا کہ سال میں دو ایک مرتبہ کبھی نسبتاً طویل اور کبھی مختصر وقفوں کے بعد لاہور آتا، حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوتا، ان کے ارشادات سنتا اور باحتیاط محفوظ کرلیتا۔ ۱۹۳۶ء میں البتہ جب راقم الحروف بظاہر مستقلاً لاہور منتقل ہوگیا تو اسے یہ سعادت نصیب ہوئی کہ شب و روز حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر رہے اور ان کے یہاں نشستوں اور گفتگوؤں میں حصہ لے۔ بایں ہمہ ان اوراق میں جو اس وقت قارئین کے سامنے ہیں دو سوا دو برس کی اس قلیل مدت کے صرف ایک حصے کا ذکر ہے، تقریباً چار مہینوں کا، جنوری ۱۹۳۸ء سے لے کر اپریل ۱۹۳۸ء کے عشرۂ ثانی تک۔ یہ اس لیے کہ سال ہا سال کے ایاب و ذہاب، دشواریوں اور پریشانیوں کے بعد جب راقم الحروف ان یادداشتوں کو جو حضرت علامہ کے ارشادات، عوارض اور کیفیت مزاج کے بارے میں جمع ہورہی تھیں ترتیب دینے بیٹھا تو سہولت اسی میں نظرآئی کہ اس کی ابتدا ۱۹۳۸ء سے کرے۔ بات یہ ہے کہ ۱۹۳۹-۱۹۳۸ء میں، یعنی حضرت علامہ کی وفات کے کچھ دنوں بعد، راقم الحروف ان کو باقاعدگی سے قلم بند کررہا تھا، یہ سلسلہ جاری نہ رہا، بلکہ دفعتاً رُک گیا، کچھ بسبب تبدیلی حالات اور کچھ ان مجبوریوں کے باعث جو اسے پھر دہلی واپس لے گئیں۔ یوں بھی یہ کام خاصا دشوار اور فرصت طلب تھا۔ بہرحال مجھے کہنا یہ ہے کہ ۱۹۳۸-۱۹۳۹ء میں ان یادداشتوں کا صرف ایک معمولی سا حصہ مرتب ہوسکا، باقی سب بے ترتیب پڑی رہیں۔ سال ہا سال گزر گئے اور پھر جو اِن کی جمع و تدوین کا اہتمام کرنے لگا اور کاغذوں کے اس طومار سے جس میں یہ سب یادداشتیں لپٹی پڑی تھیں، ایک ایک پرزہ الگ کرتے ہوئے انھیں مختلف ادوار میں تقسیم کیا تو اس خیال سے کہ باعتبار مضامین چونکہ ان کی اشاعت میں قید زمانی، یعنی تقدم و تأخر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کس سنہ کی یادداشتوں کی پہلے تدوین ہونی چاہیے اور کس کی بعد میں، لہٰذا اس کی ابتدا کہیں سے بھی کی جائے مضائقہ نہیں یہی طے کیا کہ اول ۱۹۳۸ء کی یادداشتوں کو جو پہلے ہی سے مرتب پڑی ہیں ترتیب دے لیا جائے۔ زیر نظر مجموعہ گویا ۱۹۳۸ء کی یادداشتوں پر مشتمل ہے اور دو حصوں میں منقسم۔ ان کی ضخامت بھی کم و بیش یکساں ہے۔ جزو اول کی ابتدا یکم؍جنوری ۱۹۳۸ء سے ہوتی ہے اور اختتام ۲۱؍مارچ ۱۹۳۸ء پر۔ جزو دوم کی ۲۲؍مارچ سے تا ۲۱؍اپریل۔ لیکن جیسا کہ قارئین خود بھی محسوس کریں گے ان یادداشتوں کی ترتیب جس طرح ہوئی اس سے کئی ایک مباحث تشنہ رہ گئے۔ لہٰذا راقم الحروف مجبور ہوگیا کہ ان کے آخر میں ایک استدراک اور متعدد ضمیموں کا اضافہ کردے۔ جزو دوم میں بھی غالباً یہی صورت پیش آئے گی۔ یہ بہرحال ایک مجبوری تھی، جس کی تصریح راقم الحروف نے آگے چل کر نہایت واضح الفاظ میں کردی ہے۔ جزو دوم کے بارے میں یہ اشارہ ابھی سے کردیا گیا ہے تو اس لیے کہ جزو اول کی طرح جزو دوم کی ترتیب بھی مکمل ہوچکی ہے۔ پھر شروع شروع میں تو اگرچہ قیاس یہی تھا کہ ان دونوں اجزا کی اشاعت ایک ہی جلد میں ہوسکے گی، لیکن دوران طباعت میں جب ان کی بڑھتی ہوئی ضخامت کا احساس ہونے لگا تو مناسب یہی نظرآیا کہ اس مجموعے کی تقسیم دو حصوں میں کردی جائے۔ یہاں یہ عرض کردینا ضروری ہے کہ حضرت علامہ کے حضور راقم الحروف کی نشستوں اور گفتگوؤں کی اس روداد کی حیثیت دراصل ایک روزنامچے کی ہے جو کبھی باقاعدہ اور کبھی بے قاعدہ کئی کئی دنوں کے بعد لکھا گیا، لیکن اس التزام کے ساتھ کہ جیسے جیسے معمولاً راقم الحروف تنہا، یا احباب کے ساتھ حضرت علامہ کی خدمت میں صبح و شام حاضر ہوتا، جیسے جیسے حضرت علامہ اپنی کیفیت مزاج اور طبیعت کا حال بیان فرماتے، یا جیسے جیسے ان کے عوارض میں شدت یا تخفیف رونما ہوتی، لہٰذا ان کی تیمارداری اور خبرگیری کے پیش نظر ہمارا معمول بدلتا رہتا، ان سب باتوں کا لحاظ رکھ لیا جائے۔ ہمارا معمول تو یہی تھا کہ جیسے باہم طے ہوتا، یا جیسے حضرت علامہ خود ہی ارشاد فرماتے، جاوید منزل کا رخ کرتے، حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوتے، مزاج پوچھتے: رات طبیعت کیسی رہی، دن کیسے گزرا، عوارض کا کیا حال ہے، کوئی خاص بات تو نہیں؟ یوں کیفیت مزاج سے دوا، دوا سے غذا، غذا سے پرہیز اور پرہیز سے علاج معالجے کی گفتگو شروع ہوجاتی۔ کوئی موضوع زیر بحث آجاتا، یا حضرت علامہ خود ہی کوئی موضوع چھیڑ دیتے اور بات سے بات چل نکلتی۔ لہٰذا راقم الحروف کی کوشش ہر اعتبار سے یہ رہی کہ حضرت علامہ کے حضور ہماری نشستوں اور گفتگوئوں کی اس روداد میں میں قارئین کی توجہ حضرت علامہ ہی کی شخصیت پر رہے۔ شخصیت اور شخصیت کے ساتھ ساتھ بالخصوص اس حقیقت پر کہ یہ حضرت علامہ ہی تھے جنھوں نے باوجود اپنی شدید علالت کے اسلامیان ہند کے مستقبل کو اس راستے پر ڈال دیا جو اسلام کا اقتضا اور اس کے تصورات اجتماع و عمران کے عین مطابق تھا۔ انھوں نے غلط نہیں کیا تھا: پس از من شعر من خوانند و دریا بند و می گویند جہانے را دگر گوں کرد یک مردے خود آگاہے میرا خیال ہے قارئین شاید اس انداز ترتیب کو پسند کریں گے، اس لیے کہ یوں حضرت علامہ کے ارشادات اور گفتگوؤں کا پس منظر ان کے سامنے ہوگا۔ بات یہ ہے کہ حضرت علامہ کے ابتدائے مرض، بالخصوص ۱۹۳۶ء سے، ان کی عیادت اور تیمارداری کا فریضہ ایک طرح سے ہمارے ہی ذمے تھا۔ چودھری صاحب کا وقت زیادہ تر جاوید منزل میں گزرتا۔ قرشی صاحب بھی علی الصبح حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے، مزاج پوچھتے، نبض دیکھتے، اپنا اطمینان اور حضرت علامہ کی کیفیت مرض کا اندازہ کرتے ہوئے مطب واپس چلے جاتے۔ ضرورت ہوتی تو دن میں ایک آدھ بار پھر، ورنہ شام کو بالاالتزام تشریف لاتے۔ اس میں کوئی مصروفیت حارج ہوتی، نہ ہوسکتی تھی۔ راجا صاحب بھی معمولاً روز آتے۔ شاید ہی کبھی ناغہ ہوتا، الا یہ کہ دفتر کی مصروفیات انھیں لاہور سے باہر لے جائیں۔ م-ش تو ۱۹۳۸ء کے شروع ہی میں جاوید منزل اٹھ آئے تھے۔ بچوں کی دیکھ بھال کرتے۔ اور بھی کئی کام ان کے ذمے تھے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ بسبب محبت و عقیدت انھوں نے خود اپنے ذمے لے رکھے تھے۔ پھر حضرت علامہ کے احباب تھے، ان کے نیازمند اور ارادت کیش۔ وہ بھی اکثر پرسش مزاج کے لیے آتے۔ میں بھی صبح و شام اور بسااوقات دن میں کئی مرتبہ حاضر خدمت ہوتا۔ ہم سب دیر تک بیٹھتے۔ شام کے بعد تو باقاعدہ نشست رہتی۔ بارہ ایک بجے اُٹھنا معمول ہوگیا تھا۔ علی بخش، رحما اور دیوان علی بھی اپنے اپنے رنگ میں شریک صحبت ہوتے۔ گفتگوؤں کی صورت یہ تھی کہ ہم جاوید منزل پہنچتے تو کوشش ہوتی کہ اول علی بخش سے ملاقات ہوجائے اور اس دن بھر اور دن ہے تو رات بھر کا حال پوچھ لیں۔ پھر نشست گاہ سے ہوکر خواب گاہ کا رخ کرتے، آداب و تسلیمات بجا لاتے، خیریت مزاج دریافت کرتے: طبیعت کیسی ہے، نیند کیسی آئی، دن میں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی، کوئی خاص بات تو نہیں، کوئی ضرورت، کوئی ارشاد؟ یوں سلسلۂ گفتگو شروع ہوا اور سلسلۂ گفتگو شروع ہوا تو کوئی اَمر زیر بحث آگیا، مثلاً حضرت علامہ نے اپنی طبیعت کا حال بیان فرمایا، کسی دوا کے اچھے برے اثر کا ذکر کیا، ذہن علاج معالجے کی طرف منتقل ہوگیا۔ طب، طب بطور علم اور طب بطور فن کی طرف۔ اس کا ارتقا کیسے ہوا؟ ایک نظام کے مقابلے میں دوسرے کو کیا برتری حاصل ہے؟ مسلمانوں کی خدمات اور نظریات اس باب میں کیا ہیں؟ انھوں نے اسے کیسے اور کہاں تک نشوونما دیا؟ ان کے ذوق جمال اور تفنن طبع کا اظہار اس فن میں بھی ہوا۔ یوں علم و حکمت کے انقلابات، تہذیب و تمدن کی تبدیلیوں، قوموں کے تفاوت مزاج اور فکر و فرہنگ پر رائے زنی ہونے لگتی۔ یا دفعتاً کوئی اور بحث چھڑ گئی اور سلسلۂ کلام ہندوستان اور ہندوستان سے باہر مسلمانوں کی طرف پھرگیا، ان کی سیاست اور مستقبل کی طرف۔ حضرت علامہ فرماتے: ارباب قوم کا کیا حال ہے؟ ان کی سیاسی سوجھ بوجھ کیوں جاتی رہی؟ ان کا شعور ملی کیا ہوا؟ علماے دین کیا کررہے ہیں؟ حضرات صوفیہ کس عالم میں ہیں؟ اہل دانش و بینش کیا سوچتے ہیں؟ ہمارے نزاعات اور ہماری فرقہ آرائیاں کب ختم ہوں گی؟ ملک کس مرحلے سے گزر رہا ہے؟ بین الاقوامی دنیا کا کیا حال ہے؟ لڑائی کب ہوگی؟ حضرت علامہ ایک نہیں کئی استفسار فرماتے اور موقع ملتا تو ہم بھی کوئی استفسار کرتے، سلسلۂ گفتگو آگے بڑھاتے، مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ حضرت علامہ کے عوارض کی بدلتی ہوئی کیفیتوں کا خیال رکھیں تاکہ ایسا نہ ہو سلسلۂ کلام جاری رہے تو ان کے دل و دماغ کو گزند پہنچے۔ حضرات معالجین کی بالخصوص ہدایت تھی کہ حضرت علامہ بآرام لیٹے رہیں، حتیٰ الوسع کوئی بات نہ کریں، لیکن حضرت علامہ بآرام لیٹے رہتے تو کیسے؟ دمہ تھا اور دمہ بھی قلبی کہ احتباس صوت تو تھا ہی سانس پھولتا، بار بار اُٹھنا پڑتا، بار بار ضعف ہوتا۔ اس حالت میں کہ کسی پہلو چین نہیں تھا آرام سے لیٹے رہنا کیسے ممکن تھا، نہ یہ ممکن کہ ہم ان کے حضور تیماردار بنے خاموش بیٹھے رہیں۔ حضرت علامہ کو یہ اَمر بغایت ناگوار تھا، اس لیے کہ باوجود عوارض کی شدت اور طویل ایام علالت کے ان کا ذہن کبھی مضمحل نہیں ہوا۔ لہٰذا ان کا ذوق حیات، ان کا احساس خودی، ان کا علم و فضل، فکرو فرہنگ، احوال و تجربات انھیں کب اجازت دیتے کہ انسان اور عالم انسانی کا گزر جن راستوں سے ہورہا ہے، اقوام و امم کی زندگی اور تہذیب و تمدن کی دنیا میں جو تبدیلیاں رونما ہیں، سیاست و اجتماع اور اخلاق و معاشرت میں جو انقلاب برپا ہے، نئے نئے تصورات اور نئے نئے رجحانات جس طرح ابھر رہے ہیں، زمانے کی رو، تجربہ اور مشاہدہ ہمیں جس مستقبل کی طرف لیے جارہا ہے، اسلام اور عالم اسلام کو جو نئے نئے مسائل درپیش ہیں، جن نئے نئے تقاضوں اور نئی نئی مشکلوں کا سامنا ہے، بالخصوص ہماری محکومی اور مغلوبی اور جیسا کہ ان کا ارشاد تھا ضعف یقین اور زوال علم و عرفان، وہ یہ سب کچھ دیکھیں اور دیکھتے ہوئے اس باب میں کچھ نہ کہیں، خاموشی اختیار کرلیں۔ مسلمانوں کا ماضی ان کے سامنے تھا، حال ان کے آگے۔ لیکن ان کی حقیقت بین نگاہیں جب ماضی سے حال اور حال سے مستقبل کا رخ کرتیں تو ایسا معلوم ہوتا جیسے نفس انسانی کے جملہ احوال و شئون، حتیٰ کہ تاریخ عالم میں ان کا اظہار جس طرح ہوا، ہورہا ہے اور ہونے والا ہے، ان کی چشم بصیرت پر ایسے ہی روشن ہے جیسے روز مرہ کے واقعات۔ سب ایک ایک کرکے زیر بحث آتے۔ ایک ایک پر تبصرہ ہوتا، ایک ایک پر رائے زنی اور گفتگو کی جاتی۔ اندریں صورت یہ کہنا لاحاصل ہے کہ حضرت علامہ کے ارشادات کی دنیا وسیع تھی، اتنی وسیع کہ ہم ان کی خدمت میں حاضر ہیں۔ کوئی بات شروع ہوئی۔ کیسے اور کہاں سے؟ اُس سے غرض نہیں۔ غرض ہے تو اس سے کہ بات شروع ہوئی۔ ہم نے حضرت علامہ کا مزاج پوچھا، یا حضرت علامہ نے خود اپنی طبیعت کا حال بیان کیا، کوئی استفسار فرمایا، یا کسی اَمر کی طرف اشارہ ہوا اور بات ہے کہ معمولی سے معمولی مسائل، معمولی سے معمولی واقعات اور حوادث سے پھیلتے پھیلتے اسلام، عالم اسلام، تاریخ، تمدن، سیاست اور معیشت سب پر چھا گئی۔ انسان، کائنات، علم و عقل، فکر و وجدان، ادب اور فن سب اس کی زد میں ہیں۔ اس پر حضرت علامہ کا حسن بیان، صاف و سادہ اور دل نشیں الفاظ، فصاحت و بلاغت، برجستگی اور بیساختگی توجہ اور التفات، شفقت اور تواضع، خلوص اور درد مندی کہ جو ارشاد ہے دل میں اتر رہا ہے، جو بات ہے ذہن میں بیٹھ رہی ہے۔ پھر ان کا انکسار علم، شگفتگی اور زندہ دلی کہ ادعا ہے، نہ تعلی، نہ غرور، نہ تمکنت۔ متانت بھی ہے تو ظرافت کی چاشنی سے خالی نہیں۔ ادھر ہم ہیں کہ سراپا ادب، سراپا احترام، حضرت علامہ کے ارشادات سن رہے ہیں، بغیر کسی جھجک کے سوالات کررہے، سوالات کا جواب دے رہے ہیں۔ حقائق و معارف کی دنیا سامنے ہے، قلب و نظر کے حجاب اُٹھ رہے ہیں، دل و دماغ کا رنگ نکھر رہا ہے۔ اللہ اکبر! کیا بے تصنع گفتگوئیں اور کیا بے تکلف صحبتیں تھیں۔ کیا سرچشمۂ فیض اور کیا منبع سعادت تھا جس سے دیکھتے ہی دیکھتے محروم ہوگئے۔ کیا مبارک و مسعود ساعتیں اور کیا شب و روز تھے کہ ادھر آئے اور اُدھر گئے۔ خیر یہ تو فطرت کا قانون ازلی ہے۔ زمانے کی رو یونہی آگے بڑھتی اور بڑھتی رہے گی۔ مشیت ایزدی میں کسی کو دخل نہیں۔ افسوس ہے تو یہ کہ حضرت علامہ کے عوارض، حضرت علامہ کے ضعف و اضمحلال، اختلاج اور ضیق النفس کے دوروں کا تقاضا تھا احتیاط، ہر لحظہ احتیاط کہ گفتگو طول نہ کھینچے، سوالات نہ پوچھے جائیں۔ اگر کوئی بات کہیں رک گئی تو اگرچہ دل کو ذوق تفتیش ہے، جی چاہتا ہے بات آگے بڑھے، بحث و نظر کے گوشے صاف ہوجائیں، لیکن بات آگے نہیں بڑھتی، بات رک جاتی۔ یوں کئی موضوع تشنہ رہ گئے اور اب یہ حسرت کہ کاش اس ارشاد کی تشریح ہو جاتی، اس ارشاد کی نوعیت اور واضح شکل سامنے آجاتی۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ اللہ کو یونہی منظور تھا۔ البتہ ایک بات ہے اور اس کا عرض کردینا ضروری۔ یہ روزمرہ کی عیادت اور خبرگیری، یا دوا اور پرہیز اور علاج معالجے کا معاملہ تو ایک اَمر مجبوری تھا جس کا ذکر اور اہتمام رہتا تو جیسا کہ حضرت علامہ کا ارشاد تھا اس لیے کہ ان کی خودی کو نقصان نہ پہنچے۔ ان کا ذہن مرکوز تھا تو فی الحقیقت دو باتوں، اسلام اور مسلمانوں پر۔ اسلام عین حیات ہے۔ دنیا کو اسلام کی کس قدر ضرورت ہے، لہٰذا کس قدر ضرورت ہے اس کی دعوت، اس کے معنی و مقصود، تعلیمات و تشریعات کی عملاً ترجمانی، تشریح و توضیح کی۔ بغیر اس کے ناممکن ہے انسان اس شر اور فساد، شقاوت اور بدبختی سے نجات حاصل کرے جس میں اقوام ہوں یا افراد ہمارا قدم روز بروز آگے بڑھ رہا ہے۔ لیکن ہم اسلام سے کیسے بے خبر ہیں۔ اسلام پر آج سے نہیں صدیوں سے غیر اسلامی عقاید اور غیر اسلامی خیالات و عادات نے ایک پردہ سا ڈال رکھا ہے۔ رہے مسلمان، سو کون سا خطرہ ہے جو امم اسلامیہ کو درپیش نہیں۔ عالم اسلام دشمنوں کے نرغے، گرفت اور قبضے میں ہے۔ ہمارا وجود ملی ہر کہیں مجروح ہورہا اور ہوچکا ہے۔ اس پر صدیوں کا زوال و انحطاط، جمود اور تعطل، مغاوبی اور محکومی! ہمارے قوائے علم و عمل شل ہوچکے ہیں۔ نہ غیرت ہے، نہ حمیت، نہ عزائم اور مقاصد، نہ اس نصب العین کی جدوجہد جس کے لیے اُمت کی تشکیل ہوئی، نہ اس کا شعور، نہ نور باطن، نہ دیدۂ رہ بیں کہ مصاف زندگانی میں بامید و اعتماد آگے بڑھیں حالانکہ باوجود نفاق و شقاق، جہالت اور تعصب کے جس میں دنیائے اسلام مبتلا ہے ہم اس نور ہدایت کی کوئی نہ کوئی جھلک جو عبارت ہے توحید و رسالت سے، آج بھی کہیں نہ کہیں دیکھ لیتے ہیں۔ یہ اضطراب اور بے چینی تھی اور اُمت کے لیے شب و روز دلسوزی جس میں باوجود درد و کرب اور شدت عوارض کے حضرت علامہ رہ رہ کر اسلام اور مسلمانوں کا ذکر چھیڑتے، رہ رہ کر کسی خیال میں ڈوب جاتے، دفعتاً خاموشی اختیار کرلیتے، جیسے کوئی خاص کیفیت طاری ہے، بے قراری کے سے عالم میں اُٹھتے بیٹھتے، یا اللہ کا ورد کرتے، عشق رسول کی والہانہ کیفیتوں میں اشکبار رہتے۔ یہاں یہ کہنا تو مشکل ہے کہ راقم الحروف نے اس بیاض یادداشت کو جن الفاظ میں ترتیب دیا اس سے حضرت علامہ کے ایمان و یقیں، حضرت علامہ کے واردات و مشاہدات، حضرت علامہ کے نور بصیرت اور فکر و نظر کی تمام ترجمانی ہوگئی۔ راقم الحروف کا خیال ہے نہیں، اس لیے کہ بفحوائے: مرے گلو میں ہے اک نغمہ جبرئیل آشوب سنبھال کر جسے رکھا ہے لامکاں کے لیے یا جیسا کہ ان کا ارشاد تھا ’’نغمہ ام ز اندازۂ تار است بیش‘‘ اور شکایت کہ ’’معنی پہ ہے جامۂ حرف تنگ‘‘۔ راقم الحروف میں کہاں مقدرت کہ اس ذوق و شوق، اس سوز و ساز اور جذب و گداز کا اظہار اپنے محدود اور ناقص سے پیرایۂ بیان میں کرسکے جس نے حکمت اقبال کو شعر کے سانچے میں ڈھال دیا، حضرت علامہ نے فرمایا اور نہایت صحیح فرمایا: چو رخت خویش بربستم ازیں خاک ہمہ گفتند با ما آشنا بود ولیکن کس ندانست ایں مسافر چہ گفت و باکہ گفت و از کجا بود اور میں سمجھتا ہوں اس’کس ندانست‘ سے راقم الحروف کی ذات بھی مستثنیٰ نہیں۔ لہٰذا کیسے کہا جاسکتا ہے کہ حضرت علامہ کے ارشادات کا تعلق حقائق اور معانی کی جس دنیا سے ہے وہ ان اشارات میں تمام و کمال ہمارے سامنے ہے جن پر یہ ارشادات مشتمل ہیں اور جن کی حیثیت بوجوہ اشارات ہی کی رہی تاکہ ایسا نہ ہو راقم الحروف ان کی تعبیر اپنے رنگ میں کرنے لگے۔ میرا خیال ہے نہیں، یہ دوسری بات ہے کہ ایضاح مطلب کے لیے اسے جابجا حواشی کا اضافہ کرنا پڑا۔ حواشی کا اضافہ ناگزیر تھا، گو متن اور حواشی میں جس ربط اور توازن کی ضرورت ہے اس کا راقم الحروف نے ہر کہیں التزام رکھا۔ بالفاظ دیگر راقم الحروف کی کوشش تھی کہ حواشی کا تعلق خواہ نفس مضمون سے ہو، خواہ عبارت کے کسی حصے سے، قارئین کا ذہن بہر صورت متن ہی پر مرتکز رہے، حواشی کی طرف منتقل نہ ہونے پائے۔ لہٰذا ضروری تھا کہ حواشی مختصر ہوں اور ان سے مقصود محض کسی اَمر کی وضاحت، یا کسی حقیقت کی طرف اشارہ۔ بایں ہمہ راقم الحروف کے لیے یہ اَمر کہ حواشی کو طول دے تو کہاں تک اور مختصر رکھے تو کہاں تک خاصی پریشانی کا باعث رہا، گو آخر کار یہی طے کرنا پڑا کہ اختصار کلام طوالت کلام سے بہرحال بہتر ہے البتہ اب خلش ہے تو یہ کہ اس احتیاط اور اختصار پسندی نے جو اپنی جگہ پر ضروری تھی کہیں کہیں حرف مطلب خبط اور عبارت میں بھی بے ربطی اور الجھاؤ پیدا کردیا ہے۔ یہ بلاشبہ ایک بہت بڑا نقص اور خامی ہے جس کا راقم الحروف کو بخوبی احساس ہے، لیکن جس کی تلافی اب اس مجموعے کی ترتیب و طبع ثانی ہی میں، جب کبھی اس کی نوبت آئی، ہوسکے گی۔ دراصل راقم الحروف کو باوجودیہ کہ حضرت علامہ کے ارشادات اور ان کے حضور اپنی آمد و رفت کی یادداشتیں بڑی پابندی سے محفوظ کرتا رہا ان کی اشاعت میں تأمل تھا۔ اس کا خیال تھا کہ جس چیز کی حیثیت محض نجی ہے اسے منظر عام پر کیوں لایا جائے۔ وہ خود تو اس سے استفادہ کرسکتا ہے، لیکن بہت ممکن ہے دوسروں کو اس سے دل چسپی نہ ہو، نہ ان کے لیے اس میں کوئی خاص بات۔ یہ خیال تھا جو دیر تک راقم الحروف کے دل میں جاگزیں رہا۔ بایں ہمہ حضرت علامہ کے ارادت مندوں اور احباب کا اصرار تھا کہ اگر کسی کو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ حضرت علامہ کی خدمت میں باریاب ہو، ان کے حضور نشستوں اور گفتگوؤں میں حصہ لے، ان کے ارشادات سنے، احوال و کیفیات پر نظر رکھے، تو کیوں نہ ان صحبتوں اور پرلطف ساعتوں میں وہ دوسروں کو بھی اپنا شریک کرلے، گو روحانی طور پر ہی سہی۔ پھر جب ۱۹۳۸ء میں راقم الحروف کا ایک اچھا خاصا طویل مضمون اقبال کی آخری علالت کے عنوان سے انجمن ترقی اُردو (ہند) کے سہ ماہی مجلہ اُردو کے ایک خاص شمارے ’’اقبال نمبر‘‘ میں شائع ہوا تو ان کا یہ اصرار اور بھی بڑھ گیا اور راقم الحروف کو بھی ان کی اس خواہش کا دل سے احترام رہا، کیونکہ اس کا سرچشمہ تھا از روے عقیدت حضرت علامہ سے ان کا تعلق خاطر، لہٰذا قدرتی تقاضا کہ اگر زندگی میں ایسا نہیں ہوا کہ انھیں بھی حضرت علامہ کی خدمت میں باریابی کا موقع ملتا تو اپنے خیالات اور وجدان ہی کی دنیا میں ان سے اس طرح قریب ہوجائیں جیسے وہ اب بھی ہم میں موجود ہیں۔ لیکن کچھ راقم الحروف کی مجبوریاں، اور کچھ حالات کی نامساعدت، وقت گزرتا رہا حتیٰ کہ احباب کے پیہم اصرار اور بالآخر ممتاز حسن صاحب کے مخلصانہ تقاضوں سے کہ ’’اقبال اکیڈیمی‘‘ کا وجود ان کی مسلسل کوششوں، شبانہ روز محنت اور توجہ کا رہین منت ہے مجبور ہوگیا کہ قلم ہاتھ میں لے اور اس فریضے کو جو مدت سے ٹل رہا تھا جلد سے جلد سرانجام دے ڈالے۔ البتہ دکھ ہے تو یہ کہ اس کے بعض احباب، بالخصوص وہ رفیق و شقیق جو اس کا دست و بازو اور سہارا تھا۔ اعلیٰ ہٰذا حضرت علامہ کے بعصر ارادات کیش جو بتا کید کہا کرتے تھے کہ اس کام کی تکمیل جلد سے جلد ہوجانی چاہیے، زندگی کا کوئی اعتبار نہیں، خود ہی زندگی کو خیر باد کَہ گئے۔ یہ احساس بڑا تکلیف دہ ہے اور راقم الحروف کو دلی رنج کہ ان اوراق کی تسوید و تبییض اور طباعت میں اگر یہ مجبوری حالات رکاوٹ پیدا نہ ہوتی تو ان سطور کے لکھنے کی جو گویا مجبوراً لکھنا پڑیں نوبت ہی نہیں آتی۔ لہٰذا اب جو یہ مجموعہ شائع ہورہا ہے تو ذہن بے اختیار ماضی کی طرف پلٹ گیا اور دل اپنی محرومی اور بدنصیبی پر افسوس کیے بغیر نہ رہا۔ ممتاز حسن صاحب سے بھی معذرت خواہ ہوں کہ انھیں اس کے لیے سال ہا سال انتظار کرنا پڑا۔ بایں ہمہ انھوں نے اس اَمر کو ہمیشہ نظرانداز کیا۔ میں ان کا ممنون اور سپاس گزار ہوں۔ تیس بتیس برس گزر گئے۔ چشم فلک نے ایک نہیں، کئی انقلاب دیکھے۔ دنیا بدلی، انسان بدل گئے۔ زمانے نے کروٹ لی۔ ایک دور ختم ہوا، دوسرے نے قدم رکھا۔ لیکن ان دنوں کی یاد جب راقم الحروف کبھی تنہا، لیکن اکثر و بیشتر احباب کے ساتھ حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوتا ویسے ہی تازہ ہے جیسے کل کی بات۔ اب بھی جب کبھی میرا گزر شارع علامہ اقبال (اس وقت میوروڈ) اور شارع عبدالحمید ابن بادیس (اس وقت ایمپرس روڈ) یا اس سڑک سے ہوتا ہے جو صدر دفتر ریلوے کے ایک پہلو میں شرقاً غرباً اس وقت کی میو اور ایمپرس سڑکوں کو باہم ملاتی ہوئی جاوید منزل کے بالمقابل ختم ہوجاتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میرے قدم اب بھی جاوید منزل کی طرف اُٹھ رہے ہیں، جیسے قرشی صاحب شاید راستے میں مل جائیں اور ہوسکتا ہے چودھری صاحب بھی، جیسے راجا صاحب آتے ہی ہوں گے، علی بخش منتظر ہوگا، اس سے صحن یا برآمدے ہی میں ملاقات ہوجائے گی، خدا کرے حضرت علامہ کی طبیعت اچھی ہو۔ یوں دفعتاً حال ماضی کا جامہ اوڑھ لیتا ہے۔ پرانی صورتیں آنکھوں میں پھرجاتی ہیں۔ میں ایک لحظہ کے لیے رک جاتا اور پھر ایام گزشتہ کی یاد ساتھ لیے آگے بڑھ جاتا ہوں۔ بعینہٖ جب کبھی جاوید منزل جانا ہوتا ہے اور اس کمرے میں بیٹھتا ہوں جو کبھی حضرت علامہ کی نشست گاہ اور اب ڈاکٹر جاوید اقبال کا دفتر ہے، لیکن جس میں حضرت علامہ شاذ ہی تشریف فرما ہوتے، الا یہ کہ تکلفاً کسی ضرورت کی بنا پر، یا پھر احیاناً ۱۹۳۵-۱۹۳۶ء میں جب ایسا معلوم ہوتا تھا ان کی صحت ترقی کررہی ہے تو آنکھیں بے اختیار اس دروازے کی طرف اُٹھ جاتی ہیں جس سے ہوکر ہم اس کمرے میں جو حضرت علامہ کی خواب گاہ تھا ان کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ میں اس دروازے کو دیکھتا ہوں۔ نگاہیں بظاہر دروازے پر ہیں، لیکن حقیقتاً ایام گزشتہ پر کہ ایک ایک کرکے آنکھوں میں پھر رہے ہیں۔ یہ کمرہ یہ خواب گاہ، گذری ہوئی صحبتیں، نشستیں اور گفتگوئیں! حضرت علامہ صاحب فراش ہیں، لیکن ذہن بیدار، طبیعت شگفتہ۔ وہی پلنگ ہے اور وہی اس کے پاس رکھی ہوئی تپائی، وہی سرہانے کی الماری، مگر کتابوں سے خالی کہ اسلامیہ کالج کی نذر کردی گئیں، وہی حقہ اور شاید دو ایک کرسیاں۔ جاوید منزل کی سادگی البتہ تکلف سے بدل چکی ہے، گو اس کی ہیئت میں کچھ زیادہ فرق نہیں آیا۔ صحن کے مغربی گوشے میں سڑک کے ساتھ جو مختصر سی چاردیواری کسی زمانے کی ٹوٹی پھوٹی مسجد کی یادگار تھی اور جسے حضرت علامہ نے بمشکل بلدیہ کی اجازت سے محفوظ کرلیا تھا اب ایک چھوٹی سی حسین و جمیل مسجد میں تبدیل ہوچکی ہے۔ نیچے کی منزل میں دکانیں ہیں۔ مسجد بالائی منزل میں ہے جس کی خوش نما محرابیں اور ایک گوشے سے نکلتا ہوا چوکور مگر بڑا متوازن اور خوبصورت مینار ڈاکٹر جاوید اقبال کے ذوق جمال کی داد دے رہا ہے۔ جاوید منزل کی رونق بدستور قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ قائم رکھے۔ استدراک کے ساتھ چند ایک ضمیموں کا اضافہ بھی کردیا گیا ہے اور یہ ایک طرح سے ضروری تھا۔ اشاریے کی شمولیت تکلّفاً نہیں بلکہ اس لیے کی گئی ہے کہ حضرت علامہ نے جن حقائق، یا مباحث اور مسائل کی طرف جستہ جستہ اشارات کیے ہیں انھیں یک جا کرنے میں آسانی ہو۔ مسودے اور اشاریے کی ترتیب اور تیاری محبی سید امجد الطاف کے ہاتھوں سے ہوئی۔ میں ان کا ممنون ہوں اور محبی بشیر احمد ڈار، ڈائریکٹر اقبال اکیڈمی کا بھی جن کی بدولت اس سلسلے میں کئی ایک سہولتیں میسر آئیں۔ مشفق مکرم ڈاکٹر فرخ ملک کا شکریہ بالخصوص واجب ہے، ان کی توجہ شامل حال نہ ہوتی تو ان اوراق کی تکمیل ناممکن تھی۔ سید نذیر نیازی ۱۹۳۸ء شنبہ: یکم؍جنوری دوپہر کے قریب حاضر ہوا۔ حضرت علامہ ہلکے گلابی سے رنگ کی شال اوڑھے، تکیوں کا سہارا لیے، ملازم خانے سے باہر دھوپ میں استراحت فرما رہے تھے۔ پاس ہی علی بخش تخت پر بیٹھا چائے بنا رہا تھا۔ میں نے سلام عرض کیا اور خیریت مزاج پوچھی تو حسبِ معمول فرمایا ’’الحمدللّٰہ اچھا ہوں‘‘۔ اتنے میں علی بخش کرسی اُٹھا لایا اور میں با اَدب اس پر بیٹھ گیا۔ ارشاد ہوا ’’آج کیا خبر ہے؟‘‘ میں نے کہا، خبر تو کوئی نہیں۔ اس لیے کہ حضرت علامہ کو خبروں سے دلچسپی تھی تو صرف اس حد تک کہ جنگ کب ہوتی ہے، یا پھر انھیں جستجو رہتی تو اس اَمر کی کہ ’’لیگ‘‘ کی مساعی اتحاد کہاں تک کامیاب ہوئیں؛ مسلمانوں کے مستقبل کا دارومدار جس متحدہ محاذ کے قیام پر ہے ’یونینسٹ پارٹی‘ اور اس قماش کی دوسری جماعتیں اس میں کیا رکاوٹ ڈال رہی ہیں؛ ہمارے مذہبی اور نیم مذہبی فرقوں کی روش اس باب میں کیا ہے۔ شاید کچھ ایسے ہی خیالات تھے جن کے زیر اثر انھوں نے قدرے تامل کے بعد فرمایا ’’یہ کس نے کہا تھا جماعتِ احمدیہ میں ہر کوئی شامل ہوسکتا ہے خواہ اس کے عقاید کچھ بھی ہوں، شرط صرف یہ ہے کہ خلیفہ صاحب کی بیعت کرلی جائے؟‘‘ بظاہر یہ استفسار بڑا غیر متوقع تھا لیکن مجھے اس پر مطلق تعجب نہیں ہوا۔ اس لیے کہ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ اس جماعت کی سیاسی اور مذہبی روش زیربحث تھی۔ سوال یہ تھا کہ احمدیوں کے مخصوص عقاید مسلمانوں کے اتحاد اور یک جہتی کی راہ میں کہاں تک حائل ہیں۔ حضرت علامہ مسلمانوں کو متحد دیکھنا چاہتے تھے اور مسلمانوں کے اتحاد کی کوئی صورت تھی تو یہ کہ ان کا شعور ملی اور احساس جماعت مضبوط ہو۔ یونہی ان کا روز افزوں انتشار ور ضعف و اضمحلال دور ہوسکتا تھا اور یونہی آزادی کی اس جدوجہد میں جس سے ان کا الگ رہنا ناممکن تھا وہ کسی مرکزپر جمع ہوکر کوئی مؤثر قدم اُٹھا سکتے تھے۔ لیکن دو خطرے تھے جماعتِ احمدیہ کا اس سلسلے میں سدباب ضروری تھا۔ ایک بیرونی، یعنی لادین سیاست کا وہ ریلا جو مغربی تہذیب کے استیلا، اثر اور نفوذ کی بدولت بڑی تیزی سے بڑھتا چلا آرہا تھا اور جس کی روک تھام نہ کی جاتی تو ڈر تھا کہ آزادی، اتحاد، وطنیت اور قومیت کے بظاہر بلند بانگ مگر بباطن بے روح تصورات کا فریب انھیں اپنے اس موقف سے کہ اسلام بجاے خود ایک مدار سیاست ہے منحرف نہ کردے۔ دوسرا اندرونی اور وہ مسلمانوں کی ذہنی خلفشار کہ صدیوں کے استبداد، پادشاہ گردی اور فرقہ آرائی نے انھیں یہ سمجھنے کا موقعہ ہی نہیں دیا کہ اسلام عبارت ہے جس نظام اجتماع و عمران سے اس میں ہماری اطاعت کا محور کیا ہے۔ یہ صورتِ حالات تھی جس کا حضرت علامہ کو خیال آتا تو ان کا ذہن طبعاً جماعتِ احمدیہ کی طرف منتقل ہوجاتا۔ اس لیے کہ جماعتِ احمدیہ اگرچہ اُصولاً سوادِاعظم سے کٹ چکی تھی، بلکہ سوادِ اعظم کو سوادِ اعظم ہی نہیں مانتی تھی، لیکن مصلحتاً اس سے تعلق اور وابستگی پر بھی مصر تھی۔ بالخصوص اس وقت سے جب یہ صاف نظر آرہا تھا کہ ہندی اسلامی سیاست کا گزر جس مرحلے سے ہورہا ہے اور اس سے لازماً جو تبدیلیاں مترتب ہوں گی وہ بہت ممکن ہے اس جماعت کی علیحدگی پسند روش میں کچھ مشکلات پیدا کردیں۔ اسے گویا اُمت سے لاگ بھی تھا اور لگاؤ بھی۔ ایک طرف اس کی کوشش تھی کہ سوادِ اعظم سے باہر اپنا الگ تھلگ وجود قائم رکھے، دوسری جانب یہ اصرار کہ مسلمان اسے اُمت کا جز تسلیم کرلیں اور وہ بھی اس بنا پر کہ ان کے باہمی اختلافات کچھ بھی ہوں غیر مسلم تو بہرحال انھیں مسلمان ہی سمجھتے ہیں۔ بالفاظِ دیگر اس جماعت کا کہنا یہ تھا کہ ہم مسلمان ہیں تو اس لیے کہ ہندو اور عیسائی ہمیں مسلمان کہتے ہیں، کہ ہم ان معنوں میں مسلمان ہیں جن معنوں میں ہر مسلمان کا مسلمان ہونا اور دوسرے مسلمانوں کو مسلمان کہنا فرض ہے۔ لہٰذا جماعتِ احمدیہ کا خیال تھا کہ اور نہیں تو مشارکت اسمی ہی کی بنا پر وہ مسلمانوں سے متحد ہوسکتی ہے۔ حالانکہ یہ اتحاد کی کوئی مثبت اساس نہیں تھی، بلکہ از روے مصلحت اور موقعہ شناسی مفاہمت کی ایک وقتی اور بہ اعتبار نوعیت سلبی تجویز تاکہ اگر ہندو اور برطانوی سیاست دان اسے مسلمانوں ہی میں شامل سمجھتے رہیں تو اس خیالی یا حقیقی خطرے کا ازالہ ہوسکے جو اندریں صورت اسے درپیش تھا۔ لیکن مسلمانوں کے لیے تو اس قسم کا سطحی اور بے روح اتحاد ناقابلِ قبول تھا۔ وہ سمجھتے تھے- اور بجاطور پر- کہ مسلمانوں کا اتحاد اُمت کا اتحاد ہے، یعنی ان کی اس وحدت کا اعتراف جس کا تقاضا ہے کہ فرقوں کا آزادانہ وجود ختم ہوجائے، یہ نہیں کہ ’’اُمت در اُمت‘‘ کے عذر میں وہ ایک دوسرے سے سودے بازی کرنے لگیں، جیسا کہ سیاسی جماعتوں کا قاعدہ ہے کہ جیسا کہ جماعتِ احمدیہ اعلان کرچکی تھی کہ اس کو ’’لیگ‘‘ اور ’’کانگریس‘‘ دونوں سے الگ الگ گفت و شنید میں تامل نہ ہوگا۔ بہرحال میں نے حضرت علامہ کے استفسار پر عرض کیا کہ یہ بات میں نے بھی سنی تھی، بلکہ شاید مجھ ہی سے آپ تک پہنچی ہو۔ معلوم نہیں اُصولاً جماعت کا فیصلہ اس باب میں کیا ہے لیکن ایک مرتبہ مجھے بھی اس قسم کی دعوت دی گئی تھی، بلکہ اس سلسلے میں میرافضل علی مرحوم۱؎ کی مثال بھی پیش کی جاتی ہے۔ میر صاحب مرحوم نے بھی شروع شروع میں اسی شرط پر بیعت کی تھی کہ جماعت کو اُن کے عقاید سے کوئی تعرض نہیں ہوگا۔ چنانچہ وہ اپنے عقاید پر قائم رہے اور جماعت میں بھی شامل ہوگئے۔ ’’لیکن اس قسم کی مشروط بیعت، یعنی آزادیِ عقاید کے باوجود جماعت میں شمولیت کی حکمت سمجھ میں نہیں آتی۔ آخر ایسا کیا جائے تو کس لیے؟‘‘ ’’اس لیے کہ اسلام کی خدمت میں ہم جماعت کا ہاتھ بٹائیں۔‘‘ ’’وہ کیسے؟‘‘ ’’یوں کہ جماعتِ احمدیہ نے تبلیغ اسلام کا جو نظام کررکھا ہے اسے تو سب جانتے ہیں۔ پھر چونکہ تبلیغ اسلام ہی اسلام کی سب سے بڑی خدمت ہے، لہٰذا کیوں نہ ہم اپنے عقاید پر قائم رہیں اور جماعت میں بھی شامل ہوجائیں؛ اس میں کیا مضائقہ ہے؟‘‘ اس پر اسلام اور خدمت اسلام کا مسئلہ زیر بحث آگیا۔ اول سوال پیدا ہوا کہ جب مقصد اسلام کی خدمت ہے اور اس لیے ہر مسلمان باجود اختلاف عقاید جماعتِ احمدیہ میں شامل ہوسکتا ہے تو قطعِ نظر اس سے کہ جماعتِ احمدیہ کے عقاید کیا ہیں وہ اس مقصد کے پیشِ نظر خود ہی مسلمانوں میں شامل کیوں نہیں ہوجاتی؟ کیوں نہ وہ ترکِ موالات کی اس روش کو ترک کردے جو مذہب ہو یا سیاست، یا معاشرت، غرضیکہ ہر مار میں اس نے مسلمانوں کے خلاف اختیار کررکھی ہے؟ خدمت اسلام کی منطق کا تو بہرحال یہی تقاضا ہے کہ جماعتِ احمدیہ بھی اس نظام ملی کو قبول کرلے جو وحدت اُمت کا ضامن ہے، لیکن جو اسے قبول نہیں اور ہے تو اپنی شرط پر۔ شرط یہ ہے کہ جب اُمت کا وجود جماعتِ احمدیہ سے مختص ہے تو اُمت کو چاہیے اپنا وجود اس میں ضم کردے؛ یہ نہیں کہ جماعتِ احمدیہ اُمت میں شامل ہوجائے۔ یہ موقف ہے جو اس نے رسالت اور ختم رسالت کے ایک ایسے تصور کی بنا پر جس سے بظاہر رسالت اور ختم رسالت کی شان میں اضافہ ہوتا ہے قائم کیا ہے لیکن جس سے نہ صرف جماعت سے باہر اُمت کا وجود کالعدم ہوجاتا ہے، بلکہ غور سے دیکھا جائے تو اس کے سلسلۂ تعبیر و تاویل کی انتہا ہر لحاظ سے سوئے ادب پر ہوتی ہے اور یہ وہ بات ہے جو حضرت علامہ کے لیے بغایت ناگوار، بلکہ ناقابلِ برداشت تھی۔ رہی خدمت اسلام کے پیشِ نظر جماعت میں مشروط شمولیت سو اس سلسلے میں ایک دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مشروط شمولیت کو ایک طرح کی آزمایشی شمولیت ہی سے تعبیر کرنا پڑے گا۔ اس لیے کہ انجام کار اس کا نتیجہ ہوگا احمدیت کا تمام و کمال اقرار، یا تمام و کمال انکار، گو انکار کے مواقع کم ہیں۔ انسان جس حلقے میں شریک ہوتا اور اُٹھتا بیٹھتا ہے آخر الامر اسی میں ضم ہوجاتا ہے۔ مثل مشہور ہے صحبت کا اثر؛ اور صحبت کا اثر بڑی چیز ہے۔۲؎ یوں بھی اثر آفرینی اور اثر پذیری انسانی طبیعت کا خاصہ ہے۔ لہٰذا یہ مشروط شمولیت جس کی اگر فی الواقعہ دعوت دی جاتی ہے خدمت اسلام کی دعوت نہیں ہے، بلکہ جماعت کے حلقے کو وسیع کرنے کی ایک تدبیر جس سے تبلیغی نظامات بالعموم فائدہ اُٹھاتے ہیں، حتیٰ کہ بعض تو اس معاملے میں عقاید کا نام تک نہیں لیتے، صرف میل جول اور اختلاط اور ارتباط پر اکتفا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان اثرت ہی کو لیجیے جو بسبب محکومی و مغلوبی مسلمانوں نے غیروں کی صحبت میں قبول کیے اور یوں رفتہ رفتہ ان راستوں پر گامزن ہوگئے جو، خیالات ہوں یا عادات، انھیں اسلام سے دور لیے جارہے ہیں۔ اثر پذیری اور اثر افرینی کا یہی عمل ہے جس سے مذاہب پھیلتے اور قومیں ایک دوسری پر غلبہ حاصل کرتی ہیں، یا ایک تہذیب دوسری تہذیب پر چھاجاتی ہے۔ چنانچہ اس قسم کے مخالف اور موافق اثرت جو افراد کی زندگی میں اندر ہی اندر اور چپ چاپ کام کرتے رہے بآسانی تلاش کیا جاسکتا ہے۔ خواہ یہ تہذیب و تمدن کا عروج و زوال ہو یا سیاست اور معاشرت کی تبدیلیاں، تاریخ کے صفحات اس قسم کے مظاہر سے بھرے پڑے ہیں۔ حضرت علامہ چائے پی چکے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد دوا بھی کھائی، حقے کے دو ایک کش لیے اور پھر بسبب تنفس کچھ سستا کر گفتگو کا آغاز فرمایا۔ تو اب سوال یہ تھا کہ یہ اسلام اور خدمت اسلام کا معاملہ جس پر جماعتِ احمدیہ اس قدر زور دیتی ہے فی الحقیقت ہے کیا۔ اسلام کی خدمت کیا صرف تبلیغ اسلام تک محدود ہے اور اسلام کا مطالبہ بھی بجز اس کے کچھ نہیں کہ اسے پورا کردیا گیا تو گویا وہ سب ذمہ داریاں پوری ہوگئیں جو بلحاظ ایک اُمت ہم پر عائد ہوتی ہیں؟ لہٰذا دریافت طلب اَمر یہ ہے کہ تبلیغ اسلام سے مقصود کیا صرف عقاید کی تبلیغ ہے یا اس طرز زندگی کی تبلیغ جس کی اسلام نے نوعِ انسان کو دعوت دی اور اُمت محمدیہ خیر امۃ قرار پائی۔ لیکن جس کے لیے فرد اور جماعت دونوں کا ایک مخصوص اور مسلسل جدوجہد سے گزر کرنا ضروری ہے۔ ظاہر ہے کہ اس جدوجہد کی حیثیت انفرادی نہیں ہوگی، بلکہ سیاسی اجتماعی تاکہ ہم ایک دوسرے سے اپنے روابط، سیرت، کردار اور معاملات کی دنیا میں وہ تبدیلی پیدا کریں جس کا اسلام خواہش مند ہے اور جس کے پیشِ نظر اس میں ریاست کا وجود لازم ٹھہرا۔ لہٰذا اگر تبلیغ اسلام سے مدعا ہے بلحاظ ایک دستور حیات اسلام کی تبلیغ تو اس کا بیڑا وہی جماعت اُٹھا سکتی ہے جو خود بھی اس پر عمل پیرا ہو، ورنہ ناممکن ہے اس میں کوئی معنی پیدا ہوں۔ لیکن جماعتِ احمدیہ کا تو یہ نقطۂ نظر ہی نہیں۔ سیاست اس کے نزدیک ایک شجر ممنوعہ ہے اور حکومت کی وفاداری خواہ کوئی بھی ہو… ایمان کا جزو اعظم۔ اس نے کبھی سوچا ہی نہیں، نہ بسبب اپنے عقاید کے سوچ سکتی ہے، کہ تاریخ کا مخفی ہاتھ ہم انسانوں کو زندگی کے کس مرحلے پر لے آیا ہے۔ وہ کیا مسائل ہیں جو افراد و اقوام کو درپیش ہیں اور جن پر ازروے اسلام اخلاقی اور اجتماعی ہر پہلو سے توجہ کرنا ضروری ہے۔ اسے یہ احساس ہی نہیں کہ فکر و عمل کی وہ کیا غلطیاں اور کوتاہیاں ہیں کہ بجاے کسی محکم اور منصفانہ نظام مدنیت کے معاشرے میں ہر کہیں غصب و تغلب، رقابت اور عداوت کا دور دورہ ہے؛ نہ افراد اس سے مستثنیٰ ہیں نہ قومیں۔ برعکس اس کے فساد و ہلاکت اور عصیان و طغیان کا ایک ریلا ہے جس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ جماعتِ احمدیہ حقائق سے بے خبر اپنے مخصوص عقاید کی چار دیواری میں بند ہے۔ اسے یہ اندازہ ہی نہیں کہ زندگی کی اس جدوجہد میں جس کا سلسلہ ابتدا سے جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گا ہمیں اس کے گونا گوں تقاضوں، اس کے مسلسل تغیرات اور مرتبہ بمرتبہ ارتقا میں کس نہج پر قدم اُٹھانا چاہیے۔ نہ یہ معلوم کہ اسلام نے اس جدوجہد کا رُخ جس طرح متعین کیا اگر اس میں اسلام ہی کی رہنمائی قبول کرلی جائے تو ہمیں اپنے فکر اور عمل کا رُخ کس طرف موڑنا ہوگا، نہ اس حقیقت کا ادراک کہ جب اس پہلو سے اسلام کو ایک دین اور مسلمانوں کو ایک اُمت ٹھہرایا جاتا ہے تو ان کے فرائض اور ذمہ داریاں کیا ہوں گی۔ رہا تبلیغ عقاید کا معاملہ، یعنی بطور ایک اخلاقی مذہبی نظام کے اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت، سو یہ اَمر خالی از فائدہ نہیں۔ لیکن یوں اسلام اور عالمِ اسلام کا مسئلہ تو حل نہیں ہوتا۔ چنانچہ یہ مسئلہ بدستور لاینحل ہے جیسا کہ اس وقت تھا جب احمدیت کا ظہور ہوا اور جیسا کہ اب ہے کہ اس کی تبلیغی کوششوں کا سلسلہ بقول اس کے دنیا بھر میں پھیل چکا ہے۔ دراصل اس قسم کی تحریکوں سے مسلمانوں کی طاقت میں تو کوئی اضافہ نہیں ہوتا البتہ ان جماعتوں کو ضرور تقویت پہنچتی ہے جو ان تحریکوں کو لے کر اُٹھتی ہیں۔ یوں بھی جب بسبب زوال یا مغلوبی و محکومی قوموں کی حیاتِ اجتماعیہ مفلوج ہوجاتی ہے تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اور نہیں تو اُصولاً ہی دوسروں پر اپنی برتری کا سکہ بٹھائیں اور انھیں اپنا ہمنوا بناکر شکست کو فتح سے بدل دیں۔ لیکن یہ کسی قوم کے طرز زندگی کے احیا اور نشاۃ الثانیہ کا کوئی مؤثر ذریعہ نہیں ہے، نہ کبھی تھا۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس سے تسکین ذات کا ایک پہلو ضرور نکل آتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں ہم اپنا فریضہ ملی ادا کرچکے اور زندگی کی جدوجہد میں کامیاب ہوگئے، حالانکہ زندگی کے مسائل یوں حل نہیں ہوتے۔ وہ حل ہوں گے تو مصاف حیات میں مردانہ وار قدم رکھتے ہوئے۔ مصاف حیات سے گریز حقائق سے گریز ہے، فرار اور تعطل، بلکہ ایک طرح کی خود فریبی کہ جیسے بھی حالات ہوں ہم ان پر قانع اور رضامند رہیں۔ میں نے عرض کیا، شائد اسی لیے جماعتِ احمدیہ، بالخصوص اس کی لاہوری شاخ کو آپ کی ان نظموں پر اعتراض ہے جو آپ نے اس کی تبلیغی کوششوں کے بارے میں لکھی ہیں۔ حالانکہ ’’ووکنگ مشن‘‘ قائم ہوا تو قطعِ نظر اختلاف عقاید کے اس کی مالی امداد میں مسلمانوں نے دل کھول کر حصہ لیا۳؎ اور جس کی ایک وجہ ممکن ہے یہ بھی ہو کہ یاس و بے دلی کی اس فضا میں جو بسبب زوال و انحطاط عالمِ اسلام پر طاری تھی مسلمانوں کو اپنے حفظ و استحکام کی کوششوں میں ایک راہ عمل یہ بھی نظرآئی کہ اگر اہلِ یورپ نے اسلام قبول کرلیا تو ہماری شکست فتح مندی سے بدل جائے گی۔ لیکن آپ کا مقصد تو اس حقیقت کا شعور پیدا کرنا تھا کہ اگر ہم نے سمجھ لیا ہے کہ اسلام کی خالصتاً انسانی اور عالمگیر دعوت کا مطالبہ فرد اور جماعت سے کیا ہے تو پھر ہمارے لیے کوئی اور ہی جدوجہد ناگزیر ہے۔ اس کی نوعیت تبلیغی ہی نہیں ہوگی، بلکہ عملی، یعنی اجتماعی بھی۔۴؎ گفتگو پھر میر صاحب کی بیعت پر آگئی۔ ارشاد ہوا ’’میر صاحب کی یہ بیعت کب اور کیسے ہوئی؟‘‘ میں نے عرض کیا، یہ شاید ۱۹۱۵ء کا اختتام تھا یا ۱۹۱۶ء کا آغاز جب میر صاحب اپنے بعض احباب کے ہمراہ قادیان تشریف لائے۔ عقیدۃ تو اس وقت وہ اثنا عشری تھے مگر احمدیت سے بھی دلچسپی تھی۔ وہ قادیان آئے تو چند سوالات بھی اپنے ساتھ لائے جو شائد انھوں نے وہیں بیٹھ کر ترتیب دیے اور جن کا دوسرے یا تیسرے ہی دن ایک پمفلٹ کی شکل میں جواب بھی دے دیا گیا۔ عنوان تھا ایک اثنا عشری کے چند سوالات کا جواب۔ یہ میری طالب علمی کا زمانہ تھا اور پہلا موقعہ جب میں نے میر صاحب مرحوم کو دیکھا۔ والد ماجد سے میر صاحب کے دیرینہ تعلقات تھے۔ وہ ان سے ملنے آئے تو اپنے سوالات اور ان کے جوابات کا ذکر بھی کرتے رہے۔ چنانچہ میں نے ان کی گفتگو بڑی توجہ سے سنی۔ اب جہاں تک مجھے یاد ہے اس پمفلٹ میں امامت اور خلافت ہی کی بحث تھی۔ یوں بھی یہی سب سے بڑا مسئلہ تھا جو میر صاحب اور جماعت کے درمیان زیر بحث آسکتا تھا۔ اگر میری یاد غلطی نہیں کرتی تو اس پمفلٹ میں اسی ایک بات پر زور دیا گیا تھا کہ امام حسن علیہ السلام نے چونکہ خلافت سے خود ہی دست برداری اختیار کرلی تھی لہٰذا بنو فاطمہ اس منصب سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئے۵؎ اور یہ منصب دوسروں کے حصے میں آگیا۔ گویا احمدیت کو نفس امامت سے تو انکار نہیں۶؎ ، ہے تو اس اَمر سے کہ یہ منصب بنو فاطمہ کے لیے مخصوص تھا۔ میں نے عرض کیا، معلوم نہیں میر صاحب کے احساسات اس وقت کیا تھے لیکن پھر اس کے بعد کسی وقت انھوں نے خلیفہ صاحب کی بیعت کرلی، گو اس کے باوجود اثنا عشری عقاید پر بھی قائم رہے۔ وہ جماعتی لحاظ سے تو پہلے ہی سے احمدی تھے آگے چل کر باقاعدہ احمدی ہوگئے۔ جماعت کے بعض سرکردہ افراد سے ان کے دوستانہ تعلقات تھے اور انھیں کے اصرار پر وہ قادیان آئے بھی تھے۔ رفتہ رفتہ اکابر سلسلہ سے ربط و ضبط بڑھا تو عقیدۃ بھی احمدیت قبول کرلی، حتیٰ کہ ان کا شمار جماعت کے سربرآوردہ حضرات میں ہونے لگا۔ چنانچہ ۳۴-۱۹۳۳ء میں کہ جماعت پر ایک بحرانی کیفیت طاری تھی۷؎ میں نے انھیں بڑا مضطرب پایا۔ حضرت علامہ بڑی دلچسپی سے میری باتیں سن رہے تھے۔ میں نے سلسلہ کلام جاری رکھا اور عرض کیا، میر صاحب کے انتقال کو زیادہ دن نہیں گزرے۔ انھوں نے کوئی بڑی عمر نہیں پائی۔ بیمار ہوئے تو بیماری بڑھتی ہی چلی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ موت سے پہلے انھوں نے پھر اثنا عشری عقاید اختیار کرلیے تھے اور اس لیے گورستان امامیہ ہی میں دفن ہوئے۔۸؎ دوسرا خیال یہ ہے کہ ان کے عزیزوں نے زبردستی ایسا کیا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ اس پر حضرت علامہ نے فرمایا ’’تمھاری اپنی معلومات اس بارے میں کیا ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا، کوئی نہیں بجز اس کے کہ میر صاحب کی وفات کے کچھ دنوں بعد جب محترمہ… ہمارے ہاں تشریف لائیں تو بے حد خفا تھیں۔ انھیں شکایت تھی کہ میر صاحب مرحوم کے عزیزوں نے ان پر بڑا ظلم کیا کہ انھیں بہشتی مقبرے میں دفن نہیں ہونے دیا۔ میں نے یہ بھی عرض کیا کہ میر صاحب کی وفات سے کچھ پہلے جب گویا ان کے مرض الموت کا آغاز تھا میں ان کی عیادت کے لیے گیا تو باتوں باتوں میں احمدیت کا ذکر بھی آگیا۔ میں ان سے جب بھی ملتا بڑی محبت سے پیش آتے اور اکثر احمدیت پر تبادلۂ خیالات بھی کرتے۔ اس وقت تو میں نے ان کے عقاید میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی۔ چنانچہ احمدیت کا ذکر آیا تو انھوں نے شکایتاً فرمایا، لوگ ہم پر طرح طرح کے بہتان باندھتے ہیں، بڑی ناروا باتیں ہم سے منسوب کی جاتی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے انھیں اُصولوں سے تو بحث نہیں، ہے تو ذاتیات سے۔ میں نے کہا، آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ عیب جوئی اور الزام تراشی کوئی اچھی بات نہیں۔ وہ اختلاف ہی کیا جس کی بنیاد ذاتیات پر ہو۔ اس پر میر صاحب نے کہا، مگر ہمارے اخلاق و اعمال پر نکتہ چینی ہی تو کی جاتی ہے۔ میں نے کہا، یہ اَمر واقعی قابلِ افسوس ہے، لیکن میری بھی ایک گزارش ہے، ذرا اسے بھی سن لیجیے۔ شائد یوں ذاتیات کا مسئلہ سمجھ میں آجائے۔ میر صاحب ہمہ تن گوش تھے۔ کہنے لگے، فرمائیے۔ میں نے کہا، ذرا یوں بھی غور کیجیے کہ خلافت کے باب میں جس غلو سے کام لیا جارہا ہے اس کی انتہا آخر کہاں ہوگی؟ مان لیا کہ بفحوائے ’اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً‘ خلافت کا منصب اللہ کے ہاتھ میں ہے کہ جسے چاہے عطا کرے، اور اس لیے جسے چاہا عطا کیا۔۹؎ یہ کام اُمت کا نہیں ہے۱۰؎ لیکن جب یہ کہا جائے کہ خلیفہ کی ذات اعتراض سے بالاتر ہے، جماعت کا کوئی حق نہیں کہ اس پر گرفت کرے۱۱؎ اور جماعت کو بھی اس سے اتفاق ہو تو آپ ہی کہیے بات کہاں پہنچی ہے۔ کیا یہ اسماعیلی نقطۂ نظر کی حمایت نہیں ہے؟ کیا یہ موروثی خلافت کی تمہید نہیں؟۱۲؎ دراصل میں نے یہ بات اس لیے کہی تھی کہ میر صاحب نے گو شیعیت چھوڑ کر احمدیت اختیار کرلی تھی لیکن خلافت اور امامت کے مسئلے میں شیعی اور سنی عقاید سے تو خوب واقف تھے۔ ارشاد ہوا ’’اس پر میر صاحب نے کیا کہا؟‘‘ میں نے عرض کیا، اس پر باوجود ضعف و نقاہت کے میرصاحب نے جوش میں آکر صرف اتنا کہا، ایسا نہیں ہوسکتا؛ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ ’’یہ ایسا نہیں ہوسکتا اور ایسا نہیں ہونے دیں گے‘‘ کا معاملہ ذرا وضاحت طلب ہے۔ احمدیت کا مطالعہ کیجیے تو اس میں کئی ایک عقاید باہم مختلط نظر آئیں گے، مثلاً خلافت اور امامت ہی کا مسئلہ ہے کہ اس باب میں احمدیت کا ذہن نہ اس وقت صاف تھا جب یہ باتیں ہورہی تھیں، نہ اب۔ اول تو سیدھے سادے عقاید کے لحاظ سے دیکھیے کہ شیعہ ہوں یا سنی دونوں کے نزدیک سلسلۂ نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگیا۔ اہلِسنت کہتے ہیں باب نبوت مسدود ہے اور اس سے اہلِتشیع کو بھی اتفاق ہے، لیکن جہاں سنی دنیا یہ سمجھتی ہے کہ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ ذمہ داری اُمت کی ہے کہ بربناے کتاب و سنت، یعنی جیسا کہ شریعت کا منشا ہے، وہ اپنی رہنمائی کا فریضہ اپنے ہاتھ میں لے، وہاں شیعی نقطۂ نظر یہ ہے کہ اُمت اس رہنمائی کی اہلِ نہیں ہے، نہ اسے حق پہنچتا ہے کہ بشکل خلافت کسی ایسے جمہوری شورائی ادارے کی تاسیس کرے جو اس کی حیاتِ ملّی کے مسلسل نشوونما اور حفظ و استحکام کا ذریعہ بنے اور جس سے باتباع کتاب و سنت وہ سب ذمہ داریاں پوری ہوتی رہیں جو بحیثیت اُمت اس پر عائد ہوتی ہیں۔ لہٰذا بمقابلہ اہلِ سنت والجماعت شیعہ امامت منصوص کے قائل ہیں، اس لیے کہ باب نبوت بند ہوا تو سلسلۂ امامت شروع ہوگیا تاکہ آئمۂ معصومین جو منجانب اللہ اس منصب پر مامور ہیں اُمت کی رہنمائی کرتے رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امام اور امامت کی اصطلاحیں شیعی مذہب کے لیے مخصوص ہیں، جیسے خلیفہ اور خلافت کی سنی دنیا کے لیے۔ گو اپنی جگہ پر ہر امام خلیفہ اور ہر خلیفہ امام ہے مگر اس لفظ کے عام اور لغوی معنوںمیں۔ اس لیے کہ جس طرح امام کی ذات سے کسی ایسے اَمر کو جاری رکھنا مقصود ہے جس کی اگرچہ اس نے ابتدا نہیں کی لیکن جس کا سر رشتہ اب اس کے ہاتھ میں ہے، لہٰذا وہ اس اَمر میں خلافت (جانشینی) کا فریضہ بھی ادا کررہا ہے، بعینہٖ خلیفہ کو بھی منصب امامت حاصل ہے ان معنوں میں کہ جس نظام جماعت کے سامنے ایک مخصوص نصب العین ہے اسے علی منہاج نبوت قائم اور برقرار رکھنا اس کے فرائض میں داخل ہے۔ جماعتِ احمدیہ کا ظہور چونکہ سنی دنیا میں ہوا اس لیے نظام جماعت کے معاملے میں وہ خلافت ہی کے تصور پر کاربند رہی،۱۳؎ لیکن امامت کے عقیدے سے بھی دستبردار نہ ہوسکی: اللہ تعالیٰ ہر صدی کے آغاز میں ایک مجدد بھیجتا ہے۔ ہر مجدد مامور من اللہ ہے اور اس لیے اپنے وقت کا امام۔ بانی جماعت بھی چودھویں صدی کے امام تھے، آیندہ بھی مجددین کا ظہور ہوتا رہے گا۔ رہا منصب خلافت سو بلحاظ ایک دینی اَمر کے یہ اس شخص کے لیے مخصوص ہے جو سب پہلے نبی کو پہچانے، اس کی تصدیق کرے اور اس پر ایمان لائے۔ حضرت عمر فاروق نے شاید اسی لیے فرمایا تھا کہ خلافت کا حق تو صرف ابوبکر کو پہنچتا تھا، میں تو خلیفۂ خلیفۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔ مجھے امیر المؤمنین کہیے۔ لہٰذا حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو منصب رسالت کی طرح منصب خلافت بھی خلفیہ اول پر ختم ہوجاتا ہے اور جس کے بعد اگر اس کا سلسلہ چلتا ہے تو بطور ایک اَمر دنیوی کے۔ گو اب اس کا رشتہ اُمت کے ہاتھ میں ہوگا تاکہ جسے چاہے نظم جماعت کے پیشِ نظر امیر یا خلیفہ منتخب کرلے۔ بایں ہمہ جماعتِ احمدیہ نے اس اَمر کی تصریح نہیں کی کہ یہ کسی شخص کا سب سے پہلے ایمان لانا اور اس لیے خلافت کا مستحق ٹھہرنا جس میں چون و چرا کی گنجایش نہیں ایک اَمر اتفاقی ہے یہ منشائے الٰہی ہی یوں ہوتا ہے کہ جو کوئی خلافت کا مستحق ہے وہی سب سے پہلے ایمان لائے اور رسالت کی تصدیق کرے۔ بہرحال جماعتِ احمدیہ میں پہلا اختلاف رونما ہوا تو اسی بنا پر کہ سلسلۂ خلافت تو خلیفۂ اول کے ساتھ ختم ہوگیا، ان کے بعد صرف امیر کی ضرورت ہے جیسا کہ احمدیت کی لاہوری شاخ کا عقیدہ ہے کہ خلافت تو محض ایک تنظیمی اَمر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے خلیفہ اور خلافت کی بجاے امیر اور امارت کی اصطلاحیں اختیار کیں۱۴؎ لیکن جماعت کا ذہن تو کسی معاملے میں صاف نہیں، نہ ہے۔ اسے تو عادت ہے کہ مسیحیت و مہدویت اور نبوت کی طرح خلافت اور امامت کی جو بھی تعبیر کی جائے بلا چون و چرا قبول کرلے۔ لہٰذا میں جو بات میر صاحب کے گوش گزار کررہا تھا یہ کہ قابلِ غور اَمر یہ نہیں کہ آپ کی رائے اس سلسلۂ تعبیر و تاویل کے بارے میں کیا ہے جو خلافت کے سلسلے میں جاری ہے، بالخصوص جب کہا جاتا ہے کہ یہ معاملہ انتخاب کا ہے، نہ ذاتی رائے کا؛ رائے کا اظہار کیجیے تو اس کی سختی سے مذمت کی جاتی ہے۔ قابلِ غور اَمر یہ ہے کہ خلافت کیا امامت کی شکل تو اختیار نہیں کررہی؟ ثانیا یہ سلسلہ تعبیر و تاویل اگر یونہی جاری رہا۱۵؎ تو ہم کیا سمجھیں… احمدیت کے عقاید ہمیشہ کے لیے متعین ہوچکے یا ابھی ان کی تکمیل باقی ہے؟ وقت کافی ہوگیا تھا۔ علی بخش آیا۔ کہنے لگا، دوا کھالیجیے۔ میں نے عرض کیا، کیوں نہ اب کمرے میں تشریف لے چلیے، دھوپ کم ہورہی ہے۔ فرمایا ’’بہت بہتر‘‘۔ علی بخش نے دوا کھلائی اور کمرے میں جاکر بستر درست کیا۔ حضرت علامہ اندر تشریف لے گئے۔ انھوں نے صحن سے کمرے کا فاصلہ نہایت آہستہ آہستہ طے کیا تھا، پھر بھی اندیشہ تھا بسبب ضعف و اضمحلال انھیں کوئی تکلیف نہ ہونے پائے۔ حضرت علامہ جب تکیوں کا سہارا لے کر آرام سے بستر میں لیٹ گئے تو میں نے طبیعت کا پوچھا۔ فرمایا ’’نقاہت قدرے بڑھ گئی ہے، اور کوئی شکایت نہیں۔‘‘ شفیع آگئے۔ سلام عرض کیا، خیریت مزاج پوچھی اور پلنگ سے ٹیک لگا کر فرش پر بیٹھ گئے۔ ’یوم اقبال‘ کی باتیں ہونے لگیں۔ کہنے لگے ان شاء اللہ یہ تقریب بڑی کامیاب رہے گی۔ تھوڑی دیر اور گفتگو کرتے رہے، پھر صحن خانہ کا رُخ کیا۔ شاید بچوں کے خیال سے۔ میں چاہتا تھا حضرت علامہ آرام فرمائیں، اجازت لوں۔ مگر حضرت علامہ قدرے سستا چکے تو فرمایا ’’اس قسم کی بیعت کی جس میں انسان آزادی، عقاید کے باوجود جماعت میں شریک ہوتا اور اس کی تنظیمی اور تبلیغی کوششوں سے فائدہ اُٹھاتا ہے کوئی اور شرط بھی تو ہوگی؟‘‘ میں نے کہا، جہاں تک مجھے معلوم ہے بجز اس کے اور کوئی شرط نہیں کہ جماعت کی سرگرمیوں میں حصہ لے اور وہ سب چندے ادا کرتا رہے جو وقتاً فوقتاً طلب کیے جاتے یا مستقلاً طلب ہوتے رہتے ہیں۔ اس پر حضرت علامہ کچھ مسکرائے اور کہنے لگے ’’تو پھر اسے سیاست کہیے، مذہب نہ کہیے۔ یہ سیاست ہوئی، مذہب تو نہ ہوا۔ سیاست کا کہنا بھی تو یہی ہے کہ حکومت کے ٹیکس باقاعدہ ادا ہوتے رہیں، ٹیکس دھندوں کے عقاید خواہ کچھ بھی ہوں۔‘‘ حضرت علامہ تو اتنا کَہ کر خاموش ہوگئے، لیکن میں سوچنے لگا کہ جس سیاست کا مطالبہ ہے ٹیکسوں کی باقاعدہ ادائیگی، خواہ ٹیکس دہندوں کے عقاید کچھ بھی ہوں، وہ لازماً لادین سیاست ہوگی، ریاست اور کلیسا کی تفریق، یا کسی خالصاً مادی اساس پر مبنی۔ لیکن اگر عقیدہ ہی بناے سیاست ہے جیسا کہ اسلام نے ہمیں سمجھایا تو ریاست نہ عقیدے کو نظرانداز کرسکتی ہے نہ ٹیکسوں کو۔ اسے دونوں سے یکساں تعلق ہوگا۔ اندریں صورت ہم کیا کہیں اس کا نظام مالیات کیا شکل اختیار کرے گا۔ یوں میرا ذہن خود بخود زکوٰۃ کی طرف منتقل ہوگیا۔ میں چاہتا تھا حضرت علامہ نے جس سادے سے جملے میں ایک بہت بڑی حقیقت۱۶؎ کی طرف اشارہ کردیا ہے اس کے متعلق کچھ اور سوال کردوں تاکہ میرا ذہن اس مسئلے میں صاف ہوجائے۔ لیکن مجھے ڈرتھا کہ اگر گفتگو کا سلسلہ جاری رہا تو حضرت علامہ کے لیے تکلیف کا باعث ہوگا۔ میں خاموش ہوگیا۔ اتنے میں علی بخش اور رحما آگئے۔ چلم بدلی جاچکی تھی۔ علی بخش ان کے بازو اور شانے اور رحما پاؤں دابنے لگا۔ حضرت علامہ بڑے اطمینان سے لیٹے تھے۔ کبھی کبھی حقے کا کش لے لیتے۔ میں نے اجازت طلب کی۔ عرض کیا، آپ آرام فرمائیے۔ شفیع موجود ہیں، چودھری صاحب آتے ہی ہوں گے۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱- آبائی وطن ضلع مراد آباد، لیکن پنجاب ہی میں پرورش پائی۔ یہیں ایم-اے کیا، محکمہ انکم ٹیکس میں ملازم ہوگئے اور ترقی کرتے کرتے اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے تک جاپہنچے۔ مشہور صاحب طرز ادیب سیّد سجاد حیدر یلدرم کے قرابت داروں میں تھے۔ خود بھی بڑے شگفتہ مزاج اور ادب دوست انسان تھے۔ ان کے ادبی مضامین کا ایک مجموعہ شاید قیس کے قلمی نام سے شائع بھی ہوا تھا۔ ۲- رومی: صحبت صالح ترا صالح کند ص صحبت طالح تر طالح کند صحبت دانا عبادت این بود فتح ابواب سعادت این بود ۳- بالخصوص فرمانروایان بھوپال نے۔ ۴- ملاحظہ ہو پیام مشرق، خطاب بہ مبلغ اسلام در فرنگستان: زمانہ باز برافروخت آتش نمرود کہ آشکار شود جوہر مسلمانی اور جس کی فی الواقع ضرورت تھی اور ہے۔ لہٰذا حضرت علامہ کا ارشاد: حدیث عشق بہ اھل ہوس چہ میگوئی بچشم مور مکش سرمۂ سلیمانی پھر ضرب کلیم میں ایک دوسری حقیقت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا: ضمیر اس مدنیت کا دیں سے ہے خالی فرنگیوں میں اخوت کا ہے نسب پہ قیام اگر قبول کرے دین مصطفی انگریز سیاہ روز مسلمان رہے گا پھر بھی غلام ۵- یہ محرومی کا معاملہ سمجھ میں نہیں آیا۔ اثنا عشری عقیدہ تو یہ ہے کہ امام حسن علیہ السلام منصب امامت سے دست بردار نہیں ہوئے لہٰذا سلسلۂ امامت برابر جاری رہا۔ چنانچہ ان کے متبعین نے انھیں امام ہی مانا جیسے مرزا صاحب کو ان کے ماننے والوں نے یا جیسے خلیفہ صاحب اپنی جماعت کے امام ہیں۔ پھر شیعیت کی دوسری شاخ یعنی اسماعیلی فرقے کے نزدیک جب امامت کا سلسلہ جناب اسماعیل ابن امام جعفر الصادق پر ختم ہوگیا تو آئمۂ مستورین و ائمۂ ظاہرین کا ظہور ہونے لگا۔ پھر جب عبیداللہ المہدی نے خلافت فاطمیہ کی بنیاد رکھی تو مصر، افریقہ، شام و فلسطین اور عرب، بلکہ الجزیرہ اور عراق کے بعض علاقوں، تاحدود بغداد، قریباً قریباً تین صدیوں تک وہ زبردست سلطنت قائم رہی جس کے فرمانروا امام ہی تسلیم کیے جاتے تھے۔ خلافت فاطمیہ اگرچہ مٹ گئی، لیکن ائمہ اسماعیلیہ کا سلسلہ اس کی مختلف شاخوں (یا فرقوں) میں اب تک جاری ہے۔ ان کے پیرو بھی انھیں امام ہی تسلیم کرتے ہیں۔ ۶- ان معنوں میں کہ احمدی جماعت بھی ’’ضرورۃ الامام‘‘ کی قائل ہے اور منصب امامت بھی اس کے نزدیک منجانب اللہ عطا ہوتا ہے۔ گو ان معنوں میں نہیں جن معنوں میں شیعی مذہب نے امامت کو منصوص ٹھہرایا ہے، لیکن امام کی موجودگی تو جماعتِ احمدیہ کے نزدیک بہرحال ضروری ہے تاکہ اُمت کی رہنمائی ہوتی رہے۔ ۷- بسبب اندرونی خلفشار کے جب خود امام جماعت کی ذات پر طرح طرح کے اعتراضات کیے جارہے تھے۔ ۸- لاہور میں۔ ۹- جیسا کہ جماعت کی غالب اکثریت کا خیال تھا۔ گو یہ خیال صحیح نہیں اور نہ اس آیت کا منصب خلافت یا امامت کی طرف اشارہ ہے خواہ اس کی تعبیر شیعی نقطۂ نظر سے کیجیے، خواہ سنی عقاید کی رُو سے۔ اس کا اشارہ خلیفہ کے اصطلاحی مفہوم بمعنی امام و رہنما، یا پیشوا اور جانشین، یا سر ریاست کی طرف بھی نہیں ہے۔ اسلام نے کبھی تسلیم نہیں کیا کہ کسی فرد کو منجانب اللہ یا خود اپنی ذات سے، یا ذاتی دعوے کی بنا پر اُمت کی پیشوائی کا حق پہنچتا ہے۔ ۱۰- سنی عقیدے کے خلاف کہ امام یا خلیفہ کا انتخاب (لہٰذا عزل و نصب) اُمت کے ہاتھ میں ہے کہ بربناے شوریٰ جسے چاہے کثرت رائے سے منتخب کرلے اور جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر سوادِ اعظم کا عمل کتاب و سنت پر ہے تو خلیفہ یا امام کا انتخاب بھی منشائے شریعت کے مطابق ہوگا، ورنہ نہیں۔ یہی ’ورنہ نہیں‘ ہے جس کے پیشِ نظر شیعیت کو اس اَمر سے انکار ہے کہ امامت اور خلافت کا فیصلہ اُمت کے ہاتھ میں ہے۔ ۱۱- یہ اس وقت کی بات ہے جب سلسلے کے اندر ایک شدید اختلاف رونما تھا، لیکن جس سے سلسلے کی اکثریت بے تعلق رہی اور اس لیے اس سے کوئی نتیجہ مترتب نہ ہوا۔ اختلاف کے ایک پہلو کا تعلق تو نفس خلافت سے تھا کہ یہ عہدہ موروثی ہے یا انتخابی، دوسرے کا خود خلیفہ صاحب کی ذات سے۔ معترضین کا جہاں یہ خیال تھا کہ منصب خلافت کو موروثی شکل دی جارہی ہے وہاں یہ بھی کہ خلیفہ صاحب کا طرزِ عمل مصالح جماعت، یعنی ان مقاصد کے خلاف ہے جو احمدیت کے سامنے ہیں، لہٰذا اس معیار پر پورا نہیں اترتا جو اس نے منصب خلافت کے لیے قائم کیا ہے۔ دوسری جانب معترضین کا اگر بدلائل رد کیا گیا تو ان کے لیے بڑے سخت کلمات بھی استعمال ہوئے۔ ۱۲- اگر امامت منجانب اللہ ہے اور نصاً ثابت، لہٰذا ائمہ باوجود بشریت معصوم، توظاہر ہے ان سے کوئی ایسا فعل سرزد نہیں ہوسکتا جو قابلِ اعتراض ہو اور نہ بسبب اس منصب کے جو انھیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا ان سے کسی اَمر کی باز پرس کی جاسکتی ہے۔ یہ بات اتنی واضح ہے کہ اگر امامت کے بارے میں شیعی نقطۂ نظر تسلیم کرلیا جائے تو اس کا ماننا خود بخود لازم ٹھہرتا ہے۔ گویا اسماعیلیوں کے یہاں صرف اس اَمر کی وضاحت کردی گئی ہے۔ ۱۳- حالانکہ خلافت کو محض مذہبی پیشوائی پر محمول کرنا غلط ہے؛ کیا جائے گا تو اس صورت میں جب کوئی مذہبی جماعت اسلام کو صرف اپنے جماعتی نظام تک محدود کرلے۔ خلافت تو ایک سیاسی اجتماعی ادارہ ہے، لہٰذا اسلام کی اس ہمہ گیر تحریک کو جاری رکھنے کا دوسرا نام جس سے مقصود ہے نوعِ انسانی کو ہر پہلو سے ایک خاص نصب العین پر جمع کرنا تاکہ وہ اپنے اتحاد و ارتباط اور مسلسل نشوونما میں برابر آگے بڑھتی رہے۔ اس کی غایت ہے اس خالصاً انسانی نظام مدنیت کا قیام و استحکام جس کے لیے ریاست کا وجود ناگزیر ٹھہرا اور جس کے بغیر ناممکن ہے ہم ان قوتوں پر غلبہ حاصل کرسکیں جو تاریخ کی صورت گر ہیں، یعنی ان کا رُخ ان مقاصد کے طرف موڑ دیں جن کے لیے اُمت کی تشکیل ہوئی۔ کیا خوب کہا ہے حضرت علامہ نے: خلافت بر مقام ما گواہی است خلافت حفظ ناموسی الٰہی است ملوکیت ہمہ مکر است و نیرنگ حرام است آنکہ برما بادشاہی است ارمغان حجاز ۱۴- جیسا کہ سنی اور شیعی نقطۂ نظر سے ان اصطلاحات کی وضاحت ہوچکی ہے۔ ۱۵- جیسا کہ آگے چل کر خلیفہ صاحب نے دعویٰ کیا کہ وہ مصلح موعود ہیں، لہٰذا امام اور مامور من اللہ۔ خلافت کے ابتدائی ایام میں بھی وہ اس قسم کے دعوے کرچکے تھے جن کا ماحصل یہ تھا کہ ان کا ماننا ہر شخص پر فرض ہے۔ ۱۶- اس حقیقت کی طرف کہ عقیدہ اور ٹیکس ایک دوسرے سے بے تعلق نہیں۔ ان کا ربط قائم ہے تو ریاست کا نشو و نما کم از کم اس ایک جہت سے صحیح نہج پر ہوتا رہے گا۔ ریاست دوسرا نام ہے حیاتِ اجتماعیہ کا۔ اس گفتگو میں عقیدے سے مراد ہے مذہب، لیکن اس کے عام اور مروجہ معنوں کی بجاے ان معنوں میں کہ یہ کوئی نہ کوئی عقیدہ، یا دوسرے لفظوں میں اُصول اور قانون ہے، جس کے پیشِ نظر ہم اپنی زندگی میں کوئی موقف اختیار کرتے ہیں اور جس سے ہر عمل کا ذہنی پس منظر ہمارے سامنے آجاتا ہے، خواہ یہ عقیدہ مثبت ہو یا منفی، یعنی اس سے زندگی کی وحدت قائم رہے یا یہ وحدت الگ الگ اور باہم متصادم حلقوں میں تقسیم ہوجائے۔ توحید اصلاح ہے، تفریق فساد۔ واقعہ بہرحال یہ ہے کہ ریاست کا کوئی نہ کوئی عقیدہ ضرور ہوتا ہے، اس لیے کہ ریاست کا وجود افراد ریاست سے الگ نہیں۔ ز…ز…ز دو شنبہ: ۳؍جنوری کل دن بھر مصروفیت رہی۔ کچھ دنیا کے دھندے، کچھ مضمون۱؎ کی فکر۔ حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر تو ہوا لیکن بہت تھوڑی دیر کے لیے۔ مطلب یہ تھا کہ حاضری میں ناغہ نہ ہو اور مزاج پرسی بھی ہوجائے۔ آج بھی دوپہر ہوگئی جب کہیں جاوید منزل کا رُخ کیا۔ صحن میں قدم رکھا تو علی بخش مل گیا۔ حسبِ معمول کہنے لگا، آئیے۔ ڈاکٹر صاحب۲؎ باہر ہی آرام کررہے تھے۔ ابھی اندر گئے ہیں، طبیعت اچھی ہے۔ طبیعت اچھی ہے، یعنی عوارض میں کوئی خاص خرابی نہیں، ورنہ ضعف و اضمحلال جیسا تھا چلا آرہا تھا۔ ایسے ہی دم کشی کی تکلیف بھی۔ اس خیال سے کچھ افسردہ خاطر سا ہوگیا۔ دو ایک منٹ صحن میں رکا، پھر کمرے میں داخل ہوکر سلام عرض کیا۔ حضرت علامہ باطمینان بستر میں لیٹے تھے۔ فرمایا ’’شفیع ابھی گئے ہیں، مضمون کا پوچھتے تھے۔ مضمون کس مرحلے میں ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا، ابتدا کرچکا ہوں۔ ارشاد ہوا ’’اس کی ہیئت بدل دو۔ بعض حقائق محتاج تشریح ہیں۔ ان کی ترجمانی فکر حاضر کی رعایت سے ہونی چاہیے۔‘‘ میں جب عرض کرچکا، بہت بہتر آپ کا ارشاد مدنظر رہے گا، تو پھر چند ایک نکات کی وضاحت بھی فرمائی۔ تین بج رہے تھے کہ ایک گاڑی صحن میں داخل ہوئی اور سائبان کے نیچے آکر رُک گئی۔ مجھے تعجب تھا اس وقت کون صاحب آئے ہیں۔ اتنے میں ڈرائیور نے اندر آکر سلام کیا۔ علی بخش شاید کہیں مصروف تھا۔ کہنے لگا، میاں صاحب سلام کہتے ہیں۔ فرمایا ’’شاہنواز۴؎ آئے ہیں۔ فالج سے معذور ہیں۔ کبھی بہت جی چاہتا ہے تو گاڑی میں بیٹھ کر آجاتے ہیں۔ میں بھی پاس جابیٹھتا ہوں۔ وہ اپنا حال بیان کرتے ہیں، میں اپنا۔ چند لمحے مزے میں گزر جاتے ہیں‘‘ اور یہ کہتے کہتے بستر سے اُٹھے تو میں نے عرض کیا مجھے اجازت ہے؟ ارشاد ہوا ’’نہیں، انتظار کرو۔ میکٹیگرٹ والا مضمون مل گیا ہے۔‘‘ حضرت علامہ باہر تشریف لے گئے۔ میں کمرے میں منتظر بیٹھا سوچ رہا تھا کب حضرت علامہ کو صحت ہوگی، کب ان کی طبیعت بحال ہوگی۔ پندرہ بیس منٹ گزر گئے یا شاید زیادہ کہ علی بخش آیا اور کہنے لگا ڈاکٹر صاحب بلارہے ہیں۔ میں نے کمرے سے نکل کر برآمدے کا رُخ کیا اور حضرت علامہ کے جو گاڑی میں بیٹھے تھے قریب ہوکر رُک گیا تو انھوںنے میاں صاحب سے میرا تعارف کرایا۔ اس پر میں تعظیماً آگے بڑھا اور گاڑی کے پٹ سے لگ کر آداب بجالایا۔ میاں صاحب بڑی شفقت سے پیش آئے۔ کہنے لگے ’’مجھے آپ لوگوں کی بڑی قدر ہے۔ آپ میرے دوست کا خیال رکھتے ہیں‘‘۔ انھوں نے بہت رُک رُک کر یہ الفاظ کہے اور پھر مسکراتے ہوئے حضرت علامہ کی طرف دیکھا۔ مطلب یہ تھا کہ اب جانا چاہتے ہیں۔ حضرت علامہ نے بھی تبسم فرمایا، گاڑی سے باہر آگئے اور جب تک گاڑی نے حرکت نہیں کی ٹھہرے رہے۔ میں چپ چاپ ایک طرف کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ سوچنے لگا انسان بھی کیسا بے بس ہے۔ بیماری نہ ہوتی تو حضرت علامہ اور میاں صاحب یوں ایک دوسرے سے رخصت نہ ہوتے۔ یہ مسکراہٹیں کیا ہیں؟ صحت اور تندرستی کے مسرت بھرے ایام اور بے تکلفانہ صحبتوں کی حسرت آمیز یاد۔ حضرت علامہ کمرے میں تشریف لے آئے اور آرام سے پلنگ پر لیٹ گئے۔ علی بخش نے سہارا دیا اور حقے کی نَے ان کی طرف موڑ دی۔ انھوں نے چند منٹ سستا کر دو ایک کش لیے اور پھر کہنے لگے ’’پانچ مربعے جو میاں صاحب نے جاوید کے نام ہبہ کیے تھے۵؎ ان میں پانچ اور کا اضافہ کردیا ہے۔‘‘ میں نے دیکھا میاں صاحب کے جذبۂ محبت کی حضرت علامہ کے دل میں بڑی قدر ہے۔ دیر تک ان کا ذکر کرتے رہے۔ شام ہونے لگی تو فرمایا ’’کل ٹھیک بارہ بجے آجانا۔ حکیم صاحب۶؎ ساتھ ہوں۔ ٹھیک بارہ بجے!‘‘ ئ…ئ…ء حواشی ۱- بسلسلۂ یوم اقبال، ۱۹۳۸ئ۔ ۲- علی بخش اور حضرت علامہ کے نیازمند انھیں ڈاکٹر صاحب ہی کہتے تھے۔ ۳- میاں شاہ نواز مرحوم، بیرسٹرایٹ لا۔ ان کی ذات محتاج تعارف نہیں۔ ۴- حضرت علامہ کے قلم سے۔ ۵- تھل میں۔ ۶- شفاء الملک حکیم محمد حسن قرشی۔ ز…ز…ز سہ شنبہ: ۴؍جنوری ٹھیک بارہ بجے حاضر ہوگیا۔ قرشی صاحب ساتھ تھے۔ حضرت علامہ منشی خانے کے پاس ہی صحن میں لیٹے دھوپ کا لطف اُٹھا رہے تھے۔ علی بخش نے ہمیں آتے دیکھا تو پیشوائی کے لیے آگے بڑھا، دو کرسیاں اُٹھائیں اور حضرت علامہ کے پلنگ کے قریب ڈال دیں۔ ہم نے آگے بڑھ کر سلام عرض کیا تو حضرت علامہ نے فرمایا ’’مجھے آپ ہی کا انتظار تھا۔ آپ ٹھیک وقت پر آگئے۔ حکیم صاحب، میں نے آپ کو ایک خاص مطلب کے لیے زحمت دی ہے‘‘۔ قرشی صاحب نے کہا ’’بسر و چشم، میں حاضر ہوں‘‘ اور پھر کرسی آگے بڑھا کر بیٹھ گئے۔ حضرت علامہ کی نبض پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگے ’’مزاج کیسا ہے؟ حضرت علامہ اپنا حال کَہ چکے تو دوا اور غذا کی باتیں ہونے لگیں۔ غذا کیا رہی؟ طبیعت کیسی ہے؟ یہ باتیں ہورہی تھیں کہ میاں صاحب کی گاڑی کل کی طرح صحن میں داخل ہوئی۔ ادھر علی بخش گاڑی کی طرف بڑھا اور ادھر میں سمجھ گیا حضرت علامہ کے اس ارشاد کا مطلب کیا تھا ’’کل ٹھیک بارہ بجے آجانا، حکیم صاحب ساتھ ہوں‘‘۔ گاڑی پہلے تو حضرت علامہ کے قریب آکر رُک گئی، پھر جب تک میں اور قرشی صاحب تعظیماً آگے بڑھے اسے پلنگ کے ساتھ اس طرح لگادیا گیا کہ حضرت علامہ اور میاں صاحب بہ سہولت ایک دوسرے سے بات کرسکیں۔ حضرت علامہ بھی تکیوں کا سہارا لیے ذرا آگے بڑھ گئے۔ قرشی صاحب کا اور میرا تعارف کرایا، حالانکہ میرا تعارف کل بھی ہوچکا تھا۔ پھر میاں صاحب کی علالت اور علاج معالجے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ’’حکیم صاحب آپ گاڑی میں بیٹھ جائیے۔ میاں صاحب خود ہی اپنا حال کہیں گے‘‘۔ قرشی صاحب نے کہا بہت بہتر اور میاں صاحب کے پاس گاڑی میں جابیٹھے۔ گاڑی نے حرکت کی اور ذرا دور ہٹ کر سائبان کے نیچے رُک گئی تاکہ میاں صاحب تخلیے میں باطمینان اپنا حال کَہ سکیں۔ ارشاد ہوا ’’حکیم صاحب ماشاء اللہ بڑے سمجھدار ہیں۔ لاہور میں ان کا دم غنیمت ہے‘‘۔ پھر فرمایا ’’میں چاہتا ہوں ان کا تعارف اعلیٰ حلقوں سے ہوجائے۔ ان کا ایک دواخانہ بھی ہونا چاہیے‘‘۔ یہ کَہ کر کروٹ بدلی جیسے باتیں کرتے کرتے تھک گئے ہوں۔ علی بخش پاس ہی بیٹھا تھا۔ کمر اور شانے دابنے لگا۔ چند منٹ گزر گئے۔ حضرت علامہ نے پھر کروٹ بدلی اور فرمایا ’’ایک بات ہے۔ اس کا مضمون میں خاص طور پر خیال رکھو‘‘۔ میں نے عرض کیا فرمائیے۔ ارشاد ہوا ’’میرے جو بھی خیالات ہیں واضح ہیں۔ ان میں کوئی بات ایسی نہیں جو مبہم ہو، لہٰذا اس باب میں کہ میرا موقف کیا ہے کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ جو کچھ کہو ٹھیک ٹھیک اور صاف لفظوں میں‘‘۔ میں نے عرض کیا میری کوشش بھی حتی الوسع یہی ہے لیکن ایک گزارش ہے۔ فرمایا ’’کیا؟‘‘ میں نے کچھ رکتے رکتے عرض کیا، بعض حلقے ہیں کہ ایک مخصوص مقصد کے پیشِ نظر دانستہ یا نادانستہ غلط فہمیاں پھیلا رہے ہیں، بلکہ غلط بیانیوں سے کام لیتے ہیں۔ ان کے خیالات سے اعتنا کیا جائے یا نہیں؟ ارشاد ہوا ’’یہ دور ناواقفیت اور بے خبری کا ہے۔ پھر جب ان غلط فہمیوں اور غلط بیانیوں کی تہ میں ایک خاص مقصد کام کررہا ہے تو ان کا ذکر اور بھی نامناسب ہوگا۔ ان کا خیال چھوڑ دو۔‘‘۱؎ ایک بج رہا تھا اور میاں صاحب بدستور قرشی صاحب سے گفتگو کررہے تھے۔ حضرت علامہ نے ان کی طرف دیکھا تو کہنے لگے‘‘ شاہ نواز سے میرے دیرینہ تعلقات ہیں، ہم ایک دوسرے کے نیک و بد کو خوب جانتے ہیں‘‘ اور یہ کہتے کہتے کچھ مسکرادیے جیسے بیتے ہوئے دنوں کی یاد آگئی۔ پھر ان کی دوستی، خلوص اور محبت کی تعریف کرتے رہے۔ باتوں باتوں میں میاں صاحب کے خاندان کا ذکر آگیا۔ سر شفیع مرحوم سے حضرت علامہ کے مخلصانہ تعلقات تھے اور جسٹس شاہ دین مرحوم کو تو ان سے خاص لگاؤ تھا جیسے حضرت علامہ کو ان سے۔ لیکن میاں شاہ نواز سے ان کی دوستی محض دوستی ہی نہیں تھی، یاری باشی تھی کہ جب کبھی مل بیٹھتے بڑی مزے کی صحبت رہتی۔ چنانچہ سالہا سال گزر گئے وہ منظر اب تک میرے سامنے ہے جب ۱۹۱۹ء کا ابتدائی زمانہ تھا اور اسلامیہ کالج لاہور۲؎ میں انجمن حمایت اسلام کا سالانہ اجلاس ہورہا تھا۔ حضرت علامہ صدارت گاہ کے عقب میں برآمدے کے پاس کھڑے میاں صاحب سے باتیں کررہے تھے۔ کسی نے کہا آپ نے ٹائمز۳؎ کی یہ خبر پڑھی، آر ک بشپ آف کینٹربری۴؎ نے کہا ہے کہ ترکوں نے ارمنوں پر جو مظالم ڈھائے ہیں ان سے اسلام کا چہرہ داغ دار ہوگیا ہے اب کہ جنگ ختم ہوچکی ہے مسلمانان ہند کو چاہیے کہ اور نہیں تو محض اسلام کی خاطر ہم سے مل جائیں اور ترکوں کے خلاف آواز اُٹھائیں۔ اس پر میاں صاحب کو بے اختیار ہنسی آگئی۔ کہنے لگے ’’خوب! بلی چوہے کو دعوت اتحاد دے رہی ہے۔‘‘ حضرت علامہ بھی نہایت محظوظ ہوئے اور برجستہ وہ قطعہ۵؎ ارشاد فرمایا جس کا آخری شعر ہے: سن کر یہ بات خوب کہی شاہ نواز نے بلی چوہے کو دیتی ہے پیغام اتحاد چنانچہ حضرت علامہ کی ایک مختصر سی تقریر کے بعد جب سامعین نے یہ قطعہ سنا تو جلسہ گاہ میں خوب خوب قہقہے بلند ہوئے۔ اس اثنا میں میاں صاحب اور قرشی صاحب باہم گفتگو کرچکے تھے۔ گاڑی نے پھر حرکت کی اور حضرت علامہ کے پلنگ کے قریب آکر رُک گئی۔ حضرت علامہ نے بستر میں لیٹے لیٹے میاں صاحب کو خدا حافظ کہی۔ قرشی صاحب بھی میاں صاحب کے ساتھ ہی واپس چلے گئے۔ میاں صاحب گئے تو علی بخش دوالے آیا۔ حضرت علامہ نے فرمایا ’’شاہ نواز بڑے کام کے آدمی تھے، مگر افسوس ہے کہ جیسے چاہیے تھا زندگی میں جم نہ سکے۔ اس میں حالات کا بھی دخل ہے۔‘‘ یہ کَہ کر حقے کے دو ایک کش لیے اور سلسلہ گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے وہی الفاظ دہرائے ’’اس معاملے میں حالات کو بھی بڑا دخل ہے۔‘‘ ارشاد ہوا ’’بعض اوقات بات تو ذرا سی ہوتی ہے لیکن انسان ہے کہ اپنے مستقبل سے کہیں دور ہٹ جاتا ہے۔ ہم ایک قدم اُٹھاتے ہیں۔ سمجھتے ہیں آگے بڑھیں گے لیکن یہی قدم ہمیں پیچھے لے جاتا ہے۔ ایک چیز ہاتھ آتی ہے۔ خیال ہوتا ہے بہت بڑی نعمت مل گئی لیکن آگے چل کر وہی چیز زنجیر پا ہوجاتی ہے اور انسان ہے کہ بے بس ہوکر رہ جاتا ہے۔‘‘ میں نہیں سمجھتا تھا حضرت علامہ کا اشارہ کن باتوں کی طرف ہے، نہ میرے لیے مناسب تھا اس باب میں ان سے کوئی استفسار کرتا۔ حضرت علامہ نے قدرے سکوت فرمایا۔ پھر خود ہی کہنے لگے ’’ایک مرتبہ کا ذکر ہے کوئی شخص گھر جارہا تھا کہ راستہ چلتے چلتے اس کا سامنا اچانک ایک جن سے ہوگیا۔ اس نے جن کو دیکھا تو ہوش اُڑ گئے، تھرتھر کانپنے لگا۔ اس پر جن نے آگے بڑھ کر جب یہ کہا میں تمھیں کھا جاؤں گا تو حالت اور بھی غیر ہوگئی، مگر پھر بقول شخصے مرتا کیا نہ کرتا جی کڑا کرکے کہنے لگا میں نے تمھارا کیا گناہ کیا ہے جو تم مجھے کھاجاؤ گے؟ جن نے اس بات کا تو کوئی جواب نہیں دیا، کہا تو یہ اگر تم چاہتے ہو تمھیں نہ کھاؤں تو مجھے نوکر رکھ لو، گھر لے چلو، مجھ سے کام لو۔ لیکن خیال رہے میں بے کار نہیں بیٹھوں گا۔ بیکار بیٹھنا پڑا تو تمھیں کھا جاؤں گا۔ اس شخص نے جو یہ سنا تو جان میں جان آئی۔ جن سے چھٹکارے کی اور کوئی صورت تو نظرآتی نہیں تھی۔ جی میں سوچا سستا سودا ہے کیوں نہ اسے ساتھ لے چلوں۔ اس سے کام تو لینا ہے، کام لیتا رہوں گا۔ کہنے لگا بہت بہتر آؤ میرے ساتھ چلو۔ میں تم سے کام لیتا رہوں گا، بیکار نہیں بیٹھنے دوں گا۔ یوں چار و ناچار اسے گھر لے آیا۔ شروع شروع میں تو چند دن بڑے آرام سے گزرے۔ مفت کا نوکر ہاتھ آگیا تھا۔ کئی ایک کام ناتمام پڑے تھے۔ ایک ایک کرکے جن کے سپرد ہونے لگے۔ ایک ختم ہوتا تو دوسرا تجویز کردیا جاتا مگر تابکے۔ ایک دن وہ بھی آیا کہ کوئی کام ہی نہیں تھا۔ جن نے جو یہ دیکھا کہ بیکار بیٹھنا پڑے گا تو اس کے سینے پر سوار ہوگیا۔ کہنے لگا لاؤ کام ورنہ ابھی تمھارا کام تمام کرتا ہوں۔ اس غریب کی تو جان پر بنی تھی۔ کہتا ذرا دم لو، سوچنے دو، ابھی بتاتا ہوں۔ جن کہتا بتاؤ، ابھی بتاؤ ورنہ…‘‘ میرا خیال تھا وہ شخص اب جن سے شاید یہ کہے گا دیکھو یہ بانس تمھارے سامنے پڑا ہے۔ اسے سیدھا کھڑا کرو اور اس پر چڑھ جاؤ۔ چڑھو اور اُترو، اُترو اور پھر چڑھو۔ بس یونہی چڑھتے اُترتے رہو، لیکن حضرت علامہ نے جو گفتگو کرتے کرتے تھک گئے تھے بات آگے نہیں بڑھائی۔ کہا تو اتنا کہ بس کچھ یہی حالت اہلِ مغرب اور ان کے متبعین کی ہے کہ ان کے ذہن کو قرار ہے نہ زندگی میں سکون۔ فرمایا ’’اطمینانِ قلب بڑی نعمت ہے اور یہی نعمت ہے جو یورپ نے اپنی مادیت پرستی میں کھودی۔‘‘ میں سمجھ گیا حضرت علامہ نے جن کی مثال پیش کی تو کس لیے۔ مغرب کا انسان اگر اطمینانِ قلب سے محروم ہے تو ہمارے یہاں بھی اس کی تقلید نے دلوں کا سکون اور قرار چھین لیا ہے۔ یہاں ان کے مقلدین کی جاں عجب کشمکش میں ہے۔ وہ نہ ماضی سے اپنا رشتہ توڑ سکتے ہیں، نہ حال سے۔ حال کلیسا کو ساتھ لیے ان کے سامنے ہے، ماضی کعبے کے سہارے ان کے پیچھے۔ علی بخش پاس ہی تخت پر بیٹھا تھا۔ حضرت علامہ نے ہاتھ کے اشارے سے بلایا اور فرمایا دوا کھلادو۔ دوا کھاچکے تو جن تکیوں سے سہارا لیے بیٹھے تھے انھیں ایک طرف ہٹانے کے لیے کہا اور کروٹ بدل کر لیٹ گئے۔ پندرہ بیس منٹ استراحت فرمائی۔ پھر ارشاد ہوا ’’چلم بدلو اور بستر درست کردو۔‘‘ مطلب یہ تھا کہ اب کمرے میں چلیں گے۔ علی بخش نے تعمیل ارشاد کی۔ حضرت علامہ کمرے میں تشریف لے گئے اور قدرے سستا کر حقے کا کش لیا تو فرمایا ’’حقے کا مزہ جاتا رہا‘‘ اور یہ تھا بھی ٹھیک اس لیے کہ دم کشی کے باعث مسلسل کیا ذرا سے کش لگانا بھی ناممکن تھا۔ میں پاس ہی کرسی پر بیٹھا تھا۔ ارشاد ہوا ’’علی بخش چائے تیار کرو‘‘۔ پھر میری طرف اشارہ کیا اور فرمایا ’’یہ کب سے بیٹھے ہیں، چائے پییںگے۔‘‘ روزمرہ سیاست کی باتیں ہونے لگیں اور روزمرہ سیاست سے گفتگو کا رُخ سیاسی جماعتوں اور سیاسی جماعتوں سے ان افراد کی طرف مڑگیا جو یکے بعد دیگرے میدان سیاست میں اُبھرے۔ ارشاد ہوا ’’ایک دور دور وفاداری تھا۔ اس دور میں بھی قوم کا وجود ان افراد سے خالی نہیں تھا جو دل سے حکومت کے وفادار تھے۔ بایں ہمہ ان کے دل میں مسلمانوں کا درد تھا اور وہ سچے دل سے ملت کے بہی خواہ تھے۔‘‘ یوں باتوں باتوں میں… کا ذکر آگیا۔ فرمایا ’’عام خیال یہ ہے کہ وفاداری ان کی گھٹی میں پڑی تھی۔ یہ بات ایک حد تک ٹھیک ہے مگر وہ کرتے بھی تو کیا؟ وہ حکومت کے ممنون احسان تھے۔ انھیں جو کچھ ملا سرکار انگریزی سے ملا۔ لہٰذا انگریزوں سے ان کے حسن ظن اور انگریزی حکومت سے وفاداری کی ایک وجہ ان کا جذبۂ تشکر بھی تھا۔ یہ نہیں کہ وہ غلامی اور محکومی پر رضامند تھے جیسا کہ اربابِ سیاست عام طور پر سمجھتے ہیں۔‘‘ ارشاد ہوا ’’جس طرح آج آزادی اور استقلال کی صدائیں عام ہورہی ہیں ایسے ہی ایک زمانہ تھا کہ بجز وفاداری کے کوئی دوسرا لفظ سننے میں نہیں آتا تھا۔۶؎ لیکن ان حضرات کا دل اس دور وفاداری میں بھی خلوص اور درد مندی سے خالی نہیں تھا۔ انھیں قوم سے سچی محبت تھی۔ پھر حقوق طلبی کا دور آیا اور اس دور میں بھی انھوں نے دیانت داری سے قوم کا ساتھ دیا۔ مگر زمانہ بڑا تیز رَو ہے۔ اسے نرم روی پسند نہیں… بالطبع نرم رو، یا باصطلاح سیاست اعتدال پسند تھے اور اپنے اعتدال پسند احباب کی طرح ان تبدیلیوں کا ساتھ نہیں دے سکے جو زمانہ اپنے ساتھ لے کر آیا تھا۔‘‘ فرمایا ’’افسوس ہے مسلمان سیاسی اعتبار سے ہمیشہ غیر منظم رہے۔ ان میں کوئی اعتدال پسند فریق قائم نہ ہوسکا جس میں ان حضرات کا فی الواقعہ شمار ہوتا۔ ہندو البتہ کہیں زیادہ منظم ہیں۔ ان کے یہاں بھی ایک اعتدال پسند فریق ۷؎ موجود ہے لیکن کوئی نہیں جو اسے غلامی اور وفاداری کا طعنہ دے، یا اس پر خود غرضی اور مفاد پسندی کا الزام رکھے۔‘‘ حضرت علامہ نے یہ کَہ کر سکوت فرمایا تو میں سوچنے لگا کہ ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ خونین کے بعد جب مسلمانوں کا مستقبل نہ صرف مخدوش بلکہ تاریک نظر آرہا تھا سرسیّد مرحوم کی قیادت ان کے آڑے آئی۔ ۱۸۵۷ء سے پہلے ان کے خیالات کچھ بھی ہوں، ۱۸۵۷ء کے بعد حالات جس تیزی سے بگڑے اُن سے سرسیّد کے دل و دماغ میں ایک انقلاب رونما ہوا۔ انھوں نے محسوس کیا کہ ۱۸۵۷ء کے حادثہ المیہ کی ساری ذمہ داری انگریزوں پر عائد ہوتی ہے، جیسے یہ کہ انھوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو رفع فساد اور قیام امن کے لیے نہیں، بلکہ فساد اور بدامنی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے غلبہ و تسلط کے لیے۔ سرسیّد کا خیال تھا کہ سیاست اور جہاں بانی کی روح ہے معاشرے کی حفاظت اور انسانی قدروں کا احترام، یہ نہیں کہ اگر ہمیں کسی قوم پر اقتدار حاصل ہے یا طاقت اور دولت سے بہرہ ملا ہے تو حاکم و محکوم اور آقا اور غلام کا امتیاز پیدا کریں۔ انھوں نے یہ بات انگریزوں کو بھی سمجھائی، قطعِ نظر اس سے کہ وہ اسے سمجھے یا نہیں۔ دوسری جانب ان کی نظر حالات پر تھی۔ نظر برحالات وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ انگریزوں کی مخالفت اور مزاحمت کی بجاے اگر مسلمان ان سے اشتراک اور تعاون کی راہ اختیار کریں تو یہ ان کے حق میں بہتر ہوگا۔ انھوں نے کہا حقائق کی تکذیب سے فائدہ؟ مسلمانوں کا اقتدار ختم ہوچکا ہے۔ کیوں نہ انگریزوں کے ہاتھوں وہ اپنی شکست کا اعتراف کریں اور انگریز جس نئے دور کو اپنے ساتھ لے کر آئے ہیں اس میں حکومت وقت کی اطاعت اور انگریزی تعلیم کے حصول سے اپنے مستقبل کی تعمیر میں مصروف ہوجائیں؟ سرسیّد کی قیادت ہماری نشاۃ الثانیہ کی تمہید ہے۔ لیکن ہم نہیں سمجھے تو یہ کہ سرسیّد نے جو کچھ کہا تھا باعتبار حالات اور بہ تقاضائے مصلحت۔ بعینہٖ اطاعت اور وفاداری بھی ایک وقتی چیز تھی اور حصول تعلیم بھی مسلمانوں کی ذہنی بیداری میں ایک ضروری مرحلہ۔ لیکن ہوا یہ…اور سرسیّد کے خلاف منشا… کہ اطاعت نے وفاداری لہٰذا محکومیت اور تعلیم نے انگریزیت، بہ الفاظ دیگر مغربیت کا راستہ اختیار کیا۔ پھر اگرچہ انگریز ہی اس زمانے میں اسلام اور عالمِ اسلام کے سب سے بڑے دشمن تھے اور وہی اس سیاست اور قومیت کی آڑ میں جس کی بنا وطنیت اور لادینی پر تھی اہلِ ہند کو ایک ایسا سبق دے رہے تھے جس کی زد براہ راست مسلمانوں پر پڑتی تھی، بایں ہمہ مسلمانوں کے دل میں یہ خیال روز بروز تقویت پکڑتا گیا کہ ان کا مفاد اسی میں ہے کہ انگریز اس ملک پر قابض رہیں۔ لہٰذا ان کے سامنے دو ہی راستے تھے… انگریزوں کی مخالفت، یا موافقت۔ مختصراً یہ کہ ان کی سیاست میں نرم و گرم یا یمین و یسار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ وہ وفادار تھے یاباغی، اعتدال پسند بہرحال نہیں تھے اور اگر تھے بھی تو ان کا شمار وفاداروں ہی میں ہوتا۔۸؎ حضرت علامہ نے میری معروضات سنیں تو فرمایا ’’سرسیّد کی ذات بڑی بلند تھی، بڑی ہمہ گیر۔ افسوس ہے مسلمانوں کو پھر ویسا کوئی رہنما نہیں ملا‘‘۔ ارشاد ہوا ’’انگریز بڑا کایاں ہے۔ سیاست کے داؤپیچ خوب سمجھتا ہے۔ اس نے وہاں بھی جود و سخا سے کام لیا جہاں وفاداری میں ابھی محکومی پر قناعت اور رضامندی کا رنگ پیدا نہیں ہوا تھا۔‘‘ پھر قدرے سکوت فرمایا جیسے کوئی بات یاد آگئی اور کہا ’’مثلاً…… نے خود مجھ سے کہا…‘‘ میرے دل میں ایک بات کھٹک رہی تھی اور وہ یہ کہ جس طرح وفاداری سے رفتہ رفتہ محکومی پر قناعت اور رضامندی کو تحریک ہوئی بلکہ ایک حد تک اس خیال کو کہ برطانوی نظام حکومت سے بہتر نہ کوئی نظام سیاست ہے، نہ برطانوی سلطنت کو شاید کبھی زوال ہوگا، بعینہٖ تعلیم سے تقلید و تشبہ کو۔ علی گڑھ کی عمارت آکسفورڈ اور کیمبرج کے نمونوں پر تیار ہوئی تھی۔ اس سے مسلمانوں کا ذہنی احیا مقصود تھا، نہ ان کے شعور ملی کی تقویت۔ مقصد تھا تو یہ کہ مسلمان مغربی علوم و فنون حاصل کریں اور مغربی تہذیب و تمدن سے آشنا ہوں۔ یہ مقصد پورا ہوا، مسلمان مغرب کی طرف بڑھے اور جیسا کہ سرسیّد نے کہا تھا اس یقین و اعتماد کے ساتھ کہ اسلام ان کی ترقی میں حائل ہے، نہ سیاست اور تہذیب و تمدن میں آگے بڑھنے سے روکتا ہے۔ وہ حکومت وقت سے اشتراک اور مغربی تہذیب اختیار کریں جب بھی مسلمان رہ سکتے ہیں۔ حالانکہ غور سے دیکھا جائے تو یہ ایک منفیانہ طرزِ عمل تھا، اس لیے کہ محض اتنا کہ دینے سے کہ اسلام ہماری ترقی میں حائل نہیں کوئی مثبت راہ عمل پیدا نہیں ہوتی، نہ سیاست میں، نہ تہذیب و تمدن میں، گو باعتبارِ وقت یہ خیال بھی غنیمت تھا۔ یوں ایک نیا عزم اور نئی بیداری پیدا ہوئی لہٰذا علی گڑھ صحیح اسلامی تعلیم کا نہ سہی، ایک نئی قومی زندگی اور نئی روح کا مظہر بن گیا۔ وہ روح جو ہمارے جذبۂ ملی اور قومی عصبیت کا سرچشمہ ہے اور جس کی بدولت ہم نے ماضی سے نکل کر مستقبل میں قدم رکھا۔ لیکن علی گڑھ نہیں سمجھا کہ اسلام نے تہذیب و تمدن کا ایک اپنا تصور قائم کیا ہے اور ہماری انفرادیت اور جداگانہ تشخص کا راز اس کوشش میں مضمر کہ اس تصور کی ترجمانی اپنے عمل میں کریں۔ ایسے ہی یہ حقیقت بھی اس کی نگاہوں سے اوجھل رہی کہ اسلام بجاے خود ایک نظام اجتماع و عمران ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے جو بھی سیاسی لائحہ عمل مرتب کریں اس کی رعایت سے کریں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری صفوں میں انتشار پیدا ہوتا گیا اور کوئی صحیح قیادت قائم نہ ہوسکی۔ خواص کا رشتہ عوام سے کٹ گیا۔ عوام پرانی روایات اور ماضی میں اُلجھے رہے۔ خواص نے اپنے ارد گرد ایک مصنوعی دنیا آباد کرلی… ایسی دنیا جس کی فضا سرتاسر مغربی تھی۔ ان کا دل مغرب میں تھا، بدن قومی رشتوں میں جکڑا ہوا۔ وہ گویا دھری زندگی بسر کررہے تھے۔ اندریں صورت وہ تحریکیں بھی جو بطور احتجاج یا رد عمل کے پیدا ہوئیں بے نتیجہ رہیں۔ وہ بھی ہماری نشاۃ الثانیہ کا صحیح رُخ متعین نہیں کرسکیں۔ ارشاد ہوا ’’غلامی اور محکومی بہت بڑی لعنت ہے۔ حکومت اور اقتدار ایک سحر ہے جس سے محکوموں کے دل و دماغ ماؤف ہوجاتے ہیں۔ علی گڑھ کی کتنی بڑی خوبی ہے کہ اس نے ہمارے دل و دماغ کو محفوظ رکھا۔ یا پھر یوں کہنا چاہیے کہ اسلام میں زندگی کی بے پناہ قوت ہے۔ یہ قوت علی گڑھ میں بھی کارفرما تھی، لہٰذا باوجود مغربی تعلیم کے مسلمانوں کا جذبۂ ملی قائم اور برقرار رہا۔‘‘ پھر فرمایا ’’انسان جب کسی تہذیب سے متاثر ہوتا ہے تو اس کی اچھی بری سب باتیں اختیار کرلینا ہے۔ مغربی تہذیب کی نقالی اور اس کے ظاہری اور سطحی پہلوؤں کی دل کشی بجاے خود ایک مصیبت تھی، مغربی تعلیم نے ہمارے لیے اور بھی فتنے پیدا کردیے۔‘‘ ارشاد ہوا ’’آج کی بات اور ہے۔ آج اس تعلیم کے مضر نتائج ہمارے سامنے ہیں جسے کبھی ترقی کا واحد ذریعہ ٹھہرایا جاتا تھا۔ ہم اس تعلیم کا ماتم کہاں کہاں نہیں کرتے… سیاست میں، اخلاق میں، فکر و فرہنگ میں، تمدن اور معاشرت میں۔ لیکن اس کی خرابیاں تو ابتدا ہی سے عیاں تھیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ یوں دلوں میں جو فساد پیدا ہوا اس کے اثرات بہت آگے چل کر سامنے آئے۔‘‘ میں ہنوز کچھ عرض نہیں کرنے پایا تھا کہ حضرت علامہ نے حقے کے دو ایک کش لے کر فرمایا ’’اس کی مثال یہ ہے کہ …جب حصول تعلیم کے بعد ولایت سے واپس آئے تو ایک روز موچی دروازے۹؎ کے باہر تقریر میں کہنے لگے ہمیں مغرب سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ ہمارا قانون وراثت بڑا ناقص ہے۔ ہمیں چاہیے اس قانون کو بدل دیں اور وہ راستہ اختیار کریں جو مہذب ملکوں کا ہے۔‘‘ اس پر میں نے بہ تعجب دریافت کیا کہ ہمارے قانون وراثت میں کیا نقص ہے اور وہ کیا راستہ ہے جو مہذب ممالک کے اتباع میں ہمیں اختیار کرنا چاہیے۔ ارشاد ہوا ’’نقص یہ ہے کہ ہمارے قانون وراثت نے بیٹوں اور بیٹیوں سب کو حصے دار ٹھہرایا ہے۔ سب کا ورثے میں اپنا اپنا حق ہے۱۰؎ اب اگر کسی شخص کا ترکہ صرف زر وسیم پر مشتمل ہے تو خیر کوئی بات نہیں، لیکن اگر ترکے میں زمین بھی شامل ہے اور جیسا کہ شریعت کا تقاضا ہے بیٹوں اور بیٹیوں سب کو حصہ دیا گیا تو اس تقسیم در تقسیم سے ایک روز یہ صورت ہوگی کہ کسی کے پاس کوئی زمین نہیں رہے گی، یعنی جہاں تک کاشت کا تعلق ہے بٹتے بٹتے کالعدم ہوجائے گی۔‘‘ فرمایا ’’یہ تو ہوا بقول… ہمارے قانون وراثت کا نقص۔ صلاح کا راستہ یہ ہے کہ بیٹیوں کو زمین سے مطلق حصہ نہ ملے جیسا کہ رواجاً پنجاب میں طے پاچکا ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا، لیکن یوں بھی تو اس خرابی کا سدباب نہیں ہوگا جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے، اس لیے کہ زمین بیٹوں اور بیٹیوں میں نہ سہی بیٹوں اور ان کے بیٹوں میں تقسیم در تقسیم ہوتے ہوتے بہرحال کالعدم ہوجائے گی اور انجام کار کسی کے پاس کاشت کے لیے کچھ نہ رہے گا۔ لہٰذا …صاحب جس صورتِ حالات سے خائف ہیں اس سے مفر تو کسی طرح بھی ممکن نہیں۔ ارشاد ہوا ’’مگر یہ بات ایک زمیندار کی سمجھ میں تو نہیں آئے گی۔ وہ اپنے رسم و رواج سے مجبور ہے، سمجھنا چاہے بھی تو نہیں سمجھے گا۔ اس کی دنیا بڑی محدود ہے۔‘‘۱۱؎ میں نے کہا، لیکن پڑھے لکھے زمیندار تو خوب جانتے ہیں کہ پنجاب کے زمینداروں نے اگرچہ زمین کے معاملے میں بیٹیوں کو محروم الارث قرار دے رکھا ہے بایں ہمہ حکومت مجبور ہوگئی کہ ان کی چھوٹی چھوٹی زمینداروں کے پیشِ نظر اشتمال اراضی کا قانون نافذ کرے۔۱۲؎ یا پھر زمین کو تمام و کمال محفوظ رکھا جاسکتا ہے تو یوں کہ ہمارے یہاں بھی حق خلف اکبر۱۳؎ کے دستور پر عمل کیا جائے مگر اسلام تو اس قسم کے کسی دستور کو گوارا نہیں کرتا۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم اس نظام معاشرت کی نفی کررہے ہیں جو شریعت کا مقصود ہے۔ اس پر اسلامی تاریخ میں زمین کی حیثیت پر گفتگو ہونے لگی۔ عالمِ اسلام میں تو کبھی اس قسم کی زمینداریاں قائم نہیں ہوئیں جن سے آج ہمیں سابقہ پڑرہا ہے، نہ زمین پر افراد کے حق ملکیت نے وہ شکل اختیار کی جو اب اختیار کر رکھی ہے۔ حالانکہ نظام خلافت درہم برہم ہوگیا، بادشاہت نے سر اُٹھایا، جاگیریں قائم ہوئیں، حتیٰ کہ مزارعت کو بھی جائز قرار دیا گیا۔۱۴؎ ارشاد ہوا ’’دراصل ضرورت اس اَمر کی ہے کہ ہمارے فقہا نے زمین کے مسئلے میں جو کچھ لکھا ہے اس کا بہ تحقیق مطالعہ کیا جائے۔۱۵؎ پھر ماہرین فن موجودہ حالات کی رعایت سے اس مسئلے پر غور کریں۔ زمین کی بہرحال یہ حیثیت نہیں کہ ہم اس پر عام اشیائے استعمال کی طرح افراد کا حق ملکیت تسلیم کریں… نے اپنی تقریر میں جن خیالات کا اظہار کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے زمین کے باب میں اسلام کی روش کو سمجھا، نہ اسلامی قانون وراثت کی مصلحتوں کو۔‘‘۱۶؎ حضرت علامہ نے پھر جو… صاحب کا ذکر کیا تو میں نے پوچھا، کیا ان کی تقریر کو سن کر سامعین بالکل خاموش رہے، کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا؟ فرمایا ’’ان کی شخصیت اور محتاط گفتگو کے پیشِ نظر دوران تقریر میں تو کسی نے کچھ نہیں کہا۔ بعد میں البتہ کسی نے تعریف کی، کسی نے اعتراض، کوئی خاموش رہا‘‘ اور پھر قدرے سکوت کے بعد کہنے لگے ’’اب کے حالات بدل گئے ہیں، پرانے خیالات کی جگہ نئے خیالات نے لے لی ہے اور دنیا میں ایک ایسا نظام بھی قائم ہے جو زمین پر افراد کا حق ملکیت تسلیم نہیں کرتا۔۱۷؎ لوگوں نے کہنا شروع کردیا ہے کہ اسلام کا قانون وراثت بڑا خوب ہے۔ اس کی غایت ہے دولت کی تقسیم در تقسیم تاکہ زر اندوزی کی نوبت آئے، نہ اجارہ داری کی۔ نہ جاگیریں ہوں، نہ زمیندار اور کاشت کار کا باہمی نزاع۔ یوں نظام سرمایہ داری پر بھی کڑی ضرب لگتی ہے۔ رہی زمین سو زمین اللہ کا مال ہے۔۱۸؎ اس پر کسی کو حق ملکیت حاصل نہیں۔‘‘۱۹؎ ئ…ئ…ء حواشی ۱- شاید یہی وجہ ہے کہ حضرت علامہ کی وفات سے لے کر اب تک ’اقبالیات‘ کی بحث میں اگرچہ تصنیفات و تالیفات اور مقالات کا اچھا خاصا ذخیرہ جمع ہوگیا ہے لیکن بجز معدودے چند مستثنیات کے اور وہ بھی جزوی طور پر ایسی کوئی تحریر نہیں ملے گی جس میں اس موضوع پر اساساً گفتگو کی گئی ہو۔ ۲- اب اسلامیہ کالج، ریلوے روڈ۔ ۳- ٹائمز آف لنڈن۔ ۴- انگلستان کا ’لاٹ پادری‘۔ ۵- پورا قطعہ یوں ہے: اخبار میں یہ لکھتا ہے لندن کا پادری ہم کو نہیں ہے مذہب اسلام سے عناد لیکن وہ ظلم ننگ ہے تہذیب کے لیے کرتے ہیں ارمنوں پہ جو ترکان بدنہاد مسلم بھی ہوں حمایت حق میں ہمارے ساتھ مٹ جائے تاجہاں سے بناے شروفساد سن کر یہ بات خوب کہی شاہ نواز نے بلی چوہے کو دیتی ہے پیغام اتحاد ۶- چنانچہ زمیندار ایسے حریت پسند اخبار میں بھی یہ شعر برسوں زیب عنوان رہا۔ تم خیر خواہ دولت برطانیہ رہو سمجھیں جناب قیصر ہند اپنا جان نثار ۷- قبل تقسیم کا ’لبرل فیڈریشن‘ (Liberal Feferation) ۸- اور یہ وہ نکتہ ہے جسے لسان العصر اکبر نے اپنے مخصوص انداز میں کس خوبی سے سمجھایا ہے: شیخ جی کے دونوں بیٹے باہنر پیدا ہوئے ایک ہے خفیہ پولیس میں ایک پھانسی پاگیا ۹- اصل میں موتی دروازہ جب تک لاہور کی آبادی اندرون شہر میں محدود رہی موچی دروازہ اور گول سڑک کا درمیانی باغ ہی اسلامی اجتماعات کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ ۱۰- لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ وَ لِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ اَوْکَثُرَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا…(النسائ: ۷) ۱۱- مگر بحمدللّٰہ کہ قیام پاکستان کے بعد حالات وہ نہیں رہے جن کے پیشِ نظر حضرت علامہ نے کبھی فرمایا تھا: بتا کیا تری زندگی کا ہے راز ہزاروں برس سے ہے تو خاک باز اسی خاک میں دب گئی تیری آگ سحر کی اذان ہوگئی اب تو جاگ زمیں میں ہے گو خاکیوں کی برات نہیں اس اندھیرے میں آب حیات زمانے میں جھوٹا ہے اس کا نگیں جو اپنی خودی کو پرکھتا نہیں بتان شعوب و قبائل کو توڑ رسوم کہن کے سلاسل کو توڑ یہی دین محکم یہی فتح یاب کہ دنیا میں توحید ہو بے حجاب بخاک بدن دانۂ دل فشان کہ این دانہ دارد ز حاصل نشان بال جبریل ۱۲- تاکہ چھوٹے چھوٹے قطعات کو باہم ملاکر بڑے پیمانے پر کاشت کی جاسکے اور یوں مالکان قطعات اور ملک کی زرعی پیداوار دونوں کو فائدہ پہنچے۔ ۱۳- جیسا کہ مغرب کی تقلید میں اور انگریزی قانون سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہمارے یہاں بھی اس قسم کی زمینداریاں قائم ہوئیں۔ ۱۴- مثلاً فقہ حنفی کی رُو سے۔ اگرچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ ’عندہ‘ یعنی امام ابو حنیفہ کے نزدیک ناجائزہ ہے۔ البتہ ’عندھہا‘ یعنی امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک جائز۔ بایں ہمہ اس مزارعت اور آج کل کی مزارعت میں بڑا فرق ہے۔ دیکھیے فتاویٰ عالمگیری۔ ۱۵- تاکہ جہاں کہیں نظام خلافت سے انحراف کے باعث ذاتی املاک کا دائرہ پھیلنے لگا، یا ملکیت، مالک اور ملک کے تصورات میں کچھ مخصوص اور ناقابلِ تغیر معنی پیدا کرلیے گئے، یا حالات نے اُمت کا رُخ بعض غلط اقدامات کی طرف موڑ دیا ان کی تعیین ہوجائے اور اسلام کی روح اجتہاد جو ہر قسم کے غصب و تغلب کے خلاف ہے کورانہ تقلید کے پھندوں سے استخلاص حاصل کرسکے۔ ۱۶- اور جن کی طرف تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ میں حضرت علامہ نے چند معنی خیز اشارے کیے ہیں۔ فان کریم کہتا ہے، اسلامی قانون وراثت ایک اچھوتی چیز ہے جس کی مصلحتوں کو ابھی ہمیں سمجھنا ہے۔ دیکھیے چھٹا خطبہ، الاجتہاد فی الاسلام۔ ۱۷- اس وقت جمہوریہ شورائیہ روس میں۔ ۱۸- قال الامام ابو یوسف ’الارض اللّٰہ، ثم للرسول، ثم للمسلمین…کتاب الخراج ۱۹- والارض وضعہا للانام-۵۵ (الرحمن):۷ لہٰذا عالم قرآنی کے تیسرے رکن ’ارض ملک خداست، کی وضاحت میں پیغام افغانی بہ ملت روسیہ کے تحت حضرت علامہ کے ارشادات: رزق خود را از زمین بردن رواست این متاع بندۂ و ملک خدا ست بندۂ مومن امین حق مالک است غیر حق ہر شے کہ بینی ہالک است آب و نان ماست از یک مائدہ دودۂ آدم کنفس واحدہ جاوید نامہ کے ان اشعار میں شعر اول کے مصرع ثانی کا اشارہ ہے وَلَکُمْ فِیْ الاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ-۲ (البقرہ): ۳۶ اور آخری شعر کے دوسرے مصرعے کا وَمَا خَلْقُکُمْ وَلَا بَعْثُکُمْ اِلَّا کَنَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ-۳۱ (لقمان): ۲۸ کی طرف۔ اور پھر بال جبریل میں وانتم تزرعونہ ام نحن الزارعون-۵۶ (واقعہ): ۶۴ کے حوالے سے کہتے ہوئے: پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون ان کا یہ کہنا: وہ خدایا یہ زمین تیری نہیں میری نہیں تیرے آبا کی نہیں میری نہیں تیری نہیں اور جس میں بنیادی نکتہ وضع ارض (وضعھا) ہے۔ تفصیل آگے آئے گی۔ شنبہ: ۸؍جنوری خیال تھا جب تک مضمون کی تکمیل نہیں ہوتی صبح یا شام کسی وقت سرسری طور پر جاوید منزل ہوآیا کروں۔ مطلب یہ تھا کہ حضرت علامہ کی مزاج پرسی کے ساتھ ساتھ تھوڑی بہت گفتگو مضمون پر ہوجایا کرے اور حالات کی بھی اطلاع رہے، لیکن ایک تو مضمون مکمل نہ ہوا، نیٹشے کے بارے میں ایک اَمر دریافت طلب تھا۔ دوسرے ابھی صبح ہی تھی کہ علی بخش آگیا۔ کہنے لگا ڈاکٹر صاحب یاد کررہے ہیں، ارشاد ہے کسی وقت حاضر ہوجاؤں۔ ضروری نہیں کہ ابھی حکیم صاحب۱؎ کے ساتھ دوا لینے آیا تھا، آپ کو بھی پیغام دینا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی طبیعت اچھی ہے، رات آرام سے سوئے۔ کوئی تین بجے تھے کہ جاوید منزل پہنچا۔ معلوم ہوا حضرت علامہ منتظر ہیں۔ حسبِ معمول خواب گاہ میں داخل ہوا، سلام عرض کیا، خیریت مزاج پوچھی اور معذرت کی کہ حاضری میں دیر ہوگئی۔ فرمایا ’’کوئی مضائقہ نہیں۔ چند ایک اشعار۲؎ ہوگئے ہیں۔ تمھارا آنا ضروری تھا کہ درج بیاض ہوجائیں۔ کچھ رباعیاں ہیں، قلمبند کردو۔ میں تعمیل ارشاد کے لیے اُٹھا۔ الماری۳؎ سے بیاض نکالی۔ قلمدان۴؎ اُٹھایا اور اپنی جگہ پر آبیٹھا۔ حضرت علامہ نے پاس ہی رکھی ہوئی تپائی کی طرف ہاتھ بڑھایا، دو چار پرزے کاغذوں کے اُٹھائے انھیں اُلٹ پلٹ کردیکھا اور فرمایا لکھو۔ میں بصد شوق حضرت علامہ کے ارشادات کا منتظر تھا۔ جیسے جیسے حضرت علامہ کاغذ کے پرزوں کو ترتیب دیتے میرا اشتیاق بڑھ رہا تھا کہ وہ کیا حقائق اور کیا افکار ہیں جو اَب زیبِ قرطاس ہوں گے۔ حضرت علامہ جب ایک ایک کرکے پرزوں کا جائزہ لے چکے تو یہ دیکھ کر کہ میں اُن کے ارشاد کا منتظر ہوں اول انھیں اپنی جگہ پر رکھ دیا۔ پھر ایک پرزہ اُٹھایا اور ایک آدھ لفظ پر جو بطور یادداشت اس پر لکھ رکھا تھا نظر ڈالتے ہوئے ایک رباعی ارشاد فرمائی، پھر دوسری اور ایسے ہی یکے بعد دیگرے تیسری اور چوتھی تا آنکہ جملہ رباعیاں قلمبند ہوگئیں۔ جس طرح غالب کے بارے میں لکھا ہے کہ اگر رات کو دفعۃً طبیعت میں آمد ہوتی اور شعر پر شعر ہونے لگتا تو سہولت حفظ کے لیے ہر شعر پر کمربند میں گرہ لگالیتے۔ صبح اُٹھ کر ایک ایک گرہ کھولتے، شعر حافظے میں مستحضر ہوجاتا اور مرزا صاحب اسے بیاض میں نقل کرلیتے۔ بعینہٖ میں نے دیکھا کہ حضرت علامہ نے بھی کاغذ کے متفرق پرزوں پر ٹوٹے پھوٹے حروف کی صورت میں کچھ نشان کررکھے تھے جن پر نظر ڈالتے تو ہر نشان پر جیسے جیسے کوئی رباعی ذہن میں لوٹ آتی حضرت علامہ اسے لکھوانا شروع کردیتے۔ یوں رباعیاں قلمبند ہوگئیں تو ایک ایک رباعی پڑھوا کر سنی، کبھی ایک بار کبھی مکرر۔ میں ہر رباعی رُک رُک اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا۔ حضرت علامہ اسے غور سے سنتے اور جہاں کہیں مناسب ہوتا اصلاح بھی فرمادیتے، تاآنکہ رباعیاں صاف ہوگئیں اور میں نے بیاض الماری میں رکھ دی۔ ارشاد ہوا ’’مضمون کیا مکمل ہوگیا؟‘‘ میں نے عرض کیا قریباً قریباً، لیکن ایک اَمر دریافت طلب ہے۔ فرمایا کیا؟ میں نے کہا یہ کہ نیٹشے کے ذہن میں جماعت کا کوئی تصور بھی تھا، یا نہیں؟ فرمایا ’’تمھیں یہ خیال کیسے آیا؟‘‘ میں نے عرض کیا یوں کہ نیٹشے کا بنیادی تصور ہے فوق البشر جس سے خیال ہوتا ہے اس کی تمام تر توجہ فرد پر تھی۔ وہ ارادہ براے طاقت۵؎ کا قائل ہے، لہٰذا طاقت کا پرستار۔۶؎ طاقت ہی کی پرستش میں اس نے فوق البشر کا تصور قائم کیا۷؎ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان اور ذات انسانی کے بارے میں ہم جو تصور بھی قائم کریں گے اس میں ہمارا ذہن فرد ہی پر مرکوز ہوگا، خواہ اس تصور کی نوعیت کچھ بھی ہو، محدود۸؎ یا فرد اور جماعت دونوں پر حاوی۔۹؎ اس لیے کہ جماعت کی ترکیب افراد ہی سے ہوتی ہے۔ افراد ہی کسی تصور کی بنا پر جماعت کی طرح ڈالتے ہیں، لیکن نیٹشے تو ہمیشہ فرد ہی سے خطاب کرتا ہے جیسے اس کے سامنے صرف فرد ہی کی ذات ہے، فرد ہی کی شخصیت، تقدیر اور مستقبل۔ ارشاد ہوا ’’تم نے اپنی بات پوری نہیں کی‘‘۔ میں نے کہا، میں یہ عرض کرنا چاہتا تھا کہ نیٹشے نے جماعت کا بہت کم ذکر کیا ہے۔ اگر کیا ہے تو اس کے امارتی نظام۱۰؎ کا۔ فرمایا ’’تمھارا خیال صحیح ہے۔ یہ مسئلہ کہ جماعت کے باب میں اس کا مسلک کیا تھا فی الواقعہ مختلف فیہ ہے۔ ممکن ہے اس کا خیال ہو کہ فوق البشر ہی رفتہ رفتہ یک جماعت کی شکل اختیار کرلیں گے۔۱۱؎ میں نے عرض کیا، لیکن فوق البشر کا ظہور تو کبھی کبھی ہوتا ہے۔ اس کی ساری خوبی اس کی انفرادیت اور کمیابی میں ہے۔ وہ نصب العین ہے، باقی سب اس کے پیرو اور منتظر۔ فرمایا ’’جب ہی تو اس کے متبعین نے اس باب میں الگ الگ رائیں قائم کی ہیں، لیکن میرا اپنا خیال یہ ہے کہ نیٹشے کی طبیعت پر انفرادیت پسندی ہی کا غلبہ تھا۔ اس کی ہمشیرہ۱۲؎ نے بھی تو یہی لکھا ہے کہ اسے ایرانیوں۱۳؎ کا یہ عقیدہ کہ ہر صدی میں ایک مجدد۱۴؎ کا ظہور ہوتا ہے۱۵؎ بڑا پسند تھا۔ ممکن ہے وہ اپنے آپ کو مجدد ہی سمجھتا ہو۔‘‘۱۶؎ ئ…ئ…ء حواشی ۱- قرشی صاحب۔ ۲- بسلسلہ ارمغان حجاز ۳- یہ الماری حضرت علامہ کے سرہانے دیوار سے لگی تھی (شاید اب بھی) جس میں قرآن مجید کے علاوہ کچھ کتابیں اور کاغذات رکھے رہتے۔ ۴- خاصا پرانا اور سال ہا سال سے حضرت علامہ کے زیر استعمال۔ ۵- Will, to power باتباع کانٹ اور شوپن ہاوئر۔ کانٹ کے نزدیک عقل محض نارسا ہے، حقیقت تک نہیں پہنچتی۔ لہٰذا انسان کا سہارا ہے ارادہ براے خیر عملاً اور اخلاقاً دونوں لحاظ سے۔ شوپین ہاوئر کہتا ہے ارادہ (مشیت) ہی اصل حقیقت ہے، گو بے بصر۔ لہٰذا اس کی قنوطیت کہ جو کچھ ہے عبث، بے معنی اور بے مقصد۔ زندگی محض دکھ ہے۔ نیٹشے کہتا ہے بہتر، لیکن اس قنوطیت اور دکھ درد کو طاقت کا سرچشمہ بننا چاہیے۔ دیکھیے پیام مشرق ’’شوپن ہار و نیٹشا‘‘۔ مرغے ز آشیانہ بہ سیر چمن پرید خارے ز شاخ گل بہ تن ناز کشن خلید بد گفت فطرت چمن روزگار را از درد خویش وہم ز غم دیگراں تبید جس پر نیٹشے نے کہا: درمیان ز درد ساز اگر خستہ تن شوی خوگر بہ خار شو کہ سراپا چمن شوی ۶- اور اس لیے اخلاق بھی طاقت کے تابع ہے، لیکن حضرت علامہ کے نزدیک طاقت کا معیار ہے اخلاق اور اخلاق سے مقصود حفظ خودی-خود داری، خود گری، خود نگری۔ ۷- ارادہ براے طاقت کا مظہر اتم بمقابلہ نائب حق، جو طاقت کے باوجود مکارم اخلاق کا نمونہ ہے اور نوعِ انسانی کے لیے رحمت۔ نائب حق کی ذات میں طاقت کی حیثیت بھی ایک اخلاقی قدر کی ہوجاتی ہے۔ ۸- جیسے غالباً نیٹشے کا۔ ۹۔ جیسا کہ بزبان عارف روم حضرت علامہ نے رموز بے خودی کے تعارف میں فرمایا: جہد کن در بے خودی خود رابیاب زود تر واللہ اعلم بالصواب ۱۰- یونان کی سیاسی اصطلاح میں (Aristocratic) بمقابلہ جمہوری (Democratic) تاکہ زمام اقتدار خواص کے ہاتھ میں رہے۔ نیٹشے کا خیال تھا کہ یورپ کے سیاسی نظام میں عوام کو خواص پر برتری حاصل ہے۔ درآں حالیکہ برتری خواص کا حق ہے، نہ کہ عوام کا۔ ۱۱- اور جس میں اقلیت (خواص) اکثریت (عوام) پر غالب رہے گی۔ ۱۲- Elizbeth ایلزابیتھ اپنے بھائی کی سوانح نگار اور آخر عمر بالخصوص زمانہ علالت میں اس کا سہارا۔ ۱۳- قبل اسلام کے ایرانیوں، یعنی مجوسیوں، عرف عام میں پارسیوں یا پیروان زرتشت کا۔ ۱۴- لغوی، نہ کہ اسلامی اصطلاح میں۔ ۱۵- اصطلاحاً زرتشت کے کسی نازائیدہ بیٹے، یعنی مثیل کا۔ جیسا کہ معلوم ہے مجوسیوں کے نزدیک خیر اور شر دو الگ الگ اُصول ہیں۔ محاورۂ عام میں خیر کو یزداں کہا گیا ہے، شر کو اہریمن۔ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں، لہٰذا دونوں میں مسلسل آویزش جاری ہے۔ ابتدا میں خیر کو غلبہ حاصل تھا۔ پھر شر نے خیر پر فتح پائی۔ آخرالامر خیر ہی کا غلبہ ہوگا، لیکن اس زمانے میں کہ خیر شر سے مغلوب ہے اور جسے بیچ کا زمانہ کہا گیا ہے ایسی عظیم ہستیوں کا ظہور ہوتا رہے گا، جن سے خیر کو تقویت پہنچے گی۔ اہلِ مغرب نے ان کو زرتشت کے نازائیدہ بیٹے کہا ہے، حضرت علامہ نے مجدد۔ اس لیے کہ یہی ہستیاں ہیں جن کی بدولت دین زرتشت کی تجدید ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ مجوسی ذہن پر انتظار کا غلبہ ہے۔ ہمیشہ کسی آنے والے کا منتظر۔ ۱۶- نیٹشے زرتشت کا بڑا قائل تھا۔ وہ اس کا ذکر بڑے ذوق و شوق سے کرتا ہے، بلکہ اپنے آپ کو اس کا پیرو ٹھہراتا ہے، عقیدۃً نہیں معناً اس لیے کہ نیٹشے کو بھی اپنے رنگ میں ایک معرکہ درپیش تھا۔ خیر و شر کا نہ سہی، انسان کی تقدیر اور مستقبل کا۔ وہ کہتا ہے زندگی نام ہے اس مسلسل آویزش کا جس میں ہماری کامیابی کا دارومدار میں وہ ذی قوت اور صحت مند ہستیاں جو اعلیٰ زندگی کا نمونہ ہوں۔ لہٰذا ایرانیوں کے عقیدۂ مجددین کے لیے نیٹشے کی شیفتگی اور اپنی بہترین تصنیف، یا کتاب دعوت کے لیے اس کا عنوان Also Sprach Zarathustra ’’چنین گفت است زرتشت‘‘۔ ’’ممکن ہے وہ اپنے آپ کو مجدد ہی سمجھتا ہو۔‘‘ ان معنوں میں کہ نیٹشے مغرب کی مسیحی دنیا سے بیزار تھا۔ اس کا خیال تھا مسیحیت نے انسان کو ضعف اور بے بسی پر راضی کررکھا ہے۔ یہ شکست اور فرار ہے، تعطل اور بزدلی؛ چنانچہ مسیحیت کے خلاف اس نے اپنی دعوت جس دلی جوش اور ولولے سے پیش کی اسے سب جانتے ہیں۔ کیا خوب کہا ہے حضرت علامہ نے ؎ از سستی عناصر انسان دنش تپید فکر حکیم پیکر محکم تر آفرید افگند در فرنگ صد آشوب تازہ! دیوانۂ بکارگہ شیشہ گر رسید پیام مشرق ز…ز…ز دو شنبہ: ۱۰؍جنوری کل ’یوم اقبال‘ تھا۔ دہلی سے مولانا اسلم۱؎ ، جناب پرویز۲؎ ، شیخ سراج الحق۳؎ اور حضرت اسد ملتانی۴؎ بھی اس تقریب میں شریک ہوئے۔ دن بھر جلسوں اور ملاقاتوں سے فرصت نہ ملی کہ حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ لہٰذا ابھی آٹھ نہیں بجے تھے کہ جاوید منزل پہنچ گیا۔ اول علی بخش سے ملا۔ حضرت علامہ کی خیریت مزاج دریافت کی۔ معلوم ہوا طبیعت اچھی ہے۔ ابھی ناشتہ کیا اور دوا کھائی ہے۔ قرشی صاحب آئے تھے، چودھری صاحب۵؎ بھی ہوگئے ہیں۔ میں نے خواب گاہ میں داخل ہوکر سلام عرض کیا اور مزاج پوچھا۔ فرمایا ’’الحمدللّٰہ اچھا ہوں‘‘۔ پھر کہنے لگے، آج اتنے سویرے کیسے آگئے؟ میں نے عرض کیا کل فرصت نہیں ملی کہ حاضر خدمت ہوتا۔ یوں بھی مجھے جلد آنا تھا۔ مولانا اسلم اور احبابِ دہلی مشتاق زیارت ہیں۔ ان کا اصرار تھا آپ سے اجازت حاصل کرلوں۔ انھیں آج ہی واپس جانا ہے۔ ارشاد ہوا ’’اجازت کی کیا ضرورت ہے، مولانا اور ان کے احباب شوق سے تشریف لائیں۔‘‘ یوم اقبال کی باتیں ہونے لگیں۔ فرمایا ’’کل کی تقریب کیسی رہی، مضامین کا کیا انداز تھا؟‘‘ میں ابھی کچھ کہنے نہیں پایا تھا کہ علی بخش نے مولانا اور احبابِ دہلی کے آنے کی اطلاع کی۔ حضرت علامہ نے فرمایا ’’بہت بہتر، کرسیاں آگے بڑھا اور چلم بدل لاؤ۔‘‘ جب تک علی بخش ٹھیک کرتا میں پیشوائی کے لیے برآمدے کی طرف بڑھااور ان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کمرے میں لے آیا۔ مولانا کمرے میں داخل ہوئے، سلام کے لیے ہاتھ اُٹھایا اور پھر بکمال مودت آگے بڑھ کر حضرت علامہ سے مصافحہ کیا۔ حضرت علامہ بھی بڑے تپاک سے پیش آئے۔ مولانا کے سلام کا جواب اُٹھ کر دیا اور انھیں اپنے پاس بٹھانا چاہتے تھے کہ مولانا خود ہی پلنگ کے ساتھ رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئے۔ احبابِ دہلی بھی آگے بڑھے۔ ان کے ہمراہ ایک صاحب اور بھی تھے۔۶؎ انھوں نے بھی سلام کرتے ہوئے حضرت علامہ سے مصافحہ کیا اور پلنگ کے ساتھ لگی ہوئی کرسیوں پر بیٹھ گئے تو میں نے چند کلمات بطور تعارف کہے۔ مولانا نے بڑی سے حضرت علامہ کی خیریت مزاج دریافت کی۔ اس پر علاج معالجے کا ذکر چل نکلا۔ حضرت علامہ مختصراً اپنی علالت، دوا اور غذا کا حال بیان کرتے رہے۔ فرمایا ’’علاج حکیم نابینا صاحب ہی کا ہے۔ مجھے جو بھی فائدہ ہوا انھیں کی دواؤں سے ہوا، لیکن اب کئی مہینوں سے صحت ایک خاص مرحلے سے آگے نہیں بڑھی۔ جسم کمزور ہورہا ہے، گلا برابر بیٹھا ہوا۔ آواز میں کشایش نہیں ہوتی۔‘‘ مولانا نے کہا اللہ آپ کو شفا دے، ہماری تو شب و روز یہی دعاہے۔ حضرت علامہ نے حقے کے دو ایک کش لیے اور نَے مولانا کی طرف پھیر دی۔ پرویز صاحب نے سفر حج کا ذکر چھیڑدیا۔ کہنے لگے کیا حج کا ارادہ پختہ ہے؟ حضرت علامہ نے فرمایا ’’ارادہ تو ہے بشرطیکہ صحت اجازت دے، ورنہ اب کے نہیں تو اگلے سال سہی، آگے جو اللہ کو منظور۔‘‘ پرویز صاحب نے کہا بے شک صحت شرط ہے۔ ہمیں تو بڑی تشویش تھی آپ اس حالت میں سفر کررہے ہیں۔ ایسا نہ ہو صحت کو گزند پہنچے۔ دنیا میں ہر کسی کی کوئی غرض ہوتی ہے۔ ہماری غرض آپ ہیں۔ حضرت علامہ نے تبسم فرمایا اور پھر وہی الفاظ دہرائے ’’جو اللہ کو منظور‘‘۔ ارشاد ہوا ’’ایک طرح سے تو میں حج ہی کے راستے میں ہوں۔ چاہتا ہوں یہ راستہ جلد طے ہوجائے۔‘‘ پھر ذرا دم لے کر، مگر بھرائی ہونی آواز میں فرمایا ’’یہ راستہ طے تو ہوجاتا ہے، لیکن مجھے اپنے آپ پر قابو نہیں رہتا۔ میں تو اب جو کچھ کہتا ہوں وہیں کے لیے کہتا ہوں‘‘ اور یہ کہتے کہتے دفعۃً رُک گئے جیسے شدت جذبات اظہار مدعا میں حارج ہو۔ بالآخر ارشاد فرمایا ’’آستانہ اقدس پر پہنچ جاؤں تو کچھ اور بھی عرض کروں۔‘‘ یہ گویا اشارہ تھا ارمغان حجاز کی طرف جس کی ابتدا کب سے ہوچکی تھی، لیکن جس کا نام ابھی تجویز نہیں ہوا تھا۔ حضرت علامہ تو اتنا کَہ کر خاموش ہوگئے، مگر احبابِ دہلی تو موقعے کی تلاش میں تھے۔ حضرت علامہ نے بات ختم کی تو انھوں نے تبرک کی فرمایش کردی۔ فرمایا ’’میں تو معذور ہوں، انھیں کچھ یاد ہو تو… اشارہ میری طرف تھا… سن لیجیے۔‘‘ اس پر احبابِ دہلی نے مستفسرانہ میری طرف دیکھا۔ حضرت علامہ ایک طرح سے اجازت دے ہی چکے تھے۔ میں نے حافظے پر زور دیا تو گفتگو کی رعایت سے ایک رباعی ذہن میں آگئی۔ میں نے مصرع اول پڑھا۔ دوسرا مصرع پڑھ رہا تھا کہ حضرت علامہ پر رقت طاری ہوگئی اور وہ بار بار اس کا تکرار کرنے لگے۔ میں خاموش ہوگیا۔ اس پر انھوں نے تیسرا مصرع خود ہی ارشاد فرمایا، لیکن ابھی پورے طور پر ادا نہیں کرپائے تھے کہ آواز گلوگیر ہوگئی اور وہ یوں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے کہ احبابِ دہلی پریشان ہوگئے۔ رباعی یہ تھی: تم واماند و جانم در تگ و پوست سوے شہرے کہ بطحا در رہ اوست تو باش ایں جا و با خاصاں بیامیز کہ من دارم ہواے منزل دوست میں خاموش تھا، احبابِ دہلی خاموش۔ وہ بڑی تشویش اور پریشانی سے حضرت علامہ کے جذب و گداز کی اس کیفیت کو دیکھ رہے اور اندر ہی اندر مضطرب تھے کہ اس کا کوئی ناگوار اثر ان کی طبیعت پر نہ پڑے۔ دوچار لمحے اسی حالت میں گزر گئے تاآنکہ حضرت علامہ کو سکون ہوا اور مولانا نے فرمایا اللہ تعالیٰ آپ کی آرزو پوری کرے۔ انھوں نے پھر میری طرف دیکھا۔ مطلب یہ تھا کوئی اور رباعی یاد ہو تو عرض کروں۔ میں نے قدرے تامل کیا اور پھر موقعے کی رعایت سے وہ رباعیاں سنائیں جن میں خطاب سلطان ابن سعود سے ہے: تو سلطان حجازی من فقیرم ولے در کشور معنی امیرم جہانے کو زتخم لا الٰہ رست بیابا بنگر بآغوش ضمیرم اور تو ہم آن مے بگیر از ساغر دوست کہ باشی تا ابد اندر بردوست سجودے نیست اے عبدالعزیز ایں برویم از مژہ خاک در دوست میرا خیال تھا ممکن ہے، یوں حضرت علامہ کا ذہن آسودہ ہو؛ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ انھوں نے بہ سکون اپنے اشعار سنے۔ کبھی کبھی حقے کا کش بھی لے لیتے۔ سلسلہ خیالات نہ معلوم کہاں تھا۔ مولانا شاید کوئی سوال کرنا چاہتے تھے کہ سلطان ابن سعود کا ذکر جو آیا تو بفحواے باز گو از نجد و از یاران نجد احبابِ دہلی نے سلطان اور اس کی حکومت پر نکتہ چینی شروع کردی۔ شاید اس خیال سے کہ حضرت علامہ بھی اس سلسلے میں کچھ ارشاد فرمائیں اور سرزمین عرب میں جو سیاسی اخلاقی انقلاب آچکا ہے اس کے متعلق اپنی راے کا اظہار کریں۔ یوں بھی حجاز اور سلطان حجاز کا ذکر آئے اور حرمین الشریفین پر گفتگو ہو تو ناممکن ہے، خاک پاک عرب کے سیاسی اور اجتماعی شئون زیر بحث نہ آئیں۔ احبابِ دہلی نے کہا جزیرۃ العرب آزاد ہے، لیکن یہ اس کی داخلی آزادی ہے یا عالمِ اسلام کے اتحاد و استقلال اور سیاست بین الاقوام کی رعایت سے بھی اس کے کچھ معنی ہیں۔ وہ اُمت کی بیداری اور اس کے احیا کی تمہید ہے یا بہ تقاضاے حالات ایک وقتی اور مقامی تغیر؟ حضرت علامہ خاموش تھے۔ احبابِ دہلی نے سلسلہ کلام اور آگے بڑھایا اور کہا ہمیں سلطان کے حسنِ انتظام کا اعتراف ہے، رعایا کے لیے ان کی خیرخواہی، عدل اور داد گستری کا۔ عرب میں ہر طرف امن و امان ہے۔ نہ فتنۂ و فساد ہے، نہ جرائم، نہ فواحش اور لوگ ہیں کہ تہذیب حاضر کی آلایشوں، تکلف اور تصنع سے پاک بڑی سادہ، عفیف اور آرام کی زندگی بسر کررہے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ اس زندگی کی تہ میں کیا وہ عوامل بھی کارفرما ہیں جن سے فرد کی شخصیت اور جماعت کا کردار ایک مخصوص سانچے میں ڈھلتا ہے اور جو گویا اس معاشرے کی جان ہیں جس کے لیے اُمت کی تشکیل ہوئی۔۷؎ سعودی انقلاب اس نظام اجتماع و عمران کی تمہید تو ہے نہیں، جو اسلام کے سامنے ہے۔ حالانکہ سلطان نے خود ہی اعلان کیا تھا کہ ارض حجاز میں بادشاہت قائم نہیں ہوگی۔ اس کے آیندہ نظام حکومت کا فیصلہ عالمِ اسلام کے مندوبین پر ہے۔۸؎ احبابِ دہلی نے کہا جزیرۃ العرب کی تطہیر بے شک ایک ضروری اور مقدس فریضہ ہے۔ بظاہر اس کی تطہیر ہوگئی، لیکن اس کی حقیقی تطہیر کا وقت کب آئے گا۔ کیا تطہیر عبارت ہے محض قبہ شکنی اور ردبدعات سے جیسا کہ علماے نجد سمجھتے ہیں؟ یا اس کا مقتضیٰ ہے ان سیاسی، اجتماعی اور ذہنی مفاسد کا ازالہ جو ہمارے زوال و انحطاط کا باعث ہوئے اور جن سے ارض حرمین بھی محفوظ نہیں رہی۔ انھوں نے کہا سرزمین عرب میں کہ مہبط وحی اور اسلام کا مولد و منشا ہے اس نظام مدنیت کی ابتدا کیوں نہیں ہوتی جس کا دوسرا نام ہے خلافت اسلامیہ اور جو اگر قائم نہیں تو اسلام کے اُصول و ارکان بھی محض عقاید، بلکہ رسم و رواج بن کر رہ جائیں گے۔ حضرت علامہ تو احبابِ دہلی کی معروضات جن میں کچھ افسوس، کچھ شکایت اور کچھ تلخی کا رنگ پیدا ہورہا تھا خاموشی سے سنتے رہے۔ کبھی کبھی کسی باب پر صاد بھی کردیتے، لیکن مولانا نے کہا عربوں کو مدت کے بعد ایک نئی اور پر امن زندگی ملی ہے۔ دنیا کی دوسری قوموں کی طرح ان کی بھی ایک فطرت ہے۔ یہ فطرت بدلتے ہی بدلے گی۔ سرِدست حالات ہی ایسے ہیں کہ ان کی نگاہیں رد بدعات اور قبہ شکنی سے آگے نہیں بڑھتیں۔ وقت آنے دیجیے وہ مسائل بھی آپ ہی آپ ان کے سامنے آجائیں گے جن پر آپ گفتگو کررہے ہیں۔۹؎ اس پر عرض کیا گیا کہ اگر عربوں کا عمل اسلام پر ہے تو یہ فطرت آپ ہی بدل جائے گی۔ دین ہی تو فطرت انسانی کا محافظ اور صورت گر ہے،۱۰؎ مگر یہ ایک طرف دین سے تمسک اور دوسری جانب استبداد اور ملوکیت، یہ دولت کی اجارہ داری اور غلامی یہ معاملہ سمجھ میں نہیں آتا۔ یوں ناممکن ہے عربوں میں وہ تغیر پیدا ہو جو کتاب و سنت کا مقصود ہے۔ کیا یہ اَمر ابھی اجتہاد طلب ہے کہ اسلام کی روح غصب و تغلب کے خلاف ہے۔ اس میں کسی ایسے طرزِ معاشرت کی گنجایش نہیں جس سے انسان کے شرف اور احترام ذات کو ٹھوکر لگے۔ سلطان اس تحریک کے علم بردار ہیں جسے احیائے شریعت اور تجدید دین کا دعویٰ ہے۔ ان کے لیے یہ سمجھنا کیا مشکل ہے کہ اسلام ان سے کس طرزِ عمل کا طالب ہے۔ اللہ نے انھیں حکومت دی ہے، طاقت دی ہے، وہ کیا کچھ نہیں کرسکتے۔ حضرت علامہ آرام سے لیٹے حقے کے کش لگا رہے تھے کہ مولانا نے کہا، عرب کیا سارے عالمِ اسلام کی حالت افسوسناک ہے۔ دین کا فہم کہاں ہے؟ کہیں بھی نہیں، ہمارے اور اسلامی دنیا میں باہم ربط و ضبط کا کوئی ذریعہ باقی رہ گیا ہے تو حج۔ لیکن حج کی حیثیت بھی کیا ہے ایک بے روح رسم و رواج، یا زیادہ سے زیادہ ایک روحانی فریضہ، بلکہ سچ پوچھیے تو بعض صورتوں میں محض تجارت۔۱۱؎ حالانکہ اگر حج سے معاشی سود و بہبود کا راستہ کھلے تو شریعت کو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ قرآن مجید نے تو پہلے ہی اس اَمر کی طرف اشارہ کردیا ہے کہ لوگ ان فوائد کو سمجھیں جو اس اجتماع میں پوشیدہ ہیں۔۱۲؎ کہنے لگے اور تو اور ہمارے علما بھی شاید اس حقیقت کو نہیں سمجھے کہ حج سے مقصود ہے اُمت کا اتحاد و استحکام اور اُمت تمہید ہے وحدت انسانی کی یا یوں کہیے کہ اخلاقی اجتماعی ہر پہلو سے ایک عالمگیر معاشرے، بہ الفاظ دیگر انسانیت کبریٰ کی اساس۔ مولانا کے اس ارشاد پر میرا ذہن بے اختیار حضرت علامہ کی اس رباعی کی طرف منتقل ہوگیا جو ارمغان حجاز میں موجود ہے، لیکن جسے حضرت علامہ کی اس کیفیت کے خیال سے جو ابھی تھوڑی دیر ہوئی ان پر طاری ہوچکی تھی مجھے پیش کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔۱۳؎ میں خاموش ہوگیا۔ مولانا برابر حج پر اظہار خیال کررہے تھے۔ باتوں باتوں میں مولانا فاخر۱۴؎ کا ذکر آگیا۔ مولانا کہنے لگے وہ سفر حج سے واپس آئے تو جو کوئی ملتا اس سے بڑے فخر سے کہتے، شاید اپنے نام کی رعایت سے کہ رمی الجمار میں میں نے شیطان کو وہ وہ کنکریاں رسیّد کیں کہ یاد ہی کرے گا۔ اس پر حضرت علامہ بھی بہت محفوظ ہوئے، بلکہ انھیں کچھ ہنسی بھی آگئی جیسے حضرت فاخر سے شیطان کو پرانی چشمک ہو۔ مولانا نے اپنے سفر حج کا ایک اور واقعہ بھی بیان کیا اور وہ یہ کہ ان کے رفقا سفر میں سے ایک اونٹنی پر سوار بڑے اطمینان سے قطع مسافت کررہے تھے کہ دفعۃً انھیں سگریٹ کی طلب ہوئی۔ مگر ادھر انھوں نے سگریٹ نکالا اور اسے سلگا کر ایک کش لیا اور ادھر تڑاق سے ایک درہ ان کے منہ پر پڑا۔ بے چارے دم بخود رہ گئے۔ وہ نہیں جانتے تھے سعودی عرب میں سگریٹ پینا منع ہے۔ آیندہ جب کبھی سگریٹ دیکھتے تو ان کی حالت غیر ہوجاتی۔ اس پر پرویز صاحب نے کہا یہ ہے وہابیت کی نفسیات! کسی نے کہا اس کی تاریخ بھی۔ وہابیت کی نفسیات یا دوسرے لفظوں میں وہ مذہبی رویہ جس کی نظر صرف ظاہر پر ہے اور اس حقیقت سے بے خبر کہ اعمال و عقاید کا سرچشمہ خارج میں نہیں ہے، داخل میں، یعنی ہمارے ضمیر اور باطن میں کہ ان کی پابندی پر اگر محض قانوناً اصرار کیا گیا تو وہ مقصد پورا نہیں ہوگا، جس کے لیے اعمال و عقاید کی ضرورت پیش آئی، نہ یہ ممکن کہ وہ ضبط و نظم متشکل ہو جسے انسان خود اپنے فہم و بصیرت کی روشنی میں بطیب خاطر اس لیے اختیار کرتا ہے کہ یہ اس کے اپنے فائدے کی بات ہے۔ اعمال و عقاید کا تقاضا ہے ضبط و نظم اور ضبط و نظم لازمۂ حیات، لیکن یہ تقاضا جب ہی پورا ہوگا کہ ہمیں حقائق کا شعور ہو۔ حقائق کا شعور ہے تو خود آگاہی بھی ہے اور خود آگاہی ہے تو تقویٰ بھی کہ ہمیں اپنے نفع و ضرر کا احساس رہے۔ خود آگاہی نہیں تو اعمال و عقاید کی کوئی روح ہے، نہ ان کی پابندی کے کچھ معنی، یہی وجہ ہے کہ اس نظم و ضبط سے جو بہ زور قانون خارج سے عائد کیا جاتا ہے تربیت ذات ہی کا امکان ہے نہ تعمیر شخصیت کا، نہ یہ ہوگا کہ فرد اور جماعت کے اقدامات زندگی کی مسلسل اور پیش رس حرکت کا ساتھ دیں اور ہم اس کا رُخ ان مقاصد کی طرف موڑ سکیں جو ہمارے سامنے ہیں اور جو ہم نے خود اپنے لیے تجویز کیے۔ برعکس اس کے یوں تعصب اور تنگ نظری، جمود اور قدامت پسندی ہی کو تحریک ہوگی۔ لہٰذا تعصب اور تنگ نظری، جمود اور قدامت پسندی کی یہی روش تھی جس سے وہابیت کی تاریخ میں ایک ایسی خشونت اور جارحیت پیدا ہوگئی کہ اس نے سب سے پہلے عالمِ اسلام ہی کو اپنا ہدف بنایا۔۱۵؎ حالانکہ یہ اَمر اس مصلح عظیم۱۶؎ کی تحریک اصلاح کے خلاف تھا جس سے ساری دنیائے اسلام متاثر ہوئی اور اس میں زندگی کی ایک لہر دوڑ گئی۔۱۷؎ اس جارحیت کا اولین اظہار شرفائے مکہ اور پھر آگے چل کر دولتِ عثمانیہ سے آلِ سعود کے تصادم میں ہوا۔۱۸؎ یہ تو تھا وہابیت کی تاریخ کا سیاسی پہلو۔ باعتبار عقاید دیکھا جائے تو اس نے ایک ایسی فرقہ بندی کی شکل اختیار کی جس کی نگاہیں، وہابی بہ مقابلہ حنفی، یا ’اجتہاد بہ مقابلہ تقلید‘ اور ’سنت بہ مقابلہ بدعات‘ کے نزاع میں چند فقہی مسائل سے آگے نہیں بڑھیں۔ لہٰذا ان اُمور میں بھی جن سے اُمت کا مستقبل اور حفظ و استحکام وابستہ ہے وہ سوادِ اعظم سے کٹ گئی۔ یوں بہ جز اعمال و عقاید میں ایک سطحی مشابہت کے علاوہ وہابیت اور اس تحریک اصلاح میں جس سے اسے وابستگی کا دعویٰ تھا باہم کوئی مناسبت نہ رہی۔۱۹؎ شاید یہی وجہ تھی کہ بعض موقعوں پر وہابی حنفی نزاع میں ذاتیات کا رنگ پیدا ہوجاتا اور ان مسائل میں بھی جن کی حیثیت بغایت درجہ اہم اور اُصولی تھی مناظرہ پسند طبائع اصل موضوع سے ہٹ کر طعن و تشنیع پر اُتر آتیں۔ دراصل یہی بات احبابِ دہلی کے دل میں خاص طور پر کھٹک رہی تھی۔ انھیں شکایت تھی کہ شریف حسین کے اخراج پر جب سلطان نے خود ہی یہ تجویز پیش کی تھی کہ عالمِ اسلام کے نمایندے آئیں اور فیصلہ کریں کہ ارض حجاز کی آیندہ حکومت کس اُصول پر قائم ہونی چاہیے تو پھر اس سے اعراض کے کیا معنی۔ ظاہر ہے یہ ایک ہی اُصول ہوسکتا تھا اور وہ جو مولانا محمد علی کے سامنے تھا، یعنی خلافت جس پر اسلامی ریاست کی تشکیل ہوئی، لیکن موتمر مکہ کی ساری کوشش یہ رہی کہ اصل مسئلے سے ہٹ کر حجاز میں بھی سلطان کی مطلق العنان حکومت کا جواز پیدا کیا جائے۔۲۰؎ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور تھوڑے ہی دنوں میں سلطان ملک الحجاز و النجد بن گئے۔۲۱؎ اُدھر اسلامی ہند میں جس کا سیاسی موقف الغائے خلافت کے باعث پہلے ہی مضمحل ہورہا تھا بدعات و رد بدعات، قبہ ریزی اور قبہ خیزی کی بحثوں سے ایک ایسا ہنگامہ برپا ہوا جس سے بڑوں بڑوں کی عزت بھی محفوظ نہیں رہی اور جس سے اُمت کے وقار کو بھی اخلاقاً شدید صدمہ پہنچا۔ مانا کہ اسلامی ہند سے جو آواز اُٹھی بڑی ضعیف تھی، لیکن تھی تو منشائے کتاب و سنت کے عین مطابق۔ لہٰذا ضرورت تھی تو اس اَمر کی کہ اس سلسلے میں اُصولاً اور عملاً ایک ایسی فضا پیدا کی جاتی جو حصول مقصد میں سازگار ہوتی، لیکن افسوس کہ یہ آواز سلطان کی موافقت اور مخالفت کے شور میں دب کر رہ گئی۔۲۲؎ مولانا نے ان باتوں کو سنا تو فرمایا آپ جو کچھ کہتے ہیں اپنی جگہ پر ٹھیک ہے، مگر سلطان کی حکومت ان سب کوتاہیوں کے باوجود عربوں کے حق میں ایک فال نیک ہے۔ انھیں مدت کے بعد ایک عمدہ قیادت ملی ہے۔ ان کی حالت ہر اعتبار سے روبہ اصلاح ہے۔ ذرا حالات کو بدلنے دیجیے، سعودی حکومت کی تنگ نظری آپ ہی آپ ختم ہوجائے گی،۲۳؎ لیکن ابھی ایک اور بات تھی جو مولانا کو سلطان کی حمایت پر مجبور کرتی۔ وہ جو حضرت علامہ نے اپنے رنگ میں کہا ہے: ذرا سی بات تھی اندیشۂ عجم نے جسے بڑھا دیا ہے فقط زیبِ داستاں کے لیے گو از رہ خیر خواہی، نہ کہ از رہ مذمت، مولانا کا نقطۂ نظر اس کے برعکس یہ تھا کہ عالمِ اسلام میں جہاں کہیں اور جو بھی سیاسی، اخلاقی انتشار رونما ہوا عجم کے ہاتھوں۔ انھیں گویا عجم سے کد تھی۔ لہٰذا عربوں کی تنقید میں مخالف ہو، یا موافق ان کے دل میں ہمیشہ عرب کی محبت موجزن رہتی۔ وہ کہتے عالمِ اسلام کی اصلاح اور عجمی فتنوں کے ازالے کی کوئی صورت ہے تو یہی کہ عرب از سر نو زندہ ہوں۔ عرب سنبھل گئے تو اسلام کی حقیقی روح بھی جو طرح طرح کے اثرات سے دب رہی ہے پھر سے بیدار ہوجائے گی اور مسلمان خود ہی اس راستے پر لوٹ آئیں گے جس سے مدت ہوئی وہ بھٹک گئے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج شریعت کی ظاہری اور سطحی پابندی بے نتیجہ نظر آرہی ہے۔ اس کی حیثیت بھی محض ایک قشر کی ہے، مغز سے خالی، لیکن یہ قشر بھی کوئی معمولی قشر نہیں۔ وقت آنے دیجیے، اس کے اندر بھی حقیقی معنی پیدا ہوجائیں گے۔ یوں یہ سلسلۂ گفتگو لفظاً نہ سہی، معناً حضرت علامہ ہی کے ان اشعار پر ختم ہوگیا جن میں انھوں نے اَمرائے عرب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے: اے فواد، اے فیصل، اے ابن سعود تا کجا بر خویش پیچیدن چو دود در جہاں باز آور آں روزے کہ رفت زندہ کن در سینہ آں سوزے کہ رفت خاک بطحا خالدے دیگر بزاے نغمۂ توحید را دیگر سراے اے نخیل دشت تو بالندہ تر برخیزد از تو فاروقے دگر حضرت علامہ نے فرمایا ’’عرب اور عجم دونوں ہمارے ماضی کا تار و پود ہیں۔ ہم عرب کو نظرانداز کرسکتے ہیں نہ عجم کو۔ ہمیں چاہیے ماضی کی تنقید میں مستقبل کو فراموش نہ کریں۔‘‘ ارشاد ہوا ’’یوں دیکھنے میں مسلمانوں کی حالت بڑی پست ہے۔ انھیں نہ حال کا شعور ہے نہ ماضی کی خبر، نہ یہ کہ مستقبل کو ہم سے کس قسم کے عمل کی طلب ہے۔‘‘ حضرت علامہ رُک گئے پھر جب تنفس کی تکلیف کم ہوئی تو فرمایا۔ ’’عالمِ اسلام کے حالات بدل رہے ہیں۔ یوں بھی مسلمانوں میں اعلیٰ صلاحیتوں کی کمی نہیں۔ اسلام سے بھی ان کا رشتہ بہرحال قائم ہے۔ ان کی اصل ضرورت ہے قیادت۔ صحیح قیادت میسر آجائے تو وہ کیا کچھ نہیں کرسکتے۔‘‘ اس پر گفتگو کا رنگ بدلا۔ امم اسلامیہ کا ذکر ہونے لگا۔ ان کی گونا گوں صفات، اخلاق و عادات کا۔ ترکوں نے اپنے آپ کو کس خوبی سے سنبھالا ہے۔ اخوان کی تحریک۲۴؎ کس قدر اُمید افزا ہے۔ عربوں کی سیاسی اور اجتماعی زندگی کے لیے اس کے نتائج کیسے دور رَس اور خوش گوار ہوں گے۔ اس پر عرض کیا گیا کہ یہ سب باتیں اپنی جگہ پر ٹھیک ہیں، لیکن اسے کیا کیجیے کہ عالمِ اسلام میں کہیں اس زندگی کے آثار نظر نہیں آتے جس میں کتاب و سنت کی روح کارفرما ہو۔ ترک اور عرب اور ایسے ہی دوسری مسلمان قومیں تو خیر اپنی نسلی اور قومی عصبیت کے سہارے شاید سنبھل جائیں اور ایک گونہ ترقی بھی کرلیں، مگر سوال ہمارا ہے، ہندی مسلمانوں کا کہ باوجود بڑے بڑے دعووں اور بڑی بڑی تحریکوں کے ہمارا کوئی نصب العین ہے، نہ لائحہ عمل۔ ہمارے انتشار اور پراگندہ خیالی کا خاتمہ ہوگا تو کیسے؟ حضرت علامہ نے قدرے توقف فرمایا۔ پھر ارشاد ہوا ’’مجھے تو مسلمانوں کے مستقبل سے قطعاً مایوسی نہیں۔ ہمارا کوئی مسئلہ ہے تو قیادت۔ ہمارے دعوے اور ہمارے اقدامات ہی جن کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے اس اَمر کا ثبوت ہیں کہ ہم میں ہر طرح کی استعداد موجود ہے۔ نہیں موجود تو قیادت۔‘‘ عرض کیا گیا، لیکن بہ ظاہر تو کوئی امکان نہیں کہ ہمیں صحیح قیادت میسر آئے اور ہماری صفوں میں جو انتشار رونما ہے اتحاد اور جمعیت سے بدل جائے۔ حضرت علامہ ذرا سنبھل کر بیٹھ گئے اور پھر بڑے پریقین لہجے میں کہنے لگے ’’مجھے تو یوں نظرآتا ہے کہ ہمیں میں سے کوئی صاحب ایمان اُٹھ کھڑا ہوگا اور اس کا خلوص اور دیانت ساری قوم کو ایک مرکز پر جمع کردے گا۔‘‘ ارشاد ہوا ’’یہ محض خیال ہی خیال نہیں ہے، حقیقت ہے۔‘‘۲۵؎ ہم سب ہمہ تن گوش تھے۔ حضرت علامہ رُک رُک کر گفتگو فرما رہے تھے۔ کبھی کبھی ان کی آواز گلوگیر ہوجاتی۔ ان کے یہ الفاظ کہ یہ محض خیال ہی نہیں ہے، حقیقت ہے بھی ہمارے ذہن میں گھوم رہے تھے کہ انھوں نے فرمایا ’’ہمارے مسائل کا ایک ہی حل ہے اور وہ اتحاد۔ مسلمان متحد ہوگئے تو ان کی جداگانہ قومیت تسلیم کرلی جائے گی۔ جداگانہ قومیت تسلیم کرلی گئی تو ہم آزادی سے اپنا مستقبل تعمیر کرسکیں گے۔ کیا اسلامی ریاست قائم ہوگی؟ ’’کیوں نہیں، بشرطیکہ ہم اپنا اتحاد قائم رکھیں اور اس دعوے سے دست بردار نہ ہوں کہ ہندوستان میں ایک نہیں کئی قومیں بستی ہیں۔ ہندوستان بھی محض ایک جغرافی اصطلاح ہے اور اس کا اتحاد بیرونی حملوں سے خطرے کا نتیجہ۔ اسلام بھی مذہب نہیں کہ اس کی تعبیر مذہب کے عام معنوں میں کی جائے۔ اس طرح اس کا تعلق صرف فرد کی ذات سے ہے۔ اسلام ایک نظام مدنیت بھی ہے جس کی نفی اسلام کی نفی ہے۔ ہم اس نظام مدنیت سے انحراف نہیں کرسکتے۔ یہی نظام مدنیت ہماری جداگانہ قومیت کا راز ہے۔ انگریز تو اس نکتے کو سمجھتا ہے، ہندو اسے سمجھنا نہیں چاہتے۔۲۶؎ احبابِ دہلی خاموش حضرت علامہ کے ارشادات سن رہے تھے۔ میں نے عرض کیا یہ اَمر کہ اسلام بجاے خود ایک نظام مدنیت ہے تو شاید مشکل سے سمجھ میںآئے۔ مسلمانوں کو خود بھی اس کا پورا پورا شعور نہیں، لیکن اگر ہماری جداگانہ قومیت کا راز یہی نظام مدنیت ہے اور اسلامی ریاست سے مقصود بھی اسی کا نفاذ تو کیوں نہ کانگریس کے اس اعلان سے فائدہ اُٹھایا جائے کہ حصول آزادی پر ہندوستان میںجو وفاق قائم ہوگا اس میں صوبے اس اَمر کے مجاز ہوں گے کہ اگر چاہیں تو مرکز سے الگ ہوجائیں۔ لہٰذا ہم کانگریس کی تحریک آزادی میں اس کا ساتھ دیں اور اگر کانگریس ہماری اکثریت کے صوبوں میں ہمیں اپنی مرضی کے مطابق حکومت نہ کرنے دے تو مرکز سے الگ ہوجائیں۔ یہ بھی ایک صورت ہوسکتی ہے اسلامی ریاست کے قیام کی۔ اس پر حضرت علامہ نے کچھ تبسم فرمایا اور کہنے لگے ’’لیکن تم بھولتے ہو اول تو کانگریس کا یہ اعلان بجاے خود وضاحت طلب ہے۔ کانگریس کا موقف تو یہ ہے کہ ہندوستان ایک جغرافی وحدت ہے۔ لہٰذا اس میں بسنے والے ایک قوم۔ مذہب افراد کا ذاتی معاملہ ہے، سیاست سے بے تعلق کانگریس کیسے گوارا کرے گی کہ حصول آزادی کے بعد وہ اس وحدت سے دست کش ہوجائے جس پر آج اسے اصرار ہے اور جس کی بنا پر وہ مسلمانوں کے جداگانہ ملی وجود سے انکار کررہی ہے۔ پھر صوبوں سے کانگریس کا مطلب صوبے ہیں، نہ کہ باعتبار مذہب ان کی الگ الگ آبادی کہ مذہب کی بنا پر اس کا ایک حصہ دوسرے سے الگ ہوجائے یا کسی ایسے نظام مدنیت کے نفاذ کا مطالبہ کرے جس سے دوسرے کو اختلاف ہو۔‘‘ ارشاد ہوا ’’صوبے مرکز سے ملحق رہیں یا بے تعلق ہوجائیں ان کا مدار سیاست بہرحال وہی لادین سیاست ہوگی جو محض جغرافی قومیت کی قائل اور اسے بناے اجتماع سمجھتی ہے۔ لہٰذا نہ غیر مسلم کسی ایسے مطالبے میں جس کی بنا اسلام پر ہے مسلمانوں کا ساتھ دیں گے، نہ ان کے لیے یہ ممکن ہوگا کہ بحیثیت مسلمان اپنے آپ کو ہندوستان سے الگ کرسکیں۔ اگر کانگریس فی الواقعہ سمجھتی ہے کہ حصول آزادی پر مسلمانوں کو حق ہوگا کہ اگر چاہیں تو اپنے مخصوص نظام مدنیت کے پیشِ نظر مرکز سے الگ ہوجائیں تو اسے آج کل ہماری جداگانہ قومیت سے کیوں انکار ہے؟ کیوں نہ آج ہی یہ تسلیم کرلیا جائے کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں اور اس لیے سیاسی سمجھ بوجھ کا تقاضا ہے کہ ان میں باہم کوئی سمجھوتہ ہوجائے۔‘‘ حضرت علامہ گفتگو کرتے کرتے تھک گئے تھے۔ انھوں نے تھوڑی دیر سستا کر پھر فرمایا ’’صوبوں میں اس قسم کی جماعت بندی ضرور ہوسکتی ہے جیسی آج یونینسٹ پارٹی نے قائم کررکھی ہے، لیکن اس کی ترکیب بھی وہی ہوگی جو اس پارٹی کی ہے، یعنی مفاد پسند عناصر کا اتحاد سیاسی، معاشی بنا پر؛ چنانچہ اس پارٹی کے سامنے صرف زمینداروں کا مفاد ہے۔‘‘ ارشاد ہوا ’’ذرا سوچیے تو سہی یہ پارٹی بظاہر مسلمانوں کی نمایندگی کررہی ہے۔ اس میں اکثریت بھی مسلمانوں کی ہے، لیکن اس کے مسلمان عناصر اسلام ہی کے نام پر اسلام کی نفی کررہے ہیں۔ مسلمانوں کو بحیثیت مسلمان نہ اس سے کوئی فائدہ پہنچ رہا ہے، نہ تقویت۔ ہاں فائدے میں ہیں تو چند اہلِ غرض اور ان کی کوشش بھی یہی اپنی جماعت مضبوط کرتے چلے جائیں۔‘‘ گفتگو یونینسٹ پارٹی پر آگئی۔ سوال پیدا ہوا کہ اس پارٹی کا زور کیسے ٹوٹے گا۔ اس کے پاس حکومت ہے اور حکومت کے زور پر وہ دوسروں کو خرید بھی سکتی ہے؛ چنانچہ واقعہ بھی یہی ہے کہ یہی دوچیزیں اس کی طاقت کا راز ہیں۔ بڑے بڑے بہی خواہان قوم ذاتی لالچ میں آکر اسی کی طرف کھینچتے چلے جارہے ہیں۔ ارشاد ہوا ’’اگر میرا خیال غلط نہیں تو حکومت اور روپیہ ہی وہ چیز ہے جو بالآخر اس کے زوال کا موجب ہوگا۔ جیسے جیسے یونینسٹ پارٹی کی گرفت بڑھتی جائے گی ویسے ہی عامۃ المسلمین اس سے بدظن ہوتے چلے جائیں گے۔ وہ محسوس کریں گے کہ اس پارٹی کا وجود ان کی عزت اور خودداری کے راستے میں حائل ہے۔ جیسے جیسے کانگریس متحدہ قومیت کی آڑ میں اپنا دست تغلب دراز کرے گی مسلمان خود ہی ان جماعتوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں گے جن کا دانستہ یا نادانستہ خیال ہے کہ ہندو اور مسلمان باہم مل کر ایک قوم بن سکتے ہیں۔‘‘ فرمایا ’’قوموں کی زندگی کا راز اس جدوجہد میں مضمر ہے کہ اپنا وجود ملی قائم رکھیں اور نہیں بھولیں کہ ان کا ایک اپنا نصب العین ہے۔ لہٰذا اس موقع پر جب یہ کوشش کی جارہی ہے کہ ہماری جداگانہ قومیت کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے ہمیں اپنے موقف کا اعلان دلیری سے کرنا چاہیے۔‘‘ حضرت علامہ نے پھر فرمایا ’’ دراصل ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم اپنا ملی نصب العین صحت کے ساتھ متعین نہیں کرسکے۔ ہماری نظر زیادہ تر اخلاقی اور مذہبی مسائل پر رہی اور ہم سمجھے کہ یہی بہ مقابلہ دوسروں کے ہمارا مابہ الامتیاز۲۷؎ہے۔ اس میں کچھ حالات کو بھی دخل ہے، کچھ ہمارے زوال اور تاریخی روایات کو۔۲۸؎ یہی وجہ ہے کہ ہم وہ قیادت پیدا نہ کرسکے جس کی آج ہمیں ضرورت ہے۔۲۹؎ ارشاد ہوا ’’ہندی اور اُردو کے نزاع سے لے کر جب سالہا سال ہوئے مسلمانوں کی آنکھیں کھلیں اور انھوں نے محسوس کیا کہ سرسیّد کا یہ قول کہ ہمارا اور ہندوؤں کا راستہ الگ الگ ہے حرف بحرف صحیح ہے کہ ہم ایک دوسرے سے مفاہمت تو کرسکتے ہیں کہ باہم صلح و آشتی کی زندگی بسر کریں، ایک دوسرے میں مدغم نہیں ہوسکتے، سیاست کے ایک نہیں کئی دور گزر گئے۔ پھر بھی مسلمان نہیں سمجھے، اور یہ آئے دن کے بلووں، یا سماجی، شدھی اور سنگھٹن کی تحریکوں کے باوجود جن سے ہندو مسلم اتحاد اور آزادی کے لیے مشترکہ جدوجہد کی تحریک ایک خواب پریشان بن کر رہ گئی کہ ان کا ملی نصب العین کیا ہے۔ وہ اپنی سیاست میں کیا لائحہ عمل اختیار کریں۔ بایں ہمہ ان کا یہ احساس کہ ہمارے اور ہندوؤں کے مطمح نظر میں ایک بنیادی فرق ہے قائم رہا۔ یہ احساس اس وقت بھی قائم تھا جب ترکِ موالات کی تحریک زوروں پر تھی اور اس وقت بھی جب کانگریس نے علی الاعلان مسلمانوں کی جداگانہ قومیت سے انکار کیا۔ جب نہرو رپورٹ پیش کی گئی اور جب اس سیاسی محاذ کے ساتھ ساتھ قومی تعلیم اور قومی زبان کے نام سے ایک نیا محاذ ہماری تہذیب و تمدن اور ہمارے اخلاق و معاشرت کے خلاف قائم کیا گیا۔ یہی احساس تھا جس نے گول میز کانفرنسوں میں مسلمان مندوبین کو باوجود اختلاف رائے یک جا رکھا اور کانگریس کی وہ سازش جو نیشنلسٹ مسلمانوں کی آڑ میں اس نے ہمارے جداگانہ وجود ملی کے خلاف کی تھی ناکام رہی۔‘‘ فرمایا ’’نیشنلسٹ مسلمانوں کا موقف بڑا غلط ہے۔‘‘ اس پر جب یہ عرض کیا گیا کہ ان میں تو بڑی بڑی مقتدر اور قابلِ قدر ہستیاں شامل ہیں جن کے خلوص و دیانت اور خدمات قومی سے انکار نہیں کیاجاسکتا تو فرمایا ’’تعجب تو انھیں کی سمجھ بوجھ پر ہے۔ وہ اپنی ہوش مندی، تجربے اور سیاست دانی کے باوجود قوم کو ایک بڑے غلط راستے کی طرف لے جارہے ہیں اور اگر ایسا نہیں تو کسی بہت بڑے خوش آیند فریب میں مبتلا ہیں، یا پھر محض جذبات کے رَو میں بہہ رہے ہیں۔‘‘ ارشاد ہوا ’’ رہا یہ سوال کہ ان میں علما کا ایک گروہ بھی شامل ہے سو اس کا جواب یہ ہے کہ اس بات میں اگرچہ ان کی مخصوص فرقہ بندی اور انگریز دشمنی کو بھی دخل ہے، لیکن اس کی اصل وجہ ہے برسوں کی تعطل اور سیاست سے بے تعلقی کے خلاف وہ رد عمل جو انھیں مجبور کررہا ہے کہ سیاسی اعتبار سے بھی اپنی ہستی منوائیں۔ لہٰذا وہ یہ سمجھے بغیر کہ انھیں جس منصب کا دعویٰ ہے اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں محض ایسی جماعت کی حیثیت سے اپنا تشخص قائم رکھنا چاہتے ہیں، لیکن یہ جماعتی مفاد کی حیثیت سے اپنا تشخص قائم رکھنا چاہتے ہیں، لیکن یہ جماعتی مفاد کا اس درجہ پاس ہمارے ملی مفاد کے منافی ہے۔‘‘ گول میز کانفرنس کا ذکر آگیا۔ حضرت علامہ کی رائے تھی کہ مسلمان مندوبین میں اگرچہ کامل اتحاد تھا، بایں ہمہ وہ پورے طور پر قوم کی نمایندگی نہیں کرسکے۔ ان کا انتخاب اس بنا پر کیا گیا تھا کہ ہر فریق کی نیابت ہوجائے، لہٰذا ان میں بعض کی موجودگی گویا براے بیت تھی۔ ارشاد ہوا ’’غنیمت ہے کہ مسلمانوں کا اتحاد قائم رہا، ورنہ انگریزوں اور ہندوؤں دونوں کی ریشہ دوانیاں جاری تھیں۔‘‘ قیام انگلستان کی باتیں ہونے لگیں، رفقاے سفر کی اور اس سلسلے میں ایک دل چسپ واقعہ بیان فرمایا۔ ارشاد ہوا ’’لندن سے واپسی پر ہمارا جہاز عدن پہنچا تو مولوی شفیع داؤدی۳۰؎ عرشہ جہاز پر کھڑے گرد و پیش کے مناظر کا لطف اُٹھا رہے تھے۔ ان کے ہاتھ میں ایک کتاب بھی تھی جو اتفاقاً سمندر میں گر گئی۔ مولوی صاحب پریشان ہوگئے۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کیا کریں کہ دفعتہ ان کی نگاہیں ان صومالی۳۱؎ لڑکوں پر پڑی جو چھوٹی چھوٹی کشتیاں لے کر ادھر ادھر گھوم رہے تھے تاکہ مسافر چاہیں تو انھیں اپنی غوطہ خوری کے کرتب دکھائیں۔ مولوی صاحب نے جو انھیں دیکھا تو سمجھے کہ مشکل حل ہوگئی۔ چلائے اور کتاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لڑکوں سے کہنے لگے یا شیخ! یا شیخ ذالک الکتاب! بے چارے عربی تو جانتے نہیں تھے۔ یا شیخ اور ذالک الکتاب سے کام نکل گیا۔ لڑکے ان کے اشاروں سے سمجھ گئے کہ مطلب اس کتاب سے ہے جو سطح سمندر پر تیر رہی ہے اور قریب تھا کہ موجوں میں غائب ہوجائے۔ اس پر ایک نے کشتی سے پانی میں چھلانگ لگائی اور کتاب لے کر عرشۂ جہاز پر چڑھ آیا۔ مولوی صاحب نے اطمینان کا سانس لیا کہ کتاب مل گئی۔ واقعہ دل چسپ تھا ہم سب کو ہنسی آگئی۔ حضرت علامہ بھی شگفتہ خاطر تھے۔ انھوں نے حقے کے دو ایک کش لیے اور کہنے لگے ’’زبان بھی اتحاد کا کتنا بڑا ذریعہ ہے۔ افسوس ہے یورپ کے استیلا نے اس رشتے کا بھی خاتمہ کردیا۔ کتنے مسلمان ہیں جو عربی جانتے اور اپنا مافی الضمیر اس میں ادا کرسکتے ہیں، حالانکہ عربی ہماری بین الاقوامی زبان ہے۔ ہمارے دینی، ثقافتی اور ادبی رابطے کا ایک عظیم سرچشمہ۔‘‘ پرویز صاحب شاید اس وقت سے جب حضرت علامہ نے کانگریس کے طرف دار علما کی کوتاہ نظری پر اظہار افسوس کیا تھا موقع کے منتظر تھے۔ انھوں نے مولانا ابوالکلام کی تفسیر قرآن کا ذکر چھیڑ دیا اور ظاہر ہے کہ نیشنلسٹ مسلمانوں کے بارے میں گفتگو ہوتی تو مولانا کا ذکر ضرور آتا۔ ان کی تفسیر اگرچہ برسوں کے انتظار کے بعد۳۲؎ شائع ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود وہ توقعات پوری نہ ہوسکیں جو مولانا کے علم و فضل سے وابستہ تھیں بالخصوص اس لیے کہ ’الاسلام‘ بہ مقابلہ اسلام اور ’الدین‘ بہ مقابلہ دین کی اصطلاحیں وضع کرتے ہوئے انھوں نے اسلام کی تعبیر ایک ایسے رنگ میں کی جس سے بجاے ایک واضح، قطعی اور محکم دستور حیات کے دین کی حیثیت محض ایک عقیدے، ایک نظریے، ایک مجرد فکر اور ایک احساس کی رہ گئی۔ مولانا کے نزدیک قرآن پاک کی دعوت یہ ہے کہ جملہ مذاہب عالم ایک دوسرے کی سچائی کا اعتراف کریں۔ سب اپنے اپنے مذہب کی حقیقی تعلیمات پر کاربند رہیں تاکہ وہ سب گروہ بندیں جو ’شرع و منہاج‘ کے اختلاف نے پیدا کررکھی ہیں کالعدم ہوجائیں اور دنیا سمجھ لے کہ ’الدین‘ یا ’الاسلام‘ کا حقیقی مقصد کیا ہے۔ یہ مقصد ہے خداپرستی اور نیک عملی۔ اس لیے کہ نجات و سعادت کی اساس ہے حسن اعتقاد و حسن عمل کے ساتھ ساتھ توحید باری تعالیٰ کا اقرار۔۳۳؎ پرویز صاحب نے کہا وحدت ادیان کا یہی غلط تصور جو مولانا نے اس طرح قائم کیا سرچشمہ ہے قرآن مجید کی اس تفسیر کا جو مولانا نے فرمائی اور جس سے برہمو سماج کے نقطۂ نظر ہی کی تائید ہوتی ہے۔ مسلمانوں کی دینی عصبیت کو تو کوئی تقویت نہیں پہنچتی۔ مولانا کے ارشادات کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تو اسلام اور غیر اسلام میں کوئی امتیاز ہی باقی نہیں رہتا۔ نہ عقیدۃً، نہ عملاً۔ معلوم ہوتا ہے ان کی ساری کوشش یہ تھی کہ مذہباً کانگریس کی حمایت کا جواز پیدا کیا جائے تاکہ ہم اپنے اس دعویٰ سے کہ مسلمانوں کی ایک جداگانہ قومیت ہے دستبردار ہوجائیں۔ مولانا کے عقاید، مولانا کے خیالات، اور مولانا کے نظریات میں یہ تبدیلی افسوسناک بھی ہے اور تعجب انگیز بھی۔ پرویز صاحب نے کہا مولانا گویا دبی زبان سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مذہب فرد کا ذاتی معاملہ ہے۔ قوم کا معاملہ مذہب سے الگ ہے۔۳۴؎ انھوں نے یہ بھی کہا کہ مولانا کی تفسیر شائع ہوئی تو رسالہ معارف میں ان کے قلم سے ایک طویل تبصرہ بھی شائع تھا۔۳۵؎ حضرت علامہ نے فرمایا ’’مدیر معارف۳۶؎ نے بھی کیا اس سلسلے میں کوئی رائے ظاہر کی؟ پرویز صاحب نے کہا کہ شروع میں تو سیّد صاحب نے اس تبصرے کی بڑی تعریف کی اور ان خطرات کا اقرار بھی کیا جن کی طرف اس میں اشارہ کیا گیا تھا، لیکن تبصرے کی دوسری قسط کا وقت آیا تو انھوں نے دفعتہ اپنی رائے بدل دی۔ ’کیوں؟‘ ’’اس عذر میں کہ مولانا کی فضیلت علم اور بصیرت فی الدین مسلم ہے۔ وہ بہت بڑے سیاسی اور دینی رہنما ہیں۔ ان کے خیالات پر گرفت کی گئی تو بہت ممکن ہے اور زیادہ غلط فہمیاں پیدا ہوجائیں۔ مصلحت یہی ہے کہ سرِدست خاموشی اختیار کی جائے۔ مولانا کا شاید وہ مطلب بھی نہیں جو ہم سمجھتے ہیں۔‘‘۳۷؎ ارشاد ہوا ’’یہ اَمر بڑا افسوس ناک ہے کہ کسی شخص کا علم و فضل یا احترام ذات ہمیں حق گوئی سے باز رکھے اور وہ بھی ان مسائل میں جن کا تعلق اسلام کی بنیادی تعلیمات سے ہے۔‘‘ چند منٹ خاموشی رہی۔ شاید مولانا کی تبدیلی، خیالات پر دل افسردگی کے باعث۔ پرویز صاحب نے پھر کہا بعض لوگ کہتے ہیں قرآن پاک نے سامی ذہن کی ترجمانی کی ہے۔ ان کے نزدیک سامی ذہن قانونی ذہن ہے، لیکن قانون کا انکشاف تو بتدریج ہورہا ہے۔ اس کا تعلق ہمارے علم سے ہے، عقل اور تجربے سے۔ جیسے جیسے احوال میں تبدیلی رونما ہوتی ہے قانون آپ سے آپ بدل جاتا ہے۔ چنانچہ کتنے حقائق ہیں جو زمانہ حال کے اشتراکی انقلاب سے منکشف ہونے اور جن کے پیشِ نظر مخالفین اشتراکیت کو بھی بعض باتوں میں اپنا موقف بدلنا پڑا۔ یوں بھی خیال ہے کہ جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھے گا اور بھی کئی حقائق منکشف ہوں گے اور ایسا ہوا تو قانون کے بارے میں بھی ہمارا رویہ بدل جائے گا۔ اندریں صورت ہم کیا کہیں۔ ہماری ضرورت کیا ہے، قانون یا تصورات؟ پرویز صاحب کا سوال اگرچہ واضح نہیں تھا۔ انھیں شاید خیال نہیں رہا وہ لفظ قانون کو کن معنوں میں استعمال کررہے ہیں۔ انھوں نے اس بنیادی فرق کو بھی نظرانداز کردیا جو حقائق کے تصور اور ان سے تمسک میں ہے اور جس سے ہمارا ذہن قانون کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ لہٰذا یہ بات اگرچہ صاف نہیں تھی کہ قانون سے ان کا مطلب کیا ہے اور تصورات سے کیا پھر بھی حضرت علامہ ان کا مطلب سمجھ گئے۔۳۸؎ انھوں نے فرمایا ’’یہ قانون اور تصورات کی بات ذرا سمجھنے کی ہے۔ بہرحال ہم آپ کی زبان میں کَہ سکتے ہیں کہ قرآن میں قانون بھی ہے اور تصورات بھی۔‘‘ حضرت علامہ اتنا کَہ کر رُک گئے جیسے ذرا سنانا چاہتے ہوں اور گو انھوں نے اپنے اس ارشاد کی کہ قرآن میں قانون بھی ہے اور تصورات بھی وضاحت نہیں فرمائی، لیکن میری سمجھ میں جو بات آئی یہ کہ قرآن مجید میں وہ سب کچھ ہے جس سے بیک وقت ہماری رہنمائی قانون اور تصورات دونوں میں ہوتی ہے۔ بہرکیف انھوں نے قدرے توقف کے بعد پھر فرمایا ’’اس معاملے میں قابلِ غور اَمر یہ ہے کہ قرآن پاک عین فطرت ہے۔۳۹؎ لہٰذا فطرۃ اللہ کا انکشاف جس پر انسان کو پیدا کیا گیا۴۰؎ قرآن ہی کے ذریعے ہوا۔ پھر یہ فطرت اس نظام حیات ہی میں مشہود ہوئی جس کو اس نے دین کہا ہے۴۱؎ اور دین کا تقاضا ہے وہ اعمال و عقاید جو ہر پہلو سے زندگی کو سہارا دے رہے ہیں اور جن کو اصطلاحاً شریعت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔۴۲؎ لہٰذا ہم کہیں گے قرآن پاک میں قانون بھی ہے اور تصورات بھی۔ گو انسان کو تصورات کی اتنی ضرورت نہیں جتنی قانون کی۔‘‘۴۳؎ ارشاد ہوا ’’یہ انسان کی عقل، اس کا تجربہ اور مشاہدہ ہے جس میں قرآن مجید کا قانون حیات منکشف ہورہا ہے اور ہوتا رہے گا،۴۴؎ لیکن وہ ہے تو اس میں تمام و کمال موجود۔ جب ہی تو قرآن پاک نے دعوے سے کہا ’فاتوا بسورۃ من مثلہ،۴۵؎ یہ دوسری بات ہے کہ نفس متناہیہ اسے اپنے احوال اور استعداد ہی کے مطابق سمجھ سکتا ہے۔‘‘ فرمایا ’’فرد کی صورت میں تو خطا و صواب کا امکان یکساں ہے۔ اس کا فہم غلطی بھی کرسکتا ہے، لیکن فرض کیجیے ذہن انسانی اس فطرت کا تمام و کمال احصا بھی کرلے جو قانون اور تصورات دونوں کا سرچشمہ ہے جب بھی ہمیں قرآن پاک ہی سے رجوع کرنا پڑے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہمارے علم و عقل کو ان مصلحتوں کا اعتراف ہے جو احکامِ شریعت میں مضمر ہیں۔‘‘۴۶؎ ارشاد ہوا ’’اس طرح کی گفتگو کہ ایک ذہن سامی ہے، ایک غیر سامی، ایک دائرہ مذہب کا ہے، ایک تہذیب و تمدن کا بڑی غلط اور انتشار خیال کا باعث ہوتی ہے۔ نہ ذہن کسی سامی یا آریائی امتیاز کا پابند ہے، نہ یوں مسائل کو صحیح شکل میں پیش کیا جاسکتا ہے، مگر لوگ ہیں کہ بغیر سوچے سمجھے جو جی میں آتا ہے کہتے چلے جاتے اور آخرالامر اپنے ہی خیالات کی تاریکیوں میں کھوجاتے ہیں۔‘‘ یہ کَہ کر حضرت علامہ نے تھوڑی دیر سکوت فرمایا اور پھر پرویز صاحب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’قرآن پاک کا مطالعہ کیجیے تو اس کا مقابلہ دوسرے مذہبی صحائف سے بھی کرتے جائیے۔ یوں اس کا فہم زیادہ آسان ہوجائے گا۔‘‘ فرمایا ’’عہد نامہ عتیق میں ہے: خداوند نے زمین و آسمان کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔ ساتواں دن خداوند کے آرام کا تھا۔ اس کے مقابلے میں قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ بے شک زمین و آسمان کی پیدایش چھ دنوں میں ہوئی، مگر اللہ تعالیٰ کو آرام کی ضرورت پیش نہیں آئی‘‘۴۷؎ فرمایا ’’یہ لفظ خداوند بھی بڑا غور طلب ہے۔‘‘۴۸؎ پھر فرمایا ’’ایسے ہی ہندو اور بدھ دھرم کے تصورات میں، مثلاً مایا اور آنند۔ قرآن مجید نے ان کے برعکس حقیقت اور فلاح پر زور دیا۔‘‘۴۹؎ میں نے عرض کیا فرض کیجیے ہمیں صحائف مذہبی کے تقابلی مطالعے کا موقع نہیں ملتا۔ اندریں صورت کیا ہم اس ہدایت سے محروم رہیں گے جو ہر اعتبار سے قرآن پاک میں موجود ہے؟ ارشاد ہوا ’’ہرگز نہیں۔ قرآن سرتاسر ہدایت ہے اور ہر حال میں ہمارا رہنما۔ یہ کتاب اللہ ہے اور لفظ کتاب غور طلب۔‘‘۵۰؎ اس پر معلوم نہیں کس نے کہا اگر یہ ٹھیک ہے کہ علم اور تجربے کی روشنی میں بھی وہی حقائق آشکار ہو رہے ہیں جن کی طرف قرآن پاک نے اشارہ۵۱؎ کیا ہے تو کیا دہریت سے بھی کچھ حقائق منکشف ہوئے؟ اشتراکی روس کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ فرمایا ’’کیوں نہیں، مگر ایک حد تک۔ پھر یہ حقائق بھی کچھ ایسے نہیں جن کے متعلق کہا جائے کہ ان کا انکشاف اس سے پہلے نہیں ہوا۔ ہماری اپنی تاریخ ہی سے اس کی تصدیق ہوجائے گی۔‘‘۵۲؎ اصل میں یہ ہے کہ قرآن مجید قلب کے راستے سے بھی شعور میں داخل ہوتا ہے اور دماغ کی راہ سے بھی سمجھ میں آتا ہے۔ دماغ کی راہ سے سمجھ میں آنے کا مطلب ہے حقائق کا ادراک، علم اور فکر، تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں۔‘‘ ارشاد ہوا ’’حقائق کا ادراک ہمیشہ سے جاری تھا۔ کبھی ایک حقیقت سمجھ میں آئی کبھی دوسری، کبھی جزواً، کبھی تماماً۔ اب اگر انسان وہ سب حقائق جو اس نے اپنے علم اور تجربے کی روشنی میں حاصل کیے، یا جن تک عقل اور فکر کے ذریعے اس کی رسائی ہوئی باہم فراہم کرلے اور ایک مربوط و منظم شکل میں پیش کرے تو ان سے قرآن پاک ہی کے ارشادات کی تصدیق اور ترجمانی ہوگی۔‘‘ حضرت علامہ نے قدرے توقف فرمایا۔ پھر ذرا سیدھے ہوکر بیٹھ گئے۔ تکیوں کا سہارا لیا، حقے کے دو ایک کش لگائے اور کہنے لگے ’’سقائق کا ادراک ہوتا رہا اور ہوتا رہے گا۔ قرآن مجید ان سب حقائق کا جامع ہے جو ہمارے ادراک میں آچکے ہیں اور ان کا بھی جن کا ادراک باقی ہے۔ خواہ یہ حقائق سنوسی کی زبان سے ادا ہوں، خواہ لینین کی۔ حقائق بہرحال حقائق ہیں۔ ان کو سمجھنے کی جس طرح بھی کوشش کی جائے اپنی جگہ پر ٹھیک ہے۔ مقصد ہے ان کا سمجھنا اور قبول کرنا۔ لہٰذا انھیں جس طرح بھی سمجھیں یہ قرآن پاک ہی کا سمجھنا ہوگا، اس کی تعلیم سے بہرہ ور ہونا۔‘‘ فرمایا ’’قرآن پاک جس زمانے میں نازل ہوا اس کا خطاب اہلِ کتاب ہی سے ہوسکتا تھا۔ دیکھ لیجیے اس نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کس دعوے سے کہا: ’مصدقاً لما معکم‘۔۵۳؎ یہ اس لیے کہ قرآن مجید نہ صرف حقائق کا جامع ہے، بلکہ ان کی تصدیق کا بھی واحد ذریعہ۔‘‘۵۴؎ فرمایا ’’کبھی ایک حقیقت زرتشت کو ملی، دوسری بدھ کو۔ ایسے ہی اور بھی حقائق ہیں۔ وہ انسان کے فہم و ادراک میں آتے رہے، خواہ کسی راستے سے، لیکن پھر حقائق کے ساتھ افسانے بھی شامل ہوتے گئے اور یہ ایک قدرتی تقاضا تھا اس مرحلے کا جس سے ذہن انسانی کا گزر ہورہا تھا۔ لہٰذا جیسے جیسے کسی قوم نے کسی حقیقت کو مانا ویسے ہی کوئی افسانہ بھی قبول کرلیا،۵۵؎ لیکن افسانوں کو تو افسانہ ہی سمجھنا چاہیے۔ انھیں حقیقت پر محمول کرنا غلطی ہے۔ افسانے ہمارے دل و دماغ کی اختراع ہیں۔ ان کو وضع کیا گیا تو کسی مطلب کے لیے۔۵۶؎ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک نے جہاں حقائق کی تصدیق کی وہاں انسانوں کو نظرانداز کردیا اور اگر نہیں بھی کیا تو اس حد تک ترمیم اور قطع و برید کے ساتھ کہ ان سے جن حقائق کی ترجمانی مقصود ہے ان کی طرف واضح طور پر اشارہ ہوجائے۔‘‘ ارشاد ہوا ’’مثال کے طور پر آدم و حوا کا افسانہ ہے قرآن مجید نے اس کے بیان میں ایک نیا انداز اختیار کیا۔‘‘۵۷؎ ہم سب خاموشی سے حضرت علامہ کے ارشادات سن رہے تھے۔ انھوں نے پھر فرمایا ’’مگر لطف کی بات یہ ہے کہ اگر قرآ ن کسی افسانے کا ذکر نہ کرے جب بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کا اشارہ کس افسانے کی طرف ہے، مثلاً قرآن میں ہے ہم نے کائنات کو کھیلتے ہوئے پیدا نہیں کیا۔۵۸؎ اس سے ہمارا ذہن خود بخود اس افسانے کی طرف منتقل ہوجاتا ہے جو ہندوؤں میں رائج ہے اور جس سے یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ دنیا کیا ہے؟ ایک کھیل جسے رام نے اپنی دل لگی کے لیے رچایا۔‘‘۵۹؎ فرمایا’’ہندوؤں کے یہاں ایک دیوتا ہے جس کا نام ہے ’نٹ راجن‘، یعنی کھلاڑیوں کا راجا۔ وہ اس کی مورتی بھی تیار کرتے ہیں تو اس طرح جیسے یہ دیوتا راگ رنگ میں مشغول ہے۔‘‘۶۰؎ ارشاد ہوا ’’ایسے ہی صفات باری تعالیٰ کے ذکر میں جب قرآن یہ کہتا ہے ’’لَا تَاْخُذُہُ سِنَۃٌ وَّلَا نَوْمٌ‘‘۶۱؎ تو بے اختیار ہندوؤں کا یہ قول یاد آجاتا ہے کہ کائنات پر ماتما کا خواب ہے۔ ادھر اس کی آنکھ کھلی اور اُدھر یہ خواب پریشان ہوگیا۔‘‘ فرمایا ’’ہمارے ہاں بعض صوفیہ نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔‘‘۶۲؎ حضرت علامہ کچھ تھک سے گئے تھے۔ مولانا نے بھی اس خیال سے کہ انھیں آرام ملے دو چار کلمات ان کی تائید میں کہے۔ علی بخش آیا۔ حسبِ معمول تکیوں کو ہٹاتے ہوئے حضرت علامہ کے شانے دابنے لگا۔ دوا کھلائی اور چلم بدلی۔ حضرت علامہ نے پھر فرمایا ’’میں نے کہا تھا قرآن مجید دل کے راستے بھی شعور میں داخل ہوتا ہے۔ یہ حقیقت یوں سمجھ میں آئے گی کہ یہ کالج میں میری تعلیم کا ابتدائی زمانہ تھا۔ میرا معمول تھا ہر روز نماز فجر کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کرتا۔ اس دوران میں والد ماجد بھی مسجد سے تشریف لے آتے اور مجھے تلاوت کرتا دیکھ کر اپنے کمرے میں چلے جاتے۔ میں کبھی ایک منزل ختم کرچکا ہوتا کبھی کم۔ ایک روز کا ذکر ہے والد ماجد حسبِ معمول مسجد سے واپس آئے، میں تلاوت میں مصروف تھا، مگر وہ جیسے کسی خیال سے میرے پاس بیٹھ گئے۔ میں تلاوت کرتے کرتے رُک گیا اور منتظر تھا کہ مجھ سے کیا ارشاد فرماتے ہیں۔ کہنے لگے تم کیا پڑھا کرتے ہو۔ مجھے ان کے اس سوال پر نہایت تعجب ہوا، بلکہ ملال بھی۔ انھیں معلوم تھا میں قرآن پاک کی تلاوت کررہا ہوں۔ بہرحال میں نے مؤدبانہ عرض کیا قرآن پاک۔ کہنے لگے تم جو کچھ پڑھتے ہو سمجھتے بھی ہو۔ میں نے کہا کیوں نہیں۔ تھوڑی بہت عربی جانتا ہوں۔ کچھ نہ کچھ سمجھ لیتا ہوں۔ انھوں نے میرا جواب خاموشی سے سنا اور اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔ میں حیران تھا آخر اس سوال سے اُن کا مطلب کیا ہے۔ کچھ دن گزر گئے اور یہ بات جیسے آئی گئی ہوگی، لیکن اس واقعہ کو چھٹا روز تھا کہ صبح سویرے میں حسبِ معمول قرآن پاک کی تلاوت کررہا تھا، والد ماجد مسجد سے واپس آئے اور میں نے تلاوت ختم کی تو انھوںنے مجھے بلایا اور اپنے پاس بٹھا کر بڑی نرمی سے کہنے لگے، بیٹا قرآن مجید وہی شخص سمجھ سکتا ہے جس پر اُس کا نزول ہو۔ مجھے تعجب ہوا کہ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قرآن پاک کیسے کسی پر نازل ہوسکتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے وہ میرے دل کی بات سمجھ گئے۔ کہنے لگے تمھیں کیسے یہ خیال گزرا کہ اب قرآن مجید کسی پر نازل نہیں ہوگا۔ کیوں نہ تم اس کی تلاوت اس طرح کرو جیسے یہ تم پر نازل ہورہا ہے۔ ایسا کرو گے تو یہ تمھاری رگ و پے میں سرایت کرجائے گا۔ میں ہمہ تن گوش والد ماجد کی بات سنتا رہا، بلکہ اپنے آپ کو تیار کررہا تھا کہ قرآن مجید کی تلاوت ویسے ہی کروں جیسے اُن کا ارشاد ہے کہ انھوں نے کہا سنو، اللہ تعالیٰ کا ارادہ عالم انسانیت کو جس معراج کمال تک پہنچانے کا تھا اس کا آخری اور کامل و مکمل نمونہ ہمارے نبی اکرم محمد مصطفی احمد مجتبیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات ستودہ صفات میں ہمارے سامنے پیش کردیا۔ لہٰذا ہم کہیں گے کہ آدم علیہ السلام سے حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم تک کہ خاتم الانبیا ہیں، جتنے بھی نبی مبعوث ہوئے، ان میں سے ہر ایک کا گزر مدارج محمدیہ ہی میں سے ہورہا تھا۔ وہ گویا ایک سلسلہ تھا جس کا خاتمہ ذات محمدیہ کی تشکیل پر ہوا۔۶۳؎ حضرت علامہ کہنے لگے ’’والد ماجد نے پھر خود ہی اپنے اس ارشاد کی تشریح کی۔ انھوں نے کہا شعور انسانی کی تکمیل کے ساتھ ساتھ بالآخر جب وہ مرحلہ بھی آگیا کہ زندگی اپنے مقصود کو پالے۶۴؎ تو ذات محمدیہ بھی اپنی پوری شان سے جلوہ گر ہوگئی۔ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، باب نبوت بند ہوا، انسانیت اپنے معراج کمال کو پہنچی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ و کاملہ ہی ہر اعتبار سے ہمارے لیے حجت، مثال اور نمونہ ٹھہرا۔ اب جتنا بھی کوئی اس رنگ میں رنگتا چلا جائے گا اتنا ہی قرآن مجید اس پر نازل ہوتا رہے گا۔ یہ مطلب تھا میرے اس کہنے کا کہ قرآن مجید اسی کی سمجھ میں آسکتا ہے جس پر اس کا نزول ہو۔۶۵؎ سلسلۂ کلام نبوت پر آگیا۔ نبوت سے مقصود ہے فرد کی تربیت ذات اور فرد اور جماعت کی رہنمائی مدارج کمال کی طرف۔ ارشاد ہوا ’’جہاں تک فرد کی ذات اور معاشرے کی تہذیب و ترقی یا دوسرے لفظوں میں معراج انسانیت کا تعلق ہے یہ مقصد حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع ہی سے حاصل ہوگا۶۶؎ البتہ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی نصب العین ہو اس کے لیے یقین کامل شرط ہے۔ یقین نہیں تو عمل بھی نہیں، نہ آرزو، نہ ولولہ، نہ جدوجہد۔‘‘ فرمایا ’’شعور نبوت کو تو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس میں زمانے کی ساری وسعتیں سمٹ کر ایک نقطے پر آجاتی ہیں۔ ماضی و حال اور مستقبل کا امتیاز قائم نہیں رہتا۔ لہٰذا ہمارے لیے جو بات آنے والی ہوتی ہے شعور نبوت کو پہلے ہی سے اس کا علم ہوتا ہے، اس طرح جیسے اس کا ظہور ہو رہا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ انبیا علیہم السلام ہر حقیقت اور ہر صداقت کو اپنے سامنے عیاں دیکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے وحی الٰہی میں ان کے یقین کامل کی۔ لہٰذا جس علم کا سرچشمہ ہے وحی الٰہی اس میں یقین ہی یقین ہوگا۔ اس کے برعکس عقل اور فکر کی دنیا ہے کہ ہم اس میں قدم بہ قدم آگے بڑھتے ہیں۔ اس میں اثبات کے ساتھ نفی اور یقین کے ساتھ ظن کا پہلو قائم رہتا ہے۔ فلسفہ نام ہے انسان کی دماغی کاوشوں کا لیکن یہ کاوشیں آخر انسانی ہیں۔ ان میں یقین کا رنگ پیدا نہیں ہوسکتا۔ بالخصوص وہ یقین جسے ہم علم الیقین، حق الیقین اور عین الیقین سے تعبیر کرتے ہیں۔ فکر میں یقین کا رنگ پیدا ہوگا تو وحی الٰہی کی بدولت کہ اس کی رہنمائی میں آگے بڑھے‘‘ ارشاد ہوا ’’یہ رہنمائی ازل سے ہماری فطرت میں ودیعت ہے۔۶۷؎ تھوڑی دیر خاموشی رہی۔ حضرت علامہ کو آرام کی ضرورت تھی۔ انھوں نے پاؤں پھیلا کر تکیوں پر ٹیک لگائی۔ مولانا حضرت علامہ کی تائید میں کچھ کَہ رہے تھے کہ پرویز صاحب نے کہا قرآن کریم میں ہے ایک وقت آئے گا جب لوگ اپنے رب کی طرف دوڑتے ہوئے جائیں گے۔۶۸؎ جب تیرا رب اور ملائکہ صف بہ صف آئیں گے۶۹؎ جیسے خدا زمین پر اُتر آئے گا۔ جب زمین تیرے رب کے نور سے جگمگا اُٹھے گی۔۷۰؎ ان آیات کا اشارہ کس حقیقت کی طف ہے۔ کیا اس خاکدان میں ابھی کوئی اور کھیل کھیلا جائے گا؟ پرویز صاحب کے اس سوال کو ہم نے بڑی دل چسپی سے سنا اور منتظر تھے کہ حضرت علامہ اس کے جواب میں کیا فرماتے ہیں۔ بالخصوص اس لیے کہ ہمیں معلوم ہے ملاحدہ کے علاوہ بعض فلاسفہ اسلام نے بھی ان آیات کی تاویل بڑے غیر اسلامی رنگ میں کی ہے، حتیٰ کہ بابیوں اور بہائیوں نے تو انھیں عجیب و غریب معنی پہنچائے ہیں۔۷۱؎ حضرت علامہ کوئی جواب دینے نہیں پائے تھے کہ پرویز صاحب نے پھر کہا، قرآن پاک نے یہ بھی کہا ہے جس روز یہ ارض و سما بدل کر کچھ اور ہوجائیں گے۔۷۲؎ ہم ان آیات کا مطلب کیا سمجھیں؟ حضرت علامہ نے فرمایا ’’یہ ارض و سما، یہ بلندی و پستی، یہ جو کچھ بھی ہے ہم اس کا ادراک اپنے شعور ہی کے ذریعے کرتے ہیں۔ ان کا تصور ہمارے شعور کا تاج ہے۔ جس روز یہ شعور بدلا ارض و سما بھی بدل جائیں گے۔ قرآن پاک کا خطاب ہمارے شعور ہی سے تو ہے۔ یہ ہمیں ہیں جن کو کوئی حقیقت سمجھائی جارہی ہے۔‘‘ ارشاد ہوا ’’سرِدست ہم اپنے ارتقا کی ایک منزل میں ہیں۔ اس سے آگے جو منزل ہے اس میں قدم ر۱کھا تو شعور کی تبدیلی سے ارض و سما بھی بدل جائیں گے۔ معلوم نہیں اس وقت ارض کیا ہو اور سما کیا۔ جب ہی تو فرمایا جس روز یہ ارض و سما کچھ اور ہو جائیں گے۔‘‘ فرمایا ’’شعور میں بھی تو ارتقا جاری ہے اور ارتقا کا تقاضا یہ ہے کہ زمان و مکان کے ابعاد ختم ہوجائیں۔‘‘ ارشاد ہوا ’’خواب میں یہ ابعاد اکثر ختم ہوجاتے ہیں۔ سال کا واقعہ ثانیوں میں رونما ہوتا ہے۔ مسافتوں کا پتا نہیں چلتا جیسے ان کا کوئی وجود ہی نہیں۔‘‘ فرمایا ’’میں یہ سب کچھ مثالاً کَہ رہا ہوں۔ ورنہ کیا معلوم شعور کے ارتقا سے کیا کیا تبدیلیاں مترتب ہوں۔‘‘ پھر فرمایا ’’ان آیات میں جن حقائق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان کا فہم تو آسان ہے، لیکن غلطی یہ ہے کہ ہم ان کی تاویل شعور کے اس مرحلے کی رعایت سے کرتے ہیں جس سے سرِدست ہمارا گزر ہو رہا ہے، حالانکہ تاویل سے مقصود کسی حقیقت کو سمجھنا اور اس کی تَہ تک پہنچنا ہے۔‘‘ ارشاد ہوا ’’تاویل اور موضوع تاویل میں لازم و ملزوم کا تعلق ہے، ایک منطقی، حقیقی اور واقعی رشتے کا تعلق یہ نہیں کہ ہم اسے اپنے ہی خیالات اور مزعومات کی تائید کا ذریعہ بنائیں۔‘‘۷۳؎ جاوید نامہ کا ذکر آگیا۔ پرویز صاحب نے کہا دربار فرعون کے ساحر کیسے پختہ ایمان تھے۔ فرعون کے جبر و استبداد کا جواب ان کی پختہ ایمانی سے بڑھ کر اور کیا ہوگا۔ آپ نے انھیں جاوید نامہ میں کوئی جگہ نہیں دی۔۷۴؎ فرمایا ’’جاوید نامہ میں بہت سی باتوں کا ذکر رہ گیا۔ میرا تو جی چاہتا تھا سیّد احمد بریلوی اور سیّد احمد دہلوی۷۵؎ کی روحوں کو بھی اس میں جمع کردوں، لیکن خیال نہ رہا۔ علاوہ اس کے اور بھی کئی باتیں میرے ذہن میں ہیں، بلکہ میںنے بہ طور یادداشت کہیں لکھ بھی رکھا ہے۔ موقع ملا تو ان کا ذکر بھی کردیا جائے گا۔‘‘۷۶؎ نیٹشے اور برگساں کی باتیں ہونے لگیں، شاید اس لیے کہ کل کے جلسوں میں جو مقالے پڑھے گئے ان میں نیٹشے اور برگساں کا اکثر ذکر آیا۔ ارشاد ہوا ’’میرے اور نیٹشے کے نقطۂ نظر میں بنیادی فرق ہے۔ نیٹشے کی طبیعت پر مادیت پسندی کا غلبہ تھا۔ اس نے ہستیِ باری تعالیٰ کا انکار کیا اور اس انکار سے خودی کا انکار لازم ٹھہرا۔ وہ خودی کا منکر ہے۔ خودی اس کے نزدیک کوئی مابعد الطبیعی حقیقت نہیں۔ اس کا فوق البشر بھی قدیم یونانی سورماؤں کا نمونہ ہے۔ وہ ہمیشہ کسی آنے والے کا خواب دیکھتا ہے۔ یہ مجوسی خیالات کا اثر ہے گو تعجب ہے کہ مجوسیت سے اثر پذیری کے باوجود اسے زمانے کی حقیقت سے کیوں انکار ہے۔ ہندوؤں اور یونانیوں کی طرح زمانے کی حرکت بھی اس کے نزدیک دوری ہے اور نتیجہ یہ کہ ہر چیز بار بار آتی رہتی ہے۔‘‘۷۷؎ فرمایا ’’نیٹشے کی ساری خوبی ذات انسانی کے لیے اس کے ذوق و شوق، اس کے سوز و ساز اور جذب و گداز میں ہے۔۷۸؎ افسوس ہے اسے کوئی مرد کامل نہ ملا۔‘‘ ارشاد ہوا ’’تصوف بھی اب چند رسمی باتوں میں محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ صوفیہ خود بھی نہیں جانتے انھیں ماضی سے کیا ورثہ ملا۔‘‘ فرمایا ’’تصوف کیا ہم اپنے فکر و فرہنگ، ادب اور فن سب سے بے خبر ہیں‘‘ اور حضرت علامہ کا یہ ارشاد تھا بھی ٹھیک اس لیے کہ نیٹشے اور برگساں کے سلسلے میں ان کے افکار کی جو تنقید کی جاتی اس کا انداز یا تو مناظرانہ ہوتا، یعنی محض بحث براے بحث، یا مغرب سے مرعوبیت کے باعث تنقید نگار سمجھتا کہ افکار حاضرہ مغرب ہی کا اجارہ ہیں۷۹؎ یا پھر اسلامی علم و حکمت اور معارف سے بے خبری۸۰؎ کہ ہماری درس گاہوں میں تعلم و تربیت کا انداز ہی یہ ہے کہ تعلیم یافتہ طبقے کے دل و دماغ یورپ کے خود ساختہ سانچے میں ڈھل جائیں۔ وہ اس سے باہر کچھ سوچ ہی نہیں سکتے۔۸۱؎ ارشاد ہوا ’’خیال تو ایک ہی ہوتا ہے مگر زمانہ ہے کہ اپنے اپنے ذوق حیات اور احوال کے مطابق اسے مختلف شکلوں میں پیش کرتا ہے۔ ہمیں اس نکتے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہے۔‘‘ پھر فرمایا ’’خودی ہے، یا نہیں ہے۔ یہ ایک بنیادی مسئلہ ہے جسے ہر تہذیب اور ہر مذہب نے چھیڑا۔ اثبات ہے تو اس کی کوئی شکل ہوگی نفی ہے تو کوئی شکل۔ یہی معاملہ نیٹشے کا ہے۔ اس نے کوئی نئی بات نہیں کہی۔‘‘ برگساں کے متعلق فرمایا ’’یورپ کے لیے برگساں کا نظریہ شاید نیا ہو۔ عالمِ اسلام کے لیے زمانے کی بحث کوئی نیا مسئلہ نہیں۔ اسلامی الہیات، حدیث و قرآن اور فلسفہ کا مطالعہ کیجیے تو میری بات کی تصدیق ہوجائے گی۔‘‘۸۲؎ ارشاد ہوا ’’کیمبرج کے زمانۂ طالب علمی میں جب میں نے اس موضوع، یعنی زمانے کی حقیقت پر ایک مقالہ لکھا تو میرے استاد ڈاکٹر میکٹیگرٹ نے اسے دیکھا مگر اس قدر ناپسند کیا کہ میں نے دل برداشتہ ہوکر اسے تلف کردیا۔ لیکن تھوڑے ہی دنوں میں جب برگساں نے اس موضوع پر ویسے ہی اظہار خیال کیا اور اس کے نظریے کی اشاعت ہونے لگی تو میکٹیگرٹ کو بڑا دکھ ہوا۔ اس لیے کہ برگساں نے بھی کم و بیش وہی نظریہ قائم کیا تھا جسے پہلے میں اپنے مقالے میں پیش کرچکا تھا۔‘‘ فرمایا ’’میکٹیگرٹ نے مجھ سے کہا افسوس ہے میں نے اپنا فریضۂ استادی ادا نہیں کیا۔ میں نے تم پر بڑا ظلم کیا کہ ایک بہت بڑے کارنامے سے محروم کردیا۔ مجھے بھی رنج تھا کہ میں نے اپنا مقالہ کیوں تلف کردیا۔‘‘۸۳؎ میکٹیگرٹ کے ذکر سے اس کی دھریت زیر بحث آگئی۔ پرویز صاحب نے کہا اتنا بڑا فلسفی اور دھریہ ۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ ارشاد ہوا ’’دھریت کی بھی ایک نہیں کئی شکلیں ہیں۔ ایسے ہی اس کے الگ الگ اسباب بھی۔ فرمایا ’’ایک اہلِ سائنس کی دھریت ہے۔ ان کی نظر مادے اور اس کے شئون سے آگے نہیں بڑھتی۔ ایک اہلِ فلسفہ کی کہ اپنے فکر کی نارسائیوں میں گم ہیں، ایک عام دنیا دار کی۔ میکٹیگرٹ کا معاملہ ان سب سے مختلف تھا۔ اس نے ہستی باری تعالیٰ سے انکار کیا تو اس لیے کہ اسے مسیحیت کا شخصی خدا۸۴؎ پسند تھا، نہ فلسفہ کا واجب الوجود۸۵؎۔ وہ دونوں سے بیزار تھا۔۸۶؎ حضرت علامہ نے جب یہ فرمایا ’’وہ دونوں سے بیزار تھا، فلسفہ کے واجب الوجود اور مسیحیت کے شخصی خدا دونوں سے، تو معلوم نہیں کیسے میری زبان سے یہ الفاظ نکل گئے خدا خود اپنے خداؤں سے بیزار ہے۔ اس پر حضرت علامہ تو مسکرادیے۔ پرویز صاحب نے البتہ قہقہہ لگایا اور کہا بہت خوب۔ لا الٰہ الا اللہ۔ اور جس کا مطلب یہ تھا کہ خدا تو وہی ہے جسے قرآن پاک نے اللہ کہا۔ اثبات ہے اللہ کا، نفی ہے خود ساختہ، فرضی اور خیالی خداؤں کی جن کا کوئی وجود ہی نہیں۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱- مولانا حافظ محمد اسلم جیراج پوری مرحوم، استاد جامعہ ملیہ اسلامیہ، ۱۹۵۷ء میں وفات پاگئے۔ ۲- صاحب طلوع اسلام دہلی، کراچی و لاہور۔ ۳- اس وقت کے ہندوستان میں ریلوے بورڈ کے عہدیدار۔ ۴- مشہور شاعر ۱۹۶۰ء میں فوت ہوئے (اسسٹنٹ سیکریٹری شعبۂ اُمور خارجہ) ۵- چودھری محمد حسین مرحوم۔ ۶- قاضی محمد اشرف، مرکزی حکومت کے ملازم۔ ان کا انتقال بھی ہوچکا ہے۔ ۷- کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُوْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ-۳ (آل عمران):۱۱۰۔ ۸- ۱۹۲۵ء میں جب مکہ معظمہ میں عالمِ اسلام کی ایک مؤتمر کا اجلاس منعقد ہوا اور جس میں مولانا محمد علی کا بالخصوص یہ اصرار تھا کہ ہمیں چاہیے نظام بادشاہت کو نظام خلافت سے بدل دیں تاکہ اسلامی سیاست اپنے صحیح مدار پر آجائے۔ ۹- اور نظر پر حالات ماننا پڑتا ہے کہ مولانا مرحوم کا یہ خیال غلط نہیں تھا۔ ۱۰- فَاَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا(الروم: ۳۰)۔ ۱۱- نماز و روزہ و قربانی و حج یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے بال جبرل ۱۲- فَلْیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لِلنَّاسِ…(الحج) ۱۳- حضرت علامہ کا ارشاد ہے: حرم جز قبلۂ قلب و نظر نیست طواف او طواف بام و در نیست میان ما و بیت اللہ رمزیست کہ جبریل امیں را ہم خبر نیست ۱۴- مرحوم الٰہ آبادی، تحریکِ خلافت کے سرگرم کار کن۔ ۱۵- وہابی عقاید کی جبری اشاعت کے باعث۔ ۱۶- محمد ابن عبدالوہاب نجدی جیسا کہ حضرت علامہ کی رائے تھی، دیکھیے خطبات، چھٹا خطبہ۔ ۱۷- حوالہ مذکور، اُوپر کے حاشیے میں۔ ۱۸- ۱۷۴۵ء میں شرفائے مکہ اور ۱۸۰۳ء میں دولتِ عثمانیہ سے۔ ۱۹- اس لیے کہ بجاے آزادی اجتہاد کے اس نے فقہ حنبلی کی کورانہ تقلید اختیار کی اور پھر قدامت پسندی کا شکار ہوگئی، دیکھیے اس سلسلے میں خطبات، چھٹا خطبہ، الاجتہاد فی الاسلام۔ ۲۰- یہ سب واقعات ۱۹۲۵ء کے ہیں، دیکھیے ضمیمہ۔ ۲۱- ۱۹۲۶ء میں۔ ۲۲- ۱۹۲۲ء میں اتاترک کے ہاتھوں۔ ۲۳- بحمدللّٰہ کہ مولانا کے یہ خیالات بھی جیسا کہ واقعات سے تصدیق ہوتی ہے صحیح ثابت ہوئے۔ ۲۴- سلطان کے زیر اہتمام بدوی قبائل کی آباد کاری کے لیے۔ ۲۵- چنانچہ حضرت علامہ کی یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی۔ ۲۶- اور مسلمان سمجھ بھی نہیں رہے تھے، بالخصوص جب نیشنلسٹ مسلمان، احرار اور کانگریس کی طرف دار جمعیۃالعلما اس سے انکار کررہی تھی۔ یا اس کی تعبیر اس رنگ میں کرتی کہ اس کے لیے کسی جداگانہ قومی تنظیم کی ضرورت نہیں، بجز اس کے کہ ہم ترقی پسند دنیا کا ساتھ دیں۔ ۲۷- اور اَمر واقعی بھی یہ ہے کہ حضرت علامہ جس دور کا ذکر کررہے ہیں اس میں کسی کو یہ خیال ہی نہیں تھا کہ اسلام ایک نظام مدنیت اور اجتماع و عمران بھی ہے اور آج بھی کم و بیش یہی کیفیت ہے۔ ۲۸- بسبب فرقہ بندی کے۔ ۲۹- حالانکہ عملاً نہ سہی اُصولاً حضرت علامہ مسلمانوں کی قیادت فرما رہے تھے۔ ۳۰- بہار میں تحریکِ خلافت کے پر جوش رہنما اور سابق ہندوستان میں مرکزی اسمبلی کے رکن۔ ۳۱- بلاد صومال (صومالیہ) کے رہنے والے۔ بحمدللّٰہ کہ صومالیہ اب افریقہ کی آزاد اسلامی ریاستوں میں شامل ہے۔ ۳۲- اور اس انتظار کی کیفیت تاثیر مرحوم نے کیا خوب بیان کی تھی: مولانا ابوالکلام آزاد وہ جن کے کلام میں ہے تاثیر سنتے تھے کہ لکھ رہے ہیں تفسیر سنتے ہیں کہ لکھ رہے تھے تفسیر ۳۳- تفسیر ترجمان القرآن، ص ۱۶۱، ۱۶۲ اور جابجا۔ ۳۴- ملاحظہ ہو کانگریس کے اجلاس رام گڑھ میں مولانا کا خطبۂ صدارت اور ان کی تصنیف India Wins Freedom۔ ۳۵- دارالمصنّفین اعظم گڑھ کا علمی مجلہ۔ ۳۶- سیّد سلیمان ندوی مرحوم و مغفور۔ ۳۷- یہ غلط فہمیوں کا عذر تو خیر یونہی سی بات تھی۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ’ہندی قومیت‘ (بربناے اشتراک وطن) کا تصور دلوں پر چھایا ہوا تھا اور مدیر معارف کا رجحان بھی اسی طرف تھا۔ اس وقت کوئی نہیں سمجھتا تھا کہ اس تصور کے مضمرات ور ملتزمات کیا ہیں۔ جذبات کی شدت بھی اور عقل و فکر جذبات سے دب رہے تھے۔ ادھر مولانا نہ صرف ہندی قومیت کے قائل اور اس کے بہت بڑے داعی اور علمبردار تھے، بلکہ بہت بڑے عالم دین اور مذہبی پیشوا بھی۔ لہٰذا ان کے خیالات کو زیر بحث لایا جاتا تو اس میں دو خطرے تھے۔ مولانا کے علم و فضل کا استخفاف اور اس موقف کی کمزوری کہ ہندی قومیت کے تصور کو مذہب کی تائید حاصل ہے۔ ملاحظہ ہو اس سلسلے میں اشاریہ ترجمان القراآن۔ ۳۸- زندگی کا تقاضا ہے کوئی مثبت طرزِ عمل۔ اسے اوامر و نواہی کی ضرورت ہے اور اوامر و نواہی سرچشمہ میں شرائع، یعنی آئین و قوانین کا۔ تصورات تو محض عقلی ادراک ہے کسی حقیقت کا، لیکن عمل کے لیے بے نتیجہ۔ فرض کیجیے ہم سامی اور آریائی ذہن کی تفریق پر اصرار کرتے ہیں۔ اس تفریق کو مان لیجیے تو کہنا پڑے گا کہ آریائی ذہن نے تصورات تو قائم کیے لیکن عمل کے لیے اسے کوئی راستہ نہ ملا، بلکہ سچ پوچھیے تو عمل کی اس کے نزدیک کوئی قدر و قیمت ہی نہیں۔ سامی ذہن نے قانون پر زور دیا یعنی تصورات کی عملی ترجمانی پر۔ اوامر و نواہی عبارت ہیں اس قانون (شرعہ) سے جس سے باصطلاح قرآن مجید حدود اللہ، حرام و حلال اور معروف و منکر کی بنا پر اعمال و افعال کا ایک واضح اور قطعی راستہ (شریعت) متعین ہوجاتا ہے۔ لہٰذا حضرت علامہ کا ارشاد کہ قرآن پاک میں قانون بھی ہے اور تصورات بھی۔ آج عالم انسانی اور تہذیب و تمدن کا افسوس ناک پہلو یہی تصورات پر زور ہے۔ یہ نہیں کہ عملاً ان کی تعبیر کا کوئی راستہ تلاش کیا جائے۔ خود مسلمان بھی اس پہلو سے شریعت کی قدر و قیمت سے بے خبر ہیں۔ حضرت علامہ کہتے ہیں: شکوہ سنج سختی آئین مشو از حدود مصطفی بیروں مشو ۳۹- نیچر (Nature)کے معنوں میں نہیں جو سائنس کا ایک خود ساختہ مفروضہ ہے اور جس کے پیشِ نظر حامیان مذہب عالمِ کائنات کو صحیفہ قدرت ٹھہراتے ہوئے اکثر اس سے استشہاد کیا کرتے ہیں۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ اسلام ’دین فطرت‘ ہے۔ ان معنوں میں کہ اس نے ہمیں فطرت کے مطابق زندگی بسر کرنے، یعنی عالمِ کائنات (فطرت) پر نظر رکھنے اور قوانین فطرت کے اتباع کا سبق دیا۔ ہمیں معلوم ہے سرسیّد نے اس طرز فکر پر بالخصوص زور دیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ ان کے مخالفین نے انھیں نیچری کہا اور ان کے مذہبی غور و فکر کے لیے نیچریت کی اصطلاح وضع کی۔ ۴۰- فطرۃ اللہ التی فطرالناس علیھا-۳۰(الروم):۳۰۔ ۴۱- فاقم وجھک للدین حنیفا فطرۃ اللہ التی۔ فطرالناس علیھا لاتبدیل لخلق اللہ ذالک الدین القیم لا و اکثر الناس لایعلمون-۳۰(الروم):۳۰۔ ۴۲- شرع لکم من الدین ماوصی بہٖ نوحاً… ان اقیموا الدین ولا تفرقوافیہ-۴۲ (الشوریٰ):۱۳۔ ۴۳- انسان کو ثبات کی طلب ہے دستور حیات کی طلب ہے بانگ درا ۴۴- سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہٗ الْحَقُّ (حم السجدہ: ۵۳)۔ ۴۵- ایسی کوئی سورہ لاؤ (البقرہ: ۲۴)۔ ۴۶- ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (العنکبوت: ۱۶)۔ ۴۷- ولقد خلقنا السموات والارض و ما بینھا فی ستۃ ایام وما مسنا من لغوب-۵۰ (ق):۳۸۔ ۴۸- اس لیے کہ خداوند اسم ذات نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسم ذات کی تلاش میں اب عیسائیوں کے ایک فرقے نے یہواہ (Jehova) کا لفظ استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ ۴۹- مایا بمعنی فریب، التباس، نمود۔ وبدانت فلسفہ کی اصطلاح میں عالم محسوسات کی کثرت ایک فریب ہے جس نے اصل حقیقت پر پردہ ڈال رکھا ہے۔ اصل حقیقت ایک ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ بسبب ’مایا‘ (جہالت) ہمیں اس کا ادراک نہیں ہوتا، لیکن اس پر ایک ہندو فلسفی یوں رائے زنی کرے گا کہ بیشک عالمِ کائنات ’مایا‘ ہے کیوں کہ اس میں اصل حقیقت چھپ گئی ہے لیکن جہاں تک اصل حقیقت کے اظہار کا تعلق ہے مایا ہی حقیقت ہے کہ اس میں اس کا اظہار ہورہا ہے۔ انند۔ روحانی کیف و سرور کی انتہائی کیفیت جس میں شاہد و مشہود کا امتیاز ختم ہوجاتا ہے۔ کیف و سرور کا ابدی لمحہ۔ ۵۰- فلاح عبارت ہے کامیاب زندگی سے جس کا کرشمہ ہے ہدایت (۶:۵) وہ نتیجہ ہے تزکیہ ذات کا (۹۱:۹)۔ حقیقت کا اشارہ اس طرف ہے کہ عالم محسوسات مایا نہیں۔ یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے اگرچہ مخلوق مگر جس کا وجود باطل نہیں ہے بلکہ حق (۱۴:۱۰) خواہ فلسفہ کی زبان میں اعتباری۔ ۵۱- ہر کتاب کا ایک موضوع ہوگا۔ قرآن مجید کا بھی ایک موضوع ہے جس کا احاطہ اس نے ہر پہلو سے بہ حسن و خوبی کرلیا ہے۔ مگر پھر لفظ کتاب کے اور بھی تو کئی معنی ہیں۔ مثلاً فرض، حکم، قانون۔ ان سب کا لحاظ رکھ لیا لیجیے تو بطور ایک کتاب قرآن مجید کے اور بھی کئی لطیف پہلو ہمارے سامنے آجائیں گے۔ ۵۲- مثلاً روسی انقلاب ہے کہ حضرت علامہ نے جاوید نامہ میں اہلِ روس سے بہ زبان افغانی فرمایا: چیست قرآں خواجہ را پیغام مرگ دست گیر بندۂ بے ساز و برگ ہیج خیر از مردک زرکش مجو لن تنالو البر حتیٰ تنفقوا آب و نان ماست از یک مائدہ دودہ آدم کنفس واحدہ ۵۳- جو کچھ تمھارے پاس ہے اس کا مصدق-۲ (البقرہ): ۵۴- کہ ہم کوئی بھی اُصول قائم کریں اس کی تصدیق قرآن پاک ہی کی بدولت ہوگی یعنی اس راستے پر چل کر جو اس کے حصول میں قرآن پاک نے ہمارے لیے تجویز کیا۔ ۵۵- امم قدیمہ کا قاعدہ تھا کہ حقائق کو افسانوں کا جامہ پہناتیں حتیٰ کہ فکر و فلسفہ کی دنیا میں بھی بعض حقائق کی تشریح افسانوں ہی کی شکل میں کی جاتی۔ چنانچہ افلاطون کا یہ عام انداز تھا۔ وہ کسی حقیقت کو بیان کرتے کرتے اس کا خاتمہ بالعموم کسی افسانے پر کرتا ہے، لیکن یوں ہوتا یہ کہ حقیقت نظر انداز ہوجاتی، افسانہ باقی رہ جاتا۔ ۵۶- عارف روم کا ارشاد ہے! اے برادر قصہ چوں پیمانہ ایست و اندور معنی مثال دانہ ایست ۵۷- دیکھیے خطبات میں (خطبہ چہارم) اس قدیم بابلی-اسرائیلی روایت کی تشریح حضرت علامہ کے قلم سے۔ ۵۸- وَمَا خَلَقْنَا السَّمَائَ وَالاَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَا لٰعِبِیْنَ-۲۱ (الانبیا): ۱۶۔ ۵۹- رام لیلا۔ ۶۰- ایک گول چکر میں ٹانگوں اور ہاتھوں کو یوں چکر دے کر پھیلاتے ہوئے جیسے مورتی حرکت میں ہے۔ ۶۱- اسے نیند آتی ہے، نہ اُونگھ-۲ (البقرہ):۲۵۵۔ ۶۲- گو صراحت نہیں فرمائی، البتہ میرا ذہن سرمد کے اس شعر کی طرف منتقل ہوگیا: شورے شد و ز خواب عدم چشم کشودیم دیدیم کہ باقیسیت شب فتنہ غنودیم ۶۳- دیکھیے اسرار خودی: شعلہ ہائے او صد ابراہیم سوخت تا چراغ یک محمد بر فروخت حضرت علامہ نے یہ بات انگریزی میں کہی تھی۔ الفاظ تھے۔ Mohammad in the making ۶۴- اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ(المائدہ:۳)۔ ۶۵- بال جبریل میں ہے: ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب گرہ کشا ہے نہ رازی صاحب کشاف ۶۶- دیکھیے اس سلسلے میں رموز بے خودی کے ابواب رسالت، تادب بآدب محمدیہ اور حفظ روایات ملیہ بالخصوص۔ ۶۷- قَالَ رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطٰی کُلَّ شَیْئٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ھَدٰی (طہٰ: ۵۱)۔ ۶۸- فَاِِذَا ہُمْ مِنَ الْاَجْدَاثِ اِِلٰی رَبِّہِمْ یَنْسِلُوْنَ (یٰسین: ۵۱)۔ ۶۹- وَّجَآئَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا (الفجر:۲۲)۔ ۷۰- وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّہَا (الزمر: ۶۹)۔ ۷۱- مثلاً یہ کہ عہد نبوت ختم ہوچکا ہے لہٰذا شریعت اسلامیہ منسوخ ہوگئی۔ ۷۲- یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَ السَّمٰوٰتُ (ابراہیم:۴۸)۔ ۷۳- ابن حزم کی طرح حضرت علامہ بھی تاویل کے قائل نہیں تھے جیسا کہ اس کا عام مفہوم ہے۔ مولانا روم فرماتے ہیں: کردۂ تاویل حرف بکر را خویش را تاویل کن نے ذکر را تاویل کے معنی ہیں رجوع الی الاصل۔ جو تاویل اصل سے ہٹ گئی وہ تاویل نہیں ہے۔ ۷۴- چنانچہ مولانا محمد علی ساحران دریار فرعون کی مثال پیش کرتے ہوئے شہنشاہیت پر بڑا دل چسپ تبصرہ فرمایا کرتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے شہنشاہیت کی روح جبرو استبداد کا اندازہ اس اَمر سے کیجیے کہ جب ساحروں نے کہا ہم موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لائے تو فرعون نے کہا تم بغیر میرے حکم کے کیسے ایمان لے آئے۔ تم اور یہ جرأت۔ ۷۵- سرسیّد احمد خان۔ ۷۶- اور واقع بھی یہ ہے کہ حضرت علامہ جو دواوین اشعار شائع کرتے خاصی قطع و برید اور ترمیم و تنسیخ کے بعد۔ ایسے ہی بعض نامکمل عنوانات حذف کردیتے، اس امید میں کہ آیندہ ترتیب میں مکمل ہوجائیں گے۔ ۷۷- اشارہ ہے نیٹشے کے عقیدہ رجعت ابدی کی طرف۔ ۷۸- نہ جبریلے نہ فردوسے نہ حورے نے خداوندے کف خاکے کہ می سوزد ز جان آرزو مندے ۷۹- چنانچہ ایک صاحب کاغذوں کا ایک طومار لیے پھرتے تاکہ وہ دکھا سکیں کہ اقبال کا اپنا تو کوئی خیال تھا نہیں۔ لیکن ان کا ہر خیال اپنا۔ عجمی تصوف کی مخالفت سے بھی اس خیال کو تحریک ہوئی کہ خودی کا سرچشمہ ہے مغرب کی مادیت پسندی۔ لہٰذا مستشرقین کی طرح مخالفین نے بھی محسوس کیا کہ اگر خودی اور زمانے کے تصورات کو نیٹشے اور برگساں کی خوشہ چینی کا نتیجہ قرار دیا جائے تو یہ نسخہ بڑا کارگر ثابت ہوگا۔ یوں بھی قاعدہ ہے کہ دنیائے فکر و فرہنگ میں جب کسی نابغے کا ظہور ہوتا ہے تو اس کے خلاف ایک دنیا اُٹھ کھڑی ہوتی ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ اس کے نبوغ و فطانت اور ندرت سے انکار کیا جائے۔ ۸۰- ورنہ کیوں کہا جاتا کہ امام شافعی کے قول ’’الوقت سیف‘‘ کی فلسفیانہ تعبیر (دیکھیے اسرار خودی) کو ان کے زہد و ورع سے کیا تعلق؟ یہ کوئی بڑا ہی انوکھا زہد و ورع ہے کہ امام شافعی زمانے کے باب میں غور و فکر سے گریز کرتے۔ ثانیاً انھوں نے ’الوقت سیف‘ کہا تو ہے اور اس سے ان کا کچھ مطلب بھی ہوگا، لہٰذا اس قول کی فلسفیانہ تعبیر سے اگر ان کے زہد و ورع پر حرف آتا ہے تو اس قول کی وہ کیا تعبیر ہے جو ان کے زہد و ورع کے مطابق ہوگی؟ ۸۱- اور یہ وہ صورتِ حالات ہے جس میں اب تک کوئی نمایاں تغیر نہیں ہوا۔ ۸۲- دیکھیے اس سلسلے میں راقم الحروف کی کتاب Notes on Nietzsche جو اقبال اکیڈمی کے زیر اہتمام شائع ہورہی ہے۔ ۸۳- یہ ایک اور ثبوت ہے حضرت علامہ کی آزادیِ فکر کا۔ ۸۴- Personal God ۸۵- Necessary Being ۸۶- دیکھیے اس سلسلے میں حضرت علامہ کا مضمون میکٹیگرٹ پر جو ان کے مضامین اور تحریروں کے مختلف مجموعوں میں شائع ہوچکا ہے۔ علی ہذا خطبات، دوسرا خطبہ۔ میکٹیگرٹ دونوں سے بیزار تھا۔ مسیحیت کے شخصی خدا سے اس لیے کہ خدا کو شخص کہنا تجسیم ہے اور تجسیم الوہیت کی نفی۔ ثانیاً مسیحیت نے اسی پر بس نہیں کی کہ اسے شخص ٹھہرایا۔ اس نے خدا کو شخص واحد مان کر اس شخص واحد کے تین شخص کردیے (باپ، بیٹا، روح القدس: اقانیم ثلاثہ) لہٰذا اس کی شان خداوندی میں اور بھی فرق آگیا۔ خدا اب مطلقاً خدا نہ رہا۔ شخص ثانی مسیح علیہ السلام نے عالم ناسوت سے عالم لاھوت میں قدم رکھا اور شخص اول خدا نے عالم لاہوت سے عالم ناسوت میں۔ یوں اس کی مطلقیت اضافیت سے بدل گئی۔ پھر اس توحید فی التثلیث یا تثلیث فی التوحید کا جواز جس طرح پیدا کیا گیا اس میں کسی خالصاً منطقی فکر کی بجاے وثنی عقاید کا غلبہ تھا۔ یقینا خدا کی یہ شان نہیں ہوسکتی جس پر مسیحیت کو اصرار ہے خواہ اس کی تعبیر کسی رنگ میں کی جائے۔ وہ فلسفہ کے واجب الوجود سے بھی بیزار تھا اس لیے کہ واجب الوجود ایک منطقی برہان ہے۔ ایک استدلال، ایک نتیجہ۔ بالفاظِ دیگر ایک وہم اور خیال یا از روے منطق ایک معنی (concept) جس کی بنا وجود و عدم اور وجوب و امکان کے پیشِ نظر ایک خاص قسم کے صغرا و کبرا یعنی قیاس منطقی پر رکھی گئی اور جس سے ایک مخالفانہ مگر ویسی ہی صحیح منطق سے استدلال کرتے ہوتے انکار بھی کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا واجب الوجود ہمارے ذہن کی پیداوار ہے اور ہمارے ذہن ہی میں محدود جس کی اس سے باہر کوئی حقیقت ہے، نہ وجود۔ واجب الوجود خدا کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتا۔ یوں ایک خاص قسم کے فکر اور منطق کا تقاضا تو پورا ہوجاتا ہے لیکن مذہب کا تقاضا پورا نہیں ہوتا۔ بالفرض اگر یہ کہا جائے کہ از روے منطق یہ ہستی باری تعالیٰ کی ایک دلیل تو ہے تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ دلیل نہیں بلکہ امکان جسے دلیل ٹھہرانا منطق ہی کی اصطلاح میں مصادرہ علیٰ المطلوب Petitio Principil کہا جائے گا کیونکہ اس امکان کی صحت ہی تو ثبوت طلب ہے۔ وجود Being اور واجب الوجود Necessary being کے پیشِ نظر میکٹیگرٹ نے ’وجود مسحوق‘ Pulverised Being کا تصور قائم کیا اور وہ بھی شاید جواباً۔ وہ کہتا ہے کائنات مجموعۂ افراد (موجودات) ہے اور ہر وجود دوسرے سے الگ جس میں ابھی وحدت کی شان پیدا نہیں ہوئی۔ گویا وجود اگر ہے بھی (بطور ایک وحدت) تو یہ وحدت قائم نہیں۔ وجود پس گیا ہے اور بشکل موجودات ہمارے سامنے جس کا ہم خود بھی ایک حصہ ہیں۔ لہٰذا وحدۃ الوجود سے اس کا اختلاف کیونکہ وحدۃ الوجود سے موجودات کی نفی لازم آتی ہے۔ یاد رکھنا چاہیے وجود منطق کا ایک مقولہ ہے، مذہب کا مقولہ نہیں ہے۔ مذہب کو جس خدا پر اصرار ہے یا دوسرے لفظوں میں ہم جس خدا کو فی الواقعہ مان سکتے ہیں اس کا جواز نہ واجب الوجود سے پیدا ہوتا ہے، نہ مسیحیت کے شخصی خدا اور اقانیم ثلاثہ سے۔ لہٰذا میکٹیگرٹ کی دہریت اور ہستی باری تعالیٰ سے انکار۔ بایں ہمہ اس کی دہریت کا اپنا ایک رنگ تھا جس پر محبت کا غلبہ تھا اور جو شاید مسیحیت سے اسے ورثے میں ملا۔ ز…ز…ز سہ شنبہ: ۱۱؍جنوری دیر تک حاضر خدمت رہا۔ لیکن ادھر کوئی بات چھیڑی اور ادھر کوئی صاحب ملاقات کے لیے آگئے۔ یہ سلسلہ دیر تک جاری رہا اور بند ہوا تو علی بخش نے پیر… صاحب کی تشریف آوری کی اطلاع کی۔ پیر صاحب کچھ تیتر اور بٹیر تحفتاً ساتھ لائے تھے۔۱؎ علی بخش نے ان کا ذکر کیا تو حضرت علامہ نے فرمایا رکھ لو، پیر صاحب تشریف لے آئیں۔ پیر صاحب کمرے میں داخل ہوئے، بڑے ادب سے حضرت علامہ کی مزاج پرسی کی اور خاموش بیٹھ گئے۔ میں بھی تعظیماً کرسی سے اُٹھا اور سلام کرکے بیٹھ گیا۔ حضرت علامہ نے خیریت پوچھی۔ کچھ سرسری سی باتیں ہوئیں۔ پیر صاحب بچوں کو انگریزی تعلیم دلوا رہے ہیں۔ کہنے لگے کسی فرنگن۲؎ کی تلاش میں ہوں۔ مل جائے تو بہ طور گورنس ملازم رکھ لوں۔ پھر کہا مجھے یہ خیال اس لیے آیا کہ آپ کے یہاں بھی تو ایک انگریز گورنس موجود ہے۔۳؎ میں نے دو ایک بار اُٹھنے کی کوشش کی لیکن حضرت علامہ نے روک لیا۔ صحبت بڑی بے کیف رہی۔ پیر صاحب زیادہ نہیں بیٹھے۔ یہی کوئی گھنٹہ بھر۔ کوئی خاص گفتگو بھی نہیں ہوئی۔ وہ گئے تو میں نے عرض کیا آپ ان کا بڑا خیال رکھتے ہیں اور رکھنا چاہیے بھی۔ مجھے بھی ان کا بڑا احترام ہے لیکن سوال عام طور پر پیروں کا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ یوں کہنے کو تو یہ حضرات آپ کی ہر بات پر آمنا و صدقنا کہتے ہیں لیکن کرتے تو کچھ ہیں نہیں، کچھ کریں تو بات ہے۔ کہنے کو سب کچھ کَہ جاتے ہیں۔ حضرت علامہ حقے کے کش لے رہے تھے۔ میری بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے پھر کہا پیروں کی زندگی بڑے ناز و نعمت میں گزرتی ہے۔ یہ زندگی شاید ہی انھیں کچھ کرنے دے۔ آپ ہی کا تو ارشاد ہے۔ ’’گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن‘‘۴؎ حضرت علامہ مسکرا ادیے۔ ’’ارشاد ہوا دلوں کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے۔ مجھے تو کسی کے نام کی شرم ہے اسی کے بھروسے ان سے کچھ کَہ بھی دیتا ہوں۔‘‘ اور یہ کہتے کہتے آنکھیں نمناک ہوگئیں۔ فرمایا ’’ممکن ہے اس نام سے ان کا انتساب ہی کسی نہ کسی دن اُن کی زندگی کا رُخ بدل دے۔‘‘۵؎ میں خاموش ہوگیا۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱- حکیم نابینا صاحب کا ارشاد تھا حضرت علامہ زیادہ تر پرند کا گوشت استعمال کریں۔ یہ بات کسی نہ کسی طرح پیر صاحب تک پہنچ گئی، لہٰذا ان کا از رہ محبت و ارادت یہ تحفہ۔ ۲- جیسا کہ پیر صاحب نے فرمایا اور جیسا کہ ہمارے یہاں اس لفظ کے دو معنی ہیں (۱)انگریز یعنی جزائر برطانیہ اور (۲)ارض یورپ کا باشندہ۔ ۳- بیگم حسین جو حضرت علامہ کی وفات کے بعد بھی کئی سال گھر بار کی نگرانی کرتی رہیں۔ وہ جرمن نژاد خاتون تھیں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ جرمنی واپس چلی گئیں ہیں۔ ۴- دیکھیے بال جبریل کی نظم جو پیروں کی عام حالت پر لکھی گئی اور جس کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے، پیری و صدعیب‘۔ ۵- باعتبار حسب و نسب کہ ہم آل رسول ہیں۔ ز…ز…ز جمعرات: ۱۳؍جنوری شام کے قریب حاضر ہوا۔ حضرت علامہ تنہا آرام فرما رہے تھے۔ میں نے سلام عرض کیا۔ خیریت مزاج دریافت کی۔ فرمایا کل دن بھر انتظار رہا، کہاں تھے؟ میں نے کہا صبح کچھ مصروفیت سی رہی۔ تیسرے پہر ڈاکٹر چکرورتی۱؎ کے یہاں چائے تھی۔ وہاں خلاف امید دیر ہوگئی۔ گھر پہنچا تو بعض مجبوریوں کے باعث حاضر نہ ہوسکا۔ ارشاد ہوا ’’ڈاکٹر صاحب سے کیا دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔‘‘ میں نے عرض کیا جی ہاں دیر تک۔ دریافت فرمایا ’’کیا راجا صاحب بھی مدعو تھے؟‘‘ میں نے کہا راجا صاحب اور خواجہ صاحب۲؎ ہی دراصل مدعو تھے۔ میں تو گویا ضمناً طلب کرلیا گیا تھا۔ فرمایا ’’ڈاکٹر صاحب سے کیا باتیں ہوئیں؟‘‘ عرض کیا وہی جو آپ یہاں۔ وہی اتحاد انسانی اور اتحاد انسانی کے سلسلے میں قوموں کے ایک دوسرے سے تعاون اور ایک دوسرے کی خیر خواہی اور رواداری کی گفتگو، وہی آزادی خیال، آزادی رائے، عالم گیر محبت اور اخوت کا ذکر۔ میں نے عرض کیا خواجہ صاحب تو زیادہ تر خاموش رہے۔ راجا صاحب ہی بیشتر گفتگو کرتے رہے۔ بار بار اسلام پر زور دیتے۔ ارشاد ہوا ’’ڈاکٹر چکرورتی نے کیا کہا، بات کہاں ختم ہوئی۔‘‘ میں نے عرض کیا ڈاکٹر صاحب کو اس اَمر سے تو اتفاق تھا کہ اسلام ہی وہ جامع اور ہمہ گیر نقطۂ نظر ہے جو عالم انسانی کے اتحاد و اشتراک، رواداری اور خیر خواہی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ چنانچہ انھوں نے گفتگو میں آپ کے ارشادات کا حوالہ بھی دیا۔ لیکن بار بار اس اَمر پر زور دیتے کہ یہ اسلام ہمارا آپ کا اسلام نہیں ہے، بلکہ حقیقی اسلام۔ ارشاد ہوا ’’یہ حقیقی اسلام کی اصطلاح بھی خوب ہے۔ اسلام تو ہر حالت میں اسلام ہے اور اسلام ہی رہے گا کچھ اور تو ہو نہیں جائے گا۔ غیر حقیقی اسلام کو کون اسلام کہے گا۔ مسلمان خود بھی تو اسے اسلام نہیں کہتے۔‘‘ فرمایا ’’ڈاکٹر صاحب کا شاید یہ خیال ہوگا کہ ہمارا کردار اسلام کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا۔ لیکن یہ ایک جداگانہ بات ہے۔ اسے حقیقی یا غیر حقیقی اسلام سے کیا تعلق؟ ڈاکٹر چکرورتی اگر تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام ہی وہ جامع اور ہمہ گیر نقطۂ نظر ہے جس کی فی الحقیقت نوعِ انسانی کو ضرورت تھی اور جسے فطرت بھی قبول کرتی ہے تو ان سے کون کہتا ہے حقیقی اسلام کو چھوڑ کر کوئی غیر حقیقی اسلام قبول کرلیں۔‘‘ ارشاد ہوا قرآن مجید سے بڑھ کر کسی کتاب کا یہ دعویٰ نہیں کہ اس میں رشد ہی رشد ہے۔ ارشاد ہوتا ہے قَدْ تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ اور غَیِّ۳؎ کیا ہے حق و باطل کا امتزاج، کچھ ہدایت کچھ ضلالت‘‘ فرمایا ’’انسان کے لیے تعلق باللہ ضروری ہے۔ اسلام نے تعلق باللہ کا رشتہ ایک طرف علم اور دوسری جانب عمل سے جوڑا اور ہدایت کی کہ اُٹھتے بیٹھتے ہمیشہ ذکر الٰہی ہوتا رہے۔۴؎ اس میں جگہ کی قید ہے نہ وقت کی۔ اس نے باقاعدہ عبادت کو بھی ہر پہلو سے واضح اور متعین کردیا‘‘۵؎ حضرت علامہ کچھ اور بھی کہنا چاہتے تھے لیکن بہ سبب نقاہت رُک گئے۔ دم کشی کی تکلیف ہورہی تھی۔ میں پریشان تھا۔ مگر پھر طبیعت جلد ہی سنبھل گئی۔ سلسلہ کلام کا ربط اگرچہ ٹوٹ چکا تھا بایں ہمہ فرمایا ’’قانون وراثت ہی کو دیکھ لو۔ اس میں بھی دولت کی تقسیم اس طرح کی گئی ہے کہ مردوں، عورتوں، بوڑھوں، بچوں، خویش و اقارب، دوستوں اور ناداروں سب کا لحاظ رہے۔۶؎ ارشاد ہوا ’’دولت اور طاقت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اسلام نے اس اَمر کی پیش بندی نہایت خوبی سے کی کہ دولت حصول طاقت کا ذریعہ نہ بنے۷؎ اور پھر طاقت کو بھی رد نہیں کیا۔ نہ دوسرے مذاہب کی طرح اسے مذموم ٹھہرایا۔ طاقت کی روح ہے جہاد۸؎ مگر جہاد۹؎ کے لیے بھی جو احکام وضع ہوئے اور ان کے مقصود و مدعا کی تعیین اس طرح کی گئی کہ جوع الارض کی بجاے جہاد صلح و آشتی کا ذریعہ بن گیا۔‘‘۱۰؎ فرمایا ’’اسلام نے ہر معاملے میں ایک فطری اور طبعی روش اختیار کی۔ اس لیے کہ اسلام کا مقصود ہے فرد اور جماعت کی تربیت۔ اس کا بہمہ وجوہ اور مسلسل نشوونما۔‘‘ فرمایا ’’اسلام قوائے حیات کا شیرازہ بند ہے۔ اسلام ہی وہ ائتلاف۱۱؎ ہے جس کی دنیا کو ضرورت تھی اور ہے۔‘‘ ئ…ئ…ء حواشی ۱- اُس وقت استاد فلسفہ، ایف-سی (مشن) کالج، لاہور۔ مذہباً عیسائی۔ ۲- خواجہ عبدالرحیم بیرسٹرایٹ لا اور راجا حسن اختر مرحوم۔ ۳- (البقرہ: ۲۵۶)۔ غی کی روح ہے اعتقادات فاسد سے بے خبری۔ ۴- الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِھِمْ وَ یَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ (آل عمران:۱۹۱)۔ ۵- صلوٰۃ و صوم بالخصوص صلوٰۃ بالجماعت میں۔ ۶- وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ اُولُوا الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنُ فَارْزُقُوْھُمْ مِّنْہُ (النسا:۸)۔ ۷- لہٰذا سرمایہ داری، ملوکیت اور جمع زر کی نفی۔ ۸- مالی جانی۔ بالفاظِ دیگر حصول نصب العین کی راہ میں مسلسل سعی، مسلسل جدوجہد۔ ۹- قرآن مجید کی اصطلاح میں قتال فی سبیل اللہ، جنگ۔ ۱۰- اور مقصد یہ کہ جنگ و جدال اور فتنہ و فساد کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوجائے۔ دیکھیے رموز بے خودی، عنوان جہاد۔ ۱۱- ائتلاف انگریزی لفظ synthesis کا ترجمہ ہے۔ مطلب ہے جملہ قوائے حیات کی شیرازہ بندی صحیح اُصول پر ایک تعمیری مقصد کے لیے۔ دیکھیے خطبات (خطبہ دوم)، مذہب (اسلام) کا وظیفہ حیات انسانی میں۔ ز…ز…ز جمعۃ المبارک: ۱۴؍جنوری سیالکوٹ جارہا تھا اور اس لیے حضرت علامہ کی خدمت میں حاضری ضروری تھی، خواہ تھوڑی دیر ہی کے لیے۔ خیریت مزاج پوچھی تو فرمایا الحمدللّٰہ اچھا ہوں۔ لیکن میں نے دیکھا حضرت علامہ کا ضعف و اضمحلال بڑھ رہا ہے اور اس لیے کچھ پریشان بیٹھا تھا کہ انھوں نے خود ہی فرمایا ’’کیا سیالکوٹ جارہے ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا مجبوراً، یوم اقبال منایا جارہا ہے اور اس میں شرکت ضروری ہے۔ یہی طے پایا ہے کہ ایک روز کے لیے ہو آؤں۔ ارشاد ہوا ’’کیا پڑھو گے؟‘‘ میں نے کہا مضمون کا خلاصہ۔ فرمایا ’’بہت خوب۔‘‘ حضرت علامہ بار بار کروٹ بدلتے۔ میں نے پوچھا قرشی صاحب کیا تشریف لائے تھے؟ فرمایا ’’نبض دیکھ گئے ہیں۔ صبح طبیعت اچھی تھی۔ اب کچھ بے کلی سی ہے۔ چودھری صاحب بھی آئے تھے۔ ابھی تھوڑی دیر ہوئی دفتر گئے ہیں‘‘ اور یہ کَہ کر خاموش ہوگئے۔ علی بخش آیا، چلم بدلی اور دوا کھلائی۔ پھر کچھ ایسا معلوم ہوا جیسے حضرت علامہ کی آنکھ لگ گئی ہے۔ چنانچہ وہ دس پندرہ منٹ کے لیے سو بھی گئے۔ پھر جو آنکھ کھلی تو تکیوں کا سہارا لے کر بیٹھ گئے۔ حقے کے ایک دو کش لیے اور مسلمانوں کی زبوں حالی پر اظہار افسوس کرتے رہے۔ میں نے کہا ایک مسئلہ ہے، ارشاد ہو تو عرض کروں۔فرمایا ’’کیا؟‘‘ میں نے عرض کیا یہ زمانہ سرمائے اور محنت کی کشمکش کا ہے۔ ایک طرف اشتراکیت ہے، دوسری جانب سرمایہ داری۔ ارشاد ہوا ’’ٹھیک ہے لیکن تمھارا سوال کیا ہے؟‘‘ عرض کیا سوال یہ ہے کہ مسائل دولت پر گفتگو کیجیے یا فلاح عامہ کا ذکر چھڑیے، یا کوئی ایسی بات کہیے جس سے سیاسی، معاشی انصاف کا پہلو نکلے، لوگ بدظن ہوجاتے ہیں۔ مزدور کا حق زبان پر لائیے تو اعتراض ہوتا ہے یہ اشتراکیت کی منطق ہے، اس سے مادیت اور لادینی کی بو آتی ہے۔ فرد کی صلاحیتوں، حریت اور آزادی پر زور دیجیے تو معترض سمجھتا ہے سرمایہ داری کی حمایت کی جارہی ہے۔ حضرت علامہ بتوجہ میری معروضات سن رہے تھے۔ فرمایا ’’یہ جو کچھ کَہ رہے ہو تمھارے سوال کی تمہید ہے، سوال کیا ہے؟ میں نے طوالت کلام پر معذرت کرتے ہوئے عرض کیا، سوال یہ ہے کہ بحالت موجودہ ہمارے سامنے دو ہی نظام ہیں، اشتراکیت اور سرمایہ داری۔ دونوں ایک دوسرے سے متصادم، ایک دوسرے کی ضد۔ مگر دونوں اس اَمر کے دعویدار کہ انسان کی بھلائی انھیں میں ہے۔ اسلام بظاہر دونوں کے خلاف ہے۔ گو یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ اس میں شاید دونوں کی گنجایش ہے۔ حالانکہ یہ دونوں نظام باہم جمع نہیں ہوسکتے۔ اندریں صورت ہم کیا کہیں، اسلام کی روش سرمایہ اور محنت کے بارے میں کیا ہے؟ یعنی اس کے نظام اجتماع و عمر ان میں سیاست اور معاش کو باہم کیا تعلق ہے؟ باالفاظ دیگر وہ کیا نظام معیشت ہے جو از روے شریعت وجود میں آئے گا؟ ارشاد ہوا ’’تم ابھی تک اپنا سوال متعین نہیں کرسکے۔ تم نے جو بات کہی وہ ایک طویل اور اُصولی بحث ہے۔ تمھارا ذہن اس بحث کی طرف منتقل ہوا، تو کیوں کر؟ تمھاری مشکل کیا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا زمین کی ملکیت اور عدم ملکیت کے مسئلے سے اس لیے کہ اشتراکیت اور سرمایہ داری کی بحث میں سرِدست یہی مسئلہ ہمارے سامنے ہے۔ کارخانہ داری کی تو ابھی ابتدا ہے۔ یہ مسئلہ طے ہوجائے تو بحیثیت ایک قوم ہم اپنا موقف بھی متعین کرسکیں۔ نہ یہ کہا جائے کہ دین سے انحراف ہورہا ہے، نہ یہ کہ دین کیا ہے، محض سرمایہ داری کا پردہ! ارشاد ہوا ’’زمین کے بارے میں شریعت کے احکام واضح ہیں۔ قرآن پاک نے صاف و صریح الفاظ میں کَہ دیا ہے الارض للہ۔۱؎ البتہ اس سلسلے میں جو مشکل ہے وہ یہ کہ اسلام جیسا کہ بارہا کَہ چکا ہوں دین ہے، مذہب نہیں ہے۔ لہٰذا جہاں تک سیاسی معاشی مسائل کا تعلق ہے ہم کَہ سکتے ہیں کہ اسلام ایک عمرانی تحریک بھی ہے۔ لیکن یہی نکتہ ہے جو ابھی تک لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا۔ لہٰذا اس سلسلے میں جو بے سروپا سوالات اُٹھائے جاتے ہیں اس کی وجہ بھی یہ کہ بحیثیت ایک نظام مدنیت اسلام ابھی تک ہمارے سامنے نہیں آیا۔ یہ نظام مدنیت ایک نہ ایک دن سامنے آئے گا، لیکن اس وقت جب مسلمانوں کا شعور ملی بیدار ہوگا اور وہ سمجھیں گے کہ حیاتِ ملّی عبارت ہے ایک سیاسی اجتماعی ہیئت، نہ کہ محض ایک اخلاقی، مذہبی نظام سے۔ ذرا اس شعور کو بیدار ہولینے دو، زمانہ خود ہی سمجھا دے گا مسائل کیا ہوتے ہیں اور ان کی صحیح شکل کیا۔ فرمایا ’’یہ بحث اُٹھاؤ تو بہت سوچ سمجھ کر۔ اس کا ہر پہلو واضح طور پر سامنے رکھو۔ مدار بحث بھی سرتاسر اسلام ہی کو ہونا چاہیے۔ جو کچھ لکھو اُصولاً اور باحتیاط۔‘‘ میں نے عرض کیا میری اپنی کوشش بھی یہی ہے کہ آپ کے ارشادات کا ہر طرح سے لحاظ رکھوں۔ میرے مضمون کا سب سے زیادہ اہم اور بحالت موجودہ متنازعہ فیہ حصہ بھی یہی ملکیت کا مسئلہ ہے، ملکیت اس کا موضوع اور حدود۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱- جیسے الملک للہ، الحکم للہ۔ ز…ز…ز یک شنبہ: ۲۳؍جنوری آٹھ دن سیالکوٹ میں گزر گئے۔ آج شام کو واپس آیا تو نصیر میاں۱؎ نے کہا علی بخش ہر روز آتا ہے، کہنا ہے ڈاکٹر صاحب پوچھتے ہیں آپ کب آئیں گے؟ اس وقت آٹھ بج چکے تھے اور ہر چند کہ سفر کی کلفت سے طبیعت آرام کی طرف مائل تھی، مگر دل نہ مانا۔ تھوڑی دیر ٹھہرا اور حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ جاوید منزل پہنچا تو نو بج رہے تھے۔ اول صحن میں علی بخش سے علیک سلیک ہوئی۔ پھر حضرت علامہ کی خواب گاہ میں قدم رکھا اور سلام عرض کیا تو فرمایا آگئے؟ میں نے عرض کیا ابھی واپس آیا ہوں اور آگے بڑھ کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ حضرت علامہ ماشاء اللہ بڑے ہشاش بشاش نظر آتے تھے اور تکیوں کا سہارا لیے شفیع کو جو پلنگ کے ساتھ ٹیک لگائے فرش پر بیٹھے تھے، کچھ لکھوا رہے تھے۔ کمرے میں اور کوئی نہیں تھا۔ میری آمد پر چوں کہ سلسلۂ تحریر ٹوٹ گیا تھا، اس لیے شفیع نے ربط کلام کی خاطر پھر وہ الفاظ دہرائے جہاں پہنچ کر حضرت علامہ رُک گئے تھے۔ الفاظ یہ تھے ’ایک آزاد اور کھلی فضا میں پرورش پاتا ہے، مجھے نہیں معلوم تھا موضوع تحریر کیا ہے کہ حضرت علامہ نے خود ہی فرمایا ’’مولوی حسین احمد کے اس غلط خیال کی تردید مقصود ہے کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ شفیع کچھ یادداشتیں لے رہے ہیں۔‘‘ سلسلہ تحریر آگے نہیں بڑھا۔ شاید اس لیے کہ یادداشتیں مکمل ہوچکی تھیں۔ شفیع اُٹھے اور کاغذ قلم ایک طرف رکھ دیا۔ میں نے عرض کیا ان دنوں مزاج کیسا رہا؟ فرمایا ’’الحمدللّٰہ اچھا ہوں۔ کوئی خاص تکلیف نہیں ہوئی۔‘‘ پھر میرے اتنے دنوں سیالکوٹ میں ٹھہرے رہنے کا سبب پوچھا۔ میں نے عرض کیا عدنان۲؎ کو بخار آگیا تھا اس لیے مجبوراً رکنا پڑا۔ فرمایا اب کیا حال ہے؟ عرض کیا بحمدللّٰہ صحت ہے۔ ارشاد ہوا ’’سیالکوٹ کی تقریب کیسی رہی؟‘‘ میں نے اس کا مختصراً حال بیان کیا تو شفیع کہنے لگے ہر روز کہیں نہ کہیں یہ تقریب منائی جارہی ہے حتیٰ کہ قاہرہ میں بھی ایک جلسہ ہوا۔ فرمایا ’’شام کو میاں بشیر احمد۳؎ آئے تھے وہ بھی مختلف جلسوں کا ذکر کرتے رہے۔‘‘ ارشاد ہوا ’’اچھا ہے۔ شاید اس طرح لوگ سمجھ لیں میرے خیالات کیا ہیں۔‘‘ میں نے کہا بعض جلسے تو بہت کامیاب رہے۔ چودھری صاحب آگئے، قرشی صاحب ساتھ تھے۔ راجا صاحب البتہ نہیں آئے۔ قرشی صاحب نے نبض دیکھی اور طبیعت کا حال پوچھا۔ مجھ سے کہنے لگے ہر روز آپ کا انتظار رہتا تھا۔ سیالکوٹ میں کیا مصروفیت تھی؟ پھر حسبِ معمول باتیں ہونے لگیں۔ یہی روزِ مرہ کی سیاست کہ یونینسٹ پارٹی اور عام حالات کا رُخ کس طرف ہے۔ چائے کا دور چلا۔ علی بخش اور رحما مٹھی چاپی کرنے لگے۔ دوسرے کمرے میں بانو اور جاوید بیٹھے اپنی گورنس سے کوئی سبق پڑھ رہے تھے یا شاید وہ ان سے کوئی بات کررہی تھیں۔ حضرت علامہ کا ذہن بار بار بچوں کی طرف منتقل ہوجاتا۔ فرماتے ان کا کیا حال ہے، پڑھائی کیسی ہورہی ہے، کچھ سمجھ بوجھ کی بات کرتے ہیں یا نہیں؟ ۱۱ بج چکے تھے بلکہ زیادہ۔ ہم نے اجازت طلب کی۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱- میرا بھائی ۲- میرا لڑکا ۳- مدیر ہمایوں ز…ز…ز دوشنبہ: ۲۴؍جنوری چاشت کے قریب حاضر ہوا۔ سلام عرض کیا اور خیریت پوچھی۔ حسبِ معمول اظہار اطمینان فرمایا لیکن میںنے دیکھا حضرت علامہ کچھ پریشان ہیں اور اس کی وجہ جیسا کہ میں سمجھتا تھا حکیم صاحب۱؎ کی دہلی سے حیدرآباد میں نقل مکانی۔ یوں علاج کی وہ صورت قائم نہ رہی جو پچھلے چند برس سے چلی آتی تھی۔ اس کی باقاعدگی میں فرق آگیا تھا۔ دوائیں دیر سے پہنچتیں، کئی کئی ناغے ہوجاتے، مشورہ بھی آسان نہیں تھا۔ خطوں کے جواب کے لیے خاصا انتظار کرنا پڑتا۔ حکیم صاحب دہلی میں تھے تو دوائیں باقاعدہ پہنچتیں اور مشورہ بھی ہوجاتا۔ اس میں کوئی شک نہیں ڈاکٹر مظفر الدین۲؎ بالاالتزم حکیم صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتے، حال کہتے، دوائیں بھجواتے اور جیسی بھی حکیم صاحب کی ہدایات ہوتیں ان کے مطابق خط لکھتے، لیکن مشکل یہ تھی کہ حکیم صاحب نے بسبب پیرانہ سالی اب نہ صرف مطب کرنا چھوڑ دیا تھا، بلکہ وہ حضور نظام کے طبیب خاص بھی تھے۔ ان سے ملنا بجاے خود ایک مسئلہ تھا۔ یوں علاج میں وہ سہولت نہ رہی جو اب تک قائم تھی۔ ہاں اطمینان تھا تو یہ کہ حکیم صاحب نے جو طریق علاج اختیار کررکھا تھا قرشی صاحب اس کے پیشِ نظر کوئی نہ کوئی مرکب تیار کرتے رہتے۔ مثلاً کوئی خمیرہ، کوئی عرق، کوئی جوارش، یا پھر ایسا بھی ہوتا کہ ڈاکٹر جمعیت سنگھ۳؎ کے مشورے سے کوئی ایلوپیتھک دوا استعمال کرلی جاتی۔ میں نے حضرت علامہ کو ایک گونہ پریشان دیکھا تو عرض کیا اجازت ہو تو حکیم صاحب کی خدمت میں مفصل خط لکھ دوں۔ مشورہ ہوجائے گا اور شاید دواؤں میں بھی رد و بدل کردیں۔ فرمایا ’’کیا مضائقہ ہے، لکھ دو۔‘‘ میں تعمیل ارشاد کے لیے اُٹھا۔ کاغذ قلم لے کر خط لکھنے بیٹھ گیا۔ خط مکمل ہوا اور اس کا مضمون حضرت علامہ کے گوش گزار کرچکا تو فرمایا ’’تازہ خبر کیا ہے؟ کیا آج کا اخبار دیکھا؟‘ میں اخبار تو دیکھ چکا تھا لیکن خبروں میں تازگی کہاں سے آتی۔ حالات اندرونی ہوں یا بیرونی کم و بیش وہی تھے جو چند دنوں سے چلے آرہے تھے۔ جرمن سیاست پر تبصرہ ہونے لگا۔ ارشاد ہوا ’’جنگ ناگزیر ہے۔‘‘ سیّد بشیر الدین۴؎ کا خط میری جیب میں تھا۔ میں نے عرض کیا مدراس میں بھی بسلسلۂ ’یوم اقبال‘ ایک جلسہ ہوا جس میں واتل صاحب۵؎ نے بھی تقریر کی اور آپ کی نظموں ’فلسفہ غم‘ اور ’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘ سے بعض اشعار، بالخصوص ندی کی تشبیہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک طرح سے آپ نے بھی عقیدہ تناسخ کی حمایت کی ہے۔ یوں سیّد صاحب کے ذہن میں بھی ایک خلش پیدا ہوگئی لہٰذا ان کا خط: ارشاد ہوا ’’کیسی خلش؟‘‘ یہ کہ اگر مادہ عبارت ہے کمتر خودیوں کی اس بستی سے جس سے ایک برتر خودی کا صدور ہوتا۶؎ ہے تو کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ جس خودی کی تربیت نہیں ہوئی، یعنی جسے استحکام ذات حاصل نہیں ایسی خودی کیا بعد از موت کسی ادنی درجے کی خودی میں منتقل ہوجائے گی، یا کوئی دوسری شکل اختیار کرلے گی۔ بعینہٖ جیسے وہ خودی جس کی تربیت صحیح نہج پر ہوتی رہی مدارج کمال میں آگے بڑھتی رہے گی۔‘‘ فرمایا ’’واتل صاحب اور سیّد بشیر الدین دونوں میرا مطلب نہیں سمجھے۔ ذاتی عقاید کی بنا پر تو ہر شخص کو حق پہنچتا ہے کہ کسی خیال کی تعبیر جس طرح چاہے کرے۷؎ لیکن میری نظموں کے بعض اشعار یا خطبات میں ارتقا نے خودی کی بحث سے۸؎ تناسخ کے حق میں استدلال کرنا غلط ہے۔‘‘۹؎ ارشاد ہوا ’’اس سلسلے میں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ خودی تربیت یافتہ ہو یا غیر تربیت یافتہ ہر حالت میں خودی ہی رہے گی۔ اس کا جوہر ہے یکتائی۔ ہر خودی اپنی، جگہ پر یکتا ہے۔ ہر خودی کا ایک تشخص اور ایک انفرادیت ہے کہ جب تک قائم ہے، خودی قائم ہے ورنہ اس کا وجود ختم ہوجائے گا۔‘‘ فرمایا ’’نہ خودی کسی دوسری خودی میں مدغم ہوسکتی ہے، نہ اس کا ظہور کسی دوسری خودی کے طور پر ہوگا۔۱۰؎ یہ نکتہ ہے جسے ان حضرات نے نظر انداز کردیا۔ سیّد صاحب میرا مطلب نہیں سمجھے، واتل صاحب نے اس کی غلط تاویل کی۔ میں نے عرض کیا اگر خودی کی تربیت نہیں ہوتی… ’’اگر خودی کی تربیت نہیں ہوئی تو کہنا یہ چاہیے کہ اس کا مستقبل مخدوش ہے۔ یہ نہیں کہ ایسی خودی کسی کمتر خودی میں منتقل ہوجائے گی، بلکہ ڈر ہے فنا ہوجائے۔‘‘ فرمایا ’’تعدد شخصیات۱۱؎ اور جنون بھی ایک طرح سے تعدیم خودی ہی کے مظاہر ہیں۔‘‘ پھر فرمایا ’’حقیقت کچھ بھی ہو خودی جو منزلیں طے کرچکی ہے کبھی واپس نہیں آئیں گی نہ اس کے لیے ان کی طرف لوٹنا ممکن۔ اس کے لیے مستقبل تو ہے، ماضی نہیں ہے، یعنی اقدام تو ہے رجعت نہیں۔۱۲؎ قرآن پاک نے بھی تو ’رجع‘ کی تردید کی ہے۔‘‘۱۳؎ پھر ذرا دم لے کر فرمایا ’’قرآن مجید کی تعلیم ہے کہ موت و حیات مخلوق ہیں۔ ’’خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۔‘‘۱۴؎ ارشاد ہوا کامیاب زندگی ’احسن عملاً، کی زندگی ہے اور اس کا نتیجہ فلاح۔۱۵؎ حضرت علامہ نے اگرچہ براہ راست عقیدۂ تناسخ کی تردید نہیں فرمائی لیکن انھوںنے ارتقائے خودی اور اس کی تربیت و عدم تربیت کے سلسلے میں جیسا کہ بشیر الدین صاحب نے سوال کیا تھا جن حقائق پر زور دیا ان سے یہ بات واضح طور پر سامنے آگئی کہ خودی کا ’عین خود بودن‘ اور اس کا نسخ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ خودی ’عین خود‘‘ نہیں تو اس کا کوئی وجود بھی نہیں جس کا اگر اثبات کیا جاتا ہے تو محض ’براے گفتن‘ اسے وہم اور سراب کہیے۔ چنانچہ یہی ویدانت فلسفہ کی تعلیم بھی ہے کہ وجود حقیقی صرف برہم کا ہے۔ باقی جو کچھ ہے ’مایا‘۔ عالم موجودات مایا ہے، زمان و مکان مایا، جیو آتما مایا۔ یا پھر یوں کہیے کہ ہر شے آتما ہے۱۶؎ اور آتما نے مایا کا روپ دھارا تو اس لیے کہ مایا پھر آتما ہوجائے۔ یعنی قطرہ بحر میں گم ہوکر اپنی ہستی کھودے۔ لیکن مایا کا ظہور چونکہ عالم موجودات اور زمان و مکان کے ایک لامتناہی سلسلے میں ہورہا ہے۔ لہٰذا سنسار چکر اور تناسخ کا اثبات ضروری ٹھہرا۔ زمانے کی حرکت دوری ہے۔ اس کے ایک نہیں کئی جگ ہیں اور جیو آتما ہے کہ بااعتبار اپنے عمل کے اس کا نسخ ایک جیون سے دوسری میں ہوتا رہتا ہے تاآنکہ وہ اس سے نجات۱۷؎ حاصل نہ کرلے۔ لہٰذا اس مابعد الطبیعی ضرورت کے ساتھ جو ویدانت فلسفہ سے پیدا ہوئی یہ اخلاقی تقاضا بھی پورا ہوگیا کہ ہمارے اعمال و افعال کا کوئی نتیجہ بھی ہونا چاہیے اس لیے کہ جیون ہے تو ’کرم‘ ہے اور کرم ہے تو ’پاپ اور پن‘۱۸؎ بھی۔ اس سے کس قدر مختلف ہے یہ تصور کہ خودی اگرچہ مخلوق ہے اور اس کی ایک ابتدا لیکن وہ اپنی جگہ پر ایک حقیقت بھی ہے، اور اس کی انتہا یہ کہ جس طرح ایک نہیں کئی مرحلوں سے گزر کر اس کا صدور ہوا۱۹؎ بعینہٖ کامل ذات کی جدوجہد میں ایک کے بعد دوسری منزل میں قدم رکھے۔۲۰؎ موت و حیات اس کے احوال میں اور ان سے مقصود اس کی آزمایش۲۱؎ کہ اپنا تشخص اور انفرادیت قائم رکھتے ہوئے بقاے دوام کی نعمت حاصل کرے۔ یوں تناسخ کے برعکس زندگی کا طبعی اور اخلاقی تقاضا ایک ہوجاتا ہے یعنی ایک ہی عمل کے دو رُخ اس لیے کہ خودی کی تخلیق عبث نہیں۔۲۲؎ اس کی ایک غایت ہے اور یہ غایت سرتاسر اخلاقی۔۲۳؎ حیات بعد الموت ایک انعام ہے۲۴؎ تعزیر نہیں ہے بلکہ ایک نیا جولانگاہ تربیت ذات اور حصول ثبات و استحکام کے لیے۔ اندیشہ ہے تو یہ کہ خودی اپنی تربیت اور حفظ و استحکام سے غافل رہے۔ اسے ہر لحظہ فنا کی قوتوں کا ڈر ہے۔۲۶؎ گو تقاضائے فطرت یہی کہ اس کا وجود رایگاں نہ جائے۔ کیا خوب کہا ہے حضرت علامہ نے: جانے کہ بخشند دیگر نہ گیرند آدم بمیرد از بے یقینی از مرگ ترسی اے زندہ جاوید مرگ است صیدے تو در کمینی۲۷؎ خودی چونکہ عین خود ہے اور ایک مابعدالطبیعی حقیقت، لہٰذا اس کی حرکت بھی صعودی اور ارتقائی ہے۔ عین خود نہیں اور مایا توبہ پاداش عمل۲۸؎ یہی حرکت نزولی اور دوری ہوجائے گی تاکہ کسی کمتر خودی میں جاگرے، یا پھر اپنی جگہ پر لوٹ آئے۔ بصورت اول اس کا ایک تشخص ہے اور ایک انفرادیت، لہٰذا اس کے احوال و واردات کا بھی ایک مرکز اور ایک تار جس سے بطور ایک وحدت اس کا تسلسل قائم رہتا ہے۔ بصورت دیگر نہ مستقلاً کوئی مرکز، نہ مسلسل کوئی تاریخ۔ اس لیے کہ وہ نمود ہی نمود ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ ہے تو ظاہری اور وہمی-مایا۔ حیات بعدالموت پر گفتگو ہونے لگی۔ ارشاد ہوا ’’قرآن پاک میں ہے جسد عنصری فنا ہوجائے تو کیا مضائقہ ہے۔۲۹؎ ہمیں خوب معلوم ہے ضروری کیا ہے اور غیر ضروری کیا۔‘‘۳۰؎ پھر فرمایا ’’خودی کے لیے شاید کوئی جسد ناگزیر ہے، یا یہ کہنا بہتر ہوگا کہ ہمیں جسد کی بربادی کا غم نہیں ہونا چاہیے۔ پھر یہ ضروری کیا ہے اور غیر ضروری کیا، یہ ارشاد بڑا معنی خیز ہے، بلکہ ایک راز۔۳۱؎ شاہ صاحب نے بھی تو جسد بعدالموت کے لیے نسمہ کی اصطلاح کی ہے۔۳۲؎ ہندو ادب میں بھی اس طرح کا ایک لفظ موجود ہے۔‘‘۳۳؎ میں نے عرض کیا زندگی کے مادی شرائط تو مسلم ہیں کہ ہم انھیں بہ یقین و اطمینان پورا کرسکتے ہیں۔۳۴؎ مگر سوال اس نفسیاتی شرائط کا ہے۔ ہم کیسے کہیں ہم نے انھیں پورا کردیا۔۳۵؎ لہٰذا حیات بعدالموت میں ہمارا ایمان ہی اس معاملے میں ہمارا واحد سہارا ہے۔ ارشاد ہوا ’’سہارا ہی نہیں راز بھی۔۳۶؎ لیکن شرط یہ ہے کہ ہم انبیا علیہم السلام کی زندگی کو معیار عمل ٹھہرائیں۔‘‘ میں نے کہا ’’اسی لیے تو یہ کہنا مشکل ہے کہ اس معیار پر کون پورا اُترا، کون نہیں اُترا۔ ہم اپنے متعلق تو دعوے سے کچھ بھی کَہ نہیں سکتے۔۳۷؎ یوں بھی دلوں کا حال کون جانتا ہے۔ علیم و خبیر تو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ ہم سمجھتے ہیں بعثت ثانیہ ضرور ہوگی اور اس لیے خودی کی تربیت اور عدم تربیت کا خیال ہی نہیں کرتے۔ کرتے ہیں تو سزا و جزا کا۔ جیسے شرائط کا معاملہ سزا و جزا سے وابستہ ہے، نہ کہ حیات بعد الموت سے۔‘‘۳۸؎ فرمایا ’’مذہب کی تعلیم بھی یہی ہے۔ حیات بعدالموت ایک اَمریقینی ہے۔ بایں ہمہ بقاے دوام ہمارا حق نہیں۔۳۹؎ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور انعام ہے۔ ہمیں چاہیے اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کریں۔‘‘۴۰؎ ڈاکٹر جمعیت سنگھ آگئے۔ حضرت علامہ کا حال پوچھا۔ ان کے قلب اور رئیتین کا معائنہ کیا۔ دوا اور غذا کا ذکر ہوتا رہا۔ حضرت علامہ نے فرمایا ’’ویسے تو طبیعت اچھی ہے۔ دوائیں وہی حکیم صاحب کی ہیں، یا پھر ان کی مناسبت سے قرشی صاحب کے مرکبات ہیں کہ استعمال کرلیتا ہوں۔ البتہ ایک غلطی ہوئی۔ حکیم محمد افضل۴۱؎ نے ایک کشتۂ طلا تیار کیا ہے۔ میں نے اس کی ایک ہی خوراک کھائی تھی کہ بے خوابی کی شکایت پیدا ہوگئی۔ بھوک بھی جاتی رہی ہے۔ معلوم نہیں کیوں۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے کہا ’’کوئی بات نہیں۔ میں ایک مکسچر تجویز کیے دیتا ہوں۔ دو تین روز استعمال کرلیجیے، فائدہ ہوگا۔ بے خوابی اور ضعف اشتہا کی شکایت بھی جاتی رہے گی۔‘‘ علی بخش ہر دس پندرہ منٹ کے بعد کمرے سے ہوجاتا یا چند منٹ رُک کر حضرت علامہ کے شانوں کو دابنے لگتا۔ اب کے پھر چلم بدل کر لایا تو ڈاکٹر صاحب نے اسے اپنی تجویز کردہ دوا کے متعلق ضروری ہدایات دیں۔ نسخہ لکھا اور میز پر رکھ دیا۔ ملکی سیاست کا ذکر چھڑ گیا۔ ملک کی سیاسی فضا کیسی مکدر ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا ’’پنڈت جی۴۲؎ آپ سے ملنے آئے تھے۔ میں نے سنا ہے دیر تک باتیں ہوئیں، گفتگو کا کیا رنگ تھا؟‘‘ ارشاد ہوا ’’باتیں تو بہت ہوئیں مگر بے نتیجہ۔ میں دیکھتا ہوں پنڈت جی پر مہاتما گاندھی کا بڑا اثر ہے۔‘‘ پھر قدرے تامل کے بعد فرمایا ’’ڈاکٹر صاحب اس ملک کا مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ اس ملک میں دھوتی کی بڑی قدر ہے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب مسکرادیے۔ چند منٹ اور بیٹھے اور چلے گئے۔ وہ سمجھ گئے تھے حضرت علامہ کا اشارہ کس طرف ہے۔۴۳؎ میں نے عرض کیا ’’رات قرشی صاحب سے کشتۂ طلا کا ذکر آیا تو انھو نے کہا خوراک میں شاید کچھ زیادتی ہوگئی تھی۔ اس لیے گرمی خشکی بڑھ گئی جیسا کہ عام طور پر بڑی بوڑھیاں کہا کرتی ہیں۔‘‘ فرمایا ’’ممکن ہے یہی بات ہو۔ مجھے اطمینان ہے۔‘‘ چائے آگئی علی بخش نے پیالی بناکر حضرت علامہ کی خدمت میں پیش کی تو انھوں نے چائے پیتے ہوئے فرمایا ’’دنیا کے ہر مذہب نے حیات بعدالموت کی تائید کی ہے، لیکن عجیب بات ہے عہد نامۂ عتیق اس باب میں خاموش ہے۔‘‘ حضرت علامہ کے اس ارشاد سے مجھے ایک گونہ تعجب ہوا اس لیے کہ عام طور پر تو یہی سمجھا جاتا ہے کہ توحید، رسالت اور آخرت وہ عقاید ہیں جو اسلام اور یہودیت میں مشترک ہیں۔ میں نے عرض کیا ’’قرآن پاک میں ہے: یہود کہتے ہیں انھیں آگ نہیں چھوئے گی مگر چند دن۔۴۴؎ وہ کہتے ہیں دارآخرت صرف ہمارے لیے ہے۔‘‘ ارشاد ہوا ’’درست ہے لیکن حیات بعدالموت کا یہ تصور خودی کے اس تصور سے کسی قدر مختلف ہے جو اسلام نے پیش کیا۔ اس تصور کی رُو سے تو انسان تا دم حشر قبر میں پڑا رہے گا حتیٰ کہ قیامت آئے اور اسے پھر سے زندگی نصیب ہو۔‘‘۴۵؎ فرمایا ’’متکلمین نے بھی ایک طرح سے یہود ہی کی پیروی کی ہے۔ متکلمین کا خیال تھا انسان موت کے ساتھ ہی برزخ میں چلا جاتا ہے اور برزخ کا زمانہ موت سے لے کر روز حشر تک ممتد۔۴۶؎ متکلمین کی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے زمانے کی حقیقت پر غور نہیں کیا۔۴۷؎ میں سمجھتا ہوں متکلمین کے طرز فکر سے ایک طرح خودی کی نفی ہوجاتی ہے۔‘‘۴۸؎ پھر فرمایا ’’عیسائیت نے اگرچہ حیات بعدالموت پر زور دیا لیکن اس کی بنا ایک تاریخی واقعے پر رکھی۔‘‘۴۹؎ حضرت علامہ کچھ تھک سے گئے تھے اور اگرچہ جی چاہتا تھا پھر بھی میں نے کوئی سوال نہیں کیا۔ وہ چائے پی چکے تو فرمایا ’’سر اکبر حیدری مدارالمہام دولت آصفیہ نے مجھے ایک ہزار روپے کا چیک بھیجا تھا۔ میں نے اسے واپس کردیا۔ اس سلسلے میں کچھ اشعار ہوگئے ہیں، نقل کر دو۔‘‘ اشعار درج بیاض ہوگئے۵۰؎ تو مجھے یہ پوچھنے کی ضرورت نہ رہی کہ چیک کیوں واپس کیا جارہا ہے۔ مگر پھر حضرت علامہ نے خود ہی فرمایا۔ ’’حیدری صاحب لکھتے ہیں یہ رقم شاہی توشے خانے سے جس کا انتظام میرے ذمے ہے بطور تواضع بھیجی جارہی ہے۔ ’یہ جس کا انتظام میرے ذمے ہے‘ کے الفاظ نہایت تکلیف دہ ہیں۔ میں نے چیک واپس کردیا ہے۔‘‘ گویا حضرت علامہ کو سب سے زیادہ تکلیف پہنچی تو ’میرے زیر انتظام‘۵۱؎ کے الفاظ سے۔ یعنی چیک کیا تھا بخشش اور بخشش وہ چیز ہے جسے غیرت قبول نہیں کرتی۔ لہٰذا ان کا ارشاد: غیرت فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول جب کہا اس نے یہ ہے میری خدائی کی زکات ایک طرف فقر ہے کہ دنیا کو آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھتا، دوسری جانب دنیا کہ اس کی طلب میں ہر اُصول اور ہر قانون بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ انسان اعتقاداً نہ سہی، عملاً… اور شاید نادانستہ… کفر تک کا مرتکب ہونے لگتا ہے۵۲؎ … یوں اہلِ دنیا کی باتیں چل نکلیں۔ فرمایا ’’…کی موجودہ ملازمت میں ابھی ایک سال باقی ہے۔ لیکن … کی فکر میں ہیں۔ کہتے ہیں تنخواہ کم ہے، گزر نہیں ہوتی۔‘‘ اس پر علی بخش نے جو پاؤں داب رہا تھا یہ فقرہ چست کیا کہ انارکلی میں تھانیداری کی جگہ بھی تو خالی ہے، اس کے لیے کوشش کریں۔ حضرت علامہ کو ہنسی آگئی۔ ارشاد ہوا ’’…بھی آگئے ہیں۔ انگریزی حکومت نے یہ ایک عجیب طائفہ ملازمت بویان۵۳؎ پیدا کررکھا ہے۔ میں نے تو…عرض کیا تھا اللہ پر توکل رکھیے۔ آپ کے پاس ماشاء اللہ بہت کچھ ہے۔ مجھے دیکھیے میرے پاس کیا ہے اور کیا تھا۔‘‘ پھر کہنے لگے، جیسے انھیں اپنی ابتدائی زندگی اور طالب علمی کا زمانہ یاد آگیا ’’میں ایک ایسے شہر میں پیدا ہوا جو اس وقت شہر بھی نہیں تھا، چھوٹا سا قصبہ تھا اور جہاں سکھوں کی حکومت ختم ہوئے ابھی پچیس برس ہی گزرے تھے۔ میرے دادا بھی ان کی طرف داری میں انگریزوں سے لڑے تھے۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’کہاں؟‘‘ ارشاد ہوا ’’گجرات میں‘‘۔۵۴؎ فرمایا ’’پنجاب میں ان دنوں علم و حکمت کا خاتمہ ہوچکا تھا۔ میرے والد کو بڑی خواہش تھی مجھے تعلیم دلوائیں۔ انھوں نے اول تو مجھے محلے کی مسجد میں بٹھا دیا۔۵۵؎ پھر شاہ صاحب۵۶؎ کی خدمت میں بھیج دیا۔ اس وقت کسے معلوم تھا میں ایک دن اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کروں گا۔ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں میرا گزر ہوگا۔ علما و فضلا کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملے گا۔ اس وقت تو یہ بھی معلوم نہیں تھا یونیورسٹی کیا ہوتی ہے، فیکلٹی کسے کہتے ہیں۔ یہ لفظ سننے میں بھی نہیں آئے تھے۔‘‘ فرمایا ’’میری باتوں کو سن کر… کچھ خاموش سے ہوگئے۔ ایسے ہی …کا معاملہ ہے۔ ان سے… ملاقات ہوئی تو کیا دیکھتا ہوں بیدردانہ روپیہ خرچ کررہے ہیں۔ میں نے ٹوکا تو کہنے لگے کیا پروا ہے… کی دیر ہے، روپیہ ہی روپیہ ہوگا… حسن اتفاق سے یہی کچھ ہوا لیکن… میں نے عرض کیا ’’تو ان کی مالی حالت سدھر نہیں سکی؟‘‘ فرمایا ’’ہاں مجھ سے اس کا ذکر آیا تھا۔ باقی جو حالات ہیں سب کو معلوم ہیں۔ اس اثنا میں شفیع بھی آگئے تھے۔ حضرت علامہ کی باتیں سنتے اور ان کے پاؤں دابتے رہے۔ علی بخش کھانا لے آیا۔ حضرت علامہ نے کھانا تناول فرمایا اور حقے کے ایک دو کش لے کر فرمایا ’’والد محترم اور شاہ صاحب ایک دوسرے سے مشورہ کیے بغیر کوئی کام نہیں کرتے تھے۔‘‘ اس پر مجھے خیال آیا کیوں نہ حضرت علامہ سے اپنے والد بزرگوار اور شاہ صاحب کے تعلقات کے بارے میں سوال کروں۔ مگر پھر یہ دیکھ کر کہ اس موقع پر یہ سوال نامناسب ہوگا خاموش ہوگیا۔ حضرت علامہ کَہ رہے تھے ’’ایک رات میرے والد نے خواب میں دیکھا ایک سفید کبوتر بہت اونچا اُڑ رہا ہے اور پھر اُڑتے اُڑتے دفعۃً ان کی جھولی میں آگرا۔ وہ خواب میری پیداش سے کچھ دن پہلے کا ہے۔ وہ اسے اشارۂ غیبی سمجھے۔‘‘ اس اشارۂ غیبی کے متعلق تو اب کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ ہم خاموشی مگر بڑی دلچسپی سے ان کے ارشادات سن رہے تھے۔ حضرت علامہ نے بات ختم کی تو آرام سے لیٹ گئے تاکہ تھوڑی دیر سولیں۔ میں نے شفیع سے کہا ’’گھر ہو آؤں۔ واپسی میں دیر نہیں ہوگی۔‘‘ سہ پہر ہورہی تھی۔ واپس آیا تو حضرت علامہ ہشاش بشاش حقے کے کش لے رہے تھے۔ علی بخش اور شفیع خدمت کے لیے حاضر تھے۔ میں اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ علی بخش آیا۔ حضرت علامہ نے کوئی طبّی مرکب استعمال کیا۔ پھر شفیع تو کسی کام سے چلے گئے۔ میں خاموش بیٹھا دل ہی دل میں افسوس کررہا تھا کہ سیالکوٹ میں جو مجبوراً رکنا پڑا تو اس گفتگو میں شریک نہ ہوسکا جو حضرت علامہ نے پنڈت جواہر لال نہرو سے فرمائی تھی۔ میں نے مختلف بیانات سنے تھے۔ موقع پاکر عرض کیا ’’پنڈت جی سے ملاقات کیسی رہی؟‘‘ فرمایا ’’ایک روز ڈاکٹر چکرورتی آئے تھے۔ کہنے لگے پنڈت جی سے جب کبھی ذکر آیا انھوں نے آپ سے بری عقیدت کا اظہار کیا۔ وہ آج لاہور آرہے ہیں۔ میرا جی چاہتا ہے ان کی آپ سے ملاقات ہوجائے۔ آپ کو اعتراض تو نہیں ہوگا۔ میں نے کہا اس میں اعتراض کی کیا بات ہے۔ آپ کو جب موقع ملے انھیں یہاں لے آئیے۔ لیکن دو مسئلے ہیں: ایک ہندوستان کی آزادی، دوسرا آزادی کی اس جدوجہد میں مسلمانوں کا حصہ۔ پنڈت جی ان دونوں مسئلوں پر غور کرکے آئیں۔‘‘ ارشاد ہوا ’’ڈاکٹر صاحب اس روز شام کو پھر آئے۔ کہنے لگے پنڈت جی کو آج فرصت ہے، ہم لوگ آٹھ بجے حاضر ہوجائیں گے۔ میں نے کہا بسر و چشم تشریف لائیے۔ کہنے لگے آپ کو تکلیف تو نہیں ہوگی۔ یہ وقت شاید آپ کے سونے کا ہے۔ میں نے ہنس کر کہا آج ہم ذرا دیر سے سولیں گے، آپ حضرات آئیں تو سہی۔ چنانچہ آٹھ بجے کے قریب پنڈت جی تشریف لائے۔ ڈاکٹر چکرورتی ان کے ساتھ تھے، دو ایک خواتین اور میاں اور بیگم افتخار الدین بھی دیر تک گفتگو رہی۔‘‘ میں نے کہا ’’کوئی خاص بات تو نہیں ہوئی؟‘‘ فرمایا ’’نہیں۔ بس یہی سیاست حاضرہ پر تبصرہ ہوتا رہا اور وہ بھی سرسری طور پر۔ کوئی خاص مسئلہ زیر بحث نہیں تھا، اِلّا یہ کہ روس، انگلستان، جرمنی اور اٹلی میں سیاست کا جو رنگ ہے اس کا ذکر آیا تو سوال پیدا ہوا کہ مغرب کی ہوس استعمار اور جوع الارض کا نتیجہ دنیا کے حق میں کیا ہوگا، بالخصوص ایشیا کے۔ آزادی، یا غلامی، اور زیادہ غلامی! یوں باتوں باتوں میں پنڈت جی کہنے لگے، اگر مسلمان بلا قید شرائط کانگریس کا ساتھ دیں تو کیا اچھا ہو۔ آزادی کی منزل جلد طے ہوجائے اور انگریز بھی دیر تک ہمارا راستہ نہ روک سکیں۔‘‘ ارشاد ہوا ’’اس پر مجبوراً مجھے پنڈت جی سے سوال کرنا پڑا کہ اگر مسلمان ان کی بات مان لیں اور بلاقید شرائط کانگریس کا ساتھ دیں تو آزادی کی منزل کیسے طے ہوجائے گی؟ یہ کیسے ہوگا کہ انگریز ہمارا راستہ نہ روک سکیں؟ انھوں نے کہا، یوں کہ ہم اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور ہندو ہوں یا مسلمان، باہم شرائط طے کرنے کا خیال چھوڑ دیں۔ ’’میں نے کہا، کیسی سرگرمیاں؟ کہنے لگے، یہی قانون شکنی اور عدم ادائے مالیہ کی مہم۔ میں نے کہا، ان سے تو آج تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا، نہ یہ تحریکیں کامیابی سے جاری رہ سکیں۔۵۷؎ انگریزی فوجیں بدستور ہندوستان میں پڑی ہیں۔ ان کا اخراج کیسے عمل میں آئے گا؟ رہا انتقال اختیارات کا عمل سو یہ ان تحریکوں کے باوجود جاری ہے اور جاری رہے گا۔ یوں آزادی کی منزل کیسے طے ہوگی؟ ’’اس پر پنڈت جی کہنے لگے، انتقال اختیارات کا عمل ہی تو اصل چیز ہے۔ ہماری تحریکیں جاری رہیں تو یہ عمل تیز تر ہوجائے گا۔ ہم نے تھوڑی بہت آزادی تو حاصل کرلی ہے۔ یہ تحریکیں جاری رہیں تو اندرونی طور پراور بھی آزاد ہوجائیں گے۔۵۸؎ ’’ان کا کیا ہے۔ برطانوی فوجیں اگر ہندوستان میں پڑی ہیں تو پڑی رہیں۔۵۹؎ اس میں کیا حرج ہے۔ ہم ان کی موجودگی برداشت کرتے رہیں گے تاآنکہ ایک دن آئے جب انگریز خود ہی تنگ آکر اس ملک سے نکل جائیں گے۔‘‘ ’’تو گویا سوال آزادی کا نہیں ہے۔ سوال اندرونی آزادی کا ہے۔ لیکن اس اندرونی اور بیرونی آزادی کے مسئلے سے قطعِ نظر یہ تو فرمائیے انگریز اس ملک سے کیوں تنگ آنے لگے؟ وہ اس ملک سے آپ ہی آپ کیسے نکل جائیں گے؟‘‘۶۰؎ فرمایا ’’پنڈت جی نے میرے اس سوال کے جواب میں جو کچھ کہا بڑا قابلِ غور اور معنی خیز ہے۔ انھوں نے کہا، بحالت موجود یورپ کی کوئی قوم روسی ہوں یا جرمن، فرانسیسی ہوں یا اطالوی، ہندوستان کا رُخ نہیں کرے گی۔ انھیں خود ہی مشکلات درپیش ہیں، حتیٰ کہ اپنے آپ کو سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے۔ جرمنوں کی نظر یورپ پر ہے، اٹلی کی افریقہ پر، روسی برطانوی اور فرانسیسی سلطنتیں اب اور زیادہ کیا پھیلیں گی۔ امریکہ کو ہندوستان کی ضرورت نہیں۔ امریکہ ہندوستان سے دور ہے، بہت دور۔ جاپان ہندوستان پر حملہ نہیں کرے گا۔ جاپان کی نگاہیں آسٹریلیا پر ہیں۔ لہٰذا جیسے جیسے ہم اندرونی طور پر آزاد ہوتے گئے اور ہم نے اپنی سرگرمیاں تیز تر کردیں انگریز خود ہی اس ملک سے نکل جائیں گے۔۶۱؎ انگریز گئے تو ہم ایک دستور ساز ’اسمبلی‘ طلب کریں گے اور یہ دستور ساز ’اسمبلی‘ ایک اشتراکی آئین نافذ کردے گی۔‘‘۶۲؎ فرمایا ’’یہ اس شخص کے خیالات ہیں جو ہندوستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا نمایندہ ہے اور جس کی زبان سے شب و روز شہنشاہیت دشمنی کا اعلان ہوتا رہتا ہے۔ اس کے نزدیک ہندوستان کی آزادی کا مسئلہ کیسا آسان تھا۔ کیسے کیسے مسلمات ہیں جن کا اس سلسلے میں مان لینا ضروری ہے۔ یہ مسلمہ کہ جاپان ہندوستان پر حملہ نہیں کرے گا۔ یہ مسلمہ کہ امریکہ کو ہندوستان کی ضرورت نہیں، امریکہ ہندوستان سے دور ہے، بہت دور۔ یہ مسلمہ کہ یورپ کی کوئی قوم ہندوستان کا رُخ نہیں کرے گی۔ یہ مسلمہ کہ جیسے جیسے اندرونی آزادی حاصل ہوتی گئی انگریز ہندوستان سے تنگ آجائیں گے۔ یہ مسلمہ کہ انگریز ہندوستان سے نکل گئے تو ایک دستور ساز اسمبلی طلب کی جائے گی اور یہ اسمبلی ایک اشتراکی آئین نافذ کردے گی۔ لیکن کب؟ یہ نہ پوچھیے۔ بس اس توقع پر بیٹھے رہیے کہ یہ دن آئے گا اور ضرور آئے گا۔ انگریز ہندوستان سے چلے جائیں گے اور ضرور چلے جائیں گے۔ ہندوستان میں ایک اشتراکی حکومت قائم ہوجائے گی۔ اسے کہتے ہیں فریب نفس۔ اسے کہتے ہیں انگریزی محاورے میں ’جنت الحمقا‘۔‘‘ فرمایا ’’پنڈت جی کی منطق بھی وہی ہے جو گاندھی جی کی۔ دونوں کی نظر انتقال اختیارات پر ہے۔ دونوں کے نزدیک آزادی کا مطلب ہے اندرونی آزادی۔ دونوں کا خیال ہے کہ برطانوی فوجیں اگر ہندوستان میں پڑی ہیں تو پڑی رہیں۔ اس سے ملک کی آزادی میں فرق آتا ہے، نہ ان کی شہنشاہیت دشمنی میں۔‘‘ فرمایا ’’دراصل کانگریس اور حکومت کی ساری لڑائی دو بنیوں کی لڑائی ہے۔ کانگریس اسے ایک بات سمجھانا چاہتی ہے جسے وہ سمجھتی تو ہے لیکن مانتی نہیں۔ مان سکتی ہے اور مانے گی، مگر بتدریج۔ اس لیے کہ حاکم آخر حاکم ہے اور محکوم محکوم۔ کانگریس چاہتی ہے اندرونی طور پر زمام اقتدار اس کے ہاتھ میں دے دی جائے۔ رہیں انگریزی فوجیں، سو انگریزی فوجیں اگر ہندوستان میں رہ بھی جائیں تو کیا مضائقہ ہے۔ یوں ہندوستان کی حفاظت ہی ہوتی رہے گی۔‘‘ فرمایا ’’سارا جھگڑا اسی سودے بازی کا ہے۔ مگر ہیں دونوں بنیے۔ سودا ہو تو کیسے؟ دونوں چاہتے ہیں سودا ہوجائے، مگر ہر ایک کی کوشش ہے کہ ہاتھ اُوپر رہے۔‘‘۶۳؎ فرمایا ’’میں نے تو پنڈت جی سے صاف کَہ دیا تھا مجھے آپ کے خیالات سے اتفاق نہیں۔ آپ سمجھتے ہیں ہندوستان کو کوئی خطرہ نہیں۔ میں سمجھتا ہوں اسے خطرہ ہی خطرہ ہے۔۶۴؎ آپ کے نزدیک ہندوستان کچھ واقع ہی اس طرح ہے کہ ہمارے لیے چین ہی چین ہے۔۶۵؎ ہم پر حملہ نہیں ہوگا۔ میرے نزدیک ہوگا اور ضرور ہوگا۔۶۶؎ انگریز ہندوستان سے نہیں جائیں گے۔ گئے بھی تو ایک زبردست جدوجہد کے بعد۔‘‘۶۷؎ فرمایا ’’میں نے تو ان سے یہ بھی کَہ دیا تھا کہ بالفرض ہم آپ کی بات مان لیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں آپ کے سب مسلمات درست ہیں۔ لیکن یہ مسلمات درست ہیں تو ان کا اور بھی تقاضا ہے کہ مسلمانوں کے مطالبات مان لیے جائیں اور کانگریس ان سے مفاہمت کرلے۔ ہندوستان میں کوئی تحریک کامیابی سے چل سکتی ہے تو جب ہی کہ اقلیتوں کو اکثریت پر اعتماد ہو اور تصفیۂ حقوق کا مسئلہ طے ہوجائے۔۶۸؎ لیکن پنڈت جی نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔‘‘ میں نے کہا ’’تعجب ہے پنڈت جی آپ سے ملنے آئیں، آپ سے گفتگو کریں، سوال آزادی کا ہو اور وہ آپ کی بات کا جواب نہ دیں۔‘‘ ارشاد ہوا ’’پنڈت جی اس زعم میں ہیں کہ حکومت اور کانگریس میں چوں کہ آخر آخر کوئی سمجھوتہ ہوجائے گا، لہٰذا مسلمانوں کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’پنڈت جی اگر ایسا سمجھتے ہیں تو یہ ان کی غلطی ہے۔ بہرحال ان کا انداز بڑا یاس انگیز ہے۔ انھیں چاہیے تھا اپنے موقف کے حق میں کچھ تو کہتے۔ ان کا خیال شاید یہ ہے کہ بہت ممکن ہے بے اعتنائی کی اس روش سے رفتہ رفتہ مسلمانوں کا جداگانہ قومی تشخص ختم ہوجائے۔‘‘ ارشاد ہوا ’’بات تو کچھ یہی ہے۔ میں نے جب بھی انھیں سمجھانے کی کوشش کی، جب بھی کہا پنڈت جی کوئی بھی نقطۂ نظر ہو، کانگریس یا لیگ کا، تقاضائے سیاست بہرحال یہی ہے کہ اس ملک کے باشندوں کو باہم اعتماد ہو، انھوں نے ہر بار گفتگو کا رُخ بدلا اور سارا زور اسی ایک بات پر دیا کہ مفاہمت و مصالحت کا خیال غلط ہے۔ ہمیں چاہیے بغیر یہ سوال اُٹھائے مل کر کام کریں۔‘‘ ارشاد ہوا ’’میں نے تو پنڈت جی سے یہ بھی کہ دیا تھا کہ مجھے نہ کانگریس سے دشمنی ہے، نہ بلاوجہ لیگ سے اُنس۔ میں کسی فریق کی طرف داری نہیں کررہا۔ لیکن اسے کیا کیا جائے کہ مفاہمت و مصالحت کے بغیر چارہ نہیں۔ یہ مفاہمت و مصالحت ہوکر رہے گی۔ یہ تقاضا ہے مسلمانوں کی جداگانہ قومیت کا۔‘‘ ارشاد ہوا ’’میں نے تو یہ بھی کہا تھا کہ میں جو کچھ کَہ رہا ہوں یونہی نہیں کَہ رہا۔ میں وہی بات کہتا ہوں جسے حق سمجھتا ہوں۔ سنیے پنڈت جی! مسلمانوں کو انگریزوں سے کوئی عشق نہیں۔ وہ ان کے اقتدار سے کچھ زیادہ ہی نالاں ہیں اور اس کے وجوہ شاید آپ بھی سمجھتے ہیں۔۶۹؎ رہی شہنشاہیت دشمنی، سو اگر آپ دلوں کو ٹٹول سکتے ہیں تو ٹٹول لیجیے۔ شہنشاہیت دشمنی میں بھی مسلمان ہندوؤں سے کچھ آگے ہی ہوں گے۔‘‘۷۰؎ ارشاد ہوا ’’لیکن اس کے باوجود پنڈت جی کی یہی کوشش رہی کہ اصل مسئلے سے گریز کریں۔ اس پر میں نے کہا، اچھا پنڈت جی! ایک لطیفہ سنیے۔ پہلی گول میز کانفرنس۷۱؎ منعقد ہوئی اور اس کی کارروائیوں کی رویداد اخباروں میں آنے لگی تو ایک روز کچھ مسلمان میرے پاس آئے اور کہنے لگے، ہم آپ سے ایک بات سمجھنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا، کیا؟ کہنے لگے، یہ درجۂ نو آبادیات کیا چیز ہے؟ میں نے کہا، یہ ایک قانونی اصطلاح ہے جس کے سمجھنے اور سمجھانے میں وقت لگے گا۔ کہنے لگے، اچھا اتنا بتا دیجیے کہ درجۂ نو آبادیات مل گیا تو کیا ہم آزاد ہوجائیں گے؟ میں نے کہا، نہیں۔۷۲؎ کہنے لگے، تو پھر اس سے فائدہ؟ آپ ہمارے ’لیڈروں‘ کو سمجھا دیجیے بے کار جلسے نہ کریں۔ یہ لوگ نہ خود سوتے ہیں نہ ہمیں سونے دیتے ہیں۔‘‘۷۳؎ ارشاد ہوا ’’اس پر میاں افتخار الدین کہنے لگے، بات ہے بھی یہی جو آپ کہتے ہیں۔ مسلمان بھی آزادی وطن کے ایسے ہی خواہش مند ہیں جیسے ہندو۔ وہ بھی شہنشاہیت کے ایسے ہی دشمن ہیں جیسے کوئی اور۔ آپ حق بات کیوں نہیں کَہ دیتے۔ مسلمانوں پر آپ ہی کا اثر ہے۔ جناح کی کون سنتا ہے؟۷۴؎ ’’میں نے کہا، مجھے یہ کہنے میں کیا عذر ہے؟۷۵؎ لیکن مشکل یہ ہے کہ جناح تو حق بات سن لیتے ہیں۔ نہیں سنتی تو کانگریس۔ کیا کانگریس فی الواقع آزادی کی خواہاں ہے؟ انھیں معنوں میں جن میں مسلمان؟ کیا ہندو سچ مچ شہنشاہیت کے دشمن ہیں، جیسے مسلمان؟‘‘۷۶؎ فرمایا ’’میں نے کہا، میاں صاحب! اس اَمرسے تو شاید آپ کو بھی انکار نہیں ہوگا کہ مسلمانوں کا اتحاد ضروری ہے۔ کوئی بھی جماعت ہو اس میں باہم اتحاد ہونا چاہیے۔ کیا یہ کوئی دل پسند بات ہے کہ مسلمانوں کا تفرقہ و انتشار قائم رہے۔ پھر جب اتحاد ایک اَمرضروری ہے اور جناح کی قیادت سے تھوڑا بہت اتحاد پیدا ہوگیا ہے تو اسے کیا اس لیے ختم کردیا جائے کہ ہندو نہیں چاہتے مسلمان بحیثیت ایک قوم متحد ہوجائیں۔ معاف کیجیے میں اس کے لیے تیار نہیں۔ اس اتحاد کو کانگریس کی رضا جوئی، یا ہندوؤں کی خوشنودی پر قربان نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ فرمایا ’’میاں صاحب نے بات آگے نہیں بڑھائی۔ چند منٹ اور نشست رہی، پھر یہ حضرات تشریف لے گئے۔‘‘ شفیع آگئے۔ شاید بچوں کی دیکھ بھال کررہے یا کسی اور کام میں مصروف تھے۔ علی بخش چائے لے آیا، دوا کا پوچھا۔ حضرت علامہ کب سے گفتگو کررہے تھے، اگرچہ رُک رُک کر اور بیچ میں سستا بھی لیتے۔ انھوں نے چائے پی تو علی بخش حسبِ معمول شانے اور پاؤں دابنے لگا۔ اسی اثنا میں رحما بھی آگیا۔ وہ بھی پاینتی کی طرف ہو بیٹھا۔ چودھری صاحب کا انتظار تھا۔ شفیع کوئی بات کَہ رہے تھے اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ بظاہر پنڈت جی اور حضرت علامہ کی یہ ملاقات کیسی پرتپاک رہی، لیکن حاصل کچھ بھی نہ ہوا۔ اِلّا یہ کہ ڈاکٹر چکرورتی کا خیال پورا ہوگیا۔ یا یہ کہ پنڈت جی کی سیاست فہمی، وسعت دلی اور روا داری کے بارے میں جو حسن ظن چلا آرہا تھا ختم ہوگیا۔۷۷؎ شام ہورہی تھی میاں بشیر احمد۷۸؎ آگئے۔ حضرت علامہ کا مزاج پوچھا اور بات چیت کرنے لگے۔ انھوں نے کہا ’’میں نے سنا ہے آپ نے پنڈت جی سے فرمایا تھا کہ پنڈت جی بات اصل میں یہ ہے کہ آپ تو محب وطن ہیں لیکن جناح قانون دان، یا شاید یہ کہ جناح سیاست دان ہیں، آپ محب وطن۔ انھوں نے کہا یہ بات ویسے تو ٹھیک معلوم نہیں ہوتی۔ لیکن اندیشہ ہے لوگوں میں اس کا چرچا ہوا تو مخالفین اس سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں گے۔ ہماری کوئی صحافت نہیں ہے، نہ کوئی مرکز اطلاعات اور نشر و اشاعت۔ یوں لیگ اور جناح کے خلاف غلط پراپیگنڈا ہوگا‘‘ حضرت علامہ نے فرمایا ’’فرض کیجیے میرے الفاظ کا وہی مطلب ہے جو بقول آپ کے، لوگوں نے سمجھا۔ اس میں کیا مضائقہ ہے۔ میں نے تو ایک سیدھی سادی بات کہی تھی اور وہ یہ کہ جناح سیاست دان ہیں، لیکن پنڈت جی محب وطن۔۷۹؎ اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ جناح میں حب الوطنی کی کمی ہے یا یہ کہ پنڈت نہرو بہت بڑے سیاست دان ہیں۔ میرا کہنا تو یہ تھا کہ پنڈت نہرو کی نظر حقائق پر نہیں جیسا کہ ایک سیاست دان کی ہونی چاہیے۔ وہ جذبات کی رَو میں بہ رہے ہیں، گو بسبب جذبۂ حب الوطنی۔ لیکن یہ اَمر سیاست کے منافی ہے۔ برعکس اس کے جناح سیاست دان ہیں، ان کا مزاج قانونی ہے اور وہ خوب سمجھتے ہیں ہندوستان کا اصل مسئلہ کیا ہے۔ یہ بھی کہ ہندوؤں اور انگریزوں میں جو کش مکش جاری ہے اس کی حقیقی نوعیت کیا ہے۔ وہ یہ نہیں کررہے کہ حب الوطنی کے جوش میں واقعات سے آنکھیں بند کرلیں۔۸۰؎ وہی تو حقیقت میں محب الوطن ہیں۔‘‘ میاں صاحب نے حضرت علامہ کے ارشادات سنے تو ان کا اطمینان ہوگیا، لیکن اب سوال یہ تھا کہ حضرت علامہ کے اس قول کی جو غلط تعبیر کی جارہی ہے اگر اس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کا ازالہ کیسے ہوگا۔ ظاہر ہے اس کی کوئی صورت نہیں تھی۔ اگر تھی تو یہ کہ مسلمان متحد ہوں، جناح کے ہاتھ مضبوط کریں اور ان کی قیادت سے فائدہ اُٹھائیں اور یہی حضرت علامہ کا ارشاد بھی تھا۔ میاں صاحب نے کہا ’’کچھ یہی مشکلات ہیں جن کے پیشِ نظر ایک خیال ہے۔ اجازت ہو تو عرض کروں؟‘‘ حضرت علامہ نے فرمایا ’’کیا خیال ہے؟ کہیے۔‘‘ میاں صاحب کہنے لگے، ’’خیال یہ ہے کہ لیگ کا اجتماع لاہور میں ہونا چاہیے۔ لیکن یہ اجتماع کیسے ہوگا؟ مجھے ڈر ہے اگر ایسا ہوا تو یونینسٹ پارٹی لیگ سے الگ ہوجائے گی، اجتماع ناکام رہے گا۔‘‘۸۱؎ ارشاد ہوا ’’میری تو شروع ہی سے رائے تھی کہ اس پارٹی کو لیگ میں شامل نہیں کرنا چاہیے بلکہ وہ شمولیت پر اصرار بھی کرے تو اس کی درخواست ٹھکرا دی جائے۔۸۲؎ رہا اجتماع، سو میاں صاحب آپ گھبراتے کیوں ہیں؟ ہمت کیجیے۔ آپ نے ہمت سے کام لیا تو مسلمان آپ ہی کے ساتھ ہوں گے۔‘‘۸۳؎ مکرر آنکہ میں نے پنڈت نہرو کی اس ملاقات کو صرف حضرت علامہ کے ارشادات تک محدود رکھا ہے، یعنی اس گفتگو تک جو انھوں نے خود مجھ سے فرمائی۔ ویسے اس ملاقات کا حال میاں شفیع (م-ش) کو بھی معلوم ہے۔ علاوہ ازیں حضرت علامہ نے چودھری صاحب سے بھی فرمایا تھا کہ ۱۹۰۶ء سے لے کر تاا یں دم(۱۹۳۸) میں نے ہندو مسلم تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے پنڈت جی کو ایک ایک واقعہ کے پیشِ نظر سمجھا دیا تھا کہ انھیں مصالحت سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ لیگ اور کانگریس میں مفاہمت ضروری ہے۔ ڈاکٹر عاشق بٹالوی نے بھی اپنی کتاب اقبال کے آخری دو سال میں اس ملاقات کی جزوی رویداد راجا حسن اختر مرحوم کے حوالے سے قلم بند کی ہے اور لکھا ہے کہ اس ملاقات کے دوران میں میاں فیروزالدین احمد مرحوم اور راجا حسن اختر مرحوم بھی جاوید منزل میں موجود تھے۔ حضرت علامہ سے اگرچہ میں نے یہ دریافت تو نہیں کیا کہ علاوہ ان حضرات کے جو پنڈت نہرو کے ساتھ جاوید منزل آئے اور کون لوگ شریک گفتگو تھے، لیکن میرا قیاس ہے کہ چودھری صاحب اور راجا صاحب، جیسا کہ معمول تھا، سرِشام جاوید منزل آئے ہوں گے اور بہت ممکن ہے پنڈت جی کے آنے تک وہیں ٹھہرے رہے ہوں۔ م-ش کا تو خیر قیام ہی جاوید منزل میں تھا۔ وہ کہاں تک شریک گفتگو ہوئے، مجھے معلوم نہیں۔ چودھری صاحب یقینا پہلے تشریف لائے ہوں گے، راجا صاحب بعد میں اور پھر قرشی صاحب بھی۔ لیکن ان حضرات میں سے کوئی بھی تو شریک گفتگو نہیں ہوا ورنہ ضرور تھا کہ حضرت علامہ مجھ سے ان کا ذکر کرتے۔ میاں فیروزالدین احمد کا آنا تو قطعاً قرین قیاس نہیں۔ بہرحال اس گفتگو کے سلسلے میں دو باتیں قابلِ غور ہیں اور دونوں اپنی جگہ پر بڑی اہم۔ ایک تو یہ کہ حضرت علامہ نے جب پنڈت نہرو سے پوچھا کہ جہاں تک اشتراکی نظام زندگی کا تعلق ہے کانگریس میں آپ کے ہم خیالوں کی تعداد کتنی ہے تو انھوں نے کہا تقریباً نصف درجن۔ اس پر حضرت علامہ نے فرمایا تو کیا میں دس کروڑ مسلمانوں کو چھ آدمیوں کی خاطر آگ میں جھونک دوں (عاشق بٹالوی: اقبال کے آخری دو سال، صفحہ ۵۴۸،۵۴۹)، لیکن حضرت علامہ نے باوجود تفصیل کے مجھ سے اس کا ذکر نہیں کیا۔ یوں بھی میرا خیال ہے کہ ایسی کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔ دوسری اہم بات ہے اس ملاقات کے بارے میں خود پنڈت جی کے ’انکشاف ہند‘ میں اپنے ارشادات۔ ان کا بیان ہے: ’’ڈاکٹر صاحب نے مجھے یاد فرمایا (حالانکہ اس ملاقات کی تحریک ڈاکٹر چکرورتی نے کی تھی)… ہمارے درمیان کس قدر اشتراک تھا… میں نے محسوس کیا ان کے ساتھ مل کر کام کرنا کیسا سہل ہے… پرانی یادیں تازہ ہوگئیں… میں ان کی شاعری کا مداح ہوں… میں زیادہ تر انھیں کی باتیں سنتا رہا۔ میں خوش تھا کہ وہ مجھے پسند فرماتے ہیں، میرے متعلق اچھی رائے رکھتے ہیں۔‘‘ مگر پھر یہ سب کچھ کہنے کے بعد آگے چل کر یہ بھی کہتے ہیں کہ اقبال تقسیم ہند، یعنی پاکستان کے نظریے کو ناپسند فرماتے تھے حالانکہ پنڈت جی کی یہ رائے ایڈورڈ ٹامسن۸۴؎ کے اس بیان پر مبنی ہے جو سرتاسر غلط اور جعلی ثابت ہوچکا ہے۔۸۵؎ نیز دیکھیے استدراک، کتاب کے آخر میں۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱- حکیم نابینا مرحوم و مغفور۔ ۲- وطن لاہور، ۲۲-۱۹۲۱ء تک اسلامیہ کالج لاہور میں استاذ کیمیا۔ پھر جرمنی چلے گئے اور فارغ التحصیل ہوکر واپس آئے تو جامعہ عثمانیہ، حیدرآباد، دکن میں شعبۂ کیمیا کے صدر مقرر ہوئے۔ تقسیم ملک کے بعد حکومت مغربی پنجاب کے ماتحت ڈائرکٹر انڈسٹریز کا عہدہ سنبھالا۔ مگر تھوڑے ہی دنوں میں بعارضہ قلب انتقال ہوگیا۔ راقم الحروف کو اسلامیہ کالج کے زمانۂ طالب علمی ہی سے ان سے نیاز حاصل تھا۔ جب بھی ملتے بڑی شفقت فرماتے۔ رحمہ اللہ تعالیٰ۔ ۳- ان دنوں پروفیسر کے-ای- میڈیکل کالج لاہور۔ دیکھیے اشاریہ۔ ۴- وطن ارکونم- بڑے اقبالی اور درد مند نوجوان- اقبالیات کے سلسلے میں اکثر مجھ سے خط و کتابت کرتے۔ اُردو ’اقبال نمبر‘ میں ان کا ایک مضمون موجود ہے۔ یہ معلوم نہ ہوسکا کہ تقسیم ملک کے بعد کہاں ہیں۔ ارکونم ہی میں مقیم یا نقل مکانی کرچکے ہیں۔ ۵- پنڈت پیارے کشن۔ لاہور اور لاہور سے باہر پھیلے ہوئے کشمیری پنڈتوں کے اس مشہور خاندان کے چشم و چراغ جسے فارسی اور اُردو ادب سے دلی شغف رہا ہے۔ راجا نریندر ناتھ رئیس لاہور کے داماد۔ تقسیم ملک کے باوجود حکومت مغربی پنجاب کے ماتحت کچھ دنوں اڈیشنل سیکرٹری مالیات رہے۔ پھر بھارت چلے گئے۔ ۶- تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، خطبۂ چہارم: What then is matter? A colony of egos of a lower order out of which emerges the ego of a higher order, when their association and interaction reaches a certain degree of coordination. ۷- ازروے تاویل۔ حالانکہ تاویل اور موضوع تاویل میں لازم و ملزوم کا تعلق ہونا چاہیے تاکہ اس سے جو نتیجہ مترتب ہو لازماً وہی ہے جو موضوع تاویل میں مضمر ہے۔ ۸- خطبۂ چہارم میں۔ ۹- ’فلسفہ غم‘ میں ہے ’آتی ہے ندی جبین کوہ سے گاتی ہوئی۔‘ یوں زندگی کے لیے ندی کی یہ تشبیہ اختیار کرتے ہوئے حضرت علامہ نے کہا ہے: ایک اصلیت میں تھی نہر روان زندگی گر کے پستی میں ہجوم نوعِ انسان بن گئی قلزم ہستی میں ملنے کو جدا ہوتے ہیں ہم عارضی فرقت کو دائم جان کر روتے ہیں ہم ظاہر ہے ان اشعار سے عقیدۂ تناسخ کی تائید تو نہیں ہوتی۔ تائید ہوتی ہے تو وحدت حیات کی( کہ اس کا مبدا ایک ہے)، خودی کے تسلسل بقا اور دوام کی۔ ’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘ بھی کوئی ایسا شعر نہیں جو واتل صاحب کے مفید مطلب ہو۔ یہاں بھی وہی بقاے خودی کا مضمون ہے: مختلف ہر منزل ہستی کی رسم و راہ ہے آخرت بھی زندگی کی ایک جولاں گاہ ہے جوہر انسان عدم سے آشنا ہوتا نہیں آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے فنا ہوتا نہیں عدم ناآشنائی اور ’آخرت بھی زندگی کی ایک جولاں گاہ ہے‘ سے مطلب وہی خودی کی بقا اور تسلسل ہے، نہ کہ اس کا نسخ کسی دوسری خودی میں۔ ۱۰- دیکھیے گلشن راز جدید: خودی اندر خودی گنجد محال است خودی را عین خود بودن کمال است گویا اصل نکتہ یہی خودی کا ’عین خود پودن‘ ہے کہ اس میں فرق نہ آئے جیسا کہ از روے تناسخ آتا ہے۔ لہٰذا خودی کا مقدر یہ ہے کہ موت و حیات کی ہر منزل میں اپنا عین قائم رکھے اور مدارج کمال طے کرے: مسافر جادواں زی جاوداں میر جہانے را کہ پیش آید فرا گیر یہ بحرش گم شدن انجام ما نیست اگر اور را تو در گیری فنا نیست یہ نہیں کہ قطرہ دریا میں واصل ہوجائے اور اپنی ہستی کھو بیٹھے جیسا کہ باوجود عقیدۂ تناسخ و یدانت فلسفہ کی تعلیم ہے۔ ۱۱- جس میں انسان اپنی انفرادیت اور تشخص کھو بیٹھتا ہے جیسے ڈاکٹر جیکال (Jekyll) اور مسٹر ہائیڈ (Hyde) کی مثال دی جاتی ہے۔ ۱۲- کہ سنسار چکر لازم آئے اور اس لیے خودی کا نسخ ایک سے دوسری خودی میں ہوتا رہا۔ یا نیٹشے کی طرح یہ کہا جائے کہ ہر شے واپس لوٹ آتی ہے اس لیے کہ زمانے کی حرکت دوری ہے۔ اس کے مراکز توانائی کا برابر اعادہ ہوتا رہے گا۔ لیکن اس عقیدے میں پھر ایک خوبی ہے اور وہ ہر شے کی بار بار رجعت، لہٰذا فوق البشر کا ظہور کیوں کہ اس کا ایک مرتبہ ظہور ہوچکا ہے۔ ۱۳- قرآن مجید میں ہے کفار کہیں گے ’لَوْ اَنَّ لَنَاکَرَّۃً ‘ ۲(البقرہ): ۱۶۷ یعنی ہمیں پھر دنیا میں واپس جانا مل جائے۔ ارشاد ہوتا ہے یہ ممکن نہیں۔ حضرت علامہ نے رجع کا لفظ کرہ ہی کے معنوں میں استعمال کیا تھا۔ رجع کے معنی بھی یہی کسی گزری ہوئی حالت کی طرف رجوع کے ہیں۔ مثلاً قرآن پاک میں جب حیات بعدالموت پر زور دیا جاتا تو کافر کہتے یہ پھر زندگی کی طرف رجوع کیسے ممکن ہے (ذٰلِکَ رَجْعٌم بَعِیْدٌ-ق:۳)۔ جواب ملتا یہ رجع نہیں ہے، یہ خلق جدید ہے۔ وہ اس سے پہلے بھی تو خلق ہوچکے ہیں یہ کوئی مشکل بات نہیں تھی (اَفَعَیِیْنَا بِالْخَلْقِ الْاَوَّلِ بَلْ ہُمْ فِیْ لَبْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ-ق:۱۵)۔ گویا جس طرح انسان کی ایک نشاۃ اولی ہے۔ ایسے ہی ایک نشاۃ آخری۔ یہ سارا معاملہ یعنی ’نشاۃ‘ ایک حیاتی عمل کا ہے، نسخ کا نہیںہے۔ اصطلاحاً رجع کا اطلاق ملاحدۂ کے اس عقیدے پر بھی ہوتا ہے کہ کسی انسان کا بعد از مرگ آسمان سے بجسد عنصری دنیا میں پھر نزول ہو۔ ۱۴- (الملک:۲)۔ ۱۵- حیات دنیوی اور اخروی دونوں میں اور جو نتیجہ ہے ہدایت کا (۲:۳) تاکہ ان قوتوں کا ازالہ ہوسکے جو خودی کی تربیت اور حفظ و استحکام میں مانع ہیں۔ برعکس اس کے وہ قوتیں کارفرما رہیں جن سے ان کی تعمیر و ترقی ہوتی ہے۔ دونوں کے مواقع برابر برابر ہیں۔ ’’فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰہَاo قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَاo وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰہَاo ‘‘ (الشمس:۸-۱۰)۔ پھر ایک اور اَمر قابلِ غور یہ ہے کہ بعثت ثانیہ سے مقصود ہے اعمال کی جواب دہی (۲:۲۸۴) اور اس کا تقاضا یہ کہ انسان ایمان اور عمل صالح کی بدولت اپنے آپ کو ’اجر غیر ممنون‘ کے لیے تیار کرے (التین:۵۰) گویا زندگی ایک تیاری ہے اور اس کا مسئلہ مستقبل کی تیاری، نہ کہ سنسار چکر سے استخلاص…مکتی۔ ۱۶- اور یوں نفی میں اثبات کی ایک صورت پیدا ہوگی۔ اگرچہ محض کہنے کو۔ ۱۷- اصطلاحاً مکتی۔ سنسار چکر سے استخلاص اور جس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کی طرح مادی دنیا بھی شر ہے۔ بالفاظِ دیگر عمل تخلیق فریب (مایا)، ہے یا شر۔ بلکہ فریب اور شر دونوں۔ ۱۸- لہٰذا ہندو عقیدہ ’کرم‘ لیکن جس سے کرم (عمل) میں کوئی قدر و قیمت پیدا نہیں ہوتی۔ ۱۹- وَقَدْ خَلَقَکُمْ اَطْوَارًا (نوح:۱۴)۔ ۲۰- لَتَرْکَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ (الانشقاق:۱۹)۔ نیز دیکھیے اس سلسلے میں خطبات، خطبۂ اول۔ ۲۱- بفحوائے آیۂ شریفہ۔ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ… ۲۲- اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا (المومنون:۱۱۵)۔ اَیَحْسَبُ الْاِِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَکَ سُدًی(القیامۃ:۳۶) ۲۳- الَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰی o وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَہَدٰی (اعلیٰ:۲-۳)۔ ۲۴- کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَ کُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ (البقرہ:۲۸) ایک ہی خودی کی ایک حالت سے دوسری میں تبدیلی۔ ۲۵- والدہ مرحوم کی یاد میں: مختلف ہر منزل ہستی کی رسم و راہ ہے آخرت بھی زندگی کی ایک جولانگاہ ہے ۲۶- جن سے خودی میں ضعف و اضمحلال اور زوال و انتشار پیدا ہوتا ہے۔ (۹۱:۱۰) ۲۷- زبور عجم ۲۸- کرم کا پھل۔ ۲۹- منکرین حیات بعد الموت کے اس قول کے جواب میں ئَ اِذَا مِتْنَا وَکُنَّا تُرَابًا ذٰلِکَ رَجْعٌم بَعِیْدٌ(ق:۲)۔ ۳۰- قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْاَرْضُ مِنْہُمْ وَعِنْدَنَا کِتٰبٌ حَفِیْظٌ (ق: ۴)۔ ۳۱- قرآن پاک کی رُو سے ایک تو ہماری نشاۃ الاولی ہے، یعنی زندگی کی وہ منزل جس سے ہمارا گزر ہورہا ہے اور جس میں روح اور مادہ یا جسم و جان کی ظاہری ثنویت کے باوجود ہم یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ خودی ایک وحدت ہے۔ لہٰذا یہ راز کہ نشاۃ الاخری سے پہلے جب موت کے ہاتھوں جسم کی بربادی بظاہر خودی کی بربادی ہے تو وہ حیاتی عمل کیا ہے جو اندریں صورت سرزد ہوگا۔ ضائع ہوگا تو کیا، نہیں ضائع ہوگا تو کیا؟ ۳۲- شاہ ولی اللہ علیہ الرحمۃ نے۔ نسمہ کے معنی ہیں نہایت لطیف جسم، جسم براے نام۔ اسے مطیۃ الروح (روح کا مرکب) بھی کہا گیا ہے اور وہ روح کا مترادف بھی ہے۔ خودی کا تجربہ ہمیں بطور ایک مرکز محسوسات و مدرکات ہی کے ہوتا ہے، وہ ایک نقطۂ شعور ہے لیکن اس کا ایک مادی حوالہ بھی ہے، یعنی جسم۔ لہٰذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ حیات بعد الموت پر بھی کیا کسی مادی حسی (emperical reference) حوالے یعنی پیکر کی ضرورت ہے۔ لیکن پیکر تو خودی ہی کی ایک شان ہے۔ بقول مولانا روم: پیکر از ماہست شد نے ما ازو بادہ از مامست شد نے ما ازو ماچو زنبوریم و قالب ھا چو موم خانہ خانہ کرد قالب را چو موم لہٰذا کسی لطیف پیکر یا نسمے کا تصورگو حضرت علامہ کے نزدیک غیر ضروری۔ دیکھیے اس سلسلے میں خطبات اور اسرار خودی، دیباچہ طبع اول۔ خطبہ چہارم بحث حیات بعد الموت۔ نیز حضرت علامہ کا مضمون Some Study Notes, Muslim Review, Lahore, Seet. 1932 میں کہ ازروے سائنس معاد جسمانی بھی ممکن ہے۔ یہ کہ انسان اسی بدن کے ساتھ جو اسے حیات دنیوی میں ملا پھر سے جی اُٹھے۔ ۳۳- حضرت علامہ کا اشارہ غالباً لفظ شریر (ہندی میں سریر) کی طرف تھا۔ لیکن کونسا شریر اس کی وضاحت نہیں فرمائی۔ ممکن ہے وہ شریر جس کی بدولت جیو آتما ایک جیون سے دوسرے میں منتقل ہوتی ہے۔ یا انسان کے مادی اور طبعی جسم سے ماورا جیو آتما کے بہ اعتبار سے ہوتی ہے۔ یا انسان کے مادی اور طبعی جسم سے ماورا جیو آتما کے بہ اعتبار مراتب ایک کے بعد دوسرے شریر کا تصور، یا ان دونوں صورتوں کے علاوہ کوئی اور شریر، لیکن سیاق کلام سے تو یہی مترشح ہوتا ہے کہ کوئی ایسا شریر جس کا تعلق موت کے بعد دوسرے جیون کے ’شریر‘ یعنی خودی کے نسخ سے ہے۔ ۳۴- کہ ہمارا مادی جسم محفوظ رہے۔ ۳۵- اپنی سیرت و کردار میں۔ ۳۶- راز اس لیے کہ ہم یہ تو سمجھتے ہیں کہ نشاۃ الاولیٰ کی طرح نشاۃ الاخریٰ بھی ایک حقیقت ہے جسے سہولت فہم کے لیے ایک طرح کا ’حیاتی‘ عمل ہی کہا جائے گا۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم اس کی ماہیت سے بے خبر ہیں۔ ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس مادی دنیا میں جہاں ہم پیدا ہوئے ہماری زندگی کا حیاتی عمل کیسے رونما ہوتاہے۔ پھر ایمان کا تقاضا ہے عمل۔ لہٰذا اگر ایمان اور عمل دونوں پہلوؤں سے انبیا علیہم السلام کی پیروی ہوتی رہے تو ظاہر ہے زندگی میں وہ صلاحیت، وہ درستی اور استحکام پیدا ہوجائے گا جو خودی کو مطلوب ہے۔ یوں وہ نفسیاتی شرائط بھی از خود پوری ہوتی رہیں گی جن کے بارے میں راقم الحروف نے سوال کیا تھا کہ ان کی نوعیت کیا ہے۔ ۳۷- قُلْ کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖ فَرَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ ھُوَ اَھْدٰی سَبِیْلًا (بنی اسرائیل: ۸۴)۔ ۳۸- جو ایک اخلاقی تقاضا ہے۔ کانٹ کے نزدیک یہ اخلاقی تقاضا ہی حیات بعدالموت کی دلیل ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسرا تقاضا ہے حفظ ذات کا۔ انسان طبعاً بقا کا آرزو مند ہے۔ لیکن خودی کی حفاظت اور پرورش کا مسئلہ چونکہ سر تاسر اخلاقی ہے اور احکامِ شریعت نے قانون کو بھی اخلاق ہی کی شکل دی ہے، لہٰذا اسلام نے ان دونوں تقاضوں کو بڑی خوبی سے باہم جمع کردیا ہے۔ یوم الدین (روز سزا و جزا) یوم الدین بھی ہے اور ایک نئے مستقبل کی تمہید بھی۔ دیکھیے تشکیل جدید، خطبۂ چہارم۔ ۳۹- اس لیے کہ حی و قیوم صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ ۴۰- زندگی از اول تا آخر انعام ہے۔ ہر حالت میں اس کے فضل کی محتاج، خواہ یہ حیات ارضی ہو یا اخروی۔ اس کا جوہر ہے عمل اور عمل تیاری ہے کسی مقصد کی۔ بقاے دوام بھی ایک مقصد ہے اور اس مقصد کے لیے بھی تیاری شرط ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے کہ ہم اس کے مستحق ٹھہرے۔ لیکن پھر اس اَمر کا کہ ہم اس کے مستحق ٹھہریں تقاضا ہے کہ اپنے آپ کو اس کا سزاوار ثابت کریں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اَیَحْسَبُ الْاِِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَکَ سُدًی (القیامۃ: ۳۶)۔ گویا زندگی وہ چیز نہیں کہ ضائع ہوجائے۔ اس کی ایک تقدیر اور مستقبل ہے، لہٰذا نفس انسانی باوجود متناہیت بقا کا اہل۔ دیکھیے گلشن راز جدید: بہ بحرش گم شدن انجام مانیست اگر او را تو در گیری فنا نیست ۴۱- وطن گوجرانوالہ۔ قرشی صاحب کے احباب میں سے تھے۔ ان کے ساتھ حضرت علامہ کی خدمت میں اکثر حاضر ہوجاتے۔ طب سے بڑا شغف تھا۔ ویسے محکمۂ ڈاک میں ملازم تھے۔ ۴۲- پنڈت جواہر لال نہرو۔ ۴۳- اس طرف کہ ایک عام آدمی مہاتما گاندھی کی مذہبیت اور زہد و ریاضت سے متاثر ہوجاتا ہے اور سمجھنے نہیں پاتا کہ اس ملک کا سیاسی مسئلہ فی الحقیقت کیا ہے۔ ۴۴- لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّآ اَیَّامًا مَّعْدُوْدَۃً-۳ (آل عمران):۲۴۔ ۴۵- اور جس میں شعور کے تعطل کی یہ کیفیت ہوگی کہ انسان سمجھے گا ادھر موت آئی ادھر پھر زندگی مل گئی، حالانکہ برزخ نام ہے ایک حالت سے گزر کر دوسری حالت میں قدم رکھنے کا جس میں شعور معطل ہوتا ہے نہ زمانہ۔ برعکس اس کے میں اس نفس انسانی زمان و مکان کے نئے نئے مراتب سے آشنا ہوتا ہے۔ برزخ گویا تیاری ہے دوسری زندگی کی۔ دیکھیے جاوید نامہ: حشر ملا شق قبر و نفخ صور عشق شور انگیز خود صبح نشور ۴۶- جس میں زمانہ ساقط رہتا ہے، لہٰذا اس کا شعور بھی۔ ۴۷- دیکھیے تشکیل جدید، خطبہ سوم و چہارم۔ ۴۸- بسبب شعور ذات اور زمانے کی نفی کے۔ ۴۹- مسیحی عقیدہ ہے کہ واقعۂ صلیب کے تیسرے روز شق قبر ہوا اور جناب مسیح علیہ السلام بجسد عنصری آسمان پر تشریف لے گئے۔ دنیائے عیسائیت کے پاس حیات بعدالموت کی اس کے سوا کوئی دلیل نہیں۔ مسیحی اناجیل میں بھی ایسا کوئی اشارہ نہیں جس سے سمجھا جائے کہ حیات بعدالموت ایک طبعی عمل ہے، یعنی خلق اول کی طرح خلق جدید کا ایک عمل جیسا کہ قرآن مجید کا ارشاد ہے۔ دیکھیے سورۂ ق: آیات ۴-۵۔ ۵۰- یہ اشعار بال جبریل میں شائع ہوچکے ہیں بعنوان ’سر اکبر حیدری کے نام‘۔ شاید یہی نظم تھی جس کے پیشِ نظر حضرت علامہ کی وفات کے تھوڑے ہی دنوں بعد ’شاد اقبال خط و کتابت‘ کے نام سے ایک مجموعہ مکتوبات شائع ہوا۔ لیکن ان خطوں میں تو کوئی ایسی بات نہیں جس سے یہ ظاہر ہو کہ حضرت علامہ مہاراجا صاحب سے کسی عنایت کے خواستگار تھے۔ ۵۱- Under my control ۵۲- مولانا روم کا ارشاد ہے: اہلِ دنیا کافران مطلق اند ہر دم اندر زق زق اند و بق بق اند اہلِ دنیا چہ کہین و چہ مہیں لعنۃ اللہ علیہم اجمعین ۵۳- حضرت علامہ نے job sniffers کے الفاظ استعمال کیے تھے۔ ملازمتوں کی بو سونگھنے والے۔ ۵۴- ۱۸۴۸ء میں جب سکھوں کی طاقت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگیا۔ ۵۵- جہاں ایک صوفی منش بزرگ، عالم دین اور سالک و عارف مولانا غلام حسین علیہ الرحمۃ درس دیتے تھے۔ ۵۶- شمس العلما مولانا مولوی میر حسن رحمۃ اللہ علیہ، حضرت علامہ کے استاد محترم۔ ۵۷- جیسے ۱۹۲۲ء میں ہوا کہ چوری چورا (گجرات دیس) میں عدم ادائے مالیہ کی مہم نے فتنہ و فساد کی شکل اختیار کرلی۔ لہٰذا باُردولی کا فیصلہ کہ تحریک ترکِ موالات بند کردی جائے۔ ۵۸- اور ہندو اکثریت کو بتدریج اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں پر تغلب اور برتری حاصل رہے گی۔ ۵۹- جس میں کانگریس کو فائدہ ہی فائدہ نظرآتا تھا۔ اس لیے کہ برطانوی فوجوں کی موجودگی میں نہ تو بدامنی کا خطرہ تھا، نہ خانہ جنگی کا۔ حکومت بھی مجبور ہوگی کہ اور نہیں تو محض اپنے مفاد کے پیشِ نظر فتنہ و فساد نہ پھیلنے دے، جو ظاہر ہے اکثریت اور اقلیت میں عدم اعتماد کی صورت میں ضرور پھیلتا۔ جیسا کہ ۱۹۴۷ء میں ہوا۔ ۶۰- یعنی اس وقت جب ہندوؤں اور انگریزوں میں مستقلاً کوئی سمجھوتہ ہوجائے گا اور کانگریس سمجھے کہ ملک اندرونی اور بیرونی دونوں پہلوؤں سے محفوظ ہے اور اس کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں۔ ۶۱- اس لیے کہ بالآخر ان سے کوئی سمجھوتہ ہو جائے گا۔ ۶۲- یہ اشتراکی آئین کا نفاذ بھی محض ایک سیاسی حیلہ تھا جیسا کہ حصول آزادی پر ثابت ہوگیا۔ پنڈت جی ۱۹۶۲ء تک برسر اقتدار رہے مگر سرمایہ داری کے خلاف ایک قدم بھی نہیں اُٹھایا۔ ۶۳- جیسا کہ الہٰ آباد میں حضرت علامہ اشارہ کرچکے تھے کہ انگلستان کے پنڈت اور ہندوستان کے پنڈت باہم کچھ سوچ رہے ہیں (دیکھیے خطبۂ صدارت)۔ ۶۴- جیسا کہ دوسری جنگ عظیم میں ثابت ہوگیا اور جیسا کہ بھارتی حکمرانوں کے نزدیک اب بھی ہے۔ ۶۵- حضرت علامہ کے الفاظ تھے: "That we are smugly situated" ۶۶- جیسا کہ ۱۹۴۲ء میں فی الواقع ہوا۔ جاپانی فوجیں برما سے ہوکر آسام میں داخل ہوگئیں اور پھر اب تو یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ امریکہ کو ہندوستان کی ضرورت ہے۔ ۶۷- گو یہ جدوجہد یورپ میں ہوئی۔ انگریزوں نے ہندوستان کو چھوڑا تو ان حالات کے زیر اثر جو دوسری عالمگیر جنگ کے بعد بین الاقوامی دنیا میں رونما ہوئے اور وہ بھی مزدورِ حکومت کے اقتدار کی بدولت ورنہ قدامت پسند فریق تو جب بھی اس پر آمادہ نہیں تھا۔ دیکھیے اس سلسلے میں مسٹر چرچل کی برطانوی پارلیمنٹ میں تقریر جس مین ۱۹۴۷ء کی ہولناک جانی اور مالی تباہی کے بارے میں ان کی پیشین گوئی حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی۔ ۶۸- جسے کانگریس نے بڑی چالاکی سے فرقہ داری communalism کا نام دے رکھا تھا تاکہ دنیا یہ سمجھے مسلمانوں میں کوئی سیاسی سوجھ بوجھ ہے، نہ آزادی کی طلب۔ ۶۹- اس لیے کہ پنڈت جی نے تاریخ عالم پر بھی قلم اُٹھایا ہے۔ انھیں معلوم تھا کہ عالمِ اسلام کو جو بھی نقصان پہنچا انگریزوں سے پہنچا۔ ہندوستان میں بھی ۱۸۵۷ء تک جو کچھ ہوا اور مسلمانوں کو سیاسی، اخلاقی اور معاشی اعتبار سے جس طرح کچلنے کی کوشش کی گئی پنڈت نہرو اس سے بے خبر نہیں تھے۔ ۷۰- بسبب احوال عالم اور بسبب اپنی افتاد طبیعت کے اسلام کے زیر اثر۔ مسلمانوں کے نزدیک آزادی کا مطلب تھا برطانوی اقتدار سے آزادی، ہندوستان ہی کی نہیں، سارے ایشیا اور عالمِ اسلام کا مکمل استخلاص۔ ۷۱- ۱۹۳۰ء میں۔ ۷۲- گو باوجود کامل آزادی اور شہنشاہیت دشمنی کی رٹ کے کانگریس کا عین مقصد یہی تھا کہ برطانوی حکومت سے سیاسی اور تجارتی تعلقات قائم رہیں اور وہ ہندوستان کی حفاظت بھی کرتی رہے۔ البتہ اندرونی طور پر سارا اقتدار کانگریس کے ہاتھ میں آجائے۔ چنانچہ ہندوؤں کی اس ذہنیت کے پیشِ نظر حضرت علامہ نے میر رضی دانش کے اس شعر نمک شناس اسیراں چو از قفس رستند بہ نخل خانۂ صیاد آشیاں بستند کی تضمین کرتے ہوئے ’درجہ نو آبادیات‘ کے عنوان سے چند اشعار کا ایک قطعہ بھی لکھا تھا (دیکھیے آخر میں ضمیمہ)۔ ۷۳- یہ جلسے درجۂ نو آبادیات کی مخالفت اور موافقت میں رات کے ایک ایک دو دو بجے تک قائم رہتے۔ ۷۴- میاں صاحب مرحوم اس وقت بڑے کٹر کانگریسی تھے۔ لہٰذا انھوں نے یہ بات کہی تاکہ حضرت علامہ اس جھانسے میں آکر کوئی ایسا بیان دے دیں جس سے لیگ اور قائد اعظم کے وقار کو نقصان پہنچے، گو ابھی قائداعظم کے لیے ’قائداعظم‘ کا لقب تجویز نہیں ہوا تھا۔ ۷۵- کہ مسلمان آزادی کے طالب، استعمار اور شہنشاہیت کے دشمن ہیں۔ ۷۶- ورنہ مسلمانوں سے مصالحت کیا مشکل تھی۔ ۷۷- ویسے لاہور میں اس ملاقات کا خاصا چرچا تھا اور خیال تھا کہ بہت ممکن ہے اس سے کوئی مفید مطلب نتیجہ مترتب ہوجائے۔ لیکن جیسا کہ بعد کے واقعات اور بالخصوص حصول آزادی پر پنڈت جی کے اقتدار سے ثابت ہوگیا کہ وہ زبان سے کچھ بھی کہیں، کیسے بھی سلطنت دشمن، اشتراکیت پسند، انسان دوست، عوام کے بہی خواہ، وسیع المشرب اور بے تعصب سیاست دان بننے کی کوشش کریں، یہ کہیں کہ ان کا نقطۂ نظر میں بین الاقوامی ہے، وہ ہر بات کو عملی اور واقعی نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں، بباطن بڑے کٹر، بڑے مستبد اور بڑے تنگ نظر برہمن تھے۔ بقول حضرت علامہ: نگہ دارد برہمن کار خود را نمی گوید بکس اسرار خود را مرا گوید کہ از تسبیح بگذر بدوش خود برد زنار خود را ارمغان حجاز ۷۸- مدیر ہمایوں ۷۹- jinnah is a politician, you are a patriot. ۸۰- Discovery of India میں بھی پنڈت جی نے حضرت علامہ کے ان الفاظ کو اس طرح پیش کیا ہے کہ قائداعظم پر ان کی برتری کا پہلو نکلے۔ راقم الحروف کی رائے میں ہمیں اس پر سختی سے گرفت کرنی چاہیے۔ یہ قائداعظم کی سوانح عمری ہو، یا تحریک پاکستان کی کوئی تاریخ پنڈت نہرو کی اس رائے کی پر زور تردید ضروری ہے۔ بالخصوص جب حضرت علامہ صاف صاف پنڈت نہرو پر قائداعظم کی برتری ثابت کررہے تھے۔ ۸۱- یہ خیال دیر سے چلا آتا تھا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا آیندہ اجلاس لاہور میں منعقد ہونا چاہیے، چنانچہ حضرت علامہ جون ۱۹۳۷ء میں بھی قائداعظم کے نام سے ایک خط میں اپنی اس رائے کا اظہار کرچکے تھے اور یوں بھی جب کبھی موقع ملتا اپنی اس رائے پر اصرار کرتے۔ حضرت علامہ کا ارشاد تھا کہ پنجاب اسلامی اکثریت کا قلب ہے۔ اگر لیگ کا جلسہ لاہور میں منعقد ہوا تو اس سے اسلامی پنجاب کے اتحاد اور تنظیم کو تقویت پہنچے گی۔ ۸۲- اس لیے کہ یونینسٹ پارٹی نے زراعت اور غیر زراعت پیشہ آبادیوں کی بے معنی تقسیم سے جس طرح مسلمانان پنجاب میں تفرقہ و انتشار کا بیج بویا تھا ویسے ہی صوبائی اور ملکی مسائل کے امتیاز سے، جو صرف اس جماعت کی منافقانہ ذہنیت کی پیداوار تھا، اس نے اسلامی ہند کے اتحاد میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کی۔ اس جماعت کو نہ تو مسلمانوں کے سود و بہبود کا خیال تھا، نہ ملک کی آزادی، نہ اسلامی قومیت کے احیا کا۔ زمینداروں کا یہ ٹولہ انگریزی حکومت کے زیرسایہ اور ہندوؤں کی رضا جوئی سے صرف اپنا اقتدار قائم رکھنا چاہتا تھا۔ اس کی ساری کوشش یہ تھی کہ کسی حیلے سے مسلم لیگ پر قابض ہوجائے اور پھر اسے ختم کردے۔ حضرت علامہ ان کے اس ارادے کو خوب سمجھتے تھے اور اس لیے بار بار تنبیہ فرماتے کہ اس جماعت کو لیگ میں شامل نہ کیا جائے۔ چنانچہ بعد کے واقعات سے اس اَمر کی تصدیق بھی ہوگئی کہ حضرت علامہ کی رائے بڑی صائب تھی۔ ۸۳- لیگ کا اجلاس تو لاہور میں منعقد نہ ہوا لیکن حضرت علامہ کی پیشین گوئی کہ آپ ہمت کیجیے مسلمان آپ ہی کے ساتھ ہوں گے، حرف بحرف پوری ہوگئی۔ حقیقت یہ ہے کہ یونینسٹ پارٹی کا زور حضرت علامہ ہی نے توڑا، گو اس وقت کوئی نہیں سمجھتا تھا کہ ایسا ہو رہا ہے۔ ۸۴- Edward Thompson: Elist India For Freedom, 1940, p.58 ۸۵- عاشق بٹالوی: اقبال کے آخری دو سال، ۱۹۶۱، باب۱۳، صفحہ ۵۵۵،۵۶۵ ز…ز…ز سہ شنبہ: ۲۵؍جنوری دن بھر بارش ہوتی رہی۔ تیسرے پہر مطلع کسی قدر صاف ہوا تو جاوید منزل پہنچا۔ حضرت علامہ حسبِ معمول بستر میں لیٹے آرام فرما رہے تھے۔ کبھی کبھی حقے کا کش لے لیتے۔ علی بخش حاضر تھا۔ میں نے مزاج پوچھا تو انھوں نے موسم اور موسم کے سلسلے میں طبیعت پر اچھے برے اثرات کا ذکر چھیڑ دیا۔ فرمایا ’’پچھلے چند دنوں سے سردی کے باعث عوارض میں کچھ شدت پیدا ہوگئی ہے۔ موسم کا اعتدال پر رہنا ضروری ہے۔ موسم اعتدال پر رہتا ہے تو طبیعت ٹھیک رہتی ہے۔ فوری تغیرات کا اثر بڑا ناگوار ہوتا ہے۔‘‘ فرمایا ’’دوا کا استعمال جاری ہے بلکہ ایک آدھ بار ایلوپیتھک دوا بھی استعمال کرچکا ہوں۔۱؎ دواؤں کا بھی طبیعت کی مناسبت اور عدم مناسبت سے بڑا تعلق ہے۔ اس سلسلے میں ہماری طب کی روش فطرت کے عین مطابق ہے۔ کسی ایک دوا ہی کو لے لیجیے۔ مثلاً خمیرہ گاؤ زبان کہ سادہ بھی ہے اور معتدل بھی، جواہر والا اور شاید اس قسم کا کوئی اور مرکب بھی اور یہ سب اس لیے کہ طبائع مختلف ہیں۔‘‘ پھر فرمایا ’’مزاج کا اختلاف ایک حقیقت ہے۔ مزاج کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔‘‘ میری ذات کا مسئلہ چھڑ گیا۔ میں ایک طرح سے کچھ بھی نہیں کررہا تھا۔ سوال یہ تھا کچھ کرنے کے امکان ہیں بھی یا نہیں، ہیں تو کیا؟ فرمایا ’’کیا سارٹن کا ترجمہ ہورہا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ ترجمہ جاری ہے۔ ارشاد ہوا ’’اس کتاب کی خوبی سے تو انکار نہیں۔ میں نے مولوی صاحب۳؎ کو اس کے ترجمے پر آمادہ کیا تو اس لیے کہ مسلمان علوم طبیعی میں اپنے کارناموں سے واقف ہوں اور از سر نو ان علوم کی تحصیل کریں۔ ان کی توجہ افسانوں کی بجاے حقائق پر ہونی چاہیے۔ پھر بھی اہلِ یورپ جب کسی موضوع پر قلم اُٹھاتے ہیں تو ایک خاص نقطۂ نظر سے، جس کی صحت اور عدم صحت کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ تم نے کیا مصنف کے انداز فکر میں کوئی ایسی بات دیکھی جو محل نظر ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’مصنف کہتا ہے کلام کی ابتدا اس غلط خیال سے ہوئی کہ عقل اور ایمان میں تطبیق ممکن ہے۔ ہندو، بدھ، یہودی، عیسائی اور مسلمان سب اس غلط فہمی میں مبتلا رہے۔ یہ ذہن انسانی کا ایک مخصوص اور عالمگیر مظہر ہے۔ یوں سائنس کی ترقی رُک گئی۔‘‘۴؎ میں نے عرض کیا ’’مصنف کا دعویٰ ہے کہ علم کلام کی ابتدا سب سے پہلے بدھ مت میں ہوئی۔ یہ اس لیے کہ بدھ مت کا نقطۂ نظر سرتاسر علمی تھا، مذہبی نہیں تھا۔۵؎ بدھ گھوش کلام کے اس مذہب کا سب سے بڑا نمایندہ ہے۔۶؎ بدھ مت ہی کے زیر اثر ہندوستان میں علم کلام کو تحریک ہوئی۔ شنکر کا غور و فکر اس کا معراج کمال ہے۔۷؎ چین میں البتہ کلام کا نشو و نما بہت آگے چل کر ہوا۔ چینی علم کلام کا تعلق نو کن فیوشسی تحریک سے ہے۔‘‘ میں نے یہ بھی عرض کیا کہ مصنف کے نزدیک الٰہیات کا وجود دیر تک سائنس کی ترقی میں حارج رہا، مثلاً میمانسہ فلسفہ۸؎ ہے کہ اس کی عمارت ہی اس بنا پر تعبیر ہوئی کہ وید غیر مخلوق ہیں۔ میمانسی نقطۂ نظر یہ نہیں تھا کہ ایک ایسی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے جو ہر لحظہ متغیر اور ملتبس دکھائی دیتی ہے، بلکہ یہ کہ ویدوں کی تعلیم اٹل اور غیر متبدل ہے۔ یہی کچھ مصنف نے مسلمانوں کے بارے میں کہا ہے کہ وہ بھی قرآن پاک کو غیر مخلوق مانتے تھے، اور نہیں بھی تو ان کا عقیدہ یہ تھا کہ قرآن مجید کی تعلیمات ابدی اور مبرا عن الخطا ہیں۔۹؎ معلوم ہوتا ہے مصنف دبی زبان سے یہ کہنا چاہتا ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کی یہی روش تھی جس نے ان کے یہاں سائنس کی ترقی کو روکے رکھا۔ ارشاد ہوا ’’سائنس کی ترقی کے رکنے یا نہ رکنے کا انحصار تو اس بات پر ہے کہ ہم اس مسئلے میں جس کا تعلق عقل اور ایمان کے مفروضہ نزاع سے ہے، کیا روش اختیار کرتے ہیں۔ مسیحی دنیا میں اس نزاع نے جو شکل اختیار کی وہ ان حالات کے باعث جو مسیحی دنیا میں کارفرما تھے۔ یہ گویا مغربی ذہن کا ایک مخصوص مظہر ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ عالمِ اسلام میں بھی اس نزاع کی وہی نوعیت تھی جو عیسائیوں میں، سرتاسر غلط ہے۔ مسلمانوں میں اس نزاع، بلکہ یہ کہنا چاہیے اس مسئلے نے جو شکل اختیار کی اس سے سائنس کی ترقی میں مطلق فرق نہیں آیا۔‘‘ فرمایا ’’رہا علم کلام، سو لفظ کلام بجاے خود غور طلب ہے۔ کلام اسکولاسٹسزم۱۰؎ نہیں ہے کہ عقاید مذہب کی تطبیق کسی مخصوص فلسفے سے کی جائے جیسا کہ مسیحی کلام سے مقصود تھا۔ عالمِ اسلام میں کلام سے مقصود تھا مذہب پر فلسفیانہ گفتگو۔ پھر اس کے مسائل بھی علم و حکمت کے مسائل تھے، عقاید نہیں تھے کہ ان میں عقل کو مطلقاً دخل نہ ہوتا۔ مصنف کی نظر شاید اس مشابہت پر ہے جو بقول اس کے دنیا کے مختلف مذاہب کلام میں موجود ہے لیکن یہ مشابہت سطحی ہے، حقیقی نہیں ہے اور اس کی ایک وجہ یہ کہ بنیادی طور پر مسئلہ ہر کہیں ایک تھا۔۱۱؎ ثانیاً کوئی مسئلہ خلا میں سر نہیں اُٹھاتا، کسی نہ کسی علمی اور عقلی فضا میں پیدا ہوتا ہے۔‘‘۱۲؎ ارشاد ہوا ’’کلام اسکولاسٹسزم نہیں ہے، جیسا کہ اہلِ یورپ غلطی سے سمجھتے ہیں۔ کلام مسلمانوں کی ایجاد ہے اور اس کا نشو و نما عالمِ اسلام سے مخصوص۔‘‘۱۳؎ سلسلۂ گفتگو جاری رکھتے ہوئے فرمایا ’’یہ صحیح ہے کہ یہود اور عیسائیوں میں بھی متکلمین پیدا ہوئے اور انھوں نے کوشش کی کہ اپنے عقاید کی تطبیق فلسفۂ یونان سے کریں۔۱۴؎ لیکن بات دراصل یہ ہے کہ مسلمانوں سے پہلے الٰہیات کا کہیں وجود ہی نہیں تھا۔۱۵؎ عیسائیوں کے یہاں تو عقل کا نام لینا بھی جرم تھا۔۱۶؎ رہے دوسرے مذاہب، سو ان کے یہاں بعض مسائل میں ایک علمی روش ضرور اختیار کی گئی، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ الٰہیات کا ارتقا بطور الٰہیات کے ہوتا۔۱۷؎ یوں کہنے کو مسیحی دنیا میں بھی عقاید پر بحث ہوا کرتی تھی۔۱۸؎ دراصل مصنف کی غلطی یہ ہے کہ اس نے مسیحی عقاید اور یونانی فلسفے کی تطبیق کو کلام سے تعبیر کیا۔ یہ کلام نہیں ہے۔ اسکولاسٹسزم ہے۔ ہمیں دونوں میں فرق کرنا چاہیے۔ کلام مسلمانوں کی خاص چیز ہے۔‘‘۱۹؎ میں نے عرض کیا ’’مستشرقین نے تو اس باب میں جو روش اختیار کر رکھی ہے عجیب و غریب ہے۔ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اسلام یا عالمِ اسلام پر قلم اُٹھائیں تو اس کے ہر مظہر کا مبدا اسلام سے باہر کسی دوسری تہذیب یا فلسفہ میں تلاش کریں۔ ان کا کہنا تو یہ ہے کہ عالمِ اسلام میں کلام کی ابتدا بھی عیسائیت کے زیر اثر ہوئی۔‘‘۲۰؎ میں نے اس سلسلے میں رسالہ جامعہ دہلی میں اپنے مضمون ’مذاہب اسلام کی ابتدا‘ کا ذکر بھی کیا تاکہ حضرت علامہ کے ارشادات سے میرے اپنے خیالات کی اصلاح ہوجائے۔ میں نے عرض کیا ’’مستشرقین کی رائے ہے کہ مذاہب اسلامی کے نشوونما میں بھی مسیحی اثرات کارفرما تھے۔‘‘۲۱؎ فرمایا ’’مستشرقین کی غلطیوں کا کیا پوچھنا ہے۔ ان لوگوں کے چند ایک متعین نظریات ہیں اور چند ایک متعین مقاصد،۲۲؎ لہٰذا کوئی بھی مسئلہ ہو وہ اپنے مطلب کی رائے قائم کرلیتے ہیں۔‘‘۲۳؎ ارشاد ہوا۔ ’’مسیحی اسکولاسٹسزم کا مسئلہ تو سمجھ میں آسکتا ہے کہ ایک طرف کلیسا کے عقاید تھے، دوسری جانب یونانی فلسفہ، لہٰذا مسیحی دنیا کی کوشش کہ ان میں باہم تطبیق پیدا کرے۔ لیکن عالمِ اسلام کو تو فلسفۂ یونان کے علاوہ کئی ایک عقلی اور مذہبی تحریکوں سے سابقہ پڑا۔ پھر یہ سب تحریکیں باہم خلط ملط ہوکر ایک نئی شکل اختیار کرچکی تھیں۔ یوں سطحی نظر سے دیکھا جائے تو ہم اس بات میں جیسی چاہیں رائے قائم کرسکتے ہیں- خواہ یہ رائے حقیقت کے خلاف ہی کیوں نہ ہو- لیکن غور طلب اَمر یہ ہے کہ ہندو، بدھ اور چینی علم کلام کا ظہور تو خود ان مذاہب کے اندر سے ہوا۔ گویا ان کا مسئلہ عقل اور ایمان کے باہم اشتراک اور ہم آہنگی کا تھا، نہ کہ کسی مخصوص فلسفے سے تطبیق کا۔ مصنف کی غلطی یہ ہے کہ وہ عقل اور ایمان کے باہم اشتراک اور ہم آہنگی کی ہر کوشش کو کلام، بلکہ کہنا چاہیے اسکولاسٹسزم سے تعبیر کرتا ہے۔‘‘ فرمایا ’’تمھاری باتوں سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے جیسے مصنف کے نزدیک میمانسہ بھی کلام ہی کی ایک شکل ہے حالانکہ یہ ہندو فلسفے کی ایک فرع ہے اور ہندو فلسفہ ان اعمال و افعال، حقائق اور واردات کی تشریح جو حصول معرفت کا ذریعہ ہیں اور جن کو عقلی انداز میں پیش کیا گیا تو اس لیے کہ دوسرے بھی اس سے فائدہ اُٹھا سکیں۔‘‘۲۴؎ ارشاد ہوا ’’مصنف کی اور کیا غلطیاں نظر آئیں؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’مصنف کہتا ہے مسلمانوں کی علمی سرگرمیاں قرآن پاک پر مرتکز رہیں۔‘‘ ’’لہٰذا؟‘‘ ’’لہٰذا ان کا نقطۂ نظر علمی نہیں تھا، عقیدہ پرستی کا تھا۔‘‘ فرمایا ’’کیا استدلال ہے! مصنف سمجھا ہی نہیں کہ وہ علمی روح جس پر آج یورپ کو ناز ہے قرآن پاک ہی کی پیدا کردہ ہے۔ مسلمان نہ ہوتے تو آج علم و حکمت کا یہ رنگ نہ ہوتا۔‘‘۲۵؎ میں نے عرض کیا ’’مصنف تو یہاں تک کہتا ہے کہ منطق استقرائ، لہٰذا ہمارا استقرائی اور تجربی منہاج بھی یورپ ہی کی ایجاد ہے اور یہی منہاج تھا جس سے علم کلام، یعنی اسکولاسٹسزم کا ازالہ ہوا۔‘‘ ارشاد ہوا ’’مصنف کی بے خبری از حد افسوس ناک ہے۔ استقرا مسلمانوں کی ایجاد ہے۔ اسلام ہی نے خیالی کے مقابلے میں حقیقی اور مجرد کے برعکس محسوس پر زور دیا، تجربہ و مشاہدہ اور علم و عقل کو ادراک حقیقت کا ذریعہ ٹھہرایا، انسان کو دعوت دی کہ اپنی استعداد علم سے کام لے۔‘‘۲۶؎ فرمایا ’’استقرا کی روایت عالمِ اسلام سے شروع ہوتی ہے۔ بیکن نے بے شک اسی موضوع پر قلم اُٹھایا، لیکن مسلمانوں کی تحریروں سے استفادہ کرتے ہوئے، ’نووم آرگینان‘۲۷؎ نام ہی کے اعتبار سے ایک نئی منطق ہے، لیکن مطالعہ کیجیے تو پتا چلے گا کہ اس میں ابن تیمیہ اور سہروردی کی عبارتیں جوں کی توں موجود ہیں۔۲۸؎ مصنف نے یہ کیسے کَہ دیا کہ منہاج استقرا یورپ کی دریافت ہے۔ استقرا اور تجربے کا سہرا مسلمانوں کے سر ہے۔‘‘۲۹؎ ارشاد ہوا۔ ’’اس مقدمے کا مقدمہ لکھنا چاہیے۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’میرا ایسا ہی ارادہ ہے، لیکن کتاب بڑی ضخیم ہے اور جہاں تک کسی ایک علم، یا اس کے مخصوص مباحث کا تعلق ہے اس پر ماہرین علم ہی قلم اُٹھا سکتے ہیں۔ البتہ کتاب کا ایک تمہیدی باب ہے جس میں مصنف نے علم و حکمت کے ارتقا سے بحث کرتے ہوئے تاریخ علم پر بھی مختصراً تبصرہ کیا ہے، گو ناقص اور کئی پہلووں سے غلط مفروضات پر مبنی۔ میری کوشش حتی الوسع یہ ہوگی کہ اس ضمن میں مصنف کی غلطیوں کی طرف اشارہ کردوں۔‘‘۳۰؎ میں نے یہ بھی عرض کیا کہ علوم اسلامیہ اور مسلمان اہلِ علم کے بارے میں مصنف کی متعدد فروگزاشتین قابلِ توجہ ہیں۔۳۱؎ ارشاد ہوا ’’اسلامی علوم و معارف کے بارے میں ہماری معلومات ابھی تک بڑی ناقص ہیں۔ پھر کیسی کیسی نادر تصنیفات تھیں جو زمانے کی دست برد میں ضائع ہوگئیں۔‘‘۳۲؎ آسمان اَبر آلود تھا۔ م-ش آگئے۔ تھوڑی دیر بیٹھے، پھر ساتھ والے کمرے میں چلے گئے۔ چودھری صاحب تشریف لے آئے۔ خیال تھا راجا صاحب اور قرشی صاحب آتے ہی ہوں گے۔ علی بخش نے چائے کا اہتمام کیا۔ دیر تک صحبت رہی۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱- کسی فوری مگر عارضی تکلیف کے پیشِ نظر اس لیے کہ حکیم صاحب تو حیدرآباد میں تھے۔ ان سے ذرا ذرا سی بات میں رجوع کرنا ناممکن تھا۔ سہولت اِسی میں تھی کہ قرشی صاحب یا ڈاکٹر جمعیت سنگھ کے مشورے سے کوئی دوا استعمال کرلی جائے۔ ۲- مقدمہ تاریخ سائنس از جارج سارٹن کا ترجمہ، جو راقم الحروف کے قلم سے مجلس ترقی ادب لاہور کے زیر اہتمام شائع ہوچکا ہے۔ ۳- بابائے اُردو مولوی عبدالحق مرحوم۔ یہ ۱۹۳۲ء کا ذکر ہے جب حضرت علامہ نے مولوی صاحب کی توجہ اس کتاب کی طرف منعطف کرائی اور مولوی صاحب نے اس کے ایک باب کا ترجمہ امتحاناً میرے ذمے کیا۔ ترجمہ انھیں پسند آیا تو مجھ سے کہا کہ اس کی تکمیل کردوں۔ لیکن ۱۹۳۳ء میں کچھ میرے ذاتی احوال اور پھر آگے چل کر حضرت علامہ کی طویل علالت کے باعث ترجمے کا کام رُک گیا تا آنکہ اس کی ابتدا ۱۹۳۸ء سے پہلے نہ ہوسکی۔ تکمیل ۱۹۴۰ میں ہوئی، دہلی میں۔ لیکن جنگ کے باعث کاغذ نہ مل سکا، لہٰذا اشاعت رُک گئی۔ ۴- سائنس کی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوئی تو اس کی وجہ تھی دنیائے قدیم کا حقائق سے گریز، ان حقائق سے جو عبارت ہیں ہمارے محسوسات و مدرکات، یعنی ذات انسانی کے گوناگوں احوال، عالم تاریخ اور عالم فطرت، ان کے حوادث اور مظاہر سے، جیسا کہ دنیائے قبل اسلام کی عام روش تھی۔ اسلام آیا تو اس نے انسان کی توجہ حقائق کی طرف منعطف کرائی۔ ان کے مطالعے اور مشاہدے پر زور دیا۔ جب تک ایسا نہ ہوتا سائنس کی ترقی میں جو رکاوٹیں تھی کیسے دور ہوتیں۔ ۵- لہٰذا جب بدھ مت نے ’مت‘ یعنی مذہب کی شکل اختیار کی تو عقل اور ایمان کی تطبیق کے پیشِ نظر متکلمانہ غور و فکر ناگزیر ہوگیا۔ ۶- ۳۹۰ ق م کے قریب بدھ گیا میں پیدا ہوا۔ وہیں اور پھر انو رادھا پور (لنکا) میں فروغ پایا۔ پالی زبان میں بدھ مت پر ایک ضخیم اور جامع کتاب بہ عنوان وسدہ مگھ (’راہ صفا‘) کا مصنف۔ ۷- شنکر متکلم نہیں تھا۔ شاید مصنف نے اس بنا پر کہ اس نے بدھ مت کا رد کیا، اسے متکلم ٹھہرایا، ورنہ شنکر کا درجہ اس سے کہیں زیادہ بلند ہے۔ دیکھیے گلشن راز جدید (زبور عجم): دگر از شنکر و منصور کم گو انا الحق گوے و صدیق خودی شو ۸- پراچین ہندوستان کے چھ نظامات فلسفہ…سانکھ، یوگ، میمانسہ، ویدانت، ویشسکا اور نیایا… میں سے ایک، جن کا تعلق چھ مختلف اور کئی ایک صورتوں میں متضاد نقطہ ہائے نظر (درشن) سے ہے۔ میمانسہ جے منی سے منسوب ہے جس کے حالات زندگی سے ہم قطعاً بے خبر ہیں۔ میمانسہ کے معنی ہیں فکر عمیق، یعنی ویدوں کی رُو سے ہمارے اعمال و افعال، رسوم و عبادات کا جو انداز ہونا چاہیے ان میں غور و فکر اور اس پہلو سے ان کی تشریح و توضیح، جیسے ویدانت عبارت ہے اس انتہائے (انت) صداقت سے جو ویدوں میں موجود ہے۔ میمانسہ چار ہیں: پروا، کرم، اتر، اور برہم۔ کرم اور پروا کا تعلق متکلمانہ مسائل سے ہے، جیسا کہ مصنف کا خیال ہے۔ لیکن یہ رائے سطحی ہے اور ہندو نقطۂ نظر سے بے خبری کا نتیجہ۔ ۹- مسئلہ خلق قرآن کی طرف اشارہ ہے۔ مخالفین و موافقین کا نزاع لفظی تھا، حقیقی نہیں تھا کہ انھیں قرآن پاک کے درجۂ حجیت میں اختلاف ہوتا۔ ۱۰- Scholasticism: اہلِ یورپ کے نزدیک مذہب کی تطبیق کسی ایک مذہب فلسفہ، بالخصوص حکمت یونان سے، یا مذہبی نوشتوں، یعنی منقول کے احترام میں معقول سے بے اعتنائی، لہٰذا ان حقائق سے اعراض جو سائنس کا موضوع ہیں اور ان کی بجاے محض لاطائل قیاس آرائیوں اور منطقی موشگائیوں پر اکتفا (دیکھیے سارٹن: مقدمۂ تاریخ سائنس، جلد اول، فصل کلام)۔ لیکن ہم نے اسکولاسٹسزم کو کلام سے تعبیر کیا تو محض اصطلاحاً، یعنی اداے مطلب میں سہولت کے لیے، ورنہ کلام عبارت ہے فلسفۂ مذہب سے اور یہ وہ مبحث ہے جس پر مغرب نے حال ہی میں باقاعدہ توجہ کی ہے۔ ۱۱- عقل اور ایمان کا کہ عقل اور ایمان کیا ایک دوسرے کے منافی ہیں یا مؤید؟ ۱۲- یعنی وہ ذہنی فضا جو قرن اول کے سیاسی و اجتماعی حوادث اور مسیحی، یہودی اور وثنی عقاید سے اسلامی عقاید کے تصادم نے پیدا کی اور جس میں اس زمانے کی نیم مذہبی، نیم فلسفیانہ تحریکات کے ساتھ ساتھ یونانی فلسفہ اور ایرانی ثنویت، بدھ صنمیت اور ویدانت، اشراق اور تصوف سب نے حصہ لیا۔ ۱۳- اس لیے کہ کلام سے مقصود تھا مذہب کی عقلی اساسات کی جستجو (دیکھیے تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، خطبۂ اول)۔ گویا ایک مسئلہ تو عقاید کی تطبیق کا ہے کسی مخصوص نظام فکر سے، یا عقاید کی فلسفیانہ تعبیر، لہٰذا کسی مخصوص مذہبی فلسفے کا۔ دوسرا بنیادی اور حقیقی، یعنی ان حقائق کے ادراک کا ہے، جن کی شعور غیر عقلی واسطوں سے ہوتا ہے اور جن میں عقل اور ایمان بظاہر ایک دوسرے کے حریف نظر آتے ہیں، لیکن ہمیں ایک دوسرے کے لیے ناگزیر، لہٰذا جسے نہ تو یہ کہ نظر انداز کیا جاسکتا ہے کہ ان کا تعلق ذہن انسانی کے دو مختلف تقاضوں سے ہے اور انھیں اپنی اپنی جگہ پر آزاد چھوڑ دینا چاہیے، نہ یہ ممکن کہ کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح دی جائے۔ پہلی صورت میں ہم روح اور مادے کی ثنویت پر زور دیں گے تو ایمان اور عقل کا رشتہ کٹ جائے گا، زندگی کی وحدت باقی نہیں رہے گی اور ہمیں دین و دنیا، ریاست اور کلیسا کا امتیاز پیدا کرنا پڑے گا۔ بصورت دیگر ایک کا وجود دوسرے کو کالعدم کردے گا۔ یہ دونوں صورتیں خود زندگی کو گوارا نہیں۔ ۱۴- یہ مسلم ہے کہ یہودی اور مسیحی علم کلام کا انتہائی نشو و نما اسلامی علم کلام سے مؤخر ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کا اہلِ مغرب کو خود بھی اعتراف ہے۔ ۱۵- الٰہیات: یونانی زبان میں Theosبمعنی خدا اور Ology بمعنی علم، لہٰذا Theology دوسرا نام تھا مابعد الطبیعیات کا۔ بعینہٖ عربی زبان میں الٰہیات کی اصطلاح وضع ہوئی اور ذات الٰہیہ کی بحث اس کا مرکزی نقطہ قرار پائی۔ ہمیں معلوم ہے اہلِ یونان کے اسی خیال کے پیشِ نظر افلاطون کو ’الٰہی‘ Theologian کہا گیا اور پھر ایک موضوع ارسطا طالیسی تصنیف الہیات ارسطو Theology of Aristotle (جس کا زمانہ ارسطو سے بڑا مؤخر ہے) کو بہت کافی شہرت حاصل ہوئی۔ شاید اسی یونانی روایت سے استخلاص کا نتیجہ تھا کہ عباسی عہد میں الٰہیات کے لیے علم کلام کی اصطلاح وضع کی گئی۔ مطلب تھا ذات الٰہیہ کے حوالے سے مابعد الطبیعی مسائل پر گفتگو اور بشکل عقاید ان کی عقلی توجیہ۔ یہی وجہ ہے کہ الٰہیات نے ایک باقاعدہ نظام فکر کی شکل اختیار کی تو عالمِ اسلام میں۔ ۱۶- جیسا کہ کلیسا کی تاریخ سے ظاہر ہے۔ ۱۷- بطور فلسفۂ مذہب اور جو گویا اب ایک باقاعدہ نظام فکر کی شکل اختیار کررہا ہے۔ ۱۸- ایسے عقاید (Dogmas) پر جن میں عقل کا کوئی دخل نہیں، نہ ان کی حیثیت حقیقی مسائل کی ہے۔ مثلاً اقانیم ثلاثہ میں سے کسی ایک کے درجۂ الوہیت، یا بجاے خود تثلیث، یا عشاے ربانی کی بحث۔ ۱۹- اور ظاہر ہے اس کا ارتقا عالمِ اسلام ہی میں ہوتا۔ یہ اس لیے کہ اسلام نہ عام معنوں میں مذہب ہے، نہ محض ایک اخلاقی اور روحانی یا فلسفیانہ تحریک، نہ مجموعۂ عقاید، بلکہ عین زندگی۔ اسلام کے مسائل بھی زندگی کے مسائل ہیں جو انسان کو ہر لحظہ پیش آتے ہیں اور جن کے صحیح حل پر اس کے حفظ و بقا، ترقی اور نشو و نما کا دارومدار ہے۔ ۲۰- اہلِ مغرب کے اس دعوے کی اساس اس دعوے پر ہے کہ یہود نے فکر یونان کی رعایت سے عقاید مذہب کی تعبیر چونکہ فلسفیانہ انداز میں کی تھی، لہٰذا یہی کچھ عیسائیوں نے کہا۔ مسلمانوں نے اس مثال سے فائدہ اُٹھایا اور ان کے قائم کردہ راستے پر چل نکلے۔ یہود و نصاریٰ اور مسلمانوں کے متکلمانہ رجحانات ایک سے تھے۔ اسلامی علم کلام کا مطالعہ بہ نگاہ غائر کیا جائے تو یہ دعویٰ سرتاسر غلط ثابت ہوجاتا ہے۔ اس کی بنا چند سطحی مشابہتوں پر ہے۔ ہم بھولتے ہیں کہ جب مسئلہ ایک ہو، یعنی عقل اور ایمان کے تضاد یا ہم آہنگی کا تو اس پر جس لحاظ سے بھی غور کیا جائے، باوجود اختلاف چند در چند مشابہتیں ضرور پیدا ہوجائیں گی۔ اس سلسلے میں صرف اتنا کَہ دینا کافی ہوگا کہ یہودی اور مسیحی علم کلام کا معراج کمال اسلامی علم کلام سے نہ صرف مؤخر ہے، بلکہ اس کا مرہونِ منت بھی۔ مزید برآں اسلامی علم کلام نے جہاں فکر حاضر کا راستہ صاف کیا اور اس کے مسائل اور منہاجات کو صحیح شکل دی وہاں یہودی اور مسیحی علم کلام کی تحریکیں سرتاسر عقیم اور بے نتیجہ رہیں۔ ۲۱- بقول بی-ڈی- میکڈانلڈ: Development of Muslim Theology اور وینسنک: The Muslim Creed میں راقم الحروف نے اسی قسم کے دعووں کے پیشِ نظر یہ لکھا تھا کہ اگر ان کو صحیح مان لیا جائے تو یہ ماننا بھی لازم آئے گا کہ مسیحی اثرات پر فخر کرنا کوئی اچھی بات نہیں۔ ان اثرات سے عالمِ اسلام کا ذہن حقائق کی بجاے لاطائل بحثوں میں اُلجھ گیا۔ ثانیاً یہ دعویٰ یوں بھی غلط ہے کہ عالمِ اسلام میں فرقہ بندی کا ظہور جن اسباب کی بنا پر ہوا ان کی نوعیت سیاسی اور اجتماعی تھی۔ انھیں جن مسائل میں اختلاف تھا وہ زندگی اور علم و عمل کے مسائل تھے۔ ان کا فلسفیانہ شاخسانہ بعد کی چیز ہے۔ مسیحی دنیا میں اس کے برعکس مسائل کی نوعیت بظاہر فکری اور مابعد الطبیعی تھی، لیکن فی الحقیقت لفظی کہ محض ایک آئیوٹا (iota، انگریزی میںi) کی موجودگی اور عدم موجودگی پر دیر تک سلسلۂ بحث و نزاع جاری رہا۔ ثالثاً وہ اثرت بھی جن کے متعلق خیال ہے کہ خارج سے اسلام میں داخل ہوئے، کسی ایک مذہب یا ایک خطے سے مخصوص نہیں تھے، بلکہ اس وقت کی ذہنی فضا میں پہلے سے موجود تھے جس سے عالمِ اسلام کو سابقہ پڑا۔ ضروری نہیں تھا کہ یہ اثرات کسی ایک مذہب یا اس سے تعلق کی بدولت مترتب ہوتے۔ یوں بھی ان کے خلاف جو رد عمل ہوا اور ان پر جس انداز سے غور کیا گیا ان کی نوعیت جداگانہ تھی۔ دراصل اس مضمون کا خیال ان حواشی کو دیکھ کر پیدا ہوا جو مولانا محمد علی نے میکڈانلڈ کی کتاب الٰہیات اسلامیہ کا نشو و نما پر لکھے تھے۔ مولانا نے لکھا تھا: The ideas were in the air۔ ان کا قاعدہ تھا کہ جس کتاب کا مطالعہ کرتے (بالخصوص مستشرقانہ تصنیفات کا) بہ نگاہ نقد و تفحص کرتے۔ لہٰذا جہاں کوئی اَمر قابلِ گرفت دیکھتے وہیں حواشی پر اپنی رائے کا اظہار فرمادیتے۔ انھوں نے اپنا ذاتی کتب خانہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی نذر کردیا تھا۔ کیا اچھا ہو اگر اربابِ جامعہ کی توجہ سے مولانا کے یہ حواشی ایک باقاعدہ شکل میں مرتب ہوجائیں۔ مولانا بڑے خوش قلم تھے۔ جو کچھ لکھتے نہایت صاف صاف، بڑی بے تکلفی اور سادگی سے۔ پھر جیسے یہ حواشی پر لطف ہوتے ویسے ہی برمحل اور خیال انگیز۔ ۲۲- حضرت علامہ کے نزدیک مذہبی اور سیاسی۔ ملاحظہ ہو مجلہ اقبال لاہور، شمارہ جنوری، ۱۹۶۷ئ۔ ۲۳- حالانکہ مغرب میں اور بھی اہلِ علم ہیں جنھوں نے اپنے اپنے نقطۂ نظر سے اسلام اور اسلامی تہذیب و تمدن کا مطالعہ کیا ہے اور کررہے ہیں۔ ان کی رائے بھی اپنی جگہ پر وقعت سے خالی نہیں۔ لیکن ان کے مقاصد چونکہ ان معنوں میں متعین نہیں جن معنوںمیں مستشرقین کے، لہٰذا بسبب ناواقفیت کوئی غلط نتیجہ قائم کریں تو دوسری بات ہے، قصداً ایسا نہیں کرتے۔ ۲۴- یوں ہندو فلسفے کے مطالعے میں ایک نقطۂ نظر مل جاتا ہے۔ راقم الحروف کی رائے میں ہندو فلسفے کے ہندو مؤرخین بھی، جن کی کوشش ہے کہ اس کی تعبیر مغربی فلسفے کے رنگ میں کریں، غلطی پر ہیں۔ اہلِ مغرب کا یہ خیال کہ فلسفہ جب ہی فلسفہ ہے کہ اس کا نشوونما مغربی نمونے پر ہو، صحیح نہیں۔ ۲۵- اشارا ہے اس ثقافتی تحریک کی طرف جو اسلام کے زیر اثر پیدا ہوئی، جس نے محسوس اور مرئی پر زور دیا اور جس کے ماتحت مسلمانوں نے حصولِ علم میں اختیاری Empirical روش اختیار کی۔ (دیکھیے: تشکیل جدید، خطبۂ اوّل) ۲۶- دیکھیے تشکیل جدید، خطبۂ پنجم، بحث ختم نبوت۔ ۲۷- Novum Organon۔ آرگینان کے معنی ہیں آلہ اور یہ وہ نام ہے جو ارسطو کے شارح اسکندر افرود یسیاسی نے اس کے منطقی رسائل کے لیے تجویز کیا۔ مطلب یہ تھا کہ منطق ایک فن ہے۔ یہ علم نہیں ہے، حصول علم کا آلہ ہے۔ ۲۸- سہروردی، یعنی شیخ مقتول شہاب الدین یحییٰ سہروردی کی تصنیف حکمت الاشراق اور امام ابن تیمیہ کے رسائل، بالخصوص الرد علی المنطق میں۔ مشہور صوفی بزرگ شہاب الدین ابو حفص عمرو ابن عبداللہ سہروردی نے بھی اپنی کتاب کشف النصائح الایمانیہ و کشف الفضائح الیونانیہ میں یونانی فلسفے کا رد کیا ہے۔ ۲۹- یوں کہنے کو استقرا کی روایت ارسطو تک پہنچتی ہے لیکن وہ منہاج علم جس کی بنا استقرا، تجربے اور امتحان پر ہے، عالمِ اسلام ہی میں وضع ہوا۔ منہاج تجربی کے بارے میں تو سارٹن کو خود بھی اعتراف ہے کہ ابن الہیثم کی بدولت اس میں خاصی ترقی ہوئی۔ ۳۰- اہلِ مغرب کے نزدیک سائنس نے ارض یونان میں جنم لیا۔ قبل یونان کا زمانہ قبل سائنس کا زمانہ ہے۔ یونان کو زوال ہوا تو جدید یورپ کے ظہور تک یہ صرف یونانی روایت تھی جس نے سائنس کو تھوڑا بہت سہارا دیا، گو یہ روایت اہلِ شرق کے ہاتھوں مسخ ہوتی رہی، حتیٰ کہ اہلِ مغرب اُٹھے، سائنس کا احیا ہوا اور پھر اس میں ہر جہت سے ترقی اور نشوونما ہونے لگا۔ لیکن قطعِ نظر اس سے کہ اہلِ یورپ اب خود ہی اس نظریے کو خیرباد کَہ چکے ہیں، سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب تک ذہن انسانی موجود و محسوس، واقعی اور مرئی کی قدر و قیمت سے آشنا نہ ہوتا اس میں وہ روح پیدا ہی نہیں ہوسکتی تھی جسے آج علمی روح یا سائنٹفک اسپرٹ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اب یہ معلوم ہے کہ فکر و نظر کا یہ انقلاب اسلام ہی کا پیدا کردہ ہے جس نے محسوس و موجود اور واقعی و مرئی کو آیات الٰہیہ سے تعبیر کیا اور اس پر غور و فکر کی دعوت دی۔ لہٰذا سائنس کو بھی سائنس کا درجہ حاصل ہوا تو صحیح معنوں میں عالمِ اسلامی کی بدولت۔ ۳۱- ان کی خدمات علم صحیح علمی درجے اور مسلمانوں کی بدولت علوم کے ارتقا اور نشوونما کے بارے میں۔ ۳۲- اور کتنی ہیں جن کی فہرست بھی ابھی تک مرتب نہیں ہوئی، مثلاً اسکوریال (اسپین) ہی کا ذخیرۂ کتب ہے اور کتنی ہیں جو خداجانے کس کس گوشۂ خمول میں پڑی ہیں۔ ز…ز…ز جمعۃ المبارک: ۲۸؍جنوری دو دن بخار کی نذر ہوگئے۔ طبیعت اگرچہ ٹھیک نہیں تھی، لیکن ریڈیو اسٹیشن گیا تو واپسی میں حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ یوں بھی دو روز کے ناغے سے خاصا پریشان تھا۔ خیال حضرت علامہ ہی کی طرف تھا۔ پھر ابھی صبح ہی تھی کہ علی بخش آگیا، کہنے لگا۔ ڈاکٹر صاحب یاد کررہے ہیں، فرماتے ہیں غیر حاضری کی وجہ کیا ہے؟ میں نے کہا، علی بخش، مجھے بخار آگیا تھا۔ دس بجے تھے کہ جاوید منزل پہنچا۔ حضرت علامہ منشی خانے سے باہر برآمدے میں آرام فرما رہے تھے۔ دھوپ مزے کی تھی۔ میں نے سلام عرض کیا، مزاج پوچھا اور غیر حاضری کی معذرت کی۔ فرمایا ’’اب طبیعت کیسی ہے؟ شہر کا کیا حال ہے؟ سنا ہے لوگوں میں بڑا جوش و خروش ہے۔ کل ہڑتال بھی رہی۔‘‘ میں نے کہا ’’مسلمان فی الواقع بڑے برافروختہ ہیں۔ ہائی کورٹ سے انصاف کی توقع تھی، لیکن پوری نہ ہوئی۔‘‘ ارشاد ہوا ’’کوئی خاص بات؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’خاص بات یہ ہے کہ مولانا ظفر علی خان اعتدال اور میانہ روی کی تلقین کررہے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں ان کا یہ رویہ سمجھ میں نہیں آتا، اس کی وجہ کیا ہے۔‘‘۱؎ ارشاد ہوا ’’مولوی صاحب ابھی اُٹھ کر گئے ہیں۔ گفتگو یہی شہید گنج کی تھی۔ دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ مولوی صاحب پوچھتے تھے اب کیا کرنا چاہیے؟ میں نے کہا میری ذاتی رائے تو یہ ہے کہ قانون شکنی کی تحریک عام کردی جائے، بلکہ اس میں سارا ہندوستان شریک ہو۔ یوں مسجد تو شاید نہ ملے، لیکن یہ تو ظاہر ہوجائے گا کہ مسلمان اپنے حقوق کے لیے ایجی ٹیشن کرنا جانتے ہیں۔‘‘ فرمایا ’’مسجد کی قربانی اگر مسلمانوں کے لیے زندگی کا وسیلہ بن جائے تو کیا برا ہے؟ ایجی ٹیشن ہوا تو ہوسکتا ہے اس سیلاب میں کچھ خس و خاشاک بھی بہ جائیں۔‘‘۲؎ میں نے عرض کیا ’’ایجی ٹیشن ہوسکے تو بہت ممکن ہے مسجد بھی مل جائے۔‘‘ فرمایا ’’کیوں نہیں۔ لیکن ضرورت بہرحال ایجی ٹیشن کی ہے۔ اس اَمر کی کہ مسلمان ایجی ٹیشن کرنا سیکھیں۔‘‘۳؎ میرے اس استفسار پر کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے، فرمایا ’’ہائی کورٹ کا فیصلہ سرتاسر غلط ہے، بلکہ کہنا چاہیے کہ اس میں قانون سے بڑھ کر سیاسی مصلحتوں کا لحاظ رکھا گیا ہے۔‘‘۴؎ پھر قدرے سکوت کے بعد فرمایا ’’یہ اس اَمر کی دلیل ہے کہ انگریزی حکومت کا زوال ہوچکا ہے۔ یہ صرف زوال پذیر حکومتیں ہیں جو عدل و انصاف کو چھوٹی چھوٹی مصلحتوں پر قربان کردیتی ہیں۔‘‘۵؎ ارشاد ہوا ’’صحیح فیصلہ وہی ہے جو جسٹس دین محمد کا ہے۔۶؎ ان کی اختلافی رائے بالکل درست ہے۔ اسلامی فقہ کی رُو سے جائداد میں، خواہ اس کی نوعیت کچھ بھی ہو، وقف یا غیر وقف، منقولہ اور غیر منقولہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ نہ اس پر کوئی حق ملکیت قائم ہوسکتا ہے، نہ قانون تحدید املاک کا اطلاق ممکن ہے۔‘‘۷؎ پھر قدرے سکوت کے بعد فرمایا ’’لیکن اس سے بھی کہیں بڑھ کر سوال یہ ہے کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کی بنا جس قانون پر ہے وہ اسلامی قانون اوقاف کا ناسخ تو ہے نہیں؟ برعکس اس کے اوقاف کے بارے میں صاف و صریح ضمانت موجود ہے کہ ان کا فیصلہ مسلمانوں کے شخصی قانون کے مطابق ہوگا۔‘‘ فرمایا ’’حکومت بظاہر قانون کی آڑ لے رہی ہے، لیکن قانون کے پردے میں ایک بہت بڑا سیاسی کھیل کھیلا جارہا ہے۔ حکومت چاہتی ہے مسلمانوں کے مقابلے میں سکھوں کو مضبوط کرے۔ ہندوؤں کے لیے بھی کسی توڑ کی ضرورت ہے۔ سکھوں کو اُٹھانے کی ابتدا گوردوارہ بل سے ہوئی۔ افسوس ہے اسے ایک ایسے مسلمان۸؎ کی تائید حاصل تھی جس نے یہ سب کچھ جانتے ہوئے کہ اگر سکھ مضبوط ہوگئے تو اسلامی مفاد کو شدید نقصان پہنچے گا حکومت کا ساتھ دیا۔ بہرحال حکومت جو کچھ کررہی ہے وہ قانون ہے، نہ سیاست، نہ کسی قوم کے مذہبی جذبات، نہ معابد کا احترام۔‘‘ حضرت علامہ تھوڑی دیر کے لیے رُک گئے۔ دم کشی کی تکلیف تھی۔ پھر فرمایا ’’سکھ مغلوں کے دشمن تھے۔ مغل حکومت کمزور ہوئی تو اسی لاہور میں انھوں نے سال ہا سال حکومت کی۔ شاہی مسجد کی بے حرمتی کس کس طرح نہیں ہوئی۔۹؎ شہید گنج کے نام سے گوردوارہ بھی تعمیر کرلیا گیا، لیکن مسجد سے تعرض نہیں ہوا، حالانکہ سکھ چاہتے تو اسے منہدم کرسکتے تھے۔ لیکن اس انگریزی حکومت کو دیکھیے کہ مساجد اور معابد کے تحفظ اور احترام کی یقین دہانی کے باوجود قانون اور انصاف دونوں کا خون کررہی ہے۔‘‘ میں خاموش سے حضرت علامہ کے ارشادات سن رہا تھا۔ انھوں نے کچھ سستا کر پھر کہا ’’یہ جو کچھ ہے حکومت کی حیلہ سازی ہے۔ حکومت کی حیلہ سازیوں کا کیا کہنا! بسمارک نے ایک جھوٹی خبر دے کر فرانس اور جرمنی میں جنگ چھیڑ دی۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر ایک جھوٹ سے جرمن قوم متحد ہوجائے تو اس میں کیا گناہ ہے۔ مگر لوگ تھے کہ اس کے محل کے ارد گرد جمع ہوجاتے اور دستور کا مطالبہ کرتے۔ بسمارک نے جب یہ دیکھا تو ایک روز تنگ آکر کہنے لگا: احمقو! میں تمھیں سلطنت دے رہا ہوں، تم دستور دستور چلاتے ہو…‘‘۱۰؎ حضرت علامہ گفتگو کرتے کرتے تھک گئے تھے۔ میں بھی مصلحتاً خاموش تھا۔ انھوں نے حقے کے دو ایک کش لیے، ذرا سی دیر کے لیے کروٹ بدلی، پھر تکیوں کا سہارا لے کر بیٹھ گئے اور فرمایا ’’آج کیا خبر ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’اہلِ حبشہ کا دعویٰ ہے کہ ملک کا کچھ حصہ ابھی تک ان کے قبضے میں ہے۔‘‘ فرمایا ’’اس سے کیا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دول مغرب اور انجمن اقوام کی روش اس بارے میں کیا ہے؟ ان کا فیصلہ تو بہرحال اٹلی کے حق میں ہوگا۔ یہ حق قائم رہا تو ملک کے باقی حصوں پر بھی اس کا قبضہ ہوجائے گا۔۱۱؎ میں نے کہا ’’مگر لائیڈ جارج کہتا ہے مسولینی ’بلفر‘۱۲؎ ہے، تنکوں کے سہارے کھیل رہا ہے۔ وہ کہتا ہے فطائیت ہو یا ناتسیت یا اشتمالیت، ان میں کوئی فرق نہیں۔‘‘۱۳؎ میں نے یہ بھی کہا ’’لائیڈ جارج کہتا ہے دنیا کا امن فرانس اور انگلستان کے ہاتھوں میں ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ فرانس کا قلب صحیح ہے۔ اس میں کوئی نقص نہیں۔‘‘۱۴؎ ارشاد ہوا ’’بشرطیکہ اشتمالیت نے اسے ماؤف نہ کردیا ہو۔‘‘۱۵؎ میں مصلحتاً خاموش ہوگیا۔ میرا خیال تھا حضرت علامہ کو زیادہ دیر تک گفتگو نہیں کرنی چاہیے، انھیں آرام کی ضرورت ہے۔ چنانچہ حضرت علامہ نے بھی کروٹ لی۔ تھوڑی دیر آرام فرمایا اور اُٹھ کر بیٹھ گئے، جیسے کچھ یاد آگیا ہو۔ ارشاد ہوا ’’تین شعر ہیں۔ درج بیاض کردو:‘‘ عجم ہنوز نداند رموز دیں ورنہ ز دیوبند حسین احمد ایں چہ بوالعجبی است سرود برسر منبر کہ ملت از وطن است چہ بے خبر ز مقام محمد عربی است بہ مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر باو نہ رسیدی تمام ہو لہپی است۱۶؎ میں نے اشعار درج بیاض کیے اور دل ہی دل میں حضرت علامہ کے ارشادات کا لطف اُٹھا رہا تھا کہ علی بخش آگیا اور کہنے لگا ’’دوا کا وقت ہوگیا ہے۔‘‘ حضرت علامہ نے دوا کھائی۔ طبّی مرکبات کی خوبی اور طبّی مرکبات کے سلسلے میں اطبا کے حسن مذاق پر تبصرہ ہونے لگا۔ باتوں باتوں میں افلاطون اور ارسطو کا ذکر آگیا۔ میں نے پوچھا ’’یہ جو ہم لوگوں میں ارسطو اور افلاطون کے طبیب ہونے کا خیال پھیل گیا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘ حضرت علامہ نے فرمایا ’’افلاطون تو شاید طبیب نہیں تھا۔ ارسطو ممکن ہے تھوڑا بہت مطب کرتا ہو۔۱۷؎ یوں بھی اس زمانے میں پڑھے لکھے آدمی کو طب سے کچھ واقفیت ضرور ہوتی تھی، جیسے مسلمانوں میں دستور رہا ہے۔‘‘۱۸؎ پھر ارشاد ہوا ’’جالینوس کے کچھ نسخے ملے ہیں۔ لیکن ہوسکتا ہے یہ نسخے مسلمان اطبا نے اس سے منسوب کردیے ہوں۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’کیسے؟‘‘ فرمایا ’’ایک تو اس لیے کہ وہ زمانہ استناد، یعنی کسی بڑی شخصیت کا سہارا ڈھونڈنے کا تھا۔ یوں بھی شروع شروع میں مسلمانوں کا ذہن یونانی علم و حکمت سے دب گیا تھا، جس کے خلاف رد عمل تو ہوا، لیکن بہت آگے چل کر۔۱۹؎ پھر اس زمانے میں یہ بھی دستور تھا کہ اگر کسی شخص کو اپنے خیالات کا اظہار مقصود ہوتا تو وہ کسی اعلیٰ تصنیف کی شرح لکھنا شروع کردیتا۲۰؎ تاکہ جو کچھ کہنا ہے اس کے پردے میں کہے اور یوں اسے کسی مانی ہوئی شخصیت کی پناہ بھی حاصل ہوجائے۔‘‘۲۱؎ پھر مسکرا کر فرمایا ’’لیکن آج کل حالت یہ ہے کہ لوگ دوسروں کے خیالات کو اپنا بناکر پیش کردیتے ہیں۔‘‘۲۲؎ ئ…ئ…ء حواشی ۱- دو روز پہلے ہائی کورٹ نے وہ اپیل خارج کردی جو مسجد شہید گنج کی بازیابی کے لیے دائر کی گئی تھی، لہٰذا شہر میں بڑا جوش پھیل گیا اور ہڑتال بھی ہوئی۔ مولانا ظفر علی خان کا رویہ یوں سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ۱۹۳۵ میں جب مسجد شہید کی جارہی تھی تو یہ مولانا ہی تھے جن کے زیر قیادت مسلمان حکومت کے مقابلے میں نکل کھڑے ہوئے اور نوبت کشت و خون تک جاپہنچی، گو مسجد کا انہدام رُک نہ سکا۔ ۲- یعنی وہ مفاد پرست عناصر جنھوں نے اس معاملے میں حکومت کا ساتھ دیا اور بڑی بے غیرتی سے اپنے قومی وقار کو خاک میں ملتے ہوئے دیکھا، بلکہ خانۂ خدا کی توہین اور انہدام تک برداشت کیا حالانکہ یہ اس برسراقتدار جماعت (یونینسٹ پارٹی) کے رکن تھے جس میں اکثریت مسلمانوں کی تھی اور اس لیے خیال تھا کہ اگر ان کی شہ نہ ہوتی تو سکھوں کو کبھی جرأت نہ ہوتی کہ مسجد کو گرادیں، بالخصوص جب اس سے پہلے وہ سمجھوتے پر بھی آمادہ تھے۔ دیکھیے ضمیمہ۔ ۳- بغیر اس کے نہ مفاد پرست عناصر کا خاتمہ ہوتا، نہ یونینسٹ پارٹی کا زور ٹوٹتا، نہ حکومت اور کانگریس (ہندو) یہ سمجھتی کہ مسلمان اپنے حقوق کے لیے لڑنا جانتے ہیں، لہٰذا ان کی رائے کا احترام کرنا چاہیے۔ مسلمان اس سے پہلے ایجی ٹیشن کرچکے تھے، ۱۹۲۰-۱۹۲۱ میں بسلسلۂ تحریک ترکِ موالات۔ لیکن یہ تحریک بظاہر ہندوؤں مسلمانوں اور سکھوں نے مل کر اُٹھائی تھی۔ آگے چل کر ہندوؤں نے الگ تھلک ایجی ٹیشن کیا اور سکھوں نے بھی۔ یہ صرف مسلمان تھے جن کے متعلق خیال تھا کہ ان کی جمعیت پراگندہ ہے اور وہ حکومت کے سہارے جی رہے ہیں، لہٰذا ان سے کیسی بھی زیادتی کی جائے چپ چاپ برداشت کرلیں گے، ایجی ٹیشن نہیں کریں گے۔ مزید برآں یہ ایک نفسیاتی لمحہ تھا جس سے فائدہ اُٹھایا جاتا تو مسلمانوں میں نئے سرے سے زندگی عود کرآتی اور یاس و بے دلی کی وہ کیفیت بھی جو تحریک ترکِ موالات کی ناکامی کے باعث قوم پر طاری تھی دور ہوجاتی۔ ہندو اور سکھ تو اس تحریک کے بعد اپنی صفیں مضبوط کرچکے تھے۔ مسلمان البتہ طرح طرح کی جماعتوں میں منقسم، روز بروز انتشار اور پراگندگی کا شکار ہورہے تھے۔ مسجد کا انہدام مسلمانوں کی غیرت ملی پر ایک نہایت کڑی ضرب تھی۔ وہ اگر ایجی ٹیشن کرتے تو جس طرح مسجد کانپور کے انہدام پر ان کے جذبہ ایثار اور سرفروشی سے قوم میں ایک نئی زندگی پیدا ہوگئی تھی، بعینہٖ یہی کچھ ۱۹۳۸ء میں ہوتا۔ لیکن احرار خاموش تھے، قوم پرست مسلمان خاموش، یونینسٹ پارٹی نہ صرف خاموش بلکہ اس معاملے میں ایک طرح سے حکومت کی طرف دار، لیگ کم زور اور مضمحل…کوئی نہیں تھا جو مسجد کے نام پر مسلمانوں کو ساتھ لے کر حکومت کے خلاف قدم اُٹھاتا، حالانکہ جس اعتبار سے بھی دیکھا جائے اس سے بہتر موقع اور کیا ہوسکتا تھا کہ مسلمان ہندوؤں، سکھوں اور انگریزوں کے مقابلے میں متحد ہوجاتے اور پنے حقوق کے لیے ایجی ٹیشن کرتے۔ ۴- یہ مصلحتیں واضح تھیں، مثلاً مسلمانوں کی غیرت ملی، جمعیت اور طاقت کا امتحان کہ وہ مسجد کی بے حرمتی برداشت کرتے ہیں یا نہیں۔ کرلیتے ہیں تو ان میں کوئی دم ختم نہیں۔ نہیں کرتے تو ان کے اور سکھوں کے درمیان مستقلاً نزاع و تصادم جاری رہے گا۔ سکھ کامیاب ہوگئے تو سمجھیں گے پنجاب ان کا ہے۔ وہ حسب سابق انگریزی حکومت کا ساتھ دیں گے اور کانگریس کی بڑھتی طاقت میں بھی ایک طرح کی روک ثابت ہوں گے۔ پنجاب بہرحال کئی طاقتوں کا اکھاڑا بن جائے گا، وغیرہ وغیرہ۔ ۵- حضرت علامہ کی رائے کس قدر صائب تھی۔ اس وقت کسے معلوم تھا کہ انگریزی حکومت کے خاتمے میں اب صرف نو برس باقی ہیں۔ ۶- مرحوم، اس وقت جج پنجاب ہائی کورٹ، ۱۹۴۷ء میں باؤنڈری کمیشن کے رکن، تقسیم ملک کے بعد ایک زمانے میں گورنر سندھ۔ ۷- کہ ایک خاص مدت کے بعد قبضۂ مخالفانہ کو باقاعدہ قبضے کی شکل دے دی جائے۔ ۸- میاں سر فضل حسین مرحوم کی۔ ۹- دیکھیے ضمیمہ شہید گنج کتاب کے آخر میں۔ ۱۰- Prince Bismarck۔ ۱۸۷۰ء میں جب نپولین ثالث نے جرمنوں سے شکست کھائی اور اتحاد المانیہ کی ابتدا ہوئی، بسمارک کی بدولت۔ ۱۱- اور یہی کچھ بالآخر ہوا۔ ۱۲- Bluffer ۱۳- گویا لائیڈ جارج کا اشارہ بیک وقت اٹلی، جرمنی اور روس سب کی طرف تھا۔ یہ تینوں نظام گو ایک دوسرے سے مختلف تھے، لیکن تینوں کی روح غیر جمہوری اور اس لیے شخصی آزادی کے خلاف۔ لہٰذا ان میں اور برطانوی شہنشاہیت میں کسی وقت بھی تصادم ہوسکتا تھا۔ لائیڈ جارج اگرچہ اس وقت پیرانہ سالی کے ایام بسر کررہا تھا اور وزارت عظمیٰ سے علیحدہ ہوئے بھی اسے چودہ پندرہ برس گزر چکے تھے، لیکن اس کی رائے بہرحال وقعت سے خالی نہیں تھی۔ اپنے زمانۂ اقتدار میں تو وہ گویا یہ سمجھتا تھا جیسے دنیا کا نوشتۂ تقدیر اس کے ہاتھ میں ہے اور جس کے پیشِ نظر کبھی حضرت لسان العصر نے کہا تھا: بات کوئی ہے تو لائیڈ جارج میں آجکل دنیا ہے اس کے چارج میں ۱۴- ان معنوں میں کہ اس کی روح بھی جمہوری ہے، جیسے انگلستان کی۔ ۱۵- اس لیے کہ فرانسیسی کمیونسٹ پارٹی کا زور اس زمانے میں بڑھ رہا تھا، بلکہ اندیشہ تھا کہ فرانس بھی شاید کمیونسٹ نظام زندگی اختیار کرلے۔ ۱۶- یہ قطعۂ اشعار ارمغان حجاز میں موجود ہے اور اس کی اشاعت پر ایک ہنگامہ برپا ہوگیا جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ معترضین نے اس قطعے پر قطعے لکھے، اخباروں میں مضامین شائع، ہوئے، پمفلٹ چھاپے گئے۔ لیکن آج یہ سب باتیں یاد سے محو ہوچکی ہیں۔ نہ کسی کو قطعات کا علم ہے نہ مضامین اور پمفلٹوں کا۔ ان قطعوں اور پمفلٹوں میں کوئی جان تھی نہ روح۔ برعکس اس کے حضرت علامہ نے ایک حق بات کہی تھی اور حق اپنی جگہ پر آج بھی قائم ہے۔ مخالفین سمجھے تھے کہ حضرت علامہ نے ایک ایسے عالم دین، پابند کتاب و سنت اور پیشوائے مذہب کی شان میں گستاخی کی ہے جس کے درس کتاب و سنت سے مدرسہ دیوبند فیض یاب ہورہا ہے۔ لیکن یہی تو اَمر تھا جس کی طرف حضرت علامہ اشارہ کررہے تھے کہ کیا غضب ہے جغرافی قومیت کے اس تصور کو جو مادیت پرستی پر مبنی اور مغرب سے آیا ہے مولانا کی حمایت حاصل ہے۔ حالانکہ کتاب و سنت میں اس کی کوئی سند ہے، نہ عالمِ اسلام نے کبھی اسے تسلیم کیا۔ حضرت علامہ کو مولانا کا احترام تھا اور احتراماً ہی انھوں نے شکایت بھی کی۔ انھیں تعجب تھا مولانا نے ایک ایسی بات کیسے کَہ دی جس سے اسلام کے نظام اجتماع و عمران کی نفی ہوتی ہے۔ وہ ان کی دلی آزادی نہیں کررہے تھے۔ ان کا عمل ہمیشہ اس اُصول پر رہا جو اپنے لیے وہ خود ہی قائم کرچکے تھے۔ بانگ درا میں ہے: مری زبان قلم سے کسی کا دل نہ دکھے ۱۷- ارسطو کا باپ البتہ طبیب تھا۔ ۱۸- جیسا کہ حضرت علامہ کے استاد مولانا میر حسن کی مثال ہے کہ اگرچہ مطب نہیں کرتے تھے، لیکن طب کا درس دیتے تھے۔ ۱۹- دیکھیے تشکیل جدید، خطبہ اول۔ ۲۰- کچھ اس بنا پر جس کی طرف حضرت علامہ نے اشارہ فرمایا تھا اور کچھ اس لیے کہ علم کی ایک باقاعدہ روایت قائم ہوجائے۔ ۲۱- اندریں صورت ان کے خیالات میں اپج اور تازگی تو ہوتی، لیکن وہ اپنے اجتہادات فکر کو دوسروں سے منسوب کردیتے، بعینہٖ جیسے ازمنۂ متوسطہ کے مترجمین نے علماے اسلام کی اکثر تحریریں، بلکہ رسائل اپنی ذات سے منسوب کرلیے۔ ۲۲- دوسروں کی ناواقفیت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے، یا جن سرچشموں سے کسب فیض کیا جائے ان کا ذکر کیے بغیر۔ ز…ز…ز شنبہ: ۲۹؍جنوری شام ہورہی تھی کہ حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ سلامت۱؎ ساتھ تھے اور چودھری صاحب بھی حسب قرار داد پہلے سے موجود۔ لیکن حضرت علامہ کی طبیعت بڑی ناساز تھی۔ نقرس کا درد عود کرآیا تھا۔ لہٰذا وہ بات نہ ہوسکی جس میں حضرت علامہ کے مشورے کی ضرورت تھی۔۲؎ زیادہ تر کوشش یہی رہی کہ حضرت علامہ کی تفریح خاطر کا سامان پیدا کیا جائے۔ فرمایا ’’نقرس کا زہر جسم میں سرایت کرجائے تو انسان چلنے پھرنے سے معذور ہوجاتا ہے۔ مجھے بھی سہاروں کی ضرورت ہے۔‘‘ حضرت علامہ کے الفاظ سے دل بیٹھ گیا۔ میں خاموش تھا۔ سلامت اور چودھری صاحب نے البتہ کچھ تسلی آمیز کلمات کہے۔ پھر دل بہلانے کے لیے ادھر اُدھر کی باتیں چھیڑ دیں۔ قرشی صاحب تشریف لے آئے۔ کچھ لطائف ہوئے، کچھ واقعات حاضرہ پر تبصرہ۔ علی بخش آیا، چلم بدلی اور حضرت علامہ کی پاینتی کی طرف ہوبیٹھا۔ علی بخش اور چودھری صاحب میں برسوں سے چھیڑ چھاڑ چلی آتی ہے۔ اس نے جو گفتگو کا یہ رنگ دیکھا کہ حضرت علامہ کا دل بہلایا جارہا ہے تو کہنے لگا ’’کچھ آپ کو بھی معلوم ہے آج کیا ہوا؟ آج چودھری صاحب نے بہت بڑا میدان مارا۔‘‘ علی بخش نے جو یہ بات کہی تو حضرت علامہ کو ہنسی آگئی۔ چودھری صاحب بھی ہنسنے لگے۔ حضرت علامہ نے فرمایا ’’علی بخش سے سنیے آج کیا ہوا؟‘‘ علی بخش نے کہا ’’نہیں چودھری صاحب بیان کریں گے۔‘‘ بالآخر معلوم ہوا کہ چودھری صاحب جو گھر سے تشریف لائے تو جاوید منزل سے ذرا ایک طرف ہٹ کر ضرورتاً بیٹھ گئے۔ زمین کچی تھی اور ادھر اُدھر گھاس بھی اُگ آیا تھا۔ چودھری صاحب کی بے خبری میں ایک بڑا سا کالا چیونٹا ان کے پائنچے میں گھس گیا اور ٹخنے پر کانٹے لگا۔ انھوں نے بدحواس ہوکر کہا نہ معلوم کیا ہے علی بخش کو پکارا، علی بخش! علی بخش! اِدھر آئیو، بھاگیو، دوڑیو، یہ کیا ہے؟ علی بخش چودھری صاحب کی طرف لپکا تو کیا دیکھتا ہے کہ ان کا ایک ہاتھ تو کمر بند پر ہے، دوسرے سے پائنچہ تھام رکھا ہے اور کہہ رہے ہیں ذرا دیکھنا یہ کیا ہے؟ علی بخش نے ٹخنے پر ہاتھ ڈالا، پائنچے کو ادھر اُدھر سے ٹٹولا تو کچھ پتا نہ چلا کہ کچھ ہے بھی تو کیا۔ چودھری صاحب گھبراے ہوئے تھے۔ علی بخش بھی پریشان تھا۔ تاآں کہ ہوا یہ کہ علی بخش اور چودھری صاحب کی متفقہ کوششوں سے چیونٹا گرفتار ہوگیا اور چودھری صاحب نے اطمینان کا سانس لیا کہ چیونٹا ہی تھا کوئی اور چیز نہیں تھی۔ پھر باطمینان جاوید منزل میں داخل ہوئے۔ حضرت علامہ کی خدمت میں پہنچے تو علی بخش بھی ساتھ تھا اور ہنس رہا تھا۔ چودھری صاحب کو بھی ہنسی آرہی تھی۔ حضرت علامہ چودھری صاحب کی آواز تو سن ہی چکے تھے، وجہ دریافت فرمائی تو ساری داستان سن کر بہت محظوظ ہوئے۔ اتنے میں راجا صاحب آگئے۔ انھوں نے حضرت علامہ کا مزاج پوچھا اور اطمینان سے بیٹھ گئے تو علی بخش کہنے لگا ’’راجا صاحب آپ کو معلوم ہے آج کیا ہوا؟ آج چودھری صاحب پر کالے چیونٹے نے حملہ کردیا۔ میں موقع پر نہ پہنچتا تو معلوم نہیں ان کا کیا حال ہوتا۔‘‘ اور پھر راجا صاحب نے مزے لے لے کر سارا واقعہ سنا تو حضرت علامہ کہنے لگے ’’چیونٹے کو غلط فہمی ہوئی۔ چیونٹا سمجھتا تھا چودھری صاحب نہیں ہیں، آنریبل منسٹر تشریف لائے ہیں۔‘‘ شہید گنج کا ذکر آگیا۔ ارشاد ہوا ’’ہائی کورٹ کے فیصلے نے لیگ کے لیے بڑی مشکلات پیدا کردی ہیں۔‘‘۳؎ ئ…ئ…ء حواشی ۱- سیّد سلامت اللہ شاہ مرحوم، دیکھیے ضمیمہ۔ ۲- ایک ذاتی معاملے کے بارے میں۔ ۳- اس لیے کہ لیگ خاموشی اختیار کرتی تو یونینسٹ پارٹی اور مخالف سیاسی جماعتوں کی جیت ہوئی، بالخصوص یونینسٹ پارٹی کی۔ حکومت کے خلاف قدم اُٹھاتی تو کوئی اس کا ساتھ نہ دیتا۔ یک شنبہ: ۳۰؍جنوری رات حضرت علامہ کو سوئے ہضم کی شکایت رہی۔ صبح حاضر خدمت ہوا تو طبیعت بحال تھی۔ فرمایا ’’کچھ تنقیہ ہوگیا ہے۔‘‘ پھر حسبِ معمول پوچھا۔ ’’آج کیا خبر ہے؟ لوگ کیا کہتے ہیں۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’خبر تو کوئی نہیں۔ لوگ بھی خاموش ہیں۔ منتظر ہیں کہ لیڈر حضرات کیا کرتے ہیں؟‘‘ پھر عرض کیا۔ ’’البتہ آج اخبار میں دیکھا ڈاکٹر اسٹینلے جونز۲؎ کہتے ہیں کہ موجودہ تہذیب کا سب سے بڑا مرض قلب کی موت ہے۔ اس پر آپ کا یہ ارشاد میری زبان پر آگیا: گفت مرگ قلب؟ گفتم ترک ذکر‘‘ فرمایا ’’ٹھیک ہے۔ روحانی اعتبار سے دنیا کی حالت کبھی ایسی پست نہیں تھی جیسی اب ہے۔ تاریخ سے اتنا تو ضرور ثابت ہوتا ہے کہ بعض قوموں اور ملکوں پر اخلاقی موت طاری رہی، لیکن بحیثیت مجموعی آج کا انسان کہیں زیادہ گرگیا ہے۔‘‘۳؎ پھر فرمایا ’’مسلمانوں ہی کو دیکھ لو۔ دنیا کا کوئی عیب نہیں جو ان میں موجود نہ ہو۔ ہماری اخلاقی پستی کیسی افسوس ناک ہے۔‘‘۴؎ حضرت علامہ نے یہ کَہ کرحقے کے دو ایک کش لیے۔ میں خاموش تھا۔ حضرت علامہ تکیوں کا سہارا لیے لیٹ گئے۔ تھوڑی دیر آرام کیا، پھر اُٹھ کر بیٹھ گئے۔ حقے کی نے ہاتھ میں لی اور فرمایا ’’تھوڑا بہت اتحاد جو لیگ کی بدولت قائم ہوگیا ہے بڑا امید افزا ہے۔ کانگریس کسی قدر مرعوب ہے۔ اس اتحاد کے نتائج بڑے شاندار ہوں گے۔۵؎ اگر کہیں مسلمانوں کو ایک قطعۂ ارض مل جائے تو اور بھی اچھا ہو۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’پاکستان؟‘‘ فرمایا ’’ہاں۔ پاکستان! یا اسے جو جی چاہے کَہ لو۔‘‘۶؎ ئ…ئ…ء حواشی ۱- شہید گنج کے بارے میں۔ ۲- Dr. Stanley Jones، سول ملٹری گزٹ میں۔ ۳- اس لیے کہ تہذیب جدید کی روح سرتاسر مادی ہے اور مادیت کی رُو سے جو کچھ ہے مادی اسباب و علل کی کارفرمائی، حتیٰ کہ انسان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ لہٰذا نہ اس کی ہستی کے کچھ معنی ہیں، نہ ماضی کے ورثۂ اخلاق اور افکار و خیالات کی کوئی قدر و قیمت… اسے حال پر کہ ہر لحظہ متغیر ہے… گرفت حاصل ہے، نہ مستقبل کے بارے میں اعتبار و یقین۔ افراد ہوں یا اقوام، سب ہوا و ہوس سے مغلوب اور غضب و تغلب کی دوڑ میں باہم دست و گریباں ہیں۔ اس حسیت پسند ثقافت کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان کا رشتہ اس کے باطن اور ضمیر سے کٹ گیا ہے۔ دیکھیے تشکیل جدید، خطبہ ہفتم: "Man has ceased to live soulfully, ie., from within."… انگریزی نسخہ، ۱۹۶۰، صفحہ ۱۸۷۔ ۴- حضرت علامہ کی نظر ہمیشہ حقائق پر رہی۔ لیکن عالمِ اسلام کے اس اخلاقی زوال اور تسفل کے باوجود، جس کی طرف وہ اشارہ فرما رہے تھے، انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ اس کے اسباب و علل کیا ہیں اور اس لیے مداوا کیا؟ لہٰذا وہ اپنی ’کشت ویراں‘ سے ناامید بھی نہیں تھے۔ وہ خوب جانتے تھے مسلمانوں کے سینے میں دل ہے اور یہ دل عشق کی تڑپ سے خالی ہیں۔ ہمیں اپنے نصب العین کا احساس بھی ہے لیکن خرابی ہے تو یہ کہ ہم نہیں جانتے فرد اور جماعت کی زندگی میں اس کی ترجمانی کیسے ہو: شبے پیش خدا نگریستم زار مسلماناں چرا خوارند و زارند ندا آمد نمی دانی کہ ایں قوم دلے دارند و محبوبے ندارند ارمغان حجاز ۵- اور پاکستان کا قیام حضرت علامہ کی اس پیشین گوئی کا ثبوت۔ ۶- پاکستان کی اصطلاح کس نے وضع کی، حضرت علامہ نے یا چودھری رحمت علی مرحوم نے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چودھری صاحب نے، اس لیے کہ چودھری صاحب ہی نے ہندوستان کی جغرافی تقسیم کے اعتبار سے مختلف خطوں کے لیے مختلف نام وضع کر رکھے تھے جن کو وہ اپنی تصنیفات اور بیانات میں اکثر استعمال کرتے۔ حضرت علامہ کا نقطۂ نظر اس کے برعکس جغرافی نہیں تھا، اسلامی تھا۔ یہ دوسری بات ہے کہ ریاست خواہ اس کی اساس وطن ہو، یا کوئی غیر مادی اُصول، کسی جغرافی خطے ہی میں قائم ہوگی۔ ثانیاً الٰہ آباد کے خطبہ صدارت میں انھوں نے یہ تو کہا تھا کہ ایک ہندی اسلامی ریاست کا قیام بالآخر ہمارا نصب العین ٹھہرے گا، لیکن اس کے لیے کوئی نام تجویز نہیں کیا تھا۔ ان کا ارشاد تھا کہ یہ ریاست ایک نہ ایک روز قائم ہوکر رہے گی۔ پھر جب دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے بعد واپس تشریف لائے تو راقم الحروف سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے نوجوان طلبا نے، جو انگلستان میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، میری تجویز کردہ ہندی اسلامی ریاست کے لیے پاکستان کا نام وضع کیا ہے۔ اس میں پ سے مراد ہے پنجاب، الف سے افغانی (سرحدی) صوبہ، ک سے کشمیر، س سے سندھ اور تان سے بلوچستان۔ (مزید بحث کے لیے دیکھیے ضمیمہ)۔ ز…ز…ز دو شنبہ: ۳۱؍جنوری گفتگو پھر وہی عالمِ اسلام کے اخلاقی اور ذہنی انحطاط کی تھی، مسلمانوں کی زبوں حالی کی۔ حضرت علامہ نے بڑے افسوس ناک لہجے میں فرمایا ’’ہماری روحانی حالت اچھی نہیں۔ مسلمان کیا ہیں؟ راکھ کا ڈھیر!‘‘۱؎ راجا صاحب بھی بیٹھے تھے۔ وہ شاید کچھ کہنا چاہتے تھے کہ حضرت علامہ نے خود ہی فرمایا ’’ہم نے آنکھ کھولی تو لایعنی روایات، بدعات اور توہمات کا زور تھا۔ لیکن ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے وہابی تحریک پھیل گئی۔۲؎ بخاری اور مسلم۳؎ کی اشاعت ہونے لگی اور صورتِ حالات بہت کچھ بدل گئی۔‘‘۴؎ حضرت علامہ دم کشی کے باعث ذرا دیر کے لیے رُک گئے۔ پھر ارشاد ہوا ’’اب زمانہ قرآن مجید کے مطالعہ کا ہے۔ مسلمانوں نے قرآن مجید کا مطالعہ کیا تو خود ہی سمجھ لیں گے ان کی اصلاح کی کیا صورت ہے اور انھیں اپنی زندگی میں کس منہج پر قدم اُٹھانا چاہیے۔‘‘۵؎ فرمایا ’’قوموں میں تبدیلیاں دفعتاً نہیں، بلکہ چپ چاپ اور بتدریج رونما ہوا کرتی ہیں۔ یہ ایک عمل ہے جو آپ ہی آپ شروع ہوتا اور آپ ہی آپ جاری رہتا ہے۔‘‘۶؎ ئ…ئ…ء حواشی ۱- بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے مسلمان نہیں راکھ کا ڈھیر ہے بالِ جبریل ۲- صحیح معنوں میں تحریک اہلِ حدیث۔ ۳- صحیحین۔ ۴- جس طرح حضرت مجدد علیہ الرحمۃ نے اس عجمی تصوف پر جو وحدۃ الوجود کے پردے میں عالمِ اسلام کو حقائق شرعی سے دور لیے جارہا تھا کاری ضرب لگائی، بعینہٖ حضرت شاہ ولی اللہ نے احیائے اُمت اور اقامت دین کے پیشِ نظر مطالعۂ حدیث پر زور دیا۔ یہ ابتدا تھی رد بدعات و توہمات اور ان رسموں کے ازالے کی جو ہندوؤں سے میل جول کے باعث پھیل گئی تھیں۔ خانوادۂ ولی الٰہی اور شاہ اسمعیل شہید کی بدولت اس تحریک کو مزید تقویت پہنچی، جس سے مقصود یہ تھا کہ مسلمان اپنی زندگی میں صرف کتاب و سنت کا اتباع کریں۔ دوسری جانب حضرت سیّد احمد بریلوی اور ان کے بعد میرزا مظہر جانجاناں نے حضرت مجدد علیہ الرحمۃ کی پیروی میں اصلاح طریقت کا عمل جاری رکھا۔ تحریک جہاد بجاے خود ان خرابیوں کے انسداد کا ایک نہایت عمدہ ذریعہ تھی جو بسبب زوال و انتشار مسلمانوں میں پیدا ہوگئی تھیں۔ اس سلسلے میں سیّد نذیر حسین محدث دہلوی اور مدرسۂ عالیہ دیوبند کی خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، گو آگے چل کر تحریک اہلِ حدیث ایک ایسے غلو اور بے اعتدالی کا شکار ہوگئی جس سے بالآخر اس تکلیف دہ فرقہ بندی کا ظہور ہوا جسے عرف عام میں وہابیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ بایں ہمہ ضروری ہے کہ ہم ان سب تحریکا ت کلیہ نقد و تفحص مطالعہ کریں جو اُمت کی نشاۃ الثانیہ کے لیے جاری کی گئیں۔ ۵- چوں مسلماناں اگر داری نظر در ضمیر خویش و در قرآں نگر گر تومی خواہی مسلماں زیستن نیست ممکن جز بقرآں زیستن جاوید نامہ ۶- اور فی الحقیقت ایک راز، اس لیے کہ کوئی نہیں جانتا اس کی ابتدا کب اور کیسے ہوتی ہے۔ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ اس عمل کا تعلق انسان کے اندرون ذات اور بیرونی احوال دونوں سے ہے۔ مزید یہ کہ اس میں افراد اور جماعتیں، واقعات اور حوادث، افکار و تصورات سب حصہ لیتے ہیں۔ ز…ز…ز چہار شنبہ: ۲؍فروری حضرت علامہ کو دم کشی کی تکلیف ہے۔ گزشتہ رات قرشی صاحب میرے ہاں آئے۔ بڑی تشویش کا اظہار کیا۔ کہنے لگے۔ ’’آپ کل سے غیر حاضر ہیں۔ خیریت تو ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’دنیا کے دھندوں سے فرصت نہیں ملی۔ میں خود بھی پریشان تھا۔ حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوسکا۔ صبح ان شاء اللہ بہت سویرے حاضر ہوجاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ حضرت علامہ کو صحت دے اور انھیں سلامت باکرامت رکھے۔‘‘ رات بھر کی تشویش کے بعد علی الصبح جاوید منزل پہنچا۔ راجا صاحب بھی ساتھ تھے۔ خیریت مزاج دریافت کی تو فرمایا۔ ’’اللہ کا فضل ہے۔ اب کوئی تکلیف نہیں۔‘‘ یوں دیکھنے میں بھی حضرت علامہ بڑے ہشاش بشاش نظر آتے تھے۔ پھر جب حضرت علامہ نے حسبِ معمول سوال کیا کہ ملک کے حالات کیا ہیں تو راجا صاحب نے دہلی کے اجتماع۱؎ کا ذکر چھیڑ دیا۔ کہنے لگے۔ ’’جناح کی زبان سے دین کا لفظ کیسا بھلا معلوم ہوتا ہے۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’اب تو ان کی تقریروں میں ’ایجی ٹیٹری‘ کا رنگ آچلا ہے۔‘‘ یہ باتیں ہورہی تھیں کہ رحما انقلاب لے آیا اور میں نے حضرت علامہ کے ارشاد پر بڑے بڑے عنوانات پڑھ کر سنانا شروع کیے۔ ایک صفحے پر قائداعظم کی پوری تقریر درج تھی۔ ارشاد ہوا ساری تقریر پڑھ ڈالو۔ میں نے تقریر پڑھنا ختم کی تو حضرت علامہ نے بڑی مسرت کا اظہار فرمایا۔ ارشاد ہوا ’’دو باتوں سے جی بہت خوش ہوا ہے۔ ایک تو جناح کے اس کہنے پر کہ بندے ماترم سے شرک کی بو آتی ہے۔ دوسرے اس پر کہ ہندی ہندوستانی کی تحریک در اصل اُردو پر حملہ ہے اور اُردو کے پردے میں بالواسطہ اسلامی تہذیب پر۔‘‘۲؎ ارشاد ہوا ’’مسلمان اتحاد کرلیں تو سب کچھ ہوسکتا ہے۔ شہید گنج کا مرحلہ کیسا کٹھن ہے، لیکن یوں اس کا حل بھی نکل آئے گا۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’اشتراکی راہنما ایم-این رائے۳؎ کی رائے ہے کہ مسلمانوں کو آئینی ضمانتیں ملنی چاہییں۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ جداگانہ انتخاب جمہوریت کے منافی نہیں ہے۔‘‘ فرمایا ’’یہ سب اس تھوڑی بہت طاقت کا نتیجہ ہے جس کا اظہار مسلمانوں کی طرف سے ہو رہا ہے۔ ہمارا مطالبہ قطعی طور پر یہ ہونا چاہیے کہ سندھ کا الحاق پنجاب سے کردیا جائے۔‘‘ راجا صاحب نے کہا۔ ’’اگر آپ کی تجویز کے مطابق قسمت انبالہ الگ کردی گئی۴؎ تو سکھوں کا کیا ہوگا؟ ان کے بھی تو کچھ مطالبات ہیں۔‘‘ فرمایا ’’سکھ ہندو ہیں۔ انھیں ہندوؤں کے ساتھ رہنا چاہیے اور وہ ہندوؤں ہی کے ساتھ رہیں گے۔‘‘۵؎ میں نے عرض کیا ’’سرحد کی طرف سے تو کوئی مزاحمت نہیں ہوگی؟‘‘ ارشاد ہوا ’’موجودہ کانگریسی تحریک چشم زدن میں ختم ہوسکتی ہے۔‘‘۶؎ فرمایا۔ ’’جواہر لال اور جناح کی خط و کتابت جاری ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ بہت ممکن ہے جواہر لال کوئی جداگانہ اشتراکی محاذ قائم کریں۔ وہ شاید عام ہندو رہنماؤں سے ناراض ہیں اور دیکھنا چاہتے ہیں کہ اگر انھوں نے ایسا کیا تو مسلمان کہاں تک ان کا ساتھ دیتے ہیں۔‘‘۷؎ راجا صاحب نے فرمایا ’’رات آئی سی ایس اور سینئر پی سی ایس والوں۸؎ کا ڈنر تھا، مگر تعجب ہے اس میں زیادہ تر شہید گنج ہی کا ذکر رہا۔ شرکاے دعوت ہائی کورٹ کے فیصلے سے بڑے ناراض تھے۔‘‘ حضرت علامہ نے فرمایا۔ ’’اس میں تعجب کی کون سی بات ہے۔ جو لوگ مذہباً اس فیصلے پر دل گرفتہ نہیں ہیں انھیں بھی سیاسی اعتبار سے اپنی ذلت کا احساس ہے۔‘‘۹؎ میں نے عرض کیا ’’آپ فرماتے ہیں مسلمانوں کی سیاسی جمعیت مضبوط ہوجائے تو کانگریس آپ سے آپ دب جائے گی۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ کانگریس کے کہنے کے مطابق صوبوں کو اختیار ہوگا کہ رفتہ رفتہ کامل آزادی حاصل کرلیں، یعنی وہ چاہیں تو مرکز سے بھی قطع تعلق کرلیں۔۱۰؎ یہ بھی تو ایک صورت پاکستان کے قیام کی ہوسکتی ہے۔‘‘ فرمایا ’’کیوں نہیں۔ لیکن مسلمان کچھ کریں بھی۔ مسلمان کچھ کرتے تو ہیں نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں انگریز ہندوستان سے ہرگز نہیں جائیں گے، لہٰذا اس قسم کی تجویزوں سے کیا حاصل!‘‘۱۱؎ ئ…ئ…ء حواشی ۱- مسلم لیگ کا اجتماع۔ ۲- جس کا ناقابلِ انکار ثبوت تقسیم ہند کے بعد مل گیا۔ بھارت کی بظاہر ’دنیاوی‘ حکومت ہر اعتبار سے مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کے خلاف ہے، خواہ اس کا تعلق زبان سے ہو، خواہ تہذیب و تمدن، خواہ اخلاق و معاشرت سے۔ سیاسی اعتبار سے تو مسلمانوں کا تشخص ختم ہوچکا ہے۔ ان کی حیثیت محض ایک اقلیت کی ہے، لیکن اس پہلو سے بھی ان کے شخصی قانون میں مداخلت جاری ہے۔ ۳- M. N.Roy، اسلامی تاریخ میں ایک مختصر سے رسالے Historical Role of Islam کے منصف اور بڑے منصف مزاج کمیونسٹ راہنما۔ تقسیم ملک سے پہلے ہی انتقال ہوگیا تھا۔ عرصہ دراز تک روس میں رہے۔ بمقابلہ کانگریس ان کا نقطۂ نظر کہیں زیادہ حقیقت پسندانہ تھا، لیکن مسلمانوں کی حمایت میں ان کی صدا صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ ۴- خطبۂ الٰہ آباد میں۔ ۵- جیسا کہ تقسیم ملک اور اس سے پہلے جو واقعات پیش آئے ان سے ثابت ہوگیا۔ سکھ ہندو ہیں اور نہیں بھی۔ اس لحاظ سے کہ ہندو مذہب اور معاشرے کی کوئی متعین شکل نہیں۔ وہ ہندوؤں ہی کی ایک فرع ہیں۔ ان کا رسم و رواج بھی وہی ہے جو ہندوؤں کا۔ باہم مناکحت اور ہر طرح کا میل جول بھی جاری ہے۔ قانوناً بھی ان کا شمار ہندوؤں ہی میں کیا جاتا ہے، ان معنوں میں کہ ان کا اپنا کوئی شخصی قانون نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ برطانوی عدالتوں نے بھی ان کی الگ تھلگ قانونی حیثیت تسلیم نہیں کی۔ لیکن وہ ہندوؤں سے الگ بھی ہیں اور اس کی وجہ پنجاب میں سکھ ریاستوں کی موجودگی اور سکھ راج کی یاد، لہٰذا ان کے مزعومہ حقوق! ثانیاً انگریزی حکومت کی یہ کوشش کہ انھیں ہندوؤں اور مسلمانوں کے مقابلے میں ایک تیسری سیاسی جماعت کی حیثیت سے کھڑا کیا جائے، چنانچہ گوردوارہ بل سے لے کر مسجد شہید گنج کے انہدام اور پھر مسجد کے انہدام سے تقسیم ملک تک سکھ سیاست کا گزر جن مرحلوں سے ہوا اور اس میں انگریزی حکومت نے جس طرح حسب مطلب ان کی مخالفت یا موافقت کی، سب اسی کوشش کی مختلف کڑیاں ہیں۔ ۶- لہٰذا جب تقسیم ملک کے سلسلے میں عام رائے شماری ہوئی تو اس تحریک کا زور ہمیشہ کے لیے ٹوٹ گیا۔ ۷- حضرت علامہ کو اس اَمر کی اطلاع کیسے ہوئی، میں یہ معلوم نہ کرسکا۔ مسلمانوں کو بہرحال دیر تک پنڈت جی سے حسن ظن رہا۔ دیکھیے استدراک آخر کتاب میں۔ ۸- I.C.S. اور P.C.S۔ ۹- بسبب اپنے ہندو اور سکھ رفقا کی موجودگی کے۔ ایک طرف ان کا احساس تفوق اور کامرانی تھا، دوسری جانب احساس شکست، یاس اور بے دلی۔ ۱۰- کانگریس اس مطلب کی ایک قرارداد منظور کرچکی تھی کہ حصول آزادی کے بعد صوبوں کو حق خود اختیاری حاصل ہوگا۔ لیکن ظاہر ہے کانگریس صوبوں کا نام لے رہی تھی، نہ کہ قوموں کا۔ اس کے نزدیک قوم ایک ہی تھی، یعنی ہندوستانی، جس سے ہندوؤں کی ہو نہ ہو، بحیثیت ایک قوم مسلمانوں کی بہرحال نفی ہوجاتی تھی۔ میں دراصل یہ سب کچھ اس خیال سے عرض کررہا تھا کہ اگر سرِدست مسلمان غیر متحد ہیں، عوام کی نظر سیاسی، معاشی زبوں حالی پر ہے اور تعلیم یافتہ نوجوانوں سے کہا جاتا ہے کہ انھیں اسلام کے پردے میں رجعت پسندی کا سبق دیا جارہا ہے تو کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ مسلمان مردانہ وار آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیں۔ یوں ان کے اندر زندگی بھی پیدا ہوجائے گی اور وہ حالات حاضرہ سے بھی بے تعلق نہیں رہیں گے۔ کانگریس کے مسلمان طرف دار بھی تو یہی کہتے تھے کہ اگر مسلمان یوں ہی خاموش بیٹھے رہے تو ہمیشہ رجعت پسندانہ جماعتوں کا شکار رہیں گے، حتیٰ کہ جب آزادی مل گئی تو وہ ان سیاسی اور معاشی تقاضوں کے مقابلے میں جو اس وقت پیدا ہوں گے اپنے آپ کو ناکام اور عاجز پائیں گے۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ مسلمان جب بھی متحد ہوکر آزادی کی جدوجہد میں شریک ہوتے ہندو ان سے الگ ہوجاتے، جیسے تحریک ترکِ موالات کی صورت میں ہوا۔ پھر جب تک لیگ مضبوط نہیں ہوئی اور مسلمان یاس و بے دلی کا شکار رہے، اس قسم کی تجویزیں اکثر ذہن میں آتیں جن کی اگر حضرت علامہ تائید بھی کرتے تو اس ارشاد کے ساتھ کہ مسلمان اُصولاً اور عملاً اپنا قومی تشخص بہر صورت برقرار رکھیں۔ ۱۱- لہٰذا ان کا انتشار و افتراق۔ ز…ز…ز جمعرات: ۳؍فروری دیر تک حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر رہا۔ ڈیڑھ دو بج گئے۔ حضرت علامہ کی طبیعت فی الجملہ اچھی ہے، مگر عوارض میں کوئی فرق نہیں۔ لہٰذا کوشش یہی رہی کہ حتی الوسع انھیں گفتگو کی زحمت نہ دی جائے۔ لیکن پھر یہ بھی تو ممکن نہیں کہ حضرت علامہ کے حضور سرتاسر خاموشی رہے، چنانچہ انھوں نے جب یہ دریافت فرمایا کہ آج کیا خبر ہے تو جاپان کی اس کوشش کا ذکر آگیا کہ عالمِ اسلام سے گہرے روابط قائم کیے جائیں۔ سوال یہ تھا کہ کیا جاپان کو اسلامی مشرق میں اثر و رسوخ پیدا کرنا اس لیے مقصود ہے کہ اقوام یورپ کی طرح اسے بھی سیاسی اور معاشی غصب و تغلب کا ایک راستہ مل جائے، یا اس لیے کہ مغربی شہنشاہیت اور اشتمالیت کے خلاف کوئی نیا محاذ قائم کرنا منظور ہے؟۱؎ حضرت علامہ نے فرمایا ’’اندریں صورت تو یہ بھی ممکن ہے کہ جاپان چین کے بعض حصوں میں ایک اسلامی ریاست قائم کرنے کی کوشش کرے اور یہ ریاست اس کے زیر اثر رہے۔‘‘ ارشاد ہوا ’’پچھلی صدی میں تو چینی ترکوں نے اپنی آزاد ریاست قائم کرلی تھی،۲؎ مگر انگریزوں نے انھیں کامیاب نہ ہونے دیا۔ دراصل وہ خود ہی جنوبی چین پر قبضہ کرنے کے درپے تھے۔‘‘۳؎ پھر کچھ تامل کے بعد فرمایا ’’یہ سیاسی جوڑ توڑ ہے۔ سیاسی جوڑ توڑ سے کچھ نہیں ہوتا۔ ہوگا تو یونہی کہ مسلمانوں کی سیاسی اور اجتماعی تحریکات میں اسلام کا رنگ پیدا ہو۔‘‘ ارشاد ہوا ’’ضرورت ہے اسلامی نظام مدنیت کے احیا کی۔‘‘۴؎ شام کو پھر حاضر خدمت ہوا۔ قرشی صاحب، راجا صاحب اور چودھری صاحب پہلے سے موجود تھے۔ دیر تک نشست رہی۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱- جاپان کی ہوس سلطنت اور جوع الارض نے جنگ عظیم (۱۸-۱۹۱۴) کے بعد جب چین اور منچوریا کا رُخ کیا تو اسلامی مشرق سے بھی تعلقات بڑھائے، حتیٰ کہ کوبے میں ایک مسجد بھی تعمیر ہوئی، پھر محوری طاقتوں سے مل کر دوسری عالمگیر جنگ (۴۵-۱۹۳۹) میں شرکت کی اور بالآخر بری طرح شکست کھائی۔ ان کوششوں کا سارا نقشہ ہمارے سامنے ہے۔ لیکن یہ اس وقت یعنی ۱۹۳۸ء کی بات ہے جب جاپانی طاقت انتہائے عروج پر تھی۔ ۲- مشرقی، یا چینی ترکستان اسلامی خطہ ہے جہاں صدیوں سے مسلمان برسراقتدار رہے، بجز اس زمانے کے جب سارا اسلامی مشرق چنگیزیوں کے قبضے میں آگیا تھا۔ ان سے استخلاص کے بعد اٹھارہویں صدی کے وسط تک یہاں پھر مسلمان آزادی سے حکومت کرتے رہے، تاآنکہ آپس کی خانہ جنگی میں ایک فریق نے چین سے امداد طلب کی۔ یہ ۱۷۵۸ء کا واقعہ ہے جب ایک چینی لشکر زنگیریا میں داخل ہوا اور آتے ہی قتل و غارت گری شروع کردی۔ مجبوراً اہلِ زنگیریا نے چین کی اطاعت قبول کرلی۔ رفتہ رفتہ خطا و ختن اور یارقند بھی اس کے قبضے میں آگئے اور سارے ملک میں جبر و قہر کا ایک ایسا دور شروع ہوا جس سے تنگ آکر کچھ لوگوں نے ترک وطن اور کچھ لوگوں نے چین کے خلاف جنگی کارروائی شروع کردی۔ اول ۱۸۲۵ء اور پھر ۱۸۴۹ء میں…لیکن ناکام رہے۔ اس پر آبادی کا ایک حصہ مغربی ترکستان میں ہجرت کرگیا۔ ۱۸۵۷ء میں یعقوب خان نے چینیوں کے خلاف نہایت کامیابی سے جنگ کی اور ایک صدی کی غلامی کے بعد چینی ترکستان پھر آزاد ہوگیا، لیکن ۱۸۶۴ء میں چینی پھر اس پر قابض ہوگئے۔ اب ایک طرف روس اور دوسری جانب چین کا زور بڑھنے لگا حتیٰ کہ یہ اسلامی خطہ سنکیانگ کے نام سے چینی سلطنت کا ایک جز بن گیا اور اب تک ہے۔ پچھلی جنگ عظیم میں یہاں ایک انگریز نو مسلم خالد شیلڈرک نے اسلامستان کے نام سے ایک آزاد حکومت کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ لیکن وہ ایک بے سروپاسی بات تھی کہ ادھر سننے میں آئی اور اُدھر ختم ہوگئی۔ ۳۳-۱۹۳۲ء میں البتہ چینی حکومت کے خلاف ایک مسلمان سردار لشکر نے خروج کیا، مگر ناکام رہا۔ یہ سردار لشکر بڑا کم سن تھا اور اس کا نام بھی چینی تھا۔ گو ٹھیک معلوم نہیں ہوسکا کہ تھا کون۔ اس کی شخصیت بڑی پر اسرار تھی اور اس کی کاروائیوں سے حکومت بھی دیر تک پریشان رہتی۔ ملاحظہ ہو اس سلسلے میں حضرت علامہ کا بیان ان کے مجموعۂ مضامین و بیانات و تقاریر میں (مرتبہ سیّد عبدالواحد، جسے شیخ محمد اشرف نے ۱۹۶۵ء میں شائع کیا)۔ ۳- تبت دیر تک برطانوی حلقۂ اثر (Sphere of Indluence) میں رہا، چنانچہ بھارت اور چین کی موجودہ کشمکش بھی دراصل اسی خط (line)کا نتیجہ ہے جو برطانوی حکومت نے کبھی ہندوستان اور چین کے درمیان حد بندی کے لیے کھینچا تھا۔ ۴- اور یہ وہ اَمر ہے جس پر اس وقت کسی کی توجہ نہیں تھی۔ شنبہ: ۵؍فروری چاشت کے قریب حاضر ہوا۔ حضرت علامہ تکیوں کا سہارا لیے حقے کے کش لے رہے تھے۔ علی بخش پانیتی کی طرف بیٹھا ان کے پاؤں داب رہا تھا۔ میں نے سلام عرض کیا اور مزاج پوچھا تو حسبِ معمول فرمایا ’’الحمدللّٰہ۔ اچھا ہوں۔ رات کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔‘‘ لیکن میں نے دیکھا حضرت علامہ کچھ مضمحل سے ہیں۔ عرض کیا ’’کیا قرشی صاحب تشریف لائے تھے؟‘‘ فرمایا ’’ہاں نبض دیکھ گئے ہیں۔ لیکن اب کچھ بے چینی سی ہے۔‘‘ میں نے کہا ’’عرق گل گاؤزبان موجود ہے دو ایک گھونٹ پی لیجیے۔‘‘ ارشاد ہوا ’’ٹھیک ہے۔ مجھے اس کا خیال ہی نہیں آیا تھا۔ علی بخش! عرق لے آؤ۔‘‘ علی بخش اُٹھا۔ حضرت علامہ نے عرق پیا۔ طبیعت قدرے بحال ہوئی تو کچھ دیر سستاکر فرمایا ’’آج کیا خبر ہے؟‘‘ میں نے کانگریس کی مجلس عاملہ کا حال بیان کیا تو اس قرارداد کا ذکر آگیا جس کا مفاد یہ تھا کہ پنڈت جواہر لال نہرو اور گاندھی جی مسٹر جناح سے خط و کتابت کریں گے۔ ارشاد ہوا ’’میں نے جناح کو لکھ دیا ہے تین باتوں پر خاص طور سے زور دیں: (۱)آئینی تحفظات، (۲)سندھ کا الحاق پنجاب سے اور (۳)شخصی اور دیوانی قوانین کی برقراری۔‘‘ شام کو پھر حاضر ہوا۔ ہٹلر کی سامیت دشمنی کے سلسلے میں یہود کی نسلی عصبیت کا ذکر آگیا۔ یہود ہیں تو سامی لیکن سب کے سب بنی اسرائیل نہیں ہیں۔ ان میں اور بھی سامی عناصر شامل ہیں جو امتداد زمانہ کے ساتھ ایک نسلی سیاسی جماعت بن گئے اور ارض فلسطین (ارض موعود) کی بازیابی ان کا نصب العین قرار پایا، اس لیے کہ کوئی بھی سیاسی گروہ ہو اپنی ہستی جب ہی قائم رکھ سکتا ہے کہ اسے کوئی خطۂ ارض مل جائے۔ ارشاد ہوا ’’یہی وجہ ہے کہ اس تحریک کا انتساب جبل صیہون ہی سے ہوسکتا تھا۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’اس آیت کی تاریخی حیثیت کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان کا ایک گروہ حضرت عیسٰی علیہ السلام پر ایمان لایا اور ایک نے انکار کیا۔ سو جو لوگ ایمان لائے اللہ نے ان کے دشمنوں کے خلاف ان کی تائید کی اور وہ فتح مند ہوکر نکلے۔‘‘۱؎ ارشاد ہوا ’’یہود بہت سے قبائل میں منقسم تھے۔ ممکن ہے ان کی کسی جنگ کی طرف اشارہ ہو۔‘‘ قرشی صاحب آگئے، چودھری صاحب اور راجا صاحب بھی۔ حضرت علامہ کی طبیعت صبح کی بہ نسبت زیادہ ہشاش بشاش تھی۔ حسبِ معمول روزِ مرہ سیاست پر گفتگو چل نکلی۔ دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱- فَاٰمَنَتْ طَائِفَۃٌ مِنْ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ وَکَفَرَتْ طَائِفَۃٌ فَاَیَّدْنَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا عَلَی عَدُوِّھِمْ فَاَصْبَحُوْا ظَاہِرِیْنَ-۶۱ (الصف): ۴۔ ز…ز…ز یک شنبہ: ۶؍فروری آج گفتگو خلافِ ارادہ بڑی طویل رہی۔ قرشی صاحب حسبِ معمول نبض دیکھ گئے تھے۔ پھر چودھری صاحب آگئے۔ وہ اُٹھ کر جاہی رہے تھے کہ میں حاضر خدمت ہوگیا۔ گفتگو یہی تھی کہ ملک کا کیا حال ہے؟ یورپ میں کیا ہورہا ہے؟ چودھری صاحب گئے تو میں نے یہ بحث چھیڑ دی کہ ہٹلر کے نزدیک مشرق سے کسی سیاسی بیداری کی توقع نہیں اور مشرقی نسلیں اس قابل ہی نہیں کہ ان کا کوئی مخصوص قومی اور ملی نصب العین ہو جس کے لیے وہ جدو جہد کریں۔۱؎ میں نے عرض کیا ’’ہٹلر کا یہ کہنا کہاں تک صحیح ہے؟ کیا مشرقی نسلوں میں فی الواقعہ عزم وہمت کا خاتمہ ہوچکا ہے؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ ان کا اپنا کوئی نصب العین ہو؟‘‘ فرمایا ’’بظاہر تو کچھ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔ مشرق پر صدیوں سے انحطاط طاری ہے۔ لیکن یہ بات ہے غلط۔ ترک، عرب، افغان نسلاً اہلِ جرمنی سے کہیں بہتر ہیں۔‘‘۲؎ میں نے عرض کیا ’’مغرب کا یہ نسلی غرور ہی شاید اس ٹھیک یا غلط خیال کا سرچشمہ ہے کہ یورپین قوموں کے نزدیک مشرقی قوموں کا نیست و نابود ہو جانا ہی بہتر ہے۔‘‘ فرمایا ’’تم کہنا کیا چاہتے ہو؟ تمھارا سوال غیر واضح ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ فرض کیجیے ہٹلر ایک مثالی جرمن ریاست قائم کرلیتا ہے، جیسا کہ بزعم خود اس نے قائم کرلی ہے۔ اب اہلِ مشرق تو کہیں رہے، اس کے نزدیک بعض مغربی اقوام بھی اس قابل نہیں کہ اس ریاست کا جز بن سکیں۔ وہ نسلاً جرمنوں سے کم تر ہیں، لہٰذا اس نظام معاشرت کا ساتھ نہیں دے سکتیں جو ہٹلر اپنے زیر تفوق قائم کرنا چاہتا ہے۔ ان کی موجودگی تہذیب و ترقی کے راستے میں حارج ہے۔ اگر یہ بات ٹھیک ہے تو اس طرح کا نسلی عنصر کیا ریاست کے لیے فساد و ہلاکت کا باعث نہیں ہوگا؟‘‘ فرمایا ’’کیسے؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’یوں کہ یہ ایک جامد اور رجعت پسند عنصر ہوگا، لہٰذا ریاست اس کی موجودگی برداشت نہیں کرے گی۔ اندریں صورت ہم کیا کہیں؟ ایسی نسلوں کا انجام کیا ہونا چاہیے؟‘‘ ارشاد ہوا ’’لیکن تم جو بات کہنا چاہتے ہو ابھی تک نہیں کہی۔ تم نے کچھ مقدمات قائم کیے ہیں۔ نتیجہ کیا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’یہی کہ یا تو برتر کمتر کی ہستی مٹا دے، یا کمتر ریاست پر چھا جائے۔ مگر بظاہر ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا، اس لیے کہ کمتر کے معنی ہی یہ ہیں کہ برتر کے مقابلے میں عاجز رہے۔‘‘ حضرت علامہ نے فرمایا ’’یا؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’یا یہ کہ برتر کمتر کو اپنے اندر جذب کرلے۔ مگر یہ تجربہ زیادہ کامیاب نہیں رہتا۔ تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ اس کوشش میں بالعموم کم تر نسل کے معائب برتر نسل میں پھیل گئے۔ ایسا بہت کم ہوا کہ کمتر نسل برتر نسل کی خوبیوں کا اکتساب کرتے ہوئے اپنے آپ کو ان کی سطح پر لے آئی۔ لہٰذا اگر کسی نصب العین کے پیشِ نظر ضروری ہے کہ نسلی امتیازات قائم اور برقرار رہیں تاکہ اس کے حصول کی جدوجہد میں فرق نہ آئے تو نسل کا مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ دنیا ہمیشہ نسلوں میں بٹی رہے اور نوعِ انسانی کی باہم دگر آویزش اور سلسلۂ جنگ وجدال کبھی ختم نہ ہو۔‘‘ ارشاد ہوا ’’تم چاہتے ہو نسل کا مسئلہ ایک دن میں حل ہوجائے۔ یہ مسئلہ ان معنوں میں تو حل ہورہا ہے کہ اب کسی نسل کا خالصتاً کوئی وجود نہیں، نسلی تعصبات البتہ قائم ہیں۔ مگر پھر سوال یہ ہے کہ اگر کسی نسل کے کچھ خاص فضائل میں توان کے تحفظ میں حرج ہی کیا ہے؟‘‘۳؎ میں نے عرض کیا ’’مطلق نہیں، بشرطیکہ ان فضائل سے ایک خالصتاً انسانی معاشرہ تعمیر ہوسکے۔‘‘ ارشاد ہوا ’’درست ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسلام نے شعوب و قبائل کی موجودگی سے انکار نہیں کیا،۴؎ البتہ تفوق اور برتری کی بنا تقویٰ پر رکھی۵؎… بلکہ نسلی تفوق اور برتری کا یہ کہ کر خاتمہ کردیا کہ زبان اور رنگ کا اختلاف بھی اللہ تعالیٰ کی ایک آیت ہے۔۶؎ اب اگر تقویٰ مدار عمل ٹھہرے تو نسلی برتری اور کمتری، علیٰ ہٰذا نسلی تعصبات اور نسلی آویزش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا۔‘‘ میں نے عرض کیا، آپ کا ارشاد بجا ہے، لیکن مجھے صرف یہ خلش ہے کہ جب تقویٰ مدار عمل ہے تو ریاست یعنی اسلامی ریاست، کس نہج پر قدم اُٹھائے، یعنی وہ کیا ذرائع ہوں گے کہ اگر ان کو اختیار کیا گیا تو نسلوں کی موجودگی کے علی الرغم نسلی امتیازات کا خاتمہ ہوجائے گا؟‘‘ فرمایا ’’فاروق اعظم کی مثال تمھارے سامنے ہے۔ ریاست کا وجود جب ہی قائم رہتا ہے کہ ہر طرح کی صلاحیتوں سے کام لیا جائے۔ گویا اس کی نظر فضائل پر ہو، افراد پر نہ ہو۔ افسوس ہے آگے چل کر مسلمانوں نے اس مثال سے فائدہ نہیں اُٹھایا۔۷؎ عربوں کے نسلی خصائص جس قدر اسلام کے لیے مفید ثابت ہوئے اتنا ہی ان کی نسلی عصبیت سے نقصان پہنچا۔‘‘۸؎ میں نے عرض کیا ’’اس سلسلے میں ایک بڑی دل چسپ بات یہ ہے کہ ابن خلدون ایسے آزاد خیال مفکر کے نزدیک بھی ایک عرب خاتون کی شادی ایرانی مرد سے نہیں ہوسکتی۔‘‘۹؎ ارشاد ہوا ’’اسلام نہ کسی عورت کو کسی مرد سے نکاح کرنے پر مجبور کرتا ہے نہ روکتا۱۰؎ ہے۔ یہ معاملہ ان کی اپنی پسند کا ہے۔ لہٰذا اسلام کا فیصلہ ہے کہ ایک مسلمان عورت جس مسلمان مرد سے چاہے شادی کرسکتی ہے۔ اس نے یہ بات ہر شخص کے ذاتی انتخاب پر چھوڑ دی ہے جس میں ممکن ہے وہ غلطی بھی کرے۔ لیکن پھر انسان کا کونسا عمل ہے جس میں غلطی اور خطا کا احتمال نہیں۔ بہرحال ہندوستان میں مغلوں نے راجپوت شاہزادیوں سے محض اس لیے شادیاں کیں کہ راجپوت ایک جنگ جو قوم ہیں۔ مغل سمجھتے تھے کہ ان سے ازدواجی تعلقات قائم کیے گئے تو مغلوں کے نسلی خصائل کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔‘‘۱۱؎ قدرے سکوت کے بعد پھر ارشاد ہوا ’’نسل کا مسئلہ خاصا پریشان کن ہے۔ لیکن اب کونسی نسل محفوظ ہے؟ اسلام نے شادی بیاہ کے ذریعے نسلی تعصبات کو بڑی حد تک ختم کردیا۔ یوں بھی نسلیں کب سے خلط ملط ہورہی ہیں، جس کی ایک وجہ خفیہ جنسی تعلقات بھی ہیں، گو یہ اَمر اپنی جگہ پر افسوس ناک ہے۔ بہرحال اب ’خالص نسلیت‘ کا کہیں وجود نہیں۔ خالص نسلیت کا دعویٰ محض ایک افسانہ ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ نسلی امتیازات ابھی دیر تک قائم رہیں گے۔ البتہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب یہ امتیازات ختم ہوگئے اور انسانوں کی ایک مخلوط نسل پیدا ہوئی تو اس کی شکل کیا ہوگی؟ کچھ جسم کی ظاہری ہیئت بدلے گی۔ کچھ ذہن بدلیں گے۔ کچھ سیرت اور کردار میں ہم آہنگی پیدا ہوگی۔ رفتہ رفتہ سب کے دل و دماغ ایک خاص رنگ میں رنگے جائیں گے۔ ان کا اپنا ایک جداگانہ تشخص اور شعور ہوگا۔ مگر یہ تبدیلیاں کیسے پیدا ہوں گی؟ نوعِ انسانی کو اس عمل میں کن کن مرحلوں سے گزرنا ہوگا؟ اس کا تصور مشکل ہے۔‘‘ پھر فرمایا کبوتر ہی کو دیکھ لو۔۱۲؎ یہ گھریلو بھی ہے اور جنگلی بھی۔ گھریلو کبوتر جنگلی کبوتر ہی کی نسل سے پیدا ہوا۔ مگر کیسے؟ اس کا کسی کو علم نہیں۔‘‘۱۳؎ میں نے عرض کیا ’’اگر نسلوں کے خلط ملط سے کوئی اچھی توقع ہوسکتی ہے تو ہمیں اس سلسلے میں عملاً قدم اُٹھانا پڑے گا۔‘‘ فرمایا ’’اسلام اس سلسلے میں عملاً قدم اُٹھا چکا ہے۔۱۴؎ ہمیں اسلامی طریقِ زندگی اختیار کرنا چاہیے۔ اسلام کی نظر فرد کے ذاتی شرف پر ہے، حسب و نسب پر نہیں ہے۔ نسل اور رنگ کا اختلاف کوئی عیب کی بات نہیں۔ قرآن پاک نے اس کا شمار آیات الٰہیہ میں کیا ہے، البتہ ہمیں اس باب میں اقل قلیل مزاحمت۱۵؎ سے کام لینا چاہیے۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’مجھے صرف اس مسئلے کا حل مطلوب تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اسلامی ریاست میں سب ہی قسم کی نسلوں کے افراد شامل ہوں گے۔ اب اگر بعض اعلیٰ خصائص اور فضائل کے پیشِ نظر، مثلاً باعتبار شجاعت و حمیت، یا سیاست فہمی کے کسی خاص نسل کی پاسداری منظور ہوئی تو دوسری نسل میں اس کے خلاف بغض و حسد کے جذبات پیدا ہوجائیں گے۔ لیکن اگر پاس داری نہیں کی جاتی تو ریاست فہمی ایسے فضائل موجود ہیں۔ اندریں صورت یا تو یہ ہوگا کہ ہم ریاست کا وجود خطرے میں ڈال دیں، یا پھر وہی نسلی امتیازات قائم ہوتے چلے جائیں گے۔‘‘ ارشاد ہوا ’’اگر ریاست کا زور فضائل پر ہے اور اس کے ساتھ وہ افراد کی اخلاقی تربیت بھی کررہی ہے تو اس صورتِ حال کا تدارک ممکن ہے۔ البتہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو بتدریج رونما ہوگا۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’لنڈن ٹائمز نے لکھا ہے کہ عالمِ اسلام میں اس وقت نسلی تفریق کا غلبہ ہے۔‘‘ فرمایا مجھے ٹائمز کی رائے سے اتفاق نہیں۔ یہ تفریقات کچھ تو کہنے والوں کے اپنے ذہن کی اور کچھ مغربی سیاست کی پیدا کردہ ہیں۔۱۶؎ تم یورپ نہیں گئے ورنہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے کہ ایک جرمن کو ایک انگریز سے باوجود اشتراک تہذیب و تمدن وہ تعلق خاطر نہیں جو ایک افغان کو ترک سے ہے اور یہ باوجود عالمِ اسلام کے انحطاط اور اس اَمر کے کہ مسلمانوں کا رابطہ ایک دوسرے سے کٹ گیا ہے، لیکن وہ ملتے ہیں تو بچھڑے ہوئے بھائیوں کی طرح۔‘‘۱۷؎ میں نے عرض کیا ’’آپ کا ارشاد بجا ہے اور میں اس سے یہ سمجھا ہوں کہ ہمیں تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ نسلی عصبیت اور نسلی تعصب میں فرق کریں تاکہ نسلی تعصبات کا رفتہ رفتہ ازالہ ہوجائے۔‘‘ ارشاد ہوا ’’عصبیت تو بہرحال اسلامی ہونی چاہیے۔ رہے نسلی تعصبات، سو یہ جیسا کہ میں نے کہا ہے ایک دن میں دور نہیں ہوںگے۔ اس کے لیے صبر اور محنت کی ضرورت ہے۔ ہماری کوشش بہرحال یہ ہونی چاہیے کہ اپنے دل و دماغ اور سیرت و کردار میں وہ رنگ پیدا کریں جس کی اسلام نے تلقین کی ہے اور جس میں شریعت کا اتباع لازم ٹھہرتا ہے۔‘‘۱۸؎ میں نے عرض کیا ’’جناب فاروق اعظم کا کردار سرتاسر اسلامی تھا، مگر آپ کے اسی کردار سے آگے چل کر نسلی تعصب کا جواز پیدا کیا گیا۔‘‘ ارشاد ہوا ’’یہ صحیح ہے۔ لیکن پھر کون سی حق بات ہے جس سے باطل کا کام نہیں لیا جاتا۔ میرا جواب بہرحال یہی ہے کہ اگر عباسی اور اُموی حکومتوں نے ایسا کیا تو بڑی غلط بات کی۔ ان کا کردار فاروقی ہونا چاہیے تھا۔‘‘۱۹؎ اتنے میں نواب شاہ نواز خان۲۰؎ تشریف لے آئے۔ میں تعظیماً اُٹھ کھڑا ہوا۔ حضرت علامہ نے بھی بستر میں ذرا سیدھے بیٹھتے ہوئے ان کا خیر مقدم کیا، بڑے تپاک سے ملے اور مزاج پوچھا۔ لیکن میں نے دیکھا باہر صحن میں حضرات سالک و مہر کھڑے ہیں، جیسے کسی کا انتظار ہو، چنانچہ تھوڑی ہی دیر میں ایک گاڑی صحن میں داخل ہوئی اور نواب مظفر خان، سیّد محمد علی جعفری، سیّد محسن شاہ۲۱؎ اور دو ایک اور حضرات گاڑی سے نکل کر برآمدے میں داخل ہوئے۔ علی بخش آگے بڑھا اور انھیں نشست گاہ میں بٹھا دیا۔ پھر اندر آکر اطلاع کی۔ معلوم ہوا شہید گنج کے سلسلے میں اپیل کا مسئلہ مشورہ طلب ہے۔ حضرت علامہ اُٹھے اور نشست گاہ میں تشریف لے گئے اور مجھ سے فرمایا ’’ان حضرات کو تخلیے کی ضرورت ہے، لیکن تم انتظار کرو۔ اشعار نقل کیے بغیر نہ جانا۔‘‘ میں حضرت علامہ کی خواب گاہ سے نکل کر باہر صحن میں آبیٹھا۔ دیر تک بیگم حسین۲۲؎ سے باتیں ہوتی رہیں۔ مگر جب وقت زیادہ ہوگیا تو علی بخش سے معذرت کردی۔ میں نے کہا ’’صبح سویرے حاضر خدمت ہوجاؤں گا۔ شام کو شاید موقع نہ ملے۔‘‘ ئ…ئ…ء حواشی ۱- ہٹلر کو اس اَمر سے تو انکار نہیں تھا کہ مشرق میں طرح طرح کی سیاسی تحریکیں جاری ہیں اور اقوام مشرق اپنے اپنے مقاصد کے لیے جدوجہد کررہی ہیں۔ لیکن ایک تو ہٹلر کا غرور نسل ان کو خاطر میں نہیں لاتا تھا، دوسرے وہ روسی اشتمالیت، فرانسیسی جمہوریت اور برطانوی شہنشاہیت سے جس قسم کی ٹکر لینا چاہتا تھا اس میں اقوام مشرق کی تائید و حمایت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، نہ اسے ان کے مقاصد سے کوئی ہم دردی تھی۔ ۲- مقابلتاً۔ ترکوں، عربوں اور افغانوں کے نسلی خصائص پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، لیکن اس نقطۂ نظر سے نہیں کہ ایک خالصتاً عالمگیر انسانیت کی تعمیر میں وہ اپنے مخصوص نسلی فضائل کو قائم رکھتے ہوئے کس طرح حصہ لے سکتے ہیں۔ اس موضوع پر بہ تحقیق قلم اُٹھایا جائے تو یہ مطالعہ بڑا مفید ثابت ہوگا۔ ۳- گویا سارا مسئلہ فضائل کی حفاظت اور رذائل کے ازالے کا ہے، کیونکہ از روے فطرت سب انسان ایک ہیں۔ لہٰذا اگر وہ اسباب باقی نہ رہیں جن سے نسلی تعصبات کو تحریک ہوتی ہے تو ایک ہم رنگ اور اعلیٰ کردار انسانیت کا ارتقا ممکن ہے جس کا اپنا ایک شعور ذات ہو۔ ۴- یٰاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا-۴۹ (الحجرات):۱۳۔ ۵- إنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ-۴۹ (الحجرات): ۲۲۔ ۶- وَمِنْ آیٰتِہِ خَلْقُ السَّمٰوَاتِ وَ الَارْضِ وَاخْتِلَافِ اَلْسِنَتِکُمْ وَاَلْوَانِکُمْ-۳۰ (الروم):۲۲۔ ۷- بلکہ اسے غلط معنی پہنائے۔ یہ ایک اور نقطۂ نظر ہے جس کے ماتحت جناب فاروق اعظم کی تدابیر نظم و نسق اور عملداری کا مطالعہ ضروری ہے۔ ۸- اسلام اور مسلمانوں ہی کو نہیں، خود عربوں کو بھی۔ ۹- جعفر برمکی اور عباسہ کے خفیہ نکاح کے بارے میں جو روایت مشہور ہے اس کی تردید کرتے ہوئے ابن خلدون نے لکھا ہے کہ منجملہ اور بہت سی باتوں کے جن کی بنا پر یہ روایت سرتاسر لغو اور بے بنیاد ٹھہرتی ہے یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ایک عرب خاتون کی شادی، جس کا تعلق خاندان خلافت سے تھا، ایک ایرانی مرد سے… خواہ اس کا مرتبہ کیسا بھی بلند ہو… کیسے ہوسکتی تھی۔ ملاحظہ ہو ’مقدمہ‘۔ ۱۰- اس مصلحت کی بنا پر کہ ازدواج بھی ایک بہت بڑا ذریعہ ہے عالم گیر انسانیت کی تشکیل اور نسلی اور جغرافی عصبیتوں کے ازالے، بلکہ ایک ایسی نسل پیدا کرنے کا جو صرف فضائل اخلاق سے بہرہ مند ہو۔ اس سلسلے میں اسلامی قانون ازدواج کا بہ نگاہ غائر مطالعہ کرنا ضروری ہے، اسلامی، نہ کہ محض رائج الوقت فقہی نقطۂ نظر سے، تاکہ ہم سمجھ لیں کہ اسلام نے ازدواج کو کیا حیثیت دی ہے۔ ۱۱- شاید اس بنا پر کہ وہ شبہ اہلِ کتاب ہیں، لہٰذا حکومت ان سے جزیہ لیتی تھی۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اگر راجپوت مسلمان ہوجاتے تو مغلوں کو شاید انھیں بیٹیاں دینے سے بھی انکار نہ ہوتا؟ ۱۲- حضرت علامہ ’’کو کبوتروں سے بڑی دل چسپی تھی، بلکہ ایک زمانے میں انھوں نے خوب خوب کبوتر پال رکھے تھے۔ یہ شوق انھیں بچپن ہی سے تھا۔ جس میں راقم الحروف کے برادر عم زاد سیّد محمد تقی مرحوم بھی ان کے شریک تھے۔ اس سلسلے میں ایک دل چسپ واقعہ یہ ہے کہ راقم الحروف جب قیام دہلی میں پہلی مرتبہ مولانا عبدالسلام نیازی مرحوم و مغفور کی خدمت میں حاضر ہوا اور بسلسلۂ تعارف ان سے حضرت علامہ سے میرے تعلق کا ذکر کیا گیا تو کہنے لگے ’’میں ان کے علم و فضل کا قائل ہوں، لیکن یہ خودی کیا چیز ہے؟ میں خودی کو نہیں سمجھا۔ تم سمجھاؤ خودی ہے کیا؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’میں یہ جرأت کیسے کرسکتا ہوں کہ آپ کے سامنے زبان کھولوں۔ یوں بھی جب بایں علم و فضل آپ نہیں سمجھے کہ خودی کیا ہے تو مجھ ایسا کم علم انسان اسے کیا سمجھے گا۔‘‘ اس پر مولانا مسکرا کر کہنے لگے ’’اقبال نے جب اسرار خودی لکھی اور اس کا ایک نسخہ ہمیں بھیجا تو ہم نے اس کی بڑی تعریف کی اور ہم واقعی سمجھتے ہیں کہ ہندوستان میں ان کے علم و فضل کو کوئی نہیں پہنچتا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں جو بصیرت دی ہے، کسی کو نہیں ملی۔ لیکن جب ہم نے انھیں لکھا کہ یہ جو آپ نے بار بار خودی کی طرف اشارہ کیا ہے تو ہم نہیں سمجھے خودی کیا ہے؟ ہمیں سمجھا دیجیے، تو اس کے جواب میں انھوں نے فرمایا ہمارے پاس کبوتروں کا ایک نہایت اعلیٰ جوڑا ہے، اجازت ہو تو آپ کی خدمت میں پیش کردیا جائے۔‘‘ اتنا کَہ کر مولانا نے سامعین کی طرف دیکھا اور کہنے لگے ’’ہم ان کا مطلب سمجھ گئے۔‘‘ مولانا شدت سے وحدت الوجود کے قائل تھے۔ حضرت علامہ شاید انھیں یہ سمجھا رہے تھے کہ جس چیز کے بارے میں آپ تجاہلِ عارفانہ سے کام لے رہے ہیں وہی بار بار اور نئے سے نئے روپ میں آپ کے سامنے آتی رہتی ہے۔ یہی خودی ہے۔ مولانا کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ ۱۳- ممکن ہے کوئی ماہر حیوانات حضرت علامہ کے اس ارشاد پر نظر ڈال سکے جو انھوں نے گھریلو کبوتروں کے بارے میں فرمایا۔ ۱۴- تاکہ ان سب عوامل کی نفی ہوتی رہے جو اخلاقی اور اجتماعی، یا نفسیاتی اعتبار سے نسلی تعصبات کو ہوا دیتے ہیں۔ ۱۵- حضرت علامہ نے یہ الفاظ انگریزی میں فرمائے تھے: Line of least resistance۔ اس سلسلے میں ملاحظہ ہو حضرت علامہ کا بیان، بعنوان اسلام اور احمدیت۔ ۱۶- اور جن کو مستشرقین نے بظاہر بڑے معصومانہ انداز میں ہوا دی، مثلاً براؤن نے تاریخ ادبیات ایران اور بلنٹ نے اہلِ نجد پر قلم اُٹھاتے ہوئے۔ ۱۷- اور یہ واقعہ ہے کہ اسلام سے بڑھ کر دنیا کی کوئی تحریک، حتیٰ کہ عصر حاضر میں اشتمالیت بھی نسلی تعصبات کا خاتمہ نہیں کرسکی۔ اسلامی ریاست اپنی اساس سے ہٹ گئی، ملوکیت اور شہنشاہیت نے نسلی تعصبات کو ہوا دی، ہوس اقتدار نے نسل اور برادری کے نام پر سیاسی برادریاں قائم کردیں۔ بایں ہمہ اخوت اسلامی کا جذبہ ان سب باتوں پر غالب آیا اور عالمِ اسلام میں نہ ذہناً، نہ از روے تہذیب و تمدن وہ اختلاف و افتراق رونما ہوا جس کا تعلق نسلی تعصبات، عداوت اور منافرت سے ہے اور جس کا اظہار یورپ کی تاریخ میں برابر ہوتا رہا اور آج بھی احوال عالم میں ہر کہیں ہورہا ہے۔ دراصل اخوت انسانی کے کچھ معنی ہیں اور اس کا عملی حصول کا کوئی ذریعہ ہے تو صرف اسلام اور یہ وہ حقیقت ہے جس کا اہلِ مغرب کو بھی اعتراف ہے۔ دیکھیے اس سلسلے میں تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، نیز حضرت علامہ کے مضامین اور متفرق ارشادات، بیانات اور مکتوبات: اسلام ہی ہمارا وطن ہے اور اسلام ہی ہماری نسل، جیسا کہ حضرت سلمان فارسیؓ نے فرمایا تھا تھا: مسلمان ابن اسلام ابن اسلام۔ اسلام قید وطن سے آزاد ہے۔ اس کا مقصد ہے ایک ایسے انسانی معاشرے کی تشکیل جو مختلف نسلوں اور قوموں کو باہم جمع کرتے ہوئے ایک ایسی اُمت تیار کرے جس کا اپنا ایک مخصوص شعور ذات ہو۔ ۱۸- گویا شریعت کا اتباع ہی نسلی تعصبات کے ازالے کا واحد ذریعہ ہے اور اسی سے گریز ان کی موجودگی کا سب سے بڑا سبب۔ لیکن ضرورت اس اَمر کی ہے کہ شریعت کی ترجمانی انفرادی اور اجتماعی دونوں پہلوؤں سے کی جائے۔ ۱۹- حتیٰ کہ خلافت اسلامیہ کا صحیح انتساب بھی قائم نہ رہا، یعنی بجاے خلافت اسلامیہ کے خلافت بنو امیہ، خلافت عباسیہ، خلافت فاطمیہ اور خلافت عثمانیہ کی اصطلاحیں وضع ہوئیں۔ ۲۰- مرحوم، والی ممدوٹ۔ ۲۱- یہ حضرات محتاج تعارف نہیں۔ ۲۲- Dora Landwehr، حضرت علامہ کے یہاں بچوں کی گورنس۔ ز…ز…ز دو شنبہ: ۷؍فروری حسب قرار داد علی الصبح حاضر ہوگیا۔ ابھی آٹھ بھی نہیں بجے تھے۔ حضرت علامہ نے فرمایا ’’اتنی سویرے کیسے آنا ہوا؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’کل کے مشورے نے بہت طول کھینچا۔ آپ کا ارشاد تھا اشعار نقل کیے بغیر نہ جاؤں، لیکن ایک تو وقت زیادہ ہوگیا تھا، دوسرے مجھے کچھ کام تھا اس لیے ٹھہر نہ سکا۔ میں نے علی بخش سے کَہ دیا تھا صبح جلدی حاضر ہوجاؤں گا؟‘‘ میں نے بیاض اُٹھائی تو حضرت علامہ نے سرہانے کی طرف پلنگ کے ساتھ لگی ہوئی تپائی سے کاغذ کا ایک پرزہ اُٹھایا جس پر کہیں کہیں ایک آدھ لفظ درج تھا۔ پھر اس پر نظر ڈالی اور فرمایا ’’لکھو۔‘‘ میں نے قلم ہاتھ میں لیا تو حضرت علامہ نے یکے بعد دیگرے ایک ایک شعر لکھوانا شروع کیا۔ یہ چھ شعروں کی ایک نظم تھی۱؎ جسے میں نے درج بیاض کردیا۔ پھر عرض کیا ’’کل کا مشورہ کیسا رہا؟‘‘ ارشاد ہوا ’’کل یہ لوگ بہت دیر تک بیٹھے رہے۔ ان کا خیال پریوی کونسل میں اپیل دائر کرنے کا ہے۔ لیکن میں نے ان کی رائے سے اتفاق نہیں کیا۔ میں نے تو صاف صاف کَہ دیا تھا میں اس کے خلاف ہوں۔‘‘ اتنے میں چودھری صاحب آگئے۔ وہ بڑے برافروختہ معلوم ہوتے تھے۔ السلام علیکم کے بعد انھوں نے انقلاب اور زمیندار تپائی پر رکھ دیے اور کہنے لگے ’’ذرا دیکھیے تو، انقلاب نے کیا خبر شائع کردی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کل کا مشورہ ایک چال تھا اور وہ یہ کہ جاوید منزل کی اس ملاقات کو جلسے کا نام دے کر یہ ظاہر کیا جائے کہ آپ بھی پریوی کونسل میں اپیل دائر کرنے کے حق میں ہیں۔‘‘ اس پر حضرت علامہ کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا اور ان کی زبان سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے: ’’ھذا بہتان عظیم۔‘‘ فرمایا ’’چودھری صاحب! اس خبر کی فوراً تردید ہوجانی چاہیے۔ میں ہرگز اپیل کے حق میں نہیں ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں یہ حضرات دیر تک بیٹھے آپس میں مشورہ کرتے رہے، لیکن میں نے معذرت کردی تھی۔ میں تو جلد ہی اُٹھ کر پلنگ پر آلیٹا تھا۔ پھر جب یہ حضرات گئے تو اتنا ضرور کہتے گئے کہ ہماری رائے اپیل کرنے کی ہے، لیکن میں نے مکرر اپنی رائے کا اظہار کردیا تھا کہ میں اس کے خلاف ہوں۔‘‘ حضرت علامہ نے بات ختم کی تو ہمارے تعجب کی کوئی انتہا نہ رہی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا انقلاب اور زمیندار نے ایسی غلط بیانی کس لیے کی۔ یہ بڑی غیر ذمہ داری کی بات تھی۔ زمیندار کی طرف سے تو خیر کہا جاسکتا تھا کہ اسے جیسی اطلاع ملی شائع کردی، لیکن انقلاب نے ایسا کیوں کیا؟ مدیران انقلاب تو اس مشورے میں شامل تھے۔ انھیں معلوم تھا حضرت علامہ اپیل کے خلاف ہیں۔ بالآخر طے پایا کہ جو ہوا سو ہوا، اب مصلحت یہ ہے کہ حضرت علامہ کی طرف سے فوراً ایک تردیدی بیان شائع کردیا جائے۔ لہٰذا میں نے پھر قلم دان اُٹھایا اور حضرت علامہ اور چودھری صاحب کے باہم مشورے سے ایک مختصر سا بیان لکھا۔ بیان صاف ہوگیا تو حضرت علامہ نے مجھ سے فرمایا کہ آج ہی حضرات سالک و مہر سے ملوں اور ان سے کَہ دوں کہ اس خبر کی تردید شائع کردیں۔ اس کے بعد چودھری صاحب تو دفتر چلے گئے اور علی بخش نے یہ دیکھ کر کہ دھوپ نکل آئی ہے حضرت علامہ کا پلنگ باہر صحن میں ڈال دیا۔ حضرت علامہ صحن میں تشریف لے آئے، لیکن ان کی طبیعت بڑی مکدر تھی۔ انھیں رنج تھا کہ ان حضرات نے جو کل مشورے کے لیے آئے تھے محض اپنی مصلحت جوئی اور مفاد پسندی کے خاطر ایک ایسی بات ان سے منسوب کردی جس پر انھوں نے ہرگز ہرگز رضامندی کا اظہار نہیں کیا تھا۔ انھوں نے ایسی غلط بیانی کیوں کی؟ اس جھوٹ سے فائدہ؟ حضرت علامہ بار بار فرماتے ’’افسوس ہے ایک تو اس فریق پر جو برسر اقتدار ہے اور جس نے مسجد کو گرتے ہوئے دیکھا اور چپ چاپ خانہ خدا کی بے حرمتی برداشت کی، مگر پھر جب مسلمانوں کی غیرت ملی نے جوش مارا تو اس نے بھی بہ تقاضائے مصلحت محسوس کیا کہ انہدام مسجد پر احتجاج لازم ہے اور عدالت کا دروازہ جاکھٹکھٹایا۔ اب عدالت سے کورا جواب ملا ہے تو پریوی کونسل میں اپیل کی سوجھی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وقت گزرتا جائے اور معاملہ ٹلتا رہے۔ دوسرے ان لوگوں پر جو ایک بیمار کے یہاں مشورے کے لیے آئے اور جنھوں نے یہ جانتے ہوئے کہ اس کی رائے اپیل کے خلاف ہے، یہاں تک کہ وہ ان کے مشورے میں شریک بھی نہیںہوا، اعلان کردیا کہ وہ بھی اپیل کے حق میں ہے۔ یہ بڑی لغو اور ناروا بات ہے، سرتاسر جھوٹ اور اتہام۔ پھر ستم یہ ہے کہ انھوں نے اس ملاقات کو جو صرف نجی گفتگو تک محدود تھی باقاعدہ مشورے کا رنگ دے دیا اور یوں مجھے دو گونہ ایذا دی، جس کی ان سے ہرگز توقع نہیں تھی۔ میں نہیں سمجھتا تھا وہ ایسا کریں گے۔ یہ کیسی بے دردی ہے! انھوں نے مجھ پر ظلم کیا اور اپنے اس فیصلے سے کہ اپیل کرنا چاہیے مسلمانوں پر بھی ظلم کررہے ہیں۔‘‘۲؎ میں اس خیال سے کہ حضرت علامہ کا تکدر خاطر رفع ہوجائے، بار بار کوشش کرتا کہ گفتگو کا رنگ بدلے۔ مگر مجھے خود بھی احساس تھا کہ ان حضرات نے حضرت علامہ کو شدید ایذا پہنچائی ہے اور وہ بھی مرض کی اس حالت میں کہ ان کے دل پر ذرا سے صدمے کا اثر بھی بڑا اندیشہ ناک تھا۔ پھر قطعِ نظر اس سے کہ حضرت علامہ کی رائے اپیل کے حق میں تھی یا نہیں، وہ ہر اس معاملے میں جس کا تعلق اسلام اور مسلمانوں سے ہو بڑے حساس تھے۔ ان کے اس احساس کا پاس رکھنا ضروری تھا۔ مگر مدیران انقلاب نے ایسا نہیں کیا۔ بہرحال حضرت علامہ نے رفتہ رفتہ خود ہی اپنے تکدر خاطر پر قابو پالیا۔ وہ بڑے آرام سے بستر میں لیٹے تھے، بلکہ انھوں نے دل جمعی سے حقے کے دو ایک کش بھی لیے۔ بایں ہمہ انھیں افسوس تھا کہ جو لوگ مسلمانوں کی بہی خواہی کا دم بھرتے ہیں ان کے کردار میں دیانت ہے نہ صداقت۔ شاید یہی احساس تھا جس کے زیر اثر انھوں نے چند منٹ خاموشی کے بعد فرمایا ’’آج کل کے دل سوز سے خالی ہیں۔‘‘ ان کے اس ارشاد پر مجھے موضوع سخن بدلنے کا موقع مل گیا۔ میں نے ان کے اس قطعے کے پیشِ نظر انھوں نے اہلِ سیاست کا مقابلہ اہلِ فلسفہ سے کرتے ہوئے ان کی چشم بے نم کا ماتم کیا ہے۳؎ عرض کیا ’’آپ فرماتے ہیں آج کل کے دل سوز سے خالی ہیں۔ لیکن دل میں سوز پیدا ہو تو کیسے؟ دل میں سوز ہے تو سخن بھی سوز سے خالی نہیں ہوگا۔ اپنی ایک پرانی غزل میں آپ نے خود بھی تو کہا ہے: سخن میں سوز الٰہی کہاں سے آتا ہے۴؎ اور پھر جاوید نامہ میں: شعر را سوز از کجا آید بگو از خودی یا از خدا آید بگو یہی سوال دہرایا ہے، مگر اس کا جواب نہیں دیا، بجز اس کے کہ اس کا سرچشمہ ہے آرزو۔‘‘۵؎ حضرت علامہ نے متبسم ہوکر فرمایا ’’اس کا جواب آسان بھی تو نہیں۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’لیکن یہ ’از خودی یا از خدا‘ کا مطلب بجز اس کے اور کیا ہوسکتا ہے کہ خودی کا وجود خدا سے الگ نہیں اور یہی کچھ شاید آپ کا ارشاد بھی ہے۔‘‘ فرمایا ’’یہی تو ایک راز ہے جس کا پتا نہیں چلتا۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’آپ کا اشارہ کیا ’اتصال بے تکیف، بے قیاس‘ کی طرف ہے؟۶؎ ارشاد ہوا ’’ہاں‘‘۔ میں ایک لحظے کے لیے ٹھہر گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے حقیقتِ مطلقہ کے ادراک اور اس کی تعیین کا ایک ذریعہ نکل آیا۔ یوں میرا ذہن اس مضمون کی طرف منتقل ہوگیا جو میں نے ’یوم اقبال‘ کی تقریب پر لکھا تھا۔ میں نے لکھا تھا خودی کے لیے ہمیں خدا کو تلاش کرنا پڑے گا اور یہ محض رعایت لفظی کی بنا پر نہیں، بلکہ حضرت علامہ کے اس شعر کے پیشِ نظر: از ہمہ کس کنارہ گیر صحبت آشنا طلب ہم ز خدا خودی طلب ہم زخودی خدا طلب۷؎ اس لیے میں نے عرض کیا ’’منطقی اعتبار سے یہ دلیل کیسی ہے؟ کیا خودی کے اثبات سے خدا کا اثبات لازم آتا ہے؟‘‘ فرمایا ’’یہ دلیل تو کچھ ایسی ہے جیسی متکلمین بالعموم پیش کیا کرتے تھے اور جن کا رد تنقید عقل محض میں بخوبی ہوچکا ہے۔۸؎ ہم صرف اتنا کَہ سکتے ہیں کہ خودی ایک حقیقت ہے، اگرچہ قائم بالذات نہیں۔ لہٰذا قائم بالذات کی تلاش بہرحال لازم ٹھہرے گی۔‘‘۹؎ میں نے عرض کیا ’’خودی کے استحکام میں کیا خودی کا احساس بھی ضروری ہے؟‘‘ فرمایا ’’کیوں نہیں۔‘‘ میں نے کہا ’’اگر ایسا ہے تو ان لوگوں کا انجام کیا ہوگا جن کو خودی کا احساس ہے، نہ اس کے استحکام اور عدم استحکام سے مطلب؟ لہٰذا سوال یہ ہے ہم ابتدائی انسان کے بارے میں کیا رائے قائم کریں، یا ان لوگوں کے بارے میں کیا کہیں جو خودی کے قائل نہیں؟ مثلاً مادیت پرست یا یہی دنیا دار طبقہ ہے، جو حیات دنیوی میں اس طرح کھوگیا ہے کہ ان حقائق کو خاطر ہی میں نہیں لاتا۔ وہ باوجود عقاید مذہبی کے ایک طرح سے مادیت ہی پر قانع ہے۔ کیا ان کے لیے بھی حیات بعدالموت خودی کے استحکام پر موقوف ہے؟‘‘ ارشاد ہوا ’’بے شک۔‘‘ پھر ذرا سکوت کے بعد فرمایا ’’تمھاری نظر اس حقیقت پر ہونی چاہیے کہ دنیا میں کوئی شے نہیں جسے حفظ ذات کی خواہش نہ ہو۔ رہی یہ بات کہ اس خواہش کا اظہار شعور ذات کے مختلف مراحل پر کس طرح ہوتا ہے، یہ ایک الگ مسئلہ ہے جس سے یہاں بحث نہیں۔ حفظ ذات کی کواہش بہرحال اتنی ہی عام ہے جتنی انسانیت، بلکہ زندگی لہٰذا بقاے دوام کا امکان ہر شخص کے لیے موجود ہے۔۱۰؎ اسلام عبارت ہے فطرۃ اللہ سے۔‘‘۱۱؎ میں ابھی کچھ عرض نہیں کرنے پایا تھا کہ حضرت علامہ نے پاس ہی رکھے ہوئے تخت۱۲؎ کی طرف اشارہ کیا۔ فرمایا ’’دیکھو۔ تمھارے سامنے یہ تخت رکھا ہے۔ تم اسے اُٹھانا چاہو تو نہیں اُٹھے گا۔ لہٰذا ہم کہیں گے اس کا خاصہ ہی یہ ہے کہ اسے کوئی اُٹھانا چاہے تو نہ اُٹھے۔ بالفاظِ دیگر اس کی مزاحمت کرے۔ لہٰذا اس کا نہ اُٹھنا ہی اس کی فطرت ہے اور ہم کہیں گے کہ اس کی یہی فطرت یعنی مزاحمت اس کا اسلام ہے۔۱۳؎ بعینہٖ زندگی کی بھی ایک فطرت ہے اور حفظ ذات اس کا تقاضا۔‘‘۱۴؎ میں نے عرض کیا ’’لیکن ہماری خودی قائم بالغیر ہے۔ ہم اپنے وجود کے لیے غیر کے محتاج ہیں۔ لہٰذا ایک طرف حفظ ذات کی خواہش ہے، دوسری جانب فنا کا خوف۔‘‘ ارشاد ہوا ’’یہ صحیح ہے۔ لیکن اس طرح بقاے دوام کی نفی تو نہیں ہوتی۔‘‘ میں نے پھر کہا ’’یہ درست ہے، لیکن اُصولاً خودی کو فانی ہی ٹھہرایا جائے گا۔ یہ دوسری بات ہے کہ بسبب اس تعلق کے جو ہمیں مطلق خودی سے ہے ہمارے لیے بقاے دوام کا امکان موجود ہے۔۱۵؎ بایں ہمہ اسے کیا کیا جائے کہ ہمارا ذہن بارہا اس حقیقت کی طرف منتقل ہوجاتا ہے کہ جس طرح پیدایش سے پہلے خودی کا کوئی وجود نہیں تھا۔۱۶؎ بعینہٖ موت پر بھی اس کی ہستی شاید کالعدم ہوجائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: کل من علیھا فان اور کل شی ھالک الا وجھہ۔۱۷؎ کیا تصوف نے اسی لیے خودی کو ایک پردہ ٹھہرایا، گو آپ کا ارشاد اس کے خلاف ہے۔‘‘۱۸؎ فرمایا ’’اسی لیے تو میں نے لکھا ہے کہ بقاے دوام ایک انعام ہے، ہمارا حق نہیں۔ ہمیں چاہیے اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کریں۔‘‘ پھر فرمایا ’’بادی النظر میں تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایک فطرت انسان ہے، دوسری جانب یہ مادی کائنات جس میں ہم زندگی بسر کرتے ہیں۔ خودی کا تقاضا ہے احساس ذات اور ذات کا یہ کہ اس کے بالمقابل اس کا کوئی غیر موجود ہو۔ لہٰذا یہ کائنات جس کا ہر جز از سمک تا سماک اس کی تعمیر و تخریب میں حصہ لیتا ہے اسے اپنا غیر نظر آتی ہے۔ بایں ہمہ یہی غیر، جسے ہم کائنات قرار دیتے ہیں، مادی بقاے دوام میں حارج نہیں۔‘‘ میں نے ایک طرح سے قطع کلام کرتے ہوئے کہا ’’مگر ذہن انسانی اس غیر سے مغلوب تو ہوتا ہے۔ میرا مطلب ہے مادیت سے۔‘‘ ارشا ہوا ’’کیسے؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’بطور ایک اَمر واقعی کے اور وہ یوں کہ خودی کا ظہور چونکہ کائنات میں ہوتا ہے، کائنات ہی میں وہ نشوونما حاصل کرتی اور کائنات ہی میں بالآخر گم ہوجاتی ہے، لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہے کائنات کی ایک شان، یا اس کی مخفی اور پر اسرار قوتوں کا کرشمہ ہے۔‘‘ ارشاد ہوا ’’یہ صحیح ہے۔ لیکن کائنات کیا ہے؟ بظاہر ایک مادی وجود، مگر جو ممکن ہے اپنی کنہ میں روح ہو۔۱۹؎ جدید سائنس کے نظریات اس باب میں بڑے معنی خیز ہیں۔۲۰؎ ہیگل نے کبھی کہا تھا کہ حقیقتِ مطلقہ دراصل ایک ذہن ہے۔ سائنس کو البتہ اس ذہن کے منفرد اور سزاوار عبادت ہونے سے انکار ہے۔۲۱؎ مطلب یہ کہ کائنات کا ذہن ہونا از روے سائنس محال نہیں۔ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ذہن انفرادی ہو۔‘‘۲۲؎ میں نے عرض کیا ’’اور کائنات اس کا عمل؟‘‘۲۳؎ فرمایا ’’بے شک۔‘‘ ’’میک ٹے گرٹ کی رائے اس بارے میں کیا تھی؟‘‘ ’’یہی کہ مادے کو مادہ سمجھنا غلط ہے۔ کائنات میں وجود صرف خودی کا ہے۔‘‘۲۴؎ میں نے پوچھا ’’اور اس کے نظریہ عشق کی بنا کس بات پر ہے؟‘‘ ’’اس بات پر کہ عشق ہی جوہر ہے زندگی کا۔ عشق ہی ہمارے جملہ مسائل کا حل اور مداوا ہے۔ یہ ہمارا تعلق باہمی ہی تو ہے جس کی بدولت ہم ایک دوسرے سے ربط و ضبط اور اتحاد و اشتراک پیدا کرتے ہیں۔ انسان کا انسان سے میل جول، ایک دوسرے کی الفت اور محبت و مؤدت روزِ مرہ کی بات ہے اور یہی بات ہے جس سے زندگی کا کارخانہ چل رہا ہے۔ ہمارا کوئی جذبہ اتنا مؤثر نہیں جتنا عشق۔ عشق کی خاطر انسان بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ عشق ہی ہر شے اور وجود کا سہارا ہے اور عشق ہی بطور ایک اُصول کائنات میں کارفرما ہے۔‘‘۲۵؎ میں نے عرض کیا ’’جب ہی تو اس خیال کو تقویت پہنچتی ہے کہ ہماری خودی بالآخر ایک برتر خودی میں مدغم ہوجائے گی۔‘‘ ارشاد ہوا ’’کیسے؟‘‘ میں ایک طرح سے وحدۃ الوجود کے نقطۂ نظر کی ترجمانی کررہا تھا۔ لیکن حضرت علامہ نے یہ سوال کیا تو ٹھٹک کر رہ گیا۔ لہٰذا میں نے وحدۃ الوجود کے اس عام تصور کے پیشِ نظر جس کا تقاضا ہے کہ قطرہ دریا میں گم ہوجائے اور ہماری ہستی کو قید تعین سے رہائی نصیب ہو،۲۶؎ عرض کیا کہ اگر عشق ہی اُصول کائنات ہے تو خودیوں کی وہ کثرت جو عبارت ہے میک ٹیگرٹ کے ’پسے ہوئے وجود‘۲۷؎ سے بسبب عشق ایک دوسرے کی طرف کھینچیں گی تاآنکہ ایک دوسرے میں مدغم ہوجائیں۔ عشق کا تقاضا ہے جذب۔ اب اگر ایک ہمہ گیر خودی کا وجود مان لیا جائے تو یہ ماننا بھی لازم آئے گا کہ جو بھی خودی ہے اس میں جذب ہوجائے گی، یعنی اپنا وجود کھو دے گی۲۸؎ اور یہ کہتے کہتے نادانستہ امیر خسرو کا یہ شعر میری زبان پر آگیا: من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری میں نے عرض کیا ’’عام ضرب المثل بھی یہی ہے: دو قالب ایک جان۔‘‘ حضرت علامہ نے فرمایا ’’ایک قالب دو جان کہا ہوتا تو زیادہ بہتر تھا۔‘‘ ارشاد ہوا ’’بعض باتیں محض اظہار مطلب کے لیے کہی جاتی ہیں۔ ان کو منطقی دلائل پر محمول کرنا غلطی ہے۔ یہ درست ہے کہ خودی کا تقاضا ہے عشق، اس لیے کہ عشق کے بغیر، جسے میک ٹیگرٹ بھی اُصول کائنات قرار دیتا ہے، خودی میں استحکام پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن اگر خودی میں استحکام پیدا کرنا مقصود ہے تو پھر اس کے فنا کا کوئی جواز نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جذبۂ عشق میں جب ہم فنا پر زور دیتے ہیں تو اس کا مطلب بجز اس کے کچھ نہیں ہوتا کہ ہماری توجہ صرف اس چیز پر ہے جو عشق کا مقصود ہے اور جس کی خاطر ہم سب کچھ بھول رہے ہیں۔ لیکن یوں فنا کے اس عالم تصور پر استدلال کرنا غلطی ہے جس کا مطلب ہے نفی ذات۔ اس کے معنی تو یہ ہیں کہ ہماری ہستی ہمارے مقصود سے ہے۔ یہ فنا تو عین بقا ہے صوفیۂ اسلام نے بھی اسی لیے فنا کو بقا سے تعبیر کیا ہے۔‘‘۲۹؎ حضرت علامہ نے تھوڑی دیر کے لیے سکوت فرمایا۔ انھیں آرام کی ضرورت تھی۔ اسی اثنا میں علی بخش نے دوا کھلائی، چلم بدلی اور حضرت علامہ کے پاؤں دابنے لگا۔ یوں ذرا سستاکر حضرت علامہ پھر ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ ان کا جی چاہتا تھا میں کوئی بات کروں، لیکن میں نے محسوس کیا حضرت علامہ تھک گئے ہیں، ان سے اور زیادہ گفتگو نہیں کرنی چاہیے۔ یوں بھی مجھے حضرات سالک و مہر سے ملنا تھا۔ میں نے اجازت طلب کی۔ دوپہر کب کی ہوگئی تھی۔ شام کے قریب پھر حاضر ہوا۔ حضرت سالک و مہر سے ملاقات کی کیفیت بیان کی۔ عرض کیا انھیں تردیدی بیان شائع کرنے سے انکار ہے۔ وہ کہتے ہیں ایسا کرنا مناسب نہ ہوگا اور پھر ان سے ملاقات کی ساری کیفیت بیان کردی۔۳۰؎ حضرت علامہ نے جیسے جیسے میرا بیان سنا ان کی کبیدگی خاطر بڑھتی چلی گئی۔ انھیں رنج تھا کہ مدیران انقلاب نے باوجود دیرینہ روابط اور دعوی مودت کے ان کا تردیدی بیان کیوں شائع نہیں کیا۔ وہ ایک جھوٹ کو کیوں فروغ دے رہے ہیں۔ میں کچھ کہنے نہ پایا تھا کہ علی بخش چائے لے آیا۔ حضرت علامہ نے چائے پی اور علی بخش ان کے پاؤں دابنے لگا تو میں نے اس خیال سے کہ ان کا ذہن کسی دوسری جانب منتقل ہوجائے عرض کیا، مولانا حسین احمد کے طرف دار کہتے ہیں مولانا سے زیادہ ’بمصطفیٰ برساں خویش، پر عمل کس کا ہوگا۔ انھوں نے یہ تو نہیں کہا کہ قومیں وطن سے بنتی ہیں۔ کہا ہے تو یہ کہ جو لوگ کسی وطن میں بستے ہیں اپنے آپ کو ایک قوم ہی کہا کرتے ہیں۔‘‘ حضرت علامہ نے فرمایا ’’تو یوں ہی سہی۔ ہمیں ان سے کوئی ذاتی پرخاش تو ہے نہیں۔ وہ ایک بیان شائع کردیں اور صاف صاف فرمادیں کہ اسلام کی رُو سے وطن بناے قومیت نہیں۔ وہ ایسا کریں تو ہم ان کی جرأت ایمانی کے اعتراف میں تین کے بجاے چھ شعر کَہ دیں گے۔‘‘ ارشاد ہوا ’’ایک رباعی ہورہی ہے۔ احتیاطاً یادداشت کے طور پر لکھ رکھو۔‘‘ میں نے بیاض اُٹھائی اور قلم دان لے کر بیٹھ گیا۔ ارشاد ہوا: ندانی نکتہ دین عرب را کہ گوئی صبح روشن تیرہ شب را اگر قوم از وطن بودے محمد ندادے دعوت دیں بولہب را ارشاد ہوا ’’مغرب کی لادینی لوتھر کی تحریک سے پیدا ہوئی۔ اس لیے کہ جب حصول اقتدار کے جذبے نے کلیسا کی سیادت ختم کردی تو لازماً کسی ایسی اساس کی ضرورت پیش آئی جو قوموں کے نظام اجتماع کو درہم برہم نہ ہونے دے۔ یہی ضرورت تھی جس نے اہلِ یورپ کو وطن اور وطن سے نسل کی طرف مائل کیا۔ آگے چل کر یہی وطنیت دہریت کا سبب بنی۔۳۱؎ مولانا حسین احمد اس سادہ سی بات کو نہیں سمجھتے۔ وہ تاریخ سے ناواقف ہیں۔ میں نے عرض کیا، اب تو ایشیا میں اس قسم کی دھریت کا اثر پھیل رہا ہے۔ اخلاقی قیود کچھ تو ٹوٹ چکی ہیں اور کچھ ٹوٹتی جارہی ہیں۔ جنگ سے قبل نہ یہ ذوق عریانی تھا، نہ حسن کے مقابلے۔ ڈاکٹر جونز کا کہنا کہ یہ زمانہ مرگ قلب کا ہے کس قدر صحیح ہے۔ قلب ہی زندہ نہیں تو تزکیۂ ذات ہو، یا تطہیر سیاست، اس کی توقع بے سود ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا وہ کیا نفسیاتی محرکات ہیں جن کے باعث انسانوں کے اخلاق اس طرح بدل گئے ہیں؟‘‘ ارشاد ہوا ’’یہ جنگ کا نتیجہ ہے۔ جنگ سے اگر ایک طرف صفات عالیہ کو تحریک ہوتی ہے تو دوسری جانب ادنیٰ سے ادنیٰ اور سفلی سے سفلی جذبات اُبھر آتے ہیں۔ یوں بھی قتل اور خوں ریزی کا نتیجہ اجتماعی لحاظ سے ہمیشہ برا ہوتا ہے۔ قومیں بے دریغ ایک دوسرے پر ظلم و ستم کرتی ہیں۔ انسان جب بے دردی اور سفاکی کے ہولناک منظر اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے تو سمجھتا ہے زندگی نام ہے محض غلبہ و تغلب کا۔ اس میں کوئی اخلاقی قانون کام نہیں کرتا، نہ دنیا کسی اخلاقی نظام کے سہارے چل رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے جنگ پر پابندیاں عائد کردیں اور ایسے قوانین وضع کیے جن سے اخلاق عالیہ کی حفاظت ہوتی ہے۔‘‘۳۲؎ میں نے عرض کیا آپ کا ایک شعر ہے: باضعیفاں گاہ نیروے پلنگاں می دھند شعلۂ شاید ز فانوس حباب آید بروں لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ سیاست ہو یا معاش، اخلاق ہو یا علم و حکمت، ہماری پستی کی کوئی انتہا نہیں۔ ہم ضعیفوں کو بھی کیا نیروے پلنگاں ملے گا؟‘‘ فرمایا ’’بظاہر صورتِ حالات بڑی یاس انگیز ہے، لیکن مایوسی کفر ہے۔ دنیا میں بارہا ایسا ہوا کہ ضعیفوں کو قوت ملی اور آیندہ ملتی رہے گی۔‘‘۳۳؎ اتنے میں منشی طاہر دین۳۴؎ آگئے۔ کچھ قانونی دستاویزات ساتھ لائے تھے۔ انھیں حضرت علامہ سے مشورہ مطلوب تھا۔ میں تھوڑی دیر کے لیے دوسرے کمرے میں جاکر بیگم حسین سے باتیں کرنے لگا۔ واپس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ م-ش حضرت علامہ کی انگلیاں سہلا رہے ہیں۔ میں نے کہا ’’کوئی تکلیف تو نہیں ہے؟‘‘ فرمایا ’’نہیں۔ یہ محض حصول ثواب کے لیے ایسا کررہے ہیں۔‘‘ اس پر اعمال حسنہ کی گفتگو ہونے لگی۔ ارشاد ہوا ’’انسان کو ہمیشہ اس اَمر کا احساس رہنا چاہیے کہ نیک عمل کبھی ضائع نہیں جاتا۔ یہ خیال غلط ہے کہ اس کا اجر صرف آیندہ زندگی میں ملتا ہے۔‘‘ فرمایا ’’وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللّٰہِ۳۵؎ کے ساتھ اس ارشاد کو بھی یاد رکھنا چاہیے: اِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ ۔‘‘۳۶؎ اور پھر اپنے والد محترم کا ایک واقعہ بیان کیا۔ فرمایا ’’میرے والد ایک روز گھر آرہے تھے۔ ہاتھ میں رومال تھا، رومال میں تھوڑی سی مٹھائی۔ اثناے راہ میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک کتا بھوک کے مارے دم توڑ رہا ہے۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر ان سے رہا نہ گیا۔ مٹھائی سمیت رومال اس کے آگے ڈال دیا۔ کتے نے مٹھائی کھانا شروع کردی۔ مٹھائی کھاچکا تو ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اسے پانی کی طلب ہے۔ والد ماجد نے اسے کسی نہ کسی طرح پانی بھی پلادیا۔ رات کو سوئے تو خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک مکان ہے جس میں مٹھائی کے طبق ہی طبق رکھے ہیں۔ صبح آنکھ کھلی تو اس احساس کے ساتھ کہ یہ اس نیک عمل کا ثمرہ تھا جو کل ان سے سرزد ہوا۔ چنانچہ اس روز سے انھیں یقین ہوگیا کہ ہمارے دن پھرنے والے ہیں۔‘‘ یہاں پہنچ کر حضرت علامہ کچھ رُک گئے۔ پھر کہنے لگے ’’ذرا یہ بھی سن لو اس کی ابتدا یسے ہوئی؟‘‘ ارشاد ہوا ’’ہمارے والد کے دادا یا پڑدادا پیر تھے۔ ان کا نام تھا شیخ اکبر۔ انھیں پیری اس طرح ملی کہ سن کھترا۳۷؎ میں سادات کا ایک خاندان تھا جسے لوگ سیّد نہیں مانتے تھے اور اس لیے ان پر ہمیشہ طعن و تشنیع ہوا کرتی تھی۔ اس خاندان کے سربراہ کو ایک روز جو غصہ آیا تو ایک سبز کپڑا اوڑھ کر آگ میں بیٹھ گئے جس کے متعلق روایت تھی کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی یاد گار ہے۔ اس کی برکت سے آگ نے ان پر کوئی اثر نہ کیا۔ مخالفوں نے یہ دیکھا تو انھیں یقین ہوگیا کہ وہ فی الواقعہ سیّد ہیں۔ ان کا انتقال ہوا تو شیخ اکبر نے ان کے مریدوں کو سنبھالا اور خاندان کی خدمت کرنے لگے۔ ایک مرتبہ اسی خاندان کا ایک فرد والد ماجد کے پاس آیا اور کہنے لگا آپ دھسوں۳۸؎ کی تجارت کیوں نہیں کرتے؟ اس زمانے میں معمولی دھسوں کی قیمت دو روپے فی دھسہ سے زیادہ نہ تھی۔ والد ماجد نے کوئی دو چار سو دھسے تیار کیے تو قدرت خدا کی ایسی ہوئی کہ سب کے سب اچھے داموں پر بک گئے، حالانکہ فی دھسہ آٹھ آنے سے زیادہ لاگت نہیں آئی تھی۔ دو چار سو دھسے فروخت ہوگئے تو کافی روپیہ جمع ہوگیا۔ بس یہ ابتدا تھی ہمارے دن پھرنے کی۔ پھر بھائی صاحب بھی ملازم ہوگئے۔‘‘۳۹؎ شام کب کی ہوگئی تھی۔ حضرت علامہ نے دوا کھائی، پھر کھانا۔ اس کے بعد چائے کا دور چلا۔ کوئی نو بجے تھے کہ مرزا معراج الدین۴۰؎ آگئے۔ حضرت علامہ کا مزاج پوچھا اور ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد کل کے جلسے، یعنی شہید گنج کے سلسلے میں اپیل کا۔ وہ شاید آئے بھی اسی غرض سے تھے، گویا ایک طرح سے بکار سرکار۔ حضرت علامہ بے تکلفی سے اپنی رائے کا اظہار کرتے رہے۔ مرزا صاحب زیادہ دیر نہیں بیٹھے۔ وہ گئے تو میں نے اجازت طلب کی۔ چودھری صاحب تشریف لے آئے تھے۔ قرشی صاحب کا انتظار تھا۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱- بہ عنوان ’’حضرت انسان‘‘ (دیکھیے ارمغان حجاز)۔ اس کے بعد کوئی شعر اُردو میں نہیں ہوا اور حضرت علامہ کا یہ خیال کہ ’’صور اسرافیل‘‘ کے نام سے ایک نیا مجموعۂ کلام ترتیب دیا جائے، پورا نہ ہوسکا۔ لہٰذا اس وقت تک جتنا اُردو کلام ہوچکا تھا اسے ارمغان حجاز میں شامل کردیا گیا۔ ۲- یہاں یہ عرض کردینا ضروری ہے کہ ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی نے اپنی کتاب اقبال کے آخری دو سال میں اس واقعے کو جس طرح بیان کیا ہے صحیح نہیں اور اس کی وجہ یہ کہ مصنف نے سنی سنائی باتوں پر اعتبار کرلیا۔ یہاں یہ عرض کردینا بھی ضروری ہے کہ مولوی صلاح الدین مرحوم، مدیر ادبی دنیا نے مجھ سے ایک مرتبہ دریافت بھی کیا تھا کہ واقعہ کیا ہے۔ انھوں نے پورا واقعہ سنا تو ان کی اور بٹالوی صاحب کی شاید اس سلسلے میں خط و کتابت بھی ہوئی۔ واقعہ بہرحال اسی طرح پیش آیا جس طرح میں نے بیان کیا ہے کہ نواب مظفر خان اور دوسرے حضرات غیر متوقع طور پر جاوید منزل آئے، حضرت علامہ سے ملے، اپیل کے بارے میں مشورہ کیا، حضرت علامہ نے اس سے اختلاف کیا اور بہ سبب ضعف علالت پھر خواب گاہ میں آکر بستر میں لیٹ گئے۔ مگر یہ حضرات ان کی اجازت سے دیر تک بیٹھے رہے اور پھر انتہائی غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے …جس پر حضرت علامہ نے فرمایا تھا ’’ھذا بہتان عظیم‘‘… ایک اعلان شائع کردیا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف پریوی کونسل میں اپیل کے بارے میں جو مشورہ ہوا اس میں حضرت علامہ بھی شریک اور اپیل کے حق میں ہیں۔ بٹالوی صاحب لکھتے ہیں کہ نیازی صاحب اتفاقاً وہاں موجود تھے (حالانکہ میں اتفاقاً نہیں، شب و روز وہاں موجود رہتا تھا)۔ پھر یہ کہ حضرت علامہ نے ان کے کان میں کہا یہ شخص (یعنی وہ شخص جس کے متعلق خیال تھا کہ یونینسٹ مسلمان اراکین میں انہدام مسجد کی ذمہ داری سب سے بڑھ کر اس پر عاید ہوتی ہے) یہاں کیوں آیا ہے؟ حضرت علامہ نے ایسا ہرگز نہیں کہا اور نہ اس طرح چپکے سے میرے کان میں کچھ کہنا ان کے شایان شان تھا، خواہ انھیں ان کا آنا کیسا بھی ناگوار ہوتا۔ پھر جب حضرت علامہ نشست گاہ سے اُٹھ کر خواب گاہ میں تشریف لے گئے تو میں نے انھیں نہیں دیکھا، اس لیے کہ دیوار کی اوٹ تھی اور یہ حضرات ابھی برابر گفتگو کررہے تھے۔ میں سمجھا حضرت علامہ بھی گفتگو میں شریک ہیں۔ پھر جب حضرت علامہ خواب گاہ میں تشریف لے گئے تو مجھے طلب بھی نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ میں علی بخش سے یہ کَہ کر رخصت لے چکا تھا کہ علی بخش دیر ہوگئی ہے، حضرت علامہ سے معذرت کردینا، علی الصبح حاضر ہوجاؤں گا۔ ۳- فلسفی را با سیاست داں بیک میزاں مسنج چشم او خورشید کورے دیدۂ او بے نمے ایں تراشد قول حق را حجت نااستوار ویں تراشہ قول باطل را دلیل محکمے پیام مشرق پھر یہ سب سیاست دان ہی تو تھے جو حضرت علامہ سے مشورے کے لیے آئے تھے۔ ۴- سخن میں سوز الٰہی ہاں سے آتا ہے یہ چیز وہ ہے کہ پتھر کو بھی گداز کرے بانگ درا ۵- ان مارا لذت اندر جستجو است شعر را سوز از مقام آرزو است اے تو از تاک سخن مست مدام گر ترا آید میسر ایں مقام از دو بینے در جہان سنگ و خشت می تواں بردن دل از حور و بہشت جاوید نامہ ۶- ارشاد مولانا روم: اتصال بے تکیف، بے قیاس ہست رب الناس را با جان ناس اور جس سے وحدۃ الوجود کی نفی ہوجاتی ہے۔ ذات باری تعالیٰ محیط برکل ہے، لیکن وراء الورا، واحد اور لاشریک ۔ لہٰذا وہ کیا تعلق ہے جو اسے مخلوق سے ہے اور جس کے بغیر مخلوق کی ہستی ممکن نہیں؟ پھر وہ ہماری رَگِ جاں سے بھی زیادہ قریب ہے-۵۰ (ق):۱۶- انسان اور اس کے قلب کے درمیان حائل-۸ (الانفال): ۲۴۔ ۷- زبور عجم۔ ۸- کانٹ (Kant) کے ہاتھوں، اس لیے کہ یوں ذات باری تعالیٰ کی موجودگی پر اصرار کرنا دراصل ایک مغالطہ ہے۔ باصطلاح منطق مصادرہ علی المطلوب کہ ہمیں جو کچھ ثابت کرنا مقصود ہے اسے ثابت شدہ فرض کرلیتے ہیں۔ اس سلسلے میں دل چسپ بات یہ ہے کہ جب کانٹ نے یہ کہتے ہوئے کہ عقل محض نارسا ہے، حقیقت تک نہیں پہنچتی، ’شئی بآثارہ‘ اور ’شئی بذاتہ‘ کا امتیاز پیدا کیا تو کہا گیا یہ بھی تو مصادر علی المطلوب ہی کی ایک شکل ہے۔ کانٹ کو کیسے معلوم ہوگیا کہ ایک تو شے وہ ہے جیسے ہم اسے دیکھتے ہیں، یعنی جیسے اس کا اظہار ہورہا ہے، اور ایک وہ جیسی کہ فی الواقعہ ہے، لیکن جس کا ہمیں علم نہیں۔ ۹- خواہ مخالفین مابعد الطبیعیات اور منطقی اثباتیین اسے لاحاصل ہی سمجھیں، لیکن ذہن انسانی کا ایک تقاضا ہے اور باوجود ہماری کوششوں کے ٹالنے سے نہیں ٹلتا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ہم تشکک اور لاادریت کا سہارا ڈھونڈیں۔ یوں بعض افراد کی تسکین خاطر کا سامان تو پیدا ہوجائے گا، لیکن کاروبار زندگی نہیں چلے گا۔ تشکک اور لا ادریت نہ تو معاشرے کی کوئی محکم اساس ہے، نہ تہذیب و تمدن کی۔ ۱۰- دیکھیے: تشکیل جدید: خطبۂ چہارم، بحث حیات بعدالموت۔ ۱۱- فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا (الروم: ۳۰)۔ اور جس کا ایک پہلو حفظ نفس اور بقاے ذات کی خواہش بھی ہے۔ ۱۲- جاوید منزل میں قدم رکھیے تو بائیں جانب پھاٹک سے ملحق ایک چھوٹی سی مسجد ملے گی (آج کل مسجد اقبال، اس لیے کہ حضرت علامہ نے جب کوٹھی کے لیے زمین خریدی تو یہ مسجد ٹوٹی پھوٹی حالت میں تھی۔ حضرت علامہ نے اسے از سر نو بنوایا اور اس کے ارد گرد دیوار کھینچ دی۔ یہ سب کچھ بلدیہ کی اجازت سے ہوا)۔ منشی خانہ اسی مسجد کے عقب میں بنا ہے۔ علی بخش کا قیام یہیں رہتا تھا۔ منشی خانے کے سامنے ایک چھوٹا سا برآمدہ ہے اور برآمدے کے پاس ہی صحن میں ایک تخت پڑا رہتا تھا جس کی طرف حضرت علامہ اشارہ کررہے تھے۔ جاوید منزل کے بیرونی صحن کا یہ حصہ چونکہ سایہ دار اور مسجد کی اوٹ میں تھا، لہٰذا نشست کے لیے نہایت موزوں۔ حضرت علامہ کا پلنگ اکثر یہیں ڈال دیا جاتا، بالخصوص سردیوں میں دھوپ کے لیے۔ لیکن حال ہی میں ڈاکٹر جاوید اقبال نے جاوید منزل کی بیرونی دیوار، اس کے پھاٹک، مسجد اور منشی خانے میں کچھ ترمیم کردی ہے۔ مسجد بالائی منزل پر چلی گئی ہے۔ ۱۳- اسلام کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جس فطرت پر پیدا کیا گیا ہم اس کا اتباع کرتے رہیں۔ وہ فاطرالسموات والارض ہے اور دنیا جہان کی ہر شے اس کی فرماں بردار کہ اس نے اسے جس راستے پر ڈال دیا اس سے انحراف نہیں کرتی۔ وَلَہٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ (آل عمران:۸۳)۔ ۱۴- زندگی محبوب ایسی دیدۂ قدرت میں ہے ذوق حفظ زندگی ہر چیز کی فطرت میں ہے بانگ درا ۱۵- حضرت علامہ ملی جلی اُردو اور انگریزی میں گفتگو کررہے تھے۔ اس سلسلے میں انھوں نے immortality کا لفظ استعمال فرمایا۔ ۱۶- ہَلْ اَتٰی عَلَی الْاِِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّہْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا (الدھر: ۱)۔ ۱۷- ۵۵ (الرحمن): ۲۶ اور ۲۸ (القصص):۸۸۔ جس سے بظاہر وحدۃ الوجود کے نقطۂ نظر کو تقویت پہنچتی ہے۔ لیکن مولانا روم نے ’’کُلُّ شَیْئٍ ھَالِکٌ اِلَّا وَجْھُہُ‘‘ ہی کو بقا کی تمہید ٹھہرایا ہے۔ فیہ ما فیہ میں انھوں نے لکھا ہے۔ ۱۸- خودی را پردہ می گوئی ولے من باتو ایں گویم مزن ایں پردہ را چاکے کہ دامان نگہ تنگ است زبور عجم ۱۹- Spirit بمعنی غیر مادی۔ گویا جس طرح مادہ ایک اصطلاح ہے بعینہٖ روح بھی (فلسفیانہ زبان میں)۔ ۲۰- ملاحظہ ہو تشکیل جدید، خطبہ دوم، بحث حقیقتِ مطلقہ۔ جدید سائنس کو مادیت پر اصرار نہیں رہا جیسے کبھی تھا۔ جدید سائنس میں مادہ یا مادی اجسام، مثلاً جواہر (atoms) کی حیثیت علامات کی ہے۔ وہ اسما ہیں، کوئی مستقل بالذات حقیقت نہیں ہیں۔ دراصل جدید سائنس کا موقف یہ ہے کہ اسے بحث ہے تو عالم طبیعی کے کردار سے، اس سے نہیں کہ اس کردار کے پیچھے کیا ہے یا اس کی حقیقت کیا ہے اور یہ بات ہے بھی ٹھیک کیونکہ ہر علم کا ایک موضوع ہے۔ سائنس کا مقصد ہے ایک خاص نقطۂ نظر سے کائنات کا مطالعہ۔ لیکن اس نقطۂ نظر کے علاوہ اور بھی تو نقطۂ ہائے نظر ہیں اور ویسے ہی ہماری توجہ کے مستحق تاکہ ہمیں اس کی ماہیت اور کردار کا اور زیادہ علم ہوسکے (ملاحظہ ہو اس سلسلے میں تشکیل جدید، خطبۂ دوم و ہفتم)۔ ۲۱- اس لیے کہ یوں اس میں صفات الوہیت پیدا نہیں ہوتیں۔ ۲۲- لہٰذا ہم ذات باری تعالیٰ کا اثبات کریں۔ ۲۳- جیسا کہ حضرت علامہ نے فرمایا ہے (دیکھیے تشکیل جدید، خطبہ دوم)۔ ۲۴- بقول حضرت علامہ: پیکر ہستی ز آثار خودی است ہرچہ می بینی ز آثار خودی است اسرار خودی ۲۵- میک ٹیگرٹ کے ان خیالات کے لیے ملاحظہ کیجیے حضرت علامہ کے مجموعۂ مضامین میں ان کا مضمون McTaggert's Philosophy۔ ۲۶- حضرت آسی سکندر آبادی کا شعر ہے: فراق و وصل کے جھگڑے میں ڈالا مجھ کو ظالم نے غبار ہستی وہمی جو اُڑ جائے تو بہتر ہو ۲۷- Pulverised Being، لہٰذا نہ کوئی وجود مطلق ہے کہ جملہ موجودات کی حیثیت اس کے تعینات کی ہو، نہ کوئی محیط برکل خودی کہ دوسری خودیوں کو سہارا دے۔ لہٰذا میک ٹیگرٹ کی دہریت، کہ خدا کا منکر ہے مگر خودی کا قائل۔ مگر پھر اس کا متصوفانہ انداز اور وجدان، بقاے خودی اور عشق کے تصورات ہیں، جن سے اس کی دہریت نے بھی ایک مخصوص رنگ اختیار کرلیا ہے۔ ۲۸- وحدۃ الوجود کا تقاضا اگر فنا فی الذات ہے تو اس کا ایک جذباتی پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ انسان جب دیکھتا ہے کہ اس کی ہستی فانی ہے، وہ ہر طرف سے مادی قوتوں کے نرغے میں گھرا ہے اور زندگی کا انجام ہے بالآخر موت، تو اسے اس خیال سے بڑی تسکین ہوتی ہے کہ موجودات کیا ہیں؟ محض وجود حقیقی کے تعینات۔ لہٰذا موت وہ مرحلہ ہے جس سے گزر کر وہ پھر اس سے جا ملے گا۔ گویا یہ بھی ایک بقا کی صورت ہے۔ اب اگر وجود صرف مادے کا ہوتا تو ظاہر ہے اس قسم کی جذباتی کیفیت کا پیدا ہونا ناممکن تھا۔ ۲۹- گویا فنا سے مطلب ہے ہر اس مشکل اور رکاوٹ کو دور کرنا جو ہمارے مقصد میں حائل ہو خواہ اس میں جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔ شاید یہی معنی ہیں اس شعر کے: کشتگان خنجر تسلیم را ہر زماں از غیب جانے دیگر است حضرت علامہ کا بھی ارشاد ہے: عشق اگر فرماں دھد از جان شیریں در گزر عشق محبوب است و مقصود است و جاں مقصود نیست زبور عجم ۳۰- میں انقلاب کے دفتر میں پہنچا تو اول سالک مرحوم سے ملا۔ انھوں نے کہا ’’میرا تعلق ان معاملات سے نہیں۔ مہر صاحب سے ملیے۔‘‘ مہر صاحب سے ملا تو انھوں نے کہا ’’اچھا اگر حضرت علامہ اپیل کے حق میں نہیں ہیں تو کیا ان کا ارادہ قانون شکنی کا ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’آپ کی اس بات کا جواب تو حضرت علامہ ہی دے سکتے ہیں۔ مجھے تو صرف اتنا کہنا ہے کہ یہ ان کا بیان ہے اور آپ کا اخلاقی فرض ہے کہ اسے شائع کردیں تاکہ اس غلط خیال کا ازالہ ہوجائے کہ حضرت علامہ پریوی کونسل میں اپیل دائر کرنے کے حق میں ہیں۔ پھر یہ بات آپ کے علم میں بھی ہے۔‘‘ مہر صاحب نے کہا ’’یہ ٹھیک ہے کہ حضرت علامہ کی رائے اپیل کے خلاف ہے، لیکن بیان کا شائع کرنا قرین مصلحت نہیں۔‘‘ میں واپس آگیا۔ اس سلسلے میں لطف کی بات یہ ہے کہ باوجود اپیل کا شاخسانہ کھڑا کرنے کے یونینسٹ پارٹی کے اربابِ حل و عقد نے اپیل دائر نہیں کی۔ لہٰذا حضرت علامہ کا یہ کہنا کیا غلط تھا کہ ان لوگوں کا اصل مقصد صرف یہ ہے کہ وقت گزرتا رہے، یہ نہیں کہ کچھ کریں۔ ۳۱- لوتھر کی اصل تحریک تو یہ تھی کہ پاپاے روم کی دینی سیادت ختم کردی جائے۔ لہٰذا اسے تحریک اصلاح (Reformation)کا نام دیا گیا۔ لیکن لوتھر نے اس حقیقت کو نظر انداز کردیا کہ کلیسا کی مذہبی سیادت کا اگرچہ از روے مسیحیت کوئی جواز نہیں، تاہم اس کی یہی سیادت ہے جس نے اقوام یورپ کو ایک نظام اجتماع میں منسلک کررکھا ہے۔ یہ سیادت ٹوٹی تو انھیں کوئی دوسری بناے اجتماع تلاش کرنا پڑی۔ مسیحیت کا نقطۂ نظر محض اخلاقی اور انفرادی (بلکہ راہبانہ) تھا، سیاسی اور اجتماعی نہیں تھا۔ لہٰذا لوتھر کی تحریک اصلاح نے بہت جلد ایک سیاسی تحریک کی شکل اختیار کرلی اور یوں لوتھر نادانستہ وطنی قومیت کا پیش رَو ثابت ہوا۔ کلیسیائی نظام کی جگہ وطنی اور نسلی نظامات نے لے لی۔ وطنیت اور نسلیت سے رفتہ رفتہ دھریت کو تقویت پہنچی اور ریاست کو میکاولی کے اُصولِ سیاست سے۔ کیا خوب کہا ہے حضرت علامہ نے: کلیسا کی بنیاد رہبانیت تھی سماتی کہاں اس فقیری میں میری خصومت تھی سلطانی و راہبی میں چلی کچھ نہ پیر کلیسا کی پیری ہوئی دین دولت میں جس دم جدائی ہوس کی امیری، ہوس کی وزیری دوئی ملک و دیں کے لیے نامرادی دوئی چشم تہذیب کی نابصیری لہٰذا تحریک اصلاح دراصل ایک سیاسی اور قومی تحریک بھی تھی، گو ابتدا میں اس کا اظہار مذہبی پیراے میں ہوا۔ کلیسا کو دعویٰ اقتدار تھا، مگر اس دعویٰ اقتدار کی بنا کسی اُصولِ سیاست پر نہیں تھی بلکہ پاپائیت پر کہ پوپ اپنے دینی اقتدار سے کام لے کر ہر ملک کی سیاست میں دخل دیتا، بادشاہوں کو ایک دوسرے کے خلاف اُکساتا، مسیحیت کی دینی برادری سے خارج کرتا۔ یوں ہر طرف رشوت، خیانت اور بددیانتی کا دور دورہ ہونے لگا۔ ظاہر ہے یہ صورتِ حالات دیر تک قائم نہیں رہ سکتی تھی، نہ رہی۔ ۳۲- لہٰذا اسلام کی زبان میں جنگ محض جنگ (قتال) نہیں ہے بلکہ قتال فی سبیل اللہ اور اس لیے امن و سلامتی کا ایک ذریعہ، تاکہ فساد فی الارض کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوجائے اور آخرالامر ’’جنگ بھی اپنے ہتھیار ڈال دے‘‘-۴۷ (محمد):۴۔ ۳۳- جیسے بنی اسرائیل کو کہ مصر میں غلامی اور محکومی کی زندگی بسر کررہے تھے، یا جیسے اللہ تعالیٰ نے ہم مسلمانوں کو طاقت دی کہ پاکستان قائم ہوا۔ یوں بھی ضعف کے بعد قوت اور قوت کے بعد ضعف تاریخ کا ایک عالم گیر مظہر ہے۔ ۳۴- حضرت علامہ کے پیروکار اور دل روز کے موجد، نہایت مخلص، دیانت دار اور نیک منش انسان تھے۔ حضرت علامہ سے مخلصانہ وابستہ رہے۔ ۳۵- سورہ المزمل: ۲۰۔ ۳۶- سورہ التوبہ: ۱۲۰۔ ۳۷- ضلع سیالکوٹ میں ایک گاؤں۔ ۳۸- کشمیری اونی کمبل۔ ۳۹- محکمہ تعمیرات عامہ میں۔ ۴۰- اس وقت ڈپٹی انسپکٹر جنرل خفیہ پولیس۔ ز…ز…ز سہ شنبہ: ۸؍فروری آج صبح دو ایک کاموں سے فارغ ہوا تو کوئی دس بجے کے قریب حضرت علامہ کی خدمت میں حاضری کا موقعہ ملا۔ علی بخش نے کہا چودھری صاحب ابھی اُٹھ کر گئے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے زیادہ تر گفتگو انقلاب کی اس روش ہی کی تھی کہ اس کا تردیدی بیان شائع نہ کرنا اُصول صحافت کے خلاف ہے۔ لیکن پھر اطمینان تھا کہ ٹریبیون۱؎ میں اس کی اشاعت تمام و کمال ہوگئی، لہٰذا قوم کو اس باب میں کوئی غلط فہمی نہیں رہے گی۔ حضرت علامہ کی کبیدگی خاطر بھی بڑی حد تک دور ہوچکی تھی۔ مگر پھر سوال یہ تھا کہ مسلمان حالات حاضرہ سے سبق کیوں نہیں لیتے؟ ان میں ماشاء اللہ علم و فضل کی کمی نہیں۔ یہ کہنا تو غلط ہوگا کہ وہ احوال عالم اور سیاست حاضرہ سے بے خبر ہیں اور ان حقائق کو نہیں سمجھتے جن پر قوموں کی زندگی اور ان کے حفظ و بقا کا دار و مدار ہے۔ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ جن حضرات نے مغربی تعلیم حاصل کی ہے ان کا یہ حال ہے کہ اسلام کی رعایت سے ان حقائق کی ترجمانی کرسکتے ہیں، نہ قوم کو کوئی راہ دکھانے کے قابل ہیں۔ لیکن ہمارے علما اگر ان حقائق کو سمجھتے ہیں تو وہ ان کی تعبیر اسلام کے نقطۂ نظر سے کیوں نہیں کرتے؟ میں نے عرض کیا ’’پھر ایک دوسری بات یہ ہے کہ آپ نے اسلام کی عقلی تعبیر میں نفس انسانی یا کسی اور مابعدالطبیعی مسئلے مثلاً حیات بعدالموت یا زمان و مکان کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے، علماے اسلام بہ ظاہر ان سے بیگانہ نظر آتے ہیں۔ انھیں آپ کے خیالات سے کوئی دل چسپی بھی نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں یہ محض فلسفیانہ افکار ہیں یا سیاسی اور عمرانی تصورات، جو یورپ سے آئے ہیں، حالانکہ آپ نے جو کچھ کہا اسلام ہی کی بنا پر کہا ہے۔ علما آپ کی بات نہیں سمجھتے تو کیا اس لیے کہ آپ کا انداز گفتگو ان سے مختلف ہے، یا اس لیے کہ آپ نے جن حقائق کو اجاگر کیا ہے ہم اب تک ان سے بے خبر تھے؟‘‘ حضرت علامہ نے میری بات سنی تو فرمایا ’’یہ کہنا کہ علماے اسلام ان حقائق سے بے خبر تھے، صحیح نہیں ۔ وہ اس سلسلے میں بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ ان کی نظر ہر بات پر تھی۔ وہ تہذیب و تمدن اور اجتماع و عمران کے مسائل سے غافل تھے نہ علم و حکمت اور مابعد الطبیعی افکار سے، جس میں قرآن مجید نے ان کی رہنمائی کی۔ یہ انھیں کا تو کہنا تھا کہ قرآن مجید خلاصۂ کائنات ہے۔‘‘ ارشاد ہوا ’’قرآن مجید نے کہا ہے: شجر و حجر سب اللہ کی تسبیح کرتے ہیں۔‘‘۳؎ میں نے کہا ’’لیکن ہم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔‘‘۴؎ فرمایا ’’یہ صحیح ہے۔ لیکن تم اس حقیقت کو اس طرح سمجھو جیسے میں نے اسرار خودی میں لکھا ہے: سبزۂ بر دیں نمو روئیدہ است یعنی اس کا دین، یا دوسرے لفظوں میں اس کی فطرت ہے نمو۔ لہٰذا یہ نمو ہی اس کا اسلام ہے۔ تسبیح کا مطلب ہے ذات الٰہیہ کی پاکیزگی کا اقرار اور سجدہ عبارت ہے اس کی اطاعت سے۔ لہٰذا کائنات کا ہر ذرہ زبان حال سے حقیقتِ مطلقہ کی تنزیہ کرتا اور اسی کی اطاعت کا دم بھرتا ہے۔ پھر یہ اَمر اس حقیقت کا بھی اعتراف ہے کہ ہم اپنی ہستی کے لیے صرف اسی کے محتاج ہیں۔ میں خاموش تھا۔ ارشاد ہوا ’’میں نے کوئی ایسی بات نہیں کہی جو مجھ سے پہلے کسی نے نہ کہی ہو۔۵؎ کوئی نئی بات کہی ہے تو صرف یہ کہ وہ حقیقت جسے ہم خودی سے تعبیر کرتے ہیں، جو بڑھتی، پھیلتی، نموپاتی، طاقت اور قدرت حاصل کرتی ہے، وہ ایک ایسا عمل ہے جس کے مادی حیاتی اور نفسیاتی قوانین کی نوعیت قرآن پاک نے واضح الفاظ میں بیان کردی ہے۔ مفکرین اسلام نے البتہ اس باب میں جو غلطی کی وہ یہ کہ یونانیت کے زیر اثر اس نکتے کو نظر انداز کردیا جو خودی میں مضمر ہے۔۶؎ خاقانی نے کیا خوب کہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے اسی عہد کے کسی مبصر کے خیالات ہیں: مرکب دین کہ زادۂ عرب است داغ یونانش برکفل منہید۷؎ اس وقت مسئلہ یہ تھا کہ یونانیت کا داغ دھویا جائے۔ اب ہمیں فرنگیت کا داغ دھونا ہے۔‘‘ میں نے کہا ’’ہم لوگ تو خود ہی گرفتار فرنگ ہیں۔ یوں بھی فرنگ سے بے تعلق رہنا کیسے ممکن ہے؟ آپ نے بھی تو مغربی فلسفے کا مطالعہ کیا ہے۔ لوگ کہتے ہیں آپ ایسا نہ کرتے تو وہ افکار و تصورات جن کو آپ نے اپنی شاعری اور خطبات میں پیش کیا ہے کہاں سے آتے؟‘‘ ارشاد ہوا ’’لوگ جاہل ہیں۔ وہ بات نہیں سمجھتے۔ انھیں اپنے ماضی کی مطلق خبر نہیں۔ وہ کیا جانیں افکار حاضرہ کی حقیقی قدر و قیمت کیا ہے۔۸؎ یہ فلسفہ و حکمت تو خیر بڑی چیز ہیں، سیاست ہی کو دیکھ لو۔ مسلمانوں کے دلوں میں مغربی تصورات کا سکہ جم رہا ہے۔ اور تو اور یہ مولوی حسین احمد بھی کَہ رہے ہیں کہ قومیں وطن سے بنتی ہیں۔‘‘ پھر کچھ آب دیدہ ہو کر اور کچھ متاسفانہ لہجے میں فرمایا: ’’حق را بفریبد کہ نبی را بفریبد آں شیخ… کہ خود را مدنی خواند‘‘ ارشاد ہوا ’’یہ شعر یونہی ہوگیا ہے۔ قابلِ اعتنا نہیں۔‘‘ پھر فرمایا ’’ذرا خیال تو کرو۔ ایک طرف دیوبند ہے اور درس حدیث، دوسری جانب یہ ارشاد کہ اقوام اوطان سے بنتی ہیں۔‘‘ دوپہر ہوگئی۔ علی بخش نے کھانے کا پوچھا۔ ارشاد ہوا ’’لے آؤ۔‘‘ حضرت علامہ چاہتے تھے میں بات کیے جاؤں۔ انھوں نے کروٹ لی، حقے کا کش لگایا اور مسلمانوں کے ذہنی انحطاط پر تبصرہ کرنے لگے۔ فرمایا ’’ذہنی اضمحلال پیدا ہوا تو تہذیب جدید کے مقابلے کی تاب بھی نہ رہی۔‘‘ ارشاد ہوا ’’ہند ہو یا بیرون ہند، ہر کہیں ایک سی کیفیت ہے۔ زندگی کے آثار کہیں نظر نہیں آتے۔‘‘ مطلب یہ تھا کہ عالمِ اسلام میں کسی ایسی تحریک کے آثار نظر نہیں آتے جس سے اس کے زوال و انحطاط کا سد باب ہوسکے۔ میں نے عرض کیا ’’شاہ فاروق کی شادی ہوئی، مگر یہ ساری تقریب مغربی رسم و رواج کے مطابق ادا کی گئی۔ شیخ الازھر۹؎ کی حمیت دینی کے افسانے یوں تو بہت سننے میں آئے تھے، لیکن وہ بھی اس تقریب میں شریک تھے اور ایک لفظ تک اس کے خلاف نہیں کہا۔ تصویریں دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کسی فرنگی شہزادے کی رسم کتخدائی ادا ہورہی ہے۔‘‘ ارشاد ہوا ’’جب کوئی قوم گر جاتی ہے تو اس کا یہی حال ہوتا ہے۔ میں نے جاوید نامہ میں لکھا ہے مسلمان اپنی قوت تخلیق کھو کر دوسروں کی تقلید پر اتر آئے ہیں: تازہ اش جز کہنۂ افرنگ نیست یہ قوت تخلیق ہی قوموں کے آئین زندگی اور تہذیب و معاشرت کی جان ہے۔ ضرورت ہے قوت تخلیق کی۔‘‘ اتنے میں علی بخش کھانا لے آیا اور میں نے اجازت طلب کی۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱- Tribune، لاہور کا مشہور ہندو اور کانگریسی مسلک روزنامہ، اب شاید انبالہ سے شائع ہوتا ہے۔ میں جب دفتر انقلاب سے نکلا تو ٹربییون کا رُخ کیا۔ حضرت علامہ کا ارشاد تھا کہ انگریزی میں بھی ان کے تردیدی بیان کی اشاعت ہوجانی چاہیے۔ اس زمانے میں ہمارے ترکِ موالات اور جامعہ کے ساتھی جنگ بہادر سنگھ ٹربییونکے عملۂ ادارت میں شامل تھے۔ ٹربییونتو یوں بھی اس بیان کی اشاعت کرتا، لیکن مدیر مذکور کی وجہ سے اسے بڑی نمایاں جگہ دی گئی۔ دوسرے روز احسان اور شاید زمیندار نے بھی تردید شائع کردی۔ ۲- Epitome of the Universe۔ جیسا کہ حضرت علامہ نے انگریزی میں فرمایا۔ ۳- وَ اِنْ مِّنْ شَیْئٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ (بنی اسرائیل: ۴۲)۔ ۴- وَ لٰکِنْ لَّا تَفْقَھُوْنَ تَسْبِیْحَھُمْ (بنی اسرائیل: ۴۴)۔ ۵- حضرت علامہ یہ وضاحت فرماچکے تھے کہ ان کے خیالات کا سرچشمہ صوفیۂ کرام کے ارشادات اور علما و فلاسفہ اسلام کی تحریروں میں تلاش کیجیے۔ بایں ہمہ ان کی ہدایت فکر سے انکار کرنا ناممکن ہے۔ ۶- ملاحظہ ہو تشکیل جدید، خطبہ اول و چہارم۔ ۷- اور اس کے بعد دوسرا شعر ہے: مشتے اطفال نو تعلم را لوح ادبار دربغل منہید چنانچہ اس کے کچھ دنوں بعد حضرت علامہ نے مولانا حسین احمد کے جواب میں جو بیان شائع کیا اس میں یہ دونوں شعر شامل تھے۔ ۸- اور اسلامی افکار کا حصہ ان میں کیا ہے؟… ملاحظہ ہو تشکیل جدید، خطبۂ اول۔ ۹- شیخ مصطفی المراغی۔ ز…ز…ز چہار شنبہ: ۹؍فروری سہ پہر ہورہی تھی کہ میں حاضر ہوا۔ حضرت علامہ کو افسوس ہے شہید گنج کے سلسلے میں مسلمانوں کو برابر دھوکا دیا جارہا ہے، حالانکہ ضرورت اقدام کی ہے، کوئی ایسا اقدام جس سے مسلمانوں کی جمعیت مضبوط ہوتی۔ فرمایا ’’ہماری حالت تو جو ہے سو ہے، لیکن اس انگریزی حکومت کو دیکھیے جسے ’ڈیماکریسی‘ اور رائے عامہ کے احترام کا دعویٰ ہے۔ اگر ’ڈیماکریسی‘ کی یہی شان ہے جس کا ثبوت حکومت دے رہی ہے تو ایسی ’ڈیماکریسی‘ کسی شریف قوم میں پرورش نہیں پاسکتی۔‘‘ ارشاد ہوا ’’مغرب کا نظام مدنیت روبہ انحطاط ہے۔ ہٹلر ہی کو دیکھ لو اس کی آمریت سے کلیسا بھی محفوظ نہیں رہا۔۱؎ عالمِ اسلام میں بھی بڑے بڑے مستبد اور جبار و قہار گزرے ہیں، لیکن اس قسم کی مطلق العنانی کی مثال تو ان کے یہاں بھی نہیں ملتی۔ انھیں بھی اتنے اختیارات حاصل نہیں تھے۔‘‘ حضرت علامہ رُک رُک کر باتیں کررہے تھے۔ میں حتی الوسع کوئی سوال نہ کرتا۔ مطلب یہ تھا انھیں آرام ملے۔ انھوں نے دو ایک بار بچوں کا پوچھا۔ دو ایک بار علی بخش آیا، چلم بدلی، دوا کھلائی اور پاؤں دابنے لگا۔ حضرت علامہ نے کروٹ لی۔ شاید تھوڑی دیر کے لیے سوگئے۔ چودھری صاحب آگئے، پھر راجا صاحب۔ شام ہوچکی تھی۔ قرشی صاحب کا انتظار تھا۔ وہ آئے تو حضرت علامہ نے طبیعت کا حال بیان کیا۔ پھر شہید گنج، اپیل اور یونینسٹ پارٹی کی باتیں چل نکلیں۔ حضرت علامہ سنتے اور محظوظ ہوتے رہے۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱- ہٹلر برسراقتدار آیا تو پراٹسٹنٹ تحریک کے زیرنتیجہ۔ اگرچہ ہر پراٹسٹنٹ ملک میں ملکی کلیسا قائم ہوچکا تھا، مگر تھا ریاست سے آزاد۔ گویا یہ دو نظام ایک دوسرے میں مداخلت کیے بغیر پہلو بہ پہلو چل رہے تھے۔ لیکن ہٹلر نے فیصلہ کیا کہ جرمن کلیسا بھی جرمن ریاست کے ماتحت رہے گا، ریاست سے آزادانہ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ ز…ز…ز جمعرات: ۱۰؍فروری ابھی دوپہر نہیں ہوئی تھی کہ حاضر خدمت ہوگیا۔ خیریت مزاج پوچھی تو باتوں میں معلوم ہوا کہ پرسوں مولوی محمد علی۱؎ ملنے آئے تھے۔ دیر تک بیٹھے اور اپنی محبت اور مودت کا یقین دلاتے رہے۔ یہ بھی پتا چلا کہ دولتانہ۲؎ بھی آئے تھے۔ بظاہر عیادت کے لیے، مگر اصل مدعا کچھ اور تھا۔ کہنے لگے ’’سنا ہے لیگ کا اجتماع لاہور میں ہورہا ہے۔ ایسا ہوا تو شورش کا احتمال ہے۔ آپ جناح کو اطلاع کردیجیے۔‘‘۳؎ دولتانہ سے حضرت علامہ کا ذہن یونینسٹ پارٹی اور یونینسٹ پارٹی سے دیوبند کی طرف منتقل ہوگیا۔ مسلمانوں کی رہنمائی نہ اربابِ سیاست کررہے ہیں نہ اربابِ مذہب۔ یہ کیا بات ہے؟ شاید یہی احساس تھا جس کے ماتحت فرمایا ’’کیوں نہ مولوی حسین احمد اور ان کے طرف داروں سے کَہ دیا جائے کہ ہم قومیت کے مسئلے پر گفتگو کے لیے تیار ہیں، لیکن مدار بحث قرآن و سنت ہوگا۔‘‘ پھر فرمایا ’’یوسف سلیم چشتی کہاں ہیں؟ انھوں نے تحریک و ہابیت پر مضمون کیوں نہیں لکھا؟ اگر لکھیں تو مجھے دکھادیں۔‘‘۴؎ صحت مزاج اور دواؤں کے سلسلے میں طبّی مرکبات کا ذکر آگیا۔ خمیرہ گاؤ زبان اور دواء المسک کی تعریفیں ہونے لگیں۔ اتفاقاً اسی وقت علی بخش دوا المسک کی ایک خوراک چمچے میںلیے آگیا۔ حضرت علامہ نے بڑے مزے لے لے کر دوا کھائی اور کہنے لگے ’’بڑا افسوس ہے حکیم صاحب نے اس کی مقدار اتنی کم رکھی ہے… نہ چار نہ چھ، فقط دو ماشے۔‘‘ پھر فرمایا ’’قرشی صاحب آج شام ذرا جلدی تشریف لے آئیں۔ کچھ وقت نکال لیں تاکہ دواؤں اور ان کے استعمال کا ایک نقشہ تیار ہوجائے۔‘‘ چند منٹ خاموشی رہی۔ حضرت علامہ نے حقے کے دو ایک کش لیے۔ علی بخش چائے لے آیا۔ حضرت علامہ نے چائے پی، کچھ آرام فرمایا، پھر ارشاد ہوا ’’مسٹر ہیوم۵؎ آئے تھے۔ کہنے لگے، کسی صوفی بزرگ کا پتا دیجیے۔ میں نے کہا یہ تو ذرا مشکل سی بات ہے۔ ہماری عمر گزر گئی، کوئی مرد کامل نہ ملا۔ فرمایا ’’مسٹر ہیوم کہتے ہیں پروفیسر میسے نوں نے خود ان سے کہا تھا کہ اگر وہ حلاج کی تحریریں نہ پڑھتے تو دھریہ ہوجاتے۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا: ہمارا بھی شاید یہی حال ہوتا، لیکن ہماری دستگیری رومی نے کی۔ آپ غزالی پڑھ رہے ہیں۔ آپ یہ بات غزالی سے حاصل کرلیجیے۔‘‘۶؎ حضرت علامہ یہ کہ کر خاموشی ہوگئے۔ معلوم ہوتا تھا ان کا ذہن کسی گہرے فکر میں ڈوب گیا ہے۔ پھر جب چند منٹ کے بعد ’یااللہ‘ کہتے ہوئے ذرا سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور حقے کے دو ایک کش لیے تو میں نے اس خیال سے کہ مجھے کچھ کہنا چاہیے، عرض کیا ’’کوئی شعر تو نہیں ہوا؟‘‘ فرمایا ’’نہیں۔‘‘ شہید گنج کا ذکر آگیا۔ ارشاد ہوا ’’مرافعے کے حامی ٹال مٹول کررہے ہیں۔ ان کی مرضی ہے مسلمان خاموش رہیں، لیکن اس کی بجاے کہ اس خاموشی کی کوئی قیمت ادا کریں، اُلٹا ان سے چندہ وصول کررہے ہیں۔ یہ چندہ نہیں ہے، جرمانہ ہے۔ عجیب بات ہے مسلمان نقصان اُٹھائیں اور جرمانہ بھی ادا کریں۔‘‘ پھر بڑے دکھ بھرے لہجے میں فرمایا ’’مسلمان بھی کیا سادہ لوح ہیں اور انھیں ہمدرد بھی ملے ہیں تو کیسے بے درد! کیسے شاطر!‘‘ حضرت علامہ بڑے رنجیدہ خاطر تھے۔ قدرے سکوت کے بعد پھر فرمایا ’’تعجب ہے ان لوگوں کی منافقت پر!‘‘ اور پھر بعض کا نام لے کر کہنے لگے ’’ان کی منافقت میں خلوص بھی ہے۔ کیسے مخلص منافق ہیں یہ لوگ!‘‘ ئ…ئ…ء حواشی ۱- مرحوم امیر جماعتِ احمدیہ، لاہور۔ ۲- مرحوم نواب احمد یار خاں۔ ۳- یہ گویا یونینسٹ پارٹی کی طرف سے اعلان جنگ تھا۔ خیال تھا قائداعظم اس دھمکی سے مرعوب ہوجائیں گے۔ حضرت علامہ بھی اسے خاطر میں نہیں لائے، بلکہ ان کا یہ اصرار بڑھ رہا تھا کہ لیگ کا اجلاس لاہور ہی میں ہونا چاہیے، گو ان کی زندگی میں ایسا نہ ہوسکا۔ پھر اس ملاقات سے یہ بھی مطلب تھا کہ اس قسم کی لطیف دھمکی سے شاید یہ بھی معلوم ہوجائے کہ حضرت علامہ کی رائے اس باب میں کیا ہے، یا یہ کہ اربابِ لیگ کس فکر میںہیں؟ ۴- جیسا کہ راقم الحروف اس سے پہلے لکھ چکا ہے حضرت علامہ تحریک اہلِ حدیث اور تحریک وہابیت میں فرق کرتے تھے۔ علماے اہلِ حدیث کی خدمات کے وہ دل سے قائل تھے اور ان کا ذکر ہمیشہ دلی احترام سے کرتے۔ وہابیت ان کے نزدیک وہ غلط فرقہ بندی تھی جس کے متشددانہ عقاید اور تنگ نظری نے سیاست میں ایک نہایت غلط روش اختیار کررکھی تھی۔ پھر اس روش کی ایک تاریخ بھی ہے۔ لہٰذا یوسف سلیم چشتی جب ایک بار حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بعض سیاسی اور مذہبی خیالات کے پیشِ نظر اس تحریک پر گفتگو کرنے لگے تو حضرت علامہ نے فرمایا: کیا اچھا ہو جو آپ اس موضوع پر ایک مضمون لکھ دیں۔ لیکن چشتی صاحب معلوم نہیں کہاں غائب ہوگئے۔ نہ حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، نہ مضمون لکھا۔ ۵- Mr. Hume، شاید اس زمانے میں حکومت پنجاب کے سیکرٹری۔ ۶- یوں بھی کہ مسٹر ہیوم عیسائی تھے اور ہمیں معلوم ہے کہ مسیحی علم کلام، لہٰذا یورپ کے مذہبی دل و دماغ پر غزالی کا اثر نہایت گہرا ہے۔ ز…ز…ز جمعۃ المبارک: ۱۱؍فروری آج عید تھی، عیدالاضحی۔ نماز عید سے واپس آیا تو میں نے عزیزی نصیر۱؎ سے کہا ’’حضرت علامہ کی خدمت میں ہو آئیں۔ یہ فریضہ ابھی ادا ہو جانا چاہیے۔‘‘ سلامت بھی ساتھ تھے۔ جاوید منزل پہنچے اور صحن میں داخل ہوئے تو اول علی بخش کو عید کی مبارک باد دی۔ مصافحہ کیا، بغل گیری ہوئی، پھر حضرت علامہ کا حال پوچھا۔ علی بخش نے کہا ’’اللہ کا فضل ہے۔ اچھے ہیں۔ ملک برکت علی،۲؎ غلام رسول خاں۳؎ اور شیخ عظیم اللہ۴؎ سے باتیں ہورہی ہیں۔ عید کی مبارک باد دینے آئے تھے۔‘‘ سلامت نے کہا ’’ہم بھی اسی غرض سے آئے ہیں۔ اگر گفتگو نجی نہیں تو حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوجائیں؟‘‘ علی بخش نے کہا ’’شوق سے۔ لیگ ہی کی باتیں ہورہی ہیں۔‘‘ ہم لوگ کمرے میں داخل ہوئے تو حضرت علامہ کو ہشاش بشاش پایا۔ عید کی مبارک باد دی۔ صحت کا پوچھا۔ حسبِ معمول فرمایا ’’الحمدللّٰہ۔ اچھا ہوں۔‘‘ ملک صاحب اور خاں صاحب سے دیرینہ نیاز حاصل تھا۔ ان سے بھی مبارک باد عرض کی گئی اور وہ بھی بڑے تپاک سے پیش آئے۔ یوں سلسلۂ گفتگو چند منٹ کے لیے منقطع ہوگیا۔ لیکن پھر جب ہم خاموشی سے اپنی جگہ پر بیٹھ گئے تو حضرت علامہ نے خاں صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ’’آپ کا یہ خیال غلط ہے کہ یونینسٹ پارٹی لیگ کے اجتماع پر اس لیے مصر ہے کہ جناح قانون شکنی کی مخالفت کریں گے، لیگ کی اکثریت ان کا ساتھ دے گی، لہٰذا مسلمان لیگ سے بدظن ہوجائیں گے اور کامیابی یونینسٹ پارٹی کو ہوگی۔۵؎ میری رائے اس کے خلاف ہے۔ آپ لیگ کا اجتماع ہونے دیجیے۔ قانون شکنی تو کیا، گورنر کی واپسی۶؎ بلکہ بعض وزرا کے استعفوں اور برطرفی تک کا۷؎ مطالبہ کیا جاسکتا ہے۔ نئے آئین کے ماتحت ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ دو آنے دے کر لیگ کا رکن بن جائے، بالفاظِ دیگر ہر شخص دو آنے میں حق رائے دہندگی خرید سکتا ہے۔ کیوں نہ لیگ کی رکنیت کا دائرہ وسیع کریں؟ میرے خیال میں تو دو آنے کیا لوگ دو روپے بھی بخوشی ادا کردیں گے۔‘‘ خاں صاحب نے کہا ’’آپ کا ارشاد بجا ہے۔ دراصل یہی اَمر مشورہ طلب تھا۔ ہمیں آپ کی اس رائے سے اتفاق ہے۔‘‘ خاں صاحب کی اس بات پر ملک صاحب نے وزارت پنجاب کے متعلق بڑی دل چسپ باتیں چھیڑ دیں۔ کہنے لگے، جب وزیراعظم بیمار تھے تو بعض ارکان مجلس برابر اس کوشش میں لگے رہے کہ ان کا ایک نائب، یعنی نائب وزیراعظم بھی ہونا چاہیے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر اس طرح کوئی نائب وزیراعظم ہوگیا تو شاید وزیر اعظم سے آگے بڑھنے میں کامیاب ہوجائے۔ ملک صاحب نے یہ بھی کہا کہ نواب ممدوٹ۸؎ اپنی جماعت مضبوط کررہے ہیں اور سر سکندر کے خیرخواہوں نے انھیں اس کی اطلاع بھی کردی ہے۔ حضرت علامہ نے فرمایا ’’سنا ہے آج مسجد میں صرف دو روپے چندہ وصول ہوا‘‘۹؎ اور پھر مسکرا کر کہنے لگے ’’ملک صاحب! دیکھیے گا، آپ بھی کہیں وزارت کے چکر میں نہ آجائیے گا۔‘‘ ملک صاحب کو ہنسی آگئی، کہنے لگے ’’میں اور وزارت؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘ حضرت علامہ نے کہا ’’ملک صاحب! میں ممدوٹ کے خلاف نہیں۔ مجھے صرف ان کی تجویز سے اختلاف ہے۔‘‘۱۰؎ پھر فرمایا ’’تھوڑے سے خلوص، دیانت اور محنت کی ضرورت ہے۔ اگر یسا ہوا تو عجب نہیں کہ پانچ چھ برس میں کوئی شخص پیدا ہوجائے اور سمجھے کہ پنجاب کا اصل مسئلہ کیا ہے۔ ایسا شخص نقصان میں نہیں رہے گا۔ اسے قیادت بھی ملے اور وزارت بھی۔ وزارت پنجاب کو بہرحال مستعفی ہوجانا چاہیے، اُصولاً بھی اور اس لیے بھی کہ اسمبلی میں کوئی شخص کام کا نہیں ہے۔‘‘ ارشاد ہوا ’’نواب صاحب اپنے رفقا سمیت لیگ میں شمولیت کا اعلان کیوں نہیں کردیتے؟ انھیں ایسا کرنا چاہیے۔‘‘۱۱؎ یہ باتیں ہورہی تھیں کہ شاید خاں صاحب نے کہا ’’اب تو بعض ہندو بھی اس اَمر کی تحریک کررہے ہیں کہ قسمت انبالہ کو پنجاب سے الگ کردیا جائے۔ ان کا خیال ہے کہ انبالہ، دہلی، اجمیر اور مارواڑ کو ملا کر ایک نیا صوبہ قائم کردینا چاہیے۔‘‘ حضرت علامہ نے فرمایا ’’یہ تجویز بڑی مبارک ہے۔ مسلمانوں کو فوراً اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔‘‘۱۲؎ پھر ذرا مسکراتے ہوئے فرمایا ’’یونینسٹ پارٹی کے ہندو ارکان اگر کچھ بھی عقل رکھتے ہیں تو انھیں چاہیے اس تجویز کو بلاتامل قبول کرلیں۔ اس طرح سر چھوٹورام بہ آسانی وزیر اعظم بن جائیں گے۔‘‘۱۳؎ چند منٹ اور نشست رہی۔ پہلے شیخ صاحب نے اجازت لی، پھر ملک صاحب اور خاں صاحب نے۔ سلامت کا خیال تھا کہ اب موقع ہے، ہمیں اپنے معاملات کے بارے میں بات کرلینی چاہیے، لیکن میں نے روک دیا۔ جی نہیں چاہتا تھا کہ حضرت علامہ کو اپنی ذاتی مشکلات کے ذکر سے پریشان کیا جائے۔ علی بخش آگیا۔ حضرت علامہ کے کھانے کا وقت ہوگیا تھا۔ یوں بھی دوپہر کب کی ہوچکی تھی۔ ہم نے اجازت لی۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱- سیّد نصیر احمد، میرا بھائی۔ ۲- مرحوم۔ وکیل اور مشہور قانون دان، پنجاب میں لیگ زندہ رہی تو ان ہی کے دم سے۔ وہ تن تنہا پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی میں برسوں لیگ کی نمایندگی کرتے رہے۔ بڑے مخلص اور دیانت دار کارکن تھے۔ افسوس ہے ان کا انتقال تقسیم ملک سے پہلے ہی ہوگیا، ۱۹۴۶ء میں۔ ۳- مرحوم۔ بیرسٹرایٹ لا، یونینسٹ پارٹی کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ ملک صاحب مرحوم کے رفیق کار اور حضرت علامہ کے دیرینہ نیازمند۔ ان کی صحت تقسیم ملک سے پہلے ہی خراب ہوچکی تھی۔ تقسیم ملک کے کچھ دنوں بعد انتقال فرمایا۔ ۴- مرحوم۔ وکیل، انجمن حمایت اسلام کے سیکرٹری اور دیرینہ کارکن۔ چند برس ہوئے انتقال ہوگیا۔ ۵- یونینسٹ پارٹی اول تو چاہتی نہیں تھی کہ لیگ کا اجلاس لاہور میںہو۔ چنانچہ حضرت علامہ سے کَہ بھی دیا گیا تھا کہ اگر یہاں لیگ کا اجلاس ہوا تو فساد کا خطرہ ہے، لہٰذا وہ قائداعظم کو متنبہ کردیں۔ پھر رائے ہوئی کہ کیا مضائقہ ہے، لاہور ہی میں اجلاس ہونے دیا جائے، بلکہ کوشش کی جائے کہ ضرور ہو۔ مسلمان برافروختہ ہیں۔ شہید گنج کے معاملے میں قانون شکنی کی تحریک کی گئی تو قائداعظم اس کی مخالفت کریں گے اور یہ گویا یونینسٹ پارٹی کی جیت ہوگی۔ لہٰذا خاں صاحب کا خیال تھا کہ اندریں صورت مصلحت یہی ہے کہ لیگ کا اجلاس لاہور میں نہ ہو۔ ۶- گورنر اس لیے کہ سب سے بڑھ کر اسی نے سکھوں کو مسجد کے انہدام پر اُکسایا اور اربابِ اقتدار کو مجبور کیا کہ اس معاملے میں اس کا ساتھ دیں۔ پھر قانون کا استعمال بھی بڑی بے دردی سے کیا، چنانچہ عوام نے اس کے لیے ایک سکھی نام بھی تجویز کردیا تھا۔ اسے ایمرسن کے بجاے امرسنگھ کہتے تھے۔ ۷- یعنی کابینہ پنجاب کے ان دو مسلمان وزرا کا جن کے بارے میں شبہ تھا انھوں نے مسجد کے انہدام کی تجویز میں گورنر کا ساتھ دیا۔ ۸- شاہ نواز خان مرحوم۔ ۹- دو یا اس سے کچھ زیادہ۔ ٹھیک رقم یاد نہیں رہی۔ مطلب تھا براے نام۔ اس لیے کہ مسلمان پریوی کونسل میں اپیل کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ ان کا خیال تھا ہائی کورٹ کی طرح پریوی کونسل سے بھی انصاف کی توقع رکھنا بے سود ہے اور اس کی وجہ یہ کہ مسجد شہید گنج کا انہدام دراصل ایک سیاسی معاملہ ہے، نہ کہ قانونی۔ مسجد، یعنی شاہی مسجد (جامع عالم گیری)، جسے ایک طرح سے سرکاری مسجد کی حیثیت حاصل تھی۔ یہی مسجد تھی جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت علامہ نے فرمایا تھا: بیا تاکار ایں اُمت بسازیم قمار زندگی مردانہ بازیم چناں نالیم اندر مسجد شہر کہ دل در سینۂ ملا گدازیم ارمغان حجاز ۱۰- کہ پریوی کونسل میں اپیل کی جائے۔ ۱۱- یونینسٹ پارٹی سے کاملاً قطع تعلق کرتے ہوئے۔ ۱۲- جیسا کہ حضرت علامہ خطبۂ الٰہ آباد میں تجویز فرما چکے تھے۔ ۱۳- وطن ضلع رہتک، پنجاب کے ہندو جاٹوں کے نمایندہ اور یونینسٹ پارٹی کے سرگرم کارکن۔ ان کے متعلق لطف کی بات یہ ہے کہ اپنی تقریروں میں بکثرت حضرت علامہ کے اشعار کا حوالہ دیتے۔ انھوں نے سیاست میں قدم رکھا اور پھر ہندو جاٹوں کی نمایندگی کے سہارے چند ہی دنوں میں قلم دان وزارت ہاتھ میں لے لیا۔ بابائے اُردو نے پہلی مرتبہ ان کا نام سنا تو قہقہہ لگاتے ہوئے کہتے ’’چھوٹو؟ چھوٹو بھی کیا نام ہے!‘‘ ز…ز…ز شنبہ: ۱۲؍فروری شام کے قریب حاضر ہوا۔ دیرتک نشست رہی۔ چودھری صاحب اور راجا صاحب جلد ہی آگئے تھے۔ قرشی صاحب البتہ ذرا دیر سے آئے، نبض دیکھی، خیریت مزاج پوچھی اور حسبِ معمول دوا اور غذا کا دریافت کیا م-ش بھی آگئے۔ علی بخش حضرت علامہ کے پاؤں اور پنڈلیاں داب رہا تھا۔ رحما چلم لے آیا۔ چائے کا اہتمام ہوا۔ قرشی صاحب نے کہا ’’دواؤں کا نقشہ تیار ہے۔ مجھے اطلاع ہوگئی تھی۔ میں خود بھی اسی فکر میں تھا۔‘‘ مسلمانوں کی نفاست مزاج کا ذکر ہونے لگا۔ انھوں نے دوائیں بھی تیار کیں تو کیسی خوش رنگ، خوش ذائقہ اور خوش بو۔ ارشاد ہوا ’’قرشی صاحب ماشاء اللہ سمجھ دار ہیں۔ کیوں نہ وہ ایک طبّی ادارہ قائم کریں۔ یوں ان کی شہرت پنجاب اور بیرون پنجاب میں پھیل جائے گی۔ ممکن ہے یہ اَمر طب کی ترقی کا باعث ہو۔‘‘ قرشی صاحب نے خاموشی سے حضرت علامہ کے ارشاد کو سنا۔ م-ش نے ان کی تائید کی۔ فرمایا ’’طب قدیم ہو یا جدید، اس کی ترقی کا انحصار نوابغ پر ہے۔ عام دستور یہ ہے کہ ہر معالج امراض کے چند نسخے اور تدابیر یاد رکھتا اور پھر جیسے جیسے ضرورت پیش آتی ہے، علاج و معالجے میں ان سے کام لیتا ہے۔ اگر اس اعتبار سے بھی چند اچھے طبیب پیدا ہوجائیں اور سمجھ سے کام لیں تو غنیمت ہے۔ یوں بھی طب کو فروغ ہوگا، گو اصل ضرورت اجتہاد فکر کی ہے، حذاقت اور طباعی کی۔ شہید گنج کا ذکر آگیا، پھر لیگ کے اجلاس لاہور، یونینسٹ پارٹی کے داؤ پیچ، اپیل اور چندے کا اور بالآخر اجتماع عید کا کہ ہجوم مؤمنین تو تھا لیکن شکوہ ملک و دیں سے خالی۔۱؎ حضرت علامہ نے فرمایا ’’شکوہ ملک و دیں ناممکن نہیں، لیکن ضرورت قیادت کی ہے، مسلمانوں کو ایک مرکز پر جمع کرنے اور اس مدار سیاست پر لانے کی جو اسلام نے قائم کیا۔ کل شیخ عظیم اللہ جب شیخ گلاب دین مرحوم۲؎ کا ذکر کررہے تھے تو مجھے خیال آیا کہ شیخ صاحب والد ماجد کے قدیم احباب میں سے تھے۔ بچپن میں والد ماجد کے ساتھ میں دو ایک بار ان کے یہاں حاضر بھی ہوا تھا۔ میں نے ان کا ذکر چھیڑ دیا۔ حضرت علامہ نے فرمایا ’’شیخ صاحب مرحوم نے وکالت کی سند حاصل کی تو شاہ صاحب نے ان سے کہا، آپ لاہور چلے جائیے اور وہیں وکالت کیجیے۔ سیالکوٹ کا قیام آپ کو راس نہیں آئے گا۔ لاہور میں آپ کے لیے بہت کچھ ہے۔ چنانچہ وہ لاہور آئے اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ وہ بڑے دیانت دار، بڑے سمجھ دار، سوچ سمجھ کر خرچ کرنے والے اور جزرس انسان تھے۔ شاہ صاحب کی پشین گوئی حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بڑی برکت دی اور انھوں نے بھی شبانہ روز محنت سے بہت بڑی جائیداد پیدا کرلی تھی۔۳؎ مجھ سے عمر میں بڑے تھے، لیکن اکثر ملاقات کے لیے آجاتے۔ ان کی وضع داری قابلِ داد تھی۔‘‘ ئ…ئ…ء حواشی ۱- عید آزاداں شکوہ ملک و دیں عید محکومان ہجوم مومنیں (پس چہ باید کرد) ۲- وطن سیالکوٹ، مولانا میر حسن کے شاگرد۔ آگے چل کر شاہ صاحب کا اشارہ بھی مولانا ہی کی طرف ہے۔ ۳- چنانچہ پرانی انارکلی میں شیخ گلاب دین فری ہاسپیٹل کے نام سے اب بھی ان کی ایک یادگار قائم ہے۔ ز…ز…ز دو شنبہ: ۱۴؍فروری وقت اگرچہ کم تھا، لیکن ریڈیو اسٹیشن جاتے ہوئے حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ ابھی شام نہیں ہوئی تھی۔ کمرے میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں ایک صاحب کرسی پر بیٹھے ہیں۔ لباس وہی ہے جو اہلِ پنجاب عام طور پر پہنتے ہیں، یعنی شلوار، قمیض اور چھوٹا کوٹ، لیکن میں نے دیکھا کہ حضرت علامہ کسی قدر پریشان خاطر ہوکر ان سے کَہ رہے ہیں ’’اچھا! متنجن اور بریانی کا مطالبہ ہے۔‘‘ یہ کہتے کہتے حضرت علامہ کا چہرہ پھر مکدر ہوگیا۔ میرے لیے یہ صاحب بالکل اجنبی تھے۔ میں نہیں سمجھا معاملہ کیا ہے۔ حضرت علامہ نے پھر فرمایا ’’افسوس ہے، ہم اس کے لیے تیار نہیں۔‘‘ پھر تھوڑی دیر تک خاموشی رہی۔ وہ صاحب خاموش تھے۔ میں بھی چپ چاپ بیٹھا تھا کہ حضرت علامہ نے پھر مہر سکوت توڑی اور ان کی طرف متوجہ ہوکر کہنے لگے ’’کے آدمیوں کے لیے؟‘‘ میں حیران تھا معاملہ کیا ہے؟ نذر و نیاز کا خیال ہے یا صدقے کا؟ اور یہ صاحب ہیں کون؟ غرض جو بات تھی، ایک معما! چند منٹ اور گزرے، حتیٰ کہ وہ صاحب چلے گئے۔ معلوم ہوا ان کا نام مرزا دین محمد ہے۔ زیادہ کچھ پتا نہ چلا۔ حضرت علامہ بدستور کبیدہ خاطر تھے۔ میں نے مزاج پوچھا تو الحمدللّٰہ کَہ کر خاموش ہوگئے۔ مجھے اس صورتِ حالات سے خاصی پریشانی تھی کہ حسن اتفاق سے ٹھیک اسی وقت غلام رسول خاں تشریف لے آئے، پھر پروفیسر یوسف سلیم چشتی اور پھر خواجہ عبدالوحید۔۱؎ شہید گنج کا ذکر چھڑ گیا۔ وزارت پنجاب، یونینسٹ پارٹی اور انجمن حمایت السلام کے متعلق سرسری سی باتیں ہوتی رہیں، البتہ ایک مرتبہ حضرت علامہ نے خواجہ صاحب سے مستفسرانہ فرمایا ’’آپ کی یہ قرارداد کہ جن لوگوں نے مسجد گرائی ہے وہی مسلمانوں کے ہمدرد بن کر اپیل کے درپے ہیں بہت خوب ہے۔ مگر خواجہ صاحب! آپ ان اشخاص، یا شخص کا نام کیوں نہیں لے دیتے جنھوں نے، یا جس نے ایسا کیا؟ کیوں نہ مسلمان جان لیں ان کے یہ ہمدرد اور بہی خواہ ہیں کون؟‘‘۲؎ لیکن خواجہ صاحب خاموش رہے۔ انھوں نے حضرت علامہ کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا جیسے سب کو معلوم ہے کہ مسجد کیوں اور کس کے ایما پر گرائی گئی۔ پھر مجھ سے فرمایا ’’کوئی خبر ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’خبر تو کوئی نہیں ہے بجز اس کے کہ کہیں نہ کہیں بلوہ ہوجاتا ہے۔‘‘ اس پر فرمایا ’’آج باجے کا سوال ہے، کل قربانی کا جھگڑا۔ ان سب باتوں کا مطلب سواے اس کے اور کیا ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں بربناے قومیت کوئی اتحاد ممکن نہیں۔‘‘ ارشاد ہوا ’’ہندو قومیت کا وجود بھی براے نام ہے۔ اگر آج ہندوؤں میں مہاراشٹر کی علیحدگی کا خیال پیدا ہورہا ہے تو آپ لوگ دیکھیے گا کل اتحاد بنگال کا مطالبہ ہوگا۔‘‘۳؎ میں نے عرض کیا ’’آپ کا ارشاد کیا یہ ہے کہ از روے سیاست ہندوستان میں صرف مسلمانوں ہی کی حیثیت ایک قوم کی ہے؟‘‘ فرمایا ’’بے شک۔ ہندو ایک قوم نہیں ہے، بلکہ کئی ایک قوموں کا مجموعہ۔۴؎ اتحاد ہند کا خیال بیرونی حملوں سے ڈر کا پیدا کردہ ہے۔ جب تک یہ ڈر باقی ہے اتحاد کی کوششیں جاری رہیں گی۔ لیکن جس طرح یورپ کا اتحاد بالآخر ٹوٹا، ہندوستان کی تقسیم بھی یقینی ہے۔ اکبر کی کوشش تھی کہ ہندوستان متحد ہوجائے، مگر اس سے اور زیادہ افتراق پیدا ہوا۔۵؎ عالمگیر کو بھی اس کوشش میں ناکامی ہوئی۔ ایک کوشش وطنی تھی، دوسری سیاسی۔‘‘۶؎ پھر یورپ کی تقسیم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ’’میں بارہا کَہ چکا ہوں اس کی ابتدا لوتھر سے ہوئی۔ لوتھر کے ہاتھوں جب کلیسا کی سیادت ختم ہوئی تو اس سیاست کا بھی خاتمہ ہوگیا جس نے یورپ کو متحد کررکھا تھا، لہٰذا قدرتی بات تھی کہ اقوام یورپ کو کسی نئی اساس سیاست کی جستجو ہوتی۔ اس جستجو نے ان کی توجہ وطن اور نسل کی طرف منتقل کردی۔ آخرالامر زمین اور رنگ بناے سیاست ٹھہری۔ یوں جغرافی قومیت اور وطنیت کا ظہور ہوا، قومیں اور ملک وجود میں آئے اور مذہب ایک اَمر ثانوی رہ گیا۔ لیکن قوموں اور ملکوں کا وجود جب ہی قائم رہتا کہ ان کی طاقت غیر متوازن نہ ہونے پاتی۔ لہٰذا اقوام یورپ برابر اس کوشش میں لگی رہیں کہ جس طرح بھی بن پڑے ایک دوسرے کے درمیان توازن قائم رکھیں۔ بایں ہمہ توازن قوت برقرار نہ رہا۔ اس کی وجہ تھی اقوام یورپ کی نسلی اور جغرافی عصبیتیں، ان کی ہوس استعمار اور جوع الارض، جس میں انھوں نے ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کی، لہٰذا ان کی باہمی آویزش، ایک کے بعد دوسری لڑائی اور آخرالامر جنگ عظیم۔۷؎ جنگ کا خاتمہ ہوا تو دھریت نے سر اُٹھایا۔‘‘۸؎ فرمایا ’’ہندوستان کو بھی ان مراحل سے گزرنا ہوگا۔‘‘ شام ہوچکی تھی۔ خواجہ صاحب نے صحت کے بارے میں پوچھا تو فرمایا ’’چار برس تو کسی نہ کسی طرح گزر گئے۔ اب پانچواں برس ہے۔ دیکھیے کیا ہوتا ہے؟‘‘ حضرت علامہ نے یہ الفاظ کچھ اس طرح ادا کیے جیسے انھیں اپنی صحت سے مایوسی ہے۔ یوں محفل پر ایک افسردگی سی چھاگئی۔ خواجہ صاحب نے کچھ کلمات دعا کے طور پر فرمائے اور اجازت لے کر چلے گئے۔ میں تھوڑی دیر اور بیٹھا۔ حضرت علامہ نے کہا ’’حکیم فقیر محمد مرحوم نے عرصہ ہوا مجھے دودھ اور دودھ سے بنی ہوئی چیزوں کے استعمال سے روک دیا تھا، لیکن میں نے اس وقت ان کی اس بات کا مطلق خیال نہ کیا۔‘‘۹؎ میں اجازت لے کر باہر آیا تو علی بخش نے کہا ’’اللہ خیر کرے۔ ڈاکٹر صاحب اپنی بیماری کے متعلق اب ایسی ہی باتیں کرنے لگے ہیں۔‘‘ میں نے کہا ’’علی بخش! دعا کرو اللہ انھیں صحت دے۔‘‘ اور بڑی تشویش، اضطراب اور افسردگی کے عالم میں ریڈیو اسٹیشن چلا گیا۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱- اس زمانے میں سیکرٹری اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، مجلہ اسلام کے مدیر اعزازی اور انجمن خدام الدین کے رکن رکین۔ آج کل کراچی میں مقیم ہیں۔ ۲- یہ قرارداد شاید انجمن خدام الدین نے منظور کی تھی۔ لوگ اس قدر برگشتہ خاطر تھے کہ اس زمانے میں یونینسٹ پارٹی کے بعض حددرجہ ذی اثر اور مقتدر حضرات کا نام علانیہ لیا جارہا تھا۔ ان پر یہ الزام تھا کہ مسجد کا انہدام انھیں کی رضا مندی سے ہوا۔ ۳- چنانچہ ۱۹۴۷ء میں اس قسم کی ایک تجویز بھی بعض لوگوں کے ذہن میں تھی تاکہ بنگال کی تقسیم رُک جائے۔ ۴- اس لیے کہ ہندو ایک جاتی تو ہیں، مگر وسیع معنوں میں۔ اندرونی طور پر ان کا اتحاد کچھ زیادہ محکم نہیں۔ یہ مذہب اور معاشرت کا اتحاد ہے، سیاسی اور قومی اتحاد نہیں ہے، جیسا کہ بہ اصطلاح سیاست آج کل سمجھا جاتا ہے۔ ۵- اکبر یہ اتحاد جس بنا پر قائم کرنا چاہتا تھا اور اس کے لیے جو رواداری ضروری تھی اس سے ہندو سیاسی طور پر مضبوط ہورہے تھے۔ ۶- وطنی ان معنوں میں کہ اکبر نے اشتراک وطن کو اساس اتحاد ٹھہرایا۔ اس اساس کا تقاضا تھا کہ بمقابلہ سیاست مذہب کو ثانوی حیثیت دی جائے، ہر کوئی اپنے عقیدے پر قائم رہے اور ریاست اس بحث میں نہ اُلجھے کہ سب عقاید ایک سے ہیں، یا کسی ایک عقیدے کو دوسرے پر ترجیح حاصل ہے، بلکہ ہوسکے تو لوگوں کو آمادہ کیا جائے کہ ایک مشترک عقیدہ اختیار کرلیں۔ اکبر کا خیال تھا یہ مقصد شاید دین الٰہی کی وساطت سے پورا ہوجائے گا، گو آخرالامر اس نے خود ہی یہ خیال ترک کردیا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اکبر اس جغرافی قومیت کا پیش رَو ہے جس پر انگریزوں نے ہمیشہ زور دیا۔ لیکن اکبر نہیں سمجھا، نہ انگریز کہ اس اتحاد کے لیے جو اشتراک وطن پر مبنی ہے، جس وسعت اور رواداری کی ضرورت ہے ہندوؤں کو اس سے کوئی بہرہ نہیں ملا۔ وہ یہ بھی نہیں سمجھے کہ مسلمان ایک ایسا قوی اور سخت جان عنصر ہے جو اپنا جداگانہ تشخص بہرحال قائم رکھے گا، لہٰذا ناممکن ہے ہندوؤں کی کوششوں کے باوجود ان میں جذب ہوسکے۔ اکبر شاید خود بھی نہیں چاہتا تھا کہ مسلمان ہندو معاشرے کا جز بن جائیں۔ عالم گیر کی کوشش سیاسی تھی۔ ان معنوں میں کہ اس نے اکبر کی طرح نہ تو اشتراک وطن کو بناے اتحاد ٹھہرایا، نہ ہندوؤں سے مداہنت اختیار کی۔ وہ تیموری روایات سیاست اور قانون کے بھی خلاف تھا جن کا سلسلہ دراصل چنگیز خان کے ’یاسا‘ (آئین) تک پہنچتا ہے۔ اس کا ایمان تھا کہ اگر مغلیہ ریاست کا استحکام اسلامی نظام سیاست کی بنا پر ہوگیا تو اسلامی قوت اس قدر مضبوط ہوجائے گی کہ اس ملک کا اتحاد قائم رہے گا اور اس کی تقسیم بھی مختلف ریاستوں میں نہیں ہونے پائے گی۔ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ اسلامی معاشرے کے اخلاقی اور تہذیبی اثرات ہندوؤں کو اپنی طرف کھینچ لیں، حتیٰ کہ ریاست کا عدل و انصاف اور رواداری شاید انھیں قبولیت اسلام پر بھی آمادہ کردے۔ دکن کی فتح اور فتاویٰ عالم گیری کی تدوین انھی کوششوں کی بنا پر عمل میں آئی۔ ۷- ۱۹۱۴تا۱۹۱۸۔ ۸- جسے نسلیت اور جغرافی وطنیت پہلے ہی سے ہوا دے رہی تھی۔ حضرت علامہ نے لوتھر کی تحریک، اس کے سیاسی پہلو اور اہلِ مغرب کے اخلاق و معاشرت اور مذہبی زندگی میں جو انقلاب پیدا ہوا اس کا تجزیہ جس خوبی سے کیا ہے اس کے لیے ملاحظہ ہو ان کا عہد آفرین خطبۂ صدارت لیگ کے اجلاس الٰہ آباد میں، نیز ان کے مکتوبات، متفرق تحریریں اور کلام۔ ۹- حضرت علامہ کے مرض کی ابتدا بھی سویوںمیں دہی کے استعمال سے ہوئی۔ حکیم فقیر محمد چشتی مرحوم حضرت علامہ کے احباب میں سے تھے۔ اسرار خودی کا پہلا نسخہ انھیں کے اہتمام سے شائع ہوا۔ حکیم صاحب مرحوم کو طب میں جو مہارت حاصل تھی اس کے علاوہ خطاطی کے بھی ماہر تھے۔ طبیعت کے بڑے شگفتہ، بڑے بذلہ سنج، بڑے وضعدار اور احباب نواز تھے۔ ان کی ذات بھی ایک انجمن تھی۔ وچھو والی میں مطب کرتے۔ ہندوؤں میں بھی برے ہردلعزیز تھے۔ ز…ز…ز سہ شنبہ: ۱۵؍فروری حضرت علامہ فرماتے ہیں ’’مرزا دین محمد کے دماغ میں فتور تھے۔ یہ شخص سمجھتا ہے اس کا تعلق ارواح سے تھے۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’اب میں سمجھا کل آپ ان کی باتوں سے کیوں آزردہ خاطر ہورہے تھے۔‘‘ آج بھی میں چاشت سے پہلے ہی حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوگیا تھا۔ کئی باتیں مشورہ طلب تھیں۔ حضرت علامہ کا مزاج بفضلہ تعالیٰ نہایت شگفتہ ہے۔ مرزا دین محمد کے بارے میں ہنس ہنس کر گفتگو کرتے رہے: یہی دماغ کا فتور، ارواح سے تعلق، جنات کی تسخیر، نذر و نیاز، غرض کہ جملہ خرافات جو اس سلسلے میں اکثر سننے میں آتی ہیں۔ پھر ذرا دم لے کر حقے کا کش لیا اور تکیے کے سہارے کمر ٹیک لی تو میں نے ذاتی معاملات کا ذکر چھیڑ دیا۔ فرمایا ’’طلوع اسلام کا کیا ہوا؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’شاید دہلی ہی سے شائع ہو۔‘‘۱؎ قدرے خاموشی رہی۔ حضرت علامہ چاہتے تھے طلوع اسلام لاہور سے شائع ہو، مگر یہ دیکھتے ہوئے کہ ایسا کوئی امکان نہیں اس سلسلے میں کوئی سوال نہیں کیا۔ لہٰذا گفتگو کا رنگ بدل گیا۔ حضرت علامہ نے عزیزی منیر کے تقرر پر مکرر اظہار مسرت فرمایا اور مستقبل کے بارے میں مزید تسلی دلائی۔ میں نے صحت کا پوچھا تو ارشاد ہوا ’’دوا المسک کا استعمال شروع ہے۔ نیند البتہ بہت کم آتی ہے۔ جوشاندہ پیتا ہوں تو بڑا فائدہ ہوتا ہے۔۲؎ دمہ رُک جاتا ہے۔‘‘ ارشاد ہوا ’’جناح نے مرزا محمود احمد۳؎ کا خط مجھے بھیج دیا ہے۔ مرزا صاحب کہتے ہیں: ہماری جماعت میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے، اگر آپ نے ہمیں لیگ میں شامل نہ کیا تو مجبوراً کانگریس میں شمولیت کرنا پڑے گی۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘ فرمایا ’’رائے کا کیا سوال ہے؟ لیگ میں شامل ہوں یا کانگریس میں، ہم ان کی شمولیت کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ جو جی چاہیں کریں۔ دریافت طلب اَمر یہ ہے کہ مرزا صاحب کے نزدیک ہم مسلمان مسلمان ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں اور انھیں بھی اسلام کا دعویٰ ہے تو پھر لیگ یا کانگریس میں شرکت اور عدم شرکت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انھیں بہرحال لیگ میں شامل ہونا چاہیے۔ لیکن مرزا صاحب تو لیگ اور کانگریس سے سودا کرنا چاہتے ہیں اور یہ اس اَمر کا ثبوت ہے کہ یا تو بحیثیت ایک جماعت وہ مسلمانوں سے الگ رہنا چاہتے ہیں، یا ہمیں مسلمان نہیں سمجھتے۔ میں نے بہرحال جناح کو لکھ دیا ہے کہ اس قسم کے خطوں کا کوئی جواب نہ دیں۔‘‘ میں نے کہا ’’لاہوری جماعت کے بارے میں کیا رائے ہے؟ یہ جماعت تو ہماری تکفیر نہیں کرتی۔‘‘ فرمایا ’’یہ ٹھیک ہے، لیکن مسلمانوں کے نزدیک اس کا جرم یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو مسلمان، بلکہ بہتر مسلمان سمجھتی ہے جو مسلمانوں کی تکفیر کررہے ہیں۔‘‘۴؎ شہید گنج کی باتیں ہونے لگیں: ۱۹۳۵ کا ہنگامہ اور اب مسلمانوں کی خاموشی، بالخصوص مولانا ظفر علی خان کی۔ ہر کہیں گو مگو کی سی حالت، ہندوؤں اور سکھوں کا احساس تفوق، پریوی کونسل میں اپیل کا ڈھونگ، یونینسٹ پارٹی کے ہتھکنڈے۔ میں نے عرض کیا ’’اگر مسلمان قانون شکنی پر آمادہ ہوجائیں اور ہمارے اربابِ سیاست قید و بند کی سختیاں گوارا کرلیں تو کیا اس سے ہندوؤں اور انگریزوں دونوں کی آنکھیں نہیں کھل جائیں گی؟‘‘ فرمایا ’’کیوں نہیں۔ میری رائے میں قانون شکنی ہی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ قانون شکنی کے نتائج قوم کے لیے نہایت اچھے ہوں گے۔ لیگ کو بھی اپنی کمزوری کا احساس ہے۔ لیکن میں تو جناح کو یہی مشورہ دوں گا کہ قانون شکنی کی تحریک ہی ہماری یاس اور بے دلی کا واحد علاج ہے، بلکہ میری صحت نے اجازت دی تو میں خود بھی اس میں شرکت کروں گا۔‘‘ قانون شکنی سے تحریکِ خلافت اور تحریکِ خلافت کی ناکامی سے مسلمانوں میں جو انتشار پھیلا اس پر اظہار افسوس ہونے لگا۔ اس تحریک کی ناکامی کا ایک بہت بڑا سبب تو یہ تھا کہ اس کی زمام قیادت گاندھی جی۵؎ کے ہاتھ میں تھی اور کامیابی کا دارومدار ایک ایسے اتحاد پر جو قائم نہیں رہ سکتا تھا،۶؎ بلکہ اس کی کامیابی میں فریقین کو اپنی اپنی جگہ کچھ خطرات بھی تھے۔۷؎ بایں ہمہ اس سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ مسلمانوں میں ایثار و قربانی کا غیر معمولی جذبہ اور قوت عمل موجود ہے۔ جیسے اس کا وجود ختم ہوگیا، حالانکہ صورت یہ ہوتی ہے کہ بسبب زوال و انحطاط اس کے قواے علم و عمل مردہ ہوجاتے ہیں۔ قرآن پاک نے اس حالت کو بھی موت سے تعبیر کیا ہے۔ ارشاد ہوا ’’مسلمان اب بھی مردہ نہیں۔ ان میں علمی اور عملی ہر طرح کی صلاحیتیں موجود ہیں۔ ضرورت ہے ان سے کام لینے کی۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’لیکن سرِدست تو یہ حالت ہے کہ ہم سیاسی لحاظ سے بھی مردہ ہیں اور تہذیب و تمدن میں بھی دوسروں سے دب رہے ہیں۔ ہم میں زندگی پیدا ہوگی تو کیسے؟ عام خیال تو یہی ہے کہ قومیں پیدا ہوتی اور مرجاتی ہیں۔ اندلس اور صقلیہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یہی کچھ آج روس میں ہورہا ہے جہاں اسلام براے نام ہی باقی رہ گیا ہے۔ اندیشہ ہے ’’ہندوستان میں بھی یہی کچھ نہ ہو۔‘‘ ارشاد ہوا ’’اندلس اور صقلیہ میں مسلمانوں کی تباہی اُمت کے ایک جز کی تباہی تھی۔ اُمت کا وجود تو بہرحال قائم ہے۔ البتہ یہ ٹھیک ہے کہ قومیں پیدا بھی ہوتی ہیں اور مر بھی جاتی ہیں۔ قرآن پاک کا بھی یہی فیصلہ ہے۔‘‘۸؎ پھر کچھ تامل کے بعد فرمایا ’’قومیں پیدا ہوتی اور مرجاتی ہیں۔ یہ ایک آسان سی بات ہے جو سمجھ میں آجاتی ہے۔ لیکن بعض صورتوں میں یہ بھی تو ہوتا ہے کہ قوم کی ہستی تو قائم رہتی ہے لیکن بظاہر یوں نظر آتا ہے۔ میں نے عرض کیا ’’قرآن مجید میں آیا ہے: کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی…‘‘ اگرچہ مجھے کہنا چاہیے تھا: أنّٰی یَحْیِی ھٰذِہِ اللّٰہُ۔ فرمایا ’’لیکن یہ موت زندگی سے بدل سکتی ہے، بشرطیکہ ہم اپنے اندرون ذات میں بنیادی تبدیلی پیدا کریں، یعنی اس مقام پر واپس آجائیں جس سے ہم چلے تھے۔‘‘ حضرت علامہ رُک گئے۔ پھر فرمایا ’’یاد رکھو! دنیا کی کوئی قوم اپنا اُصول قومیت چھوڑ کر زندہ نہیں رہ سکتی۔ موت جب ہی وارد ہوتی ہے جب قومیں اپنے اُصول زندگی سے منحرف ہوجائیں۔ عالمِ اسلام اسلام کی بدولت وجود میں آیا۔ اس کی ہستی اسلام سے وابستہ ہے اور اسلام ہی کی بدولت اس میں پھر زندگی پیدا ہوگی۔‘‘ علی بخش نے چلم بدلی اور دوا کھلائی۔ حضرت علامہ ذرا سیدھے ہوکر بیٹھ گئے۔ فرمایا ’’قانون قدرت یہ ہے کہ اگر کسی قوم کو زندگی کی آرزو ہے تو اسے زندگی دی جائے۔‘‘ میں خاموش تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد فرمایا ’’تمھیں معلوم ہے قرآن پاک کی تعلیم اس بارے میں کیا ہے؟‘‘ میرے ذہن میں اس وقت عالمِ اسلام کے زوال کی تصویر پھر رہی تھی۔ میں گویا حضرت علامہ کی زبان میں اپنے آپ سے کَہ رہا تھا: جن کے ہنگاموں سے تھے آباد ویرانے کبھی شہر ان کے مٹ گئے، آبادیاں بن ہو گئیں حضرت علامہ کے سوال سے میں گویا سنبھل گیا۔ عرض کیا ’’میں کیا کَہ سکتا ہوں، البتہ میرا ذہن اس آیت کی طرف منتقل ہورہا ہے جس کا اشارہ حزقیل نبی کے رویا، یعنی بنی اسرائیل کی نشاۃ الثانیہ کی طرف ہے۔۹؎ بنی اسرائیل کو زندگی ملی، بیت المقدس پھر سے تعمیر ہوا، قید کی زندگی آزادی سے بدل گئی۔‘‘۱۰؎ ارشاد ہوا ’’یہ صحیح ہے، لیکن بنی اسرائیل کو زندگی ملی تو ان کے اس ایمان کی بدولت کہ ہماری ایک تقدیر ہے؟‘‘۱۱؎ فرمایا ’’کیا اسلام کی بھی کوئی تقدیر ہے؟ ۱۲؎ میں نے عرض کیا ’’کیوں نہیں؟‘‘ ارشاد ہوا ’’تو پھر سمجھ لو اسلام بھی ایک حقیقت ہے اور یہ حقیقت ہمیشہ قائم رہے گی۔ لہٰذا باوجود زوال و انحطاط عالمِ اسلام بھی پھر زندہ ہوگا اور ضرور ہوگا۔‘‘ حضرت علامہ تو یہ کَہ کر کسی خیال میں ڈوب گئے، البتہ کچھ دیر کے بعد جب انھوں نے پھر حقے کا کش لگایا تو میں۔ ’’عرض کیا ’’اجتماعی اعتبار سے تو انی یحیی ھذہ اللہ، یعنی قوموں کی بعثت ثانیہ کا جواب مل گیا، لیکن قرآن پاک نے اس سلسلے میں فرد کی حیات بعدالموت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ اس اعتبار سے ’کیف‘ کا مسئلہ حل طلب ہے، یعنی جس طرح قرآن پاک میں اسی آیت کے بعد اس کی صراحت کی گئی ہے۔‘‘۱۳؎ فرمایا ’’تمھارا اشارہ کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس سوال کی طرف ہے کہ اے اللہ! تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’جی ہاں اسی سوال کی طرف۔‘‘ ارشاد ہوا ’’اللہ تعالیٰ نے ’کیف‘ کا جواب ’صرھن‘ سے دیا اور ’صرھن‘ کا ترجمہ عام طور سے یہ کیا جاتا ہے کہ جانوروں کی تکہ بوٹی کردو۔ لیکن صرھن کے اس ترجمے سے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کی تکہ بوٹی کردی، ان کا ایک ایک جز ایک ایک پہاڑ پر رکھ دیا اور انھیں پکارا تو وہ دوڑتے ہوئے ان کے پاس آگئے ’کیف‘ کا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ ہاں اگر صرھن کے معنی ہیں سدھانا، راہ پر لگانا تو پھر تسلیم کرنا پڑے گا کہ ’کیف‘ کا جواب مل گیا۔۱۴؎ فلسفیانہ اعتبار سے بہرحال مسئلہ یہ ہے کہ جواہر کی وہ ترکیب جو عبارت ہے وجود انسانی سے کیا ایک دفعہ بکھر کر علی حالہ پھر بھی قائم ہوسکتی ہے؟ سائنس کا جواب اس سلسلے میں اگر مثبت نہیں تو منفی بھی نہیں ہے۔ اس کے امکان سے بہرحال انکار نہیں کیا جاسکتا۔‘‘۱۵؎ میں نے عرض کیا ’’لیکن اس میں ایک بات غور طلب ہے۔‘‘ فرمایا ’’کیا؟‘‘ ’’یہ کہ خلق اول تو ایک حقیقت ہے۔۱۶؎ انسان خود وجود میںآیا۔ دوسروں کو وجود میں آتا دیکھتا ہے۔ لیکن خلق آخر کا فہم نہایت مشکل ہے، جیسا کہ آپ نے خود بھی ارشاد فرمایا ہے۔‘‘۱۷؎ فرمایا ’’کیسے؟‘‘ ’’آپ کا ارشاد ہے قرآن پاک نے اس حقیقت کو مختلف مثالوں سے سمجھایا ہے، مثلاً زمین کا مردہ ہوکر پھر روئیدگی حاصل کرنا۔ قرآن پاک نے یہ مثال پیش کی اور فرمایا: کَذَلِکَ الْخُرُوْجُ۔۱۸؎ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ عمل کیسے اور کہاں رونما ہوتا ہے؟‘‘ ارشاد ہوا ’’حیاتی اعتبار سے تو ہم یہی کہیں گے کہ خلق اول کا عمل بطن مادر میں رونما ہوتا ہے۔ آگے چل کر عالمِ کائنات اس کا جولاں گاہ بنتا ہے۔۱۹؎ پھر اس کے لیے موت ہے، ایک گوشۂ زمین اور جسم کا انحلال و انتشار۔ لیکن اس کے باوجود اس کی وحدت قائم رہتی ہے، لہٰذا وہ پھر زندگی حاصل کرتا ہے۔ بالفاظِ دیگر بطن مادر کی طرح بطن مرقد میں بھی ایک عمل رونما ہوتا ہے اور یہی عمل ہے جس کی تکمیل پر اسے ایک نئی زندگی ملتی ہے۔ وہ گویا بطن مادر کی طرح بطن مرقد سے باہر قدم رکھتا ہے…کَذَلِکَ الْخُرُوْجُ۔۲۰؎ حضرت علامہ کے ذہن میں اس وقت دراصل قرآن مجید کا یہ ارشاد تھا کہ نشاۃ اولی کی طرح ایک نشاۃ ثانیہ بھی ہے۔ انھوں نے بات ختم کی تو میں نے کہا ’’آپ فرماتے ہیں ذات انسانی ایک وحدت ہے، اور یہ وحدت خودی کی وحدت ہے۔‘‘ فرمایا ’’بے شک‘‘۔ میں نے عرض کیا ’’یعنی شعور کی وحدت، بالفاظِ دیگر شعور ذات کا تسلسل۔۲۱؎ لیکن سائنس کی زبان میں گفتگو کی جائے تو سوال پیدا ہوگا کہ جواہر میں شعور کہاں سے آیا؟‘‘ ارشاد ہوا ’’سائنس کی زبان میں ہم یوں کہیں گے کہ شعور وہ حقیقت ہے جو ان کے اندر پہلے ہی سے موجود تھی۔ شعور ہی سے گویا ان کا وجود ہے،۲۲؎ لہٰذا شعور کا تسلسل حیات بعدالموت پر بھی قائم رہتا ہے، چنانچہ قرآن حکیم میں آیا ہے قیامت کے روز کافر کہیں گے: لَوْکاَنَ لَنَا کَرَّۃً۔‘‘۲۳؎ پھر فرمایا ’’یہ سب ا-اے مطلب کے طریق ہیں۔ قرآن پاک چاہتا ہے کہ ایک حقیقت بطور حقیقت ہمارے ذہن میں جاگزیں ہوجائے۔‘‘۲۴؎ حضرت علامہ رُک رُک کر گفتگو کررہے تھے۔ آواز میں ضعف تھا۔ کبھی کبھی ذرا سی شکایت دم کشی کی ہوجاتی۔ انھوں نے بات ختم کی اور تکیے پر سر ٹیک دیا۔ مطلب یہ تھا کہ سینے کو آرام ملے۔ پھر جب تھوڑی دیر کے بعد سر اُٹھایا اور میری طرف دیکھا، جیسے سلسلۂ گفتگو جاری رکھنا منظور ہو، تو میں نے عرض کیا ’’اس صورت میں۲۵؎ کیا حافظے کا تسلسل بھی ضروری ہے؟‘‘ ارشاد ہوا ’’حافظے کا نہیں، تشخص ذات کا۔ تشخص ذات کا تسلسل حافظے پر موقوف نہیں۔۲۶؎ اس کا تعلق خودی کے احساس سے ہے۔ یہ احساس یا شعور اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے۔‘‘۲۷؎ میں نے عرض کیا ’’مگر یہ احساس بسا اوقات دب بھی تو جاتا ہے، بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کالعدم ہوگیا، یعنی ہم نے اپنے آپ کو کھودیا۔ احساس ذات کی کمی۔ بلکہ فقدان کے مظاہر نفسیات میں بے شمار ہیں۔‘‘ فرمایا ’’یہ درست ہے۔ احساس ذات کی مسلسل اور ہر لحظہ موجودگی خودی کے اسرار میں ہے۔ یہ نتیجہ ہے خودی کے استحکام کا۔‘‘۲۸؎ میں نے پھر سوال کیا ’’یہ جو قرآن پاک میں ’کَمْ لَبِثْتَ‘ کا جواب ’ یَوْمآ اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ‘ دیا گیا ہے اس سے کیا زمانے کی نفی ہوجاتی ہے جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے؟‘‘۲۹؎ فرمایا ’’ہرگز نہیں۔ اس سے مراد ہے معیار زمانی کا اختلاف باعتبار مراتب شعور۔‘‘۳۰؎ اب حضرت علامہ تکیے سے ٹیک لگائے بڑے آرام اور اطمینان سے گفتگو فرمارہے تھے۔ طبیعت بفضلہ سنبھلی ہوئی تھی۔ پھر دفعتاً اُٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا ’’میں نے تم سے پہلے بھی کہا تھا اور اب پھر کہتا ہوں جاوید کی والدہ بعثت ثانیہ حاصل کرچکی ہے۔‘‘ بظاہر حضرت علامہ نے جو کچھ فرمایا اس کا موضوع زیر بحث سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اور تھا بھی تو بہت دور کا۔ انھوں نے جو کچھ فرمایا دفعتاً اوربالکل غیر متوقع طور پر، گو باعتبار موقع و محل نہایت مناسب۔ ارشاد ہوا ’’مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اس نے خود مجھ سے کہا ہے میرا حشر ہوچکا۔ جاوید کی پھوپھی آج کل یہیں ہے۔ وہ بھی کہتی ہے، میں نے خواب میں دیکھا ہے، بھابی مجھ سے کَہ رہی تھی جاؤ بانو کو دیکھ آؤ‘‘ میں کچھ متعجب تھا، کچھ خاموش۔ حضرت علامہ نے پھر فرمایا ’’بعض اوقات خوابوں میں اس قسم کے اشارات ہوجاتے ہیں، گو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ان اشاروں کا تعلق داخلی احساسات، یعنی محض اپنے خیالات سے ہے، یا فی الواقع خارج سے کوئی خبر ملتی ہے۔‘‘ فرمایا ’’یہ خارج سے خبر ملنا بھی، خواب کی حالت میں ہو، یا بیداری میں… ایک بڑا نازک اور غور طلب مسئلہ ہے، جس کا حل آسان نہیں۔‘‘ حضرت علامہ رُک گئے۔ پھر ارشاد ہوا ’’مادی علوم نے تو بے شک بڑی ترقی کرلی ہے، لیکن مادی علوم سے اس قسم کے مظاہر کی تحقیق میں کوئی مدد نہیں ملتی۔ ہماری توجہ حیاتیات اور نفسیات پر ہونی چاہیے۔‘‘۳۱؎ حضرت علامہ لیٹ گئے تاکہ ذرا آرام فرمالیں اور حقے کی نے ایک طرف پھیر دی۔ ان کے لیے مسلسل گفتگو کرنا بڑی مشکل، بلکہ ناممکن سی بات تھی اور میں کب سے محسوس کررہا تھا کہ وہ بہت تھک گئے ہیں۔ اتنے میں علی بخش آگیا اور ان کے پاؤں دابنے لگا۔ حضرت علامہ نے کروٹ لی تو اس خیال سے کہ ان کا ارادہ نیند لینے کا ہے، میں نے اجازت طلب کی۔ اشارے سے فرمایا ’’بہتر۔‘‘ میں باہر آگیا۔ دوپہر سے سہ پہر ہوگئی تھی۔ صحن میں پہنچا تو بچوں کی جرمن اتالیق نے چائے کے لیے روک لیا۔ وہ چائے کے اہتمام کے لیے اُٹھیں تو حضرت علامہ نے پھر بلا بھیجا کہ ہمارے ساتھ چائے پیو، کچھ اور باتیں کرنا ہیں۔ میں پھر خواب گاہ میں داخل ہوا اور عرض کیا ’’حاضر ہوں۔‘‘ فرمایا ’’جاوید م-ش کے ساتھ سینما جارہا ہے۔‘‘ پھر تصویر کا نام لے کر دریافت فرمایا ’’کیسی ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’نپولین کے حملے اور اس سلسلے میں ماری والیوسکا سے اس کے معاشقے کا قصہ ہے۔ اس میں تاریخ بھی ہے اور مغرب کی سیاسی اور اخلاقی زندگی کی جھلک بھی۔‘‘ حضرت علامہ نے تصویر کے متعلق پھر کوئی سوال نہیں کیا، گویا ان کی طرف سے اجازت تھی کہ جاوید اس قسم کی تصویر دیکھ سکتا ہے، مگر یوں نپولین کی شخصیت کا ذکر چھڑ گیا: کیا نپولین مسلمان تھا؟ اسلام کے متعلق اس نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان سے کیا نتیجہ اخذ کیا جائے؟ وہ خالصاً فرانسیسی نژاد تھا یا مخلوط النسل؟ کیا اس کی رگوں میں فی الواقع عربی خون موج زن تھا؟ ارشاد ہوا ’’ہمیں بھی اہلِ یورپ کی طرح اپنے رجال اور مشاہیر کی شخصیتوں پر قلم اُٹھانا چاہیے، مگر افسوس ہے ہم میں کوئی سیرت نگار ہے، نہ کسی کو سیرت نگاری کے فن سے دلچسپی ہے، حالانکہ سیرت نگاری حیاتِ ملّی کے استحکام کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔‘‘ علی بخش چائے لے کر آیا اور پیالی بناکر حضرت علامہ کی خدمت میں پیش کی۔ میں نے عرض کیا ’’اہلِ یورپ میں بعض کا تو یہ بھی خیال ہے کہ نادر شاہ ایرانی کی شخصیت نپولین سے کسی طرح کم نہیں تھی۔‘‘۳۲؎ ارشاد ہوا ’’تمھیں چاہیے اس موضوع پر کچھ لکھو۔‘‘ میں کہنا چاہتا تھا کہ حالات سے مجبور ہوں ورنہ شاید اس موضوع پر قلم اُٹھاتا، لیکن خاموش رہا۔ حضرت علامہ نے چائے پی لی تو حقے کا کش لگایا۔ میں نے عرض کیا ’’بچوں کی گورنس کہتی ہیں جرمنی سے کسی شخص نے جسے یوگ سے بڑی دلچسپی ہے انھیں لکھا ہے کہ یوگ کے بارے میں کتابوں کی کوئی فہرست بھیج دیں۔‘‘ ارشاد ہوا ’’سوامی وویکانند۳۳؎ نے اس موضوع پر بہت کچھ لکھا ہے، گو بالکل لچر۔ ان کی تصنیفات کی فہرست بھیجی جاسکتی ہے۔ چائے ختم ہوئی تو حضرت علامہ نے کچھ دیر آرام فرمایا، لیکن معلوم ہوتا ہے وحدت حیات کا خیال ان کے ذہن میں گھوم رہا تھا۔ ارشاد ہوا ’’وحدت حیات کا تصور کتنا مشکل ہے۔ یہ اَمر کہ باوجود انفرادیت کے افراد کی مثال نفس واحدہ کی ہے، آسانی سے سمجھ میں نہیں آتا۔۳۴؎ اس کا سمجھنا بڑا دشوار ہے۔‘‘۳۵؎ فرمایا ’’برگساں نے اس وحدت کے پیشِ نظر افراد کے باہمی تعلق کو لاسلکی۳۶؎ کے سے تعلق سے تعبیر کیا ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’یہ تشبیہ تو بڑی خوب ہے، لیکن برگساں کے متعلق ایک خیال یہ بھی تو ہے… معلوم نہیں صحیح یا غلط… کہ اس کا فکر خالصاً فلسفیانہ نہیں، بلکہ شاعرانہ بھی ہے۔‘‘ ارشاد ہوا ’’یہ خیال اس لیے پیدا ہوا ہے کہ موجودہ زمانے میں وہی ایک شخص ہے جس نے حیاتی مباحث پر گہرا غور و فکر کیا ہے۔ یوں بھی قدرت نے اداے مطلب کے لیے اسے ایک خاص ملکہ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی تحریر بڑی شگفتہ اور ساحرانہ ہے۔ استعارہ تو اسے فوراً سوجھتا ہے۔ بہرکیف لاسلکی کی تشبیہ سے اسے یہ کہنا منظور ہے کہ انسان محض جسم نہیں جیسا کہ مادئین کا خیال ہے، نہ جسم سے محدود جیسا، کہ ہم محسوس کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جسم نے ہماری ذات کے ارد گرد جو حصار کھینچ رکھا ہے وہ اس کے تشخص کا اختیاری مظہر ہے۔‘‘۳۷؎ میں نے کہا ’’پیرس میں جب آپ نے برگساں سے ملاقات کی اور گفتگو ہوئی تو کیا اس کی کوئی یادداشت بھی لی گئی تھی؟‘‘ فرمایا ’’امراؤ سنگھ۳۸؎ میرے ساتھ تھے۔ گفتگو بھی انھیں کے توسط سے ہوتی رہی اور انھی نے اسے قلم بند بھی کیا، مگر اس برے طریق سے کہ بعد میں انھیں خود بھی اپنی تحریر کا پڑھنا مشکل ہوگیا۔‘‘ ارشاد ہوا ’’اس گفتگو میں برکلے کے متعلق بھی خوب خوب باتیں ہوئیں۔ برکلے کی اہمیت موجودہ زمانے میں بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔‘‘۳۹؎ پھر فرمایا ’’اس گفتگو کا ملخص مشہور فن کار…۴۰؎ کو بھیج دیا گیا تھا، معلوم نہیں وہ کہیں موجود بھی ہے یا ضائع ہوگیا۔‘‘ میرے اس سوال پر کہ آپ نے برگساں سے کیا اپنے نظریۂ زمان کا ذکر بھی کیا تھا، فرمایا ’’ہاں اس کا ذکر آیا تھا اور برگساں کو بھی بڑا افسوس تھا کہ میں نے اسے کیوں ضائع کردیا۔‘‘۴۱؎ ئ…ئ…ء حواشی ۱- یعنی وہ مجلہ جس کا اجرا راقم الحروف نے ۱۹۳۵ میں دہلی سے کیا اور جو ۱۹۳۶ میں لاہور منتقل ہوا، مگر جس کی اشاعت جاری نہ رہ سکی۔ احبابِ دہلی کی کوشش تھی کہ اس مجلے کا مکرر اجرا ہو۔ انھوں نے ایک مجلس سی قائم کی اور حکیم احمد شجاع صاحب کو لکھا کہ اس سلسلے میں مجھ سے گفتگو فرمائیں۔ میں حکیم صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ متعدد نشستیں ہوئیں۔ بالآخر سلسلہ گفتگو ٹوٹ گیا۔ بناے اختلاف اُصولی تھی۔ مجلس کی رائے تھی کہ پنجاب کے اربابِ اقتدار، یعنی یونینسٹ پارٹی کے خلاف کچھ نہ لکھا جائے، اگر مجبوراً لکھنا بھی پڑے تو باحتیاط اور ہر طرح کی مصلحت کا لحاظ رکھتے ہوئے اور ختم نبوت کا تو ذکر تک نہ آئے (حالانکہ یہ اس وقت کا خاص اور بڑا اہم مسئلہ تھا)، نہ قائداعظم کی حمایت کی جائے۔ چنانچہ ۱۹۳۵ء میں جب اس کا پہلا پرچہ دہلی سے شائع ہوا تو اس کے دو مضامین ’’لیگ پارلیمنٹری بورڈ‘‘ اور ’’ختم نبوت‘‘ کے بارے میں کہیں اشارتاً، یعنی ذاتی گفتگوؤں میں اور کہیں صراحتاً، مثلاً روزنامہ انقلاب میں راقم الحروف کو مشورہ دیا گیا کہ نظر برحالات ان مسائل کو چھیڑنا خلاف مصلحت ہے۔ گویا دہلی سے لاہور آکر مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ زبان سے لوگ کچھ بھی کہیں عملاً اربابِ اقتدار کے ساتھ ہیں۔ فضا ناسازگار تھی۔ میں نے طلوع اسلام بند کردیا۔ حضرت علامہ کو بھی افسوس تھا۔ اس دوران میں پرویز صاحب بھی آزادانہ طلوع اسلام ہی کے نام سے اس مجلے کی اشاعت کا اہتمام کررہے تھے جو حضرت علامہ کی وفات کے بعد دہلی سے شائع ہوا۔ لیکن یہ طلوع اسلام کا دور جدید نہیں تھا، بلکہ ایک نیا طلوع اسلام جو دہلی سے کراچی اور کراچی سے بالآخر لاہور منتقل ہوگیا اور اب تک شائع ہورہا ہے۔ ۲- گل گاؤ زبان کے جوشاندے سے۔ ۳- جو اس زمانے میں بڑی سرگرمی سے یہ کوشش کررہے تھے کہ مذہبی اور سیاسی دونوں پہلوؤں سے اپنی جماعت کی الگ تھلگ حیثیت منوالیں۔ ۴- لاہوری جماعت کا ایک طرف تو یہ کہنا تھا کہ اسے بحث ہے تو مرزا صاحب کے دعویٰ امامت، مہدویت اور مسیحیت سے وہ قادیانی تصور نبوت کو صحیح تسلیم نہیں کرتی لیکن اسے شکایت تھی کہ اگر قادیانی جماعت غیر تشریعی نبوت کی قائل ہے اور غلطی سے اس پر مصر تو مسلمان اسے کافر کیوں ٹھہراتے ہیں۔ اسلام اہلِ قبلہ کی تکفیر کی اجازت نہیں دیتا، بلکہ اہلِ قبلہ کا مکفر خود کفر کا مرتکب ہوجاتا ہے۔ دوسری جانب وہ قادیانی جماعت کو کہ اہلِ قبلہ کی تکفیر کررہی تھی مسلمان ہی سمجھتی تھی، بلکہ زیادہ بہتر مسلمان۔ اس لیے کہ قطعِ نظر اس غلو کے جو قادیانی جماعت کو مرزا صاحب کے دعووں میں تھا لاہوری جماعت کو اس سے اختلاف تھا تو یہ کہ مرزا صاحب امام وقت تو ہیں (دیکھیے رسالہ ضرورۃ الامام) لیکن امام وقت کے انکار سے اسلام کا انکار لازم نہیں آتا، گو ایمان میں کمی رہ جاتی ہے لہٰذا قادیانی اہلِ قبلہ ہیں مسلمان ان کی تکفیر نہ کریں۔ لیکن قادیانی جماعت مسلمانوں کی تکفیر کرتی اور اس کے باوجود لاہوری جماعت اسے مسلمان سمجھتی۔ ۵- جس میں ان کے مخصوص مذہبی تصورات…ستیاگرہ اور اہنسا… کام کررہے تھے، لہٰذا خیال یہ تھا کہ اس تحریک کی روح غیر اسلامی ہے، چنانچہ ۱۹۲۰-۱۹۲۱ء میں یہ مسئلہ اکثر زیر بحث رہا کہ گاندھی جی کی ’نان کو آپریشن‘ کو کیا فی الواقع وہی حیثیت دی جاسکتی ہے جو اسلامی شریعت میں ترکِ موالات کو ہے۔ حالانکہ اس لحاظ سے یہ تحریک بلاشبہ ترکِ موالات کے اس تصور پر مبنی تھی جو از روے سورۂ ممتحنہ قائم ہوتا ہے اور جسے جمعیۃ العلماے ہند نے مولانا ابوالکلام کی رہنمائی میں اختیار کیا تھا۔ سورۂ ممتحنہ کی تعلیم یہ ہے کہ اگر کوئی قوم مسلمانوں کی دشمن ہے تو اس سے موالات جائز نہیں۔ انگریز مسلمانوں سے دشمنی کر رہے تھے۔ لہٰذا ترکِ موالات کی اس تعبیر سے کسی مسلمان نے انکار نہیں کیا، نہ کر سکا۔ چنانچہ ۱۹۲۰ء میں جب رہنمایان خلافت کا ایک وفد، جس میں مولانا محمد علی، مولانا شوکت علی اور مولانا ابوالکلام بھی شامل تھے لاہور آیا اور اس نے مطالبہ کیا کہ اربابِ اسلامیہ کالج حکومت سے ترکِ موالات کا اعلان کردیں تو کالج کمیٹی کا ایک جلسہ طلب کیا گیا جس میں مولانا محمد علی نے اربابِ انجمن سے خطاب کرتے ہوئے ترکِ موالات کی تجویز پیش کی اور مولانا ابوالکلام نے ان کی تائید میں سورۂ ممتحنہ کی آیات کا حوالہ دیا۔ اس پر سر عبدالقادر نے مولوی نذیر احمد کے ترجمۂ قرآن کے حوالے سے سورۂ ممتحنہ کی اس تعبیر سے اس بنا پر اختلاف کیا کہ قرآن مجید نے عیسائیوں کو مسلمان کا دوست کہا ہے اور انگریز عیسائی ہیں۔ مولانا ابوالکلام نے یہ سنا تو اُٹھ کھڑے ہوئے اور جوش میں آکر کہنے لگے شیخ صاحب قرآن مجید کے ارشادات تو بالکل صاف اور واضح ہیں۔ ہم قرآن مجید کے پابند ہیں۔ مولوی نذیر احمد کا ترجمہ یا حواشی ہمارے لیے حجت نہیں ہیں۔ انگریز عیسائی ہیں تو ہوا کریں۔ کیا آپ کو ان کی اسلام دشمنی سے انکار ہے؟ حضرت علامہ بھی اس جلسے میں موجود تھے، لیکن انھوں نے شروع سے لے کر آخر تک سکوت فرمایا۔ مجھے تعجب تھا اور مجھ سے بڑھ کر علماے خلافت کو۔ لیکن آگے چل کر میں نے ان کے ارشادات سے محسوس کیا کہ انھیں اس تحریک سے اختلاف تھا تو اس بنا پر کہ اس کی زمام گاندھی جی کے ہاتھ میں ہے اور گاندھی جی کو سورۂ ممتحنہ کی تعلیمات سے کوئی سروکار نہیں۔ یوں بھی بانیان تحریک نے یہ کیسے فرض کرلیا ہے کہ ہندو مسلم اتحاد ہمیشہ قائم رہے گا۔ انھوں نے یہ نہیں سوچا کہ اگر یہ اتحاد قائم نہ رہا تو نتیجہ کیا ہوگا۔ چنانچہ یہی کچھ ہوا۔ گاندھی جی نے تحریک واپس لے لی، ہندو مسلم اتحاد ٹوٹا اور مسلمان میدان میں اکیلے رہ گئے۔ مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا ہوتا چلا گیا، ہر طرف بے دلی پھیل گئی۔ لیکن ان حضرت علامہ کے برعکس ان دنوں معترضین جو کچھ کَہ رہے تھے مصلحتاً، یا اس خیال سے کہ حکومت کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا جائے۔ قادیانی جماعت اس تحریک کی مخالفت میں سب سے آگے تھی، حتیٰ کہ اس کی طرف سے ایک مبسوط رسالہ بھی شائع ہوا جس میں منجملہ کئی ایک دلائل کے اس تحریک کے خلاف ایک دلیل یہ بھی دی گئی تھی کہ اس کی نوعیت سیاسی ہے، مذہبی نہیں ہے۔ سیاست کی مثال تو دیوار قہقہہ کی ہے کہ جو کوئی اسے دیکھتا ہے ہنسنا شروع کردیتا ہے اور ہنستا ہی رہتا ہے، لہٰذا جو کوئی سیاست میں حصہ لے گا سیاست ہی میں اُلجھا رہے گا۔ راقم الحروف کو اعتراف ہے کہ اس رسالے کی یہ منطق آج تک اس کی سمجھ میں نہیں آئی، نہ یہ کہ کسی تحریک کی مذہبی نوعیت کیا ہوتی ہے اور سیاسی کیا۔ ۶- ہندو مسلم اتحاد، لیکن جس کی از روے سیاست کوئی محکم بنیاد نہیں تھی، لہٰذا یہ اتحاد جس زور اور شدت سے قائم ہوا اسی زور اور شدت سے ٹوٹ بھی گیا۔ ۷- ہندوؤں کے نزدیک یہ کہ اگر تحریک کامیاب ہوگئی اور حکومت نے مسلمانوں کے مطالبات تسلیم کرلیے تو وہ غیر معمولی طور پر مضبوط ہوجائیں گے۔ انھیں خطرہ تھا کہ اس صورت میں اگر ان کے تعلقات اسلامی ممالک سے قائم ہوگئے تو ممکن ہے ہندوستان پر پھر اسلام کا غلبہ ہوجائے۔ ادھر مسلمانوں کو یہ خدشہ تھا کہ اگر وہ تحریک جس کی قیادت گاندھی جی اور کانگریس کے ہاتھ میں ہے کامیاب ہوگئی تو ایسا نہ ہو ان کا وجود ہندوؤں میں ضم ہوجائے۔ دونوں ایک دوسرے کی سیاسی طاقت سے خائف تھے۔ ۸- لِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجِلٌ-۱۰ (یونس):۴۹۔ ۹- اَوْ کَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰی قَرْیَۃٍ وَّ ھِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِھَا قَالَ اَنّٰی یُحْیٖ ھٰذِہِ اللّٰہُ بَعْدَ مَوْتِھَا فَاَمَاتَہُ اللّٰہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ قَالَ کَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ قَالَ بلْ لَّبِثْتَ مِائَۃَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلٰی طَعَامِکَ وَ شَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہْ وَانْظُرْ اِلٰی حِمَارِکَ وَ لِنَجْعَلَکَ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَانْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُھَا ثُمَّ نَکْسُوْھَا لَحْمًا فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ (البقرہ: ۲۵۹)۔ ۱۰- قید بابل کے بعد-۵۹۹ ق م میں بخت نصر ارض فلسطین پر حملہ آور ہوا اور یہود پر فتح پائی۔ بیت المقدس کو تباہ و برباد کردیا گیا۔ ہیکل سلیمانی کا وجود تک قائم نہ رہا، تاآنکہ ۵۳۹ ق م میں ہخامنشی سلطنت کے بانی کروش اعظم نے بابل فتح کیا۔ یہود کو اجازت ملی کہ فلسطین واپس چلے جائیں اور ہیکل مقدس از سر نو تعمیر کریں۔ یہ دوسری زندگی تھی جو بنی اسرائیل کو ملی۔ ملاحظہ ہو سورۂ بنی اسرائیل، آیات ۴،۵،۶: وَقَضَیْنَا إِلَی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ فِیْ الْکِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِیْ الاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا کَبِیْرًا۔ ۱۱- اور ساری نوعِ انسانی کی تقدیر ان سے وابستہ۔ ۱۲- یعنی خود نوعِ انسانی کی تقدیر۔ ۱۳- وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی قَالَ اَوَ لَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلٰی وَ لٰکِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَۃً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْھُنَّ اِلَیْکَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِّنْھُنَّ جُزْئً ا ثُمَّ ادْعُھُنَّ یَاْتِیْنَکَ سَعْیًا وَ اعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ (البقرہ: ۲۶۰)۔ ۱۴- اس اَمر کا کہ وہ کیا عمل ہے جو موت کے بعد رونما ہوتا ہے اور کیسے ایک دوسری زندگی کی ابتدا ہوتی ہے؟ ۱۵- ملاحظہ کیجیے Muslim Revival میں حضرت علامہ کا مضمون کہ طبیعیات کی رُو سے عین ممکن ہے کہ جواہر کی وہ ترتیب جس سے ایک انسان وجود میں آیا موت کے بعد پھر سے قائم ہوجائے۔ بالفاظِ دیگر معاد جسمانی بھی ہوسکتا ہے۔ ۱۶- اور جسے قرآن مجید نے اس کی بعثت ثانیہ پر حجت ٹھہرایا: اَفَعَیِیْنَا بِالْخَلْقِ الاَوَّلِ۔ بَلْ ہُمْ فِیْ لُبْسٍ مِنْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ-۵۰ (ق):۱۵۔ ۱۷- ملاحظہ ہو تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، خطبۂ چہارم: بحث حیات بعدالموت۔ ۱۸- وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَآئِ مَآئً مُّبٰرَکًا فَاَنْبَتْنَا۔م بِہٖ جَنّٰتٍ وَّحَبَّ الْحَصِیْدِ o وَالنَّخْلَ بٰسِقٰتٍ لَّہَا طَلْعٌ نَّضِیْدٌo رِّزْقًا لِّلْعِبَادِ وَاَحْیَیْنَا بِہٖ بَلْدَۃً مَّیْتًا کَذٰلِکَ الْخُرُوْجُ (ق:۹تا۱۱) ۔ ۱۹- ولادت پر۔ ۲۰- استعارۃ۔ ۲۱- ملاحظہ ہو مقدمہ اسرار خودی، اشاعت اول: وہ نقطۂ شعور… ۲۲- ارادۂ ربی میں۔ دیکھیے تشکیل جدید، خطبہ۔ ۲۳- اگر ہمیں پھر دنیا کی زندگی ملے-۲ (البقرۃ):۱۶۷۔ ۲۴- کہ خودی کا تسلسل قائم رہتا ہے اور اس لیے موت کا یہ مطلب نہیں کہ شعور ذات کالعدم ہوگیا۔ گویا خودی اگرچہ فانی ہے، لیکن موت کے بعد بہرحال زندگی ہے اور بقا ے دوام ممکن۔ ۲۵- بصورت وحدت حیات یا وحدت شعور۔ ۲۶- چنانچہ کتنی باتیں ہیں جو ہم بھول جاتے ہیں، بایں ہمہ ہمارا شعور ذات قائم رہتا ہے۔ حافظے کا وجود ہی اس اَمر کی دلیل ہے کہ حافظہ و نسیان توام ہیں۔ ۲۷- اور جس کی بنا پر ان کے منکرین کو بھی کہنا پڑا کہ کسی نہ کسی رنگ میں اسے ایک حقیقت ماننا لازم آتا ہے (بقول بریڈلے۔ دیکھیے تشکیل جدید، خطبہ سوم)۔ ۲۸- اور جس کے جاوید نامہ میں تین مرحلے گنوائے گئے ہیں: شاہد اول شعور خویشتن خویش را دیدن بنور خویشتن شاہد ثانی شعور دیگرے خویش را دیدن بنور دیگرے شاہد ثالث شعور ذات حق خویش را دیدن بنور ذات حق ۲۹- کہ موت اور حیات بعد الموت کے درمیان برزخ کا وجود عبارت ہے زمانے کی نفی سے۔ لہٰذا ’’یوماً او بعض یوم‘‘ کا مطلب ہے زمانے کا ساقط ہوجانا۔ ۳۰- مراتب شعور سے تو سائنس (جدید نفسیات) کو بھی انکار نہیں۔ ویسے دیکھیے تشکیل جدید، خطبہ چہارم: بحث حیات بعدالموت۔ ۳۱- تاکہ معلوم ہوجائے ان کی حیثیت کہاں تک حقائق اور کہاں تک محض التباس کی ہے۔ علماے نفسیات کی تحقیق و تنقید کو اس سلسلے میں فیصلہ کن نہیں تو کم از کم باقی سب باتوں سے ضروری اور مفید مطلب تسلیم کرنا پڑے گا۔ ۳۲- دونوں بہت بڑے سپاہی تھے۔ ایک اتحاد یورپ کا خواب دیکھ رہا تھا، دوسرا اتحاد اسلامی کا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ نپولین نے اس تہذیب و تمدن میں آنکھیں کھولیں جو اپنے شباب پر تھی اور نادر شاہ نے اس دنیا میں جس کا زوال صدیوں پہلے ہوچکا تھا۔ ۳۳- ہندو ’’صوفی‘‘ رام کرشن (بنگال) کے پیرو۔ ۳۴- مَا خَلْقُکُمْ وَ لَا بَعْثُکُمْ اِلَّا کَنَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ (لقمان: ۲۸)۔ ۳۵- اس لیے کہ ’الا کنفس واحدہ‘ کے باوجود ہر فرد کی خودی اپنی جگہ پر یکتا ہے۔ یوں اس کی انفرادیت اور جداگانہ تشخص کی نفی نہیں ہوتی۔ ۳۶- wireless۔ ۳۷- اخباری، یعنی جس کا ہمارے حواس مشاہدہ کرتے ہیں۔ جس طرح جسم انسانی کا تعلق ساری کائنات سے ہے اور ساری کائنات اس کے احوال میں حصہ لیتی ہے، بعینہٖ نفس انسانی کا معاملہ ہے کہ ایک نفس کا دوسرے نفس سے جو تعلق ہے اس میں بعد مکانی حارج نہیں ہوتا۔ ۳۸- حضرت علامہ کے دوست اور قدردان، سردار جو گندر سنگھ (جوگندر نگر سے ان کا نام آج بھی زندہ ہے) کے بھائی اور مشہور فن کار امرت شیر گل کے والد۔ زیادہ تر فرانس ہی میں قیام کرتے۔ وہیں شادی کی تھی۔ ۳۹- مادے کی نفی کے باعث۔ ملاحظہ ہو تشکیل جدید، خطبہ دوم۔ ۴۰- راقم الحروف کو ٹھیک یاد نہیں رہا کس صاحب فن کا نام لیا گیا تھا۔ ۴۱- ڈاکٹر میکٹیگرٹ کی رائے سے آزردہ خاطر ہوکر اور جس کا ذکر اس سے پہلے آچکا ہے۔ ز…ز…ز چہار شنبہ: ۱۶؍فروری آج حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دوپہر ہوچکی تھی۔ حضرت علامہ حسبِ معمول آرام فرما رہے تھے۔ میں نے سلام عرض کیا اور مزاج پوچھا تو معلوم ہوا انھیں ایک طرح سے میرا انتظار تھا۔ فرمایا ’’تم آگئے؟ صبح مجھے پھر دمے کی شکایت ہوگئی۔‘‘ میں نے یہ سنا تو بڑی تشویش ہوئی۔ حضرت علامہ نے پھر فرمایا ’’کوئی بات نہیں۔ اللہ کے فضل سے اب اچھا ہوں۔‘‘ حضرت علامہ کے اس ارشاد سے کچھ اطمینان ہوا۔ میں دل ہی دل میں دعا کررہا تھا کہ اللہ تعالیٰ انھیں صحت دے کہ انھوں نے فرمایا ’’کچھ خط رکھے ہیں۔ ان کا جواب دینا باقی ہے۔ جواب لکھ دو۔‘‘ میں نے قلم دان اُٹھایا اور کاغذ قلم لے کر بیٹھ گیا۔ حضرت علامہ نے ایک ایک خط کا مختصراً جواب لکھوایا۔ کسی کا انگریزی، کسی کا اُردو میں۔ ان میں ایک خط مولانا حسین احمد مدنی کے ایک طرف دار کے نام تھا، ان کے اس نظریے کے بارے میں کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ خط لکھے گئے تو فرمایا ’’حضرت طالوت۱؎ مولانا سے دریافت کریں، ان کے ارشاد کی حیثیت مشورے کی ہے، یا ایک اَمر واقعی کے اظہار کی۔‘‘۲؎ پھر ارشاد ہوا ’’مولانا کے خیالات کے متعلق ایک پورا مضمون میرے دھن میں ہے۔ کل اس کا قلم بند ہوجانا ضروری ہے۔ کسی وقت جاؤ اور قلم بند کردو۔‘‘ یہ کہ کر حضرت علامہ بسبب اضمحلال لیٹ گئے۔ علی بخش نے تکیے سیدھے کیے۔ میں نے آگے بڑھ کر کاندھوں کو سہارا دیا اور خاموش بیٹھ گیا۔ گفتگو سے بھی قصداً احتراز کیا۔ دیر تک یونہی نشست رہی۔ حضرت علامہ کبھی کبھی کروٹ لیتے اور ایک آدھ بات کرلیتے۔ فرماتے: ہٹلر اور شوشنگ کی ملاقات کا نتیجہ کیا ہوگا؟۳؎ یورپ کے حالات کیا ہیں؟ میں بھی مختصراً جواب عرض کرتا۔ پھر شاید حضرت علامہ کی آنکھ لگ گئی۔ میں نے سوچا میرا بیٹھے رہنا ہی مناسب ہے۔ علی بخش غالباً کسی کام میں مصروف تھا اور م-ش بھی ابھی نہیں آئے تھے۔ حضرت علامہ نے نیند لے لی۔ علی بخش آگیا۔ حقے اور چائے کا اہتمام کرنے لگا۔ م-ش بھی آگئے تھے۔ سہ پہر کب کی ہوچکی تھی۔ میں نے سوچا شام کو پھر حاضر ہونا ہے، اجازت طلب کروں۔ لیکن پھر اس خیال سے کہ شاید کچھ اشعار قلم بند کرنا ہوں، عرض کیا، کچھ اشعار تو نہیں ہیں؟‘‘ فرمایا ’’نہیں‘‘۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱- مولانا حسین احمد کے طرف دار تھے ’قوم اور وطن‘ کی بحث میں اکثر اخباروں میںکوئی نہ کوئی مضمون لکھتے رہتے۔ ان کا کہنا تھا کہ مولانا حسین احمد کا موقف یہ نہیں کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں، بلکہ یہ کہ بہ حالت موجودہ جو بھی قوم ہے اس کی اساس قومیت جغرافی ہے، یعنی وطنی۔ دیکھیے ضمیمہ۔ ۲- لہٰذا یہ سوال کہ اس اَمر واقعی کا اظہار بطور ایک اُصول کے کیا گیا، یا ایک بات تھی کہ نظر بر حالات اتفاقاً زبان پر آگئی۔ ۳- اس لیے کہ آسٹروی چانسلر ڈاکٹر ڈولفس قتل ہوچکا تھا اور ہٹلر مصر تھا کہ ڈولفس کا جانشین شوشنگ آسٹریا کا الحاق جرمنی سے تسلیم کرلے، لہٰذا ڈر تھا یورپ میں جنگ کی ابتدا نہ ہوجائے۔ ز…ز…ز جمعرات: ۱۷؍فروری حضرت علامہ نے مضمون نہیں لکھوایا۔ ارشاد ہوا۔ ’’مولانا کے جواب کا انتظار کرلینا چاہے‘‘۱؎ پھر طلوع اسلام کا ذکر چھیڑ دیا۔ میں نے عرض کیا ’’مجھے تو اہلِ دہلی سے کوئی توقع نہیں۔‘‘۲؎ حضرت علامہ کی طبیعت اچھی نہیں تھی۔ اضمحلال بڑھ رہا تھا اور میں بڑا فکر مند تھا۔ زیادہ تر خاموشی رہی، بجز اس کے کہ کبھی دواؤں کا ذکر آجاتا، کبھی پرہیز، عوارض کی کمی اور زیادتی کا۔ اس اثنا میں چائے پی گئی اور علی بخش بیٹھا حضرت علامہ کا بدن دابتا اور دل بہلاتا رہا۔ شام کے قریب تین انجینئر آگئے۔ معلوم ہوا ان کا تعلق سرکار بہاول پور سے ہے اور انجینئروں کے سالانہ اجتماع پر آئے ہیں۔ یہ حضرات زیادہ دیر نہیں ٹھہرے۔ حضرت علامہ کی زیارت اور پرسش مزاج کے لیے آئے تھے، لہٰذا گفتگو بھی حضرت علامہ کی صحت ہی کی رہی۔ بہاول پور کے متعلق یہ سن کر تعجب ہوا کہ ریاست کا بہت سا علاقہ ایک طرح سے حکومت کے پاس رہن ہے اور نہروں سے بھی زراعت کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچ رہا۔۳؎ ئ…ئ…ء حواشی ۱- یعنی ان کے طرف داروں کے جواب کا۔ ۲- کہ ان سے اتفاق رائے ہوسکے گا، یا نہیں۔ ۳- کیسے؟ میں اس اَمر کی تحقیق نہیں کرسکا اور اب کہ پاکستان قائم ہوگیا ہے ضروری بھی نہیں رہا۔ ز…ز…ز جمعۃ المبارک: ۱۸؍فروری دن بھر حاضری کا موقع نہیں ملا۔ شام کو حضرت علامہ کی خدمت میں پہنچا تو انھیں بڑا متاسف پایا۔ صحت کا تو جو رنگ ہے سو ہے، حضرت علامہ کو دکھ اس بات کا ہے کہ مولانا حسین احمد کو اپنی غلطی پر اصرار ہے اور اب انھوں نے اپنے اس ارشاد کے علاوہ کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں ایک نیا نظریہ قائم کیا ہے۔ وہ یہ کہ اسلام میں قوم اور ملت۱؎ دو الگ الگ وجود ہیں۔ حضرت علامہ نے فرمایا ’’اب تو مضمون لکھنا ضروری ہوگیا ہے۔‘‘ پھر دیر تک مسلمانوں کے علمی زوال اور فقدان بصیرت پر اظہار تاسف فرماتے رہے۔ ارشاد ہوا ’’یہ سیاست کا چکر بھی عجیب ہے۔ انگریزوں کی ضد میں کس طرح تلبیس حق بالباطل سے کام لیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کو کیا ہوگیا ہے؟ مسلمان کیوں نہیں سمجھتے اسلام کی اجتماعی روح کیا ہے؟ وہ عالم اور صوفی کیا ہوئے جو دین کے رمز شناس تھے؟‘‘ فرمایا ’’کیسے کیسے الفاظ ہیں جو لوگوں کی زبانوں سے نکل رہے ہیں! قوم، متحدہ قومیت، وطن، وطنیت، آزادی، خود اختیاری۔ لیکن کوئی نہیں سمجھتا آج کل کی سیاست میں ان کے معنی کیا ہیں؟‘‘ ارشاد ہوا ’’ان الفاظ کے معنوں کا متعین ہوجانا ضروری ہے۔ ان کا تجزیہ بھی ہوجانا چاہیے۔ یہ الفاظ عام ہورہے ہیں۔ ضرورت ہے ان کو سمجھنے کی۔ لیکن مسلمانوں کو احساس ہی نہیں انھیں کس قسم کی جدوجہد درپیش ہے: از روے سیاست ہی نہیں، اخلاقاً اور ذہناً بھی۔ کاش مسلمان کوئی سیاسی فکر پیدا کریں۔‘‘ حضرت علامہ دیر تک مسلمانوں کے ذہنی تعطل پر افسوس کرتے رہے۔ بیچ میں کچھ آرام فرمالیتے، پھر اُٹھ کر بیٹھ جاتے، حقے کا کش لیتے یا اپنے مخصوص انداز میں ’اللہ‘ کَہ کر خاموش ہوجاتے۔ ایک مرتبہ علی بخش کو بلایا۲؎ اور چلم کی طرف اشارہ کیا۔ علی بخش نے چلم بدلی، کھانے کا پوچھا اور پھر تھوڑی دیر میں کھانا لے آیا۔ حضرت علامہ نے کھانا کھایا اور لیٹ گئے۔ علی بخش اور رحما بدن دابنے لگے۔ م-ش آگئے تھے۔ پھر چودھری صاحب بھی تشریف لے آئے۔ حسبِ معمول مزاج پوچھا اور باتیں کرنے لگے۔ دوا کا وقت ہوگیا تھا۔ حضرت علامہ نے دوا کھائی۔ بچوں کا پوچھا کہاں ہیں؟ کیا کررہے ہیں؟ کھانا کھاچکے؟ حکیم صاحب۳؎ کب آئیں گے؟ سیاست کا کیا رنگ ہے؟ یونینسٹ پارٹی کیا کررہی ہے؟ لیگ کس حال میں ہے؟ پھر جیسے کوئی خیال آیا۔ اُٹھ کر بیٹھ گئے اور تکیے سے ٹیک لگا کر مجھ سے سوال کیا ’’قوم اور ملت کے امتیاز پر اصرار کیا جائے تو اس کا جواب کیا ہوگا؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’یہی کہ اس امتیاز کی کوئی حقیقت ہوتی تو قرآن پاک سے دو الگ الگ اجتماعی نظامات کی موجودگی ثابت ہوجاتی ہے ایک قومی وجود ہوتا دوسرا ملی۔‘‘ ارشاد ہوا ’’یہ بحث کی نہایت اچھا پہلو ہے۔‘‘ پھر فرمایا ’’تاریخی اعتبار سے کیا اس سلسلے میں تم کوئی مواد جمع کرسکتے ہو؟‘‘ میں نے کہا ’’بہت کافی۔ اجازت ہو تو اس سلسلے میں کچھ حوالے پیش کردوں۔‘‘ فرمایا ’’مثلاً۔‘‘ ’’مثلاً میثاقِ مدینہ، یعنی اس معاہدے کا جو حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینۂ منورہ میں تشریف آوری پر مہاجرین و انصار اور یہود مدینہ سے کیا۔ یہ معاہدہ ابن ہشام میں محفوظ ہے۔‘‘ ارشاد ہوا ’’اس میں خاص بات کیا ہے؟‘‘ میں نے کہا، یہی کہ حضور نے مدینہ منورہ میں جس ریاست کی بنا ڈالی اس میں یہود کو شریک تو کرلیا لیکن اس کے باوجود انھیں ایک الگ قوم ٹھہرایا۔‘‘ فرمایا ’’اس معاہدے کی۴؎ پوری نقل حاصل کرلو۔‘‘ ئ…ئ…ء حواشی ۱- یعنی ’اُمت‘۔ قرآن پاک نے اُمت اور ملت میں فرق کیا ہے۔ اُمت جسم ہے، ملت جان۔ ۲- حضرت علامہ کے سرہانے برقی گھنٹی کا سوچ (switch) پڑا رہتا تھا۔ آواز میں تو اب اتنی سکت تھی نہیں کہ علی بخش کو آواز دیتے۔ ان کا قاعدہ تھا علی بخش کو پکارتے تو ’بخش‘ کو خاصا طول دیتے۔ ۳- قرشی صاحب۔ ۴- میثاقِ مدینہ ایک نہایت اہم سیاسی اور آئینی دستاویز ہے جس سے کئی ایک اور نہایت اہم نتائج مترتب ہوتے ہیں۔ راقم الحروف کا خیال ہے کہ اس میثاق کی اہمیت کا بہت کم اندازہ کیا گیا۔ شاید اسی لیے کہ یہود کا رویہ شروع ہی سے مخاصمانہ تھا، انھوں نے اس کی قدر نہیں کی۔ رہے نصاری سو ان کا عقیدہ ہے جو خدا کا ہے خدا اور جو قیصر کا ہے قیصر کو دے دو، انھیں صرف اپنی عافیت مطلوب تھی۔ کوئی سیاسی سوجھ بوجھ نہیں تھی، زیادہ تر زور رہبانی زندگی پر تھا۔ فتوحات سے بھی صورتِ حالات میں کوئی مفید مطلب تبدیلی پیدا نہیں ہوئی۔ پھر دولت اُمویہ کے قیام سے تو اسلامی ریاست کی نوعیت ہی میں بنیادی فرق آگیا۔ ز…ز…ز شنبہ: ۱۹؍فروری میثاقِ مدینہ کی پوری نقل حضرت علامہ کی خدمت میں پیش کردی۔ فرمایا ’’ترجمہ بھی ہوجائے تو اچھا ہے۔‘‘ دوپہر ہوچکی تھی۔ زیادہ تر وقت کتب خانے میں گزرا (پنجاب یونیورسٹی میں)۔ علی بخش آگیا، حضرت علامہ کو دوا کھلائی اور ان کا بدن دابنے لگا۔ حضرت علامہ لیٹ گئے تاکہ ذرا سو لیں۔ میں ترجمہ کرتا رہا اور سوچتا رہا کہ حضرت علامہ بڑے مضمحل ہیں، بیان کیسے لکھا جائے گا۔ آدھ پون گھنٹے کے بعد حضرت علامہ اُٹھ کر بیٹھ گئے۔ علی بخش نے چلم بدلی۔ ترجمہ ہوچکا تھا۔ میں نے کاغذات تپائی پر رکھ دیے۔ ارشاد ہوا ’’مولانا حسین احمد یہ تو کَہ نہیں سکتے کہ میثاقِ مدینہ ان کی نظر سے نہیں گزرا۔ تعجب ہے انھوں نے اس پر غور نہیں کیا اور ایک غلط بات کَہ دی۔‘‘ پھر ذرا سستا کر بیان کے بارے میں گفتگو شروع کردی اور طرح طرح سے اظہار خیالات کرتے رہے، یہی کہ اسلام بناے قومیت ہے اور اس کا سرچشمہ ہے رسالت،۱؎ لہٰذا اسلام ایک سیاسی اجتماعی معاشرہ ہے۔۲؎ میں نے عرض کیا ’’اس سیاسی اجتماعی معاشرے کو قرآن مجید نے اُمت سے تعبیر کیا ہے۔ میں نے یہ بات اس لیے بھی کہی کہ میثاقِ مدینہ میں لفظ اُمت استعمال ہوا ہے۔۳؎ حضرت علامہ نے فرمایا ’’مولانا عالم دین ہیں۔ اصطلاحات دینی سے بے خبر نہیں ہوسکتے۔ وہ خوب سمجھتے ہیں اُمت کے معنی کیا ہیں۔‘‘ پھر فرمایا ’’عجیب بات ہے۔ انھوں نے قوم اور ملت میں امتیاز پیدا کرتے ہوئے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔‘‘ حضرت علامہ نے یہ فرمایا تو ان کا یہ شعر بے اختیار زبان پر آگیا: قلندر جز دو حرف لا الٰہ کچھ بھی نہیں رکھتا فقیہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا۴؎ حضرت علامہ کو نیند آرہی تھی۔ میں نے کہا ’’آپ آرام فرما لیجیے۔ شام کو جلدی حاضر ہوجاؤں گا۔‘‘ سرِشام حاضر ہوگیا۔ حضرت علامہ کا اضمحلال دور تو نہیں ہوا تھا، لیکن معلوم ہوتا تھا طبیعت قدرے بہتر ہے۔ چودھری صاحب پہلے سے موجود تھے اور گفتگو وہی بیان کی تھی۔ اتنے میں راجا صاحب آگئے اور پھر م-ش آبیٹھے۔ حضرت علامہ میثاقِ مدینہ پر تبصرہ فرما رہے تھے۔ فرمایا یہ جو ارشادِ باری تعالیٰ ہے: کنتم خیر امۃ اخرجت للناس ۔۵؎ تو ثابت ہوا کہ اُمت کی بنا وطن کی بجاے عقیدے پر ہے اور عقیدے کا تقاضا تھا کہ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ سے مدینۂ منورہ ہجرت فرمائیں۔۶؎ میثاقِ مدینہ سے عملاً اس پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ فرمایا ’’مولانا حسین احمد کا فرض ہے کہ اسی اُصول کی بنا پر جو میثاقِ مدینہ میں قائم کیا گیا کانگریس سے مفاہمت کا مطالبہ کریں، بجاے یہ کہنے کے کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔‘‘ قرشی صاحب آگئے۔ نبض دیکھی اور طبیعت کا پوچھا۔ علی بخش نے چائے کا اہتمام کیا اور تھوڑی دیر کے لیے گفتگو رُک گئی۔ اب ہم لوگ آپس ہی میں باتیں کررہے تھے۔ مطلب یہ تھا حضرت علامہ گفتگو نہ فرمائیں۔ مولانا حسین احمد کی موافقت اور مخالفت میں جو بیان نکل رہے ہیں، یا ان کے طرف داروں نے حضرت علامہ کے قطعے کو سامنے رکھتے ہوئے جواباً جس طرح طبع آزمائی کی اس کا ذکر ہوتا رہا۔ اس پر حضرت علامہ نے فرمایا ’’کیوں نہ یہ مخالف و موافق بیانات جمع کرلیے جائیں تاکہ بیان کسی پہلو سے تشنہ نہ رہے۔‘‘ چودھری صاحب نے کہا ’’یہ بیانات بآسانی حاصل کیے جاسکتے ہیں اور کرلیے جائیں گے۔‘‘ کچھ وقت اور گزرا۔ ہماری کوشش تھی حضرت علامہ کے ذہن پر بار نہ پڑے۔ بیان کا لکھنا بھی سرِدست ملتوی رہے۔ انھیں آرام کی ضرورت ہے، دل ہلکا رکھنے کی۔ ورنہ ڈر تھا کہیں عوارض کی شدت میں اضافہ نہ ہوجائے۔ علی بخش کھانا لے آیا۔ حضرت علامہ نے کھانا کھایا، حقے کے دو ایک کش لیے اور پھر تکیوں کے سہارے لیٹ گئے۔ علی بخش پاؤں دابنے لگا۔ قرشی صاحب ذرا آگے بڑھ گئے اور حسبِ معمول حضرت علامہ کے ہاتھ سہلانے لگے تاکہ انھیں نیند آجائے۔ لیکن حضرت علامہ کا ذہن بدستور بیان میں تھا۔ چند منٹ آرام فرمانے کے بعد اُٹھ کر بیٹھ گئے اور چودھری صاحب سے اخبارات کے تبصرے اور بیانات حاصل کرنے کی تاکید کی۔ ارشاد ہوا ’’یہ تحریریں سامنے ہوں تو اور بھی اچھا ہے۔ ہر بات کا جواب ہوجائے گا۔‘‘ لیکن اب سوال یہ تھا کہ بیان کیسے لکھا جائے گا؟ حضرت علامہ خود تو لکھنے پڑھنے سے معذور تھے۔ علاوہ عوارض کے بینائی میں فرق آگیا تھا۔ موتیا بند اتر رہا تھا۔ یہ بھی ناممکن تھا کہ حضرت علامہ بیان لکھواتے جائیں اور ہم میں سے کوئی اسے قلم بند کرلے۔ دم کشی، احتباس صوت، ضعف اور نقاہت کیسے کیسے عوارض تھے۔ اس حالت میں بیان لکھوانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ آخر طے پایا کہ حضرت علامہ دو ایک نشستوں میں سارا مضمون چودھری صاحب کو سمجھا دیں۔ چودھری صاحب اسے قلم بند کرکے لے آئیں اور ہم سب جمع ہوجائیں۔ حضرت علامہ مضمون سنیں اور ہم بھی سنتے جائیں۔ جہاں کہیں ضروری ہو مناسب ترمیم ہوجائے۔ البتہ اس اَمر کا بالخصوص التزام رہے کہ حضرت علامہ جن الفاظ میں اظہار مطلب فرما رہے ہیں حتی الوسع انھیں کا استعمال کیا جائے تاآنکہ بیان اپنی آخری شکل میں مرتب ہوجائے۔ یہ طے ہوا تو قرشی صاحب نے پھر حضرت علامہ کے ہاتھ سہلانا شروع کردیے۔ م-ش حضرت علامہ کے قریب ہو بیٹھے، علی بخش اور رحما پاینتی کی طرف۔ حضرت علامہ نے دوا کھائی اور چودھری صاحب اور راجا صاحب نے ادھر ادھر کی باتیں چھیڑ دیں۔ کہنے لگے لوگ تو آپ کے اشعار کا لطف لے رہے ہیں اور گو مخالفین چاہتے تو بہت ہیں کوئی بات بن جائے، لیکن بنتی نہیں۔ حضرت علامہ کبھی کبھی کوئی بات کرلیتے، کبھی آنکھیں بند کرلیتے۔ جب انھیں نیند آنے لگی تو ہم نے اجازت لی۔ وقت بہت کافی گزر چکا تھا۔ ارشاد ہوا خطاب چودھری سے تھا ’’بیان کی ترتیب ضروری ہے۔ صبح جلدی آجائیے گا۔‘‘ مجھ سے فرمایا ’’تم بھی۔‘‘ ئ…ئ…ء حواشی ۱- دیکھیے رموز بے خودی، عنوان رسالت: از رسالت دو جہاں تکوین ما ۲- آج کل کی اصطلاح میں socio politial group یا Civic Society دیکھیے خطبہ الٰہ آباد۔ ۳- إنَّھُمْ اُمَّۃٌ وَّاحِدَۃٌ مِنْ دُوْنِ النَّاسِ۔ ’’إنَّہُمْ، یعنی مسلمان دوسرے انسانوں سے الگ ایک اُمت ہیں۔ ابن ہشام، ص۳۴۱، نسخہ دیوسٹیں میلڈ۔ ۴- چنانچہ جب بیان مرتب ہوا تو اس میں یہ شعر شامل تھا۔ ۵- سورۂ ۳ (آل عمران):۱۰۰۔ ۶- عقدہ قومیت مسلم کشود از وطن آقاے ما ہجرت نمود رموز بے خودی ز…ز…ز یک شنبہ: ۲۰؍فروری حسبِ ارشاد علی الصبح حاضر ہوگیا۔ چودھری صاحب تشریف فرما تھے اور جب تک دفتر کا وقت نہیں ہوگیا برابر بیٹھے حضرت علامہ کی ہدایات قلم بند کرتے رہے۔ معلوم ہوا قرشی صاحب نبض دیکھ گئے ہیں۔ حضرت علامہ کو اطمینان ہے۔ چودھری صاحب گئے تو حضرت علامہ نے فرمایا ’’خبریں کیا ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا، کوئی خاص خبر نہیں۔ پھر یہ کہ ’’رات طبیعت کیسی رہی؟‘‘ ارشاد ہوا ’’عوارض کی تو وہی کیفیت ہے جو تھی۔ کوئی خاص تکلیف نہیں، لیکن رات نیند ذرا کم آئی۔ صبح طبیعت مضمحل تھی، مگر دوا کھائی اور ناشتہ کیا تو اضمحلال جاتا رہا۔‘‘ حضرت علامہ لیٹ گئے۔ مجھے تشویش تھی حضرت علامہ کے عوارض بڑھ تو نہیں رہے؟ ضعف و نقاہت کیوں ہے؟ نیند کیوں نہیں آتی؟ نیند کیوں نہیں آتی؟ نیند کیسے آسکتی ہے؟ م-ش کہتے ہیں حضرت علامہ سوتے سوتے اکثر اُٹھ بیٹھتے ہیں۔ کہتے ہیں: مسلمانوں کو کیا ہوگیا؟ جو لوگ دین کے رازدار تھے وہی دین سے بے خبر ہیں۔ وہ بھی کہنے لگے ہیں قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ ادھر حضرت علامہ کے اضطراب اور اُمت کے لیے دل سوزی کی یہ کیفیت کہ سوتے جاگتے بس یہی ایک خیال ہے کہ اس مرحلے پر جب مسلمانوں کی موت و حیات کا سوال درپیش ہے، جب مسلمان غیر منظم اور غیر متحد ہیں، جب کفر و الحاد کا سیلاب تیزی سے بڑھ رہا ہے، مخالف قوتیں ان کے خلاف صف آرا ہیں اور وہ خود دین سے بے بہرہ، اگر کہیں علما نے بھی سیاست کی وہ تعبیر قبول کرلی جس کی بنا مادیت پر ہے اور جس سے ان کے سیاسی اور انجام کار جداگانہ قومی وجود کی نفی ہوجائے گی تو کیا ہوگا۔ اُدھر ان کے عوارض میں تخفیف کی بجاے شدت پیدا ہورہی ہے۔ ضعف اور اضمحلال بڑھ رہا ہے۔ اس حالت میں کبھی مضمون کی فکر ہے، کبھی اس سلسلے میں ارشادات و ہدایات۔ مضمون لکھا گیا تو اس کی ترتیب، ترمیم و صلاح اور بالآخر تسوید و تبیض بھی ہوگی۔ یہ سب مراحل کیسے طے ہوں گے؟ میں نے دیکھا حضرت علامہ کی طبیعت پر ابھی تک اس گفتگو کا بار ہے جو میرے آنے سے پہلے چودھری صاحب سے ہورہی تھی۔ میں دیر تک بیٹھا رہا۔ اس دوران میں حضرت علامہ کبھی سوجاتے، کبھی کوئی بات کرلیتے۔ دوپہر ہوگئی تو میں یہی خیالات لیے پریشان گھر واپس آگیا۔ شام کو پھر دیر تک نشست رہی۔ قرشی صاحب، چودھری صاحب، راجا صاحب حسبِ معمول حاضر خدمت تھے اور کوشش یہ کہ حضرت علامہ حتی الوسع گفتگو نہ فرمائیں۔ آرام کریں اور ہم بھی کوئی ایسی ہی بات کہیں جس سے ان کا دل آسودہ ہو۔ علی بخش اور رحما حضرت علامہ کی پاینتی کی طرف بیٹھے ان کے پاؤں داب رہے تھے۔ م-ش سرہانے کی طرف ان کے شانوں کو۔ آفرین ہے علی بخش پر! ابھی حضرت علامہ کے تکیے ٹھیک کررہا ہے، ابھی ان کے پاؤں اور پنڈلیاں داب رہا ہے۔ کبھی کپڑا اوڑھا رہا ہے۔ کبھی چلم بدل رہا ہے کبھی فکر ہے کہ وقت پر دوا دے دی جائے، باتیں بھی کرتا جاتا ہے۔ دعائیں بھی دے رہا ہے۔ پورے گھر بار کا خیال ہے۔ علی بخش ہے کہ تھکتا ہی نہیں۔ آفرین ہے علی بخش پر! ز…ز…ز دو شنبہ: ۲۱؍فروری ابھی سہ پہر نہیں ہوئی تھی کہ حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ اول علی بخش سے خیریت مزاج دریافت کی۔ معلوم ہوا طبیعت نسبتاً اچھی ہے۔ چودھری صاحب صبح سویرے ہی آگئے تھے۔ میں سمجھ گیا بیان ہی کی گفتگو ہوگی۔ کمرے میں داخل ہوا، سلام عرض کیا اور مزاج پوچھا۔ حضرت علامہ تکیوں سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ فرمایا ’’تم آگئے؟ اچھا کیا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اسلامی ریاست میں جب از روے میثاقِ مدینہ مسلمان اپنی جگہ پر ایک اُمت تھے اور غیر مسلمان (یہود) اپنی جگہ پر ایک اُمت، گو شہریوں کی حیثیت سے حقوق اور فرائض میں سب ایک دوسرے کے شریک، تو مولانا حسین احمد کا بھی فرض تھا کہ اسی اُصول کو پیشِ نظر رکھتے۔ بناے گفتگو ہوتی تو یہی اُصول، نہ کہ وطن اور قوم کا مغربی تصور۔‘‘ ارشاد ہوا ’’لیکن مولانا ہیں کہ اب قوم اور ملت کا امتیاز قائم کررہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ان کے ارشاد کا تعلق قوم سے تھا، ملت سے نہیں ہے۔ معلوم نہیں وہ یہ امتیاز کیوں پیدا کررہے ہیں۔ اس سے ان کا کیا مطلب ہے؟‘‘ فرمایا ’’اسلام سے پہلے قوموں کی تشکیل جس اُصول پر ہورہی تھی۱؎ اسلام نے اسے تسلیم نہیں کیا اور آج بھی وہ اُصول جسے بناے قومیت ٹھہرایا جاتا ہے ہمارے لیے قابلِ تسلیم نہیں۔۲؎ ہماری بحث کا تعلق بھی اسی اُصول قومیت سے ہے۔ ہمیں تو قومیت کے اس جدید تصور سے اختلاف ہے جو مغرب کے سیاسی فکر کی پیداوار ہے اور جس کا آغاز لوتھر کی تحریک سے ہوا۔‘‘۳؎ ارشاد ہوا ’’یہ تصور سرتاسر کفر ہے،۴؎ مگر افسوس ہے مولانا ہر روز ایک نئی بحث چھیڑ دیتے ہیں۔ اب وہ لغت کا سہارا لے رہے ہیں اور ہم سے کہتے ہیں قوم اور ملت میں فرق کریں۔ حالانکہ یہ مسئلہ لغت کا نہیں، قرآن پاک کی تعلیمات کا ہے۔‘‘ حضرت علامہ تھوڑی دیر کے لیے رُک گئے۔ پھر فرمایا ’’قرآن پاک نے لفظ قوم کن معنوں میں استعمال کیا ہے؟ تم اس سوال کے جواب میں کیا کہو گے؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’یہی کہ مولانا نے عربی لغت کی رُو سے قوم کے جو معنی متعین کیے ہیں اور فرمایا ہے کہ قوم عبارت ہے افراد کی کسی جماعت سے، حتیٰ کہ اگر ان کی تعداد صرف دو ہے (اور دونوں مرد ہیں) جب بھی انھیں قوم ہی کہا جائے گا اس سے ان کا نقطۂ نظر واضح نہیں ہوتا۔ قرآن پاک کی رُو سے تو اس لفظ کا جو مفہوم ہمارے سامنے آتا ہے یہ کہ قوم عبارت ہے افراد کے اس گروہ سے جن میں کوئی بات مشترک ہو۔ خواہ مستقلاً، خواہ ہنگامی طورپر، خواہ یہ اشتراک قولی ہو، خواہ فعلی۔ مثلاً اہلِ علم ایک قوم ہیں، اہلِ عقل ایک قوم اور اہلِ کفر بھی ایک قوم۔ گو اہلِ کفر میں ایک نہیں کئی مختلف العقیدہ لوگ شامل ہوں گے، لیکن بمقابلۂ اہلِ ایمان ان سب کو ایک ہی قوم تصور کیا جائے گا۔ لہٰذا ضروری نہیں کہ سیاسی اعتبار سے بھی اہلِ علم، یا اہلِ عقل، یا اہلِ کفر ایک ہی قوم ہوں۔ چنانچہ قرآن مجید میں جب ارشاد ہوتا ہے: قَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ یَا قَوْمِ یَّعْقِلُوْنَ، تو اس سے جو مطلب نکلتا ہے یہ کہ قوم کے ایک وہ معنی بھی ہیں جو قرآن مجید نے لغت سے ہٹ کر اختیار کیے ہیں۔ اس اعتبار سے قوم کوئی مخصوص اصطلاح نہیں۔ البتہ اگر اصطلاحاً قوم عبارت ہے کسی سیاسی اجتماع سے تو قرآن مجید نے اس قسم کی گروہ بندی کو اُمت سے تعبیر کیا ہے۔ لہٰذا قوم اور ملت کا امتیاز پیدا کرنا غلط ہے۔ یوں بھی ملت کا اشارہ اس اُصول زندگی کی طرف ہے جسے قبول کرتے ہوئے لوگ ایک اُمت یا یوں کہیے کہ سیاسی اصطلاح میں قوم بنتے ہیں۔‘‘ ارشاد ہوا ’’تو پھر مولانا کو چاہیے لغت کا سہارا نہ ڈھونڈیں، انھیں چاہیے اس اَمر پر نظر رکھیں کہ قرآن پاک نے اگر کسی لفظ کو اصطلاحاً استعمال کیا ہے تو کن معنوں میں۔ یہ نہیں کہ خود اپنی طرف سے اس کا معنی و مفہوم متعین کرنے کی کوشش کریں۔ مولانا اور ان کے حامیوں کا یہ خیال بہرصورت غلط ہے کہ قومیں وطن سے بنتی ہیں۔ وطن بھی قومیت کی کوئی مستقل اساس نہیں ہے۔‘‘۵؎ قاہرہ سے ایک خط آیا رکھا تھا۔ ارشاد ہوا ’’اسے پڑھو۔‘‘ میں نے خط اُٹھایا تو دیکھا کہ لکھنے والے کوئی صاحب ہیں ابو نصر احمد بھوپالی۔ مضمون یہ تھا کہ میں نے آپ کی شاعری اور فلسفہ کے موضوع پر عربی میں ایک کتاب لکھی ہے۔ اس کی طباعت کے لیے مالی امداد کی ضرورت ہوگی۔ حضرت علامہ نے فرمایا ’’ہم تو کسی طرح کی مالی امداد نہیں کرسکتے؟ انھیں چاہیے تھا سرکار بھوپال سے رجوع کرتے۔‘‘ ابونصر صاحب نے اپنے خط کے ساتھ المقتطف کا ایک پرچہ بھی بھیجا تھا جس میں حضرت علامہ کی شاعری پر ان کا ایک مختصر سا مضمون درج تھا۔ حضرت علامہ کے ارشاد پر میں نے اس کے بعض حصے پڑھ کر سنائے، لیکن ان میں کوئی خاص بات نہیں تھی، البتہ قابلِ ذکر بات جو انھوں نے اپنے مراسلے میں لکھی تھی یہ کہ المراغی۶؎ انگریزوں کے آدمی ہیں اور انگریزوں ہی کے اشارے سے قاہرہ اور بالخصوص ازہر میں اس تحریک کی ابتدا کررہے ہیں کہ شاہ فاروق کی خلافت کا اعلان کردیا جائے۔ حضرت علامہ نے یہ سنا تو خفیف سا تبسم فرمایا۔ شام کے قریب میکش۷؎ آگئے۔ انھوں نے کچھ تو مولانا حسین احمد اور کچھ مصر اور عالمِ اسلام کی باتیں چھیڑ دیں۔ موضوع یہی تھا شاہ فاروق کی خلافت اور عالمِ اسلام کا سیاسی افتراق۔ حضرت علامہ نے فرمایا ’’ہم نے تو یہی سنا ہے کہ شاہ فاروق خلافت کا بارگراں اُٹھانے کے لیے تیار نہیں۔‘‘ میں نے کہا ’’ابو نصر صاحب کا یہ کہنا کہاں تک ٹھیک ہے کہ مراغی انگریزوں کے آدمی ہیں، حالانکہ سننے میں تو یہی آرہا ہے کہ شیخ موصوف بڑے غیور مسلمان ہیں۔ میکش صاحب بھی تو شاہ شہید۸؎ کی محض اس بنا پر مخالفت کرتے رہے کہ انھوں نے انگریزوں سے ساز باز کررکھی تھی۔‘‘ حضرت علامہ خاموشی سے میری بات سن رہے تھے۔ میں نے پھر عرض کیا ’’عجیب بات ہے۔ کوئی اچھی خبر سننے میں نہیں آتی۔ ادھر ایک سہارا قائم ہوتا ہے، ادھر ٹوٹ جاتا ہے۔‘‘ فرمایا ’’یہ بھی ایک دور ہے، گزر جائے گا۔‘‘۹؎ تھوڑی دیر تک ایک عجیب افسردگی سی طاری رہی۔ حضرت علامہ خاموش لیٹے تھے۔ کبھی کبھی حقے کا کش لگالیتے، یا اپنے مخصوص انداز میں کہتے: یا اللہ! اور پھر کسی خیال میں ڈوب جاتے۔ چندے یہی حالت رہی۔ معلوم ہوتا تھا حضرت علامہ کا اضمحلال بڑھ رہا ہے، حتیٰ کہ بسبب ضیق انھوں نے دو ایک مرتبہ پہلوؤں میں رکھے ہوئے تکیوں پر سر ٹیک دیا تاکہ دم کشی میں تخفیف ہو۔ مگر پھر جب طبیعت ذرا سنبھل گئی اور حضرت علامہ سیدھے ہوکر بیٹھ گئے تو میکش صاحب نے قوم اور ملت کی بحث چھیڑ دی۔ ان کا ذہن بھی مولانا حسین احمد کے تازہ بیان سے متاثر تھا۔ وہ شاید آئے ہی اسی موضوع پر گفتگو کے لیے تھے۔ میکش صاحب نے کہا ’’کیا قوم اور ملت کا وجود الگ الگ ہے؟‘‘ حضرت علامہ نے فرمایا ’’فرض کیجیے قوم کا وجود ملت سے الگ ہے جب بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ بحیثیت ایک قوم یا بحیثیت ایک ملت۱۰؎ ہندوستان کے آئینی ارتقا میں ہم اپنا مفاد کیوں کر محفوط رکھ سکتے ہیں؟‘‘ میکش صاحب کہنے لگے ’’آپ تو قوم کا وجود ہی تسلیم نہیں کرتے۔ آپ کے نزدیک حقیقی وجود ملت کا ہے۔‘‘ ارشاد ہوا ’’میں وطنی قومیت کا وجود تسلیم نہیں کرتا۔ وطنی قومیت کا تصور اسلام کے خلاف ہے۔‘‘ میکش صاحب نے کہا ’’اگر یہ صحیح ہے تو اسلام کا مطالبہ بڑا سخت ہے۔‘‘ فرمایا ’’اس کے سخت ہونے میں کلام نہیں، لیکن اسے کیا کیا جائے کہ اسلام کا مطالبہ بہرحال یہی ہے۔‘‘ اس پر میکش صاحب بولے ’’اندریں صورت دوسری قوموں سے تعاون کیسے ہوگا؟‘‘ ارشاد ہوا ’’ان ہی شرائط پر جو اسلام نے قائم کی ہیں۔۱۱؎ اس سلسلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ ہمارے سامنے ہے۔ یہی نمونہ خلفا کے سامنے تھا۔‘‘ میکش صاحب تھوڑی دیر اور بیٹھے۔پھر تشریف لے گئے۔ معلوم ہوتا تھا وہ حضرت علامہ کے ارشادات سے مطمئن ہیں۔ حضرت علامہ نے کھانا کھایا۔ علی بخش اور رحما آگئے۔ اب حضرت علامہ کو آرام کی ضرورت تھی۔ میں خاموش بیٹھا تھا۔ حضرت علامہ کبھی کبھی کوئی بات کرتے یا حقے کا کش لگاتے اور میں جواباً کچھ عرض کر دیتا۔ سات سوا سات بجے احباب کی آمد شروع ہوگئی۔ حضرت علامہ کا مزاج بھی شگفتہ ہو رہا تھا۔ البتہ دس، ساڑھے دس بجے انھوں نے قرشی صاحب کا تجویز کردہ جوشاندہ پیا تو اس میں قدرے ترشی محسوس کی۔ سوال یہ تھا ترشی کہاں سے آئی؟ جوشاندہ ابریشم مقرض کا تھا۔ ابریشم میں تو ترشی نہیں ہوتی۔ ترشی تو حضرت علامہ کے لیے سخت مضر تھی۔ حضرت علامہ جوشاندے کا ایک گھونٹ پی کر رُکے تو میں نے عرض کیا دریافت طلب اَمر یہ ہے کیا ابریشم کو کاٹ کر صاف کر لیا گیا تھا یا نہیں۔ اگر نہیں کیا گیا تو جوشاندہ نہ پیجئے۔ مگر اس کے باوجود حضرت علامہ جوشاندہ پی گئے، اس لیے دیر تک تشویش رہی کہ انھیں کوئی تکلیف نہ ہو۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱- نسلی، وطنی، قبائلی اساس پر۔ ۲- وطنی قومیت کا۔ ۳- دیکھیے خطبۂ الٰہ آباد۔ ۴- کیونکہ اس کی بنا مادیت پر ہے۔ ۵- اس لیے کہ جدید اُصولِ سیاست کی رُو سے ایک ہی وطن میں متعدد ریاستیں قائم ہوسکتی ہیں۔ ۶- شیخ مصطفی المراغی مرحوم، اس زمانے میں شیخ الازہر۔ ۷- آقای مرتضیٰ احمد خان میکش درانی مرحوم۔ بڑے مخلص، سرگرم اور بے ریا کارکن اور صحافی، تحریکِ خلافت اور آزادی کے پرجوش مجاہد۔ تحریک ترکِ موالات میں کالج چھوڑا۔ پھر بسلسلۂ ہجرت کابل چلے گئے۔ واپس آئے تو صحافت کی زندگی اختیار کرلی۔ انقلاب زمیندار اور کئی دوسرے اخباروں میں کام کیا، جن میں روزنامہ احسان بالخصوص قابلِ ذکر ہے۔ انصاف کے نام سے ایک روزنامہ بھی نکالتے تھے۔ ۱۹۲۸ میں ایک فارسی ہفت روزہ افغانستان جاری کیا۔ امان اللہ خان مرحوم کے پرزور حامی تھے۔ نادر شاہ شہید کے شدید مخالف۔ چنانچہ اس مخالفت کی پاداش میں انگریزی حکومت نے انھیں قید کی سزا بھی دی۔ ۱۹۳۶ء میں جب حضرت علامہ نے قائداعظم کی حمایت میں پانچ ارکان پر مشتمل پنجاب مسلم لیگ کی ایک جماعت قائم کی تو اس کے ایک رکن میکش مرحوم بھی تھے۔ میکش صاحب کی کچھ تصنیفات اور رسائل بھی ہیں۔ تقسیم سے قبل احسان سے علیحدگی اختیار کرلی اور روزنامہ شہباز جاری کیا۔ وجہ یہ تھی کہ روزنامہ احسان انھیں یونینسٹ پارٹی کی حمایت پر مجبور کررہا تھا۔ جماعتِ احمدیہ کے خلاف انھوں نے بہ کثرت مضامین لکھے اور مودودی صاحب سے بھی سلسلۂ نزع جاری رکھا۔ قیام پاکستان کے بعد دیر تک صحافت سے وابستہ رہے۔ بالآخر خانہ نشین ہوگئے اور اپنا زیادہ تر وقت علمی اور ادبی سرگرمیوں میں صرف کرنے لگے۔ ۸- محمد نادر خاں، شاہ افغانستان۔ میکش صاحب کا شروع ہی سے یہ دعویٰ تھا کہ شاہ شہید انگریزوں سے ساز باز رکھتے ہیں۔ ۹- جس میں بسبب غلامی و محکومی ہر روز ایک نیا فتنہ پیدا ہوتا اور سمجھ میں نہیں آتا کہ ہماری سیاسی اور مذہبی جدوجہد میں جو عوامل کام کررہے ہیں ان کے پیشِ نظر افراد کی نیتوں کے بارے میں کیا رائے قائم کی جائے۔ ہمارے ذرائع محدود ہیں۔ خبر رساں ادارے غیروں کے ہاتھ میں ہیں۔ ہم کیا ہیں؟ حسن ظن سے کام لیں یا سوئے ظن سے؟ لیکن مولانا روم کہتے ہیں اور بفحواے ان بعض الظن اثم کیا خوب کہتے ہیں: بگدز از ظن و گمان اے بدگمان ان بعض الظن اثم ہم بخواں ۱۰- بمعنی اُمت۔ ۱۱- سورۂ ممتحنہ میں اور جیسا کہ راقم الحروف اس سے پہلے عرض کرآیا ہے کہ سر عبدالقادر مرحوم نے اس سلسلے میں جو اعتراض اُٹھایا تھا، مولانا ابوالکلام نے اس کا جواب ان الفاظ میں دیا تھا: ہمارے لیے قرآن پاک حجت ہے نہ کہ اس کا ترجمہ اور تفسیر۔ بہتر ہوگا اس اعتراض کو ذرا واضح طور پر بیان کردیا جائے۔ یہ ۱۹۲۰ء کا ذکر ہے۔ حبیبیہ ہال سے دائیں جانب پہلے کمرے میں اربابِ انجمن (حمایت اسلام) جمع ہیں۔ ان کے سامنے مولانا محمد علی، مولانا شوکت علی، مولانا ابوالکلام اور ان کے ہمراہیوں میں سے چند اور حضرات بیٹھے ہیں۔ حضرت علامہ بھی تشریف فرما ہیں۔ گفتگو کا آغاز مولانا محمد علی کے خطاب سے ہوتا ہے۔ وہ جنگ عظیم میں انگریزوں کی عہد شکنی اور خلافت کا ذکر چھیڑتے ہیں اور ترکِ موالات کی قرارداد پیش کرتے ہیں۔ مطالبہ یہ ہے کہ کالج حکومت سے قطع تعلق کرلے۔ اس پر سلسلۂ بحث شروع ہوجاتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ جو کچھ کیا جارہا ہے گاندھی جی کے اشارے سے یا بربناے شریعت؟ مولانا محمد علی کہتے ہیں ہماری تحریک شریعت پر مبنی ہے اور سورۂ ممتحنہ کی آیات سے اس کا جواز پیش کرتے ہیں۔ لیکن سر عبدالقادر کہتے ہیں اہلِ کتاب سے تو ترکِ موالات جائز نہیں، انگریز اہلِ کتاب ہیں۔ مولانا پوچھتے ہیں یہ اہلِ کتاب کا استشنا آپ نے کہاں سے اور کیسے پیدا کرلیا؟ سر عبدالقادر قرآن مجید کا نسخہ ہاتھ میں لیے بعض آیات کے ترجمے اور حواشی کو اپنی تائید میں پیش کرنا چاہتے ہیں لیکن مولانا ابوالکلام انھیں یہ کَہ کر خاموش کردیتے ہیں ’’ہمارے لیے صرف قرآن پاک حجت ہے، کوئی ترجمہ یا تفسیر یا حاشیہ حجت نہیں ہے، خواہ کسی کا ہو۔‘‘ آیات برأۃ زیر بحث آجاتی ہیں۔ اعتراض اُٹھایا جاتا ہے کہ مشرکین سے موالات جائز نہیں۔ برعکس اس کے انگریز عیسائی ہیں اور عیسائی محبت ومؤوت میں بہ نسبت دوسروں کے مسلمانوں سے اقرب۔ اس پر مولانا محمد علی برافروختہ ہوکر اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں ’’قرآن مجید کے احکام نہایت واضح ہیں۔ جس طرح سورۂ ممتحنہ نے موالات اور عدم موالات کا فیصلہ نہایت واضح طور پر کردیا ہے، بعینہٖ سورہ توبہ نے صلح و جنگ کا اُصول قائم کردیا اور وہ اُصول یہ ہے: فَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ۔ حالانکہ براۃ کا اعلان مشرکین کے خلاف تھا۔‘‘ مولانا کہنے لگے ’’اگر آپ کا اعتراض یہ ہے کہ ہندو مشرک ہیں اور مشرکین سے موالات جائز نہیں تو میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ عالمگیر ایسے متقی بادشاہ نے ہندوؤں سے جزیہ کیوں لیا؟ سورۂ ممتحنہ میں جو ’الذین‘ آیا ہے، تو اس ’الذین‘ میں سب ہی شامل ہیں۔ کسی خاص مذہب اور ملت کی قید نہیں۔ رہے انگریز جو یہ قول آپ کے بسبب عیسائیت مسلمانوں سے محبت و مودت میں اقرب ہیں تو یہ کیسی محبت اور مؤدت ہے جس کی بنا پر وہ گزشتہ ایک ڈیڑھ صدی سے اسلام اور عالمِ اسلام کا قلع قمع کرنے میں مصروف ہیں۔ مولانا نے فرمایا ’’اقرب مودۃ‘‘ کے لیے کسی بہتر حاشیے اور تفسیر کا مطالعہ کیجیے اور قرآن مجید کے ان ارشادات کو بھی یاد رکھیے: لَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَھُوْدُ وَ لَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَھُمْ (البقرہ: ۱۲۰) لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَ النَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآئَ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ وَ مَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ (المائدہ: ۵۱)۔ ز…ز…ز سہ شنبہ: ۲۲؍فروری صبح سے کوشش تھی کہ حضرت علامہ کی خدمت میں جلد سے جلد حاضر ہوسکوں مگر اس کے باوجود جاوید منزل پہنچا تو شام ہورہی تھی۔ حضرت علامہ کی طبیعت ویسے تو بہتر ہے، نیند البتہ کم آتی ہے۔ فرمایا ’’قرشی صاحب کی رائے ہے سر میں روغن لبوب سبع کی مالش ہونی چاہیے۔ ڈاکٹر جمعیت سنگھ کوئی منوم دوا تجویز کرگئے ہیں۔‘‘ ارشاد ہوا ’’حکیم نابینا صاحب کی خدمت میں جلد عوارض کا حال لکھ دیا گیا ہے۔ خدا کرے ان کی دوائیں جلد آجائیں۔‘‘ فرمایا ’’دمے کی تکلیف کچھ بڑھ گئی ہے میں نے ڈاکٹر جمعیت سنگھ کو بلوایا تھا۔ وہ کچھ دوائیں تجویز کرگئے ہیں۔ امید ہے ان کے استعمال سے فائدہ ہوگا۔‘‘ فرمایا ’’انصاری۱؎ میں مولانا حسین احمد نے ایک طویل مضمون لکھا ہے جس میں ایک طرح سے ہمیں پھر مناظرے کی دعوت دی ہے۔ فرماتے ہیں اگر اسلام میں بناے معاشرہ فرد کا شرف ذات ہے اور مقصد اتحاد انسانی تو قرآن پاک سے اس کی نص پیش کی جائے۔‘‘۲؎ میں نے کہا ’’تعجب ہے مولانا محض ضد میں آکر اس قسم کی باتیں ارشاد فرمارہے ہیں۔‘‘ ارشاد ہوا ’’اب کہ نوبت یہاں تک آپہنچی ہے، انھیں کون سمجھائے؟‘‘ اور یہ کہتے کہتے ان کا چہرہ متکدر ہوگیا۔ حضرت علامہ کو کانگریسی خیال علما کی سیاسی روش سے بڑا دکھ ہے اور یہ بھی ایک وجہ ہے نیند نہ آنے کی۔ حضرت علامہ کا مزاج بڑا مکدر تھا۔ سانس کی تکلیف ہونے لگی تو انھوں نے مجبوراً تکیوں پر سر رکھ دیا۔ کچھ دیر یونہی بیٹھے رہے، پھر ذرا آرام ملا تو لیٹ گئے۔ بے چینی کی سی کیفیت تھی اور جسے دیکھ دیکھ کر میری پریشانی بڑھ رہی تھی۔ حضرت علامہ کبھی کروٹ بدلتے، کبھی اس حالت میں بھی فرماتے: آج کیا خبر ہے؟ حالات کیا ہیں؟ مسلمان کیا کررہے ہیں؟ کبھی پوچھتے: قرشی صاحب کہاں ہیں؟ چودھری صاحب کب آئیں گے؟ راجا صاحب کیوں نہیں آئے؟ میں خاموش بیٹھا مختصراً جواب دیتا۔ پندرہ بیس منٹ کے بعد انھوں نے پھر کروٹ بدلی اور اُٹھ کر بیٹھنے کا ارادہ ظاہر فرمایا۔ میں نے بڑھ کر سہارا دیا۔ علی بخش آگیا تھا۔ اس نے تکیوں پر تکیے رکھ دیے تاکہ حضرت علامہ ٹیک لگالیں اور آسانی سے بیٹھ سکیں۔ میں نے عرض کیا، کیوں نہ ذرا سا عرق گل گاؤزبان پی لیجیے۔‘‘ فرمایا ’’بہتر ہے‘‘ اور دو ایک گھونٹ عرق کے پیے۔ علی بخش نے چلم بدلی اور حقے کی نے حضرت علامہ کی طرف موڑ دی۔ انھوں نے دو ایک کش لگائے اور بڑے افسوسناک لہجے میں فرمایا ’’عالمِ اسلام کب سے روبہ انحطاط ہے۔ نہ علم باقی رہا نہ عمل۔ نہ مدرسوں کی قیل و قال میں کچھ رکھا ہے، نہ خانقاہوں کی ہائے و ھو میں۔ نہ اہلِ شریعت میں دم ہے، نہ اہلِ طریقت میں۔‘‘ میں نے اس افسردہ خاطری کو دور کرنے کے لیے یونہی عرض کیا ’’اسرار خودی کے دیباچے میں آپ نے فرمایا ہے کہ ہمارا تصوف کب سے وحدۃ الوجود پر مرتکز ہے اور وحدۃ الوجود سے ہم نے کوئی سبق سیکھا تو فرار اور تعطل اور نفی ذات کا…‘‘ میں نے اپنی بات ختم نہیں کی تھی کہ ارشاد ہوا ’’تمھارے ذہن میں کوئی بات ہے۔ تمھارا سوال کیا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’سوال یہ ہے کہ فنا کا تصور کیسا مشکل ہے۔ اس کے برعکس بقا ہے۔ بقا کا امکان مشکل سہی کہ اس میں لاکھوں دشواریاں ہیں، لیکن اس کا ایک تصور تو ہے۔ اس کے مقابلے میں فنا ہے، ہستی کی بجاے نیستی، کاملاً لاموجودگی، کاملاً تعدیم ذات، کاملاً نفی۔ فنا کا تصور مشکل ہی نہیں، ناممکن نظر آتا ہے۔‘‘ فرمایا ’’بدھ مت نے ’نروان‘ کا تصور اسی غرض سے قائم کیا تھا۔ اس نے صفر کی مدد سے فنا اور عدم تک پہنچنے کی کوشش کی۔‘‘ میں نے کہا ’’لیکن مسلمانوں نے تو صفر کو بھی ایک مثبت مقدار کی علامت ٹھہرایا۔ کیا اس لیے کہ ان کی نگاہیں بقا پر تھیں؟ ان کے نزدیک فنا تصور ممکن ہی نہیں تھا؟‘‘ میں نے یہ عرض کیا تو حضرت علامہ نے کروٹ بدلی اور جو شال اوڑھ رکھی تھی اس کا دامن سمیٹتے ہوئے فرمایا ’’نیازی صاحب! یہ سب کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ یہ سب ہیچ ہے‘‘ اور یہ کہتے کہتے خاموشی اختیار کرلی۔ انھیں شاید پھر ضیق کی تکلیف ہورہی تھی۔ میں پہلے ہی سے پریشان تھا۔ حضرت علامہ نے یہ الفاظ کہے اور ضیق کی تکلیف ہونے لگی تو میری پریشانی اور زیادہ بڑھ گئی۔ میں سوچ رہا تھا فلسفہ و حکمت کی گفتگو ہو اور حضرت علامہ فرمائیں یہ سب کیا ہے، یہ کچھ بھی نہیں۔ حالانکہ فلسفہ اور حکمت تو وہ موضوع ہے جس پر ان کی گفتگووں کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔ یوں بھی حضرت علامہ کا ذوق حیات کبھی اتنا مضمحل نہیں ہوا تھا کہ انھیں فلسفہ و حکمت ہیچ نظر آنے لگیں۔ لہٰذا انھوں نے جو فرمایا یہ سب کچھ ہیچ ہے تو اس سے ان کا مطلب کیا ہے۔ پھر خیال آیا ممکن ہے ان کا اشارہ کسی خاص حقیقت کی طرف ہو۔ لہٰذا دم کشی کی تکلیف دور ہوئی اور حضرت علامہ پھر ٹیک لگا کر بیٹھ گئے تو میں نے عرض کیا ’’آپ کا اشارہ کیا شوپن ہاوئر کی طرف ہے، اس کی یاس اور بے دلی کی طرف کہ زندگی ہیچ ہے، سرتا سر ہیچ۔‘‘ ارشاد ہوا ’’ہرگز نہیں۔ زندگی نعمت ہے، بہت بڑی نعمت۔ لیکن اس کے ساتھ صحت کا ہونا کس قدر ضروری ہے۔ میرا اشارہ انکارِ نعمت کی طرف نہیں، زوالِ نعمت کی طرف ہے۔ علم کی لذت بڑی چیز ہے، مگر اس میں کچھ مزا ہے تو جب ہی کہ زندگی کے ساتھ صحت ہو۔ انسان کچھ کہے، کچھ کرسکے۔ یہ نہیں تو کیا ہے؟ زندگی ہیچ! فلسفہ و حکمت ہیچ!] اب مجھے یہ پریشانی تھی کہ حضرت علامہ کی تسلی خاطر کے لیے کچھ کہوں تو کیا کہوں۔ میں کَہ بھی سکتا تھا تو کیا؟ میں خاموش بیٹھا تھا، گو بڑا افسردہ خاطر کہ حضرت علامہ نے جیسے کسی فکر میں مستغرق ہوں خود ہی فرمایا ’’شوپن ہاوئر کہتا ہے حقیقت کیا ہے، ایک بے بصر مشیت، لہٰذا زندگی کے کوئی معنی ہیں، نہ کائنات کا کوئی مقصد۔ گویا جو کچھ ہے عبث اور اس کا ظہور بھی عبث۔ مگر شوپن ہاوئر غلط کہتا ہے۔ شوپن ہاوئر کو کہنا چاہیے تھا حقیقتِ مطلقہ ’غنی‘ ہے۔ قرآن پاک نے اللہ تعالیٰ کو ’غنی عن العالمین‘ کہا ہے اور غنی کے معنی ہیں وہ ذات جو بے نیاز ہو۔ اب اگر اللہ غنی عن العالمین ہے اور ہم سے بے نیاز تو اس کی شان بے نیازی کا یہ مطلب نہیں کہ حقیقتِ مطلقہ ایک بے بصر مشیت ہے، اس لیے کہ یہ مشیت باوجود اللہ تعالیٰ کی شان بے نیازی کے بابصر بھی ہوسکتی ہے اور ہے۔ اللہ تعالیٰ علیم و حکیم ہے۔ کائنات میں بھی ایک مقصد کارفرما ہے اور زندگی کے بھی کچھ معنی۔‘‘ میں نے سلسلۂ گفتگو آگے نہیں بڑھایا۔ میرے لیے یہ اَمر بڑا تکلیف دہ تھا کہ حضرت علامہ اپنی طویل بیماری سے پریشان ہوچکے ہیں۔ ان کا جی چاہتا تھا انھیں صحت ہو، وہ کچھ کریں۔ یہ دن بھر فلسفہ و حکمت کی گفتگوئیں، یہ روز و شب مسائل سیاست اور معیشت کی بحثیں، یہ عالمِ اسلام اور مسلمانوں کی زبوں حالی پر تبصرے، یہ سب کیا ہیں؟ کچھ بھی نہیں۔ کیسے کیسے مباحث اور کیسے مضامین حضرت علامہ کے ذہن میں ہیں۔ وہ چاہتے ہیں انھیں صحت ہو، وہ ان پر قلم اُٹھائیں اور قوم جن مغالطوں میں اُلجھ گئی ہے ان کو دور کریں۔ بلکہ ہوسکے تو عملاً سیاست میں بھی حصہ لیں۔ علاوہ اس کے کتنی تصنیفات ہیں جن کا نقشہ ان کے ذہن میں قائم ہے۔۳؎ پھر اس خیال سے کہ شاید میرا خاموش رہنا ٹھیک نہ ہو، میں نے عرض کیا ’’آپ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ غنی عن العالمین ہے، انسان کیا، سارے عالم سے غنی! لیکن وہ ہمارا رب بھی تو ہے۔ ہم اس کے فضل کی امید بھی تو رکھ سکتے ہیں۔‘‘ ارشاد ہوا ’’کیوں نہیں۔ وہ بڑا فضل کرنے والا ہے۔ دنیا جہان اس کے فضل سے قائم ہے۔ ہم اس کی شانِ ربوبیت سے انکار نہیں کرسکتے۔ لیکن وہ بے نیازی برتے تو ہم کیا کرسکتے ہیں؟ وہ مالک و مختار ہے، ہم عاجز و بے بس‘‘ اور یہ کہتے کہتے خاموش ہوگئے۔ میں نے عرض کیا ’’آپ کا ارشاد بجا ہے مگر یہ اس کی شان بے نیازی ہی تو ہے کہ انسان پر بڑے بڑے احوال گزر جاتے ہیں اور سمجھ میں نہیں آتا ان کے بارے میں کیا کہا جائے۔ آزمایش، یا بے نیازی، یا کیا؟ آپ نے خود بھی تو فرمایا ہے، گو کسی اور خیال کے ماتحت: بسے ہم چو شبیر درخوں نشست۴؎ اور مرزا غالب کہتے ہیں: بزم تراشمع و گل خستگی بو تراب ساز ترا زیر و بم واقعۂ کربلا فرمایا ’’مرزا صاحب نے اور کیا کہا ہے؟‘‘ میری زبان پر بے اختیار یہ شعر آگئے: تو نالی از خلۂ خار و ننگری کہ سپہر کلیم را بہ لباس شباں بگرداند یزید را بہ بساط خلیفہ بنشاند سر حسین علی برسناں بگرداند ارشاد ہوا ’’یہی تو اس کی شان بے نیازی ہے اور یہی مرحلہ ہے ایمان کا لیکن اس حقیقت کو کچھ وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کا ان مراحل سے گزر ہو۔ ان میں جو بھی مشکل ہے ہمارے لیے ہے، ان کے لیے نہیں جو ان سے گزر رہے ہیں۔ البتہ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ جہاں رب العالمین ہے وہاں اپنے بندوں پر غالب اور قاہر بھی۔۵؎ چند منٹ خاموشی رہی۔ حضرت علامہ خاموش لیٹے نامعلوم کیا سوچ رہے تھے کہ پاس کے کمرے سے بانو۶؎ آئی اور حضرت علامہ سے لپٹ گئی۔ کہنے لگی ’’ابا جی! آج نیازی صاحب ہمارے ساتھ کھانا کھائیں گے۔‘‘ حضرت علامہ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا ’’تمھیں بانو کی دعوت قبول کرلینی چاہیے۔‘‘ میں نے عرض کیا، جیسے آپ کا ارشاد ہو۔ اور پھر تھوڑی دیر کے لیے کھانے کے کمرے میں چلا گیا جہاں جاوید، ان کی گورنس اور م-ش منتظر تھے۔ کھانا کھایا اور چند منٹ بیٹھ کر پھر حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ اس اثنا میں حضرت علامہ بھی کھانا تناول فرما چکے تھے۔ علی بخش نے چلم بدل کر حقہ سامنے رکھا تو فرمایا ’’تمھارا کیا خیال ہے؟ کیا مضمون ضرور ہونا چاہیے؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’ضرور اور آپ ہی کی طرف سے۔‘‘ فرمایا ’’کیوں؟‘‘ میں نے کہا ’’اس لیے کہ کانگریسی خیال مسلمان الحاد اور لادینی کی جس دعوت کو دانستہ یا نادانستہ تقویت پہنچا رہے ہیں وہ روز بروز ترقی پر ہے۔ میں ان کے نظریات سے خوب واقف ہوں۔ پڑھا لکھا طبقہ تو خیر قرآن و حدیث سے دور ہٹ چکا ہے اور سمجھتا ہے وطنی قومیت سے مفر کی کوئی صورت نہیں۔ رہے عوام سو ان میں کانگریسی خیال علما کے زیر اثر اب یہ تحریک پھیل رہی ہے کہ وطنی قومیت کو اسلام کی تائید حاصل ہے۔ غیر کانگریسی علما میں کون ہے جو انھیں سمجھائے کہ جن سیاسی اور اجتماعی حقائق کے پیشِ نظر یہ تحریک پھیلائی جارہی ہے اس کی صحیح نوعیت کیا ہے اور بطور ایک نظام مدنیت اسلام کی تعلیمات کیا۔ اگر آپ بھی خاموش رہے تو ان مغالطوں کا ازالہ کیسے ہوگا جو اس باب میں پیدا ہوچکے ہیں۔ کانگریسی خیال اخبارات کو دیکھ لیجیے، مولانا حسین احمد کی حمایت میں کس طرح مضمون پر مضمون لکھا جارہا ہے۔ لیکن ہمارے اخبار خاموش ہیں۔ آپ کا یہ مضمون شائع ہوگیا تو مجھے یقین ہے ویسا ہی مؤثر ثابت ہوگا جیسے اسلام اور احمدیت۔‘‘۷؎ فرمایا: ’’بہت اچھا۔ چودھری صاحب کو آجانے دو۔‘‘ نوبج گئے۔ چودھری صاحب آگئے تو ان سے پھر مضمون کے بارے میں بات چیت ہوئی۔ چودھری صاحب نے بھی میری رائے سے اتفاق کیا۔ حضرت علامہ نے فرمایا ’’بہت اچھا۔ اگر رائے یہی ہے تو اس اَمر کا اہتمام کرنا چاہیے کہ مضمون دو ایک روز ہی میں قلم بند ہوجائے۔‘‘ پھر ارشاد ہوا ’’تمھارے پاس کیا وہ رباعی محفوظ ہے جو میں نے کچھ دن ہوئے مولانا کے بارے میں لکھوائی تھی۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’جی ہاں محفوظ ہے۔‘‘ ارشاد ہوا ’’اس رباعی کی تصحیح کردو۔ میں نے شروع کے دو مصرعے یوں بدل دیے ہیں:۸؎ میں نے بیاض اُٹھائی اور تعمیل ارشاد کردی۔ حضرت علامہ نے رباعی سنی اور اطمینان ظاہر فرمایا تو بیاض الماری میں رکھ کر میں پھر اپنی جگہ پر آبیٹھا۔ حضرت علامہ نے رباعی میں جو اصلاح فرمائی نہایت مناسب تھی۔ پہلی صورت میں حضرت علامہ جو کہنا چاہتے تھے اس کا اظہار بعد کے دو مصرعوں میں ہوتا تھا۔ اب ان کا مافی الضمیر واضح تھا اور آخری دو مصرعے ان کے دعوے کی دلیل۔ پورا قطعہ یا رباعی ارمغان حجاز میں موجود ہے۔ قرشی صاحب آگئے، راجا صاحب کا انتظار تھا دیر تک نشست رہی۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱- دہلی کا سہ روزہ اخبار۔ کانگریسی سیاست کا حامی اور بڑی حد تک جمعیت العلماے ہند (کانگریسی) کا ترجمان۔ ۲- ملاحظہ ہو تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، خطبہ ششم، بحث ریاست۔ ۳- تشکیل جدید فقہ اسلامی، ایک نامعلوم پیغمبر کا صحیفہ، مقدمۂ قرآن مجید اور، صلور اسرافیل وغیرہ وغیرہ۔ ۴- پیام مشرق میں: نامۂ عالم گیر بہ پسر خود کہ بہ مرگ پدر دعا می کرد۔ ۵- ہُوَالْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہِ۔ ۶ (الانعام): ۱۸،۶۱۔ اسے اپنے بندوں پر ہر طرح سے غلبہ حاصل ہے۔ وہی ان کا محافظ ہے۔ قہر کے اصل معنوں، نہ کہ ان معنوں میں جو اُردو میں رائج ہیں۔ ۶- حضرت علامہ کی صاحبزادی۔ ۷- یعنی وہ طویل بیان جو کتابی شکل میں بعنوان اسلام اور احمدیت شائع ہوا اور پنڈت جواہر لال نہرو کے جواب میں لکھا گیا۔ ۸- پہلے یہ دو مصرعے یوں تھے: ندانی نکتۂ دین عرب را کہ گفتی روز روشن تیرہ شب را ……… کسے کو پنجہ زد ملک و نسب را ندانہ نکتۂ دین عرب را ز…ز…ز چہار شنبہ: ۲۳؍فروری بڑا مصروف تھا۔ صرف مزاج پرسی کے لیے حاضر ہوسکا۔ بحمدللّٰہ حضرت علامہ کی طبیعت اچھی ہے۔ میں جب تک بیٹھا، عوارض ہی کے بارے میں سوالات کرتا رہا۔ نیند کا پوچھا تو ارشاد ہوا ’’نسبتاً بہتر ہے۔‘‘ فرمایا ’’قرشی صاحب صبح سویرے ہی آگئے تھے۔ نبض دیکھی اور کچھ دوائیں تجویز کرگئے ہیں۔ لیکن حکیم صاحب کے خط کا انتظار ہے۔ ان کی دوائیں آجائیں تو کیا اچھا ہو۔‘‘ مضمون کا پوچھا تو فرمایا ’’چودھری صاحب ابھی دفتر گئے ہیں۔ انھیں ہدایات دے دی گئی ہیں۔ دو ایک روز میں مرتب ہوجائے گا۔ پھر نظرثانی بھی کرلی جائے گی۔‘‘ میرا جی چاہتا تھا حضرت علامہ کی خدمت میں کچھ دیر اور بیٹھوں، لیکن دو چار ذاتی کام تھے۔ میں نے اظہار معذوری کرتے ہوئے اجازت طلب کی تو فرمایا ’’میری صحت کا تو یہی حال ہے۔ کاموں کو نظر انداز نہ ہونے دو۔‘‘ میں نے مجبوراً اجازت لی، مگر جاوید منزل سے باہر آیا تو حضرت علامہ کے الفاظ سے بڑا دل گرفتہ! ’’میری صحت کا تو یہی حال ہے‘‘ یعنی صحت بہتر نہیں ہورہی۔ کیسے حوصلہ فرسا الفاظ تھے اور کیسی تشویش انگیز صورتِ حالات! قدم قدم پر اپنی بے بسی کا احساس ہورہا تھا اور قدم قدم پر یہ دعا کہ اللہ تعالیٰ انھیں صحت دے! شام کو پھر دیر سے جاوید منزل پہنچا۔ علی بخش سے معلوم ہوا احباب سب جمع ہیں: چودھری صاحب، راجا صاحب، قرشی صاحب، میں خواب گاہ میں داخل ہوا، سلام عرض کیا اور مزاج پوچھ کر بیٹھ گیا۔ م-ش بھی آگئے۔ حضرت علامہ کی طبیعت بڑی مضمحل تھی۔ دیر تک نشست رہی اور غرض یہ کہ حضرت علامہ کوئی بات نہ کریں، البتہ ہم ان کی خبرگیری کے لیے بیٹھے رہیں۔ ز…ز…ز جمعرات: ۲۴؍فروری چاشت کے قریب حاضر ہوا۔ حضرت علامہ آرام فرما رہے تھے۔ علی بخش سے خیریت پوچھی۔ اس نے کہا ’’آنکھ لگ گئی ہے۔ رات بے خوابی اور ضیق کی تکلیف رہی۔ قرشی صاحب حسبِ معمول نبض دیکھ گئے ہیں۔ خاصی دیر تک بیٹھے رہے۔ کچھ دوائیں تجویز کی تھیں، لے آیا ہوں۔ چودھری صاحب بھی ہوگئے ہیں۔‘‘ میں نے سوچا میرا ٹھہرنا مناسب نہیں۔ حضرت علامہ آرام فرمالیں۔ رات کی بے خوابی سے طبیعت مضمحل ہوگی۔ شام کو حاضر خدمت ہوا تو حضرت علامہ کی طبیعت بڑی شگفتہ تھی۔ معلوم ہوا دن میں بہت کافی سو لیے تھے۔ بے خوابی اور بے خوابی کی وجہ سے جو اضمحلال تھا دور ہوچکا ہے۔ چودھری صاحب سرِشام ہی آگئے۔ پھر قرشی صاحب تشریف لے آئے اور تھوڑی دیر کے بعد راجا صاحب۔ م-ش تو چند دنوں سے جاوید منزل ہی میں اُٹھ آئے ہیں۔ دن رات حضرت علامہ کی خبر گیری میں مصروف رہتے ہیں۔ قرشی صاحب آئے تو حضرت علامہ کی طبیعت اور بہتر ہوگئی۔ فرمایا ’’میرا علاج یہی ہے کہ حکیم صاحب میرے پاس بیٹھے رہیں۔‘‘ حضرت علامہ یہ اکثر فرمایا کرتے تھے اور یہ بات تھی بھی ٹھیک، اس لیے کہ قطعِ نظر اس خلوص، محبت اور دل سوزی کے جو قرشی صاحب کو حضرت علامہ سے تھی، قرشی صاحب آتے تو انھیں اطمینان ہوجاتا کہ عوارض کی جیسی بھی کیفیت ہوگی قرشی صاحب اس کا کوئی نہ کوئی مداوا سوچ لیں گے۔ دراصل اب حضرت علامہ کا مرض جس مرحلے پر پہنچ گیا تھا اس کے پیشِ نظر ضروری تھا کہ ان کے تیمار دار اور معالج ہر وقت ان کی خدمت میں حاضر رہیں، ہر وقت خبرگیری ہوتی رہے۔ ہم خاموش بیٹھے تھے۔ البتہ کبھی کبھی حضرت علامہ کے پاس خاطر سے کہ خاموشی سے گھبرا نہ جائیں لیگ اور کانگریس، یا یونینسٹ پارٹی کی بات چھیڑ دیتے، یا یہ ذکر ہونے لگتا کہ ملک میں کیا ہورہا ہے، مسلمانوں کو کیسے ورغلایا جارہا ہے۔ لیکن پھر جیسے دفعتاً کوئی خیال آگیا ہو حضرت علامہ مضمون کے بارے میں چودھری صاحب سے سوال کرنے لگے۔ چودھری صاحب مختصراً جواب دیتے۔ حضرت علامہ اگرچہ باطمینان لیٹے سوالات کررہے تھے، لیکن ہمیں پریشانی تھی کہ صحت کی اس حالت میں اس سلسلۂ سوالات کا کوئی ناگوار اثر تو نہیں ہوگا؟ مضمون کا سننا کیسے ہوسکے گا؟ اس کی تنقید اور ترمیم و اصلاح کے ساتھ ساتھ قطع و برید بھی تو ہوگی یوں بھی حضرت علامہ کی طبیعت پر بار پڑے گا: اور اندریں صورت کہیں ایسا نہ ہو ان کے عوارض کوئی خراب اثر قبول کرلیں۔ عوارض کی شدت میں تو اضافہ نہیں ہونا چاہیے۔ حضرت علامہ کو آرام کی ضرورت ہے۔ وہ اس محنت کے کیسے متحمل ہوں گے؟ ز…ز…ز جمعۃ المبارک: ۲۵؍فروری دن بھر مصروفیت رہی۔ چنانچہ باوجود کوشش کے کہ زیادہ دیر نہ ہونے پائے جاوید منزل پہنچا تو رات کے نو بج رہے تھے سلامت ساتھ تھے۔ اول باورچی خانے کا رُخ کیا تاکہ علی بخش سے حضرت علامہ کی کیفیت مزاج معلوم کرلیں۔ علی بخش نے کہا ’’چودھری صاحب اور قرشی صاحب حاضر خدمت ہیں۔ حضرت علامہ کی طبیعت نسبتاً بہتر ہے، لیکن ہیں بڑے مضمحل۔‘‘ ہم لوگ کمرے میں داخل ہوئے، سلام عرض کیا اور خیریت مزاج پوچھی تو حسبِ معمول فرمایا ’’الحمدللّٰہ‘‘۔ چودھری صاحب، م-ش اور رحما حضرت علامہ کا بدن داب رہے تھے۔ قرشی صاحب بھی پلنگ سے لگے بیٹھے کبھی کبھی حضرت علامہ کا ہاتھ اور انگلیاں سہلانا شروع کردیتے۔ سلامت نے کہا ’’میں بھی شریک ثواب ہونا چاہتا ہوں، اور آگے بڑھ کر حضرت علامہ کی کمر دابنے لگے۔ میں بھی پاینتی پر ایک طرف ہوکر بیٹھ گیا۔ پچھلے دو روز سے حضرت علامہ کے عوارض میں خاصی شدت پیدا ہوگئی ہے۔ زیادہ تر تکلیف دمے کی ہے۔ ڈاکٹر جمعیت سنگھ کی دوا سے فائدہ تو ہوا، لیکن معمولی۔ حکیم نابینا صاحب کے خط کا انتظار ہے اور ان کی دواؤں کا بھی۔ حضرت علامہ بڑے مضمحل ہیں۔ ایک نئی شکایت درد کمر کی ہے اور خاصی تکلیف کا باعث۔ فرمایا ’’نیند بہت کم آتی ہے، ضیق کی تکلیف بھی بڑھ گئی ہے۔‘‘ ارشاد ہوا ’’میرا خیال ہے یہ خرابی ۲۱؍فروری کے جوشاندے سے پیدا ہوئی۔‘‘ میں نے عرض کیا، ’’ابریشم کو غالباً اچھی طرح سے صاف نہیں کیا گیا تھا۔ ممکن ہے اس میں کچھ سمی اثرات موجود ہوں۔ میں نے تو اس وقت بھی عرض کیا تھا، جو شاندہ نہ پیجیے۔ قرشی صاحب کی بھی یہی رائے تھی۔‘‘ قرشی صاحب کا یہ بھی خیال تھا کہ اگر دمے کی تکلیف بڑھ گئی ہے تو ہمیں اس کے تدارک کا موقع دینا چاہیے تھا۔ مطلب یہ تھا کہ ایلوپیتھک دوائیں استعمال نہ کی جاتیں۔ لیکن میں نے اس رائے کا اظہار نہیں کیا۔ حضرت علامہ کو تکلیف تھی اور مناسب نہیں تھا کہ تبدیلی علاج کا مسئلہ چھیڑ دیا جاتا۔ آدھ پون گھنٹہ یونہی نشست رہی۔ اس اثنا میں علی بخش کئی بار کمرے میں آیا۔ کبھی حضرت علامہ کے شانے دابتا، کبھی چودھری صاحب پر کوئی فقرہ چست کردیتا۔ ہم لوگ بھی حضرت علامہ کی تفریح خاطر کے لیے کوئی نہ کوئی بات چھیڑ دیتے: کبھی کانگریس، کبھی یونیسٹ پارٹی کی۔ حضرت علامہ فرماتے ’’کانگریس کے بارے میں کچھ نہ کہا جائے۔ کہیں شاہ صاحب (یعنی سلامت) برا مانیں۔‘‘ سلامت ہنس دیتے، کہتے ’’میں تو آپ کا مرید ہوں۔ کانگریس کی طرف داری کرتا ہوں تو اس لیے کہ کانگریس انگریزوں کی دشمن ہے۔‘‘ حضرت علامہ نے فرمایا ’’کیا واقعی؟‘‘ پھر ارشاد ہوا ’’چائے پینے کو جی چاہتا ہے، حکیم صاحب بھی چائے پئیںگے۔‘‘ علی بخش نے چائے کا اہتمام کیا، چلم بدلی اور حضرت علامہ کو سہارا دیا کہ اُٹھ کر بیٹھ جائیں۔ چائے پی گئی تو حضرت علامہ نے حقے کا کش لیتے ہوئے فرمایا ’’کل ڈارلنگ!۱؎ آئے تھے۔ کہتے تھے سر سکندر بڑے شریف النفس انسان ہیں، لیکن کمزور۔‘‘ اس پر سوال پیدا ہوا کہ سرسکندر کی شرافت نفس سے تو انکار نہیں، لیکن کمزوری سے ان کا مطلب کیا ہے؟ کیا یہ کہ ان کی ہمدردیاں لیگ کے ساتھ ہیں، لیکن اتنی سکت نہیں کہ اپنے رفقا سمیت یونینسٹ پارٹی سے الگ ہوجائیں، یا یہ کہ باوجود حمیت ملی کے انھیں حکومت کی خوشنودی منظور ہے، یا یہ کہ ان میں عزم کی کمی ہے اور وہ انگریزوں سے رشتہ توڑ سکتے ہیں، نہ قوم سے۔ یوں گفتگو کا رُخ یونینسٹ پارٹی، لیگ اور کانگریس کی طرف پھرگیا۔ سوال یہ تھا لیگ کیسے مضبوط ہو؟ کانگریس کا زور پنجاب میں تو ہے نہیں، لیکن یونینسٹ پارٹی نے مسلمانوں کی ہمتیں پست کررکھی ہیں۔ بایں ہمہ یونینسٹ پارٹی کب تک کانگریس کی راہ میں حائل رہ سکتی ہے اور رہے بھی تو ہمیں اس سے کوئی فائدہ نہیں۔ گو سرِدست ضرورت اس اَمر کی ہے کہ کانگریس سے بڑھ کر یونینسٹ پارٹی کے خلاف ایک زبردست محاذ قائم کیا جائے۔ یہ باتیں ہورہی تھیں کہ حضرت علامہ نے چودھری صاحب سے مخاطب ہوکر فرمایا ’’چودھری صاحب! وہ ایک نجومی جو آپ سے ملا تھا، اس نے کیا کہا تھا، کانگریس کا زور کب ٹوٹے گا؟‘‘ چودھری صاحب نے کہا ’’۱۹۳۷ء میں۔‘‘۲؎ ئ…ئ…ء حواشی ۱- سرمالکم ڈارلنگ، حضرت علامہ کے دوست اور قدردان، برطانوی پنجاب میں فنانشل کمشنر۔ دیہات سدھار اور محکمہ امداد باہمی سے بڑا تعلق رہا۔ پنجابی کاشتکار ان کی مشہور اور پر از معلومات تصنیف ہے۔ حضرت علامہ سے انھیں بڑا اخلاص تھا۔ ۲- قطعِ نظر اس قول سے جو چودھری صاحب کسی منجم سے منسوب کرتے تھے، کانگریس کا زور فی الواقع ۱۹۳۷ء میں ٹوٹا، اس لیے کہ ۱۹۳۷ء میں عطائے اصلاحات کے ساتھ جب نئے دستور کا نفاذ ہوا، انتخابات لڑے گئے اور اسمبلیوں میں کانگریس اور لیگ پارٹیاں قائم ہوئیں تو کانگریس نے ملک کی واحد نمایندگی کے دعوے میں مسلم لیگ کو وزارت میں شامل کرنے سے انکار کردیا۔ یہ گویا ابتدا تھی اس کے زوال کی، ان معنوں میں کہ کانگریس کی اس روش نے قطعی طور پر ثابت کردیا کہ وہ درحقیقت ہندو اکثریت کی جماعت ہے گو بزعم خود سارے ملک کی نیابت کی دعویدار۔ ز…ز…ز شنبہ: ۲۶؍فروری صبح و شام نشست رہی۔ چودھری صاحب، راجا صاحب، م-ش اور قرشی صاحب سب ہی موجود تھے، لیکن صرف خبرگیری اور تیمارداری کے خیال سے، یا اس لیے کہ حضرت علامہ کا دل بہلائیں، ان کے لیے آرام اور سکون کا سامان پیدا کریں۔ ڈاکٹر جمعیت سنگھ جو دوا تجویز کرگئے تھے، جاری ہے۔ لیکن فائدہ ہے بھی تو بہت کم۔ ادھر حیدر آباد سے خط آیا، نہ دوائیں آئیں۔ زیادہ تر تکلیف دمے کی ہے اور یہ اَمر بڑا تشویشناک ہے۔ نیند بھی نہیں آتی۔ ڈاکٹر صاحب شاید کوئی منوم دوا تجویز کریں گے، لیکن قرشی صاحب منوم دواؤں کے خلاف ہیں۔ وہ اپنے طور پر کچھ تدابیر کررہے ہیں اور حضرت علامہ کا بھی اصرار ہے کہ ایلوپیتھک دواؤں کے ساتھ ساتھ کوئی نہ کوئی مرثہ یا جوارش تجویز ہوتی رہے۔ لیکن یہ علاج در علاج کا معاملہ ٹھیک نہیں۔ حضرت علامہ نے مضمون کا پوچھا تو عرض کیا گیا ’’آپ کی طبیعت ان شاء اللہ دو ایک روز میں سنبھل جائے گی، پھر مضمون بھی ہوجائے گا۔‘‘ فرمایا ’’بہت بہتر۔‘‘ پھر ارشاد ہوا ’’علما مداہنت سے کام لے رہے ہیں، حالانکہ ان کا کام تھا اُمت کی رہنمائی۔ یہ صورتِ حال بڑی افسوس ناک ہے۔‘‘ فرمایا ’’کانگریسی صوبوں میں مسلمانوں کی کیا حالت ہے؟‘‘ چودھری صاحب نے مختصراً صورتِ حالات بیان کی۔ پنجاب کا ذکر آگیا۔ ارشاد ہوا ’’سارا معاملہ پنجاب کے زمینداروں کا ہے۔ پنجاب کے زمیندار کب سمجھیں گے؟ انھیں کب احساس ہوگا یونینسٹ پارٹی کی سیاست بڑی ناقص ہے۔‘‘ ہم نے بات کو طول نہیں دیا۔ حضرت علامہ کا اشارہ شاید اس اَمر کی طرف تھا کہ سیاسی اعتبار سے جب یہ طے ہے کہ زمینداروں کا یہ ٹولہ جسے یونینسٹ پارٹی کہا جاتا ہے۔ ہمیشہ ہندوؤں اور سکھوں کی امداد اور تعاون کا محتاج رہے گا تو یہ بھی ممکن ہے کہ آگے چل کر یہ محتاجی ان کے انفرادی مفاد کو بھی محفوظ نہ رکھ سکے۔ اسے اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے، یا محض معاشی فلاح و بہبود ہی کے خیال سے، ان کی رجعت پسندی میں کوئی شبہ نہیں تھا۔ لہٰذا کوئی بھی نقطۂ نظر ہو اسلامی یا محض معاشی سوال یہ تھا کہ پنجاب کا زمیندار کب سمجھے گا زندگی صرف فصل کی کاشت اور غور و پرداخت نہیں ہے، اس کے علاوہ کچھ اور بھی ہے۔ یہ بہرحال نہیں ہے کہ انسان کی توجہ عمر بھر زمین پر مرتکز رہے اور مذہب و سیاست کی طرح علم و حکمت سے بھی اسے کوئی دلچسپی نہ ہو۔ جیسے بجز کاشت کاری زندگی کا کوئی مقصد ہی نہیں۔ بقول حضرت علامہ پنجاب کا زمیندار زمین میں دانہ ڈالنے کے لیے تو بیتاب رہتا ہے لیکن اس کی خاک بدن دل کے دانے سے محروم ہے۔ لہٰذا ان کا ارشاد ہے: بخاک بدن دانۂ دل فشاں کہ ایں دانہ دارد ز حاصل نشاں۱؎ ئ…ئ…ء حواشی ۱- ضرب کلیم: پنجاب کے زمینداروں سے۔ ز…ز…ز یک شنبہ: ۲۷؍فروری حضرت علامہ کے عوارض میں کوئی کمی نہیں۔ بے حد تشویش ہے۔ ایلوپیتھک علاج سے بھی کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا، بڑی پریشانی یہ ہے کہ حیدرآباد سے خط آیا، نہ دوائیں۔ معلوم نہیں حکیم صاحب کی طبیعت کیسی ہے، دوائیں کیوں نہیں آرہیں۔ صبح حاضر ہوا، لیکن بہت تھوڑی دیر کے لیے اور صرف مزاج پرسی اور خبر گیری کی خاطر۔ طبیعت اور عوارض کا حال پوچھا تو حضرت علامہ نے فرمایا ’’قرشی صاحب صبح سویرے ہی آگئے تھے۔ دیر تک بیٹھے رہے اور کوئی دوا بھی تجویز کرگئے ہیں۔ م-ش لینے گئے ہیں۔‘‘ یہ بھی معلوم ہوا کہ چودھری صاحب معمولاً جلدی ہی آگئے تھے، ابھی دفتر گئے ہیں۔ میں جب تک بیٹھا خاموش رہا۔ حضرت علامہ خاصے بے چین تھے۔ کمر میں درد تھا۔ علی بخش، رحما بدن دابتے۔ کچھ سکون ہوتا تو مجھ سے فرماتے ’’اخبار کیا کہتے ہیں؟ کیا خبر ہے؟‘‘ شام کو احباب کے ساتھ دیر تک نشست رہی۔ لیکن بڑی پریشانی اور بے بسی کے عالم میں۔ دوا جاری ہے۔ قرشی صاحب بھی تدبیر کررہے ہیں۔ ڈاکٹر جمعیت سنگھ بھی پابندی سے آتے اور حضرت علامہ کو دیکھ جاتے ہیں۔ عوارض میں قدرے تخفیف ہے، لیکن ایسا نہیں کہ حضرت علامہ کی طبیعت فی الواقع سنبھل گئی ہو۔ حضرت علامہ کو آرام کی ضرورت ہے، نیند کی، لیکن درد۔ کمر کا درد اور شانے کا درد۔ سونے نہیں دیتا۔ حضرت علامہ کی آنکھ لگ بھی جاتی تو پھر بیدار ہوجاتے۔ علی بخش شانے سہلاتا۔ دیوان علی سے کوئی کافی سنتے۔ فرماتے، باتیں کیے جائیے۔ ایک بار مجھ سے فرمایا کوئی افسانہ بیان کروں۔ میں نے سوچا الف لیلہ میں بغداد کے حجام کا جو پر لطف قصہ مزے لے لے کر بیان کیا گیا ہے شاید حضرت علامہ اسے پسند فرمائیں۔ شاید یونہی ان کی طبیعت شگفتہ ہوجائے۔ میں نے یہ قصہ بیان کیا تو حضرت علامہ بہت محفوظ ہوئے۔ مگر پھر قصہ ختم ہوا تو الفالیلہ کے انداز داستان کوئی اور اس سے مغربی ادب نے جو اثر قبول کیا اس کا ذِکر آگیا۔ مسلمانوں کے ماضی اور ان کی تہذیب و معاشرت کی باتیں شروع ہوگئیں۔ حضرت علامہ نے فرمایا ’’مسلمانوں کی زندگی کیسی شگفتہ تھی۔ انھوں نے حتی الوسع اسے ہر آلایش سے پاک رکھا۔ وہ اس سے لطف اُٹھانا اور اس میں حسن و جمال، طاقت اور قوت کے جو لامتناہی امکانات موجود ہیں ان کی قدر کرنا خوب جانتے تھے۔‘‘ دفعتاً ان کا ذہن عالمِ اسلام کی طرف منتقل ہوگیا۔ فرمایا ’’مسلمانوں کا زوال کیسا حسرت ناک ہے‘‘ اور پھر جیسے ایک آہ بھر کر خاموش ہوگئے۔ میں بھی خاموش تھا۔ پھر اس خیال سے کہ حضرت علامہ سلسلۂ گفتگو نہ چھیڑ دیں اور یہ گفتگو کوئی زیادہ سنجیدہ شکل نہ اختیار کرلے، حاجب منصور کے زمانہ طالب علمی کا ذکر کرنے لگا۔ جامعۂ قرطبہ میں کبھی تین طالب علم جمع تھے۔ انھوں نے اپنے مستقبل کے بارے میں ایک دوسرے کی امداد کا وعدہ کیا تھا۔ یہ وعدہ جس طرح پورا ہوا اور پھر منصور نے جو عروج حاصل کیا اس کے تذکرے سے حضرت علامہ کی طبیعت میں کچھ شگفتگی سی پیدا ہوگئی۔ ’’فرمایا کچھ اور واقعات بیان کرو! پھر ارشاد ہوا مسلمانوں میں کیا ایسا کوئی افسانہ نگار نہیں جو افسانوں افسانوں ہی میں پتے کی بات کَہ جائے۔ شرر۱؎ کے افسانوں سے بیشک تاریخ میں دل چسپی پیدا ہوگئی، لیکن ضرورت ہے پتے کی بات کہنے کی۔‘‘ ئ…ئ…ء حواشی ۱- مولانا عبدالحلیم شرر مرحوم۔ ز…ز…ز سہ شنبہ: یکم؍ مارچ صبح حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ دوپہر کو حاضری دی۔ شام کو پھر حاضر ہوا۔ البتہ کل غیر معمولی مصروفیت تھی۔ باوجود کوشش کے جاوید منزل نہ پہنچ سکا۔ لہٰذا آج صبح جاوید منزل میں قدم رکھا تو علی بخش نے دیکھتے ہی کہا ’’آپ کہاں تھے؟ ڈاکٹر صاحب بہت بیمار ہیں۔ دمے کی تکلیف بے حد بڑھ گئی ہے۔‘‘ علی بخش یہ کَہ رہا تھا اور میرا دل بیٹھا جارہا تھا۔ مجھے افسوس تھا، بلکہ ایک طرح سے ندامت کہ کل قرشی صاحب سے نہ مل سکا، نہ ان سے حضرت علامہ کی خیریت مزاج دریافت کی۔ ٹیلیفون موجود تھا، ٹیلیفون تو کرسکتا تھا حضرت علامہ کے عوارض نے جو شدت اختیار کرلی ہے اس کی تفصیل معلوم ہوجاتی اور باوجود عدیم الفرصتی کے حاضری میں ناغہ نہ ہوتا۔ میں اسی احساس کو لیے ہوئے حضرت علامہ کے کمرے میں داخل ہوا اور سلام عرض کرکے خیریت پوچھی تو حضرت علامہ نے بھی شکایتاً فرمایا ’’تم نے ہماری خبر نہیں لی۔ تم کہاں تھے؟‘‘ میں پہلے ہی سے نادم ہورہا تھا۔ حضرت علامہ بہت کم اظہار شکایت فرماتے ہیں۔ انھوں نے شکایتاً یہ کہا تو میری ندامت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ حضرت علامہ کو زیادہ تر تکلیف شانے کے درد کی ہے۔ ضیق سے بھی پریشان ہیں۔ سیدھے لیٹنا ممکن نہیں۔ بار بار کروٹ بدلتے، یا پھر زانوؤں پر تکیے رکھ لیتے اور ان پرسر ٹیک دیتے ہیں کہ یونہی کچھ آرام مل جائے۔ پھر جب اوندھے منہ بھی پڑے پڑے تھک جاتے ہیں تو بیٹھنے سے کچھ آرام ملتا ہے۔ یوں ذرا سکون ہوتا تو بے اختیار فرماتے: یا اللہ! یوں بھی یا اللہ‘‘ ہمیشہ ان کے ورد زبان رہتا ہے…اُٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے گفتگو کرتے ہوئے۔ میں خاموش بیٹھا تھا، م-ش بھی خاموش تھے اور علی بخش بھی خاموش۔ عجب بے بسی کا عالم تھا۔ حضرت علامہ بڑے بے چین تھے۔ چندے یہی کیفیت رہی، پھر جب طبیعت ذرا سنبھل گئی تو سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور دوا اور پرہیز کا ذکر چھیڑ دیا۔ذرا اور سکون ہوا تو ملک کی عام حالت اور وقتی سیاست پر گفتگو کرنے لگے۔ کچھ استفسار بین الاقوامی معاملات کے بارے میں کیے، لیکن ہم بڑے محتاط تھے۔ ہماری کوشش تھی حضرت علامہ حتی الوسع کوئی بات نہ کریں، لہٰذا بہت کم کسی بات کا سلسلہ آگے بڑھاتے۔ دوا کے سلسلے میں فرمایا ’’ڈاکٹر صاحب نے دوا بدل دی ہے۔ کہتے ہیں جلد افاقہ ہوجائے گا۔ حکیم صاحب بھی حسبِ معمول بہت سویرے آگئے تھے۔ دیر تک بیٹھے رہے۔ انھوں نے بھی کچھ تدابیر کی ہیں… کوئی مالش کی دوا اور خواب آور روغن، کچھ عرق اور جوارش۔ حیدرآباد سے البتہ کوئی اطلاع نہیں آئی، تعجب ہے۔‘‘ گیارہ بج گئے۔ حضرت علامہ نے کھانا کھایا اور لیٹ گئے۔ خیال تھا انھیں شاید نیند آجائے گی۔ ان کی طبیعت بھی سنبھل رہی تھی۔ غالباً دواؤں کا اثر تھا۔ رحما اور علی بخش بدن دابنے لگے۔ میں نے م-ش سے کہا ’’گھر ہو آئوں۔ جلدی واپس آجاؤں گا۔ حضرت علامہ تنہا نہ رہیں۔‘‘ دو بجے کے قریب پھر حاضر ہوا۔ حکیم محمد افضل ساتھ تھے۔ انھوں نے نبض دیکھی اور کہا ’’نیند کے لیے روغن گل کی مالش بہت مفید رہے گی۔‘‘ حکیم صاحب نے یہ بھی کہا ’’آپ کو دمہ نہیں ہے، سانس کی تکلیف ہے اور اس کا سبب ہے ضعف قلب۔ ضعف قلب کے باعث دم کشی کی شکایت پیدا ہوگئی ہے۔‘‘۱؎ حضرت علامہ کی طبیعت نسبتاً بہتر تھی۔ حکیم محمد افضل صاحب سے طب اور طب کے مستقبل کے بارے میں گفتگو کرنے لگے۔ حکیم صاحب نے کہا ’’حکومت کو قرشی صاحب کی خدمات کا اعتراف کرنا چاہیے۔ خطاب میں یوں تو کچھ نہیں رکھا ہے، لیکن اگر کسی شخص کی افادیت اور قابلیت کے اعتراف کی یہی صورت ہے کہ اسے کوئی خطاب دیا جائے تو کیوں نہ اس کے لیے کوشش کی جائے۔ اس میں کیا حرج ہے؟‘‘ حضرت علامہ نے فرمایا ’’آپ کا خیال صحیح ہے۔ میں حتی الوسع ہر طرح سے مدد کروں گا۔‘‘ حکیم صاحب چند منٹ اور بیٹھے۔ وہ تشریف لے گئے تو حضرت علامہ نے فرمایا۔ ’’طب کا مستقبل جب ہی ممکن ہے کہ اس کی حفاظت کے لیے کوئی منظم کوشش کی جائے۔ اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ پڑھے لکھے اور سمجھ دار اطبا باہم مل کر کوئی ادارہ قائم کریں، مثلاً پنجاب میں قرشی صاحب ہی اگر اس قسم کی کوئی تحریک اُٹھائیں تو ہوسکتا ہے کوئی ایسا ادارہ قائم ہوجائے اور طب کے نشوونما کی ایک صورت نکل آئے۔‘‘ دراصل حضرت علامہ طب کی زبوں حالی سے پریشان ہیں۔ انھیں ڈر ہے یہ فن شریف کہیں مٹ نہ جائے، لہٰذا ان کا یہ خیال کہ طب کی حفاظت کے لیے کوئی منظم کوشش ہونی چاہے۔ لیکن ظاہر ہے یہ کوشش وہی حضرات کرسکتے تھے جن کے ہاتھ میں اس کی باگ ڈور ہے، یا جن کو اس فن میں کوئی ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ علی بخش چائے لے آیا اور پیالی بناکر حضرت علامہ کی خدمت میں پیش کی۔ رحمے نے چلم بدلی اور پھر حضرت علامہ کی پاینتی کی طرف ہوبیٹھا۔ م-ش آگئے۔ میں نے عرض کیا ’’آپ کا ارشاد ہو تو ابن ہشام، خطبہ فتح مکہ اور خطبہ حجۃ الوداع کے اقتباسات لے آؤں؟‘‘ فرمایا ’’ضرور۔‘‘ شام کو ابن ہشام، خطبہ فتح مکہ اور خطبہ حجۃ الوداع کے اقتباسات لے کر حاضر خدمت ہوگیا۔ سلامت بھی ساتھ تھے۔ حضرت علامہ کی طبیعت بہتر تھی۔ ان کو دیکھ کر اور بھی شگفتہ ہوگئی۔ کانگریس کے بارے میں چھیڑ چھاڑ کرنے لگے۔۲؎ کبھی کبھی رحما اور علی بخش سے بدن دبواتے اور کبھی سیدھے بیٹھ کر حقے کے کش لگاتے۔ دواؤں سے عوارض میں اگرچہ تحفیف ہوچکی تھی، لیکن چہرہ مضمحل تھا، جسے دیکھ کر بڑی تشویش ہوتی، گو ان کی شگفتہ خاطری سے امید بندھ جاتی کہ کیا عجب ہے انھیں صحت ہوجائے۔‘‘ آٹھ بج رہے تھے۔ حضرت علامہ نے کھانا کھایا۔ حقے کے دو ایک کش لیے اور تکیوں سے ٹیک لگا کر سستانے لگے۔ چودھری صاحب آگئے اور م-ش بھی۔ وہ دوائیں لینے گئے تھے، مکسچر اور کچھ گولیاں۔ علی بخش چائے لے آیا۔ چائے تیار ہورہی تھی کہ قرشی صاحب آگئے، پھر راجا صاحب۔ حضرت علامہ کی طبیعت اب اور بھی سنبھل گئی تھی۔ اطمینان تھا دواؤں سے مزید فائدہ ہوگا۔ دیر تک نشست رہی۔ زیادہ تر گفتگو مضمون کی تھی۔ ایک مرتبہ ارشاد فرمایا ’’ابن ہشام اور خطبات کے اقتباسات کہاں ہیں؟‘‘ مجھ سے فرمایا ’ لافضل لعربی‘۳؎ کے سلسلے میں پورا اقتباس ایک الگ کاغذ پر لکھ دوں۔ میں نے اقتباس نقل کیا تو حضرت علامہ نے بطور یادداشت اسے اپنے پاس رکھ لیا۔ علی بخش اور رحما خدمت کے لیے حاضر تھے۔ درد میں کمی تھی۔ معلوم ہوتا تھا حضرت علامہ کو نیند آجائے گی۔ وقت بہت کافی ہوگیا تھا۔ ہم نے اجازت طلب کی۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱- حکیم صاحب کی تشخیص درست تھی۔ قرشی صاحب اسے دمہ قلبی کہتے تھے۔ یہی رائے ڈاکٹر صاحبان کی تھی، ان کی زبان میں cardiac asthma۔ ۲- سیّد سلامت اللہ مرحوم کانگریس کے حامی تھے، مگر صرف آزادی کی حد تک، یعنی اس عام خیال کے ماتحت جو مسلمانوں میں پھیل گیا تھا کہ سرِدست کانگریس سے مل کر آزادی حاصل کرلی جائے، بعد میں ہندوؤں سے بھی نپٹ لیا جائے گا۔ ظاہر ہے یہ سارا معاملہ جذباتی تھا۔ ۳- اقتباس از خطبہ حجۃ الوداع: ’’عرب کو عجم پر کوئی فضیلت ہے نہ عجم کو عرب پر۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا تھا۔‘‘ ز…ز…ز چہار شنبہ: ۲؍مارچ حضرت علامہ کی طبیعت بفضلہ تعالیٰ بہتر ہے۔ میں بسبب مصروفیت گو سہ پہر سے پہلے حاضر خدمت نہیں ہوسکا، لیکن قرشی صاحب سے مل لیا تھا۔ وہ ایک گونہ مطمئن تھے۔ میں نے جب حضرت علامہ سے معذرت کرتے ہوئے کہ حاضری میں دیر ہوگئی مزاج پوچھا تو انھوں نے بھی اظہار اطمینان فرمایا۔ ارشاد ہوا ’’قرشی صاحب اور ڈاکٹر صاحب کو تسلی ہے۔‘‘ مجھے صبح حاضر خدمت ہونا چاہیے تھا صبح حاضر خدمت نہیں ہوسکا لیکن حضرت علامہ کو معلوم تھا میری مصروفیتیں کیا ہیں۔ فرمایا ’’ طلوع اسلام کا کیا ہوا؟‘‘ میں نے صورتِ حالات بیان کی تو فرمایا ’’ابھی اور انتظار کرو۔ عجلت کی کیا ضرورت ہے؟‘‘۱؎ چندے خاموشی رہی۔ میں چاہتا تھا حتی الوسع کوئی بات نہ کروں۔ حضرت علامہ البتہ مولانا حسین احمد اور کانگریسی خیال علما کی اس روش پر افسوس فرماتے رہے جو انھوں نے سیاست میں اختیار کررکھی ہے اور وہ بھی محض انگریز دشمنی کی بنا پر۔ ارشاد ہوا ’’یہ لوگ جذبات کی رَو میں بہہ رہے ہیں۔‘‘ پھر فرمایا ’’مسلمانوں میں ایک افرنگ زدہ طبقہ پیدا ہوگیا تھا۔ بظاہر اب یہی طبقہ اسلام کی طرف لوٹ رہا ہے۔‘‘ فرمایا ’’یہ کیسی عجیب بات ہے کہ کوٹ اور پتلون کے مقابلے میں جسے گویا دہریت کی علامت سمجھا جاتا تھا، اب سیاست اور تمدن کے وہ افرنگی تصورات جو اسلام کی ضد ہیں جبہ اور دستار میں پناہ لے رہے ہیں۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’آپ نے خود ہی تو فرمایا ہے: شوخی باطل ببیں اندر کمین حق نشست یہ پیشین گوئی پوری ہوکر رہی۔‘‘ حضرت علامہ نے تبسم فرمایا۔ حضرت علامہ کو آرام کی ضرورت تھی۔ انھوں نے کروٹ لی تو میں قصداً خاموش ہوگیا۔ م-ش آگئے اور حضرت علامہ کے پاؤں دابنے لگے۔ علی بخش بھی برابر خبرگیری کرتا رہا۔ احباب کا انتظار تھا۔ تھوڑی دیر میں چودھری صاحب آگئے، پھر قرشی صاحب اور راجا صاحب۔ حضرت علامہ کی طبیعت اگرچہ بظاہر سنبھل گئی تھی، لیکن چہرا بدستور مضمحل تھا۔ میں اسے دیکھتا تو دل میں کہتا اللہ انھیں صحت دے۔ انھیں کب صحت ہوگی۔ ضیق اور درد کی شکایت میں گو خاصی کمی ہے، لیکن نیند نہیں آتی۔ روغن گل کی مالش ممکن ہے اس سے فائدہ ہو۔ قرشی صاحب کا تجویز کردہ روغن البتہ کچھ زیادہ کامیاب نہیں رہا۔ ممکن ہے ڈاکٹر جمعیت سنگھ کوئی اور دوا تجویز کریں۔ لیکن تعجب ہے حیدرآباد پر۔ حیدرآباد سے کوئی اطلاع آئی، نہ دوا۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱- میرا خیال تھا شاید طلوع اسلام کے مکرر احیا کی کوئی صورت پیدا ہوجائے۔ ز…ز…ز جمعرات: ۳؍مارچ میں یہ کیا سن رہا ہوں۔ قرشی صاحب کہتے ہیں حضرت علامہ کی حالت بڑی تشویش انگیز ہے، بلکہ خطرناک۔ ایلوپیتھک دواؤں سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ رات منوم دوا نے تو ایسا خراب اثر کیا کہ حضرت علامہ پر غشی کی سی حالت طاری ہوگئی اور وہ بے خبری میں پلنگ سے فرش پر گرگئے۔ اس وقت شاید چار کا عمل ہوگا۔ علی بخش تو گویا ہر وقت حضرت علامہ کی چار پائی سے لگا رہتا ہے۔ خیریت ہوئی کہ وہ اس وقت کمرے ہی میں موجود تھا۔ اس نے گھبرا کر م-ش کو پکارا اور پھر دونوں نے بڑی پریشانی کی حالت میں حضرت علامہ کو پلنگ پر لٹایا، مگر گھبراہٹ کا یہ عالم تھا کہ نہ تو علی بخش کو خیال آیا، نہ م-ش کو کہ قرشی صاحب کو اطلاع کریں، یا ڈاکٹر صاحبان میں سے کسی کو بلالیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ قرشی صاحب اس روز خلاف معمول سیر سے پہلے ہی جاوید منزل آگئے۔ انھوں نے حضرت علامہ کی حالت دیکھی تو گھبرا گئے۔ پھر جو بھی تدبیر بن پڑی کی۔ حضرت علامہ پر اول تو دیر تک دوا کا اثر رہا۔ پھر جب ہوش آیا اور قرشی صاحب کو موجود پایا تو انھیں بڑا اطمینان ہوا۔ قرشی صاحب بھی جب تک حضرت علامہ کی طبیعت نہیں سنبھلی اور انھیں اطمینان نہیں ہوگیا حضرت علامہ کی خدمت میں بیٹھے رہے۔ پھر بجاے سیر کے سیدھے میرے ہاں تشریف لے آئے۔ مجھے ان کی تشریف آوری پر بڑا تعجب ہوا۔ میں نے کہا، یہ وقت تو آپ کی سیر کا تھا۔ ادھر کیسے آنا ہوا؟ دراصل میں اندازہ ہی نہیں کرسکا تھا کہ قرشی صاحب کے چہرے سے تشویش کے آثار نمایاں ہیں۔ انھوں نے بڑے دکھ بھرے لہجے میں کہا ’’آپ فوراً جاوید منزل چلے جائیے۔ ڈاکٹر صاحب کی حالت بڑی خراب ہے۔ قلب، گردے اور جگر سب ماؤف ہیں۔ ایلوپیتھک دوائیں بھی راس نہیں آئیں۔ ضیق کی وجہ ہے فعل قلب کا نقصان۔ ہمیں سب سے زیادہ خیال قلب کا ہے۔‘‘ میں نے مضطرب ہوکر پوچھا مایوسی کی تو کوئی بات نہیں؟ انھوں نے کہا ایسا تو نہیں۔ مگر حالت تشویش انگیز ہے۔ پھر اس کے بعد سارا واقعہ بیان کیا اور کہنے لگے میں جلدی میں ہوں۔ اللہ پر بھروسہ رکھیے۔ مجھے مطب جانا اور چند ایک دواؤں کا اہتمام کرنا ہے۔ آپ جلد از جلد ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوجائیے اور ان کی جو حالت ہے مجھے اس کی اطلاع کیجیے۔ خود آئیے یا کسی کو بھیج دیجیے۔ ضرورت ہوئی تو میں خود بھی آجاؤں گا۔ میں انتہائی اضطراب اور پریشانی کے عالم میں جاوید منزل پہنچا۔ حضرت علامہ کی خواب گاہ کی طرف بڑھ رہا تھا کہ علی بخش برآمدے میں مل گیا۔ میں نے حال پوچھا تو کہنے لگا ’’اللہ کا شکر ہے۔ حکیم صاحب آگئے اور ڈاکٹر صاحب کی طبیعت سنبھل گئی۔ دوا کھلانے جارہا ہوں۔‘‘ میں کمرے میں داخل ہوا۔ حضرت علامہ باطمینان بستر میں لیٹے تھے۔ میں نے سلام عرض کیا اور تشویش کا اظہار کیا تو فرمایا ’’الحمدللّٰہ اب اچھا ہوں۔ پچھلے پہر بڑی تکلیف ہوگئی تھی۔ حکیم صاحب وقت پر آگئے۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’قرشی صاحب سے ساری کیفیت سن چکا ہوں اور انھیں کے کہنے سے اتنا سویرے حاضر بھی ہوگیا ہوں۔ قرشی صاحب دوائیں بھجوا رہے ہیں۔ ارشاد ہو تو انھیں بلوا لیا جائے۔‘‘ فرمایا ’’حکیم صاحب کو چاہیے حسبِ معمول طب میں بیٹھیں۔ میں اچھا ہوں۔ ان کے آنے کی ضرورت نہیں۔ اور بھی تو مریض ہیں۔ انھیں سب کو دیکھنا ہوگا۔ ضرورت محسوس ہوئی تو دوپہر میں بلوا لیا جائے گا۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’معلوم ہوتا ہے آپ کو ایلوپیتھک علاج موافق نہیں آیا۔ یوں بھی آپکو یہ طریق علاج پسند نہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ رات کو جو تکلیف ہوئی اس کی وجہ وہ منوم دوا تھی جو آپ نے استعمال فرمائی۔‘‘ ارشاد ہوا ’’یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ تکلیف کیوں ہوئی۔ اس کا فیصلہ تو ڈاکٹر صاحبان ہی کرسکتے ہیں۔ بہرحال میں نے طے کرلیا ہے کہ ایلوپیتھک دوائیں استعمال نہیں کروں گا۔ حکیم صاحب جو تدبیر کریں گے اسی پر عمل رہے گا آج بھی انھیں کی دوا سے بڑا فائدہ ہوا۔ عرق گل گاؤ زبان تو بہت راس آتا ہے۔‘‘ پھر ارشاد ہوا ’’حیدرآباد سے کوئی اطلاع نہیں آئی۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’حکیم صاحب کی خاموشی باعث تعجب ہے لیکن حکیم صاحب اتنی دور بیٹھے آپ کی طبیعت کا کیسے اندازہ کرسکتے ہیں۔ انھیں کیا معلوم اب آپ کے عوارض کی حقیقی نوعیت کیا ہے۔ یا پھر یہ کہ مفصل خط لکھا جائے تاکہ انھیں بھی معلوم ہوجائے کہ ان کی دوائیں نہ آنے سے مجبوراً علاج بدلنا پڑا لیکن تبدیلی علاج کا اثر اچھا نہیں ہوا۔ ایلوپیتھک دوائیں موافق نہیں آتیں۔‘‘ فرمایا ’’تمھاری تجویز نہایت موزوں ہے۔ کاغذ قلم لو اور فوراً حکیم صاحب کو مفصل خط لکھو۔‘‘ میں کاغذ قلم لے کر ایک طرف بیٹھ گیا۔ حکیم صاحب کی خدمت میں مفصل خط لکھا اور اس کا لب لباب حضرت علامہ کی خدمت میں عرض کردیا۔ حضرت علامہ نے اتفاق فرمایا۔ ارشاد ہوا ’’آج کیا خبر ہے؟‘‘ پھر فرمایا ’’مضمون کیا تم نے دیکھ لیا؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’چودھری صاحب نے کہا تو تھا کہ مضمون ایک آدھ روز میں مکمل ہوجائے گا۔ ابھی تک تو میں نے نہیں دیکھا۔ آپ کی طبیعت اچھی ہوجائے تو پھر ہم سب مل کر دیکھ لیں گے۔ آپ کا بھی تو یہی ارشاد تھا۔ علاوہ ازیں آپ کو پورا مضمون بھی تو سننا ہے۔‘‘ حضرت علامہ نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ گویا ان کا بھی یہی خیال تھا کہ طبیعت سنبھل جائے تو پھر باطمینان مضمون پر گفتگو ہوجائے گی۔ حضرت علامہ خاموش لیٹے بیٹھے تھے۔ ضیق کی تکلیف تھی مگر بہت کم اور یہ اَمر بڑا تسلی بخش تھا۔ پھر معلوم نہیں کیا خیال آیا کہ کسی قدر زیادہ سیدھے ہوکر بیٹھ گئے، حقے کے دو ایک کش لیے اور فرمایا ’’شاہ صاحب۱؎ ٹھیک کہا کرتے تھے، اول بہ آخر نسبتے دارد۔ آج معلوم ہوا ان کا یہ کہنا نہایت صحیح تھا۔‘‘ یہ کَہ کر حضرت علامہ نے پھر تکیوں پر سر ٹیک دیا۔ میں نہیں سمجھا اول و آخر سے ان کا ارشاد کس طرف تھا۔ نہ میں نے پوچھنے کی جرأت کی۔ مجھے ڈر تھا کہ گفتگو سے دم کشی نہ ہونے لگے، ضعف و اضمحلال نہ بڑھ جائے۔ دوپہر ہورہی تھی۔ علی بخش نے قرشی صاحب کا بھیجا ہوا کوئی خمیرہ، یا معجون کھلائی اور پھر تھوڑی دیر کے بعد حضرت علامہ نے ہلکا سا کھانا بھی کھایا۔ میں نے عرض کیا، آپ کا ارشاد تھا قرشی صاحب کو مطب کرنے دیا جائے، ان کے آنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن قرشی صاحب کو میرا انتظار ہوگا۔ اجازت ہو تو میں جاؤں اور ان سے آپ کے مزاج کی کیفیت بیان کروں۔‘‘ فرمایا ’’ضرور جاؤ اور ان سے کَہ دو میری طبیعت خدا کے فضل سے اتنی اچھی ہے کہ جس مسئلہ پر چاہیں تین گھنٹے مسلسل تقریر کرسکتا ہوں۔‘‘ میں حضرت علامہ کی خواب گاہ سے باہر نکلا۔ م-ش کا پوچھا۔ معلوم ہوا کہیں باہر گئے ہیں۔ لہٰذا علی بخش سے کہا حضرت علامہ کے پاس چلا جائے، حضرت علامہ تنہا ہیں اور انھیں تنہا چھوڑنا مناسب نہیں۔ قرشی صاحب سے ملا۔ حضرت علامہ کی کیفیت مزاج بیان کی۔ انھوں نے کہا ’’حضرت علامہ کا ارشاد بجا ہے۔ لیکن صورتِ حالات اندیشہ ناک ہے۔ ہمیں محتاط رہنا چاہیے۔‘‘ دن بھر تشویش میں گزرا۔ شام کے قریب جاوید منزل پہنچا۔ سلامت ساتھ تھے۔ حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو فرمایا ’’جب سے تم گئے ہو طبیعت سنبھلی رہی، مگر اب دل ڈوب رہا ہے۔ شاہ صاحب۲؎ میرے پاس بیٹھیں گے۔ تم حکیم صاحب کو لے آؤ۔‘‘ میں نے عرض کیا، بہت بہتر اور جاوید منزل سے نکل کر ریلوے دفتر کا رُخ کیا تو راستے میں راجا صاحب اور مولوی عبدالرحمن۳؎ مِل گئے۔ راجا صاحب کو حضرت علامہ کی حالت کا مطلق علم نہیں تھا۔ مجھ سے ساری کیفیت سنی تو بے قرار ہوگئے۔ میں نے کہا جلدی کیجیے۔ حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوجائیے، سلامت موجود ہیں۔ چودھری صاحب آئے ہوں گے۔ میں قرشی صاحب کو لے آؤں۔‘‘ قرشی صاحب کے ہاں پہنچا تو گھر پر نہیں تھے۔ میں سمجھا کالج میں ہوں گے، کالج گیا تو وہاں بھی نہیں ملے۔ پھر سوچا شاید جاوید منزل پہنچ گئے ہوں۔ انھیں حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہونا تو تھا ہی۔ جاوید منزل پہنچا تو علی بخش نے کہا ’’اللہ کا شکر ہے دل کی تکلیف جاتی رہی۔ دل کی حالت اب اچھی ہے۔ شاہ صاحب اور چودھری صاحب حضرت علامہ کے پاس بیٹھے ہیں۔ راجا صاحب البتہ قرشی صاحب کو لینے گئے ہیں۔‘‘ مجھے تعجب تھا قرشی صاحب کیا ہوئے۔ پھر سوچا آتے ہی ہوں گے۔ راجا صاحب کے پاس گاڑی ہے۔ آسانی سے تلاش کرلیںگے۔‘‘ میں کمرے میں داخل ہوا تو حضرت علامہ کو فی الواقع بہت بہتر پایا۔ چودھری صاحب اور سلامت سے باتیں ہورہی تھیں۔ م-ش اور رحما بدن داب رہے تھے۔ میںنے عرض کیا، قرشی صاحب کو ہر کہیں دیکھا گھر میں، کالج میں لیکن گھر پر ملے نہ کالج میں۔ پھر بھی خیال ہے آتے ہی ہوں گے راجا صاحب ساتھ ہیں۔ حضرت علامہ بڑے اطمینان سے لیٹے تھے، زیادہ تر خاموش، لیکن کبھی کبھی پوچھ لیتے ’’حکیم صاحب کہاں ہیں؟ راجا صاحب کیوں نہیں آئے؟‘‘ آٹھ بج چکے تھے۔ علی بخش نے کہا ’’ کھانا کھالیجیے۔‘‘ فرمایا ’’بھوک تو کچھ ایسی نہیں ہے مگر لے آؤ۔‘‘ حضرت علامہ نے کھانا کھایا اور چائے کے لیے کہا۔ ہم نے کہا ’’بہتر ہے قرشی صاحب کا انتظار کرلیا جائے۔‘‘ حضرت علامہ پھر لیٹ گئے۔ کبھی کبھی کوئی بات کرلیتے یا ہم سے کہتے کوئی بات کریں۔ نو بج گئے۔ تعجب تھا راجا صاحب کہاں ہیں۔ کچھ اور وقت گزرا، حتی کہ قرشی صاحب آگئے۔ راجا صاحب اور مولوی عبدالرحمن کے علاوہ حکیم محمد افضل اور راحت بخاری۴؎ بھی ساتھ تھے۔ ہم نے اطمینان کا سانس لیا۔ حضرت علامہ نے فرمایا ’’حکیم صاحب آپ کہاں تھے؟ آپ کا بڑا انتظار رہا۔‘‘ قرشی صاحب نے کہا، میں بہت شرمندہ ہوں، حاضری میں دیر ہوگئی، مجھے برابر خیال تھا حاضری میں دیر نہ ہو جائے۔ لیکن دواؤں کا اہتمام کرنا تھا۔ بعض دواؤں کے تلاش میں دیر لگی۔ حضرت علامہ نے اظہار اطمینان فرمایا۔ قرشی صاحب نے نبض دیکھی۔ پھر ایک ایک کرکے عوارض کی کیفیت دریافت کرنے لگے۔ حکیم محمد افضل نے بھی ایک آدھ سوال پوچھا۔ کہنے لگے ’’شکر ہے آپ کی طبیعت سنبھل گئی۔‘‘ قرشی صاحب نے کہا ’’دواء المسک کے ایک خوراک کھا لیجیے اور آرام فرمائیے۔ آپ کو آرام کی ضرورت ہے۔ ہمیں اجازت دیجیے باری باری سے آپ کا بدن دابیں۔ ساتھ ساتھ باتیں بھی ہوتی رہیں گی۔ یہ سب کچھ ہم حصول ثواب کے لیے کَہ رہے ہیں، ورنہ علی بخش، رحما اور دیوان علی حاضر ہیں، شب و روز آپ کی خدمت میں میں رہے ہیں۔‘‘ حضرت علامہ نے مسکرا کر کہا ’’بہت بہتر‘‘۔ پھر دوا کھائی اور آرام سے لیٹ گئے۔ ہم سب باری باری سے حضرت علامہ کا بدن داب رہے تھے سلامت بھی موجود تھے۔ چودھری صاحب حضرت علامہ کے تفریح خاطر کے لیے ان سے چھیڑ چھاڑ کرتے۔ کہتے بی کانگریس کا کیا حال ہے؟ قرشی صاحب اور راجا صاحب بھی حسب موقع کوئی فقرہ چست کردیتے۔ علی بخش بھی خاموش نہ رہتا۔ یوں آدھ پون گھنٹہ گزر گیا تو حضرت علامہ نے مجھ سے فرمایا کوئی افسانہ بیان کروں، کوئی ایسا افسانہ جس میں بغداد اور قاہرہ کا ذکر آتا ہو، بالخصوص غرناط اور قرطبہ کا۔ اندلس کی تاریخ سے حضرت علامہ کو بڑی دلچسپی تھی۔ وہ اس کے بالاستیعاب مطالعے پر بڑا زور دیتے۔ فرماتے اسلامی اندلس، اسلامی اندلس کا علم و فضل اور اسلامی اندلس کی تہذیب و تمدن بجاے خود ایک افسانہ ہے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ حقیقت افسانے سے زیادہ دلچسپ ہوتی ہے تو یہ مثل اسلامی اندلس پر حرف بحرف صادق آتا ہے۔۵؎ چنانچہ میں حضرت علامہ کے مذاق طبیعت کے مطابق کوئی واقعہ بیان کرتا۔ تو گفتگو پھر عالمِ اسلام کے عروج و زوال، قرطبہ و بغداد اور قاہرہ کی رقابتوں اور مناقشوں پر آجاتی گو اس خیال سے کہ اگر گفتگو نے زیادہ سنجیدہ صورت اختیار کی تو حضرت علامہ کی طبیعت پر بار پڑے گا، ہم موضوع کو کسی نہ کسی طرح بدل دیتے۔ یوں باتوں باتوں میں کچھ اور وقت گزر گیا تو علی بخش اُٹھا اور چائے کا اہتمام کرنے لگا۔ چائے آئی تو حضرت علامہ نے فرمایا ’’ہم بھی چائے پئیں گے۔‘‘ اس اثنا میں حضرت علامہ کی طبیعت کافی سنبھل چکی تھی، مزاج بھی شگفتہ تھا۔ علی بخش نے آگے بڑھ کر سرہانے کے ساتھ تکیے لگادیے تاکہ حضرت علامہ آرام سے ٹیک لگا سکیں۔ قرشی صاحب اور راجا صاحب نے سہارا دیا۔ حضرت علامہ اُٹھ کر بیٹھ گئے۔ علی بخش نے چائے کی پیالی پیش کی اور پھر چلم بدلنے چلا گیا۔ ہم سب چائے پی رہے تھے۔ حالات حاضرہ پر تبصرہ بھی ہورہا تھا کہ نبض پر گفتگو ہونے لگی اور وہ یوں کہ حکیم محمد افضل نے معلوم نہیں کس خیال کے ماتحت حضرت علامہ کی نبض دیکھی اور نبض دیکھ کر اظہار اطمینان کیا تو حضرت علامہ نے نبض کی تیزی اور سستی کی وجہ دریافت کی۔ قرشی صاحب نے کہا آپ کی نبض تو بسبب علالت کے سست ہے لیکن نبض کی تیزی اور سستی ایک طبعی اَمر ہے۔ چنانچہ آخر شب میں تندرست سے تندرست آدمی کی نبض بھی ضعیف ہوجاتی ہے، یہ قانون فطرت ہے۔ اس پر حضرت علامہ نے حقے کا کش لیتے ہوئے فرمایا ’’اب میں سمجھا… صاحب کو پچھلی رات میں کیوں الہام ہوا کرتا تھا۔‘‘ حضرت علامہ نے یہ فرمایا تو ہم سب کو بے اختیار ہنسی آگئی۔ چندے سکوت رہا۔ پھر ارشاد ہوا ’’چودھری صاحب! کیا مضمون صاف ہوگیا۔‘‘ چودھری صاحب نے کہا ’’ان شاء اللہ کل تک صاف ہوجائے گا۔ پھر آپ ملاحظہ فرمالیجیے گا، آپ کی طبیعت ذرا اور اچھی ہوجائے تو ہم سب مل کر یہ بھی طے کرلیں گے نشست کب ہونی چاہیے۔‘‘ حضرت علامہ نے کہا ’بہتر‘۔ پھر ذرا دم لے کر فرمایا ’’میرے مضمون سے بہت سی باتیں صاف ہوجائیں گی۔ علما حضرات کی یہ بہت بڑی غلطی ہے کہ اپنی انگریز دشمنی میں کانگریس کا ساتھ دے رہے اور غیر اسلامی تصورات قبول کررہے ہیں۔ کسی وقت انھوں نے انگریزوں کا ساتھ دینے پر سرسیّد کی بڑی سختی سے تنقید کی تھی۔ یہ تنقید خلوص پر مبنی تھی اور اس میں ایک عنصر صداقت کا بھی موجود تھا۔ لیکن کانگریسی خیال علما ہندوؤں کا ساتھ دے کر اس سے بڑی غلطی کررہے ہیں وہ نہیں سمجھتے کہ اگر قوم نے ان کا ساتھ دیا تو اس کا نتیجہ نہایت مہلک ہوگا۔‘‘۶؎ اور پھر دیر تک ان کی اس ذہنیت پر اظہار افسوس فرماتے رہے۔ حضرت علامہ پھر لیٹ گئے۔ ضعف و اضمحلال میں خاصی کمی تھی اور عوارض سے بھی کوئی خاص تکلیف نہیں ہورہی تھی۔ کمر اور شانے کا درد دور ہوچکا تھا۔ وقت بہت کافی گزر گیا تھا اور یوں بھی معلوم ہوتا تھا جیسے حضرت علامہ کو نیند آرہی ہے۔ ہم نے عرض کیا۔ ’’علی بخش اور م-ش آپ کی خدمت میں حاضر ہیں، اور رہیں گے۔ آپ آرام کیجیے، ہمیں آپ کے آرام کا خیال ہے، ہم اجازت چاہتے ہیں۔‘‘ ہم لوگ اُٹھے تو قرشی صاحب نے کہا ’’میں ان شاء اللہ صبح بہت سویرے حاضر ہوجاؤں گا۔‘‘ حضرت علامہ نے اظہار اطمینان فرمایا۔ ارشاد ہوا ’’بہت بہتر۔‘‘ ہم بااطمینان جاوید منزل سے نکلے اور میوروڈ۷؎ پر قدم رکھا تو چودھری صاحب نے ہمیں روک لیا۔ کہنے لگے ’’میری ایک تجویز ہے اور مجھے یقین ہے کہ حضرت علامہ کی حالت جیسی کچھ تشویشناک ہے اس کے پیشِ نظر آپ سب مجھ سے اتفاق کریں گے۔ تجویز یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحبان اور اطبا کی ایک جماعت مل کر حضرت علامہ کو دیکھے، ان کے قلب و جگر کا معائنہ کرے اور پھر طے کرے کہ ان کا علاج کی مناسب تدبیر کیا ہے۔ اس مشورے میں ڈاکٹر یوسف صاحب۸؎ کی شرکت نہایت ضروری ہے۔ وہ امراض قلب کے ماہر ہیں۔ طبّی علاج بے شک بڑا کامیاب ہے اور اب تک جو فائدہ ہوا اسی سے، لیکن حکیم صاحب حیدرآباد میں بیٹھے ہیں اور یوں بھی بسبب پیرانہ سالی لاہور آنے سے معذور۔ قرشی صاحب بیشک حکیم صاحب کے علاج کے پیشِ نظر مناسب تدابیر کررہے ہیں لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ حضرت علامہ کے اعزا و اقارب ہی کی طرف سے نہیں، ان سے بھی کہیں بڑھ کر قوم کی طرف سے۔ ہمیں حضرت علامہ کے تیماردار ہیں اور ہمیں ان کی خبر گیری کررہے ہیں۔ ہمارے ہی ہاتھوں میں ایک طرح سے ان کا علاج ہے۔ ہماری ذمہ داریاں بری شدید ہیں۔ ہمارا فرض ہے ہر قسم کی تدابیر سے کام لیں اور حضرت علامہ کی علالت نے جو صورت اختیار کرلی ہے سب کو اس سے باخبر رکھیں۔‘‘ چودھری صاحب کی تجویز نہایت معقول تھی، ہم سب نے اس سے اتفاق کیا۔ انھوں نے کہا میں لاہور کے سربرآوردہ ڈاکٹروں سے مل رہا ہوں۔ حضرت علامہ کے اعزا و اقارب کو بھی اس کی اطلاع ہونی چاہیے۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱- حضرت علامہ کے استاد محترم، مولانا میر حسن۔ شاید ان کا اشارہ اس ارشاد قرآنی کی طرف تھا۔ ’’ اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ ضُعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ضُعْفٍ قُوَّۃً ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ ضُعْفًا وَّ شَیْبًا-۳۰ (الروم):۵۴۔ ۲- سلامت اللہ شاہ صاحب کو حضرت علامہ شاہ صاحب ہی کہتے تھے۔ ۳- وطن کہوٹہ، راجا صاحب کے دوست۔ ۴- تقسیم سے پہلے آل انڈیا ریڈیو لاہور میں بسلسلۂ دیہات سدھار راجا صاحب کے شریک کار تھے، زمانہ جنگ میں باہر چلے گئے اور اب بھی شاید بیرون ملک ہی میں کہیں مقیم ہیں۔ ۵- شاید اس لیے کہ مشرق و مغرب کی فتنہ آلود سرزمین سے دور اندلس کی پرکیف فضا ہی میں عربی روح کا بلا تکلف اور بلا امتزاج و بلاشرکت غیرے جس طرح از خود اظہار ہوا اس کی کوئی دوسری مگر ہلکی سی مثال ملے گی تو صقلیہ میں۔ ۶- یوں کہ اگر مسلمانوں نے وطنی قومیت کا تصور قبول کرلیا تو ان کے جداگانہ قومی وجود کی نفی ہوجائے گی۔ ۷- اب علامہ اقبال روڈ بلکہ شاہراہ (شارع) علامہ اقبال۔ ۸- ڈاکٹر محمد یوسف، ایم-بی-بی، ایس-ایم-ڈی لاہور کے مشہور معالج۔ ز…ز…ز جمعۃ المبارک: ۴؍مارچ اللہ کا شکر ہے رات حضرت علامہ کی طبیعت نہایت اچھی رہی۔ نیند کم آئی، مگر کوئی خاص تکلیف نہیں ہوئی۔ نوبجے تھے کہ حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ قرشی صاحب اور چودھری صاحب بیٹھے باتیں کررہے تھے۔ میں نے سلام عرض کیا اور خیریت مزاج پوچھی تو فرمایا ’’الحمدللّٰہ۔ اچھا ہوں۔‘‘ م-ش اور علی بخش نے مختصراً رات کی کیفیت بیان کی۔ کہنے لگے دم کشی میں خاصا فرق رہا۔ حضرت علامہ اکثر سوجاتے۔ کوئی خاص بات نہیں ہوئی، نہ بات کرنے کا موقع تھا۔ کوشش یہی تھی کہ حضرت علامہ آرام فرمائیں، بلکہ ممکن ہو تو سوجائیں۔ کبھی کبھی روزِ مرہ کی باتوں پر تبصرہ ہوجاتا۔ پھر قرشی صاحب تو مطب اور چودھری صاحب دفتر چلے گئے۔ میں دیر تک بیٹھا رہا، کوئی گیارہ بجے تک۔ اس اثنا میں حضرت علامہ بڑے اطمینان سے لیٹے آرام کرتے رہے، کبھی کوئی بات کرتے، کبھی ان کی آنکھ لگ جاتی۔ علی بخش دوا کھلاتا، چلم بدلتا، پاؤں دابتا۔ ایک بجے کے قریب پھر جاوید منزل پہنچا تو علی بخش نے اطمینان ظاہر کیا۔ معلوم ہوا حضرت علامہ دیر سے سورہے ہیں۔ کسی تکلیف کی شکایت نہیں کی۔ دورہ بھی ہوا تو ایک آدھ منٹ کے لیے م-ش کمرے ہی میں بیٹھے ہیں۔ میں نے کہا ’’علی بخش! مناسب نہیں میں حضرت علامہ کے آرام میں خلل ڈالوں، سہ پہر میں جلدی آجاؤں گا، لہٰذا برآمدے ہی سے باہر کھڑے کھڑے اطمینان کرکے واپس آگیا۔ پانچ بجے کے قریب حکیم احمد یار۱؎ کو ساتھ لیے پھر جاوید منزل پہنچا۔ حکیم صاحب دواؤں کی تیاری میں قرشی صاحب کا ہاتھ بٹاتے، جاوید منزل آتے، حضرت علامہ کا حال پوچھتے اور ان کی کیفیت مزاج کی اطلاع قرشی صاحب کو کردیتے تاکہ حسب ضرورت مناسب تدابیر کی جائیں۔ میں حضرت علامہ کے کمرے میں داخل ہوا تو قیصر صاحب۲؎ اور حزب الاحناف کے ایک بزرگ۳؎ جنھیں حضرت علامہ نے ’مولوی باز‘ کا خطاب دے رکھا تھا اور دو ایک اور علماے دین بیٹھے حضرت علامہ سے باتیں کررہے تھے۔ میں اور حکیم صاحب بھی سلام کرکے بیٹھ گئے۔ گفتگو یہی اتحاد اُمت کی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد ان حضرات نے اجازت لی تو حضرات سالک و مہر آگئے اور آتے ہی مجھ سے شکایت کرنے لگے کہ میں نے انھیں حضرت علامہ کی ناسازی طبیعت کی اطلاع کیوں نہیں دی۔ میں خاموش رہا۔ حضرات سالک و مہر بیٹھ گئے۔ حضرت علامہ کا مزاج پوچھا اور پھر یہ دیکھ کر کہ انھیں کوئی تکلیف نہیں، بلکہ طبیعت ایک گونہ شگفتہ ہے ملکی سیاست پر گفتگو کرنے لگے۔ وہ شاید معلوم کرنا چاہتے تھے کہ حضرت علامہ کے خیالات میں کوئی تبدیلی تو نہیں ہوئی۔ چنانچہ انھوں نے کچھ استفسار بھی کیے۔ مثلاً یہ کہ بحالت موجودہ سیاسی اور آئینی اعتبار سے جو مسائل درپیش ہیں مسلمانوں کے نزدیک ان کا بہترین حل کیا ہے؟ کیا ہندوؤں اور مسلمانوں میں کوئی سیاسی مفاہمت ممکن ہے؟ حضرت علامہ نے مختصراً اپنا نقطۂ نظر سمجھایا۔ جہاں تک سیاسی اور آئینی مسائل کا تعلق ہے انھوں نے اپنی اس رائے کا مکرر اظہار کیا جسے الٰہ آباد کے خطبہ صدارت میں پیش کرچکے تھے: اور وہ یہ کہ وفاق کی ابتدا برطانوی ہندوستان سے ہونی چاہیے سندھ، پنجاب اور بنگال کی اسلامی اکثریت کو آئینی طور پر تسلیم کرلیا جائے؛ طریق انتخاب جداگانہ ہو؛ شخصی قوانین برقرار رہیں، بعینہٖ اس قسم کے دوسرے تحفظات بھی۔ مثلاً لسانی، تہذیبی، البتہ جہاں تک کسی طرح کی سیاسی مفاہمت کا تعلق ہے فرمایا ’’اس کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ مسلمانوں کا متحدہ محاذ، یعنی بحیثیت ایک قوم اپنے جداگانہ تشخص پر اصرار۔ لیگ کے علاوہ ساری جماعتیں توڑ دی جائیں۔‘‘۴؎ سالک و مہر گئے تو کانگریسی اور یونینسٹ خیال مسلمانوں کی باتیں ہونے لگیں، پھر قادیانیوں اور دیوبند کی۔ حضرت علامہ نے فرمایا ’’قادیان اور دیوبند اگرچہ ایک دوسرے کی ضد ہیں، لیکن دونوں کا سرچشمہ ایک ہے۵؎ اور دونوں اس تحریک کی پیداوار جسے عرف عام میں وہابیت کہا جاتا ہے۔‘‘ اس پر کہا گیا کہ دیوبند کی سیاسی روش تو انگریز دشمنی پر مبنی ہے۔ دیوبند کی تو یہ رائے نہیں کہ انگریزی حکومت کی اطاعت مذہباً فرض ہے، جیسا کہ قادیانی کہتے ہیں۔ فرمایا ’’انگریز دشمنی سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ ہم اسلام دشمنی اختیار کرلیں۔ یہ کیا انگریز دشمنی ہے جس سے اسلام کو ضعف پہنچے۔ اربابِ دیوبند کو سمجھنا چاہیے کہ اس دشمنی میں وہ نادانستہ اس راستے پر چل رہے ہیں جو انگریزوں کا تجویز کردہ ہے۔ انگریز چاہتے ہیں مسلمان جغرافی وطنیت کا اُصول اختیار کرلیں تاکہ اسلام کی حیثیت ایک عقیدے سے زیادہ نہ رہے اور اُمت، یعنی بطور ایک سیاسی اجتماعی نظام کے اس کی وحدت ختم ہوجائے۔ یہ کیسی انگریز دشمنی ہے؟ یہ تو ان کے ہاتھوں میں کھیلنا ہے۔‘‘ اس پر عرض کیا گیا کہ اہلِ حدیث اقلیت میں ہیں اور اپنے عقاید میں بڑے متشدد، لہٰذا یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو دوسرے مسلمانوں سے الگ رکھنا چاہتے ہیں۔ انھیں ڈر ہے کہ سوادِ اعظم میں ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوگی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ کانگریس کا ساتھ دے رہے ہیں۔‘‘ حضرت علامہ نے فرمایا ’’یہ اَمر تو اور بھی افسوس ناک ہے۔ عقاید میں تشدد، تعصب اور تنگ نظری اگر اسلام کے لیے ہے تو بڑی مبارک بات ہے، لیکن اگر اس لیے ہے کہ اہلِ حدیث سوادِ اعظم سے کٹ جائیں اور اُمت کی وحدت درہم برہم ہوجائے تو از حد قابلِ افسوس۔‘‘ فرمایا۔ ’’یوں مسلمانوں میں انتشار پیدا ہوا تو اندیشہ ہے ان میں اور بھی طرح طرح کے غیر اسلامی تصورات بھی پھیلتے چلے جائیں گے‘‘ ارشاد ہوا ’’اس سے زیادہ مہلک روش اور کیا ہوگی کہ مسلمانوں کی حیثیت ایک مذہبی برادری کی رہ جائے۔ ایسی آزادی تو غلامی سے بھی بدتر ہوگی۔ انگریزوں اور ہندوؤں کی تو پہلے ہی سے یہ خواہش ہے کہ جہاں تک سیاست کا تعلق ہے مسلمان مذہب کو خیرباد کَہ دیں۔‘‘ اس پر عرض کیا گیا کہ بعض علما کی طرف سے وطنیت کی تائید اگرچہ اسلام اور مسلمانوں کے حق میں باعث خطر ہے، لیکن اس کی وجہ کیا یہ تو نہیں کہ ان حضرات کی یہ روش انگریز دشمنی پر مبنی ہے۔ جب علی گڑھ کی تحریک اُٹھی اور مسلمانوں نے بحیثیت مجموعی سرسیّد کی قیادت میں حکومت کا ساتھ دیا تو اہلِ حدیث نے سوادِ اعظم سے علیحدگی اختیار کرلی، جس کی ایک وجہ تھی سیاسی اختلاف۔ خیال یہ تھا کہ علی گڑھ کو انگریزوں کی حمایت منظور ہے۔ اس کا زور حکومت کی وفاداری پر ہے۔ لیگ کی تحریک بھی چونکہ علی گڑھ سے اُٹھی، یہ حضرات شاید اسی لیے کانگریس کا ساتھ دے رہے ہیں۔ فرمایا ’’لیکن اس سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ اہلِ دیوبند حقائق سے آنکھیں بند کرلیں اور محض انگریز دشمنی، یا عقاید میں تشدد کے باعث مصالح اُمت کا لحاظ رکھیں، نہ احکامِ شریعت کا۔ حالانکہ یہی حقائق ہیں جن کا فہم اور تشریح و توضیح ان کا سرمایہ افتخار ہے۔ یہ کیسی انگریز دشمنی ہے کہ ان کی مخالفت میں ہم اسلام کا پاس رکھیں، نہ مسلمانوں کے مستقبل کا بلکہ اُلٹا ان کے ہاتھوں میں کھیلنے لگیں۔ کیا اسی کا نام وہابیت ہے؟ مجھے نہیں معلوم تھا وہابیت یہ کچھ ہے۔‘‘۶؎ عرض کیا گیا نہ یہ وہابیت ہے، نہ وہابیت میں ایسی کوئی بات۔ یہ جو کچھ ہے پچھلے چند سالوں میں ہماری ناکام قیادت کا، نتیجہ بلکہ سچ پوچھیے تو تحریک ترکِ موالات کے خاتمے سے جو انتشار رونما ہوا اس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ یوں بھی ہمارے معاشرے میں صدیوں کی فرقہ بندی نے بعض ایسے خیالات پھیلا رکھے ہیں جو مذہبی اور اجتماعی دونوں پہلووں سے ہمارے اتحاد میں حائل ہیں۔ ارشاد ہوا ’’مثلاً؟‘‘ ’’یہی عجمی تصوف اور اس کے زیر اثر وحدۃ الوجود کی وہ غلط تعبیر جس سے ایک بے روک آزادہ روی اور وسیع المشربی کو تحریک ہوتی ہے اور جس سے احکامِ شریعت کی حیثیت محض ظواہر کی رہ جاتی ہے۔ لہٰذا فرد ان سے بے اعتنائی برتتا اور جماعت وحدت ادیان کے چکر میں اپنا تشخص کھو بیٹھی ہے۔ اسلام ہی میں کوئی بات رہ جاتی ہے، نہ اُمتِ اسلامیہ کے جداگانہ وجود میں۔‘‘۷؎ ارشاد ہوا ’’اللہ نے توفیق دی تو میں اس سلسلے میں کچھ نہ کچھ ضرور لکھوں گا۔ بے شک یہ ایک فتنۂ عظیم ہے جس کا ازالہ ضروری ہے، لیکن سوال یہ ہے ہمارے علما اور صوفیہ کو کیا ہوگیا۔‘‘۸؎ نوبجے کے قریب پھر حاضر خدمت ہوا تو حضرت علامہ کی طبیعت بہت بہتر پائی۔ قرشی صاحب ، چودھری صاحب، راجا صاحب، م-ش اور راجا سیّد اکبر۹؎ حاضر خدمت تھے۔ راجا سیّد اکبر تو صرف مزاج پرسی کے لیے آئے تھے، چند مٹ بیٹھے اور چلے گئے۔ وہ گئے تو قرشی صاحب آگئے۔ انھوں نے نبض دیکھی اور حضرت علامہ کا مزاج پوچھا تو فرمایا ’’بلھے شاہ کا ایک مصرع ہے: سچ آکھاں تے پانبڑ مچ دا اے اس پر والد ماجد نے کہا چھوٹھ آکاں تاں کجھ بچ دا اے۱۰؎ اور پھر یہ کہتے کہتے بڑے رقت آمیز لیجے میں فرمایا ’’جی چاہتا ہے سب کچھ کَہ ڈالوں، مگر کیسے اور کس سے۱۱؎ ہماری کوشش تھی حضرت علامہ کا ذہن کسی دوسری طرف منتقل ہوجائے۔ چودھری صاحب نے سلسلۂ خیالات بدلنے کے لیے بلھے شاہ کے تصوف اور قرشی صاحب نے ان کے شاعرانہ کمال کا ذکر چھیڑ دیا، مگر بے سود۔ حضرت علامہ جس عالم میں تھے اس میں شاید انھوں نے یہ بھی نہیں سنا کہ چودھری صاحب کیا کَہ رہے ہیں اور قرشی صاحب نے کیا کہا۔ بالآخر قرشی صاحب خاموش ہوگئے۔ چودھری صاحب اور راجا صاحب بھی خاموش تھے۔ میں بھی چپ چاپ بیٹھا تھا کہ حضرت علامہ نے دفعتاً میری طرف دیکھا اور آب دیدہ ہو کر کہنے لگے ’’نیازی صاحب وہ کیا رباعی ہے؟ رباعی؟ میں سوچ رہا تھا کون سی رباعی؟ حضرت علامہ کے حافظے میں تو ان کا سارا کلام مستحضر رہتا ہے۔ مجھے تعجب تھا وہ اپنی کس رباعی کے بارے میں استفسار فرما رہے ہیں۔ حالانکہ انھیں جب بھی اپنی کسی غزل، یا نظم کا خیال آتا تو اس کے اشعار بلاتکلف ان کی زبان پر جاری ہوجاتے۔ میں کچھ پریشان، کچھ خاموش بیٹھا سوچتا تھا کہ حضرت علامہ کا اشارہ کس رباعی کی طرف ہے کہ انھوں نے ایک آہ بھری اور قدرے آبدیدہ ہوکر کہنے لگے: حقیقت را بہ رندے فاش کردند کہ ملا کم شناسد رمز دیں را اور پھر جیسے کسی خیال میں ڈوب گئے۔ دیر تک محویت کا سا عالم طاری رہا۔ چودھری صاحب او راجا صاحب معلوم نہیں کیا سوچ رہے تھے۔ قرشی صاحب شاید کچھ کہنے والے تھے کہ میں نے پہلے دو مصرعوں کا تکرار کرتے ہوئے حضرت علامہ کے ارشاد پر پوری رباعی عرض کردی: بیا ساقی بگردان ساتگین را بیفشان بر دو گیتی آستین را حقیقت را بہ رندے فاش کردند کہ ملا کم شناسد رمز دیں را حضرت علامہ نے رباعی کو سنا،۱۲؎ قدرے خاموش رہے اور پھر دم کشی کی تکلیف سے سر تکیوں پر رکھ دیا۔ ہم خاموش بیٹھے تھے اور نہ معلوم کب تک بیٹھے رہتے کہ حضرت علامہ پھر اُٹھ کر بیٹھ گئے۔ اور بڑی رقت آمیز آواز میں کہنے لگے: … … … … … … … … … … … … عاشق ہمان کہ ہست۱۳؎ عجب پریشانی کا عالم تھا، بالخصوص اس لیے کہ اس اثنا میں حضرت علامہ کو دو ایک بار اختلاج کا ہلکا سا دورہ بھی ہوا اور اس لیے تشویش تھی کہ ان کے جذبات کی شدت کوئی اندیشہ ناک صورت نہ پیدا کردے۔ لیکن قرشی صاحب نے نبض پر ہاتھ رکھا تو حضرت علامہ سے کہنے لگے: یہ اختلاج نہیں ہے احتباس ریح کہ وجہ سے قلب پر بوجھ پڑ رہا ہے۔ آپ نے جو دوا ابھی استعمال کی ہے اس سے طبیعت بحال ہوجائے گی۔ چناچہ ایسا ہی ہوا۔ اختلاج کی کیفیت جاتی رہی۔ ہم نے اطمینان کا سانس لیا۔ حضرت علامہ بھی سنبھل کر بیٹھ گئے۔ ساڑھے دس بج گئے اور اب حضرت علامہ کی طبیعت اس حد تک سنبھل گئی تھی جیسے انھیں کوئی تکلیف ہی نہیں تھی۔ ہم نے عرض کیا کیوں نہ آپ آرام فرمائیں۔ لیکن حضرت علامہ نے چودھری صاحب کی طرف دیکھا اور فرمایا ’’مضمون کیا صاف ہوگیا؟‘‘ انھوں نے کہا جی ہاں صاف ہوگیا۔ ارشاد ہوا ’’پڑھیے۔‘‘ اس پر ہم سب نے عرض کیا وقت زیادہ ہوگیا ہے آپ آرام فرمائیں۔ ہم آپ کا بدن دابیں گے۔ قرشی صاحب آپ کی انگلیاں اور ہاتھ سہلائیں گے۔ مضمون کا کیا ہے، کل سن لیجیے گا۔ لیکن حضرت علامہ نے فرمایا اور باصرار فرمایا ’’مضمون سنا جائے گا اور آج ہی سنا جائے گا، اسی وقت۔‘‘ ارشاد ہوا ’’طبیعت کا کیا ہے، آج اچھی ہے، کل خراب۔ مضمون کی اشاعت نہایت ضروری ہے۔ یہ مسلمانوں کی زندگی اور موت کا معاملہ ہے، ہندوستان میں ان کے مستقبل کا۔ مجھے جو کچھ کہنا ہے جلد کَہ دینا چاہیے۔ میری طبیعت بفضلہ تعالیٰ اچھی ہے۔‘‘ اب بجز اس کے کہ حضرت علامہ کے ارشاد کی تعمیل کی جاتی کوئی چارۂ کار نہیں تھا۔ چودھری صاحب نے شروع میں تو کچھ تامل کیا، پھر جیب میں ہاتھ ڈالا، مضمون نکالا اور سنانا شروع کردیا۔ حضرت علامہ بغور سنتے، جابجا اصلاح فرماتے اور ہم سے کہتے سارا مضمون غور سے سنیں۔ حضرت علامہ نے مضمون پسند فرمایا۔ چودھری صاحب نے ان کے جملہ ارشادات کی ترجمانی نہایت خوبی سے کردی تھی، البتہ کہیں کہیں اُسلوب بیان میں اصلاح ہوئی۔ الفاظ اور جملوں میں بھی رد و بدل کیا گیا۔ ہم مطمئن تھے کہ ایک بہت بڑا مرحلہ بخیر و خوبی طے ہوگیا۔ حضرت علامہ کا ذہن بھی آسودہ تھا۔ فرمایا ’’وہ نیازی صاحب والا جملہ بھی شامل ہوجائے تو بہت اچھا ہو۔‘‘ جملہ یہ تھا: ’’افرنجیت نے اب قومیت کی آڑ لی ہے۔‘‘۱۴؎ بارہ بج چکے تھے علی بخش حضرت علامہ کے ارشاد پر چائے لے آیا۔ چائے پی گئی، مضمون کے بارے میں کچھ اور باتیں ہوئیں تو سوال پیدا ہوا کہ مخالفین پر اس کا اثر کیا ہوگا۔ مولانا اس کے جواب میں اب کیا فرمائیں گے؟ بایں ہمہ ہماری کوشش یہ تھی کہ گفتگو طول نہ کھینچے، حضرت علامہ آرام فرمائیں اور سوجائیں۔ لیکن حضرت علامہ کا ذہن ابھی تک اس مسئلے میں اُلجھا ہوا تھا کہ کانگریس نے جو بساط سیاست بچھائی ہے اس پر آزادی وطن، متحدہ قومیت اور ہندو مسلم اتحاد کے ساتھ ساتھ سیاست و معاش اور تہذیب و ترقی کے نام پر کیسے کیسے مہرے پھیلا رکھے ہیں؟ ہندو کیا کھیل کھیل رہے ہیں؟ سکھوں کے عزائم کیا ہیں؟ مسلمان کیا کررہے ہیں؟ شیعہ، سنی، حنفی اور وہابی کی بحث کس طرح سیاست میں دخل انداز ہورہی ہے یا داخل کی جارہی ہے؟ ارشاد ہوا ’’دیوبند تو دیوبند تھا، کانگریس نے اب قادیان کو بھی ہوا دینا شروع کردی ہے‘‘ گویا سلسلۂ سخن اب پھر جاری تھا اور ہماری کوشش یہ کہ گفتگو کوئی سنجیدہ شکل اختیار نہ کرے تاکہ حضرت علامہ کی شگفتگی مزاج قائم رہے۔ لہٰذا چودھری صاحب جب کبھی موقع پاتے قادیانی سیاست پر کوئی نہ کوئی فقرہ چست کردیتے۔ حضرت علامہ کی طبیعت پر بھی بیان کے رد و کد سے جو بار پڑا تھا دور ہوچکا تھا۔ ایک مرتبہ چودھری صاحب کہنے لگے: ’’مزے کی بات تو یہ ہے کہ اہلِ قادیان اگرچہ عقیدۃً ہمیں کافر سمجھتے ہیں مگر اس کے باوجود اتحاد کے بھی خواہش مند ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہم سب کو ایک ہوجانا چاہیے، اس لیے کہ ہندو بہرحال ہم سب کو ایک سمجھتے ہیں۔‘‘۱۵؎ حضرت علامہ نے فرمایا ’’یہ خوب منطق ہے۔ اسلام کی بنا پر تو ہم ایک ہیں، نہ ایک ہوسکتے ہیں، البتہ ایک ہیں اور ہوسکتے ہیں تو ہندوؤں کے اس کہنے پر کہ ہم سب مسلمان ہیں۔‘‘ ارشاد ہوا ’’دراصل ان کا مطلب یہ ہے کہ ہم تو قادیانیوں کا مسلمان ہونا تسلیم کرلیں، البتہ وہ ہمیں برابر کافر سمجھتے رہیں۔ یہ کیا خوب بناے اتحاد ہے!‘‘ اس پر ہم سب کو ہنسی آگئی۔ حضرت علامہ نے فرمایا ’’بمقابلہ اس کے ہندوؤں کو لیجیے۔ سکھ اگرچہ مذہباً ہندو ہیں، یا کم از کم ہندو انھیں ایسا ہی سمجھتے ہیں اور فرض کیجیے نہیں سمجھتے جب بھی ان کا کہنا یہ ہے کہ سکھوں کو چاہیے ہندوؤں سے الگ نہ ہوں، اس لیے کہ مذہب کی بنا پر سیاسی فرقہ آرائی کا کوئی جواز نہیں، سیاست کو مذہب میں شامل کرنا غلط ہے۔ بایں ہمہ انھیں اکالی پارٹی بھی بڑی عزیز ہے اور از روے آئین وہ سکھوں کے لیے جداگانہ حقوق پر بھی مصر ہیں، محض اس لیے کہ مسلمانوں کو ضعف پہنچے، وہ اکثریت کے صوبوں میں اقتدار حاصل نہ کرنے پائیں۔‘‘ ارشاد ہوا ’’یہ ایک عجیب معمہ ہے جو سیاسی اور مذہبی لحاظ سے پیدا ہوگیا ہے۔ اس معمے کا کوئی حل نکلنا چاہیے۔ معمہ یہ ہے کہ مسلمان سکھوں کو کیا سمجھیں؟ وہ ہندو ہیں تو کیسے؟ نہیں ہیں تو کیوں؟ ہندو قادیانیوں کے بارے میں کیا رائے قائم کریں؟ وہ مسلمان ہیں تو کیسے؟ نہیں ہیں تو کیوں؟ سکھ بہرحال ہندوؤں کے ساتھ رہیں گے، قادیانی البتہ مسلمانوں سے الگ ہوجائیں۔‘‘۱۶؎ ہم اس منطق کا لطف اُٹھا رہے تھے کہ حضرت علامہ نے کسی قدر افسردہ خاطر ہوکر فرمایا ’’افسوس ہے مسلمانوں کی اکثریت کو حنفی قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ غیر حنفی عناصر کانگریس کی طرف جھک جائیں، حالانکہ سوال نہ شیعیت کا ہے، نہ حنفیت، نہ وہابیت کا۔ سوال فقط سلام کا ہے۔‘‘ پھر فرمایا ’’مسلمان ایک ہیں اور ہمیشہ ایک رہیں گے۔‘‘۱۷؎ ایک بج گیا۔ حضرت علامہ نے مضمون کی تصحیح اور نظر ثانی میں بڑی دماغ سوزی فرمائی تھی، لیکن الحمدللّٰہ یہ اندیشہ کہ ان کے قلب پر کوئی خراب اثر نہ پڑے جاتا رہا۔ قرشی صاحب مطمئن تھے اور ہمیں بھی حضرت علامہ کی شگفتگی خاطر سے بڑا اطمینان تھا۔ تھوڑی دیر اور نشست رہی۔ حضرت علامہ کو نیند آرہی تھی۔ ہم نے عرض کیا ’’آپ سوجائیں اور تسلی رکھیں۔ ہم ابھی اور بیٹھیں گے، جائیں گے نہیں۔‘‘ حضرت علامہ نے فرمایا ’’بہتر۔‘‘ پھر جب ان کی آنکھ لگ گئی اور ہم نے محسوس کیا کہ وہ آرام سے سورہے ہیں تو کمرے سے اُٹھ کر باہر آگئے۔ لیکن جانے سے پہلے قرشی صاحب نے اشارے سے علی بخش کو بلایا اور تاکید کردی کہ وہ خود اور م-ش بھی حضرت علامہ کو تنہا نہ چھوڑیں، کمرے ہی میں سوئیں اور ہر طرح سے ان کا خیال رکھیں۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱- قرشی صاحب کے کارکن، مطب میں۔ ۲- ملک لال دین قیصر، لاہور کے بڑے سرگرم اور پرانے خلافتی کارکن، ۱۹۵۸ء میں انتقال ہوگیا۔ ۳- حزب الاحناف مولوی محمد دین مرحوم نے قائم کیا تھا اور وہی اس کے معتمد بھی تھے۔ بڑے متشدد حنفی اور بڑے سرگرم اور مخلص کارکن تھے۔ سفید (چٹا) دروازہ مسجد وزیر خان میں ان کی دکان کلاہ فروشی کو شاید اب بھی فروغ ہورہا ہے۔ ایک زمانے میں پارچہ فروشی بھی کرتے رہے۔ سلطان ابن سعود کی مخالفت میں ۲۶-۱۹۲۵ء میں قائم ہوا اور مولانا دیدار علی مرحوم، خطیب مسجد وزیر خان اس کے صدر قرار پائے۔ مولانا مرحوم بھی اپنے عقاید میں بڑے متشدد تھے یہ زمانہ چونکہ سلطان ابن سعود کی زبردست مخالفت اور موافقت کا تھا اس لیے لاہور میں تکفیر کا اچھا خاصا اکھاڑا قائم ہوگیا تھا۔ احناف کے نزدیک ہر وہابی کافر تھا۔ مولانا دیدار علی مرحوم بہت بڑے مکفر تھے۔ ان کی تکفیر سے شاید ہی کوئی شخص بچا ہو۔ اقبال کافر، ظفر علی کافر، کچلو کافر جس پر مولانا ظفر علی خان مرحوم نے کہا کچلو مری مسجد میں جو آجائے تو کافر اور پھر جب مولانا ظفر علی بھی کافر ٹھہرائے گئے تو وہ کہاں چوکنے والے تھے۔ انھیں غصہ آگیا اور حسبِ معمول فرمایا: پال کے آم کی چوسی ہوئی گٹھلی کا ہے صوف یا کہ ہے قبلۂ دیدار علی کی داڑھی ۴- ظاہر ہے اس آخری رائے سے حضرات سالک و مہر کو اتفاق نہیں تھا۔ انقلاب کی روش تو یہ تھی کہ مسلمانان پنجاب کو یونینسٹ پارٹی کا ساتھ دینا چاہیے، حالانکہ یونینسٹ سیاسیات پنجاب کے ہندو مسلمان اور سکھ زمینداروں کی ایک چال تھی تاکہ ان کی زمینداریاں محفوظ رہیں۔ پھر جہاں اس پارٹی کے ہندو اور سکھ ارکان نے کانگریس کی مخالفت کے باوجود ہمیشہ ہندوؤں کا ساتھ دیا، بالخصوص ۱۹۴۶ء میں، یعنی تقسیم ملک کے موقع پر وہاں مسلمان یونینسٹوں نے زمیندار اور غیر زمیندار کی تفریق سے اتحاد اُمت میں رخنہ ڈالا اور یوں اسلامیان پنجاب میں اختلاف و انتشار کو ہوا دی۔ پھر اگرچہ کہنے کو اس جماعت میں اکثریت مسلمانوں کی تھی، لیکن وہ انگریزوں اور ہندوؤں دونوں سے دبے ہوئے تھے۔ انگریزوں اور ہندوؤں کی یہ بہت بڑی کامیابی تھی کہ انھوں نے یونینسٹ مسلمانوں کی مدد سے مسلمانوں میں اختلاف پھیلایا اور انھیں متحد نہ ہونے دیا۔ چنانچہ وہ اپنی اس کوشش میں خوب خوب کامیاب ہوئے اور قوم کے یہ نام نہاد بہی خواہ ہمیشہ ان کا آلہ کار بنے رہے۔ اُصولاً اس پارٹی کی اساس پنجابیت پر تھی۔ حالانکہ یہ وطنی قومیت کے اعتبار سے تو جیسا بھی محدود اور انتشار انگیز تصور تھا اسلامی تعلیمات کی لحاظ سے بھی اس کے مسلمان ارکان کی رجعت پسندی میں کوئی شبہ نہیں تھا۔ کانگریس البتہ اس پارٹی سے مطمئن تھی اس لیے کہ اس کی تنظیم غیر مذہبی بنیادوں پر ہوئی۔ یوں بھی اس کے ہندو اور سکھ ارکان تو بہرحال ہندوستانی قومیت سے رشتہ قائم رکھتے۔ رہے اس کے مسلمان ارکان سو انھیں یہ کہنے کی جرأت ہی نہیں تھی کہ پنجاب کی حکومت اسلامی اکثریت کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ لہٰذا پنجاب کے مسلمان سیاسی اعتبار سے ہمیشہ دبے رہے اور یہی فی الحقیقت کانگریس کا مقصد بھی تھا۔ پھر اسے فریب نفس کہیے، یا عام مسلمانوں کی تسلی خاطر کے لیے ایک حیلہ کہ انھوں نے صوبائی اور ملکی معاملات میں تفریق کرتے ہوئے یہ عجیب و غریب روش اختیار کی کہ صوبے کے معاملات میں تو وہ ہندوؤں اور سکھوں کا ساتھ دیں گے، ملکی معاملات میں لیگ کا حالانکہ ہندو اور سکھ کسی معاملے میں ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ یہ ایک اور ضرب تھی جو انھوں نے اسلامیان پنجاب کے اتحاد پر لگائی۔ ان کی اپنی بے بسی کا یہ عالم تھا کہ کسی مسئلے، مثلاً شہید گنج ہی کے معاملے میں وہ حکومت پر زور ڈال سکے، نہ سکھوں پر۔ اگر یہ پارٹی نہ ہوتی تو بہت ممکن ہے پنجاب تقسیم نہ ہوتا، یا اگر ہوتا بھی تو اس کی تقسیم مسلمانوں کے حق میں ہوتی۔ ۵- احادیث اور روایات پر غیر معمولی زور: دیکھیے استدراک۔ ۶- یہ محض اتفاق ہے کہ لیگ جس متحدہ محاذ کی خواہاں تھی اس کے مخالفین کو وہابی یا اہلِ حدیث کہا جاتا، ورنہ سوال اہلِ حدیث کا تھا، نہ وہابیت کا۔ لیکن اختلاف اور انتشار کے اس تکلیف دہ زمانے میں جب مسلمان الگ الگ حلقوں میں بکھر گئے تھے بعض الفاظ نے اصطلاحات کی شکل اختیار کرلی تھی او ران کا اطلاق صرف خاص خاص افراد یا حلقوں پر ہوتا۔ وہابیت یا دیوبند کا کانگریس کے طرف دار علما اور ان کے عقیدت مندوں پر۔ مولانا حسین احمد کانگریس کے حامی تھے۔ مولوی ثناء اللہ مرحوم مدیر اہلِ حدیث امرتسر بھی ملکی مطلع کے زیر عنوان جب سیاست حاضرہ پر تبصرہ فرماتے تو اس سے بھی کانگریس کی حمایت کا پہلو نکلتا۔ مولانا داود غزنوی کا شمار بھی زعمائے کانگریس میں ہوتا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کو بھی اہلِ حدیث ہی کارکن رکین تصور کیا جاتا تھا۔ انھیں بھی جماعت اہلِ حدیث کی تائید حاصل تھی۔ لہٰذا عام خیال یہ تھا کہ اہلِ حدیث، یا عرف عام میں ’وہابی‘ لیگ کے خلاف ہیں۔ دیکھیے استدراک یہاں حاشیے میں ان کو گونا گوں محرکات کا تجزیہ ممکن نہیں جو اس وقت کی پر اضطراب فضا میں پیدا ہورہے تھے۔ ۷- اور جس کے پیشِ نظر اسلامی ہند کی تاریخ کا بالاستیعاب مطالعہ ضروری ہے۔ یہ ایک عنصر تھا جو اُمت کے سیاسی اتحاد و استحکام میں حائل رہا۔ علاوہ اس کے اور بھی کئی عناصر تھے، مثلاً بادشاہت اور نسلی تعصبات۔ جن سے اسلام اور مسلمان دونوں کو بے حد ضعف پہنچا۔ ۸- حضرت علامہ کو علما و صوفیہ کے زوال علم کا بڑا افسوس تھا۔ ۹- اس زمانے میں وکیل گوجر خاں اب لاہور میں مقیم ہیں۔ ۱۰- سچ کَہ دیا تو آگ بھڑک اُٹھے گی، جھوٹ کہا تو شاید بچنے کی کوئی صورت نکل آئے۔ ۱۱- چو رفت خویش بر بستم ازیں خاک ہمہ گفتند با من آشنا بود ولیکن کس ندانست ایں مسافر چہ گفت و باکہ گفت و از کجا بود ۱۲- یہ رند اور ملا کی چشمک ہمیں فارسی شاعری سے ورثے میں ملی۔ رند کی آزادہ روی اگرچہ بظاہر حدود شریعت سے تجاوز کرجاتی ہے، لیکن اس کا مشرب وسیع اور مسلک صلح کا ہے۔ وہ حقیقت کا جویا اور انسانیت کا پرستار ہے۔ اس کی نظر انسان کے باطن اور اندرون ضمیر پر ہے، ملا کی ظواہر پر۔ اس کے پاس قشر ہی قشر ہے، مغز نہیں ہے۔ یہ صوفیانہ یعنی تصوف کے ’عجمی‘ نشوونما کا خاص مضمون ہے جس میں حقیقت کا ایک شمہ تو موجود ہے لیکن جس سے صوفیانہ ذہن نے کوئی اچھا اثر قبول نہیں کیا۔ بہرحال یہاں کہنے کی بات یہ تھی کہ غیر منقسم ہندوستان میں جب مسلمانوں کا دور ’’وفاداری‘‘ ختم ہوا اور آزادی کی تحریکوں کا دور دورہ شروع ہوا تو ان مصطلحات میں نئے معنی پیدا ہوگئے۔ مولانا ابوالکلام ’’علماے دین‘‘ کی عام بے حسی کا ماتم کرتے ہوئے ’’الہلال‘‘ میں جب کبھی قلم اُٹھاتے تو بافسوس فرماتے: کامل اس فرقۂ زہاد سے اُٹھا نہ کوئی کچھ ہوئے تو یہی رندان قدح خوار ہوئے یوں زاہد اور رند اور ملانے تصوف کی حدود سے نکل کر سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔ پھر جب ہندی اسلامی سیاست نے کانگریس کے زیر اثر وطنی قومیت کا ساتھ دیا اور علماے دین کی انگریز دشمنی نے کانگریس کی حمایت میں زبان کھولی اور نہیں سمجھے کہ آزادی ہند کا مسئلہ فی الحقیقت ہے کیا، یا یہ کہ اس جدوجہد میں از روے اسلام ان کا موقف کیا ہونا چاہیے، جس کی وجہ تھی بطور ایک نظام اجتماع اُمت کے مصالح سے ان کی بے خبری، تو رند اور ملا کی اصطلاحوں میں نئے معنی پیدا ہوگئے۔ رند اسلام کا رازدار ٹھہرا، ملا اس سے بے خبر۔ ۱۳- شعر کیا ہے؟ راقم الحروف بھول گیا۔ ۱۴- ہر اعتبار سے، بالخصوص ان معنوں میں کہ قومیں وطن سے بنتی ہیں۔ ۱۵- یہ اس زمانے میں قادیان کی عام منطق تھی۔ ۱۶- یہ اس وقت ہندو سیاست کا عام انداز تھا۔ ۱۷- اور بالآخر ایسا ہی ہوا۔ ز…ز…ز شنبہ: ۵؍مارچ خدا کا شکر ہے رات حضرت علامہ بڑے آرام سے سوتے رہے۔ ضیق کا دورہ بھی رکا رہا اور ہوا بھی تو منٹ دو منٹ کے لیے۔ باقی وقت سونے میں گزرا۔ یہ دوسری بات ہے کہ نیند کا سلسلہ کبھی کبھی ٹوٹ جاتا۔ حضرت علامہ ذرا سی دیر کے لیے جاگ اُٹھتے، کوئی بات کرتے، پھر نیند آجاتی۔ مسلسل نیند نہ آنے کی وجہ شاید یہ تھی کہ حضرت علامہ عادۃً رات کو بہت کم سویا کرتے تھے۔ ابھی آٹھ نہیں بجے تھے کہ جاوید منزل پہنچ گیا۔ معلوم ہوا قرشی صاحب اور چودھری صاحب بیٹھے ہیں۔ قرشی صاحب سویرے ہی آگئے تھے۔ پھر چودھری صاحب تشریف لے آئے۔ میں نے حاضر خدمت ہوکر سلام عرض کیا، مزاج پوچھا اور بیٹھ گیا تو قرشی صاحب نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’نیاز صاحب آگئے ہیں، مجھے اب مطب جانا چاہیے۔ البتہ انھیں چاہیے گھر جاتے مجھ سے آپ کی کیفیت مزاج کی اطلاع کرتے جائیں۔‘‘ حضرت علامہ نے فرمایا ’’بہت بہتر۔‘‘ قرشی صاحب گئے۔ چند منٹ کے بعد چودھری صاحب نے بھی دفتر جانے کی اجازت طلب کی، لیکن حضرت علامہ نے ان کو روک لیا۔ فرمایا ’’مضمون میں بعض باتیں اصلاح طلب ہیں۔ آپ ابھی نہ جائیے۔‘‘ مضمون کی پھر اصلاح ہونے لگی، لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ باوجود دماغی کاوش کے حضرت علامہ کی طبیعت سنبھلی رہی۔ چودھری صاحب کوئی دس ساڑھے دس بجے اُٹھے ہوں گے۔ میں تھوڑی دیر اور بیٹھا۔ حضرت علامہ تھک گئے تھے، چاہتے تھے آرام کریں۔ میں نے عرض کیا ’’مجھے قرشی صاحب سے آپ کی کیفیت مزاج کہنا ہے۔ ان سے کیا عرض کردوں۔‘‘ ارشاد ہوا ’’یہی کہ طبیعت کا وہی حال ہے جو آپ دیکھ گئے تھے۔ مجھے اطمینان ہے۔‘‘ شام سے پہلے پھر قرشی صاحب سے ملا، گھر پہنچا اور جاوید منزل کا راستہ لیا۔ اس سے پہلے بھی قرشی صاحب سے مل چکا تھا۔ وہ خود بھی سہ پہر میں کسی وقت حضرت علامہ کو دیکھ آئے تھے اور خوش تھے کہ ان کی طبیعت بتدریج بہتر ہورہی ہے۔ کہنے لگے ’’خطرے کا امکان نسبتاً کم ہوگیا ہے۔‘‘ جاوید منزل پہنچا تو م-ش اور علی بخش نے بھی بڑا اطمینان ظاہر کیا۔ معلوم ہوا حضرت علامہ بڑے آسودہ خاطر ہیں۔ جس کسی نے مزاج پوچھا، فرمایا: ’’الحمدللّٰہ اچھا ہوں۔‘‘ دن میں کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ میں ابھی صحن ہی میں تھا کہ قرشی صاحب اور چودھری صاحب بھی تشریف لے آئے۔ راجا صاحب کے بارے میں معلوم ہوچکا تھا کہ حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ تھوڑی دیر میں خواجہ عبدالرحیم بھی آگئے اور ہم سب ایک ساتھ حضرت علامہ کی خواب گاہ میں داخل ہوئے۔ حضرت علامہ نے حسبِ معمول فرمایا ’’آئیے۔‘‘ ہم سب مزاج پرسی کے بعد قریب ہوکر بیٹھ گئے تو قرشی صاحب نے حضرت علامہ کی نبض دیکھی اور اطمینان کا اظہار کیا۔ حضرت علامہ خواجہ صاحب سے مخاطب ہوئے۔ فرمایا ’’کہیے خواجہ صاحب کیا حال ہے؟ آپ کہاں تھے؟ کچھ سرکار دولت مدار اور اس کے ہوا خواہوں کی بات کیجیے۔‘‘ خواجہ صاحب مسکرائے اور اپنی غیر حاضری کی معذرت کرنے لگے۔ حضرت علامہ نے فرمایا ’’اس وقت جو حالات ہیں ان میں مسلمانوں کا گزر ایک بڑے نازک مرحلے سے ہورہا ہے۔ وہ متحد نہ ہوئے اور نہیں سمجھے کہ اسلام ان سے کس قسم کے عمل کا طلب ہے تو انجام اچھا نہیں ہوگا۔‘‘ ارشاد ہوا ’’نئی تعلیم آئی اور الحاد اور دہریت ساتھ لائی۔ مدرسے اور خانقاہیں کب سے ویران پڑی ہیں۔ دیوبند کی دینی عصبیت سے بڑی بڑی توقعات تھیں۔ دیوبند کو کیا ہوا؟ پھر چودھری صاحب سے دریافت فرمایا ’’چودھری صاحب! مضمون کیا صاف ہوگیا؟‘‘ چودھری صاحب نے کہا ’’ان شاء اللہ کل تک صاف ہوجائے گا۔‘‘ علی بخش کھانا لے آیا۔ حضرت علامہ نے کھانا کھایا اور پھر ذرا سی دیر کے بعد قرشی صاحب کے زیر ہدایت کوئی دوا کھائی، حقے کے کش لیے، تکیوں سے ٹیک لگائی تاکہ آرام فرمائیں۔ راجا صاحب اور خواجہ صاحب سے کبھی کبھی کوئی بات کرلیتے، لیکن ہماری کوشش یہی تھی کہ حضرت علامہ زیادہ گفتگو نہ کریں۔ نو بج گئے۔ خواجہ صاحب اور راجا صاحب نے اجازت لی۔ م-ش بھی کسی کام کے خیال سے دوسرے کمرے میں چلے گئے، مگر پھر جلدی واپس آگئے۔ اب صرف چودھری صاحب، قرشی صاحب اور راقم الحروف حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر تھے یا علی بخش اور رحما کہ ان کا بدن داب رہے تھے۔ معلوم ہوتا تھا حضرت علامہ کو لیٹے لیٹے نیند آگئی ہے۔ ہم لوگ مطمئن تھے اور آہستہ آہستہ آپس مین باتیں کررہے تھے کہ حضرت علامہ نے ایک آدھ بار اختلاج کی شکایت کی، مگر ایسی خفیف کہ عرق گل گاؤ زبان کے استعمال سے فوراً جاتی رہی۔ حضرت علامہ پھر اُٹھ کر بیٹھ گئے۔ ان کی طبیعت بڑی شگفتہ تھی، چنانچہ ایک بار جب انھوں نے علی بخش اور چودھری صاحب کو باتیں کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا ’’علی بخش کو چودھری صاحب سے وہی نسبت ہے جو سوہنی کو مہینوال سے۔‘‘ علی بخش کھلکھلا کر ہنس پڑا، مگر پھر یہ دیکھ کر کہ حضرت علامہ کروٹ بدلنا چاہتے ہیں، آگے بڑھا۔ حضرت علامہ نے کروٹ لی اور علی بخش تکیوں کو ایک طرف ہٹاتے ہوئے ان کی کمر دابنے لگا۔ قرشی صاحب کہنے لگے ’’کہیے چودھری صاحب! آپ کی اس نسبت کے بارے میں کیا رائے ہے؟‘‘ م-ش نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ چودھری صاحب کو بھی ہنسی آرہی تھی۔ حضرت علامہ بھی خوش تھے۔ پھر ایسا معلوم ہوا جیسے ان کی آنکھ لگ گئی ہے۔ ہم خاموش بیٹھے تھے کہ حضرت علامہ جو فی الواقع سوگئے تھے، دس پندرہ منٹ کے بعد جاگ اُٹھے، کروٹ بدلی اور حقے کا کش لگا کر مجھ سے فرمایا کہ تاریخ اسلام کا کوئی واقعہ بیان کروں۔ میں پہلے تو کچھ خاموش رہا، پھر کچھ از رہ امتثال اَمر اور کچھ اس خیال سے کہ حضرت علامہ کا دل بہلا رہے تاریخ اسلام کا کوئی نہ کوئی واقعہ بیان کرتا رہا۔ حضرت علامہ واقعات کو سنتے اور محظوظ ہوتے۔ ایک مرتبہ دفعتاً اُٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا ’’اسپین کو اسلامی تاریخ سے بڑا گہرا تعلق ہے، لیکن اسپین کی تاریخ ابھی تک پردۂ اخفا میں ہے۔‘‘ پھر کچھ رُک گئے اور بڑے افسوسناک لہجے میں کہنے لگے ’’اسپین کیا، مسلمان اپنی ساری تاریخ سے بے خبر ہیں۔ یہ شعر و شاعری کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں! کاش میں نے شاعری نہ کی ہوتی۔‘‘ قرشی صاحب نے کہا ’’لیکن آپ نے تو شاعری کے پردے میں وہ سارا کام کر ڈالا جو فلسفیوں ار مؤرخوں، علما اور فقہا کے کرنے کا تھا۔ آپ یہ کیسے کہتے ہیں کہ آپ نے شاعری نہ کی ہوتی۔ ہمیں تو اس شاعری پر ناز ہے، حتیٰ کہ وہ جو کہا گیا ہے: مانہ بودیم بدین مرتبہ راضی غالب شعر خود خواہش آن کرد کہ گردد فن ما غالب نے دراصل آپ ہی کے لیے کہا تھا۔ اس سے کیسے انکار ہوسکتا ہے؟ آپ کو تو غالب کی طرح یہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں: تو اے کہ محو سخن گستران پیشینی مباش منکر غالب کہ در زمانۂ تست‘‘ حضرت علامہ نے قدرے تبسم فرمایا، مگر کہا کچھ نہیں۔ میں چودھری صاحب اور قرشی صاحب کے اشارے سے پھر واقعات بیان کرنے لگا، زیادہ تر اندلس اور تاریخ اندلس ہی کے بارے میں۔ قرشی صاحب اور چودھری صاحب بھی کسی نہ کسی بات کا اضافہ کردیتے تاکہ واقعات کی دل چسپی قائم رہے۔ یوں دس پندرہ منٹ گزرے تو ہم نے دیکھا کہ حضرت علامہ پر غنودگی طاری ہے۔ میں خاموش ہوگیا۔ چودھری صاحب اور قرشی صاحب بھی خاموش تھے۔ وقت بھی زیادہ ہوگیا تھا۔ بارہ بج چکے تھے۔ ہم نے سوچا کیوں نہ چپ چاپ خواب گاہ سے باہر نکل آئیں تاکہ حضرت علامہ کی نیند میں خلل واقع نہ ہو۔ لیکن معلوم نہیں کیا بات تھی کہ حضرت علامہ دفعتاً اُٹھ کر بیٹھ گئے اور جیسے ہم سے خطاب مقصود ہو اپنی بیٹھی ہوئی آواز میں کہ شدت تأثر سے اور بھی گلوگیر ہورہی تھی بڑے دردناک انداز میں ارشاد فرمایا: تہنیت گوئید مستاں را کہ سنگ محتسب بر دل آمد و این آفت از مینا گزشت اور دوسرا مصرع پڑھتے پڑھتے اتنا روے کہ ہم پریشان ہوگئے۔ دیر تک یہی کیفیت رہی۔ کبھی سوجاتے، کبھی کوئی بات کرتے، کبھی مسلمانوں کی حالت پر اشک باری فرماتے۔ م-ش کہنے لگے ’’رات کو جب کبھی آنکھ کھلتی ہے تو اکثر کہتے ہیں: افسوس ہے، بڑا افسوس، مولانا حسین احمد نے یہ کیسے کَہ دیا قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔‘‘ ہم خاموش تھے اور پریشان بھی۔ حضرت علامہ پھر لیٹ گئے۔ علی بخش اور رحما ان کا بدن دابنے لگے، م-ش شانے اور کمر۔ قرشی صاحب بھی جیسا کہ ان کا معمول تھا حضرت علامہ کے ہاتھ سہلاتے رہے۔ وہ کرسی کو آگے بڑھائے حضرت علامہ کے پلنگ سے لگے بیٹھے تھے۔ ان کی انگلیاں حضرت علامہ کی نبض پر تھیں اور وہ گویا اشارتاً ہم سے کہہرہے تھے کہ اطمینان رکھیں، حضرت علامہ کو نیند آرہی ہے۔ چنانچہ حضرت علامہ تھوڑی دیر کے لیے سو بھی گئے۔ مگر پھر جلد ہی اُٹھ بیٹھے اور کہنے لگے ’’علی بخش چائے کا اہتمام کرو۔ یہ لوگ کب سے بیٹھے ہیں۔‘‘ ان کی طبیعت اب پھر مائل بہ گفتگو تھی۔ زیادہ تر لیگ کے استحکام، مسلمانوں کے اتحاد اور یونینسٹ پارٹی کا ذکر رہا۔ چودھری صاحب یونینسٹ ارکان کی غلامانہ ذہنیت، ان کی بے حسی اور بے غیرتی کا کوئی نہ کوئی واقعہ بیان کرتے۔ حضرت علامہ ان واقعات کو سنتے تو افسوس فرماتے۔ ایک مرتبہ کہنے لگے ’’ان لوگوں کے طور طریق پر قاآنی کا یہ شعر صادق آتا ہے: … … … …… … … … … … … … کو خرمی کند‘‘۱؎ اگر ایں آب و جا ہے از فرنگ است جبیں خود منہ جز بردر او سریں را ہم بہ پیشش دہ کہ آخر حقے دارد بہ خر پالان گر او ئ…ئ…ء حواشی ۱- شاید یہی خیال تھا جس کے زیر اثر ارمغان حجاز کی یہ رباعی موزوں ہوئی: ز…ز…ز یک شنبہ: ۶؍مارچ الحمدللّٰہ حضرت علامہ کی طبیعت بڑی شگفتہ ہے۔ میںکوئی نو بجے کے قریب حاضر خدمت ہوا اور مزاج پوچھا تو فرمایا ’’رات بڑے آرام سے گزری۔ دورہ بالکل نہیں ہوا۔ نیند بھی خوب آئی۔‘‘ چودھری صاحب، قرشی صاحب اور راجا صاحب راستے ہی میں مل گئے تھے۔ قرشی صاحب سے باتیں ہوتی رہیں۔ انھوں نے کہا ’’بظاہر کوئی اَمر باعث تشویش نہیں، مگر اس کو کیا جائے کہ مرض بے حد خطرناک ہے اور پھر تحقیق بھی ہوچکی ہے کہ قلب، جگر اور گردے سب ماؤف ہیں۔ قلب کی حالت بالخصوص نازک ہے۔ لیکن حضرت علامہ کو اللہ تعالیٰ نے عجیب دل و دماغ عطا کیا ہے۔ بظاہر ان کی حالت اس طرح سنبھل جاتی ہے کہ اسے دیکھ کر امید بندھ جاتی ہے۔ یوں بھی کیا عجب ہے اللہ تعالیٰ انھیں صحت دے۔ ہمیں ان کی کس قدر ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں سلامت رکھے۔‘‘ قرشی صاحب تو زیادہ دیر نہیں بیٹھے۔ انھیں مطب جانا تھا۔ انھوں نے حضرت علامہ کی نبض دیکھی، نسخے میں کچھ رد و بدل کیا اور علی بخش کو مناسب ہدایات دیں۔ چودھری صاحب اور راجا صاحب کو بھی دفتر جانا تھا۔ وہ بھی جلدی میں تھے، اس لیے بجز مزاج پرسی یا دوا اور غذا کے کوئی بات نہیں ہوئی۔ حضرت علامہ نے البتہ فرمایا ’’کہیے چودھری صاحب یونینسٹ پارٹی کے بڑے بڑے کارپرداز کیا کررہے ہیں؟۱؎ باہر کی کیا خبریں ہیں؟‘‘ پھر راجا صاحب سے ارشاد ہوا ’’آپ کے اضلاع میں عوام کا کیا حال ہے؟‘‘ چودھری صاحب اور راجا صاحب نے مختصراً جواب میں کچھ کہا اور دفتر چلے گئے۔ میں کوئی دو گھنٹے اور بیٹھا۔ حضرت علامہ کو بعض فارسی الفاظ کی تحقیق منظور تھی۔ مجھ سے بھی سوالات کرتے رہے۔ میں کچھ جواب دیتا، کچھ اپنی لاعلمی کا اظہار کرتا۔ فرمایا مشہور کتب لغت سے رجوع کروں اور ضروری باتیں لکھ لوں۔ معلوم ہوتا ہے کوئی مضمون ذہن میں ہے یا شاید کسی نظم کی آمد ہو۔ بارہ بج گئے۔ چھ بجے کے قریب پھر جاوید منزل پہنچا۔ چھ بجے ہی چودھری صاحب کی قرار داد۲؎ کے مطابق ہم سب کا جمع ہونا ضروری تھا۔ چودھری صاحب اور قرشی صاحب پہلے سے موجود تھے۔ راجا صاحب بھی آگئے۔ ڈاکٹر محمد یوسف اور ڈاکٹر جمعیت سنگھ کا انتظار تھا۔ وقت مقررہ پر ڈاکٹر صاحبان بھی تشریف لے آئے اور دیر تک حضرت علامہ کے پاس بیٹھے ان کے ایک ایک عارضے کے بارے میں باہم مشورہ کرتے رہے۔ بالآخر نسخہ تجویز ہوا اور ڈاکٹر صاحبان تشریف لے گئے، لیکن قرشی صاحب سے بھی کہتے گئے کہ مناسب تدابیر کرتے رہیں۔ ڈاکٹر صاحبان گئے تو قرشی صاحب نے بھی اجازت لی اور ان کے ساتھ راجا صاحب اور چودھری صاحب نے بھی۔ کہنے لگے تھوڑی دیر میں حاضر ہورہے ہیں۔ اب صرف میں حضرت علامہ کے پاس بیٹھا تھا اور کچھ کہنا چاہتا تھا کہ علی بخش نے آکر ملک زمان مہدی۳؎ اور خان غلام رسول خان کے آنے کی اطلاع کی۔ حضرت علامہ نے فرمایا ’’تشریف لے آئیں۔‘‘ یہ حضرات کمرے میں داخل ہوئے تو معلوم ہوتا تھا جیسے بہت خوش ہیں، چنانچہ انھوں نے آتے ہی اول تو حضرت علامہ کو یہ خوش خبری سنائی کہ لیگ کا اجلاس لاہور ہی میں ہوگا، پھر یہ کہ اسمبلی میں بھی لیگ پارٹی قائم ہورہی ہے۔ پھر ان کا مزاج پوچھا۔ حضرت علامہ نے فرمایا ’’الحمدللّٰہ اچھا ہوں۔‘‘ حضرت علامہ بھی لیگ کے اجلاس لاہور اور اسمبلی میں لیگ پارٹی کے قیام کی خبر سن کر بہت مسرور ہوئے۔۴؎ حضرت علامہ، ملک صاحب اور خاں صاحب سے باتیں کررہے تھے۔ علی بخش موجود تھا۔ م-ش بھی آگئے تھے۔ میں نے اس خیال سے کہ گفتگو طول کھینچ چکی ہے، دوسرے بہت ممکن ہے بعض باتوں کے لیے تخلیے کی ضرورت ہو، عرض کیا تھوڑی دیر کے لیے اجازت چاہتا ہوں۔ راجا صاحب اور چودھری صاحب آتے ہی ہوں گے۔‘‘ شب میں پھر حاضر خدمت ہوا تو قرشی صاحب اور چودھری صاحب کو منتظر پایا۔ راجا صاحب البتہ نہیں آئے تھے اور یہ اَمر ایک گونہ باعث تعجب تھا۔ حضرت علامہ نے بھی دو ایک بار دریافت فرمایا ’’راجا صاحب کہاں ہیں؟‘‘ عرض کیا گیا، آتے ہی ہوں گے۔ حضرت علامہ نے کھانا کھایا تو علی بخش نے چائے کا اہتمام کیا۔ لیکن علی بخش بہت تھک گیا ہے۔ گھر بار اور بچوں کی دیکھ بھال کے علاوہ بار بار حضرت علامہ کی خدمت میں حاضری، چائے اور حقے کا اہتمام، حضرت علامہ کے ساتھ مسلسل بے خوابی، یہ سب کام ہیں جو علی بخش کو کرنا پڑتے ہیں۔ مگر آفرین ہے علی بخش کو کہ حضرت علامہ کی محبت میں اسے اپنی تکلیف کا ذرا بھی احساس نہیں ہوتا۔ دیوان علی کے آنے سے البتہ اسے خاصا اطمینان ہوگیا ہے۔ حضرت علامہ کا اصرار تھا کہ رحما کے علاوہ ایک اور آدمی کا انتظام کرلینا چاہیے تاکہ ملازمین باری باری سے آرام کرسکیں۔ دیوان علی میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ پنجابی کے صوفی شعرا کا بہت سا کلام اسے حفظ ہے۔ آواز بھی غنیمت ہے۔ اس سے اکثر بلھے شاہ کی کافیاں، سی حرفی ہدایت اللہ، یوسف زلیخا اور بعض دوسرے شاعروں کا کلام سنا جاتا ہے۔ دیر تک نشست رہی اور حضرت علامہ کی شگفتگی خاطر کے لیے ادھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ مقصد یہ تھا کہ کسی طرح حضرت علامہ کا دل بہلا رہے۔ حضرت علامہ کبھی کبھی سو بھی جاتے، کبھی مسلمانوں کی گذشتہ اور آیندہ سیاست کے پیشِ نظر مستقبل کے بارے میں طرح طرح کے سوال پوچھتے۔ کیا لیگ کو کچھ سرمایہ مل سکتا ہے؟ کیا مسلمان کوئی عملی اقدام کریں گے؟ وغیرہ وغیرہ۔ پھر معلوم نہیں کس طرح غالب کا ذکر آگیا۔ شاید چودھری صاحب نے اربابِ اقتدار پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کوئی شعر پڑھا تھا کہ قرشی صاحب نے کہا ’’غالب خوب شاعرتھا۔‘‘ حضرت علامہ نے فرمایا ’’غالب واقعی بہت بڑا شاعر تھا، لیکن محض پنشن میں اضافے کے خیال سے سرکار انگلشیہ کی مدح میں قصائد لکھنا بڑے افسوس کی بات ہے۔۵؎ غالب کی اس روش سے بڑا دکھ ہوتا ہے۔‘‘ پھر فرمایا ’’غالب کا کلام دراصل فارسی ہی میں ہے۔ غالب کا فارسی کلام پڑھیے اور ضرور پڑھیے۔ غالب کا فارسی کلام بڑی چیز ہے۔‘‘ پھر ارشاد ہوا ’’غلامی بہت بڑی لعنت ہے۔ غلامی زبان سے وہ کچھ بھی کہلوادیتی ہے جو انسان نہیں کہنا چاہتا، دانستہ اور نادانستہ بھی۔‘‘ حضرت علامہ کو شاید افسوس تھا کہ خود ان کی زبان سے بھی تو ایسے اشعار نکل چکے ہیں جن میں سرکار انگلشیہ کی مدح سرائی کی گئی ہے۔۶؎ یہ مجبوری تھی یا معذوری، جو کچھ بھی تھا ہونا نہیں چاہیے تھا۔ حضرت علامہ شاید اسی خیال سے خاموش ہوگئے۔ ہم بھی خاموش تھے۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱- یہ حضرات کارپرداز ہی تو تھے۔ ۲- حضرت علامہ کے علاج کے بارے میں۔ ۳- خان بہادر ملک زمان مہدی مرحوم بڑے درد مند اور مخلص انسان تھے۔ علی گڑھ میں تعلیم پائی۔ وطن ان کا بھرت تھا، مضافات شاہ آباد ضلع کرنال میں۔ ملازمت کا سلسلۂ ڈپٹی کمشنری پر ختم ہوا۔ چند دن مالیر کوٹلہ میں بھی رہے۔ پھر حضرت علامہ کے ایما سے لیگ میں شریک ہوگئے اور پنجاب مسلم لیگ کے نائب صدر منتخب ہوئے۔ ملک برکت علی مرحوم اور خان غلام رسول خان مرحوم کے ساتھ انھوں نے یونینسٹ پارٹی کی شدید مخالفت کے باوجود پنجاب میں مسلم لیگ کا نام زندہ رکھا۔ پنجاب میں لیگ کے اس دور کی تاریخ بڑی دلچسپ اور سبق آموز ہے۔ حضرت علامہ کے وجود سے اسے جس طرح تقویت پہنچی وہ ایک الگ مبحث ہے جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ ۴- یہ سب حضرت علامہ کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔ یہ دوسری بات ہے کہ اجلاس لاہور میں نہ ہوسکا۔ ۵- مثلاً ملکہ وکٹوریہ کی شان میں ان کا قصیدہ: خود روزگار ہا نتواند شمار یافت یہ ’’نتواند شماریافت‘‘ کے الفاظ کس قدر تکلیف دہ ہیں۔ معاذ اللہ! بایں ہمہ حضرت علامہ غالب کی عظمت کے قائل تھے۔ انھوں نے غالب کی شخصیت کو غالب کی شاعری سے کبھی جدا نہیں کیا۔ گویا وہ جب اسے بہت بڑا شاعر کہتے تو اس کا مطلب یہ بھی ہوتا کہ وہ بہت بڑا انسان بھی تھا۔ ۶- ۱۸-۱۹۱۷ میں: اے تاجدار خطۂ جنت نشان ہند روشن تجلیوں سے تری خاوران ہند ز…ز…ز دوشنبہ: ۷؍مارچ کوئی نو بجے تھے کہ حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ راجا صاحب ساتھ تھے۔ سیّد عابد علی بھی آگئے۔ میں ان سے حضرت علامہ کی تشویش ناک حالت کا ذکر کرچکا تھا۔ مزاج پرسی کی، چند منٹ بیٹھے اور چلے گئے۔ آج سے ایلوپیتھک علاج شروع ہے اور جیسا کہ چودھری صاحب کی رائے تھی بجز اس کے چارہ ٔ کار بھی نہیں تھا۔ ڈاکٹر محمد یوسف صاحب نے دوائیں تجویز کردی ہیں۔ ڈاکٹر حمید ملک۱؎ کہ حضرت علامہ کے دیرینہ ارادت مند اور اکثر مزاج پرسی کے لیے آیا کرتے ہیں، اب باقاعدگی سے حاضر ہوا کریں گے۔ ان کے ذمے یہ خدمت ہے کہ حضرت علامہ کے عوارض اور کیفیت مزاج کی اطلاع ڈاکٹر صاحب کو کرتے رہیں۔ حضرت علامہ نے تبدیلی علاج پر کوئی اظہار رائے نہیں کیا۔ صرف اتنا فرمایا کہ حسب ضرورت طبّی ادویات کا استعمال بھی جاری رہے گا۔ ارشاد ہوا ’’قرشی صاحب نے حسبِ معمول آج بھی نبض دیکھی اور کچھ تدابیر بھی کی ہیں۔‘‘ حضرت علامہ نے جب یہ سنا تھا کہ لیگ کا اجلاس لاہور میں ہوگا بار بار دریافت فرماتے: اجلاس کب ہوگا؟ تاریخ مقرر ہوئی یا نہیں؟ اہلِ لاہور اس سلسلے میں کیا کررہے ہیں؟ اسمبلی میں لیگ پارٹی بن گئی تو کام کرنے کی صورت کیا ہوگی؟ مجھ سے بار بار پوچھتے ’’اخبار دیکھا؟ کیا خبر ہے؟ لوگ کیا کہتے ہیں؟‘‘ مگر اخباروں میں تو کچھ تھا نہیں، میں کیا عرض کرتا؟ علی بخش چلم بدلنے گیا تھا، مگر جلدی واپس لوٹ آیا۔ کہنے لگا ’’نواب صاحب ممدوٹ۲؎ اور میاں امیر الدین۳؎ آئے ہیں۔‘‘ حضرت علامہ نے فرمایا ’’بہت خوب۔‘‘۴؎ پھر فرمایا، ’’انھیں اندر لے آؤ۔‘‘ علی بخش نے دو کرسیاں اور ڈال دیں۔ میں اور راجا صاحب ذرا ہٹ کر ایک طرف بیٹھ گئے۔ حضرت علامہ نے نواب صاحب اور میاں صاحب کا بڑی گرم جوشی سے خیر مقدم کیا اور ان کے سلام کا جواب دے کر نواب صاحب کی غیرت ملی پر انھیں مبارک باد دی۔ ارشاد ہوا ’’خدا کرے سب رئیسوں کا دل آپ کا سا ہو جائے۔‘‘ نواب صاحب از راہ انکسار مسکرائے، پھر لیگ کے اجتماع لاہور اور اس کی صدارت۵؎ کی باتیں کرنے لگے۔ حضرت علامہ نے فرمایا ’’اس اَمر کی بڑی ضرورت ہے کہ اسمبلی میں بھی لیگ پارٹی قائم ہوجائے۔‘‘ پھر ملک برکت علی کے مسودۂ قانون۶؎ کی تعریف کی۔ فرمایا ’’اس بات کو اُٹھارہ انیس برس ہوگئے۔ میاں فضل حسین مرحوم نے سکھوں کی درخواست کے بغیر خود ہی گوردوارہ بل پیش کردیا تھا۔۷؎ اس بل نے سکھوں کو متحد کردیااور وہ ایک جداگانہ قوم بن گئے، حالانکہ اس سے پہلے ان کے گوردواروں پر مہنتوں کا قبضہ تھا۔ یہ سب کچھ ہوا مگر اوقاف کا معاملہ جوں کا توں پڑا رہا۔‘‘۸؎ فرمایا ’’میاں صاحب سے بارہا درخواستیں اور التجائیں کی گئیں کہ خدا را گوردوارہ بل پیش نہ کیجیے، مگر انھوں نے مسلمانوں کے انتشار کو سکھوں کے اتحاد پر ترجیح دی۔‘‘۹؎ میں نے اور راجا صاحب نے زیادہ دیر بیٹھنا مناسب نہیں سمجھا۔ خیال تھا کہ ممکن ہے نواب صاحب کو تخلیے کی ضرورت ہو اور وہ حضرت علامہ سے کوئی راز کی بات کہنا چاہتے ہوں، چنانچہ ہم نے اجازت لی۔ شام کو جاوید منزل پہنچا تو خاصی دیر ہوچکی تھی۔ معلوم ہوا راجا صاحب تو ابھی گئے ہیں، چودھری صاحب اور قرشی صاحب البتہ حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ میں نے خواب گاہ میں داخل ہوکر سلام عرض کیا تو یہ دیکھ کر بڑی تشویش ہوئی کہ حضرت علامہ کچھ بے چین سے ہیں۔ م-ش اور علی بخش ہی نہیں ، قرشی صاحب بھی ان کا بدن داب رہے ہیں حضرت علامہ بار بار کروٹ بدلتے۔ کچھ ضیق کی تکلیف تھی، کچھ درد کی۔ اس حالت میں بار بار ’’یااللہ‘‘ کہتے۔ ایک مرتبہ بڑی دل سوزی کے لہجے میں فرمایا ’’مجھے صحت ہو جائے تو جہاد بالسیف کروں۔‘‘ قرشی صاحب نے کہا ’’اللہ تعالیٰ آپ کو صحت دے مگر آپ کو جہاد بالسیف کی کیا ضرورت ہے؟ آپ نے جو کچھ کیا ہے وہ جہاد بالسیف سے کم تو نہیں۔ یہ تو صرف مخالفین کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ آپ نے کچھ نہیں کیا۔ ہم ان کے کہنے کو مطلقاً خاطر میں نہیں لاتے۔ آپ کی بے عملی ہزار عمل سے بہتر ہے۔‘‘ حضرت علامہ نے ’’یا اللہ‘‘ کہا اور خاموش ہوگئے۔ چند منٹ گزر گئے۔ میں بھی ان کا بدن دابنے لگا۔ حضرت علامہ نے پھر سراُٹھایا اور کرب کی سی حالت میں کہنے لگے ’’مولوی کا ذہن پچھلے سو برس سے عقیم چلا آتا ہے۔ دیوبند ہی کو دیکھیے۔ دیوبند بھی انگریزی شہنشاہیت کی غیر ارادی تخلیق ہے۔‘‘ ہمیں تعجب تھا حضرت علامہ کیا کَہ رہے ہیں؟ دیوبند کو انگریزی شہنشاہیت سے کیا نسبت؟ دیوبند سے زیادہ انگریزی تعلیم کی مخالفت کس نے کی؟ دیوبند ہمیشہ برطانوی اقتدار کا مخالف رہا، بلکہ اس کے خلاف عملاً قدم اُٹھایا۔ ہم منتظر تھے کہ حضرت علامہ اپنے ارشادات کی صراحت کس طرح فرماتے ہیں۔ لیکن حضرت علامہ نے دم کشی کے باعث اپنا سر پھر تکیے پر ٹیک دیا، البتہ چند لمحوں کے بعد قدرے سکون ہوا تو ارشاد فرمایا ’’میری بات سے غلط فہمی نہ ہو۔ ملا کا ذہن فی الواقع عقیم ہے اور پچھلی ایک صدی کی تاریخ اس اَمر کی شاہد کہ ملا غور و فکر سے محروم ہے۔ ہم نے عرض کیا ’’ہمیں اسلامی ہند کے زوال علم سے انکار نہیں، لیکن دیوبند کا وجود کیا مستثنیات میں سے نہیں ہے؟ دیوبند کبھی غلامی پر راضی نہیں ہوا۔حضرت شیخ الہند کا تعلق دیوبند سے تھا۔ مولانا حسین احمد بھی دیوبند ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ پچھلی جنگ عظیم میں انھوں نے انگریزی حکومت کے ہاتھوں کیا کچھ سختیاں برداشت نہیں کیں۔ اس وقت بھی وہ جو کچھ کررہے ہیں انگریزوں کی مخالفت ہی میں کررہے ہیں۔ رہے بانی دیوبند مولانا محمد قاسم، سو وہ ایک بہت بڑی اصلاحی تحریک لے کر اُٹھے تھے۔ یہ دوسری بات ہے کہ قوم اور وطن کے بارے میں دیوبند کی طرف سے اب جن خیالات کا اظہار ہورہا ہے مصالح اُمت کے منافی ہیں، لیکن یہ خیالات غالباً سارے دیوبند کے نہیں ہیں۔ حضرت علامہ سانس کی تکلیف کے باعث مسلسل گفتگو نہیں کرسکتے تھے اور ہم بھی نہیں چاہتے تھے کہ گفتگو فرمائیں، مبادا ان کی تکلیف بڑھ جائے۔ لیکن اس کے باوجود انھوں نے رُک رُک کر فرمایا ’’ملا کا ذہن یوں عقیم ہے کہ صدیوں کی فرسودہ اور لاطائل بحثوں میں اُلجھ کر اس کی فکری صلاحیتیں ختم ہوچکی ہیں۔ وہ نہیں سمجھتا کہ اسے جن عقاید پر سختی سے اصرار ہے اسلام نے ان کا رشتہ زندگی سے کس طرح جوڑا، ان سے فی الحقیقت کیا مقصود ہے۔ حضرت علامہ یہ فرما رہے تھے اور میرا ذہن ضرب کلیم کے ان اشعار کی طرف منتقل ہورہا تھا جن میں انھوں نے ملا و صوفی کے زوال علم و عمل پر اظہار افسوس کیا ہے۔۱۰؎ چودھری صاحب اور قرشی صاحب معلوم نہیں کیا کَہ رہے تھے کہ حضرت علامہ نے فرمایا ’’مولانا محمد قاسم۱۱؎ کے نام سرسیّد کا ایک خط ہے جس میں وہ اپنے عقاید فہرست وار بیان کرتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ ان میں کون سی بات ہے جس کی بنا پر علماے سہارن پور انھیں کافر ٹھہراتے ہیں۔‘‘۱۲؎ دم کشی کی تکلیف تھی۔ ہم خاموش بیٹھے حضرت علامہ کے ارشادات سن رہے تھے۔ ان کی نقاہت اور اضمحلال کی یہ کیفیت تھی کہ بمشکل ایک جملہ ادا کرتے۔ سانس پھول رہا تھا، چہرہ زرد ہورہا تھا، ہماری تشویش بڑھ رہی تھی کہ یوں رُک رُک کر بات کرنے میں ان کے قلب پر جو زور پڑتا ہے اس سے کوئی تکلیف نہ ہوجائے۔ انھوں نے پھر فرمایا ’’یہاں بحث سرسیّد کے معتقدات سے نہیں۔ بحث اس اَمر سے ہے کہ اسلام اور کفر کا مابہ الامتیاز کیا ہے؟۱۳؎ اسلام جو کچھ بھی ہے اپنی جگہ پر واضح ہے۔ اس میں کوئی اُلجھاؤ ہے، نہ اُیچ پیچ کہ ہم اسلام اور کفر میں فرق نہ کرسکیں، یا اس باب میں کسی مخصوص تنظیم کا رُخ کریں۔‘‘ فرمایا ’’علماے سہارن پور نے یہ نہیں سوچا کہ سرسیّد نے قرآن مجید کی تفسیر لکھی، تہذیب الاخلاق نکالا، علی گڑھ کالج قائم کیا یا مسائل الٰہیات پر قلم اُٹھایا تو اس سے ان کا مدعا کیا تھا: یہی کہ مسلمانوں کو اپنی وحدت کا شعور ہو۔ وہ ایک قوم ہیں۔ لہٰذا بحیثیت ایک قوم انھیں سمجھ لینا چاہیے کہ مغرب کے سیاسی معاشی استیلا یا علوم و فنون میں ان کے اجتہادات اور اختراعات نے ہمارے لیے کیا مسائل پیدا کردیے ہیں۔ وہ اعتماد رکھیں کہ مغربی تہذیب و تمدن اور علم و حکمت کی جو رَو انگریزی تسلط کے ساتھ آگئی ہے۔ ڈرنے کی چیز نہیں ہے۔ ہم اس سے استفادہ کرسکتے ہیں اور کرنا چاہیے۔ اسلامی عقاید کو اس سے کوئی خطرہ نہیں۔‘‘ قرشی صاحب کچھ کہنا چاہتے تھے، شاید اس خیال سے کہ حضرت علامہ کا ذہن کسی دوسری طرف منتقل ہوجائے، وہ آرام سے لیٹے رہیں اور ہم ان کی تفریح طبع کے لیے کوئی مناسب موضوع چھیڑیں کہ انھوں نے فرمایا ’’میں تسلیم کرتا ہوں کہ سرسیّد کے خیالات اور ان خیالات کے ماتحت انھوں نے جو اقدامات کیے وہ تنقید سے بالاتر نہیں۔ ان میں گفتگو کی گنجایش ہے۔ لیکن یہ اقدامات ضروری تھے۔ حالات کا تقاضا تھا کہ ایسا کوئی اقدام کیا جاتا جس سے مسلمانوں کی توجہ وقت کے تقاضوں اور مستقبل کی طرف منعطف ہوتی۔ سرسیّد کی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے یہ اقدام کیا۔ یہ اقدام بہرحال ضروری تھا۔ یہی بات ہے جو ان کے نکتہ چینیوں کی سمجھ میں نہیں آتی۔‘‘ حضرت علامہ کے اس ارشاد پر معلوم نہیں میری زبان سے کیسے نکل گیا ’’اور دیوبند؟‘‘ ارشاد ہوا ’’دیوبند بھی نہیں سمجھا کہ سرسیّد نے ایک نیا دارالعلوم قائم کیا تو کیوں؟ یہی وجہ ہے کہ علی گڑھ اور دیوبند میں تعاون کی کوئی صورت پیدا ہوئی، نہ مفاہمت کی۔ دونوں ایک دوسرے سے دور ہٹتے گئے۔ ایک نے قدامت، دوسرے نے تجدد کا سہارا لیا۔ مگر یہ جو کچھ ہوا ٹھیک نہیں ہوا۔ اگر علی گڑھ اور دیوبند ایک دوسرے کو سمجھ لیتے تو ہمارے ذہن میں دین کا تصور اور زیادہ راسخ ہوجاتا۔ ہم اپنے مسائل کو زیادہ بہتر سمجھتے اور جیسے بھی حالات ہیں ان میں اپنا موقف زیادہ صحت اور یک جہتی سے متعین کرسکتے۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’دیوبند کی نظر بھی تعلیم اور معاشرے پر تھی؟ اس کے مقاصد بھی سیاسی تھے؟‘‘ چودھری صاحب اور قرشی صاحب نہیں چاہتے تھے کہ سلسلۂ گفتگو آگے بڑھے، لیکن مجھے مجبوراً یہ سوال کرنا پڑا۔ میں محسوس کرتا تھا کہ حضرت علامہ کے ارشادات پر خاموشی مناسب نہیں۔ یہ نہ صرف سوئے ادب بلکہ بہت بڑی گستاخی ہوگی کہ حضرت علامہ گفتگو کرنا چاہیں مگر ہم سلسلۂ گفتگو کو آگے نہ بڑھنے دیں۔ ارشاد ہوا ’’قوموں کی زندگی تحریکوں سے ہے۔ تحریکیں ہیں تو قومیں بھی زندہ ہیں۔ وہ زندگی کے تقاضوں کو سمجھتی اور ان کے پیشِ نظر مختلف سمتوں میں قدم اُٹھاتی ہیں۔ یوں ان کے مستقبل کا رُخ متعین ہوجاتا ہے۔ تحریکیں گویا وہ اقدامات ہیں جو زندگی کی پیش رَو حرکت کے باعث ناگزیر ہوجاتے ہیں۔ لیکن تحریک جب ہی تحریک ہے کہ اس سے قوم کی وحدت میں فرق نہ آئے، بلکہ جس انداز سے بھی آگے بڑھے، اس سے حیاتِ ملّی کو تقویت پہنچے۔ افراد سمجھیں کوئی منزل ہے جو ان کے سامنے ہے اور جس کو انھیں طے کرنا ہے۔ کوئی کام ہے جسے سرانجام دینا ہے۔ زندگی یہ نہیں کہ ہم کسی عقیدے یا نظریے پر قناعت کرکے بیٹھ جائیں اور بے عملی کو عمل قرار دیں۔‘‘ ارشاد ہوا ’’مجھے دیوبند پر بحیثیت دیوبند کوئی اعتراض نہیں۔ وہ بھی ایک ذریعہ ہے ماضی سے ہمارے تعلق کا۔ ماضی سے تعلق قائم رہنا ضروری تھا۔ میری پختہ رائے ہے کہ قدامت پسندی قوموں کی زندگی میں ایک تقویت بخش عنصر ہے،۱۴؎ گو تنہا یہ عنصر کافی نہیں۔ قدامت پرستی سے کچھ مقصود ہے تو یہ کہ ہمارا ماضی محفوظ رہے۔ ہم ماضی ہی کو ساتھ لیے آگے بڑھتے ہیں۔ یہ آگے بڑھنا ہی زندگی ہے۔ دیوبند آگے نہیں بڑھا، دیوبند کی حیثیت ایک واقعے کی ہے، تحریک کی نہیں ہے، جیسے علی گڑھ کی۔‘‘۱۵؎ دیوبند سے حضرت علامہ کا ذہن تحریک وہابیت کی طرف منتقل ہوگیا۔ فرمایا ’’سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس مصلح عظیم نے اس تحریک کی ابتدا کی۔ اس کا مقصد تو بجز اس کے کچھ نہیں تھا کہ باب اجتہاد وا ہو اور اُمت تقلید کے بندھنوں سے نجات پائے۔۱۶؎ بعینہٖ رد بدعات و فتن کے سلسلے میں حدیث کا مطالعہ ضروری تھا۔ لہٰذا حدیث کے مطالعے پر زور دیا گیا۔ لیکن ہوا یہ کہ اس تحریک نے بجاے تحریک کے ایک نئے فرقے کی شکل اختیار کرلی۔ یوں عالمِ اسلام کے ملی اور سیاسی استحکام کو بڑا ضعف پہنچا۔۱۷؎ یہی وجہ ہے کہ آلِ سعود کے ہاتھوں یہ تحریک بجاے تحریک اصلاح کے ایک سیاسی اور قبائلی تحریک بن گئی اور نتیجہ یہ کہ سرزمین عرب میں سعودی، شریفی، ترکی اور مصری فوجوں کو ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہونا پڑا۔ اس صورتِ حالات سے دول مغرب بالخصوص برطانیہ نے خوب خوب فائدہ اُٹھایا۔‘‘۱۸؎ ارشاد ہوا ’’یہ صحیح ہے کہ ان واقعات میں بعض سیاسی، اجتماعی اور قبائلی عوامل کا بھی عملی دخل ہے اور یہی عوامل تھے جو بالآخر اس پر غالب آئے تاآنکہ اس تحریک نے بھی ایک وقتی، سیاسی اور مقامی شکل اختیار کرلی، گو اس سے کچھ اچھے نتائج بھی مترتب ہوئے، مثلاً یہی کہ اس سے اصلاح کی ایک صورت پیدا ہوگئی۔۱۹؎ لیکن جہاں تک عالمِ اسلام، بالخصوص سرزمین عرب کا تعلق ہے یہ تحریک نہ تو اس روش تقلید اور فقہی جمود کا ازالہ کرسکی جس کے خلاف اس نے آواز اُٹھائی تھی، نہ اجتہاد اور تفقہ کی وہ روح حرکت میں آئی جس سے ان مسائل کے حل کا کوئی راستہ نکلتا جو اس وقت عالمِ اسلام کو پیش آرہے تھے۔ برعکس اس کے نجد اور حجاز میں جس مذہبی اور سیاسی نزاع کا آغاز ہوا اس سے اقوام مغرب نے جیسا چاہا فائدہ اُٹھایا۔ انھوں نے دولتِ عثمانیہ کے خلاف ایک کے بعد دوسری مشکل پیدا کردی۔ انگریزوں کو موقع ملا کہ عربوں کے یہاں اپنے اثر و رسوخ کے لیے ایک اور راستہ تلاش کریں۔ ظاہر ہے یہ اَمر نہ تو اتحاد اُمت کے لیے مفید تھا، نہ عالمِ اسلام کے استحکام کے لیے۔‘‘ حضرت علامہ ذرا سا رُک گئے۔ دم کشی کی تکلیف کم ہوئی تو فرمایا: ’’حالانکہ کوئی بھی معاملہ ہو، اُمورِ سیاست، یا اُصول و عقاید کی بحث، ضرورت اس اَمر کی تھی کہ عالمِ اسلام کے افتراق و انتشار کو روکا جائے۔۲۰؎ مگر انتشار و افتراق ہی کا سدباب نہیں ہوا۔ برعکس اس کے ایک نئی فرقہ بندی ظہور میں آئی اور حاصل یہ کہ اس تحریک کے داعی پہلے سے بھی زیادہ تقلید اور قدامت پسندی کی نذر ہوگئے۔‘‘۲۱؎ میں نے عرض کیا ’’کیا اس لیے کہ اس تحریک نے جس آزادی اجتہاد پر زور دیا تھا اس کا دائرہ بڑا محدود تھا۔ یہ احتجاج بعض سطحی باتوں سے آگے نہیں بڑھا؟‘‘ فرمایا ’’اسلام ایک وحدت ہے جس میں فرد اور جماعت کو جزو و کل کا سا تعلق ہے۔ یہی نسبت حیاتِ ملّی کے ایک پہلو کو دوسرے سے ہے۔‘‘ فرمایا ’’اسلام کی روح اجتماعی ہے، لہٰذا عالمِ اسلام کا زوال و انحطاط رُک سکتا ہے تو کسی ایسی ہی تحریک سے جو اس پورے کل پر محیط ہو جسے ہم دینِ اسلام سے تعبیر کرتے ہیں، قطعِ نظر اس سے کہ یوں دیکھنے میں اس کی نوعیت سیاسی ہو یا اجتماعی، اخلاقی یا مذہبی یعنی کسی ایک پہلو پر مرکوز۔ ارشاد ہوا ’’گو بحالت موجودہ جو تحریک بھی اُٹھے گی اس کی نوعیت لازماً سیاسی ہوگی۔ بغیر اس کے ناممکن ہے ہماری نشاۃ الثانیہ میں کوئی معنی پیدا ہوں۔ ہم اپنا اختیار و اقتدار کھو بیٹھے ہیں۔ ہمارا شیرازۂ وحدت بکھر چکا ہے۔ ہماری کوئی سیاست نہیں۔ سیاست نام ہے اتحاد و ارتباط کا۔ سیاست عبارت ہے اختیار و اقتدار سے۔ اختیار و اقتدار ہے تو وہ زندگی بھی جس کے ہم آرزو مند ہیں۔‘‘ فرمایا سیاست کو قوم سے وہی نسبت ہے جو جسم سے جان کو۔ سیاست زندگی ہے، سیاست آزادی ہے، اقدام ہے۔ سیاست کے معنی ہیں حیاتِ ملّی کا شعور۔ سیاست سے مدعا ہے اس نصب العین کی جدوجہد جس سے ہمارا مستقبل وابستہ ہے۔‘‘ پھر ذرا سستاکر فرمایا: ’’میں نے کہا ہے ہماری نشاۃ الثانیہ کے لیے جو تحریک بھی اُٹھے گی اس کی نوعیت لازماً سیاسی ہوگی… سیاسی ان معنوں میں کہ ہمیں سب سے پہلے ان حدود و قیود سے نجات حاصل کرنا ہے جو ہمارے فکر و فرہنگ اور علم و عمل پر مسلط ہیں، جنھوں نے ہمارا دل و دماغ شل کر رکھا ہے، جنھوں نے ہمارے ہاتھ پاؤں جکڑ رکھے ہیں۔ بغیر اس کے ناممکن ہے ہم ایک آزاد فضا میں سانس لیں اور بحیثیت ایک قوم پھر زندہ ہوسکیں۔‘‘ ارشاد ہوا: ’’یوں بھی ایک ایسی تحریک کو جس کی روح اجتماعی ہے، یعنی جس نے حیاتِ ملّی کا تمام و کمال احاطہ کررکھا ہے، سیاسی ہی کہا جائے گا… اس لحاظ سے کہ ہمارا جو بھی تصور حیات ہے اس کی عملی ترجمانی ہمارے احساس جماعت کی پختگی، ہماری باہمدگر یک جہتی اور ربط و ضبط ہی میں مضمر ہے۔ یوں ہماری توجہ سب سے پہلے اُمورِ سیاست ہی کی طرف منعطف ہوجاتی ہے، کیونکہ سیاست سے مقصود ہے وجود ملی کا استحکام، اس کا حفظ اور نشوونما۔ لیکن ہماری سیاست ان نسلی اور وطنی یا سیاسی اور معاشی قوتوں کی پیداوار نہیں جن کو آج بناے اجتماع اور قومیت تصور کیا جاتا ہے۔ ہماری سیاست کی روح اخلاقی ہے، یعنی ان مصالح اور مقاصد کی مظہر جن کا تعلق نوعِ انسانی کے مستقبل اور خیر و سعادت سے ہے۔‘‘۲۲؎ فرمایا: ’’تحریک اتحاد اسلامی ایک ایسی ہی تحریک تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اسی تحریک کو صحیح معنوں میں ملی اور اسلامی ٹھہرا سکتے ہیں۔ یہ ہماری نشاۃ الثانیہ کی تحریک تھی جس کی حقیقی روح اور اغراض و مقاصد کو اگرچہ بہت کم لوگ سمجھے، باین ہمہ وہ اپنے مقاصد میں ناکام نہیں رہی۔‘‘۲۳؎ حضرت علامہ رُک گئے۔ تھوڑی دیر کے لیے تکیوں پر سر ٹیک دیا۔ پھر سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا ’’اس تحریک کا بہ نگاہ غائر مطالعہ ضروری ہے۔ اہلِ یورپ کی تحریروں نے اس پر ایک پردہ سا ڈال رکھا ہے۔‘‘ ارشاد ہوا: ’’لیکن ایک ایسی تحریک جو محض سیاسی ہے، یعنی آج کل کی اصطلاح میں سیاسی، اس سے اتحاد ملت کا راستہ کھل سکتا ہے، نہ اجزائے ملت کی شیرازہ بندی کا امکان ہے۔ لہٰذا ایک طرح سے دیکھا جائے، یعنی ان مثبت تصورات کے اعتبار سے جو بحیثیت ایک نظام حیات اسلام کے سامنے ہیں تو اس قسم کی تحریکوں کی نوعیت بڑی حد تک سلبی ہوگی۔‘‘ فرمایا: ’’لیکن اگر کسی تحریک کی نوعیت محض فقہی ہے، یا اخلاقی اور اصلاحی، یا اس کا رُخ ان معنوں میں سیاست کی طرف ہے کہ اس سے کسی خطرے کی پیش بندی مقصود ہے جو کسی پہلو سے ملت کو درپیش ہے تو اس کی ضرورت اور مصلحت سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اس کی اساس خالصاً اسلامی ہو، یعنی اس اُصول پر مبنی جو ہماری حیاتِ ملّی کا صورت گر ہے۔ بعینہٖ جیسے ایک طبیب حاذق کسی معمولی سے معمولی مرض کا علاج بھی کرتا ہے تو پورے جسم کی صحت اور حفاظت کی رعایت سے۔‘‘ پھر فرمایا: ’’لیکن یہی بات ہے جسے اکثر نظر انداز کردیا جاتا ہے اور نتیجہ یہ کہ ہر اصلاحی اخلاقی تحریک کسی نہ کسی فرقہ بندی کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ عالمِ اسلام میں اکثر ایسا ہوا اور اب بھی ہورہا ہے۔ یہ طرزِ عمل اتحاد اُمت کے منافی ہے۔ اس سے اُمت کے احیا کی کوئی صورت پیدا ہوتی ہے، نہ ان ذمہ داریوں میں پورا اترنے کی جس کے لیے اس کی تشکیل ہوئی۔‘‘ حضرت علامہ یہ فرما رہے تھے اور مجھ پر یہ حقیقت واضح ہورہی تھی کہ تحریک، بشرطیکہ اس میں جزو کا رشتہ کل، یعنی فرع کا اصل سے قائم رہے زندگی ہے۔ اس کا تقاضا ہے عمل اور اقدام۔ روح اتحاد و ارتباط، تعاون اور یکجہتی۔ اس کی نگاہیں مستقبل پر ہوں گی۔ برعکس اس کے فرقہ بندی جمود ہے، بلکہ افتراق و تشتت، انقطاع و انفصال، یا دوسرے لفظوں میں جزو کو کل اور فرع کو اصل کا مترادف سمجھتے ہوئے کسی ایک پر اس حد تک اصرار کہ اس سے کل اور اصل کا تصور ہی باطل ہو جائے۔ فرقہ بندی میں ماضی کی جگہ تو ہے، نہیں ہے تو حال اور مستقل کی۔ میں یہ سوچ رہا تھا اور حضرت علامہ بھی جو گفتگو کرتے کرتے تھک گئے تھے تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوگئے۔ میں شاید کوئی سوال کرتا کہ انھوں نے فرمایا: ’’یہ محض انگریز دشمنی کی تحریک کوئی سیاسی تحریک بھی نہیں ہے۔ یہ محض ایک احتجاج ہے ، یا یوں کہیے کہ انگریزوں کی اسلام دشمنی کے خلاف غم و غصے کا اظہار، یہ غم و غصہ نہایت ضروری ہے بشرطیکہ جو علما محض انگریز دشمنی میں کانگریس کا ساتھ دے رہے ہیں اس حقیقت کو سمجھ لیں کہ ہندوستان کی تحریک آزادی اور برطانوی شہنشاہیت میں جو تصادم رونما ہے اس کی سیاسی اور آئینی حیثیت کیا ہے۔ وہ نہیں سمجھتے کہ یہ تصادم کوئی بھی شکل اختیار کرے، آئینی یا غیر آئینی، یعنی اس کی انتہا کسی بات پر ہو، اس میں وہی گروہ کامیاب ہوگا جو اندرونی طور پر مستحکم ہے اور جس کا اپنا کوئی واضح نصب العین ہے۔‘‘ فرمایا: ’’اربابِ دیوبند ہوں، یا علما کی کوئی دوسری جماعت، میرے دل میں ان کے جذبۂ آزادی، ان کی انگریز دشمنی اور دین کے لیے غیرت و حمیت کی بڑی قدر ہے۔ لیکن ان میں سوجھ بوجھ اور سیاسی بصیرت کا فقدان ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ ہندو اربابِ سیاست آزادی اور شہنشاہیت دشمنی کے پردے میں کیا کھیل کھیل رہے ہیں۔ انھیں چاہیے اس حقیقت کی تَہ تک پہنچیں کہ ہندوستان کی آزادی کا مسئلہ آئینی ہی رہے گا۔ اس لیے تقاضائے مصلحت یہی ہے کہ ہم بھی اس میں وہ جگہ پیدا کریں جو ہمارے شایان شان ہے۔ ہمیں اپنی تہذیب و تمدن اور طریقِ زندگی کی حفاظت مقصود ہے۔ کانگریسی خیال علما جس روش پر چل رہے ہیں اس سے کوئی نتیجہ مترتب نہیں ہوگا۔ ان کا انداز فکر سلبی ہے۔‘‘ حضرت علامہ نے حقے کے دو ایک کش لیے۔ ہم بیٹھے ان کے ارشادات سن رہے تھے۔ جی چاہتا تھا حضرت علامہ آرام فرمائیں، لیکن انھوں نے تھوڑی دیر سستاکر پھر فرمایا: ’’البتہ سرسیّد اس نکتے کو خوب سمجھے۔ انھوں نے نہایت صحیح کہا کہ مجھے ایسے آئین سے کوئی دلچسپی نہیں جس میں میرا کوئی حصہ نہیں، یا اگر کہنے کو ہے بھی تو اپنا حق منوا سکوں نہ اسے چھننے سے روک سکوں۔۲۴؎ اربابِ دیوبند اگر ماضی ہی پر نظرڈالیں تو ان کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہوگا کہ کانگریس نے آج سے پچیس سال پہلے جس آئینی جدوجہد کی ابتدا کی تھی، آزادی ہند کا مطالبہ اسی جدوجہد کی مرحلہ بہ مرحلہ کامیابی کی آخری شکل ہے۔ لیکن اس کی روح اور اساس وہی ہے جس کے پیشِ نظر سرسیّد نے ہمیں مشورہ دیا تھا کہ ہم کانگریس سے الگ رہیں۔ کانگریس میں شرکت کا مطلب یہ ہوتا کہ ہم نے اس فرضی اور خیالی، یعنی ہندوستانی قومیت کا وجود تسلیم کرلیا ہے جو دراصل ہندو قومیت ہی کا ایک دوسرا نام ہے۔ ہندوستانی قومیت کا اقرار اُمت کے جداگانہ وجود کا انکار ہے۔‘‘ ارشاد ہوا: ’’یہ سب حقائق اس وقت دبے دبے تھے، لیکن جیسے جیسے اس لادین سیاست کے خدوخال اُبھرنے لگے جس کی ابتدا انگریزی حکومت نے محض اپنے مفاد کے پیشِ نظر، یا اپنے مخصوص آئین سیاست سے مجبور ہوتے ہوئے کی یہ حقائق بھی رفتہ رفتہ منظر عام پر آتے گئے اور اب تمام و کمال ہمارے سامنے ہیں۔ ہمیں ایک فیصلہ کن مرحلہ درپیش ہے۔ ہمیں طے کرنا ہے کہ ہم جغرافی قومیت کا اُصول تسلیم کرلیں، یا جیسا کہ اسلام کا تقاضا ہے اپنا ملی اور سیاسی وجود قائم رکھیں۔ جغرافی قومیت میں اسلام کی حیثیت محض ایک نظام اخلاق کی رہ جائے گی، جس کی انتہا بہت ممکن ہے لادینی پر ہو۔‘‘ ارشاد ہوا: ’’یا پھر مسلمان ہندو اکثریت سے دب کر رہ جائیں گے، یعنی ایک غلامی سے نکل کر دوسری غلامی اختیار کرلیں گے۔‘‘ چودھری صاحب شاید کچھ کہنا چاہتے تھے۔ انھوں نے سرسیّد کا نام لیا تو حضرت علامہ نے قدرے سکوت کے بعد فرمایا: ’’سرسیّد کی رائے نہایت صائب تھی۔ سرسیّد نے خوب سمجھ لیا تھا کہ ہندوستان کا سیاسی مسئلہ کیا ہے۔ سرسیّد کو علما نے کیا کچھ نہیں کہا: کافر، ملحد کرسٹان۔ لیکن سرسیّد کا کتنا بڑا احسان ہے کہ انھوں نے اس خطرے کو بھانپ لیا جو بحیثیت ایک قوم مسلمانوں کو درپیش تھا۔ انھوںنے مسلمانوں کی جداگانہ قومیت پر زور دیا۔ وہ جب تعلیم پر زور دیتے، تہذیب و تمدن میں آگے بڑھنے کی تاکید کرتے جب بھی ان کا کہنا یہی تھا کہ ہم اپنا جداگانہ ملی وجود ہر حالت میں قائم رکھیں۔‘‘ ارشاد ہوا: ’’یہی وجہ ہے کہ علی گڑھ کی بدولت ایک عام بیداری پیدا ہوئی۲۴؎ اور قوم کے قوائے علم و عمل حرکت میں آئے۔ یہ گویا ہماری نشاۃ الثانیہ ہی کی ایک تحریک تھی۔‘‘۲۵؎ ارشاد ہوا: ’’دیوبند ایک ضرورت تھی۔ اس سے مقصود تھا ایک روایت کا تسلسل… وہ روایت جس سے ہماری تعلیم کا رشتہ ماضی سے قائم ہے۔ یہ ضرورت پوری ہوئی… اور یوں بھی اس کا پورا ہونا ضروری تھا… لیکن دیوبند کو چاہیے تھا اسی روش پر قائم رہتا، سیاست کے چکر میں نہ آتا۔ دیوبند کدھر جارہا ہے۔ مولانا حسین احمد یہ کیا کَہ رہے ہیں کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔‘‘ حضرت علامہ نے یہ فرمایا تو وہ جو انھوں نے کہا تھا کہ دیوبند بھی انگریزی حکومت کی غیر ارادی تخلیق ہے میری سمجھ میں آگیا، حالانکہ مجھے تعجب تھا کہ دیوبند، جو انگریزی اقتدار پر کبھی راضی نہ ہوا، جس کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ جیسے بھی حالات ہوں انگریزی حکومت کے خلاف کوئی نہ کوئی اقدام ہوتا رہے۲۶؎ اسے انگریزی حکومت کی کسی تخلیق سے ارادی ہو یا غیر ارادی کیا تعلق۔ علی گڑھ بھی تو انگریزی حکومت کی ارادی تخلیق نہیں تھا۔ پھر آخر دونوں میں فرق کیاہے؟ لہٰذا میں کچھ سمجھا تو یہ کہ حکومت ایک فن ہے اور بحیثیت ایک فن اس کا تقاضا یہ کہ حاکم محکوم کے ہر قول و فعل پر نظر رکھے، اس کے ہر اقدام کا باحتیاط جائزہ لے، اس کے نفع و نقصان کو سمجھے، اگر کسی اقدام سے فائدے کی امید ہے تو اس کی ہمت افزائی کرے، نقصان کا احتمال ہے تو روک دے۔ یہ جہد للحیات کا سادہ سا اُصول ہے اور ہر فرد اور جماعت کا دستور العمل، خواہ اس کی نوعیت کچھ بھی ہو۔ سیاسی یا غیر سیاسی، حاکمانہ یا محکومانہ۔ انگریز تاجروں کی حیثیت سے ہندوستان آئے۔ اہلِ ہند نے خود انھیں اپنے معاملات میں شریک کیا۔ یوں انھیں موقع ملا کہ رفتہ رفتہ اس ملک پر قابض ہو جائیں۔ پھر باوجود سلطنت مغلیہ کے زوال و انتشار کے انھوں نے یہ ملک مسلمانوں سے چھینا تھا۔ مسلمانوں کے لسانی اور تہذیبی غلبے کو وہ اپنے لیے ایک خطرہ تصور کرتے تھے۔ لہٰذا انھوں نے بڑی تن دہی سے اُردو کو فروغ دیا تاکہ مسلمانوں کا رشتہ فارسی اور عربی سے کٹ جائے اور وہ اپنے علمی اور تہذیبی ورثے سے محروم ہوجائیں۔ مگر پھر اسی اُردو سے جب مسلمانوں کے شعور ملی کو تقویت پہنچی اور وہ ان کی قومی زبان بن گئی تو یہ اَمر طبع حکومت کو ناگوار گزرا اور اب اس نے اُردو کے مقابلے میں ہندی کی حمایت کرنا شروع کردی۔ بعینہٖ ۱۸۵۷ء کے ہنگامۂ خونین کے بعد جب انگریزی حکومت نے جی بھر کے مسلمانوں کو تباہ و برباد کرلیا تو اس کے باوجود سرسیّد کی تحریک اور قیادت کا خیرمقدم کیا۔ کچھ اپنی عزت اور وقار کے پیشِ نظر کہ وہ ایک اعلیٰ اُصول جہانبانی لے کر آئے ہیں، کچھ مظلوموں کی تالیف قلب کی غرض سے، کچھ سرحد کے اس پار کی سیاست سے انھیں جو خطرہ تھا اس کے سدباب کی خاطر اور کچھ اس خیال سے کہ ہندو اکثریت کا توڑ پیدا ہوجائے کیونکہ یہ اکثریت سیاسی معاشی ہر اعتبار سے مضبوط ہورہی تھی۔ گویا انگریزی حکومت نے علی گڑھ کی حمایت کی تو مصلحتاً۔ دیوبند کی مخالفت نہیں کی تو وہ بھی مصلحتاً۔ علی گڑھ کی حصول تعاون کے لیے اور دیوبند کی اس لیے کہ علما کا ذہن سیاست سے ہٹ کر دینیات پر مرتکز ہوجائے۔ برعکس اس کے ہم اپنے نقطۂ نظر سے دیکھیں تو علی گڑھ بھی ایک ضرورت پوری کررہا تھا اور دیوبند بھی، گو انھیں بلاوجہ ایک دوسرے کا حریف ٹھہرایا گیا۔ دیوبند کے خلاف خواہ مخواہ ایک دینی محاذ قائم کیا گیا۔ بعینہٖ ’نیچریت‘ اور وفاداری کی اس رَو کو جسے علی گڑھ سے نسبت دی جاتی تھی اگرچہ علی گڑھ ہی نے ختم کردیا، پھر بھی دیر تک خیال رہا کہ یہی دو باتیں علی گڑھ کا طرۂ امتیاز ہیں۔ یہاں یہ نکتہ بھی قابلِ غور ہے کہ اگرچہ انگریزی حکومت کو دینی مدرسوں سے ہمیشہ بدگمانی رہی پھر بھی اس نے ان سے تعرض نہیں کیا تاکہ مسلمانوں میں ایک اختلافی عنصر موجود رہے اور بوقت ضرورت اس سے فائدہ اُٹھایا جاسکے۔ اس کی ایک دوسری سبق آموز مثال ’قادیانی تحریک‘ ہے، جو از خود مسلمانوں میں پیدا ہوئی، لیکن جب اس نے بالارادہ حکومت کی طرف قدم بڑھایا اور سرکار انگلشیہ کی مدح و توصیف کو ایک طرح سے اپنا مذہبی فریضہ ٹھہرایا تو حکومت نے بھی اس کی ہر طرح سے سرپرستی کی۔ لہٰذا ارادی ہو یا غیرارادی، حکومت کی طرف سے کسی تحریک کی تخلیق کا میں جو مطلب سمجھا یہی کہ کوئی بھی حکومت ہو، وہ محکوموں کے لیے جس قسم کے حالات پیدا کرتی ہے محکوموں کی جانب سے بھی اس کا ردعمل مختلف شکلوں میں ہوتا رہتا ہے۔ ان کے اندر بھی کئی ایک تحریکیں سراُٹھاتی ہیں، کچھ حکومت کے اشارے سے، کچھ محض اس کی خوشنودی کے لیے گو اس قسم کی تحریکوں کا ذکر ہی بے سود ہے۔ ظاہر ہے حکومت انھیں خاطر میں نہیں لائے گی۔ لیکن وہ کسی ایسی تحریک سے بھی تعرض نہیں کرے گی جس سے محکوموں میں از سر نو زندگی پیدا ہوسکتی ہے، تاآنکہ وہ اس سے تصادم پر نہ اُتر آئے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا وہ اس پر نظر رکھتے ہوئے بہ احتیاط اسے آگے بڑھنے کا موقع دے گی۔ کچھ یہ خیالات تھے جو حضرت علامہ کے ارشاد سے میرے دل میں پیدا ہوئے۔ یہ انگریزی حکومت تھی جس کے خلاف مسلمانوں کا رد عمل علی گڑھ اور دیوبند کی شکل میں ہوا۔ انگریزی حکومت نے جو حالات پیدا کیے اور ان سے اسلامی سیاست کا رُخ جس طرح متعین ہوا اس میں علی گڑھ کی توجہ ہمارے وجود ملی کے تحفظ پر رہی۔ دیوبند کی انگریزی شہنشاہیت کی مزاحمت پر۔ یوں عارضی طور پر ان کے راستے ایک دوسرے سے مختلف ہوگئے۔ حضرت علامہ لیٹ گئے۔ قرشی صاحب ان کے ہاتھ سہلانے لگے۔ رحما اور دیوان علی پاؤں داب رہے تھے۔ ہمارے ذہن میں بھی ایک کے بعد دوسرا سوال پیدا ہورہا تھا۔ جی چاہتا تھا حضرت علامہ سے گفتگو کیے جائیں، ان کے ارشادات سے مستفیض ہوں، لیکن مصلحت یہی تھی کہ خاموشی اختیار کی جائے اور حضرت علامہ زحمت گفتگو نہ فرمائیں، آرام کریں۔ علی بخش چائے لے آیا۔ چائے کا دور شروع ہوا تو حضرت علامہ کے ارشادات کی رعایت سے سنی، شیعہ، وہابی اور قادیانی فرقہ بندیوں پر تبصرہ ہونے لگا۔ حضرت علامہ نے فرمایا: ’’مسلمانوں کے لیے اس وقت دو خطرے ہیں، ایک جغرافی قومیت، دوسرا وحدت اُمت کی نفی۔ پہلا خطرہ مغرب کے الحاد پرور خیالات، مغربی تہذیب و تمدن کے اثر و نفوذ اور نئی تعلیم کا پیداکردہ ہے، جسے کانگریس کی لادین سیاست طرح طرح سے ہوا دے رہی ہے اور جس کا بعض علما انگریز دشمنی کے فریب میں نادانستہ خیر مقدم کررہے ہیں۔ دوسرا قادیانیت کی طرف سے ہے۔‘‘ ارشاد ہوا: ’’ایک کی اساس لامذہبیت ہے، دوسرے کی مذہب۔ قادیانیت اُمت سے کٹ چکی ہے جس کا شاید اسے خود بھی شعور نہیں، اور ہے بھی تو بابیت اور بہائیت کے پیشِ نظر اس کے نزدیک مصلحت اسی میں ہے کہ اُمت سے اپنا رشتہ قائم رکھے۔‘‘ پھر فرمایا: ’’فرض کیجیے قادیانیت کی سوادِ اعظم سے علیحدگی اُمت کی سیاسی اجتماعی نصب العین سے بے خبری کا نتیجہ ہے، یعنی بطور ایک نظام اجتماع و عمران اسے اسلام کے ماضی و حال کا کوئی فہم ہے، نہ مستقبل کا۔ اس کی مثال ایک انتہائی فرقہ بندی کی ہے۔ جب بھی اسلامی تعلیمات کے بارے میں اس کے عقاید ایک عجیب و غریب ملغوبہ ہیں اسرائیلی اور مجوسی تصورات کا، جو بوجوہ طرح طرح کے چور دروازوں سے اسلام میں درآئے ہیں۔‘‘ فرمایا: ’قادیانیت کا دامن بہرحال ان حقائق سے خالی ہے جو اُصول توحید و رسالت میں کئی ایک پہلوؤں سے مضمر ہیں۔‘‘ حضرت علامہ نے یہ فرمایا تو سوال پیدا ہوا کہ ان خطرات کے سدباب کی صورت کیا ہوگی؟ اب ہم آپس باتیں کررہے تھے۔ کبھی کبھی حضرت علامہ سے بھی سوال کرلیتے۔ ہر چند کہ معالجین کا اصرار تھا کہ ان سے حتی الوسع گفتگو نہ کی جائے، لیکن حضرت علامہ کوئی سلسلۂ گفتگو چھیڑیں تو اسی کا جاری رکھنا ضروری ہوجاتا۔ جاری نہ رکھنے کا مطلب ہوتا بے اعتنائی، بلکہ گستاخی، جس کی ظاہر ہے ہم میں سے کسی کو جرأت نہیں ہوسکتی تھی۔ معالجین کا اصرار بیشک اپنی جگہ پر درست تھا کہ حضرت علامہ کو گفتگو سے احتراز کرنا چاہیے، ان کا قلب متاثر ہے، لیکن ہم انھیں گفتگو سے کیسے روک سکتے تھے۔ ان کا بدن مضمحل سہی، دل و دماغ تو مضمحل نہیں تھے۔ وہ زندوں کی طرح جینا چاہتے تھے۔ محض جیے جانا ان کے نزدیک زندگی نہیں تھی۔ وہ ابن سینا کا یہ قول اکثر دہراتے ’’ما عرض حیات می خواہیم، طول حیات نمی خواہیم‘‘۔ یہ دوسری بات ہے کہ ان کا راستہ وہ نہیں تھا جو شیخ الرئیس کا۔ ابن سینا کے سامنے صرف اپنی ذات تھی۔ حضرت علامہ کا دل و دماغ اُمت پر مرکوز تھا۔ انھیں اس کے مستقبل تو کہیں رہا وجود کی فکر تھی۔ وہ خاموش کیسے رہ سکتے تھے۔ خاموشی کا مطلب ہوتا یاس، بے دلی، قوم کے مستقبل سے نامیدی۔ بقول مرزا غالب: زبان اہلِ زبان میں ہے مرگ خاموشی یہ بات بزم میں روشن ہوئی زبانی شمع۲۷؎ حضرت علامہ ہماری باتیں سن رہے تھے۔ دفتعاً محسوس ہوا جیسے ان کا ذہن کسی خیال میں اُلجھ گیا ہے۔ قرشی صاحب کَہ رہے تھے مسلمان صحیح قیادت سے محروم ہیں۔ ارشاد ہوا: ’’ٹھیک ہے۔ قوم کو اس وقت قیادت کی ضرورت ہے ایسی قیادت جس سے اس کے دل و دماغ میں جلا پیدا ہو، جو ان کی علمی اور عملی صلاحیتوں کو بیدار کردے، ورنہ حالات بگڑ جائیں گے۔‘‘ پھر فرمایا: ’’بظاہر حالات بڑے نامساعد ہیں، لیکن ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کوئی نہ کوئی سامان پیدا کردے گا۔‘‘ حضرت علامہ کو دم کشی کی تکلیف تھی۔ تنفس ٹھیک ہوا تو جیسے کوئی بات بتاکید کہی جاتی ہے، ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے فرمایا: ’’سرِدست ایک ہی صورت ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے جناح کے ہاتھ مضبوط کریں، لیگ میں شامل ہوجائیں، ہندوستان کی آزادی کا مسئلہ اب جس طرح حل کیا جارہا ہے اس میں ہمارا متحدہ محاذ ہی انگریزوں اور ہندوؤں کی مخالفانہ کارروائیوں کا واحد جواب ہے۔ بغیر اس کے ہم اپنے مطالبات کیسے منوا سکتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں ان مطالبات سے فرقہ داری کی بو آتی ہے۔ یہ محض پراپیگنڈا ہے۔ ان مطالبات کا تعلق ہمارے قومی وجود کے تحفظ سے ہے۔‘‘ فرمایا ’’متحدہ محاذ لیگ ہی کی سربراہی میں قائم ہوسکتا ہے اور لیگ کامیاب ہوگی تو جناح کے سہارے۔ جناح کے سوا اب کوئی شخص مسلمانوں کی قیادت کا اہل نہیں۔‘‘ بارہ کب کے بج چکے تھے۔ قرشی صاحب نے از راہ احتیاط حضرت علامہ کی نبض دیکھی۔ کہنے لگے ماشاء اللہ آپ کی نبض اچھی ہے۔ اب آپ آرام فرمائیں۔ رات کافی گزر چکی ہے۔ میں صبح سویرے حاضر ہوجاؤں گا۔ پھر علی بخش سے چند کلمات دوا اور غذا کے بارے میں کہے۔ حضرت علامہ نے فرمایا: ’’معلوم ہوتا ہے مجھے نیند آجائے گی۔ میری طبیعت اچھی ہے۔‘‘ انھیں فی الواقع نیند آرہی تھی۔ ہم نے اجازت لی۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱- جن کا ذکر پہلے بھی آچکا ہے۔ ۲- نواب شاہ نواز خاں مرحوم۔ ۳- میاں امیرالدین، رئیس لاہور۔ ۴- حضرت علامہ نے جو کہا بہت خوب تو اس لیے کہ انھیں یہ خبر مل چکی تھی کہ اسمبلی میں لیگ پارٹی قائم ہورہی ہے۔ ۵- کہ صدر کون ہو؟ ۶- اوقاف کے بارے میں۔ بات یہ تھی کہ ایک تو مسجد شہید گنج کے انہدام، دوسرے اسلامی اوقاف کی عام حالت کو دیکھتے ہوئے ملک برکت علی مرحوم نے ایک مسودۂ قانون تیار کیا تھا تاکہ گوردواروں کی طرح اسلامی اوقاف کا انتظام و انصرام بھی مسلمانوں کے سپرد کردیا جائے اور حکومت کو ان سے کوئی تعلق نہ رہے، لیکن یہ مسودۂ قانون اسمبلی میں پیش نہ ہوسکا۔ روایت یہ ہے کہ چوری ہوگیا، بلکہ اس کی نقل پہلے ہی سر سکندر کے پاس پہنچ گئی، لہٰذا انھوں نے بطور پیش بندی اپنی طرف سے ایک بل پیش کردیا۔ شاید کوئی صاحب بل کی چوری کا معاملہ واضح کرسکیں۔ ۷- حکومت کے ایما سے، جو چاہتی تھی کہ سکھوں کی تالیف قلب کی جائے۔ ۸- حالانکہ اسلامی اوقاف بڑی کس مپرسی کی حالت میں تھے اور ضرورت تھی کہ ان کا انتظام قوم کے ہاتھ میں آتا، لیکن میاں صاحب مرحوم تو حکومت کے اشارے پر چل رہے تھے۔ ۹- یہ حضرت علامہ کی میاں صاحب سے مستقلاً شکایت تھی، چنانچہ ایک زمانے میں مشہور ہندو کارٹون ساز شنکر نے اس اَمر کے پیشِ نظر ہندوستان ٹائمز میں ایک کارٹون بھی شائع کیا تھا۔ عنوان تھا: اسلامی اتحاد پر کِس نے ضرب لگائی؟ کارٹون کی صورت یہ تھی کہ اینوز فروٹ سالٹ (Eno's Fruit Salt) کے اشتہار کو سامنے رکھتے ہوئے شنکر نے پنجاب کے مسلمان سیاست دانوں کو ویسے ہی ایک قطار میں کھڑا دکھایا جیسے اس میں چند ایک سپاہیوں کو ان کے خشم آلود افسر کے سامنے دکھایا گیا تھا۔ حضرت علامہ زمین کی طرف جھکے ہوئے اور غصے میں بھرے ایک صندوق کی طرف اشارہ کررہے ہیں جس کا ڈھکنا کھلا ہے کیونکہ اس میں جو چیز تھی چوری ہوچکی ہے۔ اشتہار میں بھی اگر پلٹن کا ایک نہایت درجہ فربہ اندام افسر ہاتھ میں ہنٹر لیے غضبناک ہوکر اینو کے ڈبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھ رہا ہے میرا فروٹ سالٹ کون لے گیا اور قطار میں کھڑے اور سہمے ہوئے سپاہیوں میں سے ایک مسکرا رہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ چوری اس نے کی ہے تو مسلمان سیاست دانوں کی قطار میں بھی ہر کوئی خاموش اور پریشان کھڑا ہے لیکن میاں صاحب مسکرا رہے ہیں اس لیے کہ مسلمانوں کے اتحاد پر ضرب لگائی تو انھوں نے۔ اشتہار کا عنوان تھا: Who has been at my Eno? شنکر کا، کارٹون؟ Who has been at Muslim solidarity ۱۰- کسے خبر کہ سفینے ڈبوچکی کتنے فقیہ و صوفی و ملا کی کہنہ ادارکی ضرب کلیم ۱۱- نانوتوی، بانی مدرسہ دیوبند، ولادت ۱۸۳۲ع بمقام نانوتہ، ضلع سہارن پور، وفات ۱۸۸۰ئ، مولوی مملوک علی اور حضرت شاہ عبدالغنی کے شاگرد، جن سے سرسیّد کو بھی نیاز حاصل تھا۔ مدرسۂ دیوبند کی بنیاد ۱۸۶۷ء میں رکھی گئی۔ ۱۲- دیکھیے مکتوبات سرسیّد، مطبوعہ مجلس ترقی ادب لاہور، ۱۹۵۹ئ، صفحہ ۲۴ تا ۲۷۔ مرتب مکتوبات یعنی شیخ محمد اسماعیل پانی پتی کے نزدیک یہ خط غالباً ۱۸۶۷ء میں لکھا گیا جس کا مفصل جواب مولانا کی تصنیف تصفیۃ العقاید میں موجود ہے۔ یہ خط پیر محمد عارف صاحب کے توسط سے مولانا کو پہنچا۔ سرسیّد اس وقت بنارس میں صدر الصدور تھے۔ سرسیّد نے اپنے پندرہ عقاید فہرست وار بیان کیے ہیں۔ تصفیۃ العقاید میں علاوہ اس کے کہ سیّد صاحب کے معتقدات سے مولانا نے جس طرح بحث کی ہے ان کا خط بھی موجود ہے جو انھوں نے پیر محمد عارف صاحب کو لکھا اور درخواست کی تھی کہ اسے سرسیّد تک پہنچا دیں۔ مولانا نے سرسیّد کا ذکر بڑی محبت اور عزت سے کیا ہے۔ ۱۳- ان معنوں میں کہ اگرچہ اعمال اور عقاید کا احتساب ضروری ہے، فرد اور جماعت دونوں کے لیے، تاکہ ہم ایک دوسرے کو ہر ایسے عقیدے اور ہر ایسے طرزِ عمل پر متنبہ کرسکیں جس سے کفر کا احتمال ہو۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اندریں صورت ہم فی الواقع کفر کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یہ تو گویا افہام و تفہیم کا معاملہ ہے جسے فقہا نے اصطلاحاً بجا طور پر ’’کفر دون کفر‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ حضرت علامہ اس تعصب اور تنگ دلی بلکہ درحقیقت اسلام سے ناواقفیت کی طرف اشارہ کررہے تھے جس کی بنا پر علما کی یہ عادت ہوگئی تھی کہ ذرا ذرا سی بات پر ایک دوسرے کو کافر ٹھہراتے ہیں اور جس کی مذمت میں علامہ شبلی نے کبھی ’’شغل تکفیر‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی تھی۔ خاتمے کا شعر تھا: کرتے ہیں شب و روز مسلمانوں کی تکفیر بیٹھے ہوئے کچھ ہم بھی تو بے کار نہیں ہیں ۱۴- دیکھیے تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، خطبہ اول۔ ۱۵- علی گڑھ ایک مقصد تھا اور وہ یہ کہ جیسے بھی حالات ہیں ان کو دیکھتے ہوئے مسلمان اپنے آپ کو ایک نئے مستقبل کے لیے تیار کریں: سیاسی، اجتماعی، ذہنی، ہر اعتبار سے۔ ۱۶- محمد بن عبدالوہاب نے۔ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، چھٹا خطبہ۔ ۱۷- ایضاً۔ ۱۸- دولتِ عثمانیہ کے خلاف۔ آلِ سعود نے جنوب مشرقی عرب میں خروج کیا تو ان علاقوں میں برطانیہ کو اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کا ایک اور موقع مل گیا۔ اس سلسلے میں دیکھیے نجد میں مسٹر بلنٹ (Blunt) کا سفر۔ ظاہر ہے بلنٹ اور مسزبلنٹ کا نجد سے یہ تعلق خالی از معنی نہیں تھا۔ ۱۹- سرزمین نجد میں اور یوں بھی کہ اس طرح رسوم و بدعات کے خلاف عام احتجاج کی ایک شکل پیدا ہوگئی۔ ۲۰- جس میں یورپ کے سیاسی حلقے اور مستشرقین بھی سرگرم کار رہے اور افسوس یہ ہے کہ بالآخر وہ اپنے مقاصد میں کامیاب بھی ہوگئے۔ عالمِ اسلام کے ذہنی افتراق، ماضی کے غلط تصور اور نسلی اور وطنی تعصبات، حتی کہ وطنی اور جغرافی قومیت ایسی تحریکوں کو انھیں کی ریشہ دوانیوں سے تقویت پہنچی۔ ۲۱- تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، خطبہ چہارم۔ ۲۲- بطور ایک عالمگیر جمعیت بشری کے۔ ۲۳- عام خیال تو یہی ہے کہ سیّد جمال الدین افغانی نے اتحاد (جامعہ) اسلامی (Pan Islamism) کے نام سے جو تحریک اُٹھائی تھی ناکام رہی۔ سطحی نظر سے دیکھا جائے تو یہ خیال ہے بھی ٹھیک۔ عالمِ اسلام نے بجز ایک استثنا (پاکستان) کے ہر کہیں اسلام کے بجاے وطنی تصور قومیت (Territorial Nationalism کو اُصولِ سیاست ٹھہرایا۔ مغربی انداز معاشرت اختیار کرلیا۔ بایں ہمہ یہ تحریک کامیاب رہی۔ اس کی روح تھی اسلام کا تصور سیاست، لہٰذا وحدت اُمت پر اصرار۔ باالفاظ دیگر اُمت کا غیر اسلامی عناصر سے استخلاص، سیاسی، اجتماعی، اخلاقی ہر لحاظ سے۔ اسلامی تہذیب و ثقافت کا احیا اور عالمِ اسلام کی نشاۃ الثانیہ اسلام کے نظام مدنیت کی بنا پر۔ یہ اسی تحریک کا نتیجہ تھا کہ مصر، ایران اور ترکیہ نے استبداد اور مطلق العنانی کے خلاف قدم اُٹھایا۔ ان میں حریت اور آزادی کی روح بیدار ہوئی۔ یہ اس تحریک کے اولین اثرات تھے۔ جدید دنیا میں عالمِ اسلام کو بمقابلۂ مغرب جو مسائل پیش آرہے ہیں… وہ مسائل جن کی نوعیت سیاسی بھی ہے، ذہنی، اخلاقی اور اجتماعی بھی… ان کے خد و خال اب نمایاں ہورہے ہیں بالخصوص اس تصادم کے زیر اثر جو باعتبار تہذیب و تمدن اسلام اور مغربی طرز زندگی میں رونما ہے۔ لہٰذا ہمارا ذہن پھر اس تحریک کی طرف منتقل ہورہا ہے۔ ۲۴- حضرت علامہ گویا سرسیّد کے ان الفاظ کو کہ ’’جس طریق نمایندگی میں میری قوم کے ہاتھ بمقابلہ دوسری قوم کے کم ہوں میرے لیے قابلِ قبول نہیں‘‘ ایک دوسرے انداز میں دہرا رہے تھے۔ ۲۵- ان معنوںمیں کہ سرسیّد نے جس تحریک کی ابتدا کی اور ان کے رفقا نے اسے جس طرح آگے بڑھایا اگرچہ بظاہر حصول تعلیم تک محدود تھی، لیکن یہی تحریک ہے جس سے بالواسطہ یا بلاواسطہ ہماری ساری زندگی متاثر ہوئی، ہمارا ذہن بدلا، خیالات بدلے، حتی کہ مذہب ہو یا اخلاق، سیاست یا معاشرت، ہر پہلو سے ماضی و حال اور مستقبل پر نئے سرے سے غور کیا گیا۔ پھر اس ایک تحریک سے کئی تحریکیں پیدا ہوئیں۔ ایک نیا ادب اور نئی زبان وجود میں آئی، علم و عمل کے راستے کھل گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۸۵۷ء سے قبل کے معاشرے نے ۱۸۵۷ء کے بعد ایک نئی شکل اختیار کرلی، جس میں تبدیلی حکومت کے علاوہ اگرچہ ان عوامل کا بھی دخل ہے جو باہر سے آئے تھے، لیکن جس میں ہم اس کے اندرونی عوامل کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ ۲۶- مثلاً دیوبند کا وہ اقدام جسے انگریزی حکومت نے ’’ریشمی رومال کی سازش‘‘ سے موسوم کیا اور جس کی بنا پر حضرت شیخ الہند، مولانا محمود الحسن اور مولانا حسین احمد کو ماُلٹا میں قید و بند کی سختیاں برداشت کرنا پڑیں۔ دیکھیے مولانا حسین احمد کی تصنیف اسیران ماُلٹا۔ ۲۷- اور جس سے قارئین کا ذہن شاید ان کے اس شعر کی طرف منتقل ہوجائے: بذکر مرگ شبے زندہ داشتن ذوقیست گرت فسانۂ غالب شنیدن است مخسپ اور پھر شاید غالب ہی کی زبان میں حضرت علامہ کی شب زندہ داری سمجھ میں آسکے۔ مرزا نے کہا ہے اور کیا خوب کہا ہے: زدیدہ سود حریفاں کشودن است مبند زدل مراد عزیزاں تپیدن است مخسپ ز…ز…ز سہ شنبہ: ۸؍مارچ علی الصبح حاضر خدمت ہوگیا۔ بفضلہ تعالیٰ حضرت علامہ کی طبیعت بہتر رہی، ورنہ ڈر تھا رات کی گفتگو سے ان کے قلب پر کوئی خراب اثر نہ پڑے۔ قرشی صاحب بھی اسی خیال سے صبح سویرے ہی نبض دیکھ گئے تھے۔ اُمت کو اس وقت ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جس سے اس کے دل و دماغ میں جلا پیدا ہو، اس کے قوائے علم و عمل بیدار ہوں، وہ اپنا راستہ صحت سے متعین کرلے۔ یہ خیالات تھے جو رات بھر میرے ذہن میں رہے اور جن کو لے کر میں حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت علامہ نے جیسے رات کی گفتگو جاری رکھتے ہوئے فرمایا: ’’جمعیۃ العلما کیا کَہ رہی ہے؟ جمعیت العلما کی رائے کہاں تک مولانا حسین احمد کے حق میں ہے؟‘‘۱؎ میں نے عرض کیا: ’’بظاہر تو مولانا حسین احمد کو اس کی پوری تائید حاصل ہے، لیکن در پردہ اس کی خواہش شاید یہی ہے کہ قوم اور وطن کی بحث آگے نہ بڑھے۔ مولانا کے طرف دار صرف بات کو نباہ رہے ہیں۔‘‘ حضرت علامہ خاموش ہوگئے۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد فرمایا: ’’آج کیا خبر ہے؟ کوئی تازہ خبر؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’کوئی خاص خبر نہیں۔ وہی خبریں ہیں جو معمولاً ہوا کرتی ہیں۔‘‘ ارشاد ہوا: ’’لڑائی کب ہوگی؟‘‘ لڑائی کب ہوگی؟ لڑائی! لڑائی! حضرت علامہ روز دریافت فرماتے ہیں لڑائی کب ہوگی؟ جیسے لڑائی قریب آگئی ہے! انھیں ہر روز انتظار رہتا ہے لڑائی کی خبر سنیں۔ دراصل حضرت علامہ اپنی بصیرت کی بنا پر خوب اندازہ کرچکے ہیں کہ اقوام یورپ کا تصادم ناگزیر ہے۔ جنگ ہوگی اور امروز و فردا میں ہوگی۔ وہ سوچتے ہیں کہ جنگ سے جو نسلی اور قومی طوفان اُٹھے گا اس کا اثر ترک و عرب، ایرانیوں اور افغانوں پر کیا پڑے گا، ان مسلمانوں پر جو سرِدست دوسروں کی رعایا ہیں۔ حضرت علامہ کا یہ خیال تو نہیں ہے کہ جنگ کی صورت میں عالمِ اسلام کی نشاۃ الثانیہ ناگزیر ہے، لیکن وہ اتنا ضرور سمجھتے ہیں کہ اگر مسلمانوں نے اتحاد و اتفاق اور فہم و بصیرت سے کام لیا تو اس طرح کی کسی نشاۃ الثانیہ کی ابتدا ناممکن بھی نہیں۔ حضرت علامہ پھر خاموش ہوگئے۔ اتنے میں نیوٹائمز۲؎ آگیا۔ میں نے حضرت علامہ کے ارشاد کے مطابق اس کی موٹی موٹی سرخیاں پڑھ کر سنائیں۔ حضرت علامہ کا کچھ ایسا ہی معمول تھا کہ اگر کسی سرخی میں کوئی بات ہوئی تو دوچار جملے اور سن لیتے ورنہ اخباروں سے انھیں کوئی دل چسپی نہیں تھی اِلّا یہ کہ کوئی سرکاری یا غیر سرکاری بیان، مضمون یا اطلاع ان کی توجہ اپنی طرف منتقل کرلے، مثلاً کوئی ایسا معاملہ جس کا تعلق مسلمانوں کے مستقبل سے ہے، میں نے اخبار ایک طرف رکھ دیا۔ علی بخش چائے لے آیا۔ حضرت علامہ نے کتابوں کے ایک بقچے کی طرف جو پلنگ کے پاس ہی رکھا تھا اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’یہ بقچہ کسی مولوی کی نذر کردو۔‘‘ میں نے عرض کیا ’بہت بہتر۔ پھر دریافت کیا‘ یہ کتابیں کیسی ہیں؟ کیا دینیات سے متعلق ہیں؟ حضرت علامہ نے فرمایا ’’شاہ صاحب۳؎ کے کچھ رسائل ہیں، تصوف میں۔‘‘ پھر فرمایا: ’’غیر ضروری اور لاحاصل۔‘‘۴؎ یہ رسائل چند دنوں سے حضرت علامہ کے مطالعے میں تھے اور انھیں شاہ صاحب کی بعض اور تصنیفات کی بھی طلب تھی۔ میں نے حضرت علامہ کے ان الفاظ ’’غیر ضروری اور لاحاصل‘‘ کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا، کچھ تو اس خیال سے کہ شاہ صاحب نے ان رسائل میں شاید زیادہ تر وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود ہی کی بحث چھیڑی ہے اور کچھ اس لیے کہ حضرت علامہ کی رائے تصوف کے باب میں بنیادی طور پر بدل چکی ہے۔ تصوف کی حقیقت ان کے نزدیک بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ اُصولاً ایک عمل ہے واردات باطن کی تنقید اور تزکیہ کا اور مقصد احکامِ شریعت کا مشاہدہ اعماق حیات میں۔ بعینہٖ جیسے سائنس ایک عمل ہے اس مادی عالم کے متعلق ہمارے محسوسات و مدرکات کی تنقید اور تزکیے کا۔ لہٰذا اس کے سرتاسر خارجی تصور کا۔۵؎ حضرت علامہ نے چائے پی اور خود ہی فرمایا: ’’شاہ صاحب کی شخصیت بڑی عظیم ہے، مگر ان کی حقیقی عظمت کا اظہار حجۃ اللّٰہ البالغہ میں ہوا۔ باقی تصنیفات بھی غنیمت ہیں، لیکن تصوف میں انھوں نے جو کچھ لکھا ہے میں اس کا قائل نہیں۔ مثلاً افادات ہی میں (گویا اس بقچے میں ایک نسخہ افادات کا بھی تھا) کوئی خاص بات نہیں۔‘‘ حضرت علامہ آرام کی طرف مائل تھے۔ میں نے کوئی سوال نہیں کیا۔ شاید ان کی آنکھ لگ گئی تھی۔ پانچ سات منٹ بعد انھوں نے کروٹ لی۔ میں سمجھا شاید گہری نیند سوگئے ہیں، مگر پھر چند لحظوں ہی میں اٹھ کر بیٹھ گئے، حقے کا کش لگایا اور فرمایا: ’’یورپ کے حالات بڑے نازک ہورہے ہیں لڑائی کب ہوگی؟‘‘ میں نے کہا ’’سرِدست تو اس کا کوئی امکان نہیں۔‘‘ ارشاد ہوا ’’دیکھیے!‘‘ حضرت علامہ واقعی آرام کی طرف مائل تھے۔ علی بخش آگیا اور اس نے بدن دابنا شروع کردیا۔ م-ش بھی آگئے۔ میں تھوڑی دیر اور بیٹھا، شاید آدھ گھنٹہ اور۔ دس بج چکے تھے۔ دن بھر فرصت نہ ملی۔ شام کو باوجود کوشش کے دیر سے حاضر خدمت ہوا۔ علی بخش صحن ہی میں مل گیا۔ معلوم ہوا حضرت علامہ کی طبیعت بفضلہ تعالیٰ ٹھیک رہی۔ قرشی صاحب سہ پہر میں ہوگئے تھے۔ اب چودھری صاحب اندر بیٹھے باتیں کررہے ہیں۔ قرشی صاحب بھی آنے والے ہیں۔ میں حضرت علامہ کی خوابگاہ میں داخل ہوا۔ سلام عرض کیا اور پاس بیٹھ گیا خیریت مزاج پوچھی تو فرمایا: ’’الحمدللّٰہ! جب سے تم گئے ہو طبیعت اچھی رہی۔ سانس کی تکلیف ہے، لیکن کم۔‘‘ حضرت علامہ پھر باتوں میں مصروف ہوگئے۔ موضوع سخن یہ تھا اور معلوم نہیں کس نے اور کیسے چھیڑا کہ عجیب بات ہے فطرت انسانی نے ستاروں سے بڑا اثر قبول کیا ہے۔ ایک تو ستاروں کی کثرت اور کثرت بھی ایسی جس کی کوئی انتہا نہیں، اس پر ان کی تابانی اور درخشانی، جسے دیکھ کر انسان کا دل خواہ مخواہ ان کی طرف کھینچتا ہے، پھر ان کی دوری ہے، ان کی ذہن میں نہ آنے والی مسافت اور جسامت، راتوں کی تاریکی میں ان کے ان گنت جھرمٹ۔ انسان جب ان کا مشاہدہ کرتا ہے تو جمال و جلال کی عجیب و غریب کیفیتوں میں کھوجاتا ہے۔ ستاروں نے مسافروں، ملاحوں اور صحرا نشینوں کی رہنمائی کی ہے۔ ستاروں سے راتوں کے اوقات، پہر اور گھڑیاں متعین ہوئیں۔ لوگ سمجھتے ہیں ان کی قسمت ستاروں کے ہاتھ میں ہے۔ اس طرح نجوم، سحر، کہانت اور معلوم نہیں کس کس چیز کی ابتدا ہوئی۔ انسان کے دل میں غیر معمولی باتوں کے لیے ہمیشہ بڑی کشش رہی۔ قدیم مذہب اور فلسفہ بھی اس کمزوری سے مبرا نہیں۔ ستارے ذی روح کرے ہیں! ستاروں کی حرکات نقص سے خالی ہیں! روحیں ستاروں میں قیام کرتی ہیں! یہ اور کتنی باتیں ہیں جن سے فلاسفہ اور اربابِ مذہب کی تحریریں بھری پڑی ہیں۔۶؎ لیکن ان سب میں پر اثر اور معنی خیز بات یہ ہے کہ ستاروں نے بعض افراد کو اپنی طرف کھینچا، انھیں اپنے یہاں آنے کی دعوت دی۔ یا یوں کہیے بعض انسانوں کا خیال اس طرف گیا کہ وہ آسمان کا سفر کریں، ستاروں میں پہنچیں اور ان میں گھوم پھر کر واپس آجائیں۔ ابن عربی ہی کو دیکھیے۔ ان کی شخصیت کیسی عظیم ہے۔ وہ ستاروں میں اپنی سیاحتوں کا حال بیان کرتے نہیں تھکتے۔ ایک کے بعد دوسرے ستارے کا رُخ کرتے ہیں۔ سیاروں میں جاتے ہیں اور وہاں انھیں جو مشاہدات ہوتے ہیں ان کے بیان میں کیا کچھ نہیں کہتے۔۷؎ ابن عربی عجیب و غریب انسان تھے، لیکن اس سے بھی عجیب تر انسان کا یہ جذبہ ہے کہ روح انسانی زمین سے رستگاری حاصل کرلے، عالم بالا کی سیر کرتی پھرے، زمین سے آزاد ہوجائے۔ انسان کو زمین سے آزاد ہونا چاہے۔‘‘۸؎ قرشی صاحب آگئے اور سلسلۂ گفتگو تھوڑی دیر کے لیے منقطع ہوگیا۔ معلوم نہیں ستاروں کی بات کیسے شروع ہوئی تھی اور جیسے شروع ہوئی اس کا جواب بھی مل گیا یا نہیں۔ بہرحال قرشی صاحب نے جب حسبِ معمول حضرت علامہ کا مزاج پوچھتے ہوئے ان کی نبض دیکھی اور پھر گویا بااطمینان شریک محفل ہوگئے تو حضرت علامہ نے اول ان سے شکایت کی کہ انھوں نے آنے میں دیر کیوں کردی۔ پھر مجھ سے فرمایا: ’’کتابوں کا کیا کیا؟‘‘ یعنی شاہ صاحب کے رسائلِ تصوف کا۔ میں نے عرض کیا: ’’ابھی کتابیں میرے پاس ہی رکھی ہیں۔ امروز و فردا میں تعمیل ارشاد ہوجائے گی۔‘‘ ارشاد ہوا: ’’شاہ صاحب کی نگاہیں بڑی دور رَس تھیں۔ ایک ایسے زمانے میں جب حکومت اور عمل داری کی طرح قواے علم و عمل بھی ماؤف ہورہے تھے اور لوگوں کو دلچسپی تھی تو بیشتر چند فرسودہ اور لاطائل بحثوں سے، شاہ صاحب کا سیاسی اور معاش پر قلم اُٹھانا ایک حیرت انگیز اَمر ہے۔ وہ صحیح معنوں میں ہماری نشاۃ الثانیہ کے نقیب ہیں۔‘‘ پھر فرمایا: ’’حجۃ اللّٰہ البالغہ منجملہ ان تصنیفات کے ہے جنھوں نے مسلمانوں کے دل و دماغ کی رہنمائی کی۔‘‘ ارشاد ہوا: ’’ضرورت اس اَمر کی ہے کہ شاہ صاحب نے سیاست اور معاش کے باب میں جن خیالات کا اظہار کیا ان کی ترجمانی دور حاضر کی رعایت سے کی جائے۔‘‘ ہم لوگ حضرت علامہ کے ارشاد سن رہے تھے اور جی چاہتا تھا ان سے ایک نہیں کئی سوال کیے جائیں، لیکن ظاہر ہے ہم ایسا کوئی سوال نہیں کرسکتے تھے جس کے جواب میں حضرت علامہ کو دیر تک گفتگو کرنا پڑے۔ اتنے میں علی بخش چائے لے آیا اور پیالی بناکر حضرت علامہ کی خدمت میں پیش کی۔ ارشاد ہوا: ’’اس ملک میں ہمارا حقیقی اور قریب ترین ماضی شاہ صاحب کا دور ہے۹؎ مؤرخ کا فرض ہے کہ اس کا تجزیہ اسلامی نقطۂ نظر سے کرے۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’اس دور کی تاریخ تو پردۂ خفا میں ہے۔ معلوم ہوتا ہے جیسے ۱۷۰۷ء سے ۱۸۵۷ء تک یہاں کوئی واقعہ ہی پیش نہیں آیا اور آیا تو یہی نادر شاہ کا حملہ، پلاسی کی لڑائی یا ایک گورنر جنرل کے بعد دوسرے گورنر جنرل کی آمد۔‘‘ حضرت علامہ نے فرمایا: ’’چودھری صاحب نے سکھ عہد سے متعلق بہت کافی معلومات جمع کررکھی ہیں اور یہ معلومات نہایت اہم ہیں۔‘‘ ہم نے کہا ’’چودھری صاحب موقع ملے تو ان معلومات کو ترتیب دے دیجیے۔‘‘ میں نے طلوع اسلام کا اجرا کیا تو جب بھی حضرت علامہ نے فرمایا تھا کہ تاریخ کے اس دور پر بالخصوص توجہ کی جائے، اس لیے کہ پنجاب کی زرعی معیشت میں بہت سی ایسی تبدیلیاں جن سے مسلمانوں کے حقوق غصب ہوگئے، سکھوں ہی کے عہد میں ہوئیں اور انھیں قائم رکھا گیا تو سکھوں ہی کی استمالت اور تالیفِ قلب کے لیے۔ چائے آگئی تھی۔ چائے کا دور ختم ہوا۔ حضرت علامہ تکیوں سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ علی بخش ان کے شانے دابنے لگا۔ پھر شاید قرشی صاحب نے کہا ’’حجۃ اللّٰہ البالغہ اور احیاء العلوم، یا اس قسم کی دوسری تصنیفات کا مطالعہ تو بڑی بات ہے، جن کے متعلق آپ کا ارشاد ہے کہ اسلامی دل و دماغ کی صورت گر ہیں، لوگ تو ان کے نام سے بھی واقف نہیں۔‘‘ ارشاد ہوا ’’یہ دور علم و حکمت کے زوال کا ہے۔‘‘ پھر فرمایا: ’’احیا العلوم بڑی چیز ہے۔ اس کی علمی اور فلسفیانہ قدر و قیمت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ ابھی تک نہیں کیا گیا۔ غزالی بہت بڑا انسان تھا۔‘‘ ابن رشد کا ذکر آگیا۔ شاید یوں کہ چودھری صاحب، یا غالباً راجا صاحب نے کہا ہمارے ذہن میں ان بزرگوں کا تصور کچھ ویسے ہی قائم کردیا گیا ہے جیسے عام طور پر علماے دین کا، حالانکہ انھیں علوم و فنون میں بڑی دسترس حاصل تھی۔ اس پر قرشی صاحب نے کہا ’ابن رشد ہی کو دیکھیے، وہ طبیب بھی تھا۔‘‘ فرمایا: ’’ابن رشد ارسطو کا شاگرد ہے۔ وہ ارسطو سے خوب واقف تھا، لیکن اس کی شخصیت عظمت سے خالی ہے۔۱۰؎ غزالی کی شخصیت اس کے مقابلے میں بڑی عظیم ہے۔ دراصل ابن رشد کی عظمت کا راز ہے اس کی طبّی اور فقہی حیثیت۔۱۱؎ فلسفہ میں ارسطو نے اسے اُبھرنے نہیں دیا،۱۲؎ گو یورپ اس سے متاثر ہوا۔ پاڈوآ۱۳؎ ابن رشد کی تعلیم کا خاص مرکز تھا۔ فرمایا ’’احیا کی تصنیف سے فکر انسانی کی تاریخ میں ایک نئے باب کا افتتاح ہوتا ہے۔ تہافت کو اس کا مقدمہ کہیے۔۱۴؎ وہ فکر انسانی کا ایک اچھوتا مظہر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غزالی کے مقاصد مذہبی تھے، لیکن فکر کی تنقید میں انھوں نے جو منہاج وضع کیا اس کے لیے فلسفہ ہمیشہ ان کا مرہونِ منت رہے گا۔ یہ منہاج وضع نہ ہوتا تو عقل و فکر کا قدم آگے نہ بڑھتا۔ غزالی کا مذہبی درجہ بھی بڑا بلند ہے، لیکن فلسفیانہ حیثیت سے بھی ہم ان کی ذہانت اور طباعی سے انکار نہیں کرسکتے۔‘‘ قرشی صاحب نے کہا ’’مولانا شبلی کی رائے ہے کہ اگر احیا کا ترجمہ کسی مغربی زبان میں ہوگیا ہوتا تو لوگ کہتے دیکارت۱۵؎ کے افکار غزالی سے ماخوذ ہیں بلکہ شاید احیا کا سرقہ۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’جدید فلسفہ کی ابتدا دیکارت سے کی جاتی ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ابتدا جس منہاج سے ہوئی وہ مسلمانوں کا وضع کردہ ہے۔‘‘ فرمایا ’’یہ ٹھیک ہے، اس لیے کہ فلسفیانہ اعتبار سے دیکھا جائے تو دیکارت کے مباحث وہی ہیں جو غزالی کے، لیکن ہوسکتا ہے غزالی کے یہ مباحث کسی دوسرے ذریعے سے، یعنی بالواسطہ یورپ میں پہنچے ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس نے ایک طرح سے تہافت ہی کا سرقہ کیا ہو۔ اسلامی افکار کے نفوذ و اشاعت میں ابھی ہماری معلومات بڑی محدود ہیں۔‘‘۱۶؎ ئ…ئ…ء حواشی ۱- جمعیت العلماے ہند کی تاسیس تحریکِ خلافت کے دوران میں ہوئی، مگر اس نے رفتہ رفتہ کانگریس کی حمایت کو اپنا شعار بنالیا۔ اس کا سارا زور آزادی پر تھا، لیکن آزادی کے سلسلے میں جو مسائل پیدا ہورہے تھے ان پر از روے اسلام اس نے کبھی گفتگو نہیں کی، بلکہ اس قسم کی گفتگو سے ہمیشہ احتراز کیا، یا سوئے ظن سے کام لیا اور یہ کہا کہ ایسی گفتگوؤں سے برطانوی شہنشاہیت کے مفاد کو تقویت پہنچے گی۔ ۲- New Times، ایک طرح سے ملک برکت علی مرحوم کا اخبار۔ ۳- حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ۔ ۴- شاید اس لیے کہ شاہ صاحب نے ابن عربی اور حضرت مجدد الف ثانی کے تصورات میں تطبیق پیدا کرنے کی ناکام کوشش کی ہے، یا اس لیے کہ وحدۃ الوجود کا خیال ان کے تصورات پر حاوی ہے۔ ۵- تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، خطبۂ ہفتم پس تصوف چیست اے والا صفات شرع را دیدن باعماق حیات بالفاظِ دیگر تصوف ’تجربہ‘ ہے، تفکر نہیں ہے۔ تجربات کی علمی اور عقلی تعبیر اور بات ہے، فکر اور قیاس کی اور بقول حضرت علامہ ایک نظر ہے، دوسرا خبر۔ ۶- مثلاً افلاطون، ارسطو اور پھر ان کے زیر اثر بعض حکماے اسلام کی۔ ۷- یہاں تک کہ فتوحات مکیّہ میں شاید انھوں نے چاند کے بارے میں لکھا ہے کہ یا تو اس سے کسی مخلوق کا گزر ہوچکا ہے یا ہونے والا ہے، یعنی انسان ایسی مخلوق کا۔ لیکن راقم الحروف یہ بات قیاساً کَہ رہا ہے، سرِدست حوالہ میسر نہیں۔ ۸- یہ زمین پیوستگی کی بجاے زمین وارستگی حضرت علامہ کا خاص مضمون ہے، اپنے متضمنات کے ساتھ: اخلاقی، روحانی، سیاسی، اجتماعی۔ ملاحظہ ہوں خطبات۔ ۹- یا زیادہ صحیح لفظوں میں از ۱۷۰۷ء (وفات عالمگیر) تا ۱۸۵۷ (ہنگامہ خونین)۔ ۱۰- شاید اس لیے کہ حضرت علامہ کے نزدیک اس کا فکر مشائیت کی گرفت سے آزاد نہیں ہوسکا۔ ملاحظہ ہو ابن رشد کے نظریۂ عقل فعال پر حضرت علامہ کا تبصرہ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، خطبہ اول میں۔ ۱۱- ابن رشد کا فقہی درجہ بلاشبہ بڑا بلند ہے۔ ۱۲- عالمِ اسلام میں وہ ارسطو کا شارح اعظم ہے اور بقول اہلِ مغرب حقیقی ارسطو کو سمجھا تو وہی۔ مگر عالمِ اسلام نے ابن رشد سے بہت کم اعتنا کیا۔ سوال ہے کیوں؟ ۱۳- Padua ایطالیہ میں۔ یہ معلوم ہے کہ اٹلی اور فرانس میں ابن رشد کے اتباع میں جو فلسفیانہ تحریک پھیلی اس نے ایک حد تک مذہبی عقیدے کی حیثیت اختیار کرلی تھی۔ مسیحی کلیسا کو اس تحریک کے رد میں بڑی سر توڑ کوششیں کرنا پڑیں۔ ۱۴- احیا العلوم والدین اور تہافت الفلسفہ کی طرف اشارہ ہے۔ ۱۵- Descartes، فرانسیسی فلسفی، فلسفۂ جدید کا آدم۔ اس کا منہاج ہے تشکک، مثبت تشکک جس کی انتہا بالآخر اثبات ذات پر ہوئی۔ ۱۶- یوں بھی کہ علاوہ ان تصنیفات کے جن کا ترجمہ لاطینی اور پھر لاطینی سے کسی دوسری زبان میں ہوا، بعض ایسی تصنیفات کے متعدد اقتباسات بھی ملتے ہیں جن کے لاطینی یا لاطینی سے مغرب کی دوسری زبانوں میں ترجمے کی طرف کوئی اشارہ نہیں ملتا۔ پھر عجیب بات ہے کہ دیکارت نے بظاہر گو امام غزالی کا مطالعہ نہیں کیا… نہ براہ راست، نہ کسی دوسرے ذریعے سے…بایں ہمہ اب یہ خیال روز بروز تقویت حاصل کررہا ہے کہ اس نے حضرت امام سے ضرور استفادہ کیا ہوگا۔ لہٰذا اس کا منہاج بھی دراصل غزالی کا منہاج ہے۔ پھر اس سے بھی اہم تر حقیقت یہ کہ دیکارت کے منہاج کی حیثیت محض ‘تاریخی‘ ہے، چنانچہ آگے چل کر اس پر اعتراضات ہوئے اور اس کا رد بھی کیا گیا۔ برعکس اس کے امام صاحب کا منہاج فلسفیانہ اور غیر فلسفیانہ دونوں پہلوؤں سے کہیں زیادہ کامیاب رہا۔ ز…ز…ز چہار شنبہ: ۹؍مارچ دن میں حاضر نہیں ہوسکا، قرشی صاحب سے البتہ مل لیا تھا۔ بحمدللّٰہ حضرت علامہ کی طبیعت اچھی ہے۔ شام کو حاضر خدمت ہوا تو راجا صاحب اور چودھری صاحب سے باتیں ہورہی تھیں۔ شفیع حسبِ معمول پلنگ کے ساتھ ٹیک لگائے حضرت علامہ کے ہاتھ سہلا رہے تھے۔ سلامت بھی ساتھ تھے۔ حضرت علامہ کو شگفتہ خاطر پاکر بڑا اطمینان ہوا۔ سلامت کو دیکھ کر حضرت علامہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا: ’’کہیے شاہ صاحب! آپ کی کانگریس کا کیا حال ہے؟‘‘ اور پھر تھوڑی دیر اور دل لگی فرماتے رہے۔ سلامت نے مزاج پوچھا تو حضرت علامہ نے فرمایا: ’’دوائیں جاری ہیں، لیکن ایلوپیتھک علاج مجھے کچھ بہت زیادہ پسند نہیں۔‘‘ پرہیز کے سلسلے میں ارشاد ہوا: ’’ترشی کو ترس گیا ہوں۔‘‘ دوا، پرہیز اور علاج معالجے کے ذکر سے طب کی بحث چھڑ گئی۔ حضرت علامہ نے فرمایا: ’’ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ طب کا علم سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہوتا کیونکہ اس کی ضرورت زمانۂ قدیم ہی سے محسوس ہورہی تھی، لیکن حالت یہ ہے کہ طب کے بارے میں ہمارا علم بڑا ناقص ہے۔ اس سے تو کچھ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اسے شاید سب سے آخر میں، یعنی جملہ علوم کی تکمیل کے بعد ہی ترقی ہوگی۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’بالفاظِ دیگر یہ علم ہمیشہ ناقص رہے گا، لیکن وہ جو کہا گیا ہے لکل داء دوا، یا بقول حافظ: اے خواجہ درد نیست وگرنہ طبیب ہست تو کیا ایسا ہوگا کہ انسان مرض پر قطعی طور سے غالب آجائے ارشاد ہوا: ’’فرض کیجیے، ہم مرض پر غالب آجاتے ہیں، جب بھی کیا؟‘‘ قرشی صاحب یا راجا صاحب نے کہا ’’آپ کا ارشاد کیا یہ ہے کہ امراض کے علاوہ موت کے اور بھی تو ذرائع ہیں، موت ایک اَمر یقینی ہے؟‘‘ فرمایا: ’’یہ ٹھیک ہے۔ لیکن ان سوالات سے آپ کا مطلب کیا ہے؟ یعنی وہ کیا بات ہے جو آپ کے دہن میں ہے اور آپ اسے کَہ نہیں سکتے؟‘‘ ہم نے کہا ’’کسی زمانے میں مالتھس۱؎ کے اس نظریے کی اشاعت بڑے وثوق اور یقین سے کی جاتی تھی کہ دنیا کی آبادی برابر بڑھ رہی ہے اور اس لیے ایک وقت آئے گا جب یہ سارا کرۂ ارض بھی اس کے لیے ناکافی ہوگا، لہٰذا اس کی ابھی سے پیش بندی کرلینی چاہیے۔ پھر کہا گیا یہ نظریہ غلط ہے۔ مالتھس کو جو غلط فہمی ہوئی شمار و اعداد اور تخمینوں سے ہوئی۔ خیر یہ نظریہ ٹھیک ہو یا غلط، سوال یہ ہے کہ اگر انسان مرض پر غالب آگیا تو کیا اس طرح وہی حالات پیدا نہیں ہوجائیں گے جن کی طرف مالتھس نے اشارہ کیا ہے؟‘‘ فرمایا: ’’اس صورت میں انسان ستاروں کا رُخ کرسکتا ہے۔ ستاروں میں پہنچنا ناممکن تو نہیں۔‘‘ راجا صاحب نے کہا ’’اس خلائے محض سے انسان کا گزر کیسے ہوگا جو ہماری زمین اور دوسرے سیاروں کے درمیان واقع ہے۔‘‘ ارشاد ہوا ’’یہ اَمر مشکل ضرور ہے، لیکن فاصلوں کی تسخیر سرے سے ناممکن نہیں۔ اس کا کوئی نہ کوئی ذریعہ دریافت ہوجائے گا، ایسا ذریعہ جو ابھی تک ہمارے فہم سے پوشیدہ ہے۔ قرآن کریم کی رُو سے ایسا ہونا بہرحال ممکن ہے۔‘‘۲؎ میں نے عرض کیا ’’اجرام سماوی میں شاید ہمارا ہی کرہ آباد ہے۔ رہے سیارے، سو ان میں اگر زندگی ہے تو بڑی ادنیٰ شکلوں میں۔ لہٰذا کیا از روے علم یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے ایسے انسانوں کی آبادی اگر کسی دوسرے سیارے یا ستارے میں ہے بھی تو ہمیں اس کا علم نہیں۔‘‘ کیا دوسرے ستاروں میں آبادی ہے؟ ارشاد ہوا: ’’اگر تمام اجرام سماوی اپنی مادی ترکیب میں یکساں ہیں تو زندگی کی نوعیت بھی ہر کہیں یکساں ہوگی، لہٰذا اگر کوئی سیارہ آباد ہے تو کیا عجب وہاں ہم انسانوں سے ملتی جلتی ہی کوئی مخلوق بستی ہو۔‘‘۳؎ پھر کچھ سکوت کے بعد ارشاد فرمایا: ’’جن کیا ہیں؟ یہ جو سورۂ جن کی تفسیر میں طرح طرح کی تاویلیں کی گئی ہیں اس میں جن کا اشارہ کسی دوسرے سیارے کی مخلوق کی طرف تو نہیں؟ یہ جن شاید وہیں سے آئے ہوں۔‘‘ حضرت علامہ کے اس ارشاد نے میرے دل میں کچھ عجیب سی کیفیت پیدا کردی۔ حضرت علامہ بھی شاید کچھ ایسے ہی عالم میں تھے۔ دراصل یہ وہ کیفیت ہے جس میں انسان علم و عقل کے اعتراف و احترام کے باوجود یہ سمجھتا ہے کہ نہ معلوم کائنات میں کیا کیا اسرار پوشیدہ ہیں جو ابھی تک ہم پر منکشف نہیں ہوئے۔ میں نے عرض کیا ’’آپ کے اس ارشاد سے ہماری بات کچھ اس مرحلے پر پہنچ گئی ہے جہاں آپ نے غالب کے اس خیال۴؎ ہر کجا ہنگامۂ عالم بود رحمۃ للعالمینے ہم بود کی اصلاح کرتے ہوئے فرمایا تھا: خلق و تقدیر و ہدایت ابتداست رحمۃ للعالمینے انتہاست اور اس لیے اگر سورۂ جن کے پیشِ نظر یہ کہا جائے کہ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ملاقاتی، یعنی وہ مخلوق جو ہماری نظر سے پوشیدہ ہے اور اس لیے عربی لغت کی رُو سے جن، کسی دوسرے سیارے سے آئے تھے تو آپ کا یہ ارشاد بڑا بامعنی ہوجاتا ہے: یا ز نور مصطفی او را بہا است یا ہنوز اندر تلاش مصطفی است اس لیے کہ یہی تلاش تھی جو انھیں ہماری دنیا میں لے آئی۔‘‘۵؎ حضرت علامہ مسکرا کر خاموش ہوگئے اور سلسلۂ گفتگو آگے نہیں بڑھا۔۶؎ یوں بھی وقت بہت کافی گزر چکا تھا اور ہم چاہتے تھے حضرت علامہ آرام فرمائیں۔ حتی الوسع ہماری کوشش یہی تھی کہ باتیں نہ ہوں اور اگر ہوں تو ایسی جن سے حضرت علامہ کی طبیعت پر بار نہ پڑے بلکہ ان کی تفریح طبع اور دل بہلنے کا سامان پیدا ہوجائے۔ حضرت علامہ جو اب تک تکیوں سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے لیٹ گئے۔ اس پر قرشی صاحب نے حسبِ معمول آگے بڑھ کر نبض دیکھی اور حضرت علامہ کے ہاتھ سہلانے لگے۔ علی بخش حقہ بھر لایا۔ پھر چائے آگئی اور علی بخش نے چودھری صاحب سے چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔ کچھ فقرے سلامت نے کہے، کچھ راجا صاحب نے۔ کچھ یونینسٹ پارٹی اور بعض شہرت طلب اہلِ سیاست کی باتیں ہونے لگیں۔ ایک مرتبہ چودھری صاحب نے کہا: ’’میں علی بخش کی مونچھوں کو دیکھتا ہوں تو ان میں ہر بال کا رنگ دوسرے سے مختلف نظرآتا ہے۔ علی بخش ہی بتائے آخر اس کی مونچھوں کا رنگ کیا ہے۔‘‘ علی بخش کچھ کہنا چاہتا تھا کہ حضرت علامہ نے برجستہ فرمایا: ’’مچھئی!‘‘ ئ…ئ…ء حواشی ۱- Malthus ۲- یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوَاتِ وَالاَرْضِ فَانْفُذُوْا لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ (الرحمن، آیۃ ۳۳)۔ ۳- اگر ان میں انسانوں کی ایسی کوئی مخلوق بس رہی ہے تو ہم اسے انسان ہی کہیں گے۔ ۴- مثنوی امتناع النظیر میں۔ جیسا کہ معلوم ہے مرزا صاحب نے یہ مثنوی اس بحث میں لکھی تھی کہ کیا حضور رحمۃ العالمین کی کوئی نظیر ممکن ہے؟ جواب یہ ہے کہ ممکن نہیں۔ لیکن مرزا غالب نے یہ جواب جس انداز میں دیا ہے اس کے باوجود رحمۃ العالمینی کی تنکیر ہوجاتی ہے۔ ۵- یہ الفاظ دیگر حضور رحمۃ العالمین ساری کائنات کے لیے مبعوث ہوئے۔ ۶- جی چاہتا تھا یہ آیت زیر بحث آئے؟ وَمِنْ آیَاتِہِ خَلْقُ السَّمٰوَاتِ وَالاَرْضِ وَمَا بَثَّ فِیْھَا مِنْ دَابَّۃٍ (الشوریٰ، آیۃ ۲۹)۔ وَہُوَ عَلٰی جَمْعِہِمْ اِذَا یَشَائُ قَدِیْرٌ (الشوریٰ، آیۃ، ۲۹)۔ ز…ز…ز جمعرات: ۱۰؍مارچ صبح حاضر خدمت ہوا، سہ پہر میں حاضر خدمت ہوا، شام کو حاضر خدمت ہوا۔ بظاہر حضرت علامہ کے عوارض نے کوئی ایسی شکل اختیار نہیں کی جو باعث تشویش ہو، مگر پھر ان میں کوئی خاص تخفیف بھی نہیں اور یہ اَمر کچھ ایسا اطمینان بخش نہیں ہے۔ لہٰذا طے پایا کہ چودھری صاحب آج ہی ڈاکٹر محمد یوسف صاحب سے ملیں اور ان سے درخواست کریں کہ تیسرے پہر حضرت علامہ کو دیکھ لیں۔ کیا عجب ہے ان کی تدابیر کارگر ہوں۔ پھر جب رات کو ہم لوگ اُٹھے ہیں، یہی گیارہ بارہ بجے کے لگ بھگ، تو اگرچہ حضرت علامہ کی طبیعت نیند کی طرف مائل تھی اور بظاہر یہ خدشہ نہیں تھا کہ انھیں کوئی تکلیف ہوگی، پھر بھی معلوم نہیں قرشی صاحب کو کیا خیال گزرا کہ انھوں نے راستے میں مجھ سے کہا ’’میں چاہتا ہوں علی الصبح ڈاکٹر صاحب کی نبض دیکھوں۔ تھوڑی دیر بیٹھوں گا۔ آپ بھی آجائیں تو کیا اچھا ہو۔‘‘ قرشی صاحب کا تو معمول تھا کہ ہر روز سیر سے واپسی پر حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے، ان کی کیفیت مزاج دریافت کرتے اور چند منٹ بیٹھتے، مگر پھر یہ جو انھوں نے کہا کہ صبح ان کی نبض دیکھنا چاہتا ہوں تو مجھے کچھ تشویش ہونے لگی اور گو اس وقت تو میں نے کچھ نہیں کہا، لیکن بعد میں خیال گزرا شاید کوئی خاص بات قرشی صاحب کے ذہن میں ہوگی، یا شاید انھیں بعض دواؤں کا اہتمام منظور ہے۔ بہرحال میں حسب قرارداد سات ساڑھے سات بجے جاوید منزل پہنچ گیا۔ قرشی صاحب اس سے بہت پہلے حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوچکے تھے۔ حضرت علامہ نے مجھے دیکھا تو فرمایا: ’’معلوم ہوتا ہے تم نے اور حکیم صاحب نے پہلے ہی سے یہاں آنا طے کررکھا تھا۔‘‘ میں نے ہنس کر کہا ’’آپ نے صحیح ارشاد فرمایا ہے۔ قرشی صاحب کو بھی تو آخر کسی ساتھی کی ضرورت رہتی ہے۔‘‘ پھر مزاج پوچھا تو فرمایا: ’’رات طبیعت اچھی رہی۔‘‘ قرشی صاحب نے بھی اطمینان ظاہر کیا۔ اس اثنا میں حضرت علامہ نے چائے پی اور معمولاً ہم نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ علی بخش بھی موجود تھا۔ حضرت علامہ نے دوا اور غذا کے بارے میں قرشی صاحب سے باتیں کیں۔ پھر بتاکید علی بخش سے کہا کہ حکیم صاحب کی ہدایات کا خیال رکھے۔ آٹھ ساڑھے آٹھ بج گئے۔ ہم نے حضرت علامہ سے اجازت لی۔ میںنے عرض کیا ’’سہ پہر میں حاضر ہورہا ہوں۔‘‘ چار بجے کے قریب جاوید منزل پہنچا تو علی بخش سے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر یوسف صاحب تشریف لارہے ہیں، ان کا انتظار ہے۔ چودھری صاحب ابھی اُٹھ کر گئے ہیں۔ میں نے حضرت علامہ کی خواب گاہ میں داخل ہوکر سلام عرض کیا اور مزاج پوچھا تو حسبِ معمول فرمایا: ’’الحمدللّٰہ۔ اچھا ہوں۔‘‘ اتنے میں ڈاکٹر صاحب تشریف لے آئے۔ چودھری صاحب ساتھ تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے دیر تک حضرت علامہ کے قلب اور رئتین کا معائنہ کیا۔ پھر دوا اور غذا تجویز کی اور باہر آکر چودھری صاحب سے تخلیے میں باتیں کرنے لگے۔ اس اثنا میں حضرت علامہ بھی تبدیلی علاج کے متعلق اظہار خیال فرماتے رہے۔ میں نے کہا ’’ان شاء اللہ اس تبدیلی سے اچھے نتائج مترتب ہوں گے۔ قرشی صاحب کی توجہ بھی شامل رہے گی۔ یوں بھی بعض طبعی ادویات کے استعمال میں کیا حرج ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو بھی شاید اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔‘‘ حضرت علامہ نے فرمایا: ’’مجھے طبّی ادویات پر بڑا بھروسہ ہے۔ میں ان سے بدستور فائدہ اُٹھاتا رہوں گا۔‘‘ ڈاکٹر صاحب گئے تو چودھری صاحب تشریف لے آئے۔ علی بخش نے چائے کا اہتمام کیا۔ شفیع اور رحما حسبِ معمول حضرت علامہ کے پائنتی کی طرف ہوبیٹھے اور جیسے جیسے حضرت علامہ کا ارشاد تھا ان کا بدن دابتے رہے۔ حضرت علامہ نے فرمایا (خطاب چودھری صاحب سے تھا): ’’آپ نے بڑی دیر کردی۔ ڈاکٹر صاحب سے آپ کیا باتیں کررہے تھے؟‘‘ معلوم ہوتا تھا حضرت علامہ کو چودھری صاحب کی ڈاکٹر یوسف صاحب سے دیر تک گفتگو قدرے ناگوار گزری، شاید اس لیے کہ ان کا ارشاد تھا صحت اور علاج کے متعلق جو بات کی جائے ان کے سامنے کی جائے۔ چودھری صاحب نے کہا ’’میں ڈاکٹر صاحب سے دوا، غذا اور پرہیز کے بارے میں ہدایات لے رہا تھا۔ آپ جانتے ہیں ان دواؤں میں خاص احتیاط اور وقت کی پابندی ضروری ہے۔ میں چاہتا تھا کہ کوئی بات غیر واضح نہ رہ جائے۔‘‘ حضرت علامہ بظاہر خاموش ہوگئے۔ پھر شاید کچھ کہنا چاہتے تھے کہ علی بخش نے اطلاع کی کہ حضرات سالک و مہر آئے ہیں۔ حضرت علامہ نے فرمایا: ’’آجائیں۔‘‘ سالک صاحب اور مہر صاحب آئے۔ حضرت علامہ کی خیریت مزاج دریافت کی۔ لیگ، یونینسٹ پارٹی اور کانگریس کی سیاسی روش کے پیشِ نظر سرسری سی گفتگو ہوئی۔ حضرت علامہ نے فرمایا: ’’مسلمانوں کا اتحاد ضروری ہے اور یہ اتحاد لیگ ہی کے ذریعے ممکن ہے۔‘‘ شام ہورہی تھی۔ حضرات سالک و مہر نے اجازت لی۔ چودھری صاحب پہلے ہی جاچکے تھے۔ شفیع آگئے۔ میں نے عرض کیا ’’اجازت ہو تو میں بھی گھر ہوآؤں۔‘‘ نو بج رہے تھے جب گھر سے ہوکر پھر جاوید منزل پہنچا۔ قرشی صاحب حسبِ معمول تشریف لے آئے تھے۔ معلوم ہوا چودھری صاحب بھی موجود ہیں اور نہایت خوش کہ ایلوپیتھک علاج شروع ہوگیا۔ اب یہ تو نہیں کہا جائے گا کہ طبّی معالجے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹری مشورہ نہیں لیا گیا۔ میں نے علی بخش سے کہا ’’یہ بہت اچھا ہوا کہ چودھری صاحب کی تسلی ہوگئی۔ انھیں ڈاکٹر صاحب پر بڑا بھروسہ ہے اور اس لیے یقین ہے ان کے علاج سے نہایت اچھے نتائج مترتب ہوں گے۔ خدا کرے حضرت علامہ کو صحت ہوجائے۔ اصل علاج تو حکیم نابینا صاحب کا تھا۔ وہ حیدرآباد میں ہیں۔ ادھر حضرت علامہ کا مرض بڑھتا چلا گیا۔ خدا کرے ڈاکٹری علاج فائدہ مند ثابت ہو۔‘‘ گھنٹی بجی۔ حضرت علامہ علی بخش کو بلا رہے تھے۔ میں بھی علی بخش کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا۔ حضرت علامہ حسبِ معمول بڑے مطمئن تھے۔ روزِ مرہ کے عوارض کے علاوہ کسی خاص تکلیف کی شکایت نہیں تھی۔ مگر یہ روزِ مرہ کے عوارض کیا کم ہیں، سانس کی مسلسل تکلیف اور اس تکلیف کے باعث انھیں کبھی ایک کروٹ کے بل لیٹنا پڑتا ہے کبھی دوسری کے۔ کبھی گاؤ تکیے پر سر ٹیک کر اوندھے لیٹ جاتے ہیں۔ یوں ذرا آرام ملا تو سیدھے بیٹھ گئے، یا پھر تکیوں سے کمر ٹیک لی۔ یہ تکلیفیں ہیں جن کا دورہ ویسے تو نسبتاً ذرا دیر دیر سے ہوتا ہے اور شدت میں بھی کمی ہے، لیکن جب تک ان کا ازالہ نہ ہوجائے مرض کا انسداد کیسے ہوسکتا ہے؟ حضرت علامہ بہت کمزور ہوگئے ہیں۔ بڑی تشویش اور پریشانی ہے۔ مسلمانوں کا اتحاد ضروری ہے۔ حضرت علامہ کا ذہن ابھی تک اس مسئلے میں اُلجھا ہوا تھا، یا شاید چودھری صاحب سے یہی گفتگو ہورہی تھی۔ بہرحال میں نے حضرت علامہ سے مزاج پوچھا اور انھوں نے طبیعت کے بارے میں اظہار اطمینان کرتے ہوئے سلسلۂ گفتگو کو جو میری آمد پر منقطع ہوگیا تھا، جاری رکھتے ہوئے فرمایا: ’’کسی قوم کا اتحاد ختم ہوجائے تو اس کی قدرتاً آرزو ہوتی ہے کہ اپنی کھوئی ہوئی وحدت پھر سے حاصل کرلے۔ یوں ہی اس کی ہمت بندھتی ہے اور یوں ہی اس کا زوال و انتشار، طاقت اور جمعیت سے بدل سکتا ہے۔ بغیر اس کے نہ اس کی حفاظت کا کوئی ذریعہ ہے، نہ سلامتی کا۔ لیکن یہ وحدت پھر سے پیدا ہوگی تو اسی اُصول کی بدولت جس پر اول اول اس کی اساس رکھی گئی اور جس کا اظہار حیاتِ ملّی کی مخصوص شکل میں ہوا۔ یہ بڑی غلطی ہوگی اگر ہم اس کے لیے کوئی دوسری اساس تلاش کریں، جیسا کہ ہمارے اربابِ سیاست کررہے ہیں۔ ناممکن ہے مسلمان اس طرح متحد ہوسکیں۔‘‘ ارشاد ہوا: ’’یورپ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ لوتھر کی تحریک نے اہلِ مغرب کی وحدت پارہ پارہ کردی۔ یہاں اس سے بحث نہیں کہ عسائیت یا عسائیت کے علاوہ بعض اور عوامل بھی تھے جنھوں نے اتحاد مغرب میں حصہ لیا۔ بحث یہ ہے کہ یہ اتحاد جیسا بھی تھا ختم ہوگیا اور اس کے بجاے نسلیت اور وطنیت نے سرنکالا۔ اقوام یورپ الگ الگ گروہوں میں بٹ گئیں۔‘‘ فرمایا: ’’اس کے باوجود یورپ کی خواہش ہے کہ اس کا اتحاد قائم رہے۔ لیکن یہ اتحاد ہے کیسا؟ اس کی نوعیت مذہبی تو نہیں ہے۔ ازمنۂ وسطیٰ کے عالم مسیحیت کا تو کب سے خاتمہ ہوچکا ہے۔ بطور ایک اصطلاح کے البتہ اس کا تھوڑا بہت وجود باقی ہے اور بسبب تعصب مذہبی یا اسلامی دنیا کی مخالفت میں کبھی کبھی سننے میں آجاتی ہے۔ یہ اتحاد سیاسی بھی نہیں ہے، اس لیے کہ تھوڑا بہت اتحاد جو کلیسا کی بدولت قائم ہوا تھا اول تحریک اصلاح اور پھر اقوام مغرب کے جذبۂ نسلیت و وطنیت کی نذر ہو گیا۔ ایشیا اور افریقہ کے مقابلے میں البتہ مغربی قومیں ضرور متحد ہیں، یا یوں کہیے جب کبھی ضرورت پیش آجاتی ہے متحد ہوجاتی ہیں تاکہ غیر مغربی اقوام پر ان کا غلبہ اور استیلا قائم رہے۔ لیکن یہ اتحاد بھی جو گویا ایک ذریعہ ہے ان کی جوع الارض کی تسکین، یعنی اس اَمر کا کہ مغربی شہنشاہیت کے وجود اور استعماری دستبرد میں کوئی فرق نہ آئے، کیا اتحاد ہے؟ اسے اتحاد کہنا غلط ہوگا۔ اس کا دارومدار ہے توازن قوت پر ہے لیکن توازن قوت جب ہی قائم رہ سکتا ہے جب ایک قوم دوسری قوم پر سبقت نہ لے جائے۔ ورنہ یوں پھر قومی رقابتوں اور بدگمانیوں ہی کو تحریک ہوتی ہے۔ لہٰذا اس طرح کا ہر اتحاد ایک نئے افتراق کا سبب بنتا ہے اور ہر افتراق کی انتہا ایک نئے تصادم جنگ اور خونریزی پر ہوتی ہے، جیسا کہ ۱۹۱۴ء میں ہوا اور امروز و فردا میں ہوکر رہے گا۔۱؎ اندریں صورت ہم کیا کہیں؟ یہ اتحاد جسے اہلِ یورپ بہرحال قائم رکھنا چاہتے ہیں، کیسا اتحاد ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بعض ایسے عوامل کی بدولت جو اہلِ مغرب کی سیاسی، اخلاقی اور اجتماعی زندگی میں صدیوں سے کارگر رہے، ان کے اندر اپنی ایک مخصوص اور الگ تھلگ ہستی کا خیال جاگزیں ہوچکا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں ماضی کی طرح ان کا مستقبل بھی ایک دوسرے سے وابستہ ہے۔ لہٰذا ہم کہیں گے کہ اہلِ مغرب کا اتحاد تہذیب و تمدن کا اتحاد ہے، اس لیے کہ باوجود اختلاف نسل اور جذبۂ وطنیت کے اہلِ یورپ کی زندگی بڑی حد تک مشترک اور مطمح نظر یکساں ہے۔ وہ چاہتے ہیں ان کا ربط باہمی بہرحال قائم رہے۔ یہ آرزو ہے جو بار بار ان کے سینے میں اُبھرتی اور انھیں اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ اپنا کھویا ہوا اتحاد پھر سے حاصل کرلیں۔‘‘۲؎ ارشاد ہوا ’’نپولین کی بڑی کوشش تھی کہ اس اتحاد کی تجدید کرے، لیکن وہ جس متحدہ یورپ کا خواب دیکھ رہا تھا، اس کی تعبیر انگلستان کے تجارتی اور سیاسی مصالح نے پوری نہ ہونے دی۔ نپولین نے طاقت سے کام لینا چاہا، لیکن ناکام رہا۔ آگے چل کر یہی خواب نیٹشے نے دیکھا۔ بظاہر وہ طاقت کا پرستار اور جنگ کا داعی ہے، لیکن بباطن ایک جدید نظام اجتماع کا علمبردار۔۲؎ اس کی کوششیں بھی نپولین کی طرح رائگاں گئیں۔۳؎ انجمن اقوام بھی ایک ایسی ہی کوشش ہے، لیکن یہ کوشش بھی ناکام رہے گی۔‘‘۴؎ میں نے عرض کیا ’’آپ نے پہلے بھی فرمایاتھا کہ نیٹشے اس جنگ کو روکنا چاہتا تھا جس کا نقشہ اس کی آنکھوں میں پھررہا تھا۔ اس کی آرزو تھی اہلِ یورپ متحد رہیں۔ لیکن اتحاد یورپ کی یہ خواہش اگر کسی اعلیٰ یعنی خالصۃً انسانی مقصد پر مبنی ہوتی تو وہ اسے یورپ تک محدود نہ رکھتا۔ اس نے ہمیشہ اچھے مغربیوں۵؎ کا ذکر کیا ہے، جیسے یورپ کے علاوہ کہیں اچھوں کا وجود ہی نہیں، یا اگر ہے تو جس نظام یا دستور حیات کا تصور نیٹشے نے قائم کررکھا تھا اس میں دوسروں کی کوئی جگہ نہیں۔ یہ اَمر تو اتحاد انسانی بلکہ نیٹشے کے بنیادی فکر کے منافی ہے۔‘‘ فرمایا: ’’اس کی خواہش تو بہرحال یہی تھی کہ اہلِ یورپ متحد ہوجائیں۔‘‘ میں نے کہا ’’تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ نیٹشے کی رائے میں انسان کا مستقبل صرف یورپ سے وابستہ ہے۔‘‘ ارشاد ہوا: بہت ممکن ہے، وہ ایسا ہی سمجھتا ہو۔‘‘ سلسلۂ گفتگو پھر مسلمانوں کے اتحاد اور اتحاد سے متحدہ قومیت کے طرفداروں اور کانگریس کے ہم نوا علما کی طرف پھر گیا۔ حضرت علامہ نے فرمایا: ’’وطنیت پسند مسلمان تو خیر اپنی تعلیم و تربیت سے مجبور ہیں۔ ان کا دل و دماغ مغربی تعلیم کے زیر اثر اس حد تک بدل چکا ہے کہ وہ کسی دوسرے رنگ میں سوچ ہی نہیں سکتے۔ یوں بھی دنیا میں ہر کہیں وطنیت کا غلبہ ہے اور بلاد اسلامیہ میں بھی یہ جذبہ ہر کہیں اُبھر رہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ محکوم قومیں جب کسی قوم کے ہاتھوں اپنی آزادی کھوبیٹھتی ہیں اور دوسری قوموں کو آزاد یا آزاد ہوتے دیکھتی ہیں تو ان کے اندر بھی قومی اور نسلی عصبیتوں کو تحریک ہوتی ہے۔ لہٰذا آج کل کے نوجوان اگر نشۂ قومیت میں سرشار ہیں تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ لیکن علما کو کیا ہوگیا ہے؟ علما کیوں نہیں سمجھتے کہ اسلام اور وطنیت ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اسلام لاوطن ہے۔‘‘ حضرت علامہ کچھ تھک گئے تھے۔ کچھ دم کشی کی تکلیف تھی۔ ہم خاموش بیٹھے ان کے ارشادات سن رہے تھے۔ پھر خود ہی فرمایا ’’یہ خیال کہاں تک صحیح ہے کہ اہلِ حدیث عام طور پر کانگریس کے طرف دار ہیں۔‘‘ ہم نے عرض کیا ’’عام خیال تو یہی ہے کہ اہلِ حدیث کانگریس کے طرف دار ہیں۔ شاید اس لیے کہ مولانا حسین احمد کا تعلق دیوبند سے ہے اور دیوبند کو غلط ہو یا صحیح اہلِ حدیث کا مرکز اور مستقر تصور کیا جاتا ہے۔ البتہ اہلِ حدیث کے بعض سربرآوردہ علما ضرور کانگریس کی حمایت کررہے ہیں، مگر ذاتی حیثیت سے۔ کانگریس کو نہ تو اہلِ حدیث کی بحیثیت اہلِ حدیث تائید حاصل ہے، نہ دیوبند سے کبھی ایسا کوئی اعلان ہوا۔ بایں ہمہ سمجھ میں نہیں آتا یہ کانگریس کی حمایت میں سنی، وہابی کی تفریق کیسے قائم ہوگئی۔‘‘ ہم باتیں کررہے تھے، کچھ حضرت علامہ کے ارشادات کے پیشِ نظر، کچھ آپس میں کہ یہ سنی، وہابی کی تفریق کیسے قائم ہوگئی۔ عقاید میں تو تھی ہی، سیاسیات میں بھی درآئی۔ حالانکہ عقاید کا اختلاف سطحی ہے اور سیاست کا مسئلہ بھی کچھ ایسا مشکل نہیں کہ آپس کا اختلاف و نزاع دور نہ ہوسکے۔ کیا اس کی وجہ ہے عقاید میں تشدد، تعصب اور تنگ نظری؟ کیا اس لیے کہ لیگ کی تحریک، تحریک علی گڑھ ہی کا ایک دوسرا نام ہے اور علی گڑھ کو غلطی سے انگریزی حکومت کی وفاداری اور اس سے تعاون کا طرف دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ برعکس اس کے دیوبند ہو یا اہلِ حدیث یا عرف عام میں وہابی، انگریزی حکومت ابتدا ہی سے ان سے بدگمان رہی، بالخصوص اس زمانے سے جب حضرت سیّد احمد شہید کی تحریک جہاد کو وہابیت اور ان کے بچے کھچے مجاہدین کی طرف سے سرحد میں انگریزی حکومت کے خلاف صف آرائی کو ’وہابی شورشوں‘ سے تعبیر کیا گیا،۶؎ یا اس لیے کہ کچھ انگریزی تعلیم کے اثر و نفوذ اور کچھ اس انقلاب کے باعث جو علی گڑھ نے مسلمانوں کی عام زندگی میں پیدا کیا اور جس سے ان کی سیاست ہی نہیں، ادب اور فن، افکار و تصورات اور طرزِ معاشرت تیزی سے بدلتے چلے گئی علماے دین نے سوادِ اعظم کو تو اپنے حال پر چھوڑ دیا اور خود بے تعلقی کی زندگی بسر کرنے لگے۔ مگر پھر جب تحریکِ خلافت اور ترکِ موالات کا آغاز ہوا، انگریز دشمنی کو پھر سے ہوا دی گئی اور اس کی تائید میں علما سے رجوع لازم ٹھہرا تو وہ اس روش کو ساتھ لیے جو انھوں نے سیاست اور مذہب میں طے کررکھی تھی پھر میدان عمل میں نکل آئے۔ بظاہر علی گڑھ اور دیوبند ایک ہوگئے لیکن تحریک ترکِ موالات ناکام رہی۔ ہندو مسلم اتحاد کا شیرازہ ہمیشہ کے لیے بکھر گیا تاآنکہ ان کے درمیان شدید اختلافات رونما ہوئے اور مسلمانوں نے ایک دفعہ پھر لیگ کے سہارے ہندوؤں اور انگریزوں کی اس سیاست کے توڑ میں جس سے خطرہ تھا کہ ایسا نہ ہو یوں ان کے وجود ملی کی نفی ہوجائے اپنے لیے ایک الگ راستہ تلاش کیا تو اہلِ حدیث اور علما کا وہ طبقہ جو شروع ہی سے علی گڑھ سے بدظن تھا لیگ کے بڑھتے ہوئے اقتدار کو دیکھ کر یہ سمجھا کہ اسے غالباً انگریزی حکومت کی تائید اور اس سے تعاون منظور ہے۔ یہ صرف کانگریس ہے جو انگریز دشمنی کی روش پر قائم ہے۔ ہم باتیں کررہے تھے۔ مقصد تھا حالات کا تجزیہ، نہ کہ کسی فریق کی طرف داری۔ حضرت علامہ بھی اثناے گفتگو میں کبھی کبھی کوئی ارشاد فرمادیتے۔ ہم کَہ رہے تھے یہ وہابی کی اصطلاح بڑی قابلِ اعتراض ہے۔ ایک تو اس سے تعصب اور تنگ دلی کو تحریک ہوتی ہے۔ دوسرے اہلِ حدیث کے خیالات، مقاصد اور خدمات پر پردہ سا پڑجاتا ہے۔ اس اصطلاح کو ترک کردینا چاہیے۔ اہلِ حدیث بھی تو آخر اہلِ سنت والجماعت ہی کا ایک حصہ ہیں۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ بعض چھوٹے چھوٹے اور سطحی اختلافات کی بحث میں ہم اس حقیقت کو بھول رہے ہیں کہ اسلام کی دعوت کیا ہے اور اس سے مقصود نوعِ انسانی کے دل و دماغ اور اخلاقی اور اجتماعی زندگی میں کِس طرح کی تبدیلی پیدا کرنا ہے۔ ارشاد ہوا ’’یہ اَمر فی الواقع افسوس ناک ہے۔ شریعت کا فہم روز بروز کم ہورہا ہے۔ اسلامی شریعت کی جڑیں حقائق میں ہیں۔ ارشا ہوا ’’اہلِ حدیث کی دل آزاری کسی طرح جائز نہیں۔ اہلِ حدیث اور اہل الرائے کا امتیاز بہت پرانا ہے۔۷؎ محمد ابن عبدالوہاب نے جو تحریک اُٹھائی اس کا سلسلۂ امام ابن تیمیہ تک جاپہنچتا ہے۔ رد تقلید کا قدرتی تقاضا تھا کہ مطالعہ حدیث پر زور دیا جاتا۔۸؎ ہندوستان میں شاہ صاحب بھی تو حدیث کی ضرورت پر قلم اُٹھا چکے ہیں،۹؎ البتہ اس تحریک کا سیاسی پہلو جسے عرف عام میں وہابیت کا نام دیا گیا اور جس سے نجد و حجاز میں باہم جنگ کی نوبت آئی از حد افسوس ناک ہے۔ اس سے عالمِ اسلام کے اتحاد و استحکام کو خاصا ضعف پہنچا۔۱۰؎ فرمایا ’’میرے نزدیک وہابیت کی سب سے بڑی کمزوری اس کا عقاید میں تشدد اور ظواہر پر اصرار ہے۔ بحیثیت ایک نظام مدنیت اس نے اسلام کے سیاسی اور اجتماعی نصب العین کا کوئی تصور قائم کیا نہ اس تصور کی رعایت سے اُمت کا کہ وہ کس طرح کی ہئیت اجتماعیہ ہے یعنی آج کل کی اصطلاح میں ہم یہ کہیں گے کہ قوم ہے تو کن معنوں میں۔ وہابیت کی یہی روش ہے جس سے برطانوی شہنشاہیت نے خوب خوب فائدہ اُٹھایا اور جیسی کہیں مصلحت تھی ویسا ہی رویہ اختیار کیا۔ مخالف بھی اور موافق بھی؟۱۱؎ فرمایا ’’رد تقلید اور ازالہ بدعات گو اپنی جگہ پر ضروری تھا لیکن اس کا دائرہ چونکہ بحث و نظر سے آگے نہیں بڑھا اور جو بھی گفتگو کی گئی عقاید کے رنگ میں لہٰذا ماننا پڑے گا کہ اس کے سامنے حیاتِ ملّی کا صرف ایک پہلو تھا۔ بایں ہمہ اس تحریک سے کئی ایک تحریکیں پیدا ہوئیں۔ کہیں یہ مسئلہ زیر بحث آیا کہ مغرب کے غلبہ و استیلا کو روکنے کی کیا تدبیر ہے۔ کہیں یہ کہ بلاد اسلامیہ اپنی بچی کھچی آزادی کیسے برقرار رکھیں۔ کہیں یہ سوال پیدا ہوا کہ مسلمان علوم و فنون اور تہذیب و تمدن میں کیسے آگے بڑھیں۔ کہیں یہ کہ معاشرے کی اصلاح کیسے ہو۔ غرض کہ اس ایک آواز سے کہ باب اجتہاد وا ہو کئی ایک آوازیں اُٹھیں اور اُمت کی توجہ کئی ایک مسائل کی طرف منعطف ہوگئی۔ قرشی صاحب اور راجا صاحب شاید کوئی سوال کرنا چاہتے تھے کہ حضرت علامہ نے قدرے سستاکر فرمایا ’’ذہن انسانی کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ تقلید کے خلاف ایک آواز اُٹھی، اجتہاد پر زور دیا گیا۔ عالمِ اسلام نے ایک کروٹ لی اور صدیوں کے جمود و تعطل کے بعد قوائے عمل کو تحریک ہوئی تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ یہ صرف تقلید اور فقہی جمود ہی نہیں بلکہ منجملہ اس کے اور بھی کئی ایک خرابیاں ہیں جن سے اسلام کی روح پائمال ہورہی ہے۔ مثلاً ملوکیت، خانقاہی، علم و حکمت کا زوال، سیاسی اور معاشی ابتری، مغربی تہذیب اور مغربی شہنشاہیت کے غلبہ و استیلا کا بڑھتا ہوا ریلا۔ ارشاد ہوا ’’یہ اس امرکا ثبوت ہے کہ جب کوئی انسان جسے اللہ تعالیٰ نے دین کا فہم عطا کیا ہے اور جسے اس کے ساتھ ایمان و یقین اور عزم و حوصلے کی دولت بھی ملی ہے کسی بنیادی مسئلے کو چھیڑتا اور اُمت کو اصلاح کی دعوت دیتا ہے تو یہ دعوت کوئی بھی شکل اختیار کرے، رائیگاں نہیں جاتی۔ اس سے کئی ایک اور نتائج بھی مترتب ہوسکتے، بلکہ ہوجاتے ہیں خواہ کسی دوسرے رنگ میں۔‘‘ ارشاد ہوا ’’شاہ صاحب۱۲؎ ہی کو دیکھے کیسے بالغ نظر اور صاحب بصیرت انسان تھے۔ ان کی ذات جس تحریک کا سبب بنی اور یہ تحریک جہاں تک بھی کامیاب ہوئی ان کی دور اندیشی اور اُمت کے لیے غیرت و حمیت کا ناقابل انکار ثبوت ہے۔ ان کے ارشادات کی قدر و قیمت آج واضح ہورہی ہے۔‘‘۱۳؎ حضرت علامہ نے تکیوں کا سہارا لیا۔ کچھ دیر سکوت فرمایا لیکن ان کا جی چاہتا تھا برابر گفتگو کرتے چلے جائیں۔ ہم اگر چاہتے بھی تو انھیں اس سے روک نہیں سکتے تھے۔ چنانچہ ارشاد ہوا۔ ’’وہابی تحریک۱۴؎ ایک چنگاری تھی جس سے عالمِ اسلام میں ہر کہیں تقلید اور استبداد کے خلاف ایک آگ بھڑک اُٹھی۔ صدیوں کا جمود ٹوٹا۔ قوائے علم و عمل مثل ہورہے تھے۔ ان میں پھر سے حرکت پیدا ہوئی۔ یہ بات سمجھ میں آئی کہ مغرب کے سیاسی اور معاشی تغلب کے خلاف ایک محاذ قائم ہونا چاہیے۔‘‘ ارشاد ہوا ’’عالمِ اسلام میں شعلہ حیات کبھی افسردہ نہیں ہوا لیکن اُٹھارہویں صدی میں تو اس نے کئی ایک ممالک کو اپنی گرفت میں لے لیا۔‘‘ ارشاد ہوا ’’یوں جن تحریکوں کا ظہور ہوا ان میں ایک علاقہ سا قائم ہوگیا۔ حالانکہ اکثر و بیشتر ان میں باہم کوئی تعلق نہیں تھا بجز سطحی مشابہت کے، مثلاً یہی کہ جہاں کہیں بدعات کے خلاف کوئی آواز اُٹھی اسے بھی وہابیت سے تعبیر کیا گیا، حتی کہ حضرت سیّد احمد کی تحریک جہاد بھی وہابی تحریک سے ہی موسوم ہوئی۔‘‘ ہم نے عرض کیا آپ کے ارشادات کا مطلب گویا یہ ہے کہ وہابی تحریک تو آزادی اجتہاد کی تحریک تھی اور مقصد رد تقلید، غیر اسلامی تصورات اور بدعات کی آلایشوں سے اُمت کی تطہیر۔ اس کا مدعا تھا اصلاح جیسا کہ آپ نے خود بھی فرمایا ہے۔۱۵؎ فرمایا ’’یہ درست ہے۔‘‘ پھر ارشاد ہوا اور اب اشارہ تحریک جہاد کی طرف تھا ’’کوئی بھی تحریک ہو اسے ناکامی اور ناکامرانی ہر طرح کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ تحریک جہاد کا ایک مرحلہ وہ تھا جو بالاکوٹ میں ختم ہوا۔۱۶؎ دوسرا وہ جب یہ تحریک سرحد میں محدود ہوکر رہ گئی اور گو ۱۸۶۲ء کے بعد انگریزی حکومت کے خلاف ان کی سرگرمیاں سست پڑگئیں، بایں ہمہ حکومت کو ان کی طرف سے کبھی اطمینان نہ ہوا۔ اس تحریک کے بچے کھچے عناصر ہندوستان میں بھی موجود تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی انگریزوں کے خلاف کوئی تحریک اُٹھی تو انھیں بھی موقع ملا کہ اپنی دعوت جہاد کو از سر نو تازہ کریں، خواہ کسی رنگ میں‘‘۱۷؎ ہم نے عرض کیا لیکن یہ کہنا تو شاید ٹھیک نہ ہوگا کہ جہاد کے اس جذبے کا تعلق کِسی مخصوص حلقے سے ہے۔ مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی علی گڑھ کی پیداوار تھے۔ فرنگی محل۱۸؎ سے بھی ان کا سلسلہ ارادت بہت بعد میں قائم ہوا۔ فرمایا ’’بحث فرنگی محل کی ہے نہ کسی مخصوص حلقے کی، جہاد ایک طرح سے اسلام کی روح ہے اور اس لیے آزادی کی تڑپ ہر مسلمان کے سینے میں موجود ہے۔‘‘ ہم نے عرض کیا یہ بھی ایک وجہ ہے کہ علما کا ایک طبقہ کانگریس کی طرف کیوں مائل ہے۔ ان کے لیے اس کے نعرہ آزادی اور انگریز دشمنی میں بڑی کشش ہے۔ یہ نہیں کہ انھیں وطنیت کے لادین سیاسی تصور، یا متحدہ قومیت کی تائید منظور ہو۔ فرمایا ’’لیکن انگریز دشمنی کوئی مثبت اُصول نہیں نہ آزادی کے کچھ معنی جب تک یہ طے نہیں ہوجاتا کہ ہم کس مقصد کے لیے آزادی حاصل کررہے ہیں اور کس سے۔‘‘ فرمایا ’’ہندوؤں کا ایک نقطۂ نظر ہے۔ ان کے ذہن میں متحدہ قومیت کا ایک مثبت تصور ہے۔ وہ جانتے ہیں آزادی کے بعد اس تصور کی عملی تعبیر کیسے ہوگی، یعنی وہ نیا معاشرہ جو اس طرح وجود میں آئے گا اس کی تعمیر سیاسی، معاشی اور اخلاقی اعتبار سے کس نہج پر کی جائے گی۔ اس کے آثار ابھی سے نمایاں ہیں۔۱۹؎ کیا ان کو دیکھتے ہوئے کوئی مسلمان کَہ سکتا ہے کہ جب اس ملک کا اقتدار کانگریس کے ہاتھ میں آیا تو وہ اس وقت متحدہ قومیت کو جو شکل دے گی منشائے اسلام کے عین مطابق ہوگی، لہٰذا ہمیں اس سے غیر مشروط تعاون پر کوئی اعتراض نہیں؟ کیا تحریک جہاد سے مقصود بھی محض انگریزوں کا اخراج تھا، کوئی مثبت نصب العین اس کے سامنے نہیں تھا؟ اور کیا دین اور سیاست دو الگ الگ چیزیں ہیں؟ مذہب ہر فرد کا اپنا معاملہ ہے؟ قوموں کی تشکیل محض جغرافی حدود کے اندر سیاست اور معاش کی بنیادوں پر ہوتی ہے؟‘‘ فرمایا ’’یہ سوالات اہم ہیں، نہایت اہم۔ یہ دوسری بات ہے کہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ جو مغربیت کے قریب ہیں اپنے ماضی سے دور ہوچکا ہے، یا قدیم الخیال طبقہ جسے عصر حاضر کے بدلتے ہوئے تصورات کا کوئی علم نہیں ان کی اہمیت سے بے خبر ہے۔‘‘ فرمایا ’’ہندوؤں کی طرح ہمارا بھی ایک نقطۂ نظر ہے اور اس ملک کے بدلتے ہوئے حالات کا تقاضا یہ کہ ہم اس نقطۂ نظر کو خود بھی سمجھیں اور دوسروں کو بھی سمجھانے کی کوشش کریں۔ ہمارے ذہن میں بھی آزادی کا کوئی مثبت تصور ہونا چاہیے۔‘‘ فرمایا ’’آزادی سے مراد ہے اس اَمر کا اختیار کہ جیسا کسی قوم کا کوئی سیاسی اور اجتماعی نصب العین ہے اور جیسے جیسے اس کے اخلاقی اور مذہبی تصورات ہیں وہ معاشرے کی تعبیر ان کی بنا پر کرے۔ لہٰذا شرط اول یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہو اسلام کا نقطۂ نظر اس باب میں کیا ہے۔ اگر معلوم ہے تو سوچنے کی بات یہ ہوگی کہ کانگریس کی متحدہ یا زمانہ حاضرہ کی وطنی قومیت کی صورت میں ہم اپنے معاشرے کی تعمیر کیا اس نقطۂ نظر کے مطابق کرسکیں گے؟ کیا آزاد ہندوستان میں جیسا کہ کانگریس کی خواہش ہے حیات فرد اور جماعت کی وہی شکل ہوگی جو ازروے اسلام ہونی چاہیے۔‘‘ فرمایا ’’یہ آزادی کا معاملہ محض آزادی یعنی انگریزی اقتدار سے نجات و استخلاص کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کے لیے جیسے بھی آیندہ حالات ہوں گے ان کو اپنے اپنے طریقِ زندگی کے مطابق ایک نئے سانچے میں ڈھالنے کا معاملہ ہے۔ ایک ہمارا طریقِ زندگی ہے۔ ایک ہندوؤں کا۔ بظاہر ان کا زور سیاسی اتحاد پر ہے۔ بہ باطن ایک نئے طریقِ زندگی پر۔ فرض کیجیے ہمارے سامنے سرے سے ایک نیا طریقِ زندگی ہے اور زمانے کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اسے اختیار کرلیں، ہندوؤں اور مسلمانوں کی طرح سوچنا چھوڑ دیں۔ اس صورت میں بھی یہ نیا طریقِ زندگی جب ہی اختیار کیا جاسکتا ہے کہ ہندو مسلمانوں یا مسلمان ہندوؤں میں جذب ہو جائیں۔ لیکن ہندو تو مسلمانوں میں جذب ہونے سے رہے۔ البتہ ان کی یہ ضرور خواہش ہے کہ مسلمانوں کو اپنے اندر جذب کرلیں، یا اگر جذب نہ ہوسکیں تو بطور ایک سیاسی عنصر کے ان کی ہستی کالعدم ہوجائے۔ دراصل وہ جب ایک نئے طریقِ زندگی کا نام لیتے اور اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ ہمیں چاہیے ہندوؤں کی طرح سوچیں نہ مسلمانوں کی طرح تو اس لیے کہ عصر حاضر کے سیاسی معاشی تصورات کی بنا پر ایک متحدہ قومیت کا نشوونما اور مذہب اور سیاست کی علیحدگی کا مغربی اُصول اس مقصد کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔۲۰؎ یوں ہندو معاشرہ کی ہستی تو جوں کی توں قائم رہے گی۔ نہیں رہے گی تو مسلمانوں کی۔۲۱؎ اس پر شاید قرشی صاحب نے کہا، کانگریسی خیال مسلمان بالخصوص ان کے ہم خیال علما کو اس خطرے کا بخوبی احساس ہے لیکن ان کا خیال ہے کہ ہماری اولین ضرورت آزادی ہے۔ ہندوستان آزاد ہوگیا تو ہم اپنے طریقِ زندگی کا تحفظ آپ کرلیں گے۔ ارشاد ہوا ’’یونہی سہی لیکن کیسے؟ ازروے مفاہمت یا خانہ جنگی؟ مفاہمت کا خیال ہے تو اس کی ابتدا ابھی سے ہوجانی چاہیے۔ کیوں نہ اس جدوجہد کے لیے جو کل پیش آنے والی ہے ہم آج ہی اپنے آپ کو تیار کریں۔ کیوں نہ ہم آج ہی سمجھ لیں کہ آزاد ہندوستان میں اسلامی معاشرے کی تعمیر کن حالات میں ممکن ہوگی۔ ہمارا کوئی سیاسی اجتماعی نصب العین ہے تو کیا یہ لازم نہیں آتا کہ آزادی کی اس جدوجہد میں جو اس وقت درپیش ہے ہم اپنے مقاصد کا تعین اس نصب العین کے حوالے سے کریں۔‘‘ ارشاد ہوا ’’قوموں نے اس معاملے میں اکثر غلطیاں کیں اور نقصان بھی اُٹھایا کہ حالات کے غلط اندازے یا کسی خیال اور فرضی مصلحت کی بنا پر بعض باتوں کا فیصلہ ملتوی رکھا، حالانکہ یہ باتیں فوری طور پر فیصلہ طلب تھیں۔ مگر یہاں تو حالت یہ ہے کہ ہمیں ان مسائل کا کوئی واضح تصور بھی نہیں جو کل پیش آنے والے ہیں اور جو اس ملک میں اسلامی معاشرے کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہیں۔ اب اگر ہندوستان میں آزادی کی وہی صورت ہوئی جو کانگریس کے سامنے ہے تو یہ حضرات کس کا اور کیسے تحفظ کریں گے۔‘‘ ارشاد ہوا ’’یہ سیاست اور اقتدار اور آئین و قانون کی بحثیں تو بڑی دقت طلب ہیں۔ علما حضرات اتنا تو سمجھیں کہ انگریز دشمنی کے جذبے میں اگر ہم نے وہی راستہ اختیار کرلیا جس پر کانگریس چل رہی ہے تو یہ راستہ مغرب کی لادین اور لااخلاق سیاست کا تو ہوگا کتاب و سنت کا نہیں ہوگا۔ ارشاد ہوا ’’یہ کیا ستم ظریفی ہے کہ مسلمان جب کبھی اپنے تصورات سیاست اور ملی نصب العین یا جداگانہ قومی وجود کے تحفظ کی بحث چھیڑیں تو اسے انگریزی اقتدار کی حمایت یا مفاد پرستی پر محمول کیا جائے۔ زور دیا جائے تو محض انگریز دشمنی پر۔ انگریز دشمنی کوئی مثبت اُصولِ سیاست نہیں ہے۔‘‘ حضرت علامہ بڑے افسردہ خاطر تھے۔ انھیں بے حد رنج تھا کہ اس ساری کش مکش میں جو ایک طرف مسلمانوں اور حکومت اور دوسری جانب مسلمانوں اور ہندوؤں میں جاری ہے کانگریس کی حمایت اور عدم حمایت کو خواہ مخواہ فرقہ داری کا رنگ دیا جارہا ہے حالانکہ مسلمانوں کا اختلاف و انتشار یا وہ مخصوص سیاسی صورتِ حالات جو سیاست حاضرہ نے آزادی اور اتحاد کے نام پر پیدا کردی ہے اس میں ہماری فرقہ آرائیوں کی وجہ کچھ تو ہمارا زوال و انحطاط ہے، کچھ زمانہ حال کے تصورات سیاست، دستور و آئین اور حکومت سے بے خبری کا۔ اس میں سنیت کو دخل ہے، نہ شیعت، نہ وہابیت کو۔‘‘ ارشاد ہوا ’’اگر اس کش مکش میں فرقہ داری کا رنگ پیدا ہوگیا تو یہ اَمر بڑا افسوس ناک ہوگا۔ ہر فرقہ اپنے لیے جداگانہ نمایندگی کا مطالبہ کرے گا۔‘‘ ارشاد ہوا ’’حکومت شاید چاہتی ہے کہ قادیانی اپنے لیے جداگانہ نمایندگی کا مطالبہ کریں جیسے سکھوں کو جو ہندو معاشرے ہی کا ایک جزو ہیں جداگانہ نمایندگی حاصل ہے۔ وقت بہت کافی گزرچکا تھا۔ ہم چاہتے تھے حضرت علامہ آرام فرمائیں۔ علی بخش چائے لے آیا۔ حضرت علامہ نے قرشی صاحب کے کہنے سے کوئی دوا کھائی۔ پھر چائے پی۔ حقے کے دو ایک کش لیے اور تکیوں کا سہارا لیے کروٹ کے بل لیٹ گئے۔ علی بخش اور رحما بدن دابنے لگے۔ ہم چائے پی رہے تھے اور حضرت علامہ کے پاس خاطر سے کوئی نہ کوئی بات بھی کرلیتے۔ یہی ہمارا قومی انتشار، ہماری فرقہ بندیاں، ہمارا اختلاف نزاع کہ قرشی صاحب جو حضرت علامہ کے اور زیادہ قریب ہوکر ان کے ہاتھ سہلا رہے تھے کہنے لگے دراصل مولانا ابوالکلام کی ذات کانگریسی خیال علما کا سب سے بڑا سہارا ہے۔ حضرت علامہ نے فرمایا: ’’مولانا کے وہ کیا خیالات ہیں جن سے کانگریسی خیال علما کو سہارا مل رہا ہے؟‘‘ عرض کیا گیا: ’’یہی ’الدین‘ اور ’الاسلام‘ کی اصطلاحیں اور ان کے ماتحت وحدت ادیان کا تصور، علی ہذا ان کا یہ ارشاد کہ دین کی روح ہے حسن عمل۔ اختلاف جو کچھ ہے تخرب اور تشیع کا ہے، الگ الگ گروہ بندیوں، مسلک اور مشرب، بالفاظِ دیگر شرائع کا۔‘‘ حضرت علامہ نے تکیوں کا سہارا لیا اور سیدھے ہوکر بیٹھ گئے۔ یوں بھی ان کے لیے دیر تک لیٹے رہنا ناممکن تھا، اِلّا یہ کہ نیند کا غلبہ ہو۔ انھوں نے حقے کے دو ایک کش لیے اور فرمایا: ’’مسلمان بڑے سادہ ہیں۔ اس قسم کی تعبیریں قبول کرلیتے ہیں۔ وہ نہیں سوچتے مولانا کہنا کیا چاہتے ہیں۔ کیا یہ کہ اسلام کی اس تعبیر کے پیشِ نظر جو انھوں نے ’الدین‘ اور ’الاسلام‘ کی شکل میں کی ہے مسلمان سیاست کو مذہب سے الگ رکھیں، اپنے لیے جداگانہ قومیت کا مطالبہ نہ کریں، اس گروہ بندی میں شامل ہوجائیں جس کی بنا اشتراک وطن پر ہے اور یہ سب قطعِ نظر اس تصور کے جسے ہندوستانی قومیت کے نام سے اُبھارا جارہا ہے، اس لیے کہ ادیان اصلاً سب ایک ہیں۔‘‘ فرمایا: ’’میں نہیںجانتا مولانا کا مافی الضمیر کیا ہے۔ لیکن اگر وہی کچھ جو میں سمجھا ہوں۲۳؎ تو ان کے غور و فکر میں ایک تو وہی دلیل کام کررہی ہے جس کا تعلق لادین سیاست سے ہے اور جس کا تقاضا یہ ہے کہ ریاست اور کلیسا میں تفریق کی جائے۔ دوسری مذہبی اور یہ پہلی سے بھی زیادہ خطرناک کہ ادیان سب ایک ہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہوگا کہ دین فی الحقیقت کوئی اُصول اجتماع نہیں بلکہ ایک اخلاقی نصب العین، جس کی آرزو ہے کہ دنیا میں ہر کہیں خیر و صداقت کو تحریک ہو، شرافت اور نیکوکاری کا دور دورہ رہے۔ رہی انسانی روابط کی دنیا، یعنی معاشرے کی تاسیس اور نظم امور، سو اس کے لیے ہمیں کسی اور ہی اُصول کی تلاش کرنا ہوگی۔‘‘ فرمایا: ’’یہ اُصول کیا ہوسکتا ہے۔ یہی کوئی نسلی اور وطنی گروہ بندی، یا جہاں تک اس ملک کا تعلق ہے ’’ہندوستانی قومیت‘‘ جسے اگر قبول کرلیا گیا تو مسلمانوں کی حیثیت قوم کی نہیں، بلکہ ایک مذہبی گروہ کی رہ جائے گی۔ شریعت کی چند ذاتی اور شخصی قوانین، عقاید اور مراسم تک۔ یہ جو کچھ ہوگا، نہایت افسوسناک ہوگا، لیکن اس سے بھی بڑھ کر افسوسناک ہمارا یہ فیصلہ کہ جہاں تک روح دین یعنی اس نصب العین کا تعلق ہے جو عالم انسانی کو خیر و صداقت، شرافت اور نیکوکاری کی دعوت دے رہا ہے اسلام میں اس کے حصول کا کوئی مخصوص اور متعین راستہ نہیں یہ مقاصد سیاسی اجتماعی حدبندیوں، انسانی روابط کی نئی نئی اساسات اور تہذیب و تمدن کے نشوونما کے باوجود دوسروں سے مل جل کر خود بخود پورے ہوتے رہیں گے۔‘‘ فرمایا: ’’یہ حد درجے کی خود فریبی ہے، بلکہ اسلام نافہمی۔ اسلام کے سامنے فرد اور معاشرے کا ایک مخصوص تصور ہے اور اس تصور کی عملی ترجمانی کا ایک متعین راستہ، یعنی شریعت۔‘‘ فرمایا: ’’یوں بھی سوچنے کی بات ہے کہ متحدہ قومیت کے باوجود جب مذاہب کا الگ تھلگ وجود بہرحال قائم رہے گا، گو بسبب وحدت ادیان کسی کو دوسرے پر برتری حاصل نہیں ہوگی، جب بھی باعتبار سے ایک مذہبی تنظیم، یا باعتبار سے ایک سیاسی اقلیت کے وہ چھوٹی سی گروہ بندی، جو اس بڑی گروہ بندی کے اندر جسے ہم ہندوستانی قومیت سے تعبیر کرتے ہیں قائم رہے گی، کیا اس کل سے متأثر نہیں ہوگی جس کا وہ ایک جزو ہے؟ ہوگی اور ضرور ہوگی۔ بڑی گروہ بندی سے چھوٹی گروہ بندی کا وجود یقینا مجروح اور مضمحل ہوتا رہے گا۔ لہٰذا اس کی حدود بھی ہمیشہ سمٹتی رہیں گی۔ وہ آگے تو بڑھے گی نہیں، پیچھے ضرور ہٹے گی۔‘‘۲۴؎ فرمایا: ’’یہ اس لیے کہ زندگی ایک وحدت ہے، لہٰذا اس میں ایک ہی اُصول کارفرما رہتا ہے۔ یہ خیال کہ ایک حیثیت سے ہم کوئی ایک اور دوسری حیثیت سے کوئی دوسری گروہ بندی اختیار کرسکتے ہیں غلط ہے۔ ان میں باہم تصادم ہوگا اور ضرور ہوگا، ان میں ایک کی کوشش ہوگی دوسری پر غالب آجائے۔ یوں بھی تاریخ شاہد ہے کہ جہاں کسی قوم نے یہ طرز فکر اختیار کیا اس کی روح دب گئی، تاآنکہ اس کے جداگانہ تشخص میں فرق آگیا۔‘‘۲۵؎ فرمایا: ’’اس قسم کی کوششیں پہلے بھی کی گئیں، لیکن ان سے بجز ضعف و اضملال کچھ حاصل نہ ہوا۔ ہم اپنے مرتبہ و مقام اور نصب العین سے دور ہٹ گئے۔ ہماری دینی حمیت اور ملی عصبیت مجروح ہوکر رہ گئی۔ اکبر ہی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔‘‘۲۶؎ حضرت علامہ تھک گئے تھے۔ تھوڑی دیر کے لیے لیٹ گئے۔ پھر کچھ سستاکر فرمایا، اس لیے کہ بات ابھی ختم نہیں ہوئی تھی اور اب اس کا دوسرا پہلو سامنے تھا: ’’لیکن اگر مولانا کوئی اُصولی بحث چھیڑ رہے ہیں تو سوال یہ ہے کہ ’الدین‘ ور ’الاسلام‘ کی اصطلاحوں سے وہ ہمارا ذہن کن حقائق کی طرف منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کسی ایسے اُصول الاُصول اور قدرے مشترک کی طرف جو ان کے نزدیک وحدت ادیان کی اساس ہے تو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مولانا اس کی تعیین بطور ایک حقیقت نفس الامری قطعی اور قرار واقعی الفاظ میں نہیں کرسکتے۔ انھوں نے محض الفاظ کا سہارا لیا ہے۔‘‘ ارشاد ہوا: ’’مولانا شاید یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انسان کو ہمیشہ حق و صداقت کی طلب رہی۔ اب حق و صداقت ایک ہے اور فطرت انسانی بھی ایک، لہٰذا اس نے جہاں کہیں اور جب کبھی اس طلب میں قدم اُٹھایا ایک ہی سمت میں اُٹھایا۔ ایک ہی منزل مقصود تھی جو سب کے سامنے تھی اور جہاں بالآخر سب کو پہنچنا تھا۔ لیکن مولانا جس طرح اس ’بالآخر‘ کو بھولتے ہیں، بعنہ ہی اس حقیقت کو کہ حسن عمل کا مطلب ہے صحت عمل۲۷؎ اور صحت عمل ممکن نہیں جب تک از روے حقائق ہم اس کا راستہ متعین نہیں کرلیتے۔ جب تک وہ اُصول نہیں ملتے، وہ منہاج ہمارے سامنے نہیں آتا جس پر کاربند ہوکر ہم حق و صداقت کی طلب اور اس کی ترجمانی میں عملاً آگے بڑھتے ہیں،۲۸؎ جس سے زندگی کی وحدت قائم رہتی اور اس کے گونا گوں تقاضے، امیال و عواطف باہم متصادم ہونے نہیں پاتے۔۲۹؎ لہٰذا یہاں جو بات سمجھنے کی ہے یہ کہ اسلام ہی اس طلب کی ابتدا ہے اور اسلام ہی اس کی انتہا۳۰؎ بالفاظِ دیگر اسلام ہی نے اس کا ٹھیک ٹھیک رُخ متعین کیا اور اسلام ہی وہ راستہ ہے،۳۱؎ وہ اُصول اور منہاج جس سے اس کی ترجمانی بطور ایک حقیقت کے ہورہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام ہی کو اللہ تعالیٰ نے ہمارا دین ٹھہرایا۔۳۲؎ اب اگر یہ کہا جائے کہ اس طلب کا اظہار مختلف شکلوں میں ہوا، یعنی اگر ہم اس تاریخی عمل کی طرف اشارہ کررہے ہیں جس سے حق و صداقت کی طلب میں نوعِ انسانی کا گزر ہوا تاآنکہ وہ تمام و کمال اس پر مشہود ہوگئی جب بھی ہمیں اسلام ہی کی طرف لوٹنا ہوگا۔ تکمیل دین کے کہ ’’آج کے دن ہم نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کردیا‘‘ ایک معنی یہ بھی تو ہیں۔‘‘۳۳؎ ارشاد ہوا: ’’اگر ہم اس حقیقت کو سمجھ لیں تو یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اسلام نے اس اَمر کو کیوں تسلیم نہیں کیا کہ زندگی میں طرح طرح سے حد بندی کی جاسکتی ہے۔ مثلاً یوں کہ ایک حد مذہب کی ہو، ایک سیاست اور اجتماع کی، ایک تہذیب و تمدن کی۔ زندگی میں ایک ہی اُصول کارفرما رہتا اور کارفرما رہ سکتا ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ اس میں بیک وقت، یا وقتاً فوقتاً کئی ایک اُصول کارفرما رہیں۔ ایسا ہوا تو ان میں تصادم اور تزاحم ناگزیر ہوگا اور نتیجہ یہ کہ بالآخر ایک ہی اُصول سب پر غالب آئے گا۔‘‘ ارشاد ہوا: ’’یورپ کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ یورپ کی تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔‘‘۳۴؎ پھر ارشاد ہوا ’’دین میں تفرقے کی ایک صورت یہ بھی تو ہے۔‘‘۳۵؎ حضرت علامہ برابر گفتگو کیے جارہے تھے۔ آواز میں تھکن تھی۔ اکثر دم کشی کی وجہ سے رُک جاتے۔ ہم خاموشی سے ان کے ارشادات سن رہے تھے۔ ارشاد ہوا: ’’ہوسکتا ہے مولانا کا مطلب وہ نہ ہو جو ہم سمجھتے ہیں۔ لیکن اس صورت میں بھی اس قسم کے طرز فکر سے احتراز واجب ہے جس سے دین اور اسلام کے معلوم و متعین کے بارے میں۳۶؎ قیاس آرائیاں ہونے لگیں۔ قرآن مجید کی تعلیمات نہایت واضح ہے۔ ان میں شک و شبہے کی گنجایش ہے، نہ کسی پہلو سے اُلجھاؤ اور اُیچ پیچ کی۔۳۷؎ ہمیں چاہیے قیاس آرائیوں سے بچیں۔ اللہ تعالیٰ نے حق اور باطل کے درمیان صاف صاف ایک خط کھینچ دیا ہے۔۳۸؎ یہی وجہ ہے کہ اس نے ہمارے لیے جو دین تجویز کیا اسے اتمام نعمت سے تعبیر فرمایا۔۳۹؎ کیوں نہ ہم اس نعمت کی قدر کریں۔‘‘ ارشاد ہوا: ’’اسلام کی دعوت عالمگیر ہے اور اس کی نظر فطرت انسانی پر۔ دین فطرت ہی کا ایک ناقابل انکار مطالبہ ہے۔۴۰؎ اس مطالبے کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے، ورنہ ہوسکتا ہے ہم وحدت ادیان، یا اضافیت ادیان ایسے غلط تصورات قائم کرلیں۔‘‘ ارشاد ہوا: ’’دین بیشک عین حق و صداقت ہے، مگر بطور ایک نظریے اور تصور کے نہیں، بطور ایک اُصول عمل کے بھی۔ لہٰذا یہ حق و صداقت اگر تمام و کمال ہمارے سامنے آئی اور ہمیں اس کا ادراک بطور ایک حقیقت، یا اَمر واقعی کے ہوا تو اسلام ہی کی بدولت۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ وہ ہر کہیں موجود ہے، گو تحزب و تشیع نے اس پر ایک پردہ سا ڈال رکھا ہے، جب بھی ہم اسے سمجھیں اور قبول کریں گے تو اسلام ہی کی بدولت، اسلام ہے کے راستے پر چل کر۔‘‘ ارشاد ہوا: ’’یہ بہت بڑی غلطی ہوگی کہ جب ہم حق و صداقت پر زور دیں، یا اسلام کے حوالے سے اسے سمجھانے کی کوشش کریں تو اس طرح کہ بجاے اس کے کہ لوگ اسلام کی طرف آئیں ہمارا اپنا ایمان و یقین اس میں مضمحل ہوجائے، حتیٰ کہ بطور ایک ہیئت اجتماعیہ اور نظام مدنیت کے ہم اس کی جامعیت اور کلیت کو نظر انداز کردیں۔ یہ سمجھیں کہ یہ انسانی روابط ہوں، یا تہذیب و تمدن کی دنیا ہم اس میں اسلام کے پہلو بہ پہلو دوسری گروہ بندیاں بھی قائم کرسکتے اور اس کے باوجود اپنا مخصوص نصب العین اور جداگانہ تشخص برقرار رکھ سکتے ہیں۔۴۱؎ اس کا مطلب یہ تو ہوگا کہ ہم اسلام کو چھوڑ کر کبھی ایک اُصول حیات کا رُخ کریں گے، کبھی دوسرے کا۔ یہ اَمر تو دین کے منافی ہے۔ دین کا ایک ہی اصل الاُصول ہے اور وہ اسلام۔‘‘۴۲؎ ارشاد ہوا: ’’تحزب اور تشیع بھی ایک مغالطہ ہے۔ یہ کہنا کہ تحزب اور تشیع کا تعلق شرائع سے ہے، دین سے نہیں ہے بہت بڑی غلطی ہے۔ شرائع سے الگ دین ہے کہاں۔‘‘۴۳؎ فرمایا: ’’شریعت اسلامیہ کا اتباع فرض ہے۔ شریعت عین زندگی ہے۔ شریعت سے گریز حقائق سے گریز ہے۔‘‘۴۴؎ قرشی صاحب نے کہا: ’’لیکن مولانا کی تفسیر سے تو یہ مترشح نہیں ہوتا کہ انھیں احکامِ شریعت کی قطعیت یا مطلقیت سے انکار ہے۔‘‘ فرمایا: ’’یہ صحیح ہے۔ لیکن احکامِ شریعت کا تعلق صرف فرد کی ذات سے تو نہیں، جماعت سے بھی ہے۔ احکامِ شریعت جس طرح حیات فرد کے ضابط ہیں بعینہٖ انسانی معاشرے کے صورت گر اور اس کی ترقی کے ضامن۴۵؎ ان سے روگردانی اسلام سے روگردانی ہے۔‘‘ فرمایا: ’’دینِ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے، کوئی مبہم اور محدود اخلاقی تصور نہیں ہے، نہ مجرد الفاظ میں عالمِ کائنات کا ایک مابعدالطبیعی نظریہ۔ اسے تحزب اور تشیع سے تعبیر کرنا بھی غلط ہے کہ یوں تہذیب و تمدن ہو، یا سیاست و اجتماع اس میں دین کی کوئی تخصیص نہیں رہے گی۔ حالانکہ اسلام کے نزدیک جس طرح فرد کا ایک مرتبہ و مقام ہے بعینہٖ معاشرے کی بھی ایک خاص ہیئت اور نصب العین ہے۔ وہ ایک تحریک ہے عالم انسانی کے ربط و ضبط اس کے اتحاد اور حفظ و استحکام کی۔ لہٰذا اسلام ہی اخوت عامہ اور حریت و مساوات کی عملی ترجمانی کا واحد ذریعہ ہے۔‘‘۴۶؎ فرمایا: ’’اسلام ہی وہ تحریک ہے جس نے ان ابدی اور عالمگیر صداقتوں کی بنا پر، جو مولانا کے نزدیک عبارت ہیں دین یا ’الدین‘ سے، ایک ایسے اجتماع بشری کی تعمیر میں عملاً قدم اُٹھایا جس کی روح خالصتاً انسانی ہے اور دامن امتیازات نسل و وطن سے پاک۔ لیکن یہ مقصد ایک مسلسل اور مستقل سیاسی اجتماعی جدوجہد ہی سے پورا ہوسکتا ہے جس کا ظاہر ہے کوئی راستہ ہوگا۔ اسلام نے اس راستے کو بھی ہر پہلو سے متعین کردیا۔‘‘ فرمایا: ’’اس نے ہر صداقت کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے جملہ ادیان پر برتری حاصل ہے۔۴۷؎ لہٰذا بطور ایک نظام مدنیت وہ کسی دوسرے نظام مدنیت سے تعاون تو کرسکتا ہے، مفاہمت نہیں کرسکتا۔ یہ نظام مدنیت قائم ہے تو ہماری قومیت بھی قائم ہے۔ اس قومیت کے اندر کسی دوسری قومیت کی گنجایش نہیں۔۴۸؎ اس کی اساس ہے توحید و رسالت۔ فرمایا: ’’لیکن بعض لوگ اگر غلطی سے یہ سمجھتے ہیں تو بڑا غلط سمجھتے ہیں کہ اسلام کے مقاصد چونکہ خالصاً انسانی اور دعوت عالمگیر ہے، لہٰذا اعمال و عقاید میں تو خیر اسلام اور غیر اسلام کا امتیاز ضروری ہے لیکن انسانی معاملات اور ربط و ضبط، یعنی تہذیب و تمدن اور عمران و اجتماع کی دنیا میں اسلام اور غیر اسلام کی تفریق نہ صرف انسان دوستی اور وسیع المشربی کے منافی، بلکہ اسلام کی حقیقی روح کے بھی خلاف ہے۔ حالانکہ اس باب میں اسلام کے احکام نہایت صاف اور واضح ہیں اور وہی فی الحقیقت انسان دوستی اور وسیع المشربی کا سرچشمہ۔‘‘۵۱؎ فرمایا: ’’اسلام سے بڑھ کر انسان دوستی اور وسیع المشربی ہے کہاں؟ اسلام ہی نے سب سے پہلے وحدت انسانی پر زور دیا اور اسلام ہی نے اخلاقی، اور اجتماعی، ہر اعتبار سے اس کا کامل و مکمل تصور قائم کیا۔ لہٰذا اس کی حیثیت محض ایک خیال کی نہیں رہی، بلکہ ایک مؤثر، فعال اور فیصلہ کن عنصر کی تاکہ بطور ایک حقیقت حیات۵۲؎ فرد اور معاشرے کی زندگی میں اس کا اظہار ایک عملی اور واقعی شکل میں ہوتا رہے۔ لہٰذا اُمت محمدیہ کی تشکیل ہوئی اور وہ سب امتیازات باطل ٹھہرے جو انسان اور انسان میں حائل اور اس کی وحدت کے منافی ہیں اور جنھوں نے اقوام و امم کے جداگانہ تشخص اور طریقِ زندگی کی آڑ میں اب پھر سر اُٹھایا ہے۔ جب تک یہ امتیازات اور گروہ بندیاں قائم ہیں، نہ انسانی دوستی اور وسیع المشربی میں کوئی معنی پیدا ہوں گے، نہ افراد و اقوام کے اندر اس خالصتاً انسانی ضمیر کی تخلیق ہوسکتی ہے جس سے اس کا مستقبل وابستہ ہے۔ اس کی تخلیق ہوگی اور دنیا فی الواقعہ انسانی دوستی اور وسیع المشربی اختیار کرے گی تو اس اجتماعی عمل کی بدولت جس کی تکمیل کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ شریعت اسلامیہ کا اتباع۔ یہ نکتہ ہے جسے انسان دوستی اور وسیع المشربی کے غلط تصور میں ہم اکثر نظر انداز کردیتے ہیں۔‘‘۵۳؎ حضرت علامہ تھک گئے تھے۔ انھوں نے بات ختم کی تو راجا صاحب نے کہا: ’’عالمِ اسلام میں تو اب ہر کہیں وطنیت کا چرچا ہے۔ اس سلسلے میں ترکوں کی مثال پر بالخصوص زور دیا جاتا ہے۔‘‘ ارشاد ہوا: ’’اس میں کوئی شک نہیں عملاً کمال پاشا ہی نے اس تحریک کی رہنمائی کی، لیکن عالمِ اسلام بالخصوص عربی دنیا میں یہ جذبہ اس سے بہت پہلے پرورش پارہا تھا۔۵۴؎ کمال پاشا نے جو کچھ کیا وہ ایک عمل کی انتہا تھی، ابتدا نہیں تھی۔ ہمیں مستقبل سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ ارشاد ہوا: ’’ارض بلقان میں تو جذبۂ وطنیت کو اس لیے اُبھارا گیا کہ یہ خطہ اول چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ جائے اور پھر یہ ریاستیں دولتِ عثمانیہ کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوں، تاکہ یورپ میں اس کا اقتدار ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۔ یوں دول یورپ کو بھی آسانی رہے گی کہ ترکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرسکیں۔ ترک یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے، لیکن نہیں سمجھے کہ اگر انھوں نے بھی اُصول وطنیت قبول کرلیا تو اس سے ان کا شیرازہ ملی بکھر جائے گا۔۵۵؎ اہلِ یورپ اور بالخصوص اہلِ فرانس سے ربط و ضبط کے باعث انھوں نے وطنی قومیت کا سبق سیکھا۔ لہٰذا قدرتی بات تھی کہ ان کے یہاں بھی ملک اور دین کی علیحدگی کا سوال پیدا ہو۔ یہ سوال پیدا ہوا اور ترک دو مخالف گروہوں میں بٹ گئے۔‘‘۵۶؎ فرمایا: ’’وطنی قومیت اگرچہ اتحاد اسلامی کے خلاف سب سے بڑا خطرہ ہے، لیکن افسوس ہے ترک خود ہی اس تحریک کا شکار ہوگئے جو ان کے خلاف اُٹھائی گئی تھی ان کا خیال تھا کہ دنیائے اسلام سے کٹ کر وہ اپنی جگہ اور زیادہ مضبوط ہوجائیں گے۔ پھر جب دوران جنگ میں عالمِ اسلام نے ان کی تائید میں کوئی آواز اُٹھائی، نہ عملاً اس سلسلے میں کچھ کیا، برعکس اس کے عین اس وقت جب انھیں امداد کی ضرورت تھی عربوں نے ان کے خلاف بغاوت کردی تو ان کے جذبۂ وطنیت میں اور بھی غلو پیدا ہوا۔ مصطفی کمال کمال پاشا سے اتاترک بنے اور انجام کار ان کی تقلید میں ہر کہیں اسلام کی تعبیر نسلی اور وطنی نقطۂ نظر سے ہونے لگی۔‘‘ ارشاد ہوا: ’’اسلام کا ایک بہت بڑا احسان یہ بھی تھا کہ اس سے مغربی ایشیا کا افتراق و انتشار اتحاد سے بدل گیا۔ جب تک یہ اتحاد قائم رہا مغرب کو اپنی ہوس استعمار اور جوع الارض کی تسکین کا کوئی راستہ نہ ملا۔ مگر افسوس ہے مسلمان خود ہی اس نکتے کو بھول گئے کہ ان کی جمعیت کا راز کیا ہے۔ انھوں نے اس اتحاد کو جس سے ان کی آبرو قائم تھی اپنے ہاتھوں آپ ہی پارہ پارہ کردیا۔‘‘۵۷؎ ئ…ئ…ء حواشی ۱- جیسا کہ ۱۹۳۹ء میںہوا۔ جب سے حضرت علامہ سفر یورپ سے واپس آئے تھے انھیں یقین ہوگیا تھا کہ یورپ کے بارود خانے میں عنقریب آگ لگنے والی ہے اور پھر ایام علالت میں تو ان کا معمول ہوگیا تھا کہ اپنے ملاقاتیوں سے تقریباً ہر روز سوال کرتے ’’جنگ کب ہوگی؟ آج کیا خبر ہے؟‘‘ یوں بھی ان کا یہ ارشاد: فرنگ رہگزر سیل بے پناہ میں ہے ایک مستقل حقیقت کا حکم رکھتا ہے۔ ایک سیل گزر چکا ہے۔ دوسرا کب آئے گا؟ ۲- روس کی بڑھتی ہوئی طاقت اور حلقۂ اثر نے گو اس اتحاد کا دائرہ محدود کردیا تھا، لیکن دوسری جنگ عظیم کے مغرب کے یہ دو بازو (دایاں اور بایاں) پھر ایک دوسرے قریب ہورہے، بلکہ ہوچکے ہیں۔ ۲- امارتی (Aristocratic) نظام، بمقابلہ عوامی۔ ۳- نیٹشے کا شمار ان افراد میں ہوتا ہے جن کا خیال تھا کہ یورپ کی سیاسی اور اجتماعی زندگی نے جو صورت اختیار کررکھی ہے اس سے فرد اور جماعت کے اخلاق بہت بری طرح سے مجروح ہورہے ہیں اور یہ اَمر خطرے سے خالی نہیں۔ اس کا نتیجہ ہوگا نزاع و جدال، جنگ اور ہلاکت۔ لہٰذا ان میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے رنگ میں یورپ کو متنبہ کیا۔ نیٹشے نے اپنے نقطۂ نظر سے مارکس اور فرائیڈ نے اپنے نقطۂ نظر سے۔ ۴- جیسا کہ ۱۹۳۹ء میں دوسری عالمگیر جنگ کے موقع پر سب نے دیکھ لیا کہ یہ جو کچھ تھا ’’تقسیم قبور‘‘ کے بعد ’’کفن دزدوں‘‘ کی باہمی آویزش اور نزاع و پیکار کا لازمی نتیجہ۔ ۵- Good Europeans ۶- اور جن سے متاثر ہوکر ہنٹر نے اپنی مشہور کتاب لکھی: ہمارے ہندوستانی مسلمان۔ کیا وہ وفادار ہیں؟ ۷- اصحاب الرائے اور اصحاب الحدیث پرانی اصطلاحیں ہیں۔ ۸- احیائے سنت کے پیشِ نظر۔ چنانچہ جب کبھی رائے نے اپنی حد سے تجاوز کیا، یا بدعات نے سراُٹھایا اور تقلید پر زور دیا گیا تو بطور رد عمل حدیث سے رجوع لازم ٹھہرا۔ امام ابن تیمیہ اور ابن حزم کی مثالیں ہمارے سامنے میں۔ امام صاحب کا زمانہ ۱۳ ویں صدی مسیحی ہے، ابن حزم ۱۱ویں۔ ۹- شاہ ولی اللہ۔ شاہ صاحب اور امام محمد بن عبدالوہاب ہم عصر ہیں۔ ابن عبدالوہاب ۱۷۰۰ میں پیدا ہوئے۔ شاہ صاحب کوششوں سے مطالعہ حدیث کا دائرہ وسیع ہوا اور ہمیں معلوم ہے شاہ صاحب نے بخاری کے ساتھ موطا کے مطالعے پر بالخصوص زور دیا۔ ۱۰- اس لیے کہ وہابی بالآخر دولتِ عثمانیہ سے ٹکرائے۔ باب عالی نے خدیو مصر کو ان کے خلاف فوج کشی کا حکم دیا۔ وہابیوں کو شکست ہوئی اور مصری اپنی قوت کے بھروسے پر باب عالی سے متصادم ہوگئے۔ لہٰذا یورپ کو موقع ملا کہ اس خانہ جنگی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے دولتِ عثمانیہ کے معاملات میں دخل اندازی کریں۔ ۱۱- آلِ سعود کے سلسلہ میں موافقانہ تاکہ عربوں میں خانہ جنگی اور مذہبی اختلاف و نزاع کے علاوہ ترکوں سے ان کا رشتۂ مودت کٹ جائے۔ ہندوستان میں مخالفانہ۔ مثلاً حضرت سیّد احمد کی تحریک جہاد اور مجاہدین سرحد کے معاملے میں۔ ۱۲- حضرت شاہ ولی اللہ۔ ۱۳- بالخصوص ان کے عمرانی تصورات کی۔ ۱۴- یہاں لفظ وہابی سے محض اس تحریک کا انتساب مقصود ہے۔ ۱۵- تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ چھٹا خطبہ۔ ۱۶- ۱۸۳۴ء میں۔ ۱۷- مثلاً تحریکِ خلافت میں کئی ایک کارکن ایسے بھی تھے جن کا تعلق کسی نہ کسی رنگ میں اس تحریک سے قائم تھا۔ ۱۸- لکھنؤ کا مدرسہ الٰہیات، علی برادران مولانا عبدالباری کے مرید تھے۔ ۱۹- مثلاً تعلیم کی واردہا اسکیم، پابندی ہندوستانی زبان کی صورت میں۔ واضح رہے کہ کانگریس کے زیر اثر حامیانِ کانگریس کا طرزِ معاشرت بھی بتدریج بدل رہا تھا۔ اس پر ہندو تصورات کا غلبہ تھا۔ ۲۰- کہ ہندو مسلمان ایک قوم ہیں اور انھیں ایک قوم ہی کی حیثیت سے آزادی حاصل کرنی چاہیے۔ ۲۱- چنانچہ کانگریس نے اسلامی تہذیب و ثقافت کے خلاف بھی تحریک شروع کردی تھی۔ ۲۲- نگہ دارد برہمن کار خود را نمی گوید بہ کس اسرار خود را بمن گوید کہ از تسبیح بگدز بدوش خود برد زنار خود را ارمغان حجاز ۲۳- اور یہی فی الحقیقت مولانا کا مافی الضمیر تھا جیسا کہ آگے چل کر ان کے ارشادات نے ثابت کردیا۔ وہ بھول گئے کہ بحیثیت ایک عالمگیر دعوت کے اسلام کا نصب العین کیا ہے اور یہ نصب العین کس قسم کی ہئیت اجتماعیہ کا مقتضی۔ برعکس اس کے انھوں نے اتحاد ہند کو اپنا نصب العین ٹھہرایا اور اس گروہ بندی کو قبول کرلیا جس کا دامن ان قدروں سے خالی ہے جن پر اسلام نے زور دیا ہے۔ ۲۴- چنانچہ یہی کچھ بعد از تقسیم بھارت میں ہوا۔ بڑی گروہ بندی (ہندوستانی قومیت) ایک عظیم یلغار ہے جو سیاسی، معاشی، تعلیمی، ہر ممکن ذریعے سے کام لیتے ہوئے ایک چھوٹی گروہ بندی، یعنی مسلمانوں کے جداگانہ وجود ملی، تہذیب و ثقافت، زبان، لباس، حتیٰ کہ شخصی قوانین کے خلاف جاری ہے اور جس میں متحدہ قومیت کے طرف دار بیشتر خاموش رہتے، یا کبھی کبھار صدائے احتجاج بلند کرتے اور پھر خاموش ہوجاتے ہیں۔ ۲۵- اس حد تک کہ اگر کوئی قوم کسی دوسری قوم یا قومیں کے درمیان آباد تھی تو اس کا مابہ الامتیاز بھی جاتا رہا۔ ۲۶- جس کے الحاد کی انتہا داراشکوہ کی ذات میں اس شدت سے ہوئی کہ بفحوائے آیۂ شریفہ انہ لقرآن کریم فِیْ کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍ -۵۶ (الواقعہ): ۷۸ اس نے یہ دعویٰ کیا کہ ’’کتاب مکنون‘ کا اشارہ ’اپنشدوں‘ کی طرف ہے اور پھر اس کی تائید میں سراکبر کے نام سے (کہ اپنشد کا لفظی ترجمہ ہے) ایک ضخیم کتاب تصنیف کی، جس کا ایک نسخہ حال ہی میں ایران سے شائع ہوچکا ہے، ڈاکٹر تارا چند سفیر ہندوستان کی کوششوں سے اور انھیں کے قلم سے ایک مقدمے کے ساتھ۔ ۲۷- باصطلاح قرآن مجید، ’عمل صالح‘۔ ۲۸- لہٰذا یہ ارشاد لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْھَاجًا-۵ (المائدہ): ۴۸۔ ۲۹- جیسا کہ خود زندگی کا تقاضا ہے۔ دیکھیے تشکیل جدید، خطبہ ثانی، آخری صفحہ۔ ۳۰- جب حقیقت یہ ہے: وَلَہُ اَسْلَمَ مَنْ فِیْ السَّمٰوَاتِ وَالاَرْضِ-۳ (آل عمران): ۸۳- تو اسلام ہی سب کا دین ٹھہرا اور اسلام ہی کی رعایت سے ارشاد ہوا: ہُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَفِیْ ھَذَا- ۲۲ (الحج): ۷۸۔ ۳۱- باصطلاح قرآن مجید صراط مستقیم، سوأ السبیل، قصد السبیل۔ ۳۲- وَرَضِیْتُ لَکُمُ الاِسْلَامَ دِیْنًا-۵ (المائدۃ):۳۔ ۳۳- ۵ (المائدہ): ۳ ۳۴- ریاست اور کلیسا کی تفریق، وطنی (جغرافی) قومیت اور اشتراکیت ایسی تحریکوں سے کہ بالآخر ایک ہی اُصول عمل سب پر غالب آیا۔ مذہب، انسان دوستی، فرد اور اس کی شخصیت کا تصور صرف خیال ہی خیال رہ گیا۔ ۳۵- گویا ایک بفحوائے وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٖہ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا- ۳ (آل عمران): ۱۰۳ یعنی تفریق بین المسلمین اور دوسری تفریق فی الدین کہ عملاً اس کی وحدت پارہ پارہ ہوجائے۔ یوں بھی اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ-۴۲ (الشوریٰ): ۱۳… وَلَا تَتَّبِعُوْا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ -۶ (الانعام): ۱۵۳ کی خلاف ورزی ہوگی۔ ۳۶- کہ ہمارا ایک الگ طریقِ زندگی ہے جس سے ہر معاملے میں ہماری رہنمائی ہوتی ہے اور اس لیے ہمارا مسلک ہر بات میں دوسروں سے الگ ہے۔ ۳۷- قرآن مجید ’ریب‘ سے پاک ہے (لاریب فیہ) بعینہٖ اس میں اُلجھاؤ نہیں اُلجھاؤ ہم پیدا کرتے اور مشکلات میں اُلجھتے ہیں۔ ۳۸- لہٰذا قرآن مجید ’فرقان‘ حمید بھی ہے۔ ۳۹- ۵ (المائدہ): ۳۔ ۴۰- دیکھیے تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ۔ آخری خطبہ۔ نیز ’مذہب‘ عدد اشاریہ۔ ۴۱- اور یہ اَمر پھر تفریق بین المسلمین کا موجب ہوگا۔ ۴۲- اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللّٰہِ یَبْغُوْنَ وَلَہْ اَسْلَمَ مَنْ فِیْ السَّمٰوَاتِ َوالَارْضِ-۳ (آل عمران):۸۳۔ ۴۳- شَرَعَ لَکُمْ مِنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحاً وَالَّذِیْ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ-۴۲ (الشوریٰ): ۱۳۔ ۴۴- لہٰذا قرآن پاک کا ارشاد کہ شریعت کا جو بھی حکم ہے کسی حقیقت پر مبنی اور جسے علم ہی کی بدولت سمجھا جاسکتا ہے۔ ذَلِکُمْ خَیْرٌلَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔ ۴۵- ……………؟؟؟؟؟؟؟ ۴۶- لہٰذا عالمگیر اور باعتبار نوعیت متحرک۔ دیکھیے تشکیل جدید چھٹا خطبہ، آخری صفحہ ۴۷- تشکیل جدید البیات اسلامیہ، چھٹا خطبہ۔ بحث ریاست۔ ۴۸- ھُوَ الَّذِیْ َاَرْسَلَ رَسُوْلَہُ بِالْھُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ -۹ (التوبہ):۳۳۔ ۴۹- ضرب کلیم: باطل دوئی پسند ہے حق لاشریک ہے شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول ۵۰- نیز دیکھیے رموز بے خودی، عنوانات توحید و رسالت: از رسالت در جہاں تکوین ۵۱- چنانچہ جہاں تک مصالح انسانی کا تعلق ہے شریعت نے بلاامتیاز اسلام و غیر اسلام ہر اَمر میں عدل و انصاف، باہمدگر تعاون اور خیر خواہی پر زور دیا۔ ۵۲- کہ زندگی خود اس اَمر کی مقتضی ہے۔ یہ نہیں کہ ہم اس کا رُخ ایک ایسی سمت کی طرف موڑ رہے ہیں جو اسے گوارا نہیں۔ ۵۳- دیکھیے حضرت علامہ کا بیان مولانا حسین احمد کے جواب میں جس کا اس سے پہلے ذکر آچکا ہے۔ ۵۴- مثلاً مصر ہی میں جہاں دولتِ عثمانیہ کے خلاف جمعیۃ الامر مرکزیہ قائم ہوچکی تھی تاکہ اس کے اقطاع مختلف ریاستوں میں بٹ جائیں۔ عیسائی ادیبوں نے اس جذبے کو بالخصوص اُبھارا اور نتیجہ یہ کہ بلاد عربیہ کی سیاست اب بڑی حد تک عیسائیوں کے ہاتھ میں ہے۔ ۵۵- بانگ درا میں الغائے خلافت سے بہت پہلے حضرت علامہ کَہ چکے تھے: چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبا سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ ۵۶- دیکھیے تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، چھٹا خطبہ۔ ۵۷- طلوع اسلام: یہ نکتہ سرگزشت منت بیضا سے ہے پیدا کہ اقوام زمین ایشیا کا پاسبان تو ہے ز…ز…ز جمعۃ المبارک: ۱۱؍مارچ دن بھر مصروفیت رہی۔ شام کے قریب جاوید منزل پہنچا تو معلوم ہوا کہ چودھری صاحب کے علاوہ مہر صاحب اور شیخ مبارک علی۱؎ بھی حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ میں سمجھا تھا حضرت علامہ حسبِ معمول کچھ نہ کچھ ارشاد فرما رہے ہوں گے، لیکن خواب گاہ میں داخل ہوکر سلام عرض کیا تو یہ دیکھ کر ایک گونہ تشویش ہوئی کہ کمرے میں خلاف معمول خاموشی طاری ہے۔ حضرت علامہ بڑے پژمردہ اور مضمحل نظر آتے تھے۔ میں نے خیریت مزاج دریافت کی اور ایک طرف کو ہوکر بیٹھ گیا۔ حضرت علامہ نے حسبِ معمول فرمایا الحمدللّٰہ۔ پھر اپنی صحت اور علالت کا ذکر کچھ اس طرح کرنے لگے کہ اس میں یاس و حزن کا رنگ غالب تھا۔ ارشاد ہوا: ’’مجھ پر چار حملے ہوچکے ہیں۔ ایک قولنج کا دورہ، جو آج سے بہت پہلے بڑی شدت کے ساتھ ہوا تھا۔ پھر ۱۹۲۸ء میں درد گردہ نے خاصا پریشان کیا۔ ۱۹۳۴ء میں گلا بیٹھ گیا اور اب چند دنوں سے جو حالت ہے اچھی نہیں ہے۔‘‘ لیکن میں سمجھتا تھا کہ یہ قولنج اور درد گردہ تو خیر دو الگ الگ تکلیفیں تھیں البتہ ۱۹۳۴ء اور اب کا معاملہ دراصل ایک ہی سلسلے کی دو کڑیاں ہیں۔ افسوس ہے حضرت علامہ کی بیماری ختم ہونے میں نہیں آتی۔ مہر صاحب اور شیخ صاحب نے کچھ تسکین آمیز کلمات کہے۔ ہم سب بڑے افسردہ خاطر بیٹھے تھے۔ مہر صاحب اور شیخ صاحب زیادہ نہیں ٹھہرے۔ م-ش آگئے۔ چودھری صاحب بھی اُٹھ بیٹھے۔ انھیں شاید ڈاکٹر یوسف صاحب سے ملنا تھا۔ میں نے بھی تھوڑی سی دیر کے لیے اجازت لی۔ تھوڑی دور تک چودھری صاحب کا ساتھ رہا اور گفتگو یہی کہ حضرت علامہ کے علاج کی بہترین صورت کیا ہوسکتی ہے۔ میں جلد ہی واپس آگیا۔ قرشی صاحب تشریف لے آئے تھے۔ حضرت علامہ سے باتیں ہورہی تھیں۔ چودھری صاحب بھی آگئے۔ حضرت علامہ کی طبیعت مائل بہ آرام تھی، البتہ کبھی کبھی دم کشی کی تکلیف ہوجاتی، گو علی بخش کا خیال تھا کہ بمقابلہ دن کے تکلیف کم ہے۔ بایں ہمہ حضرت علامہ کی تکلیف سے بڑا دکھ ہوتا ہے۔ کتنی باتیں ہیں جو انسان چاہتا ہے نہ دیکھے، مگر دیکھنا پڑتی ہیں۔ انسان بھی کیسا مجبور ہے! حضرت علامہ کا ارشاد تھا ہم باتیں کرتے جائیں تاکہ ان کا دل بہلا رہے۔ کبھی کبھی دریافت فرمالیتے حالات کیا ہیں؟ ئ…ئ…ء حواشی ۱- مہتمم یونائیٹڈ پبلشرز لاہور، حضرت علامہ کے پرانے طابع و ناشر اور عقیدت مند۔ ز…ز…ز شنبہ: ۱۲؍مارچ سہ پہر میں حاضر خدمت ہوا۔ قرشی صاحب خلاف معمول پہلے سے موجود تھے۔ علی بخش نے کہا ’’ڈاکٹر صاحب بھی آنے والے ہیں۔ میں سمجھ گیا قرشی صاحب اسی لیے آئے ہیں اور ان کی تشریف آوری کے منتظر ہیں۔ میں نے کمرے میں داخل ہوکر حضرت علامہ کا مزاج پوچھا تو فرمایا: ’’الحمدللّٰہ۔ صبح سے طبیعت نسبتاً بہتر ہے۔ چودھری صاحب ڈاکٹر صاحب کی طرف گئے ہیں۔‘‘ قرشی صاحب حضرت علامہ کا دل بہلا رہے تھے۔ تھوڑی دیر میں چودھری صاحب آگئے۔ ڈاکٹر محمد یوسف صاحب ساتھ تھے۔ ڈاکٹر صاحب کمرے میں داخل ہوئے اور حضرات کے پاس ہی بیٹھ گئے۔ سلام کے بعد عوارض کا پوچھا۔ علاج معالجے، دوا اور غذا کے بارے میں متعدد سوالات کیے۔ پھر دیر تک حضرت علامہ کے قلب اور رئیتین کا معائنہ کرتے رہے۔ چند منٹ اور بیٹھے اور تشریف لے گئے۔ قرشی صاحب اُٹھ بیٹھے۔ انھیں مطب جانا تھا۔ نشست گاہ میں منشی طاہر الدین کاغذات لیے منتظر تھے۔ ڈاکٹر صاحب گئے تو حضرت علامہ نے انھیں اندر بلالیا۔ چودھری صاحب صحن تک ڈاکٹر صاحب کے ساتھ گئے۔ واپس آئے تو حضرت علامہ مہر و سالک ساتھ تھے۔ حضرت علامہ نے کاغذات ملاحظہ فرمائے۔ منشی صاحب کو کچھ ہدایات دیں، پھر سالک و مہر صاحبان کی طرف متوجہ ہوئے۔ انھوں نے مزاج پوچھا۔ حضرت علامہ نے سرسری طور پر اپنی طبیعت کا حال بیان کیا۔ شام ہورہی تھی۔ حضرات مہر و سالک جاچکے تھے۔ چودھری صاحب بھی چلے گئے، شاید اس لیے کہ انھیں ڈاکٹر صاحب سے ملنا تھا۔ اتنے میں م-ش آگئے۔ علی بخش نے دوا کا اہتمام کیا اور غذا کے بارے میں ہدایات لیں۔ میں نے عرض کیا: ’’قرشی صاحب آتے ہوں گے۔ تھوڑی دیر کے لیے میں بھی گھر ہو آؤں۔‘‘ فرمایا: ’’بہتر ہے۔‘‘ پھر جو جاوید منزل پہنچا تو ۹ بج رہے تھے۔ معلوم ہوا چودھری صاحب تشریف لے آئے ہیں اور قرشی صاحب اور راجا صاحب بھی حضرت علامہ کے پاس بیٹھے ہیں۔ علی بخش نے کہا: ’’جب سے آپ گئے ہیں حضرت علامہ زیادہ تر سوتے رہے۔ اب بھی شاید نیند لے رہے ہوں۔‘‘ کمرے میں داخل ہوا تو حضرت علامہ فی الواقعہ سورہے تھے۔ م-ش اور رحما پاینتی کی طرف بیٹھے ان کے پاؤں اور پنڈلیاں داب رہے تھے۔ چودھری صاحب، قرشی صاحب اور راجا صاحب خاموش بیٹھے تھے۔ میں بھی دبے پاؤں ان کے پاس جابیٹھا۔ کوئی آدھ گھنٹے بعد حضرت علامہ دفعۃ جاگ اُٹھے۔ ضیق کی تکلیف تھی، ارشاد ہوا ملک صاحب۱؎ کو بلایا جائے۔ فرمایا: ’’کمزوری بہت بڑھ گئی ہے۔ دوا پی لوں، یا ڈاکٹر صاحب کا انتظار کرلیا جائے۔‘‘ قرشی صاحب نے آگے بڑھ کر نبض دیکھی اور کہا ’’آپ دوا پی لیجیے۔ کمزوری رفع ہوجائے گی۔ یہ کیفیت عارضی ہے۔‘‘ دراصل حضرت علامہ ایلوپیتھک دوا پینے میں متامل تھے۔ ان کا جی چاہتا تھا خمیرہ گاؤزبان، یا اس قسم کا کوئی دوسرا مرکب استعمال کریں۔ اتنے میں ڈاکٹر حمید ملک آگئے۔ اس دوران میں حضرت علامہ کی طبیعت بھی سنبھل چکی تھی، ملک صاحب نے کہا: ’’یہ بہت اچھا ہوا آپ نے دوا پی لی۔ اس سے فائدہ ہوگا۔‘‘ قرشی صاحب نے بھی تائید کی اور پھر شاید ذرا سا خمیرہ بھی استعمال کرنے کے لیے کہا۔ حضرت علامہ نے فرمایا: ’’آپ لوگ جائیے نہیں، بیٹھے رہیے۔ باتیں کیجیے۔‘‘ کوئی بارہ بجے تک نشست رہی۔ گفتگو کا رنگ اگرچہ زیادہ تر سیاسی تھا، لیکن مقصد صرف یہ کہ حضرت علامہ کی طبیعت بہلی رہے۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱- یعنی ڈاکٹر عبدالحمید ملک کو۔ یک شنبہ: ۱۳؍مارچ دن بھر مصروف رہا اور اس لیے باوجود کوشش کے شام سے پہلے حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکا۔ البتہ یہ اطمینان تھا کہ قرشی صاحب اور چودھری صاحب نے حسبِ معمول صبح اور تیسرے پہر حاضری دی ہوگی۔ میں جاوید منزل پہنچا تو دونوں حضرات پہلے سے موجود تھے۔ ہٹلر اور آسٹریا کا ذکر ہورہا تھا۔ فرمایا: ’’ہٹلر نے آسٹریا پر قبضہ کرلیا ہے۔ عذر یہ ہے کہ جرمن نسل کو باہم متحد ہوجانا چاہیے۔ معلوم نہیں ہٹلر کی ان کوششوں کا نتیجہ کیا ہو۔ آسٹریا کے علاوہ اور بھی تو علاقے ہیں جہاں جرمن نسل کے لوگ آباد ہیں۔۱؎ پھر اگر وطنی اور قومی یعنی ملکی اتحاد کے برعکس نسلی اتحاد کی اس کوشش نے ایک سیاسی تحریک کی شکل اختیار کرلی تو دنیا کی دوسری قومیں بھی اس سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہیں گی۔ جن قوموں کا نسلی تشخص ختم ہوچکا ہے ان کا معاملہ تو خیرالگ ہے، لیکن جہاں کہیں نسلی اشتراک کا سوال پیدا کیا جاسکتا ہے وہاں پر کسی کی خواہش ہوگی کہ سیاسی اتحاد کی اس نئی اساس کے پیشِ نظر باہم متحد ہونے کی کوشش کریں۔ ہٹلر اس مقصد میں کامیاب ہوگیا تو اس کی یہ کامیابی ایک بہت بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ فرمایا: ’’اتحاد نسل کا خیال بہت پرانا ہے۔ بعض نسلیں، مثلاً سلافی اور چینی تو عملاً بڑی حد تک متحدہیں۔ دوسری نسلیں بھی اس احساس سے خالی نہیں۔ ترکوں ہی کو لیجیے ایک زمانے میں اتحاد تور ان کی تحریک اُٹھائی گئی، بعینہٖ جیسے آج اتحاد المانوی کی تحریک جاری ہے۔ پھر ترکوں کے علاوہ عرب ہیں، افغان ہیں ان کا ذہن بھی عصبیت سے خالی نہیں۔ ان میں بھی نسلی جذبہ اُبھرسکتا ہے۔‘‘۲؎ ارشاد ہوا: ’’یہ تحریکیں کامیاب ہوگئیں تو جرمنوں کی طرح ترک اور عرب بھی زیادہ طاقت حاصل کرسکتے ہیں اور شاید ایک حد تک افغان بھی۔ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ اتحاد اتراک، یا اتحاد عرب کی تحریک کسی نہ کسی رنگ میں اسلام کے لیے بھی مفید ٹھہرے، گو اسلام قاطع نسل و وطن ہے۔‘‘ حضرت علامہ برابر گفتگو کیے جارہے تھے۔ اِلّا یہ کہ بسبب ضعف و اضمحلال تھوڑی دیر کے لیے رُک جائیں۔ فرمایا: ’’لیکن یہ بھی تو ممکن ہے کہ یہ تحریکیں کامیاب نہ ہوں، اس لیے کہ کسی نسل کا نہ تو خالصاً کہیں وجود ہے، نہ ان کی اندرونی گروہ بندیاں بآسانی ختم ہوسکتی ہیں۔ علاوہ اس کے کئی ایک اور بھی تو سیاسی اجتماعی عوامل ہیں جو دنیا میں ہر کہیں کام کررہے ہیں۔ لہٰذا ہوسکتا ہے ان عوامل کی بنا پر اس قسم کے نسلی اتحاد کی شدت سے مخالفت کی جائے۔‘‘ پھر قدرے سکوت کے بعد فرمایا: ’’معلوم ہوتا ہے دنیا ایک بہت بڑے انقلاب کی منتظر ہے۔‘‘۳؎ میں نے عرض کیا: ’’بالفرض یہ تحریکیں کامیاب ہوجائیں تو اس صورت میں اسلامی نقطۂ نظر سے ہمیں کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ آپ نے ابھی ارشاد فرمایا تھا اسلام قاطع، وطن اور نسل ہے۔‘‘ فرمایا: ’’یہ صحیح ہے۔ اسلام کوئی نسلی اور وطنی تفریق گوارا نہیں کرتا، لیکن نسلی اور وطنی گروہ بندی کا ایک پہلو یہ بھی تو ہے کہ مغلوبیت اور محکومیت آزادی اور استقلال سے بدل جائے۔ لہٰذا عربوں اور ترکوں نے اگر اس طرح قوت حاصل کرلی تو آیندہ چل کر یہ بھی ممکن ہے کہ بسبب اس دینی رشتے کے جو بجاے خود ایک سرچشمۂ اتحاد ہے وہ ایک دوسرے سے قریب تر ہوتے جائیں۔ یوں بھی اظہار ذات کی اس کوشش میں جس کا تعلق قومی عصبیت سے ہے جب ان کے ذہن میں کچھ اور زیادہ وسعت پیدا ہوئی تو ہوسکتا ہے وہ سیاسی اور اجتماعی پہلو سے اس حقیقت کو سمجھ لیں کہ مسلمانوں کی گروہ بندی اسلام کی گروہ بندی ہے، یعنی ان کاملّی اتحاد۔‘‘۴؎ ہم نے عرض کیا: ’’کچھ ایسا ہی خیال وطنیت پسند مسلمانوں کا ہے۔ کانگریس کی ہندوانہ ذہنیت کے پیشِ نظر ان کے تغلب پسند مقاصد کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے تو ان کے ہم نوا یہی کہتے ہیں کہ یہ ایک عارضی دور ہے، ہمارا حقیقی مقصد تو آزادی اور استخلاص ہے۔ لہٰذا ہمارے نزدیک سب سے پہلا سوال یہی حصول آزادی کا ہے۔ باقی مسائل اندرونی ہیں۔ ہم ان مسائل سے بعد میں نپٹ لیں گے۔‘‘ ارشاد ہوا: ’’وہ کیسے؟ یہ سارا مسئلہ تو آئینی ہے، یعنی حکومت سے ایک بات منوانے کا۔‘‘ پھر متاسف ہوکر فرمایا: ’’مسلمان بڑے سادہ ہیں۔ کیسے کیسے مغالطوں میں گرفتار ہیں۔‘‘ فرمایا: ’’کانگریس کی حمایت سے تو مسلمانوں کے استخلاص اور آزادی کا راستہ نہیں کھلتا۔ یہ راستہ تو ضعف و انحطاط اور افتراق و انتشار کا ہے۔ طاقت اور قوت اتحاد و ارتباط کا نہیں ہے۔ طاقت اور قوت حاصل ہوگی تو متحدہ قومیت یا کانگریس کی اصطلاح میں ہندوستانی قوم کو۔ آزادی بھی اسی کو ملے گی اور ہندوستان کا سیاسی اقتدار بھی اسی کے ہاتھ میں رہے گا۔ یہ راستہ آئینی جدوجہد سے طے کیا جائے، یا غیر آئینی طریقوں سے، دونوں صورتوں میں جو بھی فیصلہ ہوگا اکثریت کے حق میں ہوگا۔ اس لیے جب تک یہ طے نہیں ہوتا کہ جو لوگ اس جدوجہد میں شریک ہیں ان کی حیثیت بمقابلہ ایک دوسرے کے کیا ہے، یہ کہنا بہت بڑی غلطی ہوگی، بلکہ خود کشی کے مترادف کہ سرِدست مسئلہ صرف آزادی کا ہے۔ باقی مسائل بعد کے ہیں ہندو ایسے سادہ لوح نہیں ہیں جیسے اس خیال کے مسلمان انھیں سمجھتے ہیں۔‘‘ ارشاد ہوا: ’’دراصل یہ سارا فتنہ لفظ قوم کا پیدا کردہ ہے۔ مسلمانوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ اصطلاح سیاست میں قوم کسے کہتے ہیں؟ اس سے مراد ہے کس طرح کی گروہ بندی؟ کانگریس کے نزدیک تو اس سے مراد وہ گروہ بندی جس کی اساس ہے وطن اور جس کے پیشِ نظر وہ اس ملک کے بسنے والوں کو ایک قوم سمجھتی ہے، حالانکہ اس خیالی اور فرضی یعنی ہندوستانی قوم کا سرے سے کہیں وجود ہی نہیں۔ ترک اور عرب یا افغان البتہ اس طرح کی ایک قوم ہیں جن میں وطنی، لسانی، تہذیبی اور مذہبی اشتراک موجود ہے۔ ہندوستانی قومیت کا تصور کیجیے تو اس میں بجز ایک یعنی وطنی اشتراک کے کوئی قدر مشترک نہیں۔ لہٰذا اس طرح کے اشتراک وطن پر جو قوم بنے گی اس میں زمام اقتدار اکثریت یعنی ہندوؤں ہی کے ہاتھ میں رہے گی۔ ہم نے اس قومیت کو قبول کرلیا تو ہماری ہستی ہندوؤں میں ضم ہوجائے گی۔ لہٰذا سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کانگریس جس قسم کی آزادی کی طلب گار ہے اور قوم کا جو تصور اس کے ذہن میں ہے اسے مان لیا جائے تو اس سے کیا نتائج مترتب ہوں گے۔ کیا اس صورت میں ہمارا تہذیبی اور اجتماعی تشخص قائم رہے گا؟‘‘ فرمایا: ’’ہندو اور مسلمان کبھی ان معنوں میں ایک قوم نہیں بن سکتے جن معنوں میں ترک اور عرب یا افغان ایک قوم ہیں۔‘‘ لفظ قوم پر گفتگو ہونے لگی۔ ارشاد ہوا: ’’جب سے مولانا حسین احمد نے لفظ قوم کے متعلق ایک غیر ضروری اور سرتاسر لاحاصل بحث چھیڑی ہے قرآن اور حدیث اور عربی لغت کے حوالوں سے عجیب و غریب موشگافیاں پیدا کی جارہی ہیں۔ سوچتا ہوں مسلمانوں کا ذہنی انحطاط کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔ دین کو جاننے اور دین کو سمجھنے کے دعویدار دین سے کیسے بے خبر ہیں۔ یہ کیسا سلسلۂ استناد و استشہاد ہے کہ قومیت کی حمایت میں اب اس آیت کا سہارا لیا جارہا ہے: وَقَالَ الرَّسُوْلُ یَا رَبِّ إنَّ قَوْمِیْ اتَّخَذُوْا ہٰذَا الْقُرْآنَ مَحْجُوْرًا۵؎ حالانکہ اس آیت میں قوم کا اشارہ اس گروہ کی طرف ہے جس میں رسول کی بعثت ہوئی۔ رسول کے پیشِ نظر جس طرح کی قوم ہے اسے اُمت کہا گیا ہے اور اس سے مراد ہے وہ سیاسی اجتماع جس کی تشکیل توحید و رسالت کی بنا پر ہوئی۔ قرآن مجید نے اس اجتماع کو قوم نہیں اُمت کہا ہے۔‘‘۶؎ ارشاد ہوا: ’’یوں بھی مولانا حسین احمد کے لغوی دلائل صحیح تسلیم کرلیے جائیں تو سیاستِ حاضرہ کی رُو سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ سیاسی لغت میں وطن اور قوم کے وہ معنی نہیں ہیں جو مولانا حسین احمد کے طرفدار اپنی سادگی سے سمجھ رہے اور جس کے لیے خوامخواہ عربی لغت، قرآن اور حدیث کے حوالے پیش کیے جارہے ہیں۔‘‘ دفعۃً حضرت علامہ نے کچھ تکلیف محسوس کی اور سر تکیے پر ٹیک دیا حالانکہ دوران گفتگو میں ان کی طبیعت خاصی ہشاش بشاش تھی۔ ہم ابھی کچھ پوچھنے نہیں پائے تھے کہ انھوں نے پھر سر اُٹھایا۔ کچھ کہنا چاہتے تھے، لیکن کَہ نہیں سکے۔ سر پھر تکیوں پر ٹیک دیا۔ بڑی پریشانی کا عالم تھا۔ علی بخش اور رحما اُٹھ بیٹھے۔ قرشی صاحب نے آگے بڑھ کر نبض پر ہاتھ رکھا۔ اختلاج کا ہلکا سا دورہ تھا۔ حضرت علامہ کو ضعف محسوس ہورہا تھا۔ قرشی صاحب اور آگے بڑھ گئے۔ کہنے لگے: ’’خمیرہ استعمال فرما لیجیے۔ طبیعت ٹھیک ہوجائے گی۔‘‘ حضرت علامہ نے خمیرہ مروارید کی ایک خوراک کھائی اور اللہ کا شکر ہے کہ چند ہی لمحوں میں طبیعت بحال ہوگئی۔ فرمایا: ’’چائے پینے کو جی چاہتا ہے۔‘‘ ہم قصداً خاموش بیٹھے تھے۔ ہمیں ایک گونہ اطمینان تھا۔ علی بخش چائے لایا تو ہم سب حضرت علامہ کے اور زیادہ قریب ہو بیٹھے۔ قرشی صاحب ان کے ہاتھ سہلانے لگے۔ حضرت علامہ نے چائے پی۔ فرمایا: ’’آپ بھی چائے پئیں اور باتیں کیے جائیں۔‘‘ قرشی صاحب نے اہلِ سیاست کا ذکر چھیڑا۔ م-ش اور چودھری صاحب یونینسٹوں پر فقرے چست کرنے لگے۔ خاصا وقت گزر گیا۔ حضرت علامہ مائل بہ آرام تھے۔ ایک آدھ مرتبہ اُونگھ بھی گئے، مگر اس کے باوجود ہم دیر تک بیٹھے رہے۔ کبھی کبھی حضرت علامہ جاگ اُٹھتے تو انھیں اطمینان ہوتا کہ قرشی صاحب اور ہم سب ان کی خدمت میں حاضر ہیں۔ رات کافی گزر گئی تو انھوں نے خود ہی فرمایا: ’’اب آپ آرام کریں۔‘‘ ئ…ئ…ء حواشی ۱- جیسے چیکوسلوا کیا میں زیوڈیٹن لینڈ (Sudetenland) جس پر دوسری عالمگیر جنگ میں جرمن افواج نے قبضہ کیا۔ عذر یہی تھا کہ یہ علاقہ جرمن نسل کا ہے۔ ۲- جیسا کہ بالآخر ہوا، حتی کہ ایک عرب قومیت کے اندر کئی قومیتیں اُبھر چکی ہیں عراقی، شامی، لبنانی، اردنی وغیرہ وغیرہ اور اس لیے عربوں کا اتحاد محض ایک خیال ہی خیال ہے، حقیقت سے معرا۔ ۳- جیسا کہ دوسری عالمگیر جنگ کی بدولت ہوا۔ ۴- بطور ایک سیاسی اجتماع کے۔ ۵- ۲۵ (الفرقان): ۳۰ ۶- إنَّ ہٰذِہِ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنِ-۲۱ (الانبیا): ۹۲؛ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ-۳ (آل عمران): ۱۱۰۔ ز…ز…ز دو شنبہ: ۱۴؍مارچ کئی دن سے گفتگو تھی کہ اگر ممکن ہو تو حکیم نابینا صاحب کو لاہور آنے کی زحمت دی جائے۔ کیا اچھا ہو اگر حکیم صاحب حضرت علامہ کو ایک مرتبہ پھر دیکھ لیں۔ لہٰذا رات میرے ذمے یہ خدمت کی گئی کہ صبح خواجہ عبدالرحیم صاحب سے ملوں اور معلوم کروں وہ اس سلسلے میں کیا کرسکتے ہیں، چنانچہ صبح ان کے دفتر پہنچا اور بات کی تو انھوں نے کہا اس سے بہتر اور کیا ہوسکتا ہے کہ حکیم صاحب لاہور تشریف لائیں، حضرت علامہ کو دیکھ لیں۔ ہمیں چاہیے جس طرح بھی بن پڑے انھیں لاہور آنے پر آمادہ کریں۔ لیکن کیسے؟ مشکل یہ تھی کہ حکیم صاحب دہلی چھوڑ کر حیدرآباد چلے گئے تھے اور وہ بھی بطور طبیب خاص حضور نظام۔ لہٰذا سوال یہ تھا کہ حضور نظام سے اجازت حاصل کرے تو کون؟ حکیم صاحب خود، یا حضرت علامہ؟ لیکن حضرت علامہ تو ایسا نہیں کریں گے۔ اندریں صورت کیا کیا جائے؟ تدبیر کیا ہو؟ دیر تک یہ مسئلہ زیر غور رہا۔ بالآخر اس حیص بیص میں یہ طے پایا کہ راجا صاحب سے مشورہ کیا جائے۔ لہٰذا راجا صاحب کے دفتر پہنچے۔ راجا صاحب کی سمجھ میں بھی کچھ نہیں آتا تھا کہ تدبیر کیا ہو۔ دیر تک گفتگو رہی، لیکن بے نتیجہ۔ دوپہر ہوگئی۔ سہ پہر کے بعد جاوید منزل پہنچا۔ مجھے افسوس تھا کہ خواجہ صاحب اور راجا صاحب سے ملنے ملانے میں بہت سا وقت ضائع ہوگیا اور کوئی بات بھی نہ بن سکی۔ کچھ تشویش بھی تھی کہ نہ معلوم حضرت علامہ کی طبیعت کیسی ہو۔ انھیں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی۔ لہٰذا سب سے پہلے علی بخش کی تلاش ہوئی۔ علی بخش باورچی خانے سے چلم ہاتھ میں لیے آرہا تھا اور اس سے پہلے کہ میں کوئی سوال کروں کہنے لگا: ’’خدا کا شکر ہے ڈاکٹر صاحب کی طبیعت اچھی ہے۔ چودھری صاحب اور راجا صاحب سے باتیں ہورہی ہیں۔‘‘ میں خواب گاہ میں داخل ہوا۔ حضرت علامہ کا مزاج پوچھا۔ فرمایا: ’’الحمدللّٰہ۔ آج دورہ نہیں ہوا۔ گو عوارض کا وہی حال ہے جو تھا۔‘‘ اتنے میں حزب الاحناف کا وفد آگیا۔ حضرت علامہ باوجود تکلیف کے بڑی مروت سے پیش آئے۔ وفد نے مزاج پرسی کی۔ سیاسی اور مذہبی حالات کا ذکر چھیڑ دیا۔ پھر استفسار کیا کہ بہ حالت موجودہ حزب الاحناف کو کیا کرنا چاہیے؟‘‘ حضرت علامہ نے فرمایا: ’’یہ موقع حنفی اور غیر حنفی کی بحث کا نہیں ہے، نہ فرقہ بندی کو ہوا دینے کا۔ فرقہ بندی کا یوں بھی کوئی جواز نہیں۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ مسلمانوں میں دین کا فہم اور دین کی محبت پیدا کی جائے۔ یہ مقصد ایک حد تک قلم کے ذریعے سے بھی حاصل ہوسکتا ہے۔ حزب الاحناف اور نہیں تو اچھی قسم کی دینی کتابیں ہی شائع کرے۔‘‘ ارکانِ وفد چند منٹ اور بیٹھے۔ مغرب کا وقت ہو رہا تھا۔ انھوں نے اجازت لی۔ ارکانِ وفد گئے تو حضرت علامہ نے فرمایا: ’’غنیمت ہے مسلمانوں میں کچھ احساس باقی ہے، لیکن یہ فرقہ بندی، یہ طرح طرح کے احزاب، یہ آئے دن کی جماعت سازی، اس سے کب نجات ملے گی؟ اگر اس جماعت سازی کی بجاے کوئی متحدہ کوشش کی جائے تو ممکن ہے حالات جلدی سدھر جائیں۔‘‘ فرمایا: ’’اتحاد ہی نہیں ہے، حالانکہ ہر کہیں اتحاد ہی کی ضرورت ہے۔ سیاست میں بھی، مذہب میں بھی۔‘‘ پھر فرمایا: ’’مسلمانوں کو چاہیے ملک برکت علی کے بل۱؎ کی حمایت کریں۔ معلوم نہیں اسمبلی میں کیا صورت پیش آئے۔‘‘ قرشی صاحب آگئے۔ مزاج پوچھا۔ فرمایا: ’’الحمدللّٰہ! طبیعت اچھی ہے۔ دن میں کوئی دورہ نہیں ہوا۔‘‘ قرشی صاحب نے آگے بڑھ کر نبض دیکھی۔ کہنے لگے: ’’اللہ تعالیٰ آپ کو صحت دے۔ ہم۲؎ ہر ممکن تدبیر کررہے ہیں۔ کیا اچھا ہو اگر کسی طرح حکیم صاحب تشریف لے آئیں۔‘‘ حضرت علامہ نے چائے کے لیے کہا۔ علی بخش نے دوا کھلائی۔ پھر پاینتی کی طرف ہو کر بستر ٹھیک کیا، حضرت علامہ کو کمبل اوڑھایا اور باورچی خانے کی طرف چلا گیا۔ ارشاد ہوا: ’’ایک رباعی ہے۔ اس کی تصحیح کردو۔‘‘ میں نے بیاض اُٹھائی اور حضرت علامہ سے ہدایات لے کر نشست گاہ میں جابیٹھا۔ تعمیل ارشاد ہوگئی اور کمرے میں واپس آیا تو حضرت علامہ ہشاش بشاش باتیں کررہے تھے۔ وقت کافی گزر گیا تھا۔ قرشی صاحب نے کہا کچھ کھانا تناول کرلیجیے۔ فرمایا: ’’بہت بہتر۔‘‘ علی بخش کھانا لے آیا۔ حضرت علامہ نے کھانا تناول فرمایا۔ حقے کے دو ایک کش لیے اور لیٹ گئے۔ م-ش آگئے۔ ان سے کچھ سوالات کیے: ’’کہاں رہے؟ بچوں کا کیا حال ہے؟‘‘ علی بخش اور رحما بدن دابنے لگے۔ معلوم ہوتا تھا حضرت علامہ کو نیند آجائے گی، اس لیے بہت کم کوئی بات کی گئی اور کی بھی تو محض حضرت علامہ کے خیال سے کہ انھیں تسلی رہے، ہم ان کی خدمت میں حاضر ہیں۔ پھر جب اطمینان ہوگیا کہ حضرت علامہ فی الواقع سوگئے ہیں تو ہم نے زیادہ ٹھہرنا مناسب نہیں سمجھا۔ یوں بھی بارہ بجنے کو تھے۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱- اوقاف کے متعلق، جس کا ذکر پہلے آچکا ہے۔ ۲- یعنی معالجین۔ ز…ز…ز سہ شنبہ: ۱۵؍مارچ رات قرشی صاحب سے طے ہوا تھا کہ علی الصبح جاوید منزل پہنچ جاؤں، لیکن میری طبیعت قدرے خراب تھی، اس لیے ذرا دیر ہوگئی۔ جاوید منزل پہنچا تو حضرت علامہ کو قرشی صاحب کا منتظر پایا۔ مزاج پوچھا تو فرمایا: ’’الحمدللّٰہ! اچھا ہوں۔ حکیم صاحب کہاں ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’رات انھوں نے کہا تھا انھیں کچھ کام ہے، صبح سیر کے لیے بھی نہیں جائیں گے۔ آپ کی خدمت میں بھی دیر سے حاضر ہوں گے۔ میں اس لیے آیا ہوں کہ کوئی اَمر قابل اطلاع ہو تو ان کی خدمت میں عرض کردوں۔‘‘ ارشاد ہوا: ’’رات طبیعت بہت بہتر رہی۔ نیند بھی خوب آئی۔ اللہ کا فضل ہے۔ اب بھی کوئی تکلیف محسوس نہیں کرتا۔ حکیم صاحب کو اطلاع کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔ دوپہر یا سہ پہر میں آتے ہوں گے۔‘‘ میں سمجھ گیا کہ مجھے بیٹھنا چاہیے۔ اتنے میں اخبار آگیا حضرت علامہ کے ارشاد پر موٹی موٹی سرخیاں پڑھ کر سنائیں۔ علی بخش نے دوا اور ناشتے کا اہتمام کیا۔ حضرت علامہ ناشتہ کررہے تھے کہ معلوم نہیں کیا خیال آیا، فرمایا: ’’سارٹن کا ترجمہ کہاں تک پہنچا؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’چند ابواب باقی رہ گئے ہیں۔‘‘ ارشا ہوا: ’’کیوں؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’پچھلے چند سالوں سے جو حالات ہیں آپ کو معلوم ہیں۔ جب سے دہلی سے آیا ہوں موقع ہی نہیں ملا کہ ترجمے کی تکمیل کرتا۔ کچھ مشکلات بھی ہیں۔‘‘ فرمایا: ’’حالات کا عذر تو خیر ٹھیک ہے۔ مشکلات کیا ہیں؟‘‘ عرض کیا: ’’بعض اسما کی تحقیق، عربی اور لاطینی عنوانات میں تطبیق کا مسئلہ، چند ایک یونانی اور لاطینی عبارتوں کا ترجمہ اور سب سے بڑھ کر اُردو کے حسبِ مزاج مناسب مصطلحات کی تلاش، علی ہٰذا کئی ایک انگریزی الفاظ کے باعتبار لغت اُردو مترادفات۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی دشواریاں ہیں، مثلاً ریاضی بالخصوص جبر و مقابلہ کی رقوم کہ ان کی تحریر کے لیے کیا اُصول اختیار کیا جائے۔‘‘ فرمایا: ’’یہ کام تو خاصا محنت طلب ہے اور یہاں وہ سہولتیں بھی میسر نہیں جو مغربی ممالک میں اس قسم کے کاموں کے لیے بآسانی مل جاتی ہیں، مگر اب جو اس کام میں ہاتھ ڈال چکے ہو تو اس کی تکمیل کردو۔‘‘ میں نے عرض کیا: ’’مولوی صاحب۱؎ اکثر مالی دشواریوں کا ذکر کرتے ہیں۔ کتب بڑی ضخیم ہے اور اس کی طباعت بھی بڑی دشوار اور محنت طلب۔ خرچ بھی کافی ہوگا۔ اگر ان کا ارادہ اس کی فوری اشاعت کا نہ ہو تو چندے اور مہلت دیں۔ ان شاء اللہ چار چھ ماہ میں تکمیل ہوجائے گی۔‘‘ ارشاد ہوا ’’بہتر ہے۔ میری طرف سے مولوی صاحب کو خط لکھ دو۔‘‘ میں نے خط لکھا۔ حضرت علامہ نے خط سنا اور دستخط فرمائے۔ میں کاغذ قلم دان ایک طرف رکھ کر پھر اپنی جگہ پر آبیٹھا۔ حضرت علامہ گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے اطمینان سے بیٹھے تھے۔ کبھی کبھی حقے کا کش لگالیتے۔ فرمایا: ’’آسٹریا اور جرمنی میں کیا ہورہا ہے؟ دول یورپ کیا کررہے ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’آسٹریا کا جرمنی سے الحاق تو جیسا آپ کو معلوم ہے سب نے تسلیم کرلیا ہے۔ علاوہ اس کے اور کوئی بات نہیں جو قابلِ ذکر ہو۔ بظاہر یورپ میں خاموشی ہے۔ معلوم نہیں آیندہ کیا ہو؟‘‘ معلوم نہیں، آیندہ کیا ہو؟ میری اس بات پر حضرت علامہ قدرے خاموش رہے۔ پھر دفعتہ سیدھے بیٹھ کر حقے کا کش لگایا اور کہنے لگے۔ ’’وسط ایشیا میں چار کروڑ ترک آباد ہیں۔ ان کا اتحاد کیوں ممکن نہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’یہ تحریک تو پرانی ہے، لیکن اس وقت روس کی وہ کیفیت نہیں جو کبھی تھی، یعنی اشتراکی انقلاب سے پہلے۔ روس اب ایک بہت بڑی طاقت ہے۔ روس کی موجودگی میں یہ اتحاد کیسے ممکن ہے؟ اس کے لیے بڑی طاقت اور بڑے تدبر کی ضرورت ہے۔ یوں بھی وسط ایشیا میں شاید اب اس قسم کی کسی تحریک کا وجود نہیں۔ تھا بھی تو ۱۹۲۲ء میں ختم ہوگیا۔ عثمانی ترک اپنی الگ تھلگ قومیت کا اعلان کرچکے ہیں۔ ان کا اور تیموری ترکوں کا رابطہ مدت ہوئی ٹوٹ چکا ہے۔ یوں بھی روس کی گرفت نے مدت ہوئی اس کا خاتمہ کردیا۔ حضرت علامہ نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیا، البتہ ایک بار پھر کروٹ بدلتے ہوئے فرمایا: ’’وسط ایشیا میں چار کروڑ ترک آباد ہیں۔ ترک کیوں متحد نہیں ہوتے؟‘‘۲؎ دوپہر ہوگئی تھی۔ حضرت علامہ نے کھانا تناول فرمایا اور پھر آرام کے خیال سے لیٹ گئے تو میں نے تھوڑی دیر اور بیٹھ کر عرض کیا: ’’آپ آرام فرمائیں۔ حکیم صاحب سہ پہر میں آتے ہوں گے۔ میں جلد حاضر ہوجاؤں گا۔‘‘ م-ش آگئے تھے۔ علی بخش تو خدمت کے لیے ہر وقت موجود رہتا ہے۔ مجھے دوپہر سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے بخار آئے گا۔ سہ پہر میں طبیعت دفعتہ خراب ہوگئی۔ میں نے سلامت۳؎ سے کہا شام کو جاوید منزل چلے جائیے اور میری طرف سے معذرت کردیجیے۔ اتفاقاً شام کے قریب قرشی صاحب بھی آگئے۔ میرے لیے دوا تجویز کی، حضرت علامہ کی کیفیت مزاج دریافت کرتے رہے اور پھر جاوید منزل چلے گئے۔ میں نے ان سے بھی عرض کیا میری جانب سے معذرت کردیجیے گا۔ اللہ کرے حضرت علامہ کی طبیعت ٹھیک رہے۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱- بابائے اُردو مولوی عبدالحق مرحوم۔ ۲- بال جبریل: کوئی تقدیر کی منطق سمجھ سکتا نہیں ورنہ نہ تھے ترکانِ عثمانی سے کم ترکانِ تیموری ۳- سیّد سلامت اللہ شاہ مرحوم۔ ز…ز…ز چہار شنبہ: ۱۶؍مارچ رات بھر حضرت علامہ ہی کی طرف خیال رہا۔ دن نکلا تو طبیعت بہتر تھی۔ قرشی صاحب کے مطب کا رُخ کیا۔ انھیں ایک طرح سے میرا انتظار تھا۔ کہنے لگے: ’’بڑی تشویش ہے۔ رات حضرت علامہ کو پھر دورہ ہوگیا۔ دورہ بڑا شدید تھا گو زیادہ دیر تک نہیں رہا۔ ضعف بڑھ گیا ہے۔ کوئی دوا کارگر نہیں ہوتی۔ ہماری دوڑ تو حکیم صاحب تک تھی۔ حکیم صاحب کیسے آئیں گے اور کب آئیں گے؟ حکیم صاحب کا آنا مشکل ہے۔۱؎ میرے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ سب پریشان ہیں۔‘‘ قرشی صاحب یہ کَہ رہے تھے اور میرا دل بیٹھا جارہا تھا۔ حضرت علامہ کی حالت کس قدر تشویشناک ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت علامہ کو صحت دے۔ غمناک اور پریشان جاوید منزل پہنچا۔ علی بخش باہر صحن میں مل گیا۔ کہنے لگا: ’’رات آپ نہیں آئے۔ ڈاکٹر صاحب کو پھر دورہ ہوگیا تھا۔ قرشی صاحب اور چودھری صاحب دیر تک بیٹھے رہے۔ جب تک اطمینان نہیں ہوا گھر نہیں گئے۔ قرشی صاحب پھر صبح سویرے ہی آگئے۔ ڈاکٹر صاحب کو پھر کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ رات آرام سے سوتے رہے۔ اب بھی قرشی صاحب سے بات چیت کرکے سو گئے ہیں۔‘‘ میں نے چودھری صاحب کا پوچھا تو کہنے لگا: ’’چودھری صاحب صبح جلدی آگئے تھے۔ ابھی دفتر گئے ہیں۔ وہ بھی ڈاکٹر صاحب کے پاس بیٹھے رہے۔ ڈاکٹر صاحب کو نیند آرہی تھی۔ چودھری صاحب کہتے ہیں ڈاکٹر صاحب جتنا سوئیں، جتنا آرام کریں، اچھا ہے۔‘‘ میں نے کہا: ’’علی بخش چودھری صاحب ٹھیک کہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبان کی بھی یہی ہدایت ہے۔ رات مجھے بخار تھا اس لیے نہیں آسکا۔ ڈاکٹر صاحب سو رہے ہیں تو مجھے نہیں چاہیے ان کے آرام میں مخل ہوں۔ میں قرشی صاحب سے مل کر سیدھا ادھر چلا آیا تھا۔ ذرا گھر ہو آؤں۔ گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے میں واپس آجاؤں گا۔‘‘ پھر جو حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دوپہر ہوچلی تھی۔ معلوم ہوا حضرت علامہ جاگ اُٹھے ہیں۔ طبیعت اچھی ہے۔ میں نے خواب گاہ میں داخل ہو کر سلام عرض کیا اور مزاج پوچھا تو فرمایا: ’’رات پھر دورہ ہوگیا تھا۔ اچھا ہوا حکیم صاحب موجود تھے۔ دورہ تو جلد ختم ہوگیا، لیکن حکیم صاحب اور چودھری صاحب دیر تک ٹھہرے رہے۔ رات نیند تو آگئی، لیکن نقاہت بڑھ رہی ہے۔ صبح سے بھی برابر سورہا ہوں۔‘‘ حضرت علامہ بڑے مضحمل تھے۔ چہرہ زرد، جیسے بدن میں خون نہیں، آواز بڑی پست، بات کرتے بار بار رُک جاتے۔ میں نے عرض کیا: ’’صبح قرشی صاحب سے ملا تو انھوں نے رات کے دورے کی ساری کیفیت بیان کی۔ میری طبیعت خراب تھی۔ افسوس ہے حاضر نہیں ہوسکا۔‘‘ فرمایا: ’’مجھے اطلاع ہوگئی تھی۔‘‘ پھر فرمایا: ’’حکیم صاحب کا تار آیا ہے۔ چند دنوں تک آنے کا خیال ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا، خدا کرے حکیم صاحب تشریف لے آئیں۔ پھر اس خیال سے کہ انھوں نے اپنی تشریف آوری کے بارے میں قطعی طور پر کچھ نہیں لکھا، صرف یہ کہ کوشش میں ہوں، عرض کیا اجازت ہو تو انھیں پھر تار دے دیا جائے۔ درخواست کی جائے کہ ممکن ہو تو فوراً تشریف لے آئیں۔ فرمایا: ’’تار کا ابھی رہنے دو۔ ان کی خدمت میں شکریے کا خط لکھ دیا گیا ہے۔ ہاں ایک اور خط لکھنا چاہتے ہو تو لکھ دو۔‘‘ پھر فرمایا: ’’مجھے کچھ اور بھی خط لکھوانا ہیں۔ کاغذ قلم لے آؤ۔‘‘ میں تعمیل ارشاد کے لیے اُٹھا اور کاغذ قلم لے کر اور قریب ہوبیٹھا۔ حضرت علامہ نے متعدد خط لکھوائے۔ اس اثنا میں چودھری صاحب نے اجازت لی۔ عرض کیا سرِشام حاضر ہوجاؤں گا۔ شام کو جب حضرت علامہ کی خدمت میں پھر حاضر ہوا تو ڈاکٹر حمید ملک اور سلامت ساتھ تھے۔ خیال تھا راجا صاحب اور چودھری صاحب بھی موجود ہوں گے، لیکن ہم نے ابھی برآمدے ہی میں قدم رکھا تھا کہ علی بخش حضرت علامہ کی خواب گاہ سے باہر آیا اور کہنے لگا ڈاکٹر صاحب کی آنکھ لگ گئی ہے۔ آپ اندر نہ جائیے مبادا جاگ اُٹھیں۔ ہم نے کہا: ’’ٹھیک ہے ہم یہاں باہر برآمدے ہی میں بیٹھیں گے۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ حضرت علامہ آرام کررہے ہیں۔‘‘ چودھری صاحب اور راجا صاحب آگئے، پھر قرشی صاحب۔ باہر برآمدے ہی میں نشست رہی۔ حضرت علامہ گہری نیند سورہے تھے۔ معلوم ہوا م-ش احتیاطاً اندر بیٹھے ہیں۔ علی بخش زیادہ تر خواب گاہ ہی میں ٹھہرا رہا۔ کبھی کبھی باہر آجاتا۔ پوچھتا کسی چیز کی ضرورت تو نہیں۔ ایک مرتبہ باہر آیا تو کہنے لگا: ’’ڈاکٹر صاحب جاگ کر پھر سوگئے۔ آپ کا پوچھتے تھے۔ میں نے کہا سب حاضر ہیں۔ باہر برآمدے میں بیٹھے ہیں۔‘‘ کچھ وقت اور گزر گیا۔ م-ش باہر آئے۔ کہنے لگے حضرت علامہ تو یوں گہری نیند سوئے ہیں جیسے کوئی متوم دوا کھائی ہو۔ کہیں ایسا تو نہیں؟ ملک صاحب اور قرشی صاحب نے اطمینان دلایا کہ ایسی کوئی بات نہیں، حضرت علامہ سورہے ہیں، یہ اچھی ہی بات ہے۔ م-ش کہنے لگے تو پھر میں چند ایک کام نپٹا لوں۔ رحما اور دیوان علی حضرت علامہ کے پاس موجود ہیں، علی بخش بھی برابر خبر گیری کررہا ہے۔ ہم لوگ بدستور برآمدے میں بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ ملک صاحب تو زیادہ نہیں ٹھہرے۔ راجا صاحب کو بھی کوئی کام تھا۔ وہ بھی تشریف لے گئے۔ وقت اور گزر گیا۔ حضرت علامہ برابر سورہے تھے اور ہمیں تامل تھا کہ اندر چل کر بیٹھیں یا برآمدے ہی میں ٹھہرے رہیں۔ قرشی صاحب نے کہا اندر گئے تو ہوسکتا ہے حضرت علامہ جاگ اُٹھیں۔ ان کے آرام میں خلل آئے گا، ہمارا باہر ٹھہرے رہنا ہی مناسب ہے۔ حضرت علامہ سوکر اُٹھے تو ہمیں خود ہی اندر طلب کرلیں گے۔ لیکن ہم ٹھہرے ضرور رہیں۔ مبادا شب گزشتہ کی طرح انھیں کوئی تکلیف ہوجائے۔ ۱۲ بج گئے۔ علی بخش خواب گاہ سے باہر آیا۔ کہنے لگا ڈاکٹر صاحب تو بڑی گہری نیند سورہے ہیں۔ جب سے اندر گیا ہوں انھوں نے کروٹ تک نہیں لی۔ چودھری صاحب کہنے لگے تو پھر ہمیں چلنا چاہیے۔ قرشی صاحب نے کہا: ٹھیک ہے، ہمیں چلنا چاہیے۔ مزید نشست غیر ضروری ہے۔ حواشی ۱- حکیم نابینا مرحوم و مغفور۔ ز…ز…ز جمعرات: ۱۷؍مارچ حضرت علامہ رات تو آرام سے سوئے۔ دن میں بھی طبیعت اچھی رہی، چنانچہ میں صبح قرشی صاحب سے ملا تو انھیں بڑا مطمئن پایا۔ لیکن دوپہر ہوئی تو حضرت علامہ نے کچھ بے چینی سی محسوس کی۔ دورہ ہوگیا اور تقریباً ویسا ہی شدید جیسا اس سے پہلے۔ مجھے اطلاع ملی۔ قرشی صاحب کا ملازم پیغام لے کر گھر پر آگیا تھا۔ پریشان اور متردّد جاوید منزل پہنچا۔ حضرت علامہ کی طبیعت بظاہر سنبھل گئی تھی۔ عوارض کی البتہ وہی کیفیت تھی جو کم و بیش معمولاً ہوا کرتی ہے۔ قرشی صاحب اور چودھری صاحب خاموش بیٹھے تھے، پریشان اور فکر مند۔ م-ش شاید کسی کام سے گئے تھے۔ علی بخش باورچی خانے میں تھا۔ حضرت علامہ نے میرے سلام کا جواب دیا۔ مختصراً دورے کا ذکر فرمایا اور پھر تکیوں کا سہارا لیے بیٹھ گئے۔ یا اللہ کا ورد تھا۔ عوارض میں تخفیف ہوتی تو کوئی بات کرلیتے۔ فرماتے: ’’حالات کیا ہیں؟‘‘ ادھر ہم لوگ بیٹھے سوچ رہے تھے کہ اس نئی صورتِ حالات، یعنی آئے دن کے دوروں کا مداوا کیا ہے؟ اب تدبیر کیا ہو؟ ایلوپیتھک علاج باقاعدگی سے جاری ہے اور قرشی صاحب بھی برابر دیکھ بھال کررہے ہیں۔ اس سوچ میں ہمارا سب کا خیال بار بار حکیم نابینا صاحب کی طرف جاتا۔ جی چاہتا تھا حکیم صاحب آئیں، حضرت علامہ کو دیکھیں، کوئی تدبیر کریں۔ پھر خیال آتا ان کا آنا تو ایک امرمحال ہے البتہ ان سے مکرر درخواست کی جائے تو کیا تعجب ہے تشریف لے آئیں۔ بالآخر طے پایا انھیں آج ہی تار دیا جائے، فوری اور اشد ضروری۔ شام کے قریب حسب قرار داد پھر حاضر ہوا تو احباب پہلے سے موجود تھے۔ سیالکوٹ سے شیخ صاحب بھی تشریف لے آئے تھے۔۱؎ گفتگو یہی تھی کہ تدبیر کیا ہو۔ معلوم ہوتا ہے چودھری صاحب نے انھیں باوجود پیرانہ سالی کے اسی مقصد سے لاہور آنے کی زحمت دی تھی، گو مجھے اس کی اطلاع نہیں تھی۔ ان کا مشورہ بہرحال ضروری تھا۔ شیخ صاحب نے فرمایا علاج کی موجودہ صورت اگرچہ ہر طرح سے قابلِ اطمینان ہے، لیکن بعض اور حضرات کو بھی مشورے میں شریک کرلیا جائے تو کیا حرج ہے۔ شیخ صاحب کی رائے نہایت صائب تھی اور ہم سب نے اس سے اتفاق کیا۔ یوں بھی ڈاکٹر جمعیت سنگھ اکثر جاوید منزل آتے اور حضرت علامہ کو دیکھ جاتے، بلکہ ضرورت ہوتی تو کوئی نہ کوئی دوا بھی تجویز کرتے۔ ڈاکٹر یار محمد صاحب بھی حضرت علامہ کے عوارض سے بے خبر نہیں تھے۔ ان سے بھی اکثر رجوع کیا گیا۔ ڈاکٹر یوسف صاحب تو علاج کرہی رہے تھے۔ حضرت علامہ نے فرمایا: ’’مجھے ایلوپیتھک علاج سے انکار نہیں۔ بعض اور حضرات سے بھی مشورہ لے لیا جائے تو کیا مضائقہ ہے۔ لیکن حکیم صاحب کا دونوں وقت آنا ضروری ہے۔ ان کی رائے بھی علاج میں شامل رہنی چاہیے۔ ممکن ہے حکیم نابینا صاحب بھی زحمت سفر برداشت کرلیں، تشریف لے آئیں۔‘‘ کئی ایک نام زبان پر آئے۔ کپتان الٰہی بخش صاحب۲؎ کی طرف بھی خیال گیا۔ بالآخر طے پایا کہ سرِدست کپتان صاحب ہی سے مشورہ کیا جائے۔ وہ کل آئیں اور حضرت علامہ کو دیکھ لیں۔ شیخ صاحب نے بھی اظہار اطمینان فرمایا۔ شام کے بعد حضرت علامہ کی طبیعت بہتر ہوگئی اور پھر برابر بہتر ہوتی چلی گئی۔ طبیعت بہتر ہوئی تو ان کی شگفتگی مزاج بھی عود کرآئی۔ شیخ صاحب تو مشورے کے بعد دوسرے کمرے میں چلے گئے تاکہ آرام فرمائیں اور سفر کی تھکن دور ہوجائے۔ علی بخش ان کی دیکھ بھال سے فارغ ہوکر کمرے میں آیا تو حضرت علامہ کے اشارے سے پائنتی کی طرف ہوبیٹھا۔ ان کے پاؤں اور پنڈلیاں سہلانے لگا۔ دیوان علی بھی موجود تھا۔ حضرت علامہ کا بدن داب رہا تھا۔ اس نے علی بخش کے اشارے سے کوئی ’’کافی‘‘۳؎ چھیڑ دی۔ شاید بلھے شاہ کا کلام تھا۔ کمرے میں ہر طرف خاموشی تھی۔ حضرت علامہ ’’کافی‘‘ کا لطف اُٹھا رہے تھے اور ہم اس سوچ میں تھے کہ ان کی علالت نے جو تشویش ناک صورت اختیار کرلی ہے اس کی اطلاع ان کے احباب کو کی جائے یا نہیں۔ ایک خیال تھا اگر اطلاع نہیں کی تو ممکن ہے انھیں شکایت ہو۔ دوسرا یہ کہ ایسا کیا گیا تو خبر پھیل جائے گی۔ احباب تو کہیں رہے عقیدت مندوں کا تانتا بندھ جائے گا۔ لوگ عیادت کے لیے آئیں گے، تشویش اور فکرمندی کا اظہار کریں گے اور یہ اَمر حضرت علامہ کو بڑا ناگوار گزرے گا۔ علاوہ ازیں ان کے آرام میں بھی خلل آئے گا۔ معالجین تو چاہتے تھے اور اکثر اس امر کا اظہار بھی کرچکے تھے کہ حضرت علامہ مکمل آرام فرمائیں، ملاقات اور ملاقاتیوں سے حتی الوسع احتراز کریں، احباب اور اعزا و اقارب خبر گیری کے لیے آئیں تو زیادہ دیر نہ ٹھہریں، گفتگو بہت کم ہو۔ حضرت علامہ بھی گفتگو نہ کریں۔ لہٰذا ہم نے سوچا بہتر یہی ہے کہ حضرت علامہ کی علالت کے بارے میں خاموش رہیں۔ ان کے احباب اس سے بے خبر تو ہیں نہیں۔ انھیں اطلاع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اطلاع کی تو مبادا یہ اَمر حضرت علامہ کے لیے پریشانی خاطر کا باعث ہو۔ یوں بھی وہ اپنے مرتبہ ذات اور خیالات و جذبات کے جس عالم میں ہیں اس میں عیادت اور مزاج پرسی کے رسمی تکلفات کی ان کے نزدیک کوئی جگہ نہیں۔ ان کے سامنے حقائق ہیں اور ذہن ان مسائل میں اُلجھا ہوا جو اُمت کو درپیش ہیں۔ لہٰذا وہ اپنی عوارض اور دوا و پرہیز کا ذکر بھی کرتے ہیں تو ضمناً ورنہ ان کے ارشادات کی وہی کیفیت ہے جو ہمیشہ سے چلی آئی ہے… یہی بات بات میں کسی حقیقت کی ترجمانی، کسی عقدے کی گرہ کشائی، کسی مسئلے کی طرف اشارہ، کوئی استفسار، ملک کے حالات، بیرونی دنیا کے معاملات پر تبصرہ، حتیٰ کہ ہم چاہیں بھی تو ہمارے لیے خاموش بیٹھے رہنا ناممکن ہے۔ حضرت علامہ کو خاموشی بڑی ناگوار گزرتی ہے گو جہاں تک ممکن ہے معالجین کی ہدایت پر عمل ہورہا ہے۔ یوں کوئی دن خالی نہیں جاتا جب ان کے ارادت مندوں کا خلوص اور دل سوزی کہ جن سے ہم خود بھی ناآشنا ہیں انھیں جاوید منزل نہیں لے آتی۔ وہ جیسا موقع ہوتا ہے باہر ہی باہر علی بخش سے حضرت علامہ کی خیریت مزاج پوچھتے اور ان کی صحت کے لیے دعائیں کرتے واپس چلے جاتے ہیں۔ حضرت علامہ نے کافی سنی۔ پھر اُٹھ کر بیٹھ گئے۔ علی بخش اُٹھا کہ دوا کھلائے اور اگر حضرت علامہ کا ارشاد ہو تو چائے کا اہتمام کرے۔ م-ش آگئے تھے۔ وہ علی بخش کی جگہ پائنتی کی طرف ہوبیٹھے۔ قرشی صاحب کچھ کہنا چاہتے تھے۔ غالباً پوچھنا چاہتے تھے کہ اب طبیعت کا کیا حال ہے کہ معلوم نہیں کیا خیال آیا حضرت علامہ اپنی علالت پر تبصرہ کرنے لگے۔ ابتدا کب ہوئی اور کیسے کیسے ایک کے بعد دوسرا عارضہ پیدا ہوتا چلا گیا۔ عوارض سے علاج اور علاج سے سلسلۂ گفتگو دوا کی طرف پھر گیا اور دوا سے دعا کی طرف۔ حضرت علامہ نے فرمایا: ’’دعا کے بارے میں سرسیّد احمد خاں اور مرزا صاحب۴؎ نے انتہا کردی۔ سیّد احمد خاں پر تو علت و معلول کا خیال اس درجہ غالب تھا کہ اس وقت کے علوم طبیعی کے زیر اثر انھوں نے ’’نیچر‘‘ کا جو تصور قائم کیا اس کی رُو سے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ حوادث کی ترتیب میں کوئی رد و بدل ہوسکے، یا ان سے وہ نتیجہ مترتب نہ ہو جس کا باعتبار علت معلول و مترتب ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا وہ بار بار ’’نیچر‘‘ کا نام لیتے اور پھر اس کے اس حد تک قائل ہوگئے کہ انھوں نے سمجھا کائنات کے جملہ حوادث علت و معلول کی کڑی زنجیر میں اس سختی سے منسلک ہیں کہ ایک کے بعد دوسرے کا ظہور یقینی ہے۔ اب فرض کیجیے حادثہ الف رونما ہے اور یہ حادثہ کسی دوسرے مثلاً حادثہ ب کی علت ہے تو بحیثیت معلول حادثہ ب کا ظہور گویا پہلے سے متعین ہوچکا ہے، لہٰذا حادثہ وقوع میں آئے گا اور ضرور آئے گا۔ یہ ’’نیچر‘‘ ہے اور نیچر کی کارفرمائی رُک سکتی ہے، نہ اسے کوئی روک سکتا ہے۔ ’’نیچر‘‘ اپنا کام کرتا رہے گا۔۵؎ حوادث کی ترتیب علت و معلول کی پابند ہے اور اس ترتیب میں رد و بدل ناممکن۔ یہ گویا اَمرِ ربی ہے۔۶؎ یوں سرسیّد کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ دعا سے بجز تسکینِ قلب اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ دوسری طرف مرزا صاحب تھے، جن کا کہنا تھا کہ دعا سے سب کچھ ممکن ہے۔ آپ دعا کرتے جائیے، جو چاہتے ہیں ہوجائے گا۔ حالانکہ ایک بہت بڑا مسئلہ اس سلسلے میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کسی حادثے کی توجیہ یہ سمجھ کر کی جاتی ہے کہ وہ نتیجہ ہے قبولیت دعا کا تو ہمارے پاس اس کا ثبوت کیا ہوگا۔ یہ کیسے معلوم ہو کہ دعا نہ کی جاتی تو یہ حادثہ پیش نہ آتا۔ معترض کَہ سکتا ہے کہ اسے بہرکیف پیش آنا تھا، اس لیے کہ حوادث ماقبل کا رُخ اسی جانب تھا۔ لہٰذا پھر وہی سوال سامنے آتا ہے کہ حوادث کی ترتیب میں کیا رد و بدل ممکن ہے؟ کیا دعا اس ترتیب کو روک سکتی ہے؟ میں نے عرض کیا: ’’کیا حوادث کی کوئی ترتیب بھی ہے؟‘‘ ارشاد ہوا: ’’علت و معلول کا تقاضا تو یہی ہے کہ ان کی ایک ترتیب ہو، ماضی میں بھی اور مستقبل میں بھی۔‘‘ بات آگے نہیں بڑھی۔ ہم میں سے ہر کوئی اپنے اپنے طریق پر سوچ رہا تھا۔ مرزا صاحب نے انتہا کردی۔ انھوں نے بات بات پر دعا کی اور ان سے بات بات پر دعا کی درخواست ہونے لگی حالانکہ منجملہ دوسری باتوں۷؎ کے یہ بھی ایک چیز تھی جس نے دلوں کو مرزا صاحب کی طرف کھینچا۔ یوں بھی دعا جزو ایمان ہے۔ ہم اللہ کو مانتے ہیں تو دعا بھی کریں گے اور کرتے رہیں گے۔ معلوم نہیں میرے رفقا کے احساسات حضرت علامہ کے اس ارشاد کے بارے میں کیا تھے، لیکن میں نے سوچا حضرت علامہ کا مطلب شاید یہ ہے کہ دعا کی ضرورت اور تاثیر سے اگرچہ انکار ممکن نہیں لیکن دعا کا بھی ایک موقع و محل ہے، مناسبت اور عدم مناسبت، کہ ہم کیا چاہتے ہیں اور کیوں؟۸؎ ہم اپنی آرزوؤں اور امیدوں، عزائم اور مقاصد، مسائل اور پریشانیوں، حالات اور مشکلات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ کیوں سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے دعا کی اور اگر یہ دعا سن لی گئی تو وہی کچھ ہوگا جس کی ہمیں تمنا ہے۔ ہم نے اپنی طاقت اور اختیار کا رشتہ اپنے عجز و درماندگی سے کیسے جوڑا؟ ہم کیا سمجھے، ہم کسی بات کے اہلِ بھی ہیں، یا سرتاسر ہیچ؟ ہمارا ذہن رویہ اس باب میں کیا ہے، یعنی ہم نے کیا طے کیا؟ کیا دعا سے اعتماد ذات کو تحریک ہوتی ہے؟ وہ عزم و ہمت کا سرچشمہ ہے یا بے چارگی اور بے بسی کا مظہر؟ بعینہٖ یہ عالم اسباب، جہاں زندگی کا ایک اُصول اور قانون ہے اس میں ہماری سعی و محنت ہمارے وسائل اور ذرائع اور ہمارے اقدام و عمل کے کچھ معنی بھی ہیں یا نہیں؟ ورنہ یوں مانگنے کو لوگ شب و روز دعائیں مانگتے، اوراد و وظائف میں مشغول رہتے، مزاروں اور خانقاہوں کا رُخ کرتے اور پیروں فقیروں کا سہارا لیتے ہیں، جیسے سلسلہ اُمور کسی پر اسرار قوت کے تابع ہے اور نفس انسانی اس کی نیرنگیوںکا آماجگاہ۔ میں کچھ اس طرح سوچ رہا تھا کہ حضرت علامہ نے فرمایا: ’’وہ جس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے، وہ ہم سے اور ہماری دنیا سے بے تعلق تو نہیں۔ ہم جو کچھ کہتے ہیں اسی سے کہتے ہیں۔ وہ کہتا ہے مجھی سے دعا کرو۔ میں تمھاری دعا سنتا اور اس کا جواب دیتا ہوں۔۹؎ زندگی کیا ہے؟ ایک مسلسل دعا! حضرت علامہ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوگئے۔ انھوں نے حقے کا کش لیا اور کروٹ بدلی تاکہ سستالیں۔ میرے ذہن میں کئی سوال پیدا ہورہے تھے۔ لیکن حضرت علامہ کا ذہن تو اب دعا کے عام مظاہر سے ہٹ کر اس کی حقیقت اور کنہ تک پہنچ چکا تھا۔ انسان کی ساری زندگی دعا ہے… دعا، جو اللہ تعالیٰ کو قادر و مطلق، رب اور خالق اور سمیع و علیم مان کر صمیم قلب سے نکلتی ہے۔ دعا، جو عبادت ہے، ذکر ہے، صلوٰۃ ہے۔ دعا، جس سے زندگی کا سارا نقشہ بدل جاتا اور سیرت و کردار کی تعمیر ہوتی ہے۔ دعا، جو طلب بھی ہے اور تڑپ، امید اور آرزو بھی، جو محض تسکینِ قلب کا ذریعہ نہیں ہے، نہ قریب نفس بلکہ ایک حقیقت۔ حضرت علامہ کا ذہن اس دعا کی طرف منتقل ہوچکا تھا۔۱۰؎ لیکن میں ابھی کچھ کہنے نہیں پایا تھا کہ حضرت علامہ پھر اُٹھ کر بیٹھ گئے اور گاؤ تکیے پر ٹیک لگاتے ہوئے کہنے لگے: ’’اس نکتے کو دو شخص خوب سمجھے، ابن خلدون اور ابن عربی۔‘‘ ابن خلدون اور ابن عربی! ہمارا خیال تھا حضرت علامہ اپنے اس ارشاد کی وضاحت میں شاید کچھ خود ہی فرمائیں گے کہ انھوں نے دفعتہ قرشی صاحب سے کہا: ’’مجھے ضعف محسوس ہورہا ہے‘‘ اور پھر سامنے رکھے ہوئے تکیوں پر سر ٹیک دیا۔ ہم پریشان تھے۔ قرشی صاحب نے کہا، جواہر مہرہ کہاں ہے؟ وہ حکیم نابینا صاحب کا بھیجا ہوا جواہر مہرہ۔ لیکن جواہر مہرہ نہ ملا، شاید ختم ہوچکا تھا۔ اس پر قرشی صاحب نے حضرت علامہ سے کہا، میں نے آپ کی نبض دیکھ لی ہے آپ اطمینان رکھیے۔ دورہ نہیں ہوگا۔ البتہ کچھ دوائیں ہیں ان کو احتیاطاً استعمال کرلیجیے۔ نیازی صاحب میرے ساتھ چلیں، ان کے ہاتھ بھیجے دیتا ہوں۔ فرمایا: ’’بہت بہتر۔ نیازی صاحب اُلٹے پاؤں واپس آجائیں۔‘‘ میں نے حضرت علامہ کی اجازت سے قرشی صاحب کے ساتھ ان کے مطب پہنچا۔ دوائیں لیں اور واپس آیا تو گیارہ بج رہے تھے۔ علی بخش نے کہا ڈاکٹر صاحب سو رہے ہیں۔ وہ ضعف کی کیفیت تو آپ جیسے گئے ہیں اسی وقت جاتی رہی تھی۔ چودھری صاحب آپ کا انتظار کرتے رہے، ابھی گئے ہیں۔ میں خواب گاہ میں داخل ہوا اور بہ احتیاط کہ حضرت علامہ کے آرام میں خلل نہ آئے، ایک طرف بیٹھ گیا۔ کوئی بارہ بجے تھے کہ حضرت علامہ تھوڑی دیر کے لیے جاگ اُٹھے۔ دواؤں کے بارے میں دریافت کیا اور اطمینان کرکے پھر سوگئے۔ میں ایک سوا بجے تک اور ٹھہرا رہا۔ حضرت علامہ کی پھر آنکھ کھل گئی۔ مجھ سے چند منٹ باتیں کیں۔ فرمایا: علاج اب صرف طبّی ہوگا۔‘‘ یہ کَہ کر پھر اُونگھ گئے۔ پھر فرمایا: ’’مجھے نیند آرہی ہے۔ علی بخش موجود ہے۔ تم بھی آرام کرو۔‘‘ آج سے گویا پھر طبّی علاج شروع ہے۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱- شیخ عطا محمد مرحوم، حضرت علامہ کے برادر بزرگ، جو انھیں بے حد عزیز تھے۔ بانگ درا (التجائے مسافر) میں ہے: وہ میرا یار بھی معشوق بھی برادر بھی ۲- مرحوم۔ اس وقت پروفیسر اور پھر تقسیم ملک کے بعد پرنسپل کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، لاہور۔ ۳- پنجابی زبان میں صوفیانہ شاعری کے اصناف سخن میں سے ایک۔ ۴- بانی سلسلہ احمدیہ ۵- اس سلسلے میں ایک لطیفہ بھی ہے۔ حضرت علامہ کے استاد محترم مولانا میر حسن کو سرسیّد علیہ الرحمۃ سے بڑا تعلق تھا اور علی گڑھ تحریک کی حمایت بھی انھوں نے بڑے شد و مد سے کی تھی۔ ان کے پاس ایک صاحب آئے اور کہنے لگے، حضرت والا کیا آپ بھی ’’نیچری‘‘ ہیں؟ آپ ہمیشہ سرسیّد کی حمایت کرتے ہیں۔ مولانا نے ان کے سوال پر کہا تو کچھ نہیں صرف اتنا پوچھا کہ آپ کے پاس کیا دیا سلائی ہے؟ انھوں نے کہا، ہے۔ فرمایا، ایک سلائی جلائیے اور یہ کاغذ کا ٹکڑا پاس رکھا ہے اسے دکھائیے۔ انھوں نے دیا سلائی جلائی کاغذ کے ٹکڑے کو دکھائی تو کاغذ جل اُٹھا۔ کہنے لگے، بس اس حد تک نیچری ہوں۔ ۶- ورنہ علت و معلول کا تصور باطل ہوجائے گا، حالانکہ سوال اس تصور کے حق یا باطل ہونے کا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے تو ہم اس کی قدرت کاملہ کا رشتہ علت و معلول کی کارفرمائی سے کیسے جوڑیں؟ کیا اس کارفرمائی کی وہی نوعیت ہے جو علوم طبیعی کے مطالعے سے ہمارے ذہن میں آتی ہے، یعنی ابدی، مطلق اور غیر متبدل؟ ۷- مثلاً تبلیغ اسلام، مذاہب غیر سے بحث و مناظرۃ اور اسلام کی حقانیت پر اصرار۔ ۸- چاہنا تو کہیں رہا ایک وہ مقام بھی ہے جس کے بارے میں حضرت علامہ ہی نے فرمایا ہے: خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے اور پھر مولانا روم کے اس ارشاد میں بہ ادنی تصوف: مرضیِ او در رضایش گم شود ایں سخن کے ہاور مردم شود ۹- فَقَالَ رَبُکُمْ ادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ-۴۰ (الغافر): ۶۰ مگر یہ مقام بھی کسی کسی کو حاصل ہوتا ہے۔ جاوید نامہ: اے ترا تیرے کہ مارا سینہ سفت حرف ادوئی کہ گفت و با کہ گفت ۱۰- دیکھیے تشکیل جدید، خطبہ چہارم ز…ز…ز جمعتہ المبارک: ۱۸؍مارچ کوئی ساڑھے نو بجے تھے کہ جاوید منزل پہنچا۔ اول علی بخش سے حضرت علامہ کی خیریت مزاج دریافت کی۔ کہنے لگا، اللہ کا شکر ہے رات ڈاکٹر صاحب کو دورہ نہیں ہوا۔ نیند تو آپ کی موجودگی ہی میں آگئی تھی۔ صبح سویرے تک آرام سے سوتے رہے۔ قرشی صاحب نبض دیکھ گئے ہیں۔ میں نے کمرے میں داخل ہوکر سلام عرض کیا اور طبیعت کا پوچھا تو حضرت علامہ کو ہشاش بشاش پایا۔ فرمایا: ’’الحمدللّٰہ! اچھا ہوں۔ رات کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ حکیم صاحب تشریف لائے تھے۔‘‘ ارشاد ہوا: ’’کوئی خبر؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’خبر تو کوئی نہیں، ہر طرف خاموشی ہی خاموشی ہے۔‘‘ فرمایا: ’’تبدیلی علاج کیا ضروری ہے؟ مگر تبدیلی ہو بھی تو کیا؟ مجھے تو طبّی علاج ہی پر اعتماد ہے۔ ایلوپیتھک دواؤں سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔‘‘ میں نے عرض کیا: ’’تبدیلی کا سوال نہیں، صرف مشورے کا ہے۔ ڈاکٹر صاحبان کو بھی تو طبّی مرکبات کے استعمال پر کوئی اعتراض نہیں۔ قرشی صاحب تو بہرحال صبح و شام حاضر رہتے ہیں۔ ممکن ہے کپتان صاحب کے مشورے سے کوئی بہتر صورت نکل آئے۔‘‘ فرمایا: ’’ارادہ اگر مشورے کا ہے تو کوئی حرج نہیں۔ مشورہ کرلیا جائے۔‘‘ حضرت علامہ سستانے لگے۔ عوارض میں بھی فی الجملہِ تخفیف تھی۔ معلوم ہوتا تھا انھیں نیند آجائے گی۔ میں دیر تک بیٹھا رہا۔ حضرت علامہ آرام فرماتے رہے۔ کچھ سوجاتے، کچھ جاگ اُٹھتے، پھر سوجاتے۔ جی چاہتا تھا دریافت کروں ابن خلدون اور ابن عربی نے دعا کو کیا سمجھا؟ لیکن مصلحت یہی تھی کہ خاموش بیٹھا رہوں اور حضرت علامہ گفتگو نہ فرمائیں۔ لہٰذا خاموش بیٹھا رہا۔ شام کے وقت جاوید منزل پہنچا تو علی بخش کو بڑا خوش اور مطمئن پایا۔ چائے کا اہتمام کررہا تھا۔ کہنے لگا، ڈاکٹر صاحب کی طبیعت بہت اچھی ہے۔ دوپہر تک آرام کرتے رہے۔ تیسرے پہر بھی کچھ سولیے۔ چودھری صاحب اور قرشی صاحب سے باتیں ہورہی ہیں۔ آپ کا پوچھتے تھے۔ میرا معمول تھا کہ جاوید منزل پہنچ کر اول مطبخ کا رُخ کرتا اور علی بخش، رحما یا دیوان علی، جو کوئی ملتا اس سے حضرت علامہ کی خیریت مزاج معلوم کرلیتا۔ چنانچہ میں بہ اطمینان حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام عرض کیا تو فرمایا: ’’الحمدللّٰہ۔ آج دن بھر بڑا افاقہ رہا۔ میری طبیعت بہت بہتر ہے۔‘‘ گفتگو علاج معالجے کی تھی، یا پھر مشورے کی۔ یہ بھی انتظار تھا کہ حکیم نابینا صاحب کی طرف سے کیا اطلاع موصول ہوتی ہے۔ یہ بھی خیال تھا کہ ڈاکٹر صاحبان نے تو ابتدا ہی میں حضرت علامہ کی صحت کے بارے میں ناامیدی کا اظہار کیا تھا۔ لاشعاع معائنوں کے نتائج میں بھی اختلاف رہا۔ لہٰذا اب ایلوپیتھک علاج سے کیا فائدہ ہوگا۔ فائدہ جو کچھ ہوا طبّی علاج سے ہوا۔ مگر پھر طبّی علاج بھی تو ایک مرحلے پر آکر رُک گیا تھا۔ حکیم نابینا صاحب شاید ہی آسکیں۔ اندریں صورت چارہ کار کیا ہے؟ حضرت علامہ نے فرمایا: ’’علاج معالجے کا فیصلہ تو معالجین ہی کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ کیا بات ہے کہ ایلوپیتھک دواؤں سے مجھے کوئی خاص فائدہ نہ ہوا۔ میں یہ دوائیں استعمال کرتا ہوں تو طبیعت منقبض ہوجاتی ہے۔ میرے مزاج کو تو طبّی مرکبات ہی راس آتے ہیں۔‘‘ حضرت علامہ نے یہ فرمایا اور پھر ۱۹۳۴ سے تشخیص و تدبیر کے سلسلے میں جو کچھ ہوتا رہا اس پر مختصراً تبصرہ فرماتے ہوئے مجھ سے بہ تفصیل ایک ایک اَمر کے بارے میں استفسار کرنے لگے۔ حکیم نابینا صاحب سے مرض کے بارے میں عرض کیا گیا تو ان کی تشخیص کیا تھی؟ انھوں نے وقتاً فوقتاً جو تدابیر اختیار کیں، کیا سمجھ کر؟ ان کی رائے عوارض کے بارے میں کیا ہے؟ احتیاس صوت کا ازالہ کیوں نہ ہوسکا؟ میں ہر ایک بات کا جہاں تک میرا علم تھا، یعنی جس طرح حکیم صاحب حضرت علامہ کا حال سن کر مجھ سے مرض کی تشخیص، تدبیر اور دواؤں کے بارے میں گفتگو فرماتے اس کے مطابق حضرت علامہ کے ہر استفسار کا جواب دیتا رہا۔ اس پر حضرت علامہ نے مسکرا کر فرمایا: ’’نیازی صاحب کو چاہیے تھا طبیب بنتے۔‘‘ ارشاد ہوا: ’’میں نے رات انھیں اسی لیے دیر تک ٹھہرا لیا تھا کہ ضرورت ہو تو صبح حکیم صاحب سے میری طبیعت کا حال ٹھیک ٹھیک بیان کریں۔ ان سے بہتر شاید ہی کوئی حکیم صاحب کو سمجھا سکتا کہ رات میری کیفیت کیا رہی۔‘‘ نیازی صاحب طبیب بنتے قرشی صاحب نے کہا، کیوں نہ اب بن جائیں اور پھر چندے حضرت علامہ کے اس ارشاد پر دل لگی ہوتی رہی۔ گفتگو پھر اس مرحلے پر آگئی کہ حضرت علامہ دوائیں تو وہی استعمال کریں جن کی طرف ان کی طبیعت راغب ہے، لیکن مشورے میں کوئی حرج نہیں۔ شیخ صاحب بھی منتظر ہیں کہ ہم اس بارے میں کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ ان کے ارشاد کی تعمیل ضروری ہے۔ علی بخش چائے لے آیا۔ حضرت علامہ نے چائے پی اور لیٹ گئے۔ طبیعت میں سکون تھا۔ ہم سے فرمایا: ’’چائے پیجئے اور باتیں کرتے جائیے۔‘‘ رحما اور علی بخش بدن دابنے لگے۔ راجا صاحب تشریف لے آئے اور حصول ثواب کے لیے آگے بڑھ کر پلنگ پر بیٹھ گئے۔ قرشی صاحب نے حسبِ معمول حضرت علامہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔ کبھی نبض دیکھتے، کبھی ہاتھ سہلاتے۔ ہم آپس میں باتیں کرنے لگے۔ ہم نے عرض کیا کپتان الٰہی بخش صاحب سے مشورے کا ارادہ ہے۔ چودھری صاحب کیا آپ کپتان صاحب سے مل لیے؟ چودھری صاحب نے کہا، ملاقات ہوگئی اور میں نے بات بھی کرلی ہے۔ کپتان صاحب کل تشریف لارہے ہیں۔ شیخ صاحب بھی ابھی دو روز اور قیام فرمائیں گے۔ چند منٹ خاموشی رہی۔ حضرت علامہ آرام فرما رہے تھے اور ہم ان کے پاس خاطر سے کبھی کبھی کوئی بات کرلیتے تاکہ حضرت علامہ کا دل بہلا رہے کہ انھوںنے ایک بار فرمایا: ’’خواب تھا یا کیا، رات میں نے دیکھا کوئی مولوی ہے اور کسی قبر کے چڑھاوے سے مجھے تازہ اور نہایت اچھا کھانا پیش کررہا ہے۔ لیکن میں نے اسے لینے سے انکار کردیا۔‘‘ ہمارا خیال تھا حضرت علامہ شاید خود ہی اس خواب اور خواب نہیں تو نیم بیداری کی حالت میں جو خواب سا نظر آیا اس کے بارے میں کچھ فرمائیں گے۔ لیکن حضرت علامہ خاموش ہوگئے، خواب کے متعلق کچھ نہیں کہا۔ اس پر قرشی صاحب کہنے لگے یہ خواب ہے یا جو کچھ اس کی تعبیر بہر حال اچھی ہے۔ خواب اور خوابوں کا معاملہ آپ مجھ سے بہتر سمجھتے ہیں لیکن عام رنگ میں دیکھا جائے تو اسے اچھا ہی کہا جائے گا۔ آپ کو جو کچھ پیش کیا جارہا تھا آپ نے اسے لینے سے انکار کردیا۔ چودھری صاحب نے بھی قرشی صاحب سے اتفاق کیا اور راجا صاحب نے بھی تائید میں چند ایک کلمات کہے۔ اس اَمر کی جستجو البتہ بے کار تھی کہ حضرت علامہ نے ایسا خواب، یا خواب نما منظر کیوں دیکھا۔ انسان کے دل میں ہزاروں خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ ہزاروں باتیں اس کے سننے میں آئی ہیں۔ یہ بھی ایک خیال تھا کہ آیا اور گیا۔ ’’اضغاث احلام۔‘‘ حضرت علامہ کی روش بہرحال انکار کی تھی۔ حضرت علامہ اُونگھ گئے۔ علی بخش نے کہا آپ کو نیند آرہی ہے۔ بہتر ہے کچھ کھالیجیے۔ قرشی صاحب نے بھی تائید کی۔ علی بخش کھانا لایا، ہلکی سی غذا جو قرشی صاحب نے تجویز کی تھی۔ حضرت علامہ نے کھانا کھایا۔ حقے کے دو ایک کش لیے۔ دو ایک باتیں کیں اور لیٹ گئے۔ عوارض میں بھی تخفیف تھی۔ معلوم ہوتا تھا جیسے حضرت علامہ کا جی چاہتا ہے سوجائیں۔ ہم لوگ اور قریب ہوگئے۔ م-ش آگئے اور چادر اوڑھ کر ان کے پلنگ سے لگ کر فرش پر بیٹھ گئے۔ مطلب یہ تھا رات بھر یہیں آرام کریں گے۔ یونہی حضرت علامہ کی خبر گیری ہوگی۔ ۱۲ بج گئے۔ معلوم ہوتا تھا جیسے آندھی آئے گی اور شاید پانی بھی برسے۔ حضرت علامہ بڑی گہری نیند سورہے تھے۔ ہم نے گویا خیال ہی خیال میں ان سے اجازت لی۔ ز…ز…ز شنبہ: ۱۹؍مارچ کوئی آٹھ بجے تھے۔ جاوید منزل جارہا تھا کہ راستے میں قرشی صاحب مل گئے۔ کہنے لگے: ’’ابھی ابھی حضرت علامہ کو دیکھ کر آیا ہوں۔ اللہ کا شکر ہے ان کی طبیعت اچھی رہی، رات بھر آرام سے سوئے۔ ایک دفعہ کچھ دورہ سا محسوس ہوا لیکن آپ ہی سکون ہوگیا۔ پھر بھی احتیاط لازم ہے۔ میرے ساتھ مطب چلیے۔ خمیرہ اور کچھ مرکبات لے لیجیے۔ حضرت علامہ استعمال فرمائیں۔ طبیعت اور بہتر ہوجائے گی۔ علی بخش کو سب کچھ سمجھا آیا ہوں۔‘‘ قرشی صاحب کے ساتھ اُن کے مطب پہنچا۔ دوائیں لیں اور ۹ بجے کے قریب حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ حضرت علامہ بڑے شگفتہ خاطر تھے۔ فرمایا: ’’چودھری صاحب ابھی گئے ہیں۔ کپتان صاحب تیسرے پہر آئیں گے۔‘‘ پھر خمیرہ اور دوسرے مرکبات ملاحظہ فرمائے۔ مجھ سے پوچھتے رہے ان کی تاثیر کیا ہے، قرشی صاحب کیا کہتے ہیں۔ تیسرے پہر جاوید منزل پہنچا تو علی بخش نے کہا چودھری صاحب حضرت علامہ کے پاس بیٹھے ہیں۔ کپتان صاحب کا انتظار ہے۔ کپتان صاحب ابھی نہیں آئے۔ میں کمرے میں داخل ہوا، حضرت علامہ کا مزاج پوچھا تھا کہ اتنے میں معلوم ہوا کپتان صاحب کی گاڑی باہر شامیانے میں داخل ہورہی ہے، کپتان صاحب تشریف لے آئے ہیں۔ اس پر چودھری صاحب اُٹھے اور ان کی پیشوائی کے لیے برآمدے کی طرف بڑھے۔ علی بخش نے کرسیاں ٹھیک کیں۔ میں ایک طرف ہوکر بیٹھ گیا۔ کپتان صاحب تشریف لائے۔ بڑی نیاز مندی سے حضرت علامہ کی خدمت میں سلام عرض کیا، مزاج پوچھا اور پلنگ کے پاس رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئے۔ حضرت علامہ غائبانہ ان سے متعارف تھے، بڑی شفقت سے پیش آئے اور مختصراً اپنی صحت کا حال بیان کیا۔ کپتان صاحب نے ان کی نبض پر ہاتھ رکھا، قلب اور رئتین کا معائنہ کیا۔ پھر دو ایک سوال کیے۔ کہنے لگے تسلی رکھیے ہم مناسب تدابیر کریں گے۔ حکیم نابینا صاحب کی تشخیص اور تدبیر کا پوچھا۔ ان کی حذاقت فن اور بزرگی کی تعریف کرتے رہے۔ ایوپیتھک نقطۂ نظر سے دمہ قلبی کا معاملہ مختصراً سمجھایا۔ حضرت علامہ بڑے مطمئن تھے۔ طبّی مرکبات کے استعمال کے بارے میں پوچھا گیا تو کپتان صاحب نے کہا ضرور استعمال کیجیے، ان سے فائدہ ہی ہوگا، نقصان کا احتمال نہیں ہے۔ ہماری دوائیں بھی جاری رہیں گی۔ شام ہورہی تھی کپتان صاحب نے علی بخش سے کہا: ’’مجھے مغرب پڑھنی ہے۔ جائے نماز گاڑی میں ہے۔ ذرا سے پانی کی ضرورت ہوگی۔‘‘ شاید ہاتھ دھونا چاہتے تھے۔ مطلب یہ تھا کہ وضو سے ہیں۔ علی بخش تعمیل ارشاد میں پانی لے آیا۔ کپتان صاحب اُٹھے اور نشست گاہ میں مغرب ادا کی۔ حضرت علامہ کو ان کی دینداری بہت پسند آئی۔ کپتان صاحب نماز مغرب کے بعد تھوڑی دیر اور ٹھہرے۔ غذا کے متعلق ہدایات دیں۔ ان کا غذا پر بڑا زور تھا، بعینہٖ جیسے حکیم صاحب۱؎ بھی عمدہ، زودہضم، خوش ذائقہ اور مقوی غذاؤں پر بڑا اصرار کرتے۔ پھر بعض غذاؤں کے فائدے اور خوبیاں بیان کرتے رہے۔ کہنے لگے چاول کی پیچ بڑی فائدہ مند چیز ہے۔ آپ کو حیاتین ب کی بالخصوص ضرورت ہے۔ حیاتین ب سے جسم کی طاقت قائم رہتی ہے، چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ بعض جانوروں کی غذا میں جب اس حیاتین کا جز کم ہوجائے تو ان کے جسم کمزور ہوجاتے ہیں۔ اس سلسلے میں چڑیوں اور بعض دوسرے جانوروں کی مثالیں پیش کیں۔ کپتان صاحب گئے تو حضرت علامہ نے فرمایا: ’’بڑے صالح نوجوان ہیں۔ انگلستان میں رہ کر بھی ان کے ایمان میں کوئی فرق نہیں آیا۔ بڑی ترقی کریں گے۔ ایک روز کالج کے پرنسپل ہوجائیں گے۔۲؎ تشخیص و تدبیر بھی اچھی ہے۔ مجھے ان کی باتیں بہت پسند آئیں۔‘‘ ہم بہت خوش تھے کہ حضرت علامہ کو کپتان صاحب کی باتیں پسند آئیں۔ چودھری صاحب ان کے ساتھ تھے اور ہم منتظر کہ دیکھیں کیا نسخہ تجویز ہوتا ہے۔ خدا کرے ان کی تدابیر کارگر ہوں۔ ارشاد ہوا: ’’طب جسم کی شاعری ہے۔ جسم کا بھی ایک حسن ہے، صحت اس حسن کی روح۔‘‘ میں نے عرض کیا: ’’اور طب اس روح کی ترجمان!‘‘ فرمایا: ’’مگر یہ ترجمانی علوم کی ترقی پر موقوف ہے۔ اور علم ترقی نہیں کرتا جب تک مشاہدے اور تجربے سے کام نہ لیا جائے، جب تک تحقیق و تفتیش کا سلسلہ جاری نہ رہے؟‘‘ ارشا ہوا: ’’ابھی تک تو ہم یہ بھی نہیں سمجھتے کہ انسان ہے کیا؟ علوم کی نظر جسم پر ہے۔ لیکن جسم کو بھی ہم کہاں سمجھے ہیں؟‘‘ اور اس لیے گویا طب یوں بھی جسم کی شاعری ہے۔ جسم کی حفاظت، جسم کی صحت اور جسم کے حسن و خوبی کے بارے میں ہمارے خیالات اور اجتہادات، ہماری خواہشوں اور آرزوؤں کی ترجمان، ہماری تدابیر اور ہماری کوششوں کی داستان۔ ممکن ہے میں نے حضرت علامہ کے ارشاد کا مطلب ٹھیک سمجھ لیا ہو۔ قرشی صاحب کا انتظار تھا۔ علی بخش مصروف تھا، لیکن م-ش آگئے۔ دیوان علی اور رحما موجود تھے۔ کپتان صاحب کی تشریف آوری کا ذکر ہوا۔ حضرت علامہ نے کوئی طبّی مرکب استعمال کیا۔ علی بخش آیا تو کھانے کے لیے کہا۔ میں نے سوچھا تھوڑی دیر کے لیے گھر ہوآؤں۔ اجازت لی۔ گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کے بعد پھر حاضر ہوا تو معلوم ہوا، قرشی صاحب حضرت علامہ کے پاس بیٹھے ہیں۔ چودھری صاحب بھی جلدی واپس آگئے تھے۔ باتیں ہورہی ہیں۔ راجا صاحب کا انتظار ہے۔ حضرت علامہ بڑے مطمئن تھے۔ قرشی صاحب سے کپتان صاحب کی باتیں ہورہی تھیں۔ معلوم ہوا کپتان صاحب نے کچھ دوائیں اور انجکشن تجویز کیے ہیں۔ پھر معلوم نہیں کیا خیال آیا، شاید اس لیے کہ حضرت علامہ کپتان صاحب کے بزرگوں سے متعارف تھے، مجھ سے فرمایا: ’’تم نے کہا تھا کپتان صاحب انگلستان سے فارغ التحصیل ہوکر آئے تو انھوں نے اول دہلی میں مطب کیا۔ حکیم نابینا صاحب کو شاید جب ہی سے جانتے ہوں۔‘‘ میں نے عرض کیا: ’’کپتان صاحب کا نام بہت پہلے سے سن چکا تھا۔ ان کے بھائی احسان۳؎ میرے بھائی نصیر کے دوست اور ہم سبق تھے۔ جامعہ۴؎ ہی میں تعلیم پاتے تھے۔ جامعہ علی گڑھ سے دہلی منتقل ہوئی۵؎ اور ہم علی گڑھ سے دہلی آئے تو اس کے تھوڑے دنوں کے بعد کپتان صاحب بھی انگلستان سے آکر دہلی میں مقیم ہوگئے۔ چاندنی چوک میں مطب کرنے لگے۔ احسان اس وقت جامعہ جاچکے تھے، اس لیے ان سے کبھی ملاقات کا موقع پیدا نہ ہوا۔ لیکن کپتان صاحب نے زیادہ قیام نہیں کیا، شاید رام پور چلے گئے اور پھر فوجی ملازمت اختیار کرلی۔ معلوم نہیں کب اور کیسے؟ دہلی! جامعہ ملیہ اسلامیہ! ۱۹۲۶-۱۹۲۷ء اور خواجہ عبدالمجید شیخ الجامعہ، رئیس ابن رئیس، خواجہ محمد یوسف مرحوم رئیس علی گڑھ کے صاحبزادے! وہ سرسیّد کے عقیدت مند تھے، سرسیّد کی تحریک اور علی گڑھ کے پرجوش حامی۔ خواجہ صاحب نے علی گڑھ اور کیمبرج میں تعلیم پائی۔ بیرسٹر بن کر واپس آئے۔ تحریک ترکِ موالات میں شامل ہوگئے۔ بیرسٹری ترک کردی۔ ۱۹۲۱ء میں مولانا محمد علی گرفتار ہوئے تو خواجہ صاحب جامعہ میں ان کے جانشین ٹھہرے۔ کچھ دنوں کے بعد خود بھی گرفتار ہوگئے۔ جامعہ کی زمام ڈاکٹر عالم۶؎ نے سنبھالی۔ خواجہ صاحب قید و بند کی سختیاں برداشت کرنے لگے۔ ۱۹۲۲ء میں رہا ہوکر پھر جامعہ میں واپس آگئے۔ کانگریس میںاسمبلی پارٹی قائم ہوئی تو اس کی طرف سے ڈاکٹر ضیاء الدین کے خلاف صوبائی اسمبلی کے لیے انتخاب بھی لڑے۔ ناکام رہے۔ انھیں کے زمانے میں جامعہ دہلی منتقل ہوئی، مولانا محمد علی کی مخالفت کے علی الرغم۔ سال ڈیڑھ سال اور جامعہ سے منسلک رہے۔ ذاکر صاحب۷؎ حصول تعلیم کے بعد برلین سے واپس آئے تو الٰہ آباد تشریف لے گئے۔ وہیں وکالت کررہے ہیں۔ عقیدۃً نہایت پکے مسلمان، سیاسی اعتبار سے بڑے غالی نیشنلسٹ، میرا ان کا ۱۹۲۱ء سے لے کر ۱۹۲۶ء کے آخر تک ساتھ رہا۔ بڑی خوبیوں کے انسان ہیں۔۸؎ خواجہ صاحب، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور نیشنلسٹ مسلمانوں کی باتیں ہوتی رہیں۔ حضرت علامہ کو معلوم تھا کپتان صاحب کی شادی خواجہ صاحب کی صاحبزادی سے ہوئی۔ خواجہ صاحب کے روابط کا ذکر آگیا، خاندانی تعلقات کا۔ عرض کیا گیا، ان کی قرابت داری کا سلسلہ پنجاب، سرحد، ملک کے اطراف و جوانب میں پھیلا ہوا ہے۔ حضرت علامہ نے یہ سنا تو فرمایا: ’’بہت خوب سیاست میں اتنے بڑے نیشنلسٹ، مگر قرابت داری میں اتنے بڑے پین اسلامسٹ۔‘‘۹؎ اس پر زور کا قہقہہ پڑا۔ ہم لوگ حضرت علامہ کے اس ارشاد سے بہت محظوظ ہوئے۔ حضرت علامہ نے بھی تبسم فرمایا۔ رحما اور دیوان علی حضرت علامہ کا بدن داب رہے تھے، کمر، شانے، پنڈلیاں۔ علی بخش بھی غالباً حضرت علامہ کے ارشاد کو سمجھ گیا تھا، مسکرا رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں حضرت علامہ نے خمیرے کی ایک خوراک کھائی۔ اس کے ذائقے، رنگ اور بو کی تعریف کرنے لگے۔ فرمایا: ’’دواؤں کی یہ ترکیب بھی مسلمانوں کے ذوق تفنن کا نتیجہ ہے، بڑے محنت طلب تجربات کا کہ ان کی تاثیر اور فائدہ مندی میں باوجود امتداد زمانہ فرق نہیں آیا۔‘‘ پھر بافسوس فرمایا: ’’عالمِ اسلام میں تجربہ و تحقیق کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ نہ استعجاب علم ہے، نہ علم کے لیے کوئی سعی و کاوش۔ یورپ کی حالت اس سے کس قدر مختلف ہے۔ وہاں تحقیق ہے، تجربہ ہے، علم سے دلی شغف، شب و روز محنت، شب و روز انہماک، حالانکہ ایک زمانے میں وہاں تجربہ و تحقیق تو درکنار علم کا نام لینا بھی گناہ میں داخل تھا۔‘‘۱۰؎ فرمایا: ’’یہ کسے معلوم نہیں کہ گلیلیو نے جب حرکت ارضی پر زور دیا تو پادری خوب ہنسے۔ انھوں نے کہا حرکت ارض تو مشاہدے میں نہیں آتی، ہم کیسے مان لیں کہ زمین حرکت کرتی ہے۔‘‘ ’’مگر پھر جب مشاہدے کی نوبت آئی تو دوربین کے استعمال سے انکار کردیا تاکہ انھیں وہ کچھ نظر نہ آئے جو اس طرح نظر آسکتا تھا۔‘‘ پھر کچھ رُک کر فرمایا: ’’طب کی ترقی بھی اس لیے رُک گئی کہ مسلمانوں نے علم و حکمت سے کنارہ کشی کرلی۔ تجربے اور مشاہدے سے منہ موڑ لیا۔ تحقیق و تفتیش کا سلسلۂ ختم ہوا۔ جو کچھ اسلاف چھوڑ گئے تھے اس پر قناعت کرلی۔ دوسروں کی رائے اور سمجھ پر بھروسہ کرنے لگے۔ طب کی ترقی کب سے رُک چکی ہے۔ طب کو پھر سے فروغ ہوگا تو کیسے؟ ہم کچھ بھی نہیں کررہے۔‘‘ قرشی صاحب نے کہا: ’’اس میں حالات کو بھی داخل ہے۔ ہم لوگ چاہیں بھی تو کچھ نہیں کرسکتے۔ مشکلات ہیں۔ قوم میں دم نہیں۔ حکومت بھی طب کے خلاف ہے۔‘‘ فرمایا: ’’یہ صحیح ہے۔ مشکلات بھی ہیں اور قوم میں بھی دم نہیں۔ حکومت سے بھی کوئی امداد نہیں ملے گی۔ اہلِ یورپ بڑے شاطر ہیں۔ دوا فروشی کو بھی دوسری مصنوعات کی طرح تجارت کا ذریعہ بنا رکھا ہے، بہت بڑا ذریعہ۔ ہندوستان، ایشیا اور افریقہ کی کتنی دولت ہے جو دواؤں کی درآمد سے یورپ پہنچتی ہے۔ حکومت طب کی سرپرستی کیوں کرنے لگی۔ اس کی نظر دولت پر ہے، ہماری ضرورت، ہماری تہذیب و ترقی پر نہیں۔‘‘ فرمایا: ’’لیکن میں کَہ رہا تھا علمی تجسس! مسلمانوں میں علمی تجسس کا فقدان ہے۔ عالمِ اسلام کا ذہنی انحطاط حد درجہ اندوہ ناک ہے۔ مسلمانوں میں علمی روح باقی ہے، نہ علم و حکمت سے کوئی دلی شغف۔ تھوڑی بہت بیداری جو نئی تعلیم اور مغرب کے زیر اثر پیدا ہوئی اس کا نتیجہ بھی یہ ہوا کہ علم و حکمت کے بارے میں ان کے ذہن نے کوئی اچھا اثر قبول نہیں کیا۔ وہ علم و حکمت کی صحیح روح کو سمجھتے ہیں، نہ اس کے ماضی، عہد بعہد ارتقا، انقلابات اور تغیرات کو، نہ اس میں قوموں کے حصے اور ان کے نقطۂ نظر کو۔ اگر کچھ ہے تو تقلید یا پھر یورپ سے چند ایک مستعار لیے ہوئے خیالات کا اعادہ۔‘‘ فرمایا: ’’حالانکہ مسلمانوں کو علم و حکمت میں سب سے پیش پیش ہونا چاہیے۔ ان کا علمی ورثہ بڑا عظیم اور قابلِ فخر ہے۔ علم و حکمت کی کون سی شاخ ہے جس پر ان کی ذہانت، اجتہاد اور نبوغ کا نقش ثبت نہیں۔ یہ مسلمان ہی تھے جنھوں نے صحیح معنوں میں ’’علمی روح‘‘ پیدا کی اور علوم و فنون کو ان کے اصل راستے پر ڈال دیا۔ علم کا وجود، جسے آج کل سائنس کہتے ہیں، انھیں کا مرہونِ منت ہے۔‘‘ فرمایا: ’’ہم کیوں نہیں سمجھتے یہ اسلام ہی تھا جس نے وہ شرائط بہم پہنچائیں جن پر علم کی ترقی اور نشوونما کا دارومدار ہے۔ یہ شرائط کیا تھیں؟ مشاہدہ معائنہ، فکر و نظر، محسوس اور مرئی کا احترام، تجربہ، تحقیق، تفتیش، حقائق کا اثبات، ان کا مطالعہ اور ان کی مسلسل تاویل و تعبیر! یہ شرائط پوری نہ ہوتیں تو علم کا راستہ دیر تک رکا رہتا۔‘‘۱۲؎ فرمایا: ’’مسلمانوں کے زوال علم کی ذمہ داری محض سیاسی معاشی حالات پر عائد نہیں ہوتی۔ مسلمانوں کا علمی زوال تو ان کے دورِ محکومیت سے بھی کہیں زیادہ متقدم ہے۔ لہٰذا سوچنے کی بات یہ ہے کہ اسے زوال ہوا تو کیسے اور کیوں؟‘‘ فرمایا: ’’جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اہلِ جاپان کے یہاں کوئی علمی روایت نہیں تھی۔ وہ ایک طرح سے علم و حکمت میں کورے تھے، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اس میدان میں اس طرح آگے بڑھے کہ اہلِ یورپ کے مد مقابل بن گئے۔ مسلمانوں نے بھی تو کبھی اپنے ارد گرد کی دنیا سے…اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ دنیا معرض زوال میں تھی… علم و حکمت کا اکتساب کیا تھا۔ مگر پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس شان سے آگے بڑھے کہ علم و حکمت کی کائنات ہی بدل دی۔ علم کو صحیح معنوں میں علم کا درجہ عطا کیا۔ مسلمان آج پھر ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟ مسلمانوں میں دم کیوں نہیں؟‘‘ اور یہ کہتے کہتے افسردہ خاطر ہوگئے۔ ہم خاموش بیٹھے سوچ رہے تھے کہ ہماری ذہنی صلاحیتوں کو کیا ہوا۔ ہم میں وہ ذہنی تغیر کیوں پیدا نہیں ہوتا جس کی ایک مثال اگر جاپان سے ملتی ہے تو دوسری خود ہمارے اسلاف سے۔ ہمارے پہلو بہ پہلو جو دوسری قومیں بستی ہیں ان کی حالت شاید ہم سے کہیں بہتر ہے۔ ’’ہم میں دم کیوں نہیں؟‘‘ حضرت علامہ کی آواز پست ہورہی تھی۔ ہم نے سلسلۂ گفتگو کو آگے نہیں بڑھنے دیا۔ حضرت علامہ بھی تھک گئے تھے۔ کروٹ کے بل لیٹنا چاہتے تھے۔ علی بخش نے آگے بڑھ کر تکیے درست کیے۔ حضرت علامہ بآرام لیٹ گئے۔ چودھری صاحب کو کسی کام سے جانا تھا۔ تھوڑی دیر بیٹھے، اجازت لی اور چلے گئے۔ م-ش حضرت علامہ کے پلنگ سے لگ کر بیٹھ گئے۔ رحما حضرت علامہ کے پاؤں داب رہا تھا۔ علی بخش نے کہا آپ کروٹ لیں تو میں کمر داب دوں۔ حضرت علامہ کروٹ کے بل لیٹ گئے۔ معلوم ہوتا تھا انھیں نیند آجائے گی۔ قرشی صاحب نے اشارۃً کہا ہم کوئی بات نہ کریں۔ حضرت علامہ کے لیے آرام کرنا ضروری ہے۔ گھنٹہ ڈیڑھ گزر گیا۔ حضرت علامہ سو رہے تھے۔ بایں ہمہ قرشی صاحب کا اصرار تھا کہ ہم ابھی اور ٹھہریں۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کیوں۔ کوئی خطرے کی بات تو نہیں۔ رات زیادہ ہوگئی اور ہم سب جاوید منزل سے نکل کر ریلوے دفتر کی سڑک سے گزر رہے تھے کہ قرشی صاحب نے کہا، میں دیکھ رہا ہوں کل سے حضرت علامہ کے پاؤں متورم ہیں۔ یہ علامت اچھی نہیں۔ حضرت علامہ کا جگر کام نہیں کررہا۔ استسقا ہے۔ میں شاید کل صبح حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکوں۔ مجھ سے کہا آپ علیٰ الصبح جاوید منزل پہنچ جائیے۔ حضرت علامہ کی خیریت مزاج دریافت کیجیے۔ کوئی خاص بات ہو تو مجھے فوراً اطلاع کیجیے۔ میں آپ کو مطب ہی میں ملوں گا۔ دس گیارہ بجے تک شاید خود بھی حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں۔ میں پریشان گھر پہنچا۔ استسقائ، ایک اور نیا عارضہ! درآنحالیکہ پہلے عوارض بدستور قائم ہیں۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱- حکیم نابینا مرحوم۔ ۲- اور کپتان صاحب بالآخر کالج کے پرنسپل ہوگئے۔ افسوس ہے ۱۹۵۰ میں ان کا انتقال ہوگیا۔ ۳- اب شاید اسلام آباد میں ہیں۔ چند سال ہوئے ان سے ملاقات ہوئی تو کسی محکمے میں اسسٹنٹ، یا ڈپٹی ڈائریکٹر تھے۔ ۴- علی گڑھ میں۔ ۵- جو مولانا محمد علی کے زمانے یعنی ۱۹۲۰ء ہی میں علی گڑھ آگئے تھے۔ ۱۹۲۳ تک جامعہ سے منسلک رہے۔ ان کی ذات محتاج تعارف نہیں۔ ۶- ؟؟؟؟؟ ۷- ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم، صدر جمہوریۂ ہند۔ ۸- خواجہ صاحب نے ایک طرح سے الٰہ آباد ہی میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ عملی سیاسیات سے اگرچہ کنارہ کش ہوگئے تھے، لیکن رہے تا حین حیات نیشنلسٹ۔ انتقال شاید ۱۹۵۵-۱۹۵۶ کے بعد ہوا۔ ۹- Pan Islamist۔ ۱۰- دیکھیے سارٹن، مقدمہ تاریخ سائنس، حصہ اول (اُردو ترجمہ از راقم الحروف)۔ سارٹن کہتا ہے کلیسا کی رائے تھی کہ علم کا حصول ایک شرانگیز مشغلہ ہے… ڈر تھا یورپ میں کہیں علم و حکمت کی ہستی ہی نہ مٹ جائے۔ ۱۱- دیکھیے سارٹن: مقدمہ تاریخ سائنس، ’حصہ اول‘ جہاں مصنف نے پادریوں کے اس رویے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ۱۲- دیکھیے تشکیل جدید، خطبۂ اول۔ ز…ز…ز یک شنبہ: ۲۰؍مارچ علیٰ الصبح حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ ابھی سات نہیں بجے تھے۔ حضرت علامہ معمولاً بہت صبح بیدار ہوجاتے۔ علی بخش نے کہا، دوا کھائی ہے، چائے پی اور ناشتہ کیا ہے۔ چودھری صاحب ہوگئے ہیں۔ میں حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور مزاج پوچھا تو فرمایا: ’’الحمدللّٰہ! رات نیند خوب آئی۔ دورہ بھی نہیں ہوا۔ خفیف سی بے کلی تھی جو آپ ہی آپ دور ہوگئی۔ معدہ بھی صاف ہوگیا ہے، بلکہ مجھے کچھ بھوک بھی محسوس ہوئی۔‘‘ فرمایا: ’’معلوم ہوتا ہے ایلوپیتھک دواؤں اور طبّی مرکبات کا امتزاج مفید ثابت ہوگا۔‘‘ میں نے عرض کیا قرشی صاحب تو کسی کام کی وجہ سے رُک گئے ہیں۔ دس گیارہ بجے تک آئیں گے۔ کوئی بات ہو تو ان کو اطلاع کردوں؟ فرمایا: ’’کوئی بات نہیں۔ حکیم صاحب باطمینان مطب کریں، البتہ تم ٹھہرے رہو۔‘‘ دیر تک حاضر خدمت رہا۔ خیال تھا ۱۰-۱۱ بجے تک ضرور ٹھہروں حتیٰ کہ قرشی صاحب تشریف لے آئیں۔ حضرت علامہ حسبِ معمول دریافت کررہے تھے: خبریں کیا ہیں۔ حالات کیا ہیں کہ اتنے میں علی بخش آیا، کہنے لگا سیّد عنایت حسین شاہ۱؎ آئے ہیں۔ سیّد صاحب کمرے میں داخل ہوئے۔ بادب حضرت علامہ کی خدمت میں سلام عرض کیا، مزاج پوچھا اور بیٹھ گئے۔ سیّد صاحب کے خاندان سے حضرت علامہ کے دیرینہ تعلقات ہیں۔ ان کے چچا ڈاکٹر سیّد محمد حسین شاہ۲؎ حضرت علامہ کے ہم جماعت تھے۔ میرا بھی اس خاندان سے دیرینہ تعلق ہے۔ چند منٹ ایک دوسرے کی خیریت دریافت ہوتی رہی۔ سیّد صاحب کا قیام ریاست بہاولپور میں بہاولپور اور خان پور میں ہے حضرت علامہ کو ریاست کے معاملات سے کہ پنجاب کی ایک بہت بڑی اسلامی ریاست ہے خاص دلچسپی ہے، لہٰذا ریاست کی باتیں ہونے لگیں۔ حضرت علامہ فرما رہے تھے: ’’ریاست اور اہلِ ریاست کی ترقی کے کیا امکانات ہیں؟ ہندوستان کے سیاسی حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ مسلمانوں کو بھی کچھ اپنی فکر ہے کہ نہیں؟ ہندوستان میں جو آئینی تبدیلیاں ناگزیر ہیں ان کے پیشِ نظر ضروری ہے کہ ریاست میں ابھی سے بعض باتوں کی پیش بندی کرلی جائے۔‘‘ ارشاد ہوا: ’’ریاست کا رقبہ نہایت وسیع ہے۔ چولستان آباد ہوجائے تو کیا خوب ہو۔ یہ بات کچھ مشکل تو نہیں، ہمت اور سمجھ کی ضرورت ہے۔‘‘ سیّد صاحب اپنی معلومات کے مطابق حضرت علامہ کے سوالات کا جواب دیتے رہے۔ چولستان کی آبادکاری تو کیا اور بھی بہت کچھ ممکن ہے۔ حالات بھی بدل سکتے اور بدلے جاسکتے ہیں، لیکن ریاست میں دم نہیں۔ حضرت علامہ نے فرمایا: ’’ریاست میں نہ سہی، اہلِ ریاست میں تو دم ہونا چاہیے۔ سیّد صاحب! بہاولپور مسلمانوں کی ریاست ہے۔ مسلمانوں کا گزر اس وقت سیاست کے ایک نہایت خطرناک مرحلے سے ہورہا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے آنکھیں کھولیں۔ ریاست نہیں تو اہلِ ریاست میں دم پیدا کیجیے۔ یہ موقعہ کچھ کرنے کا ہے۔‘‘ سیّد صاحب ریاستوں کے مخصوص حالات، ریاستی باشندوں کی زندگی، ان کی قدامت پسندی اور پسماندگی کے ساتھ ساتھ انگریزوں کے عمل دخل اور اربابِ ریاست کی مشکلات کا ذکر کررہے تھے کہ علی بخش، جو باورچی خانے کی دیکھ بھال کررہا تھا، کمرے میں داخل ہوا۔ کہنے لگا خواجہ وحید صاحب آئے ہیں۔ حضرت علامہ نے فرمایا: ’’باہر کیوں ٹھہرے ہیں، اندر آجائیں۔‘‘ علی بخش نے چلم ہاتھ میں لی اور باورچی خانے کا رُخ کیا۔ خواجہ صاحب کمرے میں داخل ہوئے۔ سلام عرض کیا۔ خیریت مزاج پوچھی اور ہمارے پاس رکھی ہوئی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گئے۔ سیّد صاحب نے اجازت لی۔ حضرت علامہ نے فرمایا: ’’خواجہ صاحب! کہیے، شہر میں کیا ہورہا ہے؟ آپ کیا کررہے ہیں؟‘‘ خواجہ صاحب نے کہا: ’’شہر میں تو بڑی زندگی ہے، مگر یونینسٹ پارٹی نے بڑا فتنہ پیدا کررکھا ہے۔ اس پارٹی کی حالت تو ناقابلِ اصلاح ہے، لیکن اس سلسلے میں ہماری سب سے بڑی مشکل ہے ہمارا سیاسی اور دینی انحطاط۔ جدید تعلیم نے مسلمانوں کے دل و دماغ کو خراب ہی نہیں، ماؤف کررکھا ہے۔ میں نے ایک مجلس قائم کی ہے (یہ گویا حضرت علامہ کے اس سوال کا جواب تھا کہ آپ کیا کررہے ہیں)۔ یہ مجلس ’’کلچرل‘‘ ہوگی…مجلس ثقافت اسلامیہ‘‘۔ آج شام کو اس کا اجلاس ہے۔‘‘ حضرت علامہ نے فرمایا: ’’یہ کوششیں بڑی مبارک ہیں۔ جاری رکھیے۔‘‘ قرشی صاحب تشریف لے آئے، وہی ۱۰-۱۱ بجے جیسا کہ توقع تھی۔ خواجہ صاحب چند منٹ اور حضرت علامہ سے باتیں کیں، یہی کہ ثقافت اسلامیہ کی تجدید کے لیے انھیں کیا کرنا چاہیے اور پھر تشریف لے گئے۔ قرشی صاحب نے نبض دیکھی۔ مزاج پوچھا۔ حضرت علامہ نے اطمینان ظاہر کیا۔ گیارہ ساڑھے گیارہ تک نشست رہی۔ زیادہ تر غذا اور دوا کی باتیں ہوتی رہیں۔ اس اثنا میں حضرت علامہ نے چائے پی اور دوائیں بھی استعمال کیں۔ شام سے پہلے حاضر خدمت ہوا۔ سلامت ساتھ تھے۔ کپتان الٰہی بخش اور حمید ملک صاحب بیٹھے باتیں کررہے تھے۔ حضرت علامہ کی طبیعت بظاہر اچھی تھی۔ کپتان صاحب تو گویا بحیثیتِ معالج انھیں دیکھنے آئے تھے، حمید ملک حسبِ معمول عیادت اور اظہار عقیدت کے لیے۔ کپتان صاحب زیادہ نہیں بیٹھے۔ حضرت علامہ سے اجازت لی۔ ڈاکٹر حمید ملک بھی چلے گئے۔ ہم نے مزاج پوچھا تو حضرت علامہ نے فرمایا: ’’کپتان صاحب کی تشخیص ’’انورزم‘‘ کے خلاف ہے۔ آج اجابتیں بہت ہوئیں اس لیے نقاہت محسوس ہورہی ہے۔ دواؤں میں شاید اس اَمر کا لحاظ رکھا گیا تھا کہ تنقیہ ہوجائے۔‘‘ پھر فرمایا: ’’وہ جو دو روز سے پاؤں کا ورم تھا وہ تو جاتا رہا طبیعت البتہ مضمحل ہے۔ کپتان صاحب کہتے ہیں کھانا کھائیے، طبیعت بحال ہوجائے گی۔‘‘ ہم نے کہا کپتان صاحب نے یہ بات شاید اس لیے کہی کہ اضمحلال کی وجہ ہے معدے کا تنقیہ۔ کپتان صاحب ماشاء اللہ بہت اچھے ڈاکٹر ہیں، غلط نہیں کہتے۔ ان شاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔ آپ کھانا تناول فرمالیجیے۔ علی بخش سے کہا گیا کھانا جلدی تیار ہونا چاہیے۔ علی بخش خود تو باورچی خانے میں چلا گیا، رحما اور دیوان علی آگئے۔ چودھری صاحب اور راجا صاحب بھی تشریف لے آئے۔ سلامت چند منٹ اور ٹھہرے۔ انھیں کچھ کام تھا۔ اجازت لی اور چلے گئے مگر پھر آدھ پون گھنٹے میں واپس آگئے۔ قرشی صاحب ساتھ تھے۔ حضرت علامہ نے کپتان صاحب کے آنے کا ذکر کیا، ورم کی دوری اور نقاہت کا۔ معدے کا تنقیہ شاید دوپہر اور دوپہر کے بعد سہ پہر میں ہوا تھا۔ اسی وجہ سے شام کو نقاہت بڑھ گئی۔ فرمایا: ’’شانے میں درد محسوس ہورہا ہے۔‘‘ شانے کا درد! یہ علامت بڑی تشویش انگیز تھی۔ درد کا مطلب تھا قلب کی کمزوری، فعل قلب کا نقص۔ قرشی صاحب نے کہا مالش کے لیے تیل بھیج چکا ہوں۔ تیل کہاں ہے۔ علی بخش کو طلب کیا گیا۔ تیل آیا اور علی بخش ہی نے ہلکے ہلکے شانوں پر مالش کی۔ شیخ صاحب دوسرے کمرے سے تشریف لائے۔ حضرت علامہ کے عوارض سے پریشان تھے۔ قرشی صاحب سے طرح طرح کے سوال کرنے لگے۔ بار بار دوا اور پرہیز کا پوچھتے۔ قرشی صاحب جواب دیتے۔ حضرت علامہ شاید اس گفتگو سے اکتا گئے تھے۔ فرمایا ’’تکلیف جو ہے سو ہے، زیادہ رد و کد مناسب نہیں۔ رد و کد سے کیا ہوتا ہے؟‘‘ علی بخش مالش کرچکا تو حضرت علامہ کو درد سے سکون ہوگیا۔ تکیوں سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ حقے کے دو ایک کش لیے۔ ہم نے کہا کھانا تناول فرمالیجیے۔ حضرت علامہ نے کھانا کھایا تو ان کی طبیعت فی الواقع بحال ہوگئی۔ قرشی صاحب سے باتیں کرنے لگے۔ فرمایا: ’’عوارض تو اب یہی شانے کا درد ہے، احتباس صوت اور دمہ قلبی۔ ان عوارض کا ازالہ ہونا چاہیے۔‘‘ قرشی صاحب نے کہا ہم تدبیر کررہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبان کی بھی کوشش ہے۔ ایک خطرناک علامت جو استسقا کی پیدا ہوگئی تھی دور ہوچکی ہے۔ پاؤں کا ورم بھی جاتا رہا۔ دوائیں جاری ہیں۔ ان شاء اللہ کارگر ثابت ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت دے۔ ہماری تو شب و روز یہی دعا ہے۔ حضرت علامہ شاید اُونگھ گئے تھے۔ غذا کے استعمال سے نقاہت دور ہوئی تو غنودگی محسوس ہونے لگی۔ قرشی صاحب نے کہا آپ کو نیند آرہی ہے۔ آپ لیٹ جائیے۔ ہم آپ کے پاس بیٹھیں گے۔ ہر طرح کا خیال رکھیں گے۔ حضرت علامہ نے فرمایا: ’’درد تو نہیں ہے۔ یونہی دکھن سی باقی ہے۔‘‘ پھر علی بخش نے سہارا دیا تو آرام سے لیٹ گئے اور کروٹ لی۔ ہم سے کہا: ’’آپ بیٹھے ہیں، مجھے تسلی ہے۔‘‘ حضرت علامہ جلد سوگئے۔ م-ش بھی آگئے۔ علی بخش، رحما، دیوان علی موجود تھے اور ہمیں بھی حضرت علامہ کی طرف سے اطمینان تھا۔ لہٰذا ہم زیادہ نہیں بیٹھے، یہی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ اور۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱- مصنف پاکستان کے معاشی مسائل اور ایک زمانے میں زرعی کمیشن کے رکن۔ ۲- ذکر پہلے آچکا ہے۔ ز…ز…ز دو شنبہ: ۲۱؍مارچ کوئی گھنٹہ بھر حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر رہا۔ بحمدللّٰہ انھیں بہت شگفتہ خاطر پایا۔ علی بخش خوش تھا۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا، رات کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب بڑے آرام سے سوتے رہے۔ قرشی صاحب نبض دیکھ گئے ہیں۔ ۱۰ بج رہے تھے۔ میں نے حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوکر سلام عرض کیا اور مزاج پوچھا۔ فرمایا: ’’بیان کے بارے میں لوگ کیا کہتے ہیں؟ اخباروں کی کیا رائے ہے؟‘‘ بیان سے مطلب تھا وہی بیان جو مولانا حسین احمد کے جواب میں لکھا گیا تھا اور کئی دن ہوئے روزنامہ احسان میں شائع ہوچکا تھا۔ معلوم نہیں حضرت علامہ کا ذہن بیان کی طرف کیسے منتقل ہوا۔ یوں بھی میں نے دیکھا حضرت علامہ کسی بڑی گہری سوچ میں ہیں جیسے عالمِ تخیل میں بہت دور کسی چیز کو دیکھ رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا، بیان سے لوگ تو خوش ہیں اور یوں بھی ہر سمجھ دار آدمی نے اسے پسند کیا ہے۔ اہلِ علم کے نزدیک تو یہ ایک بڑی قیمتی دستاویز ہے اور اسلام کے بارے میں آپ کے ارشادات کی تفصیل مزید۔ نوجوانوں کے ذہن میں بھی اب یہ بات آرہی ہے کہ اسلام ایک نظام اجتماع و عمران ہے۔ اس کی ایک اساس ہے، ایک عمود اور نصب العین۔ یوں انھیں کچھ کچھ اندازہ ہورہا ہے کہ جب ہم کہتے ہیں مسلمان ایک اُمت ہیں تو اس کا مطلب آج کل کی سیاسی اصطلاح میں یہ ہوگا کہ وہ ایک قوم بھی ہیں۔ اس قوم کا ایک اپنا مزاج ہے، ایک ہیئت اور ترکیب، لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے آپ کو وطنیت اور قومیت کے لادین تصورات سے محفوظ رکھیں، وہ تصورات جن کی بنا پر نام نہاد ہندوستانی قومیت کی عمارت اُٹھائی جارہی ہے اور جس کی علما کا ایک طبقہ غلطی سے حمایت کررہا ہے۔ میں نے عرض کیا، رہے اخباروں کے تبصرے سو ان کی نوعیت محض سیاسی نزاع و جدال کی ہے، موافقت میں بھی اور مخالفت میں بھی۔ لیکن یہ نہیں کہ کسی نے اس کے متضمنات کو سمجھا ہو، یا علمی، اخلاقی، سیاسی اور اجتماعی لحاظ سے اس پر قلم اُٹھایا ہو۔ میں نے یہ بھی عرض کیا کہ ابھی تو آپ کے ارشادات سے بمشکل اس اَمر کا شعور پیدا ہوا ہے کہ اسلام ایک عمرانی تحریک، ایک نظام مدنیت اور ایک طریقِ زندگی بھی ہے ورنہ اسلام کے بارے میں عام خیالات تو وہی ہیں جو مذہب کے بارے میں عام طور پر ہوا کرتے ہیں… وہی مذہب کا جواز اور مذہب کے سلسلے میں چند ایک مابعدالطبیعی مسائل، شریعت اور اس کی حدود و قیود، قانون اور اخلاق کی بحث… وہی خانقاہیت اور ملائیت جیسا کہ آپ کا ارشاد ہے۔ قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے اس کو کیا جانیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام پڑھے لکھے طبقے کا بھی یہ حال ہے کہ کبھی آپ کے خطبات کا مطالعہ کرتا ہے یا اس سے خطبات کے مطالعے کے لیے کہا جاتا ہے، ریاست اور مدنیت کے سلسلے میں آپ کے ارشادات پیش کیے جاتے ہیں تو وہ سمجھتا ہے جیسے آپ نے کوئی بڑے چنبھے کی بات کہی ہے۔ مسلمانوں کا شعور ملی ہنوز بڑا ضعیف ہے۔ کانگریسی خیال علما نے اس میں مزید اُلجھاؤ پیدا کررکھا ہے۔ ارشاد ہوا: ’’یہ شعور مستحکم ہوگا اور ضرور ہوگا۔ زمانہ سب کچھ سکھا دے گا۔ کوئی اُیچ پیچ رہے گا، نہ اُلجھاؤ، نہ شک و شبہات۔‘‘ حضرت علامہ کا معمول تھا کہ کسی گہری سوچ میں ہوتے تو اکثر اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے، بار بار سر پر ہاتھ پھیرتے۔۱؎ معلوم نہیں کیا سوچ رہے تھے کہ مجھ سے کہنے لگے: ’’کوئی خبر ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا، خبر تو کوئی نہیں۔ فرمایا: ’’جرمنی میں کیا ہورہا ہے؟‘‘ میں کیا عرض کرتا۔ میں نے کہا خبر تو کوئی نہیں۔ حضرت علامہ بدستور کسی گہری سوچ میں تھے۔ معلوم ہوتا ہے بہت بڑے انقلاب کے منتظر ہیں۔ دوپہر ہو رہی تھی۔ اس اثنا میں حضرت علامہ نے کھانا تناول فرمایا۔ کوئی طبّی مرکب بھی استعمال کیا۔ حقے کے دو ایک کش لیے، لیکن محض عادۃً ورنہ اب حقے میں کوئی لطف نہیں رہا تھا۔ یونہی ذرا سا کش لگاتے اور نے ایک طرف پھیر دیتے۔ میں نے اس خیال سے کہ انھیں کچھ آرام کرنا چاہے اجازت لی اور گھر آگیا۔ خیال تھا اسد۲؎ صاحب آتے ہوں گے۔ اسد صاحب کا دیر سے خیال تھا کہ بعض جرمن ڈاکٹر جو لاہور میں مقیم ہیں اور طب کررہے ہیں، کیوں نہ وہ بھی حضرت علامہ کو دیکھ لیں۔ ان کا طریق علاج اگرچہ مختلف ہے اور بہت ممکن ہے وہ علاج کریں تو سب سے الگ تھلگ رہ کر، یعنی اس شرط پر کہ ان کے علاج میں کسی دوسرے کا دخل نہ ہو، لیکن ان سے مشورہ لینے میں کیا حرج ہے۔ ان میں ایک تو ڈاکٹر زیلتسر۳؎ تھے۔ دوسرے ڈاکٹر کالیش۔۴؎ میں نے اسد صاحب سے کَہ رکھا تھا آپ ان میں سے کسی سے بات کرلیں۔ ہم انھیں جاوید منزل لے جائیں گے، مشورہ ہوجائے گا۔ چنانچہ جاوید منزل سے گھر اور گھر سے یونائیٹڈ آکشن مارٹ پہنچا تو سلامت نے کہا اسد صاحب نے ٹیلیفون کیا ہے، دو اڑھائی بجے ڈاکٹر زیلتسر کے ہمراہ آئیں گے۔ آپ بھی آجائیے۔ پھر ہم جاوید منزل چلیں گے۔ ۲ بج رہے تھے۔ زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ اسد صاحب وقت مقررہ سے کچھ پہلے ہی آگئے۔ ڈاکٹر زیلتسر ساتھ تھے۔ تعارف ہوا۔ شکریہ ادا کیا گیا۔ مشروبات سے تواضع ہوئی اور پھر کوئی تین بجے ہم سب جاوید منزل پہنچ گئے۔ علی بخش باہر برآمدے میں مل گیا۔ معلوم ہوا حضرت علامہ کی طبیعت اچھی ہے۔ میں نے کہا اطلاع کردو، اسد صاحب اور ڈاکٹر زیلتسر آئے ہیں۔ علی بخش آیا۔ ہم لوگ حضرت علامہ کی خواب گاہ میں داخل ہوئے۔ سلام عرض کیا۔ حضرت علامہ نے اسد صاحب اور ڈاکٹر زیلتسر کا شکریہ ادا کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے بڑی زحمت کی کہ دیکھنے آگئے۔ اسد صاحب کی دل سوزی انھیں ساتھ لے آئی۔ اس صاحب نے کہا یہ ہمارا فرض تھا۔ ہم آپ کے عقیدت مند ہیں۔ ڈاکٹر زیلتسر نے بھی کچھ ایسے ہی کلمات دہرائے۔ پھر کہنے لگے آپ کی علالت کا حال کم و بیش پورے طور پر سن چکا ہوں۔ مجھے اس کا خوب اندازہ ہے۔ اشارہ اسد صاحب کی طرف تھا۔ پھر بھی مجھے آپ سے دو ایک سوال پوچھنا ہیں۔ میں چاہتا ہوں آپ کے قلب اور سینے کا معائنہ کروں۔ حضرت علامہ نے مختصراً ڈاکٹر صاحب کے سوالات کا جواب دیا۔ یہی کہ علالت کی ابتدا کیسے ہوئی، گلے کی کیفیت کیا رہتی ہے۔ ابتدا میں تشخیص کی گئی تو علاج ایلوپیتھک ہوا یا طبی؟ برقی علاج کیسا رہا؟ ایلوپیتھک دواؤں سے طبیعت کیوں نفور ہے؟ حکیم نابینا صاحب کے علاج سے کیا فائدہ ہوا۔ پھر جب قلب اور سینے کا معائنہ ہوگیا تو ڈاکٹر صاحب کہنے لگے آپ کو انورزم۵؎ نہیں ہے۔ قلب البتہ پھیل گیا ہے۔ ہم اپنی اصطلاح میں اسے ’’بیل کا دل‘‘۶؎ کہتے ہیں۔ میں نسخہ لکھے دیتا ہوں۔ آپ میری دوائیں استعمال کریں۔ آپ کو فائدہ ہوگا۔ علی بخش چائے لے آیا۔ غالباً حضرت علامہ پہلے ہی سے اشارہ کرچکے تھے۔ چائے قدرے پرتکلف تھی۔ حضرت علامہ نے فرمایا: ’’بیگم حسین بھی آجائیں، چائے میں شریک ہوں، بلکہ چائے پلائیں۔‘‘ بیگم حسین آئیں، تعارف ہوا۔ انگریزی کی جگہ چند منٹ کے لیے جرمن زبان نے لی۔ چائے پر کچھ نہ کچھ گفتگو ضرور ہوتی ہے۔ جرمنی کی باتیں ہوتی رہیں۔ حضرت علامہ کا جرمنی میں قیام، وہ تیس پینتیس برس پہلے، پھر پہلی عالم گیر جنگ کے بعد اور اب ۱۹۳۸ء کی جرمنی۔ ایک قیصر کا دور تھا۔ اسے زوال ہوا۔ اب ہٹلر کا دور ہے۔ جرمنی اور جرمن کس قدر بدل گئے۔ دنیا بھی بدل رہی ہے اور بدل گئی۔ یوں سیاست بین الاقوام زیر بحث آگئی، بالخصوص جرمن سیاست کے لحاظ سے کہ ہٹلر کے عزائم، ہٹلر کی نسل پرستی، ہٹلر کی سامیت دشمنی، آسٹریا کا الحاق، ہٹلر کا غرور تفوق، ان سب باتوں کا انجام کیا ہوگا۔ ڈاکٹر زیلتسر اور اسد صاحب اپنی اپنی سمجھ کے مطابق کچھ جواب دیتے۔ بیگم حسین بھی کچھ نہ کچھ اظہار رائے کرتیں۔ گفتگو اگرچہ سرسری تھی، کوئی خاص اَمر زیر بحث نہیں تھا، پھر بھی یہ صحبت عجیب تھی۔ تین مغربی نثراد انسان حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہیں: دو نسلاً اسرائیلی یا یہودی… ان میں سے ایک مسلمان کہ جب اسلام قبول نہیں کیا تھا جب بھی صہہونیت کے خلاف تھا اور اب اسلام کا ترجمان ہے، دوسرا صیہونی اور شاید مذہباً یہودی… تیسری ایک خاتون مذہباً عیسائی اور خالصاً آریا نسل جرمن، گو بسبب حالات سب وطن سے باہر ایک دوسرے ملک اور دوسری قوم میں مقیم۔ گفتگو مزے کی تھی۔ بیگم حسین کے لیے جرمنی کے خلاف کچھ سننا تو ناگوار تھا، ہٹلر کی سامیت دشمنی سے البتہ اظہار اتفاق کرتی رہیں۔ اسد صاحب کہتے اس میں یہودیوں کا اپنا دخل بھی ہے۔ ڈاکٹر زیلتسر، ظاہر ہے، ہٹلر سے خفا تھے، اس کی سیاست کی مذمت کرتے رہے۔ ایک مرتبہ کہنے لگے ہٹلر کی رعایا ہونے سے تو بہتر ہے انسان برطانیہ کا غلام ہوجائے۔ اس پر حضرت علامہ نے برجستہ فرمایا: ’’لیکن ہمیں تو برطانیہ کی غلامی بھی گوارا نہیں۔‘‘ چائے پی گئی۔ ڈاکٹر زیلتسر نے پھر حضرت علامہ کو اطمینان دلایا کہ ان کا علاج فائدہ مند رہے گا۔ چند منٹ اور نشست رہی۔ پھر اسد صاحب اور ڈاکٹر صاحب نے حضرت علامہ سے اجازت لی۔ حضرت علامہ نے مکرر ان کا شکریہ ادا کیا۔ فرمایا: ’’میں شاید پھر بھی آپ کو تکلیف دوں۔‘‘ ڈاکٹر زیلتسر نے کہا بسر و چشم۔ اُٹھے اور خدا حافظ کہی۔ اسد صاحب نے بھی پھر آنے کا وعدہ کیا تاکہ ضرورت ہو تو ڈاکٹر صاحب سے مل لیں۔ ہم بھی ان کے ساتھ ہی اُٹھ کھڑے ہوئے۔ بیگم حسین برآمدے تک رخصت کرنے آئیں۔ اسد صاحب کو ماڈل ٹاؤن جانا تھا۔ ڈاکٹر زیلتسر بھی ان کے راستے ہی میں کہیں رہتے تھے۔ چند منٹ دونوں حضرات کا ساتھ رہا۔ اثناے راہ میں زیادہ تر گفتگو حضرت علامہ کے مرض اور علاج ہی کی رہی۔ ڈاکٹر زیلتسر کا خیال تھا کہ ابتدا میں علاج ٹھیک نہیں ہوا۔ میں نے محسوس کیا ان کا جی چاہتا ہے حضرت علامہ کا علاج کریں۔ اسی خیال کو لے کر گھر پہنچا۔ چند منٹ ٹھہرا۔ پھر سلامت سے ملا۔ ان کی رائے دریافت کی۔ مجھ سے متفق تھے کہ ڈاکٹر زیلتسر کا کچھ ایسا ہی خیال ہے۔ لہٰذا شام سے پہلے جاوید منزل پہنچ گیا۔ حضرت علامہ نے قدرے تعجب سے پوچھا: ’’اتنی جلدی کیسے آگئے؟‘‘ میں نے عرض کیا چاہتا ہوں ڈاکٹر زیلتسر کے بارے میں آپ کی رائے معلوم کروں۔ یہ بھی خیال ہے احباب سے مشورہ ہوجائے۔ چودھری صاحب آتے ہی ہوں گے۔ ڈاکٹر زیلتسر کا خیال ہے ہمیں ان کو علاج کا موقع دینا چاہیے۔ ارشاد ہوا: ’’بڑی مناسب تجویز ہے۔ مشورہ ہوجانا چاہیے۔‘‘ پھر فرمایا: ’’ایک رباعی ہے اس کی تصحیح کردو۔‘‘ میں الماری کی طرف بڑھا۔ بیاض اُٹھائی اور نشستگاہ میں جابیٹھا تاکہ حسب ہدایت رباعی کی تصحیح کردوں۔ نشستگاہ میں بیٹھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ حضرت علامہ رباعی کے بارے میں ہدایات دے چکے اور میں نے اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے بیاض کھولی تو علی بخش اندر آیا اور کہنے لگا سرحد سے کونسل کے کچھ ممبر صاحبان آئے ہیں، ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے سوچا انھیں شاید میری موجودگی پر اعتراض ہو، لہٰذا نشستگاہ میں جابیٹھا۔ رباعی درست کی۔ کونسلر صاحبان یہی لیگ اور کانگریس کی باتیں کرتے رہے۔ سرحد میں لیگ کا عدم وجود برابر ہے۔ سرخ پوشوں کا زور ہے، مگر لوگ کانگریس کے ساتھ نہیں ہیں۔ کانگریس سے دب ضرور گئے ہیں۔ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ کچھ کریں تو کس کے بھروسے پر؟ حضرت علامہ مناسب جواب دے رہے تھے، لیکن حضرت علامہ کو زیادہ تر جستجو اس اَمر کی تھی کہ لیگ یا دوسرے لفظوں میں مسلمانوں کے متحدہ محاذ کی راہ میں عملاً کیا رکاوٹیں ہیں۔ کونسلر صاحبان اپنی دانست کے مطابق حالات پر تبصرہ کرتے رہے۔ گفتگو طول کھینچ رہی تھی۔ میں نے سوچا گھر سے ہو آؤں۔ چودھری صاحب اور قرشی صاحب آتے ہی ہوں گے۔ م-ش موجود ہیں۔ گھر سے واپس آیا تو دس بج رہے تھے۔ معلوم ہوا قرشی صاحب جلدی آگئے تھے۔ چودھری صاحب بھی موجود ہیں۔ راجا صاحب البتہ نہیں آئے۔ ان کا انتظار ہے۔ حضرت علامہ کی طبیعت بفضلہ تعالیٰ اچھی ہے۔ میں کمرے میں داخل ہوا۔ قرشی صاحب حضرت علامہ کے ہاتھ سہلا رہے تھے۔ م-ش بھی پلنگ کے ساتھ لگے بیٹھے تھے۔ رحما بدن داب رہا تھا۔ چودھری صاحب شاید کوئی بات کررہے تھے۔ میں نے حضرت علامہ کا مزاج پوچھا اور حسبِ معمول کرسی بڑھا کر پلنگ کے پاس بیٹھ گیا۔ حضرت علامہ چودھری صاحب اور قرشی صاحب سے ڈاکٹر زیلتسر کا ذکر کرچکے تھے۔ مجھ سے تفصیل پوچھی گئی تو میں نے چودھری صاحب اور قرشی صاحب سے اپنی رائے کا اظہار کیا، یہ کہ زیلتسر علاج برآمادہ ہیں، تشخیص مختلف ہے۔ کہتے ہیں صحیح دوائیں تجویز نہیں ہوئیں۔ انھیں اپنی دواؤں پر اعتماد ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان کی دواؤں کو آزمایا جائے یا نہیں؟ اس لیے کہ وہ بھی اگرچہ ایلوپیتھ میں، مگر ان کا طریق علاج رائج الوقت ایلوپیتھی سے اس قدر مختلف ہے کہ ہم ان سے رجوع کریں تو اول ان سب باتوں کو اچھی طرح سے سوچ لیں۔ بالآخر طے پایا کہ سرِدست علاج میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے۔ ضرورت ہوئی تو ڈاکٹر زیلتسر سے پھر مشورہ کرلیا جائے گا۔ حضرت علامہ نے فرمایا: ’’میرا فیصلہ تو یہ ہے کہ علاج صرف طبّی ہوگا۔ یوں مشورے میں کوئی حرج نہیں۔ مجھے طبّی ادویات پر زیادہ بھروسا ہے۔‘‘ پھر ارشاد ہوا: ’’طبّی علاج سیکڑوں برس کے تجربات پر مشتمل ہے۔۷؎ سیکڑوں برس سے طبّی ادویات آزمائی جارہی ہیں۔ ان کی تاثیر اور فائدہ مندی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ یہ انسانی مزاج، طبیعت اور جسم کے زیادہ قریب ہیں۔ ایلوپیتھک دواؤں کا کیا ہے۔ ان کی تاثیر اور استعمال کے بارے میں کوئی رائے مستقلاً قائم نہیں رہتی۔ یوں بھی مجھے یہ دوائیں راس نہیں آتیں۔‘‘ ہم نے حضرت علامہ کی رائے سے اتفاق کیا۔ کچھ تو اس لیے کہ ہمارا تجربہ بھی حضرت علامہ کے اس ارشاد کے حق میں تھا کہ ایلوپیتھک دوائیں راس نہیں آتیں، کچھ اس لیے کہ اگر مریض کی طبیعت کو کسی طریق علاج سے ابا ہے یا اسے بعض دوائیں راس نہیں آتیں تو اس طریق علاج یا ان دواؤں کے استعمال پر اصرار کرنا غلط ہے۔ حضرت علامہ فرما رہے تھے: ’’دوا سے مقصد شفا ہے۔ طبیب کی نظر شفا پر ہونی چاہیے۔ لیکن شفا تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ انسان شفا پر قادر نہیں۔‘‘ ہم سوچ رہے تھے، حضرت علامہ کا ارشاد گویا یہ ہے کہ دوا کے ساتھ دعا بھی ہونی چاہے۔ مگر یہ دوا اور دعا کا باہم تعلق کیا ہے؟ اگر تدبیر عبارت ہے علم و عقل کی کارفرمائی اور ہماری سعی و کوشش، اعتماد ذات اور احساس ذمہ داری سے تو کیا دعا سے مراد ہے اعماق حیات میں ڈوب کر اپنے وجود اور ہستی کے حقیقی سرچشمے سے ربط و اتصال، حضرت علامہ کا بھی تو یہی ارشاد ہے، یہ ربط و ضبط ذریعہ ہے زندگی میں روز افزوں وسعت، قدرت اور اختیار کا۔ میں کچھ اس طرح سوچ رہا تھا کہ حضرت علامہ لیٹ گئے۔ طبیعت میں سکون تھا۔ ہم لوگ سب ان کی خدمت میں حاضر تھے۔ انھوں نے کروٹ لیتے ہوئے کہا: ’’کائنات اضافہ پذیر ہے۔‘‘۸؎ ’’کائنات اضافہ پذیر ہے۔‘‘ اس اضافہ پذیری کا ایک پہلو طبیعی ہے۹؎ جو علوم طبیعی پر حال ہی میں منکشف ہوا۔۱۰؎ کیا اس کا کوئی اور پہلو بھی ہے۔ کیا در رضائے او رضائش گم شود خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے کیا یہ بھی اس کی اضافہ پذیری ہی کا ایک پہلو ہے؟ بالفاظ دیگر کیا انسان کہ یوں دیکھنے میں عاجز اور ماندہ، ہیچ اور بے بس نظر آتا ہے اپنے وجود اور ہستی کے حقیقی سرچشمے میں ڈوب کر قدرت اور اختیار حاصل کرسکتا ہے؟ کرسکتا ہے تو کیا کائنات اور اس کے حوادث میں بھی اس کا کچھ عمل دخل ممکن ہے؟ حضرت علامہ کَہ چکے ہیں: نائب حق در جہاں بودن خوش است بر عناصر حکمران بودن خوش است کیا اسے بھی اضافہ پذیری کہا جائے گا؟ ان معنوں میں کہ اضافہ اگرچہ خالق کائنات کے ہاتھ میں ہے لیکن اس میں انسان کی امید اور تمنا بھی شامل رہتی، یا شامل رہ سکتی ہے۔ یا اس کے معنی یہ کہ کائنات کے مطالعے میں ہم از روے علم و عقل جس طرح قدم اُٹھاتے اور ایک کے بعد دوسرا تصور قائم کرتے ہیں اس سے بتدریج ہماری اپنی، یعنی ذات انسانی، اس کے ارادہ و اختیار، کائنات اور خالق کائنات سے اس کے تعلق کے بارے میں جو نتائج مترتب ہوتے ہیں وہ آخری اور قطعی نہیں ہیں۔ ہم ان کی صحت سے انکار تو نہیں کرسکتے۔ ہم جو کچھ کہیں گے یا کریں گے ان کی رعایت ہی سے، اس لیے کہ ان کی نوعیت بہرحال ایک مرتبہ علم کی ہے۔ ہم ان کے عمل درآمد سے انکار نہیں کرسکتے۔ مگر ہمیں نہیں بھولنا چاہیے تو یہ کہ اس مرتبۂ علم کے علاوہ اور بھی مراتب علم ہیں جن کا ہنوز ہم پر انکشاف نہیں ہوا، بعینہٖ جیسے علوم طبیعہ کے مطالعے میں کائنات کے بارے میں ہم نے ایک مرتبۂ علم کے بعد دوسرے میں قدم رکھا اور کتنے حقائق تھے جو بتدریج ہمارے سامنے آئے۔ لہٰذا ہوسکتا ہے یہ مراتب جو ہنوز ہمارے سامنے نہیں آئے کسی دوسرے ذریعے سے بھی ہم پر منکشف ہوجائیں، یا ہوچکے ہوں۔ اندریں صورت ہم اپنے علم و عقل کے جس مرحلے سے گزر رہے ہیں اس کی صحت اور قطعیت میں یقین رکھتے ہوئے بھی کہ نظام کائنات میں ان حقائق کی بہرحال ایک جگہ ہے جو ہمارے سامنے آچکے ہیں، ہم اس تعلق کے بارے جو ہمارے ارادہ و اختیار کو خالق کائنات کی قدرت کاملہ سے ہے ایسی کوئی مشکل پیدا نہ کریں جس سے زندگی کے مزاج، اس کی فطرت اور ماہیت، یا اُصول و قانون کی نفی ہوجائے جو اس میں کام کررہا ہے۔ ہم کوشش اور تدبیر سے ہاتھ روک لیں۔ عمل اور اقدام کو کوئی اہمیت نہ دیں۔ عاجز اور بے بس ہوکر رہ جائیں۔ من مانی توقعات اور امکانات کے بھروسے پر زندہ رہیں، جیسے بحالت ضعف و اضمحلال کہ جب قوائے عمل فرسودہ ہوجاتے ہیں لوگ اکثر ایسا کرتے ہیں، یا جیسے سرسیّد نے علوم طبیعی کے زیر اثر، جن کے نظریات اب اساساً بدل چکے ہیں، کائنات کا یہ تصور قائم کیا کہ وہ ایک بنا بنایا مصنوع ہے جس میں علت و معلول کی کار فرمائی ہے۔ لہٰذا حوادث کی ایک ترتیب ہے۔ اس میں کوئی رد و بدل ممکن نہیں۔ دعا سے بجز تسکینِ قلب کچھ حاصل نہیں ہوتا حالانکہ علت و معلول اور حوادث کی ترتیب کا تعلق، جیسا کہ ہم اسے دیکھتے ہیں، حقیقت کے صرف ایک مرتبے اور ہماری ذات سے باہر کی دنیا سے نہیں بلکہ ذہن سے ہے۔ ہمارے اندر کی دنیا کا اپنا ایک انداز ہے، علت اور معلول سے بے تعلق۔ یوں بھی علت کا اگر کوئی وجود ہے تو جب بھی علت صرف ایک ہے اور وہ مشیت الیہ۔ بعینہٖ حقیقت لامتناہی ہے جس سے نفس انسانی کو کوئی تعلق ہے تو مراتب ذات بھی لامتناہی۔ میں کچھ اس طرح سوچ رہا تھا اور سوچتا چلا گیا۔ حضرت علامہ کے ارشادات کی نوعیت ہی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ انسان سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ میں ان سے کوئی سوال تو کر نہیں سکتا تھا۔ حضرت علامہ کروٹ بدلے بدستور آرام فرما رہے تھے، لیکن ان کے ارشادات کا تعلق بہرحال دعا سے تھا۔ آج انھوں نے کائنات کی اضافہ پذیری کی طرف اشارہ کیا تو میرا ذہن پھر اس بحث کی طرف منتقل ہوگیا جس کے بارے میں ایک روز پہلے انھوں نے اشاروں ہی اشاروں میں فرمایا تھا کہ دعا میں جو نکتہ پوشیدہ ہے اس کو سمجھے تو ابن خلدون، یا ابن عربی۔ لیکن نہ مجھے ان کی تحریروں سے استفادہ کرنے کا موقع ملا، نہ حضرت علامہ نے اپنے ارشاد کی وضاحت میں مزید کوئی بات کہی۔ چودھری صاحب اور قرشی صاحب کَہ رہے تھے دوا اور دعا دونوں ضروری ہیں۔ دوا تدبیر ہے۱۱؎ اور تدبیر کا تعلق ایک طرف علم و عقل اور دوسری جانب ہمارے احساس ذمہ داری سے ہے تاکہ ہم جو قدم اُٹھائیں اپنا فرض سمجھتے ہوئے ٹھیک راستے پر اُٹھائیں۔ دعا ہے اپنے حدود و قیود یعنی علم اور کوشش کے باوجود اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے سامنے عجز اور درماندگی کا اقرار، اس کے فضل اور رحمت کی توقع کہ سلسلۂ اُمور سرتاسر اسی کے ہاتھ میں ہے۔ چودھری صاحب اور قرشی صاحب اگر یہ کَہ رہے تھے تو حضرت علامہ کے ارشاد کے پیشِ نظر میں اپنے دل میں یہ سوچ رہا تھا کہ دعا ایک حقیقت ہے بشرطیکہ ہم ان دو انتہاؤں سے بچیں جن کی طرف ابھی کل ہی اشارہ ہوا تھا۔ حضرت علامہ شاید سوگئے تھے یا محض غنودگی تھی۔ انھوں نے کروٹ لی اور اُٹھ کر بیٹھ گئے۔ علی بخش نے تکیوں سے سہارا دیا۔ ارشاد ہوا: ’’علی بخش چائے کا اہتمام کرو اور مجھے دوا کھلا دو۔ ہم سب چائے پئیں گے۔‘‘ علی بخش نے قرشی صاحب کے اشارے سے دوا کھلائی اور چائے کے اہتمام میں باورچی خانے کا رُخ کیا۔ رحما بدن داب رہا تھا۔ دیوان علی بھی آگیا۔ حضرت علامہ نے شاید ہماری گفتگو سن لی تھی۔ انھوں نے حقے کے دو ایک کش لیے اور نے ایک طرف موڑ دی جیسے حقے میں کوئی لطف نہیں تھا۔ ارشاد ہوا، خطاب قرشی صاحب سے تھا: ’’طبیب جب نسخہ تجویز کرتا ہے تو سرنامے پر ’’ہوالشافی‘‘ ضرور لکھتا ہے۔ ڈاکٹر ایسا نہیں کرتا۔ بظاہر یہ ایک رسم ہے، ایک معمول، یا روایت۔ لیکن اسے کچھ بھی کہیے یہی مظاہر ہیں کسی تہذیب کی حقیقی روح، مزاج، اور ایمان و یقین کے۔ یوں ہی پتہ چلتا ہے کہ کسی قوم کا تصور انسان، کائنات اور خالق کائنات کے بارے میں کیا ہے۔ یوں ہی اس کی روش حیات متعین ہوتی اور جذبات و احساسات ایک مخصوص رنگ اختیار کرتے ہیں۔ یوں ہی اس کی سیرت و کردار اپنے ایک جداگانہ نصب العین پر مرکوز ہوجاتی ہے۔‘‘ ارشاد ہوا: ’’اسے محض رسم، معمول، یا روایت نہ کہیے۔ ان باتوں کا تعلق زندگی سے نہایت گہرا ہے۔ یہی باتیں ہیں جن سے قوموں کے ذوق حیات اور تہذیب و ثقافت کی ترجمانی ہوتی ہے۔‘‘ فرمایا: ’’جب تک کوئی قوم اپنے نصب العین پر قائم رہتی ہے، اپنی روایات کو زندہ رکھتی اور اپنے اصل الاُصول سے پیچھے نہیں ہٹتی عوام بے رہرو نہیں ہونے پاتے۔ خواص ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ قوم کے وجود ملی کو تقویت پہنچتی اور وہ اپنی ترقی اور کامرانی کی منزلوں میں بامید و اعتماد آگے بڑھتی، بلکہ دوسروں کو بھی اپنی طرف کھینچتی ہے۔‘‘ فرمایا: ’’افسوس ہے مسلمان اپنے اصل الاُصول سے دور ہٹ گئے۔‘‘ علی بخش چائے لے آیا۔ چائے پی گئی۔ حضرت علامہ تکیوں سے ٹیک لگائے حقے کے کش لے رہے تھے۔ پھر معلوم نہیں کیا خیال آیا قرشی صاحب سے کہنے لگے: ’’ڈاکٹر زیلتسر کہتے ہیں انورزم نہیں ہے۔ دل پھیل گیا ہے۔ کپتان صاحب نے بھی کچھ ایسی ہی رائے ظاہر کی تھی۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا تکلیف صرف دل کے پھیلاؤ کی ہے؟‘‘ قرشی صاحب نے کہا دل تو ضرور پھیل گیا ہے۔ لیکن ہم اس کے پھیلاؤ یعنی اتساع قلب سے غافل نہیں ہیں۔ لیکن یہ خیال کہ تکلیف محض اتساع قلب کی ہے غالباً ٹھیک نہیں۔ حضرت علامہ نے فرمایا: ’’میرا بھی یہی خیال ہے کہ علاج جیسا ہورہا ہے ٹھیک ہے۔ اب اس نزاع میں اُلجھنا غلط ہوگا کہ مرض کیا ہے؟ اس کی تشخیص میں کیا کیا رائیں قائم کی گئیں، کیا کیا علاج ہوئے؟ عوارض جو کچھ ہیں سب کے سامنے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہے کہ دل متاثر ہے۔ لہٰذا مداوا انھیں عوارض اور اسی خرابی کا ہونا چاہیے جس کا تعلق دل سے ہے۔‘‘ قرشی صاحب نے کہا: ’’آپ کی رائے نہایت صائب ہے۔ ڈاکٹر صاحبان کے مشورے سے اب جس طرح سے علاج ہورہا ہے اس میں یہی اَمر مدنظر ہے۔‘‘ ارشاد ہوا: ’’اسی لیے تو میں نے کل بھائی صاحب سے بھی عرض کیا تھا کہ اب اس معاملے میں زیادہ رد و کد نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ پھر کہنے لگے: ’’دراصل اس بات کی بڑی ضرورت ہے کہ نئے تجربات کے ساتھ ساتھ پرانے تجربات کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ نظری علوم میں تو ایسا کم ہوتا ہے لیکن ان علوم کے عملی اطلاق میں، یا جب ان کی بنا پر کسی فن کی تشکیل ہوتی ہے تو یہ غلطی اکثر سرزد ہوجاتی ہے۔ مثلاً طب میں کہ اہلِ یورپ نے اگرچہ یہ فن مسلمانوں سے سیکھا، اس کی علمی اور فنی اساسات کے لیے وہ مسلمانوں کے مرہونِ منت ہیں لیکن اپنی علمی ترقیات، اجتہادات اور اکتشافات کے زعم میں وہ اپنے پیشروؤں کے سرمایۂ معلومات کو خاطر نہیں لاتے۔ یہ انداز بڑا غلط ہے۔‘‘ ارشاد ہوا: ’’دوا سازی اور غذا کے بارے میں تو اس انداز نے حد درجہ تعصب کی شکل اختیار کرلی ہے۔ اگر اس کا نام علم ہے تو یہ علم نہیں ہے۔ انھیں مسلمانوں سے سبق لینا چاہیے۔ انھوں نے قدما کی خدمات کو کبھی اس رنگ میں نہیں دیکھا جیسے اہلِ یورپ مسلمان اطبا کی خدمات کو دیکھتے ہیں اور خواہ مخواہ یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے ان کی حیثیت صرف متبعین کی تھی، وہ ایک طرح سے صرف بقراط اور جالینوس و غیرہم کی معلومات کے بھروسے زندہ تھے اور ان کے اپنے کوئی اجتہادات ہیں، نہ اکتشافات۔‘‘ ارشاد ہوا: ’’اہلِ یورپ کے یہ خیالات غلط ہیں، سرتاسر غلط۔ یہ تعصب ہے، تنگ نظری ہے، سیاست ہے، تجارت ہے۔ حکیم صاحب یہ آپ کا کام ہے، آپ حضرات کوشش کریں، آپ کا فن زندہ رہے۔ یہ غلط فہمیاں دور ہوں۔ حکیم صاحب حالات بدل رہے ہیں، حالات کے ساتھ زندگی۔ بدلتے ہوئے حالات پر نظر رکھیے۔ علوم و فنون کی ترقی سے فائدہ اُٹھائیے۔ ارشاد ہوا ’’مگر یہ کام آسان نہیں۔ اس کے لیے مطالعے کی ضرورت ہوگی۔ تحقیق و تفحص کی، علوم جدیدہ سے واقفیت کی۔ علم نے ترقی کی ہے اور علم ترقی کرتا رہے گا۔ علوم میں ترقی ہوتی ہے تو علم کی دنیا بدل جاتی ہے۔ طب کی دنیا بھی بدلتی رہی اور بدلتی رہے گی۔ مگر ایک بات ہے کہ علم ترقی تو کرتا ہے مگر جزواً جزواً۔ اس میں کئی ناہمواریاں باقی رہ جاتی ہیں۔ لہٰذا اس طرح جو نتائج مترتب ہوتے ہیں ضروری نہیں تمام و کمال قابلِ قبول ہوں۔ ضروری نہیں کہ ان کی بنا پر پچھلے سب نتائج کو نظر انداز کردیا جائے۔ یہ نکتہ سمجھنے کا ہے۔ آپ کی طب کے بہت سے نتائج آج بھی ویسے ہی صحیح ہیں جیسے آج سے صدیوں پہلے تھے۔ ان کا تعلق دواؤں سے ہے، تشخیص و تدبیر سے، غذاؤں سے، کوشش کیجیے یہ نتائج محفوظ رہیں۔‘‘ فرمایا ’’ابھی تو ہم اپنی طبّی تصنیفات سے بھی شاید پورے طور پر باخبر نہیں۔ جدید علوم کی رعایت سے ان کے نقد و تفحص کا کام بھی باقی ہے۔‘‘ حضرت علامہ کو اثناے گفتگو میں کئی بار رکنا پڑا۔ خطاب قرشی صاحب سے تھا۔ اور قرشی صاحب نے محض حضرت علامہ کی تکلیف کے خیال سے کئی بار کوشش کہ سلسلۂ گفتگو رُک جائے، وہ اپنی طرف سے کچھ کَہ سکیں۔ لیکن مجبوراً خاموش رہنا پڑا۔ حضرت علامہ نے بات ختم کی تو انھوں نے کہا آپ کا ارشاد بجا ہے لیکن قوم میں دم نہیں۔ ہم غیر منظم ہیں۔ کوئی تنظیم ایسی نہیں جو اس عظیم خدمت کا بیڑا اُٹھا سکے۔ اول تو ہمارے وسائل ہی کیا ہیں۔ پھر حکومت کی ساری توجہ ایلوپیتھی پر ہے، حکومت کا رویہ ہمارے خلاف ہے۔ فرمایا ’’قوم میں دم نہیں۔ دل و دماغ روبہ انحطاط ہیں۔ یہ صورتِ حالات بڑی افسوس ناک ہے۔ اس صورتِ حالات کو بدلنا چاہیے۔ حضرت علامہ تھک گئے تھے۔ دیر تک خاموش رہی۔ دم کشی کی تکلیف میں کمی تھی۔ تسلی تھی کہ حضرت علامہ بآرام لیٹے ہیں۔ چائے آگئی، چائے پی گئی۔ حضرت علامہ نے حقے کے دو ایک کش لیے فرمایا: ’’حکیم صاحب قوم میں دم نہیں، دل و دماغ روبہ انحطاط ہیں۔ قوائے عمل شل ہورہے ہیں۔ یہ سارا نتیجہ ضعف ایمان کا ہے۔ ایمان بڑی چیز ہے۔ جب تک ایمان قائم تھا مسلمانوں میں عزم بھی تھا، ہمت اور حوصلہ بھی۔ وہ اللہ کا سہارا ڈھونڈتے تو تدبیر سے بھی کام لیتے۔ انھیں معلوم تھا ایمان زندگی ہے، طاقت ہے، قدرت ہے۔ جب تک مسلمان زندہ رہے اس نکتے کو خوب سمجھے، عام اور خاص، عالم اور جاہل سب ہی۔ یہ نکتہ علم کی سمجھ میں تو آتا ہے لیکن وہ اس کی تعبیر میں خود اپنے لیے مشکلات پیدا کرلیتا ہے۔‘‘ شاید چودھری صاحب کَہ رہے تھے، یا کہنا چاہتے تھے: حکومت، بادشاہی، علم اشیا کی جہاں گیری یہ سب کیا ہیں فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں پھر فرمایا ’’صبح مہر و سالک آئے تھے۔ جب تک بیٹھے رہے، یہی کوئی بیس پچیس منٹ، لیگ اور یونینسٹ پارٹی کی باتیں ہوتی رہیں۔ میں نے ان سے کہا ہمارے مسائل کا حل صرف ایک ہے۔ یونینسٹ پارٹی توڑ دی جائے۔ لیگ جو متحدہ محاذ قائم کررہی ہے سب اس میں شامل ہوجائیں، سب اس کو تقویت پہنچائیں۔ مسلمانوں کی زمام قیادت صرف لیگ کے ہاتھ میں رہے۔ ہمیں جناح سے بہتر کوئی آدمی نہیں مل سکتا۔ جناح ہی ہماری قیادت کے اہل ہیں۔‘‘ ارشاد ہوا ’’مگر یونینسٹ پارٹی کا ذہن صاف نہیں، نہ اس میں خلوص ہے نہ درد مندی۔ لیکن وہ دن دور نہیں جب یہ پارٹی آپ ہی آپ ختم ہوجائے گی۔ اس کی ترکیب بڑے متضاد عناصر سے ہوئی۔ ہر عنصر کا اپنا ایک مفاد ہے۔ یہ ترکیب کب تک قائم رہے گی، یہ ترکیب قائم نہیں رہ سکتی۔‘‘ باتیں ہورہی تھیں کہ حضرت علامہ نے کچھ ضعف سا محسوس کیا۔ ارشاد ہوا ڈاکٹر حمید ملک کو بلایا جائے۔ قرشی صاحب نے آگے بڑھ کر نبض دیکھی۔ کچھ تدابیر کیں۔ عرق گل گاؤزبان کے ساتھ کوئی مرکب کھلایا۔ کہنے لگے دل کی تکلیف نہیں ہے۔ ڈاکٹر حمید ملک تو ملے نہیں۔ مگر تکلیف دور ہوگئی۔ حضرت علامہ پھر شگفتہ خاطر تھے۔ ارشاد ہوا یوسف حسین خان۱۲؎ کا خط آیا ہے۔ میں حکیم صاحب سے بھی ذکر کرچکا ہوں۔ یوسف حسین خاں نے نسخہ بھجوادیا ہے۔ حکیم صاحب۱۳؎ نے کچھ ہدایات بھی دی ہیں۔ حضرت علامہ کے اس ارشاد پر کچھ پریشانی سی ہونے لگی۔ نسخہ بھجوانے کا مطلب یہ تھا کہ اب حیدرآباد سے دوائیں نہیں آئیں گی۔ ہدایات کا یہ کہ دوائیں کیسے تیار کی جائیں۔ کون کون سی دوا تیار ہونی چاہے۔ ہم سوچ رہے تھے یہ دوائیں کیسے تیار ہوں گی۔ اِلّا یہ کہ قرشی صاحب ان کی تیاری کا اہتمام کریں۔ فرض کیجیے یہ اہتمام ہوجائے جب بھی حکیم صاحب کی خاص دوائیں کیسے ملیں گی۔ یا شاید ایسا ہو کہ کچھ دوائیں لاہور میں تیار ہوں، کچھ حیدرآباد سے آجائیں۔ ہم اسی پریشانی میں تھے کہ قرشی صاحب نے کہا ان کی طرف سے بہرحال پوری کوشش ہوگی کہ حکیم صاحب کی ہدایات پر عمل ہوتا رہے۔ دوائیں بھی تیار ہوتی رہیں گی۔ نسخہ موجود ہے۔ ہم دواؤں کا اہتمام کرلیں گے۔ قرشی صاحب کی باتوں سے ایک گو نہ تسلی ہوئی۔ پھر بھی اس خیال سے بڑا دکھ ہوتا کہ حکیم صاحب لاہور تشریف نہ لاسکے۔ حکیم صاحب لاہور آبھی نہیں سکتے تھے۔ حکیم صاحب کی پیرانہ سالی، حیدرآباد کی دوری، حضور نظام کی ملازمت، نہ حکیم صاحب سفر کے قابل تھے، نہ حضرت علامہ۔ دوائیں البتہ آجاتی تھیں۔ یہ سلسلہ بھی تقریباً منقطع ہوگیا۔ حضرت علامہ مطمئن تھے۔ علی بخش مٹھی چاپی کررہا تھا۔ م-ش پلنگ سے لگے بیٹھے تھے۔ دیوان علی اور رحما بھی آگئے اور پاینتی کی طرف ہوکر بیٹھ گئے۔ دیوان علی نے چودھری صاحب کے اشارے سے کوئی کافی چھیڑی۔ حضرت علامہ سنتے، محظوظ ہوتے۔ جبر و قدر ہماری شاعری کا عام موضوع ہے۔ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے لہٰذا انسان مجبور محض ہے، بے بس ہے۔ اگر انسان کو قدرت اور اختیار حاصل ہے تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ملہ سے انکار کی نوبت آئے گی۔ حضرات صوفیہ، حکما اور متکلمین اسلام نے اس مسئلے میں خوب خوب بحثیں کی ہیں۔ حضرت علامہ نے ان سے قطعِ نظر کرتے ہوئے فرمایا شاعری کی بات اور ہے، تصوف کا مقام بھی کچھ اور ہے اور یہ مسئلہ بھی بجاے خود کچھ اور کہ انسان مجبور محض ہے یا اسے کچھ اختیار بھی حاصل ہے لیکن اس قسم کے طرزِ خیال سے انسان کو اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کا کیا اچھا بہانہ ہاتھ آگیا ہے۔ ’’فرمایا قوموں کے زوال میں اس قسم کے خیالات کو خوب خوب فروغ ہوتا ہے، بلکہ اس قسم کے خیالات ہیں کہ ان کی اشاعت قوموں کے زوال و انحطاط کا سبب بنتی ہے۔‘‘ ارشاد ہوا ’’وہ چیز جسے ہم گناہ سے تعبیر کرتے ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے، کیا شیطان؟ لیکن مجھے تو یہ گوارا نہیں کہ اپنے گناہوں کی ذمہ داری شیطان پر رکھوں۔ شیطان کے وجود کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم گناہوں سے بچیں۔ گناہوں سے بچیں گے ہم۔ ہمیں پر ان کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ شیطان بھی گناہوں کی ذمہ داری انسان ہی پر ڈالتا ہے۔۱۴؎ شیطان بھی تو گناہوں سے بیزار رہتا ہے۔‘‘۱۵؎ بات پھر جبر و قدر پر آگئی۔ حضرت علامہ کے اس ارشاد پر کہ مجھے تو گوارا نہیں اپنے گناہوں کی ذمہ داری شیطان پر رکھوں، شیطان پر گناہوں کی ذمہ دای نہیں رکھی جاسکتی، میرا ذہن ان کی ایک رباعی کی طرف منتقل ہوگیا۔ ایک روز میں ان کے ارشاد سے ارمغان حجاز کے مسودے کو پھر سے نقل کررہا تھا، ایک کے بعد دوسری رباعی پڑھ کر سناتا تو ابھی ایک رباعی کے دو مصرعے پڑھے تھے، تیسرا پڑھنے والا تھا کہ فرمایا اس رباعی کو قلمزن کردو۔ مصرعے یہ تھے۔ چساں مجبور گفتن خویشتن را گناہ خود ز خود نتواں رمیدن تیسرا مصرعہ ’اگر گویم کہ… پورے طور پر پڑھنے نہیں پایا تھا، حضرت علامہ کے حسبِ ارشاد اس پر خط کھینچ رہا تھا کہ میری زبان سے بے ساختہ یہ الفاظ نکل گئے رباعی تو خوب ہے۔ حضرت علامہ نے فرمایا کیسے، مضمون آفرینی ہی تو ہے۔ کوئی بات تو بن نہیں سکی۔ اسے کاٹ دو۔ حالانکہ رباعی کو بحیثیت رباعی دیکھا جاتا تو ایک بڑا اچھوتا خیال تھا جو اس میں نظم ہوا۔ بایں ہمہ حضرت علامہ کا ذہن اس پر مطمئن نہیں تھا۔ یہ تھی ان کی دیانت فکر۔ وہ چاہتے تھے جو کچھ کہیں اس سے کسی حقیقت کی ترجمانی ہو۔ یہ نہیں کہ جیسا بھی کوئی احساس، یا خیال ہے اسے شعر کا لباس پہنا دیں۔ جب ہی تو انھوں نے سیّد سلیمان ندوی مرحوم و مغفور کو ایک خط میں لکھا تھا میرے لیے شاعری محض ایک ذریعہ پیغام ہے۔ ممکن ہے آیندہ نسلیں مجھے شاعر نہ سمجھیں۔۱۶؎ ’کافی‘ کب کی ختم ہوچکی تھی۔ حضرت علامہ کی طبیعت بدستور شگفتہ تھی۔ سواے تھوڑے سے اضمحلال اور ضعف قلب کے اور کوئی شکایت نہیں کی۔ قرشی صاحب مطمئن تھے۔ علی بخش نے چلم بدلی اور حضرت علامہ کی تفریح طبع کے لیے چودھری صاحب سے چھیڑ چھاڑ کرنے لگا۔ چودھری صاحب آپ کے یونینسٹ افسر آپ سے ناراض تو نہیں ہیں؟ اس پر ادھر اُدھر کی باتیں ہونے لگیں: یہی مسلمان کا انتشار خیال، کانگریسی پراپیگنڈا، یورپ کے حالات۔ باتیں ہوتی رہیں، حضرت علامہ کو نیند آنے لگی، حضرت علامہ سوگئے۔ ہم احتیاطاً تھوڑی دیر خاموش بیٹھے رہے۔ رات کافی گزر چکی تھی۔ ہم نے زیادہ ٹھہرنا مناسب نہیں سمجھا۔ اثناے راہ میں پھر حکیم نابینا صاحب کے خط کا ذکر آگیا۔ قرشی صاحب نے کہا ہماری ذمہ داریاں بہت بڑھ رہی ہیں۔ نسخہ آگیا اچھا ہوا دوائیں تیار ہوجائیں گی۔ مفردات کی ضرورت ہے۔ مفردات مل جائیں گے۔ دواؤں کا اہتمام آج ہی سے شروع ہوجائے گا۔ صبح حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو منشی طاہر دین نشستگاہ میں بیٹھے کچھ کاغذات مترتب کررہے تھے۔ ظاہر ہے حضرت علامہ کے اشارے سے۔ میں نے منشی صاحب کو بڑا متردّد پایا۔ ان کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔ بڑی دل سوزی سے حضرت علامہ کی صحت کے لیے دعائیں مانگ رہے تھے۔ میں نے کاغذات کے بارے میں تو کچھ نہیں پوچھا۔ پاس بیٹھ گیا۔ تشویش انھیں بھی تھی اور مجھے بھی۔ مگر یہ کاغذات کیا تھے۔ وصیت تو حضرت علامہ کب کی کرچکے ہیں۔ ہم جاوید منزل سے باہر آئے تو میں نے چودھری صاحب سے کاغذات کا پوچھا۔ انھوں نے کہا کوئی خاص بات نہیں ہے۔ منشی صاحب صبح ہی آئے تھے۔ شاید کوئی اَمر استفسار طلب ہو۔ کوئی وضاحت مطلوب ہو۔ منشی صاحب کی دل سوزی سمجھ میں آئی ہے۔ برسوں سے حضرت علامہ کا ساتھ ان کا خلوص اور دیانت۔ دل سوزی نہ ہو تو کیوں۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱- دورانِ علالت میں۔ ۲- محمد اسد (Leopold Weiss) مشہور صحافی اور مصنف۔ Road to Meccaاور Islam at the Cross Roadsکے مصنف، صحیح بخاری اور قرآن مجید کے مترجم۔ نسلاً یہودی، وطن آسٹریا۔ جنگ عظیم کے دوران میں بسلسلۂ صحافت شام و فلسطین آئے۔ خود ہی اسلام قبول کیا اور Leopold کی رعایت سے محمد اسد نام رکھا۔ دیر تک جزیرہ العرب میں مقیم رہے۔ شاہ ابن سعود مرحوم سے خاص تعلقات تھے، پھر کچھ اختلافات پیدا ہوگئے۔ ۱۹۳۲ء میں ارض پاک و ہند میں سیدھے کشمیر آئے۔ میرا ان کا تعارف وہیں اپنے ایک رفیق جامعہ ڈاکٹر اطہر رشید کی وساطت سے ہوا۔ دہلی آئے اور دو تین برس میری ہمسائیگی ہی میں قرول باغ میں قیام رہا۔ پھر ڈیرہ دون چلے گئے۔ اسلامک کلچر حیدرآباد کی ادارت سنبھالی۔ لاہور منتقل ہوئے۔ دوسری عالم گیر جنگ شروع ہوئی تو نظر بند ہوگئے۔ جنگ ختم ہوئی تو ڈلہوزی میں مقیم رہے۔ پاکستان قائم ہوا تو محکمۂ تعمیر اسلامی مغربی پنجاب کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ پھر دفتر خارجہ سے منسلک ہوئے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمایندگی کرتے رہے۔ بالآخر یورپ واپس چلے گئے اور جامعہ پنجاب نے Colliqium کا اہتمام کیا تو پاکستان آئے۔ آج کل شاید مراکش میں مقیم ہیں۔ ۳- Selzer، لاہور ہی میں مقیم ہیں اور مطب کررہے ہیں۔ ۴- Kalisch اب شاید بھارت میں مطب کررہے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم دونوں حضرات نے شاید فوجی خدمات بھی سرانجام دیں۔ ۵- Aneurysm ۶- Ox's heart ۷- اشارہ تھا عالمِ اسلام میں طب کے ارتقا پر۔ ۸- ارشادِ باری تعالیٰ ہے: یزید فی الخلق مالیشا۔ ۳۵(فاطر):۱۔ ۹- Our's is a growing universe ۱۰- آئین اشٹائین کی بدولت ۱۱- کہ سرسیّد نے دعا سے انکار کیا اور مرزا صاحب نے بات بات پر دعا کی۔ ۱۲- استاذ جامعہ عثمانیہ، حیدرآباد دکن۔ ڈاکٹر ذاکر حسین خاں کے (جو آگے چل کر بھارت کے صدر مقرر ہوئے اور جن کا سال بھر ہونے کو ہے انتقال ہوگیا) چھوٹے بھائی۔ جب سے حکیم نابینا دہلی سے حیدرآباد منتقل ہوئے تھے حضرت علامہ ڈاکٹر یوسف حسین خاں اور مرحوم پروفیسر مظفر الدین قریشی کی وساطت سے حکیم نابینا صاحب کو خط لکھتے، اپنا حال کہتے، دوائیں منگواتے۔ ۱۳- حکیم نابینا مرحوم و مغفور نے۔ ۱۴- وَقَالَ الشَّیْطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الاَمْرُ إنَّ اللّٰہَ وَعَدَکُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُّکُمْ فَاَخْلَفْتُکُمْ وَمَا کَانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِنْ سُلْطٰنٍ اِلَّا اَنْ دَعَوْتُکُم فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْا اَنْفُسَکُمْ- ۱۴ (ابراہیم):۱۶ کَمَثَلِ الشَّیْطٰنِ اِذْ قَالَ لِلْانْسَانِ اکْفُرْ فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیٌٔ مِّنْکَ اِنِّیْ اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ -۵۹ (الحشر):۱۶۔ ۱۵- ملاحظہ ہو جاوید نامہ، نالۂ ابلیس: اے خداوند صواب و ناصواب مسن شدم از صحبت آدم خراب ہیچ گہ از حکم من سر بر نتافت چشم از خود بست و خود را در نیافت خاکش از ذوق ابا بیگانہ از شرار کبریا بیگانہ اور بندۂ باید کہ پیچد گردنم لرزہ اندازد نگاہش در تنم آں کہ گوید از حضور من برو آنکہ پیش او نیرزم با دو جو اے خدا یک زندہ مرد حق پرست لذتے شاید کہ یابم در شکست ۱۶- میں یہ الفاظ قیاس سے لکھ رہا ہوں۔ مکاتیب اقبال اس وقت میرے سامنے نہیں ہے۔ ۱۷- ۲؍فروری ۱۹۲۸ء کو حضرت علامہ نے پنجاب لیجسلیٹو کونسل میں یونانی اور آیور ویدک طریق علاج کی حمایت کرتے ہوئے ایک تقریر کرتے ہوئے کہا لوگوں میں روز بروز یہ خیال پھیل رہا ہے کہ حکومت محض کاروباری اغراض کی بنا پر مغربی طریق علاج کی حمایت کررہی ہے۔ حضرت علامہ نے کہا میرے نزدیک یونانی اور آیور ویدک طریق علاج سستا بھی ہے اور ہماری طبیعت کے موافق بھی۔ مزید یہ کہ ہماری دوائیں صحت کے لیے زیادہ مفید ہیں۔ ارشاد ہوا یورپ کے کتب خانوں میں طب کی متعدد ایسی تصنیفات موجود ہیں جن کی اشاعت ہوجائے تو جو لوگ مغربی طب کی برتری کا دعوی کرتے ہیں ان کی آنکھیں کھل جائیں۔ پھر فرمایا نجیب الدین سمرقندی کی تصنیفات تو ابھی تک شائع ہی نہیں ہوئیں۔ گویا حضرت علامہ نے طبیب مذکور کی کتابوں کے مطالعے پر بالخصوص زور دیا۔ دیکھیے: "Thoughts and reflections of Iqbal" by Syed Abdul Vahid, p.324-25. 1964. ز…ز…ز استدراک (ا) متن (ب) حواشی استدراک اس استدراک کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ حضرت علامہ کے حضور راقم الحروف کی نشستوں اور صحبتوں کی اس روداد نے جو اب قارئین کے سامنے ہے تسوید و تبییض کے مرحلوں سے گزر کر طباعت کی منزل میں قدم رکھا تو بعض یادداشتیں، یا ان یادداشتوں کے کچھ اجزا جو کاغذات میں بکھرے پڑے تھے اتفاقاً دستیاب ہوگئے۔ پھر بعض بیانات ایسے بھی تھے کہ جن کی تصدیق جب کسی دوسرے، مثلاً خارجی ذریعے سے ہوگئی تو ان کی تفصیل مزید ضروری ٹھہری۔ علاوہ ازیں ایک اور اَمر ہے جس کی بنا پر اس استدراک کا اضافہ ناگزیر ہوگیا اور وہ یہ کہ حضرت علامہ کے ارشادات اور ملفوظات کی دنیا تو جیسا کہ سب کو معلوم ہے نہایت وسیع تھی۔ وہ کون سا موضوع تھا جو ان کے یہاں زیر بحث نہ آتا۔ اسلام، عالمِ اسلام، بین الاقوامی دنیا، روزمرہ کے احوال و واقعات، مذہب، سیاست، اخلاق اور معاشرت کے بدلتے ہوئے تصورات۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علامہ جب کسی مسئلے پر گفتگو فرماتے، کسی سوال کا جواب دیتے یا خود اپنی طرف سے کوئی استفسار کرتے اور اس طرح سلسلہ کلام آگے بڑھتا تو باتوں باتوں ہی میں حقائق سے پردہ اُٹھاتے، تہذیب و تمدن کے مسائل کے ساتھ ساتھ مشرق و مغرب کی گتھیاں سلجھاتے، علم و حکمت اور فکر و فرہنگ، تاریخ، تصوف، ادب، فن اور مذہب کی طرف بڑے لطیف اور دور رَس اشارے کرجاتے، کائنات کی حقیقت اور ماہیت پر نظر ڈالتے، انسان اس کی تقدیر اور مرتبہ و مقام کو سمجھاتے جس کا اندازہ کچھ وہی لوگ کرسکتے جن کو ان کی صحبت میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا۔ جنھوں نے ان کے ارشادات سنے اور جنھیں یہ سعادت نصیب ہوئی کہ شب و روز ان کی خدمت میں حاضر رہیں۔ اس پر حضرت علامہ کا ذہن رسا، ادائے مطلب پر غیر معمولی قدرت اور حسن بیان۔ وہ جو کچھ کہتے نہایت سادہ اور صاف الفاظ میں۔ ان میں کوئی اُیچ پیچ ہوتا، نہ اُلجھاؤ، نہ تعلی نہ تحدی، نہ ایسا اختصار اور اطناب کہ حرف مطلب سمجھ میں نہ آئے، نہ بلا ضرورت تطویل و تفصیل کہ خلط مبحث کی نوبت آئے۔ وہ جو کچھ فرماتے برجستہ اور بیساختہ، باموقع اور برمحل۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ہر بات دل میں اتر جاتی تاآنکہ وہ اپنے مخاطبین سے اتنے قریب ہوجاتے کہ انھیں گمان ہوتا حضرت علامہ شاید انھیں کی طرح سوچتے ہیں، حتیٰ کہ ان کے مسائل بھی انھیں کے مسائل ہیں۔ وہ دیکھتے کہ بایں ہمہ علم و فضل اور بایں ہمہ دانش و حکمت ان کے اور حضرت علامہ کے درمیان کوئی دوری ہے، نہ حجاب۔ یوں حضرت علامہ کا حسن التفات، ان کا خلوص اور درد مندی، تواضع اور انکسار انھیں اس دنیا میں لے آتا جو گردش لیل و نہار سے آزاد ثبات و دوام کی دنیا ہے، جہاں جلال و جمال خیر و صداقت سے ہم کنار ہیں اور جس میں حضرت علامہ کا ایمان و یقین، ان کا ذوق و جدان اور فکر و نظر جب ان کی رہنمائی کرتا تو وہ اپنے اندر نہ صرف عظمت ذات کی ایک جھلک دیکھتے، بلکہ محسوس کرتے کہ انھوں نے ایک کہیں زیادہ حقیقی، کہیں زیادہ لطیف، کہیں زیادہ برتر اور پاکیزہ تر دنیا میں قدم رکھا ہے۔ وہ یہ محسوس کرتے اور سوچتے کہ انھوں نے کہاں تک حضرت علامہ کے ارشادات کو سمجھا، کہاں تک ان جذبات و احساسات اور خیالات سے بہرہ ور ہوئے جو ان عزائم اور مقاصد کی تَہ میں کام کررہے ہیں جن کا تعلق حیات فرد اور جماعت کے اس نصب العین سے ہے جسے انھوں نے کبھی عشق و مستی کی زبان میں ادا کیا کبھی عقل و فکر کے پیراے میں کہ یہی سب سے بڑا اور سب سے زیادہ اہم موضوع تھا ان کے یہاں گفتگوؤں کا۔ لہٰذا میں بھی حضرت علامہ کے ملاقاتیوں، حضرت علامہ کے احباب اور اپنے رفقا کی طرح حضرت علامہ کے ارشادات پر غور کرتا، غور کرتا اور سوچتا کہ ان سے کس طرح ذہن میں حرکت اور روح میں بیداری اور بالیدگی پیدا ہوتی ہے۔ کس طرح انسان سمجھتا ہے کہ زندگی نام ہے کچھ کرنے، کچھ بننے، یعنی اس مسلسل جدوجہد میں جس سے نوعِ انسانی کا گزر ہورہا ہے تہذیب و تمدن کے ارتقا اور عالم محسوس و موجود کی تسخیر میں حصہ لیتے ہوئے اس حقیقت سے جس نے انسان اور کائنات کو سہارا دے رکھا ہے اپنا رشتہ خود اپنے اندرون ذات، باطن اور ضمیر کی دنیا سے جوڑنے کا۔ یہی وجہ ہے کہ راقم الحروف جب حضرت علامہ کے حضور اپنی اور اپنے احباب کی صحبتوں اور نشستوں کی ان یادداشتوں کو ترتیب دینے بیٹھا جن کو ایک طرح سے ان کے اشارے ہی سے قلمبند کررہا تھا تو قدرتاً یہ احتیاط لازم ٹھہری کہ ان کے پس منظر یعنی اس اَمر کو بھی کہ حضرت علامہ نے جو کچھ فرمایا کن حالات میں، ان کے ارشادات کا موقع و محل کیا تھا اور تقریب کیا، بات کیسے شروع ہوئی، کیسے آگے بڑھی، اس کا مطلب کیا تھا۔ ہم اس سے کیا سمجھے، کیا سوچا، کیا خیالات اور تأثرات لے کر اٹھے نظر انداز نہ کیا جائے، ان کی طرف بھی مختصراً اشارہ ہوتا رہے، بعینہٖ یہ بھی ضروری تھا کہ ان نشستوں اور صحبتوں کا مرکزی نقطہ چونکہ حضرت علامہ ہی کی ذات اور شخصیت ہے، لہٰذا ہو بہو قارئین کے سامنے آجائے۔ بایں ہمہ راقم الحروف نے ان باتوں کو جن کی طرف ابھی اشارہ کیا گیا ہے، مختصر بلکہ یہ کہنا چاہیے نہایت مختصر رکھا۔ حتیٰ کہ جہاں تسلسل بیان کی رعایت، یا کسی اَمر ضروری کی وضاحت کے لیے اسے اپنی طرف سے کچھ کہنا پڑا اس میں بھی حد درجہ اختصار و ایجاز سے کام لیا۔ یہی اُصول حواشی میں بھی مدنظر رہا۔ ایک تو اس لیے کہ قارئین کی توجہ حضرت علامہ کے ارشادات سے ہٹ کر کسی دوسرے مبحث، یا مسئلے کی طرف خواہ وہ اپنی جگہ پر کیسا بھی ضروری ہو منتقل نہ ہوجائے۔ ثانیاً اس لیے کہ متن اور حواشی میں کچھ نہ کچھ تناسب تو ہونا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ حواشی کی کثرت اور طوالت سے متن میں بے ربطی پیدا ہونے لگے۔ یا قارئین کو متن کی بجاے بار بار حواشی کا رُخ کرنا پڑے۔ حواشی کا اضافہ بہرحال ضروری تھا اور اس کی وجہ ایک تو یہ کہ جہاں کہیں حضرت علامہ نے کسی اَمر کی طرف اشارہ کیا، بسااوقات اس کا تعلق کسی علمی اور فلسفیانہ مسئلے سے ہوتا، یا پھر سیاسی، مذہبی حقائق اور معاملات کی دنیا سے، یا اگر دوران گفتگو میں حضرت علامہ نے کوئی ارشاد فرمایا لیکن اس کی وضاحت غیرضروری سمجھی تو راقم الحروف نے اس کی تصریح حواشی میں کردی۔ دوسری یہ کہ دورانِ علالت میں جب بسبب ضعف و نقاہت دم کشی کی تکلیف، یا عوارض کی ناقابلِ برداشت شدت کے حضرت علامہ بات کرتے کرتے رُک جاتے تو ہم بھی جیسا کہ معالجین کی ہدایت تھی خاموش ہوجاتے۔ ہماری کوشش ہوتی کہ سلسلہ گفتگو آگے نہ بڑھے۔ حالانکہ ان دنوں عالم انسانی کا گزر جس مرحلے سے ہورہا تھا، سیاست بین الاقوام اور مغرب و مشرق میں باعتبار تہذیب و تمدن، اخلاق اور معاشرت جو تبدیلیاں رونما تھیں، افکار فلسفہ اور علم و حکمت کے نظریات جس طرح بدل رہے تھے۔ اسلامی دنیا، بالخصوص اسلامیان ہند جس قسم کے حالات سے دوچار ہورہے تھے ان کے پیشِ نظر کتنی باتیں اور کتنے مسائل تھے کہ حضرت علامہ جب اپنے ارشادات میں ان پر تبصرہ فرماتے اور سامعین اور مخاطبین کو دعوت فکر دیتے تو جی چاہتا کہ ان سے ایک کے بعد دوسرا سوال کیا جائے، وہ اپنے ارشادات کی مزید وضاحت فرمائیں۔ لیکن ظاہر ہے یہ ایک ناممکن سی بات تھی۔ معالجین بار بار کہتے کہ حضرت علامہ بہت کم گفتگو کریں، حضرت علامہ سے بہت کم گفتگو کی جائے۔ لہٰذا ان موقعوں پر جہاں حضرت علامہ بات کرتے کرتے رُک گئے، یا انھوں نے اسے سننے والوں کی معلومات اور فہم و فراست پر چھوڑ دیا کہ وہ اس کی تکمیل خود اپنے علم اور سمجھ کی بنا پر کرلیں وہاں حواشی کا اضافہ ناگزیر ہوگیا۔ مگر اسی اُصول کا لحاظ رکھتے ہوئے جو متن میں پیشِ نظر رہا، یعنی پھر حد درجہ اختصار و ایجاز کے ساتھ کہ کسی اَمر ضروری کی وضاحت، یا متن کی کسی عبارت کی تشریح میں راقم الحروف جو کچھ کَہ رہا ہے اس کے اپنے خیالات اور معلومات کا نتیجہ ہے۔ یہ نہیں کہ اس نے جو کچھ کہا حضرت علامہ کا منشا بھی فی الواقع وہی تھا۔ بایں ہمہ جب اس بیاض یادداشت کی طباعت جسے تصنیف کہیے یا تالیف، یا روزنامچہ مکمل ہورہی اور اس کے اجزا یکے بعد دیگرے سامنے آرہے تھے تو راقم الحروف اور راقم الحروف سے بڑھ کر اس کے احباب نے محسوس کیا کہ حواشی کی طرح بعض مقامات میں متن کی عبارتوں میں بھی اختصار و ایجاز کا یہ عالم ہے کہ کسی اَمر کی وضاحت تو درکنار خود راقم الحروف جو کچھ کہنا چاہتا تھا ٹھیک ٹھیک نہیں کَہ سکا۔ ایجاز و اختصار ضروری تھا مگر اس طرح عبارت میں جو اغلاق پیدا ہوگیا ہے اس سے نہ صرف حرف مطلب خبط ہوگیا، بلکہ بعض مباحث بھی تشنہ رہ گئے ہیں۔ حالانکہ ان کی وضاحت ضروری تھی۔ لیکن اب اس فروگزاشت کی تلافی یونہی ممکن ہے کہ جہاں کہیں کسی عبارت میں اغلاق، یا بے ربطی پیدا ہوگئی ہے اس کی وضاحت اس استدراک میں کردی جائے۔ پھر اس ضمن میں ایک رائے یہ بھی تھی کہ مسائل فلسفہ اور علم و حکمت، یا تہذیب و تمدن کے باب میں تو خیر مجبوری تھی، اسلام اور اسلامی تعلیمات، بالخصوص ہندی اسلامی سیاست کے مسئلے میں تو حضرت علامہ نے جو ارشادات فرمائے قدرے تشریح طلب تھے۔ ان کے بیان میں کچھ تفصیل سے کام لیا ہوتا۔ اب جہاں تک ان حقائق کا تعلق ہے جن کی طرف حضرت علامہ کسی علمی مسئلے، یا اسلامی تعلیمات کے کسی پہلو کی وضاحت، یا افکار سیاست، یا کسی اور موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کوئی اشارہ فرماتے ان میں کیسی بھی تفصیل سے کام لیا جاتا بات نہ بنتی، اس لیے کہ ان کی حیثیت بجاے خود مستقل مباحث کی ہے۔ لہٰذا ان پر جداگانہ ہی قلم اُٹھایا جاسکتا ہے۔ البتہ اب ہوسکتا ہے تو یہ کہ جہاں کہیں کوئی اَمر باعث اشتباہ ہے، یا جس سے غلط فہمی کا احتمال ہے اسے صاف کردیا جائے۔ رہے افکار سیاست، بالخصوص ہندی اسلامی، یعنی آج سے چالیس پچاس برس پہلے کی سیاست جس سے گزر کر مسلمان پاک و ہند نے پاکستان میں قدم رکھا اس کے پیشِ نظر ضروری تھا کہ حضرت علامہ کے ارشادات کو زیادہ کھول کر بیان کیا جائے۔ ایک تو اس لیے کہ حضرت علامہ نے اس سیاست یا یوں کہیے ہماری قومی جدوجہد میں جو حصہ لیا اگرچہ سب کے سامنے ہے لیکن کچھ مبہم سے انداز میں۔ مطلب یہ ہے کہ اس سیاسی اجتماعی فکر کی تفصیل و تشریح ابھی کئی ایک پہلوؤں سے باقی ہے جس کی بنا پر یہ موقف اختیار کیا گیا کہ اسلام بجاے خود ایک نظام مدنیت ہے اور اس کا سرچشمہ توحید و رسالت۔ ثانیا انھوں نے اس کا رُخ جس طرح ایک اسلامی ریاست، یعنی پاکستان کے قیام کی طرف موڑا اس کا علم بہت کم لوگوں کو ہے۔ یوں بھی آج سے چالیس پچاس برس پہلے کی باتیں ماضی میں داخل ہوچکی ہیں، ان کی حیثیت اب تاریخ کی ہے۔ وہ نسل جس کو ان سے شب و روز سابقہ پڑا اپنا دور زندگی پورا کرچکی اور پورا کررہی ہے۔ گو یہاں پھر سوال پیدا ہوگا کہ اس باب میں بھی حضرت علامہ کے ارشادات کو کہاں تک تفصیل سے بیان کرنا مناسب ہوتا، کہاں تک ان واقعات اور حالات کا ذکر شرح و بسط سے کیا جاتا جو اس زمانے میں پیش آرہے تھے۔ مانا کہ اس موضوع پر کوئی ایسی مبسوط اور جامع و مانع تصنیف اب تک شائع نہیں ہوئی جس میں ۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ئ، یعنی برطانوی عہد کے باقاعدہ آغاز سے لے کر اس کے اختتام تک اس خطے کے مسلمانوں کی سیاسی اور ملی جدوجہد کا ہر پہلو سے مترتب اور منظم جائز لیا گیا ہو۔ بایں ہمہ اس موضوع پر تصنیفات کی کمی نہیں، نہایت اچھی تصنیفات کی، لہٰذا یہاں بھی یہ اَمر بڑا غور طلب تھا کہ متن ہو، یا حواشی سلسلہ تشریح و توضیح حد مناسب سے آگے نہ بڑھے۔ لیکن اب اس اَمر کا فیصلہ ان اوراق کی ترتیب ثانی ہی کی صورت میں کیا جاسکتا ہے، جب بھی اس کی نوبت آئے۔ سرِدست یہی بہتر ہے اور علاوہ اس کے کوئی امکان بھی نہیں کہ ان دو باتوں، یعنی بعض یادداشتوں، یا یادداشتوں کے کسی حصے کی دستیابی اور کسی اَمر کی تائید میں بیرونی شہادتوں کے حوالے سے ساتھ ساتھ جیسا کہ ابتدا ہی میں عرض کردیا گیا ہے متن اور حواشی میں جو مقامات کسی قدر وضاحت طلب ہیں ان کو کسی قدر کھول کر بیان کردیا جائے۔ لہٰذا مناسب ہوگا کہ اس استدراک کی ابتدا متن اور حواشی سے کی جائے۔ مگر پھر بعض عنوان ایسے بھی تھے کہ ان کے پیشِ نظر ایک ضمیمے کا اضافہ ناگزیر ٹھہرا تاکہ جہاں تک ممکن ہے کوئی اَمر غیر واضح نہ رہے۔ راقم الحروف کا خیال ہے کہ یہ اضافے بے محل نہ ہوں گے۔ ز…ز…ز (ا) متن ص۲، سطر ۳ تو اس خیالی یا حقیقی خطرے کا ازالہ ہوسکے جو اندریں صورت اسے درپیش تھا۔ یعنی ملک کے بدلتے ہوئے حالات کو دیکھتے ہوئے کہ بہ صورت انتقال اختیارات اگر سندھ، پنجاب، سرحد اور بلوچستان کی حکومت ان خطوں کی غالب اکثریت کو سونپ دی گئی اور یوں اس اسلامی ریاست کے قیام کا امکان پیدا ہوگیا جس کی تجویز حضرت علامہ خطبۂ الٰہ آباد میں کرچکے تھے تو جماعتِ احمدیہ کے لیے اس موقف پر قائم رہنا مشکل ہوگا جو از روے عقاید اسے اختیار کرنا پڑا اور جس سے مقصود تھا اُمت سے کاملاً ترکِ موالات، علیٰ ہذا اپنے جداگانہ مذہبی اور جماعتی تشخص پر اصرار۔ ظاہر ہے جماعتِ احمدیہ اب تا دیر اس روش پر چل سکتی تھی، نہ اس پر چلتے رہنا قرین مصلحت تھا۔ لہٰذا اس کی کوشش کہ جیسے جیسے حالات بدل رہے ہیں کوئی ایسا راستہ تجویز کرے جو اس کے جداگانہ مذہبی اور جماعتی تشخص کے عین مطابق ہو، مگر جس کے باوجود اکثریت سے مصالحت اور مفاہمت کی کوئی صورت بھی نکل آئے۔ ص۳، سطر ۱ یعنی ان کی اس وحدت کا اعتراف اس عبارت میں ان کی زائد ہے۔ جملہ یوں ہے یعنی اس وحدت کا اعتراف… ص۵، سطور ۳ تا۶ ان سطور کی صحت فرما لیجیے۔ عبارت قدرے بے ربط ہوگئی ہے صحیح عبارت یوں ہوگی: … اور قومیں ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرلیتی ہیں۔ یا ایک تہذیب دوسری پر چھا جاتی ہے۔ ہم اس قسم کے مخالف اور موافق اثرات کو، ایک کے لیے مخالف، دوسری کے لیے موافق جو افراد و اقوام کی زندگی میں اندر ہی اندر اور چپ چاپ کارفرما رہتے ہیں بآسانی تلاش کرسکتے ہیں۔ تہذیب و تمدن کی تبدیلیوں میں قوموں کے عروج و زوال، اخلاق اور معاشرت میں۔ تاریخ کے اوراق… ص۱۵، سطر۸ چودھری صاحب آتے ہوں گے۔ یعنی چودھری محمد حسین۔ حاشیہ صفحہ۵، صفحہ۶ ۳ دراصل اس صفحے کا حاشیہ ۲ ہے۔ ص۲۵، سطر۱ مثلاً… نے خود مجھ سے کہا ان حضرات میں سے کسی نے جن کے دل میں قوم کا درد تھا اور جنھوں نے حتی الوسع اس کی خدمت سے دریغ نہیں کیا۔ ان کا دل بھی جذبہ آزادی سے خالی نہیں تھا۔ لیکن وہ اپنی دنیوی حیثیت، عزت اور وجاہت کے لیے سرکار انگریزی کے ممنون احسان تھے جس نے بعض صورتوں مثلاً مالی مشکلات کی صورت میں ان کی مدد بھی کی۔ لہٰذا یہ ان کا احساس شکر گزری اور اعتراف احسان مندی تھا جس نے انھیں اعتدال پسندی کی راہ دکھائی۔ ملاحظہ ہو اس سلسلے میں راقم الحروف کا شذرہ لبرل فیڈریشن پر۔ ص۷۴، سطر۴ جہاد حضرت علامہ جہاد بہ معنی ’قتال فی سبیل اللہ‘ پر گفتگو فرما رہے تھے جس کے احکام واضح ہیں اور جس کی ضرورت اور مصلحت قرآن مجید نے نہایت خوبی سے بیان کردی ہے۔ قتال فی سبیل اللہ جہاد ہی کا ایک پہلو ہے گو عام طور پر اس کا اشارہ جنگ بصورت قتال فی سبیل اللہ ہی کی طرف ہوتا ہے۔ ص۷۶، سطر۲۵ حضرت علامہ کے ارشاد ’الارض للہ‘ کی تصریح اگرچہ اس سے پہلے ہو چکی ہے (دیکھیے سہ شنبہ ۴؍جنوری، متن اور حواشی)۔ پھر جاوید نامہ، ارمغان حجاز اور بال جبریل میں انھوں نے خود بھی اس کی وضاحت نہایت خوبی سے کردی ہے۔ لیکن متن میں ان کا یہ ارشاد کہ بحیثیت ایک نظام مدنیت اسلام ہمارے نہیں… زمانہ خود ہی سمجھا دے گا مسائل کیا ہوتے ہیں اور ان کی صحیح شکل کیا صاف نہ ہوسکا۔ حضرت علامہ دراصل یہ کَہ رہے تھے کہ بحالت موجودہ جب اسلامی نظام مدنیت کا عملاً کہیں وجود نہیں، گو ایک نہ ایک دن اس کا وجود میں آنا ضروری ہے تو سیاست اور معیشت کے باب میں ہمارا سلسلہ گفتگو بھی زیادہ تر لفظی نزاع و جدال اور قیل و قال سے آگے نہیں بڑھتا۔ ہماری نگاہیں یا تو ماضی پر ہوتی ہیں، یعنی اس فقہی روایت پر جس کا تعلق عالمِ اسلام کی حیاتِ اجتماعیہ سے ہے اور جو قائم ہوئی تو بہ تدریج، لیکن ایک شدید ذہنی، سیاسی اور اجتماعی کشمکش سے گزر کر۔ یا پھر مغرب سے آئے ہوئے افکار اور نظریات پر، لیکن نہیں تو اس صورتِ حالات پر جو آج دنیائے سیاست اور معاش کو درپیش ہے اور جس کا عملاً ہمیں کوئی تجربہ ہے، نہ ان مسائل کا قرار واقعی احساس جو اس طرح پیدا ہورہے ہیں۔ فرمایا یہ اس لیے کہ سر رشتہ اُمور ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ دوسروں کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اپنے خیالات اور نظریات کے پابند ہیں، جیسا چاہتے ہیں اقدام کرتے ہیں۔ برعکس اس کے ہم محکوم ہیں، مجبور و بے بس۔ لیکن جیسے جیسے ہم آزاد ہوئے، محکومی اور مغلوبی اختیار و اقتدار سے بدل گئی، حقائق سے براہ راست سابقہ پڑا تو وہ مسائل بھی جن میں آج ہمارا ذہن اُلجھا ہوا ہے اپنی صحیح شکل میں ہمارے سامنے ہوں گے۔ یوں ان تصورات کے فہم میں بھی کوئی مشکل نہیں رہے گی جو ان مسائل کی تَہ میں کام کررہے ہیں۔ مثلاً وہ تصورات جو حیات معاشی کا تاد و پور ہیں اور جن میں ملکیت اور عدم ملکیت کے تصورات بالخصوص توجہ طلب ہیں۔ ارشاد ہوا دراصل دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ان تصورات کا سرچشمہ کیا ہے، اساس اور نوعیت کیا، حدود اور وسعت کیا۔ ہم ان کا اطلاق کن اشیا پر کرسکتے ہیں اور کہاں تک، کن پر نہیں اور کیوں؟ فرمایا سرِدست یہ ساری بحث نظری ہے، لیکن جونہی سررشتہ اُمور ہمارے ہاتھ میں آیا، ہم میں زندگی پیدا ہوئی اور اسلامی نظام مدنیت کا قیام ہماری ذمہ داری ٹھہری، ہم اپنے مسائل سے آپ عہدہ برا ہونے لگے، فرد اور جماعت کی زندگی شریعت کے سانچے میں ڈھلتی چلی گئی تو ملکیت اور عدم ملکیت کے باب میں بھی ہماری اُلجھنیں بتدریج دور ہوتی چلی جائیں گی۔ ہمارے لیے اس مسئلے کا کوئی صحیح فیصلہ کرنا مشکل نہ ہوگا۔ ہم جان لیں گے ہمارے نظام مدنیت کا مابہ الامتیاز کیا ہے۔ اسے کسی دوسرے نظام مدنیت سے اختلاف ہے تو کیوں، اتفاق ہے تو کہاں اور کس رنگ میں۔ لیکن اتفاق ہو یا اختلاف دونوں صورتوں میں اس کی بنیاد الگ الگ اُصولوں پر ہوگی۔ اُصول الگ الگ ہوں گے تو مسائل کے حل اور تصفیے کی شکل بھی الگ، اقدامات بھی الگ۔ لہٰذا جماعت کی زندگی جو شکل اختیار کرے گی اس سے افراد کے لیے بھی الگ الگ نتائج مترتب ہوں گے۔ یہ اس لیے کہ ہر نظام مدنیت کا اپنا ایک مزاج ہے، اپنی ایک روح، اساس اور نصب العین۔ لہٰذا اختلاف تو اختلاف ہے، اتفاق کی صورت میں بھی ان کا راستہ ایک دوسرے سے مختلف ہوگا۔ فرمایا اس حقیقت کو ذہن نشین رکھنا ضروری ہے ورنہ ہوسکتا ہے ان کی سطحی مشابہت، یا عدم مشابہت بے رہروی کا سبب بن جائے۔ ص۸۷، سطر۵ لہٰذا اس کی واردات کا ایک مرکز اور ایک تار ہے۔ بس جملے میں تار کو تاریخ پڑھیے۔ مرکز ہے ذہن انسانی، ہر فرد کا ذہن اس لیے کہ جو بھی ذہن ہے انفرادی ہے۔ تاریخ اس کے محسوسات و مدرکات، ارادے اور عزائم، جذبات اور احساسات، آرزوئیں، تمنائیں، واردات اور مشاہدات۔ بالفاظِ دیگر اس کی روداد حیات جیسا بھی ہمیں اس کا تجربہ ہوتا ہے۔ پھر یہی تاریخ اور یہی مرکزیت پر ذہن کا مابہ الامتیاز ہے۔ یہی راز ہے اس کی یکتائی کا۔ یہی فرد کے احساس خودی اور تشخص ذات کا سرچشمہ جس کا اظہار ہم لفظ ’میں‘ سے کرتے ہیں اور جس سے ہر تجربے کے لیے جیسے کسی کو پیش آیا یا آئے گا ایک ذریعہ نسبت مل جاتا ہے۔ چنانچہ ہم جو کچھ کہتے ہیں اسی کے حوالے سے کہتے ہیں۔ جو کچھ کرتے ہیں خود ہی کرتے ہیں، کوئی دوسرا نہیں کرتا۔ ہم سمجھتے ہیں یہ ہمیں تھے اور ہمیں ہیں جو اپنی عمر کے مختلف مرحلوں سے گزرے اور گزرتے رہیں گے۔ ہمارے اعمال و افعال ہمارے ہی اعمال افعال ہیں۔ ان سے جو نتائج مترتب ہوئے ہمارے ہی لیے مترتب ہوئے، ہورہے ہیں اور ہوں گے۔ لہٰذا تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ہر فرد کی ایک مخصوص زمانی مکانی حیثیت ہے، ایک مخصوص روداد حیات جس کا تعلق صرف اسی کی ذات سے ہے دوسرے سے نہیں، نہ ہوسکتا ہے۔ جو ایک حقیقت حاضرہ کی طرح ہمیشہ اس کے سامنے ہوتی، ہمیشہ اس کے شعور میں موجود رہتی ہے اور جس سے اس کی جداگانہ شخصیت اور انفرادیت کا اقرار لازم آتا ہے۔ اب اگر بقول حضرت علامہ ہمارا گزر اپنے ارتقا کی جس منزل، یعنی حیات ارضی، یا بہ اصطلاح قرآن مجید نشاۃ الاولیٰ سے ہورہا ہے جس کا سلسلہ بظاہر موت کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے مگر جس کے بعد ارتقا کی کوئی دوسری منزل، یعنی حیات اخروی، یا حیات بعدالموت، یا بہ اصطلاح قرآن مجید نشاۃ الثانیہ بھی ہے تو جس طرح پیدایش سے لے کر تادم مرگ ہمارا احساس خودی قائم رہتا ہے آگے چل کر بھی اس کا علی حالہ قائم رہنا ضروری ہے تاکہ زندگی عبارت ہے جس تسلسل سے اس میں فرق نہ آئے۔ پھر موت بجاے خود وہ حادثہ ہے جو امید و بیم کو ساتھ لے کر آتا ہے۔ امید ہے باوجود مرگ ہستی کی امید۔ بیم ہے بیم فنا، نیستی کا ڈر۔ لہٰذا یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ زندگی کا کوئی بھی مرحلہ ہو انسان کی طبعاً خواہش ہوتی ہے کہ اس کی ہستی اور وجود قائم رہے، جو ظاہر ہے بہ جز احساس خودی کے ممکن ہی نہیں۔ احساس خودی تقاضائے ذات ہے، مابعدالطبیعی اعتبار ہی سے نہیں، اخلاقی اعتبار سے بھی۔ مابعدالطبیعی اعتبار سے اس لیے کہ اگر موت کے بعد کوئی زندگی ہے، جس میں فرد کا تشخص ذات قائم رہتا ہے، نہ احساس خودی تو اس دوسری زندگی کا رشتہ اس سے پہلے کی زندگی سے کلیتاً منقطع ہوجائے گا۔ لہٰذا جس کسی کو یہ زندگی ملی ہے اس کے لیے اس زندگی کے کوئی معنی نہیں ہوں گے۔ معنی تو جب ہی ہوں گے کہ اس کا احساس خودی قائم رہے۔ اسے معلوم ہو اسی نے ایک کے بعد دوسری زندگی میں قدم رکھا ہے۔ بعینہٖ تقاضائے اخلاق بھی یہی ہے کہ اگر ایک زندگی سے کسی دوسری زندگی کے لیے کچھ نتائج مترتب ہوتے ہیں تو ہمیں اس اَمر کا پورا پورا شعور ہو کہ یہ نتائج ہمارے ہی لیے مترتب ہوئے، ان کی ذمہ داری بھی ہمیں پر عائد ہوتی ہے، اس لیے کہ یہ ہمارے ہی اعمال ہیں جو سزا و جزا کو ساتھ لیے ہمارے سامنے آرہے ہیں۔ ہم نے جس صورتِ حالات میں قدم رکھا ہے ہماری ہی پیدا کردہ ہے اور ہمیں اس سے گزر کر رہے ہیں۔ قرآن مجید کی تعلیمات بھی اس باب میں نہایت واضح ہیں۔ سورۂ زلزال میں ہے یَوْمَئِذٍ یَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتاً لِّیُرَوْا اَعْمَالَھُمْ (۹۹:۸)۔ اب اگر اس دن، یا دوسرے لفظوں میں حیات بعدالموت سے مقصود یہ ہے کہ ہر کوئی دیکھ لے اس کے اعمال کیا ہیں۔ ان کی نوعیت حیات ارضی میں کیا تھی، رائی بھر نیکی ہے تو نیکی، بدی ہے تو بدی تو جس شخص کا محاسبہ اعمال ہورہا ہے اسے بھی یہ شعور ہونا چاہے کہ یہ اسی کے اعمال ہیں اور وہی ہے جو ان کو دیکھ رہا اور ان کے نتائج سے اثر اندوز ہورہا ہے۔ برعکس اس کے عقیدہ تناسخ کا حاصل اگر یہ ہے کہ موت ایک ایسا سانحہ ہے جس سے فرد کا احساس خودی اور تشخص ذات کالعدم ہوجاتا ہے، وہ کسی دوسری زندگی میں قدم نہیں رکھتا، نہ دوسری دنیا میں۔ قدم رکھتا ہے تو ایک سے دوسری جون میں۔ بہ الفاظ دیگر نئے سرے سے جنم لیتا ہے لیکن بغیر کسی احساس ذمہ داری کے اور بالکل لاشعوری طور پر، خواہ اس جون کا درجہ درجہ انسانیت کے برابر ہو، یا اس سے کم تر تو اس کے لیے ارتقا ہے، نہ انفرادیت، نہ کوئی ایسی شخصیت کہ دوام و ثبات کی اہل ہو۔ اسے تسلسل ذات کا شعور ہوگا، نہ یہ احساس کہ اس نے ایک مرتبہ حیات سے دوسرے میں قدم رکھا۔ تناسخ گویا خودی کا انقطاع ہے۔ ایک کے بعد دوسری خودی کا ظہور جس سے خودی کی حیثیت بجز ایک فریب کے زیادہ نہیں رہتی۔ ہندو فلسفہ میں جیو آتما کے تصور سے بھی قدرتاً یہی نتیجہ مترتب ہوتا ہے۔ ص۱۰۵، مکرر آنکہ راقم الحروف اس سے پہلے عرض کرآیا ہے کہ یہ جو ڈاکٹر عاشق بٹالوی نے اپنی کتاب اقبال کے آخری دو سال میں لکھا ہے کہ پنڈت جواہر لال نہرو حضرت علامہ سے ملاقات کے لیے آئے تو اس وقت راجا حسن اختر اور میاں فیروزالدین احمد بھی جاوید منزل میں موجود تھے صحیح نہیں۔ بٹالوی صاحب نے راجا صاحب سے جو روایت منسوب کی تعجب خیز ہے۔ معلوم ہوتا ہے یہ روایت براہ راست انھیں نہیں پہنچی، پہنچی ہے تو وہ راجا صاحب کی بات ٹھیک ٹھیک نہیں سمجھے۔ یا پھر انھوں نے سنی سنائی باتوں پر یقین کرلیا اور یہ نہیں سوچا کہ اس ملاقات کا حال جس طرح بیان کیا جارہا ہے قابلِ قبول بھی ہوگا یا نہیں۔ بہرحال کوئی نہ کوئی فروگزاشت ہے جو اس معاملے میں رہ گئی۔ بٹاولی صاحب نے راجا صاحب کے بیان کا حوالہ دیا ہے۔ راجا صاحب کوئی غلط بیانی نہیں کرسکتے تھے۔ میں ان دنوں لاہور میں نہیں تھا۔ پھر یہ اَمر بھی کہ پنڈت جی حضرت علامہ سے ملاقات کے لیے آئے تو اس وقت کون جاوید منزل میں موجود تھا اور کون نہیں کچھ ایسا اہم نہیں تھا کہ اس کی تحقیق کی جاتی۔ جن حضرت علامہ کی موجودگی کے فی الواقع کوئی معنی تھے ان کی طرف خود حضرت علامہ نے اشارہ کردیا تھا۔ لہٰذا حضرت علامہ نے اس ملاقات کا حال جس طرح بیان فرمایا میں نے اسے ویسے ہی قلم بند کردیا۔ البتہ بٹالوی صاحب کی کتاب شائع ہوئی اور میری نظر سے گزری تو میں نے محسوس کیا کہ اس ملاقات کا حال نہ صرف غیر مکمل ہے بلکہ ایک حد تک غلط فہمی کا باعث۔ اس میں جن حضرات کی موجودگی کا ذکر کیا گیا ہے قابلِ تسلیم نہیں، نہ اس حالت میں ان کی موجودگی کا کوئی جواز تھا۔ میں نے لکھا ہے کہ م-ش تو ایک طرح سے شب و روز جاوید منزل میں موجود رہتے۔ چودھری صاحب کا بھی صبح و شام آنا یقینی تھا۔ ایسے ہی قرشی صاحب کا۔ رہا یہ اَمر کہ اس روز راجا صاحب بھی معمولاً آئے یا نہیں، یا یہ کہ ان حضرات میں سے کوئی، یا سب شریک ملاقات تھے اس کا جواب یہی ہے کہ ان میں سے کسی نہ کسی کا جاوید منزل میں موجود ہونا تو ممکن ہے، لیکن ملاقات میں شریک ہونا ناممکن۔ ورنہ حضرت علامہ نے جس طرح میاں افتخار الدین اور ان کے ہمراہ آنے والی خواتین کا ذکر کیا تھا چودھری صاحب، یا قرشی صاحب، یا جیسا کہ بٹالوی صاحب نے لکھا ہے راجا صاحب کی موجودگی کی طرف بھی اشارہ فرمادیتے۔ بہرحال میرا قیاس صحیح نکلا کہ میاں فیروز الدین احمد تو درکنار ان میں سے کوئی صاحب بھی جاوید منزل میں موجود نہیں تھے، نہ شریک ملاقات۔ ہاں یہ ممکن ہے چودھری صاحب بعد میں کسی وقت تشریف لائے ہوں، ایسے ہی قرشی صاحب بھی۔ ملاحظہ ہو ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتاب مے لالہ فام ص۸۷ جو پچھلے برس شائع ہوئی اور جس میں حضرت علامہ سے پنڈت جی کی ملاقات اور ان کے جاوید منزل آنے کا حال جس طرح مذکور ہے اس سے راقم الحروف کے بیان کی تصدیق ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں: ان کی وفات سے کوئی دو ایک ماہ بیشتر ایک شام پنڈت نہرو کو ان سے ملنے کے لیے آنا تھا۔ ابا جان نے مجھے بلا کر حکم دیا کہ پنڈت نہرو کے استقبال کے لیے ڈیوڑھی میں کھڑا رہوں۔ میں نے تعجب سے پوچھا پنڈت نہرو کون ہیں؟ کہنے لگے جس طرح محمد علی جناح مسلمانوں کے قائد ہیں اسی طرح پنڈت نہرو ہندوؤں کے سربراہ ہیں۔ میں باہر کھڑا پنڈت جی کا انتظار کرتا رہا۔ جب تشریف لائے تو میں نے انھیں السلام علیکم کہا اور انھوں نے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر سلام کا جواب دیا۔ میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر نہایت شفقت سے میری کمر میں ہاتھ ڈال کر میرے ساتھ ابا جان کے کمرے میں داخل ہوئے۔ ابا جان انھیں بڑے تپاک سے ملے اور صوفے پر بیٹھنے کو کہا۔ مگر پنڈت جی نے نیچے فرش پر بیٹھنے پر اصرار کیا۔ بالآخر وہ فرش پر چوکڑی مار کر بیٹھ گئے اور ابا جان بستر پر لیٹے ان سے باتیں کرنے لگے۔‘‘ یہ صورت تھی پنڈت جی کی حضرت علامہ سے ملاقات کی۔ ضمناً اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس شام کو دو ایک صوفے بھی حضرت علامہ کی خواب گاہ میں ڈال دیے گئے تھے تاکہ پنڈت جی اور ان کے رفقا بآرام ان پر بیٹھ کر حضرت علامہ سے گفتگو کرسکیں۔ ورنہ اس خواب گاہ میں حضرت علامہ کے پلنگ کے سامنے تین چار کرسیاں پڑی رہتی تھیں۔ ان کے علاوہ بیٹھنے کا اور کوئی سامان نہیں تھا۔ ص ۱۹۶، پہلی تین سطریں یہ دراصل اس صفحے کی آخری تین سطریں ہیں ص۲۰۳، سطر۱۳ جاوید سنیما جارہا ہے ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی کتاب مے لالہ فام میں اس کا ذکر کیا ہے۔ تاریخ وہی ہے جس کا حوالہ راقم الحروف نے دیا ہے۔ ص۳۰۲، سطر ۱۲،۱۳… موضوع سخن یہ تھا اور معلوم نہیں کس نے چھیڑا کہ… فطرت انسانی نے ستاروں سے بڑا اثر قبول کیا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا ذکر جنات کا تھا۔ کس نے چھیڑا اور کیسے، حضرت علامہ نے اس باب میں کیا فرمایا، پتہ نہ چل سکا۔ بجز اس کے کہ جنات سے سلسلہ گفتگو خوارق عادت اور خوارق عادت سے انسان کی اس خواہش اور کوشش کی طرف پھر گیا کہ عالم مادیات کی تسخیر کرے، ہواؤں میں اُڑے، ستاروں میں پہنچے۔ فضا میں اُڑنا تو اب کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ ابن فرناس نے شاید سب سے پہلے یہ کوشش کی، لیو نارڈو ڈاونچی(Leonardo da vinci) سے بھی پہلے کہ پر لگا کر فضا میں پرواز کرے۔ مگر ناکام رہا۔ ابن فرناس کا تعلق سرزمین اندلس سے تھا۔ رہا ستاروں میں پہنچنا، ان کی سیاحت کرنا سو جس طرح ابن عربی کی تحریروں سے ڈانٹے کو تحریک ہوئی کہ واقعتاً نہ سہی عالم خیال ہی میں ستاروں کا رُخ کرے، ابن عربی خود بھی تو افلاک کی سیاحت اور ستاروں میں اپنے مشاہدات کا حال بیان کرچکے ہیں۔ بعینہٖ صوفیہ اسلام نے بھی اکثر اس قسم کے مشاہدات کا ذکر کیا ہے۔ حضرت علامہ نے فرمایا کہ بزرگ چاچڑاں شریف، حضرت خواجہ غلام فرید علیہ الرحمۃ کا بھی ایک رسالہ سیاحت افلاک میں ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کس طرح ان کا گزر بعض سیاروں میں ہوا۔ حضرت خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ (۱۹۰۱-۱۸۴۳) قیام مٹھن کوٹ میں رہتا تھا اور چاچڑاں میں بھی۔ دونوں لب دریا واقع ہیں۔ حضرت خواجہ صاحب حسب منشا کبھی ایک جگہ قیام فرماتے کبھی دوسری۔ حضرت خواجہ صاحب کی ذات محتاج تعارف نہیں۔ صوفیانہ شاعری اور تصوف میں ان کا درجہ نہایت بلند ہے۔ البتہ جہاں تک اس رسالے کا تعلق ہے جس کی طرف حضرت علامہ نے اشارہ کیا (بشرطیکہ میری یاد غلطی نہیں کررہی) یہ باعث کم فرصتی میں اس بارے میں کوئی تحقیق نہیں کرسکا۔ کوئی صاحب توجہ فرمائیں، عنایت ہوگی۔ پھر اب کہ تسخیر مکان کا مرحلہ طے ہوچکا ہے۔ انسان خلائے بسیط سے گزر کر چاند میں پہنچ گیا تو ذہن بے اختیار حضرت علامہ کے اس ارشاد کی طرف منتقل ہوگیا جو انھوں نے راجا حسن اختر سے فرمایا تھا۔ راجا صاحب کا کہنا تھا انسان کا گزر خلا سے کیسے ہوگا۔ ستاروں تک کیسے پہنچے گا۔ حضرت علامہ نے فرمایا انسان اس کا کوئی نہ کوئی راستہ تلاش کرلے گا۔ تسخیر مکان ناممکن نہیں ہے۔ یہ ۱۹۳۸ء کی بات ہے۔ ۱۹۶۹ء میں انسان نے یہ راستہ تلاش کرلیا، چاند پر پہنچ گیا۔ حضرت علامہ کی بات پوری ہوگئی۔ ثانیاً جاوید نامہ میں فلک قمر کو افلاک کی جانب انسان کی منزل اولین ٹھہرایا گیا ہے۔ ۱۹۶۹ء میں بھی تسخیر مکان میں انسان نے اول چاند ہی میں قدم رکھا۔ بعینہٖ فلک قمر میں حضرت علامہ نے چاند کی طبیعی ہیئت اور مناظر کی جو تصویر پیش کی ہے، اس کے پہاڑوں اور غاروں کا جو نقشہ کھینچا ہے کم و بیش وہی ہے جو ۱۹۶۹ء میں انسان نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ز…ز…ز (ب) حواشی ص۲۴، ح۵ آخری سطر کو یوں پڑھیے مجوسی کو ہمیشہ کسی آنے والے کا انتظار رہتا ہے ص۳۵، ح۱ سطور ۵، ۶ بے ربط ہیں۔ تصحیح فرما لیجیے: … آویزش کا جس میں ہماری کامیابی کا دارومدار ان ذی قوت اور صحت مند ہستیوں کے ظہور پر ہے جو نمونہ ہیں اعلیٰ زندگی کا ساتویں سطر میں کتاب کے بعد لفظ ’دعوت‘ زائد ہے ص۴۶، ح ۲ اور مسلمان سمجھ بھی نہیں رہے تھے۔ صحیح جملہ یوں ہے: اور مسلمان بھی سمجھ نہیں رہے تھے ص۴۹، ح ۱ یہاں یہ کہنا مقصود ہے کہ ہمارے اس تصور کہ اسلام نے دین و دنیا میں کوئی تفریق کی۔ نہ سیاست، مذہب، اخلاق اور معاش میں حد بندیاں۔ وہ زندگی کے ہر تقاضے کو لبیک کہتا ہے۔ مادیات سے نفرت، ترک دنیا اور رہبانیت کی تعلیم نہیں دیتا۔ البتہ اس کا اصرار ہے کہ انسان کچھ بھی کرے، کسی بات میں حصہ لے حدود شریعت کے اندر رہتے ہوئے جس نے ہر معاملے میں خواہ اس کا تعلق زندگی کے کسی تقاضے سے ہو مناسب احکام نافذ کردیے ہیں، ہمارے اس تصور اور اس بات میں بڑا فرق ہے کہ یہی تصور ہے جس کے ماتحت ایک معاشرے، ایک ہیئت اجتماعیہ ایک ریاست، یا دوسرے لفظوں میں ایک نظام مدنیت کی تاسیس لازم ٹھہری جو ظاہر ہے ایک ہی تنظیم کے مختلف نام ہیں، یا مختلف مظاہر اور جس سے مقصود یہ ہے کہ انسانی روابط اپنے صحیح مدار پر آجائیں اور زندگی کو بھی اپنی کارفرمائی کے لیے مناسب راستہ مل جائے۔ ایک پہلو سے دیکھیے تو اس تنظیم کی نوعیت سیاسی اجتماعی ہوگی۔ دوسرے پہلو سے یہی تنظیم ایک نظام اخلاق اور ایک تہذیب و تمدن کی صورت میں ساری زندگی کو اس وحدت میں سمودے گی جسے اسلام نے دین سے تعبیر کیا ہے۔ لیکن یہ تنظیم بہرحال جامع و مانع ہوگی، ہمہ گیر اور زندگی کی جملہ ضروریات پر مادی ہوں یا روحانی ہر پہلو سے محیط۔ لہٰذا ہم اس سے باہر قدم رکھ سکتے ہیں، نہ اس میں کسی دوسری تنظیم کا پیوند لگ سکتا ہے۔ حاصل کلام یہ کہ احکامِ شریعت اور اس کے حدود کا تقاضا بھی جن کے پیشِ نظر کہا جاتا ہے کہ اسلام نے ترک دنیا کی تعلیم نہیں دی یہی ہے کہ ایک ایسی تنظیم وجود میں آئے جو زندگی کی بڑھتی اور پھیلتی ہوئی حرکت میں اس کا ساتھ دے، اس کی رہنمائی کرے، فرد کا رشتہ جماعت سے جوڑتے ہوئے اُصول و فروع ہوں، یا علم و عمل ان کا نظم و ضبط قائم رکھے۔ لہٰذا ظاہر ہے کہ سیاست ہو یا معاش، تہذیب و تمدن اخلاق یا معاشرت یہ تنظیم ہمارے معاملات اور باہمدگر روابط کا راستہ بلاقید زمان و مکان متعین کرتی چلی جائے گی۔ اس کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے سرچشمے سے اخذ و اقتباس کی ضرورت ہوگی، نہ یہ کہنے کی کہ بجز چند اُصولی پابندیوں کے اسلام نے ہمیں ہر معاملے میں آزادی دے رکھی ہے۔ بیشک اسلام عین آزادی ہے۔ شریعت سے مقصود ہی یہ ہے کہ ہم اپنا رشتۂ تقدیر اپنے ہاتھ میں لیں۔ مگر یہ بات سمجھنے کی ہے۔ دیکھیے تشکیل جدید، چھٹا خطبہ، آخری صفحات، اسلامی معاشرہ آزاد ترین معاشرہ ہے۔ ص ۵۶، ح۴ مایا کی بحث میں کہ عالم خارج (یاعالم فطرت) محض فریب ہے، یا حقیقت، ایک دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ عالم فطرت فریب ہو، یا حقیقت ہمیں اس کا جو علم حاصل ہوتا ہے کہاں تک قابلِ اعتماد ہے۔ چنانچہ یہ دوسرا سوال ہے جس پر ہندو فلسفہ میں بڑی طویل اور دلچسپ بحثیں اُٹھائی گئیں گو یہاں ان کی طرف اجمالا اشارہ بھی ممکن نہیں؟ اس سے کس قدر مختلف ہے اسلامی نقطۂ نظر جس نے عالم فطرت، یا باصطلاح قرآن مجید عالم اَمر و خلق کو حقیقت ٹھہرایا، اس کے مطالعے اور مشاہدے کے ساتھ ساتھ اس میں فکر و نظر کی دعوت دی کیونکہ یہ بھی ایک ذریعہ علم ہے اس حقیقت تک پہنچنے کا جو اس کے اندر کارفرما ہے۔ اس نقطۂ نظر کی ترجمانی حضرت علامہ نے جس خوبی سے کی ہے اس کے لیے ملاحظہ ہو تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، خطبہ اول، علیٰ ہذا خطبہ پنجم۔ لب لباب ان کے ارشادات کا یہ ہے کہ عالم فطرت ایک حقیقت ہے اور ہمیں اس کا جہاں تک جیسا بھی علم حاصل ہوتا ہے قابلِ اعتماد ہے۔ ہم اس سے بالکل بے خبر نہیں ہیں۔ نہ کسی فریب اور وہم میں گرفتار کہ بمقابلہ اس کے عملاً ہمارے سامنے کوئی راستہ ہی نہیں جس پر چلتے ہوئے ہم اس سے، یعنی عالم فطرت سے کوئی محکم اور پائیدار رابطہ استوار کرسکیں۔ راستہ ملے تو صرف فکر و فن، یا مجرد فلسفہ اور اسی قبیل کے تصوف کا۔ زبور عجم میں ارشاد ہوتا ہے: دل بدمست جلوہ از صفائے جلوہ می لرزد تو می گوئی حجاب است ایں نقاب است ایں مجاز است ایں اور پھر ارمغان حجاز میں ہے: جہاں میں دانش و بینش کی ہے کس درجہ ارزانی کوئی شے چھپ نہیں سکتی کہ یہ عالم ہے نورانی کوئی دیکھے تو ہے باریک فطرت کا حجاب ایسا نمایاں ہیں فرشتوں کے تبسم ہائے پنہانی ص۵۷، ح ۱ سطر اول میں ’کرشمے‘ کو ’سرچسمہ‘ پڑھیے۔ جملہ یوں ہے: جس کا سرچشمہ ہے ہدایت ص۵۷، ح ۱ دراصل صفحہ ۵۶ کا حاشیہ ۵ہے ص۶۱، ح حضرت علامہ نے اس شعر میں شاید اپنے والد ماجد ہی کا ارشاد نظم کردیا ہے۔ دیکھیے متن، ص۶۱ ص۹۲، ح ۱ اس حاشیے کی وضاحت تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کے خطبۂ چہارم میں حضرت علامہ کے ارشاد سے ہوجاتی ہے۔ دیکھیے نسخۂ آکسفرڈ ۱۹۳۴ئ، ص۱۱۴،سطور۱۰تا۱۲: The resurrection therefore, is not an external event. It is the consummation of a life process within the ego. حیات بعد الموت کوئی خارجی حادثہ نہیں، بلکہ خودی ہی کے اندر ایک حیاتی عمل کی تکمیل (کانتیجہ)۔ خارجی حادثے کی مثال یوں سمجھیے جیسے کوئی سویا پڑا ہو، کوئی آئے اور اسے جگادے مگر جس کا اطلاق اسلامی نقطۂ نظر پر نہیں ہوتا۔ اسلامی نقطۂ نظر کی وضاحت ان اشعار سے ہوجائے گی۔ دیکھیے ضرب کلیم بعنوان موت: لحد میں بھی یہی غیب و حضور رہتا ہے اگر ہو زندہ تو دل ناصبور رہتا ہے مہ و ستارہ مثال شرارہ یک دو نفس مے خودی کا ابد تک سرور رہتا ہے فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا ترے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے اور: ہو اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے ص۱۰۱، ح۴ پورا قطعہ یوں ہے بہ عنوان درجۂ نو آبادیات: شبے یہ میکدہ پیر کلیسیا می گفت کہ رند میکدۂ تو بسے تنک جام است گرفتم ایں کہ ثمر پختہ شدولے گویم اگر برید زشاخ نہال ما خام است تراز پنجۂ شاہیں اماں دہد صیاد فغاں چہ سود کہ آسودگی تہ دام است من ستم زدہ ایں نکتہ را نہ فہمیدم کہ فکر کہنہ ہندی اسیر اوہام است سروش مطلع میر رضی بیادم داد چہ مطلعے کہ سراپا نوائے الہام است نمک شناس اسیراں چو از قفس رستند بہ نخل خانۂ صیاد آشیاں بستند ص۱۱۳،ح ۱ دراصل تھیوس (Theos) کا ترجمہ ’خدا‘ نہیں ہے، بلکہ کوئی ایسی شے، ایسا مظہر یا ایسا تصور جسے ہم خدا کَہ سکیں۔ یوں خدا کے بار بار ذکر کے باوجود اہلِ یونان کی وثنیت مشربی (شرک) سمجھ میں آجاتی ہے۔ یونانی ذہن توحید کے تصور سے عاری تھا۔ لہٰذا افلاطون کو الٰہی کہا گیا تو اس لیے نہیں کہ اسے ہستی باری تعالیٰ کا ویسے ہی اقرار تھا جیسے ہمیں۔ افلاطون کے ذہن میں کچھ تھا تو ایک ’عین اعلیٰ‘ کا خیال بالفاظِ دیگر ایک مجرد تصور۔ الٰہی صحیح معنوں میں مابعدالطبیعی کا مترادف ہے۔ بات یہ ہے کہ ہستی باری تعالیٰ کے اقرار میں ’آریائی ذہن‘ کا رُخ ہمیشہ مجرد فکر کی طرف رہا، بطور ایک ہستی کے اس سے رجوع کیا تو صنمیات، یعنی دیوی دیوتاؤں میں ایمان بالفاظِ دیگر وثنیت کا راستہ کھل گیا۔ انبیائے علیہم السلام نے اس کے برعکس ہستی باری تعالیٰ کے اثبات اور توحید پر زور دیا۔ جدید عمرانی تحقیقات بھی یہی ہیں کہ نوعِ انسانی کا اولین تصور توحید ہی کا تصور تھا، شرک بعد کی پیداوار ہے۔ یہود کو جیسا بھی تھا ہستی باری تعالیٰ اور توحید کا اقرار تھا، علی ہذا زرتشتیت کو۔ لیکن عیسائیت نے اس میں شخص کا تصور داخل کیا۔ یوں توحید کا خالص اور پاک و صاف تصور آلودۂ شرک و کفر ہوتا رہا، تاآنکہ اسلام کا ظہور ہوا اور یہ تصور کفر و شرک کی آلودگیوں سے پاک ہوگیا۔ میک ٹیگریٹ کی دہریت کے باب میں بھی یہ حقائق پیشِ نظر رہیں۔ ص۱۱۷، ح۲ تجربی منہاج مسلمانوں نے وضع کیا۔ سارٹن خود لکھ چکا ہے رازی کا منہاج تجربی تھا جسے ابن الہیثم نے آگے چل کر اور ترقی دی۔ ملاحظہ ہو مقدمہ تاریخ سائنس، ابواب رازی و ابن الہیثم ص۱۲۷، ح۲ ابن خلدون کہتا ہے: کیف تلحم نسبہا بجعفر بن یحییٰ و تدنس شرفھا العربی بموالیٰ من موالی العجم۔ وہ اپنا نسب جعفر بن یحییٰ سے کیسے ملا سکتی تھی کہ ایک ایرانی مولیٰ کی وجہ سے اس کے عربی شرف پر حرف آتا۔ بطور بیان واقعہ ابن خلدون نے جو کچھ کہا صحیح کہا ہے۔ لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس میں سارا زور نسب اور عربی شرف پر ہے۔ دیکھیے مقدمہ، بحث ازدواج جعفر و عباسہ۔ ص۱۵۱، ح۲ اس حاشیے کی ابتدا دراصل حضرت علامہ کے اس شعر سے ہوتی ہے جو بہ باعث عجلت چھپنے سے رہ گیا۔ بال جبریل : دل بیدار فاروقی، دل بیدار کراری مس آدم کے حق میں کیمیا ہے دل کی بیداری ص۱۶۰، ح۳ آیہ شریف ولہ اسلم… میں اسلم کے بعد ’کل‘ زائد ہے۔ ص۱۶۸، ح۲ اس حاشیے کا اختتام اس عبارت پر ہوتا ہے: حضرت علامہ گویا مستقبل کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ لہٰذا ان کا ارشاد زبور عجم میں: می رسد مردے کہ زنجیر غلاماں بشکند دیدہ ام از روزن دیوار زندان شما ص۱۹۹، ح۲ یہ حوالہ صفحہ ۸۸ کے حاشیے میں پہلے آچکا ہے۔ تکرار شاید غیر ضروری تھا ص ۲۰۰، ح۲ لوکان لنا کرہ۔ مگر زندگی تکرار نہیں ہے بلکہ مسلسل اور مستقلاً آگے بڑھتی ہے جس میں ماضی کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔ جو کچھ گزر گیا سو گزر گیا۔ یہ اس کا خاصہ ہے: جاوداں، پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی ص۲۰۵، ح۳ بعد میں معلوم ہوا کہ سردار صاحب موصوف نے حضرت علامہ اور برگساں کے مکالمے کی یادداشتیں مرتب تو کیں لیکن اس عجلت میں کہ جب نظر ثانی کا وقت آیا تو خود بھی ان کو پڑھنے سے قاصر رہے۔ ص۲۴۲، ح۱ حاجب منصور کے لیے ملاحظہ ہو کوئی سی تاریخ اندلس۔ منصور کی انتہائے شمال میں ہسپانیہ کی عیسائی ریاستوں کے خلاف یلغار جس نے انھیں ساحل خلیج بسکے کے ساتھ چھوٹے چھوٹے سے علاقوں میں محدود کردیا، علاوہ اس کے انھیں امارت قرطبہ کی سیادت بھی تسلیم کرنا پڑی اسلامی اندلس کی آخری یلغار ہے جس کے بعد اس کی شوکت اور دبدبے، فوجی طاقت اور برتری کا بتدریج خاتمہ ہوتا چلا گیا تاآنکہ عیسائی ریاستوں کی پیش قدمی جنوب کی سمت بڑھتے بڑھتے طلیطلہ اور پھر قرطبہ کی دیواروں تک جاپہنچی۔ یوں تاریخ اندلس کا وہ دور شروع ہوا جسے عیسائی فتح مکرر Reconquista سے تعبیر کرتے ہیں۔ تہذیب و تمدن اور علوم و فنون میں بڑھتی ہوئی ترقی کے باوجود اندلس کے طوائف الملوک کی خانہ جنگی، اخلاق اجتماعیہ کا زوال، احساس ملی کا فقدان اور سیاسی بے بصری حضرت علامہ کے لیے بڑی تکلیف دہ تھی۔ ہمارا ذہن اندلس سے اکثر اسلامیان ہند کی طرف منتقل ہوجاتا۔ ص۳۰۶، ح۱ دیکھیے تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، خطبہ پنجم: یہ غالباً نظام تھا، جس نے سب سے پہلے یہ کہا کہ علم کی ابتدا شک سے ہوتی ہے۔ غزالی نے احیا میں اس خیال کو مزید نشوونما دیا اور یوں کارتیسی منہاج کا راستہ صاف ہوا۔ ص۳۶۱، ح ۱ مولانا روم کے شعر کی تصحیح فرما لیجیے: در رضائے او رضائش گم شود ایں سخن کے باور مردم شود ز…ز…ز ضمیمہ ۱- لبرل فیڈریشن ۲- سرسیّد اور علماے دیوبند ۳- مسجد شہید گنج ۴- اوقاف بل ۵- دعا ۶- لیگ کا اجلاس لاہور ۷- نفسیات انتظار ۸- چولستان ۹- میثاقِ مدینہ ۱۰- احمدیت، قادیانیت ۱۱- یوم تبدل الارض ضمیمہ ۱- لبرل فیڈریشن…متن، ص۲۳ اعتدال پسند ہندو کانگریسیوں کی یہ جماعت اگست ۱۹۱۸ء میں قائم ہوئی۔ پہلا اجلاس بمبئی میں منعقد ہوا اور اس کی صدارت سر سریندر ناتھ بینر جی نے کی۔ رفتہ رفتہ پرانے کانگریسی اس میں شامل ہوتے گئے۔ تحریک ترکِ موالات کی ناکامی کے بعد اس نے بالخصوص عروج حاصل کیا۔ حتیٰ کہ مسٹر مانٹیگو سیکرٹری آف سٹیٹ فار انڈیا نے بھی در پردہ اس کی خوب خوب حمایت کی۔ ۱۹۳۵ء تک فیڈریشن کا بڑا زور رہا۔ اس کے بعض ارکان گول میز کانفرنس میں بھی شریک ہوئے۔ ان میں سر تیج بہادر سپرو نے بڑا نام پیدا کیا۔ لیکن ۱۹۳۵ء کے بعد جب صوبجاتی خود اختیاری کی داغ بیل پڑی اور پھر آگے چل کر صوبوں کی حکومت کانگریس کے ہاتھ میں آگئی تو اس کو تیزی سے زوال ہونے لگا، حتیٰ کہ ۴۳-۱۹۴۲ء میں اس کا نام ہی باقی رہ گیا۔ ۲۱-۱۹۲۰ء میں کانگریس بظاہر ایک انتہا پسند جماعت کی حیثیت اختیار کرچکی تھی۔ بمقابلہ اس کے لبرل فیڈریشن کو رجعت پسندی کا طعنہ دیا جاتا تھا۔ حالانکہ فیڈریشن بڑے سمجھدار، قابل اور ہوشمند سیاست دانوں کی ایک جماعت تھی جس کا حکومت اور قوم دونوں میں بڑا رسوخ تھا۔ ان کی کوشش تھی کہ کانگریس اور حکومت میں جو تصادم رونما ہے اسے روکنا چاہیے۔ مبادا اس سے متحدہ قومیت، یا دوسرے لفظوں میں ہندوؤں کے مفاد کو نقصان پہنچے۔ کیوں نہ اعتدال میانہ روی اور افہام و تفہیم سے باہم مصالحت اور مفاہمت کی کوئی راہ نکالی جائے۔ یہ تھی ہندوؤں کی سیاست فہمی کہ اعتدال و انتہا پسندی، حکومت کی حمایت اور اس سے عدم تعاون کے باوجود انھوں نے ایک دوسرے پر خوشامد اور وفاداری کا الزام نہیں رکھا۔ برعکس اس کے مسلمان بات بات پر ایک دوسرے کو حکومت کی وفاداری کا طعنہ دیتے۔ ۲- سرسیّد اور علماے دیوبند…متن ص۲۸۳ اس عنوان سے ماہنامہ المعارف، لاہور کی اشاعت مارچ ۱۹۶۹ء میں پروفیسر سعید احمد اکبر آبادی کے قلم سے ایک مختصر سا مضمون شائع ہوچکا ہے، بڑا دلچسپ اور اس قابل ہے کہ سرسیّد کے بارے میں علماے دیوبند نے خیالات کا اظہار کیا انھیں خاص طور پر پیشِ نظر رکھا جائے۔ عام خیال تو یہ ہے کہ سرسیّد کی سب سے زیادہ مخالفت علماے دیوبند نے کی اور دیوبند ہی کا مدرسہ مدرسۃ العلوم مسلمانان علی گڑھ کا سب سے بڑا حریف تھا۔ گو بقول مولانا حالی ہندوستان کے دوسرے علماے کرام بھی ان کی زندگی ہی میں انھیں ملحد تصور کرنے لگے تھے۔ مگر علماے دیوبند نے کبھی ان پر الحاد اور بے دینی کا الزام نہیں رکھا۔ یہ علما کون تھے؟ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا محمد قاسم نانوتوی ’مولانا رشید احمد گنگوہی‘ مولانا اشرف علی تھانوی۔ حاجی صاحب نے سرسیّد کے اخلاق عالیہ اور اسلام اور مسلمانوں کی خیرخواہی کی از حد تعریف کی۔ بڑی نیاز مندی سے انھیں خط لکھا۔ کہا تو صرف یہ کہ سرسیّد قوم کی بہتری کے لیے جو ذرائع اور وسائل اختیار کررہے ہیں محل نظر ہیں۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی فرماتے ہیں (ان کے رسالہ تصفیۃ العقاید کا ذکر علماے سہارنپور کے سلسلے میں جنھوں نے سرسیّد کو کافر ٹھہرایا تھا اس سے پہلے آچکا ہے) سرسیّد کی نیت اچھی ہے، عقل اچھی نہیں۔ پھر جب ان سے فتویٰ کفر پر دستخط کرنے کے لیے کہا گیا تو انھوں نے کہا تم اس شخص کے خلاف دستخط کروانا چاہتے ہو جو پکا مسلمان ہے۔ مولانا رشید احمد گنگوہی سے جب سرسیّد علی گڑھ کالج کے لیے امداد کے طالب ہوئے تو انھوں نے کہا اس کا فیصلہ مولانا محمد قاسم پر ہے۔ وہ جو کچھ کہیں گے ہم اس پر عمل کریں گے۔ انھوں نے گویا سرسیّد کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ مولانا اشرف علی تھانوی بھی سرسیّد کے مخالف نہیں تھے۔ وہ صرف نئی تعلیم کے خلاف تھے۔ علی گڑھ کالج کو کالج نہیں فالج کہا کرتے تھے۔ لیکن انھوں نے سرسیّد کو کبھی کافر یا ملحد نہیں کہا۔ مگر پھر کیا خوب فرمایا مولانا فضل الرحمان گنج مراد آبادی نے: سرسیّد کی تقریروں کو نہ دیکھو۔ ان کے قلب کو دیکھو کیا ہے۔ ایک مرتبہ حجرے سے باہر تشریف لائے اور مولانا محمد علی مونگیری سے کہ ان کے خلیفہ تھے فرمایا مولوی لوگ اس بیچارے کو کافر بناتے ہیں۔ پھر اپنا وہی ارشاد دہرایا۔ اس کے قلب کو بھی تو دیکھو۔ انھوں نے گویا ایک صوفی صافی اور مرد باخدا کی طرح قلب کی تعریف فرمائی جس سے راقم الحروف یہی سمجھتا ہے کہ حضرت مولانا کے نزدیک سرسیّد کا قلب مومن کا قلب تھا۔ ۳- شہید گنج…متن ص،۱۲۰ لاہور ریلوے اسٹیشن سے دہلی دروازے کا رُخ کیجیے اور بجاے دائیں ہاتھ کے بائیں ہاتھ کی سڑک پر چلتے جائیے تو سرائے سلطان کے بالمقابل آپ کو عین سڑک پر وہ عمارت ملے گی جسے سکھ گوردوارہ شہید گنج سے موسوم کرتے ہیں۔ اسی گوردوارے کے احاطے میں وہ مسجد بھی واقع تھی جسے اس گوردوارے کی نسبت سے مسجد شہید گنج کہا جاتا تھا اور جو ۱۹۳۵ء میں ۴ اور ۵؍جولائی کی درمیانی شب کو شہید کردی گئی۔ مسجد عہد شاہ جہانی میں تعمیر ہوئی۔ پاس ہی حضرت شاہ کاکو چشتی کا مزار ہے، یا تھا جو ابتدائی عہد مغلیہ کے ایک مشہور صوفی بزرگ ہیں۔ ملا عبدالقادر بدایونی نے منتخب التواریخ میں ان کا ذکر کیا ہے۔ بانی مسجد کا نام عبداللہ خاں ہے، سعید خاں بہادر ظفر جنگ کا بیٹا۔ سعید خان کو شاہ جہاں نے منصب دو ہزاری پر سرفراز کیا۔ کابل میں اورنگ زیب عالمگیر کے ہمراہ رہ چکا تھا۔ عبداللہ خاں شاہزادہ داراشکوہ کا خان سامان تھا۔ پھر لاہور کا کوتوال بنا، مسجد متوسط درجے کی تھی، ایک اچھا خاصا بڑا احاطہ، کشادہ صحن، تین محرابیں، تین گنبد، عمارت پختہ۔ مسجد کے ساتھ ایک حمام بھی تھا۔ اسلامی حکومت کو زوال ہوا اور ۱۷۷۵ سے سکھ مثلوں نے پنجاب میں لوٹ مار کا بازار گرم کیا تو بھنگی مثل کے تین سرداروں گوجر سنگھ، لہنا سنگھ اور سوبھا سنگھ نے ۱۷۶۵ سے ۱۷۹۹ تک کوئی ۳۴ سال لاہور کو بڑی بے دردی سے لوٹا۔ رنجیت سنگھ کا زمانہ آیا تو جب بھی سکھ گردی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ سکھ جس عمارت پر چاہتے تھے زبردستی قابض ہوجاتے، جسے چاہتے گراتے، یااس میں توڑ پھوڑ کرتے۔ خود رنجیت سنگھ نے شالامار، شاہدرہ اور لاہور کی بڑی بڑی شاندار اور حسین عمارتوں کو جس طرح برباد کیا اور ان کے قیمتی پتھر امرتسر پہنچائے کسی سے پوشیدہ نہیں۔ مسجد عبداللہ خاں، یا مسجد شہید گنج بھی سکھ گردی کی نذر ہوگئی۔ تحقیقات چشتی کے مطابق ۱۸۶۴ء میں اس پر گنڈا سنگھ اور گوردت سنگھ دو بھائی قابض تھے۔ وہ مسجد کی دکانوں کا کرایہ وصول کرتے۔ انھوں نے مسجد کے صحن اور دالان کو لنگر خانہ بنارکھا تھا۔ صحن مسجد میں لوہے کی ایک بہت بڑی کڑاہی بھنگ سے لبالب پڑی رہتی۔ سکھ آتے اور خوب خوب بھنگ پیتے۔ گنڈا سنگھ کے بیٹے جیون سنگھ نے مسجد کے دیوار بدیوار آٹھ دکانیں اور تعمیر کیں۔ یوں مسجد اور اس کا سارا احاطہ مع حمام اور مزار شاہ کاکو سکھ غارت گروں کے قبضے میں آگیا۔ مسلمان مسجد سے کلیتاً بے دخل ہوگئے، حتیٰ کہ مزار شاہ کاکو پر ہر سال جو عرس ہوتا تھا اسے بھی حکماً بند کردیا گیا۔ رہا گوردوارہ شہید گنج سو نواب زکریا خاں کے عہد میں سکھ لٹیروں نے اول تو راوی کے پاس دھوبیوں کی ایک جماعت کو لوٹا۔ پھر ایمن آباد کے پاس جمع ہوکر غارت گری کرنے لگے۔ دیوان جسپت رائے سے شکایت کی گئی تو اس نے ان پر فوج کشی کی۔ لیکن ہوا یہ کہ عین لڑائی میں ایک سکھ نے اس کا سرکاٹ لیا۔ دیوان لکھپت رائے کو کہ عہدۂ وزارت پر فائز تھا خبر ملی تو آگ بگولا ہوگیا۔ کہنے لگا سکھی کو چلانے والا اگرچہ ایک کھتری تھا لیکن میں اپنے آپ کو کھتری نہیں کہوں گا اگر سکھی کو صفحہ ہستی سے نہ مٹادوں۔ اس نے ایک لشکر کے ساتھ شمال مشرقی پنجاب تک سکھوں کا تعاقب کیا اور قتل و غارت کرتا ہوا کوئی ایک ہزار قیدی پابہ زنجیر لاہور لے آیا جہاں دہلی دروازے کے باہر نخاس (گھوڑوں کی منڈی) میں ایک ایک کرکے انھیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تب جاکر اس کی آتش انتقام ٹھنڈی ہوئی۔ سکھوں کا زمانہ آیا تو انھوں نے اس کا بدلہ ہندوؤں سے نہیں، مسلمانوں سے لیا محض اس لیے کہ دیوان لکھپت رائے اسلامی حکومت کا ایک اعلیٰ عہدیدار تھا۔ مگر پھر یہ بات آج تک طے نہیں ہوسکی کہ اس واقعے کی یاد میں سکھوں نے شہید گنج کے نام سے جو گوردوارہ تعبیر کیا، کیا اسی مقام پر جہاں سکھ قتل کیے گئے۔ مورخین مسلمان ہوں، یا غیر مسلم سب اس معاملے میں مذبذب ہیں۔ قتل گاہ کا مقام صحیح طور پر متعین نہیں ہوسکا اِلّا یہ کہ یہ واقعہ نخاس میں کہیں پیش آیا۔ لہٰذا حقیقت یہی ہے کہ سکھوں نے ایک فرضی قتل گاہ کے عذر میں زبردستی مسجد اور مسجد کے ملحقات پر قبضہ کرلیا۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسجد کے انہدام سے سکھوں کا مقصد کیا تھا۔ مسجد کیوں اور کن حالات میں گرائی گئی، مسلمان کیا سوچ رہے اور کیا کررہے تھے۔ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ یہ جو کچھ ہوا غیر متوقع طور پر، دوسرا یہ کہ انہدام مسجد سے سکھوں کی حقیقی غرض یہ تھی کہ مسلمانوں سے طاقت آزمائی کریں۔ وہ بزعم خود اپنے آپ کو پنجاب کے مالک اور حکمران تصور کرتے تھے۔ ۱۹۳۵ء کی اصلاحات کے پیشِ نظر پنجاب میں اسلامی اکثریت کی آئینی حیثیت کے اعلان کا مطالبہ، خطبہ الٰہ آباد، شمال مغربی ہندوستان میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کا تصور اور انجام کار تحریک پاکستان یہ باتیں ہندوؤں اور سکھوں کو بڑی ناگوار تھیں، سرکار انگریزی بھی اپنی مخصوص مصلحتوں کے ماتحت انھیں کچھ اچھی نظر سے نہیں دیکھتی تھی، بلکہ در پردہ مسلمان کی مخالفت کرتی۔ پھر جس طرح بمقابلہ مسلمانوں کے اس کا رجحان کانگریس سے مصالحت اور دوستی کی طرف تھا، پنجاب میں بھی ہندوؤں اور سکھوں کو ہر اس معاملے میں جس سے مسلمانوں کے مفاد ملی کو نقصان پہنچے اس کی حمایت حاصل تھی۔ لہٰذا اس وقت صورتِ حالات یہ تھی کہ ایک طرف کانگریس مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف تھی۔ دوسری جانب ہندو اور سکھ یونینسٹ پارٹی کی آڑ میں روز بروز منظم ہورہے تھے۔ حکومت کا رویہ بھی معاندانہ تھا۔ مسلمان منتشر تھے۔ لیگ میں ابھی جان نہیں آئی تھی۔ اس کے علاوہ جو بھی سیاسی جماعتیں تھیں کانگریس کے زیر اثر تھیں۔ لہٰذا موقع نہایت مناسب تھا۔ مسلمانوں کے خلاف کوئی بھی قدم ہو بہ آسانی اُٹھایا جاسکتا تھا۔ رہی یہ بات کہ سکھوں نے کب اور کیوں یہ فیصلہ کیا کہ مسجد کو گرادیں۔ کِس کی شہ اور اشارے پر، یہاں اس سے بحث نہیں۔ افواہیں پھیل رہی تھیں، حتیٰ کہ لاہور میںجب یہ خبر پایۂ یقین کو پہنچ گئی تو مسلمانوں کا ایک وفد گورنر سے ملا اور اس سے درخواست کی کہ مسجد کو محکمۂ آثار قدیمہ کی تحویل میں دے دیا جائے۔ جب تک ایسا نہ ہو لاہور میں دفعہ ۱۴۴ نافذ رہے تاکہ سکھ اپنی من مانی کارروائی نہ کرسکیں۔ گورنر سر ہربرٹ ایمرسن نے (جن کو آگے چل کر مسلمانوں نے اَمر سنگھ کہنا شروع کردیا تھا) بات کو ٹال دیا۔ سکھوں سے گفتگو کی گئی تو جواب ملا کہ معاملہ شرومنی گوردوارہ پر بندھک کمیٹی کے زیر غور ہے۔ مسجد مسمار نہیں کی جائے گی۔ سکھ جتھے جون ہی میں پنجاب کے مختلف حصوں سے آرہے تھے۔ گویا یہ ایک سوچی سمجھی ہوئی اور منظم کارروائی تھی جو کمال ہوشیاری سے سرانجام دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ۴ اور ۵؍جولائی کی درمیانی شب میں شہید گنج کو مسلح فوج اور پولیس نے گھیرلیا۔ مسلمان بڑے بے بس تھے۔ سب سے زیادہ شرمناک اور قابلِ نفرین روش یونینسٹ پارٹی کی تھی، جس نے اسلامی مفاد کے تحفظ اور مسلمانوں کی نمایندگی کے دعوؤں کے باوجود اس موقعے پر ایسی چپ سادھ لی کہ شبہ ہونے لگا شاید اس کے بعض ارکان کی سکھوں سے ملی بھگت ہے۔ انھوں نے کمال بے غیرتی سے مسجد کو گرتے دیکھا اور اس کے خلاف ایک لفظ بھی زبان سے نہیں نکالا۔ یہ صرف غیرت منداں لاہور تھے جو مولانا ظفر علی خاں کی قیادت میں شہید گنج پہنچ کر سکھوں کو اس حرکت سے روکنا چاہتے تھے۔ انھوں نے دہلی دروازہ سے باہر قدم رکھا تو حکومت کی گولیاں ان کے استقبال کے لیے موجود تھیں۔ کتنے نوجوان تھے جنھوں نے اس روز جام شہادت نوش کیا۔ مولانا ظفر علی اور ان کے بعض ہمراہی گرفتار کرلیے گئے۔ لاہور کے بعض حصوں میں مارشل لا کی سی کیفیت تھی۔ اخباروں پر سنسر بٹھا دیا گیا۔ بایں ہمہ ۱۹۳۶ء تک مسلمان رضا کار شاہی مسجد سے نکلتے، شہید گنج کی طرف بڑھتے اور گرفتار ہوجاتے۔ مزید حالات کے لیے ملاحظہ ہو کوئی سی تصنیف، یا پھر ڈاکٹر عاشق بٹالوی کی کتاب اقبال کے آخری دو سال جس میں ۱۹۳۶ء سے لے کر مصنف نے ۱۹۳۸ء تک کے واقعات اجمالاً بیان کردیے ہیں۔ مسجد شہید گنج کا انہدام جیسا المناک سانحہ تھا اس سے مسلمانوں کی غیرت ملی، عزت اور وقار کو جو ٹھوکر لگی اور وہ بھی اس صوبے میں جہاں ان کی اکثریت تھی، بلکہ کہنے کو حکومت بھی، اس پر ہر مسلمان کا دل تڑپ اُٹھا۔ حضرت علامہ کو اس حادثہ المیہ سے جو صدمہ پہنچا اس کے بیان کا یہ موقع نہیں۔ مسلمان کیسے کمزور ہیں، ان کی ذلت اور پستی کس حد تک پہنچ گئی ہے۔ ان میں نفاق و افتراق رونما ہے۔ وہ زندگی سے کس قدر بیگانہ اور دین سے کس قدر دور ہٹ چکے ہیں۔ یہ اور قوموں کا زوال و انحطاط، افسردگی اور بے دلی، سیاست حاضرہ کی شیطنت اور فریب کاریاں اور یورپ کے ہاتھوں آدمیت کی رسوائی کتنے خیالات تھے کہ جب ان کا اظہار پس چہ باید کرد اے اقوام شرق میں ہوا تو اس مسجد کی یاد میں بھی انھیں بے اختیار کہنا پڑا: مومناں را گفت آں سلطان دیں مسجد من ایں ہمہ روے زمیں الاماں از گردش نہ آسماں مسجد مومن بدست دیگراں سخت کو شد بندہ پاکیزہ کیش تابگیرد مسجد مولائے خویش گویا حضرت علامہ ۱۹۳۶ء ہی میں محسوس کرچکے تھے کہ مسجد واگزار ہوسکتی ہے تو زور بازو سے۔ قانونی چارہ جوئی سے کچھ نہیں ہوگا۔ قانونی چارہ جوئی سے کوئی نتیجہ مترتب نہ ہوا۔ ۴- اوقاف بل… متن ص، ۲۸۰ فروری ۱۹۳۸ء کے شروع ہی میں ملک برکت علی مرحوم نے حضرت علامہ کے زیر ہدایت تحفظ مساجد یا دوسرے لفظوں میں اسلامی اوقاف کی حفاظت کے لیے ایک مسودۂ قانون تیار کیا جو تمام تر حضرت علامہ کی کاوش فکر کا نتیجہ تھا، عبارت صرف ملک صاحب کی تھی۔ اس مسودۂ قانون کی تیاری کا خیال اس لیے پیدا ہوا کہ جب سے ہائی کورٹ نے شہید گنج کی اپیل خارج کردی تھی مسلمانوں میں ایک جوش تو پھیلا ہوا تھا لیکن عملی اقدام کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ چنانچہ ۳۰؍جنوری کو آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس دہلی میں بھی کوئی فیصلہ کن بات طے نہ ہوئی۔ اِلّا یہ کہ مسجد شہید گنج کی بازیابی کو مسلمانان ہند کا متفقہ مطالبہ ٹھہرایا گیا۔ نیز یہ کہ یکم؍فروری کو سارے ہندوستان میں یوم شہید گنج منایا جائے۔ ظاہر ہے ان باتوں سے نہ سکھ مرعوب ہوئے، نہ ہندو نہ انگریز۔ لہٰذا کون کَہ سکتا تھا کہ اسلامی اوقاف خطرے میں نہیں ہیں۔ اندریں صورت حضرت علامہ محسوس کررہے تھے کہ اوقاف یا مذہبی عمارتوں کے تحفظ کا رائج الوقت قانون جس کی رُو سے لاہور ہائی کورٹ نے شہید گنج کے سلسلے میں مسلمانوں کی اپیل خارج کردی بے کار اور بے معنی ہوچکا ہے۔ ضرورت ہے ایک ایسے مسودہ قانون کی جو اسمبلی کی منظوری سے بالآخر ایک مستقل قانون کی شکل اختیار کرلے۔ مسودہ تیار ہوگیا تو ڈاکٹر عاشق بٹالوی نے اس کا اُردو میں ترجمہ کیا اور ایک روز شام کے بعد اصل مع ترجمہ ساتھ لیے ملک صاحب کے دولت کدے پر پہنچے۔ ملک صاحب گھر میں نہیں تھے۔ لہٰذا ڈاکٹر صاحب نے دونوں چیزیں ان کی میز پر رکھ دیں۔ ملک صاحب آئے اور انھوں نے ڈاکٹر صاحب سے ٹیلیفون پر بات کی تو معلوم ہوا کہ اصل اور ترجمہ دونوں غائب ہیں۔ کوئی صاحب اُڑا کر لے گئے ہیں۔ خوش قسمتی سے ملک صاحب کے پاس ایک فاضل نقل موجود تھی۔ مکرر ترجمہ ہوگیا۔ یہ ڈاکٹر عاشق بٹالوی کا بیان ہے۔ دیکھیے اقبال کے آخری دو سال، ص۵۹۱۔ پھر چند دنوں کے بعد معلوم ہوا کہ مسودہ مع ترجمہ سر سکندر کی خدمت میں پہنچ چکا ہے۔ کیسے اور کس کے ذریعے۔ یہ ایک راز سر بستہ ہے جو آج تک کھل نہیں سکا۔ ملک صاحب نے پنجاب اسمبلی میں اس مسودہ قانون کو پیش کرنے کا نوٹس دیا تو یونینسٹ پارٹی کے کچھ ارکان ان کی حمایت پر آمادہ ہوگئے۔ سر سکندر پریشان تھے۔ انھوں نے محسوس کیا کہ ان کی وزارت کی کشتی ڈانوا ڈول ہورہی ہے۔ مسودہ پیش ہوا اور انھوں نے اس کی تائید کی تو اسمبلی کے ہندو اور سکھ ارکان الگ ہوجائیں گے۔ تائید نہیں کرتے تو مسلمانوں میں ان کے خلاف جوش و خروش پھیل جائے گا۔ اسمبلی کے بعض ارکان بھی شاید ان کی پارٹی سے کٹ جائیں۔ بالآخر سر سکندر کی سیاست اور سرکار انگریزی کی دانشمندی ان کے آڑے آئی۔ انھوں نے گورنر کو مشورہ دیا کہ اپنے اختیارات خصوصی سے کام لیں اور مسودے کو اسمبلی میں پیش ہونے سے روک دیں۔ اس اثنا میں وہ مسلمان ارکان اسمبلی کو بھی اپنا ہم نوا بنا چکے تھے۔ چنانچہ ۱۶؍مارچ کو انھوں نے اسمبلی میں بڑے وثوق اور اعتماد سے دھواں دھار تقریر کی۔ مسودہ قانون پیش نہ ہوسکا۔ گوردوارہ پر بندھک کمیٹی بھی حالات سے بے خبر نہیں تھی۔ ۱۱؍مارچ کو اس نے اعلان کردیا کہ شہید گنج کے مسئلے پر آیندہ مسلمانوں سے کوئی گفت و شنید نہیں ہوگی۔ مسجد وا گزار نہ ہوسکی۔ یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ملک برکت علی جو مسودہ قانون اسلامی اوقاف اور مساجد کے تحفظ کے لیے پیش کرنا چاہتے تھے سر سکندر نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے ملک صاحب کی کوششوں کو جس طرح ناکام بنایا اس پر مہاتما گاندھی تو انھیں مبارک باد دینے میں حق بجانب تھے۔ لیکن مولانا ابوالکلام نے بھی اس پر سرسکندر کو مبارک باد دی۔ کیوں اور کس لیے یہ بات آج تک سمجھ میں نہیں آئی۔ ۵- دعا…متن ص۳۶۱ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ میں ہے۔ خطبہ اول: ہمارے پاس دوسرے اذہان کے مشاہدے کی کوئی حس نہیں۔ ہمارے پاس ان کی موجودگی کی کوئی دلیل ہے تو یہ کہ ان سے بھی کچھ ویسی ہی جسمانی حرکات سرزد ہوتی ہیں جیسی ہم سے… ہم اپنے ابناے جنس کو حقیقی سمجھتے ہیں تو بزبان پروفیسر رائس اس لیے کہ وہ ہمارے اشاروں کا جواب دیتے اور یوں (یعنی اپنی حرکات و سکنات سے) ہمارے ناقص اظہار مطلب کی تکمیل کرتے رہتے ہیں۔ جواب ہی بلاشبہ کسی صاحب شعور ہستی کی موجودگی کا ثبوت ہے۔Response is no doubt the test of the presence of a conscious self, and the Quran also takes the same view (نسخۂ آکسفورڈ، ص۱۸)۔ قرآن پاک کا بھی یہی ارشاد ہے ’’اور تمھارے رب نے کہا ہے مجھے پکارو میں تمھاری پکار کا جواب دوں گا‘‘ لہٰذا بندۂ مومن کو تاکید استجابت کی گئی۔ سورۂ بقرہ میں ہے، فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ-۲(البقرہ): ۱۸۶۔ پھر ذات الیہہ تو ذات الیہہ ہے۔ ہم اپنے ایسی، یا دوسری صاحب شعور ہستیوں سے اپنے اشاروں کی طرح شعور سے عاری اشیا یعنی، دنیائے مادیات سے بھی جواب کے منتظر رہتے ہیں تاکہ معلوم ہوجائے ہمارا سروکار فی الواقع کسی حقیقت سے ہے، یا نہیں ہے۔ اندریں صورت پروفیسر جیمز کا یہ کہنا کیا غلط ہے کہ سائنس کچھ بھی کہے مجھے تو یوں نظر آتا ہے کہ جب تک دنیا قائم ہے لوگ دعا کرتے رہیں گے (ملاحظہ ہو پورا اقتباس تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، خطبہ سوم میں)۔ بالفاظِ دیگر اگر ہم اللہ کو مانتے ہیں تو اس سے دعا بھی کرتے رہیں گے کہ سر رشتہ اُمور اسی کے ہاتھ میں ہے۔ دعا کریں گے تو یہ بھی آرزو ہوگی کہ اس کا جواب ملے، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے، ۲(البقرہ):۱۸۲۔ دعا گویا ایک نفسیاتی حقیقت ہے اور اس سے انکار ناممکن۔ مگر بطور ایک نفسیاتی حقیقت سارے نفس انسانی پر حاوی، اس کے ہر تقاضے، ہر ضرورت اور ہر حالت کا سہارا۔ وہ اختیار بھی ہے مجبوری بھی، تسلیم و رضا اور سکون و اطمینان بھی، صبر و تحمل، عزم اور حوصلہ، امید اور اعتماد بھی۔ گویا زندگی سرتاسر دعا ہے، از اول تا آخر دعا۔ ۶- لیگ کا اجلاس لاہور… متن، ص۱۰۵، ۱۷۶ حضرت علامہ شروع ہی سے محسوس کررہے تھے کہ اسلامیان ہند کے مستقبل کا دارومدار اس بات پر ہے کہ جن صوبوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں انھیں وہاں کاملاً اقتدار حاصل ہوجائے اور یہ اقتدار اس ہندی اسلامی ریاست یا دوسرے لفظوں میں پاکستان کے قیام کی تمہید بنے جس کا تصور وہ خطبہ آلہ آباد میں پیش کرچکے تھے۔ بعینہٖ ان کی رائے تھی کہ جب تک مسلمانان پنجاب کو یونینسٹ سیاست سے نجات نہیں ملتی وہ نہ تو از روے آئین اپنی اکثریت کے صوبوں میں برسر اقتدار آسکیں گے، نہ آگے چل کر ایک آزاد اسلامی ریاست کی تشکیل میں ان کی کوئی کوشش کامیاب ہوگی۔ یونینسٹ سیاست کا اثر ایک زہر کی طرح اسلامی پنجاب کے جسد ملی میں پھیل رہا ہے اور منجملہ ان رکاوٹوں کے اس متحدہ محاذ کے قیام میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ جس سے متحدہ قومیت کے اس سیلاب کو روکنا منظور تھا جو مسلمانوں کی جداگانہ قومیت اور ملی تشخص کے خلاف بڑھتا چلا آرہا تھا۔ بغیر اس کے وہ حکومت اور کانگریس سے اپنے مطالبات منوا سکتے تھے، نہ ان کے لیے حصول اقتدار کو کوئی صورت تھی، نہ آزاد اور باوقار زندگی کا امکان۔ لہٰذا باوجود شدید علالت کے حضرت علامہ نے اپنی تمام تر توجہ اس اَمر پر مرتکز کردی کہ جس طرح بھی بن پڑے یونینسٹ پارٹی کا زور توڑ دیا جائے۔ حضرت علامہ اس پارٹی کو اسی وقت سے مسلمانوں کے خلاف ایک سازش تصور کرتے تھے جب میاں سر فضل حسین نے مانٹیگو-چیمز فرڈ اصلاحات کے نفاذ (۱۹۲۰) پر اس کی داغ بیل ڈالی۔ لیکن یونینسٹ پارٹی کو زمام اقتدار ہاتھ میں لیے ۱۷-۱۸ برس گزر چکے تھے۔ اسے اپنے اندرونی استحکام اور طاقت کا گھمنڈ تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ایک مرد بیمار سے جو کب کا صاحب فراش ہے اسے کیا خطرہ ہوسکتا ہے۔ بایں ہمہ اس کے ارکان، امرا و وزرا، بلکہ بڑے بڑے زمیندار اور سرمایہ دار جن میں خطاب یافتہ اور کرسی نشین حضرات بھی شامل تھے اندرونی طور پر ان سے خائف رہتے۔ وہ عیادت کے پردے میں حضرت علامہ سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے، کچھ جاسوسی فرما لیتے، کچھ اطلاع رسانی، بلکہ اپنی طرف سے کچھ اس طرح کا انتباہ بھی کہ پارٹی اپنی جگہ پر بڑی مضبوط ہے۔ گو ان سب باتوں کے باوجود حضرت علامہ کو یقین ہو چلا تھا کہ اندرونی طور پر اس میں کوئی جان نہیں ہے۔ مسلمانوں نے ذرا بھی ہمت کی تو اس کی موت واقع ہوجائے گی۔ حضرت علامہ کے نزدیک اس کا ایک اور سب سے بڑا ذریعہ منجملہ دوسرے ذرائع کے یہ بھی تھا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس لاہور میں منعقد ہو۔ چنانچہ اربابِ لیگ، بالخصوص قائداعظم سے گفتگوؤں میں وہ اس کی تجویز بھی کرچکے تھے۔ جون ۱۹۳۷ء ہی میں انھوں نے قائداعظم کو ایک خط میں مشورہ دیا تھا کہ بہتر ہوگا آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس اسلامی اقلیت کے کسی صوبے کی بجاے پنجاب میں منعقد کیا جائے۔ ۱۱؍اگست کو پھر ایک مراسلے میں اسی خواہش کا اظہار کیا۔ اکتوبر۱۹۳۷ء میں جب لیگ کا اجلاس لکھنؤ میں منعقد ہوا تو اس کے چند دنوں بعد ۳۰؍اکتوبر کو بھی باصرار قائداعظم کو لکھا کہ لیگ کا اجلاس لاہور ہی میں منعقد ہونا چاہیے، بلکہ مناسب ہوگا کہ اس سے پہلے آپ کم از کم دو ہفتوں کے لیے پنجاب کا دورہ بھی کریں۔ ۱۰؍نومبر کو یونینسٹ پارٹی کی شکایت کرتے ہوئے لکھتے ہیں ان لوگوں کی کوشش ہے کہ لاہور میں لیگ کا اجلاس فروری (۱۹۳۸ئ) کی بجاے اپریل میں منعقد ہو۔ اس دوران میں یونینسٹ پارٹی بظاہر لیگ میں شامل ہوچکی تھی اور یہ بھی طے پاگیا تھا کہ لیگ کا آیندہ اجلاس لاہور میں ہوگا۔ یہاں پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت علامہ اس بات پر کیوں مصر تھے کہ لیگ کا اجلاس لاہور میں منعقد ہونا چاہیے۔ اس کا ایک جواب تو وہی ہے جس کا ذکر اوپر آچکا ہے کہ مسلمان اگر ہندوؤں سے الگ اپنا کوئی سیاسی نصب العین متعین کرچکے ہیں تو اس میں کامیابی کی یہی صورت ہے کہ اسلامی اکثریت کے صوبوں میں بیداری پیدا کی جائے۔ اقلیت کے صوبوں میں تو کام کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان میں بیداری پیدا ہوچکی ہے۔ لہٰذا تقاضائے سیاست بھی یہ ہے کہ اکثریت کے صوبوں میں جو مفاد پرست جماعتیں اسلامی سیاست کا نقاب اوڑھے مسلمانوں کو گمراہ کررہی ہیں ان کا زور توڑ دیا جائے۔ مزید وضاحت خود حضرت علامہ کے خطوط (بنام قائداعظم) سے ہوجائے گی۔ ایک خط میں ارشاد ہوتا ہے لیگ کا اجلاس لاہور میں ہوا تو پنجاب میں سیاسی بیداری پھیلنے کی پختہ توقع ہے۔ پھر فرماتے ہیں یہ ایک انقلاب انگیز موڑ ہوگا۔ ہم عوام کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ مسلم لیگ اور شہید گنج کی تحریک کا بہترین مفاد اس اَمر کا متقاضی ہے کہ لیگ کا اجلاس لاہور میں منعقد ہو۔ بالآخر ۲؍مارچ کو قائداعظم نے حضرت علامہ سے استفسار فرمایا کہ لیگ کا اجلاس خصوصی کیا لاہور میں منعقد کیا جائے؟ حضرت علامہ نے قائداعظم کی اس تجویز کا دل سے خیرمقدم کیا اور جواباً لکھوایا کہ ایسٹر کی تعطیلات اس اجلاس کے لیے نہایت موزوں رہیں گی۔ ادھر یونینسٹ پارٹی اور بالخصوص سرسکندر اس اَمر کے شدت سے مخالف تھے کہ لیگ کااجلاس لاہور میں منعقد ہو۔ انھیں ایک نئی زمیندارہ لیگ کو مستحکم کرنے کی فکر تھی۔ وہ بجاطور پر خائف تھے کہ لیگ کا اجلاس لاہور میں منعقد ہوا تو ان کے حق میں اچھا نہ ہوگا۔ مگر یونینسٹ پارٹی تو بظاہر لیگ میں بھی شامل ہوچکی تھی اور نواب شاہ نواز ممدوٹ نام نہاد پنجاب مسلم لیگ کے عہدہ صدارت پر متمکن تھے۔ انھوں نے سرسکندر کے ایما پر قائداعظم کو خط لکھا کہ مسلم لیگ کے اجلاس کا لاہور میں منعقد ہونا کسی لحاظ سے بھی قرین مصلحت نہیں۔ ایک کے بعد دوسرا عذر پیش کیا، حالانکہ فی الحقیقت ان کی کوئی اصلیت نہیں تھی۔ لہٰذا ۲۰؍مارچ کو مسلم لیگ کونسل کے اجلاس دہلی میں جب قائداعظم سے دریافت کیا گیا کہ لیگ کا اجلاس کیا لاہور میں منعقد ہوگا، حضرت علامہ ان کی اس تجویز کا خیرمقدم کرچکے ہیں تو انھوں نے مسکرا کر نواب صاحب کا خط سامنے رکھ دیا۔ گویا پنجاب مسلم لیگ نے جب آل انڈیا مسلم لیگ کو اس قسم کی کوئی دعوت ہی نہیں دی، بلکہ اس سے اظہار اختلاف کیا ہے تو آئینی طور پر فیصلہ ہوگیا کہ لیگ کا اجلاس لاہور میں منعقد نہیں ہوسکتا۔ صوبائی مسلم لیگ قائداعظم کے استفسار کا جواب نفی میں دے چکی ہے۔ حاصل کلام یہ کہ لیگ کا اجلاس باوجود حضرت علامہ کے اصرار اور زبردست خواہش کے لاہور میں منعقد نہ ہوسکا۔ ہوا تو حضرت علامہ کی وفات کے بعد ۱۹۴۰ء میں، یعنی دو برس آگے چل کر جب قائداعظم کی صدارت میں قرارداد پاکستان منظور کی گئی۔ رحمہما اللہ تعالیٰ ۷- نفسیات انتظار… متن ص۳۴ فرمایا انتظار کی نفسیات دو گونہ ہے۔ ایک کا سرچشمہ ہے ہمارا یہ عقیدہ کہ ہمیں حالات پر کوئی اختیار نہیں۔ ہم ان کے سامنے بے بس ہیں۔ ہم نہیں جانتے ان کے اندر کوئی اُصول بھی کارفرما ہے، یا نہیں۔ لہٰذا ہم کچھ بھی کریں، ہماری کوششوں سے انفرادی ہوں، یا اجتماعی کوئی نتیجہ مترتب نہیں ہوگا۔ حالات جوں کے توں قائم رہیں گے۔ ہمارا علم اور فہم، ہمارا ایمان و یقین، ہماری عقل و دانش، ہماری تدابیر، عمل اور جدوجہد، فراست اور دور اندیشی سب لاحاصل ہیں، بلکہ خود فریبی۔ ہم اپنی رہبری کے اہل ہیں، نہ اصلاح احوال کے۔ ہم کچھ بھی کریں ہماری سعی رائیگاں جائے گی۔ ہماری تقدیر اور ہمارا مستقبل مرد منتظر سے وابستہ ہے اور مرد منتظر کا انتظار لازم۔ اس کا ظہور ہوگا تو اسی کی رہبری میں ہم پھر اس مقام پر آجائیں گے جہاں کبھی تھے، یا جس سے ہماری ابتدا ہوئی تھی۔ یہ ہوا تو ہمارا زوال اور نکبت، ہماری محرومی اور دلگیری عروج اور کامرانی، مسرت اور اطمینان سے بدل جائے گا۔ مرد منتظر متبوع ہے، ہم تابع وہ صاحب اختیار ہے، حالات کو بدل سکتا ہے۔ ہم بے بس، وہ زمانے پر متصرف، ہم اس کا شکار۔ اس انتظار کا لازمی نتیجہ ہے کشاکش حیات سے گریز، فرار اور تعطل، شکست خوردگی۔ ایک یہ نفسیات ہے۔ اس نفسیات کی روح خالصاً مجوسی ہے جس نے یہ تدریج ایک خاص شکل اختیار کی۔ نیٹشے کا معاملہ اس سے جداگانہ ہے۔ دوسری نفسیات ہے اعتماد اور توقع، یقین اور امید کی نفسیات۔ اس کا سرچشمہ ہے ہمارا یہ ایمان کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں فہم و بصیرت عطا کی ہے، قوائے علم و عمل سے سرفراز فرمایا، زندگی اور اس کی کارفرمائی کا صحیح راستہ سمجھا دیا۔ وہ اُصول و قوانین ہمارے سامنے ہیں جو ہر لحاظ سے اس میں کام کرتے ہیں۔ ہم اس کے تقاضوں سے بے خبر نہیں ہیں۔ اس کی روح اور مزاج کو پہنچانتے اور اس کے مقصود و منتہا کو سمجھتے ہیں۔ ہمارا سررشتۂ تقدیر ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ہم بے بس نہیں ہیں، ہم میں اتنی قدرت ہے کہ حالات کو بدل سکیں مگر عزم و ہمت کے ساتھ اور بشرط صبر و استقامت۔ ہم اگر سمجھ لیں ہمارے فرائض اور ذمہ داریاں کیا ہیں تو ہمارے اندر خود ہی اس قیادت اور رہنمائی کے تقاضے اُبھریں گے جس کے ہم آرزومند ہیں اور جس میں توفیق الٰہی بھی شامل حال ہوگی۔ یوں بفحوائے اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ ہمارے دل و دماغ میں ایک ایسی تبدیلی پیدا ہوگی جس سے وہ جدوجہد آسان ہوجائے گی جو اندریں صورت ناگزیر ہے۔ یہ ہوگا تو کامیابی ہمارا منہ چومے گی۔ وہ حالات اور وہ افراد پیدا ہوں گے جن کی ہمیں آرزو ہے۔ وہ رہبری میسر آئے گی اور وہ رہبر اور رہنما بھی مل جائیں گے جن سے ہمارے مقاصد اور نصب العین وابستہ ہیں۔ ارشاد ہوا اس کی مثال یوں سمجھیے جیسے ایک کسان شبانہ روز محنت کرتا، سختیاں جھیلتا، ہر مشکل کا مردانہ وار مقابلہ کرتا اور یوں اپنی کھیتی کو اپنے خون جگر سے سینچتے بااطمینان منتظر رہتا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب اس کی محنت کا ثمرہ اس کے سامنے ہوگا۔ یہ بھی انتظار کی ایک کیفیت ہے، اعتماد، توقع اور یقین سے معمور۔ حضرت علامہ یہ فرما رہے تھے اور انتظار اور عدم انتظار کی اس بحث کے پیشِ نظر جو اسلام میں مجوسی تصورات کی درآمد سے پیدا ہوئی لیکن جس کی حقیقت کو بہت کم لوگ سمجھے میرا ذہن حضرت علامہ کے ان اشعار کی طرف منتقل ہوگیا: قوموں کی حیات ان کے تخیل پہ ہے موقوف یہ ذوق سکھاتا ہے ادب مرغ چمن کو مجذوب فرنگی نے بانداز فرنگی مہدی کے تخیل سے کیا زندہ وطن کو اے وہ کہ تو مہدی کے تخیل سے ہے بیزار نومید نہ کر آہوئے مشکیں سے ختن کو بات آگے نہیں بڑھی۔ فرمایا انتظار کی مجوسی نفسیات نے بھی رفتہ رفتہ اور امتداد زمانہ کے ساتھ ایک خاص شکل اختیار کی۔ زوال پذیر قوموں کو اس میں امید اور تسلی کی ایک جھلک نظر آئی۔ ہمیں معلوم ہے قید بابل میں یہود اس طرزِ خیال سے بالخصوص متاثر ہوئے۔ انھیں داؤد نبی (علیہ السلام) کے پھر سے ظہور کا جس طرح انتظار رہا اس کو سب جانتے ہیں۔ یہود سے یہ خیال عیسائیوں میں پہنچا۔ مسیح علیہ السلام پھر دنیا میں آئیں گے۔ Millenium (الفی) کہ ان کا ظہور ایک ہزار سال کے بعد ہوگا عیسائی دنیا کا عام عقیدہ تھا۔ ارشاد ہوا ممکن ہے آج بھی ان کا کوئی فرقہ مسیح کی آمدِ ثانی کا قائل ہو۔ تحقیق کرنی چاہیے۔ ۸- چولستان… متن ص۳۷۷ چولستان یا دوسرے لفظوں میں صحرائے بہاولپور جس کا سلسلہ بالآخر راجستھان سے جاملتا ہے کسی زمانے میں بڑا آباد اور زرخیز علاقہ تھا۔ ۰۰۰,۱۳ ہزار مربع میلوں پر مشتمل۔ یہاں کبھی دریائے (گھاگرہ؟) بہتا تھا اور اس سارے علاقے کو سیراب کرتے ہوئے دریائے سندھ میں جاگرتا۔ کسی زمانے میں یہاں بڑے بڑے شہر اور بستیاں آباد ہوں گی۔ زراعت وسیع پیمانے پر ہوتی ہوگی اور شاید گلہ بانی بھی۔ کہیں کہیں ٹیلے، کھنڈر اور مٹے ہوئے آبادیوں کے نشانات اب بھی ملتے ہیں۔ علاوہ ازیں کچھ مینار بھی ہیں، جن میں ایک بالخصوص قابلِ ذکر ہے۔ خیال یہ ہے کہ سنہ عیسوی کے آغاز میں یہاں کوئی بہت بڑا شہر آباد تھا۔ کھدائی ہو تو شاید اس کی زمین میں دبی ہوئی عمارتیں برآمد ہوجائیں۔ چولستان آباد نہیں ہوسکا۔ حضرت علامہ اکثر اس عظیم خطے کی طرف اشارہ فرماتے۔ ارشاد ہوتا۔ جغرافی، نسلی، تاریخی، تمدنی ہر لحاظ سے اس علاقے کا مطالعہ بغایت ضروری ہے۔ برطانوی عہد میں تو اس کی آبادی کا امکان ہی نہیں تھا، نہ ریاست اس عظیم منصوبے کی اہل تھی۔ حال میں البتہ کچھ کوششیں کی گئیں جو ناکام رہیں۔ معلوم نہیںکیوں۔ ۹- میثاقِ مدینہ… متن ص۲۱۴ ڈاکٹر حمیداللہ کا بجا طور پر خیال ہے کہ میثاقِ مدینہ دنیا کا پہلا تحریری دستور ہے۔ دستور ائینیہ (Constitution of Athens) کا زمانہ بے شک اس سے کئی صدیاں متقدم ہے، لیکن وہ کوئی باقاعدہ قانونی دستاویز نہیں، نہ اس میں وہ خیال کام کررہا ہے جس کا تقاضا ہے کہ اگر ریاست وجود میں آگئی تو اس کے لیے ایک دستور کی موجودگی بھی ضروری ہے۔ دستور ائینیہ براے نام ہی دستور ہے۔ لیکن حقیقت میں ان قواعد و ضوابط کا مجموعہ جو رفتہ رفتہ رسماً قائم ہوتے گئے۔ یہ نہیں کہ اس کی بنا کسی مستقل اُصولِ سیاست، یا نصب العین پر ہو۔ برعکس اس کے میثاقِ مدینہ ایک باقاعدہ قانونی دستاویز ہے جس کی ایک اساس ہے اور ایک واضح نصب العین۔ لہٰذا بلاخوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح اسلام نے سب سے پہلے وہ نظام عمران و اجتماع قائم کیا، اس ہیئت مدنی کی بنا ڈالی اور اس ریاست کی تاسیس کی جس سے بحیثیت ایک عالمگیر معاشرے کے نوعِ انسانی کا حفظ و استحکام وابستہ ہے اور جو اس کے مادی اخلاقی مفاد اور امن و اتحاد کا ضامن ہے، مختصراً یہ کہ جس نے اس کی تقدیر اور مستقبل کو سمجھا اور اسے اس کے صحیح راستے پر ڈال دیا، بعینہٖ اسلام ہی نے سب سے پہلے عالم انسانی کو دستور کے تصور سے آشنا کیا۔ اسلام ہی نے یہ نکتہ سمجھایا کہ ریاست کے لیے دستور کی موجودگی ناگزیر ہے۔ ریاست اور دستور لازم و ملزوم ہیں۔ میثاقِ مدینہ ایک تحریری دستور ہے اس لیے کہ اس دستور کا تعلق جس ریاست سے ہے اس کی ایک مستقل اساس اور نصب العین تھا۔ لہٰذا اس ریاست کا دستور تحریری ہی ہوسکتا تھا۔ یہ ممکن نہیں تھا کہ ان ریاستوں کی طرح جن کا دستور غیر تحریری ہے اسے محض اس بنا پر قلم بند نہ کیا جاتا کہ لوگ بہرحال سمجھتے ہیں ریاست کا آئین و قانون کیا ہے۔ پھر اس دستور کا اس لیے بھی قلم بند ہونا ضروری تھا کہ مدینہ منورہ کی شہری ریاست میں صرف مسلمان ہی نہیں غیر مسلم، یعنی یہود بھی آباد تھے۔ لہٰذا اس بات کی وضاحت ضروری تھی کہ بہ لحاظ اایک شہری کے ان کی حیثیت اس ریاست میں کیا ہے، ان کے حقوق کیا ہیں، فرائض اور ذمہ داریاں کیا۔ میثاقِ مدینہ بظاہر دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک مہاجرین و انصار اور ان کے رفقا یعنی جملہ مسلمانوں سے متعلق، دوسرا غیر مسلمانوں بالفاظِ دیگر یہود سے۔ مگر حقیقت میں یہ ایک ہی دستاویز ہے، ۵۴ دفعات پر مشتمل۔ ہر دفعہ اپنی جگہ پر واضح اور اس کا تعلق جس بات سے ہے اس کی صراحت کم سے کم الفاظ میں اس خوبی سے کردی گئی ہے کہ کہیں کوئی اشتباہ باقی نہیں رہتا۔ افسوس ہے مسلمانوں نے اس دستاویز پر بہت کم توجہ کی۔ بس ایک سرسری بیان پر اکتفا کرلیا جس سے عام طور پر یہ غلط فہمی پیدا ہو گئی، بلکہ پیدا کردی گئی کہ یہ ایک وقتی معاملہ تھا جو پیش آیا اور ختم ہوگیا۔ یہ نہیں دیکھا کہ اسلام کی اس واحد اور اولین ریاست کی تاسیس میں جسے حضور رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جیسا کہ منشائے الٰہی تھا اپنے ہاتھوں قائم فرمایا اور جس کی ہیئت، اُصول اور منہاج میں فرق آیا تو خلافت راشدہ کے انتزاع پر کیا روح کارفرما تھی۔ اس سے مقصود کیا تھا اور وہ کیا راستہ تھا جو اسلامی ریاست، یا دوسرے لفظوں میں اسلامی نظام مدنیت کے مزید نشوونما، توسیع اور ترقی کے لیے تجویز ہوا۔ مستشرقین نے البتہ اس سے بالخصوص بحث کی ہے۔ ان میں بیشتر یہود ہیں۔ یوں بھی مستشرقین کی جماعت زیادہ تر یہود ہی پر مشتمل ہے۔ ہمیں ان کی تنقید سے اتفاق نہیں، لیکن ہم نے خود بھی تو اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا، نہ کوئی علمی کاوش، نہ تحقیق و تدقیق۔ لے دے کے ایک ڈاکٹر حمیداللہ ہیں جنھوں نے اس موضوع پر قلم اُٹھایا اور ہماری توجہ وثائق نبویہ ایسی نہایت درجہ اہم دستاویزوں کی طرف منعطف کردی۔ بہرحال یہاں راقم الحروف کے نزدیک توجہ طلب مسئلہ اس دستاویز کا سیاسی اور آئینی پہلو نہیں ہے۔ توجہ طلب مسئلہ وہ ہے جو ۱۹۳۸ء میں اسلامی قومیت کی بحث میں حضرت علامہ اور مولانا حسین احمد کے درمیان باعث نزاع رہا۔ ہمیں معلوم ہے اس باب میں مولانا حسین احمد کا موقف غلط تھا، سرتاسر غلط۔ علی ہٰذا یہ کہ حضرت علامہ کا وہ بیان جو مولانا کے ارشادات کے جواب میں روزنامہ احسان لاہور میں شائع ہوا ایک قول فیصل کا حکم رکھتا ہے۔ حضرت علامہ جب اس بیان کی تیاری میں مصروف تھے تو جیسا کہ راقم الحروف متن میں عرض کرآیا ہے اکثر دریافت فرماتے، مولانا اور ان کے مؤیدین کی طرف سے کوئی اور بیان شائع ہوا یا نہیں؟ ہوا تو اس کا مضمون کیا ہے؟ ایک روز انھیں باتوں میں میثاقِ مدینہ کا ذکر آگیا۔ حضرت علامہ پہلے بھی اس کی طرف اشارہ کرچکے تھے (دیکھیے اسلام اور احمدیت)۔ فرمایا یہ ایک بیش قیمت قانونی دستاویز ہے، میں اس کی نقل حاصل کرلوں۔ نقل حاصل کرلی اور حضرت علامہ نے اسے ملاحظہ فرمایا تو ارشاد ہوا مولانا ایک بڑی غلط اور لاطائل بحث میں اُلجھے ہیں۔ لغت اور جدید تصورات کا سہارا لے رہے ہیں۔ سوال لغت یا سیاست حاضرہ کے تصورات کا نہیں، سوال یہ ہے کہ اسلام میں قومیت کا تصور کیا ہے۔ اس کی اساس کیا ہے اور نصب العین کیا؟ مولانا کو چاہیے تھا اس ساری بحث کا مدار جو بلاوجہ طول کھنچ رہی ہے اور جس پر اُصولاً گفتگو بھی ہوچکی ہے میثاقِ مدینہ پر رکھتے۔ راقم الحروف حضرت علامہ کے اس ارشاد کی طرف پہلے بھی اشارہ کرآیا ہے جس کی مزید وضاحت ذیل کی معروضات سے ہوجائے گی۔ راقم الحروف کا خیال ہے یہ معروضات بے محل اور نامناسب نہیںہیں، بلکہ شاید ضروری۔ ۱- اگر اسلام بنائے قومیت ہے، اگر اسلام ایک نظام مدنیت، ایک ہیئت اجتماعیہ، ایک طریقِ زندگی، ایک دعوت اور تحریک ہے، جیسا کہ یقینا ہے تو لازماً ایک ریاست بھی۔ لہٰذا مسلمان بھی انھیں معنوں میں ایک اُمت جن میں کسی سیاسی اجتماع کو آج کل اُمت یا قوم سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے اس قومیت میں کسی دوسری قومیت کا پیوند لگ سکتا ہے، نہ باعتبار نصب العین اس میں یا اس کے پہلو بہ پہلو کسی دوسرے نصب العین کی آمیزش کا امکان ہے، یوں بھی قوم، کوئی بھی ہو جب ہی قوم ہے جب اس کا کوئی مابہ الامتیاز ہو، جب اس کا وجود بمقابلہ دوسری قوموں کے الگ ہو۔ سیاسی، اجتماعی، اخلاقی ہر اعتبار سے الگ۔ یہ ہوگا تو اس کا کوئی جداگانہ تشخص بھی ہوگا۔ ۲- میثاقِ مدینہ کی رُو سے یہ اُمت (یا قوم) اپنی ترکیب میں یگانہ اور دوسری اقوام و امم سے مختلف، لہٰذا سارے انسانوں سے الگ تھلگ ایک اُمت ہے، ’اُمَّۃٌ وَّاحِدَۃٌ مِنْ دُوْنِ النَّاسِ‘ اندریں صورت سوال پیدا ہوتا ہے کہ بمقابلہ دوسری امتوں کے اس کا مابہ الامتیاز کیا ہے؟ ۳- اس کا جواب یہ ہے کہ ’مِنْ دُوْنِ النَّاسِ‘ نے اُمتِ اسلامیہ اور دوسری امتوں، یا اُمت اور اُمت سے باہر باقی سب انسانوں کے درمیان جو خط فاضل کھیچ دیا ہے کسی نسلی، جغرافی، مذہبی اور طبقاتی بنا پر نہیں، بلکہ اس مخصوص نقطۂ نظر اور مخصوص نصب العین کی بنا پر جو اسلام نے نوعِ انسانی، اس کی تقدیر اور مستقبل کے بارے میں قائم کیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’کنتم خیرامۃ اخرجت لناس‘ تم بہترین اُمت ہو جسے انسانوں کے لیے پیدا کیا گیا۔ اُمتِ اسلامیہ گویا انسانوں کے اندر، انسانوں کے لیے، انسانوں ہی کی ایک اُمت ہے جسے یہ گوارا ہی نہیں کہ انسانوں میں بحیثیت انسان کوئی تفریق و امتیاز پیدا کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اس اُمت کی تخلیق میں اسلام کا خطاب ساری نوعِ انسانی سے ہے اور ہونا چاہیے بھی۔ اس لیے کہ اس کی تخلیق ایک حقیقت اور ایک مقصد کے پیشِ نظر ہوئی۔ حقیقت ہے سارے انسانوں کا ایک اُمت ہونا کان الناس امۃ واحدہ، (گو سرِدست اقوام و امم اور طبقات میں بٹے ہوئے)۔ مقصد انسان اس کی تقدیر اور اس کے مستقبل کا حصول۔ لہٰذا اگر اُمتِ اسلامیہ نے بظاہر اپنے آپ کو دوسری امتوں، یا یوں کہیے کہ انسانوں سے الگ کرلیا (مِنْ دُوْنِ النَّاسِ) تاکہ بفحوائے لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا، ان کے شرف ذات اور مقصود و منتہا کے حصول کا راستہ صحت سے متعین ہوجائے تو اس کے باوجود اس کی عالمگیر حیثیت میں کوئی فرق نہیں آتا۔ وہ انسانوں ہی کی ایک اُمت ہے اور رہے گی، واحد اُمت جیسا کہ ارشاد ہوا ِِنَّ ہٰذِہٖ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُوْنِ لہٰذا بلاقید زمان و مکان اور تفریق و امتیاز ساری نوعِ انسانی پر ممتد اور اگر بالفعل نہیں تو بالقوہ اس وحدت کی ترجمان جو باعتبار وَمَا خَلْقُکُمْ وَلَا بَعْثُکُمْ اِلَّا کَنَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ اس کی فطرت میں موجود اس عالمگیر معاشرے، اس جمعیت بشری اور نظام مدنیت کی تمہید ہے جس سے ہمارا یعنی نوعِ انسانی کا مستقبل وابستہ ہے، جو اگرچہ تاہنوز محتاج تکمیل ہے، لیکن جس میں اس کا قدم روز بروز آگے بڑھ رہا ہے۔ ۴- یہی وجہ ہے کہ باوجود اپنے جداگانہ تشخص اور الگ تھلگ وجود، یعنی بحیثیت اُمت واحدہ کے نوعِ انسانی سے اس کا تعلق ہر لحاظ اور ہر پہلو سے قائم ہے۔ یہاں یہ بحث کہ شَرَعَ لَکُمْ مِنَ الدِّیْنِ سے اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ تک اسلام نے نوعِ انسانی کی اس منزل کی طرف جہاں وہ اسے لیے جارہا ہے کیسے رہنمائی کی۔ یہ بحث کہ اس مقصد کے حصول میں اس نے شعور انسانی کو کیسے بیدار کیا۔ یہ بحث کہ اسلامی معاشرے کی بنا جب ان عالمگیر اور غیر متبدل اُصولوں پر ہے جو نوعِ انسانی کے ربط و ضبط اور اتحاد و اتفاق کے ساتھ ساتھ اس کے حفظ و صیانت کے ضامن ہیں، لہٰذا اس کے مسلسل ارتقا اور نشوونما کا ذریعہ تو ان کی عملاً ترجمانی میں اس نے حیات فرد اور جماعت کو کس راستے پر ڈال دیا۔ یہ بحث کہ اس نظام اجتماع کی تاسیس کے بعد جسے ہم اسلامی ریاست سے تعبیر کرتے ہیں اُمت کے روابط دنیائے بین الاقوام، علیٰ ہٰذا ان عناصر سے جو اس کے اندر موجود ہیں، گو باعتبار ترکیب اس میں شامل نہیں کس نہج پر منضبط ہوں گے بڑی طویل اور بے محل ہوگی۔ یہاں بحث ہے تو یہ، گو اس بحث میں اُصولاً جو کچھ بھی کہا جاسکتا ہے اشارتاً اور وہ یہ کہ اسلامی ریاست کا رویہ جب ان مصالح اور قدروں کی حفاظت، لہٰذا ان مقاصد کے حصول میں جن کا تعلق ایک اعلیٰ اور برتر انسانیت کی تعمیر سے ہے صلح و آشتی، ہمدردی، خیر خواہی، اشتراک اور تعاون کا ہے تو وہ اس جدوجہد میں ان عناصر کے بارے میں جو عقیدۂ یا ازروے ترکیب اس میں شامل نہیں کیا روش اختیار کرے گی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ انھیں بطور ایک جداگانہ اُمت کے امۃ مع المومنین جیسا کہ میثاقِ مدینہ میں مذکور ہے ساتھ لیتے ہوئے آگے بڑھے گی۔ اس کا فرض ہوگا کہ ان کے مرتبۂ انسانیت، مفاد و مصالح، آزادیِ ذات اور درجۂ شہریت میں کوئی فرق نہ آئے اور یہ وہ بات ہے جس کی دنیا کا کوئی دستور قدیم ہو، یا جدید بجز اسلامی دستور ریاست کے انھیں ضمانت نہیں دے سکتا۔ اسلامی ریاست کا دست تعاون ہر اس شخص پر، اس جماعت اور ہر اس قوم کے لیے کھلا ہے جسے نوعِ انسانی کی خیر خواہی، عزت اور احترام مطلوب ہے، مگر اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے۔ اس لیے کہ اسلام نے اس باب میں جو موقف اختیار کیا اس کے سوا کوئی موقف ہی نہیں جو نوعِ انسانی کے لیے مراتب حیات میں سربلندی اور خیر و سعادت کا ذریعہ بن سکے۔ پھر یہ کوئی محدود اور مؤقت، یا ذہن انسانی کا محض عقل و فکر کے بل پر ٹھہرایا ہوا موقف نہیں بلکہ تقدیر عالم کا، اگر تقدیر عالم کوئی خام اور بے بنیاد تصور نہیں جبلی اور فطری تقاضا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی قومیت میں نہ تو باعتبار ترکیب کسی ترمیم، اضافے اور کمی کا امکان ہے، نہ باعتبار نصب العین اس میں کوئی خامی کہ اس کے باوجود کسی دوسرے نصب العین کی احتیاج باقی رہ جائے برعکس اس کے وہ ایک ہمہ گیر، جامع اور مانع، زمانے کے ساتھ بڑھتا اور پھیلتا ہوا نصب العین ہے جس کے امکانات لامحدود ہیں۔ لہٰذا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مسلمان اس موقف سے انحراف کریں جس پر ان کے حفظ و بقا کا دارومدار ہے۔ یوں بھی قوم اگر فی الواقع قوم ہے، کوئی بھی ہو اس کا تشخص اس کے موقف ہی سے قائم ہے۔ موقف ہی اس کی سیاسی اجتماعی وحدت اور حفظ و استحکام کا راز ہے۔ وہ اپنے روابط میں بھی اندرونی ہوں، یا بیرونی جو روش اختیار کرے گی بہ اعتبار اس موقف کے جس سے اس کا وجود قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں اس نے اپنے موقف سے انحراف کیا اس کی عصبیت اور عصبیت کے ساتھ جداگانہ ہستی اور تشخص کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ ۵- لہٰذا حضرت علامہ کا ارشاد تھا کہ جب اسلام ہی ریاست کی حقیقی اساس ہے، اسلام ہی معاشرے کا مقوم اور صورتگر ہے: اسلام ہی ان مقاصد کے حصول اور ان تقاضوں کی تکمیل کا واحد ذریعہ جو وقتاً فوقتاً افراد و اقوام میں اُبھرتے اور انھیں مجبور کرتے ہیں کہ ایسی تمام ناانصافیوں اور ناہمواریوں کا بہ عزم و ہمت انسداد کریں جو نوعِ انسانی کے لیے ذلت اور رسوائی کا سبب بنتی ہیں تو مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس موقف کو سمجھیں جو اسلام نے بحیثیت ایک دعوت، ایک تحریک اور نظام مدنیت کے اختیار کیا۔ وہ اس کا شعور پیدا کریں، اسے تقویت دیں ان مقاصد کے حصول اور ان تقاضوں کی تکمیل میں بھی جو سیاست ہو، یا معاش تہذیب و تمدن کی بدلتی ہوئی دنیا میں بجا طور پر اُبھر رہے، بلکہ اُبھر چکے ہیں اس روش پر کاربند ہوں جو اس موقف کے عین مطابق ہو جس پر ان کی حیاتِ ملّی اور حفظ و بقا کے ساتھ ساتھ خود اس سر زمین کی اخلاقی اجتماعی خوش حالی کا دارومدار ہے۔ یہ نہیں کہ انھیں ان مقاصد کی صحت یا تقاضوں کی موجودگی سے انکار تھا، یا وہ سمجھتے تھے کہ یہ مقاصد اور تقاضے اسلام سے الگ کوئی اور چیز ہیں جیسا کہ کانگریس کے طرف دار غلطی سے سمجھتے اور نادانستہ مسلمانوں کو ایک ایسے راستے پر ڈال رہے تھے جو انھیں ہلاکت اور بربادی کی طرف لے جاتا۔ پھر بعض علماے دین نے بھی ان کی تائید فرمائی تو معاملہ اور بھی نازک ہوگیا۔ خوش قسمتی سے اس موقع پر حضرت علامہ کی فراست ایمانی ہمارے کام آئی اور ہندی اسلامی سیاست کا رُخ اس کے حقیقی رُخ اور سمت کی طرف مڑ گیا۔ ۶- بات پھر میثاقِ مدینہ پر آجاتی ہے۔ میثاقِ مدینہ کوئی وقتی دستاویز نہیں تھی کہ باعتبار حالات بعض ایسے مسائل کے تصفیے کی کوئی صورت نکل آئے جن کا تعلق مہاجرین و انصار اور یہود مدینہ سے تھا برعکس اس کے یہ وہ دستوری دستاویز ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے از روے منصب نبوت اُمت کو عطا کی۔ ہمیں معلوم ہے اس اُمت کی تشکیل مکہ معظمہ ہی میں ہورہی تھی، بلکہ ہوچکی تھی۔ حضور رسالت مآب مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہ اُمت باقاعدہ وجود میں آگئی۔ اُمت دوسرا نام ہے ریاست کا، یا یوں کہیے کہ اُمت کی ہستی عبارت ہے ریاست سے۔ لہٰذا ریاست کی تاسیس ہوئی۔ ریاست اور دستور لازم و ملزوم ہیں۔ میثاقِ مدینہ مرتب ہوا اور جیسا کہ فریضۂ رسالت کا تقاضا تھا یہ گویا ابتدا تھی اس اَمر کی کہ آپ احکام الٰہیہ کی تعمیل میں اُمت کو از روے سیاست و اجتماع اس راستے پر ڈال دیں جو حیات فرد اور جماعت کے لیے تجویز ہوا اور جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی ریاست، اسلامی معاشرے اور اسلامی نظام مدنیت کی ہیئت و ترکیب علی ہٰذا اُصول و قانون ہمیشہ کے لیے متعین ہوگئے۔ میثاقِ مدینہ ایک کتاب ہے، یعنی ایسی تحریر جس میں دستاویز اور قانون کے مفہوم شامل ہیں۔ عنوان ہے کتاب محمد النبی صلی اللہ علیہ وسلم گو آگے چل کر کتاب کی جگہ لفظ صحیفہ بھی استعمال ہوا۔ میثاقِ مدینہ دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک مسلمانوں، دوسرا یہود سے متعلق۔ مگر یہ ہے ایک ہی دستاویز اس لیے کہ اس کے دونوں اجزا کا تعلق ایک ہی ریاست کی دستوری ہئیت سے ہے۔ راقم الحروف کو یہاں نہ تو اس کی دفعات سے بحث ہے، نہ ان مسائل سے جو آگے چل کر مؤرخین نے اس بات میں پیدا کیے اور اب بھی پیدا کیے جاسکتے ہیں۔ اسے بحث ہے تو اس اَمر سے کہ میثاقِ مدینہ کی رُو سے جب مدینہ منورہ میں ایک سیاسی وحدت قائم ہوگئی، یا شاید یہ کہنا بہتر ہوگا کہ یہ سیاسی وحدت کا اقتدار اعلیٰ تمام تر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں میں تھا۔ آپ کی ذاتی حیثیت سے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے نبی اور رسول کی حیثیت سے، یعنی بہ اعتبار احکام الٰہیہ کے حامل، شارح اور نافذ کنندہ کے۔ لہٰذا احکام الٰہیہ ہی اس اقتدار کا سرچشمہ تھے۔ پھر یہی اقتدار چونکہ حفظ نوع، اخوت و مساوات، عدل و آزادی اور حریت ذات کا ضامن، لہٰذا اتحاد انسانی کا سرچشمہ ہے اس میں بالتصریح کَہ دیا گیا کہ مسلمان ہوں یا یہود، مسلمانوں میں باہم کوئی اختلاف رونما ہوا، یا اہلِ صحیفہ، یعنی مسلمانوں اور یہود کے درمیان نزاع و جدال کی نوبت آئی تو دونوں صورتوں میں فریقین کو اللہ اور اس کے رسول سے رجوع کرنا ہوگا۔ بعینہٖ اس میثاق نے ہمیشہ کے لیے طے کردیا کہ مسلمان ایک اُمت ہیں، جدید سیاسی لغت میں ایک قوم، دوسری قوموں سے الگ باعتبار ترکیب اور باعتبار مقاصد بھی۔ حتیٰ کہ جو لوگ از روے معاہدہ ان میں شامل ہیں وہ بھی ایک دوسری قوم متصور ہوں گے۔ یہ نہیں کہ محض اشتراک وطن کی بنا پر اُمتِ اسلامیہ میں ضم ہوجائیں۔ اگر ایسا ہوتا تو اس اُصول کی نفی ہوجاتی جس کی بنا پر اُمت کی تشکیل ہوئی۔ اسلام بناے قومیت نہ رہتا۔ عام معنوں میں مذہب، یا محض عقیدہ بن کر رہ جاتا۔ لیکن اسلام تو سب کچھ ہے۔ مذہب، سیاست، اخلاق، معاشرت، تہذیب وتمدن سب کچھ، لہٰذا ایک نظام حیات ہی کی شکل میں قائم رہ سکتا ہے، ایسا نظام حیات جسے اقتدار و اختیار حاصل ہو پھر اگر یہ اختیار و اقتدار ان اُصول و قوانین پر مبنی ہے جو بلاقید زمان و مکان اور حدود نسل و وطن پر حالت میں قابلِ نفاذ و اجرا ہیں تو کون کَہ سکتا ہے کہ اسلامی ریاست کی اساس اس کی ہئیت و ترکیب، اس کے حدود اور آئین و دستور کا مسئلہ طے نہیں ہوا۔ ہنوزیہ اَمر تصفیہ طلب ہے کہ اس کی ضرورت کیوں پیش آئی، اس کا مقصد اور وظیفہ فی الحقیقت کیا ہے۔ کسے انکار ہوسکتا ہے کہ جس طرح اسلام ساری زندگی پر حاوی، ہر مرحلے اور ہر مرتبے میں اس کا سہارا ہے، بعینہٖ اسلامی ریاست کا وجود بھی ہر پہلو، ہر مرحلے اور ہر مرتبے کے لیے اپنی جگہ پر کافی ہے، نہ کسی دوسرے سرچشمۂ علم و عمل اور نظم و انضباط کا محتاج، نہ کسی سے پیچھے۔ لہٰذا مسلمان اگر فی الواقع مسلمان ہیں تو اس حقیقت سے کیسے روگردانی کرسکتے ہیں کہ اسلام بیک وقت مذہب بھی ہے اور سیاست بھی جس میں ریاست اور کلیسا کی علیحدگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لہٰذا مسلمانوں کی قومیت ہمیشہ اسلام ہی رہے گی۔ رہا اسلامی ریاست، یا اسلامی معاشرے کا، مِنْ دُوْنِ النَّاسِ، ایک وحدت ٹھہرنا سو اس ’دون الناس‘ کی بنا اس تصور پر ہے جو اسلام نے نوعِ انسانی کے اتحاد و ارتباط اور فلاح و نجات کے لیے قائم کیا۔ اسلام کبھی اس مقصد میں کامیاب نہ ہوتا جب تک اس نصب العین کی عملاً ترجمانی اور اس کی صحت اور واقعیت کا ثبوت خود ایک صداقت بن کر نہ دیتا۔ خوش بختی سے بطور ایک اُصول عمل یہ صداقت آج بھی موجود ہے اور دنیا پھر اس کی ہدایت اور رہنمائی کی منتظر۔ لہٰذا ’’مِنْ دُوْنِ النَّاسِ‘‘ بناے اتحاد ہے، بناے تفریق نہیں ہے کہ نوعِ انسانی کو متخالف اور متحارب گروہوں میں تقسیم کردے۔ لیکن جب نوعِ انسانی یا ہم دیگر مخالف اور متحارب گروہوں میں بٹ چکی ہو، جادۂ حق سے منحرف ہوجائے، طرح طرح کے باطل امتیازات اور خود ساختہ تفریقات پیدا کرلے، اس کا دل و دماغ تزکیہ طلب ہو، سیرت و کردار بے راہ تو جس اُمت نے صراط مستقیم کو پالیا اور اس پر گامزن ہے وہ انسانیت کی تعمیر ’مِنْ دُوْنِ النَّاسِ‘ ہی کی بنا پر کرے گی۔ بظاہر دنیا سے الگ مگر بہ باطن اس کے ساتھ رہتے ہوئے تاکہ جہاں کہیں کوئی گروہ بندی قائم ہے اور جیسا کہ واقعہ ہے تاہنوز اساساً غلط، اپنے اصل الاُصول پر آجائے حتیٰ کہ یہ سب گروہ بندیاں ایک واحد اور عالمگیر گروہ بندی میں ضم ہوکر اس جمعیت بشری کی شکل اختیار کرلیں جو اسلام کا مقصود ہے اور جس کے بغیر نہ شر اور فساد کا ازالہ ممکن ہے، نہ اس اَمر کا کہ نوعِ انسانی کو صلح و امن اور اتحاد و اتفاق کی نعمت میسر آئے۔ ۱۰- احمدیت، قادیانیت…متن، ص۸ ضرورۃ الامام ایک رسالہ ہے اور اس کا موضوع مرزا صاحب کا یہ دعویٰ کہ کوئی بھی زمانہ ہو امام کے وجود سے خالی نہیں رہتا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس زمانے کا بھی کوئی امام ہو۔ امام کو پہچاننا اور ماننا ہر شخص کا فرض ہے ورنہ ایمان نامکمل رہتا ہے۔ وہ اس زمانے کے امام ہیں۔ ان کی ذات معیار امامت پر پوری اترتی ہے۔ بعینہٖ اس روایت کی بنا پر کہ ہر صدی کے آغاز میں ایک مجدد کا ظہور ہوتا ہے تاکہ تجدید دین کا فریضہ ادا ہوتا رہے، انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہی اس صدی کے مجدد ہیں۔ ان کے ہاتھوں دین کی تجدید ہوئی۔ پھر ارشاد ہوا حضرت مسیح علیہ السلام فوت ہوگئے۔ نہ بجسد عنصری آسمان پر اُٹھائے گئے، نہ قیامت کے قریب آسمان سے زمین پر نازل ہوں گے۔ موعود ان کا آنا نہیں ہے بلکہ کسی ایسے انسان کا جو صفات مسیحیت سے متصف ہو۔ یہ سب صفات ان میں موجود ہیں۔ وہ گویا مثیل مسیح ہیں۔ لہٰذا مسیح موعود۔ نزول مسیح کے ساتھ گو ظہور مہدی کا ذکر بھی آیا ہے۔ لیکن مسیح اور مہدی ایک ہی شخص کے دو نام ہیں جو استعارتاً اختیار کیے گئے۔ موعود مثیل مسیح کا آنا ہے، نہ کہ مہدی کا، لہٰذا مرزا صاحب مسیح موعود بھی ہیں اور مہدی مسعود بھی۔ مسیح علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی تھے۔ مثیل مسیح کا بھی کم و بیش یہی درجہ ہونا چاہیے، بلکہ ہے۔ حقیقتاً نہ سہی مجازاً ہی سہی۔ لہٰذا مرزا صاحب بھی نبی ہیں۔ ازروے عقیدہ نبی کہ مسیح موعود کی یہی شان ہے۔ از روے وحی نبی کہ انھیں مکالمہ و مخاطبہ الٰہیہ کا شرف حاصل ہوا۔ از روے بشارات اور نشانات نبی کہ ان کی آمد کی طرح طرح سے خبر دی گئی۔ ان کے ظہور کی پیشین گوئیاں موجود ہیں، ان کے دعاوی کی تصدیق ان کے الہامات سے ہوتی ہے، ان سیاسی ، اجتماعی، جوی اور کوئی حوادث سے جو ان کی زندگی میں رونما ہوئے، ہورہے ہیں اور آیندہ بھی ہوں گے۔ وہ نبی ہیں، لغوی اور اصطلاحی ہر لحاظ سے نبی۔ امامت اور مجددیت کے دعووں سے تو خیر اسلامی ذہن مانوس تھا۔ ان سے زیادہ تعرض نہیں کیا گیا۔ لیکن نبوت کا دعویٰ کوئی معمولی دعویٰ نہیں تھا۔ اس دعوے کا اعلان ہوا تو اُمت بجا طور پر مضطرب ہوگئی۔ نبوت اور وہ بھی تیرہ سو برس کے بعد جب کہ اس کا سلسلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کہ خاتم النبیین ہیں ختم ہوگیا۔ جب کہ عقیدہ یہ ہے کہ آپ کے بعد نبوت کا ہر دعویٰ باطل اور ختم نبوت کے منافی ہے، اسلامی تعلیمات کے اساساً خلاف اور اُمت کے مقابلے میں ایک نئی اُمت کی در پردہ تمہید۔ لہٰذا اُمت نے مرزا صاحب کا دعویٰ قبول نہیں کیا۔ مرزا صاحب کے دعوؤں کا رد و ابطال ہونے لگا۔ رد و ابطال کی نوبت آئی تو جواباً کہا گیا کہ ختم نبوت کے یہ کہاں معنی ہیں کہ سلسلہ نبوت کلیتاً منقطع ہوگیا ہے۔ نبوت تو ایک انعام ہے۔ انعامات الٰہیہ کا سلسلۂ کسیے منقطع ہوسکتا ہے۔ اس کی روح ہے وحی و الہام، مکالمہ و مخاطبہ الٰہیہ۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی سنت ہے اور سنت الٰہیہ کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ لہٰذا باب نبوت وا ہے، مسدود نہیں ہے جیسا کہ غلطی سے سمجھ لیا گیا۔ رہا عقیدۂ ختم نبوت سو اول تو یہ ثابت نہیں کہ اس عقیدے کو اگر فی الواقع یہ کوئی عقیدہ ہے عقیدے کی حیثیت حاصل تھی۔ فرض کیجیے تھی اور ہے تو جب بھی اس کے معنی وہ نہیں جس پر ان کے مخالف زور دے رہے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ منصب نبوت پر حضور رسالت مآب جناب محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مہر لگ چکی ہے۔ آپ نبیوں کی مہر ہیں۔ آخری نبی نہیں ہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہ آئے۔ پھر قطعِ نظر اس اَمر سے کہ آپ سے پہلے جو انبیا معبوث ہوئے ان کی نبوت پر بھی آپ کی مہر ثبت تھی یا نہیں۔ گو قرائن تو یہی کہتے ہیں کہ نہیں تھی اس لیے کہ مہر کی ضرورت پیش آتی ہے تو کسی چیز کے اختتام پر، لہٰذا اس کا سلسلہ بھی انھیں ہاتھوں پر ختم ہوجاتا ہے جن میں مہر ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ نبیوں کی مہر ہی سہی، آپ کے بعد جو نبی آئے گا اس کی نبوت پر آپ کی مہر کیسے لگے گی؟ یوں کہ آنے والا نبی آپ ہی کی اُمت سے ہوگا۔ آپ ہی سے کسب فیض کرے گا۔ اس کی نبوت آپ ہی کی نبوت کا پر تو ہوگی۔ وہ آپ ہی کی لائی ہوئی شریعت کی پیروی کرے گا۔ لہٰذا خاتمہ ہوا تو تشریعی، نہ کہ غیر تشریعی نبوت کا۔ یوں نبوت کی ایک خاص شکل کا جواز پیدا ہوا تو اس کی تائید میں نئی نئی اصطلاحیں وضع کی گئیں: ’مثلاً افاضۂ ’محمدیہ‘ ظل اور بروز لہٰذا ظلی اور بروزی نبوت کے تصورات قائم ہوئے۔ انبیائے بنی اسرائیل کا حوالہ دیا گیا۔ انبیائے بنی اسرائیل سب اپنی اپنی جگہ پر نبی تھے۔ لیکن سب شریعت موسوی کے پابند، سب موسیٰ علیہ السلام کی اُمت۔ ارشاد ہوا کیا حدیث میں نہیں آیا کہ میری اُمت کے علما کی مثال وہی ہے جو انبیائے بنی اسرائیل کی۔ کیا محدث کو کہ اللہ تعالیٰ اس سے ہم کلام ہوتا ہے نبی نہیں کہا گیا؟ مگر پھر نبوت خواہ اس کی نوعیت کچھ بھی ہو نبوت ہے اور نبی امتی ہو یا غیر امتی، ظلی اور بروزی، تشریعی یا غیر تشریعی بہرحال نبی۔ لہٰذا باعتبار منصب صف انبیا میں شامل۔ اس کا انکار سب انبیا کا انکار ہے۔ منکر نبوت کافر ہے۔ مرزا صاحب نبی ہیں تو ان کا منکر بھی کافر ٹھہرا۔ اُمت انکار کرتی ہے تو وہ بھی دائرۂ اسلام سے خارج ہوتی ہے۔ اب اس منطق سے اگر یہ منطق غلط نہیں دو نتائج مترتب ہوتے ہیں۔ دونوں نہایت اہم اور اسلام اور اُمت دونوں کے لیے فیصلہ کن۔ ایک تو یہ کہ جس طرح اسلام عبارت ہے احمدیت سے اور دوسرا یہ کہ بعینہٖ اُمت عبارت ہے جماعتِ احمدیہ سے جس کا مرکز اب مرزا صاحب ہی کی ذات ہے ہم ان کی اطاعت پر شرعاً مکلف ہیں۔ یہ اس لیے کہ احکامِ شریعت ہوں، یا کتاب و سنت کی ترجمانی اب اس کی وہی تعبیر قابلِ قبول ہوگی جو مرزا صاحب فرمائیں۔ فقہی اجتہادات بھی انھیں کے اجتہادات ہیں۔ یہ سلسلۂ استدلال و استشہاد آگے بڑھا اور اسلام ہر جہت اور ہر پہلو سے احمدیت میں محدود ہوکر رہ گیا تو مرزا صاحب اور مرزا صاحب کے متبعین اُمت سے دور ہوتے چلے گئے۔ دور ہوتے چلے گئے تو ایک نئی جماعت بندی اور نئی تنظیم ناگزیر ٹھہری۔ یہ تنظیم وجود میں آئی تو جماعتِ احمدیہ کا رشتہ اُمت سے کٹ گیا۔ اسلام اور کفر کی تعریف ایک نئے انداز میں ہونے لگی۔ اسلام جیسا کہ ۱۳ سو برس سے لوگ سمجھتے چلے آرہے تھے اور خود مرزا صاحب بھی ویسے ہی سمجھتے تھے، اس اسلام اور احمدیت کے درمیان ایک خط فاصل کھنچتا چلا گیا۔ یوں رفتہ رفتہ ایک نظام عقاید متشکل ہوا اور احمدیت کے نام پر ایک ایسی تحریک اُٹھائی گئی جو ہر میدان اور ہر معاملے میں اُمت کی حریف ٹھہری۔ یہ صورتِ حالات پیدا ہوئی تو جیسا کہ مرزا صاحب کے دعاوی اور احمدیت کے نام پر ایک نئی جماعت بندی کا تقاضا تھا بجا طور پر کہا گیا کہ اس اَمر کا ہمیشہ کے لیے فیصلہ ہوجانا چاہے کہ جماعتِ احمدیہ کیا اُمت کا جز ہے، یا اُمت سے باہر ایک نئی امت؟ ہے تو اُمت سے قطع تعلق، ترک روابط، بیدردی اور بے رخی کیوں؟ اگر اُمت کا جز نہیں تو کیوں نہیں اس کا اعلان کردیا جاتا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جماعتِ احمدیہ اُمت سے الگ بھی رہے اور اس میں شامل بھی۔ اُمت کی اساس تو رسالت محمدیہ پر ہے۔ اگر یہ اساس بجاے خود ناکافی ہے اور اُمت کا اطلاق صرف جماعتِ احمدیہ پر ہوتا ہے تو ختم نبوت کی وہ تاویل جو مرزا صاحب نے فرمائی غلط ٹھہرے گی۔ یہ تاویل اس اساس کے منافی ہے جس پر اُمت کا وجود قائم ہے۔ پھر جب اسلام کی بنا کلمہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر ہے تو مرزا صاحب کی نبوت اور ان کے دعاوی کی تصدیق ایک اَمر زائد ہے جس کی از روے شریعت کوئی سند ہے، نہ جواز۔ یہ تو خیر اُصولی باتیں تھیں اور رفتہ رفتہ اُمت کے سامنے آئیں۔ اس لیے کہ احمدیت کا نشوونما بھی رفتہ رفتہ ہوا، کچھ مرزا صاحب کی زندگی میں اور کچھ ان کے بعد۔ لیکن اس کی اُٹھان ہی اس طرح ہوئی تھی کہ اُمت دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی اور بحث و نزاع کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا جو بعض صورتوں میں بڑا غیر ضروری تھا، بلکہ اصل بحث سے ہٹا ہوا۔ بحث یہ تھی کہ جماعتِ احمدیہ نے کیا باعتبار عقیدہ اور کیا باعتبار عمل جو روش اختیار کررکھی ہے اس سے اُمت میں تفریق و انتشار رونما ہے، باہم آویزش اور تصادم کا خطرہ ہے۔ لہٰذا جماعتِ احمدیہ اور اُمت میں جو مسئلہ مابہ النزاع ہے اس کا کوئی قطعی اور آخری فیصلہ ہوجانا چاہیے۔ مگر یہ سیدھا سادا سوال کئی ایک سوالوں میں اُلجھ کر رہ گیا جس کی ایک وجہ تھی اُمت کی صلح جوئی، دوسری جماعتِ احمدیہ کے ذہنی معہود کہ کوئی بات صاف صاف نہ کہے برعکس اس کے موقع ہو، یا نہ ہو تعبیر و تاویل، بلکہ تاویل در تاویل سے کام لے کہی۔ لہٰذا اس سوال کا کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا، نہ شاید کبھی مل سکے۔ اس لیے کہ جماعتِ احمدیہ نے اگرچہ اعتراض کا جواب اعتراض اور الزام کا الزام سے دیا، مگر کھل کر کچھ بھی نہیں کہا۔ اثبات ہے تو نفی اور نفی ہے تو اثبات کے ساتھ لہٰذا نتیجہ یہ کہ نصف صدی سے زیادہ مدت گزر گئی، جماعتِ احمدیہ کے عقاید، جماعتِ احمدیہ کی جداگانہ تنظیم، جماعتِ احمدیہ کی تاویلات و تعبیرات اور جماعتِ احمدیہ کی اُمت سے بے تعلقی اور ترکِ موالات کی روش نے خود اس کے لیے جو مسائل پیدا کر رکھے ہیں ان میں کوئی ایک بھی حل نہ ہوسکا۔ کسی ایک کے بارے میں بھی کوئی آخری اور قطعی فیصلہ نہ ملا۔ اس کی وجہ ہے احمدیت کا ذہنی اُلجھاؤ، تذبذب اور تامل جس سے اس کا ایک فریق مستثنیٰ ہے، نہ دوسرا گو دونوں اپنی اپنی اور جگہ پر مطمئن۔ چنانچہ یہ بھی ایک سبب ہے ان کے باہمدگر نزاع اور بحث و جدال کا جس کا اظہار مرزا صاحب کے دعاوی، مرزا صاحب کے مرتبہ و مقام، نبوت اور ختم نبوت کے مسئلے میں آئے دن ہوتا رہتا ہے۔ بہرحال یہاں دو باتیں غور طلب ہیں۔ اول وہ سلسلۂ تصورات جس کی بدولت جماعتِ احمدیہ کے عقاید کا نشوونما ہوا۔ گو راقم الحروف کے نزدیک عقاید کے نشو و نما کا یہ سلسلہ تا ہنوز جاری ہے اور نہ معلوم کب تک جاری رہے۔ یہ تصورات کیا ہیں؟ امامت، مجددیت، مسیحیت، مہدویت، مکالمہ و مخاطبہ الٰہیہ، کشف و الہام، تشریعی اور غیر تشریعی نبوت، افاضۂ محمدیہ، ظل و بروز جن میں یہ سیدھی سی بات اُلجھ کر رہ گئی کہ دین مکمل ہوچکا۔ وحی الٰہی کا مقصد پورا ہوگیا۔ لہٰذا سلسلۂ رسالت و نبوت بھی ختم ہوگیا۔ اب نہ کسی کتاب کی ضرورت ہے، نہ رسول کی۔ نہ اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی نہ کشف و الہام، نہ ایسا کوئی دعویٰ حجت کہ اُمت اس کی تائید و تصدیق پر شرعاً مکلف ہو۔ ہم اللہ کے بندے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کے اطاعت گزار ہم ایک ہیں۔ ہمارا اللہ ایک ہے، رسول ایک، دین ایک، کتاب ایک۔ سب اللہ کی بھیجی ہوئی شریعت کے پابند، سب اس کے رسول کے متبع، اس کی اُمت۔ ہمارے لیے اب کوئی اور اطاعت ہے، نہ اتباع، نہ اس میں کسی توسط کی ضرورت ہے، نہ توسل کی۔ اُمت کی تشکیل ہوچکی۔ اس کی مرکزیت، اس کی وحدت اور جمعیت کا عمل مکمل ہوگیا۔ اب اس میں کسی اور جماعت بندی کا دخل ہے، نہ ایک اجتماع کے بعد دوسرے اجتماع کا جواز، نہ کبھی تھا، نہ ہوگا۔ یہ معنی ہیں ختم رسالت کے اور یہی راز ہے اُمت کے حفظ و استحکام اور ثبات و دوام کا۔ یہ یقین اور یہ اعتماد ہے جس کو ساتھ لیے ہم اس راستے پر گامزن رہ سکتے ہیں جو از روے احکام الٰہیہ ہمارے لیے تجویز ہوا، جیسے ہم صراط مستقیم سے تعبیر کرتے ہیں، جس میں حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہماری رہنمائی فرمائی اور جس کے ہوتے ہوئے ہم کسی دوسری رہنمائی کے محتاج ہیں، نہ کبھی ہوں گے۔ یہ ہے ہمارا ایمان۔ ہم اس پر قائم ہیں تو اس منصب کے اہل بھی ثابت ہوں گے جس کے لیے اُمت کی تشکیل ہوئی اور جس سے تقدیر عالم وابستہ ہے۔ یہ سیدھی سی بات تھی جو مسیحیت، مہدویت، امامت اور مجددیت کی لاحاصل اور لاطائل بحثوں میں اُلجھ کر رہ گئی اور اُمت کو جو پہلے ہی سے فرقہ بندی کا شکار ہوچکی تھی ایک ایسے افتراق و شقاق کا سامنا کرنا پڑا جس سے اسلام ہی کے لیے کوئی مفید مطلب نتیجہ مترتب ہوا، نہ عالمِ اسلام کے لیے۔ پھر قطعِ نظر ان عقاید سے جو احمدیت کا تار و پود ہیں اور جن کی ایک تاریخ ہے، جن کی صحت اور عدم صحت سے عقلاً اور جوازً و عدم جواز سے از روے اسلام بحث کی جاسکتی ہے، یہ طے نہ ہوسکا کہ امامت سے مقصود اگر اُمت کی رہنمائی ہے تو اس رہنمائی کی ضرورت کب اور کیسے پیش آئی ہے؟ تجدید دین سے کیا مراد ہے؟ اس کے تقاضے کیا ہیں اور نتائج کیا؟ یہ سب فرائض کیا پورے ہوگئے؟ نزول مسیح اور ظہور مہدی سے جو مقاصد وابستہ ہیں کیا ان کی تکمیل ہوچکی؟ قتل دجال اور کسر صلیب، حتیٰ کہ قتل خنزیر کی تعبیریں جیسا کہ احمدیت میں ان کا مفہوم ہے کیا صحیح نکلیں؟ کیسے اور کس رنگ میں؟ صحیح نکلیں تو وہ کیا انقلاب تھا جو اُمت کی اخلاقی اجتماعی جدوجہد، یا فکر و نظر میں رونما ہوا؟ کیا احمدیت نے احوال عالم سے مطابقت پیدا کرتے، ان کو سمجھتے اور ان پر تصرف حاصل کرتے ہوئے نوعِ انسانی کے دل و دماغ اور علم و عمل کا رُخ اس سمت میں موڑ دیا جو اسلام کا منشا ہے؟ حقائق ہمارے سامنے ہیں۔ حالات اور واقعات کا کسے علم نہیں۔ ہم ان سے کیا نتائج اخذ کریں؟ کیسے مان لیں کہ احمدیت کا ظہور عبارت ہے اسلام کے غلبہ و فروغ سے۔ احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے اور جماعتِ احمدیہ ہی فی الحقیقت اُمت کی قائم مقام! ثانیاً اور یہ دوسری بات پہلی سے بھی اہم ہے۔ فرض کیجیے ہم جماعتِ احمدیہ کے عقاید سے تعرض نہیں کرتے۔ اُمت سے الگ تھلگ اس نے جو تنظیم قائم کررکھی ہے اسے زیر بحث نہیں لاتے۔ ان دعاوی سے بھی قطعِ نظر کرلیتے ہیں جو احمدیت کے نام پر کیے گئے اور کیے جارہے ہیں۔ مان لیا کہ احمدیت اسلام ہی کے اندر ایک تحریک ہے۔ اسے مسلمانوں سے کوئی پرخاش نہیں۔ لیکن ایک سوال ہے جو بار بار ہمارے ذہن میں اُبھرتا ہے اور جس کا تقاضا ہے کہ اس کا کوئی آخری اور قطعی جواب مل جائے۔ احمدیت کا سارا ذخیرۂ علم، ساری تصنیفات و تالیفات، رسائل اور جرائد، چھوٹی بڑی تحریریں، اعلانات و اشتہارات ہمارے سامنے ہیں۔ کیا ان سے اُمت کے اتحاد و استحکام اور اصلاح و ترقی کا راستہ کھلا؟ مصاف حیات میں اس نے اپنا موقف صحت سے متعین کرلیا؟ اس جدوجہد کی کہ تقدیر عالمِ اسلام کے ہاتھ میں ہے ابتدا ہوگئی؟ پھر اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ احمدیت نے اسلام کی جو تعبیر کی اس تعبیر سے بحیثیت ایک دین جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے اسلام کی ترجمانی کیا تمام و کمال ہوجاتی ہے؟ ہم سمجھ لیتے ہیں اطیعواللہ اور اطیعوالرسول کے تقاضے کیا ہیں؟ احکامِ شریعت کا اطلاق جیسا کہ ان سے مقصود ہے فرد اور جماعت کی زندگی میں کیسے ہوگا؟ کیا یہ حقیقت ہمارے سامنے ہوگی کہ اسلام ایک ہمہ گیر تحریک ہے، قید زمان و مکان اور نسل و وطن سے آزاد جس نے بطور ایک نظام حیات ریاست اور مذہب کو اس خوبی سے اپنے دامن میں سمیٹ لیا ہے کہ سیاست ہو یا معاش، اخلاق یا قانون، یا عقاید اور اعمال زندگی کے چھوٹے بڑے سب معاملات ایک وحدت میں ضم ہو کر توحید و رسالت پر مرکوز ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا اس کا تقاضا ہے نوعِ انسانی کی تقدیر اور مستقبل کے پیشِ نظر نظم اُمور میں مسلسل جدوجہد، مسلسل اقدام۔ یہ جدوجہد اور یہ اقدام جاری ہے تو اُمور عالم کا انتظام و انصرام بھی صحیح نہج پر ہوتا رہے گا اور ہم کَہ سکیں گے کہ بطور ایک تحریک اور بطور ایک نظام حیات اسلام فی الواقع اُمور عالم میں کارفرما ہے۔ ورنہ اس کی حیثیت محض ایک عقیدے، خیال اور تصور کی رہ جائے گی۔ لہٰذا سوال ہے احمدیت نے اسلام کی تعبیر جس رنگ میں کی کیا اس سے یہ حقائق واضح طور پر ہمارے شعور میں جاگزیں ہوجاتے ہیں؟ اس کا جواب ہے نہیں، ہر گز نہیں اور اس کی وجہ یہ کہ جماعتِ احمدیہ کی تنظیم کیسی بھی خوبی سے کی گئی، اس کا نظام جماعت کیسا بھی مظبوط، آپس کا ربط و ضبط کیسا بھی قابلِ تعریف اور احمدی عقاید کی عملاً ترجمانی کا انداز کیسا بھی مؤثر اور کامیاب ہو یہ تو نہیں کیا جاسکتا کہ یہ نظام جماعت اس نظام کے ہم مرتبہ اور مترادف ہے جس کی اسلام نے تلقین کی، یا اس معاشرے کی تمہید جو اسلام کا مقصود ہے۔ بعینہٖ جماعتِ احمدیہ کی تبلیغی کوششوں کے بارے میں کوئی بھی رائے قائم کی جائے عقاید کی تبلیغ اس دعوت کی تبلیغ تو نہیں ہے جو اسلام نے نوعِ انسانی کو دی اور جسے اول ہماری اپنی زندگی میں مشہود ہونا چاہیے۔ یہ حقیقت ہے جس کی طرف حضرت علامہ نے خطاب یہ مبلغ اسلام درفرنگستاں، یا اس نوع کی دوسری نظموں میں اشارہ کیا اور جن سے مقصود یہ ظاہر کرنا تھا کہ تبلیغ اسلام کی کوئی بھی کوشش ہو، گو اپنی جگہ پر بڑی قابلِ ستایش، اس طرح کی کسی کوشش کے ساتھ یہ دیکھنا بھی تو ضروری ہے کہ حالات کیا ہیں۔ ہمارا خطاب کس سے ہے۔ وہ اپنی ذہنی اور اخلاقی، اجتماعی زندگی میں کیسے کیسے مراحل سے گزر رہے، یا گزر چکے ہیں۔ ہم ان کی زندگی میں جس تبدیلی کے خواہش مند ہیں اس کا جواز کیا انھیں ہماری اپنی زندگی سے مل جاتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو حضرت علامہ کا یہ کہنا کیا غلط تھا: زمانہ باز بر افروخت آتش نمرود کہ آشکار شود جوہر مسلمانی گویا ہماری ذمہ داری صرف تبلیغ اسلام پر ختم نہیں ہوجاتی کہ زبان سے ایک بات کَہ دی۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ اس کا جوہر آشکار ہو۔ خضر راہ میں ارشاد ہوا: آگ ہے اولاد ابراہیم ہے نمرود ہے کیا کسی کو پھر کسی کا امتحان مقصود ہے بالفاظِ دیگر وقت کا اصل تقاضا، یا نوعِ انسانی کی ضرورت تو یہ ہے اور تھی کہ ہم اپنے عمل سے جوہر اسلام آشکار کریں، اس امتحان میں پورے اتریں جو اس جدوجہد میں کہ عصر حاضر کا رُخ اسلام کی طرف مڑ جائے درپیش ہے اور جس کو دیکھتے ہوئے انھیں کہنا پڑا: کون سی وادی میں ہے کون سی منزل میں ہے عشق بلاخیز کا قافلۂ سخت جاں ہمیں معلوم ہے یہ قافلۂ سخت جاں ہنوز وقف اضطراب و کشمکش ہے۔ نہ معلوم کتنی منزلیں ہیں جن سے اسے ابھی گزرنا ہے۔ حضرت علامہ کے معترض ان حقائق کو تو سمجھے ہیں۔ برعکس اس کے ان کے ارشادات کو اعتراضات پر محمول کرتے۔ بعینہٖ حضرت علامہ کا فرمانا کہ جماعتِ احمدیہ کے سلسلۂ تعبیر و تاویل کی نوعیت سوئے ادب تک جاپہنچتی ہے غلط نہیں، گو یہ بات سمجھنے کی ہے۔ بات یہ ہے کہ اُمت کا اطلاق اگر فی الحقیقت جماعتِ احمدیہ ہی پر ہوتا ہے۔ احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے، لہٰذا اسلام کا مستقبل بھی احمدیت ہی کے ہاتھوں میں، نیز ختم نبوت کی اس تاویل کو بھی جو مرزا صاحب نے فرمائی صحیح تسلیم کرلیا جائے، علی ہٰذا ان کے دعویٰ مسیحیت و مہدویت اور نبوت کو، خواہ اس کی نوعیت کچھ بھی ہو تو لامحالہ یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ گزشتہ ۱۳۰۰ برس سے اسلام اور اُمت کا دور جس اساس پر قائم تھا ناکافی ہوچکی ہے۔ اب اسے ایک نئے توسط اور نئی اساس کی ضرورت ہے۔ اندریں صورت احمدیت کے ظہور کو کچھ ویسی ہی نظر سے دیکھنا پڑے گا جیسے اسلام کو۔ اسلام کا آنا ماضی کا ایک واقعہ ہوگا۔ اس کی جگہ احمدیت لے لے گی۔ یوں اس ظہور میں باعتبار مرتبہ و مقام اسلام سے جو مشابہت بلکہ مساوات پیدا ہوجاتی ہے اس سے جماعتِ احمدیہ کا ذہن احمدیت، بانی احمدیت، جماعتِ احمدیہ اور اس کے اکابر و اعاظم کے مرتبۂ دینی کی تعیین میں جس معیار سے کام لے گا یہ وہ تو نہیں ہوگا جس کا اطلاق افراد اُمت پر ہوتا ہے۔ وہ ان کے مرتبہ دینی و دینوی کو کسی اور ہی نظر سے دیکھے گی۔ جس ذہن میں نبوت، مسیحیت اور مہدویت کے عقاید کارفرما ہیں جو بہ سبب مرزا صاحب کے دعووں کے انبیا اور ان کے مویدین کو خواہ ان کا تعلق کسی زمانے سے ہو ہم مرتبہ گردانتا ہے وہ اس باب میں کیا کچھ مبالغے سے کام نہیں لے گا۔ بات طول کھینچ رہی ہے۔ یہاں صرف اس اَمر کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ جماعتِ احمدیہ کا اس باب میں حد سے بڑھا ہوا غلو کسی طرح بھی مناسب نہیں، بلکہ بڑھتے بڑھتے بڑی ناگوار شکل اختیار کرلیتا ہے۔ یہ شذرہ ضرورت سے زیادہ طویل ہوگیا۔ لیکن راقم الحروف نے حضرت علامہ کے ان ارشادات کے پیشِ نظر جو اس بیاض یادداشت میں جماعتِ احمدیہ کے بارے میں بکھرے پڑے ہیں مناسب سمجھا کہ احمدی، یا قادیانی عقاید کا نشوونما جس طرح ہوتا رہا اور ان سے منطقی طور پر جو نتائج مترتب ہوئے، حتیٰ کہ اُمت کے اندر ایک نئی فرقہ بندی کا ظہور ہوا، تاآنکہ عملاً اس کا رشتہ اُمت سے کٹ گیا، یہ سب باتیں بطور پس منظر قارئین کے سامنے رہیں۔ یوں حضرت علامہ کے ارشادات کو سمجھنے میں یہی دو باتیں اُمت اور جماعتِ احمدیہ کے درمیان مابہ النزاع ہیں۔ ایک اُمت کی وحدت، اس کی جمعیت و مرکزیت اس کی اساس، منصب اور مقام کا تعیین، دوسری اسلام کی تعبیر بطور ایک عالمگیر انسانی دعوت کے جس کا تقاضا ہے ایک عالمگیر نظام اجتماع، ایک واحد اور خالصاً انسانی معاشرہ۔ ہمیں معلوم ہے اسلام نے اس تقاضے کو بدرجۂ اتم پورا کیا۔ ایک عالمگیر نظام اجتماع، ریاست اور معاشرے کی تشکیل ہوئی۔ خلافت اسی ریاست اور معاشرے، یا دوسرے لفظوں میں اس عالمگیر نظام اجتماع کی تشکیل کو قائم رکھنے کا دوسرا نام ہے جس میں ہمارے فرائض اور ذمہ داریوں کا سلسلہ حیات فرد اور جماعت تک ہی نہیں، بلکہ ان سب اقدامات کو محیط ہے جن کا تعلق ہماری حیات مادی، ہماری اخلاقی اور روحانی جدوجہد سے ہے۔ یہ ہوگا تو مراتب حیات میں ہمارا قدم ہر لحاظ سے آگے بڑھتا رہے گا۔ خلافت گویا ایک سیاسی، اجتماعی تاسیس ہے اور اس سے مقصود نوعِ انسانی کی سیاسی، اجتماعی رہنمائی، ان باطل امتیازات کا خاتمہ جن کی بنا پر دنیا طرح طرح کی متحارب گروہ بندیوں کا شکار ہوچکی ہے، علی ہٰذا اس تفریق کا جو عصر حاضر نے مذہب اور سیاست یا ریاست، اور کلیسا میں پیدا کررکھی ہے اور جس سے ناممکن ہے زندگی کا نشو و نما بطور ایک وحدت کے ہوسکے۔ اس لیے کہ یوں اس کا ہر پہلو دوسرے سے متصادم رہے گا۔ خلافت اور خلافت میں فرد اور جماعت کا مقام حضرت علامہ نے جس خوبی سے متعین کیا اس کا اندازہ اس رباعی سے نہایت واضح طور پر ہوجاتا ہے جس کا حوالہ راقم الحروف ص۱۲، ح۱ میں دے آیا ہے۔ مزید وضاحت کے لیے ارمغان حجاز کی اس رباعی پر نظر رکھیے جس میں اگرچہ لفظ خلافت استعمال نہیں ہوا، لیکن جس کا اشارہ بہرحال اسی ادارے، یا تاسیس کی طرف ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: مسلمان فقر و سلطانی بہم کرد ضمیرش باقی و آنی بہم کرد ولیکن الاماں از عصر حاضر کہ سلطانی بہ شیطانی بہم کرد دراصل یہ فقر و سلطانی اور باقی و آنی کی آمیزش، یعنی ان کو بہم کردن ہی کا عمل تقدیر عالم کے حصول اور نوعِ انسانی کے لیے کسی روشن مستقبل کی تعمیر کا واحد ذریعہ ہے، وہ نہیں جو اقوام عالم نے بزعم خود اختیار کررکھا ہے۔ نہ تہذیب حاضر، نہ مغرب کا نظام مدنیت جس کے سیاسی معاشی، اخلاقی اور اجتماعی فساد اور ہلاکت کے آثار ہمارے سامنے ہیں۔ یوں بھی اسلام اگر کوئی مذہبی عقیدہ نہیں ہے، نہ محض ایک ضابطۂ اخلاق، بلکہ ایک ایسی دعوت اور ایسی تحریک جس نے مذہب اور اخلاق کا رشتہ سیاست، معاش، نظم اور قانون سے جوڑتے ہوئے سب کو ایک وحدت میں سمودیا تو ہمیں اس کا تصور بطور ایک ہیئت اجتماعیہ، ایک ریاست اور معاشرے ہی کو کرنا پڑے گا۔ ہم سمجھ لیں گے اُمت کے معنی کیا ہیں، ملت کا اشارہ کن تصورات کی طرف ہے۔ ہمیں بحیثیت ایک اُمت کے زندہ رہنا ہے تو ہمارا سابقہ کس دنیا سے ہے۔ ہم اس سے کس قدر آگے ہیں، کس قدر پیچھے۔ ہمارا ایک اُصول حیات ہے۔ ہمیں اس اُصول حیات کی رُو سے کِس قسم کی جدوجہد درپیش ہے۔ اس کی نوعیت ذہناً، اخلاقاً، سیاسی اور اجتماعی اعتبار سے کیا۔ ہم یہ سمجھ گئے تو ہماری نگاہیں بھی اس حقیقت پر ہوں گی کہ اُمت کوئی مذہبی تنظیم نہیں ہے، بلکہ ایک سیاسی اجتماعی ہیئت جس کی تشکیل ہوئی تو ایک نصب العین کے لیے اور جس کے حصول میں سرگرم عمل رہنا ہمارا فرض ہے۔ بغیر اس کے ہمارا معاشرہ اسلامی ہوگا، نہ ریاست اسلامی، نہ سیرت و کردار، معاشرت اور طریقِ زندگی اسلامی۔ اندریں صورت ہمارا فرض ہے کہ ہر اس رجحان اور ہر ایسی تفریق و امتیاز پر نظر رکھیں بلکہ اُمت کو بھی اس پر متنبہ کرتے رہیں جس سے بہ لحاظ ایک دین اس تنظیم میں جو از روے اسلام ابدی اور کامل و مکمل ہے اختلاف و انتشار کا احتمال ہو۔ خواہ اس کی بنا عقاید ہوں خواہ عقاید کی بنا پر کوئی نیا دعویٰ۔ پھر جب انسان مدنی بالطبع ہے۔ بغیر معاشرے کے زندہ نہیں رہ سکتا اور معاشرے کا وجود بجز ایک سیاسی اجتماعی ہیئت کے ناممکن تو اس ہیئت اجتماعیہ کو جسے ہم دین کے ایک پہلو سے تعبیر کرتے ہیں قائم اور برقرار رکھنا اور بھی ضروری ہوجاتا ہے۔ مزید یہ کہ جب اسلام کا منتہا ہی یہ ہے کہ بفحوائے ’وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِیْ ارْتَضٰی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمْ مِنْم بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا… ایک با اقتدار سیاسی اجتماعی ہیئت کی شکل اختیار کرے جیسا کہ ابتدا میں کی۔ پھر یہی ہیئت تھی جس نے تاریخ کا رُخ ہمیشہ کے لیے بدل ڈلا۔ بعینہٖ تاریخ پھر ویسے ہی انقلاب کی منتظر ہے اور یہ انقلاب اسلام ہی پیدا کرسکتا ہے۔ اس لیے کہ اُمورِ عالم ہوں یا فرد اور جماعت کی زندگی اسلام اپنے طور پر ان میں برابر کام کررہا اور کرتا رہا ہے۔ اسلام کے سامنے اجتماع انسانی کا بنیادی مسئلہ ہے۔ وہ چاہتا ہے اس کے استحکام، مسلسل ارتقا، نشو و نما کا عمل بہ وجوہ کامیابی سے جاری رہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو حضرت علامہ جن حقائق کی طرف اشارہ کررہے تھے ان کی اہمیت اپنی جگہ پر مستقل اور بنیادی ہے، لہٰذا اُمت کا گزر کسی مرحلے سے ہو یہ حقائق ہمیشہ اس کے سامنے ہوں گے اور ہونا چاہیے۔ یہ بات اس لیے کہی جارہی ہے کہ حضرت علامہ نہ تو کسی جماعت سے، مذہبی ہو یا سیاسی اُلجھ رہے تھے، نہ اس سے بحث و مناظرہ ان کا مقصد۔ نہ راقم الحروف کو اس سے کوئی سروکار۔ بات یہ ہے کہ جماعتِ احمدیہ (لاہوری اور قادیانی) ابھی تک نہیں سمجھی کہ اس کے عقاید، اس کی جماعتی تنظیم، تاویلات و تعبیرات سے بحیثیت ایک دعوت، بحیثیت ایک تحریک اور بحیثیت ایک نظام حیات اسلام اور اُمت کے لیے کیا نتائج مترتب ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بااعتبار اپنے قول و فعل کے وہ بیک وقت مسلمانوں میں شامل بھی ہے اور نہیں بھی۔ شامل ہے نظری طور پر، شامل نہیں ہے عملاً۔ اب جہاں تک کسی معاشرے کے استحکام کا تعلق ہے۔ بالخصوص اسلامی معاشرے کا جس کی تشکیل ہی بناے توحید و رسالت پر ہوئی یہ صورتِ حالات کیسے قابلِ قبول ہو سکتی ہے جس سے اس کی اساس ہی متزلزل ہوجائے۔ لہٰذا حضرت علامہ چاہتے تھے جماعتِ احمدیہ خود ہی اپنے موقف پر غور کرے۔ دراصل حضرت علامہ جماعتِ احمدیہ کے مخصوص عقاید پر تبصرہ فرماتے بمقابلہ اُمت اس کی سیاسی روش زیر بحث آتی، کسی سیاسی جماعت، کسی مذہبی فرقے، یا اربابِ سیاست میں سے کسی کی طرف اشارہ کرتے تو اس نقطۂ نظر کے ماتحت جو انھوں نے ارض پاک و ہند کی سیاست میں مسلمانوں کی شرکت، ان کے طرزِ عمل اور مستقبل کے بارے میں قائم کیا۔ ہمیں معلوم ہے اس نقطۂ نظر کا تعلق اسلام سے تھا، محض اختلاف مذہب و ملت، یا کسی وقتی اور مقامی مفاد و مصلحت سے نہیں تھا۔ اس کا تقاضا تھا کہ ارض پاک و ہند میں دو آزاد ریاستیں قائم ہوں ایک ہندو، دوسری اسلامی۔ یہ دوسری، یعنی اسلامی ریاست اس لیے کہ بحیثیت ایک اجتماع اسلام نے نوعِ انسانی کے حفظ و استحکام اور مسلسل نشو ونما کے لیے ایک مخصوص نقطۂ نظر اختیار کیا۔ اسلام کی بصیرت یہ ہے کہ نوعِ انسانی کا مستقبل جو اساساً ایک ہے اس عالمگیر معاشرے کے قیام و استحکام سے وابستہ ہے جس کا وظیفہ یہ ہے کہ بطور ایک سیاسی اجتماعی تنظیم کے ان احوال و ظروف پر نظر رکھے جو تہذیب و ترقی کے مساعد ہیں اور جن کے بغیر ناممکن ہے کہ فرد ہو یا جماعت اس کا قدم مراتب حیات میں آگے بڑھ سکے۔ لہٰذا حضرت علامہ کا ارشاد تھا کہ مسلمان اگر اس نکتے کو سمجھ گئے ہیں کہ اُمت ایک سیاسی اجتماعی ہیئت ہے۔ اگر انھیں معلوم ہے کہ دین عبارت ہے اس نظام حیات سے جو اس عالمگیر معاشرے کا مقوم اور صورت گر ہے لہٰذا اُمت اس کی تمہید تو دو خطرے ہیں جن کا سد باب ہوتے رہنا چاہیے۔ ایک اُصولی کہ اُمت کی اساس جس عقیدے پر قائم ہے اس کی تعبیر و تاویل میں کسی ایسی روش کو راہ نہ ملے جس سے اس کی وحدت میں فرق آئے، یا جس سے اس کی مرکزیت اور جمعیت میں خلل پیدا ہو۔ بالفاظِ دیگر اُمت میں اُمت در اُمت یا نئی نئی گروہ بندیوں کا جواز نکلتا رہے۔ ایسا ہوا تو یہ اَمر اُمت کے دوام و استحکام کے منافی ہوگا۔ دوسرا خطرہ عملی ہے اور وہ یہ کہ بطور ایک نظام حیات اسلام عبارت ہے جس ہمہ گیری اور کلیت سے علی حالہ قائم رہے۔ ایسا نہ ہو ہم اسے محض ایک نظام اعمال و عقاید میں محدود کردیں، حالانکہ اعمال و عقاید ہی وہ اساس ہے جس پر اسلام نے دین کی عمارت تیار کی اور دین کی غرض و غایت جیسا کہ ہمیں معلوم ہے یہ کہ زندگی کی ساری وسعتوں کو ہر پہلو اور ہر جہت سے سمیٹتے ہوئے ایک مخصوص و متعین نصب العین پر مرتکز کردے جس کا حصول ظاہر ہے بجز ایک ہمہ گیر جدوجہد کے ممکن نہیں۔ چنانچہ یہی جدوجہد ہے جسے ہم اقامت دین سے تعبیر کرتے ہیں اور جس کی ہمہ گیری اور کلیت میں فرق آگیا، یا یوں کہیے کہ اس نے اجزائے حیات کی شیرازہ بندی جس تعمیری مقصد کے لیے کی قائم نہیں رہی تو اس کی وحدت لازماً اس ثنویت سے بدل جائے گی جسے دین و دنیا یا اصطلاحاً ریاست اور کلیسا کی تفریق کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ اَمر بھی اسلامی تعلیمات کے منافی ہوگا۔ یہ دو خطرے تھے، ایک اندرونی، دوسرا بیرونی جن میں ایک طرف حضرت علامہ کا روے سخن ان حضرات سے تھا، علما ہوں یا غیر علما جو دانستہ یا نادانستہ، یا کسی عارضی مصلحت کے خیال سے وطنی قومیت کا رستہ اختیار کرتے ہوئے دین کو مذہب کا مترادف قرار دے رہے تھے۔ دوسری جانب جماعتِ احمدیہ سے جسے مان لینا چاہیے کہ اُمت کی وحدت، مرکزیت اور جمعیت کا عمل ختم رسالت کی بدولت ہمیشہ کے لیے مکمل ہوگیا۔ اُمتِ اسلامیہ میں کہ نوعِ انسانی کی آخری گروہ بندی ہے اب کسی گروہ بندی کی خواہ اس کے لیے کوئی بھی عذر پیش کیا جائے گنجایش نہیں۔ گنجایش پیدا کی گئی تو یہ ایک نئی اُمت کی تمہید ہوگی جس سے نہ صرف اُمت کی بنیادیں متزلزل ہوجائیں گی، وہ اس فریضے کی ادائیگی سے قاصر رہے گی جس کے لیے اس کی تشکیل ہوئی، بلکہ ہم یہ سمجھنے سے بھی قاصر رہیں گے کہ بحیثیت ایک دینِ اسلام کی دعوت کیا ہے، مقصود و منتہا کیا۔ حضرت علامہ چاہتے تھے جماعتِ احمدیہ اور نہیں تو اسی تفریق ہی سے سبق حاصل کرے جو محض ’خلافت‘ کے نزاع میں چند سال پہلے خود اس کی صفوں میں رونما ہوچکا ہے۔ وہ سمجھ لے احمدیت کی تعلیمات میں اس اَمر کی گنجایش موجود ہے کہ اس کے اندر بھی کوئی ایسی گروہ بندی ظہور کرے جس سے اس کی موجودہ گروہ بندی کا خاتمہ ہوجائے۔ پھر اگر پاکستان کی جدوجہد محض اس لیے کی گئی کہ وہ سیاسی اجتماعی ہیئت قائم ہو جسے ہم اسلامی ریاست سے تعبیر کرتے ہیں تو اس کی ہستی جس متحدالخیال اور متحد العمل معاشرے سے وابستہ ہے اس میں نہ تو مذہب اور سیاست میں امتیاز کی گنجایش ہے، نہ باہمدگر متخالف اور متحارب گروہ بندیوں، نہ کسی ایسی نئی گروہ بندی کی جو اُمت سے اپنا تعلق قائم رکھنے کے باوجود اساساً اس کی نفی کردے۔ راقم الحروف کا خیال ہے یہ چند معروضات حضرت علامہ کے نقطۂ نظر کی وضاحت کے لیے کافی ہوں گی۔ ۱۱- یوم تبدل الارض غیر الارض-متن ص۶۳ پرویز صاحب کا سوال تھا ہم اس ارشاد کا مطلب کیا سمجھیں؟ حضرت علامہ نے اس سوال کے جواب میں جہاں پرویز صاحب کی توجہ اس حقیقت کی طرف منعطف کرائی کہ عالمِ کائنات کا ادراک ہمارے شعور کا تابع ہے۔ وہاں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ہمیں چاہیے شعور میں ارتقا کا عمل دخل تسلیم کرلیں جس کا ایک ثبوت حیاتیات کی دنیا سے مل جاتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انسان کا شعور باقی سب انواعِ حیات کے شعور سے ترقی یافتہ ہے۔ چنانچہ یہ سوال کہ جس روز زمین بدل کر کچھ اور ہوجائے گی اور آسمان بھی ایک انسان ہی کرسکتا تھا۔ کوئی دوسرا نہ کرتا۔ پھر قطعِ نظر اس سے کہ کائنات اور جو کچھ اس میں ہے ہم اس کے شعور کے لیے اعضائے حواس کے محتاج ہیں، ان حواس میں ذرا سے خلل یا تبدیلی سے شعور بھی بدل جاتا ہے، عالمِ خواب اور بیداری کی طرح ہمارے ذہن کی مختلف کیفیتوں میں بھی ادراک کی دنیا یکساں نہیں رہتی۔ یہ وہ بات ہے جس کی مثالیں عام ہیں اور جس سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔ بہرحال یہاں توجہ طلب اَمر یہ ہے کہ اگر ہمارے لیے ارتقا کی اور بھی منزلیں ہیں تو ہمارے شعور کے بھی کئی ایک مدارج ارتقا ہیں جن کا کچھ اندازہ شاید بعض مخصوص اور منفرد ہستیوں کو اس زندگی میں بھی ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ان آیات میں جس تبدیلی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس سے ہمارا شعور بھی لازماً بدل جائے گا۔ یہاں حضرت علامہ کے وہ ارشادات بھی زیر نظر رہنا چاہییں جن کا تعلق عالمِ کائنات سے ہے۔ یہ ارشادات ان کے کلام اور خطبات میں جابجا بکھرے پڑے ہیں۔ بات یہ ہے کہ کائنات کوئی ٹھہرا ہوا اور ساکن وجود نہیں۔ اس میں ہر لحظہ کوئی نہ کوئی تبدیلی رونما ہوتی رہتی ہے۔ ہر لحظہ مشیت ایزدی کی کارفرمائی جاری ہے۔ پھر جس طرح ہماری نشاۃ الاولیٰ، یعنی اس زندگی میں شعور کی ایک سطح ہے۔ اس دوری زندگی، یعنی نشاۃ الثانیہ میں بھی جس کی طرف بار بار اشارہ کیا گیا ہے ہمارے شعور کی کوئی سطح ہوگی بعینہٖ جب عالمِ کائنات کی بھی ایک نشاۃ الثانیہ ہے تو کیا معلوم اس نشاۃ الثانیہ میں ارض و سماوات کی جن کا ادراک ہم اپنے ارتقا کی موجودہ منزل میں ایک خاص شکل میں کررہے ہیں کیا صورت ہو، ہو، قرآن مجید میں ہے اَوَلَمْ یَرَوْا کَیْفَ یُبْدِیُٔ اللّٰہُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہُ إنَّ ذَلِکَ عَلَی اﷲِ یَسِیْرٌ قُلْ سِیْرُوْا فِیْ الاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ بَدَأ الْخَلْقَ ثُمَّ اﷲُ یُنْشِیئُ النَّشْأۃ الاٰخِرَۃ إنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ -۲۹ (عنکبوت): ۲۰-۱۹۔ ان آیات کا اشارہ جس واقع کی طرف ہے اور یہ واقعہ جس دن رونما ہوگا وہ نہ صرف کائنات کے لیے جیسا کہ ہمیں اس کا ادراک ہورہا ہے، بلکہ ہمارے اپنے شعور کے لیے بھی غیر معمولی تبدیلیوں کا دن کا ہوگا جن کا ازروے ایمان اور عقل و فکر ہمیں یقین تو ہوسکتا ہے لیکن جن کی حقیقی نوعیت کا اندازہ ہم اپنے ارتقا کی اس منزل میں جس سے بحالت موجودہ ہمارا گزر ہورہا ہے نہیں کرسکتے، نہ اس باب میں ہمیں زیادہ کاوش ہونی چاہیے۔ ہماری کاوش ہوگی تو اپنے علم و فکر، تجربے اور مشاہدے کی بنا پر مگر جس سے کوئی آخری اور قطعی نتیجہ مترتب نہیں ہوگا بجز اس کے کہ ایسی کوئی تبدیلی ضرور رونما ہوگی۔ البتہ یہ ممکن نہیں کہ یہ تبدیلی ہو بہو ویسے ہی ہمارے سامنے ہو جیسے بحالت موجودہ ہم کائنات یا اس کی تبدیلیوں کا مشاہدہ کررہے ہیں۔ اس لیے کہ ان آیات میں جس تبدیلی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ مستقبل کا ایک حادثہ ہے جسے عقل مان تو سکی ہے لیکن جس کا واقعتہً تجربہ اسی روز ہوگا جس روز یہ تبدیلی رونما ہوگی۔ مزید یہ کہ جب ہم کسی شے کا مدرکہ کرتے ہیں تو ادراک کا یہ عمل یک طرفہ نہیں ہوتا کہ شئی مدر کہ جیسا کہ خارج میں اس کا وجود ہے ہمارے ادراک میں آجائے، گویا اس کی موجودگی ہی ہمارے ادراک کی علت ہے۔ ایسا نہیں بلکہ اس میں صاحبِ ادراک کا ذہن بھی کارفرما ہوتا ہے۔ ادراک کے عمل میں دونوں شامل ہوتے ہیں شئے مدر کہ اور صاحبِ ادراک بھی۔ لہٰذا اس تعبیر میں جس پر گفتگو ہورہی تھی ایک تبدیلی وہ ہے جو کائنات میں واقع ہوگی۔ ایک خود ہمارے ذہن کی تبدیلی جس طرح اسے اس کا ادراک ہوگا۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱- لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ وَ لِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ اَوْکَثُرَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا…(النسا): ۶ وَالْاَرْضَ وَضَعَہَا لِلْاَنَامِ -۵۵ (الرحمن):۱۰ جاوید نامہ کے ان اشعار میں شعر اول کے مصرع ثانی کا اشارہ ہے وَلَکُمْ فِیْ الاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ-۲ (البقرہ): ۳۶ اور آخری شعر کے دوسرے مصرعے کا وَمَا خَلْقُکُمْ وَلَا بَعْثُکُمْ اِلَّا کَنَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ-۳۱ (لقمان): ۲۸ کی طرف۔ ز…ز…ز لفظ مترتب … مرتب کی جگہ استعمال ہوا ہے۔ دوشنبہ: ۲۴؍جنوری کا حوالہ نمبر۲۵ غائب ہے؟؟؟ سہ شنبہ: ۸؍فروری کا حوالہ نمبر ۲ غائب ہے؟؟؟؟ جمعرات: ۱۰؍مارچ کا حوالہ نمبر۲۲ غائب ہے؟؟ْ جمعرات: ۱۰؍مارچ کا حوالہ نمبر۴۵ غائب ہے؟؟ْ جمعرات: ۱۰؍مارچ کا حوالہ نمبر۴۹ غائب ہے؟؟ْ جمعرات: ۱۰؍مارچ کا حوالہ نمبر۵۰ غائب ہے؟؟ْ شنبہ: ۱۹؍مارچ کا حوالہ نمبر ۶ غائب ہے؟؟ْ شنبہ: ۱۹؍مارچ کا حوالہ نمبر ۱۱ غائب ہے؟؟ْ دو شنبہ: ۲۱؍مارچ کا حوالہ نمبر ۱۷ غائب ہے؟؟ْ