دانائے راز مرتب: سید نذیر نیازی اقبال اکادمی پاکستان جملہ حقوق محفوظ ناشر محمدسہیل عمر ناظم اقبال اکادمی پاکستان (حکومتِ پاکستان، وزارت ثقافت ) چھٹی منزل ، ایوان اقبال ، لاہور Tel: [+92-42] 6314-510 [+92-42] 9203-573 Fax: [+92-42] 631-4496 Email: director@iap.gov.pk Website: www.allamaiqbal.com ISBN طبع اوّل : ؟؟؟ تعداد : ؟؟؟ قیمت : ۔؍ روپے مطبع : لاہور محل فروخت : ۱۱۶ میکلوڈ روڈ ، لاہور، فون نمبر ۷۳۵۷۲۱۴ میں ممنون ہوں مرکز یہ مجلس اقبال اورسینیٹنری (Centenary)کمیٹی کا کہ اگر ان کا اصرار نہ ہوتاتو اس سوانح حیات کی تسوید و تحریر جو’اقبالیات‘ کے منصوبے میں شروع ہی سے میرے سامنے تھی، نہ معلوم کب تک ملتوی رہتی۔ میں ممنون ہوں جناب امیر الدین ، ڈاکٹر محمد اجمل اور ڈاکٹر جاوید اقبال کا جن کی توجہ اور مشورے اس عظیم ذمہ داری میں شامل حال رہے۔ مجھے بالخصوص شکریہ ادا کرنا ہے محبی شیخ اعجاز احمد کا کہ بفحوائے ’صاحب البیت ادسی بما فیھا، اس سوانح حیات کے بعض پہلوئوں اور روایات کی چھان بین میں بجزان کے کون میری رہنمائی کر سکتا تھا۔ حضرت علامہ کی تاریخ ولادت اور ابتدائی تعلیمی زندگی کے علاوہ ڈاکٹر نظیر صوفی اور کوچہ میر حسام الدین کے کرم فرمائوں سے بھی بعض بڑی قابل قدر معلومات حاصل ہوئیں ۔میں ان کا شکر گزار ہوں ۔ علی ہذا بلدیہ سیالکوٹ، ارباب مرے کالج اور اسکاچ مشن ہائی سکول کا۔ افسوس ہے استاذِ اقبال مولانا میر حسن کے پوتے سید محمدعبداللہ آج اس دنیا میں نہیں ہیں۔ زمانہ طالب علمی ہی سے اور پھر دورانِ ملازمت بھی انہیں حضرت علامہ سے بڑا قرب حاصل تھا۔ ان سے جب ملتا حضرت علامہ کی ذات گرامی زیر بحث آتی۔ میں ان دنوں بھی ان کے لیے باعث زحمت ہوا جب ان کی علالت نہایت اندیشہ ناک صورت اختیار کر چکی تھی۔ ان کے صاحبزادے بریگیڈئر سیدمحمد جعفر کی یادداشتیں بھی کچھ کم بروئے کار نہیں آئیں۔ میں ان کا شکریہ بھی ادا کر رہا ہوں۔ رسماً ہی سہی۔ ڈاکٹر سعید اختر درانی، پروفیسر برمنگھم یونیورسٹی، نے بڑا کرم فرمایا کہ انگلستان میں بیٹھے راقم الحروف کو بڑی قیمتی معلومات بہم پہنچائیں۔ مجھے نامہ ہائے درانی کا انتظار رہتا۔ میں ان کا ممنون ہوں۔ کراچی میں راقم الحروف کے رفیقِ جامعہ مولوی نور الرحمان کے بھائی مولوی مظہر الرحمان نے تو اس سوانح ِحیات کو اپنی ذاتی ذمہ داری سمجھتے ہوئے کراچی کا گوشہ گوشہ چھان مارا۔ ارباب علم سے ملے کتب خانوں میں گئے۔ افسوس ہے پچھلے برس وہ ایک حادثے کی نذر ہو گئے۔ میں ان کی عنایات کے لیے اپنی شکر گزاری کا اعتراف ان کے بھائی مولوی منظور الرحمان سے کر رہا ہوں۔ کنوراعظم علی خسروی بھی میرا شکریہ قبول فرمائیں۔ انھوں نے بھی بعض معلومات کے حصول میں بڑی کاوش فرمائی۔ محبی محمد مظفر صاحب کسی زمانے میں چیئر مین اورمحمد مظفر بھٹہ ڈائریکٹر برک بانڈٹی کمپنی نے بھی اس باب میں کچھ کم زحمت نہیں اٹھائی۔ میں ان کا سپاس گزار ہوں۔ جناب سید الطاف علی بریلوی، جناب صہبا لکھنوی ، خواجہ حمید الدین شاہد ، جناب کریم بخش خالد اور ارباب وفاقی اُردو گورنمنٹ کالج کا بھی تہہ دل سے احسان مند ہوں۔ یہ ان کی عنایت ہے کہ العلم ، افکار، سب رس، پیغام اور برگ گل کے پرچے باقاعدہ ملتے رہے۔ لاہور میں جناب مظفر حسین صاحب ڈائریکٹر پاکستان اسلامک ایجوکیشنل کانفرنس کا مجھے بالخصوص شکریہ ادا کرنا ہے۔ ان کا ذاتی کتب خانہ بحق سوانح نویسی اب تک میرے پاس محفوظ ہے اور نہ معلوم کب تک رہے گا۔ پھر بسبب اس عقیدت اور قلبی تعلق کے جو انھیں حضرت علامہ سے ہے میں ان کے مشوروں سے جن میں محبی بریگیڈئر منظور احمد نے بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا خوب خوب مستفید ہوا۔ جناب کلیم اختر بھی میرا شکریہ قبول فرمائیں۔ حضرت علاّمہ کے خاندان اور امور کشمیر میں میں نے ان کی یاداشتوں سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا۔ بعض روایات کی تصدیق و توثیق کے لیے بزرگ محترم جناب خواجہ عبدالصمد ککرو کے صاحبزادے خواجہ حبیب اللہ سے رجوع کرنا پڑا۔ میں ان کا ممنون ہوں۔ جناب احمد بشیر ڈائریکٹر جنرل اے پی پی نے حضرت علاّمہ کے بعض ارشادات کی انگریزی نقلیں عنایت فرمائیں بشیر صاحب میرا دلی شکریہ قبول فرمائیں۔ راولپنڈی میں بیگم ڈی حسین کی خدمت میں حاضر ہوا تو انھوں نے اپنے والدماجد خاں صاحب منشی سراج دین خاں کے ذاتی کاغذات اور یاداشتوں کا سارا دفتر میرے سامنے رکھ دیا۔ وہ اس سے پہلے بھی اپنے والد ماجد کی بعض تحریریں مجھے ارسال کر چکی تھیں۔ نا سپاسی ہو گی اگر میں ان کی عنایات کا اعتراف نہ کروں۔ روالپنڈی ہی میں پروفیسر رحیم بخش شاہین کے ساتھ خان عبدالرحمان خاں کی خدمت میں حاضر ہوا۔ بڑی محبت اور شفقتِ بزرگانہ سے پیش آئے۔ انھیں گورنمنٹ کالج لاہور میں حضرت علاّمہ سے شرف تلمذ حاصل تھا۔ اپنے اس عنایت نامے کے علاوہ جو کچھ عرصہ پہلے ارسال کر چکے تھے ان سے بڑی قابل قدر معلومات حاصل ہوئیں۔ میں ان کا شکر گزار ہوں۔ لاہور سے بہت دور ضلع گجرات کے ایک دور افتادہ چک میں سید نورمحمد صاحب قادری کو نہ معلوم کیسے پتہ چل گیا کہ میں حضرت علاّمہ کی سوانح حیات لکھ رہا ہوں۔ انھوں نے کچھ اپنے اور کچھ میرے بزرگوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ۱۹ ویں صدی کے سیالکوٹ کی علمی اور دینی فضا کے بارے میں جو بھی علمی دستاویزیں اور بزرگوں کی یادداشتیں ان کے پاس محفوظ ہیں، علاوہ اس کے ان کا ذاتی کتب خانہ کچھ ایسے قلمی نسخوں، رسائل اور جرائد پر مشتمل ہے جواب بمشکل دستیاب ہوئے ہیں میرے استفادے کے لیے حاضر ہیں۔ پھر ایک روز سید صاحب خود ہی تشریف لے آئے میں ان کا بہ دل ممنون ہوں۔ وہ توجہ نہ فرماتے تو کئی ایک باتوں میں میری معلومات تشنہ رہ جاتیں۔ جامعہ پنجاب میں ڈاکٹر سیدمحمد عبداللہ رئیس شعبہ اُردو دائرہ معارف اسلامیہ اور ان کے رفقاء جناب سید امجد الطاف ، مرزا مقبول بیگ بد خشانی اور پروفیسر عبدالقیوم کا مجھے بالخصوص شکریہ ادا کرنا ہے۔ مآخذ کی تلاش اور کتابیات کے حصول میں بار بار ان کے لیے باعث زحمت ہوتا رہا۔ شعبہ مذکور کے عملے شیخ عطامحمد ، شیخ محمد سعید اور اسلم شاد بھی دلی شکریے کے مستحق ہیں۔ بہ شکل مسودہ اس سوانح حیات کی تبییض اور بار بار ٹائپ کا مرحلہ انھیں کی بدولت طے ہوا۔ کتب خانہ جامعہ پنجاب کے رکن ملک احمد نواز بھی میرا شکریہ قبول فرمائیں۔ یہ ان کی عنایت ہے کہ میں نے کتب خانہ جامعہ سے خوب خوب فائدہ اٹھایا۔ جناب احمد ندیم قاسمی ڈائریکٹر مجلس ترقی ادب اور سیکریٹری بزم اقبال ان کے رفقا جناب کلب علی خاں فائق، جناب محمد عبداللہ قریشی جنھوں نے حیات اقبال کی گم شدہ کڑیوں کی فراہمی سے اقبالیین کے لیے معلومات کا گراں بہاذخیرہ جمع کر دیا ہے اور جناب یونس جاوید کا بھی دل سے سپاس گزار ہوں۔ جس میں پھر اس ادارے کے کارکنوں کا شکریہ بھی لازم ٹھہرتا ہے۔ انھوں نے میرے لیے ہر ممکن سہولت پیدا کی۔ جناب سعید شیخ ڈائریکٹر ادارہ ثقافت اسلامیہ اور جناب ڈاکٹر معزالدین ڈائریکٹر اقبال اکادمی بھی میرا دلی شکریہ قبول فرمائیں۔ کتابیات کے لیے بالخصوص میں بار بار ان کے لیے باعث زحمت ہوتا رہا۔ میں جناب ڈاکٹر باقر نائب صدر اقبال اکادمی کا بالخصوص شکرگزار ہوں ۔ یہ انھیں کی توجہ اور عنایت کا نتیجہ ہے کہ حضرت علاّمہ کی سوانح حیات کے یہ چند اوراق آج قارئین کے سامنے ہیں۔ میں جناب اشفاق احمد ڈائریکٹر مرکزی اُردو بورڈ کا بھی سپاس گزار ہوں ۔ انھوں نے گویا بالواسطہ مجھے ان اوراق کی تکمیل کا موقع دیا۔ جناب قدرت اللہ شہاب بھی میرا دلی شکریہ قبول فرمائیں انہیں معلوم ہے کیوں۔ محبی عزیزی عبداللطیف اعظمی سیکریٹری شیخ الجامعہ، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی نے رسالہ جامعہ اور اپنی بعض تصنیفات کی باقاعدہ ترسیل کے علاوہ ’دانائے راز‘ کے عنوان سے حضرت علاّمہ کی جو مختصر مگر خیال انگیز سوانح عمری لکھی ہے مرحمت فرمائی اور میں نے اس سے خوب خوب استفادہ کیا ۔میں ان کا بہ دل ممنون ہوں۔ جناب سیّد اظہار الحسن رضوی کا بھی بالخصوص شکر گزار ہوں ۔ جزو زیر نظر کی طباعت میں انھوں نے میری مشکلات کا جس طرح خیال رکھا۔ مجھے جو سہولتیں بہم پہنچائیں کوئی دوسرا مطبع ان کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ افسوس ہے سید صاحب کی احتیاط اور توجہ کے باوجود متن میں کئی غلطیاں اور بے ربطیاں باقی رہ گئیں ۔ جن کی ذمہ داری سرتا سر راقم الحروف پر عائد ہوتی ہے مثلاً صفحہ اول ہی میں فصل اوّل کے نیچے سیالکوٹ کی بجائے شہر اقبال چھپ گیا۔ میں سید صاحب سے معذرت خواہ ہوں مطبع عالیہ کی طرف سے طباعت کی صحت اور درستی میں کوئی فرو گذاشت نہیں ہوئی۔ سیّد نذیر نیازی خطانمود ام و چشم آفریں دارم ۱۹۷۷ء سال اقبال تھا۔ منجملہ بہت سی تجاویز کے جو اس تقریب کی رعایت سے پیش کی گئیں ایک تجویز یہ بھی تھی کہ حضرت علاّمہ کی ایک مستند سوانح حیات تیار کی جائے۔ طے پایا کہ اس سوانح حیات کو مستند DefinitiveاورAnalyticalہونا چاہیے۔ سال بھر کی مدّت اس کی تکمیل کے لیے کافی ہو گی۔ اس خدمت کے لیے شاید کئی نام تجویز کیے گئے۔ ایک نام پر اتفاق بھی ہو گیا۔ کئی ایک حضرات از خود بھی اپنی خدمات پیش کر رہے تھے۔ بالآخر قرعۂ فال راقم الحروف کے نام پڑا اور وہ بھی خلاف توقع ۔ راقم الحروف پریشان ہو گیا۔ حضرت علامہ کی سوانح حیات، مستند، قطعی،تنقیحی اور وہ بھر سال بھی کی قلیل مدت میں: پھر جب سال اقبال سے یہ بھی مقصود تھا کہ ۱- شاعر اورمفکر اسلام ۲- مسلمانانِ جنوب مشرقی ایشیا کے لیے ایک آزاد وطن ۳- مسلمانان عالم کے اتحاد اور ۴- استعماری اور رجعت پسندقوتوں کے خلاف تیسری دنیا کے اتحاد و استحکام کے علمبردار کی حیثیت سے حضرت علامہ کی شخصیت اجاگر کی جائے۔ علی ہذا یہ کہ: خطبات میں اسلام کے اصول اجتہاد پر انھوں نے جس طرح قلم اٹھایا ہے اس کی تشریح و تعبیر کے ساتھ ساتھ اب ان کے فکر و فن کی آفاقی حیثیت زیر نظر رہے۔ سوانح نویسی کے سلسلے میں یہ سب باتیں اگرچہ صریحاً مذکور نہیں تھیں لیکن راقم الحروف کیا ،کوئی سوانح نگار ان کو نظر انداز نہیں کر سکتا تھا۔ پھر جب راقم الحروف کے نزدیک حضرت علامہ کے فکر و نظر کے اور بھی کئی پہلو توجہ طلب تھے۔علاوہ اس کے کچھ وہ ذمہ داریاں بھی جو بسبب اس تعلق کے جو ذاتی طور پر اسے حضرت علامہ سے تھا، اس پر عائد ہوتی تھیں۔ لہٰذا راقم الحروف پریشان بھی تھا اورمتامل بھی۔ لیکن معاملہ قرعۂ فال کا تھا۔ اسے کوئی راہ فرار نہ ملی ۔ یوں بھی کوئی سوانح حیات ہو کسی نقطہ نظر سے لکھی جائے اس کے کچھ نہ کچھ لوازم ہوں گے۔ لوازم کا تقاضا ہے کچھ انتظامات جن میں سوانح نویس کی ذاتی حیثیت سے قطع نظر کیا جا سکتا ہے، نہ ان مشکلات سے جو ہر سوانح نویس کو طرح طرح سے پیش آتی ہیں۔ مثلاً یہی مآخذ اور معلومات یا یوں کہیے اس سارے مواد کی فراہمی کا معاملہ ہے۔ اس کی چھان بین ترتیب و تقسیم کا جس کے بغیر ناممکن ہے کوئی سوانح حیات معرضِ تحریر میں آ سکے۔ معلومات کے لیے افراد اور مقامات کا رُخ کرنا پڑتا ہے۔ مآخذ کے لیے کتابیات کا اور یہ کوئی آسان کام نہیں۔ راقم الحروف کو اس سلسلے میں کچھ سہولتوں کی ضرورت تھی، کچھ تعاون کی۔ خیال تھا کہ سال بھر یا اس سے کچھ زیادہ مدت میں حضرت علامہ کی ایک ایسی سوانح حیات تیار ہو جائے گی جو بہمہ وجوہ مکمل ، مبسوط اور مفصّل تو نہیں ہو گی لیکن باوجود اِختصار اس حد تک جامع کہ آگے چل کر ایک ضخیم اور صحیح معنوں میں مکمل اور جامع سوانح کے لیے تمہید کاکام دے سکے۔ لیکن ایسا نہ ہوا راقم الحروف کو تن تنہا یہ خدمت سر انجام دینا پڑی ۔ دشواریاں بہت تھیں لہٰذا کام کی رفتار سست رہی پھر ایک ذاتی صدمے کے باعث یہ سلسلہ دفعتاً رُک گیا تا آنکہ قلم اُٹھانے کی نوبت آئی تو کئی مہینوں کے بعد سال اقبال آ گیا۔ راقم الحروف پریشان تھا مگر پھر جب معلوم ہوا کہ ا س تقریب کی رعایت سے حضرت علامہ کی ایک سوانح حیات تیار ہو رہی بلکہ ہو چکی ہے تو راقم الحروف نے اطمینان کا سانس لیا۔ اسے تسلی تھی کہ اب یہ ممکن ہو گا کہ اس خدمت کو اپنے طور پر سر انجام دے۔ یعنی بجائے اجمال کے تفصیلاً حتی الوسع وضاحت اور جامعیت کے ساتھ۔ راقم الحروف کو یہ گوارا نہیں تھا کہ حضرت علامہ اقبال کی سوانح حیات کو ایک مقالے کی شکل دی جائے جیسا کہ بصورت اختصاراحتمال تھا۔ مقالہ کیسا بھی جامع اور بلند پایہ کیوں نہ ہو اسے مقالہ ہی کہا جائے گا، سوانح حیات نہیں کہیں گے۔ اسے یہ بھی منظور نہیں تھا کہ حضرت علامہ کے حالات زندگی کی سنینی ترتیب کے ساتھ ساتھ باعتبار ان سیاسی اور ملی شئون کے جن سے ان کا گزر ہوا ان کے موقف یا افکار اور تصورات کی طرف اشارہ کرتا رہے۔ سوانح حیات کوائف حیات کا تفصیلی، یا مختصر بیان نہیں ہے ، نہ اجمالی تذکرہ۔ روداد حیات ہے اسے ’’دید‘‘ کہیے۔ بقول مولانا روم: آدمی دید است باقی پوست است راقم الحروف کی رائے میں اس ’دید‘ کی ابتدا پروفیسر نکلسن نے کی۔ انھوں نے اسرار خودی کا ترجمہ کیا تو اس کے دیباچے میں حضرت علاّمہ کے دل و دماغ اور فکر و نظر کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کی۔ اس وقت سے لے کر اب تک یہ سلسلہ جاری ہے ۔ ایک نہیں کئی پہلوئوں سے اپنی جگہ پر قابل تعریف مگر نا مکمل اس لیے کہ راقم الحروف کے نزدیک اس کی نظر جزپر ہے کل پر نہیں ہے۔ لیکن سوانح حیات کا ایک حصّہ لکھا جا چکا تھا۔ طے پایا کہ اس کی اشاعت بہر حال ضروری ہے اور یہی حصّہ اب جزو اوّل مجلد اول کی شکل میں قارئین کے سامنے ہے گو راقم الحروف بوجوہ اس سے مطمئن نہیں۔ ایک تو اس لیے کہ بسبب ان مشکلات کے جو راقم الحروف کو پیش آئیں اور جن کا اس کے پاس کوئی مداو ا نہیں تھا اسے انھیں معلومات پر قناعت کرنا پڑی جو اسے میسر آ سکیں۔ حالانکہ اس باب میں اس کا ذہن کبھی بھارت کی طرف منتقل ہوتا، کبھی انگلستان اور جرمنی، کبھی ہر اس سر زمین کی جانب جس سے حضرت علامہ کا گزر ہوا۔ ثانیاً معاملہ عجلت کا تھا لہٰذا اس جزو کی تحریر وتسوید حسب منشا نہ ہو سکی۔ کچھ حصہ ایک نہج پر لکھا گیا۔ کچھ اس خیال سے کہ اب پابندیٔ وقت کی قید نہیں دوسری نہج پر گواساساً اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ۔ یوں متن میں کچھ ناہمواری سی پیدا ہو گئی ہے بعض عبارتیں شاید غیر مربوط یا غیر متوازن سی معلوم ہوں گی۔ کہیں اطناب ہے۔ کہیں بمقابلہ اس کے طوالت۔ یہ تو راقم الحروف کا ذاتی احساس ہے ۔ نہیں معلوم قارئین اس پر کس کس پہلو سے گرفت کریں۔ ان کے نزدیک شاید کئی معلومات تشنہ ہوں گی ۔ کئی مفروضے خود ساختہ۔ کئی بیانات محل نظر۔ راقم الحروف کو اپنے کرم فرمائوں، ناقدین اور قارئین کے نقد و تبصرہ ، مشوروں اور تجویزوں کا انتظار رہے گا تا کہ اس جزو کی ترتیب ثانی میں جہاں کہیں ضرورت ہے اصلاح و ترمیم کی جا سکے۔ سردست اس جزو کی حیثیت تسوید اول کی ہے۔ طبع مکرر پر البتہ یہ ممکن ہو گا کہ اس میں جو سقم باقی رہ گئے ہیں ان کے ازالے کے ساتھ ساتھ جیسا کہ چاہیے خاطر خواہ شکل دی جا سکے۔ اس سوانح حیات کا عنوان ہے دانائے راز، جو گویا آپ ہی آپ تجویز ہو گیا۔ اس لیے کہ سال اقبال کی تقریبات کے لیے جو کمیٹی قائم کی گئی اس نے اپنے پہلے اجلاس کی رود اد شائع کی اور راقم الحروف کو اس کی ایک نقل بھیجی تو راقم الحروف نے دیکھا کہ اس کی پیشانی میں دانائے راز کا عنوان قائم ہے لہٰذا راقم الحروف نے بھی یہی عنوان اختیار کیا۔ لیکن دو اور باتیں ہیں جن کی طرف اشارہ کر دینا نامناسب نہ ہو گا۔ ایک یہ کہ اس سوانحِ حیات میں راقم الحروف نے حضرت علامہ کو محمد اقبال لکھا ہے اور یہی شاید سوانح نویسی کا تقاضا بھی ہے۔ حضرت علاّمہ ’حکیم الامّت‘ علامہ، علامہ اقبال، ڈاکٹر صاحب یا اقبال کہیں نہیں لکھا ۔ ڈاکٹر صاحب کا استعمال ایک خاص حلقے اور خاص زمانے تک محدود تھا۔ اقبال کا اشارہ شاعر اقبال، یا فلسفی اقبال کی طرف ہے۔ حضرت علامہ اور حکیم الامّت ایسے توصیفی اور تعظیمی القاب کا استعمال بچپن اور زمانۂ طالب علمی یا لاہور اور یورپ کی تعلیمی زندگی کے بیان میں کچھ اچھا معلوم نہیں ہوتا تھا۔ یہ القاب یوں بھی بہت بعد میں وضع ہوئے۔ حضرت علاّمہ کو خود بھی القابات سے بڑی نفرت تھی۔ لہٰذا راقم الحروف نے انھیں ہرکہیں محمد اقبال ہی لکھا ہے ۔ نہ معلوم قارئین کی رائے اس باب میں کیا ہو۔ لیکن ایک اور وجہ انھیںمحمد اقبال لکھنے کی یہ ہے کہ جن دنوں ان کا قیام میکلوڈ روڈ والی خستہ حال کوٹھی میں تھا ان کی خواب گاہ میں سرہانے کے رُخ ایک معمولی سے چوکھٹے میں ان کا سجع دارد امید شفاعت ز محمد اقبال دیوار پر آویزاں رہتا تھا۔ یہ سجع جاوید منزل میں تو نظر نہیں آیا نہ بسبب حضرت علاّمہ کی شدید علالت اور شب وروز خبر گیری کے پوچھنے کی نوبت آئی کہ میرا خیال ہے یہ سجع ان کا اپنا ہی کہا ہوا ہے۔ انھیں حضور سرور کائنات ا کی ذات گرامی سے جو والہانہ محبت تھی، جو عقیدت اور عشق تھا اس کا اظہار شاید یوں بھی ہوتا ہے کہ انھوں نے جب کبھی اور جہاں کہیں بھی اپنا نام لکھا بجز ایک آدھ استثنا کیمحمد اقبال ہی لکھا لہٰذا راقم الحروف نے بھی یہی مناسب سمجھا کہ جن دو لفظوں کو انھوں نے کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا انھیں یک جا ہی رکھا جائے۔ محمد اقبال کو محمد اقبال ہی لکھوں۔ دوسری بات جس کی طرف اشارہ کر دینا غیر ضروری نہ ہو گا یہ کہ اگر کوئی خاص امر مانع نہ ہوا تو اس مجلد کا جزو ثانی اسی سال ۱۹۷۹ء میں طبع ہو جائے گا۔ یہ مجلد ۱۹۰۸ ء پر ختم ہوتی ہے ۔ یورپ میں حضرت علاّمہ کے تعلیمی سفر سے مراجعت پر ۔لیکن راقم الحروف کے نزدیک اس سوانح حیات کی حیثیت چونکہ بنیادی ہے،’’اقبالیات‘‘ کی ساری دنیا پر حاوی تا کہ جو ارباب علم اس کے کسی پہلو مثلاً افکار اور تصورات ،شاعری،سیاسی یا ملی زندگی پر قلم اٹھائیں وہ کُل جس کا ان کی شاعری ،علمی اور ملی خدمات یا افکار و تصورات ایک جزو میں ان کے سامنے ہو۔ یہ ایک عظیم منصوبہ ہے جس کی تکمیل اسی ضخامت کے متعدد اجزا، یعنی سات آٹھ مجلدات میں ہو گی۔ کوئی دس ہزار صفحات ،مگر کیسے ؟راقم الحروف کے پاس ا س کا ایک ہی جواب ہے۔ بقول مرزا غالب: شعور ایست در سرم کہ بساماں برابر است وللّہ التوفیق۔ پیش لفظ سید نذیر نیازی عصر حاضر کے ان جید علماء اور متحضصینِ اقبالؒ کے زمرے میں شامل ہیں جنھیں ایک طویل عرصے کے لیے حضرت علامہ ؒ کا شرف حضور و قرب حاصل رہا ہے اور ان سے بہتر فاضل شخصیت شاید اب اس دنیا میں موجود نہیں جو علامہ کے سوانح حیات اور شخصیت کا تجزیہ کر سکے۔ چونکہ اقبال گزشتہ نصف صدی سے نیازی صاحب کا دل پسند موضوعِ مطالعہ رہا ہے اور اس سلسلے میں آپ نے متعدد تالیفات شائع بھی کی ہیں اس لیے نیشنل کمیٹی برائے صد سالہ تقریبات ولادت علامہ محمد اقبال کی آرزو تھی کہ وہ ایک مفصّل کتاب ترتیب دیں جو احوال وآثار اقبال کا مکمل احاطہ کرے ۔ لیکن بوجوہ نیازی صاحب کئی سال میں اس طویل اور ضخیم منصوبے کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔ اس وقت تک نیازی صاحب قبلہ نے اس منصوبے کے ایک حصیّ کودانائے راز کے عنوان سے تین فصلوں میں ترتیب دیا۔ جس میں فصل اوّل علاّمہ کی ولادت ۹ نومبر ۱۸۷۷ء سے لے کر ۱۸۹۵ء کے احوال پر مشتمل ہے۔ دوسری فصل ۱۹۰۵ء تک واقعات کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور تیسری فصل کا صرف ایک جزو لکھا کہ اقبال اکادمی پاکستان نے یہ طے کیا کہ نیازی صاحب کی تحقیق و تدقیق سے جتنا مواد اب تک دستیاب ہوا ہے اور طبع ہو چکا ہے اسے فی الوقت تبر کاً شائع کر دیا جائے۔ چنانچہ قارئین ملاحظہ فرمائیں گے کہ زیر نظر کتاب میں نیازی صاحب نے بڑی عرق ریزی سے وہ تمام مواد یکجا کر دیا ہے جو مختلف مطبوعات میں پھیلا ہوا تھا اور جب تک وہ اپنی تلاش میں کا ملاً مایوس نہیں ہوئے وہ برابر حقائق کی تعقیب کرتے چلے گئے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ تبزک اپنے طور پر ایک جامع اور کامیاب کوشش ہے۔ جس کے لیے اکادمی نیازی صاحب کی بے حد ممنون ہے ۔ اکادمی اور اس کے اراکین کی دلی دعا ہے کہ نیازی صاحب جلد از جلد باقی منصوبہ بھی مکمل کرنے میں کامیاب ہوں۔ آمین۔ محمدباقر ۲۸ جون ۱۹۷۹ء فصل اوّل دانائے راز شہر اقبال تا ۱۸۹۵ء ۱-محمد اقبال حکیم الامت حضرت علامہ اقبال کی تاریخ ولادت ، جیسا کہ ڈاکٹریٹ کے لیے مقالہ پیش کرتے ہوئے بطور تعارف انھوں نے اپنے تذکارحیات ۱؎ میں خودلکھا۔ جمعہ ، ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ ہے ۹ نومبر ۱۸۷۷ء ۲؎ وطن سیالکوٹ ارض پاک و ہند میں مغربی پنجاب کا مشہور شہر۔ حکیم الامت کے والد شیخ نور محمد ایک صوفی منش بزرگ تھے۔ کسب معاش کے لیے باپ کے ساتھ بزازی کی دکان پر بیٹھے۔ پارچہ دوزی کا پیشہ اختیار کیا۔۳؎ برقعوں کی ٹوپیاں سینے لگے۔دھسوں کا کاروبار بھی کیا۔ یہ کاروبار خاصہ نفع مند رہا۔ رفتہ رفتہ مالی حالت سدھرنے لگی ورنہ گزر اوقات معمولی تھی۔ ۴؎ شیخ نور محمد کی ناک چھدی ہوئی تھی۔ عرف نتھو ٹوپیوں والا۔ والدہ امام بی بی بڑی نیک سیرت ، بڑی سمجھدار ، صوم وصلوٰۃ کی پابند ، گھر کا کام کاج خود ہی کرتیں ۔ گھر زیادہ بڑا نہیں تھا۔ میاں بیوی ،اٹھارہ انیس برس کا ایک لڑکا۔ دو بہنیں عمر میں بہت چھوٹی اور یہ نومولود جو ایک بھائی کی وفات کے بعد، جوشیرخوارگی ہی میں داغ مفارقت دے گیا، پیدا ہوا۔ پھر دو بہنیں کریم بی بی اور زینب بی بی۔ بڑا بھائی عطا محمد بڑی بہنیں فاطمہ بی بی ،طالع بی بی۔ ماں خوش کہ بار گاہ الٰہی نے اس کی دعائیں سن لیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ایک بیٹا اور دے دیا۔ باپ مطمئن کہ خواب میں جو اشارہ غیبی ہوا تھا اس کی تعبیر صحیح نکلی۔۵؎ وہ کسی مسرت اور شکر گزاری سے اعزہ و اقارب کی دعائیں اور مبارک باد لے رہے تھے۔ کس محنت اور دل سوزی سے انھوں نے بیٹے کی پرورش کی۔ نام بھی ماں ہی نے رکھا،محمد اقبال۔ اس وقت کسے معلوم تھا محمد اقبال کیسا صاحب اقبال ہو گا۔ شیخ نور محمد کے آباؤ اجداد نے ترک وطن کیا۔ کشمیر سے پنجاب آئے۔ معلوم نہیں کب۔ قیاساً محمد اقبال کی پیدائش سے سو ڈیڑھ سو برس پہلے۔ یہ شاید ان کے دادا شیخ جمال الدین تھے جنھوں نے اوّل اوّل سیالکوٹ میں سکونت اختیار کی۔ نادر اور ابدالی کی ترک تازیوں کے بعد جب سکھ گردی کا دور آیا کشمیر کا رشتہ دولت مغلیہ سے کٹ گیا۔ کشمیر افغانوں کے قبضے میں آ گیا۔ افغانوں نے سکھوں سے ہزیمت اٹھائی تو لوٹ کھسوٹ اور بد نظمی کے اس دور میں کشمیری مسلمانوں کے لیے امن و عافیت کے ساتھ ساتھ کسب معاش کی راہیں بھی مسدود ہو گئیں۔ اس پر آشوب زمانے میں اکثر اور بیشتر خاندانوں نے پنجاب کا رخ کیا۔ سیالکوٹ کا رشتہ کشمیر سے بہت پرانا ہے۔سیالکوٹ کشمیری راجائوں کے زیر تسلط رہ چکا ہے۔ سیالکوٹ کا جغرافی محل وقوع کشمیر کے لیے نہایت اہم ہے ، کیا باعتبار آمد ورفت، کیا با اعتبار کاروبار، سیاسی، تہذیبی اور تمدنی روابط کے ۔ لہٰذا کچھ خاندان سیالکوٹ آئے، یہیں بس گئے تا آنکہ کشمیری محلے کے نام سے ایک محلہ بھی آباد ہو گیا۔ شیخ نور محمد اسی محلے سے ملحق ایک چھوٹی سی گلی چوڑی گراں میں رہتے تھے۔ مکان چھوٹا تھا۔ ان کے والد کا خرید کردہ کچھ کچا کچھ پکا۔ ایک ڈیوڑھی ، ایک آنگن ، ایک دالان اور دو کوٹھریاں۔ حکیم الامّت اسی مکان میں پیدا ہوئے۔ یہ جو اس ملحق اقبال منزل کے نام سے سر بازار ایک سہ منزلہ عمارت کھڑی ہے، ان کی جائے پیدائش نہیں، جیسا کہ غلطی سے بازار سے اترتے ہوئے زینے کے اوپر ایک مرمریں لوح میں ثبت ہے کہ یہی وہ منزل سعید ہے جہاں حکیم الامت پیدا ہوئے۔ عمر ہا در کعبہ و بت خانہ می نالد حیات تا ز بزمِ عشق یک دانائے راز آید بروں اصل مکان جسے ۱۹۳۸ء میں انھوں نے بڑے بھائی کے نام ہبہ کر دیا علی حالہ قائم ہے فرمایا: ’’جاوید کا اپنا مکان موجود ہے اسے اس مکان کی کیا ضرورت ۔ بھائی صاحب کے مجھ پر بڑے احسان ہیں۔ علی بخش ہبہ نامہ لے او ر ان کے دستخط لے لو‘‘۔ ۶؎ ۲۔ خاندان شیخ نور محمد کے یہاں ایک روایت چلی آ رہی تھی کہ ان کے مورث اعلیٰ کوئی صوفی بزرگ تھے، بابا لولی حج ۔ ان کا اصل نام تو معلوم نہیں، نہ یہ کہ انھیں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا یا ان کے کسی بزرگ نے ، معلوم ہے تو یہ کہ ’’مدت کی جستجو کے بعد ہمیں اپنے بزرگوں کا سراغ مل گیا ہے۔ حضرت بابا لولی حج کشمیر کے مشائخ میں سے تھے۔ ان کا ذکر خواجہ اعظم کی تاریخ کشمیر۷؎ میں اتفاقاًمل گیا ۔ ان کا اصل گائوں لوچڑ نہیں تھا، بلکہ موضع چکو، پرگنہ اڈون میں تھا۔۸؎ ترک دنیا کر کے کشمیر سے نکل گئے، بارہ سال کشمیر سے باہر رہے۔ واپس آنے پر اشارہ غیبی پا کر بابا نصیر الدین کے مرید ہوئے۔ بقیہ عمران کی صحبت میں گزری۔ اپنے مرشد کے جوار ہی میں مدفون ہیں ‘‘۔ ۹؎ بابا نصیر الدین ایک متمول ہندو خاندان کے فرزند تھے۔ بچپن ہی سے سوئے ہضم کی شکایت تھی۔ علاج معالجہ کامیاب نہ رہا۔خواب میں اشارہ ہوا کہ شیخ العالم شیخ نور الدین ریشی سے رجوع کریں۔ انھوں نے دعا فرمائی ، اچھے ہو گئے۔ اسلام قبول کر لیا پھر شیخ ہی کی صحبت میں عمر گزاری اور اس حد تک فیض یاب ہوئے کہ ان کاشمار شیخ کی زندگی ہی میں ان کے خلفاء میں ہونے لگا۔۱۰؎ شیخ العالم سلسلہ ریشیان کے مشائخ میںسے تھے۔۱۱؎ سلطان شہاب الدین کے عہد میں پیدا ہوئے ۔۱۲؎ سلطان زین العابدین ’’بڈشاہ‘‘ کے عہد میں وفات پائی۔ سلطان خود جنازے میں شریک تھا۔۱۳؎ لیکن ان روایات سے جن کی صحت میں کلام نہیں ، یہ پتہ نہیں چلتا کہ یہ بابا لولی حج تھے جنھوں نے حکیم الامت کے آباء اجداد میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا یا ان کے کسی بزرگ نے۔ اس لیے کہ بابا لولی حج نے بابا نصیر الدین کی بیعت کی تو کشمیر سے باہر اپنی طویل سیاحتوں اور بار بار فریضہ حج کی ادائیگی سے واپس آ کر۔ قبولیت اسلام سے پہلے انھیں بابا نصیر الدین سے بیعت کا اشارہ کیسے مل سکتا تھا۔ بعینہ اگر سپرو خاندان کی گوت ہے اور سپروشا پور کی بگڑی ہوئی شکل نہیں، جیسا کہ دیوان ٹیک چند کمشنر انبالہ نے مجھ سے کہا، دراصل ایرانی تھے۔ کشمیر آئے اور ’’اپنی ذہانت و فطانت کی بدولت براہمۂ کشمیر میں شامل ہو گئے‘‘۔ ۱۴؎ نہ ایک گبر شاپور کی اولاد جس نے امیر اکبر حضرت شاہ ہمدان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا بلکہ ’’براہمہ کشمیر کے جس گروہ نے سب سے پہلے فارسی زبان وغیرہ کی طرف توجہ کی سپرو کہلایا ۔ ۱۵؎ تقدم کے لیے کئی زبانوں میں آتا ہے۔ ’پر‘ کا روٹ ۱۶؎ وہی جو ہمارے مصدر، بڑھنے کا‘‘ ۱۷؎ تو یہ کہنا مشکل ہے کہ اس گوت کی ابتداء کب ہوئی، بابا لولی حج ، یا ان کے کسی بزرگ کی اولاد سے ۔ ۱۸؎ اتنا بہر حال طے ہے کہ حکیم الامت کے آباء اجداد نے آج سے دو ڈھائی سو برس پہلے نہیں، جیسا کہ غلطی سے فوق نے لکھا ہے، بلکہ چار پانچ سو برس پہلے اسلام قبول کیا۔ ۱۹؎ اس غلطی کا ازالہ اس طرح ہوا کہ ۱۹۲۵ء میں ڈاکٹر صوفی غلام محی الدین رجسٹرار دہلی یونیورسٹی ڈاکٹریٹ کے لیے کشمیری تہذیب و تمدن پر ایک مقالہ لکھ رہے تھے۔ممتحین میں محمد اقبال کا نام بھی شامل تھا۔صوفی صاحب کی ہدایت پر ویدہ مری کا نسخہ ان کی خدمت میں پہنچا۔ انھوں نے دو چار ورق ہی الٹ کر دیکھے تھے کہ بابا لولی حج کا تذکرہ مل گیا۔ تذکرہ ملا تو وطن اور زمانے کے یقین میں بھی کوئی مشکل نہ رہی۔ فوق نے ، باوجودیہ کہ محمد اقبال سے گہرے مراسم تھے، قیاساً لکھ دیا کر ان کے جداعلیٰ نے کوئی سوا دو سو برس پہلے اسلام قبول کیا۔ بعینہ ذکرِ اقبال یا بعض دوسری سوانح حیات میں جو یہ لکھا گیا ہے کہ ان کے جد اعلیٰ نے جس صوفی بزرگ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ان سے اکتساب فیض میں اس حد تک آگے نکل گئے کہ انھوں نے اپنی بیٹی ان کے نکاح میں دے دی حاجی صالح ان کا نام ہوا جس کی وجہ تھی ان کی صالح زندگی۔ یہ روایت بے سند ہے لہٰذا نا قابل قبول۔ بالخصوص اس مکتوب کی موجودگی میں جس کا حوالہ ابھی دیا گیا ہے۔ بات واضح ہے بابا نصیر الدین ۱۴۵۱ء میں فوت ہوئے ان کے مرید لولی حج یا ان کے اسلاف پہلے ہی اسلام قبول کر چکے تھے۔ بابا لولی حج کی اولاد میں ایک بزرگ تھے شیخ اکبر، انھیں پیری اس طرح ملی کہ خاندان سادات کے ایک سربراہ کا جو سنکھترہ ۲۰؎ میں مقیم تھے ، انتقال ہوا تو شیخ اکبر نے ان کے مریدوں کو سنبھالا۔ لوگ اس خاندان کو سید نہیں مانتے تھے۔ ان پر طعن و تشنیع کی جاتی۔ ایک روز اس کے سربراہ ایک سبز کپڑا اوڑھ کر آگ میں بیٹھ گئے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ یہ کپڑا حضرت امام حسین علیہ السلام کی یاد گار ہے، ان پر آگ اثر نہیں کرے گی اور ہوا بھی یہ کہ آگ نے ان پر مطلق اثر نہ کیا۔ دھسوں کا کاروبار انھیں کے ایک مرید کے ایما پر کیا گیا تھا۔ ۲۱؎ لیکن جس طرح یہ معلوم نہیں کہ شیخ اکبر بابا لولی کی کس پشت سے تھے بعینہ یہ بھی کہ شیخ مذکور شیخ جمال الدین کے دادا تھے یا پڑدادا۔ معلوم ہے تو یہ کہ شیخ جمال الدین کے چار بیٹے تھے۔ بڑے شیخ محمد رمضان ، تصوف میں چند ایک فارسی رسائل کے مصنف۔ دوسرے شیخ محمد رفیق شیخ نور محمد کے والد، تیسرے اور چوتھے شیخ عبدالرحمان اور شیخ عبداللہ جن میں اوّل الذ کرنے دکن کا رُخ کیا اور وہیں کے ہو رہے ۔ مؤخر الذکر سیالکوٹ کے نواح میں جابسے ۔ شیخ محمد رفیق کے سب سے بڑے بیٹے شیخ نور محمد باپ کے ساتھ بزازی کا کاروبار کرتے۔ دوسرے شیخ غلام محمد محکمہ نہر میں ملازم تھے۔ تبدیل ہو کر روپڑگئے ۔ شیخ محمد رفیق کا انتقال بھی روپڑ ہی میں ہوا ۔ بیٹے سے ملنے گئے تھے کہ ہیضے میں مبتلا ہو گئے۔ شیخ محمد رفیق ۱۸۴۹ء میں زندہ تھے۔۲۲؎ ۳۔ تعلیم و تربیت محمد اقبال نے ہوش سنبھالا تو شیخ نور محمد نے انھیں عمر شاہ کے مکتب میں بٹھا دیا۔ وہ مولٰینا میر حسن کے برادر عم زاد تھے۔ مسجد میر حسام الدین میں بچوں کو پڑھاتے۔ یہ مسجد ۱۸۷۶ء میں تعمیر ہوئی جس کا ایک بغلی کمرہ جو گویا بیٹھک کے طور پر تعمیر ہوا میر حسن کی درس گاہ کا کام دیتا تھا۔ محمد اقبال نے اس مکتب میں نوشت و خواند سیکھی۔ قرآن مجید پڑھا۔ یہ مرحلہ طے پایا یا اس کے دوران ہی میں شیخ نور محمد نے انھیں مولیٰنا غلام حسن کے مدرسے میں بھیج دیا۔ ۲۳؎ مقصد یہ تھا کہ محمد اقبال دینی تعلیم حاصل کریں۔ لیکن چند دن گزرے تھے کہ اس مدرسے میں مولانا میر حسن کا گزر ہوا۔ انھوں نے محمد اقبال کو دیکھا تو پوچھا یہ کس کا بچہ ہے ۔ معلوم ہوا شیخ نور محمد کا۔ میرحسن شیخ نور محمد سے ملے اور یہ کہنے لگے محمد اقبال کو میرے پاس بھیج دیں اسے میں پڑھائوں گا۔ شیخ نور محمد رضا مند ہو گئے۔ بس یہ دن تھا اور مولانا میر حسن کا دَم آخر محمد اقبال کا رشتۂ تلمذان سے برابر قائم رہا۔ باپ کی آرزو کہ بیٹا اعلیٰ تعلیم حاصل کرے پوری ہوئی۔’’میرے والد کی بڑی خواہش تھی مجھے تعلیم دلوائیں۔ انھوں نے پہلے تو مجھے مسجد میں بٹھایا۔ پھر شاہ صاحب کی خدمت میں بھیج دیا‘‘۔۲۴؎ مسجد کا اشارہ عمر شاہ کے مکتب کی طرف ہے ، شاہ صاحب کا، مولانا میر حسن کی جانب ۔ سیالکوٹ میں میر حسن کو شاہ صاحب ہی کیا جاتا تھا۔’’ میری تعلیم عربی فارسی سے شروع ہوئی ۔ چند سالوں کے بعد ایک مقامی اسکول میں بھیج دیا گیا۔‘‘ ۲۵؎ ’’عربی فارسی سے اس لیے کہ عربی اور فارسی اسلامی علوم و معارف کی زبان ہے‘‘۔ اسکول سے مراد ہے اسکاچ مشن ہائی اسکول جس کی عمارت اب بھی جوں کی توں موجود ہے ،بجز چند کمروں کے جو اصل عمارت سے ہٹ کر تعمیر ہوئے۔ وہی ہال ، وہی کمرے، وہی صحن جہاں محمد اقبال نے تعلیم پائی ۲۶؎ اور جہاں داخل ہو کر میں نے یونیورسٹی کیرئیر ۲۷؎ شروع کیا‘‘ ۔ ۲۸؎ اور جہاں ۱۸۸۸ء میں پرائمری، ۱۸۹۱ء میں مڈل ، ۱۸۹۳ء میں اینٹرنس کے امتحانات میں وظیفہ لے کر کامیاب ہوئے۔ ۲۹؎ ورینکلر امتحان میں اوّل آئے۔ ۱۸۸۹ء میں اسی اسکول میں ایف ۔ اے کی دو جماعتوں کا اضافہ ہو چکا تھا۔ محمد اقبال اسکاچ مشن ، آگے چل کر مرے کالج ۳۰؎ میں داخل ہوگئے ۔ ۱۸۹۵ء میں ایف ۔ اے کیا اور عربی میں نمایاں کامیابی کی بنا پر وظیفہ پایا۔ سیالکوٹ میں اب مزید تعلیم کا کوئی انتظام نہیں تھا، علی گڑھ دور تھا اور گھر کے وسائل محدود، کہ اگر نہیں بھی ہوتے تو علی گڑھ رہ کر میر حسن سے کسب فیض نا ممکن تھا۔ لاہور قریب تھا۔ بڑے بھائی کی محبت، خلوص اور ایثار کام آیا۔ محمد اقبال لاہور آ گئے۔ مگر پھر لاہور ہی پر کیا موقوف ہے، انگلستان اور جرمنی میں واپسی پر بھی بھائی کے خلوص، محبت اور ایثار میں فرق نہیں آیا۔ دراصل محمد اقبال کے مستقبل کی تعمیر میں بڑے بھائی کا حصہ فیصلہ کن ہے جس کا انھیں ہمیشہ اعتراف رہا ۔ بہر حال ۱۸۹۵ء میں محمد اقبال لاہور آ گئے اور یونیورسٹی کیرئیر کی باقاعدہ ابتداء ہو گئی ۔ جادہ ہائے علم و دانش طے ہونے لگے۔ اس وقت کسے معلوم تھامیں ایک دن اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کروں گا۔ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں سے میرا گزر ہو گا۔ اس وقت تو یہ بھی معلوم نہیں تھا یونیورسٹی کیا ہوتی ہے ، فیکلٹی ۳۱؎ کسے کہتے ہیں۔ یہ الفاظ سننے میں بھی نہیں آئے تھے‘‘۔۳۲؎ محمد اقبال عمر شاہ کے مکتب میں بیٹھے تو ان کی ذہانت اور شوخ طبعی کا اظہار تھوڑے ہی دنوں میں ہونے لگا۔ ۱۹۷۳ء میں ان کی ایک ہم سبق محترمہ کرم بی بی مرحومہ سے جو عمر میں ان سے صرف دو برس چھوٹی تھیں، اس مکتب کا ذکر آیا تو جیسے بیتے ہوئے دن واپس آ گئے بڑے مزے سے لیکن بسبب پیرانیہ سالی رک رک کر کہنے لگیں: ’’ ہم ایک ساتھ پڑھتے۔ پڑھائی کے ساتھ کھیل کود میں وقت گزرتا۔ اقبال بڑا شریر تھا۔ طرح طرح کی شرارتیں کرتا، خود ہنستا ہمیں ہنساتا۔ پڑھنے لکھنے میں بلا کا تیز ۔ معلوم ہوتا تھا اسے پہلے ہی سے سب کچھ یاد ہے ‘‘۔ ۳۳؎ مولانا غلام حسن کے مدرسے میں بیٹھے یا نہیں بیٹھے میر حسن کی نگاہ جو ہر شناس نے دیکھتے ہی ان کے دل وماغ کی صلاحیتوں کا اندازہ کر لیا۔ آپ ہی آپ خواہش کی کہ محمد اقبال ان کے شاگرد بنیں جیسے آگے چل کر بقول مرزا غالب شاعری نے کہ محمد اقبال کا فن بنے۔ ۳۴؎ محمد اقبال نے میر حسن کے آگے زانوئے تلمذتہ کیا تو استاد کو شاگرد سے جو توقعات تھیں اس خوبی سے پوری ہونے لگیں جیسے میر حسن نے محمد اقبال کے اندرو ن وجود میں جھانک کر دیکھ لیا تھا محمد اقبال کیا بننے والے ہیں۔ محمد اقبال کے شوق علم اور فہم ادراک کا یہ عالم تھا کہ میر حسن کو شاگرد کی آمد کا انتظار رہتا ، شاگرد آئے تو سبق شروع کریں ۔دیر ہو جاتی تو پوچھتے محمد اقبال کہاں ہے۔ ۳۵؎ محمد اقبال کی حیثیت میر حسن کے شاگردوں میں منفرد تھی ، لہٰذا میر حسن کی توجہ بھی محمد اقبال پر سب سے زیادہ ۔ پھر جب محمد اقبال نے اردو، عربی اور فارسی کے ابتدائی متون ختم کر لیے اور میر حسن نے دیکھا کہ وقت آ گیا ہے شاگرد جدید تعلیم حاصل کرے تو انھوں نے محمد اقبال کو اسکاچ مشن ہائی سکول میں داخل کرا دیا، جہاں وہ خود بھی مدرس تھے اور جس کے لیے وہ انھیں تیار کر رہے تھے، اگرچہ خلاف معمول دیر سے۔۳۶؎ ’’میری تعلیم کی ابتداء عربی اور فارسی سے ہوئی، کچھ سالوں کے بعد میں ایک مقامی اسکول میں داخل ہو گیا‘‘ ۳۷؎ بات یہ ہے کہ میر حسن انگریزی تعلیم کی ضرورت اور افادیت کے قائل ہی نہیں تھے بلکہ اس کے پُر زور مؤید۔ یہ انھیں کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ محمد اقبال کا سلسلہ تعلیم قدیم سے منقطع ہوا، نہ جدید سے۔ وہ گھر میں بھی ان کے استاد تھے، مدرسے اور کالج میں بھی استاد۔ یوں میر حسن کی بصیرت اور ژورف نگاہی سے نئی اور پرانی تعلیم یا یوں کہیے مشرق اور مغرب کا پیوند جس خوبی سے لگا محمد اقبال کی ذات میں اس کا اظہار ایک غیر معمولی بنوغ اور عبقریت سے ہوا۔ بقول رشید صدیقی ایک نابغۂ ممتنع کے پیکر میں، دنیا میں میر حسن ایسے استاد اور محمد اقبال ایسے شاگرد کی مثالیں کم ملیں گی۔ ۴۔طالب علمی سیالکوٹ میں محمد اقبال کی تعلیم و تربیت کا زمانہ کم و بیش ۱۴۔۱۵ برس پر ممتد ہے جس کے گوناگوں مراحل انھوں نے بڑی خوبی سے طے کیے۔ جیسے جیسے ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں قدم رکھا محمد اقبال کے ملکات ذہنی بروئے کار آتے گئے، ان کی خدا دا دقابلیت اور فطری صلاحیتوں کا جوہر کھلنے لگا۔ میر حسن مثالی استاد تھے محمد اقبال مثالی شاگرد۔ ذہین و فطین، مؤدب ، محنتی ، ہمہ تن شوق، ہمہ تن کاوش ، ہمہ تن استعجاب اور تجسس۔ محمد اقبال کی تعلیم کا آغاز قرآن مجید سے ہوا۔ میر حسن کے درس میں آئے تو کہنے کو ان کی تعلیم عربی فارسی سے شروع ہوئی، درحقیقت اسلام اور اسلامی علوم و معارف کی تحصیل سے جس میں میر حسن کی رہنمائی جیسے جیسے انھیں ماضی کی طرف لے گئی اسی دعوت کے خدوخال اُبھرنے لگے جس نے نوع انسانی کا رخ اس کی تقدیر اور مستقبل کی طرف پھیر دیا وہ شخصیتیں سامنے آنے لگیں جن کے ایمان و یقین اور علم و عمل نے انسانیت کا روپ سنوارا۔ اس تہذیب و تمدن کی جھلک دکھائی دینے لگی جس کا ایک عہد عروج و کامرانی تھا، ایک دور زوال و انحطاط ۔ یوں محمد اقبال کے ذہن میں اسلام کی شان و شوکت، اسلام کی سطوت اور جہاں گیری کے ساتھ ساتھ بتدریج یہ احساس بیدار ہوتا گیا کہ اسلام کی تعلیمات کیا ہیں، اس کا مزاج اور روح کیا ۔ اسکول اور کالج میں وہ ایک نئی زبان ، نئے ادب، نئے علوم و فنون اور نئی تہذیب و تمدن سے آشنا ہو رہے تھے۔ وہ ان کی تحصیل میں اسی شوق اور لگن سے آگے بڑھے جیسے اسلامی علم و حکمت کے اکتساب میں۔ یوں محمد اقبال کا رشتہ ماضی اور حال دونوں میں استوار ہوتا چلا گیا۔ اس دنیا سے بھی جس کے اب صرف آثار ہی باقی تھے۔ یا چند زندہ یاد گاریں اور اس دنیا سے بھی جو مغرب نے پیدا کی اور جو ذہناً، اخلاقاً ، سیاسی اور مادی ہر اعتبار سے عالم انسانی پر چھا رہی تھی۔ محمد اقبا ل کی طالب علمانہ زندگی بڑی سبق آموز ہے۔ انھیں ہر لخطہ کتابوں کی تلاش رہتی۔ والد ماجد فرماتے ہیں میں جب کبھی علی گڑھ یا لاہور جاتا مجھ سے کتابوں کی فرمائش کرتے۔۳۸؎ محمد اقبال کا ذہن بڑا حساس تھا۔ طبعاً غور و فکر کی طرف مائل ، طبعاً حسن و جمال کا قدر دان۔ شعر و شاعری اور موسیقی کا دلدادہ ۔ ان کے اسکول اور کالج کے زمانے کی کچھ کتابیں محفوظ ہیں؛ حسب معمول ہر کتاب پر اسکول اور کالج کا نام درج ہے۔ تحریر میں وہی خوبی ہے جس سے آگے چل کر ان کے خط میں حسن اور دل کشی کے ساتھ ساتھ پختگی پیدا ہوتی گئی اور جس سے اس زمانے میں بھی ان کی خوش ذوقی اور نفاست مزاج کا پتہ چلتا ہے ۔ ایک کتاب میں نام اور ملکیت کے ساتھ یہ شعر لکھا ہے: Steel not the book for fear of shame look down and see my poweful name Mohammad Iqbal. ایک میں نام کے ساتھ تخلص بھی مذکور ہے: محمد اقبال، اقبال۔ ایک کے آخر میں پورا سر گم درج ہے جسے پھر ایک دوسرے انداز میں یوں لکھا ہے ۔ جیسے کسی گیت کے سر ترتیب دیے جا رہے ہوں۔شیکسپیئر کے ڈرامے کنگ رچرڈ کے متن پر طویل حواشی مرقوم ہیں۔ ۳۹؎ اور یہ اس امر کا ثبوت کہ انگریزی ادب کا مطالعہ بھی وہ دلی شوق اور محنت سے کر رہے تھے۔ کالج کے زمانے ہی میں انگریزی میں ان کی قابلیت کا اعتراف ہونے لگا تھا۔ ان کے ہم سبق بھی پڑھائی میں ان کے انہماک، ان کی توجہ ، خوش اخلاقی اور خوش طبعی کی تعریف کرتے۔ معلوم ہوتا ہے ۔ محمد اقبال نے کم سنی ہی میں شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ کم سنی ہی میں انھیں موسیقی سے دلی لگائو پید اہو گیا تھا۔ رہا اردو ادب اور ادب کے لوازم ، عروض اور بیان سو ان مضامین میں انھوں نے بڑی تیزی سے مہارت پید ا کر لی ۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی اور اس کے احوال و واردات کی فلسفیانہ ترجمانی میں محمد اقبال نے بھی غالب کی طرح تھوڑے ہی دنوں میں گیسوئے اُردو کی شانہ کشی شروع کر دی۔ لیکن اردو کے ساتھ ساتھ فارسی آپ ہی آپ ان کی زبان بن رہی تھی ۔ فارسی کا حسن بیان ، فارسی کی لطافت،طرز گفتار دری کی شیرینی ایک سحر تھا جس نے محمد اقبال کا دل موہ لیا۔۴۰؎ عربی زبان پر بھی انھیں کچھ کم عبور حاصل نہیں تھا۔ عربی زبان میں ان کی قابلیت کے لیے اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ ایف اے اور بی اے کے امتحانات میں عربی میں اوّل آئے۔ انھوں نے لندن یونیورسٹی میں آرنلڈ کی جگہ عربی پڑھائی۔ پھر ان کے دو اوین اشعار ہیں آیات قرآنی، عربی ضرب الامثال، عربی ترکیبات، عربی الفاظ، محاوروں اور تلمیحات سے پر ۔ ۴۱؎ لیکن ان کے مزاج میں انکسار تھا۔ کہتے میں نے تھوڑی بہت عربی سیکھ لی تھی۔ مطلب یہ ہے کہ جیسی قدرت انھیں انگریزی اور فارسی زبان پر تھی ویسی عربی پر نہیں تھی۔ عربی ان کی شاعری میں رچ کئی۔ عربی ادب سے انھیں دلی لگائو تھا۔ لیکن عربی خواص کی زبان تھی علم و حکمت ،کلام اور الٰہیات ، تفسیر و حدیث ، فقہ اور تصوف کی۔ عربی میں تحریر و تقریر کے مواقع شاذہی آتے۔ فارسی کا دامن بھی اگرچہ علوم و معارف سے خالی نہیں تھا، لیکن فارسی زیادہ تر ادب کی زبان تھی۔ فارسی کا چرچا گھر گھر میں تھا۔ فارسی کے اثرات مقامی بولیوں میں سرایت کر چکے تھے۔ قصّہ پنجابی میں لکھا جاتا عنوان فارسی میں قائم ہوتے۔ یوں بھی ہندی اسلامی تہذیب و تمدن فارسی اللسان قوموں کا مرہون منت ہے ۔ لہٰذا عربی کی نسبت ہندی ذہن فارسی سے کہیں زیادہ قریب تھا۔ اردو ادب نے بھی فارسی ہی کی آغوش میں تربیت پائی۔ اردو ایک طرح سے فارسی کی ضمنی پیداوار ہے ۔ فارسی شاعری میں علمی اور فلسفیانہ حقائق کا ابلاغ جس مخصوص، دلکش اور سلیس انداز میں ہوا محمد اقبال اس کے پردے میں اپنے خیالات اور تصورات کا اظہار بڑی سہولت اور آسانی سے کر سکتے تھے۔ فارسی سے محمد اقبال کو طبعی مناسب تھی۔۴۲؎ انھوں نے فارسی زبان اور فارسی ادب کا مطالعہ بڑی محنت سے کیا جیسے آگے چل کر مغربی بالخصوص انگریزی زبان اور انگریزی ادب کا ۔ البتہ انھیں افسوس رہا تو یہ کہ عربی ویسے ہی ان کی زبان نہ بن سکی جیسے فارسی ۔ ’’کیا اچھا ہوتا اگر میں مسلمانوں سے عربی میں خطاب کر سکتا۔ اس صورت میں میرا پیغام شاید زیادہ موثر ثابت ہوتا‘‘۔ ۴۳؎ عربی زبان کی عظمت اور افادیت کا انھیں نہایت گہرا احساس تھا۔ عالم اسلام کی نشاۃ الثانیہ میں بھی ان کی امیدیں زیادہ تر دنیائے عرب ہی سے وابستہ تھیں، مگر اسے کیا کیا جائے کہ محمد اقبال کو فطرت نے شاعر پیدا کیا تھا۔ شاعر اقبال کی طبع موزوں اُردو ہی کا رخ کرتی۔ اُردو کا رُ خ کیا تو اُردو اور فارسی میں دو ہی قدم کا فاصلہ ہے، یہ فاصلہ دیکھتے ہی دیکھتے طے ہو گیا۔ اُردوکی جگہ فارسی نے لے لی ۔ یوں بھی اُردو کا ظرف تنگ، بقد رشوق نہیں تھا۔ بہر حال یہاں جو بات قابل غور ہے یہ کہ میر حسن کے ہاتھوں محمد اقبال کی تعلیم و تربیت ابتدائہی میں اس نہج پر ہوئی کہ ایک ایسے ذہن کی تشکیل ہوتی رہے جس میں وسعت ہو ،جامعیت ہو، جو خلوص اور صداقت سے مالا مال ان حقائق او ر مسائل کا شعور پیدا کر سکے جن کا تعلق فرد اور معاشرے سے ہے ، یعنی اس جدوجہد سے جسے ہم تہذیب و تمدن سے تعبیر کرتے ہیں ۔ جو سمجھ لے وہ کیا رشتہ ہے جو ایک انسان کا دوسرے انسانوں، اپنے خالق و پروردگار اور اس کی پیدا کر دہ کائنات سے ہے۔ پھر اگر طالب علم کی استعداد ذہنی ، استاد کی بالغ نظر اور گھر کا ماحول جس میں اس کا مرز و بوم بھی شامل ہے، تعلیم کے ارکان ثلاثہ ہیں تو محمد اقبال کی تربیت میں ان کا تقاضا جس خوبی سے پورا ہوا بجائے خود کچھ کم نہیں۔ ۵۔پدر و مرشد اقبال باپ : شیخ نور محمد بڑے نیک زیرک اور معاملہ فہم بزرگ تھے۔ کہیں تعلیم نہیں پائی لیکن بقول میر حسن ’’ان پڑھ فلسفی ‘‘۴۴؎ علم و حکمت ، شریعت ، طریقت ، فلسفہ اور کلام کے مسائل سے دلی لگائو۔ علم و حکمت کی باتیں بڑے غور سے سنتے۔ فصوص الحکم اور مثنوی معنوی کا درس ہوتا تو ہمہ تن گوش ہو جاتے۔ ’’ہمارے ہاں ابن عربی کی فصوص الحکم اور فتوحات مکیہ کا باقاعدہ مطالعہ ہوتا تھا۔‘‘۴۵؎ میرے والد اور شاہ صاحب ایک دوسرے سے مشورہ کیے بغیر کوئی کام نہ کرتے۔ ۴۶؎ اب اسے حسن اتفاق کہیے یا لطیفۂ غیبی کہ میر حسن نے ایک ہی نظر میں دیکھ لیا کہ محمد اقبا ل کے بالائے سر ستار ۂ بلندی چمک رہا ہے، انھیں اپنے درس میں لے آئے۔ حالانکہ شیخ نور محمد نے ایک نہیں کئی بار کوشش کی کہ انھیں کاروبار میں شریک کر لیں۔ پھر جب ان کی خواہش تھی کہ بیٹا دینی تعلیم حاصل کرے تو مولانا غلام حسن کے درس کی طرح وہ انھیں مولانا مرتضیٰ یا مولانا مزمل کے درس میں بٹھا سکتے تھے۔۴۷؎ جس میں اگر میر حسن سدراہ نہ ہو جاتے تو زیادہ سے زیادہ یہی ہوتا کہ محمد اقبال مروجہ دینی نصاب اور روایتی تصوف میں کمال پیدا کر لیتے، ملائے مسجد یا پیر خانقاہ بن جاتے، اسکول اور کالج کی تعلیم کے بعد کوئی اعلیٰ ملازمت حاصل کر لیتے، اقبال ہرگز نہ بنتے۔ لیکن جس طرح میر حسن ایک طرح سے محمد اقبال کے ہمہ وقت استاد تھے، شیخ نور محمد کو بھی ہر وقت خیال رہتا کہ بیٹے کی سیرت اور کردار اسلام کے سانچے میں ڈھل جائے۔ اس میں دین کا صحیح فہم پیدا ہو۔ بیٹے کو پڑھتے لکھتے دیکھتے، یا کوئی واقعہ پیش آتا تو نصیحت کرتے۔ موقعہ ہوتا تو کوئی نکتہ سمجھا دیتے۔ ایک دن ایک سائل دروازے میں کھڑا ٹلنے کا نام نہیں لیتا تھا۔ محمد اقبال نے اسے چھڑی رسید کی۔ شیخ صاحب آبدیدہ ہو گئے؛یٹے کو سمجھانا چاہتے تھے یہ تم نے کیا کیا: ارشاد باری تعالیٰ واما السائل فلا تنہر۴۸؎ اور حضور رحمۃ للعالمینؐ کے اسوۂ حسنہ کی خلاف ورزی کل جب بارگاہ الٰہی میں میری باز پرس ہو گئی، مجھے سر زنش کی جائے گی کہ میں تمھاری تربیت سے قاصر رہا تو حضور رحمۃ للعالمینؐ کے سامنے کیا جواب دوں گا۔۴۹؎ ایسے کئی واقعات ہیں؛ وہ بھی جن کا تعلق سیرت و کردار کی تربیت سے ہے اور وہ بھی جن سے کسی دینی حقیقت کی تفہیم مقصود تھی۔ ’’میرا معمول تھا نماز فجر کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کرتا، ایک روز والد ماجد مسجد میں آئے، مجھے قرآن مجید پڑھتے دیکھا تو بیٹھ گئے، پوچھنے لگے بیٹا کیا پڑھ رہے ہو؟ میں نے کہا قرآن مجید ۔ کہنے لگے کچھ سمجھ میں بھی آتا ہے؟ میں نے کہا تھوڑی بہت عربی جانتا ہوں ، کچھ سمجھ لیتا ہوں۔ انھوں نے میرا جواب خاموشی سے سنا۔ کچھ دن گزر گئے۔ میں حسب معمول قرآن پاک کی تلاوت کر رہا تھاتلاوت ختم کی تو مجھے بلایا، اپنے پاس بٹھا کر بڑی نرمی سے کہنے لگے، بیٹا قرآن مجید اسی کو سمجھ میں آتا ہے جس پر اس کا نزول ہو۔مجھے تعجب ہوا کہ حضور رسالت مآبؐ کے بعد قرآن مجید کیسے کسی پر نازل ہو سکتا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے وہ میرے دل کی بات سمجھ گئے، کہنے لگے کیوں نہ تم اس کی تلاوت اس طرح کرو جیسے یہ تم پر نازل ہو رہا ہے۔ ایسا کرو گے تو یہ تمھارے رگ و پے میں سرایت کر جائے گا۔ میں ہمہ تن گوش بیٹھا تھا۔ پھر کہا سنو آدم علیہ السلام سے حضور رحمۃ للعالمینؐ تک کہ خاتم الانبیا ہیں، جتنے بھی پیغمبر آئے ان کا گزر مدارجِ محمد یہ سے ہو رہا تھا۔ وہ ایک سلسلہ تھا جس کا خاتمہ حضور رحمۃ للعالمینؐ پر ہو گیا ۔ اللہ تعالیٰ کا ارادہ انسانیت کو جس معراج کمال تک پہنچانے کا تھا اس کا آخری اور کامل و مکمل نمونہ ہمارے نبی اکرم حضرت محمدا کی ذات مستودہ صفات میں ہمارے سامنے آ گیا۔ اب آپ ؐہی کا اسوۂ حسنہ ہمار ے لیے حجت ، مثال اور نمونہ ٹھہرا۔ جتنا کوئی اس رنگ میں رنگتا جائے گا اتنا ہی قرآن مجید اس کی سمجھ میں آتا جائے گا۔ یہ مطلب تھا میرے کہنے کا کہ قرآن مجید اسی کو سمجھ میں آتا ہے جس پر اس کا نزول ہو‘‘۔ ۵۰؎ بات یہ ہے کہ انتزاع سلطنت اور سلب اقتدار کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرے کی زبوں حالی کے باوجود مسلمانوں میں ابھی دم تھا، اسلامی اخلاق اور آداب و شعائر کا احترام باقی تھا۔ حسن انسانیت اور شرافت ذات کا چہرہ زروسیم کی آلودگی سے داغ دار نہیں ہواتھا۔ نہ غرو رحسب و نسب اور علم و دانش سے اس میں تکلف اور تصنع کا رنگ پیدا ہوا۔ ایسے افراد کی کمی نہیں تھی جو کہنے کو جاہل اور نا خواندہ ، عسرت اور سادگی کی زندگی بسر کر رہے تھے، مگر اس کے باوجود ایمان و یقین اور فکر و فہم کی دولت سے مالا مال قناعت اور خود داری پر فخر کرتے۔ محمد اقبال کی پرورش بھی ایک ایسے ہی گھر میں ہوئی۔ شیخ نور محمد اہل اللہ کے ارادت مند تھے۔ علماء و صلحا کے حلقہ نشین ، اورد و اذکار میں مصروف رہتے ۔ صاحب کشف تھے۔ محمد اقبال ۱۱ برس کے تھے جب ایک رات ان کی آنکھ کھلی۔ دیکھا والدہ زینہ اتر رہی ہیں، والد دروازے کے قریب صحن میں بیٹھے ہیں، ایک حلقۂ نور ان کے ارد گرد قائم ہے۔ حیران ہو کر بستر سے اٹھے۔ صحن کا رُخ کر رہے تھے کہ والدہ نے روک دیا صبح ہوئی تو معلوم ہوا ۔ ایک قافلہ افغانستان سے آ رہا ہے، اس میں ایک شخص بیمار پڑا ہے، حالت اچھی نہیں،والد اس کے لیے کوئی دوا تیار کر رہے تھے۔ انھوں نے اسی روز محمد اقبال کو ساتھ لیا اور قافلے کا جو ابھی شہر سے بیس پچیس میل دور تھا، رخ کیا۔ قافلے میں پہنچ کر مریض کو دیکھا، کوئی راکھ سی دوا اس کے جسم پر چھڑ کی اور واپس آ گئے۔ کوئی معاوضہ نہیں لیا۔ کچھ دنوں کے بعد قافلہ بھی سیالکوٹ پہنچ گیا۔ دوا کار گر ثابت ہوئی۔ مریض صحت یاب ہو چکا تھا۔ قافلے نے اپنا راستہ لیا۔ ۵۱؎ محمد اقبال ابھی لاہور نہیں آئے تھے کہ شیخ نور محمد انھیں اوان شریف۵۲؎لے گئے۔ قاضی سلطان محمود کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ ۵۳؎ قیاس یہ ہے کہ اسی سفر میں محمد اقبال قاضی صاحب سے بیعت ہوئے ۵۴؎ اور سلسلۂ قادریہ میں شامل ہو گئے۔ سید سلیمان ندوی کو لکھتے ہیں’’ میں خود سلسلۂ قادریہ میں بیعت ہوں‘‘ مگر پھر اس کے ساتھ یہ بھی ’’کہ خواجہ نقشبند اور مجدد سر ہندی کی میرے دل میں بڑی عزت ہے مگر افسوس ہے کہ آج یہ سلسلہ بھی عجمیت کے رنگ میں رنگ گیا ہے ۔ یہی حال سلسلۂ قادریہ کا ہے ‘‘ ۵۵؎ بات یہ ہے کہ باپ اور بیٹا دونوں تصوف کے رسمی حدود و قیود سے آزاد تھے۔ ان کا تعلق دراصل تصوف کی اس روایت سے تھا جو امیر کبیر حضرت سید علی ہمدانی کے ساتھ کشمیر آئی اور جسے امام غزالی سے خاص تعلق ہے۔۵۶؎ اس روایت کی نظر انسان کی شخصیت پر ہے ۔ لہٰذا اس کا رشتہ احکام شریعت سے منقطع ہوا نہ زندگی کی جدو جہد سیاست اور جہاں بانی سے ۔جی چاہے تو محمد اقبال ہی کی اصطلاح میں کہہ لیجیے کہ اس پر ’’عجمیت ‘‘ کی بجائے ’’مجددیت‘‘ کا رنگ غالب تھا۔ محمد اقبال باپ کو میاں جی کہتے ، انھیں اپنا مرشد سمجھتے۔ حضرت لسان العصر کو لکھتے ہیں: ’’آپ نے سچ فرمایا ہے ، سارا کتب خانہ ایک طرف ، باپ کی نگاہ حقیقت ایک طرف۔ جب کبھی موقعہ ملتا ہے ، ان کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں۔ ۵۷؎ ایسے ہی شیخ اعجاز احمد کو لکھتے ہیں:’’ دن میں ایک آدھ دفعہ وقت نکال کے ان کے پاس بیٹھا کرو۔ جن باتوں میں ان کو دلچسپی ہے ان کے متعلق ان سے گفتگو کرو ،خواہ وہ گفتگو بے تکلف ہی کیوں نہ ہو۔ تم کو اس سے بہت فائدہ ہو گا۔ کیا عجب ہے جو بات ان سے …حاصل نہیں ہو سکی تم کو مل جائے۔ یہ بات ہو گی تو زندگی بھر ان کے احسان کو فراموش نہ کر سکو گے، اگرچہ اس وقت تم کو اس کا احساس نہ ہو۔ تم ان کے مذاق میں رنگین ہو جایا کرو۔ اس فائدے کے علاوہ دوسرے فائدے کا بھی امکان غالب ہے ۔ کسی وقت خوش ہو کر ایک کبیر السن آدمی کے منہ سے دعا نکل جائے تو اسے دنیا کے تجربے نے نہایت پر تاثیر بتایا ہے‘‘۔۵۸؎ یہ میاں جی کی احتیاط پسندی اور میر حسن کے ہاتھوں محمد اقبال کی فکر و وجدان میں توازن تھا جس سے اُن کے دل و دماغ پر عجمیت کا رنگ جمنے نہ پایا، وحدۃ الوجود کا۔ شیخ نور محمد کی خواہش تھی محمد اقبال شاہ بو علی قلندر کے طور پر ایک مثنوی لکھیں۔۵۹؎ چنانچہ اس کے کچھ اشعار بھی ہوئے جن کو بعد میں اسرار خودی میں شامل کر لیا گیا۔ ۶۰؎ یوں باپ کی آرزو کہ محمد اقبال ایک مثنوی لکھیں اس مثنوی کی شکل میں پوری ہوئی۔ میں نے انھیں دیکھا ہے: بلند قامت سرخ و سفید چہرہ، سفید براق داڑھی، درویشانہ وضع ، خوش پوش ، سفید لباس پہنے چھڑی ٹیکتے گھر سے نکلتے۔ بیٹے کی بلند اقبالی پر دل ہی دل میں اللہ کے شکر گزر ، آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے طویل عمر پائی۔ ۱۹۳۰ء میں فوت ہوئے، ۱۷ ؍اگست ۔ امام صاحب میں اپنی رفیقہ حیات کے پہلو میں دفن ہیں۔ محمد اقبال نے تاریخ کی: پدر و مرشدِ اقبال ازین عالم رفت باہمہ راہرواں منزل ما ملکِ ابد ہاتف از حضرتِ حق خواست دو تاریخ رحیل آمد آواز ’’اثرِ رحمت‘‘ و ’’آغوشِ لحد‘‘ ماں: بے جی، محبت مادری کی تصویر۔ بات بات میں بیٹے کا خیال رکھتیں۔ بیٹے کو بھی ماں سے بے پناہ محبت تھی۔ سیالکوٹ سے لاہور آئے تو جہاں ذراسی فرصت ملی، ماں کی کشش انھیں سیالکوٹ لے گئی۔ جب تک ممکن ہوتا ٹھہرتے ۔ پھر جب ماں ان کو پیار سے بلاتی، انھیں نام لے کر پکارتی، اقبال یا کچھ اور کہہ کر تو محمد اقبال زندگی کی اوج گاہوں سے اترآتے۔ ان کی صحبت میں طفلِ سادہ رہ جاتے۔ ۶۱؎ ماں نے ان کی تربیت جس خوبی سے کی اس کا اندازہ ان اشعار سے کیجیے: محفلِ ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات تھی سراپا دین و دنیا کا سبق تیری حیات تربیت سے میں تری انجم کا ہم قسمت ہوا گھر میرے اجداد کا سرمایہ عزت ہوا اور پھر کس حسرت بھر ے دل سے کہتے ہیں: عمر بھر تیری محبت میرے خدمت گر رہی میں تیری خدمت کے جب قابل ہوا تو چل بسی والدہ مرحومہ کی یاد میں ،جو نظم لکھی گئی ایسی ہی ماں کی یاد میں لکھی جا سکتی تھی۔ محمد اقبال نے اس نظم کو کسی خوشنویس سے لکھوایا اور خود ہی اس پر تشریحاً حواشی لکھ کر اپنے والد ماجد کی خدمت میں بھیج دیا ۔ شیخ اعجاز احمد کے پاس اس کی نقل محفوظ ہے جس کا عکسی نمونہ روز گار فقیر حصہ دوم میں دیکھا جا سکتا ہے ۔ شیخ صاحب کا بیان ہے کہ تنہائی میں جب بھی چچا جان کا کلام بآواز بلند پڑھتے ان کی آنکھیں اشکبار ہو جاتیں۔ دادی اماں گھر میں ’’بے جی‘‘ کہلاتیں۔ محمد اقبال کو بے جی کی وفات کا شدید صدمہ ہوا۔ مہاراجہ سر کشن پر شاد کو لکھتے ہیں: ’’ سرکار کی تار مل گئی، مگر امسال میرے لیے عید محرم کا حکم رکھتی تھی۔ والدہ مکرمہ جو سات ماہ سے بیمار تھیں ۹ نومبر کی صبح کو ان کا انتقال ہو گیا‘‘۔ ۶۲؎ پھر لکھتے ہیں: ’’آپ کا تسلی نامہ ملا… میرے لیے دنیا کے معاملات میں دلچسپی لینا اور دنیا میں بڑھنے کی خواہش کرنا صرف مرحومہ کے دم سے وابستہ تھا، اب یہ حالت ہے کہ موت کا انتظار ہے‘‘۔ ۶۳؎ حضرت لسان العصر نے تعزیت فرمائی، تاریخ کہی’’رحلت مخدومہ‘‘۔ ۶۴؎ اور پھر کیا خوب کہا ہے۔ حضرت اقبال میں جو خوبیاں پیدا ہوئیں قوم کی نظریں جو ان کے طرز کی شیدا ہوئیں یہ طریقِ دوستی ، خوداری با تمکنت یہ حقِ آگاہی، یہ خوش گوئی، یہ ذوقِ معرفت اس کے شاہد ہیں کہ ان کے والدین ابرار تھے با خدا تھے، اہل دل تھے، صاحب اسرار تھے ۶۵؎ بھائی: شیخ عطا محمد ۱۸۵۹ء میں پیدا ہوئے ۔ سیالکوٹ ہی میں کچھ تعلیم حاصل کی۔ فوج میں ملازم ہو گئے۔فوج ہی کی وساطت سے رڑکی کالج پہنچے۔ انجینئرنگ میں ڈپلومہ حاصل کیا۔ ملٹری ورکس سروس میں ملازمت مل گئی۔ عمر بھر اسی محکمے سے وابستہ رہے۔ محمد اقبال سے بے پناہ محبت تھی۔ محمد اقبال کی تعلیمی زندگی میں شیخ صاحب کا حصہ کچھ کم نہیں۔ ایسے شفیق بھائی کی مثال مشکل ہی سے ملے گئی۔ محمد اقبال ان کے احسانات کو کبھی نہیں بھولے۔ ہمیشہ ان کا ذکر محبت اور عزت سے کرتے۔ انھیں اپنے معاملات سے با خبر رکھتے۔ شیخ صاحب بھی بالالتزام اس کا ہاتھ بٹاتے۔ وہ کاروبار زندگی میں ان کے ہم پہلو تھے، ان کے دست و بازو، ماں کی محبت کی تصویر،۶۶؎ شمع محفل عشق ، یوسف ثانی جس کی اخوت قرار جان اور جس کی محبت نے من وتو کا امتیازباقی نہ رکھا، جس نے انھیں ہوائے عیش میں پالا، جو ان کیا اور جس کے لیے وہ ہمیشہ دعا کرتے: ریاض دہر میں مانند گل رہے خنداں۶۷؎ شیخ عطا محمد ۱۹۴۰ء میں فوت ہوئے ، ۲۲ ؍دسمبر ۔اپنے عزیز بھائی کی وفات کے تقریباً دو سال آٹھ مہینے بعد۔ محمد اقبال کا یورپ میں تعلیمی سفر بھائی ہی کی بدولت ممکن ہوا۔ محمد اقبال کو بھی بھائی سے بے پناہ محبت تھی، ان کی اولاد بالخصوص ان کے بڑے صاحبزادے شیخ اعجاز احمد سے جو زمانہ ٔ طالب علمی ہی میں اپنے عظیم چچا کا کلام جمع کر رہے تھے۔ چنانچہ ان کی ابتدائی زندگی اور ابتدائی دور کا بہت سا کلام ہمیں شیخ اعجاز احمد ہی کی یادداشتوں سے ملا۔ بقول سید وحید الدین’’ میں نے روز گار فقیر کے نقش اول کی ترتیب کا آغاز کیا تو انھوں نے نہایت فیاضی اور فراخ دلی سے احوال ووقائع کا تمام تر، جس قدر سرمایہ تھا، میرے سامنے رکھ دیا۔ علامہ کی خود نوشت عبارتوں کی اقتباسات بعض دستاویزات اور تمغے‘‘۔۶۸؎ شیخ اعجاز احمد کی اس معاملے میں احتیاط کا یہ عالم تھا، وہ جب اپنے عظیم چچا کے بارے میں کوئی اناپ شناپ روایات سنتے تو انھیں بڑا دکھ ہوتا ۶۹؎ اور یہ امرفی الواقعہ افسوس ناک ہے کہ اس قسم کی اناپ شناپ روایتوں کو بعض ایسے سوانح یا مضامین نگاروں نے بھی صحیح مان لیا جن سے ہرگز یہ توقع نہیں تھی کہ انھیں بغیر سوچے سمجھے صحیح تسلیم کر لیں گے۔ محمد اقبال کو شیخ اعجاز احمد سے بڑی محبت تھی۔ انھیں دعا اور نبی کریم ؐپر درود بھیجنے کی ہدایت کرتے۔ اعجاز صاحب نے بی۔ اے کا امتحان دیا تو محمد اقبال والد ماجد کو لکھتے ہیں: ’’اعجاز کامیاب ہو جائے گا، آیۃ کریمہ کا ورد شرو ع ہے ‘‘۔ اعجاز صاحب نے وکالت شروع کی تو نماز میں پابندی اور تلاوت قرآن مجید کی تاکید کی۔ ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’قرآن پر زیادہ اصرار کرتا ہوں کہ اس کے پڑھنے کے فوائد میرے تجربے میں آ چکے ہیں۔ کبھی کبھی کوئی علمی نکتہ بھی سمجھا دیتے جرمنی کے مایہ ناز شاعرگوئٹے نے اپنے معاصر نوجوانوں کے روحانی اضطرب اور دلی بے چینی کو محسوس کرتے ہوئے انھیں پیغام دیا تھا فن میں پناہ لو۷۰؎ کہ یہ بات صداقت سے خالی نہیں۔ میرا پیغام بھی مسلمانوں کے لیے وہی ہے جو گوئٹے کا تھا۔ فرق صر ف اتنا ہے کہ میں نے آرٹ کی جگہ مذہب کا لفظ رکھ دیا ہے۔ آرٹ میں اطمینان اور قوت دونوں موجود ہیں۔ ایک خط میں لکھتے ہیں ’’روز گار فقیر میں چچا جان کے بارے میں جو کچھ مرقوم ہے جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے حرف بحرف صحیح ہیں۔ باقی معلومات کی صحت یا عدم صحت کا میں ذمہ دار نہیں ‘‘۔ ۷۱؎ مثلاً ذکر اقبال کی ایک روایت۔ محمد اقبال کو ملازمت سے کس قدر نفرت تھی ا س کا اندازہ اس امر سے کیجئے۔اعجاز کا دل انکم ٹیکس ملازمت میں نہ لگا۔ اسے چھوڑنے کا ارادہ کیا۔ ان سے مشورہ لیا تو انھوں نے کیا: از غلامی فطرتِ آزاد را رسوا مکن ۶۔استاد اقبال شمس العلماء مولانا مولوی میر حسن۔ تاریخی نام رونق بخش ۔۱۲۵۸ھ۔ کہ انھوں نے فی الواقعہ محفل علم و حکمت کو رونق بخشی۔ ۱۸۴۴ء میں پیدا ہوئے۔ اپنے ننھیال فیروز والا ضلع گوجرانوالہ میں ۔ سید محمد شاہ طبیب کے بیٹے ۔ کم سنی ہی میں باپ کے زیر تربیت قرآن مجید حفظ کر لیا ۔ چند دن اساتذہ کے درس میں بیٹھے۔ پر جو کچھ حاصل کیا اپنی ذاتی محنت اور استعدادسے۔ علم و فضل کی دولت خداداد تھی۔ طبابت میں کہ خاندانی مشغلہ تھا دل نہ لگا۔ روز گار کے لیے ایک مسجد میں پیش امام ہو گئے۔ شام کے قریب ایک شخص کھانا لے کر آیا تو عزت نفس کو ایسی ٹھوکر لگی کہ غش کھا کر گر پڑے۔ مسجد سے مشن اسکول کا رُخ کیا۔ ۱۶ برس کی عمر تھی، ملازم ہو گئے۔ چھوٹی جماعتوں کو پڑھانے لگے۔ مگر فطرت نے انھیں معلم پیدا کیا تھا۔ تھوڑے ہی دنوں میں ان کی قابلیت کا سکہ بیٹھ گیا ۔ بڑی جماعتوں کی پڑھائی ان کے سپرد ہوئی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے معلمی سے پروفیسری کے درجے تک جا پہنچے۔ تا حین حیات اسکاچ مشن ہی سے وابستہ رہے۔ مشن نے بھی ان کے علم و فضل اور تعلیمی خدمات کی بڑی قدر کی ۔ پیرانہ سالی میں پڑھانے سے معذور ہو گئے تو ان کی خدمات کے اعتراف میںپنشن مقرر کر دی۔ حالانکہ ایسا کوئی قاعدہ نہیں تھا کہ انھیں پنشن دی جاتی۔ مرے کالج تعمیر ہوا تو ہال کو انھیں کے نام سے منسوب کیا گیا’میر حسن ہال‘۔ میر حسن کہنے کو ایک مقامی اسکول میں مدرس تھے۔ کالج میں عربی کے استاد لیکن حقیقت میں استاذالکل ۔ ان کا حلقۂ درس بڑا وسیع تھا۔ نصاب درس بھی ویسا ہی وسیع وہ ہمہ وقت استا د تھے۔ گھر میں استاد، مدرسے میں استاد، کالج میں استاد۔ گھر سے نکلتے، کسی کام سے آتے جاتے تو استاد۔ مسجد میں استاد حتیٰ کے وضوکرتے بھی اُستاد۔ سیالکوٹ میں میر حسن سے زیادہ شاید ہی کسی کو عزت کی نظر سے دیکھا جاتا۔ ان کے ارادت مند دیکھتے ہی تعظیماً کھڑے ہو جاتے۔ باادب سلام کرتے لیکن میر حسن کے انکسار اور فروتنی کا یہ عالم کہ یمشون علی الارض ہونا‘‘۷۲؎ کی زندہ مثال۔ ہر ایک کے سلام کا جواب دیتے آگے بڑھ جاتے۔ شاگرد منتظر رہتے کب ان کا کہاں گزر ہوتا ہے ۔ ہر ایک کا وقت مقرر ہے۔ کہاں استاد سے ملیں گے، سبق لیں گے، الگ ہو جائیں گے ۔ کہاں دوسرے کی باری آئے گی۔ شاگرد بہت ہیں مگر سب ایک سے بڑھ کر عزیز ، سب کا ایک سا،خیال سب اپنے اپنے وقت پر حاضر، حسب استعداد کسب فیض کر رہے ہیں۔ میر حسن کی زندگی نہایت سادہ تھی۔ لباس سادہ تر۔ جھوٹے موٹے کپڑے کا سفید پاک صاف کرتہ، سفید چادر، سفید پاجامہ، سفید چغہ نما کوٹ، کاندھے پر رومال۔ اس کے ایک گوشے میں ’بی ٹائم پیس‘۔ ۷۳؎ گھر کا سودا سلف خود ہی خرید کرتے بلکہ ہمسایوں سے بھی پوچھ لیتے انھیں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں۔ شاگرد خدمت گزاری کے لیے آگے بڑھتے ، سائے کی طرح ساتھ لگے رہتے ، بالخصوص جمشید علی راٹھور اور پروفیسر محمد دین بھٹی۔ لیکن میر حسن بڑی خوش اسلوبی سے روک دیتے۔ محمد اقبال کو البتہ نہیں روکتے۔ حب جاہ ہے، نہ شہرت اور نام آوری کا خیال۔ مجسم قناعت، مجسم استغنا، عزت اور خود داری، صدق مقال اور اکل حلال کا جیتا جاگتا نمونہ۔ نہ غرور علم ہے، نہ دعویٰ پارسائی۔ عابد و زاہد، غریب پرور، اقر بانواز، راست باز، تہجد گزار، احکام شریعت کے سختی سے پابند ۔ احتیاط کا یہ عالم کہ کوئی بات خلاف سنت نہ ہونے پائے۔ نہایت ضعیف العمری میں روزہ رکھا۔ کالج سے واپس آ رہے تھے۔ ضعف کا یہ عالم کہ غش آ گیا ۔ ہندو شاگرد پریشان ہے، شربت کا گلاس لے کر آگے بڑھا۔ منہ سے لگانا تھا کہ انھوں نے دونوں ہونٹ بھینچ لیے۔ اس حالت میں بہ مشکل گھر پہنچے۔ عصر کی نماز کے بعد جیسا کہ معمول تھا قرآن مجیدکی تلاوت کی۔ روزہ افطار کیا۔ دوسرے روز پرنسپل نے شاید، وعلی اللّٰہ یطیقونہ، ۷۴؎ کے حوالے سے پیغام بھیجا کہ اس پیرانہ سالی میں روزہ نہ رکھیں۔ کہنے لگے: یہ عشق و محبت کا رشتہ ہے۔ اس میں جان بھی حاضر ہے۔ سنتیں اور نوافل تک بالالتزام ادا کرتے۔ قرآن مجید حرزجان تھا۔ ’’قرآن مجید کی شاید ہی کسی نے اس کثرت سے تلاوت کی ہو۔ جیسے شاہ صاحب نے ۔ ان کی عظمت کردار اور ان کی پابندی عہد کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ جواناں مرگ بہنوں سے عہد کیا تھاان سے روز ملا کریں گے۔ یوں ہر روز کا ملنا ان کا معمول بن گیا۔ سردی ہو یا گرمی، آندھی ہو یا بارش روز صبح فاتحہ خوانی کے لیے جاتے۔ جوان مرگ بہنوں اور ماں باپ کے لیے دعا کرتے اور وہ بھی ایک نہیں لگا تار پچاس برس۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ آتے جاتے قرآن مجید کی ایک ایک منزل تلاوت فرماتے۔۷۵؎ لوگ کہتے انھیں کشف ہوتا ہے۔ دل کی بات معلوم کر لیتے ہیں۔ بڑھاپے میں جب بینائی جاتی رہی ایک شخص کی جو ملازمت کے لیے آیا تھا آواز سن کر ہی کہہ دیا آدمی دیانت دار ہے۔ ایک طالب علم کو دیکھا اور کہہ دیا اس میں ذہانت نام کو نہیں۔ وزیر آباد میں لڑکا مدرسے سے غیر حاضر رہا کرتا تھا، ایک ر وز بازار میں خوانچہ لگائے بیٹھا تھا۔ معلوم ہو ا پڑھنے کا شوق ہے۔ لیکن استاد بہت پیٹتا ہے۔ کہنے لگے میرے پاس آئو میں تمھیں پڑھائوں گا۔ پیٹوں گا نہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ ہندو لڑکا حاکم رائے نام میر حسن کے زیر تعلیم ترقی کرتے سرکاری ملازمت میں ایک اعلیٰ عہدے تک پہنچ گیا۔ مولوی ابراہیم جن کو ان سے تلمذ تھا کہتے ہیں کیسی بھی پریشانی ہوتی، کیسی بھی الجھن ، شاہ صاحب سے بات کرتے ہی جی خوش ہو جاتا۔ پریشانی جاتی رہتی۔۷۶؎ ان کے یہاں ہمیشہ اہل علم کی محفل جمی رہتی ۔ گھنٹوں مختلف مسائل پر دلچسپ بحثیں ہوتیں ۔ محمّد اقبال کہتے: اسوۂ رسول ﷺ پر صحیح معنوں میں کسی شخص کا عمل ہے۔ تو وہ مولوی میر حسن سیالکوٹی ہیں۔۷۷؎ میر حسن فطرت انسانی کے راز دار تھے۔ ہر ایک سے علی قدر عقلہ بات کرتے۔ کوئی معاملہ ہوتا اس کی تہہ تک پہنچ جاتے۔ کوئی مشکل ہو چند لفظوں میں حل کر دیتے۔ رہے طالب علم سو ان کا ذہن تو ان کی مٹھی میں تھا۔ وہ ان کی نفسیات، ان کی عادات ، اخلاق اور ذہنی استعداد کا اندازہ نہایت خوبی سے کر لیتے۔ خوب جانتے ان کا مستقبل کیا ہے۔ جیسی کسی کی صلاحیت ہوتی اسے اس راستے پر ڈال دیتے۔ ویسا ہی ذوق پیدا ہو جاتا اور یہی ان کی تعلیم کا خاصہ۔۷۸؎ میر حسن گھر میں بیٹھے ہیں ۔ چٹائی یادری کا فرش ہے۔ ادب اور لغت کے عقدے کھل رہے ہیں۔ تفسیر اور حدیث کا درس ہو رہا ہے۔ فقہ و کلام، تصوف اور الٰہیات کی گفتگو ہے۔ کوئی ایک کتاب کھولے بیٹھا ہے، کوئی کسی دوسرے مضمون کی۔ میر حسن ہر ایک کو سبق دے رہے ہیں۔ شاگرد ہمہ تن گوش ان کے ارشادات سن رہے ہیں۔ ان کی ہر بات دل میں اُتر جاتی۔ اندازِ تعلیم سادہ اور دل نشین۔ افہا م و تفہیم کی نوبت آتی تو مثالوں پر مثالیں دے کر سمجھا رہے ہیں۔ حوالوں پر حوالے دے رہے ہیں۔ اس میں نظم و نثر کی قید ہوتی، نہ فارسی اور عربی، نہ اُردو اور پنجابی کی۔ عرب جاہلیت سے لے کر فارسی کے اساتذہ ،مولانا روم، فردوسی، انوری، سعدی، حافظ، عرفی، بیدل،غالب حتی کہ فضل شاہ، بلھے شاہ، علی حیدر کے اشعار سے بھی۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ انگریزی کی کوئی سند پیش کر دی۔ معلومات کا ایک بحر ذخار امڈتا چلا آتا۔ ایک طرف کسی جیدمولوی کو تفسیر قرآن کے نکات سمجھا رہے ہیں، دوسری طرف کسی دوسرے مولانا کو حدیث نبوی کا درس دے رہے ہیں۔ اس پر لطف یہ کہ بچوں پر بھی یکساں توجہ ہے ۔ وہ بھی سبق کے لیے منتظر بیٹھے ہیں۔۷۹؎ بحیثیت استاد میر حسن سخت گیر ضرور تھے، مگر اس انداز سے کہ جیسا کوئی شاگرد ہے اس کی صلاحتیں اُجاگر ہو جائیں ۔ وہ ان کے دل سے ہمدرد تھے۔ میر حسن شاگردوں کی ہمت بڑھاتے ۔ ان کی خاطر، مدارات کرتے۔ نتیجہ یہ کہ طفلِ گریز پا بھی آپ ہی آپ ان کی طرف کھنچا چلا آتا۔۸۰؎ بقول ڈاکٹر ملک راج آنند، مولانا موصوف ان باقیات الصالحات میں سے تھے جن کے دم سے ملکہ وکٹوریا کے عہد میں مغل تہذیب و تمدن کی شمع اکناف ہند میں فروزاں رہی اس مشفق ’’استاد کی صحبت سے شاعر کے قلب میں ایرانی ادبیات کی وہ شیفتگی پیدا ہو جاتی جو ان کی پختہ سالی کی تصانیف میں نمایاں نظر آتی۔۸۱؎ ریاضی، طب، قدیم و جدید نصاب تعلیم سب پر نظر ہے۔ دراصل میر حسن اپنی ذات سے ایک دارالعلوم تھے۔ ان کے شاگردوں میں ہندو، مسلمان، سکھ ، عیسائی سب ہی شامل تھے۔ سب نے ان سے کسب فیض کیا۔ سولہ برس کی عمر سے لے کر تاحین حیات جب بالکل معذور نہیں ہو گئے ساری عمر عربی ، فارسی علوم و فنون کا درس دیتے رہے وہ بھی بلامعاوضہ ۔ کسی کا احسان نہیں لیا۔ حالانکہ ان کے شاگرد اعلیٰ سے اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے زرو دولت سے مالا مال خاندانوں کے چشم و چراغ سب سے ان کی ملاقات رہتی ۔ ان کے ملاقاتیوں میں بھی امیر اور غریب کی قید تھی، نہ چھوٹے بڑے کی ۔ رؤسائے شہر، حکامِ ضلع، اربابِ مشن ، علمائ، صوفیہ، سب سے ان کے مراسم تھے۔ سب سے گفتگوئیں ہوتیں۔ مسائل زیر بحث آتے۔ یوں بھی یہ زمانہ قدیم وجدید کے تصادم کا تھا جس میں عیسائیت کی یلغار نے اور بھی اضافہ کر رکھا تھا۔ جدھر دیکھیے مذہبی نزاع و جدال کا زور تھا۔ مناظرہ بازی عام تھی۔ لیکن میر حسن کے پاس فالتو عقل تھی ہی نہیں ۔ انھیں مناظروں سے دلچسپی تھی، نہ مذہبی فرقہ بندیوں میں قیل و قال سے۔ وہ اول و آخر انسان تھے نقطۂ نظر خالصاً انسانی۔ وہ ان بحثوں میں اربابِ علم ہوں، یا اربابِ مذہب سب کو انسانیت کی اس سطح پر لے آتے جہاں اختلاف عقائد اور اختلاف مسلک و مشرب کے باوجود حق و صداقت کی طلب سب کو ایک کر دیتی، اس مقام پر لے آتی ہے جہاں وہ آپ ہی آپ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے راستے اگرچہ الگ الگ ہیں لیکن منزل ایک۔ سب ایک ہی نصب العین کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ انھیں ایک ہی صداقت کی تلاش ہے۔ سب اس کے حصول کے آرزو مند۔ یوں ذہن انسانی جب اپنی خود ساختہ حدودو قیود، تعصب اور تنگ نظری سے پاک ہو کر ایک ہی مقصد پر مرتکز ہو جاتا ہے تو اس میں ایک دوسرے کے لیے جذبۂ احترام، احسان و محبت اور رواداری اُبھرتی ہے۔ اس ادراک اور یقین کو تقویت پہنچتی ہے کہ بنیادی طور پر ہم سب ایک ہیں کوئی کسی کا غیر نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ میر حسن کی صحبت میں نہ کسی کو کسی کے عقائد سے بحث ہوتی، نہ اس کے ملی اور قومی تشخص سے۔ ان میں دوئی کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا ۔ یہ تھی میر حسن کی انسان اور انسانیت کے لیے دل سوزی جو حقیقی روح ہے اسلام کی۔ میر حسن اول و آخر انسان تھے۔ نہ ملائے مسجد، نہ زاہد خشک۔ ان کی بااصول اور باوقار شخصیت ، علم و فضل ، صاف و سادہ اور درویشانہ زندگی سے ہر کوئی متاثر ہوتا۔ ان کا ادب کیے بغیر نہ رہ سکتا۔ جو بھی ملتا اس کا جی خوش ہو جاتا ۔ وہ ہر ایک سے بلا تکلف اور بمروت پیش آتے۔ کم گو تھے، لیکن سرتاپا التفات۔ ہر ایک سے تعلق خاطر، ہر ایک کے خیر خواہ۔ ہنس مکھ شگفتہ مزاج۔ بات بات میں ظرافت کی چاشنی۔ لطیفے پر لطیفہ، مگر ایسا نہیں کہ خالی از معنی ہو۔ اس میں کوئی نہ کوئی پہلو نصیحت یا مصلحت کا ضرور ہوتا۔ میر حسن مسجد سے نکل رہے ہیں۔ شاگرد تیزی سے آگے بڑھتا ہے ، عقیدت کا تقاضہ ہے کہ استاد کو جوتا پہنائے۔ لیکن ابھی ایک پائوں کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا کہ میر حسن نے دیکھ لیا۔ تیزی سے آگے بڑھے۔ شاگرد کا ہاتھ روک لیا۔ کہنے لگے ارے یہ تو میرے ہے شاگرد رک گیا۔ نہ شاگرد کی دل شکنی ہوئی، نہ میر حسن کے استغنا اور فروتنی میں فرق آیا۔ یوں میر حسن باتو ں باتوں ہی میں شاگردوں کی تربیت کرتے ۔ ان کا ہر فعل تعلیم تھا۔ وہ تعلیم نہیں جس کا تعلق کتابوں کی ورق گردانی اور مدرسے کی قیل و قال سے ہے بلکہ وہ جس سے مقصود ہے سیرت اور کردار کی پرورش، آدم گری۔ میر حسن آدم گیر تھے۔ انھوں نے کتابیں تصنیف نہیں کیں، انسان تصنیف کیے ہیں۔ نا ممکن تھا میر حسن ایسے استاد سے محمد اقبال ایسا شاگرد متاثر نہ ہوتا۔ میر حسن کی انسان دوستی، میر حسن کا آفاقی نقطۂ نظر، میر حسن کا ایمان و یقین، میر حسن کی عزت نفس، خود داری اور استغنا، صاف و سادہ اور بے ریا زندگی۔ میر حسن کی وسعت قلب ، روا داری، وسیع النظری اور وسیع المشربی۔ مروت، تواضع اور انکسار ، خوش مزاجی اور خوشی کلامی وہ اوصاف تھے جن سے محمد اقبال نے گہرا اثر قبول کیا۔ یہ میر حسن کا ہی درس تھا جس نے ان کے لیے اسلامی علوم و معارف کی راہیں کھول دیں۔ میر حسن کے درس ہی میں وہ مشرق کی روح سے آشنا ہوئے۔ اسلامی تعلیمات کی غایت مقصود کو سمجھا ۔ میر حسن ہی کی صحبتوں میں انھوں نے نوع انسانی کی محبت، عزت اور احترام کا سبق سیکھا۔ نظر میں وسعت اور آفاقیت پیدا ہوئی۔ اسلامی قومیت اور امت کے حفظ و استحکام کا خیال دل میں جم گیا۔ تا آنکہ محمد اقبال کی ذات اور میر حسن کی شخصیت ایک دوسرے سے اس طرح وابستہ ہو گئی کہ ایک سے ہمارا ذہن لازماً دوسرے کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ محمد اقبال کے ایمان و یقین، محمد اقبال کے فکر و نظر ، محمد اقبال کے دل و دماغ، سیرت و کردار کی تعمیر میں میر حسن کا حصّہ فیصلہ کن ہے۔ ان کی شخصیت میں بڑی حد تک استاد کا رنگ جھلکتا ہے۔۸۲؎ میر حسن کے ہاتھوں محمد اقبال کی تعلیم و تربیت جس نہج پر ہوئی اس سے ان کی زندگی کا رخ ہمیشہ کے لیے متعین ہو گیا۔ نہ میر حسن کے بعد کوئی شخص ان کی زندگی میں آیا نہ کسی نے ان کے دل و دماغ کا رنگ بدلا۔ نہ اس راستے سے جو میر حسن کی بدولت بنیادی طور پر متعین ہو گیا تھا کسی دوسرے راستے کی تلاش کا سوال پیدا ہوا، لکھتے ہیں: میری زندگی میں کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں جو اوروں کے لیے سبق آموز ہو سکے۔ہاں خیالات کا ارتقا البتہ سبق آموز ہے‘‘۔ ۸۳؎ میر حسن کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے شروع ہی میں اندازہ کر لیا تھا کہ محمد اقبال ایک نابغہ اور عبقری کا ذہن لے کر آئے ہیں۔ چنانچہ اس وقت بھی جب محمد اقبال اس نبوغ و عبقریت کو جو ان کی طبیعت میں طرح طرح سے ابھر رہا تھا۔ حصول تعلیم میں ، شعر وشاعری میں ،دوستوں کی محفل میں، جس سے جیسے جیسے عمر میں آگے بڑھے طبیعت میں ایک خلش، ایک بے چینی اور ایک ہیجان پیدا ہوتا گیا جسے خود بھی نہیں سمجھتے تھے میر حسن نے اسے سمجھ لیا اور اس کا رخ اس کی صحیح سمت میں موڑ دیا۔ لہٰذا محمد اقبال کو اس شمع بدرگہ خاندان مرتضوی سے جس کا آستان ان کے لیے مثل حرم رہا۸۴؎ جو عقیدت تھی اس کے اعتراف میں غلط نہیں کہا: نفس سے جس کے کلی میری آرزو کی کھلی بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو محمد اقبال سیالکوٹ سے لاہور آئے۔ والدہ کی محبت انھیں بار بار سیالکوٹ لے جاتی۔ ماں باپ سے مل کر ان کا سب سے پہلا کام یہ ہوتا کہ میر حسن کی خدمت میں باادب حاضر ہوں۔ میر حسن سے ان کا رشتۂ تلمذ عمر بھر قائم رہا تا آنکہ ’سوزوسازرومی‘ ہو یا ’تب و تاب رازی، وہ انھیں ہر بات سے با خبر رکھتے۔ ایک روز کہنے لگے میری طبیعت میں غم بہت ہے۔ میر حسن نے کہا اقبال پھر تمھیں اور کس چیز کی ضرورت ہے۔ یہ بڑی نعمت ہے اسے سنبھال کر رکھو۔ ضائع نہ ہونے پائے۔۸۵؎ یورپ سے واپس آ کر،ڈاکٹریٹ کے لیے جو مقالہ لکھا تھا اسے کئی پہلوئوں سے ناقص پایا تو میر حسن کے زیر نگرانی کئی ایک پارسی صحف کا مطالعہ کیا۔۸۶؎ اس کے ترجمے کی تحریک ہوئی تو روک دیا۔۸۷؎ ’’میں نے بڑے بڑے اہل علم سے گفتگو کی ہے۔ لیکن کیا بات ہے کہ باوجود اختلاف شاہ صاحب کے آگے میری زبان نہیں کھلتی۔ ان سے بات کرتے میری قوت گویا ئی جواب دے جاتی ہے۔ حالانکہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مجھے ان کے نقطۂ نظر سے اختلاف ہو۔ یورپ کا کوئی ایسا بڑا عالم اور فلسفی نہیں ہے جس سے بے تکلف بات نہ کی ہو۔‘‘ ۸۸؎ ۱۹۲۳ء میں جب سوال پیدا ہوا کہ پنجاب کی باری ہے، شمس العلماء کا خطاب کسے دیا جائے اور گورنر پنجاب سر میکلیگن نے سر فضل حسین کے ایماء پر محمد اقبال سے مشورہ کیا تو انھوںنے میر حسن کا نام پیش کیا مگر اس شر ط پر کہ پھر کسی دوسرے نام پر غور نہ کیا جائے۔ پوچھا گیا کیا ان کی کوئی تصنیف بھی ہے۔ سر جھکا کر کہنے لگے میں ہوں ان کی تصنیف۔ اس میں کوئی شک نہیں استاد اگر استاد ہے تو شاگرد کو اس کی تصنیف ہی کہا جائے گا۔ لیکن میر حسن ایسے استاد اور محمد اقبال ایسے شاگرد کی مثالیں کہاں ملیں گی۔ جی چاہتا ہے میر حسن ایسا استاد اور محمد اقبال ایسا شاگرد پھر پیدا ہو۔ محمد اقبال سے بڑھ کر شاید ہی کسی شاگرد نے استاد کی عزت کی ہو اور میر حسن سے بڑھ کر شاید ہی کسی استاد نے شاگرد کا خیال رکھا ہو۔محمد اقبال سر میکلیگن سے رخصت ہو کر باہر آئے ۔ چند قدم اٹھائے تھے کہ پھر سر میکلیگن کے کمرے میں داخل ہوئے۔ کہنے لگے خطاب کے لیے اگر میری سفارش منظور ہو جائے تو میرے ضعیف العمر استاد کو لاہور آنے کی زحمت نہ دی جائے۔ چنانچہ انھیں شمس العلماء کی سند سیالکوٹ ہی میں دی گئی ۔ خود میر حسن نے خطاب کا سنا تو اپنے بڑے صاحبزادے سید علی نقی کو لکھا: میں خطاب سے اتنا ہی ڈرتا ہوں جتنا عتاب سے ۔ ۸۹؎ محمد اقبال کے دل میں استاد کے احترام کا یہ عالم تھا کہ ہمیشہ ان کے پیچھے چلتے۔ ایک روز گھر سے باہر کسی دکان پر بیٹھے تھے کہ میر حسن کو آتے دیکھا۔ دیکھتے ہی تعظیماً اٹھ کھڑے ہوئے مگر جلدی میں جوتا نہ پہن سکے۔ اب ایک پائوں پیر میں ہے اور دوسرا جہاں بیٹھے تھے وہیں۔ اسی حالت میں گھر تک ساتھ گئے۔واپس آ کر دوسرا پیر پہنا۔ لیکن اس تعظیم و تکریم، ادب اور احترام کے باوجود استاد اور شاگرد میں کچھ ایسی مفاہمت تھی کہ بے تکلفی تک کی نوبت آ جاتی۔ میر حسن بیٹھے ہیں محمد اقبال کا انتظار ہے کہ آئیں تو سبق شروع ہو۔ محمد اقبال آتے ہیںمیر حسن کہتے ہیں اقبال دیر سے آئے ہو۔ بے ساختہ جواب دیتے ہیں اقبال دیر ہی سے آتا ہے۔۹۰؎ میر حسن جی ہی جی میں خوش مسکرا کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ ایک روز اُن کے گھر کا سودا لیے جا رہے تھے۔ میر حسن نے دیکھ لیا۔ روک کر کہنے لگے میں نے تمھیں بار ہا کہا ہے تم میرے شاگرد ہو نوکر نہیں ہو۔ یہ سودا کیوں لیے جا رہے ہو۔ محمد اقبال نے برجستہ جواب دیا، میں آپ کا شاگرد نوکر ہوں۔ اس طرح کے کئی لطائف ہیں۔ ایک طرف محمد اقبال کی عقیدت دوسری جانب میر حسن کی شفقت ۔ محمد اقبال ہر بات میں میر حسن سے مشورہ کرتے اور میر حسن کا مشورہ فیصلہ کن ہوتا۔ ۱۹۲۸ء میں جب درد گردہ نے اندیشہ ناک صورت اختیار کر لی اور ڈاکٹروں نے کہاآپریشن ناگزیر ہے تو محمد اقبال نے کہا بشرطیکہ شاہ صاحب کی رائے بھی یہی ہو۔ ڈاکٹر حیران کہ اس معاملے میں شاہ صاحب کی رائے چہ معنی دارد۔ انھوںنے ہر چند اصرار کیا لیکن محمد اقبال اپنی بات پر قائم رہے۔ شاہ صاحب سے رائے لی گئی تو انھوں نے کہا بہتر ہو گا محمد اقبال طب سے رجوع کریں۔ محمد اقبال دہلی گئے۔ حکیم نابینا سے مشورہ کیا اور ان کے علاج سے صحت یاب ہو گئے۔ ادھر میر حسن کی یہ کیفیت کہ بصارت سے محروم ہیں۔ ساری دنیا سمٹ کر چارپائی میں آ گئی ہے۔ لیکن محمد اقبال اتنے عزیز ہیں کہ ہر روز ایک آدمی اسٹیشن جاتا روز نامہ انقلاب لے آتا ۔ غرض یہ تھی کہ شاگر د کی صحت کا حال معلوم ہوتا رہے۔۹۱؎ درد گردہ کا یہی دورہ تھاجس میں بغایت اضطراب یہ شعر کہے گئے: وہ مرا فرصت ہو حق دو سہ روزے دگرے کہ درین دیر کہن بندۂ بیدار کجا است میر و مرزا بسیاست دل و دیں باختہ اند جز برہمن پسرے محرم اسرار کجا است اندریں عصر کہ لا گفت من الا گفتم ایں چنیں دیدۂ رہ بین بہ شبِ تار کجا است حرفِ ناگفتہ مجالِ سخنے می خواہد ورنہ ما را بہ جہانِ تو سروکار کجا است ۱۹۳۸ء میں بیماری کی شدت بڑھ گئی تو بار بار کہتے۔ ’’شاہ صاحب ٹھیک کہتے تھے اوّل باآخر نسبتے دارد، ۹۲؎ فرمایا ان کا ارشاد تھا سعدی کو ان کے مرشد نے جو نصیحت کی اس پر ہمیشہ کاربند رہوں اور واقعہ یہ ہے کہ محمد اقبال اس نصیحت پر ہمیشہ کاربند رہے۔۹۳؎ انجمن اسلامیہ سیالکوٹ نے اسلامیہ ہائی اسکول کی نئی عمارت تعمیر کی تو ہال کا نام میر حسن کے نام پر رکھا۔ رسم افتتاح حکومت پنجاب کے وزیر تعلیم نے ادا کی۔ محمد اقبال کو انجمن کی حکام پرستی پسند نہ آئی۔ ایک صحبت میں شکایت کی کہ انجمن نے میرے استاد کے نام سے ہال منسوب کیا۔ مناسب تھا میں اس کا افتتا ح کرتا۔ لوگوں کو بتاتا میر حسن کیا تھے۔۹۴؎ ۲۵ ستمبر ۱۹۲۹ء کو جب میر حسن کا انتقال ہوا تو شہر ماتم کدہ بن گیا۔ ہندو، سکھ، عیسائی سب نوحہ کناں تھے۔ محمد اقبال سیالکوٹ روانہ ہو گئے۔ ریل کا وقت گزر چکا تھا ایک مال گاڑی وزیر آباد جا رہی تھی اسی پر بیٹھ گئے۔ وزیر آباد سے سیالکوٹ پہنچے۔ میر حسن کے عزاو اقربا، شاگرد اور عقیدت مند منتظر تھے کہ محمد اقبال کب آتے ہیں۔ محمد اقبال آئے با چشم نم آگے بڑھے، استاد کے چہرے کی آخری مرتبہ زیارت کی نہ معلوم اس وقت ان کے دل پر کیا گزر رہی تھی۔ جنازے کے ساتھ قبرستان کا رخ کیا۔ مولانا ابراہیم نے حسب وصیت نماز جنازہ پڑھائی۔ تدفین کا وقت آیا تو ہندوئوں اور عیسائیوں نے اپنے اپنے طریق پر دعا کی۔ شیخ نور محمد نے کہا اب میرا وقت بھی قریب ہے۔۹۵؎ محمد اقبال نے تاریخ کہی، وما ارسلنک الا رحمۃ اللعالمین۔ ۷۔شہر اقبال میں ایک ایسے شہر میں پیدا ہوا جو اس وقت شہر بھی نہیں تھا۔ ایک چھوٹا سا قصبہ تھا جہاں سکھوں کی حکومت ختم ہوئے بیس پچیس برس گزرے تھے۔۹۶؎ یعنی ۱۸۷۷ء کا سیالکوٹ ’شہر اقبال‘ جس کی قدامت مسلم ہے، تاریخی ، جغرافی، علمی اور ثقافتی اہمیت مسلم، جو کبھی علم و فضل کا گہوارہ اور کاغذ سازی کے لیے کہ علم اور کاغذ میں چولی دامن کا ساتھ ہے، مشہور تھا ۔لیکن اب کھیلوں کے سامان کا عالمی مرکز۔ سیالکوٹ دامن کوہ سے کوئی بیس پچیس میل دور کوہستان ہمالہ کے جنوب مغربی سلسلے شوالک کی تلہٹی میں ایک پہاڑی ندی’ اَیک ‘کے کنارے دریائے راوی سے نسبتاً دور، لیکن چناب سے قریب ایک سر سبز اور شاداب میدان میں واقع ہے۔ روایتاً اس کی بنیاد پانڈو خاندان کے راجہ سل نے رکھی۔ صدیاں گزر گئیں۔ ایک بہت بڑا سیلاب آیا۔ ہر طرف ویرانی چھا گئی۔ پھر سے آباد ہوا، تحقیقاً سکالا ۹۷؎ کے کھنڈر وں پر ۔ ویدک دور میں مدراقبائل کا دارالحکومت رہا۔ اسکندر یونانی کی یورش کے بعد جب چندر گپت سوریا نے (۱۸۴ ق۔م) سلوکس کو شکست دے کر شمالی ہندوستان میں موریا سلطنت قائم کی تو سکالا کو بڑا عروج ہوا۔ سکالا بڑا پر رونق شہر تھا۔ سجے ہوئے بازار، دولت کی افراط، ہاتھیوں کی آمدروفت۔ اشوک کا زمانہ آیا تو سکا لا بدھ مت کا مرکز بن گیا۔ مشہور بدھ چینی سیاح ہیون تسانک نے اس کی یاتراکی۔ آگے چل کر باختری حکمرانوں کی جن کو دولت موریا کے زوال پر عروج ہوا، راجدہانی بنا۔ مالندہ(یونانی مینانڈر) اور یوثی دامون ۹۸؎ اسی خاندان کے حکمرانوں میں سے ہیں ۔ سفید ہون قبائل شمال مغربی ہندوستان پر حملہ آور ہوئے اور لوٹ مار کا بازار گرم ہوا تو ان کا ایک سردارمہرا گل یا مہرا کل سیالکوٹ میں جم کر بیٹھ گیا۔۹۹؎ تاآنکہ ۳۶۰ء میں بکرماجیت کے معاصر سالباہن نے یہاں اپنی حکومت قائم کی۔ وہ قلعہ تعمیر کیا جو ایک مدور سے ٹیلے کی شکل میں اب بھی موجود سیالکوٹ کا بہترین نظر انداز ہے ۔ موسم خوشگوار ہو، فضا مصفا اور آپ ان دفاتر کے عقب سے ہوتے ہوئے جو قلعے کے بالائی کناروں کے ساتھ ساتھ تعمیر ہوئے، شمال مشرقی افق پر نگاہ ڈالیں تو شمال میں ہمالیہ کی برف پوش چوٹیاں آپ کے سامنے ہوں گی۔ نیچے سیالکوٹ کے بازارا ور گلیاں، سڑکیں اور بلند و پست مکان جو قلعے کی دیواروں کے ساتھ ساتھ ہر چہار طرف پھیل گئے ہیں۔ پھر قلعہ سے کوئی ڈیڑھ دو میل دور شمال میں ایک کھلے میدان میں چھائونی ۔ اس سے بہت قریب ریلوے اسٹیشن جس سے ذرا آگے ، مگر کچھ ہٹ کر کچہری اور ضلع کے دفاتر۔ سیالکوٹ بڑا پر رونق اور صاف سُتھرا شہر ہے ۔ گردو پیش دل کشا۔ آب و ہوا گوار۔ زمین زرخیز۔ جدھر دیکھیے درختوں کے جھنڈا ور لہلہاتے ہوئے کھیت۔ سیالکوٹ کی قدامت مسلم ہے۔ تاریخی عظمت مسلم۔ موریا عہد میں سیالکوٹ کی سیاسی، مذہبی، تہذیبی اور ثقافتی اہمیت میں خاصا اضافہ ہوا۔ سیالکوٹ راجگانِ کشمیر کے زیر تسلط رہ چکا ہے۔ لیکن موریا سلطنت کے زوال اور باختری حکمرانوں کے بعد ہندو عہد میں سیالکوٹ نے کوئی خاص شہرت حاصل نہ کی۔ الا یہ کہ سالباہن کے بیٹے پورن اور راجہ رسالو کی کہانیاں زبان زد خاص و عام ہیں۔ وہ کنواں بھی موجود ہے بلکہ اس نام کی ایک بستی بھی بس گئی ہے جس میں پورن کی سوتیلی ماں نے انتقاماً پورن کے بازو کٹوائے اور اس کنوئیں میں ڈلوا دیے یا پھر ۷۹۰ میں مغربی پنجاب کے راجہ نروت کے ہاتھوں قلعے کی تباہی کا ذکر ملتا ہے ۔۰۰ ۱؎ اسلامی عہد میں البتہ سیالکوٹ کی قدر و منزلت میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا۔ سیالکوٹ سے محمود غزنوی کا گزر ہوا۔ سیالکوٹ غزنویہ پنجاب کا عارضی دارالحکومت رہ چکا ہے۔ سیالکوٹ کے ویران قلعے کی شہاب الدین غوری کے حکم سے مرمت کی گئی۔ طبقات ناصری میں سیالکوٹ کا ذکر موجود ہے۔ تیمور نے جموں فتح کیا تو سیالکوٹ بھی آیا۔ دولت خان لودھی نے شاید سیالکوٹ ہی میں بابر سے ملاقات کی۔ اکبر کے عہد میں اسے سرکار کا درجہ حاصل تھا۔ جہانگیر کے عہد میں کاغذ کی صنعت نے بالخصوص ترقی کی۔ سیالکوٹ کے جہانگیری کاغذ کی شہرت ہر طرف پھیل گئی۔ شاہ جہاں کا زمانہ آیا تو سیالکوٹ کی علمی سرگرمیاں انتہا کو پہنچ گئیں۔ سیالکوٹ ارباب علم کا مولدو منشا، مرجع و مسکن بنا۔سیالکوٹ کا شمار اسلامی ہندوستان کی عظیم درس گاہوں میں ہونے لگا۔ تشنگان علم دور دور سے سیالکوٹ کا رخ کرتے۔ سیالکوٹ کا تعلق نواب عبدالصمد خاں دلیر جنگ کے جانشینوں تک دولت مغلیہ سے قائم رہا۔۱۰۱؎ سکھ گردی کے پرآشوب ایام میں البتہ سیالکوٹ کا گزرویسے ہی آلام و مصائب سے ہوا جیسے پنجاب کے دوسرے اضلاع واقطاع کا۔ سکھوں نے شہر لوٹا، آگ لگا دی۔ کتب خانے جلا دیئے۔۱۰۲؎ اسلاف کی یاد گاریں مٹ گئیں۔ ۱۸۴۹ء میں برطانوی اقتدار اور پھر ۱۹۴۷ء میں تقسیم ملک کے بعد جب امن و امان کی ایک صورت پیدا ہوئی تو سیالکوٹ کی شہری ، تعلیمی اور تمدنی زندگی نے پھر ایک کروٹ لی۔ گو ۱۹۴۷ء میں بائونڈری کمیشن۱۰۳؎ کا نا منصفانہ فیصلہ اس کی ترقی کے راستے میں حائل ہو گیا۔ مگر ۱۸۷۷ء کا سیالکوٹ تو ’’ایک چھوٹا سا قصبہ تھا‘‘۔ قلعے سے جنوب مشرقی سمت میں ’ایک‘ پر شاہ دولہ کے تعمیر کردہ پل، امام صاحب اور منڈی تک ۱۰۴؎ ہندوئوںاور مسلمانوں کے الگ تھلگ محلوں میں منقسم ایک محدود سے رقبہ میں پھیلا ہوا جس کے ارد گرد کی نواحی بستیاں ، اجتماعی ، مذہبی اور علمی زندگی میں بتدریج ایک تغیر رونما ہو رہا تھا۔ سیالکوٹ ضلعے کا صدر مقام بنا، سیالکوٹ میں چھائونی تعمیر ہوئی۔ بایں ہمہ اس کی آبادی بیس پچیس ہزار نفوس سے زیادہ نہیں بڑھی، ۱۰۵؎ برطانوی اقتدار ایک نیا طرز حکومت، نئی تعلیم، نیا آئین و قانون، نیا طرز زندگی اور نئی نئی قدریں لے کر آیا۔ حکمرانوں کی قدر تاً خواہش تھی کہ محکوموں کا دل و دماغ بدل دیں۔ وہ سمجھتے تھے عالم انسانی کا مستقبل اب انھیں کے ہاتھ میں ہے۔ مغربی تہذیب ہی انسانیت کی صورت گر ہے۔ وہی اس کا مقصود و منتہا۔ پھر جب نئی تعلیم کے ساتھ ساتھ عیسائیت کی تبلیغ کا آغاز ہوا۔ سیالکوٹ مسیحی مبشرین کا گڑھ بن گیا۔ ۱۰۶؎ انھوں نے شفا خانے اور مدرسے کھولے تو زمانے نے ایک کروٹ لی۔ دنیا بدلتی رہتی ہے۔ اور بدل رہی تھی مگر اس تبدیلی نے سیالکوٹ کی زندگی میں قدیم و جدید کے تضاد کے ساتھ ساتھ نئے نئے خیالات اور نئے نئے رجحانات بالخصوص ایک شدید مذہبی اور اخلاقی نزاع و جدال کا دروازہ کھول دیا۔ مسلمان ، ہندو، سکھ سب سوچ رہے تھے اپنا قومی تشخص کیسے برقرار رکھیں۔ اپنے طرز زندگی اور اپنے معاشرے کی حفاظت اور تقویت کے لیے کیا تدابیر اختیار کریں۔ ماضی سے رشتہ منقطع کیے بغیر مستقبل کی تعمیر میں کس نہج پر قدم اٹھائیں۔ مسلمان سب سے زیادہ زخم خوردہ تھے۔ سب سے زیادہ زبوں حال۔ مسلمانوں کے لیے یوں بھی ایک نئی تہذیب کی یلغار موت و حیات کا مسئلہ تھا۔ محمد اقبا ل طالب علم ہی سہی، اٹھتے بیٹھتے، گھر سے نکلتے، لوگوں سے ملتے، ان تبدیلیوں کو دیکھتے۔ اسکول میں کالج میں بزرگوں کی صحبت میں گزرے ہوئے دنوں کی باتیں سنتے۔ زمانہ کیا تھا کیا ہو گا، کیسے بدل رہا ہے۔ زمانہ بدلا تو اس تبدیلی کے ساتھ ساتھ لوگ بھی بدلے۔ ان کے طور طریق ، وضع قطع، عادت و اخلاق بدل گئے۔ کسی بات کی تعریف کی جاتی کسی کی مذمت۔ میر حسن کے یہاں اہل علم کی محفلوں کی بھنک محمد اقبال کے کانوں میں پہنچتی ۔ سوچتے ہوں گے یہ کیا مسائل ہیں جن میں لوگوں کا ذہن الجھ گیا ہے ۔ جن پر گفتگو ہو رہی ہے۔ یہ ہندو ،سکھ اور عیسائی تنظیمیں کیا ہیں ان کا مقصد کیا ہے۔ مسلمان بمقابلہ ان کے کس حال میں ہیں۔ کیا کر رہے ہیں ۔ محمد اقبال بڑے ہونہار اور حساس طالب علم تھے۔ یوں ان کا ذہن بھی ماضی سے حال اور حال سے مستقبل کی طرف منتقل ہو رہا تھا۔ وہ بھی اپنے طور پر کچھ سوچتے ہوں گے۔ یہ حالات تھے جن میں خوش قسمتی سے مسلمانوں کو ایک راستہ مل گیا۔ وہ راستہ جس کی نشاندہی سر سید نے کی اور جس پر نیچریت ، کفر اورا لحاد کے طعنوں سے بے تعلق وہ ایک مثبت قدم اٹھا چکے تھے۔ لہٰذا جیسے جیسے محمد اقبال مدراج تعلیم میں آگے بڑھے، جیسے جیسے گرد و پیش پر نظر ڈالی۔ ان حالات کا اندازہ کیا جن سے مسلمانوں کا گزر ہو رہا تھا وہ بھی اس راستے پر مضبوطی سے جم گئے۔ سر سید کی طرح ان کی سیاست کا بھی ایک ہی محور تھا اور وہ اسلامی قومیت ، مسلمانوں کے بحیثیت ایک قوم وجود ملی کا تحفظ۔ لہٰذا شاعری ہو، فلسفہ یاسیاست ان کے ذہن میں اس کے کوئی دوسرا خیال ہی نہیں تھا۔ نہ کبھی اس راستے جو اختیار کر چکے تھے انحراف کا سوال پیدا ہوا جیسے جیسے ہندوستان کی سیاست ایک مرحلے سے دوسرے میں داخل ہوئی۔ انھوں نے اس راستے کی حمایت میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا بلکہ اصولاً اور عملاً ہر پہلو اور ہر جہبت سے واضح اور روشن کرتے رہے۔ سیالکوٹ ایک اسلامی شہر ہے اور تھا ۔ سیالکوٹ سے خواجہ معین الدین چشتی کا گزر ہوا۔ سیالکوٹ میں خواجہ فرید الدین شکر گنج کے صاحبزادے بدر الدین تشریف لائے سیالکوٹ کو امام علی لاحق نے اپنا مستقر بنایا۔ سیالکوٹ کا رشتہ کشمیر سے نہایت پرانا ہے۔ اسلامی عہد میں یہ رشتہ مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔ علمی اور تہذیبی روابط قائم ہوئے تو سیالکوٹ میں علم و عرفان کی اس روایت نے جس کی ابتداء امیر کبیر سید علی ہمدانی سے ہوئی اسلامی ہند کی علمی اور مذہبی روایات سے مل کر ایک نہیں دو مرتبہ مسلمانوں کی رہنمائی کی۔ ایک مرتبہ حضرت مجدد علیہ الرحمۃکی ہمہ گیر دعوت کے سہارے جن کے ہاتھوں اکبری الحاد کی بیخ کنی ہوئی ۔ دوسری مرتبہ خطبہ الہ آباد کی بدولت جب اس صدی کے تیسرے عشرے میں برصغیر کی سیاست نے کچھ ویسا ہی رنگ اختیار کر لیا تھا گو ایک دوسری شکل میں، جیسے اکبر کے عہد میں اور جس سے مقصود بہر حال یہی تھا کہ مسلمانوں کے سیاسی اور ملی تشخص کی نفی ہو جائے ۔ سیالکوٹ کو اس رہنمائی پر ہمیشہ فخر رہے گا۔ سیالکوٹ ارباب شریعت و طریقت کا مرکز اور مسکن رہا ہے۔ ان میں سر فہرست ملا کمال کشمیری کی ذات گرامی ہے ۔ جن سے حضرت مجدد نے کسب فیض کیا جو اپنے بھائی ملا جلال کے ساتھ سیالکوٹ آئے اور ملا فتح اللہ حقانی کی شاگردی اختیار کی۔ ملا عبدالحکیم جن کو دنیائے عرب ’’سیل کوتی‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ ملا کمال ہی کے شاگر د تھے۔شاہ جہان کے وزیر الوزرا نواب سعد اللہ خان چنیوٹی نے ملا عبدالحکیم سے بھی کسب فیض کیا۔ اس سلسلے میں میر اسماعیل بلگرامی کا نام بھی بالخصوص قابل ذکر ہے جو حصول تعلیم کے لیے سیالکوٹ آئے۔ سیالکوٹ میں علوم و عرفان کی یہ روایت دولت مغلیہ کے انحطاط تک برابر قائم رہی ۔ حتیٰ کہ اٹھارویں صدی میں بھی ملا افضل سیالکوٹی نے دہلی میں مظہر جان جاناں اور شاہ ولی اللہ کو حدیث اور تصوف کا درس دیا۔ سیالکوٹ میں تہذیب و تمدن کو فروغ ہوا تو شعر و ادب کی دنیا میں بھی نمایاں ترقی ہوئی۔ میر محمد علی رائج اور ان کے شاگرد سیالکوٹی مل و ارستہ نے فارسی زبان میں شاعری کی۔ پھر جب سکھ گردی کے پر آشوب ایام میں سیالکوٹ کی تباہی کے ساتھ ساتھ برطانوی اقتدار کے ہاتھوں مسلمانوں کا شیرازہ بکھر گیا تو علم و ادب کی محفلیں سونی پڑ گئیں۔ سیالکوٹ ویران ہو گیا۔۰۷ ۱؎ لیکن اس کے باوجود سیالکوٹ اور سیالکوٹ کی نواحی بستیوں میں تعلیم و تعلم کا رشتہ کسی نہ کسی مسجد ، کسی نہ کسی خانقاہ، کسی نہ کسی شخصیت سے قائم رہا۔ یہ گویا اپنی اپنی جگہ پر چھوٹی چھوٹی درسگاہیں تھیں ۔ اسلاف کے بچے کھچے ورثے کی محافظ جن کا طالب علم رخ کرتے۔ محمد اقبال نے ہوش سنبھالا تو سیالکوٹ کا ماضی اور سیالکوٹ کا آثار وبا قیات ایک تصویری مرقع کی طرح ان کے سامنے تھا۔ محمد اقبال گھر سے نکلتے اسکول جاتے تو پاس ہی مسجد دو دروازہ سے گزر ہوتا۔ جسے بدر موہن نے تعمیر کیا۔ بدر موہن عہد عالمگیری میں اودھ سے دہلی آیا۔ صداقت کی تلاش تھی۔ مذہبی بحثوں میں بالآخر اسلام قبول کر لیا۔ رحمت اللہ نا م ہوا اور عالمگیر نے اسے سیالکوٹ میں ایک عہدہ عطا کر دیا۔ مسجد دو دروازہ کی حیثیت اس وقت بھی ایک چھوٹی سی درس گاہ کی تھی۔ مسجد میر حسام الدین ۱۸۷۶ء میں تعمیر ہوئی ۔ میر حسن یہاں بھی درس دیا کرتے تھے۔ اس مسجد کا وہ کمرہ جہاں محمد اقبال نے ان کے سامنے زانو ئے تلمذ تہ کیا اب بھی موجود ہے۔ یہ مسجد کشمیری محلے میں محمد اقبال کے آبائی گھر کے قریب ہی واقع ہے۔ پھر کشمیری محلے ہی کے اندر وہ عظیم مسجد تعمیر ہوئی جہاں غالباً ملا کمال درس دیتے تھے اور جس کا نام اس زمانہ سے کبوتروں والی مسجد چلاآتا ہے۔ اس کی چھتوں اور گنبدوں پر اب بھی کبوتروں کا ہجوم رہتا ہے۔ محمد اقبال کا اس مسجد سے گزر ہوتا اور اس سے امام صاحب کا رخ کرتے تو بہلول دانا کا مزار راستے میں پڑتا۔ امام صاحب کا مزار ایک بلند و بالا ٹیلے پر استادہ اس روایت کی یاد تازہ کرتا ہے کہ امام علی لاحق کفار سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ امام صاحب کی عمارت بڑی پر وقار ہے۔ خوشنمار نگین گنبد، رنگین مگر سنگین دیواریں، حجرے، صحن اور مسجد جن میں امام صاحب کے رفقاء بھی جنھوں نے ان کے ساتھ جام شہادت نوش کیا مدفون ہیں۔ امام صاحب کے مزار نے اہل سیالکوٹ کے لیے ’’بست ‘‘ یعنی پناہ گاہ کا کام بھی دیا ہے۔ یہاں بحالت پریشانی لوگ اکثر گوشہ گزیں ہو جاتے۔ امام صاحب سے شمالی سمت میں تھوڑی دور ’’ایک‘‘ ندی بہہ رہی ہے جس کا پانی کاغذ سازی کے لیے بڑا مفید ثابت ہوا۔ سیالکوٹ کاغذ سازی کا مرکز بن گیا ۔ سیالکوٹی کاغذ کی شہرت دور دور پھیل گئی۔ یہ کاغذ بیسویں صدی کے آغاز تک بھی استعمال ہوتا رہا۔ برسات کے دنوں میں سیلاب آتا ہے تو اس کا پانی آس پاس کے گلی کوچوں میں در آتا ہے ۔ ’’ایک‘‘ کے کنارے بالخصوص پل پر میلہ سا لگ جاتا ہے۔ تیراک جمع ہو جاتے ہیں۔ ہر ایک اپنے کمال فن کی خوبیاں اور جوہر دکھاتا ہے۔ محمد اقبال بھی اس میلے کا لطف اٹھاتے ہوں گے۔ شاہ دولہ عہد مغلیہ کے امراء میں سے تھے۔ تصوف اور علم و فضل میں دست گاہ کے ساتھ ساتھ مہندسی میں بھی ماہر۔ محمد اقبال ان کا ذکر سنتے ہوں گے۔ قاعدہ ہے کہ انسان جس شہر میں پیدا ہوتا ہے بڑے بوڑھے اس کے آثار اور باقیات کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں۔ بچے بزرگو ں سے اس کی روایات اور حالات سنتے ہیں۔ محمد اقبال بھی بزرگوں سے سیالکوٹ کا گذشتہ حال سنتے۔ شاہ دولہ کے ساتھ عہد مغلیہ کے نامور مہندس علی مروان خاں کا ذکر بھی آتا ہو گا۔ محمد اقبال پوچھتے ہوں گے وہ فصیل کیا ہوئی جو علی مروان خان نے سیالکوٹ کے ار د گرد تعمیر کی تھی۔ سیالکوٹ اس زمانے میں کیسا پر رونق شہر ہو گا۔ لیکن آج ملا عبدالحکیم سیالکوٹی کا مزار ،، ان کی بنا کردہ مسجد ، مدرسہ اور تالاب ویران پڑے ہیں۔ ملا عبدالحکیم کی عالمگیر شہرت کا سن کر شاہ جہاں نے اُن کی قدر افزائی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ محمد اقبال فوق کو لکھتے ہیں : ’’ سیالکوٹی فلسفی کی نکتہ آفرینیاں اور موشگافیاں وسط ایشیا اور ایران کے حکماء کو محو حیرت کیا کرتی تھیں۔ ان کی فلسفیانہ تصانیف میں سیل کوتی علی التصورات مشہور رسالہ ہے جو کچھ مدت ہوئی مصر سے شائع ہوا ۔ توحید باری تعالیٰ نے بھی ایک رسالہ ہے جو انہوں نے شاہ جہاں کی فرمائش پر لکھا۔ میری نظر سے گزرا ہے۔ سیالکوٹ میں ان کی مسجد اور تالاب ہی اب ان کی یاد گار ہیں ۔ مزار جو تالاب کے قریب واقع ہے۔ نہایت کس مپرسی کی حالت میں اہل سیالکوٹ کی بے حسی اور سرد مہری کا گلہ گزار ہے۔‘‘ ۰۸ ۱؎ محمد اقبال سیر کرتے۔ دوستوں کے ساتھ پھرتے پھر اتے ادھر بھی جا نکلتے ہوں گئے۔ چھائونی اور اس کے مضافات بلکہ پورن کے کنوئیں سے ہوتے ان کا گذر ’با بے کے بیر‘ جہاں گرونانک کا قیام رہتا اور اس کے پاس ہی سید حمزہ غوث کے مزار سے بھی ہوتا ہو گا۔ رہا قلعہ ، سو قلعہ تو اہل سیالکوٹ کی سیر گاہ تھا۔ محمد اقبال قلعہ کی سیر کرتے، گرد و پیش کے مناظر کا لطف اٹھاتے۔ تیجا سنگھ کے شوالے کا کلس دیکھتے تو سکھ گردی کی یاد تازہ ہو جاتی۔ چھائونی میں نو تعمیر گرجے کا افق میں نکلتا ہوا کلس سلطنت برطانیہ کی شان و شوکت ، جہانگیری اور کشور کشائی کے ساتھ ارض پاک وہند میں ایک نئی حکومت، ایک نئے مذہب اور ایک نئی تہذیب و تمدن کی برتری کا اعلان کرتا۔ محمد اقبال اسے دیکھتے اور غیر ا غلب نہیں کہ ان کے دل میں ۱۸۵۷ء کے ہنگامۂ خونیں کی یاد تازہ ہو جاتی جس میں سیالکوٹ نے بھی حصہ لیا اور حرمت خاں نے بہ کمال دلیری بدیسی حکمرانوں سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ حرمت خاں کا مزار شاید سیالکوٹ ہی میں واقع ہے۔۰۹ ۱؎ سیالکوٹ میں قدم قدم پر بزرگوں کے مزار، مساجد اور معابد پھیلے ہوئے ہیں۔ سیالکوٹ میں ماضی کے اثرات ابھی تک دلوں میں جا گزیں تھے دور مغلیہ کی یاد، شاہی زمانہ، مسلمانوں کی شان و شوکت، پرانی عمارتوں کے بچے کھچے نشانات، سکھ گردی اور پھر برطانوی حکومت کے ہاتھوں تباہی۔ سیالکوٹ کی فضا میں تاریخ بھی تھی، سیاست اور سیاسی انقلابات، مذہب اور تصوف قومی اور ملی کشاکش بھی، اخلاق و معاشرت بھی، وضع قطع، زندگی کے طور طریق، غرضیکہ تہذیب و تمدن کا بدلتا ہوا رنگ ۔ یہ سب محمد اقبال کے ذہن میں طرح طرح سے کام کر رہے تھے۔ وہ بھی جن کا تعلق میر حسن کے درس سے تھا کہ باوجود اختلاف عقائد، سیاسی اور مذہبی نزاع کے ہندو، سکھ، عیسائی سب ان کی خدمت میں بیٹھتے۔ میر حسن کے علم و فضل، ان کی گفتگوئوں ، صحبتوں اور روابط کی سطح کیسی بلند تھی۔ محمد اقبال نے میر حسن کی انھیں صحبتوں میں انسان دوستی، رواداری، طبعی بلندی اور مشربے نابے کا سبق سیکھا۔ پھر ان کے گھر کی فضا کہ والد ماجد کو دیکھتے، ان کے ہاں اہل دل جمع ہیں۔ محمد اقبال نے اگرچہ صرف اتنا کہا ہے کہ اس حلقے میں کتب تصوف کا مطالعہ ہوتا لیکن یہ نہیں بتایا یہ حلقہ کن بزرگوں پر مشتمل تھا۔ اتنا معلوم ہے کہ ان میں ایک سید چراغ شاہ بھی تھے۔ گجرات سے ترک وطن کر کے انھیںکے قریب محلہ کشمیریاں میں آباد ہوئے۔ مولوی غلام مرتضیٰ کے جن کی میر حسن نے بڑی تعریف کی ہے، شاگرد تھے۔ یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ مساجد کی اگرچہ وہ شان نہیں رہی تھی جو شاہی زمانے میں تھی، لیکن اب بھی اُن کی حیثیت درس گاہوں کی تھی۔ میر حسن زیادہ تر مسجد حسام الدین میں درس دیتے۔ مولوی غلام مرتضیٰ مسجد کبوتروں والی میں۔ مولانا غلام حسین بھی ایک مسجد میں درس دیتے، علی ہذا مولوی مزمل بھی۔ مسجد دو دروازہ میں بھی سلسلہ درس جاری تھا۔ لیکن ماضی کا سیالکوٹ ، ماضی کی روایات اور ماضی کے آثار و باقیات سے محمد اقبال کا ذہن جہاں بتدریج ایام سلف کی طرف منتقل ہو رہا تھا، جس سے وہ دن دور نہیں تھا کہ ان کا دل تڑپ اٹھے۔ جس کی یاد ہماری خاک کے لیے اکسیر کا حکم رکھتی ہے۔ ۱۱۰؎ اس لیے کہ یہی وہ ماضی ہے جس میں محمد اقبال کو مستقبل کی جھلک نظر آتی، وہاں یہ خیال بھی اُن کے ذہن میں پیدا ہو رہا تھا کہ حال ہمیں کس طرف لے جا رہا ہے۔ میر حسن کے سلسلۂ درس و تدریس میں ان کا شعور جس طرح بیدار ہوا۔ ان کے یہاں اہل علم کی گفتگوئوں کے ساتھ ساتھ بزرگوں کی صحبت میں ہندوئوں اور سکھوں کی قومی تنظیموں بالخصوص مسیحی مبشرین کی سرگرمیوں کو دیکھ دیکھ کر جن کے قدم سیالکوٹ اور اس کے گرد نواح میں مضبوطی سے جم گئے تھے۔ محمد اقبال کے ذہن میں بھی وہ مسائل اُبھر رہے تھے جن میں حصولِ تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ آگے چل کر الجھنے والے تھے۔ سیالکوٹ میں آریہ سماج کا زور تھا۔ سنگھ سبھا سناتن دھرم سبھا اور برہمو سماج بھی اپنے اپنے طور پر کام کر رہی تھیں۔ محمد اقبال یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ محمد اقبال کا ذہنی ارتقا جاری تھا۔ اس تصادم اور تقابل کا احساس پیدا ہو رہا تھا جو مشرق اور مغرب بلکہ یوں کہنا چاہیے اسلام اور یورپ کے درمیان رونما ہوا اور جس کا شہر کی بدلتی ہوئی زندگی اسکول اور کالج میں وہ ہر روز مشاہد کرتے۔ کس قدر مختلف تھی اسکول اور کالج کی فضا ،اس کا نصاب تعلیم، قواعد و ضوابط ، اساتذہ کی وضع قطع قدیم درس گاہوں سے، کیسے کیسے اثرات تھے جو اس طرح بڑے بوڑھوں ، بچوں اور نوجوانوں پر مرتب ہو رہے تھے۔ معاشرے میں ایک اختلال اور اضطراب رونما تھا۔ سوال یہ تھا اور یہ سوال ہر شخص کی زبان پر کہ یہ جو ہم سرکار انگریزی کے ہاتھوں بے بس ہو کر رہ گئے ہیں کیا کریں؟ محکومی پر راضی ہو جائیں۔ حاضر سے سمجھوتہ کر لیں۔ قدیم و جدید میں کوئی پیوند لگائیں، یا اپنے عقائد پر مضبوطی سے قائم رہیں۔ اپنا طرز زندگی نہ چھوڑیں ۔ لیکن عقائد کیسے بھی مضبوط ہوں ۔ ایمان و یقین کیسا بھی محکم، سیرت و کردار میں کیسی بھی پختگی مسلک و مشرب کیسا بھی خالص، یوں قوم کا مسئلہ تو حل نہیں ہوتا۔ نہ اس کی زندگی ، نہ اس کے حفظ و استحکام کا، افراد کا مسئلہ البتہ حل ہو جاتا ہے۔ وہ بھی ایک حد تک گو آخرالا مران کا رشتہ جماعت سے کٹ جاتا ہے۔ قوم کا وجود ملی تو درکنار ان کی اپنی ہستی میں کوئی معنی نہیں رہتے۔ بات یہ ہے کہ سیاست کی گرفت زندگی پر نہایت کڑی ہوتی ہے۔ بلکہ فیصلہ کن سیاست ہی ہمارے نیک و بد کی صورت گر ہے۔ فرد اور جماعت کا ربط باہم ان کی ملی اور قومی ہستی ان کی سیاسی جدو جہد ہی پر منحصر ہے ۔ ہم ان کی خوبیوں کا اندازہ افراد ہوں یا جماعت اس جدو جہد کی رعایت ہی سے کر سکتے ہیں اور اس جدو جہد کی نوعیت لازماً سیاسی ہو گی۔ خوش قسمتی سے سر سید نے اس جدو جہد کی ابتداء کر دی۔ اسلامی ہند میں ہر کہیں تحریک علی گڑھ کا چرچا ہو رہا تھا، تا آنکہ یہ تحریک مسلمانوں کی قومی تحریک بن گئی۔ میر حسن اس تحریک کے زبردست مؤید تھے۔ ۱۸۷۶ء میں سر سید سے ان کی ملاقات ہوئی، مراسم بڑھتے گئے، خط و کتابت ہوتی۔ میر حسن بالالتزام ہر سال علی گڑھ جاتے، سر سید لاہور آتے تو ان کی پیشوائی کے لیے لاہور پہنچتے ۔ سر سید کی سیاسی بصیرت اپنی جگہ پر مسلم ہے، اس سے انکار کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہا جائے کہ مسلمانوں کا بحیثیت مسلمان کو ئی جدا گانہ قومی وجود نہیں ہے۔ بالفاظ دیگر اسلام اور سیاست کو باہم کوئی تعلق نہیں۔ رہی ان کی تعلیمی تحریک تو سر سید کا مقصد یہ تھا کہ علی گڑھ ایسے نوجوان پیدا کرے جو اسلام کی صداقت اور حقانیت میں یقین رکھتے ہوئے اس جدو جہد میں حصہ لیں جو بحیثیت ایک قوم مسلمانوں کو درپیش ہے۔ ان کے قوائے علم و عمل بیدا ر ہوں۔ تعلیم کی ضرورت سے اصولاً تو کچھ اختلاف ممکن تھا لیکن انکار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ سر سید کی نگاہیں مستقبل پر تھیں۔ ان کی آرزو تھی نوجوان مستقبل کا رشتہ اپنے ہاتھ میں لیں۔ میر حسن اس نکتے کو سمجھ گئے، انھوں نے محمد اقبال کی ذات میں مستقبل کے انسان کی جھلک دیکھی۔ مستقبل کا انسان پیدا کر دیا۔ کوشش کی اور اس کوشش میں کامیاب رہے کہ محمد اقبال کا دل و دماغ اس سانچے میں ڈھل جائے جو ملی ذہن کا صورت گر ہے ۔ لہٰذا جیسے جیسے محمد اقبال مدراج تعلیم میں آگے بڑھے۔ جیسے جیسے زندگی میں قدم رکھا، یہ دیکھا قوم کا گزر کن حالات میں ہو رہا ہے۔ تحریک علی گڑھ کی حقیقی روح کو سمجھ گئے۔ اسے دل سے لبیک کہا۔ کہتے افسوس ہے مسلمانوں کو سر سید ایسا رہنما نہ ملا۔۱۱۱؎ انھیں سر سید کے ایمان و یقین ، سر سید کی اسلام سے محبت، اسلامی تہذیب سے شیفتگی ، سر سید کی بصیرت اور قیادت کا دل سے اعتراف تھا۔ سر سید حقیقی رہنما تھے۔ ان کی ذات بڑی ہمہ گیر تھی۔ وہ دل سے مسلمانوں کی نشاۃ الثانیہ کے آرزو مند تھے۔ اس آرزو میں انھوں نے مسلمانوں کو ہر پہلو سے چھیڑا ۔ انھیں ہر طرح جھنجوڑا۔ یوں ایک عظیم علمی، اخلاقی اور دینی ، سیاسی نزاع و جدال کی صورت پیدا ہو گئی ۔ جس میں بعض حلقوں کو بجا طور پر ان سے اختلاف تھا، بلکہ اختلاف ہونا چاہیے تھا۔ سر سید کے بہت سے اجتہادات غلط تھے۔ لیکن اس راستے سے اختلاف جو انھوں نے قوم کی سیاسی اجتماعی ہستی کے استحکام اور تحفظ کے لیے تجویز کیا ، جس سے مقصد تھا مسلمانوں کی ذہنی بیداری، ان کے سیاسی ملی شعور کا احیا اس راستے سے اختلاف سر تا سر نا واجب اور ارض پاک و ہند میں مسلمانوں کو ایک غیر حکومت اور وطنی سیاست کی طرف سے جو خطرات در پیش تھے ان سے اغماض یا نا واقفیت پر مبنی۔ ہمیں اس اختلاف کی بہت بڑی قیمت ادا کرنا پڑی۔۱۱۲؎ ۱۸۹۸ء میں جب سر سید کا انتقال ہوا تو محمد اقبال نے میر حسن کے ایما سے تاریخ کہی۔ سر سید کے ایمان و یقین ، سر سید کے شعور ملی اور جذبہ خدمت کے ساتھ ساتھ یہ دیکھتے ہوئے کہ وہ کس طرح معترضین کے طعن و تشنیع کا نشانہ بنے، حتیٰ کہ انھیں کا فراور ملحد کیا کچھ نہیں گیا محمد اقبال نے قرآن مجید سے رجوع کیا اور آیہ شریفہ انی متوفیک و رافعک الی مطہرک سے تاریخ نکالی۔ تاریخ میر حسن نے بھی کہی مختصر اور دعائیہ ، غفرلہ یہی تاریخ سر سید کی لوح تربت پر ثبت ہے۔۱۱۳؎ شیخ اعجاز احمد کا بیان ہے کہ بعض لوگوں کو جب محمد اقبال کی نکالی ہوئی تاریخ پر اعتراض ہوا توانھوں نے ایک دوسری تاریخ نکالی کانہ مسیح لکل امراض۱۱۴؎ مفہوم ایک ہے الفاظ مختلف۔ آگے چل کر محمد اقبال نے تصور ہی تصور میں سر سید کی تربت پر اپنی عقیدت کا اظہار کیا اور حاضری دیتے۔ سرسید کی زندگی ا ور قوم کے نام ان کے پیغام کی ترجمانی بڑے دل نشیں الفاظ میں کی۔۱۱۵؎ ۸۔نوجوان اقبال محمد اقبال کشمیری نژاد، کشمیری ذہانت و طباعی، کشمیری احساس حسن اور ذوقِ جمال کے فطری ملکات کو لیے ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے جو زمانے کی سختیوں ، عسرت و تنگ دستی کے باوجود دولت ایمان و یقین اور فہم و دانش سے بہرہ ور تھا۔ گورے چٹے، ماں باپ کے لاڈلے ،جب عالم شیر خوارگی کے اس شور وشغب نے جو کان سن رہے تھے۔ اس نور اور چمک ، سایوں اورتاریکیوں نے جو آنکھیں دیکھ رہی تھیں رفتہ رفتہ کائنات کی شکل اختیار کی۔۱۶ ۱؎ جب ماں کی آغوش ہی ان کی ساری دُنیا اور زمین و آسمان ایک دیار نو معلوم ہوتے۔ جب آنکھ وقف دیدار تھی، لب مائل گفتار ۔۱۱۷؎ جب ذرا ہوش سنبھالا۔ بچپن میں قدم رکھا۔ مسجد میں بیٹھے قرآن مجید کے ساتھ نوشت و خواند کی ابتداء ہوئی۔ ماں باپ نے احکامِ شریعت کی پابندی سکھائی۔ صوم و صلوٰۃ کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کی بلا ناغہ تلاوت کرنے لگے۔ صبح سویرے اٹھتے، سحر خیزی معمول بن گئی۔۱۱۸؎ تعلیم و تربیت کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ آداب و اخلاق سنورتے چلے گئے۔ سیرت و کردار کی پرورش ہونے لگی۔ احساس ذات میں شخصیت کا رنگ پیدا ہو رہا تھا۔ ذوقِ علم اور ذوقِ شعر خداداد تھا ۔ طبیعت فلسفہ پسند، دل و دماغ بیدار زندگی طرح طرح سے انھیں چھیڑ رہی تھی، خیالات تھے، تصورات ، جذبات اور احساسات۔ ضرورت تھی ایک رہنما ہاتھ کی۔علم و حکمت کی طلب، شعرو ادب میں انہماک اور غور و فکر کی جو لانیوں کے ساتھ ساتھ ذرۂ دل کی۔ بقول عطار: کفر کافر را و دین دین دار را ذرۂ دردِ دلے عطار را کچھ خاندانی روایت، کچھ باپ کی درویش منشی، محمد اقبال کو بد وشعور ہی میں ذرۂ درد دل کی دولت مل گئی۔ میر حسن کی توجہ اور نظر اس پر مستزاد بچپن ہی میں قرآن مجید بڑے ادب و احترام اور دل سوزی سے پڑھتے ۔ جمشید علی راٹھور کہتے ہیں ایک روز مسجد میر حسام الدین میں بیٹھے تلاوت کر رہے تھے۔ میر حسن آ گئے، استاد کو دیکھ کر رکنا چاہا۔ میر حسن نے اشارے سے کہا تلاوت جاری رکھو۔ آواز میں سوز تھا۔ تلاوت ختم کی تو میر حسن کے کہنے پر بڑی خوش الحانی سے اذان دی۔ پھر ہم سب نے باجماعت عصر کی نماز ادا کی۔۱۱۹؎ لڑکپن کا زمانہ کھیل کود کا زمانہ ہے۔ محمد اقبال ذہین تھے ان کی ذہانت کا اظہار بڑی معصومانہ شرارتوں میں ہوتا۔ ایک روز تختی لکھتے غلط کو غلت لکھ دیا۔ استاد نے کہا غلط کو صحیح کر دو۔ کہنے لگے غلط تو غلط ہی رہے گا، میں اسے صحیح کر دوں کیسے؟ پڑھائی کے ساتھ ساتھ کھیل کود میں وقت گزرتا۔ سن و سال میں آگے بڑھے تو لال دین پہلوان کے یہاں اکھاڑہ کرنے لگے۔ ڈنٹر پیلتے ۔ لال دین سے دوستی ہو گئی اور اس دوستی کا محمد اقبال نے ہمیشہ پاس رکھا۔ سیالکوٹ جاتے لال دین سے بے تکلف ملتے۔ لال دین کہتے ہماری سمجھ میں ان کی باتیں تو بہت کم آتیں لیکن وہ ہماری دوستی کا بڑا خیال رکھتے، ایسا کبھی نہ ہوا کہ کوئی بڑا آدمی ان سے ملنے آئے اور وہ ہمیں نظر انداز کر دیں۔ لاہور آئے تو یہاں اکھاڑہ تو کیا ہوتا البتہ مگدرہلاتے، ڈنٹر بھی پیلتے۔ چنانچہ علی بخش ان کے یہاں ملازم ہوا تو ان کے یہاں ملازم ہوا تو ان کے کسرتی بدن کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ علی بخش سے کہتے، علی بخش نوجوانوں کو چاہیے کسرت کریں۔یوں لاہور میں بھی کبھی کبھار کوچہ ہنومان میں جہاں اس زمانے میں ان کے دوست سید غلام بھیک نیرنگ کا قیام تھا دوران ملاقات میں اکھاڑے کا شوق تازہ ہو جاتا۔ اکھاڑہ تو ریاضت بدنی کا ذریعہ تھا ۔ تفریح طبع کے لیے کبوتر اڑاتے۔ سیالکوٹ میں ان دنوں کبوتر بازی کا رواج عام تھا۔ لوگوں نے گھر گھر کبوتر پا ل رکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کبوتر اڑتے ہیں تو ان کے پروں سے جو ہوا نکلتی ہے بچوں کے لیے خاص طور سے مفید ہے۔ یہ ایک معصومانہ مشغلہ تھا جس سے میر حسن نے روکا، نہ شیخ نور محمد نے۔ شاید اس لیے کہ انھیں خواب میں جو اشارۂ غیبی ہوا تھا کبوتر کی شکل میں۔ میر حسن کے صاحبزاد ے سید محمد تقی جو محمد اقبال کے ہم جماعت بھی تھے کبوتر بازی میں ان کے دست راست تھے۔ ابتداء کبوتر بازی کی بقول سید محمد تقی یوں ہوئی کہ اول اول ہم شوالہ تیجا سنگھ کے پاس کھلے میدان میں شام کے قریب کبوتر بازی کے ماہروں کو کبوتر اڑاتے دیکھتے ۔ کبوتر فضائے نیلگوں میں طرح طرح سے اور بل کھا کھا کر اڑتے تو محمد اقبال کی نگاہوں میں چمک پیدا ہو جاتی۔ ایک شام گھر آئے کہنے لگے ، مجھے کبوتروں سے عشق ہو گیا ہے لیکن کبوتر پالے تو رکھیں گے کہاں؟ سید محمد تقی کہیں سے کبوتروں کے چار جوڑے لے آئے ۔ گھر کی چھت پر کاوک تیار کیے۔ یوں سید محمد تقی کے یہاں بالفاظ دیگر میر حسن کے گھر سے کبوتر بازی کی ابتداء ہوئی۔ محمد اقبال نے شعر کیا: جی میں آئی جو تقی کے تو کبوتر پالے کوئی کالا، کوئی اسپید ہے، دو مٹیالے رفتہ رفتہ گھر میں بھی کاوک اور چھتری بن گئی۔ کبوتر پلنے لگے۔ ایک روز میر حسن نے کوئی سوال پوچھا، محمد اقبال کی نگاہیں آسمان میں کبوتروں کی پرواز پر تھیں، جو اب نہ دیا ۔ میر حسن نے کہا علم کتابوں میں تلاش کرو کبوتروں کی پرواز سے علمی جدو جہد ہی کو تحریک ہو سکتی ہے۔۲۰ ۱؎ یہ تھی میر حسن کی خوبی تربیت کہ کبوتروں سے لگائو اور کبوتر بازی میں بھی تفریح طبع کے ساتھ ساتھ ایک عملی تجسس پیدا کر دیا۔ محمد اقبال کہتے میں جب کبوتروں کو پنہائے فضا میں پرواز کرتے دیکھتا ہوں تو محسوس کرتا ہوں جیسے میں بھی ان کے ساتھ آسمان کی وسعتوں میں اڑا رہا ہوں۔ افلاک کی سیر ہو رہی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کبوتروں کی اُڑان اور آسمان پروازی محمد اقبال کی شاعرانہ اور فلسفہ پسند طبیعت کو بڑی مرغوب تھی۔ لقا کبوتر سے انھیں دلی لگائو تھا۔ کہتے اس کبوتر کا سینہ تان کر ایک شان تمکنت اور طمطراق سے چلنا مجھے بہت پسند ہے۔ رفتہ رفتہ کبوتروں سے انھیں ایک حیاتیات داں کی سی دلچسپی پیدا ہو گئی۔ وہ ا ن کی عادات اور خصائل ، طاقت پرواز اور مختلف انواع کا ذکر بڑی تفصیل سے کرتے۔ کہتے ان کی اصل تو ایک ہے لیکن یہ گھریلو کبوتر جنگلی کبوتروں سے کہیں الگ ہوئے، اس حد تک الگ کہ ان کی عادات و خصائل کو جنگلی کبوتروں سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ یوں کبوتروں سے ان کا ذہن و حوش و طیور کی طرف منتقل ہو گیا۔ وہ ان کی عادات اور خصائل کا مطالعہ کرنے لگے۔ تا آنکہ یوں انھوں نے ایک ایسا نظام علامات وضع کر لیا جو ان کے خیالات اور تصورات کے ابلاغ کا نہایت موثرذریعہ ثابت ہوا۔ ان کے یہاں کبوتر ایک علامت ہے،شاہین ایک علامت، کنجشک فرو مایہ بھی علامت ۔ حتیٰ کہ مولانا عبدالسلام نیازی نے جو ان کے علم و فضل کے قائل اور باوجود وحدۃ الوجود پر شدید اصرا ر کے اسرار خودی کی تعریف میں رطب اللسان رہتے۔ جب ان سے خودی کے بارے میں سوال کیا کہ خودی ہے کیا تو انھوں نے لکھا’’میرے پاس کبوتروں کا ایک نہایت عمدہ جوڑا ہے ۔ ارشاد ہو تو نذر خدمت کر دوں‘‘۔۲۱ ۱؎ مولانا جن کو خود بھی کبوتروں سے بڑا شغف تھا ان کا اشارہ سمجھ گئے۔ کہنے لگے ہم نے جان لیا خودی کی حقیقت کیا ہے ۔ کیوں صاحب یہ جوڑا جو اقبال میری نذر کرنا چاہتے تھے کیااس کی اپنی ایک خودی نہیں تھی۔مولانا نے خود ہی مجھ سے یہ واقعہ بیان کیا۔ گو بسبب ان کے ادب اور رعب و ادب کے میں نے ان سے یہ کہنے کی جرأت نہیں کی کہ یوں خودی کا جو تصور آپ کے ذہن میں پیدا ہو ا اس سے ہم کیا سمجھیں ؟ کیا اس طرح خودی کی حقیقت واضح ہو گئی: محمد اقبال نے کبوتروں کے جس جوڑے کی طرف اشارہ کیا اس کی یکتائی مسلم۔ آپ نے اس یکتائی کو خود سے تعبیر کیا۔ لیکن سوال خودی کی یکتائی کا نہیں ہے، سوال یہ ہے کہ خودی فریب ہے یا حقیقت۔ مدینہ منورہ سے ایک کبوتر آیا۔ محمد اقبال نے اسے بڑی عقیدت سے پالا۔ اتفاقاً یہ کبوتر بلی کی نذر ہو گیا۔ ظفر علی خاں نے مرثیہ لکھا: رحمت ہو تیری جان پہ اے مرغِ نامہ بر آیا تھا اُڑ کے ذروۂ بام حرم سے تو تجھ پر ابوہریرہ بھی قربان ہیں کہ تھا وابستگانِ دامنِ فخر الامم سے تو شاید انھی کی راہ میں تو ہو گیا نثار گر بچ سکا نہ گربہ کی مشقِ ستم سے تو۱۲۲؎ کبوتروں سے محمد اقبال کے شغف کا یہ عالم تھا کہ سیالکوٹ سے لاہور آئے تو کبوتر ساتھ لائے۔ یورپ سے واپس لوٹے، انارکلی میں اقامت اختیار کی تو کبوتر بھی آ گئے، میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں منتقل ہوئے تو کبوتروں کے لیے عمدہ عمدہ کاوک تیار کیے گئے۔ کبوتروں کو ۱۹۲۴ء میں خیر باد کہی۔ جاوید کی پیدائش سے کچھ پہلے اور وہ بھی شاید بادل نا خواستہ۔ کبوتروں کے بارے میںنیاز الدین خاں سے خط و کتابت ہوتی۔ نیاز الدین کے بھی گرامی مرحوم سے بڑے گہرے تعلقات تھے۔ ایک دوسرے سے خطوں میں ان کا ذکر ہوتا۔ ایک خط میں لکھتے ہیں: کبوتروں کے ایک جوڑے نے بڑی مشکل سے کچھ بچے پالے ہیں۔ ایک دوسرے خط میں شکایت کی ہے کہ ان پر مغربی تہذیب کا اثر ہو گیا ہے۔ بچوں کا خیال نہیں کرتے۔۳ ۱۲؎ بات یہ ہے کہ ان کے لیے بعض کبوتروں کی نسل نیاز الدین خاں کے بڑے صاحبزادے نو بہار الدین خاں مرحوم نے تیار کی تھی۔۱۲۴؎ پھر جس طرح کبوتر بازی میں سید محمد تقی اُن کے دوست راست تھے۔ شعر و شاعری میں سید محمد تقی کے قریبی عزیز سید بشیر حیدر ان کے ندیم و جلیس ان کے ساتھ شعر و شاعری کی محفلیں گرم ہوتیں۔ رفتہ رفتہ حلقۂ احباب بڑھنے لگا۔ آغا محمد باقر رئیس سیالکوٹ سے کہ قریباً قریباً ہم عمر تھے گہری دوستی ہو گئی ۔ آغا صاحب کی طبیعت میں بڑی درویشی تھی۔ کوئی سائل آتا یا دیکھتے اس کی کوئی ضرورت ہے تو بلا تکلف قیمتی سے قیمتی چیز اس کی نذرکر دیتے۔ محمد اقبال کو ان کی یہ ادا بہت پسند تھی۔ مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹ کے مشہور عالم دین ، اہل حدیث کے پیشوا میر حسن سے کسب فیض کرتے۔ محمد اقبال سے دوستانہ روابط قائم ہو گئے۔ سیر و تفریح میں ساتھ رہتے۔ باہم مل کر دل لگی ہوتی۔ ڈاکٹر محمد حسین شاہ اینٹرنس میں ان کے ہم جماعت تھے۔ ان سے بڑی دوستی تھی۔ محمد اقبال ان کی بڑی عزت کرتے، بڑی محبت سے ملتے۔ میر حسن کے ہندو، سکھ اور مسلمان شاگردوں اور ارادت مندوں میں رکن الدین، کنور سین نہال سنگھ، جدت سنگھ، جمشید علی راٹھور کے علاوہ جنھوں نے آگے چل کر بڑا نام پایا کتنے اور حضرات تھے نرانجن داس، کھڑک سنگھ ، بیلی رام جو صبح و شام میر حسن کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ کھڑک سنگھ نے سیاسی زندگی میں بڑا نام پایا ۔ بیلی رام بڑے با اثر ہندو وکیل تھے۔ نہال سنگھ ڈپٹی کمشنری سے پٹیالہ میں وزارت تک جا پہنچے۔ کنور سین کے والد بھیم سین بڑے کٹر آریا سماجی تھے ۔ اسلام پر طرح طرح سے معترض ہوتے ایک دن مرزا غلام احمد مراقبے میں بیٹھ گئے۔ کمبل اوڑھ لیا۔ پسینہ پسینہ ہو گئے۔ کہنے لگے ان کے ماتھے پر جلی حروف میں لفظ د جال لکھا ہے۔ رکن الدین نے پرائمری کی تو میر حسن نے خود ان کی تعلیم کا ذمہ لیا۔ ایم۔ اے تک ہر امتحان میں اول آئے۔ کنور سین لا کالج کے پرنسپل بنے ۔ ریاست جموں کشمیر میں چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہے۔ مختصراً یہ کہ محمد اقبال کی زندگی ان دنوں بڑی ہمہ گیر تھی۔ اکھاڑہ ،کبوتر بازی، سیر و تفریح ، شعر و شاعری ، میر حسن کا حلقۂ درس ، کالج کی تعلیم، باپ کی صحبت، ارباب شریعت اور طریقت کا ذکر آتا تو محمد اقبال ہمہ تن گوش ہو جاتے۔ محمد اقبال کے جملہ مشاغل ایک سلیقے اور قرینے سے جاری تھے اور یہ اس زمانے میں جب مسلمان ایک شدید روحانی اضطراب سے گزر رہے تھے۔ ہر طرف بیدلی کا عالم تھا۔ سکھ گردی کے دور میں ان پر جو گزری سو گزری اب ایک نئی قوم کی محکومی کے ساتھ ایک نئی تہذیب کی غلامی کا خطرہ تھا۔ان کا وجود ملی خطرے میں تھا ۔ تہذیبی ورثہ خطرے میں ، اخلاق اور معاشرت، ایمان اور عقائد خطرے میں ، عیسائیت اور آریا سماج نے ان کے خلاف ایک محاذ قائم کر رکھا تھا۔ خود مسلمانوں کے اندر مذہبی اختلافات اور نزاعات کے ساتھ ساتھ طرح طرح کی گروہ بندیاں قائم تھیں۔ تحریک علی گڑھ کی بلاوجہ مخالفت کچھ کم یاس انگیز نہیں تھی۔ مرزا غلام احمد بھی ان دنوں سیالکوٹ میں مقیم تھے۔ شیخ نور محمد کے قریب ہی ایک مکان میں رہتے۔ ہنوز ان کی دعوت کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ لیکن یہ زمانہ ان کے مراقبوں ، علمی اور مذہبی گفتگوئوں کا تھا۔ شیخ نور محمد اور میر حسن سے ملاقات رہتی۔ محمد اقبال یہ سب کچھ دیکھتے اور سب کچھ سنتے۔ گویا محمد اقبال نے جوانی میں قدم رکھا تو جیسا کہ ان کی ذہنی اور اخلاقی تربیت کا تقاضا تھا۔ جیسے جیسے سن و سال کے ساتھ ساتھ ان کے شعور میں پختگی پیدا ہوئی، وہ خود بھی خواہ ایک نو عمر طالب علم کی حیثیت ہی سے سہی سوچ رہے تھے کہ یہ مذہبی اختلافات اور نزاعات ، یہ اخلاق و معاشرت کا فرق، یہ زندگی کی الگ تھلگ راہیں۔ یہ نئی اور پرانی تہذیب کی گفتگوئیں، یہ مسائل۔یہ علم و حکمت کی بحثیں یہ سب کیا ہیں، کس لیے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے محمد اقبال کی زندگی میں عنفوان شباب ہی سے وہ سب عناصر جمع ہو رہے تھے جن سے آگے چل کر ایک عظیم شخصیت کی تعمیر ہوئی اور جس نے صدیوں کے انتشار فکر، ژولیدہ خیالی اور لاحاصل بحث و جدال ، خود ساختہ مسائل حتیٰ کہ تعصب اور تنگ نظری کے باوجود ادعا اور تحکم کا حصار توڑا۔ اسلامی تعلیمات کی ترجمانی نہایت صحت سے کی۔ اسلام کی صداقت اور حقانیت تو بچپن سے ہی دل میں گھر کر چکی تھی جیسے جیسے مدراج تعلیم میں آگے بڑھے، زندگی کو دیکھا، اس کی کشا کش، اس کے گوناگوں احوال و واردات، جیسے جیسے عقل و فکر کو ترقی ہوئی، ادب اور فن کی نزاکتیں آشکار ہوتی گئیں وہ خیالات اور تصورات، وہ جذبات اور احساسات ابھرے جو زندگی اپنے ساتھ لے کر آتی ہے۔ محمد اقبال زندگی کے لذت آشنا تھے۔ اس کے تاب و تب سے شناسا، اس کے جمال و جلال سے لطف اندوز، اس کی دل کشی، حسن اور زیبائی کے قدر دان ، جوانی ایک نووارد کی طرح انھیں اس عالم میں لے آئی جس سے ایک سفر کی ابتداء ہوتی ہے وہ اس کا آغاز ، وہ اس کی مشکلات اور موانع ، توقعات اور امکانات۔ وہ ایک دوردراز منزل اور اس کے خطرات۔ وہ عزائم اور مقاصد، امنگوں اور آرزوئوں کی تڑپ ۔ وہ امید و بیم، وہ ذوق و شوق۔ انتظار اور اضطراب کی ساعتیں۔ رفیقان سفر، دوستی اور یک دلی وہ پہلی محبت، و ہ ہجر و صال ، و ہ حسن و عشق اور اس کا نازونیاز۔ وہ رنج و ناکامی اور وہ شکستِ خمار کا عالم۔ وہ بالید گی ٔ شوق اور وہ عقل اور دل کی کشمکش۔ وہ مستقبل کی جھلک اور اس کا فریب۔ وہ منزل مقصود کا سفر اور اس کا اختتام ۔ انسان سوچتا ہے کیا اس سے آگے بھی کوئی سفر ہے کوئی اور منزل ؟ نہیں ہے تو بقول گوئٹے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ماضی ہی سب کچھ ہے۔ ماضی ہی حقیقت۔۱۲۵؎ محمد اقبال بھی یہ سفر طے کر رہے تھے۔ اس کے گو نا گوں مرحلوں سے گزر رہا تھا۔ سراپا شوق سراپا امید ، لیکن با احتیاط اور ہوش مندی، سیرت و کردار کی پختگی ، ذہن رسا، ضبط اور متانت کے ساتھ جس نے انھیں شباب کی ہر لغزش اور ہر بے راہروی سے محفوظ رکھا۔ تاآنکہ جوانی ہی میں ان کو قدر و منزلت کی نگاہوں سے دیکھا جا رہا تھا، جوانی ہی میں سیالکوٹ کے علمی اور مذہبی حلقوں کی نگاہیں ان کی طرف اٹھ رہی تھیں۔۲۶ ۱؎ چنانچہ ۱۷۔۱۸برس کا یہ جوان رعنا خوش اطوار ، خوش گفتار، شاعر، متعلم جس طرف سے گزر کرتا لوگ سمجھتے ایک عظیم مستقبل ان کے سامنے ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ایک عظیم مستقبل اس کے سامنے تھا۔ ۱۸۹۵ء میں محمد اقبال لاہور آ گئے۔ لیکن سیالکوٹ کے دوستوںا ور ساتھیوں کو نہیں بھولے۔ جب بھی سیالکوٹ جاتے ان سے بلا تکلف ملتے۔ میر حسن کے درس کا رخ کرتے اور کوچہ میر حسام الدین میں قدم رکھتے تو سر باز ار اللہ دتا شیر فروش کی دکان پر بیٹھ جاتے۔ کبوتروں کی گفتگو ہوتی۔ ان کا ایک ساتھی چراغ ہار مونیم بجاتا، اس لیے ماسٹر کہلاتا۔ لاہور چلا آیا تھا۔ اس سے ملاقات ہوتی۔ ہارمونیم سنتے۔ چراغ ہی مولوی محبوب عالم سے تعارف کا ذریعہ بنا۔۱۲۷؎ مرزا بدر الدین سیالکوٹ کے ایک معزز خاندان کے فرد محمد اقبال ہی کے ایما سے لندن گئے، بیرسٹری کی۔ محمد اقبال کی بڑی عزت کرتے۔ میر نیرنگ جب سیالکوٹ گئے اور محمد اقبال کے یہاں ٹھہرے تو ان کے ایک عزیز جھنڈے خاں سے بھی ملاقات ہوئی۔ میر صاحب نے کہا ایسا بلند بالا اور خوش قامت نوجواں اور نام جھنڈے خاں۔ محمد اقبال نے کہا آج سے ہم ، انھیں علمدار خاں کہیں گے۔ میر صاحب نے جھنڈے خاں کی بڑی تعریف کی ہے۔۱۲۸؎ جھنڈے خاں یک چشم تھے۔ ان کے ایک دوست تھے حافظ شفیع بینائی سے محروم دونوں اکھٹے سیر کو نکلتے۔ ایک روز کچھ لڑکوں نے آتے دیکھا تو کہنے لگے، یارو دیکھوتو آدمی دو مگر آنکھ ایک۔ جھنڈے خاں بہت محظوظ ہوئے۔ ہر ایک کو مزے لے لے کر لطیفہ سناتے۔ محمد اقبال کے ایک اور دوست تھے چاچا خوشیا۔ اسکاچ مشن ہائی اسکول میں ان کے ہم جماعت۔ محمد اقبال چاچا خوشیا کے ہاں جاتے۔ دونوں دوست مکان سے باہر ایک چبوترے پر بیٹھ جاتے۔ باتیں کرتے، شطرنج کھیلتے۔ چاچا خوشیا نے محمد اقبال سے اپنی دوستی کا حال بیان کیا ہے۔ پیرانہ سالی میں بال سفید ہو چکے تھے کہنے لگے اقبال جب بھی لاہو ر سے آتا مجھے ضرور ملتا۔ محمد اقبال ایک بار سیالکوٹ ان سے ملنے گئے۔ چاچا خوشیا گھر پر نہیں تھے۔ باہر چبوترے پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگے گزرے ہوئے دنوں کی یاد تازہ ہو گئی۔ ملاقات نہ ہو سکی۔ چاچا خوشیا نے ان سے دوستی کے کئی واقعات بیان کیے ہیں ۔ بچپن کی لڑائیاں، صلح اور پھر لڑائی ۔ چراغاں کا میلہ تھا خوشیا لاہور آیا۔ شالا مار کی سیر کی۔ واپسی میں شاید محمد اقبال سے ملنے کا خیال تھا۔بھاٹی دروازے کے باہر سوڈا پی رہا تھا کہ دیکھتا ہے دفعتاً ایک تانگہ رکا۔ آواز آئی خوشیا تم یہاں کہاں۔ محمد اقبال تانگے سے اترے ۔خوشیا کو گھر لے گئے۔ راستہ باتوں میں کٹ گیا۔ خوشیا نے کہا یار تو اب بڑا آدمی بن گیا ہے ۔ محمد اقبال نے کہا ٹھیک کہتے ہو لیکن بچپن کے دوستوں کی دوستی اور خلوص شاید دوبار میسر نہ آ سکے۔۲۹ ۱؎ سید محمد تقی، سید بشیر حیدر اور شیخ گلاب دین لاہور آ گئے تھے۔ ان سے تاحین حیات تعلقات میں فرق نہ آیا۔ جیسے سیالکوٹ میں بچپن کے دوستوں مولوی ابراہیم اور آغا محمد باقر سے۔ ۹۔شاعر اقبال محمد اقبال کو فطرت نے شاعر پیدا کیا تھا۔ وہ جو کہتے ہیں: ’الشعراء تلا میذ الرحمن، شاعری و ہب ہے، اکتساب نہیں ہے۔ فطرت نے محمد اقبال سے خود ہی شعر کہلوایا ۔ بچپن ہی سے کلام موزوں زبان سے نکل رہا تھا۔ رفتہ رفتہ کلام موزوں زبان سے نکل رہا تھا۔ رفتہ رفتہ کلام موزوں شعرکے سانچے میں ڈھل گیا۔ بچپن ہی میں بازار سے منظوم قصے خرید لاتے۔ آواز نہایت سریلی تھی لحن بڑا دلکش قصے نشید کرتے۔ خود محفوظ ہوتے سننے والوں کو محظوظ کرتے۔یوں موسیقی سے شغف ہوتا گیا۔ شعر کہنے لگے۔ شروع شروع میں جو کچھ کہا دوستوں تک محدود رکھتے ہوں گے۔ ابھی اسکول ہی میں تھے کہ میر حسن سے شعر گوئی کا ذکر آ گیا۔ انھوں نے خوب خوب ہمت بڑھائی۔ شعر کہنے کی تاکید کی۔ حالانکہ آغاز سخن تھا۔ لیکن میر حسن نے جس طرح یہ اندازہ کر لیا تھا کہ یہ بچہ مسجد میں نہیں مدرسے میں پڑھنے کے لیے پیدا ہوا ہے بعینہ یہ بھی کہ ایک روز اس کی شاعری کا غلغلہ چار دانگ عالم میں پھیل جائے گا۔ میر حسن نے گویا ان کی طبع موزوں، ان کی شاعری کے حکیمانہ رنگ کو ان کے ابتدائی اشعارہی میں دیکھ لیا تھا حالانکہ ان اشعار میں کوئی خاص بات نہیں تھی لیکن میر حسن کی نگاہ جوہر شناس تھی۔ انھوں نے گویا اس شاعری کی ابتداء ہی میں اس کی انتہا کو دیکھ لیا۔محمد اقبال کے ایک ہم سبق کو بھی شاعر ی کا شوق چرایا ۔ محمد اقبال کی دیکھا دیکھی شعر کہنا شروع کر دیا ۔ میر حسن سے تلمذ تھا ہی ایک روز موقعہ پا کر میر حسن سے ڈرتے ڈرتے عرض کیا میں بھی شعر کہتا ہوں ۔ اجازت ہو کچھ اشعار ہو گئے ہیں ۔ میر حسن نے اشعار سنے ۔ خاموش رہے۔ اس کے بعد چھڑی اٹھا کر خوب خوب مرمت کی۔ کہنے لگے خبردار جو آئندہ تم نے شعر کہنے کی جرأت کی۔ یہ تھی میر حسن کی نگاہ جوہر شناس ۔ محمد اقبال شعر کہتے میر حسن اصلاح دیتے۔ چنانچہ اسکول ہی میں محمد اقبال نے ان کی موجودگی میں ایک نظم پڑھی۔نو عمری ہی میں ان کی شاعری کا چرچا عام ہو گیا۔ سیالکوٹ میں ایک بزم مشاعرہ قائم تھی۔ اس میں کلام سناتے۔ مقامی شعراء بالخصوص میراں بخش جلوہ سے کہ محض تک بند تھے نوک جھونک رہتی ۔ میر حسن کا ذوق شعر نہایت بلند تھا۔ ان سے شعر و شاعری کی نزاکتوں ،عروض اور قوافی کی خوبیوں ، کلام کے محاسن، ان کے معائب ، غرض کہ ہر اس بات کا سبق سیکھا جس کا تعلق اس فن کے لوازم سے ہے۔ عبدالرحمن شاطر مدراسی کو لکھتے ہیں۔ ’اعجاز عشق‘ حضرت مولوی میر حسن پروفیسر عربی ، اسکاچ مشن کالج سیالکوٹ کے نام ارسال کیجیے۔ یہ بڑے بزرگ عالم اور شعر فہم ہیں۔ میں نے انھیں سے اکتساب فیض کیا ہے۔۱۳۰؎ دراصل محمد اقبال کے ذوق و سخن کی تربیت میر حسن ہی کی توجہ سے ہوئی۔ ’’شاہ جی کا کیا کہنا ہے ۔ان کی ہر بات شعر ہوتی ہے‘‘۔۱۳۱؎ بایں ہمہ میر حسن کا خیال تھا کہ تقاضائے وقت،علی ہذا تقاضائے مصلحت یہ ہے کہ شعر و شاعری میں محمد اقبال کا رشتہ تلمذ کسی استاد سے قائم ہو جائے۔ نگاہ انتخاب بجا طور پر فصیح الملک بہادر داغ دہلوی پر پڑی کہ وہی اس زمانے میں شاعری کے مسلم الثبوت استاد تھے اور انھیں کی زبان سند تسلیم کی جاتی تھی۔ محمد اقبال نے ان سے اصلاح لینا شروع کی۔’’ لیکن یہ سلسلۂ تلمذ دیر تک قائم نہ رہا۔ داغ نے بہت جلد کہہ دیا کلام میں اصلاح کی گنجائش بہت کم ہے۔‘‘ ۲ ۱۳؎ البتہ اس کی یاد بقول شیخ عبدالقادر دونوں طرف باقی رہ گئی۔ محمد اقبال نے داغ ہی کی زندگی میں قبول عام کا درجہ حاصل کر لیا تھا۔ داغ مرحو م اقبال پر فخر کرتے۔ ’’مجھے خود دکن میں ان سے ملنے کا اتفاق ہوا اور میں نے خود ایسے فخریہ کلمات ان کی زبان سے سنے‘‘۔ ۱۳۳؎ محمد اقبال کے دل میں بھی داغ کی بڑی قدر تھی۔ ان کی شاگردی پر ناز کرتے اشعار میں بھی اظہار عقیدت ہوتا۔ سیالکوٹ ہی کے زمانے کی ایک غزل ہے۔۱۳۴؎ جان دے کر تمھیں جینے کی دعا دیتے ہیں پھر بھی کہتے ہو کہ عاشق ہمیں کیا دیتے ہیں گرم ہوتا ہے کبھی ہم پہ جو وہ بت اقبال حضرت داغ کے اشعار سنا دیتے ہیں ایک دوسری غزل میں کہتے ہیں: جنابِ داغ کی اقبال یہ ساری کرامت ہے ترے جیسے کو کر ڈالا سخنداں بھی سخنور بھی انھوں نے بار بار داغ کی شاگردی پر فخر کیا ہے۔ ۱۳۵؎ لاہور آئے تو داغ کے شاگرد احسن مار ہروی بھی لاہور میں مقیم تھے۔ ان سے روابط بڑھے۔ احسن مارہروی لاہور سے چلے گئے تو ایک خط میں فرمائش کی استاد داغ کی تصویر بھیجیں۔۱۱۳۶؎ قیاس یہ کہ ۱۹۰۴ ء اور ۱۹۰۵ء کے درمیان جناب داغ کسی وقت لاہور آئے۔ محمد اقبال ان سے ملے ہوں گے۔ ۱۹۰۵ء میں داغ کے انتقال پر جو درد ناک مرثیہ لکھا وہ اس عقیدت کا جو انھیں داغ سے تھی ناقابلِ انکار ثبوت ہے ۔ مگر پھر صرف یہی نہیں، یہ مرثیہ داغ کی شاعری پر ایک جامع اور مانع تبصرہ بھی ہے۔ ان کی عظمت کا مخلصانہ اعتراف۔۱۳۷؎ محمد اقبال نے داغ کی تاریخ وفات بھی کہی ہے ۔نواب میرزا داغ، ۱۳۲۲ھ۔ شاعری اور موسیقی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ محمد اقبال موسیقی کے دلدادہ تھے۔ ۱۹۰۴ء میں فوق نے یاد رفتگاں کے نام سے صوفیا کے حالات میں ایک کتاب لکھی بحث تھی سماع کے جواز و عدم جواز کی۔ فوق نے سماع کے جواز کی اساس اقبال کے اس شعر پر رکھی: لوگ کہتے ہیں مجھے راگ کو چھوڑو اقبال راگ ہے دین مرا راگ ہے ایمان مرا محمد اقبال نے جواباً جو خط لکھا اس میں اس شعر کی طرف تو کوئی اشارہ نہیں ملتا۔ البتہ فوق کو ان کی محنت کی داد دی ہے کہ انھوں نے اہل اللہ کے حالات جمع کیے۔ لکھتے ہیں ’’میں خود بھی ان کی تلاش میں ہوں‘‘۔۳۸ ۱؎ بہر حال فوق کی یاد رفتگاں سے ہمیں محمد اقبال کا ایک شعر مل گیا۔ موسیقی سے ان کی لگن کی تصدیق ہو گئی ۔ رہی یہ بات کہ انھوں نے اس فن کی باقاعدہ تحصیل کی یا نہیں کی۔ اگر کی تو شوقیہ اور وہ بھی ایک حد تک۔ یوں شاید اس میں کچھ سمجھ بھی پیدا کر لی ہو جس سے معلوم تو یہی ہوتا ہے کہ موسیقی سے لگن میں کیا مشکل تھا کہ اس فن میں مہارت حاصل کر لیتے۔ وہ بہر حال موسیقی کے دلدادہ تھے اور ایک روایت ہے کہ کبھی کبھی ستار کی مشق بھی کرتے، بلکہ دعویٰ یہ ہے کہ اس ستار کی مضراب ابھی تک محفوظ ہے، حتیٰ کہ اس سلسلے میں کئی لطائف بھی ایجاد ہوئے۔ انھیں جب معلوم ہوا کہ فقیر سید نجم الدین ستار بجاتے ہیں تو جسٹس آغا حیدر کے توسط سے فقیر صاحب سے ستا ر پر خوب خوب راگ سنتے: درباری، مالکوس، ایمن۔۱۳۹؎ اور یوں شاید ان کا آہنگ بھی سیکھ لیا ہو ۔ بات یہ ہے کہ موسیقی سے انھیں بچپن ہی سے دلی لگائو تھا۔ گھر میں منظوم قصے گا کر سناتے۔ شعر و شاعری کی محفلوں میں بھی اپنا کلام خوش الحانی سے نشید کرتے، درسی کتابوں میں کہیں کہیں سر گم کے بول میں لکھے ہیں۔ ساز بڑے شوق سے سنتے۔ خود اگرچہ کوئی ساز نہیں رکھا۔ البتہ موسیقی پر اکثر ایک ماہر فن کی طرح گفتگو کرتے۔ کہتے یہ جو ہماری اور مغربی موسیقی میں ترنم اور ہم آہنگی کا فرق ہے مسلمان موسیقی وان اسے بڑی آسانی سے دور کر سکتے ہیں۔ دونوں کا اتصال ممکن ہے۔ اسلامی موسیقی میں موسیقی ، موسیقی دان اور موسیقار ،تالیف اور آہنگ کا نمایاں امتیاز موجود ہے۔ مغربی موسیقی نے اسلامی موسیقی سے زبردست اثرات قبول کیے۔ سارٹن اور فارمراس پر بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔۱۴۰؎ لاہور آئے تو گانے کی محفلیں جمنے لگیں۔ خاص خاص دوستوں کے حلقے میں خود بھی اپنا کلام ہلکے ہلکے سروں میں گا کر سناتے۔ساز تو نہیں ہوتا لیکن کیا فن کی پابندیوں کے ساتھ یہ معلوم نہیں۔ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں مشہور موسیقار رفیق غزنوی سے کئی بار پیام مشرق کی غزلیں سنیں۔ سہ پہر کا وقت ہوتا رفیق غزنوی ہمارے پاس آتے ۔ ہم ان کی خدمت میں پہنچتے۔ ہار مونیم ساتھ ہوتا۔ڈیڑھ دو گھنٹے محفل گرم رہتی۔ یہ ۲۶۔۱۹۲۵ء کا ذکر ہے ان کی بعض غزلوں کے گراموفون ریکارڈ بھی رفیق غزنوی ہی کی آواز میں ہیں۔ آخری علالت کے ایام میں بھی ایک شام مرحوم سجاد سرور نیازی جو خود بھی ان کی خدمت میں حضور ی کے لیے بیتاب تھے، ہمارے ساتھ جاوید منزل گئے۔ سجاد سرور کہنے لگے میں اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ موسیقی سے آپ کا دل بہلائوں۔ اجازت ملی تو ایک کے بعد دوسرا راگ چھیڑا۔ سجاد سرور کی میٹھی میٹھی دھنیں، ہلکا ہلکا ساز، بال جبریل کی غزلیں اور وہ شام ۔ کیسی کیف پرور ساعتیں تھیں۔ سجاد سرور ایک مرتبہ دم لینے کے لیے رکے تو اشارہ ہوا فلاں موقعے پر گلے کو جو پلٹا دیا تھا ٹھیک نہیں تھا۔ انھوں نے کہا کیسے؟ کہنے لگے میری آواز تو بیٹھ گئی ہے کیا بتائوں کیسے۔۱۴۱؎ محمد اقبال کا ابتدائی کلام محفوظ نہیں ۔ جتنا کچھ دستیاب ہوا باعتبار سنین اس کی ترتیب بھی ممکن نہیں کہ ہم کہہ سکیں اس میں ۱۸۹۵ء تک سیالکوٹ کا حصہ اتنا ہے ،۱۸۹۵ء سے ۱۹۰۰ء تک لاہور کا اتنا۔ لیکن دو باتیں ہیں جو واضح طور پر سامنے آ جاتی ہیں۔ایک یہ کہ آغاز سخن، یعنی ۱۸۹۵ء سے قبل کے سیالکوٹ ہی میں ان کے کلام میں پختگی آ چکی تھی اور عنوان کہہ رہے تھے کہ اس کا مستقبل عظیم ہے۔ جب ہی تو داغ نے بہت جلد کہہ دیا تھا کہ کلام میں اصلاح کی گنجائش بہت کم ہے۔ پھر اسی زمانے یعنی۱۸۹۳ء میں ان کی ایک غزل رسالہ زبان دہلی میں شائع ہوئی۔ دوسری ۱۸۹۴ء میں بعنوان شیخ محمد اقبال صاحب اقبال شاگرد بلبل ہند داغ دہلوی۔ زبان حضرت راسخ دہلوی کی ادارت میں بطور ضمیمہ پنچ بے مثال شائع ہوا ۔ ۱۴۲؎ ایک تو وہی غزل ہے جس کی ردیف قافیہ ہے دعا دیتے ہیں سنا دیتے ہیں اور جس کی طرف ابھی اشارہ کیا گیا تھا ۔ دوسری غزل ہے۔ کیا مزا بلبل کو آیا شکوۂ بیداد کا ڈھونڈتی پھرتی ہے اڑ اڑ کے جو گھر صیاد کا بھول جاتے ہیں مجھے سب یار کے جور و ستم میں تو دیوانہ ہوں اے اقبال تیری یاد کا اور یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ ان کا شمار اسی زمانے میں زمرۂ شعراء میں ہونے لگا تھا۔ پھر اس زمانے میں سیالکوٹ سے بھی کچھ اخبار شائع ہوتے۔ عجب نہیں ان میں علی ہذا پیام یار لکھنومیں جو سیالکوٹ میں گھر گھر پڑھا جاتا۔ ان کا کلام شائع ہوتا۔ ثانیاً یہ کہ شاعری کے اس دور میں ان کا رنگ سخن اگرچہ وہی تھا جو عام طور پر اردو غزل کا ہے۔ لیکن شوخی اور رندی ، حسن و عشق اور ہجر و وصال کے عام مضامین کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں کچھ حکیمانہ خیالات بھی ملتے ہیں تصوف کی چاشنی بھی موجود ہے ۔ زندگی کے احوال و واردات پر بھی نظر ہے۔ ذہن اسلام کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ غزل کے عام اور متبذل رنگ کا اندازہ ان اشعار سے کیجیے: ہائے وہ مار ڈھیلے ہاتھوں کی کس طرح کے ملال ہوتے ہیں ______ شکایت کو میں دوڑوں اور تم جانے نہ دو مجھ کو مزہ آئے جو ہو یہ ہاتھا پائی روزِ محشر بھی رسماًیہ شعر: کوچۂ عشق کے یہ راہ نما بنتے ہیں اللہ اللہ کوئی دیکھے تو خضر کی صورت رسمی تصوف: انا الحق کہہ کے بیتابانہ سولی پر لٹک جانا نرالی ایسے دیوانے کی مستانے کی باتیں ہیں مضمون آفرینی: تو نہاں مجھ سے مرے داغِ جگر کی صورت میں نہاں تجھ سے ترے موئے کمر کی صورت ______ زخم جگر جوتھے شبِ فرقت میں ہم سخن چپکے سے چاندنی پسِ دیوار آ لگی رنگِ تغزل: نسیمِ صبح نہ چھیڑے مجھے کہ دامن سے کسی حسین کا جھاڑا ہوا غبار ہوں میں شوخی: جس کو شہرت بھی ترستی ہے وہ رسوا اور ہے ہوش بھی جس پر تڑپ اٹھے وہ سودا اور ہے وہ صفِ محشر میں کہتے ہیں مجھے پہچان کر تم وہی اقبال ہو لو میں نے جانا اور ہے فکر: اے حبابِ بحر اے پروردۂ آغوشِ موج کچھ پتا چلتا ہے تجھ سے اپنی ہستی کا مجھے بتدریج رنگ بدلتا ہے۔ قفس میں اے ہم صفیر اگلی شکایتیں کیا حکایتیں کیا خزاں کا دورہ ہے گلستان میں نہ تو رہا ہے نہ ہم رہے ہیں ______ تجھ میں باقی ہے اگر کچھ اثر سوزِ خلیل نارِ امروز سے کر گلشنِ فردا پیدا اور پھر ذہن اسلام کا رخ کرتا ہے: رنگ اوادنی ہیں رنگیں ہو کے اے ذوق طلب کوئی کہتا تھا کہ لطفِ ماخلقنا اور ہے ______ اڑ کے اے اقبال سوئے بزمِ یثرب جائے گا روح کا طائر عرب کی شمع کا پروانہ ہے گو ابتدائی اور واضح شکل میں ثالثاً محمد اقبال کی طبیعت میں بلا کی آمد تھی ۔ شعر پر شعر اور غزل پر غزل ہوتی چلی جاتی۔ ایک ہی ردیف قافیے میں چار چار غزلیں کہی ہیں۔ گویا بفحوائے فی کل واد یہیمون ذہن ایک نہیں کئی سمتوں کا رخ کر رہا ہے۔ یا یوں کہیے جذبات و کیفیات، خیالات اور تصورات ’خام پیداوار‘ کے ایک انبار کی طرح جمع ہو رہے ہیں جو اس دور میں تو کچھ کچھ لیکن جلد ہی ایک متاع گراں مایہ کی شکل اختیا ر کر لیں گے بایں ہمہ اس دور کے کلام سے بھی جتنا کچھ دستیاب ہو سکا معلوم ہوتا ہے کہ اردو غزل کے عام رنگ سے بتدریج ہٹ رہے تھے۔ حتیٰ کہ اہل نظر کو اسی زمانے سے احساس تھا کہ ان کے اشہبِ قلم کا رُخ کسی اور ہی بلند اور برتر میدان کی طرف ہے۔ رہی یہ بات کہ اس دور میں کیا انھوں نے فارسی میں بھی شعر کہا۔ سو اس ضمن میں شیخ عبدالقادر کا یہ کہنا کہ انھوں نے سوائے ایک آدھ شعر کے فارسی میں کچھ کہنے کی کوشش نہیں کی، محل نظر ہے۔ یہ خود بخود شعر کا ہو جانا اور بالا رادہ فارسی میں شعر کہنا دو مختلف باتیں ہیں۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ عربی اور فارسی سے محمد اقبال کو دلی لگائو تھا۔ فارسی اور عربی ادب ان کے دل و دماغ میں رچ گیا تھا۔ پھر یہ کہ فارسی میں انھوں نے بہت جلد مہارت پیدا کر لی تھی۔ فارسی شعراء کے دواوین اور ان کے اسالیب سخن صبح شام ان کے سامنے رہتے۔ فارسی سے ان کی طبعی مناسبت تھی اور پھر جب ذوق شعر خداداد تھا، فارسی اور عربی کا ادبی اور ثقافتی ورثہ دل میں گھر کر چکا تھا۔ مذاق سلیم کے لیے بھی اردو اور فارسی میں دوہی قدم کا فاصلہ ہے، بلکہ اس سے بھی تو فارسی میں بھی شعر ہو جاتے ہوں گے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس کی باقاعدہ ابتداء اسرار خودی سے ہوئی۔ لیکن اس سے بہت پہلے وہ فارسی میں کچھ نہ کچھ کہہ رہے تھے۔ ذرا اس قطعے پر غور کیجئے جو انھوں نے منشی سراج الدین کو ان کی بھیجی ہوئی انگوٹھیوں کے شکرانے میں ۱۹۰۳ء میں لکھا ’’یارم از کشمیر مرا بفرست چار انگشتری ‘‘۔سولہ اشعار کے اس قطعے میں انھوں نے کیسے کیسے مضامین پیدا کیے ہیں۔ ۱۹۰۵ء تک وہ فارسی میں بہت کچھ کہہ چکے تھے۔ ان کے غیر مطبوعہ کلام میں اسلامیہ کالج سے خطاب ہی کو دیکھ لیجیے۔ کلام میں کیسی روانی ہے۔ یہ سب کچھ دفعتاً تو نہیں ہو گیا۔ جس طرح ان کی اُردو شاعری کی ابتداء سیالکوٹ ہی میں نہایت خوبی سے ہو چکی تھی۔ اس کا بتدریج ارتقاء دوسری بات ہے۔ بعینہ فارسی میں بھی شعر کہنے کا آغاز سیالکوٹ ہی میں ہو گیا ہو گا۔۴۳ ۱؎ مشکل البتہ یہ ہے کہ ان کا ابتدائی کلام تلف ہو چکا ہے۔ بہت کم محفوظ ہے۔ زماناً اس کی تعیین بھی ممکن نہیں۔ پھر بھی آغاز شعر گوئی سے ۱۸۹۶ء اور ۱۸۹۶ء سے ۱۹۰۰ء تک جب ان کی شاعری اس مرحلے میں داخل ہو گئی جس کو ان کے ابتدائی کلام کی تمہید تصور کرناچاہیے ان کی غزلوں اور قطعات میں کئی ایک فارسی اشعار ملتے ہیں۔ ان کے فکر و فرہنگ اور شاعری کی دنیا دفعتاً تو نہیں بدلی۔ اس کے عنوان شروع ہی سے ظاہر ہو رہے تھے۔ اس میں ایک تسلسل ہے ۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ فارسی میں بھی شعر گوئی آپ ہی آپ ہو رہی تھی، ارادۃً نہ سہی ارتجالاً۔ ان کے غیر مطبوعہ کلام میں البتہ کئی ایک فارسی اشعار ملتے ہیں۔ کچھ نظمیں ہیں کچھ متفرق قطعات جن کا زمانہ متعین نہیں ہو سکتا۔ ذرا یہ تضمین یا قطعہ ملا حظہ ہو۔ زمانہ معلوم نہیں: صحنِ گلشن سے ہوں گو میں آشیاں برباد دور لالہ و گل سے نہیں میرا دلِ ناشاد دور شبنمے راکز محیطِ بیکراں افتادہ دور درکنارِ لالہ و آغوشِ گل آرام نیست۱۴۴؎ ایسے ہی کچھ اور مثالیں بھی ہوں گی۔ سیالکوٹ میں اگر آپ ہی آپ فارسی اشعار ہو جاتے تو وہ انھیں کوئی اہمیت نہ تھے۔ انھیں ابھی خیال ہی نہیں تھا کہ ان کے دل میں جس قسم کے خیالات ابھر رہے ہیں ۔ جذبات کا جو انداز ہے ۔ اُردو کے تنگنائے غزل میں اتنی وسعت نہیں کہ بقدر شوق اس کا متحمل ہو سکے۔ وہ اس میں ایسے فکر ووجدان کا اظہار کر سکیں۔ اس کے لیے انھیں بالآخر فارسی ہی کہ ’’درخور فطرت اندیشہ‘‘ ہے،کا رخ کرنا پڑے گا۔ چنانچہ شاعری کے ابتدائی دور میں بھی ان کے کلام میں فارسی کا عمل دخل بڑھ رہا تھا۔ یہاں تک کہ یوں بھی شعر کہتے تو ان کا ذہن فارسی شاعری کے اساتذہ کی طرف منتقل ہو جاتا ۔ خاقانی کا مطالعہ انھوں نے کس گہری نظر سے کیا تھا اس کا اندازہ ۱۸۹۶ء یا ۱۸۹۷ء کی ایک غزل سے کیجیے جو فی البدیہ کہی گئی: لاکھ سرتاجِ سخن ناظمِ شرواں ہو گا پر مرے سامنے اک طفلِ دبستاں ہو گا دراصل ان کی فلسفیانہ طبیعت کو جس پیکر کی تلاش تھی، فارسی ہی میں مل سکتا تھا۔ فارسی ہی سے ان کی طبعی مناسبت نے مرزا غالب کی طرح انھیں مجبور کر دیا کہ فارسی زبان کی تشبیہوں اور استعاروں ،عربی اور فارسی کی تلمیحات سے کام لیں۔ ایسی ترکیبیں اور اصطلاح وضع کریں جن کے بغیر نا ممکن تھا وہ اُردو میں اپنے احوال و واردات کی ترجمانی کر سکتے۔ ان کے افکار دماغ اور جذبات قلب کو ایک نئے پیکر کی تلاش تھی۔ یہ نیا پیکر فارسی ہی کی بدولت میسر آیا ۔ جس سے رفتہ رفتہ اُردو شاعری کو ایک ایسی زبان عطا ہوئی جو بیک وقت فلسفیانہ بھی تھی اور شاعرانہ تھی۔ جس کی لطافت اور شیرینی، جس کے حسن بیان اور ندرت اسلوب پر نہ صرف اُردو بلکہ ادب عالم کو ناز رہے گا اور جس کے لیے شکوہ ، شمع و شاعر ، خضر راہ، طلوع اسلام بالِ جبریل کی غزلوں، مسجد قرطبہ اور ذوق و شوق ایسی نظموں کی طرف اشارہ کر دینا کافی ہو گا۔ لیکن ابھی ایک اور بات ہے جس کا محمد اقبال کے فن اور فلسفہ کے مطالعہ میں بالخصوص لحاظ رکھنا پڑے گا اور جس کا تعلق پھر ان کے ابتدائی کلام سے ہے، بشرطیکہ ہم اس باب میں بھی ان کی ابتدائی شاعری کی طرح سنین کی پابندی کا سختی سے لحاظ نہ رکھیں۔ ۱۸۹۵ء سے دو چار سال اور آگے بڑھ جائیں۔ قیاس یہ ہے کہ اس دور میں بھی وہ فلسفیانہ تصورات جن کی باقاعدہ تشکیل بہت آگے چل کر ہوئی ان کے دل و دماغ کو چھیڑ رہے تھے۔ ہمیں معلوم ہے خودی ان کا بنیادی تصور ہے۔ ان کے فکر و فن کا ایک ہی محور جس نے رفتہ رفتہ پوری زندگی کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا تاآنکہ ذاتِ انسانی سے لے کر انسان، کائنات، مذہب، اخلاق ، سیاست، معاش، ادب فن غرضیکہ تہذیب و تمدن کی جو بھی غایت ہے، جیسے بھی کوئی حقیقت ان کے سامنے آئی اس کا فیصلہ خودی کے حوالے سے ہونے لگا۔ وہی ایک معیار ہے محمد اقبال کے نزدیک خوب و نا خوب،غلط اور صواب کا ۔ وہی ایک کسوٹی جس پر وہ ہر خیال اور ہر عمل کو پرکھتے ہیں۔ ۱۸۹۶ء یا زیادہ سے زیادہ ۱۸۹۷ ء میں محمد اقبال نے فی البدیہ ایک غزل کہی۔ عید کا دن تھا اور دوستوں کی محفل شیخ عبدالقادر نے کہا محمد اقبال اور خان احمد حسین خاں موجود ہیں، فی البدیہ ایک ایک غزل کہیں، لطف رہے گا۔ محمد اقبال نے غزل کہی۔ مطلع اوپر آ چکا ہے۔ لیکن ا س کا یہ شعر بالخصوص توجہ طلب ہے:۴۵ ۱؎ مرد مومن کی نشانی کوئی مجھ سے پوچھے موت جب آئے گی اس کو تو وہ خنداں ہو گا اور جس کا ایک طرح سے فارسی میں لفظی ترجمہ آگے چل کر ارمغان حجاز میں ہوا: نشان مرد مومن با تو گوئیم چو مرگ آید تبسم برلبِ اوست علی ہذا یہ شعر: جو وفا پیشہ سمجھتا ہے خودی کو ایماں جنتی ہو گا فرشتوں میں نمایاں ہو گا لیجیے خودی کا تصور ابتداء ہی سے ان کے ذہن میں ابھر رہا تھا۔ یہ غزل ۹۶ ’یا ۹۷‘ کی ہے۔ اب خیالات اور جذبات کا معاملہ یہ ہے کہ ذہن انسانی میں ان کی پرورش تو ہوتی رہتی ہے، باقاعدہ اظہار کے لیے البتہ وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خودی کا تصور ۹۶ ’یا ۹۷‘ ہی میں محمد اقبال کے ذہن میں موجود تھا قطع نظر اس سے کہ کس رنگ میں۔ شاہ بو علی قلندر کا مطالعہ انھوں نے سیالکوٹ ہی میں کر لیا ہو گا اور اسی زمانے میں حضرت قلندر کا یہ شعر بھی ان کی نظر سے گزرا ہو گا: کشفِ دانی چیست عالی ہمتی مردِ رہ بنود بجز زورِ خودی یعنی اس زمانے سے بہت پہلے جب ان کے والد ماجد فرمائش کر رہے تھے کہ حضرت قلندر کی مثنوی کے طرز پر ایک مثنوی لکھیں۔ خاقانی ایسے مشکل پسند اور فلسفہ مزاج شاعر کی طرح فارسی کے اساتذۂ سخن کا مطالعہ وہ بہت پہلے کر چکے تھے۔ لہٰذا ۹۶ یا ۹۷ میں ان کا کہنا’ لاکھ سر تاج سخن ناظم شرواں ہو گا‘ اس امر کی دلیل ہے کہ انھیں فارسی زبان پر کس قدر عبور حاصل تھا۔ معلوم ہوتا ہے ان کے والد ماجد کو حضرت قلندر سے خاص عقیدت تھی۔ کیا عجب ہے وہ محمد اقبال سے ان کی مثنوی سنتے ہوں۔ البتہ قابل غور امر یہ ہے کہ حضرت قلندر کی مثنوی میں لفظ خودی کا استعمال ایک استثنیٰ ہے صوفیا کے نزدیک اس کے مفہوم سے یکسر مختلف ۔ مثال کے طور پر محسن تاثیر کے اس شعر میں: غریق قلزم وحدت دم از خودی نزنذ بود محال کشیدن میانِ آب نفس میں نے ان اشعار کی طرف اشارہ کیا ہے تو اس لیے کہ محمد اقبال کی اساس فکر صحت سے متعین ہو جائے۔ لیکن معترض بہر حال کہہ سکتا ہے کہ اگر محمد اقبال حضرت قلندر کا مطالعہ کر چکے تھے تو بجائے محسن تاثیر کے خودی کی تشریح حضرت قلندر کے حوالے سے کیوں نہیں کی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عجمی تصوف میں یہ خودی کے بارے میں طے ہو چکا تھا کہ واردات اتحاد میں اس کی نفی ہو جاتی ہے یہ بات محسن تاثیر ہی کے حوالے سے سمجھ میں آ سکتی تھی۔ میں ان اشعار کی طرف اس لیے اشارہ کر رہا ہوں کہ محمد اقبال کی شاعری اور افکار کے بارے میں اکثر غلطی سے طرح طرح کے نظریئے قائم کر لیے جاتے ہیں یوں خیال ہوتا ہے جیسے ان کے خیالات میں دفعتاً تبدیلی رونما ہوئی یا دفعتاً کسی خاص زمانے میں کچھ خاص اثرات ان پر مرتب ہوئے۔ گویا ان کے خیالات میں تسلسل نہیں تھا، نہ بتدریج ان کا ارتقا ہوا۔ برعکس اس کے ان میں ایک فصل ہے۔ اس لیے کہ محمد اقبال شاعر تھے۔ طبیعت حساس تھی ذہن فلسفہ پسند ۔ دفعتاً کوئی اثر قبول کر لیتا۔ دفعتاً اس کا رد عمل ہو جاتا۔ ان کے افکار و خیالات، لہٰذا شاعری کے بھی الگ الگ دور ہیں۔ راقم الحروف کے نزدیک یہ رائے صحیح نہیں۔ ان کی تعلیم و تربیت جس نہج پر ہوئی۔ جس طرح ان کے ذہن کی بتدریج نشوونما ہوئی ا س کی ایک اساس قائم ہو چکی تھی۔ اگر ہم ان باتوں پر نظر رکھیںتو ان کی اساس فکر نہایت صحت سے متعین ہو جائے گی۔ ۱۰۔ازدواج ۱۸۹۳ء میں محمد اقبال انٹرینس کے امتحان میں بیٹھے۔ امتحان کے لیے گجرات جانا پڑا۔ سیالکوٹ امتحان کا مرکز نہیں تھا۔ گجرات میں بھی سیالکوٹ کی طرح بہت سے کشمیری خاندان آباد تھے۔ ان میں ڈاکٹر شیخ عطا محمد کا خاندان بھی تھا۔ ڈاکٹر صاحب محلہ شالبا فاں میں رہتے۔ شہر میں اس خاندان کی بڑی عزت تھی۔ شیخ صاحب نے ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کی۔ ملازم ہو گئے۔ ترقی کرتے کرتے اعلیٰ عہدوں پر جا پہنچے۔ جدہ اور کامران میں سرکار برطانیہ کی طرف سے نائب قضل رہ چکے تھے۔ ۱۸۸۸ء میں خان بہادر کا خطاب پایا۔ ۱۸۷۹ء میں وائسرائے کے اعزازی سر جن مقرر ہوئے۔ یہ کوئی معمولی اعزاز نہیں تھا ۔ ان کی بڑی صاحبزادی جن سے محمد اقبال کی شادی ہوئی شاید جدہ یا کامران ہی میں پیدا ہوئیں، وہیں پرورش پائی۔ عربی بولتی اور سمجھتی تھیں۔ شیخ صاحب بڑے دین دار ،بڑے عبادت گزار اور نیک انسان تھے حافظ قرآن بھی تھے۔ ۱۸۹۱ء میں کامران سے واپس آئے ۔ پنجاب کے مختلف اضلاع میں سول سرجن تعینات رہے۔ ان کا شمار میڈیکل اسکول، اب کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کے اولین سند یافتہ طلبا میں ہوتا تھا۔ ۱۹۲۷ء میں بعمر ۶۳ سال وفات پائی۔ شیخ صاحب کی صاحبزادی کا رشتہ محمد اقبال سے کیسے ہوا یہ ٹھیک معلوم نہیں۔ اگر شیخ صاحب نے ۱۸۹۸ء کے بعد سیالکوٹ میں بھی ملازمت کا کچھ وقت گزارا تو یقینی بات ہے کہ میر حسن کے علم و فضل کی شہرت انھیں میر حسن کی خدمت میں لے گئی ہو گی۔۴۶ ۱؎ ان سے نیاز مندانہ روابط ہوں گے۔ یوں شیخ نور محمد صاحب سے بھی ملاقات کی ایک صورت پیدا ہو گئی۔ ان سے روابط بڑھے تو میر حسن کے توسط سے رشتہ طے پا گیا، یا ان بزرگوں نے خود ہی بات چیت شروع کر دی۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہوا تو جیسا کہ شیخ اعجاز احمد کا خیال ہے ایک صاحب جو سیالکوٹ میں ملازم تھے اور جن کے دونوں خاندانوں سے مراسم تھے انھوں نے اس رشتے کی تحریک کی۔ سیالکوٹ اور گجرات کے کشمیری خاندانوں سے مراسم تھے انھوں نے اس رشتے کی تحریک کی ۔ سیالکوٹ اور گجرات کے کشمیری خاندانوں میں یوں بھی رشتے ناتے کا سلسلہ جاری تھا۔۱۴۷؎ بہر حال ۱۸۹۳ء میں یا اس سے کچھ پہلے محمد اقبال کی نسبت شیخ صاحب کی بڑی صاحبزادی سے ٹھہر گئی اور اسی سال محمد اقبال کی بارات سیالکوٹ سے گجرات پہنچی۔ طرفین کے اعزا اور دوستوں نے شرکت کی۔ عقد نکاح کی تاریخ ۵ مئی ۱۸۹۳ء ہے۔ حکیم کرم دین محمد اقبال کی بڑی ہمشیرہ کے خسر، سیالکوٹ کے ایک کشمیری خاندان کے بزرگ حاجی نور محمد جن کے بھتیجے میر فضل دین کی شادی شیخ نور محمد کی بھتیجی سے ہوئی اور چند ایک اور احباب کے علاوہ میر حسن بارات میں شامل تھے۔ شادی کی رسم دھوم دھام سے منائی گئی۔ گانے کی محفل جمی۔ بزرگوں نے ایک بند کمرے میں اساتذہ اور خواجہ حافظ کا کلام سنا۔ انٹرنس میں محمد اقبال کی کامیابی کی خبر بھی دوران تقریب ہی میں گجرات پہنچی۔ بارات ایک رات گجرات ٹھہری ۔ دوسرے روز محمد اقبال دلہن کو لے کر سیالکوٹ آ گئے۔ اعزا و اقربا نے خوش آمدید کہا۔ مبارک باد دی۔ محترمہ کرم بی بی بیان کرتی ہیں۔ دو ایک روز بڑی رونق رہی۔ ہم بار بار دلہن دیکھنے جاتیں۔ ۱۸۹۸ء میں آفتاب اقبال پیدا ہوئے۔ پھر معراج بیگم محمد اقبال کو اس بچی سے بڑی محبت تھی۔ معراج بیگم۱۷؍ اکتوبر ۱۹۱۵ء کم عمری میں فوت ہو گئیں۔ ۱۸۹۳ء سے ۱۸۹۵ ء تک محمد اقبال سیالکوٹ ہی میں رہے۔ ۱۸۹۵ء سے ۱۹۰۰ء تک دوران ملازمت میں جب بھاٹی دروازہ میں قیام تھا والدہ آفتاب اقبال ان کے ساتھ لاہور نہیں آئیں۔ سیالکوٹ ہی میں رہیں یا پھر گجرات اور گجرات سے سیالکوٹ آنا جانا رہتا۔ محمد اقبال بھی لاہور سے اکثر سیالکوٹ جاتے بلکہ گجرات بھی۔ اسی زمانے کی ایک غزل ہے: ہو گیا اقبال قیدی محفلِ گجرات کا کام کرتے ہیں یہاں انسان بھی صیاد کا۱۴۸؎ معلوم ہوتا ہے بیوی سے کشیدگی کی ابتداء انھی دنوں میں ہو گئی تھی۔ یورپ سے واپسی کے بعد اگرچہ وہ احیاناً لاہور آئیں۔ محمد اقبال ان کا بڑا خیال رکھتے، مگر ایک دوسرے سے کشیدگی بڑھتی چلی گئی۔ تا آنکہ باپ اور بھائی کی کوششوں کے باوجود مکمل علیحدگی کی نویت آ گئی ۔ یہ زمانہ محمد اقبال کے لیے بڑے اضطراب کا تھا۔ بغیر طلاق کے چارۂ کار نہ رہا۔ لیکن والدہ آفتاب کی عزت نفس نے گوارا نہ کیا۔ محمد اقبال کفالت کے ذمہ دار ٹھہرے ۔ فرمایا شرعاً میرے سامنے دو ہی راستے تھے طلاق یا کفاف کی ذمہ داری۔ والدہ آفتاب طلاق پر راضی نہ ہوئیں۔ میں نے بخوشی کفاف کی ذمہ داری قبول کر لی۔ چنانچہ ایک مقررہ رقم ہر مہینے بھیج دیتے ۔ حتیٰ کہ آخری علالت کے دوران میں بھی یہ رقم باقاعدہ روانہ کی جاتی۔ پھر جب علالت نے طول کھینچا اور مالی دشواریاں بڑھیں تو اس میں تخفیف کرنا پڑی، لیکن رقم کی ترسیل میں کوئی فرق نہ آیا۔ آخری منی آرڈر میرے ہاتھوں سے ہوا۔ میں نے تعمیل ارشاد کر دی۔۹ ۱۴؎ محمد اقبال کی اس شادی کے بارے میں طرح طرح کی افسانہ طرازیاں کی گئیں، جو سب کی سب غلط ہیں۔ بے شک یہ شادی ناکام رہی لیکن اس کی وجہ ایک ہی تھی اور وہ طبائع کی عدم مناسبت علیٰ ہذا خاندانی حالات میں تفاوت۔ میں سمجھتا ہوںرشتہ عجلت میں طے ہوا۔ طرفین نے اس معاملے میں احتیاط سے کام نہیں لیا ۔محمد اقبال نے لاکھ کوشش کی کہ نباہ کی کوئی صورت نکل آئے مگر بات نہ بنی۔ ایک تو والدہ آفتاب کا اندازِ طبیعیت دوسرے اقبال کی پرورش ، حالات بگڑتے چلے گئے۔ ڈاکٹر سید حسین شاہ کی کوششیں بھی کہ اصلاح احوال کی کوئی صورت نکل آئے ،ناکام رہیں ۔ محمد اقبال چونکہ اس معاملے میں حق بجانب تھے، لہٰذا شاہ صاحب اور ان کے دوستوں نے ان کی انصاف پسندی کو دیکھتے ہوتے پھر کبھی اس میں دخل نہیں دیا۔ انھیں احساس تھا کہ محمد اقبال کی وسعت قلب اور خیر اندیشی کے باوجود ان کی باتوں کو ٹھکرایا جا رہا ہے۔ یہ ناگوار صورت حال بالآخر ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی۔ سوانح نگار کی ذمہ داری اس باب میں اگرچہ اس سے زیادہ نہیں کہ اس شادی نے جو بھی صورت اختیار کی اس کی ناکامی کے حقیقی اسباب، علی ہذا اس باب میں طرفین کی جو روش رہی ، بقدر ضرورت ٹھیک ٹھیک بیان کر دے۔ شادی ایک نجی معاملہ ہے۔ کئی شادیاں نا کام رہتی ہیں جن میں میاں بیوی اور ان کے اعزا و اقربا چھوٹی بڑی کئی ایک نا انصافیوں اور غلطیوں کے مرتکب ہو جاتے ہیں اور نہیں بھی ہوتے۔ اس قسم کے نجی بلکہ انتہائی نجی معاملات میں بے جا تجسس ،قیاس آرائیوں اور بد گمانیوں سے احتراز ہی واجب ہے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ بعض طبائع کسی ذاتی مخالفت یا نفسیاتی محرک کے زیر اثر اس میں طرح طرح سے مین میخ نکالتے ہیں۔ ایک دوسرے کو ملامت کرتے اور سنی سنائی باتوں کی بنا پر بڑے غلط نتائج قائم کر لیتے ہیں۔ بقول رشید احمد صدیقی۵۰ ۱؎ ’’جس طرح شرفا ء کے محلے میں بعض اوباش ہوا کرتے ہیں ، جن کا کام تاکنا جھانکنا ہوا کرتا ہے ۔ اسی طرح کچھ ادبی اوباش ہوتے ہیں جن کی ساری دلچسپی یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کی خالص شخصی زندگی کا کھوج لگایا جائے اور اسے مزے لے لے کر نمک مرچ لگا کر بیان کیا جائے۔‘‘ محمد اقبال کی اس شادی کے بارے میں بھی اکثر ایسی باتیں کہی گئیں جو سر تا سر بے بنیاد ہیں ۔ جہاں تک راقم الحروف کی ذاتی معلومات کا تعلق ہے اسے یہ کہنے میں باک نہیں کہ عہداً نہ سہی، بہ سبب نا مناسبت مزاج اور افتادِ طبیعت گجرات نے اس معاملے میں جو روش اختیار کی سر تا سر غلط تھی۔ آفتاب اقبال بھی بھٹک گئے۔ باپ کے خلاف ایک محاذ قائم کر لیا۔الزام تراشیوں سے کام لیا گیا۔ بہر حال یہ امر قابل ذکر ہے اور یوں بہت سی غلط فہمیوں اور بے سرو پاروایات کا ازالہ ہو جاتا ہے کہ محمد اقبال کے برادر نسبتی کپتان شیخ غلام محمد کے صاحبزادے شیخ محمد مسعود سے، جن کا افسوس ہے جوانی ہی میں انتقال ہو گیا، راقم الحروف کے ذاتی تعلقات تھے۔ شیخ محمد مسعود محمد اقبال کی گود میں کھیلے۔ علی بخش ان کا بڑا خیال رکھتا۔ مسعود مرحوم اور ان کے اعزانے کبھی ان کے خلاف زبان شکایت نہیں کھولی۔ راقم الحروف کا ان سے شب و روز کا ملنا تھا۔ انھوں نے اپنے پھوپھا کا ذکر ہمیشہ عزت اور احترام سے کیا۔ کرنل خواجہ عبدالرشید بھی کہ ان کے قرابت داروں میں ہیں ،لکھ چکے ہیں کہ محمد اقبال والدہ آفتاب کا بڑا خیال رکھتے۔ ان کی عزت کرتے۔۱۵۱؎ ڈاکٹر محمد باقر والدہ آفتاب کے قریبی عزیز بھی ان کی تائید کرتے ہیں۔ والدہ آفتاب کا انتقال ۲۰ نومبر ۱۹۴۶ء میں ہوا۔ ہبہ نامہ اور وصیت پر بھی محض اعتراض کی خاطر اعتراض کیا گیا ۔ ان میں کوئی بات خلاف شریعت نہیں ہے، نہ ان سے کسی کی حق تلفی مقصود۔ اعتراض یہ ہے کہ وصیت میں آفتاب اقبال کو نظر انداز کر دیا گیا۔ حالانکہ محمد اقبال نے نظر بر حالات جو کچھ کیا ٹھیک کیا۔ موصی کو یوں بھی اختیار ہے جس کے حق میں چاہے وصیت کرے،بشرطیکہ اس طرح کوئی نا انصافی نہ ہو۔ چنانچہ آفتاب اقبال کی کسی پہلو سے حق تلفی نہیں ہوئی ۔ وہ خود ہی باپ سے کٹ چکے تھے۔ یہی معاملہ ہبہ نامے کا ہے جس کا ذکر آگے چل کر پھر آئے گا۔ آفتاب اقبال کراچی میں مقیم بڑے اطمینان اور آسودگی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ بیرسٹر ہیں۔ انگلستان میں اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم پائی۔ ۱۱۔سیالکوٹ سے لاہور ۱۸۹۵ء میں محمد اقبال سیالکوٹ سے لاہور آئے۔ اب اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ تین چار برس کی عمر تھی جب انھیں مسجد میں بٹھایا گیا تو ۱۹۸۱ء یا ۳۹۸۱ء سے ۵۹۸۱ء تک بارہ تیربرس میں ان کی تعلیم و تربیت جس خوبی سے ہوئی۔ میر حسن نے ان کے دل و دماغ کی صلاحیتوں کا اندازہ جس صحت سے کیا، ان کی ذہنی اور اخلاقی نشوونما کا سلسلہ جس خوبی سے جاری رہا، ایک ایسا کٹھن اور مشکل کام تھا جس میں میر حسن کی بصیرت اور میر حسن کی محنت نے ایک ایسی عبقریت کو ، جسے اگر کوئی رہنما ہاتھ نہ ملتا تو شاید اس کا رخ صحت سے متعین نہ ہو سکتا، صحیح راستے پر لگا دیا۔ میر حسن کے ہاتھوں محمد اقبال کی تعلیم و تربیت کی مثال ایسی ہے جیسے کسی طوفان خیز دریا کے بہائو کو جو نہ معلوم جوش میں آکر اطراف و جوانب میں کس طرف نکل جاتا، کوئی اندیشہ ناک صورت اختیار کر لیتا، قابو میں لا کر اس سمت میں موڑ دیا جس سے اس کی طوفانی کیفیت تو جاتی رہی، لیکن اس کے زور ، تیزی اور تندی میں کوئی فرق نہ آیا۔ محمد اقبال آگے چل کر جو کچھ بنے،شعر و فلسفہ میں جن بلندیوں پر پہنچے، ان کی خداداد قابلیتوں کا اظہار جس خوبی سے ہوا یہ ان کے نبوغ اور فطانت کا کوئی اتفاقی اور غیر متوقع نتیجہ نہیں تھا۔ نہ دفعتاً ان کے دل و دماغ کا رنگ بدلا، نہ دفعتاً ان کے خیالات نے کروٹ لی۔ نہ عہد بہ عہد نقطہ نظر بدلتا چلا گیا۔ نہ دفعتاً ایک عظیم شاعر اور مفکر کی حیثیت سے چھا گئے۔ جیسے زمین سے دفعۃً کوئی مادہ پھوٹ پڑے، ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ برعکس اس کے محمد اقبال نے جب ہوش سنبھالا، مسجد میں بیٹھے، میر حسن کی شاگردی اختیار کی، بچپن سے لڑکپن ، لڑکپن سے جوانی میں قدم رکھا، کھیل کود اور سیروتفریح کے ساتھ ساتھ تحصیل علم کرتے رہے، ۱۸۹۵ء تک یہ سب مراحل ایک طبعی اور تدریجی امر کی طرح کامیابی سے طے ہوتے رہے جن میں جیسے کہ باپ کی تمنا اور میر حسن کا خیال تھا ان کے ذہن کی نشوونما حسب توقع جاری رہی۔ نظر میں وسعت پیدا ہوتی گئی، فکر میں گہرائی، احساس میں توانائی ۔ ذوق و سخن خدادا د تھا، علم و حکمت سے دلی شغف ، شب روز اس میں انہماک ۔ مسائل کا فہم ، حقائق کا تجسس ۔ اس پر ان کا ایمان و یقین، اسلام کی محبت، تاریخ سے شغف، تہذیب و تمدن کا روز افزوں مطالعہ ، امت اور اس کے عروج و زوال کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کی محکومی اور زبوں حالی کا احساس، ایک ایک بات ان کے دل میں اتر رہی تھی۔ پھر یہ شریعت کا پاس، یہ طریقت سے لگائو، یہ عشق رسولؐ ، یہ تأدب بہ آداب محمدیہ ،یہ توحید و رسالت سے تمسک، محمد اقبال کی سیرت و کردار۔ محمد اقبال کی دعوت اور پیغام کے وہ سب عناصرجن کی نشوونما سے محمد اقبال بالآخر اقبال بنے، ترجمان حقیقت کہلائے، قوم نے ان کو حکیم الامت، دانائے راز، شاعر مشرق کن کن ناموں سے یاد نہیں کیا ،یہ سب ان کے دل و دماغ کی تشکیل میں حصہ لے رہے تھے۔ سیالکوٹ میں محمد اقبال کو مکتب کی کرامت حاصل تھی فیضان نظر بھی۔ لیکن یہ جو کچھ تھا ایک تمہید ، ایک اساس اور ایک ابتداء جس میں شروع ہی سے انتہا کا رنگ جھلک رہا تھا۔ کیسی امید افزا ء تھی یہ تمہید اور کیسی محکم یہ اساس، جیسے میر حسن کی نگاہیں ان کے مستقبل کو دیکھ رہی ہوں۔ یہ سیالکوٹ میں محمد اقبال کی تعلیم و تربیت کا وہ دور ہے جس میں ان کے دل و دماغ کی تربیت ہوئی۔ سیرت و کردار اور ایمان و یقین کی پرورش کے ساتھ ساتھ ایک عظیم شخصیت جنم لے رہی تھی۔ لیکن افسوس ہے محمد اقبال کی زندگی کے اس تشکیلی دور کی اہمیت کو بہت کم سمجھا گیا۔ کچھ بسبب بے توجہی کچھ معلومات کی کمی اور کچھ اس وجہ سے کہ محمد اقبال جو کچھ بنے، ان کی تعلیم و تربیت کا آغاز جس خوبی سے ہوا ، اس کے مدراج جس کامیابی سے طے ہوئے ، بعینہ انگلستان روانگی سے پہلے سیالکوٹ اور لاہور میں ان کی علمی اور ادبی کاوشوں کی جو صورت تھی، شاعری جو رنگ اختیار کر رہی تھی ، یورپ سے واپس آ کر انھوں نے اپنی دعوت اور پیغام کو جس خوبی سے پیش کیا۔ یہ سب وہ باتیں ہیں جن پر نفسیاتی اعتبار سے کبھی غور ہی نہیں کیا گیا۔ محمد اقبال کی زندگی کے اس تشکیلی دور کو باعتبار ان کی تعلیم و تربیت اور ذات سعی وکاوش کے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ جو کچھ کہا گیا کبھی ایک کبھی دوسرے نقطۂ نظر سے ، کبھی ایک رائے قائم ہوئی، کبھی دوسری ۔ حالانکہ سیالکوٹ ہو یا لاہور ان کے ذہن نے جو رخ اختیار کیا اس میں ایک تسلسل ہے ، ایک باقاعدگی ،ایک ربط، جس میں ان کے خیالات اور تصورات کی کڑیاں ایک دوسر ے سے نہایت خوبی سے مل جاتی ہیں۔ یہ حقیقت سامنے رہے تو محمد اقبال کی شخصیت ، محمد اقبال کے افکار ، محمد اقبال کی شاعری حتیٰ کہ یہ شاعری جس پیغام کا ذریعہ بنی، اسلام کی ترجمانی انھوں نے جو موقف اختیار کیا، اس کے اخلاقی، روحانی ، سیاسی، اجتماعی نصب العین کو ماضی ، حال اور مستقبل کی رعایت سے جس طرح اُجاگر کیا۔ اس کا رشتہ انسان، عالم انسانی ، عصر حاضر، اس کے مسائل اور حقائق سے جس خوبی سے جوڑا، اسلامیان ہند کے مستقبل ہی نہیں ، عالم اسلام کی نشاۃ الثانیہ کے لیے جو راستہ تجویز کیا اس کا ایک ایک پہلو بتدریج اور بہ ترتیب ہمارے سامنے ہو گا، اس میں کوئی تضاد ہو گا، نہ تخالف، نہ اسلام سے باہر کسی دوسرے سر چشمے سے اثر پذیری، نہ حوادث زمانہ اور انقلابات سے کہ عالم انسانی کا گزر جس اضطراب اور بے چینی سے ہو رہا تھا ۔ فرد اور معاشرے میں جو بنیادی تغیرات رونما تھے، دنیا بالخصوص دنیائے مغرب انسان اور اس کے مستقبل کے بارے میں جس طرح سوچ رہی تھی، معاشرہ جس طرح زیروزبر ہوا، بساط سیاست دگر گوں اس کا کوئی وقتی رد عمل۔ ہاں تحقیق و مطالعہ ہے ۔ کدوکاوش ہے ، جستجو ہے مشرق و مغرب پر نظر ہے ۔ ماضی اور حال کو دیکھ رہے ہیں۔ سوچتے ہیں مستقبل ہمیں کس طرف لیے جا رہا ہے اور اس سوچ میں ان کا اپنا ایک نقطۂ نظر جس میں دوسروں سے اختلاف بھی ہے، اتفاق بھی ۔ ہمدردی بھی ہے رواداری بھی ۔لیکن زلہ ربائی نہیں ہے نہ خوشہ چینی۔ نہ جذبات و احساسات کا بے قابو اظہار، نہ افکار و تصورات کی، ہنگامی جولانیاں۔ برعکس اس کے ان میں ایک ہم آہنگی ہے۔ ایک اعتدال اور توازن ، ربط اور تسلسل ۔ محمد اقبال کی نظر شروع ہی سے انسان اور انسانیت پر تھی اور یہ ان کی اسلامی تربیت کا قدرتی نتیجہ۔ شروع ہی سے نوع انسانی کی محبت سے سر شار، اس کے اتحاد اور ایک جانی کے آرزو مند جس میں انھوں نے کسی نسلی اور وطنی تفریق کو جگہ دی نہ جغرافیائی اور لسانی تعصبات، نہ مذہب اور ملت کا امتیازان کے لیے سد راہ بنا، نہ اقوام و امم کی زندگی۔ ان کی طبیعت اور مزاج، طور طریق اور رسم و راہ کا اختلاف کوئی مسئلہ کہ اسے دیکھ کر اپنا موقف بدل دیں۔ لہٰذا یہ انسان اور انسانیت کا مستقبل ہو، یااس کی غایت مقصود کے بارے جو نصب العین قائم کیا اس میں سرموفرق نہ آیا۔ وہ اس نزع و جدال ، اس افتراق و شقاق، تعصب اور تنگ نظری، اس غصب و تغلب اور جنگ و پیکار کو دیکھ رہے تھے جس کا مشاہدہ ہم تاریخ میں کرتے ہیں۔ جس کے ہولناک مناظر انھوں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھے لیکن اس کے باجود کبھی زندگی سے بد دل ہوتے، نہ مایوس ، وہ جانتے تھے ان آلام و مصائب کے باوجود فطرت کا مخفی ہاتھ سب کو ایک کر رہا ہے۔ سب کی منزل ایک ہے۔ سب اس کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ تفریقات اور امتیازات مٹ رہے ہیں، وہ زنجیریں ٹوٹ رہی ہیں جو نوع انسانی نے بسبب جہالت اپنے پائوں میں ڈال رکھی ہیں۔ محمد اقبال کو خوب احساس تھا کہ تاریخ کا عمل بڑا سست اور صبر آزما ہے، انسان کا رشتہ تقدیر خود اس کے ہاتھ میں ۔ ایمان و یقین، ہمت اور حوصلہ، محنت اور کوشش ، امید و اعتماد اس کی شرط ضروری۔ محمد اقبال کا گزر جن احوال و واردات سے ہوا، شب و روز جس طرح غور و فکر سے کام لیا، ایک سے ایک کٹھن مرحلہ طے کیا اس میں اسلام ہی نے ان کی رہنمائی کی۔ اسلام ہی وہ عروۃ الوثقی تھا جس کے سہارے وہ کامیابی سے آگے بڑھے ۔ محمد اقبال کی زندگی کا اس نہج پر مطالعہ کہ اس کے ادواریکے بعد دیگرے ہمارے سامنے ہوں، مثلاً یہی اس کا تشکیلی دور جیسا تفصیل طلب اور اہم ہے اگرچہ اس کی طرف سوانح نگار اشارہ ہی کر سکتا ہے قطع نظر ہرگز نہیں کر سکتا۔ لہٰذا سوانح نگار اشارۃً ہی کہے گا کہ محمد اقبال کی زندگی میں سیالکوٹ کا تعلیمی دور ایک ابتداء اور ایک تمہید تو تھا مگر ایک اساس بھی۔ ایک چراغ جو ماں باپ کی دل سوزی اور میر حسن کے ہاتھوں روشن ہوا۔ ایک بیج جو بویا گیا۔ اس بیج کی آبیاری جس خوبی سے ہوئی، یہ بیج رفتہ رفتہ بڑھنے اور پھیلنے لگا۔ ایک عظیم اور تناور شجر کی طرح فضا میں بلند ہوا، اس پر چھا گیا۔ اس سے طرح طرح کی شاخیں پھوٹیں، اس میں رنگا رنگ کے پھول کھلے، تا آنکہ اس نے سارے کے سارے گلستان کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔ اس میں طرح طرح سے بہار آئی۔ طرح طرح سے اس کی شان و شوکت، حسن و دلکشی میں اضافہ ہوتا گیا۔ تھکے ماندے اس کے سائے میں بیٹھے۔ راہ گیروں نے اس سے منزل کا راستہ پایا۔ بڑے بڑے طوفانو ں اور بڑی بڑی تیز و تند ہوائوں نے اسے بیخ و بُن سے ہلانا چاہا۔ بڑی بڑی آندھیاں اٹھیں، سیلاب آئے لیکن اس کی جڑیں جس زمین میں پیوست تھیں، نگہداشت جس خوبی سے ہوئی تھی وہ اپنی جگہ سے نہیں ملا۔ روز بروز مضبوط، مضبوط سے مضبوط اور بلند سے بلند تر ہوتا گیا۔ جیسے کلمۂ حق، بمصداق اصلہاثابت و فرعہافی السما۔ یوں وہ دیا بھی جو ماں باپ کی توجہ اور استاد کے ہاتھوں روشن ہوا اس کی روشنی لخطہ لخطہ بڑھتی اور تیز ہوتی چلی گئی ۔ نہ ہوائیں اسے گل کر سکیں، نہ حریفانہ پھونکیں بجھا سکیں، نہ کسی غیر کا دامن، حالانکہ دامن بہت تھے۔ برعکس اس کے اس کی روشنی پھیلتی ہی چلی گئی، تا آنکہ فضا اس سے منور ہو گئی۔ افق جگمگا اٹھے۔ ظلمت چھٹ گئی، امید و اعتماد اور ایمان و یقین کی قندیلیں روشن ہو گئی۔ لیکن یہ جو کچھ ہوا آپ ہی آپ نہیں ہو گیا۔ ا س کا سبب تھا میر حسن کا رہنما ہاتھ، میاں جی کی نگہداشت۔ محمد اقبال کی خداداد قابلیتیں، دل و دماغ کا جو ہر،ان کی جودت طبع ،ذہن رسا ، شوخی اندیشہ، فکرو وجدان ، ذوق و شوق، بصیرت اور فراست ، ایما ن اور یقین۔ یہ ایک طویل سفر تھا جسے محمد اقبال نے بحوصلہ و ہمت اور عزم و استقامت سے طے کیا اس راستے میں کئی موڑ آئے، کئی پیچ و خم ، کئی مشکلیں، کئی صعوبتیں، کئی رکاوٹیں محمد اقبال کے لیے بھی کئی لغزشیں تھیں ۔ کئی ترغیبات، کئی تحریصات، آتے جاتے،گزرتے ہوئے خیال ، مثبت، منفی، کئی انداز جنوں۔ اس سفر میں تشکک بھی تھا، تذبذب بھی۔ ظن و قیاس، بے یقینی ، بے دلی، اندیشے، وسوسے ، اوبام اور اضطراب بھی۔ بے چینی کی راتیں، پریشانی ا ور بے اطمینانی کے دن۔ دیدہ ترکی بے خوابیوں کے ساتھ ساتھ دل کی پوشیدہ بیتابیاں، نالۂ نیم شب کا نیاز، خلوت و انجمن کا گداز ، امنگیں، آرزوئیں اُمیدیں، جستجوئیں۔ گمانوں کے لشکر ، یقین کا ثبات۵۲ ۱؎ یہ سب اس سفر ، اس دشوار گزار راستے کے ایک نہیںکئی مراحل تھے جو محمد اقبال نے ایمان و یقین کے سہارے طے کیے۔ اس میں ایاب و ذہاب بھی تھا، ٹھہرنا اور رکنا بھی۔ محمد اقبال اس سفر میں با حتیاط آگے بڑھے تو وہ ابتدائ، وہ تمہید اور وہ اساس جو سیالکوٹ میں قائم ہوئی انھیں منزل بمنزل آگے لے گئی۔ تا آنکہ انھوں نے گوہر مقصود پا لیا۔ استاد کی محنت ٹھکانے لگی۔ باپ کی آرزوئیں بر آئیں۔ بایں ہمہ محمد اقبال کی زندگی کے اس تشکیلی دور سے بہت کم اعتنا کیا گیا۔ حالانکہ اہل نظر خوب جانتے ہیں یہی دور ہے جس میں انسان کو جو کچھ بننا ہوتا ہے اس کی اساس مضبوطی سے قائم ہو جاتی ہے، بلکہ اس کے کچھ کچھ آثار بھی نظر آنے لگتے ہیں۔ یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں رہتا کہ اس کے دل و دماغ کا رخ کس طرف ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کے سیالکوٹ میں ان کی تعلیمی زندگی کے دوران میں کئی ایک شواہد مل جاتے ہیں اور جو شاید سطور بالا میں ایک حد تک قارئین کے سامنے ہوں گے۔ مثلاً ان کا یہ اعتراف ’’میں ہوں میر حسن کی تصنیف‘‘۔ نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمان خاں شروانی کا یہ کہنا بڑا معنی خیز ہے: بے شک وہ سونا تھے لیکن اس سونے کو تاب کس نے دی، سونا کس کان سے نکلا؟۱۵۳؎ یہ اس دور سے بے اعتنائی کا نتیجہ ہے کہ محمد اقبال کے ذہنی ارتقا، محمد اقبال کے فکر و نظر، محمد اقبال کے درد ملی، اسلام اور اسلامی تعلیمات کی ترجمانی، حتیٰ کے ہندی اسلامی سیاست میں انھوں نے جو موقف اختیار کیا اس کی توجیہ میں ایک نہیں متعدد نظریے قائم کیے گئے۔ جیسے ان کی طبیعت میں دفعتاً ، کوئی انقلاب آیا، دفعتاً کوئی رد عمل ہوا، دفعتاً کوئی اثر قبول کر لیا۔ سوال کیا جاتا ہے کیا وہ علوم دین سے واقف تھے؟ انھوں نے کسی مرد کامل کے ہاتھ پر بیعت کی ؟ وہ صوفی تھے، فلسفی تھے، شاعر تھے، ملا نہیں تھے تو کیا تھے؟ رند تھے، قلندر تھے، ان کا مسلک کیا تھا؟ ان میں وسعت نظر تھی یا تعصب اور تنگ نظری؟ وہ انسان دوست تھے۔ آفاقیت پسند تھے، انسانیت کے طرف دار یا ایک محدود اور علیحدگی پسند قومیت کے علمبردار؟ کیا ان میں یہ جرأت تھی کہ عصر حاضر کے انسان نے جس طرح سیاسی، معاشی دستبر اور شہنشاہیت ، استعمار، سرمایہ داری اور جاگیرداری کے بت توڑ ے اور توڑ رہا ہے اس کا ساتھ دیں یا ماضی کے سایوں اور تاریکیوں میں گم رجعت پسندی کی دعوت دے رہے تھے؟ خرد دشمن تھے، وجدان کو عقل پر ترجیح دیتے یا عقل یا عقل کی ہمہ گیری کے قائل؟ ان میں دینی بصیرت پیدا ہوئی تو کب ؟ اسلام اور اسلامی تعلیمات کو سمجھے تو کب؟ یہ بات کب ان کی سمجھ میں آئی کہ نوع انسان کا مستقبل بڑا درخشندہ ہے ۔ کب انسان کی عظمت اور مرتبہ و مقام کا احساس پیدا ہوا۔ کب نوع انسانی کی محبت نے انھیں اپنی طرف کھینچا؟ پھر یہ اسلام سے شیفتگی، یہ توحید و رسالت میں ایمان و یقین، یہ عشق رسولؐ، یہ درد گداز ، یہ امت کے لیے دل سوزی، یہ عالم اسلام کی آزادی ، یہ اس کی نشاۃ الثانیہ مستنبط کی آرزو، یہ اقامت دین پر اصرار، یہ سب کب اور کیسے ہوا؟ یوں اس بحث میں جو غلط سلط نتائج مستنبط کیے جاتے ہیں، ان کے اشعار، تحریروں اور تقریروںسے جو معنی نکالے جاتے ہیں ہرگز نہیں نکلتے اور وجہ اس کی یہی اس دور سے بے اعتنائی جس کی طرف راقم الحروف نے جہاں تک ممکن تھا مختصراً اشارے کر دیے ہیں اور، کرتا رہے گا۔ محمد اقبال بلا شبہ ایک نابغہ تھے میر حسن بھی نابغہ۔ آرنلڈ اور میک ٹیگریٹ کے بنوغ میں بھی کلام نہیں۔ لیکن بنوغجب ہی بنوغہے کہ اس میں ایج ہو، جدت ہو، طباعی ہو، اجتہاد فکر ہو۔ دقت نظر ، یعنی اس کا اپنا ایک رنگ ہو۔ بنوغ ایک کاوش ہے، ایک انکشاف ، اکتشاف۔ کسی دوسرے کا عکس یا صدائے باز گشت نہیں۔ محمد اقبال اگر میر حسن کے آگے زبان نہ کھولتے، آرنلڈ کی شاگردی پر فخر کرتے، میک ٹیگرٹ کے قائل تو میر حسن بھی محمد اقبال کے دل و دماغ کی خوبیوں کے معترف، آرنلڈ کہتے میں محمد اقبال سے بہت کچھ سیکھتا ہوں۔ میک ٹیگرٹ سے دوستی تھی، ایک کے بعد دوسرے مسئلے پر گفتگو ہوتی ۔ خوش کہ محمد اقبال کا ان سے رشتہ تلمذ ہوا۔ پھر ایک خیال ہے جو رہ رہ کے دل میں آتا ہے۔ نہیں کہنا چاہتا مگر کہنے سے رک نہیں سکتا اور وہ یہ کہ محمد اقبال کے ذہنی ارتقا کی ابتداء اس زمانے میں ہوئی جب برطانوی حکومت کا آفتاب اقبال نصف النہار پر تھا لیکن ادھر اس کی تکمیل ہوئی اور اُدھر سرکار برطانیہ کا زوال شروع ہو گیا جس کی انھوں نے پیش گوئی بھی کر دی۔۵۴ ۱؎ فرمایا: ’’زوال پذیر حکومتیں چھوٹی چھوٹی مصلحتوں پر عدل و انصاف کو قربان کر دیتی ہیں‘‘۔ محمد اقبال سیالکوٹ سے لاہور آئے تو اگرچہ ایک نو عمر طالب علم کی حیثیت سے مگر بدیں صورت کہ جہاں سیالکوٹ میں ادبی اور مذہبی انجمنوں کی نگاہیں ان کی طرف اٹھ رہی تھیں۔ لاہور میں بھی آتے ہی ا ن کا سکہ ملک سخن میں بیٹھ گیا۔ ان کی علمی قابلیت کا اعتراف ہونے لگا۔ لاہور نے انھیں بڑے ذوق و شوق سے خوش آمدید کہا۔ لاہور کی محفلوں، لاہور کے علمی اور ادبی حلقوں کی رونق دو بالا ہو گئی۔ ارباب نظر نے انھیں سر اور آنکھوں پر بٹھایا۔ ان کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ تا آنکہ مولانا عبداللہ عبادی کے جذبۂ محبت اور قدردانی نے ان سے کہلوا ہی دیا: تجھ پہ اے لاہور ۱۵۵؎ نازل ہوں خدا کی رحمتیں اے کہ تو اقبال کی دولت سے مالا مال ہے ہم نے مانا تو نہیں مسحور تہذیب فرنگ تجھ میں سب کچھ ہے اگر اسلام اور اقبال ہے یہ ۱۹۳۸ء کے ابتدائی ایام تھے۔ میں حسب معمول چاشت کے قریب حاضر خدمت ہوا۔ شیخ گلاب دین ان کے قدیم دوست اور ہم وطن عیادت کے لیے آئے بیٹھے باتیں کررہے تھے۔ شیخ صاحب گئے تو فرمایا: ’’شاہ صاحب کی بصیرت کے کیا کہنے ان کی رائے کیسی صائب اور نظر کیسی تھی۔ ۱۵۶؎ شیخ صاحب نے وکالت کی سندلی تو کہنے لگے شیخ صاحب لاہور چلے جائیے، آپ کا مستقبل لاہور سے وابستہ ہے ، سیالکوٹ چھوڑ دیجیے ۔ شیخ صاحب لاہور آ گئے۔ شاہ صاحب نے سچ کہا تھا۔ کس خوبی سے کامیاب ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے سب کچھ دیا۔ عزت، دولت، شہرت‘‘۔ شاید یہ کہتے وہ خود بھی سوچ رہے ہوں کہ انھیں بھی بالآخر لاہور آنا پڑا۔ لاہور آئے اور لاہور ہی کو بالآخر یہ شرف حاصل ہوا کہ ان کا مستقر بنے۔ لاہور سے باہر رہنا انھیں ناگوار تھا۔ دو چار دن گزرتے تو اداس ہو جاتے۔ میں نے عرض کیا لاہور کی خاک میںبڑی کشش ہے ۔سب لاہور کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ لیکن سیالکوٹ کی اور ہی بات ہے ۔ سیالکوٹ کی آب و ہوا سے لاہور کو کیا نسبت۔ مسکرا کر فرمایا:’’ٹھیک کہتے ہو۔ کیا اچھا ہوتا اگر لاہور سیالکوٹ ہوتا۔ سیالکوٹ لاہور‘‘۔۱۵۷؎ حواشی ۱- Lebenslauf۱۹۰۷ء میں۔ ۲- روزگار فقیر ج ا ،ص ۲۲۹ ،لیکن یہ تاریخ قطعی نہیں ہے۔ دیکھیے پروفیسر محمد عثمان کی یادداشتیں علامہ اقبال کی ولادت پر مباحث (زیر طبع)۔ خالد نظیر صوفی ، اقبال درون خانہ۔ ۳- ڈپٹی وزیر علی بلگرامی کے یہاں، جن کو سرکار انگریزی اودھ سے سیالکوٹ لائی، امور ضلع کا انتظام و انصرام بڑی حد تک انھیں کے سپرد تھا۔ سلائی کی سنگرمشین سب سے پہلے انھیں کی فرمائش پر سیالکوٹ آئی اور شیخ نور محمد کے سپرد کر دی گئی۔ لہٰذ ا لوگ انھیں نورمحمد کلا والے بھی کہتے۔ سنگر سلائی مشین کل ہی تو ہے۔ ۴- والد محترم گھر آ رہے تھے۔ دیکھا ایک کتا بھوک سے بے حال ہو رہا ہے۔ رومال میں تھوڑی سی مٹھائی تھی، اس کے آگے رکھ دی۔ رومال ترکر کے پانی بھی پلایا۔ اس رات خواب میں دیکھا گھر میں مٹھائی کے طبق ہی طبق رکھے ہیں۔ صبح اٹھے تو اس یقین کے ساتھ کہ ان کے دن پھرنے والے ہیں۔ پھر بھائی صاحب بھی نوکر ہو گئے۔ سید نذیر نیازی ، اقبال کے حضور، ج ا،ص۱۶۹ ،مخلصاً ۔ اقبال اکادمی کراچی ۱۹۷۳ء ۔ ۵- والد محترم نے خواب میں دیکھا، ایک کبوتر بہت اونچا اُڑ رہا ہے دفعتاً ان کی جھولی میں آگرا۔ یہ خواب میری پیدائش سے پہلے کا ہے ۔ وہ اسے ایک اشارۂ غیبی سمجھے ۔ سید نذیر نیازی ، اقبال کے حضور ، ج ا، ص ۹۵۔ ۶- سید نذیر نیازی، اقبال کے حضور، ج ۲،زیر طبع ۔ ۷- خواجہ محمداعظم شاہ دیدہ مری، محمد شاہ بادشاہ کے عہد میں گزرے ہیں۔ تاریخ کشمیر کا دوسرا نام ہے۔ تاریخ اعظمی، واقعات کشمیر ، سنہ تصنیف ۱۷۵۵ئ۔ ۸- اڈون تحصیل کلگام میں ہے، ضلع اسلام آباد (اننت ناگ) ۹- حضرت علامہ کا خط شیخ عطا محمد کے نام ، مورخہ ۵ اکتوبر ۱۹۲۵ء دیکھیے صحیفہ مجلہ مجلس ترقی ادب لاہور۔ شمار ہ۶۵ اکتوبر ۱۹۷۳ئ۔ ’’اقبال کے اجداد کا سلسلہ عالیہ‘‘ از ڈاکٹر محمد باقر، صفحات ۳و ۴ مع نقل کا لاصل۔ ۱۰- ایضاً ،شمارہ ۶۵، ۱۹۷۳ء تاریخ وفات ۱۴۵۱ئ، عارف باللہ نصرالدین۔ ۱۱- ولادت ۱۳۷۸ئ۔ وفات ۱۴۳۹ئ، تاریخ وفات شمس العارفین۔ ریشی سے مراد ہے رشی، (سنسکرت رکھی) تارک الدنیا۔ زاہد و عابد۔ صحیفہ، شمارہ ۶۵، اکتوبر ۱۹۷۳ئ۔ وہی مضمون۔ ۱۲- وہی شہاب الدین جس کا ذکر جاوید نامہ میں آیا ہے۔ عمر ھا گل رخت بر بست و کشاد خاکِ ما دیگر شہاب الدین نزاد ۱۳- عہد حکومت ۱۴۲۰ء تا ۱۴۷۰ء ۔ یہ سنین اس لیے اہم ہیں کہ ہم انھیں کے حوالے سے فیصلہ کر سکتے ہیں کہ حکیم الامت کے آباء واجداد نے اسلام قبول کیا تو کس زمانے میں۔ ۱۴- صحیفہ مجلہ مجلس ترقی ادب ، لاہور، فوق کے نام حکیم الامت کے خط کا اقتباس۔ ۱۵- سین عربی ابجدکا ۱۱واں حرف ۔ ۱۶- Rootمادہ۔ ۱۷- مکتوب مذکور فوق کے نام ص ۲۔ نیز ص ۶ میں ابو محمد حاجی محی الدین مسکین کی کتاب تحائف الابرار فی ذکر اولیاء اخیار (تاریخ کبیر کشمیر) کا اقتباس۔ ۱۸- عجیب بات ہے کہ پورے ہندوستان میں کوئی دوسرا سپروخاندان ہے تو سرتیج بہادر سپرو کا جن کے علاوہ کسی سپرو خاندان کا سراغ نہیں ملا۔ مسئلہ تھا شیخ اعجاز احمد کی شادی کا ۔کوشش تھی کہ ان کی شادی سپروؤں کے یہاں ہو ۔دیکھیے اقبال، مجلہ بزم اقبال(انگریزی اشاعت) ،اکتوبر ۱۹۵۳ء ،ص ۶۵۔ ۱۹- فوق اور ان کے تتبع میں حضرت علامہ کے مکتوب ، دید ہ مری اور مسکین کے بیانات اور سلطان زین العابدین کے سنین حکومت سے واقفیت کے باوجود اس غلطی کا اعادہ ہوتا رہا۔ دیکھیے فوق کا مضمون ’ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کی مختصر سوانح حیات‘، نیرنگ خیال، اقبال نمبر، ستمبر- اکتوبر ۱۹۳۲ء میں۔ ۲۰- ضلع سیالکوٹ میں ۔ ۲۱- سید نذیر نیازی ، اقبال کے حضور، ج۱، ص ۱۶۹۔ ۲۲- ایضاً، ص ۹۴۔ ۲۳- ابو عبداللہ مولانا غلام حسن، وطن ساہیوال۔ فاروقی شیخ نواب صدیق حسن خاں اور پھر مولوی مرتضیٰ صاحب سے تلمذ رہا۔ عالم و فاضل ، بڑے بزرگ ،صاحب کشف ۔ مسجد صرافاں میں درس دیتے ، عقیدت مند اور طلباء حاضر خدمت رہتے۔ مولوی ابراہیم انھیں کے شاگرد رشید تھے۔ میر حسن سے نہایت گہرے روابط تھے۔ تصنیفات متعدد۔ اسلامی معاشرے کے انحطاط کا اس امرسے اندازہ کیجئے کہ اسلامیہ ہائی اسکول میں مدرسی کی، سیرت و کردار کا یہ عالم کہ مولوی ظفر اقبال دوپہر میں ان سے سبق لیتے ۔ ایک روز حاضر خدمت ہوئے تو سو رہے تھے۔ مولوی صاحب کے پائوں دابنے لگے۔ دوسرے روز مولانا نے پوچھا کل کیوں نہیں آئے کہا آپ آرام فرما رہے تھے۔ کہنے لگے اچھا! اور پھر اس واقعے سے ایسے متاثر ہوئے کہ دوپہر میں کبھی آرام نہ کیا۔ ۱۸ جنوری ۱۹۲۵ء کو فوت ہوئے۔ ۲۴- سید نذیر نیازی، اقبا ل کے حضور، ج ا ،ص ۹۴۔ کیا اس کے یہ معنی ہیں۔ جیسا کہ بعض حضرات کا خیال ہے ، کہ انھیں مولانا غلام حسن کے یہاں دینیات کی تعلیم کے لیے بھیجنے کی روایت غلط ہے۔ وہ مسجد یعنی عمر شاہ کے مکتب سے سیدھے میر حسن کی خدمت میں بھیج دیے گئے۔ ان کے والد ماجد کی البتہ یہ خواہش تھی کہ انھیں صرف دینی تعلیم دلوائیں۔ انھوں نے شاہ صاحب سے جو گویا انھیں اسکول کی تعلیم کے لیے تیار کر رہے تھے، درخواست کی انھیں دینی علوم پڑھائیں، اسکول کی تعلیم نہ دیں۔ جس پر شاہ صاحب نے کہا یہ بچہ مسجد میں نہیں اسکول میں پڑھنے کے لیے پیدا ہوا ہے ۔ ممکن ہے شیخ نور محمد کا خیال ہو کہ اگر شاہ صاحب ان کی درخواست نہ مانیں تو بیٹے کو مولانا غلام حسن کے درس میں بھیج دیں۔ دونوں صورتوں میں بالا خروہی ہوا جو شاہ صاحب چاہتے تھے ۔ ۲۵- ایضاً، ص ۹۴۔ ۲۶- یہ مدرسہ کلیسائے سکاٹ لینڈ (Church of Scotland)نے ۱۸۵۹ء میں قائم کیا۔ اس کے پہلو بہ پہلو ایک دوسرا مدرسہ ۱۸۵۵ ء میں قائم ہو چکا تھا۔امریکن مشن ہائی اسکول کے نام سے United Presbyterian Church of Americaکی طرف سے ۔ سیالکوٹ میں مسیحیمبشرین کی سرگرمیاں پنجاب میں سرکار انگریزی کے تسلط کے ساتھ ہی شرو ع ہو گئی تھیں۔ 27- Career. ۲۸- اقبال کے حضور، ج ا، ص ۹۴۔ ۲۹- ورینکولرVernacularیعنی مڈل ۔ اس زمانے میں تعلیم کی درجہ بندی اس طرح کی گئی تھی: تین سال پرائمری اوّل ، دو سال پرائمری دوم ، تین سال مڈل ، دوسال انٹرنس ، دو سال ایف۔ اے، دو سال بی ۔ اے، ایک یا دو سال ایم ۔ اے کے لیے ۔ ۳۰- Murray Collegeموجودہ عمارت ۱۹۰۹ء میں تعمیر ہوئی کالج روڈ پر ۔ 31- Faculty. ۳۲- سید نذیر نیازی: اقبال کے حضور ،ج ا، ص ۹۴ ، اقبال اکیڈمی کراچی۔ ۳۳- اس ملاقات میں ڈاکٹر وحید قریشی راقم الحروف کے شریک سفر تھے۔ مرحومہ کے ارشادات قلمبند کرتے رہے ۔ تقریب اس ملاقات کی یہ تھی کہ حکیم الامت کی تاریخ ولادت معلوم کی جائے۔ بزم اقبال کی طرف سے بشمول پروفیسر محمد عثمان معتمد اعزازی بزم اقبال ہم بطور ایک وفد سیالکوٹ پہنچے۔ ۳۴- ما نبوویم بدیں مرتبہ راضی غالب شعر خود خواہش آں کرد کہ گردد فنِ ما ۳۵- بقول ڈاکٹر جمشیدعلی راٹھور، حضرت علامہ کے ہم سبق ، رشتے میں خالہ زاد بھائی۔ لیکن ان کے علم و فضل اور کمال شاعری کے منکر ۔ ایم۔ اے پی ایچ ۔ ڈی ، پروفیسر مرے کالج ، سیالکوٹ ، انگریزی میں شعر کہتے۔ کلام چھپ چکا ہے۔ راٹھور مرحوم سے ۱۹۵۲ء میں ملاقات ہوئی۔ مہر مرحوم اور ڈاکٹر عبداللہ چغتائی ساتھ تھے۔ بزم اقبال کی طرف سے ایک وفد کی صورت میں ہم سیالکوٹ پہنچے۔ ملاقات ہوئی تو کہنے لگے سوانح لکھنی ہے تو میر حسن کی لکھیے ۔ اقبال میں کیا رکھا ہے وہ ان کے نفس ناطقہ ہی تو تھے اور کیا تھے۔ مہر صاحب تو اس کے بعد میر حسن ہی کے بارے میں سوالات کرتے رہے۔ بات بات پر کہتے اللہ اکبر! میں نے عرض کیا جو آپ فرماتے ہیں اقبال ان کے نفس ناطقہ تھے، تو ان کی سوانح حیات پر قلم اٹھانا اور بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ راٹھور صاحب کے بیانات ڈاکٹر عبداللہ چغتائی نے مہر مرحوم کے زیر ہدایات قلمبند کیے جو بزم کے دفتر میں موجود ہیں۔ راٹھور مرحوم کی اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی یاددشتیں میرے دوست کلیم اختر صاحب کے پاس محفوظ ہیں جو خود انھوں نے ان سے ملاقات کے بعد مرتب کیں۔ راقم الحروف نے ان سے فائدہ اٹھایا۔ ان یادداشتوں کو دیکھ کر ایک ہی بات ذہن میں آتی ہے اور وہ یہ کہ الفضل ماشہدات بہ الاعداد۔ 36- My education began with the study of Arabic and Persian. A few year after I joined one of the local schools. Development of Metaphysics in Persia. ۳۷- سید نذیر نیازی، اقبال کے حضور ،ج ا، ص ۹۴۔ ۳۸- ایضاً،ج ۲ زیر طبع۔ ۳۹- خالد نظیر صوفی، اقبال دورن خانہ، بزم اقبال، لاہور، ۱۹۷۳ء ، ص۱۰۳ تا ۱۰۴۔ ۴۰- اسرار خودی: گرچہ ہندی در عذوبت شکر است طرزِ گفتار دری شیریں تر است ۴۱- یوں بھی ایک ایسے ادب کی تشکیل میں جس سے زندگی کو تحریک ہو ان کا ذہن عربی ادب کی طرف منتقل ہو رہا تھا۔ لہٰذا طبعی امر تھا کہ فارسی ہو یا اردو ان کے کلام میں اسلامی ادبیات کے ساتھ ساتھ عربی ادب کے حیات افروز اثرات کا عمل دخل بڑھتا چلا جائے۔ اسرار خودی میں جب حافظ کی تنقید سے ایک غلط تاثر قائم ہوا تو اس کے ازالے کے لیے در حقیقت شعرو ادبیات اسلامیہ کے عنوان سے اپنے خیالات کی وضاحت کرتے ہوئے اے میان کیسہ ات نقد سخن میں صاف صاف کہا: فکر صالح در ادب می بایدت رجعتے سوئے عرب می بایدت ۴۲- اسرار خودی: فارسی از رفعتِ اندیشہ ام در خورد با فطرتِ اندیشہ ام ۴۳- سید نذیر نیازی: اقبال کے حضور، ج ۲، زیر طبع۔ ۴۴- ایضاً۔ ۴۵- انوار ا قبال، اقبال اکادمی کراچی، ص ۱۷۸۔ ۴۶- سید نذیر نیازی، اقبال کے حضور، ج ۲ ،زیر طبع۔ ۴۷- سیالکوٹ میں ان دنوں چار مدرسے تھے: مولانا غلام حسن، مولانا مرتضیٰ اور مولانا مزمل کا مدرسہ۔ چوتھا میر حسن کا ۔ پہلے تین مدرسوں میں صرف علوم دین کی تعلیم ہوتی ، میر حسن کے مدرسے میں علوم دینی اور دنیوی دونوں کی۔ ۴۸- الضحیٰ، ۹۳: ۱۰۔ ۴۹- رموز بیخودی: حسن سیرت ملیہ از تادب بآداب محمدیہ است۔ ۵۰۔ سید نذیر نیازی، اقبال کے حضور، ج ا،ص ۶۰تا۶۱،مخلصا ً۔ بال جبریل کے شعر۔ تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشاف سے اسی واقعے کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ ۵۱- سید سلیمان ندوی نے سفر افغانستان میں اس واقعے کا ذکر کیا ہے نیز دیکھیے: شیخ عطاء اللہ، اقبالنامہ (مکاتیب اقبال)، حصّہ دوم ،ص ۱۲۰۔ بروایت عطیہ بیگم۔ دیکھیے اقبال از عطیہ بیگم۔ ۵۲- سیالکوٹ سے براہ راست کوئی بیس میل دور گجرات کے پاس۔ ۵۳- قاضی صاحب موصوف عصر حاضر کے ایک عظیم صوفی بزرگ تھے۔ نواب معشوق یار جنگ بہادر نے جو قاضی صاحب کے حلقۂ ارادت میں شامل تھے، ان کے حالات زندگی لکھے ہیں۔ نواب فخر یار جنگ بہادر اور مسیح الملک حکیم محمد اجمل خان کو بھی ان سے دلی ارادت تھی۔ قاضی صاحب کا انتقال ۱۹۱۹ء میں ہوا۔ ان کے زیر اثر سلسلۂ قادریہ دور دور تک پھیل گیا۔ ۵۴- ماہنامہ ضیائے حرم، اشاعت اپریل ۱۹۷۵ء ، سید نور اللہ شاہ قادری کا مضمون بعنوان ’سلسلہ قادریہ میں علامہ کی بیعت‘ ۔ نیز اقبال ،اکتوبر ۱۹۵۳ئ،’ اقبال کے بعض حالات‘۔ ۵۵- شیخ عطاء اللہ ، اقبالنامہ، حصہ اول، مکتوب ،ص ۳۵۔ ۵۶- جاوید نامہ: تا غزالی درسِ اللہ ہو گرفت ذکر و فکر از دودمانِ او گرفت ۵۷- شیخ عطاء اللہ،اقبالنامہ، حصہ دوم، ص ۶۳۔ ۵۸- سید وحید الدین ، روز گار فقیر، حصہ دوم ،ص۱۳۱۔ ۵۹- اور جس کا ذکر انھوں نے عطیہ بیگم کے نام اپنے خط اورویسے بھی گفتگوئوں میں کیا ہے۔ ۶۰- اسرار خودی: آن نوا پرداز گلزارِ کہن گفت ما را از گلِ رعنا سخن حضرت قلندر فرماتے ہیں: مرحبا اے بلبلِ باغِ سخن از گل رعنا بگو با ما سخن ۶۱- بانگ درا:’ والدہ مرحومہ کی یاد میں‘: زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم صحبت مادر میں طفلِ سادہ رہ جاتے ہیں ہم ۶۲- صحیفہ، مجلہ مجلس ترقی ادب لاہور۔ شمارہ ۶۵، ۳ اکتوبر ۱۹۷۳ئ۔ ۶۳- ایضاً۔ ۶۴- مادرِ مخدومۂ اقبال رفت سوئے جنت زیں جہانِ بے ثبات گفت اکبر با دل پر درد و غم ’’رحلتِ مخدومہ‘‘ تاریخ وفات ۶۵- کلیات اکبر، رباعیات و قطعات، حصہ اول، مرتبہ بھیا احسان الحق، بزم اکبر کراچی، ص ۳۸۹۔ ۶۶- بانگ درا: ’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘: کاروبار زندگانی میں وہ ہم پہلو مرا وہ محبت میں تری تصویر وہ بازو مرا ۶۷- بانگ درا: ’التجائے مسافر‘۔ ۶۸- سید وحید الدین، روز گار فقیر، حصہ دوم، ص۱۲۲۔ ۶۹- مجھے لکھتے ہیں کہ روز گار فقیر میں میری روایات کے علاوہ باقی بیانات کی ذمہ دار ی مصنف پر ہے ۔ ۷۰- ایضاً ، ص ۱۷۵، ۱۷۷ ،۱۸۳۔ There is truth in it take refuge in art. ۷۱- راقم الحروف کے نام، کراچی۱۹۷۶ئ۔ ۷۲- وعباد الرحمان الذین یمشون علی الارض ہونا۔ الفرقان، ۲۵:۶۳۔ ۷۳- B. Time Pieceتا کہ حسب ضرورت وقت دیکھ سکیں۔ ۷۴- البقرہ۲ : ۱۸۴۔ ۷۵- سید نذیر نیازی، اقبال کے حضور،سید وحید الدین، روز گار فقیر، حصہ اول ، ص ۲۰۷۔ ۷۶- یادداشتیں بسلسلہ سفر سیالکوٹ، بزم اقبال میں محفوظ ہیں۔ ۷۷- سید وحید الدین، روز گار فقیر، حصّہ اول ، ص ۵۷۔ ۷۸- بانگ درا: دیباچہ، ص ۱۰، نسخہ غلام علی ۔ لیکن شیخ عبدالقادر اس بات کو کھول کر بیان نہیں کر سکے۔ ۷۹- نیرنگ خیال : اقبال نمبر، ستمبر- اکتوبر ۱۹۳۲ئ۔ شیخ آفتاب احمد کا مضمون :علامہ سر اقبال کے استاد، ص ۲۲ تا ۸۶۔ ۸۰- بقول شاعر: درسِ ادب اگر بود زمزمۂ محبتے جمعہ بمکتب آورد طفلِ گریز پائے را ۸۱- نیرنگ خیال: اقبال نمبر، ۱۹۳۲ئ، ڈاکٹر ملک راج انند کے انگریزی مضمون’ اقبال کی شاعری‘ کا اُردو ترجمہ، ص ۷۷۔ ۸۲- محمود نظامی، ملفوظات، ص ۱۵۲۔ پروفیسر عبدالواحد کا مضمون۔ ۸۳- شیخ عطا اللہ، اقبال نامہ ،حصہ اول، مکتوب ۳۵۵ بنام عشرت رحمانی، ص ۴۲۶۔ ۸۴- بانگ درا:’ التجائے مسافر‘: وہ شمع بارگہ خاندان مرتضوی رہے گا مثل حرم جس کا آستاں مجھ کو ۸۵- اقبال کے حضور ،ج ا، زیر طبع۔ دیکھیے بانگ درا کی نظم ’نوائے غم‘ اور زبور عجم۔ غم دو قسم است اے برادر گوش کن شعلہ ما را چراغ ہوش کن یک غم است آن غم کی آدم را خورد آن غم دیگر کہ ہر غم را خورد آن غم دیگر کہ ما را ہمدم است جان ما از صحبتِ او بے غم است ۸۶- سید نذیر نیازی، اقبال کے حضور، زیر طبع۔ ۸۷- اقبال نامہ،حصہ دوم، مکتوب بنام تصدق حسین۔ ۱۱ ؍جنوری ۱۹۲۷ء ،ص ۱۰۰، ترجمہ حسن الدین نے کیا۔ عنوان ہے فلسفۂ عجم۔ ۸۸- سید وحید الدین، روز گار فقیر، حصہ دوم ، ص ۲۰۹۔ ۸۹- ایضاً، حصہ اول، ص ۴۳-۴۴ اور ۱۰۹۔ ۹۰- بقول ڈاکٹر جمشید علی راٹھور، یادداشتیں۔ ۹۱- نیرنگ خیال، اقبال نمبر ،ستمبر- اکتوبر ۱۹۳۳ء ،ص ۷۵۔ ۹۲- سید نذیر نیازی، اقبال کے حضور، جلد ا،ص۲۵۱۔ ۹۳- حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی نے: مرا پیرِ دانائے روشن شہاب دو اندر ز فرمود پر روئے آب یکے این کہ بر خویش خود بیں مباش دگر آں کہ بر غیر بد بیں مباش ۹۴- سید وحید الدین، روز گار فقیر، حصہ دوم ،ص ۱۹۵۔ ۹۵- ایضاً ، حصہ اول، ص ۳۸۔ ۹۶- سید نذیر نیازی، اقبال کے حضور، ج ا، ص ۹۴- 97- Sagalaیا Sakala. 98- Menander (malinda) Euthydamon. 99- Mihragala. 100- Sialkot District Gazetteer, 1967. ۱۰۱- جس کے بعد سیالکوٹ کی تباہی اور بربادی میں اضافہ ہوتا گیا، حتی کہ مغلیہ سلطنت کا نام و نشان مٹ گیا۔ صرف موری دروازے کا نام باقی رہ گیا۔ جہانگیر کے تعمیر کردہ شیش محل کی تو یاد بھی باقی نہیں۔ ۱۰۲- مکتوب میر حسن محمد دین فوق کے نام، نقوش، مکاتیب نمبر،ص ۱۹۔ 103- Boundary Commission. ۱۰۴- امام علی حق کا مزار امام صاحب کہلاتا ہے۔ منڈی میں اسکاچ مشن ہائی اسکول اور اس کے بیرونی حصے میں امریکن مشن ہائی اسکول اور تحصیل کی عمارت تعمیر ہوئی۔ پاس ہی پانی کا تالاب تھا ملا عبدالحکیم کا تعمیر کردہ۔ ۱۰۵- بشمول چھائونی کی کوئی پچاس ہزارSialkot District Gazetteer, 1967. ۱۰۶- سیالکوٹ اور اس کے اطراف میں عیسائی مبلغین کی سرگرمیاں ۱۸۵۷ء سے پہلے یعنی پنجاب پر برطانوی قبضے کے ساتھ ہی شروع ہو گئیں۔ ۱۸۵۵ء ہی سے۔ ۱۰۷- یہ بجائے خود ایک اہم موضوع ہے۔ میر حسن فوق کو لکھ چکے تھے کہ سکھ گردی میں سیالکوٹ پر کیسے تباہی آئی۔ کتب خانے نذر آتش کر دیے گئے۔ علماء نے آس پاس کی بستیوں میں پناہ لی۔ رفتہ رفتہ ان کی اولاد بھی علم و فضل سے محروم ہوتی چلی گئی کچھ بچی کھچی کتابیں یاد گار رہ گئیں سید نور محمد قادری جن کا خاندان گلی چوڑی گراں ہی کے قریب آباد اپنے جدا مجد سید چراغ شاہ کے بعد سیالکوٹ سے نکل گیا۔ راقم الحروف کو ان کا نیاز حاصل ہے۔ انھوں نے بہ کمال شفقت اس زمانے کے اہل قلم کے حالات پر گفتگو کی ان کی تحریریں اور مسودات دکھائے جن میں مولانا محمد حسن فیضی جنھوں نے عربی میں ایک قصیدہ لکھا۔ سید ظہور اللہ شاہ اور مولو ی عبدالکریم اشراقی کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ۱۰۸- سوانح علامہ عبدالکریم سیالکوٹی از فوق، محمد اقبال کا تبصرہ ، ۳؍ دسمبر ۱۹۲۴ء ۔دیکھیے مقالات اقبال از سید عبدالواحد معینی، ص ۲۰۱-۲۱۱۔ ۱۰۹- یاشاید نہیں۔ ۱۱۰- بانگ درا۔ یادِ عہدِ رفتہ میری خاک کو اکسیر ہے میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے ۱۱۱- سید نذیر نیازی ، اقبال کے حضور ،ج ا، ص ۲۴-۲۵۔ ۱۱۲۔ ایضاً۔ ۱۱۳۔ سید وحید الدین ، روز گار فقیر، ج ا، ص ۱۲۷۔ ۱۱۴۔ ایضاً ، ج ۲، ص ۱۵۷۔ ۱۱۵۔ بانگ درا: ’سر سید کی لوحِ تربت‘۔ ۱۱۶- بقول ولیم جیمز، نفسیات میں۔ ۱۱۷- بانگ درا: عہد طفلی۔ تھے دیار تو زمین و آسماں میرے لیے وسعتِ آغوشِ مادر اک جہاں میرے لیے آنکھ وقفِ دید تھی لب مائل گفتار تھا دل نہ تھا میرا سراپا ذوقِ استفسار تھا ۱۱۸- بال جبریل: زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر خیزی ۱۱۹- کلیم اختر، یادداشتیں۔ ۱۲۰- رحیم بخش شاہین، اوراق گم گشتہ، سید محمد ذکی کا بیان ’اقبال کا بچپن‘، ص ۲۶۶ اور ص ۲۶۷، ملخصاً۔ ۱۲۱- سید نذیر نیازی، اقبال کے حضور، ج۱،ص۱۴۸۔ ۱۲۲- پوری نظم کے لیے دیکھیے ان کا کوئی مجموعہ کلام۔ ۱۲۳- مکاتیب اقبال بنام نیاز الدین خاں، بزم اقبال لاہور۔ ۱۲۴- نیاز الدین خاں کے صاحبزادے۔ راقم الحروف کے ہم جماعت۔ نفیس الدین خاں کی یادداشتیں بعنوان ’گرامی، نیاز، اقبال ‘تا حال طباعت نہیں ہو سکی۔ مسودہ میرے پاس محفوظ ہے۔ ۱۲۵- گوئٹے فاوسٹ Faustکی تمہید کی۔ ۱۲۶- رحیم بخش شاہین،Mementos of Iqbal،ص ۷۴ ،لفٹینینٹ کرنل کے اے رشید کا مضمون Newlight on the Early Life of IqbalبحوالہGabriel's Wingsaz از Anamarie Schimmel۔ ۱۲۷- اقبال ریویو، مجلہ اقبال اکیڈمی ،کراچی، شمارہ جنوری ۱۹۶۳ئ۔ ۱۲۸- اقبال، مجلہ بزم اقبال ،لاہور۔ میرنیرنگ کا مضمون ’اقبال کے بعض حالات‘۔ ۱۲۹- شاہین،اوراق گم گشتہ ، ص ۲۷۰۔ ۱۳۰- شیخ عطا اللہ،اقبال نامہ ، حصہ دوم، مکتوب ۱۲۱، مورخہ ۲۲؍ اگست ۱۹۰۸ئ۔ ۱۳۱- سید وحید الدین ، روز گار فقیر۔ ۱۳۲- بانگ درا: دیباچہ از شیخ عبدالقادر۔ ۱۳۳- ایضاً۔ ۱۳۴- دیکھیے روز گار فقیر، حصہ نظم ۔ ۱۳۵- نسیم و تشنہ ہی اقبال کچھ اس پر نہیں نازاں مجھے بھی فخر ہے شاگردیِ داغِ سخنداں پر ۱۳۶- شیخ عطاء اللہ، اقبال نامہ، حصہ اول۔ ۱۳۷- تھی حقیقت سے نہ غفلت فکر کی پرواز میں آنکھ طائر کی نشمین پر رہی پرواز میں سید نذیر نیازی، بہار داغ ، دیباچہ۔ ۱۳۸- اقبال ، مجلہ بزم اقبال ، شمار ہ ۱۹۶۰ء ،عبداللہ قریشی کا مضمون ’اقبال اور فوق‘ ۔ ۱۳۹- سید وحید الدین ، روز گار فقیر، حصہ اول ،ص ۱۰۰۔ ۱۴۰- جارج سارٹن (George Sarton)،مقدمہ تاریخ سائنس اور تاریخ سائنس میں،فارمر (Henry Farmer)کی کتاب اور مضامین ’عربی موسیقی کے اثرات مغربی موسیقی پر‘ نیز دیکھیے میراث اسلام(Legacy of Islam)۔ ۱۴۱- سید نذیر نیازی، اقبال کے حضور، ج ۲ ،زیر طبع۔ ۱۴۲- دیکھیے کتب خانہ جامعہ پنجاب ۔ کیفی کلیکشن مجلدات رسالہ زبان ۱۸۹۳ اور ۱۸۹۴ء یہ راسخ عبدالرحمن راسخ ہیں۔ راسخ عظیم آبادی نہیں ہیں۔ ۱۴۳- صحیفہ،مجلہ مجلس ترقی ادب لاہور، شمارہ ۱۹۷۳ء میں میرزا محمد منور کا مضمون ’اقبال کی شاعری‘۔ ۱۴۴- سید وحید الدین، روز گار فقیر، حصہ دوم۔ ۱۴۵- اقبال، مجلہ بزم اقبال لاہور، محمد عبداللہ قریشی کا مضمون ’لاہور کے مشاعرے ‘،ص ۴۸-۴۹۔ ۱۴۶- رحیم بخش شاہیں، Iqbal Mementos ۱۴۷- مکتوب ۱۹۷۶ء راقم الحروف کے نام۔ ۱۴۸- سید وحید الدین، روز گار فقیر، حصہ دوم۔ ۱۴۹- سید نذیر نیازی، اقبال کے حضور میں ، ج ۲، زیر طبع۔ ۱۵۰- ماہنامہ اسلامی تعلیم ،آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس، اشاعت ۱۹۷۷ئ، لاہور۔ ۱۵۱- رحیم بخش شاہیں، Iqbal Mementos، ص ۶۸۔ ۱۵۲- بال جبریل، ساقی نامہ۔ ۱۵۳- شیخ عطاء اللہ، اقبالنامہ، دیباچہ۔ ۱۵۴- سید نذیر نیازی، اقبال کے حضور، ج ا۔ ۱۵۵- مصرع اولیٰ میں لاہور کی جگہ پنجاب ہے۔ ۱۵۶- مولانا میر حسن کی۔ ۱۵۷- سید نذیر نیازی، اقبال کے حضور، ج ۲، زیر طبع۔ فصل دوم لاہور تا ۱۹۰۵ء ۱۔گورنمنٹ کالج ۱۸۹۵ء میں جب محمد اقبال ایک نو عمر طالب علم کی حیثیت سے لاہور آئے تو حصول علم کے اس نئے مرحلے کی اساس جس کا آغاز گورنمنٹ کالج سے ہوا نہایت خوبی سے قائم ہو چکی تھی۔ جدید تعلیم کے اس نئے مرکز میںمحمد اقبال کی مثال ایک مسافر کی تھی جو اپنے دل و دماغ کی خداد اد صلاحیتوں اور ایمان و یقین کی دولت کو زادِ راہ کی طرح ساتھ لیے علم و عمل کی اس دنیا میں قدم رکھ رہا تھا ۔ جس کے مظاہربے شمار ہیں، مراحل گو نا گوں، مدراج لاتعداد۔ جس میں طلب علم کے فکر و فہم کی تربیت ہوتی ۔ سیرت و کردار کے نشوونما کے ساتھ ساتھ احساس ذات اُبھرتا ہے۔ شخصیت کی پرورش ہونے لگتی ہے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ زندگی نام ہے فرائض کے تسلسل کا۔ وہ ایک ذمہ داری ہے ، ایک تیاری کسی نصب العین سے وابستگی اور اس کے حصول کی آرزومندی میں اپنے مرتبہ و مقام کی تعین کے لیے۔ محمد اقبال نے اس دنیا میں قدم رکھا تو حصول علم کے ساتھ ساتھ تکمیل ذات کی جدو جہد میں اب ایک نیا میدان ان کے سامنے تھا… لاہور ،لاہور عہد مغلیہ کا نوحہ خواں، سکھ گردی کی اندوہناک مثال۔ اسلامی تہذیب و تمدن کے مٹتے ہوئے نقوش اور آثار اور باقیات، ایک دور عروج و کامرانی کی روایتوں اور بچی کچھی نشانیوں کی یاد گار۔ محمد اقبال لاہور آئے، گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا۔کوآرڈینگل میں رہنے کو جگہ ملی جہاں کمرہ میں ۱؎ ان کے نام کی تختی لگی ہے۔مضامین میں انگریزی تو لازمی مضمون تھا، عربی اور فلسفہ اختیاری ۔ معلوم نہیں محمد اقبال نے کالج کی حدود میں قدم رکھا تو ا ن کے احساسات کیا تھے؟ گورنمنٹ کالج کی کلیسا نما عمارت ، اس کے اونچے اونچے در و دیوار، طویل برآمدے، مغربی طرز تعمیر ، دو منزلیں، محراب بالائے محراب اور ان کے وسط میں کلس کی طرح نکلتا ہوا ایک بلند و بالا برج ساعت، مغربی علم و فضل اور مغربی تہذیب و تمدن کی برتری کا مظہر۔ برطانوی اقتداراور برطانوی شان و شوکت کا مستقل اعلان۔ لیکن محمد اقبال کی نگاہیںکالج کے در دیوار اور خشت و سنگ پر نہیں تھیں۔ ان کی نگاہیں ان اساتذہ کو دیکھ رہی تھیںجن کے زیر تربیت انھیں علم کے اگلے مراحل طے کرنا تھے۔ گورنمنٹ کالج میں انگریزی ادب، مغربی علوم اور مغربی فلسفہ کی تحصیل نے ان کے لیے دانش حاضر کی راہیں کھول دیں۔ وہ دلی شوق اور انہماک سے ان راہوں پر چل پڑے ۔ ابھی وہ وقت نہیں آیا تھا کہ اس دانش کو ’’حجاب اکبر‘‘ سے تعبیر کرتے۔ ابھی تو علم کی تشنگی تھی یونیورسٹی کیرئر ۲؎ کی باقاعدہ ابتداء ہو رہی تھی۔ ابھی تو اس تصادم کے جو قدیم اور جدید یا اسلام اور عصر حاضر میں رونما ہے، خدوخال ہی اُبھررہے تھے، گو کسی قدر غیر قطعی اور غیر واضح شکل میں ۔ ابھی شاید اس کشا کش کا آغاز نہیں ہوا تھا جس کے باعث انھیں آگے چل کر، جب ’’شراب علم کی لذت‘‘ انھیں کشاں کشاں یورپ لے گئی، ایک شاید ذہنی اضطراب سے گزرنا پڑا۔ابھی شاید انھیں خود بھی احساس نہیں تھا کہ جس تعلیم کی آرزو انھیں سیالکوٹ سے لاہور لے آئی ہے ایک دن ان کے لیے کیسے کیسے مسائل اور مشکلات پیدا کر دے گی۔ سردست ان کی ایک ہی خواہش تھی اور وہ یہ کہ اس کے حصول میں تیزی سے آگے بڑھیں۔ اس کی تکمیل میں کوئی فرو گذاشت باقی نہ رہے۔ ۱۸۹۷ء میں محمد اقبال بی۔اے کے امتحان میں بدرجۂ دوم کامیاب ہوئے۔ جمال الدین اور خلیفہ محمد حسین تمغے حاصل کیے۔ عربی میں سب سے زیادہ نمبر پائے۔ جن طلباء کی زبان انگریزی تھی ان میں اول آئے۔ ۱۸۹۸ء میں شاید ، ایم ۔ اے کا امتحان نہیں دیا اور دیا تو ناکام رہے۔ ۱۸۹۹ء میں ایم۔ اے کیا۔ تیسرے درجے میں کامیاب ہوئے۔ خان بہادر نانک بخش تمغہ حاصل کیا۔ فلسفہ میں اس سال وہی ایک امیدوار تھے۔۳؎ طالب علم کی حیثیت سے گورنمنٹ کالج لاہور میں محمد اقبال کے زمانۂ قیام کی مدت چار سال سے زیادہ نہیں۔ لیکن معلوم ہوتا ہے ان چار سالوں میں ان کے اساتذہ اور ہم جماعتوں میں ان کی قابلیت کا سکہ بیٹھ گیا۔ امتحانات کے نتائج سے اگرچہ بظاہر اس کی تائید نہیں ہوتی، الا یہ کہ تمغے حاصل کرتے رہے۔ مگر پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایم ۔اے کرتے ہی ان کی خدمات اوریئنٹل کالج کے لیے حاصل کر لی گئیں۔ گورنمنٹ کالج میں ان دنوں انگریز اساتذہ کے علاوہ مولانا محمد حسین آزاد اور مولانا عبداللہ ٹونکی ایسے اہل علم موجود تھے۔ پھر ’’استاذی قبلہ‘‘ لالہ جیا رام، علم اقتصاد کی تصنیف میں ان کے مشیر۔ وہ بھی دوسرے اساتذہ کی طرح ان کی ذہنی صلاحیتوں سے بے خبر نہیں تھے۔ پروفیسر آرنلڈ البتہ ابھی لاہور نہیں آئے تھے۔ میر حسن کے بعد ان کے دوسرے استاد! محمد اقبال کو کالج ہی کے زمانے میں بعض ایسے دوست میسر آئے جن سے ان کے تعلقات عمر بھر قائم رہے۔ مثلاً میاں فضل حسین اور میر نیرنگ ۔ میر صاحب ان سے دو سال پیچھے تھے۔ مرزا اعجاز حسین ایک سال آگے۔ میر نیرنگ نے شاعری کی۔مرزا اعجاز حسین نے بھی ، مگر بہت کم۔ فضل حسین سے ان کے روابط بڑے گہرے تھے ۔ فلسفۂ غم ایسی نظم ان کے والد ماجد ہی کی وفات پر لکھی گئی ۔ لیکن سیاسی اختلافات کے باعث جن کا آغاز۲۰۔۱۹۹۱ء میں ہوا۔ تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو تی چلی گئی تا آنکہ وہ ایک دوسرے سے دور ہو گئے، صرف صاحب سلامت رہ گئی، حالانکہ ایک زمانے میں انجمن حمایت اسلام ہی نہیں مسلمانوں کی سیاسی اورتعلیمی سر گرمیوں میں باہم مل کر حصہ لیتے صلاح و مشورہ ہوتا۔ دارالا قامے میں بھی محمد اقبال کے کمرے میں بڑی چہل پہل رہتی۔ شعر و شاعری کی محفل جمتی۔ لیکن محمد اقبال ایک فلسفہ مزاج اور سنجیدہ طبیعت نوجوان تھے۔ شعر و شاعری کی ان محفلوں میں ذوق صحیح کی پرورش کے ساتھ ساتھ علمی مسائل زیر بحث آتے۔ میر نیرنگ لکھتے ہیں: محمد اقبال کے مزاج میں قطبیت تھی۔ اپنے کمرے میں فرش پر بیٹھے رہتے۔ حقہ ہمدم و ہم نفس، برہنہ سر، بنیان در بر، گھٹنوں تک تہ بند، سردیوں میں کمبل اوڑھ لیتے تھے۔ ہر قسم کی گپ اڑاتے،طبیعت میں ظرافت تھی،پھبتی زبردست کستے۔۴؎ محمد اقبال زمانہ طالب علمی ہی میں کالج پر چھا گئے ۔ ہم سبق ان کی قدر کرتے، اساتذہ کو ان کی لیاقت اور قابلیت کا اعتراف تھا۔ لیکن محمد اقبال کی طبیعت میں انکسار تھا،تکلف نہ تصنع، تعلی نہ تفاخر۔ نہ کبھی احساس برتری کے فریب میں آئے۔ اس زمانے ہی میں نہیں، عمر بھر۔ گورنمنٹ کالج میں محمد اقبال کا قیام کم و بیش چار برس طالب علم اور پانچ چھ برس استاد کی حیثیت سے رہا۔ یورپ سے واپس آئے تو پھر اس کے اساتذہ میں شامل ہو گئے۔ ۱۹۰۸ء سے لے کر ۱۹۱۱ء تک ڈھائی تین برس انگریزی اور فلسفہ کا درس دیتے رہے۔ ۱۹۱۱ء کے بعد کسی نہ کسی تقریب میں شرکت کا اتفاق ہو جاتا۔ ۱۹۲۲ء میں ’سر‘ کا خطاب ملا تو بریٹ سو سائٹی۵؎ کی طرف سے کلیم اللہ خاں سیکریٹری سوسائٹی،منوہر ناتھ سیٹھ اسسٹنٹ سیکریٹری سو سائٹی اور ایم۔اے کے طلباء نے ان کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ یہ جنوری کے آخری ایام تھے جب طلبا کا ایک وفد میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ محمد اقبال برآمدے میں شلوار قمیض پہنے ایک شال اوڑھے بیٹھے تھے۔ طلباء نے پروفیسر چیٹرجی کا دعوت نامہ پیش کیا۔ محمد اقبال نے سو سائٹی کی دعوت قبول کر لی۔ یوم مقررہ پر ان طلباء کے ساتھ جو سو سائٹی کی طرف سے پیشوائی کے لیے آئے تھے۔ میکلوڈ روڈ سے پیادہ پا کالج روانہ ہوئے اور پیادہ پاہی ان کے ساتھ واپس آئے جو ایک گو نہ تعجب کی بات ہے اس لیے کہ محمد اقبال بہت کم پیدل چلتے ۔ گورنمنٹ کالج میکلوڈ روڈ والی کوٹھی سے خاصا دور تھا۔ میکلوڈ روڈ میں جو نشستیں ہوئیں۔ کالج میں یہ تقریب جس عقیدت اور احترام سے منائی گئی۔ محفل جیسی پر رونق اور پر مسرت تھی، محفل ہی میں کیا کالج آتے جاتے بھی وہ طلباء سے کچھ ایسے تپاک اور بے تکلفی سے ملے جیسے اب بھی ان کی صف میں شامل ہیں۔ طلباء میں طالب علم ، اساتذہ میں اُستاد۔ تقریب کالج کے صحن میں ہوئی، تصویریں کھنچیں۔ پرنسپل ہیمی،۶؎ پروفیسر چیٹر جی ، پروفسیر احمد حسین،ایم۔اے اور بی۔اے کے طلباء کے علاوہ کچھ اور اصحاب مثلاً میجر شیخ فضل الحق اور انور سکندر خاں بھی تصویر کشی میں شامل تھے۔ خیر مقدم میں تقریریں ہوئی۔ قاضی اسلم نے تقریر کی۔ کاظم حسین نے، آگے چل کر پروفیسر میکلیگن انجینئرنگ کالج ، اقبال کی غزل: انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں یہ عاشق کونسی بستی کے یارب رہنے والے ہیں بڑی خوش الحانی سے پڑھی۔ محمد اقبال بھی بہت محظوظ ہوئے۔ محمد اقبال تقریر کے لیے اٹھے تو معلوم ہوتا تھا جیسے سوچ رہے ہیںکہ موضوع کیا ہو۔ کوئی خالصاًمذہبی اور سیاسی موضوع چھیڑنا تو خلاف مصلحت تھا، بالآخر انھوں نے آئین اسٹائن کے نظریۂ اضافیت پر تقریرکی۔۷؎ جس کا مفاد قاضی صاحب نے جہاں تک ممکن تھا اپنے الفاظ میں بیان کر دیا ہے ۔ قاضی صاحب کہتے ہیں، باوجودیکہ تقریر کا موضوع فلسفہ اور سائنس تھا محمد اقبال اسلام کا ذکر کرنے سے نہ رک سکے گو بڑے محتاط طریق میں۔ انھوں نے کہا: اس نظریے کے تحت صوفیاء کے احوال وواردات اور عصر حاضر کے طبیعی اور ریاضیاتی نظریوں میں اتصال ممکن ہے۔ یہ بھی کہ اس کی رو سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایک زمانہ انسان کا ہے، ایک ذات باری تعالیٰ کا۔ پھر کہا: علم الٰہی لامتناہی ہے۔ لا محدود ، بے ابعاد ، یعنی اس میں ماضی ہے نہ حال، نہ مستقبل۔ نہ کوئی ازل نہ آخر ۔ہمیں اس بارے میں بڑی احتیاط سے کام لینا چاہیے۔۸؎ تقریر ختم ہوئی تو جب بھی محسوس ہوتا تھا جیسے محمد اقبال کسی گہری سوچ میں ہیں نظمیں پڑھی گئیں۔ قاضی صاحب کو افسوس ہے کاظم حسین جوانی ہی میں فوت ہو گئے، قیام پاکستان سے پہلے۔ قاضی صاحب نے کپور سنگھ کا بھی ذکر کیا ہے جنھوں نے پنجابی ماہنامہ سارنگ نکالا اور اس میں محمد اقبال سے اپنی ایک ملاقات کا حال تفصیل سے لکھا۔ ۹؎ کپور سنگھ بھی اس وقت فلسفہ میں ایم۔ اے کر رہے تھے۔ آئی سی ایس ہو گئے۔ لیکن تقسیم ملک پر ملازمت چھوڑ دی۔ سیاسی زندگی اختیار کر لی۔ بایں ہمہ گورنمنٹ کالج میں زمانۂ طالب علمی کا ذکر محمد اقبال نے کبھی اس ذوق و شوق سے نہیں کیا جیسے طلباء اپنے زمانۂ تعلیم یا ’’مادر علمی‘‘،۱۰؎ میں گزرے ہوئے دنوں کا اکثر کیا کرتے ہیں ،حالانکہ گورنمنٹ کالج کی طالب علمی انگریزی حکومت کے زمانے میں تو کیا قیام پاکستان پر بھی فخر و اعزاز پر محمول کی جاتی تھی۔ محمد اقبال علی گڑھ نہیں گئے۔ لیکن ان کا دل علی گڑھ میں تھا۔ قوم کے مستقبل میں نوجوانوں کے اندر ایک خالصاً اسلامی ذہن کی پرورش میں ان کی نگاہیں ہمیشہ علی گڑھ پر رہیں۔ گورنمنٹ کالج سے انھیں کوئی دل بستگی نہیں تھی۔ جو بھی دل بستگی تھی علی گڑھ سے تھی۔ فرماتے: علی گڑھ مسلمانوں کی روح ملی کا مظہر ہے۔۱۱؎ ۲۔آرنلڈ لیکن ایک پہلو سے وہ گورنمنٹ کالج کو کبھی نہیں بھولے اور یہ تھا آرنلڈ سے ان کا تلمذ۔ ان کا جب بھی ذکر کرتے بڑی محبت اور احترام سے کرتے۔ آرنلڈ۱۲؎ ایک نعمت تھی جو گورنمنٹ کالج میں انھیں میسر آئی۔ چنانچہ میر حسن کے بعد کسی دوسرے استاد نے ان کے ذوق علم کی پرورش کی تو آرنلڈ نے۔ آرنلڈ ۱۸۶۴ء میں پیدا ہوئے۔ کیمبر ج میں تعلیم پائی۔ ۱۸۸۷ء میں علی گڑھ آئے۔ سر سید کے بڑے قدر دان تھے۔انھی سے متاثر ہو کر اپنی مشہور کتاب دعوت اسلام تصنیف کی۔ ہندوستانی اسلامی لباس پہنتے ۔ جس میں ان کی تصویر بھی موجود ہے۔ کالج میں انھیں مولانا آرنلڈ کہا جاتا ۔ لاہور میں بھی لوگ انھیں ولی کہتے۔ حالی کہتے ہیں: مسیحی پوششیں دیکھیں مسلمانوں کے بچوں کی مسیحی کو مسلمانی قبا زیبِ بدن دیکھیں آرنلڈ نماز کے وقت مسجد کے دروازے میں کھڑے ہو جاتے۔ رمضان میں افطاری کی دعوتیں کرتے۔ ٹرسٹیوں نے ان کے اعزاز میں آرنلڈ ہائوس تعمیر کیا۔ ۱۸۹۲ء میں آرنلڈ شادی کر کے آئے تو ناظر نے خیر مقدم کرتے ہوئے ایک نظم پڑھی۔ آرنلڈ اب آ گئے لندن سے ہندوستان میں اک فرشتہ ساتھ لائے صورتِ انسان میں یونین۱۳؎ کا اجلاس ہوا تو ناظر نے کہا: جلوہ فرما اک طرف ہے آرنلڈ صدرِ اخوان الصفا شیخ زمن الفت اسلام اس کے دل میں ہے اور مسلمانی قبا زیب بدن آرنلڈ اسلامی علوم و معارف کے قدر دان تھے۔ صفِ اول کے مستشرق ، عالم اسلام کے ہمدرد ،مسلمانوں کے خیر خواہ، بے تعصب، رودار۔ علی گڑھ ہی میں مولاناشبلی نعمانی سے ان کے تعلقات قائم ہوئے۔ شبلی کے مذاق علم میں بھی آرنلڈ کی بدولت پختگی پیدا ہوئی۔ انجمن حمایت اسلام اور لاہور کے علمی ادبی حلقوں میں بڑی سر گرمی سے حصہ لیتے۔ ایرانی بالخصوص اسلامی اور مغلیہ مصغرات ۱۴؎ سے انھیں نے یورپ کو روشناس کرایا۔ آرنلڈ کی زندگی پاکیزہ تھی۔ بیگم آرنلڈ بھی ویسی ہی نیک سیرت۔ آرنلڈ کے شاگردوں نے ان کی عظیم شخصیت سے بڑا اثر قبول کیا۔ وہ بڑے منکسر المزاج اور شگفتہ طبع انسان تھے۔ جو ہر قابل کو پہچانتے۔ اس کی قدر کرتے، اسے نشوونما دیتے۔ لاہور انھیں کیسے بھول سکتا ہے۔ ۱۱فروری ۱۸۹۷ء کو جب آرنلڈ لاہور آئے، فلسفہ کے استاد مقرر ہوئے اور محمد اقبال بحیثیت طالب علم فلسفہ ان کے درس میں بیٹھے تو شاگرداور استاد روز بروز ایک دوسرے کے قریب ہوتے گئے۔ حتیٰ کہ ان میں دوستی کا رنگ پیدا ہو گیا۔ دونوں ایک دوسرے کے قائل ، ایک دوسرے کے معترف ۔ ایک ذروہ مینائے علم۱۵؎ دوسرا اس کی شمع کا پروانہ جس کے ذوق تحقیق اور تجسس کا یہ عالم کہ اساتذہ کو کہنا پڑا محمد اقبال ایسا شاگرد استاد کو محقق بنا دیتا ہے، محقق کو محقق تر۔ آرنلڈ کہتے ہیں اگرچہ اقبال میر ا شاگرد ہے لیکن میں اس کی تحریروں سے بہت کچھ سیکھتا ہوں۔ میں ان کا پروفیسر تھا…پڑھاتے پڑھاتے خود سیکھتا چلا گیا۔۱۶؎ آرنلڈ نے محمد اقبال کے لیے مغربی فلسفہ، مغربی علم و ادب اورتہذیب و تمدن کے خزانے کھول دیے۔ وہ مغرب سے شناسا ہوئے تو آرنلڈ کی بدولت۔ یوں میر حسن کے زیر تربیت اگر محمد اقبال نے مشرق بالخصوص اسلامی مشرق اور اسلام کی روح، ضمیر اور مزاج کو سمجھا تو آرنلڈ کے زیر تعلیم مغرب کے دل و دماغ کو۔ محمد اقبال کو آرنلڈ کی ذات میں ایک نہایت شفیق اور مہربان استاد ہی نہیں ملا، آرنلڈ ان کے بزرگ اور دوست بھی تھے۔ یہ آرنلڈ ہی کی توجہ اور کاوش تھی جس نے محمد اقبال کو دانش حاضر کی نزاکتوں اور گہرائیوں سے آگاہ کیا۔ ادھر شاگرد کی استاد سے عقیدت کا یہ عالم کہ ۲۶ فروری ۱۹۰۴ء کو جب آرنلڈ کو انگلستان طلب کر لیا گیا،انڈیا آفس لائبریری کے مہتم مقرر ہوئے، تو نالۂ فراق کے عنوان سے محمد اقبال نے جو نظم لکھی اس میں عین اس وقت جب ان کا ذرہ دل خورشید آشنا، ٹوٹا ہوا آئینہ عالم نما، نخل آرزو ہرا ہونے کو اور وہ خود بھی نہ جانے کیا سے کیا ہونے والے تھے۔۱۷؎ اس رشتۂ تلمذ کے دفعتاً انقطاع پر دلی قلق کا اظہار کیا۔ آرنلڈ انگلستان واپس چلے گئے۔ آرنلڈ گئے تو ان سے یک جائی کی آرزو شدت اختیا ر کرتی چلی گئی۔ چنانچہ اگلے ہی برس یعنی ستمبر ۱۹۰۵ء میں انھوں نے پنجاب کی زنجیر توڑ ڈالی اور انگلستان روانہ ہو گئے۔۱۸؎ آرنلڈ سے محمد اقبال کے تعلقات کی داستان طویل بھی ہے اور اہم بھی، لیکن افسوس ہے ہماری معلومات اس باب میں بغایت محدود ہیں ۔ بخیر اس کے کہ انگلستان میں ان سے ملاقاتوں کی طرف تھوڑے بہت اشارے مل جاتے ہیں۔ حالانکہ دوران تعلیم میں جب محمد اقبال کا قیام یورپ میں تھا، آرنلڈ سے طرح طرح کی گفتگوئیں ہوتیں، طرح طرح کے مسائل زیر بحث آتے۔ یوں بھی آرنلڈ کو اسلام اور عالم اسلام سے جو تعلق تھا انھیں ایک دوسرے سے تبادلۂ خیالات پر مجبور کردیتا۔ محمد اقبال کو دولت عثمانیہ ہی کا نہیں عرب و عجم کے سیاسی اجتماعی زوال کا بخوبی احساس تھا۔ بلاداسلامیہ کے ذہنی اور ملی احوال و شئون سے ان کی دلچسپی بڑھ رہی تھی۔ کم و بیش یہی کیفیت آرنلڈ ایسے دوسرے اہل علم مثلاً بلنٹ اور برائون ۱۹؎ کی تھی،گو اپنے اپنے نقطۂ نظر سے اسلامی علوم ومعارف اور تہذیب و تمدن کے مطالعے میں وہ اسلامی ممالک کی سیاحت کرتے۔ ان کے سیاسی اجتماعی کوائف ، مذہبی اور اخلاقی صورت حال پر قلم اٹھاتے، ارباب سیاست ان کی تحریروں کو بڑے شوق سے پڑھتے، ان کے قائم کردہ نتائج پر غور کرتے۔ یوں ان کے افکار و آراء کی قدر قیمت محض نجی اور علمی نہ رہتی۔ سیاسی اہمیت اختیار کر لیتی۔ دول مغرب کے دفاتر خارجہ میں ان کی تحریروں کا بالاستیعاب مطالعہ کیا جاتا۔ اسلامی ممالک سے ان کے سیاسی اجتماعی روابط حتیٰ کہ جیسا موقع ہوتا اور بہ لحاظ اس کے جوروش اختیار کی جاتی اس میں ان تحریروں کو بڑا دخل ہوتا۔ کیا اچھا ہو اگر محمد اقبال اور آرنلڈ کی ملاقاتوں، گفتگوئوں اور خط و کتابت کے بارے میں مزید تحقیق و تفحص سے کام لیا جائے۔ ہم اس باب میں تفصیلی معلومات حاصل کر سکیں تو بلاد اسلامیہ سے سلطنت برطانیہ کے تعلقات علی ہذا محمد اقبال کے افکار و خیالات کے بعض ایسے گوشے بھی جو ابھی تک پردۂ اخفا میں ہیں واضح طور پر سامنے ہوں گے۔ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کے ترجمے کا مسئلہ تھا۔ ۱۵ جولائی ۱۹۳۰ء کو میں دہلی سے لاہور پہنچا۔ گاڑی سے باہر پلیٹ فارم پر قدم رکھا تھا کہ نگاہیں اسٹیشن کی دیواروں پر سول ملٹری گزٹ کے پوسٹروں پر جم گئیں۔ پوسٹروں میں بڑے بڑے جلی حروف میں آرنلڈ کے انتقال کی خبر دیکھی تو ٹھٹک کر رہ گیا ۔ اسٹیشن سے میکلوڈ روڈ کا رُخ کیا، اس کوٹھی کا جو اس وقت بھی خستہ ہال تھی اب کھنڈر بن رہی ہے۔ علی بخش نے میرے آنے کی اطلاع کی۔ ناشتے کے بعد ترجمے کی بات شروع ہوئی۔ میں نے آرنلڈ کی وفات پر اظہار افسوس کیا۔ میرا خیال تھا انھیں اپنے شفیق اور محبوب استاد کے انتقال کا علم ہے۔ لیکن انھوں نے ابھی اخبار نہیں دیکھا تھا۔ اخبار دیکھتے بھی کم تھے۔ آرنلڈ کی وفات کا سُنا تو دل تھام کر رہ گئے۔ چند لمحے ماتھے پر ہاتھ رکھے، سر جھکائے خاموش بیٹھے رہے جیسے وہ زمانہ آنکھوں میں پھر رہا ہے جب آرنلڈ لاہور آئے محمد اقبال نے ان کی شاگردی اختیار کی۔ شاگرد اور استاد میں رشتۂ تلمذ کے ساتھ ساتھ محبت اور عقیدت کے تعلقات قائم ہوئے۔ پھر لندن اور کیمبرج کی صحبتیں اور گفتگوئیں ۔ تھوڑی دیر کے بعد سر اٹھایا اور ایک آہ بھر کر کہنے لگے: ’’افسوس اقبال اپنے استاد اور دوست سے محروم ہو گیا‘‘۔۲۰؎ آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ دیر تک یہ حالت رہی ۔ طبیعت سنبھلی تو علی بخش سے کہا: ’’کاغذ قلم لے آئو، لیڈی آرنلڈ کی خدمت میں تعزیت کا خط لکھنااور تار بھیجنا ہے۔‘‘ ۲۱؎ یہ تھا محمد اقبال کی استاد سے محبت اور عقیدت کا عالم۔ سہ پہر میں پھر باتوں باتوں میں آرنلڈ کا ذکر آ گیا۔ میں نے عرض کیا آرنلڈ عالم اسلامیہ کے ہمدرد تھے، دعوت اسلام، ایسی کتاب لکھی۔ انھیں اسلام کی صداقت کا اعتراف تھا۔ مسلمان کیوں نہیں ہو گئے؟ ہنس کر ، جیسے میری سادگی کا لطف اٹھا رہے ہوں، کہنے لگے: دنیامیں ایک چیز ہے وسیع المشربی، جس میں انسان اپنے عقیدے ، مسلک اور موقف پر قائم رہتے ہوئے بھی دوسرے مذاہب کی صداقت سے انکار نہیں کرتا۔ مجھے اس روش کی اخلاقی قدر و قیمت سے انکار نہیں کیونکہ اس کا ایک لازمی نتیجہ ہے تعصب اور تنگ نظری کا ازالہ ، انسانوں کے باہم قریب تر ہونے کی ایک صورت۔ لیکن اس قسم کی وسیع المشربی کی روح خالصاً انفرادی ہوتی ہے۔ معدودے چند افراد سے آگے نہیں بڑھتی ۔ عملاً افراد میں صلح و آشتی تو پید اہو جاتی ہے لیکن سیاسی اجتماعی اعتبار سے اتحاد انسانی کا کوئی پہلو نہیں نکلتا۔ یہ قوموں کے نزاع و جدل اور دکھ درد کا کوئی مداوا ہے، نہ ایک عالمگیر معاشرے کی تعمیر کا ذریعہ۔ آرنلڈ کی وسیع المشربی انھیں اسلام اور عالم اسلام کی ہمدردی پر مجبور کرتی، لیکن آرنلڈ انگریز تھے، مذہباً عیسائی، لہٰذا ریاست اور کلیسا کی تفریق کے قائل۔ سیاسی اعتبار سے ان کی وفاداری کا حق صرف انگلستان کو پہنچتا تھا۔ وہ چاہتے تھے انگلستان اور بلاداسلامیہ میں دوستانہ روابط قائم ہوں۔ سیاسی تلخیوں کی یاد مٹ جائے۔ دلوں میں کدورت باقی نہ رہے۔ میں نے کہا بالفاظ دیگر مسلمان سلطنتِ برطانیہ کی غلامی پر راضی ہو جائیں۔ فرمایا یونہی سمجھ لو۔ میں نے عرض کیا اندریں صورت اسلام اور عالم اسلام سے ان کی دلچسپی کی حقیقی علت کیا سیاسی نہیں تھی، سلطنت برطانیہ کے مفاد سے وابستہ ، یہ دوسری بات ہے کہ وہ اسلام پر قلم اٹھاتے تو بیشتر اس کے حق ہی میں لکھتے۔ عالم اسلام کے سیاسی اجتماعی کوائف پر نظر رکھتے ۔ کہنے لگے: جو چاہو کہہ لو! حقیقت بہر حال یہی ہے کہ وہ عیسائی تھے۔ دل سے اپنے ملک اور قوم کے بہی خواہ اور یہ وہ بات ہے جسے کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا۔ فرمایا: برائون بھی ایسے ہی شریف النفس انسان تھے۔ ایران کے لیے انھوں نے کیا کچھ نہیں کیا، لیکن وہی ریاست اور کلیسا کی تفریق، وہی وطنی اور نسلی قومیت کا فتنہ، سیاست اور اجتماع کی باطل اساس۔ اسلام پر بے جا اعتراضات۔ میں نے تاریخ ادبیات ایران پر تبصرہ نہیں کیا۔ میرا کہنا تھا اس تاریخ سے ایرانی قومیت کا احیا مقصود ہے اور ایرانی قومیت کا تصور امت کے سیاسی اور ملی تشخص کی نفی۔ بایں ہمہ محمد اقبال نے برائون کی تاریخ وفات کہی۔۲۲؎ یہ تھی ان کی وسیع المشربی، اسلامی رواداری۔ کہنا بہر حال یہ تھا کہ جس طرح محمد اقبال خوب سمجھتے تھے آرنلڈ جو کچھ لکھتے اور سوچتے مخلصانہ، بے تعصبی اور رواداری کے ساتھ، آرنلڈ بھی محمد اقبال کے جذبہ دینی، ایمان و یقین اور عالم اسلام کے لیے محبت اور ہمدردی سے بے خبر نہیں تھے۔ پھر اگر دونوں کا خیال تھا کہ بہترہو گا دولت برطانیہ اور عالم اسلام میں تصادم کی نوبت نہ آئے تو اس میں خرابی کی کوئی بات نہیں۔ یہ ہر اس شخص کی جو نوع انسانی کا خیر خواہ ہے خواہ اس کا مذہب کچھ بھی ہو، دلی آرزو ہو گی۔ آرنلڈ کی وفات پر ایک میموریل فنڈ قائم کیا گیا اور چندے کی اپیل کی گئی تو اس میں محمد اقبال ، عبدالقادر اور راس مسعود نے بھی حصہ لیا۔ ۱۹۷۲ء میں برمنگم مائونٹ پلیزنٹ کمیونٹی سنٹر ۲۳؎ میں یوم اقبال منایا گیا تو آرنلڈ کے نواسے ڈاکٹرلارنس بارفیلڈ استاد اثریات برمنگھم یورنیورسٹی نے ایک مقالہ پڑھا اور علاوہ اس خط کے جو محمد اقبال نے لیڈی آرنلڈ کی تعزیت کرتے ہوئے لکھا تھا، علی گڑھ اور لاہور کے زمانے کی کئی ایک تصویریں بھی دکھائیں۔ علی ہذ ا ان الوداعی خطبات کی نقل بھی جو ۱۹۰۴ء میں لاہور سے روانگی کے وقت آرنلڈ کی خدمت میں پیش کیے گئے۔۲۴؎ ڈاکٹر لارنس بارفیلڈ ،مس آرنلڈ کے شوہر ، محمد اقبال کا بڑی محبت اور عقیدت سے ذکر کرتے ہیں۔۲۵؎ مس آرنلڈ نینسی ہیں جن کے بارے میں محمد اقبال نے لکھا تھا ۔ خُدا آپ کو اورنینسی کو توفیق دے کہ اس صدمے کو صبر سے برداشت کر سکیں۔ آرنلڈ اور آرنلڈ کی ذات سے محمد اقبال کو جو عقیدت تھی وہ تو خیر ایک استثنیٰ ہے۔ گورنمنٹ کالج کے دوسرے اساتذہ کی بھی انھیں دل سے عزت تھی۔ لالہ جیارام تو استاذی قبلہ لالہ جیا رام تھے۔ لالہ جیا رام کو اُردو اور فارسی ادب سے دلی شغف تھا، محمد اقبال سے بڑا لگائو۔ ان کی ملکۂ سخن کے قدر داں۔ گورنمنٹ کالج میں طلباء کے ذوق ادب کی پرورش کے لیے ایک ادبی انجمن (اب مجلس اقبال) انھیں نے قائم کی۔ انھیں کی تحریک سے قرار پایا کہ ہر سال طلباء کالج میں جو بہترین اُردو نظم لکھے اسے انعام دیا جائے۔۲۶؎ مفتی محمد عبداللہ ٹونکی عربی میں ان کے استاد، شعر و شاعری کی محفلوں میں ان کے ہم جلیس، ان کے بزرگ ہر اعتبار سے واجب الاحترام ، مگر اس کے باوجود بے تکلف دوست بشرطیکہ لفظ دوستی میں تفاوت عمر کا لحاظ رکھ لیا جائے۔ ان کا ایک ملازم تھا ستار بجانے میں ماہر، محمد اقبال مفتی صاحب کے یہاں جاتے ستار سنتے۔ مفتی صاحب دبلے پتلے انسان تھے، بات کرتے تو منہ پر رومال رکھ لیتے علم و فضل کے پیکر۔ محمد اقبال کہتے یہ جان اور یہ عالم، دریا کوزے میں بند ہے۔ مفتی صاحب کو عربی ادب ، فقہ اور حدیث پر عبور حاصل تھا۔ کہتے لاہور میرا دوسرا وطن ہے لیکن ملازمت سے فارغ ہوئے تو ٹونک واپس چلے گئے۔ ان کے صاحبزادے مفتی انوارالحق جن کے توسط سے غالب کا نسخۂ ٔحمیدیہ مرتب ہوا اور جس پر انھوں نے ایک مقدمہ بھی لکھا بھوپال میں دیر تک نگران امور مذہبی پر رہے۔ انھیں بھی محمد اقبال سے دلی ارادت تھی۔ البتہ یہ کہنا مشکل ہے کہ محمد اقبال مولانا محمد حسین آزاد کی خدمت میں بھی کبھی حاضر ہوئے یا نہیں، غالباً نہیں اس لیے کہ یہ زمانہ مولانا کی دیوانگی اور وحشت کا تھا یا پھر ہمیں اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ لیکن آزاد شاید اس بات سے بے خبر نہیں تھے کہ ہالرائڈ کی تحریک پر انھوں نے مولانا حالی سے مل کر جس صنف نظم کی بنیاد ڈالی اسے اقبال ہی کے فکر و فن نے درجۂ کمال تک پہنچایا۔ ممکن ہے مولانا عالم ہوش میں محمد اقبال کی نظموں سے لطف اندوز ہوتے، ان کی تعریف کرتے ہوں۔ ڈبلیو بیل جن کا علم الاقتصاد کی تصنیف میں بڑا دخل ہے ان کے پرنسپل اور انگریزی کے استاد تھے۔ محمد اقبال لاہور آئے تو بیل شاید تھوڑے ہی دنوں میں طویل رخصت پر چلے گئے۔ واپس آئے تو ڈائریکٹر محکمہ تعلیمات مقرر ہوئے۔ ڈاکٹر ڈالنگر۲۷؎ ان کے جانشین تھے۔ ہرسٹ۲۸؎ تاریخ پڑھاتے۔ جی۔بی۔ او شر۲۹؎ فلسفہ کے استاد تھے لالہ جیا رام تاریخ اور فلسفہ کے، ڈاکٹر اسٹریٹن۳۰؎ پرنسپل اوریئنٹل کالج سے بھی محمد اقبال کے خصوصی روابط تھے۔ اسٹریٹن ۱۹۰۲ء میں کشمیر گئے تو گلمرگ میں اچانک ان کا انتقال ہو گیا۔ محمد اقبال کو دلی صدمہ ہوا۔ مسز اسٹریٹن سے تعزیت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’وہ تھے تو کینیڈین۳۱؎ لیکن ہم انھیں امریکی ہی سمجھتے تھے۔ یہ انھیں کی شخصیت تھی جس کے زیر اثر ہمارے دلوں میں اہل امریکہ کی شرافت اور بے غرضی کا احساس پیدا ہوا اور یہی وجہ ہے کہ ہم میں سے اکثر امریکن یونی ورسٹیوں میں داخلے کے خواہش مند ہیں۔ میرا شمار بھی انھیں میں کیجیے۔‘‘ ۳۲؎ چنانچہ ایک زمانے میں ان کا خیال تھا تعلیم کے لیے امریکہ کا رخ کریں لیکن یہ محض خیال ہی تھا۔ آرنلڈ کی محبت انھیں انگلستان کھینچ رہی تھی۔ ۳۔پروفیسر اقبال محمد اقبال نے ایم۔ اے کیا تو ایف۔ اے اور بی ۔ اے کے امتحانات میں عربی زبان میں غیر معمولی قابلیت کی بنا پر ان کا تقرر بحیثیت میکلوڈ عریبک ریڈر۳۳؎ اوریئنٹل کالج میں ہو گیا۔ تاریخ تقرر ۱۳ مئی ۱۸۹۹ء ہے۔ ریڈر سے مراد ہے ریسرچ سکالر جس میں (۱) عربی کتب نصاب کی طباعت کی نگرانی (۲) عربی، انگریزی کتابوں کا اُردو ترجمہ اور (۳) اوریئنٹل کالج میں درس و تدریس یہ سب باتیں ان کے فرائض میں شامل تھیں۔ نیز یہ کہ تاریخ ، سیاست مدن ، فلسفہ اور نفسیات اور منطق میں بی ۔او۔ ایل کی پہلی اور دوسری جماعتوں، علی ہذا انٹرمیڈیٹ سال اول اور سال دوم کو درس دیا کریں۔۳۴؎ معلوم ہوتا ہے اس تقرر میں آرنلڈ کی مساعی کو بڑا دخل تھا۔ وہ ڈاکٹراسٹائین۳۵؎ کے بعد نومبر ۱۸۹۹ء تک اوریئنٹل کالج کے عارضی پرنسپل رہے۔ علاوہ اس کے اوریئنٹل فیکلٹی کے ڈین۳۶؎ بھی تھے۔ ۱۹۰۲ میں ڈاکٹر اسٹریٹن کے انتقال پر پرنسپل مقرر ہوئے اور ۱۹ اپریل ۱۹۰۳ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ ان کی جگہ وولنر۷ ۳؎ نے لی۔ اوریئنٹل کالج میں محمد اقبال کا قیام ۳۱ مارچ ۱۹۰۴ ء تک رہا لیکن وقفوں کے ساتھ۔ یعنی ۱۳ مئی ۱۸۹۹ ء سے ۳۰ جون ۱۹۰۱ء ، پھر ۲ جولائی ۱۹۰۲ء سے ۲ اکتوبر ۱۹۰۲ء پھر ۲ مارچ ۱۹۰۳ء سے ۲ جون ۱۹۰۳ء تک۔ اس کے بعد یہاں ان کے تصنیفی یا تدریسی کام کی کوئی تفصیل نہیں ملتی۔ تا آنکہ ۱۹۰۴ء میں ان کا تعلق اوریئنٹل کالج سے منقطع ہو جاتا ہے۔ وقفوں کی صورت اس لیے پیش آئی کہ ۱۹۰۱ء میں محمد اقبال نے کالج سے بلا تنخواہ رخصت لی، اسلامیہ کالج چلے گئے۔ دوسری مرتبہ یعنی ۱۹۰۳ء میں گورنمنٹ کالج کے شعبۂ انگریزی میں بطور ایڈیشنل پروفیسر۳۸؎ کام کرنے لگے۔ چھ مہینے کے بعد ان کا تقرر بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ کالج میں ہو گیا۔ انگریزی اور فلسفہ پڑھانے لگے۔ ۱۹۰۵ء میں انھوں نے تین سال کی بلا تنخواہ تعلیمی رخصت لی اور انگلستان چلے گئے۔ گورنمنٹ کالج سے ان کا دوبارہ تعلق انگلستان سے واپسی پر قائم ہوا۔ اسلامیہ کالج میں محمد اقبال کی مدت ملازمت صرف چھ مہینے تھی، ۷ جنوری ۱۹۰۱ء تا ۳۰ جون ۱۹۰۱ئ۔ خلیفہ شجاع الدین کہتے ہیں:’’۱۸۹۹ء میں تھوڑے ہی دنوں بعد اقبال کے لیے انجمن سے وابستگی کا ایک اور موقعہ نکل آیا۔۳۹؎ شیخ عبدالقادر ان دنوں اخبار آبزرور۴۰؎ کے ایڈیٹر تھے۔ اسلامیہ کالج میں ادبیات اور انگریزی پڑھاتے۔ انھیں چند روز کی رخصت لینا پڑی تو ان کی جگہ اقبال مرحوم یہ فرائض سر انجام دینے لگے۔ میں ان دنوں ایف۔ اے کا طالب علم تھا۔ نصاب میں متلاشیان حق۱ ۴؎ کے نام سے ایک کتاب شامل تھی…عیسائی مصنف نے بعض اقوال کا موازنہ انجیل کی آیات سے کیا تھا۔ لیکن علامہ مرحوم نے کلام پاک کی…آیات سے ان اقوال کی تشریح کی۔ موازنہ کے دوران میں آپ یہ بھی ثابت کرتے جاتے تھے کہ قرآن کی آیات ان اقوال سے بدرجہابہتر ، بدرجہا افضل اور بہر نوع اکمل ہیں۔ اسلامیہ کالج کی چند روز ہ پروفیسری ہی نے آپ کے تبحر علمی کا سکہ بٹھا دیا۔‘‘ ۴۲؎ یہاں ضمناً یہ عرض کر دینا خالی از دلچسپی نہ ہو گا کہ ۱۹۱۸ء میں بھی محمد اقبال اسلامیہ کالج میں فلسفہ کا درس دیتے رہے۔ حضرت اکبر الٰہ آبادی کو لکھتے ہیں: ’’اسلامیہ کالج لاہور کے ڈاکٹر ہیگ ۴۳؎ چیچک کی بیماری سے انتقال کر گئے اور انجمن حمایت اسلام لاہور کے اصرار پر دو ماہ کے لیے کالج کی ایم۔ اے کی جماعت مجھے لینی پڑی۔ لڑکے شام کو ہر روز میرے مکان پر آ جاتے ہیں…لیکچر کیا ہوتا ہے انسان کی ذہنی مایوسیوں اور ناکامیوں کا افسانہ جسے عرف عام میں تاریخ فلسفہ کہتے ہیں۔ ابھی کل شام کو میں ان کو آپ کا یہ شعر سنا رہا تھا: میں طاقت ذہن غیر محدود جانتا تھا خبر نہیں تھی کہ ہوش مجھ کو ملا ہے تل کر نظر مجھے مل گئی ہے نپ کر سبحان اللہ کیا خوب کہا ہے ۔ جزاک اللہ بہر حال ان لیکچروں کے بہانے سے ان لڑکوں کے کان میں کوئی نہ کوئی مذہبی فکر ڈالنے کا موقعہ مل جاتا ہے۔ جان حاضر ہے مگر راہِ خدا ملتی نہیں اوریئنٹل کالج اور گورنمنٹ کالج کی ملازمت کے باوجود کہ ان کے علمی مشاغل کے لیے نہایت موزوں تھی، ۱۹۰۱ء میں محمد اقبال نے اسسٹنٹ کمشنری۴۴؎ کا امتحان دیا۔ شاید اس لیے کہ تحریک علی گڑھ کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ مسلمان سرکاری ملازمتوں کے حصول میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیں تا کہ ملک کے نظم و نسق میں ان کا عمل دخل بڑھے۔ ان ناانصافیوں کا ازالہ ہو سکے جو انھیں حکومت اور اہل وطن کے ہاتھوں برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ محمد اقبال امتحان میں کامیاب ہو گئے لیکن طبی معائنے میں ملازمت کے نا اہل قرار دیئے گئے ۔ کہا گیا ان کی ایک آنکھ کی بینائی کمزور ہے۔ ان کی ایک آنکھ کی بینائی فی الواقع کمزور تھی لیکن اس حد تک نہیں کہ ملازمت کے نااہل قرار دیئے جاتے۔ لہٰذا اسلامی اخباروں بالخصوص پیسہ اخبار اور پنجۂ فولاد نے اس فیصلے پر زبردست احتجاج کیا۔ لیکن اسلامی صحافت کی آواز اس وقت نہایت کمزور تھی، کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ معلوم ہوتا ہے محمد اقبال نے بمجبوری حالات ملازمت کی طرف قدم بڑھایا، لیکن حق یہ ہے کہ ملازمت سے انھیں دلی نفرت تھی۔ ضمناً یہ امر خالی از دلچسپی نہ ہو گا کہ سرکاری ملازمت کے لیے اس امتحان میں شمولیت کا علم ہمیں مولوی محبوب عالم کے احتجاج سے ہوا۔ وہ پیسہ اخبار میں برابر اس نا انصافی کی مذمت کرتے رہے۔ ۱۸۷۰ء میں لاہور لا اسکول۴۵؎ (اب یونیورسٹی لاء کالج) قائم ہوا۔ گورنمنٹ کالج کے طلباء کو اجازت تھی کہ ایم۔ اے کے ساتھ ساتھ قانون کا امتحان بھی دے سکیں۔ تعلیم کی تقسیم دو درجوں میں کی گئی تھی۔ ۱۸۹۹ء میں محمد اقبال نے درجۂ اول میں داخلہ لیا، امتحان میں بیٹھے لیکن ناکام رہے اور لطف کی بات یہ کہ نا کام بھی ہوئے تو فقہ۴۶؎ کے پرچے میں۔ ایم ۔ اے کے امتحان میں تیسرے درجے میں کامیابی کی وجہ بھی شاید یہی تھی دو امتحانوں کی تیاری۔ جون ۱۹۰۰ء میں انھوں نے چیف کورٹ پنجاب سے ابتدائی امتحان قانون میں بیٹھنے کی اجازت مانگی لیکن جسٹس چیڑ جی نے بر بنائے قواعد انکار کر دیا۔ قواعد کا تقاضا تھا کہ لا اسکول میں داخلہ لیں، شریک درس ہوں،۴۷؎ لیکن محمد اقبال ایسا نہ کر سکے۔ ۴۔علمی مشاغل اوریئنٹل کالج میں درس و تدریس کے علاوہ محمد اقبال نے جو تحقیقی کام کیا اس میں ایک تو ان کا وہ مضمون ہے جو ۱۹۰۰ء میں انڈین انٹی کیوری۴۸؎ بمبئی کے ۲۹ ویں شمارے میں شائع ہوا بعنوان اصول وہدت مطلقہ جیسا کہ جیلانی نے اس کی تشریح کی۔۴۹؎ ججیلانی نے (جیلی زیادہ صحیح ہے) انسان کامل کے تصور سے بھی بحث کی ہے اور یہی دراصل محمد اقبال کی اس موضوع سے دلچسپی کا باعث بنا جیسا کہ آگے چل کر نیٹشے سے اثر پذیری کے خلاف، نکلسن کے خیالات کی تردید میں انھوں نے لکھا۔ پروفیسر نکلسن نے بھی اپنی کتاب اسلامی تصوف کے مطالعے ۵۰؎ میں جیلی پر قلم اٹھایا ہے۔ محمد اقبال نے علاوہ اس اسٹب ۵۱؎ کی کتاب کا ملخص ترجمہ بھی کیا۔ اس نہج پر واکر کی کتاب سیاست مدن۵۲؎ کا اول الذکر کا تعلق انگلستان کی دستوری تاریخ سے ہے۔ واکر کی کتاب بی۔ اے کے نصاب میں شامل تھی۔ پھر یہی زمانہ ہے جب وہ آرنلڈ کی تحریک اور ٹیکسٹ بک کمیٹی کے ایما سے معاشیات میں اپنی کتاب علم الاقتصادتصنیف کر رہے تھے جیسا کہ کالج کی روئیداد ۱۹۰۱ء میں ۱۹۰۲ء میں اشارہ کیا گیا ہے۔۵۳؎ جنوری ۱۹۰۲ء میں پروفیسر محمد اقبال نے بچوں کی تعلیم و تربیت کے عنوان سے مخزن میں ایک مضمون لکھا اور وہ جو انگریزی میں مثل ہے کہ بچہ آدمی کا باپ ہے اس پر زور دیتے ہوئے کہا کہ قومی عروج کی جڑ چونکہ بچوں کی تعلیم ہے ، لہٰذا طریق تعلیم علمی اصولوں پر مبنی ہو تو تھوڑے ہی عرصے میں تمام تمدنی شکایات رفع ہو جائیں۔ صد ہا انسان جو بہائم کی سر زندگی بسر کرتے، خود غرضی اور بے جا خود داری سے کام لیتے ہیں۔ اچھے انسان بن سکتے ہیں۔ اس موضوع پر جس کی اہمیت مسلم ہے، محمدا قبال نے بچوں کی طبیعت اور ان کی نفسیات کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان میں ایک قسم کی اضطراری حرکت کا میلان ہوتا ہے جس سے بقول ایک مغربی مصنف کے تعلیم میں خاطر خواہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ پھر شاید اسی مصنف کے خیالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہتے میں کہ بچوں کو چیزوں کو غور سے دیکھنے اور چھونے میں لطف آتا ہے ۔ مگر ان کی توجہ ہر وقت بٹی رہتی ہے۔ وہ صورت سے زیادہ اس کے رنگ کو دیکھتے ہیں۔ بڑوں کی نقل کرتے ہیں۔ ان کی قوت متخیلہ البتہ بڑی نمایاں ہوتی ہے۔ ان سے انسانی ہمدردی کی علامات ظاہر ہوتی ہیں جن سے ان کی اخلاقی تربیت میں بڑا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ۔ الفاظ کو فوراً یاد کر لیتے اور یوں مادری زبان بلا تکلف سیکھ لیتے ہیں۔ ان کی قوت متمیزہ البتہ کمزور ہوتی ہے۔ بچوں میں اعصابی قوت کی ایک زائد مقدار ہوتی ہے ۔ اسے متعلم نہیں بلکہ ایک متحرک ہستی سمجھیے۔ ان کی ہر طفلانہ حرکت سے کوئی نہ کوئی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ شور سے راگ سکھایا جا سکتا ہے۔ چیزیں ادھر ادھر پھینکیں تو اینٹوں سے گھر بنانا سکھائیے بچے نچلے نہیں رہ سکتے۔ بچوں میں قوت استدلال بڑی کمزور ہوتی ہے۔ فہمید بھی نہیں ہوتی۔ مجرو تصورات قائم نہیں کر سکتے۔ مثلاً ہستی باری تعالیٰ کا تصور۔ انھیں کہانیاں سنائیے یوں ان کی قوت واہمہ کو نمودیجیے۔ استاد خیال رکھے کہ بچے مدرکات، تصورات اور تصدیقات میں ترقی کرتے چلے جائیں۔ پھر لکھتے ہیں طریق تعلیم وہی کامل ہو گا جو نفس ناطقہ کے تمام قویٰ کے لیے یکساں پرورش کا سامان مہیا کرے۔ ادراک،فکر،تحقیق ،تاثر، مشیت غرضیکہ نفس ناطقہ کی ہر قوت حرکت میں آنی چاہیے، کیونکہ کامل طریق تعلیم کا منشایہ ہے کہ نفس ناطقہ کی پوری پوشیدہ قوتیں کمال پذیر ہیں۔ نفس ناطقہ قویٰ کا مجموعہ نہیں ہے۔ بلکہ اپنی ذات میں ایک واحد غیر منقسم شے ہے ۔ اس میں ہر قوت کی نشوونما دوسری قوت کی نشوونما پر منحصر ہے۔ بچوں کی تعلیم سے محمد اقبال کی یہ دلچسپی اس امر کا ثبوت ہے کہ انھیں قوم کی آئندہ نسلوں کی تربیت کا کس قدر خیال تھا۔ چنانچہ اس مضمون کے آخر میں خود ہی لکھتے ہیں:’’معلم حقیقت میں قوم کے محافظ ہیں ۔ کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا انھیں کی قدرت میں ہے ۔ سب محنتوں سے اعلیٰ درجے کی محنت اور سب کارگزاریوں سے زیادہ بیش قیمت معلم کی کارگزاری ہے…بد قسمتی سے اس ملک میں اس مبارک پیشے کی وہ قدر نہیں جو ہونی چاہیے۔ تمام قسم کی اخلاقی،تمدنی اور دینوی نیکیوں کی کلید اس کے ہاتھ میں ہے۔ تعلیم یافتہ اصحاب کے لیے ضروری ہے کہ اپنے پیشے کے تقدس اور بزرگی کے لحاظ سے اپنے طریق تعلیم کو اعلیٰ درجے کے اصولوں پر قائم کریں…ان کے دم قدم کی بدولت علم کا ایک سچا عاشق پیدا ہو جائے گا۔ جس کی سر گرمی میں وہ سیاسی اور تمدنی سر سبزی مخفی ہے جس سے قومیں معراج کمال تک پہنچتی ہیں‘‘۔ غور فرمائیے محمد اقبال نے جن کو اس بات کا ذاتی تجربہ تھا کہ معلم کی شان فی الحقیقت کیا ہے اور جس کے میر حسن کے درس میں وہ کئی ایک مظاہر دیکھ چکے تھے کس خوبی سے اس امر پر زور دیا ہے کہ تعلیم سے نفس انسانی کی تربیت بطور ایک وحدت کے ہونی چاہیے۔ وہ اس کا رشتہ فرد اور قوم ہی سے نہیں جوڑتے۔ سیاست، معاش، مذہب،تہذیب و تمدن ،اخلاق اور معاشرت سے بھی۔ پھر یہ جو کچھ کہا ہے ایک ماہر تعلیم کی رعایت سے۔ تعلیم سے ان کی یہ دلچسپی ہمیشہ قائم رہی۔ تعلیم پر انھوں نے طرح طرح سے اظہار خیال کیا۔ تعلیم، معلمین، قدیم و جدید نظامات تعلیم سب پر نگاہ تنقید ڈالی۔ بڑے محکم اور صائب نظریات قائم کیے۔ وہ قوم کے نبض شناس تھے۔ خوب جانتے تھے فرد کی ذات کے کچھ معنی ہیں تو جب ہی کہ قوم سے وابستہ رہے۔ دراصل تعلیم سے ان کی یہ دلچسپی شروع ہی سے قائم ہو چکی تھی۔ خود ان کی تعلیم بھی اس نہج پر ہوئی تھی جس پر انھوں نے بار بار زور دیا۔ تحریک علی گڑھ کا تقاضا بھی در حقیقت یہی تھا کہ نوجوانان اسلام کی دلی اور دماغی قوتیں بیدار ہوں۔ ان کا نقطۂ نظر حقیقت پسندانہ ہو۔ علوم و فنون کی تحصیل میں اسلام کی صداقت اور حقانیت کا فہم پیدا کریں۔ یہی وجہ ہے کہ محمد اقبال کی ہمیشہ کوشش رہی کہ مسلمانوں کو جس تعلیم کی ضرورت ہے اس کا رخ صحت سے متعین ہوتا رہے۔ ایک دوسرے مضمون میں،جس کا عنوان ہے قومی زندگی،۵۴؎ محمداقبال نے ایک سچے ہندوستانی اور سچے مسلمان یا یوں کہیے ایک ہندی مسلمان کی حیثیت سے قومی زندگی پر قلم اٹھایا ہے۔ کہتے ہیں اب زمانہ تلوار کا نہیں ہے ، قلم کا ہے ۔ کسی زمانے میں قوموں کی قسمت کا فیصلہ تلوار سے ہوتا تھا ،اب دماغوں،تہذیبوں اور تمدنوں کی لڑائی ہے۔ وہ دن گئے جب انسان چاند سورج کی پرستش کرتا تھا، مظاہر فطرت سے ڈرتا تھا۔ اب انسان قوائے فطرت پر تصرف حاصل کر چکا اور کر رہا ہے ۔ علوم حیات نے طے کر دیا ہے کہ زندگی ایک لڑائی ہے۔ اس کی پستی جہد للحیات کی جنگ میں فیصلہ بقائے اصلح ہی کے حق میں ہے۔ کتنی قومیں اور تہذیبیں تھیں کہ مٹ گئیں ۔ یہی کچھ اب ہو رہا ہے۔ قومیں جب ہی زندہ ہستی ہیں کہ افراد اپنے مفادات پر مفاد قوم کو مقدم رکھیں۔ پھر یہ نیکی ہے جس میں ارتقائے انسانی کا راز مضمر ہے اور جس کا سبق ہمیں مذہب نے دیا ہے۔ یوں محمد اقبال کا ذہن اسلام کی طرف منتقل ہوا، اسلام سے نبوت کی طرف تو انھوں نے لکھا نبوت کی حقیقی وقعت عقلی دلائل اور براہین پر مبنی نہیں ہے بلکہ اس کا دار و مدار اس لاثانی مشاہدے پر ہے جو نبی کے غیر معمولی قویٰ کو حاصل ہوتا ہے اور جس کی بنا پر اس آواز میں وہ ربانی سطوت اور جبروت پیدا ہو جاتی ہے جس کے سامنے انسانی شوکت ہیچ محض ہے۔ یہ ہے نبوت جس کا اصلی راز سطحی خیال کے لوگوں نے نہیں سمجھا۔ پھر کہتے ہیں: اہل یونان غلامی کو تمدن کا جزو ضروری سمجھتے تھے۔ لیکن نبی عرب نے انسان کو فطری آزادی کی تعلیم دی۔ غلاموں اور آقائوں کے حقوق مساوی قرار دیئے۔ اس تمدنی انقلاب کی بنیاد رکھی جس کے نتائج کو دنیا اس وقت محسوس کر رہی ہے۔ عورتوں کو غلام تصور کیا جاتا تھا لیکن حکیم عرب نے عورتوں کے حقوق کے بارے میں ایسی ہی آزادی کی تعلیم دی۔ اسلام میں انسانی مساوات کے عملی نمونوں کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں: ہمیں چاہیے تاریخ سے سبق لیں۔ کتنی قومیں ہیں جو علمی اور تمدنی ترقی کی حسین وادی کے لیے قربان ہو گئیں۔ یونانی،رومی،مصری،افریقہ کے کشور کشا ایک ایک کر کے مٹ گئے۔ ان کی زبانیںان کے فلسفے بے کار ہو کر رہ گئے۔ سینکڑوں مذاہب دنیا میں پیدا ہوئے، آخر کار نیست و نابود ہو گئے۔ ایرانی اور وسط ایشیا کی قوموں کا حال مخدوش نظر آتا ہے۔ صرف چار قومیں باقی ہیں ہندو،چینی،یہودی اور پارسی۔ یہود کی داستان ایک درس عبرت ہے۔ پارسیوں کا کوئی مستقبل نہیں۔ یورپ کی بات اور ہے۔ یورپ دن رات ترقی کر رہا ہے۔ جاپانی کس تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اہل اٹلی بھی ان کی طرح زمانہ حال کی ترقی کا صحیح مفہوم سمجھ کر سیاسی تمدنی اصلاح میں کوشاں ہیں۔ یہود کے پاس حکومت نہیں لیکن یہ قوم زندہ ہے۔ دنیا کی بڑی بڑی سلطنتیں ان کی مقروض ہیں۔ پارسی بھی ہندوستان میں ساہو کاروں پر چھائے ہوئے ہیں۔ مگر ہندوستان کا معاملہ کس قدر افسوس ناک ہے۔ ہم ذرا ذرا سی چیز مثلاً دیا سلائی کے لیے بھی غیروں کے محتاج ہیں۔ ہمارا تمام مال باہر جا رہا ہے۔ نہ صنعت و حرفت ہے نہ تجارت۔ اس صورت حالات کا انجام کیا ہو گا؟ وہ ملک جو مصالح خام۵۵؎ کا ایک مخزن اور ذخیرہ ہے مصنوعات کے لیے دوسروں کا محتاج ہے ۔ کیوں نہ جاپانیوں کی طرح ہم بھی اپنے پائوں پر کھڑے ہو جائیں پھر کہتے ہیں: عقل خداداد بڑی چیز ہے۔ یہ ایک ایسی قوت ہے جس کی مدد سے ہم شرائط زندگی کو سمجھ سکتے ہیں ۔کیسا بھی انقلاب ہو اس کے لوازم پر غور کر سکتے ہیں ۔ قوانین قدرت کو معلوم کرتے،ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ترقی کا رخ متعین کر لیتے ہیں۔ آبادی کی افزائش کے ساتھ زمین کی پیداوار اور قدرتی اسباب کم ہو رہے ہیں ۔ یہ صورت اندیشہ ناک ہے۔ ہندوستانیوں سے ان کا ذہن مسلمانوں کی طر ف منتقل ہو جاتا ہے۔ ان کی نگاہیں شروع ہی سے اسلامی قومیت پر مرتکز تھیں۔ اسلام اور اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ تاریخ پر بھی گہری نظر رکھتے۔ قوموں کے عروج و زوال کو سمجھتے۔اٹلی اور جاپان کا ذکر کرتے ہوئے جب ہندوستان کی زبوں حالی پر کڑھتے ہیں تو نہیں بھولتے کہ ہندوستان میں مسلمان بھی بستے ہیں۔ مسلمانوں کی حالت اچھی نہیں ہے۔ ان کے بہت سے مسائل حل طلب ہیں،مثلاً پردے کا معاملہ ہے۔ تعداد ازدواج کا، شادی کی رسمیں ہیں،غیر ضروری مصارف ہیں، نام و نمود کی خواہش ہے ۔ یہ سب باتیں اصلاح طلب ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے اخلاق کی درستی محنت اور دیانت قومی ترقی کی شرط اوّل ہے۔ عورتوں کی تعلیم بھی ضروری ہے۔ پردے کے حل کا بھی کوئی ایسا مشکل مسئلہ نہیں،نہ تعداد ازدواج کا۔ شادی اور نکاح کی رسموں کا ازالہ ضروری ہے ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے: فانکوا ما طاب لکم۵۶؎ اس ارشاد کی حکمت کو سمجھ لیں تو یہ خرابیاں بآسانی دور ہو سکتی ہیں۔ میاں بیوی میں نزاع رہے گا نہ عورتیں اپنی مظلومی کاروناروئیں گی۔ نہ مردوں کو ان سے کوئی شکایت ہو گی۔ گھر میں امن اور چین ہو گا صدیوں کے انحطاط نے طرح طرح کے مسائل پیدا کر رکھے ہیں لیکن ہم نہیں سوچتے دین اسلام ہمیں دعوت فکر اور اجتہاد دیتا ہے۔ ہم ان مشکلات پر غالب آ سکتے ہیں ۔ یہ کیسے افسوس کی بات ہے کہ مسلمان عقل اور علم سے آنکھیں بند کیے حیات مسیح یا نا سخ و منسوخ کی بحثوں میں الجھے مسلمان کافروں کی فہرست میں روز افزوں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ اُمراء کی عشرت پسندی ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری بیوی کی تلاش میں لگی رہتی ہیں۔ بازار حُسن کے نازنینوں سے آنکھیں لڑائی جاتی ہیں۔ لکھنا،پڑھنا تو کہیں رہا عمر رفتہ کا اندوختہ بیہودہ رسموں کی نذر ہو رہا ہے ،مقدمے بازیاں ہیں، جائیداد کے جھگڑے، لڑکیاں تعلیم سے عاری، نوجوان جاہل ہیں، محنت سے جی چراتے، صنعت و حرفت سے گھبراتے ہیں ۔ دماغ شاہجہانی آمدنیاں قلیل ۔ کیسا نازک وقت ہے بایں ہمہ ہمارے فقہاء ، علماء اور حکماء کی کاوشوں میں ہمارے دکھ درد کا علاج موجود ہے۔ محمد اقبال کا دل درد قومی سے معمور ہے۔ لیکن وہ قوم کی زبوں حالی کو دیکھتے ہوئے اس کا علاج یورپ میں نہیں اسلام میں ڈھونڈتے ہیں۔ حضرت عمر فاروقؓ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور امام ابو حنیفہؒ کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔ محمد اقبال کے ذہن میں گویا ۱۹۰۴ء تو کیا شرو ع ہی سے اسلامی قومیت کے احیاء اور تقویت کا خیال موجزن تھا۔ وہ ایک خوش حال ہندوستان میں اہل وطن کے پہلو بہ پہلو بحیثیت ایک قوم مسلمانوں کی اصلاح اور ترقی کے آرزو مند تھے۔ انھیں شکایت تھی کہ ہندوستان دوسری قوموں سے سبق کیوں نہیں لیتا۔ ہندوستان تجارت اور صنعت و حرفت پر توجہ کرے، معیشت کو ترقی دے، مالی حالت سدھر جائے،علم و حکمت ، تہذیب و تمدن،اخلاق اور شائستگی میں آگے بڑھے۔ انھیں وطن کی زبوں حالی پر رنج ہوتا۔ ۱۸۵۷ء کے بعد وطن فی الواقعہ زبوں حال تھا۔ ہندوئوں سے بڑھ کر مسلمان۔ غور فرمائیے یہ نبوت، یہ اجتہاد، یہ تفقہ اور اسلامی معاشرہ کے مسائل مثلاً تعداد ازدواج، پردہ ،نکاح کی رسموں سے لے کر سیاسی معاشی اعتبار سے ہندوستان اور بالخصوص مسلمانوں کی زبوں حالی ان سب باتوں میں کیا مستقبل کا اقبال جھلک نہیں رہا ہے؟ جب حقیقت یہ ہے تو بجائے مغرب کے کسی سر چشمے یا کسی خارجی طبقہ کی بجائے ہم محمد اقبال کو اس کے ماضی میں، جس کی نوعیت سر تا سر علمی اور اسلامی ہے، تلاش کیوں نہیں کرتے؟ محمد اقبال کے دل میں تاثرات کا ہجوم ہے۔ کہتے ہیں میرے مافی الضمیر کا اندازہ ان سطروں سے نہیں ہو سکتا ۔ وہ اس بارے میں بہت کچھ کہنا چاہتے تھے مگر پھر یہ کہہ کر رک جاتے ہیں: از اشک مپرسید کہ در دل چہ خروش است این قطرہ ز دریا چہ خبر داشتہ باشد ۵۔علم الاقتصاد یہ امر کہ اُردو زبان میں معاشیات میں سب سے پہلی کتاب محمد اقبال کے قلم سے نکلی بڑا اہم ہے۔ اس لحاظ سے نہیں کہ سر سید نے بنارس میں سائینٹفک سو سائٹی کی بنیاد رکھتے ہوئے جدید علوم و فنون کو اُردو میں ڈھالنے کی جس مہم کا آغاز کیا تھا، علم الاقتصاد کی تصنیف اس کی ایک اہم کڑی ہے۔ بلکہ اس لحاظ سے بھی کہ محمد اقبال نے شعر اور فلسفہ سے فطری مناسبت اور اس میں شب و روز انہماک کے باوجود زندگی کے مادی اور معاشی حقائق کو جن کا رشتہ اخلاق اور مذہب کی طرح، فرد اور جماعت کی زندگی سے نہایت گہرا ہے نظر انداز نہیں کیا۔ ان کا ذہن ہمہ گیر تھا، نگاہیں حقیقت بیں۔ علم اقتصاد کا انداز بیان بڑا سلجھا ہوا، صاف اور سلیس ہے۔ زبان سر تا سر علمی۔ معاشیات میں اس وقت سے لے کر اب تک جو گراں قدر اضافے ہوئے، اندازِ بحث اور نقطۂ نظر جس طرح بدلا اور بدلتا چلا جا رہا ہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے علم الاقتصاد کی موجودہ اہمیت اگرچہ کہنے کو صرف تاریخی ہے لیکن ان سب باتوں کے باوجود محمد اقبال کی صحت فکر اور مضمون پر گرفت کے ساتھ ساتھ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ معاشیات کی حقیقی اہمیت اور بنیادی نوعیت پر زور دیتے ہوئے انھوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ان کی صحت آج بھی مسلم ہے، تو اس کی قدر و قیمت کا اقرار کرنا پڑتا ہے۔ محمد اقبال شاعر اور فلسفی تو تھے ہی، ایک حقیقت پسند انسان بھی ۔ یہ نہیں کہ جذبات کی شدت یا خیالات اور تصورات کی ایک خالی دنیا میں گم رہیں۔ ان کی شاعری اور فلسفہ کی جڑیں زندگی میں پیوست ہیں اور یہ وہ بات ہے جسے ان کے ناقدین اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ ان کی حقیقت پسندی اور بالغ نظری کا زبردست ثبوت ہے کہ اس زمانے میں ،جب لوگوں کو زیادہ تر دلچسپی مجرو تصورات اور نظری بحثوں سے تھی، محمد اقبال نے قوموں کی ہست وبود کے معاملے میں معاشیات کو فراموش نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ معاشیات سے ان کی دلچسپی ہمیشہ قائم رہی۔ قیام انگلستان میں بھی انھوں نے اس کا مطالعہ جاری رکھا۔ علم الاقتصاد کے ناقدین کو تعجب ہے کہ بادی النظر میں گو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے علم اقتصاد میں محمد اقبال نے مارشل اور تاسگ۵۷؎ کے نظریوں سے کام لیا ہے لیکن مارشل اور تاسگ کی تصنیفات علم الاقتصاد کی تصنیف سے بہت مؤخر ہیں۔ بہر حال محمد اقبال نے اس حقیقت کے پیش نظر کہ کسب رزق بالفاظ دیگر معاشی جدوجہد ایک امر ناگزیر ہے، لہٰذا افراد کو جماعت سے جو رشتہ ہے بسبب اس کے یہ جدو جہد کسی نہ کسی معاشی نظام کی شکل اختیار کر لیتی ہے، اس امر پر زور دیا کہ جو بھی معاشی نظام ہو اس میں دو باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ ایک انسانی فطرت کا کہ اگر اس کے خلاف کوئی قدم اٹھایا گیا تو اس کا رد عمل یقینی ہے ۔ اس کے نتائج کسی نہ کسی پہلو سے، سیاسی ہو ں یا اخلاقی یا کوئی اور ،زندگی کے لیے ناگوار ہوں گے۔ یوں دوسری بات جو محمد اقبال نے کہی ہے یہ کہ فطرت کسی ایسے معاشی نظام کو قبول نہیں کرے گی جس سے اس کی نفی ہو جائے جو از روئے نفسیات ایک قدرتی امر ہے اور اول الذکر ہی کا ایک پہلو۔ محمد اقبال کہتے ہیں معاشین کی نظر انسان کی دماغی ساخت پر ہونی چاہیے۔ان کا فرض ہے ان اسباب کی تحقیق کریں جن سے انسانی افعال متاثر ہوتے ہیں مثلاً قومی اور تمدنی رسومات، نئی نئی ضروریات، علیٰ ہذا وہ قوانین جن کا تعلق زمین سے ہے۔ ہمارا فرض ہے ایک نفسیات دان کی طرح ان حالات اور واقعات پر نظر رکھیں جن سے فرد اور جماعت کی زندگی مسلسل بدلتی رہتی ہے۔ اگر معاشیات کی بنا کسی ایسے نظریے پر ہے جس میں فطرت انسانی یا نفس انسانی کی کارفرمائی کا لحاظ نہیں رکھا گیا تو نا ممکن ہے اس سے خاطر خواہ نتائج مرتب ہوں۔ فرض کیجیے ہم کہتے ہیں انسان خود غرض ہے، یا یہ کہ انتہا پسند ہے۔ حالانکہ اس میں دونوں محرکات کام کرتے ہیں۔ وہ ایثار پسند ہے نہ خود غرض ۔ لیکن جس نظام معیشت میں اس حقیقت کا اظہار نہیں رکھا گیا۔ انسان کے اخلاق و عادات کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ مثلاً یہ نہیں سوچا گیا کہ ایک خوردہ فروش کے لیے اگرچہ ان قوانین سے انحراف نا ممکن ہے جن سے کاروبار ایک باقاعدہ اور معین شکل اختیار کرتا ہے مگر اس کی اخلاقی حس کمزور ہے، ایثار پسندی ہے، نہ اُصول پسندی، وہ خود غرض ہے تو ظاہر ہے اس سے کاروبار میں اختلال اور انتشار ہی پیدا ہو گا۔ بعینہ اگر ہم نے یہ سمجھ لیا کہ زندگی تمام تر معاشیات ہے، ہم اس کے ہر پہلو کی توجیہ معاشیات کے حوالے سے کرتے ہیں تو یوں بھی معاشرے کے لیے بڑے قبیح نتائج مرتب ہوں گے۔ مثلاً یہی کہ جس شخص کا مقصد محض کسب دولت ہے اسے کوئی اچھا نہیں سمجھتا ۔ پھر کہتے ہیں مذہب بھی اگر محض ایک اخلاقی اور روحانی ضابطہ ہے تو اس سے ہماری سیرت و کردار کا مسئلہ تو حال ہو جائے گا، معاشی اور مادی ترقی کا مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ لہٰذا بحیثیت مجموعی، زندگی کا مسئلہ بھی لایخل رہے گا۔ مذہب کے اس عام اور محدود تصور کے پیش نظر محمد اقبال کہتے ہیں: ’’مذہب بھی تاریخ انسانی کے سیل رواں میں بے انتہا مؤثر ثابت ہوتا لیکن اکتساب رزق کا دھندا بھی ہر وقت انسان کے ساتھ لگا رہتا ہے۔ انسان کے ظاہری اور باطنی قویٰ کو چپکے چپکے اپنے سانچے میں ڈھالتا رہتا ہے۔ غریبی قوائے انسانی پر بُرا اثر ڈالتی ہے۔ بسا اوقات اس کی روح کے مجلیٰ آئینے کو اس قدر زنگ آلود کر دیتی ہے کہ اخلاقی اور تمدنی لحاظ سے اس کا عدم وجود برابر ہو جاتا ہے۔‘‘ ۵۸؎ غریبی ام الخبائث ہے۔ غور فرمائیے محمد اقبال نے تاریخ کا سہارا لیتے ہوئے معاشیات کا سلسلہ کس خوبی سے مذہب اور اخلاق سے جوڑا ہے۔ یا بہتر ہو گا یوں کہیے اس حقیقت پر نظر رکھتے ہوئے کہ فطرت نے یہ رشتہ پہلے ہی سے جوڑ رکھا ہے اس امر پر زو ردیا کہ زندگی ایک وحدت ہے جس کے ہر پہلو کو دوسرے سے وہی تعلق ہے جو جز کوکل سے۔ یہ زندگی کی وحدت ہی تو ہے جس میں فرق آیا تو قوموں کی زندگی میں فتنہ و فساد کی راہیںکھل گئیں۔ دراصل قوموں کی زندگی میں صحت اخلاق اور صحت معاش دونوں کی اہمیت یکساں ہے ۔ وہ مذہب کی پابندی کریں یا کسی نظام اجتماع کی دونوں صورتوں میں کسی نہ کسی ضابطہ ٔ اخلاق کی تشکیل ضروری ہے۔ لیکن جس طرح ایک صحت مند معاشی نظام اخلاقی قدروں سے بے نیاز نہیں رہ سکتا ایسے ہی محض اخلاقی قدروں کے سہارے معاشی خرابیوں کا انسداد نا ممکن ہے۔ لہٰذا جب محمد اقبال مذہب کے سیل رواں کے ساتھ ساتھ اکتساب رزق کے دھندے کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو اس کا مطلب بجز اس کے کچھ نہیں کہ اخلاق کو معیشت یا معیشت کو اخلاق سے جو گہرا تعلق ہے اسے نظر انداز نہ کیا جائے۔ یا پھر اخلاق اور معاش کے عام اور رائج الوقت مگر محدود تصور کی بجائے ہم کسی ایسی بنیادی حقیقت پر نظر رکھیں جس کی بدولت ایک ایسا جامع اور ہمہ گیر اصول علم و عمل وضع ہو سکے جو معیشت اور اخلاق کے ساتھ ساتھ زندگی کے جملہ پہلوؤںکو اپنے اندر سمیٹ لے، اس کی وحدت قائم رکھے۔ اگر ایسا ہو تو زندگی کے جملہ تقاضے بدرجۂ احسن پورے ہوتے رہیں گے۔ خواہ اس اصول علم و عمل کو مذہب سے تعبیر کریں یا کسی اور نام سے۔ دولت سے مقصود بہر حال احتیاجات کی کفالت ہے۔ نظام تمدن وہی کامیاب ہے جس میں زندگی کے جملہ تقاضے ہم آہنگ ہوں۔بجز اس کے قوموں کے سود و بہبود کا اور کوئی راستہ ہی نہیں۔ دراصل ہم سے جو لغزش ہوتی ہے یہ کہ زندگی کے سارے عمل کو بطور ایک کل کے نہیں دیکھتے۔ اس کی وحدت کے فہم سے قاصر رہتے ہیں۔ اس پر جزواً جزواً نظر رکھتے ہیں۔ لیکن محمد اقبال نے معاش اور اخلاق کے بارے میں جس طرح اظہار خیال کیا ہے اس سے تو یہی متر شح ہوتا ہے کہ محمد اقبال نے مذہب کا رشتہ معاشیات سے نہیں جوڑا اس لیے کہ وہ اصلاً ایک ہی حقیقت ہے جسے ہم کبھی ایک نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں کبھی دوسرے سے۔ پھر جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ان میں ایک رشتہ قائم ہے تو سہولت بیان کے لیے تا کہ اس رشتے کی شکست سے جو نتائج مترتب ہوں ان کی وضاحت ہوتی رہے۔ ہم سمجھ لیں کوئی بنیادی حقیقت ہے جو یوں نظر انداز ہو رہی ہے۔ اندریں صورت نوع انسانی کی معاشی جدو جہد کے مطالعے میں جب کچھ اصول اور قوانین وضع ہوتے ہیں ہم انھیں ایک نظام معلومات کی شکل دیتے ہی معاشیات کو ایک علم سے تعبیر کرتے ہیں تو اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ معاش ہو، یا اخلاق تہذیب و تمدن کی اس جدو جہد میں جو بدو انسانیت سے جاری ہے ، ہماری نظر انسان پر ہونی چاہیے۔ انسان ہی اس کا مبتد ا اور منتہا ہے ۔ محمد اقبال کا دل درد انسانیت سے معمول ہے ۔ وہ نہیں چاہتے معاشیات کی بحث میں ہم انسان کو بھول جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب افلاس اور ناداری پر ان کا دل کڑھتا ہے تو وہ اس کا مداوا کسی وقتی تدبیر، یا افیون کی گولی سے نہیں کرتے، بلکہ کہتے ہیں دیکھ لیجئے زمانۂ حال کی تعلیم نے ارسطو کے برخلاف انسان کی جبلی آزادی پر زور دیا ہے۔ تفاوت مدارج قیام تمدن کی منافی ہے بلکہ طرح طرح کی خرابیوں کا سر چشمہ۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہر فرد مفلسی کے دکھ سے آزاد ہو جائے؟ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ گلی کوچوں میں چپکے چپکے کراہنے والوں کی دل خراش صدائیں ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جائیں؟ افلاس کا دل ہلا دینے والا نظارہ صفحۂ عالم سے حرف غلط کی طرح مٹ جائے؟ پھر اس کے جواب میں خود ہی کہتے اور ٹھیک کہتے ہیں کہ اس مسئلے کا حل صرف معاشیات میں نہیں ہے، اس میں اخلاق کو بھی گہرا دخل ہے۔ کیوں نہ معاشیات کی عمارت کسی ایسی اساس پر تعمیر کی جائے جس سے ان خرابیوں کی جڑ کٹتی رہے جو معاشی زندگی کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور تمدنی زندگی میں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔۵۹؎ غور کیجیے معاشیات کے اس بنیادی اور ایک لحاظ سے واحد مسئلے کے حل میں جہاں محمد اقبال نے انسانی مساوات کے لیے معاشی مساوات پر زور دیا ہے وہاں انسان کی زبوں حالی پر انھیں کیسا دکھ ہوتا ہے۔ وہ جب فساد اخلاق اور فساد تمدن کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو اس کا مطلب بجز اس کے اور کیا ہے کہ اخلاق اور تمدن کا بجائے خود تقاضا ہے کہ ایک صحت مند نظام معیشت قائم ہو۔ اس لیے کہ معیشت اخلاق اور تمدن ہی کا جزو لاینفک ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے اس کی مخصوص شکل۔ میں سمجھتا ہوں علم الاقتصادکے مقدمے میں جب محمد اقبال ان خیالات کا اظہار کر رہے تھے تو اس احساس کے ساتھ کہ معاشی زبوں حالی، افلاس اور ناداری میں نہ تو مصالح اخلاق کی حفاظت ممکن ہے، نہ مصالح تمدن کی شاید حضور رسالتمآب ا کا یہ ارشاد کاد الفقر ان یکون کفرا۶۰؎ ان کے ذہن میں ہو گا ۔ یہی وجہ ہے کہ آگے چل کر انھوں نے معاشیات کے باب میں جو نقطۂ نظر قائم کیا قرآن مجید ہی کی رہنمائی میں قائم کیا۔ یعنی اسلام کی بدولت نہ کہ کسی خارجی سر چشمے کے زیر اثر۔ بات یہ ہے کہ ان کے نزدیک انسان محض حیوان ناطق یا حیوان سیاسی یا حیوان معاشی نہیں ہے، انسان ہے۔ وہ کہتے ہیں اگر دولت ہمارے افضل ترین مقاصد کے حصول میں ساتھ نہیں دیتی تو اس کا فائدہ ؟ انسان کی زندگی کا مقصود کچھ او رہے۔ دولت، صحت تو اس مقصد کے حصول کے ذرائع ہیں۔ مقصود بالذات نہیں۔ جہاں تک عملاً کسی منصوبہ بندی کا تعلق ہے۔ محمد اقبال نے بجا طور پر اس امر کی صراحت کی ہے کہ معاشی ترقی کا راز قومی تعلیم میں مضمر ہے۔ تعلیم ہی سے دست کار کا ہنر اور فن، اس کی محنت اور کار کردگی اور ذہانت ترقی کرتی ہے ۔ اس کے اخلاق سنورتے ہیں۔ ہم ا س پر اعتماد کر سکتے ہیں۔ سہولت کار کے لیے وہ نئی نئی راہیں تلاش کر لیتا ہے۔ چنانچہ یہی وہ بات ہے جس پر آج کل معاشئین شمار واعداد کے حوالے سے زور دے رہے ہیں۔ محمد اقبال کی نظر آبادی پر بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں: آبادی میں اضافے اور ضروریات زندگی میں کمی کے ساتھ ساتھ کوئی نہ کوئی منصوبہ بندی ناگزیر ہو گی۔ ایسی منصوبہ بندی جس کا تعلق آبادی کی روک تھام اور اشیائے ضرورت کی بڑھتی ہوئی مانگ سے ہو تا کہ ایک میں اضافے اور دوسرے میں کمی کے باعث معاشرہ فتنہ و فساد اور انتشار سے محفوظ رہے۔ وہ کہتے ہیں تحدید اولاد میں بھی مذہباً اور اخلاقاً کوئی عیب نہیں بشرطیکہ ہم اس بارے میں کسی صحیح نہج پر قدم اٹھائیں۔ تعداد ازدواج کا بھی مناسب حل مل سکتا ہے۔ ان معاملات میں بھی ہمیں تعلیم کی ضرورت ہے۔ تعلیم ہی سے ہماری اخلاقی اور تمدنی حس کو تقویت پہنچتی ہے۔ اہل محنت کی کار کردگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس اضافے کی بدولت پیداوار بھی بڑھے گی۔۶۱؎ اہل محنت سے انھیں دلی ہمدردی ہے۔ وہ ان کی زبوں حالی پر نالاں ہیں۔ چاہتے ہیں انھیں آسودگی اور خوش حالی نصیب ہو۔ معاشرہ انھیں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے۔ ۶۲؎ شمس الدین حسن کے ناولٹ ’مزدور کی بیٹی‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’مجھے یقین ہے اس کی اشاعت سے عام لوگوں کو مزدور ں کی موجودہ حالت سے ہمدردی پیداہو گی۔ میں نے اسے محض افسانہ نویسی کے نقطہ نگاہ سے نہیں دیکھا۔ کئی مقامات پر میری آنکھیں پر آب ہو گئیں۔‘‘۶۳؎ محنت کش طبقے سے ان کی دل سوزی کا اظہار آگے چل کر خضرراہ اور زبور عجم میں ہو گا: بار بار اور طرح طرح سے ان کی حمایت میں قلم اٹھائیں گے۔ منصوبہ بندی کے سلسلے میں انھوں نے شخصی اور ذاتی تاثرات کے بارے میں بھی اپنی رائے ظاہر کی ہے۔ کہتے ہیں ابتداء میں تو شخصی اور ذاتی ملکیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ وسائل مشترک تھے آمدنی مشترک ۔ اب کہ شخصی اور ذاتی ملکیت نے ایک اصول کی حیثیت اختیار کر لی ہے تو کم از کم اتنا ہونا چاہیے کہ فرد اور جماعت کی ضروریات اور فلاح و بہبود کے پیش نظر زمین میں شخصی ملکیت کا سوال نہ پیدا کیا جائے۔ زمین کی ملکیت مشترکہ ہو۔ زمین کے بارے میں آگے چل کر محمد اقبال نے اپنے خیالات کا اظہار بڑی وضاحت سے کیا ہے۔۶۴؎ جہاں تک اہل محنت کا تعلق ہے ان کی رائے تھی کہ ان کی کوشش سے جو زائد دولت پیدا ہوتی ہے، اس پر اہل محنت ہی کا حق ہے۔ دولت پیدا بھی تو اہل محنت ہی کرتے ہیں۔ مہاجن ، یا کارخانہ دار، یا زمیندار نہیں کرتے۔ اقبال کا ذہن قدر زائد اہل محنت کے استحصال اور پیداوار میں منصوبہ بندی پر مرتکز ہے۔ بے منصوبہ پیدا وار ان کے نزدیک سر چشمۂ فساد ہے۔ آگے چل کر وہ ان خیالات کا اظہار زیادہ منضبط شکل میں کریں گے۔ علم الاقتصاد کی تصنیف میں محمد اقبال کی مسائل حیات سے گہری دلچسپی کا اظہار ہوتا ہے۔ وہ حصول معاش کے لیے قوموں کی مسلسل کشا کش، فرد اور جماعت کے مادی اور معاشی تقاضوں کے ایفا، سیاسی اجتماعی احوال و شئون میں تغیر و تبدل سے معاشرے کے لیے جو نتائج مترتب ہوتے ہیں ان کے فہم و ادراک میں بڑی ژرف نگاہی سے کام لیتے ہیں۔ یہ محمد اقبال کی حقیقت پسندی کا نا قابل انکار ثبوت ہے کہ ایسے عالمگیر اور محکم نظام معیشت کا تصور ہمیشہ ان کے ذہن میں جاگزیں رہا جو مصاف زندگی میں فرد کو تعمیر ذات اور معاشرے کے بہمہ وجوہ نشوونما میں ایک فعال اور کامیاب عنصر کا کام دے۔ چنانچہ علم الاقتصاد میں ان کا یہ احساس کہ افلاس سب سے بڑی لعنت ہے جو انسان کو انسان نہیں رہنے دیتی ہر کہیں نمایاں ہے۔ ہندوستان میں افلاس عام ہے۔ معاشی زبوں حالی کا یہ عالم ہے کہ ہم خریدتے ہی خریدتے ہیں، بیچتے کچھ نہیں۔ جب تک کوئی قوم معاشیات سے واقفیت پیدا نہیں کرتی، یہ نہیں جانتی معاشی عوامل کیا ہوتے ہیں، ان کے اصول و قوانین کیا ہیں، ترقی نہیں کر سکتی۔ ہمیں چاہیے یورپ کی تجارت پر نظر رکھیں۔ آزاد تجار ت معاشی دستبرد کا ذریعہ ہے۔۶۵؎ اسے بھی ہندوستان کی معاشی زبوں حالی میں بڑا دخل ہے۔ پھر کہتے ہیں: مسلمان مفلس بھی ہیں اور جاہل بھی۔ مسلمان جب تک معاشی اعتبار سے مضبوط نہیں ہوں گے تہذیب اور تمدن میں پیچھے رہیں گے۔ سیاسی اعتبار سے پست۔ ہندو اس نکتے کو خوب سمجھتے ہیں۔ انھوں نے سیدیشی تحریک شروع کی تو محمد اقبال نے اس کی حمایت میں لندن سے ایک خط لکھا۔ سوال یہ تھا کیا مسلمان اس تحریک میں حصہ لیں۔ اقبال نے کہاکیوں نہیں؟ سیاسی آزادی کے لیے معاشی حالات کی درستی ضروری ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے اس تحریک کو انگلستانی مصنوعات کے مقاطعے تک محدود نہ رکھیں۔ قومی منافرت، کوئی اچھی شے نہیں۔ بہتر ہو گا اس تحریک کو حالات اور ضروریات کا جائزہ لیتے ہوئے صحیح معاشی اصولوں پر جاری کیا جائے‘‘۔۶۶؎ یوں محمد اقبال نے مسلمانوں کو یہ نکتہ سمجھایا کہ معاشی ترقی سیاسی ترقی کی شرط ضروری ہے۔ اخلاقی ترقی بھی بجز ایک مضبوط معیشت کے ممکن نہیں ۔ انھیں چاہیے معیشت کے میدان میں محنت اور تن دہی ، دیانت اور حوصلے سے قدم رکھیں۔ معاشی اعتبار سے خود کفیل ہونے کی کوشش کریں۔ معاشی اعتبار سے وہی قوم ترقی کر سکتی اور دوسری قومو ں کی محتاجی سے نجات حاصل کر سکتی ہے جو اپنی ضروریات کے لیے اپنے ملکی وسائل پر قناعت کرے،۶۷؎ جیسا کہ آگے چل کر انھوں نے اصول قائم کیا: آنکہ از خاکِ تو روید مردِ حر آن فروش و آن بپوش و آن بخور۶۸؎ علم الاقتصاد کے دیباچے میں محمد اقبال نے جن سر چشموں سے فائدہ اٹھایا ان کا اعتراف بڑی فراخ دلی سے کیا ہے۔ وہ اپنے اساتذہ کا ذکر بڑے ادب اور احترام سے کرتے ہیں۔ آرنلڈ تو خیر ان کے مشفق ، مکرم و معظم اور محترم رہنما تھے، وہ استاذی جناب قبلہ لالہ جیا رام اور اپنے دوست اور ہم جماعت میاں فضل حسین کے بھی ممنون ہیں جنھوں نے بعض مسائل میں انھیں قیمتی مشورے دیے اور جن کے مجموعۂ کتب سے انھوں نے فائدہ بھی خوب خوب اٹھایا۔ ضمناً علم الاقتصاد کی بدولت انھیں علامہ شبلی نعمانیسے بھی شرف نیاز حاصل ہو گیا اگرچہ غائبانہ، لیکن ظاہر ہے آرنلڈ کے توسط سے۔ شبلی ہی کی توجہ سے کتاب کے بعض حصوں اور زبان کے بارے میں قابل قدر اصلاحیں کی گئیں۔ محمد اقبال نے علم الاقتصادکو بہ تشکر ڈبلیو بیل ڈائریکٹر محکمۂ تعلیم پنجاب کی خدمت میں جو مصنف کے استاد بھی رہ چکے تھے، پیش کیا بیل صاحب چاہتے تھے محمد اقبال ایک ایسی کتاب لکھیں۔ ۶۔مشاعرے محمد اقبال کے دوست، ادب پسند اور سخن فہم ہم جماعت زمانۂ طالب علمی ہی میں انھیں مشاعروں میں کھینچ لے جاتے جہاں محمد اقبال اپنا کلام سناتے۔ داد تحسین لیتے۔ شیخ عبدالقادر لکھتے ہیں:’’۱۹۰۱ء سے دو تین سال پہلے میں نے پہلی مرتبہ ایک مشاعرے میں دیکھا جہاں ان کے ہم جماعت انھیں کھینچ لے آئے تھے اور انھوں نے گا کر ایک نظم پڑھی۔ چھوٹی سی غزل تھی، سادہ سے الفاظ، زمین بھی مشکل نہیں تھی مگر کلام میں شوخی اور بے ساختہ پن موجود تھا۔ بہت پسند کی گئی۔ اس کے بعد دو تین مرتبہ پھر اسی مشاعرے میں انھوں نے غزلیں پڑھیں اور لوگوں کو معلوم ہوا کہ ایک ہونہار شاعر میدان میں آیا ہے‘‘۔ ۶۹؎ ۱۸۹۶ء میں ایسا ہی ایک مشاعرہ تھا جس میں انھوں نے وہ شعر پڑھا جس پر مرزا ارشد گورگانی نے انھیں گلے لگا لیا اور کہا اقبال یہ عمر اور یہ شعر: موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے یوں محمد اقبال کے ان سے نیازمندانہ تعلقات ہو گئے۔ زبان اور محاورے کے معاملے میں ان سے مشورہ لیتے۔ رفتہ رفتہ ان کی شہرت لاہور کے ادبی حلقوں میں پھیل گئی۔ ایک دوسری جگہ عبدالقادر لکھتے ہیں: اور یہ ۱۸۹۵ء کے آخریا ۱۸۹۶ء کے شروع کی بات ہے کہ لاہور میں ایک بزم مشاعرہ بازار حکیماں میں حکیم امین الدین مرحوم کے مکان پر ہوا کرتی تھی۔ ایک شب اس بزم میں ایک نوجوان طالب علم اپنے چند ہم عصروں کے ساتھ شریک ہوا۔ اس نے ایک سادہ سی غزل پڑھی: شعر کہنا نہیں اقبال کو آتا لیکن آپ کہتے ہیں سخنور تو سخنور ہی سہی اس ’سخنور ہی سی‘ کی بے ساختگی اور پڑھنے کے بے ساختہ انداز سے سخن فہم سمجھ گئے کہ اُردو شاعری کے افق پر ایک نیا ستارہ نمودار ہوا ہے۔ اس غزل میں ایک شعر اور تھا جس کی سامعین نے بہت داد دی اور تقاضا کیا کہ اقبال صاحب اگلے مشاعرے میں ضرور شامل ہوں۔ وہ شعر یہ تھا: خوب سوجھی ہے تہِ دام پھڑک جائوں گا میں چمن میں نہ رہوں گا تو مرے پر ہی سہی یہ اگلا مشاعرہ ۱۸۹۶ء کا تھا جس کا ذکر پہلے آ چکا ہے۔ ۱۸۷۴ء میں محمد حسین آزاد اور مولانا حالی نے کرنل ہالر ائیڈ ڈائریکٹر سرشتۂ، تعلیم پنجاب کے ایما سے ایک مشاعرے کی بنیاد ڈالی۔ مقصد تھا مغرب کی تقلید میں جدید شاعری کی ترویج یا دوسرے لفظوں میں کہ حضرات شعراء غزل کی فرسودہ اور زندگی سے بٹی ہوئی روش کو چھوڑ کر قومی اور اخلاقی مضامین پر قلم اٹھائیں۔ مناظر فطرت کی نقاشی کریں۔ یہ تقلید مغرب کا معاملہ یوں تو اچھا تھا کہ اُردو شاعری غزل کے تنگ ناکے سے نکل کر زندگی کی وسعتوں میں قدم رکھے مگر اس میں ایک سیاسی یا ثقافتی غرض بھی شامل تھی اور وہ یہ کہ شعرا ء کے دل و دماغ بدلے، ماضی سے ان کا رشتہ کٹ جائے۔اگر ایسا ہوتا تو مسلمانوں کی ثقافتی موت واقع ہو جاتی۔ حالی اور آزاد نے اگرچہ اپنے قومی تشخص میں فرق نہ آنے دیا لیکن انھوں نے اس تحریک کے زیر اثر جو نظمیں لکھیں ان کے موضوع محض اخلاقی اور وقتی تھے۔ رہا یہ امر کہ اُردو غزل کے ساتھ اور اُردو نظم کو بھی فروغ ہو، وطن سے محبت اور وابستگی اور مناظر فطرت سے لطف اندوزی کے ساتھ ساتھ حقائق حیات کی ترجمانی ہوتی رہے،شاعری تہذیب و ثقافت کی زبان بن جائے، قومی بیداری اور دل و دماغ میں وسعت پیدا کرے محمد اقبال ہی کی نظموں سے تکمیل کو پہنچا۔ اس مشاعرے کے تھوڑے ہی دنوں کے بعد انجمن اتحاد کے نام سے ایک ادبی مجلس قائم ہوئی۔ بازار حکیماں میں حکیم امین الدین بیرسٹر کے یہاں شعر و شاعری کی محفل گرم ہوتی۔ شعراء کا کلام ایک ادبی ماہ نامے شور محشر میں، جس کی ادارت خان احمد حسین خان کے ہاتھ میں تھی، شائع ہوتا۔ مولانا فیض الحسن سہارن پوری، میر ناظر حسین ناظم لکھنوی اور مرزا ارشد گورگانی اس مجلس کے روح رواں تھے۔ مولانا اور میر صاحب کی بدولت مشاعروں میں میر و مرزا کی سی چپقلش کا رنگ پیدا ہو جاتا۔ بقول حکیم احمد شجاع’’جب تک یہ رنگ جاری رہا شور محشر قیامت برپا کرتا رہا۔‘‘۷۰؎ حکیم احمد شجاع حکیم محمد شجاع الدین کے صاحبزادے مشہور ادیب اور ڈراما نگارنے ’’لاہور کا چیلسی‘‘ کے عنوان سے نقوش میں جو طویل مضمون لکھا ہے اس میں بڑی تفصیل سے اندرون بھاٹی دروازہ میں بازاروں، گلیوں اور محلوں کا نقشہ سا کھینچتے ہوئے بتایا ہے کہ ۱۹ ویں صدی کے آخر اور ۲۰ ویں صدی کے آغاز میں یہ علاقہ، آئیے اسے بھاٹی دروازہ کہہ لیں، ارباب علم و ہنر اور روسائے شہر کا مرجع و مسکن تھا۔ محمد اقبال محلہ جلوٹیاں میں رہتے ۔ ان کے پاس ہی عبدالقادر محلہ موتی ٹبہ میں، شیش محل میں احمد حسین خان، کوچہ پٹرنگاں میں مولانا اصغر علی روحی ،مولانا فیض الحسن سہارنپوری، مولوی عبدالحکیم کلانوری بھی بھاٹی دروازے کے اندر ہی مقیم تھے مفتی عبداللہ ٹونکی بازار حکیماں میں۔ نائیوں کی گلی میں شیخ گلاب دین۔ نور محلے میں سید محمد شاہ وکیل، شیش محل سے آگے رائے بہادر میلا رام کی عالی شان حویلی تھی۔ میلا رام اور رام سرن داس ہندو، مسلمانوں اور سکھوں کے تیوہار بھاٹی دروازے سے باہر لال کوٹھی میں مناتے، ہندو ، مسلمان ، سکھ رئوسا راجہ نریند ر ناتھ ، دیا کوشن کول، سندر سنگھ مجیٹھیہ اور سردار جگندر سنگھ کے علاوہ شعرائ، ادیب اور نامور و کلاء جمع ہوتے ۔بڑی رونق کی محفلیں جمتیں، علم و ادب کے جوہر کھلتے۔ موتی بٹہ کے قریب ہی خلیفہ نظام الدین کا قیام تھا۔ شیخ سدو کے پاس محلہ کاغذیان میں میر ناظر حسین کاظم کا۔ قریب ہی کوچہ فقر غازی میں حسین بخش پہلوان کا جن سے ہر کوئی خوف کھاتا۔ مولوی احمددین تحصیل بازار کی وان والی گلی میں رہتے، ان سے ذرا آگے’ بھابڑوں کی تھڑیاں‘ ۷۱؎ میں خواجہ رحیم بخش ، خواجہ کریم بخش اورخواجہ امیر بخش۔ مولوی محبوب عالم نے بھی گوجرانوالہ سے آکر بھاٹی دروازے ہی میں پناہ لی۔ سرشہاب الدین بازار جج محمد لطیف میں رہتے تھے۔ مولانا محمد حسین آزاد بھی دہلی سے آئے تو بھاٹی دروازے کے اندر ہی مقیم ہو گئے۔ مرزا ارشد گورگانی البتہ بھاٹی دروازے سے ٹبی ہوتے ہوئے ، جہاں سکھوں کے زمانے میں عمائدین سلطنت کی حویلیاں تھیںمگر جو بعد میں طوائف خانہ بن گیا۔ پاس ہی مسجد نعمانیہ تھی۔ اس پر مولانا عبداللہ ٹونکی نے مرزا غالب کی زبان میں کہا : ’’مسجد کے زیرسایہ خرابات چاہیے‘‘۔فقیر سید عزیز الدین بازار شیخوپوریاں کٹری میں رہتے۔ حکیم صاحب کہتے ہیں؛ اب تک صرف ان بزرگوں کاذکر آیا ہے جو بازارِ حکیماں کی محفلوں میں شریک ہوتے اورجن سے محمد اقبال کے قریبی روابط اور دوستانہ مراسم تھے۔ لیکن بازار حکیماں میں فقیر خانہ ہی کی بدولت جو دراصل لاہور کی علمی اور ادبی محفلوں کا مرکز تھا، بھاٹی دروازے کی عظمت قائم تھی ۔ فقیر خانہ یعنی بازار بھاٹی دروازے کے شمالی حصے میں فقیر سید نور الدین اور فقیر سید عزیز الدین کی حویلیوں کے علاوہ اس خاندان کی، جنھوں نے اپنے بزرگوں کا نام روشن کیااورجوسکھ عہد میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز درباریوں میں شامل تھے بلکہ سکھ حکومت کی تقویت اور استحکام کاذریعہ بنے، متعدد حویلیاں موجود ہیں۔ بازارحکیماں موتی ٹبہ سے لے کر تحصیل بازار تک چلا گیاہے۔ اس کی بنا حکیم خاندان کے جد امجد حکیم عبداللہ انصاری نے رکھی۔ وہ قاضی القضاۃ ہنداورکشمیر کے صوبیدار بھی تھے، علاوہ ازیں بہت بڑے طبیب۔ یہ پنجاب میں مغل حکومت کا آخری زمانہ تھا۔ حکیم صاحب کے مضمون سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو اور سکھ بھی اردو ادب کے فروغ میں مخلصانہ حصہ لے رہے تھے۔ اردو گویا ہندوستان کی قومی زبان بن رہی تھی جس میں مخزن کا کردار اردو ادب کی تاریخ کا ایک نہایت ہی اہم اور زرین باب ہے۔ حکیم صاحب نے بازار حکیماں کی محفلوں اور محمد اقبال کے فقیر اور حکیم خاندان کے بزرگوں سے تعلقات اوران کی محفلوں میں شرکت کے حالات ایک گونہ تفصیل سے بیان کیے ہیں، بالخصوص فقیر نجم الدین، حکیم شہباز الدین، حکیم شجاع الدین محمد، حکیم احمد شجاع کے والد ماجداور حکیم امین الدین بیرسٹرایٹ لاء سے۔ حکیم امین الدین کا انتقال ۱۹۲۲ء میں ہوا۔ بازار حکیماں کی محفل اجڑ گئی۔ محمد اقبال انار کلی سے میکلورڈ روڈ منتقل ہو گیٔ مگرجب اپنے احباب شیخ گلاب دین یا مولوی احمد دین کے ہاں جاتے اور ادھر سے گزر ہوتا تو پرانی صحبتوں کی یاد تازہ ہو جاتی۔ ۱۸۹۶ء میں حکیم شجاع الدین محمد کاانتقال ہوگیا۔ وہ بڑے صاحب ذوق اور فلسفی مزاج بزرگ تھے، ادیب اور طبیب بھی۔ ان کے بعد حکیم امین الدین بیرسٹر نے انجمن کو سنبھالا۔ انھیں بھی علم و فضل سے بہرہ وافر ملا تھا۔ مگران کی قانونی سرگرمیاں انھیں پشاور لے گئیں۔ مشاعرے بند ہو گئے اورمشاعروں کے ساتھ شور محشر بھی۔ حکیم شہباز الدین کا دیوان خانہ البتہ شائقین علم و ادب کامرجع و مرکز بنا رہا۔ حکیم صاحب سے مشاعروں کااہتمام تو نہیں ہوسکا، البتہ ان کے دیوان خانے میں ہرروز شعروشاعری کی محفل جمتی۔ بازارحکیماں کی یہی محفلیں ہیں جن کی بنا پر یہ بازار بقول حکیم احمد شجاع لاہور کا چیلسی بن گیا۔۷۲؎ چنانچہ یہی ’’چیلسی‘‘ ہے جس میں محمداقبال کا ۱۸۹۵ء میں گزرہوا اورجہاں رفتہ رفتہ ان حضرات سے جو ان دنوں لاہور کا دل و دماغ تھے، ان کے روابط قائم ہوتے گئے۔ حکیم احمدشجاع لکھتے ہیں : ۳۰ نومبر ۱۸۹۵ء کوحکیم امین الدین بیرسٹر کے عالیشان مکان پرشام کے چھ بجے ایک مشاعرے کا اہتمام ہوا۔ حکیم شجاع الدین مہتمم مشاعرہ تھے۔ شرکاء میں نواب غلام محبوب سبحانی، ارشد گورگانی، محبوب عالم نثار علی شہرت، مولوی احمد دین ، لالہ دھنپت رائے، میر ناظر حسین ، شیخ دانشمند سقراط، حکیم شہبازالدین، شہزادہ محمد علی، فقیر سید افتخار الدین، خلیفہ نظام الدین حکیم امین الدین، احمد حسین خان، لالہ موہن لال نائب معتمد مشاعرہ، لالہ منوہر لال، سردار گنڈا سنگھ، الالہ و لباغ رائے کے نام بالخصوص قابل ذکر ہیں۔ اسی مشاعرے میں محمد اقبال نے وہ غزل پڑھی جس کا ذکر عبدالقادر نے کیا ہے: آپ کہتے ہیں سخنور تو سخن ور ہی سہی احمد شجاع لکھتے ہیں کہ یہ اس بڑے مشاعرہ کادوسرا دور تھا جس میں اقبال نے اپنی وہ غزل پڑھی جس میں نسیم اور تشنہ کی طرح داغ کی شاگردی پر فخر کا اظہار کیا ہے۔ یہ غزل شور محشربابت دسمبر ۱۸۹۵ء میں شائع ہوئی بعنوان جناب شیخ محمد اقبال صاحب اقبال تلمیذ فصیح الملک حضرت داغ دہلوی ، یاد رکھنا چاہیے۔ محمد اقبال اس زمانے میں بی۔ اے سال سوم کے طالب علم تھے اور اگر ۱۸۷۷ء سنہ ولادت ہے توان کی عمر اس وقت ۱۷ سال سے زیادہ نہیں تھی ۔ ان میں رؤسا ئے شہر بھی تھے۔ ارباب علم و ہنر، شاعر اور سخن ور بھی۔ کچھ ان کے بزرگ، کچھ ہم عصر ، کچھ ہم جلیس ، ہمدم اور قدردان کچھ دوست، شب و روز کے رفیق۔ ۱۸۹۷ء میں نواب غلام محبوب سبحانی رئیس لاہور کی سرپرستی میں انجمن اتحاد کا پھر سے احیاہوا۔ خان احمد حسین خان حسب معمول مشاعروں کا اہتمام کرتے۔ نواب صاحب کے اصطبل میں لوہاری یا بھاٹی دروازے کے باہر محفل جمتی۔ نواب صاحب لیلائے سخن کے دیوانے تھے۔ خودبھی فارسی میں شعر کہتے۔ مگرپھر ایساہوا کہ انجمن دو حصوں میں بٹ گئی۔ انجمن اتحاد تو انجمن اتحاد ہی رہی دوسری کا نام بزم قیصری ہوا۔ ۱۹۰۲ء میں انجمن اتحاد پھر زندہ ہوگئی اورنواب صاحب کے ایما سے آرنلڈ اس کے صدر منتخب ہوئے۔ احمد حسین خان بدستور سرگرمی سے کام کرنے لگے وہ گویا اس بزم کے معتمد اعزازی تھے ۔ اب انجمن نے ایک ادبی یا ’’لٹریری سوسائٹی ‘‘کا رنگ اختیار کرلیا جس میں غزلوں اورنظموں کے علاوہ علمی مضامین بھی پڑھے جاتے۔ لاہور کے ممتاز اہل علم اور سربر آوردہ حضرات شریک ہوتے۔ مثلاًمسٹر مدن لال بیرسٹر وہ اس ادبی مجلس کے صدر تھے، لالہ ہرکشن لال، جسٹس شاہ دین، پروفیسر محمد اقبال، سر عبدالقادر، سر شہاب الدین، سرشادی لال، احمد حسین خان کی ادارت میں جو اس مجلس کے معتمد اعزازی تھے۔ رسالہ سخن جاری کیا گیا۔ مرزا ارشد گورگانی اور میر ناظر حسین ناظر کے علاوہ فوق جالب، احسن مارہروی، آغاشاعر دہلوی، راج نارائن ارمان، وجاہت حسن جھنجھانوی، میر نیرنگ، اللہ بخش رفیق، عبدالمجید ازل، تارا چند تارا، بہاری لال شفق، اکبر علی حامی نثار علی شہرت اور رافت یا راحت؟ کی بدولت اہل قلم اور اہل سخن کا ایک حلقہ قائم ہوگیا۔ معلوم ہوتا ہے انھیں دنوں میں حضرت داغ لاہور آئے۔ تاراچند تارا حلوہ سوہن فروش سے ان کے خاص مراسم تھے۔ محمد اقبال ان سے ملے ہوں گے۔ تارا کے استاد رفیق تمباکو نوشی کرتے، لیکن ذوق سخن نے سب کو ایک رشتے میں جکڑ رکھا تھا۔۷۳؎ محمداقبال روز بروز اس حلقے میں ابھر رہے، اپنا ایک جداگانہ مقام پیدا کر رہے تھے۔ بازار حکیماں کی صحبتوں اورمحفلوں میں محمد اقبال کے ذوق شعر کو جہاں بیش از پیش تحریک ہوئی وہاں اپنے جوہر خداداد اورکمال فن کے اظہار کا انھیں ایک اور موقعہ مل گیا۔ ’ہمالہ‘ ایسی نظم انھوں نے اسی مجلس میں پڑھی۔ یوں مشاعروں میں ان کا رنگ جما تو علمی ادبی جرائد اور انجمنوں کی طرف سے فرمائشوں کی بھرمار ہونے لگی۔ شروع شروع میں وہ اپنا کلام تحت اللفظ سناتے۔ ایک مرتبہ دوستوں کے اصرار پر ترنم سے ایک غزل پڑھی۔ ان کی آواز قدرتاًبلند اورخوش آئند ہے۔ طرز ترنم سے بھی خاصے واقف ہیں۔ ایسا سماں بندھا کہ سکوت کا عالم چھا گیا اور لوگ جھومنے لگے۔ اس کے دو نتیجے ہوئے ایک تو یہ کہ ان کے لیے تحت اللفظ پڑھنا مشکل ہوگیا۔ جب کبھی پڑھتے لوگ اصرار کرتے کہ لے سے پڑھا جائے۔ دوسرا یہ کہ پہلے تو خواص ہی ان کے کلام کے قدردان اوراسے سمجھ سکتے تھے، اس کشش کے سبب عوام بھی کھنچ آئے… انجمن حمایت اسلام میں جب اقبال کی نظم پڑھی جاتی ہے تو دس دس ہزار آدمی ایک وقت میں جمع ہو جاتے ہیں اور جب تک نظم پڑھی جاتی ہے لوگ دم بخود بیٹھے رہتے ہیں۔ جو سمجھتے ہیںوہ بھی محو اور جو نہیں سمجھتے وہ بھی محو ہوتے ہیں۔۷۴؎ رفتہ رفتہ مشاعروں میں لے سے پڑھنے کا رواج عام ہوگیا۔ شعرانے ان کا طرز ترنم اڑایا۔۷۵؎ مرزاارشد گورگانی نے مزاحاًکہا: نظم اقبالی نے ہر ایک کو گوّیا کر دیا لیکن یورپ سے واپسی کے بعد بہ سبب اس انقلاب کے جو ان کی طبیعت میں پیداہو چکا تھا۔ وہ شاذہی مشاعروں میں شرکت کرتے تاآنکہ مشاعرے تو کیا شعر و سخن کی محفلوں میں بھی آنا جانا ترک کر دیا۔ ورنہ شروع شروع میں جب ایک نو خیز شاعر کی حیثیت سے مشاعروں میں شریک ہوتے تو، جیسا کہ قاعدہ ہے، داد سخن لیتے دادسخن دیتے۔ چنانچہ اس ابتدائی زمانے کی ایک غزل کا مقطع ہے: ارشد و راحت سے ہوں اقبال میں خواہانِ داد آبداری میں ہیں یہ اشعار گوہر کاجواب ارشد کا اشارہ تو ظاہر ہے مرزا عبدالغنی ارشد گورکانی کی طرف ہے، راحت کا یقینا رافت کی طرف ۔۷۶؎ کیااس شعر کی داد بھی ملی جب کہا میں نے کرو گے قتل کیونکر تم مجھے مار کر تلوار بولے یہ ہے کیوں کر کا جواب ۱۹۰۸ء میں البتہ جب مولانا ظفر علی خاں کے زیر اہتمام انجمن سخن قائم ہوئی اور ظہیر رضوی کی وفات پرایک جلسہ کیا گیاتو اس کی صدارت محمد اقبال نے کی اوراپنا کلام بھی سنایاشاید لے سے۔ انجمن سخن ہی کی جانب سے مولانا ظفر علی خاں کی کوششوں سے موچی دروازہ کے باہر وہ جلسہ منعقد ہواجس میں محمد اقبال نے اپنی مشہور نظم ’جواب شکوہ‘ پڑھی۔ لیکن اس ایک جلسے کے علاوہ یہ صرف انجمن حمایت اسلام تھی جس میں قریباًقریباًہر سال وہ اپنا کلام سناتے بیشتر لے سے۔ چنانچہ ۱۹۱۷ء اور ۱۹۱۸ء میں وہ نظمیں جو یورپ کی جنگ عظیم کے دوران یا خاتمے پر لکھی گئیں ترنم سے پڑھی گئیں۔ بات یہ ہے کہ محمد اقبال کی شاعری نے جب ایک پیغام اور دعوت کارنگ اختیار کرلیا تو انھیں اس امر سے کہ دوسروں کو اپنا کلام سنائیں ، ان سے داد سخن لیں کوئی دلچسپی نہ رہی۔ وہ کہتے میرے سامنے ایک نصب العین ہے اور شاعری ان مخصوص خیالات اور تصورات کی ترجمانی کا ذریعہ جن کا تعلق اس نصب العین سے ہے۔ لہٰذا بجز انجمن حمایت اسلام کے وہ کہیں بھی اپنا کلام نہ سناتے۔ فرمائش کی جاتی تو ٹال دیتے۔ اب شاعری کی حیثیت سے ان کے لیے ایک فن کی نہیں رہی تھی کہ دوسروں سے داد سخن لیتے۔ وہ کہتے میرے اشعار کو نہ دیکھیے، یہ دیکھیے میں کہتا کیا ہوں۔ تاآنکہ انھیں ایک بار یوں محسوس ہوا۔ جیسے شاعری ان کے راستے میں حارج ہے۔ ان کا خیال تھا شاعری ترک کردینی چاہیے۔ نثر میں ان کا پیغام شاید زیادہ تر موثر ثابت ہوا۔۷۷؎ خوش قسمتی سے آرنلڈ کی نصیحت کارگرآئی۔ آرنلڈ کو خوب احساس تھامحمد اقبال کی شاعری قوم میں بیداری کا صور پھونک دے گی۔ آرنلڈ کے کہنے سے محمد اقبال نے شاعری کوتوخیرباد نہیں کہی لیکن اس کارخ جو کبھی سے بدل رہا تھاکلیتہً بدل گیا۔ بایں ہمہ وہ کہتے مجھ پرشاعری کی تہمت نہ باندھیے۔۷۸؎ سیدسلیمان لکھتے ہیں : ’’کیا عجب کہ آئندہ نسلیں مجھے شاعر تصور نہ کریں‘‘ ۔۷۹؎ یہ دوسری بات ہے کہ شاعری سے اس طرح بریت کے باوجود ان کا کمال فن انتہا کو پہنچ گیا، تاآنکہ وہ ترنم اور لے جس سے کبھی حمایت اسلام کے جلسوں میں ہر طرف محویت اور بے خودی سی طاری ہو جاتی ایک نغمہ جبرئیل آشوب بن گیا، ایک پیغام سروش ، ایک بانگ درا، ایک آواز رحیل کارواں۔۸۰؎ ذاتی محفلوں میں بھی وہ شاعری پربہت کم گفتگو کرتے بالخصوص اپنی شاعری کے بارے میں۔ اگرچہ ان کے عقیدت مند اس ٹوہ میں رہتے کہ اب ان کی شاعری کا رخ کس طرف ہے۔ وہ کیا حقائق ہیں جن کی ترجمانی زبان شعر میں ہو رہی ہے۔ اس قسم کے سوالات گو وہ سرسری طورپر کچھ کہہ کرٹال دیتے ، ہاں جی چاہتا تو فرماتے اب میرے ذہن میں ایک ایسی نظم کانقشہ ہے اور اس کا کوئی شعربھی پڑھ دیتے۔ ۱۹۲۷ء میں کشمیر جاتے ہوئے میں اپنے رفقائے سفر ڈاکٹر عبدالعلیم احراری مرحوم اور ڈاکٹر سید عابد حسین کے ساتھ حاضر خدمت ہوا تواز رہ لطف زبور عجم کے جو اس وقت زیر طبع تھی کچھ اشعار سنائے۔ عابد صاحب نے وجد میں آکر ان کے پائوں پکڑ لیے۔ ارشاد ہوا: ڈانٹے کی ڈیوائین کامیڈی۔۸۱؎ کی طرح ایک اسلامی کامیڈی کا نقشہ میرے ذہن میں ہے۔ عابدصاحب نے مسکرا کرپوچھا : کیا میں اس کوئی بیاترچے۸۲؎ بھی ہوگی؟ فرمایا: میری عمر اب بیاترچے کی نہیں ہے۔ اللہ جاوید کو زندگی دے ، میں اس کا نام جاوید کے نام پررکھوں گا۔۸۳؎ گویا فرمائشوں پرشعر کہنا یا شعر سنانا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ البتہ مسیح الملک بہادر حکیم اجمل خاں اور نواب ذوالفقار علی خاں کی فرمائش کو وہ کبھی رد نہیں کرتے۔ ہاں شیخ عبدالقادر اور گرامی موجود ہوتے تو دونوں استادان سخن ایک دوسرے کے اشعار سنتے اور اس طرح داد سخن دیتے کہ شعر وشاعری کا لطف آ جاتا۔ گھنٹوں صحبت رہتی۔ لیکن بعض اوقات انکار کر دیتے تو بدمزگی سی پیدا ہو جاتی۔ بڑے بڑے والیان ریاست کی فرمائش ٹال دیتے۔۸۴؎ ۱۹۱۹ء میں بریلی گئے تو نواب لوہارو سے ملاقات ہوئی۔ گرامی کو لکھتے ہیں : ’’نواب صاحب آپ کے بڑے مداح ہیں مجھ سے بھی شعر کی فرمائش کرتے تھے میں نے عرض کیا آپ کے سامنے شعر پڑھنا سوئے ادب ہے مجبوراًکچھ اشعار سنانا پڑے‘‘۔۸۵؎ ۱۹۲۹ء میں حیدرآباد گئے، مہاراجہ سرکشن پرشاد نے ایک مشاعرے کا اہتمام کیا۔ بڑے بڑے ارکان ریاست شریک محفل تھے۔ لیکن اقبال، مشاعروں کے رسمی آداب سے بے نیاز تحسین و آفرین کے غلغلوں سے بے پروا خاموش بیٹھے رہے۔ بمشکل چارپانچ شعر سنائے۔ محفل پرسناٹا چھا گیا۔ شعراء یکے بعد دیگرے اپنا کلام سناتے، نہ داد، نہ واہ واہ، تاآنکہ شمع مولوی مسعود علی محوی کے پاس آئی۔ محوی نے غزل پڑھنا شروع کی۔ جب اس شعر پر پہنچے: نگاہ کردن و ز دیدہ ام بہ بزم بدید میان چیدن گل باغبان گرفت مرا تو انھوں نے دفعتاً کہا پھر فرمائیے۔ اب پھر کیا تھا مشاعرے میں جان پیداہوگئی۔۸۶؎ ۱۸؍مارچ ۱۹۳ء ۸۷؎ کی شام کو غازی حسین رؤف پاشا نے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں ایک توسیعی خطبہ ارشاد فرمایا۔ عنوان تھا: وطنیت اور اتحاد اسلامی جس کی صدارت کے لیے امیر جامعہ ڈاکٹر انصاری مرحوم کی درخواست پر محمد اقبال لاہور سے دہلی آئے۔ جامعہ کے مہمان تھے۔ دارالسلام میں ڈاکٹر انصاری کے ہاں قیام رہا۔ غازی موصوف نے خطبہ پڑھااور محمد اقبال بحیثیت صدراختتامی کلمات کہنے کے لیے اٹھے توغازی موصوف کے ارشادات کی رعایت سے اسلام کے مستقبل کا خیال آگیا۔ بے قابو ہو گئے۔ جذبات کا زور تھا۔ تقریر کرتے چلے گئے۔ تاآنکہ مسجد قرطبہ کے عنوان سے انھوں نے جو نظم لکھی ہے اور جو بہت آگے چل کر بال جبریل میںشائع ہوئی اس کے اس شعر: دیکھ چکا المنی کوشش اصلاح دیں جس نے نہ چھوڑے کہیں عہد کہن کے نشاں سے ابتداء کرتے ہوئے ایک کے بعد دوسرا شعر پڑھنے لگے تو پھر کیا تھا سامعین وجد میں آگئے۔ مجمع ہمہ تن گوش، محمدعلی ہال کے گوشے گوشے میں خاموشی ہی خاموشی۔ ایک تو ان کا تازہ کلام، دوسرے غازی حسین روف پاشا کی محبوب شخصیت، خلافت عثمانیہ کی مجاہدانہ سرفروشیوں کی زندہ یادگار ۔ ہر کوئی سوچ رہا تھا ہم کیا تھے کیا ہو گئے حتیٰ کہ انھوں نے یہ کہہ کر: دیکھیے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا گنبد نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا تقریر ختم کی اور اپنی جگہ پر بیٹھ گئے تو طلسم خاموشی ٹوٹا ۔ شرکائے جلسہ آگے بڑھ بڑھ کر ان کے ہاتھوں کو بوسہ دینے، اپنی عقیدت کا اظہار کرنے لگے۔۸۸؎ رہا ان کا ترنم یا ان کے پڑھنے کا بے نظیر طرز سو شیخ عبدالقادر لکھتے ہیں: ایک خاص اثر ان کی آواز میں تھا جو سننے سے تعلق رکھتا تھااورلفظوں میں بیان نہیں ہوسکتا۔ لیکن ایک طویل عرصے تک جس میں اپنی نظمیں ترنم سے پڑھتے رہے انھوں نے طے کیا کہ کسی بڑے مجمعے میں اپنی کوئی نظم ترنم سے نہیں پڑھیں گے لہٰذا وہ اپنا کلام تحت اللفظ ہی پڑھتے۔ دوستوں میں بیٹھے ہوئے بمشکل ترنم پرمائل ہوتے ۔ اس عرصے میں مجھے اور دو اور دوستوںکو ان کی نوائے درد انگیز سننے کا موقع ملا۔ وہ آواز اب تک میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔ اس وقت آواز ریکارڈ بنانے کا رواج عام نہ تھا… کہ ان کے پڑھنے کی بے نظیر طرز کو مستقل طرز پر مقیدکر لیا جاتا ہے۔ ۱۹۳۳ء میںجسٹس سید عبدالرؤف… احباب سے ملنے لاہور آئے … جسٹس سید آغا حیدر صاحب کے یہاں ٹھہرے۔ سید عبدالرؤف نے کہا … میں انیس برس لاہور میں رہا ہوں، اقبال سے ملاقات بھی رہی مگر مجھے ہمت نہ ہوئی کہ میں فرمائش کرتا اپنا کلام لے سے پڑھ کر مجھے سنائیں۔ تجویز ہوئی کہ اقبال کو اور مجھے کسی دن کھانے پر بلائیں مگر اورکسی کو نہ بلائیں… کھانے کے بعد … سید عبدالرؤف نے بہت اچھے لفظوں میں اپنی آرزو بیان کی… میں بوڑھا آدمی ہوں… پھر یہاں آئوں نہ آئوں … اس کا اقبال پر بہت اچھااثر پڑا… انھوں نے پڑھنا شروع کیا۔ ان ججوں کے لیے ان کی خوش نوائی ایک نئی چیز تھی… اقبال کو بھی مدت کے بعد اس طرح پڑھنے کا لطف آ گیا۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے اور ہم تینوں کی آنکھوں میں بھی … آدھی رات ہو گئی… اقبال کو بارگاہ رسالت سے عقیدت تھی، وہ ہر سید کا احترام کرتے تھے ۔۸۹؎ بقول شیخ صاحب محمد اقبال نے احتراماًان کی یہ درخواست قبول کرلی مگر شیخ صاحب نے بھی عہدکرلیا کہ آئندہ کبھی اس قسم کی کوئی درخواست ان سے نہیں کریں گے۔ پھر کہتے ہیں : ’’کیف غم کی آواز تو اب سن نہیں سکتے مگران کا کلام اس سے لبریز ہے اور اس کیف میں جوش زندگی ملا ہوا ہے‘‘۔۹۰؎ ۷۔علی بخش لاہور میں محمد اقبال نے طالب علمی کا تمام تر زمانہ کو آدرٹینگل میں گزارا بجز اس کے کہ چند دنوں شیخ گلاب الدین کے یہاں قیام رہا۔ تعلیم سے فارغ ہوئے اور ملازمت ملی تو بھاٹی دروازے کے اندر میاں محمد بخش کا مکان کرائے پر لیا جس کے ایک طرف مولوی محمد باقر، پروفیسر فارسی مشن کالج اس سے ذراآگے شمس العلمائ، مولوی محمد حسین ، پروفیسر عربی مشن کالج اور بازار میں مولوی حاکم علی، پروفیسر اسلامیہ کالج اور مفتی محمد عبداللہ ٹونکی کا قیام تھا۔ اس مکان کی نشاندہی اب ممکن نہیں۔ شاید اوربھی کئی مکان بدلے، بازار بھاٹی دروازہ میں البتہ مکان ۴۱۷ب میں چند ماہ ضرور ٹھہرے ۔ یہ مکان کوچہ جلوٹیاں کے موڑ پر جس سے اس کی ابتداء ہوتی ہے۔ ایک کنوئیں کے پاس واقع ہے۔ محمد اقبال نے بالائی منزل کرائے پر لی۔پھر اس کوچے کے اندر قریب ہی مکان ۵۹۷ ب میں اٹھ آئے اور تاسفر یورپ اسی میں مقیم رہے۔ یہیں علی بخش نے ان کی ملازمت اختیار کی۔ اس مکان پر بطور یادگار ان کے نام کی تختی لگی ہے ۔ مکان کادروازہ گلی کے اندرکھلتا ہے۔ بالائی منزل میں بازار کے رخ تین کھڑکیاں اور تین بخارچے ہیں۔ شیخ عبدالقادر کو افسوس ہے کہ ’’اقبال کے مداحوں‘‘… میں سے کسی کو آج تک یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اس مکان کی ملکیت حاصل کرکے اسے قوم کے ذمے محفوظ کرلیں تاکہ ہماری نئی پود … اس مسکن کو بھی دیکھ سکے جس میں بیٹھ کر اقبال نے اپنے اولین کام کا ایک معقول حصہ تصنیف کیااور جس کے ساتھ … کئی روایات و حکایات وابستہ ہیں‘‘۔۹۱؎ عبدالقادر لکھتے ہیں : یہی وہ مکان ہے جس میں بیٹھ کہ ، اک مولوی صاحب کی سناتاہوں کہانی، والی نظم لکھی گئی۔ وہ ایک صحیح واقعے کا صاف صاف بیان تھا جس سے شاعر کی عجیب اور پیچیدہ شخصیت پر بہت سی روشنی پڑتی ہے۔ جن دکانوں پر ان کا یہ مسکن واقع تھا انھیں پر ان کے مکان کے دوسری طرف ایک مولوی صاحب رہتے تھے جو ایک مقامی کالج میں عربی پڑھاتے تھے ۔ انھیں حق مغفرت کرے بہت نیک آدمی تھے اور درویشانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ وہ خودتو بوڑھے نہ تھے اور ادھیڑ عمر کے تھے ، مگر اقبال جوان تھا۔ انھیں اقبال کی وہ متضاد صفات جن کا اس نظم میں تذکرہ ہے سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔ انھوں نے کسی کے رو برو تعجب کا اظہار کیا۔ اس نے وہ بات اقبال کو سنا دی اور یہ اچھی خاصی تاریخی نظم ہوگئی۔ اقبال نے اس تضاد کاذکر بھی کیا ہے۔۹۲؎ اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے کچھ اس میں سے تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے محمد اقبال نے بھاٹی دروازے میں رہائش اختیار کی توسیالکوٹ سے جو ملازم ساتھ لائے تھے اس سے کام نہ چلا۔ ملازم کی تلاش شروع ہوئی۔ ایک روزمولوی حاکم علی کا ملازم علی بخش کسی کام سے ان کے یہاں آیا۔ محمد اقبال کواس کے طور طریقے پسندآئے۔ اس سے کچھ سوال کیے۔ کہنے لگے علی بخش میرا جی چاہتا ہے تم میرے پاس آ جائو۔ علی بخش خاموش ہوگیا۔ شاید علی بخش کا دل بھی یہی چاہتا تھا کہ ان کی بات مان لے۔ کچھ دن گزرگئے۔ اسلامیہ کالج میں چھٹیاں ہو گئیں۔ علی بخش گائوں چلا گیا۔ اکتوبر میں واپس آیا۔ محمد اقبال سے ملا۔ سیالکوٹ کا جو ملازم ان کے یہاں کام کر رہاتھا۔ بددیانت نکلا۔ تعطیلات ختم ہوئیں تو محمد اقبال نے علی بخش سے کہا تم میرے پاس ہی ٹھہرو۔ مگر علی بخش نے کہا ٹھہرنے کاانتظام ہے۔ تعطیلات ختم ہوئیں ۔ علی بخش کی تلاش ہونے لگی۔ بالآخر سید محمد تقی نے اسے ڈھونڈ نکالا۔ علی بخش نے اپنے بڑے بھائی کو مولوی صاحب کے یہاں رکھوا دیا۔ خود محمد اقبال کے پاس چلا آیا۔ علی بخش ۱۳، ۱۴ برس کی عمر، وطن اٹل گڑھ، ضلع ہوشیار پور کا ایک گائوں۔ طبیعت کا سیدھا سادا، بات کا سچا ، نیک دل، نیک خو، ناخواندہ مگر سمجھ دار ، مؤدب اورمحنتی، سرتاپاوفا، دل سے خدمت گزار۔تاحین حیات محمد اقبال کے ساتھ رہا۔ بجز ان چند سالوں کے جب وہ یورپ میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ چنانچہ اس دوران میں علی بخش نے انھیں ایک خط بھی لکھا۔ محمد اقبال دل سے ان کی قدر کرتے تھے۔ ۱۱دسمبر ۱۹۰۷ء کو کیمبرج سے جواباًلکھتے ہیں ’’بعد سلام واضح ہو، میرے آنے میں سات ماہ کا عرصہ باقی ہے‘‘۔ علی بخش کے ہاں چوری ہوگئی تھی، افسوس سے کہتے ہیں: ’’اگر میں یہاں نہ ہوتا تو ضرور تمھاری مدد کرتا‘‘۔ شادی کے بارے میں مشورہ دیتے ہیں کہ بیوی کو آسودہ رکھ سکتے ہو تو کرلو۔۹۳؎ واپس آئے تو پھر علی بخش کی تلاش شروع ہو گئی۔علی بخش مل گیا۔ محمد اقبال ہائیکورٹ سے نکل رہے تھے۔ علی بخش کو دیکھ کر بغل گیر ہوگئے۔ علی بخش پھر محمد اقبال کے پاس آ گیا اور ایسا آیا کہ انھیں کا ہو رہا۔ شروع شروع میں تو جیسی صلاحیت تھی ویسے کام کرتا تھا۔ کھانا پکاتا۔ رفتہ رفتہ سارے گھر کا انتظام و انصرام علی بخش کے ہاتھ میں آگیا۔ علی بخش کہنے کو ملازم تھا، حقیقت میں صبح و شام کا حاضرباش۔ حتیٰ کہ بندہ و آقا کی تمیز اٹھ گئی۔ علی بخش اور’ ڈاکٹر صاحب‘ ، ۹۴؎ لازم و ملزوم ہو گئے۔اس اثنا میں علی بخش کی شادی بھی ہوگئی۔ گھر والے مصر کہ علی بخش گائوں چلاآئے۔ علی بخش ترک ملازمت پر مجبور ہوگیا۔ محمد اقبال کہتے : علی بخش کیا واقعی تم میرا ساتھ چھوڑ دو گے؟ بالآخر طے پایا کہ علی بخش کچھ دنوں چھٹی لے کر گھر ہو آیا کرے۔ جب تک علی بخش کی بیوی زندہ رہی یہی معمول رہا۔ مگر چند ہی سال گزرے تھے کہ بیوی کا انتقال ہوگیا۔ علی بخش نے پھر د وسری شادی نہیںکی۔ اب ’ڈاکٹر صاحب‘ ہی اس کی ساری کائنات تھے۔ ’ڈاکٹر صاحب‘ جہاں کہیں رہے علی بخش ساتھ تھا، انار کلی میں ساتھ ، میکلوڈ روڈ میں ساتھ، جاوید منزل میں ساتھ۔ علی بخش محمد اقبال کاخدمت گزار ہی نہیں، مزاج شناس بھی تھا۔ ان کی صحبت میں آپ ہی آپ اس کی تربیت ہوتی گئی۔ آپ ہی آپ سمجھ گیا، ان کا معمول کیا ہے۔ علی بخش ہر طرح سے ان کا خیال رکھتاتھا۔۱۹۰۵ء تک تو اس کی ملازمت کا ابتدائی دور تھا، عمر بھی کچی تھی لیکن ۱۹۰۸ء کے بعد جیسے جیسے دن گزرتے گئے علی بخش سمجھ گیا ڈاکٹر صاحب، کیا ہیں۔ انھیں دولت کی خواہش ہے نہ نام و نمود کی۔ امیرانہ ٹھاٹھ نہیں ہے، پھر بھی بڑے بڑے لوگ ان سے ملنے آتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب صبح بہت سویرے اٹھتے ہیں۔ نماز سے فارغ ہو کر قرآن مجید پڑھتے ہیں۔ پھر کوئی کتاب۔ عدالت جانا ہوتا ہے تو عدالت کی تیاری میں لگ جاتے ہیں۔ واپس آکر کھانا کھاتے ہیں۔ تھوڑی دیر آرام کرتے۔ سہ پہر ہوتی توملاقاتیوں کا آنا جانا شروع ہو جاتا۔ علی بخش گھر کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ ساراوقت ڈاکٹر صاحب ہی کی خدمت میں گزارتا۔ ڈاکٹر صاحب کو دن بھر حقے کی طلب رہتی۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد آواز آتی علی بخش ، بخش کو اچھا خاصہ طول دیتے، علی بخش حقہ ، تاآنکہ علی بخش، حقہ اور ڈاکٹر صاحب لازم و ملزوم ہوگئے۔ معلوم نہیں یہ تثلیث کب قائم ہوئی۔ یقینا علی بخش کے آنے پر۔ شیخ عبدالقادر لکھتے ہیں : ’’علی بخش اوپر کی منزل میں چولہا گرم رکھتا تاکہ اپنے مالک کا حقہ ساعت بہ ساعت تیار کرتا رہے۔‘‘۹۵؎ گویا محمد اقبال اس سے بہت پہلے ہی حقہ پی رہے تھے، سیالکوٹ ہی میں، شاید طالب علمی کے آغاز میں۔ گھر میں حقے کا دورچلتا۔ ان کے والد ماجد اور بڑے بھائی حقے کے شوقین تھے۔ حقے کی شوقین تھے۔ حقے کی انھیں ہمیشہ طلب رہی۔ میں نے دیکھا ہے سفر میں حقہ تو مل نہیں سکتاتھا۔ سگریٹ پیتے، تسکین نہ ہوتی۔ دہلی میں اگر کہیں دو ایک روز ٹھہرنا ہواتو میزبان کے یہاں حقے کا خاص طور سے اہتمام ہوتا ۔ شیخ اعجاز احمد لکھتے ہیں :علامہ اقبال ایک مقدمے کے سلسلے میں کیمبل پور گئے۔ میں ان کے ساتھ تھا۔ کیمبل پور سے واپس آئے۔ آدھی رات کے قریب وزیر آباد جنکشن سے سیالکوٹ کے لیے گاڑی بدلنی تھی۔ گاڑی صبح پانچ بجے چلتی تھی۔ سیالکوٹ والی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ اب انھیں حقے کی طلب تھی۔ قلی جو سامان اٹھا کر لایا تھا اس سے کہا، اگر اس وقت گھر سے حقہ لے آئو تو تمھیں انعام ملے گا۔ قلی انعام کے لالچ میں تھوڑی سی دیر میں ایک بوسیدہ حقہ لے کر آگیا۔ مٹی کا پیندا، ٹوٹی ہوئی چلم ، مگر علامہ حقے کو دیکھ کر باغ باغ ہو گئے۔ بستر کو پلیٹ فارم پر رکھ دیا۔ اس پر بیٹھ کر حقے کے کش لگانے لگے۔ قلی بھی پاس زمین پر بیٹھ گیا۔ حقہ پیتے۔ اس قلی سے باتیں کرنے لگے۔ شیخ اعجاز احمد نے کہا حقہ تو بڑا گندا… ہے ، کہنے لگے جسے تمباکو کی عادت پڑجائے اسے طلب کے وقت ان نزاکتوں کا خیال ہی نہیں آتا۔ تم اس کی عادت نہ ڈالنا۔۹۶؎ شروع شروع میں توجیسا کہ لکھا جا چکا ہے علی بخش ہی سب کام کاج کرتا، ۱۹۰۸ء کے بعد جب باقاعدہ گھر بنا تو گھر کے اندر کوئی ماما اورملازمہ کرنے لگی۔ آگے چل کر دو ایک ملازموں کا اضافہ ہوگیاپھر بھی گھر کا انتظام ، ملازموں کی نگرانی، گھر سے باہر کے کام یہ سب باتیں علی بخش ہی کے ذمے تھیں۔ علی بخش ہی ان کا معتمد علیہ تھا۔ دن رات خیال رکھتا، کوئی بات ان کے خلاف مزاج نہ ہونے پائے۔ اپنی بساط کے مطابق جان گیا تھا ڈاکٹر صاحب کیا ہیں۔ بہت بڑے شاعر ہیں، بہت بڑے سیاست دان، اسلام کو سمجھنے اور سمجھانے والے ۔ جب ہی تولوگ دن رات ان کے پاس آتے ہیں۔ طرح طرح کے سوال پوچھتے ہیں۔ سہ پہر سے رات ہو جاتی ہے۔ علی بخش بڑے سلیقے سے ان کی پیشوائی کے لیے آگے بڑھتا ۔ رفتہ رفتہ اس کا شمار بھی ڈاکٹر صاحب کے حلقے میں ہونے لگا۔ ڈاکٹر صاحب کے عقیدت مند بھی اس سے دوستوں کی طرح ملتے، عزت کرتے، اس سے چھیڑ چھاڑ رہتی۔ محمود شیرانی مرحوم اسے پیربھائی کہتے۔ علی بخش نے انجمن حمایت اسلام کے جلسے دیکھے۔ ’ڈاکٹر صاحب‘ کو نظمیں پڑھتے سنا اورپھر وہ پرآشوب زمانہ بھی جو ۱۹۱۱ء میں طرابلس اور ایطالوی حملے سے شروع ہو کر ۱۹۱۸ء میں جنگ عظیم میں اتحادیوں کی فتح پر ختم ہوا۔ اس نے ترکوں کو شکست اور سلطنت عثمانیہ کے ساتھ خلافت کے خاتمے، لیگ اور کانگرس ، آگے چل کر شدھی، سنگھٹن تبلیغ اور کشمیر کے ہنگاموں کو دیکھا۔ ’ڈاکٹر صاحب‘ کے شب و روز اس کے سامنے تھے اور اس نے جہاں تک ممکن تھا ان کے دل و دماغ کی کیفیتوں کو سمجھا۔ وہ دیکھ رہا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کیا تھے کیا ہو گئے۔ ان کی مصروفیتیں کس قدر بڑھ گئی ہیں۔ ان کے احباب ہی نہیں اور بھی تو کئی طرح کے لوگ ان سے ملنے آتے ہیں۔ ان میں ہندو بھی ہیں سکھ اور عیسائی، ارباب حکومت ، ارباب سیاست ، ارباب علم، بزرگان دین، عام خاص، سب۔ وہ دیکھتا اسلام کی باتیں ہو رہی ہیں، سیاست زیر بحث آتی ہے۔ علی بخش کو یہ جاننے میں دیر نہیں لگی کون کس غرض سے آتا ہے۔ دوست کون ہے، دشمن کون۔ ڈاکٹر صاحب کا خاص حلقہ کیا ہے۔ ان کے عقیدت مند کون ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے ملاقاتی تھوڑی دیر بیٹھیں یا زیادہ ، نشستیں طویل ہوں یا مختصر، احباب کا حلقہ ہو یا قومی اور سیاسی معاملات کی گفتگو، تخلیہ یا راز داری، علی بخش کی ہر بات پر نظر رہتی۔ خوب جانتا … ملاقاتیں رسمی ہیں۔ کوئی ذاتی یا سیاسی مقصد انھیں ڈاکٹر صاحب کے پاس کھینچ لایا ہے۔ مزاج پرسی ہو رہی ہے یا دنیا داری ۔ آنے والے حال پوچھنے آتے ہیں یا کچھ معلوم کرنے۔ علی بخش سب کو جان گیا تھا، سب کو سمجھتا ، حتیٰ کہ ان پررائے زنی بھی کرتا۔ علی بخش شب و روز کا حاضر باش، تیس بتیس برس کا ساتھ، ڈاکٹر صاحب کے ظاہر و باطن سے واقف۔ علی بخش سے زیادہ کس کی بات سند ہو سکتی ہے۔ علی بخش کہتا میں پڑ ھا لکھا آدمی نہیں مگر ڈاکٹر صاحب کے شعروں کا مطلب سمجھتا خوب ہوں۔ ان کی باتوں میں ایسی رمزیں ہوتی ہیں کہ اللہ والے ہی جانتے ہیں۔ مجھے شکوے کے کچھ شعر بھی یاد ہیں۔ اپنے دیہاتی لہجے اور ٹوٹی پھوٹی اُردو میں شکوہ کے اشعار سناتا۔ ڈاکٹر صاحب کی شعر گوئی کا حال بیان کرتا: ڈاکٹر صاحب شعر کہتے تو بے چینی اور بے تابی کی سی کیفیت ہوتی۔ بیٹھے بیٹھے لیٹ جاتے۔ میں پلنگ کے پاس کاغذ پنسل رکھ دیتا۔ اکثر ڈھائی تین بجے صبح شعر کہنا شروع کرتے اور پھر کہتے ہی چلے جاتے۔ رک جاتے تو مجھ سے کہتے علی بخش قرآن مجید لے آئو۔ یوں بھی دن میں کئی بار قرآن مجید طلب کرتے۔ بہت سویرے اٹھتے بہت کم سوتے، فجر کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کرتے۔ ایسی پر اثر کہ پتھر بھی پانی ہو جائیں۔ تہجد بھی پڑھتے۔ میں سونے سے پہلے مصلا اور وضو کے لیے پانی رکھتا۔ انھوں نے مہینوں باقاعدگی سے تہجد پڑھی۔ پہلے کالج میں ملازم تھے۔ یورپ سے واپس آئے تو کالج میں پڑھانے لگے۔پھر دفعتاً نوکری چھوڑ دی۔ دنیا دار آدمی نہیں تھے نوکری میں جی نہیں لگا۔ کہتے علی بخش نوکری میں بڑی مشکلیں ہیں۔ میں قوم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں، انگریز کی نوکری کی تو کہہ نہ سکوں گا۔ وکالت شروع کر دی، لیکن مقدمے بہت کم لیتے۔ پانچ سو ماہوار مل جاتے تو کہتے منشی صاحب اور مقدمہ نہ لیجیے گا۔ شیخ طاہر دین دلروز والے ان کے منشی تھے۔ وہی سارا حساب رکھتے۔ مکان کا کرایہ دیتے۔ گھر کے اخراجات اور جیسی بھی کوئی ضرورت ہو پوری کرتے، ڈاکٹر صاحب کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہوتی۔ سفر میں بھی جو کچھ ہوتا میرے پاس رہتا۔ آمد اور خرچ کا حساب پوری پوری تفصیل اور باقاعدگی سے رکھا جاتا۔ منشی طاہر دین صاحب کے تیس بتیس برس کا رکھا ہوا حساب موجود ہے۔ کہیں پائی کا فرق نہیں۔ ۹۷؎ وکالت کا سارا کام انھیں کے سپرد تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے وکالت چھوڑ دی۔ شیخ صاحب اپنا کا م کرنے لگے۔ مگر ڈاکٹر صاحب کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ کاغذات انھیں کے پاس رہتے۔ ڈاکٹرصاحب تنخواہ دینا چاہتے تھے۔ انھوں نے تنخواہ نہیں لی۔ نماز فجر اور تلاوت کے بعد ڈاکٹر صاحب ایک آرام کرسی پر بیٹھ جاتے۔ میں ان کے سامنے حقہ رکھ دیتا۔ عدالت جانا ہوتا تو کاغذات دیکھتے نہیں تو کچھ لکھتے، کچھ پڑھتے ۔ پڑھتے بہت زیادہ۔ مقدمے کی تیاری صرف ایک دن پہلے کرتے۔ دوپہر میں ذرا سا آرام کر لیتے۔ تھوڑی دیر کے لیے سو جاتے۔ سہ پہر میں لوگوں کا آنا جانا شروع ہو جاتا۔ رات کو ایک بجے تک محفل جمتی۔ ڈاکٹر صاحب خوب باتیں کرتے۔خوب حقہ پیتے۔ رات کو بہت کم سوتے، یہی تین چار گھنٹے ۔ نیند گہری نہیں تھی۔ رات کو کھانا نہیں کھاتے۔ جی چاہتا تو دودھ پی لیتے، یاد لیا استعمال کر لیا یا پھر نمکین چائے پر ہی اکتفا کرتے۔ ناشتہ بھی معمولی تھا۔ یہی لسی کا گلاس یا چائے کی ایک پیالی اور بسکٹ۔ کبھی چائے پیتے ہی نہیں تھے۔ لیکن تھے خوش خوراک گو کھاتے بہت کم۔ چاہتے تھے سالن عمدہ ہو۔ میں دو ایک سالن تیار کر رکھتا ۔ پلائو اور شب دیگ بہت مرغوب تھی۔ لباس میں چھوٹا کوٹ، شلوار قمیض، سر پر ترکی ٹوپی، لنگی یا پگڑی ۔ ململ کی موتیا رنگ کی پگڑی خاص طور سے پسند تھی۔ ولایت جانے سے پہلے سوٹ نہیں پہنا ۔ ولایت سے واپس آ کر کوٹ پتلون پہننے لگے۔ مگر کوٹ پتلون سے انھیں بڑی نفرت تھی۔ بس مجبوراً پہنتے۔ گھر آتے تو فوراً اتار نے کی کوشش کرتے۔ قلعہ گجر سنگھ میں نظام الدین درزی کو ان سے بڑی عقیدت تھی۔ بڑی محنت سے ان کے کپڑے تیار کرتا۔ انارکلی میں تھے تو بگھی میں بیٹھ کر کچہری جاتے۔ میکلوڈ روڈ آئے تو ایک موٹر خرید لی مگر بہت کم اس میں بیٹھتے۔ بڑے رحم دل تھے۔ ایک مرتبہ چور گھس آیا، پکڑا گیا۔ ہم نے اس کی پٹائی کی تو روک دیا۔ اسے کھانا کھلایا اور چھوڑ دیا۔ شروع شروع میں ان کی نظمیں شیخ عبدالقادر لے جاتے، زمیندار میں شائع ہوتیں۔ پھر فضل الٰہی مرغوب رقم نے ایک ایک نظم کتابی شکل میں چھا پنی شروع کر دی۔ انھیں خود چھاپنے کا خیال ہی نہیں آیا۔ ڈاکٹر صاحب بڑے شفیق اور مہر بان تھے۔ مہینے میں ایک مرتبہ ملازمین کی دعوت کرتے۔ اچھی اچھی چیزیں کھلاتے۔ مجھ سے کبھی خفا نہیں ہوئے۔ ایک آدھ بار غصہ آیا بھی تو یونہی ذرا سی دیر کے لیے۔ ایک مرتبہ ان کے بھانجے نے مجھے گالی دی تو ڈاکٹر صاحب نے اسے پیٹا ۔سختی سے سرزنش کی۔ علی بخش گرامی مرحوم کی باتیں بڑے مزے سے بیان کرتا۔ گرامی کا لاہور آنا۔ انارکلی میں قیام، گھنٹوں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ شعر و شاعری کی نشستیں گرامی کچھ کچھ کھوئے کھوئے سے رہتے۔ دنیا میں محمد اقبال ایسے آقا اور علی بخش ایسے ملازم کی مثالیں بہت کم ملیں گی۔ علی بخش محض علی بخش نہیں تھا محمد اقبال کی زندگی کا جزو تھا۔ وہ ابتدائہی میں اپنے آپ کو ان سے وابستہ کر چکا تھا۔ رفتہ رفتہ ڈاکٹر صاحب کے لیے اس کی دل سوزی بڑھتی گئی۔ بالخصوص ان کی آخری علالت کے ایام میں، جب علی بخش کی ذمہ داریوں میں اضافے پر اضافہ ہوتا چلا گیا۔ حالانکہ علی بخش خود بھی جوانی اور کہولت کی منزلوں سے گزر کر بڑھاپے میں قدم رکھ چکا تھا۔ لیکن اس کے باوجود علی بخش کے دن رات تیمارداری میں گزرتے۔ لحظہ بہ لحظہ خبر گیری، ذرا ذرا سے وقفوں پر دوا اور غذا کا اہتمام ، حقہ پیا نہیں جاتا لیکن چلم بدلی جا رہی ہے۔ ملاقاتی آ رہے ہیں۔ تیمار دار بیٹھے ہیں۔ ان کے لیے چائے لا رہا ہے۔ اسے بچوں کا خیال ہے، منشی طاہر دین سے ملنا ہے۔ حکیم صاحب کے ہاں جانا ہو گا۔ علی بخش ایک ایک کر کے سب کام نبٹا رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی مٹھی چاپی بھی ہو رہی ہے۔ کپڑے بدلواتا، بستر ٹھیک کرتا، بستر ذرا ذرا سی دیر کے بعد ٹھیک کیا جاتا۔ تکیے ادھر سے ادھر رکھے جاتے۔ علی بخش کو ایک لمحے کی فرصت نہیں۔ ابھی خواب گاہ میں تھا، ابھی برآمدے، ابھی باورچی خانے ، ابھی باہر صحن میں۔ ہاتھ میں چلم ہے۔ ملاقاتیوں کی اطلاع کر رہا ہے۔ آفرین ہے علی بخش پر۔ نہ ماتھے پر بل ، نہ دل پر بوجھ ۔ محفل جمی ہے۔ اور موقعہ ملا تو علی بخش بھی شریک گفتگو ہے۔ کوئی بات سمجھ میں آئی تو رائے زنی بھی کرے گا۔ چاہتا ہے ڈاکٹر صاحب کا دل بہلے۔ احباب بیٹھے ہیں، چھیڑ چھاڑ ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب مسکراتے ہیں تو علی بخش خوش ہو جاتا ہے۔ چپکے چپکے دعا کرتا ہے اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کو صحت دے۔ تا آنکہ وہ رات آ گئی جب صبح ہو رہی تھی۔ جب انھوں نے علی بخش کو شانوں کو دبانے کے لیے کہا۔ جب ذرا سے وقفے کے بعدپائوں پھیلا دیئے، دل پر ہاتھ رکھ کر کہا یا اللہ۔ علی بخش میرے یہاں درد ہے۔ پھر اس کے ساتھ ہی سر جھکنے لگا ۔علی بخش نے آگے بڑھ کر سہارا دیا تو انھوں نے قبلہ رو ہوکر آنکھیں بند کر لیں۔ علی بخش کا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔ آنسوئوں کی جھڑی لگ گئی۔ بے تابانہ کبھی باہر کا رُخ کرتا کبھی سرہانے کے پاس کھڑا ہو جاتا۔ یا اللہ یہ کیا ہو گیا۔علی بخش اس سے پہلے بھی ایک رو ز بہت رویا۔ فرمایا بیس تیس برس کا ساتھ ہے، رو لینے دو جی ہلکا ہو جائے گا۔۹۸؎ ایک روز کیا دیکھتا ہوں علی بخش برآمدے کی سیڑھیوں میں افسردہ اور پژمردہ بیٹھا ہے۔ میں نے پریشان ہو کر پوچھا علی بخش خیر تو ہے۔ خاموش رہا۔ میں تیزی سے خواب گاہ کی طرف بڑھا۔ سلام کے بعد علی بخش کا پوچھا، کہنے لگے بے وقوف ہے اسے سمجھائو۔ اگر کسی نے مجھے بُرا بھلا کہا ہے تو اس میں خفگی کی کیا بات ہے ہر شخص کا حق ہے جیسی چاہے کسی کے بارے میں رائے قائم کرلے لیکن سوچ سمجھ کر، سوئے ظن گناہ ہے۔۹۹؎ علی بخش محمد اقبال کا خدمت گزار، محمد اقبال کا حاضر باش، محمد اقبا ل کی زندگی کا جزو ۔ تیس بتیس برس کا ساتھ ، محمد اقبال کہتے علی بخش کا خیال رکھا جائے، اس کی دل شکنی نہ ہو۔ علی بخش ڈاکٹر صاحب کی یاد لیے جاوید منزل ہی میں مقیم رہا۔ ڈاکٹر صاحب کے عقیدت مند اس کی دل سے قدر کرتے۔ علی بخش ،علی بخش نہ رہا، بابا علی بخش بن گیا۔ محمود شیرانی کہتے تم میرے پیر بھائی ہو۔ پاکستان قائم ہوا تو سرکار نے اس کی خدمات کے صلے میں ایک قطعہ مربع اراضی عطا کیا۔ یہ گویا قوم کی طرف سے معمولی سا ہدیہ تھا اس کی خدمت گزاری کا۔ علی بخش بڑھاپے کے ہاتھوں بے بس ہو گیا تو اپنے عزیزوں کے ہاں چلا گیا۔ زندگی کے آخری دن وہیں گزارے۔ حج بھی کیا۔ وہیں چک مہر ۱۸۔ بی میںداعی اجل کو لبیک کہا، ۱۹۶۹ء میں۔ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے۔۱۰۰؎ ۸۔ حلقۂ احباب، ارباب سخن محمد اقبال سیالکوٹ سے لاہور آئے۔ شیخ گلاب دین تو ہم وطن تھے، ایک طرح سے ہم محلہ، میر حسن کے شاگرد۔ سید محمد تقی اور سیر بشیر حید ر سے بچپن کی دوستی تھی۔ وہ بے فکری کے مشغلے۔ وہ گھنٹوں کبوتر اڑائے جا رہے ہیں۔ سیروتفریح ہو رہی ہے۔ شعر و شاعری کی محفل جمی ہے۔ آئندہ زندگی کے نقشے بن رہے ہیں، وہ گزرے ہوئے دن، وہ پرانی یادیں وہ ایک دوسرے پر اعتماد ، وہ صلاح و مشورے،رازداری۔ لاہور آئے تو یہ سب باتیں ساتھ آئیں۔ تعلقات میں عمر بھر فرق نہ آیا۔ کوئی معاملہ پیش آیا۔ کوئی ضرورت محسوس ہوئی تو یہ ان کے دست راست ہیں۔ ان کا ذکر اس سوانح میں بار بار آئے گا۔ شیخ گلاب دین تو پہلے ہی لاہور آ چکے تھے، سید محمد تقی کو بھی لاہور میں ملازمت مل گئی۔ لاہور ہی میں سکونت اختیا ر کر لی۔ کبوتر پالے اور خوب خوب پالے۔ سید بشیر حیدر کو دوران ملازمت میں مختلف ضلعوں میں رہنا پڑا۔ ہوشیار پور میں تھے تو گرامی سے خط و کتابت میں اکثر ان کا ذکر آتا۔ بشیر حیدر بھی بالآخر جاوید منزل کے قریب سکونت پذیر ہو گئے۔ محمد تقی نے بھاٹی دروازے کے باہر مکان بنوایا۔ ایک دوسرے سے ملنا ہوتا گھنٹوں صحبت رہتی۔ شیخ گلاب دین دوران علالت میں اکثر مزاج پرسی کے لیے آتے۔ گورنمنٹ کالج میں داخل ہوئے تو میر نیرنگ ، میرزا اعجاز حسین اور میاں فضل حسین سے میل جول شروع ہوا۔ میل جول نے گہری دوستی کا رنگ اختیار کر لیا۔ ۱۸۹۶ء میں محمد دین فوق لاہور آئے۔ شعر و شاعری کا شوق تھا، ایک مشاعرے میں محمد اقبال سے ملاقات ہوئی طرح تھی داغ کا مصرع: نہیں معلوم اک مدت سے قاصد حال کچھ واں کا محمد اقبال نے غزل پڑھی۔ مقطع میں استاد کی شاگردی پر اظہار فخر کیا۔ اس سے پہلے کہہ چکے تھے: نسیم۱۰۱؎ و تشنہ ہی اقبال کچھ نازاں نہیں اس پر مجھے بھی فخر ہے شاگردی داغ سخن داں پر فوق کی باری آئی تو انھوں نے غزل پڑھی، مطلع تھا: دیا ہر چند میں نے واسطہ گیسوئے جاناں کا نہ چھوڑا تار کوئی دستِ وحشت نے گریباں کا دونوں کو قریب ہونے میں دیر نہیں لگی۔ فوق محمد اقبال کے عقیدت مند تھے۔ محمد اقبال ان کی دوستی، محبت اور خلوص کے قدرداں۔ فوق کو شعر گوئی کے ساتھ ساتھ تصنیف اور تالیف کا بھی شوق تھا۔ صحافت سے بھی دلچسپی تھی۔ کشمیریوں کی زبوں حالی پر کڑھتے۔ چاہتے تھے کوئی اخبار نکالیں، پیسہ اخبار میں ملازمت اختیار کی۔ صحافت کا فن سیکھا۔ ایک کے بعد دوسرا اخبار نکالا۔ بزرگوں کی سوانح عمریاں لکھیں۔ اسلامی تاریخ پر قلم اٹھایا۔ تصوف میں خامہ فرسائی کی۔ کشمیر تو گویا ان کا خاص موضوع تھا۔ محمد اقبال کی تعریف و توصیف میں صفحات کے صفحات سیاہ کر ڈالے ۔ ملاقاتیں ہونے لگیں۔ تعلق بڑھتے چلے گئے۔ ۱۹۰۱ء میں فوق نے پنجۂ فولاد کے نام سے ایک اخبار نکالا تو محمد اقبال نے اس کی تعریف میں ایک طویل نظم لکھی۔ ۱۹۰۶ء میں کشمیری میگزین جاری کیا جو بعد میں کشمیری اخبار کے نام سے شائع ہوتا۔ کشمیری مسلمانوں کی اصلاح کے لیے ان کی کوششوں کو دیکھتے ہوئے محمد اقبال انھیں مجدد کشامرہ کے نام سے یاد کرتے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’آپ لاہور میں ہیں یا امیر اکدل ۱۰۲؎ میں آپ نے کشمیری میگزین میں میرے حالات لکھے ہیں کوئی کاپی ہے تو ارسال کیجئے۔‘‘ ایک دوسرے خط میں کہتے ہیں: ’’اگر آپ کی کوششوں سے کشمیر کے باشندوں اور پسماندہ مسلمانوں میں زندگی پیدا ہوجائے تو یہی خدمت آپ کی نجات کا ذریعہ بن جائے گی۔‘‘ ۱۰۳؎ فوق نے رہنمائے کشمیر کے نام سے ایک رسالہ لکھا تو محمد اقبال نے اس کی تعریف کی۔ بلکہ اس رسالے کو کیا دیکھا سیاحت کشمیر کی آرزو دل میں چٹکیاں لینے لگی۔ سلطان زین العابدین کے حالات میں ان کی کتاب شباب کشمیر کی تصنیف پر انھیں مبارک باد دی۔ ایسے ہی تاریخ حریت اسلام کی اشاعت پر۔ یادرفتگاں کے نام سے فوق کی کتاب اہل اللہ کے حالات میں پہنچی تو لکھا:’’میں اس کتاب کو دیکھ کر بے خود ہو گیا۔ بھائی فوق مجھے خود بھی اس گوہر نایاب کی تلاش ہے جو بادشاہوں کے خزانے میں نہیں ملتا، کسی خرقہ پوش کے پائوں کی خاک میں اتفاقیہ مل جاتا ہے۔‘‘۱۰۴؎ اور پھر وہ غزل کہی جس کا مطلع ہے۔ جنھیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں وہ نکلے میرے ظلمت خانۂ دل کے مکینوں میں شالا مار باغ کے حالات میں فوق کا رسالہ شائع ہوا تو محمد اقبال نے تاریخ کہی۔ ’’تصور باغِ جاں افزا‘‘ جس نے آگے چل کر جدید تحقیقات کی روشنی میں ایک اعلیٰ تاریخی دستاویز کی شکل اختیار کر لی۔ فوق ہمیشہ کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے۔ ملا عبدالحکیم سیالکوٹی کی سوانح لکھنے کا خیال آیاتو محمد اقبال نے ہر طرح سے ان کی ہمت افزائی کی فوق نے رسالہ طریقت نکالا۔ محمد اقبال کی طرح وہ بھی عجمی تصوف سے بددل ہور ہے تھے۔ شکایت کی لوگ ان کے مضامین پر اظہار ناراضگی کر رہے ہیں، محمد اقبال نے لکھا ان کو شکر آلود گولیاں کھلائیے مخالفت سے گھبرائیے نہیں۔ ایک خط میں لکھتے ہیں: آپ تو پیر طریقت ہیں۔ خدا کرے آپ بھی کسی روز پیر جماعت علی شاہ کی طرح کشمیر جا پہنچیں۔ رسالہ طریقت بالآخر بند ہو گیا۔ متأسفانہ کہنے لگے بہتر ہوتا آپ اسے جاری رکھتے۔ طریقتجاری نہ رہ سکا تو فوق نے ماہنامہ نظام جاری کیا۔ محمد اقبال نے نظام کے لیے بھی ایک قطعہ لکھا بعنوان’مکافات عمل‘ ۱۰۵؎ تصوف میں منجملہ دوسری تصنیفات کے ان کا رسالہ وجدانی نشتر جس کا عنوان محمد اقبال نے سوز و گداز تجویز کیا تھا، انھیں بے حد پسند تھا۔ ۲۱ دسمبر ۱۹۱۵ء کو فوق کے کارڈ کے جواب میں کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں، کہتے ہیں: آپ کو آنے کی کیونکہ ممانعت ہو سکتی ہے۔ انارکلی شیرانوالہ دروازہ سے دور نہیں۔ آئیے اور کتاب ساتھ لائیے۔ نہیں تو بے کتاب ہی آئیے۔ فوق نے اسرار خودی میں حافظ کے بارے میں سوال کیا کہ ان کا مسلک گوسفندی کیسے ہو سکتا ہے؟ تو محمد اقبال نے لکھا: اس کا جواب وجدانی نشتر میں موجود ہے کہ عالمگیر نے جب زنان بازاری کو حکم دیا بے نکاح نہ رہیں تو ایک حسین طوائف جو شیخ سلیم اللہ جہاں آبادی کی خدمت میں روز سلام کے لیے حاضر ہوا کرتی تھی، کہنے لگی: حضرت آج میرا آخری سلام ہے۔ شیخ نے پوچھا کیوں؟ کہنے لگی: بادشاہ نے نکاح کے لیے جو مدت دی تھی اس میں صرف ایک دن رہ گیا ہے۔ آپ نے کہا تم سب حافظ کا شعر: در کوئے نیک نامی مارا گزر ندادند گر تو نمی پسندی تغییر کن فضا را یاد کرو۔ صبح جب تم سب کو دریا میں غرق کرنے لے جائیں تو اسے بڑی خوش الحانی سے نشید کرو۔ چنانچہ یہی ہوا۔ بادشاہ پر یہ شعر سُن کر عجیب کیفیت طاری ہو گئی۔ اس نے اپنا حکم واپس لے لیا۔ محمد اقبال کہتے ہیں: اگر یہ واقعہ سچا ہے تو خود ہی غور کیجیے گو سفندی کیا ہوتی ہے۔ محمد اقبال اور فوق کے تعلقات روز بروز گہرے ہوتے گئے ۔ لاہور میں طویل ملاقاتیں ہوتیں۔ سیالکوٹ میں تھے۔ معلوم ہوا فوق کشمیر جا رہے ہیں۔ خط لکھا سیالکوٹ ہوتے جائیے۔ بے تکلفی کا یہ عالم کہ محمد اقبال یورپ سے واپس آئے۔ انارکلی میں قیام تھا۔ فوق ملاقات کے لیے گئے۔ باہر ٹھہرے رہے کہ شاید انگلستان جا کر بدل گئے ہوں۔ اجازت ملے تو اندر جائوں۔ ملاقاتی کارڈ بھیجا۔ علی بخش نے کہا ذرا تشریف رکھیے۔ ۴۔۵ منٹ کے بعد انھیں اندر لے گیا تو محمد اقبال نے کہا یہ آپ نے کیا کیا ۔ ایک بے تکلف دوست اور یہ تکلف ! آئیے اور بے تکلف آئیے: بصحنِ گلشنِ ما صورت بہار بیا کشادہ دیدۂ گل بہر انتظار بیا ایک روز فوق بیٹھے تھے کہ منشی طاہر دین نے کہا، ایک مؤکل آ گیا ہے۔ کہنے لگے اسے بٹھائو ابھی فرصت نہیں۔ فوق نے کہا: پیٹ کی فکر ہونی چاہیے۔ صوفیانہ غزلیں ہو رہی تھیں۔ کہنے لگے مؤکل کہیں بھاگ نہیں جائے گا۔ یہ شغل تو روح ہے۔ روح ہے تو سب کچھ ہے۔ ایک بار فوق کو ملے عرصہ گزر گیا تو انھیں لکھتے ہیں: آپ کی فوقیت اس قدر بلند ہو چکی ہے کہ نظر ہی سے غائب ہو گئے۔ فوق کا نوجوان بیٹا فوت ہو گیا تو ان کے صدمے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے لکھا: مولوی عبداللہ غزنوی درس دے رہے تھے کہ نوجوان بیٹے کے قتل کی خبر سُنی۔ ایک لخطہ تامل کیا۔ پھر طلباء سے کہنے لگے: مابہ رضائے او راضی ہستیم ،بائید کہ کار خود بکنیم۔ مسلمان اپنے مصائب کو بھی قرب الٰہی کا ذریعہ بنا لیتا ہے۔۰۶ ۱؎ ۱۹۳۶ء میں فوق کی ان سے آخری ملاقات ہوئی ۔ فوق عیادت کے لیے گئے۔ محمد اقبال پہچان نہ سکے۔ فوق دل شکستہ ہو کر واپس آ گئے۔ انھیں کیا معلوم محمد اقبال کی آنکھوں میں موتیا اتر آیا ہے ۔ بینائی بہت کم رہ گئی ہے۔ محمد اقبال کو معلوم ہو ا تو انھیں بہت دکھ ہوا۔کچھ دنوں کے بعد ان کے بھائی مزاج پرسی کے لیے آئے تو ان سے معذرت کی۔ ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء کے دن فوق شدید بخار میں مبتلا تھے، بخارہی کی حالت میں محمد اقبال کے انتقال کی خبر سُنی۔ بہ مشکل جنازے کے ساتھ شاہی مسجد تک گئے۔ تاریخ کہی: یا اسے سمجھا تھا میں پیغمبر دینِ خودی یا چراغِ محفلِ ہندوستاں سمجھا تھا میں فوق کی طرح پنجاب کے مشہور صحافی بزرگ مولوی محبوب عالم سے بھی زمانہ طالب علمی ہی میں ملاقات ہو گئی۔ تعارف محمد اقبال کے سیالکوٹی دوست چراغ ارمونیم کے ذریعے ہوا۔ مولوی محبوب عالم عمر میں محمد اقبال سے ۱۴۔۱۵ سال بڑے تھے۔ لیکن تفاوت عمر دوستی کی راہ میں حائل نہ ہوئی۔ مولوی صاحب محمد اقبال کے دل سے قدر دان تھے۔ وہ بھی انھیں بزرگ سمجھتے۔ مولوی صاحب ضلع گوجرانوالہ کے قصبے فیروز والہ میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے پڑھنے لکھنے کا شوق تھا۔ ۱۸۸۷ء میں ہمت کے نام سے ایک ہفت روزہ اور پھر پیسہ اخبار کے نام سے دوسرا ہفت روزہ شائع کیا۔ گوجرانوالہ کی فضا راس نہ آئی۔ ایک دن بوریا بستر سر پر رکھے پیادہ پا لاہور کا رُخ کیا۔ بھاٹی دروازہ میں اُونچی مسجد کے سامنے کوچہ شیش محل میں گوگل کی دکان تھی۔ دکان کے ساتھ پکی اینٹوں کی چار پانچ سیڑھیاں ، وہیں بستر جما دیا۔ رات بھر سڑک میں لگی ہوئی لالٹین کی روشنی میں مطالعہ کرتے۔ دکان کی چوکی داری کے ساتھ ساتھ اخبار جاری کرنے کی فکر میں لگے رہے۔ دن کی بستر لپیٹ کر دکان میں رکھ دیتے۔ گوگل حکیم محمد شجاع الدین اور ان کے بھائی کا دواساز تھا۔ ایک دن ان کو حکیم صاحب کے یہاں لے گیا۔ یوں مولوی محبوب عالم کو بھی بازار حکیماں کی محفل میں بار مل گیا۔ اخبار نکالنے کا ارادہ تو تھا ہی احباب نے جو ہر قابل دیکھ کر ہمت بندھائی۔ پیسہ اخبار نکالا۔ بڑی محنت سے اس کی اشاعت بڑھائی تا آ نکہ رفتہ رفتہ علمی ادبی دنیا میں اپنا ایک مقام پید ا کر لیا۔ انجمن حمایت اسلام کے جلسوں اور لاہور کے مشاعروں میں شریک ہونے لگے۔ محمد اقبال سے تعلقات بڑھتے چلے گئے۔ ۱۹۰۱ء میں محمد اقبال کو سرکاری ملازمت کا نا اہل قرار دیا گیا تو مولوی صاحب نے اس فیصلے پر پیسہ اخبار میں شدید احتجاج کیا۔ ایک بار مولوی صاحب ان سے ناراض بھی ہو گئے۔ وہ یوں کہ محمد اقبال جن دنوں بھاٹی دروازہ میں مقیم تھے انھوں نے ایک نظم انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسہ میں پڑھی جس میں ملائوں پر خوب خوب چوٹ کی گئی تھی۔ ایک شعر تھا: آج کل لوگوں میں ہے انکار کی عادت بہت نام محبوبان عالم کا یونہی بد نام ہے مولوی صاحب خفا ہو گئے۔ سمجھے ان پر چوٹ کی گئی ہے۔ پیسہ اخبار میں چھاپنے سے انکار کر دیا۔ محمد اقبال نے معذرت کی۔ نیازمندانہ عرض کیا اس سے تعریض کا کوئی پہلو نہیں نکلتا۔ بے تکلفی تھی۔ ناراضگی جاتی رہی۔ مولوی محبوب عالم کی ابتدائی زندگی بڑی عسرت میں گزری۔ ان کی شبانہ روز محنت گلی گلی میں پھر کر اخبار بیچنا، عزم و استقلال، حوصلہ مندی اور جفا کشی مثال بن گئی۔ پیسہ اخبا رہفتہ وار تھا، چل نکلا تو انتخاب لا جواب نکالا۔ انگریزی پرچے ٹٹ بٹس۱۰۷؎ کے نمونے پر۔ پھر بچوں کا اخبار، زمیندار اور باغبان،تا آنکہ مالی حالت اتنی مستحکم ہو گئی کہ انارکلی کے عقب میں پیسہ اخبار اسٹریٹ کے اندر ایک عظیم الشان مطبع قائم کیا۔ صحافیوں کے ابوالأبابن گئے۔ سرکار ہی نہیں صحافت میں بھی بڑا نام پایا۔۱۹۰۰ء میں پیرس کی نمائش میں شرکت کے ساتھ ساتھ اخبار نویسی کے مطالعے کے لیے یورپ روانہ ہوئے۔ اس خوشی میں اسلامیہ کالج میں ایک عظیم الوداعی جلسہ منعقد ہوا جس میں محمد اقبال نے بھی اس تقریب کی رعایت سے ایک طویل نظم پڑھی۔ مولوی صاحب سفر و سیاحت کے شوقین تھے۔ سرکارانگریزی نے بھی ان کی بڑی قدر کی۔ انگلستان گئے، ملک معظم سے ملے۔ پہلی جنگ عظیم کا حال اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ پیسہ اخبار تو گویا صحافیوں کا دبستان تھا۔ بڑے بڑے صحافیوں نے یہاں اس فن میں تربیت حاصل کی۔ بڑے منکسر مزاج اور خوش اخلاق بزرگ تھے۔ دولت برطانیہ کے دل سے وفادار۔ تحریک خلاف کے دوران ان سے ملا تو زعمائے خلافت کو جی بھر کر کوسنے لگے۔ میں نے کہا آپ بزرگ ہیں، ایسا نہ کہیے۔ خاموش ہو گئے۔ مولوی صاحب کا انتقال ۱۹۳۳ء میں ہوا، ۲۳ مئی۔ محمد اقبال جنازے میں شریک تھے۔ تاریخ کہی: سحرگاہاں بگورستاں رسیدم وران گورے پر از انوار دیدم ز ہاتف سالِ تاریخش شنیدم معلیٰ تربتِ محبوب عالم ان کی صاحبزادی محترمہ فاطمہ بیگم جن کو اپنے والد ماجد کی طرح تعلیم نسواں کا جنون تھا اور جنھوں نے بڑی محنت سے مسلمان عورتوں میں تعلیم پھیلائی، اکثر محمد اقبال کی خدمت میں حاضر ہوتیں۔ محمد اقبال بھی ان کی ہمت افزائی کرتے۔ فاطمہ بیگم صحافی باپ کی صحافی بیٹی تھیں۔ کئی سال تک ہفت روزہ خاتون کی ادارت کرتی رہیں۔ تحریک پاکستان میں بڑے جوش و خروش سے حصہ لیا۔ فاطمہ جناح سکول قائم کیا اور بطور ایک وقف قوم کے حوالے کر دیا۔ چند سال ہوئے ان کا انتقال ہو گیا۔ شیخ عبدالقادر بھی جن سے مشاعروں میں ملاقات ہو چکی تھی، کوچۂ جلوٹیاں میں محمد اقبال کے قریب ہی رہتے ۔ روزانہ ملاقات ہوتی۔روز کا ملنا مستقل رفاقت کی تمہید ثابت ہوا۔ خان احمد حسین خان مشاعروں کا اہتمام کرتے۔شور محشر اور سخن کی ادارت ان کے ذمے تھی۔ ان سے شب و روز ملاقات رہتی۔ میرزا ارشد سے نیاز مندانہ روابط تھے۔ نواب غلام محبوب سبحانی بزرگانہ شفقت فرماتے۔ چوہدری شہاب الدین سے بھی اسی زمانے میں ملاقات ہوئی اور ملاقات کے ساتھ ہی باہم چھیڑ چھاڑ شروع ہو گئی۔ بڑے بے تکلفانہ مراسم تھے۔ جب بھی موقعہ ملتا محمد اقبال انھیں دیکھ کر کوئی نہ کوئی پھبتی کہہ دیتے۔ وہ ہنس کر ٹال دیتے۔ مسدس حالی کا پنجابی میں ترجمہ کیا تو محمد اقبال نے کہا چوہدری صاحب آپ نے غضب کر دیا۔ حالی نے مسدس کیا لکھی جنت الفردوس میں گھر بنا لیا۔ آپ پنجابی میں ترجمہ کر رہے ہیں۔ دوزخ میں گھر بنا رہے ہیں۔ ۱۸۹۰ء میں میاں شاہ دین بیرسٹری کر کے انگلستان سے واپس آئے، باغبانپورہ کے میاں خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ علم و فضل اور شعر و سخن کا ذوق بزرگوں سے ورثے میں ملا۔ بڑے کامیاب وکیل تھے۔ جلد ہی ججی کے عہدے پر متمکن ہو گئے۔ قانون میں خاص نظر رکھتے۔ ادب و شعر سے فطری مناسبت اور قانون میں ان کی قابلیت مسلم تھی۔ خود شاعر ، شاعروں کے قدر دان۔ ابتداء میں عاشقانہ غزلیں کہتے۔ انگلستان سے واپس آئے تو رنگ سخن بدل گیا۔ ہمایوں تخلص کرتے۔ محمد اقبال کو شعر و سخن کی محفلوں میں دیکھا۔ سن و سال میں خاصا فرق تھا لیکن اس فرق کے باوجود ملاقات نے دوستی اور دوستی نے گہرے روابط کا رنگ اختیار کر لیا۔ ان کے صاحبزادے میاں بشیر احمد صاحب مدیر ہمایوں بھی اس توسط سے محمد اقبال کے قریب ہوتے گئے۔ محمد اقبال انھیں پیار سے مولانا کہتے۔ شعر گوئی میں ہمت افزائی کرتے۔ میاں شاہ دین کشمیر کے عاشق زار تھے۔ کشمیر جاتے، نظمیں لکھتے، محمد اقبال کو یاد کرتے۔ ایک نظم میں کہتے ہیں کیا اچھا ہوتا اگر اقبال اور عبدالقادر ساتھ ہوتے۔ ناظر سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں: ناظر بڑا مزہ ہو جو اقبال ساتھ دے ہر سال ہم ہوں شیخ ہو اور شالامار ہو۱۰۸؎ اقبال ساتھ دے سے کیا بات پید ا کی ہے۔ کشمیر سے انتہائی وابستگی کا یہ عالم کہ جی چاہتا ہے ہو مرا مسکن نشاط باغ مر جائیے تو ڈل کے کنارے مزار ہو محمد اقبال کے دل میں بھی ان کی بڑی عزت تھی۔ ان سے داد سخن لیتے۔ ایک غزل میں کہتے ہیں: ترک کر دی تھی غزل خوانی مگر اقبال نے یہ غزل لکھی ہمایوں کو سنانے کے لیے ۲ جولائی ۱۹۱۸ء کو جب اچانک ان کا انتقال ہو گیا تو اسلامی پنجاب کو اس سے ایسا عظیم نقصان پہنچا جس کی تلافی برسوں تک نہ ہو سکی۔ محمد اقبال بھی ایک شفیق اور مخلص بزرگ کی دوستی سے محروم ہو گئے۔ ہمایوں کے عنوان سے تغریت میں ایک نظم لکھی۔ تاریخ کہی۔ ۱۰۹؎ میاں شاہ نواز کو لکھتے ہیں: دوش بر خاک ہمایوں بلبلے نالید و گفت اندریں ویرانہ ما ہم آشنائے داشتیم سر شفیع سے بھی، جو میاں شاہ دین کے برادر عم زاد تھے، میاں صاحب ہی کی صحبتوں میں دوستانہ مراسم قائم ہوئے۔ سر شفیع کو بھی شعر و سخن کا شوق تھا۔ کبھی کبھی شعر بھی کہہ لیتے۔ محمد اقبال ان کی شرافت ، نیک دلی اور قومی ہمدردی کا اکثر ذکر کرتے۔ ادھر میاں صاحب کے خلوص کا یہ عالم کہ وائسرائے کی کونسل کے رکن بنے تو انارکلی میں اپنا دفترہی نہیں،جہاں ۱۹۲۲ء تک محمد اقبال کا قیام رہا، اپنے مقدمات اور منشی شیخ طاہر دین کو بھی ان کے حوالے کر گئے۔ انھوں نے انجمن حمایت اسلام، لاہور کی شہری زندگی، ملی اور سیاسی تحریکوں میں محمد اقبال کا ساتھ دیا۔ وہ ان کے خلوص اور غریب پروری کی تعریف کرتے۔ میاں صاحب کے اچانک انتقال کی خبر سُنی تو دلی صدمہ ہوا۔ ۹ جنوری ۱۹۳۳ء کو سول ملٹری گزٹ لاہور کا نمائندہ ان سے ملا تو میاں صاحب کی تعزیت کرتے ہوئے کہا: خُدا نے انھیں اعلیٰ قسم کی گھریلو اور معاشرتی خوبیوں سے نوازا تھا۔ وہ ایک محبت کرنے والے باپ اور خاوند ایک ممتاز قانون دان اور تیز فہم سیاست دان تھے۔ بار اور سیاسی کانفرنسوں میں یکساں طور پر نمایاں۔۱۱۰؎ میاں صاحب دل سے مسلمانوں کے ہمدرد تھے۔ سیاست میں ان کا مسلک بڑا نرم تھا۔ انھیں سرکار سے وفاداری کے طعنے دیئے جاتے۔ محمد اقبال کہتے: بیشک وفاداری ان کا مسلک تھا لیکن ان معنوں میں نہیں جن میں لوگ سمجھتے ہیں۔ افسوس ہے مسلمانوںمیں سیاسی شعور کی کمی ہے۔ مسلمان صحیح معنوں میں باعتبار’’یمین ویسار‘‘ دو سیاسی جماعتیں قائم نہیں کر سکے۔ میاں صاحب ایک اعتدال پسند سیاست دان تھے۔ ملک و قوم کے بہی خواہ ، ان کی سیاسی روش وہی تھی جو ہندوئوں میں (لبرل) اعتدال پسند سیاست دانوں کی۔ ۱۱۱؎ خواجہ عبدالرحیم کو لکھتے ہیں: سر محمد شفیع کی موت سے بڑا نقصان مسلمانوں کو ہوا۔ ہندوستان بھر میں ان کا ماتم کیا گیا۔۱۱۲؎ میاں شاہ نواز سے، کہ سر شفیع کے داماد اور میاں شاہ دین کے برادر زاد تھے، محمد اقبال کی دوستی کی داستان بڑی طویل ہے۔ ان سے بھی اسی زمانے میں ملاقات ہوئی جب میاں خاندان سے ان کے تعلقات بڑھ رہے تھے۔ انگلستان سے واپس آئے تو بار روم کی محفلوں ،آئے دن کی ملاقاتوں ، جلسوں اور محفلوں میں ایسا یارانہ گھٹا کہ ایک جان دو قالب کی سی صورت پیدا ہو گئی۔ شاہنواز اور محمد اقبال ایک دوسرے کے ہمدم ، ندیم و جلیس تھے۔ دوستی ایسی کہ دوران علالت میں بھی ایک دوسرے سے ملنے میں فرق نہ آیا۔ ایک دوسرے کی مزاج پرسی سے غافل نہ رہتے۔ محمد اقبال علیل ہیں۔ اتنے علیل کہ بستر سے ہلنا مشکل ہے۔ شاہنواز کو فالج نے بے حس و حرکت کر رکھا ہے لیکن دوستی اور محبت کا یہ عالم کہ ملازم انھیں گاڑی میں بٹھاتا۔ جاوید منزل لے جاتا، گاڑی محمد اقبال کے پلنگ کے ساتھ لگا دی جاتی۔ محمد اقبال بستر میں لیٹے لیٹے آگے بڑھتے، گھنٹوں باتیں کرتے اور بیتے ہوئے دنوں کی یاد نہ معلوم انھیں کہاں کہاں لے جاتی۔ محمد اقبال کہتے: اب تو ہمارا آپ کا ملنا چکوے چکوی کا ملنا ہے۔ شاہنواز سخن فہم تھے، وہ بلی چوہے کو دیتی ہے پیغام اتحاد، والے قطعہ میں جو محمد اقبال نے ۱۹۱۵ء میں انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں پڑھا، شاہنواز ہی کا یہ فقرہ جو انھوں نے لندن کے لاٹ پادری پر چست کیا تھا نظم ہو گیا ہے کہ پادری صاحب بلی کی طرح مسلمانوں کو دعوت اتحاد دے رہے ہیں کہ آئیے مل کر ’ترکان بد نہاد‘ کا قلع قمع کر دیں۔ شاہنواز سیاسی دائو پیچ بھی خوب سمجھتے تھے۔ محمد اقبال ان کی اصابت رائے کے قائل تھے ان کے ایثار اور اخلاق کی تعریف کرتے ۔ بافسوس فرماتے: شاہنواز بہت بڑا آدمی ہے، بہت بڑا آدمی ہوتا لیکن حالات راستے میں حائل ہو گئے۔ شاہنواز آگے نہ بڑھ سکے۔ میں نے ان کی دو تین ملاقاتوں کا حال دیکھا ہے۔ ان کے خلوص اور محبت کی کیفیت بیان میں نہیں آ سکتی۔ انھیں ملاقاتوں میں مجھے ان سے نیاز حاصل ہوا۔۱۳ ۱؎ میاں شاہ دین کے حلقۂ احباب میں میر نیرنگ ، ناظر اور اعجاز بھی شامل تھے۔چوہدری خوشی محمد ناظر ۱۸۷۲ء میں پیدا ہوئے بریاوالا ضلع گجرات میں۔ ابتدائی تعلیم گجرات ہی میں مولوی نور الدین انور سے حاصل کی۔ شعر و سخن میں بھی ان سے اصلاح لیتے۔ پھر علی گڑھ چلے گئے۔ ذوق دینداری کا تھا۔ علی گڑھ کی آب و ہوا نے اسے اور پرورش دی۔ مولانا حالی سے رشتۂ تلمذ قائم کیا۔ غزلیں کہیں، نظمیں لکھیں۔ اُردو میں، فارسی میں۔ ۱۸۹۳ء میں بی۔ اے کیا۔ ریاست کشمیر میں ملازمت مل گئی۔ ترقی کرتے کرتے مشیر مال کے عہدے پر جا پہنچے تھے اور شاعر جوگی، ایسی نظم اور کشمیر کی تعریف میں کئی نظموں کے مصنف ۔ ناظر سے محمد اقبال کی ملاقات کب ہوئی یہ معلوم نہیں لیکن ناظر کا شمار بہت جلد اس حلقے میں ہونے لگا جو مولانا فیض الحسن سہار نپوری اور میر ناظر اور پھر آگے چل کر مخزن کی بدولت لاہور میں قائم ہوا جس میں آزاد اور حالی کی کوششوں کا بھی دخل ہے جیسے بازار حکیماں کی محفلوں ، انجمن حمایت اسلام کے جلسوں اور آگے چل کر مخزن کو بھی۔ ناظر کا کلام مخزن میں چھپتا۔ میاں شاہ دین سے بھی ان کے تعلقات تھے۔ چنانچہ میاں صاحب ہی کی ایک نظم سے، جو اکتوبر ۱۹۰۱ء میں مخزن میں شائع ہوئی، گمان ہوتا ہے کہ محمد اقبال کی شاید اس سے بہت پہلے ناظر سے ملاقات ہو چکی تھی۔ ان سے ادبی روابط قائم تھے۔ میاں صاحب کہتے ہیں: اعجاز دیکھ تو سہی یاں کیا سماں ہے آج نیرنگ آسمان و زمیں کا نیا ہے آج اقبال تیری سحر بیانی کہاں ہے آج ناظر کمانِ فکر سے مار ایک دو خدنگ تنقید ہمدرد میں جب ایک صاحب نے محمد اقبال کے کلام پر زبان اور محاورے کی رُو سے کچھ اعتراضات کیے تو ان کے ساتھ ساتھ ناظر کو بھی اپنی زد میں لے آئے۔ سید ممتاز علی اور میر نیرنگ نے تنقید کا جواب لکھا۔ میر نیرنگ انبالوی کے نام سے مضامین لکھے ۔ محمد اقبال نے بھی تنقید ہمدرد میں اس طرف اشارہ کیا ہے۔ ناظر ملازمت سے سبکدوش ہو کر چک جھمرا میں سکونت پذیر ہو گئے ۔ انتقال اکتوبر ۱۹۴۴ء میں ہوا۔ میاں خاندان کے علاوہ ایک دوسرا خاندان جس سے محمد اقبال کے گہرے مراسم تھے اور جس سے ایک گونہ قرابت داری تھی خواجہ رحیم بخش کا خاندان ہے جن کے دولت خانے’’للی لاج‘‘ میں آگے چل کر علم و ادب کی محفلیں گرم ہوں گی۔ خواجہ رحیم بخش ، ان کے بھائی خواجہ کریم بخش اور امیر بخش خلیفہ نظام الدین، سید محمد شاہ وکیل اور مولانا ظفر علی خاں کے والد ماجد مولوی سراج الدین احمد نوجوان ادیبوں اور شاعروں کی تربیت میں بڑا حصہ ہے ۔ مولوی سراج الدین خود بھی شعر کہتے۔ یہ بزرگ جب شعر و سخن ،علمی اور ادبی محفلوں میں شریک ہوتے تو شعراء کے کلام پر نقد و تبصرہ کرتے، ان کی ہمت بڑھاتے۔ محمد اقبال بھی بقول حکیم احمد شجاع، معمولاً جلسوں میں کوئی نظم پڑھنے سے پہلے انھیں سنا لیتے۔ چنانچہ ’تصویر درد‘ کے عنوان سے جو نظم لکھی ہے اوّل انھیں حضرات کو سنائی گی۔ پھر جلسۂ عام میں پڑھی گئی۔۱۱۴؎ یہ حلقہ تو بزرگوں کا تھا۔ بازار حکیماں کی محفلیں بھی بزرگوں ہی کے نام سے قائم تھیں۔ ان میں حکیم شجاع الدین محمد ، حکیم شہبازالدین ، حکیم امین الدین انھیں بزرگوں ہی کی طرح عزیز رکھتے۔ یہ بزرگ خاندان حکیماں کے چشم و چراغ تھے۔ ان کے پہلو بہ پہلو بھاٹی دروازے کا ایک دوسرا، یعنی فقیر خاندان آباد تھا۔ دونوں میں باہم قرابت داری کا تعلق بھی تھا۔ دونوں دولت علم اور ذوق ادب سے مالا مال، روسائے شہر میں بڑی عزت کی نظر سے دیکھے جاتے۔ خاندان حکیماں سے تقریب ملاقات مشاعروں نے پیدا کی۔ مشاعروں ہی میں فقیر سید افتخار الدین نے انھیں دیکھا۔ جو ہر قابل کے اداشناس تھے، محمد اقبال کی قابلیت سے بے حد متاثر ہوئے۔ فقیر صاحب کے مورث اعلیٰ فقیر سید عزیز الدین مہاراجہ رنجیت سنگھ کے وزیر با تدبیر تھے، بلکہ کہنا چاہیے، رنجیت سنگھ کی حکومت کو جو استحکام نصیب ہوا فقیر صاحب ہی کی بدولت۔ چنانچہ فقیر خانہ کے نام سے جو حویلی بازار حکیماں میں تعمیر ہوئی اس سے اب بھی ان کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ فقیر افتخار الدین ۱۸۸۵ء میں پیدا ہوئے۔ ملازمت کی ابتداء صوبائی سول سروس سے کی۔ ترقی کرتے کرتے افغانستان میں قنصل مقرر ہو گئے۔ سرکار انگریزی کی خدمات کے صلے میں سی آئی ای کا خطاب پایا۔ محمد اقبال کے دل سے قدر دان تھے۔ شب و روز کی ملاقاتیں، رسم و راہ، گفتگوئیں، باوجود تفاوت عمر چند ہی دنوں میں گہرے تعلقات قائم ہو گئے۔ سیر و تفریح میں اکثر ساتھ لے جاتے۔ ’’میں ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھا تھا۔ مال روڈ سے گزر رہے تھے کہ ایک انگریز افسر کی گاڑی آتی دکھائی دی۔ فقیر صاحب حسب قاعدہ بائیں جانب ہٹے، لیکن اس حد تک کہ گاڑی سڑک سے اُتر گئی۔ میں نے کہا: فقیر صاحب! آپ نے گاڑی کیا ہٹائی سڑک ہی چھوڑ دی۔ کہنے لگے برخوردار! سٹرک کیا چیز ہے ہم نے تو ان کے لیے ملک ہی چھوڑ دیا ہے‘‘۔۱۵ ۱؎ فقیر سید نجم الدین کے ہاں بھی شعر و شاعری کا چرچا رہتا۔ وہ فقیر سیدافتخار الدین کے داماد تھے۔ محمد اقبال سے بڑی محبت کرتے۔ ان کے قدر دان تھے۔ فقیر صاحب طائوس خوب بجاتے، کہنہ مشق تھے۔ محمد اقبال ان سے طائوس سنتے۔ درباری، مالکوس، ایمن فقیر صاحب کے پسندیدہ راگ تھے۔ گھنٹوں موسیقی کی محفل جمی رہتی۔ ۱۱۶؎ ۱۹۳۷ء میں جب فقیر صاحب کا انتقال ہوا تو باوجود شدید علالت کے ان کی تعزیت کے لیے گئے، بمشکل چند الفاظ کہے۔ حبسی صوت کے باعث کھل کر اظہار افسوس نہ کر سکے۔ حکیم شہباز الدین کے دیوان خانے اور بیرونی چبوترے میں احباب کی محفل جمتی۔ زیادہ تر بازار کی جانب نکلتے ہوئے چبوترے پر۔ راہگیر آتے جاتے دیکھتے ۔ حکیم صاحب دوستوں کے حلقے میں بیٹھے ہیں، شعر و شاعری اور حقے کا زور ہے۔ لاہور میں اس چبوترے (پنجابی میں تھڑے) کی یاد تادیر قائم رہی۔ بازار حکیماں ہی کی محفلوں میں محمد اقبال کا تعارف مولوی احمد دین اور سید محمد شاہ سے ہوا۔ دونوں وکالت کرتے۔ سید صاحب خاموش طبع انسان تھے مگر انجمن حمایت اسلام کے سرگرم کارکن۔ انجمن کے معاملات میں محمد اقبال کے شریک شعر و شاعری کا ذوق تھا۔ محمد اقبال سے عمر بھر دوستانہ تعلقات قائم رہے۔ مولوی احمد دین مولانا محمد حسین آزاد کے شاگرد تھے زبان اور ادب میں استاد کا رنگ اڑایا ۔ سرگزشت کے مصنف، بڑے فاضل انسان تھے۔ محمد اقبال کے احباب خاص میں شامل ۔ عمر میں بڑے مگر دلی دوست، قدر دان اور ہمدرد۔ ۱۸۶۵ء میں پیدا ہوئے ۔ تعلیم کی ابتداء گوجرانوالہ سے ہوئی۔ لاہور آئے۔ بی۔ اے کیا۔ طلائی تمغہ ملا۔ اس زمانے میں بی۔ اے کی سند کا وہی درجہ تھا جو آج کل بڑی سے بڑی سند کا ۔ ذوق ادب خداداد تھا۔ علم و حکمت سے دلی لگائو، قانونی قابلیت مسلم ۔ انجمن حمایت اسلام کی تعلیمی اصلاحی اور علمی سر گرمیوں کا بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا۔ سالانہ جلسوں میں لیکچر بھی دیتے۔ انجمن کشمیری مسلماناں میں بھی خوب خوب حصہ لیا۔ علمی زندگی کی ابتدائٔ صحافت سے کی۔ پیسہ اخبار سے تعلق رہا۔ خود بھی غم خوار عالم کے نام سے ایک اخبار نکالا۔ اُردو اخبار، سے دلی وابستگی تھی۔ تصنیفات و تالیفات میں سر گزشت الفاظ بالخصوص قابل ذکر ہے۔ ایسے ہی اورنگ زیب عالمگیر کی تحقیقی سوانح محمد اقبال پر مضامین بکثرت لکھے۔ ادبی مشاغل کا آغاز کالج سے ہو چکا تھا۔ بازار حکیماں کی محفلوں میں شریک ہوتے۔ رقص و سرور کے دلدادہ تھے۔ محمد اقبال سے ملاقات ہوئی تو چند ہی دنوں میں باہم شیر و شکر ہو گئے۔ تعلقات یہاںتک بڑھے کہ شب و روز ایک دوسرے کے شریک رہتے۔ ہمدم اور ہم مجلس گھر کا سامعاملہ۔ کشمیر کا پہلا سفر بھی ایک ساتھ ہی کیا۔ مولوی صاحب کی شخصیت بڑی پر کشش تھی۔ وضع داری ضرب المثل۔ پرانی تہذیب کا جیتا جاگتا نمونہ ، کم گو۔ دیوانی مقدمات میں کمال مہارت۔ سادہ لبا س پہنتے۔ چھوٹا کوٹ، ترکی ٹوپی سر پر۔ چھوٹی چھوٹی داڑھی۔ شیخ گلاب دین سے گہری دوستی تھی۔ محمد اقبال کا اُردو مجموعۂ کلام سب سے پہلے انھیں نے مرتب کیا۔ ایک فاضلانہ مقدمہ لکھا۔ حالات زندگی پر قلم اُٹھایا۔ محمد اقبال ان دنوں بانگ درا کی اشاعت کا اہتمام کر رہے تھے۔ ادھر مولوی صاحب نے ان کا سارا کلام جو ادھر ادھر منتشر تھا، بااحتیاط جمع کرتے ہوئے اقبال کے نام سے شائع کر دیا۔ کتاب چھپ کر محمد اقبال کے پاس پہنچی تو شیخ گلاب دین سے کہنے لگے: میں تو اپنا کلام خود ہی مرتب کر رہا تھا، نظر ثانی ہو رہی تھی، کیا اچھا ہوتا مولوی صاحب ذرا انتظار کر لیتے۔ مولوی صاحب نے یہ بات سُنی تو اس کا کچھ اور ہی مطلب سمجھے۔ انھیں یہ بات گوارا ہی نہیں تھی کہ محمد اقبال کو کسی پہلو سے ناراض کریں یا نقصان پہنچائیں۔ سارے کا سارا مجموعہ کتب جو چھپ کر آیا تھا، صحن میں رکھا اور نذر آتش کر دیا۔ محمد اقبال کو معلوم ہوا تو انھیں بڑا صدمہ ہوا۔ دل سے معذرت کی۔ یہ کتاب بانگ درا کی اشاعت کے بعد ۱۹۲۶ء میں اگرچہ پھر شائع ہوئی لیکن مولوی صاحب نے بہت سا کلام حذف کر دیا۔ مولوی صاحب کا اخلاص اور ایثار ایک مثال بن کر رہ گیا۔ تعلقات میں سرموفرق نہ آیا۔ مولوی صاحب ہر معاملے میں نجی ہو یا کاروباری محمد اقبال کا ہاتھ بٹاتے رہے۔ دراصل یہ غلطی فہمی یا شکر رنجی جو کچھ بھی کہیے خلوص و محبت کی ایک جذباتی کیفیت تھی ورنہ مولوی صاحب کو محمد اقبال سے نہ صرف محبت تھی بلکہ ان کی دل سے عزت کرتے۔ وہ ان کی سخن فہمی کے قائل تھے۔ اگر انھیں کوئی شعر پسند نہ آتا تو نظر انداز کر دیتے۔ بھائیوں کے سے تعلقات تھے بات صرف اتنی تھی مولوی صاحب نے اپنے مجموعۂ کلام میں وہ نظمیں شامل کر رکھی تھیں جن کو اقبال قلمزد کر چکے تھے ۔ نظر ثانی بھی ہو رہی تھی۔ انھوں نے کہا ایک مجموعۂ کلام ہوتے ہوئے دوسرے کی کیا ضرورت ہے۔ وہ عجب سماں تھا جب مولوی صاحب صحن میں بیٹھے کتابوں کے ڈھیر کو شعلوں میں خاک ہوتے دیکھ رہے تھے۔ حالانکہ محمد اقبال کو اس کی اشاعت پر کوئی اعتراض نہ تھا،صرف ضمناً ایک بات کہہ دی تھی۔ وہ بھی اس لیے کہ ان کے کلام کو بے اجازت چھاپنے کے معاملے میں جیسی بھی کسی قانونی کاروائی کا معاملہ مولوی صاحب ہی کے ذمے تھا۔ مولوی صاحب کے صاحبزادے خواجہ ریاض احمد کا بیان ہے کہ کتاب شیخ گلاب دین کے ایما پر جلائی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ محمد اقبال کے اصرار پر اس کتاب کو پھر سے چھپوایا گیا گویہ ترمیم۔ اصل نسخہ اب بھی محفوظ ہے۔ راقم الحروف خود بھی خواجہ صاحب سے درخواست کر چکا ہے کہ اس کی پھر اشاعت ضروری ہے بظاہر وہ اس پر آمادہ بھی تھے۔ ۱۹۲۳ء کے بعد مولوی صاحب بیمار رہنے لگے۔ محمد اقبال برابر ان کی مزاج پرسی کے لیے جاتے۔ ۱۱ اکتوبر۱۹۲۹ء کو ان کا انتقال ہوا تو بسبب نقرس کی تکلیف کے جنازے میں شریک نہ ہو سکے۔ ان کے صاحب زادے خواجہ بشیر احمد کو لکھتے ہیں: افسوس ہے مولوی صاحب کے جنازے میں شریک نہ ہو سکا… پائوں میں سخت تکلیف تھی…دوسرے دانت کے درد میں اضافہ ہو گیا۔ خواجہ فیروز الدین کے ہم دست اپنی معذوری کا پیغام بھیجا تھا۔ تازیست افسوس رہے گا کہ مرحوم کے لیے آخری جو دُعا کی گئی اس میں شریک ہونے سے محروم رہا۔ اللہ ان کو غریق رحمت کرے۔ آپ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ کل آپ کے ہاں حاضر ہو نے کا قصد ہے۔ شام کے قریب سب بھائی گھر پر ہی ہوں گے۔ ۱۱۷؎ احمد حسین خان سے تو شب و روز ملاقات رہتی۔ وہ بازار حکیماں کی ادبی محفلوں کا اہتمام کرتے۔شور محشر اور رسالہ سخن کے مدیر اور انجمن اتحاد کے معتمد اعزازی تھے۔ ۱۸۵۵ء میں مسٹرمدن گوپال بیرسٹر کی صدارت میں لٹریری سوسائٹی کی بنیاد رکھی۔ یہ سب انجمنیں مل کر کام کر رہی تھیں۔ احمد حسین خان مشاعروں کے اہتمام میں شب و روز سر گرم رہتے۔ انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں بھی کوئی نہ کوئی نظم پڑھتے۔ محمد اقبال نے’ شکوہ‘ پڑھا تو اگلے ہی سال احمد حسین خاں نے اس کے جواب میں ایک نظم پڑھی’میرا خواب‘ اور خاتمہ اس شعر پر کیا: پھر نہ اقبال خدا کے لیے شکوہ کرنا مجھ کو منظور نہیں سو کے دوبارہ مرنا ان کا یہ مصرع’احمد حسین خان زمانہ بدل گیا، دیر تک زباں زد خاص و عام رہا ۔۱۸۷۰ء میں پیدا ہوئے۔ دادا سردار یعقوب خاں کی فوج میں ملازم تھے۔ نسلاً یوسف زئی پٹھان، لاہور آ گئے۔ والد ڈاکٹر محمد حسین خان میڈیکل کالج میں پروفیسر تھے۔ آنریری مجسٹریٹ بھی رہے۔ احمد حسین خاں نے ۱۸۹۶ء میں گورنمنٹ کالج سے بی۔ اے کیا۔ گویا ایک طرح سے محمد اقبال کے ہم مکتب تھے۔ غزل گوئی کا شوق تھا۔ میرزا ارشد گورگانی اور مولانا فیض الحسن سے کسب فیض کیا ۔ بڑے پر گو۔ غزل سے نظم کی طرف آ گئے۔ تصنیفات بہت تھیں۔ مخزن میں بالا لتزام مضمون لکھتے۔ کئی ناول اور ڈرامے لکھے ۔۱۹۰۷ء میں مسٹر بیل ڈائریکٹر محکمہ تعلیم کی سفارش پر ای۔ اے۔ سی کے امتحان میں بیٹھے، کامیاب ہو گئے۔ سرکاری ملازمت مل گئی۔ دیر تک منصف رہے۔ ایشیاٹک سوسائٹی لندن گئے۔ فیلو شپ کا اعزار ملا۔ ۱۹۱۸ء میں منصفی سے سبکدوش ہو کر محکمہ تعلیم کے پرچے ٹی۔ بی۔سی کی ادارت کرنے لگے۔ مخزن کا دور ختم ہواتو ایک مدت تک شباب اُردوکے نام سے ایک ماہنامہ نکالتے رہے۔ قیام بازار حکیماں ہی میں تھا اس لیے خاندان حکیماں اور فقیر خاندان دونوں سے قریبی مراسم رہے۔ طویل عمر پائی۔ مطالعے کے بے حد شوقین تھے۔ بڑے مستعد ، بڑے محنتی ، بازار حکیماں کی محفلوں کی روح و رواں۔ محمد اقبال کے ساتھ ساتھ چلنا ، بلکہ شاید آگے بڑھنا چاہتے تھے۔ ۱۸۹۷ء یا ۱۸۹۸ء کی بات ہے ، عید کے موقع پر حکیم امین الدین نے ایک دعوت کا اہتمام کیا۔ احباب کی محفل تھی، عید کا دن، کھانے سے فراغت ہوئی تو شیخ عبدالقادر نے کہا شیخ محمد اقبال اور خان احمد حسین خاں کیوں نہ فی البدیہہ ایک ایک غزل کہیں۔ مصرع طرح دیا گیا۔ احمد حسین خان نے غزل کہی۔ محمد اقبال نے بھی چنانچہ وہ غزل اسی محفل میں کہی گئی جس کے اس شعر سے: جو وفا پیشہ سمجھتا ہے خودی کو ایماں جنتی ہو گا فرشتوں میں نمایاں ہو گا۱۱۸؎ اندازہ ہوتا ہے کہ خودی کا تصور، جیسا کہ عرض کیا گیا ، ابتداء ہی سے ان کے دل میں اُبھر رہا تھا۔ انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں محمد اقبال کا تعارف مرزا غلام احمد قادیانی کے بڑے صاحب زادے مرزا سلطان احمد سے ہوا۔۱۱۹؎ مرزا صاحب فقیر سید افتخار الدین کے احباب میں سے تھے۔ محمد اقبال سے ملاقات کیوں نہ ہوتی۔ مرزا صاحب ۱۸۵۰ء میں قادیان میں پیدا ہوئے۔ ۱۸۶۷ء میں بی۔ اے کیا۔ نائب تحصیلداری سے ڈپٹی کمشنری تک پہنچے۔ ملازمت ختم ہوئی تو بہ منصب سفارت افغانستان جانے سے انکار کر دیا۔ بہاول پور میں مشیر مال کا عہدہ پیش کیا گیا۔ بہاول پور سے قادیان واپس آئے۔ گوشہ نشینی اختیار کی۔ جولائی ۱۹۳۱ء میں فوت ہوئے۔ بہت بڑے مصنف تھے۔ اخلاقی مباحث پر بالخصوص قلم اٹھاتے۔ تصانیف متعدد ہیں۔ اصول فقہ اسلام، الصلوٰۃ، اسوۂ رسولؐ، یاد گار حسین وغیرہ وغیرہ۔ فنون لطیفہ کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ شاعری، موسیقی ، فن تعمیر ، سنگ تراشی، مصوری پرسیر حاصل بحث کی اور اسے محمد اقبال کے نام ان الفاظ میں ممنون کیا: آداب ایشیائی اقوام کے مطابق ہدیہ اور نذر دینے کے واسطے پہلے اجازت طلب کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، اس رواج کے مطابق حضرت ڈاکٹر محمد اقبال سے اجازت طلب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس روز افزوں احترام اور محبت کے اعتبار سے جو حضرت اقبال کی نسبت میرے ناچیز دل میں ہے، یہ ادنیٰ نذر پیش کرنے کی جرأت کرتا ہوں۔ اقبال کی کشادہ دلی اور دوست نوازی سے امید کرنی چاہیے کہ مجھے شرف قبولیت سے ممتاز فرمایاجائے۔ اس طویل اقتباس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ باوجو د تفاوت عمر کہ مرزا صاحب محمد اقبال سے پچیس ستائیس برس بڑے تھے، انھوں نے محمد اقبال سے کس قدر عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ اس سے پہلے مرزا صاحب لدھیانہ کے ماہنامہ اقبال میں بھی اکبر اور اقبال کی ذہنی اور فکری مماثلت پر ایک مضمون لکھ چکے تھے۔ اکبر نے یہ مضمون دیکھا تو ۲۰ جنوری ۱۹۱۴ء کو لکھتے ہیں: دل چاہا مدح سرائی کروں لیکن وہ خیال اس پیرائے میں ظاہر ہوا۔ خوب ہے موعظتِ حضرت سلطاں احمد دل انساں کی چمک خوب کہ سونا بہتر غفلت و کبر سے غم خانۂ اکبر اچھا خندۂ جام سے اقبال کا رونا بہتر ظلم ہے ان کو اگر داد نہ دوں میں لیکن اپنے مداح کا مداح نہ ہونا بہتر تین شعر ہیں۔ خاتمے پر لکھتے ہیں : مجھ میں اور حضرت اقبال میں کچھ ہے تو آپ ہی کے دل کی آواز ہے۔۲۰ ۱؎ مرزا سلطان احمد نے احمدیت قبول نہیں کی۔مخزن میں طرح طرح کے مباحث پر مسلسل قلم اٹھاتے۔ مثنوی اسرار خودی پر بڑا سیر حاصل تبصرہ کیا۔ مخالفین کے اعتراضات کا بڑی خوبی سے جواب دیاہے۔۱۲۱؎ انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں شریک ہوتے۔صدارت فرماتے۔ ’شمع و شاعر‘پڑھی گئی اور سید افتخار الدین کے ساتھ صدارت میں شریک ہوئے اور مزا حاً محمد اقبال کو ہر جائی ٹھہرایا تو محمد اقبال کا وہ مشہورقطعہ ’’گاہ با سلطان باشی گاہ باشی با فقیر‘‘ ارتجالاً اُسی’ ہرجائی ‘کے جواب میں موزوں ہوا۔ پیسہ اخبار کے پہلو بہ پہلو لاہور سے ایک دوسرا اخبار وطن کے نام سے شائع ہوتا تھا۔ وطن نے بھی لاہور میں اُردو صحافت کو خوب خوب فروغ دیا۔ وطن مولوی انشاء اللہ خاں کی ادارت اور ملکیت میں ۱۹۰۱ء میں جاری ہوا ۔ مولوی صاحب بھی ایک طرح سے مولوی محبوب عالم کے ہم وطن تھے۔ وہ بھی گوجرانوالہ سے لاہور آئے۔ اور صحافت کے ساتھ ساتھ اسلامی تاریخ، دولت عثمانیہ ، ترکوں اور ترکی کے بارے میں تصنیفات اور تالیفات اور تراجم کا سلسلہ شروع کر دیا، اس حد تک کہ یہ سلسلہ وطن ہی سے مختص ہو گیا۔ ادارہ طباعت کا نام بھی سلطان عبدالحمید کے نام کی رعایت سے حمیدیہ ایجنسی رکھا گیا۔ حجاز ریلوے پر بالخصوص مضامین شائع کرتے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب تحریک اتحاد اسلامی کو سلطان عبدالحمید کی زبردست تائید حاصل تھی۔ سلطان کا خیال تھا یوں دولت عثمانیہ کے ساتھ ساتھ دول مغرب کے مقابلے میں بھی سلطنت کے حفظ و استحکام کا ایک ذریعہ پیدا ہو جائے گا۔ مولوی صاحب کو ترکوں سے دلی تعلق تھا اور یہی ان کے اخباراور انشاپردازی کا سب سے بڑا موضوع ۔محمد اقبال سے بھی ان کے گہرے روابط تھے۔ بلکہ بے تکلفی ۔ محمد اقبال یورپ گئے تو دوران سفر میں اور پھر کیمبرج پہنچ کر سفر کے بارے میںجو خط لکھے مولوی صاحب کو ہی لکھے۔ ان خطوں سے ہی ہمیں ان کے سفرکے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں۔ یورپ سے واپس آئے ، انارکلی میں قیام تھا۔ مولوی صاحب کا دہلی دروازے سے باہر وطن بلڈنگ میں، جو انارکلی سے زیادہ دور نہیں۔ مولوی صاحب اکثر ملاقات کے لیے آتے۔ انارکلی میں کشمیری طوائفیں رہتی تھیں، انھیں کسی دوسری جگہ اٹھوایا دیا گیا تو مولوی صاحب کہنے لگے: اب آپ کا جی کیسے لگے گا؟ محمد اقبال نے کہا مولوی صاحب کیا کیا جائے، وہ بھی تو آخر وطن ہی کی بہنیں ہیں۔ خان صاحب، میر منشی سراج الدین ، محمد اقبال کے قریباً قریباً ہم عمر ، ۱۸۷۶ء میں پیدا ہوئے ، ۲۶ فروری۔ بزرگوں کا پیشہ زمینداری تھا۔ کشمیر کے اکثر خاندانوں کی طرح ترک وطن پر مجبور ہو کر لاہور آ گئے۔ منشی محمد اسماعیل وکیل لاہور کے بڑے صاحبزادے ۔ ابتدائی تعلیم جہلم سے حاصل کی، پھر فارمن کرسچین کالج لاہور میں داخلہ لیا تھا کہ ۱۸۹۴ء میں باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ شیرانوالہ اسلامیہ ہائی سکول میں انگریزی اور فارسی پڑھانے لگے لیکن چند مہینوں سے زیادہ ملازمت نہ کر سکے۔ طبیعت کے غیور تھے ، آزاد رو، خود دار، ملازمت چھوڑ دی۔ شعر و سخن سے دلی شغف تھا۔ مشاعروں میں شریک ہوتے۔ مشاعروں میں شرکت ہی محمد اقبال سے تعارف کا ذریعہ بنی۔ تعارف ہوا تو تعارف دلی دوستی سے بدل گیا۔ محمد اقبال سے شب و روز نشست رہتی۔ طبیعت نہایت موزوں پائی تھی۔ حافظہ غضب کا تھا۔ اُرد و فارسی کے دیوان ازبر۔ آپ نے کوئی شعر پڑھا ، انھوں نے سنتے ہی اساتذہ کے کلام سے اسی مضمون کے دس شعر سنا دیئے۔ جہاں بیٹھے ہیں شعر گنگنا رہے ہیں۔ بڑے جہیر الصوت۔ شعر گنگناتے آواز بلند ہوتی چلی جاتی اور پھر یوں محسوس ہوتا جیسے منشی صاحب عالم کیف میں کھوتے گئے ہیں۔ منشی صاحب کو خاں صاحب ہی کہا جاتا ۔ وہ مشاعروں کی رونق تھے۔ سخن فہم، سخن سنج۔ جہاں بیٹھے ہیں محفل جمی ہے ، شعر اور شاعری پر گفتگو کر رہے ہیں ۔ ذوق سخن کی پرورش کی جا رہی ہے۔ مشاعروں میں کرسیٔ صدارت ان کی منتظر رہتی۔ ایسا رنگ جمتا کہ لوگ قائل ہو جاتے۔ بڑا رعب دار چہرہ، خشخشی داڑھی بڑی بڑی مونچھیں، جسم بھاری، سوٹ زیب بدن، سر پر اونچی دیوار کی سبز مخملیں ٹوپی جس سے مرزا غالب کی کلاہ پا پاخ کی یاد تازہ ہو جاتی ۔ ان کی شخصیت شاعروں پر چھائی رہتی۔ لب و لہجہ اہل زبان کا ۔ بڑی تمکنت اور وقار سے گفتگو فرماتے۔ مزاج میں ظرافت۔ حاضر جواب ایسے کہ کسی کو منہ کھولنے کی جرأت نہ ہوتی۔ بات میں بات پیدا کرنا انھیں کا حصہ تھا۔ کہتے ہیں شاعر نہیں، شاعر کو تولتا ہوں ۔ایک ایک مصرعے پر گرفت کرتے۔ یہاں زبان کی غلطی ہے۔ یہ محاورہ ٹھیک نہیں، مضمون ناقص ہے۔ شاعر شعر پڑھنے سے گھبراتا ۔ محمد اقبال ان کے ذوقِ شعر کے قائل تھے۔ انھیں اپنا تازہ کلام بھیجتے۔ ان کی پسندیدگی اور سخن فہمی سے لطف اٹھاتے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں آپ کو شاعری سے طبعی مناسبت ہے،اگر نیچر ذرا فیاضی سے کام لیتی تو آپ کو زمرۂ شعر اء میں پیدا کرتی۔ بہر حال شعر کا صحیح ذوق شاعری سے کم نہیں ، بلکہ کم از کم ایک اعتبار سے اس سے بہتر‘‘۔ ۱۲۲؎ خان صاحب نے ملازمت چھوڑ دی۔ بے کار تھے، اتفاقاً سید محمد تقی سے معلوم ہواکہ کشمیر ریذیڈنسی میں کلر کوں کی آسامیاں خالی ہیں۔ اُردو فارسی میں قابل ملازمین کی ضرورت ہے۔ ریذیڈنٹ کو بھی فارسی کا خاصا ذوق تھا۔ خان صاحب سیالکوٹ پہنچے۔ سردیوں میں ریذیڈنٹ کا دفتر سیالکوٹ منتقل ہو جاتا۔ میر حسن کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ظاہر ہے محمد اقبال نے بھی ذکر کیا ہو گا۔ انھوں نے سفارش کی، ملازمت مل گئی۔ میر حسن کا نیاز حاصل ہو گیا۔ ہر سال سیالکوٹ آتے ۔ بادب ان کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ علم و ادب اور شعر و سخن میں استفادہ کرتے۔ خان صاحب نے میر حسن کے طریق درس کا حال بڑی خوبی سے لکھا ہے۔ ۱۲۳؎ خان صاحب کی ملازمت کا آغاز ۱۸۹۹ء میں ہوا۔ کچھ عرصہ لیہ (لداخ ) میں بھی گزرا۔ پھر سری نگر آ گئے اور ترقی کرتے کرتے میر منشی ہو گئے۔ خان صاحب کا خطاب پایا۔ کشمیر میں جو بھی ریذیڈنٹ آتا ا ن کی علم دوستی اور ذوق ادب سے اس قدر متاثر ہوتا کہ کشمیر سے واپسی کی نوبت آتی تو اپنی کتابیں ان کی نذر کر دیتا۔ ۱۹۴۷ء میں ان کا مجموعۂ کتب کشمیر یونیورسٹی کی تحویل میں دے دیا گیا۔ ایک خاص تقریب کا اہتمام ہوا۔ جس میں بیگم صاحب بھی موجود تھیں۔ خان صاحب نے بڑی نادر اور کمیاب کتابیں جمع کر رکھی تھیں۔ کئی ایک نسخے ایسے بھی جن کی پھر سے طباعت کی نوبت نہیں آئی۔ کچھ قلمی کتابیں۔ خان صاحب ان کی جلد بندی اپنے ہاتھوں سے کرتے۔ نئی کتابوں سے انھیں دلی لگائو تھا بمشکل کسی کو مستعار دیتے۔ ۱۹۰۳ء میں جب کشمیر کو ایک قیامت خیر سیلاب نے آ لیا تو انھیں گھر کے سازو سامان کا اتنا خیال نہیں تھا جتنا کتابوں کی حفاظت کا ۔ دن رات مطالعے میں منہمک رہتے۔ ۱۹۳۶ - ۱۹۳۷ء میں ملازمت سے باعزاز سبک دوش ہوئے۔ سری نگر کے محلہ نواب پورہ میں مکان بنوایا اور اپنے بڑے صاحبزادے بشیر الدین کے نام پر اس کا نام بشیر آباد رکھا۔ کشمیر ہی میں سکونت اختیار کر لی۔ کتب خانے اور علمی ادبی محفلوں کے لیے ایک کمرہ خاص طورسے بنوایا گیا۔ ۱۹۴۱ء میں فوت ہوئے۔۱۲ اپریل۔ جو سنتا بحسرت کہتا: یارو وہ بلبلِ چمنستان کدھر گیا ہر نغمہ جس کا حسنِ تمنائے گوش تھا دوران ملازمت میں خان صاحب کا قیام زیادہ تر سری نگر ہی میں رہا۔ سردیوں میں البتہ ریذیڈنسی کا دفتر چند مہینوں کے لیے سیالکوٹ آ جاتا۔ سیالکوٹ ہی میں مجھے ان کا نیاز حاصل ہوا۔ یہ زمانہ میری طالب علمی کا تھا۔ بڑی شفقت فرماتے۔ کبھی کبھی تادیباً گوشمالی کی نوبت بھی آ جاتی۔ میر حسن کی خدمت میں روز حاضر ہوتے۔ محمد اقبال سے تعلقات کی یہ کیفیت تھی کہ شروع شروع میں تو وہ انھیں ڈیئر سراج کہہ کر خطاب کرتے پھر برادرم اور پھر مخدومی کہتے ہوئے۔ ۱۹۰۲ء میں خان صاحب نے انھیں چار انگوٹھیاں بھیجیں تو محمد اقبال نے ناسازی طبیعت پر معذرت کرتے ہوئے ایک اُردو، آپ نے بھیجی جو مجھ کو مہرباں انگشتری اور ایک فارسی قطعے میں: یارم از کشمیر مرا بفرست چار انگشتری ان کا شکر یہ ادا کیا۔۲۴ ۱؎ فارسی قطعے میں بڑی مضمون آفرینی کی ہے جس سے پھر اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ فارسی میں محمد اقبال کی شاعری کا زمانہ اُردو میں شاعری سے زیادہ مؤخر نہیں ہے ۔ چنانچہ خود ہی کہتے ہیں: ہوں بہ تبدیلِ قوافی فارسی میں نغمہ خواں ان اشعار میں زور ہے ،گو محمد اقبال نے ان کو قابلِ اشاعت نہیں سمجھا۔ سمجھا تو شاعری کا وہی حصہ ان کا نزدیک قابلِ اشاعت تھا جس کا تعلق ان کی دعوت اور پیغام سے ہے، یا ایک حد تک اس کی تمہید۔ ایک دوسرے خط میں ، جو عید کے روز لکھا گیا، کہتے ہیں: گرامی اور سید بشیر حسین بیٹھے ہیں۔ ۱۲۵؎ عبدالقادر ابھی ابھی اٹھ کر گئے ہیں۔ بارش ہو رہی ہے، خان صاحب نے کوئی نظم مانگی تھی، کہتے ہیں بحمد اللہ کہ مل گئی۔ خاں صاحب نے داد دی۔ شکریہ ادا کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں ترتیب کلام کا خیال ہے مگر فکر روز گار سے نجات نہیں ملتی۔ ملٹن کے طرز پر کچھ لکھنا چاہتے ہیں ۔ شاید وہی نظم جس کی طرف میر نیرنگ نے اپنے مضمون میں اشارہ کیا ہے ۔ پھر کہتے ہیں’ ابر گہر بار‘ لکھی جا رہی ہے۔۱۲۶؎ ڈرتا ہوں کوئی وہابی اعتراض نہ کر دے۔ احباب کشمیر ، صادق علی خاں اور عنبر کو سلام لکھا ہے ۔ ایک غزل بھیج رہے ہیں۔۱۲۷؎ اسرار خودی کا نسخہ بھیجا تو خان صاحب نے تعریف کی۔لکھتے ہیں: الحمد للہ آپ کو پسند آئی۔ پھر کہتے ہیں: یہ مثنوی گزشتہ دو سال کے عرصے میں لکھی گئی۔ چند اتوار کے دنوں اور بعض بے خواب راتوں کا نتیجہ ہے… فرصت ہوتی تو غالباً اس موجودہ صورت سے مثنوی بہتر ہوتی۔ اس کا دوسرا حصہ بھی ہو گا جس کے مضامین میرے ذہن میں ہیں۔ مجھے امید ہے وہ حصہ اس سے زیادہ لطیف ہو گا ،کم از کم مطالب کے اعتبار سے۔ پھر کہتے ہیں میں چاہتا ہوں اس مثنوی میں حقیقی اسلام کو بے نقاب کروں۔۱۲۸؎ منشی صاحب نے مثنوی کے بارے میں ایک خط لکھا تھا۔ محمد اقبال نے مولانا عمادی کو بھیج دیا کہ مثنوی پر تقریظ لکھتے ہوئے اسے پیش نظر رکھیں۔ غلطی سے وہ خط زمیندار میں چھپ گیا۔ حالانکہ اس کی اشاعت مناسب نہیں تھی۔ خان صاحب سرکاری ملازم تھے۔ محمد اقبال نے خط لکھ کر معذرت کی کہ اس غلطی کا میں ذمہ دار ہوں، یہ خط نجی تھا۔۱۲۹؎ غرض یہ کہ خان صاحب سے گوناگوں تعلقات تھے۔ افسوس ہے ان خطوں اور تحریروں کا مجموعہ جو ان کے صاحب زادے امیر الدین کے پاس تھا دوران علاج میں ان کے کوئی معالج لے گئے تا حال دستیاب نہیں ہو سکا۔ کیا اچھا ہو اگر یہ خط اور تحریریں مل جائیں۔ ایک خط میر حسن کے صاحب زادے سید محمد ذکی کا ہے جس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ محمد اقبال کی طرح خان صاحب بھی باوجود انتہائی ادب اور احترام کے میر حسن سے کس قدر قریب تھے علیٰ ہذا یہ کہ خان صاحب اور محمد اقبال کے تعلقات کس قدر گہرے تھے ۔ سید محمد ذکی لکھتے ہیں: خط خان صاحب کے صاحبزادے امیر الدین احمد کے نام ہے اور ان کی والدہ ماجدہ کی فرمائش پر لکھا گیا ۔ تاریخ ۲۳ دسمبر ۱۹۲۴ء ذکر میر حسن اور محمد اقبال کی ’مجالس‘ کا ہے ۔ خان صاحب کرسمس کی تعطیل میں سیالکوٹ آئے ۔ محمد اقبال بھی سیالکوٹ میں موجود تھے اور لطف یہ کہ خواجہ عبدالصمد ککروبھی خان صاحب کے یہاں مہمان ٹھہرے ہوئے تھے۔ خان صاحب نے سید محمد ذکی سے کہا ایسی تدبیر کرو کہ شاہ صاحب کھانے پر آ جائیں ۔ ککرو اور اقبال موجود ہیں، ایک مجلس شعر و سخن منعقد ہو جائے۔ شاہ صاحب مان گئے۔ کھانے سے فراعت ہوئی تو کچھ غزلیں پڑھی گئیں ۔ محمد اقبال سے فرمائش کی گئی اپنا کلام سنائیں۔ کہنے لگے شاہ صاحب کی موجودگی میںمجھ سے گستاخی نہیں ہو گی۔ مگر شاہ صاحب کا اصرار تھا کلام سنانا پڑا۔ محمد اقبال خواجہ عبدالصمد ککرو اور مولانا میر حسن کو خان صاحب ہی باہم جمع کر سکتے تھے۔ محمد اقبال کو جہاں اعتماد تھا کہ خان صاحب ان کے فلسفیانہ غور و فکر کو خوب سمجھتے ہیں ، وہاں خان صاحب بھی کوئی محفل ہو، کوئی مشاعرہ محمد اقبال کے خیالات کی ترجمانی کرتے۔ راقم الحروف نے ۱۹۱۶ء کے ایک مشاعرے میں محمد اقبال کی مشہور نظم ’محبت‘کی تشریح سب سے پہلے انھیں کی زبان سے سُنی۔ خان صاحب پر اس وقت ایک عجیب کیفیت طاری تھی۔ ایک ایک شعر نشید کرتے، رک جاتے، شرح فرماتے۔ مشرق و مغرب کے فلسفیانہ افکار کا حوالہ دیتے۔ ۱۹۳۶ء میں بریگیڈیئر جنرل ٹیوٹ جن کا تعلق کشمیر ریذیڈنسی سے تھا، لاہور آئے۔ محمد اقبال سے ملے ۔ چاہتے تھے جاوید نامہ کا ترجمہ انگریزی میں کریں۔ کئی ایک مسائل حل طلب تھے ۔ محمد اقبال بسبب علالت معذور تھے کہنے لگے، آپ کشمیر سے آئے ہیں، میر منشی سراج الدین سے ملاقات ہو گی، ان سے ملتے رہیے۔ وہ ان مطالب کے حل میں ہر طرح سے آپ کی مدد کریں گے۔ بریگیڈ ئیر صاحب کے مزید حالات معلوم نہ ہو سکے ۔ نہ یہ کہ جاوید نامہ کا ترجمہ ہو سکا یا نہیں۔ خان صاحب سے البتہ ا ن کی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔۳۰ ۱؎ خاں صاحب بڑے باغ و بہار انسان تھے۔ شعر گویا ان کی غذا تھی۔ اٹھتے بیٹھتے ، کام کرتے شعر گنگنا رہے ہیں۔ اساتذہ کے کلام پر تبصرہ ہو رہا ہے۔ خود بھی شعر کہتے اور بے تکلف کہتے چلے جاتے۔ سہرے، قطعے، غزلیں مگر تفریحاً ۔ بایں ہمہ ان کے کلام کا اچھا خاصا انتخاب ممکن ہے۔ خاں صاحب میں ایک دوسرا وصف یہ تھا کہ دوران ملازمت میں اگرچہ مہاراجہ پرتاپ سنگھ نے انھیں ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا لیکن ان کے جانشین ذرا مختلف قسم کے انسان تھے۔ خان صاحب سے ان کا طنطنہ کبھی برداشت نہ ہو سکا۔ ملازمت کے باوجود اس زمانے میں بھی مہاراجہ کے احکام کی مخالفت کرتے۔ قطع نظر اس سے کہ یوں انھیں نقصان بھی پہنچ سکتا تھا۔ ریذیڈنسی میں ان کی آزادیٔ رائے اور اصول پرستی کی بڑی قدر تھی۔ علم و فضل ، معلومات کی کثرت ، ذوق شعر انگریزی اور مشرقی ادب میں گہرا مطالعہ۔ ۱۹۴۰ء میں مجھے لکھا لاہور آ رہا ہوں، جی چاہتا ہے تمھارے ساتھ میلہ چراغاں دیکھوں۔ خاں صاحب آ گئے۔ شالا مار کی سیر ہوئی۔ لیکن محمد اقبال ہی کا ذکر رہا۔ بات بات پر اظہار افسوس کرتے کہ بہ سبب خرابی صحت ان کی عیادت کے لیے نہ آ سکے۔ جاوید منزل بھی گئے۔ اس کے چند ہی دنوں کے بعد ان کی وفات کی خبر آ گئی۔ بے حد صدمہ ہوا۔ بظاہر ان کی صحت اچھی تھی، تشویش کی کوئی بات نہیں تھی، مگر اللہ کی مرضی ایک بزرگ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ خاں صاحب سری نگر ہی میں مدفون ہیں۔ لیکن ہفت روزہ گل خنداں سری نگر، اشاعت ۲۸ مارچ ۱۹۷۷ء میں لکھا ہے کہ درگجن میں گرجا گھر کے سامنے قبرستان میں ان کا مدفن بڑی ابتر حالت میں ہے۔ افسوس۔ مولانا عبداللہ العمادی۔ وطن امری تھوا ضلع جون پور۔ بڑے فاضل اور جامع کمالات بزرگ تھے۔ اسلامی علوم و معارف اور عربی زبان کے جید عالم۔ صحافت سے وابستگی کے باوجود عمر بھر علمی مشاغل میں منہمک رہے۔ بطور صحافی بھی علمی مضامین ہی پر قلم اٹھاتے۔ زمیندار اور وکیل میں برسوں کام کرتے رہے۔ البیان کے نام سے ایک رسالہ عربی میں نکالا ۔جنگ عظیم کے دوران میں لاہور آ گئے۔ مولانا ظفر علی خاں اس زمانے میں ستارۂ صبح نکال رہے تھے۔ مولانا عمادی بھی ان کے ساتھ کام کرتے۔ مولانا کے مزاج میں تلون تھا، ان بن ہو گئی تو مولانا عمادی نے ستارۂ صبح کی تقلید میں الصباح جاری کیا۔ ستارۂ صبح سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دی۔ ظفر علی خاں نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ عمادی نیک طینت انسان تھے، معذرت خواہ ہوئے ، آپس کی شکر رنجی دور ہو گئی۔ پھر مولانا سے جا ملے۔ دارالترجمہ حیدر آباد نے ان کے علم و فضل اور لغت دانی سے خوب خوب فائدہ اٹھایا۔ عمادی نے مصطلحات وضع کیں۔ متعدد عربی کتابوں کا ترجمہ کیا۔ محمد اقبال کے دل سے قدر دان تھے۔ لکھتے ہیں: اقبال کا دل وحی الٰہی کا آئینہ دار ہے۔ کشف عطا نے ان کے سامنے سے آسمان و زمین کے پردے اٹھا دیئے ہیں۔ محمد اقبال کا ذکر بڑی محبت سے کرتے۔ ایک قطعہ محمد اقبال ہی کی وجہ سے پنجاب کی تعریف میں لکھا ۱۳۱؎ کہ پنجاب میں اقبال اور اسلام موجود ہیں تو سب کچھ موجود ہے۔ مولانا ابو الخیرمودودی لکھتے ہیں عمادی جتنے بڑے عالم تھے اس سے زیادہ اعلیٰ قسم کے انسان تھے۔ بلند نگاہ ، کریم النفس ، قلندر صفت ، قلندر سیرت ، زندگی شرافت علم اور شرافت نفس کا امتزاج۔ راقم الحروف کے نام ایک گرامی نامے میں لکھا ہے۔۱۳۲؎ ’’اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے شنبہ، ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء کو نقل مقام فرمایا۔ عمادی رحمۃ اللہ علیہ نے انا للہ وانا الیہ راجعون، فرمایا۔ آیات کلام اللہ زبان پر جاری ہوئیں۔ اٹھتے ، بیٹھے ، ٹہلتے رہے۔ ابیات رقم فرمائیں: مرداں کہ جاں بحضرتِ جاناں سپردہ اند در راہِ زندگانی جاوید مردہ اند آزادہ رو کلاہِ کرامت بسر نہند افتادہ را بہ انتم الاعلون بردہ اند آموزِ گار خواجگی و بندگی نواز خود را ز چاکرانِ محمدؐ شمردہ اند تقدیر را کنند بہ تدبیر ساز گار حرفِ غلط ز لوحِ زمانہ ستردہ اند سر زیر پائے خواجۂ بدر و احد نہاد اقبال لا بقا شد و اقبال زندہ باد یہ اشعار غالباً غیر مطبوعہ ہیں۔ میں ان کے لیے مولانا ابو الخیر کا ممنون ہوں۔ گرامی۔غلام قادر نام مگر خود بڑے قادر الکلام ۔ ان کے دم سے فارسی کے اساتذۂ سخن کی یاد تازہ ہو گئی۔ بقول محمد اقبال فنافی الشعر۔ جذبات گہرے، افکار بلند، حافظہ نہایت قوی، دیوان کے دیوان اور مثنویوں پر مثنویاں از بر۔ نقد سخن کا یہ عالم کہ خود اپنے کلام پر بار بار نقد کرتے۔ محمد اقبال کے اشعار تو کیا مصرعوں اور الفاظ تک کو بہ نگاہ تنقید دیکھتے ، مشورے دیتے، اعتراض کرتے۔ بایں ہمہ ان کے کمال فن اور عظمت فکر کے بدل و جان معترف ۔ گرامی کی شاعری غزل کی شاعری ہے، نظیری سے ہم آہنگ ۔ محمد اقبال کہتے ہیں: فارسی ادب میں تازہ گوئی کے جس شوق کی ابتداء اکبر کے عہد میں ہوئی گرامی پر ختم ہو گیا۔ پنجاب کی ادبی روایات کا جو سلسلہ مسعود سعد سلمان سے شروع ہوا دراصل فارسی ہی سے وابستہ تھا۔ گرامی اس روایت کے بہترین حامل تھے۔ انھوں نے نثر نہیں لکھی۔ لکھتے تو خوب لکھتے۔ پھر کہتے ہیں جدید فارسی کی تراکیب اور الفاظ سے اجتناب ان کے ذوق صحیح کی دلیل ہے۔ وضع تراکیب میں ان کا اندازمجتہدانہ تھا۔۱۳۳؎ گرامی فنافی الشعر تو تھے ہی،اٹھتے بیٹھتے جب دیکھیے شعر کی دھن میں ہیں۔ کچھ نہ کچھ گنگناتے رہتے۔ شعر ہو جاتا تو آنکھیں روشن ہو جاتیں۔ سامعین داد تحسین دیتے لیکن گرامی اپنے آپ میں گم رہتے، انھیں تحسین و آفریں کی خبر تک نہیں۔ ہر وقت استغراق کا عالم ہے۔ جب دیکھیے خالی الذھن۔ کسی کی تعریف سُنی تو سبحان اللہ سبحان اللہ کہنے لگے۔ لیکن جب اسی شخص کے بارے میں کوئی غلط بات سننے میں آتی تو اسی وقت کہتے: چھوڑواس مردود ازلی کے ذکر کو۔ مکاتیب گرامی ان خطوط کا مجموعہ ہے جو محمد اقبال نے ۱۹۱۰ ء سے ۱۹۲۷ ء تک گرامی کو لکھے، گویا صرف ان خطوط کا جواب تک مل سکے۔ یہ خطوط گرامی اور محمد اقبال کی شخصیت ، سیرت و کردار اور ان کے باہمی تعلقات ، فن شاعری اور ادب کے مطالعے میں بے حد اہم ہیں۔ مختصر سی سوانحی معلومات بھی مل جاتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ دکن میں محمد اقبال کی ججی ، یا عثمانیہ یونیورسٹی کی سربراہی کے لیے جو کوششیں ہو رہی تھیں۔ ان کے باوجود محمد اقبال کی شان استغنا اور خود داری میں کوئی فرق نہیں آیا۔ باعتبار نجی حالات کے ان خطوط کی اگرچہ کوئی خاص اہمیت نہیں لیکن یہی خطوط ہیں جن سے ایک تو اس امر کا پتہ چلتا ہے کہ حکومت کا ارادہ ایک ’’فلسطین کمیشن‘‘ قائم کرنے کا تھامگر اس کمیشن کا کوئی اجلاس منعقد نہ ہو سکا،معاملہ یونہی رہ گیا۔ دوسرے یہ کہ محمد اقبال کا ارادہ ’حیات مستقلہ اسلامیہ ‘ کے عنوان سے ایک مثنوی لکھنے کا تھا جواسرار و رموز کا ضمیمہ ہوتی۔ اس مثنوی کا ذکر تو بڑی تفصیل سے کیا گیا ہے ۔ لیکن یہ مثنوی لکھی نہیں گئی۔ بحیثیت مجموعی البتہ یہ خطوط اشعار کی باریکیوں ، زبان اور محاورے کی بحثوں الفاظ اور تراکیب کے رد و بدل پر مشتمل ہیں۔ گرامی عمر میں محمد اقبال سے کوئی بیس برس بڑے تھے۔ مگر باوجود تفاوت عمر ایک دوسرے سے خلوص اور محبت کے ساتھ ساتھ بے تکلفی تھی، اعتماد اور بھروسہ بھی جو دوستی کا خاصہ ہے جس طرح گرامی محمد اقبال کے قائل تھے محمد اقبال بھی زبان کے معاملے میں اپنے استاد میر حسن کے علاوہ گرامی سے بھی مشورہ لیتے۔ گرامی زبان کی اصلاح کرتے۔ مصرعوں کو بدل دیتے اور محمد اقبال بالعموم ان کا مشورہ قبول کر لیتے۔ افکار کا معاملہ ، یا حقائق کی بحث ہو تو ایسا نہیں کرتے۔ مگر پھر محمد اقبال بھی تو شاعری کے معاملے میں گرامی پر اثر انداز ہوئے۔ گرامی خطوں میں انھیں کبھی، حضرت ڈاکٹر صاحب کہہ کر خطاب کرتے، کبھی حضرتِ مجددِ عصر کہتے۔ گرامی نے ان کی تعریف میں رباعیاں کہیں، اشعار کہے تا آنکہ ان کے پیغام اور دعوت کو اس شعر میں کس خوبی سے بیان کر دیا ہے: در دیدۂ معنی نگران حضرت اقبال پیغمبری کرد و پیمبر نتوان گفت محمد اقبال بھی خطو ں میں انھیں کبھی بابا گرامی کہہ کر خطاب کرتے، کبھی حضرت اقدس بے تکلفی کی نوبت آئی تو ڈئیر گرامی یا ڈیئر مولانا گرامی لکھ دیا۔ ایک خط میں لکھتے ہیں:’’آپ حیدرآباد میں ہیں کہ غلام آباد میں‘‘ گرامی کھوئے کھوئے سے رہتے تھے محمد اقبال نے کہا آپ کو گرامی نہیں ’’نومی ‘‘ کہنا چاہیے۔ غرضیکہ طرح طرح سے چھیڑ چھاڑ رہتی۔ طرح طرح سے محبت اور خلوص، قدر دانی اور قدر افزائی کا اظہار ہوتا۔ گرامی سے محمد اقبال کی دوستی اور تعلق خاطر کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اُردو میں تو ان کے ہم نوابہت تھے، فارسی میں بجز گرامی کوئی ان کا ہم نوا نہیں تھا ۔ خواجہ عزیز الحسن لکھنوی دور تھے اور عمر کی آخری منزلوں میں۔ گرامی ہی کی صحبت میں شعر و سخن کی محفل گرم ہو سکتی تھی۔ خواجہ عزیز الحسن صاحب کا سنہ ولادت ۱۸۳۸ء ہے۔ فارسی میں شعر کہتے۔ فوق مشاہیر کشمیر لکھ رہے تھے تو محمد اقبال نے انھیں مشورہ دیا خواجہ صاحب کے حالات زندگی اور شاعری پر بھی قلم اٹھائیں۔ ۱۹۳۱ء میں خواجہ صاحب کا کلام کلیات عزیز کے نام سے شائع ہوا۔ ان کے صاحبزادے خواجہ ولی الدین نے ایک نسخہ محمد اقبال کی خدمت میں بھی بھیجا تو محمد اقبال نے جواباً شکریہ ادا کیا۔ خواجہ صاحب کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: مرحوم فارسی ادبیات کے اس دور سے تعلق رکھتے ہیں جس کی ابتداء شہنشاہ اکبر کے عہد سے ہوئی۔ افسوس کہ وہ دور ہندوستان میں ان کی ذات پر ختم ہو گیا۔ پھر خواجہ صاحب کی فارسی زبان پر قدرت اور ان کے کئی ایک اشعار نقل کرتے ہوئے خواجہ صاحب کے کلام کو سراہا ہے ۔ اسرار خودی تصنیف ہوئی تو گرامی کو لکھتے ہیں کاش! آپ یہاں ہوتے یا میں حیدر آباد میں ہوتا… یا لکھنؤ جا کر عزیز کو سنائوں‘‘۔ غور کیجیے محمد اقبال کے دل میں خواجہ صاحب کی کس قدر عزت تھی، کس حد تک قدر و منزلت!۱۳۴؎ گرامی جالندھر میں پیدا ہوئے۔ سنہ ولادت معلوم نہیں۔ پچھتریا اسی برس سے زیادہ عمر پائی۔ جالندھر میں خلیفہ ابراہیم کے مکتب اور ترک علی شاہ قلندر کی خدمت میں بیٹھے۔اصل نام غلام محمد ہے۔ اورینٹل کالج لاہور میں تعلیم پائی۔ ملازمت کی ابتدائ، امرتسر، کپور تھلہ، لدھیانہ میں معلمی سے کی۔ پولیس میں چند دن سارجنٹ کی خدمات بھی سر انجام دیں۔ نواب فتح علی خاں قزلباش کے معلم اور اتالیق بھی رہے۔ بالآخر خلیفہ محمد حسین وزیر پٹیالہ کے توسط،نواب عماد الملک بہادر سید حسین بلگرامی کی سفارش اور مولانا محمد حسین آزاد کے تعریفی خط کی بدولت دربار دکن میں پہنچے۔ میر محبوب علی خاں اور میر عثمان علی خاں کے زمانے میں شاعر دربار کے مرتبے پر فائز رہے۔ ۱۹۱۶ء میں واپس آ گئے۔ پھر شاید بہت کم دکن جانا ہوا۔ شادی ان کی ہوشیار پور میں ہوئی۔ ہوشیار پور ہی میں بیوی کے نام پر ’سر جلوہ اقبال ایک حویلی’گرامی منزل‘ تعمیر کی۔ ہوشیار پور ہی میں اقامت گزیں رہے۔ بیگم گرامی کا نام بھی اقبال تھا۔ شاعرہ تھیں ترک تخلص کرتیں۔ محمد اقبال نے ان کی شاعری کی تعریف کی ہے۔ ہم نام اقبال کہہ کر اپنا سلام بھیجتے ۔ گرامی کی وفات پر مرثیہ لکھتے ہوئے کہتی ہیں: کہے کوئی انا الحق ہم انا المحبوب کہتے ہیں سر اپنا، شور اپنا، شوق اپنا، مدعا اپنا گرامی ۲۷ مئی ۱۹۲۷ء کو ہوشیار پور میں فوت ہوئے ۔تا دم آخر محمد اقبال کو یاد کرتے رہے۔ محمد اقبال کسی وجہ سے مزاج پرسی نہ کر سکے۔ عیادت نہ ہو سکی۔ کہا گیا: برفت جان گرامی و تو ہنوز خموش لوگوں نے اسے گرامی سے منسوب کرتے ہوئے غلطی سے محمد اقبال کی بے التفاتی پر محمول کر لیا ، حالانکہ یہ شعر: صبا بہ حضرتِ اقبال ایں پیامم دہ برفت جان گرامی و تو ہنوز خموش جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے حفیظ ہوشیار پوری کا ہے،گرامی کا نہیں ہے۔ محمد اقبال کو گرامی کی وفات کا دلی صدمہ تھا۔ پنڈت ہری چند اختران کی خدمت میں حاضر ہوئے تو مخزن کے لیے ایک طویل بیان املا فرمایا۔ مرثیہ لکھا ۔ کس حسرت بھرے دل سے کہتے ہیں: یاد ایامے کہ با او گفتگو با داشتم اے خوشا حرفے کہ گوید آشنا با آشنای گرامی کی وصیت تھی کہ ان کی ایک رباعی اور نعت کے چند اشعار جو ایک پرزہ کاغذ پر لکھ رکھے ہیں، لحد میں رکھ دیئے جائیں۔ مگر یہ تحریر نہ مل سکی۔ ایک روز بیگم کے خواب میں آئے کہنے لگے بخشش کا فکر نہ کرو رباعی اور نعت لوح مزار پر کندہ کرا دو۔ تعمیل ارشاد کر دی گئی۔ رباعی ہے: خاور دمد از شبم باین تیرا شبی کوثر چکد از لبم بہ این تشنہ لبی اے دوست ادب کہ در حریمِ دل ماست شاہنشہِ کونین رسولِ عربیؐ نعت کا آخری شعر ہے: گرامی در قیامت آن نگاہِ مغفرت خواہد کہ در آغوش گیرد جرم ہائے بے حسابش را گرامی بڑے صحیح العقیدہ مسلمان تھے۔ توحید و رسالت میں یقین کامل، ایمان محکم، پاک سیرت، پاک باطن۔بقول محمد اقبال صلح کل، وسیع الاخلاق، جہانگیری بہار کا آخری پھول جو ذرا دیر کے بعد شاخ سے پھوٹا ۔ کاش! خان خاناں ہوتے، دیکھتے خاک پنجاب شیراز اور نیشاپور سے کسی طرح کم نہیں۔۱۳۵؎ گرامی کا بہت سا کلام ضائع ہو گیا۔ محمد اقبال تاکید کرتے اور کلام مرتب کیا جائے۔ کہتے اس زمانۂ انحطاط میں بھی گرامی کا کلام اس بات کی دلیل ہے کہ قوم میں زندگی کی قوت باقی ہے۔ گرامی نے حافظ کی زمین میں ایک غزل کہی۔ ایک شعر تھا: عصیانِ ما و رحمتِ پروردگارِ ما این را نہایتے است نہ آں را نہایتے محمد اقبال اس شعر پر پھڑک اٹھے۔ نیاز الدین خاں کو لکھتے ہیں: سبحان اللہ گرامی کے اس شعر پر ایک لاکھ مرتبہ اللہ اکبر پڑھنا چاہیے ۔ خواجہ حافظ تو ایک طرف فارسی لٹریچر میں اس پائے کا شعر کم نکلے گا ۔ ۱۳۶؎ گرامی کی زندگی اور شخصیت کا یہ بیان کسی قدر طویل ہو گیا لیکن گرامی کو محمد اقبال اور محمد اقبال کو گرامی سے جو تعلق تھا اس کی نوعیت یونہی سمجھ میں آ سکتی ہے کہ گرامی کی زندگی اور گرامی کی شخصیت ہمارے ذہن میں رہے۔ زندگی ایک سفر ہے، اثنائے سفر میں کئی رفیق راہ ملتے۔ تھوڑی دور ساتھ دیتے ہیں۔ نئے رفقائے سفر مل جاتے ہیں۔یہ قانون فطرت ہے۔ روابط ہوں یا تعلقات ، دوستی ہو یا آشنائی ان کا سلسلہ یونہی ٹوٹ ٹوٹ کر جڑتا ،جڑ کر ٹوٹتا رہتا ہے۔ چند دن قائم رہاپھر ٹوٹ گیا۔ تاآنکہ موت اسے ختم کر دیتی ہے۔ لیکن بعض رشتے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ زندگی بھر قائم رہتے ہیں۔ ان میں شکست کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ فطرت انھیں ہمیشہ کے لیے یک جاکر دیتی ہے۔ محمد اقبال کو گرامی سے کچھ ایسا ہی تعلق تھا۔ جب تک جیے ایک دوسرے سے وابستگی میں فرق نہ آیا۔ اس تعلق کا آغاز، جس کی نوعیت کچھ ویسی ہی تھی جیسی شاہنواز، عبدالقادر اور جلال الدین سے، شاید ۱۹۰۰ء کے اوائل میں ہوا اور یہ وہ زمانہ ہے جب گرامی کا قیام مستقلاً حیدر آباد میں رہتا۔ احیاناً وطن کا رخ کرتے البتہ لاہور آتے تو محمد اقبال سے ملتے۔ جیسا کہ ۱۹۰۳ء یا ۱۹۰۴ء کے ایک خط سے جو نواب صدر یار جنگ بہار کو لکھا گیا، ظاہر ہوتا ہے۔ محمد اقبال لکھتے ہیں:گرامی میرے پاس ٹھہرے ہوئے ہیں۔۱۳۷؎ اس کے بعد کوئی خط ملتا ہے تو ۱۹۱۰ء کا اور یہ گرامی کے نام ان کا پہلا خط ہے جو دستیاب ہوا۔ لیکن اس چھ سات برس کی مدت میں اکثر ان سے ملاقات رہتی، خط و کتابت بھی ہوتی۔ وہ غزل جس کی ردیف ہے اہل درد ،گرامی ہی کی صحبت میں لکھی گئی۔ بہر حال ۱۹۱۰ء سے ۱۹۲۷ء تک مکاتیب گرامی یعنی گرامی کے نام محمد اقبال نے جو خط لکھے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے محمد اقبال کے دل میں قدر و منزلت کا کیا عالم تھا جیسے یہ کہ خود محمد اقبال بھی فکر و نظر کی کن بلندیوں پر تھے۔ ۱۹۱۸ء میں جب گرامی نے انھیں لکھا کہ ملک الموت کا انتظار ہے تو محمد اقبال مراقبے میں بیٹھ گئے کہ دیکھیں گرامی کو خاک پنجاب جذب کرے گی یا خاک دکن ۔ پھر جواباً لکھتے ہیں: ’’مسلم کو موت نہیں چھو سکتی کہ اس کی قوت حیات موت کو اپنے اندر جذب کر کے حیات و ممات کا تناقض مٹا چکی ہے۔ گرامی مسلم ہے، تو وہ خاک نہیں کہ خاک اسے جذب کر لے۔ یہ ایک قوت نورانیہ ہے کہ جامع ہے موسویت اور ابراہیمیت کی۔ آگ اسے چھو جاتے تو برد و سلام بن جائے۔ پانی ا س کی ہیبت سے خشک ہو جائے۔ آسمان و زمین میں سما نہیں سکتی کہ یہ دونوں ہستیاں ا س میں سمائی ہوئی ہیں‘‘۔ پھر لکھتے ہیں:’’مسلم جو حامل ہے محمدیت کا اور وارث ہے موسویت اور ابراہیمیت کا کیونکر کسی شے میں جذب ہو سکتا ہے ۔ البتہ اس زمان و مکان کی مقید دنیا کے مرکز میں ایک ریگستان ہے جو مسلم کو جذب کر سکتا ہے اور اس کی قوت جاذبہ بھی ذاتی اور فطری نہیں بلکہ مستعار ہے ایک کف سے جس نے اس ریگستان کے چمکتے ہوئے ذروں کو پامال کیا‘‘۔ ۱۳۸؎ گرامی دکن سے واپس آ گئے تو محمد اقبال اگرچہ خود کبھی ہوشیار پور میں ان سے نہیں ملے لیکن گرامی اکثر لاہور آتے۔ محمد اقبال کے یہاں دنوں تک قیام رہتا۔ ایک مرتبہ قیام نے طول کھینچا تو بیگم صاحب کا تار ملا کہ بیمار ہیں ۔ گرامی بے قرار ہو کر اٹھ بیٹھے کہنے لگے ابھی ہوشیار پور جاتا ہوں۔ محمد اقبال کو معلوم تھا تار محض ایک بہانہ ہے گرامی واپسی کی تیار ی کرنے لگے۔ محمد اقبال نے کہا ایک رباعی ہو گئی ہے مگر اس کا چوتھا مصرع نہیں ہو رہا۔ گرامی یہ سنتے ہی چوتھے مصرعے میں گم ہو گئے۔ اب کہاں بیگم صاحب اور کیسا تار۔ مصرعے پر مصرعے موزوں کرتے چلے جا رہے ہیں۔ رات گزرتی رہی۔ بالآخر کوئی چار بجے صبح حسب مطلب مصرع موزوں ہو گیا تو اُٹھے۔ محمد اقبال سے کہنے لگے سنگترے کھلائیے مصرع ہو گیا ۔ محمد اقبال پریشان تھے کہ چار بجے صبح اور سنگترے بمشکل علی بخش نے فرمائش پور ی کی۔ کہیں نہ کہیں سے سنگترے لے آیا۔ گرامی کو لاہور آئے ہوئے دیر ہو جاتی تو محمد اقبال خط پر خط لکھتے کہ لاہور آئیے۔ ایک مرتبہ علی بخش کو ہوشیار پور بھیجا۔ خط لکھا علی بخش کے ساتھ آ جائیے ۔ گرامی روز عزم سفر کرتے دن پر دن گزرتے گئے۔ ایک روز ہمت کر کے کمرے سے باہر نکلے۔ تانگے پر بیٹھے۔ تانگہ گرم ہو رہا تھا۔ اتر گئے۔ سامان اتروا لیا۔ کہنے لگے علی بخش تم جائو، تانگہ گرم ہو گیا ہے ، اب سردیوں میں آئیں گے۔۳۹ ۱؎ لاہور میں قیام ہوتاتو دونوں استاد ان فن بیٹھے گھنٹوں شعر و شاعری میں غرق رہتے۔ انارکلی کے رخ نشست ہوتی۔ راہگیر دیکھتے کیسے ایک دوسرے سے گفتگو ہو رہی ہے ۔ داد دی جا رہی ہے۔ واہ واہ ہو رہی ہے۔ گرامی کو جب دیکھیے کھوئے کھوئے سے رہتے جب دیکھیے محویت ہے ۔ کسی خیال میں گم ہیں۔ محمد اقبال کی بات دوسری تھی۔ ایک طرف صحو تھا، دوسری طرف سکر۔ صحو سکر کی یہ کیفیتیں کیسی پر لطف ہوں گی ہم ان کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ محمد اقبال گرامی کا بڑا خیال رکھتے کہ ان کی خاطر مدارات میں کمی نہ آنے پائے۔ گرامی عالم استغراق میں ہیں۔ علی بخش سے پوچھتے ہیں آج کھانے میں کیا ہے ۔ علی بخش کہتا ہے شلجم ۔ گرامی کہتے ارے تو بہ صبح شلجم شام شلجم، کیا گوبھی نہیں ملتی؟ شام کو گوبھی تیار ہوتی۔ سامنے آتی تو کہتے صبح گوبھی شام گوبھی، علی بخش کیا شلجم نہیں ملتے۔ یوں علی بخش کی بھی ان سے خوب چھیڑ چھاڑ رہتی۔ ۱۹۲۱ء میں محمد اسد ملتانی نے ’قطرہ شبنم‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی۔ گورنمنٹ کالج میں پڑھ رہے تھے۔ نظم مقابلہ میں پیش کی گئی تو محمد اقبال نے محمد اسد کے حق میں فیصلہ دیا۔ ان کی ہمت بندھی ۔ کچھ دنوں کے بعد یہی نظم ساتھ لیے محمد اقبال کی خدمت میں پہنچے، نظم کے بارے میں گفتگو کی ۔ گرامی بھی موجود تھے۔ پلنگ میں لیٹے شاید ان کی گفتگو سُن رہے تھے۔ باتوں باتوں میں ان کے حافظے کا ذکر آ گیا۔ محمد اقبال کہنے لگے ذرا اس کا کرشمہ دیکھیے گا۔ گرامی سے مخاطب ہوئے فرمایا مولانا وہ حضرت نظام نے کیا کہا ہے: ز گرد بیابان بیابان بگرد بس اس مصرعے کا سننا تھا کہ گرامی دونوں ہاتھوں کی شہادت کی انگلیاں اٹھا اٹھا کر چومنے لگے۔ کہتے اللہ اللہ! دو ایک بار اس مصرعے: ز گردِ بیابان بیابان بگرد کو دہرایا اور پھر اسی مصرعے سے پوری مثنوی پڑھنا شروع کر دی… محمد اسد لکھتے ہیں: میں نے مولانا کو پہلی اور آخری بار دیکھا۔ منڈا ہوا سر ، اٹھی ہوئی انگلیاں ، نیم وجد کا عالم ، جھوم جھوم کر زور دار اور پر وجد آواز کے ساتھ شعر پڑھنا۔ گرامی کی طرح میاں عبدالعزیز مالواڈہ سے بھی محمد اقبال کے گہرے مراسم تھے۔ میاں صاحب گرامی کے ہم وطن تھے۔ ہوشیار پور سے لاہور آئے تو ان کا شمار ان حریت پسند بزرگوں میں ہونے لگا جنھو ں نے لیگ ہو یا کانگریس ہر اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جو دولت برطانیہ کی غلامی اور محکومی سے استخلاص کے لیے وقتاً فوقتاً منظم ہوتی رہی۔ بلدیہ لاہور کے مدتوں صدر رہے۔ ان کا دولت خانہ ارباب سیاست کا مرجع تھا۔ میاں صاحب ان کی میزبانی فرماتے۔ میاں صاحب ہی کے یہاں مشورے اور گفتگوئیں ہوتیں۔ میاں صاحب نے ۱۹۰۲ء میں محمد اقبال کی ایک نظم انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں سنی تو بے حد متاثر ہوئے۔ فقیر سید نجم الدین کے ہاں پہنچے۔ ان کی وساطت سے محمد اقبال سے ملاقات ہوئی ۔ روابط بڑھتے چلے گئے۔ محمد اقبال یورپ سے واپس آئے اور میاں صاحب کی کوششوں سے اسلامیہ ہائی اسکول ہوشیار پور کا افتتاح ہوا تو میا ں شفیع اور میاں شاہدین کے ہمراہ ہوشیار پور گئے۔ یہ ۱۹۰۸ء کی بات ہے۔ میاں صاحب نے اس موقع پر گرامی مرحوم کی دعوت کا بھی انتظام کر رکھا تھا۔ گرامی کی بدولت محمد اقبال اور میاں صاحب ایک دوسرے سے اور زیادہ قریب ہو گئے۔ دوستی نے بے تکلفی کا رنگ اختیار کر لیا ۔ میاں صاحب ۱۹۱۹ء میں لاہورئے آئے ۔ یکی دروازے کے باہر ایک عظیم حویلی تعمیر کی۔ اس سے پہلے ہوشیار پور میں بیرسٹری کر رہے تھے۔ محمد اقبال کسی مقدمے کے سلسلے میں لاہور جاتے یا میاں صاحب لاہور آتے تو ایک دوسرے سے خوب خوب ملاقات رہتی۔ ۱۹۲۷ء میں جب محمد اقبال نے پنجاب لیجسلٹیو کونسل میں رکنیت کے لیے انتخاب لڑا تو میاں صاحب سے پوچھ کر کہ ان کا ارادہ تو اس میں حصہ لینے کا نہیں ہے۔ میاں صاحب محمد اقبال کے حق میں دستبردار ہو گئے۔ انتخابی مہم میں بڑی سر گرمی سے محمد اقبال کی مدد کی۔ ۱۹۳۶ء میں قائداعظم نے لیگ کی تنظم نو کے سلسلے میں میاں صاحب کو خط لکھا تو ۱۳ مئی کو ان کے دولت خانہ پر ایک جلسہ ہوا۔ قائداعظم تو لاہورنہ آ سکے۔ ارباب لیگ البتہ جمع ہو گئے۔ محمد اقبال چیئر مین اور میا ں صاحب ڈپٹی چیئر مین مقرر ہوئے۔ یہ زمانہ محمد اقبال کی علالت کا تھا۔ ان کی صحت روز بروز گر رہی تھی۔ میاں صاحب نے ان کے مشوروں سے لیگ کی تنظیم میں سر گرمی سے حصہ لیا۔ میاں صاحب محمد اقبال کی صاف گوئی کے بڑے معترف تھے۔ انھیں ان کی یہ ادا بہت پسند تھی کہ کسی میں کوئی عیب ہوتا اور اس کا ذکر آتا تو محمد اقبال بات کو بڑی خوبصورتی سے ٹال دیتے۔ کہتے میں اس بارے میں تم سے اتفاق نہیں کرتا۔ راقم الحروف کا ذاتی تجربہ بھی یہی ہے۔ میں نے بار ہا دیکھا کہ بعض حضرات کے بارے میں ان سے کرید کرید کر سوالات پوچھے گئے کہ شاید ان کے خلاف کوئی بات نکل آئے مگر انھوں نے بات آگے نہیں بڑھنے دی۔ کسی کے خلاف کچھ نہیں کہا۔ کسی کا دل دکھے یہ انھیں گوارا ہی نہیں تھا۔ ’’التجائے مسافر‘‘ میں ہے: مری زبانِ قلم سے کسی کا دل نہ دکھے کسی سے شکوہ نہ ہو زیر آسماں مجھ کو میاں صاحب سے ان کے تعلقات میں خلوص اور دل سوزی کا یہ عالم تھا کہ ۳۵۔۳۶ سال کے روابط میں کبھی شکایت یا شکر رنجی کا موقعہ نہیں آیا۔ لیکن میاں صاحب سے محمد اقبال کے تعلقات کی داستان یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ میاں صاحب نے طویل عمر پائی۔ آخری عمر میں بینائی جاتی رہی۔ سال وفات ۱۹۷۱ء ہے۔ سو برس کے قریب عمر پائی۔ محمد اقبال کے ہندو دوستوں میں سوامی رام تیرتھ۴۰ ۱؎ بالخصوص قابل ذکر ہیں۔ سوامی جی محمد اقبال کے قریباً قریباً ہم عمر تھے۔ گوجرانوالہ کے قریب ایک گائوں میں پیدا ہوئے۔ گوجرانوالہ اور لاہور میں تعلیم پائی۔ زمانہ تعلیم بڑی سختیوں ، عسرت اور ناداری میں گزرا سیالکوٹ میں ملازمت ملی۔ لیکن معلوم ہوتا ہے محمد اقبال سے ان کی ملاقات لاہور ہی میں ہوئی۔اس وقت جب وہ مشن کالج میں ریاضی کے اُستاد تھے۔ طبیعت پر شروع ہی سے تصوف کا غلبہ تھا۔ گوجرانوالہ میں ایک بھگت دھنارام سے فیض حاصل کر چکے تھے۔ زندگی بھر انھیں اپنا گرو مانتے رہے۔ لباس درویشانہ کھدر کا کرتہ، کھدر کی دھوتی، دیسی جوتا، کبھی کبھی سر پر صافہ لپیٹ لیتے۔ کھاتے بہت کم ۔ یہی کبھی ہفتے میں ایک آدھ بار، ورنہ دن بھر پانی پی پی کر گزر کرتے۔ شادی بچپن ہی میں ہو گئی تھی۔ لیکن طبیعت دنیا سے اُچاٹ تھی۔ کھوئے کھوئے سے رہتے۔ ہر لحظہ محویت و استغراق کی ایک کیفیت جو بڑھتی چلی گئی۔ کالج سے استعفا دے دیا۔ تاآنکہ جذب کامل نے سنیاس کا رنگ اختیار کر لیا۔ ہمالہ کے دامن میں گنگا کے کنارے دھونی رما کر بیٹھ گئے۔ دھیان گیان اور وید پاٹھ میں وقت گزرتا۔ سوامی جی کو اُردو، ہندی، فارسی اور پنجابی زبانوں میں صوفیا کا کلام حفظ تھا۔ انگریزی اور سنسکرت خوب جانتے تھے۔ مغرب کے فلسفہ سے بھی متاثر رہے۔ مشن کالج کے زمانۂ ملازمت ہی میں بلھے شاہ کے اس مصرعے ’اکوالف تنوں درکار،۴۱ ۱؎ سے متاثر ہو کر ایک ماہوار رسالہ الف کے نام سے جاری کیا مقصد تھا ویدانیت اور تصوف کی بلا امتیاز مذہب و ملت ترویج۔ رومی کا شعر: مذہب عشق از ہمہ مذہب جداست زیب سرورق ہوتا۔ سوامی جی پر وحدۃ الوجود کی ہندی آریائی شکل کا غلبہ تھا اور یہی ان کی مذہبی زندگی کا منتہا۔ ایک مضمون میں لکھتے ہیں کیا رام اکیلا ہے۔ ایک فارسی غز ل میں ’تنہا ستم تنہا ستم‘ کا تکرار کیا ہے ۔ پنجابی میں ’جام شہادت وحدت والا پی پی ہر دم رہ متوالا‘ اور اس قبیل کے اشعار’پاگل اصلی پاگل ہو جا مست الست پیار یا‘ ملتے ہیں۔ ۱۹۰۳ء میں جاپان چلے گئے۔ جاپان سے امریکہ پہنچے۔ ساحل سان فرانسسکو میں قیام رہا۔ ۱۹۰۶ء میں واپس آئے۔ گنگا کے کنارے چند میل دور ایک غار میں رہنے لگے ۔ ایک روز دریا میں لیٹے تھے کہ پانی کاریلا آیا اور انھیں بہا کر لے گیا۔ تیسرے روز لاش ملی۔ محمد اقبال نے باافسوس یہ خبر سنی۔ سوامی جی کی یاد میں جو نظم لکھی ہے باعتبار ان کی موت کے ان کے صوفیانہ نصب العین کے بارے میں کیا خوب کہا ہے: ہم بغل دریا سے ہے اے قطرۂ بیتاب تو پہلے گوہر تھا بنا اب گوہر نایاب تو فرمایا: ’’سوامی جی خوب آدمی تھے۔ ویدانیت کے رنگ میں رنگے ہوئے۔ ویدانیت کے خشک عقلی اور مابعدالطبیعی تصوف کا جس میں فکر ہی فکر ہے، ان پر غلبہ تھا۔ ویدانیت کا تعلق دماغ سے ہے۔ قلب سے نہیں ہے۔ میری ان کی خوب خوب گفتگوئیں ہوتیں۔ ان گفتگوئوں میں جب ویدانیت کا پیوند عجمی تصوف سے لگا، افکار دماغ پر جذبات قلب کا رنگ چڑھا تو سوامی جی کے دل میں کیف و سرمستی کی جو کیفیت پیدا ہوئی اس سے ان کے دل و دماغ کی دنیا ہی بدل گئی۔ اب ان کا وحدۃ الوجود ویدانیت کا وحدۃ الوجود نہ رہا۔ ۱۴۲؎ محمد اقبال کو سوامی جی سے دلی تعلق تھا۔ ان کا سوامی جی سے یہ تعلق اس پہلو سے بھی اہم ہے کہ انھوں نے سوامی جی سے زیادہ یاتھوڑی بہت نہیں تو یوں کہیے بقدر ضرورت سنسکرت سیکھ لی۔ ہندو فلسفہ اور ویدانیت کا مطالعہ بھی زیادہ گہری نظر سے کیا۔ محمد اقبال کا خیال تھا سوامی جی کی موت اتفاقی نہیں تھی، ارادی تھی۔۳ ۱۴؎ محمد اقبال کے ہندو دوستوں کا حلقہ خاصا وسیع تھا۔ سوامی رام تیرتھ سے کہ ہندو روحانیت اور وحدانیت کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ تیرتھ رام سے رام تیرتھ ہو گئے۔ ان کا تعلق خاطر سمجھ میں آتا ہے ۔ سوامی جی کی درویش منشی اور وسیع المشربی کا یہ عالم تھا کہ مسجد میں جا بیٹھتے۔ ’’قرآن مجید کی تلاوت کرتے۔ مسلمانوں کے ہاں کھانا کھاتے۔ کہتے ہندو ہوں نہ مسلمان ، معلوم نہیں کیا ہوں۔ البتہ وحدہٗ لا شریک کو مانتا ہوں۔ کفر پر لعنت بھیجتا ہوں۔ پھر اس درویش منشی کے ساتھ ان کا علم و فضل اور محمد اقبال کی طرح فلسفہ سے شغف ، تصوف سے دلی لگائو ۔ ادھر محمد اقبال کے دیکھنے میں نہ سہی، باطناً صوفی، درویش منش۔ طلب علم میں ہمہ تن تحقیق و تجسس۔ انھوں نے سوامی جی کی صحبتوں اور ملاقاتوں میں ہندو فلسفہ اور ویدانت کی حقیقی روح کو پا لیا۔ سوامی جی کی طرح مشہور ہندو انقلابی رہنما ہر دیال سے بھی ان کے خاصے تعلقات تھے۔ ہر دیال بڑے ذہین طالب علم تھے۔ غضب کا حافظہ پایا تھا۔ تعلیم سے فارغ ہو کر رشی اور منی ہونے کا دعویٰ کرتے تو غلط نہ ہوتا۔ وطن سے بے پناہ محبت تھی۔ جلا وطن ہو کر امریکہ چلے گئے۔ برلین میں انتقال ہوا۔ طالب علموں میں حددرجہ ہر دلعزیز تھے۔ محمد اقبال کی حب الوطنی اور فلسفہ پسندی دوستی کا ذریعہ بنی۔ ۱۹۰۴ء میں ہر دیال نے وائی۔ ایم۔ سی۔ اے کے مقابلے میں وائی۔ ایم۔ آئی۔ اے۱۴۴؎ کی بنیاد ڈالی۔ افتتاحی جلسے کی صدارت محمد اقبال نے کی۔ لیکن انھوںنے تقریر کی بجائے اپنی مشہور نظم ’’قومی ترانہ‘‘ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا پڑھ کر سنائی۔ سا معین تقریر کے منتظر تھے، ترانے کو سُنا تو سرد ھنتے لگے۔ جسے دیکھیے اس پر ایک وجدانی کیفیت طاری۔۱۴۵؎ ہر دیال کی انقلاب پسندی انھیں ملک سے باہر لے گئی۔ شاید ان سے پھر ملاقات کی نوبت نہیں آئی۔ راج نارائن دہلوی تو ان کے شریک محفل تھے۔ ایسے ہی تارا چند تارا۔ فوق کو لکھتے ہیں۔ سیالکوٹ سے ۱۹۰۸ء کا لکھا ہوا خط ہے۔ اللہ یار جوگی کو سلام پہنچے ۔ تارا کو بھی ۔ تارا چند تارا داغ کے شاگرد تھے۔ داغ سے تعلقات تھے۔ رفیق تمباکو فروش سے بھی اصلاح لیتے۔ وہ بھی داغ کے شاگردوں میں سے تھے۔ تارا مٹھائی کی دوکان کرتے۔ کسن شان سے کہتے ہیں: تارا نہ ہو تو حلوۂ سوہن کھلائے کون جوگی پنجۂ فولاد میں مصحح کا کام کرتے مگر شعر و شاعری کی محفلوں میں شریک ہوتے ہوتے شاعر بن گئے۔ فوق کے محمد اقبال سے تعلقات تھے۔ جوگی نے بھی ان سے راہ و رسم پیدا کر لی۔ محمد اقبال انگلستان سے واپس آئے تو ان کے خیر مقدم میں ایک نظم لکھی۔ محمد اقبال اپنے ملنے والوں کے قدر دان تھے، انھیں کبھی نہیں بھولے۔ ۱۴۶؎ محمد اقبال کی شاعری ،محمد اقبال کی حب الوطنی، محمد اقبال کی بے تعصبی، روا داری اور وسیع المشربی نے ہندوئوں کو اپنی طرف کھینچا۔ ان کا خیال تھا وہ بڑے مہاپرش اور دیش بھگت ہیں۔ بے شک، لیکن ان معنوں میں نہیں جو ہندوئوں کے ذہن میں تھے اور جن کا اظہار آگے چل کر سیاست میں ہوا۔ بہر حال ہندوئوں میں بھی ان کے قدر دانوں کی کمی نہیں تھی۔ لالہ کنور سین لاء کالج کے پرنسپل اور آگے چل کر ریاست کشمیر کے چیف جسٹس ایک طرح سے ان کے ہم درس تھے۔ میر حسن کے شاگرد۔ عربی میں ایم۔ اے کیا ۔ عربی اور فارسی ادب سے شناسا ۔ آیات قرآنی کا بلا تکلف حوالہ دیتے۔ شاید ۱۹۱۱ء کی بات ہے میں نے والد ماجد کے ہمراہ انھیں دیکھا۔ ان کا قیام اس وقت اس کوٹھی میں تھا جہاں کچہری روڈ پر اب وائس چانسلر کا دفتر ہے۔ کنور سین اس زمانے میں لاء کالج کے پرنسپل تھے۔ سہ پہر کا وقت تھا والد ماجد سے دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ ایک بار جب انھوں نے دول یورپ کے ہاتھوں دولت عثمانیہ کی پریشانی کا ذکر کیا تو کہنے لگے، شاہ صاحب قوموں کی زندگی میں ایسی پریشانیاں آتی ہی رہتی ہیں۔ پھر بلا تکلف قرآن مجید کی آیات قل اللھم مالک الملک توتی الملک من تشاء … پڑھ ڈالی۔ محمد اقبال کی لیاقت اور قابلیت کے دل سے معترف تھے۔ بڑے وضع دار با مروت۔ میر حسن کا ذکر آتا تو بڑے ادب سے ان کا نام لیتے تو اس کے باوجود حد درجہ متعصب ۔ کشمیرمیں جو کوئی ان سے ملا اور محمد اقبال کا ذکر آیا گو دلی محبت اور قدر دانی سے ان کی تعریف کی۔۱۴۷؎ لالہ لاجپت رائے کو بھی محمد اقبال سے بڑا تعلق خاطر تھا۔ ان کے جذبہ حب الوطنی کے معترف اور سیاست میں شدید اختلاف کے باوجود ایک بات میں ان کے متفق ، گو اپنے طور پر لاجپت رائے کہتے ہندوئوں اور مسلمانوں کا اپنا ایک طریق زندگی ہے ۔ ان میں سیاسی اتحاد ممکن نہیں۔ ایک قوم کیسے بنیں۔ کیوں نہ ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں۔ لاجپت رائے کی اس معاملے میں اپنی ایک رائے تھی۔ ایک طریق عمل۔ محمد اقبال کو دل سے ناپسند ۔ ویسے لاجپت رائے سے خوب خوب گفتگوئیں ہوتیں۔ ۱۹۲۸ء میں جب دردِ گردہ کا شدید دورہ ہوا اور میر حسن نے رائے دی کہ محمد اقبال طب سے رجوع کریں تو لاجپت رائے ہی کے مشورے سے دہلی گئے۔ حکیم نابینا مرحوم سے رجوع کیا اور ان کے علاج سے اچھے ہو گئے۔ لاجپت رائے کو ۱۹۲۷ء میں سائمن کمیشن کے خلاف مظاہرے میں شدید ضربیں آئی تھیں۔ بیمار ہو گئے۔ بیماری نے شدت اختیار کی حکیم نابینا سے رجوع کیا۔ ان کا علاج کامیاب ،رہا۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے پرنسپل کرنل ہارپرنیلسن۱۴۸؎ کا علا ج تھا، بات نہیں بن رہی تھی، حکیم صاحب کی کامیابی پر حیران رہ گئے۔ پنڈت شیو نارائن شمیم وکیل ہائیکورٹ، شاعر، زبان دان ، محمد اقبال کی دل سے قدر کرتے۔ مرزا جلال الدین کہتے ہیں انھیں اقبال سے بڑا انس تھا۔ مخزن کے اہل قلم میں تلوک چند محروم کا نام سر فہرست رہے گا۔ انھوں نے پنجاب کے ایک دور دراز ضلعے میاں والی میں بیٹھ کر اُردو زبان میں بڑی عمدہ نظمیں لکھیں۔ اردو زبان پر انھیں جو قدرت حاصل تھی اسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ محروم کو بھی محمد اقبال سے دلی لگائو تھا۔ انگلستان سے واپس آئے تو انھیں خوش آمدید کہی۔ ایک نظم لکھی۔ ان کے صاحبزادے جگن ناتھ آزاد تو آج کل بھارت میں گویا اقبالیات کے خاص نمایندے ہیں۔ محروم نواح عیسیٰ خیل میں پیدا ہوئے۔ موضع نور زمان شاہ میں تعلیم مکمل کی تو دیر تک عیسیٰ خیل ضلع میانوالی میں معلم رہے۔ پھر گارڈن کالج راولپنڈی میں اردو کے لیکچرار مقرر ہو گئے۔ سلسلہ ملازمت پنجاب یونیورسٹی دہلی میں ختم کیا۔ ۷۹ برس کی عمر پائی جنوری ۱۹۶۹ء میں انتقال کیا۔ دواوین متعدد ہیں۔ ایک مجموعہ رباعیات بھی ہے۔ محمد اقبال کی وفات کی خبر سنی تو دل تھام کر رہ گئے۔ کاغذ پنسل لے کر بیٹھ گئے، مرثیہ لکھا ۔ محمد اقبال سے اپنی عقیدت اور تعلق خاطر کی ترجمانی بڑی خوبی سے کی ہے۔ ۷ اشعار ہیں’ ظاہر کی آنکھ سے جو نہاں ہو گیا تو کیا احساس میں سما گیا دل میں اتر گیا کنج مزار میں تن خاکی کو چھوڑ کر قدسی نژاد اوج سماوات پر گیا ہر گز نمیرد آنکہ داش زندہ شد بہ عشق روشن تر اس حقیقت روشن کو کر گیا محروم کیوں ترے دل حرماں نصیب کو یہ وہم ہو گیا ہے کہ اقبال مر گیا ایک مرتبہ محمد اقبال سے ملے۔ عروض زیر بحث تھا۔ محمد اقبال نے کہا میں نے عروض سبقاًسبقاًپڑھا ہے۔پھر مشورہ دیا کہ آپ اس خار زار میں نہ الجھیں ۔ زبان اور شعر کے بارے میں محروم کا یہ شعر کیا خوب ہے: محروم ہم کو عشق نے شاعر بنا دیا بیساختہ زبان سے نکلی ہے دل کی بات محمد اقبال اپنے دوستوں کی بڑی قدر کرتے۔ سیالکوٹ کے علاوہ لاہور میں بھی ان سے رسم و راہ میں فرق نہ آیا۔ مثلاًلالہ دھنپت رائے وکیل سے کہ بازار حکیماں کے شرکائے محفل میں سے تھے۔ پنڈت کیول کرشن نے توآگے چل کر ان کی شاگردی بھی اختیار کی۔ آخری علالت میں بھی ان کے بعض ہندو نیاز مند مزاج پرسی کے لیے آتے ۔ڈاکٹر جمعیت سنگھ تو ہر دوسرے تیسرے روز بلاناغہ حاضر خدمت ہوتے۔ ان کے سینے اورپھیپھڑوں کا معائنہ کرتے۔ کوئی نہ کوئی دوا ساتھ ہوتی۔ ۱۹۰۵ء میں محمد اقبال کی ملاقات مرزا جلال الدین سے ہوئی۔ مرزا صاحب بھی میاں شاہنواز کی طرح ان کے یارغار تھے۔ دلی دوست ، ہمدم و ہم راز، ندیم و جلیس، صبح و شام کا ساتھ۔ ایک دوسرے کی رفاقت ، بے تکلفی ، ظاہرو باطن کے راز دار۔ مرزا صاحب لندن میں بیرسٹری کر رہے تھے۔ شیخ عبدالقادر کے ساتھ ایک ہی مکان میں رہتے۔ محمد اقبال کا ذکر آتا۔محمد اقبال سے غائبانہ تعارف ہوگیا۔ مرزا صاحب بیرسٹر بن کر لاہور آئے تو شیخ عبدالقادر نے انھیں لکھا محمد اقبال انگلستان آنا چاہتے ہیں تم سے ملیں گے۔ تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ محمد اقبال مولوی سید ممتاز علی کے ہمراہ ان کے ہاں پہنچے۔ ملاقات رسمی تھی۔ محمد اقبال نے معلومات حاصل کیں۔ انگلستان چلے گئے۔ واپس آئے۔ وکالت کرنے لگے۔ مرزا صاحب بھی وکالت کررہے تھے۔ شیخ گلاب دین اورمولوی احمد دین سے ان کا بڑا گٹھ جوڑ تھا۔ صبح و شام کی نشست رہتی محمد اقبال کا ذکر آتا۔ یوں مرزا صاحب کے دل میں پھران سے ملنے کی خواہش پیداہوئی۔ محمد اقبال سے ملے، تجدید ملاقات ہوگئی۔شیخ عبدالقادر بھی انگلستان سے واپس آ چکے تھے۔ رفتہ رفتہ دوستوں کا ایک چھوٹا سے حلقہ قائم ہو گیا۔ بارروم کی پر لطف نشستوں میں مزے سے وقت گزرتا۔ بے تکلفی تھی۔ تعلقات بڑھنے میں دیر نہ لگی۔ یہاں شاہنواز سے بھی یارانہ گٹھ چکا تھا۔ وہ بھی اس حلقے میں آ ملے۔ مرزاصاحب شعر و سخن کے دلدادہ تھے۔ راگ رنگ کے شوقین۔ اپنے یہاں اکثر رقص و سرود کی محفلوں کا اہتمام کرتے۔ دوست جمع ہوتے۔ مولوی احمد دین کو رقص و سرود کا بڑا شوق تھا۔ مولوی صاحب ہی محمد اقبال کو ان محفلوں میں لے گئے۔ بقول مرزا صاحب : ’’مولوی صاحب کو اقبال کی ذاتی زندگی میں بڑا دخل تھا۔ اس کے خفی و جلی پہلوئوں سے پوری طرح واقف۔‘‘ ۱۴۹؎ محمد اقبال مرزا صاحب کی محفلوں میں شریک ہوتے، گانا سنتے۔ مرزا صاحب نے تھوڑے ہی دنوں میں دیکھاکہ ’’رقص و سرود کے دوران ہی کسی نہ کسی نظم کی آمد ہو جاتی ہے۔ دھیمی سی آواز میں گنگنانے لگتے ہیں۔ ایسا ہوتا تو گانا بند کر دیا جاتا۔ محمد اقبال کی آواز آہستہ آہستہ بلند ہوتی جاتی ہے۔ سازندے جو اقبال کی طر ز سے واقف ہو چکے تھے، نہایت مدہم سروں میں ایک قسم کی تال سی دیتے جس کے ساتھ وہ اپنی مخصوص لے میں، جس کی دل کشی کا اظہار الفاظ میں نہیں ہو سکتا، اپنے اشعار پڑھنا شروع کر دیتے۔ سازوں کی آواز کچھ ایسی دل نواز ہو جاتی کہ سماں بندھ جاتا۔ گانے کی مجلس میں کوئی لطف نہ رہتا۔ گویوّں کو رخصت کر دیا جاتا: یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے اس نظم کی بنیاد ایک ایسی ہی مجلس میں رکھی گئی ۔‘‘ ۱۵۰؎ مرزاصاحب کے یہاں ریاست ٹونک کا ایک ملازم ستار خوب بجاتا۔ وہ جب حضور سرور کائنات ؐ کی تعریف میں مسدس کا یہ بند وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا نشید کرتاتو محمد اقبال بے اختیار آب دیدہ ہو جاتے۔ جہاں کہیں کوئی عمدہ نعمت سنتے رقت طاری ہو جاتی۔ محفل کا نشہ بدل جاتا۔ حقیقی اقبال کی جھلک دکھائی دینے لگتی جس کا دماغ حریم ربانی کے جلوئوں سے مدہوش، جس کا دل تجلیات خداوندی سے منور ۔جس کی نگاہ میں پیغمبرانہ پاکیزگی اور جس کے تخیل میں ملکوتی بلندی تھی۔ یہی وہ مقدس ساعت ہوتی جس میں شاعرمشرق خاک دان عالم سے بلند ہوتا۔ خود عرش معلی کی طرف بڑھتااور جذبات کی تند و تیز موجیں اس کے مخفی چشمے سے موسیقیت کے ساتھ شعر کی صورت میں اٹھنے لگتیں۔۱۵۱؎ مرزا صاحب نے محمد اقبال سے اپنی سالہا سال کی رفاقت کے حالات بڑی خوبی سے لکھے ہیں۔ اسلام سے محمد اقبال کی والہانہ محبت، قرآن مجید میں تدبر و تفکر ، آیات قرآنی کی تفسیر ، قادیانی تحریک سے بیزاری، علی گڑھ تحریک کی حمایت، سیاست میں سرسید کی تعریف مگر تفسیر میں اختلاف، شوقِ مطالعہ، اسلامی علوم و معارف کی اشاعت کا خیال، قناعت، توکل، دنیوی اعزا ز اور دولت سے بے نیازی ، یہ تھے محمد اقبال۔ مرزاصاحب نے بار روم اور دوستوں کییہاں محمد اقبال کی پر لطف گفتگوئوں،لطیفوں اور چٹکلوں کو مزے لے لے کر بیان کیا ہے۔ ان کی جودتِ طبع، علو فکر، پاکیزہ خیالی اور ذہن رسا کایہ عالم تھا کہ بذلہ گوئی کی نوبت آتی تو اس میں بھی کوئی نہ کوئی علمی نکتہ پیدا کرلیتے۔ مرزا صاحب نے محمد اقبال سے اپنے گہرے روابط کے ساتھ ساتھ ان کے دل و دماغ اور سیرت و کردار کا نقشہ بڑی خوبی سے کھینچا ہے۔ ستمبر ۱۹۳۷ء میں مرزا صاحب یورپ سے واپس آئے تو معلوم ہوا کہ محمد اقبال بیمار ہیں، بے قرار ہو کر مزاج پرسی کے لیے پہنچے۔ محمد اقبال نے کہا جم کر بیٹھو گے یا یوں ہی جہاں گروی کرتے رہو گے؟ یاران محفل کو پھرایک نظر دیکھنے کو جی چاہتا ہے۔مرزا صاحب جنوری ۱۹۳۸ء میں یورپ جانے سے پہلے ان کے پاس بیٹھے حال پوچھ رہے تھے کہ میاں شاہ نواز بھی آ گئے۔ محمد اقبال نے کہا لو آج پھر وہی محفل قائم ہو گئی۔ ’’اقبال کی فلسفیانہ گفتگو ہمیں زمان و مکان کی بندشوں سے آزاد کرکے پھر اسی پرانی انجمن میں لے گئی جس کے کبھی وہ خود روح رواں تھے۔ آنکھوں کے سامنے سے پردے ہٹنے لگے… بچوں کی طرح، جو اپنی بھولی بسری شرارتوں کو یاد کرکے لطف اٹھاتے ہیں، ہم بھی اپنی بے فکری کی زندگی کے گذشتہ واقعات یاد کرنے لگے۔ ہم تینوں کی یہ آخری صحبت تھی ‘‘۔۱۵۲؎ مرزا صاحب پھر یورپ چلے گئے واپس آئے اور پھر ان سے ملے تو ان کے چہرے پر کوئی ایسے آثار نہ دیکھے جن کو دیکھ کر کہا جاسکتا کہ مفکر اسلام چند دنوں کے مہمان ہیں۔ ۲۲ اپریل کی شام کو دہلی جا رہے تھے کہ صبح ریڈیو پر ان کے انتقال کی خبر سنی۔ ’’اس خبر سے یوں دھچکا لگا جیسے کسی نے اٹھا کرپھینک دیا ہو۔ چپ چاپ فرش پر بیٹھ گیا۔ تمام قویٰ پر دہشت ناک وحشت طاری تھی جو زلزلے کے جانے کے بعد عناصرکائنات میں نظرآتے ہیں… یہ وہ غم تھا جس میں انسان ہائے ہائے نہیں کرتا، اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں آتے، صرف اس کی نظر پتھرا جاتی ہے، روح تحلیل ہونے لگتی ہے۔‘‘۱۵۳؎ ۱۸۹۵ء میں سید غلام بھیک نیرنگ لاہورآئے۔ وطن دورانہ ضلع انبالہ۔ گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا۔ چودھری جلال الدین کے توسط سے ملاقات ہوئی۔شعرو شاعری دوستی کا ذریعہ بنی۔ ایسی دوستی کہ تاحین حیات قائم رہی۔ میر صاحب انبالہ میں وکالت کرتے شعر کہتے، مخزن میں ان کا کلام شائع ہوتا۔ محمد اقبال کے احباب خاص میں سے تھے۔ سالہا سال مرکزی لیجسلیٹو اسمبلی میں مسلمانوں کی نمائندگی کرتے رہے۔ آخری زندگی تبلیغ کے لیے وقف کر دی۔ محمد اقبال کو خط لکھتے، ان سے ملتے، مشورے لیتے۔ محمد اقبال کے بعض حالات میں نیرنگ نے لکھا ہے:’’ ہم کو اتنا شعورہی نہیں تھا کہ اس زمانے کے اقبال میں ما بعد کے اقبال کودیکھ لیتے۔ ہم انھیں ایک طالب علم، جس نے شاعرانہ طبیعت پائی ہے، سمجھتے تھے‘‘۔ ۱۹۰۱ء میں سیالکوٹ گئے۔ محمد اقبال کے مہمان رہے۔ آفتاب اور اعجاز کو دیکھاجو ابھی بچے تھے۔ ان کے والد ماجد سے ملے۔ میر حسن کی زیارت کی۔ جھنڈے خان سے کہ محمد اقبال کے خاص دوست تھے، ملاقات ہوئی۔ ۱۹۰۵ء میں محمد اقبال یورپ گئے تومیر نیرنگ بھی انھیں خدا حافظ کہنے دہلی پہنچے۔ یورپ سے واپسی پر چنگڑ محلے میں، جہاں ان دنوں محمد اقبال کا قیام تھا، ملے تو یہ دیکھ کرکہ انھوں نے بڑا نستعلیق سوٹ پہن رکھا ہے، بہت خوش ہوئے۔ شکر کیا کہ انھوں نے لباس پہننا سیکھ لیاہے۔ مگر سوٹ جلدی ہی اتر گیا۔ پھر وہی کرتہ اور بنیان، شانوں پر کمبل، ہم نفس (حقہ) حاضر، فرش کی نشست، تین دن اسی ہیئت کذائی میں گزرے۔ محمداقبال کا دماغ گوناگوں فضائل سے آراستہ، سینہ طرح طرح کی امنگوں اور عزائم سے پر، مگر رندی اور قلندی میں فرق نہ آیا۔۱۵۴؎ اسرار خودی کی اشاعت کے بعد ۱۹۱۵ء میں انار کلی میں ملنے آئے تو ریل اس وقت لاہورآئی کہ میرصاحب محمد اقبال کے یہاں پہنچے تو ابھی صبح کی نماز کا وقت باقی تھا: ’’میں پہنچاتوایک کمرے سے تلاوت کلام اللہ کی بلند مگر نہایت شیریں اور درد انگیز آوازمیرے کانوں میںآئی۔ میں سمجھ گیا کہ یہ کس کی آواز ہے۔ فوراًوضو کیا۔ دیکھا اقبال مصلے پر بیٹھے قرآن حکیم پڑھ رہے ہیں… میں نے اس مصلے پر نماز پڑھی تو نماز میں ایک خاص کیفیت محسوس کی اور میں نے دل میں اس وقت کہا کہ یہ کیفیت وہی شخص یہاں چھوڑ گیا ہے جو ابھی ابھی یہاں بیٹھا ہوا کلام اللہ پڑھ رہا تھا۔ اس روزسے محمد اقبال کی روحانیت کاقائل ہوگیا‘‘۔۱۵۵؎ میر صاحب نے میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں محمد اقبال کے طرز بودو باش کا حال، جہاں وہ کئی بار ان کے مہمان ٹھہرے، بڑی خوبی سے بیان کیاہے۔ لکھتے ہیں : ’’محمد اقبال بالعموم غیر متحرک رہتے لیکن قومی ضرورتوں کے موقعہ پر دفعتاً متحرک بن جاتے۔ مثلاًریاست الور میں مسلمانوں پر ظلم کے معاملے میں میر صاحب نے تحریک تبلیغ کی بنا ڈالی تو اس میں دلی جوش سے شریک ہو گئے۔ میرصاحب کا ہاتھ بٹایا۔ ۱۹۳۶ء میں مصر سے تبلیغی وفد آیا تو میر صاحب کو بڑے قیمتی مشورے دیے۔ ۱۹۳۴ء میں حضرت مجدد کے مزار پر حاضری دی تو میر صاحب کو لکھاآپ بھی سرہند آ جائیں۔ میرصاحب سرہند پہنچ گئے۔ ۱۹۲۷ء میں ایک یورپین مسلم کانفرنس کے انعقاد کا خیال آیا۔ میر صاحب کو خط لکھا مگرکانفرنس منعقد نہ ہو سکی، الا یہ کہ اگلے سال لارڈ ہیڈلے ہندستان آئے۔ میر صاحب محمداقبال کے ساتھ شملہ سے کالکاجارہے تھے، راستے میں درخواست کی قرآن کی تفسیر لکھیں۔ لیکن محمداقبال نے معذوری ظاہر کی۔کئی ایک نازک مسائل چھیڑ دیے۔ دوران گفتگو میںان پر جوش اور جذبے کی کیفیت طاری ہو گئی، مگرانھوں نے جلدی اس پر قابو پا لیا۔۱۵۶؎ میر صاحب کی ان سے آخری ملاقات ۱۹۳۷ء کی سردیوں میں ہوئی۔ تقسیم ہند کے بعد میر صاحب پاکستان آ گئے۔ ۱۹۵۲ء میں انتقال کیا۔ میر نیرنگ کا قیام ایک زمانے میں کوچہ ہنومان میں تھا۔ میر صاحب اس زمانے میں قانون پڑھ رہے تھے۔ اسی کوچہ میں جس کی زیادہ تر آبادی ہندوئوں پرمشتمل تھی، ایک مکان میں رہتے۔ محمد اقبال اکثر ان سے ملنے جاتے، بلکہ شاید ایک آدھ روز انھیں کے ہاں ٹھہر بھی جاتے ۔پاس ہی محمد اقبال کے ہم جماعت مولوی ضیاالدین کامکان تھا جو مدتوں سندھ میں پولیس کمشنر رہے۔ پنشن پا کر واپس آئے تو اکثر محمد اقبال سے ملتے۔ میرنیرنگ اورمولوی صاحب کو اکھاڑے کا شوق تھا۔ محمد اقبال بھی کبھی کبھار لنگوٹ کس کر اکھاڑے میں اترآتے۔ یہ شیخ عبدالقادر کا بیان ہے۔ وہ بھی اکثر میر صاحب سے ملنے آتے۔ محمد اقبال کہتے ہیں : ’’کوچہ ہنومان میں ایک ہندو پنڈت صبح سویرے گھرسے نکلتا، بڑی دلکش آواز میں بھجن گاتا۔ میں یہ بھجن سنتا۔ ایک روز اس سے پوچھا تم جو بھجن گا رہے ہوئے اس کا مطلب کیا ہے: اس نے کہامطلب وطلب تو معلوم نہیں البتہ ورد کرتا رہتا ہوں‘‘۔۱۵۷؎ مرزا اعجاز حسین سے بھی میر نیرنگ کے دوستانہ تعلقات تھے، ویسا ہی پیار اوربے تکلفی مثنوی رموز بے خودی لکھی تو اشاعت سے قبل اس کا مسودہ میرنیرنگ کی طرح مرزا صاحب کو بھی بھیجا۔ شاید مرزاصاحب کو بھی میرنیرنگ کی طرح اسرار خودی کے بعض مطالب بالخصوص حافظ کے مسلک کو سفندی سے انکار تھا۔ ۳۳۔۱۹۳۲ء میں دہلی میں مجھے اکثر ان کا نیاز حاصل ہوتا۔ میر صاحب نے گاندھی ارون میثاق پر،۱۵۸؎ جب معلوم ہوتا تھا کانگریس اپنی منزل مقصود پر پہنچنے والی ہے، ایک غزل لکھی جس کے ایک شعر میں یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ شاید ایسا نہ ہو سکے۔ میں نے یہ شعر: یہ مانا ہاتھ میں ساغر ہے لیکن کیا بھروسہ ہے ہزاروں لغزشیں حائل ہیں لب تک جام آنے تک جو اس انگریزی ضرب المثل کا نہایت خوب ترجمہ ہے کہ پیالۂ شراب کئی بار ہونٹوں تک آآ کر رہ جاتاہے،۱۵۹؎ پڑھا تو فرمایا مرزا عجازکی طبیعت شاعری کے لیے بڑی موزوں تھی۔ گویا انھیں افسوس تھا کہ مرزا صاحب نے شاعری کیوں نہیں کی۔ شیخ نذر محمد بھی اقبال کے نہایت عزیز دوستوں میں تھے۔مخزن کے حلقۂ احباب میں شامل، کشمیری نژادپنجابی ۱۸۶۶ء میں پیدا ہوئے، گوجرانوالہ کے ایک علم دوست خاندان میں شیخ صاحب کے والد مولوی غلام رسول بہترین خطاط تھے۔ کاروبار کرتے۔شیخ صاحب نے ۱۸۸۹ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے بی۔ اے کیا۔ ان ۹ طلباء میں جو اس سال بی۔ اے میں کامیاب ہوئے واحد علی ہذا ضلع گوجرانوالہ کے پہلے مسلمان گریجویٹ۔ اس زمانے میں معیار تعلیم اتنا بلند تھا کہ بی۔ اے کے بعد کم مزید تعلیم کی ضرورت محسوس ہوتی۔ شیخ صاحب محکمہ تعلیم میں ملازم ہو گئے۔ معلمی کی ، ہیڈ ماسٹر بنے، ترقی کرتے کرتے انسپکٹر مدارس ہو گئے اور بحیثیت انسپکٹر مدارس ہی سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ شعر و سخن سے دلی ذوق تھا۔ شعر کہتے۔ نذر تخلص کرتے۔ کلام مخزن میں چھپتا۔ کلام نذر کے نام سے ان کا مجموعہ شائع ہواتومولانا حالی اور محمد اقبال نے اسے بہت سراہا۔ پیرایۂ بیان اور مضامین کی تعریف کی۔ حالی نے کہا مناظر قدرت کا سماں خوب باندھا ہے۔ محمد اقبال نے لکھا نوجوانوں کے لیے یہ مجموعہ ہدایت آموز اور دلچسپ ثابت ہوگا۔ ۱۹۰۸ء میں رسالہ زبان دہلی جو کبھی راسخ دہلوی کی ادارت میںشائع ہوتاتھا۔ مائل دہلوی کے زیر اہتمام پھر سے جاری ہوا توشیخ صاحب کو محمد اقبال کے یہ دو شعر : جہاں سے پلتی تھی اقبال روح قنبر کی مجھے بھی ملتی ہے روزی اس خزینے سے ہمیشہ وردِ زبان ہے علیؓ کا نام اقبال کہ پیاس بجھتی ہے دل کی اسی نگینے سے اس قدر پسند آئے کہ انھوں نے اس کی تظمین میں گیارہ اشعار کہہ ڈالے: پسند ہیں مجھے اقبال کے یہ دونوں شعر لگائے رکھتا ہوں ہر وقت ان کو سینے سے پہلے دس اشعار تمہید میں ہیں۔ حضرت مائل نے لکھا: یہ شیخ محمد اقبال کی ایک مختصر سی نظم پرشیخ صاحب کی تظمین ہے۔محمد اقبال کی یہ مختصر سی نظم مخزن میںشائع ہوئی۔ باقیات اقبال میں موجود ہے۔ شیخ صاحب عروض کا مطالعہ کر رہے تھے۔ محمد اقبال کوخط لکھا تو انھوں نے مشورہ دیا کہ اساتذہ کا کلام دیکھتے رہیں، یوں بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ شیخ صاحب باوجود تفاوت عمر اصلاح کلام میں ان سے رجوع کرتے۔ انھوں نے خود بھی شاعری میں ایک مقام پیدا کر لیا تھا۔ نوجوان اکثر ان کی خدمت میں حاضر ہوتے ۔ ان سے مشورہ لیتے۔۱۶۰؎ ۱۹۰۵ء میں محمد اقبال انگلستان روانہ ہوئے اورا یک روز دہلی ٹھہرے تو انھیں کے یہاں قیام کیا۔ شیخ صاحب ہی کے ساتھ درگاہ شریف خواجہ نظام الدین میں حاضری دی۔ محمد اقبال انگلستان میں تھے کہ شیخ صاحب کا خط پہنچا۔ جواباًوہ نظم لکھی جو ۱۹۰۶ء میں بہ عنوان ’پیغام راز‘ مخزن میںشائع ہوئی۔ ابتداء اس شعر سے کی تھی : کیوں کر نہ وہ جہان کو پیغامِ بزمِ راز دے غم کی صدائے دل نشیں جس کا شکستہ ساز دے بانگ درامیں اس نظم کے کچھ اشعار حذف کر دیے گئے ہیں۔ عنوان بھی ’پیغام راز‘ کی بجائے محض ’پیام‘ ہے۔ مخزن میں اس نظم کا اختتام یوں ہوا تھا۔الراقم: پیرِ مغاں فرنگ کی مے کا نشاط ہے اثر اس میں وہ کیف غم نہیں مجھ کو تو خانہ ساز دے بانگ درا میں البتہ اس سے پہلے جوشعرآیا ہے باصلاح یوں بدل دیا گیا: تجھ کو خبر نہیں ہے کیا بزمِ کہن بدل گئی اب نہ خدا کے واسطے ان کو مئے مجاز دے محمد اقبال مئے فرنگ کا مزہ چکھ چکے تھے ، جان گئے تھے اس میں نشاط ہی نشاط ہے، کیف غم نہیں ہے۔ قوم کو مئے فرنگ کی نہیں، خانہ ساز کی ضرورت ہے کیف غم کی دنیا بدل گئی۔ مئے مجاز میں کیا رکھا ہے۔ کچھ بھی نہیں ۔غور کیجیے ، محمد اقبال کی شاعری بتدریج ایک پیغام کا رنگ اختیار کر رہی تھی۔ محمداقبال انگلستان ہی میں تھے، ارادہ کیا شاعری کو ترک کردیں۔ شیخ صاحب کو معلوم ہوا تو انھوں نے لکھا: تجھے خدا کی قسم نہ کر بند نغمۂ بربط سخن کو پھر جب سنا محمد اقبال کہتے ہیں، شاعری کیا ہے آرام کرسی میں بیٹھے مطالعے۱۶۱؎ کا دوسرا نام محمد اقبال کو شکایتہ لکھا۔ ایسا نہ کہیے۔ شاعری آرام کرسی کے سپرد ہو گئی تو عروسِ شاعری پر کیا گزرے گی۔ شاعری کو کر دیا آرام کرسی کے سپرد دوستوں کو نثر کی بتلائیں سو سو خوبیاں پھر کہتے ہیں: حال جب اقبال کا یہ ہے عروسِ شاعری کس کو دکھلایا کرے گی اپنی اب عشوہ گری گوجرانوالہ لاہور سے دور نہیں،محمد اقبال سے اکثر ملاقات رہتی۔ دوران علالت میں شاید ان کی عیادت کو نہیں آ سکے۔ پیرانہ سالی تھی۔ وفات کی خبر سنی تو بے قرار ہو گئے۔ گزری ہوئی صحبتوں کا نقشہ آنکھوں میں پھر گیا۔ مرثیہ لکھا۔ پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔ اشعار سادہ ہیں مگر دلی رنج و اندوہ کے ترجمان۔ شیخ صاحب نے طویل عمر پائی۔ ۹ فروری ۱۹۴۲ء کا دن تھا کہ اپنے مکان’نذر منزل‘ کی چھت سے گر گئے۔ جان برنہ ہو سکے۔ گوجرانوالہ ہی میں مدفون ہیں۔ شمس العلماء مولوی محمد حسین پروفیسر فارمن کرسچن کالج لاہور اور مولوی محمد حسین جالندھری بھی کہ سرتاپا نمونہ اخلاق تھے، اسلامی حسن کردار اور حسن سیرت کا آئینہ، لاہور ہی میں مقیم تھے۔ قیاس یہ ہے کہ محمد اقبال ان بزرگوں کی صحبتوں سے بھی مستفیض ہوئے۔ مرزا ارشد گورگانی سے تو ایک گو نہ تلمذ بھی تھا، مخلصانہ روابط بھی۔ ۱۹۰۱ء میں مولانا نذیر احمد انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں شریک ہوئے۔ ’نالہ یتیم‘ سنا تو محمد اقبال کو دل کھول کر داد دی۔ ۱۹۰۲ء میں نواب صدر یار جنگ بہادر مولوی حبیب الرحمان شیروانی انجمن حمایت اسلام کی دعوت پر لاہور آئے، شیخ عبدالقادر کے یہاں مہمان ٹھہرے ۔ ایک خط میں لکھتے ہیں: شیخ کی خانقاہ اُردو ادب کے اہل ذوق کا مرجع بنی ہوئی تھی۔ نیرنگ ، اقبال ،احمد حسین خان ، خود شیخ یہ اربعہ عناصر وہاں جمع ہوتے۔ مجھ کو اس صحبت میں ان احباب کو دیکھنے اور ان سے ملنے کی خصوصیت حاصل ہونے کا موقعہ ملتا رہا۔ اقبال اور نیرنگ کی نظمیں سنیں اور ان کے ترنم سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔۱۶۲؎ نواب صاحب سے محمد اقبال کے روابط میں بے تکلفی کا رنگ نمایاں ہے۔ ملاقاتوں کا موقعہ تو کم تھا۔ خط و کتابت رہتی۔ نواب صاحب سخن گو تھے اور سخن سنج بھی۔ فریاد امت کے بعض اشعار پر تبصرہ کیا۔ محمد اقبال ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھتے ہیں: افسوس ہے اس سال آپ انجمن کے جلسے میں تشریف نہ لا سکے۔ میر نیرنگ، چودھری خوشی محمد ناظر ، مولانا گرامی، غرضیکہ محفلِ احباب کے سب ارکان مشیدہ موجود تھے۔ آپ ہوتے تو ایک آدھ رات خوب گزر جاتی۔ حبیب کی موجودگی میں شعراء کے لیے کافی سامان ہے، بالخصوص جب حبیب شعر فہم اور شعر گو بھی ہو۔ آگے چل کر لکھتے ہیں مولانا گرامی پوچھتے ہیں کس کو لکھ رہے ہو۔ میں کہتا ہوں حبیب کو تو آپ فرماتے ہیں میرا بھی سلام لکھ دیں۔۱۶۳؎ ۱۹۳۴ء میں نواب صدر یار جنگ بہادر تعلیمی کانفرنس میں شرکت کے لیے منٹگمری آئے تو دو روز نیرنگ کے ساتھ محمد اقبال کے مہمان رہے۔ میر نیرنگ نے پھر اس موقعے پر اقبال کی روایتی زندگی کا نقشہ کھینچا ہے۔۱۶۴؎ یہ نواب صاحب کی شدید ان سے آخری ملاقات تھی۔ مدارس لاہور سے بہت دور ہے۔ لیکن محمد اقبال کی شہرت ۱۹۰۰ء کے اوائل ہی میں ہندوستان بھر میں پھیل چکی تھی۔ مدارس سے ابو المعانی محمد عبدالرحمان شاطر مولوی عبدالغنی خاں امیر کے بیٹے نواب سکندرجنگ بہادر اول شہزادہ ارکاٹ کے پوتے، عربی، فارسی، انگریزی زبانوں کے عالم جو کبھی نواب صاحب ارکاٹ کے سیکرٹری اور مدراس چیف کورٹ میں مترجم رہ چکے تھے، اکثر انھیں خط لکھتے۔ ذوق سخن اور دولت علم خاندان سے ورثے میں ملی۔ عبدالغنی خاں امیر قصہ یوسف زلیخا اور ایک عربی قصیدہ صنعت عاطلہ یعنی غیر منقوط الفاظ میں لکھ چکے تھے جو بہت مقبول ہوا۔شاطر کا کلام جدید فلسفہ اور جدید سائنس کے دقیق مضامین پر مشتمل ہے۔ کارنامۂ دانش کے نام سے شائع ہوا۔ شبلی نے شاطر کی قادر الکلامی کا اعتراف کیا ہے۔ شاطر کی فلسفیانہ نظم ’اعجاز عشق‘ کو خوب خوب شہرت ہوئی۔ مشاہیر علم و ادب نے اسے نہایت اچھے الفاظ میں سراہا۔ شاطر محمد اقبال کو اپنا کلام بھیجتے۔ محمد اقبال کو تعجب تھا کہ مدراسی ہو کر ان کی زبان کیسی صاف ہے۔ اشعار پر رائے زنی کرتے داد دیتے، شاطر کا کلام مخزن میں شائع ہوتا۔ ’اعجاز عشق ‘ کا ایک حصہ بھی شائع ہوا۔ محمد اقبال ایک خط میں لکھتے ہیں:’’ مولانا حالی نے جو کچھ آپ کے اشعار کی نسبت تحریر فرمایا ہے: بالکل صحیح ہے۔ میرا خود خیال تھا آپ ہندوستان۱۶۵؎ کے رہنے والے ہوں گے مگر یہ معلوم کر کے کہ آپ کی پرورش بچپن سے مدراس میں ہوئی بہت تعجب ہوا‘‘۔ مولانا حالی نے شاطر کے ایک شعر انتخاب کیا تھا، محمد اقبال کے علاوہ اس کے کئی ایک اور اشعار کی تعریف کی۔ لکھتے ہیں:’’آپ کا قصیدہ پنڈت مجورام کو از بر ہے۔‘‘ ۱۶۶؎ …ایک دوسرے خط میں لکھتے ہیں ’’اکثر اشعار نہایت بلند پایہ اور معنی خیز ہیں… اشعار کا اندرونی درد مصنف کے چوٹ کھائے ہوئے دل کو نمایاں کر کے دکھلا رہا ہے۔ انسان کی روح کی اصلی کیفیت غم ہے۔ خوشی ایک عارضی شے ہے… آپ نے فطرت انسانی کے اس گہر ے راز کو خوب سمجھ لیا ہے‘‘۔۶۷ ۱؎ شاطر ۱۹۴۳ء میں فوت ہوئے۔ سید سلیمان ندوی نے یاد رفتگاں میں ان کا ذکر کیا ہے۔ حالی سے تو محمد اقبال کو گہری عقیدت تھی۔ ان سے نیازمندانہ روابط تھے۔ ان کی غیرت ملی، اسلام اور مسلمانوں کے لیے درد مندی، درویش منشی اور سادگی کے دل سے قدر دان۔ حالی کو تحریک علی گڑھ سے جو تعلق ہے، حالی نے قوم کی اصلاح و تعمیر، تعلیم کی اشاعت اور سر سید احمد خاں کی تائید میں جس طرح قلم اٹھایا، نظم میں، نثر میں، محتاج بیان نہیں۔ محمد اقبال نے ۱۹۳۵ء میں حالی کی ان کوششوں کا اعتراف ان کے صدسالہ جشن کی تقریب میں، جس میں انھوں نے خود بھی شرکت کی، مسدس حالی کے صدی نسخے کا خیر مقدم کرتے ہوئے چند لفظوں میں کس خوبی سے کیا ہے: آن لالۂ صحرا کہ خزاں دید و بیفسرد سید دگر او رانمے از اشک سحر داد حالی ز نواہائے جگر سوز نیا سود تا لالۂ شبنم زدہ را داغِ جگر داد محمد اقبال مسدس کے عاشق تھے۔ مسدس پڑھتے اور آبدیدہ ہو جاتے۔ ۱۹۰۴ء میں حالی انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں شرکت کے لیے لاہورآئے۔ بباعث ضعیف العمری ان کی آواز میں اتنا زور نہیں تھا کہ سا معین تک پہنچ سکے۔ لوگ مصر کہ ان کا کلام انھیں کی زبان سے سنیں۔ شیخ عبدالقادر اٹھے، کہنے لگے، جتنا کچھ سُن سکتے ہیں۔ سن لیجیے، پھر اقبال ان کا کلام پڑھ کر سنائیں گے۔ حالی اپنا کلام پڑھ چکے تو محمد اقبال اٹھے۔ اول فی البدیہ یہ قطعہ پڑھا: مشہور زمانے میں ہے نامِ حالی معمور مئے حق میں ہے جامِ حالی میں کشورِ شعر کا نبی ہوں گویا نازل ہے مرے لب پہ کلامِ حالی حالی بھی محمد اقبال سے بہ شفقت بزرگانہ پیش آتے۔ ان کی علمی قابلیتوں اور شاعری کے دل سے معتر ف تھے۔ حالی کا انتقال ۱۹۱۶ء میں ہوا۔ محمد اقبال کے دل کو چوٹ لگی۔ شبلی حالی کے عنوان سے مرثیہ لکھا: شبلی کو رو رہے تھے ابھی اہل گلستاں حالی بھی ہو گیا سوئے فردوس رہ نورد مولانا شبلی کی ذات محتاج تعارف نہیں۔ علم الاقتصاد تصنیف کی تو زبان کے معاملے میں ان سے رجوع کیا شاید آرنلڈ کی بدولت۔ یوں خط و کتابت کا آغاز ہوا تو نیاز مندانہ روابط قائم ہو گئے۔ جیسے جیسے محمد اقبال کی شاعری نے ایک دعوت اور پیغام کا رنگ اختیار کیا مولانا شبلی کے دل میں ان کی قدر و منزلت بڑھتی چلی گئی۔ وہ کہہ ہی چکے تھے جب آزاد اور حالی کی کرسیاں خالی ہوں گی تو لوگ اقبال کو ڈھونڈیں گے۔ ۱۹۱۱ء میں آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا سالانہ اجلاس لکھنؤ میں منعقد ہونے والا تھا۔ محمد اقبال کی شاندار خدمات کا اعتراف مقصود تھا۔ طے پایا کہ اقبال نہ صرف اس کانفرنس کے اس اجلاس کی صدارت کریں، بلکہ ان کے گلے میں پھولوں کا ہار بھی ڈالا جائے۔ یہ رسم مولانا شبلی کے ہاتھوں ادا ہو۔ محمد اقبال لکھنؤ گئے، کانفرنس کی صدارت کی، مولانا شبلی نے ہار پہنایا، تقریر کی۔ شبلی کا انتقال ۱۲ نومبر ۱۹۱۲ء کو ہوا۔ محمد اقبال نے ان کے مزار کے لیے کتبہ تحریر کیا: امام الہند والا نژاد شبلی طاب ثراہ۔ خواجہ حسن نظامی خواہر زادہ حضرت خواجہ محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء ۱۸۸۰ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ بڑے ذہن و فطین، معاملہ فہم اور زیرک انسان تھے۔ اردو کے صاحبِ طرز ادیب، انداز بیان اچھوتا۔ محمد اقبال کہتے ہیں: اگر میں خواجہ صاحب جیسی نثر لکھنے پر قادر ہوتا تو کبھی شاعری کو اظہار خیال کا ذریعہ نہ بناتا۔۱۶۸؎ خواجہ صاحب ۱۹۰۳ء میں پنجاب آئے انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں شریک ہوئے۔ یہی جلسہ تھا جس میں محمد اقبال نے وہ مشہور نظم جس کا عنوان ہے’ تصویر درد‘ پڑھی۔ مجمع ہمہ تن گوش تھا۔ مولانا ابو الکلام بھی اس جلسے میں موجود تھے۔ حسن نظامی خاموش بیٹھے نظم سُن رہے تھے لیکن دل کی یہ کیفیت کو نظم ختم ہوئی تو اٹھے، اپنا عمامہ اُن کے سر پر رکھ دیا اور کہا: تمھارے جام مے کی نذر میری پارسائی ہو انجمن نے حسب معمول عمامے کی نیلامی کا اعلان کر دیا۔ نیلامی کی نوبت آئی تو حکیم محمد شریف آئی ڈاکٹر نے ایک سو روپے میں خرید لیا۔ انجمن کو چندہ مل گیا۔ یہ ابتداء تھی محمد اقبال اور خواجہ صاحب کی اس گہری اور صمیم قلب سے دوستی کی جس کا انھوں نے خود اعتراف کیا ہے اور جس میں کئی نشیب و فراز آئے۔ اسرار خودی کی اشاعت سے شکوہ و شکایت کا دفتر کھل گیا۔ دلوں کا رنج پہنچا۔ لسان العصر ثالث بالخیر بنے۔ کشیدگی جاتی رہی۔ پھر وہی خلوص،وہی محبت وہی قدر دانی۔ تا حین حیات تعلقات میں فرق نہ آیا۔خواجہ صاحب نے لکھا: ملن ساری کا برتائو اور شے ہے اور دوستی کسی اور شے کو کہتے ہیں ۔ دوستی ایک نا قابل ختم ملنساری ہے اور جیسی زندگی کو اس کو ضرورت ہے مشکل سے میسر آتی ہے۔۱۶۹؎ قیام پاکستان کے بعد خواجہ صاحب نے محمد اقبال کے خطوں کا مجموعہ جو وقتاً فوقتاً انھیں لکھے گئے۔پاکستان کے موجداول سر محمد اقبال کے خطوط خواجہ حسن نظامی کے نام کے عنوان سے شائع کیا۔ خواجہ صاحب لاہور آتے، محمد اقبال دہلی جاتے، خط و کتابت کا سلسلہ لاہور کیا انگلستان میں بھی جاری رہا۔ اس مجموعۂ خطوط میں خواجہ صاحب تمہیداً لکھتے ہیں: ’’انھوں نے بار بار مجھے پاکستان کا منصوبہ سنایا تھا، مگر اس منصوبے میں ابھی ہندوستان کی تقسیم کا خیال نہیں تھا، بلکہ ساری اسلامی دنیا کے اتحاد کو وہ پاکستان کہتے تھ۔ ان کا خیال تھا کہ پاکستان ہندوستان میں بنایا جائے اور ساری اسلامی دنیا کا ہندوستان مرکز بن جائے ‘‘۔۱۷۰؎ دیکھیے خواجہ صاحب نے بات تو ٹھیک کہی ہے، مگر الفاظ کے دائو پیچ میں لفظ تقسیم سے کس طرح پہلو بچایا ہے۔ خواجہ صاحب کی ابتدائی زندگی بڑی عسرت اور تنگدرستی میں گزری۔ اعزاو اقربا ان کے مخالف تھے ۔ طرح طرح سے ان کا راستہ روکتے۔ ۱۹۰۴ء میں خاندان کے کسی فرد نے ان کی موت کی خبر اڑا دی۔ ۲۲ جولائی ۱۹۰۴ء کو محمد اقبال لکھتے ہیں:’’ دو دفعہ پیسہ اخبار میں بھی وہ خبر پڑھی جسے پڑھ کر لاہور کے دوستوں کو بے انتہا تشویش ہوئی مگر قدرت خدا کی مجھے مطلق رنج محسوس نہ ہوا اور اسی بنا پر جس دوست نے پوچھا میں نے بلا تکلف کہہ دیا کہ خبر غلط ہے الحمد للہ ایسا ہی ثابت ہوا اور میں لاہور کے احباب میں مفت کا صوفی مشہور ہو گیا‘‘۔۱۷۱؎ محمد اقبال انگلستان گئے تو کیمبرج سے ان کو خط لکھتے۔ کسی میں پیارے نظامی، کسی میں پراسرار نظامی، کسی میں سرمست سیاح کہہ کر خطاب کیا ہے۔ انگلستان اور جرمنی میں بقول خواجہ صاحب جو علمی فتوحات ہو رہی تھیں، ان سے باخبر رکھتے: ۱۰ فروری ۱۹۰۵ء کو لندن سے لکھتے ہیں: میری کامیابیوں پر جو لوگ آپ کو مبارک باد دیتے ہیں، اس پر مجھ میں اور آپ میں فرق ہی کیا ہے، دیکھنے کو دو حقیقت میں ایک ‘‘۔۱۷۲؎ انگلستان گئے تودہلی ٹھہرے ، درگاہ شریف میں حاضری دی۔ واپس آئے تو پھر دہلی میں خواجہ صاحب کے یہاں توشہ خانے میں احباب کا اجتماع ہوا۔ خواجہ صاحب ، میر نیرنگ، شیخ محمد اکرام کے علاوہ شاید کچھ اور دوست بھی موجود ہوں۔ محمد اقبال سیالکوٹ میں تھے، خط لکھا: آپ سے ملنے کو دل چاہتا ہے، مگر کیا کروں، علائق نہیں چھوڑتے، روٹی کا وسیلہ لاہور سے باہر نہیں نکلنے دیتا۔ ۱۷۳؎ یہ خواجہ صاحب کے اس خط کا جواب تھا جس میں انھوں نے لکھا تھا کوئی تحریک چلا رہے ہیں۔ محمد اقبال آگے چل کر لکھتے ہیں: ’’آپ لوگوں کو میرا مشتاق بنا رہے ہیں، اندیشہ ہے مجھ سے مل کر انھیں مایوسی ہوگی۔ آپ اپنی تحریک میں بغیر پوچھے مجھے شریک سمجھیں۔ مگر جس درد نے کئی دنوں سے مجھے بیتاب کر رکھا ہے اس کی وجہ پہلے مجھ سے سن لیجیے‘‘۔ ۱۷۴؎ یہ معلوم نہیں ہو سکا خواجہ صاحب کیا تحریک شروع کرنے والے تھے ۔ البتہ انھوں نے میرٹھ سے توحید کا اجراء کیا تو محمد اقبال نے لکھا: خدا آپ کا بھلا کرے! آپ نے ہندوستان کے پرانے بت کدے میں توحید کی شمع روشن کی ہے۔ پھر جب خواجہ صاحب نے ہندوستان میں مسلمانوں کی بیداری کے پانچ اسباب گنوائے اور محمد اقبال نے ان سے اتفاق کیا تو شکایۃً یہ بھی لکھا کہ اسلامی قومیت کی حقیقت کا راز جسے میں نے اس وقت منکشف کیا جب ہندوستان والے اس سے غافل تھے اور جس کے اشعار کی تاریخ زمیندار، کامریڈ، بلقان ،طرابلس اور نواب وقار الملک کی حق گوئی کی تاریخ سے پہلے ہے، آپ نے اس کا ذکر نہیں کیا۔ حسن نظامی کو خوب معلوم ہے اس کا دوست انتہا پسند نہیں … مگر اقبال کی دقعت اپنے دوست کی نگاہ میں محض اس خیال سے کم نہ ہو کہ اس نے مسلمانان ہند کی بیداری میں حصہ لیا۔۱۷۵؎ بکلام بیدل اگر رسی مگذر ز جادۂ منصفی کہ کسے نمی طلبدز تو صلۂ دگر مگر آفریں ۱۹۱۴ء میں محمد اقبال نے لسان العصر کے رنگ میں کچھ مزاحیہ قطعات انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں پڑھے جو بعد میںاکبری اقبال کے نام سے شائع ہوئے۔ خواجہ صاحب نے مقدمہ لکھا۔ مقدمہ کیا ہے خواجہ صاحب کے انداز تحریر کا ایک اُچھوتا اور دلآویز نمونہ ہے۔ لکھتے ہیں:’’لاہور میں سیالکوٹ کے رہنے والے ایک آدمی رہتے ہیں جن کا نام اقبال ہے۔ وہ ڈاکٹر ہے اور بیرسٹر ہے اور پی ایچ۔ ڈی ہے۔ وہ شعر گاتے، شعر بجاتے اور موقع پاتے ہیں تو شعر بھی پیدا کر لیتے ہیں… میں نے پروفیسر اقبال کو بھی دیکھا ہے اور ڈاکٹر اقبال کو بھی، سیالکوٹی اقبال کو بھی اور لاہوری اقبال کو بھی۔ یورپین اقبال کو بھی دیکھا ہے اور لندنی اقبال کو بھی مگر آدمی کبھی نہیں پایا۔ وہ ازل سے جو ان ہیں اور حیات ابدی کا نشان ہیں… اقبال بھی ایک پروانہ ہے جو ان دیکھی شمع کا دیوانہ ہے… اقبال ہمیشہ آسمان پر اُڑتے ہیں، زمین پر بھی آنا ہوتا ہے تو اس زمین میں جو آسمان سے زیادہ دُور ہوتی ہے۔ وہ لوگ جن کے پاس ہوائی جہاز نہیں ہیں یہ کہتے رہ جاتے ہیں کہ اقبال کہاں ہیں ہم ان تک کیونکر پہنچیں… ایک دن بھری محفل کے اندر اقبال زمین پر آئے اور چند جملے ان کی زبان میں سنائے جن کا نام اکبر ہے۔ جو الہ آباد میں بیٹھ کر اللہ کی بستیاں بساتے ہیں۔ اکبر کے ہم زبان ہو کر بولنا آسان نہیں۔ اکبر اشارات ربانی کے حامل ہیں۔ اکبر کو گویا کرنے والا پہلے آنکھ سے دیکھتا ہے پھر قلم سے لکھتا ہے۔ اکبر کی ہر بات زمین آسمان کو ایک کر دیتی ہے… اقبال نے اکبر کی زبان میں جو کچھ لکھا ہے وہ اکبری اقبالہے … مجھ سے کہتے ہیں کہ اس نظم پر وہ لکھوں جسے انگریزی میں ’’ریویو‘‘ کہتے ہیں مگر میں پوچھتا ہوں بہتے ہوئے دریا کی روانی کو اس کی کیا ضرورت ہے کہ دوسرا اس کے تیز بہائو کی حقیقت پر لیکچر دے، موجیں مارنے والا سمندر جب خود نظر آتا ہے کہ کسی کا یہ کہنا کہ کشتیاں چکرائیں گی، بادل اٹھیں گے، زمین پر مینہ برسائیں گے، فضول ہے۔ جاننے والے خود جانتے ہیں۔ یہ طوفان کس موسم کی خبر دیتا ہے ۔ میں اس نظم کے متعلق کچھ کہنا نہیں چاہتااورنہ کہنا ہی اس کی اعلیٰ شان کی دلیل ہے۔ ۱۶۷؎ خواجہ صاحب محمد اقبال کو طرح طرح کے خطابات دیتے، ان کا قلمی چہرہ تیار کرتے۔ انھوں نے کہا محمد اقبال’’سرالوصال‘‘ ہیں ۔ محمد اقبال نے کہا ایسا نہ کہیے میں ’’سر الفراق ‘‘ہوں۔ میرے کیش میں گستن پیوستن سے بہتر ہے۔ خواجہ صاحب نے محمد اقبال کا قلمی چہرہ بھی تیار کیا۔ ملاحظہ ہو کیا انداز بیان ہے: ’’سر و قد، گندمی رنگت، پر تمکنت چہرہ، داڑھی صاف، آنکھیں ایسی نشیلی کہ ایک آنکھ میں حافظ کا میکدہ ہے تو دوسری میں عمر خیام کا خم خانہ۔ جسم پنجابی، دماغ فلسفی ، خیال صوفی، دل مسلمان ، مسلک حق پسندی ، خدمت مذہب، مسلمانوں کی بہبودی ، مزاج میں سنجیدگی، متانت اور استقلال… مسلمان کی نظر میں محبوب اور ہندو کی نظر میں اپنی صاف بیانی کی وجہ سے غیر محبوب۔ ان کی قابلیت کو سوئی ہوئی قوم کو جگانا خوب آتا ہے۔ اگر یہ پیدا نہ ہوتے تو حالی کی شاعری کے گلشن میں کبھی بہار نہ آتی۔ ۱۷۷؎ محمد اقبال اسرار خودی لکھ رہے تھے۔ خواجہ صاحب کو لکھا: عبدالقادر نے اس کے کچھ نام تجویز کیے ہیں:’’اسرار حیات، پیام سروش، پیام نو، آئین نو‘‘ آپ بھی طبع آزمائی فرمائیے۔ معلوم نہیں خواجہ صاحب نے اس کا کوئی نام تجویز کیا یا نہیں، لیکن اسرار خودی کی اشاعت پر انھوںنے جس بحث و نزاع کا آغاز کیا اس سے مہینوں تک فلسفہ اور تصوف کی دنیا میں ایک ہلچل سی مچی رہی۔ بڑے بڑے معرکہ آرامضامین لکھے گئے۔ محمد اقبال نے سب کا جواب دیا اور اس کے معرکے میں بالآخر کامیاب ہو کر نکلے۔ خواجہ صاحب سے خط و کتابت بھی ہوئی، خواجہ صاحب ناراض تھے لیکن لسان العصر بیچ میں پڑے، غلط فہمیاں دور ہو گئیں۔ پھر وہی ملاقاتیں ، وہی آنا جانا، وہی رکھ رکھائو۔ ۱۹۳۴ء میں لکھتے ہیں: ’’نواب بہادر یار جنگ کے ساتھ ڈاکٹر محمد اقبال سے ملنے گیا جو ڈاکٹر انصاری صاحب کے مکان میں مقیم ہیں۔ نواب صاحب کے بہت سے مداح اور معتقد ہیں۔ میں نے ان الفاظ میں تعارف کرایا۔ اگر آپ بادشاہ ہیں تو یہ آپ کے سپہ سالار، شمع ہیں تو یہ آپ کے پروانے، ڈاکٹر ہیں تو یہ آپ کے دیوانے۔ ولی عہد منگرول بھی موجود تھے، انھیں منگرول آنے کی دعوت دی ہے۔ اس سے ایک روز پہلے یا دوسرے دن خواجہ صاحب نے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں غازی حسین رئوف پاشا کا توسیعی خطبہ سُنا۔ محمد اقبال صدر تھے۔ خواجہ صاحب نے اپنے ہفت روزہ منا دی میں اس جلسے کا ذکر کیا ہے۔ ۱۹۳۳ء میں لاہور آئے تو لکھتے ہیں:’’پنجاب میں راجہ پورس کو شکست دینے والے سکندر سے رخصت ہو کر ڈاکٹر سر محمد اقبال سے ملنے گیا۔ ایشیا کا سب سے بڑا شاعر کمرے کے اندر دکھائی دیا۔ اس کا انیس حقہ بھی اس کے سامنے موجود تھا۔ مجھ کو یہ شخص ٹیگور اور شیکسپیئر سے کئی ہزار فٹ اُونچا نظر آتا ہے۔۱۷۸؎ ۲۲ اپریل ۱۹۳۸ء کے منادی میں ایک طویل شذرہ تغریت میں لکھا۔’’ اقبال کے مرنے سے ہندوستان میں نہیں ایشیا بھر میں اندھیرا چھا گیا۔‘‘۱۷۹؎ ۲۲اپریل کے منادیمیں لکھ چکے تھے: آج ۲۱ اپریل کو صبح کو یہ خبر سُنی کہ اسلامی دنیا کے مسلم قومی شاعر نے انتقال فرمایا… ایشیائی قوموں کو اس کا صدمہ ہو گا… ان کی وفات سے تمام دنیا کے مسلمانوں کو ایسا نقصان پہنچا ہے جس کی تلافی نہیں ہو سکتی۔۱۸۰؎ پھر کہتے ہیں: مزید یہ کہ میرے دوست اور فلسفیانہ شاعری کے آفتاب … نے جمعرات کے دن ۱۶ صفر ۱۳۵۷ھ صبح صادق کے وقت اس دنیا سے کوچ فرمایا۔ وہ چونکہ محبِ اہلِ بیت تھے اور تفصیلی عقائد رکھتے تھے اس لیے قدرت نے ان کو چہلم سید الشہداء علیہ السلام سے ایک دن پہلے کی تاریخ عطا فرمائی۔۱۸۱؎ آج رات پروفیسر مرزا محمد سعید نے دلی ریڈیو میں مرحوم کی نسبت ایک بہت اچھا مضمون سنایا۔ جس کے بعد ریڈیو والوں نے خبریں سناتے وقت کہا مرحوم اقبال نے اپنے قدیمی نوکر علی بخش کی گود میں جان دی۔ یہ سُن کر مجھ پر بہت اثر ہوا۔ اتنا اثر جو گورنر پنجاب اور سر ٹیگور اور صدر کانگرس اور مسٹر جناح کے بیانات سے بھی نہیں ہوا تھا… میں نے تعزیت نامہ علی بخش کو بھیجا ہے۔ مرحوم کی اولاد کے پاس نہیں بھیجا۔ اولاد کے پاس خود ماتم پرسی کے لیے جائوں گا… میرے کانوں میں اقبال کی آواز گونج رہی تھی: علی بخش حقہ بھر لا اور اندر سے جاوید کو بلا، خواجہ صاحب سے ملا۔ ۱۸۲؎ ۱۹۵۲ء میں جب لاہور میں یوم اقبال منایا گیا تو خواجہ صاحب کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی۔ خواجہ صاحب بسبب پیرانہ سالی لاہو ر تو نہ آ سکے، مگر لاہور میں اپنے خلیفہ جناب محمد حسین کو ایک طویل خط لکھا کہ اسے اخباروں میں شائع کر دیں۔ یہ خواجہ صاحب کی محمد اقبال کے بارے میں آخری تحریر ہے ۔ جس میں اپنے تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے نہایت فراخ دلی سے اپنی صفائی پیش کی ہے۔ تمام مریدوں کو تاکید کرتے ہیں کہ کلام اقبال کی روح کو سمجھیں۔ اس پر توجہ رکھیں۔ پھر ۱۹۵۱ء میں دہلی کے ایک جلسے کا ذکر کیا ہے جو یوم اقبال کی تقریب پر پاکستانی ہائی کمشنر کے زیر اہتمام منعقد ہوا اور جس میں اسلامی ممالک کے سفیر بھی موجود تھے۔ خواجہ صاحب کی تقریر نہایت طویل تھی جس میں انھوں نے ایک پر لطف بات یہ کہی کہ کشمیری برہمنوں کا سلسلہ نسب عہد فرعون میں مصر کے سب سے بڑے مندر کے پجاری سے جا ملتا ہے۔۱۸۳؎ خواجہ صاحب نے محمد اقبال کی خدمات کو سراہا، اپنے ذاتی تعلقات کا ذکر کیا۔ پھر محمد اقبال کے خیالات اور تصورات کی تشریح کرتے ہوئے کہ پاکستان کیا ہے۔ محمد اقبال کے نزدیک اس کی غرض و غایت کیا تھی، کہا میری موت کا وقت قریب ہے، ممکن ہے میرے بعد میرے مریدوں میں یہ غلط فہمی باقی رہے کہ مجھ میں اور محمد اقبال میں بعض مسائل تصوف کے سبب اختلاف تھا، اس لیے میں لاہور کے جلسۂ عام میں اعلان کرتا ہوں کہ مجھ میں اور اقبال میں کسی قسم کا کوئی اختلاف باقی نہیں رہا تھا اور میں آج تک اقبال کے ان خیالات کا حامی ہوں جو انھوں نے بعض اہل تصوف کے خیالات ترک دنیا کے خلاف ظاہر کیے تھے۔۱۸۴؎ ۱۹۳۵ء میں صاحب خم خانۂ جاوید لالہ سری رام کے دولت خانے پر غالب سوسائٹی قائم ہوئی۔ اس کے اگلے برس ۱۹۳۶ء میں سوسائٹی کے بڑے وسیع پیمانے پر یوم غالب منایا۔ خواجہ حسن نظامی نے محمد اقبال کو شرکت کی دعوت دی۔ یہ زمانہ ان کی علالت کا تھا، انھوں نے لکھا: دو سال سے علیل ہوں: سخن اے ہم نشین از من چہ پُرسی کہ من با خویش دارم گفتگوئے پیغام کے لیے مراقبہ کیا تو مرزا ہر گوپال تفتہ کی روح سامنے آئی اور دلی والوں کے لیے یہ دو شعر نازل کر کے غائب ہو گئی: دریں محفل کہ افسونِ فرنگ از خود ربود او را نگاہے پردہ سوز آور دلِ دانائے راز آور۱۸۵؎ مئے این ساقیانِ لالہ رو ذوقے نمی بخشد ز فیضِ حضرت غالب ہماں پیمانہ باز آور خواجہ عبدالصمد ککرورئیس بارہ مولا کشمیر، نسلاً گھکڑ، کشمیری زبان میں گھکڑ کا لفط ککرو سے بدل گیا۔ خواجہ صاحب کے بزرگ سلطان زین العابدین کے زمانے میں کشمیر آئے۔ اس خاندان کے سر براہ حسرت خاں گھکڑ نے حصول تخت و تاج میں سلطان کی بڑی مدد کی تو سلطان پنجاب اور حسرت خان کشمیر میں ایک دوسرے کی اعانت پر کمر بستہ رہتے۔ گھکڑ خاندان کے ایک کشمیری بزرگ احمد خان ترک دنیا کی نیت سے پنجاب آئے۔ اتفاقاً سید شاہ روشن سے ملاقات ہوئی۔ انھیں کے ارشاد سے کشمیر واپس چلے گئے۔ بارہ مولا میں اقامت اختیار کی۔ کاروبار کرنے لگے۔ شادی کر لی۔ یوں خواجہ عبدالصمد کے آباء و اجداد بارہ مولا میں بس گئے۔ یہ بڑا صاحب ثروت خاندان تھا، علم و فضل کی دولت سے مالا مال، اہل علم کا قدرداں ، نیکی اور شرافت کا نمونہ، دل میں اسلام کا درد، حب قومی کا جذبہ، خلوص اور ایثار۔ خواجہ صاحب کو یہ صفات ورثے میں ملیں۔ ان کی وضع داری اور مہمان نوازی میں کبھی فرق نہ آیا۔ دہلی دروازے کے باہر شاہ محمد غوث کا مرزا خواجہ صاحب کے والد ماجد خواجہ عزیز ککرو کا تعمیر کردہ ہے۔ وہیں دفن ہیں۔ مزار کے دروازے میں ان کے نام کی تختی لگی ہے۔ خواجہ عبدالصمد کی اسلام اور امت اسلامیہ کے لیے ایک بڑی خدمت یہ ہے کہ مولانا سید انور شاہ ایسے فاضل اور بزرگ انسان جن کو حدیث میں درجۂ کمال حاصل تھا ، انھیں کی توجہ سے آسمان علم پر آفتاب بن کر چمکے ۔ مولانا نے ایک عرصہ تک دیو بند میں درس حدیث دیا۔ پھر ڈابھیل چلے گئے۔ محمد اقبال کو ان سے دلی عقیدت تھی۔ لولاب اُن کا وطن تھا۔ خواجہ صاحب لولاب گئے۔ یہ دیکھ کر کہ انھیں علم کی طلب ہے مگر ذرائع نہیں، مبداء فیاض سے خاص دل و دماغ لے کر آئے ہیں، ان کے لیے ہر طرح سے تعلیمی سہولتیں پیدا کرتے رہے؛ ان کی ضروریات کا خیال رکھا۔ کشمیر ہو یا کشمیر سے باہر مولانا نے اسلامی ہند کی درس گاہوں میں جس کسی کا بھی رُخ کیا خواجہ صاحب کی اعانت شامل رہی۔ اندازہ کیجیے خواجہ صاحب کیسے پر جوش مسلمان تھے، کیسے جوہر شناس، کیسے مخیر اور باہمت انسان۔ بارہ مولا کی جامع مسجد مدت سے ویران پڑی تھی، اسے از سرِ نو تعمیر کرایا۔ کشمیری مسلمانوں کی اصلاح و احوال کے لیے کشمیر ہی نہیں کشمیر سے باہر بھی طرح طرح سے کوشاں رہے۔ مسلم لیگ کے اولین صدر خواجہ سلیم اللہ اور سر سید احمد خان سے خاص تعلقات تھے۔ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس میں ہر سال شرکت کرتے۔ ۱۹۰۸ء میں کلکتہ میں قائداعظم محمد علی جناح سے جا ملے۔ کشمیریوں کی حمایت میں جو بھی تحریک اٹھتی اول بارہ مولا کا رُخ کرتی۔ خواجہ صاحب اسے خوش آمدید کہتے۔ مہاراجہ پرتاپ سنگھ سے ٹکر لے لی۔ وہ کشمیریوں کی پشت پناہ تھے۔ انجمن اسلامیہ جموں کابالخصوص خیال رکھتے۔ اس کے سالانہ جلسوں کی صدارت کرتے۔ خواجہ صاحب کے احباب کشمیر اور کشمیر سے باہرشمالی ہندوستان میں حتیٰ کہ برما تک پھیلے ہوئے تھے۔ خواجہ صاحب ہر سال بارہ مولا سے کبھی روالپنڈی کے راستے سے اورکبھی سیالکوٹ ہوتے لاہور پہنچتے۔ دہلی جاتے۔ کلکتہ کا رخ کرتے۔ جہاں کہیں کوئی اسلامی انجمن قائم تھی اس میں شریک ہوتے۔ طبیعت میں فیاضی تھی، حتی الوسع مالی امداد سے دریغ نہ کیا۔ شعر کہتے، ذوق سخن بھی تھا، ادب اور علم سے دلی لگائو بھی۔ فارسی میں مقبل اور اردو میں صمد تخلص کرتے۔ بڑے خوش خط، شکستہ خط بھی خوب تھا۔ کلام مخزن میں شائع ہوتا۔ انجمن اسلامیہ سیالکوٹ میں میں نے بارہا ان کی نظمیں سنیں، اردو اور فارسی بھی۔ آواز کرخت تھی لیکن پر زور۔ عمامہ اور جبہ پہنتے ، تقریر کے لیے اٹھتے تو مجمع ہمہ تن گوش ہو جاتا۔ ہاتھ میں اکثر تسبیح ہوتی۔ لوگ منتظر رہتے خواجہ صاحب کب تقریر کریں گے۔ جب بھی تقریر ختم کی اسے ختم کرنے سے پہلے کچھ نہ کچھ مالی امداد کا اعلان بھی کردیتے۔ تقریر اشعار سے خالی نہ ہوتی۔ انجمن نصرت اسلام سری نگر میں تقریر کرنے اٹھے تو کہنے لگے: افتتاح الکلام بسم اللہ الذی لیس فی الوجود سواہ قل ہو اللہ واحد احد الذی لم یلد و لم یولد بعد حمد خدا ست نعت رسولؐ کہ ازوئیم مقبل و مقبول اندازہ کیجیے کہ انھیں عربی و فارسی میں کیسی دستگاہ حاصل تھی۔تخلص کیا خوب نباہا ہے۔ شاید اسی تقریر کا خاتمہ انھوں نے اپنے اس شعر پر کیا اور کیا خوب کہا: مصطفی ؐ ماہ و صحابہؓ انجم رضی اللہ تعالیٰ عنہم ان کا اردومیں ایک شعر ہے: پھر بہار آئی چمن میں زخمِ گل آلے ہوئے پھر مرے داغِ جگر آتش کے پر کالے ہوئے خواجہ صاحب مسلمانوں کو سربلند دیکھنا چاہتے تھے۔ مسلمانوں کی محبت انھیں بارہ مولا میں اطمینان سے بیٹھنے نہ دیتی۔ ایک طرح سے ہندوستان گرد تھے۔ قومی اور علمی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ اس میں کشمیری اور غیر کشمیری کا سوال ہی نہیںتھا۔شاید ہی کوئی اسلامی انجمن ہو جس کی انھوں نے مدد نہیں کی۔ انجمن حمایت اسلام، انجمن کشمیری مسلمانان، محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس، کتنی انجمنیں تھیں جن میں انھوں نے دلی سر گرمی سے حصہ لیا۔سیالکوٹ سے گزر ہوتا تو میر حسن سے ملاقات رہتی۔ میر حسن سے گہرے روابط تھے۔ یہ کچھ میر حسن سے ملاقاتوں میں محمد اقبال کا ذکرآتا ہوگا۔ کچھ انجمن حمایت اسلام اور انجمن کشمیری مسلمانان کے جلسے تھے جن میں انھوں نے محمد اقبال کو دیکھا اوردیکھتے ہی ان کے دل و دماغ کی خوبیوں کے معترف ہو گئے۔ بارود خانہ کے میاں خاندان سے بھی خواجہ صاحب کے گہرے مراسم تھے۔ یہ ایک دوسرا ذریعہ تھا محمداقبال سے تعارف کا۔ بائیس تئیس برس کے گہرے تعلقات ،خوب خوب ملاقاتیں رہتیں۔ خواجہ صاحب محمداقبال پر طرح طرح سے عنایات کرتے۔ کبھی تمغہ عطا کیا، کبھی دوشالہ پہنایا۔ جب تک زندہ رہے بزرگانہ شفقت سے پیش آتے رہے۔ محمد اقبال بھی انھیں اپنا بزرگ تصور کرتے۔ تعلقات میں اگر ایک طرف محبت اور قدر افزائی تھی تو دوسری طرف ادب و احترام ۔ خواجہ صاحب کے جواں سال اور جواں مرگ صاحبزادے غلام حسن انٹرنس کا امتحان دینے لاہور آئے۔ محمد اقبال ہی کے یہاں ٹھہرے۔ امتحان کی تیاری کرنے لگے۔ امتحان دے کر واپس گئے تو بخار نے آ لیا۔ نتیجہ نکلا کامیاب ہو گئے۔ محمد اقبال نے مبارک باد کا تاربھیجا۔ غلام حسن کی بیماری سے بے خبر تھے ۔تار اس وقت پہنچا جب غلام حسن کا جنازہ اٹھ رہا تھا۔ غلام حسن، باپ کا لخت جگر، جوان رعنا، ہونہار، ذہین، قابل۔ غلام حسن سے بڑی بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔ احباب پریشان، اعزا اور اقربا دل گرفتہ کہ خواجہ صاحب غلام حسن کی موت کا صدمہ کیسے برداشت کریں گے۔ خواجہ صاحب کا دل ٹوٹ گیا۔ محمد اقبال کو خبر ملی تو دلی صدمہ ہوا۔ تعزیت کا خط لکھا، تار کے بارے میں معذرت کی۔ مرثیہ کہا۔ ۱۶ اشعار ہیں۔ مخزن میں ایک تعزیتی شذر ے کے ساتھ شائع ہوا۔ اندھیرا صمد کا مکاں ہو گیا وہ خورشید روشن نہاں ہو گیا غضب ہے غلام حسن کا فراق کہ جینا صمد کو گراں ہو گیا دیا چن کے وہ غم فلک نے اسے کہ مقبل سراپا فغاں ہو گیا شیخ عبدالقادر لکھتے ہیں: ہمارے ایک عنایت فرما رئیس بارہ مولا خواجہ عبدالصمد ککرو ہیں۔ انھیں چند روز ہوئے اپنے چہیتے اور ہونہار بیٹے کی مرگ ناگہانی کا داغ اٹھانا پڑا۔ خواجہ صاحب خود عالم اور علم دوست رئیس ہیں جو فارسی زبان کے طباع شاعر ہیں اورمقبل تخلص کرتے ہیں۔ مگر اس رنج نے ان کی طباعی اور زندہ دلی پر پانی پھیر دیا ہے اور انھیں تصویر غم بنا رکھا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں خواجہ صاحب رضائے الٰہی پر صابرو شاکر رہے۔ یہ ان کی قوت ایمانی تھی جس نے اس غم میں ان کا ساتھ دیا۔ شیخ صاحب نے ٹھیک کہا ہے۔ جواناں مرگ بیٹے کے رنج نے ان کی طباعی اور زندہ دلی پر پانی پھیر دیا۔ صرف قوم کی خدمت اور اصلاح کی لگن باقی رہ گئی۔ غلام حسن ۱۹۰۲ء میں فوت ہوئے ۔ خواجہ صاحب ۱۹۲۱ء میں محمد اقبال بارہ مولا گئے ۔ ان کے چہلم میں شرک ہوئے۔ چار روز قیام رہا۔ پیر زادہ محمد حسین عارف پنجاب یونیورسٹی میں فارسی کے اولیں ایم۔اے، بڑے اعلیٰ پائے کے مترجم ، قانون داں، ریاضی داں، فلسفی اور شاعر ، مہیم ضلع رہتک کے ایک معزز قریشی خاندان کے فرد۔ ۱۸۵۶ء میں پیدا ہوئے۔ ۱۸۸۱ء میں ڈاکٹر لائنرکے ایما سے یونیورسٹی اوریئنٹل کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر اور صدر شعبۂ اُردو کا عہدہ ملا۔ ریاضی اور فلسفہ پڑھاتے۔ قانون سے دلچسپی تھی۔ ہائیکورٹ میں مترجم کی خدمات سر انجام دیں۔ ۱۸۸۵ء میں ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر ہو گئے۔ ۱۸۹۰ء سے ۱۹۰۶ء تک ڈسٹرکٹ اورسیشن جج رہے۔ یہی زمانہ تھا جس میں محمد اقبال ان سے متعارف ہوئے۔ عارف کا علم و فضل، عارف کی شاعری اور فلسفہ سے دلچسپی محمد اقبال کو ان کی خدمت میں لے گئی۔ پیر زادہ صاحب کا کلام مخزن میں شائع ہو رہا تھا۔ انجمن حمایت اسلام کے جلسے اور لاہور کے مشاعرے بھی ذریعہ تعارف بنے۔ پیر زادہ صاحب کو بھی شاہزادہ میرزا عبدالغنی ارشد سے شرف تلمذ حاصل تھا۔ فیروزپور میں بحیثیت سیشن جج تعینات رہے۔ فیروز پور میں بھی محمد اقبال کا ذکر آتا ہو گا۔ معلوم ہوتا ہے محمداقبال کی ان سے راہ و رسم اوریئنٹل کالج کے زمانہ معلمی ہی میں قائم ہو گئی ۔ ۱۹۰۱ء میں جب پیرزادہ صاحب نے مثنوی معنوی کی حکایتوں کا مثنوی ہی کی بحر میں عقد گوہر کے نام سے ترجمہ کیا تو محمد اقبال نے اس کی ایک نہیں چھ تاریخیں کہیں۔ یہ مولانا روم سے پیر زادہ صاحب اور محمد اقبال کی عقیدت تھی جس نے انھیں ایک دوسرے کی طرف کھینچا۔ ۱۹۰۶ء میں دربار کشمیر نے پیرزادہ صاحب کی خدمات مستعار لے لیں تو پیر زادہ صاحب کشمیر چلے گئے۔ کشمیر ہائی کورٹ کی بنا رکھی، گو خود ہی اس کے واحد جج تھے۔ گویا یہ پیر زادہ صاحب کا قیام لاہور کا زمانہ تھا جس میں محمد اقبال ان کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے۔ ۱۹۰۸ء کے بعد احیاناً ہی ملاقات کی نوبت آتی ہوگی۔ پیر زادہ صاحب کشمیر کی ملازمت سے سبکدوش ہوئے تو دہلی چلے گئے۔ طبیہ کالج میں سکریٹری کے فرائض سر انجام دیتے۔ دہلی ہی میں انتقال ہوا۔ طبیہ کالج کے احاطے میں دفن ہیں۔ حکومت نے بھی پیرزادہ صاحب کی بڑی عزت افزائی کی۔ ۱۹۱۰ء میں خان بہادر کا خطاب اور ۱۹۱۱ء کے دربار میں کرسی عطا ہوئی۔ حکیم اجمل خاں سے ان کے گہرے مراسم تھے۔ طبیہ کالج کے انتظامی امور انھوں نے بڑی قابلیت سے سر انجام دیئے۔۱۹۲۸ء میں فوت ہوئے،۳۰ مارچ۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ مثنوی اسرار خودی کے بارے میں پیرزادہ صاحب کے تاثرات کیا تھے ۔ ان کے ایک عزیز جناب فضلی نے اسرار خودی کے جواب بلکہ مذمت میں ایک مثنوی لکھی۔ پیرزادہ صاحب نے اسے پسند کیا یا نہیں۔ البتہ محمد اقبال نے حسن نظامی کو لکھا کہ فضلی صاحب نے میرا مطلب نہیں سمجھا۔ پیر زادہ صاحب کی اپنی رائے اس معاملے میں کیا تھی، محمد اقبال سے کوئی خط و کتابت ہوئی یا نہیں ؟ کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ داغ سے محمد اقبال کو تلمذ تھا، دلی عقیدت جس کا انھوں نے اپنے اشعار میں بار بار اظہار کیا۔ داغ ۱۹۰۵ء میں فوت ہوئے۔ محمد اقبال کی انگلستان روانگی سے پہلے محمد اقبال نے داغ کی وفات پر جو مرثیہ لکھا ہے اس میں داغ کی شوخی اور رندی کی تہہ میں جس گہری روحانیت کی جھلک نظر آتی ہے۔ اس کی طرف کس خوبی سے اشارہ کیا ہے: تھی حقیقت سے نہ غفلت فکر کی پرواز میں آنکھ طائر کی نشیمن پر رہی پرواز میں یوں داغ کی حقیقی شخصیت تمام و کمال ہمارے سامنے آ جاتی ہے، داغ ، جیسا کہ صاحب خم خانۂ جاوید کی روایت ہے، لاہور آئے مگر کس سن میں، ٹھیک معلوم نہیں ہو سکا۔ بیان کیا جاتا ہے ان کا قیام کسی ہندورئیس کے یہاں رہا ۔ لاہور کے قریب ہی ان کے علاقے میں کہیں مہمان ٹھہرے ۔ شاگردوں نے ان کی خدمت میں حاضری دی ہو گی۔ تارا سے تو ان کے خاص تعلقات تھے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ داغ کے اس سفر کا حال ہمیں صاحبخم خانۂ جاوید سے معلوم ہوا۔ داغ جہاں استاد تھے ، لاہور میں ان کی شاعری کا غلغلہ تھا، شاگرد بھی بہ کثرت ،لیکن ان کے ورود لاہور کا ذکر کہیں نہیں ملتا، یا کم از کم راقم الحروف کو نہیں مل سکا۔ بہر حال ۱۸۹۵ ء سے پہلے آئے ۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ محمد اقبال کو ان سے شرف ملاقات حاصل ہوتا۔ بقول عبدالقادر دونوں طرف یاد باقی رہ گئی۔ لیکن جہاں محمد اقبال داغ کے عقیدت مند تھے،داغ بھی سوچتے ہوں گے کہ وہ جو کہا جاتا ہے ان من الشعر لحکمۃ ان کا شاگرد شاعری کی کیسی کیسی بلندیاں طے کر رہا ہے۔ داغ سے ہمارا ذہن قدر تاً امیر مینائی کی طرف منتقل ہو جاتا ہے ۔ یوں بھی اس زمانے میں، اور یہ راقم الحروف کا ذاتی تجربہ بھی ہے، یعنی بیسویں صدی کے اوائل میں داغ اورامیر یہی دو نام ہر شخص کی زبان پر تھے۔ محمد اقبال کو امیر مینائی سے دلی عقیدت تھی۔ وہ ان سے ملے تو نہیں، شرف تلمذ بھی نہیں تھا، خط و کتابت کا موقعہ بھی نہیں آیا، بایں ہمہ محمد اقبال کو امیر سے بڑی عقیدت تھی۔ محمد اقبال بار بار ان کا ذکر کرتے، کہتے میرا جی چاہتا ہے امیر مینائی پر انگریزی میں ایک مضمون لکھوں، ولایت کے کسی پرچے میں چھپوا کر مشرق کے اس شاعر کی شاعرانہ عظمتوں کا اعتراف مغرب والوں سے کرا دوں۔ ان کے تلامذہ کو خط لکھتے۔ معلومات طلب کرتے۔ ۱۹۰۳ء میں فوق کے اخبار پنجۂ فولاد میں لکھا ’’ماہ رواں کے کسی اخبار میں میں نے پڑھا تھا کہ فن سخن کے استاد اور ملک نظم کے بادشاہ حضرت امیر مینائی کی لائف ابھی تک نہیں لکھی گئی۔ راقم الحرو ف نے ان کے اکثر تلامذہ کو متوجہ کیا ہے کہ ایسا شاعربے نظیر اور اس کی لائف اب تک نہ لکھی جائے‘‘۔۱۸۶؎پھر ان کے کلام پر اس طر ح تبصرہ کیا : ’’وہ صرف شاعر ہی نہیں تھے، بلکہ ان کا درجہ شاعری سے بہت بڑا ہوا تھا۔ ان کے کلام میں ایک خاص قسم کا درد ہے اور ایک خاص قسم کی لے پائی جاتی ہے جو صاحب دلوں کو بے چین کر دیتی ہے‘‘۔ پھر بافسوس کہتے ہیں: اگر ایسا شخص یورپ یا امریکہ میں ہوتا تو اس کی زندگی میں ہی اس کی کئی سوانح عمریاں نکل جاتیں۔ پھر کہتے ہیں: ’’میرا مقصد حضرت امیر کی شاعری اور شاعرانہ لائف پر بحث کرنے کا ہے۔ میں نے چند باتیں ان کے تلامذہ اور واقف کاروں سے پوچھی ہیں‘‘۔ پھر ان کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’یہ مضمون انگریزی میں لکھا جائے گا اور ولایت کے کسی مشہور اخبار یا رسالے میں چھپوایا جائے گا‘‘۔ کیا امیر مینائی لاہور آئے:۱۸۷؎ خیا ل ہے نہیں۔ آئے ہیں تو ۱۹۰۰ء سے بہت پہلے جس کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ میرے نزدیک یہ روایت بھی تحقیق طلب ہے۔ امیر کا لاہور آنا کوئی معمولی بات نہیں تھی کہ ہمیں اس کا کہیں ذکر نہ ملے۔ یہ صرف حکیم احمد شجاع کا بیان ہے۔۱۸۸؎ معلوم نہیں ان کی معلومات کا ذریعہ کیا تھا۔ معلوم ہوتا ہے امیر مینائی سے محمد اقبال کی ارادت میں وہ ذرہ ٔدرد دل کار فرما تھا جو مبداء خاص سے دونوں کو عطا ہوا۔ امیر مینائی مخدوم حضرت شاہ مینا کے خاندان سے تھے۔ ۱۸۲۲ء میں پیدا ہوئے قرآن مجید، کتب درسیہ متداولہ، فقہ اور اصول فقہ کی تعلیم میں متعدد اساتذہ سے رجوع کیا ۔ طب اور جفر میں بھی دستگاہ پیدا کی۔ خاندان چشتیہ صابریہ میں حضرت امیر شاہ سے بیعت ہوئے خرقۂ خلافت بھی ملا۔ اسیر کے شاگرد تھے۔ غالب، آتش ، ناسخ ، انیس اور دبیر کی آنکھیں دیکھ چکے ہے۔ رند، صبا، نسیم ، بحر، رشک اور وزیر سے صحبت رہتی۔ ہر صنف سخن میں شعر کہا۔ شاہان اودھ کا زمانہ تھا، ۲۵ برس واجد علی شاہ اختر سے وابستہ رہے۔ لکھنؤ اجڑ گیا تو نواب کلب علی خاں کی دعوت پر رام پور چلے گئے۔ داغ بھی رام پور میں موجود تھے۔ دونوں اساتذۂ سخن میں دوستی اور محبت کے نہایت گہرے مراسم قائم ہو گئے۔ ایک دوسرے کی یاد سے بے قرار ہو جاتے۔ نواب صاحب کا انتقال ہوا تو امیر لکھنو چلے آئے۔ داغ نے دکن کا رُخ کیا۔ ۱۸۹۱ء میں نظام دکن میں محبوب علی خاں لارڈ کرزن سے ملنے کلکتہ گئے تو امیر مینائی کو لکھا بنارس آئیں اور ہم سب سے ملیں۔ شرف باریابی حاصل ہوا۔ امیر نے اپنی تصنیف امیر اللغات نذر میں پیش کی۔ دکن آنے کی دعوت دی گئی۔ نومبر ۱۹۰۰ء میں حیدر آباد پہنچے۔ اسٹیشن پر اکابر اور عمائد استقبال کے لیے موجود تھے۔ لیکن امیر مینائی دفعتاً بیمار ہو گئے اور ایک ہفتے کے اندر ۱۴ نومبر ۱۹۰۰ء کو انتقال کر گئے۔ محمد اقبال کو دلی صدمہ ہوا۔ داغ کا مرثیہ کہتے ہوئے انھیں نہیں بھولے: توڑ ڈالی موت نے غربت میں مینائے امیر چشمِ محفل میں ہے اب تک کیف صہبائے امیر تاریخ کہی:لسان صدق فی الاخرین۔ امیر مینائی ایک صوفی منش بزرگ تھے۔ بڑے عبادت گزار، نیکی اور پارسائی کا مجسمہ۔ عالم و فاضل ، زباں داں ، تصانیف متعدد ہیں۔ دو اوین اشعار میں صنم خانۂ عشق کو بالخصوص شہرت ہوئی۔ میرااسکول کا زمانہ تھا۔ سیالکوٹ میں ہر کہیں صنم خانۂ عشق کا چرچا تھا۔ شعر و سخن کی باتیں ہو رہی تھیں۔ میر حسن کی خدمت میں پہنچے، فرمایا: صنم خانۂ عشق پڑھو اور سوچ سمجھ کر پڑھو۔ محمد اقبال کو امیر سے جو تعلق تھا اس میں شاید میر حسن کا بھی دخل تھا، صنم خانۂ عشقشائع ہوا تو محمد اقبال نے کہا: عجیب شے ہے صنم خانۂ امیر اقبال میں بت پرست ہوں رکھ دی وہیں جبیں میں نے لیکن محمد اقبال کے قدر دانوں نے اس شعر کی تعبیر جس طرح کی اس سے سخن فہمی عالم اسفل کو کیا کہیے۔ معاذ اللہ۔ نادر کاکوروی سے بھی محمد اقبال کو دلی تعلق تھا۔ دونوں ایک دوسرے سے بہت دور، مگر ایک دوسرے کے قدر داں۔ ملاقات کی نوبت نہیں آئی۔ محمد اقبال نے کہا: پاس والوں کو تو اک دن دیکھنا ہی تھا مجھے نادر کاکوروی نے دورسے دیکھا مجھے محمد اقبال نے نادر کو اپنا ہم نوا اور ہم صفیر پایا۔ محبت اور دوستی میں نیرنگ کے ساتھ جگہ دی: نادر و نیرنگ ہیں اقبال میرے ہم صفیر ہے اسی توحید فی التثلیث کا دعویٰ مجھے نادر پورا نام نادر علی ہے۔ کاکوری کے ایک عباسی خاندان کے چشم و چراغ، ۱۸۶۷ء میں پیدا ہوئے اور ۱۹۱۲ء میں بہ عمر ۴۴ سال فوت ہو گئے۔ افسوس ہے عمر نے وفا نہیں کی۔ خناق کا مرض جان لیوا ثابت ہوا۔ دوائوں نے کام نہ کیا۔ جراحت کی نوبت آئی۔ خیال تھا عمل یہ کامیاب رہے گا۔ نادر کی حالت اچھی نہیں تھی۔ سخت تکلیف میں مبتلا تھے۔ نزع کی شب اُن کے چھوٹے بھائی شیخ شاکر علی نے معلوم نہیں کس خیال کے زیر اثر یہ مصرع پڑھا: قفس میں مرغِ بسمل یوں تڑپنے کا مز ا کیا ہے تو نادر نے فی البدیہ دوسرا مصرع کہہ کر شعر کی تکمیل کر دی: نکل جانِ حزیں اس جسمِ خاکی میں دھرا کیا ِہے اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اُردو ادب کی محفل سوگوار ہو گئی۔ نادر سے اُردو ادب کی بڑی بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔ انگریزی شعرا مثلاً کوپر اور کیٹس کی نظموں کو انھوں نے جس خوبی سے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ ترجمے میں اصل کا رنگ پیدا کر دیا۔ محمد اقبال کو نادر کی موت سے دلی صدمہ ہوا۔ ایک ہم نوا اور ہم صغیر جدا ہو گیا۔ کاش نادر کی عمر وفا کرتی! نادر کو اقبال سے دلی تعلق تھا۔ خط و کتابت کی نوبت تو شاید کبھی نہیں آئی۔ مخزن کے توسط سے گویا باہم گفتگو ہو جاتی۔ دسمبر ۱۹۰۲ء میں محمد اقبال کی نظم ’شمع ‘ مخزن میں شائع ہوئی تو نادر نے ا س سے اتنا اثر قبول کیا کہ جنوری ۱۹۰۳ء میں ’شمع مزار‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی۔ محمد اقبال نے کہا تھا: بزمِ جہاں میں میں بھی ہوں اے شمع درد مند نادر نے شمع مزار سے خطاب کرتے ہوئے کہا: بیٹھی ہے کس سکوت میں شمعِ مزار تو میں بھی ایسا ہی درد مند ہوں: اس تیرہ روز گار و پرآشوب دور میں دو تیرے درد مند ہیں اقبال اور میں محمد اقبال نے لکھا تھا: ہو شمع بزم عشق کہ شمع مزار تو ہر حال اشکِ غم سے رہی ہم کنار تو یوں نادر کو شمع مزار کا عنوان سوجھا، نظم کہہ ڈالی۔ سیالکوٹ کے نیاز مندوں سے بھی محمد اقبال کے روابط میں کوئی فرق نہ آیا۔ آغا محمد باقر سے تاحین حیات تعلقات قائم رہے۔ سیالکوٹ جاتے، ملاقاتیں ہوتیں۔ مولوی ابراہیم سے بھی دوستی قائم رہی۔ غلام قادرفصیح مرحوم سیالکوٹ کے ایک معزز کشمیری خاندان کے فرد تھے۔ شاعری تو بہت کم کی، یا شاید کی ہی نہیں البتہ نثر میں ان کے قلم نے بڑی جولانیاں دکھائی ہیں۔ تاریخ اسلام سے انھیں بالخصوص شغف تھا۔ فصیح صحافی بھی تھے، طابع اور ناشر بھی۔ پنجاب پریس کے نام سے ایک مطبع قائم کر رکھا تھا۔ تاریخ اسلام کے نام سے ایک ماہوار رسالہ نکالتے جس میں غزوات نبی ا اور فتوحات عہد صدیقی و فاروقی کا حال بڑی تفصیل سے بڑے سلیس اور دل نشیں انداز میں بیان کرتے۔ ان کی تحریروں سے نوجوانان اسلام میں جا بجا مجاہدین اسلام کے عزم و ہمت ان کے تاریخی کارناموں، اسلام کے لیے سر فروشی کے جذبات کی یاد تازہ ہو جاتی۔ محمد اقبال کے نزدیک یہ بھی مسلمانوں میں شعورملی کے احیاء کا ایک موثر ذریعہ تھا۔ کہتے ہیں: یہ رسالہ ہر مسلمان کے گھر پہنچنا چاہیے۔ ایسی ہی تحریروں سے قوم میں بیداری پیدا ہوتی ہے۔ میں اسے پڑھتا ہوں تو اکثر چشم پر آب ہو جاتا ہوں۔ فصیح مرحوم ۱۹۱۲ء میں فوت ہوئے۔ ان کے صاحبزادے ظفر اقبال کو تصنیف و تالیف کا مشغلہ ورثے میں ملا۔ میر حسن کے حلقۂ در س میں بیٹھے۔ ان کی شاگردی کی۔ عربی زبان میں بڑی مہارت پیدا کی۔ لاہور آئے۔ ایم۔اے کیا ٹریننگ کالج میں ملازمت مل گئی۔ عربی زبان میں درسیات کی تصنیف کے علاوہ انھوں نے انجمن حمایت اسلام کے لیے قرآن مجید کا نسخہ بڑی محنت سے مرتب کیا اور پھرپیکچز کے زیر اہتمام ایک دوسرا نسخہ اس انداز سے کہ قاری کو اس کی تلاوت میںکوئی مشکل پیش نہ آئے ۔ مولوی صاحب کی یہ خدمت لائق صد تحسین ہیں جن کے لیے قوم ان کی شکر گزار رہے گی۔ سیالکوٹ کے ایک مولوی نواب دین صاحب نے چوک دال گراں میں مقبول عام کے نام سے ایک مطبع قائم کر رکھا تھا۔ ظفر اقبال اکثر وہاں جاتے۔ ایک روز کیا دیکھتے کہ حکیم الامت کا مجموعہ کلام چھپ رہا ہے۔ پروف رکھے تھے۔ ان پر نظر ڈالی تو دیکھا، ان میں غلطیاں ہی غلطیاں ہیں۔ محمد اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ پروفوں کا ذکر کیا تو انھوں نے ہدایت کر دی کہ آئندہ ان کی جو بھی کتاب شائع ہو اس کے پروف مولوی ظفر اقبال دیکھیں۔ مولوی ابراہیم سیالکوٹی ۔ میر حسن کے شاگرد۔ ان کے حلقۂ درس اور پھر کالج میں محمد اقبال کے ساتھ حصول تعلیم میں شریک۔ اوائل عمر کی دوستی، بے تکلفی ، دل لگی۔ مولوی صاحب سے ہمیشہ ملاقات رہتی۔ مولوی صاحب لاہور آتے۔ محمد اقبال سیالکوٹ جاتے تو ان سے ضرور ملتے۔ مولوی صاحب بھی علمی محفلوں اور تقریروں میں اکثر محمد اقبال کا ذکر کرتے ان کی آخری علالت میں خاص طور سے عیادت کے لیے آئے۔ دیر تک نشست رہی۔ گھر بار کا حال ، بال بچوں کا پوچھا، تسلی دی۔ مولوی صاحب کے خاندان میں مولوی احمد دین پال کے صاحبزادے محمد مسیح پال جنھوں نے امین اور حزیں تخلص اختیار کیے اور بالآخرامین حزیں کے نام سے دنیائے سخن میں شہرت حاصل کی، ایک طرح سے محمد اقبال کے معنوی شاگرد تھے، بڑے پر گو، دل حب اسلامی سے معمور۔ محمد اقبال کے شیدائی، زمانہ ملازمت زیادہ تر گلگت میں گزرا۔ ملازمت سے سبکدوش ہو کر سیالکوٹ آئے۔ ۱۹۶۸ء میں فوت ہوئے۔ شعر گوئی کا شوق بچپن سے تھا۔ محمد اقبال کو سیالکوٹ کے مشاعروں میں شریک ہوتے دیکھا۔ ان کا کلام سُنا۔ میر حسن کی موجودگی میں محمد اقبال کی سکول میں نظم پڑھنے کی روایت ہمیں امین حزیں ہی سے ملی۔ امین حزیں میر حسن کی خدمت میں حاضر ہوتے، ان سے اکتساب فیض کرتے۔ شعر و شاعری کے سوا کوئی دوسرا شغل ہی نہیں تھا اور شعر و شاعری کا بھی سب سے بڑا مقصد یہی کہ محمد اقبال کے پیغام کی ترجمانی کریں۔ ۱۹۰۲ء میں ان کی ایک غزل پیام یار لکھنؤ میں شائع ہوئی۔ تعریف کی گئی تو انھیں خیال آیا کیوں نہ محمد اقبال کی شاگردی اختیار کریں۔ محمد اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مدعائے دلی عرض کیا۔ انھوںنے کہا شاعری خداداد چیز ہے۔ شعر گوئی کا جذبہ سچا ہے تو مشق سخن کیے جائیے۔ اساتذہ کا کلام بغور پڑھیے۔ کان بحروں سے مانوس ہو جائیں۔ زبان میں کوئی سقم باقی نہ رہے۔۱۸۹؎ امین حزیں کو شرف تلمذ تو حاصل نہیں ہوا لیکن یہ بھی تلمذ ہی کی ایک صورت تھی۔ عمر بھر ان کے کہنے پر عمل پیرا رہے ۔ محمد اقبال سے بہت کم ملے۔ لیکن ان کے کلام ، ارشادات و خطبات سے فیض حاصل کرتے رہے۔ جب بھی ملتے محمد اقبال کے سوا کوئی دوسرا موضوع گفتگو نہ ہوتا۔ ۱۱۔انجمن حمایت اسلام انجمن حمایت اسلام سے محمد اقبال کے ۳۷،۳۸ سالہ تعلق کی داستان طویل بھی ہے اور اہم بھی۔ ۱۸۵۷ء میں جب سلطنت مغلیہ کا چراغ ہمیشہ کے لیے گل ہو گیا، مسلمان محکومی اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑے گئے۔تو زوال بغداد اور سقوط غرناطہ کے بعد یہ سب سے بڑا المناک حادثہ تھا۔ جو اسلامی دنیا کو پیش آیا۔ مسلمانان ہند عجیب کسمپرسی کے عالم میں تھے۔ وہ اس سر زمین پر صدیوں سے حکومت کر رہے تھے۔ دفعتاً محروم ہو گئے وسط ایشیا کے مسلمانوں کی طرح وہ بھی غلامی اور محکومی کی تلخی سے نا آشنا تھے ۔ غلامی اور محکومی میں یہ ان کا پہلا تجربہ تھا۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا، اس حالت میں جب ان کی بے بسی انتہا کو پہنچ گئی ۔ جب حکومت ان کی آزادی اور اقتدار کی طرح ان کی تہذیب اور تمدن کے ہر نقش کے ساتھ ساتھ ان کی زبان، ان کی ثقافت حتیٰ کہ مذہب تک کو مٹانے کے درپے ہے۔ جب کہ خدشہ ہے ان کا وجود ملی بھی ہمیشہ کے لیے ختم نہ ہو جائے وہ کیا راستہ اختیار کریں۔ غلامی پر راضی ہو جائیں۔ اسلام میں وطنیت اور مغربیت کا پیوند لگائیں یا اپنے طرز زندگی پر مضبوطی سے قائم رہیں۔ لیکن وہ کوئی بھی فیصلہ کرتے اسے عمل میں لانا آسان نہیں تھا۔ خوش قسمتی سے انھیں سنبھلنے میں دیر نہیں لگی۔ انھوںنے اس صورت حالات کا بغور جائزہ لیا تو بقائے ذات اور حصول آزادی کے مختلف راستے نظر آئے۔ ایک وہ جس کی نشان دہی سر سید نے کی۔ ایک دوسرا حکومت وقت سے کا ملاً بے تعلقی ، اور ایک مغرب کی تقلید میں وطنیت پسندی کی راہ سے سیاسی آئینی جدو جہد کا جس کے پہلو بہ پہلو حکومت سے وفاداری، غلامی اور محکومی پر قناعت پسندی کی تلقین کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ حتیٰ کہ اس میں قرآن اور حدیث سے بھی سندلی گئی۔ بالآخر سوادِاعظم نے وہ راستہ اختیار کیا جو سر سید نے ان کے لیے تجویز کیا تھا اور جس کا مرحلہ اولیں تھا علوم جدیدہ یا محاورۂ عام میں انگریزی تعلیم کا حصول۔ چنانچہ یہ مقصد تھا جس کے پیش نظر سر سید احمد خاں نے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے نام سے ایک انجمن قائم کی تا کہ مسلمان اس دنیا سے واقف ہوں جس کا ظہور یورپ میں ہوا ،جو اخلاقاً اور ذہناً عالم انسانی پر چھا رہی تھی اور جس سے پوری پوری واقفیت کے بغیر نا ممکن تھا مسلمان بہ مقابلہ اس کے اپنے وجود ملی کا تحفظ کر سکیں۔ مگر پھر اس سلسلے میں خود سر کار انگریزی بھی کچھ اقدامات کر چکی تھی۔ سرکار انگریزی چاہتی تھی ہندوئوں اور مسلمانوں کا ذہن بدل دے ۔ وہ اس کی غلامی پر راضی ہو جائیں۔ اس کا ایک راستہ تو یہی جدید تعلیم اور انگریزی زبان تھی کہ اس کی ترویج کا سلسلہ جیسے جیسے آگے بڑھا، دل و دماغ مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگتے چلے جائیں گے۔ ماضی سے ان کا تعلق قائم نہیں رہے گا۔ انگریز ۱۸۴۹ء میں پنجاب پر قابض ہوئے۔ حالات سنبھلے تو اہل پنجاب کی خیر خواہی اور ترقی کے نام پر ۱۸۵۶ء ہی میں انجمن پنجاب لاہور قائم کی گئی جو ظاہر ہے ایک غیر فرقہ وارانہ تنظیم تھی اور جس میں ہندو مسلمان سب شامل تھے۔ ۱۸۶۹ء میں انجمن اسلامیہ پنجاب معرض وجود میں آئی۔ اسے پنجاب میں مسلمانوں کی سب سے پہلی قومی انجمن کہیے۔ مگر اس کا دائرہ کار بڑا محدود تھا۔ انجمن پنجاب نے تو علوم و فنون کی اشاعت،صنعت و حرفت اور تجارت کے فروغ پر زور دیا۔ انجمن اسلامیہ نے دینی تعلیم پر ۔ لاہور کی قدیم مساجد کا انتظام و انصرام، مرمت اور دیکھ بھال بھی اسی کے سپرد تھی۔ ۱۸۸۴ء میں البتہ انجمن حمایت اسلام کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ انجمن کیا تھی ایک طرح سے تحریک علی گڑھ کا ضمیمہ؛اس لیے کہ اس کے مقاصد بھی اساسی طور پر وہی تھے جو محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے۔ اس انجمن کا قیام بظاہر ایک اتفاقی امر تھا مگر دلچسپ اور سبق آموز ۔ ہوا یہ کہ انھی دنوں میں ایک پادری دہلی دروازے کے باہر بڑی دل آزار تقریر کر رہا تھا۔ مجمعے میں ایک غیور مسلمان چراع دین بھی، جو کسی سرکاری دفتر میں ملازم تھا۔ چراغ دین نے یہ تقریر سنی تو اس کی حمیت دینی نے ایسا جوش مارا کہ ایک ایک کر کے روسائے شہر سے ملا۔ قومی غیرت کے نام پر ایک انجمن کے قیام کی تحریک کی۔ بالآخر اس کی کوششیں رنگ لائیں۔ انجمن قائم ہو گئی۔ حمایت اسلام نام رکھا گیا۔ تعلیم اور تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی کتابوں کی تصنیف و اشاعت ، تبلیغ اسلام اور اسلام کے خلاف سرگرمیوں کا سد باب اس کے مقاصد ٹھہرے۔ رفتہ رفتہ انجمن حمایت اسلام مسلمانان پنجاب کی سب سے بڑی قومی اور تعلیمی انجمن بن گئی۔ علی گڑھ کے تتبع میں مدرسے اور کالج قائم ہوئے۔ یتیم خانے اور فلاحی ادارے کھولے گئے۔ انجمن کی یہ سر گرمیاں اس قدر مقبول ہوئیں کہ اسلامیان ہند کے ممتاز تریں رہنما، علماء و فضلاء ،بزرگان دین، ادیب، شاعر، ارباب سیاست انجمن کے جلسوں میں شریک ہوتے۔ حتیٰ کہ والیان ریاست، امراء و رؤساء نے بھی اس کی سر پرستی کی۔ محمد اقبال لاہور آئے تو ان کی حب قومی انھیں انجمن کے جلسوں میں لے گئی۔ پھر جب انھوں نے انجمن کے ایک جلسے میں اپنا کلام سنایا تو سا معین پھڑک اٹھے۔ اس وقت انجمن کو کیا معلوم تھا محمد اقبال اس کے جلسوں کی رونق بڑھائیں گے۔ لوگ جوق در جوق ان کا کلام سننے آئیں گے۔ محمد اقبال کا وجود انجمن کے لیے مالی منفعت کا ذریعہ بنے گا۔ا س کی تعلیمی اور دینی سر گرمیوں کے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ ثابت ہو گا۔ محمد اقبال بھی نہیں جانتے تھے کہ انجمن ہی کی وساطت سے ان کا پیغام رفتہ رفتہ ملک کے طول و عرض میں پہنچے گا۔ وہ ان کے لیے ذریعہ ابلاغ ثابت ہو گئی۔ انجمن بھی اس بات پر جس قدر ناز کرے کم ہے کہ یہ اسی کا پلیٹ فارم تھا جس سے محمد اقبال نے اسلام اور اسلامی تعلیمات کی ترجمانی میں مسلمانان عالم سے خطاب کیا۔ محمد اقبال ہی کی شعلہ نوائی سے اسلامیان ہند کے دل میں آزادی کی تڑپ پیدا ہوئی۔ ان کا شعور ملی جاگ اٹھا۔ ان عزائم اور مقاصد کی پرورش ہونے لگی جن سے آگے چل کر انھیں اپنے مستقبل کی تعمیر میں وہ راستہ ملا جس کی نشان دہی اسلام صدیوں پہلے کر چکا تھا۔ انجمن کے لیے یہ بات کس قدر قابل فخر ہے کہ ۱۸۵۷ء کے ہنگامۂ خونیں کے بعد مسلمانان ہند کی ملی جدو جہد کا گزر جن مراحل سے ہوتا رہا اس میں محمد اقبال ہی نے ایک فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ مؤرخ اس موضوع پر قلم اٹھائے گا تو انجمن کا اس جدو جہد میںبالواسطہ یا بلاواسطہ جو حصہ ہے اس کا ذکر کیے بغیر نہ رہے گا۔ انجمن بھی نہیںبھولے گی کہ اسے یہ شرف حاصل ہوا تو محمد اقبال کی بدولت۔ ۱۸۹۹ء میں نہیں تو ۱۹۰۰ء میں یقیناً محمد اقبال نے انجمن کے سالانہ جلسہ میں جو شیرانوالہ دروازے کے مدرسے میں منعقد ہوا۔ ’نالہ یتیم‘ کے نام سے وہ نظم پڑھی جسے گویا ان کی ملی شاعری کی تمہید کہنا چاہیے ۔ ۱۹۰؎ تعجب ہے اس نظم کو جو درد یتیمی کی حسرت بھری داستان اور المناک مرقع ہے۔ جسے سن کر مولوی نذیر احمد کہہ اٹھے کہ ان کانوں سے انیس اور دبیر کے مرثیے سنے ہیں مگر اس پائے کی نظم کبھی سننے میں نہیں آئی، جو اثر اس نے میرے دل پر کیا ہے وہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا، بانگ درا میں کیوں شامل نہیں کیا گیا بالخصوص اس لیے کہ یہ نظم آج بھی دستیاب ہو جاتی ہے، اس کا کوئی مطبوعہ نسخہ بھی کسی نجی یا عام کتب خانوں میں مل جاتا ہے ۔ یوں بھی محمد اقبال کی شاعری کے ارتقا میں اس نظم کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ محمد اقبال کا سوانح نگار بھی جب ان کی ملی زندگی ا ور شاعری پر قلم اٹھائے گا تو قدرتی بات ہے کہ اس کا ذہن بار بار اس نظم کی طرف منتقل ہو جائے گا۔ وجوہ کچھ بھی ہوں، اس نظم نے محمد اقبال کی شہرت کو کراچی سے رنگون اور کشمیر سے راس کماری تک پھیلا دیا۔ محمد اقبال نے یتیموں کی بے کسی کا نقشہ جس دل سوزی سے کھینچا تھا اس سے آنکھیں اشک بار ہو گئیں۔ سامعین نے ان کی امداد کے لیے جیبیں خالی کر دیں۔ یہ انجمن کا پندرھواں سالانہ اجلاس تھا جو ۲۳ فروری ۱۹۰۰ء کو منعقد ہوا اور جس میںاگلے روز، ۲۴ فروری کو انجمن کی تیسری نشست میں، جس کی صدارت مولانا نذیر احمد نے فرمائی، محمد اقبال نے نما ز عصر کے بعد شیخ عبدالقادر کے لیکچر کے اختتام پر یہ نظم پڑھی لوگ اس حد تک متاثر تھے کہ اسے دوبارہ پڑھوایا گیا۔ نظم چھپی ہوئی تھی دیکھتے ہی دیکھتے سارے نسخے فروخت ہو گئے۔ چندہ جمع ہونے لگا۔ محمد اقبال نے بھی اپنی جیب سے پانچ روپے چندے میں دیئے۔ یہ نظم دوسرے دن پھر سُنی گئی۔ خیال فرمائیے محمد اقبال کی حمیت ملی اور انجمن کے لیے دل سوزی کا یہ عالم تھا کہ اس کو چھپوا کر ساتھ لائے۔ یوں خود اپنی جیب سے چندہ ادا کرنا، سا معین کا نظموں کو سن کر ان کے چھپے ہوئے نسخے خریدنا بجائے خود انجمن کی مالی امداد کا ایک نہایت موثر ذریعہ تھا جس کی مثال محمد اقبال نے پہلے ہی دن جب وہ انجمن کے اسٹیج پر آئے قائم کر دی۔ یہ محمد اقبال ہی کی پرکشش شخصیت تھی جس کی بدولت انجمن کے وقار اور شہرت میں روز بروز اصافہ ہوتا چلا گیا۔ محمد اقبال ہی کی ذات سے انجمن کی رونق بڑھی۔ لوگ انجمن کے جلسوں میں شریک ہوتے تو اس لیے کہ محمد اقبال کی کوئی نظم سنیں گے، ان کے کلام سے لطف اندوز ہوں گے۔ محمد اقبال بھی دیکھتے ہی دیکھتے انجمن پر چھا گئے۔ ان کے علم و فضل کی تعریفیں ہونے لگیں۔ انھیں ملک الشعراء کا خطاب دیاگیا۔۱۹۱؎ ۱۹۰۱ء میں محمد اقبال نے ’یتیم کا خطاب ہلال عید سے ۱۹۰۲ء میں ’اسلامیہ کالج کا خطاب پنجاب سے اور ایک اور نظم ’دین و دنیا‘ علیٰ ہذا’زبان حال‘ کے عنوان سے ایک اور نظم پڑھی۔ یہ نظمیں بڑے شوق سے سنی گئیں لیکن دوسری معرکہ آرا نظم جو ، پھر تعجب ہے، بانگ درا میں شامل نہیں’فریاد امت‘ ہے جسے محمد اقبال ’ابر گہر بار‘ کے نام سے لکھ رہے تھے۔ یہ نظم ۱۹۰۳ء میں پڑھی گئی۔ صدارت خان بہادر غلام احمد خاں ، مشیر مال، ریاست جموں و کشمیر نے کی۔ فریاد امت فی الحقیقت حضور رسالت مآب ا کے حضور امت کی درد بھری فریاد ہے۔ یہ فریاد اور اس پر محمد اقبال کی پردرد اور بلند اور شیریں آواز، خواجہ عبدالصمد ککرو بے تاب ہو کر اٹھے از راہ قدر دانی ایک نقرئی تمغہ جو کشمیر سے بنوا کر ساتھ لائے تھے، عطا کیا۔ ’نالۂ یتیم‘ کی طرح ’فریاد امت‘ کے مطبوعہ نسخے بھی ہاتھو ں ہاتھ فروخت ہو گئے، چندے کی بھر مار ہونے لگی۔ محمد اقبال جب اس نظم کو لکھ رہے تھے تو ۱۱ مارچ ۱۹۰۳ء کو اپنے عزیز دوست منشی سراج الدین کو لکھا: عید کا دن ہے۔ بارش ہورہی ہے۔ گرامی صاحب تشریف رکھتے ہیں اور شعر و سخن کی محفل گرم ہے۔ شیخ عبدالقادر ابھی اٹھ کر کسی کام کو گئے ہیں۔ سید بشیر حیدر بیٹھے ہیں اور ابر گہر بار کی اصل علت کی آمد آمد ہے… پھر لکھتے ہیں: ابر گہر بار،۹۲ ۱؎ شروع کرنے سے پیشتر کہ کوئی وہابی اس کے بعض اشعار پر فتویٰ نہ دے دے، چند باتیں تمہید میں بھی کہی تھیں۔۱۹۳؎ بعد میں نام بدل دیا گیا۔ یہ نظم کئی پہلوئوں سے اہم ہے جس کی تفصیل کا سردست موقعہ نہیں۔ ’نالۂ یتیم‘ کی طرح اس نظم کو بھی بانگ درا میں جگہ نہیں ملی۔ تیسری معرکہ آرا نظم ’’تصویر درد‘‘ ہے جو ۱۹۰۴ء کے سالانہ جلسے میں پڑھی گئی۔ سر شفیع صدر تھے۔ میاں فضل حسین، مولانا ابو الکلام آزاد اور مولانا نذیر احمد نے بھی اس اجلاس میں شرکت فرمائی۔ یہی جلسہ تھا جس میں خواجہ حسن نظامی سے اُن کے دوستانہ مراسم قائم ہوئے اور جس میں خواجہ صاحب نے یہ کہہ کر: تمھارے جامِ مے کی نذیر میری پارسائی ہو اپنا عمامہ ان کے سر پر رکھ دیا تھا۔تصویر درد، درد وطن کی تصویر ہے، دردو طنیت کی نہیں ، جیسا کہ غلطی سے استدلال کیا جاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے انجمن کے جلسوں میں شاید کچھ ہندو معززین بھی شریک ہوتے۔ کہا جاتا ہے کہ محمد اقبال کے ایک ہندوشاگرد نے اس نظم کو سُنا تو اس قدر متاثر ہوا کہ دس روپے میں اس کا ایک شعر خرید لیا۔ تصویر درد یا دوسرے لفظوں میںمحمد اقبال کا کلام سننے کے لیے سامعین کے اشتیاق کا یہ عالم تھا کہ انجمن کے پہلے اجلاس میں مولوی احمد دین لیکچر دے رہے تھے مگر لوگوں نے انھیں اسے ختم کرنے کی نوبت نہ دی۔ ان کا اصرار تھا محمد اقبال اپنی نظم پڑھیں۔ مولوی صاحب کو لیکچر نا تمام چھوڑنا پڑا۔ حالانکہ تصویر درد کے لیے دوسرا دن مقرر تھا۔ ۱۹۰۵ء میں محمد اقبال یورپ چلے گئے۔ واپس آئے تو بدستور انجمن کے سالانہ جلسوں میں شرکت کرتے، اپنا کلام سناتے۔ نالۂ یتیم، یتیم کا خطاب ہلال عید سے ، تو اپنی اپنی جگہ پر مسلمانوں کی زبوں حالی، یتامیٰ اور مساکین کی کسمپری کادرد انگیز نوحہ ہیں۔ فریاد امت زوال سلطنت اور سبب اقتدار کے بعد غلامی کے ہاتھوں مسلمانوں کی مفلوک الحالی، نکبت و ادبار پر امت کے دکھ درد کی فریاد۔ تصویر درد محمد اقبال کی سیاسی بصیرت ، آزادی کی تڑپ، انسان دوستی اور درد ملی کا ناقابل انکار ثبوت ۔ محمد اقبال یورپ سے واپس آئے تو ایک دعوت اور پیغام لے کر آئے جو کب سے ان کے دل و دماغ میں ایک واضح شکل اختیار کر رہا تھا۔ انھوں نے دیکھا امت کا گزر بڑے المناک حالات سے ہو رہا ہے۔ اس پریاس اور بے دلی کی جو کیفیت طار ی ہے، اس کے قوائے علم و عمل جس طرح مضمحل ہو رہے ہیں، زندگی کے مسائل اور حقائق سے ہٹ کر دین کے نام پر جس نزاع و جدال کا شکار ہو رہی ہے، جن لاطائل اور لاحاصل بحثوں میں الجھ گئی ہے، اس سے استخصلاص کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ امت کا شعور ملی بیدار ہو۔ وہ اس کی رعایت سے اپنے مستقبل کی تعمیر میں اس راستے پر قدم اٹھائے جو توحید و رسالت نے اس کے لیے تجویز کر رکھا ہے اور جسے ہم شریعت سے تعبیر کرتے ہیں۔ محمد اقبال اس دعوت کو لے کر واپس آئے اور بتدریج اس راستے کی نشان دہی کرنے لگے جس سے عالم اسلام کیا نوع انسانی کی تقدیر وابستہ ہے۔ وہ قوم کو ایک پیغام دے رہے تھے۔ اس پیغام کی اشاعت انجمن کے توسط سے ہوئی۔ شعر و شاعری کا ایک ذریعہ ابلاغ بنی۔ اپریل ۱۹۱۰ء میں انھوں نے اپنی مشہور نظم’شکوہ‘ سے گویا اس پیغام کی ابتداء کر دی۔ انجمن حمایت اسلام کا یہ جلسہ اسلامیہ کالج کے ریواز ہوسٹل میں منعقد ہوا۔ اس سے پہلے محمد اقبال اپنی ہر نظم چھپوا کر ساتھ لاتے لیکن’ شکوہ‘ چھپوا کر نہیں لائے۔ لہٰذا سب سے پہلے اس کی رونمائی کا سوال پیدا ہوا۔ احباب اور سا معین نے مختلف رقوم پیش کیں۔ سر ذوالفقار علی نے ایک سو روپے کا اعلان کیا اور نظم انجمن کی نذر کر دی۔ شیخ عبدالقادر لکھتے ہیں:’’ محمد اقبال نے اپنی نظم ’شکوہ‘ ایسے خاص انداز میں پڑھی کہ کیف غم کا سماں جلسے پر چھا گیا۔ ان پر پھول برسائے جا رہے تھے۔ اقبال کا معمر باپ بھی سننے والوں میں موجود تھا۔ باپ کی آنکھوں میں بیٹے کی کامیابی کو دیکھ کر خوشی کے آنسو تھے‘‘۔۱۹۴؎ خواجہ عبدالصمد ککرو نے فرط جذبات سے انھیں سینے سے لگایا۔ایک نہایت قیمتی دو شالہ اوڑھا دیا۔۱۹۵؎ مرزا جلال الدین کہتے ہیں: ’’جس زمانے میں وہ ’شکوہ‘ لکھ رہے تھے انھوں نے حد درجہ خاموشی سے کام لیا۔ جس شام کو فقیر سید افتخار الدین کی صدارت میں یہ نظم سنانے والے تھے اسی شام اپنے والد صاحب کے ہمراہ میرے ہاں مدعو تھے۔ ہم کھانا ختم کر رہے تھے کہ انجمن کے سیکریٹری معہ چنداراکین ہانپتے ہوئے تشریف لائے اور پریشانی کی حالت میں کہنے لگے نظم کا وقت شروع ہونے والا ہے۔ سامعین شدت سے آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب فی الفور اٹھ کھڑے ہوئے۔ ہم سمجھ گئے اس مرتبہ کوئی معرکہ آرا نظم ہو گی‘‘۔۱۹۶؎ شکوہ کسی فرد کا شکوہ نہیں پوری امت کا شکوہ ہے۔ اسے تعجب ہے اور دکھ بھی کہ جب تقدیر عالم کا سر رشتہ اس کے ہاتھ میں ہے۔ یہی اس کا ایمان و یقین اور یہی اس کی زندگی کا راز تو وہ ذلیل وخوار کیوں ہے۔ پھر لطف کی بات یہ ہے کہ شکوہ سنانے سے پہلے وہ ایک طرح سے خود ہی اس کی جواب دے رہے تھے۔ چنانچہ نظم پڑھنے کے لیے اٹھے تو اول یہ شعر پڑھا: ڈھب مجھے قوم فروشی کا نہیں یاد کوئی اور پنجاب میں ملتا نہیں اُستاد کوئی ’’جواب شکوہ‘‘ اگرچہ انجمن کے سالانہ اجلاس کی بجائے ۲۰ نومبر کی ایک شام کو بعد نماز مغرب بیرون موچی دروازہ ایک جلسے میں پڑھا گیا جس کا اہتمام مولانا ظفر علی خاں نے کیا تھااور جس سے مقصود یہ تھا کہ زمیندار ترکی امدادی فنڈ کے لیے سرمایہ جمع کیا جائے۔ نظم پہلے سے طبع شدہ تھی، ہاتھوں ہاتھ بک گئی اور اس کی ساری آمدنی امدادی فنڈ میں جمع کر دی گئی ۔ میں نے اس جلسے کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ ’شکوہ‘ سے ہمارا ذہن بے اختیار’ جواب شکوہ‘ کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اور خیال ہوتا ہے کہ یہ نظم بھی انجمن ہی کے کسی سالانہ جلسے میں پڑھی گئی ہو گی۔ ۱۹۱۶ء میں محمد اقبال نے انجمن کے ۲۷ ویں سالانہ جلسے میں’ شمع و شاعر‘ کے عنوان سے وہ نظم پڑھی جو دراصل ’شکوہ‘ کا جواب ہے۔ فقیر سید افتخار الدین صدر تھے۔ نظم سے پہلے محمد اقبال نے ایک مختصر سی تقریر کی اور بڑے دکھ بھرے انداز میں کہا کہ سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کے لیے یہ زمانہ بڑا نازک ہے۔ شمع و شاعر ایک طویل نظم ہے، لہٰذا دو نشستوں میں پڑھی گئی، مگر تحت اللفظ، اگرچہ سا معین کا اصرار تھا ترنم سے لیکن محمد اقبال نے یقین دلایا کہ اس نظم کو تحت اللفظ پڑھنا ہی مناسب ہے۔ لوگ مان گئے۔ پہلی نشست کی صدارت فقیر سید افتخار الدین نے کی۔ دوسری نشست کی مرزا سلطان احمد نے ۔ مرزا صاحب کو جو لطیفہ سوجھا تو کہنے لگے محمد اقبال بڑے ہرجائی ہو، کبھی سلطان کا ساتھ دیتے ہو کبھی فقیر کا۔ محمد اقبال نظم پڑھنے کے لیے اٹھے تو مرزا صاحب سے خطاب کرتے ہوئے فی البدیہ یہ قطعہ پڑھا: ہم نشینِ بے ریایم از رہِ اخلاص گفت اے کلامِ تو فروغِ دیدۂ برنا و پیر درمیانِ انجمن معشوق ہرجائی مباش گاہ با سلطان باشی گاہ باشی با فقیر گفتمش اے ہم نشین معذور می دارم ترا در طلسم امتیازِ ظاہری ہستی اسیر من کہ شمعِ عشق را در بزمِ جاں افروختم سوختم خود را و سامانِ دوئی ہم سوختم۱۹۷؎ قطعہ پڑھا گیا تو مکر ر فرمائیے، مکرر فرمائیے، کی آوازیں بلند ہوئیں۔ محمد اقبال نے کہا: دگر نتوانم سوخت۔ خواجہ عبدالصمد اس قدر متاثر ہوئے کہ بے قابو ہو کر اُٹھے ،محمد اقبال کو سینے سے لگا لیا، سر اور ماتھے پر بوسے دیئے، ایک ہزار روپیہ چندہ انجمن کی نذر کیا۔ ’’شمع و شاعر‘‘ جسے محمد اقبال نے خود ہی ’’شکوہ‘‘ کا جواب ٹھہرایا، ایک پیام امید ہے، ایک درس خود اعتمادی ۔ محمد اقبال کہہ چکے تھے ، سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کا گزر ایک بڑے نازک دور سے ہو رہا ہے۔ جنگ عظیم میں یہ حالات نازک سے نازک تر ہوتے چلے گئے۔ دولت عثمانیہ نزع کے عالم میں۔ ایک ہاشمی نے ناموس دین مصطفی بیچ ڈالا۔ عرب و عجم برطانوی استعمار اور شہنشاہیت کے چنگل میں آ گئے۔ محمد اقبال نے غلط نہیں کہا تھا: آگ ہے اولادِ ابراہیم ؑ ہے نمرود ہے کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے چنانچہ ۱۶ اپریل ۱۹۲۱ء کی شام کو نماز مغرب کے بعد ’’خضرراہ ‘‘ کے عنوان سے جو نظم پڑھی گئی اس سے یہ حقیقت کہ مسلمانوں کا گزر ایک بڑے نازک دور سے ہو رہا ہے، واضح طور پر سامنے آ گئی۔ عالم اسلام پر فی الواقعہ نزع کی سی کیفیت طاری تھی۔ یاس و نومیدی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ عالم اسلام کی رہی سہی آزادی کا خاتمہ ہو گیا۔ بلاد اسلامیہ اب پورے طور پر دول یورپ کے قبضے میں تھی۔ ایک انچ زمین بھی خود مختار نہیں تھی۔ ہر طرف مایوسی، ہر کہیں بے دلی، جلسہ شروع ہوا، جسے دیکھیئے حزن و ملال، حسرت اور یاس کی تصویر ۔ منتظر کہ محمد اقبال کیا کہتے ہیں۔ انھوں نے نظم پڑھنا شروع کی ۔ پڑھنے لگے مگر جب کچھ بھرائی ہوئی آواز میں کہا: بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفی تو سامعین کے دل میں دکھ درد کی جو کیفیت پیدا ہوئی اس کا تمام و کمال اظہار مشکل ہے۔ پھر جب محمد اقبال اس شعر پر پہنچے: ہو گئی رسوا زمانے میں کلاہِ لالہ رنگ جو سراپا ناز تھے ہیں آج مجبورِ نیاز تو خود محمد اقبال کو بھی ضبط کا یارانہ رہا۔ اب تک اپنے آپ کو سنبھالے ایک کے بعد دوسرا بند پڑھ رہے تھے مگر یہ شعر پڑھا تو دل پر قابو نہ رہا۔ تھوڑی دیر کے لیے رک گئے، آنکھیں اشک بار تھیں۔ سا معین بھی اپنے آنسوئوں پر ضبط نہ کر سکے۔ بعض کی چیخیں نکل رہی تھیں ۔ حتیٰ کہ اس شعر کی نوبت آئی: ہو گیا مانندِ آب ارزاں مسلماں کا لہو مضطرب ہے تو کہ تیرا دل نہیں دانائے راز تو لوگ بے حال ہو گئے۔ محمد اقبال نے نظم ختم کی۔ مجمعے کی عجیب کیفیت تھی۔ حزن و ملال یاس، اندوہ، افسردہ دلی اور سوزو گداز کے ملے جلے جذبات لیے سوچ رہے تھے: کشتیِ مسکین و جانِ پاک و دیوار یتیم کا اشارہ کس طرف ہے۔یہ: ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی یہ راز آیۂ ان الملوک، یہ اقوام غالب کی جادو گری جسے سلطنت کہا جاتا ہے، یہ محنت اور سرمایے کی کشمکش میں ان کا کہنا۔ نغمۂ بیداریِ جمہور ہے سامانِ عیش اور یہ: آسمانِ تازہ پیدا بطنِ گیتی سے ہوا یہ عالم اسلام، ترک و عرب، یہ خلافت کی خستہ حالی پر فریاد و فغاں کے بعد: عشق کو فریاد لازم تھی سو وہ بھی ہو چکی یہ پیش گوئی: تو نے دیکھا سطوتِ رفتارِ دریا کا عروج موجِ مضطر کس طرح بنتی ہے اب زنجیر دیکھ اور تسلی: مسلم استی سینہ را از آرزو آباد دار یہ سب کیا ہے؟ کچھ سمجھے، کچھ نہیں سمجھے جو سمجھے وہ بھی بہت کم۔ انھیں کیا معلوم محمد اقبال دانائے راز، قوم کے آلام و مصائب پر نوحہ خوانی ہی نہیں کر رہے، ان پر حیات امم کا راز افشا کر رہے ہیں۔ اگلے برس ۱۹۲۳ء میں جب سیاست بین اقوام کا دفعتاً رُخ بدلا ، نمرود نے اولاد ابراہیم ؑ کے ہاتھوں پہلی زک اٹھائی، عالم اسلام کی نشاۃ الثانیہ کے آثار نظر آنے لگے تو محمد اقبال نے انجمن کے سالانہ جلسہ منعقد ہ ۱۹۲۳ء میں ’خضراہ‘ کے بعد ’طلوع اسلام‘ کے نام سے اپنی دوسری معرکہ آرا نظم پڑھی۔ نظم کیا ہے اسلام اور عالم اسلام کے ایک درخشندہ مستقبل کی پیش گوئی کے ساتھ ساتھ امت کے فریضۂ ملی اور اسلام کے سیاسی، اجتماعی نصب العین کی ترجمانی۔ ادھر محمد اقبال نظم پڑھ رہے تھے۔ ادھر سننے والوں کے دلوں میں مسرت و شاد مانی کی لہریں جوش مار رہی تھیں۔ ان کا ایمان تازہ ہو گیا۔ ۱۹۲۳ء سے پہلے اگرچہ محمد اقبال انجمن کے جلسوں میں کئی نظمیں پڑھ چکے تھے۔ لیکن ۱۹۲۳ء کے بعد انھوں نے انجمن کے جلسوں میں کوئی نظم نہیں پڑھی، گو ۱۹۲۳ء سے ۱۹۳۶ء تک کے طویل وقفے میں کچھ نظمیں یا یوں کہیے ان کے بعض اجزاء یا کچھ اشعار پڑھ کر سنائے۔ مثلاً ۱۹۱۴ء میں ’بلال‘ کے عنوان سے محمد اقبال وہ نظم پڑھ چکے تھے جس میں اس ’حبشی زادۂ حقیر‘ کی عظمت کوجسے مؤذن اسلام کا شرف حاصل ہوا۔ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اور جس کی ہر اذان کے ساتھ حضورؐ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے کس خوبی سے بیان کیاہے۔ ۱۹۱۸ء میں بعنوان ارتقا ایک چھوٹی سی نظم: ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی علیٰ ہذا وہ نظم جس کی ابتداء اس شعر سے ہوتی ہے: نہ سلیقہ مجھ میں کلیم ؑ کا نہ قرینہ مجھ میں خلیل ؑ کا ایسے ہی ۱۹۱۹ء میں جب شاہنواز نے لندن کے لاٹ پادری پر یہ فقرہ چست کیا کہ دیکھیے بلی چوہے کو دعوت اتحاد دے رہی ہے تو انھوں نے ارتجالاً وہ قطعہ پڑھا جس میں میاں صاحب کے اس فقرے کو بڑے خوب صورتی سے نظم کیا گیا ہے۔۱۹۸؎ ۱۹۳۶ء میں البتہ انجمن کے سالانہ اجلاس میں شریک ہوئے توضعف علالت اور گلے کی خرابی کی وجہ سے خود تو کچھ پڑھنے سے معذور تھے، لیکن جس روایت کو وہ آپ ہی قائم کر چکے تھے اس کا تقاضا تھا کہ اس جلسے میں بھی ان کا کلام پڑھا جائے ۔ چنانچہ محمد صدیق نعت خواں نے ضرب کلیم کی نظم: خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ اپنے خاص انداز میں نشید کی۔ صدیق بڑے جہیر الصوت تھے۔ جلسوں میں کلامِ اقبال معمولاً انھیں سے سنا جاتا۔ یہ انجمن کے سالانہ جلسوں میں، جن میں معمولاً وہ اپنا کلام سناتے، ان کی آخری شمولیت تھی۔ انجمن کو کیا معلوم تھا کہ اہل لاہور اس کے بعد پھر کبھی وہ آواز نہیں سنیں گے جو ۱۹۰۰ء سے ایک پیام امید اور دعوت عمل بن کر ان کے دلوں میں اتر رہی تھی۔ انھیں کیا معلوم تھا ایک ڈیڑھ سال اور انھیں کہنا پڑے گا: جس کے آوازوں سے لذت گیر اب تک گوش ہے وہ جرس کیا اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہے محمد اقبال کا تعلق انجمن سے کب قائم ہوا، غالباً ۱۸۹۹ء یا اس سے پہلے ۔۱۲ نومبر ۱۸۹۹ء کو انھیں انجمن کی مجلس منتظمہ کارکن منتخب کیا گیا۔ ۱۹۰۵ء میں وہ اس سہ رکنی کمیٹی میں، شامل تھے جو اس لیے قائم کی گئی تھی کہ انجمن کے قواعد و ضوابط میں ترمیم و اضافہ کرے۔ ۱۹۰۵ء میں محمد اقبال یورپ چلے گئے۔ ۱۹۰۸ء میں واپس آئے۔ انجمن کے کاموں میں حصہ لینے لگے۔ ۲۰ فروری ۱۹۱۰ء کو انھیں انجمن کی جنرل کونسل کارکن چنا گیا۔ ۳۱مارچ ۱۹۲۰ء کو جنرل سیکریٹری کا عہدہ پیش کیا گیا۔ انھوں نے یہ عہدہ قبول کر لیا۔ سرذو الفقار علی اور سید محمد شاہ نے ان کے علم و فضل کی تعریف کرتے ہوئے ا ن کا شکریہ ادا کیا۔ جون ۱۹۳۴ء میں وہ انجمن کے صدر منتخب ہوئے اور جولائی ۱۹۳۷ء تک اس عہدے پر فائز رہے جس سے بہ سبب علالت انھوں نے بالآخر استعفا دے دیا۔ ۱۸۹۹ء سے ۱۹۳۷ ء تک انجمن سے انتالیس چالیس سالہ تعلق میں محمد اقبال نے انجمن کی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ محمد اقبال کی ذات سے انجمن کی شہرت، انجمن کی نیک نامی اور وقار میں روز افزوں اضافہ ہوتا گیا۔ محمد اقبال نے اس کے انتظامی اور تعلیمی معاملات میں بڑی سر گرمی سے حصہ لیا۔ طرح طرح سے ان کی رہنمائی کی۔ یہ محمد اقبال ہی کی کشش تھی جو لوگوں کو جوق در جوق انجمن کے جلسوں میں لے آتی ۔ اس پر ان کے اشتیاق کا یہ عالم کہ محمد اقبال کی نظم کے لیے کوئی دوسرا وقت مقرر ہے تو اس کے باوجود لوگوں کے اصرار پر انجمن کی کاروائی روک لی جاتی ۔ محمد اقبال اپنا کلام سُناتے ۔ لوگ ان کی نظمیں سنتے، ان کے ارشادات کو حرزجاں بناتے، ان کے اشعار خریدے جاتے۔ ہاتھ چندے کے لیے جیبوں کی طرف بڑھتے۔ محمد اقبال خود بھی چندہ دیتے۔یہ انھی کی کوششیں اور دوستانہ روابط تھے جو ۱۹۱۳ء میں مہاراجہ سر کرشن پرشاد کو انجمن کے جلسے میں شرکت کے لیے لاہور لے آئے۔ مہاراجہ بہادر نے یتیم خانے کے لیے گراں قدر رقم عطا کی۔ ۱۹۲۹ء میں انھوں نے کوشش کی کہ نظام دکن میر عثمان علی خاں لاہور آئیں۔ انجمن کو اپنی تشریف آوری سے سر فراز فرمائیں۔ انجمن کے اداروں، کالج اورمدرسوں کو دیکھیں۔ اس کی مدد کریں۔ خط و کتابت ہوتی رہی ۔ امید بندھ گئی۔ لیکن نظام لاہور نہ آ سکے۔ ۱۹۳۰ء میں البتہ نواب بہاول پور اور نواب خیر پور انجمن کے ۴۶ ویں جلسے میں شریک ہوئے ۔ محمد اقبال نے تہنیت نامہ پیش کیا۔ ۱۹۳۴ء میں جب انھیں انجمن کا صدر منتخب کیا گیا تو انھوں نے دینیات اور لڑکیوں کی تعلیم پر بالخصوص زور دیا۔ محمد اقبال چاہتے تھے کالج کو کوئی ایسا پرنسپل مل جائے جو صاحب علم و فضل ہوا ور صاحب رسوخ بھی۔ کالج کے تعلیمی معاملات سے انھیں ابتداء ہی سے دلچسپی تھی اور کیوں نہ ہوتی، جدید تعلیم کا حصول ضروری تھا۔ لیکن انھیں ہمیشہ خیال رہتا طلباء اس سے کوئی خراب اثر قبول نہ کریں۔ دین سے بے گانہ نہ ہو جائیں۔ ۱۹۲۰ء میں تحریک خلافت کی ابتداء ہوئی۔ طلباء کی اکثریت نے اس کا ساتھ دیا تو پرنسپل ہنری مارٹن نے ان کے خلاف طرح طرح کی تادیبی احکام جاری کرنا شروع کر دیئے جس پر طلباء کے ساتھ ساتھ اہل لاہور بھی مشتعل ہو گئے۔ سرکار پرست عناصر نے پرنسپل کا ساتھ دیا۔ انھیں ڈر تھا سرکار کی مخالفت سے انجمن کو نقصان پہنچے گا۔ محمد اقبال اس زمانے میں کالج کمیٹی کے سیکریٹری تھے۔ بحیثیت سیکریٹری انھوں نے پرنسپل کے اقدامات کو ناپسند کیا۔بات بڑھ گئی۔ ہندوستان کے طول و عرض میں تحریک خلافت کا زور تھا۔ تحریک خلافت نے حکومت سے ترک موالات کا راستہ اختیار کیا تو تعلیمی ترک موالات کا اقدام ضروری ٹھہرا۔ انجمن اور کالج کے لیے یہ زمانہ شدید بحران کا تھا۔ سوال یہ تھا کیا اسلامیہ کالج پنجاب یونیورسٹی سے قطع تعلق کر لے۔ سرکار سے مالی اعانت نہ لے۔ محمد اقبال نے اس پر آشوب زمانے میں جس دیانت داری اور غیر جانب داری سے اپنے فرائض سر انجام دیئے، سرکار پرست عناصر سے الگ رہے، تحریک خلافت اور تعلیمی ترک موالات کے بارے میں اصولاً جو روش اختیار کی اس کا ذکر کا یہ موقع نہیں۔ اس کا بیان آگے آئے گا۔ کہنا صرف یہ ہے کہ محمد اقبال ان مخالف و موافق ہنگاموں میں، جو سیاسی جوش و خروش میں پیدا ہو گئے تھے، اپنے موقف پر مضبوطی سے قائم رہے ۔ جو معاملہ طے کیا بڑی خوش اسلوبی سے۔ ترک موالات کی طرح ایک دوسرا واقعہ بھی ، جس کی حیثیت نجی ہے، لیکن جو عقیدۂ ختم نبوت کے بارے میں قادیانی جماعت کی روش سے پیدا ہوا، اگرچہ قابل ذکر ہے مگر اس کے ذکر کا بھی یہ موقعہ نہیں۔ یہ واقعہ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ کی جن کا تعلق قادیان کی لاہوری شاخ سے تھا، انجمن سے علیحدگی کا ہے جسے محض ذاتی مخاصمت سے تعبیر کیا گیا اور اس کی ساری ذمہ داری محمد اقبال پر ڈال دی گئی، حالانکہ صورت حال یہ نہیں تھی جیسا کہ آگے چل کر معلوم ہو جائے گا۔ محمد اقبال نے بہر حال عقیدہ ختم نبوت کے بارے میں انجمن کی رہبری نہایت خوبی سے کی۔ پھر انجمن حمایت اسلام چونکہ مسلمانان لاہور ہی کی نہیں ایک طرح سے مسلمانان پنجاب کی قومی انجمن تھی، لہٰذا سرکار انگریزی مجبور تھی، اس کی سر گرمیوں پر نظر رکھے۔ اس نے خود تو نہیں لیکن جب چاہا سرکار پرست عناصر کے ذریعے اس کے کاموں میں مداخلت کی۔ سرکاری عناصر بھی حکومت کی خوشنودی کے پیش نظر اس کاآلۂ کار بنتے رہے۔ وہ جب دیکھتے کہ محمد اقبال چاہتے ہیں انجمن سرکاری اثر سے محفوظ رہے تو در پردہ ان کے خلاف کوئی نہ کوئی قدم اٹھاتے جس میں افسوس ہے وہ حضرات بھی شامل ہو جاتے جن کو بظاہر ان سے دوستی کا دعویٰ تھا۔ لیکن یہ ایک دوسری داستان ہے جس کا تعلق محمد اقبال سے اتنا نہیں جتنا انجمن سے۔ لہٰذا یہاں اسی قدر اشارہ کافی ہے۔ البتہ ایک بات ہے جو بافسوس کہنا پڑتی ہے اور وہ یہ کہ انجمن کو شاید آج تک اس امر کا احساس نہیں ہوا کہ اسے اپنے مقاصد میں جتنی بھی کامیابی ہوئی اس میں محمد اقبال کا حصہ نہایت وقیع، بلکہ فیصلہ کن ہے۔ انجمن کے لیے محمد اقبال کی ان گو نا گوں خدمات کا اعتراف ضروری ہے جو انھوں نے اس کی شہرت اور وقار، مالی اعانت اور تعلیمی سرگرمیوں کے لیے کیں۔ بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے جیسے انجمن کے دل میں محمد اقبال کے لیے کوئی جذبہ تشکر اور احسان مندی کبھی تھا ہی نہیں۔ حالانکہ انجمن کا فرض تھا اس کا اظہار ان کی زندگی میں نہیں تو قیام پاکستان کے بعد کسی ایسی شکل میں کرتی جو اس کے شایان شان ہو۔ دیکھیے انجمن کے ذمے محمد اقبال کی طرف سے جو قرض ہے انجمن اسے کب ادا کرتی ہے۔ ۱۲۔مخزن اپریل ۱۹۰۱ء میں سر عبدالقادر نے مخزن کے نام سے ایک علمی ادبی مجلے کا اجراء کیا۔ مخزن لاہور اور دہلی سے شائع ہوتا رہا۔ عبدالقادر بیرسٹری کر کے لندن سے واپس آئے توقانونی مشاغل میں شب و روز انہماک کے باعث مخزن کی اشاعت جاری نہ رکھ سکے۔ مخزن ۱۹۱۲ء میں بند ہو گیا۔ گو دو ایک بار اس کا احیا بھی ہوا، مگر وہ پہلی سی بات پیدا نہ ہو سکی۔ بلکہ حق یہ ہے کہ علم و ادب کی جو محفل مخزن نے جمائی تھی پھر اس پائے کی کوئی محفل نہ جم سکی۔ اُردو اور اُردو ادب کے فروغ اور اشاعت کے لیے جو کوششیں کی گئیں ان میں مخزن کا نام ہمیشہ فخر سے لیا جائے گا۔ یہ عبدالقادر ہی کی ہمت اور اُردو سے والہانہ محبت تھی جس سے مخزن کے ذریعہ ایک ایسا حلقۂ علم و ادب قائم ہو گیا جو بلا امتیاز مذہب و ملت اُردو ادب کی خدمت میں منہمک رہتا۔ عبدالقادر کی کوشش تھی کہ سر سید کے ہاتھوں جس ادبی تحریک کی ابتداء ہو چکی ہے، مخزن کے ذریعے اسے اور آگے بڑھائیں۔ مخزن پنجاب ہی نہیں سارے ہندوستان کا ادبی مجلہ تھا۔ مخزن کا نام اُردو ادب کے ادبی رسالوں میں سرفہرست رہے گا۔ اس سے پہلے کوئی ایسا رسالہ نہیںنکلاجو صحیح معنوں میں ادبی ماہناموں کے حقیقی معیار پر پورا اترتا، یا جس نے ملک کے اطراف و اکناف سے ہندومسلمان ارباب علم و ادب کو اپنی طرف کھینچ لیا ہو۔ مخزن ایک مثال تھی جو عبدالقادر نے قائم کی۔ وہ خود بھی ایک صاحب علم و فضل انسان تھے۔ فطرت نے انھیں شعر و سخن میں بھی ذوق سلیم عطا کیا تھا۔ صحافت کا تجربہ تھا۔ انگریزی اخبار آبرزور کی ادارت کر چکے تھے۔ ان کے تعلقات کی دنیا بہت بڑی وسیع تھی۔ اہل علم سے روابط تھے اور ان کا خاص وصف یہ کہ علم و ادب کے فروغ میں دوسروں کو بآسانی اپنا ہم نوا بنا لیتے۔ محمد اقبال کہتے عبدالقادر شیخ’’عالم گنڈہ‘‘ ہیں۔ ’’عالم گنڈہ‘‘ کی پنجابی ترکیب محمد اقبال کی ایجاد ہے۔ ان معنوں میں عبدالقادر کو ہر کسی کا دل موہ لینے میں کمال حاصل تھا۔ ہندوستان میں صحافت کا فن انگلستان سے آیا۔ انگریزی رسائل و جرائد ہندوستانیوں کے لیے نمونے کا کام دیتے۔۱۹۹؎ عبدالقادر انگریزی اور انگریزی ادب سے خوب واقف تھے، جو ہر شناس تھے، طبیعت میں وسعت اور حوصلہ تھا۔ جس کسی میں جوہر قابل دیکھا اس کی خوب خوب ہمت افزائی کی۔ محمد اقبال کے دلی دوست تھے، محمد اقبال کی شاعری اور دل و دماغ کی خوبیوں کے قدردان ۔ مخزن ہی نے ہندوستان کو محمد اقبال کی شاعری سے روشناس کرایا۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ محمد اقبال کی شاعری کا آفتاب مخزن اور حمایت اسلام کے افق ہی سے طلوع ہوا۔ مخزن کی ہر اشاعت میں محمد اقبال کی کوئی نہ کوئی نظم بالالتزام شائع ہوتی اور مخزن بھی حصہ نظم میں اسے اولین جگہ دیتا۔ مخزن سے محمد اقبال کے تعلق کی داستان دراصل عبدالقادر سے ان کی دوستی اور گو نا گوں تعلقات کی داستان ہے۔ ان کا تعارف دوران تعلیم ہی میں ہو چکا تھا۔ مشاعروں میں بھی وہ ان کا کلام سُن چکے تھے۔ بازار حکیماں کی محفلوں اور بزم اتحاد کی علمی اور ادبی مجلسو ں میں حصہ لیتے۔ قیام بھی محمد اقبال کے پڑوس میں کوچہ جلوٹیاں میں تھا۔ تعلقات کی ابتداء جس طرح ہوئی اس کا حال خود عبدالقادر کی زبان سے سنیے۔ کہتے ہیں: ’’میں نے ستارۂ اقبال کا طلوع دیکھا اور چند ابتدائی منازل ترقی میں اقبال کا ہم نشیں اور ہم سفر تھا۔ لاہور میں ایک بزم مشاعرہ بازار حکیماں میں امین الدین صاحب کے مکان پر ہوا کرتی تھی، ایک شب اس بزم میں ایک نوجوان طالب علم نے … ایک سادہ سی غزل پڑھی۔ شعر کہنا نہیں اقبال کو آتا لیکن آپ کہتے ہیں سخنور تو سخنور ہی سہی پھر لکھتے ہیں:’’جوانی کی دلچسپیوں میں ایک نہایت قابل یاد دلچسپی اقبال مرحوم کی دوستی سے پیدا ہوئی جس نے دور تک ساتھ دیا۔ وہ اس وقت کالج میں پروفیسر تھے۔ انھوں نے شہر میں میرے مکان کے قریب ایک چھوٹا سا مکان کرائے پر لیا۔ ہماری ملاقات تو پہلے ہی ہو چکی تھی، شہر کی ہمسائیگی نے ہم نشینی کے مزید مواقع پیدا کر دیئے ۔ میں شام کو ان کے پا س بیٹھتا ۔ ان کے دو تین اور دوست عموماً وہاں موجود ہوتے۔ ایک تو ان کے استاد مولانا میر حسن کے فرزند سید محمد تقی تھے۔ ان کی دوستی پرانے تعلقات پر مبنی تھی۔ سیالکوٹ کے ایک اور صاحب سید بشیر حیدر بھی تھے جو اس وقت طالب علم تھے،۲۰۰؎ بعد ازاں ڈپٹی ہو گئے۔ ایک اور طالب علم سردار عبدالغفور تھے جو ابو صاحب کہلاتے تھے۔یہ اقبال کے مداح تھے۔ میں جاتا تو سلسلۂ شعر و سخن شروع ہو جاتا۔ کوئی شعر یا مصرع اقبال کو سنانے کے لیے ڈھونڈ رکھتا تھا جو طرح کا کام دیتا۔ وہ حقہ پیتے جاتے اور شعر کہتے جاتے۔ ابو صاحب کاغذ پنسل لے کر لکھنا شروع کر دیتے۔ اقبال کے ابتدائی کلام کا بیشتر حصہ اسی طرح لکھا گیا۔ ابو صاحب ایک مجلد بیاض میں اپنی پنسلی یاداشتیں صاف کر کے لکھ لیتے تھے۔ اگر ابو صاحب کاتیار کیا ہوا مسالہ موجود نہ ہوتا تو مرحوم دوست کا بہت سا کلام چھپنے سے رہ جاتا کیونکہ وہ اس زمانے میں کوئی مسودہ اپنے پاس نہیں رکھتے تھے۔۲۰۱؎ اب زیادہ شامیں اقبال کے ہاں صرف ہونے لگیں‘‘۔ یوں محمد اقبال اور عبدالقادر کے تعلقات بڑھتے چلے گئے۔ علمی اور ادبی سر گرمیوں نے انھیں یک جا کر دیا۔ ۱۸۹۸ء میں کپتان ہالرائڈ کے ایما اور آزاد اور حالی کی کوششوں سے شاعری نے جو نیارخ اختیار کیا محمد اقبال کا ذہن بھی قدرتاً اس کی طرف منتقل ہو رہا تھا۔ چنانچہ یہ مجلس اتحاد یا ایسی ہی کوئی اور محفل تھی جس میں انھوں نے ’ہمالہ ‘کے عنوان سے جو نظم پڑھی، اس قدر مقبول ہوئی کہ اس کی اشاعت کی فرمائشیں ہونے لگیں۔ لیکن محمد اقبال نظر ثانی کا عذر پیش کر دیتے۔ عبدالقادر نے مخزن جاری کرنے کا ارادہ کیا تو ان سے وعدہ لے لیا کہ: اس رسالے کے حصہ نظم کے لیے نئے رنگ کی نظمیں وہ مجھے دیاکریں گے۔ پہلا رسالہ شائع ہونے کو تھا میں ان کے پاس گیا۔ انھوں نے اس نظم کو دینے میں پس و پیش کی۔ میں نے زبردستی وہ نظم لے لی اور مخزن کی پہلی جلد کے پہلے نمبر میں شائع کر دی۔ یوں محمد اقبال کی اُردو شاعری کا پبلک طور پر آغاز ہو گیا‘‘۔۲۰۲؎ بانگ درا میں بھی پہلی جگہ اسی نظم کو دی گئی۔ حالانکہ شیخ صاحب کو کہنا چاہیے تھا کہ ہمالہ سے اقبال کی اُردو شاعری کا پبلک طور پر آغاز تو کیا ہوا وہ ان کی شاعری کے ’’ہمالہ‘‘ کا نقطۂ آغاز ہے محمد اقبال نے نظموں کے علاوہ مخزن کے لیے مضامین بھی لکھے۔ عبدالقادر بیرسٹری کے لیے انگلستان گئے اور ۱۹۰۸ء تک وہیں مقیم رہے تو اس دوران میں محمد اقبال کو باقاعدہ خط لکھتے۔ بار بار انھیں انگلستان آنے کی دعوت دیتے۔ خطاب پیار ے اقبال سے ہوتا۔ ۱۷ مئی ۱۹۰۴ء کو جہاز مالدیو یہ سے لکھتے ہیں: ’’یاد تو آپ ضرور آتے ہی تھے مگر جہاز پر بہت یاد آئے۔ ایک عرصہ سے امید ہو گئی تھی کہ ہم دونوں اکھٹے سفر کریں گے۔ مگر میری عجلت کی تیاری اور آپ کے عزم کی تعویق … کوشش یہ چاہیے کہ آپ وہاں میرے ہوتے ضرور آئیں… سست نہ ہو جانا۔ میں وہاں پہنچتے ہی آرنلڈ صاحب سے مشورہ کر کے آپ کو خط لکھوں گا۔ اگر اس ستمبر میں نہیں… تو مئی میں ضرور چل دینا، یہ موسم سب سے اچھا اس سفر کے لیے ہے… ہاں چلنے کی سنیے۔ اس وقت جو صدمہ گھر سے رخصت ہونے… کا تھا اسے تو خیر ضبط کر لیا مگر راستے میں میر صاحب۲۰۳؎ نے ایک غزل کے چند اشعار پڑھے…اس سے رقت طاری ہو گئی۔ محمد اکرام کو کہیے یہ غزل آپ کو دکھائیں، آپ بھی اس زمین میں کچھ لکھیے: اللہ ترا نگہباں پردیس جانے والے شیدائیوں سے اپنی آنکھیں چرانے والے میں ایک کتاب پڑھ رہا ہوںابراہیم ؑ کی قربانی مگر اس کواس پرانے واقعے سے کوئی نسبت تھی… اس وقت مجھے آپ کی نظم یاد آ گئی جس میں آپ نے حضرت ابراہیم ؑ کی تصویر الفاظ میں کھینچی ہے۲۰۴؎ …ابو صاحب کو میرا بہت بہت سلام کہیے… جب اقبال ولایت میں میرے قبضے میں ہو گاا ور ابو صاحب اس کے کلام کا منتظر ہو گا تو میں نقلیں بھیجا کروں گا۔ ابو صاحب کا سب سے آگے کھڑے رہنے اور چلتی گاڑی میں مجھ سے ہاتھ ملانا یاد رہے گا۔ تقی شاہ سے چلتی دفعہ ملنا ہوا مگر وہ کہیں بھول سکتے ہیں‘‘۔۲۰۵؎ ایک دوسرے خط میں جو ۱۹۰۴ء میں رقم ہوا، لکھتے ہیں: ’’سمندر کا سفر اس خوش گوار موسم میں اور خصوصاً ایسی چاندنی کے وقت کتنا پیار ا سفر ہے۔ خیر جدہ میں تو زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتا ہوں کہ اقبال کو بلائوں کہ آ اور دیکھ‘‘۔۲۰۶؎ …ایک تیسرے خط میں جو ستمبر ۱۹۰۴ء میں لکھا گیا ، جب محمد اقبال لکھ چکے تھے کہ اگلے ستمبر میں انگلستان روانہ ہوں گے، کہتے ہیں:’’اگلے ستمبر کے آپ ہی منتظر نہیں، یہاں بھی کئی لوگ منتظر ہیں اور ان میں سب سے بڑھ کر میں‘‘۔ محمد اقبال نے ایبٹ آباد میں کوئی لیکچر دیا تھا، اس کا حال پوچھا ہے۔۲۰۷؎ پھر جب ۱۹۰۵ء میں محمد اقبال انگلستان پہنچے تو وہاں بھی عبدالقادر کا شب و روز ساتھ رہا۔ عبدالقادر البتہ محمد اقبال سے کچھ دن پہلے لاہور آ چکے تھے۔ کچھ دنوں کے بعد محمد اقبال بھی آ گئے۔ اب پھرمخزن تھا اور لاہور کی محفلیں، شب و روز کی ملاقاتیں، دوستی اور محبت کے گہرے جذبات۔ پھر ایک اور بات ہے اور وہ یہ کہ ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ خونیں کے بعد جب سارا ہندوستان انگریزوں کے تصرف میں آ گیا تو کچھ بسبب محکومی اور کچھ بسبب اشتراک وطن اہل وطن میں ایک طبقہ ایسا بھی پیدا ہو چکا تھا۔جو صدیوں کے میل جول اور ان کے اثرات کے باعث جو اسلامی تہذیب و تمدن سے مترتب ہوئے، زبان اور ادب کے معاملے میں بڑی حد تک مسلمانوں سے ہم آہنگ تھا۔ یہ حالات تھے جن میں مخزن کا اجراء ہوا۔ عبدالقادر انگلستان گئے ۔ بیرسٹری کی۔ واپس آ کر پھر مخزن کی ادارت اپنے ہاتھ میں لی۔ ادبی اور علمی سر گرمیوں اور قانونی مشاغل میں منہمک ہو گئے۔ محمد اقبال بھی انگلستان گئے بیرسٹری کی۔ لیکن ان کا ذہن شروع ہی سے ایک نصب العین پر مرکوز تھا۔ یوں طرح طرح کے مسائل پیدا ہو رہے تھے، لہٰذا ان کی طبیعت میں ایک خلش تھی، ایک اضطراب اور ایک کاوش جس نے ان کے دل و دماغ کو طرح طرح سے ہلایا۔ یہ اضطراب اور یہ خلش دور ہوئی تو سوال پیدا ہوا کہ اس نصب العین کے حصول کی کیا ضرورت ہے۔ پھر اس نصب العین کی نوعیت جہاں روحانی، اخلاقی تھی سیاسی اور اجتماعی بھی۔ اس کا تعلق اگر سارے عالم اسلام سے تھا تو ان کے اپنے مرز و بوم سے بھی جہاں اختلاف مذہب اور اختلاف معاشرت کے علاوہ اور بھی اختلافات تھے۔مقامی، لسانی حتیٰ کہ خود مسلمان بھی طرح طرح کی فرقہ بندیوں میں بٹ چکے تھے۔ سوال یہ تھا اس مشکل کا حل کیا ہے۔ اس قسم کے پیچیدہ حالات میں اس نصب العین کے حصول کی صورت کیا ہو گی۔ یہ مشکل حل ہو گئی تو ایک دوسرا سوال پیدا ہوا اور وہ یہ کہ اس راستے میں ان کا ساتھ کون دے گا۔ کون ہم سفر ثابت ہو گا۔قدرتاً ان کا خیال عبدالقادر کی طرف گیا۔ عبدالقادر ان کے دوست تھے۔ ان کے دل اور دماغ سے واقف ۔ عبدالقادر لاہور میں تھے۔ محمد اقبال کو رفیق راہ کی تلاش تھی۔ انھوں نے عبدالقادر کو لکھا: اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افقِ خاور پر بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں یہ نظم بعنوان ’عبدالقادر‘ کے نام ۱۶ا شعار پر مشتمل ہے جسے عبدالقادر نیمخزن میں ہدیہ ناظرین کرتے ہوئے لکھا:’’مجھے اس بات سے شرم آتی ہے کہ ایسی نظم اور ایسے خیالات کا مخاطب مجھے بنایا گیا ہے اور ایسے بلند ارادوں میں مجھے شریک کیا گیا ہے… خدا حضرت اقبال کے ارادوں کو برکت دے اور اگر میرے نصیب میں کوئی خدمت ملک کی لکھی ہے تو مجھے بھی اس کی توفیق فرمائے‘‘۔۲۰۸؎ لیکن عبدالقادر مخزن اور مخزن سے بڑھ کر قانونی مشاغل میں الجھ گئے۔ رفتہ رفتہ سرکار سے وابستگی پیدا ہوئی اور یہ وابستگی بڑھی تو سیاست سے ان کا تعلق کلیتاً منقطع ہو گیا۔ محمد اقبال کی آرزوئے رفاقت پوری نہ ہو سکی۔ علم و ادب کی محفلوں اور انجمن حمایت اسلام کی سرگرمیوں میں البتہ ان کا ساتھ رہا ۔دوستی اور محبت میں فرق نہ آیا۔ عبدالقادر نے بانگ درا کا دیباچہ لکھا لیکن قانونی مصروفیات ان کے راستے میں حائل تھیں۔ وہ اس سے بہتر دیباچہ لکھ سکتے تھے۔ محمد اقبال سے عبدالقادر کی شب و روز ملاقات رہتی۔ طرح طرح کے مسائل پر گفتگو ہوتی تا آنکہ ان مسائل پر سلسلۂ گفتگو بھی بند ہو گیا۔ عبدالقادر محمد اقبال کے قدر دان تھے، بقول ان کے ارکان مشیدہ میں سے ایک۔ محمد اقبال ان کی مجبوریوں کو سمجھتے انگلستان میں بھی عبدالقادر اور محمد اقبال کا دو سال تک ساتھ رہا۔ کاش عبدالقادر ان ملاقاتوں اور اس زمانے کے حالات قلم بند کر سکتے ۔ ’کیف غم‘ کے عنوان سے البتہ انھوں نے محمد اقبال کے کیف غم کی کچھ کیفیت بیان کی ہے۔ اس لحن کا ذکر کیا ہے جس میں سوز تھا، سرور تھا، جس سے سا معین پر ایک روحانی کیفیت طاری ہو جاتی۔۲۰۹؎ ۱۹۳۷ء میں ان کی محمد اقبال سے آخری ملاقات ہوئی۔ عبدالقادر لکھتے ہیں:’’۱۹۳۴ء میں ہائی کورٹ کے کام سے سبک دوش ہو کر پانچ سال کے لیے اس وقت کے وزیر ہند کے محکمے میں لندن گیا تو میرے محترم دوست سر محمد اقبال بحیثیت مجموعی بخیریت تھے۔ ان کی علالتوں کا دور میری غیر حاضری میں شروع ہوا اور جب میں اپنے بیٹے کی شادی کی تقریب پر رخصت لے کر ہندوستان آیا… ان سے ملنے گیا تو وہ ایک پلنگ پر لیٹے ہوئے تھے اور لحاف اوڑھے ہوئے تھے۔مگر ان کی وسعت اخلاق کی وجہ سے اس حالت میں بھی مختلف ملنے والوں کا ایک گروہ ان کے قریب تھا… ایک معزز سرکاری افسر، ایک مالک اخبار اور ایک دو ایڈیٹر اور چند نوجوان طالب علم۔ مرحوم مجھ سے بہت محبت سے ملے اور پہلے مجھے گلے لگایا اور اپنی چار پائی پر ہی بٹھا لیا…ملاقاتی…یکے بعد دیگرے اجازت لے کر رخصت ہوتے گئے …دیر تک باتیں کرتے رہے…انگلستان کے تمام کے تمام حالات سنتے رہے…بعض دوستوں کی بابت پوچھتے رہے…دعوت دی دوسرے دن دوپہر کا کھانا ان کے ہاں کھائوں…دوسرے دن … یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ وہ اس وقت لیٹے ہوئے…کرسی پر بیٹھے تھے اور دو ایک دوست بھی موجود تھے…چودھری محمد حسین اور مخدوم الملک سید غلام میراں شاہ۔ کھانا آیا۔ اقبال صاحب خود بھی اس میں شریک ہوئے …کھانا انھوں نے رغبت سے کھایا۔ گفتگو بھی دوران طعام بہت دلچسپ ہوئی۔ مخدوم میراں شاہ ، اقبال مرحوم سے بہت عقیدت رکھتے تھے۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا اس زمانے کا قطب پنجاب میں کون ہے۔ میں نے کہا یہ تو آپ کا محکمہ ہے ۔ انھوں نے کہا اقبال صاحب ہی قطب پنجاب ہیں۔ میں نے کہا… اس راہ سے بے خبر ہوں، البتہ اقبال کے ہم نشین، جن میں میں بھی شامل تھا، کبھی ان کو قطب از جانمی جنید کہہ کر چھیڑاکرتے تھے۔ غرض اس قسم کے مزاح و تفریح کے بعد وہ بزم مختصر پر خاست ہوئی۔ مگر اس سے رخصت ہوتے وقت یہ معلوم نہ تھا کہ میں ان کو اور وہ مجھے آخری مرتبہ دیکھ رہے ہیں‘‘۔۲۱۰؎ ۱۹۳۸ء میں محمد اقبال اور عبدالقادر کی چالیس پچاس برس کی رفاقت ختم ہو گئی۔ آئین قدرت بھی یہی ہے کہ رفاقتیں ختم ہو جائیں۔ لیکن محمد اقبال، عبدالقادر اور مخزن یہ تین نام اس طرح لازم و ملزوم ہیں کہ ایک سے دوسرے کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ عبدالقادر سے ابو صاحب کو جو تعلق تھا اور ابو صاحب کو محمد اقبال سے اس کا ذکر عبدالقادر کر چکے ہیں۔ ابو صاحب یعنی خان بہادر عبدالغفور درانی گجرات پولیس کے اعلیٰ عہدہ دار تھے ۔ محمد اقبال کے ساتھ گورنمنٹ کالج میں تعلیم پائی۔ محمد اقبال کے کلام کے شیدائی۔ محمد اقبال سے ان کی دوستی اور ہم نشینی کی داستان بہت دلچسپ ہو گئی۔ ابو صاحب نے شاید بسبب مصروفیت اسے قلم بند نہیں کیا۔ ابو صاحب نے بانگ درا کی اشاعت میں بڑی سر گرمی سے حصہ لیا اور کیوں نہ لیتے، عبدالقادر نے لکھا ہے محمد اقبال کا ابتدائی کلام انھیں کی کوششوں سے محفوظ رہا اور ہم تک پہنچا۔ اس ابتدائی کلام کو شیخ اعجاز احمد نے بھی آگے چل کر جمع کیا، مگر جس زمانے کا عبدالقادر ذکر کرتے ہیں وہ اس زمانے میں ابھی مکتب میں بھی نہیں بیٹھے تھے۔ شیخ گلاب دین اور سید بشیر حیدر بھی ان کا کلام جمع کرتے۔ معلوم نہیں ان کی یاداشتیں کیا ہوئیں۔ رفتہ رفتہ یہ کلام تمام تر نہیں تو جزواً کچھ مخزن مگر زیادہ تر ذاتی یاداشتوں کے ذریعے منظر عام پر آتا گیا ۔ چنانچہ ایسی ہی ایک بیاض راقم الحروف کے عزیز دوست بشیر ضیائی نے تیار کر رکھی تھی۔ انھوں نے بڑی محنت سے ان کا ابتدائی کلام جمع کیا۔ لیکن افسوس ہے اس بیاض کی مکمل نقل ۱۹۲۱ء میں ضائع ہو گئی۔ میں لکھنؤ گیا۔ تحریک ترک موالات اپنے پورے عروج پر تھی۔ چودھری خلیق الزماں اور ان کے بھتیجے بدر الزماں راقم الحروف کے ہم جماعت لکھنؤ ڈسٹرکٹ جیل میں بند تھے۔ میں ان سے ملنے گیا۔ کلام اقبال کی فرمائش کر چکے تھے۔ میں نے بیاض پیش کر دی ۔ خیال تھا چند دنوں کے بعد مل جائے گی لیکن مجھے بعجلت علی گڑھ اور علی گڑھ سے لاہور واپس آنا پڑا۔ بیاض بھی ڈسٹرکٹ جیل میں کسی نے اڑالی یا گم ہو گئی۔ یہی بیاض ہے جسے مہر مرحوم نے عبداللہ قریشی صاحب کے مزید اضافے کے ساتھ سرودِ رفتہ کے نام سے شائع کیا۔ ۱۳۔شاعری محمد اقبال کو قدرت نے شاعر پیدا کیا تھا۔ بچپن ہی سے کلام موزوں زبان سے نکل رہا تھا۔ لیکن ان کی شاعری کا باقاعدہ آغاز ۱۸۸۵ء یا شاید اس سے کچھ پہلے ہو گیا تھا ۔ سیالکوٹ میں ایک چھوٹے سے مشاعرے میں شرکت اور اسکول کے زمانۂ طالب علمی میں ایک نظم پڑھنے کی طرف امین حزیں اشارہ کر چکے ہیں۔ لیکن ان مشاعروں کا زمانہ بہ تیقن معلوم نہیں۔ نہ اسکول میں نظم پڑھنے کا۔ رسالہ زبان دہلی میں البتہ ان کی جو د و غزلیں شائع ہوئیں ان کا زمانہ ۱۸۹۳ء اور ۱۸۹۴ء ہے جب کہ وہ ابھی لاہور نہیں آئے تھے۔ رسالہ زبان میں انھیں شیخ محمد اقبال صاحب لکھا گیا ہے جیسے وہ ایک نو عمر شاعر ہوں۔ یہ غزلیں نوجوانی کے زمانے میں لکھی گئیں۔ ۱۸۹۴ء میں لاہور آئے ۔ چودھری جلال الدین کے ذریعے میر نیرنگ سے تعارف ہوا۔ چودھری صاحب کے ذوق سخن کی پرورش میر حسن کے فیض صحبت میں ہوئی وہ گویا محمد اقبال کے ہم درس تھے۔ انھوں نے میرنیرنگ سے محمد اقبال کی شاعری کا ذکر کیا تو انھیں تعجب ہوا کہ محمد اقبال شعر بھی کہتے ہیں۔ کہنے لگے میں ان کا نمونۂ کلام دیکھنا چاہتا ہوں۔ چودھری صاحب کے پاس محمد اقبال کی ایک غزل موجود تھی، میر صاحب کے پاس لے گئے اور یوں محمد اقبال سے ان کے تعارف کا ذریعہ بنے ۔میر صاحب نے مطلع پڑھا: بر سرِ زینت جو شمع محفل جانانہ ہے شاید اس کی زلفِ پیچاں کا پر پرواز ہے اور پھر یہ شعر: پائے ساقی پر گرایا جب گرایا ہے مجھے چال ہے خالی کہاں یہ لغزشِ مستانہ ہے تو ان کی آنکھیں کھل گئیں۔ ۲۱۱؎ میر حسن ہی کی وساطت سے محمد اقبال نے داغ کی شاگردی اختیار کی۔ کچھ غزلیں اصلاح کے لیے بھیجیں، مگر کلام میں ابتداء ہی سے پختگی کا رنگ نمایاں تھا۔ اس زمانے میں جگہ جگہ سے طرحی گلدستے شائع ہو رہے تھے۔ ان میںپیام یار بالخصوص قابل ذکر ہے۔ سیالکوٹ کے ادبی حلقوں میں باقاعدہ پہنچتا۔ یہ طرحی گلدستے جن میں بیشتر کسی ایک طرح کی رعایت سے شعراء کا کلام چھپتا اب نایاب ہے۔ سیالکوٹ سے بھی کئی ایک رسالے اور اخبار شائع ہوا کرتے تھے جو افسوس ہے باوجود تلاش کے نہ مل سکے۔ ان رسالوں اور گلدستوں میں بھی بہت ممکن ہے محمد اقبال کا کلام شائع ہوتا ہو۔ بہر حال رسالہ زبان دہلی میں ان کی جو غزلیں ۹۳ء یا ۹۴ء میں شائع ہوئیں ان کی طرح دو اور غزلوں کا زمانہ بھی تحقیق سے معلوم ہے، دوسری جس کے اس شعر: موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے پر ان کی شاعری کا سکہ بیٹھ گیا۔ پھر ۱۸۸۶ء ہی میں محمد اقبال نے ابو سعید محمد شعیب کے رسالہ مختصر العروض کے لیے ایک قطعۂ تاریخ کہا جس کا یہ پہلا شعر یہ ہے: مصنف جب کہ ایسا ہو رسالہ کیو ں نہ ہو ایسا گہر باری تقاضا ہے مزاج ابر نیساں کا اور تعارف ان الفاظ میں کرایا گیا: ’’شاعر با کمال ، ناظم عالی خیال جناب منشی محمد اقبال صاحب اقبال۔ شاگرد جناب داغ دہلوی متعلم بی۔ اے۔ کلاس گورنمنٹ کالج، لاہور۔۲ ۲۱؎ تعارف سے یہ بات بھی ظاہر ہو جاتی ہے کہ محمد اقبال کا شمار زمانہ طالب علمی ہی میں شعرائے باکمال میں ہو رہا تھا۔ مولانا شعیب اس زمانے میں اوریئنٹل کالج میں عربی کے معلم تھے ایک طرح سے محمد اقبال کے بزرگوں میں شامل۔ بایں ہمہ انھوں نے محمد اقبال کا ذکر کس احترام سے کیا ہے ۔ ثانیاً محمد اقبال میر حسن کے زیر تربیت شعر کے حسن و قبح اور فن شاعری کے لوازم سے تمام و کمال واقف ہو چکے تھے۔ یہ عروض میں ان کی مہارت تھی جس کی بنا پر عربی کے ایک فاضل نے ان سے اپنے رسالے کی تاریخ کہلوائی جس میں صفت یہ رکھی گئی کہفصاحت، بلاغت ، لیاقت اور ذہانت کا دل یعنی الف لے کر مادۂ تاریخ کے اعداد میں ۷اعداد ادب کے شامل کیے۔ تاریخ ہو گئی۔ دکھا کر یہ کتاب بے بہا دل چھین لیتا ہوں وضاحت کا بلاغت کا لیاقت کا ذہانت کا ادب کے ساتھ سالِ طبع پھر یوں عرض کرتا ہوں جزاک اللہ لکھا ہے یہ رسالہ مختصر کیسا بہر حال ۱۸۹۰ء سے ۱۸۹۵ء تک انھوں نے جو کچھ کہا اس کی سنینی ترتیب بجز دو چار، غزلوں کے نا ممکن ہے ۔یہاں یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ جو غزلیں ۹۳ ء یا ۹۴ء میں شائع ہوئیں ممکن ہے ۹۳ء اور ۹۴ سے پہلے کہی گئی ہوں۔ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ ان کی شاعری کے اس دس سالہ دور کے بارے میں ہماری معلومات بڑی محدود ہیں۔ دو غزلوں کا زمانہ رسالہ زبان دہلی کی بدولت معلوم ہوا۔ دو اور ایک اور کار سالہ محشر، عبدالقادر اور حکیم احمد شجاع کے بیانات سے۔۳ ۲۱؎ مختصر العروض کی تاریخ کا قاضی افضل کے مضمون سے۔ بانگ درا میں البتہ سنینی ترتیب کا لحاظ رکھا گیا ہے ۔ لیکن اس کے مختلف، حصوں بالخصوص حصہ اول میں ۱۹۰۰ء سے ۱۹۰۵ء تک کا پورا کلام شامل نہیں حتیٰ کہ ’نالۂ یتیم‘ اور’ فریادِ اُمت‘ ایسی نظمیں بھی، جن کی نذیر احمد اور حالی نے داد دی اور جن میں اہل نظر کو مستقبل کے ایک عظیم شاعر کی جھلک نظر آ رہی تھی، بانگ درا سے خارج کر دی گئیں۔ پھر کتنی اور نظمیں ہیں جن کی اہمیت کچھ کم نہیں مثلاً یتیم کا خطابِ ہلال عید سے یا اسلامیہ کالج کا خطاب یا خیر مقدم یا وہ جن کے اب عنوان ہی محفوظ ہیں۔ مثلاً دین و دنیا، زبان حال۔ ان نظموںکو بھی بانگ درا میں جگہ نہ ملی ۔ مصلحتیں کچھ بھی ہوں۔ یہ نظمیں مخزن کے علاوہ جزواً جزواً کسی نہ کسی مجموعہ کلام میں شائع ہو چکی ہیں۔ محمد اقبال کی عظمت فن اور خیالات و تصورات کی بتدریج نشوونما کے مطالعے میں جن کی داغ بیل بہت پہلے پڑچکی تھی اور جو رفتہ رفتہ ایک مخصوص فکر کی شکل میں واضح اور متعین ہوتے چلے گئے نہ صرف اہم بلکہ حد درجہ دلچسپ اور سبق آموز ہیں۔ راقم الحروف کی رائے میں تو اس سارے کلام کو اس نہج پر ترتیب دینا چاہیے کہ محمد اقبال وقتاً فوقتاً جو کچھ کہتے رہے، انھوں نے جس رنگ میں جن خیالات کا اظہار کیا اور پھر ان میں حک و اضافہ، علیٰ ہذا ردو بدل ہوتا رہا۔ سنینی اعتبار سے ہمارے سامنے آ جاتے ہم سمجھ لیں ایسا کیوں ہوا۔ ورنہ ہو یہ رہا ہے کہ ان نظموں کے بانگ درا سے اخراج کے باوجود اقبال کے تنقید نگار ان کے کسی شعر یا اشعار سے بعض ایسی باتوں پر استدلال کرتے ہیں جو ہرگز صحیح نہیں۔ چنانچہ سوانح نگار کو اس قسم کے غلط استدلات سے بار بار سابقہ پڑا۔ میری رائے میں تو بانگ درا کیا بعد کے دوا وین میں بھی کہ شاعر کہنے کو بہت کچھ کہہ جاتا ہے۔ کلام کا انتخاب ضروری ٹھہرتا ہے جس کا اندازہ ان مسودات سے جن کو راقم الحروف نے ارمغان حجاز کی تسوید میں بار ہا دیکھا اور جو کبھی منظر عام پر آئے بخوبی ہو جائے گا۔ انتخاب ضروری تھا انتخاب ہوا تو بعض عمدہ اشعار نظر انداز ہو گئے۔ وجہ کچھ بھی ہو بال جبریل کی اشاعت پر جب میں نے عرض کیا یہ شعر: عرضۂ محشر میں میری خوب رسوائی ہوئی داورِ محشر کو اپنا راز داں سمجھا تھا میں کیا آپ نے خود ہی خارج کر دیا؟ فرمایا نہیں، اسے محفوظ کر لو۔ ایسے ہی کچھ اور اشعار ہیں جن کا ذکر آگے چل کر کسی مناسب موقع پر آئے گا۔ کہنا بہر حال یہ ہے کہ شاعر کی اپنی رائے پسند اور ناپسندیدگی کے علاوہ مخلصین اور معتقدین کے مشوروں سے وہی کچھ ہوا جو غالب سے۔ غالب کے کلام کے ایک حصے کو بھی بسبب ، عجلب یا کسی اور وجہ سے منتخب دیوان میں جگہ نہ ملی، حالانکہ اسے دیوان میں شامل رہنا چاہیے تھا جیسا کہ نسخۂ حمیدیہ کے مطالعے سے تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ بانگ درا کی صورت میں بھی یہی کچھ ہوا۔ یہاں ایک دوسری بات کی طرف بھی جس سے ایک گونہ غلط فہمی پیدا ہوئی۔یا پیدا کر دی گئی، اشارہ کر دینا ضروری ہے اور وہ ہے ان کی فارسی شاعری کا معاملہ۔ کہا جاتا ہے انھوں نے فارسی میں شعر کہنا اس وقت شروع کیا جب ایک واضح مقصد ان کے سامنے آیا۔ یعنی ۱۹۱۱ء میں، یا اس سے کچھ پہلے جب حضرت قلندر کے تتبع میں وہ اپنے والد ماجد کی فرمائش پر ایک مثنوی لکھ رہے تھے۔ حالانکہ لاہور کے ابتدائی زمانہ میں تو یقینا سیالکوٹ کے زمانہ طالب علمی ہی میں اس کا آغاز ہو چکا تھا۔ یہ دوسری بات ہے کہ ایک ایسی زبان میں جس سے انھیں فطری مناسبت تھی وہ ابتداء میں محض شوقیہ شعر کہتے ہوں، یا یہ فطری مناسبت آپ ہی آپ فارسی میں شعر کہلوانے لگی جسے محمد اقبال ابتداء میں کوئی اہمیت نہ دیتے۔ بہت کم احباب سے ذکر کرتے۔ یوں بھی مشاعروں کی زبان اُردو تھی۔ مشاعروں میں اُردو کلام ہی سناتے۔ یہ خیال ہی نہیں تھا کہ فارسی زبان کا شاعر بنیں۔ لیکن ۱۹۰۵ء سے پہلے وہ فارسی میں نہایت اچھی غزلیں کہہ چکے تھے۔ مثلاً منشی صاحب سراج الدین کی بھیجی ہوئی انگشتریوں کے شکریے میں فارسی کا ایک طویل قطعہ اور وہ نظم جس کا عنوان ہے ’اسلامیہ کالج کا خطاب پنجاب سے، جسے محمد اقبال نے ۱۹۰۳ء میں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں پڑھا اور جو اس امر کی دلیل ہے کہ ۱۹۰۳ء تک انھوں نے فارسی زبان میں شعر گوئی پر اتنی قدرت حاصل کر لی تھی کہ بلا تکلف اتنی بڑی نظم کہہ ڈالی۔ لیکن یہاں تعجب خیز امر یہ ہے کہ اس غلط فہمی کی ذمہ داری جس کا تعلق محمد اقبال کی فارسی شاعری سے ہے کس پر رکھی جائے۔ کیا عبدالقادر پر؟ ہرگز نہیں۔ بانگ درا کے دیباچے میں وہ لکھ چکے تھے، فارسی میں شعر کہنے کی رغبت اقبال کی طبیعت میں کئی اسباب سے پیدا ہوئی ہو گئی…جس چھوٹے سے واقعے سے ان کی فارسی گوئی کی ابتداء ہوئی وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ وہ ایک دوست کے ہاں مدعو تھے جہاں ان سے فارسی اشعار سنانے کی فرمائش ہوئی اور پوچھا گیا وہ فارسی اشعار بھی کہتے ہیں یا نہیں۔ انھیں اعتراف کرنا پڑا کہ سوائے ایک آدھ شعر کہنے کے فارسی لکھنے کی کوشش نہیں کی۔ مگر کچھ ایسا وقت تھا اور اس فرمائش نے ایسی تحریک ان کے دل میں پیدا کی کہ دعوت سے واپس آ کر بستر پر لیٹے ہوئے باقی وقت وہ شاید فارسی اشعار کہتے رہے اور صبح اٹھتے ہی مجھ سے ملے تو دو تازہ غزلیں فارسی میں تیار تھیں۔۲۱۴؎ میرا خیال ہے شیخ صاحب بسبب قلیل الفرصتی محمد اقبال کی فارسی شاعری کا معاملہ کھول کر بیان نہیں کر سکے۔ انھوں نے یہ نہیں لکھا دعوت کس دوست کے یہاں تھی اور کب؟ ۱۹۰۵ء سے بہر حال پہلے ۔ مخزن، جنوری ۱۹۰۵ء میں انھوں نے محمد اقبال کی ایک نظم بعنوان ’سپاس امیر‘ شائع کی۔ تمہیداً لکھتے ہیں’’ذیل کی نظم درج کر کے ہم ان احباب کے تقاضوں سے سبکدوش ہوتے ہیں جو پروفیسر اقبال صاحب کے فارسی کلام کے لیے بے حد اشتیاق ظاہر کرتے ہیں ۔ فارسی نظمیں عموماً مخزنمیں درج نہیں ہوتیں، تا ہم احباب کے اصرار سے ہم اسے ہدیۂ ناظرین کرتے ہیں۔ یہی نظم بہ اظہار عقیدت شیخ صاحب صبح کے وقت پڑھا کرتے ہیں‘‘۔ اظہار عقیدت کا تعلق جناب امیر جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہوتا ہے حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے ہے ۔ پیام مشرق میں اس نظم کا صرف دوسرا بند شامل کیا گیا۔ مخزن کا یہ شذرہ اس امر کا ثبوت ہے کہ محمد اقبال ۱۹۰۵ء تک فارسی میں بہت کچھ کہہ چکے تھے۔ دراصل شیخ صاحب وہی کچھ کہنا چاہتے تھے جو محمد اقبال نے آگے چل کر کہا کہ فارسی زبان کو انھوں نے اپنی شاعری کے لیے اختیار کیا تو اس لیے کہ ان کی شاعری عالم اسلام کے لیے ایک پیغام کا کام دے اور یہ پیغام فارسی زبان ہی میں دیا جا سکتا تھا۔ شیخ صاحب نادانستہ یہ کہہ گئے کہ محمد اقبال کی فارسی شاعری کا آغاز ایک اتفاقی امر تھا۔ شیخ صاحب کے لیے تو اتفاقی لیکن محمد اقبال بہت پہلے حتیٰ کہ سیالکوٹ ہی سے فارسی میں شعر کہہ رہے تھے۔ گویا فارسی آپ ہی آپ ان کی زبان بن رہی تھی۔ ۱۸۹۰ء سے لے کر ۱۹۰۰ء تک محمد اقبال نے جو کچھ کہا اگر اسے ان کی شاعری کے ابتدائی دور سے تعبیر کیا جائے تو ہم اسے یہ کہہ کر بھی کہ ابتداء ہر حالت میں ابتداء ہوتی ہے ابتداء کو انتہا کے مقابلے میں کیسے لایا جا سکتا ہے ، نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اس ابتدائی دور میں بھی ان کا شمار ہندوستان کے بڑے بڑے شاعروں میں ہونے لگا تھا۔ گو ابھی رنگ سخن وہی تھا جو اس زمانے میں عام طور پر غزل کا،لیکن اس کے باوجود تکلف اور تصنع سے خالی۔ نہ قافیہ پیمائی ہے، نہ خیال آرائی۔ یہ کلام ایک ایسے نوجوان شاعر کا ہے جس نے ابھی ابھی بزم سخن میں قدم رکھا تھا۔ جس کے دل و دماغ کو شاعری سے طبعی مناسبت تھی۔ جو اس کی قدرت بیانی اور حسن ادا کا آئینہ دار ہے۔ جس میں آمد ہی آمد ہے۔ آورد نہیں ہے بیساختہ پن ہے۔ سادہ سے جذبات ہیں۔ ان میں شوخی بھی ہے، رندی بھی مضمون آفرینی بھی۔ یہ زمانہ محمد اقبال کے عنفوان شباب کا تھا۔ محمد اقبال کا دل بھی حسن و عشق کی رنگینیوں کی طرف کھنچتا۔ محمد اقبال کا گزربھی ان مشاہدات اور تجربات سے ہو رہا تھا جو اس عمر کا خاصہ ہیں۔ وہ اپنے احساسات اور تاثرات کا اظہار غزل ہی میں کر سکتے تھے۔ پھر یہ اس زمانے ہی کی نہیں اسلامی مشرق کی صدیوں سے روش تھی کہ ہم اپنے احوال و واردات ، خیالات اور تصورات کی ترجمانی غزل میں کریں۔ شاعری گویا سمٹ کر غزل میں آ گئی تھی۔ محمد اقبال نے بھی ایسا ہی کیا۔ محمد اقبال کی شاعری کا آغاز بھی غزل سے ہوا۔ لیکن ان کے فکر ووجدان کا تو اس دور میں بھی اظہار ہونے لگا تھا۔ اس دور کی غزلوں میں بھی ان کا احساس ذات اُبھر رہا ہے، شعور میں گہرائی اور نظر میں وسعت پیدا ہورہی ہے۔ حتیٰ کہ عارفانہ اور صوفیانہ مضامین کے ساتھ ساتھ وہ اشعار بھی ہیں جن کا سر چشمہ ہے ایمان و یقین ، جن میں کہیں کہیں مستقبل کے شاعر کی جھلک نظر آ جاتی ہے۔لیکن ابتداء بہر حال ابتداء ہے۔۱۹۰۰ء میں یہ ابتداء انتہا کو پہنچ گئی۔ محمد اقبال کی شاعری کے دور اول کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔ بانگ درا کا حصہ اول ، ۱۹۰۰ء تا ۱۹۰۵ء جس سے محمد اقبال کی شاعری کا باقاعدہ آغاز ہوا ۴۹ نظموں پر مشتمل ہے۔ غزلیں ان کے علاوہ ۔ نظموں میں کچھ بچوں کے لیے لکھی گئیں،کچھ جذبہ حب الوطنی اور کچھ مناظر فطرت کے زیر اثر۔ بعض کی نوعیت ملی ہے۔ بعض کا موضوع زندگی، انسان، کائنات کچھ اپنی ذات ، کچھ اپنے احوال اور واردات کے بیان میں۔کچھ ترجمے ہیں۔ ایسے کامیاب کہ ان پر اصل کا گمان ہوتا ہے۔ اس معاملے میں نادر مرحوم ہی ان کے قریب پہنچے ہیں۔ بچوں کی نظمیں اگرچہ ماخوذ ہیں۔ بجز ’ایک پرندے کی فریاد‘ کے، مگر انھیں بھی اس خوبی سے اُردو کے قالب میں ڈھالا ہے، زبان ایسی سلیس اور سادہ ہے ، بچوں کی نفسیات کے عین مطابق کے بچے ان کو آسانی سے سمجھ لیتے ہیں۔ مزے لے لے کر پڑھتے ہیں۔ بڑے بوڑھے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ گویا ان نظموں کی وہ کیفیت نہیں جو عام طور پر بچوں کے لیے لکھی گئی نظموں کی ہوتی ہے۔ ان میں بچوں کے اخلاق و عادات اور دل و دماغ کی پرورش کے لیے اتنا کچھ موجود ہے کہ استاد چاہے تو تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ آئندہ زندگی کے لیے بھی ان کے ذہن کا رُخ بڑے بڑے عزائم اور مقاصد کی طرف موڑ دے ۔ مکڑا کیسا عیار ہے۔ مکھی کو خوشامد پسندی موت کے منہ میں لے گئی۔ گلہری نے سچ کہا تھا دنیا میں کوئی چھوٹا ہے نہ بڑا۔ بکری کی نصیحت بھی کیا خوب ہے کہ گائے کو محنت مشقت تو کرنا پڑتی ہے مگر اس کے عوض اس کی دیکھ بھال بھی ہو رہی ہے۔ سچ کہا ہے جس نے کہا، دکھ کے بعد سکھ ۔ جگنو کی مثال سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ ہمدردی کے معنی ہیں دوسروں کی بلا مزد خدمت ، رہی دعا سو ارض پاک و ہند کا شاید ہی کوئی مدرسہ ہو جہاں تعلیم سے پہلے یا کسی تقریب کی ابتداء میں اس نظم کو پڑھانہ جاتا ہو اور شاید اب بھی کہیں پڑھی جاتی ہے۔ اس کی بحر بھی کیا خوب ہے۔ دھن بھی کیسی خوب کہ بچے آپ ہی آپ اسے الاپتے ہیں۔ سننے والے لطف اٹھاتے ہیں۔ بیگم بھوپال، نواب سلطان جہاں بیگم دستر خوان پر بیٹھی ہیں۔ طرح طرح کے خوان نعمت سامنے رکھے ہیں۔ ان میں پرندوں کا گوشت بھی ہے۔ کچھ بھنے ہوئے پرند بھی۔ کچھ نو گرفتار پنجروں میں بند شاید پاس ہی رکھے ہیں۔ محمد اقبال کا ذکر تھا، یا نہیں معلوم کیسے اور کیوں کسی کی زبان پر ’’ایک پرندے کی فریاد‘‘ کے چند اشعار آ گئے۔ بیگم صاحبہ سن رہی تھیں: آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ گزرا ہوا زمانہ کسے یاد نہیں آتا۔ قید و بند کی بھی تو ایک ہی شکل نہیں کہ انسان پرندوں کی طرح قفس میں بند ہو۔ ایک لحاظ سے ساری زندگی قید ہی قید ہے۔ بقول مرزا غالب: قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں ایک قید سے ذہن دوسری قید کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ قید سے رہائی کون نہیں چاہتا۔ بیگم صاحب نے فرمایا پوری نظم سنیں گی۔ نظم سنی تو اس قدر متاثر ہوئیں کہ حکم دیا ان کے یہاں جتنے پرند ہیں سب کو آزاد کر دیا جائے۔ تعمیل حکم میں دیر نہیں لگی پنجروں کے در کھول دیے گئے۔ پرند پھڑ پھڑائے باہر نکلے۔ آسمان کا رخ کیا اور اڑ گئے۔یہ تھا محمد اقبال کی شاعری کا ایک ادنیٰ ساکرشمہ۔ ۲۱۵؎ محمد اقبال نے بچوں کی نظمیں کیوں لکھی۔ ان سے شاید ایسی کوئی فرمائش بھی نہیں کی گئی۔ مگر ان نظموں سے گوما خوذ ہیں جہاں خود ان کے ذہن کی ترجمانی ہوتی ہے۔ وہ کیا بن چکے تھے کیا بن رہے اور کیا بننا چاہتے تھے، وہاں بچوں کی تعلیم و تربیت سے ان کی دلچسپی کا یہ عالم کہ ان نظموں کے ذریعے گویا اپنی سوچ ان کے دل میں ڈال رہے ہیں۔ چاہتے ہیں ان میں زندگی کا شعور پیدا ہو۔ کچھ بننے کی آرزو، عزائم، مقاصد۔ وطن سے محمد اقبال کو بڑی محبت ہے۔ ہندوستان جنت نشان ہے۔ کیسا عظیم، کس قدر وسیع، کیسا خوبصورت۔ اس کی وسعتوں نے کیا کچھ اپنے اندر نہیں لے رکھا۔ بڑے بڑے دریا، طویل و عریض میدان، بلند و بالا کو ہستانی سلسلے ۔ جنگل ،صحرا، مرغزار۔ ہندوستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ ہندوستان میں دولت ہی دولت ہے۔ محمد اقبال نے ابھی پنجاب کے دو ایک شہروں ہی میں قدم رکھا تھا۔ ہندوستان کے اطراف و اکناف میں کہیں نہیں گئے تھے۔ لیکن ان کا گزر خیال ہی خیال میں اس کے اضلاع و اقطاع سے ہو رہا تھا۔ سوچتے تھے قدرت نے اسے کیسی کیسی نعمتیں عطاکی ہیں۔ قدرت اس پر کس قدر مہربان ہے۔ یہاں کیا نہیں ہے۔ سر سبزی، شادابی، ہر ے بھرے کھیت، لہلہاتی ہوئی فصلیں۔ حسن مناظر فطرت کی رنگینیاں ۔ ان کا تنوع، گوناں گونی، سمندر، ساحل، وادیاں اور ہمالہ! گودی میں کھیلتی ہیں اس کی ہزاروں ندیاں گلشن ہے جن کے دم سے رشکِ جناں ہمارا وطن کی محبت کس دل میں نہیں ہوتی۔ مگر ایک ایسے ملک کی محبت جو صدیوں سے ہمارا وطن ہے، جس کا ماضی بڑا عظیم تھا۔ جس کے حال نے دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کر رکھا تھا اس ملک کی محبت کیوں سر د پڑ گئی۔ ہمارے جذبہ حب کو کیا ہوا۔ حب الوطنی کا تقاضہ ہے ، اتحاد ، ارتباط، خیر خواہی، رواداری۔ لیکن یہاں تعصب اور تنگ دلی ہے۔ یہ وصل ہے یا ’’قرب فراق آمیز‘‘ ہم ایک دوسرے کے دوست ہیں، یا دشمن ۔ کیا ہیں؟ شمشاد گل کا بیری گل یاسمین کا دشمن ہو آشیاں کے قابل یہ وہ چمن نہیں ہے محمد اقبال نے وطن کو اس حال میں دیکھا۔ تعصب، تنگ نظری اور نزاع وجدال کی اس فضا کو جو ملک میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہر کہیں چھا رہی تھی تو اس کے تباہ کن نتائج کا دکھ بھرا احساس ایک ’’صدائے درد‘‘ بن کر ان کے دل سے نکلا۔ انھوںنے با فسوس کہا: کب زباں کھولی ہماری طاقتِ گفتار نے پھونک ڈالا جب چمن کو آتشِ پیکار نے محمد اقبال کے دل میں آزادی کی تڑپ تھی۔ وطن کو آزاد، خوش حال اور فتنہ اور فساد سے پاک دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کا دل اس کی غلامی پر کڑھتا۔ غلامی نے اسے رہنے کے قابل نہ رکھا: چمن میں آہ کیا رہنا جو ہو بے آبرو رہنا محمد اقبال نے ’’تصویر درد‘‘ لکھی ۔ خطاب اہل وطن سے ہے۔ ہندوئوں اور مسلمانوں سب سے۔ ہم کیوں نہیں سوچتے ہمارا گزر کن حالات سے ہو رہا ہے۔ زمانہ کدھر جا رہا ہے۔ فطرت کیا چاہتی ہے۔ قوموں کی زندگی کیا ہوتی ہے۔ ہمارا سیاسی شعور بیدار نہ ہوا تو کیا ہو گا۔ یہ غفلت اور کم نگہی ، یہ حقائق سے بے خبری جس طرح پہلے نکبت و ادبار کی طرف لے گئی بعینہ آج بھی نحوست اور ہلاکت ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے۔ ہمارے لیے خطرات ہی خطرات ہیں: چھپا کر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں یہ غفلت اور بے خبری! تابکے کاش ہماری نگاہیں وطن پر ہوتیں۔ ہم دیکھتے وطن کس حال میں ہے۔ محمد اقبال کو بافسوس کہنا پڑا میرے اہل وطن کے دل میں کچھ فکر وطن بھی ہے ’’تصویر درد‘‘ محمد اقبال کی سیاسی بصیرت محمد اقبال کی وطن دوستی، محمد اقبال کی وسیع المشربی کا ناقابل انکار ثبوت ہے۔ محمد اقبال نے انسان اور انسانیت کے نام پر، اخلاق اور روحانیت کا واسطہ دے کر ، سیاست اور جہاں بانی کی حقیقی روح کے حوالے سے ان خیالات کو چھیڑا، ان قدروں کو ابھارا جن سے زندگی کا حسن قائم ہے ۔ جو قوموں کی تقویم کا راز ہیں۔ جن کا تقاضا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جس کے رگ وریشے میں انسان کی انسان کے لیے درد مندی اور دلسوزی کی روح سرایت کر گئی ہو۔ جس کا خمیر محبت سے اٹھایا جائے: شراب روح پرور ہے محبت نوعِ انساں کی محبت ہی انسان کے دکھ درد کی دواہے۔ محبت ہی فساد اخلاق اور آلام و اسقام روحانی کے لیے نسخۂ شفا۔ محبت ہی ہماری نفسیاتی بیماریوں، ہمارے نزاع و جدال کا مداوا، محبت ہی وہ اکسیر ہے جس سے افراد ہوں، یا اقوام ان کے زنگ آلود قلوب میں جلا پیدا ہوتی ہے اور یہی اکسیر اہل وطن کی سب سے بڑی ضرورت: محبت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے کیا ہے اپنے بخت خفتہ کو بیدار قوموں نے ’’تصویر درد‘‘ ہو یا محمد اقبال کی نام نہاد قومی اور وطنی نظمیں۔ آج ان کی تعبیر کسی رنگ میں کی جائے یہاں اس سے بحث نہیں۔ بحث ہے تو ا س امر سے کہ یہی نظمیں ہیں جن سے نواجوانوں کا احساس قومی بیداری ہوا۔ ان کے دل میں حب الوطنی کے جذبات کو تحریک ہوئی۔ یہ سوچ ابھری کہ ملت و مذہب کا امتیاز اپنی جگہ پر مسلم، مگر ہندوستان کا مستقبل کسی ایسے سیاسی نصب العین سے وابستہ ہے جو انسان اور انسانیت کے شایانِ شان ہو۔ لیکن ہم میںنزاع و جدال ہے کیوں؟ کیا اس کی بنا ہے، مذہب: مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستان ہمارا ہندوئوں کا، مسلمانوں کا ، ہر اس شخص کا عیسائی ہو، یہودی ہو، یا پارسی اس کا ۔ محمد اقبال نے نیا شوالہ لکھا۔ روئے سخن ہندوئوں کی طرف ہے۔ہندوئوں کو انھیں کے اخلاقی اور روحانی آدرشوں کے نام سے یاد دلایا کہ دیش بھگتی کی ریت میں اگر شکتی کے ساتھ شانتی بھی ہے تو شانتی کا تقاضا ہے پریت ۔ دیش بھگت نہیں بھولیں: بھارت کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے محمد اقبال نے’ ترانۂ ہندی‘ لکھا۔ کیسا دل کش، کیسا ولولہ انگیز جس کا جواب آج تک نہ ہو سکا۔’ ترانۂ ہندی‘ نے ان خیالات اور ان جذبات کی ترجمانی کس خوبی سے کی ہے جو وطن کی محبت میں دلوں کو چھیڑ رہے تھے لیکن جن کے اظہار کا کوئی راستہ نہیں ملتا تھا ۔’ ترانۂ ہندی‘ کی اُردو تو کیا ہندوستان کی کسی زبان میں مثال نہیں ملتی ۔ ہندوستانی بچوں کا قومی گیت بھی ایسا ہی ایک ترانہ ہے۔ گیت کا گیت اور ہندوستان کی عظمت، اس کی تہذیبی، ذہنی اور روحانی سر بلندی کی داستان۔ہندوستان کے حسن و دل کشی کا کیا کہنا: رفعت ہے جس زمیں کی بامِ فلک کا زینا جنت کی زندگی ہے جس کی فضا میں جینا جس کا ماضی بڑا عظیم تھا۔ علم و حکمت کی کیسی کیسی بلندیاں تھیں جو اس نے طے نہیں کیں۔ دنیا نے اس سے کیا کچھ نہیں لیا: یونانیوں کو جس نے حیران کر دیا تھا سارے جہاں کو جس نے علم و ہنر دیا تھا جہاں ترک آئے، تاتاری آئے،ایرانی آئے۔ پارسی غریب الوطن تھے مگر کس آب و تاب سے چمکے: ٹوٹے تھے جو ستارے فارس کے آسماں سے پھر تاب دے کے جس نے چمکائے کہکشاں سے جہاں وحدت کی لے اٹھی۔ جس نے نانک کا گیت سنا۔ جہاں خواجہ اجمیر پیغام حق لے کر آئے۔ جس کا مسلمانوں نے قافلہ در قافلہ رُخ کیا۔ جس سے اسلام کو بڑی توقعات ہیں: میر عربؐ کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے محمد اقبال نے یہ گیت کچھ ایسے میٹھے سروں میں گائے۔ ان میں کچھ ایسا خلوص اور صداقت تھی۔ لحن ایسا دل کش کہ سننے والوں کے دلوں میں اتر گئے۔ محمد اقبال کی ان نظموںنے دلوں کو گرمایا۔ حب الوطنی کا ایک نیا جذبہ پیدا کر دیا۔ وہ جذبہ جس کی روح خالصاً انسانی تھی۔ لہٰذا ہندو ہوں، یا مسلمان ان نظموں کو دلی شوق سے پڑھتے۔ محمد اقبال کی حب الوطنی ہر کہیں اعتراف ہونے لگا۔ ان کی ہر دلعزیزی اور قدرومنزلت بڑھتی چلی گئی۔ شہرت کا یہ عالم کہ اطراف و اکناف ہند میں پھیلتے پھیلتے راس کماری تک جا پہنچی۔ ’ترانۂ ہندی‘ ایسا مقبول ہوا کہ سرکار نظام کے ایک اہل کار نے اسے نیل گری کی پہاڑیوں میں چرواہوں سے گاتے سنا۔ ۲۷-۱۹۲۶ء میں پنڈت مدن موہن مالویہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی آئے۔ بچوںنے ان کا خیر مقدمہ’ ترانۂ ہندی‘ سے کیا۔ پنڈت جی کی یہ کیفیت تھی کہ ایک ایک شعر پر جھومتے۔ دونوں ہاتھ آسماں کی طرف اٹھاتے۔ ہلا ہلا کر بار بار اشارہ کرتے؛ پڑھو، پھر پڑھو۔ عطیہ بیگم کہتی ہیں: ’’۳ جولائی ۱۹۰۷ء ۔ آج لندن میں ایک مذاکرے کا اہتمام تھا جس میں لندن میں مقیم بہت سے ہندوستانی شریک ہوئے کچھ خطوں اور ایک مجلے مخزنکا ذکر کیا۔۲۱۶؎ پھر اس مجلے کے کچھ گیت سنائے۔ یہ حب الوطنی میں اقبال کی نظمیں تھیں جو اس نے کہا سارے شمالی ہندوستان میں پڑھی جاتی ہیں۔ گھر، بازار، گلی کوچے ان قومی گیتوں سے گونج رہے ہیں۔ ان سے قومیت کا وہ احساس پیدا ہوا جس سے ہندوستان اس سے پہلے نا آشنا تھا۔ پرمیشور لال کی ان باتوں سے مجمع اس قدر جوش میں آیا کہ سب نے مل کر مخزن کے ان گیتوں کو گانا شروع کر دیا۔ ہال اقبال کے اشعار سے گونج اٹھا۔‘‘ ۲۱۷؎ یہاں اس امر کا ذکر بھی خالی از دلچسپی نہ ہو گا کہ اس صدی کے دوسرے عشرے میں ایک جرمن مصنف نے ہندوستان کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تو اس کی ابتداء محمد اقبال کی نظم ’ہمالہ‘ سے کی۔۲۱۸؎ یہ محمد اقبال کے کلام کا شاید اولیں ترجمہ ہے جو کسی غیر زبان میں ہوا، جرمن میں۔ اندازہ کیجیے اس جرمن مصنف نے ہندوستان کا تعارف اپنے اہل ملک سے کرایا تو اسے محمد اقبال کی اس نظم سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں ملی جس سے وہ اپنی کتاب کی ابتداء کرتا۔ مناظر فطرت میں محمدا قبال کے لیے بڑی کشش ہے۔ عالم فطرت کی منظر کشی یا اصلاحاً قدرتی شاعری میں ’’ہمالہ‘‘ محمد اقبال کی پہلی نظم ہے۔ محمد اقبال نے بالائے قلعہ سیالکوٹ سے جب ان کی نگاہیں شمال مغربی جانب میں پھیلے ہوئے سلسلۂ کوہ اور اس کی برف پوش چوٹیوں کو دیکھتیں اگرچہ خیال ہی خیال میں ہمالہ کا نظارہ کیا تھا۔ لیکن ان کی قوت متخیلہ کا یہ عالم ہے، محرکات کی یہ خوبی جیسے ہمالہ اپنی ساری دل کشی اور گو نا گوں مناظر کو لیے ان کے سامنے ہے۔ حتیٰ کہ قاری کی آنکھوں میں بھی ہمالہ کی فلک بوس چوٹیوں ، ہوائوں کے طوفانوں، برف کے ریلوں، گھنے جنگلوں، سر سبز اور شاداب وادیوں، ان کی رنگین فضائوں، پھلوں پھولوں ، ندیوں اور آبشاروں کی تصویر پھر جاتی ہے۔ محمد قبال ادھر اُدھر بہتی ، پتھروں اور چٹانوں سے ٹکراتی ہوئی نہروں کے سریلے گیت سنتے۔ شام کی خاموشی میں درختوں کو دیکھتے تو ایسا معلوم ہوتا جیسے درخت کسی سوچ میں کھڑے ہیں۔ ان پر تفکر کا سماں چھا رہا ہے۔ درخت کچھ سوچتے ہوں یا نہیں، محمد اقبال ضرور سوچ رہے تھے کہ انسان کی ابتدائی زندگی کس قدر سادہ تھی۔ اس کی ابتداء شایدہمالہ کی وادیوں سے ہوئی۔ یہ ابتدائے آفرینش میں انسان کی سادہ زندگی کا تصور جس پر غازہ رنگ تکلف کا داغ نہ ہو ایک قدرتی مگر رومانی ساجذبہ ہے جو اکثر دلوں میں پیدا ہو جاتاہے۔ محمد اقبال کا جی چاہتا تھا ہمالہ سے اس عہد کی داستان سنیں۔ ذہن بدھ مت کی طرف منتقل ہو گیا: بیخ جس کی ہند میں ہے چین و جاپاں میں ثمر پیروان بدھ کی زندگی کس قدر سادہ تھی۔ آبادیوں سے دور پہاڑوں اور جنگلوں کا رخ کرتے۔ ہر کسی کو سادگی کا سبق دیتے۔ مگر پھر ہمالیہ ہی پر کیا موقوف ہے، محفل قدرت میں ہر کہیں حسن ہی حسن ہے: محفلِ قدرت ہے اک دریائے بے پایانِ حُسن آنکھ اگر دیکھے تو ہر قطرے میں ہے طوفانِ حُسن حسن کہاں نہیں ہے۔ محمد اقبال کی حساس اور فلسفہ پسند طبیعت نے جہاں کہیں حسن و جمال کی جھلک دیکھی ذہن میں فکرووجدان کے دریچے کھل گئے۔ بزم قدرت کی رنگینیوں، اس کی زیبائی اور دل کشی کا نظارہ کیا تو خیال آیا انسان میں یہ حسن ورعنائی کہاں۔ خود ہی سمجھ گئے فطرت کا حُسن اور زیبائی غیر کا محتاج ہے۔ انسان آزاد ہے۔ انسان اپنی حقیقت کو پا لے توسیہ بختی اور سیہ روزی کا شکوہ نہ کرے۔ ابر کو ہسار کو امنڈتے ہوئے دیکھا۔ پہاڑوں اور میدانوں پر چھا گیا۔ دشت ودر میں برسا، جل تھل ہو گیا۔ یہ بات سمجھ میں آئی کہ زندگی نام ہے فیض رسانی کا۔ ماہ نو پر نگاہ پڑی۔ ماہ نو کیا ہے؟ کسی خورشید کا کوئی ٹوٹا ہوا ٹکڑا ، عروس شام کی بالی، طشت گردوں سے شفق کا ٹپکا ہوا خون ؟ نیل کے پانی میں سیم خام کی تیرتی ہوئی مچھلی یا قدرت کے نشتر نے آفتاب کی فصد کھول دی ہے۔ ماہ نو کہاں جا رہا ہے؟ ماہ نو کو نور طلب ہے۔ محمد اقبال بھی نور کے طالب ہیں۔ گل پژمردہ نظر آیا تو معلوم نہیں وہ کیا احساس تھا جس نے ان سے یہ شعر کہلوایا: میری بربادی کی ہے چھوٹی سی اک تصویر تو خواب میری زندگی تھی جس کی ہے تعبیر تو یہی ذات انسانی کی نا تمامی، نارسائی، محرومی اور بے بضاعتی کی آتی جاتی کیفیات کا کوئی لمحہ۔ گل رنگین کیا خوب ہے۔ رنگ وبو کا پیکر ۔ اس کے لیے کوئی پریشانی ہے، نہ عقدۂ مشکل خود آگہی سے محروم سو زبانوں پر بھی چپ۔ گل رنگین کو جمعیت خاطر حاصل ہے۔ انسان جمعیت خاطر سے محروم ہے۔ تلاش و طلب میں سر گرداں۔ اس کے لیے کئی پریشانیاں ہیں، کسی عقدہ ہائے مشکل ۔مگر یہ پریشانیاں، یہ عقدہ ہائے مشکل ہی تو اس کی عقل و فکر کے لیے مہمیز ہیں۔ تو سن ادراک کے لیے خرام آموز۔ آفتاب صبح بھی اگر ہنگامۂ عالم کی زحمت کش نہیں تو نہ سہی۔ اس میں فضیلت کی کیا بات ہے۔ آفتاب بھی تو اپنے آپ سے نا محرم ہے۔ خاک آدم کے ایک ذرے کا ہمسر نہیں۔ انسان ہی وہ ہستی ہے جس کے سینے میں دل ہے۔ جسے نور حقیقت کی آرزو ہے ، جو ذوق طلب کا شناسا ہے، جسے راز قدرت کی جستجو ہے، جس کو درد استفہام ملا ہے ، جو سعی لا حاصل سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ محمد اقبال کو عالم فطرت پر انسان کی برتری کا شعور ہے لیکن عالم فطرت میں بھی زندگی کے لیے کئی سبق ہیں۔ موج دریا کو دیکھیے ۔ تنگیٔ دریا کی شاکی، فرقت بحر میں پریشاں، بہتی چلی جا رہی ہے۔ انسان بھی بایں ہمہ وسعت و پہنائی عالم کون و مکاں میں تنگی محسوس کرتا ہے۔ موج دریا کی طرح منزل مقصود کی طلب میں پریشان ہے۔ صبح کا ستارا شمس و قمر کا ہمسایہ ہے، مگر روز کے طلوع و غروب ، گویا روز کے مرنے جینے سے تنگ آ گیا ہے۔ حیات ابدی کا آرزو مند ہے۔ سوچتا ہے یہ ہوتا، وہ ہوتا، ستارا نہ ہوتا۔ بالآخر معلوم ہوا حیات ابدی کا راز ہے سوز عشق، اس سوز میں مرمٹنا۔ پھر یہ مناظر فطرت کی رنگینیاں، اس کا حسن اور دل کشی ہی تھی جس سے محمد اقبال کے فکر و وجدان کو تحریک ہوتی وہ اس کی ہر شے سے متاثر ہوتے ۔ سوچتے حقیقت کیا ہے؟ اس کے کسی پہلو سے پردہ اٹھاتے۔ اپنے احساسات اور جذبات کی ترجمانی کرتے۔ پروانے کو دیکھا، ذرا سا کیڑا اور روشنی کی تمنا، روشنی پر مرمٹا ہے۔ خیال آیا یہ تمنا تو انسان کے دل میں ہونی چاہیے ۔ بچہ شمع کو تک رہا ہے۔ کس انہماک اور کس حیرت سے۔ شاید کسی دیکھی ہوئی شے کو پہچان رہا ہے۔ ذہن افلاطون کے نظریۂ علم کی طرف منتقل ہو گیا کہ علم عبارت ہے یاد سے۔ انسان کو زندگی ملی۔ زندگی گویا خواب ہے خود فراموشی ہے۔ دیکھی ہوئی شے کو بھول گیا۔ اسے کھو دیا ۔ اب روح اس کھوئی ہوئی شے کو تلاش کر رہی ہے۔ ورنہ شمع کیا کائنات کے ذرے ذرے میں حسن ہے۔ حسن کا جلوہ عام ہے۔ لیکن وہ شے نہیں تو روح کو حسن کے اس عام جلوے میں بھی آرام نہیں۔ طفل شیر خوار نے ہاتھ میں چاقو لے رکھا تھا۔ محمد اقبال نے چاقو چھین لیا کہ اسے گزند نہ پہنچے۔ طفل شیر خوار رونے گا۔ محمد اقبال کو تعجب ہوا یہ بچوں کو دکھ دینے والی چیزوں سے پیار،یہ شرار آرزو، یہ قید امتیاز سے آزادی، یہ ان کے کھلونے ، یہ ان کا بگڑنا، کوئی چھوٹی سی چیز لے کر من جانا۔ یہ تلون، یہ باتیں بچوں ہی سے تو مخصوص نہیں، ہم بھی ایسے ہی تلون آشنا ہیں۔ عارضی لذت کے شیدا۔ ادھر خفا ہوئے ادھر من گئے۔ حسن ظاہری پر جان دیتے ہیں۔ بچوں کی طرح کبھی گریاں، کبھی خنداں ہمیں بھی طفل ناداں ہی کہیے۔ سر شام ایک پرندے کو دیکھا شاخ پر بیٹھا چہچہا رہا تھا۔ جگنو نظر آیا تو اس کی طرف لپکا۔ نہیں سمجھا کہ جگنو کو چمک ملی ہے تو اسے چہک۔ ادھر سوز ہے، ادھر ساز۔ سوز ساز کا حریف نہیں۔ بزم ہستی میں ہر شے دوسری سے ہم آہنگ ہے اور یہی ہم آہنگی اس کے وجود کا سہارا ۔ جگنو کیسی پیاری نظم ہے۔ زبان کی لطافت ، سلاست اور روانی۔’حسن بیان‘ الفاظ کا در و بست ، موسیقیت ۔ موضوع ہے محسوسات کی وحدت ، جس کے لیے کیسی کیسی تشبیہات لائے ہیں۔ کیسے کیسے استعارے۔ محمد اقبال کے کمال فن کی دلیل۔ قدرت نے جگنو ہی کو نہیں ہر شے کو دلیری دے رکھی ہے۔ کہیں چمک ہے ،کہیںتپش ، کہیں رنگین نوائی، کہیں خاموشی، کہیں شفق کی سُرخی، کہیں صبح کا بانکپن، کہیں ہوا کی پرواز ، کہیں پانی کی روانی، موجوں کی بے کلی۔ سب ایک دوسرے سے مختلف ۔ ہمارے لیے وجہ امتیاز: یہ امتیاز لیکن اک بات ہے ہماری جگنو کا دن وہی ہے جو رات ہے ہماری حسن ازل کی جھلک کہاں نہیں ہے۔ یہ کہیں سخن ہے، کہیں چٹک۔ کہیں چمک ہے، کہیں درد کی کسک: یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا واں چاندنی ہے جو کچھ یاں درد کی کسک ہے نغمہ بوئے بلبل ہے، بوپھول کی مہک۔ وحدت کثرت میں گم ہے۔ اختلاف فریب نظر لیکن کیسا ہنگامہ زا، ایسا کیوں ہے؟ محمد اقبال جگنو کی شب تابی سے لطف اندوز ہوئے۔ اس کے لیے ایک نہیں کئی تشبیہیں لائے پھر ان کے فکر و وجدان نے کس خوبی سے فلسفہ اور فلسفہ سے تصوف کا رخ کیا۔ اس تصوف کا جسے فطرت سے تحریک ہوتی ہے اور جس کی تان بالآخر انسان پر ٹوٹتی ہے۔ شمع بھی جگنو کی طرح ایک ایسی ہی نظم ہے۔ لیکن کہیں زیادہ بلند، کہیں زیادہ پر تاثیر اُردو میں اس سے پہلے ایسی کوئی نظم شاید ہی لکھی گئی ہو۔ شاید ہی کہیں فلسفہ اور تصوف کی آمیزش اس خوبی سے ملے۔ زبان ادق نہیں مگر شاعر کا بدلا ہوا لب و لہجہ غالب سے مشابہ ہے۔ پھر اس کا حسن بیان ہے، خیالات کی پختگی،مضامین کی بلندی، سوز و گداز ، فارسی ترکیبات، اشارات اور کنایات۔ پوری نظم اردو کی عام روش سے ہٹی ہوئی۔ عبدالقادر کو اشاعت سے پہلے ایک شذرہ لکھنا پڑا۔ مسئلہ وہی انسان کا ہے، اس کی حقیقت مبداء و منتہا کا جسے محمد اقبال نے ایک نئے انداز میں چھیڑا۔ جو کچھ کہا دل کی گہرائیو ں میں اتر کر اس شدت احساس اور درد و کرب کے ساتھ جسے آشوب آگہی کہیے۔ کچھ کہیے، ذات انسانی کی نا تمامی سے تعبیر کیجیے۔ خیال آیا کہیں بات بڑھ نہ جائے۔ دارو رسن تک نہ جا پہنچے۔ شمع ۱۹۰۲ء میں لکھی گئی۔۱۹۰۰ء تک محمد اقبال غزل ہی لکھ رہے تھے۔ نظم کا آغاز اس سے کچھ پہلے یا ۱۹۰۰ء میں ہوا ۔ محمد اقبال کا گزر دو برس ہی کے اندر شاعری کی کیسی بلندیوں سے ہو رہا تھا۔ ’ایک آرزو‘ بھی شمع کے ساتھ ۱۹۰۲ء ہی میں شائع ہوئی۔ عبدالقادر نے لکھا:’’یہ دو نظمیں جو ہمیں اتفاقاً دستیاب ہو گئیں طرز ادا اور بندش میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ایک غالب مرحوم کے انداز کا نمونہ ، دوسری سبک روی میں برق، سادہ الفاظ کا جامہ پہنے، اضافتوں کے زیور سے خالی…ایک کے خیالات عمدہ اور دقیق…ذہن کو فکر سے دست و گریباں ہونا پڑتاہے۔ معانی ذہن میں آ آکر دامن چھڑاتے ہیں اور پکار پکار کر کہتے ہیں: بیاورید گر این جا بود زبان دانے غریب شہر سخن ہائے گفتنی دارد ایک فلسفہ اور تصوف کے سمندر میں غوطہ زن۔ دوسری تصویر کے پر لگائے کوہ وبیاباں اور باغ و راغ کی سیر میں مصروف ہے…ہم ان دونوں کو یک جا چھاپتے ہیں تا کہ مصنف کے دونوں رنگوں کا اندازہ ہو جائے۔ جب کئی لوگوں نے اقبال کی مشکل پسندی کی شکایت کی … تو انھوں نے جواب دیا’’…جہاں خیالات دقیق اور مشکل ہوں گے وہاں زبان کاآسان ہونا دشوار ہے‘‘۔ پھر قطع نظر اس امر سے کہ ’’ایک آرزؤ‘‘ کا شمار اقبال کی نام نہاد قومی اور وطنی نظموں میں بھی ہو سکتا ہے اس لیے کہ آخری بند میں اہل وطن کے افتراق وشقاق کا شکوہ بحسرت و افسوس کیا گیا ہے۔ پوری نظم محمد اقبال کے کمال فن کا کیسا دلکش نمونہ ہے۔ زبان کی سلاست اور روانی کے ساتھ ساتھ تشبیہات اور محاکات کی خوبی۔پھر تخیل کی بلندی، قدرتی مناظر کی طرح واردات قلب کا ایک خارجی پیکر میں اظہار۔ محمد اقبال اردو شاعری کو ایک نیا پیرایۂ بیان دے رہے تھے۔ ’’درد عشق‘‘ بھی ایک ایسی ہی فکرانگیز نظم ہے جو بہت کچھ قطع و برید کے ساتھ بانگ درا میں شامل کی گئی۔ عشق کا تعلق محمد اقبال کے بنیادی تصورات سے ہے۔ یہ تصور بھی خودی کی طرح کب سے ان کی شاعری میں ابھر رہا تھا، لیکن خودی کی طرح رفتہ رفتہ ہی پورے طور پر متشکل ہوتا۔ محمد اقبال محسوس کرتے ہیں کہ درد عشق کا ہر کوئی اہل نہیں۔ یوںکہیے کہ ہر کوئی عشق کا دعویدار ہے۔ عاشقی ایک رسم ہے، ایسی ہی عام جیسے زندگی۔ شاعری عشق و عاشقی ہی کا بیان ہے۔ ہر مرد و زن کی اپنی اپنی داستان۔ لیکن وہ عشق جو عین زندگی ہے، کہاں ہے۔ اسے کون سمجھتا ہے۔علم بھی اس کی کنہ کو نہیں پہنچتا۔ اس پر یہ دور غرض مندی، یہ خود نمائی۔ یہ دور عشق کے لیے ساز گار نہیں: یہ دور نکتہ چیں ہے کہیں چھپ کر بیٹھ رہ جس دل میں تو مکیں ہے وہیں چھپ کر بیٹھ رہ ’دل‘ فریاد امت کا ایک بند ہے۔ عقل اور دل اس نظم کا قطعہ بند جو محمد اقبال نے پیغام بیعت کے جواب میں بطور ایک خط کے لکھی۔ ان کے بڑے بھائی کا خیال تھا محمد اقبال کو مرزا غلام احمد کی دعوت قبول کر لینی چاہیے۔ یہ نظم طویل ہے اور اس کا جواب جو میر حامد شاہ لکھا۔ میر حسن کے رشتے میں برادر زاد جن کی محمد اقبال بے حد عزت کرتے تھے اور جن سے انھوںنے کچھ انگریزی بھی پڑھی اس سے طویل تر۔ لیکن یہ نظم جس داستان کی کڑی ہے اس کا ذکر آگے آئے گا۔ محمد اقبال جیسے جیسے زندگی میں آگے بڑھے، اس کے بعد دوسرا تجربہ ہوا ۔ بچپن کی یاد آئی۔ کسی واقعے یا مشاہدے نے ان کے دل کو چھیڑا تو انھوںنے اپنے احوال و واردات کی ترجمانی بڑے دل نشیں انداز میں کی۔ چنانچہ بچپن کی یاد آ گئی۔ بچپن میں ماں کی گود ہی ساری کائنات تھی۔ ہر شے نئی معلوم ہوتی تھی۔ رفتہ رفتہ زمین و آسان سے شناسائی بڑھی۔ بگڑتے تو زنجیر در سے دل بہل جاتا۔ پھر جب خود آ گہی کا زمان آیا تو عہد طفلی ختم ہو گیا۔ ایک روز خفتگان خاک سے گزر ہوا۔ وہیں بیٹھ گئے، سوچنے لگے جیسے ان سے خطاب کر رہے ہیں۔ کیا اس دنیا میں بھی جہاں اب ہیں وہ سب کچھ ہے جو اس دنیا میں۔ وہ کچھ کہیں تو شاید اس دنیاکا راز کھل جائے۔ زہد اور رندی کی شان نزول عبدالقادر بیان کر چکے ہیں۔ ایک مولوی صاحب ہیں۔ دیکھتے ہیں محمد اقبال کی زندگی میں تضاد ہی تضاد ہے ۔ نہیں سمجھتے تضاد بھی ایک طرح سے خاصۂ حیات ہے۔ یوں بھی غور کیجئے تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ذات انسانی ایک معمہ ہے۔ محمد اقبال نے غلط نہیں کہا: اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے جیسے آگے چل کر ہے عجب مجموعۂ اضداد اے اقبال تو آرنلڈ نے انگلستان کے لیے رخت سفر باندھا تو محمد اقبال کی طبیعت کئی روز بے قرار رہی۔ نالۂ فراق کے عنوان سے ایک نظم لکھی اور مخزن میں اشاعت کے لیے دی تو اس تمہید کے ساتھ کہ ’’ایک روز تخیل نے آرنلڈ کے مکان کے سامنے لا کھڑا کیا۔ چند اشعار بے اختیار زبان پر آ گئے۔ یہ چونکہ ان کی مراجعت وطن پر تاثرات کا درد انگیز اظہار تھا، لہٰذا اسے کسی جلسے میں پڑھنا مناسب معلوم نہ ہوا۔ آرنلڈ رخصت ہو گئے۔ تو دلی تاثرات کی شدت نے نظم میں بہت سی تبدیلیاں پیدا کر دیں۔۲۱۹؎ پوری نظم اس محبت اور عقیدت کے جذبات بھری تصویر ہے جو انھیں آرنلڈ سے تھی۔ اس کی اشاعت بھی آرنلڈ کی مراجعت کے بعد ہوئی۔ کسی الوداعی جلسے میں پڑھی نہیں گئی۔ محمد اقبال نے ارادۃً ایسا کیا حالانکہ ایک نہیں کئی الوداعی جلسے ہوئے۔ لوگ منتظر رہتے محمد اقبال کوئی نظم پڑھیں گے۔ ’’سر گزشت آدم‘‘ فی الواقعہ سر گزشت آدم ہے۔ بدو تہذیب و تمدن سے لے کر عصر حاضر تک انسان کا گزر کیسے کیسے ادوار سے ہوا۔ تاریخ کی بھول بھلیوں میں کہاں کہاں بھٹکتا پھرا۔ کیسے کیسے فلسفیوں نے کائنات کی گھتی سلجھائی۔ ایک کے بعد دوسرا نظریہ قائم ہوا۔ کبھی مذہب نے اس کی رہنمائی کی، کبھی عقل نے۔ عقائد عقل سے ٹکرائے، کلیسا سائنس سے۔ علم نے برق اور بھاپ پر قابو پا لیا۔ عالم فطرت کی تسخیر کی۔ دنیا جنت بن گئی۔یہ سب کچھ ہوا لیکن راز ہستی کا پتہ نہ چلا ۔ نہ یہ کہ خدا کہاں ہے۔ نظر مظاہرپرست تھی، مگر: ہوئی جو چشمِ مظاہر پرست وا آخر تو پایا خانۂ دل میں اسے مکیںمیںنے آخری بند میں غزل کا سا انداز ہے۔ یہ بند بانگ درا میں شامل نہیں ۔ مثلاً یہ شعر : نہ توڑ میرے دلِ درد مند کو ظالم بڑی تلاش سے پایا ہے یہ نگیں میں نے ایک اور شعر ہے اور کیا خوب: وہ چیز نام ہے جس کا جہاں میں آزادی سنی ضرور ہے دیکھی نہیں کہیں میں نے غزل کا انداز تھا تو مقطع بھی ہو گیا: عجیب شے ہے صنم خانۂ امیر اقبال میںبت پرست ہوں رکھ دی وہیں جبیں میںنے محمد عبدالرحمان خاں کہتے ہیں میں نے یہ نظم ایبٹ آباد میں ان کی زبان سے سُنی۔ مجھے خوب یاد ہے وہ باہر صحن میں بیٹھے بڑے دل کش انداز میں یہ نظم پڑھ رہے تھے۔۲۲۰؎ ابر ایک چھوٹی سی نظم بھی ایبٹ آباد ہی میں لکھی گئی۔ سر بن کی چوٹیاں گھٹائوں سے سیاہ پوش ہو رہی تھیں۔ محمد اقبال نے اس منظر کو دیکھا تو دل جوش نشاط سے بھر گیا۔طبیعت خوش ہو گئی۔ جی چاہا پہاڑوں میں جا نکلیں۔ ’’کنار راوی ‘‘ ایک شام کو لکھی گئی۔ محمد اقبال دریا کے کنارے کھڑے تھے۔ نگاہیں ایک طرف خواب گاہ چغتائی کے میناروں پر تھیں۔ دوسری جانب اس کشتی پر جو سینۂ دریا پر رواں موجوں سے لڑتی آگے بڑھتی جا رہی تھی حتیٰ کہ نظروں سے غائب ہو گئی۔ محمد اقبال نے سوچا موت و حیات کا معاملہ بھی کچھ اس کشتی کا سا ہے کہ موت سے انسان آنکھوں سے اوجھل تو ہو جاتا ہے لیکن اس کی ذات فنا نہیں ہوتی۔ التجائے مسافر درگاہ خواجہ نظام الدین اولیاء میں پڑھی گئی۔ انگلستان جاتے ہوئے، کیسی کیسی آرزوئوں اور تمنائوں کے ساتھ۔ ٹینی سن، لانگ فیلو اور ایمر سن۲۲۱؎ کے ترجمے کیا خوب ہیں۔ ترجموں پر اصل کا گمان ہوتا ہے۔ محمد اقبال ٹینی سن کے قائل تھے ۔ٹینی سن کی نظم عشق کو موت پر برتری حاصل ہے اس قدر پسند آئی کہ اسے اردو میں منتقل کر دیا۔ پیام صُبح کو خفتگان خاک سے استفسار کا مستزاد کہیے۔ ’رخصت اے بزم جہاں‘ کو ایک آرزو کا تکملہ۔ معلوم ہوتا ہے لانگ فیلو بھی نیند کو مرگ سبک سے تعبیر کرتا۔ ۲۲۲؎ صبح ہوتی ہے تو موت زندگی سے بدل جاتی ہے۔ صبح ہر شے کے لیے پیام بیداری ہے ، انسان ،حیوان، کائنات کے لیے ہر شے جی اٹھتی ہے۔ نہیں تو خفتگان خاک۔ وہ اس خواب گراں سے کب اٹھیں گے۔ لانگ فیلو کہتا ہے جب یہ خواب گراں سب کو آ لے گی۔ کس خوبی سے قیامت کی طرف اشارہ کیاہے۔ ایک آرزو میں محمد اقبال کو گوشۂ عزلت کی طلب تھی۔ جی چاہتا تھا عالم فطرت میں کہیں کنج تنہائی مل جائے۔ اس کے حسن و دلکشی میں محو ہو جائیں۔ رخصت اے بزم جہاں، میں تنہائی کی یہ آرزو رفاقت سے بدل گئی۔ ایمر سن ٹھیک کہتا ہے فطرت میں رفاقت ہی رفاقت ہے۔ پھول ہیں، بلبل ہے، شمشاد ہے۔ قمری، نرگس شہلا، سبزہ ،چشمے سب انسان کے رفیق، ہم نشیں۔ فطرت میں انسان کو وہ کچھ ملتاہے جو شہروں اور بستیوں میں میسر نہیں آتا، نہ درس گاہوںمیں: علم کے حیرت کدے میں ہے کہاں اس کی نمود گل کی پتی میں نظر آتا ہے راز ہست و بود فطرت ہی اسرار ہستی کی گرہ کشا ہے۔ حقیقت کے فہم میں ہماری رہنما ۔ فطرت سے دوری، حقیقت سے دوری ہے۔ اپنے آپ سے دوری خود بیگانگی۔ آفتاب ’گاتیری‘ کا ترجمہ ہے۔ رگ ویدکی ایک قدیم اور مشہور دعا کا جسے سر ولیم جونز۲۲۳؎ نے بڑی محنت اور کاوش سے ڈھونڈ نکالا اور جس کے مغربی زبانوں میں کئی ترجمے کیے گئے۔ محمد اقبال کہتے یہ دعا اعتراف عبودیت میں ان تاثرات کا اظہار ہے جنھوںنے نظام عالم کے حیرت ناک مظاہرے کے مشاہدے سے اول اول انسان کے دل میں ہجوم کیا۔ اس قسم کی تحریروں کا مطالعہ علم ملل و النحل کے عالموں کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ ان سے انسان کے روحانی نمو کے ابتدائی مراحل کا پتہ چلتا ہے۔ یہ دعا چاروں ویدوں میں مشترک پائی جاتی ہے۔ برہمن اسے اس قدر مقدس سمجھتا ہے کہ بے طہارت اور کسی کے سامنے پڑھتا تک نہیں۔ پھر کہتے ہیں:’’زبان سنسکرت کی پیچیدگیوںکی وجہ سے اس کا مفہوم ادا کرنا نہایت مشکل ہے…اصل سنسکرت میں لفظ ’ سوتر‘ استعمال کیا گیا ہے جس کے لیے اردو میں کوئی لفظ نہ ملا ۔ ہم نے لفظ آفتاب رکھا ہے۔ اس سے مراد وہ آفتاب ہے جو فوق المحسوسات ہے اور جس سے یہ مادی آفتاب کسب ضیا کرتا ہے۔ قدیم قوموںنے اور نیز صوفیانے اللہ تعالیٰ کی ہستی کو نور سے تعبیر کیا ہے۔ قرآن شریف میں آیا ہے اللّٰہ نور السموات و الارض‘۔۲۴ ۲؎ شیخ محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں ’اللہ تعالیٰ ایک نور ہے جس سے تمام چیزیں نظر آتی ہیں لیکن وہ خودنظر نہیں آتا‘۔ افلاطون الٰہی کے مصری پیروئوں۲۲۵؎ اور ایران کے قدیم انبیاء کا بھی یہی عقیدہ تھا۔۲۲۶؎ ترجمے میں اصل الفاظ کی موسیقیت اور وہ طمانیت آمیز اثر جو اس کے پڑھنے سے دل پر ہوتا ہے، اردو زبان میں منتقل نہیں ہو سکا۔’گاتیری‘ کے مصنف نے ملک الشعراء ٹینی سین کی طرح اشعار میں ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں جن میں حروف علت اور حروف صحیح کی قدرتی ترتیب سے ایک ایسی موسیقیت پیدا ہو جاتی ہے جس کا غیر زبان میں منقتل کرنا نا ممکنات میں سے ہے۔ اس مجبوری کی بنا پر میں نے س ترجمے کی بنا اس ’سوکت‘ (گفتار زیبا) پر رکھی ہے جس کو سوریا نرائن اپ نشدہ گا تیری کی شرح کے طور پر لکھا گیا ہے۔ اندیشہ ہے سنسکرت دان اصحاب اس پر وہی رائے قائم کریں گے جو جیپ سن۲۲۷؎ نے پوپ کا ترجمہ ہو مر پڑھ کر قائم کی تھی۔ شعر تو خاصے ہیں لیکن یہ ’گاتیری‘ نہیں ہے۔ پھر اس شعر پر: ہے محفل وجود کا ساماں طراز تو یزدانِ ساکنانِ نشیب و فراز تو یہ حاشیہ لکھا گیا ہے: ’’یزداں کو قدیم حکمائے ایران نور تصور کرتے ہیں، اس واسطے خالق کی جگہ یہ لفظ استعمال کیا گیا : ہر چیز کی حیات کا پروردگار تو زائیدگانِ نور کا ہے تاجدار تو سنسکرت میں لفظ دیوتا کے معنی نور کے ہیں، گویا قدیم ہندو بھی دیوتائوں کو مخلوق تصور کرتے تھے۔ غالباً ان کا مفہوم وہی ہو گا جس کو ہم لفظ فرشتہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ ہندو مذہب کو شرک کا مجرم گرداننا صحیح معلوم نہیں ہوتا‘‘۔۸ ۲۲؎ بانگ درا میں یہ شذرہ حذف کر دیا گیا۔ میری رائے میں ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے۔ یہاں غور طلب امر یہ ہے کہ محمد اقبال کا مطالعہ جو گویا تکمیل تعلیم سے بھی بہت پہلے فارغ التحصیل ہو چکے تھے مذہب ،فلسفہ، تصوف، ادیان عالم، تاریخ، شعر و ادب اور علوم و معارف میں کس خوبی سے آگے بڑھ رہا تھا۔گویا وسعت مطالعہ کے ساتھ ساتھ ان کے ذہنی ارتقا کا سلسلہ بتدریج لیکن تیزی سے جاری تھا۔ ابن عربی کے حوالے سے سیالکوٹ میں ان کے گھر کی محفلوں اور میر حسن کے درس کا خیال تازہ ہو جاتا ہے۔ الملل و النحل سے شہر ستانی کی تصنیف کا، افلاطون الٰہی، اس کے مصری پیروئوں ، انبیائے ایران کے ذکر سے ان کے ذوق علم، تحقیق و کاوش کا۔ پھر جب وہ سرولیم جونز اور گاتیری کے مغربی زبانوں میں ترجمے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ سنسکرت زبان کی پیچیدگیوں ، سوتر، سوکت اور دیوتا ایسے الفاظ کا ذکر آتا ہے۔ یہ کہتے ہیں ہندو مذہب کو شرک کا مجرم گرداننا ٹھیک نہیں تو گمان ہوتا ہے ان بحثوں میں سوامی رام تیرتھ کے ساتھ نشست رہتی ہو گی۔ گاتیری کا ترجمہ متعدد زبانوں میں ہو چکا تھا۔ محمد اقبال کے ذوقِ ادب نے گوارا نہ کیا کہ ایسی اہم ، معنی خیز اور دلکش دعا کا ترجمہ اُردو میں نہ کیا جائے۔ محمد اقبال کے ملی آہنگ کی ابتداء ’نالۂ یتیم‘ سے ہوئی۔ ’نالۂ یتیم‘ سے پہلے بھی عشق رسولؐ کا جذبہ جو محمد اقبال کے دل و دماغ کا صورت گرہے کسی نہ کسی رنگ میں شعر کا پیکر اختیار کر لیتا ۔ ’نالۂ یتیم‘ میں پہلی مرتبہ اس کا اظہار دلی جوش اور عقیدت سے ہوا۔’فریاد امت‘ میں اور بھی شدت اختیار کر لی۔ اگلے سال ۱۹۰۴ء میں انھوں نے ’بلال‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی جس میں کس لگن اور تڑپ سے کہا ہے: تری غلامی کے صدقے ہزار آزادی کاش وہ خود بلال ہوتے۔ بارگاہ نبوی میں حاضر رہتے۔ صبح و شام دولت دیدار میسر آتی۔ خوشا وہ دیس کہ یثرب مقام تھا اس کا خوشا وہ روز کہ دیدار عام تھا اس کا یوں محمد اقبال کی ساری شاعری رفتہ رفتہ نعت کا رنگ اختیار کر لے گی۔ وہ رسماً نعت نہیں لکھیں گے بجز ایک کے لیکن اس رُخ بدل دیں گے۔۲۲۹؎ سر سید کی لوح تربت ایک طویل نظم ہے۔ بہت کچھ قطع وبرید کے بعد بانگ درا میں شامل ہوئی۔ عبدالقادر کہتے ہیں’’تخیل کے کانوں نے سر سید کی قبر سے وہ صدائے پر درد سُنی جس کی اس دل سے جو مرحوم کے پہلو میں تھا، توقع ہو سکتی تھی…سر سید زندگی میں کئی حیثیتوں کا جامع تھا۔ اس کی لوح تربت سے وہ کلمات نصیحت شیخ محمد اقبال کی طبع رسانے اخذ کیے ہیں جو زندگی کے مختلف مشاغل کے جامع ہیں اور جن سے ہر طبقے کے لوگ مستفید ہو سکتے ہیں۔ اس زمانے میں جب دہلی میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے جلسے زور شور سے ہوئے، ان کا شائع ہونا لطف مزید رکھتا ہے۔‘‘۲۳۰؎ محمد اقبال نے یہ نظم شاید اس کانفرنس کی تقریب میں لکھی۔ شاعر کو سر سید کی لوح تربت کا تتمہ کہیے۔ شعر تین ہیں لیکن ان تین اشعار میں محمد اقبال نے کس خوبی سے سمجھایا ہے کہ قوم محض ایک مجموعۂ افراد نہیں ہے، بلکہ جسم زندہ کی طرح ایک نموپذیر کل۔ افراد اس کے دست و پا ہیں۔قوم کی مادی بقا انھیں کے ہاتھ میں ہے۔ حکومت اس کا چہرۂ زیبا۔ پھر شاعر کو دیدۂ بینا سے تشبیہہ دیتے ہوئے کس خوبی سے حیات ملی میں اس کا مقام متعین کیاہے۔ محمد اقبال کا حقیقت پسند ذہن سیاسی، معاشی، اجتماعی حقائق سے کبھی غافل نہیں ہو ا حتیٰ کہ وہ خود بھی قوم کے دیدۂ بینا بن گئے۔ ۱۹۰۱ء میں محمد اقبال نے مرزا غآلب کی عظمت فن اور رفعت تخیل کے اعتراف میں غالب کے حضور اپنا نذرانہ عقیدت پیش کیا۔ غالب نے گیسوئے اُردو کو سنوارا گیسوئے ادب کو بھی شانہ کشی کی ضرورت ہے ۔ محمد اقبال کو افسوس ہوتا ہے کہ غالب دہلی کے ایک گوشے میںآسودہ خاک ہے۔ کسمپرسی کی سی کیفیت ہے۔ادھر اس کاہم نوا گوئٹے ویمر میں کس عزوشان سے سو رہا ہے۔۲۳۱ ؎ حالی کے بعد مگر، حالی کی زندگی ہی میں حالی سے کہیں بڑھ کر محمد اقبال نے غالب کی عظمت کو پہچانا۔ اسے گوئٹے کے پہلو بہ پہلو لا کھڑا کیا۔ غالب سے محمد اقبال کی عقیدت عمر بھر قائم رہی۔ محمد اقبال ۱۹۰۱ء سے پہلے ہی گوئٹے کا مطالعہ کر چکے تھے۔ محمد اقبال کی طرح ایک حکیم حیات… یہ حکیم حیات کی اصطلاح بھی محمد اقبال ہی کی وضع کردہ ہے۔ داغ بظاہر ایک مرثیہ ہے جو داغ ایسے استاد کی موت پر محمد اقبال ایسے شاگرد نے لکھا، لیکن مرثیہ کیا ہے ایک چھوٹی سی مگر نہایت خوبصورت نظم، داغ کی شاعری اور داغ کی شخصیت سیرت و کردار پر ایسا بلیغ اور جامع تبصرہ جس کی تفصیل میں ورق کے ورق سیاہ کرنا پڑیںگے۔ شاید داغ کا کوئی قدر دان اس موضوع پر قلم اٹھائے۔ رہا ’نالۂ یتیم‘ سو محمد اقبال نے اس نظم میں یتیم کی زبان میں حضور رسالت مآب ؐ کی شان رسالت کی طرف طرح طرح سے اشارہ کرتے ہوئے: معنیِ یسٰیں ہے تو مفہوم او ادنیٰ ہے تو جب یہ کہلوایا ہے: تھی یتیمی کچھ ازل سے آشنا اسلام کی پہلے رکھی ہے یتیموںنے بنا اسلام کی تو ذہین بے اختیار امت کی یتیمی کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ یتیمی ہی کی نہیں امت کی آبرو بھی حضور رحمۃ للعالمین کے دامان رحمت سے وابستگی سے قائم ہے۔ نذیر احمد نے غلط نہیں کہا تھا نالۂ یتیم کو سُن کر میرے دل پر وہ اثر ہوا جو انیس اور دبیر کے مرثیوں کو سن کر نہیں ہوا تھا۔ اس لیے کہ نالۂ یتیم میں شاعر کا ذہن فرد کی بجائے قوم پر مرتکز ہے لہٰذا کیا تعجب ہے اس نظم کو سنتے ہوئے حاضرین نے اشک افشانی ہی نہیں زرافشانی بھی خوب خوب کی۔ انجمن حمایت اسلام کی قسمت کا ستارہ چمک اٹھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دامان رحمت سے وابستگی کا یہی جذبہ ہے جس نے محمد اقبال سے ’فریاد امت‘ ایسی نظم لکھوائی۔ فریاد امت اقبال کی زبان سے امت کی فریاد بھی ہے اور امت کے لیے دل سوزی اور درد مندی میں محمد اقبال کی صمیم قلب سے نکلی ہوئی دعا بھی۔ انھیں امت کی زبوں حالی کا دکھ ہے، امراء کی ہوس زر، واعظوں کے تکبر، تعصب اور تنگ دلی، غفلت اور جہالت کا شکوہ کر رہے ہیں۔ قوم کی حالت ایک مریض کی ہے۔ قوم کا چمن پامال خزاں ہو چکا ہے۔ حضور رسالت مآب سے فریا د کرتے ہیں: قوم کو جس سے شفا ہو وہ دوا کون سی ہے یہ چمن جس سے ہرا ہو وہ صبا کون سی ہے قافلہ جس سے رواں ہو سوئے منزل اپنا ناقہ وہ کیا ہے وہ آوازِ درا کون سی ہے سب کو دولت کا بھروسا ہے زمانے میں مگر اپنی امید یہاں تیرے سوا کون سی ہے پھر’ فریاد امت‘ جہاں ایک نعت ہے جس میں محمد اقبال کا جذبۂ حب رسولؐ رہ رہ کر ابھرتا ہے، وہاں یہ اس امر کا ثبوت بھی کہ ان کی دینی تعلیم و تربیت بڑی خوبی سے ہو چکی تھی۔ چنانچہ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان ابتدائی نظموں میں بھی انھوں نے خودی کی طرح اسلام اور اسلامی الٰہیات ، یا فلسفہ کے کسی ایسے مسئلے کی طرف اشارہ کر دیا ہے جس کا ذکر بہت آگے چل کر آئے گا۔ مثلاً فریا د امت کا ایک شعر ہے: خلق معقول ہے محسوس ہے خالق اے دل دیکھ نادانِ ذرا آپ سے غافل ہو کر اس وقت جب یہ نظم پڑھی گئی شاید ہی کوئی سمجھتا ہو کہ یہ ابن عربی کا قول ہے ’الخالق محسوس و العالم معقول‘‘ جس کا تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ میں ’’شے بذاتہ‘‘ کے بارے میں کانٹ کے نقطۂ نظر سے بحث کرتے ہوئے انھوں نے حوالہ دیاا ور کہا کہ کائنات کے بارے میں ایک نقطۂ نظر وہ بھی ہو سکتا ہے جو شیخ اکبر نے پیش کیا۔ ۲۳۲؎ ایک اور نظم’ درد دل‘ یا’ یتیم کا خطاب ہلال عید سے‘ جو گویا’ نالۂ یتیم‘ کا مستزاد ہے جس کے متعدد بند ہیں اور اب شام اور مفلسی ایسے عنوانات کے ماتحت ان کے نام نہاد غیر مطبوعہ کلام کے مجموعوں میں جزواً جزواً ملتے ہیں، بانگ درا میں شامل نہیں۔ ایسے ہی وہ نظم بھی جس کا عنوان ہے’دین و دنیا‘ علی ہذا’اسلامیہ کالج کا خطاب مسلمانان پنجاب سے ‘’ سپاس امیر‘ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی منقبت میں لکھی گئی۔ محمد اقبال کو جناب امیرؓ اور ائمہ اہل بیت سے والہانہ محبت ہے۔ ’سپاس امیر‘ کا آخری بند ۱۸ اشعار پر مشتمل تھا۔ لیکن ان میں سے صرف ۱۳ اشعار بعنوان عشق پیام مشرق میں شامل کیے گئے ۔ فکرم جو بجستجو قدم زد در دیر شد و در حرم زد پھر جناب امیرؓ سے خطاب ہے: عشقِ تو دلم ربود ناگاہ از کار گرہ کشود ناگاہ محمد اقبال نے اس دور میں غزلیں بھی لکھی ہیں۔ متعدد غزلیں بانگ درا میں شامل نہیں۔ بظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ وہ غزل جس کا ایک شعر ہے: ہو شگفتہ ترے دم سے چمن دہر تمام سیر اس باغ کی کر بادِ سحر کی صورت یا جس کا مطلع ہے: چاہیں اگر تو اپنا کرشمہ دکھائیں ہم بن کر خیالِ غیر ترے دل میں آئیں ہم کیوں خارج کر دی گئیں۔ بعض کا اخراج البتہ سمجھ میں آتا ہے۔ بعض منتخب شکل میں شائع کی گئیں۔ مثلاً وہ غزل جس کی ردیف ہے چھوڑ دے اور جس سے یہ شعر: مینار دل پہ اپنے خدا کا نزول دیکھ یہ انتظارِ مہدی و عیسیٰ بھی چھوڑ دے اس لیے حذف کر دیا گیا کہ انتظار مہدی و عیسیٰ کے بارے میں انھوں نے اپنے خیالات آگے چل کر بوضاحت منضبط کیے۔ بصورتِ موجودہ اس شعر سے غلط فہمی کا احتمال تھا۔ محمد اقبال تو صرف یہ کہنا چاہتے تھے کہ یہ انتظار مصاف حیات سے فرار اور بے عملی کا بہانہ نہ بن جائے۔ پھر وہ اشعار بھی ہیں جن سے گویا ۱۸۹۶ء یا ۱۸۹۵ء ہی میں ان کی شاعرانہ عظمت کا سکہ دلوں پر بیٹھ گیا تھا۔ اگرچہ بانگ درا میں شامل نہیں لیکن قوم کے حافظے سے محو نہیں ہوں گے۔ جب بھی محمد اقبال کی شاعری کا ذکر آئے گا نا ممکن ہے یہ شعر زبان پر نہ آ جائے: موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے پھر اس دور میں غزل کا رنگ کس خوبی سے بدلا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں اور یہ شعر تو ضرب المثل بن گئے: اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں اقبال کو یہ ضد ہے کی پینا بھی چھوڑ دے بانگ دراکے حصہ اول میں غزلوں کی تعداد نسبتاً بہت کم ہے۔ محمد اقبال کا رنگ تغزل بتدریج بدل رہا تھا۔ محمد اقبال نے غزل کو ایک نئی جہت دی۔ ایک ایسی جہت جس میں فکر وجدان ا ور مجاز حقیقت سے ہم کنار ہے۔ محمد اقبال نے قصائد بھی لکھے ہیں۔ ایک سر میکور تھ ینگ۲۳۳؎ لیفٹیننٹ گورنر جنرل پنجاب کی اسلامیہ کالج میں تشریف آوری پر : رہے نشاطِ فراواں کہ اخترِ تقدیر چمک رہا ہے ابھر کر مثال مہرِ منیر ولیم بیل ۲۳۴؎ بھی گورنر صاحب کے ساتھ شریک محفل تھے: یہ علم و فضل کی آنکھوں کا نور ہیں واللہ انھیں کی ذات سے حاصل ہے مہر کی تنویر یہ قصیدہ ایک طرح سے ذوق کی تقلید میں لکھا گیا۔ ذوق نے اپنے قصیدے کی ابتداء اس طرح کی ہے: زہے نشاط اگر کیجیے اسے تحریر عیاں ہو خامہ سے تحریر نغمہ جائے صریر دوسرا والیٔ بہاول پور نواب بہاول خاں کے جشن تاج پوشی کی تقریب پر جسے عبدالقادر نے مخزنمیں شائع کرتے ہوئے لکھا’’…نصرت جنگ، مخلص الدولہ، حافظ الملک، ہزہائینس نواب محمد بہاول خاں پنجم عباسی کو ہزا یکسیلینسی وائسرائے و گورنر جنرل بہادر کشور ہند نے خود اپنے ہاتھوں سے مسند سلطنت پر بٹھایا… اس خوشی کی تقریب میں … زمین بہاول پور ۲۱ نومبر کی شام کو کثرت چراغاں سے رشک آسمان بن رہی تھی… اس مبارک تقریب پر شیخ محمد اقبال صاحب ایم۔ اے سے ایک قصیدہ لکھنے کی فرمائش کی گئی اور انھیں مدعو بھی کیا گیا… رخصت نہ ملنے کی وجہ سے وہ جانے سے معذور رہے… قصیدہ بھی بعد میں وصول ہوا۔ صاحبان فن دیکھیں گے کہ قصیدے کی زمین کس قدر مشکل تھی، مگر اس میں کیسے کیسے شعر طبع خداداد کے زور سے شاعر نے نکالے ہیں اور پرانے اور نئے رنگ کو کس خوبی سے ملا دیا ہے۔‘‘ ۲۳۵؎ گویا محمد اقبال نے یہ قصیدہ خود نہیں لکھا بلکہ لکھوایا گیا لہٰذا قطع نظر قصیدے کی روش سے اس میں غرض مندی اور تعریف و توصیف کا کوئی پہلو نہیں جسے شاعر نے یہ کہہ کر واضح بھی کر دیا ہے: پاک ہے گردِ غرض سے آئنہ اشعار کا جو فلک رفعت میں ہو لایا ہوں وہ چن کر زمیں اور اس کا جواز پیدا کیا تو یوں: آستانہ جس کا ہے اس قوم کی امید گاہ تھی کبھی جس قوم کے آگے جبیں گستر زمیں حتیٰ کہ نواب صاحب کی مدح بھی نہیں کی۔ کہا تو یہ: بادشاہوں کی عبادت ہے رعیت پروری اور پھر یہ: ہے مروت کے صدف میں گوہر تسخیر دل یہ گہر وہ ہے کرے جس پر فدا کشور زمیں حکمراں مستِ شرابِ عیش و عشرت ہیں اگر آسماں کی طرح ہوتی ہے ستم پرور زمیں تشبیب کی ابتداء کی یوں کی ہے: بزمِ انجم میں ہے گو چھوٹا سا اک اختر زمیں آج رفعت میں ثریا سے بھی ہے اوپر زمیں تا آنکہ پھر منظر کشی میں شاعر کی تخیل کی نزاکت اور ندرت طرح طرح سے جلوہ گر ہوتی ہے، بایں ہمہ جب یہ قصیدہ شائع ہوا تو اہل زبان نے اس پر کئی ایک اعتراض کیے۔ پنڈت برج نرائن چکبست نے تو یکے بعد دیگرے اعتراضات کی بھر مار کر دی۔ ان کا مضمون رسالہ اردو ئے معلیٰ شمارہ اپریل ۱۹۰۴ء میں شائع ہوا۔ ان اعتراضات کا جواب نواب جعفر علی خاں اثر لکھنوی نے نہایت خوبی سے دیا ہے۔ ۲۳۶؎ تفصیل ان اعتراضات اور ان کے جواب کی جناب رضا بیدار نے بیان کر دی ہے۔ یہاں قابل غور امر یہ ہے کہ محمد اقبال نے گورنر پنجاب کی آمد پر جو قصیدہ لکھا وہ بھی انجمن کے مفاد کی خاطر نہ کہ اپنی ذات کے لیے کسی فائدے کے پیش نظر ہندی سیاست کے اس دور وفاداری میں سرکار اور سرکار کے نمایندوں سے اظہار وفاداری ایک امر ضرور ی تھا۔ بغیر اس کے کوئی انجمن زندہ نہیں رہ سکتی تھی۔ نواب بہاول پور کی تعریف میں بھی قصیدہ خوانی سے کام نہیں لیا۔ اس میں بھی نواب صاحب کی تعریف میں کچھ تو یہ کہ مقصود فرماں روائی ہے رعیت پروری۔ پھر یہ قصیدہ ہو یا سر میک ورتھ ینگ کی مدح، ۱۹۰۳ء میں ہندوستان کا گزر باعتبار سیاست جس مرحلے سے ہو رہا تھا اس میں بجز اس کے وہ اور کر بھی کیا سکتے تھے کہ انجمن کی مصلحتوں کا خیال رکھیں۔ رہا قصیدہ بہاول پور سووہ بہاول پور گئے بھی نہیں۔ دربار میں شریک نہیں ہوئے۔ حاصل کلام یہ کہ ان قصائد کو از اول تاآخر پڑھا جائے کہیں ایسا کوئی اشارہ نہیں ملے گا جہاں یہ ظاہر ہو کہ شاعر کسی ذاتی غرض یا جلب منفعت کے لیے قصیدہ خوانی کر رہا ہے۔ البتہ ’’مسلمانانِ پنجاب‘‘ کے دل کی دھڑکن اور خواہش ان میں ضرور ملے گی۔۲۳۷؎ ۱۹۰۵ء میں یا یوں کہیے محمد اقبال انگلستان روانہ ہوئے تو ان کی شاعری کا پہلا دور ختم ہو گیا۔ بانگ درا میں ابتدائی دور کا تو خیر تماماً دور اول کا کلام بھی، غزلیں ، نظمیں۔ بہت کچھ ترمیم و اصلاح اور قطع و برید کے بعد شامل کیا گیا جس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ جو کلام بانگ درا سے خارج ہے اور جسے غلطی سے غیر مطبوعہ کہا جاتا ہے اسے خود شاعر نے قابل اشاعت نہیں سمجھا۔ خود اپنی رائے یا کسی کے مشورے سے یہاں اس سے بحث نہیں۔ بحث ہے تو اس امر سے کہ معترض کہتا ہے جس کلام پر شاعر نے خود خط تنسیخ کھینچ دیاا س کی اشاعت کا کوئی جواز نہیں۔ درست، لیکن شاعر نے جس کلام کو درخوراعتنا نہیں سمجھا ہم تو اس سے بے اعتنائی نہیں برت سکتے۔ شاعر نے اپنے ابتدائی کلام کو باوجود یکہ اسے جہان غزل میں آج بھی نہایت اونچی جگہ مل سکتی ہے نو مشقی پر محمول کیا۔ بقول مرزا غالب۔ تکلف بر طرف تھا ایک اندازِ جنوں وہ بھی اسے نظر انداز کر دیا۔ یوں بھی ۱۹۰۰ء میں ان کا رنگ سخن جس طرح بدلا اس سے ہم آہنگ نہیں پایا۔ دور اول کے کلام میں بھی جہاں کہیں زبان وبیان کے اعتبار سے کوئی خامی نظر آئی ترمیم و اصلاح کر دی۔ پست ہے تو سرے سے خارج کر دیا ۔ جیسے’ تصویر درد‘ کا یہ شعر: تری تعمیر میں مضمر ہوئی افتادگی کیوں کر لگائی ہے مگر اس گھر کو خشت نقش پا تو نے پھر جب نواب حبیب الرحمان خاں شروانی کو’ فریاد امت‘ کے بعض اشعار پر اعتراض ہوا جس پر انھوں نے ان کا شکریہ بھی ادا کیا تو قطع نظر اس سے شاید یہ سوچتے ہوئے کہ اس نظم میں وہ اپنے خیالات کا تمام و کمال اظہار نہیں کر سکے اسے بانگ درا میں جگہ نہیں دی۔ ’فریاد امت‘ کی تمہید ضرورت سے زیاد ہ طویل ہے۔ کہیں کہیں غلو بھی ہے جس پر انھیں خود بھی خیال تھا کہ کوئی اعتراض نہ کر دے۔۲۳۸؎ ایک اور اہم وجہ بعض نظموں میں اصلاح و ترمیم اور قطع و برید کی یہ ہے کہ ان میں بعض ایسے اشعار بھی ہیں جن کو غلط معنی پہنائے جا سکتے ہیں اور جو بادی النظر میں قابل اعتراض معلوم ہوتے ہیں ۔ مثلاً ان کا یہ کہنا: ہم نے یہ مانا کہ مذہب جان ہے انسان کی کچھ اسی کے دم سے قائم آن ہے انسان کی رنگ قومیت مگر اس سے بدل سکتا نہیں خونِ آبائی رگِ تن سے نکل سکتا نہیں بظاہر یہ وہی بات ہے جسے وطنیت، یا نسلی قومیت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور جس میں مذہب کی حیثیت فرد کے ذاتی معاملے کی رہ جاتی ہے، سیاست سے بے تعلق۔ ۲۳۹؎ حالانکہ محمد اقبال کا کہنا یہ تھا کہ وطن اور نسل کا تسمیہ تعارف کے لیے ہے۔۲۴۰؎ انھیں یہ خیال ہی نہیں تھا کہ آگے چل کر اس قبیل کے اشعار کو وطنیت پسندی پر محمول کیا جائے گا بعینہ: پھر اک انوپ السی سونے کی مورتی ہو اس ہر دوار دل میں لا کر جسے بٹھا دیں زنار ہو گلے میں تسبیح ہاتھ میں ہو یعنی صنم کدے میں شانِ حرم دکھا دیں اگنی ہے ایک نرگن کہتے ہیں پیت جس کو دھرموں کے یہ بکھیڑے اس آگ میں جلا دیں ایسے اشعار پر ایک برہمو سماجی اور کٹر وطن پرست تو پھڑک اٹھے گا۔ بافسوس کہے گا کہ شاعر وطنیت سے اس قدر قریب آ کر دور کیوں ہو گیا۔ لیکن ’شانِ حرم‘ اور ’پیت‘ کا اشارہ جس طرز فکر اور طرز عمل کی طرف ہے اسے شاید قصد اً نظر انداز کر دے گا۔ شاعر زنار اور تسبیح کے امتزاج پر زور نہیں دے رہا، رواداری کی تلقین کر رہا ہے ۔ جانتا ہے کہ تسبیح تو درکنار خود زنار کو بھی یہ امتزاج گوارا نہیں۔ یوں بھی سوچنے کی بات یہ ہے کہ ’’نیا شوالہ‘‘ ہندو اہل وطن کے لیے لکھا گیا ۔ چنانچہ باعتبار زبان، ترکیبات اوراصطلاحات اس نظم کا لب و لہجہ خالصاً ہندوانہ ہے۔ ہندو اہل وطن سے خطاب میں ایسا ہی لب و لہجہ اختیار کیا جا سکتا تھا۔ دھرموں کے بکھیڑوں سے گلو خلاصی کا مطلب یہ نہیں تھا کہ دھرموں کو خیر آباد کہہ دی جائے بلکہ یہ کہ دھرم نزاع وجدال کا ذریعہ نہ بنے، نہ ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کا ۔ یہ چیز وطن کے لیے ہندوئوں اور مسلمانوں دونوں کے حق میں نقصان دہ ہے۔ محمد اقبال فرقہ بندی کے خلاف تھے خواہ اس کی نوعیت سیاسی ہو یا مذہبی ۔’ عقل اور دل پیغام‘ بیعت کے جواب میں ان کے طویل خط کا قطعہ بند بانگ درا میں تو موجود ہے لیکن پوری نظم اسی بنا پر کہ فرقہ بندی کو ہوا نہ ملے بانگ درا سے خارج کر دی گئی۔ شاید اس لیے بھی کہ اس کی حیثیت نجی اور ذاتی تھی مگر جس سے سوانح نگار تو قطع نظر نہیں کر سکتا۔ بعینہ خان صاحب سراج الدین کی تحفۃً بھیجی ہوئی انگشتریوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انھوں نے جو محبت بھرے قطعے اُردو اور فارسی میں لکھے وہ بھی اسی وجہ سے بانگ درا میں شامل نہیں کیے گئے۔ مگر سوانح نگار جب وہ یہ کہتے ہیں: ہاتھ سے پہنے اگر میرے اسے وہ دلربا ہو رموز بیدلی کی ترجماں انگشتری علیٰ ہذا: گشتِ اے اقبال مقبولِ امیر ملک حسن کرد وا مارا گرہ آخر زکار انگشتری ان اشعار کی ’’سوانحی‘‘ نوعیت کو نظر انداز نہیں کرے گا۔ پھر اگرچہ مثنوی اسرار خودی کی اشاعت سے پہلے محمد اقبال نے اپنے فارسی کلام کو کوئی اہمیت نہیں دی، اس کلام کا تعلق بھی ان کی سوانح حیات کی طرح دینی تصورات اور عقائد سے نہایت گہرا ہے۔ مثلاً ان کی وفات کے بہت بعد جب سوال پیدا ہوا کہ وہ کسی رنگ میں کیا اجرائے نبوت کے قائل تھے تو ختم نبوت کے بارے میں ان کے اس شعر سے سند لی گئی: اے کہ بعد از تو نبوت شد بہر مفہوم شرک بزم را روشن ز شمعِ نور ایماں کردۂ یہ شعر اس نظم کے ایک بند میں آیا ہے جس کا عنوان ہے’ اسلامیہ کالج کا خطاب پنجاب کے مسلمانوں سے‘ اور جو ۱۹۰۲ء میں کچھ فارسی اور کچھ اُردو میں لکھی گئی۔ محمد اقبال اس امر کے سختی سے قائل تھے کہ سلسلہ نبوت حضور رسالت مآب ؐپر ختم ہو گیا۔ آپ کے بعد اجرائے نبوت کا کسی پہلو سے کسی رنگ میں کوئی امکان نہیں۔ ’سپاس امیر‘ ۱۹۰۵ء میں لکھی گئی، لہٰذ یہ امر کہ اس کے ایک بند کو پیام مشرق میں جگہ ملی اس امر کا ثبوت ہے کہ محمد اقبال کی فارسی شاعری تماماً نہیں تو جزواً اس معیار کو پہنچ گئی تھی کہ پیام مشرق کی ترتیب میں اس منقبت کے ایک جزو کو نظر انداز نہ کیا جاتا۔ محمد اقبال کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے والہانہ عقیدت تھی جس میں یہاں تک کہہ گئے: از ہوش شدم مگر بہوشم یعنی کہ نصیریِ خموشم یوں عقیدت میں غلو کا رنگ پیدا ہو گا۔ جناب امیر کی عظمت ذات سے کسے انکار ہو سکتا ہے لیکن ’نصیریت ‘ کا تو استعارۃً بھی کوئی جواز نہیں تھا۔ اقبالیات کے طالب علم کی طرح سوانح نگار ان اشعار سے کیسے قطع نظر کر سکتاہے۔ ’تصویر درد‘ میں بھی بہت کچھ قطع و برید کی گئی۔ اس نظم کی ’سوانحی‘ اہمیت بھی کچھ کم نہیں۔ محمد اقبال کے ذہنی اور شعری ارتقا کے مطالعے میں ان اشعار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو اس سے خارج کر دیئے گئے مثلاً وضو کے واسطے آتا ہے کعبہ لے کے زمزم کو الٰہی کون سی وادی میں میں محوِ عبادت ہوں نیز: نجف میرا مدینہ ہے مدینہ میرا کعبہ ہے میں بندہ اور کا ہوں امتِ شاہِ ولایت ہوں جو سمجھوں اور کچھ خاکِ عرب میں سونے والے کو مجھے معذور رکھ میں مستِ صہبائے محبت ہوں دور اول کے ابتدائی کلام کی طرح قصائد کو بھی بانگ درا میں جگہ نہیں ملی، جیسے آگے چل کر اس مدحیہ قطعہ کو جو مہاراجہ سر کرشن پرشاد کی مہمان نوازی کے اعتراف میں لکھا گیا ۔ یہ قطعہ اگر بانگ درا میں شامل رہتا تو مضائقہ نہیں تھا۔ محمد اقبال اس قطعہ میں صرف اپنے جذبۂ تشکر کا اظہار کر رہے تھے ۔ چنانچہ مخزن میں اشاعت کے لیے بھیجا تو ایک تمہیدی شذرے کے ساتھ اور جس میں انھوں نے بوضاحت کہا ہے: ۲۴۱؎ شکریہ احسان کا اقبال لازم تھا مجھے مدح پیرائی امیروں کا نہیں میرا شعار قصیدہ بہاول پور بھی کسی مالی منفعت کی توقع میں نہیں لکھا، صرف ایک فرمائش کا پورا کرنا منظور تھا۔ لیفٹیننٹ گورنر پنجاب کی مدح سرائی سے بھی کوئی ذاتی غرض نہیں تھی۔ انجمن حمایت اسلام کا مفاد ہی پیش نظر تھا۔ ۱۹۰۱ء میں البتہ محمد اقبال نے ملکہ وکٹوریا کے انتقال پر ۱۱۰ اشعار کا ایک مرثیہ لکھا جو ۲۲ جنوری ۱۹۰۱ء کو مسلمانانِ لاہور اور پھر ۹ فروری ۱۹۰۱ء کو سیالکوٹ کے ایک ماتمی جلسے میں پڑھا گیا اور خود ہی اس کا ترجمہ انگریزی میں کیا۔ مگر یہ مرثیہ بھی حکومت کے ایما سے لکھا گیا۔ محمد اقبال کی شاعرانہ حیثیت مسلم تھی اور انھوں نے بہت تھوڑے دنوں میں معاشرے میں ایک مقام پیدا کر لیا تھا۔ یوں بھی اس دور وفاداری میں سارا ہندوستان بلا استثنا قیصرۂ ہند کی وفات پر رنج و غم کا اظہار کر رہا تھا۔ محمد اقبال کے لیے نا ممکن تھا کہ حکومت تو درکنار اپنے انگریز اساتذہ اور مسلمانانِ لاہور کی فرمائش قبول نہ کرتے۔ ۲۴۲؎ کچھ ایسا ہی معاملہ اس نظم کا ہے جو ۱۹۱۷ء میں محمد اقبال نے سرکار انگریزی کو جنگی امداد کے سلسلے میں لاہور کے ایک جلسے میں پڑھی۔۲۴۳؎ سرکار برطانیہ کے لیے یہ وقت بڑا نازک تھا۔ڈرتھا کہیں ایسا نہ ہو جرمنی کے ہاتھوں اسے شکست ہو جائے۔ یہ ہندی سیاست کا دورِ وفاداری تھا جو ۱۹۱۹ء میں ختم ہوا اور جس میں ہندوستانی معاشرے کا ہر طبقہ عوام، خواص، راجے، مہاراجے، نواب حتیٰ کہ آزادیٔ ہند کے مجاہد اعظم مہاتما گاندھی بھی سرکار کی اعانت کے لیے میدان میں اُتر آئے تھے۔ لہٰذا یہ نظم ہو، یا ملکہ وکٹوریا کا مرثیہ، یا مدحیہ قطعہ اور وہ قصیدے جن کی طرف اوپر اشارہ ہو چکا ہے، ان سے محمد اقبال کی سیرت و کردار پر کوئی حرف نہیں آتا۔ یہ سب نظمیں بتقا ضائے حالات لکھی گئیں۔۴۴ ۲؎ محمد اقبال کا رد کردہ کلام جس کی ضخامت کسی دیوان اشعار سے کم نہیں کئی پہلوئوں سے اہم ہے۔ اتنے بڑے مجموعۂ کلام پر خط تنسیخ کھینچنا محمد اقبال ہی کا کام تھا جس کی بڑی وجہ وہی ہے جسے راقم الحروف اوپر بیان کر آیا ہے کہ شاعری محمد اقبال کے پیغام اور دعوت کا ذریعہ ابلاغ بنی تو وہ سارا کلام جو اس سے ہم آہنگ نہیں تھا، نظر انداز کر دیا۔ حالانکہ ہمیں اس میں نہ صرف ان کے واقعات زندگی اور دل و دماغ کی جھلک ملتی ہے بلکہ یہ کلام ان کے سفر شعر کی نہایت دلچسپ اور توجہ طلب داستان بھی ہے کیا بہ اعتبار اس دعوت اور پیغام کے جس کا اس کے ذریعے ابلاغ ہوا اور کیا بلحاظ شاعری کے جس سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے فکر و فن میں کس طرح منزل بمنزل آگے بڑھ رہے تھے تاآنکہ ان کے افکار و نظریات کی طرح ان کی شاعری بھی اپنے معراج کمال کو پہنچ گئی۔ پھر یہ رد کردہ کلام ان کی شاعری کے آنے والے ادوار کی تمہید بھی ہے جس سے یہ سمجھنا مشکل نہیں رہتا کہ ان کے افکار و تصورات کس طرح نتھر نتھر کر رفتہ رفتہ اپنی صحیح اور اصلی شکل میں منضبط ہوتے چلے گئے۔ ایسے ہی غور کیجیے تو ہمیں اس میں محمد اقبال کے شب و روز، ان کے اہل غم سے روابط، دوستوں سے تعلقات ، ملی اور علمی مشاغل کے ساتھ ساتھ ایک عظیم شخصیت اُبھرتی نظر آتی ہے۔ محمد اقبال کی شاعری کے دور اول کی ابتداء ۱۹۰۰ء میں ہوئی۔ ۱۹۰۰ء سے پہلے بھی ان کا شمار قادر الکلام شعراء میں ہو رہا تھا۔۱۹۰۰ء سے پہلے ہی لاہور میں شعر و شاعری کی محفلوں کی رونق بہت کچھ ان کے دم قدم سے قائم تھی حتیٰ کہ رفتہ رفتہ وہ معاصرین پر چھا گئے۔ سیالکوٹ میں بھی وہ اپنی شاعری کی ابتداء ، نہایت کامیابی سے کر چکے تھے۔ عربی اور فارسی ادب، قرآن مجید کی تعلیم، میر حسن کے درس اور گھر کی صحبتوں میں شعر و ادب ، فلسفہ، تصوف، الٰہیات اور علوم و معارف سے ان کا تعارف روز بروز بڑھ رہا تھا۔ اُردو اور فارسی کے دیوان تو گویا انھیں از بر تھے۔ قرآن مجید کے اعجاز بیان کے ساتھ عرب جاہلیت کی شاعری ان کے دل و دماغ میں رچ گئی تھی ۔ عربی شاعری کے اور بھی نمونے ان کے سامنے ہوں گے۔ لاہور میں مولانا عبداللہ ٹونکی حماسہ کا درس دیتے تو اس میں باقاعدگی سے شریک ہوتے۔ عربی کے ایک فاضل کے بعد عربی کے دوسرے فاضل کے درس سے استفادہ ان کے ذوق علم اور تحقیق و طلب کی دلیل ہے ۔ عربی شاعری سے انھوں نے جو مستقل اثرات قبول کیے، ان کا اظہار اگرچہ بہت آگے چل کر ہوا لیکن یہ اثرات بہر حال ان کے ذہن پر مرتسم ہو چکے تھے۔ انگریزی ادب سے بھی اگرچہ اینٹرنس اور ایف ۔ اے ہی میں لگائو پیدا ہو گیا تھا۔ لیکن یہ گورنمنٹ کالج کا زمانۂ تعلیم تھا جس میں وہ اس ادب کے مطالعے میں تیزی سے آگے بڑھے۔ کالج کے انگریز اساتذہ بالخصوص آرنلڈ سے تلمذ میں مغربی فلسفہ، ادب اور انگریزی شاعری کے مطالعے میں انھیں ادب اور فن کی ایک نئی دنیا نظر آئی۔ اس دنیا نے جس میں انسان، کائنات، زندگی، اس کے حقائق ، تجربات اور مشاہدات کی ترجمانی ایک نئے انداز میں ہوئی انھیں اپنی طرف کھینچا۔ انھوں نے دیکھا کہ اس ادب میں بھی اظہار جذبات، خیالات اور تصورات کی بڑی دل کش مثالیں موجود ہیں۔ وہ ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہے۔ انھوں نے انگریزی ادب سے بچوں کی نظموں کے لیے کئی مضامین اخذ کیے۔ بعض نظموں کا ترجمہ کیا۔ یوں ان کے نبوغ شعر کو اپنے اظہار کے لیے ایک نیا میدان مل گیا۔ اب اسے تحریک علی گڑھ کا اثر کہیے، یا حالی اور آزاد کی نظمیں جن میں وہ انگریزی شاعری سے اثر اندوزی کی جھلک دیکھ چکے تھے، ان کی طبیعت بھی نظم گوئی کی طرف مائل ہو گئی۔یوں بھی اُردو شاعری میں نظم گوئی کی تحریک عام ہو رہی تھی جو اگرچہ اُردوشاعری کے لیے کوئی نئی چیز نہیں تھی۔ اُردو ، فارسی، عربی، پنجابی اور مشرق کی دوسری زبانوں میں بھی اس کی گراں قدر مثالیں موجود ہیں لیکن فرق تھا اسلوب بیان ، طر ز ادا ، انسان اور کائنات کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کا۔ محمد اقبال نے بھی نظمیں لکھیں لیکن مغربی مثالوں کا تتبع نہیں کیا۔۲۴۵؎ کہا جاتا ہے ان نظموں میں صوری اور معنوی دونوں پہلوئوں حتیٰ کہ زبان ا ور بیان، خیالات اور تصورات میں بھی، انگریزی ادب کا رنگ جھلک رہا ہے۔ بعض اشعار ایسے ہیں کہ ان کو ترجمے، توارد یا تصرف ہی پر محمول کیا جائے گا۔ مطلب یہ ہے کہ اس دور میں محمد اقبال کی شاعری نے انگریزی ادب سے نہایت گہرا اثر قبول کیا۔ لیکن ہم اس بات کو یوں سمجھیں گے کہ اثر پذیری سے مراد اگر اخذ و اکتساب ہے ، تتبع اور تقلید تو اس کے معنی ہوں گے خوشہ چینی، زلہ ربائی۔ برعکس اس کے اگر اثر پذیری عبارت ہے تحسین و اعتراف، ہم خیالی ، تعلیم اور تلمذ سے تو ہر نابغہ دوسرے نوابغ سے اثر پذیر ہوا۔ طفل نو آموز بھی تو جو کچھ سیکھتا ہے اپنے اساتذہ سے۔ پھر جیسے جیسے تعلیم و تحصیل میں آگے بڑھتا ہے اسلاف کے ورثے کو دوسروں ہی سے حاصل کرتا ہے، دوسروں کی بدولت علم و حکمت ، ادب اور فن کی دنیا میں قدم رکھتا، ان سے فیض حاصل کرتا ہے ۔ لیکن بسبب اس ذہانت اور طباعی کے جو مبدأ فیاض سے اسے ملتی ہے دوسروں کے ادب و احترام ، قدر و منزلت اور ان کے بہت کچھ سیکھنے کے باوجود جسے بے شک اثر پذیری کہہ لیجیے اس کی امتیازی حیثیت قائم رہتی ہے۔ محمد اقبال نے کیا خوب لکھا ہے:’’میں اعتراف کرتا ہوں میں نے ہیگل، گوئٹے، میرزا غالب، عبدالقادر بیدل اور ورڈزورتھ سے بہت کچھ استفادہ کیا۔ ہیگل اور گوئٹے نے اشیاء کی باطنی حقیقت تک پہنچنے میں میری مدد کی۔ بیدل اور غالب نے مجھے سکھایا کہ مغربی شاعری کی قدروں کو اپنے اندر سمو لینے کے باوجود اپنے جذبے اور اس کے اظہار میں مشترقیت کی روح کیسے زندہ رکھوں۔ ورڈز ورتھ نے طالب علمی کے زمانے میں مجھے دہریت سے بچایا‘‘۔۲۴۶؎ گویا ہیگل، گوئٹے، غالب ، بیدل اور ورڈز ورتھ سے بہت کچھ سیکھنے کے باوجود محمد اقبال کی عبقریت میں کوئی فرق نہیں آیا جیسے غزل اور بیدل کی عبقریت میں اپنے پیش روئوں سے استفادے کے باوجود۔ بہر حال ۱۹۰۰ء میں جب محمد اقبال کی شاعری غزل کی بجائے بیشتر نظم پر مرتکز ہوتی گئی تو غزل کی ’دروں بینی‘ نے نظم کی ’بروں بینی‘ سے مل کر شاعری کی ایک ایسی دنیا پیدا کی جس سے اُردو زبان اب تک نا آشنا تھی۔ لہٰذا شعر و شاعری کے حلقوں کو یہ دنیا کچھ اوپری اوپری نظر آتی تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ وجہ ظاہر ہے اسلامی ہندوستان نے سو،ڈیڑھ سو برس کے ذہنی، اخلاقی انحطاط ، سیاسی معاشی بد نظمی اور مصاف حیات میں شکست کے بعد نکبت واد بارکے ہاتھوں جس خیالی دنیا میں پناہ لے رکھی تھی اس کا طلسم ٹوٹا تو زندگی کے حقائق اور علم و عمل کے تقاضے کچھ نامانوس سے نظر آنے لگے۔ محمد اقبال نے بھی اگرچہ اسی دنیا میں آنکھ کھولی مگر ان کی تعلیم و تربیت جس خوبی سے ہوئی، اپنی ذہنی صلاحیتوں اور غور و فکر کی بدولت جس طرح حقائق اور واقعات کی دنیا میں قدم رکھا، اس کے ضمیر اور باطن تک پہنچنے کی کوشش کی۔ ان کے دل و دماغ میں جو اثرات کام کر رہے تھے ان کا تو یہی تقاضا تھا کہ غزل کا آہنگ نظم سے بدل جائے۔ غزل میں ان حقائق کا بیان کیسے ممکن تھا جو ان کی دعوت اور پیغام کا تار و پود ہیں۔ جن کی حیثیت ملی بھی ہے، سیاسی، اجتماعی ، عقلی اور فکری بھی، یوں اس حکیمانہ شاعری کی ابتداء ہوئی جس نے ایک طرف فلسفہ اور حکمت کو چھیڑا،زندگی اور اس کے حقائق سے پردہ اٹھایا، ذات انسانی کے امکانات، اس کے جذبات و احساسات ، آرزوئوں اور تمنائوں کی ترجمانی کی۔ انسان کے لیے عالم فطرت میں جو دلکشی ہے، اس کے جمال و جلال سے جس طرح لطف اندوز ہوتا ہے، سوچتا ہے ، جذبات اور تاثرات میں کھو جاتا ہے، کچھ کہنا چاہتا ہے اس کا طرح طرح سے اظہار کیا۔ دوسری جانب اس کا رُخ سیاسی، اجتماعی حقائق کی طرف تھا۔ ان احوال و شئون پر مرتکز جن سے قوم اور وطن کا گزر ہو رہا تھا۔ آئیے ہم ان میں سے ایک کو اس شاعری کے فکری دوسرے کو ملی آہنگ سے تعبیر کریں۔ ایک کی ابتداء ہمالہ سے ہوئی ، دوسرے کی نالۂ یتیم سے۔ دونوں میں اگرچہ شروع ہی سے ایک رشتہ قائم تھا، لیکن جیسے جیسے ان کی شاعری نے ایک دعوت اور پیغام کا رنگ اختیار کیا یہ دونوں آہنگ ایک دوسرے میں کلیتاً مدغم ہو گئے۔ پھر جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دس بارہ برس کی مشق سخن، یا یوں کہیے ابتدائی دور کے بعد جس میں داغ ایسے استاد نے بھی محمد اقبال کی غزل گوئی کو سراہا، ان کی شاعرانہ حیثیت تسلیم کر لی گئی۔ یہ کیسے ہوا کہ ان کی شاعری نے دفعتاً اپنا رنگ بدلا ۔ غزل کی جگہ نظم نے لی اور وہ بھی اس حکیمانہ انداز میں کہ اس کی آب و تاب بڑھتی ہی چلی گئی حتیٰ کہ حسن صوری و حسن معنوی کی بلندیوں تک جا پہنچی گو ابھی اس کے لیے کئی اور بلندیاں باقی تھیں تو ہمیں اس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ یہ جو کچھ ہوا اس لیے نہیں کہ محمد اقبال کے دل و دماغ نے دفعتاً کوئی اثر قبول کیا یا واقعات و حالات نے ان کے ذہن کا رخ موڑ دیا۔ ہرگز نہیں۔ یہ نتیجہ تھا ، جیسا کہ انھوں نے خود لکھا ہے ، خیالات کے تدریجی ارتقا کا۔ بات یہ ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت جس نہج پر ہوئی، مکتب سے مدرسے اور مدرسے سے کالج میں آئے، جس خوبی سے فارغ التحصیل ہوئے۔ احوال عالم، قوموں کی زندگی، تہذیب اور تمدن، علوم و معارف کے مطالعے میں آگے بڑھے قدرتی بات تھی کہ ان کی شاعری نفس انسانی کی گہرائیوں میں جا پہنچے۔ شعور کی کنہ میں اتر جائے۔ اس وحدت کو پالے جہاں علم اور عقل ، فکر اور وجدان، حقیقت اور مجاز ایک ہو جاتے ہیں۔ محمد اقبال غزل سے نظم کا رُخ کریں۔ غزل بہت ہو چکی تھی اس دور میں بھی ہوئی اور ہوتی رہے گی۔ لیکن وہ غزل جو ان کے فکری اور ملی آہنگ کا ساتھ دے بہت آگے چل کر ہو گی۔ رہی نظم سو محمد اقبال نہ تو فلسفہ نظم کر رہے تھے۔ نہ قومی، اخلاقی اور قدرتی مضامین جیسا کہ ۱۸۵۷ء کے بعد مغربی شاعری کے زیر اثر عام میلان تھا۔ برعکس اس کے انھوں نے جو نظم کہی اس کا کوئی نمونہ ان کے سامنے نہیں تھا۔ آزاد کی نظمیں خشک اور شعریت سے خالی تھیں۔ حالی ایک حد تک استثنا ضرور ہیں، مگر اس حد تک نہیں کہ انھیں محمد اقبال کا پیش رو ٹھہرایا جائے۔ اردو نظم ابھی گھٹنوں کے بل چل رہی تھی۔ محمد اقبال نے اسے گہوارے سے نکالا۔ اس کی حدود قائم کیں۔ صوری اور معنوی حیثیت متعین کی۔ اسے وہ زندگی اور توانائی، وسعت اور گہرائی بخشی کہ اردو نظم جہان ادب میں عالمی شاعری کے پہلو بہ پہلو جا کھڑی ہوئی۔ نادر کا کمال فن مسلم ہے ۔لیکن نادر نے بیشتر ترجموں پر اکتفا کیا۔ سروراور محروم بھی اس میدا ن میں زیادہ آگے نہیں بڑھ سکے۔ گویا اُردو نظم میں رفتہ رفتہ جو حسن اور تنوع پیدا ہوا محمد اقبال ہی کے زیر اثر۔ محمد اقبال کی رفعت تخیل اور محمد اقبال کے حسن بیان نے جو نظم کو کچھ اس طرح سنوارا، اسے کچھ ایسی شان و شوکت بخشی کہ نظم کا جمالی پیکر غزل کا حریف بن گیا۔ اُردو نظم محمد اقبال کی تخلیق ہے وہ اسے جس اوج کمال پر لے گئے اسے کوئی نہ پہنچ سکا۔ وہ اگر یہ کہتے: مری قدر کر اے زمین سخن تجھے بات میں آسماں کر دیا تو غلط نہ کہتے ۔ چنانچہ پانچ برس کے اس مختصر سے دور ہی پر نظر رکھیے تو بے اختیار کہنا پڑتا ہے کہ یہ محض ایک شاعر کا کلام نہیں، بلکہ ایک ایسے فلسفی ، مبصرا ور مفکر ، نوع انسانی کے ہمدرد، صاحب علم و فضل ، ایک ایسے صاحب بصیرت اور حقیقت پسند سیاست دان کا جس کا دل درد انسانیت سے معمور ہے ،نگاہیں سیاسی، اجتماعی احوال و شئون پر لگی ہیں۔ ملک و قوم کی آشفتہ حالی پر مرتکز ۔ جو اس سر زمین کو جس سے اس کا خمیر اٹھا، اس قوم کو جسے ایمان ویقین کی دولت ملی آزاد، شاد و آباد، کامران اور کام گار دیکھنے کا آرزو مند ہے۔ یوں محمد اقبال کا کلام ایک پیغام بیداری بن گیا۔ ایک درس عمل، ایک نوید امید اعتماد جس نے سننے والوں کے دلوں کو گرمایا۔ ان کے ضمیر اور باطن کو جھنجھوڑا۔ انھیں خواب غفلت سے جگایا، سیاسی ہوش مندی اور غیرت ملی کا سبق دیا۔ تاآنکہ شاعر کے جذبات و احساسات ، خیالات اور تصورات کا رشتہ جب حقائق سے جا ملا تو اس کی شاعری محض شاعری نہ رہی۔ قوم اور ملک کی امنگوں کی آئینہ دار، زندگی اور اس کے احوال و اردات کی ترجمان بن گئی۔ یوں بھی محمد اقبال کی شاعری کا دور اول ایک آئینہ ہے جس میں ہم ان کے دل اور دماغ کی جھلک ہی نہیں دیکھتے۔ ہم یہ بھی دیکھ لیتے ہیں کہ ان کے خیالات اور تصورات کا ارتقا کس خوبی سے جاری تھا۔ ہم ان کے ضمیر اور باطن سے اور زیادہ قریب ہو جاتے ہیں۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں رہتا کہ ان کے فکر اور وجدان کا رخ کس طرف ہے۔ رہا ان کا کمال فن سو اہل نظر کب سے دیکھ رہے تھے کہ محمد اقبال مسلک سخن سے پورے طور پر واقف ہیں۔ شاعری کے حسن صوری اور حسن معنوی سے کلیتاً آگاہ۔یہ نتیجہ تھا اس محنت اور جاں فشانی کا جو انھوں نے اس منزل تک پہنچنے کے لیے کی اور جس کا ان کا ابتدائی کلام نا قابل انکار ثبوت ہے ۔ یوں انھیں خیالات اور تصورات ہوں، یا جذبات اور احساسات ان کی ترجمانی میں وہ قدرت حاصل ہوئی کہ ہر خیال، ہر تصور، ہر تجربہ اور مشاہد ہ جس سے ان کا گزر ہوا دلی تاثرات اور کیفیات کا ایک روح پرور سرچشمہ بن گیا۔ اسلوب بیان اور حسن ادا کا یہ عالم ہے کہ افکار دماغ ہوں، یا جذباتِ قلب مجسم ہو کر سامنے آ گئے۔ خیالات کیسے بھی اجنبی تھے، جذبات کیسے بھی نازک حقائق کیسے بھی ادق ان کا اظہار مشکل نہ رہا۔ جو انداز اختیار کیا ایسا دل کش اور دل نشین، الفاظ ایسے مناسب ترکیبیں ایسی موزوں، تشبیہیں ایسی نادر، استعارے اس قدر اچھوتے کہ جو بات کہی دل میں اتر گئی ۔ شاعری کے اس دور میں بھی وہ سب خصوصیات جمع ہو رہی تھیں جن کا تعلق ان کی عظمت فکر اور کمال فن میں زبان و بیان سے ہے۔ زبان میں وہی لطافت اور وہی حلاوت، الفاظ میں وہی حسن اور وہی شان و شوکت، بیان میں وہی بے ساختگی اور برجستگی ، خلوص اور صداقت، سوز و گداز، اثر اور تاثیر، کیف اور سر مستی جو ان کی شاعری کا طرۂ امتیاز ہے ۔ تخیل ہمہ گیر ہے، نگاہ ہر شے کی تہ تک پہنچ رہی ہے۔ ذہن فلسفہ کی گہرائیوں میں گم ہے ۔ وجدان ماورا کی سرحدوں کو چھو رہا ہے۔ شدت احساس کی یہ صورت کہ ہر لفظ میں درد کی کسک ہے ۔ ہر مصرعے میں زندگی سانس لے رہی ہے۔ ہر شعر ایک دھڑکتا ہوا دل۔ شاعر کا فکر آفاق کی وسعتوں میں پھیل رہا، اسرار ہستی کی گرہ کشائی کے لیے بے تاب ہے۔ ایک بے چین اور بے قرار روح جس کا ذوق جستجو اسے جہان ہست و بود میں کہا ں کہاں نہیں لے جاتا۔ شہر میں، شہر سے دور فطرت کی تنہائیوں میں جہاں کبھی اسے گوشۂ عزلت کی تلاش ہے۔ کبھی فطرت اس کی رفیق و جلیس ۔ اس کی آنکھ کیا نہیں دیکھتی۔ کائنات، اس کا جمال و جلال، چاند، سورج، ستارے، فضائے نیلگوں۔ ان میں کیا راز چھپا ہے، ان میں کیساحُسن ہے، محفل قدرت میں حسن ہی حسن ہے۔ آبادی میں، ویرانے میں، صبح و شام کے مناظر، دریائوں کی روانی، پہاڑوں کی خاموشی میں، ہر کہیں حسن کا جلوہ عام ہے پھر بھی دل کو تسکین نہیں ہوتی۔ حسن سے شعلۂ عشق اور بھڑک اٹھتا ہے۔ عشق کا بھی ہر کوئی راز دار نہیں۔ کوئی شے ہے جو روح کو نہیں ملتی کھو گئی ہے۔ زندگی نے اس پر پردہ ڈال رکھا ہے۔ زندگی شاید غفلت ہے، بے ہوشی ہے، خود فراموشی۔ اس درد و کرب میں کبھی چاندسے خطاب ہے، کبھی پھولوں سے گفتگو، کبھی خفتگان خاک سے استفسار، کبھی حیرت کہ پروانہ شمع پر مرمٹتا ہے۔ بچہ کس محویت سے اسے تک رہا ہے۔ کبھی جگنو کی شب تابی سے کثرت میں وحدت کا تماشائی ہر کہیں حسن از ل کی جھلک دیکھ رہا ہے۔ سوچتا ہے گل رنگین زیب محفل تو ہے، شریک شورش محفل کیوں نہیں۔ موج دریا تنگیٔ دریا سے گریزاں فرقت بحر میں پریشان ہے۔ ستارۂ صبح مضطرب کہ حیات ابدی کا راز کھلے۔شمع جل رہی ہے مگر اپنے سوز سے بے خبر۔ شمع کی درد مندی سے خود اس کا درد مند دل بھر آیا۔ وہ اس سے کیا کہے۔ انسان جس کے لیے آگہی ایک نقاب ہے۔ جس کی نگاہ مایۂ آشوب امتیاز اور جو خود اسیر فریب خیال ہے، نہیں جانتا حسن ہے یا عشق ، ناز ہے یا نیاز، کیا ہے۔ کچھ بھی ہو۔ علم ایک حیرت کدہ ہی سہی۔ آگہی ایک آشوب، عقل کے لیے ایک نہیں کئی عقدے ہیں مشکل سے مشکل تر۔ مگر یہ انسان ہی تو ہے جسے بزم ہستی میں تنہا حقیقت کو طلب ہے، جو سرتا سر سوز و ساز، سر تا سر آرزو، درد استفہام سے بے چین، تلاش متصل میں سر گرم و سرگرداں ، سعی لا حاصل کا لذت شناس ، عقل اور فکر کی گرہیں کھولتا، عقدہ ہائے مشکل کی کشود ، ناکامیوں اور پریشانیوں میں جمعیت خاطر کا راز ڈھونڈ لیتاہے۔ یہ ہے زندگی اور زندگی اسے کسی مقصد کی طرف لیے جا رہی ہے۔ مقصد کا یہی احساس جب شاعر کو اس کے داخل کی دنیا سے خارج کی دنیا میں لے آتا ہے۔ جب انفس و آفاق میں گھوم کر اس کی نگاہیں اپنے آپ پر جم جاتی ہے تو یہ سیوح دامن گیر ہو جاتی ہے کہ میں کہاں ہوں۔ زندگی کس منزل میںہے۔ گردو پیش پر نظر ڈالتا ہے تو اسے وطن کی محکومی اور زبوں حالی پر دکھ ہوتا ہے ملت کے انتشار اور پستی کو دیکھ کرمغموم اور اندوہ گیں ہو گیا۔ ذہن کبھی ماضی کا رخ کرتا، کبھی مستقبل کا۔ ہم کیا تھے کیا ہو گئے۔ تاریخ کا سہارا لیا تو وہ حقیقت سامنے آ گئی جو قوموں کی تقویم اور تقویت کا راز ہے ۔ جس سے ایک ایسی عالم گیر انسانیت کا تصور ابھرتا ہے جس کا جسم و جان،جذبۂ محبت، اخوت اور مساوات سے سر سر شار ہے۔ یوں ان کے داخل اور خارج کی دنیا میں جو مطابقت پیدا ہوئی ۔ دل و دماغ جس طرح ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہو گئے اس سے محمد اقبال کی حیثیت محض ایک شاعر، ایک عظیم اور حساس فنکار کی نہیں رہی جو ملی اور قومی، سیاسی اور اجتماعی حقائق کو الفاظ کے پری خانوں میں اتار رہا، افکار اور تصورات کے شیش محل تیار کر رہا تھا۔ بلکہ ایک ایسے دیدہ ور، وقت اور حالات کے نبض شناس کی جس کا دل آزادی کے لیے تڑپتا۔ جو اہل وطن کی نفاق انگیزی سے نفور ان کے درمیان اتحاد و اتفاق اور صلح و آشتی کا سفیر بن کر آیا۔ جس کا جی چاہتا تھا افسردگی اور بے دلی کی اس فضا میں جو تعصب اور تنگ دلی کو ہوا دے رہی ہے، جس میں ایک برگشتہ بخت قوم محکومی اور غلامی کے گرداب میں جا گری امید و نشاط کا دور دورہ ہو۔ محمد اقبال کے امنگ بھرے دل میں آرزوؤں کا ہجوم تھا۔ جذبات میں ہیجان ۔ کچھ ایساجوش اور ولولہ کہ ان کے نہاں خانہ دماغ سے افکار و تصورات کی ایک کے بعد دوسری لہر اٹھتی۔ رفتہ رفتہ یہ لہریں تیز سے تیز تر ہوتی گئیں۔ ان کا رخ متعین ہونے لگا۔ شاعری ایک نصب العین پر مرتکز ہو گئی۔ شاعر نے اپنی منزل مقصود کو پا لیا۔ یہ نتیجہ تھا اس ایمان و یقین کا اس ذرہ ٔ درد دل کا جس کی بدولت عشق رسول کا وہ جذبہ جو اسلام سے والہانۂ عقیدت اور امت کے لیے درد مندی کا سر چشمہ ہے اس کے رگ و پے میں اتر گیا۔ جس کا اظہار نالۂ یتیم اور فریاد امت ایسی نظموں میں بار بار ہوتا۔ جو بلال ایسی نظم میں ایک شعلے کی طرح بھڑک اٹھا۔ پھر جب عشق و سرمستی کے اس عالم میں یہ احساس اُبھرتا کہ اس کا رشتۂ حیات کس حقیقت سے وابستہ ہے، ہماری ہستی اور وجود کا راز کیا ہے۔ وہ ذات پاک جس نے ہمیں زندگی ایسی نعمت سے سرفراز فرمایا، جس کی تجلیوں سے کائنات اور اس کے ہر ذرے کو روشنی ملی ،کہاں ہے۔ ہم اسے کہاں تلاش کریں تو اس کا حقیقت آشنا دل بے اختیار کہہ اٹھا: جنھیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں وہ نکلے میرے ظلمت خانۂ دل کے مکینوں میں پھڑک اٹھا کوئی تیری ادائے ماعرفنا پر ترا رتبہ رہا بڑھ چڑھ کے سارے نازنینوں میں جلا سکتی ہے شمع کشتہ کو موج نفس ان کی الٰہی کیا چھپا ہوتا ہے اہل دل کے سینوں میں رہے شعر گوئی میں محمد اقبال کے فیضانی لمحات سو کیفیت ان کی یہ تھی کہ غضب کی آمد ہوتی۔ شعر پر شعر کہے چلے جاتے۔ ایک ایک نشست میں سینکڑوں شعر ہو جاتے۔ ان کے دوست۲۴۷؎ کاغذ پنسل لے کر بیٹھ جاتے اور وہ اپنی دُھن میں کہے چلے جاتے۔’’میںنے اس زمانے میںانھیں کبھی کاغذ قلم لے کر فکر سخن کرتے نہیں دیکھا۔ موزوں الفاظ کا دریا بہتا۔ ایک چشمہ اُبلتا ہوا معلوم ہوتا۔ ایک خاص کیفیت رقت کی ان پر طاری ہو جاتی تھی۔ اپنے اشعار سریلی آواز میں ترنم سے پڑھتے تھے۔ خود وجد کرتے، دوسروں کو وجد میں لاتے۔ یہ عجیب خصوصیت ہے کہ حافظہ ایسا پایا تھا کہ جتنے اشعار زبان سے نکلتے اگر وہ ایک سلسلہ نظم کے ہوں تو سب کے سب دوسرے وقت اور دوسرے دن اسی ترتیب سے حافظے میں محفوظ ہوتے۔ بایں ہمہ موزونی طبع وہ حسب فرمائش شعر کہنے سے قاصر تھے‘‘۔۴۸ ۲؎ پھر بھی ابو صاحب کی فرمائش پر ایک بار تین شعر کہہ ڈالے۔۲۴۹؎ اُردو میں اپنی آخری نظم حضرت انسان ارقام فرمائی تو پلنگ کے پاس ہی اٹھایا رکھی ہوئی تپائی سے کسی چاک کردہ کاغذ کا ایک ایک پرزہ جس پرکچھ لکھا ہوا نظر نہیں آتا تھا اٹھایا اور فرمانے لگے لکھو، تا آنکہ پوری نظم جو سات اشعار پر مشتمل ہے، لکھوا ڈالی۔ حالانکہ شدت عوارض سے نقاہت کا یہ عالم تھا کہ ایک ایک لفظ پر رکنا پڑتا۔ سانس پھول جاتا۔ آواز بیٹھ جاتی۔ مجھے تعجب ہوتا انھیں یہ اشعار کیسے یاد رہ گئے ہیں۔فرماتے فیضانی لمحات کا تعلق زیادہ تر آخر شب یا فجر سے ہوتا ہے اور ان کی شدت کا یہ عالم کہ جب تک شعر نہ ہو جائیں طبیعت کو تسکین نہیں ہوتی۔ بعینہ جیسے ہمارے طبعی اور فطری تحریکات کہ ہم انھیں روک نہیں سکتے۔ وہ اپنا تقاضا پورا کر کے رہتی ہیں۔ ارشاد ہوا’’بعض اوقات خواب میں بھی اشعار ہو جاتے ہیں، مثلاً یہ شعر: دوزخ کے کسی طاق میں افسردہ پڑی ہے خاکستر اسکندر و چنگیز و ہلاکو لیکن اس کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا‘‘۔۲۵۰؎ مرزا جلال الدین کہتے ہیں’’اقبال کے کلام کا بیشتر حصہ شب کی تنہائی میں مرتب ہوتا۔ معمولی سے معمولی واقعات سے بھی فلسفہ کا کوئی پہلو نکال لیتے۔ ایک مرتبہ سر ذوالفقار علی، سر جوگندر سنگھ اور میں اقبال کے ساتھ نواب صاحب کی موٹر میں شالامار کی سیر کو نکلے۔ نواب صاحب کی موٹر بیش قیمت تھی۔ سر جو گند ر سنگھ نے از راہ حیرت کہا نواب صاحب کی موٹر کس قدر خاموش واقع ہوئی ہے۔ اقبال نے اسی فقرے پر اپنی نظم موٹر کی بنیاد رکھی اور کیا نکتہ پیدا کیا:۲۵۱؎ ہے جادۂ حیات میں ہر تیز پا خموش پھر کہا: شاعر کے فکر کو پر پرواز خامشی سرمایہ دار گرمئی آواز خامشی علی برادران کی رہائی میں امرتسر میں ایک جلسہ منعقد ہوا۔ ۲۵۲؎ جب نواب ذوالفقار علی، اقبال اور میںنواب صاحب کی موٹر میں امرتسر کی جانب روانہ ہوئے۔ راستے میں باتیںکر رہے تھے۔ اچانک اقبال پر کیفیت طاری ہونے لگی انھیں خاموش پا کر نواب صاحب نے ان کی جانب دیکھا تو وہ کسی اور ہی دھن میں نظر آئے۔ کہنے لگے لو بھئی یہاں فکر شعر ہو رہی ہے۔ … چند ساعت کے بعد اقبال چونکے ۔ فرمانے لگے نواب صاحب اب کہیے کیا ارشاد ہے معلوم ہوا بلبلان اسیر کی رہائی کے عنوان سے تین اشعار ابھی ابھی موزوں ہوئے ہیں۔۲۵۳؎ پھر لکھتے ہیں بعض اوقات ان پر ایک معنی خیز سکوت سا چھا جاتا اور یوں دکھائی دیتا جیسے وہ کسی اور ہی دنیا میں چلے گئے ہیں۔ پھر وہ یک لخت چونک پڑتے۔ گویا نیند سے بیدار ہوئے ہیں…اس حالت کے ظاہر ہوتے ہی ہم سمجھ جاتے کہ ان پر کوئی وجدانی کیفیت طاری ہے۔ وہ شعر کی فکر میں ہے۔ کئی مرتبہ میرے مشاہدے میں آیا کہ جب اقبال کا دل کسی جذبے سے متاثر ہوتا تو وہ گردو پیش کے حالات سے بالکل بے خبر ہو جاتے‘‘۔۲۵۴؎ ۱۹۲۲ء کا ذکر ہے ۔ مہینہ شاید اپریل یا مئی کا تھا’’ ایک مجلس میں اقبال، گرامی اور بسمل تشریف رکھتے تھے۔ صاحب خانہ نے جو شاعر تھے ا ور نوازش تخلص کرتے ایک مصرع بردیف اہل درد پڑھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اقبال نے بیان کیا تھا کہ انھیں درد قولنج کی شکایت ہے اور اس وقت اس کے آغاز کے آثار معلوم ہوتے تھے۔اس پر غزل کی فرمائش ہوئی اور اقبال نے بحالت درد دو غزلیں اس زمین میں کہیں۔ دونوں غزلوں کے مقطعے ہیں: ارتجالاً ہم نے اے اقبال کہہ ڈالے یہ شعر تھی نوازش کو جو فکر امتحان اہل درد کہہ دیا اقبال اک مصرع نوازش نے جو آج وہ بہانہ ہو گیا بہر بیانِ اہل درد مولوی عبداللہ بسمل نے ایک فارسی قطعہ تمہیداً ان غزلوں کے ساتھ لکھ کر بغرض اشاعت مخزن کو بھیجا۔ یہ قطعہ فارسی میں ہے۔ دس اشعار پر مشتمل ، بسمل نے لکھا تھا: یک شبے اقبال آن روح و روان اہل درد بود بسمل با گرامی میہمان اہل درد میزبان از راہ شوخی مصرعۂ برجستہ خواند غالباً منظور بودش امتحان اہل درد ارتجالاً گفت اقبال این غزل از سوز دل داد سر طوفان بے تابی بجان اہل درد گرچہ می پیچید از درد شکم بر خویشتن درد آسا آن چراغ دودمان اہل درد من پئے مخزن ازان محفل بخود آوردہ ام نسخہ شور قیامت داستان اہل درد رات کا وقت۔ بے تکلف احباب کا اجتماع۔ گرامی اور بسمل جیسے فارسی گواستاد موجود۔ اقبال درد اور تکلیف کے عالم میں قلم لے کر بیٹھے اور فی البدیہہ ۳۱ شعر کہہ ڈالے۔ دونوں غزلیں برجستہ گوئی کا نتیجہ۔ دونوں میں مسلسل روانی۔ طبیعت کی روانی۔ درد کی شدت سے بے پرواملکہ شعر گوئی وقت اور حالات سے بے نیاز۔ پہلی غزل کا مطلع ہے: زندگی دنیا کی مرگ ناگہان اہل درد موت پیغام حیات جاودانِ اہل درد دوسری کا: صبر ایوب وفا خو جزو جان اہل درد گریہ آدم سرشت دودمان اہل درد یہ دونوں غزلیں بانگ درا میں شامل نہیں۔ ۲۵۵؎ ۱۸۹۰ء سے محمد اقبال کا کلام جو حسن اور دل کشی اختیار کر رہا تھا۔ ان کی زبان جس طرح منجھتی چلی جا رہی تھی اس کے باوجود اہل زبان نے اس پر متعدد اعتراض کیے۔ حالانکہ مولانا شبلی، مولانا نذیر احمد ،مولانا حالی اور مرزا ارشد گورگانی ایسے اساتذہ فن انھیں دادِ تحسین دے چکے تھے۔ یہ اعتراصات تنقید ہم درد کے عنوان سے شائع ہوتے اور ان کے دوست خوشی محمد ناظر بھی اس تنقید کی زد میں آ گئے۔ میر نیرنگ نے محمد اقبال کی حمایت میں قلم اٹھایا۔ انبالوی کے نام سے مخزن میں مضامین لکھتے۔ لیکن خود محمد اقبال نے اس کا جواب نہایت خوبی سے دیا۔ جہاں کہیں زبان کے معاملے میں کوئی لغزش ہوئی اس کا اعتراف بھی خوش دلی سے کر لیا۔ لیکن انھیں دکھ تھا کہ مضمون نگار ناظر اور اقبال کے اشعار پر اعتراض کرتے ہوئے پنجابیوں کی ہنسی اڑاتا ہے۔ بھُولتا ہے کہ اُردو مسلمانوں کی قومی زبان ہے۔ کہتا ہے پنجاب میں غلط اُردو کا رواج ہونے سے یہ بہتر ہے کہ اس صوبے میں اس زبان کا رواج نہ ہو۔ لیکن یہ نہیں بتلاتے غلط اور صحیح کا معیار کیا ہے۔ پھر اُردو کہ ہمہ گیری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ زبان کس طرح پورے ملک کی تسخیر کر رہی ہے۔ تعجب ہے اہل زبان بھول گئے کہ محمد اقبال کو اُردو سے والہانہ محبت تھی۔ انھیں گیسوئے اُردو کی شانہ کشی کا کس قدر خیال تھا ۔ اُردو کی محبت ہی میں انھوں نے انگریزی میں اُردو زبان پر ڈاکٹر رائٹ برجمنٹ کے مختصر مضمون کا ترجمہ کیا جو مخزن کے شمار ے ستمبر ۱۹۰۲ء میں چھپا اور جس کی اشاعت پر عبدالقادر نے تمہیداً لکھا۔ اس مضمون کے مطالعے سے معلوم ہو گا کہ اُردو زبان کے بانکپن نے مغربی فضلا کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔ڈاکٹر رائٹ کا خیال تھا کہ اُردو جس کی ابتداء قلعہ معلیٰ سے ہوئی پھیلتے پھیلتے ایک روز ہندوستان کے مختلف حصوں میں پہنچ جائے گی۔ یعنی ہندوستان کی قومی زبان بن جائے گی۔ محمد اقبال بھی تو اپنے مضمون میں اس بات پر زور دے رہے تھے کہ اہل زبان کی زبان دانی بجا، لیکن زبان کے تعصب میں کہیں ایسا نہ ہو کہ اُردو صرف ایک چھوٹے سے خطے میں محدود ہو کر رہ جائے ، پنجاب اور بنگال کے درمیان چند ایک شہروں میں۔ دراصل اہل زبان نے محض زبان کے تعصب میں محمد اقبال کی شاعری کو دیر تک سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ تنگ نظری ایک فطری امر ہے۔ جس کی مثالیں دوسری قوموں سے بھی مل جاتی ہیں اور اس میں ایک پہلو جواز کا بھی ہے کیونکہ اس طرح غیر اہل زبان غلطیوں سے بچتے ہیں۔صحت زبان میں فرق نہیں آتا۔ محمد اقبال کس صاف دلی سے کہتے ہیں:’مجھے اساتذہ کی برابری کا دعویٰ نہیں۔ اگر اہل پنجاب مجھے، یا حضرت ناظر کو بہمہ وجوہ کا مل خیال کرتے ہیں تو یہ ایک ایسی دشوار گذار وادی ہے جہاں قدم قدم پر ٹھوکر کھانے کا اندیشہ ہے تنقید ہم درد کے ایک ایک اعتراض کو لے کر اور پھر نہایت خوبی سے اس کا جواب دیتے ہوئے انھوںنے مضمون کا خاتمہ یہ کہہ کر کس خوبی سے کیا کہ راقم مشہدی نے میرے دل کی بات لکھی ہے۔ نیم من در شمار بلبلاں اما بہ ایں شادم کہ من ہم در گلستان قفس مشت پرے دارم۲۵۶؎ محمد اقبال کا یہ سارا مضمون نہایت سلجھا ہوا، معلومات سے پر اور زبان کے بارے میں جن حقائق پر مبنی ہے ان سے ناقدان فن خوب خوب فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ میر ممتاز علی اور انبالوی صاحب کی وسعت خیال کی تعریف کرتے ہوئے بجا طور پر کہتے ہیں’’جو زبان بن رہی ہو اور جس کے محاورے اور الفاظ جدید ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اختراع کیے جا رہے ہوں اس کی صحت اور عدم صحت کا معیار قائم کرنا محالات میں سے ہے…جہاں جہاں اس کا رواج ہو گا وہاں کے لوگوں کا طریق معاشرت، ان کے تمدنی حالات اور ان کا طرز بیان اس پر اثر کیے بغیر نہ رہے گا۔ یہ علم الالسنہ کا معلم اُصول ہے جس کی صداقت اور صحت تمام زبانوں کی تاریخ سے واضح ہو جاتی ہے اور یہ بات کسی لکھنوی یا دہلوی کے امکان میں نہیں کہ اس کے عمل کو روک سکے۔ اگر کوئی شخص پنجابی محاورے کا لفظ استعمال کرے تو اسے کفر و شرک کا مرتکب مت سمجھو…پنجابی کا کوئی لفظ اُردو میں گھسنے نہ پائے ایک ایسی قید ہے جو اُردو زبان کے اُصولوں کے صریح خلاف ہے۔ مخزن میں یہ مضمون شائع ہوا تو عبدالقادر نے نہایت ٹھیک لکھا کہ جس تحقیق سے شیخ محمد اقبال نے کام لیا ہے وہ قابل داد ہے۔ اسے اس بحث کا خاتمہ سمجھنا چاہیے۔۲۵۷؎ آگے چل کر انھوں نے زبان کے بارے میں کیا صحیح لکھا ہے:’’میں زبان کو ایک بُت تصور نہیں کرتا جس کی پرستش کی جائے بلکہ اظہار مطلب کا ایک انسانی ذریعہ ۔ زندہ زبان انسانی خیالات میں انقلاب کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ جب اس کی انقلابی صلاحیت باقی نہیں رہتی تو مردہ ہو جاتی ہے۔ ہاں تراکیب کے وضع کرنے میں مذاق سلیم کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے‘‘۔۲۵۸؎ ’’۱۹۳۳ء میں محمد اسد ملتانی مرحوم ڈاکٹر انصاری مرحوم کے دولت کدہ دارالسلام میں ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ زبان کا ذکر آیا تو فرمایا’’زبان تو اہل فکر خود پیدا کرتے ہیں۔ اہل زبان کے متعلق تو اتنا سمجھتا ہوں کہ انھیں چکی چولہے کے الفاظ کافی تعداد میں معلوم ہوتے ہیں۔ ورنہ علمی خیالات کے اظہار کے لیے اہل زبان اور غیر اہل زبان دونوں برابر ہیں۔ دونوں کو حالات کے مطابق الفاظ تراشنا پڑنے ہیں‘‘۔ پھر میرزا بیدل کے کلام سے خرام کا شتن کی مثال دیتے ہوئے فرمایا: ’’مولانا آزاد کے قاعدے میں لفظ لیزم آیا ہے (بہ معنی مگدر) دہلی میں تو یہ لفظ بچے آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ پنجاب میں بچے کیا سمجھیں گے۔ استاد بھی اس کے معنی دریافت کرتے رہتے ہیں۔‘‘ ۲۵۹؎ پھر کہتے ہیں:’’ زبانیں اپنی اندرونی قوتوں سے نشوونما پاتی ہیں اور نئے نئے خیالات اور جذبات ادا کرنے پر ان کی بقا کا انحصار ہے‘‘۔۶۰ ۲؎ جناب عابد رضا بیدار نے ان مباحث کو جو اہل زبان کی طرف سے چھیڑے گئے رسالہ برہان دہلی، جولائی تا دسمبر ۱۹۶۱ء میں جمع کر دیا ہے۔۲۶۱؎ وہ کہتے ہیں لکھنؤ پہلا شہر ہے جس نے اقبال پر نکتہ چینی کا آغاز کیا۔ اس شہر نے حالی کو بھی نہیں بخشا تھا۔ مگر اقبال پر خاص طور سے لے دے ہوتی تھی ۔ ویسے ادبی بحث و نظر کا سلسلہ اقبال اور حسرت موہانی میں بھی رہا۔ لیکن افہام و تفہیم کی حد تک دوستانہ روح کے ساتھ۔ چنانچہ علی گڑھ سے جب اردوئے معلیٰ نکلتا تھا حسرت کے اعتراض اقبال کے جواب اور پھر جواب اور پھر جواب الجواب اس میں چلتے رہتے تھے اور چونکہ مقصد تعمیری تھا اس لیے ان مذاکرات کا نتیجہ اچھا ہی نکلا۔ بعض اوقات اقبال نے حسرت کے بعض مشور ے بھی قبول کیے… اودھ پنچ میں اقبال کے خلاف ایک محاذ قائم کر دیا گیا تھا۔ اس وقت ممتاز حسین عثمانی اس کے ایڈیٹر تھے۔۱۹۲۰ء کا ذکر ہے ۲۸ جنوری کی اشاعت میں اقبال کی خامیاں نام کتاب پر ایک ریویو شائع کیا گیا جو بعض کم نظر اہل زبان کی معاندانہ روش کا ایک نمونہ تھا۔ اس تحریر سے دو باتیں خاص طور پر سامنے آئیں۔ پہلی یہ کہ اقبال کی زبان کو اغلاط کا مرتکب سمجھ کر ہدف بنایا گیا۔ دوسرے یہ کہ اقبال کے کلام کے معانی اور پیغام سے تو کوئی بحث نہیں کی گئی مگر صحت و صفائی زبان پر لغویت اور بد مذاتی کے ساتھ زور دیا گیا۔ گویا اقبال کی اُردو میں فارسیت کے اثر کی جو پیر وڈی کی گئی تھی وہ بھی اسی ذہنیت کا نتیجہ تھی۔ رضا بیدار کہتے ہیں مولانا سے اس موضوع پر گفتگو ہوئی اور عرض کیا گیا کہ اُردو تو سارے ہندوستان کی زبان ہے۔ آپ کیا یہ چاہتے ہیں اُردو لکھنؤ کارپوریشن کے حدود سے باہر قدم نہ رکھے؟ انھوںنے کہا: میں نے تو اقبال کی زبان پر بہت کم گرفت کی ہے۔ ان سارے اعتراض میں چکبست ، بیدم وارثی، شاہ دلگیر اور منشی سجاد حسین مدیر اودھ پنچ کا ہاتھ کام کر رہا ہے۔ ۲۶۲؎ مولانا تو نہایت مخلص اور سچے انسان تھے۔ انھوں نے جو کچھ فرمایا صحیح جس میں شک و شبے کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہاں یہ امر خالی از دلچسپی نہ ہو گا کہ مخزن شمارہ اکتوبر ۱۹۰۴ء میں’ ترانۂ ٔہندی‘ شائع ہوا تو مولانا حسرت موہانی نے اردوئے معلیٰ شمارہ نومبر ۱۹۰۴ء میں لکھا۔ حضرت اقبال کی نظمیں روز بروز زبان کے لحاظ سے صاف ہوتی جا رہی ہیں۔ کاش کہ جیسی توجہ اور احتیاط وہ نظم میں کرتے ہیں ایسی ہی نثر میں بھی کرتے رہیں۔ مولانا نے لکھا اہل پنجاب میں جو لوگ منصف مزاج اور صحت زبان کے خواستگار ہیں وہ اپنی غلطیوں کو چھوڑے جاتے ہیں اور نکتہ چینیوں کی نکتہ چینیوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مولانا نے ترانہ ہندی کے مصرعے، معلوم ہے ہمیں کو درد نہان ہمارا‘ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا ہمارا کی بجائے اپنا ہونا چاہیے تھا۔ پھر جب اس معلوم کیا کسی کو معلوم ہے ہمیں سے بدل دیا گیا تو انھوںنے اس تبدیلی کی تعریف کی۔۲۶۳؎ رضا بیدار کہتے ہیں اہل زبان میں ایک طبقہ وہ بھی تھا جو محمد اقبال کی شاعری کا دل سے قائل تھا۔ کتنے ماہنامے تھے جن کے سرورق کو ان کے اشعار سے زینت دی جاتی۔ تمدن ۱۹۱۱ء میں شیخ محمد اکرام اور راشد الخیری کی ادارت میں جاری ہوا۔ شیخ محمد اکرام مخزن کی ادارت کر چکے تھے۔ محمد اقبال کے احباب خاص میں سے تھے ۔ محمد اقبال بہ غرض تعلیم انگلستان روانہ ہوئے تو دہلی میں شیخ صاحب ان کے ساتھ تھے۔ تمدن نے محمد اقبال کی ایک فارسی غزل بڑے اہتمام سے شائع کی۔ پروفیسر مرزا محمد سعید۲۶۴؎ نے تمہیداً لکھا۔ حضرت اقبال کے اُردو کلام سے ایک زمانہ مستفید ہو چکا ہے۔ لیکن یہ امر نسبتاً کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ جناب موصوف فارسی کلام پر بھی کما حقہ قدرت رکھتے ہیں… ان کی طبع نیساں کا یہ ترشح امید دلاتا ہے کہ تمدن کی کشت مضامین آئندہ بھی ان کے ترشحات قلم سے سیراب ہوتی رہے گی۔ اُردو فارسی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اہل زبان کو زیادہ تر اعتراض محمد اقبال کی فارسیت پر تھا۔ مرزا صاحب نے اس اعتراض کی نفی یہ کہہ کر کہ اُردو اور فارسی کا چولی دامن کا ساتھ ہے، نہایت خوبی سے کر دی۔ زمانہ کان پور نے قومی نمبر نکالا تو محمد اقبال سے استدعا کی کہ اس کے لیے کوئی شعر عنایت کریں۔ درد عشق شاید اسی تقریب کے لیے لکھی گئی۔ شمع آگر ہ کو بھی محمد اقبال سے بڑی عقیدت تھی۔ یہ تو خیر شعر و شاعری کا معاملہ تھا جہاں تک زبان کا تعلق ہے لکھنؤ ہی نے اگرچہ محمد اقبال کے خلاف ایک محاذ قائم کر رکھا تھا۔ مگر لکھنؤ ہی سے وصل بلگرامی نے مرقع کے نام سے ایک ماہنامہ جاری کیا تو ان سے سرورق کے لیے شعر کی درخواست کی۔ انھوں نے دو تین شعر ارسال کیے۔ وصل کو تیسرا شعر بہت پسند آیا جو مرقع کے سرورق کی زینت رہا۔ وصل نے لکھا میں جناب علامہ ڈاکٹر محمد اقبال صاحب ایم۔ اے ۔ پی ایچ۔ڈی بالقابہ بیرسٹرایٹ لا لاہور کے نام نامی سے ابتداء کرتا ہوں جنھوں نے اپنا ایک شعر خاص مرقع کے سروق کے لیے عطا فرمایا۔۲۶۵؎ گویا حضرت بیدار کا کہنا ہے کہ اہل زبان کا سخن فہم طبقہ بہر حال محمد اقبال کی شاعری کا قائل تھا جس کی شبلی، نذیر احمد ، حالی ایسے اساتذہ فن داد دے چکے تھے۔ میرے نزدیک یہ معاملہ اہل زبان اور غیر اہل زبان کا نہیں تھا۔ سخن شناسی اور سخن فہمی کا تھا۔ بات ۱۹۰۵ء سے آگے نکل چکی ہے۔ لیکن یہاں اسے نا تمام چھوڑ دینا مناسب نہیں آگے چل کر بتفصیل اس کا ذکرآئے گا۔ یہاں قابلِ لحاظ امر یہ ہے کہ جہاں تک شاعری کا تعلق ہے ۔ شاعری اس دور میں غزل ہی میں محدودہو کر رہ گئی تھی اور غزل کا رنگ وہ نہیں تھا جو محمد اقبال کی شاعری کا۔ پر وہ زمانہ تو کیا اب بھی شاید اس کا انداز وہی ہے جو اس زمانے میں تھا۔ رنگ سخن ان معنوں میں نہیں بدلا جن معنوں میں دراصلاح شعر و ادبیات اسلامیہ محمد اقبال نے اسرار خودی میں اپنا نقطۂ نظر پیش کیا ہے، ہل زبان کے یہاں تو زبان کی آڑ میں ان کی شاعری ہدف اعتراض بن سکتی تھی۔ غیر اہل زبان کے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔ ورنہ جہاں تک مذاق سخن کا تعلق ہے معاملہ کم و بیش ایک سا تھا۔ اس ضمن میں عزیز احمد کی ایک عبارت کا اقتباس بے محل نہ ہو گا تا کہ بات ادھوری نہ رہ جائے۔ ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض شاعروں کا کلام بعض قوموں کی روح حیات کو بہت متاثر کرتا رہا ہے۔ مثلاً ہومر کی شاعری یونانیوں کے لیے اور شلر کی شاعری جرمنوں کے لیے ایک بہت بڑا قومی ہتھیار تھی۔ لیکن شاید ہی دنیا کی تاریخ میں اس کی کوئی نظیر ہو کہ ایک شاعر نے ایک قوم کو اس کے وجود سے خبردار کیا۔ اسے بقا کے طریقے بتائے۔ بقا کی جدوجہد میں اس کا ہاتھ بٹایا اور آزاد ہوکر دنیا کے نقشے پر اپنے لیے ایک جگہ محفوظ کرنے کا راستہ دکھایا۔ یہ سارا کام شاعر نے اپنی فکر ، حکمت ، شاعری سے کیا ۔ ادب اور فنون لطیفہ کی یہ تحریک اقبال کا سب سے بڑا اور زندہ تحفہ ہے۔ اس نے ایک ملک کی تعمیر کی بنیاد رکھی ہے اور ایک قوم کو صدیوں کے بعد جگایا ہے… ‘‘۲۶۶؎ یہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ محمد اقبال کی شاعری کا دور اول ہی تھا جس سے اس تحریک کا جس کی طرف عزیز احمد نے اشارہ کیاہے، آغاز ہوا ۔ محمد اقبال کے معترض اس نکتے کو نہیں سمجھے۔ حالی، شبلی، نذیر احمد البتہ سمجھ گئے تھے۔ عبدالقادر نے البتہ اپنے ہلکے پھلکے شذروں میں بڑے کام کی باتیں کہی ہیں۔ گویا یہ عبدالقادر ہی تھے جنھوں نے مخزن کے ذریعے ان کی شاعری کا وسیع پیمانے پر تعارف کرایا۔ بالخصوص اس لیے کہ بجزان کے محمد اقبال کی شاعری پر اس زمانے میں کوئی مضمون نہیں لکھا گیا۔ شاعری کے اس دور ہی میں محمد اقبال نے اُردو غزل کو جو نئی جہت دی۔ ان کے ملی اور فکری آہنگ سے اُردو ادب کو جو نئے نظریے ملے۔ نئے نئے رحجانات اور خیالات ابھرے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کا غلغلہ جس طرح ہندوستان میں پھیل گیا۔ ان کے مداحوں اور قدردانوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا، نا ممکن تھا اس سے ان کے ہم عصر شعراء متاثر نہ ہوتے۔ عبدالقادر لکھتے ہیں:’’ان کی عظمت اور فضیلت دراصل اس اثر اور گہرے نقش میںمضمر ہے جو انھوں نے اپنے زمانے کے اُردو ادیبوں اور شعراء پر چھوڑا … ان کی ترقی اور شہرت کے ابتدائی دور میں ان کے دوہم عصر نادر کا کوروی اور سرور جہان آبادی تھے…ان دونوں کے کلام میں اقبال کے ابتدائی رنگ اور اندازِ کلام کی جھلک ملتی ہے۔ اقبال کے ایک اور ممتاز ہم عصر پنڈت چکبست لکھنوی… ان کے بڑے مداحوں میں سے تھے‘‘۔۶۷ ۲؎ اس سلسلے میں شیخ صاحب نے جوش ملیح آبادی، دکن کی ممتاز شاعرہ بشیر النساء بشیر اور ڈاکٹر عباس علی۲۶۸؎ کا ذکر بھی کیا ہے۔ مگر نادر کا کور وی اور سرور جہان آبادی ان سے بالخصوص متاثر تھے۔ دونوںکو ان سے بڑا تعلق خاطر اور بڑی ارادت تھی۔ نادر کا کوری نے ریفارمیشن کے زیر عنوان مخزن کے لیے ایک نظم لکھی تو اسے اپنے ہم خیال دوست شیخ محمد اقبال صاحب کے نام نامی سے معنون کیا۔۲۶۹؎ محمد اقبال انگلستان میں تھے۔ سرور جہان آبادی نے ایک نظم لکھی بہ عنوان ’فضائے برشگال اور پروفیسر اقبال، دو بند ہیں۔ پہلے بند کو برسات کا نقشہ کھینچتے ہوئے اس شعر پر ختم کیا ہے: بہار آئی شگفتہ ہوئے گل پنجاب چہک چہک کہ کدھر تو ہے بلبل پنجاب اشارہ محمد اقبال کی طرف ہے۔ دوسرے بندمیں یہ کہتے ہوئے کہ برسات کے لیل و نہارکا تقاضا کیا ہے۔ ان سے شکایۃً کہتے ہیں: ترے بغیر ہیں مرغان نغمہ زن خاموش ترے بغیر ہے یاروں کی انجمن خاموش اس نظم کی اشاعت کو چند ہی مہینے گزرے تھے کہ عبدالقادر نے لکھا:’’ ہمارے مکرم منشی درگاہ سہائے صاحب سرور جہان آبادی کی تحریک بے سود نہ ثابت ہوئی ۔ شیخ محمد اقبال سے ایک غزل لکھوا کے ہی رہے۔ شیخ صاحب لکھتے ہیں کہ مصروفیت کا وہی عالم ہے لیکن مجھے اندیشہ ہے حضرت سرور جنھوں نے میری خاموشی کو توڑنا چاہا ،کہیں ناراض نہ ہو جائیں۔ اس لیے ان کی نظم کے شکریے میں سردست یہ غزل بھیجتا ہوں۔ امید ہے کہ عنقریب کچھ اور بھی بھیجوں گا۔‘‘ ۲۷۰؎ پوری غزل بانگ درا حصہ دوم میںموجود ہے ۔ مطلع ہے: چمک تری عیاں بجلی میں آتش میں شرارے میں جھلک تری ہو یدا چاند میں سورج میں تارے میں محمد اقبال کی شاعری کا غلغلہ ہندوستان میں دور دور تک پھیل رہا تھا۔ ان کے مداحوں اور قدر دانوں کی تعداد بھی روز بروز بڑھ رہی تھی۔ ان کی تعریف میں شعر کہے جاتے۔ تحریروں اور تقریروں میں خراج تحسین پیش کیا جاتا۔ ایک صاحب تھے بدرالدین قیصری۔ انھوںنے محمد اقبال کی شان میں کچھ اشعار اور ایک قطعہ فارسی میں بطور تمہید لکھا ان کی شاعری کی طرح طرح سے تعریف کرتے ہوئے کہ اس کی کہیں مثال نہیں ملتی: از ہمہ خوباں بہ رعنائی یگانۂ بودۂ وز جمال خویش در عالم فسانۂ بودۂ۲۷۱؎ امید ظاہر کی کہ وہ جوہر قابل جو انھیںمبدأ فیاض سے ملا ہے اس کی بدولت آگے ہی آگے بڑھیں گے۔ دعا کی: طبع تیری غیرت صد ابر نسیانی رہے ذات تیری مظہر الطاف یزدانی رہے قیصری نے جو کچھ کہا، جن تو قعات کا اظہا رکیا اپنی جگہ پر ٹھیک لیکن ایک بات ہے کہ اسے کہے بغیر نہیں رہا جاتا اور وہ یہ کہ شاعری کے اس دور میں بھی محمد اقبال کی نظر گو عالم گیر حقائق پر تھی۔ علوم و معارف میں بھی ان کا مطالعہ وسیع تر ہو رہا تھا۔ فطرت انسانی کے نبض شناس تھے۔ خوب جانتے تھے وطن کے مسائل کیا ہیں۔ ان کا حل کیا ہے۔ مسلمان نکبت اور ادبار کی کن پستیوں میں جاگرے ہیں۔ ان کا شعور ملی کہاں تک مضمحل ہو چکا ہے۔ وہ جو کچھ کہتے انھیں خیالات اور جذبات کے زیر اثر ۔ مگر اس کے باوجود ایسا بھی ہوتا کہ ان کی شاعری میں غزل کا عام رنگ لوٹ آتا۔ عقائد پر بھی کہیںکہیں روایات چھا گئی ہیں۔ غلو بھی ہے اور جذبات میں بے احتیاطی بھی جس کا ان کے فکر اور فرہنگ حتیٰ کہ اس پیغام ا ور دعوت کی بحث جو ان کی شاعری کا حاصل ہے،کا لحاظ رکھنا ضروری ہے تا کہ اندازہ ہو جائے ان کا ذہن کیسے کیسے خیالات اور جذبات کا آماج گاہ تھا۔ ا س کا گزر کہاں کہاں ہوا اور ہو رہا تھا۔ کیسے طرح طرح کے مراحل طے کرتے ہوئے وہ اپنی منزل مقصود کو پہنچے۔ پھر اس لیے بھی کہ دور اول کا یہ کلام جو ان کے مطبوعہ یعنی اس کلام سے جسے بانگ درا میں جگہ دی گئی ضخامت میں دو چند بلکہ دو چند سے بھی زیادہ ہے اس امر کی دلیل ہے کہ محمد اقبال کے ذہن میں جیسا کچھ خیالات کا زور اور جذبات میں جس طرح ہیجان تھا اس کے ساتھ ساتھ ان کے تصفیے اور تزکیے کا عمل بھی ویسی ہی شدت اور تیزی سے جاری تھا۔وہ اس اساس سے جو ابتداء ہی میں قائم ہو چکی ، ہٹنے نہیں پائے، یوں ہم ان کے ضمیر اور باطن ہی سے قریب تر نہیں ہو جاتے ان کی شاعری کی تہہ تک پہنچنا بھی مشکل نہیں رہتا۔ بہر حال یہ محمد اقبال کی شاعری کا ایک عظیم دور تھا۔ آنے والے عظیم تر ادوار کی بڑی کامیاب اور امید افزا تمہید۔ ۱۳۔وطنیت بانگ درا کی بعض نظموں مثلاً تصویر درد، صدائے درد، ترانۂ ہندی اور بالخصوص نیا شوالہ کی بنا پر اکثر یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ جب تک محمد اقبال یورپ نہیں گئے ، اہل یورپ کے سیاسی اجتماعی حالات سے متاثر نہ ہوئے، مغرب کے افکارو آرا کا اس پہلو سے مطالعہ نہیں کیا ان کا نقطہ نظر بڑا محدود تھا۔ ہندوستان پر مرتکز ۔ وہ سمجھتے تھے ہندوستانی ، ہندو ہوں یا مسلمان ایک قوم ہیں۔ ایک قوم ہی کی حیثیت سے انھیں زندہ رہنا اور اپنا مستقبل تعمیر کرنا ہے۔ وہ گویا جغرافی قومیت کے قائل تھے۔ اسلامی قومیت کا تصور ابھی ان کے ذہن میں نہیں اُبھرا تھا۔ یورپ گئے تو یورپ سے متاثر ہو کر اسلامی قومیت کا تصور اپنے ساتھ لائے۔ اب اسے عالم گیر انسانیت کہیے یا عالم اسلام کی وحدت یا امت کا یہ تصور کہ وہ ایک سیاسی اجتماعی ہئیت ہے ، جغرافی حدود و ثفور سے آزاد ، رنگ و خون کے امتیازات سے بالا تر، بالفاظ دیگر یہ حقیقت کہ اسلامی قومیت کی اساس ہے توحید و رسالت، سمجھ میں آئی تو اس میں میر حسن کے ہاتھوں ان کی تعلیم و تربیت کا کوئی دخل تھا نہ اسلامی تعلیمات میں ان کے مطالعے اور فکر و نظر، نہ سر سید کے سیاسی مسلک کی پیروی کا جن کا کہنا تھا کہ مسلمان ہندوئوں سے الگ ایک قوم ہیں۔ تھاتو استادان فرنگ سے اثر پذیری کا جو خود بھی نہیں جانتے تھے اسلامی تعلیمات کیا ہیں۔ اسلام کا سیاسی ملی نصب العین کیا۔ رہے یورپ کے سیاسی اجتماعی حالات، سیاست و اجتماع میں اہل فرنگ کے نظریات محمد اقبال دوران تعلیم ہی میں یا یوں کہیے اس سے پہلے کہ یورپ جائیں ان سے واقف ہو چکے تھے۔ لہٰذا یہ خیال کہ شروع شروع میں وہ جغرافی قومیت کے قائل تھے، اسلامی قومیت کا تصور بعد میں اُبھرا، غلط ہے ۔ حقیقت سے اتنا ہی دور جیسے ایک قطب سے دوسرا۔ انھوں نے زندگی کے کسی دور میں بھی وطنی قومیت کا نظر یہ قبول نہیںکیا۔ نہ کبھی ہندوستانی قومیت کی جس کا آگے چل کر متحدہ قومیت کی شکل میں پرچار کیا گیا، حمایت کی۔ ان کا ذہن اسلامی تھا۔ وہ اسلام کی عالم گیر دعوت سے بے خبر نہیں تھے۔ لیکن ہوا یہ کہ ان کی حب الوطنی اور انسان دوستی کی طرح ان کی سیاسی بصیرت نے ان سے جو نظمیں لکھوائیں ان کی غلط تعبیر کی گئی ۔ ان کو وہ معنی پہنائے گئے جو ان سے نہیں نکلتے۔ ان میں کچھ تو ملک کے بدلتے ہوئے حالات کا دخل تھا، کچھ ارباب سیاست کا جو سمجھتے تھے کہ ان نظموں کی تعبیر اگر وطنیت کے رنگ میں کی گئی تو اس سے ان کے عزائم کو تقویت پہنچے گی۔ کچھ یہ بات کہ اہل قلم کو ایک موضوع بحث مل گیا۔ انھوںنے نہیں سوچا یہ نظمیں کب اور کن حالات میں لکھی گئیں۔ اس زمانے میں جب محمد اقبال حب الوطنی کے گیت گا رہے تھے ملک کی سیاسی اجتماعی فضا کیا تھی۔ خیالات اور تصورات کا کیا عالم تھا۔ انھوںنے جب کہا: سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ہم بلبلیں ہیں اس کی وہ گلستاں ہمارا تو کیا وطن پرستی کے جوش میں؟ اس خیال کے ماتحت کہ مسلمان ہندوستانی ہیں۔ ہندوستان ان کا وطن ہے۔ انھیں چاہیے عالم اسلام سے قطع نظر کر لیں، یا اس لحاظ سے کہ دوسرے اقطاع عالم کی طرح انھیں بھی ہندوستان سے وہی نسبت ہے جو اہل وطن کو وطن سے ہوا کرتی ہے۔ وطن کس کو عزیز نہیں ہوتا۔ اس کے حسن و خوبی کا کون ذکر نہیںکرتا۔ خواہ اس کے سیاسی نظریات کچھ ہوں۔ ہندوستان کیامسلمانوں کا وطن نہیں تھا۔ ہندوستان بھی مسلمانوں کا ایسے ہی وطن تھا جیسے دوسروں کا ۔ وہ بھی اہل وطن کے ہم زبان ہو کر کہہ سکتے تھے: ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا محمد اقبال نے وطن کی محبت میں کئی نظمیں لکھیں۔ ۱۸۵۷ء میں سلب اقتدار کے بعد جب ایسا معلوم ہوتا تھا مسلمانوں کا اس ملک میں کوئی ٹھکانہ نہیں، انھوںنے یہ نظمیں اگر جذبۂ وطنیت کے ماتحت لکھی ہوتیں تو غور طلب امر یہ ہے کہ ان نظموں میں اگرچہ قطع و برید کی گئی۔ بعض ایسے اشعار جن سے غلط فہمی کا اندیشہ تھا، حذف کر دیئے گئے۔ بایں ہمہ بانگ درا میںان کوجوں کاتوں رہنے دیا گیا۔ کبھی یہ نہیں کہا کہ یہ نظمیں دور وطنیت کی یاد گار ہیں۔ گویا ان کی موجودگی اس امر کی دلیل ہے کہ یہ نظمیں وطنی قومیت کے زیر اثر نہیں لکھی گئیں بلکہ یہ وطن کی محبت اور وطن کے لیے دل سوزی تھی جس نے ان سے یہ نظمیں کہلوائیں۔ ان کا لب و لہجہ سیاسی ہے۔ روح اخلاقی اور انسانی حتیٰ کہ تصویر درد کو دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے جیسے یہ نظم آج ہی لکھی گئی۔ ان کا محرک کبھی نہیں بدلا۔ نہ اس مقصد میں فرق آیا جو ان میں کارفرما تھا۔ یہ دوسری بات ہے کہ آگے چل کر اس باب میں جو کچھ کہا گیا اس کا لب و لہجہ مختلف ہے۔ نظم کی جگہ بیشتر نثر نے لے لی ہے۔ ورنہ ان کے سیاسی افکار کو دیکھیے ۔ضرب کلیم، جاوید نامہ اور پس چہ باید کرد، اے اقوام شرق پر نظر رکھیے ان سب میں انھیںخیالات کا اعادہ ہو رہا ہے جن کا اظہار ان نظموں میں ہوا۔ چنانچہ یہ وہ حقیقت ہے جس کا’ اہل وطن‘ کو آج بھی اعتراف ہے۔۲۷۲؎ رہی یہ بات کہ یہ نظمیں کن حالات میں لکھی گئیں۔ ان کا محرک کیا تھا، اس کے پیچھے کیا خیال کام کر رہا تھا۔ سو دیکھنا چاہیے کہ محمد اقبال نے جن نظموں میں بار بار وطن کی محبت پر زور دیا۔ اہل وطن کے جذبۂ حب الوطنی کو اُبھارا۔اختلاف مذہب کی بنا پر نزاع و فساد سے روکا تو اس لیے نہیں کہ مذہب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وطن کی بنا پر ایک قوم پیدا کی جائے۔ برعکس اس کے یہ محمد اقبال کا اسلامی ذہن تھا۔ یہ ان کا شعور ملی تھا، سیاسی بصیرت ،انسان اور انسانیت کا پاس کہ ذرا غور سے کام لیجیے تو معلوم ہو جائے گا کہ ان نظموں میں ایک شعر کی بجائے ایک ایسا دیدہ ور اور حقیقت بین سیاست دان کا دل و دماغ کار فرما ہے جسے نوع انسانی سے محبت ہے، جسے غلامی اور محکومی کا دکھ ہے، جس کا دل آزادی کے لیے تڑپ رہا ہے۔ جو خوب جانتا ہے کہ جب قومیں تعصب اور تنگ نظری کے ہاتھوں سطح انسانیت سے گر جائیں تو مذہب، اخلاق، سیاست اور جہاں بانی کی حقیقی روح کُچل دیتی ہیں ۔ محمد اقبال دیکھ رہے تھے کہ اہل وطن نے محض اختلاف مذہب کی بنا پر نفرت اور مخاصمت کا جو حصار قائم کر رکھا ہے انھیں اور زیادہ ذلت اور پستی کی طرف لے جائے گا۔ حالانکہ وہ ایک ہی خطے میں بس رہے ہیں۔ اس سر زمین کے باشندے ہیں جو ہندوستان کے نام سے اقوام عالم میں اُبھری۔ جس کی شان و شوکت کا دُنیا بھر میں شہرہ تھا۔لیکن ہم تعصب اور تنگ دلی کا شکار ہو گئے۔ ہمارے دل چھوٹے تھے۔ نگاہیں محدود۔ ہمیں صرف اپنا وجود نظر آتا تھا اور کچھ نظر نہ آتا۔ ہمارا ایک ہی مقصد تھا اور وہ یہ کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھائیں۔ ہم ایک دوسرے کو پچھاڑتے تو خوش ہوتے۔ اختلاف مسلک و مشرب نے ہماری آنکھوں پر پردہ ڈال رکھا تھا۔ ہم ایک دوسرے سے لڑے فتح حاصل کی تو سمجھے میدان مار لیا، بازی جیت لی۔ بھول گئے ہماری جیت جیت نہیں ہے، ہار ہے، بالآخر جو پایا تھا کھو دیا۔ سب کچھ ہار کر غلامی اور محکومی کے گڑھے میں جا گرے۔ ۱۸۵۷ء میں رہا سہا اقتدار بھی جاتا رہا۔ سوال یہ تھا ماضی میں تو جو کچھ ہوا سو ہوا۔ اب ہندوستان کا مستقبل کیا ہے۔ ہمیشہ کی غلامی اور محکومی یا پھر سے آزادی اور استخلاص کی زندگی۔ وہ تفرقہ اور انتشار جاری رہے جس کی بدولت ہمیں نکبت اور ادبار نے آ لیا یا اسے محبت اور رواداری، اتحاد اور اتفاق سے بدل دیں۔ یہ محمد اقبال کی سیاسی بصیرت تھی، ان کا اخلاقی اور انسانی ضمیر جس نے اہل وطن جن کا سیاسی شعور مردہ ہو چکا تھا، ملی روح خوابیدہ انھیں بروقت تنبیہ کیا کہ ماضی سے درس عبرت لیں۔ اقوام و امم کی زندگی سے سبق حاصل کریں۔ حالات کو دیکھیں زمانہ بدل چکا ۔ کیوں نہ اپنے ضمیر اور باطن کو جھنجھوڑیں ۔مذہب کی تعلیم کیا یہی ہے کہ ایک دوسرے سے بیر رکھیں۔ سیاست کا تقاضا یہی ہے کہ آئے دن برسر پر خاش رہیں۔ آزاد تھے تو ہوس اقتدار میں باہم لڑتے رہے۔ لیکن اب محکومی ہے ۔ اب بجز صلح و آشتی کوئی چارۂ کار نہیں یہ بات سمجھنے کی تھی انھوں نے کہا اور نہایت ٹھیک کہا: نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے ہندوستاں والو تمھاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں محمد اقبال کوئی سطح بین اور مصلحت شناس سیاست دان نہیں تھے کہ نظر برحالات اہل وطن کو حب الوطنی میں اتحاد و اتفاق کا سبق دیتے۔ محمد اقبال کی نگاہیں تاریخ پر تھیں۔ سیاسی اجتماعی حقائق کے ساتھ ساتھ اس تبدیل شدہ صورت حالات پر جو سرکار برطانیہ کی بدولت پیدا ہوئی۔ ہندوستان کی زمام اقتدار اب اس کے ہاتھ میں تھی۔ ایک ہی آئین، ایک ہی حکومت اور ایک ہی علمداری تھی جس کے ماتحت زندگی بسر کر رہے تھے، پھر جب اختلاف عقائد، نسل اور زبان حتیٰ کہ بعد مسافت کے باوجود ان کا حال ایک تھا، جیسے ماضی ایک۔ جب صدیوں کے میل جول نے انھیں طرح طرح سے وابستہ کر رکھا تھا۔ جب ایک نہیں کئی رشتے ان کے درمیان کام کر رہے تھے۔ کیسی کیسی ہم آہنگیاں تھیں جو سیاست اور معیشت تو درکنار روز مرہ کی زندگی عادات اور اطوار حتیٰ کہ رسم و رواج میں انھیں ورثے میں ملیں۔ وہ ایک دوسرے سے الجھے، لڑکر بھی ایک رہے۔ اس لیے کہ ان کا تعلق ایک ہی سر زمین سے تھا۔ ماضی کی طرح مستقبل بھی اسی سر زمین سے وابستہ۔ ذرا آج سے ایک صدی بیشتر ۱۸۵۷ء سے کوئی نصف بعد کے ہندوستان کا تصور کیجیے جب محمد اقبال نے وطن کی محبت میں اہل وطن کو محبت اور الفت کا سبق دیا۔ جب وہ ایک ہی سلطنت کے زیر نگین تھے۔ جب ہندوستان کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک آئین و قانون اور حکمرانی کی جو صورت تھی باعتبار اس کے اصلاح احوال کا کوئی امکان تھا تو یہی کہ اب ہم سمجھیں میدانِ سیاست میں ہم ایک دوسرے کے حلیف ہیں حریف نہیں ہیں۔یونہی وطن کے لیے کسی روشن مستقبل کی توقع کی جا سکتی تھی۔ یہ گویا محمد اقبال کی سیاسی بصیرت تھی جس نے ان سے یہ نظمیں کہلوائیں۔ ان کا لب و لہجہ وطنی ہے، روح سیاسی۔ وہ خوب جانتے تھے جب تک ضمیر انسانی خلوص و صداقت سے بے بہرہ ہے۔ سیاست ہو یا معاشرت، انسان کا انسان سے حسن سلوک، کوئی نصب العین اس میں کامیابی ممکن نہیں۔ ہاں الفاظ ہوں گے۔ نوع انسانی کی محبت ہو، یا انسان کی انسان کے لیے خیر خواہی یہ سب دعوے جسدبے جان ہو کر رہ جائیں گے۔ سیاست مردہ ہو گی یا جارحیت پر اُتر آئے گی۔ یہی وجہ ہے کہ محمد اقبال کی ان نظموں میں جذبہ حب الوطنی کے ساتھ ساتھ وہی اخلاقی روح کا بھی کار فرما ہے جو منتہائے انسانیت ہے اور جو انھیں اسلام سے ورثے میں ملی۔ پھر قطع نظر اس مسئلے کے اخلاقی پہلو سے جو ہندوستان کو بسبب محکومی اور غلامی در پیش تھا۔ قطع نظر اس شدید سیاسی اجتماعی صدمے سے جو ۱۸۵۷ء میں اہل وطن کو پہنچا حالات کا تقاضا تھا کہ ان کے اذہان و قلوب میں ایک بنیادی تبدیلی پیدا ہو ۔ وہ تبدیلی جس پر محمد اقبال زور دے رہے تھے اور جس کا بہی خواہان وطن کو ہندو ہوں یا مسلمان ہر ایک کو بخوبی احساس تھا۔ جب ہی تو اہل سیاست کی زبان پر اس وقت ایک ہی لفظ تھا اور وہ اتحاد۔ اس لیے کہ سب ایک ہی وطن میں بس رہے تھے۔ ایک ہی صیاد کے نخچیر، ایک ہی فتراک میں بندھے ہوئے۔ باہم مل کر ہی اس سے گلو خلاصی کر سکتے تھے۔ محمد اقبال کی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے محبت اور یگانگت کے ان الفاظ میں جو سب کی زبان پر تھے اور جس کی ضرورت سے کسی کوانکار نہیں تھا، خلوص اور صداقت کا رنگ بھراتا کہ مذہب اور اخلاق کی حقیقی روح بیدار ہو۔ اہل وطن ایک دوسرے کی طرف اتحاد اور تعاون کا ہاتھ بڑھائیں۔ سیاسی سوجھ بوجھ سے کام لیں۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ ۱۸۵۷ء سے پہلے ملک کی فضاتعصب اور تنگ نظری کے باعث جس طرح زہر آلود ہوتی رہی اس میں فرق نہ آیا تو انجام وہی ہو گا جو اس سے پہلے ہو چکا ہے۔ اب اسے محمد اقبال کی سیاسی بصیرت کہہ لیجیے، جذبہ حب الوطنی، انسان اور انسانیت کا وہ تصورجس سے اس کا شرف قائم ہے ، جو چاہے کہہ لیجیے۔ یہ وطن پرستی اور وطنیت ، یا قومیت کا مادی اور جغرافی تصور ہرگز نہیں تھا جو ان کے ذہن میں کار فرما تھا۔ وہ جب دیکھتے ہندوستان قعر مذلت میں جاگرا ہے۔ احساس ذات سے بے بہرہ ، محض، اختلاف عقائد اور ’تمیز ملت و آئین‘ کے نام پر نفرت اور کدورت کا شکار ہو رہا ہے۔ اس نے زمانے سے کوئی سبق نہیں سیکھا تو انھیں دکھ ہوتا۔ کبھی مایوس ہو کر کہتے: جل رہا ہوں کل نہیں پڑتی کسی پہلو مجھے ہاں ڈبو دے اے محیط آبِ گنگا تو مجھے کبھی بافسوس: سر زمین اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے وصل کیسا، یاں تو اک قرب فراق آمیز ہے وہ سوچتے اہل وطن سے کہیں تو کیا کہیں: جس کے پھولوں میں اخوت کی ہوا آئی نہیں اس چمن میں آہ لطف نغمہ پیرائی نہیں ان کے دل میں انسانیت کا درد تھا۔ نظر ان قدروں پر جو حسن سیاست اور معاشرت کی جان ہیں۔ وہ چاہتے تھے ذہن انسانی ان آلائشوں سے پاک ہو جائے جن سے انسانیت کا چہرہ داغ دار ہو رہا ہے ۔ ان کا جی اہل وطن کی نفاق انگیزی پر کڑھتا۔ انھوں نے ان سلبی قوتوں کی مذمت کی جو تعصب اور تنگ دلی کے پردے میں نفرت اور عداوت کو جنم دیتی ہیں۔ انھوں نے سیاست کا رشتہ اخلاق اور روحانیت سے جوڑا ۔ نوع انسانی کی محبت اورعالمگیر اخوت کے ان ہمہ گیر روابط اور قدروں کی ترجمانی کی جو معاشرے کا تارو پود ہیں۔ جن کی بدولت تہذیب و تمدن کا وجود قائم ہے۔ چنانچہ ان کی یہی نظمیں جن کی تعبیر غلطی سے وطنیت کے رنگ میںکی گئی انسان کے لیے ہمدردی اور دل سوزی کی آئینہ دار ہیں۔ خدمت خلق کا جذبہ رہ رہ کر ان کے دل میں اُبھرتا۔ کنج تنہائی میں بھی جب دنیا کی محفلوں سے اکتا کر سب سے الگ ہو بیٹھے ان کا جی چاہتا تھا کہ اس حالت میں بھی دوسروں کے کام آئیں: راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم اُمید ان کی میرا ٹوٹا ہوا دیا ہو فریب وریا کی اس دنیا سے دور جا کر جس میں غرض مندی ہی غرض مندی ہے، دامن فطرت میں پناہ لی تو جب بھی خیال آتا کہ ان کے دکھ درد سے شاید دوسروں کے دل میں بھی خدمت خلق کا جذبہ جاگ اُٹھے: ہر درد مند دل کو رونا میرا رلا دے بیہوش جو پڑے ہیں شاید انھیں جگا دے اندریں صورت اگر محمد اقبال نے ہندوستان کو اپنا وطن کہا۔ اس کی عظمت رفتہ ، حسن اور دل کشی کی تعریف کی۔ اہل وطن کے جذبہ حب الوطنی کو اُبھارا۔ اس کی محبت کے گیت گائے۔اس کی آزادی اور استخلاص کی آرزو میں ایسی ولولہ انگیز نظمیں لکھیں جن کی مثال ہندوستان کے کسی بڑے سے بڑے وطن پرست اور انقلابی کے یہاں بھی نہیں ملتی تو اس لیے نہیں کہ ان کا ذہن وطنی قومیت پر مرتکز تھا ۔ عالمگیر انسانیت کا تصور ہنوز پیدا نہیں ہوا تھا۔ شعور ملی بیدار ہوا تو یورپ کی آب و ہوا میں ۔ حالانکہ ان کے نام نہاد وطنی اور قومی آہنگ میں ان کاملی اور فکری آہنگ اسی شدت سے کام کر رہا ہے جیسے آگے چل کر اس نے ایک دعوت اور پیغام کی شکل اختیار کی۔یہاں یہ کہنا بڑا بے محل ہو گا کہ اس زمانے میں تو ان کے یہاں عالمگیر انسانیت یا اسلام کی ملی وحدت کا اظہار واضح الفاظ میں نہیں ملتا۔ حالانکہ یہ عالمگیر انسانیت اور اسلام کی ملی وحدت ہی کا شعور تھا جس سے ان کا ذہن ہندوستان کی طرف منتقل ہوا۔ اس لیے کہ ہندوستان ان کا وطن تھا اور وطن بھی کیسا جہاں اسلام کا ایک ماضی تھا۔ جہاں ماضی کی طرح ان کے نزدیک ایک مستقبل بھی۔لیکن مسلمان اس وطن میں اکیلے نہیں تھے۔ ان کے پہلو بہ پہلو اور لوگ بھی تو بس رہے تھے۔ انھیں کی طرح ایک قوم۔ وہ ان کے وجود ملی، ان کے ماضی اورطریق زندگی کو نظر انداز نہیں کر سکتے تھے۔ مگر جب اشتراک وطن اور اشتراک احوال نے انھیں باہم د گروابستہ کر رکھا تھا تو اہل وطن کے لیے بجز اس کے کوئی راستہ ہی نہیں تھا کہ باہم محبت اور الفت سے رہنا سیکھیں۔ لہٰذا جب انھوں نے کہا: آ مل کے غیرت کے پردو ں کو پھر اُٹھا دیں بچھڑوں کو پھر ملا دیں نقش دوئی مٹا دیں تو غیریت سے ان کا اشارا اس غیریت کی طرف تھا جس کی رعایت سے اہل وطن انھیں بیگانہ سمجھتے تھے۔دوئی کا یہی نقش تھا جسے محمد اقبال ملیا میٹ ہوتے دیکھنا چاہتے تھے اور جس میں ان کا خطاب مسلمانوں سے اتنا نہیں تھا جتنا ہندو اہل وطن سے۔ نیا شوالہ بھی انھیں کے لیے لکھا گیا۔ وہی اس دوئی کے ذمہ دار تھے جو اس ملک کی تباہی کا باعث ہوئی کہ انھوں نے صدیوں کی ہمسائیگی اور روابط کے باوجود مسلمانوں کو بیگانہ سمجھا جیسے ان کا اس سر زمین پر کوئی حق نہیں تھا۔ ماناکہ اس نظم کے بعض اشعار جن کو بجا طور پر حذف کر دیا گیا، کھٹکتے ہیں۔ لیکن ہمیں نہیں بھولنا چاہیے نظم کی زبان نثر سے مختلف ہوتی ہے۔ فرطِ جذبات میںشاعر کبھی کبھی جادۂ اعتدال سے ہٹ جاتا ہے۔ گو ایسا بھی نہیں ہوا اس لیے کہ اس نظم میں اسے جو کچھ کہنا تھا اہل وطن ہی کی زبان سے کہنا تھا۔ لہٰذا یہ خیال کہ نیا شوالہ اس لیے لکھا گیا کہ ہندو ہوں یا مسلمان مذہب کو خیر آباد کہہ دیں۔ وطن کے نام پر ایک قوم بن جائیں قطعاً غلط ہے۔ یوں بھی ہندی سیاست کے اس دور میں جغرافی قومیت کا تصورا بھرا ہی نہیں تھا۔ بااعتبار وطن البتہ ہر کوئی ہندوستانی کہلاتا اس لیے کہ قانوناً ہر کسی کی قومیت (نیشنیلٹی) خواہ اس کا عقیدہ کچھ بھی ہو اس کے وطن ہی سے متعین ہوتی ہے ۔ پھر جب ہم دیکھتے ہیں کہ ان نظموں کے پہلو بہ پہلو جن کی بنا پر کہا جاتا ہے وہ شروع شروع میں جغرافی قومیت کے قائل تھے وہ نظمیں بھی ہیں جن کی روح سر تا سر اسلامی ہے۔ خطاب قوم اور ملت سے ہے تو یہاں شاید یہ کہا جائے کہ مان لیا انھیں مذہب کی مخالفت منظور نہیں تھی۔ مگر کیا وہ اسے ایک اخلاقی قوت تصور نہیں کرتے تھے جو انسان کے لیے بمنزلۂ جان کے ہیں اور جس سے ان کی آن قائم ہے جیسا کہ صدائے درد میں انھوں نے کہا ہے ۔ وہ شاید وحدت ادیان کی بنا پر ہندوستان کو متحد دیکھنا چاہتے تھے جیسا کہ راجہ رام موہن رائے اور ان کے اتباع میں برہمو سماج کا خیال تھا۔ یا جیسے آگے چل کر مسلمانوں کے اندر بھی عقیدہ وحدۃ الوجود کے حوالے سے متحد قومیت کا جواز پیدا کیا گیا۔ مگر یہ خیا ل بھی غلط ہے۔ اس لیے کہ وحدت ادیان تو ایک مذہبی اور اخلاقی تصور ہے۔ سیاست سے بے تعلق ۔ سیاست میں لے آئیے جب بھی اس سے وطنی قومیت کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ برعکس اس کے محمد اقبال کا نقطۂ نظر اخلاقی تھا، مذہبی روح سے سر شار تو سیاسی بھی۔ وہ ایک اصولی بات بھی کہہ رہے تھے۔ انھوں نے جس اتحاد و اتفاق، محبت اور اخوت کا سبق دیا۔ جس انداز سے جذبہ حب الوطنی کو اُبھارا تو کیا اس لیے کہ وطن کی محبت ایک طبعی اور فطری امر ہے یا اس لیے کہ یہ تقاضائے سیاست ہی نہیں تھا، تقاضائے انسانیت بھی۔ انھیں مذہب کی نفی منظور تھی، نہ کسی قوم اور ملت کے جداگانہ وجود کی۔ یہ کہنا کہ اس زمانے میں تو انھیں خیال بھی نہیں تھا کہ مسلمانوں کا بھی دوسری قوموں کی طرح اپنا ایک جداگانہ سیاسی وجود ہے صحیح نہیں ۔ بلکہ ایسا ہی غلط جیسے آگے چل کر یہ کہا گیا کہ کہنے کو تو انھوں نے وطنی قومیت کی بجائے اسلامی قومیت کا تصور پیش کیا۔ لیکن آزادی ہند کی جدو جہد سے گھبرا کر پھر وطنی قومیت پر آگئے۔ اس پر ہندی اسلامی ریاست کا پردہ ڈال دیا۔ عالمگیر انسانیت کی دعوت لے کر اٹھے۔ لیکن آخر الا مر یہ دعوت اسلام میں محدود ہو کر رہ گئی۔ یہ خیالات غلط ہیں سرتا سر غلط مگر ان سے بحث کا یہ موقعہ نہیں۔افسوس تو ان کے تنقید نگاروں پر ہے جوان کی نام نہاد وطنی نظموںکی حقیقی روح کو سمجھے، نہ اس زمانے پر نظر رکھی جس میں یہ نظمیں کہی گئیں۔ نہ یہ دیکھا ان کا پس منظر کیا ہے۔ بس ایک رائے تھی کہ قائم کر لی۔ انھوں نے یہ سوچا ہی نہیں کہ محمد اقبال کی فکر وطن اور جذبہ حب الوطنی کی تہ میں اسلامیت ہی کا جذبہ کار فرما ہے۔ انھیں ہندوستان اس لیے بھی عزیز تھا کہ ہندوستان بھی ایک اسلامی سر زمین اسلام تھا اور ہے۔ ہندی مسلمانوں کا شمار بھی امم اسلامیہ کی طرح ایک ہی امت اسلام میں ہوتا ہے۔ محمد اقبال اس سر زمین میں اپنے مستقبل سے کیسے غافل رہ سکتے تھے، لیکن ان معنوں میں نہیں کہ دوسروں بالفاظ دیگر اہل وطن کا مستقبل نظر انداز کر دیں۔ انھیں دکھ ہوتا وطن میں کچھ ایسی تحریکیں بھی اُبھر رہی ہیں جن کے نتائج وطن اور اہل وطن کے حق میںا چھے نہیں ہوں گے۔ جن سے تعصب اور تنگ دلی کی بو آتی ہے جن سے نزاع و فساد پیدا ہو گا۔ جس میں کسی کا فائدہ نہیں، سب کا نقصان ہے۔۲۷۳؎ انھیں صرف مسلمانوں کی بہتری منظور نہیں تھی۔ وہ بلا امتیاز مذہب و ملت سب کے خیر خواہ تھے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ عالمگیر انسانیت کا تصور ان کے ذہن میں بہت آگے چل کر اُبھرا ایسا ہی غلط ہے جیسے یہ کہنا کہ جذبہ حب الوطنی کے معنی ہیں جذبۂ ملی کی نفی۔ وہ جب کہتے ہیں ’’مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا‘‘ تو اس لیے کہ یہی تو ہر مذہب کی تعلیم ہے۔ وہ یہ کہاں کہہ رہے تھے کہ سیاست کہ خاطر مذہب کو خیر باد کہہ دی جائے۔ دراصل ہم بھولتے ہیں کہ حب الوطنی ایک طبعی اور فطری امر ہے۔ کون ہے جسے اپنے مرزو بوم سے محبت نہیں ہوتی، جو اس کے حسن و دل کشی اور شان و شوکت کی تعریف نہیں کرتا۔ وطن آزاد نہیں، وطن کے حالات اصلاح پذیر نہیں تو قوم کی حالت کیسے بہتر ہو سکتی ہے۔ پھر جب آئین و قانون کیلغت ، یا ایک غیر قوم کی عملداری میں، یا وطن کی نسبت سے ہندوئوں اور مسلمانوں، غرضیکہ جملہ اہل وطن کو ایک قوم تصور کیا جاتا تھا۔ محمد اقبال نے بھی اگر وطن کی رعایت سے اہل وطن کو ایک قوم سمجھا، انھیں دوسری قوموں کی طرح صلح و آشتی سے مل جل کر رہنے کا سبق دیا تو کیا غلط کیا۔ ایسی نظمیں لکھیں جن کا لب و لہجہ وطن کی نسبت سے تو بے شک قومی ہے لیکن اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ ایک زمانے میں وہ جغرافی قومیت کے قائل تھے۔ اس سے کچھ ثابت ہوتا ہے تو یہ کہ بہی خواہان وطن کی طرح وہ بھی اہل وطن کو دعوت اتحاد دے رہے تھے۔ محمد اقبال کے رفقاء عبدالقادر اور ان کے دوست بلکہ مخزن کا پورا حلقہ بھی اسی نقطۂ نظر سے اتحاد پر زور دیتا۔ لفظ قوم کا ان کے نزدیک کوئی دوسرا مفہوم تھا ہی نہیں۔ سر سید بھی جن کی سیاسی بصیرت اور دور اندیشی نے ابتداء ہی میں دیکھ لیا تھا کہ سرکار انگریزی کو اس ملک میں جس جمہوری نظام کا نفاذ منظور ہے اس سے بالآخر مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کی نفی ہو جائے گی۔ وطن کی نسبت سے اہل وطن کو قوم کہہ دیتے۔ یہ انھیں کا کہنا تھا کہ ہندو اور مسلمان ہندوستان کی دو آنکھیں ہیں۔ ہندو اہل وطن بے تعصبی اور رواداری سے کام لیں۔ ایسا نہ ہو انھیں ایک دوسرے سے جدا ہونا پڑے۔ یہ صحیح ہے کہ ہندوستان میں وطنی ، یا ملکی وحدت کا تصور تو موجود تھا۔ سیاسی وحدت کا تصور مسلمانوں میں تو کیا ہندوئوں میں بھی موجود نہیں تھا۔ ہاں ’جاتی‘ کی وحدت کے سب قائل تھے۔ بعینہ جیسے مسلمان اپنی ملی وحدت کے ۔ اندریں صورت جہاں سر سید یہ کہہ رہے تھے کہ ہندوستانیوں کو ایک قوم سمجھ کر برطانوی طرز جمہوریت کا نفاذ مسلمانوں کی جدا گانہ قومیت کی نفی کے مترادف ہے۔ وہاں محمد اقبال کی دعوت اتحاد بھی اپنی جگہ پر ٹھیک تھی ۔ ایک اخلاقی اور انسانی ضرورت ۔ اس وقت اور اس وقت کے حالات کو دیکھیے تو اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں تھا۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہیں کہ ہندوستانی بچوں کا قومی گیت یا قومی ترانہ حب الوطنی کا ترانہ ہے۔ وطنیت کا ترانہ نہیں ہے، نہ ملی ترانے کی ضد۔ عبدالقادر لکھتے ہیں ملکی ترانہ لکھنے کا خیال میںنے ان کے سامنے پیش کیا اور ان سے یہ کہا تھاکہ جیسے انگریزوں کا نیشنل گیت ہر موقعہ پر گایا جاتا ہے اور قومی باجے کے سات بجایا جاتا ہے ایسی کوئی نظم ہمارے ہندوستا ن کے لیے بھی ہونی چاہیے ۔ وہ سوچنے لگ گئے اور ان کی زبان سے یہ مصرع نکلا: سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا میں نے کہا بہت خوب ہے۔ اب اس نظم کو مکمل کر دیجیے۔ ایک دو دن میں وہ نظم مکمل ہو گئی اور اس قدر مقبول ہوئی کہ کوئی نیشنل مجمع نہ تھا جس میں وہ گائی نہ گئی ہو۔۲۷۴؎ لیجیے محمد اقبال اور عبدالقادر کی نیشنلزم کا مسئلہ صاف ہو گیا۔ لفظ نیشنل پرغور کیجیے ۔ شیخ صاحب کی فرمائش ہے کہ ہندوستان کے لیے بھی ایسی کوئی نظم ہونی چاہیے۔ ان الفاظ سے کیا وطنیت کی بو آتی ہے یا بمقابلہ انگلستان ہندوستان کے جداگانہ تشخص کی، اس لیے کہ اس زمانے میں جب یہ ترانہ لکھا گیا ہم سب ہندوستانی تھے۔ جب ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ خونیں کا زخم ابھی تازہ تھا۔ جب ۱۸۰۳ء میں سقوط دہلی کے بعد شہنشاہ تیموری کی حکومت اگرچہ ’از دہلی تا پالم‘رہ گئی تھی تخت دہلی کو ہندوستان کی آزادی کا مظہر تصور کیا جاتا تھا۔ جب ہی تو ’’کمپنی بہادر‘‘ نے اسے بڑی بے دردی سے مٹا دیا۔ لوگ نہیں بھولے تھے کہ آزادی کی اس جنگ میں سرفروشی کی تو ہندوئوں اور مسلمانوں نے۔ غداری کی تو وہ بھی انھیں نے۔ گو اس جنگ کا سب سے زیادہ الم ناک پہلو ہے اہل وطن کی عظیم اکثریت میں بے حسی اور قومی غیرت کا فقدان، جس کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے اس سانحے کو بے تعلقی کی نظر سے دیکھا ۔ کس وقاحت سے خاموش تماشائی بنی رہی۔ لیکن ابھی ایک اور بات ہے جسے محمد اقبال کے طالب علم یا معترضین نظر انداز کر دیتے ہیں کہ وہ اگر ایسے ’’نیشنلسٹ ‘‘ تھے جسے ان کا خیال ہے تو عملاً نہ سہی، ہمدردانہ کانگریس کی طرف دار کیوں نہیں ہو گے۔ کانگریس کا لب و لہجہ ان دنوں کچھ ایسا تیز بھی نہیں تھا اس کی حیثیت محض ایک ’مجلس مباحثہ‘ کی تھی۔ ماناکہ وہ ایک شاعر اور فلسفی کا ذہن لے کر آئے تھے۔ عملی سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے تھے۔ لیکن کانگریس یا کسی ایسی انجمن کی طرف داری تو کر سکتے تھے۔ انھوں نے سدیشی کی حمایت میں بڑے شد مد سے قلم اٹھایا۔ بافسوس کہا کہ ہندوستانی دساور کا مال کیوں منگواتے ہیں۔ اپنی مصنوعات کو ترقی کیوں نہیں دیتے۔ اس لیے نہیں کہ ’نیشنلسٹ‘ تھے۔۲۷۵؎ بلکہ اس لیے کہ ہندوستان کو آسودہ اور خوش دیکھنے کے آرزو مند۔ اسے متحد دیکھنا چاہتے تھے۔ مگر ان معنوں میں نہیں جن میں گاندھی یا نہرو، یا جن معنوں میں انھوں نے ہندوو مسلم اتحاد، متحدہ قومیت اور بالآخر خالصتاً وطن پرستی یعنی ہندی جغرافی قومیت کو ہوا دی۔ وہ ان نظموں کے پہلو بہ پہلو جن کی بنا پر ان کی وطنیت پسندی پر استدلال کیا جاتا ہے، انجمن حمایت اسلام کے لیے کس دکھ سے نالۂ یتیم اور فریاد امت ایسی نظمیں لکھ رہے تھے۔ تصویر درد کے بارے میں کیا کہیے گا۔ یہ نظم کیا ہے؟ قومی اور وطنی یا ملی اور اسلامی، یا جذبہ حب الوطنی میں ان کی اخلاقی اور انسانی روح کی ترجمان جس کا سر چشمہ تھا ان کا ایمان و یقین۔ یہ نظم ایک اسلامی انجمن کے اسلامی اجتماع میں پڑھی گئی۔ جہاں بزرگان دین کے علاوہ سر سید کے رفیق نذیر احمد اور ایسے کئی حضرات جن کا سیاسی مسلک وہی تھا جو سر سید کا، موجود تھے۔ جس میں حسن نظامی نے عمامۂ فضیلت کے ساتھ اپنی پارسائی بھی ان کی نذر کر دی۔ یہ جلسہ درد مندان ملت کا تھا یا جغرافی بنیادوں پر ہندوستانی قومیت کے طرف داروں کا ؟ فریاد امت، نالۂ یتیم، بلال، سر سید کی لوح تربت غرضیکہ اس دور کی نظموں اور غزلوں علیٰ ہذا قصائد کو سامنے رکھیے تو کیا ان میں رہ رہ کے ان کا شعور ملی اُبھر نہیں رہا ہے؟ بار گاہِ رسالت میں کس دل سوزی سے عرض کرتے ہیں: قوم کو جس سے شفا ہو وہ دوا کون سی ہے۲۷۶؎ یقینا وطنی اساس پر ہندو ستانی قوم نہیں تھی جس کی زبوں حالی، جن کے امرا ء کی بے حسی، جس کے دین داروں کی دنیا طلبی اور بعض للہ کے پردے میں ذاتی عداوتوں پر افسوس کرتے ہوئے انھیں کہنا پڑا: سامنے تیرے پڑا ہے مجھے کیا کیا کہنا تصویر درد سطحی نگاہوں میں ایک ’قومی‘نظم ہے جس میں بار بار وطن سے محبت اور وطن کے لیے جاں نثاری کا جذبہ اُبھرتا ہے ۔ جس میں شاعر نے کس جوش اور ولولے سے کہا ہے: دکھا دوں گا میں اے ہندوستاں رنگ وفا سب کو کہ اپنی زندگانی تجھ پہ قرباں کر کے چھوڑ وں گا جس میں بار بار اہل وطن کو تنبیہہ کی ہے کہ آپس کے نزاع وجدال کو چھوڑ کر وطن کی سلامتی اور بہتری کی فکر کریں۔ لیکن تصویر درد ہی کو سُن کر شاید ہر کوئی اپنے اپنے رنگ میں سوچ رہا تھا کہ اختلاف عقائد اور مسلک و مشرب اپنی جگہ پر بجا، ہمیں چاہیے وطن کی اصلاح اور بہتری کی خاطر اتحاد و اتفاق کی کوئی راہ نکا لیں۔ تصویر درد میں بھی فریاد امت کی طرح بار بار ان معائب کا ذکر کیا گیا ہے جو مسلمانوں کے جسد ملی میں زہر کی طرح سرایت کر رہے تھے اور جن کو دیکھتے ہوئے خیال ہوتا تھا مسلمانوں کو شاید جینا نہیں آتا۔ واعظوں کو رنگین بیانی کی ہوس ہے۔ دعویٰ توحید ہے مگر بت پندار کو خدا بنا رکھا ہے۔ قرآن کی سطریں چیلپا بن گئی ہیں۔ یہ کیااسلام ہے کہ ہم آپس میں برسر پر خاش ہیں: اگر آپس میں لڑنا آج کل کی ہے مسلمانی مسلمانوں کو آخر نا مسلماں کر کے چھوڑوں گا یہ کیا کہ نمود ابن مریم کے خیال میں ہم جمال یوسف یثرب کو بھول گئے: جمال یوسف یثرب کو دیکھ آئینہ دل میں نہ ڈھونڈ اے دیدۂ حیراں نمود ابن مریم کو پھر انجمن کشمیری مسلمانان نہ سہی انجمن حمایت اسلام تو مسلمانوں کی قومی انجمن تھی۔ جغرافی قومیت کے قائل، عالمگیر انسانیت اور وحدت ملی سے ناآشنا ذہن کو اس انجمن سے کیا کام۔ روز و شب اس کے معاملات میں سر گرمی سے کیا غرض۔ کیا محمد اقبال کو انجمن حمایت اسلام کے علاوہ کوئی’ قومی اور وطنی ‘پلیٹ فارم نہیں مل سکتا تھا جس سے وہ ہندوستانی قومیت کا پرچار کرتے۔ ان کے مضامین کو دیکھیے’قومی زندگی‘ میں اقوام و امم کی زندگی سے بحث میں انھیں معیشت کی دنیا میں ہندوستان کی حالت زار پر دکھ ہوتا ہے۔ یہاں تک تو وطن کا سوال تھا۔ ہندوئوں مسلمانوں سب کا ۔ پھر تمام تر توجہ مسلمانوں پر مرتکز ہو گئی۔ اب مسئلہ مسلمانوں کے اخلاق اور معاشرت کا ہے۔ پردے کی گفتگو ہے ، عورتو ں کی تعلیم کا ، تعداد ازدواج کا، اجتہاد کی ضرورت کا۔ مسلمان معاشی اعتبار سے پست ہیں۔ رسم و رواج کیسے بیہودہ ہیں۔ عادات و اطوار ناگفتہ بہ۔ حکومت کا نشہ ہے، جیب خالی ہے ، مگر دماغ شاہجہانی ہیں۔ سدیشی کی حمایت میں قلم اٹھایا تو اس میں بھی مسلمانوں پر نظر رکھی۔ ہندی کی حمایت میں تحریک اٹھی تو پریشان ہو گئے۔ اُردو سے عشق ہے۔ اُردو ہی میں یہ صلاحیت ہے کہ ہندوستان کی قومی زبان بن جائے، بلکہ بن رہی ہے۔ غور کیجیے یہ کسی نیشنلسٹ کا ذہن ہے۔ وطنی قومیت کے پرستار یا ایک مسلمان کا جس کا شعور ملی بیدار ہے، جوو طن کا خیر خواہ ہے ۔ جس کا دل نوع انسانی کی محبت سے سر شار ہے۔ رہے ان کی قومی گیت ۔ ہمیں نہیں معلوم ’ترانۂ ہندی‘ اور’ ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘ میں زمانا ًکسے تقدم حاصل ہے۔ قومی گیت کی ابتداء انھوں نے خواجہ اجمیری کے پیغام حق سے کی ہے۔ یہ ہندوستان ہی تو ہے جس کی خاطر حجازیوں نے دشت عرب چھوڑا ۔ جہاں اسلام پھیلا۔ حدیث میں آیا ہے حضور رسالت مآبؐ نے فرمایا :مجھے اس سر زمین سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے۔ یہاں کسی حدیث کے صحیح یا غلط ہونے سے بحث نہیں۔ بحث ہے تو شاعر کے دل اور دماغ سے جو سمجھتا ہے کہ ہندوستان میں اسلام کا ایک ماضی تھا جو مستقبل بھی ہے۔ ترانۂ ہندی میں بھی وہ آب گنگا سے یہ کہے بغیر نہیں رہ سکا۔ تجھے وہ دن تو یاد ہوں گے: اترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا لفظ ہمارا کی مزید وضاحت شاید: ایران و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے باقی مگر ہے اب تک نام و نشاں ہمارا سے ہو جائے۔ ایران، مصر، روما سب مٹ گئے۔ ہندوستان باقی ہے۔ کون سا ہندوستان؟ پراچین ہندوستان،یا وہ ہندوستان جس میں مسلمانوں کا حصہ پراچین ہندوستان سے کم نہیں ۔ جو ایک طرح سے مسلمانوں کی تخلیق ہے۔ جنھوں نے اس ورثے کو محفوظ رکھا جو انھیں اسلاف سے ملا۔ جن کی بدولت اس کا نام ہندوستان ہوا۔ جنھوں نے اس کے بکھرے ہوئے اجزاء کو متحد کیا ۔ ایک سیاسی جغرافی وحدت پیدا کر دی۔ یہ ہندوستان باقی ہے اور اس کی بقا میں مسلمانوںکا حصہ کچھ کم نہیں ہے۔ لہٰذا ترانۂ ہندی ہو یا قومی گیت محمد اقبال نے ان میں وطنیت کا راگ نہیںا لاپا۔ ہاں اہل وطن کو سیاسی سوجھ بوجھ، حب الوطنی اور انسانیت کا سبق ضرور دیا ہے تا کہ وہ پھر سے دنیا میںا ُبھریں۔ کھویا ہوا وقار ، عزت اور آبرو حاصل کریں۔ محمد اقبال انسانیت کی اس سطح پر کھڑے تھے جہاں مذہب اور سیاست ایک ہو جاتے ہیں۔ نوع انسانی کی محبت، انسان کے لیے در د مندی اور دل سوزی کا وہ جذبہ پیدا ہوتا ہے جس سے انسان کا باطن سنور جاتا ہے ۔ من و تو کا امتیاز اٹھ جاتا ہے۔ فرد کی ذات اور معاشرے کی اصلاح میں وطن اور غربت کی قید باقی نہیں رہتی۔ نوع انسانی ایک برادر ی اور ساری دنیا ایک گھر کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ محبت ہر شکل اور ہر منزل میں ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ تکلیفوں اور صعوبتوں کے باوجود سر گرم عمل رکھتی ہے۔ یہ ہے تو سب کچھ ہے ۔ انسان، انسانیت: بیابان محبت دشت غربت بھی وطن بھی ہے یہ ویرانہ قفس بھی آشیانہ بھی چمن بھی ہے محبت ہی وہ منزل ہے کہ منزل بھی ہے رہرو بھی جرس بھی کارواں بھی راہ بر بھی راہ زن بھی ہے مرض کہتے ہیں سب اس کو یہ ہے لیکن مرض ایسا چھپا جس میں علاج گردش چرخِ کُہنہ بھی ہے جلانا دل کا ہے گویا سراپا نور ہو جانا یہ پروانہ جو سوزاں ہو تو شمع انجمن بھی ہے انسان اور نوع انسان کے لیے محبت کی یہی شراب روح پرور تھی کہ جب محمد اقبال نے دیکھا وطن کا مستقبل تعصب اور تنگ نظری کے ہاتھوں خطرے میں ہے۔ اہل وطن سیاست تو کیا زندگی کی حقیقی روح سے بے بہرہ کن پستیوں میں جا گرے ہیں تو بے اختیار کہہ اٹھے: میرے اہل وطن کے دل میں کچھ فکر وطن بھی ہے غور کیجیے یہ جو کچھ کہا جا رہا تھا کیا وطنی قومیت کی حمایت میں؟ کیا اس لیے کہ ان کا ذہن ہندوستان پر مرتکز تھا؟ یا اسے ان کی سیاسی بصیرت کہیے گا۔ عالم گیر محبت اور شرافت انسانی کا جذبہ، جس نے ان سے یہ نظمیں لکھوائیں۔ یہی نہیں ہم نے اس حقیقت سے بھی آنکھیں بند کر لیں کہ محمد اقبال کا سیاسی مسلک کیا تھا۔ ہم بھول گئے انہو ںنے خیال ہی خیال میں سر سید کی لوح تربت کو دیکھا تو سر سید ہی کی زبان میں رہنمایان سیاست سے خطاب کیا،ارباب دین، بہی خواہانِ قوم سے اہلِ قلم سے جن میں وہ خود بھی شامل تھے۔ سر سید کی زبان میں اپنے آپ سے جو کہہ رہے تھے کیا اس میں پورے نہیں اترے: سونے والوں کو جگا دے شعر کے اعجاز سے خرمن باطل جلا دے شعلۂ آواز سے سر سید کے اتباع میں انھیں جس سوئی ہوئی قوم کو بیدار کرنا تھا مسلمان ہی تو تھے۔ انجمن حمایت اسلام بھی تحریک علی گڑھ کا ضمیمہ ہی تو تھی۔ انجمن کا مقصد بھی وہی تھا جو علی گڑھ کا کہ مسلمان تعلیم حاصل کریں۔ وہ ایک قوم ہیں۔ ہندوستان ان کا وطن ہے۔ انھیں یہیں زندہ رہنا، اپنا قومی تشخص برقرار رکھنا ہے۔ ہم یہ سب کچھ بھولتے ہیں اور اس کے ساتھ یہ بھی کہ قوم اور وطن کی طرح قومیت اور وطنیت کے الفاظ کا جو مفہوم آج سیاست دانوں کی زبان میں ہے اس زمانے میں نہیں تھا جب محمد اقبال حب الوطنی کا گیت گا رہے تھے، اہل وطن کو انسانیت کا گر سمجھا رہے تھے۔ ان کا استعمال ان معنوں میں نہیں ہوتا تھا جن میں آگے چل کر کچھ بدلتے ہوئے سیاسی حالات اور کچھ مغرب کے اتباع میں ہوا۔ وطن صرف وطن تھا، قومیت کی اساس نہیںتھا۔ نہ حب الوطنی سے مذہب کی نفی لازم آتی تھی ۔ لیکن ہم نے ان حقائق کو نظر انداز کر دیا۔ قوم ا ور وطن کے الفاظ کی تعبیر جو صرف ایک جغرافی نسبت کے اعتبار سے بطور تعارف استعمال کی جا رہی تھی قومیت اور وطنیت کے رنگ میں کی۔محمد اقبال مغرب کے سیاسی نظریوں سے بے خبر نہیں تھے۔ مگر یہ نظریے ابھی عام نہیں ہوئے تھے۔ نہ سیاست میں ان کی دخل اندازی کا کوئی ایسا اندیشہ تھا۔ یہ دخل اندازی بہت بعد میں ہوئی۔ ابھی سوال صرف اہل ملک میں اتحاد کا تھا۔ رفع نزاع اور مخاصمت کا۔ گو ایک ہوش مند انسان کی طرح وہ یہ بھی دیکھ رہے تھے، بالخصوص سر سید کے اتباع میںکہ اہل وطن کو جس اتحاد، مفاہمت اور مصالحت کی ضرورت ہے کوئی اور رُخ بھی اختیار کر سکتی ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ ملک کی سیاسی انجمنوں سے بے تعلق رہے۔ تعلق رہا تو صرف تحریک علی گڑھ سے۔ یہاں شاید یہ کہا جائے کہ یہ بھی تو انھیں کا ارشاد ہے’’میں نے یورپ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا کہ جغرافی قومیت اور لا دین سیاست کا جو بھوت اقوام مغرب کے سر پر سوار ہے انھیں ایک روز ایک شدید اور ہولناک جنگ کی بھٹی میںجھونک دے گا‘‘۔ جیسا کہ بالآخر ہوا۔ ۱۹۱۴ء میں، ۱۹۳۹ء میں۔ درست لیکن اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ جب تک یورپ نہیں گئے۔ جغرافی قومیت کے قائل تھے۔ ان کی نگاہیں صرف ہندوستان پر تھیں اس سے کچھ ثابت ہوتا ہے تویہ کہ ہندوستان میں اگرچہ جغرافی قومیت کا نظریہ عام نہیں ہوا تھا، نہ کسی سیاسی جماعت نے اسے بطور اُصول اختیار کیا تھا۔ لہٰذا انھوں نے اس باب میں کچھ نہیں کہا۔ لیکن محمد اقبال جانتے تھے کہ جغرافی قومیت ایسا ایک نظریہ سیاست بھی ہے۔ یورپ گئے تو اس کے تباہ کن نتائج کا بخوبی اندازہ ہو گیا۔ واپس آئے اور محسوس کیا کہ ممکن ہے اہل دل بھی اس نظریے کا شکار ہو جائیں تو اس کے خطرات سے اہل ملک، بالخصوص مسلمانوں کو متنبہ کیا ۔ وہ بھی اس وقت جب انھوں نے دیکھا کہ یہ نظریہ قبول عام حاصل کر رہا ہے ۔ تاآنکہ کانگریس نے اسے صاف و صریح الفاظ میں مدار سیاست ٹھہرایا۔ اب ان کا خطاب بالخصوص مسلمانوں سے تھا۔ اس لیے کہ عالم اسلام بھی ان نظریات کی زد میں آ رہا تھا۔ ترکی میں جو کچھ ہوا ان کے سامنے تھا۔ وہ پریشان ہو گئے۔ گو اس سے بہت پہلے انھوں نے وطنیت کے عنوان سے وہ نظم لکھی جس میں وطن اور وطنیت کا فرق بڑی خوبی سے سمجھایا۔ مسلمانوں کو خبر دار کیا ہے کہ وطنیت سے مذہب ، بالخصوص اسلام کے سیاسی اجتماعی نصب العین کی نفی ہو جاتی ہے۔ وطن کی محبت ایک طبعی امر ہے لیکن وطنیت ایک مادی جغرافی، غیر اخلاقی اور غیر روحانی تصور۔ محمد اقبال نے کہا ہم نہیں بھولیں: ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے مقصد ایک طرح سے یہ بھی تھا کہ اگر ان کی نام نہاد وطنی نظموں سے یہ غلط فہمی ہو رہی ہے کہ ان کا اشارہ وطنی قومیت کی طرف ہے تو اس کا ازالہ ہو جائے۔ میری رائے میں ہندو اہل وطن اگر مغرب کا نظریہ ٔ وطنیت قبول نہ کرتے تو بہتر ہوتا۔ ہندو دھرم کی ایک تاریخ ہے ۔ اس کے کچھ آدرش ہیں، کچھ روحانی قدریں۔ وطنی قومیت سے ان آدرشوں اور ان قدروں کی اگرچہ کلیتاً نفی تو نہیں ہوتی لیکن انھیں گزنذ ضرور پہنچتا ہے۔ کچھ آدرش عملاً بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا۔ میرا خیال ہے اس لیے کہ ہندو دھر م میں ریاست کا کوئی ایسانظریہ نہیں ہے جس کی بنا وحدت انسانی پر ہو۔ ہندو یوں بھی اکثریت میں تھے۔ مغرب کے نظریۂ وطنیت، یا مغرب کے آئے ہوئے جمہوری طرز حکومت میں جاتی کے لیے کوئی خطرہ بھی نہیں تھا، بلکہ سرتاسر فائدہ۔ اس لیے کہ یوں انھیں سارے وطن پر سیاسی معاشی دسترس حاصل ہو جاتی۔ وہ مغرب کی اصطلاح میں ایک قوم بن جاتے۔ لہٰذا حکومت خود اختیاری ہو یا ہندوستان کے لیے آزادی کی جدو جہد ان کے خیالات کا رُخ بتدریج جغرافی قومیت کی طرف ہوتا گیا۔ اتحاد وطن نے ہندو مسلم اتحاد، ہندو مسلم اتحاد نے متحدہ قومیت اور متحدہ قومیت نے خالصتاً وطنی قومیت کی شکل اختیار کر لی۔ یہ جو کچھ ہوا تاریخ کا ایک قدرتی عمل تھالیکن جو بات سمجھنے کی تھی کوئی نہیں سمجھا۔ نہ سمجھنے کی کوشش کی کہ اتحاد وطن کا مسئلہ بظاہر سیاسی ہے ، حقیقتاً دو ثقافتوں کا۔ ان میں مسلسل تصادم یا ان کے پہلو بہ پہلو قائم رہنے کا۔ محمد اقبال کا خیال تھا ان کا پہلو بہ پہلو قائم رہنا ممکن ہے ۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کیوں؟ یہ موقع اس بحث کا نہیں۔ البتہ ہمار ے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اس باب میں ان کا موقف کیا تھا۔ رواداری، خیر خواہی، ہندوستان کی غلامی کو آزادی سے بدلنے، اس کی ترقی، اصلاح و احوال او ر سیاسی استحکام کے لیے اتحاد۔ انسان کا انسان کے لیے جذبہ محبت۔ اب جہاں تک نوع انسانی کی محبت اور انسان کی انسان کے لیے خیر خواہی کا تعلق ہے اس میں تو کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا۔ نہ مذہب کے معاملے میں کہ ہمیں اس میں رواداری سے کام لینا چاہیے۔ آدمیت احترام آدمیت ہی کا دوسرا نام ہے۔ لیکن آدمیت جب ہی آدمیت ہے کہ اس کی ترجمانی قوموں کی زندگی، فرد اور جماعت کے روابط، سیاست اور معاش غرضیکہ ہر پہلو سے عمل میں ہوتی رہے۔رہا اتحاد وطن سو اس کی تعبیر وطنیت کے رنگ میں کی گئی تو اہل وطن نے کہا: محمد اقبال سے بڑی توقعات تھیں ۔ کیسے اچھے’نیشنلسٹ‘ تھے۔ مذہب کے چکر میں آ کر ’کمیونلسٹ‘ ہو گئے۔ ہم نے کہا اچھا ہوا نیشنلزم کے چکر سے نکل گئے۔ حالانکہ یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ وہ کبھی نیشنلسٹ تھے نہ کمیونلسٹ ۔ نہ وطنیت کے پرستار، نہ تنگ نظر فرقہ پرست۔ ہم نے اگر ۸۵ء سے ۱۹۰۵ء تک کے سیاسی ہندوستان پر نظر رکھی ہوتی تو ایسا نہ کہتے۔ ۱۸۵۷ء سے پہلے ہندوستان آزاد تھا مگر خانہ جنگی میں مبتلا۔ ایک قوم کی حیثیت سے نہ سہی راجوں مہاراجوں، نوابوں ، نسلی اور مقامی گروہ بندیوں، ہوس اقتدار میں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کے ہاتھوں۔ اس خانہ جنگی سے ایک غیر قوم نے فائدہ اٹھایا۔ سارا ہندوستان اس کی گرفت میں آ گیا؟ وہ مخالف اور موافق گروہ بندیاں جو آئے دن برسر پر خاش رہتی تھیں، ختم ہو گئیں۔ صرف نام باقی رہ گئے۔ اندریں صورت کیا بجز اتحاد و اتفاق ہندوستان کے لیے کوئی دوسرا راستہ بھی تھا؟ ہرگز نہیں۔ محمد اقبال کی نظموں کو اس صورت حالات کی رعایت اور اس سیاسی تقاضے کا لحاظ رکھتے ہوئے دیکھنا چاہیے جو اس طرح پیدا ہوا۔ ان اخلاقی اور روحانی تصورات کے حوالے، سے سمجھنے کی کوشش کیجیے جو ان کے ذہن میں کار فرما تھے۔ لیکن وہ جہاں ہندوستان کو آزاد دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کی آرزو تھی یہ سر زمین جو مذہب کے نام پر مبتلائے فساد ہے تعصب اور تنگ دلی کو چھوڑ کر ایک دوسرے سے محبت، خیر خواہی اور رواداری کا راستہ اختیار کرے، اس میں سیاسی سوجھ بوجھ پیدا ہو وہاں یہ بھی کہ مسلمانوں کو اس ملک میں جو ان کا وطن ہے تمکن حاصل ہو۔ جب ہی تو وہ ایک باعزت اور باہمت عنصر کی طرح ایک ثقافتی ورثہ اور ایک سیاسی اجتماعی نصب العین لیے ہوئے اپنا ملی کردار کامیابی سے ادا کر سکتے ہیں۔ انھیں اس ملک میں اپنا وجود قائم رکھنا ہے۔ ان کا دور اقتدار ختم ہوا۔ اب دور محکومی ہے۔ دور اقتدار میں سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ہندوستان کی ملکی وحدت قائم رہے۔ دور محکومی میں بھی کچھ یہی صورت تھی۔ لیکن راستے دو تھے ایک راستے کی نشان دہی سر سید نے کی۔ دوسرا راستہ دیوبند نے اختیار کیا۔ یہ حکومت سے علیحدگی کا راستہ تھا۔ ہر اس چیز کے مقاطعے کا جومغرب سے آئی ہو۔ دونوں صورتوں میں اہل وطن سے سیاسی اتحاد نا گریز تھا۔ یہی اتحاد ہے جس پر محمد اقبال نے زور دیا۔ اس لیے کہ ہندوستان کا مستقبل اب ہندوستانیوں کا، سب کا یکساں معاملہ تھا۔ مسلمان کیسے کہہ سکتے تھے ہم ہندوستانی نہیں ہیں۔ بالخصوص جب یہ تسمیہ یعنی ہندوستان ، ہند اور ہندی انھیں کا وضع کردہ ہے۔ کیا وہ حالی کی طرح یہ کہتے : رہ چکے تیرے بہت دن ہم بدیسی مہمان۲۷۷؎ سات کروڑ مسلمان اور ’بدیسی‘ ہرگز نہیں۔ وہ ’بدیسی‘ نہیں تھی’دیسی ‘ یعنی اس دیس کے رہنے والے جسے انھوں نے متحد رکھا ۔ جس کے سیاسی خدو خال متعین کیے۔ جس کے حدود و ثغور کی حفاظت کی جسے اپنے خون سے سینچا۔ اس میں گل و گلزار کھلائے۔ امن و امان آسودگی اور خوش حالی کی نعمت عطا کی۔ دنیا کی عظیم ترین قوموں کے پہلو بہ پہلو کھڑا کر دیا ۔ جس کی دولت اور ثروت کا ہر کہیں شہرہ تھا۔ جس کے جاہ و جلال، شہروں اور عمارتوں کے حسن اور زیبائی کو دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہو جاتیں۔ جو تاتاری سیلاب کے بعد مسلمانوں کا ملجاو ماویٰ بنا۔ جس نے عالم اسلام کے زوال پر بھی وہ شان و شوکت حاصل کی کہ بمقابلہ اس کے مغرب کو اپنا وجود ہیچ نظر آتا۔ جس کی خاک میںوہ کشش تھی کہ ارباب علم وہنر ، شاعر اور فنکار اس کی طرف کھنچے چلے آتے۔ جسے دیکھ کر خیا ل ہوتا بغداد اور قرطبہ کی کھوئی ہوئی عظمت شاید واپس آ رہی ہے۔ جس کی شان میں عرفی نے کہا تھا: تو از ملک عراقی واژگوں کن عادت پیشیں اگر خواہی کہ حُسن و رونق ہندوستان بینی عرفی نے تو خیر سلطنت مغلیہ کا جاہ و جلال دیکھا تھا۔ غالب تو اس وقت بھی جب اس کا جسد بے روح زندگی کے آخری سانس لے رہا تھا یہ کہے بغیر نہ رہا: بیٹھا ہے جو کہ سایہ دیوار یار میں فرماں روائے کشور ہندوستان ہے ہندوستان کی شان و شوکت اور اس کی عزت و آبرو ایک غیر قوم کے ہاتھوں لٹ گئی ۔غالب نے کس دکھ بھرے دل سے کہا: ہندوستان سایۂ گل ہائے تخت تھا جاہ و جلال عہد وصال بتاں نہ پوچھ دلی اجڑ گئی۔ حالی نے اس کا مرثیہ لکھا۔ داغ خون کے آنسو رویا۔ محمد اقبال نے یورپ جاتے ہوئے اس کی بربادی کو دیکھا واپس آئے تو بے اختیار کہہ اٹھے: سر زمین دلی کی مسجود دل غم دیدہ ہے ذرے ذرے میں لہو اسلاف کا خوابیدہ ہے یہ دہلی، یہ ہندوستان جو انھیں کی زبان میں ایک برگشتہ بخت قوم کا سرمایہ تھا، جس کی خاک سے ان کا خمیر اُٹھا وہ اس سر زمین کو کیسے بھول سکتے تھے۔ وطن کی محبت کسے نہیں ہوتی۔ اسے کون عزیز نہیں رکھا۔ پھر قطع نظر جذبہ حب الوطنی کے ایک نفسیاتی تعلق بھی ہے جو ہمیں خاک وطن سے ہوتا ہے اور وہ یہ کہ زندگی عبارت ہے جن اعمال و افعال، واقعات اور حوادث،تجربات اور مشاہدات سے اگر زماناً ہم ان کو ماہ وسال سے نسبت دیتے ہیں تو مکاناً کسی نہ کسی مقام، بیشتر اپنے وطن سے کہ جہاں کسی یاد نے ذہن کا رُخ ماضی کی طرف موڑ ا اس کا تصور آنکھوں میں پھر گیا۔ جیسے ہم پھر وہیں پہنچ گئے جہاں کوئی واقعہ پیش آیا، کسی تجربے سے گزر ہوا۔ افراد کی طرح قوموں کی روداد حیات کو بھی اپنے مرزوبوم سے کچھ ایسی ہی نسبت ہوتی ہے۔ محمد اقبال چاہتے تھے اس مرز و بوم میں جہاں ہماری زندگی کی جڑیں پیوست ہیں۔ جہاں ہمارے ماضی کو ایک نسبت مکانی ہے مضبوطی سے جم جائیں۔ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جائیں۔ قوموں اور ملکوں کا وجود توام ہے۔ ہم نے ہندوستان میں اپنے لیے ایک جگہ پیدا کی۔ ایک قوم بن کر زندہ رہے۔ دنیا میں اچھے برے دن آتے رہتے ہیں۔ یہ کیا کہ حالات سے گھبرا کراس سے قطع تعلق کر لیں، یا اپنا تشخص بدل ڈالیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہو گا کہ ہم اپنے وجود ملی کی خود ہی نفی کر رہے ہیں۔ یہ محمد اقبال کی دیدہ وری تھی جس نے ہمیں ایک قوم کی طرح عزت اور آزادی کی زندگی بسر کرنے کا گر سکھایا۔ وطن کی محبت کا سبق دیا تا کہ ہم اس میں تمکن حاصل کر سکیں۔ پھر یہ تمکن جہاں تک اسلام کا تعلق ہے نہ صرف ہمارا فطری اور جبلی حق تھا، بلکہ اس سر زمین کا تقاضا بھی جہاں ہم ایک قوم کی حیثیت سے اُبھرے اور ایک قوم ہی کی حیثیت سے اس کی آزادی میں دلیرانہ حصہ لے سکتے تھے۔ ہم دہلی میں ڈاکٹر انصاری کے دولت کدہ دارالسلام میں بیٹھے تھے۔ میں نے کہا ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں متحدہ قومیت کی حمایت میں ہم آپ ہی کی تعلیم پر عمل کر رہے ہیں۔آپ ہی نے تو ہمیں حب الوطنی اور اتحاد و اتفاق کا سبق دیا تھا۔ مسکرا کر کہا حب الوطنی اور اتحاد و اتفاق کا سبق متحدہ قومیت کا سبق نہیں۔ میں جو کچھ اب کہہ رہا ہوں اس سے بھی تو اتحاد و اتفاق اور حب الوطنی کی نفی نہیں ہوتی۔ لیکن اگر انھیں میری ہی تعلیم پر عمل کرنا ہے، وہ انھیں باتوں پر کار بند ہیں جو ان کے نزدیک میں نے ایک زمانے میں کہیں تھیں تو اب جو کچھ کہتا ہوں اس پر عمل کیوں نہیں کرتے۔۲۷۸؎ دراصل جو غلط فہمی ڈاکٹر صاحب کو ان کے کلام سے ہوئی وہی دوسروں کو ۔ وہ سمجھتے تھے انھوں نے ان دنوں صرف ہندوستان ہی کی بات کی ہے۔ اسلامی قومیت یا عالم اسلام کا خیال نہیں آیا۔ وہ بھولتے ہیں کہ ہندوستان بھی تو عالم اسلام ہی کا ایک حصہ تھا اور ہے۔ تماماً نہ سہی، جزواً ۔ مسلمانوں کی تعداد کم سہی، لیکن ایسی کم نہیں کہ اپنے آپ کو مسافر یا اجنبی تصور کرتے۔ ہندوستان کا کون سا گوشہ تھا جہاں انھوں نے اپنی تہذیب و تمدن کا نقش نہیں بٹھایا۔ تعداد میں کم مگر ایک طریق زندگی اور ایک نصب العین کو لیے ہوئے اس طرح متمکن کہ اگر کوئی سیاح اس سر زمین میں قدم رکھتا تو اس کی ظاہری ہیئت و آثار و باقیات کو دیکھ کر یہی سمجھتا کہ کسی اسلامی ملک میں آ گیا ہے۔ محمد اقبال نے بھی اسی اسلامک ملک میں آنکھیں کھولیں۔ اس کے احوال و شئون کو دیکھا تو قدرتی بات تھی کہ سب سے پہلے انھیں اس خطے میں اپنی ہستی کی فکر ہوتی اور ایسا ہی ہوا۔ انھیں خو ب احساس تھا کہ ہندی مسلمان اپنی جگہ پر ایک قوم ہیں۔ اقوام عالم کی طرح ان کا بھی ایک جداگانہ ملی وجود ہے۔ اسلام اس کی روح۔ یہ دوسری بات ہے کہ ابھی وقت نہیں آیا تھا جب اسلامی قومیت کا مسئلہ زیر بحث آتا۔ ابھی تو قوم اور قومیت کا تصور نیا نیا اُبھرا اور تھا بھی بہت کچھ غیر واضح۔ ابھی تو کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ ارباب سیاست اس مسئلے میں بالآخر کیا راستہ اختیار کریں گے ۔ ابھی تو یہ بات بھی کھل کر سامنے نہیں آئی تھی کہ مغرب کی سیاسی اصطلاح میں ہندوستانی کیا ایک قوم ہیں، یا نہیں۔ نہ کسی کو اس سے بحث۔ ابھی تو ایک ایسی قوم کے مقابلے میں جو سات سمندر پار سے آ کر ان پر مسلط ہو گئی تھی وہ اپنی ہستی کا اظہار لفظ قوم ہی سے کرسکتے تھے۔ ابھی تو کچھ سلب اقتدار کی تلخی اور کچھ سرکار برطانیہ کی غلامی کے زیر اثر یہ احساس عام ہو رہا تھاکہ باوجود اختلاف مذہب و ملت اہل وطن میں ایک رشتہ اتحاد موجود ہے ۔ اس رشتہ اتحاد کی روسے وہ اپنے آپ کو ایک قوم کہیں تو بے جانہ ہو گا۔ انھیں برطانوی شہنشاہیت سے رستگاری ملے گی تو الگ الگ قوموں کی نہیں، بلکہ ایک قوم کی حیثیت سے اور یہی ا ن سیاسی تنظیموں کا جو اس زمانے میں قائم ہوئیں اور قائم ہو رہی تھیں، بنیادی عقیدہ۔ انھوں نے اہل وطن کو ایک قوم سمجھ کر ہی ان سے خطاب کیا اور ان کا ایسا کرنا تھا ٹھیک بھی۔ اس لیے یہی اس نئی زبان کا جو برطانوی شہنشاہیت اور استعمار کی رعایت سے انھیں اختیار کرنا پڑی لازماً تقاضا۔ یوں ہی وہ اس سے گلو خلاصی میں باہم مل کر کامیابی سے قدم اٹھا سکتے تھے۔ لیکن قابل غور امر یہ ہے کہ محمد اقبال نے تو شاید اس لحاظ سے بھی اہل وطن کو ایک قوم نہیں کہا۔ بجز اس کے کہ ان نظموں میں جن کا آہنگ اگر قومی اور وطنی ہے تو ملی اسلامی بھی۔ انھوں نے لفظ قوم ضرور استعمال کیا ہے مثالاً یا کسی نظم کے عنوان میں۔ چنانچہ ۱۹۰۴ء میں قومی زندگی کی بحث میں ان کا جو مضمون مخزن میں شائع ہوا اس میں اول تو اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ تسخیر فطرت کی بدولت تہذیب و تمدن کی دنیا میں جو حیرت انگیز تغیر رونما ہوا۔ اس سے زمانۂ حال کا رشتہ ماضی سے یکسر کٹ گیا۔ لکھتے ہیں :’’ قومیں مجبور ہیں کہ جدید روحانی اور جسمانی ضروریات کے پیدا ہوجانے کی وجہ سے اپنی زندگی کے لیے نئے نئے سامان بہم پہنچائیں…میرا منشایہ ہے کہ اس تغیر کے لحاظ سے اقوام ہندوستان اور خصوصاً مسلمانوں کی موجودہ حالت پر ایک نظر ڈالوں اور اس امر کو واضح کروں کہ زندگی کی کٹھن راہ میں کون کو ن سی مشکلات در پیش ہیں اور ہمیں ان کے ازالے کے لیے کیا تدابیر اختیار کرنی چاہیے‘‘۔۲۷۹؎ مضمون کا عنوان توجہ طلب ہے۔ قومی زندگی سیاست اور اجتماع کی زندگی ہے ، تہذیب اور تمدن کی۔ جس میں اقوام ہند کے ساتھ مسلمانوں پر انھیں بالخصوص نظر ڈالنا مقصود ہے تو اس لیے کہ مسلمانوں ہی کی حالت ان میں سب سے زیادہ سقیم تھی۔ مسلمانوں ہی کو سلب اقتدار میں سب سے زیادہ دکھ اٹھانا پڑا۔ غلامی کا پھندا بھی سب سے زیادہ انھیں کی گردن میں ڈالا گیا۔کوشش کی گئی کہ ان کی تہذیبی اور تمدنی زندگی کا کوئی نشان باقی نہ رہے۔ محمد اقبال چاہتے تھے مسلمان اقوام ہند میں اپنا جائز مرتبہ حاصل کریں۔ ملک کے مفاد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ یہ نہیںکہ انھیں اقوام ہند سے کوئی پر خاش تھی۔ برعکس اس کے انھوں نے تو نوع انسانی کی محبت ایسی شراب روح پرور کے نام پر اہل وطن کے جذبہ حب الوطنی کو اُبھارا۔ ان میں یہ احساس پیدا کیا کہ ملک کا گزر جن کٹھن حالات سے ہو رہا ہے ان میں اپنی صفیں درست کریں۔ انھیں ایک دوسرے کی موجودگی کا شعور ہونا چاہیے۔ وہ اس کے اعتراف اور احترام کے ساتھ ساتھ قوموں کی زندگی سے سبق لیں۔ ایک قوم کی طرح زندگی بسر کرنا سیکھیں۔ یہ سمجھیں ان کا تعلق اب سیاست کی جس نئی دنیا سے ہے اس کے تقاضے کیا ہیں؟ باعتبار ان کے وہ کیا راستہ اختیار کریں جس سے ان کی حب الوطنی باصطلاح سیاست وطن سے وفاداری مثبت نتائج پیدا کرے۔ اس کا رُخ اور اہل وطن کے لیے کسی روشنی مستقبل کی جانب مڑ جائے۔ راقم الحروف کے نزدیک محمد اقبال کی شاعری سے بڑھ کر شاید ہی کسی نے اس احساس کو اُبھارا جس میں ان کی سیاسی بصیرت نے اخلاق اور روحانیت کی اعلیٰ ترین قدروں سے مل کر وہ جذباتی اساس بہم پہنچائی جس سے اہل وطن اپنی قومی زندگی کا رُخ اس کے بلند ترین نصب العین کی طرف موڑ سکتے تھے جس نے ان کے دلوںکو گرمایا۔ جس سے ملک میں قومی بیداری کی ایک لہر دوڑ گئی۔۲۸۰؎ محمد اقبال کا دل وطن کی زبوں حالی پر دکھتا ۔ اہل وطن کے تعصب اور تنگ نظری کو دیکھتے تو نا امید ہو جاتے ۔ صدائے درد اور ایک آرزو ایسی نظموں سے اسی نا امیدی کا اظہار ہوتا ہے۔ تصویر درد ہندوستان اور ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی اور ملی بے بصری، پسماندگی اور پستی کا مرثیہ ہے۔ نیا شوالہ میں خطاب اہل وطن کی اکثریت سے ہے۔ قومی ترانہ اور ہندوستانی بچوں کا قومی گیت ہندوستان کی محبت اور اس سے وابستگی میں اظہار فخر کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے وجود کا اعتراف و احترام۔ ہندوستان کی عظمت سے کون انکار کر سکتا ہے ۔ دنیا نے اس سے کیا کچھ نہیں سیکھا۔ اس کے حسن و دلکشی نے کس کس کو اپنی طرف نہیں کھینچا۔ یہاں وسطی ایشیا کے قبائل آئے۔ ترک آئے۔ عرب، ایرانی اور آ کر یہیں کے ہو رہے ۔ ہندو ، مسلمان، سکھ، عیسائی ، پارسی کیا اس پر ناز نہیں کر سکتے۔ حتیٰ کہ چین اور جاپان بھی: گو تم کا جو وطن ہے جاپان کا حرم ہے عیسیٰ کے عاشقوں کا چھوٹا یروشلم ہے مدفون جس زمین میں اسلام کا حشم ہے ہر پھول جس چمن کا فردوس ہے ارم ہے میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے۲۸۱؎ یہ تھی محمد اقبال کی حب الوطنی۔ آپ اسے قومیت کہہ لیجیے۔ میںکہوں گا وطن شناسی کہ تعصب اور تنگ نظری، بلکہ بغض و عناد کی اس فضا کے باوجود جس میں کوئی نہ کوئی مذہبی اور سیاسی تحریک سر نکالتی حتیٰ کہ اقوام ہند کے اپنے اپنے طرز حیات کے علی الرغم انھوں نے اہل وطن کو انسانیت کے نام پر محبت اور رواداری کا سبق دیا۔ انھیں احساس دلایا کہ ملک کی حالت پر غور کریں۔ دیکھیں محکومی انھیں کہاں لے آئی ہے۔ دنیا بدل گئی۔ اقتدار کی لڑائی وہ کب کے لڑ چکے۔ بے تعلقی کا دور ختم ہوا۔ ان روابط کا پاس کریں جو اور نہیں تو کم از کم وطن کی نسبت سے ان کے درمیان قائم ہیں اور جن کے اعتراف میں خود ان کی بہتری کا راز مضمر ہے۔ محمد اقبال کی نظم ہندوستان کے مستقبل پر تھی۔ اہل ہند کے سود و بہبود پر۔ اس سر زمیں پر جس میں اسلام کا حشم مد فون ہے۔ منجملہ اقوام ہند مسلمانوں کے وجود ملی کے تحفظ اور تمکن پر۔ ان کے اس ارشاد پر غور کیجیے۔ ’’مسلمانوں میں اصلاح تمدن کا سوال در حقیقت ایک مذہبی سوال ہے۔کیونکہ اسلامی تمدن اصل میں مذہب اسلام کی عملی صورت کا دوسرا نام ہے۔ ہماری تمدنی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جو اصول مذہب سے جُدا ہو سکتا ہے‘‘۔۲۸۲؎ اب اسلامی تمدن کا رشتہ اگر اسلام سے لاینفک ہے اور تمدن انسان کی ساری زندگی پر محیط جس میں سیاست بھی شامل ہے تو اسلام ایک اصول قومیت ٹھہرا او ر مسلما ن اس لحاظ سے ایک جدا گانہ قوم جیسا کہ محمد اقبال کہہ رہے تھے اور جس کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے اسلام کو ایک اصول قومیت مانا تو اس سے وطنیت بالفاظ دیگر جغرافی قومیت کی آپ ہی آپ نفی ہو گئی۔ تسلیم کرنا پڑا کہ محمد اقبال کے شعور میں وہ سب باتیں موجود تھیں جن کا تعلق اسلام سے بطور ایک اصول سیاست کے ہے ۔ ایک عالمگیر جمعیت بشری اور وحدت امت کا خیال ان کے ذہن میں موجود تھا۔ لہٰذا محمد اقبال نے اپنی دعوت کا آغاز بجا طور پر وطن سے کیا تاآنکہ اس کا دائرہ عالم اسلام حتیٰ کہ نوع انسانی تک پھیل گیا۔ بجا طور پر بتدریج اس باب میں انھوں نے اپنے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کی۔ خیالات اور تصورات منضبط کیے۔ یہ ایک قدرتی عمل تھا جس کی ابتداء کچھ ویسی ہی تھی جیسے ایک بیج کی کہ پھوٹتا اور بتدریج برگ و بار لاتا ہے ۔ ہم اس عمل پر نظر نہیں رکھتے۔ محمد اقبال کے خیالات اور نظریات کے بارے میں غلط رائے قائم کر لیتے ہیں۔ حالانکہ ان میں ایک تسلسل ہے ۔ وہ کبھی وطنی قومیت کے قائل نہیں تھے، نہ یہ کہ ان کی نگاہیں محدود تھیں ۔ ایک زمانے میں ہندوستان سے آگے نہیں بڑھیں۔ عالم گیر محبت، نوعِ انسانی کی وحدت اور امت کے ملی تشخص کا تصور آگے چل کر پیدا ہوا۔ محمد اقبال کا کلام، ان کی تحریریں اور تقریریں ، علمی اور ملی مشاغل پر نظر رکھیے، تو ان خیالات اور ایسی ہی اور کئی باتوں کی جن کی کوئی حقیقت نہیں بآسانی تردید ہو جاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے۔ کہ جیسی بھی کوئی بات ہے ہم اس کو اس کے پورے سیاق و سباق میں سمجھیں۔ خیال آرائیاں نہ کریں۔ ۱۴۔واحدۃ الوجود وطنیت کی طرح ایک اور غلط فہمی جو دور اول کی بعض نظموں یا آگے چل کر بعض تحریروں کی بنا پر پیدا ہوئی یا پیدا کر دی گئی، یہ تھی اور شاید اب تک ہے کہ محمد اقبال ایک زمانے میں ہندی قومیت کی طرح وجود ی تصوف کے گرداب میں پھنس گئے تھے ۔ حالانکہ ان کی تعلیم و تربیت جس گھر اور جس استاد کی نظر کیمیا اثر سے ہوئی اس کا لحاظ رکھ لیا جاتا تو ایسی کسی غلط فہمی کی گنجائش نہیں تھی۔ لیکن محمد اقبال کے خیالات اور تصورات کا سطحی اور ادھورا مطالعہ، حالات زندگی سے نا واقفیت، سنی سنائی روایات، حتیٰ کہ ذاتی تعصبات نے ایسی ایک نہیں کئی غلط فہمیوں کو ہوا دی۔ مثلاً یہی کہ شروع میں وہ وطنیت کے قائل تھے۔ یورپ سے واپس آئے تو اسلامیت کا رُخ کیا۔ ایک اسلامی ریاست کا تصور ذہن میں اُبھرا تو پھر وطنیت کی طرف لوٹ گئے۔ ابتداء میں وجودی تھے آگے چل کر وحدۃ الوجود کے خلاف آواز اٹھائی، یا یہ کہ ابتداء میں تو وجود ی نہیں تھے۔ آخر میں وجودی ہو گئے۔ وحدۃ الوجود ایک فلسفیانہ مسئلہ ہے۔ کوئی دینی عقیدہ نہیں کہ اس سے اتفاق یا اختلاف میں اسلام کا زیر بحث آنا لازم ٹھہرے یایہ کہا جائے کہ وحدۃ الوجود کے علاوہ توحید کی کوئی دوسری تعبیر ممکن نہیں۔ وحدۃ الوجود ایک نظریہ ہے حقیقت مطلقہ کے بارے میں جس کی ابتداء اسلام سے بہت پہلے ہو چکی تھی اور جس کا عمل دخل تصوف میں اس بحث سے ہوا کہ اگر وجود صرف ذات باری تعالیٰ کا ہے تو عالم موجودات کی حیثیت بمقابلہ اس کے کیا رہ جاتی ہے۔ یہ زمین آسمان ، یہ انسان اور کائناب ، اس کا ہر ذرہ اور ہرشے جس کی موجودگی کا ہمیں تجربۃً شعور ہوتا ہے، کیا ہیں؟ کیا ان کا بھی کوئی وجود ہے یا نہیں؟ اگر یہ کہیں نہیں تو کیسے ؟ ہیں تو کن معنوں میں؟ فلسفہ کی زبان میں یہ مسئلہ وجود یات کا ہے جس میں ایک نہیں کئی نظریے قائم ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ ماہیت وجود کیا ہے؟ وجود ایک ہے یا متعدد ؟ شیخ اکبر نے اس سوال کا جواب وحدۃ الوجود کی رعایت سے دیا۔ وہ ایک عظیم فلسفیانہ دل و دماغ لے کر آئے تھے۔ انھوں نے قرآن مجید کی تفسیر بھی اسی نقطۂ نظر سے کی۔ اب اگرچہ ہر شخص کو حق پہنچتا ہے کہ کوئی بھی مسئلہ ہو اس میں قرآن مجید سے رجوع کرے جیسا کہ شیخ اکبر نے کیا۔ محمد اقبال نے بھی ایسا ہی کیا قرآن مجید میں ان کے مطالعے کی ابتدائبچپن ہی میں ہو گئی تھی ۔ جیسے جیسے حصول علم میں آگے بڑھے، اس میں وسعت اور گہرائی پیدا ہوتی گئی۔ قرآن مجید میں ان کے تدبر اور تفکر کا سلسلہ تادم آخری جاری رہا۔ آخری علالت میں بھی جب ان کے لیے اٹھنا بیٹھنا حتیٰ کہ بات کرنا مشکل ہو گیا تھا، قرآن مجید میں غور وفکر سے ایک لحظہ بھی غافل نہیں ہوئے ۔ ان کا کب سے خیال تھا قرآن مجید کے ’’نوٹ ‘‘لکھیں۔۲۸۳؎ فرماتے کوئی مسئلہ ہو، کیسی بھی مشکل پیش آئے۔ قرآن مجید سے رجوع کرتا ہوں تو مجھے اس کا حل مل جاتا ہے۔ وحدۃ الوجود کے باب میں بھی ان کے لیے فیصلہ کن حیثیت قرآن مجید کی تھی۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس مسئلے کا فلسفیانہ پہلو سامنے آیا تو اس میں انھوں نے جو کچھ کہا فلسفہ کے اُصول و قواعد اور حدود و قیود کا پورا پورا لحاظ رکھتے ہوئے کہا۔ رہا تصوف سو تصوف سے بھی انھیں بچپن ہی میں لگائوپیدا ہو گیا تھا۔ اس کی وجہ تھی گھر کا ماحول، کچھ خاندانی روایات، کچھ سیالکوٹ کی روحانی فضا، کچھ میر حسن کا حلقۂ درس جس میں ہر طرح کے مسائل زیر بحث آتے۔ ہر عقیدے اور خیال کے لوگ مذہب کی طرح فلسفہ اور تصوف پر بھی گفتگو کرتے۔ بچپن ہی میں انھوں نے مولانا روم اور شیخ اکبر کے نام سُن رکھے تھے ۔ بزرگوں کو دیکھتے مثنوی معنوی ، فتوحات مکیہ اور فصوص الحکم کی باتیں ہو رہی ہیں ۔ ان کی سمجھ میں اگرچہ کچھ نہیں آتا لیکن ان گفتگوئوں کے اثرات ان کے ذہن پر مرتسم ہوتے چلے گئے گوغیر شعوری طور پر ۔ نو عمری ہی میں ان کے والد ماجد انھیں اعوان شریف لے گئے۔ وہ قاضی صاحب سلطان محمود علیہ الرحمۃ سے بیعت تھے یا نہیں۔ محمد اقبال نے بیعت کی یا نہیں قطعی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں کہا جا سکتا ہے تو یہ کہ اعوان شریف کا سفر اس لیے نہیں کیا گیا تھا کہ شریعت اور طریقت کا کوئی مسئلہ در پیش تھا۔ کوئی ذہنی الجھن تھی جسے دور کرنا مقصود تھا۔ اس سفر کی غرض و غایت سر تا سر تعلیمی تھی تا کہ بیٹا دیکھ لے توحید و رسالت میں ایمان اور احکام شریعت کی پابندی سے حضرات صوفیاسیر ت و کردار کی پرورش میں کیا طریق اختیار کرتے ہیں۔ ان کی زندگی کا عملی نمونہ اس کے سامنے ہو۔ قاضی صاحب علیہ الرحمۃ کا تعلق سلسلہ قادریہ سے تھا۔ سلسلہ قادریہ کا مزاج فلسفیانہ نہیں ہے۔ اس کی نظر نفس انسانی پر ہے تا کہ اس کی آلائشیں دور ہو جائیں۔ تزکیہ باطن سے اخلاص فی العمل کی دولت ہاتھ آئے۔ سلسلہ ریشان پر بھی جس سے محمد اقبال کے بزرگوں کو ایک نسبت روحانی تھی اگرچہ زہد و تقشف کا غلبہ تھا۔ لیکن زہد و تقشف ہو، یا تزکیہ باطن، اس سے وحدۃ الوجود کی تائید کا کوئی پہلو نہیں نکلتا۔ نہ کشف و الہام سے اسے کوئی نسبت ہے۔ لہٰذا سلسلہ قادریہ کا خیال کیجیییا سلسلہ ریشان، یا کشف و الہام کی ان روایات کا جو بچپن میں محمد اقبال نے سُنیں بلکہ اپنے والد ماجد کے معاملے میں ان کا کچھ مشاہدہ بھی کیا ان سب باتوں سے کچھ حاصل ہوتا ہے تو یہ کہ ان کے والد ماجد کو تصوف کے رسمی پہلو سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ نہ عقیدہ وحدۃ الوجود پر اصرار البتہ وہ اتنا ضرور جانتے تھے کہ تصوف میں وحدۃ الوجود بھی ایک نظریہ ہے۔۲۸۴؎ انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ تصوف کے ہر سلسلے کا اپنا ایک مسلک ہے۔ لیکن ارباب تصوف ایک دوسرے کے مسلک یا خیالات سے تعرض نہیں کرتے۔ اختلافی مسائل میں غیر جانب دار رہتے ہیں۔ عقلی بحثوں میں نہیں الجھتے ۔ چنانچہ یہی روش تھی جس پر وہ خود بھی کار بند رہے۔ الا یہ کہ مسلک تصوف میں کسی خاص طرز خیال، یا طرز عمل سے احتمال ہوتا کہ اس سے کوئی غلط نتیجہ مترتب نہ ہو جائے تو اسے روک دیتے۔’’ہم لکھنؤ میں تھے۔محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا اجلاس ہو رہا تھا۔ ایک رو ز فرصت تھی۔ طے پایا دیوا شریف چلیں۔ اسٹیشن پہنچے۔ گاڑی کے آنے میں دیر تھی۔ وٹینگ روم میں جا بیٹھے۔ باتیں ہو رہی تھیں کہ کانفرنس کا ملازم ایک تار لے کر آیا۔ میرا پوچھا۔ تار میرے حوالے کر دیا۔ میں پریشان تھا تا ر کیوں آیا ہے۔ کھول کر دیکھا تو والدماجد نے لکھا تھا دیو امت جائو۔۲۸۵؎ میںنے دیو ا جانے سے انکارکر دیا ہر چند کہ احباب مصر تھے‘‘۔۲۸۶؎ اب مجھے یہ تو معلوم نہیں اور نہ میں نے دریافت کیا کہ ان کے والد ماجد کیا جانتے تھے وہ دیوا جا رہے ہیںیا لکھنؤ کے خیال سے انھیں یہ خیال گزرا کہ ممکن ہے و ہ دیوا جائیں۔ سوال یہ ہے کہ انھوں نے انھیں دیوا جانے سے کیوں روک دیا۔ اس سوال کا جواب مشکل نہیں ۔ جن حضرات کو حاجی وارث علی شاہ صاحب علیہ الرحمۃ کے تصرفات اور سلسلہ وارثیہ سے تھوڑی بہت واقفیت ہے بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ ا ن کا دیوانہ جانا ہی مناسب تھا۔ نہیں معلوم دیوا پہنچ کر ان کی حساس طبیعت کیا اثر قبول کرتی۔ وہ اس پر قابو پا سکتے یا نہیں۔ کوئی ایسی تبدیلی پیدا ہو جاتی جس سے ان کے دل و دماغ کی قابلیتیں بروئے کار نہ آتیں۔ یہ واقعہ یورپ سے واپسی کے بعد کاہے۔ لیکن قطع نظر اس سے کہ کب اور کن حالات میں پیش آیا سوچنے کی بات یہ ہے کہ باوجود تصوف سے لگائو کے ان کے والد ماجد کس قدر محتاط تھے۔ پھر جس طرح ان کے والد ماجد نہیں چاہتے تھے کہ ایسا نہ ہو بیٹا تصوف کے معاملے میں جادۂ اعتدال سے ہٹ جائے، بعینہ میر حسن نے بھی ان کے دل و دماغ کی تربیت اس طرح کی کہ تصوف کے بارے میں افراط و تفریط سے محفوظ رہیں۔ میر حسن تصوف کے رمز شناس سطح بیں نگاہوں میں وہابی۔ بلکہ ’نیچری‘ مگر ان کی زندگی میں کشف بھی تھا اور وہ اخلاص فی العمل کا نمونہ بھی تھے کہ یہی تصوف کا مقصود ہے۔ محمد اقبال ان کے شاگرد رشید ہی نہیں تھے بقول جمشید علی راٹھور نفس ناطقہ تھے۔ انھیں کیسے معلوم نہ ہوتا تصوف کیا ہے، اس کے مسائل کیا ہیں، اشغال و اعمال کیا۔ تصوف کس طرح شعر و شاعری میں، فلسفہ و حکمت حتیٰ کہ سیاسی اجتماعی زندگی میں نفوذ کر گیا ہے۔ خوب جانتے تھے ظہور اسلام سے پہلے تصوف کا گزر کن کن مرحلوں سے ہوا۔ ظہور اسلام کے بعد اس نے کیا کیا شکلیں اختیار کیں۔ عقیدہ ٔ وحدۃ الوجود کا مثبت اور منفی دونوں پہلو ان کے سامنے تھے۔ لیکن یہ بات کہ ایک زمانے میں ان کا مسلک وہی تھا جو وجودی صوفیا کا، غلط ہے۔ تکمیل تعلیم سے بہت پہلے وحدۃ الوجود کی بحث پورے طور پر ان کے ذہن میں تھی۔ لیکن بطور ایک نظریے کے۔ اس زمانے میں انھوں نے اس کی موافقت یا مخالفت میں کوئی رائے قائم نہیں کی۔ وہ سمجھتے تھے یہ بھی تصوف کا ایک نظریہ ہے بمقابلہ دوسرے نظریوں کے جو ذات باری اور بمقابلہ اس کے عالم موجودات کے بارے میں اختیار کیا گیا اور کیا جا سکتا ہے ۔ یا یوں کہیے کہ فلسفیانہ نقطہ نظر سے توحید کی یہ بھی ایک تعبیر ہے جو صوفیا اسلام کے ایک گروہ نے شیخ اکبر کی پیروی میں کی۔ ان کی روش اس باب میں غیر جانب داری کی تھی۔ جیسے فلسفے کے مطالعے میں کئی نظریے ان کے ذہن میں تھے جن کو درست بھی ٹھہرایا جا سکتا تھا اور غلط بھی۔ ان کے والد ماجد کو ابن عربی کی ذات سے بڑی عقیدت تھی جو بعض صورتوں میں غلو کا رنگ اختیار کر لیتی۔ فتوحات مکیہ اور فصوص الحکم کے بار ے میں لکھتے ہیں : ’’برسوں تک ان کتابوں کا درس ہمارے گھر میں رہا گو بچپن میں مجھے ان مسائل کی سمجھ نہیں تھی… جب میں نے عربی سیکھی تو کچھ کچھ خود بھی پڑھنے لگا۔ جوں جوں علم اور بڑھتا گیا میرا شوق اور واقفیت زیادہ ہوتی گئی‘‘۔۲۸۷؎ وہ عربی کی تحصیل بھی میر حسن کے درس میں کر رہے تھے۔ پھر جب اسرار خودی کی بحث نے شدت اختیار کر لی تو انھوں نے لکھا’’اس کا اعتراف کرنے میں کوئی شرم نہیں کہ میں ایک عرصے تک ایسے عقائد و مسائل کا قائل رہا جو بعض صوفیا کے ساتھ خاص ہیں اور جو بعد میں قرآن مجید میں تدبر کرنے سے قطعاً غیر اسلامی ثابت ہوئے‘‘۔ قائل ہونے کا مطلب یہ نہیںکہ ان کا مسلک وحدۃ الوجودی تھا۔ ان کا اشارہ بعض عقائد اور مسائل کی طرف ہے ۔ غالباً وہی عقائد اور مسائل جو بیشتر فتوحات مکیہ اور فصوص الحکم میں بیان ہوئے اور جن کی تان بالآخر وحدۃ الوجود پر ٹوٹتی ہے۔ وہ سمجھتے تھے انھیں ٹھیک ماننے میںشاید کوئی مضائقہ نہیں۔ مذہب ، فلسفہ اور تصوف میں ان کا مطالعہ ابھی بہ نظر تحقیق جاری تھا ۔ ہنوز وقت نہیں آیا تھا کہ فلسفہ ہو یا مذہب ، تصوف یا کوئی اور موضوع اس میں ایک آخری رائے قائم کریں۔ یوں بھی کسی بحث کو جب ہی چھیڑا جاتاہے جب اس کا چھیڑنا ضروری ہو جائے۔ جیسا کہ اسرار خودی کی اشاعت پر ہو گیا اور جب اس کا پورے طور پر احاطہ کر لیا گیا۔ ان کے ذہن کا ابتداء ہی سے ایک رُخ تھا۔ اس کی پرورش بھی اس نہج پر ہوئی تھی کہ جیسے جیسے عمر میں، مطالعے میں، غور و فکر میں، تجربات اور مشاہدات میں آگے بڑھیں باعتبار اس کے ان کے خیالات منضبط ہوتے جائیں۔ پھر چونکہ ذہن اسلامی تھا۔ اس ذہن ہی کی رعایت سے انھوں نے ہر خیال اور ہر عقیدے پر نظر رکھی۔ کسی خیال یا عقیدے کو صحیح سمجھا تو عارضی طور پر ۔ ان کے غور و تفکر کا سلسلہ ابھی جاری تھا۔ انھوں نے ان مسائل اور ان عقائد سے تعرض نہیں کیا جن کے بارے میں وہ ایک زمانے تک یہ سمجھتے رہے کہ اپنی جگہ پر ٹھیک ہوں گے۔ ان میں ایک عقیدہ وحدۃ الوجود بھی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسرار خودی کے نزاع سے پہلے انھوں نے تصوف پر قلم نہیں اٹھایا۔ لیکن جب تصوف کی بحث چھڑ گئی تو پھر انھوں نے جو لکھا اس سے تو کسی طرح یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ایک مسلک کو چھوڑ کر دوسرا مسلک اختیار کر رہے تھے۔ برعکس اس کے انھوں نے تصوف پر قلم اٹھایا تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی کہ تصوف کے فلسفیانہ پہلو سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں۔ دلچسپی ہے تو ان مشاہدات اور تجربات سے جن کی نوعیت روحانی ہے اور جن کا ایک پہلو اگر مشاہدہ حق ہے تو دوسرا اخلاص فی العمل۔ فوق کو لکھتے ہیں: ’’اہل اللہ کے حالات نے مجھ پر بڑا اثر کیا …بعض بعض باتوں نے تو مجھے اتنا رلا دیا کہ میں بے خود ہو گیا‘‘۔۲۸۸؎ لیکن تصوف اور حضرات صوفیا سے اس قدر لگائوکے باوجود وہ خوب سمجھتے تھے کہ تصوف کا تعلق دل سے ہے دماغ سے نہیں۔ وہ عبارت ہے ایک تجربے میں گزرنے سے جیسا کہ راقم الحروف کے نام ایک خط میں لکھا: ’’تصوف کرنے کی چیز ہے، پڑھنے کی نہیں‘‘۔۲۸۹؎ یہی وجہ ہے کہ جب ہم ان مضامین کو دیکھتے ہیں جو انھوں نے ۱۹۰۵ء سے پہلے لکھے ۔ ان کی شاعری پر نظر رکھیے۔ علمی اور ملی مشاغل کا خیال کرتے ہیں تو لا محالہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ان کا ذہن وجودی نہیں تھا۔ ان کے خیالات اور تصورات میں کہیں وحدۃ الوجود کی جھلک دکھائی دیتی ہے نہ جذبات اور احساسات میں۔ ہاں انسان اور کائنات پر نظر ہے۔ ’زندگی‘ ہے اس کے حقائق اور مسائل ملک اور قوم کے ساتھ ساتھ اسلام کے لیے دل سوزی۔ انھیں علم و حکمت سے شغف ہے۔ حقیقت کی طلب میں ذوق استفسار ہے۔ درد استفہام ہے۔ تلاش متصل، عقدۂ اضداد کی کاوش۔ وجودی ذہن کے لیے تو کائنات کوئی معمہ ہے نہ زندگی کوئی مسئلہ۔ اسے علم و حکمت کے الجھیڑوں سے کیا کام۔ کائنات اور جو کچھ ہے ایک وجود واحد کے تعینات۔ سب ہمارے خیالات کی بہتی ہوئی رو میں جلوہ ہائے یا برکاب ۔ لیکن محمد اقبال کے کلام کا تو یہ رنگ نہیں۔ انھیں جامی سے عشق ہے۔۲۹۰؎ اس لیے نہیں کہ جامی نے شاعری میں وحدۃ الوجود کی ترجمانی کی۔ بلکہ اس لیے کہ جامی عاشق رسول ہیں وہ جامی کی نعتوں کو سنتے تو بے قابو ہو جاتے ۔ انھیں حافظ کے سحر کا اعتراف ہے۔ عطیہ بیگم سے کہتے ہیں: ’’حافظ کی کیفیت مجھ پر طاری ہوتی ہے تو اس کی روح مجھ میں حلول کر جاتی ہے۔ میں خود حافظ بن جاتا ہوں‘‘۔۲۹۱؎ بایں ہمہ انھوں نے جامی کے رنگ میں کچھ کہا نہ حافظ کے رنگ میں۔ وحدت مطلقہ کا تصور جیسا کہ جیلی کے یہاں ہے بڑی خوبی سے واضح کیا۔ لیکن جیلی سے بھی انھیں دلچسپی ہے تو انسان کامل کے اس تصور کے باعث جو اس کے یہاں اُبھرا۔ یہ مضمون ۱۹۰۱ء میں شائع ہوا۔ لیکن ان کا ذہن تو ۱۹۰۱ء سے بھی بہت پہلے خودی پر مرتکز ہو رہا تھا۔ چنانچہ اپنی ایک غزل میں وہ لفظ خودی استعمال بھی کرچکے تھے۔ وجودی ہوتے تو خودی کے بجائے بے خودی پر زور دیتے۔ رہے ان کے کلام میں دارو رسن ایسے کفایات۔ کثرت میں وحدت کا تماشا۔ ہر شے میں ذات الٰہیہ کی تجلی جن کی بنا پر وحدۃ الوجود کے حق میں استدلال کیا جاتا ہے۔ سو وہ جو صائب نے کہا ہے تصوف برائے شعر گفتن خوب است۔ ایرانی ذہن وجودی ذہن تھا۔ اس ذہن کے زیر اثر فارسی شاعری نے کچھ ایسا پیرایۂ بیان اختیار کیا، کچھ اس قسم کے استعارے تشبیہیںاورترکیبیں وضع کیں۔ کچھ ایسے الفاظ اور اصطلاحات سے کام لیا کہ شاعر کی ذہنی کیفیت کچھ بھی ہو ہر شعر وحدۃ الوجود کے سانچے میں ڈھل گیا۔ پھر جب نوبت بادۂ و ساغر تک پہنچی۔ بغیر اس کے مشاہدۂ حق کی گفتگو نا ممکن ٹھہری تو کوئی بھی خیال ہو، کوئی بھی احساس ، کوئی بھی تجربہ، انسان ، کائنات، زندگی اور اس کے احوال کی طرف کوئی بھی اشارہ اس کی تعبیر وحدۃ الوجود کے رنگ میں ہونے لگی ۔ یہی کچھ محمد اقبال سے ہوا۔ اس بنا پر کہ وحدۃ الوجود ایک امر مسلمہ ہے لہٰذا وہ جو کچھ کر رہے ہیں وحدۃ الوجود ہی کے رنگ میں کہ رہے ہیں۔ حالانکہ ان کا ذہن کسی رنگ میں وجود ی نہیں تھا۔نہ عقلی،نہ وجدانی نہ کسی اور اعتبار سے۔ پھر اس بحث میں کہ محمد اقبال کیا ایک زمانے میں وحدۃ الوجود کے قائل تھے، اس امر کا لحاظ رکھنا ضرور ی ہے کہ وحدۃ الوجود کی ایک تاریخ ہے۔ اسلام سے پہلے اس کے ڈانڈے سر زمین یونان، ہندوستان اور نہ معلوم کہاں کہاں جا ملتے ہیں۔ ویدانت، صمنیت، افلاطونی اور نو افلاطونی فلسفہ حتیٰ کہ زرتشت یا یوں کہیے مجو سیت سے اسے جو گہرا تعلق ہے ہر کوئی تسلیم کرتا ہے۔ بنیادی طور پر وہ ایک فلسفیانہ تصور ہے۔ واحدیت کا ایک نظریہ ۔ مگر شکلیں مختلف۔ تعبیریں گو نا گوں تشریحیں متعدد۔ محمد اقبال اور سوامی رام تیرتھ جب باہم مل بیٹھتے ۔ تصوف پر گفتگو ہوتی تو ان کانقطہ نظر سمجھتے۔ اپنا نقطہ نظر سمجھاتے۔ اسلامی تصوف میں بھی وحدۃ الوجود نے کئی رنگ اختیار کیے۔۲۹۲؎ معتدل ، غیر معتدل ،انتہا پسند جس پر بالآخر وہ رنگ غالب آگیا جسے محمد اقبال نے عجمیت کہا ہے جس میں بقول ان کے افکار دماغ جذبات قلب سے دب گئے۔ زندگی نے فرار اور تعطل کا راستہ اختیار کیا۔ جسے شاعری میں خوب خوب فروغ ہوا۔ زندگی زندگی اور موت موت نہ رہی۔ ہجروصال کی دو کیفیتیں ٹھہریں۔ مجاز نے حقیقت پر پردہ ڈال دیا۔ ہستی فریب ہے نیستی بھی فریب ۔ تا آنکہ وحدۃ الوجود کی مخصوص اصطلاحیں جن کی ازروئے اسلام کوئی سند نہیں۔ مثلاً عین اور ثبوت ، تعینات اور تنزلات جو وجودی ذہن کی اختراع ہیں۔ مئے ومینا، ساقی و پیمانہ، رندی اور مستی ، ہوش اور مدہوشی سے بدل گئیں۔ الفاظ کی جگہ اشاروں اور کنایوں نے لے لی۔ افکار اور تصورات نے رمزو ایما کی۔ بس اتنا یاد رہ گیا کہ شیخ اکبر وحدۃ الوجود کے موسس ہیں۔ فتوحات مکیہ اور فصوص الحکم اس کی تفسیر۔ اس روایت پر قناعت کر لی جو صدیوں سے چلی آتی تھی۔ ان کی دماغی کا وشوں اور احوال و واردات کو سمجھنے کی بہت کم توفیق ہوئی۔ لیکن جس طرح حلاج کے بارے میں وہ سب خیالات جو روایتاً چلے آتے تھے غلط ثابت ہوئے۔ بعینہ آج یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ابن عربی کیا فی الواقعہ وجودی تھے۔۲۹۳؎ یہ بحث نہایت دلچسپ اور تحقیق طلب ہے اس لیے کہ اگر ابن عربی وجود ی نہیں تھے تو فتوحات اور فصوص کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟ ان میں تو بجز وحدۃ الوجود کے اور کچھ نہیں۔ بہر حال یہاں بحث وحدۃ الوجود کی نہیں ہے ۔ بحث یہ ہے کہ محمد اقبال کیا شروع میں وجودی تھے۔ یورپ کی آب و ہوا کے زیر اثر، یا عالم اسلام کے انحطاط کو دیکھتے ہوئے وحدۃ الوجود سے منحرف ہو گئے ۔ یہ تو کچھ ویسی ہی بات ہے جیسا کہا گیا کہ ابتداء میں ان پر وطنیت کا رنگ غالب تھا۔ یورپ میں وطنیت کے تباہ کن اثرات کا اندازہ کیا تو وطنیت کو خیر آباد کہہ دی ۔ اسلامیات کی طرف آ گئے۔ اب قطع نظر اس امر سے کہ ہمارا ذہن اس قسم کے غلط نظریوں کی طرف کیوں منتقل ہو جاتا ہے غور طلب معاملہ ان کی وہ تحریریں ہیں جن میں انھوں نے بعض ایسے عقائد اور ایسے مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے جن کو ایک زمانے میں صحیح مانتے رہے۔ یہ عقائد اور یہ مسائل وحدۃ الوجود ہی کے ضمن میں پیدا ہوئے۔ مگر یہ کچھ عقائد اور مسائل ہی تو تھے۔ نظریہ وحدۃ الوجود تو نہیں تھی۔ یوں اس کی طرف کوئی مثبت اشارہ نہیں ملتا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم ان کی علمی اور فکری کاوشوں کو دیکھتے ہیں تو ان میں وحدۃ الوجود کے حق میں کوئی اشارہ نہیں ملتا۔ جذبات و احساسات کا خیال کرتے ہیں جن کا اظہار شاعری میں ہوا تو لا محالہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ان کا ذہن شروع ہی سے ایک ہی مسئلے پر مرتکز تھا اور وہ انسان، اس کی ذات ، مرتبہ اور مقام، تقدیر اور مستقبل اس انسان کی نہیں جو گوشت اور پوست کی ایک ترکیب ہے۔ جس نے جہان آب و گل میں قدم رکھا۔ عمر کی چند منزلیں طے کیں۔ موت سے ہم کنار ہوا اور فنا ہو گیا، یا قطرے کی طرح واصل بدریا ، بلکہ اس انسان کی جو گوشت اور پوست کے اندر موجود ہے۔ جس کے لیے ایک اور زندگی ہے۔ ایک اور سفر۔ کئی امتحان ۔جیسے کچھ بنتا ہے۔ جس کا تعلق اس کی انفرادیت اور شخصیت سے ہے۔ کسی غایت کی طرف بڑھنے اور بڑھتے رہنے سے وحدۃ الوجود کا تویہ مسئلہ نہیں۔ اس کی نظر انسان پر ہے۔ انسان جیسا کہ اس کا ایک عین ہمارے ذہن میں قائم ہو جاتا ہے۔ نہ کہ اس انسان پر جس کی ایک انفرادیت ہے۔جسے شخصیت عطا ہوئی۔ وحدۃ الوجود میںتو تقدیر کا وہ مفہوم نہیں جس کی شرط اولین ہے سعی و عمل، خودی کا حفظ و استحکام۔ اس کی تربیت، عشرت قطرہ تقدیر نہیں ہے۔ ایک سفر کا اختتام ہے اور بس۔ یوں دیکھیے تو محمد اقبال کے فکر و نظر کا معاملہ ایک موقف سے دوسرے موقف میں تبدیلی کا نہیں ہے بلکہ بتدریج ارتقا ء اور مسلسل نشوونما کا۔ اس سلسلے میں ایک بڑی دلچسپ بات وہ ہے جو میکش اکبر آبادی نے کہی ہے۔۲۹۴؎ وہ کہتے ہیں محمد اقبال شروع میں تو وحدۃ الوجود کے خلاف تھے ۔ آخر عمر میں جب خیالات میں پختگی پیدا ہوئی ۔ وجودی صوفیا کا بغور مطالعہ کیا تو وجودی ہو گئے۔ لیجیے میکش کی کتاب سے جو انھوں نے بڑی محنت سے لکھی، یہ نزاع تو باقی نہ رہا کہ محمد اقبال ابتداء میں وجودی تھے۔ میکش نے اگرچہ کہا نہیں لیکن معلوم ہوتا ہے ان کے نزدیک وہ جملہ شواہد جن کی بنا پر وحدۃ الوجود کے حق میں استدلال کیا جاتا ہے لائق اعتنا نہیں ٹھہرتے۔ میکش کا خیال ہے اور نہایت ٹھیک کہ یہ زمانہ محمد اقبال کے لیے تحقیق و تجسس کا تھا۔ تامل اور توقف کا۔ عقیدہ وحدۃ الوجود اور اس کے جملہ متضمنات اگرچہ ان کے ذہن میں مستحضر تھے۔ لیکن دیانت علم کا تقاضا تھا کہ اس سارے مسئلے کو ہر پہلو سے جانچ لیں۔ جب تک ایسا نہ کر لیتے کسی نظریے کا بالخصوص جب اس نے ایک عقیدے کی حیثیت اختیار کر رکھی تھی رد و قبول ان کی فلسفیانہ طبیعت کے خلاف تھا۔ یہ دوسری بات ہے کہ تصوف سے لگائو اور حضرات صوفیا سے عقیدت کے باوجود انھیں فتوحات اور فصوص میں الحاد و زندقہ کی بُو آنے لگی تھی۔ انھیں یہ گوارا نہیں تھا کہ ذات الٰہیہ کو ہر شے کا عین ٹھہرایا جائے۔ یہ باتیں گو انھوں نے آگے چل کر کہیں۔ جیسے یہ کہ تصوف اسلام کی سر زمین میں ایک اجنبی پوداہے مگر وحدۃ الوجود کے سیاق و سباق میں تو صاف دیکھ رہے تھے کہ اس پہلو سے ابن عربی کی تعلیمات اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ لیکن یہ کہنا کہ شروع میں یہ بات ا ن کے ذہن میں نہیں تھی غلط ہے ۔ اس زمانے میں دراصل ان کی روش خاموشی کی تھی۔ عقائد اور مسائل کے بارے میں وہ بھی اپنے اُستاد کی طرح نزاع وجدال سے دور رہتے۔ چنانچہ انھوںنے یہ باتیں اس وقت کہیں اور وہ بھی مجبوراً جب اسرار خودی کی اشاعت پر وحدۃ الوجود کے حق میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ اسرار خودی کی اشاعت تک وہ اپنے افکار اور تصورات میں ایک خاص موقف کی طرف بڑھ رہے تھے تاآنکہ ان کی ایک اساس متعین ہو گئی۔ رہا میکش کا یہ کہنا کہ خیالات میں پختگی پیدا ہوئی ۔ صوفیا وحدۃ الوجود کا مطالعہ زیادہ ژرف نگاہی سے کیا تو وحدۃ الوجود کے قائل ہو گئے ٹھیک نہیں۔ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ میں جو ان کے غور و فکر کا حامل ہے انہو ں نے وحدۃ الوجود کی نفی نہایت سلجھے ہوئے اور مختصر الفاظ میں کر دی ہے۔۲۹۵؎ دراصل تصوف کی بحث میں وہ وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کے نظریہ سے بہت آگے نکل چکے تھے۔ لیکن یہ موقعہ اس موضوع پر گفتگو کا نہیں۔ وحدۃ الوجود سے ان کے رجوع کا بہر حال سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر پھر رجوع بھی کیسے جب بقول میکش وہ ابتداء میں وجود ی تھے ہی نہیں۔ دراصل میکش علیٰ ہذا ان کے ہم خیال اسی غلطی کا مرتکب ہو گئے جس کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ ایک زمانے میں وہ وجودی تصوف کے گرداب میں پھنس گئے تھے۔ کہنا یہ چاہیے تھا کہ پھنس نہیں سکے۔ ان حضرات کا زور یا تو ان تعبیرات اور تاویلات پر ہے جو دینی نقطہ ٔ نظر سے وحدۃ الوجود کے حق میں کی گئیں۔۲۹۶؎ یا ان سطحی مشابہتوں پر جو بظاہر وجودی تصورات بلکہ یوںکہیے کہ باعتبار جذبات و کیفیات محمد اقبال کے بعض اشعار میں نظر آتی ہیں۔مثلاً بال جبریل کا شعر ہے: تو ہے محیط بے کراں میں ہوں ذرا سی آب جو یا مجھے ہم کنار کر یا مجھے بے کنار کر پھر ارمغان حجاز ہے ۔ یہ ربا عیاں: جہاں دل جہان رنگ و بو نیست در و پست و بلند و کاخ و کونیس ت زمین و آسمان و چار سو نیست دریں عالم بجز اللہ ہو نیست تو اے ناداں دل آگاہ دریاب بخود مثل نیاگاں راہ دریاب چنان مومن کند پوشیدہ را فاش ز لا موجود الا اللہ دریاب اگر ان ارشادات کا اشارہ وحدۃ الوجود کی طرف ہے۔ بالخصوص جب لا موجود الا اللہ قطعی طور پر ایک وجودی تصور ہے اور پھر اس سے پہلے بھی تو انھوں نے کہا تھا: وہ ہے حیرت فزائے چشم معنی ہر نظارے میں چمک بجلی میں اس کی اضطراب اس کا ہے پارے میں جس سے صریحاً وحدۃ الوجود کا پہلو نکلتا ہے اور جسے مان لیجیے تو وہ اول و آخر وجود ی ٹھہرتے ہیں۔ پھر یہ نزاع کیوں کہ شروع میں وجودی تھے۔ آگے چل کر وحدۃ الوجود سے انکار کر دیا۔ شروع میں وجودی نہیں تھے۔ آخر میں قائل ہو گئے۔ بات یہ ہے کہ وہ جذبات اور کیفیات جن کا اظہار ان اشعار میں ہوا وجودی ذہن سے مختص نہیں۔ شہودی ذہن سے بھی ان کا ویسا ہی تعلق ہے ۔ مثلاً جب ہم حقیقت مطلقہ کا اطلاق ذات الٰہیہ پر کرتے ہیں تو یوں ہمارا ذہن جس ذات واحد کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اسے ایک اور ورالورا مان کر بھی یہ کہنا ممکن ہے کہ باوجود ورائیت ہم اسے ہر شے میں مشہود دیکھتے ہیں۔ اس کی تجلی ہر کہیں نظر آتی ہے۔ کثرت میں وحدت کے اقرار سے کثرت کا انکار لازم نہیں آتا۔ نہ تجلی کے یہ معنی ہیں کہ بجز اس کے کسی شے کا وجود ہی نہیں ہے۔ پھر جب مومن اپنے ایمان اور عمل کی دُنیا میں لا الہ الا اللہ کی رعایت سے ماسوا کو بیچ گردانتا ہے تو اس ایمانی کیفیت کو اس عقلی یا وجدانی کیفیت سے خلط ملط نہیں کرنا چاہیے جس پر وحدۃ الوجود کی اساس ہے ۔ یاد رکھنا چاہیے کہ وجود تو ایک تجرید ہے ، ایک تصور جو موجودات کو دیکھتے ہوئے قائم ہوا۔ موجود ایک خارجی حقیقت ہے، وجود داخلی۔ اب اگر وجودی ذہن کے نزدیک صفت وجود کا اطلاق صرف ذات الٰہیہ پر ہوتا ہے اور ہم نے کہا لا موجود الا اللہ، لا تومحالہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ذات الٰہیہ کے سوا ہر شے صفت وجود سے معرا ہے ۔ بالفاظ دیگر موجود نہیں ہے۔ بظاہر یہ منطق بڑی کامیاب ہے اور اہل ایمان کے لیے بھی بڑی پر کشش لیکن دراصل ایک مغالطہ کہ پہلے تو موجودات کے اثبات سے ہم نے ایک تصور قائم کیا۔ پھر بغیر کسی دلیل کے یعنی محض اس عقیدے کی بنا پر کہ خدا ہے اس کا اطلاق ذات الٰہیہ پر کرتے ہوئے موجودات کی نفی کر دی۔ حالانکہ یہ تصور قائم ہی موجودات کے سہارے ہوا تھا۔ ہم سمجھے یوں وہ مسئلہ جو وجودیات کے سامنے ہے حل ہو گیا۔ توحید کی اس سے بہتر کوئی تعبیر ممکن نہیں۔ لیکن ہم بھول گئے۔ وجود ہی ایک صفت نہیں جو موجود کو عطا ہوئی علاوہ اس کے اور بھی صفات ہیں۔ مثلاً صفت انیت (میں) اب ہر انا موجود تو ہے۔ صفت وجود سے متصف لیکن ہر موجود انا نہیں ہے۔ لہٰذا یہ بہت بڑی غلطی ہے کہ ذات باری تعالیٰ کے فہم میں ہماری بحث صرف صفت موجود پر مرتکز رہے۔ حالانکہ اس صفت کے اثبات سے صرف اس کے فہم کی ابتداء ہوتی ہے وہ اگر ایک اناہے مطلق اور محض ، تو موجود میں بھی جس کو اس نے صفت وجود عطا کی کچھ معنی پیدا ہو جاتے ہیں ۔ یہ نکتہ ہے جسے وحدۃ الوجود نے نظر انداز کر دیا۔ موجودات کے کوئی معنی نہ رہے۔ نہ ان کے انفرادی وجود کی۔ تو فرد کی بھی کوئی حیثیت نہ رہی جب ہی تو محمد اقبال نے کہا تھا وحدۃ الوجود ایک فلسفیانہ مسئلہ ہے کوئی دینی عقیدہ نہیں۔ حضرت مجدد کے نزدیک ایک وجدانی کیفیت کی غلط تعبیر۔ محمد اقبال کا گزر بھی عقل و فکر کی پر پیچ راہوں سے ہوا۔ ان کے یہاں بھی وجدانی کیفیات تھیں۔ ہم سمجھے ان کے نزدیک بھی شاید دل پر قطرۂ ساز انا البحر ہے۔ بحرش گم شدن انجام مانیست بھول گئے۔ جب مسئلہ ایک ہو اور بنیادی باوجوداختلاف رائے ان تصورات میں جو اس طرح قائم ہوتے ہیں کوئی نہ کوئی یکسانی کوئی نہ کوئی مشابہت اور مماثلت ضرورباقی رہ جاتی ہے ۔ اس قسم کی یکسانیوں ، مشابہتوں اور مماثلتوں کو مترادفات پر محمول کرنا غلطی ہے۔ مماثلت کو مماثلت ہی کہنا چاہیے۔ تماثل تماثل ہے۔ ترادف نہیں ہے۔ یہ ایک پہلو تھا واحدۃ الوجود کی بحث میں محمد اقبال کے موقف کا جس میں ایک وجدانی کیفیت کی غلط تعبیر میں فکر کی جو عمارت تیار ہوئی۔ انسان، کائنات، زندگی اور اس کے احوال و شئون کے بارے میں جو تصورات وضع ہوئے فکر مجرد کے سہارے وضع ہوئے۔ ایک صغریٰ وکبریٰ قائم ہو گیا تو استخراج درا ستخراج کے عمل نے وحدۃ الوجود کا رشتہ حقائق سے منقطع کر دیا۔ اس کا دوسرا پہلو وہ احوال و واردات، عقلی اور وجدانی کیفیات ہیں جن کا اظہار ان کی شاعری میں ہوا۔ وہ سلسلہ قادریہ میں بیعت تھے ۔ سلسلہ نقشبندیہ کے معترف، سلسلہ مجددیہ کے قائل مگر اس کے باوجود نہ رسماً تصوف ان کا مسلک ، نہ ان کی زندگی صوفی کی زندگی۔ ان کے یہا ں اذکار و اوراد تھے نہ مراقبے اور مجاہدے۔ نہ شریعت اور طریقت کا امتیاز۔ لیکن تصوف اگر عبارت ہے ایک روحانی تجربے، ایک حالت سے گزرنے سے جس سے مقصود ہے: شرع را دیدن باعماق حیات تو وہ صوفی تھے اور تصوف ان کا مسلک ۔ ان کے یہاں پیچ و تاب رازی تھا تو سوزو ساز رومی بھی۔وہ اس عقل کے قائل تھے جو ادب خوردۂ دل ہو۔ وہ روم کو آتش تبریز کی نذر کر چکے تھے۔ علم کو بر دل زدن پر کار بند ۔ ان کی نگاہیں آثار قلم پر نہیں، آثار قدم پر تھیں۔ انھوں نے آثار قدم دیکھے اور دیکھ دیکھ کر آگے بڑھتے چلے گئے۔۲۹۷؎ یوں ایک اور حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے اور وہ یہ کہ تصوف جو عبارت ہے اس روحانی تجربے سے جو ایک ذریعہ ہے ادراک بالحواس دلائل اور برہین سے ہٹ کر علم کا اگر محض فریب ہے۔ ہماری داخلی کیفیات کا ایک کرشمہ تو وہ سب بحثیں جو تصوف ، اس کے نظریے یا مسلک کے بارے میں اٹھائی جاتی ہیں حاصل ٹھہرتی ہیں۔ ہم اسے کلیتاً رد کر سکتے ہیں اور کرتے بھی ہیں۔ اندریں صورت محمد اقبال کے فکر و نظر کو بھی بجز چند مستثنیات کے رد کرنا پڑے گا۔ اس کا تھوڑا سا حصہ ہی لائق اعتنا رہ جائے گا۔ لیکن اگر ایسا نہیں کرتے تو گفتگو خواہ مشاہد ۂ حق کی ہو۔ خواہ اخلاص فی العمل کی یہ دیکھنا لازم ٹھہرے گا کہ تصوف کا رُخ جس کا وظیفہ ہی یہ ہے کہ ہمارے مشاہدات اور واردات قلب کے ساتھ ساتھ ضمیر اور باطن کا تزکیہ ہوتا رہے کسی ایسی جانب تو نہیں جو اسلام کے خلاف ہے۔ لیکن جیسے جیسے عالم اسلام کو زوال ہوا۔ زندگی کے ہر پہلو، اخلاق ، سیاست اور معیشت میں فساد پیدا ہوا۔ تصوف کی دنیا بھی اس سے محفوظ نہ رہی تاآنکہ بیشتر صورتوں میں اس کی حیثیت محض ایک فرسودہ روایت کی رہ گئی۔ بعض صورتو ں میں شریعت سے انحراف کا ایک فریب آمیز ذریعہ ۔ یہ زمانہ تھا جس میں محمد اقبال نے آنکھ کھولی۔ سیالکوٹ کی فضا بڑی حد تک تصوف آلود تھی۔ سیالکوٹ میں بھی مزار تھے، خانقاہیں تھیں، پیری مریدی تھی۔ عرس ہوتے، میلے لگتے۔ علماء و فضلاء کا وجود برائے نام رہ گیا تھا۔ ہندوستان کے میخانے تین سو سال سے بند پڑے تھے۔ ہاں کچھ نیک نہاد انسان پرانی روایات کے سہارے زندگی بسر کر رہے تھے ۔ خود ان پر عمل کرتے۔ دوسروں کو ان پر عمل کرنے کی تلقین کرتے۔ سیالکوٹ میں بھی بسبب اس تعلق کے جو حضرت مجدد الف ثانی کو ملا کمال سے تھا اس معرکے کی تھوڑی بہت یاد باقی تھی جو وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کے درمیان رونما ہوا۔ لیکن روش غیر جانب داری کی اور یہی کیفیت کم و بیش سارے اسلام ہندوستان کی شاید حضرت شاہ ولی اللہ کے زیر اثر جنھوں نے تصوف کے ان دو نظریوں میں تطبیق پیدا کی۔ یوں بھی ارباب تصوف کی عام روش یہ تھی کہ اپنے اپنے مسلک پر کاربند رہیں۔ دوسروں سے تعرض نہ کریں۔ اختلافی مسائل کی بجائے توجہ صفائے باطن پر رہے۔ شریعت کی پابندی میں فرق نہ آئے۔ ابھی وہ وقت دور تھا کہ محمد اقبال اس جمود کو توڑیں جو پانچ سو برس سے الٰہیات اسلامیہ میں قائم تھا۔ ابھی تو عالم اسلام پر وحدۃ الوجود کا رنگ چھایا ہوا تھا۔ خیال تھا وحدۃ الوجود ہی توحید باری تعالیٰ کی بہترین تعبیر ہے ۔ وحدۃ الوجود ہی حقیقت مطلقہ کی تعین کا فلسفیانہ ذریعہ ۔ ابھی تو محمد اقبال کی ذہنی نشو ونما اور غور و فکر کا سلسلہ جاری تھا۔ ابھی تو اس جرأت مندانہ اقدام کی نوبت نہیں آئی تھی کہ محمد اقبال افلاطون کی طرح ابن عربی کو بھی خیر باد کہہ کر اپنے ایک الگ راستے پر چل پڑیں۔ وہ اس راستے پر چل پڑے۔ یہ راستہ طے ہوا تو ان کے افکار اور تصورات منضبط ہو کر سامنے آ گئے۔ اندریں صورت اگر ایک زمانے میں انھوں نے بعض ایسی باتوں کو درست مانا جس کے اظہار میں انھیں شرم محسوس ہوتی تھی تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس زمانے میں وحدۃ الوجود کے قائل تھے۔ ہاں وحدۃ الوجود ہی سب سے بڑا مسئلہ تھا جو منجملہ دوسرے مسائل کے انھیں تصوف میں پیش آیا۔ وہ اگر وحدۃ الوجود کے قائل ہوتے تواسرار خودی کے دیباچے میں بلا تکلف اس کا اعتراف کرتے۔ پھر ان کے معترضین تو درکنار حسن نظامی کہہ سکتے تھے کہ وحدۃ الوجود کو حق مانتے ہوئے اس سے منحرف کیوں ہو گئے۔ رہے مولانا روم، ان کے پیر و مرشد سو مولانا کے بارے میں بھی حلاج کی طرح یہ غلط روایت صدیوں سے چلی آ رہی ہے کہ ان کا مسلک وجودی تھا۔ حالانکہ مولاناوجودی نہیں تھے۔۲۹۸؎ خودی کے قائل تھے جس کی وحدۃ الوجود میں کوئی جگہ نہیں۔ اسرار خودی بھی تو انھیں کے اشارے سے لکھی گئی۔ محمد اقبال کی مخلصانہ کوشش تھی کہ تصوف بالخصوص اس کی اسلامی روح کو ہر پہلو سے سمجھیں مذہباً ، عقلاً ۔ ان کی نگاہیں ان سب مراحل پر نہیں جن سے تصوف کا گزر ہوا۔ انھیں حق کی تلاش تھی۔ نزاع وجدال اور محاذ آرائی سے نفرت ۔ نہ کسی سے مخاصمت، نہ پر خاش۔ ان کے دل میں اسلاف کی بڑی قدر تھی۔ وہ ابن عربی کا بھی احترام کرتے۔ ان کا اختلاف اصولی تھا۔ وہ ہر خیال اور ہر نظریے کو اسلام کی کسوٹی پر پرکھتے ۔ جس میں پھر انھیں کبھی یہ دعویٰ نہیں ہو اکہ ان کا ہر قول قولِ فیصل ہے۔ ہر حرف حرفِ آخر۔ وہ ایک انصاف پسند طبیعت لے کر آئے تھے جس میں انکسار تھا، تواضع تھی۔ انھیں جہاں کہیں کوئی حق بات نظر آئی بلا تکلف اس کا اعتراف کیا۔ ایک خط میں لکھتے ہیں وحدۃ الوجود میں یہ خوبی تو ہے کہ اس سے انسان کے اندر مساوات کی روح پیدا ہوتی ہے ۔ گرامی کا شعر: عصیان ما و رحمت پروردگار ما ایں را نہایت است نہ او را نہایتے نظر سے گزرا تو نیاز محمد خاں کو لکھا۔ یہ ایک صداقت ہے جو واحدۃ الوجود میں پائی جاتی ہے۔۲۹۹؎ مگر اس کی وضاحت نہیں کی۔ اس کا فہم قاری کے ذہن پر چھوڑ دیا ہے۔ دراصل محمد اقبال سمجھ گئے تھے اسلامی تصوف کی حقیقت کیا ہے۔ وہ اس کی روح کو پا گئے۔ ۱۹۰۴ء میں ’قومی زندگی‘ کے عنوان سے ان کا جو مضمون مخزن میں شائع ہوا اس میں لکھتے ہیں ’’آواز نبوت کا اصل زور اور اس کی حقیقی وقعت عقلی دلائل اور براہین پر مبنی نہیں ہے۔ اس کا داراومدار اس روحانی مشاہدے پر ہے جو کے غیر معمولی قویٰ کو حاصل ہوتا ہے اور جس کی بنا پر اس کی آواز میں وہ ربانی سطوت اور جبروت پیدا ہو جاتی ہے جس کے سامنے انسانی شان و شوکت ہیچ ہے… یہ ہے نمود مذہب کا اصلی راز…۔۳۰۰؎ دو باتیں ہیں جو اس طرح ہمارے سامنے آتی ہیں۔ ایک یہ کہ مذہب اگر عطیہ ہے نبوت کا جیسا کہ یقیناہے تو انبیا علیہم السلام کا روحانی مشاہدہ اس کا سر چشمہ۔ ثانیاًیہی مشاہدہ انسانی شخصیت کا صورت گر ہے۔ اس کی تقویم اور تقویت کا راز ۔ اب اگر تصوف عبارت ہے ایک روحانی مشاہدے سے وہ ایک اکتشاف ہے ۔ ہمارے لیے قرب ذات کا ذریعہ جس میں ہمارا اتصال اپنی ہستی کی حقیقی اساس سے ہوتا ہے تاآنکہ جیسی ہماری بساط ہے ہم اس حق کو جس پر ہم ایمان لائے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں اس کی شہادت دیتے ہیں۔ ہمار ے اندرون ذات اور دل و دماغ کی دنیا یکسر بدل جاتی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ محمد اقبال نے ان حقائق سے کیسے اور کب پردہ اٹھایا۔ مگر یہ وہ موضوع ہے جس کا تعلق اس سوانح حیات کے آیندہ ابواب سے ہے ۔ ہمیں اس کے لیے کچھ انتظار کرنا پڑے گا۔ وحدۃ الوجودی وہ بہر حال کبھی نہیں تھے۔ نہ آخر الامر ہو گئے۔ حواشی ۱- Quadrangleلیکن یہ امر تحقیق طلب ہے۔ 2- University Career. ۳- ڈاکٹر وحید قریشی، کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ، طبع ۱۹۶۵ئ، ص ۳۱۷۔ فقیر سید وحید الدین روز گار فقیر،ج ۲ ، ص ۱۰ ۔دیکھیے خان بہادر ایف۔ ایس جمال الدین کا نقش ۔ فقیر صاحب مرحوم پنجاب یونیورسٹی کے فیلو تھے۔ انتقال سے قبل اپنا ذاتی کتب خانہ پنجاب پبلک لائبریری کی نذر کر دیا۔ یہ تمغہ عربی میں امتیازی کامیابی کے لیے مخصوص تھا، حسب قرار داد، پنجاب یونیورسٹی سنڈیکیٹ، ۸ جون ۱۸۹۱ئ۔ ۴- اقبال،مجلہ بزم اقبال لاہور، شمارہ ۲،اکتوبر ۱۹۵۷ئ، ص ۵ ۔ میر صاحب کا مضمون بعنوان ’اقبال کے بعض حالات‘۔ ۵- باعزار جی۔ ایس۔ بریٹ (G.S. Brett)جو ۱۹۰۴ء میں کرائسٹ کالج سے لاہور آئے اور گورنمنٹ کالج میں فلسفہ کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ اس تقریب کے لیے دیکھییے اقبال ریویو،انگریزی اشاعت۔ قاضی محمد اسلم کا مضمون ،بعنوانIqbal at a College Reception in Lahore.،ص ۱۹تا ۲۷، ۱۹۷۶ئ۔ 6- Hemmy. ۷- اسی تقریب سے کچھ پہلے محمد اقبال نے نظریۂ اضافیت اور خودی کے عنوان سے انگریزی میں ایک مضمون اسلامیہ کالج کے ماہنامہ کریسنٹ میں لکھا جس کا ترجمہ راقم الحروف نے رسالہ جامعہ دہلی میں شائع کیا اور جو اب اقبال کی تحریروں کے کئی ایک مجموعوں میں شامل ہے۔ راقم الحروف اس وقت اسلامیہ کالج میں بی۔ اے کا طالب علم تھا۔ ہمارے فلسفہ کے پروفیسر مرحوم خواجہ عبدالمجید لیکچر دینے کے لیے آئے تو جیسے کوئی بہت بڑی خبر لائے ہیں۔ کہنے لگے میں ایک خبر لایا ہوں اور وہ یہ کہ ہو سکتا ہے قوس بھی خط مستقیم ہو۔ پروفیسر صاحب اکثر محمد اقبال کی خدمت میں حاضر ہوتے شاید ان کے اصرار ہی سے محمد اقبال نے کریسنٹ کے لیے یہ مضمون لکھا۔ پروفیسر صاحب کی محمد اقبال سے گفتگوئوں کا ایک مجموعہ بھی شائع ہو چکا ہے۔ ۸- دیکھیے تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ۔ بحث علم الٰہی۔ اس باب میں جو غلط فہمی پید ا ہوئی یا پیدا کر دی گئی سطور بالا سے اس کا ازالہ بآسانی ہو جاتا ہے۔ ۹- یہ مضمون صحیفہ: اقبال نمبر، ۱۹۷۷ ء میں شائع ہو چکا ہے۔ بعنوان سر اقبال دے نال میل، ص ۶۰۔ 10- Alma Mater. ۱۱- سید نذیر نیازی: اقبال کے حضور،ج ا۔ 12- Sir Thomas Walker Arnold. 13- Siddons Union Club طلباء کی انجمن۔ 14- Miniatures. ۱۵- بانگ درا: تو کہاں ہے اے کلیمِ ذر وہ مینائے علم تھی تری موجِ نفس بادِ نشاط افزائے علم 16- Atiya Begum, Iqbal, Feb. 1947, P.20. ۱۷۔ بانگ درا: ذرہ میرے دل کا خورشید آشنا ہونے کو تھا آئنہ ٹوٹا ہوا عالم نما ہونے کو تھا نخل میری آرزوئوں کا ہرا ہونے کو تھا آہ کیا جانے کوئی میں کیا سے کیا ہونے کو تھا ابر رحمت دامن از گلزار من برچید و رفت اند کے بر غنچہ ہائے آرزو بارید و رفت ۱۸۔ بانگ درا: کھول دے گا دستِ وحشت عقیدہ تقدیر کو توڑ کر پہنچوں گا میں پنجاب کی زنجیر کو ۱۹۔ Edward Granville Browne،۱۸۶۲ تا ۱۹۲۶ئ۔Wilforid Seewan Blunt۱۸۴۰ تا ۱۹۲۲ئ۔ برائون نے تاریخادبیات ایران کے علاوہ باب اور بہائیت میں کئی ایک کتابیں تصنیف کیں۔ علی ہذا طب عربی کے عنوان سے ایک تصنیف ۔ بلنٹ اور مسز بلنٹ نے نجد کے حالات پر قلم اٹھایا۔ Future of Islamان کی مشہور تصنیف ہے۔ 20- Iqbal has lost his friend and teacher. ۲۱- دیکھیے لیڈی آرنلڈ کے نام تعزیت کا خط، ۱۶ جولائی ۱۹۳۰ء Letters and Writtings of Iqbalمرتبہ بشیر احمد ڈار، اقبال اکیڈمی کراچی، ۱۹۶۷ئ،ص۱۱۵ میں محمد اقبال لکھتے ہیں: یہ حقیقت ہے کہ ان کی وفات سے نہ صرف برطانوی دنیائے علم کو نقصان پہنچا بلکہ دنیائے اسلام کو بھی جس کے فکر و فرہنگ اور ادب کی خدمت میں آنجہانی نے تا دم آخر کمی نہ آنے دی۔ میرے لیے یہ زیان ایک ذاتی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہ انھیں کہ اثر تھا جس نے میری روح کی تربیت کی اور اسے جادہ علم پر گامزن کر دیا۔ ۲۲- شیخ عطاء اللہ : اقبال نامہ، حصہ دوم، طبع ۱۹۵۱ء ،ص ۱۳۔ نازشِ اہلِ کمال ای جی برائون فیضِ او در مشرق و مغرب عمیم مغرب اندر ماتمِ او سینہ چاک از فراقِ او دلِ مشرق دو نیم تا بفردوسِ بریں ماویٰ گرفت گفت ہاتف ذالک الفوز العظیم 23- Mount Pleasant Community Birmingham. ۲۴- نامہ درانی ۲۴ اکتوبر ۱۹۷۷ئ۔ ڈاکٹر سعید اختر درانی کا عنایت نامہ از برمنگھم راقم الحروف کے نام اور ان کے مضامین روز نامہ جنگ میں ۔مثلاً اشاعت ۲۰ جنوری ۱۹۷۷ئ۔ ۲۵- ایضاً ۲۶- اقبال نامہ، مرتبہ شیخ عطاء اللہ۔ اسد ملتانی مرحوم کا مضمون’’قطرۂ شبنم‘‘ جس پر انھیں انعام ملا۔ لالہ جیا رام کے بارے میں مجھے یہ معلومات عبدالرحمان خاں ریٹائرڈ انجینئر سے حاصل ہوئیں۔ انھیں گورنمنٹ کالج لاہور میں حکیم الامت کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔ ایک نظم پروہ بھی انعام کے مستحق ٹھہرے۔ 27- P.G. Dallinger. 28- Hirst. 29- G.B. Ussher. 30- Dr. Steratton. 31- Canadian. ۳۲- دیکھیئے:B.A. Dar, Letters and Writings of Iqbal. میں محمد اقبال کا تعزیت نامہ۔ اقبال اکیڈمی کراچی، طبع ۱۹۶۷ئ، ص ۱۲۱۔ 33- Mcleod Arabic Reader. ۳۴- B.O.LاورIntermediateبی او ایل مشرقی علوم میں مروجہ سند اور انٹرمیڈیٹ اس زمانے میں ایف۔ اے۔ ۳۵- Dr. Stein۱۸۸۹ء سے پرنسپل چلے آ رہے تھے۔ استعفا دیا اور کلکتہ مدرسہ کے پرنسپل مقرر ہو گئے ۔ 36- Dean Oriental Faculty ۳۷- A.C. Woolnerجو ترقی کرتے کرتے بالآخر پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے۔ ان تمام معلومات کے لیے دیکھیے (۱) ڈاکٹر وحید قریشی، کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ، ص ۳۲۱ تا ۳۲۹ اور (۲) رحیم بخش شاہین کی تالیف Mementos of Iqbalشائع کردہ آل پاکستان اسلامک ایجوکیشنل کانفرنس، ۱۹۶۷ئ، ص ۶۸ تا ۷۱۔ ۳۸- ڈاکٹر وحید قریشی، کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ، ص۳۲۶۔ ۳۹- بحیثیت استاد زبان انگریزی۔ 40- Observer. 41- Seekers After Good. ۴۲- ڈاکٹر وحید قریشی، کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ، ص۲۳۸۔ ۴۳- Dr.Haigخوب آدمی تھے۔ سواری کے لیے گھوڑا رکھ رکھا تھا۔ گھوڑے ہی پر سوار ہو کر کالج آتے۔ ۴۴- آج کل کی اصطلاح میں صوبہ جاتی سول سروس PCS۔ 45- Lahore Law School. 46- Jurisprudence. ۴۷- تفصیل کے لیے دیکھیے: بی۔ اے ۔ ڈار کی کتاب Letters and Writings of Iqbal شائع کردہ اقبال اکیڈیمی کراچی صفحات ۳ تا ۳۹ ۔ سید محسن ترمذی کا مضمون New light on Iqbal's Life ۔ 48- Indian Antiquary. 49- Doctrine of Absolute Unity as expounded by al-Jilani. 50- Studies in Islamic Mysticism. 51- Stubb's Early Plantagenets 52- Epitomised translation of Walker's Political Economy. ۵۳- دیکھیے: ڈاکٹر وحید قریشی، کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ، ص۳۲۸۔ ۵۴- مخزن ،شمار اکتوبر ۱۹۰۴ئ۔ ۵۵- یعنی خام پیداوار۔ ۵۶- النسائ،۴:۳۔ ۵۷- MarshallاورTaussigلیکن ان معاشئین کا دور بھی گزر چکا ہے۔ ۵۸- محمد اقبال، علم الاقتصاد، نسخہ اقبال اکیڈمی کراچی، دیباچۂ مصنف، ص ۲۳۔ ۵۹- ایضاً۔ ۶۰- اصطلاحاً یہ حدیث ضعیف ہے۔ لیکن ابو سعید کے نزدیک بحوالہ الصاغانی صحیح دیکھیے: تذکرۃ الموضوعات، ص ۱۴۷، طبع ۳۴۲ ۱ ھ، المکتبہ القیمہ، بمبئی۔ قرآن مجید کے ارشادات اس امر میں بہرحال واضح ہیں۔ ۶۱۔ علم الاقتصاد۔ ۶۲۔ ایضاً۔ ۶۳۔ صحیفہ، شمارہ ۵۴، ۱۹۷۱ئ، ص۸۵۔ ۶۴۔ دیکھیے جاوید نامہ، ارض ملک خدا است اور بال جبریل؛ الارض للہ۔ وہ خدایا یہ زمیں تیری نہیں میری نہیں تیرے آبا کی نہیں میری نہیں تیری نہیں ۶۵- بقول لسان العصر : مذہب کے واسطے نہ حکومت کے واسطے ہے جنگ اب تو صرف تجارت کے واسطے ۶۶- زمانہ کانپور، اشاعت اپریل ۱۹۰۶ئ۔انوار اقبال مرتبہ بشیر احمد ڈار، اقبال اکیڈیمی کراچی۔ ۶۷- دیکھیے پس چہ باید کرد اے اقوام شرق، یہی عنوان ۔ ۶۸- علم الاقتصاد۔ ۶۹- بانگ درا،ص ۱۲، طبع فروری ۱۹۷۳ئ۔ شیخ غلام علی۔ ۷۰- ماہنامہ نقوش ، لاہور نمبر۔ ۷۱- چینیوں کے چبوترے۔ ۷۲- Chielsea لندن میں ارباب فن، ادیبوں اورشاعروں کا مسکن جس کی فضا شہر کے دوسرے مساکن سے یکسر مختلف ہے۔ یہاں قدم قدم پر محسوس ہوتا ہے کہ ماضی کا زمانہ پھر لوٹ آیا ہے۔ چیلسی بدل گیا اور بدل رہا ہے۔ چار سو برس پہلے یہ ایک چھوٹا سا گائوں تھا۔ ۱۶ویں صدی میں سرٹامس مور نے یہاں سکونت اختیار کی، ایک مکان بنایا۔ رفتہ رفتہ دوسرے ارباب فن نے اس کا رخ کیا۔ چیلسی کا ایک حصہ اب شہر سے ملحق ہے۔ دوسرادریا ئے ٹیمز کے کنارے کنارے پھیل گیا ہے۔ یہ حصہ بڑا خوبصورت ہے۔لبِ دریا ایک کشادہ سڑک کے پار ایک چمن لگا ہے جہاں گرمیوں میں میلہ سا لگا رہتا ہے۔ دیکھیے حکیم شجاع الدین کا مضمون ’لاہور کا چیلسی‘۔ ۷۳- اس سلسلے میں دیکھیے محمد عبداللہ قریشی کے مضامین اقبال مجلہ،بزم اقبال لاہور میں بعنوان لاہور کے مشاعرے اور اقبال ، شمارہ اکتوبر ۱۹۵۴ئ، لاہور۔ ۷۴- شیخ عبدالقادر، بانگ درا میں دیکھیے دیباچہ ۔ نسخہ شیخ غلام علی ، ص۱۴، ۱۵ ،فروری ۱۹۷۳ء ۔ ۷۵- بانگ درا: اڑا لی طوطیوں نے قمریوں نے عندلیبوں نے چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرز فغاں میری ۷۶- عبدالرؤف رافت بھوپالی ، پیسہ اخبار میں کام کرتے تھے، بھوپال چلے گئے، فوق نے حریت اسلامکی تصنیف میںمعلومات فراہم کرنا شروع کیں توان کے پاس بھوپال پہنچے۔ بڑے صاحب علم تھے۔ ۷۷- بانگ درا : مدیر مخزن سے کوئی اقبال جا کے میرا پیام دے دے جو کام کچھ کررہی ہیں قومیں انھیں مذاق سخن نہیں ہے ۷۸- زبورعجم، گلشن راز جدید: نہ بینی خیر ازاں مردِ فرو دست کہ ہرمن تہمت شعر و سخن بست ۷۹- شیخ عطا اللہ: اقبال نامہ ، حصہ اول، مکتوب ۵،ص۱۰۔ ۸۰- مرے گلو میں ہے ایک نغمۂ جبرئیل آشوب سنبھال کر جسے رکھا ہے لا مکاں کے لیے کہہ گئے ہیں شاعری جزو بست از پیغمبری ہاں سنا دے محفل ملت کو پیغام سروش ____ اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گویا ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا ____ تھی وہ اک درماندہ رہرو کی صدائے درد ناک جس کو آوازِ رحیلِ کارواں سمجھا تھا میں نے 81- Dante: Divine Comedy. 82- Beatrice بیٹرس، بیاترچے ۸۳- سید نذیر نیازی ، مکتوبات اقبال، ص۳۲، ۳۳۔ ۸۴- محمود نظامی، ملفوظات، مرزا جلال الدین کا مضمون میرا اقبال ،ص۷۱،۷۲۔ ۸۵- مکتوب ۴۴ بنام گرامی۔ ۱۶؍مارچ ۱۹۱۹ئ، مکاتیب اقبال (اقبالنامہ) ،اقبال اکادمی کراچی، ص ۱۵۷۔ ۸۶- صحیفہ: اقبال نمبر، حصہ اول، ص ۹۶،شمارہ۶۵، اکتوبر ۱۹۷۳ئ۔ ۸۷- خواجہ حسن نظامی نے اس جلسے کی تاریخ ۱۲مارچ لکھی ہے ۔ جوغلط ہے۔ دیکھیے شاہیں: اوراق گم گشتہ ، ص ۲۸،اور سید نذیر نیازی، مکتوبات اقبال ، ص۹۸، ۹۹۔ ۸۸- سیدنذیر نیازی ، مکتوبات اقبال ، ص۹۹،۱۰۰۔ ۸۹- محمود نظامی ، ملفوظات ، سر عبدالقادر کا مضمون کیف غم۔ صفحات ۱۳تا ۱۵۔ ۹۰- ایضاً،ص ۱۵۔ ۹۱- نذر اقبال: مجموعہ ٔ مضامین سر عبدالقادر۔ مرتبہ حنیف شاہد، ص۸۶۔ ۹۲- ایضاً،ص۸۷۔ ۹۳۔ شیخ عطاء اللہ: اقبال نامہ، حصہ دوم ، مکتوب۱۱۷،ص۲۹۶۔ ۹۴- حکیم الامت کو لوگ ڈاکٹر صاحب ہی کہتے، علامہ، حضرت علامہ، حکیم الامت کے القاب بعد میں وضع ہوئے۔ اس دور کے لوگ تو اب بھی ڈاکٹر صاحب ہی کہہ کر ان کا ذکر کرتے ہیں۔ ۹۵- حنیف شاہد، نذر اقبال، ص ۱۴۵۔ ۹۶- روزگار فقیر، حصہ ۲، ص ۱۵۹۔ ۹۷- اس سلسلے میں دیکھیے ڈاکٹر صفدرمحمود کا مضمون ’علامہ اقبال کا گوشوارہ آمدنی‘جو انہوں نے انکم ٹیکس کے مسلوں سے مرتب کیا۔ مجلس ترقی ادب، مجلہ صحیفہ ۔ شمارہ ۶۵۔ ماہ اکتوبر ۱۹۷۳۔ ۹۸- اُردو، اقبال نمبر، اکتوبر۱۹۳۸ء ، سید نذیر نیازی کا مضمون ’علامہ اقبال کی آخری علالت‘ ،ص۳۳۳۔ ۹۹- ان بعض الظن اثم۔ الحجرات،۲۹ : ۲۔ ۱۰۰- علی بخش کے لیے دیکھیے رحیم بخش شاہیں، اوراق گم گشتہ، ص ۳۰۵ تا ۴۱۰۔ اقبال نامہ، مرتبہ چراغ حسن حسرت۔ سید نذیر نیازی، اقبال کے حضور، ج ۱،جا بجا۔ ۱۰۱- سید بشیر نسیم بھرت پوری محکمہ پولیس میں ملازم تھے۔ مخزن میں ان کی غزلیں شائع ہوتیں تشنہ بلند شہری، حافظ محمدیوسف خاں۔ مجموعۂ کلام شائع ہو چکا ہے۔ آخر عمر میں بینائی جاتی رہی۔ یہ غزل ۱۸۹۵ ء میں پڑھی گئی۔ ۱۰۲- سری نگر میں دریائے جہلم کا پہلا پل۔ ۱۰۳- اقبال، مجلہ بزم اقبال لاہور۔ محمد عبداللہ قریشی کا مضمون اقبال اور فوق۔ ۱۰۴- ایضاً۔ ۱۰۵- پورے قطعہ کے لیے دیکھیے کوئی مجموعہ (غیر مطبوعہ) کلام: ہر عمل کے لیے ہے رد عمل دہر میں نوش کا جواب ہے نیش ۱۰۶- دیکھیے انوار اقبال، ص ۶۵۔ مکتوب مورخہ ۶ مارچ ۱۹۱۷ئ۔ 107- Tit Bits. ۱۰۸- مخزن ، جون ۱۹۰۳ئ۔ ۱۰۹- در گلستانِ دہر ہمایونِ نکتہ سنج آمد مثال شبنم و چون بوئے گل امید می جست عندلیبِ خوش آہنگ سالِ فوت ’’علامہ فصیح‘‘ ز ہر چار سو شنید ۱۱۰- نیز رحیم بخش شاہین، اوراق گم گشتہ، ص ۳۰۷۔ ۱۱۱- سید نذیر نیازی: اقبال کے حضور، ج ا۔ ۱۱۲- بشیر احمد ڈار، انوا ر اقبال ، ص ۲۴۶۔ ۱۱۳- سید نذیر نیازی، اقبال کے حضور، ص ۱۷ اور مابعد۔ ۱۱۴- دیکھیے ماہنامہ نقوش لاہور نمبر۔ ۱۱۵- سید نذیر نیازی، اقبال کے حضور،زیر طبع۔ ۱۱۶- فقیر سید وحید الدین، روز گار فقیر ، حصہ اول، ص ۹۹،۱۰۰۔ ۱۱۷- تفصیل کے لیے دیکھیے: مشفق خواجہ کا مضمون ،اقبال ریویو، کراچی، شمارہ جولائی ۱۹۶۷ئ۔ ۱۱۸۔ دیکھیے اقبال، مجلہ بزم اقبال لاہور، اشاعت ص۔ ۱۱۹- اقبال،مجلہ بزم اقبال، اکتوبر ۱۹۶۷ئ۔ مرزا صاحب کا کتب خانہ ربوہ میں محفوظ ہے۔ ۱۲۰۔ اقبال کے معاصراز محمد عبداللہ قریشی،ص ۱۴۷۔ ۱۲۱- دیکھیے اقبال، بزم اقبال تبصرہ براسرار خودی۔ ۱۲۲- شیخ عطاء اللہ، مکاتیب اقبال، حصہ اول ، مکتوب ۱۰، مورخہ ۴ اکتوبر ۱۹۰۲ء ۔ انھیں منشی صاحب بھی کہا جاتا۔ لفظ منشی سے غلطی فہمی نہ ہو۔ یہاں لفظ منشی اس کے حقیقی معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ منشی وہ اعزاز تھا جو اہل قلم کو بمشکل حاصل ہوتا۔ ۱۲۳- ماہنامہ نیرنگ خیال، اقبال نمبر، ۱۹۳۳ئ۔ ۱۲۴- شیخ عطاء اللہ، اقبال نامہ، حصہ اول ،مکتوب میں اُردو فارسی دونوں قطعات موجود ہیں ، ص ۲۳۔ ۱۲۵- بشیر حسین نہیں ، بشیر حید ر۔ اقبالنامہ میں غلطی سے بشیر حسین چھپ گیا۔ بعض اوقات ناموں کے بارے میں غلطی ہوجاتی۔ مثلاً ایک خط میں ڈاکٹر ذاکر حسین خان کو سید ذاکر حسین لکھا ہے۔ دیکھیے مکتوبات اقبال از سید نذیر نیازی، اقبال اکیڈیمی کراچی۔ ۱۲۶- جو فریاد امت کے نام سے انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسہ ۱۹۰۳ء میں پڑھی گئی۔ ۱۲۷- محمد صادق علی خاں بڑے خوش گو شاعر تھے، نور الدین عنبر بھی۔ یوں کشمیر میں اُردو شاعروں کا ایک حلقہ ناظر کی سر پرستی میں قائم ہو گیا۔ خان صاحب اس حلقے کے روح و رواں تھے۔ شعراء کی تربیت کرتے۔ شگفتہ دلی کا یہ عالم کہ اس ادبی حلقے کا نام انجمن مفرح القلوب رکھا۔ آگے چل کر عنبر کے بھانجے میر خورشید احمد مرحوم نے جن کی معیت میں مجھے اس انجمن میں اکثر شرکت کا موقعہ ملا اور جن کے نام محمد اقبال کے متعدد خطوط شیخ عطاء اللہ نے اقبال نامہ میں جمع کر دیئے ہیں، اس حلقے کی سر گرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بقول شیخ عطاء اللہ ۔ دیکھیے اقبال نامہ، مکتوب جس کا مطلع ہے: ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی اور اس کے بعد ’’بلبل کی فریاد ‘‘ ص ۲۲۔ ۱۲۸- وہی مکتوب۔ ۱۲۹- ایضاً ، مکتوب ۳ اور ۴ اکتوبر ۱۹۱۵ئ۔ ۱۳۰- میں ان معلومات کے لیے خاں صاحب کی صاحبزادی بیگم ڈی حسین کا ممنو ن ہوں۔ ۱۳۱۔ عبداللہ قریشی ، معاصرین اقبال کی نظر میں۔ ص ۲۴۶۔ ۱۳۲۔ مورخہ ۲۳ صفر ۱۳۵۷ ھ ۔ ایک دوسرے مکتوب میں جو نومبر ۱۹۷۷ء میں انھوں نے مجھے لکھا فرماتے ہیں: وفات کی خبر آنے سے ایک دن قبل علامہ صاحب نے فرمایا خُدا خیر کرے۔ اندازہ کیجیے مولانا ابو الخیر اور مولانا عمادی کی حکیم الامت سے عقیدت کا۔ ۱۳۳- دیکھیے مکاتب گرامی،شائع کردہ اقبال اکیڈیمی کراچی۔ ۱۳۴- محمد عبداللہ قریشی، معاصرین اقبال کی نظر میں ،ص۹۴تا ۱۰۰۔ ۱۳۵- مکاتیب گرامی شائع کردہ اقبا ل اکیڈیمی۔ ۱۳۶- مکاتیب اقبال بنام نیاز الدین خان، مکتوب مورخہ ۱۴ اکتوبر ۱۹۱۹ئ۔ ۱۳۷- شیخ عطاء اللہ ، اقبالنامہ ، مکاتیب اقبال۔ ۱۳۸- مکاتیب گرامی، اقبال اکادمی کراچی، ۱۹۶۹ئ۔ ۱۳۹- ایضاً۔ ۱۴۰- سوامی جی کے لیے دیکھییماہنامہ فنون، جولائی اگست ۱۹۷۵ء میں ڈاکٹر عاشق بٹالوی کا مضمون باضافہ محمد عبداللہ قریشی، مع کتابیات۔ ۱۴۱- تجھے ایک ہی الف درکار ہے۔ ۱۴۲- سید نذیر نیازی، اقبال کے حضور،زیر طبع۔ ۱۴۳- ایضاً۔ 144- Young Men Indian Association. ۱۴۵- رحیم بخش شاہین، اوراق گم گشتہ ،علامہ اقبال کے ترانے کی شان نزول ، ص ۳۱۸۔ ۱۴۶- انوار اقبال ،مکتوب بنام فوق۔ ۱۴۷- سید نذیر نیازی، مکتوبات اقبال۔ ۱۴۸۔ Harper Nelsonشہزادی بامبادلیپ سنگھ کے شوہر۔ ۱۴۹۔ محمود نظامی ، ملفوظات اقبال، طبع ثانی ، ۱۹۴۹ئ، ص ۱۰۸۔ ۱۵۰۔ ایضاً۔مرزا جلال الدین کا مضمون :میرا اقبال،ص۶۸۔ ۱۵۱۔ ایضاً،ص ۸۷۔ ۱۵۲۔ ایضاً، ص ۹۲۔ ۱۵۳۔ اقبال، بزم اقبال لاہور،شمارہ اکتوبر ۱۹۵۷ئ۔ ۱۵۴۔ میر نیرنگ کا مضمون : اقبال کے بعض حالات، ص ۱۵ اقبال،مجلہ بزم اقبال، اکتوبر۱۹۵۷ئ۔ ۱۵۵۔ ایضاً۔ ۱۵۶۔ ایضاً۔ ۱۵۷۔ صحیفہ، شمارہ ۶۵، اکتوبر ۱۹۷۳ء ،محمد عبداللہ چغتائی کا مضمون : لاہورمیں علامہ اقبال کی قیام گاہی، ص ۵۳۔ 158- Gandhi Irwani Pact. 159- There is many a slip between the cup and the lip. ۱۶۰۔ شاکر صدیقی نے ماہنامہ ماحول ، روالپنڈی میں’’ نیاز قلند ر‘‘ کے عنوان سے شیخ صاحب کی محمد اقبال سے خط و کتابت کا ذکرکیا ہے۔ شیخ صاحب کو محمد اقبال سے بڑی عقیدت تھی۔ اپنی شاعری کو ان کے فیض سے تعبیر کرتے۔ دیکھیے ماہنامہ فنون، اقبال نمبر، اشاعت ۱۹۷۷ئ، ارشد میر کا مضمون: اقبال کے ایک قریبی دوستی۔ 161- Easy Chair Study. ۱۶۲- شیخ عطاء اللہ، اقبالنامہ ، مقدمہ، ص ۔ک۔ ۱۶۳- ایضاً۔ مکتوب بے تاریخ۔ بھاٹی دروازے سے لکھا گیا۔ ص ۹۔ ۱۶۴- اقبال مجلہ،بزم اقبال، نومبر ۱۹۵۷ء ،اقبال کے بعض حالات۔ ۱۶۵- یہ ہندوستان کے اندر ایک اور ہندوستان ، کا اشارہ اودھ یا دہلی کی طرف ہے جسے پورے ہندوستان کا سیاسی ، ثقافتی مرکز کہنا چاہیے۔ ۱۶۶- پنڈت جی کا محمد اقبال اعجاز عشق کی تفریظ میں ذکر کر چکے تھے۔ لکھا تھا ہمارے ایک کرم فرما جالندھر میں ہیں۔ ۱۶۷- شیخ عطا ء اللہ، اقبال نامہ، حصہ دوم، صفحات ۳۰۰ تا ۳۰۷۔ ۱۶۸- عبداللہ قریشی، معاصرین اقبال کی نظر میں، ص ۴۰۳۔ ۱۶۹- ایضاً۔ ۱۷۰- ایضاً ، ص ۴۰۵۔ ۱۷۱- ایضاً۔ ۱۷۲- ایضاً ، ص ۴۰۹۔ ۱۷۳- ایضاً، ص ۴۱۔ ۱۷۴- ایضاً، ص ۴۰۹۔ ۱۷۵- ایضاً، ص ۴۱۱۔ شکایت بجا تھی کہ اسلامی قومیت کا راز تو محمد اقبال ان سب بزرگوں سے بہت پہلے منکشف کر چکے تھے، حسن نظامی نے اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا۔ ۱۷۶- دیکھیے :اکبری اقبال کا دیباچہ۔ ۱۷۷- عبداللہ قریشی، معاصرین اقبال کی نظر میں ، ص ۴۱۱ تا ۴۱۵۔ ماہنامہ نظام المشائخ ، دہلی ، رسول نمبر، ۱۳۳ ھ ، جنوری، فروری ۱۹۱۵ء ، خواجہ صاحب نے خطابات کی ایک طویل فہرست شائع کی۔ محمد اقبال کے علاوہ سرعلی امام، حکیم اجمل خاں، مولانا شوکت علی اور میر نیرنگ کو بھی کسی نہ کسی خطاب سے نوازا۔ ماہنامہ صوفی منڈی بہائوالدین ، شمارہ اپریل ۱۹۱۵ء میں ایک صاحب نامی گوہسواری نے ’’سرالوصال‘ ‘ کو ایک قطعے میں نظم کیا۔ مرحبا شاعرِ شکر سخن و شیریں مقال حبذا شاعرِ ہند شیخ محمد اقبال شہرہ آفاق ہے اسلام کا یہ جوشیلا واہ صد واہ کہیں کیوں نہ اسے سرِ وصال ’حبذا شاعر ہند‘ یہ مصرع محل نظر ہے۔ شاید طباعت میں کوئی غلطی رہ گئی ہو۔ ۱۷۸- شاہین، اوراق گم گشتہ ،ص ۲۸،۲۹۔ ۱۷۹- ایضاً۔ ۱۸۰- محمد عبداللہ قریشی، معاصرین اقبال کی نظر میں،ص ۴۳۷۔ ۱۸۱- ایضا ،ص ۴۳۸۔ ۱۸۲- ایضاً ، ص ۴۴۰۔ ۱۸۳- خواجہ صاحب اس قسم کی ’تحقیقات اور اختراعات‘ کے بادشاہ تھے۔ تحریکوں پر تحریکیں چلاتے۔ ہندی اسلامی سیاست میں ان کا کردار ایک نہایت دلچسپ موضوع ہے۔ ۱۸۴- ادبی دنیا، مئی ۱۹۶۵ئ، ص ۹ تا ۱۱۔ ۱۸۵- محمد عبداللہ قریشی: معاصرین اقبال کی نظر میں، ص ۴۴۵ بحوالہ منادی، فروری ۱۹۳۶ئ۔ ۱۸۶- ایضاً، ص ۲۲ تا ۲۵۔ ۱۸۷- جیسا کہ حکیم احمد شجاع نے لکھا ہے۔ ۱۸۸- ماہنامہ نقوش، لاہور نمبر۔ حکیم احمد شجاع کا مضمون :لاہور کا چیلسی۔ ۱۸۹- رحیم بخش شاہین، اوراق گم گشتہ، ص ۶۷۔ ۱۹۰- تاریخ میں اختلاف ہے لیکن فیصلہ ۱۹۰۰ء کے حق میں ہے۔ ۱۹۱- دیکھیے: اقبال اور انجمن حمایت اسلام، تالیف حنیف شاہد۔انجمن کی روادادوں پر مشتمل، طبع جولائی ۱۹۷۶ئ۔ ۱۹۲- جیسا کہ اس نظم کے ایک شعر میں کہا ہے: حشر میں ابر شفاعت کا گہر بار آیا دیکھ اے جنس عمل تیرا خریدار آیا ۱۹۳- بفحوائے۔ با خدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار ۱۹۴- محمود نظامی ،ملفوظات ، ص۱۲۔ ۱۹۵- حنیف شاہد ، اقبال اورانجمن حمایت اسلام، ص ۸۳۔ ۱۹۶- محمود نظامی، ملفوظات، میرا قبال ، ص۶۹۔۷۰۔ ۱۹۷- فقیر سید وحید الدین کادعویٰ ہے (روزگار فقیر،حصہ اول، ص ۶۹۔۷۰) کہ یہ قطعہ اس سے پہلے کہیں شائع نہیں ہوا۔ فقیر صاحب مرحوم کا یہ دعویٰ غلط ہے۔ ماہنامہ صوفی، منڈی بہائو الدین، شمارہ ۱۹۱۲ء میں یہ قطعہ شائع ہو چکا ہے۔ آخری شعر کا پہلا مصرع یوں ہے: من کہ شمعِ عشق را در بزمِ دل افروختم بجائے بزم جاں کے جیساکہ روزگار فقیر میں چھپا۔ ۱۹۸- اخبار میں لکھتا ہے لندن کا پادری ہم کو نہیں ہے مذہب اسلام سے عناد لیکن وہ ظلم ننگ ہے تہذیب کے لیے کرتے میں ارمنوں پہ جو ترکانِ بد بہاد مسلم بھی ہوں حمایتِ حق میں ہمارے ساتھ مٹ جائے تا جہاں سے بنائے شر و فساد سُن کے یہ بات خوب کہی شہنواز نے بلی چوہے کو دیتی ہے پیغام اتحاد نظموں کے علاوہ محمد اقبال نے انجمن کے سالانہ جلسوں میں تقریریں بھی کیں، مقالات بھی پڑھے، لیکچر بھی دیئے جن میں بعض کا مفاد ان کے خطبات میں موجود ہے۔ ۱۹۹- جیسا کہ نام سے ظاہر ہوتا ہے، مخزن کانام شیخ صاحب کو شاید انگریزی لفظ ’’میگزین ‘‘ سے سوجھا اس لیے کہ انگلستان سے علمی ادبی ’’میگزین‘‘ شائع ہو رہے تھے، گو میگزین، بجائے خود لفظ مخزن کی انگریزی شکل ہے۔ ۲۰۰- سیالکوٹ میں محمد اقبال کے دوست اور سید محمد تقی کے قریبی عزیز، ان کا ذکر پہلے آ چکا ہے۔ ۲۰۱- سید بشیر حیدر بھی ان کا کلام جمع کرتے، سید محمد تقی بھی۔ ۲۰۲- بانگ درا، دیباچہ۔ ۲۰۳- میر نیرنگ۔ ۲۰۴- یہ نظم نایاب ہے۔ ۲۰۵- حنیف شاہد، نذر اقبال۔ ۲۰۶- ایضاً۔ ۲۰۷- ایضاً۔ جسے مؤلف نے غلطی سے وہ لیکچر سمجھ لیا جس کا مولانا ظفر علی خاں نے ’ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘ کے عنوان سے اُردو میں ترجمہ کیا ۔ ۲۰۸- مخزن، دسمبر ۱۹۰۸ئ، عبدالقادر کا تعارفی شذرہ۔ ۲۰۹- محمود نظامی، ملفوظات، شیخ عبدالقادر کا مضمون ’کیف غم‘ ص ۱۶۔ ۲۱۰- حنیف شاہد، نذر اقبال، عبدالقادر کا مضمون : شاعر مشرق سے میری آخری ملاقات، ص ۹۰ تا ۹۴۔ ۲۱۱- ۱۸ اشعار پر مشتمل یہ غزل روز گار فقیر میں موجود ہے ۔ حصہ دوم ص ۲۵۰۔ مگر تعجب ہے’پائے ساقی پر گرایا‘…یہ شعر درج ہونے سے کیسے رہ گیا۔ یہ غزل بھی ظاہر ہے ۱۸۹۵ء سے پہلے لکھی گئی۔ نظم طویل ہے۔ میر صاحب کا اس پر تبصرہ بھی طویل۔ انھوں نے اہل پنجاب کے بارے میں اپنی رائے بدل لی۔ ’’معلوم ہو گیا، ذوق سخن کا اجارہ کسی خطہ زمین کو نہیں دیا گیا…اقبال کا تو میں قائل ہی ہو گیا ۔ بندشوں کی ایسی چستی، کلام کی ایسی روانی، مضامین کی شوخی…‘‘۔ ۲۱۲۔ قاضی افضل حق، باقیات اقبال، ماہنامہ اُردو ،شمارہ ۳ ، کراچی، ۱۹۶۹ئ۔ ۲۱۳۔ ایک وہ شعر جس میں محمد اقبال نے نسیم اور تشنہ کی طرح داغ کی شاگردی پر اظہار فخر کیا ہے۔ دوسری جس پر مرزا ارشد نے انھیں گلے لگا لیا۔ تیسری بازار حکیماں کے مشاعرے میں پہلی بار شرکت کے موقعہ پر آپ کہتے ہیں ’’سخنورتوسخنور ہی سہی‘‘۔ والی غزل۔ ۲۱۴- بانگ درا، دیباچہ ،ص ۱۶۔ ۲۱۵- نیرا عظم، مراد آباد، اگست ۱۹۰۶ء میں پورا واقعہ بتفصیل مذکور ہے۔ راقم الحروف کو یہ تفصیل نہیں مل سکی۔ نیراعظم کا یہ پرچہ پاکستان تو کیا بھارت میں بھی شاید بمشکل دستیاب ہو۔ ۲۱۶- تعجب ہے عطیہ بیگم ۱۹۰۷ء تک مخزن کی اشاعت سے بے خبر تھیں۔ ۲۱۷- عطیہ بیگم، اقبال، انگریزی نسخہ، مطبوعہ اکیڈمی آف اسلام، بمبئی،۱۹۴۷ئ،ص۹۰۔ ۲۱۸- یہ کتاب ۲۴۔۱۹۲۳ء میں میری نظر سے گزری۔ کتب خانہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اب ڈاکٹر ذاکرحسین لائبریری جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں محفوظ ہے۔ مصنف کا نام یاد نہیں رہا۔ ۲۱۹- حتیٰ کہ بانگ درا میں بھی شامل کی گئی تو کسی قدر تبدیلی کے ساتھ۔ ۲۲۰- خان صاحب کا میںاور بھی بہت سی معلومات کے لیے ممنون ہوں۔ 221- Tennyson, Longfellow Emerson. ۲۲۲- پیام مشرق: اے برادر من ترا از زندگی دار نشاں خواب را مرگِ سبک داں مرگ را خوبِ گراں ۲۲۳- William Jonesمشہور مستشرق۔ سنسکرت اور قدیم ہندوستان کے مطالعے میں ان کی خدمات بڑی وقیع ہیں۔ ۲۲۴- النور،۴۴: ۳۵۔ ۲۲۵- رع بمعنی قرص آفتاب۔ رع کے پیروئوں کا ۔ یوں رع اور ’’سوتر‘‘ میں ایک رشتہ پیدا ہو جاتا ہے۔ یونانی، ہندو اور مصری مذاہب کے مطالعے میں غور طلب۔ ۲۲۶- پیروان زرتشت کا۔ ۲۲۷- JepsonیاJephson۱۸ ویں ۱۹ ویں صدی کا ادیب ، ڈراما نویس اور تنقید نگار۔ یاChapman۱۹ویں صدی کا طابع اور ناشر۔ ۲۲۸- مخزن ۱۹۰۴ئ۔ ۲۲۹- نگاہ عاشق کی دیکھ لیتی ہے پردۂ میم کو اٹھا کر وہ بزم یثرب میں آ کے بیٹھیں ہزار منہ کو چھپا چھپا کر ۲۳۰- مخزن، جنوری۱۹۰۲ئ۔ ۲۳۱- بحمد اللہ کہ اب مرزا کی وہ حالت نہیں جو محمد اقبال اپنی آنکھوں سے دیکھ آئے تھے اور جو شاید ۶۰/۱۹۵۰ء تک قائم رہی۔ حکومت ہند کی توجہ اور ہمدرد فائونڈیشن کی کوششوں سے مرزا از سر نو تعمیر ہوا۔ عمارت شاندار ہے، غالب کے بارے میں ایک کتب خانے پر مشتمل۔ ۲۳۲۔ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، طبع آکسفورڈ، ۱۹۳۴ء ،خطبہ پنجم، ص ۷۳۔۱۷۲۔ The great sufi philosopher Muhyuddin Ibnul Arabi of Spain has made the observation that God is a percept, the world is a concept. 233- Sir Mcworth Younge. ۲۳۴- W. Bellپرنسپل گورنمنٹ کالج لاہور۔ محمد اقبال کے قدر شناس۔ ۲۳۵- مخزن، شمارہ نومبر۱۹۰۳ئ۔ ۲۳۶- تفصیل کے لیے دیکھیے: ماہنامہ جامعہ، نئی دہلی، ۷ جون ۱۹۶۱ء ۔ اپریل ۱۹۶۱ء میں سید عابد رضا بیدار نے ماہنامہ جامعہ ، نئی دہلی میں اقبال پر چکبست کی ایک تنقید کے عنوان سے رسالہ اُردو ئے معلیٰ، علی گڑھ، اشاعت اپریل، ۱۹۰۴ء میں نواب جعفر علی خاں اثر کا مضمون جو انھوں نے چکبست کے جواب میں لکھا تھا شائع کر دیا ہے۔ یہ مضمون آئینہ اقبال مرتبہ عبداللہ قریشی میں محفوظ ہے۔ عابد رضا (ڈاکٹر عابد رضا)بیدار آج کل کتب خانۂ خدا بخش بانکی پور کے ڈائریکٹر ہیں۔ ۲۳۷- آئینہ اقبالمرتبہ عبداللہ قریشی میں نصرت قریشی کا مضمون’اقبال کے قصائد ص ۱۵۵۔ ۲۳۸- مکتوب بنام خان صاحب منشی سراج الدین خاں۔ ۲۳۹- جیسا کہ گاندھی جی بہ تعجب کہا کرتے تھے کہ ہندی مسلمان جب بیشتر ہندی الاصل ہیں تو محض تبدیل مذہب کی بنا پر ان کی قومیت کیسے بدل سکتی ہے۔ ۲۴۰- بفحوائے ارشاد باری تعالیٰ شعوب و قبائل کا امتیاز تعارف کے لیے ہے۔ ۲۴۱- مخزن ، جون۱۹۱۰ئ۔ ۲۴۲- مجلس ترقی ادب،صحیفہ، اقبال نمبر، حصہ اول، شمارہ ۶۵، اکتوبر ۱۹۷۳ء ۔ قاضی افضل حق کا مضمون: نادرات اقبال، ص ۲۱۱ تا ۲۱۴۔ اُردو انگریزی سرورق کی نقل کا اصل کے ساتھ انگریزی ترجمے کا عنوان ہے Tears of BloodدسStanzasپر مشتمل۔ اُردو عنوان کے نیچے لکھا ہے۔ ترکیب بند جو حضور ملکہ معظمہ محترمہ کے انتقال پر ملال پر مسلمانان لاہور کے ایک ماتمی جلسے میں پڑھا گیا از خاکسار اقبال۔ ۲۴۳۔ اور جس میں ہندوستان تاجدار برطانیہ سے یوں خطاب کرتا ہے: اے تاجدارِ خطۂ جنت نشانِ ہند روشن تجلیوں سے تری خاورانِ ہند پوری نظم نہایت زور دار ہے۔ فنی اعتبار سے بہت خوب۔ ۲۴۴- اس وقت بقول اکبر ایک ہی راستہ تھا: پابند اگرچہ اپنی خواہش کے رہو لائل سبجکٹ تم برٹش کے رہو قانون سے فائدہ اٹھانا ہے اگر حامی نہ کسی خراب سازش کے رہو داد دیجیے حضرت لسان العصر کی سیاسی بصیرت کی، لفظ خواہش قابل غور ہے۔ ۲۴۵- اس زمانے کی اصطلاح میں’انگریزی خیالات ‘ کا۔مثلاًدیکھیے: مخزن، ص۱۹۰ئ، عبدالقادر کا تمہیدی شذرہ ہمالیہ پر۔ 246- Iqbal, Stray Reflections. زمانہ طالب علمی میں محمد اقبال کو ورڈزورتھ بہت پسند تھا جیسے ٹینی سن، لیکن یہاں قابل لحاظ یہ امر ہے کہ باوجود اس دلچسپی یا اس خوش گوار اثر کے جو انھوں نے ان سے قبول کیا ان شعراء کو غالب اور بیدل کی طرح ان کے شعر و فلسفہ میں مستقلاً کوئی جگہ نہیں ملی۔ صرف ان کی یاد باقی رہ گئی۔ چنانچہ پیام مشرق میں انھوں نے شعراء کی جو محفل قائم کی ہے اس میں ٹینی سن موجود ہے نہ ورڈز ورتھ۔ وہ اپنے افکار اور تصورات کی دنیا میں بہت آگے نکل چکے تھے۔ پھر یہ دہریت بھی ایک گزرتا ہوا فلسفیانہ لمحہ تھا جس کا تعلق فکر سے تو ہے ایمان و یقین سے نہیں۔ ۲۴۷- ابو میاں، سید بشیر حیدر، سید محمد تقی اور شاید شیخ گلاب دین یا مولوی احمد دین بھی۔ ۲۴۸- بانگِ درا، دیباچہ، ص ۱۴، نسخۂ غلام علی۔ لیکن شیخ صاحب نے شایدخود کوئی بیاض مرتب نہیں کی۔ ۲۴۹- مخزن، جنوری۱۹۰۴ئ؛باقیات اقبال، ص ۱۹۶۔ یہ تین شعر کیا چک Czcchشاعر ڈائیک (Dykeم۔۱۸۷۷ئ) کے ہیں۔ ۲۵۰- سید نذیر نیازی ، اقبال کے حضور، انجمن ترقی ادب، اقبال نمبر، ۱۹۳۸ئ، علامہ اقبال کی آخری علالت۔ ۲۵۱- محمود نظامی، ملفوظات، ص ۶۹۔ ۲۵۲- ۱۹۱۹ء میں جب کانگرس، لیگ اور مجلس خلافت کے اجلاس ایک ساتھ منعقد ہو رہے تھے۔ جلسے کا اشارہ لیگ کے اجلاس کی طر ف ہے۔ ۲۵۳۔ راقم الحروف نے یہ نظم لیگ کے اجلاس میں خود ان کی زبان سے سُنی۔ مجمع ہمہ تن گوش تھا۔ جلسے کی صدارت مسیح الملک بہادر حکیم اجمل نے فرمائی۔ دائیں بائیں مولانا محمد علی، مولانا شوکت علی بیٹھے تھے۔ پاس ہی مولانا عبدالباری فرنگی محلی، مولانا حسرت موہانی، ڈاکٹر انصاری، آزاد سبحانی اور دوسرے زعمائے لیگ۔مولانا ابوالکلام قید و بند میں تھے۔ جونہی حکیم صاحب نے اعلان کیا ڈاکٹر اقبال نظر بند ان اسلام کو خیر مقدم کہنے آئے ہیں مجمع بے قابو ہو گیا۔ ہر کسی کو اشتیاق کہ نظم کیا ہو گی۔نظم پڑھی گئی۔ وہی لحن، وہی سوز، وہی دل کش آواز جس کا عبدالقادر نے ذکر کیا ہے۔ ساری محفل پر ایک وجدآفریں کیفیت طاری تھی۔ مولانا محمد علی اٹھے ان سے لپٹ گئے، پھر مولانا شوکت علی۔ ۲۵۴- محمود نظامی، ملفوظات، مرزا جلال الدین کا مضمون: میرا قبال ، ص۸۷۔ ۲۵۵- مخزن ،اشاعت مئی ۱۹۰۳ء ،نوازش علی خان شاید، ہائی کورٹ میں بعہدہ ترجمی ملازم تھے۔ ۲۵۶- تفصیل کے لیے دیکھیے: مخزن، اکتوبر ۱۹۰۲ئ۔ ۲۵۷- ایضاً۔ ۲۵۸- شیخ عطاء اللہ، مکاتیب ،حصہ اول، مکتوب ۲۱ ،ص ۵۶، بنام سردار عبدالرب نشتر۔ ۲۵۹- اقبال، مجلہ بزم اقبال،لاہور ۱۹۷۶ئ۔ ۲۶۰- شیخ عطاء اللہ،مکاتیب ،حصہ دوم، ص ۴۹۰ ،مکتوب ۳۶ ،بنام مولوی عبدالحق، ص ۸۵۔ ۲۶۱- ماہ نو، اقبال نمبر، ۱۹۷۷ء میں ان کا مضمون ایک جوئے کہستان۔موج رواں، ڈاکٹر عابد رضا بیدار اب خدا بخش لائبریری بانکی پور( بہار) کے ڈائریکٹر ہیں۔ ۲۶۲- شاہین،اوراق گم گشتہ، ص ۱۲۔۴۱۱۔ ۲۶۳- ایضاً، ص ۱۱۳۔۴۱۴۔ ۲۶۴- برسوں گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی کے پروفیسر رہے۔ مشرقی اور مغربی ادب، تاریخ اور مذہب میں فاضلانہ دستگاہ رکھتے۔ خواب ہستی اور یاسمین کے مصنف ۔دہلوی ، دہلی میں انتقال فرمایا۔ فرمایا: کاش مذہب اور باطنی تعلیم کے عنوان سے انھوں نے جو ضخیم کتاب بڑی محنت اور کاوش سے لکھی پھر سے شائع ہو جائے۔ ۲۶۵- تا تو بیدار شوی نالہ کشیدم ورنہ عشق کاریست کہ بے آہ و فغاں نیز کنند ۲۶۶- ماہ نو،اقبال نمبر، ۱۹۷۷ء ، ص ۲۰۹۔ عزیز احمد کے نزدیک محمد اقبال کے مبتعین کو یا آگے چل کر اُردو ادب میں جو نئی تحریکیں پیدا ہوئیں انھیں ’’اقبال کی شاعری کے بے پناہ تموج ، اس کی وسعت، اس کی حرکت اور تلاطم سے کوئی نسبت نہیں۔ یہ بات عزیز احمد نے جوش کے بارے میں کہی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں وہ اس کا اطلاق سب پر کر رہے ہیں۔ ۲۶۷- حنیف شاہد، نذیر اقبال، ص ۱۳۴، ۱۳۹، ۱۴۰ غالباً معترض زیادہ بہ نسبت مداح ہے۔ ۲۶۸- لمحہ؟ ۲۶۹- مخزن، نومبر۱۹۰۳ئ۔ ۲۷۰- ایضاً، اگست ۱۹۰۶ئ۔ ۲۷۱- ایضاً، مئی۱۹۰۴ئ۔ ۲۷۲- اس سلسلے میں ان مضامین، مقالات اور تصنیفات کا مطالعہ خالی از دلچسپی نہ ہو گا جو بھارت میں شائع ہو رہی ہیں۔ مثلاً ایک کتاب مسٹر چوپڑا کی ہے جس کا صرف تبصرہ نظر سے گزرا۔ جگن ناتھ آزاد اور دوسرے اہل قلم نے بھی اس موضوع میں متعدد مضامین لکھے ہیں۔ اس خیال سے اتفاق نہیں کیا کہ محمد اقبال ابتداء میں وطنیت کے قائل تھے۔ تاثیر بہت پہلے اس موضوع پر قلم اٹھا چکے تھے۔ ۲۷۳- مثلاً آریا سماج اور اس قسم کی دوسری جماعتیں جو مسلمانوں کو ہندوستان میں ایک جزو غیر تصور کرتی تھیں جب ہی تو مولانا شرر مرحوم نے پنکم چندر چیٹر جی کے ناول درگیش نندی کا ترجمہ اُردو میں کیا تا کہ مسلمان اس قسم کے خیالات سے بے خبر نہ رہیں۔ شاید اس لیے بددل ہو کر انھوں نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ بہتر ہو گا ہندوستان کو ہندو اور اسلام دو خطوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ ۲۷۴- عبدالقادر ،نذر اقبال، مرتبہ حنیف شامد، ص ۸۲۔ میں لکھ چکا ہوں بحوالہ شاہین، اوراق گم گشتہ اور یہ شاید ٹھیک بھی ہے کہ اول اول یہ ترانہ ایک’نیشنل ‘ جلسے ہی میں پڑھا گیا۔ ہردیال کی قائم کردہ۔Young men Indian Associationمیں بھارت کا قومی ترانہ ’بندے ماترم ‘ ہے۔ لیکن ترانہ ہندی اب بھی کسی نہ کسی تقریب میں پڑھا جاتا ہے۔ اس کی دُھن بڑی وجد انگیز ہے۔ ۲۷۵- Nationalismاور Communalist ایسے الفاظ میں صرف ہندی اسلامی ریاست میں ان کی تاریخی حیثیت کے پیش نظر استعمال کررہا ہوں۔ ۲۷۶- میری رائے میں قوم کے لیے قوم کا لفظ واضح طور پرانھوں نے صرف اسی نظم میں استعمال کیا ۔ ۲۷۷- شکوہ ہند۔ ۲۷۸- سید نذیر نیازی،اقبال کے حضور، زیر ترتیب۔ ۲۷۹- مخزن، ۱۹۰۴ء ۔ قومی زندگی کے زیر عنوان یہ مضمون مقالات اقبال مرتبہ عبدالواحد معینی میں مل جائے گا۔ دیکھیے صفحات ۴۴، ۵۴ اور جا بجا۔ ۲۸۰- عطیہ بیگم اقبال، اس ڈائری کا کوئی نسخہ انگریزی ، اُردو۔ ۲۸۱- یہ نظم مخزن میں شائع ہوئی۔ حواشی کے ساتھ۔ قارئین اس باب میں مخزن سے رجو ع کریں۔ ۲۸۲- عبدالواحد معینی، مقالات اقبال، ص ۵۴۔ ۲۸۳- سید نذیر نیازی، مکتوبات اقبال، ص۔ ۲۸۴- سید نذیر نیازی، اقبال کے حضور، زیر ترتیب۔ 285- Don't Proceed to Deva. ۲۸۶- سید نذیر نیازی، اقبال کے حضور، زیر ترتیب۔ ۲۸۷- انوار اقبال، طبع اول، ۱۹۶۷ئ، اقبال اکادمی کراچی، ص ۱۷۸۔ ۲۸۸- وکیل، امرتسر، ۱۵ جنوری ۱۹۱۶ء ، بحوالہ اقبال، مجلہ بزم اقبال،لاہور، اکتوبر۱۹۵۴ئ، ص ۹۳۔ ۲۸۹- سید نذیر نیازی، مکتوبات اقبال، ص ۱۴۔ ۲۹۰- اسرار خودی: کشتہ انداز ملا جامیم نظم و نثر او علاج خامیم ۲۹۱- عطیہ بیگم، اقبال، ان کی ڈائری کا کوئی نسخہ، انگریزی ،اُردو۔ ۲۹۲- دیکھیے: اس سلسلے میں دیوان غالب، نسخہ حمیدیہ، اشاعت اول جس کا مقدمہ ڈاکٹر بجنوری مرحوم نے لکھا۔ لیکن بجنوری مرحوم نے جب غالب کے ایک شعر پر اظہار رائے کرتے ہوئے یہ کہا کہ غالب ہالینڈ کے وجودی فلسفہ اشپینوزا کا ہم خیال ہے تو مفتی انوار الحق مرحوم (اس زمانے میں معتمد تعلیمات بھوپال) نے وحدۃ الوجود کی مختلف تعبیروں کے پیش نظر جن کا سلسلہ الحاد و زندقہ سے جاملتا ہے ، حتیٰ کہ دہریت سے ایک طویل مضمون وحدۃ الوجود کی اسلامی شکل پر لکھاتا کہ یہ غلط فہمی کہ وحدۃ الوجود کی تعلیم کسی رنگ میں اسلام کے خلاف دور ہو جائے۔ یہ مضمون بطور دیباچے کے اس نسخے میں موجود ہے۔ مفتی صاحب نے اس موضوع پر اس لیے قلم اٹھایا کہ منطق کی رو سے دو ہی نتیجے ہیں جو وحدۃ الوجود سے مترتب ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہم فطرت الٰہیہ میں ضم کر دیں یا ذات الٰہیہ کو فطر ت میں اور دونوں ازروئے اسلام غلط۔ ۲۹۳- فرانسیسی مستشرق لاندوLandauکے نزدیک ابن عربی وجودی نہیں تھے۔ کچھ ایسا ہی خیال مشہور ترکی شاعر ضیا کا ہے۔ ضیاکے لیے دیکھیے:Ziya Gokalpاز نیازیBerkesیہ کتاب RCDنے شائع کی۔ ۲۹۴- مکیش اکبر آبادی: نقد اقبال میں یہ بحث۔ ۲۹۵- تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، دوسرا خطبہ، آخری دو صفحات۔ ۲۹۶- دیکھیے: مفتی انوار الحق کا مضمون دیوان غالب نسخہ حمیدیہ میں۔ ۲۹۷- رومی: زاد دانش مند آثار قلم زاد صوفی چیست آثار قدم ہم چو صیادے سوئے آشکار شد گام آہو دید و بر آثار شد ۲۹۸۔ دیکھیے: پروفیسرنکلسن کی کتابThe Idea of Personality in Islamپروفیسر نکلسن مثنوی معنوی کے مترجم کا کہنا ہے میں بھی ایک زمانے میں رومی کو وجودی سمجھتا رہا۔ ۲۹۹۔ بزم اقبال، مکاتیب اقبال بنام نیاز محمد خان۔ ۳۰۰۔ عبدالواحد معینی، مقالات اقبال، ص ۴۴۔ ۱- Lebenslauf۱۹۰۷ء میں ۲- روزگار فقیر ۔ج ا ص ، ۲۲۹ لیکن یہ تاریخ قطعی نہیں ہے۔ دیکھیے پروفیسر محمّد عثمان کی یادداشتیں علامہ اقبال کی ولادت پر مباحث (زیر طبع) خالد نظیر صوفی ، اقبال ورون خانہ۔ ۳- ڈپٹی وزیر علی بلگرامی کے یہاں، جن کو سرکار انگریزی اودھ سے سیالکوٹ لائی، امور ضلع کا انتظام و انصرام بڑی حد تک انہیں کے سپرد تھا۔ سلائی کی سنگرمشین سب سے پہلے انہیں کی فرمائش پر سیالکوٹ آئی اور شیخ نور محمّد کے سپرد کر دی گئی۔ لہٰذ ا لوگ انہیں نور محمّد کلا والے بھی کہتے بنگر سلائی مشین کل ہی تر ہے۔ ۴- والد محترم گھر آ رہے تھے۔ دیکھا ایک کتا بھوک سے بے حال ہو رہا ہے۔ رومال میں تھوڑی سے مٹھائی تھی، اس کے آگے رکھ دی۔ رومال ترکر کے پانی بھی پلایا۔ اس رات خواب میں دیکھا گھر میں مٹھائی کے طبق ہی طبق رکھے ہیں۔ صبح اٹھے تو اس یقین کے ساتھ کہ ان کے دن پھرنے والے ہیں۔ پھر بھائی صاحب بھی نوکر ہو گئے۔ سید نذیر نیازی ، اقبال کے حضور، ج ا۔ص، ۱۶۹ مخلصاً ۔ اقبال اکیڈیمی کراچی ۱۹۷۳ء ۔ ۵- والد محترم نے خواب میں دیکھا، ایک کبوتر بہت اونچا اُڑ رہا ہے دفعتہ ان کی جھولی میں آگرا۔ یہ خواب میری پیدائش سے پہلے کا ہے ۔ وہ اسے ایک اشارہ غیبی سمھے ۔ سید نذیر نیازی : اقبال کے حضور ۔ ج ا ص ۹۵۔ ۶- سید نذیر نیازی: اقبال کے حضور۔ ج ۲ زیر طبع۔ ۷- خواجہ محمّد اعظم شاہ دیدہ مری، محمد شاہ بادشاہ کے عہد میں گزرے ہیں۔ تاریخ کشمیر کا دوسرا نام ہے۔ تاریخ اعظمی، واقعات کشمیر ۔ سنہ تصنیف ۱۷۵۵ئ۔ ۸- اڈون تحصل کلگام میں ہے، ضلع اسلام آباد (اننت ناگ) ۹- حضرت علامہ کا خط شیخ عطا محمد کے نام ، مورخہ ۵ اکتوبر ۱۹۲۵ء دیکھیے صحیفہ ٔ مجلہ مجلس ترقی ادب لاہور۔ شمار ۶۵ اکتوبر ۱۹۷۳۔ اقبال کے اجداد کا سلسلہ عالیہ از ڈاکٹر محمد باقر صفحات ۳و ۴ مع نقل کا لاصلٔ ۱۰- ایضاً ،شمار ۶۵، ۱۹۷۳ء تاریخ وفات ۱۴۵۱ء عارف باللہ نصرالدین۔ ۱۱- ولادت ۱۳۷۸ئ۔ وفات ۱۴۳۹ء تاریخ وفات شمس العارفین۔ ریشی سے مراد ہے رشی، (سنسکرت رتمی) تارک الدنیا۔ زاہد و عابد۔ صحیفہ، شمارہ ۶۵ اکتوبر ۱۹۷۳ئ۔ وہی مضمون۔ ۱۲- وہی شہاب الدین جس کا ذکر جاوید نامہ میں آیا ہے۔ عمر ھا کَل رخت بربست و کشاد خاکِ ما دیگر شہاب الدین نزاد ۱۳- عہد حکومت ۱۴۲۰ تا ۱۴۷۰ء ۔ یہ سنین اس لیے اہم ہیں کہ ہم انہیں کے حوالے سے فیصلہ کر سکتے ہیں کہ حکیم الامت کے آباواجداد نے اسلام قبول کیا تو کس زمانے میں۔ ۱۴- صحیفہ :مجلہ مجلس ترقی ادب ۔ لاہور فوق کے نام حکیم الاّمت کے خط اقباس۔ ۱۵- سین عربی امجدکا ۱۱واں حروف ۱۶- Rootمادہ ۱۷- مکتوب مذکور فوق کے نام ۔ص ۲۔ نیز ص ۶ میں ابو محمد حاجی محی الدین مسکین کی کتاب تحائف الابرارنی ذکر اولیاء اخیار (تاریخ کبیر کشمیر) کا اقتباس۔ ۱۸- عجیب بات ہے کہ پورے ہندوستان میں کوئی دوسرا سپر دخاندان ہے تو سر یئج بہادر سپرد کا جن کے علاوہ کسی سپرد خاندان کا سراغ نہیں ملا۔ مسلۂ تھا شیخ اعجاز احمد کی شادی کا ۔کوشش تھی کہ ان کی شادی سپروَں کے یہاں ہو ۔ دیکھیئے اقبال، مجلہ بزم اقبال(انگریزی اشاعت) اکتوبر ۱۹۵۳ء ص، ۶۵ ۱۹- فوق اور ان کے تبتسع میں حضرت علامہ کے مکتوب ، دید ہ مری اور مسکین کے بیانات اور سلطان زین العابدین کے سنین حکومت سے واقفیت کے باوجود اس غلطی کا اتحادہ ہوتا رہا۔ دیکھیئے فوق کا مضمون ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کی مختصر سوانح حیات : نیرنگ خیال اقبال نمبر، ستمبر، اکتوبر ۱۹۳۲ء میں۔ ۲۰- ضلع سیالکوٹ میں ۔ ۲۱- سید نذیر نیازی ، اقبال کے حضور، ج۱، ص ۱۶۹۔ ۲۲- ایضاً ص ، ۹۴۔ ۲۳- ابو عبداللہ مولانا غلام حسن، وطن ساہیوالا۔ فاروقی شیخ نواب صدیق حسن خاں اور پھر مولوی مرتضیٰ صاحب سے تلمند رہا۔ عالم و فاضل ، بڑے بزرگ ،صاحب کشف ۔ مسجد صرافاں میں درس دیتے ، عقیدت سند اور طلبا حاضر خدمت رہتے۔ مولوی ابراہیم انہیں کے شاگرد رشید تھے۔ میر حسن سے نہایت گہرے روابط تھے۔ تصنیفات متعدد۔ اسلامی معاشرے کے انحطاط کا اس امرے اندازہ کیجئے کہ اسلامیہ ہائی اسکول میں مدرسی کی، سیرت و کردار کا یہ عالم کہ مولوی ظفر اقبال دوپہر میں ان سے سبق لیتے ۔ ایک روز حاضر خدمت ہوئے تو سو رہے تھے۔ مولوی صاحب کے پائوں داہنے لگے۔ دوسرے روز،مولانا نے پوچھا کل کیوں نہیں آئے کہا آپ آرام فرما رہے تھے۔ کہنے لگے اچھا! اور پھر اس واقعے سے ایسے متاثر ہوئے کہ دوپہر میں کبھی آرام نہ کیا۔ ۱۸ جنوری ۱۹۲۵ء کو فوت ہوئے۔ ۲۴- سید نذیر نیازی: اقبا ل کے حضور ج ا ص ، ۹۴۔ کیا اس کے یہ معنی ہیں۔ جیسا کہ بعض حضرات کا خیال ہے ، کہ انہیں مولانا غلام حسن کے یہاں دینیات کی تعلیم کے لیے بھیجنے کی روایت غلط ہے۔ وہ مسجد یعنی عمر شاہ کے مکتب سے سیدھے میر حسن کی خدمت میں بھیج دیے گئے۔ ان کے والد ماجد کی البتہ یہ خواہش تھی کہ انہیں صرف دینی تعلیم دلوائیں۔ انہوں نے شاہ صاحب سے جو گویا انہیں اسکول کی تعلیم کے لیے تیار کر رہے تھے، درخواست کی انہیں دینی علوم پڑھائیں، اسکول کی تعلیم نہ دیں۔ جس پر شاہ صاحب نے کہا یہ بچہ مسجد میں نہیں اسکول میں پڑھنے کے لیے پیدا ہوا ہے ۔ ممکن ہے شیخ نور محمد کا خیال ہو کہ اگر شاہ صاحب ان کی درخواست نہ مانیں تو بیٹے کو مولانا غلام حسن کے درس میں بھیج دیں۔ دونوں صورتوں میں بالا خروہی ہوا جو شاہ صاحب چاہتے تھے ۔ ۲۵- ایضاً ۔ ص ۹۴۔ ۲۶- یہ مدرسہ کلیسائے سکاٹ لینڈ (Church of Scotland)نے ۱۸۵۹ء میں قائم کیا۔ اس کے پہلو بہ پہلو ایک دوسرا مدرسہ ۱۸۵۵ ء میں قائم ہو چکا تھا۔امریکن مشن ہائی اسکول کے نام سے United Presbyterian Church of Amerciaکی طرف سے ۔ سیالکوٹ میں مسیحی مبشرین کی سرگرمیاں پنجاب میں سرکار انگریزی کے تسلط کے ساتھ ہی شرو ع ہو گئی تھیں۔ ۲۷- Career ۲۸- اقبال کے حضور ج ا ص ۹۴۔ ۲۹- ورینکولرVernacularیعنی مڈل ۔ اس زمانے میں تعلیم کی درجہ بندی اس طرح کی گئی تھی: تین سال پرائمری اوّل ، دو سال پرائمری دوم ، تین سال مڈل ، دوسال اینٹرنس ، دو سال ایف اے دو سال بی ۔ اے ایک یا دو سال ایم ۔ اے کے لیے ۔ ۳۰- Murray Collegeموجود عمارت ۱۹۰۹ء میں تعمیر ہوئی ۔کالج روڈ پر ۔ ۳۱- Faculty ۳۲- سید نذیر نیازی۔ اقبال کے حضور ج ۔ ا ص ۹۴ ، اقبال اکیڈمی کراچی۔ ۳۳- اس ملاقات میں ڈاکٹر وحید قریشی راقم امحروف کے شریک سفر تھے۔ مرحومہ کے ارشادات قلمبند کرتے رہے ۔ تقریب اس ملاقات کی یہ تھی کہ حکیم الامت کی تاریخ ولادت معلوم کی جائے۔ بزم اقبال کی طرف سے بشمول پروفیسر محمد عثمان معتمد اعزازی بزم اقبال ہم بطور ایک وفد سیالکوٹ پہنچے۔ ۳۴- ما بنوویم بدیں مرتبہ راضی غالب شعر خود خواہش آں کرد کہ گرد و فنِ ما ۳۵- بقول ڈاکٹر جمشیدعلی راٹھور، حضرت علامہ کے ہم سبق ، رشتے میں خالہ زاد بھائی۔ لیکن ان کے علم و فضل اور کمال شاعری کے منکر ۔ ایم۔ اے پی ایچ ۔ ڈی ، پروفیسر مرے کالج ، سیالکوٹ ، انگریزی میں شعر کہتے۔ کلام چھپ چکا ہے۔ راٹھور مرحوم سے ۱۹۵۲ء میں ملاقات ہوئی۔ مہر مرحوم اور ڈاکٹر عبداللہ چغتائی ساتھ تھے۔ بزم اقبال کی طرف سے ایک وفد کی صورت میں ہم سیالکوٹ پہنچے۔ ملاقات ہوئی تو کہنے لگے سوانح لکھنی ہے تو میر حسن کی لکھئے ۔ اقبال میں کیا رکھا ہے وہ ان کے نفس ناطقہ ہی تو تھے اور کیا تھے۔ مہر صاحب تو اس کے بعد میر حسن ہی کے بارے میں سوالات کرتے رہے۔ بات بات پر کہتے اللہ اکبر! میں نے عرض کیا جو آپ فرماتے ہیں اقبال ان کے نفس ناطقہ تھے، تو ان کی سوانح حیات پر قلم اٹھانا اور بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ راٹھور صاحب کے بیانات ڈاکٹر عبداللہ چغتائی نے مہر مرحوم کے زیر ہدایات قلمبند کیے جو بزم کے دفتر میں موجود ہیں۔ راٹھور مرحوم کی اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی یاددشتیں میرے دوست کلیم اختر صاحب کے پاس محفوظ ہیں جو خود انہوں نے ان سے ملاقات کے بعد مرتب کیں۔ راقم امحروف نے ان سے فائدہ اٹھایا۔ ان یادداشتوں کو دیکھ کر ایک ہی بات ذہن میں آتی ہے اور وہ یہ کہ الفضل ماشہدات بہ الاعداد۔ ۳۶- My education began with the study of Arabic and Persian. A few year after I joined one of the local schools. Development of Metaphysics in Persia. ۳۷- سید نذیر نیازی: اقبال کے حضور ج ۔ ا۔ ص ۹۴۔ ۳۸- سید نذیر نیازی: اقبال کے حضور ح ۲ زیر طبع۔ ۳۹- خالد نظیر صوفی: اقبال دورن خانہ، بزم اقبال، لاہور۔ ۱۹۷۳ء ۔ ص۱۰۳ تا ۱۰۴۔ ۴۰- اسرار خودی: گرچہ ہندی در عذوبت شکر است طرزِ گفتار دری شیریں تر است ۴۱- یوں بھی ایک ایسے ادب کی تشکیل میں جس سے زندگی کو تحریک ہو ان کا ذہن عربی ادب کی طرف منتقل ہو رہا تھا۔ لہٰذا طبعی امر تھا کہ فارسی ہو، یا اردو ان کے کلام میں اسلامی ادبیات کے ساتھ ساتھ عربی ادب کے ہیات افروز اثرات کا عمل دخل بڑھتا چلا جائے۔ اسرار خودی میں جب حافظ کی تنقید سے ایک علط تاثر قائم ہوا تو اس کے ازالے کے لیے در حقیقت شعرو ادبیات اسلامیہ کے عنوان سے اپنے خیالات کی وضاحت کرتے ہوئے، اے میان کیسہ ات نقد سخن، میں صاف صاف کہا: فکر صالح در ادب می بایدت رجعتے سوتے عرب می بایدت ۴۲- اسرار خودی: فارسی از رفعتِ اندیشہ ام درخورو با فطرتِ اندیشہ ام ۴۳- سید نذیر نیازی: اقبال کے حصور، ج، ۲ زیر طبع۔ ۴۴- سید نذیرنیازی: اقبال کے حضور ج ۲ زیر طبع ۴۵- انوار ا قبال: اقبال اکیڈیمی کراچی ص ، ۱۷۸، ۴۶- سید نذیر نیازی: اقبال کے حضور، ج ۲ زیر طبع۔ ۴۷- سیالکوٹ میں ان دنوں چار مدرسے تھے: مولانا غلام حسن، مولانا مرتضیٰ اور مولانا مزمل کا مدرسہ چوتھا میر حسن کا ۔ پہلے تین مدرسوں میں صرف علوم دین کی تعلیم ہوتی ، میر حسن کے مدرسے میں علوم دینی اور دینوی دونوں کی۔ ۴۸- ۹۳(الضحیٰ ) : ۱۰۔ ۴۹- رموز بیخودی: حسن سیرت ملیہ از تادب بآداب محمد است۔ ۵۰۔ سید نذیر نیازی: اقبال کے حصور ج ا۔ص، ۶۰،۶۱مخلصاً بال جبریل کے شعر۔ تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کثاف سے اسی واقعے کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ ۵۱- سید سلیمان ندوی نے ’’سفر افغانستان میں اس واقعے کا ذکر کیا ہے نیز دیکھئے شیخ عطاء اللہ اقبالنامہ (مکاتیب اقبال) حصّہ دوم ص ، ۱۲۰۔ بروایت عطیہ بیگم۔ دیکھیئے اقبال از عطیہ بیگم۔ ۵۲- سیالکوٹ سے براہ راست کوئی بیس میل دور گجرات کے پاس۔ ۵۳- قاضی صاحب موصوف عصر حاضر کے ایک عظیم صوفی بزرگ تھے۔ نواب معشوق یار جنگ بہادر نے جو قاضی صاحب کے حلقۂ ارادت میں شامل تھے، ان کے حالات زندگی لکھے ہیں، نواب فخر یار جنگ بہادر اور مسیح الملک حکیم محمد اجمل خان کو بھی ان سے دلی ارادت تھی۔ قاضی صاحب کا انتقال ۱۹۱۹ء میں ہوا۔ ان کے زیر اثر سلسلۂ قادریہ دور دور تک پھیل گیا۔ ۵۴- ماہنامۂ ضیائے حرم: اشاعت اپریل ۱۹۷۵ء ۔ سید نور اللہ شاہ قادری کا مضمون بعنوان سلسلہ قادریہ میں علامہ کی بیعت ۔ نیز اقبال : اکتوبر ۱۹۵۳ء اقبال کے بعض حالات۔ ۵۵- شیخ عطاء اللہ : اقبالنامہ حصہ اول، مکتوب ص، ۳۵ ۵۶- جاوید نامہ: تا غزالی درسِ اللہ ہو گرفت ذکر و فکر از دود مانِ او گرفت ۵۷- شیخ عطاء اللہ: اقبالنامہ، حصہ دوم ص ، ۶۳۔ ۵۸- سید وحید الدین : روز گار فقیر، حصہ دوم ،ص،۱۳۱ ۵۹- اور جس کا ذکر انہوں نے عطیہ بیگم کے نام اپنے خط اور دیے بھی گفتگوئوں میں کیا ہے۔ ۶۰- اسرار خودی: آن نواپرواز گلزارِ کۂن گفت مارا از گلِ رعنا سخن حضرت قلندر فرماتے ہیں مرحبا اے بلبلِ باغِ سخن از گل رعنا بگو با ما سخن ۶۱- بانگ درا: والدہ مرحومہ کی یاد میں: زندگی کیا اوج گاہوں سے اترآتے ہیں ہم صحبت ِ مادر میں طفلِ سادہ رہ جاتے ہیں ہم ۶۲- صحیفہ: مجلہ مجلس ترقی ادب لاہور۔ شمارہ ۶۵، ۳ اکتوبر ۱۹۷۳ئ۔ ۶۳- ایضاً ۶۴- مادرِ مخدومۂ اقبال رفت سوئے جنت زیں جہانِ بے ثبات گفت اکبر با دل پر درد و غم ’’رحلتِ مخدومہ‘‘ تاریخ وفات ۶۵- کلیات اکبر، ربایات و قطعات حصہ اول مرتبہ بھیا احسان الحق بزم اکبر کراچی۔ ص ۳۸۹۔ ۶۶- بانگ درا: والدہ مرحومہ کی یاد میں کاروبار زندگانی میں وہ ہم پہلو مرا وہ محبت میں تری تصویر وہ بازو مرا ۶۷- بانگ درا: التجائے مسافر۔ ۶۸- سید وحید الدین: روز گار فقیر حصہ دوم۔ ص۱۲۲۔ ۶۹- مجھے لکھتے ہیں کہ ’’روز گار فقیر میں میری روایات کے علاوہ باقی بیانات کی ذمہ دار ی مصنف پر ہے ۔ ۷۰- ایضاً ۔ ص ۱۷۵، ۱۷۷ ۱۸۳۰There is truth in it take refuge in art. ۷۱- راقم الحروف کے نام۔ کراچی۔۱۹۷۶ئ۔ ۷۲- وعباد الرحمن الذین یمشون علی الارض ہونا۔ ۶۳ (الفرقان): ۲۵ ۷۳- B. Time Pieceتا کہ حسب ضرورت وقت دیکھ سکیں۔ ۷۴- ۳ (البقرہ) : ۱۸۴ ۷۵- سید نذیر نیازی: اقبال کے حضور روز گار فقیر، حصہ اول ، ص ۲۰۷ ۷۶- یادداشتیں بسلسلہ سفر سیالکوٹ بزم اقبال میں محفوظ ہیں۔ ۷۷- سید وحید الدین: روز گار فقیر، حصّہ اول ، ص ۵۷ ۷۸- بانگ درا: دیباچہ، ص ۱۰۔ نسخہ غلام علی ۔ لیکن شیخ عبدالقادر اس بات کو کھول کر بیان نہیں کر سکے۔ ۷۹- نیرنگ خیال : اقبال نمبر۔ ستمبر، اکتوبر، ۱۹۳۲ئ۔ شیخ آفتاب احمد کا مضمون ۔علامہ سر اقبال کے استاد ص ۲۲ تا ۸۶۔ ۸۰- بقول شاعر: درسِ ادب اگر بود زمرمۃ مجتے جمعہ مکتب آورد طفلِ گریز پائے را ۸۱- نیرنگ خیال: اقبال نمبر ۱۹۳۲ء ڈاکٹر ملک راج انند کے انگریزی مضمون اقبال کی شاعری، کا اُردو ترجمہ۔ ص ، ۷۷ ۸۲- محمود نظامی: ملفوظات۔ ص ۱۵۲۔ پروفیسر عبدالواحد کا مضمون۔ ۸۳- شیخ عطا اللہ: اقبال نامہ حصہ اول، مکتوب ۳۵۵ بنام عشرت رحمانی۔ ص ۔ ۴۲۶ ۸۴- بانگ درا: التجائے مسافر: وہ شمع بارکہ خاندان مرتضوی رہے گا مثل حرم جس کا آستاں مجھ کو ۸۵- اقبال کے حضور ۔ ج ا۔ زیر طبع۔ دیکھیے بانگ درا کی نظم نوائے غم اور زبور عجم۔ غم دو قسم است اے برادر گوش کن شعلہ مارا چراغ ہوش کن یک غم است آن غم کی آدم راخورد اَن غم دیگر کہ ہر غم را جورد آن غم دیگر کہ مارا ہمدم است جان ما از صحبتِ او بے غم است ۸۶- سید نذیر نیازی: اقبال کے حضور (زیر طبع)۔ ۸۷- اقبال نامہ حصہ دوم، مکتوب بنام تصدق حسین۔ ۱۱ جنوری ۱۹۲۷ء ص، ۱۰۰ء ترجمہ حسن الدین نے کیا۔ عنوان ہے فلسفہ عجم۔ ۸۸- سید وحید الدین: روز گار فقیر حصہ دوم ۔ ص ، ۲۰۹۔ ۸۹- سید وحید الدین: روز گار فقیر۔ حصہ اول۔ ص، ۴۳۔۴۴ اور ۱۰۹۔ ۹۰- بقول ڈاکٹر جمشید علی راٹھور: یادداشتیں۔ ۹۱- نیرنگ خیال: اقبال نمبر ستمبر اکتوبر ۱۹۳۳ء ۔ ص ۷۵۔ ۹۲- سید نذیر نیازی: اقبال کے حضور، جلد ا۔صص۔۲۵۱۔ ۹۳- حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی نے: مرا پیر ِ دانائے روشن شہاب دو اندرز فرمود پر روئے آب یکے این کہ بر خویش خود ہیں مباش وگرآں کہ بر غیر بد بیں مباش ۹۴- سید وحید الدین: روز گار فقیر ۔ حصہ دوم ص ۱۹۵۔ ۹۵- سید وحید الدین: روز گار فقیر ، حصہ اول، ص ۳۸۔ ۹۶- سید نذیر نیازی: اقبال کے حضور، ج ا، ص ۹۴ ۹۷- Sagalaیا Sakala ۹۸- Menader (milinda) Eutyhydamon ۹۹- Mihragala ۱۰۰- Sialkot District Gazetteer, 1967 ۱۰۱- جس کے بعد سیالکوٹ کی تباہی اور بربادی میں اضافہ ہوتا گیا۔ حتی کہ مغلیہ سلطنت کا نام و نشان مٹ گیا۔ صرف موری دروازے کا نام باقی رہ گیا۔ جہانگری کے تمیر کردہ شیش محل کی تو یاد بھی باقی نہیں۔ ۱۰۲- مکتوب میر حسن محمد دین فوق کے نام۔ نقوش مکاتیب نمبر ،۱۹۔ ۱۰۳- Boundary Commission ۱۰۴- امام علی حق کا مزار امام صاحب کہلاتا ہے۔ منڈی میں اسکاچ مشن ہائی اسکول اور اس کے بیرونی حصے میں امریکن مشن ہائی اسکول اور تحصیل کی عمارت تعمیر ہوئی۔ پاس ہی پانی کا تالاب تھا ملا عبدالحکیم کا تعمیر کردہ۔ ۱۰۵- بشمول چھائونی کی کوئی پچاس ہزارSialkot District Gazetteer, 1967 ۱۰۶- سیالکوٹ اور اسکے اطراف میں عیسائی مبلعین کی سرگرمیاں ۱۸۵۷ء سے پہلے یعنی پنجاب پر برطانوی قبضے کے ساتھ ہی شروع ہو گئیں۔ ۱۸۵۵ء ہی سے۔ ۱۰۷- یہ بجائے خود ایک اہم موضوع ہے۔ میر حسن فق کو لکھ چکے تھے کہ سکھ گردی میں سیالکوٹ پر کیسے تباہی۔ کتب خانے نذر آتش کر دیے گئے۔ علماء نے آس پاس کی بستیوں میں پناہ لی۔ رفتہ رفتہ ان کی اولاد بھی علم و فضل سے محروم ہوتی چلی گئی کچھ بچی کھچی کتابیں یاد گار رہ گئیں سید نور محمد قادری جن کا خاندان گلی چوڑی گراں ہی کے قریب آباد تھے اپنے جدا مجد سید چراغ شاہ کے بعد سیالکوٹ سے نکل گیا۔ راقم الحروف کو ان کا نیاز حاصل ہے۔ انہوں نے بہ کمال شفقت اس زمانے کے اہل قلم کے حالات پر گفتگو کی ان کی تحریریں اور مسودات دکھانے پر جن میں مولانا محمد حسن فیضی جنھوں نے عربی میں ایک قصیدہ لکھا۔ سید ظہور اللہ شاہ اور مولو ی عبدالکریم اشراتی کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ۱۰۸- سوانح علامہ عبدالکریم سیالکوٹی از فوق، محمد اقبال کا تبصرہ ۔ ۳ دسمبر ۱۹۲۴ء دیکھیے مقالات اقبال از سید عبدالواحد معینی ص ۲۰۱،۲۱۱۔ ۱۰۹- یاشاید نہیں۔ ۱۱۰- بانگ درا۔ یادِ عہدِ رفتہ میری خاک کو اکسیر ہے میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے ۱۱۱- سید نذیر نہاری : اقبال کے حضور ج ا ص ۲۴۔۲۵۔ ۱۱۲۔ سید نذیر نیازی: اقبال کے حصور ج ا ص ۲۴۔ ۲۵۔ ۱۱۳۔ سید وحید الدین : روز گار فقری، ج ا ص ۱۲۷۔ ۱۱۴۔ ایضاً ، ج ۲ ص ۱۵۷۔ ۱۱۵۔ بانگ درا: سر سید کی لوحِ تربیت۔ ۱۱۶- بقول ولیم جمیز، نفسیات میں۔ ۱۱۷- بانگ درا: عہد طفلی۔ تھے دیار تو زمین و آسماں میرے لیے وسعتِ آغوشِ مادر اک جہاں میرے لیے آنکھ وقفِ دید تھی لب مائل گفتار تھا دل نہ تھا میرا سراپا ذوقِ استفسار تھا ۱۱۸- بال جبریل: زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر خیزی ۱۱۹- کلیم اختر: یادداشتیں ۱۱۰- رحیم بخش شاہین: اوراق گم گشتہ۔ سید محمد ذکی کا بیان اقبال کا بچپن ص ۲۶۶ اور ص ۲۶۷ ملخصاً۔ ۱۲۱- سید نذیر نیازی، اقبال کے حضور، ج۱،ص۱۴۸۔ ۱۲۲- پوری نظم کے لیے دیکھئے ان کا کوئی مجموعہ کلام۔ ۱۲۳- مکاتیب اقبال بنام نیاز الدین خاں۔ بزم اقبال لاہور۔ ۱۲۴- نیاز الدین خاں کے صاحبزادے۔ راقم الحروف کے ہم جماعت۔ نفیس الدین، خاں کی یادداشتیں بعنوان گرامی، نیاز، اقبال تا حال طباعت نہیں ہو سکی۔ مسووہ میرے پاس محفوظ ہے۔ ۱۲۵- گوئٹے فاوسٹ Faustکی تمہید کی۔ ۱۲۶- رحیم بخش شاہینMementos of Iqbalص ۷۴ لفٹینینٹ کرنل کے اے رشید کا مضمون Newlight on the Early Life of IqbalبحوالہGabriel's Wingsaz از Anamarie Schimmel۔ ۱۲۷- اقبال ریویو: مجلہ اقبال اکیڈمی ،کراچی، شمارہ جنوری ۱۹۶۳ئ۔ ۱۲۸- اقبال، مجلۂ بزم اقبال ،لاہور۔ میرنیرنگ کا مضمون اقبال کے بعض حالات۔ ۱۲۹- شاہین: اوراق گم گشتہ ۔ ص ۲۷۰۔ ۱۳۰- شیخ عطا اللہ: اقبال نامہ ۔ حصہ دوم، مکتوب ۔ ۱۲۱ مورخہ ۲۲ اگست ۱۹۰۸ئ۔ ۱۳۱- سید وحید الدین : روز گار فقیر۔ ۱۳۲- بانگ درا: دیباچہ از شیخ عبدالقادر۔ ۱۳۳- ایضاً ۱۳۴- دیکھیئے روز گار فقیر۔ حصہ نظم ۔ ۱۳۵- نسیم و تشنہ ہی اقبال کچھ اس پر نہیں نازاں مجھے بھی فخر ہے شاگردیِ داغِ سخنداں پر ۱۳۶- شیخ عطاء اللہ: اقبال نامہ، حصہ اول۔ ۱۳۷- تھی حقیقت سے نہ غفلت فکر کی پرواز میں آنکھ طائر کی نشمین پر رہی پرواز میں سید نذیر نیازی: بہار داغ ۔ی دیباچہ۔ ۱۳۸- اقبال ، مجلہ بزم اقبال ، شمار ۔ ۱۹۶۰ء عبداللہ قریشی کا مضمون اقبال اور فوق ۔ ۱۳۹- سید وحید الدین : روز گار فقیر حصہ اول ص ۱۰۰۔ ۱۴۰- جارج سارٹن (George Sarton)مقدمہ تاریخ سائنس اور تاریخ سائنس میں فارمر (Henry Farmer)کی کتاب اور مضامین عربی موسیقی کے اثرات مغربی موسیقی پر نیز دیکھیے میراث اسلام(Legacy of Islam) ۱۴۱- سید نذیر نیازی: اقبال کے حضور ج ۲ زیر طبع۔ ۱۴۲- دیکھیئے کتب خانہ جامعہ پنجاب ۔ کیفی کلیکشن مجلدات رسالہ زبان ۱۸۹۳ اور ۱۸۹۴ء یہ راسخ عبدالرحمن راسخ ہیں۔ راسخ عظیم آبادی نہیں ہیں۔ ۱۴۳- صحیفہ :مجلہ مجلس ترقی ادب لاہور۔ شمارہ ۱۹۷۳ء میں میرزا محمد منور کا مضمون اقبال کی شاعری۔ ۱۴۴- سید وحید الدین: روز گار فقیر، حصہ دوم۔ ۱۴۵- اقبال: مجلہ بزم اقبال لاہور۔ محمد عبداللہ قریشی کا مضمون لاہور کے مشاعرے ص ۴۸،۴۹۔ ۱۴۶- رحیم بخش شاہیں: Iqbal Mementos ۱۴۷- مکتوب ۱۹۷۶ء راقم الحروف کے نام۔ ۱۴۸- سید وحید الدین: روز گار فقیر حصہ دوم۔ ۱۴۹- سید نذیر نیازی: اقبال کے حضور میں ۔ ج ۲۔ زیر طبع۔ ۱۵۰- ماہنامہ اسلامی تعلیم ، ال پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس، اشاعت ۱۹۷۷ء لاہور۔ ۱۵۱- Iqbal Mementosمرتبہ رحیم بخش شاہین ص : ۶۸۔ ۱۵۲- بال جبریل۔ ساقی نامہ۔ ۱۵۳- شیخ عطاء اللہ: اقبالنامہ۔ دیباچہ۔ ۱۵۴- سید نذیر نیازی: اقبال کے حضور، ج ا۔ ۱۵۵- مصرع اولیٰ میں لاہور کی جگہ پنجاب ہے۔ ۱۵۶- مولانا میر حسن کی۔ ۱۵۷- سید نذیر نیازی: اقبال کے حضور۔ ج ۲۔ زیر طبع۔ فصل دوم ۱- Quadrangleلیکن یہ امر تحقیق طلب ہے۔ ۲- University Careers ۳- ڈاکٹر وحید قریشی: کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ، طبع ۱۹۶۵ء ص ۳۱۷۔ فقیر سید وحید الدین روز گار فقیر ۲ ، ص ۱۰ دیکھیے خان بہادر ایف۔ ایس جمال الدین کا نقش ۔ فقیر صاحب مرحوم پنجاب یونیورسٹی کے فیلو تھے۔ انتقال سے قبل اپنا ذاتی کتب خانہ پنجاب پبلک لائبریری کی نذر کر دیا۔ یہ تمغہ عربی میں امتیازی کامیابی کے لیے مخصوص تھا، حسب قرار داد، پنجاب یونیورسٹی سنڈیکیٹ، ۸ جون ۱۸۹۱ئ۔ ۴- اقبال۔مجلہ بزم اقبال لاہور۔ شمارہ ۲،اکتوبر ۱۹۵۷ئ۔ ص ۵ ۔ میر صاحب کا مضمون بعنوان اقبال کے بعض حالات۔ ۵- باعزار جی۔ ایس۔ بریٹ (G.S. Brett)جو ۱۹۰۴ء میں کرائسٹ کالج سے لاہور آئے اور گورنمنٹ کالج میں فلسفہ کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ اس تقریب کے لیے دیکھیئے اقبال ریویو،انگریزی اشاعت۔ قاضی محمد اسلم کا مضمون ،بعنوانIqbal at a College Reception in Lahore.ص ۱۹تا ۲۷۔ ۱۹۷۶ئ۔ ۶- Hemmy ۷- اسی تقریب سے کچھ پہلے محمد اقبال نے نظریہ اضافیت اور خودی کے عنوان سے انگریزی میں ایک مضمون اسلامیہ کالج کے ماہنامہ کریسنٹ میں لکھا جس کا ترجمہ راقم الحروف نے رسالہ جامعہ دہلی میں شائع کیا اور جو اب اقبال کی تحریروں کے کئی ایک مجموعوں میں شامل ہے۔ راقم الحروف اس وقت اسلامیہ کالج میں بی۔ اے کا طالب علم تھا۔ ہمارے فلسفہ کے پروفیسر مرحوم خواجہ عبدالمجید لیکچر دینے کے لیے آئے تو جیسے کوئی بہت بری خبر لائے ہیں۔ کہنے لگے میں ایک خبر لایا ہوں اور وہ یہ کہ ہو سکتا ہے قوس بھی خط مستقیم ہو۔ پروفیسر صاحب اکثر محمد اقبال کی خدمت میں حاضر ہوتے شاید ان کے اصرار ہی سے محمد اقبال نے کریسنٹ کے لیے یہ مضمون لکھا۔ پروفیسر صاحب کی محمد اقبال بے گفتگوئوں کا ایک مجموعہ بھی شائع ہو چکا ہے۔ ۸- دیکھیے تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ۔ بحث علم الہٰی۔ اس باب میں جو غلط فہمی پید ا ہوئی یا پیدا کر دی گئی سطور بالا سے اس کا االہ بآسانی ہو جاتا ہے۔ ۹- یہ مضمون صحیفہ: اقبال نمبر، ۱۹۷۷ ء میں شائع ہو چکا ہے۔ بعنوان سر اقبال دے نال میل۔ ص ۶۰۔ ۱۰- Alma Mater ۱۱- سید نذیر نیازی: اقبال کے حضور،ج ا، ۱۲- Sir Thomas Walker Arnold الفتِ اسلام اس کے دل میں ہے اور مسلمانی قبا زیبِ بدن ۱۳- Siddons union club طلبا کی انجمن۔ ۱۴- Miniatures ۱۵- بانگ دار: تو کہاں ہے اے کلیم ذروہ مینائے علم تھی تری موجِ نفس بادِ نشاط افزائے علم ۱۶- Atiya Begum, Iqbal, Feb. 1947, P.20. ۱۷۔ بانگ دار: ذرہ میرے دل کا خورشید آشنا ہونے کو تھا آئنہ ٹوٹا ہوا عالم نما ہونے کو تھا نخل میری آرزو ئوں کا ہرا ہونے کو تھا آہ کیا جانے کوئی میں کیا سے کیا ہونے کو تھا ابر رحمت دامن از گلزار من برچیدو رفت اند کے برغنچہ ہائے آرزو بارید و رفت ۱۸۔ بانگ دار: کھول دے گا دستِ وحشت عقیدہ تقدیر کو توڑ کر پہنچوں گا میں پنجاب کی زنجیر کو ۱۹۔ Edward Granville Browne۱۸۶۲ تا ۱۹۲۶ئ۔ Wilforid Seewan Blunt۱۸۴۰ تا ۱۹۲۲ئ۔ برائون نے تاریخ ادبیات ایران کے علاوہ باب اور بہاتیت میں کئی ایک کتابیں، تصنیف کیں۔ علی ہذا طب عربی کے عنوان سے ایک تصنیف ۔ بلنٹ اور مسز بلنٹ نے نجد کے حالات پر قلم اٹھایا۔ Future of Islamان کی مشہور تصنیف ہے۔ ۲۰- Iqbal has lost his friend and teacher ۲۱- دیکھیے لیڈی آرنلڈ کے نام تعزیت کا خط، ۱۶ جولائی ۱۹۳۰ء Letters and Writtings of Iqbalمرتبہ بشیر احمد ڈار اقبال اکیڈمی کراچی ۱۹۶۷۔ص،۱۱۵ میں محمد اقبال لکھتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ان کی وفات سے نہ صرف برطانوی دنیائے علم کو نقصان پہنچا بلکہ دنیائے اسلام کو بھی جس کے فکر و فرہنگ اور ادب کی کدمت میں آنجہانی نے تا دم آخر کمی نہ آنے دی۔ میرے لیے یہ زیان ایک ذاتی، حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہ انہیں کہ اثر تھا جس نے میری روح کی تربیت کی اور اسے جادہ علم پر گامزن کر دیا۔ ۲۲- شیخ عطاء اللہ : اقبال نامہ، حصہ دوم، طبع ۱۹۵۱ء ص ۱۳۔ نازشِ اہلِ کمال ای جی برائون فیضِ او در مشرق و مغرب عہیم مغرب اندر ماتمِ او سینہ چاک از فراقِ او دلِ مشرق دو نیم تا بفردوسِ بریں ماویٰ گرفت گفت ہاتف ذالک الضوز العظیم ۲۳۔ Mount Pleasant Community Birmingham ۲۴- نامہ درانی ۲۴ اکتوبر ۱۹۷۷ئ۔ ڈاکٹر سعید اختر درانی کا عنایت نامہ از برمنگم راقم الحروف کے نام اور ان کے مضامین روز نامہ جنگ میں ۔مثلاً اشاعت ۲۰ جنوری ۱۹۷۷ئ۔ ۲۵- ایضاً ۲۶- اقبال نامہ، مرتبہ شیخ عطاء اللہ۔ اسد ملتانی مرحوم کا مضمون’’قطرۂ شبنم‘‘ جس پر انہیں انعام ملا۔ لالہ جیا رام کے بارے میں مجھے یہ معلومات عبدالرحمان خاں ریٹائرڈ انجینئر سے حاصل ہوئیں۔ انہیں گورنمنٹ کالج لاہور میں حکیم الامت کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا ایک نظم پروہ بھی انعام کے مستحق ٹھہرے۔ ۲۷- P.G. Dallinger ۲۸- Hirst ۲۹- G.B. Ussher ۳۰۔ Dr. Steratton ۳۱- Canadian ۳۲- دیکھیئے۔B.A. Dar, Letters and Writings of Iqbal. میں محمد اقبال کا تعزیت نامہ۔ اقبال اکیڈمی کراچی طبع، ۱۹۶۷ء ص ۱۲۱ ۳۳- Meleod Arabic Reader ۳۴- B.O.LاورIntermediateبی او ایل مشرقی علوم میں مروجہ سند اور انٹرمیڈیٹ اس زمانے میں ایف۔ اے۔ ۳۵- Dr. Stein۱۸۸۹ء سے پرنسپل چلے آ رہے تھے۔ استعفا دیا اور کلکتہ مدرسہ کے پرنسپل مقرر ہو گئے ۳۶- Dean Oriental Faculty ۳۷- A.C. Woolnerجو ترقی کرتے کرتے بالآخر پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے۔ ان تمام معلومات کے لیے دیکھئے (۱) ڈاکٹر وحید قریشی: کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ ص ۳۲۱ تا ۳۲۹ اور (۲) رحیم بخش شاہین کی تالیف Mementos of Iqbalشائع کردہ آل پاکستان اسلامک ایجوکیشنل کانفرنس، ۱۹۶۷ء ص ۶۸ تا ۷۱۔ ۳۸- ڈاکٹر وحید قریشی: کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ۔ص،۳۲۶۔ ۳۹- بحیثیت استاد زبان انگریزی۔ ۴۰- Observer ۴۱- Seekers After Good ۴۲- ڈاکٹر وحید قریشی: کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ۔ ص،۲۳۸۔ ۴۳- Dr. Haigخوب آدمی تھے۔ سواری کے لیے گھوڑا رکھ رکھا تھا۔ گھوڑے ہی پر سوار ہو کر کالج آتے۔ ۴۴- آج کل کی اصطلاہ میں صوبجاتی سول سروس PCS ۴۵- Lahore Law School ۴۶- Jurisprudence ۴۷- تفصیل کے لیے دیکھیے بی۔ اے ۔ ڈار کی کتاب Letters and Writings of Iqbal شائع کردہ اقبال اکیڈیمی کراچی صفحات ۳ تا ۳۹ ۔ سید محسن ترمذی کا مضمون New light on Iqbal's Life ۴۸- Indian Antiquary ۴۹- Doctrine of Absolute Unity as expounded by al-jalani. ۵۰- Studies in Islamic Mysticism ۵۱- Stubb's Early Plantagenets ۵۲- Epitomised translation of Walker's Political Economy. ۵۳- دیکھیے ڈاکٹر وحید قریشی: کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ۔ص،۳۲۸۔ ۵۴- مخزن ،شمار اکتوبر ۱۹۰۴ئ۔ ۵۵- یعنی خام پیداوار۔ ۵۶- ۴ (النسائ):۳۔ ۵۷- MarshallاورTaussigلیکن ان معاشئین کا دور بھی گزر چکا ہے۔ ۵۸- محمد اقبال: علم الاقتصاد نسخہ اقبال اکیڈمی کراچی، دیباچۂ مصنف ص ۲۳۔ ۵۹- محمد اقبال : علم الاقتصاد۔ نسخہ اقبال اکیڈمی کراچی۔ دیباچۂ مصنف ص ۲۴۔ ۶۰- اصطلاحاً یہ ہدیث ضعیف ہے۔ لیکن ابو سعید کے نزدیک بحوالہ الصاغانی صحیح دیکھیے: تذکرۃ الموضوعات۔ ص ، ۱۴۷۔ طبع ۳۴۲ ۱ ھ المکتبہ القیمہ، بمبئی۔ قرآن مجید کے ارشادات اس امر میں بہر حال واضح ہیں۔ ۶۱۔ علم الاقتصاد۔ ۶۲۔ ایضاً۔ ۶۳۔ صحیفہ شمارہ ۵۴، ۱۹۷۱ئ۔ص۸۵۔ ۶۴۔ دیکھیے جاوید نامہ۔ ارض ملک خدا است اور بال جبریل ۔ الارض اللہ۔ وہ خدایا یہ زمیں تیری نہیں میری نہیں تیرے آبا کی نہیں میری نہیں تیری نہیں ۶۵- بقول کسان العصر : مذہب کے واسطے نہ حکومت کے واسطے ہے جنگ اب تو صرف تجارت کے واسطے ۶۶- زمانہ کانپور، اشاعت اپریل ۱۹۰۶ء انوار اقبال مرتبہ بشیر احمد ڈار اقبال اکیڈیمی کراچی: ۶۷- دیکھیئے پس چہ باید کرد اے اقوام شرق۔ یہی عنوان ۶۸- علم الاقتصاد۔ ۶۹- بانگ درا ص ۱۲ طبع فروری ۱۹۷۳ئ۔ شیخ غلام علی۔ ۷۰- ماہنامہ نقوش ، لاہور نمبر۔ ۷۱- چینیوں کے چبوترے۔ ۷۲- Chielsea لندن میں ارباب فن، ادیبوں اورشاعروں کا مسکن جس کی فضا شہر کے دوسرے مساکن سے یکسر مختلف ہے۔ یہاں قدم قدم پر محسوس ہوتا ہے کہ ماضی کا زمانہ پھر لوٹ آیا ہے۔ چیلسی بدل گیا اور بدل رہا ہے۔ چار سو برس پہلے یہ ایک چھوٹا سا گائوں تھا۔ ۱۶ویں صدی میں سرٹامس مور نے یہاں سکونت اختیار کی، ایک مکان بنایا رفتہ رفتہ دوسرے ارباب فن نے اس کا رخ کیا۔ چیلسی کا ایک حصہ اب شہر سے ملحق ہے۔ دوسرادریا ئے ٹیمز کے کنارے کنارے پھیل گیا ہے۔ یہ حصہ بڑا خوبصورت ہے۔اب دریا ایک کشادہ سڑک کے پار ایک چمن لگا ہے جہاں گرمیوں میں میلہ سا لگا رہتا ہے۔ دیکھیے حکیم شجاع الدین کا مضمون لاہور کا چیلسی۔ ۷۳- اس سلسلے میں دیکھیے محمد عبداللہ قریشی کے مضامین اقبال مجلہ بزم اقبال لاہور میں بعنوان لاہور کے مشاعرے اور اقبال ، شمارہ اکتوبر ۱۹۵۴ء لاہور۔ ۷۴- شیخ عبدالقادر، بانگ درا میں دیکھیے دیباچہ ۔ نسخہ شیخ غلام علی ، ص۱۴، ۱۵ ؍فروری ۱۹۷۳ء ۔ ۷۵- بانگ درا: اڑا لی طوطیوں نے قمریوں نے عندلیبوں نے چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرز فغاں میری ۷۶- عبدالرؤف رافت بھوپالی ، پیسہ اخبار میں کام کرتے تھے، بھوپال چلے گئے، فوق نے حریت اسلام کی تصنیف میںمعلومات فراہم کرنا شروع کیں تواس کے پاس بھوپال پہنچے۔ بڑے صاحب علم تھیٔ ۷۷- بانگ درا : مدیر مخزن سے کوئی اقبال جا کے میرا پیام دے دے جو کام کچھ کررہی ہیں قومیں انھیں مذاق سخن نہیں ہے ۷۸- زبورعجم، گلشن راز جاوید نہ بینی خیر ازاں مردِ فرو دست کہ ہر من تہمت شعر و سخن بسنت ۷۹- شیخ عطا اللہ: اقبال نامہ ، حصہ اول، مکتوب ۵،ص۱۰۔ ۸۰- مرے گلو میں ہے ایک نغمۂ جبرئیل آشوب سنبھال کر جسے رکھا ہے لا مکاں کے لیے کہہ گئے ہیں شاعری جزو بست از پیغمبری ہاں سنا دے محفل ملت کو پیغام سروش OOO اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گویا ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا OOO تھی وہ اک درماندہ رہرو کی صدائے درد ناک جس کو آوازِ رحیلِ کارواں سمجھا تھا میں نے ۸۱- Dante: Divine Comedy ۸۲- Beatrice بیٹرس، بیاترچے ۸۳- سید نذیر نیازی ، مکتوبات اقبال۔ ص۳۲، ۳۳۔ ۸۴- محمود نظامی، ملفوظات، مرزا جلال الدین کا مضمون میرا اقبال ،ص۷۱،۷۲۔ ۸۵- مکتوب ۴۴ بنام گرامی۔ ۱۶؍مارچ ۱۹۱۹ء مکاتیب اقبال (اقبالنامہ) ،اقبال اکادمی کراچی، ص ۱۵۷۔ ۸۶- صحیفہ: اقبال نمبر، حصہ اول، ص ۹۶۔شمارہ۶۵، اکتوبر ۱۹۷۳ء ۸۷- خواجہ حسن نظامی نے اس جلسے کی تاریخ ۱۲مارچ لکھی ہے ۔ جوغلط ہے۔ دیکھیے شاہیں: اوراق گم گشتہ ، ص ۲۸،اور سید نذیر نیازی مکتوبات اقبال ، ص۹۸، ۹۹۔ ۸۸- سیدنذیر نیازی ، مکتوبات اقبال ، ص۹۹،۱۰۰۔ ۸۹- محمود نظامی ، ملفوظات ۔ سر عبدالقادر کا مضمون کیف غم۔ صفحات ۱۳تا ۱۵۔ ۹۰- ایضاً۔ص، ۱۵۔ ۹۱- نذر اقبال: مجموعہ ٔ مضامین سر عبدالقادر۔ مرتبہ حنیف شاہد، ص۸۶۔ ۹۲- ایضاً،ص۸۷۔ ۹۳۔ شیخ عطاء اللہ: اقبال نامہ، حصہ دوم ، مکتوب۱۱۷،ص۶۹۶۔ ۹۴- حکیم الامت کو لوگ ڈاکٹر صاحب ہی کہتے، علامہ، حضرت علامہ، حکیم الامت کے القاب بعد میں وضع ہوئے۔ اس دور کے لوگ تو اب بھی ڈاکٹر صاحب ہی کہہ کر ان کا ذکر کرتے ہیں۔ ۹۵- حنیف شاہد، نذر اقبال، ص ۱۴۵۔ ۹۶- روزگار فقیر: حصہ ۲، ص ۱۵۹۔ ۹۷- اس سلسلے میں دیکھیے ڈاکٹر محمود کا مضمون ، علامہ اقبال کا گوشوارہ آدمنی، جو انہوں نے انکم ٹیکس کے سلوں سے مرتب کیا۔ مجلس ترقی ادب: مجلہ صحیفہ ۔ شمارہ ۶۵۔ ماہ اکتبور ۱۹۷۳۔ ۹۸- اُردو، اقبال نمبر، اکتوبر۱۹۳۸ء ۔ سید نذیر نیازی کا مضمون علامہ اقبال کی آخری علالت۔ ص۳۳۳ ۹۹- ان بعض الظن اثم۔ ۴۹(الحجرات) : ۲ ۱۰۰- علی بخش کے لیے دیکھیئے رحیم بخش شاہیں۔ اوراق گم گشتہ۔ ص ۳۰۵ تا ۴۱۰۔ اقبال نامہ مرتبہ چراغ حسن حسرت۔ سید نذیر نیازی: اقبال کے حضور ج۔ا۔جا بجا۔ ۱۰۱- سید بشیر نسیم بھرت پوری محکمہ پولیس میں ملازم تھے۔ مخزن میں ان کی غزلیں شائع ہوتیں تشنہ بلند شہری، حافظ محمدیوسف خاں۔ مجموعۂ کلام شائع ہو چکا ہے۔ آخر عمر میں بینائی جاتی رہی۔ یہ غزل ۱۸۹۵ ء میں پڑھی گئی۔ ۱۰۲- سری نگر میں دریائے جہلم کا پہلا پل۔ ۱۰۳- اقبال: مجلہ بزم اقبال لاہور۔ محمد عبداللہ قریشی کا مضمون اقبال اور فوق۔ ۱۰۴- اقبال: مجلہ بزم اقبال لاہور۔ محمد عبداللہ قریشی کا مضمون اقبال اور فوق۔ ۱۰۵- پورے قطعہ کے لیے دیکھیے کوئی مجموعہ (غیر مطبوعہ) کلام: ہر عمل کے لیے ہے رد عمل دہر میں نوش کاجواب ہے نیش ۱۰۶- دیکھیے انوار اقبال۔ ص ۶۵۔ مکتوب مورخہ ۶ مارچ ۱۹۱۷ئ۔ ۱۰۷- ٹٹ بٹس Tit Bits۔ ۱۰۸- مخزن ، جون ۱۹۰۳ئ۔ در گلستان دہر ہمایونِ نکتہ سنج آمد مثال شبنم و چون بوئے گل امید می جست عندلیبِ خوش آہنگ سالِ فوت ’’علامہ فصیح‘‘ زہر چار سو شنید ۱۰۹- نیز رحیم بخش شاہین: اوراق گم گشتہ، ص ۳۰۷۔ ۱۱۰- سید نذیر نیازی: اقبال کے حضور۔ ج ا۔ ۱۱- سید نذیر نیازی: اقبال کے حضور۔ ج ا۔ ۱۱۲- بشیر احمد ڈار: انوا ر اقبال ، ص ۲۴۶۔ ۱۱۳- سید نذیر نیازی: اقبال کے حضور، ص ۱۷ اور مابعد۔ ۱۱۴- دیکھیے ماہنامہ نقوش لاہور نمبر۔ ۱۱۵- سید نذیر نیازی، اقبال کے حضور ،زیر طبع۔ ۱۱۶- فقیر سید وحید الدین، روز گار فقیر ، حصہ اول، ص ۹۹،۱۰۰۔ ۱۱۷- تفصیل کے لیے دیکھیئے۔ مشفق خواجہ کا مضمون ریویو، کراچی، شمارہ جولائی ۱۹۶۷ئ۔ ۱۱۸۔ دیکھیے اقبال: مجلہ بزم اقبال لاہور، اشاعت ص ۱۱۹- اقبال۔مجلہ بزم اقبال، اکتوبر ۱۹۶۷ئ۔ مرزا صاحب کا کتب خانہ ربوہ میں محفوظ ہے۔ ۱۲۰۔ اقبال کے معاصراز محمد عبداللہ قریشی،ص ۱۴۷۔ ۱۲۱- دیکھیئے اقبال۔ بزم اقبال تبصرہ براسرار خودی۔ ۱۲۲- شیخ عطا اللہ: مکاتیب اقبال حصہ اول ۔ مکتوب ۱۰، مورخہ ۴ اکتوبر ۱۹۰۲ء ۔ انہیں منشی صاحب بھی کہا جاتا۔ لفظ منشی سے غلطی فہمی نہ ہو۔ یہاں لفظ منشی اس کے حقیقی معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ منشی وہ اعزاز تھا جو اہل قلم کو بمشکل حاصل ہوتا۔ ۱۲۳- ماہنامہ نیرنگ خیال اقبال نمبر ۱۹۳۳ئ۔ ۱۲۴- شیخ عطاء اللہ : اقبال نامہ۔ حصہ اول مکتوب ا میں اُردو فارسی دونوں قطعات موجود ہیں ۔ ص ۲۳ ۱۲۵- بشیر حسین نہیں ، بشیر حید ر۔ اقبالنامہ میں غلطی سے بشیر حسین چھپ گیا۔ بعض اوقات ناموں کے بارے میں غلطی ہوجاتی۔ مثلاً ایک خط میں ڈاکٹر ذاکر حسین خان کو سید ذاکر حسین لکھا ہے۔ دیکھیے مکتوبات اقبال از سید نذیر نیازی۔ اقبال اکیڈیمی کراچی۔ ۱۲۶- جو فریاد امت کے نام سے انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسہ ۱۹۰۳ء میں پڑھی گئی۔ ۱۲۷- محمد صادق علی خاں بڑے خوشو شاعر تھے، نور الدین عنبر بھی۔ یوں کشمیر میں اُردو شاعروں کا ایک حلقہ ناظر کی سر پرستی میں قائم ہو گیا۔ خان صاحب اس حلقے کے روح و رواں تھے۔ شعراً کی تربیت کرتے۔ شگفتہ دلی کا یہ عالم کہ اس ادبی حلقے کا نام انجمن مفرح القلوب رکھا۔ آگے چل کر عنبر کے بھانجے میر خورشید احمد مرحوم نے جن کی معیت میں مجھے اس انجمن میں اکثر شرکت کا موقعہ ملا اور جن کے نام محمد اقبال کے متعدد خطوط شیخ عطا اللہ نے اقبال نامہ میں جمع کر دیئے ہیں اس حلقے کی سر گرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بقول شیخ عطاء اللہ ۔ دیکھیے اقبال نامہ مکتوب جس کا مطلع ہے: ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی اور اس کے بعد ’’بلبل کی فریاد ‘‘ ص ، ۲۲۔ ۱۲۸- دی مکتوب ۱۲۹- ایضاً ۔ مکتوب ۳ اور ۴ اکتوبر ۱۹۱۵ئ۔ ۱۳۰- میں ان معلومات کے لیے خاں صاحب کی صاحبزادی بیگم ڈی حسین کا ممنو ن ہوں۔ ۱۳۱۔ عبداللہ قریشی : معاصرین اقبال کی نظر میں۔ ص ، ۲۴۶۔ ۱۳۲۔ مورخہ ۲۳ صفحہ ۱۳۵۷ ھ ۔ ایک دوسرے مکتوب میں جو نومبر ۱۹۷۷ء میں انہوں نے مجھے لکھا فرماتے ہیں: وفات کی خبر آنے سے ایک دن قبل علامہ صاحب نے فرمایا خُدا خیر کرے۔ اندازہ کیجیے مولانا ابو الخیر اور مولانا عمادی کی حکیم الامت سے عقیدت کا۔ ۱۳۳- دیکھیئے مکاتب گرامی شائع کردہ اقبال اکیڈیمی کراچی۔ ۱۳۴- محمد عبداللہ قریشی: معاصرین اقبال کی نظر میں ،ص۹۴تا ۱۰۰۔ ۱۳۵- مکاتیب گرامی شائع کردہ اقبا ل اکیڈیمی۔ ۱۳۶- مکاتیب اقبال بنام نیاز الدین خان، مکتوب مورخہ ۱۴ اکتوبر ۱۹۱۹ئ۔ ۱۳۷- شیخ عطاء اللہ و اقبالنامہ ، مکاتیب اقبال۔ ۱۳۸- مکاتیب گرامی، اقبال اکادمی کراچی، ۱۹۶۹ئ۔ ۱۳۹- ایضاً۔ ۱۴۰- سوامی جی کے لیے دیکھیے ماہنامہ فنون جولائی اگست ۱۹۷۵ء میں ڈاکٹر عاشق بٹالوی کا مضمون باضافہ محمد عبداللہ قریشی، مع کتابیات۔ ۱۴۱- تجھے ایک ہی لف کا ہے۔ ۱۴۲- سید نذیر نیازی: اقبال کے حضور ۔ زیر طبع۔ ۱۴۳- سید نذیر نیازی: اقبال کے حضور۔ زیر طبع ۱۴۴- Young Men Indian Association ۱۴۵- رحیم بخش شاہین: اوراق گم گشتہ علامہ اقبال کے ترانے کی شان نزول ۔ ص ۔ ۳۱۸۔ ۱۴۶- انوار اقبال مکتوب بنام فوق۔ ۱۴۷- سید نذیر نیازی مکتوبات اقبال۔ ۱۴۸۔ Harper Nelsonشہزادی بامبادلیپ سنگھ کے شوہر۔ ۱۴۹۔ محمود نظامی ، ملفوظات اقبال ۔ طبع ثانی ، ۱۹۴۹ئ، ص ۱۰۸۔ ۱۵۰۔ محمود نظامی، ملفوظات اقبال۔ طبع ثانی۔مرزا جلال الدین کا مضمون :میرا اقبال،ص۶۸۔ ۱۵۱۔ ایضاً،ص ۸۷۔ ۱۵۲۔ ایضاً، ص ۹۲۔ ۱۵۳۔ اقبال: بزم اقبال لاہور۔شمارہ اکتوبر ۱۹۵۷ء ۱۵۴۔ میر نیرنگ کا مضمون : اقبال کے بعض حالات۔ ص ۱۵، اقبال مجلہ، بزم اقبال، اکتوبر۱۹۵۷ئ۔ ۱۵۵۔ ایضاً۔ ۱۵۶۔ ایضاً۔ ۱۵۷۔ صحیفہ۔ شمارہ ۶۵۔اکتوبر ۱۹۷۳ء محمد عبداللہ چغتائی کا مضمون ، لاہورم یں علامہ اقبال کی قیام گاہی، ص ۵۳۔ ۱۵۸۔ Gandhi-Irwani Pact ۱۵۹۔ There is many a slip between the cup and the lip ۱۶۰۔ شاکر صدیقی نے ماہنامہ ماحول ، روالپنڈی میں’’ نیاز قلند ر‘‘ کے عنوان سے شیخ صاحب کی محمد اقبال سے خط و کتابت کا ذکرکیا ہے۔ شیخ صاحب کو محمد اقبال سے بڑی عقیدت تھی۔ اپنی شاعری کو ان کے فیض سے تعبیر کرتے۔ دیکھیے ماہنامہ فنون: اقبال نمبر، اشاعت ۱۹۷۷ئ۔ارشد میر کا مضمون اقبال کے ایک قریبی دوستی۔ ۱۶۱- Easy Chair Study ۱۶۲- شیخ عطاء اللہ۔ اقبالنامہ ۔ مقدمہ۔ ص ۔ک ۱۶۳- ایضاً۔ مکتوب بے تاریخ۔ بھاٹی دروازے سے لکھا گیا۔ ص ۹۔ ۱۶۴- اقبال مجلہ بزم اقبال۔ نومبر ۱۹۵۷ء اقبال کے بعض حالات۔ ۱۶۵- یہ ہندوستان کے اندر ایک اور ہندوستان ، کا اشارہ اودھ یا دہلی کی طرف ہے جسے پورے ہندوستان کا سیاسی ، ثقافتی مرکز کہنا چاہیے۔ ۱۶۶- پنڈت جی کا محمد اقبال اعجاز عشق کی تفریظ میں ذکر کر چکے تھے۔ لکھا تھا ہمارے ایک کرم فرما جالندھر میں ہیں۔ ۱۶۷- شیخ عطا اللہ : اقبال نامہ حصہ دوم۔ صفحات ۳۰۰ تا ۳۰۷۔ ۱۶۸- عبداللہ قریشی: معاصرین اقبال کی نظر میں ص ۴۰۳۔ ۱۶۹- عبداللہ قریشی۔ معاصرین اقبال کی نظرمیں ۔ ص ۴۰۴۔ ۱۷۰- ایضاً ۔ ص ۴۰۵۔ ۱۷۱- عبداللہ قریشی: معاصرین اقبال کی نظر میں۔ ص ۴۰۷۔ ۱۷۲- ایضاً ۔ ص ۔ ۴۰۹۔ ۱۷۳- ایضاً۔ ص ب۔ ۴۱۔ ۱۷۴- ایضاً۔ ص ۔ ۴۰۹۔ ۱۷۵- ایضاً۔ ص ۴۱۱۔ ۱۷۶- دیکھیئے اکبری اقبال کا دیباچہ۔ ۱۷۷- عبداللہ قریشی: معاصرین اقبال کی نظر میں ، ص ۴۱۱ تا ۴۱۵۔ ماہنامہ نظام الشائخ ، دہلی ، رسول نمبر، ۱۳۳ ھ ، جنوری، فروری ۱۹۱۵ء ، خواجہ صاحب نے خطابات کی ایک طویل فہرست شائع کی۔ محمد اقبال کے علاوہ سرعلی امام، حکیم اجمل خاں، مولانا شوکت علی اور میر نیرنگ کو بھی کسی نہ کسی خطاب سے نوازا۔ ماہنامہ صوفی منڈی بہائوالدین ، شمار اپریل ۱۹۱۵ء میں ایک صاحب نامی گوہسواری نے ’’سرالوصال‘ ‘ کو ایک قطعے میں نظم کیا۔ مرحبا شاعرِ شکر سخن و شیریں مقال، جذا شاعرِ ہند شیخ محمد اقبال شہر آفاق ہے اسلام کا یہ جوشیلا واہ صد واہ کہیں کیوں نہ اسے سرِوصال ’جندا شاعر ہند‘ یہ مصرع محل نظر ہے۔ شاید طباعت میں کوئی غلطی رہ گئی ہو۔ ۱۷۸- شاہین: اوراق گم گشتہ ص ۲۸،۲۹۔ ۱۷۹- ایضاً۔ ۱۸۰- محمد عبداللہ قریشی: معاصرین اقبال کی نظر میں،ص ۴۳۷۔ ۱۸۱- ایضا ص ۴۳۸۔ ۱۸۲- ایضاً ، ص ۴۴۰۔ ۱۸۳- خواجہ صاحب اس قسم کی ’تحقیقات اور اختراعات‘ کے بادشاہ تھے۔ تحریکوں پر تحریکیں چلاتے۔ ہندی اسلامی سیاست میں ان کا کردار ایک نہایت دلچسپ موضوع ہے۔ ۱۸۴- ادبی دنیا، مئی ۱۹۶۵ء ص ۹ تا ۱۱۔ ۱۸۵- محمد عبداللہ قریشی: معاصرین اقبال کی نظر میں۔ ص ۴۴۵ بحوالہ منادی، فروری ۱۹۳۶ئ۔ ۱۸۶- عبداللہ قریشی : معاصرین اقبال کی نظر میں ص ۲۲ تا ۲۵۔ ۱۸۷- جیسا کہ حکیم احمد شجاع نے لکھا ہے۔ ۱۸۸- ماہنامہ نقوش، لاہور نمبر۔ حکیم احمد شجاع کا مضمون لاہور کا چیلسی۔ ۱۸۹- رحیم بخش شاہین۔ اوراق گم گشتہ ص ۶۷۔ ۱۹۰- تاریخ میں اختلاف ہے لیکن فیصلہ ۱۹۰۰ء کے حق میں ہے۔ ۱۹۱- دیکھیے اقبال اور انجمن حمایت اسلام، تالیف حنیف شاہد۔انجمن کی روائیدادوں پر مشتمل، طبع جولائی ۱۹۷۶ئ۔ ۱۹۲- جیسا کہ اس نظم کے ایک شعر میں کہا ہے۔ حشر میں ابر شفاعت کا گہر برا آیا دیکھ اے جنس عمل تیرا خریدار آیا ۱۹۳- بفحوائے۔ با خدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار ۱۹۴- محمود نظامی ،ملفوظات ، ص۱۲۔ ۱۹۵- حنیف شاہد ، اقبال اورانجمن حمایت اسلام، ص ۸۳۔ ۱۹۶- محمود نظامی:ملفوظات، میرا قبال ، ص۶۶۔۷۰۔ ۱۹۷- فقیر سید وحید الدین کادعویٰ ہے (روزگار فقیرحصہ اول ص ۶۹،۷۰) کہ یہ قطعہ اس سے پہلے کہیں شائع نہیں ہوا۔ فقیر صاحب مرحوم کا یہ دعویٰ غلط ہے۔ ماہنامہ صوفی منڈی بہائو الدین شمارہ ۱۹۱۲ء میں یہ قطعہ شائع ہو چکا ہے۔ آخری شعر کا پہلا مصرع یوں ہے: من کہ شمع ِعشق را در بزم دل افروختم بجائے بزم جاں کے روزگار فقیر میں چھپا۔ ۱۹۸- اخبار میں لکھتا ہے لندن کا پادری ہم کو نہیں ہے مذہب اسلام سے عناد لیکن وہ ظلم ننگ ہے تہذیب کے لیے کرتے میں ارمنوں پہ جو ترکانِ بد بہاد مسلم بھی ہوں حمایتِ حق میں ہمارے ساتھ مٹ جائے تا جہاں سے بنائے شر و فساد سُن کے یہ بات خوب کہی شہنواز نے بلی چوہے کو دیتی ہے پیغام اتحاد نظموں کے علاوہ محمد اقبال نے انجمن کے سالانہ جلسوں میں تقریریں بھی کیں، مقالات بھی پڑھے، لیکچر بھی دیئے جن میں بعض کا مفاد ان کے خطبات میں موجود ہے۔ ۱۹۹- جیسا کہ نام سے ظاہر ہوتا ہے، مخزن کانام شیخ صاحب کو شاید انگریزی لفظ ’’میگزین ‘‘ سے سوجھا اس لیے کہ انگلستان سے علمی ادبی’’میگزین ‘‘ شائع ہو رہے تھے، گو میگزین، بجائے خود لفظ مخزن کی انگریزی شکل ہے۔ ۲۰۰- سیالکوٹ میں محمد اقبال کے دوست اور سید محمد تقی کے قریبی عزیز، ان کا ذکر پہلے آ چکا ہے۔ ۲۰۱- سید بشیر حیدر بھی ان کا کلام جمع کرتے، سید محمد تقی بھی۔ ۲۰۲- بانگ درا، دیباچہ۔ ۲۰۳- میر نیرنگ۔ ۲۰۴- یہ نظم نایاب ہے۔ ۲۰۵- حنیف شاہد: نذر اقبال ۲۰۶- ایضاً۔ ۲۰۷- ایضاً۔ جسے مؤلف نے غلطی سے وہ لیکچر سمجھ لیا جس کا مولانا ظفر علی خاں نے ’ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘ کے عنوان سے اُردو میں ترجمہ کیا ۔ ۲۰۸- مخزن دسمبر ۱۹۰۸ء عبدالقادر کا تعارفی شندرہ۔؎ ۲۰۹- محمود نظامی: ملفوظات، شیخ عبدالقادر کا مضمون ’کیف غم‘ ص ۱۶۔ ۲۱۰- حنیف شاہد: نذر اقبال، عبدالقادر کا مضمون و شاعر مشرق سے میری آخری ملاقات، ص ۹۰ تا ۹۴۔ ۲۱۱- ۱۸ اشعار پر مشتمل یہ غزل روز گار فقیر میں موجود ہے ۔ حصہ دوم ص ۲۵۰۔ مگر تعجب ہے’پائے ساقی پر گرایا…یہ شعر درج ہونے سے کیسے رہ گیا۔ یہ غزل بھی ظاہر ہے ۱۸۹۵ء سے پہلے لکھی گئی۔ نظم طویل ہے۔ میر صاحب کا اس پر تبصرہ بھی طویل۔ انھوں نے اہل پنجاب کے بارے میں اپنی رائے بدل لی۔ ’’معلوم ہو گیا، ذوق سخن کا اجارہ کسی خط زمین کو نہیں دیا گیا…اقبال کا تو میں قائل ہی ہو گیا ۔ بندسوں کی ایسی چستی، کلام کی ایسی روانی، مضامین کی شوخی…‘‘۔ ۲۱۲۔ قاضی افضل حق: باقیات اقبال، ماہنامہ اُردو ،شمارہ ۳ ، کراچی: ۱۹۶۹ئ۔ ۲۱۳۔ ایک وہ شعر جس میں محمد اقبال نے نسیم اور تشنہ کی طرح داعی کی شاگردی پر اظہار فخر کیا ہے۔ دوسری جس پر مرزا ارشد نے انھیں گلے لگا لیا۔ تیسری بازار حکیماں کے مشاعرے میں پہلی بار شرکت کے موقعہ پر آپ کہتے ہیں سخنور ہی سہی‘‘۔ والی غزل۔ ۲۱۴- بانگ درا، دیباچہ ،ص ۱۶۔ ۲۱۵- نیرا عظم، مراد آباد۔ اگست ۱۹۰۶ء میں پورا واقعہ بتفصیل مذکور ہے۔ راقم الحروف کو یہ تفصیل نہیں مل سکی۔ نیراعظم کا یہ پرچہ پاکستان تو کیا بھارت میں بھی شاید بمشکل دستیاب ہو۔ ۲۱۶- تعجب ہے عطیہ بیگم ۱۹۰۷ء تک مخزن کی اشاعت سے بے خبر تھیں۔ ۲۱۷- عطیہ بیگم: اقبال، انگریزی نسخہ، مطبوعہ اکیڈمی آف اسلام بمبئی۔ ۲۱۸- یہ کتاب ۲۴۔۱۹۲۳ء میں میری نظر سے گزری۔ کتب خانہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اب ڈاکٹر ذاکرحسین لائبریری جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں محفوظ ہے۔ مصنف کا نام یاد نہیں رہا۔ ۲۱۹- حتیٰ کہ بانگ درا میں بھی شامل کی گئی تو کسی قدر تبدیلی کے ساتھ۔ ۲۲۰- خان صاحب کا میںاور بھی بہت سی معلومات کے لیے ممنون ہوں۔ ۲۲۱- Tennyson, Longfellow Emeson ۲۲۲- پیام مشترق: اے برادر من ترا از زندگی دار نشاں خواب را مرگِ سبک داں مرگ را خوبِ گراں ۲۲۳- William Jonesمشہور مستشر۔ سنسکرت اور قدیم ہندوستان کے مطالعے میں ان کی خدمات بڑی وقیع ہیں۔ ۲۲۴- ۲۴ (النور) ۳۵۔ ۲۲۵- رع بمعنی قرص آفتاب۔ رع کے پیروئوں کا ۔ یوں رع اور ’’سوتر‘‘ میں ایک رشتہ پیدا ہو جاتا ہے۔ یونانی، ہندو اور مصری مذاہب کے مطالعے میں غور طلب۔ ۲۲۶- پیروان زرتشت کا۔ ۲۲۷- JepsonیاJephson۱۸ ویں ۱۹ ویں صدی کا ادیب ، ڈراما نویس اور تنقید نگار۔ یا Chapman۱۹ویں صدی کا طالبع اور ناشر۔ ۲۲۸- مخزن ۱۹۰۴ئ۔ ۲۲۹- نگاہ عاشق کی دیکھ لیتی ہے پردۂ میم کو اٹھا کر وہ بزم یثرب میں آ کے بیٹھیں ہزار منہ کو چھپا چھپا کر ۲۳۰- مخزن جنوری،۱۹۰۲ئ۔ ۲۳۱- بحمد اللہ کہ اب مرزا کی وہ حالت نہیں جو محمد اقبال اپنی آنکھوں سے دیکھ آئے تھے اور جو شاید ۶۰/۱۹۵۰ء تک قائم رہی۔ حکومت ہند کی توجہ اور ہمدرد فائونڈیشن کی کوششوں سے مرزا از سر نو تعمیر ہوا۔ عمارت شاندار ہے، غآلب کے بارے میں ایک کتب خانے پر مشتمل۔ ۲۳۲۔ تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ۔ طبع آکسفورڈ، ۱۹۳۴ء خطبہ پنجم۔ ص، ۷۳۔۱۷۲۔ The great sufi philosopher Muhyuddin Ibnul Arabi of Spain has made the observatio that God is a percept, the world is a concept. ۲۳۳- Sir Mcworth Younge ۲۳۴- W. Bellپرنسپل گورنمنٹ کالج لاہور۔ محمد اقبال کے قدر شناس۔ ۲۳۵- مخزن، شمارہ نومبر،۱۹۰۳ئ۔ ۲۳۶- تفصیل کے لیے دیکھیئے ماہنامہ جامعہ نئی دہلی، ۷ جون، ۱۹۶۱ء ۔ اپریل ۱۹۶۱ء میں سید عابد رضا بیدار نے ماہنامہ جامعہ ، نئی دہلی میں اقبال پر چکبست کی ایک تنقید کے عنوان سے رسالہ اُردو ئے معلیٰ علی گڑھ، اشاعت اپریل، ۱۹۰۴ء میں نواب جعفر علی خاں اثر کا مضمون جو انھوں نے چکبست کے جواب میں لکھا تھا شائع کر دیا ہے۔ یہ مضمون آئینہ اقبال مرتبہ عبداللہ قریشی میں محفوظ ہے۔ عابد رضا (ڈاکٹر عابد رضا)بیدار آج کل کتب خانۂ خدا بخش بانکی پور کے ڈائرکٹر ہیں۔ ۲۳۷- آئینہ اقبال مرتبہ عبداللہ قریشی میں نصرت قریشی کا مضمون’اقبال کے قصائد، ص ۱۵۵۔ ۲۳۸- مکتوب بنام خان صاحب منسی سراج الدین خاں۔ ۲۳۹- جیسا کہ گاندھی جی بہ تعجب کہا کرتے تھے کہ ہندی مسلمان جب بیشتر ہندی الاصل ہیں تو محض تبدیل مذہب کی بنا پر ان کی قومیت کیسے بدل سکتی ہے۔ ۲۴۰- بفہوائے ارشاد باری تعالیٰ شعوب و قبائل کا امتیاز تعارف کے لیے ہے۔ ۲۴۱- مخزن ۔ جون ۱۹۱۰۰ئ۔ ۲۴۲- مجلس ترقی ادب: صحیفہ، اقبال نمبر، حصہ اول شمارہ ۶۵ اکتوبر ۱۹۷۳ء ۔ قاضی افضل حق کا مضمون تادرات اقبال ص ۲۱۱ تا ۲۱۴۔ اُردو انگریزی سردق کی نقل کا لاصل کے ساتھ انگریزی ترجمے کا عنوان ہے Tears of BloodدسStanzasپر مشتمل۔ اُردو عنوان کے نیچے لکھا ہے۔ ترکیب بند جو حضور ملکہ معظمہ محترمہ کے انتقال پر ملال پر مسلمانان لاہور کے ایک ماتمی جلسے میں پرھا گیا از خاکسار اقبال۔ ۲۴۳۔ اور جس میں ہندوستان تاجدار برطانیہ سے یوں خطاب کرتا ہے۔ اے تاجدارِ خطۂ جنت نشانِ ہند روشن تجلیوں سے تری خادرانِ ہند پوری نظم نہایت زور دار ہے۔ فنی اعتبار سے بہت خوب۔ ۲۴۴- اس وقت بقول اکبر ایک ہی راستہ تھا: پابند اگرچہ اپنی خواہش کے رہو لائل سبجکٹ تم برٹش کے رہو قانون سے فائدہ اٹھانا ہے اگر حامی نہ کسی خراب سازش کے رہو داد دیجیے حضرت لسان العصر کی سیاسی بصیرت کی، لفظ خواہش قابل غور ہے۔ ۲۴۵- اس زمانے کی اصطلاح میں’انگریزی خیالات ‘ کا۔ دیکھیے مثلاً مخزن ص۱۹۰ء عبدالقادر کا تمہیدی شندرہ ، ہمالیہ پر۔ ۲۴۶- Iqbal: Stray Reflections. زمانہ طالب علمی میں محمد اقبال کو دردو ورتھ بہت پسند تھا جیسے ٹینی سن، لیکن یہاں قابل لحاظ یہ امر ہے کہ باوجود اس دلچسپی یا اس خوش گوار اثر کے جو انھوں نے ان سے قبول کیا ان شعرا کو غالب اور بیدل کی طرح ان کے شعر و فلسفہ میں مستقلاً کوئی جگہ نہیں ملی۔ صرف ان کی یاد باقی رہ گئی۔ چنانچہ پیام مشرق میں انھوں نے شعرا کی جو محفل قائم کی ہے اس میں ٹینی سن موجود ہے نہ ورڈز ورتھ۔ وہ اپنے افکار اور تصورات کی دنیا میں بہت آگے نکل چکے تھے۔ پھر یہ دہریت بھی ایک گزرتا ہوا فلسفیانہ لمحہ تھا جس کا تعلق فکر سے تو ہے ایمان و یقین سے نہیں۔ ۲۴۷- ابو میاں، سید بشیر حیدر، سید محمد تقی اور شاید شیخ گلاب دین یا مولوی احمد دین بھی۔ ۲۴۸- بانگِ درا، دیباچہ، ص ۱۴، نسخۂ غلام علی۔ لیکن شیخ صاحب نے شاید مود کوئی بیاض مرتب نہیں کی۔ ۲۴۹- مخزن، جنوری، ۱۹۰۴ء باقیات اقبال، ص ۱۹۶۔ یہ تین شعر کیا چک Czcchشاعر ڈائیک (Dykeم۔۱۸۷۷ئ) کے ہیں۔ ۲۵۰- سید نذیر نیازی ، اقبال کے حضور، انجمن ترقی ادب۔ اقبال نمبر ۱۹۳۸ء ، علامہ اقبال کی آخری علالت۔ ۲۵۱- محمود نظامی، ملفوظات، ص ۶۹۔ ۲۵۲- ۱۹۱۹ء میں جب کانگرس، لیگ اور مجلس خلافت کے اجلاس ایک ساتھ منعقد ہو رہے تھے۔ جلسے کا اشارہ لیگ کے اجلاس کی طر ف ہے۔ ۲۵۳۔ راقم الحروف نے یہ نظم لیگ کے اجلاس میں خود ان کی زبان سے سُنی۔ مجمع ہمہ تن گوش تھا۔ جلسے کی صدارت مسیح الملک بہادر حکیم اجمل نے فرمائی۔ دائیں بائیں مولانا محمد علی، مولانا شوکت علی بیٹھے تھے۔ پاس ہیمولانا عبدالباری فرنگی محلی، مولانا حسرت موبانی، ڈاکٹر انصاری، آزاد سبحانی اور دوسرے زعمائے لیگ۔مولانا ابوالکلام قید و بند میں تھے۔ جونہی حکیم صاحب نے اعلان کیا ڈاکٹر اقبال نظر بند ان اسلام کو خیر مقدم کہنے آئے ہں مجمع بے قابو ہو گیا۔ ہر کسی کو اشتیاق کہ نظم کیا ہو گی۔نظم پڑھی گئی۔ وہی لحن، دہی سوز، دہی دل کش آواز جس کا عبدالقادر نے ذکر کیا ہے۔ ساری محفل پر ایک وجدآفریں کیفیت طای تھی۔ مولانا محمد علی اٹھے ان سے لپٹ گئے، پھر مولانا شوکت علی۔ ۲۵۴- محمود نظامی، ملفوظات، مرزا جلال الدین کا مضمون، میرا قبال ، ص۱۷۔ ۲۵۵- مخزن اشاعت مئی ۱۹۰۳ء ،نوازش علی خان شاہد، ہائی کورٹ میں بعیدہ ترجمی ملازم تھے۔ ۲۵۶- تفصیل کے لیے دیکھیے مخزن اکتوبر ۱۹۰۲ئ۔ ۲۵۷- مخزن، اکتوبر ۱۹۰۲ئ۔ ۲۵۸- شیخ عطا اللہ: مکاتیب حصہ اول۔ مکتوب ۲۱ ص ، ۵۶ بنام سردار عبدالرب نشتر۔ ۲۵۹- اقبال، مجلہ بزم اقبال،لاہور ۱۹۷۶ئ۔ ۲۶۰- شیخ عطا اللہ :مکاتیب حصہ دوم۔ ص ۴۹۰ مکتوب۔ ۳۶ بنام مولوی عبدالحق۔ ص ۸۵۔ ۲۶۱- ماہ نو اقبال نمبر ۱۹۷۷ء میں ان کا مضمون ایک جوئے کہتان۔مون رواں، ڈاکٹر عابد رضا بیدار اب خدا بخش لائبریری بانکی پور( بہار) کے ڈائریکٹر ہیں۔ ۲۶۲- شاہین: اوراق گم گشتہ۔ ص ۱۲۔۴۱۱۔ ۲۶۳- ایضاً۔ ص ۱۱۳۔۴۱۴۔ ۲۶۴- برسوں گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی کے پروفیسر رہے۔ مشرقی اور مغربی ادب، تاریخ اور مذہب میں فاضرانہ دستگاہ رکھتے۔ خواب ہستی اور یاسمین کے مصنف ۔دہلوی ، دہلی میں انتقال فرمایا فرمایا کاش مذہب اور باطنی تعلیم کے عنوان سے انھوں نے جو ضیخم کتاب بڑی محنت اور کاوس سے لکھی پھر سے شائع ہو جائے۔ ۲۶۵- تا تو بیدار شوی نالہ کشیدم ورنہ عشق کاریست کہ بے آہ و فغان سبز کنبد ۲۶۶- ماہ نو۔ اقال نمبر ۱۹۷۷ء ، ص ۲۰۹۔ عزیز احمد کے نزدیک محمد اقبال کے متبعین کو یا آگے چل کر اُردو ادب میں جو نئی تحریکیں پیدا ہوئی انھیں ’’اقبال کی شاعری کے بے پناہ تموج ، اس کی وسعت، اس کی حرکت اور تلاطم سے کوئی نسبت نہیں۔ یہ بات عزیز احمد نے جوش کے بارے میں کہی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں وہ اس کا اطلاق سب پر کر رہے ہیں۔ ۲۶۷- حینف شاہد: نذیر اقبال، ص ۱۳۴، ۱۳۹، ۱۴۰ غالباً معترض زیادہ بہ نسبت مداح ہے۔ ۲۶۸- لمحہ؟ ۲۶۹- مخزن۔ نومبر،۱۹۰۳ئ۔ ۲۷۰- مخزن۔ اگست، ۱۹۰۶ئ۔ ۲۷۱- مخزن۔ مئی،۱۹۰۴ئ۔ ۲۷۲- اس سلسلے میں ان مضامین، مقالات اور تصنیفات کا مطالعہ خالی از دلچسپی نہ ہو گا جو بھارت میں شائع ہو رہی ہیں۔ مثلاً ایک کتاب مسٹر چوپڑا کی ہے جس کا صرف تبصرہ نظر سے گزرا۔ جگن ناتھ آزاد اور دوسرے اہل قلم نے بھی اس موضوع میں متعدد مضامین لکھے ہیں۔ اس خیال سے اتفاق نہیں کیا کہ محمد اقبال ابتدا میں وطنیت کے قائل تھے۔ تاثیر بہت پہلے اس موضوع پر قلم اٹھا چکے تھے۔ ۲۷۳- مثلاً آریا سماج اور اس قسم کی دوسری جماعتیں جو مسلمانوں کو ہندوستان میں ایک جزو غیر تصور کرتی تھیں جب ہی تو مولانا شرر مرحوم نے پنکم چندر چیٹر جی کے ناول درگیش نندی کا ترجمہ اُردو میں کیا تا کہ مسلمان اس قسم کے خیالات سے بے خبر نہ رہیں۔ شاید اس لیے بددل ہو کر انھوں نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ بہتر ہو گا ہندوستان کو ہندو اور اسلام دو خطوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ ۲۷۴- عبدالقادر ،نذر اقبال، مرتبہ حنیف شامد، ص ۸۲۔ میں لکھ چکا ہوں بحوالہ شاہین، اوراق گم گشتہ اور یہ شاید ٹھیک بھی ہے کہ اول اول یہ ترانہ ایک’نیشنل ‘ جلے ہی میں پڑھا گیا۔ ہردیال کی قائم کردہ۔Young men Indian associationمیں بھارت کا قومی ترانہ بندے ماترم ‘ ہے۔ لیکن ترانہ ہندی اب بھی کسی نہ کسی تقریب میں پڑھا جاتا ہے۔ اس کی دُھن بڑی وجد انگیز ہے۔ ۲۷۵- Nationalismاور Communalist ایسے الفاظ میں صرف ہندی اسلامی ریاست میں ان کی تاریخی حیثیت کے پیش نظر استعمال کررہا ہوں۔ ۲۷۶- میری رائے میں قوم کے لیے قوم کا لفظ واضح طور پرانھوں نے صرف اسی نظم میں استعمال کیا ۔ ۲۷۷- شکوہ ہند۔ ۲۷۸- سید نذیر نیازی،اقبال کے حضور، زیر ترتیب۔ ۲۷۹- مخزن، ۱۹۰۴ء ۔ قومی زندگی کے زیر عنوان یہ مضمون مقالات اقبال مرثیہ عبدالواحد معینی میں مل جائے گا۔ دیکھیے صفحات ۴۴، ۵۴ اور جا بجا۔ ۲۸۰- عطیہ بیگم: اقبال۔ اس ڈائری کا کوئی نسخہ ۔ انگریزی ، اُردو۔ ۲۸۱- یہ نظم مخزن میں شائع ہوئی۔ حواشی کے ساتھ۔ قارئین اس باب میں مخزن سے رجو ع کریں۔ ۲۸۲- عبدالواحد معینی: مقالات اقبال، ص ۵۴۔ ۲۸۳- سید نذیر نیازی، مکتوبات اقبال، ص۔ ۲۸۴- سید نذیر نیازی: اقبال کے حضور، زیر ترتیب۔ ۲۸۵- Don't Proceed to Deva ۲۸۶- سید نذیر نیازی، اقبال کے حضور، زیر ترتیب۔ ۲۸۷- انوار اقبال، طبع اول، ۱۹۶۷ئ، اقبال اکادمی کراچی، ص ۱۷۸۔ ۲۸۸- وکیل، امرتسر، ۱۵ جنوری ۱۹۱۶ء ، بحوالہ اقبال، مجلہ بزم اقبال،لاہور، اکتوبر۱۹۵۴ء ص ۹۳۔ ۲۸۹- سید نذیر نیازی: مکتوبات اقبال، ص ۱۴۔ ۲۹۰- اسرار خودی: کشتہ انداز ملا جا میم نظم و نثر او علاج ۲۹۱- عطیہ بیگم: اقبال۔ ان کی ڈائری کا کوئی نسخہ، انگریزی ،اُردو۔ ۲۹۲- دیکھیے اس سلسلے میں دیوان غالب، نسخہ حمدیہ، اشاعت اول جس کا مقدمہ ڈاکٹر بجنوری مرحوم نے لکھا۔ لیکن بجنوری مرحوم نے جب غالب کے ایک شعر پر اظہار رائے کرتے ہوئے یہ کہا کہ غالب ہالینڈ کے وجودی فلسفہ اشپنیوزا کا ہم خیال ہے تو مفتی انوار الحق مرحوم (اس زمانے میں معتد تعلیمات بھوپال) نے وحدۃ الوجود کی مختلف بغیروں کے پیش نظر جن کا سلسلہ الحاد و زندقہ سے جاملتا ہے ، حتیٰ کہ دہریت سے ایک طویل مضمون وحدۃ الوجود کی اسلامی شکل پر لکھاتا کہ یہ غلط فہمی کہ وحدۃ الوجود کی تعلیم کسی رنگ میں اسلام کے خلاف دور ہو جائے یہ مضمون بطور دیباچے کے اس نسخے میں موجد ہے۔ مفتی صاحب نے اس موضوع پر اس لیے قلم اٹھایا کہ منطق کی رو سے دو ہی نتیجے ہیں جو وحدۃ الوجود سے مترتب ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہم فطرت الہٰیہ میں ضم کر دیں یا ذات الہٰیہ کو فطر ت میں اور دونوں ازردئے اسلام غلط۔ ۲۹۳- فرانسیسی مستشرق لاندوLandauکے نزدیک ابن عربی وجودی نہیں تھے۔ کچھ ایسا ہی خیال مشہور ترکی شاعر ضیا کا ہے۔ ضیاکے لیے دیکھیے Ziya Gokalpاز نیازیBerkesیہ کتاب RCDنے شائع کی۔ ۲۹۴- مکیش اکبر آبادی: نقد اقبال میں یہ بحث۔ ۲۹۵- تشکیل جدید الہیات اسلامیہ۔ دوسرا خطبہ ۔ آخری دو صفحات۔ ۲۹۶- دیکھیے مفتی انوار الحق کا مضمون دیوان غالب نسخہ حمیدیہ ہیں۔ ۲۹۷- رومی: زاد دانش مند آثار قلم زاد صوفی چیست آثار قدم ہم چو صیادے سوئے اشکار شد گام آہو دید و بر آثار شد ۲۹۸۔ دیکھیے پروفیسر کی کتابThe Idea of Pesonality in Islamپروفیسر نکلسن مثنوی معنوی کے مترجم کا کہنا ہے میں بھی ایک زمانے میں رومی کو وجودی سمجھتا رہا۔ ۲۹۹۔ بزم اقبال: مکاتیب اقبال بنام نیاز محمد خان ۳۰۰۔ عبدالواحد معینی: مقالات اقبال، ص ۴۴۔