بسم اللّہ الرحمن الرحیم اقبالیاتِ نذیر نیازی ء علامہ اقبال کے فکر و فن پر سیّد نذیر نیازی کے مضامین ء اقبالیاتِ نذیر نیازی مرتب: ڈاکٹر عبداللہ شاہ ہاشمی اقبال اکادمی پاکستان جملہ حقوق محفوظ ہیں ناشر: ناظم اقبال اکادمی پاکستان چھٹی منزل ، ایوان اقبال ، لاہور Tel: [+92-42] 6314-510,9203573 Fax: [+92-42] 631-4496 Email: iqbalacd@lhr.comsats.net.pk Website: www.allmaiqbal.com ISBN 969-416-029-4 طبع اوّل: ۱۹۹۵ء طبع دوم: ۲۰۰۸ء (نظرثانی اور اضافوں کے ساتھ) تعداد : قیمت: مطبع : محل فروخت :۱۱۶ میکلوڈ روڈ ، لاہور فون نمبر ۷۳۵۷۲۱۴ سیّد نذیر نیازی کے دیرینہ رفیق اور قریبی دوست نذیر نیازی مرحوم کے دیرینہ رفیق اور قریبی دوست سیّد امجد الطاف (۱۰؍مارچ ۱۹۲۴ئ- ۱۵؍جولائی ۱۹۹۵ئ) کی یاد میں فہرست أ دیباچہ [طبع دوم] مرتب ۹ أ دیباچہ [طبع اوّل] مرتب ۱۱ أ مقدمہ: نذیر نیازی، ایک اقبال شناس عبداللہ شاہ ہاشمی ۱۵ ز مضامین ۱ © حکیم الامت ۲۳ © ڈاکٹر صاحب کے ارشادات ۳۳ © ملفوظاتِ اقبال (روزنامچے کا ایک ورق) ۳۹ © علامہ اقبال کی صحبت میں ۴۳ © اقبال کی آخری علالت ۵۳ © علامہ اقبال اور مولانا مودودی ۱۰۳ ۲ © اقبال کا مطالعہ ۱۰۷ © اقبال اور حکماے فرنگ ۱۲۶ © اقبال کی عظمت فکر ۱۳۷ © خودی ۱۶۰ © سخنے چند ۱۶۷ © بالِ جبریل سرسری نظر سے ۱۷۹ ۳ © ہندی اسلامی ریاست ۱۹۱ © اقبال کیا چاہتے تھے؟ ۲۱۳ ۴ © شریعت اسلامیہ: اقبال کی نظر میں ۲۲۱ © قرآن مجید کے حقوق اور علامہ اقبال ۲۲۹ © علامہ اقبال اور ختم نبوت ۲۴۳ ۵ © تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ۲۵۱ © اقبال اور اسلامی ثقافت کی روح ۲۶۷ ۶ © نقیب آزادی ۲۷۷ © اقبال اور ہم ۲۸۳ ۷ © اقبال اور ۱۹۷۳ئ ۲۸۷ © سیّد نذیر نیازی سے ایک انٹرویو ۲۸۹ © حیاتِ اقبال: غیر مطبوعہ گوشے، غیر مطبوعہ باتیں ۳۰۱ © سیّد نذیر نیازی سے ایک مکالمہ ۳۱۱ © اشاریہ ۳۳۵ دیباچہ (طبع دوم) یہ اقبالیاتِ نذیر نیازی کا دوسرا اڈیشن ہے۔ نومبر ۱۹۹۵ء میں اس کا پہلا اڈیشن شائع ہوا تو اس میں بیس مضامین تھے۔ سیّد نذیر نیازی کی مزید تحریروں کی تلاش جاری رہی۔ اب تک جو مزید لوازمہ دست یاب ہوا، اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے: ۱- ’’ملفوظاتِ اقبال‘‘ کے نام سے یہ تحریر پہلی دفعہ ۱۹۴۰ء میں مولانا چراغ حسن حسرت کے مرتبہ مجموعے اقبال نامہ میں شائع ہوئی۔ یہ سیّد نذیر نیازی کی ڈائری کا ایک ورق ہے جو ۷؍فروری ۱۹۳۸ء کو لکھا گیا۔ اسی تاریخ کا روزنامچہ ان کی مرتبہ اقبال کے حضور میں بھی شامل ہے لیکن دونوں کے مندرجات مختلف ہیں۔ ۲- ’’اقبال اور ۱۹۷۳ئ‘‘ ایک قلمی مذاکرے کی جوابی تحریر ہے۔ اس مذاکرے کا اہتمام گورنمنٹ کالج سرگودھا کے مجلہ ضیابار میں پروفیسر رفیع الدین ہاشمی نے کیا اور ممتاز اہل قلم کو سوال نامے بھجوائے۔ نذیر نیازی نے جو مختصر جواب دیے وہ سوال نامے کے بعد دیے جارہے ہیں۔ ۳- ماہنامہ ضیائے حرم نے مشاہیر کے انٹرویو کرنے کا اہتمام کیا تو ان کی نظر سیّد نذیر نیازی پر بھی پڑی۔ انھوں نے بطور اقبال شناس جو جوابات دیے ان میں کچھ نئی باتیں بھی شامل ہیں۔ ۴- ہفت روزہ اسلامی جمہوریہ لاہور نے اپنی ۲۸؍نومبر ۱۹۷۷ء کی اشاعت میں چند اقبال شناسوں کے انٹرویوز کا اہتمام کیا۔ سیّد نذیر نیازی کے اس انٹرویو بعنوان ’’حیاتِ اقبال: غیر مطبوعہ گوشے، غیر مطبوعہ باتیں‘‘ میں زیادہ تر جوابات حیاتِ اقبال کے عمومی پہلوئوں سے متعلق ہیں۔ ۵- ’’سیّد نذیر نیازی سے ایک مکالمہ‘‘ سیّد نذیر نیازی سے پروفیسر خورشید رضوی کے مکالمے کا ماحاصل ہے۔ اس انٹرویو کی خاص بات یہ ہے کہ انٹرویو نگار نے پہلے طے کرلیا کہ شاعری اور فکر و فلسفے کے ٹھوس علمی مباحث سے قطع نظر حیاتِ اقبال کے عمومی پہلوئوں پر بات کی جائے تاکہ معمولی معمولی باتوں کا ذکر ہو جو ان (اقبال) سے شرفِ ملاقات رکھنے والی نسل کے بعد پھر کسی اور ذریعے سے معلوم نہ ہوسکیں گی۔ یہ انٹرویو ایک خاصے کی چیز ہے۔ اس کے حواشی پروفیسر خورشید رضوی ہی نے تحریر کیے ہیں۔ ۵؍اپریل ۲۰۰۸ء ڈاکٹرعبداللہ شاہ ہاشمی، لاہور دیباچہ (طبع اوّل) سیّد نذیر نیازی (۱۹۰۰ئ- ۱۹۸۲ئ) کے زیر نظر مضامین کی ترتیب و تدوین میرے لیے ایک خوش گوار ادبی اور اقبالیاتی فریضے کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایم اے اور ایم فل کے زمانے میں اقبال کی شخصیت اور ان کے فکر وفن پر نیازی صاحب کی کتابوں اور تحریروں سے استفادے کا موقع ملا لیکن تدوین کے ایسے کام کی طرف کبھی خیال منعطف نہ ہوا۔ شاید اپنی علمی کم مایگی کا احساس تھا۔ کچھ عرصہ قبل جب میں نے مکاتیب اقبال بنام خان نیاز الدین خاں پر حواشی و تعلیقات کا کام مکمل کیا تو برادرم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے میری علمی مصروفیت کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے تجویز کیا کہ میں اقبال پر سیّد نذیر نیازی کے مضامین مرتب کر ڈالوں… اصل میں یہ منصوبہ ایک عرصے سے، خود ان کے پیش نظر تھا۔ انھوں نے نیازی صاحب کے بہت سے مضامین بھی جمع کررکھے تھے، لیکن دیگر کاموں میں مسلسل مصروفیت کی وجہ سے، یہ کام اب تک معلق چلا آرہا تھا… بہرحال اب انھوں نے یہ مضامین میرے حوالے کردیے۔ ان میں وہ چارمضامین بھی شامل تھے جو ۱۹۴۰ء میں اقبال کا مطالعہ اور دوسرے مضامین کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوئے تھے اور مزید مضامین کی تلاش کے سلسلے میں کچھ مفید مشورے بھی دیے۔ چند ماہ کی تلاش و جستجو کے بعد مجھے مزید مضامین دستیاب ہوئے۔ اب بیس مضامین پر مشتمل یہ مجموعہ متن کی تصحیح، آیاتِ قرآنی اور اشعار کی تخریج، حوالوں اور مختصر تعلیقات کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔ چند باتیں مضامین کی ترتیب و تدوین کے بارے میں: ترتیب و تدوین کا کام محنت و دیدہ ریزی کا تقاضا کرتا ہے مگر اس سلسلے میں مرتبین کا عمومی رویہ خاصا افسوس ناک رہا ہے۔ مرتبین اور تدوین کار، رسالوں اور اخباروں سے مضامین فوٹو سٹیٹ کرا کر کسی تصحیح یا نظر ثانی کے بغیر، مسودہ ناشر کے حوالے کردیتے ہیں اگر کہیں عبارت میں ربط نہیں تو ان کی بلا سے۔ اشعار غلط ہیں تو ہوا کریں۔ اشعار اور آیات کے حوالے نادرست اور نامکمل ہیں تو کون تلاش و تصحیح کی کھکھیڑ اُٹھائے۔ زیر نظر مضامین کی ترتیب و تدوین میںر اقم نے مروّجہ روش سے بچتے ہوئے حسب ذیل اُمور کو پیش نظر رکھا ہے: ۱- کاتبین کے ہاتھوں مضامین کے متن میں جو غلطیاں در آئیں انھیں دور کیا گیا ہے۔ اسی طرح پرانے رسائل و اخبارات میں املا کی غلطیاں موجود تھیں، انھیں درست کرکے یکساں اور درست املا اختیار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ۲- نذیر نیازی صاحب زیادہ تر حافظے پر انحصار کرتے تھے جس کے نتیجے میں ان کے مضامین میں، بہت سے حوالاجات غلط تھے حالانکہ خطبات کے مترجم بھی وہ خود ہیں اور مکتوباتِ اقبال کے مرتب بھی، لیکن حیرت ہوتی ہے کہ ان دو کتابوں کے بیسیوں حوالے درست نہیں۔ خطبات سے اقتباسات دیتے ہوئے انھوں نے اتنا لکھ دیا کہ اقبال خطبات میں لکھتے ہیں… اچھی خاصی تلاش کے بعد پتا چلا کہ نیازی صاحب نے واوین میں جو اقتباس درج کیا ہے وہ خطبات کے کئی صفحات کی تلخیص ہے… ایسے تمام حوالوں کو درست کیا گیا ہے قرآنی آیات یا ان کا ترجمہ بھی بغیر حوالے کے، دیا گیا تھا بلکہ کئی ایک مقامات پر ترجمہ غلط تھا، ان کی تصحیح کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بیسیوں اشعار کا متن غلط تھا کلامِ اقبال سے موازنہ کرنے کے بعد اسے درست کیا گیا ہے۔ یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ بہت سے اشعار کے ساتھ شاعر کا حوالہ موجود نہ تھا۔ فارسی اشعار کے حوالے تلاش کرنا خاص طور پر دقت طلب تھا۔ بہرحال یہ کام بھی مکمل کیا گیا ہے۔ ۳- مضامین کے ماخذ بھی دیے گئے ہیں۔ ۴- اقبال نے جن اشعار میں تبدیلیاں کی ہیں ان کے اصل ماخذ کا حوالہ حواشی میں درج کیا گیا ہے۔ اس کام کی تکمیل میں اہل علم حضرات کے تعاون کا شکرگزار ہوں، خصوصاً برادرم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا، جنھوں نے مضامین کے جمع و تدوین میں مسلسل رہنمائی کی۔ ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب نے فارسی اشعار کی تلاش میں اعانت کی۔ ڈاکٹر رحیم بخش شاہین صاحب اور ڈاکٹر صابر کلوروی صاحب نے چند مضامین کی فراہمی میں فراخ دلانہ تعاون کیا۔ علاوہ ازیں جناب اختر راہی اور پروفیسر شفقت سرور نے بھی بعض اُمور میں میری مدد کی۔ محترمہ نسیم احمد صاحبہ کے ایم-اے کے مقالے سے استفادہ کیا گیا ہے، ان کا شکریہ لازم ہے۔ محترم ڈاکٹر وحید قریشی صاحب اور سیّد امجد الطاف صاحب نے بھی مفید مشوروں سے نوازا۔ میں تہ دل سے ان سب کے لیے سپاس گزار ہوں۔ افسوس ہے کہ اس اثنا میں ۷؍جنوری ۱۹۹۵ء کو سیّد امجد الطاف صاحب رحلت کرگئے۔ اللہ ان کی مغفرت کرے… یہ مجموعہ ان کے نام معنون کیا جارہا ہے۔ ان مضامین کی اشاعت ممکن نہ ہوتی اگر سیّد نذیر نیازی کے صاحبزادے سلمان نیازی صاحب کا تعاون حاصل نہ ہوتا۔ انھوں نے نہ صرف ان کی تدوین و اشاعت کی فراخ دلی سے اجازت دی بلکہ اس کاوش پر مسرت کا اظہار کیا۔ ان کے اس مثبت رویے پر ان کا شکر گزار ہوں۔ عبداللہ شاہ ہاشمی ۳۰؍اکتوبر ۱۹۹۵ء مقدمہ: سیّد نذیر نیازی: ایک اقبال شناس سیّد نذیر نیازی کا شمار اُردو کے ممتاز اہل قلم اور محققین میں ہوتا ہے۔ وہ گوناگوں علمی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ اقبال نے سادات کے جس گھرانے سے فیض پایا، نیازی صاحب اسی علمی و دینی خانوادے کے چشم و چراغ تھے۔ انھوں نے مولوی سیّد میر حسن، مولانا محمد سورتی، مولانا حمید الدین فراہی اور مولانا محمد اسلم جیراج پوری جیسے نامور اساتذہ سے کسب فیض کیا اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بہترین علمی و ادبی فضا میں تعلیم و تربیت پائی۔ انھیں کئی برس تک مولانا محمد علی جوہر، ڈاکٹر ذاکر حسین اور پروفیسر محمد مجیب جیسے ذی علم اصحاب کی رفاقت میسر رہی اور مولانا ابوالکلام آزاد، حکیم اجمل خان اور مولانا شوکت علی جیسی تاریخ ساز ہستیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اسی طرح علامہ اقبال کی صحبت سے بھی برسوں فیض یاب ہوتے رہے۔ ان یگانہ روزگار ہستیوں کی صحبتوں، رفاقتوں اور ان سے کسب و اکتساب نے نیازی صاحب کی خداداد صلاحیتوں کو جلابخشی اور ان کے فکر و فہم میں اضافہ ہوا۔ سیّد نذیر نیازی ۱۹۰۰ء میں سیّد عبدالغنی کے گھر پیدا ہوئے۔ شاہ صاحب ایک بالغ نظر دینی شخصیت تھے۔ سرسیّد مرحوم اور اقبال سے قریبی روابط رکھتے تھے۔ نیازی صاحب نے ابتدائی تعلیم اپنے نانا مولوی سیّد میر حسن سے حاصل کی۔ میٹرک قادیان سے کیا اور مرے کالج سیالکوٹ سے انٹر کا امتحان پاس کرنے کے بعد مزید تعلیم کے لیے اسلامیہ کالج لاہور میں داخل ہوئے۔ بی-اے فائنل میں تھے کہ برعظیم میں تحریک خلافت کا غلغلہ بلند ہوا اور وہ اس میں سرگرمی سے حصہ لینے لگے۔ اس کی پاداش میں پرنسپل نے انھیں کالج سے خارج کردیا۔ اسلامیہ کالج کے نوجوان، تحریک خلافت سے اس قدر متاثر تھے کہ انھوں نے ترک جرنیلوں کے ناموں کو اپنے نام کا حصہ بنا لیا۔ کسی نے انور اور کسی نے کمال۔ سیّد نذیر احمد نیازی بھی فاتح قسطنطنیہ نیازی بک کی نسبت سے نذیر احمد نیازی کہلائے۔ بہرحال کالج سے اخراج کے بعد وہ لاہور چھوڑ کر علی گڑھ میں جا داخل ہوئے مگر تحریک ترک موالات سے تعلق کی وجہ سے انھیں یہاں بھی کالج چھوڑنا پڑا۔ اس اثنا میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کا آغاز ہوا تو نیازی صاحب وہاں داخل ہوگئے۔ وہ جامعہ سے فارغ التحصیل گریجوایٹس (۱۹۲۱ئ) کی پہلی کھیپ میں شامل تھے۔ بعد ازاں انھوں نے پنجاب یونی ورسٹی سے (۱۹۴۰ء میں) بی اے کیا پھر اسلامیہ کالج لاہور کی ایم اے فلسفہ کی کلاس میں داخلہ لیا لیکن بوجوہ فائنل کا امتحان نہ دے سکے۔ ۱۹۶۵ء میں پنجاب یونی ورسٹی سے فارسی میں ایم-اے کی ڈگری حاصل کی۔ ملازمت کا آغاز جامعہ ملیہ سے کیا یہاں وہ منطق اور اسلامی تاریخ کے استاد، صدر شعبہ تاریخ، ممبر اکیڈمک کونسل اور اعزازی لائبریرین رہے۔ ۱۹۳۵ء میں جامعہ کی ملازمت ترک کردی اور علامہ اقبال کے مشورے سے ایک علمی و ادبی پرچہ طلوعِ اسلام جاری کیا جس کے تین پرچے دہلی اور تین لاہور سے نکلے لیکن یہ پرچہ زمانے کی ناقدری کا شکار ہوگیا۔ بعد میں یہ پرچہ غلام احمد پرویز کی ادارت میں نکلنے لگا۔ (اس کی پالیسی پرویز صاحب کی تھی اور نیازی صاحب کا اس سے کچھ علاقہ نہ تھا۔) ۱۹۴۶ء سے قیامِ پاکستان تک پنجاب مسلم لیگ کے شعبہ نشر و اشاعت سے وابستہ رہتے ہوئے قیامِ پاکستان کے لیے قلمی جنگ لڑتے رہے۔ ۱۹۴۸ء سے ۱۹۶۸ء تک سول سروس اکیڈمی، انجینئرنگ یونی ورسٹی لاہور اور فنانس سروس اکیڈمی میں تاریخ اور اسلامیات پڑھاتے رہے۔ اس عرصہ میں ۱۹۶۳ء سے ۱۹۶۷ء تک جامعہ پنجاب کے تحقیقی ادارے ’’اُردو دائرہ معارفِ اسلامیہ‘‘ میں بطور اڈیٹر کام کیا۔ آپ موتمر اسلامیہ کی ایگزیکٹو کمیٹی، مجلس ترقی ادب، بزمِ اقبال اور مرکزیہ مجلس اقبال کے رکن بھی رہے۔ نیازی صاحب بنیادی طور پر تاریخ اور فلسفے کے آدمی تھے لیکن انھوں نے مختلف النوع علمی کارنامے سرانجام دیے۔ طبعاً وہ محنتی اور علمی لگن سے کام کرنے والے آدمی تھے چنانچہ ان کی تصانیف، تحقیق کے کڑے معیار پر پوری اُترتی ہیں۔ انھوں نے متعدد سائنسی، تاریخی اور فلسفیانہ کتابوں کے ترجمے کیے۔ نیازی صاحب کو پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ ایک پورے عہد کی علمی تاریخ، ایک بالغ نظر ادیب کی تحریروں میں سمٹ آئی ہے ان کی تصانیف، مرتبات اور تراجم وغیرہ سے ان کی بہترین علمی و تصنیفی صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کی تصانیف و تالیفات کے نام یہ ہیں: أ تصانیف ۱- اقبال کا مطالعہ اور دوسرے مضامین ۲- دانائے راز أ مرتبات ۱- مکتوباتِ اقبال ۲- اقبال کے حضور ۳- ادبیاتِ ملیہ ۴- بہار داغ (انتخابِ کلامِ داغ) ۵- تاریخ افاغنہ أ تراجم ۱- تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ۲- عربوں کا تمدن ۳- مقدمہ تاریخ سائنس (تین جلدیں) ۴- سیاسیات ارسطو ۵- غیب و شہود ۶- لغات طبی یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ نذیر نیازی کی نگارشات کی جو تعداد منظر عام پر آئی، اس سے کہیں زیادہ تعداد زمانے کی دست برد کا شکار ہوگئی۔ انھوں نے تین کتابیں (میثاقِ مدینہ، الزہرا اور ملکیت زمین) محکمہ اوقاف کی فرمایش پر لکھیں۔ ان کے مسودے محکمے کے حوالے بھی کیے مگر پھر ان کا پتا نہ چلا۔ اقبال- ارشادات و تصریحات کے ’’زیرطبع‘‘ ہونے کا اشتہار ملتا ہے مگر یہ بھی شائع نہ ہوسکی۔ اقبال کے حضور کی پہلی جلد تو چھپ گئی مگر باقی تین جلدوں کا سراغ نہیں مل سکا۔ انھوں نے عبدالسلام ملک کو ایک ملاقات میں بتایا تھا کہ ’’اسی قسم کی تمام گفتگوئیں‘‘ اقبال کے حضور کی ضخامت اور سائز کے مطابق، تین جلدیں لکھی پڑی ہیں‘‘ (ہفت روزہ چٹان ۱۳؍جنوری ۱۹۷۵ئ)۔ محمد علی جوہر کے بارے میں ان کا چالیس صفحات کا طویل مقالہ بعنوان ’’نور نگاہ خاور‘‘ سیّد امجد الطاف نے اشاعت کے لیے ایک روزنامے کو بھجوایا مگر وہ بھی گم ہوگیا اسی طرح نیازی صاحب نے قرآن پاک کے تفسیری نوٹ لکھے، مسودہ ٹائپ کرا لیا مگر وہ مسودہ کہیں کھو گیا۔ دانائے راز کا دوسرا حصہ تیار ہوا لیکن منظر عام پر نہیں آسکا۔ اقبالیات کے بعض اہم موضوعات پر ان کے ذہن میں کئی ایک منصوبے تھے جو پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکے۔ محمد علی جوہر کے آخری دس سال، قادیانیت کے بارے میں اقبال کی گفتگوئیں، Introduction to Islam اور بعض دوسرے موضوعات پر انھوں نے یادداشتیں اور نوٹس لکھ رکھے تھے۔ عبدالسلام ملک بتاتے ہیں کہ لگ بھگ پندرہ کتابیں ان کے ذہن میں ایسی ہیں جو تعلیماتِ اقبال اور سوانح اقبال کے متعلق ہیں (چٹان، شمارہ مذکورہ)… یہ سب کچھ منظر عام پر نہ آسکا کیونکہ ایک تو ان کی گھریلو پریشانیاں سدراہ رہیں دوسرا یہ کہ افتاد طبع نے انھیں ٹک کر کام کرنے کی مہلت نہ دی۔ ان مستقل تصانیف، ادھورے مسودوں اور منصوبوں کے علاوہ مختلف موضوعات پر ان کے تحقیقی و علمی مقالات اور مضامین برعظیم کے اہم رسائل اور اخبارات میں شائع ہوئے۔ یہ بات کم لوگوں کے علم میں ہے کہ نیازی صاحب شاعری بھی کرتے تھے۔ وہ اپنا کلام صرف بے تکلف دوستوں کی محفل میں سناتے تھے۔ ان کا بہت سا کلام سیّد امجد الطاف اور کلیم اختر کے پاس محفوظ ہے کچھ غیر مطبوعہ کلام مس نسیم اختر کے ایم اے اُردو کے مقالے سیّد نذیر نیازی، حیات اور ادبی خدمات (۱۹۸۳ئ) میں شامل ہے۔ یوں تو سیّد نذیر نیازی کے علمی و تحقیقی کارناموں کی متعدد جہات ہیں لیکن ان میں سب سے نمایاں پہلو ان کی اقبال شناسی کا ہے۔ ان کے علمی مقام و مرتبے کی تحسین، ان کی اقبال فہمی کے ذکر کے بغیر ممکن ہی نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کا تشخص بڑی حد تک ان کی اقبال شناسی اور اقبال کی ذات سے ان کے تعلق کی وجہ ہی سے قائم ہے۔ انھوں نے اقبال کو پہلی دفعہ دس سال کی عمر میں دیکھا۔ باقاعدہ تعلقات کا آغاز ۱۹۱۸ء میں ہوا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان تعلقات میں اضافہ ہوتا گیا اور اقبال ان پر اعتماد کرنے لگے۔ وہ مختلف علمی مسائل و مباحث پر نذیر نیازی سے مشورہ کرتے تھے۔ اقبال کے معتقدمین اور رفقا میں چودھری محمد حسین کے بعد نذیر نیازی ہی کو اقبال کا سب سے زیادہ قرب حاصل رہا۔ وہ اقبال کی ذہنی اور فکری ارتقا کے شاہد ہیں اس لیے اقبالیا ت کے باب میں ان کی آرا ایک وزن رکھتی ہیں۔ اقبال کے حضور اور بعض مضامین میں علامہ اقبال کی شخصیت اور افکار سے متعلق متعدد حقائق کے واحد راوی، نیازی صاحب ہیں… اقبال کی شخصیت اور فکر و فن کے بارے میں نذیر نیازی نے جو کچھ لکھا اس کا ایک مختصر جائزہ پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ زمانی اعتبار سے اقبال کا مطالعہ اور دوسرے مضامین (۱۹۴۱ئ) اقبالیات پر ان کی پہلی تصنیف ہے۔ ان مضامین میں فکر اقبال کے اہم پہلوئوں کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ خصوصاً فکر اقبال میں فلسفے کی اہمیت اور اقبال پر مغربی مفکرین کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے اور دلائل کے ساتھ یہ بات ثابت کی ہے کہ اقبال کی شاعری اور فلسفیانہ تصورات کسی سے مستعار نہیں ہیں۔ ’’اقبال کی آخری علالت‘‘ میں ان کی بیماری، علاج اور گفتگوئوں اور افکار کا تفصیلی تذکرہ ہے جس سے اقبال کی شخصیت کے کئی نئے پہلو سامنے آتے ہیں۔ دانائے راز (۱۹۷۹ئ) اقبال کے سوانحی ادب میں اہم اور بنیادی تصنیف ہے۔ یہ کام ۱۹۷۷ء میں نیشنل کمیٹی برائے صد سالہ تقریبات ولادت علامہ اقبال، نے نیازی صاحب کے سپرد کیا تھا۔ یہ کتاب صرف ۱۹۰۵ء تک کے واقعات و حالات تک محدود ہے۔ مصنف نے دیباچے میں اعتراف کیا ہے کہ عجلت کی وجہ سے اس کتاب کی ترتیب و تسوید خاطر خواہ طریق سے نہیں ہوسکی۔ ان کا منصوبہ تھا کہ اس کام کو آگے بڑھائیں گے اور دس ہزار صفحات پر آٹھ دس جلدوں میں اقبال کی جامع سوانح حیات مرتب کریں گے لیکن فرصت اور وسائل میسر نہ آئے، بایں ہمہ دانائے راز موجودہ صورت میں بھی اقبال کی سوانح کا اہم حوالہ ہے۔ مکتوباتِ اقبال (۱۹۵۷ئ) ان خطوط پر مشتمل ہے جو علامہ اقبال نے نیازی کے نام تحریر کیے۔ اسے خطوط کے دیگر مجموعوں پر یہ فوقیت حاصل ہے کہ نیازی صاحب نے مختصر حواشی کا اہتمام کیا اور متن کے اہم نکات کی صراحت کردی مباحث اورموضوعات کے عنوانات قائم کردیے ہیں جن سے مکاتیب کی اہمیت دوچند ہوگئی ہے۔ ان مکاتیب سے مکتوب نگار اور مکتوب الیہ کے باہمی تعلقات کا اندازہ ہوتا ہے اور حیاتِ اقبال کے کئی مخفی گوشے سامنے آتے ہیں۔ متن کی بعض غلطیاں ان خطوط میں بھی ملتی ہیں لیکن بحیثیت مجموعی ان کی ترتیب و تدوین، اقبالیاتی ادب میں ایک نمونے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اقبال کے حضور ملفوظاتِ اقبال کا ایک مربوط و منضبط مجموعہ ہے جسے نذیر نیازی نے یادداشتوں کی شکل میں محفوظ کیا ہے۔ اقبال کی صحبتوں سے بہت سے لوگ فیض یاب ہوئے۔ ان میں سے بعض نے اپنی بساط کے مطابق ملفوظاتِ اقبال مرتب بھی کیے لیکن نیازی صاحب کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ انھوں نے لگ بھگ بیس سال اقبال کی صحبت اٹھائی، ارشاداتِ اقبال کو قلمبند کیا اور علامہ کے ارشادات کو ہوش مندی اور نہایت دیدہ ریزی سے مرتب کیا۔ بلاشبہ یہ اقبال کے ملفوظاتی سرمائے میں اہم اضافہ ہے۔ اقبال کے حضور میں بیسیوں موضوعات پر بحث و مباحثہ کی شکل میں اقبال کی رائے سامنے آتی ہے جس سے ان کے مطالعے کی وسعت اور گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے اور ان کی شخصیت کو سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ اقبالیات میں نذیر نیازی کی اس کاوش کا کوئی بدل نہیں۔ انھوں نے اس سلسلے کے مزید تین حصے بھی مرتب کیے تھے مگر افسوس کہ وہ منظر عام پر نہ آسکے۔ زیر نظر مجموعے کا ایک مضمون ’’علامہ اقبال کی صحبت میں‘‘ انھی گم شدہ حصوں کے چند اوراق پر مشتمل ہے۔ نیازی صاحب نے بعض طبی، سائنسی، تاریخی اور دقیق فلسفیانہ موضوعات پر مشتمل نہایت عمدہ تراجم کیے لیکن خطبات اقبال کا ترجمہ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ان کا ایک یادگار کام ہے جس نے انھیں شہرت عطا کی۔ یہ ترجمہ انھوں نے اقبال کی تحریک پر شروع کیا تھا ایک آدھ باب پر اقبال نے نظر ثانی کی اور کچھ مشورے بھی دیے مگر اقبال کی زندگی میں یہ کام مکمل نہ ہوسکا۔ اس کی تکمیل میں نیازی صاحب کا خاصا وقت صرف ہوا اور بالآخر ۱۹۵۸ء میں اس کی اشاعت ممکن ہوئی۔ خطبات کے مباحث نہایت دقیق، پیچیدہ اور اصطلاحات نہایت مشکل ہیں جن کا ترجمہ آسان نہ تھا۔ نیازی صاحب نے اس سلسلے میں محمد السورتی، مولانا محمد اسلم جیراج پوری، ڈاکٹر سیّد عابد حسین اور سیّد سلیمان ندوی سے استفادہ کیا اور مباحث و اصطلاحات کو قابل فہم بنانے میں بڑی کھکھیڑ اُٹھائی۔ پھر بڑی محنت سے حواشی اور تصریحات کا اضافہ کیا۔ اس طرح اقبال کے اس فکری شاہکار کو اُردو دان طبقے کے لیے نسبتاً آسان بنا کر پیش کیا۔ اقبالیات پر ان کی متذکرہ مستقل تصانیف و تالیفات کے علاوہ ان کے متفرق مضامین کا وہ قیمتی سرمایہ بھی قابل ذکر ہے جو برعظیم کے اہم علمی و ادبی رسائل اور اخبارات کی زینت بنا۔ ان مضامین سے اقبال کی شخصیت اور فکر کے ایسے گوشے وا ہوتے ہیں جن کی مثال اقبالیاتی ادب میں کم دیکھنے میں آتی ہے۔ مختلف موضوعات پر علامہ اقبال اور نیازی صاحب کے تبادلہ خیالات سے ا س اعتبار اور اعتماد کا اندازہ ہوتا ہے جو اقبال کو ان پر تھا۔ بہت سی باتیں ہیں جنھیں اقبال ضابطۂ تحریر میں نہ لاسکے وہ نذیر نیازی کے قلم سے منظرعام پر آگئیں۔ اس مجموعے میں ایک مضمون ’’ہندی اسلامی ریاست‘‘ میں اقبال کے خطبہ الٰہ آباد پر اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے نیازی صاحب کی اس تحریر پر علامہ کے خیالات کا واضح اثر موجود ہے۔ ان مضامین میں اقبال کے سوانحی کوائف بھی بیان کیے گئے ہیں اور ان کے شاعرانہ محاسن بھی۔ اسی طرح ان تحریروں سے علامہ کے فلسفیانہ افکار کے چند اہم گوشے نمایاں ہوکر سامنے آتے ہیں۔ ملّی تشخص کے لیے اقبال کا فکر اور ان کی دردمندی بھی ان مضامین میں جاری و ساری ہے۔ تاریخی اعتبار سے اس بات کی اپنی ایک اہمیت ہے کہ ایسی نگارشات جو نابغۂ روزگار مفکرین کے خوش چینیوں نے ان کے حین حیات یا مابعد قریب کے زمانے میں تحریر کیں وہ آیندہ لکھی جانے والی تحریروں کی ٹھوس بنیاد بنیں۔ وقت بذات خود بڑا اہم عنصر ہے۔ آج نصف صدی بعد مطالعے اور تخیل کے زور پر بہت کچھ ضابطہ تحریر میں لایا جارہا ہے لیکن جو کچھ عہد اقبال یا مابعد قریب کے زمانے میں تحریر ہوا اس کی اہمیت، فوقیت اور اعتبار باقی رہے گا۔ ’’ہندی اسلامی ریاست‘‘ ان غیر مدوّن دستیاب مضامین میں قدم ترین تحریر ہے جو ماہنامہ صوفی منڈی بہاء الدین (مئی ۱۹۳۱ئ) میں شائع ہوئی۔ اقبال نے خطبہ الٰہ آباد (دسمبر ۱۹۳۰ئ) میں مسلمانانِ ہند کو جس سیاسی نصب العین کی طرف متوجہ کیا، نیازی صاحب نے اس مضمون میں اس کی تصریحات پیش کی ہیں بلکہ بہ دلائل انھیں قوی تر بنا دیا ہے۔ اس خطبے پر ہندو پریس میں اعتراضات کا جو طوفان برپا ہوا اور برطانوی حکومت نے جو مخالفانہ رویہ اپنایا، نیازی صاحب نے ان سب اعتراضات اور تنقیدوں کا جواب دیا ہے۔ یہ تحریر خطبہ الٰہ آباد کے حوالے سے اقبالیاتی ادب میں ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ ’’اقبال اور اسلامی ثقافت کی روح‘‘ پہلی دفعہ نیرنگِ خیال (۱۹۳۲ئ) میں شائع ہوا۔ اس مضمون میں نذیر نیازی نے اقبال کے خطبے The Spirit of Islamic Cultute کو اس انداز میں پیش کیا ہے کہ فکر اقبال کی تفہیم زیادہ آسان ہوگئی ہے اور اس کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اقبال نے طوالت کے خوف سے جہاں صرف اشارات سے کام لیا ہے، نیازی صاحب نے اسے وضاحت سے قلمبند کیا ہے اور قارئین کے لیے اس خطبے کی تفہیم سہل ہوگئی ہے۔ ’’بالِ جبریل سرسری نظر سے‘‘ میں اقبال کے اُردو کے دوسرے شعری مجموعے کی غزلیات، رباعیات اور نظموں کے حوالے سے ان کے شاعرانہ محاسن کو موضوع بنایا گیا ہے۔ چونکہ لکھنے والا، کلامِ اقبال کی حقیقی روح سے آگاہ ہے اس وجہ سے اس کی تنقید نے کلام کی معنویت کو دوچند کردیا ہے۔ عنوان سے اگرچہ ’’سرسری نظر‘‘ کا احساس ہوتا ہے لیکن اصل میں ایسا نہیں بلکہ مضمون سے اقبال کی شاعرانہ عظمت بہ وضاحت اُجاگر ہوتی ہے۔ ’’علامہ اقبال کی صحبت میں‘‘ دراصل اقبال کے حضور کے گم شدہ حصے کا ایک نادر جزو ہے۔ اس میں ستمبر اور اکتوبر ۱۹۳۷ء کے بعض ایام کی یادداشتوں کو مرتب کیا گیا ہے۔ یہ ایک قیمتی مضمون ہے کیونکہ اس میں ایک دو باتیں ایسی ہیں جو کہیں اور مذکور نہیں۔ اسی طرح باقی مضامین بھی اپنی جگہ اہم ہیں۔ اقبالیاتی ادب میں ایسے اہل قلم کی نگارشات زیادہ وقیع ہیں جنھوں نے اقبال کا مطالعہ کیا اور ان کی شخصیت کو بہت قریب سے دیکھا اور ان کی صحبت بھی اٹھائی۔ بلاشبہ سیّد نذیر نیازی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھیں بیس سال تک اقبال کی خدمت میں حاضری اور اقبال کے افکار و خیالات سے خوشہ چینی کا موقع ملا۔ علامہ اقبال سے ان کی طویل گفتگوئوں اور بحث مباحثہ سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اقبال کی ذہنی ضرورت رہے۔ ان کا مطالعہ وسیع تھا اور مافی الضمیر کے اظہار پر وہ پوری طرح قادر تھے۔ اس طرح افکارِ اقبال ان کی طبیعت کا جزو بن گئے اور ان کی نگارشات میں فکرِ اقبال کی جھلک نہایت واضح طور پر نظر آتی ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ فکرِ اقبال ہی ان کے تحریری سرماے کا جزو اعظم ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ یہی چیز ان کی اقبال شناسی کی دلیل بھی ہے اور زیر نظر مضامین کا اعتبار و استناد بھی۔ عبداللہ شاہ ہاشمی حسن ابدال حکیم الامت حکیم الامت علامہ اقبال کے فلسفے یا زندگی کے متعلق بات کرتے ہوئے میرا ذہن ان مسلسل نشستوں کی جانب چلا جاتا ہے جن کا شرف مجھے ۱۹۱۸ء سے لے کر ۱۹۳۸ء تک حاصل رہا۔ علامہ صاحب کی خدمت میں روزانہ حاضری معمول تھا اور یہ حاضری دن میں کئی کئی بار ہوتی۔ آج پھر وہی ذکر ہے تو بقول غالب میری نطق میری زبان کے بوسے لے رہی ہے: ہم نشیں کہتے ہیں ذکر عیش ، نصف عیش ہے میں کہوں تو سن جمال یار کا افسانہ آج وہ صحبتیں یا دآرہی ہیں جن میں اک مرد خود آگاہ و خدا آگاہ اسلامیانِ ہند کے مستقبل کو اسلام کے اقتضا، اجتماع اور عمران کے مطابق راستے پر ڈالنے کے لیے کبھی سوز و ساز رومی اور کبھی پیچ و تاب رازی میں مبتلا رہتا تھا۔ چودھری محمد حسین۱؎ م-ش۲؎ اور حکیم محمد حسن قرشی۳؎ باقاعدہ حاضرباشوں میں تھے۔ راجا حسن اختر مرحوم۴؎ معمولاً روز آتے۔ م-ش تو ۱۹۳۸ء کے شروع ہی میں جاوید منزل اُٹھ آئے تھے اور بچوں کی دیکھ بھال کے لیے خود کو وقف کردیا تھا۔ اور متعدد کام انھوں نے اپنے ذمہ لے رکھے تھے۔ پھر علامہ صاحب کے نیازمند اور ارادت کیش تھے۔ ہم سب دیر تک ان کی خواب گاہ میں بیٹھے رہتے۔ شام کے بعد باقاعدہ نشست بارہ بجے تک جمی رہتی، مزاج پوچھنے سے سلسلہ شروع ہوتا اور طب کے ارتقا و طب کے بارے میں مسلمانوں کی خدمت سے گزر کر علم و حکمت کے انقلابات، تہذیب و تمدن کی تبدیلیوں، قوموں کے مزاج تک بات پہنچتی۔ اسلامیانِ ہند اور اسلامیانِ عالم کا ذکر چھڑ جاتا ارباب قوم کی حالت، ان کے شعور ملّی، علمائے دین کی روشنی، صوفیا کی صورتِ حال، اہل دانش و بینش کی فکر اور سیاسی صورت حال زیر بحث آتی۔ عوارض کی شدت اور طویل عرصہ کی علالت کے باوجود علامہ صاحب کا ذہن کبھی مضمحل نہیں ہوا۔ علامہ صاحب اظہارِ خیال فرماتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے نفس انسانی کے جملہ احوال ومقاصد، کہ تاریخ عالم میں ان کا اظہار جس طرح ہوا اور ہورہا ہے اور ہونے والا ہے۔ ان کی چشم بصیرت پر اس طرح روشن ہے، جیسے روزمرہ کے واقعات۔ بات شروع کرتے تو اسلام، عالم اسلام تاریخ و تمدن، سیاست، معیشت، کائنات، علم و عقل، فکر و وجدان، ادب و فن سب اس کی زد میں آجاتے۔ پھر علامہ صاحب کا حسن بیان صاف اور سادہ، دل نشین الفاظ، فصاحت و بلاغت، برجستگی اور بے ساختگی توجہ اور التفات شفقت اور تواضع، خلوص اور دردمندی کہ جو ارشاد ہے دل میں اتر رہا ہے۔ پھر ان کا انکسارِ علم، نہ تعلّی نہ غرور، نہ تمکنت، متانت بھی ہے تو ظرافت کی چاشنی سے خالی نہیں تصنع اور تکلف سے پاک کیا صحبتیں تھیں۔ علامہ صاحب کے یہاں جاتے تو کبھی یہ محسوس نہیں کرایا جاتا کہ آپ کسی بڑے آدمی کی بارگاہ میں حاضری دینے آئے ہیں نہ وقت لینے کی ضرورت نہ منت دربان کی۔ جاوید منزل میں داخل ہوئے علی بخش سے علامہ صاحب کا مزاج دریافت کیا ڈرائنگ روم سے گزر کر علامہ صاحب کی خواب گاہ میں پہنچے، سلام کیا اور بیٹھ گئے۔ علامہ صاحب صحن یا برآمدے میں بنیان پہنے، لنگی باندھے پلنگ پردراز ہیں تو خواب گاہ تک جانے کی بھی ضرورت نہیں۔ فیض عام کھلا ہے جو چاہے آئے اور فیض اُٹھائے۔ انھیں دیکھ کر نہ یہ خیال ہوتا تھا کہ بڑے آدمی ہیں یا بڑے فلسفی یا بڑے شاعر یا بڑے سیاست دان ہیں یا بڑے مومن ہیں۔ حالانکہ وہ سب کچھ تھے اور بہت عظیم تھے وہ بہت بڑے مسلمان تھے اور تکلف و تصنع سے پاک ایسے بے ریا انسان تھے جن کا دل صرف عالم اسلام کے لیے ہی نہیں، رحمۃ للعالمین کے اتباع میں بنی آدم کے لیے دھڑکتا تھا۔ میں نے مولانا محمد علی جوہر۵؎ اور علامہ اقبال کی شخصیتوں کو ایک دوسرے کے بہت قریب پایا۔ ان کی قوت ایمان، جذبہ جہاد اور فکر متین، ہمہ وقت علامہ صاحب کا ذہن اسلام اور مسلمانوں پر مرکوز رہتا تھا۔ اسلام عین ر حیات ہے۔ دنیا کو شر و فساد، شقاوت اور بدبختی سے نجات حاصل کرنے کے لیے اسلام کی کس قدر ضرورت ہے، اور اس لیے اسلام کی دعوت اس کے معنی و مقصود تعلیمات اور تشریحات کی عملاً ترجمانی تشریح اور توضیح کی کس قدر ضرورت ہے؟ …حضرت علامہ رہ رہ کر اسلام او رمسلمانوں کا ذکر چھیڑتے۔ رہ رہ کر کسی خیال میں ڈوب جاتے۔ بے قراری کے عالم میں اُٹھ بیٹھتے اور یااللہ کا ورد کرتے۔ اس دلسوزی اور بے قراری کے باوجود علامہ صاحب مسلمانوں کے تابناک مستقبل کے بارے میں پُرامید تھے۔ ۱۰؍جنوری ۱۹۳۸ء کا ذکر ہے۔ مولانا حافظ اسلم جیراج پوری،۶؎ شیخ سراج الحق۷؎ اور جناب اسد ملتانی۸؎ آئے ہوئے تھے۔ چودھری محمد حسین بھی تشریف رکھتے تھے۔ اثنائے گفتگو مولانا اسلم جیراج پوری نے کہا: ’’ہندی مسلمانوں کا نہ کوئی نصب العین ہے نہ لائحہ عمل، ہماری پراگندہ خیالی کا خاتمہ ہوگا تو کیسے؟‘‘ علامہ صاحب نے کہا: ’’مجھے تو مسلمانوں کے مستقبل سے قطعاً کوئی مایوسی نہیں۔ ہمارا کوئی مسئلہ ہے تو قیادت ہے۔ ہمارے دعوے اور اقدامات ہی جن کی طرف آپ کا اشارہ ہے اس امر کا ثبوت ہیں کہ ہم میں سے کوئی مومن اُٹھ کھڑا ہوگا۔ اور اس کا خلوص اور دیانت داری ساری قوم کو ایک مرکز پر جمع کردے گا۔ یہ محض خیال ہی خیال نہیں ایک حقیقت ہے۔‘‘ مولانا نے سوال کیا: ’’کیا اسلامی ریاست قائم ہوگی؟‘‘ علامہ صاحب نے فرمایا: ’’کیوں نہیں؟‘‘ … اسلام ایک نظام مدنیت بھی ہے جس کی نفی اسلام کی نفی ہے… یہ ہی نظام مدنیت ہماری جداگانہ قومیت کا راز ہے: نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے۹؎ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۹؎ مستقبل میں اسلامیانِ ہند کی قائم ہونے والی آزاد مملکت کو مملکت بنانے کے لیے علامہ صاحب کی خواہش تھی کہ اس وقت کے مسائل اور پیش آنے والے مسائل کے حل کے لیے فکری کام کیا جائے۔ میں نے علامہ صاحب کی تحریک پر ۱۹۳۵ء میں دہلی سے ایک رسالہ طلوعِ اسلام جاری کیا تھا۔ اس پرچے میں جو مضامین شائع ہوئے وہ سب کے سب اسلامی ریاست، ہندی مسلم قومیت، ایمان، ختم نبوت اور معیشت کے متعلق تھے۔ ان مضامین کے پمفلٹ بھی شائع ہوئے یہ رسالہ بوجوہ بند ہوگیا۔ انفرادی طور پر کئی مسلمان اکابرین نے اس نوعیت کی کوششیں کی ہوں گی۔ لیکن علامہ صاحب جس فکری اور تحقیقی کام کے لیے سکالرز گروپ قائم کرنے کے خواہش مند تھے وہ نہ ہوسکا۔ کاش ایسا ہوجاتا تو گزشتہ تیس سال ضائع نہ جاتے پاکستان صحیح اسلامی ریاست بن چکا ہوتا اور یہ جو خلفشار اور ذہنی انتشار ہورہا ہے پیدا نہ ہوتا۔ مسائل اُمت کو قرآن و سنت کی روشنی میں جانچنے اور حل کرنے کے لیے فکری کام کی علامہ صاحب بہت خواہش رکھتے تھے اور جو بھی اس سلسلے میں آگے بڑھتا اس کی ہمت افزائی فرماتے تھے۔ اب ایسے افراد جن کی علامت صاحب نے حوصلہ افزائی کی تھی یہ فرمارہے ہیں کہ ہم ہی تھے اور ہیں۔ ہمارے خیالات کے علامہ اقبال بھی قائل تھے اور ہماری عظمت کے معترف۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارا ذہن اس طرح کا ہے بالخصوص مسلمانان پنجاب کا۔ میں پنجابی ہوکر کہتا ہوں کہ: یہ شاخ نشیمن سے اُترتا ہے بہت جلد۱۰؎ ان کی نظر ہر بات پر تھی۔ معاشرت پر، دینی زندگی پر، شریعت پر جتنے فطری مسائل ہیں، سب پر ان کی نظر تھی۔ وہ بڑی حد تک خطوط میں ان مسائل پر کہہ چکے ہیں۔ یہ سب چیزیں ہیں، جو لکھی پڑھی ہیں۔ اگر جمع کریں تو آپ کے سامنے پورا نقشہ آجائے گا۔ ان کا میرے نام ایک خط ہے جس میں کہتے ہیں، اسلامی ریاست کا نصب العین ہے کسی خطے یا زمین میں ریاست قائم کرنا، کہ آخر آپ کہیں رہیں گے۔ مسلمان بھی کسی مکان میں رہے گا۔ ہندو بھی، عیسائی بھی کسی مکان میں رہے گا۔ آپ کا جو مکان ہے اور آپ کی جو زندگی ہے، اس کی زندگی سے مختلف ہوگی۔ آپ کی زندگی کا ایک مقصد ہوگا، اچھا یا برا، جیسا بھی ہے، اسے آپ پوراکریں گے۔ ریاست جو بھی ہے، قائم تو ہوگی۔ یہ شرط بڑی ضروری ہے کہ انسان خلا میں نہیں اڑتا، زمین پر اس کے پائوں لگیں گے۔ اصل چیز نصب العین ہے۔ جب آپ چاہتے ہیں کہ مجھے ایک مکان مل جائے، اس میں آپ کچھ کرنا چاہتے ہیں، وہ مقاصد جو اسلام لے کر آیا ہے، اس نے معاشرے کو زندگی دی ہے۔ اس میں سیاست بھی ہے، اس میں علم بھی ہے… فن بھی ہے، کارگزاری بھی ہے۔ تجارت بھی ہے، زراعت بھی ہے۔ اس میں سب باتیں موجود ہیں۔ تفصیل کے ساتھ ہم ان کو سمجھنا چاہیں تو پورا مواد ہے۔ اس کو اکٹھا کرکے آپ غور و فکر سے اور آگے بڑھائیں۔ ایک پورا نقشہ سامنے آجاتا ہے۔ وہ دیکھ رہے تھے۔ قائداعظم کو اسی لیے تو لکھا تھا کہ صاحب انقلاب آنے والا ہے۔ اللہ کا شکر ہے، شریعت اسلامی ہمارے پاس ہے۔ اس کے سہارے پار ہوجائیں گے اور یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم ایسا نہیں کرسکے۔ علامہ صاحب نے وطن سے وابستہ تصور قومیت کے بت کو ضربِ کلیمی سے توڑا اور اسلام سے خائف قوتوں کے لیے ان کا یہ گناہ اس قدر تکلیف دہ تھا کہ انھوں نے علامہ صاحب کو کبھی معاف نہیں کیا۔ ان پر تنگ نظری کی تہمت بھی تراشی گئی اور فکری تضاد کی بھی، حالانکہ انھیں اپنا جغرافیائی وطن ہندستان بھی پیارا ہے۔ وہ آب رود گنگا کو نہیں بھولتے۔ وہ اس بات کو نہیں بھولتے کہ اس سرزمین پر چشتی۱۱؎ نے پیغامِ حق سنایا تھا۔ انھوں نے ’’ہندو سے خطاب‘‘ اور ’’نیا شوالہ‘‘ میں ہندو کو پریت کی دعوت دی۔ لیکن اس کا کیا علاج کہ انتہا پسندوں کی قیادت میں ہندو مسلمانوں سے سومنات کی شکست اور صدسالہ غلامی کا انتقام، انھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنا زیردست بنا کرلینا چاہتا تھا، جس کو علامہ اقبال کی زیرک نظروں نے بھانپ لیا تھا اور جس کے لیے وہ تیار نہ تھے۔ علامہ صاحب کے کردار اور اخلاقی زندگی کے متعلق ناروا باتیں کہی جاتی ہیں۔ لیکن ان میں کوئی سچائی نہیں۔ بات یہ ہے کہ ہماری قوم میں ایک مرض ہے عیب جوئی کا۔ جس شخص کی نظر برائی پر ہوتی ہے وہ ہمیشہ خود برا ہوتا ہے۔ رشید احمد صدیقی۱۲؎ نے لکھا ہے کہ گلی محلے میں اوباش ہوتے ہیں۔ وہ شریفوں کے خاندان پر نظر رکھتے ہیں کہیں کوئی کمزوری صحیح یا غلط بات ذرا سی مل جائے اس میں نمک مرچ لگا کر پیش کرتے ہیں تاکہ بدنامی کا کوئی پہلو نکل آئے۔ کچھ ادبی بدمعاش بھی ہوتے ہیں۔ ان کا کام یہ ہوتا ہے کہ جو گزر چکے ہیں ان کی سوانح میں ان کے حالاتِ زندگی میں کہیں کوئی بات مل جائے پھر اسے نمک مرچ لگا کر سکینڈل بنا دیں۔ ایسے ہی علامہ صاحب کے بارے میں ہوا۔ یوں بھی ایک بڑے آدمی کی بدقسمتی ہوتی ہے کہ اس کے بارے میں بہت سی باتیں پھیل جاتی ہیں۔ چھوٹے آدمی کا تو کوئی نوٹس نہیں لیتا۔ ہمیں آپ کو کون یاد رکھے گا۔ علامہ صاحب کے بارے میں بہت سی باتیں کہی گئی ہیں، جو بے معنی ہیں۔ قرآن تو کہتا ہے کسی کی برائی تلاش نہ کرو۔ اپنے اوپر نظر رکھو۔ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ علامہ صاحب نے ایک طوائف کو قتل کیا تھا۔ میں نے جستجو کی ہے اپنے زمانے میں ان کی سوانح نگاری کی خدمت میرے ذمے تھی۔ ۱۹۰۸ء تک لکھ چکا ہوں۔۱۳؎ میں نے دیکھا ہے ان کا جو حلقہ تھا، معززین لاہور کے بہترین افراد پر مشتمل تھا۔ گویا کہنا چاہیے یہ وہ حلقہ تھا جسے سوسائٹی کی کریم کہتے ہیں۔ اگر علامہ صاحب کا ذاتی کردار اور مشغلے ناپسندیدہ تھے تو پھر اس حلقے کے تمام افراد اسی کردار کے حامل ہوں گے۔ لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ ان کے بارے میں ایک لفظ نہیں کہا گیا… سب کے ساتھ ان کا اٹھنا بیٹھنا تھا۔ ان کی بڑی عزت تھی۔ وہ سب کے محبوب تھے۔ پھر ان کی اس قدر قدر و منزلت تھی۔ اس سے آپ اندازہ فرماسکتے ہیں۔ ہم نے کس قدر غلط نتائج قائم کر رکھے ہیں۔ ایک خط منشی سراج الدین۱۴؎ کو لکھتے ہیں: ’’شیخ عبدالقادر ابھی اُٹھ کر کسی کام کو گئے ہیں۔ سیّد بشیر حیدر بیٹھے ہیں اور ابرگوہربار کی اصل علت کی آمد آمد ہے۔‘‘۱۵؎ کردار کشوں نے ’’ابر گہر بار‘‘ کی آمد آمد کو عجیب عجیب معنی پہنائے ہیں۔ لیکن ’’ابر گہر بار‘‘ ایک نظم تھی جو علامہ صاحب نے اس زمانے میں کہی اور ان کے مطبوعہ کلام میں موجود ہے۔ وہ کہتے تھے کہ میں واقعاتِ کربلا پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ان کا ذہن دیکھیے کہاں ہے۔ عظمت شہدائے کربلا کے ہم سب مسلمان قائل ہیں لیکن ان کا تخیل کہاں پہنچا۔ اور بھی اسی طرح کی چیزیں ہیں۔ وہ لاہور کے صاحب کردار اور صاحب عزت لوگوں میں شمع محفل تھے۔ تو پھر ان باتوں کی کوئی تک ہے۔ بندہ بشر ہے، انسانیت اور بشریت کے کئی تقاضے ہیں۔ انھوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ بڑا مومن ہوں۔ تھے تو وہ صحیح معنوں میں مومن۔ انھوں نے کبھی دعویٰ نہیں کیا نہ کسی بات کو چھپایا نہ تصنع سے کام لیا۔ وہ بنیان پہن کر بیٹھتے تھے۔ کبھی لبادہ نہیں اوڑھا۔ جو جی چاہتا ہے بے پر کی اڑائے ہر شخص کو حق حاصل ہے یادہ گوئی کا… افسوس کہ یہ باتیں پاکستان بننے کے ۳۰ برس بعد بھی سننے اور پڑھنے میں آئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی تک علامہ صاحب کے متعلق مکمل طور پر اور صحیح طور پر تحقیقی کام نہیں ہوا۔ ان کا سیالکوٹ کا دور، لاہور کا دور، یورپ کا دور، واپسی قیام لاہور کا دوسرا یعنی آخری دور، ان کی زندگی، ان کے خیالات، ان کے مشاغل سب کا تفصیل سے مطالعہ اور تحقیق ضروری ہے۔ اور جو کام بھی ہوا ہے وہ تشنہ ہے۔ مکمل نہیں پھر ہماری ملت کا تو یہ طرہ امتیاز ہے کہ اپنے محسنوں پر کیچڑ ضرور اُچھالتے ہیں۔ سرسیّد احمد خان کے بارے میں کیا نہیں کہا گیا۔ مولانا محمد علی جوہر اور قائداعظم کے بارے میں کیا کیا باتیں نہیں ہوئیں۔ فلسفی اور شاعر کی زندگی شعر اور فلسفے کی زندگی ہوتی ہے۔ بڑھاپے میں جوانی کی باتیں ختم ہوجاتی ہیں۔ صرف ان کو یاد کرتا ہے۔ اسی طرح سے جو فلسفی یا سیاست دان یا شاعر ہے۔ اس کی وہ فلسفیانہ اور شاعرانہ زندگی عموماً ختم ہوجاتی ہے۔ پھر اس سے کچھ ہوتا نہیں علامہ صاحب کے یہاں کوئی انتہا ہی نہیں۔ خاتمے کا کوئی سوال ہی نہیں۔ شاعری جو ہے اس میں توانائی ہے۔ سیاست جو ہے اس میں ایک کے بعد دوسرا مرتبہ ان کے سامنے ہے بات ختم ہی نہیں ہوئی۔ آخری وقت میں بھی گفتگو کررہے ہیں۔ صبح انتقال ہوتا ہے، ساڑھے بارہ بجے تک ہم بیٹھے ہیں، باتیں ہورہی ہیں۔ ہم سب کہہ رہے ہیں اللہ ان کو صحت دے۔ اس شام جب میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ ابھی ان کے دوست بیرن صاحب۱۷؎ بیٹھے ہیں۔ بیرن انگریزی نہیں جانتے تھے تو جرمنی میں باتیں ہوئیں اس کے بعد ان کی حالت کچھ خراب تھی۔ ان کے تھوک میں کچھ خون آیا۔ انھیں باہر لے آئے ڈاکٹر نے دیکھا تو پھر کچھ دیر اندر چلے گئے۔ شام کے بعد ساڑھے بارہ بجے تک بیٹھے رہے کہنے لگے علی بخش چائے تیار کرائو، بسکٹ وسکٹ بھی ہوں گے جلدی کرو سیاست کی باتیں ہوئیں کانگریس و لیگ کی اور اس کے نظریات۔ چٹکلے بھی ہوتے رہے۔ ایسا معلوم ہورہا تھا۔ آپ ایک تندرست آدمی سے باتیں کررہے ہیں یہاں تک [کہ] ساڑھے بارہ ہوگئے۔ چودھری محمد حسین کہنے لگے: ’’نیند آرہی ہے۔‘‘ ان کا جی نہیں چاہتا تھا۔ کہنے لگے: ’’اچھا آرام کرو۔‘‘ باہر آئے تو چودھری صاحب کو احساس ہوا۔ کہنے لگے: جب یہ سو جاتے تو ہم آجاتے۔‘‘ تو قرشی صاحب نے کہا ’’واپس چلو۔‘‘ ہم نے کہا: ’’نہیں صاحب وہ زیرک ہیں۔ واپس گئے تو وہ سمجھیں گے کہ ضروری کوئی بات ہے۔ لہٰذا اب واپس نہیں جانا چاہیے۔‘‘ ہم سے جو غلطی ہوئی سو ہوئی۔ لیکن صبح پانچ بجے آنا طے ہوا اور پھر صبح نہ ہوسکی۔ میں نے ’’اقبالؒ کے آخری ایام‘‘ میں پوری تفصیلات درج کردی ہیں۔ علامہ صاحب کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ لیکن اس میں سے زیادہ صرف نفع کمانے کے لیے لکھا گیا ہے، کچھ لوگ تو بڑی دیدہ دلیری سے خود کو علامہ صاحب کا قریبی بتاتے ہیں اور یاوہ گوئی کے انبار لگاتے ہیں۔ حالانکہ جس وقت علامہ صاحب کی وفات ہوئی یہ بزعم خویش قریبی، پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ میں نے جو سوانح علامہ کی لکھی ہے۱۷؎ اس سے ان قریبی حضرات نے متعدد کتابیں بغیر کسی حوالے کے چھاپ لی ہیں اور کچھ اپنے طور پر ملا کر اپنی کتابوں کو انکشافات قرار دے دیا ہے۔ چاہیے تو یہ کہ مل کر کام کیا جائے اور بغیر چھان پھٹک کے کوئی بات نہ لکھی جائے۔ کسی صاحب نے لکھ مارا ہے کہ علامہ صاحب زندگی سے بے زار تھے۔ موت کی خواہش رکھتے تھے حالانکہ وہ کہتے تھے: ’’زندگی نعمت ہے بہت بڑی نعمت۔‘‘ آخری وقت میں ڈاکٹر صاحب سے پوچھنے لگے میری زندگی کے کتنے دن ہیں؟ ڈاکٹر صاحب چپ ہوگئے۔ علامہ صاحب بولے ’’تو یوں کہیے میں یہ موت مرچکا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے کہا: ’’آپ کو زندگی کی بہت خواہش ہے۔‘‘ کہنے لگے: ’’ہاں زندگی کی خواہش ہے اس لیے کہ کام کروں۔ اس لیے نہیں کہ خوب کھائوں پیوں اور لٹکتا رہوں۔ ہومر۱۸؎ کی (Odyesey) کی طرح شہدائے کربلا کا مرثیہ لکھنا ہے، جاوید نامہ میں کئی ارواح سے ملاقات کا اضافہ کرنا ہے۔ خواہش تو یہ ہے کہ کلامِ پاک کے متعلق بھی ایک کتاب لکھوں۔‘‘ علامہ صاحب کا ذکر آتے ہی ذہن ماضی میں چلا جاتا ہے۔ جب راقم الحروف کبھی تنہا لیکن اکثر و بیشتر احباب کے ساتھ حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ ویسے ہی تازہ ہے جیسے کل کی بات۔ اب بھی جب کبھی میرا گزر شارع علامہ اقبال (اس وقت میو روڈ) اور شارع عبدالحمید بن بادیس (اس وقت ایمپرس روڈ) یا اس سڑک سے ہوتا ہے جو صدر دفتر ریلوے کے ایک پہلو میں شرقاً غرباً اس وقت کی میو اور ایمپرس سڑکوں کو باہم ملاتی ہوئی جاوید منزل کے بالمقابل ختم ہوجاتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میرے قدم اب بھی جاوید منزل کی طرف اُٹھ رہے ہیں۔ جیسے قرشی صاحب شاید راستے میں مل جائیں اور ہوسکتا ہے چودھری صاحب بھی، جیسے راجا صاحب آتے ہی ہوں گے۔ علی بخش منتظر ہوگا۔ اس سے صحن یا برآمدے میں ہی ملاقات ہوجائے گی۔ خدا کرے حضرت علامہ کی طبیعت اچھی ہو۔ یوں دفعتاً حال ماضی کا جامہ اوڑھ لیتا ہے۔ پرانی صورتیں آنکھوں میں پھر جاتی ہیں۔ میں ایک لمحہ کے لیے رک جاتا ہوں پھر ایام گذشتہ کی یاد ساتھ لیے آگے بڑھ جاتا ہوں بعینہٖ جب کبھی جاوید منزل جانا ہوتا ہے اور اس کمرے میں بیٹھتا ہوں جو کبھی حضرت علامہ کی نشست گاہ اور جو ڈاکٹر جاوید کا دفتر تھا لیکن جس میں حضرت علامہ شاذ ہی تشریف فرما ہوتے۔ الا یہ کہ نکلنا کسی ضرورت کی بنا پر یا پھر احیاناً۔ ۳۵-۱۹۳۶ء میں جب ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کی صحت ترقی کررہی ہے تو آنکھیں بے اختیار اس دروازے کی طرف اُٹھ جاتی ہیں جس سے ہوکر ہم اس کمرے میں، جو حضرت علامہ کی خواب گاہ تھا، ان کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ میں اس دروازے کو دیکھتا ہوں۔ نگاہیں بظاہر دروازے پر ہیں لیکن حقیقتاً ایام گذشتہ پر کہ ایک ایک کرکے آنکھوں میں پھر رہے ہیں۔ یہ کمرہ، یہ خواب گاہ، گزری ہوئی صحبتیں، نشستیں اور گفتگوئیں! حضرت علامہ فراش ہیں، لیکن ذہن بیدار، طبیعت شگفتہ۔ وہی پلنگ ہے اور وہی اس کے پاس رکھی ہوئی تپائی۔ اب تو اس زمانے کی حسین یادیں ہی ہمارا سرمایہ ہیں۔ ہمیشہ رہے نام اللہ کا (جرس کارواں: مرتبہ سعید اختر، واہ کینٹ، ۱۹۷۸ئٌ حوالے اور حواشی ۱- چودھری محمد حسین (۲۸؍مارچ ۱۸۹۴ئ- ۱۶؍جولائی ۱۹۵۰ئ) پریس برانچ میں ملازم تھے۔ اس کے علاوہ نواب ذوالفقار علی خاں کے بچوں کے اتالیق بھی تھے۔ علامہ سے تعلقات کی ابتدا نواب صاحب کے ہاں ہوئی۔ پھر روابط اس قدر گہرے ہوگئے کہ اقبال نے انھیں بچوں کا گارڈین مقرر کیا۔ ۲- م-ش (م۱۹۹۳ئ) معروف صحافی، مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے بنیادی ارکان میں سے تھے۔ مغربی پاکستان اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ اقبال کے آخری زمانے میں میاں صاحب کو علامہ کی قربت اور صحبت میسر رہی۔ بعض اوقات اقبال ان سے خطوط بھی املا کراتے تھے۔ ۳- حکیم محمد حسن قرشی (۱۸۹۶ئ- ۱۹۷۴ئ) ممتاز طبیب، طبیہ کالج کے پرنسپل رہے، اقبال سے عقیدت رکھتے تھے۔ آخری ایام میں ان کے معالج بھی رہے۔ ۴- راجا حسن اختر (۲۵؍دسمبر ۱۹۰۴ئ- ۱۵؍اکتوبر ۱۹۶۴ئ) ڈی، سی رہے۔ اقبال سے گہرے مراسم تھے۔ اقبال کے آخری دنوں میں ان کے بہت قریب رہے۔ مرکزیہ مجلس اقبال لاہور کے صدر تھے۔ ۵- محمد علی جوہر (۱۸۷۸ئ- ۱۹۳۱ئ) برعظیم کے معروف ملّی رہنما، بلند پایہ صحافی، شعلہ بیان مقرر، تحریک خلافت اور تحریک ترک موالات کی روح رواں، پہلی گول میز کانفرنس (۱۹۳۱ئ) میں شریک ہوئے۔ لندن میں انتقال کیا اور بیت المقدس میں دفن کیے گئے۔ ۶- حافظ اسلم جیراج پوری (۱۸۸۳ئ- ۱۹۵۰ئ) عالم دین، علی گڑھ اور بعد میں جامعہ ملیہ میں استاد رہے۔ نذیر نیازی ان کے شاگرد اور بعد میں رفیق کار رہے۔ متعدد کتابوں کے مصنف۔ ۷- شیخ سراج الحق ہندستان کے ریلوے بورڈ کے عہدے دار تھے۔ (نیازی) ۸- اسد ملتانی (۱۹۰۲ئ- ۱۹۵۹ئ) قادر الکلام شاعر، اقبال سے ان کے روابط اور ملاقاتوں کی تفصیل کے لیے دیکھیے جعفر بلوچ کی مرتبہ کتاب اقبالیاتِ اسد ملتانی (مکہ بکس، لاہور ۱۹۸۴ئ) ۹- بالِ جبریل، ص۱۱ ۱۰- ضربِ کلیم، ص۶۱ ۱۱- خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ مراد ہیں۔ ۱۲- رشید احمد صدیقی (۱۸۹۶ئ- ۱۹۷۵ئ) اُردو کے معروف طنز نگار، متعدد کتابوں کے مصنف۔ اقبال پر ان کے مضامین اقبال، شخصیت اور شاعری کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔ (اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۷۶ئ) ۱۳- اشارہ ہے ان کی تصنیف دانائے راز کی طرف، اس کا دوسرا حصہ مکمل ہوا مگر مسودہ گم ہوگیا اور اشاعت کی نوبت نہ آئی۔ ۱۴- منشی سراج الدین (۱۸۷۶ئ- ۱۹۴۰ئ) ریذیڈنسی کشمیر کے میر منشی، اقبال کے دوست کتابیں جمع کرنے کا شوق تھا۔ خان صاحب کے نام سے مشہور تھے۔ ۱۵- اقبال نامہ (دوم)، ص۳ ۱۶- والتھہام بیرن: جرمنی میں اقبال کے زمانہ طالب علمی کے دوست۔ ۱۹۳۸ء میں ہٹلر کے نمایندے کی حیثیت سے ہندستان اور افغانستان کا سفر کیا اور وفات اقبال سے ایک روز قبل (۲۰؍اپریل ۱۹۳۸ئ) کو اقبال سے ملاقات کی۔ ۱۷- دانائے راز مراد ہے۔ ۱۸- ہومر: قدیم یونان کا عظیم شاعر اور معلم۔ اس کی نظمیں یونانی ادب کا شاہکار ہیں۔ ئ……ئ……ء ڈاکٹر صاحب کے ارشادات ’’ڈاکٹر صاحب‘‘ کے ارشادات اس لیے کہ حضرت علامہ اقبال احباب و مخلصین اور ارادت مندوں کے حلقہ میں ڈاکٹر صاحب ہی کے نام سے مشہور تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے ان ارشادات کی تاریخ ۲۶، ۲۷ اور ۲۸؍جون ۱۹۲۴ء ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ترک موالات۱؎ کی تحریک زوروں پر تھی۔ گو اس کی گرماگرمی سرد پڑ چکی تھی۔ اور مسلمان کچھ اس تحریک کے اثرات اور کچھ ’’ایفاے خلافت‘‘ کی وجہ سے بددل ہو رہے تھے۔ میں ان دنوں ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ تو قدرتاً جو گفتگو ہوئی وہ انھی مباحث پر ہوئی۔ علی گڑھ جاکر میں نے اس گفتگو کے ضروری حصص کو چھوٹے چھوٹے شذرات کی صورت میں قلم بند کرلیا۔ خیال تھا کہ جب کبھی موقع ملا ان کی تفصیل سے مرتب کرلیا جائے گا۔ لیکن افسوس ہے کہ ابھی تک یہ شذرات جوں کے توں پڑے ہیں۔ ذاتی طور سے مجھے ان کی اشاعت میں تامل ہے لیکن حسرت صاحب۲؎ کے اصرار پر مجبوراً ان کو اشاعت کے لیے دے رہا ہوں۔ کیونکہ جناب حسرت کا خیال ہے کہ اس شکل میں بھی ان کی اشاعت خالی از فائدہ نہیں۔ (نیازی) (۱) فرمایا: اگر تعلیمی ترک موالات۳؎ مقصود ہے تو اس کا پورا ہونا ممکن نہیں۔ ’’الحکم علما‘‘ تو سمجھ میں آتا ہے لیکن ’’العلم حکما‘‘ سمجھ میں نہیں آتا۔ ہاں اگر مسلمانوں کے ذہنی احیا، علوم و معارف اسلامیہ کے تحقیق و تفتیش اور الٰہیات کے علمی مطالعہ کے لیے عہد حاضر کے تعلیمی اصولوں پر ایک ادارہ علم کی تاسیس کی جائے تو مضائقہ نہیں۔ سائنس یعنی علوم طبیعی کی ترویج بہرحال ضروری ہے۔ علومِ طبیعی کا مطلب ہے ’’تسخیر کائنات‘‘۔ اسلام کا ایک مقصد فرمایا۔ علم کیمیا کمزوروں کا علم ہے یعنی ان قوموں کا جو کمزور ہیں اور طاقت و قوت حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ (۲) فرمایا: تاریخی اعتبار سے ہندو مسلم اتحاد کی ابتدا لودھیوں کے زمانہ سے ہوئی۔ کبیر۴؎ اس اتحاد کا بانی ہے پھر اکبر نے اس تحریک کو زندہ کیا لیکن ہندو مسلم اتحاد کا تقاضا ہمیشہ یہ رہا کہ مسلمان لادینی اختیار کرلیں۔ عالمگیر۵؎ نے یہ نکتہ سمجھ لیا تھا بعینہٖ جیسے ان سے پہلے حضرت مجدد الف ثانی۶؎ نے اور بعد میں شاہ ولی اللہ۔۷؎ ۱۸۵۷ء کا اتحاد عارضی تھا۔ ارشاد ہوا میں خود ایک زمانہ اس اتحاد کا داعی تھا لیکن الحمدللہ کہ جلد ہی مسلمان ہوگیا۔ (۳) فرمایا: گاندھی کوئی بڑی شخصیت (Personality) نہیں۔ بہت بڑا کردار (Character) ہے۔ ہندو فطرتاً مزاج پسند ہے۔ ہندو مذہب ہی نفیوں (Negatives) کا مذہب ہے۔ گو بظاہر بڑا دلفریب ہے لہٰذا ہندو معاشرہ بھی ایک طرح کا سیاسی مزاج ہے۔ (۴) فرمایا: عالمگیر کا ہندوئوں پر جزیہ عائد کرنا گویا ان کو شبہ اہل کتاب کا درجہ دینا تھا۔ ارشاد ہوا: اہل کتاب سے مراد اگر صرف یہود و نصاریٰ ہیں تو شبہ اہل کتاب سے وہ قوتیں مراد ہیں جس میں انسانیت کا کوئی اعلیٰ تصور موجود ہے۔ (۵) فرمایا: ہندستان کے موجودہ سیاسی حالات کے پیش نظر مسلمانوں کے لیے ایک راستہ تو یہ ہے کہ ابدی غلامی پر قانع ہوجائیں اور دوسرا یہ کہ ہندو مسلم اتحاد یعنی وطنیت اور قومیت کے جدید تصورات اختیار کرلیں۔ لیکن ان کے لیے تیسرا اور سب سے بہتر راستہ یہ ہے پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ، کشمیر اور بلوچستان کو ملا کر اسلامی منطقہ قائم کریں۔ اگر مسلمان ان علاقوں میں منظم ہوجائیں تو باقی ہندستان میں اسلامی اقلیت کا تحفظ ممکن ہے۔ (۶) فرمایا: اسلامی فقہ کی تجدید ناگزیر ہے۔ ضرورت ہے کہ اس پر ہر پہلو سے نظرثانی کی جائے۔ موجودہ سول لا (Civil Law) منسوخ ہونا چاہیے۔ لیکن یہ بات جب ہی ممکن ہے کہ مسلمان اجتہاد سے کام لیں۔ ’’اجتہاد‘‘ کے متعلق شیعی سنی نقطۂ نظر کی تحقیق نہایت ضروری ہے۔ ارشاد ہوا: یوں ذہناً سنی دنیا اہل تشیع کی نسبت آزاد ہے اس لیے نظری طور پر باب اجتہاد کو مفتوح سمجھتے ہیں۔ لیکن تقلید نے ان کا دل و دماغ زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔ شیعوں کے نزدیک اجتہاد کا حق صرف امام کو پہنچتا ہے۔ لیکن چونکہ امام موجود نہیں اس لیے عملاً شیعہ تقلید کی لعنت سے آزاد ہیں۔ ارشاد ہوا: فقہ جعفری سے فائدہ اُٹھانا چاہیے۔ فقہ جعفری کام کی چیز ہے۔ (۷) فرمایا: ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو مغرب کا مادی ارتقا اور اس ارتقا کی بدولت ’’فطرت کی تسخیر‘‘ منشائے قرآنی کے عین مطابق ہے لہٰذا احاطہ اسلام میں جہاں کہیں اس قسم کی کوئی کوشش کی جائے (جیسا کہ ترکی اور مصر کے متعلق سننے میں آتا ہے) تو اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔ (۸) فرمایا: خلافت کے بارے میں مجلس ملّی کا فیصلہ ٹھیک ہے۔ ارشاد ہوا کہ سارے عالم اسلام کے لیے ایک خلیفہ کا ہونا صرف اسی وقت ممکن ہے۔ جب سارے عالم اسلام میں ایک سلطنت قائم ہو یا پھر خلافت کا مطلب ہوگا دول اسلامیہ کا وفاق۔ ابن خلدون۸؎ کے نزدیک بھی ایک وقت میں متعدد خلیفہ ہوسکتے ہیں۔ (عالم اسلامی کے مختلف حصوں میں) ارشاد ہوا اسلام میں پاپائیت (Papacy) نہیں خلافت نام ہے مشترکہ ذمہ داریوں یعنی ملّی ایجاب و قبول کا۔ ارشاد ہوا اتحاد اسلامی کا ذریعہ حج ہے نہ کہ ایک خلیفہ کی موجودگی پر اصرار۔ ارشاد ہوا اسلام کی سیاسی روح میں جمہوریت (Republicanism) ہے۔ مراتب کا فرق صرف افراد کے لیے ہے اور وہ بھی اخلاقی اعتبار سے، اجتماعی لحاظ سے اسلامی معاشرہ میں کوئی مراتب نہیں۔ (۹) فرمایا: غیر تشریعی نبوت بے ضرر چیز ہے۔ یہ محض قول ہی قول ہے۔ اس کا کوئی معنی نہیں۔ مثال کے طور پر اس نبوت کے دعوے دار امامت اور تجدید دین کے دعاوی کے باوجود مذہب حنفی کے پابند ہیں۔ ان کی اپنی کوئی فقہ نہیں۔ یعنی وہ عملاً کچھ بھی نہیں۔ (۱۰) فرمایا: اسلام علمی روح (Scientific Spirit) کا پیش خیمہ ہے۔ (۱۱) فرمایا: بہشت اور دوزخ روزمرہ کا تجربہ ہیں۔ حشر و نشر حقیقت ہے، معاد بھی۔ علم و حکمت کو ابھی ان حقائق تک پہنچنے کے لیے بہت سے مراحل طے کرنا ہیں۔ (۱۲) فرمایا: اسلام نے فنونِ لطیفہ کو ممنوع قرار نہیں دیا ہے۔ فنونِ لطیفہ کا کام ہے کہ اپنا صحیح منصب اور جائز حدود متعین کریں۔ (۱۳) فرمایا: موسیقی کی اصلاح ہونی چاہیے۔ (۱۴) فرمایا: جسم اور روح ایک وحدت ہیں۔ روح مشاہدہ ہے داخل سے اپنے آپ کا (یعنی ذات کا) اور جسم خارج سے۔ ارشاد ہوا مسلمانوں نے یونانی فلسفہ کی اتباع میں خواہ مخواہ یہ لغو تفریق پیدا کرلی کہ روح اور جسم کا وجود الگ الگ ہے۔ ارشاد ہوا جسم کے متعلق برکلے۹؎ کا یہ قول نہایت صحیح ہے کہ جسم مادی (Physical Interpretation) ہے ہماری ذات کی۔ اسے کوئی مادی چیز قرار دینا (Material Something) ٹھیک نہیں۔ جدید طبیعیات کے نقطۂ نظر سے بھی برکلے کا یہ خیال ٹھیک ہے۔ (۱۵) فرمایا: ترک موالات کی تحریک ناکام رہے گی۔ ستیاگ سے تصادم لازم آتا ہے اور ستیاگرہ کا نتیجہ ہوگا شکست۔ ارشاد ہوا سیّد احمد خاں کی سیاست ٹھیک تھی۔ ان کا خیال یہ تھا کہ مسلمانوں کو اپنی طاقت محفوظ رکھنی چاہیے۔ ہندو چونکہ اکثریت میں ہیں۔ لہٰذا انھیں اور انگریزوں کو آپس میں لڑنے دیا جائے۔ انگریزی تسلط کا ازالہ بے شک ضروری ہے۔ لیکن اس میں عجلت سے کام لینا غلط ہوگا۔ جب تک ہندو اور انگریز آپس میں لڑیں مسلمان اپنی طاقت بڑھاتے رہیں۔ آخرالامر ہندستان کی تقسیم ناگزیر ہے۔ (۱۶) فرمایا: علم، صحیح علم اہل علم کی صحبت میں حاصل ہوتا ہے لیکن آج کل اس قسم کی صحبتوں کا ملنا ممکن نہیں۔ (۱۷) فرمایا: ہر بڑا آدمی لازماً بڑا نہیں ہوتا۔ (۱۸) فرمایا: یہ زمانہ عقل کا ہے۔ عذاب اور ثواب پر کوئی توجہ نہیں کرتا۔ دوزخ اور بہشت کے عملاً مشاہدے کے باوجود انکار کیا جاتا ہے۔ زمانے کا مطلب ہے ایک وقت میں اکثریت کا ذہنی اشتراک۔ (۱۹) فرمایا: زندہ قوموں میں مجددین کا ظہور ہوتا رہتا ہے یعنی ہر نازک صورت حالات میں کوئی بڑا آدمی پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ ایک حیاتیاتی (Biological) صداقت ہے۔ جیسے روسو نے گویا نپولین کا خواب دیکھا۔ اصطلاحی معنوں میں البتہ امامت اور تجدید کی کوئی سند نہیں۔ بعض تناسخ پسند صوفیہ نے تو اس معاملہ میں غضب کیا۔ خود نبی ا کے دوبارہ ظہور کے قائل ہوگئے۔ گو اس بات کو صاف صاف نہیں کنایوں میں ادا کیا۔ (۲۰) فرمایا: شیعی دنیا سنی دنیا سے زیادہ منظم ہے لیکن شیعوں کا مذہبی جنون بڑی غلط بات ہے۔ (۲۱) فرمایا: اسلام ایک لمحہ (Flash) تھا پیش از وقت۔ ئ……ئ……ء حوالے اور حواشی ۱- دیکھیے: ’’اسلامی ہندی ریاست‘‘، حاشیہ نمبر۱ ۲- حسرت صاحب سے مراد چراغ حسن حسرت (۱۸۷۸ئ- ۱۹۵۱ئ) ہیں۔ وہ معروف صحافی، مزاح نگار، ادیب اور شاعر تھے۔ ۳- تعلیمی ترک موالات: تحریک ترک موالات کے مقاصد میں یہ بات شامل تھی کہ ایسے تعلیمی اداروں کا بائیکاٹ کیا جائے جو سرکاری ہیں یا حکومت کی امداد سے چلتے ہیں۔ اقبال کو اس سے اختلاف تھا۔ ۴- بھگت کبیر (۱۳۹۹ئ- ۱۵۱۸ئ) مشہور بھگت، ہندوئوں اور مسلمانوں کی متنازع شخصیت۔ ان کے ہندی دوہے مشہور ہیں۔ ۵- اورنگ زیب عالمگیر (۱۶۱۸ئ- ۱۷۰۷ئ) مغل شہنشاہ۔ ۶- ابوالبرکلات بدر الدین احمد، مجدد الف ثانی (۲۶؍جون ۱۵۶۴ئ- ۱۰؍دسمبر ۱۶۲۴ئ) ۷- شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (۱۰؍فروری ۱۷۰۲- ۱۰؍اگست ۱۷۶۲ئ) مترجم قرآن برعظیم کے نامور محدث، فقیہ اور مفکر اسلام… اسلامی نشاۃ ثانیہ کے لیے ساری عمر کوشاں رہے۔ ۸- زید عبدالرحمن ولی الدین ابن خلدون (۲۷؍مئی ۱۳۳۳ئ- ۱۹؍مارچ ۱۴۰۶ئ) فلسفہ، تاریخ اور عمرانی علوم میں ان کی مہارت ان کے لیے وجہ شہرت ہوئی۔ ۹- جارج برکلے (۱۲؍مارچ ۱۶۸۵ئ- ۱۴؍جنوری ۱۷۵۳ئ) آئرلینڈ کا فلسفی، ماہر اقتصادیات، ریاضی دان اور ماہر طبیعیات۔ ز……ز……ز ملفوظاتِ اقبال (روزنامچے کا ایک ورق)۱؎ ۷؍فروری ۱۹۳۸ئ: آج صبح حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو ابھی آٹھ ہی بجے تھے۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگے: ’’اتنی جلدی کیسے آگئے؟‘‘ میں نے عرض کیا: اشعار کے خیال سے۔ فرمایا: بہت اچھا: بیاض لے آئو۔ میں کاغذ قلم دان اُٹھا کر پلنگ کے سہارے بیٹھ گیا۔ اوّل چھے شعر کی ایک نظم کہی۔ جس کا عنوان تھا: ’’حضرتِ انسان‘‘۲؎ پھر دو ایک رباعیوں میں ذرا سا ردّ و بدل کیا گیا۔ اتنے میں چودھری صاحب تشریف لے آئے۔ اُن سے دیر تک اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ چودھری صاحب گئے تو حضرت علامہ نے دھوپ میں بیٹھنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اور حسب معمول خواب گاہ سے اُٹھ کر صحن میں آ لیٹے۔ علی بخش نے حقہ بھر کر سامنے رکھ دیا۔ میں نے عرض کیا: جاوید نامہ میں آپ نے ایک سوال کیا ہے۔ اور وہ یہ کہ شعر میں سوز کہاں سے آتا ہے؟ از خودی یا ازخدا آید بگو۔ مگر اس کا جواب نہیں دیا۔ فرمایا: اس کا جواب کون دے سکتا ہے۔ خودی کا وجود خدا سے الگ تو نہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو چیز خودی سے آتی ہے اُس کا سرچشمہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: کیا آپ کا ارشاد ’’اتصالِ بے تخیل بے قیاس‘‘ کی طرف ہے؟ فرمایا: ’’ہاں‘‘۔ میں نے کہا: گویا خودی کے لیے ہمیں خدا کو تلاش کرنا پڑے گا۔ ارشاد فرمایا: ’’بے شک‘‘۔ میں ایک لحظے کے لیے ٹھہر گیا۔ معلوم ہوتا تھا حقیقت مطلقہ کی تعیین میں ایک نئی سہولت پیدا ہوگئی ہے۔ اس خیال کے آتے ہی میں نے پھر سوال کیا: منطقی اعتبار سے دلیل کیسی ہے؟ فرمایا: اس قسم کے دلائل متکلمین پیش کرچکے ہیں۔ گو یہ دلیل اُن کے ذہن میں نہیں تھی۔ ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ خودی ایک حقیقت ہے۔ اور اس حقیقت کا انکار ناممکن۔ میں نے کہا: اگر ہم خودی کو ایک حقیقت قرار دیں۔ تو پھر ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اوّل تو اس حقیقت کو حقیقت سمجھتا ہی کون ہے۔ ثانیاً خودی کا استحکام اور اُس کی پرورش اس حقیقت کے فہم پر موقوف ہے۔ حضرت علامہ نے فرمایا: ٹھیک ہے، مگر تم نے اپنے سوال کو ابھی تک بیان نہیں کیا۔ میں نے عرض کیا: میرا سوال یہ ہے کہ اگر خودی کا استحکام اسرار پر موقوف ہے کہ ہمیں اس کا احساس بھی ہو تو اُن لوگوں کے انجام کا کیا ہوگا۔ جو ابھی شعورِ ذات کے ابتدائی مراحل میں ہیں۔ کیا انھیں بقائے دوام کا حق مل سکتا ہے؟ فرمایا: تم نے اس مسئلے کو کسی قدر غلط سمجھا ہے۔ بے شک خودی کے استحکام کے لیے اس کا احساس ضروری ہے۔ لیکن حفظِ ذات کا جذبہ ایک فطری اور طبعی جذبہ ہے۔ جس سے دنیا کا کوئی وجود خالی نہیں۔ لہٰذا بقائے دوام کا امکان ہر شخص کے لیے موجود ہے۔ خواہ وہ شعور ذات کے کسی مرحلے میں ہو۔ یہ جذبہ اتنا ہی عام ہے جتنی زندگی۔ اسلام عبارت ہے فطرۃ اللہ سے۔ اور دنیا کی کوئی چیز فطرۃ اللہ سے انکار نہیں کرسکتی۔ دیکھو میں تمھیں ایک مثال سے سمجھاتا ہوں۔ یہ تخت تمھارے سامنے رکھا ہے۔ اگر تم اسے اُٹھانے کی کوشش کرو تو تمھیں کس چیز کا سامنا کرنا پڑے گا؟ مزاحمت کا۔ گویا یہ مزاحمت تخت کی فطرت میں داخل ہے۔ لہٰذا اس کا اسلام کیا ہے؟ مزاحمت۔ علیٰ ہذا زندگی کا خاصہ کیا ہے؟ حفظِ ذات۔ فطرت کا یہ قانون ہر جگہ جاری و ساری ہے۔ میں نے کہا: ’’لیکن انسانی خودی محتاج ہے۔ مستقل بالذات نہیں‘‘ فرمایا: مگر تم اس احتیاط کو دلیل کے طور پر کیسے پیش کرسکتے ہو۔ آجاکر بات تو وہیں ختم ہوگی۔ جس کی طرف کانٹ نے اشارہ کیا تھا۔ کہ ایک منطقی وجود فی الواقع حقیقی وجود کا مرادف بن سکتا ہے؟ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ ایک طرف خودی ہے۔ دوسری طرف کائنات۔ خودی کا تقاضا علیحدگی تفرید اور یہ عمل اُسی وقت ممکن ہے۔ جب ایک وجود کے مقابلے میں دوسرا وجود موجود ہو۔ میں نے عرض کیا۔ لیکن آپ ہی نے فرمایا ہے۔ یہ وجود مقابل یعنی کائنات اور کائنات کا ہر ذرّہ زمین سے لے کر بعید ترین ستاروں تک اس کی تخریب و تعمیر میں حصہ لیتا ہے۔ لہٰذا انسان قدرتاً مادیت کی طرف مائل ہے۔ ارشاد ہوا۔ یہ کیسے؟ میں نے بادب عرض کیا کہ خودی کا وہ مظہر ہے۔ جسے ہم انسان سے تعبیر کرتے ہیں۔ کائنات میں ظہورکرتا ہے۔ بڑھتا ہے، پھیلتا ہے، طاقت حاصل کرتا ہے اور بالآخر اُسی میں گم ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ہم بالطبع یہ سمجھتے ہیں کہ عالم میں جو کچھ ہے۔ مادے ہی کا کرشمہ ہے۔ جس طرح سینۂ بحر میں قطرے اور موجیں اور بلبلے پیدا ہوہوکر بالآخر اُسی میں فنا ہوجاتے ہیں اسی طرح یہ کائنات عناصر کا ایک کھیل ہے۔ جس میں ہزاروں صورتیں بنتی اور بن بن کر بگڑتی رہتی ہیں۔ اور باقی کیا رہ جاتا ہے۔ بقول آپ کے زمانے کی خاموش روانی اور کائنات کا پُراسرار اہتراز۔ لہٰذا یہ سب سے بڑی کشش ہے نظریہ مادیت میں۔ فرمایا یہ صحیح ہے مگر مادّہ کیا ہے؟ ممکن ہے جسے ہم بظاہر مادّہ سمجھتے ہیں۔ وہ دراصل خودی ہی کی ایک شکل ہو۔ جدید سائنس کا بھی تو یہی نظریہ ہے۔ کہ کائنات بجائے خود ایک ذہن ہے۔ البتہ سائنس کو اس ذہن کے منفرد یا سزاوار عبادت ہونے سے انکار ہے۔ لیکن ہوسکتا ہے کہ یہ ذہن ایک انفرادی اور شخصی ذہن ہو۔ اور کائنات اُس کی ’’سنت‘‘ جیسا کہ آپ نے ارشاد فرمایا ہے۔ ’’بے شک میرا تو یہی خیال ہے‘‘ میک ٹے گرٹ۳؎ کی اس بارے میں کیا رائے تھی؟ میٹ ٹے گرٹ بھی یہی کہتا تھا کہ مادّے کو مادّہ سمجھنا غلطی ہے۔ کائنات میں جو کچھ ہے۔ خودی ہے اور اُس کے نظریۂ عشق کی بنا کس دلیل پر ہے؟ اس حقیقت پر کہ ہمارا میل جول اور محبت و مودت روزمرہ کا واقعہ ہے۔ لہٰذا میک ٹے گرٹ نے یہ رائے قائم کی کہ عالم میں جو اصول کارگر ہے۔ وہ ’’عشق‘‘ ہے۔ لیکن میک ٹے گرٹ کا وجود مطلق تو بکھر کو خودیوں میں بٹ گیا ہے۔ برعکس اس کے آپ نے اُسی کے نظریۂ عشق کی بنا پر ایک ’’محیط پرکل خودی‘‘ کا تصور قائم کیا ہے۔ مگر کسی منطقی حجت کے طور پر نہیں۔ یہ ایک اہم بات تھی۔ جس کا اثنائے تنقید میں ظاہر کردینا ضروری تھا…… (جزواً) حوالے اور حواشی ۱- ۷؍فروری ۱۹۳۸ء کی ڈائری سیّد نذیر نیازی کی مرتبہ اقبال کے حضور میں ۱۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں ان تمام موضوعات کو نہیں لیا گیا جن کی تفصیل کتابِ مذکور میں دی گئی ہے۔ ۲- ارمغانِ حجاز، ص۵۰ ۳- میک ٹے گرٹ: دیکھیے ’’اقبال کی عظمت فکر‘‘ کا حاشیہ نمبر۱۲ ئ…ئ…ء علامہ اقبال کی صحبت میں [یہ مضمون روزنامہ آفاق لاہور میں شائع ہوا تھا۔ اس پر اڈیٹر کا ایک نوٹ بھی درج ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ علامہ کے ملفوظات کا یہ حصہ نیازی صاحب کی غیر مطبوعہ ڈائری سے ماخوذ ہے۔] دو شنبہ ۶؍ستمبر ۱۹۳۷ء عزت بخاری کا ایک شعر ہے: ادب گاہیست در زیر زمیں از عرش نازک تر نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا ارمغانِ حجاز کے حصہ دوم میں جس کا عنوان ہے: ’’حضورِ رسالت‘‘ سرورق پر یہ شعر درج تھا، میں نے تبییض کے لیے قلم اُٹھایا اور شعر نقل کرتے کرتے رُکا تو فرمایا: کیا بات ہے؟ کوئی لفظ کھٹکتا ہے؟ میں نے ذرا سے تامل کے بعد عرض کیا: ’’در زیر زمیں‘‘ کے الفاظ کچھ اچھے معلوم نہیں ہوتے۔ حضرت علامہ گائو تکیے کا سہارا لیے حقے کا کش لگا رہے تھے۔ یک بہ یک سیدھے ہوکر بیٹھے گئے اور ارشاد ہوا، یوں بدل دو: ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر۱؎ نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا۱؎ سبحان اللہ! شعر کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ جمعرات ۹؍ستمبر ۱۹۳۷ء شام کے پانچ بج رہے تھے، ایک رباعی کی تصحیح کی اور ایک درجِ مسودہ۔ چائے آگئی۔ لیگ کا ذکر روز ہوتا ہے کیونکہ لیگ ہی حضرت علامہ کے نزدیک مسلمانوں کوباہم متحد کرسکتی ہے فرمایا، مسلمانوں کا اتحاد بڑا ضروری ہے، مسلمان بڑی قوت ہیں۔ ۱۳۰۰ برس سے یہ اتحاد ایک ثقافتی روح کی تلاش میں ہے۔ اسلام کی ثقافتی روح کی۔ میں نے عرض کیا: اسلامی ثقافت کیا ہے؟ ارشاد ہوا: اسلامی ثقافت اصل میں ایک ’’تمنا‘‘ ہے۔ وسیع لفظوں میں ہم کہیں گے کہ یہ ثقافت چند اصولوں پر مبنی ہے اور اس کا خط عمل ہمیشہ کے لیے ہے۔ اسلام عبارت ہے انسانی ثقافت سے۔ اسلام سے پہلے ہر ثقافت محدود تھی، اس کا نقطۂ نظر قومی تھا یا نسلی، یا وقتی، اب ساری دنیا انسانیت کی طرف آرہی ہے، اسلام کی طرف۔ اس لیے ہماری آیندہ ثقافت اسلامی ہوگی۔ ارشاد ہوا: اس ثقافت کا ایک پہلو تاریخی ہے۔ یعنی اب تک اس ثقافت کا جس طرح نشوونما ہوا اور اس میں ایرانی، یونانی، تصوف یا سیاسی اور ذہنی بحثوں نے جس طرح حصہ لیا۔ مثلاً خلق قرآن کا مسئلہ، ذات و صفات کا مسئلہ، خلافت کے مختلف نظریے، غلامی وغیرہ۔ یہ سب ہمارے مسائل تھے۔ یعنی جس طرح آج ہمیں عوام کی بے داری، جمہوریت اور ذاتی املاک وغیرہ کے مسائل درپیش ہیں، یہ سب ہمارے مسائل تھے اور ہیں، اسلام کے نہیں۔ میں نے عرض کیا: اس ثقافت کا احیا کیونکر ممکن ہے؟ فرمایا: کوئی نہ معلوم شے ہے ’’زندگی‘‘ یہ ہے تو سب کچھ ہے اور نہیں تو کچھ بھی نہیں زندگی نہ ہو تو سب کوششیں رائیگاں جاتی ہیں لیکن زندگی ممکن ہے؟ زندگی پیدا کی جاسکتی ہے اور اس کا طریق یہ ہے کہ ’’زندگی‘‘ کی پرورش کی جائے۔ زندگی کی پرورش ہونے لگے تو پھر ہمارا راستہ وہی ہونا چاہیے جو اسلام کا ہے۔ ارشاد ہوا: زندگی کی پرورش میں صحبت کو بڑا دخل ہے۔ دیکھو ایک نذیر حسین محدث۲؎ اور ایک شاہ اسماعیل۳؎ نے کیا کچھ کیا؟ خود مجھے والد ماجد کی صحبت سے بڑا فیض پہنچا۔ پھر ارشاد ہوا، زندگی کی پرورش ’’ڈسپلن‘‘ کا بھی کچھ کم دخل نہیں۔ ’’ڈسپلن‘‘ بڑا خوب لفظ ہے۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو ہر شے ’’ڈسپلن‘‘ ہے۔ افسوس ہمارا مذہبی ’’ڈسپلن‘‘ ٹھیک نہیں رہا۔ مذہب کا تقاضا ہے فرد، جماعت، ملت اُمت۔ لیکن بہت کم لوگ ہیں جو اس تقاضے کو سمجھے اور اگر تھوڑا بہت سمجھے بھی تو الگ ہوکر بیٹھ رہے۔ یہ لوگ گویا حضور نبی ا کی زندگی کے روحانی اور اخلاقی پہلوئوں سے زیادہ متاثر ہی وجہ ہے کہ عمرانی اور سیاسی لحاظ سے دیکھا جائے تو ان کا نقطۂ نظر بڑا خام رہا۔ دراصل اسلام عبارت ہے زندگی کے تمام و کمال انکشاف سے۔ اسلام نے زندگی کو منکشف کیا اور جہاں تک زندگی کسی قوم پر منکشف ہوئی اتنا ہی اس کو ’’اسلام‘‘ سے بہرہ ملا۔ لہٰذا کسی تقاضے کو تمام و کمال سمجھنے کا تعلق اس بات سے ہے کہ ہم کہاں تک زندگی کو سمجھتے ہیں یا زندگی کہاں تک کسی قوم پر منکشف ہوتی ہے۔ ہندوئوں ہی کو دیکھ لو، ان کا سارا زور ’’طولِ حیات‘‘ پر ہے۔ اسلام اس کے مقابلہ میں ’’عرضِ حیات‘‘ چاہتا ہے اور ’’عرض‘‘ ہے زندگی، اس کا لب اور اس کا حاصل۔ یہاں پہنچ کر حضرت علامہ کچھ رُکے اور پھر ذرا ہنس کر کہنے لگے۔ اس سلسلہ میں ابن سینا۴؎ کا ایک قول خوب ہے۔ ابن سینا کو شراب پینے کی عادت تھی، کسی نے اسے ٹوکا، مذہب کا نام لے کر سرزنش کی۔ عذابِ آخرت سے ڈرایا… ابن سینا نے کہا۔ میں بخشش کا طالب ہوں، رحمت خداوندی سے اُمید مغفرت رکھتا ہوں… معترض نے یہ دیکھ کر کہ یوں نصیحت کارگر نہیں ہوتی، علم و حکمت کا سہارا لیا۔ کہا آپ حکیم ہیں، عالم ہیں، دانا ہیں، آپ سے بڑھ کر کون سمجھتا ہے کہ شراب مضر صحت ہے، اس کے پینے سے عمر گھٹ جاتی ہے۔ ابن سینا نے برجستہ کہا: ما عرض حیات می خواہیم طول حیات نمی خواہیم کچھ توقف… حقہ… ذرا سا سکوت… اِدھر اُدھر کی باتیں اور پھر سلسلۂ کلام وہیں آگیا۔ فرمایا: اسلام کی حیثیت دراصل تاریخ عالم میں ایک ’’اتلاف‘‘ (Synthesis) کی ہے۔ دنیا کا تقاضا تھا۔ اسلام آئے اور اسلام آیا۔ زندگی خود اس کی محتاج اور آرزومند تھی۔ اسلام اور انسانیت ایک چیز ہیں۔ میں نے عرض کیا: بیکر۵؎ کہتا ہے۔ سکندر اعظم نہ ہوتا تو اسلامی تہذیب بھی نہ ہوتی۔ گویا اسکندر اعظم اس تہذیب کا پیش رو ہے! فرمایا: بیکر کا مطلب ہوگا اسلامی تہذیب کے تاریخی نشوونما سے یعنی جس طرح قرونِ وسطیٰ میں یازوال بغداد سے پہلے مسلمانوں کی زندگی میں اس کا اظہار ہوا۔ میں نے عرض کیا: بے شک بیکر کا اشارہ تاریخ اسلام کے اسی مخصوص عہد کی طرف ہے۔ ارشاد ہوا۔ اس لحاظ سے بھی بیکر کی یہ رائے ہے۔ البتہ ایرانی سلطنت ایک حد تک اسلامی تہذیب و تمدن کے اس مخصوص شکل کی پیش رو ہے۔ اور جب سعدی۶؎ کہتا ہے: تزلزل در ایوانِ کسریٰ فتاد تو اس کے ذہن میں غالباً یہی بات تھی۔ ’’تو وراثت ارض کا تصور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ بعض دوسری تہذیبوں کو بھی کچھ نہ کچھ تعلق اس تصور سے رہا لیکن صرف اسلام کی بدولت یہ قوت سے فعل میں آیا۔ یعنی ایک تاریخی عمل (Process) کی حیثیت سے اس تصور کی تکمیل مسلمانوں ہی کے ہاتھوں ہوئی؟‘‘ ’’ٹھیک، بالکل ٹھیک!‘‘ دو شنبہ ۱۳؍ستمبر ۱۹۳۷ء ۹ بجے تھے۔ خیریت مزاج دریافت کی، فرمایا: رات نیند خوب آئی۔ الحمدللہ اچھا ہوں۔ چند منٹ خبروں کا پوچھتے رہے، میں نے کہا ارمغانِ حجاز کا مسودہ صاف کر لوں۔ اچھا خاصا ناغہ ہوگیا ہے۔ فرمایا: بہتر ہے۔ ڈیڑھ دو گھنٹے یوں گزرے گئے۔ مسودہ صاف کرچکا تو حسب معمول باتیں ہونے لگیں۔ میں نے عرض کیا۔ ’’بعض رباعیوں کا مضمون آج کل کے ناقدین ادب کو پسند نہیں آئے گا۔‘‘ حضرت علامہ کچھ مسکرائے اور پھر کہنے لگے۔ ’’اس نقد کی تہ میں دو عوامل کام کررہے ہیں، مغربی علم حکمت کی سطحیانہ واقفیت اور دینی اختلاف۔ بعض لوگ صاف صاف تو کہہ نہیں سکتے۔ زبان اور فن کی آڑ میں اعتراضات کرتے ہیں۔ دراصل میری شاعری کی مخالفت بوجہ دینی مخالف کے ہے اور یہ سارا معاملہ ہے ایک نفسیاتی اختلاف کا۔ ارشاد ہوا۔ اسلامی علم و حکمت کا زوال اس نفسیاتی اختلاف کا سب سے بڑا سبب ہے۔ اسلامی علم و حکمت کی تجدید ہوجائے تو بڑا کام ہو، لیکن اس کی کوئی صورت نظر نہیں آئی… یہ کام ملّا سے نہیں ہوگا۔ موجودہ زمانے کا فاضل ترین ملّا ایسا ہی جاہل ہے جیسے غیر ملّا۔ پھر ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ ہماری کوئی سیاست ہی نہیں، ہندستان میں نہ عالم اسلام میں، ہمارا ملّی وجود خطرے میں ہے کاش مسلمان آنکھیں کھولیں، ہمت سے کام لیں، اپنی ذات پر اعتمار کرنا سیکھیں۔ فرمایا: یہ صورت حالات کیسی عجیب ہے کہ عالم اسلام کو انگلستان سے فائدے کی کوئی اُمید نہیں۔ فلسطین کی مثال تمھارے سامنے ہے اور روس کی مخالفت ممکن ہے نہ قرین مصلحت۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ دول مغرب کیا کررہے ہیں۔ کس جوڑ توڑ میں ہیں۔ کیا بحیرہ متوسط کے سلسلہ میں اٹلی اور فرانس کا کوئی سمجھوتہ ہوجائے گا۔ شاید ہوجائے، اس صورت میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟ ارشاد ہوا: اس وقت ترکوں اور ایک طرح سے سارے عالم اسلام کا مسئلہ یہ ہے کہ آیا انگلستان کا ساتھ دیں، سامان جنگ معاوضے میں لیں، یا الگ تھلگ بیٹھے رہیں اور لڑائی سے احتراز کریں۔ لڑائی سے انھیں بہرحال بچنا چاہیے، اگر لڑائی ہو، مگر لڑائی ہوگی، ضرور ہوگی اور عنقریب ہوگی۔ جمعرات ۲۳؍ستمبر ۱۹۳۷ء ۹-۱۰ بجے صبح سے دوپہر تک نشست رہی۔ اِدھر اُدھر کی باتیں ہوئیں۔ خبروں کا پوچھا، لیگ اور کانگرس زیر بحث آئیں۔ ہندو اور مسلمانوں کا سمجھوتہ نہیں ہوگا، ہندوئوں اور مسلمانوں کا سمجھوتا ناممکن ہے۔ قاآنی۷؎ کی کلیات رکھی تھی۔ دیر تک چیدہ چیدہ قصائد سنتے اور داد دیتے رہے۔ ارشاد ہوا قاآنی میں زبان کے سوا اور کیا رکھا ہے۔ جمعرات ۷؍اکتوبر ۱۹۳۷ء تین بج رہے تھے۔ دیکھتے ہی فرمایا: کیا خبر ہے؟ لڑائی ہوئی ہے کہ نہیں؟ …… میں نے کرسی آگے بڑھائی اور بیٹھ گیا، تازہ خبریں بیان کیں۔ حضرت علامہ دیر تک مسلمانانِ عالم کے حالات پر تبصرہ فرماتے رہے۔ اس امر کی تشریح کی بلادِ اسلامیہ کے خطرات کیا ہیں اور امکانات کیا۔ پھر اس افسوس ناک احساس پر کچھ دل گرفتہ سے ہوگئے کہ عالم اسلام میں کوئی شخص ایسا نہیں جو اس وقت کے حالات سے فائدہ اُٹھائے۔ علی بخش آیا اور ذرا سے اہتمام کے بعد چائے لایا۔ چائے پی گئی، علی بخش سے گپ شپ ہوتی رہی، علی بخش کا وجود حضرت علامہ کے لیے نعمت غیر مترقبہ ہے۔ حضرت علامہ بھی علی بخش کی بڑی قدر کرتے ہیں۔ جب تک چائے پیتے رہے۔ علی بخش سے دل لگی کرتے رہے۔ ارشاد ہوا، بیٹھ جائو، باتیں کرو۔ میں نے عرض کیا ارمغانِ حجاز کی تبییض میں خاصا ناغہ ہوگیا ہے۔ کیوں نہ مسودہ صاف کرلوں۔ فرمایا: ضرور۔ ہفتہ ۱۶؍اکتوبر ۱۹۳۷ء رات حضرت علامہ کو درد گردہ کا دورہ ہوگیا۔ مجھے کوئی اطلاع نہ تھی، سہ پہر کے قریب حاضر ہوا تو علی بخش نے بتلایا۔ رات کس طرح تکلیف رہی اور کس طرح پھر جلد ہی افاقہ ہوگیا۔ علی بخش نے یہ بھی بتلایا کہ صبح سے خدا کا فضل ہے، طبیعت اچھی ہے، قرشی صاحب۸؎ اور چودھری صاحب۹؎ ہوگئے ہیں۔ میں نے یہ سب باتیں سنیں تو بڑی تشویش ہوئی۔ دبے پائوں خواب میں پہنچا، حضرت علامہ آرام سے سو رہے تھے واپس آگیا۔ شام کو پھر حاضر خدمت ہوا، چودھری صاحب راستے ہی میں مل گئے، ان سے رات کی ساری کیفیت سنی، جاوید منزل پہنچے تو حضرت علامہ کو بڑا شگفتہ خاطرپایا۔ دیر تک نشست رہی۔ چودھری صاحب نے حضرت علامہ کی تفریح طبع کے لیے ہزاروں چٹکلے چھوڑے۔ لیگ کا ذکر بھی آیا۔ فضل الحق۱۰؎ کی تقریر پر مزے کا تبصرہ ہوا۔ یک شنبہ ۱۷؍اکتوبر ۱۹۳۷ء ساڑھے نو بج رہے تھے، علی بخش نے کہا۔ رات پھر ذرا سی تکلیف ہوگئی۔ قرشی صاحب دیکھ گئے ہیں۔ اطمینان کا اظہار کرتے ہیں۔ چودھری صاحب آئے اور تھوڑی دیر بیٹھ کر چلے گئے۔ میں نے مزاج پوچھا تو فرمایا: ذرا سی بے کلی ہے۔ پھر ارشاد ہوا بیٹھو اور باتیں کرتے جائو۔ خود زیادہ تر حقے کے کش لگاتے رہے، یا بیچ میں ایک آدھ فقرہ چست کردیتے۔ میں چپ ہوجاتا (اس خیال سے کہ حضرت علامہ کی آنکھ لگ جائے۔ چنانچہ کئی بار ایسا ہوا بھی کہ میری باتیں سنتے سنتے ذرا سی دیر کے لیے سو گئے) تو فرماتے چپ کیوں ہوگئے، بات کرو۔ دو ڈھائی بجے تک یہی سلسلہ رہا۔ اس اثنا میں حضرت علامہ نے ذرا سا کھانا بھی کھایا۔ اور اس کی بدمزگی پر کچھ تنقید بھی کی۔ میں ان کے حسب مزاج سوچ سوچ کر کوئی بات چھیڑ دیتا پھر خاموش ہوجاتا۔ ارشاد ہوا: اگر ایک اسلامی، عمرانی نظام قائم کرنے کے لیے عملاً قدم اُٹھایا جائے تو اس میں بہت جلد کامیابی ہو، کیونکہ ایک تو اسلام سے بہتر اس مسئلے کا کوئی حل نہیں، ثانیاً اس میں ہر شخص کا فائدہ ہے۔ میں نے عرض کیا: ’’اسلام کی تعریف کیا ہونی چاہیے؟‘‘ فرمایا: ’’اسلام‘‘ رات پھر دیر تک نشست رہی۔ چودھری صاحب پہلے سے موجود تھے۔ اللہ کا شکر ہے کہ حضرت علامہ کی طبیعت اچھی ہے۔ قرشی صاحب شام کو پھر ہوگئے تھے، غالباً۔ سہ شنبہ ۱۹؍اکتوبر ۱۹۳۷ء حضرت علامہ کو دن رات لیگ کی فکر ہے۔ ۹، ۱۰ بجے حاضر ہوا تو لیگ ہی کا ذکر چھیڑ دیا۔ لیگ کیسے مضبوط ہو، مسلمانانِ پنجاب میں بڑے غلط سیاسی عناصر کام کررہے ہیں، دیہاتی، کانگریسی، یونینسٹ، قادیانی، دیر تک یہی باتیں ہوتی رہیں۔ میں نے اپنا اندیشہ ظاہر کیا کہ ہندو اکثریت سے مسلمانوں کا ملّی، ثقافتی تصادم کہیں ان کی سیاسی، معاشی پسماندگی کا باعث نہ ہو۔ جب تک مسلمان اپنے اتحاد کی کوشش کرتے رہیں گے جب تک غیر مسلم تجارت، زراعت، صنعت و حرفت، حکومت اور سیاست میں ان سے بازی لے جائیں گے۔ پھر یہ بھی تو نہیں کہ مسلمان اسلام کے نام پر جمع ہوجائیں۔ فرمایا: یہ اندیشہ ایک حد تک صحیح ہے۔ لیکن اگر مسلمان اپنے اتحاد کا خیال چھوڑ دیں، یعنی اپنا یہ عقیدہ ترک کردیں کہ ازروئے اسلام ان کا ایک اپنا قومی وجود اور ملّی حیثیت ہے تو کیا ہوگا، مسلمان سیاسی، معاشی جماعتوں میں بٹ جائیں گے اور ضروری نہیں کہ سیاسی، معاشی جماعتوں میں بٹنا زراعت، تجارت، صنعت و حرفت، حکومت اور سیاست میں جیسا کہ تم کہتے ہو۔ ان کی ترقی کا باعث ہو۔ پھر یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ اس صورت میں مسلمانوں کے لیے لفظ ’’مسلمان‘‘ کا استعمال کہاں تک مناسب ہے۔ یعنی ہم کیسے کہہ سکیں گے کہ یہ ترقی مسلمانوں کی ہے۔ کیونکہ افراد کی ترقی قوم کی ترقی نہیں، اب بھی تو یونینسٹ پارٹی بڑی کامیاب ہے، لیکن کیا یہ مسلمانوں کی کامیابی ہے۔ یہ بھی سمجھو کہ سیاسی اور معاشی زندگی بڑی بے دردی کی زندگی ہے، ایک دفعہ جب مسلمانوں کا رشتہ اتحاد ٹوٹا اور ان کے وجود ملّی کی نفی ہوگئی تو پھر اسی معاشی سیاسی اشتراک کا اصول، جس کی بنا پر وہ غیر مسلمانوں سے اتحاد کریں گے، ان کی سیاسی، معاشی پستی کا باعث ہوگا اور یہ اس لیے وہ اس میدان میں ہندوئوں سے بہت پیچھے ہیں۔ مسلمانوں کا اتحاد یا اتحاد کا خطرہ تو اس پستی کو کچھ روک بھی رہا ہے۔ جب اتحاد کا سہارا ٹوٹ گیا تو ان کی سیاسی اور معاشی حالت اور بھی ابتر ہو جائے گی۔ پھر قدرے توقف کے بعد فرمایا۔ مسلمانوں کے لیے ایک ہی راستہ ہے۔ باہم متحد ہوں، اپنی ایک الگ تھلگ سیاسی ہیئت قائم کریں اور تب جاکر وہ سیاسی معاشی مسائل کا بیڑا اُٹھائیں، جو عہد حاضر نے ہمارے لیے پیدا کردیے ہیں۔ شام کو پھر سلامت۱۱؎ کے ساتھ حاضر ہوا۔ حضرت علامہ بڑے مزے سے لیٹے چودھری صاحب سے باتیں کررہے تھے۔ ہم لوگ خواب گاہ میں داخل ہوئے تو حسب معمول آئیے کہہ کر ہاتھ سے کرسیوں کی طرف اشارہ کیا۔ سلامت سے کاروبار کا حال پوچھتے اور ہندوئوں کی کاروباری ذہنیت کے متعلق گفتگو کرتے رہے۔ چودھری صاحب نے ایک آدھ فقرہ چست کیا۔ یہ معلوم کرکے اطمینان ہوا کہ گردوں کی طرف اب اطمینان ہے۔ کوئی شکایت نہیں۔ الحمدللہ۔ اضلاع جہلم اور راولپنڈی کے کچھ لوگ آگئے۔ بڑی عقیدے سے حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مصافحہ کیا اور باادب بیٹھ گئے۔ معلوم ہوتا تھا یہ لوگ حضرت علامہ کی سادگی، حقہ نوشی اور بے تکلف گفتگو سے بے حد متاثر ہیں۔ ان میں سے بعض نے کچھ سوالات بھی پوچھے۔ انداز بڑا معصومانہ تھا اور سوالات نہایت سادہ۔ مثلاً یہ کہ اسلام پھر دنیا میں پھیلے گا۔ مسلمان کب ترقی کریں گے۔ حضرت علامہ نے فرمایا۔ اسلام پھر دنیا میں پھیلے گا، کامیاب ہوگا۔ اسلام ناکامیاب کبھی نہیں ہوسکتا۔ پھر سب کو قرآن مجید پڑھنے اور اس پر غور کرنے کی ہدایت کی، ارشاد ہوا۔ قرآن نسخہ شفا اور ترقی کی کیمیا ہے۔ پھر چند باتیں لیگ کی حمایت میں کہیں۔ جمعتہ المبارک ۲۲؍اکتوبر ۱۹۳۷ء سہ پہر ہورہی تھی۔ قرشی صاحب اور خواجہ سلیم۱۲؎ ساتھ تھے۔ علی بخش نے کہا۔ ڈاکٹر صاحب آپ کو پوچھ رہے تھے۔ ہم لوگ خواب گاہ میں داخل ہوئے اور حسب معمول کرسیاں پلنگ کے قریب کھینچ لیں۔ حضرت علامہ نے ہمیں دیکھا تو فرمایا: آپ سب کا ساتھ کیسے ہوگیا۔ قرشی صاحب نے کہا اتفاق کی بات ہے۔ میں حاضر ہورہا تھا راستہ میں خواجہ صاحب مل گئے اور پھر آپ یعنی میں۔ حضرت علامہ نے خود ہی قرشی صاحب سے کہا: بفضلہ میری طبیعت اچھی ہے۔ قرشی صاحب کچھ اور آگے بڑھ گئے۔ نبض پر ہاتھ رکھا اور بعض علامات کا دریافت کرنے لگے۔ حضرت علامہ مختصر جوابات دیتے۔ پھر باتیں شروع ہوگئیں۔ ارشاد ہوا کہ کوئی دو چیزیں یکساں نہیں۔ لہٰذا دو آدمیوں کا علاج بھی یکساں نہیں ہوگا۔ فرمایا علم کا منصب ہے کلئے قائم کرنا لیکن طبیب وہ ہے جو ہر شخص کی طبیعت کا لحاظ رکھے، ہر شخص کی طب الگ ہے اور اس لیے معالجہ بھی الگ۔ اس لحاظ سے ’’طب‘‘ کی روش ڈاکٹری سے بہتر ہے۔ قرشی صاحب نے حضرت علامہ کے ارشادات کی تائید کی۔ تھوڑی دیر اور بیٹھے اور غذا اور پرہیز کے متعلق ہدایات کیں کچھ حضرت علامہ کا دل بہلایا اور پھر تشریف لے گئے۔ علی بخش چائے لے آیا۔ سلیم نے قادیانیت کا ذکر چھیڑ دیا۔ حضرت علامہ کہنے لگے۔ قادیانیت کا نیا عقیدہ بزوریہ ہے جس روز اس عقیدے کا خاتمہ ہوا، قادیانیت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ سلیم نے کہا: مرزا صاحب کی اکثر عبارتیں فصوص الحکم اور کیمیائے سعادت سے ماخوذ ہیں۔ ارشاد ہوا: ہونی چاہیے۔ پھر کسی طرح گیتا کا ذکر آگیا۔ فرمایا: گیتا میں بڑا تضاد ہے۔ یوں بھی اس کے اکثر حصص ناقص ہیں۔ مثلاً جنگ کی تحریض تو ہے لیکن قانون جنگ کہیں مذکور نہیں۔ سلیم نے کہا: ہندوئوں کی محنت قابل داد ہے۔ کس طرح اس کتاب کو شہرت دے رکھی ہے۔ مطلب یہ تھا کہ مسلمان کچھ نہیں کرتے۔ لیکن ان الفاظ کے کہنے کی نوبت نہیں آئی۔ حضرت علامہ خود ہی مسلمانوں کے جمود اور بے حسی پر دیر تک اظہارِ تاسف فرماتے رہے۔ جمعرات ۲۸؍اکتوبر ۱۹۳۷ء کچھ پریشان تھا اور کچھ مصروف۔ آج جو کوئی ۸-۹ بجے حاضر خدمت ہوا تو شکایتاً پوچھا۔ دو روز سے کہاں تھے۔ مجھے تمھارا انتظار رہا۔ میں نے مجبوریوں کا عذر پیش کیا اور کچھ شرمندہ سا ہوگیا۔ میرا فرض تھا ناغہ نہ ہونے پاتا۔ دیر تک ذاتی معاملات پر گفتگو کرتے رہے۔ پھر حزب الاحناف کا وفد آگیا۔ میں اُٹھ کر چلاآیا۔ ہفتہ ۳۰؍اکتوبر ۱۹۳۷ء کوئی ساڑھے نو دس بجے کے قریب حاضر ہوا حضرت علامہ کچھ افسردہ خاطر بیٹھے تھے لیکن خیریت مزاج دریافت کی تو اطمینان ہوگیا۔ معلوم ہوا اس تکدر کی وجہ ہے مسلمانوں کے عام حالات۔ فرمایا: یہ زمانہ طبقاتی آویزش کا ہے اور مسلمان بھی اس آویزش سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ بعینہٖ جس طرح نسلی، وطنی، دینی اور سیاسی آویزشوں کا ایک دور گزر چکا ہے۔ مگر نہ یہ آویزشوں سے وحدت اسلامی کے تصور کی نفی ہوئی۔ نہ طبقات کے تصادم سے۔ گو یہ تصادم بجائے خود کوئی اچھی چیز نہیں اس قسم کا کوئی اندیشہ ہے۔ ارشاد ہوا: بے شک اس تصادم نے کوئی عملی صورت اختیار نہیں کیا۔ لیکن اس کے مقدمات اپنا کام کررہے ہیں اور ضرور ہے کہ ایک نہ ایک دن یہ تصادم ضرور ہوجائے۔ بہرکیف یہ تصادم جب بھی ہوا مسلمانوں کو ایک دوسرے سے قریب تر کرنے کا باعث ہوگا۔ کیونکہ اسلام ایک عمرانی تحریک بھی ہے۔ میں نے عرض کیا: کتنے مسلمان ہیں جو اس نکتے کو سمجھتے ہیں؟ فرمایا: کوئی نہیں۔ باقی وقت ارمغانِ حجاز کا مسودہ صاف کرنے میں گزرا۔ حضرت علامہ کچھ سوتے اور کچھ آرام فرماتے رہے۔ (روزنامہ آفاق لاہور، ۳۰؍اپریل ۱۹۴۹ئ) ئ……ئ……ء حوالے اور حواشی ۱- ارمغانِ حجاز، ص۲۱ ۲- شمس العلماء نذیر حسین محدث۔ صوبہ بہار کے رہنے والے تھے۔ ہندستان میں اہل حدیث مکتب فکر کے بانیوں میں سے تھے۔ ۳- شاہ اسمٰعیل (۲۹؍اپریل ۱۷۷۹ئ- ۶؍مئی ۱۸۳۱ئ) شاہ ولی اللہ کے پوتے، سیّد احمد بریلوی کے دست راست۔ ۴- ابن سینا (۹۸۰ئ- ۱۰۳۷ئ) فلسفہ، منطق، طب اور مابعدالطبیعیات پر ۲۵۰ کتابوں کے مصنف۔ ۵- بیکر، سر سموئیل وائیٹ (۱۸۲۱ئ- ۱۸۹۳ئ) سیاح اور مکتشف ، ترکی اور مصر میں برسوں رہا۔ ۶- سعدی، مصلح الدین (۱۱۸۴ئ- ۱۲۹۱ئ) مصنف، شاعر، دانش ور۔ ۷- قاآنی، مرزا حبیب (۱۸۰۷ئ- ۱۸۵۳ئ) فارسی کے معروف شاعر۔ ۸- اقبال کے معالج حکیم محمد حسن قریشی (۱۸۹۶ئ- ۱۹۷۴ئ) دیکھیے مضمون ’’حکیم الامت‘‘ حاشیہ نمبر۳ ۹- چودھری محمد حسین مراد ہیں۔ ۱۰- فضل الحق، شیر بنگال مولوی (۱۸۷۳ئ- ۲۷؍اپریل ۱۹۶۳ئ) مسلم لیگ کے بانیوں میں سے ایک، ۱۹۴۰ء میں انھوں نے ہی قرارداد پاکستان پیش کی۔ زوردار خطیب تھے۔ مشرقی پاکستان کے گورنر اور وزیر اعلیٰ رہے۔ ۱۱- سلامت: سیّد سلامت اللہ شاہ، نذیر نیازی کے دوست تھے۔ اقبال کے ہاں آنا جانا تھا۔ ۱۲- خواجہ سلیم: ایک علم دوست شخصیت۔ گورنمنٹ کالج، لاہور اور اورینٹل کالج،لاہور میں پڑھاتے رہے۔ ڈاکٹر سیّد عبداللہ کے استاد تھے۔ قلمی نسخے اکٹھے کرنے کا شوق رہا۔ ز……ز……ز اقبال کی آخری علالت ۱۹۳۴ء کا ذکر ہے، عیدالفطر کا دن تھا۔ ۱۰؍جنوری لاہور کے ہر گلی کوچے میں خوشیاں منائی جارہی تھیں۔ حضرت علامہ بھی نہایت مسرور تھے۔ ان کا معمول تھا کہ اس مبارک تقریب پر ہمیشہ احباب کے ساتھ نماز کے لیے تشریف لے جاتے۔ چودھری محمد حسین صاحب سے رات ہی سے کہہ رکھا تھا۔ ان کے آنے پر گاڑی منگوائی گئی اور حضرت علامہ، چودھری صاحب، جاوید سلمہ اور علی بخش کے ساتھ شاہی مسجد روانہ ہوگئے۔ علی بخش کہتا ہے ۱۰؍جنوری کا دن نہایت سرد تھا۔ صبح ہی سے تیز اور ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ حضرت علامہ لباس کے معاملے میں نہایت بے پروا تھے۔ سوٹ اسی وقت پہنتے جب کوئی خاص مجبوری ہوتی۔ گلوبند سے تو خیر انھیں نفرت تھی ہی موزے بھی استعمال کرتے تو نہایت باریک، بالعموم شلوار، کوٹ اور پگڑی ہی میں باہر تشریف لے جاتے۔ اس روز بھی ان کا لباس یہی تھا۔ علی بخش کا خیال ہے کہ حضرت علامہ کو موٹر میں آتے جاتے ہوا لگی۔ اس پر طرہ یہ کہ جاڑے کی شدت سے زمین یخ ہورہی تھی۔ جن حضرات نے شاہی مسجد کو دیکھا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ دروازے سے محراب تک کتنا فاصل ہے۔ حضرت علامہ کو دوبار صحن سے گزرنا پڑا اور دونوں بار ان کے پائوں نے سردی محسوس کی۔ واپس آئے تو حسب عادت سویاں کھائیں۔ پنجاب میں شیرخرما کا رواج بہت کم ہے۔ عام قاعدہ یہ ہے کہ سویاں ابال کر رکھ لیں اور پھر جب جی چاہا ان میں دودھ اور شکر کا اضافہ کرلیا۔ لیکن حضرت علامہ نے اپنے والد ماجد مرحوم کی تقلید میں دودھ کی بجائے دہی استعمال کیا۔ عید کا دن تو خیر آرام سے گزر گیا لیکن اگلے روز ان کو نزلے کی شکایت ہوگئی۔ حضرت علامہ کا گلا بچپن ہی سے خراب رہتا تھا۔ مجھے خوب یاد ہے آج سے انیس بیس برس پہلے جب میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت بھی وہ منٹ دو منٹ کے بعد زور زور سے کھنکار لیتے تھے ان کا اپنا بیان ہے کہ حکیم فقیر محمدصاحب۱؎ مرحوم نے انھیں عرصے سے تاکید کر رکھی تھی اور دودھ اور ہر اس شے سے جو دودھ سے بنی ہو پرہیز کریں۔ لہٰذا اس موقع پر انھیں قدرتاً یہی خیال ہوا کہ یہ سردی میں دہی کھا لینے کا اثر ہے جو دو چار دن میں جاتا رہے گا۔ لیکن اس کے باوجود انھوں نے کچھ دوائیں استعمال کیں جن سے بہت کم فائدہ ہوا اور ڈاکٹر (اور غالباً طبی) جو بھی علاج کیا گیا ناکام رہا۔ علی بخش معمولاً ان کی خواب گاہ کے پاس ہی بڑے کمرے میں سویا کرتا تھا۔ وہ کہتا ہے ’’اس تکلیف کو شروع ہوئے ۱۵دن گزرے تھے کہ ایک شب کو دفعتاً میری آنکھ کھل گئی، اس وقت کوئی دو ڈھائی کا وقت ہوگا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب چارپائی پر بیٹھے کھانسی سے بے حال ہورہے ہیں۔ صبح تک یہی حالت رہی۔ اب کی دفعہ ان کے لیے مسہل تجویز کیا گیا۔ پھر ایسا ہوا کہ کھانسی تو جاتی رہی مگر گلا بیٹھ گیا۔‘‘ اس کے بعد ایک نہیں متعدد علاج ہوئے۔ اطبا اور ڈاکٹر نے جو تدبیر سمجھ میں آئی، کی۔ بعض دفعہ تو ایسا معلوم ہونے لگتا کہ حضرت علامہ بالکل تندرست ہیں لیکن گلے کو ٹھیک نہ ہونا تھا نہ ہوا۔ معلوم نہیں ان کا مرض کیا تھا کہ اس کے سامنے تمام کوشش اکارت گئیں۔ میں ان دنوں دہلی میں تھا اور ان حالات سے بالکل بے خبر۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ڈاکٹر بہجت وہبی۲؎ جامعہ ملیہ کی دعوت پر توسیعی خطبات کے لیے تشریف لائے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر انصاری۳؎ مرحوم کی خواہش تھی کہ سال گذشتہ کی طرح ان میں سے کسی ایک کی صدارت حضرت علامہ بھی کریں۔ یوں بھی جامعہ کا ہر طالب علم ان کی زیارت کا مشتاق تھا۔ چنانچہ ڈاکٹر ذاکر صاحب۴؎ کی فرمایش پر ایک عریضہ میں نے بھی ان کی خدمت میں لکھا۔ اس کا جواب موصول ہوا تو راقم الحروف نے تعجب سے دیکھا کہ والانامہ تو حضرت ہی کا ہے مگر تحریر کسی دوسرے ہاتھ کی۔ مضمون یہ تھا: میری طبیعت کئی دنوں سے علیل ہے اس لیے دہلی ڈاکٹر وہبی صاحب کے لیکچر کی صدارت کے لیے نہیں جاسکوں گا۔ ڈاکٹر انصاری کا تار بھی آیا تھا… ڈاکٹر ذاکر صاحب کا خط بھی اسی مطلب کا آیا ہے۔ میں علیحدہ ان کو نہیں لکھ سکا۔ آپ ہی انھیں اطلاع دے دیجیے گا نیز آپ کا لاہور آنے کا ارادہ ہو توزیادہ اچھا یہی ہے کہ اس وقت تشریف لائیں جب اچھا ہو چکوں گا۔۶؎ ۱۲؍فروری ۱۹۳۴ء اس غیر متوقع خبر کو سن کر مجھے بڑی تشویش ہوئی کیونکہ حضرت علامہ نے خط صرف اس وقت اپنے ہاتھ سے لکھنا چھوڑا جب نزول الما۷؎ کی تکلیف سے پچھلے برس ان کے لیے پڑھنا لکھنا تقریباً ناممکن ہوگیا تھا۔ میں نے خیریت مزاج دریافت کی تو کچھ روز کے بعد اس کا جواب حضرت علامہ نے خود مرحمت فرمایا: ڈاکٹر بہجت وہبی سے نہ مل سکنے کا افسوس ہے۔ میں کئی دنوں سے علیل ہوں انفلوئنزا ہوگیا تھا۔ اب صرف گلے کی شکایت باقی ہے۔‘‘۷؎ ۲۷؍فروری بظاہر یہ خط میرے اطمینان کے لیے کافی تھا اور اس کے بعد حضرت علامہ نے بھی اپنی بیماری کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا لیکن آخر اپریل میں جب مجھے کچھ دنوں کے لیے لاہور آنے کا موقع ملا تو میں نے دیکھا کہ حضرت علامہ بدستور علیل ہیں۔ میں ان کی میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں حاضر خدمت ہوا تو ان کے زرد زرد چہرے کو دیکھ کر گھبرا گیا۔ آواز نہایت کمزور تھی، جیسے کوئی سرگوشیاں کرتا ہو۔ اٹھنے بیٹھنے میں ضعف و نقاہت کا اظہار ہوتا تھا۔ میں نے بادب عرض کیا: ’’ڈاکٹر صاحب کیا ماجرا ہے۔ میں تو سمجھتا تھا آپ بالکل اچھے ہوں گے۔‘‘ فرمایا: ’’کچھ پتا نہیں چلتا۔ کئی ایک علاج ہوئے لیکن گلے کی تکلیف بدستور قائم ہے۔ ممکن ہے نقرس کا اثر ہو‘‘ میں نے زیادہ تفصیل سے حالات دریافت کیے تو معلوم ہوا کہ اوّل کھانسی تھی، پھر گلا بیٹھ گیا۔ اس کے لیے غرغرے تجویز ہوئے، دوائیں لگائی گئیں مگر بے سود۔ آخر رائے یہ ٹھہری کہ ایکس رے (X-Ray) کرایا جائے۔ ایکس رے ہوا تو پتہ چلا کہ قلب کے اوپر ایک رسولی بن رہی ہے۔ یہ علامات نہایت خطرناک تھی اس لیے کچھ دنوں کے بعد اس عمل کا تکرار ہوا اور اب کے صاف صاف کہہ دیا گیا کہ ان کی زندگی خطرے میں ہے۔ بہتر ہوگا ’’ڈاکٹر صاحب‘‘ وصیت کردیں۔ میں نے ان حالات کو سن کر پھر عرض کیا: ’’کیوں نہ حکیم نابینا صاحب۸؎ سے مشورہ کرلیا جائے۔ ۱۹۲۰ء میں جب ڈاکٹر صاحبان کی آخری اور قطعی رائے تھی کہ جراحت کے سوا گردوں کا اور کوئی علاج نہیں تو انھیں کی معجز نما دوائوں کا اثر تھا کہ آپ کو شفا ہوئی۔‘‘ فرمایا: عجب معاملہ ہے مجھے اس کا خیال ہی نہیں آیا تھا۔ اب تم دہلی جائو گے تو سب باتیں ان کی خدمت میں کہہ دینا۔ ممکن ہوا تو ایک آدھ دن کے لیے میں بھی چلا آئوں گا۔ اس زمانے میں لاہور میں میرا قیام کوئی ہفتہ دو ہفتہ رہا اور میں نے دیکھا کہ طرح طرح کی دوائوں کے باوجود حضرت علامہ کی صحت میں کوئی خاص فرق نہ آیا۔ ایک دن حفیظ جالندھری۹؎ عیادت کے لیے آئے۔ میں بھی موجود تھا۔ انھوں نے مزاج پرسی کی تو حضرت علامہ نے اشارے سے پاس بلایا اور پھر اپنا یہ شعر پڑھا: سخن اے ہم نشیں از من چہ پرسی۱۰؎ کہ من باخویش دارم گفت۔گوئے۱۰؎ ان باتوں کو سن کر اگرچہ ہر شخص کو تشویش ہوتی مگر ان کے نیازمند کیا کرسکتے تھے ان کے پاس دعائیں تھیں، علاج نہ تھا۔ غرض کہ میں ان حالات میں دہلی واپس آیا اور آتے ہی حکیم نابینا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حکیم صاحب قبلہ بڑی عنایت سے پیش آئے۔ میں نے حضرت علامہ کے مرض کی ساری کیفیت بیان کی تو بہت متردد ہوئے اور پھر دیر تک سوچنے کے بعد کہنے لگے: ’’نیازی صاحب! گھبرائیے نہیں۔ بے شک ڈاکٹر صاحب کے اعصاب کمزور ہیں اور ان کا قلب بھی ضعیف ہے لیکن مجھے ڈاکٹروں کی رائے سے اتفاق نہیں۔ آپ انھیں اطمینان دلائیے۔ میں نسخہ تجویز کیے دیتا ہوں ان شاء اللہ جلد صحت ہوگی۔‘‘ بس یہ دن تھا جب حکیم نابینا صاحب کا علاج شروع ہوا اور باوجود طرح طرح کے قیمتی مشوروں اور تدابیر کے، جو نئی اور پرانی طب کے ماہرین نے کیں، تا دم آخر قائم رہا۔ حقیقتاً انھیں جس قدر بھی فائدہ ہوا، حکیم صاحب ہی کے علاج سے ہوا اور جب ان کی تدابیر ناکام ثابت ہوئیں تو پھر کوئی تدبیر کارگر نہ ہوسکی۔ حضرت علامہ نے حکیم صاحب کی دوائوں کے ساتھ مزید احتیاط یہ کی کہ جدید طریقہ ہائے تشخیص سے برابر امداد لیتے رہے اور پھر ان کے نتائج سے بلا کم و کاست مجھے اطلاع کر دیتے۔ میں حکیم صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتا اور سب حالات بیان کردیتا۔ اس اثنا میں ڈاکٹروں نے کئی نظریے قائم کیے مگر حکیم صاحب اپنے خیال پر جمے رہے۔ ان کا ارشاد تھا: ’’ڈاکٹر صاحب کے اعصاب میں برودت ہے قلب ضعیف ہے جگر میں حدت پیدا ہوگئی ہے۔ ان کو ہلکا سا دمہ ہے۔ ڈاکٹروں نے بلغم کے انجماد کو غلطی سے رسولی سمجھ لیا ہے۔‘‘ راقم الحروف کو اگرچہ فنی اعتبار سے رائے زنی کا کوئی حق نہیں پہنچتا لیکن اتنا مجبوراً کہنا پڑا ہے کہ اگر لفظی اختلافات سے قطع نظر کرلی جائے تو بعد کے امتحانات سے حکیم صاحب ہی کی تشخیص کم و بیش صحیح ثابت ہوئی۔ حضرت علامہ ۲۹؍مئی ۱۹۳۴ء کے عنایت نامے میں لکھتے ہیں: ڈاکٹر کہتے ہیں گلے کے نیچے جو آلہ صوت (Larynx) ہے اس کا تار ڈھیلا ہوگیا ہے۔ اس وجہ سے آواز بیٹھ گئی ہے۔ چار ماہ تک علاج ہوا، کچھ خاص فائدہ اس سے نہیں ہوا جسم کی کمزوری بڑھ رہی ہے۔ درد گردہ اور نقرس کا حال تو حکیم صاحب کو خود ہی معلوم ہے… بعض ڈاکٹر یہ کہتے ہیں کہ نقرس کا اثر گلے پر پڑ سکتا ہے۔ واللہ اعلم!۱۱؎ پھر فرماتے ہیں: ڈاکٹروں نے مزید معاینہ کیا ہے اور چھاتی وغیرہ کی ایکس ریز (X-Rays) فوٹو لیے گئے۔ معلوم ہوا کہ دل کی اوپر کی طرف ایک نئی (Growth) ہو رہی ہے جس کے دبائو سے ووکل کارڈ (Vocal Cord) متاثر ہوتی ہے ان کے نزدیک اس بیماری کا علاج الیکٹرک ہے اور بہترین الیکٹرک علاج یورپ میں ہی ہوسکتا ہے۔ یہ بھی اندیشہ ہے کہ اس (Growth) کا اثر پھیپھڑوں پر نہ پڑے۔ اس وقت تک پھیپھڑے اور دل اور دیگر اعضا اندرون بالکل صحیح اور تندرست حالت میں ہیں… لیکن میں اس سے پہلے مغربی اطبا کا امتحان کرچکا ہوں۔ حکیم صاحب سے مشورہ کیے بغیر یورپ نہ جائوں گا اور یورپ کے علاج پر روپیہ خرچ بھی نہیں ہوسکتا۔ ۲جون۱۲؎ ابھی میں ان باتوں کو حکیم صاحب کے گوش گزار نہ کرنے پایا تھا کہ اگلی ہی صبح کو ان کا دوسرا خط موصول ہوا: دو دفعہ ڈاکٹروں نے خون کا معاینہ کیا ہے۔ پہلی دفعہ خون باسلیق سے لیا گیا تھا اس کے نتیجہ یہ تھا کہ خون میں زہریلے جراثیم ہیں اور دوسری دفعہ پھر انگلی سے خون لیا گیا جس کا نتیجہ یہ تھا کہ خون کی حالت بالکل نارمل ہے۔ ۳؍جون۱۳؎ میں اس اثنا میں حکیم صاحب کے مشورے سے ایک عریضہ لکھ چکا تھا اس کے جواب میں فرمایا: آپ کا خط ابھی ملا ہے۔ الحمدللہ کہ خیریت ہے۔ میرے تمام احباب کو تشویش ہے اور میرے معالجوں کو بھی۔ مگر میں خود حکیم صاحب قبلہ پر کامل اعتماد رکھتا ہوں اور موت و حیات کو اللہ کے ہاتھ میں سمجھتا ہوں… ڈاکٹر یہی سمجھتے ہیں کہ فوراً ویانا (آسٹریا) یا لندن جانا چاہیے… ان کے نزدیک اس (Growth) کی طرف توجہ نہ کئی گئی تو زندگی خطرے میں ہے… معلوم نہیں آپ نے حکیم صاحب اور امریکن دوست۱۴؎ سے اس (Growth) کا ذکر کیا یا نہیں کیا۔ کل شام ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اگر حکیم صاحب کامیاب ہوگئے تو ان کا دوسرا معجزہ ہوگا۔ ۵؍جون۱۵؎ ان اقتباسات سے بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحبان کے نزدیک حضرت علامہ کا مرض کس قدر خطرناک تھا۔ لہٰذا انھیں باربار مشورہ دیا جارہا تھا کہ یورپ یا انگلستان تشریف لے جائیں۔ میں نے حکیم صاحب کی طرف سے ایک تسلی آمیز خط لکھا تو جواب آیا: تشویش صرف اس بات کی تھی کہ دل کے اوپر کی طرف جو خالی (Area) ہوتا ہے وہاں ڈاکٹر ایکس ریز کی تصویر دیکھ کر ایک (Growth) بتاتے ہیں جس کا بہتر علاج ان کے نزدیک ایکس ریز کسپوژریا ریڈیم ہے جو یورپ میں میسر آئے گا۔ آج معلوم ہوا کہ بعد بحث مباحثہ خود ان میں بھی اختلاف رائے ہے۔ ۸؍جون۱۶؎ ویسے حکیم صاحب کی دوائوں سے فائدہ ہورہا تھا جیسا کہ حضرت علامہ نے اس والانامہ میں اعتراف کیا: میری تمام صحت اس وقت تک خدا کے فضل سے اچھی ہے۔ صرف آواز اونچی نہیں نکل سکتی… میں چاہتا ہوں خود حاضر ہوکر حکیم صاحب کی خدمت میں جملہ حالات عرض کردوں۔۱۷؎ (یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ خط کا یہ آخری جملہ ترتیب کے لحاظ سے خط میں پانچویں سطر میں ہے جبکہ پہلے دو جملے خط کے تقریباً آخر میں درج ہیں۔) لہٰذا ۱۱؍جون کی صبح کو حضرت علامہ حکیم صاحب سے مشورے کی خاطر ایک روز کے لیے دہلی تشریف لائے۔ حکیم صاحب نے انھیں دیکھا تو ہر طرح سے اطمینان کا اظہار کیا۔ حضرت علامہ بھی نہایت خوش و خرم واپس گئے۔ اب کے جو دوا تجویز ہوئی اس کے اثرات کے متعلق فرماتے ہیں: آج ساتواں روز ہے… میں صبح کی نماز کے بعد آپ کو خط لکھ رہا ہوں… بلغم کچھ نکلتی ہے اب تو ناک کی راہ سے بھی کچھ کچھ نکلتی ہے آواز میںفرق ضرور آیا ہے مگر ایسا نہیں… گلے کے اندر خارش خصوصاً دائیں طرف معلوم ہوتی ہے۔ پہلے یہ کبھی نہیں ہوا۔ کہتے ہیں خارش صحت کی علامت ہے… یہاں کے تمام احباب منتظر ہیں کہ کب ڈاکٹروں کو شکست ہوتی ہے۔ ۱۶؍جون۱۸؎ اب حضرت علامہ کی صحت بتدریج ترقی کررہی تھی اور لاہور میں اسے طب کا ایک معجزہ تصور کیا جاتا تھا۔ اس طرح لوگوں کو ایک مشغلہ ہاتھ آگیا۔ گویا سوال حضرت علامہ کی صحت کا نہیں تھا بلکہ قدیم اور جدید کے تصام کا۔ حضرت علامہ خود فرماتے ہیں: آواز میں جیسے کہ پہلے لکھ چکا ہوں فرق آگیا ہے۔ عجب معاملہ ہے جس سے انسانی ضمیر کے اندر جو کچھ گزر رہا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ میری بیماری میں محض اس واسطے دلچسپی لے رہے ہیں کہ دیکھیں ڈاکٹروں کو کب شکست ہوتی ہے… اب کی دفعہ کوئی اس سے زیادہ طاقت ور دوا ہو تو اور بھی اچھا ہے تاکہ معجزے کا جلد ظہور ہو۔ ۱۷؍جون۱۹؎ مختصراً یہ کہ حکیم صاحب قبلہ کا علاج یہاں تک کامیاب ہورہا تھا کہ حضرت علامہ نے سفر کا پروگرام مرتب کرنا شروع کردیا۔ روڈز لیکچرز۲۰؎ کے سلسلے میں آکسفورڈ سے پہلے ہی دعوت آچکی تھی۔ پھر جنوبی افریقہ کے مسلمانوں نے ان سے تشریف آوری کی درخواست کی اور اس کے بعد: جرمنی سے ایک خط آیا ہے جس سے معلوم ہوا ہے کہ ترکی کی طرف سے بھی دعوت دی جانے والی ہے بہرحال میری خواہش ہے کہ اس جہان سے رخصت ہونے سے پہلے بر آور ہرچہ اندر سینہ داری سرودے ، نالۂ آہے ، فغانے ۲۰؍جون۲۱؎ لیکن صحت کی اس تدریجی ترقی کے ساتھ حضرت علامہ نے پرہیز کا مسئلہ چھیڑ دیا۔ اس معاملے میں ان کا مزاج بڑا نازک تھا۔ یوں وہ کوئی بہت زیادہ کھانے والے نہیں تھے۔ مگر کھانے پینے کی چیزوں میں شاعری تو کرسکتے تھے۔ ان کا برسوں سے معمول تھا کہ رات کو صرف دودھ دلیا پر اکتفا کرتے اور جی چاہتا تو کشمیری چائے بھی استعمال کرلیتے۔ اس موقع پر حضرت علامہ کے نیازمند بالائی کی تقسیم پر خوب خوب لڑا کرتے تھے (بنی ہوئی بالائی نہیں بلکہ بالائی جو عام طور پر دودھ میں ہوتی ہے) ان کا کھانا نہایت سادہ ہوتا تھا۔ یعنی گوشت میں پکی ہوئی سبزی، ناشہ صرف لسی یا ایک آدھ بسکٹ اور چائے کا ہوتا اور وہ بھی روزمرہ نہیں۔ خوراک کی مقدار بھی کم تھی اور اس کا اہتمام اس سے بھی کم۔ آخری دنوں میں جب بچوں کی جرمن اتالیق آگئی تو ان کی تربیت کے خیال سے میز کرسی کا انتظام کیا گیا۔ یہ چیزیں موجود تو تھیں مگر اتفاقی ضروریات کے لیے اور حضرت علامہ بھی ان کے ساتھ کھانے میں شریک ہونے لگے۔ مگر پھر دو ہی تین دن میں اپنی عادت سے مجبور ہوجاتے۔ فرماتے: ’’علی بخش میرا کھانا یہیں لے آئو۔‘‘ علی بخش پانی اور چلمچی لیے کمرے میں داخل ہوا۔ حضرت علامہ لیٹے لیٹٗ اُٹھ بیٹھے اور وہیں پلنگ پر نشست جمالی۔ تولیہ یا رومال زانوئوں پر ڈال لیا۔ علی بخش نے کھانے کی کشتی سامنے رکھ دی۔ احباب میں سے اگر کوئی صاحب بیٹھے ہیں تو انھوں نے ’’آپ بھی آئیے‘‘ کہہ کر کھانا کھانا شروع کردیا۔ ہاں اگر کھانے کے بعد پھل آگئے تو وہ باصرار ہر شخص کو ان میں شریک کرلیتے۔ یہ تھا ان کے کھانا کھانے کا انداز اور ہرچند کہ اس میں تکلف یا اہتمام کو کوئی دخل نہ تھا۔ مگر ان کی رائے تھی کہ جو چیز بھی کھائی جائے خوش مذاقی سے کھائی جائے۔ اس کا ذائقہ عمدہ ہو، رنگ اور بو خوشگوار ہو۔ ترشی اور سرخ مرچ انھیں بہت پسند تھی۔ پھلوں میں آم کے تو وہ گویا عاشق تھے۔ عذائوں میں کباب اور بریانی خاص طور سے مرغوب تھی فرمایا کرتے تھے یہ ’’اسلامی غذا‘‘ ہے۔ گرمیوں میں برف کے استعمال کو ہر شخص کا جی چاہتا ہے لیکن حکیم صاحب نے گلے کی تکلیف کے خیال سے منع کررکھا تھا۔ حضرت علامہ باربار پوچھتے برف کے متعلق کیا رائے ہے؟ ایک دفعہ لکھا مکہ شریف سے ایک شخص صراحی لایا تھا اسی میں پانی ٹھنڈا کرلیتا ہوں۔ مگر جب صحت کی طرف سے اطمینان ہوگیا تو استفسارات کی بھرمار ہونے لگتی۔ اب مزاج میں بھی لطافت اور شگفتگی آچکی تھی۔ ایک خط میں لکھتے ہیں: ان (حکیم صاحب قبلہ) سے کہیے آپ انصار ہیں، میں مہاجرین میں سے ہوں۔ کیونکہ میں نے زمانہ حال سے خیر القرون کی طرف ہجرت کی ہے روحانی نہیں تو دماغی اعتبار ہی سے سہی۔ اس واسطے میرا ان پر حق ہے اور میں ان سے اسی سلوک کا متوقع ہوں جو انصار نے مہاجرین سے کیا تھا… میری مجموعی صحت بہت اچھی ہے… نیند بھی رات کو خوب آتی ہے، البتہ آواز کھلنے کی رفتار سست ہے۔ آج چلغوزہ کھایا ہے تازہ انجیر کی تلاش جاری ہے۔ سردے کا موسم ابھی شروع نہیں ہوا لیکن ترشی کے لیے ترس گیا ہوں۔ لیموں کو تو ہاتھ لگاتا نہیں مگر کیا اور قسم کا پھل بھی منع ہے؟ دہی کی اجازت حکیم صاحب نے دی تھی… ایک روز دہی کا رائتہ کھایا تھا مگر دہی اس قدر میٹھا تھا کہ کوئی لطف نہ تھا… پودینہ اور اناردانے کی چٹنی کے لیے کیا حکم ہے؟۲۰؍جون۲۲؎ حکیم صاحب قبلہ ان تحریروں کو سنتے اور سن سن کر کبھی ہنستے کبھی کوئی فقرہ چست کردیتے ان کے منہ سے حضرت علامہ کے لیے سیکڑوں دعائیں نکلتیں اور وہ ان خطوں پر اس مزے کی گفتگو کرتے کہ گھنٹہ دو گھنٹے ان کے یہاں خوب صحبت رہتی۔ ان کا قاعدہ تھا کہ حضرت علامہ کی فرمایشوں کا حتی الوسع خیال رکھتے۔ مغزیات اور پھلوں کے استعمال کی انھوں نے خاص طور سے ہدایت کر رکھی تھی۔ یوں بھی ان کی رائے تھی کہ حضرت علامہ کی غذا نہایت زود ہضم اور مقوی ہونی چاہیے مگر معلوم ہوتا ہے حضرت علامہ کبھی کبھی بدپرہیزی بھی کرلیتے۔ ۲۴؍جون کے گرامی نامے میں لکھتے ہیں: پہلے ہفتے سے ترقی جو آواز میں ہوئی تھی کوئی اضافہ نہیں کیا بلکہ ترقی معکوس میں ہوئی ان کے وجوہ جہاں تک سوچ چکتا ہوں تین ہوسکتے ہیں: (۱) میں نے دہی کھایا اور لسی بھی پی۔ (۲) فالودہ پیا (برف ڈال کر) (۳) آپ کو پچھلے خط میں لکھا تھا کہ دوا کی مقدار دگنی کر دی گئی ہے۔ ۲۴؍جون۲۳؎ ایک دوسرا خط ہے: حکیم صاحب قبلہ سے ہر چیز کے متعلق فرداً فرداً دریافت کرکے مجھے مطلع کیجیے… چائے، سبزی، ترکاری، پھل پھول، گوشت اور پینے کی چیزیں وغیرہ علی ہذا القیاس چاول خشک و پلائو، شہد وغیرہ۔ ۲۷؍جون۲۴؎ تقریباً یہی انداز طبیعت ان کا دوائوں کے متعلق تھا۔ دوا جو بھی ہو لطیف ہو، خوش ذائقہ ہو، خوش رنگ ہو، بو ایسی کہ ناگوار نہ گزرے، خوراک کم اور موثر لیکن چونکہ حکیم نابینا کی دوائیں اس معیار پر پوری اُترتی تھیں۔ اس لیے ان سے زیادہ تر اختلاف کھانے پینے کی چیزوں میں ہوتا۔ وہ کہتے ڈاکٹر صاحب کے لیے مغز عصفور یا مغز خرگوش بہت مفید رہے گا۔ حضرت علامہ فرماتے مغز اور اس کا استعمال؟ معاذ اللہ! یہ کیسے ممکن ہے؟ مجھے تو اس کے دیکھنے ہی سے کراہیت محسوس ہوتی ہے۔ میں گوشت تو کھا لیتا ہوں مگر دل، گردہ، کلیجی وغیرہ کبھی نہیں کھائی۔ حکیم صاحب تدبیریں سوچتے۔ اگر مغز کو شوربے یا چاول میں ملا دیا جائے تو ڈاکٹر صاحب کو پتہ نہیں چلے گا میں علی بخش کو الگ خط لکھتا مگر علی بخش کی تربیت ہی اس طرح ہوئی تھی کہ وہ کوئی کام حضرت علامہ کے خلاف منشا نہ کرسکتا۔ وہ فوراً کہہ دیتا: نیازی صاحب نے اس طرح کا خط بھجوایا ہے۔ حضرت علامہ ان باتوں کو سنتے اور سنتے ہی مجھے لکھ دیتے کہ اگر مغز کا استعمال ایسا ہی ضروری ہے تو کیوں نہ اس کا جوہر تیار کرلیا جائے! غرض کہ ایک ہی مہینے کے اندر حکیم صاحب کی دوائوں سے اس قدر فائدہ ہوا کہ حضرت علامہ شدید گرمیوں کے باوجود سفر کے لیے تیار ہوگئے۔ اب کے قصد سرہند کا تھا اور تقریب اس کی یہ کہ: چند روز ہوئے صبح کی نماز کے بعد میری آنکھ لگ گئی۔ خواب میں کسی نے مندرجہ ذیل پیغام دیا: ’’ہم نے جو خواب تمھارے اور امیر شکیب ارسلان۲۵؎ کے متعلق دیکھا ہے، وہ سرہند بھیج دیا ہے۔ ہمیں یقین ہے خدا تعالیٰ تم پر بہت بڑا فضل کرنے والا ہے۔ اس کے علاوہ جب جاوید پیدا ہوا تو میں نے عہد کیا تھا کہ جب ذرا بڑا ہوگا تو حضرت کے مزار پر لے جائوں گا۔‘‘۲۹؍جون۲۶؎ چنانچہ ۲۹؍جون کی شام کو حضرت علامہ سرہند تشریف لے گئے اور ۳۰؍جون کی شام کو واپس آگئے۔ تاثرات سفر کے متعلق ان کے بعض عنایت ناموں کے اقتباسات یہ ہیں: نہایت عمدہ اور پرفضا جگہ ہے۔ ان شاء اللہ پھر جائوں۔ ۳؍جولائی۲۷؎ مزار نے میرے دل پر بہت اثر کیا۔ بڑی پاکیزہ جگہ ہے۔ پانی اس کا سرد اور شیریں ہے۔ شہر کے کھنڈرات دیکھ کر مجھے مصر کا قدیم شہر فسطاط یاد آگیا جس کی بنا حضرت عمرو بن العاص نے رکھی تھی۔ اگر سرہند کی کھدائی ہو تو معلوم نہیں زمانے کی تہذیب و تمدن کے کیا انکشافات ہوں۔ یہ شہر فرخ سیر کے زمانے میں بحال تھا اور موجودہ لاہور سے آبادی وسعت کے لحاظ سے دگنا۲۸؎ تھا۔ ۳؍جولائی۲۹؎ رفتہ رفتہ حضرت علامہ کی صحت اس قدر اچھی ہونے لگی کہ ڈاکٹروں کو بھی اپنی رائے بدلنی پڑی۔ ۵؍جولائی کا خط ہے: ڈاکٹر یار محمد خان کل کہتے تھے کہ Fresh Growth یا ٹیومر کی تھیوری غلط معلوم ہوتی ہے کیونکہ یہ آپ کی صحت دیگر حالات سے مطابق نہیں… انگریزی ڈاکٹر اب یہ کہتے ہیں کہ اگر ٹیومر ہوتا تو عام صحت اس قدر جلد ترقی نہ کرسکتی۔ بلکہ روز بروز بدتر ہوتی جاتی۔۳۰؎ پھر لکھتے ہیں: یہ بات اب یقینی ہوگئی ہے کہ ٹیومر یا گروتھ نہیں صرف شاہ رگ کا پھیلائو ہے… یہ شاہ رگ کا پھیلائو یا خون کے سمی مادوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے یا بعض پہلوانوں اور گویوں کو بھی ہوجاتی ہے۔ نفس کے زیادہ استعمال کی وجہ سے۔۱۱؍جولائی۳۱؎ پہلے خط میں لکھ چکا ہووں کہ ٹیومر کی تھیوری خود ایکس رے نے غلط ثابت کردی ہے۔ ڈاکٹر اب کہتے ہیں کہ گو ٹیومر نہیں تاہم شاہ رگ کا پھیلائو ہے اور یہ بھی ایک قسم کی Swelling ہے۔ ان کی رائے میں یہ مرض خطرناک نہیں ہے لیکن نارمل حالت کی طرف عود کر آنا ان کے نزدیک بہت مشتبہ ہے ان کے علم یں اب اس کا علاج صرف یہی ہے کہ موجودہ آواز پر اکتفا کی جائے اور شاہ رگ کے پھیلائو کو دوائوں کے ذریعے روکنے کی کوشش کی جائے۔ ۱۳؍جولائی۳۲؎ گویا قدیم اور جدید کے درمیان جو تصادم مہینوں سے جاری تھا۔ اس کا خاتمہ بالآخر قدیم ہی کی فتح پر ہوا۔ حکیم نابینا صاحب کے اس اعجاز کا شہر بھر میں چرچا تھا۔ اس اثنا میں حضرت علامہ خود بھی اظہارِ تشکر کے لیے دہلی تشریف لائے۔ ان کی بیماری کو اب کم و بیش چھے مہینے گزر چکے تھے۔ شروع میں چار مہینوں میں ایلوپیتھک علاج ہوتا رہا۔ حکیم صاحب کی تدابیر کا نتیجہ یہ تھا کہ: اگر میری آواز اصلی حالت پر عود کر آئی تو میں اس بیماری کو خدا کی رحمت تصور کروں گا کیونکہ اس بیماری نے حکیم صاحب سے وہ ادویہ استعمال کرنے کا موقع پیدا کیا جنھوں نے میری صحت پر ایسا نمایاں اثر کیا تمام عمر میں میری صحت ایسی اچھی نہ تھی جیسی اب ہے۔ ۲۳؍جولائی۳۳؎ لیکن حکیم صاحب کی اس معجز نما کامیابی کے باوجود آواز کا مسئلہ جوں کا توں قائم رہا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اب گلے کی حالت بہتر تھی اور آواز بھی نسبتاً بڑھ گئی تھی جیسا کہ حضرت علامہ خود فرماتے ہیں: آواز کچھ رو بہ صحت معلوم ہوتی ہے مگر اس کی ترقی نہایت خفیف ہے خدا جانے کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا؟ میں نے پھیپھڑوں اور دل کا دوبارہ معائنہ کرایا ہے۔ سب کچھ درست ہے۔ حکیم صاحب سے عرض کریں کہ روحانی اثر کی ضرورت ہے… انگلینڈ غالباً نہ جائوں گا۔ ۶؍اگست۳۴؎ لیکن آواز کا دھیما پن بدستور قائم رہا۔ اب حضرات نے گھبرا کر دوائوں کے متعلق رائے زنی شروع کردی۔ یہ دوا ٹھیک نہیں۔ اس دوا سے فائدہ زیادہ معلوم ہوتا تھا۔ نئی گولیاں کس شکایت کے لیے ہیں۔ انھیں گھلا کر استعمال کروں؟ گھلا کر استعمال کرنا تو مشکل ہے۔ فلاں دوا کی مقدار کیوں نہ بڑھا دی جائے۔ اس کی کیا وجہ ہے کہ دوسرے ہفتے آواز پر کوئی اثر نہیں ہوا؟ کیا آپ میرے خط حکیم صاحب قبلہ کو سنا دیتے ہیں؟ میں سمجھتا ہوں کئی ایک باتیں جواب طلب ہیں۔ آپ بھول گئے یا حکیم صاحب ہی نے خیال نہیں کیا؟ اور ماحصل اس تمام پریشانی کا یہ کہ: دو ماہ سے کوئی زیادہ ترقی آواز میں محسوس نہیں ہوئی۔ اس واسطے اب ڈاکٹر صاحبان بغلیں بجاتے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ آواز درست نہ ہوگی۔ میں بھی کبھی کبھی مایوس ہوجاتا ہوں۔ مگر حکیم صاحب کی توجہ اور ان کی روحانیت پر بھروسہ رکھتا ہوں۔ ۱۸؍اگست۳۵؎ ایک طرف صحت کی عمدگی کی یہ کیفیت: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے میرا بدن نئے سرے سے تعمیر ہورہا ہے مگر تعجب ہے کہ آواز میں نمایاں تبدیلی نہیں ہوئی۔ ۳؍ستمبر۳۶؎ دوسری جانب آواز کی پستی۔ غرض کہ حضرت علامہ گھبرا گئے۔ ڈاکٹر انھیں یورپ کے سفر پر آمادہ کررہے تھے لیکن حضرت علامہ کو شاید خود بھی جدید طریقہ ہائے علاج پر کچھ بہت زیادہ اعتماد نہیں رہا تھا۔ البتہ ڈاکٹروں کی تنقید اور رائے زنی کو وہ بڑے غور سے سنتے۔ ان کے پاس علم تھا، آلات تھے، نظریے تھے، مفروضے تھے اور ان کی تردید کوئی آسان بات نہ تھی۔ مگر ان کی دوائوں میں کوئی اثر نہ تھا۔ وہ حکیم صاحب کے ان الفاظ کو سنتے ’’اعصاب میں برودت ہے اور جگر میں حدت‘‘ تو انھیں تعجب ہوتا کہ ان اصطلاحات کا فی الواقع کوئی مطلب ہے بھی یا نہیں۔ مگر حضرت علامہ کیا کرتے۔ نہ ان کو سائنس کی ترقی سے انکار تھا نہ آلات کی خوبی سے، لیکن وہ یہ دیکھتے کہ حکیم صاحب کی گولیوں میں اثر ہے۔ طاقت ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ’’رسولی‘‘ اور ’’بڑھائو‘‘ کے نظریوں کی تغلیط انھیں سے ہوئی تھی۔ لہٰذا وہ انگلستان نہ گئے۔ میں یہ سب باتیں حکیم صاحب کی خدمت میں عرض کرتا۔ وہ کہتے آواز کی کشایش کے لیے وقت کی ضرورت ہے۔ صحت ٹھیک ہوگئی تو گلا اپنے آپ کھل جائے گا۔ دراصل انھیں آواز کا اتنا خیال تھا بھی نہیں جتنا حضرت علامہ کی عام صحت اور قلب و اعصاب کی تقویت کا۔ ادھر جب سے لوگوں نے یہ سنا کہ حکیم صاحب کا علاج کامیاب ہوا وہ ازراہ خلوص و عقیدت جس نسخے کی تعریف سنتے اس کا ذکر فوراً حضرت علامہ سے کردیتے۔ چنانچہ اب ان کے والاناموں میں اس قسم کے اشارات ہونے لگے: بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ گلے کے دونوں اطراف جونک لگوانی چاہیے۔۲۳؍جون۳۷؎ میرے ایک مہربان… کہتے ہیں کہ کشمیر میں گل قند بشرطیکہ پرانی ہو، تقویت کے لیے اکسیر ہے۔۶؍جولائی۳۸؎ جراحوں کا ایک پرانا خاندان لاہور میں ہے، وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس ایک لیپ ہے۔ ۱۶؍جولائی۳۹؎ ایک شخص نے مشک کے استعمال کا مشورہ دیا ہے۔ ۱۶؍اگست۴۰؎ عراق میں اسے ایک ترک طبیب نے تمباکو میں چرس رکھ کر پلائی تھی اور اس کے ساتھ لپٹن چائے، جس میں شکر کی جگہ گڑ ڈالا جائے اور صرف تین چار روز کے عرصے میں اس کی آواز صاف ہوگئی۔۴۱؎ حکیم صاحب قبلہ ان تجاویز کو سنتے اور سن کر پریشان ہوجاتے مگر حضرت علامہ کے پاس خاطر سے کبھی آواز کشاگولیاں اور کبھی کوئی لیپ روانہ کردیتے جن سے شاید فی الحقیقت دفع الوقتی مقصود ہوتی۔ یوں وہ اپنی دوائوں میں اس بات کا ہمیشہ لحاظ رکھتے تھے کہ آواز کی ترقی ہو لیکن حضرت علامہ تعجیل کے خواہاں تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ جس قدر جلدی ممکن ہو انگلستان تشریف لے جائیں اور روڈز لیکچرز کے سلسلے میں فلسفہ اسلامی کے تصورات مکان و زماں کی تشریح کرسکیں۔ ایک مرتبہ انھوں نے پریشان ہوکر لکھا: صحت خدا کے فضل و کرم سے اچھی ہے… زیادہ کیا عرض کروں… آٹھ ماہ کی علالت (اور علالت بھی ایسی کہ فی الحقیقت کوئی علالت نہیں) سے بہت تنگ آگیا ہوں۔۳۰؍ستمبر۴۲؎ لیکن چونکہ انھیں حکیم صاحب پر اعتماد تھا اور ناک سے بھی بلغم کا اخراج ہو رہا تھا۔ لہٰذا یقین تھا کہ آواز بتدریج کھل جائے گی۔ اس اثنا میں انھیں چھینکیں بھی آنے لگیں تھیں۔ جن سے آواز میں خاصی کشایش پیدا ہوجاتی گو وقتی طور پر۔ ادھر سینے کی حالت سے ایسا معلوم ہونے تھا جیسے بلغم چھن رہا ہے۔ اس لیے وہ باربار حکیم صاحب سے کوئی اکسیر طلب کرتے: غرضیکہ اب آواز کی خاطر کسی ایسے اکسیر کی ضرورت ہے جو بہت جلد اور نمایاں اثر کرے۔ اور آج کل ایسا اکسیر سوائے حکیم صاحب کے اور کس کے پاس ہے۔ اگر پاس نہیں ہے تو ان کی خدمت میں عرض کریں کہ ایسا اکسیر ایجاد کریں اور اپنے طبی ذوق کی گہرائیوں سے اسے پیدا کریں۔ ۲۸؍اکتوبر۴۳؎ ان دنوں حضرت علامہ نے صرف دو شکایتیں اور محسوس کیں۔ اوّل یہ کہ وسط اگست میں ان کا سر دفعتاً چکرایا اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا آگیا مگر یہ شکایت کچھ دنوں کے بعد خودبخود دور ہوگئی۔ ممکن ہے یہ اوّلین علامت ہو موتیا بند کی، جس نے تین سال کے بعد ۱۹۳۷؍ میں باقاعدہ ظہور کیا۔ ثانیاً یہ کہ ان کے دونوں شانوں کے درمیان کبھی کبھی ہلکا سا درد ہونے لگتا۔ یہ تکلیف اگرچہ روغن اوجاع کی مالش سے جاتی رہی لیکن سال چھے مہینے کے بعد اس کا دورہ ضرور ہوتا۔ مجھے خوب یاد ہے حکیم صاحب کو اس درد کے ازالے کا خاص طور سے خیال تھا۔ پھر ایسا بھی ہوا کہ اس زمانے میں حضرت علامہ کو دن میں ایک آدھ ہچکی سی آگئی۔ جس نے رفتہ رفتہ ایک ہلکی سی چیخ کی شکل اختیار کرلی۔ مگر ان کے یہ عوارض اس قدر ہنگامی اور بے حقیقت تھے کہ حضرت علامہ نے انھیں کوئی خاص وقعت نہ دی گویا آواز کی پستی کے سوا وہ اب بالکل اچھے تھے۔ ان کو تعجب تھا تو صرف یہ کہ اتنا بلغم کہاں سے آتا ہے اور اس کا سرچشمہ کیا ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتا۔ صحت کی طرف سے اطمینان ہوا تو حضرت علامہ ازسرنو اپنے مشاغل میں مصروف ہوگئے۔ سب سے پہلے انھوں نے سیاحت افغانستان کے متعلق اپنے تاثرات کو ’’مسافر‘‘ کے زیر عنوان ترتیب دیا اور پھر بالِ جبریل کی طرف متوجہ ہوئے جس کے بعض اجزا ابھی ناتمام پڑے تھے۔ ۱۹۳۰ء میں راقم الحروف نے ان کے انگریزی خطبات کا ترجمہ اُردو میں کیا تھا۔ لیکن حضرت علامہ کی رائے تھی کہ اُردو زبان میں جدید فلسفیانہ مطالب کا ادا کرنا مشکل ہے اور نہ بھی ہو تو انھوں نے اپنے خیالات کا اظہار جس ایجاز و اختصار سے کیا اس کومدنظر رکھتے ہوئے ضروری معلوم ہوتا تھا کہ حضرت علامہ گول میز کانفرنس کی شرکت سے فارغ ہوجائیں تو ان کی زیر ہدایت ترجمے پر نظرثانی کی جائے۔ اب اس کے علاوہ ایک اور تجویز ان کے ذہن میں آئی۔ یعنی اپنی چیدہ چیدہ نظموں کے ایک الگ مجموعے کی ترتیب اور ایک ادارہ نشر و اشاعت کا قیام خالص اسلامی ادب کی تخلیق کے لیے۔ لیکن مشیت ایزدی میں کسے دخل ہے۔ ان کی طبیعت ٹھیک ہوئی تو والدہ جاوید سلمہ بیمار ہوگئیں اور ان کی بیماری نے ایک تشویش ناک صورت اختیار کرلی۔ اس طرح قدرتاً حضرت علامہ کا ذہن اپنے خانگی اُمور کی طرف منتقل ہوگیا اور انھوں نے طے کرلیا کہ تعمیر مکان کا مسئلہ جو پچھلے دو تین برس سے معرض التوا میں ہے پورا ہوجائے۔ حضرت علامہ کو دنیوی آسایش اور مال و دولت کی ہوس تو کبھی تھی نہیں ان کی اس خواہش میں بھی دراصل بچوں ہی کے سود و بہبود اور حفاظت کا خیال مضمر تھا۔ لہٰذا تھوڑے ہی دنوں میں ایک مناسب قطعہ زمین میو روڈ پر خریدا گیا اور ان کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد(مرحوم)۴۴؎ سیالکوٹ سے تشریف لے آئے حضرت علامہ نے اگرچہ میکلوڈ روڈ سے اس وقت تک قدم باہر نہیں رکھا جب تک کوٹھی ہر طرح سے مکمل اور رہنے کے قابل نہیں ہوگئی لیکن ان کی طبع نازک کو یہ سن کر بھی تکلیف ہوتی تھی کہ زمین کی خرید اور عمارت کی تیاری میں کس قدر سردردی سے کام لینا پڑتا ہے وہ ان باتوں کو سنتے اور خطوں میں اکثر اپنے تکدرِ خاطر کا اظہار کرتے۔ وصیت کا مسئلہ اس سے پہلے طے ہوچکا تھا اور بعض ضروری ہدایات وہ اپنے معتمد رفیق چودھری محمد حسین صاحب کو دے چکے تھے۔ ان کے نام ایک خط بھی تھا جو شروع جون میں ڈاکٹر تشخیص کے زیر اثر لکھا گیا۔ اس میں جاوید سلمہ کی تعلیم اور بچوں کی دیکھ بھال کے علاوہ علی بخش کے نام چند ضروری ہدایات ہیں۔ آخر میں مسلمانوں سے دعائے خیر کی درخواست کی ہے۔ مسلمانوں کا انھیں کس قدر خیال رہتا تھا۔ اس کا اندازہ ان الفاظ سے کیجیے جو علی گڑھ میں اشتراکیت کے خروج پر انھوں نے مجھے لکھے: Anti God سوسائٹی۴۵؎ کا میں نے کسی سے سنا تھا۔ جس کا مجھے اس قدر رنج ہوا کہ تمام رات بے خواب گزری اور صبح کی نماز میں گریہ و زاری کی کوئی حد نہ رہی۔ ۲۵؍ستمبر۴۶؎ اس طرح ۱۹۳۴ء بہ خیر و خوبی گزر گیا۔ ۱۸؍دسمبر کو جب حضرت علامہ علی گڑھ جاتے ہوئے دہلی سے گزرے اور میں اسٹیشن پر ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان کی صحت کہیں سے کہیں پہنچ چکی تھی۔ واپسی پر انھوں نے حکیم صاحب سے ملاقات فرمائی۔ حکیم صاحب نے نبض دیکھ کر ہر طرح سے اطمینان کا اظہار کیا اور معمولی پرہیز اور دوائیں جاری رکھنے کی ہدایت کی۔ لیکن جنوری ۱۹۳۵ء میں سر راس مسعود مرحوم۴۷؎ کی محبت نے انھیں بھوپال کھینچ بلایا۔ ان ایام میں مشہور ترکی خاتون خالدہ ادیب خانم۴۸؎ کے خطبات کا سلسلہ جامعہ ملیہ کے زیر اہتمام دہلی میں شروع تھا۔ چنانچہ ڈاکٹر انصاری اور اہل جامعہ نے پھر حضرت علامہ سے درخواست کی کہ وہ ان کے کسی خطبے کی صدارت کرنا منظور فرمائیں۔ شروع شروع میں تو حضرت علامہ خرابی صحت کا عذر پیش کرتے رہے مگر جب خانم نے اسلام اور مسلمانوں کے متعلق اپنے عجیب و غریب خیالات کا اظہار کرنا شروع کیا تو ان کے دل میں خود بھی اس بات کا اشتیاق پیدا ہوا کہ اگر ممکن ہو تو ان سے ملیں۔ ایک خط میں انھوں نے فرمایا: مشرق کی روحانیت اور مغرب کی مادیت کے متعلق جو خیالات انھوں نے ظاہر کیے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی نظر بہت محدود ہے… اگر ان کو معلوم ہوتا کہ مشرق و مغرب کے تصادم (کلچرل) امی عرب کی نبوت اور قرآن نے کیا کام کیا ہے مگر یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کیونکہ مسلمانوں کی فتوحات نے اسلام کے کلچرل تاثرات کو دبائے رکھا نیز خود مسلمان بھی دو ڈھائی سو سال تک یونانی فلسفے کا شکار ہوگئے۔ ۲۳؍جنوری ۱۹۳۵ئ۴۹؎ بہرکیف ۳۰؍جنوری کی صبح کو حضرت علامہ دہلی تشریف لائے اور خالدہ ادیب خانم کے ایک خطبے کی صدارت کے بعد بھوپال روانہ ہوگئے۔ انھوں نے باتوں باتوںمیں خاتون موصوفہ کو بہت کچھ سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ کچھ نہ سمجھیں جیسا کہ ان کے خطبات اور بعد کی تصنیف سے ظاہر ہوتا ہے۔ بھوپال میں حضرت علامہ کا قیام شروع مارچ تک رہا۔ وہ اس کی عمدہ ہوا اور حسیں مناظر کی اکثر تعریف فرمایا کرتے تھے اور اپنے معالجین اور میزبانوں کے خلوص و توجہ کے دل سے شکرگزار تھے۔ ۵؍فروعی کے عنایت نامے میں لکھتے ہیں: موسم نہایت عمدہ ہے… طبی معاینہ سے جو نہایت مکمل تھا حکیم صاحب کی بہت سی باتوں کی تائید ہوئی بہرحال آج گیارہ بجے سے Ultra Violet Rays کا غسل شروع ہوگا۔۵۰؎ اس دوران میں حکیم صاحب کی دوائیں بند کردی گئیں تاکہ نئے علاج میں حارج نہ ہوں۔ اس طرح جو اثرات ان کی صحت پر مرتب ہوئے ان کا مفاد یہ تھا: بجلی کا علاج ابھی صرف چار دفعہ ہوا۔ کچھ خفیف سا فرق آواز میں ہے مگر زیادہ وضاحت سے آٹھ دس دفعہ کے علاج کے بعد معلوم ہوگا… نبض کی حالت اور علی ہذا القیاس دل اور پھیپھڑوں کی حالت بہت عمدہ ہے۔ ۱۲؍فروری۵۱؎ ۸؍مارچ کی صبح کو حضرت علامہ بھوپال سے دہلی تشریف لائے۔ حکیم صاحب کو نبض دکھلائی اور دو روز ہزایکسی لینسی سردار صلاح الدین سلجوقی قونصل جنرل دولت مستقلہ افغانستان کے اصرار پر قیام فرما کر ۱۲ کی صبح کو لاہور پہنچ گئے۔ اب حضرت علامہ کا معمول یہ تھا کہ اصل علاج تو حکیم صاحب ہی کارہا ہاں بیچ میں کوئی شکایت پیدا ہوگئی تو مقامی اطبا یا ڈاکٹروں سے رجوع کرلیا۔ ان کا خیال تھا کہ آواز کی اصلاح گو دیر میں ہوگی لیکن بہت ممکن ہے طبی علاج کے ساتھ بجلی کا علاج اور بھی کارگر ہو لیکن افسوس ہے کہ اس زمانے میں والدہ جاوید سلمہ کی حالت دفعتاً خراب ہوگئی آخر اپریل میں مجھے لاہور آنے کا اتفاق ہوا تو میں نے انھیں بہت متردد پایا۔ ویسے ان کی اپنی صحت بہت اچھی تھی اور آمدِ شعر کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ چنانچہ ازراہ شفقت اپنے اکثر اشعار سناتے رہے۔ کہنے لگے اگر کتاب مکمل ہوگئی تو اس کا نام صورِ اسرافیل ہوگا (یہ وہی مجموعہ ہے جو بعد میں ضربِ کلیم کے نام سے شائع ہوا) ان دنوں انھیں سب سے زیادہ فکر گھر کی علالت کا تھا۔ میں دہلی واپس آیا تو ان کے والاناموں میں زیادہ تر اسی کا ذکر ہوتا۔ آخر ۲۴؍مئی کے مکتوب میں یہ افسوس ناک خبر سنی: کل شام چھے بجے والدۂ جاوید اس جہان سے رخصت ہوگئی۔ ان کے آلام و مصائب کا خاتمہ ہوا اور میرے اطمینان قلب کا، اللہ فضل کرے: ہر چہ از دوست مے رسد نیکو ست باقی رہا میں سو میری حالت وہی ہے جو بھوپال سے آتے وقت تھی۔۵۲؎ یہ زمانہ حضرت علامہ کے لیے بڑی پریشانی کا تھا۔ انھیں اپنے نئے مکان ’’جاوید منزل‘‘ میں تشریف لائے غالباً دوسرا ہی دن تھا کہ بیگم صاحبہ کی ناگہانی موت کا صدمہ پیش آیا۔ اب سوال یہ تھا کہ بچوں کی دیکھ بھال، حفاظت اور تربیت کا انتظام کیا ہو۔ ان کی اپنی طبیعت ناساز تھی۔ وکالت کا سلسلہ بند ہوئے تین چار سال گزر چکے تھے۔ ان کی زندگی میں کسب مال اور حصول منصب کی ہزاروں شکلیں پیدا ہوئیں لیکن ان کی استغنا پسند اور فقیرانہ طبیعت نے اپنی غیرت و خودداری میں کبھی آنکھ اُٹھا کر بھی ان کی طرف نہ دیکھا۔ وہ کسی قسم کے احسان اور منت پذیری یا غرض جوئی جو تصور میں بھی برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ حقیقت میں یہ ملت کی بڑی خوش قسمتی تھی کہ اس نازک موقع پر اعلیٰ حضرت نواب صاحب۵۳؎ بھوپال نے محض اپنے تعلق خاطر اور خدمت اسلامی کے جذبے میں خود اپنی جیب سے حضرت علامہ کا ماہوار وظیفہ مقرر کردیا تاکہ وہ حسب خواہش قرآن مجید کے حقائق و معارف پر قلم اُٹھا سکیں۔ حضرت علامہ نے اعلیٰ حضرت کے اس حسن سلوک کو کبھی فراموش نہیں کیا اور ہمیشہ ان کے سپاس گزار رہے۔ انھی دنوں کے ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں: اعلیٰ حضرت نواب صاحب بھوپال نے میری لائف پنشن پانچ سو روپے ماہوار مقرر کردی ہے۔ خدائے تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے انھوں نے میرے ساتھ عین وقت پر سلوک کیا۔ اب اگر صحت اچھی رہی تو بقیہ ایام قرآن شریف پر نوٹ لکھنے میں صرف کروں گا۔ یکم؍جون۵۴؎ اس کے بعد اگرچہ متعدد ذرائع سے یہ کوششیں ہوئیں کہ حضرت علامہ مزید وظائف قبول کریں مگر انھوں نے ہمیشہ انکار کردیا اور یہی کہا کہ میں ایک فقیر آدمی ہوں۔ مجھے جو کچھ اعلیٰ حضرت دیتے ہیں۔ میری ضروریات کے لیے کافی ہے۔ حقیقت میں یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم تھی کہ حضرت علامہ سے اعلیٰ حضرت کو کس قدر تعلق ہے۔ ۵؍جولائی کو حضرت علامہ ڈیڑھ مہینے کے لیے بھوپال تشریف لے گئے تاکہ بجلی کا علاج مکمل ہوجائے۔ بھوپال میں حضرت علامہ کا قیام بالعموم سر راس مسعود مرحوم ہی کے یہاں رہتا اور سر راس مسعود ان کے آرام و آسایش کا اتنا خیال رکھتے کہ خودحضرت علامہ کو تعجب ہوتا۔ انھوں نے خود مجھ سے بیان فرمایا کہ ایک روز جب انھیں پیٹھ کے درد کا ہلکا سا دورہ ہوا تو ڈاکٹروں نے سر راس مسعود سے یہ اندیشہ ظاہر کیا کہ اس درد کا اصلی سبب ضعف قلب ہے لہٰذا انھیں چاہیے کہ نقل و حرکت میں احتیاط رکھیں۔ حضرت علامہ کہتے ہیں: ’’ریاض منزل میں میرا قیام بالائی کمروں میں تھا۔ میں جب اوپر جاتا تو سیّد صاحب اور ان کی بیگم صاحبہ دونوں ہاتھوں سے مجھے سہارا دیتے تاکہ زینہ چڑھنے میں کوئی تکلیف نہ ہو۔ ایک آدھ روز تو خیر میں نے اپنے شفیق دوست کی پاس داری کے خیال سے کچھ نہ کہا لیکن تیسری مرتبہ جب یہی صورت پیش آئی تو میں نے کہا: آپ اور لیڈی صاحبہ ناحق تکلیف کرتے ہیں۔ انھوں نے ’’کوئی بات نہیں‘‘کہہ کر ٹال دیا۔ حضرت علامہ کہتے ہیں: ’’اسی دن یا شاید اگلے روز میں چھت پر ٹہل رہا تھا کہ سر راس مسعود دوڑے دوڑے میرے پاس آئے اور گھبرا کر کہنے لگے: ڈاکٹر صاحب، آپ کیا غضب کرتے ہیں، آرام سے لیٹے رہیے، میں نے پوچھا کیوں؟ تو انھوں نے بتلایا کہ ڈاکٹروں کے نزدیک میری بیماری کس قدر خطرناک ہے۔‘‘ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ سر راس مسعود کے خلوص و محبت کا ان کا دل پر کیا اثر ہوگا۔ ۱۹۳۷ء میں جب دفعتاً ان کی موت کا سانحہ پیش آیا تو حضرت علامہ کو بے حد صدمہ ہوا، ان کی آنکھیں مرحوم کی یاد میں اکثر اشک بار ہوجاتی تھیں اور وہ جب کبھی ان کا ذکر کرتے، درد بھرے دل سے کرتے۔ بھوپال سے واپسی کے بعد حضرت علامہ کی صحت ایک خاص نقطے پر آکر رک گئی۔ ہنگامی تکالیف کا تو انھیں زیادہ خیال نہیں تھا۔ کبھی کبھی ڈاکٹر جمعیت سنگھ۵۵؎ صاحب تشریف لے آتے اور ان کے دل اور پھیپھڑوں کے معاینے سے اپنا اطمینان کر جاتے۔ لیکن بجلی کے علاج اور حکیم صاحب کی دوائوں کے باوجود مرض کا استیصال نہ ہوا۔ اس طرح صحت اور بیماری کے درمیان جو کش مکش مدت سے رونما تھی، اس کا نتیجہ کبھی کبھی ایک خراب ردعمل کی صورت میں ظاہر ہونے لگتا۔ بھوپال سے واپس آکر انھیں ایک حد تک کمزوری کا احساس ہورہا تھا۔ لہٰذا انھوں نے پھر حکیم صاحب سے فرمایش کی: دوا میں تین چیزوں کا لحاظ ضروری ہے: (۱) بلغم کا استیصال کرے۔ (۲) قوتِ جسمانی میں ترقی ہو۔ (۳) آواز اگر صرف قوتِ جسمانی کے لیے کوئی جوہر حکیم صاحب تیار کریں تو شاید باقی دونوں کے لیے بھی مفید ہوگا۔ ۲۷؍ستمبر۵۶؎ ۱۵؍اکتوبر کے کرم نامے میں لکھتے ہیں: ویانا جانے کا خیال ہے۔ ڈاکٹر انصاری سے خط کتاب کررہا ہوں انھوں نے نہایت مہربان سے مدد کا وعدہ فرمایا ہے۔ اگر گیا تو فروری یا اپریل ۱۹۳۶ء میں جائوں گا۔۵۷؎ لیکن آخر اکتوبر میں جب مولانا حالی کی صد سالہ برسی کی تقریب پر حضرت علامہ پانی پت تشریف لے گئے تو انھوں نے محسوس کیا کہ ان کے لیے کسی لمبے سفر کی زحمت برداشت کرنا ناممکن ہوگی۔ اس طرح یہ ارادہ ہمیشہ کے لیے ملتوی ہوگیا۔ مزید برآں اس سفر کے لیے غیر معمولی اخراجات کی ضرورت تھی، لہٰذا اس امر کا افسوس رہے گا کہ حضرت علامہ یورپ نہ گئے۔ کیا عجب کہ اس طرح انھیں فائدہ ہی ہوتا! چونکہ بجلی کے علاج کی تکمیل کی ضرورت تھی اس لیے جنوری ۱۹۳۶ء میں ان کا ارادہ پھر بھوپال جانے کا ہوا۔ بایں ہمہ وہ آخر فروری تک لاہور ہی میں ٹھہرے رہے۔ یہ اس لیے کہ: ایک ایرانی الاصل سیّد زادے کی دوا نے بہت فائدہ کیا۔ کیا عجب کہ آواز پھر عود کر آئے… اس واسطے میں نے چند روز بھوپال جانا ملتوی کردیا ہے۔ ۳؍جنوری ۱۹۳۶ئ۵۸؎ پھر ۱۹۳۴ء میں قادیانی احراری نزاع سے متاثر ہوکر حضرت علامہ جن خیالات کا اظہار وقتاً فوقتاً کرچکے تھے ان کا تقاضا تھا کہ ایک مفصل بیان اس قضیے کے متعلق شائع کریں اس لیے کہ پنڈت جواہر لال نہرو جن کو اس مسئلے کی صحیح نوعیت کا مطلق احساس نہ تھا، خواہ مخواہ اس بحث میں کود پڑے تھے۔ حضرت علامہ کا یہ بیان کئی روز کی ردوکد اور کاوش کے بعد مرتب ہوا۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ ذہنی اعتبار سے مسلمانانِ ہند اس وقت جس دور سے گزر رہے ہیں اس کے ماتحت وہ اس سیاسی، عمرانی مسئلے کو فی الواقع سمجھے بھی ہیں یا نہیں جس کی ایک ہلکی سی تمہید حضرت علامہ نے اس بیان میں اُٹھائی تھی۔ لیکن اگر ایک زندہ ثقافت کی حیثیت سے اسلام کا کوئی مستقبل ہے (جیسا کہ یقینا ہے) تو ہماری آیندہ نسلیں ان کے بیش بہا اشارات سے فائدہ اُٹھائیں گی۔ بہرکیف شروع مارچ میں حضرت علامہ دہلی ہوتے ہوئے بھوپال پہنچ گئے۔ میں یہ لکھنا بھول گیا کہ جب سے ہزایکسی لینسی سردار صلاح الدین سلجوقی دہلی تشریف لائے تھے حضرت علامہ کا معمول ہوگیا تھا کہ دہلی سے گزرتے یا آتے جاتے ہوئے دو ایک روز ان کے یہاں ضرور قیام فرماتے۔ سردار صاحب موصوف کو بھی ان کی ذات سے عشق تھا اور وہ اپنے جوش عقیدت کا بہت کم مخفی رکھ سکتے۔ حضرت علامہ روانگی کا ارادہ ظاہر کرتے تو ہز ایکسی لینسی کہتے: ’’شام کو تشریف لے جائیے گا۔ ایک روز ٹھہر جانے میں کیا حرج ہے؟‘‘ حضرت علامہ بھی ان کے پاس خاطر سے کچھ وقت اور رک جاتے۔ قونصل خانہ افغانستان کی یہ صحبتیں بڑی دلچسپ ہوتیں۔ احباب کا مخصوص حلقہ، حضرت علامہ کے ارشادات، ہز ایکسی لینسی کی بذلہ سنجیاں۔ فارسی کا شاید ہی کوئی دیوان ایسا ہو جو انھیں ازبر نہ ہوگا۔ لیکن اس وقت کسے معلوم تھا کہ ہم لوگ حضرت علامہ کے فیضان صحبت سے اس قدر جلد محروم ہوجائیں گے! لاہور پہنچ کر حضرت علامہ نے اوّل ضربِ کلیم کی اشاعت کا اہتمام فرمایا اور پھر پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق کے عنوان سے وہ مثنوی لکھنی شروع کی جو ستمبر ۱۹۳۶ء میں شائع ہوئی۔ حضرت علامہ فرماتے ہیں: میں بھوپال ہی میں تھا جب ایک روز خواب میں دیکھا جیسے سرسیّد احمد خاں مرحوم کہہ رہے ہیں کہ تم اپنی بیماری کا ذکر حضور سرورِ کائنات ا کی خدمت میں کیوں نہیں کرتے۔ آنکھ کھلی تو یہ شعر زبان پر تھا: با پرستاران شب دارم ستیز باز روغن در چراغ من بریز۵۹؎ پھر چند اشعار حضور ا سے عرض احوال میں ہوئے۔ رفتہ رفتہ ہندستان اور بیرونی ہند کے سیاسی اور اجتماعی حوادث نے حضرت علامہ کو اس قدر پریشان کیا کہ ان کے اشعار نے ایک مثنوی کی شکل اختیار کرلی۔ لیکن ۱۹۳۶ء کی گرمیوں میں حضرت علامہ کے نیازمندوں نے دفعتاً محسوس کیا کہ ان کی صحت بتدریج گر رہی ہے پچھلے دو سالوں میں تو ان میں اتنی ہمت تھی کہ حسب ضرور آسانی سے چل پھر سکتے۔ یہاں تک کہ قونصل خانہ افغانستان اور دہلی ریلوے اسٹیشن کی بالائی منزلوں کا زینہ چڑھتے ہوئے بھی انھیں کوئی خاص تکلیف نہ ہوتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ زیادہ حرکت کرنے سے ان کا سانس اس وقت بھی پھول جاتا تھا مگر اب تو یہ کیفیت تھی کہ چارپائی سے اُٹھ کر دو قدم چلے اور ہاننپے لگے نہاتے نہاتے بدن ہلا اور دم کشی شروع ہوگئی۔ بالآخر حکیم صاحب کی خدمت میں اطلاع کی گئی۔ ان کی دوائوں سے افاقہ ہوا لیکن میں دیکھتا تھا کہ حضرت علامہ سے علاج کے بارے میں ایک بڑی کوتاہی ہورہی ہے اور وہ یہ کہ اس کا دار و مدار محض خط کتابت پر ہے یا پھر سال چھے مہینے کے بعد ایک آدھ مرتبہ نبض دکھا لی مجھے یقین ہے کہ اگر حضرت علامہ ابتدائے مرض ہی میں کچھ عرصے کے لیے دہلی تشریف لے جاتے اور حکیم صاحب قبلہ ان کی طبیعت کے روزانہ تغیرات ملاحظہ کرتے تو کیا عجب کہ انھیں سچ مچ شفا ہوجاتی۔ لیکن میں نے جب کبھی اپنا یہ خیال ظاہر کیا انھوں نے کسی نہ کسی عذر کے ماتحت ٹال دیا۔ مثلاً ’’اب تو بڑی گرمی ہے سردیوں میں دیکھا جائے گا۔‘‘ سردیاں آتیں تو فرماتے ’’موسم خوشگوار ہولے تو فیصلہ کروں گا۔‘‘ دراصل ان کا مزاج اس قدر نازک تھا کہ وہ لاہور سے باہر رہ کر علاج معالجے کے بکھیڑوں کو برداشت ہی نہیں کرسکتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا کہ ان کی توجہ صرف اپنی صحت بدنی پر مرکوز ہوجائے اور ظاہر ہے کہ یہ امر ان کی فطرت سے بعید تھا۔ انھیں یہ بھی خیال ہوچلا تھا کہ سن و سال کے اعتبار سے ان کا زمانہ انحطاط کا ہے لہٰذا حکیم صاحب کی دوائوں سے فائدہ تو ہوگا، مگر دیر میں۔ ہاں البتہ کوئی اکسیر دریافت ہوجائے تو الگ بات ہے۔ وہ حکیم نابینا صاحب کو بھی اکسیر سازی کی ہدایت کرتے اور حکیم محمد حسن صاحب قرشی۶۰؎ پرنسپل طبیہ کالج لاہور کو بھی جن کے فضل و کمال اور قابلیت فن کا انھیں دل سے اعتراف تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں جو شخص بھی ان کے پاس آیا وہ عامی ہو یا طبیب اور اس نے کسی دوا کا ذکر کیا تو حضرت علامہ اس کی باتوں کو بڑے غور سے سنتے اور بسااوقات ان کی دوائوں کا امتحان بھی کرلیتے اس اُمید میں کہ شاید طب قدیم کا کوئی نسخہ فی الواقع ’’تیر بہدف‘‘ ثابت ہوجائے۔ بالفاظ دیگر وہ اپنی حالت پر قانع ہوچکے تھے اور ان کا خیال تھا اگر صحت بالکل ٹھیک نہ ہو تو کیا مضائقہ ہے۔ انھیں غم تھا تو صرف احتباس صوت کا۔ بچپن ہی سے ان کی عادت تھی کہ قرآن مجید کی تلاوت بلند آواز سے کرتے۔ ظاہر ہے کہ اب یہ فریضہ اس رنگ میں ہمیشہ کے لیے چھوٹ گیا تھا۔ اس کا انھیں بے حد قلق تھا۔ اپنی علالت کے باوجود ان کا تعلق خارجی دنیا سے ایک لحظے کے لیے بھی منقطع نہیں ہوا بلکہ اس کا سلسلہ آخری وقت تک قائم رہا۔ اس لحاظ سے وہ ایک یگانہ حیثیت کے مالک تھے۔ اسلام اور اسلام کے انفرادی اور اجتماعی نصب العین کی دعوت میں انھوں نے جن مقاصد کو باربار اپنی قوم اور دنیا کے سامنے پیش کیا وہ باعتبار فکر و وجدان اس قدر جامع، اس قدر مکمل اور اس قدر مضبوط و محکم تھے کہ ان کا پیام دن بدن اُمت کے سینے میں راسخ ہوتا گیا اور ان کے بڑے سے بڑے تنقید نگار کو بھی اس سے اختلاف کی جرأت نہ ہوسکی۔ یہی وجہ ہے کہ ہندستان کی اجتماعی تحریکات اس وقت جو شکل اختیار کررہی تھیں ان سے حضرت علامہ کبھی متفق نہ ہوئے مگر ان کی مخالفت، تعصب و تنگ نظری اور رجعت پسندی کی بجائے جیساکہ بعض تیز طبیعت اہل سیاست کہہ اُٹھیں گے، ایک بہتر، اعلیٰ تر اور پاکیزہ تر محرک کا نتیجہ تھی۔ وہ اپنے ایمان و ایقان، مخصوص تخیلات اور فراست و بصیرت سے مجبور تھے لیکن ان کی قوم اور ان کا وطن کچھ مشرق کے دیرینہ انحطاط اور مغرب کے غیر معمولی استیلا اور کچھ سیاست و معیشت کے ہنگامی تقاضوں کے جوش میں ان کی علمی روش کا صحیح مطلب سمجھنے سے قاصر رہا۔ میں نے خود دیکھا کہ ان کی خدمت میں بعض نوجوان بڑے بڑے دعووں کو لے کر حاضر ہوئے لیکن ان کے زور استدلال اور زبردست منطق کے سامنے فوراً ہی خاموش ہوگئے۔ ان موقعوں پر وہ یہ کہہ کر اپنے آپ کو تسلی دے لیتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب کا کہنا بجا ہے مگر ہمیں ان سے اختلاف ہے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ حضرت علامہ سے کبھی کوئی غلطی سرزد نہیں ہوئی یا ان کا طرزِعمل بشری کمزوریوں اور سہو و خطا سے پاک تھا۔ مقصود یہ ہے جو لوگ ’’جدید‘‘ اور ’’حاضر‘‘ اور ’’عمرانی اور عملی اور علمی‘‘ حقائق کا نام لے لے کر ان کے ارشادات کو جذبات و احساسات سے تعبیر کرتے ان کی نگاہیں بجائے خود سطح سے آگے نہ بڑھتیں اور معمولی سی جرح و قدح کے بعد یہ حقیقت آشکارا ہوجاتی کہ ان کو نہ ماضی کا علم ہے نہ مستقبل کی بصیرت۔ حضرت علامہ کا عمل ’’کمزور‘‘ سہی مگر ان کا خلوص و دیانت تو مسلم ہے۔ انھوں نے کبھی اس امر کی کوشش نہیں کی کہ اپنی سرگرمیوں پر نفاق اور ظاہرداری کا پردہ ڈالیں۔ بھلا جس شخص کی نظر خالصتاً قرآنی ہو اور جو انسانیت کبریٰ کی اساس نبی اُمی ا کے اسوۂ حسنہ پر رکھے اور اس کے لیے یہ کیونکر ممکن تھا کہ چند علمی (Scientific) اور واقعی (Realistic) بنیادوں کے زیر اثر اخلاق و معاشرت کا کوئی ذاتی اور جماعتی (Private or Public) یا نسلی اور وطنی تصور قبول کرے۔ لہٰذا جہاں ان کے اہل وطن نے نقطۂ نظر کے اس اختلاف کے باعث اس امر کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا کہ ہمارے ملکی مسائل کا حل ایک دوسری شکل میں بھی ہوسکتا ہے وہاں خود مسلمان بھی ان کے خیالات و ارشادات کی صحیح گہرائیوں کا بہت کم اندازہ کرسکے۔ یوں دیکھنے میں حضرت علامہ کا تعلق ہر اس تحریک سے قائم تھا جسے وہ اصولاً اور مصلحت وقت یا مجبوری حالات کی بنا پر ملت کے لیے مفید خیال کرتے لیکن چونکہ ان کی حیثیت مقدماً ایک مفکر اور مبصر کی تھی لہٰذا ان کی سرگرمیاں بیشتر مشورے، نصیحت، رائے اور اس کوشش سے آگے نہ بڑھ سکیں کہ ہماری زندگی میں کسی غیر اسلامی عنصر کا امتزاج نہ ہونے پائے۔ بایں ہمہ یہ کبھی نہ ہوا کہ حیات ملیہ اسلامیہ کا جو نصب العین ان کے ذہن میں تھا اس کے لیے کوئی عملی جدوجہد شروع ہوتی۔ شاید اس لیے کہ ایسا کرنے میں ابھی ملت کو بہت سے مراحل طے کرنا ہیں اور شاید اس لیے کہ فکر اور قیادت کے درمیان جو فاصلہ ہے وہ محض آرزوئوں سے دور نہیں ہوسکتا۔ وہ خود فرمایا کرتے تھے I am not every thing (میں سب کچھ نہیں ہوں) حقیقت میں اپنے حدود کا علم جس قدر ان کو تھا شاید ہی کسی دوسرے کو ہو۔ انھوں نے اپنی وسعت سے باہر کوئی دعویٰ نہیں کیا اور اس معاملے میں ان کے انکسار اور فروتنی کا یہ عالم تھا کہ ان کا دامن عمل تکلف اور تصنع سے ہمیشہ پاک رہا۔ وہ جو کچھ بھی تھے اسی حیثیت میں سب کے سامنے آجاتے۔ جس طرح اپنے افکار کی تبلیغ میں انھوں نے ادعا سے کام لیا نہ تحکم سے بلکہ ہمیشہ اس امر کے منتظر رہے کہ اگر کوئی شخص ان کی غلطیوں کی تصحیح کرے تو فوراً اسے قبول کرلیں بعینہٖ انھوں نے اپنی کمزوریوں کو کبھی اس خیال سے چھپانے کی کوشش نہیں کی کہ ایسا نہ ہو ان کی قدر و منزلت یا احترام میںفرق آجائے۔ یہ ان کی گہری روحانیت کا ایک زبردست ثبوت ہے اور ان کی غیرت و خودداری اور عزت نفس کا ایک قابل رشک پہلو کہ انھوں نے اپنی بشریت کے ہر نیک و بد کی ذمہ دری خود اپنی ذات پر لی۔ اس غیر معمولی حوصلے اور جسارت کا سبب یہ ہے کہ حضرت علامہ اپنی شاعری اور فلسفہ کے باوجود اوّل و آخر انسان تھے اور انسانیت ہی کا شرف ان کے مقصود نظر۔ بایں ہمہ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ انھیں اپنی قوم سے بے عملی کے طعنے سننا پڑتے حالانکہ ان کے نکتہ چین اس امر کو فراموش کردیتے کہ ان کا فکر بھی ایک طرح کا عمل ہے اور اگر عمل کے معنی ہیں نصب العین حیات کے لیے ترغیبات و ترہیبات دنیوی کے باوجود ایک خاص قسم کی سیرت اور کردار کی بالارادہ پرورش تو حضرت علامہ کسی صاحب عمل سے پیچھے نہیں۔ ان کے معترضین نے اکثر کہا کہ وہ فرقہ وار ہیں، شہنشاہیت کی حمایت کرتے ہیں حالانکہ اس ملک کا فرقہ وار اور شہنشاہیت پسند طبقہ ان کے انقلاب انگیز نظریوں سے ہمیشہ خائف رہا۔ ان حالات سے مجبور ہوکر رفتہ رفتہ حضرت علامہ نے ایک قسم کی خاموش، الگ تھلگ اور تنہا زندگی بسر کرنا شروع کردی تھی اور ان کے نیازمندوں کو یہ دیکھ کر افسوس ہوتا کہ ان کی متاع عزیز قوم کی بے حسی اور بے اعتنائی کے باعث کس طرح ضائع ہورہی ہے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ جمہورِ اسلام کو ان سے جو گہری عقیدت اور والہانہ تعلق تھا اس میں کوئی فرق آگیا تھا ہرگز نہیں۔ برعکس اس کے جوں جوں لوگ ان سے قریب تر ہوتے گئے، ان کے خلوص و محبت میں اضافہ ہوتا گیا۔ حضرت علامہ کا دروازہ ہر شخص کے لیے کھلا تھا۔ اور ان کی سادگی پسند اور بے ریا طبیعت نے امیر، غریب، اپنے، بیگانے سب کو ایک نظر سے دیکھا۔ ان کے در دولت پر کبھی فرق مراتب یا امتیازات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوا۔ معلوم نہیں لوگ کہاں کہاں سے آتے اور کیا کیا خیالات اپنے دل میں لے کر آتے۔ ان میں عامی بھی ہوتے اور جاہل بھی اور ان کے ساتھ پڑھے لکھوں کو بھی شریک محفل ہونا پڑتا۔ لیکن حضرت علامہ جس کی کسی سے ملتے بغیر کسی تکلف اور احساس عظمت کے ملتے۔ بسا اوقات وہ اپنے ملنے والوں کی گفتگوئوں سے ایک طرح کا ذاتی تعلق پیدا کرلیتے۔ لہٰذا حضرت علامہ کی صحبت سے جو شخص اٹھتا ان کے انکسار و رواداری اور وسعت و کشادہ ولی کا ایک گہرا نقش لے کر اٹھتا۔ نوجوانانِ اسلام اور ملت کے سواد اعظم کا تو خیر وہ سہارا تھے۔ وہ جو کچھ کہتے ان کی زبان سے کہتے اور جو کچھ سنتے ان کے کانوں سے سنتے۔ انھیں اطمینان تھا کہ جب تک حضور نبی اکرم ا کا عاشق اور دین فطرت کا رازدار ان کی رہنمائی کے لیے زندہ ہے انھیں یاس و نومیدی سے مطلب؟ کیا اقبال نے ہر نازک موقع پر ان کو اعتماد اور خودداری کا سبق نہیں دیا؟ مگر افسوس ہے کہ ان سب باتوں کے باوجود ہماری قوم کا بحیثیت قوم کسی عملی جدوجہد کا آغاز کرنا تو درکنار وہ حضرت علامہ کے ان معمولی ارادوں کا اتمام بھی نہ کرسکی جن کا انھوں نے اکثر اظہار فرمایا۔ مثلاً ایک علمی ادارے کی تاسیس، ادبیاتِ اسلامیہ کی تجدید، کوئی ثقافتی مرکز یا معارفِ اسلامیہ کی تحقیق و تفتیش۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ شخصی طور سے ان کی محبوبیت اور غیر معمولی کشش دن بدن بڑھ گئی۔ ان کی عزت و احترام میں مسلم و غیر مسلم سبھی شریک تھے۔ حقیقت میں حضرت علامہ کا قیامِ انسانیت کی ان بلندیوں پر تھا جہاں اختلاف عقائد اور پختگی مسلک کے باوجود افتراق و تصادم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ برعکس اس کے محبت خلق میں ہمدردی اور خیر کوشی کی وہ روح پیدا ہوجاتی ہے جو نتیجہ ہے سچی خدا پرستی کا۔ انھوں نے خود اپنے جذبات و احساسات کی دنیا میں ضبط و خودداری کی منزلیں بڑی احتیاط و متانت سے طے کی تھیں اور ان کی رسوائی ایک لحظے کے لیے گوارا نہیں کی۔ لہٰذا یہ ایک قدرتی بات تھی کہ جس شخص کو بھی ان کا قرب و اتصال ہوا اس نے ان کی عظمت ذات کا اقرار کیا۔ دوسری طرف ان کا علم و فضل تھا اور فطرتِ انسانی کی نہایت وسیع اور گہری معلومات۔ پھر ان کا ہمہ گیر اور آفاق رس تخیل، ان کی ذہانت و طباعی، جذب و اکتساب کی غیر معمولی قوت اور خوب و ناخوب کا نہایت تیز ادراک، یہ اور ان کی وسعت مشرب اور خلوص و للہیت نے ان کو حسن سیرت کی ان رفعتوں پر پہنچا دیا تھا جن کو تہذیب نفس اور شائستگی ذات کے انتہائی مدارج سے تعبیر کرتے ہیں۔ مشرق و مغرب کی تو خیر وہ رگ رگ سے باخبر تھے لیکن اسلامی دنیا میں بجز ان کے اور کون تھا جو ثقافت حاضرہ کے انتہائی ضمیر سے واقفیت کے باوجود اپنی آزادی ذات، توازن اور رواداری کو قائم رکھے۔ ان کی قوتِ تنقید نے حال سے بددلی اور ماضی کے احترام کے باوجود مستقبل کو فراموش نہیں کیا۔ حضرت علامہ کوئی خیال مست شاعر نہیں تھے۔ وہ ایک حقیقت مفکر بلکہ میں تو یہاں تک عرض کروں گا کہ ایک زبردست قوت تھے چنانچہ آج جب وہ اس دنیا سے کسی بہتر عالم میں تشریف لے گئے ہیں تو ان کی طاقت ور اور حیات آفریں شخصیت کا دوست و دشمن سب کو اعتراف ہے۔ سلسلۂ کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ مجھے عرض کرنا چاہیے تھا کہ ۱۹۳۶ء کی سردیاں آئیں تو حضرت علامہ کی طبیعت بہتر ہونا شروع ہوگئی اور ۱۹۳۷ء کے اختتام تک صحت کی یہ رفتار برابر قائم رہی۔ اس زمانے میں ایسا بھی ہوا کہ کبھی کبھی ان کی آواز نہایت صاف ہوجاتی۔ علی ہذا تنفس اور بلغم میں بھی کمی تھی۔ البتہ کمزوری کا احساس باقی تھا۔ لیکن اس کے باوجود حضرت علامہ پلنگ پر لیٹے رہنے کی بجائے اکثر نشست کے کمرے میں آ بیٹھے مگر انھوں نے خود پڑھنا لکھنا ترک کردیا تھا کیونکہ مارچ یا اپریل ۱۹۳۷ء میں موتیا بند کی علامتیں قطعی طور سے ظاہر ہوگئی تھیں۔ بہرکیف اب ان کی خواہش تھی کہ قرآن پاک کے حقائق و معارف کے متعلق اپنا دیرینہ ارادہ پورا کریں۔ لیکن سوال یہ تھا کہ کس رنگ میں؟ تفسیر و تشریح یا ابتدئی مطالعہ کے لیے ایک مقدمہ؟ بالآخر موجودہ زمانے کی اجتماعی تحریکات کو دیکھتے ہوئے ان کے دل میں یہ خیال دن بدن مستحکم ہوتا چلا گیا کہ اس وقت ضرورتِ اسلام کے نظام عمرانی کی تصریح و توضیح کی ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ کی مانند تشکیل جدید فقہ اسلامی پر قلم اُٹھائیں اور دیکھیں کہ قرآن پاک نے ان مسائل کی رہنمائی کس انداز میں کی ہے۔ لیکن اس کے لیے وقت کی ضرورت تھی اور ان حضرات کی بھی جو فقہ اسلامی پر نظر رکھتے ہوئے جدید عمرانی رجحانات کو سمجھتے ہوں۔ بایں ہمہ انھوں نے اس غرض سے یورپ اور مصر کی بعض نئی مطبوعات فراہم کرنا شروع کردی تھیں لیکن افسوس ہے کہ اس تصنیف کا کام استفصائے مسائل، ترتیب مقدمات اور تقسیم مباحث سے آگے نہیں بڑھا اور وہ بھی صرف ان کے غور و فکر اور گفتگوئوں کی دنیا میں۔ آگے چل کر جب وہ اپنی صحت سے نا امید ہوگئے تو اس ارادے کی ناکامی سے اس قدر شکستہ خاطر تھے کہ دو ایک بار فرمایا: ’’میں یہ کتاب لکھ سکتا تو اطمینان سے جان دیتا۔‘‘ تشکیل جدید فقہ اسلامی کا ارادہ ملتوی ہوا تو ان کا ذہن جس کی تیزی اور سرگرمی جمود تعطل کی بجائے دن بدن بڑھتی جاتی تھی، ایک دوسری جانب منتقل ہوگیا۔ میں نے عرض کیا تھا کہ میں صبح و شام ان کی خدمت میں حاضر ہوتا اور گھنٹوں مختلف مباحث پر ان سے گفتگو کرتا۔ ایک مرتبہ حضرت علامہ نے فرمایا: ’’لوگوں سے بات چیت کرنے میں بہت سے عمدہ خیالات سوجھتے ہیں مگر بعد میں کوئی یاد رہ جاتا ہے اور کوئی نہیں۔‘‘ میں نے خلاف ارادہ عرض کیا کہ میں نے تو اپنی بساط کے مطابق آپ کے ارشادات کا ایک روزنامچہ تیار کر رکھا ہے۔ کہنے لگے: ’’ایکرمان۶۱؎ کی طرح؟‘‘ میں اپنی بے مایگی کے احساس سے خاموش ہوگیا۔ انھوں نے کہا: ’’اگر تم اپنے ساتھ ایک یادداشت بھی رکھ لو تو کیا خوب ہوتا کہ جس بات کو کرنے کے کہا جائے فوراً قلم بند ہوجائے۔‘‘ لیکن ابھی دو ایک باتیں درج یادداشت ہوئی تھیں کہ یہ امر واضح طور سے محسوس ہونے لگا کہ حضرت علامہ کے افادات ایک کتاب کی شکل اختیار کرسکتے ہیں۔ انھوں نے حکم دیا کہ میں ہر روز عہد نامہ عتیق۶۲؎ یا اناجیل۶۴؎ کا کوئی حصہ پڑھ کر سنایا کروں یہ مشغلہ کئی روز تک جاری رہا۔ عہد نامہ عتیق پر ان کی تنقید بڑے مزے کی ہوتی اور وہ اس کے اندازِ بیان اور مطالب کا مقابلہ باربار قرآن سے کرتے۔ دراصل ان کا خیال تھا کہ نطشے کی کتاب Also Spake Zarathustra کی طرح ایک نئی تصنیف What an unknown Prophet said یا The book of an unknow prophet کے نام سے مرتب کریں۔ اور اس کے لیے انھیں کسی مناسب ادبی اسلوب کی تلاش تھی۔ اس امر کا ہمیشہ افسوس رہے گا کہ تشکیل جدید فقہ اسلامی کی طرح اس کتاب کا تصور بھی کوئی عملی شکل اختیار نہ کرسکا۔ میں ابھی عرض کرچکا ہوں کہ ۱۹۳۷ء میں حضرت علامہ کی صحت سال گذشتہ سے کہیں زیادہ بہتر تھی۔ رفتہ رفتہ انھوں نے اپنے بدن میں ایک قسم کی تازگی اور قوت محسوس کرنا شروع کی۔ اس سے انھیں پھر اُمید بندھ گئی کہ شاید کچھ مدت کے بعد سفر کے قابل ہوجائیں۔ اس خیال کے آتے ہی حکیم صاحب قبلہ سے درخواستیں ہونے لگیں کہ تقویت بدن کے لیے کوئی زود اثر اکسیر ایجاد کریں۔ ایک خط میں لکھتے ہیں: ہے دو روحوں کا نشیمن یہ تن خاکی مرا ایک میں ہے سوز و مستی ایک میں ہے تاب و تب ایک جو اللہ نے بخشی مجھے صبح ازل دوسری وہ آپ کی بھیجی ہوئی روح الذہب جب سے حضرت علامہ گول میز کانفرنسوں کے سلسلے میں یورپ تشریف لے جارہے تھے بالخصوص سیاحت اندلس اور افغانستان کے بعد ان کے دل میں برابر یہ شوق پیدا ہورہا تھا کہ اگر ممکن ہو تو بلادِ اسلامیہ کا سفر کریں تاکہ دنیائے اسلام کی موجودہ ذہنی کشاکش اور اجتماعی اضطراب کا صحیح اندازہ ہوسکے۔ ان کا خیال تھا کہ جو لوگ ان ممالک کی سیر کرتے ہیں ان کی قوتِ مشاہدہ نہایت محدود بلکہ اکثر معدوم ہوتی ہے۔ لیکن اس سے کہیں بڑھ کر ان کی ایک دیرینہ آرزو تھی اور وہ حرمِ پاک نبویؐ کی زیارت۔ ۱۹۳۲ء میں انگلستان سے واپس ہوتے ہوئے جب وہ موتمر اسلامیہ کی شرکت کے لیے بیت المقدس تشریف لے گئے ہیں تو اس وقت سفر حجاز کا سامان تقریباً مکمل ہوچکا تھا لیکن پھر جیسا کہ انھوں نے خود مجھ سے فرمایا: ’’اس بات سے شرم آتی تھی کہ میں گویا ’ضمناً‘ دربارِ رسولؐ میں حاضر ہوں۔‘‘ خیر اس وقت تو یہ ارادہ پورا ہونے سے رہ گیا مگر ان کے تاثرات دب نہ سکے اور ان کا اظہار اس نظم میں ہوا جو ’’ذوق شوق‘‘ کے عنوان سے بالِ جبریل میں موجود ہے۔ اب ۱۹۳۷ء میں ان کی حالت بہتر ہوئی تو انھوں نے مختلف جہازراں کمپنیوں سے خط کتابت شروع کردی۔ خیال یہ تھا کہ ۱۹۳۸ء میں نہیں تو ۱۹۳۹ء میں وہ اس قابل ہوجائیں گے کہ فریضۂ حج کی ادایگی کے بعد مدینہ منورہ کی زیارت سے فیض یاب ہوسکیں۔ رفتہ رفتہ انھوں نے عالم تصور میں اس مقدس سفر کی تمام منزلیں طے کرلیں۔ ادھر وفور شوق نے ان کے درد بھرے ساز کو چھیڑا اور ادھر ان کی زبان جوش و مستی میں ترانہ ریز ہوئی: بایں پیری رہ یثرب گرفتم نوا خواں از سرورِ عاشقانہ چوآں مرغے کہ در صحرا سر شام کشاید پر بہ فکرِ آشیانہ۶۴؎ انھوں نے خیال ہی خیال میں احرامِ سفر باندھا اور ارضِ پاک کو روانہ ہوگئے۔ ’’الا یا خیمگی خیمہ فروہل کہ پیش آہنگ بیروں شدز منزل‘‘ خرد از راندن محمل فروماند زمامِ خویش دادم در کف دل۶۵؎ کبھی وہ عین حرمِ کعبہ میں اپنی بے تابی کا اظہار کرتے: بدن واماند و جانم در تگ و پوست سوئے شہرے کہ بطحا در رہِ اوست تو باش ایں جا و با خاصاں بیامیز کہ من دارم ہوائے منزلِ دوست۶۶؎ اور کبھی دربارِ حبیب ا میں پہنچ کر ان کی بے چین روح کو تسکین و قرار کی ایک دولت ہاتھ آجاتی ہے: دریں وادی زمانی جاودانی ز خاکش بے صُوَر روید معانی! حکیماں با کلیماں دوش بر دوش کہ ایں جاکس نہ گوید ’لن ترانی‘!۶۷؎ اب طبیعت میں آمد کا وہ زور تھا کہ رباعیوں پر رباعیاں موزوں ہوتی چلی گئیں۔ پچھلے سال کی برسات ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ ایک روز مجھ سے ارشاد فرمایا: ’’نیازی صاحب! ارمغان حجاز کا مسودہ صاف کرنا ہے۔‘‘ عنوان کتاب اور رباعیات (یا قطعات اس لیے کہ اوزان کی رو سے غالباً انھیں قطعات کہنا ہی زیادہ مناسب ہوگا اگرچہ حضرات نے خود ان کو رباعیوں ہی سے تعبیر کیا) کا ذکر تو روزمرہ کی صحبتوں میں اکثر آتا رہتا تھا لیکن یہ سن کر اور بھی مسرت ہوئی کہ مسودے کی تبییض کا وقت آپہنچا۔ ۱۹۳۶ء سے اشعار کی ترتیب و تسوید کی خدمت حضرت نے میرے ہی ذمے کر رکھی تھی جس سے مجھے ان کی شاعری کے نفسیاتی پہلوئوں سے اور زیادہ گہرا اتصال پیدا کرنے کا موقع ملا۔ حضرت علامہ کی یہ آخری تصنیف جو ایک طرح سے حجاز کا خیالی سفرنامہ ہے (فرمایا کرتے تھے: ’’اصل سفرنامہ تو وہ ہوگا جو حرمین پاک کی زیارت کے بعد لکھا جائے گا‘‘) ان کی وفات سے بمشکل ایک ہفتہ پہلے مکمل ہوئی۔ میرا مطلب اس رباعی سے ہے جو آنے والے ’’مردِ مسلم‘‘ کے متعلق انھوں نے درج بیاض کرائی ورنہ صحیح معنوں میں اس تصنیف کو مکمل کہنا غلط ہے کیونکہ رباعیات کی آمد اور ان کی تصحیح و ترمیم، انتخاب اور قطع و برید کا سلسلہ آخر وقت تک جاری رہا۔ ایک دن جب میں اور چودھری صاحب حسب معمول ان کی خدمت میں حاضر تھے تو فرمایا: ’’بیاض لے آئو اور فہرست مرتب کردو۔‘‘ قارئین اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ لمحے میرے اور چودھری صاحب کے لیے کس قدر تکلیف اور رنج کا باعث ہوں گے۔ میں نے فہرست کو ترتیب دے کر عرض کیا ’’اور اُردو نظمیں؟‘‘ فرمایا: ’’الگ عنوان دے کر ساتھ ہی شامل کردو۔‘‘ اُردو نظموں کی مختصر کیفیت یہ ہے کہ حضرت علامہ کا مشغلہ سخن تو ہمیشہ جاری رہتا۔ وہ اگر چاہتے بھی تو اسے بند نہ کرسکتے تھے۔ اس سلسلے میں انھوں نے ایک دن خود مجھ سے ارشاد فرمایا کہ ’’آمد شعر کی مثال ایسی ہے جیسے تحریک جنسی کی ہم اسے چاہیں بھی تو روک نہیں سکتے۔‘‘ کہنے لگے ’’میں بلا ارادہ شعر کہہ سکتا ہوں‘‘ اور بعض دفعہ ایک ہی شب میں اشعار کی تعداد تین تین سو تک پہنچ گئی۔ ایک دفعہ سو کر اُٹھے تو یہ شعر زبان پر تھا: دوزخ کے کسی طاق میں افسردہ پڑی ہے۶۸؎ خاکستر اسکندر و چنگیز و ہلاکو۶۸؎ اور فرمایا ’’اس کا کچھ مطلب سمجھ میں نہیں آتا۔‘‘ بہرکیف ان مثالوں سے ان کے جوشِ طبیعت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ کے عنوان سے ایک طویل نظم ۱۹۳۶ء میں ہوچکی تھی۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً یہ مشغلہ جاری رہا اور متعدد قطعات، نظمیں اور رباعیاں مرتب ہوتی چلی گئیں۔ بعض اشعار کشمیر اور اہل کشمیر کے متعلق تھے۔ خیال تھا کہ یہ مجموعہ شاید صورِ اسرافیل کے نام سے شائع ہوگا مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ آخری اُردو نظم جو انھوں نے کہی اس کی تاریخ، فروری ۱۹۳۸ء ہے۔ چھے شعر کا ایک مختصر سا قطعہ جس کا موضوع تھا: ’’حضرت انسان‘‘۔ یوں حضرت علامہ کی علالت کو کم و بیش چار سال گزر گئے۔ پانچویں برس یعنی ۱۹۳۸ء کا آغاز ہوا تو ان کی طبیعت نے یک بیک پلٹا کھایا۔ میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ ۱۹۳۶ء کے بعد حضرت علامہ پھر کبھی بھوپال نہیں گئے۔ البتہ ۱۹۳۷ء میں دو ایک روز کے لیے دہلی ضرور تشریف لے گئے تاکہ حکیم صاحب کو نبض دکھا سکیں۔ ظاہر ہے کہ یہ مرض کے ازالے کا کچھ بہت زیادہ مؤثر طریق نہ تھا۔ معلوم نہیں ان کے آخری عوارض کی ابتدا کب ہوئی لیکن جہاں تک میں اپنی قوتِ مشاہدہ پر اعتماد کرسکتا ہوں۔ مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ ان کی صحت آخر ۱۹۳۷ء ہی سے گرنا شروع ہوگئی تھی۔ میں اس زمانے میں حضرت علامہ کو دیکھ کر اکثر گھبرا جاتا۔ بسااوقات وہ اس قدر لاغر اور نحیف معلوم ہوتے جیسے ان کے بدن میں خون ہی نہیں۔ بایں ہمہ ان سے جو کوئی بھی خیریت مزاج دریافت کرتا، فرماتے: ’’الحمد للہ، بہت اچھا ہوں۔‘‘ اس زمانے میں حکیم محمد حسن صاحب قرشی نے ان کے لیے چند مرکبات تجویز کررکھے تھے جن سے فائدہ ہوا لیکن ۱۹۳۸ء کا آغاز اور ’’یومِ اقبال‘‘ کی تقریب خیر و خوبی سے گزر گئی تو انھیں دفعتاً ضیق النفس کے خفیف سے دورے ہونے لگے۔ ایک روز انھوں نے شکایت کی کہ پچھلی رات کا اکثر حصہ بے خواب گزرتا ہے۔ پھر ایسا معلوم ہوا جیسے گردے کے مقام پر درد ہے۔ دو ایک دن نقرس کی تکلیف بھی رہی مگر اس کے بعد بتدریج افاقہ ہوتا گیا۔ رہی نیند کی کمی سو خیال تھا کہ شاید تبدیلی وقت کی وجہ سے ایسا ہو۔ کیونکہ حضرت علامہ دن کا اکثر سو لیا کرتے تھے اور بے خوابی کے باوجود تھکن یا بے چینی محسوس نہ کرتے۔ ضیق النفس کے لیے قرشی صاحب نے ایک ہلکا سا جوشاندہ تجویز کررکھا تھا جس کے استعمال سے فوراً سکون ہوجاتا۔ ان کی رائے تھی کہ حضرت علامہ کو دمہ قلبی (Cardiac Asthma) ہے ضعف قلب کے باعث اور ڈاکٹروں نے اس کی تائید کی۔ اس تکلیف میں حضرت علامہ اکثر بیٹھے بیٹھے سامنے کی طرف جھک جاتے اور بسا اوقات پائنتی پر تکیہ رکھے اپنا سر اس پر ٹیک دیتے۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ ان ایام میں انھوں نے دفعتاً مایوسی کا اظہار کرنا شروع کردیا۔ علی بخش سے اکثر کہا کرتے تھے: ’’۱۹۳۸ء خیریت سے گزر جائے تو سمجھنا کہ اچھا ہوں۔‘‘ ۲۲؍فروری کی شام کو مجھ سے شوپن ہارو کے متعلق گفتگو کرتے کرتے یک بیک کہنے لگے ’’نیازی صاحب اس فلسفہ میں کیا رکھا ہے۔ کچھ بھی نہیں۔‘‘ میں سمجھا ان کا اشارہ ہے عقل کی بے مایگی کی طرف۔ کہنے لگے: ’’علم کی مسرت کوئی مسرت نہیں۔ مسرت یہ ہے کہ انسان کو صحت ہو تندرستی ہو۔‘‘ اس کے تین روز بعد یعنی ۲۵؍فروری کی شام کو انھوں نے ضیق کو روکنے کے لیے حسب معمول جوشاندہ پیا مگر دورے کی شدت میں کوئی افاقہ نہ ہوا۔ اگلے روز ایلوپیتھک علاج شروع کیا گیا۔ اس میں کچھ دوائیں غالباً دورے کو روکنے اور کچھ نیند کے لیے تھیں۔ اس طرح چند روز آرام سے گزر گئے مگر پھر ۳؍مارچ کو آخر شب میں ان پر ضعف قلب کے باعث غشی طاری ہوگئی اور وہ اسی حالت میں پلنگ سے نیچے گر گئے۔ قرشی صاحب کا قاعدہ تھا کہ صبح کی نماز کے بعد حضرت علامہ کی خیریت معلوم کرنے اکثر جاوید منزل تشریف لے جاتے۔ اس روز بھی حسن اتفاق سے ایساہی ہوا۔ قرشی صاحب پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت علامہ دم کشی کے باعث تکلیف میں ہیں انھوں نے جہاں تک ممکن تھا اس وقت مناسب تدابیر کیں اور پھر سیدھے میرے ہاں چلے آئے ان کی اس غیر متوقع تشریف آوری پر مجھے ایک گونہ تعجب ہوا لیکن میں ابھی دریافت حالات نہ کرنے پایا تھا کہ انھوں نے خود ہی صبح کے پرخطر واقعہ کا ذکر کردیا۔ کہنے لگے: ’’دل نہایت ضعیف ہے۔ جگر اور گردے مائوف ہورہے ہیں۔ مگر اللہ پر بھروسا رکھنا چاہیے، مناسب تدابیر اور احتیاط سے افاقہ ہو جائے گا۔‘‘ میں کچھ اور پوچھنا چاہتا تھا کہ انھوں نے کہا: ’’آپ فوراً جاوید منزل چلے جائیے اور حضرت علامہ کی حالت سے مجھے اطلاع دیجیے۔ میں دوائیں بھجواتا ہوں۔‘‘ یہ گویا آغاز تھا حضرت علامہ کے مرض الموت کا لیکن اس وقت بھی ان کے استقلال اور دل جمعی کی یہ کیفیت تھی کہ جب ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو حسب معمول نہایت اطمینان سے باتیں کرنے لگے۔ ’’آج کیا خبر ہے؟ لڑائی ہوئی ہے یا نہیں؟ آسٹریا کا کیا حال ہے؟‘‘ دو تین گھنٹے کی نشست کے بعد جب میں نے یہ دریافت کیا کہ قرشی صاحب سے کیا عرض کردیا جائے تو مسکرا کر فرمایا: ’’میری طبیعت اچھی ہے اس قدر اچھی کہ اگر کسی موضوع پر تقریر کرنا پڑے تو اس کا سلسلہ تین گھنٹے تک جاری رکھ سکتا ہوں۔‘‘ حضرت علامہ نے یہ الفاظ اس لیے فرمائے کہ انھیں زیادہ گفتگو سے منع کردیا گیا۔ طبی اصطلاح میں ان کی نبض اگرچہ ’’نملی‘‘ تھی یعنی چیونٹی کی طرح نہایت ضعیف لیکن ان کا ذہن برابر صفائی سے کام کرتا رہا۔ معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو غیر معمولی قلب و دماغ عطا کیے تھے۔ ان کے معالج اگرچہ ابتدا میں گھبرا جاتے۔ لیکن ان کی قوت دماغی سے چند ہی روز کے بعد اُمید بندھ جاتی کہ ابھی صحت کے امکانات باقی ہیں۔ یوں حضرت علامہ کے اس نظریے کی تائید ہوجاتی تھی کہ ہر شخص کی طب انفرادی ہے اور دورانِ علاج میں مزاج کا خیال رکھنا ازبسکہ ضروری۔ حضرت علامہ کے تیمارداروں کے لیے یہ دن بڑے اضطراب کا تھا۔ بالخصوص اس لیے کہ شام کو انھیں ذرا ذرا سی دیر کے بعد ضعف قلب کا دورہ ہونے لگتا۔ ظاہر ہے کہ اس تشویش انگیز حالت میں خطوں پر اکتفا کرنا ناممکن تھا اور اگرچہ حکیم صاحب کی خدمت میں مفصل اطلاع کردی گئی مگر اب عملاً علاج قرشی صاحب ہی کا تھا۔ یوں بھی حضرت علامہ انھیں اکثر مشورے کے لیے طلب فرما لیا کرتے تھے اور پچھلے برس سے تو ان کا معمول ہوگیا تھا کہ ہر دوسرے تیسرے روز جاوید منزل تشریف لے جاتے… حضرت علامہ کو ان کی ذات پر بے حد اعتماد تھا اور وہ ان کی لیاقت و خداقت سے متاثر ہو کر اکثر فرمایا کرتے تھے: ’’شمالی ہند میں اب ان کے سوا اور کون ہے؟ اگر ان کا وجود ایک چھوٹے سے ادارے کی شکل اختیار کرلے تو ہندستان میں نہ سہی کم از کم پنجاب میں ہماری طب کو بہت کافی فروغ ہوسکتا ہے‘‘ قرشی صاحب نے بھی جس خلوص اور دل سوزی سے حضرت علامہ کی خبرگیری کی ہے اس کے متعلق اتنا عرض کردینا کافی ہوگا کہ ان کا تعلق محض طبیب اور مریض کا نہیں بلکہ ایک عقیدت مند اور خدمت گزار دوست کا تھا۔ وہ ان ایام میں حضرت علامہ کی بیماری کے سوا سب کچھ بھول گئے۔ کتنے مرکبات تھے جو انھوں نے محض حضرت علامہ کے لیے اپنے زیر نگرانی تیار کیے وہ صبح و شام ان کی خدمت میں حاضر ہوتے اور گھنٹوں ان کے پاس بیٹھ کر دوا کھلاتے کبھی مزے مزے کی باتوں سے ان کا جی بہلاتے اکثر وہ ان کی ہتھیلیاں سہلانے لگتے اور پھر چپکے چپکے ان کے چہرے اور پائوں کا معاینہ کرلیتے۔ یہ اس لیے کہ ان کو ابتدا ہی سے خیال ہوچلا تھا کہ حضرت علامہ کا رجحان استسقا کی طرف ہے۔ خود حضرت علامہ کی یہ کیفیت تھی کہ ادھر قرشی صاحب نے جاوید منزل میں قدم رکھا اور ادھر ان کی تمام شکایات دور ہوگئیں۔ وہ اکثر فرمایا کرتے تھے: ’’میرا سب سے بڑا علاج یہی ہے کہ حکیم صاحب پاس بیٹھے رہیں۔‘‘ لہٰذا قرشی صاحب کی محنت اور توجہ سے تھوڑے ہی دنوں میں یہ حالت ہوگئی کہ حضرت علامہ کو لحظہ بہ لحظہ افاقہ ہونے لگا اور بعض دفعہ وہ اپنی خواب گاہ میں چل پھر بھی لیتے۔ اس اثنا میں حکیم نابینا صاحب کی دوائیں آگئی تھیں اور پھر کچھ دنوں کے بعد ڈاکٹر مظفر الدین صاحب۶۹؎ بھی ان سے ضروری ہدایات لیتے آئے کیونکہ حکیم نابینا صاحب اس وقت حیدرآباد تشریف لے جاچکے تھے۔ اس طرح اطمینان کی ایک اور صورت پیدا ہوگئی مگر ان کے بعض نیازمندوں کا خیال تھا کہ اگر قرشی صاحب کے علاج میں ڈاکٹری مشورہ بھی شامل کرلیا جائے تو کیا حرج ہے۔ ممکن ہے ایسا کرنا مفید ہی ثابت ہو۔ یہ سوچ کر ڈاکٹر محمد یوسف صاحب۷۰؎ سے رجوع کیا گیا اور انھوں نے پورے خلوص اور توجہ سے اس امر کی کوشش کی کہ تخفیف مرض کی کوئی صورت نکل آئے۔ کچھ دنوں کے بعد ڈاکٹر کپتان الٰہی بخش صاحب۷۱؎ سے بھی مشورہ ہوا۔ مگر حضرت علامہ کی طبیعت کا یہ عالم تھا کہ ایلوپیتھک دوائوں سے باربار گھبراتے اور ایک خاص میعاد مقرر کرنے کے بعد ان کا استعمال چھوڑ دیتے۔ یہاں پہنچ کر قدرتاً یہ سوال پیدا ہوتا ہوگا کہ حضرت علامہ کا مرض فی الحقیقت کیا تھا۔ قرشی صاحب کہتے ہیں کہ انھیں عظم و اتساع قلب کی شکایت تھی یعنی دل کے مناسب عمل میں نقص واقع ہوگیا تھا جس سے ان کے عضلی ریشے بڑے ہوکر لٹک گئے تھے اس طرح ان کے دل کی عضلی دیواریں دبیز اور ڈھیلی ہوگئیں اور ان کے جوف پھیل گئے ان کی رائے میں سانس کی تکلیف دمہ قلبی کی وجہ سے تھی۔ بالفاظ دیگر چونکہ دل کا عمل پورا نہ ہوتا تھا اس لیے تکلیف رونما ہوجاتی۔ قرشی صاحب کی رائے تھی کہ ’’حضرت علامہ کی کھانسی، بول زلالی، نبض کا ضعیف، سریع اور غیر منظم ہونا یہ سب اتساع قلب کے علامات ہیں۔ مزید برآں ان کا جگر بھی بڑھا ہوا تھا اور اگرچہ اتساع قلب میں بھی دورانِ خون کے اختلال کے باعث جگر بڑھ جاتا ہے مگر حضرت علامہ کا جگر پہلے سے مائوف تھا۔‘‘ اتنا تو مجھے بھی یاد ہے کہ حکیم نابینا صاحب حضرت علامہ کے جگر کی اصلاح کا ہمیشہ خیال رکھتے تھے۔ قرشی صاحب کے نزدیک حضرت علامہ کے گردے بھی متاثر تھے اور ان کو شروع ہی سے خیال ہوگیا تھا کہ استسقا کا خدشہ ہے۔ اس کے مقابلے میں ایک دوسری تشخیص یہ تھی کہ حضرت علامہ کو انورسما وار طی (انورزم) یعنی شہ۔رگ کی رسولی ہے۔ یہ اس لیے کہ جب ان کا دل کمزور ہوگیا تو خون کے مسلسل دبائو نے شہ رگ میں جو ربڑ کے غبارے کی مانند پھیل گئی تھی۔ ایک گڑھا سا پیدا کردیا جس نے رفتہ رفتہ ایک دموی رسولی کی شکل اختیار کرلی۔ یہی سبب دقت نفس کا تھا کیونکہ قصبتہ اریحہ (ہوا کی نالی) پر اس رسولی کا دبائو پڑتا تھا۔ اس طرح حضرت علامہ کو مسلسل کھانسی ہوتی رہتی اور انورسما کے با عث چونکہ آواز کے ڈورے کھل گئے تھے لہٰذا ان کا گلا بیٹھ گیا۔ حضرت علامہ کے عوارض کی ان دو تشخیصوں کے متعلق جن کی تفصیل کے لیے قرشی صاحب کا ممنون احسان ہوں،اگرچہ راقم الحروف کا کچھ کہنا بے سود گا لیکن اتنا ضرور عرض کرنا پڑتا ہے کہ زیادہ تر اتفاق رائے غالباً پہلی تشخیص پر ہی تھا۔ ۲۱؍مارچ کو جب محمد اسد صاحب۷۲؎ مترجم بخاری حضرت علامہ کی عیادت کے لیے آئے ہیں اور ان کے ساتھ ڈاکٹر زیلتسر۷۳؎ (Selzer) بھی تھے تو ان کا (ڈاکٹر زیلتسر کا) بھی یہی خیال تھا کہ حضرت علامہ کو اتساع قلب کا عارضہ ہے اور گلے کی تکلیف مقامی فالج کا نتیجہ۔ بہرکیف قرشی صاحب کی رائے تھی کہ حضرت علامہ کو لطیف مقویات اور مغزیات کا زیادہ استعمال کرنا چاہیے اور ان کے لیے مشک عنبر اور مروارید بہت مفید رہیں گے۔ ان دوائوں کا فی الواقع یہ اثر بھی ہوا کہ حضرت علامہ اگر کبھی تبدیلی علاج بھی کرتے تو ان کا استعمال برابر جاری رکھتے۔ بات اصل میں یہ ہے کہ وہ اپنے ذاتی خیالات اور تجربات کی بنا پر طب قدیم کی خوبیوں کے قائل ہوچکے تھے۔ جدید نظریوں پر انھیں سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ ان میں انسان کی حیثیت محض ایک شے کی رہ جاتی ہے اور اس کے نفسیاتی پہلوئوں کا کوئی خیال نہیں کرتا۔ اوّل تو یہ رائے یہ تھی کہ طب کا علم ممکن ہی نہیں اس لیے کہ اس یہ معنی ہوں گے کہ ہم زندگی کی کنہ سے باخبر ہیں جو بداہتاً ایک غلط سی بات ہے۔ وہ کہتے تھے کہ اگر ایک حد تک طب ممکن بھی ہے تو ہر شخص کی طب دوسرے سے جداگانہ ہوگی کیونکہ ہر انا (Ego) بجائے خود یکتا اور منفرد ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ انھوں نے اس امر کی طرف اشارہ بھی کیا کہ اس نقطۂ نظر کے ماتحت اٹلی میں ایک جدید طب کی تشکیل ہورہی ہے۔ وہ کہا کرتے تھے علم طب نے کیا ترقی کی ہے؟ حالانکہ نوعِ انسانی کو اس کی ضرورت بدوشعور ہی سے محسوس ہورہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ سب سے زیادہ ترقی یافتہ علم ہوتا یا پھر اس کی ابتدا اس وقت ہوگی جب تمام علوم و فنون کا ارتقا مکمل ہوجائے۔ لیکن جہاں تک عملی مجبوریوں کا تعلق ہے ان کے لیے دوائوں کا استعمال ناگزیر تھا۔ مگر وہ ایلوپیتھک دوائوں سے بہت ناراض تھے اس لیے کہ ان میں نہ ذائقے کا خیال رکھا جاتا ہے نہ پسند کا اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ خدمت خلق کی بجائے تجارت کا ذریعہ بن گئی ہیں۔ ان کے مقابلہ میں طبی دوائیں ہیں۔ کس قدر لطیف اور خوش مزہ! ان سے مسلمانوں کے ذوقِ جمال اور نفاست مزاج کا پتا چلتا ہے۔ جب وہ قرشی صاحب کے تیارکردہ خمیرہ گائو زبان عنبری یا دواء المسک کو مزے لے لے کر چاٹتے تو اس امر پر اظہارِ افسوس ظاہر کرتے کہ ان کی خوراک کس قدر کم ہے۔ نہ چھے نہ سات فقط تین ماشے پھر ان کا ذاتی تجربہ بھی یہ تھا کہ درد گردہ کی شکایت جو انھیں مدت سے تھی۔ حکیم نابینا صاحب ہی کے علاج سے دور ہوئی اور ۱۹۳۴ء میں جب ڈاکٹروں نے باربار ان کی صحت سے مایوسی کا اظہار کیا تو یہ حکیم صاحب ہی کی دوائیں تھیں جن سے اُمید کی ایک جھلک پیدا ہوئی اور وہ کم و بیش چار برس تک اپنے مشاغل کو جاری رکھ سکے۔ دورانِ علاج میں حضرت علامہ نے بارہا اس امر کا مشاہدہ کیا جدید آلات سے بالآخر انکشافات نبض ہی کی تصدیق ہوتی۔ لہٰذا یہ کوئی عجیب بات نہیں تھی کہ ان کا اعتماد قدیم دوائوں پر دن بدن بڑھتا گیا۔ وہ کہا کرتے تھے ہماری دوائوں کے اثرات صدیوں کے تجربے سے ثابت ہورہے ہیں۔ آج کل کی دوائوں کا کیا ہے، ادھر ایجاد ہوئیں ادھر متروک۔ ۱۷؍مارچ کے بعد جب سے طبی علاج ازسرنو شروع ہوا حضرت علامہ کی صحت میں خفیف سا مدوجزر پیدا ہوتا رہا۔ اس خیال سے کہ اگر ان حالات کی اطلاع عام ہوگئی تو شاید لوگوں کی عقیدت مندی میں ان کے آرام میں حارج ہو حضرت علامہ کی خرابی صحت کی خبر مخفی رکھی گئی۔ ان دنوں معمول یہ تھا کہ حضرت علامہ کے متعدد احباب کے علاوہ ہم لوگ یعنی چودھری محمد حسین، راجا حسن اختر، قرشی صاحب اور راقم الحروف صبح و شام حضرت علامہ کی خیریت معلوم کر آتے اور پھر رات کو باقاعدہ ان کی خدمت میں جمع ہوجاتے یا پھر محمد شفیع صاحب جاوید منزل ہی اٹھ کر آئے تھے تاکہ حضرت علامہ کی دیکھ بھال اور دوائوں کا خیال رکھیں۔ خدمت گزاری کے لیے علی بخش اور دوسرے نیازمند موجود تھے۔ علی بخش بے چارا تو کئی راتیں سویا ہی نہیں۔ حضرت علامہ کو دن میں تو نسبتاً آرام رہتا تھا اور وہ کچھ وقت سو بھی لیتے تھے لیکن رات کو ان کی تکلیف بڑھ جاتی۔ کبھی اختلاج ہوتا۔ کبھی ضعف، کبھی احتباس ریاح۔ ضیق کے دوسرے بالعموم پچھلے پہر میں ہوتے تھے اور شفیع صاحب کو اس کی روک تھام کے لیے خاص طور سے جاگ جاگ کر دوائیں کھلانا پڑتیں۔ علی بخش، رحما،۷۴؎ دیوان علی۷۵؎ (حضرت علامہ کے ملازمین) اور احباب ان کا بدن دباتے۔ جب رات زیادہ ہوجاتی تو چودھری صاحب اور راجا صاحب اِدھر اُدھر کی باتیں چھیڑ دیتے تاکہ حضرت علامہ سو جائیں۔ اس وقت قرشی صاحب اور بھی زیادہ قریب ہو بیٹھتے اور ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیتے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ حضرت علامہ دیوان علی سے بلھے شاہ کی کافیاں یا پنجابی گیت سنتے اور مجھ سے فرماتے کہ ’’میں بغداد یا قرطبہ کا کوئی ایسا افسانہ بیان کروں جس سے ان کو نیند آجائے۔‘‘ اس طرح کچھ دنوں کے بعد حضرت علامہ کی طبیعت یہاں تک سنبھل گئی کہ راجا صاحب سے (سرکاری مشاغل کی مجبوریوں کے باعث) ناغے ہونے لگے اور قرشی صاحب سے دوا اور غذا کے متعلق چھیڑچھاڑ شروع ہوگئی۔ حضرت علامہ ان سے ہر دوسرے تیسرے روز اس امر کی خواہش کرتے کہ ان کی غذا کی فہرست میں اضافہ ہو تاکہ انتخاب میں سہولت رہے۔ ایک مرتبہ کہنے لگے: ’’پلائو کھانے کو بہت جی چاہتا ہے۔‘‘ قرشی صاحب نے کہا آپ کھچڑی کھالیجیے۔ فرمایا: ’’بھنی ہوئی؟ کافی گھی کے ساتھ؟‘‘ حضرت علامہ کہنے لگے: ’’لو پھر اس میں کیا لذت ہوگی۔ اس میں دہی کیوں نہ ملالیا جائے۔‘‘ قرشی صاحب بولے: ’’مگر آپ کو کھانسی ہے… دہی مضر ہے۔‘‘ فرمایا: ’’تو پھر اس کھچڑی سے نہ کھانا اچھا ہے۔‘‘ بقول قرشی صاحب آخری ایام میں ان کی قوت تنقید بہت بڑھ گئی تھی اور مزاج میں بے حد ذکاوت اور نفاست پیدا ہوچکی تھی اس لیے ان کے سوالات کا جواب دینا کوئی آسان بات نہ تھی۔ بعض دفعہ وہ (قرشی صاحب) خود بھی پریشان ہوجاتے۔ اگر ان سے یہ کہنا جاتا کہ ان کی بعض علامات دوسرے اسباب کا نتیجہ ہیں تو وہ شدت سے جرح کرتے کہ جواب نہ بن پڑتا۔ ان کا اصرار تھا کہ ہر بات ٹھیک ٹھاک بیان کی جائے۔ ۱۶؍اپریل کی شام کو جب راجا صاحب اور سیّد عابد علی۷۶؎ حسب معمول تشریف لائے ان سے مصلحتاًیہ کہا گیا کہ کوئی خطرے کی بات نہیں تو حضرت علامہ بہت خفا ہوئے۔ کہنے لگے: ’’میں جانتا ہوں یہ باتیں تعلق خاطر کی بنا پر کہی جاتی ہیں۔ مگر اس طرح سننے والے غلط رائے قائم کرلیتے ہیں۔‘‘ دوائوں کے متعلق بھی ان کہنا یہ تھا کہ میں انھیں صحت کے لیے استعمال نہیں کرتا بلکہ اس لیے کہ شدت مرض میں میری خودی (Ego) کو نقصان نہ پہنچے۔ بایں ہمہ ان کے اخلاقِ عالیہ اور کمال وضع کا یہ عالم تھا کہ ان کے معمول اور روزمرہ زندگی میں انتہائی تکلیف کے باوجود کوئی فرق نہ آیا۔ وہ اپنے ملنے والوں سے اسی خندہ پیشانی اور تپاک سے ملتے جس طرح تندرستی میں ان کا شیوہ تھا بلکہ اب انھوں نے اس بات کا اور بھی زیادہ خیال رکھنا شروع کردیا تھا کہ ان کی تواضع اور خاطرداری میں کوئی فروگذاشت تو نہیں ہوتی۔ صحت کی اس گئی گزری حالت میں بھی وہ اگر کسی کے کام آسکے تو اس سے انکار نہیں کیا اور اپنی قوم کے معاملات میں جہاں تک ممکن تھا حصہ لیا۔ انھیں اپنے احباب کے جذبہ خدمت گزاری کی بڑی قدر تھی اور انھوں نے اپنی خلوتوں میں ابھی اس کا اظہار بھی کیا۔ ایک شام جب وہ انتہائی کرب کی حالت میں تھے، علی بخش نے بے اختیار رونا شروع کردیا۔ ہم نے اسے تسلی دی تو فرمایا: ’’رونے دیجیے تیس پینتیس برس کا ساتھ ہے جی ہلکا ہوجائے گا۔‘‘ حضرت علامہ ایک زندہ انسان تھے اور آخر وقت تک صحیح معنوں میں زندہ رہے۔ وہ اپنے اردگرد کی زندہ دنیا کو ایک لحظے کے لیے بھی فراموش نہیں کرسکے برعکس اس کے یورپ اور ایشیا کی ایک ایک تبدیلی کا حال پوچھتے اور اپنے مخصوص انداز میں اس پر رائے زنی کرتے۔ لوگوں نے صرف اتنا سنا کہ آسٹریا کا الحاق جرمنی سے ہوگیا ہے۔ حضرت علامہ نے فرمایا: ’’وسط ایشیا میں ۴ کروڑ ترک آباد ہیں۔ اتحاد پر اس کا اثر کیا رہے گا۔‘‘ اس زمانے میں اٹلی اور برطانیہ کے درمیان گفت و شنید ہورہی تھی۔ حضرت علامہ اس کی ایک ایک تفصیل کو سنتے اور فرماتے: ’’اگر اٹلی نے فی الواقع اتحادیوں سے مصالحت کرلی جیسا کہ قرائن سے ظاہر ہوتا ہے تو بلادِ اسلامیہ کو مجبوراً روس کی طرف ہاتھ بڑھانا پڑے گا۔‘‘ اس طرح سیاسیاتِ عالم پر ان کے سبق آموز تبصروں کے ساتھ ساتھ ان کے اشعار و افکار اور ارشادات کا سلسلہ ہر وقت جاری رہتا۔ اپنی وفات سے دو روز پہلے وہ راجا صاحب کے بعض احباب سے شاعر کی ملّی حیثیت اور اسلامی فن تعمیر پر فلسفیانہ بحث کررہے تھے۔ ان کی گفتگوئیں لطف و حرارت سے کبھی خالی نہ ہوئیں اور اس کی جولانیاں مرتے دم تک قائم رہیں۔ علی بخش اور چودھری صاحب کی چھیڑچھاڑ مدت سے چلی آتی تھی۔ ایک روز چودھری صاحب کہنے لگے: ’’علی بخش کی مونچھوں کو دیکھتا ہوں تو سوچنے لگتا ہوں آخر ان کا رنگ کیا ہے؟ جس بال کو دیکھتے دوسرے سے مختلف‘‘ حضرت علامہ نے برجستہ فرمایا: ’’مچھئی‘‘ ان کا یہ کہنا کہ دوائوں کا ستعمال فائدے کے خیال سے نہیں بلکہ محض اس لیے کرتا ہوں کہ میری خودی (Ego) کو نقصان نہ پہنچے لفظ بلفظ صحیح تھا اور معلوم نہیں اس میں دوائوں کو فی الواقع کوئی دخل تھا بھی یا نہیں۔ بہرحال انھوں نے اپنی قوت ادراک اور ذہن کی بیداری کو جس طرح واضح طور پر قائم کررکھا اسے دیکھ دیکھ کر تعجب ہوتا تھا۔ ایک رات جب ہم لوگ اس کوشش میں تھے کہ حضرت علامہ سو جائیں۔ دیوان علی نے گانا شروع کیا اور گاتے گاتے سہ حرفی ہدایت اللہ کے چند اشعار پڑھ ڈالے۔ اس پر حضرت علامہ یک بارگی اُٹھ بیٹھے اور کہنے لگے: ’’چودھری صاحب اسے کہتے ہیں بحرفے اُمتے رامی تواں کش۔‘‘ چودھری صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں سر پر ہاتھ پھیرا اور (ہوں) کہہ کر خاموش ہوگئے۔ حضرت علامہ فرما رہے تھے: ’’مشرق کیا ایک طرح سے ساری شاعری کا پس منظر یہی ہے۔‘‘ میں نے عرض کی کہ ہدایت اللہ نے موت و سکرات کا جو نقشہ پیش کیا ہے خلاف واقعہ تو نہیں۔ خود قرآن پاک میں بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ حضرت علامہ نے جواب میں فرمایا: ’’مجھے حقائق سے انکار نہیں۔ انکار حقائق کی تعبیر سے ہے۔‘‘ اور پھر اپنی وہ رباعی لکھوائی جس پر سول اینڈ ملٹری گزٹ کے کالم کے کالم سیاہ ہوتے رہے، بایں ہمہ اس کا مطلب بہت کم لوگوں کی سمجھ میں آیا۔ یعنی: بہشتے بہر پاکانِ حرم ہست بہشتے بہرِ اربابِ ہمم ہست بگو ہندی مسلماں را کہ خوش باش بہشتے فی سبیل اللہ ہم ہست!۷۷؎ (آخری رباعی اس سے دو ایک دن بعد ہوئی۔) حضرت علامہ نے اپنی بیماری کا مقابلہ جس ہمت اور استقلال سے کیا اس کو دیکھ دیکھ کر ان کے تیماردار تو کیا معالجین کو بھی خیال ہونے لگتا تھا کہ شاید ان کا وقت اتنا قریب نہیں جتنا بظاہر معلوم ہوتا ہے۔ بات اصل میں یہ ہے کہ حضرت علامہ نے ایک لحظے کے لیے بھی مریض بننا گوارا نہیں کیا۔ وہ مریض ضرور تھے مگر انھیں مریض کی حیثیت میں زندہ رہنا منظور نہ تھا۔ ایک دفعہ جب ان کی غذا و دوا اور آرام میں خاص اہتمام ہونے لگا تو فرمایا: ’’اس طرح کا جینا گویا جینے سے بغاوت کرنا ہے میں محسوس کرتا ہوں کہ اب میں دنیا کے قابل نہیں رہا۔‘‘ تکلیف کی حالت میں انھیں بے شک تکلیف ہوتی مگر ادھر اس کا احساس کم ہوا اور ادھر ان کی ساری شگفتگی عود کر آئی۔ اب ان کی باتوں میں وہ لطف اور دلچسپی پیدا ہوجاتی جیسے وہ کبھی بیمار ہی نہیں تھے۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ان کی طویل علالت نے ان کے ذہن پر کوئی اثر نہ کیا۔ ان کو کوئی اندیشہ تھا نہ پریشانی۔ ان کے یاس ناآشنا دل میں اضطراب اور خوف کی ہلکی سی جھلک بھی پیدا نہ ہوئی۔ گویا موت و حیات کے متعلق جو دلیرانہ اور جرأت آموز رویہ انھوں نے عمر بھر اختیار کررکھا تھا آخر تک قائم رہا۔ اس لحاظ سے وہ فی الواقع خودی کے پیغمبر تھے۔ موت سے ان کی بے خوفی یہاں تک بڑھی ہوئی تھی کہ جب ان کے معالجین کی بے بسی صاف صاف نظر آنے لگی اس وقت بھی ان کو مکروہات دنیوی کا مطلق خیال نہ آیا۔ چنانچہ آخری شب میں انھوں نے جو نصیحت جاوید سلمہ کو فرمائی اس کا ماحصل یہ تھا: ’’میرے بیٹے! میں چاہتا ہوں کہ تم میں نظر پیدا ہو۔‘‘ ایک دن جب انھیں درد کی شدت نے بے تاب کر رکھا تھا مجھ سے کہنے لگے: ’’اللہ ہی اللہ ہے۔‘‘ میرے پاس ان الفاظ کا کیا جواب تھا میں خاموش کھڑا رہا۔ انھوں نے پھر فرمایا:’’یاد رکھو اللہ کے سوا اور کچھ نہیں‘‘ میں سمجھتا ہوں اس وقت ان کا ذہن وجود و عدم کے عقدوں سے الجھ گیا تھا اور ان کا اشارہ حضرت بایزید بسطامی۷۸؎ کے اس ارشاد کی طرف تھا جس کا ذکر انھوں نے تشکیل جدید میں بھی کیا ہے۔ وہ یہ کہ ایک دن حضرت کے حلقے میں تخلیق کا مسئلہ زیربحث تھا۔ ان کے کسی مرید نے کہا: ’’جب کچھ نہیں تھا تو صرف خدا تھا۔‘‘ حضرت بایزید فوراً بول اُٹھے: ’’اور اب کیا ہے! اب بھی صرف خدا ہے۔‘‘ رہی اسلام سے ان کی شیفتگی سو اس کے متعلق کیا عرض کیا جائے۔ یہ داستان بہت طویل ہے۔ وہ اس کے مستقبل یا خود ان کے اپنے الفاظ میں یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اس کی تقدیر (Destiny) سے ایک لحظے کے لیے بھی مایوس نہیں ہوئے۔ عالم اسلام کے جدید رجحانات ظاہراً کس قدر یاس انگیز ہیں لیکن ان کی رجائیت میں سرمو فرق نہ آیا۔ اس اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے انھیں ایک خاص بصیرت عطا کی تھی۔ لوگ ان کے پاس آتے اور بے چین ہوکر مادیت و وطنیت کے اس سیلاب کی طرف اشارہ کرتے جو بلادِ اسلامیہ میں ہر طرف پھیل رہا ہے۔ حضرت علامہ فرماتے تمھاری نگاہیں قشر پر ہیں۔ اپنے ایمان کو مضبوط رکھو اور منتظر رہو کہ انسان کے اندرون ضمیر سے آخر کس چیز کا اظہار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عین اس وقت جب سیاست حاضرہ کی دسیسہ کاریوں سے عوام اور خواص تو کیا بڑے بڑے حجرہ نشین اور عبادت گزار بھی محفوظ نہ رہے۔ حضرت علامہ کے پائے استقامت کو جنبش تک نہ ہوئی۔ ایک سہ پہر کا ذکر ہے۔ حضرت سالک۷۹؎ و مہر۸۰؎ بھی موجود تھے اور زعیم ترکی کی غیر معمولی فراست کے متعلق باتیں کررہے تھے۔ کسی نے کہا اتحاد شرق کا خیال نہایت مستحسن ہے لیکن یہ کہنا صحیح نہیں کہ انقرہ و کابل اور تہران کا میثاق اتحاد اسلامی کا نتیجہ ہے۔ حضرت علامہ نے فرمایا: ’’بے شک، مگر آپ اس سے انکار نہیں کرسکتے کہ اس کی تکمیل کا راستہ اسلام ہی نے صاف کیا۔‘‘ البتہ ایک حقیقت آشنا مبصر کی طرح وہ اس بات کو خوب جانتے تھے کہ اس وقت عملاً مسلمانوں کی حالت کیا ہے؟ ان کے ذہنی اور اخلاقی انحطاط کا انھیں بڑا دکھ تھا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ ہم لوگ رات کو انھیں اچھی حالت میں چھوڑ آتے مگر صبح جب قرشی صاحب پھر ان کی نبض دیکھتے تو ضعف و نقاہت کی انتہا نہ ہوتی۔ دریافت کرنے پر پتا چلتا کہ حضرت علامہ ملت کی زبوں حالی پر دیر تک روتے رہے۔ انھیں جدید زمانہ کے ان الحاد پرور نظریوں سے بے حد تکلیف ہوتی تھی جو اندر ہی اندر ہمارے جسد ملّی کو کھائے جارہے ہیں مگر اس پر انھوں نے ’درویشانہ‘ خاموشی اختیار نہیں کی بلکہ آخر دم تک ان کا مقابلہ کیا۔ یہ اسی جذبے کا نتیجہ تھا کہ قوم اور ملت کی غیر اسلامی تفریق پر انھوں نے اپنا بیان اس وقت لکھوایا جب رہ رہ کر ضعف اور اختلاج کے دورے ہورہے تھے اور قرشی صاحب کو خطرہ تھا کہ اس کا کوئی ناگوار اثر ان کی طبیعت پر نہ پڑے۔ ان ایام میں وہ اکثر فرمایا کرتے تھے: حقیقت را بہ رندے فاش کردند۸۱؎ کہ مُلّا کم شناسد رمز دیں را۸۱؎ ایک رات انھوں نے یہ شعر پڑھا: تہنیت گوئید مستاں را کہ سنگ محتسب۸۲؎ بر دل ما آمد و ایں آفت از مینا گزشت۸۲؎ اور اتنی رقت طاری ہوئی کہ ان کے نیازمندوں کو اضطراب ہونے لگا۔ وہ کہا کرتے تھے میں نے اسلام کے لیے کیا کیا؟ میری خدمت اسلامی تو بس اس قدر ہے جیسے کوئی شخص فرطِ محبت میں سوتے ہوئے بچے کو بوسہ دے۔ ایک دن مجھ سے حدیث رسول ا پر گفتگو فرما رہے تھے۔ جب حضرت ابو سعید خدری ۸۳؎ کی اس روایت کا ذکر آیا کہ حضور رسالت مآب ا اپنے بعض اصحاب کے ساتھ احد پر تشریف لے گئے اور احد کانپ اُٹھا تو حضرت علامہ نے فرمایا: ’’یہ محض استعارہ نہیں۔‘‘ اور پھر درد کی تکلیف کے باوجود سیدھے ہوکر بیٹھے گئے اور جوش میں آکر کہنے لگے: Mind you this is no metaphor (یاد رکھو یہ محض استعارہ نہیں) انھیں حضورِ سرور کونین ا سے کچھ ایسا عشق تھا کہ آپؐ کا ذکرمبارک آتے ہی ان کی آنکھیں اشک بار ہوجاتیں اور بیماری کے آخری ایام میں تو فرطِ ادب سے یہ کیفیت ہوگئی تھی کہ حضورِ ا کا اسم گرامی زبان پر لانے سے پہلے اس امر کا اطمینان کرلیتے کہ ان کے حواس اور بدنی حالت میں کوئی خرابی تو نہیں۔ اس رفتار میں مرض الموت کی رفتار کچھ عجب سی رہی۔ اوّل استسقا کا حملہ ہوا جس سے چہرے اور پائوں پر ورم آگیا۔ اب پیٹھ کے درد سے بھی خاصی تکلیف رہتی تھی اور حضرت علامہ فرمایا کرتے تھے: ’’میری دائوں کی آزمایش اس میں ہے کہ پیٹھ کا درد جاتا ہے یا نہیں۔‘‘ مگر پھر رفتہ رفتہ ان علامات میں تخفیف ہونا شروع ہوگئی حتیٰ کہ قرشی صاحب ایک خاص مجبوری کے باعث دو روز کے لیے راولپنڈی تشریف لے گئے۔ لیکن اگلے ہی روز بیماری نے کچھ ایسا زور پکڑا کہ حضرت علامہ کے بائیں جانب تمام جسم پر ورم پھیل گیا۔ اس حالت میں ڈاکٹر جمعیت سنگھ صاحب کو بلوایا گیا۔ انھوں نے معاینے کے بعد قطعاً مایوسی کا اظہار کیا اور دو ایک باتیں ان کی حالت کے متعلق صاف صاف کہہ دیں۔ بایں ہمہ حضرت علامہ مطلق پریشان نہ ہوئے بلکہ ڈاکٹر صاحب کی باتوں کو سن کر اس طرح سوالات کرنا شروع کردیے جیسے کسی امر کی تنقیح مقصود ہو۔ ڈاکٹر صاحب گئے تو ان کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد صاحب نے کوشش کی کہ دوچار کلمات تسلی کے کہیں مگر علامہ الٹا ان تسکین خاطر فرماتے ہوئے کہنے لگے: ’’میں مسلمان ہوں۔ موت سے نہیں ڈرتا۔‘‘ اس کے بعد یہ شعر پڑھا: نشانِ مرد حق دیگر چہ گویم۸۴؎ چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست۸۴؎ ڈاکٹر صاحب گئے تو انھوں نے اشارے سے مجھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا کاغذ قلم لے آئو خط لکھوانا ہے۔ یہ ان کا آخری خط تھا!۸۵؎ تیسرے پہر ڈاکٹر جمعیت سنگھ پھر تشریف لائے۔ ڈاکٹر یار محمد خاں صاحب۸۶؎ ساتھ تھے۔ شام کو کپتان الٰہی بخش صاحب بھی آگئے اور باہمی مشورے سے دوائوں اور انجکشنوں کی تجویز ہونے لگے۔ دوسرے روز قرشی صاحب بھی پہنچ گئے۔ اب ہر قسم کی تدابیر ہورہی تھیں۔ قدیم و جدید سب۔ بالآخر وہ وقت آپہنچا۔ جس کا کھٹکا مدت سے لگا ہوا تھا۔ ۲۰؍اپریل کی سہ پہر کو جب میں حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ بیرن فلٹ ہائم (Von Veltheim)۸۷؎ اور ان کے ایک پارسی دوست سے گفتگو کررہے تھے اور گوئٹے اور شلر۸۸؎ اور معلوم نہیں کس کس کا ذکر تھا۔ فلٹ ہائم گئے تو چند اور احباب آگئے جن سے دیر تک لیگ، کانگریس اور بیرونی سیاسیات پر تبادلہ خیالات ہوتا رہا۔ شام کے قریب جب ان کے معالجین ایک ایک کرکے جمع ہوئے تو انھیں بتلایا گیا کہ حضرت علامہ کو بلغم میں کل شام سے خون آرہا ہے۔ یہ علامت نہایت یاس انگیز تھی اس لیے کہ خون دل سے آیا تھا۔ اس حالت میں کسی نے یہ بھی کہہ دیا کہ شاید وہ آج کی رات جان بر نہ ہوسکیں۔ مگر انسان اپنی عادت سے مجبور ہے۔ تدبیر کا دامن آخر وقت تک نہیں چھوڑتا۔ قرشی صاحب نے بعض دوائیں تلاش کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو موٹر کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اتفاق سے اسی وقت راجا صاحب تشریف لے آئے۔ میں نے پوچھا گاڑی ہے؟ کہنے لگے: ’’نہیں مگر کیا مضائقہ ابھی لیے آتا ہوں۔‘‘ چونکہ ان کی اپنی گاڑی خراب تھی لہٰذا اتنا کہہ کر راجا صاحب موٹر کی تلاش میں نکل گئے۔ ادھر ڈاکٹر صاحبان کی رائے ہوئی کہ کرنل امیر چند صاحب۸۹؎ کو بھی مشورے میں شامل کرلیا جائے۔ اس اثنا میں ہم لوگ حضرت علامہ کا پلنگ صحن میں لے آئے تھے۔ کرنل صاحب تشریف لائے تو ان کی حالت کس قدر سنبھل چکی تھی۔ مطلب یہ کہ ان کے حواس ظاہری کی کیفیت یہ تھی کہ ایک دفعہ پھر اُمید بندھ گئی۔ لہٰذا طے ہوا کہ کچھ تدابیر اس وقت اختیار کی جائیں اور کچھ صبح۔ تھوڑی دیر میں ڈاکٹر صاحبان چلے گئے اور ڈاکٹر عبدالقیوم صاحب۹۰؎ کو رات کے لیے ضروری ہدایات دیتے گئے۔ اب ہوا میں ذرا سی خنکی آچکی تھی اس لیے حضرت بڑے کمرے میں اُٹھ آئے اور حسب معمول باتیں کرنے لگے۔ دفعتاً انھیں خیال آیا کہ قرشی صاحب غالباً شام سے بھوکے ہیں اور ہرچند کہ انھوں نے انکار کیا لیکن حضرت علامہ علی بخش سے کہنے لگے کہ ان کے لیے چائے تیار کرے اور نئے بسکٹ جو میم صاحبہ نے بنائے ہیں، کھلائے۔ اس وقت صرف ہم لوگ یعنی قرشی صاحب، چودھری صاحب، سیّد سلامت اللہ اور راقم الحروف ان کی خدمت میں حاضر تھے۔ حضرت علامہ نے راجا صاحب کو یاد فرمایا تو ان سے عرض کیا گیا کہ وہ کام سے گئے ہیں۔ ۱۱؍بجے تو اس خیال سے ہم لوگ شاید ان کی نیند میں حارج ہورہے ہیں چودھری صاحب نے اجازت طلب کی لیکن حضرت علامہ نے فرمایا: ’’میں دوا پی لوں، پھر چلے جائیے گا۔‘‘ اس طرح بیس پچّیس منٹ اور گزر گئے حتیٰ کہ شفیع صاحب کیمسٹ کے ہاں سے دوا لے کر آگئے۔ حضرت علامہ کو ایک خوراک پلائی گئی مگر اس کے پیتے ہی ان کا جی متلانے لگا اور انھوں نے خفا ہوکر کہا ’’یہ دوائیں غیر انسانی (Inhuman) ہیں۔‘‘ ان کی گھبراہٹ کو دیکھ کر قرشی صاحب نے خمیرہ گائو زبان عنبری کی ایک خوراک کھلائی جس سے فوراً سکون ہوگیا۔ اس کے بعد حضرت علامہ نے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ ایلوپیتھک دوا استعمال نہیں کریں گے اور جب شفیع صاحب نے یہ کہا کہ انھیں اوروں کے لیے زندہ رہنا چاہیے تو فرمایا: ’’ان دوائوں کے سہارے نہیں‘‘ (Not on these medicines) اس طرح گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ گزر گیا۔ بالآخر یہ دیکھ کر کہ حضرت علامہ نیند کی طرف مائل ہیں ہم نے اجازت طلب کی۔ انھوں نے فرمایا: بہت اچھا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے ان کی خواہش تھی کہ ہوسکے تو قرشی صاحب ٹھہرے رہیں۔ بایں ہمہ انھوں نے اس امر پر اصرار نہیں کیا۔ اس وقت بارہ بج کر تیس منٹ ہوئے تھے اور کسی کو یہ وہم بھی نہ تھا کہ یہ آخری صحبت ہوگی جاوید منزل کی۔ ہم لوگ حضرت علامہ کی خدمت سے اُٹھ کر آئے ہی تھے کہ راجا صاحب تشریف لے آئے اور آخر شب تک وہیں حاضر رہے۔ شروع شروع میں تو حضرت علامہ کو سکون رہا اور وہ کچھ سو بھی گئے لیکن پچھلے پہر کے قریب بے چینی شروع ہوگئی۔ اس پر انھوں نے شفیع صاحب سے کہا: ’’قرشی صاحب کو لے آئو۔‘‘ وہ ان کے ہاں آئے تو سہی لیکن غلطی سے اطلاع نہ کرسکے۔ شاید ۳ بجے کا وقت ہوگا کہ حضرت علامہ نے راجا صاحب کو طلب فرمایا۔ ان کا (راجا صاحب کا) اپنا بیان ہے کہ جب میں حاضر ہوا تو حضرت علامہ نے دیوان علی سے کہا: ’’تم سو جائو البتہ علی بخش جاگتا رہے کیونکہ اب اس کے سونے کا وقت نہیں۔‘‘ اس کے بعد مجھ سے فرمایا: پیٹھ کی طرف کیوں بیٹھے ہو سامنے آجائو۔ میں ان کے متصل ہو بیٹھا کہنے لگے: قرآن مجید کا کوئی حصہ پڑھ کر سنائو۔ کوئی حدیث یاد ہے؟ اس کے بعد ان پر غنودگی سی طاری ہوگئی میں نے دیا گل کر دیا اور باہر تخت پر آبیٹھا۔ راجا صاحب چلے آئے تو ایک دفعہ پھر کوشش کی گئی کہ حضرت علامہ رات کو دوا استعمال کریں مگر انھوں نے سختی سے انکار کردیا۔ ایک مرتبہ فرمایا: ’’جب ہم حیات کی ماہیئت ہی سے بے خبر ہیں تو اس کا علم (Science) کیونکر ممکن ہے؟‘‘ تھوڑی دیر کے بعد راجا صاحب کو پھر بلوایا گیا۔ حضرت علامہ نے ان سے کہا آپ یہیں کیوں نہیں آرام کرتے اور پھر ان سے قرشی صاحب کے لانے کے لیے کہا ۔ راجا صاحب کہتے ہیں: ’’میں اس وقت کی حالت کا مطلق اندازہ نہ کرنے پایا تھا۔ میں نے عرض کیا حکیم صاحب رات دیر سے گئے ہیں۔ شاید ان کا بیدار کرنا مناسب نہ ہو۔‘‘ اس پر حضرت علامہ نے فرمایا: ’’کاش ان کو معلوم ہوتا مجھ پر کیا گزر رہی ہے۔‘‘ پھر اپنی یہ رباعی پڑھی جو گذشتہ دسمبر میں انھوں نے کہی تھی ع سرودِ رفتہ باز آید کہ ناید؟ نسیمے از حجاز آید کہ ناید؟ سر آمد روزگارِ ایں فقیرے دگر دانائے راز آید کہ ناید؟۹۱؎ راجا صاحب کہتے ہیں۔ میں نے ان اشعار کو سنتے ہی عرض کیا کہ ابھی حکیم صاحب کو لے آتا ہوں۔ یہ واقعہ ۵ بج کر ۵ منٹ کا ہے۔ راجا صاحب گئے تو حضرت علامہ خواب گاہ میں تشریف لے آئے۔ ڈاکٹر عبدالقیوم نے حسب ہدایات فروٹ سالٹ تیار کیا۔ حضرت علامہ بھرے ہوئے گلاس کو دیکھ کر کہنے لگے: ’’اتنا بڑا گلاس کس طرح پیوں گا؟‘‘ اور پھر چپ چاپ سارا گلاس پی گئے۔ علی بخش نے چوکی پلنگ کے ساتھ لگا دی۔ اب اس کے سوا کمرے میں اور کوئی نہیں تھا۔ حضرت علامہ نے اوّل اسے شانوں کو دبانے کے لیے کہا پھر دفعتاً لیٹے لیٹے اپنے پائوں پھیلا لیے اور دل پر ہاتھ رکھ کر کہا: ’’یااللہ‘‘ پھر فرمایا: ’’میرے یہاں درد ہے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی سر پیچھے کی طرف گرنے لگا۔ علی بخش نے آگے بڑھ کر سہارا دیا تو انھوں نے قبلہ رو ہوکر آنکھیں بند کرلیں۔ اس طرح وہ آواز جس نے گذشتہ ربع صدی سے ملت اسلامیہ کے سینے کو سوز آرزو سے گرمایا تھا۔ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔ علامہ مرحوم نے خود اپنے ارشادات کو کاروانِ اسلام کے لیے بانگ درا سے تعبیر کیا تھا اور آج جب ہماری سوگوار محفل ان کے وجود سے خالی ہے تو انھیں کا یہ شعر باربار زبان پر آتا ہے: جس کے آوازے سے لذت گیر اب تک گوش ہے۹۳۲؎ وہ جرس کیا اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہے؟۹۲؎ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ۲۱؍اپریل کی صبح کو میں سویرے ہی اُٹھا اور حسب عادت جاوید منزل پہنچ گیا لیکن ابھی پھاٹک میں قدم رکھا تھا کہ راجا صاحب نظر آئے۔ ان کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں۔ میں سمجھا رات کی بے خوابی کا اثر ہے۔ میں ان کی طرف بڑھا اور کہنے لگا رات آپ کہاں تھے؟ آپ کا دیر تک انتظار رہا۔ وہ معلوم نہیں ہاتھ سے کیا اشارہ کرتے ہوئے ایک طرف چلے گئے۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو قرشی صاحب سرجھکائے ایک روش پر ٹہل رہے تھے۔ میں نے حضرت علامہ کی خیریت دریافت کی تو انھوں نے کچھ تامل کیا۔ پھر ایک دھیمی اور بھرائی ہوئی آواز میں ان کے منہ سے صرف اتنا نکلا: ’’فوت ہوگئے۔‘‘ میں ایک لحظے کے لیے سناٹے میں تھا۔ پھر دفعتاً حضرت علامہ کی خواب گاہ کی طرف بڑھا۔ پردہ ہٹا کر دیکھا تو ان کے فکر آلود چہرے پر ایک ہلکا سا تبسم اور سکون متانت کے آثار نمایاں تھے۔ معلوم ہوتا تھا وہ بہت گہری نیند سو رہے ہیں۔ میں پلنگ سے ہٹ کر فرش پر بیٹھ گیا۔ شاید وہاں کچھ اور حضرات بھی بیٹھے لیکن میں نے نہیں دیکھا۔ ہاں راجا صاحب کو دیکھا۔ وہ ان کی پائنتی کا سہارا لیے زار زار رو رہے تھے۔ ان کو دیکھ کر میں اپنے آنسوئوں کو ضبط نہ کرسکا اور بے قرار ہوکر کمرے سے باہر نکل گیا۔ اس اثنا میں حضرت علامہ کے انتقال کی خبر بجلی کی طرح شہر میں پھیل چکی تھی اب جاوید منزل میں ان کے عقیدت مندوں کا ہجوم تھا۔ یہ سانحہ کچھ اس قدر عجلت اور بے خبری میں پیش آیا تھا جو شخص آتا معتوب ہوکر کہتا: ’’کیا ڈاکٹر صاحب کیا علامہ اقبال فوت ہوگئے؟‘‘ گویا ان کے نزدیک یہ خبر ابھی غلط تھی۔ حالانکہ وہ گھڑی جو برحق ہے اور جس کا ایک دن ہر کسی کو سامنا کرنا ہے آپہنچی تھی۔ کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ۔ وَّ یَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ۔۹۳؎ جنازہ سہ پہر میں ۵ بجے کے قریب اُٹھا۔ جاوید منزل کے صحن اور کمروں میں خلقت کا اژدہام تھا۔ معلوم نہیں ان کے غم میں کس کس کی آنکھیں اشک بار ہوئیں اور میو روڈ سے شاہی مسجد تک کتنے انسان جنازے میں شریک تھے۔ ہم لوگ لاہور کی مختلف سڑکوں سے گزر رہے تھے۔ شہر میں ایک کہرام کا مچا ہوا تھا جدھر دیکھیے حضرت علامہ ہی کا ذکر تھا۔ جنازہ ابھی راستے میں تھا کہ اخباروں کے ضمیمے، قطعات اور مرثیے تقسیم ہونے لگے۔ دفعتاً خیال آیا کہ یہ اس شخص کی میت ہے جس کا دل و دماغ رفتہ رفتہ اسلام میں اس طرح کھو گیا کہ اس کی نگاہوں میں اور کوئی چیز جچتی ہی نہیں تھی اور جو مسلمانوں کی بے حسی اور اغیار کی چیرہ دستی کے باوجود یہ کہنے سے باز نہ رہ سکا: گرچہ رفت از دست ما تاج و نگیں۹۴؎ ماگدایاں را بچشم کم مبیں۹۴؎ معلوم نہیں ساحر افرنگ کی فریب کاریوں نے اسے کس کس راہ سے سمجھایا کہ ملت اسلامیہ کی نجات تہذیب نوی کی پرستش میں ہے مگر اس کے ایمان سے لبریز دل میں نبی اُمی ا کی محبت بے اختیار کہہ اُٹھی: در دل مسلم مقامِ مصطفی است۹۵؎ آبروئے ما ز نامِ مصطفی است۹۵؎ اس خیال کے آتے ہی میں نے سوچنا شروع کردیا کہ یہ جنازہ تو بے شک اقبال ہی کا ہے لیکن کیا اقبال کی موت ایک لحاظ سے ہندستان کے آخری مسلمان کی موت نہیں؟ اس لیے کہ وہ اسلام کا نقیب تھا، رازدار تھا اور اب کون ہے جو علامہ مرحوم کی مخصوص حیثیت میں ان کی جگہ لے۔ اللہ تعالیٰ انھیں مقاماتِ عالیہ سے سرفراز فرمائے اور ان کو اپنی رحمت اور مغفرت کے سائے میں پناہ دے۔ آمین، ثم آمین۔ ئ……ئ……ء حوالے اور حواشی ۱- حکیم فقیر محمد چشتی نظامی (۱۸۷۰ئ- ۱۹۳۷ئ) حکیم حاذق ہونے کے علاوہ اعلیٰ پائے کے خوش نویس تھے۔ اسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی کے اولین اڈیشن انھی کے اہتمام سے شائع ہوئے۔ ۲- ڈاکٹر بہجت وہبی: ترکی کے معروف سیاسی رہنما، کمال اتاترک کے عہد میں پیرس میں مقیم ہوگئے تھے۔ ۳- ڈاکٹر مختار احمد انصاری (۱۸۸۰ئ- ۱۹۳۶ئ) حکیم نابینا کے چھوٹے بھائی۔ تحریک خلافت کی قدآور شخصیت، سیاسی رہنما۔ ۴- ڈاکٹر ذاکر حسین (۱۸۸۹ئ- ۱۹۶۹ئ) ماہر تعلیم، ممتاز سیاست دان، ہندستان کے صدر رہے۔ معروف اقبال شناس اور روحِ اقبال کے مصنف ڈاکٹر یوسف حسین خاں کے بڑے بھائی۔ ۵- مکتوباتِ اقبال، ص۱۲۶-۱۲۷ ۶- نزول الما: موتیابند جس سے آنکھ کا عدسہ یا کیسا (Capsule) غیر شفاف ہوجاتا ہے۔ ۷- مکتوباتِ اقبال، ص۱۲۸ ۸- حکیم نابینا عبدالوہاب انصاری (۱۸۶۸ئ- ۱۹۴۱ئ) ڈاکٹر مختار انصاری کے بڑے بھائی ۱۹۱۷ء سے تا دم مرگ اقبال ان سے علاج کراتے رہے۔ ۹- حفیظ جالندھری (۱۹۰۰ئ- ۱۹۸۲ئ) اُردو کے معروف شاعر، شاہنامہ اسلام کے مصنف۔ ۱۰- اصل شعر اس طرح ہے: سخن اے ہم نشیں از من چہ خواہی کہ من با خویش دارم گفتگوئے (کلیاتِ اقبال فارسی، ص۲۲۳) ۱۱- مکتوباتِ اقبال، ص۱۳۲-۱۳۳ ۱۲- ایضاً، ص۱۳۳-۱۳۴ ۱۳- ایضاً، ص۱۳۵ ۱۴- ڈاکٹر بی ایم شرما صاحب ایم-ڈی-ایم-ایس (مصنف) ۱۵- مکتوباتِ اقبال، ص۱۳۸-۱۳۹ ۱۶- ایضاً، ص۱۴۱ ۱۷- ایضاً، ص۱۴۱ ۱۸- مکتوباتِ اقبال، ص۱۴۵ ۱۹- ایضاً، ص۱۴۷ ۲۰- روڈز لیکچرز- اقبال کو زمان و مکاں کے موضوع پر لیکچر دینا تھا لیکن بوجہ علالت اقبال یہ لیکچر مکمل نہ کرسکے اور نہ ہی جاسکے۔ ۲۱- مکتوباتِ اقبال، ص۱۵۲ ۲۲- ایضاً، ص۱۴۹ ۲۳- ایضاً، ص۱۵۶ ۲۴- ایضاً، ص۱۶۰ ۲۵- امیر شکیب ارسلان: مشہور دروزی رہنما، اتحادِ اسلامی اور اسلام کی نشاتِ ثانیہ کے بہت بڑے داعی۔ (مصنف) ۲۶- مکتوباتِ اقبال، ص۱۶۱ ۲۷- ایضاً، ص۱۶۲ ۲۸- یہاں دراصل عبارت ختم ہوجاتی ہے لیکن حضرت علامہ قلم روک نہ سکے۔ تھا کا اضافہ ہوگیا (نیازی) ۲۹- مکتوباتِ اقبال، ص۱۶۴ ۳۰- ایضاً، ص۱۶۶ ۳۱- ایضاً، ص۱۶۹ ۳۲- ایضاً، ص۱۷۰ ۳۳- ایضاً، ص۱۷۵ ۳۴- ایضاً، ص۱۸۳ ۳۵- ایضاً، ص۱۸۸ ۳۶- ایضاً، ص۱۹۵ ۳۷- ایضاً، ص۱۵۵ ۳۸- ایضاً، ص۱۶۷ ۳۹- ایضاً، ص۱۷۳ ۴۰- ایضاً، ص۱۸۷ ۴۱- ایضاً، ص۱۹۹ ۴۲- ایضاً، ص۲۰۹ ۴۳- ایضاً، ص۲۱۵-۲۱۶ ۴۴- شیخ عطا محمد (۱۸۵۹ئ- ۱۹۴۰ئ) اقبال کے بڑے بھائی۔ ۴۵- Anti-God Society علی گڑھ یونی ورسٹی میں اشتراکیوں کی قائم کردہ سوسائٹی جسے بعد میں کالعدم قرار دیا گیا اور اس کے کرتا دھرتا افراد کو یونی ورسٹی سے نکال دیا گیا۔ ۴۶- مکتوباتِ اقبال، ص۲۰۲ ۴۷- سر راس مسعود (۱۵؍فروری ۱۸۸۹ء - ۱۵؍اگست ۱۹۳۷ئ) سرسیّد کے پوتے، علی گڑھ میں وائس چانسلر رہے۔ اقبال کے گہرے دوست تھے۔ ۴۸- خالدہ ادیب خانم: ترکی کی ممتاز ادبی اور سیاسی شخصیت۔ ۱۹۳۵ء میں جامعہ ملیہ دہلی میں لیکچر دیے۔ ناول اور افسانہ نگار۔ ۴۹- مکتوباتِ اقبال، ص۲۵۰ ۵۰- ایضاً، ص۲۵۶ ۵۱- ایضاً، ص۲۶۰ ۵۲- ایضاً، ص۲۷۴ ۵۳- نواب حمید اللہ خاں (م۱۹۶۰ئ) بھوپال کے حکمران۔ اقبال کے عقیدت مند، اقبال کی لائف پنشن بھی مقرر کی۔ ۵۴- مکتوباتِ اقبال، ص۲۷۶-۲۷۷ ۵۵- ڈاکٹر جمعیت سنگھ۔ اقبال کے معالج۔ ۵۶- مکتوباتِ اقبال، ص۲۹۵ ۵۷- ایضاً، ص۲۹۹ ۵۸- ایضاً، ص۳۱۵ ۵۹- پس چہ باید کرد…، ص۵۱ ۶۰- حکیم محمد حسن قرشی (۱۸۹۶ئ- ۶؍دسمبر ۱۹۷۴ئ) دیکھیے ’’حکیم الامت‘‘کا حاشیہ نمبر۳ ۶۱- ایکرمان (۲۱؍ستمبر ۱۷۹۲ئ- ۳؍دسمبر ۱۸۵۴ئ) گوئٹے کا معتقد اور معاون۔ ایک طویل عرصہ گوئٹے کے ساتھ رہا۔ ۶۲- عہد نامہ عتیق یا پرانا عہد نامہ: بائبل کا قدیم تر حصہ یعنی حصۂ یہود۔ ۶۳- اناجیل…انجیل۔ ۶۴- ارمغانِ حجاز، ص۲۴ ۶۵- ارمغانِ حجاز، ص۲۳ ۶۶- ایضاً، ص۱۹ ۶۷- ارمغانِ حجاز، ص۳۰ ۶۸- یہ شعر، اقبال کے مدون کلام میں نہیں ہے۔ ۶۹- ڈاکٹر مظفر الدین (م۱۹۷۰ئ) جامعہ عثمانیہ کے مشہور استاد، پاکستان میں محکمہ صنعت کے ڈائریکٹر رہے۔ ۷۰- ڈاکٹر محمد یوسف (م۱۹۷۱ئ) ممتاز معالج، ماہر امراض قلب۔ ۷۱- ڈاکٹر کپتان الٰہی بخش (م۱۹۵۰ئ) کنگ ایڈورڈ میڈکل کالج، لاہور کے پرنسپل رہے۔ ۱۹۳۸ء میں اقبال کے معالج تھے۔ ۷۲- محمد اسد،علامہ (۱۹۰۰ئ- مارچ ۱۹۹۲ئ) نومسلم جرمن مفکر، پاکستان میں اسلامی دستور کے لیے قلمی کوششیں کیں۔ کئی کتابوں کے مصنف۔ ۷۳- ڈاکٹر زیلتسر: اقبال کے معالج تھے۔ ۷۴- رحما: اقبال کا ملازم۔ ۷۵- دیوان علی: اقبال کا ملازم۔ ۷۶- سیّد عابد علی عابد (۱۹۰۶ئ- ۱۹۷۱ئ) دیال سنگھ کالج، لاہور کے پرنسپل رہے۔ اُردو، فارسی، عربی اور سنسکرت کے ماہر تھے۔ تلمیحاتِ اقبال اور شعر اقبال ان کی اہم تصانیف ہیں۔ ۷۷- ارمغانِ حجاز، ص۱۴۶ ۷۸- بایزید بسطامی (م۸۷۷ئ) وحدت الوجودی صوفی، ان کی باقاعدہ تصنیف کوئی نہیں البتہ ۵۰۰ اقوال مرتب ہیں۔ ۷۹- سالک، عبدالمجید (۱۸۹۴ئ- ۱۹۵۹ئ) مختلف رسالوں کے اڈیٹر رہے، بعد ازاں زمیندار اور انقلاب سے وابستہ رہے۔ ان کی ذکرِ اقبال اقبالیات کی بنیادی کتب میں شامل ہے۔ ۸۰- مہر، غلام رسول (۱۸۸۵ئ- ۱۹۷۱ئ) محقق، ادیب، صحافی اور مؤرخ انقلاب کے اڈیٹر رہے۔ ۸۱- ارمغانِ حجاز، ص۶۶ ۸۲- شعر کا حوالہ نہیں مل سکا۔ ۸۳- ابو سعید خدری (م۷۴ھ) ایک صحابی۔ جنگ اُحد سمیت بارہ غزوات میں حصہ لیا۔ ایک بڑے فقیہ۔ ۸۴- ارمغانِ حجاز، ص۱۱۶ ۸۵- آخری خط- یہ خط ممنون حسن خاں کے نام ہے (دیکھیے: اقبال نامہ، حصہ اوّل ۲۳۵) ۸۶- ڈاکٹر یار محمد (۱۸۹۰ئ- ۱۹۶۸ئ) M.D کی ڈگری لینے والے اوّلین مسلمان، اقبال کے معالج۔ ۸۷- بیرن فان فلٹ ہائم: دیکھیے مضمون ’’حکیم الامت‘‘ کا حاشیہ نمبر۱۷ ۸۸- شلر (۲۲؍اگست ۱۸۷۴ئ- ۱۹؍مئی ۱۹۲۸ئ) جرمن مفکر۔ ۸۹- کرنل امر چند: لاہور کے مشہور ڈاکٹر۔ ۹۰- ڈاکٹر عبدالقیوم: اقبال کے قریبی عزیزوں میں سے تھے ان دنوں سرکاری ملازمت کے سلسلہ میں لاہور میں تعینات تھے۔ ۹۱- ارمغانِ حجاز، ص۱۲ ۹۲- یہ شعر مخزن اگست ۱۹۰۸ء میں درج ہے بعد میں اقبال نے ترمیم کی: اب بانگِ درا،ص۱۳۳ میں اس طرح درج ہے: غلغلوں سے جس کی لذت گیر اب تک گوش ہے کیا وہ تکبیر اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہے؟ ۹۳- سورہ الرحمن، آیت: ۲۶، ۲۷۔ ترجمہ: ہر چیز جو اس زمین پر ہے فنا ہو جانے و الی ہے۔ اور تیرے رب کی جلیل و کریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔ ۹۴- اسرار و رموز، ص۷۴ ۹۵- اسرار و رموز، ص۱۹ ز……ز……ز علامہ اقبال اور مولانا مودودی ۱۹۳۸ء میں حضرت علامہ اقبال کی وفات سے غالباً چند ہفتے پہلے چودھری نیاز علی صاحب۱؎ جاوید منزل (میو روڈ لاہور) تشریف لائے۔ علامہ محمد اسد۲؎ (سابق لیو پولڈویس) بھی ان کے ساتھ تھے۔ چودھری صاحب نے علامہ اقبال کی مزاج پرسی کے بعد عرض کیا کہ انھوں نے قلعہ جمال پور۳؎ میں ایک وقف ’’دارالاسلام‘‘ کے نام سے قائم کیا ہے تاکہ وہاں مسلمانوں کی اصلاح و تربیت اور دینی تعلیم کا انتظام کیا جائے ان کی خواہش تھی کہ حضرت علامہ اس کام میں ان کی رہنمائی فرمائیں اور جیسا ان کا مشورہ ہو اس کے مطابق بعض علمائے دین ’’دارالاسلام‘‘ آنے کی دعوت دی جائے۔ حضرت علامہ نے فرمایا کہ دینی مدارس کی تو کوئی نہیں، بہتر ہوگا چودھری صاحب اس وقف سے کوئی اور کام لیں۔ چودھری صاحب نے عرض کیا کہ آپ ہی فرمائیے اس وقف سے کیا کام لینا چاہیے۔ حضرت علامہ نے فرمایا: میرے نزدیک اس وقت مسلمانوں کی سب بڑی ضرورت فقہ اسلامی کی تشکیل جدید ہے۔ بحالت موجود ہم روز بروز اسلام سے دور ہٹ رہے ہیں اور اس کی وجہ ہیں وہ سیاسی و اجتماعی مسائل جنھوں نے موجودہ زمانے میں ایک خاص شکل اختیار کرلی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ علما ان مسائل کو سمجھیں اور حالات کو اسلامی شرائع کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔ اس پر سوال پیدا ہوا کہ اکابر علما کا تو ’’دارالاسلام‘‘ آنا محال نظر آتا ہے، وہ اپنے اپنے مراکز میں بیٹھے دینی خدمات سرانجام دیے رہے ہیں۔ حضرت علامہ نے کہا یہ ٹھیک ہے، مگر اس کے باوجود ملک میں ایسے پڑھے لکھے نوجوانوں کی کمی نہیں جن کے دل میں اسلام کا درد ہے اور جو مسائل حاضرہ سے بھی بخوبی واقفیت رکھتے ہیں، ان میں نئے اور پرانے تعلیم یافتہ سبھی شامل ہیں، ضرورت ان کی جمع کرنے کی ہے۔ پھر حضرت علامہ نے محمد اسد صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چودھری نیاز صاحب سے کہا: دیکھیے، یہ آپ کے سامنے بیٹھے ہیں، کیوں نہ یہ اس کام کو ہاتھ میں لیں؟ چودھری صاحب نے کہا کہ اسد صاحب ضرور اس کام میں میرا ہاتھ بٹائیں گے مگر اس کام کے لیے تو ایک جماعت کی ضرورت ہے! حضرت علامہ نے فرمایا: آپ ٹھیک کہتے ہیں، جہاں تک کچھ اور لوگوں کو جمع کرنے کا تعلق ہے۔ شاید میں کچھ نام تجویز کرسکوں۔ سردست ایک نام میرے ذہن میں آتا ہے۔ حیدرآباد سے ترجمان القرآن کے نام سے ایک بڑا اچھا رسالہ نکل رہا ہے۔ مودودی صاحب اس کے اڈیٹر ہیں۔ میں نے ان کے مضامین پڑھے ہیں۔ دین کے ساتھ ساتھ وہ مسائل حاضرہ پر بھی نظر رکھتے ہیں، ان کی کتاب الجہاد فی الاسلام مجھے بہت پسند آئی ہے، آپ نہ انھیں دارالاسلام آنے کی دعوت دیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ دعوت قبول کرلیں گے۔ اس پر سوال پیدا ہوا کہ مودودی صاحب کو ’’دارالاسلام‘‘ آنے کی دعوت کون دے۔ طے پایا کہ اس پوری گفتگو کے حوالے سے میں ان کی خدمت میں علامہ کی طرف سے ایک مفصل خط لکھوں اور دریافت کروں کہ وہ دکن سے دارالاسلام آسکتے ہیں یا نہیں؟ چنانچہ میں نے مودودوی صاحب کی خدمت میں مفصل خط لکھا، جس کے جواب میں انھوں نے دارالاسلام آنے پر آمادگی ظاہر فرمائی۔ مگر اس کے ساتھ اپنی بعض مجبوریوں اور ذمہ داریوں کا ذکر بھی کیا۔ جن کی تفصیل چودھری نیاز علی صاحب کو پہنچا دی گئی۔ کچھ دنوں بعد چودھری صاحب پھر لاہور تشریف لائے تو معلوم ہوا کہ انھوں نے مودودی صاحب کے دارالاسلام آنے کے لیے جملہ انتظامات کردیے ہیں۔ حضرت علامہ نے فرمایا: ’’یہ آپ نے اچھا کیا۔ کام کی ابتدا کردیجیے۔ جیسے جیسے کام بڑھے گا اور لوگ بھی اس میں شریک ہوجائیں گے۔‘‘ مودودی صاحب کا خط چونکہ میرے نام تھا لہٰذا چودھری صاحب کے ارشادات کے مطابق پھر میں نے انھیں مفصل خط لکھا۔ جس کے جواب میں انھوں نے فرمایا کہ میں رخت سفر باندھ چکا ہوں، چند ایک معاملات ہیں ان کے تصفیے کے بعد دارالاسلام آنے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہے گی۔ میں ایک طرح سے مودودی صاحب کی آمد کا منتظر تھا، کیونکہ میرا خیال تھا اور شاید انھوں نے اپنے خط میں اشارہ بھی کیا تھا کہ وہ اوّل لاہور آئیں گے پھر دارالاسلام کا رُخ کریں گے۔ لیکن ہوا یہ کہ مودودی صاحب حیدرآباد سے سیدھے دارالاسلام پہنچے، شاید ۱۸ یا ۱۹؍اپریل کو ہی۔ ۲۱؍اپریل کو حضرت علامہ کا انتقال ہوگیا اور مودودی کی یہ خواہش کہ ان سے مل کر پیش نظر کام کے بارے میں مفصل گفتگو کی جائے، پوری نہ ہوسکی۔۴؎ چنانچہ اگلے روز جو انھوں نے ایک طرح سے تعزیتی خط لکھا، اس میں اس امر پر دلی افسوس کا اظہار کیا۔ میرے خیال میں یہ سب باتیں مولانا مودودی کے ذہن میں ہوں گی اور وہ ان کی تصدیق فرمائیں گے۔ میری زیر طبع کتاب اقبال کے حضور میں میں یہ تمام واقعات بتفصیل درج ہیں۔ نیز اس تاریخی خط کتابت کا پورا ریکارڈ میرے پاس بحفاظت موجود ہے۔ (ایشیا لاہور، اقبال نمبر، ۱۷؍اپریل ۱۹۶۹ئ) حوالے اور حواشی ۱- چودھری نیاز علی خان (۱۸۸۰ئ- ۱۹۸۶ئ) پٹھان کوٹ کے اسسٹنٹ انجینئر، قلعہ جمال پور میں دارالاسلام کے نام سے اسلامی مرکز قائم کیا۔ پاکستان بننے کے بعد جوہر آباد میں رہایش اختیار کی اور وہیں فوت ہوئے۔ ۲- علامہ محمد اسد (۱۹۰۰ئ- ۱۹۹۲ئ) دیکھیے مضمون ’’اقبال کی آخری علالت‘‘ کا حاشیہ نمبر۷۲ ۳- قلعہ جمال پور: پٹھان کوٹ ضلع گورداس پور سے چند میل کے فاصلے پر ایک قصبہ، جہاں چودھری نیاز علی نے بعض احباب کے تعاون سے دارالاسلام کے نام سے اسلامی مرکز قائم کیا تھا۔ ۴- ان دنوں علامہ اقبال کی حالت تشویش ناک تھی اسی لیے نذیر نیازی نے مولانا مودودی کے نام ۱۸؍اپریل ۱۹۳۸ء کے خط میں لکھا کہ ’’ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ اگر آپ کا ارادہ فی الواقع لاہور آنے کا ہے تو جلدی تشریف لائیے تاکہ ملاقات ہوجائے۔‘‘ (اس خط کا عکس وثقائق مودودی مرتب: سلیم منصور خالد، ادارہ معارفِ اسلامیہ، لاہور ۱۹۸۴ء میں شامل ہے۔) مگر افسوس کہ یہ ملاقات نہ ہوسکی یہ خط دارالاسلام پہنچا تو اقبال، اس اثنا میں دنیاے فانی سے رخصت ہوچکے تھے۔ (زندہ رود، سوم ص۶۷۱) ز……ز……ز اقبال کا مطالعہ شاعری اظہار جذبات کا ذریعہ ہے اور وہ ان کی ترجمانی اپنے مخصوص انداز میں کرتی رہتی ہے۔ اسے یہ بحث نہیں کہ جذبات کا اثر حیاتِ انسانی پر کیا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ شاعرانہ طرزِ ادا کا نہ کوئی مقصد ہے نہ مصلحت۔ ہم اس پر کوئی روک عائد نہیں کرسکتے، بہ جز ان رکاوٹوں کے جو فن بہ تقاضائے فن خود اس کے لیے تجویز کرے۔ گویا نفسیاتی لحاظ سے دیکھا جائے تو جہاں کسی ہنگامی تاثر یا مستقل احساس کی بدولت وہ شرائط پوری ہوگئیں جن کا تعلق موزونی شعر سے ہے تو پھر کوئی چیز اس کی راہ میں حائل نہیں ہوگی۔ لیکن جس طرح ہر شعر کے خارجی پہلو یعنی صوری اعتبار سے حسن و خوبی کا دارومدار شاعر کے تخیل اور پیرایۂ بیان کی صلاحیتوں پر ہے، بعینہٖ اس کا مشمول یا زیادہ واضح الفاظ میں یوں کہیے کہ معنوی حیثیت بھی مختلف ہوگی، ایسی ہی مختلف جیسے اس کے محسوسات و مشاہدات۔ بعض اشعار سے وقتی حظ حاصل ہوتا ہے۔ بعض سے سکون و اطمینان کی ایک عارضی کیفیت۔ بعض وجدان صحیح کو چھیڑتے اور انسان کی توجہ ان حقائق کی طرف منعطف کردیتے ہیں جن کا ادراک غور و فکر ہی کے ذریعے ممکن تھا۔ لیکن بعض اشعار کی یہ صورت نہیں، برعکس اس کے ان سے جو نتائج مرتب ہوتے ہیں، اس قدر وسیع اور گوناگوں ہیں کہ ان کی اخلاقی اور عملی قدر و قیمت کا جائزہ لینا ضروری ہوجاتا ہے۔ تاریخ عالم میں ان مثالوں کی کمی نہیں جب ایک شاعر کی واردات نے اپنی شخصی نوعیت کے باوجود قوم کے دل و دماغ میں سرایت کرنا شروع کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کا مذاق زندگی بدل ڈالا۔ یہ تبدیلی مفید بھی ہوسکتی تھی اور مضر بھی۔ مفید اس وقت جب شاعر کی واردات ایک نئی اُمنگ اور ولولے کا باعث ہو اور مضر اس حالت میں جب یہی واردات نفی عمل اور ترک آرزو کا سبب بن جائے۔ یہاں یہ بحث لاحاصل ہوگی کہ ان تبدیلیوں کے حقیقی وجوہ کہاں تلاش کرنا چاہییں، شاعر کے اندرون ضمیر یا گردو پیش کے اثرات میں۔ اس لیے کہ ہمارے سامنے جو مسئلہ ہے وہ انسان اور اس کے ماحول یا فرد وجماعت کے ایک دوسرے سے ربط اور عمل و تعامل کا نہیں، ہمیں صرف اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ ایک فن کی حیثیت سے اگرچہ شاعری کادائرہ اصطلاحاً محدود ہے لیکن باعتبار اثر محدود نہیں۔ وہ زندگی کے عناصر میں اختلال پیدا کرتے ہوئے اس کے توازن کو درہم برہم کرسکتی ہے اور کرتی رہی۔ لہٰذا عقل و فکر کو بجاطور پر یہ حق پہنچتا ہے کہ شاعر کے رجحانات اور مزاج و طبیعت پر تنقید کی نظر ڈالے۔ وہ اس امر کو تسلیم نہیں کرسکتی کہ فن کے سامنے اس کی جمالی قدروں کے علاوہ اور کوئی قدر نہیں۔ یہ بات صرف اس صورت میں ممکن تھی جب زندگی کے ظاہراً انتشار اور کثرت کی تہ میں کوئی وحدت موجود نہ ہوتی اور ہم اس کے ایک جز کو دوسرے اجزا کے مقابلے میں بلاخوف نقصان نظر انداز کرسکتے۔ لیکن نہ زندگی نے کبھی ترک اور بیگانگی کی اس روش کو زیادہ عرصہ کے لیے برداشت کیا ہے نہ ایک صاحب فن کا یہ مطالبہ جائز قرار دیا جائے گا کہ اس کی تخلیقات کو محض فنی حیثیت سے دیکھا جائے۔ بے شک فن اپنے حدود میں آزاد ہے اور اس کے حسن و قبح کا فیصلہ فن ہی کے معیار سے کرنا چاہیے۔ باہیں ہمہ فنی آزادی اظہار ذات کی آزادی ہے، اظہارِ ذات کو مصالح حیات سے بے تعلق اور بالاتر سمجھنے کی آزادی نہیں۔ چنانچہ جب کبھی فن نے اس قسم کی آزادی حاصل کی وہ جماعت کے ساتھ ساتھ خود اپنے لیے بھی زوال و انحطاط کا موجب ہوا۔ اندریں حالات یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ شاعری کا حقیقی جوہر اگرچہ ان واردات کا منت پذیر ہے جن کی تربیت زندگی کے بطن اور آغوش میں ہو لیکن اس کی عظمت اور برتری کا انحصار اس امر پر کہ وہ اس کی پنہائیوں اور وسعتوں میں پھیل کر خود اپنی ہدایت اور رہنمائی کا وسیلہ تلاش کرے۔ اس صورت میں شاعری محض ادائے جذبات یا اظہارِ جمال پر قناعت نہیں کرتی بلکہ زندگی اور اس کے معانی کا ادراک پیدا کرتے ہوئے اپنے رنگ میں کوشش کرتی ہے کہ فلسفہ و مذہب کی طرح حیاتِ انسانی کے تمام پہلوئوں پر نظر رکھے اور اس کے مقصود و منتہا کی تعیین میں ایک جذباتی اساس بہم پہنچائے۔ یہ شاعری کا معراج کمال ہے جسے عارف رومی نے کبھی ’’جزویست از پیغمبری‘‘۱؎ سے تعبیر کیا تھا اور اقبال نے اپنی مخصوص اصطلاح میں ’’تنقید حیات‘‘۲؎ سے تعبیر کیا ہے، لیکن اس قسم کی شاعری کی مثالیں ایسی ہی شاذ اور کبھی کبھی وجود میں آتی ہیں، جیسے ادب اور فن کے مدارج عالیہ اور ان کے متعلق ایک بڑی غلط فہمی یہ پیدا کردی جاتی ہے کہ شاعری ہو یا ادب، فنون لطیفہ کا منصب بہرکیف اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہ وہ انسان کی زندگی میں حسن اور دل کشی پیدا کریں۔ لہٰذا شاعری سے غرض بھی ذوقِ جمال کی تسکین ہے، اسرارِ حیات کی گرہ کشائی یا مقصودمنتہا کی تحقیق نہیں۔ اس کے لیے مذہب ہے، فلسفہ ہے، علم و حکمت ہیں۔ ظاہراً یہ دلیل کس قدر مضبوط اور ناقابل تردید نظر آتی ہے کیونکہ جس شاعر کی نگاہیں احوال و کیفیات کی بجائے مسائل اور تصورات پر ہیں، جو اپنے اندرون وجود یا اس سے ماورا حسن و رعنائی کے مشاہدے سے لذت گیر نہیں ہوتا وہ اور سب کچھ ہے شاعر بہرحال نہیں، لیکن احوال وکیفیات سے لطف اندوزی یا حسن و زیبائی کی جستجو سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ اس میں ادراک و تعقل کی موجودگی سے انکار کردیا جائے۔ کیا یہ صحیح نہیں کہ انسان کی حیات ذہنی میں جس طرح حواس کا وظیفہ بیرونی عالم کا وقوف اور اس کی خبر حاصل کرنا ہے بعینہٖ احساس عبارت ہے اس چیز کی تلاش یا کشش سے جو صاحب احساس کے لیے تسکین و اطمینان کا باعث ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر یا فن کار جو روش اختیار کرتا ہے دانستہ یا نادانستہ کسی مقصود و مدعا کے زیر اثر کرتاہے۔ اس کی افتاد مزاج اور اندازِ طبیعت کا مطلب بھی صرف اس قدر ہے کہ وہ کسی حقیقت کے اثبات یا نفی پر مبنی ہو،یا زندگی کے بعض پہلوئوں پر اصرار اور بعض سے اغماض کا نتیجہ۔ ہم اس کے وقتی اثرات مثلاً افسوس، رنج، ناکامی، تشویش، اضطراب اور بشاشت و مسرت یا سکون و اطمینان غرضیکہ کسی حالت کے بارے میں بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ وہ شعور و آگہی کے دوسرے عناصر سے بے تعلق ہوگی۔ اس امر کو زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں سمجھیے کہ غایت اور ادراک وہ اجزا ہیں جن سے فن کا کوئی مظہر خالی نہیں یہ اس لیے کہ زندگی کا ہر عمل توجہ کا عمل ہے یعنی کسی ایسے مقصود یا موضوع پر مرکوز ہونے کا عمل جو فوری طور پر نظر کے سامنے ہو۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو فنی اختراعات کی حیثیت بھی علم و حکمت کی طرح یکساں ہوتی لیکن ان کا اختلاف اور تنوع بجائے خود اس امر کی دلیل کہ یہاں اظہارِ ذات یعنی شخصی اور ذاتی عنصر کے ساتھ ساتھ کوئی نہ کوئی جداگانہ طرزِعمل یا الگ اسلوب خیال کارفرما ہے۔ پھر یہ ہر صاحب فن کے ’’مابہ الامتیاز‘‘ یا مغربی اصطلاح میں موٹیف۳؎ کی تلاش ہذا خود فن کی تعریف اور حدود و مقاصد کی بحث ایک طرح سے زندگی ہی کی قدروں کی بحث ہے۔ پس شاعر ہو یا مقصود ان میں سے ہر کوئی شارح حیات ہے اور فن اس کی غلط یا صحیح اور کلی یا جزوی تعبیر۔ مثال کے طور پر جس شاعر کو سکون و عافیت کی تلاش ہے وہ لازماً اس امر کا خواہش مند ہوگا کہ زندگی کے شدائد اور کٹھن راستوں سے گریز کرے وہ اپنے تصورِ حیات اور مطمح نظر میں ان شعرا سے اساساً مختلف ہوگا جن کے خیالات اور مذاق سخن کی پرورش زندگی کی جدوجہد، آویزش اور تصادم میں ہوئی۔ جس طرح ’’فن محض‘‘ کا تخیل صرف اس شکل میں پورا ہوسکتا ہے کہ بیرونی مہیجات سے مسلسل اعراض اور غور و تفکر کی پیہم نفی کو رفتہ رفتہ اس حد تک بڑھایا جائے کہ ہم اپنی داخلیت کی ایک بے راہ اور بے نام دنیا میں کھو جائیں۔ ایسے ہی ایک دوسرا صاحب فن ان تمام اثرات کو لبیک کہتا ہوا آگے بڑھ سکتا ہے جو اس عالم کے مساعد و نامساعد یعنی جملہ تغیرات میں ایک فعال، باہوش اور جارحانہ زندگی سے مترتب ہوتے ہیں اور اس کے باوجود اپنے شعور کے ایک ایک جز کی حفاظت اور رعایت کے ساتھ ساتھ فن کے انتہائی تقاضوں کو پورا کرے۔ دراصل جوں جوں ایک صاحب فن اپنی حیات کے مرکز سے قریب ہوتا یعنی اس کی گہرائیوں میں ڈوبتا جائے گا اتنا ہی اس کا فن مؤثر اور دیرپا ثابت ہوگا۔ گویا یہ امر کہ فن کا اتصال جو زندگی ہی کا ایک پہلو ہے اس کے تمام مظاہر سے قائم رہے خود فن کے لیے مفید ہے بلکہ وسعت اور قوت کا باعث۔ وہ اس پر جمال و جلال کی نئی نئی راہیں کھولتا اور حسن و رعنائی کا ایک لازوال سرچشمہ ثابت ہوتا ہے۔ لہٰذا شاعر وہ ہے جو گوہر معانی کی تلاش اعماق حیات میں کرے۔ جس کا سینہ اسرارِ کائنات کے لیے کھلا اور جس کا اندیشہ ارض و سما کا دامن گیر ہے، جو اپنی ایک نگاہ سے اندرون وجود کو چیر ڈالے، ایسا شاعر ایک نعمت ہے۔ وہ بزمِ انسانی میں کبھی کبھی قدم رکھتا ہے لیکن اس کا آنا خود فن کی تکمیل اور حفظ و بقا کے لیے ضروی ہے۔ وہ اس کو رفعت و عزت اور پاکیزگی کا سبق دیتا اور اپنے اعجازِ کمال سے مجبور کرتا ہے کہ زندگی کی وسعتوں میں پھیل کر اس کی مصلحتوں کو سمجھے اور اپنی ذمہ داریوں سے آشنا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی شاعری مقتضیاتِ فطرت کی شیرازہ بند اور اس کے متضاد و متخالف عناصر میں ہم آہنگی پیدا کرتی ہے، وہ اظہارِ جذبات کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ ان کی تربیت اور رہنمائی کا ایک وسیلہ بھی ہے کیونکہ یہاں جزو کا ربط کل اور اصل کا فرع سے اس طرح قائم ہے کہ ان کے خوب و ناخوب اور مذموم و محمود میں آپ سے آپ ایک خط کھنچتا چلا جاتا ہے۔ وہ انسان کے ضمیر اور باطن میں اتر کر اس کے مقصود و مدعا کو پہنچانتی اور اس کی ترجمانی عقل و فرہنگ کی بجائے اپنے دل کی تڑپ اور حرارت سے کرتی ہے۔ اگر اس کے کلام میں فلسفہ و حکمت اخلاق و روحانیت سے مرتسم نظر آتے ہیں اور اخلاق و روحانیت حسن و دلبری سے تو یہ کرشمہ ہے محض اس کے ہمہ گیر تخیل کا، یا دوسرے لفظوں میں عظمت فن کی دلیل۔ اقبال ایسا ہی شاعر تھا اور ہم اس کا مقابلہ کسی رومی یا گوئٹے ہی سے کرسکتے ہیں۔ لیکن اقبال اور رومی میں ایک فرق ہے۔ رومی کی شاعری اقبال کے لیے وجدان و بصیرت کا سرچشمہ تھی، اس نے اقبال کو عشق و مستی سے روشناس کیا اور حقیقت و معرفت کی راہ دکھلائی۔ بے شک اقبال کے اجتہاد فکر اور ندرت تخیل سے انکار کرنا ناممکن ہے لیکن وہ اپنی واردات یعنی جہاں تک ان واردات کا تعلق اتصال وجود اور قرب ذات سے ہے رومی کا منت پذیر ہے۔ عارف روم اس کے مرشد ہیں، رہنما ہیں، ہر نازک مرحلے اور مشکل مقام پر دست گیری کرتے ہیں۔ بایں ہم اقبال کی شاعری میں وسعت ہے، تنوع ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ فلسفیانہ وضاحت کے ساتھ ساتھ رومی کی نسبت اسلام کا ایک بہمہ وجود مکمل اور جامع تصور ہے جس کے متعدد پہلو اگرچہ مولانا کے ذہن میں تھے اور وہ کہیں کہیں ان کی طرف نہایت برجستہ اور معنی خیز اشارے بھی کرجاتے ہیں مگر جن کی تفصیل کا شاید اس لیے موقع نہ تھا کہ انھوں نے اپنی توجہ بہ تقاضائے طبیعت یا بہ تقاضائے حالات اسلام کی مجرد اور باطنی تعبیر پر رکھی۔ اقبال نے ان پہلوئوں یا بالفاظِ دیگر اسلام کے روحانی مقاصد کو انسان کی اجتماعی اور ثقافتی ضروریات پر منطبق کرتے ہوئے اس کے علمی اور اخلاقی نصب العین کی تشریح ایک فلسفی کی حیثیت سے کی۔ بعینہٖ کچھ اس قسم کا فرق اقبال اور گوئٹے کے درمیان پایا جاتا ہے۔ دونوں ’’شاعر حیات‘‘ ہیں۔ لیکن ایک یعنی گوئٹے۴؎ جہاں انسان کے علوم شخصیت اور مدارج کمال کی انتہائی حدود تک پہنچ گیا اور یوں مذہب، فلسفہ، علم اور فن کی باریکیوں کو اس خوب سے سلجھایا کہ اس کے غیر معمولی ہنر اور عقل و فراست کی داد دینا پڑتی ہے، دوسرے یعنی اقبال نے مراتب ذات کا جلوہ اسلام کے فردِ کامل میں دیکھا اور اس طرح ان کے حصول و اتمام کا ایک مستقل اور یقینی راستہ تلاش کرلیا۔ گوئٹے کا ذوقِ نظر اس امر کا خواہاں تھا کہ ہم اپنی شرافت نفس اور بلندی کردار کے جوہر سے تہذیب و شایستگی کا ایک حسین اور خوش نما پیکر تیار کریں اقبال اور آگے بڑھتا اور اس پیکر سے ایک زندہ جاوید تمدن اور عالمگیر انسانیت کی بنیادیں اُٹھاتا ہے۔ وہ ان حقائق کا مفسر ہے جو افراد کے احساسِ خودی میں استحکام و تقویت اور ان کی حیات ملّی کے لیے تازگی اور تسلسل کا ذریعہ بنتے ہیں۔ لیکن ان مقاصد کی تکمیل چونکہ ایک محسوس و معین اور واضح شکل ہی میں ممکن تھی لہٰذا وہ اس تحریک کا نقیب اور علم بردار بن گیا جو بیک وقت ایک مذہب بھی ہے اور ثقافت بھی اور جس نے اخلاق و روحانیت کے اٹل اور غیر متبدل قوانین کے ساتھ ساتھ ہیئت اجتماعیہ کا ایک ایسا نظام پیش کیا جو حقیقت و واقعیت سے اتصال پیدا کرتا ہوا ہر لحظہ ترقی کی طرف بڑھتا ہے،یعنی اسلام۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو لامحالہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اقبال کی حیثیت شعرائے عالم میں یکتا اور بے نظیر ہے۔ اندریں حالات اس امر کا فیصلہ نہایت ضروری ہے کہ اقبال ایسے جامع حیثیات اور بدیع الخیال شاعر کا مطالعہ کس نہج پر کیا جائے، کیا ہم اس کی ابتدا ہندستان سے کریں؟ ہمارا مطلب ہے اُردو زبان کی جدید شاعری سے؟ لیکن یہ ابتدا غلط ہی نہیں بلکہ ایک حد تک گمراہ کن اور بے نتیجہ ثابت ہوگی، کیونکہ جدید اُردو شاعری کے حق میں کچھ بھی کہا جائے یا اقبال کو اس سے کیسا بھی تعلق کیوں نہ ہو وہ اپنی حقیقی عظمت کے لیے کسی اور ہی سرچشمے کا محتاج ہے جس کی توضیح نہ ان اثرات کے حوالے سے کی جاسکتی ہے جو تہذیب جدید کی بدولت عالم اسلام میں مترتب ہوئے نہ مغربی تعلیم کے شیوع و فروغ سے۔ یہ امور اپنی جگہ پر ضروری ہیں اور اثنائے بحث میں ان کا ذکر بھی آسکتا ہے لیکن ایسا نہیں کہ وہ اس کی تمہید اور اساس کا حق ادا کریں۔ شعرا کی قدر و قیمت اور مرتبہ و محل کی تعیین کا ایک دوسرا اور بظاہر نہایت عالمانہ طریق یہ بھی ہے کہ ان کے کلا م میں جو جو باتیں مشترک یا مختلف نظر آئیں ان کی تفصیل بیان کردی اور پھر محض اپنی پسند کی بنا پر کوئی مخالف یا موافق فیصلہ صادر کردیا۔ لیکن جب تک کسی شاعر کی صحیح حیثیت معلوم نہیں ہوجاتی اس قسم کے مقابلے کی صورت ہی کیا ہے؟ ممکن ہے ان کا اشتراک سطحی ہو یا تنقید نگار کا نقطۂ نظر اشتراک کو اختلاف اور اختلاف کو اشتراک سے بدل دے۔ یوں کہنے کو ایک بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے شاعر کے درمیان بھی کوئی نہ کوئی پہلو مشابہت کا ضرور نکل آئے گا یہاں تک کہ اگر اس کے سوا باقی تمام امور کو نظر انداز کردیا جائے تو ان میں فرق مدارج کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا پھر یہ امر کہ کسی شاعر کا ایک پہلو دوسرے کی نسبت زیادہ نمایاں ہے یا کم بجائے خود کوئی اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ بہت ممکن ہے ان کی شاعری کا انداز ہی ایسا ہو کہ جو بات ایک کے لیے ضروری ہے دوسرے کے لیے غیر ضروری۔ بعینہٖ جب کسی شاعر کی خوبی یا محاسن کی شرح اس طرح کی جاتی ہے کہ شعراے عالم کے خیالی یا حقیقی خصائص کی ایک فہرست تیار کرتے ہوئے یکے بعد دیگرے ان کے نام گنوا دیے جائیں اور کہا جائے کہ شاعر مذکور میں یہ وصف بھی پایا جاتا ہے اور وہ بھی تو اس سے کوئی مطلب حل نہیں ہوتا بلکہ اکثر یہ موازنہ ایک پردہ ہوگا خالی خولی عبارت آرائی اور اخفائے جہالت کا۔ دراصل ہر صاحب کمال… شاعر ہو یا کوئی اور… ایک جداگانہ شخصیت کا مالک ہے اور شخصیتوں کا اندازہ ان کے باہمدگر موازنوں یا مماثلتوں سے نہیں کیا جاتا بلکہ اس طرح کہ ہم ان کے محسوس و مدرکات یعنی ذاتی و ارادت میں حصہ لیں۔ بے شک آپ اہل کمال کے ایک ایک کارنامے اور ایک ایک صفت کو الفاظ میں بیان کرسکتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ نے ان کی شخصیت کے حقیقی عنصر کا ادراک بھی کرلیا ہے۔ اس کے لیے تخیل کی ضرورت ہے یا بالفاظ دیگر زور احساس ہے نہ کہ علمی تحلیل و تجزیے کی۔ لہٰذا جو تنقید نگار اس امر کی کوشش کرتا ہے کہ اقبال کا مطالعہ محض اس قسم کے مقابلوں اور موازنوں سے کرے وہ اپنے مقصد میں ویسا ہی ناکام رہے گا جس طرح اس کے پیشرو غالب اور حالی کے درجہ شاعری یا حقیقی شخصیت کے فہم میں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اقبال کا مطالعہ فنی امور کی بحث یا افکار و خیالات کے تجزیے سے بالاتر ہے۔ شاعری ایک فن ہے اور فن کا تقاضا ہے کہ اس کے اصول و قواعد کی متابعت نہایت پابندی سے کی جائے۔ لہٰذا اقبال کے محاسن شعر یا کمالِ فن کی تشریح بھی فن ہی کے نقطۂ نظر سے کی جائے گی، یعنی اس کے جملہ خصائص اور لوازم کا خیال رکھتے ہوئے آپ اس کی زبان… اُردو اور فارسی… سے بحث کریں گے، اسلوب اور طرزِ ادا پر نظر ڈالیں گے۔ شعر و سخن کی مختلف صنعتیں ایک ایک کرکے آپ کے سامنے ہوں گی۔ ممکن ہے آپ اقبال کی شاعری میں تشبیہات و استعارات کا مطالعہ کریں، تلمیحات و کنایات و محاکات و تخیل کا جائزہ لیں، فصاحت و بلاغت کا رنگ دیکھیں۔ الفاظ کے حسن، تراکیب کی خوبی یا مضمون آرائی اور مضمون آفرینی کا ذکر چھیڑیں۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ پر واضح اور معین ہیں اور ان کے متعلق کسی تفصیل کی ضرورت نہیں۔ آپ کو حق ہے کہ ایک صاحب فن کی حیثیت سے اقبال کا درجہ شعراے اُردو یا شعراے عالم میں متعین کریں اور دیکھیں کہ وہ کس طرزِ خاص کا موجد ہے اس نے اصنافِ سخن میں کوئی اجتہاد اور اضافہ کیا؟ ہمارا کہنا صرف یہ ہے کہ اگر اس موضوع کو شاعر کی واردات سے بے تعلق ہوکر دیکھا گیا تو اس کی ساری اہمیت جاتی رہے گی۔ مثال کے طور پر اقبال کے کلام میں فلسفیانہ مضامین کی کثرت ہے اور وہ اپنی نظموں تو کیا غزلوں میں بھی مصطلحات علم کا استعمال بلاتکلف کرجاتا ہے۔ اس کے اشارات نہایت پر معنی اور تلمیحات کی دنیا بہت وسیع ہے لیکن یہی امر جس کی تعریف میں نقادان فن کا ایک طبقہ رطب اللسان ہے گروہ مخالف کو پسند نہیں آتی۔ ان کی رائے میں شاعری عبارت ہے حسن و شباب کی آئینہ داری یا جمالِ فطرت کی نقاشی سے۔ وہ زندگی میں لطافت اور تفریح و تفنن یا خوبی اور دلکشی کا احساس پیدا کرتی ہے، یہ نہیں کہ مسائل حکمت کی تفسیر یا اخلاق و روحانیت کا سبق دے۔ انھیں اقبال کے ٹھوس حقائق ناگوار اور دعوت عمل گراں گزرتی ہے۔ وہ ان باتوں کو شعریت سے بعید اور فن کے منافی قرار دیتے ہیں مگر جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے عرض کردیا تھا یہ تنقید بجائے خود نتیجہ ہے ایک مخصوص اندازِ طبیعت بلکہ تصورِ حیات کا لہٰذا اس طبقے کی رائے ایسی ہی یک طرفہ اور ناقابل اعتنا ہے جیسے ان کی یہ کوشش کہ شاعری کی وسعت اور آزادی کو چند مقررہ خیالات سے آگے نہ بڑھنے دیں۔ اگر ایک شاعر کا دل جذبات عالیہ سے محروم ہے یا اسے غور و تفکر اور علم و فضل سے کوئی بہرہ نہیں ملا۔ وہ زندگی کی تڑپ سے ناآشنا اور اس کی قوتوں سے بے خبر بے دلی اور بے ہمتی کو عزم و استقلال پر ترجیح دیتا ہے۔ اگر اس نے انسان کی کشاکش حیات، اس کے جماعتی عزائم اور مقاصد بہمہ پر کوئی نظر نہیں ڈالی بلکہ اپنی ہی ذات کے تنگ اور محدود حلقے میں کسی بے نام اُمنگ، فریب و واہمہ یا عقیم الخیالی کا شکار رہا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ان باتوں کو شاعری کی اساس اور معیار تنقید قرار دیں۔ شاعری جیسا کہ ہم نے ابتدا میں اشارہ کر دیا تھا محض ایک ذریعہ ہے اظہار مدعا کا اور یہ ذریعہ ہر اس شخص کے لیے کھلا ہے جو اس طرزِ ادا پر قادر ہو۔ گویا فنی اعتبار سے شاعری کا تعلق نفس مضمون سے نہیں، ادائے مضمون سے ہے اس میں خودشناس اور خود آگاہی کی تلقین کا بھی ایسا ہی موقع ہے جیسا خود فراموشی اور اور خود رفتگی کا۔ شاعر وہ بھی ہے جو ادراک حقیقت سے خائف اور نفی ذات کی تعلیم دیتا ہے اور وہ بھی جو حقیقت کا جویا اور حفظ ذات کا آرزومند ہو۔ بایں ہمہ اس امر کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ شاعری کی فنی حیثیت یعنی صرف اس کے صوری لوازم کو شاعری قرار دینا غلط ہوگا۔ اس لیے کہ نہ کوئی صورت معنی سے خالی ہوسکتی ہے اور نہ کوئی معنی صورت سے آزاد۔ چنانچہ اگر کہیں فن کی انتہا محض ’’صورت‘‘ میں ممکن بھی ہے تو یہاں جو اثر ذہن انسانی پر مترتب ہوگا وہی اس کا معنی ہے۔ حاصل کلام یہ کہ شاعری کا عین الکمال ہے صورت اور معنی کا امتزاج، یعنی اس کے صوری محاسن اور دلکشی کے ساتھ ساتھ معنی کا ترفع اور تکیل کی بلندی۔ جس قدر شاعر کی نگاہ عالی اور واردات کا مرتبہ اونچا ہوگا اتنی ہی رفعت اور برتری خود شاعری میں پیدا ہوجائے گی۔ برعکس اس کے اگر اس کی معنوی حیثیت کم تر اور نقطۂ نظر محدود ہے یا ہوس اور خام کاری سے آگے نہیں بڑھا تو وہ اپنے کمالِ صنعت اور ظاہراً خوبیوں کے باوجود زندگی اور تازگی سے ہٹ کر زوال و پستی میں گر جائے گی۔ لہٰذا اقبال کے اسلوب کلام، زبان و محاورہ یا طرزِ ادا اور اس قسم کے دوسرے فنی سوالات کی بحث میں یہ دیکھنا لازم آئے گا کہ اقبال کا موضوع سخن کیا تھا؟ بالفاظ دیگر وہ کیا خیالات اور کیا جذبات تھے جن کا اظہار اس مخصوص پیرایۂ بیان میں ہوا۔ دراصل معنی کو لفظ سے وہی ربط ہے جو روح کو جسم سے۔ جس طرح ہر روح کو جستجو رہتی ہے کہ اپنے لیے ایک جداگانہ پیکر تلاش کرے، بعینہٖ ہر مضمون اپنی شکل اور ہیئت، الفاظ، تراکیب، اسلوب وغیرہ اپنے ساتھ لے کر آتا ہے۔ گویا نفسیاتی لحاظ سے دیکھا جائے تو شاعر کے دل میں جو کچھ ہوتا ہے، ایک وحدت کی شکل میں ہوتا ہے۔ اس کا معنی اس کی شکل میں مستتر اور شکل، الفاظ میں عیاں۔ ممکن ہے یہاں پہنچ کر سوال کیا جائے کہ اگر فن اور بالخصوص شاعری کا دامن قید مضمون سے آزاد ہے اور وہ انسان کے ابتدائی اور اساسی جذبات سے لے کر اس کے بڑے سے بڑے تخیل اور نصب العین کی ترجمانی کرسکتی ہے تو ہمارے لیے یہ کیونکر ممکن ہوگا کہ شاعری اور فلسفہ یا شاعری اور علم و حکمت (یا اخلاق و مذہب) کے درمیان ایک خط فاصل کھینچ سکیں۔ اس کا جواب نہایت آسان ہے اور وہ یہ کہ اپنے ذوقِ سخن اور مہارت فن کی بنا پر۔ جس طرح لفاظی اور عبارت آرائی یا محض قافیوں کا الٹ پھیر اور صنائع بدائع کے موقع بے موقع استعمال سے اس امر کی تائید نہیں ہوتی کہ شاعری کے صوری لوازم یعنی اس کا فنی پہلو مکمل ہوگیا، بعینہٖ اگر ایک شاعر نے محض اپنی طبیعت پر زور دیتے ہوئے چند علمی تصورات کو نظم کردیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اس پر فی الواقع شاعری کا اطلاق کرسکتے ہیں یا اس قسم کی قافیہ آرائی کو لفظاً و معناً بلند قرار دے دیا جائے گا۔ یاد رکھنا چاہیے کہ مذہب، فلسفہ اور علوم و فنون یا ان کے مختلف پہلوئوں اور شاخوں میں جو تفریق پیدا کی جاتی ہے سہولت مطالعہ کی غرض سے کی جاتی ہے۔ اس کی حیثیت مصنوعی ہے اور محض ان منطقی تجریدات کی مرہونِ منت جس سے اس کی وحدت کثرت میں متبدل ہوکر الگ الگ شکلیں اور جداگانہ حدود اختیار کرلیتی ہے۔ لیکن اندرون شعور میں ان سب کے اجزاے ترکیبی نہ ایک دوسرے سے منقطع ہیں نہ متصل برعکس جس کے مخلوط و مربوط یعنی ایک ناقابل تقسیم ’’کل‘‘ جس کا کبھی ایک پہلو ہمارے سامنے ہوگا کبھی دوسرا، لیکن جن کے باہم دگر روابط میں بایں ہمہ کوئی فرق نہیں آتا بسا اوقات وہ ہماری واردات کے کسی ایک گوشے میں اس طرح در آتے ہیں کہ ان کی نمایاں حیثیتوں میں امتیاز کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اگر ان موقعوں پر ادراک و تفکر کا رنگ نہایت گہرا ہے تو ویسی ہی شدت احساس و تاثر میں ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان واردات کو شاعری کی زبان میں ادا کیا جاتا ہے تو اس میں فلسفہ و حکمت کی ترجمانی از خود ہوتی رہتی ہے کسی تکلف یا تصنع کی بنا پر نہیں بلکہ وجداناً اور ایک حقیقت کے طور پر۔ البتہ یہاں ایک غلط فہمی کا احتمال ہے اور وہ یہ کہ جہاں کہیں افکار کی آمیزش جذبات اور مشاہدے کی وجدان سے ہوگی لازماً شعر ہی کے پیرائے میں ہوگی۔ شاعری نام ہے حقائق سے براہِ راست اور شخصی تعلق یا زیادہ مناسب لفظوں میں یوں کہیے کہ ’احوال و کیفیات‘ کی جمالی تعبیر کا، وہ ان کی موجودگی کو ’’تجربتاً‘‘ محسوس کرتی اور ایک ایک پہلو سے لطف اندوز ہوتی ہے، گویا شاعری اور فلسفہ کا امتزاج علم و فن کا بے جوڑ اور بے ربط امتزاج نہیں جس میں تصورات کے مردہ اور بے حس و حرکت اجساد کو ردیف و قوانی کا لباس پہنایا جاتا ہے۔ یہ الفاظ و اسما سے آگے بڑھتے ہوئے جہان معنی میں قدم رکھنا اور اس کا مشاہدہ خود اپنی فطرت کے نور اور دل کی روشنی سے کرنا ہے۔ جب شاعر کا گزر اس مقام سے ہوتا ہے تو کائنات اپنا سینہ کھول دیتی ہے اور وہ اس کے اسرار و رموز کو آشکارا اور واشگاف کرسکتا ہے۔ لہٰذا یہاں اس حقیقت کا مکرر اظہار بے جا نہ ہوگا کہ ایک فن کی حیثیت سے اگرچہ شاعری کا منصب ادائے مطلب سے زیادہ نہیں، لیکن اس کی وسعت و عظمت اور خوبی کا انحصار مطالب کی وسعت اور عظمت پر ہے کیوںکہ جس قدر بلندی اس کے مشمول میں ہوگی اتنا ہی اضافہ خود شاعری کے مراتب، تاثیر اور قوت میں ہوتا جائے گا۔ وہ اس کی زندگی کا سہارا اور حسن و زیبایش کی جان ہے۔ دوسری جانب اگر اس کو دردِ کائنات سے کوئی بہرہ نہیں ملا یا اس نے نبض ہستی کی تپش محسوس نہیں کی تو اس کا شعلہ حیات سوز سے خالی اور رفتہ رفتہ بالکل افسردہ ہوجائے گا۔ بہرکیف اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اقبال کا موضوع سخن اور افکار و جذبات کا حاصل کیا ہے؟ انسان، خودی، حیات یا ایک دوسرے اور جداگانہ زاویۂ نظر سے دیکھا جائے تو اسلام؟ اس کا جواب ہے ان میں سے کوئی ایک یا سب کیونکہ اقبال کے نزدیک انسان اور خودی یا زندگی اور مذہب کا اختلاف ایک ہی حقیقت کے مختلف پہلوئوں، بلکہ صرف اندازِ گفتگو کا اختلاف ہے۔ حیات خودی سے ہے، انسان اس کا حامل اور اسلام تقویم و ضابطہ حیات۔ بایں ہمہ ان تصورات کا صحیح مفہوم ذہن نشین کرلینا چاہیے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ حیاتِ خودی سے ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ شعور ذات کا وہ احساس جسے ’’انا‘‘ یا ’’میں‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور جس نے ہر کہیں ’’خود‘‘ اور ’’غیر خود‘‘ کی تفریق پیدا کرتے ہوئے اپنی الگ اور جداگانہ ہستی قائم کررکھی ہے فریب و واہمہ نہیں۔ برعکس اس کے حقیقی اور واقعی یعنی اصل وجود محض خودی ہے، باقی سب اس کے اعتبارات، لہٰذا حیات کا ہر مظہر خودی ہی کا ایک مظہر ہے اور وہ (حیات) خود ایک اصول وحدت، ایک ترکیبی اور تعمیری عمل جس کا ایک مرکز اور محور ہے اور جو اپنے فرائض اور وظائف کی طرح اپنے اصول و قواعد اور حدود و اختیارات ساتھ لے کر آتی ہے۔ جب ان گوناگوں سرگرمیوں اور اعمال و افعال کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم حیات کی غرض و غایت کو سمجھتے اور ان کا انطباق خود اپنی یا بالفاظِ دیگر ذاتِ انسانی پر کرتے ہیں تو ذہناً ان قوانین سے آشنا ہوتے ہیں جو زندگی اور کٹھن راستے میں ہدایت و راہنمائی کا واحد ذریعہ ہیں اور جن کا بہترین اظہار اسلام اور صرف اسلام میں ہوا۔ گویا اقبال کی شاعرانہ عظمت کو سمجھنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے فلسفہ کی خشک اور سنگلاخ زمین میں قدم رکھنا پڑے گا۔ اقبال کے فلسفیانہ تصورات کیا ہیں؟ یہ تصورات ایک باقاعدہ اور مرتب مشکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں یا ان کی حیثیت محض جزئی اور انفرادی ہے؟ اقبال کے غور و تفکر کا مرکزی نقطہ کیا ہے؟ ان سوالات کی تحقیق اگرچہ اپنی جگہ پر ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بعض دوسرے مسائل بھی ہمارے سامنے آتے جائیں گے مثلاً یہ کہ اقبال کے خیالات کا سرچشمہ کیا ہے اور دنیائے فلسفہ میں… تاریخی اور واقعی دونوں پہلوئوں سے… ان کی اہمیت کیا ہے؟ لیکن جہاں تک اس مضمون کا تعلق ہے خارج از بحث ہے، بایں ہمہ اقبال کی شاعری کے ذہنی اور عقلی پس منظر کا تقاضا ہے کہ اس کے ایک خاص پہلو کی وضاحت کسی قدر تفصیل کے ساتھ کردی جائے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اقبال کے غور و تفکر کا مرکزی نقطہ خودی کا تصور ہے۔ سوال یہ نہیں کہ اقبال نے اس اصطلاح کو کن معنوں میں استعمال کیا یا اس کی تحقیق و تعین میں کس نہج پر قدم اُٹھایا؟ وہ اس کا اثبات کرتا ہے تو کن دلائل سے اور اس میں اس کی منطق کہاں تک کامیاب ہے۔ یہ مباحث بجائے خود نہایت ضروری ہیں اور ان کے بغیر نہ ہمیں اقبال کی فلسفیانہ عظمت کا اندازہ ہوسکتا ہے نہ اس مسئلے کا جو سردست ہمارے سامنے ہے اور وہ یہ کہ اقبال کے تصورِ خودی کا اظہار محض ایک فلسفیانہ بصیرت اور وجدان کے رنگ میں ہوتا ہے یا وہ ایک باقاعدہ اور مکمل نظریہ ہے، انسان اور کائنات کا۔ سوال یہ ہے کہ اگر اس تصور سے ایک پورا نظامِ فکر یا جیسا کہ ابھی ہم نے عرض کیا تھا کہ زندگی کا ایک واضح اور جامع نظریہ تیار ہوسکتا ہے تو اس کی وسعت اور تفصیلات و جزئیات کیا ہیں؟ یہ کیسے معلوم ہوا کہ خودی ایک حقیقت ہے؟ اس کی ماہیت و نوعیت کیا ہے، وہ مخلوق ہے یا غیر مخلوق، اگر مخلوق تو اس کے استحکام اور حفظ و بقا کے ذرائع کیا ہیں، اسے خالق سے کیا تعلق ہے اور غیر ذات سے کیا، انسان کی زندگی میں اس کا تمام و کمال اظہار کیوں کر ہوتا ہے؟ اقبال کے غور و تدبر کا یہ ایک بہت بڑا کارنامہ ہے کہ اس نے خودی کی اساس پر ایک جدید مذہب فلسفہ کا آغاز کرتے ہوئے الٰہیات اسلامیہ کی تجدید اور بہ حالات موجودہ اس کے عمرانی حقائق کی از سر نو تعبیر کی۔ وہ ایک ایسا نظریہ حیات پیش کرتاہے جس میں اخلاق اور مذہب کو نہایت خوبی سے سمویا گیا۔ حیات کی اصل خودی سے ہے ایک انفرادیت جو اور مرکوز بالذات حقیقت جس کا تعقل ہم اپنے داخلی محسوسات و مدرکات یعنی اندرون وجود میں کرتے ہیں۔وہ مخلوق ہے کیوں کہ اس کا ایک نقطۂ آغاز ہے مگر اس میں بقائے دوام کی صلاحیتیں مضمر ہیں۔ اس کی زندگی عمل اور جدوجہد سے ہے۔ وہ غیر خود سے ٹکراتی اور گرد و پیش کی تسخیر سے اپنے ارتقا اور نشوونما کا سامان پیدا کرتی ہے۔ اگر اس کو عمل سے روک دیا جائے تو رفتہ رفتہ ضعیف ہوکر بالآخر مردہ ہوجائے گی۔ عمل آرزوئوں اور مقاصد سے پیدا ہوتا ہے اور اس کے لیے ایک نصب العین کی موجودگی شرط۔ لیکن خودی کی نمود محض طاقت کی نمود یا بے رہ روی سے نہیں بلکہ ایک قانون کی متابعت اور دستور کی پابندی سے۔ وہ اپنی تربیت کے لیے ہدایت و رہنمائی کی محتاج ہے اور تکمیل و استحکام کے لیے عشق اور فقر کی۔ اس کا کمال یہ ہے کہ نیابت الٰہیہ کے منصب پر فائز ہو اور اخلاق خداوندی میں حصہ لیتے ہوئے لازوال بن جائے۔ یوں اقبال نے زندگی کا ایک سراپا قوت، سراپاامید اور سراپا مذہبی اور اخلاقی تصور پیش کیا۔ اسلام کائنات کی فطرت ہے اور کائنات سنت الٰہیہ۔ حقیقت مطلقہ بھی خودی ہے ہمارے پاس وقت نہیں کہ اقبال کے اس تصور سے وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کے صوفیانہ عقائد کی نسبت انسان، کائنات اور ذات باری تعالیٰ کا عقلاً اور مذہباً جو بہتر اور برتر نظریہ قائم ہوجاتا ہے اس کی تفصیل بیان کریں، یا یہ کہ خودی کے مجرد اثبات اور مجرد انکار سے اخلاقاً کیسے کیسے مضمر اور قبیح نتائج مترتب ہوسکتے ہیں۔ اقبال کے تصورِ خودی کی فلسفیانہ اہمیت اور عملی قدروقیمت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب ہم اس کا مطالعہ تاریخ فلسفہ کی روشنی میں یا اسلامی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے کریں۔ نہ اسلام سے پہلے خودی کی حقیقت پر عقلی حیثیت سے کوئی بحث کی گئی اور نہ حکما و صوفیائے اسلام کی طرح اس مسئلے کی تحقیق اور فہم کی ضرورت کا کہیں احساس پیدا ہوا۔ جدید فلسفہ میں بے شک اس خیال کا اظہار بڑے جوش و خروش سے ہوتا ہے اور فلاسفہ یورپ میں سے بعض نے اس کے مختلف عناصر کو نہایت خوبی سے نمایاں کیا۔ مگر اقبال کے یہاں نظریہ خودی کی حیثیت علم و حکمت کے ایک منفرد اور جداگانہ تصور کی نہیں۔ وہ اس کو حیات انسانی کے تمام پہلوئوں تک بلاشائبہ تضاد وسعت دیتے ہوئے ایک نظام فکر کی صورت میں پیش کرتا ہے۔ گویا اقبال کی حیثیت ایک مستقل فلسفی کی ہے جس کے اجتہادات عقل اور گہرے غور و تدبر نے مشرق و مغرب کی تہذیبی روایات اور عصر حاضر کے مختلف رجحانات کے لیے ایک نقطۂ اتصال کا کام دیا، لیکن اقبال کی جودت طبع اور کمال تفکر کی بحث یہیں ختم نہیں ہوجاتی اس کا اظہار کئی ایک مسائل میں ہوتا ہے جن میں سے بعض کی نوعیت خالصتاً فلسفیانہ ہے مثلاً مکان و زمان کے تصورات اور بعض کی دینی اور عمرانی اور جن کی طرف اب ہمیں توجہ کرنا ہے تاکہ اقبال کی شاعری کا ایک دوسرا اور نہایت ضروری پہلو ہمارے سامنے آسکے۔ ہمارا مطلب الٰہیات اسلامی کی تجدید یا بالفاظ دیگر اقبال کے جوش ایمان اور پختگیِ یقین سے۔ فلسفے کی بارگاہ میں کلام یا الٰہیات کچھ معتوب سے الفاظ ہیں۔ اعتراض یہ ہے عقل اور مذہب کے حدود الگ الگ ہیں۔ ان میں مفاہمت پیدا کرنا گویا عقل کو مذہب یا مذہب کو عقل کا تابع ٹھہرانا ہے اور یہ امر دونوں کے لیے مضر ہوگا جیسا کہ تاریخ فلسفہ سے پتہ چلتا ہے کہ جن حضرات نے عقل اور مذہب کی تطبیق کا بیڑا اُٹھایا ان کی یعنی الٰہیں اور متکلمین کی نگاہیں محسوسات و مدرکات کی سطح پر رہیں۔ ان کا انحصار زیادہ تر منطق پر تھا اور یہ منطق اکثر اور بیشتر ناقص ٹھہرتی، کچھ اس لیے کہ اس کے ایک حصے کا تعلق جن مظاہر سے ہے… علوم و فنون کے مظاہر جن کے لیے تجربہ و تحقیق شرط ہے اور جن کا علم نہ اذعانی ہے نہ قطعی بلکہ اضافہ و ترقی پذیر… متکلمین کو ان سے بہت تھوڑی اور دور کی واقفیت تھی اور کچھ اس لیے کہ ہمارے محکم سے محکم استدلال میں بھی غلط کا امکان ہے، پھر اگر منطقی اعتبار سے کسی حقیقت کا اثبات ہو بھی جائے تو یہ کیسے معلوم ہوا کہ وہ حقیقت فی الواقع موجود ہے۔ اس آخری مغالطے سے اگرچہ فلسفہ کے مذاہب مہمہ بھی محفوظ نہیں رہے اور اس کا مکملاً ازالہ کانٹ کی ’’تنقید عقل محض‘‘ سے ہوا لیکن بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو متکلمین کی اصل غلطی منہاج یا دوسرے لفظوں میں کہیے کہ طریق بحث کی غلطی ہے اور اس کی ایک وجہ منطق یونانی کی روایات ہیں اور دوسری عیسائیت کے تحکمانہ عقائد۔ برعکس اس کے اسلام کے عقلی اور مذہبی غور و فکر کی حیثیت بالکل جداگانہ ہے۔ ہم اس امر سے انکار نہیں کرتے کہ اس میں یونانی روایات کی آمیزش نہایت شدت سے ہوئی۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ اسلام پہلا مذہب ہے جس نے معقول سے گزر کر محسوس کے مطالعہ اور تفکر و تدبر کی دعوت دی۔ نہ اسلام میں عیسائیت کی طرح کوئی تحکمانہ عقیدہ ہے کہ اس پر علم و عقل کے خلاف ایمان لانا ضروری ہو، نہ متکلمین کو یہ مجبوری پیش آئی کہ عقل اور ایمان کی ہم آہنگی کا سہارا الفاظ میں ڈھونڈیں۔ الٰہیات اسلامیہ کا مقصد تھا مذہب کی عقلی اساس کی جستجو یعنی اس کا مطالعہ علم اور فکر کی روشنی میں یا بالفاظِ دیگر ان اشتراکات کی تحقیق جو بہت ممکن ہے معقول اور منقول کے درمیان پوشیدہ ہو۔ اقبال نے ان روایات کو پھر سے تازہ کیا اور علماے اسلام کے افکار و آرا کا سلسلہ جدید علم و حکمت سے جاملایا جو کئی ایک پہلوئوں اور بالخصوص مذہب کے عقلی مطالعے میں اسلامی فلسفہ ہی کی جانشینی کررہی ہے۔ اس فلسفہ کا سرمایہ خیالات حکمت یونان کا چربہ نہ تھا بلکہ ایک مستقل ذہنی تحریک جس کی تاریخی قدر وقیمت اور مختلف اجزا کو نمایاں کرتے ہوئے اقبال نے علم کلام کے ایک نئے مذہب کا راستہ کھول دیا۔ وہ عقائد پر عقلیت کا ملمع نہیں کرتا۔ برعکس اس کے عقل و خرد کو دعوت دیتا ہے کہ انسان اور کائنات کے تصورِ کلی میں ان حقائق کو فراموش نہ کرے جن کا اظہار مذہب نے کیا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو جہاں اقبال کو مفکرین اسلام میں ایک مخصوص درجہ حاصل ہے وہاں عہد جدید کے فلسفہ میں بھی اس کی مثال مشکل سے ملے گی۔ یہ اس لیے کہ فکر حاضر کا دل نور ایمان سے خالی ہے اور اقبال کی فکر سراپا ایمان۔ وہ مذہب کو پیش کرتا ہے تو (بہ اصطلاح موجودہ) ایک زندہ قوت اور ناقابل انکار حقیقت کی شکل میں۔ اس کی حیثیت ’’حیاتی‘‘ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مذہب منجملہ ان اعمال کے ہے جو حیات کے لیے ناگزیر اور اندرون وجود میں پرورش پاتے ہیں۔ وہ ہماری فطرت کا سہارا اور اس کے تاروپود میں داخل ہے۔ لہٰذا جب فلسفہ اپنے مخصوص منہاجات اور نقطۂ نظر کو ساتھ لیے اس کے دعاوی کا جائزہ لیتا ہے تو گو اس بات کا خطرہ ہے کہ مذہب کا دائرہ شدید نظری استدلال اور قیاسات منطق سے آگے نہ بڑھے لیکن وہ خود استدلال و قیاس دونوں سے بالاتر ہے۔ پھر اگر فکر کو نارسا اور عرفان حقیقت میں بے نتیجہ ٹھہرایا جائے تو ہمارے ظن و تخمین اور قیاس و استدلال کی اہمیت کیا رہ جائے گی؟ اس کے جواب میں اقبال نے جو بحث اُٹھائی ہے اس کی تفصیل ہمارے موضوع سے خارج ہے الا یہ کہ فکر کی متناہیت لامتناہی کا ایک پہلو ہے اور اس لیے اس کی دید کا مشتاق اور تلاش کا آرزومند۔ یہ اور بات ہے کہ اس کی سستی رفتار حقیقت کے ادراک کلی میں حارج ہو۔ دوسری جانب مذہب ہے۔ وہ نظریوں پر قناعت نہیں کرسکتا۔ اس کی غایت مشاہدہ ہے، قرب ہے، اتصال ہے۔ گویا اقبال کے یہاں فکر اور وجدان کی انتہا ایک ہی منزل پر ہوتی ہے۔ دونوں حقیقت کے نور سے منور ہیں اور ذوقِ طلب میں ایک دوسرے سے ہم کنار۔ وہ اس کی تعبیر میں مجرد تصورات یا منطق سے کام نہیں لیتا۔ اس کی منطق و ارادات کی منطق ہے یعنی مذہب کے لیے حقیقی تڑپ، خلوص اور شیفتگی کا ایک جذبہ جو اس کی شاعری کی جان اور غور و تفکر کا حاصل ہے۔ ظاہر بیں آنکھ جب عقل و ایمان کے اس امتزاج کو دیکھتی ہے تو اسے تعجب ہوتا ہے لیکن یاد رکھناچاہیے کہ اقبال کا دل حقیقت کا جویا تھا۔ حقیقت کی تجلی کا اظہار اس کے ’’احساس‘‘ میں ہوا اور آگہی کا ’’فکر‘‘ میں۔ ہم نے کہا تھا کہ اس کی شاعری کا ایک عقلی پس منظر ہے۔ بے شک، لیکن یہ شاعری بجائے خود کیا ہے؟ اقبال کے ایمان و ایقان کا آئینہ اور اس کے جذب و روحانیت کی بے تابانہ تفسیر۔ بعینہٖ یہی ذوق و شوق، یہی عشق و مستی اور یہی جوش و ولولہ ہے جس سے اقبال نے اسلام کی ترجمانی ایک زندہ و پایندہ ثقافت کی شکل میں کی اور جو اس کی مفکرانہ حیثیت کا تیسرا اور اپنی جگہ پر یکتا پہلو ہے۔ اگر مذہب ایک ضمنی اور جزئی عقیدہ نہیں بلکہ تمام ذات کا مظہر اور قانونِ اخلاق اس کی (ذات یا بالفاظِ دیگر حیات) باطنی یعنی فطری ضروریات کا پیداکردہ تو کیا وجہ ہے کہ اسلام کا دائرہ صرف افراد تک محدود رہے اور وہ آگے بڑھ کر جماعت کی زندگی میں حصہ نہ لے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت کی زندگی کا ایک احاطہ کار ہے جہاں اس کے وظائف گرد و پیش (ماحول) کے علم اور احتیاجات کی کفالت سے آگے نہیں بڑھتے۔ بسااوقات اس کے لیے محض واقعات شناسی اور حزم و تدبر کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ تخیل اور نصب العین کی۔ برعکس اس کے مذہب ایک اعلیٰ اور برتر قوت ہے اور اس کا یہ منصب نہیں کہ حیاتِ انسانی کی بدلتی ہوئی ضروریات یا روز مرہ کش مکش اور جدوجہد میں اُلجھ کر اپنی رفعت و پاکیزگی کو کھو بیٹھے۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ہم اس کو زندگی کے مکروہات سے الگ رکھیں اور جنگ و جدال کا ذریعہ نہ بننے دیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس جنگ و جدال کا خاتمہ کیونکر ہوگا اور وہ کیا چیز ہے جو زندگی کے مکروہات کو انعامات میں بدل دے گی؟ کیا ہم اپنے عمل کی اساس کسی موہوم یا محض تجربی اور اس طرح ایک عارضی اور وقتی اساس پر رکھیں؟ دوسرے لفظوں میں انسانیت کیا ہے؟ اس کے مسائل کا کوئی قطعی اور دوامی حل ممکن ہے یا نہیں؟ خود انسان کا فیصلہ اپنے حق میں کیا ہونا چاہیے؟ اس کا مستقبل تاریک ہے یا روشن؟ وہ ایک ایسی جماعت اور ایک ایسے تمدن کی بنیادیں استوار کرسکتا ہے جو تمام نوع انسانی کو محیط ہو اور جس میں ہم ایک دوسرے کی رفاقت، اشتراک اور ہمدردی سے افراد و اقوام کے لیے حقیقی مسرت، امن اور خوش حالی کی راہیں کھول دیں یا جرم اور معصیت ہماری سرشت میں ہے اور اس شر کے ازالے کی کوئی صورت نہیں جو انسان کی زندگی میں سرگرم کار ہے او ر اس کے لیے لاتعداد مصائب، ظلم اور ناانصافیوں کا باعث۔ کیا واقعی اس کا دکھ درد لاعلاج ہے؟ وہ افلاس، جہالت، غلامی اور محکومی کی طرح ہمیشہ پاس اور بے دلی کا شکار رہے گا؟اگر اس سوال کا جواب نفی میں ہے یعنی ہم انسان کے مستقبل سے نااُمید نہیں تو اس کے فلاح و کامرانی اور سود و بہبود کا سرچشمہ کیا ہے؟ کوئی مادی اساس مثلاً قوانین فطرت کی تسخیر اور جماعت کا نظم و نسق محض اس کی جبلی اور حیوانی ضروریات پر یا ایک روحانی عقیدہ جو داخل سے خارج کی طرف بڑھتا ہوا عالم مادیات کو بھی اپنے اندر جذب کرلے؟ حاصل کلام یہ کہ مذہب اور تمدن کا وجود ایک دوسرے کے لیے مضر ہے یا مساعدہ و ممد؟ کیا مذہب کا کام ہے جھوٹی تسکین اور سکون و اطمینان کے بہانے مقتضیات فطرت کا رد یا گریز اور فرار کے بدلے فرائض حیات کی تکمیل اور بجا آوری کا سبق دینا۔اس دوسرے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو مذہب تمدن کی روح ہے اور تمدن اس کی عملی تعبیر۔ اسلام کا ظہور ہوا تو مذہب اور تمدن دونوں ایک دوسرے سے متصام تھے لیکن اس نے محسوس کیا کہ ان کا نزاع سطحی ہے۔ یہ اس لیے کہ حقیقت ایک ہے اور مجاز بھی اس کے پرتو سے خالی نہیں۔ لہٰذا اسلام نے مجرد روحانیت سے آگے بڑھتے ہوئے دنیائے مادیت کو لبیک کہی اور بتلایا کہ اس میں انسان کی زندگی کن اصولوں پر مبنی ہے اور وہ کیا طریق ہیں جن کے ماتحت اسے فطرت پر غلبہ اور دسترس حاصل ہوسکتی ہے۔ موجودہ عالم کا رجحان بھی اس طرف ہے کہ ریاست اور کلیسا کے اس اختلاف کو چھوڑ کر جو بعض ارباب مذہب (یا سیاست) کی دور بینی سے مترتب ہوا ہم اپنی تہذیب و تمدن کی بنا کسی واحد اساس پر رکھیں۔ یورپ کے نزدیک یہ اساس مادی ہے، جس سے بے شک ان کی دنیوی آسایش اور قوت و سطوت میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا لیکن جہاں تک افراد کا تعلق ہے وہ علوذات اور رفعت عمل میں اس ترقی کا ساتھ نہیں دے سکے۔ ارتقائے ذات یا انسان کے حقیقی مجد و شرف کا راستہ داخل یعنی ان قوتوں کے انکشاف میں ہے جو اس کے باطن میں پنہاں اور خارج سے ربط و مطابقت پیدا کرنے کے لیے ہر وقت آمادہ رہتی ہیں، ایک عالمگیر انسانیت، اخوت، مساوات، جمہوریت، آزادی علیٰ ہذا دنیا کے مستقل امن، خوش حالی اور فارغ البالی کی اساس اگر کبھی ممکن ہے تو صرف ایک روحانی اصول پر۔ اقبال کے نزدیک اسلام کا اجتماعی پہلو اسی اصول کا مظہر ہے۔ وہ اس سلسلے میں توحید و رسالت اور اسرار شریعت کی ترجمانی موجودہ علم و فضل کی روشنی میں کرتا ہے۔ توحید اصل حیات ہے، غیر فانی یقین اور لازوال قوت کا سرچشمہ، نوع انسانی کے لیے بنائے وحدت۔ جماعت کی تشکیل رسالت سے ہوئی۔ وہ ایک سیاسی اجتماعی ادارہ ہے اور انسان کے حق میں آخری حجت۔ شریعت ان قوانین کا مجموعہ ہے جو زندگی کے لیے ناگزیر اور خود اس کی اپنی ضروریات سے مترتب ہوتے ہیں۔ اسلام کا دائرہ تمام اقوام عالم اور روئے زمین کو محیط ہے۔ وہ ساری دنیا کو ایک نقطے پر لانا چاہتا ہے۔ اگر انسان کے اتحاد و اتفاق، یک جہتی اور یک آئینی کی آرزو ایک سودائے خام نہیں تو لازم ہے کہ اس کا اظہار ایک مخصوص جماعت اور ملت کی شکل میں کیا جائے۔ یہی ملت، ملتِ اسلامیہ ہے۔ اس کا مطمح نظر عالمگیر ہے لہٰذا حدود مکانی سے آزاد اور نصب العین ابدی۔ اس لیے دوام و ثبات کا ضامن۔ اسلامی تہذیب کا زوال اس غلط نظریے سے ہوا کہ اسلام کے عقائد بھی مذاہب غیر یا علمی اور منطقی تصورات کی طرح جامد و ساکن ہیں۔ حالانکہ وہ ایک اصول حیات ہے، ایک پیامِ عمل اور ایک عمرانی تحریک۔ اقبال کی جرأت ایمانی اور ذوقِ یقین کا یہ ایک زبردست کرشمہ ہے کہ اس نے صدیوں کی مایوسی کو اُمید اور شگفتگی سے بدل دیا۔ اس لحاظ سے وہ ایک پوری تہذیب کا مبلغ اور علم بردار تھا۔ وہ جب اپنی دعوت کی تبلیغ میں استقلال اور بے خوفی سے آگے بڑھتا ہوا افراد و اقوام کو اسلام کی طرف بلاتا ہے تو مسلمانوں سے بالخصوص توقع رکھتا ہے کہ ان تعلیمات کے معانی و مطالب پر غور کریں گے جن کی وہ کم از کم اعتقاداً نمایندگی کررہے ہیں۔ وہ ان کے سامنے باربار ماضی کا نمونہ پیش کرتا ہے جب اسلام کی حقیقی روح زمان ومکان میں متشکل ہوئی اور جب اس نے اپنے داخلی اور خارجی حوادث کے باوجود قوائے اجتماعیہ کو زیر تصرف رکھا۔ نادان سمجھتا ہے کہ اقبال ماضی کا پرستار ہے اور حال و مستقبل سے بے خبر اور بے تعلق، یعنی ایک مٹے ہوئے دور کی یاد سے مغلوب اور چند انفعالی اور ارتجاعی خیالات کا حامل۔ وہ نہیں جانتا کہ اقبال کا ماضی ایک زندہ وجود کا ماضی لہٰذا اس کے حال میں کارفرما اور مستقبل کا صورت گر۔ سطوربالا سے ہمیں ایک حد تک اندازہ ہوجاتا ہے کہ اقبال کا موضوعِ سخن کیا ہے اور اس کی وسعت و اہمیت کیا؟ لیکن یہ جملہ تصورات جو اقبال کی شاعری میں رہ رہ کر اُبھرتے ہیں، ایک باقاعدہ اور مرتب یعنی فلسفیانہ شکل میں بھی ادا ہوسکتے تھے اور ہم نے خود بھی ان کو اس شاعری کے عقلی اور ذہنی پس منظر سے تعبیر کیا، لہٰذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال کی شاعرانہ حیثیت یا آج کل کی اصطلاح میں واردات فن (آرٹ) کا سرچشمہ کیا ہے اس کا جواب مشکل نہیں، اقبال کی شاعری کا مرکزی نقطہ ہے انسان اور اس کی ابتدا اس اساس سے ہوتی ہے کہ یہ تصورات زندہ حقائق ہیں، جن پر اس کے سارے مستقبل اور ساری کامیابی کا دارومدار ہے۔ اگر اقبال کا دل سوز حیات سے خالی ہوتا، وہ اس بات کا یقین نہ رکھتا کہ انسان کی تخلیق کا ایک مقصد ہے اور اس مقصد کے لیے خودداری، خودگری، عمل، ایمان معرفت للہیت، نظر اور حوصلہ شرط تو اس فلسفہ طرازی، اس حکیمانہ موشگافی، نکتہ رسی اور نکتہ آرائی سے کیا ہوتا؟ وہ انسان کی بے خبری پر رویا، اس کی جہالت اور نامرادی کا ماتم کیا، افراد کی زبوںحالی اور برگشتہ بختی تو خیر ایک طرف مشرق و مغرب میں کوئی نظام جماعت، کوئی اصول تہذیب، کوئی ضابطہ اخلاق ایسا ہے جو ان کے لیے فلاح و کامرانی، عزت اور مسرت کا پیغام لائے؟ اس پر اس کا دل فریاد و فغاں سے بھر گیا اور درد و بے تابی آتش نوائی سے۔ پھر جب اس نے دیکھا کہ انسان کا رشتہ تقدیر خود اس کے ہاتھ میں ہے، اس کا ایک اندازہ نگاہ اندھیرے کو روشنی اور بے بسی کی طاقت سے بدل سکتا ہے، وہ قسمت کا شکوہ سنج ہے، آب و گل کا اسیر، حالانکہ یہ دنیا، یہ تیرہ خاکداں، یہ عالم جہات اس کے اشارے کا منتظر ہے اور غلامی کو حاضر، اس کا مقام ستاروں سے اونچا اور اس کی شان ملائک سے افزوں، وہ حریم قدس کا رازدار، تجلی ذات کا طالب اور ابدی انعامات کا مستحق ہے تو اقبال کی غزل سرائی میں کچھ ایسا رنگ و آہنگ، کچھ ایسا کیف و ترنم اور کچھ ایسا سرور و انبساط پیدا ہوگیا جس پر روح وجد کرتی ہے لیکن اس کی نظر بہرحال اس حقیقت پر رہی کہ انسان کا منصب کیا ہے؟ اور اس کا مستقبل کیا اور وہ کیا چیز ہے جو اس کو حیات جاودانی سے سرفراز کرے گی؟ یہ اساس تھی اقبال کی واردات فن یا بالفاظِ دیگر شاعری کی۔ گویا اگر شاعری عبارت ہے خیالات کی ہرزہ گردی اور جذبات کی بے عنانی سے تو اقبال شاعر نہ تھا۔ اس کی شاعری حقیقت کی شاعری ہے، عرفان اور خود آگاہی کا گنجینہ جہاں فکر اور وجدان ایک دوسرے سے ہم کنار ہیں اور زندگی مذہب سے ہم آغوش۔ جس طرح حقیقت ایک ہے لیکن اس کے مظاہر بے شمار، بعینہٖ اقبال کی شاعری کا ایک مرکز ہے۔ وہ انسانیت کی طرف بڑھتا ہے تو اسی مرکز پر قائم رہتے ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا خطاب نوع انسانی سے بھی ہے اور عالم اسلام سے بھی۔ انسان کا ایک تخیل ہے اور ایک نصب العین۔ اسلام اس کی روح، اس کے حصول و تمام کا راستہ۔ مختصراً یہ کہ اقبال کے مطالعہ میں ہمیں شاعری سے بڑھ کر چند اور باتوں کا خیال رکھنا پڑے گا۔ یہ محض ایک مخصوص شاعر یا ایک وقتی اور ہنگامی تحریک کا مسئلہ نہیں جس کے زیر اثر اُردو (اور فارسی؟) ادب میں بعض نئے خیالات یا دینی اور ملّی جذبات کا اضافہ ہوا۔ یہ ایک کامل و مکمل زندگی، ایک اصول تہذیب اور ایک نظامِ حیات کی جستجو کا مسئلہ ہے، انسان کے ماضی و حال، اس کے ایمان و یقین اور بصیرت کی روشنی میں۔ بے شک اقبال کی شاعری کا آغاز ہے اور اس میں دنیائے اسلام کے ساتھ ساتھ ہندستان اور بیرون ہندستان کے سیاسی اور اجتماعی حوادث نے حصہ لیا مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس کی انتہا کہاں ہوئی اور وہ کون سا بیج تھا جو ایک دفعہ پھوٹا تو پھر اس کے برگ و بار ربع سکوں پر چھا گئے۔ صرف تاریخی اعتبار سے نظر ڈالی جائے تو کس قدر ادوار تہذیب، کس قدر مذاہب فکر اور کس قدر رجال و مشاہیر ہیں جو اقبال کی شاعری ہمارے سامنے پیش کرتی ہے، ذرا اس کی وسعت و جامعیت تنوع اور ہمہ گیری پر غور تو کیجیے۔ پھر یہ فلسفہ، یہ علم وحکمت، یہ حقائق و معارف کی ترجمانی، یہ تاریخ کا نہایت صحیح تصور، یہ سیاست و معیشت اور مسائل تمدن کی عقدہ کشائی، یہ ایمان یہ خلوص، یہ للہیت، یہ اسلام اور مسلمانوں کے لیے حقیقی تڑپ، یہ اس کی تقدیر اور مستقبل پر نہایت گہرا اعتماد، یہ توحید کا اعتقاد کامل، یہ صاحب رسالت ا سے والہانہ عشق، یہ جذب، یہ رقت اقبال کے سوا اور کہاں ملے گی؟ وہ شاعر تھا یا اشعر الشعرا؟ یہاں سوال شاعری کا نہیں یعنی اس کے مقصود و منصب کی تعین کا۔ وہ علم و حکمت کی گرہ کشائی بھی کرسکتی ہے اور اخلاق و مذہب کی ترجمانی بھی۔ سوال یہ ہے کہ ان سب عناصر کا اجتماع جب ایک شاعر میں ہوجائے تو اس کے مطالعے کی صورت کیا ہوگی؟ اس کے لیے ہمیں خود اپنے آپ کو تھوڑی سی رفعت اور بلندی کا سبق دینا ہوگا۔ پھر ایک ذاتی عنصر ہے جو اقبال کے مطالعہ میں اکثر حارج ہوجاتا ہے۔ اقبال نے جو کچھ کہا، جو کچھ سوچا اور جو کچھ محسوس کیا وہ نتیجہ تھا برسوں کے غور و فکر، برسوں کے ہیجان و اضطراب، برسوں کے ایثار و خلوص، ضبط، متانت، صداقت پسندی اور صداقت شعاری کا۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان احوال سے گزر کیے بغیر اقبال کے افکار و جذبات کا فیصلہ محض اپنی رائے اور پسند سے کردیں۔ بے شک انسان کو آزادی ہے کہ جس مسلک کو چاہے اختیار کرے لیکن جب وہ دوسروں سے انصاف اور رواداری کا مطالبہ کرتا ہے تو یاد رکھنا چاہیے کہ یہی مطالبہ اس سے بھی کیا جائے گا۔ اقبال کی شاعری یا بالفاظ دیگر افکار و جذبات کی دنیا اس قدر خام اور سطحی نہیں کہ اس کی تنقید میں سرسری اظہارِ خیال سے کام لیا جائے یا اختلافِ مذاق کا عذر کافی ہو۔ اقبال فلسفی تھا، کسی خاص تحریک سے متاثر ہوا، دین سے واقفیت رکھتا تھا یا نہیں ان باتوں کا جواب سب سے بہتر خود اس کے کلام میں ملے گا بشرطیکہ ہم اس کا مطالعہ پوری ذمہ داری سے کریں۔ برعکس اس کے اگر ہمارے لیے اقبال کے مقاصد اور اقبال کی تمنائوں کا ساتھ دینا مشکل ہے، ہماری تن پرستی اس کے درد و محبت اور سوز و گداز کی متحمل نہیں ہوسکتی یا ہم اپنی تن آسانی میں اس کے نشاط عمل سے خوف کھاتے ہیں، پر اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اگر ہماری نگاہیں تہذیب و تمدن یا علم و حکمت کے کسی ایک مظہر پر ہیں اور ہم وقتی اختلافات کا بدلہ اقبال کی شاعری سے لیں تو یہ اس کے مطالعہ کی کوئی عمدہ صورت نہ ہوگی۔ ضرورت اس کی ہے کہ اقبال کی شاعری من حیث الکل ہمارے سامنے ہو، حیاتِ انسانی کے جملہ مسائل اور مباحث کے ساتھ، اس کی تاریخ، علم و فضل اور اعتقادات کی روشنی میں۔ دراصل اقبال کی شخصیت نے اپنا ایک اثر اور جگہ پیدا کرلی ہے اور اس کے حیات افزا پیام کا تقاضا ہے کہ ہم اس کا تصور اور زیادہ واضح اور جیتی جاگتی شکل میں کریں۔ ظاہر ہے کہ یہ مقصد صرف خالی خولی عقیدت اور مدح سرائی سے پورا نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے تحقیق و مطالعہ شرط ہے مگر کسی صحیح اساس پر کیونکہ جس تحقیق اور مطالعے کی انتہا ایک لیکن اور مگر اور البتہ پر ہو اس کی خوبی تحلیل اور حسن تجزیہ یا وسعت و جامعیت سے فائدہ؟ اگر اقبال کی عظمت واقعی مسلّم ہے تو اس کے اعتراف میں ہمیں جھجک سی کیوں معلوم ہوتی ہے؟ کیا ہماری خودشناسی اور خوداعتمادی ابھی اس حد تک نہیں پہنچی کہ اپنے افکار کی صحت اور بداعت کا اظہار جرأت کے ساتھ کرسکیں؟ حوالے اور حواشی ۱- کہہ گئے ہیں شاعری جزویست از پیغمبری ہاں سنا دے محفل ملت کو پیغام سروش! (بانگِ درا، ص۱۸۹) ۲- آرنلڈ نے شعر کو تنقید حیات قرار دیا ہے لیکن یہ بات بھی یکساں طور پر درست ہے کہ خود حیات تنقید شعر ہے۔ (شذراتِ فکر اقبال، ص۹۰ ۳- Motive ۴- گوئٹے (۲۸؍اگست ۱۷۴۹ئ- ۲۲؍مارچ ۱۸۳۲ئ) نام ور جرمن شاعر، ڈراما نگار اور ناول نگار جس نے مشرقی ادب کو المانوی ادب میں جگہ دی۔ ز……ز……ز اقبال اور حکماے افرنگ یہ مسئلہ کہ اقبال کے نزدیک جدید فلسفہ کی اہمیت کیا تھی اور انھوں نے حکماے فرنگ کے افکار و نظریات سے کوئی اثر قبول کیا یا نہیں، ایک طویل بحث کا محتاج ہے اور اس کا ایک سرسری خاکہ بھی اس وقت آپ کی خدمت میں پیش کرنا ناممکن ہوگا۔ البتہ اس مسئلے کا ایک خاص پہلو آپ کی توجہ کا مستحق ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آپ خود بھی اس پر غور فرمائیں۔ سوال یہ ہے کہ اقبال نے مغربی فلسفے کو کس نظر سے دیکھا اور یورپ کے اہل فکر کی نسبت کیا رائے قائم کی؟ خوش قسمتی سے اس کا جواب خود ان کے کلام میں موجود ہے: از من اے بادِ صبا گوے بہ داناے فرنگ عقل تا بال کشود است گرفتار تر است برق را ایں بہ جگر می زند آں رام کند عشق از عقلِ فسوں پیشہ جگردار تر است چشم جز رنگِ گل و لالہ نہ بیند ورنہ آنچہ در پردۂ رنگ است پدیدار تر است عجب آں نیست کہ اعجازِ مسیحا داری عجب آنست کہ بیمارِ تو بیمار تر است دانش اندوختہٖ ، دل ز کف انداختہٖ آہ زاں نقد گراں مایہ کہ در باختہٖ۱؎ یہاں یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ان اشعار سے محض فلسفہ کی تنقیص یا اس کی مذمت کرنا مقصود ہے۔ شاعر کا پیغام تو صرف اتنا ہے کہ حکماے افرنگ کو فلسفہ کی غرض و غایت کا احساس ہو، وہ اس امر پر غور کریں کہ اس کے اثرات و نتائج کیا ہیں اور اسے حیاتِ انسانی میں کیا منصب حاصل ہے؟ یہ بات کسی ایسے ہی شخص کی زبان سے نکل سکتی تھی جو خود بھی عقل و دانش کا مزاج داں اور اس کی رگ رگ سے واقف ہوتا۔ اقبال کو فلسفہ کی اہمیت کا قرار ہے۔ وہ اس کے آزادانہ نشوونما اور حق تنقید کو تسلیم کرتے ہیں۔ انھوں نے کبھی یہ کوشش نہیں کی کہ اس پر کوئی روک یا پابندی عائد کریں، بلکہ خود بھی جو کچھ کہا اس کے حدود اور دعاوی کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا۔ مگر اس کے باوجود انھیں فلسفہ کی عالمگیر حکمرانی اور تفوق کلی سے انکار تھا۔ وہ اس کو ادراک حقیقت کا ایک ذریعہ تو سمجھے تھے لیکن ناقص اور نامکمل۔ لہٰذا انھوں نے اس کو ایسے مسافر سے تشبیہ دی جو آہستہ آہستہ اور رُک رُک کر اپنا راستہ طے کرے اور جس کے متعلق پھر بھی یہ کہنا مشکل ہو کہ منزلِ مقصود پر پہنچ سکے گا یا نہیں۔ یہ تھی ان کی جچی تلی رائے عقل و حکمت کے بارے میں اور مغربی فلسفہ کی غلط روی سے تو انھیں اور بھی شکایت ہے۔ انھوں نے کہا اور نہایت بے باکی سے کہا: دانش حاضر حجابِ اکبر است بت پرست و بت فروش و بت گر است سوز عشق از دانشِ حاضر مجوے کیف حق از جامِ ایں کافر مجوے۲؎ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے عشق کو عقل اور ذکر کو فکر پر ترجیح دی۔ وہ کہتے ہیں انسان کے علم و عمل کا راستہ وحی کی روشنی سے منور ہوتا ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اقبال جس تہذیب کی پیداوار تھے اس میں انسان کی ہدایت و رہنمائی کا مسئلہ واضح بھی ہے اور مسلّم بھی لہٰذا ہم فلسفہ کو فلسفہ کا حق دے کر بھی اس کی ناطقیت کو تسلیم نہیں کرسکتے۔ جیساکہ عقلائے یورپ کا عام انداز ہے۔ ضربِ کلیم میں انھوں نے ’’وحی‘‘ کے عنوان سے جو نظم لکھی ہے اس میں اس نکتے کو کس خوبی سے بیان کیا: عقلِ بے مایہ امامت کی سزاوار نہیں راہبر ہو ظن و تخمیں تو زبوں کار حیات فکر بے نور ترا جذبِ عمل بے بنیاد سخت مشکل ہے کہ روشن ہو شبِ تارِ حیات خوب و ناخوب عمل کی ہو گرہ وا کیوں کر گر حیات آپ نہ ہو شارحِ اسرارِ حیات۳؎ ممکن ہے یہاں پہنچ کر سوال کیا جائے کہ اگر یہ صحیح ہے تو اقبال کے افکار و خیالات اور ان کی تائید و تبثیت کا سرچشمہ کیا تھا؟ اس کا جواب ہے اسلام یعنی فطرت کے اٹل اور ناقابل افکار حقائق جیسا کہ قرآن مجید میں ان کا اظہار ہوا۔ یہ تھا اقبال کے فکر و نظر کا محور۔ حضور رسالت مآب ا سے خطاب کرتے ہوئے وہ خود کہتے ہیں: در جہانِ ذکر و فکرِ انس و جاں تو صلوٰتِ صبح ، تو بانگِ اذاں لذت سوز و سرور از لا الٰہ در شبِ اندیشہ نور از لا الٰہ۴؎ ذکر و فکر و علم و عرفانم توئی کشتی و دریا و طوفانم توئی۵؎ اور بعینہٖ یہی راستہ ان کے فلسفے نے اختیار کیا جس کے لیے تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کا مطالعہ شرط ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے مشرق و مغرب کے تمام فلسفیانہ مذاہب اور جدید سے جدید حکیمانہ تصورات کا جائزہ لیتے ہوئے ان مسائل سے بحث کی ہے جو مذہب اور فلسفہ کے درمیان مشترک ہیں۔ یہ اقبال کے تبحر علمی، دقت نظر اور قوتِ تنقید کا ایک اچھوتا اور لازوال کارنامہ ہے اور ان کے مغربی تبصرہ نگاروں کے لیے ایک نئے انکشاف کا موجب ہوا، اس لیے کہ اس طرح خود ان کی نگاہیں الٰہیات اسلامیہ کے ان پہلوئوں سے دوچار ہوئیں جن سے وہ اب تک بے خبر تھے۔ مجھے افسوس ہے کہ اقبال کے غور و فکر کے اس نہایت ضروری پس منظر کو بسا اوقات نظرانداز کردیا جاتا ہے اور لوگ اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ اگر انھیں محض نام آوری یا شہرت کی خواہش ہوتی تو وہ نہایت آسانی سے فلسفہ کے عام اور معروف مسائل کی بحث میں اظہارِ کمال کرسکتے تھے، مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ قضا و قدر کو ان سے ایک بڑی خدمت لینا تھی یعنی معارفِ اسلامیہ کا احیا و تجدید۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ تشکیل جدید کو اسلامی افکار کی تاریخ ہی میں نہیں بلکہ افکارِ عالم کی تاریخ میں ایک خاص درجہ حاصل ہے۔ اور اس کے اندر علم کلام اور فلسفہ کے ایک جدید مذہب کا سارا مسالہ موجود۔ اندریں صورت آپ کو یہ کہنے میں تامل نہ ہوگا کہ اقبال کی شاعری کی طرح ان کا فلسفہ بھی خود انھیں کے حکیمانہ تدبر کا نتیجہ ہے، جس کے متعلق کسی قسم کی اثرپذیری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک آزادہ رو، بدیع الخیال اور وسیع النظر مبصر کی طرح انھوں نے مشرق و مغرب کے ہر گوشے پر نظر ڈالی اور جہاں کہیں کوئی حق بات دیکھی اس کی تائید کی… دنیا میں صحیح اہل علم یونہی کرتے آئے ہیں لیکن یہ کہنا کہ ان کے افکار نطشے۶؎ سے ماخوذ ہیں یا برگساں۷؎ سے ایک غلط سی بات ہے۔ اقبال نے زمانے کے متعلق اپنا نظریہ اس وقت ترتیب دیا جب برگساں کے خیالات کی اشاعت بھی نہیں ہوئی تھی اور نطشے کے بارے میں تو ان کا اپنا ارشاد ہے: اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں تو اقبال اس کو سمجھاتا مقام کبریا کیا ہے۸؎ مکرر آنکہ اقبال کا فلسفہ اگرچہ خود ان کے غور و فکر اور تحقیق و اجتہاد سے مترتب ہوا لیکن جب ایک غلط بیانی پر متواتر اصرار کیا جائے تو بالعموم دیکھا گیا ہے کہ اس کی حیثیت رفتہ رفتہ ایک ’’مسئلے‘‘ کی ہوجائے گی۔ اس قسم کے خود ساختہ اور بے بنیاد مسئلوں میں ایک یہ بھی ہے کہ اقبال کے نظریات کہاں تک مغربی فلسفہ سے ماخوذ ہیں اور وہ کیا اثرات تھے جو انھوں نے یورپ کے بعض حکما سے قبول کیے؟ اس غلط بیانی یا زیادہ مناسب لفظوں میں شاید یہ کہنا بہتر ہوگا کہ غلط فہمی کی ابتدا کیونکر ہوئی اس کا سمجھ لینا آسان ہے۔ مشرقی علم و حکمت کا سرچشمہ اس کے سیاسی اور مادی زوال سے بہت پہلے خشک ہوچکا تھا۔ برعکس اس کے اہل مغرب کا خیال ہے کہ جدید علوم و فنون کا ارتقا از خود اور ان کے ذاتی مطالعہ و مشاہدہ کی بنا پر ہوا جس میں اگر کسی دوسری تہذیب کا حصہ بھی ہے تو نہایت کم اور بہ غایت ابتدائی۔ پھر مشرق و مغرب کا ذہنی تفاوت اس قدر بڑھ گیا ہے کہ یورپ تو کیا خود ایشیا کے نزدیک بھی اس کے مقابلے کی کوئی صورت ہی نہیں لہٰذا یہ ایک عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے کہ مشرق میں بھی کہیں علم و فضل کا آزادانہ چرچا ہو اور وہ اپنی اہمیت و نوعیت کے لحاظ سے اس قابل کہ مغرب کے اہل فکر اس پر توجہ کریں۔ یوں بھی اس وقت تخلیق و ایجاد کی باگ ڈور یورپ کے ہاتھ میں ہے۔ ایشیا کا کام ہے اس کے پیچھے پیچھے چلنا یا اشارے کا منتظر رہنا۔ مزید برآں مشرق و مغرب کے درمیان اجنبیت اورمغایرت کی جو روش صدیوں سے قائم تھی اس میں ان کے ظاہراً اتحاد اور ربط و ضبط کے باوجود سرمو فرق نہیں آیا۔ ایک طرف یورپ کا سیاسی تغلب اور احساس برتری ایشیا کی بیداری یا جذبہ اصلاح کو خاطر میں نہیں لاتا بلکہ اسے تہذیب جدید کا ایک ناتمام اور ہلکا سا پرتو قرار دیتے ہوئے نفرت و حقارت کا اظہار کرتا ہے۔ دوسری جانب ایشیا ہے جہاں اس کا ردِعمل بیشتر اس شکل میں ظاہر ہوتا ہے کہ یورپ کے سرمایہ افکار اور درس حکومت کو یک قلم باطل اور ننگ آدمیت ٹھہرایا جائے۔ سیاسی تعصبات اور ایک دوسرے سے بدگمانی کے ان افسوس۔ناک مظاہروں کے ساتھ ساتھ مشرق میں تقریباً ہر کہیں دو جماعتیں نظر آئیں گی۔ ایک ماضی کی پرستار اور حاضر سے نفور۔ دوسری حاضر کی مدح نواں اور ماضی سے بے تعلق۔ اقوالِ عالم کا عروج و زوال اگرچہ زیادہ تر انھیں کمزوریوں کا آئینہ ہے کہ اپنے ماضی یا حال پر قناعت کرتے ہوئے مستقبل سے آنکھیں بند کرلیں۔ مگر خود انسانیت کی ترقی اور حفظ و بقا کا انحصار اس امر پر کہ ایک بالغ نظر انسان پیدا ہو اور تعمیر و تخریب کے اس مستقل اور مسلسل عمل کے ماورا جو تاریخ کا مخفی ہاتھ ہمارے سامنے پیش کرتا ہے زندگی کے محکم اور ابدی حقائق کی جستجو کرے۔ اقبال کا شمار بھی ان جلیل القدر ہستیوں میں کرنا چاہیے جن کو یقین تھا کہ افکار و خیالات کا تصادم اور تہذیب و تمدن کا پیہم اختلاف محض اس لیے ہے کہ انسان کو دراصل ہمیشہ ہی سے آرزو تھی کہ وہ کسی ایسے نصب العین پر نظر رکھے جو قائم و دائم ہو اور یہ سب تغیرات ناتمام کوششیں ہیں اس کے حصول و تمام کی۔ انھوں نے محسوس کیا کہ اس نصب العین کی تعبیر اسلام ہی کی شکل میں ممکن ہے پھر جوںجوں یہ حقیقت عقلاً اور فکراً ان پر منکشف ہوتی گئی وہ ایک غیر معمولی جوش اور سرگرمی کے ساتھ اس کی تفسیر و تشریح میں مصروف ہوگئے۔ ان کی حیات آفریں اور سراپا قوت شاعری نے صدیوںکی یاس اور مردہ دلی کو اُمید اور شگفتگی سے بدل دیا اور ان کے زبردست تخیل اور گہرے غور و فکر نے جمود اور بے حسی کو توڑ کر ایک حرکت سی پیدا کردی۔ اس طرح قدیم خیالات اور عقائد کی دنیا میں جو تنزلزل رونما ہوا اس کا ازالہ اگرچہ اقبال کی فراست اور پختگی ایمان سے برابر ہوتا رہا لیکن اس سے ان حلقوں کا اطمینان تو نہیں ہوسکتا تھا جن کا انداز نگاہ خالصتاً مغربی ہے ان کی بے خبری اور غرور علم دونوں کا تقاضا ہے کہ اقبال کے فلسفیانہ تصورات کا رشتہ حکماے فرنگ سے ملایا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ اقبال کی تربیت جدید فلسفہ کے ماتحت نہیں ہوئی؟ کیا اسلامی علم و حکمت کا نشوونما ایک خاص نقطے پر آکر رُک نہیں گیا تھا اور کیا خود اقبال کی یہ خواہش نہیں تھی کہ اس تجدید و احیا کا فریضہ ان مقتضیات کی روشنی میں سرانجام دیں جن کا تعلق یورپ کے ذہنی اجتہادات اور عروج و کمال سے ہے؟ ظاہراً یہ دلیل نہایت قوی نظر آتی ہے اور معلوم ہوتا ہے اس کی تردید ناممکن ہوگی لیکن سوال یہ ہے کہ ایک بدیع الفکر اور تازہ خیال فلسفی کے لیے یہ کہاں ضروری ہے کہ وہ اپنے ماضی اورگرد و پیش کے سرمایۂ افکار سے اعتنا نہ کرے۔ بعینہٖ اگر اسلامی علم و حکمت کا نشوونما ایک خاص نقطے پر آکر رُک گیا تھا تو کیا مضائقہ ہے۔ اگر یہ نشوونما جدید عناصر سے خالی نہیں اور اس بات کا یقین ہو کہ اس کی تجدید آیندہ کے لیے کسی نئے امکان کا باعث ہوگی تو اور بھی ضروری ہے کہ ہم اس کا مطالعہ موجودہ علم و عقل کی روشنی میں کریں۔ علاوہ ازیں جب خود انسان کے اندرون مزاج اور یکسائی فطرت کا یہ عالم ہے کہ اس کے ذہنی مسائل نے ایک قسم کا ارتباط اور ہم آہنگی سی اختیار کررکھی ہے تو ہمارے لیے زیبا نہیں کہ جہاں دو فلسفی کسی ایک حقیقت پر متفق نظر آئیں ان میں سے متاخر کو لازماً متقدم کاخوشہ چیں ٹھہرایا جائے۔ ممکن ہے ان کا اتحاد خیال عارضی یا ایک سطحی مشابہت اور تائید و اشتراک کے باوجود الگ الگ نظریوں پر مبنی ہو۔ فلسفہ کی تاریخ میں اس اتفاق اور مماثلت کی نظیریں عام ہیں اور اکثر دیکھا گیا ہے کہ ان کا اندرونی اختلاف ان کی ظاہراً یک رنگی سے کہیں زیادہ وسیع اور گہرا تھا۔ تقریباً یہی کیفیت اقبال کی ’’اثر پذیری‘‘ اور ’’اکتسابِ خیال‘‘ کی ہے کہ ان کی تحقیق و تلاش نے جب ان حقائق پر نظر ڈالی جن کا تعلق انسان کی اپنی ذات اور کائنات کے تصور سے ہے اور اس طرح افکار و خیالات کی از سر نو تعمیر بلکہ تربیت و اتلاف میں قدم بڑھایا تو ان کے عجلت پسند ناقدین اس غلط فہمی کا شکار ہوگئے کہ اقبال کے تمام افکار مغربی حکما سے ماخوذ ہیں۔ گویا اقبال کی فضیلت علم اور قوت اختراع کا اظہار کسی جدید نظریے کی ترتیب یا اجتہادِ فکر سے نہیں ہوتا۔ ان کا حقیقی کارنامہ یہ ہے کہ مغرب کے بعض حکیمانہ تصورات کو اسلام کا رنگ دے کر ایک سانچے میں ڈھال دیں۔ دراصل یہ حضرات اس امر کو فراموش کردیتے ہیں کہ اقبال ایک مستقل فلسفی یا بالفاظِ دیگر فلسفے کے ایک باقاعدہ نظام کے بانی تھے۔ جس طرح ہر نظام فلسفہ کا ایک مرکز اور ایک دائرہ ہے۔ بعینہٖ اقبال کے فلسفے کا ایک مرکز ہے یعنی خودی کا تصور جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں لیکن جس پر انھوں نے اپنے اخلاقی، جمالی اور مابعد الطبیعی افکار کی بنا رکھی۔ وہ ہمارے محسوسات اور مدرکات کا عقلی جائزہ لیتے ہوئے حیاتِ انسانی کا ایک مکمل نظریہ پیش کرتے ہیں اور اس میں ان کی منطق اسی حد تک کامیاب ہے جس حد تک کسی دوسرے نظامِ فلسفہ کی۔ مختصراً یہ کہ اقبال کے تصورات ان کے اپنے تصورات ہیں اور ان کی تشریحات اپنی تشریحات اور گو بحیثیت فلسفی یہ نہایت ضروری تھا کہ وہ ان کے تسلسل اور اشتراک و مشابہت کو نظر انداز نہ کرتے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انھوں نے ایک خیال نطشے اور دوسرا برگساں یا کسی دوسرے مفکر سے لیا اور پھر ان کو اپنے شاعرانہ ذوق یا مذہبی وجدان کے ماتحت باہم متحد کردیا۔ تاریخ فلسفہ میں اس قسم کی کوششیں اگرچہ بارہا کی گئیں کہ محض خیالات کی تطبیق اور تائید و مفاہمت سے ایک نظام فکر تیار کیا جائے مگر وہ علامت تھی ہمارے ذہنی انحطاط کی، اس کے اجتہاد و ارتقا کی مظہر نہیں۔ فلسفے کے ایک باقاعدہ اور حقیقی نظام کی تشکیل اس وقت ہوتی ہے جب انسان کے غور و فکر میں فی الواقع کسی نئے عنصر کا اضافہ ہو اور ہم اس کے ماتحت اپنے عقلی مسائل کی تشریح از سرنو کرسکیں۔ اقبال نے بھی ایسا ہی کیا ورنہ یوں کہنے کو ہر فلسفی اپنے پیش رو فلاسفہ سے متاثر ہوتا ہے اس لیے وہ ان کے چھوڑے ہوئے ترکے کو ساتھ لیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا آخر فلسفے کا ایک موضوع، ایک مسلک اور ایک احاطہ کار ہے۔ اس کے مسائل و منہاجات ایک بے قاعدہ اور معین ترتیب میں ہمارے آتے ہیں۔ وہ ایک تعمیری عمل ہے جس میں بعض افکار کی حیثیت اساسات و مبادیات کی ہے۔ یہ افکار انسان کے ذہنی اور عقلی نشوونما کے ساتھ شکل پذیر ہوئے اور ہوتے رہیں گے۔ لہٰذا دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ایک جدید نظام فلسفہ ان کے معانی و مطالب کے بارے میں کیا روش اختیار کرتا ہے۔ اس کے نزدیک ان کے انطباق و اطلاق کی صورت کیا ہوگی اور وہ کیا تغیرات ہیں جو بنیادی لحاظ سے اب ہمارے فہم و ادراک کی راہنمائی کریں گے۔ یہ ذرا سا فرق ہے جس کو نظر انداز کردیجیے تو نئے اور پرانے تمام مذاہب فلسفہ یہاں تک کہ دنیا کے بیشتر فلسفیوں کے درمیان امتیاز کرنا مشکل ہوجائے گا۔ معلوم نہیں اقبال کے تنقید نگار اس نہایت واضح اور کھلی ہوئی حقیقت سے پہلو تہی کرتے تھے۔ انھیں یہ تو نظر آتا ہے کہ ان کا سلسلہ فکر کہاں اور کس کس فلسفی سے جاملتا ہے۔ مگر وہ نہیں دیکھتے تو یہ کہ اقبال کا فلسفہ کس قدر مختلف، کس قدر وسیع اور اساساً ایک جدید نظامِ تصورات پر مبنی ہے۔ اس ضمن میں بڑا زور خودی کے تصور پر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہاں بھی اقبال کی فطانت اور اجتہاد خیال نے جو وسعت و جامعیت پیدا کردی ہے اور اس کے ماتحت تعبیر حقائق میں جس نئے انداز سے قدم اُٹھایا اس کی مثال مشرق و مغرب میں کہیں نہیں ملتی بایں ہمہ اقبال کی اثر پذیری اور اخذ افکار کی بحث ختم نہیں ہونے پاتی اور اس پر لطف یہ کہ جو حضرات اس میدان میں داد تحقیق دے رہے ہیں انھیں خود بھی اعتراف ہے کہ اقبال کا تخیل سر تا سر آزادانہ اور تقلید و تصنع سے پاک ہے۔ کیا یہ اس امر کا ثبوت نہیں کہ ان کی تنقید صداقت سے خالی اور ایک گونہ جدید تعلیم کا نتیجہ ہے یعنی اس کے یک طرفہ اور بڑی حد تک متعصبانہ طرزِ عمل کا۔ پھر جہاں تک خیالات کے ردّ و قبول اور ایک دوسرے سے اثر پذیری کا تعلق ہے بجائے خود کوئی ایسی بات نہیں، جسے علم و حکمت کی رو سے معیوب یا آزادیِ فکر کے منافی تصور کیا جائے۔ اگر گوئٹے کا یہ کہنا ٹھیک تھا کہ آپ میری شخصیت کی توجیہ ان چیزوں سے تو نہیں کرسکتے جو وقتاً فوقتاً بطور غذا میرے جسم میں داخل ہوتی رہیں تو کسی شخص کا فضل و کمال بھی محض اس امر پر موقوف نہیں کہ اس کے مطالعے کے عناصر کیا تھے اور کن ذرائع سے فراہم ہوئے۔ مزید برآں جن حضرات کا دعویٰ ہے کہ اقبال کا اپنا کوئی فلسفہ نہیں برعکس اس کے وہ نطشے اور برگساں یا بعض دوسرے حکماے فرنگ کے منت گزار ہیں، انھیں سوچنا چاہیے کہ آیا اقبال کا ماضی ان افکار سے ناآشنا ہے جو بظاہر جدید فلسفے سے ماخوذ نظر آتے ہیں۔ اقبال ایک مخصوص تہذیب کے علم بردار تھے۔ وہ مشرق میں پیدا ہوئے اور ان کی ذہنی تربیت میں یورپ سے کہیں بڑھ کر اسلام نے حصہ لیا۔ کیا اسلام کے ثقافتی نشوونما کو ان روایات سے کوئی بہرہ نہیں ملا جو فی زمانہ حکماے فرنگ سے منسوب کی جاتی ہیں؟ ان سوالات کی تحقیق نہایت ضروری ہے اس لیے کہ مسلمانوں کی ایک تاریخ، ایک تمدن، ایک اخلاقی اور معاشرتی نظام اور ایک علمی اور فنی ورثہ ہے۔ جب تک ہم اس کا مطالعہ تمام و کمال نہیں کرلیتے۔ ہمیں اس بات کا حق نہیں پہنچتا کہ جہاں کہیں کوئی فلسفیانہ خیال پیش کیا جائے، اس کے متعلق بلاچون و چرا یہ فیصلہ کردیں کہ وہ نتیجہ ہے دانایانِ مغرب سے تلمذ یا اکتساب فیض کا۔ گویا انسان کے عقلی اور ذہنی مسائل کی تشکیل صرف یورپ میں ہوئی ایشیا کے اہل فکر ان میں اساساً کوئی درک نہیں رکھتے۔ اگر یہ رائے فی الواقع صحیح ہوتی تو اس امر کی ضرورت نہ تھی کہ یہاں جغرافی یا قومی تعصب کا ذکر کیا جاتا۔ لیکن تعلیم جدید کا دارومدار چونکہ سردست اس روش پر ہے کہ علوم و فنون کے مطالعہ میں ہماری نگاہیں یونان و روما کے بعد ارض مغرب سے آگے نہ بڑھیں۔ لہٰذا اس کی تنقیدی کاوشیں بیشتر سطحی اور جہاں تک یورپ سے باہر دوسرے ممالک کا تعلق ہے ایک ایسی تنگ نظری اور جہالت اختیار کرلیتی ہیں جس پر ہر معقول انسان کو تاسف ہوگا۔ مثال کے طور پر آپ صرف فلسفہ ہی کو لیجیے۔ موجودہ زمانے کے علمی حلقوں کا فتویٰ ہے کہ اس کی باقاعدہ ابتدا سرزمین یونان میں ہوئی۔ مشرق قریب کی دوسری تہذیبیں تو خیر اس وقت انتشار کی حالت میں تھیں۔ وہ ایران و ہندستان اور چین کے ماضی کو بھی کوئی خاص وسعت نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک اسلام کا عقلی نشوونما ایک ناکام سا چربہ ہے ارسطو۹؎ اور افلاطون۱۰؎ کے خیالات کا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا مطمح نظر تنگ اور تاریخی شعور ناقص ہے اور وہ افکار کے تسلسل اور عہدبعہد تغیرات کا ٹھیک اندازہ نہیں کرسکتے۔ اس تعصب کی انتہا یہ ہے کہ اقبال کے معترضین نے ان کی مفکرانہ عظمت اور تحقیق و اجتہاد کو ہمیشہ غلط سمجھایا، غلط صورت میں پیش کیا۔ وہ ان کے ذہنی ارتقا اور فضل و کمال کا ذکر کرتے ہیں تو اس طرح جس سے مترشح ہوتا ہے کہ اقبال کے مطالعہ کی وسعت ہی کو شاید ان کا سب سے بڑا جرم تصور کرنا چاہیے یا یہ کہ اگر وہ یورپ کے علمی سرچشموں سے فیض حاصل نہ کرتے تو اسلام کی عقلی اور فلسفیانہ تعبیر میں کوئی نظریہ پیش نہ کرسکتے۔ حالانکہ اقبال نے اپنی تحریروں میں باربار اس امر پر زور دیا ہے کہ ان کے غور و فکر کی پرورش حکما اور صوفیائے اسلام نے کی۔ بایں ہمہ سوال یہ نہیں کہ اقبال نے مشرق سے کیا سیکھا اور مغرب سے کیا؟ اگر وہ مشرق و مغرب سے استفادہ نہ کرتے تو اس اضطراب میں جو یورپ سے تصادم کے باعث ذہناً اسلام کو درپیش ہے اس کی رہنمائی کیسے کرتے؟ سوال یہ ہے کہ آیا اقبال نے کوئی ایسا نظریہ پیش کیا جس کو خود ان کے ذاتی اجتہاد کا نتیجہ قرار دیا جاسکے؟ انھوں نے اپنے افکار کی تشکیل میں بعض تصورات کو جوں کا توں لے یا ان افکار کی ترتیب ایک باقاعدہ اور مرتب نظام کی شکل میں ہوئی جس کی ایک اپنی اساس اور بنیاد ہے؟ پھر اس سے بڑھ کر یہ کہ آیا اقبال نے صرف اتنا کیا کہ جدید فلسفے کا رشتہ خواہ مخواہ اسلام سے ملا دیں یا ان کے غور و تفکر کی حیثیت اسلام کی عقلی اور ذہنی تاریخ میں ایک ضروری کڑی کی ہے جو بحالت موجودہ لازماً رونما ہوتا۔ مطلب یہ ہے کہ اگر اسلام کا سرمایہ تفکر ختم نہیں ہوچکا تو اقبال نہ سہی کوئی دوسرا فلسفی بھی خواہ مخواہ ان مسائل پر توجہ کرتا، جو اقبال کے سامنے تھے۔ اوّل الذکر کے جواب میں ہم اس سے پہلے عرض کرچکے ہیں کہ اقبال ایک مستقل فلسفے کے بانی ہیں جس کا مرکزی نقطہ خودی کا تصور ہے اور جس کی امتیازی حیثیت اس وقت ہماری سمجھ میں آتی ہے جب اس قسم کے دوسرے تصورات کا جن کی مشابہت اکثر غلط فہمی کا باعث ہوجاتی ہے پورا پورا جائزہ لیا جائے۔ رہا دوسرا مسئلہ یعنی اسلام کا عقلی اور ذہنی ورثہ سو اس سے محض یہ سمجھتے ہوئے انکار کرنا کہ عہد جدید کے غور و فکر میں اسے کیا دخل ہوسکتا ہے خود اپنی جہالت اور نادانی کا قرار کرنا ہے۔ سطور بالا سے مقصد اگرچہ صرف اتنا تھا کہ اقبال کی تنقید کو اسلام سے ناواقفیت اور مغرب کی بے جا ستایش سے ہٹاتے ہوئے جو گویا نتیجہ ہے تعلیم جدید کی غلط بینی کا۔ اپنے صحیح مقام پر لایا جائے لیکن اس کے باوجود یہ عرض کردینا ضروری ہوتا ہے کہ خودی، انفرادیت اور شخصیت، علیٰ ہذا حیات بعد الموت، مکان و زماں اور بالخصوص عقل اور وجدان کے باہمی اشتراکات کی جستجو، نیز اس قسم کے کوئی ایک دوسرے مسائل اسلام ہی کی بدولت وجود میں آئے یا اسلامی نقطۂ نظر کے ماتحت ایک نئی شکل اختیار کی۔ انسان کے پاس فلسفے کے علاوہ اور بھی ذرائع ہیں جن کی بنا پر اسے حقائق کا ادراک ہوتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جب کسی حقیقت کا انکشاف ہوجائے تو اس کے باوجود ایک پوری تہذیب اور پوری قوم کے اہل فکر کی فلسفیانہ اہمیت کا اندازہ کرنے سے قاصر رہیں۔ ہم حضرات کو لاتسبو الدہر کی حدیث (ضعیف ہو یا مستند اس سے کوئی بحث نہیں) امام شافعی۱۱؎ کے قول الوقت سیف اور حلاج۱۲؎ کے نعرہ انا الحق میں اقبال کا اپنا ذہن کارفرما نظر آتا ہے۔ کیا انھیں یقین ہے کہ جب تک اقبال پیدا نہیں ہوگئے تھے مسلمانوں کے نزدیک ان خیالات کی عقلی حیثیت کچھ نہ تھی؟ لیکن اگر تھی تو کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ہم اقبال کے فلسفے میں نطشے اور برگساں یا کسی دوسرے فلسفی کو تلاش کرنے کی بجائے تھوڑی دیر کے لیے خود ان حقائق پر غور کرلیں؟ حوالے اور حواشی ۱- پیامِ مشرق، ص۱۸۷-۱۸۸ ۲- اسرارِ خودی، ص۶۸ ۳- ضربِ کلیم، ص۳۸ ۴- پس چہ باید کرد، ص۴۸ ۵- پس چہ باید کرد، ص۵۰ ۶- فریڈرک ولیم نطشے (۱۸۴۴ئ- ۱۹۰۰ئ) جرمن فلسفی اور سکالر۔ ۷- برگساں ہنری لوئس (۱۸؍اکتوبر ۱۸۵۹ئ- ۴؍جنوری ۱۹۴۰ئ) فرانسیسی فلسفی جس کے نظریۂ زمان و مکاں سے اقبال متاثر تھے۔ ۸- بالِ جبریل، ص۵۶ ۹- ارسطو (۳۸۴- ۳۲۲ ق م) شہرہ آفاق یونانی فلسفی۔ افلاطون کا شاگرد، سکندر اعظم کا معلم۔ ۱۰- افلاطون (۴۲۷- ۳۴۷ق م) معروف یونانی فلسفی۔ ۱۱- ابو عبداللہ محمد بن ادریس امام شافعی (۷۶۷ئ- ۸۱۹ئ) شافعی مسلک کے بانی۔ ۱۲- منصور حلاج (۸۵۷ئ- ۹۲۲ئ) مسلمانوں کی فکری تاریخ کی سب سے متنازع شخصیت۔ ز……ز……ز اقبال کی عظمت فکر اقبال کی شاعری اور فلسفے کی تشریح میں بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جائے گا لیکن اس موضوع کے باقاعدہ مطالعے کے لیے جہاں کئی ایک مباحث پر نظر رکھنا ضروری ہے وہاں اس امر کی تحقیق بھی لازم آئے گی کہ دورِ حاضر کے غور و تفکر میں ایک فلسفی کی حیثیت سے انھیں کیا درجہ حاصل ہے؟ سوال یہ نہیں کہ اقبال کا ذہنی ارتقا کیونکر ہوا اور ان کے افکار و نظریات کو کون سی منزلیں طے کرنا پڑیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان افکار و نظریات کی تکمیل نے آخر آکر کیا شکل اختیار کی۔ جدید علم و حکمت کے بعض اساسی تصورات پر وہ کس انداز سے تنقید کرتے ہیں اور اسلام کے چند مخصوص عقائد کو انھوں نے کس رنگ میں پیش کیا؟ ان دونوں مسائل کی بحث میں اقبال کا فلسفہ اگرچہ من وجہ الکل ہماری نظر سے اوجھل رہے گا بایں ہمہ وہ ایک عمدہ ذریعہ ہے اس کی وسعت و اہمیت اور قدر و قیمت کی تعین کا۔ ضمناً اس سے یہ بھی ثابت ہوجائے گا کہ اقبال کے فلسفیانہ خیالات ہر لحاظ سے بدیع اور اپنی تخلیق یعنی ذہنی جدوجہد کا نتیجہ ہیں۔ ہم نے یہ بات اس لیے کہی کہ ان خیالات کو مغرب یا اسلام کے علاوہ کسی دوسرے سرچشمے سے منسوب کرنا اصولاً مغالطہ ہے اور عملاً اس ضابطہ حیات سے گریز کی ایک صورت جس کو اقبال نے شریعت کا متقاضا قرار دیا۔۱؎ اگر اقبال کا غور و فکر سچ مچ ان تصورات کا رہین منت ہے جو یورپ سے آئے اور اس کا نام نہاد اسلامی قشر اس کی حقیقی روح سے سراسر بے تعلق تو کیا وجہ ہے نظری اعتبار سے مغرب کا حق رہنمائی تسلیم کرتے ہوئے ہم اخلاق و معاشرت اور بالخصوص مسائل حاضرہ میں اس کی پیروی نہ کریں؟ ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر غلط رائے اقبال کی شاعری اور فلسفہ کے متعلق اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ بایں ہمہ اس کا اظہار اکثر ہوتا رہتا ہے… لفظاً نہ سہی تو معناً ضرور… اور تعجب یہ ہے کہ اس ملک کے علمی اور ادبی حلقوں کی طرف سے! وہ اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ اقبال نے جدید فلسفہ کی تنقید و تصحیح میں کس انداز سے قدم اُٹھایا اور اسلامی تعلیمات کے عقلی اور عمرانی پہلوئوں کو جس شکل میں نمایاں کیا اس کی اتلافی قدر و قیمت کیا ہے؟ یعنی وہ کیا اصول ہے جو عالم عالم کو ایک مشترک اساس پر جمع کرے گا؟ ظاہر ہے کہ یہ مسئلہ ایک طویل بحث کا محتاج ہے جس کی تفصیل کا درست موقع نہیں۔ البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ سطور ذیل میں ہم اس کے بعض عناصر کا ایک اجمالی خاکہ پیش کردیں جیسا کہ اس تمہید سے ایک حد تک مترشح ہوجاتا ہے۔ اقبال کا عہد اقبال نے آنکھ کھولی تو اسلامی دنیا کی حالت بڑی یاس انگیز تھی۔ ایک طرف علم و حکمت کا وہ سرچشمہ جس نے کبھی مشرق و مغرب کی آبیاری کی تھی نہایت تیزی سے خشک ہورہا تھا، دوسری جانب مغربی تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کی رو دن بدن بڑھتی چلی آتی تھی۔ یہ موقع بڑے غور و فکر اور حزم و تدبر کا تھا لیکن اس وقت مبصر کم تھے اور مقلد بہت زیادہ وہ اپنی روشن خیالی اور تجدد پسندی کا اظہار تقلید و تشبہ سے کرنے لگے تو درد مندان ملت کا ایک طبقہ ان کی مخالفت پر اُٹھ کھڑا ہوا اور عقلاً اور نقلاً اس امر کا ثبوت بہم پہنچانے لگا کہ نئی تہذیب کے اصول اسلام کے منافی ہیں جو یورپ کے دہریت اور مادیت پسند فلسفے کے علی الرغم اپنی صداقت اور حقانیت پر مضبوطی سے قائم ہے۔ بایں ہمہ اس جنگ و جدال کی حیثیت داخلی یعنی زیادہ تر خود مسلمانوں کے اندر خیالات کے رو وکدیا ایک دوسرے کی تردید و تائید تک محدود رہی۔ گویا مغربی تہذیب اور اسلام کے تصادم نے ذہنی اعتبار سے جو مسئلہ پیدا کردیا تھا اس کی صحیح نوعیت کا احساس بہت کم لوگوں کو ہوا اس کے لیے اسلام کے ساتھ ساتھ جدید فلسفے اور علم و حکمت سے پوری پوری واقفیت شرط تھی جس کا ظاہر ہے ابتدا میں بہت کم موقع تھا۔ اقبال نے سب سے پہلے اس مسئلے کی حقیقی نوعیت کو سمجھا اور اس پر اسی تفصیل اور جامعیت سے نظر ڈالی جیسا کہ اس کا تقاضا تھا۔ بالِ جبریل میں وہ خود کہتے ہیں: تازہ مرے ضمیر میں معرکۂ کہن ہوا عشق تمام مصطفی ، عقل تمام بو لہب۱؎ یوں بھی عشق اور عقل کی اس جنگ نے ان کے سینے میں جو اضطراب اور بے چینی پیدا کردی تھی اس کی نظر مشکل ہی سے ملے گی۔ وہ پہلے مفکر ہیں جو صدیوں کے جمود اور بے حسی کے بعد مشرق کی خواب آلود اور مردہ سرزمین میں پیدا ہوئے۔ اسلام کے ذہنی احیا میں ان کا مقام نہایت بلند ہے، اس قدر بلند کہ ان کی شاعری اور فلسفیانہ تحریروں سے باہر اسلامی، غور و فکر کا کہیں وجود نہیں۔ اقبال نے فکر حاضر کے آغاز، تدریجی نشوونما، مقصد و منہاج اور اساسی تصورات کا بالاستیعاب جائزہ لیتے ہوئے ایک ایسی تحریک کی ابتدا کی جس کی روح خالصاً مذہبی اور مدعا یہ تھا کہ اسلام کے عقلی اور عمرانی حقائق کو ازسر نو اُجاگر کیا جائے۔ خوش قسمتی سے اس کے لیے انھیں شاعری کا مؤثر اور دل نشیں پیرایہ ہاتھ آگیا اور وہ عالم اسلام کے ایک نئے رومی کی حیثیت سے اس خدمت کی تکمیل میں مصروف ہوگئے جومعلوم ہوتا ہے شروع ہی سے ان کے لیے مقدر ہوچکی تھی۔ ان کا اپنا ارشاد ہے: چوں رومی در حرم دادم اذاں من ازو آموختم اسرارِ جاں من بہ دور فتنہ عصرِ کہن او بہ دور فتنۂ عصرِ رواں ، من۲؎ جس طرح آج سے کئی صدیاں پہلے عارف رومی کو متکلمین کے ایک گم کردہ راہ اور یونانیت زدہ فریق سے کہنا پڑا تھا: سور رسطالیس و سور بو علی کے شفا گفتہ نبی منجلی چند چند از حکمت یونانیاں حکمت قرآنیاں را ہم بخواں۳؎ بعینہٖ اقبال نے قرآن اور سنت کو دلیل راہ ٹھہراتے ہوئے الحاد و بے دینی کے اس سیلاب کو روکنے کی کوشش کی جو مغربی تہذیب و تمدن اور علم و حکمت کی آڑ میں دنیائے اسلام کی طرف بڑھ رہا تھا۔ وہ اس مقصد میں کہاں تک کامیاب ہوئے اس کا جواب کچھ اس حرکت اور سرگرمی سے ملے گا جو اقبال کی شاعری اور حکیمانہ تحریروں نے مسلمانوں کے تعلیم یافتہ اور بالخصوص نوجوان طبقے میں پیدا کردی ہے اور کچھ ان کے اور عہد جدید کے تصورات کا مطالعہ اس طرح کرتے ہوئے اقبال کی جداگانہ حیثیت ہمارے پیش نظر رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس بحث کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے: مغربی فلسفہ کی تنقید اور اخلاق و عمرانیات میں اسلام کے بعض اساسی تصورات کی تشریح۔ سب سے پہلے شق اوّل یعنی مغربی فلسفہ کی تنقید کو لیجیے۔ ۱- مغربی فلسفے کی تنقید یہاں اس امر کا تذکرہ بے سود ہوگا کہ ذہنی اعتبار سے اقبال کے غور و فکر کو جس تحریک سے سابقہ پڑا وہ مغربی یا زیادہ صحیح معنوں میں یہ کہیے کہ اس زمانے کا فلسفہ ہے۔ لہٰذا اس فلسفہ کے مختلف پہلوئوں اور بعض مشاہیر فلاسفہ کے خاص خاص افکار کا ایک اجمالی خاکہ ہمارے سامنے ہونا چاہیے موجودہ فلسفہ کی ابتدا نشاۃ الثانیہ سے ہوئی جب نئے نئے سیاسی اور اجتماعی شئون علی ہذا خیالات کی بیداری اور ذہنی تبدیلیوں نے اہل یورپ کے اندر زندگی کا ایک تازہ اور وسیع تخیل پیدا کردیا تھا، نشاۃالثانیہ میں فی الواقع اس انقلاب کی صلاحیت تھی بھی یا مغرب کے اس جدید ارتقا میں بعض دوسرے اثرات نے حصہ لیا، یہ ایک جداگانہ بحث ہے جس میں صرف دو باتیں اس قابل ہیں کہ ان کو خصوصیت سے یاد رکھا جائے۔ اوّل یہ کہ جدید فلسفے کے نشوونما کا جو بھی سبب ہو وہ اپنی مقدار اور اوصاف دونوں اعتبار سے اس قدر وسیع اور عمیق تھا کہ اس سے اگلی پچھلے تصورات کی دنیا یک قلم بدل گئی۔ ثانیاً اقبال کی رائے تھی کہ اس فلسفہ کا تار پود ان حقائق سے تیار کیا گیا جو دنیائے اسلام سے آئے اور اس میں بعض اسلامی روایات شدت سے کام کررہی ہیں۔ یہ رائے نہایت اہم ہے کیونکہ اگر فکر حاضر کے اس تجزیے کو تاریخی لحاظ سے صحیح تسلیم کرلیا جائے تو ایک تو باوجود عظمت اس کے تفوق اور برتری کا طلسم ٹوٹ جاتا ہے، دوسرے اسلام کی عقلی اور ذہنی روایات کی تجدید میں ہمیں ایک نئی اساس مل جاتی ہے جیسا کہ اقبال کا فی الواقع مقصد تھا گو اس کی تفصیل میں ہم اپنے موضوع سے دور نکل جائیں گے۔ بایں ہمہ طالب علم کا فرض ہے کہ دورانِ بحث میں اس حقیقت کو کبھی فراموش نہ کرے۔ بہرحال مغربی فلسفے کی ابتدا نشاۃ الثانیہ سے ہوئی جب یورپ میں ایک نئی زندگی کا تصور پرورش پا رہا تھا اور علوم و فنون کی دنیا میں استخراج و استدلال کی بجائے تجربہ اور مشاہدہ کا آغاز ہوا۔ اس فلسفے کے اخلاقی اور اجتماعی پس منظر کی طرف ہم آگے چل کر اشارہ کریں گے۔ یہاں قابل غور امر علوم و فنون کی وہ ترقی ہے جو اس کے دوش بدوش جاری رہی اور جس نے فلسفے کے ساتھ مل کر ذہنی اعتبار سے ایک نئی فضا کی تخلیق میں حصہ لیا۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو مغربی تہذیب کے اس دوسرے مظہر یعنی علوم و فنون یا اصطلاحاً زیادہ صحیح الفاظ میں علوم فطرت (یا سائنس) کا نشوونما افکار و خیالات کے نشوونما سے بھی کہیں زیادہ سریع اور اس کے انکشافات و تحقیقات کا سلسلہ اجتہادات عقل کی نسبت زیادہ حیرت انگیز تھا۔ جس طرح فلسفیانہ غور و تفکر اور نظریوں کی جسارت نے قدیم معتقدات اور اوہام کی دنیا کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیا، بعینہٖ علمی معلومات سے فلسفہ کی توجہ بعض ایسے حقائق کی طرف منعطف ہوگئی جو ابھی تک اس کی نظر سے پوشیدہ تھے۔ رفتہ رفتہ سائنس کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ وہ فلسفے کی جگہ لے سکتا ہے اور اس کے علم بردار یہ دعوے کرنے لگے کہ مظاہر کائنات کی طرح حیاتِ انسانی کا ہر مظہر بھی قوانین فطرت کے ماتحت آجاتا ہے۔ یہ عوامل تھے جو یورپ کے سیاسی اور اجتماعی حوادث کے ساتھ اخلاق اور مذہب کے لیے نہایت دور رس تبدیلیوں اور ایک غیر معمولی انقلاب کا باعث ہوئے اور جن کی بے اعتدالیوں نے اصولاً نہیں تو عملاً الحاد و بے دینی کا راستہ صاف کردیا۔ اس مختصر سی تمہید کے بعد اب ہمیں خود مغربی فلسفے کے مذاہب مہمہ اور مخصوص تصورات کا تھوڑا بہت اندازہ کرلینا چاہیے۔ اہل یورپ کا خیال ہے کہ ان کے افکار حکمت کی ابتدا ڈیکارٹ۴؎ سے ہوئی جس کے منہاج تشکیک نے آج سے تقریباً سو برس پہلے ایک نئی تعمیر کی بنیاد ڈالی۔ لیکن ڈیکارٹ سے کانٹ۵؎ یا برگساں یعنی جدید فلسفیانہ رجحانات کے نشوونما تک جملہ مسائل پر نظر ڈالنا اتنی زیادہ تحریکات اور گوناگوں مباحث میں قدم رکھنا ہے کہ حکمت حاضرہ کے کسی ایک مذہب یا کسی ایک نظام یا اس کے دینی اور مابعدالطبیعی خیالات یا عقل و علم اور اخلاق و عمران کے متفرق نظریوں کا ایک معمولی سا خاکہ بھی بہت کافی تفصیل اور تشریح کامقتضی ہے۔ اندریں حالات بہتر ہوگا کہ ہم اپنی توجہ اس فلسفے کے ان پہلوئوں تک محدود رکھیں جو زیر نظر بحث میں خصوصیت سے اہم اور قریب کا تعلق رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے کانٹ کا ذکر کرنا چاہیے جس نے اپنے پیش روئوں کے نتائج فکر کو سامنے رکھتے ہوئے موجودات کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ موجودات ظاہرہ (اشیا جیساکہ ہمیں ان کا علم ہوتا ہے) اور کھاھی (جیسا کہ وہ فی الواقع ہیں) اور پھر عقل کی نوعیت، طریق کار اور حدود و فرائض پر ایک غایر نگاہ دالتے ہوئے اس نظریے کا اعلان کیا وہ (عقل) حقیقت کے فہم سے عاری ہے۔ کانٹ کی یہ تنقید اگرچہ خود عقلیت کے حق میں جو مذہب اور اخلاق کی جڑوں کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کررہی تھی ایک ضرب کاری ثابت ہوئی اور اس نے خود بھی ایک دوسرے ذریعے یعنی عقل عملی کی مدد سے خدا، قدر و اختیار اور حیات بعد الموت کا اثبات کیا لیکن وہ ان کے عدم وجود یا محض اصطلاحی وجود کے لیے بھی ایک حجت کا کام دے سکتی تھی جیسا کہ آگے چل کر خود بخود ظاہر ہوجائے گا۔ کانٹ کے بعد نام ور شخصیت ہیگل۶؎ کی ہے۔ اس کا فلسفہ نہایت دقیق ہے، خالصتاً تجریدی اور محسوس کو بالکل خاطر میں نہیں لاتا۔ یہاں قابل ذکر باتیں صرف دو ہیں۔ ایک تو اس کا جدلی منہاج جس کے ماتحت اس نے حقیقت کے (جو فکر کی لامتناہیت ہی کا ایک تدریجی مظہر ہے) زمانی انکشاف کی تشریح کی اور دوسرا یعنی اسی اعتبار سے زمانے کی حرکت دوری یا بالفاظِ دیگر عدم حقیقت کا تصور۔ دوسری جانب سائنس کا رشتہ دن بدن مذہب اور مابعد الطبیعیات سے منقطع ہورہا تھا اور اس کے زیر اثر یہ خیال عام تھا کہ مادہ ہی ہمارے حواس کی علت ہے۔ یہ نظریہ اگرچہ برکلے۷؎ کے نزدیک سراسر غلط تھا، چنانچہ اس نے ثابت بھی کیا کہ حواس کی حقیقی علت ذہن ہے نہ کہ مادہ بایں ہمہ اس کا احتجاج بے نتیجہ رہا اس لیے کہ زیادہ سے زیادہ اس سے ہیوم۸؎ کی تشکیک یعنی ذہن سے انکار کا راستہ صاف ہوگیا اور مادیت پسندی کی اس رو میں کوئی فرق نہ آیا جس کی انتہا پایان کار کومت۹؎ کے فلسفۂ قطعیت میں ہوئی۔ اس فلسفے کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان کو تین مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے، پہلا مرحلہ مذہب کا ہے، دوسرا فلسفے اور تیسرا اور آخری سائنس کا، اشیا کا وجود بعینہٖ ویسا ہے جس طرح ہمیں ان کا ادراک ہوتا ہے، ان کے پیچھے نہ کوئی وجوہ ہے نہ ذات نہ حقیقت۔ ان مختلف خیالات اور مذاہب سے ہٹ کر اب زیادہ قریب کے فلسفیوں میں سے نطشے، برگساں اور شوپن ہاوئر۱۰؎ کے افکار کا ہلکا سا تصور کرلینا چاہیے۔ شوپن ہاوئر کی رائے میں حقیقت مطلقہ کو محض ایک ارادہ یا مشیت ٹھہرائیے جس میں نہ شعور ہے نہ بصیرت، لہٰذا زندگی صرف زندہ رہنے کی آرزو اور اس لیے تصادم، انتشار اور درد و کرب سے معمور۔ نطشے ایک طرف کانٹ اور ہیگل کا ہم نوا ہے اور دوسری جانب زندگی کو شوپن ہاوئر کے خلاف صرف زندہ رہنے کی آرزو یعنی خواہش زیست (اور اس لیے مذموم) سے نہیں بلکہ خواہش اقتدار (اور اس لیے محمود) سے تعبیر کرتا ہے۔ برگساں کا مسلک دونوں سے جدا ہے۔ وہ تغیر اور انقلاب کو اصل حقیقت اور اس لیے زندگی کو حواث کا ایک غیر مختتم سلسلہ ٹھہراتا ہے۔ تغیر و انقلاب کے لیے چونکہ زمانے کا وجود مستلزم ہے۔ لہٰذا برگساں نے اس کی واقعیت پر اصرار کرتے ہوئے یہ نظریہ پیش کیا کہ زمانے کی ماہیت ’’ثبوت و قرار‘‘ یعنی ہونے کا وہ احساس جس کا تعلق نفس انسانی سے ہے نہ کہ زمان قار سے جو گویا ریاضیات کا زمانہ ہے جس کا ایک ماضی ہے ایک حال اور ایک مستقبل اور جس کو آفات و لمحات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے برگساں کے فلسفہ کا دوسرا اہم جز عقل کے بدلے وجدان کی حمایت کرنا ہے۔ حقیقت کا علم وجدان ہی سے ہوسکتا ہے۔ وہ ایک تخلیقی حرکت ہے جسے فکر کی عینک سے دیکھیے تو متناہی اشیا (تعینات) کی ایک کثرت اور تعدد میں بدل جاتی ہے۔ گویا زندگی ایک ’’ولولہ‘‘ حیات ہے اور وہ خود ارتقائے تخلیقی کا ایک لامتناہی سلسلہ جو ہر لحظہ پھیلتا اور آگے بڑھتا ہے مگر جس میں نہ شعور ہے نہ ارادہ، نہ غایت نہ بصیرت، بالفاظ دیگر ایک کامل و مکمل ’’دہریت‘‘ اس اصطلاح کے لغوی معنوں (دہر= زمانہ) ہیں۔ ان تصورات کے ساتھ ساتھ اگر ہم سائنس کے اس حیرت انگیز اکتشاف یعنی نظریہ اضافیت، جس نے زمان و مکان کی مطلقیت کا خاتمہ کردیا، علی ہذا بریڈلے۱۱؎ اور میک ٹے گرٹ۱۲؎ کے استدلالات و برہانات جن میں سے اوّل الذکر کو انا یا خودی اور مؤخر الذکر کو زمانے کی واقعیت سے انکار تھا تو اور بھی اچھا ہوگا کیونکہ اس طرح ہم اقبال کی تنقید کا زیادہ بہتر اندازہ کرسکیں گے۔ البتہ مغربی فلسفے کی اس تازگی اور تنوع پسندی سے جو اس کی طاقت اور قوت کا ایک ناقابل انکار ثبوت ہے یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یورپ کے ذہنی افکار میں حزن و یاس اور ترک و تعطل کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس کے لیے ہمیں ایک دفعہ پھر شوپن ہاوئر کی طرف اشارہ کرنا پڑے گا جس کے نزدیک انسان کی ہستی درد و مصیبت کے سوا اور کچھ نہیں اور اس سے بچنے کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ ہم ’’خواہش زیست‘‘ سے گریز کریں۔ شوپن ہاوئر دورِ حاضر کا سب سے بڑا قنوطی ہے اور اس کی نظر میں دنیا جاڑے کی کبھی نہ ختم ہونے والی رات جس میں ایک بے بصر مشیت زندگی کی لاتعداد شکلوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ زندہ وجود تھوڑی دیر کے لیے واویلا کرتے اور پھر ہمیشہ کے لیے معدوم ہوجاتے ہیں۔ اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اقبال نے جدید فلسفے کے مقابلے میں، جو ان کی رائے میں آتش نمرود سے کم نہ تھا لیکن جس سے مردِ مسلماں بآسانی گزر سکتا ہے کیا طرزِ عمل اختیار کیا؟ ہم اس سے پہلے عرض کر آئے ہیں کہ اقبال کا دل اس فلسفے کی ظاہری ہیبت سے مرعوب نہیں ہوا۔ وہ اسلامی روایات کے تتبع میں نہایت بے خوفی سے آگے بڑھے اور اپنے لیے ایک ایسا راستہ تیار کرلیا جو ایک طرف ان کے مذہبی اعتقادات کے عین مطابق تھا اور دوسری جانب اس غیر معمولی ذہانت اور طباعی کا مظہر جو مبدا فیض سے انھیں عطا ہوئی۔ اقبال نے کانٹ کی طرح یہ تسلیم نہیں کیا کہ عقل ادراکِ حقیقت سے عاری ہے۔ لہٰذا عقیم اور بے نتیجہ ہے۔ اقبال کے نزدیک فکر اور وجدان ایک دوسرے سے مربوط اور مل کر نشوونما حاصل کرتے ہیں۔ اگر فکر سے نقص اور متناہیت کا اظہار ہوتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ فکر کا کام ہے حقیقت مطلقہ کی طرف منزل بمنزل قدم بڑھانا یعنی وہ اس کے مختلف پہلوئوں یا بالفاظ دیگر متناہی اشیا میں اٹک اٹک کر اور لمحہ بہ لمحہ رُک رُک کر اپنا راستہ طے کرتی ہے۔ برعکس اس کے وجدان حقیقت کلی سے لطف اندوز ہوتا اور آن واحد میں گوہر مقصد کو پا لیتا ہے۔ وہ بھی حواس کی طرح علم کا ایک ذریعہ ہے لیکن اس کا علم حضوری ہے، استدلال نہیں بلکہ زیادہ مکمل اور یقینی۔ یوں اقبال نے علم بالحواس اور باطنی واردات کے مشمول ادراک میں ایک تعلق پیدا کرتے ہوئے حقیقت کی طرف قدم بڑھایا۔ حقیقت کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ صرف مادہ نہیں، کیونکہ ایک تو مادے کے اثبات کا اگر کوئی ذریعہ ہے تو حواس اور حواس عبادت ہیں ان تاثرات سے جو فطرت کا مشاہدہ کرتے ہوئے ذہن پر مترتب ہوتے اور اس طرح موضوع و معروض یا اشیاے مدرکہ اور صاحبِ ادراک کے درمیان ایک حد فاضل قائم کردیتے ہیں جس کے معنی وائٹ ہیڈ۱۳؎ کے نزدیک یہ ہوں گے کہ فطرت کا وہ غیر مدرک وجود جو ایک قائم بالذات خلا میں واقع ہے، کسی نہ کسی تصادم کی بدولت ہمارے حواس کی علت بن جاتا ہے، گویا اس کا ایک حصہ خواب ہے اور دوسرا محض قیاس۔ ثانیاً اگر مادے کے متعلق یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ وہی اصل حقیقت اور ہر شے کی علت ہے تو حرکت اور حیات دونوں کی توجیہ ناممکن ہو جائے گی ہم حرکت سے سکون اور حیات سے موت کا استنباط تو کرسکتے ہیں لیکن سکون سے حرکت یا موت سے حیات کا استنباط نہیں ہوسکتا۔ پھر طبیعات حاضرہ کا یہ اکتشاف کہ فطرت دراصل حوادث کی ایک ترکیب ہے نہ کہ کوئی ساکن و جامد وجود اور ایک غیر متحرک خلا میں واقع، علیٰ ہذا نظریۂ اضافیت کی رو سے مکان و زمان کا باہم مدغم ہوجانا مادے کے بطلان اور عدم حقیقت کا سب سے بڑا ثبوت ہیں۔ لہٰذا اقبال کے نزدیک حقیقت محض روح ہے۔ یعنی ایک فعال، بابصر اور تخلیقی مشیت جس کا تصور ہم ایک وحدت اور انفرادیت ہی کی شکل میں کرسکتے ہیں۔ گویا وہ کوئی بے نام اور بے ہیئت اصول نہیں جو ایک رو کی طرح اشیا میں جاری و ساری اور ان کے وجود و شہود کا باعث ہوتا ہے، بلکہ ایک صاحب شعور ہستی اور اپنی ذات میں منفرد، لہٰذا اشیا سے ورا الوریٰ بایں ہمہ ان کی صورت گر۔ اس ہستی کے لیے کسی شے کی تخلیق کوئی مخصوص واقعہ نہیں جس کا ظہور ایک خاص وقت اور ساعت میں ہوا۔ وہ ایک عمل ہے، خالق کائنات کا عمل۔ لہٰذا یہ کائنات یا عالم فطرت نہ سراب ہے نہ واہمہ، نہ اشیا کو محض کیفیات ذہن سے موسوم کیا جاسکتا ہے۔ وہ حقیقی مظاہر ہیں اور حقیقت مطلقہ کا مجموعہ آیات۔ یہاں پہنچ کر خود بخود سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حقیقت کی یہ تعبیر صحیح ہے تو اقبال نے انسان اور ذاتِ انسانی کے متعلق کیا نظریہ قائم کیا؟ اقبال کے نزدیک اس کا جواب ہمیں اپنے اندرونِ شعور سے ملے گا یہ ثابت ہوچکا ہے کہ مادے کا وجود محض ایک افسانہ ہے جس کو علوم فطرت نے اپنی نظری سے اختراع کرلیا تھا۔ اندریں صورت بہتر ہوگا کہ ہم اپنی توجہ خارج سے ہٹ کر داخلی واردات پر رکھیں اور دیکھیں کہ زندگی کی ماہیت کیا ہے کیونکہ حیات کا براہِ راست علم ہمیں اپنے آپ ہی سے ہوسکتا ہے۔ یہ اپنا آپ، انا یا خودی ایک حقیقت ہے جس کی ہستی سے کوئی منطق انکار نہیں کرسکتی۔ اس سلسلے میں اقبال نے بریڈلے کی مثال پیش کی ہے جو اس اعتراض کے باوجود کہ انسان کی خودی یا انا میں چونکہ ثبات اور تغیر ایک دوسرے سے متعارض ہیں لہٰذا اس کی حقیقت ناقابل تسلیم یہ قرار کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کسی نہ کسی معنوں میں انا بہرحال ایک حقیقت ہے۔ گویا انسان کی اصل خودی سے ہے اور حیات اس کا مظہر۔ خودی کا ظہور کیونکر ہوا اور اس کو حقیقت مطلقہ سے کیا تعلق ہے یہ مسئلہ نہایت کڑا ہے لیکن اقبال کے نزدیک دنوں میں کوئی نہ کوئی مخفی یعنی ایسا تعلق موجود ہے جو ہمارے قیاس میں نہیں آتا۔ بایں ہمہ خودی میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ حقیقت کے ایک مستقل اور دوامی جز کی حیثیت اختیار کرتے ہوئے لازوال ہوجائے۔ اقبال نے جس طرح خودی کی اصلیت کو آشکار کیا اور بتلایا کہ انسان کی زندگی کا ہر لمحہ حقیقی اور واقعی ہے بعینہٖ ان کا اصرار تھا کہ زندگی نہ محض خواہش زیست ہے، نہ خواہش اقتدار بلکہ خواہش کمال یعنی ایک روحانی اصول اور نصب العین کے ذریعے اعلیٰ سے اعلیٰ مدارج کی تحصیل۔ گویا اقبال کی رائے میں نہ انسان خدا بن رہا ہے جیسا کہ شایدالگزینڈر۱۴؎ کا خیال تھا نہ فوق البشر جس کی تلقین نطشے نے کی۔ اس کا مقصد ہے نیابت الٰہیہ۔ سطور بالا میں ہم اپنے اصل موضوع سے کسی قدر تجاوز کرگئے ہیں لیکن اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ایک تو مغربی فلسفہ سے اقبال کے اتفاق و اختلاف کے ساتھ ساتھ ہمیں تھوڑا بہت اندازہ اس امر کا بھی ہوتا رہتا ہے کہ ان کی تنقید اس فلسفہ کے بعض اہم تصورات پر کیا ہوگی۔ ثانیاً اقبال کے متعلق مقدمات و مقالات اور تحقیق و تنقید کا جو سلسلہ شروع ہوگیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں ان کے خیالات سے بہت زیادہ نہیں تو کچھ نہ کچھ واقفیت ہونی چاہیے یہ اس لیے کہ ان تحریروں سے بعض افسوس ناک غلط بیانیوں یا شاید غلط فہمیوں کا اظہار ہوتا ہے اور اس کی وجہ (اقبال سے) بے خبری اور لاعلمی کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے۔ بہرکیف اب ہم اپنے اصل موضوع یعنی اس بحث کی طرف از سرنو توجہ کرتے ہیں کہ اقبال کی تنقید جدید فلسفے کے متعلق کیا تھی۔ ہمارا خیال ہے کہ اس تنقید کے لیے اگر بعض مخصوص اہل فکر کا انتخاب کرلیاجائے تو زیادہ بہتر ہوگا کیونکہ ایک تو ان کے افکار بجائے خود نہایت اہم ہیں دوسرے اقبال کو ان سے (یعنی افکار سے) نہایت گہرا تعلق ہے۔ اس سلسلے میں ہم سب پہلے نطشے اور برگساں کا ذکر کریں گے پھر میک ٹے گرٹ اور اوس پنسکی کا۔۱۵؎ نطشے نطشے کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ اس نے اپنے خیالات کا اظہار کسی باقاعدہ اور مرتب فلسفے کی شکل میں نہیں کیا۔ وہ بعض متفرق اور منتشر افکار کا حامل ہے جن کی صداقت پر اس کو مجذوبانہ یقین تھا اور جن کی تلقین اس نے پیمبرانہ شان سے کی۔ دراصل نطشے کی حیثیت ایک فلسفی سے بڑھ کر شاعر کی ہے اور اس کے دل و دماغ پر تفکر سے زیادہ طلب و جستجو کا غلبہ تھا۔ اقبال کے الفاظ میں اس نے بے شک عظمت ذات کی ایک جھلک دیکھی لیکن اس جھلک پر یورپ کی مادیت پرستی نے ایک پردہ سا ڈال دیا اور وہ نگاہ جو ذوق تجلی سے بے تاب تھی خود اپنے اندیشے کی ظلمتوں میں کھوگئی۔ بایں ہمہ نطشے کے افکار نے یورپ کی ذہنی فضا میں ایک انقلاب عظیم پیدا کردیا۔ وہ محسوس کرتا تھا کہ تفوق، برتری اور حصول اقتدار کی خواہش کائنات کے ذرے ذرے میں کارفرما ہے۔ پھر یہی خواہش ہے جس سے ہماری زندگی بڑھتی اور پھیلتی، عروج اور فروغ حاصل کرتی ہے۔ گویا وہ انسان کے لیے صفات و حسنات کا سرچشمہ اور اس امر کا باعث ہوتی ہے کہ ہم اپنی مسلسل جدوجہد، مسلسل عزائم، خطرات سے آویزش اور سختیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ایک ایسی قوت اور طاقت سے ہم کنار ہوتے ہیں جو دنیا کی ہر مصیبت کو خوشی سے بدل سکتی ہے۔ اس خیال کے ماتحت نطشے نے خدا اور مذہب (عیسائیت) دونوں سے انکار کردیا۔ خدا انسان کے ارادہ تفوق اور حصول اختیار میں حارج ہے اور عیسائیت اس کی دشمن۔ عیسائیت کے اخلاق، مسکینی اور محکومی کے اخلاق ہیں جو انسان کو بے جا تحمل اور برباری کا سبق دے کر بے بسی، بے ہمتی اور غلامی کی طرف لے جاتے ہیں۔ اس کی تعلیمات نے عزم، ارادہ، جہد، کشاکش، آرزو اور تمنا کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیا۔ لہٰذا نطشے جو عیسائیت کے برعکس داعیات حیات کو لبیک کہتا اور صعوبات زندگی کا استقبال دلی اور شادمانی سے کرتا ہے ایک ایسے انسان کا منتظر ہے جو زندگی کی قوتوں کو ابھارے اور اپنے بے پناہ ارادوں اور عمل کے زور سے جماعت کے موجودہ نظام کو تہ و بالا کردے۔ مستقبل کا یہی انسان جو گویا نوعِ انسانی کا نجات دہندہ اور افراد کے لیے بہترین آرزوئوںاور تمنائوں کا باعث ہوگا نطشے کا ’’فوق البشر‘‘ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس فوق البشر کے ظہور اور تخلیق کی صورت کیا ہوگی؟ نطشے چونکہ عیسائیت کا منکر تھا اس لیے خدا اور مذہب دونوں سے مایوس ہوکر خود انسان کی طرف متوجہ ہوا اور اس امر کی جستجو کرنے لگا کہ تاریخ میں اس کے فوق البشر کی کھوئی جھلک اور نظیر مل سکتی ہے یا نہیں۔ معلوم ہوتا ہے وہ بعض اسلامی روایات سے متاثر تو ہوا لیکن یہ اس کی بدقسمتی ہے کہ اپنے مخصوص ماحول اور تعلیم و تربیت کے باعث ان کے صحیح فہم سے قاصر رہا بلکہ شاید دانستہ ان کو ایک غلط رنگ اور مسخ شدہ صورت میں پیش کیا۔ بہرکیف نطشے کو جب مسیحی تاریخ سے ہٹ کر یونان و روما کے ماضی میں، جس کے دیوتا بدنی طاقت کے مظہر اتم تھے، اپنے فوق البشر کی ایک جھلک نظر آئی تو اس نے عہد قدیم کے امارت اور طاقت پسندانہ تمدن کے ساتھ ساتھ یہ عقیدہ بھی قائم کرلیا کہ فوق البشر کی تخلیق حیاتی ذرائع سے ہوگی یعنی ایک تندرست و توانا، جابر و قاہر انسان کی شکل میں جو ایک طرح سے نتیجہ ہوگا بہتر سے بہتر نسل کشی کا۔ یہ اس کی پہلی اور بنیادی لغزش ہے کہ جن صفات کے لیے وہ باربار دل سے خطاب کرتا تھا ان کا سرچشمہ بدن میں ڈھونڈتا ہے۔ نطشے کے دل و دماغ پر چونکہ مادیت کا غلبہ تھا اس لیے وہ فوق البشرکے سامنے تفوق اور برتری کے سوا کوئی مقصد یا نصب العین پیش نہیں کرسکا۔ اسے یہ بھی معلوم نہیں کہ تفوق اور برتری کا، جو صرف مجرد افکار ہیں کوئی مفہوم اور معنی ہے بھی یا نہیں۔ اس نے صرف اتنا کہا کہ فوق البشر کا منصب تین استحالوں سے مترتب ہوتا ہے: مرحلہ اشتری یعنی ہر مصیبت اور دکھ درد کو برداشت کرنے کی قوت تاکہ انسان کا جسم پتھر کی مانند سخت ہوجائے اورہر صدمے کا مقابلہ کرسکے، مرحلہ شیری یا بے پناہ طاقت اور ہر کہ دمہ پر غالب آنے کا مرحلہ جس سے عفو، رحم، احسان اور تحمل ایسے اخلاق ’’رذیلہ و قبیحہ‘‘ کا خاتمہ ہوجاتا ہے یا بالفاظ دیگر بلاشائبہ رحم، خون ریزی کی قوت اور مرحلہ طفلی: یہ ہر قانون کے تابع نہیں۔ اس کی ذات خود ایک قانون ہے اور مذموم و محمود یا خوب و ناخوب اور صواب و غلط کا معیار۔ لیکن اس فوق البشر کا ظہور کب اور کیوں ہوگا۔ نطشے کہتا ہے اس کا ظہور یقینی ہے۔ آج، کل، کسی وقت اور اس کی وجہ یہ کہ توانائی کی مقدار چونکہ ہمیشہ یکساں رہتی ہے لہٰذا صفاتی اعتبار سے بھی اس کا یکساں رہنا مسلم ہے۔ گویا اس کا وجود متناہی ہے، غیر متناہی نہیں۔ دوسری جانب مکان کی حیثیت صرف ایک ذہنی شکل کی ہے، اس کا کوئی وجود نہیں۔ البتہ زمانے کا وجود حقیقی بھی ہے اور خارجی بھی جس کا تصور ادوار ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ اندریں صورت اس امر کا کوئی خدشہ نہیں کہ توانائی بالآخر اس خلائے محض میں ضائع ہوجائے گی جو ہر لحظہ ہمارے سامنے ہے۔ توانائی کے مراکز چونکہ بلحاظ تعداد معین اور محدود ہیں اس لیے ہم ان کے امتزاجات کا تخمینہ نہایت آسانی سے کرسکتے ہیں۔ پھر توانائی ہمیشہ سرگرم کار رہتی ہے۔ اس کی ابتدا ہے نہ انتہا لہٰذا اس کے امتزاج باربار ظہور کرتے رہیں گے۔ چونکہ فوق البشر ایک دفعہ ظاہر ہوچکا ہے اس لیے وہ آگے چل کر بھی ظاہر ہوگا۔ لیکن قطع نظر ان اعتراضات سے جو فوق البشر کی آمد پر نطشے کے اس نظریے یعنی نظریۂ تکرار ابدی پر واقع ہوتے ہیں سوال یہ ہے کہ حیات بعد الممات کا یہ عقیدہ انفرادی اعتبار سے کہاں تک بقائے دوام کی حجت بن سکتا ہے؟ پھر اگر نطشے کا فوق البشر آبھی جائے تو جس فوق البشر کے سامنے تصرف و تغلب کے سوا اور کوئی مقصد نہیں وہ نوعِ انسانی کا نجات دہندہ یا اس کے لیے بہترین عزائم اور اخلاق کا باعث کیوںکر ہوگا؟ ہم کیسے تسلیم کرلیں کہ وہ فی الواقع کائنات کو اپنے اصل مقام پر لے آئے گا؟ دراصل نطشے کے یہ خیالات ان افکار سے مرتب ہوئے جو اس کے پیشروئوں نے قائم کیے اور جن کو اس نے بلاشائبہ تحقیق صحیح اور قطعی تصور کرلیا۔ جس طرح وہ سائنس کے اس کلئے سے کہ توانائی کی مقدار مقرر اور محفوظ ہے تکرار ابدی کے نظریے تک جاپہنچا حالانکہ یہ محض ایک مفروضہ ہے جس کو طبیعات نے سہولت مطالعہ کے لیے اختیار کرلیا تھا بعینہٖ اس نے کانٹ اور ہیگل کے بعض تصورات کا اتباع کرتے ہوئے فوق البشر کا خیال قائم کیا۔ کانٹ کی تنقید عقلِ محض کی انتہا چونکہ اس نتیجے پر ہوئی تھی کہ عقل کے لیے حقیقت کا فہم ناممکن ہے اور ہمارے پاس منطقی اعتبار سے ذات باری تعالیٰ، حیات بعد الموت اور انسان کے مختار بالارادہ ہونے کا کوئی ثبوت نہیں، لہٰذا نطشے نے اسی استدلال کے زیر اثر انا یا خودی کی مابعد الطبیعی حیثیت سے انکار کردیا۔ وہ انا کو محض ایک منطقی وجود قرار دیتا ہے یعنی ایک اصطلاح جس کو ہم نے آسانی کلام کی خاطر وضع کررکھا ہے۔ گویا اس کے پیش نظر یہ مسئلہ نہیں تھا کہ انسان کی حقیقت کیا ہے بلکہ یہ کہ وہ کیا کچھ بن سکتا ہے یا بننا چاہتا ہے۔ وہ دیکھتا تھا کہ کائنات میں جس کانہ کوئی خالق ہے نہ روح انسان سے بڑھ کر اور کوئی ہستی نہیں جو اس سے زیادہ فعال اور نشوونما کی صلاحیت رکھتی ہو۔ لیکن جہاں اس نے سائنس سے حفظ توانائی اور مادے کے تصورات اخذ کیے وہاں مکان مطلق کی واقعیت کو تسلیم نہیں کیا۔ البتہ زمانے کا وجود اس کی نظر میں خارجی بھی ہے اور واقعی بھی لیکن جیسا کہ ہیگل کا خیال تھا اس کا تصور ادوار ہی میں کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا نطشے بھی زمانے کی حرکت دوری کا قائل ہے اور کہتا ہے کہ جس چیز مثلاً فوق البشر نے، ایک دفعہ ظہور کیا اس کا مکرر ظہور یقینی ہے۔ اقبال نے ان خیالات پر نہایت سختی سے تنقید کی۔ وہ کہتے ہیں منطقی اعتبار سے بے شک کانٹ کا استدلال صحیح ہے لیکن استدلال کے پیچھے فکر کی ایک عمیق تر حرکت بھی ہے جس میں وہ لامتناہی سے ہم کنار رہتی ہے۔ اگر کانٹ اس بات پر نظر رکھتا کہ فکر کی متناہتیں فطرت کی متناہیتوں کی طرح باہم دگر منفرد نہیں بلکہ ایک کل کے مختلف پہلو جن کا انکشاف بتدریج زمانے میں ہوتا ہے تو وہ اس غلطی میں گرفتار نہ ہوتا کہ فکر نارسا اور اس کے نتائج لاحاصل ہیں۔ ثانیاًزمانے کی حقیقت خارجی نہیں بلکہ داخلی ہے جہاں ہم زمان خالص سے دو چار ہوتے ہیں۔ وہ ایک تخلیقی حرکت ہے اور اس لیے مستقیم نہ کہ دوری جیسا کہ ہیگل نے یونانی اور ہندو فلاسفہ کی طرح خیال کیا اور نطشے نے اس کی بنا پر بقائے دوام کے متعلق اپنے مخصوص نظریے کی وضاحت کی۔ اقبال کے نزدیک اس نظریے سے ایک قسم کی ناقابل تبدیل میکانیت یعنی اصول جرثقیل کی مانند طبعی حرکات کی پابندی کا اظہار ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ نطشے کے زمانے کے مسئلے پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا۔ اگر زمانے کا وجود فی الواقع خارجی اور حوادث کے ایک لامتناہی سلسلے پر مشتمل ہے جن کا تکرار باربار ہوتا رہتا ہے، بالفاظ دیگر یہ کہ اس کا دور ابداً قائم رہے گا تو اس سنسار چکر میں حیات سرمدی سے فائدہ؟ معلوم ہوتا ہے کہ نطشے کو خود بھی اس وقت کا احساس تھا چنانچہ وہ اس نظریے کو بقائے دوام کے لیے نہیں، بقائے دوام کو قابل قبول بنانے کے لیے پیش کرتا ہے کیونکہ بہت ممکن ہے مراکز توانائی کا وہ امتزاج جس سے میری اور آپ کی ہستی وجود میں آئی اس عینی یا مقصود و مطولب امتزاج کا ایک جزو لاینفک ثابت ہو جس کو ہم فوق البشر کا ظہور تو اس سے پہلے بھی ہوچکا ہے لہٰذا اس کا ورودِ ثانی مسلّم ہے۔ اندریں صورت میرے اور آپ کے لیے بقائے دوام کا کہاں تک امکان ہے اور کیا وجہ ہے کہ اس کا تصور ہمارے دل میں کوئی نئی آرزو پیدا کرے۔ یوں نطشے خود اس مقصد میں ناکام رہا جس کی تمہید اس نے اس زور شور سے اُٹھائی تھی اور جو اپنے دوسرے خیالات سے نہیں تو کم از کم اس عقیدے کے ذریعے خودی کے لیے تعطل اور افسردگی کا باعث ہوتا ہے۔ پھر چونکہ نطشے خودی کی حقیقت کا منکر اور اس کی ماہیت سے بے خبر ہے اس لیے اگر بقائے دوام اور فوق البشر دونوں کا امکان تسلیم بھی کرلیا جائے تو ان باتوں کا کہ خودی کیا ہے، اس کے مظاہر حیات کیا، وہ تکمیل و پختگی حاصل کرتی ہے تو کس طرح اور لازوال ہوتی ہے تو کن ذرائع سے کیا جواب ہے؟ بعینہٖ نطشے کا فوق البشر قاہرو آمر تو ہے اور مختار مطلق بھی مگر یہ پتا نہیں چلتا کہ اس قہاری و آمری اور اختیار کامل سے کیا نتائج مترتب ہوں گے۔ نطشے جس کے رجحانات پر انفرادیت پسندی کا غلبہ تھا اس امر کا کوئی خاکہ پیش نہیں کرسکا کہ فوق البشر کی آمد سے ہمارا نظامِ اجتماعی کس شکل میں متشکل ہوگا۔ آیا دنیا میں صرف ایک فوق البشر کی گنجایش ہے یا یہ فوق البشر رفتہ رفتہ ایک جماعت کی صورت اختیار کرلیں گے۔ لہٰذا یہاں ہمیں ایک دفعہ پھر اقبال کی رائے سے اتفاق کرنا پڑے گا کہ نطشے کی مادیت پرستی، خدا سے انکار، مذہب کا رد، انا کی حقیقت کو تسلیم نہ کرنا، زمانے کا تصور ایک خارجی اور دوسری حرکت کی شکل میں، یہاں تک کہ نظریہ تکرار ابدی کی اساس یہ سب تصورات دوسروں سے ماخوذ ہیں جن کی بنا پر نطشے نے زندگی اور فوق البشر کے متعلق اپنے عقائد مرتب کیے۔ فوق البشر کی جستجو میں وہ ایران قدیم تک جاپہنچا جہاں اس خیال سے کہ ہر سو برس کے بعد ایک بڑے آدمی کا ظہور ہوتا ہے اس کو فوق البشر کی آمد کا ایک اور سہارا مل گیا۔ ’’چنیں گفت است زرتشت‘‘ جو اس کی مخصوص تصنیف کا عنوان ہے غالباً ایرانی اثرات کے ماتحت تجویز کیا گیا۔ بہرکیف جب وہ اپنے مطالب کو زرتشت کی زبان سے ادا کرتا ہے تو یہ محض اتفاق نہیں بلکہ اس کے ذہنی اور فلسفیانہ پس منظر کا ایک ضروری نتیجہ۔ ہم نے شروع میں عرض کردیا تھا کہ اس مضمون سے ہمارا مقصد صرف ایک جہت سے اقبال کی عظمت کو نمایاں کرنا ہے۔ اقبال کا فلسفہ کیا ہے، فلاسفہ حاضر سے انھیں کہاں اتفاق ہے اور کہاں اختلاف، مغربی فلسفہ کی تنقید سے انھوں نے اپنے لیے کیا راہ نکالی، وہ بعض مفکرین پر کیا فضیلت رکھتے ہیں یہ اور اس قسم کے دوسرے مباحث کی تفصیل کا یہاں کوئی موقع نہیں۔ بایں ہمہ اثنائے سخن میں بعض امور کی طرف اشارہ کردینا مناسب ہوگا مثلاً اقبال کا فلسفیانہ مقام جو نطشے کے متفرق و منتشر اور متضاد و مستعار خیالات کی نسبت کہیں زیادہ بلند اور اونچا ہے۔ یا ان کا فرد کامل جو خودی کی ماہیت اور مقصود و منتہا کا رازدار ہے اور اس لیے نطشے کے فوق البشر سے انفرادی اور اجتماعی دونوں پہلوئوں سے ہر طرح افضل۔ بایں ہمہ جب اقبال کے متعلق یہ کہا جائے کہ ان کا فلسفہ نطشے سے ماخوذ ہے یا وہ اس کے خیالات سے متاثر ہوئے اور ان دعووں میں عوام تو کہیں رہے خواص بھی شریک ہوں یہاں تک کہ اس موضوع پر قلم اُٹھانے کی نوبت آجائے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ تحقیق و مطالعہ اقبال سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے یا کسی غلط فہمی اور غلط بیانی کا۔ نطشے کا فلسفہ جو کچھ بھی تھا اور اقبال نے خود اس پر اس کے پیشروئوں پر جس خوبی سے تنقید کی اس کی طرف ہم اوپر اشارہ کر آئے ہیں۔ پھر کیا جزوی اور ادھوری مماثلت کی بنا پر جو اقبال کو زندگی کے اقدام پسند تصور میں نطشے سے ہے ہم اپنے دعوئوں میں حق بجانب ٹھہرتے ہیں حالانکہ اقبال کی دنیائے فکر اس سے بالکل مختلف ہے۔ آخر اقبال کا یہی جرم ہے نہ کہ انھوں نے نطشے کی اس تڑپ کو جو انسان کے اندر الوہیت کی ایک تجلی سے اس کے باطن میں پیدا ہوئی ہمدردی اور استحسان کی نظر سے دیکھا۔ بایں ہمہ نطشے اپنے افکار کی ضلالت اور گمراہی کے باعث اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر رہا کہ یہ خود ذات باری تعالیٰ کا مقام ہے اور انسان کی ترقی کا راز مکارمِ اخلاق میں ہے نہ کہ قوائے بدن میں جو ان کو ایک پاکیزہ اور برتر مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لہٰذا اقبال کا یہ کہنا کہ فرنگستان کا یہ مجذوب اگر اس زمانے میں ہوتا تو میں اسے مقامِ کبریا سے خبردار کرتا شاعرانہ تعلّی نہیں بلکہ ایک امر واقعی کا اظہار۔ نطشے خود کہتا ہے: ’’یہ صرف میں ہوں جس کو ایک زبردست مسئلہ درپیش ہے۔ معلوم ہوتا ہے میں کسی جنگل میں کھو گیا ہوں۔ کاش کہ میرا کوئی مرید ہوتا۔ مجھے ایک آقاکی ضرورت ہے اس کی اطاعت سے کس قدر احت ملے گی۔‘‘ دراصل اقبال کے اس عقیدے سے اعراض کی کوئی گنجایش نہیں کہ جس طرح زندگی کا وجود خودی سے ہے بعینہٖ خودی کی بقا اطاعت الٰہیہ سے۔ برگساں نطشے کے خیالات اور تصورات کا جائزہ لیتے ہوئے ہم نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا تھا کہ اس نے اگرچہ زمانے کی واقعیت سے انکار نہیں کیا لیکن اس کے وجود کو سراسر خارجی قرار دیا اور ہیگل کے اتباع میں یہ بھی فرض کرلیا کہ زمانے کی حرکت دوری ہے۔ لیکن خارجی زمانہ نہیں جیسا کہ نظریۂ اضافیت نے ثابت کردیا ہے، زیادہ سے زیادہ یہ کہ اسے اشیا کا بعد چہارم قرار دیا جائے۔ لہٰذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ زمانے کا وجود ہے یا نہیں اور اگر ہے تو اس کی حقیقت و ماہیت کیاہے؟ فلاسفہ مغرب میں سے اس مسئلے کا بہترین جواب ہمیں برگساں سے ملے گا۔ برگساں کہتا ہے کہ اگر ہم زندگی کی ماہیت پر غور کریں تو لازماً تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ ایک سلسلہ ہے تغیر و انقلاب کا اور تغیر و انقلاب کو زمانے کا وجود مستلزم گویا زندگی کی حرکت زمانی حرکت ہے اور اس لیے زمانہ ایک حقیقت۔ زمانے کی حقیقت کو تسلیم کرنے کے بعد دوسرا مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کی ماہیت کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نفس انسانی جب اپنے خارج کی دنیا پر نظر ڈالتا ہے تو جملہ حوادث ایک سلسلے کی شکل اختیار کرلیتے ہیں جس کا ایک ماضی ہے ایک حال اور ایک مستقبل۔ لیکن یہ زمانے کی خارجی حیثییت ہے اور اشیا سے وابستہ جسے مکان سے تمیز کرنا مشکل ہوجاتا ہے، کیونکہ یہاں اس کا مرور ایک خط کی شکل میں ظاہر ہوگا جس کا ایک حصہ کھینچ چکا ہو، ایک کھینچ رہا ہے اور ایک ابھی کھنچے گا۔ جو طویل بھی ہے اور مختصر بھی یعنی نقاط مکانی یا سکنات کی طرح آفات کا ایک مجموعہ اور اس لیے غیر حقیقی۔ زمان خالص کا شعور ہمیں اس وقت ہوتا ہے جب ہم اپنی داخلی واردات میں ڈوب کر اس سے اتصال پیدا کرتے ہیں۔ یہ اصل زمانہ ہے مرور سے پاک اور آفات سے آزاد، جس کا نہ ماضی ہے، نہ حال، نہ مستقبل بلکہ ایک آن واحد یا ایک مستقل ’’اب‘‘۔ اقبال کو برگساں کے اس نظریے سے اتفاق ہے لیکن زمانے کے اس نظریے سے جب یہ طے ہوجاتا ہے کہ کائنات عبارت ہے ایک آزاد تخلیقی حرکت سے اور اشیا وہ حوادث جن سے کائنات کا تسلسل جاری ہے مگر جن کو فکر قید مکانی میں لے آتی ہے کیونکہ تواتر اور تسلسل اس کی فطرت میں داخل ہیں لہٰذا حقیقت مطلقہ کو ایک آزاد، ناقابل تعین، تخلیقی اور ذی حیات محرک تصور کرنا چاہیے جس کی حیثیت ایک مشیت کی سی ہے تو اقبال کی رائے میں برگساں کی حیاتیتِ فکر اور مشیت کی اک مثنویت میں منقسم ہوجاتی ہے اور اس کی وجہ فکر کا وہی ناقص تصور ہے جو اس کی عمیق تر حرکت کو نظر انداز کردیتا ہے۔ بے شک فکر کے لیے ضروری ہے کہ وہ حقیقت کو سکنات اور تعینات میں تقسیم کردے مگر اس کا اصل منصب یہ ہے کہ مراتب شعور میں سے ہر مرتبے کے مطابق مناسب ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے محسوسات و مدرکات کے مختلف عناصر میں ترکیب و اتلاف پیدا کرے۔ گویا حیات کی طرح اس کا وجود بھی نامی ہے۔ جس طرح حیات کا نشوونما ایک مسلسل اتلاف ہے اس کے پیہم مراحل کا بعینہٖ یہی کیفیت ہے فکر کی برگساں کے نظریے پر اقبال کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ وہ اپنے محرک حیات کی غائی حیثیت تسلیم نہیں کرتا۔ اس کے نزدیک یہ محرک نہ کسی اصول کا پابند ہے، نہ مقصد کا بلکہ سراسر بے بصر اور جو راستہ چاہے اختیار کرلے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ برگساں خود اپنی واردات شعور کا تجزیہ بھی کامیابی سے نہیں کرسکا۔ اگر حیات کا خاصہ ہے نمو (جیسا کہ یقینا ہے) اور اس کا انحصار غایات پر تو یہ عمل فہم و بصیرت سے خالی نہیں ہوسکتا۔ لیکن برگساں کی نظر میں چونکہ واردات شعور کے معنی ہیں ماضی کی کارفرمائی حال میں لہٰذا وہ اس حقیقت کو فراموش کردیتا ہے کہ ان کا (واردات شعور کا) ایک پہلو آیندہ کا تصور بھی ہے اس لیے زندگی مجموعہ ہے اعمال توجہ کا اور توجہ کے لیے اغراض و مقاصد ناگزیر جو اس امر کا باعث ہوتے ہیں کہ ہماری نگاہیں مستقبل کی طرف پھر جائیں اور اس طرح زندگی میں اقدام کی خواہش پیدا کریں۔ گویا زندگی حافظہ بھی ہے اور تخیل بھی لہٰذا حقیقت مطلقہ کو ایک کورا اور بے بصر مشیت سے تعبیر کرنا غلطی ہے۔ بایں ہمہ برگساں نے حیات کی غائی خصوصیت کو تسلیم نہیں کیا۔ وہ کہتا ہے کہ اس سے زمانے کی واقعیت میں فرق آجائے گا کیونکہ مستقبل کی تعین کا مطلب ہے اس کی تخلیقی حرکت سے انکار۔ یہاں پھر اقبال نے برگساں کو اس کی غلطی پر متنبہ کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر غایت کا مطلب ہے کسی پیش از وقت تجویز کردہ نقشے کو عملی صورت میں منتقل کرنا تو بے شک غایت کا ان کا انکار ضروری ہے کیونکہ اس طرح نہ انسان کے لیے آزادی کی گنجایش ہے نہ خدا کے لیے جو کچھ ہورہا ہے یا آیندہ چل کر ہوگا وہ پہلے ہی سے ہوچکا ہے اور یہ دنیا صرف ایک تماشا گاہ ہے۔ جس میں ہم کٹھ پتلیوں کی طرح حرکت کررہے ہیں۔ اقبال کے نزدیک غایت کے معنی ہیں حیات کی انتخابی نوعیت یعنی اس کے سامنے ہر لحظہ نئے نئے اغراض اور مقاصد کا صورت پذیر ہونا۔ لیکن برگساں ان حقائق سے بے خبر رہا اور یہی وجہ ہے کہ اس کا فلسفہ نہ دوئی سے آزاد ہو سکا نہ اس اغراض سے کہ اگر ارتقائے تخلیقی کا عمل شعور اور بصیرت سے بالکل خالی ہے اور ایک اندھا دھند مشیت کا طریق کار تو کیا عملی اعتبار سے وہ ہمارے مطمح نظر کو پھر شوپن ہاوئر کی طرف نہ لے جائے گا؟ برعکس اس کے اقبال کا نظریہ جو انھوں نے اسلامی روایات کے تتبع میں آزادانہ قائم کیا ہر لحاظ سے بہتر اور کامل و مکمل ہے گو اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ الا یہ کہ اقبال کے نظریے میں نہ روح اور مادے کی ثنویت کا امکان ہے نہ اس وقت کا کہ محرکِ حیات نے شخصیت کی صورت کیونکر اختیار کی۔ میک ٹے گرٹ اب تک بحث زمانے کی حقیقت اور واقعیت کی تھی لیکن زمانۂ حال میں میک ٹے گرٹ کی منطق نے اس کی عدم حقیقت پر ایک دوسرے رنگ میں استدلال کیا۔ وہ کہتا ہے: دنیا کا ہر حادثہ ماضی بھی ہے حال بھی، اور مستقبل بھی مثلاً پیش نظر مضمون کہ جب تک آپ نے اسے پڑھا نہیں اس کا تعلق مستقبل سے تھا، سردست حال اور پڑھ چکنے کے بعد ماضی سے۔ تینوں خصائص چونکہ باہم دگر معارض ہیں بایں ہمہ ایک ہی واقعے میں باہم دگر مجتمع ہیں لہٰذا زمانے کی حقیقت ناقابل تسلیم۔ لیکن میٹ ٹے گرٹ کی اس منطق پر اقبال کا اعتراض یہ ہے کہ جب کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے تو اس میں اور حوادث ماقبل میں ایک ایسا رشتہ قائم ہوجاتا ہے جس میں ان رشتوں کے باوصف جو اس میں اور حوادث مابعد میں پیدا ہوں کوئی فرق نہیں آتا لہٰذا میک ٹے گرٹ کی دلیل سے زمانے کی واقعیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ مزید برآں میک ٹے گرٹ نے زمان خالص کی حیثیت پر مطلق غور نہیں کیا جو مرور سے آزاد ہے اور اس لیے مذکورۃ الصدر دلیل کے ماتحت نہیں آتا۔ لیکن میک ٹے گرٹ کو زمانے کی طرح واجب الوجود سے بھی انکار تھا۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ واجب الوجود پس کر لاتعداد وجودوں میں بٹ گیا ہے۔ یہی وجود اصل حقیقت ہیں اور اس لیے بقائے دوام کے مستحق اب اس کی تنقید خود اقبال کی زبان سے سنیے۔ اگر وجود مطلق فی الواقع بہت سے وجودوں میں بٹ گیا ہے تو اس امر کا کیا ثبوت ہے کہ یہ اس کی صفت بقا سے متعصف ہیں؟ پھر جب بقا کا اصول یقینی ہے تو انسان کے دل میں اس کے لیے کیا آرزو پیدا ہوسکتی ہے؟ رہا ذات باری تعالیٰ سے انکار اور حقیقت مطلقہ کا تصور باہم دگر مربوط خودیوں کی ایک کثرت کے طور پر۔ سو اس کی ایک وجہ تو کلیسا کے ورا الوریٰ اور معطل خدا سے گریز اور دوسری ہیگل کے بے حس و حرکت واجب الوجود سے بچنے کی خواہش ہے۔ بایں ہمہ جب میک ٹے گرٹ، جس کا فلسفیانہ تفکر اندرونی بصیرت اور وجدان کی روشنی سے محروم نہیں تھا اور جو گویا دیکھتا بھی تھا اور جانتا بھی، یہ کہتا ہے کہ موت و حیات کا عمل ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتا، اس کا معراج کمال غالباً یہ ہوگا کہ زمانے اور تغیر سے آزاد ہوجائے تو صاف ظاہر ہے کہ خودیوں کی کثرت ایک دن پھر واجب الوجود میں مدغم ہوجائے گی۔ وہ عشق کو حقیقت مطلقہ کا جوہر قرار دیتا ہے لیکن اگر عشق کا نتیجہ عمل کی بجائے سکون ہے تو اس سے خودی کا جداگانہ وجود کیونکر قائم رہے گا؟ اقبال کے نزدیک میک ٹے گرٹ کی منطق خود اس بات کی مقتضی ہے کہ ہم حقیقت مطلقہ کا تصور ایک ہمہ گیر خودی کی شکل میں کریں جس کے عشق سے خودی کو عمل اور عمل کے ذریعے حیات ابدی کی دولت نصیب ہوجاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک ایسی خودی کا عقلی تصور جو تمام خودیوں پر محیط ہو اور اس کے باوجود سب سے الگ نہایت ہی مشکل بات ہے لیکن اس سے مفر کی صور ت میں بھی نہیں۔ اوس پنسکی پچھلے صفحات میں ہم اس امر کی طرف اشارہ کر آئے ہیں کہ زمانے کا ایک پہلو خارجی بھی ہے جس کا خاصہ ہے مرور اور جو حوادث میں تواتر کا باعث ہوتا ہے۔ یہ زمانہ کانٹ کے نزدیک تعلیل کی اساس ہے اور اس لیے انکشافِ حقیقت کا ایک مقولہ یعنی مکان کی طرح ایک ذہنی شکل اور سراسر غیر حقیقی۔ پھر زمانۂ حال میں جب آئن سٹائن۱۶؎ نے اضافیت کے متعلق اپنا مشہور نظریہ پیش کیا تو خود سائنس کو مکان کے وجود مطلق سے انکار کرنا پڑا۔ آئن سٹائن کے نزدیک مکان کا وجود حقیقی ہے مگر اضافی، بالفاظِ دیگر یہ کہ اس کا انحصار مادے پر ہے۔ یہ نہیں کہ مادہ ایک خلائے محض میں واقع ہو۔ لہٰذا فطرت کی خارجی ہستی کو تسلیم کرلینے کے باوجود اشیا کے متعلق یہ ماننا لازم آئے گا کہ ان کی کمیت، ہیئت اور ناپ اسی نسبت سے قابل تبدیل ہیں جس نسبت سے ناظر کے مقام اور رفتار میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ حرکت اور سکون کی حیثیت بھی اضافی ہے اندریں صورت نیوٹن کے خلائے محض کی جگہ ہمیں ایک زمانی مکانی تسلسل کا تصور قائم کرنا پڑتا ہے اور جوہر (یا شے) کے بدلے جس کی تعریف علم طبیعات میں یوں کی گئی تھی کہ وہ اپنے اعراض کے باوجود استمرار کرتا ہے باہم دگر مربوط حوادث کے ایک نظام کا۔ حاصل کلام یہ زمانے کا وجود خارجی اور تواتر سے قائم ہے یعنی اشیا کا بعد چہارم۔ گویا نظریۂ اضافیت کی رو سے جہاں مکان محض، جوہر اور مادے کا قدیم تصور باطل قرار پایا وہاں زمانے کی واقعیت سے بھی انکار لازم آتا ہے لیکن زمانے کا رواس کی تخلیقی حرکت کا رو ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا میں کوئی چیز یا حادثہ رونما نہیں ہوتا، ہم اس سے دوچار ہوتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک اضافیت کا نظریہ اگرچہ صرف ریاضیات یا زمانے کے وجود خارجی سے متعلق ہے اور آئن سٹائن نے اس کی اصل حقیقت سے مطلق بحث نہیں کی یا شاید ہم آئن سٹائن کے تصور زمانہ کی صحیح حقیقت سے واقف نہیں، بایں ہمہ جب ایک روسی مفکر اوس پنسکی یہ کہتا ہے کہ اشیا کا بعد چہارم سہ بعدی اشکال کی اس حرکت سے مترتب ہوتا ہے جس کی سمت ان کے وجود میں شامل نہیں (بعینہٖ جس طرح نقطے، یا خط یا سطح کی حرکت سے اس سمت میں جواس سے باہر واقع ہے ابعادِ ثلاثہ وجود میں آتے ہیں) نیز یہ کہ زمانہ ہی دراصل وہ فاصلہ ہے جو حوادث کو باعتبار تواتر ایک دوسرے سے جدا اور مختلف نظامات سے وابستہ کرتا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسی اوس پنسکی کی رائے تھی کہ ہماری حس زمانی حقیقتاً ایک مبہم سی حس مکانی ہے جو یک، دو اور سہ بعدی اشکال پر ہمیشہ تواتر فی الزمان کی شکل میں ظاہر ہوگی۔ حاصل کلام یہ کہ زمانہ بھی ایک ناقص سا مکانی بعد ہے اور اقلیدس کے ابعاد ثلاثہ کے باعتبار ماہیت عین مطابق، لہٰذا اقبال نے اس پر نہایت ٹھیک اعتراض کیا ہے کہ ایک نئی سمت کی تلاش میں اوس پنسکی مجبور تھا کہ زمان قار کو ایک حقیقت قرار دے لیکن آگے چل کر وہ اسی حقیقت کو ایک ناقص سی حس مکانی میں ضم کردیتا ہے۔ اگر زمانہ فی الواقع ایک نئی سمت ہے تو اس کو التباس ٹھہراتے ہوئے ایک نئے اور حقیقی بعد کا وجود کیونکر ممکن ہے؟ ظاہر ہے کہ اوس پنسکی کے پاس اقبال کے اس اعتراض کا کوئی جواب نہیں۔ ۲- اسلام کے بعض عمرانی تصورات جدید فلسفے کی بحث میں ہم نے اس امر سے قصداً احتراز کیا تھا کہ مغرب کے ذہنی افکار نے عمران اور تمدن کی دنیا میں کیا صورت اختیار کی اور وہ کیا نتائج تھے جو اس طرح اخلاق اور مذہب کے لیے مترتب ہوئے؟ بات یہ ہے کہ لوتھر۱۷؎ کے احتجاج نے جب شمال مغربی یورپ کو رومی کاثولیکی کلیسا کے تسلط سے آزاد کردیا او رپاپائے روما کی تقدیس و معصومیت کا خاتمہ ہوگیا تو ان سیاسی اور اقتصادی عوامل کا اظہار جو نئی نئی قوموں کی بیداری اور ایک عالمگیر سلطنت کی مخالفت کا باعث ہورہے تھے اس نظریے میں ہوا کہ ریاست ایک دنیوی امر ہے اور اس لیے کلیسا یا مذہب سے بالکل بے تعلق۔ رفتہ رفتہ سیاست، معیشت، تجارت، معاشرت غرضیکہ تہذیب تمدن کا ہر شعبہ دنیوی قرار پایا اور اہل یورپ کی زندگی عملاً دین اور دنیا کے ناقابل اتحاد اور اصولاً روح اور مادے کی ثنویت میں تقسیم ہوگئی۔ دوسری جانب افراد کے شعور ذات میں دن بدن اضافہ ہورہا تھا اور نظام اقطاعیت (جاگیرداری) کے خاتمے، جغرافی اکتشافات، سرمایہ دار طبقے کے ظہور اور دولت و قوت کی فراوانی سے بجاطور پر سوال پیدا ہوا کہ انسان کا اصولِ اجتماع کیا ہونا چاہیے؟ کیا اس کے لیے پادشاہ کا وجود ضروری ہے جو اپنے حق سماوی کی رو سے تمام جماعت پر مستبدانہ حکومت کرتا ہے یا وہ ایک عقد اجتماعی ہے جس میں سب انسان برابر کے شریک اور ایک دوسرے کے جواب دہ ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ نظریہ جو آگے چل کر انقلابِ فرانس کا موجب ہوا روسو۱۸؎ کے اجتہاد فکر کا نتیجہ ہے۔ بایں ہمہ چونکہ آزادی اور مساوات کے نئے نئے تخیلات سے حقیقی فائدہ سرمایہ دار طبقے نے اُٹھایا تھا لہٰذا ان نیابتی اداروں کے باوجود جواب نمایندگی جمہور کے لیے قائم ہورہے تھے عوام بدستور مغلوب و مقہور رہے اور مختلف فلسفیانہ تصورات بالخصوص کومت کے اس نظریے نے جماعت کا تصور بھی ایک بدن کی شکل میں کرنا چاہیے جس میں مختلف اعضا مختلف وظائف سرانجام دیتے ہیں سرمایہ داری کے جواز میں ایک نئی دلیل پیدا کردی۔ دوسری جانب سائنس کی ترقی نے مادیت کا راستہ صاف کردیا تو انسانی تاریخ کی تشریح مادی اصولوں پر ہونے لگی اور ہیگل نے انتہا پسند مقلدین نے یہ خیال پیش کیا کہ اس میں صرف معاشی قومیں حصہ لیتی ہیں جس سے دو مختلف نتائج مترتب ہوئے۔ ایک نطشے کا نظریہ فوق البشر اور مارکس کی اشتراکیت۔ نطشے کہتا ہے ادنیٰ انسانوں نے اعلیٰ انسانوں کو گھیر رکھا ہے اس لیے ضروری ہے کہ وہ ان پر غلبہ حاصل کرے۔ یہ گویا جماع کے آمری نظام کا پیش خیمہ تھا۔ مارکس اس کے برخلاف جمہور کو دعوت دیتا ہے کہ سرمایہ داروں کے پنجہ استبداد سے آزاد ہوں اور معاشی عوامل کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے ایک جدید نظام اجتماعی نافذ کریں۔ اس صورت حالات میں فلسفیانہ غور و تفکر بھی کسی خاص فائدہ کا موجب نہ ہو۔ اس کی ابتدا اس خیال سے ہوئی تھی کہ عرفانِ حقیقت کا کوئی نیا منہاج تلاش کیا جائے اور انتہا تشکیک ولادریت پر۔ کانٹ کی رائے میں خدا کی ہستی کا کوئی ثبوت نہیں لیکن انسان کا اصول عمل یہ ہونا چاہیے کہ وہ فی الواقع موجود ہے۔ کانٹ کے بعد مذہب اور اخلاق پر جس جس رنگ میں خامہ فرسائی کی گئی وہ علم و حکمت کی تاریخ کا ایک زریں باب ہے مگر خود اخلاق اور مذہب کے لیے بے سود کیونکہ اس سے دلوں میں نہ ایمان کی روشنی پیدا ہوئی نہ سیرت میں پختگی۔ اب مذہب و اخلاق کا دائرہ صرف بحث و نظر تک محدود تھا یا اس کی حیثیت یہ رہ گئی کہ عوام کے لیے افیون اور اربابِ سیاست کے لیے تدبیر و مصلحت کا کام دے لہٰذا مادیت پرستی کی وہ رو جو سائنس پر حاوی اور فلسفے میں کچھ دبی دبی سی تھی تہذیب و معاشرت پر چھا گئی اور خیالات کی کش مکش اور نظریوں کے تصادم میں کوئی ایسا نصب العین یا اصول حیات باقی نہ رہا جو افراد و اقوام کو کسی ایک مرکز پر جمع کرتا یا عزمِ امور کا سبق دیتا۔ قومیں ایک دوسرے سے لڑ رہی تھیں۔ افراد خانہ جنگی یا طبقات کی آویزش میں گرفتار۔ بے روک آزادی نے گھروں کا امن و چین کھو دیا اور تن پرستی نے تقویٰ اور پرہیزگاری کو۔ یہ صورت تھی خود غرضی، خودنمائی، فواحش اور عریانی کے جواز کی۔ بے شک یورپ کے فلسفہ، یورپ کی سائنس، یورپ کے ادب، اجتماعی قوتوں اور انفرادی اقدامات نے انسان کے لیے بڑی بڑی کامرانیاں حاصل کیں مگر اس کی ہلاکت، بربادی، اخلاق اور ایمان کے خون سے۔ اسلام کی ذہنی اور اجتماعی تاریخ کو اگرچہ ان واقعات سے کوئی تعلق نہیں لیکن یہ زمانہ چونکہ یورپ کے سیاسی اور ثقافتی تغلب کا ہے اس لیے اقبال کے فلسفہ عمران کو جس کی شاید ایک معمولی سی جھلک ان صفحات میں نظر آجائے جدید نظریات کا بالاستیعاب جائزہ لینا پڑا۔ یوں بھی فکر کی کوئی تعمیر دوسرے افکار سے بے تعلق نہیں ہوسکتی۔ البتہ افسوس یہ ہے کہ اقبال کے غور و تفکر کے اس نہایت ہی اہم اور مجتہدانہ پہلو سے ہم یہاں مطلق بحث نہیں کرسکتے الا یہ کہ اس کی اساس قرآن و سنت پر قائم اور توحید و رسالت اس کے بنیادی ارکان۔ اجتماعی لحاظ سے دیکھا جائے تو رکن اوّل یعنی توحید کا مطلب ہے خدا اور صرف خدا کی حاکمیت مطلقہ کا اقرار اور اس کے قانون کی اطاعت۔ یہ عقیدہ کسی فرد واحد، کسی ایک طبقے یا قوم کی حاکمیت کا قاطع، نسل، وطن، قرابت، وراثت، دینی پیشوائی کا دشمن، اخوت و مساوات اور حریت کا علمبردار ہے۔ رسالت ایک سیاسی اجتماعی ادارہ ہے جس سے ایک خاص قسم کی اخلاقی فضا کی پرورش ہوتی ہے جو لوگ اس فضا میں حصہ لیتے ہیں ان کے کمالاتِ زندگی میں اضافہ ہوتا ہے، برعکس اس کے جو دانستہ یا نادانستہ اس سے انحراف کرتے ہیں وہ کمالاتِ زندگی سے محروم رہ جاتے ہیں اور اصطلاحاً کافر کے نام سے موسوم کیے جاتے ہیں۔ گویا کفر عبارت ہے اس طغیان و عصیان سے جس کی بنا پر انسان انبیا کی رہنمائی سے انکار کردیتا ہے۔ لہٰذا پیغمبر اسلام ا کی قیادت، آپ۔ؐ کی اطاعت، آپ۔ؐ کے لائے ہوئے دستور العمل سے گریز کفر میں داخل ہے اور ختم رسالت کا مطلب یہ کہ اب کوئی شخص اس اجتماعیت کا مرکز نہیں بن سکتا جسے خدا تعالیٰ نے آقائے دو عالم سیّد کائنات جناب محمد مصطفی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات والا صفات سے قائم فرمایا جس طرح کلمہ لا الٰہ الا اللہ کے پہلے جز نے تمام معبودان باطل کا خاتمہ کردیا۔ بعینہٖ اس کے دوسرے جز یعنی محمد الرسول اللہؐ نے ہر قسم کی ذہنی غلامی کا۔ گویا اسلام کے اصول اجتماع کی اساس خالصتاً روحانی ہے، ایک مستقل نصب العین اور ضابطہ حیات کے ساتھ ملت اسلامیہ ایک ہر لحظہ ترقی پذیر اور اقوامِ عالم کو اپنے اندر جذب کرلینے والی جماعت۔ ان مبادیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم صرف ان خیالات کی طرف اشارہ کریں گے جو اقبال نے اسلام کے تصور ریاست، دولت اور امومت کے بارے میں قائم کیے۔ ریاست اسلام میں ریاست کا منصب یہ ہے کہ انسان کی حیاتِ اجتماعیہ تمام ترروحانی حیثیت اختیار کرے۔ اس نے دین و دنیا کی تفریق ناجائز قرار دی۔ یہ اس لیے کہ حقیقت مطلقہ محض روح ہے اور مادے کا تصورزمان و مکان میں اس کے انکشاف کا نتیجہ۔ گویا مادیات کی دنیا حقیقت ہی کا ایک مظہر ہے اور اس کی لاانتہا وسعت تکمیل ذات کے لیے نت نئے مواقع اور ذرائع پیدا کرتی رہتی ہے۔ لہٰذا اسلام میں ریاست کا وجود اس کوشش سے متشکل ہوا کہ اسلام کا اصول حیات جماعتی نظم و نسق میں ظاہر ہو یعنی ہم اپنی قوائے اجتماعیہ پر اس انداز سے دسترس حاصل کریں کہ ان سے روحانیت کی ترجمانی ہونے لگے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اسلامی ریاست کو الہٰیت (تھیوکریسی) سے تعبیر کرنا پڑے گا۔ بعینہٖ جس طرح رسالت کا وجود اس کی تشکیل کا باعث اور اس لیے اس کا دوسرا نام خلافت ہے پھر چونکہ انسان کی ہدایت اور رہنمائی کا قانون وحی کے ذریعے نازل لہٰذا قرآن حکیم اس کا دستور اور ضابطہ۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسلامی ریاست انسان کی طبعی ضروریات یا مقتضیات عقل و علم کے خلاف ایک مستبدانہ نظامِ حکومت قائم کرنا چاہتی ہے۔ اس نے سب سے پہلے ملوکیت و شہنشاہیت اور دینی اجارہ داری کا خاتمہ کیا اور استبداد اور سرمایہ داری کی ہر رنگ میں مخالفت کی۔ اس کا طریق کار عین جمہوری ہے لیکن یہ وہ جمہوریت نہیں جو مغرب میں اقتصادی اصلاح سے مترتب ہوئی اور جس پر اشتراکیت کا بھوت سوار ہے بلکہ انسان کی اس قدرتی استعداد اور صلاحیت کا نتیجہ جس کو اسلام بروئے کار لانا چاہتا ہے تاکہ جماعت میں اعلیٰ افراد پیدا ہوں اور اس کے مقاصد کے حصول میں آزادانہ حصہ لیں۔ طاقت ریاست کے لیے طاقت کا وجود ناگزیر ہے۔ یوں بھی اسلام نے طاعت کو معیوب نہیں ٹھہرایا جس کے بغیر نہ انسان کے لیے دفع مضرت کا موقع تھا نہ جہدو کشاکش کا۔ مزید برآں شر کے متعلق یہ کہنا غلط ہوگا کہ وہ محض ایک التباس یا واہمہ ہے جس کا ازالہ ایک دن خودبخود ہوجائے لہٰذا ہمیں شانتی اختیار کرلینی چاہیے اس لیے کہ شر کی حیثیت اخلاقی ہو یا طبعی اس سے بہرحال سابقہ پڑتا ہے۔ گویا یہ انسان کا فرض ہے کہ خود اپنی کوشش سے اس پر غالب آئے۔ اسلام نے اسی کوشش کو جہاد سے تعبیر کیا اور اس کا مقصد دفع فتنہ اور شر قرار دیا۔ پھر ایک دوسرے لحاظ سے دیکھا جائے تو اسلام کا اصول ہے کہ اکراہ فی الدین ناجائز ہے اور جوع الارض کی اجازت نہیں۔ اس کے نزدیک حکم صرف خدا کے لیے ہے۔ اندریں حالات جہاد سے مقصد نہ تسخیر و تغلب ہے نہ مذہب کی جبری تبلیغ۔ اس کا وظیفہ ہے تمکین حق اور اعلائے کلمتہ اللہ۔ مختصراً یہ کہ جہاد ایک اصول حیات ہے جو افراد و جماعت کو حفظ آئین اور بقائے ذات کا سبق دیتا ہے۔ لہٰذا نہ اس میں ترمیم و تنسیخ کی ضرورت ہے نہ دفاعی اور جارحانہ کا امتیاز کرتے ہوئے کسی تحدید کی۔ دولت انسان کی حیات ارضی احتیاجات پر مشتمل ہے اور احتیاجات معیشت کا نقطہ آغاز، جس کا تعلق زمین اور انسان کی پیدا کردہ دولت سے ہے۔ لیکن اسلام نے زمین کو خدا کی میراث ٹھہرایا اور اس پر جماعت کے علاوہ فرد کا حق ملکیت تسلیم نہیں کیا مگر یہ کہ وہ املاک منقولہ کو زیر تصرف رکھ سکتا ہے گو یہاں بھی قانون وراثت نے اس میں تقسیم در تقسیم پیدا کردی۔ اسلام نے سود کو حرام اور جمع زر کو ممنوع ٹھہرایا۔ اس میں زکوٰۃ کو فرض اور بذل و ایثار کی اس درجہ تلقین کی گئی کہ اخلاق نے احکام سے مل کر ضروریات کو اقل قلیل سے بھی کم کردیا اور باقی سب کچھ (عفو) خدا کے لیے رہ گیا۔ ممکن ہے اشتراکیت کو اس پر یہ اعتراض ہو کہ اخلاق سے معاشی اصلاح کیونکر ممکن ہے لیکن اوّل تو اسلام میں اخلاق کے ساتھ احکام بھی موجود ہیں۔ ثانیاً اخلاق کے بغیر خود اشتراکیت کے مقاصد کہاں تک پورے ہوسکتے ہیں؟ امومت اسلام نے خاندان (عائلہ) کو جماعت کی اساس قرار دیا لیکن اس اساس کی بقا حفظ امومت سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے زن و مرد کے لیے یکساں حقوق اور اظہارِ ذات کی آزادی کے باوجود ان کے روابط کی مناسب حدود مقرر کیں اور تہذیب و معاشرت کی بنا عفت نفس پر رکھی۔ جس طرح انسان کا اکل و شرب حیوانات کی طرح محض نافع اور غیر نافع اشیا پر مشتمل نہیں بلکہ اس کی حس جمال اور بعض دوسرے مصالح خود اس کے اندر ایک تحدید پیدا کرلیتے ہیں۔ بعینہٖ جماعت کا فرض ہے کہ اپنی حیاتِ جنسی کو حیوانیت سے پاک رکھے۔ لہٰذا اسلام نے عورت کی صفت امومت پر زور دیا اور اس کے حفظ و بقا کے لیے وہ ذرائع اختیار کیے جن کو اصطلاحات حجاب سے تعبیر کرسکتے ہیں (اس کے تمام داخلی اور خارجی مظاہر کے ساتھ) اور جس کی صحیح حقیقت اور مصلحت پر یہ زمانہ بالخصوص غوروفکر کا متقاضی ہے۔ حوالے اور حواشی ۱- بالِ جبریل، ص۱۱۴ ۲- ارمغانِ حجاز، ص۵۶ ۳- مولانا روم کے اشعار کا حوالہ نہیں مل سکا۔ ۴- ڈیکارٹ (۳۱؍مارچ ۱۵۵۶ئ- ۱۱؍فروری ۱۶۶۰ئ) فرانسیسی فلسفی اور ریاضی دان، جدید فلسفے کا بانی۔ ۵- کانٹ (۲۲؍اپریل ۱۷۲۴ئ- ۱۲؍فروری ۱۸۰۴ئ) جرمن فلسفی The Critique of Pure reason کا مصنف۔ ۶- ہیگل (۲۷؍اگست ۱۷۷۰ئ- ۱۴؍نومبر ۱۸۳۱ئ) جرمن فلسفی۔ ۷- برکلے، جارج (۱۲؍مارچ ۱۶۸۵ئ- ۱۴؍جنوری ۱۷۵۳ئ) جرمن مفکر سوشلسٹوں کو متاثر کیا۔ دیکھیے مضمون ’’ڈاکٹر صاحب کے ارشادات‘‘ کا حاشیہ نمبر۹ ۸- ہیوم، ڈیوڈ (۱۷۱۱ئ- ۱۷۷۶ئ) سکاٹ لینڈ کا فلسفی اور مؤرخ، فلسفہ تشکیک پر زیادہ زور دیا۔ ۹- کومٹ، آگسٹس (۱۹؍جنوری ۱۷۹۸ئ- ۵؍ستمبر ۱۸۷۶ئ) فرانسیسی ریاضی دان۔ ۱۰- شوپن ہائوئر، آرتھ (۲۲؍فروری ۱۷۸۸ئ- ۱۸۶۰ئ) جرمن شاعر اور فلسفی، قنوطی فلسفے کا علمبردار۔ ۱۱- بریڈلے جیمز (مارچ ۱۶۹۳ئ- جولائی ۱۷۶۲ئ) برطانوی ماہر فلکیات۔ ۱۲- میک ٹے گرٹ، جان اطیس (۱۸۶۶ئ- ۱۹۲۰ئ) انگریز فلسفی، کیمبرج میں اقبال کے استاد تھے۔ ۱۳- وائٹ ہیڈ، پروفیسر الفرڈ نارتھ (۱۸۶۱ئ- ۱۹۴۷ئ) انگریز فلسفی اور ریاضی دان۔ ۱۴- الیگزینڈر سموئیل (۱۸۵۹ئ- ۱۹۳۸ئ) حقیقت پسند فلسفی، مانچسٹر یونی ورسٹی میں پروفیسر رہے۔ ۱۵- اوس پنسکی (۱۸۷۸ئ- ۱۹۴۷ئ) روسی مصنف، سائنسی تجربات اور روحانی اکتشافات پر تصانیف ملتی ہیں۔ ۱۶- آئن سٹائن (۱۴؍مارچ ۱۸۷۹ئ- ۱۸؍اپریل ۱۹۵۵ئ) جرمن مفکر او رماہر طبیعیات۔ ۱۷- لوتھر، مارٹن (۱۰؍نومبر ۱۴۸۳ئ- ۱۸؍فروری ۱۵۴۶ئ) پروٹسٹنٹ فرقے کا بانی، مصلح پادری۔ ۱۸- روسو (۱۷۱۲ئ- ۱۷۷۸ئ) فرانسیسی مفکر، مصنف۔ ز……ز……ز خودی شاعری اور فلسفہ کی بارگاہ میں جب کبھی یہ سوال کیا جائے گا کہ وہ سب سے بڑی بات، جسے اقبال نے پیش کیا، کیا تھی تو اس کا جواب ہوگا خودی۔ لیکن خودی کا جو تصور اقبال سے پہلے قائم تھا یعنی اس لفظ کو جن معنوں میں استعمال کررہے تھے وہ کوئی ایسی بات نہیں تھی؟ جس کی تشریح میں اقبال کو ورق کے ورق سیاہ کرنے پڑتے کیوںکہ خودی کے عام معنی غرور و تکبر کے ہیں، یا زیادہ گہری نظر سے دیکھا جائے تو خودی نام ہے ہمارے اس احساس کا کہ ہم ہیں ہماری ذات فی الواقع موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اقبال نے خودی کے متعلق اپنے خیالات ترتیب دیے اور ان کی وضاحت اسرارِ خودی میں کی تو اس کی پہلی اشاعت میں ان معنوں کی طرف بھی اشارہ کردیا جن میں یہ لفظ استعمال ہوا اور جن کا تعلق نہ غرور سے ہے، نہ تکبر سے چنانچہ ایرانی شاعر کا شعر ہے: غریق قلزم وحدت دم از خودی نزند بود محال کشیدن میان آب نفس۱؎ شاعر کہتا ہے جو کوئی وحدت کے سمندر میں غرق ہوگیا، خودی کا نام نہیں لے گا، اس لیے کہ کون ہے جو پانی کے اندر سانس لے سکے اور یہ بات ہے بھی ٹھیک کیوں کہ اگر ہستی صرف ایک ذات واحد کی ہے تو جو کوئی اس ہستی میں گم ہوگیا اس کی اپنی ہستی مٹ گئی، جیسے قطرہ دریا میں مل گیا تو قطرہ کہاں رہا۔ لہٰذا اقبال نے بجاطور پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہاں خودی کا لفظ احساس نفس یا تعیین ذات یا محض اپنی ہستی اور وجود کے لیے استعمال ہوا اور اس لیے جب اس سلسلے میں خود اقبال کو ایک لفظ کی تلاش ہوئی تو یہی لفظ انتخاب کیا گیا۔ اب خودی کو عربی میں ’’انا‘‘ فلسفہ میں ’’ایگو‘‘ کہتے ہیں جو یونانی زبان کا لفظ ہے اورجسے ہمارے ایک بہت بڑے فلسفی ابن رشد۲؎ نے بھی استعمال کیا ہے، مگر یہ دونوں لفظ فارسی میں نہیں چل سکتے تھے جیسے اُردو کا لفظ ’میں‘ اُردو میں بھی اس کے لیے نامناسب رہتا۔ بہرحال خودی پر گفتگو کرتے ہوئے اقبال نے ہر اس مسئلے پر گفتگو کی ہے جس کا تعلق انسان کی ہستی، ذات اور وجود سے ہے۔ وہ چاہتا تھا انسانی ہستی کے متعلق ایک آخری بات کہے، ایسی بات جس پر ہماری زندگی اور مستقبل کا دارومدار ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کچھ غلط نہیں ہوگا کہ خودی ہی اقبال کی شاعری اور فلسفہ کا حاصل ہے۔ خودی ہی وہ مضمون ہے جو اس کی شاعری اور فلسفہ میں باربار اور نت نئی شکل میں بیان ہوتا ہے۔ گویا اگر ہم خودی کے مفہوم کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لیں تو کہہ سکتے ہیں کہ اقبال کی شاعری اور فلسفہ بھی سمجھ لیا۔ مگر آپ کہیں گے خودی کا وہ کیا تصور تھا جو اقبال نے پیش کیا؟ اقبال کہتا ہے آئیے ذرا اس بات پر غور کریں ہماری ہستی ہے کیا؟ ہستی کے معنی ہیں ہونا اور ہونا ایک احساس ہے۔ جب تک یہ احساس قائم ہے ہم بھی قائم ہیں۔ جہاں یہ احساس ختم ہوا، ہم بھی ختم ہوگئے۔ لہٰذا ہماری زندگی یا زیادہ صحیح لفظوں میں یہ کہیے کہ ہماری ذات اور وجود کا تسلسل اس احساس کے تسلسل سے ہے۔ گویا یہ اپنے آپ کا شعور ہی ہماری ہستی کا راز اور ہمیں ’ہم‘ کہنے پر مجبور کرتا ہے۔ شعور ہی سے ہم اپنی ذات کی تعین کرتے اور اسے دوسروں سے الگ تھلگ ٹھہراتے ہیں۔ ہماری بقا اس شعور کی بقا ہے اور فنا اس کی فنا۔ یا پھر دوسرے لفظ خودی کے پیش نظر ہم یہ کہیں گے کہ خودی ہی سے ہمارا وجود ہے اور خودی ہی سے ہماری زندگی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خودی یا میں، انا یا ایگو، یہ اپنی ہستی کا احساس اور شعور آکہاں سے گیا۔ خودبخود یا کسی دوسری ہستی کی بدولت۔ ہم دیکھتے ہیں انسان مخلوق ہے۔ جب تک خالق کائنات نے اسے پیدا نہیں کیا تھا اس کی کوئی ذات تھی نہ وجود۔ لہٰذا خودی مخلوق ہے اور بقول اقبال ایک نعمت اور عطیہ جو پروردگار عالم نے اپنی رحمت خاص سے ہمیں عطا کیا۔ لیکن اس کے مخلوق ہونے کا یہ مطلب تو ہے نہیں کہ اہم خودی کی حقیقت سے انکار کردیں۔ یہ مطلق حقیقت نہ سہی، اضافی اور اعتباری حقیقت تو بہرحال ہے۔ لہٰذا ہم کیا کریں پروردگار عالم کی اس نعمت اور اس عطیے کو خواب و خیال سمجھیں یا یہ کہ اس کے کچھ معنی ہیں، کچھ قدر و قیمت، کیوں کہ خودی کے مخلوق ہونے کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہمارا شعورِ ذات محض ایک فریب ہے جس کو فراموش کردینا ہی بہتر ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے: شور شد و از خواب عدم چشم کشودیم دیدیم کہ باقیست شبِ فتنہ غنودیم۳؎ لیکن اس شعر کا مطلب کچھ بھی ہو یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہم اپنی ہستی کو محض خواب و خیال سمجھیں، ایک دھوکہ اور فریب جس کی کوئی حقیقت ہے نہ قدر و قیمت۔ غالب نے بھی تو کہا ہے: ہاں کھائیو مت فریبِ ہستی ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے۴؎ لیکن یہ شعر بھی ایک خاص کیفیت کا حامل ہے اور شاعر کا مقصد غالباً یہ نہیں کہ ہم اپنی ہستی کی نفی کردیں بلکہ یہ کہ ایک خاص رنگ میں اس کے فریب سے بچیں۔ کیوںکہ خودی کو مخلوق مان کر بھی ہمیں اس کی حقیقت کا اقرار کرنا پڑتا ہے۔ وہ آخر کوئی شے تو ہے جسے پروردگار عالم نے خلق کیا لہٰذا بطور مخلوق اس کی کچھ حقیقت بھی ہوگی جو اگر ہے تو کچھ قدروقیمت، معنی اور مدعا بھی۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک چیز مخلوق ہو، خالق کائنات اسے وجود کی صفت سے متصف کرے اور ہم کہیں یہ محض دھوکا ہے، فریب ہے، خواب و خیال ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خالق کے مقابلے میں مخلوق کی کوئی حقیقت نہیں، لیکن اس صورت میں بحث یہ ہونی چاہیے کہ خودی کا تعلق اپنے خالق سے کیا ہے اور اس کی اصل حقیقت کیا۔ اقبال نے اس نہایت مشکل سوال کے جواب میں جو فلسفیانہ بحث چھیڑی ہے اس کا یہ موقع نہیں۔ لیکن بطور ایک امر واقع کے دیکھا جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پروردگار عالم نے اس کی تخلیق اس لیے نہیں کی کہ ہم کو یونہی سمجھ کر ضائع کردیں۔ لہٰذا کیوں نہ ہم اس سے وہ مقصد پورا کریں جس کے لیے خالق کائنات نے اسے خلق کیا۔ ہم دیکھتے ہیں فطرت کی کوئی چیز عبث نہیں، ہر چیز سے کوئی نہ کوئی غرض پوری ہورہی ہے۔ پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ دنیا کی ہر چھوٹی بڑی چیز کے تو کچھ معنی ہوں نہ ہوں تو خودی یعنی ہماری اپنی ذات اور وجود کے اور وہ بھی اس صورت میں جب فطرت نے ہمیں شعور کی لاانتہا قوتیں اور عمل کی بے شمار صلاحیتیں عطا کی ہیں۔ ہم کیوں نہ اس کو سمجھنے کی کوشش کریں تاکہ ہمیں معلوم ہوجائے اس کے تقاضے کیا ہیں اور غرض و غایت کیا؟ یوں شاید ہم پر اس کا جوہر کھلے۔ لیکن یہ جب ہی ممکن ہے کہ اوّل ہم اس کا اثبات کریں اور پھر اس کی حفاظت اور نگہداشت کا خیال رکھیں۔ اب فرض کیجیے ہم خودی کا اثبات کرتے اور اس کی حفاظت اور نگہداشت کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس کا کوئی مستقبل بھی ہے یا یہ نعمت اور یہ عطیہ جب ہی تک ہے جب تک ہم زندہ ہیں؟ ادھر موت آئی اور ادھر اس کا وجود ختم ہوگیا۔ ایک خاص لحاظ سے دیکھا جائے تو اس سوال کا تعلق حیات بعد الموت سے اتنا نہیں جتنا اس امر سے کہ ہمارا شعور ذات کیا ہمیشہ قائم رہ سکتا ہے؟ کیا خودی کو سچ مچ بقا ہے؟ کیوںکہ ایک تو بطور مخلوق وہ بہرحال فانی ہے اور اس لیے یہ دعویٰ نہیں کیاجاسکتا کہ بقائے دوام اس کا حق ہے۔ یہ پھر ایک نعمت اورایک عطیہ ہوگا جو خالق کائنات کی طرف سے اسے ملے گا۔ لہٰذا ہوسکتا ہے اس کا وجود ہمیشہ قائم نہ رہے۔ لیکن جیسا کہ ہم نے کہا تھا یہاں پھر اصل بحث فنا اور بقا کی نہیں، بلکہ شعور ذات کے تسلسل یعنی اس امر کی کہ کیا ہستی کا وہ شعور جو پروردگار عالم نے ہمیں عطا کیا، ہمیشہ قائم رہ سکتا ہے؟ بقائے دوام کیا ہے؟ کسی برتر ہستی کا محو ہوکر مٹ جانا، اپنا احساس ذات کھو بیٹھنا، جیسے قطرے اور دریا کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ قطرہ دریا میں واصل ہوا تو اس کی ہستی فنا ہوگئی، یا اس کی کوئی دوسری صورت بھی ہے۔ اس کے جواب میں پھر یہی کہنا پڑے گا کہ ہم جب ہی تک ہیں جب تک ہمیں اپنے ہونے کا احساس ہے، یا یہ کہ خودی ہی کا تسلسل ہمارے شعور کا تسلسل ہے۔ لہٰذا اگر خودی کو بقا ہے تو ہمارے اس شعور کو بھی جس کی بدولت ہمیں اپنی ذات کا احساس ہوتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں ہم ہیں۔ رہا یہ سوال کہ خودی کو کیا واقعی بقا ہے؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں ہے اس لیے کہ ایک تو بقا کی خواہش فطری ہے، دوسرے خالق خودی نے جب اسے خلق کیا تو اس میں یہ صلاحیت بھی رکھ دی کہ بقائے دوام کی آرزو کرے بلکہ ہمیں کہنا چاہیے کہ حصولِ بقا کی خواہش اس کی فطرت میں داخل ہے۔ اقبال کہتا ہے یوں دیکھنے میں تو خودی کی کوئی حقیقت نہیں، وہ مخلوق ہے، فانی ہے، چشم زدن میں پرکاہ کی طرح اڑسکتی ہے۔ لیکن اگر ہم نے اس کی حقیقت اور قدر و قیمت کو سمجھ لیا، اس کے معنی اور مدعا کو پاگئے تو یہی قطرہ بے مایہ، یہی شعور اور احساس جو اکثر ایک دھوکہ اور ایک خواب و خیال معلوم ہوتا ہے ہمیشہ کے لیے زندہ و پایندہ رہ سکتا ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ اس میں اثبات و استحکام پیدا کرتے ہوئے ہم موت کے صدمے کو بھی یوں برداشت کرلیں جیسے ایک باہمت اور صاحب عزم انسان کسی پرخطر منزل سے مردانہ وار گزر جاتا ہے۔ خودی فانی ہے، لیکن ثبات اور دوام کی اہل۔ جاوید نامہ کا ایک شعر ہے: اے زاہد ظاہر بیں گیرم کہ خودی فانی است لیکن تو نمی بینی طوفاں بہ حباب اندر۵؎ اور ایسے ہی ایک دوسرے مقام پر اقبال نے کہاہے: جانے کہ بخشند دیگر نہ گیرند آدم بمیرد از بے یقینی از مرگ ترسی اے زندہ جاوید؟ مرگ است صیدے تو در کمینی۶؎ بے شک خودی ایک قطرہ ہے لیکن دریا بہ آغوش اور اس لیے یہاں قطرہ دریا میں نہیں بلکہ دریا قطرے میں گم ہے۔ یہاں موت انسان کا پیچھا نہیں کررہی کہ اس پر قابو پائے اور اسے ہمیشہ کے لیے فنا کردے بلکہ انسان موت کی تلاش میں ہے کہ کب اس پر فتح حاصل کرتا اور زندہ جاوید ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ فتح ’عمل‘ سے حاصل ہوگی۔ خودی کے متعلق ایک خاص نقطۂ نظر اور اس کے ماتحت اسیر اور شخصیت کی تعمیر سے۔ عمل، جدوجہد اور سعی و کشاکش کے بغیر بقائے دوام ایسی نعمت حاصل نہیں ہوسکتی۔ خالق کائنات یہ عطیہ مفت نہیں دیتا۔ اس کے لیے ایک خاص قسم کی اہلیت شرط ہے۔ یہ اہلیت کیا ہے، اس کو پیدا کرنے کی صورت کیا ہوگی، مذہب، اخلاق، علم و حکمت اور عقل و فکر اس کے متعلق کیا کہتے ہیں؟ تہذیب و تمدن پر اس کا کیا اثر پڑے گا؟ ہماری ذات میں اس کا اظہار کیسے ہوگا؟ ہماری ذات کے ایک نہیں متعدد پہلو ہیں، ذاتی، انفرادی، اجتماعی، یوں ان میں کیا تبدیلی پیدا ہوگی؟ یہ سب باتیں بڑی اہم ہیں اور اقبال نے ایک ایک کرکے سب کا جواب دیا ہے لیکن یہ موقع ان کی تفصیل کا نہیں۔ سردست اتنا عرض کردینا کافی ہوگا کہ خودی کے متعلق اگر اقبال کا نقطۂ نظر سمجھ لیا جائے تو ناممکن ہے ہمارے دل میں انسانی ہستی کی قدروقیمت اور اس کی عظمت کا احساس پیدا نہ ہو اور ہم اسے غنیمت سمجھتے ہوئے کچھ بننے کی کوشش نہ کریں۔ اقبال کا مقصد بھی یہی تھا۔ منشوراتِ اقبال بزمِ اقبال، لاہور حوالے اور حواشی ۱- معروف شاعر محسن تاثیر کا شعر ہے۔ ۲- ابوالولید محمد بن احمد بن محمد ابن رشد (۱۱۲۶ھ- ۱۱۹۸ھ) اندلس کا ایک بڑا فلسفی۔ ۳- یہ شعر سرمد سے منسوب ہے۔ ۴- دیوانِ غالب، ص۱۸۷ ۵- جاوید نامہ، ص۴۳ ۶- زبورِ عجم، ص۱۱۶ ز……ز……ز سخنے چند میں گوئٹے۱؎ کا ذکر نہیں کروں گا، نہ کرنا چاہیے، اس لیے کہ اقبال کو مغرب میں کوئی ہم نوا ملا تو گوئٹے۔ گوئٹے سے اقبال کو ایک طبعی مناسبت تھی۔ گو یہ مناسبت بجائے خود ایک جداگانہ موضوع ہے اور میرے نزدیک بڑا تفصیل طلب۔ پھر بھی دو باتیں ہیں جن کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ ارض ہند و پاک میں مسلمان، گوئٹے سے آشنا ہوئے تو اقبال کی بدولت۔ وہ بھی یورپ نہیں گئے تھے کہ انھوں نے مرزا غالب کے مزار کی شکستہ حالی اور ویرانی کو دیکھتے ہوئے بہ افسوس کہا: آہ! تو اجڑی ہوئی دلّی میں آرامیدہ ہے گلشنِ ویمر۲؎ میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے۳؎ یہاں جو بات قابل غور ہے وہ اجڑی ہوئی دلّی اور گلشن ویمر کا تقابل ہے جس سے ایک کی بے۔قدری اور دوسرے کی قدردانی کا اظہار ہوتا ہے، اور جس کا تکرار آگے چل کر پیامِ مشرق میں پھر ہوا۔ گو اب ان کا اشارہ غالب کی بجائے اپنی ذات کی طرف تھا: پیرِ مغرب شاعرِ المانوی۴؎ آں قتیلِ شیوہ ہائے پہلوی بست نقشِ شاہدانِ شوخ و شنگ داد مشرق را سلامے از فرنگ در جوابش گفتہ ام پیغامِ شرق ماہتابے ریختم بر شامِ شرق او چمن زادے ، چمن پروردۂِ من دمیدم از زمین مردۂِ او ز افرنگی جوانان مثلِ برق شعلۂ من از دم پیرانِ شرق ہر دو خنجر صبح خند آئینہ فام او برہنہ ، من ہنوز اند نیام۵؎ ان اشعار سے ہمارا ذہن اس دوسری بات کی طرف منتقل ہوجاتا ہے اور وہ یہ کہ جس طرح غالب کے افکار کا مطالعہ ابھی تک گوئٹے کے افکار کی رعایت سے نہیں ہوا، بعینہٖ اقبال اور گوئٹے کو باہم جو مناسبت ہے، اس پر بھی کوئی توجہ نہیں کی گئی۔ ذرا ان الفاظ پر غور فرمائیے: ہر دو خنجر صبح خند آئینہ فام۶؎ او برہنہ ، من ہنوز اندر نیام۶؎ یہاں دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ان دو گراں قدر اہل فکر بلکہ یوں کہیے رازدارانِ حیات نے انساں کے مرتبہ و مقام کا جو تصور قائم کیا اور پھر زندگی کی گہرائیوں میں اُتر کر اسے جس طرح حیاتِ فرد اور جماعت حتیٰ کہ تہذیب و تمدن کی دنیا میں پھیلاتے ہوئے انسانیت کبریٰ کا خواب دیکھا اس کا پہلو۔بہ۔پہلو مطالعہ بڑا معنی خیز ہے۔ گوئٹے کے ہم وطن تو اسے بڑی حد تک اُجاگر کرچکے ہیں اور کررہے ہیں لیکن جہاں تک اقبال کا تعلق ہے اس باب میں صرف ایک کئی پہلوئوں سے تعبیر و ترجمانی کا کام ابھی باقی ہے۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہیں کہ فکر اقبال کی تیغ جوہر دار ہنوز ’’اندرنیام‘‘ ہے۔ پھر ایک اور غور طلب بات یہ ہے کہ ہم نے اپنا رشتہ مغربی تہذیب و تمدن سے جوڑا یا اس سے چند در چند اثرات قبول کیے تو انگریزوں کی غلامی اور محکومی کی بدولت۔ ہم انگریزوں کے زیرنگیں تھے، ہمارا نظام تعلیم انگریزی تھا، ہماری معاشرت بدلی، اس میں مغربی رنگ پیدا ہوا تو انگریزوں کی تقلید میں۔ ہم نے فکرحاضر اور جدید علوم و فنون کی تحصیل کی تو انگریزی کی وساطت سے۔ تاریخ اور تہذیب و تمدن کے بارے میں کوئی نقطۂ نظر قبول کیا تو وہی جس کی تلقین انگریزوں نے کی۔ ہم نے انگریزی پڑھی، انگریزی ادب سیکھا، انگریزی ادب سے ہمارے ادب نے گہرا اثر قبول کیا۔ نظم و نثر بدل گئی، نئے نئے اسلوب قائم ہوئے، الفاظ کی درآمد شروع ہوگئی اور یہ انگریزی الفاظ ہمارے دل و دماغ پر چھاگئے اور ہماری زبان کا ایک حصہ بن گئے۔ اس لیے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہندوپاک کے مسلمانوں پر اگر کسی مغربی شاعر کا اثر ہوتا تو سب سے زیادہ انگریز شاعروں، بالخصوص شیکسپیئر۷؎ کا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یوں پڑھنے کو شیکسپیئر کس نے نہیں پڑھا؟ ہم شیکسپیئر کے قائل ہیں اور ہم سے کہیں بڑھ کر خود اقبال، شیکسپیئر کی عظمت فن، لازوال اور عدیم المثال شاعری کے اعتراف میں اقبال نے جو نظم لکھی ہے اس بڑھ کر شیکسپیئر کی تعریف میں لکھی ہے اس سے بڑھ کر شیکسپیئر کی تعریف میں کہا جاسکتا ہے۔ اس نظم کے آخری شعر پر غور فرمائیے۔ ارشاد ہوتا ہے: حفظِ اسرار کا قدرت کو ہے سودا ایسا رازداں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا۸؎ اس میں کوئی شک نہیں کہ زندگی کو رازدانِ فطرت کی ضرورت ہے مگر ان سے کہیں بڑھ کر اس کے صورت گروں کی مثلاً گوئٹے اور اقبال کی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اگرچہ شیکسپیئر کو ہم سب نے پڑھا ہے۔ ہمارے دل میں اس کی بڑی قدر ہے۔ برعکس اس کے گوئٹے کا شاذ ہی اس طرح مطالعہ کیا گیا جیسے شیکسپیئر کا۔ بایں ہمہ شیکسپیئر ہمارا غیر ہے، ہم میں سے نہیں ہے گوئٹے ہم میں سے ہے اور محض اقبال کی بدولت۔ اس ذرا سی بات کا لحاظ رکھ لیا جائے تو اقبال نے جس مثالی انسان کا تصور پیش کیا مغرب میں اس کی تھوڑی بہت جھلک ملے گی تو گوئٹے ہی کے افکار مثلاً فاؤسٹ میں۔ فاؤسٹ کا اُردو ترجمہ ۱۹۳۰ئ- ۱۹۳۱ء میں انجمن ترقی اُردو کے ایما سے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں راقم الحروف کے رفیق شفیق ڈاکٹر سیّد عابد حسین۹؎ نے براہِ راست جرمن سے کیا۔ یہ ترجمہ نثر میں تھا اور صرف حصہ اوّل تک محدود۔ میں شاید اس کا ذکر اقبال سے کرچکا تھا یا شاید یہ ترجمہ بابائے اُردو کی طرف سے ان کی خدمت میں پہنچ گیا تھا۔ واقعہ کچھ بھی ہو ۱۴؍اگست ۱۹۳۰ئ۱۰؎ کے عنایت نامے میں انھوں نے مجھ سے استفسار فرمایا: ’’عابد صاحب سے یہ پوچھیے کہ فاؤسٹ میں Prolegomena in Heaven کا کیا ترجمہ انھوں نے کیا ہے؟‘‘ اس استفسار کی ضرورت غالباً جاوید نامے کے سلسلے میں پیش آئی جو ان دنوں زیر ترتیب تھا۔ جاوید نامہ میں بھی تمہید آسمانی کے عنوان سے جو ایک طرح سے ان جرمن عنوان کا فارسی ترجمہ ہے۱۰؎ ایک قطعہ موجود ہے۔ اس کے کچھ دنوں بعد جب میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور باتوں باتوں میں فاؤسٹ کا ذکر آیا تو فرمایا عابد صاحب اس کے دوسرے حصے کا ترجمہ کیوں نہیں کرتے، ان کا ارادہ ہو تو میرے پاس چلے آئیں، میں ان کا ہاتھ بٹائوں گا۔۱۱؎ پھر ارشاد ہوا دوسرا حصہ مشکل ہے، اس میں نجوم اور کیمیاگری کی متعدد اصطلاحات ہیں ایسے ہی کچھ ارشادات اور تلمیحات، جن سے اہل مغرب تو بہت کم مانوس ہیں لیکن جن کو ہم اہل مشرق بآسانی سمجھ سکتے ہیں۔ فرمایا قیام جرمنی میں مجھے بارہا موقع ملا کہ اس قسم کی اصطلاحات، اشارات اور تلمیحات کی تشریح کروں۔ میرے جرمن مخاطبین جب میری تشریحات سنتے تو انھیں بڑا تعجب ہوتا۔ گوئٹے کی نظر بہت وسیع تھی۔ اس کا قول تھا کہ جس کسی نے دنیا کی کم از کم ایک ہزار برس کی تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا اسے کون شائستہ اور مہذب کہے گا۔ اب یہ تو ممکن نہیں تھا کہ عام طور پر پڑھے لکھے جرمن ان سب اصطلاحوں اور تلمیحوں سے باخبر ہوتے جو گوئٹے نے مشرقی ادب سے اخذ کیں۔ ہمارے ہاں تو یہ اصطلاحیں تلمیحیں روزمرہ کی چیزیں ہیں۔ مجھے فاؤسٹ کے ان حصوں کے سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ جرمنوں کو البتہ بڑا تعجب ہوتا کہ میں ان مقامات کی شرح جو انھیں ازحد مشکل نظر آتے کس آسانی سے کررہا ہوں۔ اقبال کے مثالی انسان سے ہمارا ذہن نطشے۱۲؎ کی طرف منتقل ہوجاتا ہے، اقبال نے نطشے کی تنقید کی ہے۔ اس تنقید کے لیے جاوید نامہ اور خطبات سے رجوع کیجیے۔ اقبال کو اس مجذوب فرنگی سے جو دلچسپی تھی صوفیانہ نقطۂ نظر سے تھی، گو یہ لفظ (انگریزی میں Mystic) ذرا وضاحت طلب ہے۔ ارباب سائنس تو یہ سمجھتے ہیں کہ صوفی جن واردات اور مشاہدات کو حقیقت پر مبنی تصور کرتا ہے وہ دراصل نتیجہ ہوتے ہیں اس کے داخلی احوال اور تاثرات کا۔ ان کی علت شاید وہ بدنی اور عضوی احوال ہیں جو اس قسم کے احوال سے پہلے سرزد ہوتے ہیں لہٰذا ان واردات کی صاحب واردات کے لیے تو ممکن ہے کچھ اہمیت ہو اور ان سے کچھ مفید نتائج بھی مرتب ہوسکیں لیکن یہ خیال کہ یوں ہمارا تعلق کسی ایسی حقیقت سے قائم ہوجاتا ہے جو فی الواقع ہماری ذات سے باہر موجود ہے صحیح نہیں مزید واردات حصولِ علم کا ذریعہ۔ گوبعض اہل علم کی طرح اقبال کے نزدیک بھی صوفیانہ واردات کو ایسا ہی حقیقی تصور کرنا چاہیے جیسے طبعی مرتبے جو روزمرہ کے مشاہدات کو۔ فرق ہے تو اتنا کہ ان میں ادراک بالحواس کو مطلق دخل نہیں ہوتا، ہم ان کی تحقیق نہ حسی علوم کے ذریعے کرسکتے ہیں نہ حسی علوم میں یہ صلاحیت ہے کہ ان واردات کی تہہ تک پہنچ سکیں۔ اسلامی تصوف میں بہرحال اس قسم کی واردات اور مشاہدات کے لیے متعدد اصطلاحات رائج ہیں جن کا بیان یہاں غیر ضروری ہے، لیکن جن کا حاصل یہ ہے کہ صوفیانہ واردات اور مشاہدات بھی ہمارے علم کا ایک قابل اعتبار ذریعہ ہیں بلکہ یہی واردات ہیں جن کی بدولت ہمارا تعلق حقیقت مطلقہ کے بعض ایسے پہلوئوں سے قائم ہوجاتا ہے جو علم بالحواس کی دسترس سے باہر ہیں اور جو اس لیے نہ علومِ طبعی کی زد میں آسکتے ہیں نہ مجرد فکر کی گرفت میں۔ لہٰذا صوفیانہ واردات کو فریب یا التباس پر محمول کرنا غلطی ہے۔ ان کے تزکیے اور تصفیے کا عمل البتہ جاری رہنا چاہیے۔ اقبال کے نزدیک نطشے کی واردات کچھ ایسی ہی واردات تھی۔ اسے ذات انسانی میں الوہیت کی ایک جھلک تو نظر آئی لیکن وہ اس کا مطلب سمجھنے سے قاصر رہا، جس کی وجہ تھی اس کی مادہ پرستی۔ بایں ہمہ اقبال کے نزدیک اس کے ذوق طلب کا جو عالم تھا یہ: نہ جبریلے ، نہ فردوسے ، نہ حورے ، نے خداوندے کفِ خاکے کہ می سوزد ز جانِ آرزو مندے۱۳؎ یہاں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اقبال کے یہاں نطشے کی قدردانی ہمدردی کی قدردانی ہے اخذ و اکتساب یا اثر پذیری کی قدردانی نہیں۔ اقبال کو یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ نطشے کو کوئی ایسا رہنما نہ ملا جو اس کے واردات قلب اور افکارِ دماغ کی تربیت کرتا۔ وہ بڑا ذہین و فطین اور غیر معمولی قابلیتوں کا انسان تھا۔ ایک عظیم نابغہ جو اپنے دور کی مادیت پرستی کا شکار ہوگیا۔ اقبال کے نزدیک نطشے کا معاملہ ایک ایسے مریض کا معاملہ ہے جس کا مداوا اطبا کی بجائے کوئی صاحب نظر انسان ہی کرسکتا تھا۔ وہ اگر زندہ ہوتا تو شاید اقبال خود بھی اس کی رہبری کرتا: اگر ہوتا وہ مجذوبِ فرنگی اس زمانے میں تو اقبال اس کو سمجھاتا مقامِ کبریا کیا ہے۱۴؎ لیکن یہ جو کچھ عرض کیا جارہا ہے اس لیے کہ اقبال اور نطشے کے ذہنی روابط کے بارے میں اب تک جو کچھ لکھا گیا بڑا غلط بلکہ سر تا سر غلط ہے، چغل فہمی اور غلط بیانی پر مبنی جس کی ذمہ داری اقبال کے انگریز ناقدین اور اپنے اہل وطن کی خود اپنی روایات سے بے خبری پر عائد ہوتی ہے۔ بہرحال اس غلط بیانی اور غلط فہمی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اقبال اور نطشے کے خیالات میں جو سطحی مشابہت ہے اور وہ بھی صرف ایک پہلو سے اسے ضرورت سے زیادہ اہمیت دی گئی تاآنکہ لوگ بھول گئے کہ یورپ میں اقبال کا ہم نوا فی الحقیقت کون ہے۔ انھوں نے گوئٹے کو نظر انداز کردیا اور التفات کیا تو نطشے کے فوق البشر سے۔ ایک روز یہی ذکر تھا۔ فرمایا میرے کم نظر ناقدین اس سطحی مشابہت کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔ میں نے اگر نطشے کے بعض خیالات کو ہمدردی کی نگاہوں سے دیکھا یا اسرارِ خودی میں کوئی ایسی حکایت لے آیا جس کی مثال نطشے کے یہاں موجود ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں نطشے سے متفق الرائے ہوں یا میں نے اپنے خیالات اس سے اخذ کیے۔ ایک صاحب فن کا حق ہے کہ جس حکایت کو جس مطلب کے لیے چاہے استعمال کرے۔ دنیا میں ہمیشہ یہی ہوا کہ اہلِ معنی نے جس حکایت سے چاہا فائدہ اُٹھایا اور جہاں ضروری سمجھا اس میں لفظی یا جزوی تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے اپنے خیالات کی ترجمانی کی۔ مثلاً فاؤسٹ ہی کی روایت ہے جس کو مختلف شکلوں میں استعمال کیا گیا، مگر جسے گوئٹے کے کمالِ فن نے ایک بالکل نئے معنی پہنا دیے۔ یوں بھی مثالوں اور حکایتوں کی مشابہت کو اہمیت دی جاسکتی ہے تو محض فنی اور صوری پہلو سے۔ حقیقی اہمیت تو ان مشابہتوں کو ہے جو خیالات میں پائی جائیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو نطشے نے مشہور صوفی بزرگ شہاب الدین سہروردی۱۵؎ کی اصطلاح ’’ذوقِ حیات‘‘ کو لفظ بلفظ ان ہی معنوں میں استعمال کیا جو شیخ موصوف کے ذہن میں تھے۔ معلوم نہیں یہ توارد ہے یا کیا۔ بہرحال دونوں کے نزدیک یہ ہمارا ذوقِ حیات ہے جو صحیح معنوں میں فطرت کی رہبری کرتا ہے۔ بعینہٖ یہ مجوسی خیال بھی نطشے کو بڑا پسند تھا کہ زرتشت کے نازائید پٹوں کا ظہور ابھی باقی ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ نطشے ’’تکرار ابدی‘‘۱۶؎ کا قائل تھا اور ہمیں معلوم ہے اس نے یہ عقیدہ اس لیے قائم کیا کہ انسان حیات بعد الموت پر راضی ہوجائے۔ وہ کہتا ہے توانائی کے مراکز محدود ہیں، ان کا بار بار اعادہ ہوتا رہا اور ہوتا رہے گا۔ جیسے ان مراکز توانائی کا جنھوں نے فوق البشر کی تخلیق میں حصہ لیا، لہٰذا فوق البشر کا آنا یقینی ہے۔ وہ اس خیال پر ایک ولولہ کا محسوس کرتا کیونکہ اس کے نزدیک زندگی کے کوئی معنی ہیں تو جب ہی کہ اس قسم کے انسانوں کا ظہور ہوتا رہے جو ’’ادارہ برائے قوت‘‘ کے مظہر ہوں۔ وہ سمجھتا تھا ان کا پے در پے ظہور تکرار کی بجائے ابداع میں بدل جائے گا، حالانکہ ایسا ہونا ناممکن ہے، اس لیے کہ تکرار بہرحال تکرار ہے تخلیق نہیں ہے۔ نطشے بھی اپنا شمار اسی طرح کے انسانوں میں کرتا ہے۔ اس کی دعوت کا انداز بھی وہی تھا جو کسی خیال کے مجددین کا ہوا کرتا ہے۔ وہ ایک ایسی زندگی کا پیغامبر تھا جو کبھی حقیقتاً اور واقعتا ظہور میں تو آئی لیکن جس کا آیندہ بھی ظہور میں آتے رہنا ضروری ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ نطشے کے افکار میں کیا معاشرے کا کوئی تصور بھی ہے ارشاد ہوا کہ یہی مسئلہ اس کے متبعین میں متنازعہ فیہ ہے۔ ممکن ہے اس کا خیال ہو کہ فوق البشر ہی بالآخر ایک معاشرے کی شکل اختیار کرلیں گے، لیکن اس کی اپنی طبیعت پر انفرادیت پسندی ہی غالب تھی۔ میں نے عرض کیا نطشے جس امارتی نظام کا خواب دیکھ رہا ہے اس سے تقدیر انسانی کا مسئلہ تو حل نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ یہ نظام اگر مستقلاً قائم ہوجائے تو اعلیٰ یعنی امرا کے مقابلے میں ادنیٰ یعنی عوام کی موجودگی لازم ٹھہرے گی۔ یا شاید یہ کہا جائے کہ ادنیٰ بتدریج اعلیٰ کا مرتبہ حاصل کرلیں گے، لہٰذا معاشرے میں صرف فوق البشر ہی باقی رہ جائیں گے۔ فرمایا یہی مسئلہ ہے جس میں نطشے کے خیالات صاف نہیں۔ ارشاد ہوا جب کوئی قوم اپنا اتحاد کھو بیٹھتی ہے تو اس کی آرزو ہوتی ہے کہ اسے پھر سے حاصل کرلے۔ یورپ کبھی متحد تھا، گو یہ اتحاد بڑا ناقص تھا اور کئی ایک پہلوئوں سے نامکمل۔ بایں ہمہ یورپ کا ایک مشترک دینی اور اجتماعی نظام تھا۔ لوتھر۱۷؎ کی تحریک سے اس مشترک عالم کا خاتمہ ہوگیا تو دنیائے عیسائیت میں الگ الگ اور باہم دیگر حریف قوموں کا ظہور ہونے لگا، جس سے یورپ کے افتراق و شقاق میں بھی اضافہ ہوتا چلاگیا۔ لہٰذا قدرتی بات تھی کہ اقوام مغرب کی سیاسی و معاشی رقابتوں نے جو حالات پیدا کررکھے ہیں علیٰ ہذا ان کی نسلی اور جغرافی عداوتوں کا جو عالم ہے، نطشے ان کو دیکھ کر گھبرا جاتا۔ وہ ان جمہوری قوتوں سے بے خبر نہیں تھا جو انقلاب فرانس اور صنعتی انقلاب کے زیرنتیجہ ابھر رہی تھیں۔ وہ جانتا تھا ان سے بالآخر عوامی عناصر ہی کو تقویت پہنچے گی۔ یورپ کا اتحاد ختم ہورہا ہے، بلکہ ختم ہوچکا اور یہ سب کچھ ایک بڑے تصادم کا پیش خیمہ۔ نپولین۱۸؎ کی طرح نطشے بھی اتحاد یورپ کا آرزومند تھا، لیکن اس کی تمنا یہ تھی کہ اس اتحاد کی اساس کسی برتر اساس پر رکھے۔ محض سیاسی وحدت کا تصور اس کے لیے کافی نہیں، جیسا کہ نپولین کی ناکامی سے ثابت ہوچکا تھا۔ بقول اقبال اسے احساس تھا کہ یورپ ’’رہ گذر سیل بے پناہ‘‘۱۹؎ میں ہے وہ اس سیلان کو روکنا چاہتا تھا جس کا نقشہ اس کی آنکھوں میں پھر رہا تھا۔ وہ جنگ کا حامی نہیں تھا۔ وہ چاہتا تھا یورپ متحد ہو، جنگ کا خطرہ ٹل جائے، لیکن اس کی یہ آرزو پوری نہ ہوئی۔ میں نے عرض کیا اگر اتحاد، یورپ کی یہ خواہش کسی اعلیٰ مقصد پر مبنی تھی تو نطشے نے اسے محض یورپ تک محدود کیوں رکھا۔ وہ ہمیشہ ’’اچھے مغربیوں‘‘ کا ذکر کرتا ہے، جیسے دنیا میں اچھوں کا اور کہیں وجود نہیں۔ یہ امر تو اتحادِ اسلامی کے منافی ہے۔ فرمایا اس کی خواہش تو بہرحال یہی تھی کہ اہل یورپ متحد ہوجائیں۔ میں نے کہا پھر اس کا خیال یہ ہوگا کہ نوعِ انسانی کا مستقبل یورپ ہی سے وابستہ ہے۔ ارشاد ہوا ممکن ہے وہ ایسا ہی سمجھتا ہو۔ نطشے کو شوپن ہایر۲۰؎ سے جو نسبت ہے وہی مارکس۲۱؎ کو ہیگل۲۲؎ سے۔ جس طرح مارکس نے ہیگل کی عینی جدلیت کو مادی جدلیت سے بدل دیا بعینہٖ نطشے نے شوپن ہایر کی قنوطیت کو رجائیت سے۔ نطشے نے شوپن ہایر کو معلم کہا ہے شوپن ہایر نے اس مشیت کو جسے کانٹ۲۳؎ خیر کہتا تھا اندھا اور بے بصر ٹھہرایا، اور یہی اس کے نزدیک حقیقت مطلقہ۔ ۱۹۳۸ء میں جب اقبال کی علالت اپنے آخری مراحل میں پہنچ گئی ایک روز اس حالت میں جب انھیں دم کشی کی شکایت تھی دفعتاً سنبھل کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے: نیازی صاحب، یہ سب کیا ہے، کچھ بھی نہیں۔ سب ہیچ ہے۔ اقبال کا ذوقِ حیات کبھی اتنا مضمحل نہیں ہوا تھا جتنا اس وقت۔ میں نے یہ الفاظ سنے تو پریشان ہوگیا۔ پھر خیال گزرا ان کا اشارہ شاید کسی فلسفیانہ حقیقت کی طرف ہے، اس لیے کہ فلسفہ اور حکمت و مضامین ہیں، جن پر ان کی گفتگوئوں کا سلسلہ تا دم آخر جاری رہا۔ میں نے عرض کیا شوپن ہایر کا بھی تو یہی خیال تھا۔ فرمایا ٹھیک ہے، لیکن میرا اشارہ انکارِ نعمت کی طرف نہیں زوالِ نعمت کی طرف ہے۔ علم کی لذت بڑی چیز ہے، مگر یہ لذت بھی کوئی لذت نہیں۔ اس میں کچھ مزا ہے تو جب ہی کہ زندگی ہو اور زندگی کے ساتھ صحت۔ انسان کچھ کرسکے، یہ نہیں تو کیا ہے، کچھ بھی نہیں۔ محض زندگی۔ سو ایسی زندگی ہیچ ہے۔ ارشاد ہوا شوپن ہایر نے حقیقت مطلقہ کو ایک اندھی مشیت ٹھہرایا۔ اس کے نزدیک زندگی کے کوئی معنی ہیں، نہ کائنات کا کوئی مقصد۔ جو کچھ ہے عبث، جو کچھ ہے بے حقیقت، بے نتیجہ اور لاحاصل۔ مگر شوپن ہایر غلط کہتا ہے۔ شوپن ہاوئر کو کہنا چاہیے تھا حقیقت مطلقہ غنی ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کو غنی عن العالمین کہا گیا ہے اور غنی کے معنی وہ جو بے نیاز ہے۔ اب اگر اللہ غنی عن العالمین ہے، بے نیاز ہے تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ حقیقت مطلقہ ایک بے بصر مشیت ہے۔ کیوںکہ یہ مشیت اس کے باوجود بابصر ہوسکتی ہے۔ لہٰذا کائنات کا بھی کوئی مقصد ہے اور زندگی کے بھی کچھ معنی۔ کانٹ کا ذکر آگیا۔ فرمایا کانٹ اور غزالی۲۴؎ دونوں کے حقیقی مقاصد مذہبی اور اخلاقی تھے، دونوں اپنے اپنے حالات سے مجبور تھے، دونوں نے عقل محض کو نارسا ٹھہرایا۔ غزالی نے یہ نتیجہ اپنے رنگ میں قائم کیا، کانٹ نے اپنے طور پر۔ ایک نے تہافیت لکھی دوسرے نے تنقید عقل محض۔ یہ تنقید بڑی جامع ہے، بڑی دقیق اور بڑی دور رس۔ لیکن ایک بات تھی جسے کانٹ نے نظرانداز کردیا اور وہ یہ کہ علم باوصف متناہیت ہمیشہ لامتناہیت کی طرف بڑھتا ہے بلکہ یہی لامتناہیت جو اس کے اندر موجود ہے اس کی حرکت کا سرچشمہ۔ فرمایا عملیت پر یگ میٹزم کی طرح دراصل کانٹ ہی نے ڈالی نہ کہ ولیم جیمز۲۵؎ نے۔ میں نے عرض کیا عملیت تو کچھ بدنام سا لفظ ہے۔ کانٹ اگر عملیت کا بانی تھا جب بھی اس نے حقیقت کے باب میں وہ نقطۂ نظر اختیار نہیں کیا جو عملیت سے منسوب ہے۔ فرمایا یہ درست ہے اور اس کی عقلی عملی کا تقاضا بھی یہی تھا کہ کسی مثبت حقیقت پر ایمان لائے، اسے فی الواقع موجود سمجھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی عملیت میں حق کے معنی وہ نہیں جو اس مخصوص فلسفہ یعنی عملیت میں ہیں۔ لیکن عملیت بہرحال عملیت ہے اس سے انکار کرنا ناممکن ہے ضروری نہیں ہم اس کے وہی معنی لیں جو اصطلاحاً اختیار کیے گئے۔ میں سمجھ گیا اقبال کے نزدیک بھی تو حقیقت کا ایک معیار ’’عملی‘‘ ہے بمقابلہ فلسفیانہ۔ ایک بات تھی جسے معلوم کرنے کی مجھے ہمیشہ جستجو رہی اور وہ یہ کہ اقبال نے جرمن زبان کہاں تک سیکھی؟ انھیں جب معلوم ہوا کہ میں تھوڑی بہت جرمن جانتا ہوں تو از رہ شفقت ایک جرمن انگریزی لغت عطا فرمائی جس پر ان کے اس زمانے کے جب وہ جرمنی میں تعلیم پارہے تھے دستخط بھی موجود تھے۔ یہ ایک بڑے قیمتی یادگار ہے اور مشفق مکرم ممتاز حسن صاحب کے اصرار پر اس المانوی مجموعے میں محفوظ، جو انھوں نے اپنی بچی کی یاد میں شاید جرمن پاک انسٹی ٹیوٹ کی نذر کردیا ہے۔ ذاتی طور پر اگرچہ میں نے ہمیشہ یہی محسوس کیا کہ اقبال نے جرمن فلسفہ اور جرمن ادب کا مطالعہ جرمن زبان ہی میں کیا ہوگا لیکن اقبال نے نہ تو کبھی اس امر کی طرف اشارہ کیا نہ کبھی ایسا ہوا کہ گفتگو میں جرمن لفظ استعمال کرتے حالانکہ گھر میں موجود بچوں کی گورنس ایک جرمن خاتون سے اکثر بات چیت کی نوبت آتی۔ لیکن اب جو یہ بھی فرمایا کہ میں نے جرمن سیکھی تو ’آرٹیکلوں‘ کے استعمال میں بڑی دقت پیش آتی۔ میری جرمن معلمہ مجھ سے کہتیں ڈس فیڈر کہو ڈی فیڈر مت کہو۔ میں کبھی ڈپئر فیڈر کہتا کبھی ڈی فیڈر۔ یوں میرا خیال کہ اقبال نے جرمن ادب اور جرمن فلسفہ کا مطالعہ جرمن زبان ہی میں کیا تھا صحیح نکلا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس شام کو جو ان کی زندگی کی آخری شام تھی جب ان کے جرمن دوست فان فیلٹ ہائم۲۶؎ ان سے ملنے آئے اور دیر تک تنہائی میں ان سے گفتگو ہوتی رہی۔ تو یہ گفتگو جرمن زبان میں ہوئی یا انگریزی میں۔ لیکن ان کے انتقال کے بعد بہ تحقیق ثابت ہوگیا کہ انھیں جرمن زبان میں بخوبی دسترس حاصل تھی، بلکہ انھوں نے اس میں خط کتابت بھی کی۔ رہا جرمن میں گفتگو کا معاملہ، سو جرمن تو جرمن ہے فارسی زبان پر انھیں جو قدر حاصل تھی اس سے کون انکار کرسکتا ہے۔ لیکن ایک روز جب سردار صلاح الدین سلجوقی۲۷؎ کے ساتھ افغان کونسل خانے سے نکل کر گاڑی میں بیٹھے اور ارشاد فرمایا: میں بھی ان کے ساتھ چلوں تو راستے میں فرمانے لگے: سردار صاحب کو انگریزی اور اُردو میں بات چیت کرنے سے کوفت ہوتی ہے تم ان سے فارسی میں پوچھو… میں یہ سن کر چپ رہ گیا۔ ایک طرف اقبال کہ جیسے فارسی ان کی خانہ زاد ہے، دوسری جانب جناب سلجوقی جن کی زبان تو فارسی تھی ہی مگر جن کو فارسی زبان کے دیوان کے دیوان ازبر تھے اور ادھر میں۔ مجھے محسوس ہورہا تھا جیسے مری قوت گویائی جواب دے چکی ہے۔ میں خاموش رہا۔ راستے میں بھی خاموشی ہی رہی اس لیے خوش قسمتی سے ہم جلد ہی منزل مقصود پر پہنچ گئے۔ البتہ میں یہ ضرور سوچتارہا کہ اقبال نے خود وہ باتیں جو سردار صاحب سے پوچھنا چاہتے تھے فارسی میں کیوں نہیں پوچھ لیں۔ بالآخر میں یہ سمجھا کہ وہ انگریزی، اُردو اور پنجابی میں گفتگو کرتے تو اس لیے کہ ان زبانوں میں بے تکلفی سے گفتگو کرسکتے تھے۔ عربی یا جرمن زبان سے واقفیت کا ظہار یا ان میں ٹوٹی پھوٹی گفتگو ایک طرح کی تعلّی ہوتی جسے ان کی طبیعت کبھی گوارا نہ کرتی۔ چنانچہ یہ بھی ایک پہلو تھا ان کی نفاست ذہن کا۔ (مجلہ راوی لاہور، اپریل ۱۹۷۴ئ) حوالے اور حواشی ۱- دیکھیے مضمون ’’اقبال کا مطالعہ‘‘ کا حاشیہ نمبر۴ ۲- میں نے کہا اقبال ابھی یورپ نہیں گئے تھے لہٰذا گوئٹے کا مطالعہ انھوں نے انگریزی کی وساطت سے کیا ہوگا۔ جرمن زبان سے ناواقفیت کے باعث انھوں نے وائمر (Weimar) کو ویمر لکھا۔ یہ شاید ضرورت شعری کا تقاضا بھی تھا مگر آگے چل کر جرمن سے واقفیت کے باوجود انھوں نے نظم و نثر میں ہمیشہ ویمر ہی لکھا تاآنکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اُردو میں وائمر نے اقبال کی بدولت ویمر کی شکل اختیار کی۔ (مصنف) ۳- بانگِ درا،ص۲۶ ۴- گوئٹے مراد ہے۔ ۵- پیامِ مشرق ، ص۱۶ ۶- ایضاً، ص۱۶ ۷- شیکسپیئر (۱۵۶۴ئ- ۱۶۱۶ئ) معروف انگریز شاعر اور ڈراما نگار۔ ۸- بانگِ درا، ص۲۵۱ ۹- ڈاکٹر سیّد عابد حسین (۱۸۹۶ئ- ۱۹۷۹ئ) ایک مستند ادیب، ڈراما نگار اور نقاد، گوئٹے کے ڈرامے فاؤسٹ کے مترجم۔ ۱۰- لیکن اس سے یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اقبال نے تمہید آسمانی لکھی تو Prolegma in Heaven کے زیر اثر۔ (مصنف) ۱۱- دوسرے حصے کا ترجمہ شاید ابھی تک نہیں ہوا۔ ہاتھ بٹانے کا معاملہ ایک حد تک اگلی سطروں میں واضح ہوجائے گا۔(مصنف) ۱۲- فریڈرک ولیم نطشے (۱۸۴۴ئ- ۱۹۰۰ئ) جرمن فلسفی اور سکالر۔ ۱۳- جاوید نامہ، ص۱۵۲ ۱۴- بالِ جبریل، ص۵۶ ۱۵- شہاب الدین سہرودی (۱۱۵۵ئ- ۱۱۹۱ئ) حکمت اور اشراق کے مصنف۔ ۱۶- تکرار ابدی: نطشے کا خیال تھا کہ فوق البشر باربار آسکتا ہے۔ ۱۷- دیکھیے مضمون ’’اقبال کی عظمت فکر‘‘ کا حاشیہ نمبر۱۷ ۱۸- بونا پارٹِ نپولین (۱۸۰۸ئ- ۱۸۷۳ئ) فرانس کا شہنشاہ، نپولین سوم۔ ۱۹- خبر ملی ہے خدایانِ بحر و بر سے مجھے فرنگ رہ گزر سیل بے پناہ میں ہے! (بالِ جبریل، ص۶۹) ۲۰- آرتھر، شوپن ہایر (۲۲؍فروری ۱۸۸۸ئ- ۲۱؍ستمبر ۱۸۶۰ئ) دیکھیے مضمون ’’اقبال کی عظمت فکر‘‘) حاشیہ نمبر۱۰ ۲۱- کارل مارکس (۵؍مئی ۱۸۱۸ئ- ۱۴؍مارچ ۱۸۸۳ئ) جرمن ماہر معاشیات و عمرانیات۔ اشتراکیت کے بانی کے طور پر معروف ہے۔ داس کیپٹال معروف تصنیف ہے۔ ۲۲- ہیگل (۲۷؍اگست ۱۷۷۰ئ- ۱۴؍نومبر ۱۸۳۱ئ) دیکھیے مضمون ’’اقبال کی عظمت فکر‘‘ کا حاشیہ نمبر۶ ۲۳- کانٹ (۲۲؍اپریل ۱۷۲۴ئ- ۲۲؍فروری ۱۸۰۴ئ) جرمن فلسفی، فلسفے اور منطق کا پروفیسر۔ ۲۴- محمد بن محمد، ابو حامد غزالی (۱۰۵۸ئ- ۱۱۱۱ئ) عظیم فلسفی اور صوفی جنھوں نے یونانی فلسفے کے طلسم کو توڑا۔ ۲۵- ولیم جیمز (۱۱؍جنوری ۱۸۴۲ئ- ۲۶؍اگست ۱۹۱۰ئ) امریکی فلسفی اور ماہر نفسیات۔ ۲۶- فان فیلٹ ہائیم: دیکھیے ’’حکیم الامت‘‘ کا حاشیہ نمبر۱۷ ۲۷- سردار صلاح الدین سلجوقی (م۱۹۷۰ئ) ہندستان میں افغانستان کے قونصل جنرل، اقبال کے دوست، پاکستان میں افغانستان کے پہلے سفیر رہے۔ ایک ممتاز علمی شخصیت اور مدبر تھے۔ ز……ز……ز بالِ جبریل سرسری نظر میں اُٹھ کہ خورشید کا سامان سفر تازہ کریں نفسِ سوختۂ شام و سحر تازہ کریں۱؎ بالآخر علامہ اقبال مدظلہ کا تازہ ترین اُردو کلام شائع۲؎ ہوگیا اور ملت کی یہ دیرینہ آرزو جسے علامہ ممدوح ہی کے الفاظ میں: گیسوئے اُردو ابھی منت پذیر شانہ ہے شمع یہ سودائیِ دل سوزیِ پروانہ ہے۳؎ باربار دہرایا گیا، پوری ہوئی۔ بالِ جبریل کی اشاعت سے اُردو ادب میں ایک نئے باب اضافہ ہوتا ہے۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ اقبال کی شاعری نے پچھلے بیس برس برس میں جو مدارج کمال طے ہیں، ان سے ہماری قوم واقف نہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ اُردو شاعری کا دامن ان جواہر ریزوں سے خالی تھا، سوائے بانگِ درا کے، جو اب تک صرف فارسی ہی کے حصے میں آئے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اب ہم شاعر کے جذبات اور اس کے حکیمانہ خیالات کو اپنی زبان میں سن سکیں گے اور لطف یہ ہے کہ بالِ جبریل میں اقبال نے جو کچھ کہا، یہ صرف ان کی فارسی شاعری کا پرتو نہیں بلکہ اس میں وہ سب کچھ موجود ہے جو بلادِاسلامیہ اور مغرب کی سیاحت یا جدید اجتماعی انقلابات،ان کے احساس اور درد آشنا دل میں پیدا کرسکتے تھے: شعور و ہوش و خرد کا معاملہ ہے عجیب مقامِ شوق میں ہیں سب دل و نظر کے رقیب میں جانتا ہوں جماعت کا حشر کیا ہو گا مسائلِ میں اُلجھ گیا ہے خطیب! سنا ہے میں نے سخن رس ہے ترکِ عثمانی سنائے کون اسے اقبال کا یہ شعر غریب! سمجھ رہے ہیں وہ یورپ کو ہم جوار اپنا ستارے جن کے نشیمن سے ہیں زیادہ قریب!۴؎ بالِ جبریل کا نصف حصہ ان غزلیات پر مشتمل ہے جن میں سے زیادہ تر ہندستان سے باہر یورپ یا افغانستان میں تصنیف ہوئی۔ اُردو زبان میں اب تک اس قسم کی غزلیں کبھی نہیں لکھی گئی بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اقبال کے فارسی دیوان پیامِ مشرق یا زبورِ عجم میں بھی ان کی نظر نہیں ملتی۔ یہ غزلیں کیا ہیں؟ حقائق و اسرار کا ایک بیش بہا مجموعہ جس کے ایک ایک لفظ سے شاعر کے ان لطیف اور گہرے احساسات کا پتا چلتا ہے جن کی تشریح و توضیح کے لیے اب کسی بحث کی ضرورت نہیں۔ اقبال کے تخیل اور اقبال کی فکر سے اب کم و بیش ہر شخص واقف ہوچکا ہے لیکن ان غزلیات کا ایک زبردست پہلو یہ ہے کہ ان میں بعض دقیق سے دقیق مضامین نہایت آسان الفاظ میں ادا ہوگئے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کا سارا فلسفہ سمٹ کر چند الفاظ میں آگیا ہے۔ اب اُردو شاعری کو اپنی کم مایگی کا شکوہ نہیں رہے گا۔ دیوانِ غالب کے بعد یہ پہلا مجموعہ غزلیات ہے جسے پڑھ کر روحِ انسانی وجد کرتی ہے اور دل ودماغ غور و فکر کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ بالِ جبریل کی کسی غزل کا مطالعہ کیجیے آپ محسوس کریں گے کہ اس میں آپ کے جذبات قلب کی تسلی کے علاوہ وہ سامان بھی موجود ہے جس سے انسان کی بصیرت تیز تر ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ اشعار ملاحظہ ہوں: عالم آب و خاک و باد! سِرّ عیاں ہے تو کہ میں؟ وہ جو نظر سے ہے نہاں اس کا جہاں ہے تو کہ میں؟ وہ شب و درد و سوز و غم کہتے ہیں زندگی جسے اس کی سحر ہے تو کہ میں؟ اس کی اذاں ہے تو کہ میں؟ کس کی نمود کے لیے شام و سحر ہیں گرم سیر شانۂ روزگار پر بارگراں ہے تو کہ میں؟ تو کفِ خاک و بے بصر !میں کفِ خاک و خودنگر! کشتِ وجود کے لیے آب رواں ہے تو کہ میں؟۵؎ ایک دوسری جگہ علم و فقر کا موازنہ اس طرح ہوتا ہے: فقر مقامِ نظر ، علم مقامِ خبر فقر میں مستی ثواب ، علم میں مستی گناہ! علم فقیہ و حکیم ، فقر مسیحؑ و کلیمؑ علم ہے جویائے راہ ، فقر ہے دانائے راہ علم کا موجود ، اور ، فقر کا ’موجود‘ اور اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہ ، اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہ۶؎ تسخیر، تقدیر، حرکت، اقبال کے خاص مضامین ہیں جن کی تشریح کے لیے شاعر کو نئی نئی تشبیہات اور استعاروں کی ضرورت رہا کرتی تھی لیکن بالِ جبریل میں یہ لطیف اور نازک افکار بے ساختہ ادا کردیے گئے ہیں: ہر شے مسافر ہر چیز راہی! کیا چاند تارے ، کیا مرغ و ماہی تو مردِ میداں تو میرِ لشکر نوری حضوری تیرے سپاہی!۷؎ خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں تو آب۔جو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں!۸؎ فطرت کو خرد کے رو برو کر تسخیرِ مقامِ رنگ و بو کر۹؎ انسان اقبال کی شاعری کا محور ہے اور اس کے نزدیک مردِ مومن کی زندگی تمام مدارج انسانیت کی آئینہ دار، یہی وجہ ہے کہ اس نے ملت اسلامیہ کو افراد کی کشاکش کا مقصود منتہا ٹھہرایا ہے۔ وہ نطشے کی طرح انسان کامل کے ظہور کا منتظر نہیں جس کی تخلیق ارتقائے حیات کی محتاج ہے۔ اس کا عقیدہ ہے کہ یہ نائبین حق کا مقام ہے جو تخلقوا باخلاق اللّٰہ۱۰؎ کی بدولت ہر وقت حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ایک طرف یہ حقائق ہیں جن کو مسلمان سیاست و معیشت کے طوفان میں فراموش کرتے جارہے ہیں۔ دوسری طرف الحاد و بے دینی کی وہ رو ہے جس کی تیزی میں تقلید فرنگ کا جذبہ دن بدن اضافہ کررہا ہے۔ اقوام مشرق اور بالخصوص اُمم اسلامیہ کے اس عجز و بے یقینی کے خلاف اقبال نے ایک دفعہ پھر اسلامیت اور آزادی کا صور پھونکا ہے۔ اس دلی تڑپ اور جوش وخروش کے ساتھ جس سے ایمان و یقین کی تجدید ہوتی ہے۔ شاعر کہتا ہے: یہی زمانۂ حاضر کی کائنات ہے کیا؟ دماغ روشن و دل تیرہ و نگہ بے باک! تو بے بصر ہو تو یہ مانع نگاہ بھی ہے وگرنہ آگ ہے مومن ، جہاں خس و خاشاک! جہاں تمام ہے میراث مرد مومن کی مرے کلام پہ حجت ہے نکتۂ لولاک!۱۱؎ آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی!۱۲؎ تھا جہاں مدرسہ شیری و شاہنشاہی آج ان خانقہوں میں ہے فقط روباہی!۱۳؎ ایک سرمستی و حیرت ہے سراپا تاریک! ایک سرمستی و حیرت ہے تمام آگاہی!۱۴؎ کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد! یہ مدرسہ ، یہ جواں ، یہ سرور و رعنائی انھیں کے دم سے ہے مے۔خانہ فرنگ آباد!۱۵؎ یہ حوریان فرنگی ، دل و نظر کا حجاب بہشت مغر بیاں جلوہ ہائے پا بہ رکاب!۱۶؎ برا نہ مان ، ذرا آزما کے دیکھ اسے فرنگ دل کی خرابی ، خرد کی معموری!۱۷؎ غزلیات کے بعد کچھ رباعیات ہیں، جن کو دیکھ کر لالہ طور۱۸؎ کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ کتاب کا باقی حصہ، تقریباً نصف، نظموں کے لیے وقف ہے جو غزلیات کی طرح اکثر یورپ اور بلادِ اسلامیہ میں لکھی گئی اور جن سے وحدت ملت اور جہانِ اسلامی کا وہ تصور جو اس وقت معاشی اور وطنی جذبات کے طوفان میں دب گیا ہے رہ رہ کر اُبھرتا ہے ایک طرف ممالک اسلامی اپنے سیاسی اور جماعتی مسائل میں غرق، ان تصورات سے دور ہٹ رہے ہیں، جو کبھی مشرق میں ایک یک رنگ تہذیب کا موجب ہوئے تھے۔ دوسری طرف اقبال اسی کھوئے ہوئے عالم کی تعمیر کا خواب دیکھ رہا ہے۔ ’’ذوق و شوق‘‘ ایک مختصر سی نظم ہے جس کا زیادہ تر حصہ فلسطین میں لکھا گیا۔ اس کے بعض اشعار ملاحظہ ہوں: کیا نہیں اور غزنوی کارگہِ حیات میں بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہل حرم کے سومنات ذکر عرب کے سوز میں ، فکر عجم کے ساز میں نے عربی مشاہدات ، نے عجمی تخیلات قافلۂ حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات۱۹؎ آیۂ کائنات کا معنیِ دیریاب تو نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بو جلوتیانِ مدرسہ کور نگاہ و مردہ ذوق خلوتیانِ مے۔کدہ کم طلب و تہی کُدو میں ، کہ مری غزل میں ہے آتشِ رفتہ کا سراغ میری تمام سرگذشت کھوئے ہوئوں کی جستجو۲۰؎ لوح بھی تو ، قلم بھی تو ، ترا وجود الکتاب! گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ ذرۂ ریگ کو دیا تو نے طلوعِ آفتاب شوکتِ سنجر و سلیم ، تیرے جلال کی نمود! فقرِ جنید و بایزید ، تیرا جمال بے نقاب شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام میرا قیام بھی حجاب ، میرا سجود بھی حجاب تیری نگاہِ ناز سے دونوں مراد پا گئے عقل ، غیاب و جستجو ، عشق حضور و اضطراب تیرہ و تار ہے جہاں گردش آفتاب سے! طبع زمانہ تازہ کر جلوۂ بے حجاب سے۲۱؎ یا پھر ’’مسجد قرطبہ‘‘ کا آخری بند: آب رواں کبیر!۲۲؎ تیرے کنارے کوئی دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب عالمِ نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب پردہ اُٹھا دوں اگر چہرۂ افکار سے لا نہ سکے گا فرنگ میری نوائوں کی تاب جس میں نہ ہو انقلاب ، موت ہے وہ زندگی روح اُمم کی حیات ، کش مکشِ انقلاب! صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر۲۳؎ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ شاعر کا ذکر ان ضروریات سے بے خبر ہے جو مشرق کو اپنی تعمیر نو میں ایک مدت سے پیش آرہے ہیں۔ اس کے نزدیک عالم اسلامی کا سیاسی و معاشی انقلاب بھی اتنا ہی اہم ہے جس قدر اس کی ذہنی اور مذہبی ترقی۔ اس سلسلے میں اگر اس نے ایک طرف مسلمانوں کو مرید ہندی اور پیر رومی کی گفتگو میں ایک غلط تصوف سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی (اقبال کی ساری شاعری ایک اعتبار سے ملاد پیر کی زنار آئینی کے خلاف احتجاج ہے) وہاں اس نے پنجاب کے دہقانوں اور پیرزادوں کو بھی فراموش نہیں کیا، پنجاب کے دہقان سے اس کا خطاب یہ ہے: بخاکِ بدن دانۂ دل فشاں کہ ایں دانہ دارد ز حاصل نشاں!۲۴؎ اور پیرزادوں سے اس نے کہا: عارف کا ٹھکانا نہیں وہ خطہ کہ جس میں پیدا کلہ فقر سے ہو طرۂ دستار باقی کلہ فقر سے تھا ولولۂ حق طروں نے چڑھایا نشہ خدمتِ سرکار۲۵؎ علیٰ ہذا نوع انسانی کے جہادِ حریت میں جہاں اقبال کے نزدیک فلاح و کامرانی کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ہم شعائر اسلامی کو اپنے لیے چراغِ ہدایت بنائیں وہاں ان تحریکات کا اس نے دل سے خیر مقدم کیا ہے جو انسان کی نجات اور اس کی آزادی کے لیے ناگزیر ہیں۔ بالِ جبریل میں لینن پر ایک طویل نظم موجود ہے۲۶؎ لینن خدا کے حضور میں پہنچ کر اقرار کرتا ہے کہ ہستی باری تعالیٰ سے انکار کرنا اس کی غلطی تھی۔ وہ کہتا ہے: میں کیسے سمجھتا کہ تو ہے یا کہ نہیں ہے ہر دم متغیر تھے خرد کے نظریات۲۷؎ لیکن اس ساری تمہید کا ماحصل یہ ہے کہ: تو قادر و عادل ہے ، مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟ دنیا ہے تری منتظر روز مکافات۲۸؎ اور یہ اس لیے اقبال خود سرمایہ پرستی کا دشمن ہے اور وہ الملک للّٰہ کا قائل ہے۔ چنانچہ شاعر ان لوگوں سے جو خدا پر ایمان رکھتے ہیں، پوچھتا ہے: پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون؟ کون دریائوں کی موجوں سے اُٹھاتا ہے سحاب؟ کون لایا کھینچ کر پچھم سے باد سازگار؟ خاک یہ کس کی ہے؟ کس کا ہے یہ نور آفتاب؟ کس نے بھر دی موتوں سے خوشۂ گندم کی جیب؟ موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوئے انقلاب؟ دہ خدایا یہ زمیں تیری نہیں ، تیری نہیں! تیرے آبا کی نہیں ، تیری نہیں ، میری نہیں!۲۹؎ فرمانِ خدا بھی ہے: جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو۳۰؎ لیکن پیامِ مشرق کی طرح بالِ جبریل بھی ان نکات و معارف سے خالی نہیں جو افراد و قوم کی ذہنی تربیت کا موجب ہوتے ہیں، اسی سلسلے میں چند نظموں کی طرف اشارہ کردینا کافی ہوگا۔ مثلاً ’’فرشتوں کا گیت‘‘، ’’ملا اور بہشت‘‘، ’’جبریل و ابلیس‘‘، ’’فلسفہ و مذہب‘‘ اور ’’ماہر نفسیات سے‘‘ موجودہ زمانہ لادینی کا زمانہ ہے۔ ان معنوں میں کہ جو لوگ بظاہر دین کے پابند ہیں وہ بھی دین و دنیا کے لیے الگ الگ حلقے قائم کردینا چاہتے ہیں۔ مغرب میں اگرچہ اس غلطی کا بہت پہلے سے ارتکاب ہوچکا ہے اور آج کے مضر نتائج ہر شخص کے سامنے ہیں۔ لیکن عالم اسلامی میں یہ بدعت سب سے پہلے ترکوں سے سرزد ہوئی یا جدید تعلیم کا سیلاب اب اس کی حمایت پر ہے۔ ’’دین و سیاست‘‘ ایک چھوٹی سی نظم ہے، جس میں شاعر نے کس خوبی کے ساتھ اس فتنے سے الگ رہنے کی دعوت دی ہے۔ شاعر کہتا ہے: کلیسا کی بنیاد رہبانیت تھی سماتی کہاں اس فقیری میں میری۳۱؎ ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی ہوس کی امیری ، ہوس کی وزیری! دوئی ملک و دیں کے لیے نامرادی دوئی چشمِ تہذیب کی نابصیری یہ اعجاز تھا ایک صحرا نشیں کا بشیری ہے آئینہ دار نذیری۳۲؎ اقبال کی شاعری کسی تبصرے کی محتاج نہیں۔ یہ کہنا بے سود ہوگا کہ مشرق میں شاعری نے ایک طویل وقفے کے بعد اقبال کی بدولت اپنی کھوئی ہوئی عظمت اور کھویا ہوا مقام حاصل کیا ہے۔ یہ قدرت کا زبردست فیضان ہے کہ اس نے اقبال کو ایک دردمند دل اور نکتہ بیں طبیعت کے ساتھ ایک کامل صناع اور بلند پایہ مصور کی نظر بھی عطا کی ہے۔ وہ جب اپنے مطلب کو ادا کرتے ہیں تو اس طرح کہ اس میں فن اور شریعت ایک دوسرے میں ضم ہوکر حسن صنعت کا ایک ایسا منظر پیش کردیتی ہیں جہاں انسان کا دل جمال رعنائی کے ایک غیر محدود عالم میں گم ہوجاتا ہے۔ بالِ جبریل میں اس کی مثالیں عام ہیں: عین وصال میں مجھے حوصلہ نظر نہ تھا گرچہ بہا نہ جُو رہی میری نگاہِ بے ادب!۳۳؎ راہ محبت میں ہے کون کسی کا رفیق ساتھ مرے رہ گئی ، ایک مری آرزو! پاس اگر تو نہیں ، شہر ہے ویراں تمام تو ہے تو آباد ہیں اجڑے ہوئے کاخ و کو!۳۴؎ مٹا دیا مرے ساقی نے عالم من و تو پلا کے مجھ کو مے لا الٰہ الا ھو گدائے میکدہ کی شانِ بے نیازی دیکھ پہنچ کے چشمہ حیواں پہ توڑتا ہے سبو! میں نو نیاز ہوں مجھ سے حجاب ہی اولیٰ کہ دل سے بڑھ کے ہے میری نگاہِ بے قابو!۳۵؎ نہ چھین لذتِ آہ سحر گاہی مجھ سے نہ کر نگہ سے تغافل کو التفات آمیز!۳۶؎ بے حجابی سے تری ٹوٹا نگاہوں کا طلسم اک رداے نیلگوں کو آسماں سمجھا تھا میں۳۷؎ خلوت کی گھڑی گزری جلوت کی گھڑی آئی چھٹنے کو ہے بجلی سے آغوشِ سحاب آخر!۳۸؎ جمال عشق و مستی نے نوازی جلال عشق و مستی بے نیازی کمال عشق و مستی ظرفِ حیدرؓ زوال عشق و مستی حرفِ رازی۳۹؎ لیکن یہ اقبال کے کلام کی وہ خصوصیت ہے جس کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ جو لوگ اقبال کی عظمت اور ان کی شاعری کے قدردان ہیں وہ بالِ جبریل کا مطالعہ ضرور کریں گے۔ لیکن جن لوگوں کو ابھی اس امر کا احساس نہیں کہ اقبال کی شاعری ملت کے لیے ایک عطیہ خداوندی کا حکم رکھتی ہے، ان کا فرض ہے کہ بالِ جبریل کی مدد سے اپنے افکار و جذبات کی تربیت کریں ع تھا ضبط بہت مشکل ، اس سیل معانی کا کہہ ڈالے قلندر نے اسرارِ کتاب آخر۴۰؎ (سالنامہ نیرنگِ خیال، ۱۹۴۲ئ) حوالے اور حواشی ۱- بالِ جبریل، ص۱ ۲- اشارہ ہے بالِ جبریل کی اوّلین اشاعت کی طرف، جو ۱۹۳۶ء میں منظر عام پر آئی۔ ۳- بانگِ درا، ص۲۷ ۴- بالِ جبریل، ص۷۸-۷۹ ۵- ایضاً، ص۲۸ ۶- ایضاً، ص۷۷ ۷- ایضاً، ص۵۳ ۸- ایضاً، ص۴۴ ۹- ایضاً، ص۵۹ ۱۰- ترجمہ: اپنے اندر اللہ کے اخلاق پیدا کرو۔ (الحدیث) ۱۱- بالِ جبریل، ص۶۷ ۱۲- ایضاً، ص۵۷ ۱۳- ایضاً، ص۷۵ ۱۴- ایضاً، ص۷۶ ۱۵- ایضاً، ص۷۰ ۱۶- ایضاً، ص۳۶ ۱۷- ایضاً، ص۴۳ ۱۸- پیامِ مشرق کاحصہ رباعیات۔ ۱۹- بالِ جبریل، ص۱۱۲ ۲۰- ایضاً، ص۱۱۲-۱۱۳ ۲۱- ایضاً، ص۱۱۳-۱۱۴ ۲۲- واد الکبیر قرطبہ کا مشہور دریا، جس کے قریب ہی مسجد قرطبہ واقع ہے۔ (اقبال) ۲۳- بالِ جبریل، ص۱۰۰-۱۰۱ ۲۴- ایضاً، ص۱۵۲ ۲۵- بالِ جبریل، ص۱۵۹ ۲۶- ایضاً، ص۱۰۷-۱۰۸ ۲۷- ایضاً، ص۱۰۶ ۲۸- ایضاً، ص۱۰۸ ۲۹- ایضاً، ص۱۱۹ ۳۰- ایضاً، ص۱۱۰ ۳۱- ایضاً، ص۱۱۸ ۳۲- ایضاً، ص۱۱۸ ۳۳- ایضاً، ص۱۱۴ ۳۴- ایضاً، ص۹۱-۹۲ ۳۵- ایضاً، ص۱۳ ۳۶- ایضاً، ص۱۶ ۳۷- ایضاً، ص۱۸ ۳۸- ایضاً، ص۵۲ ۳۹- ایضاً، ص۸۳ ۴۰- ایضاً، ص۵۲ ز……ز……ز ہندی اسلامی ریاست آج سے دس سال پیشتر جب مسلمانانِ ہندستان نے تحریک ترک موالات۱؎ میں قدم رکھا تو اس وقت دو مقصد ان کے پیش نظر تھے۔ اوّل خلافت اسلامیہ کا تحفظ اور ثانیاً ہندستان کی آزادی لیکن ان دونوں مقاصد کی راہ میں چونکہ ایک ہی قوت حائل تھی لہٰذا ان کی ساری جدوجہد بالآخر اس دوسرے مقصد یعنی ہندستان کی آزادی پر مرکوز ہوگئی۔ گویا ہندستان کے مسلمانوں کی آزادیِ وطن کی تحریک میں شامل ہونا کسی نسلی عصبیت یا وطنی جذبے کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ ابتدا ہی سے ان کے سامنے وہ بلند مطمح نظر تھا جو اقوام و افراد کی آزدی کے باوجود انھیں اخوت انسانی کے ایک عالمگیر دائرے میںلے آتا ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ اس کے لیے جس گہرے غور و فکر کی ضرورت تھی اس کی طرف کسی نے توجہ نہیں کی۔ یہ امر کہ سیاسیاتِ ہند کے متعلق، مسلمانوں کی روش کیا ہونی چاہیے، خاص طور سے بحث طلب ہے۔ ہندستان میں ایک نئی قوم کی تشکیل سے پہلے یہ سوچ لینا بے حد ضروری ہے کہ اس وسیع ملک کے مختلف الحیثیت باشندوں کے درمیان کہاں تک اشتراک مقاصد پایا جاتا ہے یا اس کی متعدد جماعتوں کے نزدیک آزادیِ وطن کا مفہوم کیا ہوگا؟ پیشتر اس کے کہ ہم لوگ اتحاد ہند کی طرف قدم بڑھاتے ہمیں چاہیے تھا کہ اس اتحاد کا واضح تصور اپنے ذہن میں قائم کرلیتے۔ یہ مسائل تھے جن سے رہنمایانِ ملت نے پوری پوری بے اعتنائی برتی۔ اس وقت حالات بھی کچھ ایسے ہی تھے۔ جنگ کے عالمگیر اثرات کی بدولت تمام دنیا میں بیداری کی ایک لہر دوڑ گئی تھی۔ ناممکن تھا کہ ہندستان کی وسیع آبادی جس نے اس محاربہ عظیم میں غیر معمولی نقصان اٹھایا تھا اس علم بیداری سے متاثر نہ ہوتی۔ اس کے ساتھ ہی گجرات و پنجاب کے مظالم، حکومت ہند کی عہد مواثیق شکنی، دول اسلامیہ کا روز افزوں انحطاط اور ہندستان کی عام بے روزگاری اور معاشی بے چینی کا تصور تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آجائے گی کہ اس وقت طول و عرض ہند میں کیوں ایک اضطراب برپا تھا۔ لوگ ان تمام شکایات اور ناانصافیوں کا فوری ازالہ چاہتے تھے۔ رہبرانِ ملک سے لے کر بچے بچے کی زبان پر لفظ جنگ تھا۔ آخرکار جنگ ہوئی اور اگست ۱۹۲۰ء سے لے کر فروری ۱۹۲۱ء یعنی فیصلہ بارو دلی۲؎ پر اس کا پہلا دور ختم ہوگیا۔ اس ’’جنگ‘‘ کے واقعات ہر شخص کے ذہن میں محفوظ ہیں اور اس کا خاتمہ جس طرح ہوا اس کی یاد آج تک تازہ ہے۔ یہاں اس تمام ہنگامے پر کوئی اصولی یا عملی اعتراض کرنا مقصود نہیں بالفعل صرف حوادث کی رفتار مدنظر ہے، جیسا کہ ہر شخص کو معلوم ہے التوائے جنگ یعنی قرارداد بارددلی کے ساتھ ہی ہندو مسلم فسادات شروع ہوگئے جن کا سلسلہ کئی برس تک جاری رہا اس کے لیے کانفرنسیں ہوئیں، مصالحتی بورڈ قائم ہوئے۔ بنگال و پنجاب کے میثاق مرتب کیے گئے غرض یہ کہ وہ سبھی کچھ ہوا جو اس وقت دردمندان قوم کے ذہن میں آسکتا تھا لیکن یہ آندھی کی طرح نہیں تھی حتیٰ کہ خود واقعات نے اس کا دور ختم کیا۔ مسلمان اس بات پر فخر کرسکتے ہیں کہ سیاسیاتِ ہند میں ان کی روش ہمیشہ مصالحت اور آشتی کی رہی ہے۔ جدید ہندی اسلامی قومیت کے بانی سرسیّدؒ کا قول تھا کہ ہندو او ر مسلمان ہندستان کی دو آنکھیں ہیں۔ گویا اپنی اس نہایت صحیح روش کے باوجود کہ مسلمانانِ ہند ایک جداگانہ قوم ہیں لہٰذا ان کی زندگی کی تعمیر کسی جغرافی اساس پر نہیں ہوسکتی مسلمانوں کا یہ محسن اعظم ہندو مسلم اتحاد کی ضرورت سے بے خبر نہیں تھا۔ اصل میں ہمارے جذبہ رواداری کا تقاضا بھی یہی ہے جس سے تاریخ اسلامی کا کوئی عہد خالی نہیں رہا۔ بہرحال جب مسلم لیگ قائم ہوئی اور مسلمانوں نے تعلیم کے تنگ دائرے سے نکل کر دنیائے سیاست میں قدم رکھا تو اس وقت بھی ان کی اس روش میں فرق نہیں آیا۔ اگر انھوں نے اپنے لیے جداگانہ نمایدگی یا حقوق و مراعات کا مطالبہ کیا تو اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ ہندوئوں کی طرف دست اتحاد بڑھانے کے لیے تیار نہیں۔ ۱۹۱۶ء کا میثاق۳؎ اس امر کا غیرفانی ثبوت ہے۔ یہ عہد جو میثاقِ لکھنؤکے نام سے مشہور ہے اور جس کو مسلمان بجاطور پر مسترد کرچکے ہیں لیگ اور کانگریس کی باہمی مفاہمت کا نتیجہ تھا۔ لیکن جن مسلمانوں نے اس میثاق کی ترتیب میں حصہ لیا ہے ان سے بڑھ کر شاید ہی کسی نے ہندستان میں اسلامی مفاد کو نقصان پہنچایا ہو۔ یہاں اس کا صرف ایک ہی پہلو قابل ذکر ہے اور وہ یہ کہ پنجاب و بنگال کے علاوہ مسلمانوں کو تناسب آبادی کے لحاظ سے دوسرے صوبوں میں جو نشستیں ملتی ہیں ان میں چند ایک نشستوں کا اور اضافہ کردیا جائے۔ ان مزید نشستوں کے لیے ’’پاسنگ‘‘ کی اصطلاح وضع کی گئی لیکن چونکہ ان کی تلافی پنجاب اور بنگال کی اسلامی نشستوں سے کی جانی تھی لہٰذا عملاً نتیجہ یہ نکلا کہ ہندو ہر جگہ اکثریت میں رہیں۔ البتہ جہاں کہیں مسلمانوں کی اکثریت کا امکان تھا اس کا خاتمہ پاسنگ کے صوبے سے کردیا گیا۔ اس قسم کی ناعاقبت اندیشانہ اور اپنے ہاتھوں خود اپنے مفاد کو مجروح کرنے کی مثال بہت کم مل سکے گی لیکن مسلمانوں کی سادہ لوحی ملاحظہ فرمائیے کہ میثاقِ لکھنؤ کو مسترد بھی کیا تو نفاذِ اصلاحات سے کئی سال بعد۔ گویا سیاسی اعتبار سے اگرچہ اس میثاق کو کوئی وقعت حاصل نہیں، لیکن عملی لحاظ سے تمام مجالس وضع قوانین کی نشستیں اسی اصول کے تحت تقسیم کی جاتی ہیں جو لکھنؤ میں قائم کیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ سائمن کمیشن۴؎ کو اب تک اصرار ہے کہ اگر مسلمان مخلوط انتخابات کی اسکیم کو اختیار نہ کریں تو آیندہ دستور حکومت میں بھی اسی میثاق پر عمل درآمد ہوتا رہے۔ لیکن ۱۹۲۰ء میں یہ سب باتیں عارضی طور پر ختم ہوگئیں۔ ایسا معلوم ہوتاتھا کہ جب تک ہندستان اپنا اصلی مقصد حاصل نہیں کرلیں گے اس وقت تک دستورِ ہند کی تاسیس کا مسئلہ پیش نہیں آئے گا۔ ایک رو تھی جس میں اس وقت ہندو اور مسلمان رہنما سب بہ گئے۔ اگرچہ مسلمانوں کی یہ انتہائی بدقسمتی تھی کہ انھوں نے بغیر کسی مصلحت کے زمام عمل کانگریس کے ہاتھ میں دے دی۔ اس سے جماعت کو اقتدار حاصل ہوا جو اب مسلمانوں کے لیے بجاطور پر تکلیف دہ ثابت ہورہا ہے۔ آج ہندستان کی سیاسی کش مکش میں حریت و جمہوریت اور اس قسم کے جس قدر دل آویز الفاظ لوگوں کی زبان پر ہیں یہ سب مسلمانوں کی فیضانِ صحبت کا نتیجہ ہیں۔ یہ مسلمان ہی تھے جنھوں نے کانگریس میں شریک ہوکر اس کے تنگ مطمح نظر میں یک قلم آزادی و استقلال کی روح پھونک دی۔ گویا میثاقِ لکھنؤ اگر سیاسی اعتبار سے خودکشی کے مترادف تھا تو یہ حد سے گزری ہوئی دوستی، جس سے مسلمانوں کے جداگانہ وجود پر ایک کاری ضرب لگی، مداہنت کا حکم رکھتی تھی۔ اس غلط وسیع المشربی سے ملت کو جو صدمہ پہنچا ہے اس کی تلافی بہت دنوں تک نہیں ہوسکے گی۔ ہندوئوں کے سیاسی تخیل اور ان کی روایات ابتدا ہی سے محدود تھیں۔ ان کی نگاہیں اپنی جاتی کے تنگ حلقے سے کبھی باہر نہیں نکلیں۔ رفتہ رفتہ ان کے سیاسی جذبات نے نسلی تعصب اور ایک نہایت ہی فروتر قومیت کا رنگ اختیار کیا۔ اختتام جنگ کے بعد جب تمام عالم میں ایک عام ہیجان پھیل گیا تو اس وقت ان کے قوائے عمل کو بھی حرکت ہوئی۔ اس پر مسلمانوں کی شرکت نے ان کو رفعت مقاصد سے آشنا کیا۔ بایں ہمہ ان کی تنگ نظری کا خاتمہ نہ ہوسکا۔ عین اس وقت جب ’’ہنگامہ کارزار‘‘ گرم تھا ان مجاہدین وطن نے جو آج مسلمانوں کو حقوق طلبی کا طعنہ دیتے ہیں سوراج کے نظام ترکیبی کی صدائیں بلند کیں۔ یہ صحیح ہے کہ اس زمانے میں ان آوازوں کی شنوائی نہیں ہوسکی لیکن تھوڑے ہی دنوں کے بعد جب فرقہ وارانہ کشاکش کا آغاز ہوا اور غیر متشدد قانون شکنی کے بطن سے شدھی اور سنگٹھن کی تحریکیں پیدا ہوئیں۔۵؎ تو یہ حقیقت آشکارا ہوگئی کہ ہندو مسلم اتحاد کی بنیادیں کس قدر ضعیف ہیں۔ مسلمانوں کے لیے موقع تھا کہ وہ اپنی اس سیاسی غلطی کا اعتراف کرتے جس کی بدولت ان کا ملّی وجود فنا ہورہا تھا۔ بایں ہمہ ان کی مداہنت آمیز روش اس وقت بھی جاری رہی۔ مسلمان زعما نے عمداً حالات سے تغافل برتا۔ انھوں نے اکثر چشم پوشی سے کام لیا اور اپنی ہی قوم پر زبان تشنیع دراز کی۔ لیکن چونکہ واقعات حد سے زیادہ تجاوز کرچکے تھے لہٰذا یہ اندازِ عمل دیر تک قائم نہ رہ سکا۔ سیاسیاتِ ہند کے وہ تازہ رفیق جن کے اشتراک کار کو ہندستان کی تاریخ کا ایک نیا باب سمجھا جاتا تھا علانیہ ایک دوسرے سے بچھڑ گئے اور دوری کا وہ احساس جس کو بظاہر لوگ فراموش کرچکے تھے ازسر نو تازہ ہوگیا۔ اب ایک دوسرے کی چیرہ دستیوں کے خلاف کھلم کھلا شکایتیں ہونے لگیں، بالآخر فرقہ وارانہ مناقشات کے تمام مسائل ایک ایک کرکے نظروں کے سامنے آتے گئے اور ان کا حل ۱۹۲۷ء میں کانگریس کے اجلاس مدراس میں جس طرح یہ تھا کہ (۱) میثاقِ لکھنؤ کو مسترد سمجھا جائے (۲) جداگانہ انتخابات کا اصول قائم رہے اور (۳) پنجاب اور بنگال کی اسلامی اکثریتوں کا تحفظ منظور کرلیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ قرارداد مدراس سے ہندو اور مسلمانوں کے سیاسی اختلافات ہمیشہ کے لیے رفع ہوجائیں گے لیکن شومیِ قسمت سے یہ قرارداد ایک سال کے اندر ہی اندر منسوخ ہوگئی۔ ۱۹۲۸ء میں جب سائمن کمیشن کا مقاطعہ کیا گیا تو اس کے ساتھ ہی یہ بھی طے پایا تھا کہ ایک آل پارٹیز کمیٹی ہندستان کا دستورِ حکومت مرتب کرے تاکہ اسے سائمن کمیشن کی رپورٹ کے جواب میں پیش کیا جاسکے۔ یہ دستور جو اب نہرو رپورٹ۶؎ کے نام سے مشہور ہے، مسلمانوں کے لیے ایک کھلاکھلا سیاسی چیلنج ثابت ہوا۔ قرارداد مدراس کے خلاف اس نے مخلوط انتخابات کی سفارش کی اور پنجاب و بنگال میں مسلم اکثریتوں کے لیے کسی تحفظ کو پسند نہیں کیا۔ اجلاس مدراس میں یہ طے ہوا تھا کہ ہندستان کا سیاسی نصب العین کامل آزادی کا حاصل کرنا ہوگا۔ نہرو رپورٹ نے اس کی بجائے درجہ نوآبادیات کا مطالبہ کیا اور ہندستان کی آیندہ حکومت کی بنا وحدتی نظام پر رکھی۔ بادی النظر میں نہرورپورٹ میثاقِ لکھنؤ سے بہتر معلوم ہوتی ہے لیکن غور سے دیکھا جائے تو ہندو اکثریت کا راج قائم کرنے کے لیے اس سے زیادہ خوفناک منصوبہ آج تک قائم نہیں ہوا۔ ایک طرف اشتراکِ عمل کے بہانے ان لوگوں نے درجہ نو آبادیات کے مطالبے سے تمام ہندوجاتی کو ایک مشترک مقصد پر جمع ہونے کی دعوت دی۔ دوسری طرف جمہوریت کی آڑ میں وحدتی نظامِ حکومت اور مخلوط انتخابات کی حمایت سے مسلمانوں کے لیے سیاسی قوت کے حصول کی تمام راہیں بند کردیں۔ اس رسوائے عالم رپورٹ پر مسلمان رہنمائوں نے بجاطور پر احتجاج کیا اور جب اسی سال کلکتہ میں آل پارٹیز کنونشن اور کانگریس کا اجلاس ہوا تو مسلمانوں کی ایک جماعت نے مسٹر جناح کی قیادت میں وہ تجاویز پیش کیں جو اب انھی کے ’’۱۴ مطالبات‘‘ کے نام سے مشہور ہیں اور جن میں قابل ذکر یہ ہیں کہ (۱) مرکزی حکومت میں مسلمانوں کو ۳۳ فیصدی نیابت کا حق دیا جائے (۲) پنجاب اور بنگال کی مسلم اکثریتوں کے لیے جو تحفظات ضروری ہیں ان کو انتخابات کے ساتھ قبول کرلیا جائے(۳) سندھ اور بلوچستان کو علیحدہ صوبہ تصور کیا جائے اور (۴) صوبہ سرحد کو وہی درجہ حاصل ہو جو ہندستان کے دوسرے صوبوں کو ہے لیکن اسی سال دہلی میں ایک اور اجتماع ہوا جس میں مسلمانوں کی تمام جماعتیں شریک تھیں اور جس کی صدارت ہزہائی نس سر آغا خاں۷؎ نے فرمائی۔ اس اجتماع نے یہ فیصلہ کیا کہ ہندستان کی مختلف قوموں اور غیر معمولی جغرافی وسعت کا خیال رکھتے ہوئے اس کے لیے وحدتی حکومت کا نظام مرتب کرنا دانش مندی کے خلاف ہے۔ یہاں حکومت کی جس شکل کا اطلاق ہوسکتا ہے وہ فیڈریشن ہے۔ مسلمان جداگانہ انتخابات کے حق سے دستبرار ہونے کے لیے تیار نہیں۔ نہ وہ پنجاب اور بنگال کی مسلم اکثریتوں کو معرض خطر میں ڈال سکتے ہیں۔ یہ اور علیحدگی سندھ اور صوبہ سرحد کے معلق آئینہ مساوات کے مطالبات قرارداد دہلی کی شکل میں اب بچے بچے کی زبان پر ہیں۔ اگرچہ کانگریس کا نہرو رپورٹ کو اختیار کرنا اس کی اسلام دشمنی کا بین ثبوت تھا اور اجلاس کلکتہ کے بعد ہندو اور مسلم زعما کا افتراق ایک مسلمہ حقیقت تھی لیکن ابھی اس جماعت کو ایک اور سوانگ بھرنا باقی ہے۔ ہندستان میں کچھ عرصے سے انقلابی اور اشتراکی عنصر کام کررہے ہیں۔ کچھ ان کی تسلی خاطر اور کچھ مسلمانوں کو فریب دینے کے لیے اجلاس لاہور میں ایک نیا کھیل کھیلا گیا۔ یہ کامل آزادی کے لیے جنگ کا اعلان تھا جس کے ساتھ ہی کہا گیا کہ کانگریس اس وقت کسی فرقہ وارانہ مسئلے پرگفتگو کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جب آزادی حاصل ہوجائے گی تو ان مسائل پر بھی غور کرلیا جائے گا۔ اس سے پہلے جو کچھ ہوچکا ہے اس سے کانگریس بریت کا اظہار کرتی ہے۔ گویا ایک ہی جست میں کانگریس اپنے اگلے پچھلے تمام مواثیق سے آزاد ہوگئی اور لطف یہ کہ اس نے یہ بھی ظاہر کردیا کہ ہندستان کے سیاسی معاملات کے متتعلق اس کا عندیہ کیا ہے۔ یہ ایک نہایت ہی عیارانہ حرکت تھی جس سے ایک طرف تو کانگریس نے آزادی کا دام بچھا کر مسلمانوں کے اندر انتشار پیدا کردیا ہے۔ دوسری جانب فرقہ وارانہ مسائل کے متعلق اغماض سے کام لے کر ہندو مہاسبھا کی خوش نودی حاصل کرلی۔ کانگریس سمجھتی تھی کہ یا تو فرقہ وارانہ مسائل کا تصفیہ گول میز کانفرنس میں ہوجائے گا اور اس صورت میں اسے اس خارزار میں قدم رکھنا نہیں پڑے گا اگر ایسا نہ ہوسکا تو مسلمانوں کی اندرونی قوت اور ان کے آیندہ طرزِعمل ہی کی آزمایش ہوجائے گی غرضیکہ جس اعتبار سے بھی دیکھیے کانگریس کی یہ روش اس کے اس دعویٰ کے سراسر منافی تھی کہ وہ ہندستان کی نمایندہ سیاسی جماعت ہے۔ اب یہ حقیقت آشکارا ہوگئی تھی کہ کانگریس کے پیش نظر صرف ہندوئوں کا وجود ہے اور وہ جو کچھ کرتی ہے جاتی کی مصلحتوں کے لیے کرتی ہے۔ یوں بھی قومیت کے تنگ دائرے میں محدود رہ کر دیکھا جائے تو ناممکن ہے کہ ہندوئوں کے سیاسی مقاصد مسلمانوں کو مطمئن کرسکیں۔ ہندوئوں کے سیاسی رجحانات اس طرف ہیں کہ ان میں اور انگریزی شہنشاہیت میں کوئی مفاہمت ہوجائے چنانچہ گذشتہ ایک سال کے واقعات سے اس کی تصدیق بھی ہوگئی ہے لیکن چونکہ لاہور کانگریس کے موقع پر انگریزوں اور ہندوئوں کی وہ ملی بھگت قائم نہیں ہوسکی جن کے لیے ہندو لیڈر ایک عرصے سرگرم کار تھے، لہٰذا کانگریس چاہتی تھی کہ وہ اپنی مدت کی تلخیوں کا اظہار لفظی جنگ سے کرے۔ ویسے بھی یہ وقت اس قسم کے عملی احتجاج کے لیے نہایت موزوں تھا اس لیے ہندستان کا آیندہ دستور تیار کرنے کے لیے گول میز کانفرنس منعقد ہورہی تھی۔ یہ کیوںکر ممکن تھا کہ کانگریس اس وقت خاموش رہتی۔ بہرحال جنگ کا اعلان کردیا گیا اور ہرچند کہ اس ’’جنگ زرگری‘‘ کا نتیجہ ظاہر تھا لیکن مسلم نیشنلسٹ پارٹی اور جمعیت العلما کی نادانی سے مسلمان اتحاد و اتفاق کی برکتوں ہی سے محروم نہیں ہوگئے بلکہ حصولِ قوت کا ایک نہایت اچھا موقع ہاتھ سے نکل گیا۔ اگر یہ دونوں جماعتیں اتحاد اسلامی میں رخنہ اندازی نہ کرتیں تو آج مسلمانوں کو اپنے افتراق و تشتت اور مذہبی اور تمدنی جذبات کی پامالی کا ماتم نہ کرنا پڑتا۔ لیکن ان لوگوں نے اپنا بن کر وہ کیا، جس کی بیگانوں سے بھی توقع نہیں تھی۔ ہندو مسلم تعلقات کی اس اجمالی کیفیت کے بعد اب ذرا مسلمانوں کی اندرونی حالت کا بھی تصور کرلیا جائے تو بہتر ہوگا۔ مسلمانانِ ہندستان کا سیاسی انحطاط جس کی ابتدا شہنشاہ عالمگیر اورنگزیب۸؎ کی وفات کے ساتھ ہی ہوگئی تھی۔ غدر ۱۸۵۷ء میں اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ ہندستان کی اسلامی تاریخ میں اس حادثے کو وہی اہمیت حاصل ہے جو عام دنیائے اسلام کے لیے زوال بغداد کی تھی۔ جس طرح مدینہ السلام کی علمی اور تمدنی دولت ہمیشہ کے لیے لٹ گئی۔ یہ ایک طبعی امر تھا کہ اس المناک واقعہ کے بعد مسلمانوں پر ایک مدت تک مرگ کا سا عالم طاری رہتا لیکن تھوڑے ہی عرصے کے بعد سرسیّد مرحوم کے دست اعجاز نے ان کے بے روح قالب میں ایک نئی جان ڈال دی۔ اصل میں یہ محض تائید ایزدی سے انکار کرنا ناممکن ہے کہ اسلامی ہندستان کی مردہ سرزمین کے لیے علی گڑھ کی تحریک ایک آیہ رحمت ثابت ہوئی۔ سیّد احمد خاں کا عقیدہ تھا کہ مسلمانوں کو اپنا جداگانہ ملّی وجود قائم رکھ کر ہندستان میں آزادانہ زندگی بسر کرنا چاہیے لیکن اگر اس عقیدے کی ترجمانی مدرسۃ العلوم کی شکل میں ہوئی یا آگے چل کر خداوندانِ علی گڑھ کو اس کے پورے نشوونما کا صحیح اندازہ نہیں ہوسکا تو یہ ان کے رہبراعظم کا قصور نہیں تھا۔ بہرحال کچھ دنوں کے بعد واقعات نے خود ہی مسلم لیگ کے قوائے عمل کو حرکت دی لیکن مسلمانوں کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ جس تیزی کے ساتھ حالات میں تبدیلی پیدا ہوتی رہی خود ان کا وجود اس قدر نہیں بدل سکا۔ ابھی مسلمان اپنی تعلیمی ضروریات سے عہدہ برا نہیں ہوئے تھے کہ ہندستان اور ہندستان کے باہر اسلامی دنیا کے حوادث سے متاثر ہوکر انھیں خارزارِ سیاست میں قدم رکھنا پڑا اور ابھی تمام سیاسی مسائل کی صحیح نوعیت کا احساس نہیں ہونے پایا تھا کہ یورپ کی جنگ عظیم پیش آگئی اور اس میں ترکوں کی شرکت نے عالم اسلام میں ایک اضطراب پیدا کردیا۔ دو ڈھائی سال کے بعد جب ترکوں کو شکست ہوئی تو مسلمانوں کی تمام تر توجہ خلافت اسلامی پر مرکوز ہوگئی کیوںکہ اس وقت خلافت کا خاتمہ گویا اسلام کی سیاسی قوت کا خاتمہ تھا۔ ہنوز اس کا کچھ فیصلہ نہیں ہوا تھا کہ ترکوں کی کامیابی کے ساتھ عام اسلامی سیاست کے متعلق مسلمانانِ ہند کا رویہ کیا ہونا چاہیے کہ ہندستان کا داخلی مسئلہ اپنی پوری اہمیت کے ساتھ ان کے سامنے تھا۔ گویا مسلمانوں کی زندگی کی سب سے بڑی خامی یہ رہی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے کسی پہلو کی تعمیر کا کام مکمل نہیں کرسکے۔ آج مسلمانوں کے تمام مصائب کی ذمہ داری صرف اس ایک امر پرہوتی ہے کہ ان کو اپنے مسائل حیات کے صحیح احساس کے لیے جس بیداری کی ضرورت ہے، وہ بھی ان میں مفقود ہے۔ یہ نہیں کہ ان میں عزائم کی کمی ہو یا انھوں نے کسی بلند مقصد میں حصہ لینے سے انکار کردیا ہو۔ یہ محض ہندوئوں کا پراپیگنڈا ہے جو زبان سے تو قومیت و جمہوریت کا نام لیتے ہیں لیکن ظاہر یہ کریں گے گویا ہندو راج قائم ہونے والا ہے۔ ان کے نزدیک ملازمتوں سے دستبرداری اور ملک کے وسیع فائدے کے لیے اپنے معاشی مفاد کے خیال نہ کرنے کا سوال صرف مسلمانوں ہی کے لیے پیدا ہوتا ہے۔ وہ خود ملازمتوں پر بھی قبضہ کرتے جائیں گے اور کھدر اور چرخے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے معاشی مقاطعہ بھی جاری رکھیں گے۔ ہم اوپر عرض کر آئے ہیں کہ مسلمانوں کا کانگریس میں شرکت کرنا خودکشی کے مترادف تھا لیکن اگر اس پروگرام پر بھی نظر ڈالی جائے جسے کانگریس نے تعمیری اغراض کے لیے مرتب کیا تھا تو اس ناعاقبت اندیشی کی حقیقت او ربھی واضح ہوجاتی ہے۔ کانگریس ہندوئوں کی ایک سیاسی جماعت ہے۔ اس کی بنیاد ہندوئوں نے رکھی اور اس کا سارا نظم و نسق بھی ہندوئوں ہی کے ہاتھوں میں رہا۔ ۱۹۱۶ء میں جب میثاقِ لکھنؤ مرتب ہوا تو اس وقت بھی لیگ اور کانگریس کی حیثیت ہندو اور مسلمانوں کی نمایندہ سیاسی جماعتوں کی تھی۔ البتہ ۱۹۲۰ء میں جب مسلمان بھی شریک ہوگئے تو اس نے سارے ملک کی نمایندگی کا دعویٰ کیا اگرچہ اس زمانے سے لے کر آج تک اس کا سارا کاروبار اور مطمح نظر محض ہندوانہ رہا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا اس کے لیے صرف ان مظاہروں اور جلسوں کی طرف اشارہ کردینا کافی ہے جو وقتاً فوقتاً کانگریس کے زیر احکام منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس امر کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ کانگریس کا تعلق ہندوئوں کے ایک خاص طبقے سے ہے لہٰذا اس کا سارا پروگرام خواہ وہ تعمیری ہو یا تخریبی، اس نقطۂ نظر کے ماتحت مرتب ہوتا ہے جو اس جماعت کے نزدیک ہندو جاتی کے لیے مفید ثابت ہوسکتا ہے، ممکن ہے ان کا یہ خیال صحیح ہو لیکن اس سے ہندستانی قومیت کے تمام اراکین تو مضبوط نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس کی تمام عقیدہ وطنیت و قومیت اختیار کرچکے ہیں لہٰذا انھیں اصرار ہے کہ ہندستان کے آیندہ دستورِ حکومت میں اصولِ جمہوریت کی تعمیر اسی شکل میں کی جاتی جو ان کے ذہن میں ہے۔ یہی طرزِ عمل ان کا دنیائے اقتصادیات میں ہے حالانکہ کھدر اور چرخے کی تحریک بادی النظر میں کتنی بھی مفید کیوں نہ ہو وہ تنہا مسلمانوں کے دردِ افلاس کی دوا نہیں بن سکتی۔ اسی طرح کانگریس کا کوئی حق نہیں تھا کہ وہ چھوت چھات کے دور کرنے کے مسئلے کو کانگریس کے تعمیری پروگرام کا جز بنا دیتی یہاں اس کام کے مفید یا غیر مفید ہونے سے بحث نہیں۔ یہ ایک خانگی مسئلہ ہے جسے سیاسیاتِ ہند سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر کانگریس سیاسی ترقی کے لیے اصلاح معاشرت کو ضروری سمجھتی ہے یا اس کے نزدیک اس کے ظل حمایت میں ترقی ہندی، جات پات توڑ کے، شدھی اور سنگٹھن کانفرنسیں منعقد ہوسکتی ہیں تو اسے ہندستان کی نمایندہ انجمن کہلانے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ ممکن ہے کانگریس یہ سمجھتی ہو کہ چوں کہ ہندستان کی غالب آبادی ہندوجاتی پر مشتمل ہے لہٰذا ہر وہ نسخہ جو ان کی اصلاح کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے سیاسیاتِ ہند کے لیے بھی مفید ہوگا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس ملک کے دوسرے اجزا سے تغافل برتے اور ان کی ہر سرگرمی کو ’’فرقہ پسندی‘‘ کا نام دے محض اس لیے کہ قومیت کا وہ مفہوم جو انھوں نے قائم کررکھا ہے اس کے ماتحت دوسری ملتوں کی ہستی یا ان کا سود بہبود سرے ہی سے ناپید ہوجاتا ہے۔ لیکن جس ہٹ دھرمی کے ساتھ کانگریس نے دوسری ملتوں کے حقوق اور ان کے مفاد سے اغماض کیا وہ تعصب و تنگ نظری کی ایک شرمناک مثال ہے۔ اصل میں کانگریس کی دماغی حالت ایک عرصے سے مائوف ہوچکی ہے۔ اربابِ کانگریس یہ سمجھتے ہیں کہ معاملات کی صحت و عدم صحت کے متعلق جو معیار انھوں نے قائم کر رکھا ہے اس سے کسی شخص کو اختلاف نہیں ہوسکتا۔ یہ ایک ایسی غلط روش ہے جس سے انتہائی خود بینی اور بے بصری کا پتا چلتا ہے۔ چونکہ ہندو اکثریت کے لیے ملازمتوں میں تناسب اور نشستوں کے تحفظ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لہٰذا وہ ہر کسی کو یہ مشورہ دینے پر آمادہ رہتے ہیں کہ ملازمتوں یا نشستوں کا نام لینا غیر حکومت کی طرفداری کرنا ہے حالانکہ وہ اتنا نہیں سمجھتے کہ مسلمان جس حکومت میں ملازمتوں کے تناسب یا نشستوں کی تقسیم کا مطالبہ کرتے ہیں وہ انگریزوں کی نہیں بلکہ انھی کے بیان کے مطابق ’’قوم‘‘ کی حکومت ہوگی۔ محض اس لیے کہ ہندستان کی معاشی باگ ہندوئوں کے ہاتھ میں ہے وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں اپنی معاشی ترقی کے لیے صرف وہ راستہ اختیار کرنا چاہیے جو اس قوم کے لیے مفید ہو۔ ہندستان کی آیندہ حکومت بھی ’’ہندستانی قوم‘‘ ہی کے ہاتھوں میں ہوگی۔ اقلیتوں کے لیے بے شک کچھ گنجایش رکھی جاسکتی ہے لیکن عارضی طور پر اور وہ بھی محض اس لیے کہ ان کا وجود رفتہ رفتہ اس وسیع حلقے میں ضم ہوجائے جو ہندستانی قومیت سے عبارت ہے، البتہ یہ ضرور ہے کہ ان کو مذہبی اور تمدنی آزادی حاصل ہوگی۔ لیکن سوال یہ ہے اگر ان سب اصولوں کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تو مسلمانوں کو دولت برطانیہ سے جنگ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ مذہبی اور تمدنی آزادی سے کانگریس کا جو مطلب ہے وہ تو ہمیں اب تک حاصل ہے۔ یہی نکتہ ہے جس کے سمجھنے سے ہندوئوں کا ذہن قاصر ہے اور ان کا خیال ہے کہ مسلمانوں کو محض قوم پسندی کے جنون میں انگریزوں سے جنگ چھیڑ دینا چاہیے۔ اس سے مسلمانوں کے سیاسی مصالح کی حفاظت ہوسکے گی یا نہیں اس سے انھیں کوئی بحث نہیں۔ لہٰذا اگر ہندستان کی معاشی اور سیاسی ترقی کا مفہوم یہی ہے کہ ہندوئوں کے تمام اجارات قائم رہیں بلکہ وہ اپنی قوم کے علاوہ تمام دوسری قوموں کے دل میں جداگانہ سیاسی قوت کے حصول کا خیال ہی پید انہ ہونے دیں تو مسلمانوں کو انگریزوں سے کیا تکلیف پہنچی ہے جو وہ خواہ مخواہ ان سے جنگ کرنے پر آمادہ ہوجائیں۔ بین الاقوامی معاملات کے متعلق ہندوئوں اور انگریزوں کی روش غالباً ایک سی ہوگی تمدنی اور مذہبی آزادی ہمیں پہلے ہی سے حاصل ہے۔ لہٰذا کسی ایسے سیاسی انقلاب کے بغیر جس سے صحیح طور پر مسلمانوں کی معاشی اور سیاسی ترقی کی راہ کی تاویل و تعبیر نظامِ حکومت کی اسی شکل میں ہوسکتی ہے جو ان کے تصور میں ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ دس سال کی ’’قومی سرگرمیوں‘‘ سے مسلمانوں کی اندرونی قوت میں مطلق اضافہ نہیں ہوا۔ مسلمانوں کے عوارض کا علاج مسلمانوں ہی کے مخصوص حالات کی تبدیلی پر منحصر ہے نہ کہ اس راستے میں جو کانگریس ان کے لیے تجویز کرے یا جس میں ان کے انفرادی وجود کو نظرانداز کردیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو کانگریس کے تعمیری پروگرام سے کوئی دلچسپی پیدا نہیں ہوسکی۔ ممکن ہے بعض لوگ یہ اعتراض کریں کہ ہندستان کی مختلف تحریکوں میں دو ایک تو ضرور ایسی ہیں جو ان کے لیے بھی مفید ثابت ہوسکتی ہیں لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ جس وقت مسلمانوں کے ذہن میں اپنا سیاسی مستقبل کا صحیح تصور قائم ہوجائے اس وقت وہ خودبخود ان باتوں کو اختیار کرلیں گے جو ان کی ترقی کے لیے ناگزیر ہیں۔ لیکن جب تک یہ صورتِ حال پیدا نہیں ہوتی محض یہ سوفسطائیت کہ ہندو اور مسلمان ایک ’’قوم‘‘ ہوگئے ہیں چند لوگوں کو تو خوش کرسکتی ہے لیکن اس سے پوری قوم کا اطمینان نہیں ہوسکتا۔ اس نقطۂ نظر کے تحت ان کا کچھ کرنا ایسا ہی بے سود ہوگا جیسا کہ یہ حالات موجودہ ان کا ’’کچھ نہ کرنا‘‘۔ یہ تو ایک طرح کی زبردستی ہے کہ اربابِ کانگریس مسلمانوں کو ایک ایسی تحریک میں شریک کرنے پر مجبور کریں جس سے ان کی زندگی میں کوئی خاص تغیر پیدا نہ ہو سوائے اس کے کہ جذبات قومیت و وطنیت کی پرورش سے ان کا ملّی وجود فنا ہوجائے اور پھر الٹا ان سے عدم رفاقت کا گلہ کریں۔ اس پر یک طرفہ یہ کہ بہ ہمہ ادعائے صداقت و تقدس یہ لوگ اپنی مصلحتوں کو ایک لحظے کے لیے بھی پست پشت نہیں ڈال سکتے بلکہ اس کے لیے جو طرزِ عمل چاہیں اختیار کریں خواہ یہ ’’دروغ بر گردن راوی‘‘ ہو یا دہلی کی خیانت آمیز مصالحت۔ یہ صحیح ہے کہ مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا ضرور پیدا ہوگیا ہے جو کانگریس کی ہر بات کی حمایت کرتا ہے اور جس کا یہ خیال ہے کہ اختلاف سب کے باوجود ہندستان میں ایک ’’مشترکہ قومیت‘‘ کی تعمیر ممکن ہے۔ گویا یہ لوگ اس اصول کو تسلیم کرتے ہیں کہ مغرب کی تقلید میں مسلمانوں کو یہ بھی اخلاق و سیاسیات کا ایک ایسا نظام تیار کرلینا چاہیے جس کی بنا اتحاد وطن پر ہو۔ یہ خیال اسلامی تعلیمات سے جس قدر بعید ہے اس کا بیان آگے آئے گا۔ یہاں صرف اس قدر عرض کرینا کافی ہوگا کہ ان لوگوں کو اس امر کا مطلق احساس نہیں کہ بحیثیت ایک عالمگیر حقیقت کے اسلام کی ماہیت کیا ہے۔ ٹھیک بساط کو الٹ دیا جائے۔ ان کو اس امر سے کوئی بحث نہیں کہ ان کی اس روش کا انجام آگے چل کر کیسا ہوگا۔ شاید یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ مستقبل کی تمام دقتوں کا سدباب اپنے وقت پر ہوجائے گا۔ آزادی کی ہوس اور سیاسی ہیجان ایک اچھی چیز ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ قوموں کا اندھادھند طرزِعمل ان کے لیے مفید بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر اتحاد و تنظیم یا طلب حقوق کی صدائوں سے قوم کو کچھ حاصل نہیں ہوا تو ان کے شورِ آزادی اور حریت سے بھی تو قوم کے جمود و بے حسی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ برعکس اس کے احکام شریعت اور انبیا علیہم السلام کے اقوال و افعال کی الٹی سیدھی اور سیاسین ہند کے ہر طرزِعمل کو ان پر منطبق کرنے کی کوشش میں وہ کون سا فتنہ ہے جو ہم نے مذہب میں پیدا نہیں کیا اور ضلالت و گمراہی کی وہ کون سی آلایش ہے جس سے ہمارا دامن معصیت ملوث نہیں۔ کیا ہم نے ایک ’’قوم‘‘ بننے کی ہوس میں حقائق تاریخ کو بھی فراموش نہیں کردیا ہے؟ کتنی قومیں تھیں جن کا تذکرہ صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہے اور کتنے ممالک ہیں جن کا آج کہیں پتہ بھی نہیں چلتا۔ یقینا متحدہ ہندی قومیت کے داعیوں اور ہندستان نو کے بانیوں کو استمرار و دوام کی کوئی سند نہیں مل گئی۔ یاد رکھنا چاہیے کہ قومیت اسلام کی حیات ’’روایاتِ ملیہ‘‘ کی پابندی اور ہمارے حسن سیرت کا انحصار ’’تادب بہ آدابِ محمدیہ‘‘ میں ہے۔ یہ نکتہ ہے جو ہمیں جدید دنیائے اسلام کے سب سے بڑے مفکر اور شاعر اور فلسفی علامہ اقبال نے بتایا ہے اور جس کا اظہار ہماری تاریخ کے ہر باب سے ہوتا رہا ہے۔ بہتر ہوگا کہ ہم اس اصول کے ماتحت اپنے سیاسی کاروبار کا جائزہ ایک دفعہ پھر لے لیں۔ بہرحال ہمیں یقین ہے کہ مسلمانوں کی یہ بے راہ روی عارضی ہے اور جوں جوں ان پر حقائق اسلامیہ کا انکشاف ہوتا جائے گا، وہ جادہ ضلالت سے ہٹ کر صراطِ مسقیم پر آجائیں گے۔ کتنی باتیں ہیں جو آج روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں لیکن جن کا دس سال پیشتر کسی کو تصور بھی نہیں تھا۔ واقعات کی تبدیلی کے ساتھ مسلمان خود محسوس کرلیں گے کہ ان کی زندگی کا راز صرف ان کے ملّی ’’انا‘‘ کے استحکام میں مضمر ہے۔ ان امور کے ساتھ ہی اگر ہم تحریک کانگریس یا ہندوئوں کی جدید سرگرمیوں کا مطالعہ اصولی اعتبار سے بھی کرلیں تو غیر مناسب نہ ہوگا۔ جیسا کہ ہر شخص کو معلوم ہے ہندو مذہب کسی ایک کیش یا عقیدے سے عبارت نہیں۔ نہ ان کے اندر مذہب کا کوئی خاص احساس باقی ہے ممکن ہے بعض افراد کی زندگی میں اسے کوئی خاص دخل رہا ہو لیکن من حیث القوم (اگر ان کو ایک قوم سے تعبیر کرنا ممکن ہے) ہندو اس امر کے قائل ہیں کہ مذہب کا تعلق ہر فرد کی اپنی ذات سے ہے دنیوی امور سے اسے کوئی سروکار نہیں چنانچہ کانگریس کا یہ عقیدہ کہ قوم و سلطنت کی تعمیر مذہب سے الگ یا بے نیاز رہ کر اشتراکِ وطن پر ہونی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے مسلمانوں کو بھی یہ دعوت دی ہے کہ وہ ہندستانی قومیت میں ضم ہوجائیں گو مجھے اس امر کے باور کرلینے میں تامل ہے کہ ہندوئوں کے قلب میں سچ مچ اتنی وسعت پیدا ہوگئی ہے کہ وہ اتحاد وطن کے اصول پر ایک نئی قوم کی تشکیل پر مصروف ہوجائیں۔ ہندوئوں کی عدم رواداری اور ان کے تعصب سے اس قسم کی وسیع المشربی کی توقع ہی نہیں ہوسکتی۔ بہرحال کانگریس نے سیاسی اتحاد کی بنا جغرافی حدود پر رکھی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کل اہل کانگریس کی زبان سے ہم حریت و جمہوریت اور مساوات اور بین الاقوامیت کے الفاظ بھی سن لیتے ہیں اور بعض کوتاہ نظر مسلمان ان کی بلند خیالی پر تحسین و آفرین کی صدائیں بلند کرتے پھرتے ہیں لیکن کانگریس نے حوادث تاریخ سے متاثرہوکر ان سب باتوں کا مطلب صرف اس قدر سمجھ رکھا ہے کہ بہ حالات موجودہ کوئی قوم دوسری قوم سے علیحدہ نہیں رہ سکتی۔ گویا ایک لحاظ سے ہندستان کی جدید سیاسی تحریک ہمیشہ کے لیے ہندستان کی جغرافی حدود کا مقید کردیتی ہے اور دوسرے اعتبار سے وہ مسلمانوں کو یہ پیغام دیتی ہے کہ تم اپنی زندگی کو حوادث کے رحم پر چھوڑ دو۔ مذہب کو محض ایک نجی چیز سمجھ لینے سے مسلمانوں کا ماضی عملاً ان کے لیے بیکار ہوجائے گا اور دنیائے تاریخ میں ان کا یہ شعور کہ انھیں زندگی کی ایک ابدی اور مستقل اساس پر گرفت حاصل ہے قائم نہیں رہے گا۔ ظاہر رہے کہ کوئی مسلمان ایک لحظے کے لیے بھی کسی ایسے اصول پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا جس سے اسلام کے نصب العین حیات کی نفی ہو۔ مسلمانانِ ہند سے یہ کہنا کہ وہ اپنی سیاسی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل کانگریس کی ہدایات پرکریں ان کو اس امر کی دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنے ماضی کی شاندار روایات کو فراموش کردیں اور پھر ہنگامہ قومیت و وطنیت کے بعد اشتراکیت و اشتمالیت اور طبقات کی کشاکش میں الجھ کر اپنا قیمتی وجود ہمیشہ کے لیے کھو دیں۔ برعکس اس کے اسلام وہ مذہب ہے، جسے اقوام و افراد کی زندگی میں یکساں اہمیت حاصل ہے۔ وہ حیاتِ انسانی کا کوئی شعبہ نہیں جس سے اس کا ایک پہلو تو متعلق ہو لیکن دوسرا آزاد۔ وہ انسان کی ذاتِ کلی کا ترجمان اور اس کی پوری زندگی کا رہنما ہے وہ اس کے دائرہ حیات کی وسعت کے ساتھ وسیع ہوتا اور اس کے سمٹنے کے ساتھ سمٹ جاتا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ انسان اپنا قدم اس دائرے سے باہر رکھ سکے۔ اسلام کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس نے زندگی کے ایک خاص وظیفے کے لیے تو یہ روش اختیار کی ہے لیکن اس کے باقی وظائف کو آزاد چھوڑ دیا ہے۔ وہ ایک کل ہے جس میں تمام اجزائے حیات باہم دگر مربوط اپنی اپنی جگہ پر نشوونما کے لیے موجود رہتے ہیں۔ گویا اس کی مثال ایک تخم کی سی ہے جس کے تمام برگ و بار بطور ایک حقیقت حاضر ہے، اس کے اندر پوشیدہ ہیں۔ اسلام کوئی عقیدہ نہیں کہ اس پر قائم رہ کر اپنی زندگی کو وسعت دینے کے لیے دوسرے سرچشموں کی طرف متوجہ ہوا اس طرح حیات ملّی کی حیثیت ایک مرکب کی سی ہوجائے گی حالانکہ اس کا قیاس ایک ذی روح وجود اور نمو پذیر جسم کی شکل پر کرنا چاہیے جس میں فطرتاً یہ صلاحیت موجود ہوتی ہے کہ اپنے نشوونما کے ارتقائی مدارج از خود طے کرلے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام خود ایک قدر ہے۔ زندگی کی تمام قدر و قیمتوں کا جامع۔ جب ایک دفعہ ہم اس کا اصول حیات تسلیم کرلیتے ہیں تو اس کے بعد پھر کسی دوسرے اصول کو اختیار کرنے کی گنجایش نہیں رہتی۔ اسلام کا نظام معاشرت مسلمانوں کی زندگی کی وسعت کے ساتھ وسیع نہیں ہوا بلکہ یہ وہ نظام ہے جس سے خود مسلمانوں کی زندگی وسعت حاصل کرتی ہے۔ وہ اس کی تمام ضروریات کا کفیل، اس کے تمام مطالبات کاذمہ دار اور اس کی زندگی کی ہر منزل اس کا رہبر ہے۔ وہ انسان سے لے کر شمس و قمر اور شجر و حجر تک کا مذہب ہے، اس لیے کہ یہی وہ آئینہ ہے جس میں فطرت اپنے انتہائے جمال کا مشاہدہ کرے گی۔ گویا وہ ازل ہی سے کائنات کے ذرے ذرے میں سرایت کرچکا ہے اور اس کا ظہور خود اسلام کا ظہور تھا۔ دنیا کے تمام انبیا مرسلین اسی ایک پیام کے حامل تھے۔ وہ تمام شریعتوں کا نقطہ جاذب ہے اور جب کبھی دنیا اپنے ارتقا کی کوئی منزل طے کرلیتی ہے تو اسی کی طرف بڑھتی ہے۔ لہٰذا ایک ایسی امت جس کا یہ ایمان ہو کہ وہ ایک کامل و مکمل مستور حیات کی حامل ہے جو اتنا ہی قدیم ہے جتنی کہ خود نوعِ انسانی اس امر پر مجبور ہے کہ اپنے مستقبل کی تعمیر اپنے ماضی ہی پر کرے۔ وہ یقین رکھتی ہے کہ اس کی گزشتہ زندگی کے اندر اس کے مسائل کا سارا حل موجود ہے کیونکہ وہ ایک ایسی کتاب کی مالک ہے جس میں شریعت الٰہیہ کی تکمیل ہوئی اور جس کا پیغمبر (ا) امامت عالم کے لیے مبعوث ہوا تھا۔ یہی وہ پاکیزہ اور ہمہ گیر تخیل ہے جس پر قومیت اسلام کا انحصار ہے۔ وہ نہ مشرق کی پابند ہے نہ مغرب کی۔ اس کا مقصد صرف اعلائے کلمۃ اللہ ہے اور یہی وہ حبل متین اور عروۃ الوثقیٰ ہے جس کے اعتصام و تمتک کے بعد نہ اس کی زندگی میں کسی دوسری قدر حیات کی ضرورت رہتی ہے۔ نہ اتحاد و یقین وطن یا اشتراکِ سیاسی و حیثیت کا کوئی نظام اس کی قومیت کے اندر کسی دوسری قومیت کی پرورش کرسکتا ہے۔ وہ خود ایک قوم ہے اور اس وسیع اور لازوال قومیت کا ہرجز شروع میں بھی مسلمان ہے اور آخر میں بھی مسلمان اور سوائے مسلمان کے اور کچھ نہیں۔ لہٰذا سیاست ہند کے متعلق یہ رویہ اختیار کرنا کہ ہندو اور مسلمان اپنی مذہبی اور تمدنی آزادی کو قائم رکھ کر ایک وسیع کل میں ضم ہوسکتے ہیں جس کے ماتحت یہ ممکن ہوگا کہ وہ ہندستان کی جغرافی حدود کی بنا پر ایک ’’قومی‘‘ ریاست کا قصر تیار کریں سراسر غلط ہے اسلام کا مذہب اور اس کا تمدن اس کی سیاست سے الگ نہیں۔ اس کا مقصد صرف اس قدر ہے کہ اس نصب العین کی جو تعلیمات اسلامی کے اندر پوشیدہ ہے عملاً ترجمانی کرے۔ اسلام بجائے خود ایک قوت اور تمدن ہے اور وہ اپنے چہرہ زیبا کا تماشا اپنی حکومت کے آئینے میں کرے گا۔ وہ اس امر کو ایک لحظے کے لیے بھی برداشت نہیں کرسکتا کہ انسان شجر و حجر کی طرح زمین کا پابند ہوجائے اور اس کے نظامِ سیاست میں حدود ملک و وطن کا تو دخل ہے لیکن مذہب کا اشتراک یا عقائد کی یکسانیت اس کے لیے کوئی معنی نہ رکھتی ہو۔ مسلمانوں کے سامنے روحانی نصب العین ہے جو رابطہ اسلامیہ کی شکل میں تمام عالم اسلامی کی وحدت کا باعث ہے۔ گویا مکمل اسلام بمنزلہ اعضا و جوارح کے ہیں جن سے ملت کا ایک وسیع وجود ترکیب پاتا ہے۔ سیاسیاتِ اسلامیہ کا منتہائے نظر یہ ہے کہ اس کے تمام اجزا ملت کے ایک عالمگیر کل میں ضم ہوکر اپنی قوتیں اس عالم کی تعمیر میں صرف کردیں جو اس کے مقصد تخلیق پوشیدہ ہے۔ مسلمانانِ ہند کا رجحان بھی اسی کل کی طرف ہوگا جس کا وہ ایک جز ہیں اور جو مستقبل سیاسی اسلامی کا ہے وہی ان کا ہے۔ ممکن ہے بعض لوگ اس کو مذہبی جنون سے تعبیر کریں اور سمجھیں کہ اس طرح جو نظامِ سیاست قائم ہوگا وہ نہایت مستبدانہ ہوگا لیکن اوّل تو یہ خیال کرلینا چاہیے کہ دنیا نے اقوام کے تنگ دائرے سے نکل کر اب بین الاقوامیت کے عالم میں قدم رکھا ہے اور چونکہ اسلام کی ہیئت اجتماعیہ کی ترکیب اخوت و مساوات اور حریت و جمہوریت کے اصول پر ہوئی ہے لہٰذا اس میں استبداد کا خطرہ نہیں۔ ثانیاً مذہب کا زمانہ ختم نہیں ہوا بلکہ آرہا ہے۔ نہ مسلمانوں کے لیے ’’متحدہ تمدن‘‘ اور ’’متحدہ قومیت‘‘ کے بے روح الفاظ کوئی کشش رکھتے ہیں اور نہ ان کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ محض اتحاد وطن کی بنا پر کوئی ریاست تعمیر کریں۔ اقوام و ملک فانی ہیں۔ لازوال وجود صرف ملت کا ہے۔ لہٰذا مسلمانانِ ہندستان کے سامنے صرف دو ہی راستے ہیں۔ یا تو وہ اسلام کے اصولِ حیات کو ترک کردیں اور یا وہ اپنی ساری کوششیں اسی ایک مقصد کے ماتحت لے آئیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس اعتبار سے ہم مسلمانوں کو سیاسیاتِ ہند کے متعلق کون سی روش اختیار کرنی چاہیے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مسلمانانِ ہند کا سیاسی نصب العین وہ ہونا چاہیے جو علامہ اقبال نے لیگ کے اجلاس الٰہ آباد میں پیش کیا ہے۔ ہندستان کے اندر ایک اسلامی ہندستان کے قیام کی تحریک کا خیر مقدم ہندو اور مسلمان دونوں کو کرنا چاہیے۔ ہندوئوں کو اس لیے کہ بقول علامہ ممدوح ہندی قومیت کا اشتراک اس کے مختلف اجزا کی نفی میں نہیں بلکہ ان کے اثبات پر مبنی ہے۔ صرف ہندستان کی تمام ملتوں کی اندرونی قوت اور ان کی سیاسی اور معاشی آزادی ہی کی بدولت ہندستان کے استقلال اور آزادی کا راستہ کھل سکتا ہے۔ مسلمانوں کو اس لیے کہ یہی وہ بلند اور مقدس تخیل ہے جو ان کے افلاس و نکبت اور نفاق و انتشار کی دوا بن سکتا ہے۔ اسی سے ان کے اندر ایک نئی زندگی پیدا ہوگی اور وہ اپنی خوابیدہ قوتوں کی بیداری سے اس قابل ہوں گے کہ ان لا انتہا معانی کا انکشاف کرسکیں جو اسلام کے اندرمضمر ہیں۔ لیکن اگر یہاں اس نقد و تبصرے کا جائزہ بھی لے لیا جائے جو علامہ ممدوح کی اس تجویز پر ہندو اور مسلمان دونوں جماعتوں کی طرف سے ہوا ہے تو غیر مناسب نہ ہوگا۔ افسوس یہ ہے کہ اکثر باتیں جو اس کے متعلق کہی گئی ہیں یادہ گوئی کا ایک لچر پوچ طومار ہیں اس لیے کہ معترضین کی غالب جماعت یا تو ہندوئوں کی تھی جو اپنے جوشِ تعصب اور کم فہمی کی بدولت کسی بات کے سمجھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے یا وہ اور کورچشم مسلمان تھے جن کو اسلام کے مستقبل کے متعلق کوئی بصیرت حاصل نہیں۔ البتہ اس ضمن میں دوچار غلط فہمیاں اس قسم کی ضرور پیدا ہوگئی ہیں جو بجائے خود کئی ایک اعتراضات اور شکوک کی جامع ہیں لہٰذا ان کا ازالہ کردینا بے جا نہ ہوگا۔ پہلا اعتراض یہ ہے کہ ہندستان کے اندر ایک اسلامی ہندستان کے قیام سے قومیت ہند میں افتراق پیدا ہوجائے گا۔ لیکن التماس یہ ہے کہ جب تک ہندوئوں اور مسلمانوں کا وجود باقی ہے یہ افتراق برابر قائم رہے گا۔ علامہ اقبال نے نہایت صحیح فرمایا ہے کہ ہندستان کا مسئلہ بین الاقوامی ہے نہ کہ قومی ثانیاً اس افتراق کو مٹانے کی یہ صورت مذہب کو پس پشت ڈال کر ایک ہندی ریاست کے تخیل پر ’’ہندستانی قوم‘‘ تیار کی جائے۔ اہل سیاست کو چاہیے کہ وہ مذہب اور تمدن میں دخل دینے کی بجائے کوئی ایسا نظام مرتب کریں جس سے یہ دونوں جماعتیں متحارب فریق نہ بن جائیں۔ اسلام ایک عملی اور حقائق کا لحاظ رکھنے والا مذہب ہے۔ یہی خیال ہے جس کے ماتحت قرارداد دہلی۹؎ میں ہندستان کے لیے فیدریشن کا مطالبہ کیا گیا تھا جس پر اب حکومت نے بھی ہندستان میں اسی قسم کی ریاستوں کے قیام پر زور دیا ہے۔ حال ہی میں بنگال کونسل میں توسیع بنگالہ کا مطالبہ کیا گیا ہے محض اس لیے کہ بہت سی بنگالی آبادیاں اس صوبے کی موجود حدود سے باہر آباد ہیں۔ اسی طرح کچھ سال ہوئے دہلی میں راجپوتوں کی ایک کانفرنس ہوئی تھی جس نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ صوبہ دہلی کی موجودہ حدود کو بڑھا کر ایک جاٹ صوبہ قائم کردینا چاہیے۔ ہندوئوں کی بدقسمتی ہے کہ ہم مذہبی کے دعوئوں کے باوجود ان کے مختلف مجموعے اپنی انفرادیت کو مٹانے کے لیے تیار نہیں۔ اگر ہندو مہاسبھا یا کانگریس ان میںوحدت اور یک رنگی پیدا کرنا چاہتی ہے تو ہمیں اس سے کوئی تعرض نہیں۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے جوشِ اتحاد میں اسلامی مفاد کے اندر دست اندازی نہ کریں۔ اگر بلوچستان، سندھ، پنجاب اور صوبہ سرحد کے مسلمان وحدت اسلامی کی بدولت ایک متحدہ ریاست قائم کرسکتے ہیں تو اس سے ہندوئوں کو دل تنگ ہوکر مسلمانوں پر بے بنیاد اتہامات عائد کرنا نہیں چاہیے۔ مسلمان اس کے لیے بھی تیار نہیں کہ محض اس وجہ سے کہ یہ نئی اسلامی ریاست ممالک اسلامیہ کے جواز میں تعمیر ہوگی اپنی مصلحتوں سے دستبردار ہوجائیں۔ وہ مزعومہ خطرات جو ہندوئوں کو مسلمانوں کی طرف سے ہیں صرف اس طرح دور ہوسکتے ہیں کہ وہ اپنی اندرونی اصلاح اور مضبوطی کے ساتھ ان سے دوستانہ تعلقات استوار کریں لہٰذا شمال مغربی ہندستان میںایک اسلامی ریاست کی تشکیل کسی طرح بھی ہندی فیڈریشن کے مفاد کے منافی نہیں۔ بقول علامہ ممدوح اس سے نہ صرف اسلام کو بحیثیت ایک تمدنی قوت کے مرکزیت حاصل ہوجائے گی اور توازن قوت کی بدولت ہندستان کے تمام اجزا میں اشتراک و اتحاد پیدا ہوسکے گا یہ ان تمام فرقہ وارانہ مسائل کا بہترین حل بھی ہے جو اس وقت ہماری پریشانی کا باعث ہورہے ہیں۔ ہم نے اکثر محبان قوم کو یہ کہتے سنا ہے کہ اگر ہندستان کے سیاسی مسائل کا تصفیہ ہوگیا تو اس سے دنیا بھر کے مناقشات دور ہوجائیں گے۔ ان کا یہ کہنا بالکل صحیح ہے اور اسی لیے علامہ موصوف نے بھی یہ فرمایا ہے کہ ہندستان بجائے خود ایک مختصر سا ایشیا ہے۔ اس کا ایک حصہ مشرق اقصیٰ سے مشابہ ہے اور دوسرا وسطی اور جنوبی ایشیا سے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مختلف قوتوں کے درمیان ربط اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی صورت کیا ہے؟ یقینا اس کا طریقہ یہ نہیں کہ ہر قوم دوسری قوم سے جبراً اپنی بات منوانے کی کوشش کرے۔ بے شک صلح و آشتی کے ساتھ تبلیغ مقاصد کی اجازت ہے۔ لہٰذا ہندوئوں کو یہ نہیں چاہیے کہ وہ ایک مزعومہ صورت حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس امر پر اصرار کریں کہ ہندستانی سیاست کے متعلق جو رائے انھوں نے قائم کر رکھی ہے اس سے ہر شخص کا اتفاق کرلینا ضروری ہے۔ بحیثیت ہندستانیوں کے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم واقعات کی تکذیب نہ کریں بلکہ تمام اختلافات پر نظر رکھتے ہوئے اشتراکِ عمل کی کوئی راہ نکالیں۔ لیکن کانگریس اور ہندوئوں کا طرزِ عمل اب تک اس کے خلاف رہا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہندستان کی ہر قوم ہندوئوں کی چیرہ دستی کی نذر ہوجائے۔ اس کے لیے وہ باربار ان ممالک کی مثال پیش کرتے ہیں جن میں ایک ہی قوم آباد ہے اور پھر نہایت اطمینان کے ساتھ اقلیتوں کے حقوق کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں کہ گویا ہندستان میں ان کا وجود محض اتفاق ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بہ لحاظ تناسب آبادی مسلمانوں کی تعداد ہندوئوں سے کم ہے لیکن ہندو اور مسلمان دو قومیں ہیں جو ہندستان کی ملکیت میں برابر کی دعوے دار ہیں۔ ہندستان کی وسیع حکومت کے اندر ہندو اکثریت اور مسلم اقلیت کے علیحدہ علیحدہ حلقہ ہائے قوت کا تصور موجود ہے۔ نظر بریں حالات یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ ہندستان کی مسلم اقلیت کے متعلق وہی روش اختیار کی جاسکے جو دوسرے ممالک کی اقلیتوں کے بارے میں جمعیۃ الاقوام یا ماہرین سیاست نے کی ہے۔ البتہ یہ ہندوئوں کی غلطی ہے کہ شمال مغربی ہند میں ایک اسلامی ریاست کے قیام سے خواہ مخواہ مضطرب ہوتے ہیں۔ اوّل تو ہم ہندستانی ریاستوں کی تشکیل میں ان تمام امور کو مدنظر رکھتے ہیں جو اصولی طور پر مسلم ہیں۔ ثانیاً اس ریاست کو محض ’’اسلامی ریاست‘‘ ٹھہرانے سے ہندوئوں کو خفا ہوجانا زیبا نہیں دیتا۔ کسی قوم کو یہ حق نہیں کہ وہ دوسری قوموں کے اصول و عقائد سے تعرض کرے۔ اگر ہندوئوں کے نزدیک فیڈریشن کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ ہندستان کے وحدتی نظام میں والیانِ ملک کی شرکت سے ہندو اکثریت اور زیادہ مضبوط ہوجائے تو یہ ایک نہایت ہی ناپاک ارادہ ہے جس کا نتیجہ سوائے لامتناہی جنگ کے اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ برعکس اس کے ایک ایسا فیڈریشن جو ہندستانی آبادی کے تمام اجزا کی آزادانہ ترقی اور ممکن القیام ریاستوں پر مشتمل ہو ان تمام مسائل کو ہمیشہ کے لیے ختم کردے گا کہ جو اس وقت ’’فرقہ پسندی‘‘ کی شکل میں ہندستان کے لیے مصیبت کا باعث ہورہے ہیں۔ ایک صحیح فیڈریشن کے قیام سے نہ نشستوں کا جھگڑا رہے گا نہ مخلوط یا جداگانہ انتخابات کا۔ ہر ریاست میں اقلیت کو وہ حقوق حاصل ہوں گے جو اس کے جداگانہ وجود کی حفاظت کے لیے ضروری ہیں۔ رہے وہ مشترکہ مسائل جو تمام ہندستان سے متعلق ہیں سو ان کے لیے مرکزی فیڈرل ریاست موجود ہوگی جس کے اختیارات کا فیصلہ تمام ریاستیں باہم رضامندی سے کرسکتی ہیں۔ بہرحال اس جدید اسلامی ریاست میں جو شمال مغرب میں قائم ہوگی۔ ہندوئوں کا مفاد جس قدر محفوظ ہوگا اس کے لیے ہم ایک ہندو لبرل کی تحریر ہی سے ایک اقتباس پیش کریں گے جو ٹائمز آف انڈیا میں طبع ہوچکا ہے اور جس کا ترجمہ روزنامہ انقلاب میں شائع ہوا ہے۔ (یکم؍فروری ۱۹۳۱ئ) …مسئلہ ریاست ہائے ہند کے مشہور ماہر پروفیسر ابھیاٹکر نے بھی یہی خیال ظاہر کیا ہے کہ فیڈرل ہندستان کے تین بڑے عنصر ہونے چاہییں۔ اوّل ہندستان، دوم مسلم ہندستان، سوم والیان ریاست کا ہندستان… سر محمد اقبال کی یہ دلیل بڑی وزن دار ہے کہ فیڈریشن میں ایسی ریاستوں کے شمول کے بعد ہندوئوں کی پوزیشن زیادہ مضبوط ہوجائے گی… محض اس ایک دلیل کی بنا پر علامہ اقبال کا یہ مطالبہ خالص ہمدردی کا مرجع بن جاتا ہے کہ اسلامی کلچر کی حفاظت کے لیے ایک ایسے صوبے کا انتظام ضروری ہے جس میں مسلمانوں کو نمایاں اکثریت ہو… اب اگر سر محمد اقبال کی رائے کے مطابق اسلامی صوبہ بن جائے تو سوال یہ ہے کہ کیا ہندوئوں کی پوزیشن بحیثیت مجموعی بہتر ہوجائے گی یا بدتر؟ یہ حالات موجودہ سندھ، صوبہ سرحد اور بلوچستان میں ان کی آبادی بہت ہی قلیل ہے لیکن جدید صوبے میں جس کی آبادی تقریباً ڈھائی کروڑ ہوگی ہندوئوں کی تعداد پون کروڑ سے کم نہ ہوگی۔ اس طرح چاروں صوبوں کے ہندو مل کر ایک طاقت ور اقلیت بن جائیں گے… پنجاب کے سوا جتنے صوبے ہیں ان کے ہندوئوں کے الگ الگ رہنے کی بجائے ان سے مل کر ایک صوبہ بن جانے کی حالت میں بہت فائدہ ہے۔ فیڈرل دستور میں سیاسی ناہلتیں مٹ جائیں گی… ہندو ہرگز مسلمانوں کی اکثریت میں بے دست و پا نہیں ہوں گے اس اسلامی صوبے پر صرف یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ اس کی حدود بہت وسیع اور ناقابل انتظام ہوجائیں گی، سرفریڈیک وہائٹ نے جو کتاب لکھی ہے اس میں ایک ایسے صوبے کا تصور موجود ہے جو ہندی بولنے والے لوگوں پر مشتمل ہوگا۔ اس کی وسعت دہلی سے لے کر پٹنہ اور بنارس تک ہوگی اور آبادی آٹھ کروڑ۔ ہمیں صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ انتظامی دقتوں کا مسئلہ حدود میں کمی بیشی سے بآسانی طے ہوسکتا ہے اور اب جبکہ علیحدگی سندھ اور فیڈریشن کا قیام طے ہوچکا ہے ہندوئوں کو بغیر کسی عذر کے اس تجویز کو قبول کرلینا چاہیے۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر شمال مغربی ہندستان میں ایک اسلامی ریاست قائم ہوگئی تو اس میں ہندوئوں کی حالت کیا ہوگی۔ اوّل تو گذشتہ سطور کے پڑھ لینے کے بعد اس قسم کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا لیکن چونکہ مذہبی ریاستوں کے متعلق مسلمانوں کے علاوہ دوسری قوموں کا تجربہ نہایت تلخ رہا ہے لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس غلط فہمی کا بھی ازالہ کردیا جائے جو ’’مذہبی ریاست‘‘ کے نام سے پیدا ہوتی ہے۔ جیسا کہ علامہ ممدوح نے اپنے خطبہ صدارت میں ظاہر فرما دیا ہے: ’’اسلام میں دینی اور دنیوی امور کا کوئی امتیاز نہیں۔ اسلامی نظام سیاست سے مراد جماعت کی وہ ترکیب ہے جس کا نظم و انضباط ایک خاص شریعت کا پابند ہے اور جس کے اندر ایک اخلاقی نصب العین سرگرم کار ہو۔‘‘ علاوہ ازیں اسلام ایک دینی جمہوریت ہے۔ جس میں کسی جماعت کو کوئی خاص مراعات یا حقوق حاصل نہیں۔ ظاہر ہے کہ جب مذہب کے اندر بھی اسلام حریت کامل کا مدعی ہے تو وہ امور جن کو ہم اپنی اصطلاح میں ’’دنیوی‘‘ کہتے ہیں ان کے متعلق اس کی روش کس قدر غیر مستبدانہ ہوگی۔ اصل میں اسلام انفرادیت و اجتماعیت کی ایک نہایت ہی متوازن ترکیب ہے جب میں یہ کہتا ہوں کہ میں ایک اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتا ہوں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں اس کے اراکین پر عائد کی کوئی خاص دنیا مسلط کرنا چاہتا ہوںیا اس کے وظائف میں ان حقائق کو نظر انداز کردوں گا جو سیاسیات و مدنیات کی جان ہیں۔ مجھے صرف اس حقیقت کا اعتراف مقصود ہے کہ انسان کی حیاتی اور عمرانی ضروریات کے ماورا جو عالم ہے وہ مقام و نسل اور رنگ و خون کے امتیاز سے پاک ہے اور یہ اس لیے کہ زندگی کنہ محض روح ہے، شعوب و قبائل کا وجود تعارف کے لیے ہے اور لسان والوں کا اختلاف اللہ تعالیٰ کی آیات میں سے ہے لیکن ایک ایسی ریاست کا قیام اس لیے ضروری ہے کہ وہ اس روحانی اصول کو عملی شکل دے سکے۔ دنیا کی سب قوموں میں صرف مسلمانوں ہی کا وجود ایسا ہے جو حریت و مساوات اور اخوت و جمہوریت کا سب سے بہتر تجربہ رکھتا ہے اور جس نے ان اصولوں کی عملاً ترجمانی کی ہے۔ اسلامی ریاست کا وجود اور اس کا فیض رواداری مشرق و مغرب کے لیے پیامِ حیات ثابت ہوچکا ہے لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ ہندو اس قسم کی ریاست کے قیام سے خواہ مخواہ خوف کھائیں۔ تیسرا اعتراض خود مسلمانوں کی طرف سے عائد ہوتا ہے اور وہ یہ کہ کہیں ایسانہ ہو کہ شمال مغرب میں ایک جداگانہ اسلامی ریاست کی تشکیل سے مسلمانانِ ہند کی قومیت کا شیرازہ بکھر جائے لیکن ان کا یہ اندیشہ سراسر غلط ہے۔ اصولی اعتبار سے اسلامی ریاست ایک نصب العین ہے جس میں مسلمانانِ ہند یکساں طورپر شامل ہیں۔ صرف یہی ایک طریقہ ہے جس سے وہ اسلامی تعلیمات کے لامتناہی معانی سے لطف اندوز ہوسکیں گے اور ان کو وحدت اسلامیہ اور ملت کے جداگانہ وجود کا احساس رہے گا۔ عملی اعتبار سے یہ ہندستان کے نہایت ہی پیچیدہ سیاسی مسئلے کا بہترین حل ہے۔ اگر ہندستان کے حالات ایسے ہیں کہ تمدن اسلامی کی مرکزیت کے لیے شمال مغربی ہندستان میں بآسانی ایک اسلامی حکومت قائم ہوسکتی ہے تو مسلمانانِ ہندستان کو محض اسلامی مفاد کی حفاظت کی خاطر اس کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ ہندستان میں تقریباً اسی قسم کی ایک دوسری ریاست بنگال میں قائم ہوگی۔ تقریباً اس لیے کہ بنگال کی حالت کچھ ایسی ہے کہ ابھی اس کے متعلق کوئی خاص تجویز پیش کرنا دشوار ہے۔ بہرحال وہ ایک عظیم الشان اسلامی سرزمین ہے جس سے مسلمانانِ ہند کسی طرح بھی غفلت نہیں برت سکتے۔ رہے وہ صوبے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں سو وہ ان کے جداگانہ مستقبل کے لیے ان تمام حقوق کا اعلان ہوجائے گا۔ جن کا وجود ناگزیر ہے۔ ان صوبوں کے اردگرد مسلمانوں کی مضبوطی خود ان کی مضبوطی ہے مزید برآں سیاسیات کے حدود و دائرہ سے باہر مسلمانوں کا مفاد حیات اس درجہ مشترک ہے اور ان کے باہمی روابط اس قدر گہرے ہیں کہ ان کے اند رکسی انتشار کا امکان ہی نہیں۔ اگر فیڈریشں کے قیام سے ہندستانی سیاست کا شیرازہ منتشر نہیں ہوسکتا تو ایک اسلامی ریاست کی تشکیل کے باوجود محفوظ و مصئون رہے گا۔ مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیے ان کے وجود کا تصور ابتدا ہی سے ایک ملت کی شکل میں کیا گیا ہے۔ اگر انھوں نے اس ملت کے دائرے سے قدم باہر رکھا یا اپنی اجتماعی شیرازی بندی کے لیے اسلام کے علاوہ کسی دوسرے اصولِ اتحاد کو اختیار کیا تو یہ ان کے لیے انتہائی ذلت و خسران اور تباہی و بربادی کا موجب ہوگا یہ ایک نہایت ہی زبردست اور معنی خیز تاریخی حقیقت ہے کہ اسلام کا ظہور بطور ایک قوم کے ہوا تھا جو زندگی کے تمام وظائف اور اس کی ساری گہرائیوں سے آشنا تھی۔ اس کے احاطہ عمل میں سیاست و معیشت کی بھی جگہ تھی اور تمدن و عمران کی بھی بایں ہمہ اس نے جو کچھ کیا مسلمان بن کر کیا۔ یہی وجہ ہے کہ فاطر ہستی کی جانب سے اسے خیر الامم کا خطاب ملا اور اس کا فریضہ یہ قرار پایا کہ وہ جو کچھ کرے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے کرے۔ دنیا کے تمام مذاہب اور تہذیبوں کی زیب و زینت شاید بعض اقوام کے وجود سے ہوئی ہو لیکن کوئی قوم اتنی حسین و جمیل اور کوئی تمدن ایسا تابناک اور درخشاں نہیں تھا جس قدر وہ قوم جو نور اسلام سے منور ہوا۔ اسلام ایک نہایت ہی آڑے وقت میں نوعِ انسانی کی مددکرچکا ہے۔ اس وقت جب کہ دنیا کی تاریخ میں تقریباً ویسی ہی ساعت درپیش ہے ہمیں چاہیے کہ اس حقیقت کا مطلب ازسر نو سمجھنے کی کوشش کریں جس کی بدولت ہمیں اقوام و ملل کی ہدایت اور ان میں شاہد بن کر رہنے کا فخر نصیب ہوا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ آج مصائب و آلام کا ہجوم ہے اور ناکامی اور بے بسی کے احساس سے ہمارے پائے ہمت شل ہوگئے ہیں لیکن رحمت ایزدی سے مایوس ہوجانا تو کفر کی علامت ہے۔ کیا قرآن پاک نے ہمیں یہ تعلیم نہیں دی کہ نہ اللہ تعالیٰ کسی قوم پر ظلم کرتا ہے سوائے اس کے کہ وہ اپنے ہاتھوں اپنے آپ پر ظلم کرے۔ نہ کوئی قوم اس وقت تک بدل سکتی ہے جب تک کہ خود اس کے باطن کی دنیا نہ بدل جائے۔ اگر ہم اپنے حوالی میں کوئی انقلاب پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ پہلے اس کا وجود اپنے ضمیر میں متشکل کرلیں۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ علامہ اقبال کے قلمِ حقیقت رقم نے ایک دفعہ پھر ہمارے دلی جذبات کی ترجمانی فرمائی ہے بھلا یہ کیونکر ممکن تھا کہ حقائق اسلامیہ کا یہ مایہ ناز مفسر جسے شریعت کے اسرار و غوامض کا غیر معمولی ادراک حاصل ہے چمنستان اسلامی کی شیرازی بندی سے غافل رہتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو کچھ ایسی ہی بصیرت دی ہے کہ ان کا دیدہ رہ بیں شب تار کی ظلمت کے باوجود اپنا صحیح راستہ تلاش کرلیتا ہے۔ ارشاد نبوی ہے اتقوا فراسۃ المومن فانہ ینظر بنور اللّٰہ۱۰؎ ضرورت صرف فراست ایمانی کی ہے۔ مسلمان اس کو پیدا کرکے تو دیکھیں: ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا (ماہنامہ صوفی مئی ۱۹۳۱ئ) حوالے اور حواشی ۱- تحریک ترک موالات: ۱۹۱۹ء میں رولٹ ایکٹ کے خلاف احتجاجی تحریک کے دوران میں جلیانوالہ باغ کا واقعہ پیش آیا۔ ان مظالم، حقوق آزادی اور تحفظ خلافت کے لیے مسلمانوں نے ۱۹۲۰ء میں حکومت برطانیہ سے عدم تعاون کی تحریک شروع کی جس میں سرکاری خطابات اور اعزازات کی واپسی، سرکاری درس گاہوں اور حکومت کی امداد سے چلنے والے تعلیمی اداروں سے طلبہ کا اخراج، عدالتوں اور سرکاری مال کا بائیکاٹ شامل تھا۔ اسی دوران میں گاندھی جی سول نافرمانی کی تحریک شروع کی۔ ہندوئوں اور مسلمانوں نے مل کر اس تحریک کو عروج پر پہنچا دیا مگر ۱۹۲۲ء میں چوراچوری کا واقعہ پیش آیا جس میں عوام نے پرتشدد کاروائیاں کیں جس سے گاندھی نے تحریک سول نافرمانی ختم کردی اس کے ساتھ ہی تحریک ترک موالات کا زور بھی ٹوٹ گیا۔ ۲- فیصلہ بارد دلی: چوراچوری کے تھانے میں ۲ سپاہیوں کے زندہ جلائے جانے کے بعد گاندھی نے محسوس کیا کہ تحریک قابو سے باہر ہورہی ہے تو ان کے ایما پر ۱۲؍فروری ۱۹۲۲ء کو بارد دلی میں کانگریس کی مجلس عاملہ نے ایک قرارداد منظور کی جس میں قانون شکنی کی تحریک کو معطل کردیا گیا اور تعمیری کام کے لیے لائحہ عمل پیش کیا گیا۔ ۳- میثاقِ لکھنؤ: ۱۹۱۶ء میں مسلم لیگ اور کانگریس نے لکھنؤ میں ایک معاہدے کی توثیق کی جس میں مسلمانوں کو جداگانہ انتخاب کا حق دیا گیا اور مرکزی اور صوبائی مجالس مقننہ میں نشستوں کی تقسیم کا فارمولا طے پایا۔ ۴- سائمن کمیشن: ۱۹۲۷ء میں برطانوی حکومت نے ہندستان میں مزید دستوری اصلاحات کے لیے سرجان سائمن کی سربراہی میں کمیشن قائم کیا جس کے ذمہ شہادتیں قلمبند کرنا، تجاویز وصول کرنا اور حالات کا جائزہ لے کر سفارشات مرتب کرنا تھا۔ ۵- سوامی شردھانند نے ۱۹۲۳ء میں شدھی تحریک شروع کی جس کا مقصد مسلمان مالکانہ راجپوتوں کو دوبارہ ہندو بنانا تھا۔ سنگٹھن تحریک کا مقصد ہندوئوں کے مختلف فرقوں میں اتحاد اور انھیں لڑائی کے لیے تیار کرنا تھا اسے پنڈت مدن موہن مالویہ نے شروع کیا اور ہندوئوں کو اکھاڑوں میں گتکا، نبوٹ اور ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت دی گئی… ان تحریکوں کے نتیجہ میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ ۶- نہرو رپورٹ: ۱۹؍مئی ۱۹۲۸ء کو آل پارٹیز کانفرنس نے موتی لال نہرو کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی جس کے ذمہ ہندستان کے دستور اساسی کا خاکہ تیار کرنا تھا۔ اس کمیٹی کی دستوری سفارشات کو نہرو رپورٹ کہا جاتا ہے۔ ۷- سر آغا خان (سوم) (۱۸۷۷ئ- ۱۹۵۷ئ) سرسلطان محمد شاہ، مسلم لیگ کے صدر رہے۔ ۸- اورنگ زیب عالمگیر (۱۶۱۸ئ- ۱۷۰۷ئ) مغل شہنشاہ۔ ۹- قرار داد دہلی: ۲۹؍دسمبر ۱۹۲۸ء تا یکم جنوری ۱۹۲۹ئ، دہلی میں سر آغا خان کی زیرصدارت، آل پارٹیز مسلم کانفرنس کے اجلاس منعقد ہوئے۔ آخر میں ایک طویل قرارداد منظور کی گئی جس میں مسلمانوں کے حقوق کے لیے مطالبات پیش کیے گئے تھے۔ ۱۰- ’’مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ خدا کے نور سے دیکھتا ہے۔‘‘ (حدیث نبویؐ) ز……ز……ز اقبال کیا چاہتے تھے؟ پاکستان یا ’’اسلامی ہندستان‘‘ میں ایک الگ تھلک اور آزاد ریاست کا قیام دو شخصیتوں کا مرہونِ منت ہے۔ ذہناً اقبال اور عملاً قائداعظم مرحوم کا۔ قائداعظم نے اس ریاست کے لیے جو طویل اور صبر آزما جدوجہد کی اور پھر جس طرح اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اس سے تو خیر کون انکار کرسکتا ہے لیکن اقبال کے متعلق ادھر چند دنوں سے یہ عجیب و غریب نظریہ سننے میں آرہا ہے کہ ان کے ذہن میں پاکستان یعنی ہندستان کے نیم براعظم میں ایک آزاد اسلامی ریاست کا اوّل تو کوئی تصور نہیں تھا اور تھا بھی تو بطور ایک ثقافتی وحدت کے بالفاظ دیگر وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس ثقافتی وحدت یا خود اختیار کو ایک باقاعدہ ریاست کی شکل دی جائے۔ ایسی ریاست کی جو اپنے سیاسی اور معاشی معاملات میں کلیتاً آزاد اور خود مختار ہو۔ گویا ایک سیدھی سادھی بات میں الجھائو پیدا کرنے یا بعض فنی مصطلحات کے سہارے ابلہ فریبی کی کوشش نہ کی جائے تو اس نظریے کا حاصل یہ ہے کہ اقبال نہیں چاہتے تھے کہ ہندستان کے اسلامی صوبوں میں جن کے لیے خود ان کی زندگی میںپاکستان کا نام تجویز ہوچکا تھا ایک آزاد اسلامی سیاست ہندوئوں کے پہلو بہ پہلو قائم ہو، اور اس کی دلیل کیا ہے؟ یہ کہ اقبال نے ہی تحریروں میں پاکستان کا نام نہیں لیا۔ اب اگر ان حضرات سے جو اس قسم کے لاطلائل خیالات کی اشاعت سے اضحوکۂ روزگار بن رہے ہیں سوال کیا جائے کہ پاکستان کیا ہے؟ اس کی تعریف کیجیے تو ان کا جواب بجز اس کے اور کچھ نہ ہوگا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے۔ لہٰذا جب اقبال کہتا ہے کہ ہندستان میں ایک اسلامی ریاست کا قیام ناگزیر ہے تو اس کا یہ کہنا پاکستان کے منافی کیسے ہوسکتا ہے؟ پھر اسلامی ریاست کے الفاظ میں لفظ ریاست کا استعمال اگر فی الواقع ’’ریاست‘‘ کے معنوں میں ہو جیسا کہ سیاسیاتِ حاضرہ کی ایک اصطلاح کی حیثیت سے اس کا معنی و مفہوم متعین ہے اور یہ امر بھی یقینی ہے کہ اقبال نے لفظ ریاست ’’ریاست‘‘ ہی کے معنوں میں استعمال کیا تو سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کا مطلب ’’ثقافتی وحدت‘‘ یا ’’ثقافتی خود اختیاری‘‘ کیونکر ہوگیا۔ کیا اقبال کے یہاں الفاظ کی کمی تھی، کیا اقبال ریاست اور ثقافتی خود اختیاری کی مصطلحات میں فرق نہیں کرسکتے تھے؟ وہ سیاسیات سے بے بہرہ اور جدید دنیا کے آئینی اور قانونی تصورات سے بے خبر تھے؟ ظاہر ہے کہ بقائمی ہوش و حواس تو کوئی شخص اقبال کی طرف اس قسم کی کوئی بات منسوب نہیں کرسکتا۔ ہاں اگر اس کے دل و دماغ جواب دے چکے ہیں تو اس کا کوئی علاج نہیں۔ لوگ اتنا نہیں سوچتے کہ اگر ’’ریاست‘‘ سے اقبال کا مقصود صرف یہ تھا کہ مسلمانانِ ہند کی ثقافتی وحدت قائم رہے تو انھیں کیا ضرورت تھی کہ تقسیم ہند کی کسی غلط اسکیم کے خلاف، حفظ ما تقدم کے طور پر صوبوں کی ازسرنو حدبندی کا مطالبہ کرتے انھیں کیا ضروری تھا کہ سیاسیاتِ پنجاب میں سکھوں کا رنگ ڈھنگ دیکھتے ہوئے یہ تجویز پیش کرتے کہ اگر سکھ چاہیں تو ریاست ہائے پھلکیاں یا صحیح معنوں میں پٹالہ، نابھ، فریدکوٹ کے ساتھ بعض ایسی تحصیلیں ضم کریں جہاں سکھوں کی غالب اکثریت ہے تاکہ خود ان کے جذبۂ آزادی کی تسکین ہوجائے۔ اقبال کو معلوم تھا کہ ہندستان میں جب ہی ایک آزاد اسلامی ریاست کے قیام کا امکان پیدا ہونا ممکن ہے کہ ہندو اس کی مخالفت نہ کریں۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے ترکش میں اس وقت سب سے بڑا تیر یہ ہوگا کہ تبادلۂ آبادیات کا مسئلہ چھیڑ دیں اقبال کے ذہن میں اسلامی ریاست کا جو تصور تھا اس کے ماتحت اگرچہ تبادلۂ آبادیات کا سوال اُٹھانا غلط ہے۔ لیکن وہ ہندوئوں کی ذہنیت سے خوب واقف تھے۔ انھیں معلوم تھا ہندو اس حربے سے ضرور کام لیں گے یہی وجہ ہے کہ اقبال صوبوں کی ازسرنو حد بندی اور سکھوں کو ریاست ہائے پھلکیاں میں ایک سکھ ریاست کے قیام کا حق دینے پر مصر تھے، یا مصر کے لفظ میں اگر ضرورت سے زیادہ تاکید کا رنگ پایا جاتا ہے تو ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ اقبال کے نزدیک یہ دونوں باتیں قابل غور بلکہ بڑی حد تک قابل عمل تھیں، کئی سال ہوئے شیرازہ۱؎ میں ان کا ایک خط شائع ہوا تھا جس کا مضمون یہ تھا کہ تبادلۂ آبادیات کی تجویز سکھوں کی ہے جسے لاجپت رائے۲؎ نے ۱۹۰۴ء یا ۱۹۰۷ء میں پیش کیا۔ مطلب یہ تھا کہ مسلمان اس قسم کے منصوبوں سے باخبر رہیں۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر اقبال کی اسلامی ریاست کا مطلب صرف اتنا تھا کہ مسلمانوں کا ثقافتی وجود محفوظ رہے۔ یہ نہیں کہ سیاسی اعتبار سے ہندستان ’’مملکتوں‘‘ میں تقسیم ہوجائے تو انھیں کیا پڑا تھا کہ تبادلہ آبادیات یا صوبوں کی از سرنو حد بندی وغیرہ اس قسم کے مسائل سے بحث کرتے۔ کانگریس تو شروع ہی سے ایک غیر مذہبی ریاست میں تہذیب و تمدن کی آزادی کے ساتھ ساتھ صوبوں کو خودمختاری کا حق دے رہی تھی لہٰذ اقبال بڑی آسانی سے مسلمانوں کے لیے تہذیب و تمدن کی آزادی یا بقول ان حضرات کے ثقافتی خود اختیاری بلکہ ریاست در ریاست کا مطالبہ کرسکتے تھے اور شاید کانگریس کا اس کی منظوری پر کوئی اعتراض بھی نہ ہوتا۔ انھوں نے کیوں جان بوجھ کر سفید کے لیے سیاہ اور سیاہ کے لیے سفید کا استعمال کیا۔ کیوں نہ کہہ دیا کہ میں جب ریاست وغیرہ کے الفاظ زیربحث لاتا ہوں تو ثقافتی خود اختیاری کے معنوں میں۔ میرے نزدیک آزادی کا مطلب ریاستی آزادی نہیں بلکہ تہذیب و تمدن کی آزادی ہے۔ اس ذرا سی بات سے وہ خود اپنے آپ اور اپنی پوری قوم کو سیکڑوں مغالطوں اور مشکلات سے بچاسکتے تھے۔ لیکن اقبال نے ایسا نہیں کیا۔ لہٰذا بات آخر میں یہی رہ جاتی ہے کہ یا تو اقبال جاہل تھے اور نہیں جانتے کہ اُردو اور انگریزی کے سیدھے سادے الفاظ اور مصطلحات کا مفہوم کیا ہے یا فی الواقعہ انھوں نے لفظ ریاست کا استعمال ہی سیاست ہی کے معنوں میں کیا۔ آزادی سے سیاسی آزادی ہی مراد لی۔ رہا یہ امر کہ ان کی تحریروں میں پاکستان کا لفظ کیوں نہیں آیا سو یہ اعتراض تو مسلم لیگ پر بھی کیا جاسکتا ہے جس نے پاکستان کا مطالبہ منوانے کے باوجود اپنی قراردادوں میں ریاست اور حکومت ہی کا لفظ استعمال کیا پاکستان کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ دراصل یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ جب کبھی کوئی قوم اپنا نصب العین پیش کرتی ہے۔ تو اس امر پر زور نہیں دیتی کہ اس ریاست یا جہاں کہیں یہ ریاست قائم ہو اس خطہ کا نام کیا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا لفظ گرچہ ہر بچے بچے کی زبان تھا۔ قائداعظمؒ نے بھی ریاست ہی کا تصور پیش کیا اور یہ کہا کہ جسے عام طور پر پاکستان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس اثنا میں پاکستان کی اصطلاح اس درجہ مقبول ہوچکی تھی کہ آخر برطانوی پارلیمنٹ کو بھی اقبال اور قائداعظم کی مجوزہ اسلامی ریاست کے لیے پاکستان ہی کی اصطلاح استعمال کرنا پڑی۔ دراصل جو لوگ اس قسم کی غلط سلط باتیں اقبال سے منسوب کرتے ہیں وہ یا تو اقبال کو سمجھے نہیں یا کسی خاص مصلحت کی بنا پر قصداً سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ وہ نہیں جانتے کہ اقبال کے نزدیک ریاست اور ثقافت کا دائرہ ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں۔ ریاست جسم ہے اور ثقافت روح۔ ایک صورت ہے اور دوسرا معنی ان کی رائے تھی کہ سیاست کو انسان کی روحانی اور اخلاقی زندگی اور اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ تہذیب و تمدن سے الگ کرنے کا خیال اس معنوی الاصل ثنویت پسندی کی بنا پر پیدا ہوا جسے عیسائیت نے اپنی رہبانیت پسندی کی وجہ سے اصولاً اختیار کرلیا تھا۔ عیسائیت کی ابتد ایک رہبانی نظام کے طور پر ہوئی۔ یہاں آگے چل کر جب ایک عجیب و غریب اتفاق کی بدولت اہل کلیسا دفعتاً امور ریاست پر متصرف ہوگئے اور سارا یورپ کلیسائی نظام کی زنجیر میں جکڑا گیا۔ جس میں نہ ریاست کو ریاست کی حیثیت سے چلانے کی صلاحیت پائی جاتی تھی اور نہ یہ ممکن تھا کہ اس کے ماتحت انسان کے تہذیبی اور ثقافتی مقاصد پورے ہوسکیں تو قدرتاً اس نظام کے خلاف ایک ردعمل ہوا۔ یورپ نے عیسائیت سے تو اپنا رشتہ نہیں توڑا البتہ یہ ضرور کیا کہ دین اور دنیا کے دو الگ الگ اور بڑی حد تک ایک دوسرے کے منافی اورمتضاد تصورات قائم کرلیے۔ یوں غیر مذہبی ریاست مغربی اقوام کا نصب العین ٹھہرا اور اس نصب العین کی بنا قومیت اور وطنیت پر رکھی گئی۔ خیال یہ تھا کہ اس طرح ریاست تہذیب و تمدن سے الگ اپنے مخصوص فرائض زیادہ کامیابی سے سرانجام دیتی رہے گی۔ لیکن جب ایک دفعہ ریاست کا تعلق ان تخیلات سے منقطع ہوگیا جو تہذیب و ثقافت کی روح ہیں تو اس سے خود تہذیب و ثقافت کے اعلیٰ مقاصد بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رے۔ ظاہر ہے کہ شروع شروع میں اہل یورپ کو اپنی اس غلطی کا احساس نہیں ہوا کیونکہ ابتدا میں یہ عمل بڑا تدریجی اور سست تھا۔ اور اس کے نتائج کچھ دنوں بعد ہی رونما ہوسکتے تھے۔ بہرحال جو قدم ایک غلط راستے کی طرف اُٹھ چکا تھا اس کا واپس آنا محال تھا اور اس سے سیاست اور مذہب دونوں کے لیے ایک بڑی افسوس ناک صورت حالات پیدا ہوگئی۔ بالِ جبریل میں اقبال نے اس حقیقت کو کیا خوب بیان کیا: کلیسا کی بنیاد رہبانیت تھی سماتی کہاں اس فقیری میں میری خصومت تھی سلطانی و راہبی میں کیا وہ سربلندی ہے یہ سربزیری سیاست نے مذہب سے پیچھا چھڑایا چلی کچھ نہ پیرِ کلیسا کی پیری ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی ہوس کی امیری ہوس کی وزیری! دوئی ملک و دیں کے لیے نامرادی دوئی چشمِ تہذیب کی نابصیری یہ اعجاز ہے ایک صحرا نشیں کا بشیری ہے آئینہ دار نذیری اسی میں حفاظت ہے انسانیت کی کہ ہوں ایک جنیدی و ارد شیری!۳؎ اب ظاہر ہے کہ اقبال جس کے نزدیک حفظ انسانیت کی یہی صورت ہے جنیدی و اردشیری باہم جمع رہیں یعنی جس کے نزدیک ملک و دولت اور مذہب و سیاست توام ہیں کیسے یہ مطالبہ کرسکتا تھا کہ اسلامی اکثریت کے صوبوں میں ایک الگ تھلگ آزاد ریاست تو قائم ہو لیکن اس ریاست کا مقصد صرف اتنا ہو کہ مسلمان سیاسی اور معاشی اعتبار سے تو ہندوئوں کی نام نہاد متحدہ قومیت کا جزو بنے رہیں۔ لیکن ان کی ثقافت یعنی تہذیب و تمدن محفوظ ہوجائیں درآں حالے کہ اقبال کے نزدیک سیاسی آزادی اور ثقافتی خود اختیاری کے درمیان تفریق کرنا ناممکن ہے۔ جیسا کہ ہم نے ابھی عرض کیا تھا کہ ریاست اور ثقافت ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں اور اسلام یا مسلمانوں کا ثقافتی نصب العین سیاسی اور ملّی آزادی کے بغیر نہ کبھی پورا ہوا اور نہ ہوسکتا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ایک سچے مسلمان اور اسلام کے ذہنی ترجمانی کی حیثیت سے اقبال نے ہمیشہ مسلمانوں کو ایک قوم (جیسا کہ آج کل کی سیاسی اصطلاح میں لفظ قوم استعمال ہوتا ہے) کی حیثیت سے پیش کیا۔ یہ نہیں کہا کہ ہندستانیوں کی قومیت تو ایک ہے ہاں ثقافتی اعتبار سے ان میں کچھ، الگ الگ مجموعے قائم ہیں۔ لہٰذا اس نقطۂ نظر سے بھی اگر اقبال مسلمانوں کے لیے ثقافتی خود اختیاری کا مطالبہ کرتے تو اس کا مطلب یہی ہوتا کہ مسلمانوں کو سیاسی اور معاشی خود اختیاری حاصل ہونی چاہیے لیکن اقبال نے ایک سیدھی سادھی بات کو خواہ مخواہ الجھانے کی کوشش نہیں کی بلکہ صاف صاف کہا کہ ہمیں سیاسی طور سے آزاد ہونا ہے ہماری ایک الگ اور خودمختار ریاست قائم ہونی چاہیے۔ اندریں صورت جو شخص اقبال کی اسلامی ریاست کو محض اس بنا پر کہ اس نے پاکستان کا نام نہیں لیا ثقافتی خوداختیاری سے تعبیر کرتا ہے یعنی بالفاظِ دیگر یہ کہنا چاہتا ہے کہ اقبال کے ذہن میں سیاسی آزادی کا کوئی تصور نہیں تھا۔ وہ صرف اتنا چاہتے تھے کہ ہندوئوں سے چند ثقافتی تحفظات حاصل ہوجائیں یا تو اپنے ہوش و حواس کھوچکا ہے یا عمداً ایک ایسی غلط بیانی سے کام لے رہا ہے جس سے اقبال کے ذہنی عقائد اور ساری دعوت کی نفی ہوجاتی ہے۔ یہ لوگ بھولتے ہیں کہ اقبال مسلمان تھا جو کچھ کہتا تھا اسلام کی بنا پر کہتا تھا۔ اسلام ہی کی بنا پر مسلمانوں نے اپنی جداگانہ اور مستقل قومیت کا مطالبہ کیا۔ اسلام ہی کی بنا پر مسلمان یہ سمجھے کہ ان کی ثقافت اور تہذیب و تمدن کے بقا کی ایک ہی صورت ہے وہ یہ کہ وہ اپنی ایک علیحدہ ریاست قائم کریں اور اسلام ہی کے پیش نظر اقبال نے ان کو اس مقصد پر اُبھارا ان کے دل میں سیاسی آزادی کی اُمنگ پیدا کی اور انھیں بتلایا کہ ہندستان کا ایک حصہ اس بات کا منتظر ہے کہ وہاں مسلمان ایک آزاد اور خودمختار قوم کی زندگی بسر کریں جس کی تہذیب روح اور ایک ثقافتی نصب العین۔ اسلام نے نہ کبھی ریاست اور مذہب کی تفریق گوارا کی نہ عیسائیت یا موجودہ دنیا کے دوئی پسند ثنوی الاصل خیالات کی طرح جسم و روح یعنی مادی اور روحانی (یاد رکھنا چاہیے یہاں روحانی کا تعلق آخر انسان کے اخلاق اجتماعی، اس کی تہذیب اور معاشرت سے ہے) مراتب کے دو الگ الگ عالم قائم کیے اسلام کے نزدیک سیاست ہماری ثقافت ہی کا ایک جزو ہے۔ یا جزو کے بغیر اس کے شاید ہماری ثقافت ہی ختم ہوجائے یہی نکتہ ہے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے اقبال نے اسلام کو دینی سیاسی اسٹیٹ قرار دیا اور اسلامی ریاست کی تشریح ان الفاظ میں کی۔ ’’اسلام کے نقطۂ نظر سے ریاست کا مطلب ہے ہماری یہ کوشش کہ اس کے اصول ومقاصد اور واقعتا زمان و مکاں پر متصرف ہوں یا بالفاظ دیگر سیاست کا نام ہے ہماری اس آرزو کا [کہ] ان اصول و مقاصد کا اظہار ایک باقاعدہ اور مختصر ہیئت اجتماعیہ میں ہو۔‘‘ اسی حقیقت کو ہم ایک دوسری طرح یوں بیان کرسکتے ہیں کہ اسلامی ثقافت کا نصب العین یا دوسرے لفظوں میں ہماری ثقافتی خوداختیاری ایک ریاست ہی کے ذریعے قائم اور برقرار رہ سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ مسلمانانِ ہند اور مسلمانانِ ہند کے ایک ذہنی ترجمان کی حیثیت سے اقبال نے ایک آزاد و خودمختار اسلامی ریاست ہی کا مطالبہ کیا اور یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ نے اس مطالبہ کے پیش نظر پاکستان کی الگ تھلگ اسلامی ریاست کے لیے جدوجہد کی لیکن ان سب باتوں کے باوجود اب بھی اگر کسی کو یہ شبہ رہ جائے کہ اقبال کے ذہن میں پاکستان کا تصور بطور ایک آزاد اور الگ تھلگ اسلامی ریاست کے نہیں تھا تو ہم اس کی توجہ دو باتوں کی طرف مبذول کریں گے۔ ایک تو اقبال کے اس جملے کی طرف جو قائداعظم کے نام ایک خط میں انھوں نے لکھا تھا اور جس کا مفاد یہ ہے کہ جواہر لال کی لادین اشتراکیت کا ہمارے پاس اگر کوئی جواب ہے تو صرف اسلامی شریعت۔ ظاہر ہے کہ یہ اسلامی شریعت ایک اسلامی ریاست ہی میں نافذ ہوسکتی ہے اور ثانیاً الٰہ آباد میں ان کا مشہور خطبہ صدارت جس میں سیاست، مذہب، ہندو مسلم اختلافات، ہندی اسلامی سیاست اور مستقبل کے مسائل کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے صاف صاف لکھا ہے کہ میرے نزدیک ہندستان کے شمال مغربی حصوں میں ایک آزاد اسلامی ریاست کا قیام ناگزیر ہے۔ ہندوئوں کو اس ریاست سے خائف نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ریاست جہاں ان کے اور بیرونی عالم کے درمیان دفاع کا ایک مؤثر طریقہ ہے وہاں وہ تہذیبی اور ثقافتی روایات کی پھر سے تجدید کرے گی جو بوجہ محکومیت عرصے سے دب گئے ہیں اور جن کا احیا مسلمانوں اور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دنیا کے لیے ایک آیہ رحمت ثابت ہوگا۔ (روزنامہ امروز، ۲۲؍اپریل ۱۹۴۹ئ) حوالے اور حواشی ۱- شیرازہ، چراغ حسن حسرت کے زیر ادارت شائع ہونے والا ایک ہفت روزہ۔ ۲- لالہ لاجپت رائے (۱۸۶۵ئ- ۱۹۲۸ئ) ایک متعصب ہندو سیاسی رہنما۔ اقبال کے ذاتی دوست تھے۔ ۳- بالِ جبریل،ص۱۱۸ ز……ز……ز شریعت اسلامیہ: اقبال کی نظر میں اقبال کے نزدیک دین اسلام ایک ہمہ گیر اصول ہے جس نے زندگی اور اس کے ہر پہلو کا احاطہ کررکھا ہے۔ وہ ایک اساس فکر و عمل ہے، ایک ابدی صداقت، کائنات میں ہر کہیں کارفرما، کائنات کا ہر ذرہ اس کے تابع، شریعت اسلامیہ اسی اصول اور اسی صداقت کی عملاً ترجمانی، اس کے بروئے کار لانے کا ذریعہ ہے: ہست دین مصطفی دینِ حیات شرعِ او تفسیرِ آئین حیات۱؎ اسلام دین حیات ہے۔ شریعت اسلامیہ آئین حیات کی تفسیر۔ آئین تقاضائے حیات ہے۔ اسے آئین مل گیا تو ایک نظام مدنیت وجود میں آجائے گا۔ قوم اس نصب العین کے حصول میں آگے بڑھے گی جو اس کی تقویم اور تقویت کا راز ہے، اس کی ہستی اور وجود کی وجہ جواز آئین نہیں تو زندگی کو بھی ثبات نہیں، نہ اجزائے حیات کی شیرازی بندی کا کوئی امکان: آدم کو ثبات کی طلب ہے دستورِ حیات کی طلب ہے۲؎ یہ اس لیے کہ انسان کو جو قوائے علم و عمل عطا ہوئے، جو گوناگوں صلاحیتیں اورقابلیتیں ملی ہیں، جو جو تقاضے طرح طرح سے اس کے ضمیر اور باطن میں ابھرے ، وہ اسے کسی نہ کسی راستے پر ڈال دیتے ہیں۔ یہ کسی تعمیری مقصد پر مرتکز ہوں گے تو کسی آئین کے سہارے۔ آئین ہی کی بدولت فرد اور جماعت کے روابط منضبط ہوں گے، فرد کی شخصیت اور معاشرے کی نشوونما کا طبعی عمل کامیابی سے جاری رہے گا۔ یہ عمل جاری رہے گا تو انسان اور انسانیت کے جوہر کھلیں گے۔ زندگی کا سفر اگرچہ بڑا کٹھن اور طرح طرح کی مشکلات سے پُر ہے، شریعت اسلامیہ کی رہنمائی میں بامید و اعتماد کامیابی سے طے ہوتا رہے گا زندگی ایک پیش رس حرکت ہے، اس کا مزاج تخلیقی ہے، بامقصد اور بابصر۔ اس میں ہر لحظہ تغیر اور انقلاب ہے، ہر لحظہ نئے نئے مواقع۔ اس کے ایک نہیں کئی مسائل ہیں، ایک نہیں کئی تقاضے، کئی ممکنات۔ اس کے تعمیر اور اصلاح بھی ہے، تخریب اور فساد بھی، لیکن شریعت اسلامیہ میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ اسے ضلالت اور شقاوت سے محفوظ رکھے، خیر و سعادت کے راستے پر ڈال دے۔ شریعت اسلامیہ کی بنا حقائق پر ہے۔ اس میں ہمارے جملہ مسائل کا حل موجود ہے۔ شریعت اسلامیہ ہی ہمارے لیے خیر و شر کا معیار ہے، نفع و ضرر، غلط اور صواب۔ شریعت اسلامیہ ہی بدولت جیسے بھی حالات ہوں انسان ان پر قابو حاصل کرسکتا ہے۔ شریعت اسلامیہ قوت اور طاقت کا سرچشمہ ہے۔ کیا خوب کہا ہے اقبال نے: شارعِ آئیں شناس خوب و زشت بہر تو ایں نسخۂ قدرت نوشت۳؎ شریعت اسلامیہ کا تقاضا ہے کہ ہم زندگی کو مردانہ وار لبیک کہیں، زمانے کی رو پر دسترس حاصل کریں، اس کا رُخ اپنی غایت حیات کی طرف موڑ دیں۔ شریعت اسلامیہ کی رو سے جو آئین حیات منضبط ہوتا ہے اس کا سرچشمہ ہے قرآن مجید اور قرآن مجید: نسخۂ اسرارِ تکوینِ حیات بے ثبات از قوتش گیرد ثبات نوع انساں را پیامِ آخریں حاملِ او رحمتہ اللعالمین۴؎ شریعت ہی ہمارے لیے ایمان و یقین کا ذریعہ ہے۔ شریعت ہی کی بدولت ہم اس صداقت کو پالیتے ہیں جو قرآن مجید ہمارے لیے لے کر آیا۔ شریعت کی پابندی دوسرا نام ہے کتاب و سنت سے تمسک کا۔ اقبال کے ان اشعار پر غور کیجیے: علم حق از شریعت ہیچ نیست اصلِ سنت جز محبت ہیچ نیست فرد را شرع است مرقاتِ یقیں پختہ تر از وے مقاماتِ یقیں قدرت اندر علم او پیداستے ہم عصا و ہم یدِ بیضاستے مختصراً یہ کہ: با تو گویم سر اسلام است شرع شرع آغاز است و انجام است شرع۵؎ شریعت ہی کی پابندی سے اصل زندگی کا آغاز ہوتا ہے جس کی اسلام نے تلقین کی۔ ہم اس راستے میں قدم رکھتے ہیں جو اسلام نے ہمارے لیے تجویز کیا۔ شریعت اسلامیہ ساری زندگی پر محیط ہے۔ محض فقہی غور و تفکر اور وضع احکام تک محدود نہیں۔ فقہی غور و فکر اور وضع احکام اس کا منہاج ہے۔ وہ خود سیاست، معیشت، اخلاق، معاشرت، آئین و قانون، حیاتِ انفرادی اور اجتماعی، تہذیب و تمدن، ثقافت اور فکر و فرہنگ سب میں کارفرماہے۔ جب تک مسلمان شریعت کے پابند رہے، دنیا پر چھائے رہے سربلندی اور سرفرازی نے ان کے قدم چومے۔ معلوم ہوتا تھا زندگی اور اس کی رونق انھی کے دم سے قائم ہے، لیکن جوں ہی شریعت سے انحراف ہونے لگا عالم اسلام طرح طرح کے فتنوں کا آماج گاہ بن گیا۔ اس کی سیاسی اور ملّی وحدت میں فرق آگیا، اتحادِ خیال رہا، نہ اتحادِ عمل، تفرقہ اور انتشار رونما ہوا اور ایک اُمت کئی اُمتوں میں بٹ گئی۔ ابتدا اس کی ملوکیت سے ہوئی۔ ہمارے نزدیک سیاست عبارت تھی خلافت سے۔ ہم اسے اقدار پر محمول کرنے لگے۔ ہم بھول گئے خلافت کیا ہے۔ اقبال نے ہمیں یاد دلایا: خلافت بر مقام ما گواہی است حرام است آنچہ برما پادشاہی است ملوکیت ہمہ مکر است و نیرنگ خلافت حفظِ ناموسِ الٰہی است۶؎ شریعت سے انحراف ہوا تو فرقہ بندی نے سر اُٹھایا اور فرقہ بندی نے اپنے حق میں تاویلات کا سہارا لیا۔ احکامِ شریعت کی طرح طرح سے تاویلیں ہونے لگیں حالانکہ شریعت ہر طرح سے واضح ہے۔ ان میں تاویل و تعبیر کی گنجایش ہی نہیں۔ احکامِ شریعت قرآن مجید کے احکام ہیں اور ریب و ابہام سے پاک: آں کتابِ زندہ ، قرآنِ حکیم حکمتِ او لایزال است و قدیم حرِف او را ریب نے ، تبدیل نے آیہ اش شرمندۂ تاویل نے۷؎ تاویلات میں رسوخ فی العلم تو تھا نہیں، زیادہ تر ابتغائے فتنہ ہی کی روح کام کررہی تھی۔ بجائے اس کے ہم شریعت کی مصلحتوں کو سمجھتے، اس میں غور و تفکر سے کام لیتے، ہم اس کی غرض و غایت سے دور ہٹتے گئے۔ ہماری نگاہیں ذاتی مفادات اور نفع و ضرر پر مرتکز ہوگئیں۔ یہ ایک بہت بڑا سبب تھا ہمارے زوال و انحطاط کا۔ ایک دوسرا فتنہ جو احکامِ شریعت کی تاویل اور اپنے رنگ میں تعبیر کی طرح شریعت سے انحراف میں رونما ہوا اور یہ ظاہر و باطن کا امتیاز تھا۔ کہا گیا شریعت کا ایک ظاہر ہے، ایک باطن۔ ہم اگر مکلف ہیں تو اس کے باطن کے، ظاہر کے نہیں ہیں۔ بقول سیّد جمال الدین افغانی۸؎ یہ ایک فسادِ عظیم تھا جس نے ہماری روح ملّی اور امتیاز دین کو کچل کر رکھ دیا۔ یہ فسادِ خیال آج بھی کسی نہ کسی رنگ میں سراُٹھا لیتا ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ شریعت میں ظاہر و باطن کے امتیاز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ چنانچہ اقبال نے کہا اور نہایت واضح الفاظ میں کہا: در شریعت معنیِ دیگر مجو غیرِ ضو در باطنِ گوہر مجو ایں گہر را خود خدا گوہر گر است ظاہرش گوہر ، بطونش گوہر است۹؎ باطنیت کی طرح ایک تیسرا فتنہ وہ ہے جسے اقبال نے عجمی تصوف سے تعبیر کیا ہے۔ یہ فتنہ ہے شریعت اور طریقت میں تفریق کا۔ کہا جاتا ہے طریقت روح ہے، شریعت اس کا پیکر، لیکن روح اور پیکر کے اس امتیاز سے بھی کچھ ایسے ہی نتائج مرتب ہوئے جیسے تاویل و تعبیر اور ظاہر و باطن کی تفریق سے۔ تاویل و تعبیر کی نظر اگر فرقہ بندی پر تھی تو باطنیت کی اسرار و خفایا پر۔ عجمی تصوف میں اس سے فرار اور تعطل کا رجحان پیداہ ہوا، ایک فلسفیانہ سی جذباتیت کا، جسے حقائق سے لگائو تھا نہ ان کا شعور۔ لہٰذا اقبال کو کہنا پڑا کہ اگر لفظ طریقت کے استعمال پر اصرار ہے یا تصوف میں ایک ایسی اصطلاح رائج ہوچکی ہے تو بھی سمجھ لینا چاہیے طریقت فی الحقیقت ہے کیا؟ طریقت نام ہے زندگی کی گہرائیوں میں اُتر کر شریعت کی کنہ تک پہنچنے کا: پس طریقت چیست؟ اے والا صفات شرع را دیدن بہ اعماقِ حیات۱۰؎ حالانکہ اس امر کی ضرورت ہی نہیں کہ اصطلاحات قرآنی کے مقابلے میں یا ان کے متوازی ہم کچھ اور اصطلاحات وضع کریں۔ شریعت ہمارے لیے جو تکلیفات لے کر آئی ہے وہ تقاضائے حیات ہیں۔ یہ نہیں کہ بہ جبر ہم پر نافذ کی گئی ہوں۔ قرآن پاک نے نہایت واضح الفاظ میں کہا ہے: لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا۔۱۱؎ ضرورت تھی اس ارشاد ربانی کے معنی و مطلب پر غور کرنے کی، نہ کہ شریعت میں تاویل و تعبیر، ظاہر اور باطن یا شریعت اور طریقت میں امتیاز کی۔ رہی ملوکیت، سو ملوکیت ایک انحراف عظیم تھا۔ شریعت سے ملوکیت کا آغازتو نہایت شاندار تھا، لیکن اس کی بنیاد چونکہ سیاست اور جہاںبانی کی بجائے غلبہ اور استیلا پر ہے لہٰذا کچھ دنوں کے بعد طرح طرح کے امتیازات اور تفریقات سر اُٹھاتے ہیں، طرح طرح کے مسائل رونما ہوتے ہیں۔ ان کا حل چونکہ معاشرے کی رائے اور استصواب سے بھی کیا جاتا اس لیے معاشرے میں انتشار اور پراگندگی پھیل جاتی ہے، اسے اپنے اظہار کا پورا پورا موقع نہیں ملتا، حریت، آزادی، اخوت، مساوات اور عدل و احسان کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ رفتہ رفتہ خود ملوکیت میں ضعف و انحطاط پیدا ہوجاتا ہے۔ انسان کا رُخ اس کی غایت حیات کی طرف (جس کی اسلام نے ہر اعتبار سے وضاحت کردی ہے) نہیں رہتا۔ زندگی میں یک سوئی اور یک جہتی کے بجائے ایک کش مکش سی رونما ہوجاتی ہے۔ اس کے اجزا ایک دوسرے سے ٹکرانے لگتے ہیں۔ یہی کچھ عالم اسلام میں بھی ہوا۔ دینی، اخلاقی، سیاسی، اجتماعی، عقلی اور فکری پہلوئوں میں ہم آہنگی باقی نہ رہی، تہذیب و تمدن کا ارتقا رُک گیا، ثقافت کی روح مجروح ہوکر رہ گئی۔ یوں قدرتاً شریعت کا فہم بھی کم ہوتا چلا گیا۔ شریعت کا تقاضا تھا تفقہ اور اجتہاد تاکہ جیسے بھی مسائل اور جیسے بھی تقاضے رہے ہیں باعتبار شریعت وضع احکام (قانون سازی: legislation) کا سلسلہ جاری رہے، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ تقلید اور قدامت پرستی نے سر اُٹھایا۔ فقہ اسلامی میں جمود پیدا ہوگیا۔ حریت خیال رہی، نہ وہ خلاقی اور دراکی جس پر فقہ اسلامی کی عظیم الشان عمارت تیار ہوئی تھی۔ یہ نتیجہ تھا عالم اسلام کے انحطاط، سیاسی، اجتماعی، مادی اور ذہنی فساد کا۔ مگر اسلام ایک صداقت ہے اورکائنات کا ہر ذرہ اس صداقت کے تابع۔ لہٰذا مسلمان کسی بھی حالت میں ہوں یہ صداقت اپنے اظہار کا کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتی ہے۔ اسلام زندگی ہے اور زندگی چند دنوں دبی تو رہ سکتی ہے لیکن بالآخر ابھرتی ہے اور جو بھی قید و بند ہے اسے توڑ ڈالتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب عالم اسلام تاتاری سیلاب کی نذر ہوگیا، اس کا عروج و زوال اور اقتدار و اختیار محکومی اور مغلوبی میں بدل گیا، تو عین اس وقت اجتہاد کی آواز بلند ہوئی اور جیسے جیسے زمانہ گزرتا رہا بلند تر ہوتی چلی گئی۔ یہ اس لیے کہ شریعت اسلامیہ کی عملاً پابندی کا تقاضا تھا وضع احکام، بالفاظ دیگر قانون سازی اور وضع احکام فقہ اسلام کی ذمہ داری، جس کے بغیر ناممکن ہے ہم زندگی کی تغیر پذیری پر دسترس حاصل کرسکیں، اس کا رُخ اپنی غایت حیات کی طرف موڑ دیں۔ لہٰذا عالم اسلام کی، جو روز برور شریعت سے دور ہٹ رہا تھا، جس کی زندگی عقیدہ نو اسلامی (لیکن حقیقت میں غیر اسلامی) طور طریق اختیار کررہی تھی۔ رجعت الی الاسلام کی کوئی صورت تھی تو یہی کہ فقہ اسلامی پر صدیوں سے جمود کی جو کیفیت طاری ہے اسے دور کیا جائے۔ وہ اگر شریعت کا ساتھ دے سکتا اور زمانے کا گزر جن حالات اور واقعات سے ہورہا ہے ان کو اسلام کے قالب میں ڈھال سکتا ہے تو صرف اجتہاد کی بدولت۔ بقول اقبال یہ زندگی کی رمق تھی جس سے عالم اسلام میں اجتہاد کی صدا بلند ہوئی، یہ تقاضا ابھرا کہ ہم شریعت اسلامیہ کی رہ نمائی میں پھر اپنا کھویا ہوا اقتدار اور قدر و منزلت حاصل کریں۔ یہ شاید امام ابن تیمیہ۱۲؎ تھے جنھوں نے اجتہاد کے حق میں سب سے پہلے آزاد بلند کی، عالم اسلام کے دل و دماغ کو جھنجھوڑا، فقہ اسلامی کی تازگی اور خلاقی پر زور دیا۔ زمانہ گزرتا چلاگیا، مگر یہ آواز دب نہ سکی۔ ایک آواز نجد سے اُٹھی، مصر، ترکیہ، اسلامی وسط ایشیا اور اسلامی ہندستان سے، سلب اقتدار سے پہلے حضرت شاہ ولی اللہ نے اور سلب اقتدار کے بعد اقبال نے یہ آواز بلند کی۔ اس مقالے کا موضوع چونکہ شریعت اسلامیہ ہے جیسا کہ اقبال نے اسے سمجھا اور شریعت اسلامیہ کا احیا بجز اجتہاد کے ممکن نہیں اس لیے اقبال نے اجتہاد پر جس طرح اظہارِ خیال کیا ہے اس کا لحاظ رکھ لینا مناسب نہیں ضروری بھی ہے۔ اقبال کے نزدیک اجتہاد ہی وہ اصول ہے جس سے اسلامی نظامِ مدنیت کا نشوو ارتقا جاری رہتا ہے۔ زندگی کی کارآفرینی، خلاقی اور تازہ کاری میں فرق نہیں آتا، معاشرے میں جمود پیدا نہیں آتا۔ زمانہ نام ہے تغیر اور انقلاب کا۔ اجتہاد اس کا کا مداوا۔ اجتہاد ہی کی بدولت ہم زمانے کا رُخ اپنے مقاصد کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ بامید اتحاد اپنی غایت حیات کی طرف بڑھتے ہیں۔ ورنہ زمانہ تو ایک سیل بے پناہ ہے کہ اگر اس کی تغیر پذیری سے بے اعتنائی برتی گئی تو افراد و اقوام کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتا ہے۔ اجتہاد ایک امر ناگزیر ہے اور زمانۂ رسالت ہی سے مسائل اور معاملات میں بروئے کار آرہا تھا۔ اب جو اصول روزِ اوّل ہی سے فقہ اسلامی کے مسلسل نشوونما میں کار فرما تھا، تو اس کے سہارے اسلامی فقہ کی عظیم الشان اعمارت کیسے تیار ہوئی۔ اسے کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟ یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ فقہی غور و فکر کا عمل مکمل ہوگیا، بابِ اجتہاد بند ہے؟ اس کا مطلب تو یہ ہوگا کہ زمانے کی حرکت معطل ہوچکی ہے، زندگی میں جمود اور تعطل پیدا ہوگیا جو ظاہر ہے ایک غلط ہی نہیں بلکہ ناممکن باب ہے۔ اور اس صورت عالم میں اسلام اگر زندہ ہے، عالم اسلام میں دم ہے، حرکت ہے۔ اسلام عین زندگی ہے، زندگی ہی کی طرح متحرک اور پیش رس۔ ہم چاہتے ہیں ہماری زندگی اسلام کے سانچے میں ڈھل جائے۔ سیاست اجتماع، اخلاقی معاشرے، دنیا اور عملاً ہر اعتبار سے شریعت ہماری رہ نمائی کرے تو اجتہاد کے بغیر چارہ کار نہیں۔ اقبال نے بجاطور پر کہا کہ آج عالم اسلام میں ہر کہیں اجتہاد کی آواز بلند ہورہی ہے۔ نژادِ نو کا مطالبہ ہے کہ ہمارا گزر جن حالات سے ہورہا ہے از روئے شریعت ان کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ احیائے اُمت اور اقامت دین کے جو الفاظ باربار ہماری زبان پہ آتے ہیں ان کا تقاضا کیا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلام پھر ہماری زندگی کا اصل الاصول بن جائے، صحیح معنوں میں اس کا زندہ اور فعال عنصر ثابت ہو، لیکن اقبال کے نزدیک اجتہاد کے کچھ شرائط ہیں۔ اجتہاد جتنا ضروری ہے اتنی ہی اس میں احتیاط لازم پڑتی ہے۔ اجتہاد تجدد نہیں کہ آپ اجتہاد کے عذر میں جیسے چاہیں اپنی زندگی بدل لیں۔ اس سے تو یہی بہتر ہے کہ اجتہاد سے کنارہ کش ہی رہیں، ورنہ اس طرح کا اجتہاد ہمیں اسلام سے دور لے جائے گا۔ اقبال کو اس امر میں حضرات ائمہ سے پورا پورا اتفاق تھا کہ اجتہاد کی چند ایک شرائط ہیں۔ انھیں پورا نہیں کیا گیا تو اجتہاد اجتہاد نہیں رہے گا، بدعت ہوگی، الحاد ہوگا۔ اس صورت میں تو تقلید ہی بہتر ہے۔ چنانچہ رموزِ بے خودی میں اقبال نے تنبیہاً یہاں تک کہ دیا کہ ’’در زمانہ انحطاط تقلید از اجتہاد اولیٰ تراست‘‘۔ دین کا رستہ ان کے ہاتھ کیسے دیا جاسکتا ہے مگر یہ صرف ایک تنبیہ تھی۔ اجتہاد کی ضرورت کے لیے انھوں نے بہت اصرار کیا، بلکہ اس سلسلے میں ایک ایسی بات کہی جس کی طرف اس سے پہلے کسی نے اشارہ نہیں کیا۔ اقبال دیکھ رہے تھے کہ عالم انسانی اپنے غور و فکر کی کس منزل میں ہے، کس طرح مستقبل کی طرف بڑھ رہا ہے، اس کے مسائل کیا ہیں، مشکلات اور خطرات کیا۔ عالم اسلام بھی عالم انسانی کا ایک حصہ ہے۔ اس سے بے تعلق نہیں رہ سکتا۔ ان کی حس تاریخ نہایت قومی اور نظر بڑی وسیع اور گہری تھی۔ انھوں نے اجتہاد پر قلم اٹھایا تو سب سے پہلے اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ اسلام ایک ثقافتی تحریک بھی ہے۔ یہ بھی اس کی دعوت کا ایک پہلو ہے۔ اس کا خطاب نوعِ انسانی سے ہے۔ مقصد اس کا تعمیر و اصلاح اور تشکیل دین ہے۔ اسلام دین حیات ہے، شریعت آئین حیات کی تفسیر۔ اوّل و آخر اسلام اور اسلام جو کہ ایک ہمہ گیر اصول ہے، لہٰذا ایک نظامِ مدنیت بھی۔ شریعت اس کی اساس۔ تفقہ اور اجتہاد وہ کارفرما عنصر جس سے اسلامی معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے، ایک رسایت معرض وجود میں آجاتی ہے۔ جہاں تک معاشرے کا تعلق ہے اقبال کے نزدیک اسلام نے اس کی بنیاد ان عالم گیر، غیر متبدل اور ابدی اصولوں پر رکھی جن سے انسانی معاشرے کا نشوونما وابستہ ہے۔ ریاست ایک وحدت ہے، ان روحانی قوتوں کو عملاً ترجمانی کا ذریعہ جو تقدیر عالم کی صورت گر ہیں، لہٰذا ان امتیازات سے پاک جن کو دیر و دنیا سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ توحید بنا ہے وحدت انسانی کی، جمعیت بشری، آزادی اور مساوات کی۔ یہ سب باتیں جو بڑی تشریح طلب ہیں ہمارے سامنے ہوں گی۔ علیٰ ہذا وہ شرائط جن پر ائمہ فقہا نے زور دیا ہے تو ہمارے لیے اجتہاد کا عمل آسان ہوجائے گا۔ سیاست، اخلاق اور معاشرت، علم و حکمت، ادب اور فن غرض کہ تہذیب و تمدن میں جن اعتبار سے دیکھیے شریعت کی حکم رانی ہوگی۔ اگر ہماری زندگی اسلام کے سانچے میں ڈھل سکی اور یہی جمہوریہ اسلامیہ پاکستان کا نصب العین ہے۔ (اقبال ریویو لاہور، جولائی ۱۹۸۲ئ) حوالے اور حواشی ۱- رموزِ بے خودی، ص۱۲۸ ۲- ضربِ کلیم، ص۱۸ ۳- رموزِ بے خودی، ص۱۲۷ ۴- ایضاً، ص۱۲۱-۱۲۲ ۵- ایضاً، ص۱۲۶-۱۲۷ ۶- ارمغانِ حجاز، ص۹۰ ۷- رموزِ بے خودی، ص۱۲۱ ۸- سیّد جمال الدین افغانی (۱۸۳۸ئ- ۱۸۹۷ئ) اتحادِ ملت اسلامیہ کے داعی، ہفت زبان، شعلہ بیان مقرر۔ ۹- بے رموزِ خودی، ص۱۲۶ ۱۰- پس چہ باید کرد، ص۳۱ ۱۱- سورۃ البقر، آیت: ۲۸۶۔ ترجمہ: اللہ تعالیٰ کسی متنفس پر اس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا۔ ۱۲- تقی الدین، ابوالعباس احمد بن شہاب ابن تیمیہ (۲۳؍جنوری ۱۲۶۳ئ- ۲۷؍ستمبر ۱۳۲۸ئ) عالم دین اور فقیہ، پانچ صد کتابوں کے مصنف۔ ز……ز……ز قرآن مجید کے حقوق اور علامہ اقبال انجمن خدام القرآن کے موسس جناب ڈاکٹر اسرار احمد کا ارشاد ہے کہ مسلمانوںپر قرآن مجید کے کچھ حقوق ہیں۔ ایک اسے ماننا، دوسرا پڑھنا، تیسرا سمجھنا، چوتھا عمل کرنا، پانچواں دوسروں تک پہنچانا۔ پھر ان پانچوں حقوق کو بعنوانات ذیل یوں ترتیب دیا ہے تاکہ ہم سمجھ لیں یہ حقوق فی الواقع ہیں کیا اور باعتبار ان کے ہم پر کیا فرائض عائد ہوتے ہیں؟ عنوان یہ ہیں: ۱: ایمان اور تعظیم ۲: تلاوت اور ترتیل ۳: تذکر و تدبر ۴: حکم اور اقامت ۵: تبلیغ اور تبیین ایمان اور تعظیم کا تقاضا یہ ہے کہ ہم قرآن مجید کو صدقِ دل سے اور ہر حالت میں اس کے ادب اور احترام کا خیال رکھیں۔ نہ کوئی ہستی اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر عظیم ہے نہ اس کے کلام سے بڑھ کر کوئی اور کلام واجب تعظیم و تکریم۔ تلاوت و ترتیل سے مراد ہے قرآن مجید کو جملہ آداب ظاہری و باطنی اور لوازم تجوید کے ساتھ خوش دلی اور خوش الحانی سے رک رک کر اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا تاکہ اس کی تعلیمات ذہن نشین ہوتی جائیں۔ ہم خلوصِ نیت سے ان کے اتباع اور پیروی پر آمادہ رہیں۔ تذکر کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کا ہر ارشاد بطور ایک حقیقت ذہن میں مستحضر رہے۔ ہم اسے کبھی نہ بھولیں۔ ہر حالت میں اس سے ہدایت اور رہنمائی حاصل کرتے رہیں۔ تدبر کے معنی ہیں غور اور فکر اور اس سے مقصود یہ کہ ہم ان حقائق کا فہم اور ادراک پیدا کریں جن کی طرف قرآن مجید نے بکمال فصاحت و بلاغت جابجا اشارہ کیا۔ بالفاظِ دیگر آیاتِ الٰہیہ کا مطالعہ و مشاہدہ جوانفس و آفاق میں بکھری ہیں۔ جن کا تعلق جہاں انسان اور کائنات سے ہے وہاں زندگی اور اس کے مختلف پہلوئوں سے بھی ہے تاکہ ہم سمجھیں قرآن مجید کی دعوت کیا ہے اور ہماری غایت حیات کیا؟ عالم انسانی ہو یا عالم فطرت مشیت الٰہیہ اس میں کس طرح کارفرما ہے۔ ہم اپنی کنہ ذات تک پہنچیں۔ یہ جان لیں اسے کائنات اور خالق کائنات سے کیا تعلق ہے؟ اس طریق زندگی میں جو ہمارے لیے تجویز ہو اکیا مصلحت ہے؟ یہ بنیادی سوالات ہیں جن پر انسان ہمیشہ سے غور کرتا چلا آیا اور غور کرتا رہے گا۔ لہٰذا قرآن مجید میں تدبر اور تفکر بھی ایک ایسا عمل ہے جس کی کوئی انتہا ہے نہ اختتام۔ حکم اور اقامت ہے قرآن مجید کے احکام کی منصفانہ پابندی اور ان سب فرائض کی جو طرح عائد ہوتے ہیں، ہر حالت میں بجا آوری۔ اقامت وہ جدوجہد جو اس نظام اجتماع یا معاشرے کے قیام و استحکام میں لازم ٹھہرتی ہے جو قرآن مجید کا مقصود ہے اور جس کی ابتدا نبی اکرم ا نے اصولاً اور عملاً ہر پہلو اور ہر جہت سے واضح اور مکمل طور پر کردی۔ تبلیغ عبارت ہے تعلیماتِ قرآنی کی ہمہ گیر اشاعت سے کہ ان سے دنیا کا کوئی انسان اور کوئی قوم بے خبر نہ رہے۔ تبیین جیسا بھی موقع اور جیسے بھی حالات کا تقاضا ہے ان کی توضیح و تشریح۔ آئیے اب ڈاکٹر صاحب کے ان ارشادات کے پیش نظر یہ دیکھیں کہ اقبال نے ان حقوق کو کس طرح اور کہاں تک پورا کیا۔ سب سے پہلا فریضہ ایمان اور تعظیم ہے اور اسی سے ایک مسلمان کی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ اقبال نے قرآن مجید کو ویسے ہی مانا۔ جیسے ہر سچے مسلمان کا فرض ہے وہ صدقِ دل سے اس پر ایمان لائے۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے۔ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے۔ لفظاً اور معناً حضور رسالت مآب پر نازل ہوا اور بعینہٖ آج ہمارے سامنے موجود ہے۔ اس کی تعلیمات عالمگیر ہیں۔ دوامی اور ابدی جن میں سرمو کمی بیشی کی گنجایش نہیں۔ تعظیم کا یہ عالم تھا کہ جہاں قرآن مجید کا ذکر آیا ان کا سر فرطِ ادب سے جھک گیا۔ چہرہ متغیر ہوگیا۔ بفحوائے ’’لَوْ اَنْزَلْنَا ہَذَا الْقُرآنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہٗ خَاشِعًا مُتَّصَدِعًا مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ‘‘۱؎ قرآن مجید کی عظمت کا احساس بڑھتا جاتا۔ کسی گہری فکر میں ڈوب جاتے اس عالم میں ان کی دلی کیفیت کا اندازہ انھی کے اس شعر سے کیجیے جس میں گویا اسی ارشاد باری تعالیٰ لو انزلنا ہذا القرآن… کی ترجمانی نہایت خوبی سے ہوگئی ہے: آنکہ دوش کوہ بارش برنتافت سطوتِ او زَہرۂ گردوں شگافت۲؎ تلاوت کا فریضہ تو اس وقت تک جاری رہا جب تک علالت نے انھیں بے بس نہیںکردیا۔ ان کی تعلیم کا آغاز قرآن مجید سے ہوا اور قرآن مجید ہی پر اس کا خاتمہ ہوگیا۔ بچپن ہی سے نماز فجر کے بعد علی الصبح قرآن مجید کی تلاوت کرتے۔ بہ ادب بیٹھ جاتے۔ خوش الحان تھے۔ ایک ایک لفظ اور ایک ایک آیت پر غور کرتے۔ ٹھہرٹھہر کر آگے بڑھتے تاکہ ہر لفظ اور ہر آیت کے معنی ذہن نشین ہوجائیں۔ قرآن مجید کی تلاوت اور مطالعہ ہی ان کا محبوب ترین اور دل و دماغ کا سرمایہ تھا۔ ان کی غذائے روح ان کے لیے سرور و ابتہاج کا لازوال سرچشمہ۔ علالت کے ہاتھوں دم کشی اور حبس صوت کے باعث جب تلاوت سے معذور ہوگئے تو افسوس فرمایا: لطف قرآن سحر باقی نماند۳؎ قرآن مجید سے ان کی شیفتگی اور والہانہ شغف کا یہ عالم تھا کہ کوئی بھی مصروفیت ہو، کیسا بھی انہماک گھربار کے معاملات، دنیا کے دھندے ان کا دل ہمیشہ قرآن مجید میں رہتا۔ دورانِ مطالعہ ہی اکثر رقت طاری ہوجاتی۔ بآواز بلند تلاوت کررہے ہیں تو آواز گلوگیر ہے آنکھیں پرنم۔ تذکر کے لیے صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ کوئی گفتگو ہو، تحریر یا تقریر جہاں کوئی بات کہنے کی ہوئی ان کا ذہن بے اختیار ارشاداتِ قرآنی کی طرف منتقل ہوگیا۔ جہاں کوئی حقیقت سامنے آئی، کوئی فکر ذہن میں ابھرا قرآن مجید کے حوالے سے اس کی وضاحت کردی۔ مثالیں بہت ہیں۔ میں صرف ایک مثال پر اکتفا کروں گا۔ ۱۹۳۰ء میں الٰہ آباد میں انڈیا مسلم لیگ کی صدارت کرتے ہوئے انھوں نے جو خطبہ ارشاد فرمایا۔ ارض پاک و ہند میں ایک آزاد اسلامی قومیت کی تشکیل کا اوّلین اعلان تھا۔ اسلامی قومیت کی تشکیل اور وہ بھی صدیوں کے زوال و انحطاط، فرقہ آرائیوں اور فرقہ بندیوں کے بعد معمولی نصب العین نہیں تھا۔ اسلامی قومیت کے احیا اور اسلامی قومیت کے قیام میں خطرے ہی خطرے تھے۔ اندرونی اور بیرونی بھی، اس کے لیے شدید جدوجہد، بڑے صبر و استقامت، ایمان کامل اور یقین محکم کی ضرورت تھی۔ یہ ایک آزمایش تھی جس میں قرآن مجید ہی سے تمسک اور قرآن مجید ہی کی رہنمائی سے پورے اُترسکتے تھے۔ لہٰذا اقبال جب سب کچھ کرچکے تو سلسلہ کلام اس ارشادِ قرآنی پر ختم کیا۔ عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْج لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ ۴؎ اور ظاہر ہے اس موقعہ پر اس سے زیادہ مناسب تنبیہ اور کیا ہوسکتی تھی کہ اگر ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے ہم راہ ہدایت پر گامزن ہیں تو اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے۔ بعینہٖ ۱۹۲۲ء میں جب عالم اسلام کا سیاسی اجتماعی زوال اپنی انتہا کو پہنچ گیا جب کوئی سرزمین نہیں تھی جہاں مسلمان آزادی کا سانس لے سکتے۔ جب ان حالات میں اقبال نے ’’خضر راہ‘‘ کے عنوان سے وہ مشہور نظم جو گویا ’’شمع و شاعر‘‘ کا تتمہ ہے، پڑھی تو اس کا خاتمہ بھی اس ارشاد باری تعالیٰ پر ہوا ع مسلم استی سینہ را از آرزو آباد دار ہر زماں پیشِ نظر لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ دار۵؎ کون مسلمان ہے جو نہیں جانتا کہ یاس کفر ہے۔ قرآن مجید نے اہل یاس کا شمار اصحابِ قبور میں کیا ہے اس دور ابتلا میں جب ہر طرف مایوسی چھا رہی تھی لا یخلف المیعاد سے بڑھ کر اُمید و اعتماد کا پیغام اور کیا ہوسکتا تھا۔ رہا تدبر سو اس باب میں کیا عرض کی جائے۔ محمد اقبال نے جو کہا کچھ سوچا، جو کچھ لکھا، شعر ہو یا فلسفہ قرآن مجید ہی میں تدبر اور تفکر کی بدو لت، اس تدبر اور تفکر کی مثالیں پیش کرنا اس کی اہمیت کو کم کرنا ہے۔ یہ تو ایک مستقل موضوع ہے۔ مختصراً یہ کہ اقبال کا سرمایہ فکر قرآن مجید ہی کی تعلیمات تھیں اور کچھ نہیں تھا۔ ان کی شاعری اور افکار کا بغور مطالعہ کیجیے اس میں قرآن مجید ہی کی روح کارفرما ہے اور قرآن مجید ہی کی ترجمانی مقصود اسرار و رموز اور خطبات کے علاوہ کتنی تحریریں ہیں جن کی اساس قرآن مجید ہی میں ان کا تدبر اور تفکرہے۔ پھر یہی تدبر اور تفکر بانگِ درا سے لے کر بالِ جبریل، ضربِ کلیم، پیامِ مشرق، زبورِ عجم، پس چہ باید کرد، مسافر اور ارمغانِ حجاز میں ہر کہیں نمایاں ہے بلکہ ان کی متفرق تحریریں، بیانات، تقریریں اور خطوط بھی اس سے خالی نہیں۔ گفتگوئوں میں بات ہر پھر کر قرآن مجید ہی کے معارف اور حکم پر آجاتی ہے۔ زمانۂ طالب علمی ہی میں جب انھیں قرآن مجید میں تدبر اور تفکر کا سبق دیا جارہا ہے ان کے والد محترم بھی انھی یہی نصیحت کرتے۔ ایک روز کہنے لگے قرآن مجید پڑھتے تو ہو اسے سمجھتے بھی ہو؟ یاد رکھو قرآن مجید پڑھنے ہی سے دل کے راستے سے بھی سمجھ میں آجاتا ہے۔ اسے پڑھو تو یوں سمجھو جیسے قرآن مجید تمھارے دل پر نازل ہورہا ہے: ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب گرہ کشا ہے نہ رازی ، نہ صاحبِ کشاف۶؎ اس تدبر اور تفکر اور دل کے راستے سے قرآن مجید کو سمجھنے کی داستان بڑی طویل ہے۔ اس کے لیے ایک دفتر چاہیے۔ میں پھر دو ایک مثالوں پر اکتفا کروں گا۔ ایک روز کہنے لگے فلسفہ ہو یا سائنس، زندگی اور اس کے مسائل۔ کوئی عقدہ ہو حل ہوتا نظر نہ آئے تو قرآن مجید سے رجوع کرتا ہوں۔ آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت شائع ہوا۷؎ اور اس کے ماتحت یہ ماننا لازم ٹھہرا کہ کائنات اضافہ پذیر ہے تو میری سمجھ میں یہ بات نہ آئی۔ کئی دن سوچتا رہا بالآخر ایک روز اس پریشانی میں دفعتاً خیال آیا۔ کیوں نہ قرآن مجید سے رہنمائی حاصل کروں۔ میں نے علی بخش۸؎ کو پکارا، علی بخش قرآن مجید لے آئو۔ علی بخش قرآن مجید لایا اور میں نے اسے کھولا تو میرے تعجب کی انتہا نہ رہی جب پہلی آیت جس پر میری نگاہ پڑی یہ تھی۔ یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَائ۹؎ میں سمجھ گیا۔ میری مشکل حل ہوگئی۔ ایسے ہی نطشے۱۰؎ کا فوق البشر زیربحث آیا تومیں نے درخواست کی کہ اس باب میں دانستہ یا نادانستہ جو غلط فہمیاں پیدا ہوگئیں یا کردی گئیں ان کا ازالہ ضروری ہے۔ ناقدین نے فوق البشر کا سلسلہ خواہ مخواہ نائب حق سے جوڑ رکھا ہے۔ فرمایا میں ان کا کب سے ازالہ کرچکا۔ میں نے جو کچھ کہا ہے میرے ناقدین اسے غور سے کیوں نہیں پڑھتے۔ میں نے عرض کیا میں انھی کے خیال سے کچھ ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر ان غلط فہمیوں کے پیش نظر چند ایک باتوں کی ایک حد تک وضاحت ہوجائے اور وہ بھی آپ کی طرف سے تو اچھا ہوگا۔ فرمایا اگر تمھارا ایسا ہی خیال ہے تو کل سہ پہرکا وقت مناسب رہے گا۔ ذرا جلدی چلے آنا۔ دوسرے روز حاضر خدمت ہوا۔ اورکاغذ قلم لے کر بیٹھ گیا تو فرمایا یہ سامنے کی الماری میں قرآن مجید رکھا ہے۔ قرآن مجید اُٹھا لائو۔ میں اپنے دل میں سمجھ رہا تھا کہ مجھ سے شاید فلسفہ کی بعض کتابوں کی ورق گردانی کے لیے کہا جائے گا۔ میں قرآن مجید لے آیا تو ارشاد ہوا۔ سورہ حشر کا آخری رکوع نقل کرلو۔ رکوع نقل کرچکا تو پھر چند ایک عنوانات کے ماتحت یکے بعد دیگرے مختصرا کچھ شذرات لکھواتے گئے۔ یہ دن تھا جب میں پورے طور سے سمجھا کہ اقبال نے نائب حق کا جو تصور قائم کیا اس کی اساس فی الحقیقت کیا ہے؟ بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں تدبر و تفکر کے معنی ہی یہ ہیں کہ علم و حکمت اور فکر و فرہنگ کی ساری دنیا ہمارے سامنے ہو بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ یہ دنیا تمام و کمال ہمارے سامنے آئے گی تو قرآن مجید ہی کی بدولت۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو قرآن مجید کا رشتہ علم و حکمت سے جس طرح قائم ہے اور علم و حکمت کا قرآن مجید سے اس کا سمجھنا بہت بڑی بات ہے۔ ایک روز گفتگو تھی کہ اس عہد نے جسے سائنس کا عہد کہا جاتا ہے۔ مذہب کے بارے میں بڑی بدگمانیاں پیدا کردیں ہیں بلکہ اس کے خلاف ایک معاندانہ روش اختیار کررکھی ہے۔ فرمایا یہ اس لیے کہ لوگ علم و حکمت کی صحیح روح سے واقف ہیں نہ قرآن مجید سے کہ اس کی تعلیمات کیا ہیں؟ ارشاد ہوا اسلام خلاصہ کائنات ہے اور یہی ر ائے ہمارے علما کی تھی مگر یہ حقیقت جب ہی منکشف ہوگی جب ہم قرآن مجید میں تدبر اور تفکر سے کام لیں قرآن مجید میں تدبر اور تفکر کیجیے تو علم و حکمت ہو یا کوئی اورصداقت ہمارا رشتہ آپ ہی سے قائم ہوجائے گا۔یہ جو اقبال کے اشعار میں تعلیماتِ قرآنی کی برجستہ اور بے ساختہ ترجمانی ہوتی رہتی تھی تو اسی تدبر اور تفکر کی بدولت۔ ان کا کہنا تھا کہ قرآن مجید ہمیشہ کے لیے ہے۔ اس میں تدبر اور تفکر کا عمل بھی ہمیشہ جاری رہنا چاہیے۔ حکم کو لیجیے تو اتنا کہہ دینا کافی ہوگا کہ اقبال کے نزدیک انسان کے لیے کوئی اساسِ فکر اور اساسِ عمل ہے تو قرآن مجید اور صرف قرآن مجید۔ حکم کے معنی بہت وسیع ہیں۔ یہ ایک بڑی جامع اصطلاح ہے جس سے مراد ان سب اوامر و نواہی کی غیر مشروط پابندی جو ازروئے معروف و منکر اور حرام و حلال شریعت نے ہم پر عائد کیے اور جن کی بجا آوری سے فرد کی سیرت اور جماعت کا کردار اسلام کے سانچے میں ڈھلتا ہے جو ہماری تعلیم اور تربیت کا سرچشمہ اور اس عمارت کی اساس ہیں جسے اسلامی نظامِ حیات یا اسلامی طریق زندگی یا اصطلاحاً جو جی چاہے کہہ لیجیے اور جو ساری نوع انسانی کو ایک اصول اور قانون پر جمع کرتے ہوئے اس راستے کی طرف لے جاتا ہے جسے اس کی فطرت کہیے جسے خالق فطرت نے خود اس کے لیے تجویز کیا۔ مختصراً یہ کہ حکم کا تقاضا ہے اقامت دین بالفاظ دیگر اسلام کی ہر پہلو سے عملاً اور واقعتاً ترجمانی۔ لہٰذا اس معاشرے کی تعمیر جو وحدت بشری کی تمہید ہے اور جس کے لیے ایک آزاد اور بااقتدار، مخصوص و متمیّز اور جداگانہ سیاسی اجتماعی گروہ بندی ناگزیر ٹھہرتی ہے۔ جس کے بغیر ناممکن ہے فرد یا جماعت کی زندگی اسلام کے معیار پر پوری اُترے۔ یہی وہ جدوجہد ہے جس میں چراغ مصطفوی سے شرار بو الہبی کی ستیزہ کاری میں ہمارے ایمان اور صبر و استقامت کا امتحان ہوتا ہے اورجس کا،جب ارض پاک و ہند کی سیاست ایک فیصلہ کن مرحلے پر پہنچ گئی۔ وقت آیا اور اقبال نے قوم کو یاد دلایا کہ ہم نہ بھولیں بحیثیت قوم ہمارا فریضہ کیا ہے، ہماری حیاتِ اجتماعیہ اور قومی تشخص کا راز کیا۔ لہٰذا اس مرحلے میں ہمارا موقف کیا ہونا چاہیے تو ان کی مخالفت میں غیروں کی طرف سے جو آواز اُٹھی اس میں ایک حد تک اپنوں نے بھی حصہ لیا۔ حالانکہ ان کا کہنا یہ تھا کہ اگر اسلام محض ایک عقیدہ نہیں کہ ہم نے اسے مانا اور اپنی ذاتی اور نجی زندگی سے باہر اس پر عمل سے کنارہ کش ہوگئے بلکہ ایک دستورِ حیات جس کے افہام و تفہیم کے لیے انبیا علیہم السلام تشریف لائے جو حضور رحمتہ للعالمین ا کی بعثت کے ساتھ بطور ایک دینِ کامل افراد و اقوام کی زندگی لہٰذا امور انسانی میں ہمیشہ کارفرما تھا آج بھی ہے اور رہے گا اگر اس دستورِ حیات کی ترجمانی ایک نظام مدنیت کی شکل نہیں ہوتی۔ اگر اس کی بنا پر ایک ایسی قوم وجود میں نہیں آتی جس کا ضمیر خالص انسانی سیاسی یا اجتماعی، ذہنی یا اخلاقی اس سے کیا حاصل۔ یہ ایک سیدھی سادھی سی بات تھی بجز اس کے کچھ نہیں تھا کہ اگر اسلام ایک عالمگیر دعوت ہے اور اگر مسلمانوں کا کوئی اجتماعی کردار فریضہ ہے جو عالم بشری کی ہدایت اور خیر و سعادت کے لیے ان پر عائد ہوتا ہے اور اگر یہی ہماری زندگی کا مقصدہے تو ہم اسے آزادی و اقتدار ایک قوم کی حیثیت ہی سے جیسا کہ زبان سیاست میں اس کا مفہوم ہے اور جس کے لیے ’’خیر اُمت‘‘ کی تشکیل ہوئی، حاصل کرکے ادا کرسکتے ہیں۔ نہ اسلامی قومیت کسی دوسری قومیت میں ضم ہوسکتی ہے نہ اس کے دستورِ حیات میں کسی دوسرے دستورِ حیات کا پیوند لگ سکتا ہے۔ ہمارا فرض ہے ہم اپنا ملّی تشخص قائم رکھیں پھر جب اس ملّی تشخص کے شعور ہی سے ہماری تعلیم و تربیت میں کچھ معنی پیدا ہوتے ہیں اور ہمارا قومی وجود قائم ہے تو حق و باطل میں شرکت کے کیا معنی: باطل دوئی پسند ہے ، حق لا شریک ہے شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول!۱۱؎ یہ فریضہ ہے جس کی انھوں نے عمر بھر تلقین کی۔ جس کے لیے اپنی ساری زندگی وقف کردی۔ شعر ہو یا فلسفہ ادب اور فن یا سیاسی اور ملّی زندگی کا کوئی گوشہ وہ جہاں کہیں بھی اور جس حال میں تھے، اسی نصب العین پر قائم رہے اور یہی اوّل و آخر ان کی آرزو کہ اُمت اپنے اصل الاصول پر آجائے۔ عصر حاضر کا انسان اپنی سعی و محنت، اپنی عقل و فکر کی تازگی اور علم وہنر کی نادرہ کاری سے جو دنیا پیدا کررہا ہے، زندگی نے جو انقلاب انگیز کروٹ لی ہے۔ اربابِ نظر جس نئے اور تابناک مستقبل کا خواب دیکھ رہے ہیں مسلمان اس سے غافل نہ رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ایک موقعہ دیا ہے اسی میں ان کا امتحان ہے۔ وہ اٹھیں، اپنے ایمان ویقین کی تجدید کریں اور اس دنیا کی تعمیر میں مصروف ہوجائیں جو اسلام کا مقصود ہے۔ لہٰذا جیسے جیسے دن گزرتے گئے ان کی گفتگو کا کوئی موضوع تھا تو یہی اور یہی ہر ایک سے ان کا کہنا حتیٰ کہ علالت کے آخری ایمان میں جب ان کے لیے سانس لینا بھی مشکل ہوگیا تھا۔ انھیں کوئی خیال تھا تو یہی، کوئی پریشانی تھی تو یہی۔ چنانچہ یہ انھی کا ایمان و یقین بصیرت اور فراست تھی کہ ارض پاک و ہند کی بساط سیاست دیکھتے دیکھتے بدل گئی: جہانے را دگرگوں کرد یک مردے خود آگاہے۱۲؎ گویا مسلمانوں نے جان لیا ان کے مستقبل کا راز کیا ہے، ان کے لیے صحیح راہ عمل کیا؟ بات طویل ہورہی ہے کہنا یہ ہے اقبال کا کوئی پیغام تھا تو یہی کہ مسلمان سمجھ لیں ان کی زندگی قرآن مجید سے ہے۔ قرآن مجید میں فکر و نظر سے کام لیں۔ اس کی تعلیمات پر عمل کریں قرآن مجید ہی ان کا ایک سرمایہ ہے۔ یہی ان کا پیغام تھا جسے انھوں نے طرح طرح سے پیش کیا شعر میں، فکر میں، تحریر و تقریر میں، گفتگوئوں میں، اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے۔ کوئی معاملہ ہو کوئی مسئلہ، علم و حکمت کی بحث ہو، تہذیب و تمدن یا ادب اور فن، سیاست اور معاش، فرد کی زندگی، جماعت کے مفاد، انسان، اس کے ضمیر اور باطن احوال و واردات اُمور عالم کی غرضیکہ کوئی موضوع ہو بالآخر قرآن مجید ہی پر ختم ہوتا۔ قرآن مجید ہی نے ان کے فکر کو جلا دی۔ قرآن مجید نے ہی ان کی شاعری میں وہ کیفیت وہ درد و سوز اور ذوق و شوق پیدا کیا جس کا سرچشمہ ایمان ہے۔ میں نے عرض کیا تھا ان کی تعلیم کا آغاز قرآن مجید سے ہوا اور اگر ہم نے اقبال کو سمجھ لیا ہے تو جیسا کہ ہر کوئی سمجھ سکتا ہے اس تعلیم کا خاتمہ بھی قرآن مجید ہی پر ہوا۔ آخری عمر میں بھی ان کی خواہش تھی تو یہی کہ قرآن مجید کے معارف اور حکم پر قلم اٹھائیں۔ زندگی کے آخری لمحے آئے تو یہی آرزو کہ قرآن مجید سنیں اور ایسا کیوں نہ ہوتا۔ جب زندگی ہو یا آخرت اس کا رشتہ قرآن مجید ہی سے وابستہ ہے انھوں نے کہا ہے اور خوب کہا: گر تو می خواہی مسلماں زیستن نیست ممکن جز بقرآن زیستن۱۳؎ لیکن اس ’’بقرآں زیستن‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس جدوجہد میں جو نوع انسانی کو ازل سے درپیش ہے جس میں تاریخ کی حیثیت ایک لمحے کی ہے جس میں اقوامِ عالم یکے بعد دیگرے ایسے اُبھرتی ہیں جیسے کسی بہتی ہوئی ندی میں پانی کے بلبلے۔ جس میں تہذیب و تمدن نے کئی رنگ بدلے، چشم فلک نے کئی انقلاب دیکھے اور جس کا سلسلہ اس لیے جاری ہے اور جاری رہے گا کہ انسان اپنے مدعا و منتہا کو پالے۔ ہم اس جدوجہد میں مردانہ وار حصہ لیں اسے اسلام کے قابل ڈھال دیں۔ یہ مقصد وعظ و نصیحت اور تحریر و تقریر سے حاصل نہیں ہوگا۔ قرآن مجید پر عمل کرنے سے ہوگا! اے کہ می نازی بقرآن عظیم تا کجا در حجرہ می باشی مقیم در جہاں اسرار دیں را فاش کن نکتہ شرع مبیں را فاش کن!۱۴؎ یہ اس لیے کہ زندگی کی تقویم کا کوئی نسخہ، اس کے امکانات کے حصول کا کوئی راستہ، اس کی غایت اور کنہ میں ادراک کا کوئی ذریعہ، ہم سمجھ لیں۔ اس کا رُخ فی الحقیقت کسی طرف ہے تو قرآن مجید ہی کی بدولت۔ یہی ہماری تعمیر ذات اور یہی ایک ایسی زندہ و پایندہ شخصیت کی اساس جسے موت کا ہاتھ بھی فنا نہیں کرسکتا، قرآن مجید ہی اس حکم اور ترقی پذیر نظامِ تمدن کا صورت گر ہے جس کی ساری نوع انسانی کو ضرورت ہے۔ وہ ایک عالمگیر اور ابدی پیامِ ہدایت ہے جو ہمارے لیے مژدہ حیات لے کر آیا جس میں ہمارا ہی ذکر ہے جسے یاد رکھنے کے لیے آسان کردیا ’’وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُدَّکِرٍ‘‘۱۵؎ جو عین صداقت ہے عین علم و حکمت سر تا سر دستور و قانون سرتاسر موعظمت اور رحمت: اقبال نے کہا اور نہایت واضح الفاظ میں کہا: آں کتابِ زندہ ، قرآں حکیم حکمتِ او لایزال است و قدیم نسخۂ اسرارِ تکوینِ حیات بے ثبات از قوتش گیرد ثبات حرف او را ریب نے ، تبدیل نے آیہ اش شرمندۂ تاویل نے نوعِ انسان را پیامِ آخریں حاملِ او رحمتہ للعالمین۱۶؎ اب اگر ہمیں زندگی کی نعمت ملی ہے۔ ہمارے نزدیک اس کے کچھ معنی ہیں۔ ہم اس کی تب و تاب محسوس کرتے ہیں اس کے ذوق و شوق اور سوز و ساز کے لذت آشنا ہیں۔ ہمارے سینوں میں بھی وہی آرزوئیں اور تمنائیں پرورش پا رہی ہیں، وہی عزائم و مقاصد ابھر رہے ہیں جن کا تعلق جہاںداری اور جہاںبانی سے ہے، عالم محسوس کی تسخیر اور ایک برتر تہذیب و تمدن کے نشوونما سے، ایک ایسی دنیا کا تصور جو عمل پر اُکسا رہا ہے جس سے میں انسانیت کا جوہر کھلے۔ جس میں زندگی کو اس کے سارے جمال و جلال کے ساتھ عالم خارج میں مشہود دیکھیں جس میں نت نئے حقائق اور نت نئے مدارج ذات سے لطف اندوز ہوں تو اس میں کامیابی کا رشتہ قرآن مجید ہی سے جوڑنا پڑے گا۔ پھر اس باب میں اقبال کا خطاب اگرچہ ساری نوع انسانی سے تھا لیکن اس شخص سے بالخصوص جو مسلمان ہے اور اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے کہ سب سے زیادہ اسی کا فرض ہے کہ اس جدوجہد میں حصہ لے: چوں مسلماناں اگر داری جگر در ضمیرِ خویش و در قرآن نگر صد جہان تازہ در آیات اوست عصرہا پیچیدہ در آنات اوست یک جہانش عصرِ حاضر را بس است گیر اگر در سینہ دل معنی رس است بندہِ مومن ز آیات خدا است ہر جہاں اندر بر او چوں قبا است چون کہن گردد جہانے در برش می دہد قرآں جہانے دیگرش۱۷؎ فاش گویم آنچہ در دل مضمر است ایں کتابے نیست چیزے دیگر است چوں بجاں در رفت جان دیگر شود جاں چوں دیگر شد جہاں دیگر شود۱۸؎ ہم بھول گئے قرآن مجید ہی سے ہمارا قومی وجود قائم ہے۔ قرآنِ مجید ہی ہمارے ملّی تشخص کا راز، ہمارا آئین، ہمارے اصول و قوانین کا سرچشمہ۔ مگر ہم ذلیل و خوار ہوگئے۔ خوار از مہجوریِ قرآں شدی شکوہ سنجِ گردشِ دوراں شدی اے چوں شبنم بر زمیں افتندۂ در بغل داری کتابِ زندہ۱۹؎ پھر جس طرح اللہ کے کلمات ختم نہیں ہوسکتے خواہ دنیا بھر کے درخت قلم اور سمندر روشنائی بن جائیں۔ بعینہٖ ان کی تشریح و تفسیر تبلیغ و تبئین کا بھی کوئی اختتام ہے نہ انتہا عقل طرح طرح سے ان کی طرف بڑھے گی۔ فکر ایک کے بعد دوسرا تصور قائم کرے گا۔ علم پر نئے نئے حقائق منکشف ہوں گے عمل سے کئی ایک عقدوں کی گرہ کھلتی رہے گی۔ لہٰذا ایک بات ہے جس کا اس ضمن میں سمجھ لینا ضروری ہے جس کی طرف اگرچہ اقبال نے اشارہ بھی کردیا تھا مگر جس پر بہت کم توجہ کی گئی اور وہ یہ کہ زندگی چونکہ سرتاسر خلاقی اور تازہ کاری ہے اس لیے تجربے اور مشاہدے کی طرح علم و حکمت اور فکر و وجدان کی دنیا بھی ایک تغیر پذیر دنیا ہے۔ اسی سے اس کی ہستی اور وجود قائم، یہی اس کی حرکت اور یہی اس کی طلب اور جستجو کا راز۔ وہ ایک لامتناہی سفر ہے جس میں اگرچہ کوئی مرحلہ اور کوئی ساعت آخری نہیں لیکن جس میں ہم لازماً کسی مقام پر ہوں گے اور اسی مقام سے ماضی و حال کا جائزہ لیتے ہوئے ایک خاص موقف قائم کرتے ہوئے ایک نئی اُمید اور نئے اعتماد کے ساتھ منتظر رہیں گے کہ ہماری طلب و جستجو سے جو حقائق واشگاف ہوئے مستقبل میں وہ کس انداز میں ہمارے سامنے آئیں گے۔ بعینہٖ جیسے ایک کوہِ پیما ایک بلندی سے دوسری بلندی کی طرف بڑھتا ہے تو اگرچہ وہی مناظر باربار اس کے سامنے آتے ہیں جن کو وہ اس سے پہلے دیکھ آیا تھا مگر اب ہر لحظہ ایک نئے رنگ میں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ عقل اور فکر کا ہے کہ ہمارے وہ تصورات بھی جن کو ہم آخری اور قطعی سمجھتے ہیں، آخری اور قطعی نہیں ہوتے۔ حقیقت ایک ہے اور لامتناہی۔ جیسے ہم عقل اور فکر کے سہارے اس کی طرف بڑھیں گے ہمارے وہ تصورات بھی جو قطعی اور یقینی لہٰذا خالی از صداقت نہیں تھے۔ ایک نئے روپ میں ہمارے سامنے آئیں گے۔ نئے نئے تصورات قائم ہوتے چلے جائیں گے۔ لیکن ایک خاص وقت میں جب حقیقت کا کوئی پہلو اُجاگر ہوا اور اس موقف کی رعایت سے جو ایک خاص عمر میں عقل اور فکر نے قائم کیا کیونکہ بغیر اس کے کوئی دوسرا موقف ممکن ہی نہیں تھا تو ہم جو کچھ کہیں گے اس موقف کا لحاظ رکھتے ہوئے تاکہ اسے دوسروں تک پہنچا سکیں مگر جس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوگا کہ ہم نے حقیقت کو موقف یا اس طرح جو تصورات قائم ہوئے ان کے تابع کردیا۔ جس ذہنی فضا میں سانس لے رہے ہیں اس کی برتری تسلیم کرلی حالانکہ ہم نے جو کچھ کہا محض سہولت افہام و تفہیم کے لیے۔ یہاں پھر ایک مثال سے کام لینا بہتر ہوگا جس سے اس امر کی مزید وضاحت ہوجائے گی کہ اقبال کے فکر کی نوعیت فی الحقیقت کیا ہے۔ انھوں نے آیتِ نور اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰاتِ وَالْاَرْضِ۲۰؎ کے بارے میں جب ایک مغربی مصنف کے خیال کی، جس نے اسے ایک خاص دعویٰ کی تائید میں پیش کیا تھا تردید کی اور کہا اس آیت کا اشارہ اس حقیقت کی طرف نہیں ہے جو مصنف کے ذہن میں ہے بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں ایک دوسری حقیقت کی طرف، تو اعتراض ہوا کہ اقبال نے اس آیت کی جو تاویل کی ہے صحیح نہیں۔ صحیح تاویل کچھ اور ہے جسے میں نے ان کی خدمت میں پیش کیا انھوں نے اپنے ایک عنایت نامے میں لکھا کہ تاویل تو معترض کررہا ہے۔ میں نے صرف اتنا کہا کہ مصنف مذکور کے نزدیک اس آیت کا اشارہ جس حقیقت کی طرف ہے صحیح نہیں۔ میں تاویل کا قائل نہیں ہوں میرا مذہب اس معاملے میں وہی ہے جو ابن حزم۲۱؎ کا اور جسے مولانا روم۲۲؎ نے اپنے اس ارشاد میں کس خوبی سے ادا کردیا ہے۔ کردہ تاویل حرف بکر را خویش را تاویل کن نے ذکر را۲۳؎ یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس حرف بکر کے معنوں کی ازروئے فکر تحقیق سے فلسفہ کی نفی نہیں ہوتی نہ یہ کہنا درست ہوگا کہ اپنے خیالات کے جواز میں کوئی عقلی حیلہ تراش رہے ہیں مگر بات پھر طول کھینچتی جارہی ہے۔ مجھے چاہیے سلسلہ کلام ختم کردوں۔ بیان ہے ان حقوق کا جو قرآن مجید کی طرف سے مسلمانوں پر عائد ہوتے ہیں اور اقبال کے قرآن مجید میں ایمان و یقین کا۔ سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے۲۴؎ بہتر ہوگا میں آپ حضرات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہ آپ نے میری معروضات توجہ سے سنیں سلسلہ کلام۲۵؎ اقبال ہی کے اس قطعے پر ختم کردں: ز قرآن پیش خود آئینہ آویز دگرگوں گشتہٖ! از خویش بگریز ترازوئے بنہ کردار خود را قیامت ہائے پیشیں را بر انگیز۲۶؎ صاحب قرآن و بے ذوقِ طلب العجب ، ثم العجب ، ثم العجب!۲۷؎ (حکمت قرآن، نومبر ۱۹۸۸ئ) حوالے اور حواشی ۱- سورہ حشر، آیت ۲۱۔ ترجمہ: اگر ہم نے یہ قرآن پہاڑ پر بھی اُتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جارہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔ ۲- اسرار و رموز، ص۱۲۲ ۳- پس چہ باید کرد…، ص۵۰ ۴- سورہ المائدہ، آیت۱۰۵۔ ترجمہ: اپنی فکر کرو، کسی دوسرے کی گمراہی سے تمھارا کچھ نہیں بگڑتا اگر تم خود راہِ۔راست پر ہو۔ ۵- بانگِ درا، ص۲۶۶ ۶- بالِ جبریل، ص۷۸ ۷- البرٹ آئن سٹائن (۱۸۷۹ئ- ۱۹۵۵ئ) نامور سائنس دان اور نظری طبیعیات کا ماہر۔ اس کے نظریۂ اضافیت کی رو سے مادہ توانائی میں تبدیل ہوسکتا ہے اور یہی نظریہ جوہر توانائی کا پیش خیمہ بنا۔ ۸- علی بخش (م۲؍جنوری ۱۹۶۹ئ) اقبال کا ملازم جو تقریباً ۳۰ برس تک علامہ کا خادم رہا۔ ۹- سورہ فاطر، آیت۱: ترجمہ: وہ اپنی مخلوق کی ساخت میں جیسا چاہتا ہے اضافہ کرتا ہے۔ ۱۰- نطشے (۱۵؍اکتوبر ۱۸۲۴ئ- ۲۵؍اگست ۱۹۳۰ئ) دیکھیے مضمون ’’اقبال اور علمائے فرنگ‘‘ کا حاشیہ نمبر۶ ۱۱- ضربِ کلیم، ص۷۳ ۱۲- زبورِ عجم، ص۱۰۰ ۱۳- اسرارِ خودی، ص۱۲۳ ۱۴- پس چہ باید کرد، ص۳۲ ۱۵- سورۃ القمر، آیت۳۲ ۱۶- اسرار و رموز، ص۱۲۱-۱۲۲ ۱۷- جاوید نامہ، ص۶۶ ۱۸- ایضاً، ص۸۱ ۱۹- اسرار و رموز، ص۱۶۵ ۲۰- سورہ النور، آیت۳۵۔ ترجمہ: اللہ آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے۔ ۲۱- ابو محمد علی بن احمد بن سعید ابن حزم (۷؍نومبر ۹۹۴ئ- ۱۵؍اگست ۱۰۶۴ئ) اندلس کے معروف فقیہ، مورخ، عمرانی مفکر، علم الانساب کے ماہر اور کئی کتابوں کے مصنف۔ ۲۲- مولانا جلال الدین رومی (۱۲۰۷ئ- ۱۲۷۳ئ) اقبال کے روحانی مرشد، عالم دین اور صوفی، مثنوی معنوی، دیوانِ شمس تبریز اور فیہ مافیہ ان سے یادگار ہیں۔ ۲۳- مثنوی مولانا روم دفتر اوّل، ص۶۶ (ش ۱۰۸۰ئ) ۲۴- شعر اس طرح ہے: ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے (دیوانِ غالب) ۲۵- اصل میں یہ تقریر ہے، جو نیازی صاحب نے انجمن خدام القرآن لاہور کے جلسے میں کی تھی۔ ۲۶- ارمغانِ حجاز، ص۷۳ ۲۷- جاوید نامہ، ص۲۰۱ ز……ز……ز علامہ اقبال اور ختم نبوت آج سے چند ماہ پہلے جب علامہ اقبال مدظلہ، نے احرار اور قادیان کی باہمی آویزش کے متعلق اپنا مشہور بیان شائع کیا ہے۱؎ تو اس میں ختم نبوت کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا تھا کہ ندرت تخیل کے اعتبار سے اس عقیدے کی حیثیت بنی نوع انسان کے افکار اور تہذیب و ثقافت کی تاریخ میں اپنی نظر آپ ہے۔ اس پر قادیان کے علاوہ بعض مسلم اور غیر مسلم حلقوں میں جو رد و کد ہوتی رہی اس سے قارئین طلوعِ اسلام۱؎ بے خبر نہیں ہوں گے۔ لیکن تعجب خیز امت یہ ہے کہ علامہ ممدوح نے جو سوال اُٹھایا تھا اس کی صحیح اہمیت کا اندازہ کیے بغیر جریدہ لائٹ۳؎ نے بھی اس موضوع پر رائے زنی کرنا شروع کردی۔ جہاں تک ختم نبوت کا تعلق ہے مدیر لائٹ ڈاکٹر صاحب کے ارشادات سے حرف بحرف متفق تھے لیکن کبھی نہ معلوم اختلال ذہنی کی بنا پر انھوں نے سمجھ لیا کہ ختم نبوت سے مقصد یہ ہے کہ انسان دینی قیود سے آزاد ہوجائے۔ ظاہر ہے کہ اس غلط اور بے بنیاد تعبیر کو کوئی صحیح الفہم انسان ایک لمحے کے لیے بھی قبول نہیں کرے گا۔ جریدہ ٹروتھ۴؎ نے اڈیٹر صاحب کو اس غلط بیانی پر متنبہ بھی کیا تھا۔ پھر راجا حسن اختر صاحب نے اپنے ایک مراسلے میں جس کو ہم دوسری جگہ شائع کررہے ہیں۔ لائٹ کے شبہات کی تردید کرتے ہوئے اس امر کی طرف اشارہ کیا تھا کہ تشکیل جدید کے پانچویں خطبے میں یہ بحث کسی قدر زیادہ تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ جس کے مطالعے کے بعد کسی غلط فہمی کا احتمال نہیں رہے گا۔ لیکن اڈیٹر لائٹ غالباً فلسفے سے ناواقف ہیں اس لیے کہ ان افسو س ناک غلط فہمیوں کے اعتراف کی بجائے جن کی بغیر کسی احساس ذمہ داری کے انھوں نے بڑے جوش و خروش سے اشاعت کی ہے، وہ بدستور اپنی رائے پر قائم رہے اور تشکیل جدید کی عبارات میں کچھ اس قسم کی معنوی تحریفیں کی ہیں جن کو دیکھ کر تعجب بھی ہوتا ہے اور افسوس بھی۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے شبہاتِ خلوص اور دیانت داری پر مبنی ہیں لیکن جیسا کہ انھوں نے خود کہا ہے انھیں ’’شاعر کی ذات سے عقیدت اور نیازمندی کا دعویٰ ہے۔‘‘ اور اس امر کا اعتراف بھی کہ ’’نوجوانانِ اسلام کی خوابیدہ روحیں اقبال ہی کی شاعری سے بیدار ہوئیں۔‘‘ لہٰذا سوچنے کی بات تھی کہ ان کا ذہن جس غلط نتیجے پر پہنچا ہے اس کی ذمہ داری خود انھی کے عجز و فہم پر عائد ہوتی ہے۔ یا راجا صاحب کی تصریحات پر۔ یہ اس لیے کہ شاعر کا پیغام تمسلک بالکتاب، اتباع رسولؐ اور پابندی دین کے سوا اور کچھ نہیں۔ بہرکیف اڈیٹر لائٹ کی ساری مشکل تشکیل جدید کی یہ عبارت ہے: اسلام کا ظہور… استقرائی علم کا ظہور ہے… اسلام نے نبوت کی تکمیل سے خود نبوت کو ختم کردیا۔ اس میں یہ لطیف نکتہ پنہاں ہے کہ زندگی کو ہمیشہ قیود کا پابند نہیں رکھا جاسکتا۔ شعور ذات کی تکمیل کے لیے ضروری تھا کہ انسان کو اس کی ذاتی قوتوں پر چھوڑ دیا جائے۔۵؎ ان سطور سے ہمارے فاضل صحافی نے یہ عجیب و غریب نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ’’اقبال نے عقل انسانی کو وحی پر ترجیح دی ہے۔ ان کے نزدیک ذات یا ’’انا‘‘ تمام عظمتوں کا دارومدار ہے… یہ نطشے کا اثر ہے… مغربیت کی جھلک… اگر ختم نبوت سے مطلب سلسلہ وحی کا انقطاع اور عقل کا ظہور ہے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ اب ہماری نجات قرآن سے وابستہ نہیں… اس لیے کہ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک شعور نبوت ایک قسم کی کفایت فکر ہے۔ جس کا تعلق انسان کے عہد طفولیت سے تھا… وغیرہ وغیرہ‘‘ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اڈیٹر صاحب لائٹ اگر وحی و عقل کے باہمی فرق اور تاریخی انسانی کے مختلف ادوار تمدن سے ناواقف ہیں لہٰذا تشکیل جدید کی عبارتوں کا مطلب نہیں سمجھے تو خیر یہ ان کی معذوری تھی۔ لیکن انھوں نے راجا صاحب کی فہمایش کے باوجود بعض ضروری عبارات کو نظرانداز کردیا اور اس طرح تحقیق و تنقید کی دنیا میں ایک شدید ناانصافی کے مرتکب ہوئے۔ تشکیل جدید کی پوری عبارت یہ ہے: اسلام کا ظہور جیسا کہ ہم آگے چل کر ظاہر کریں گے۔ استقرائی علم کا ظہور ہے۔ اسلام نے نبوت کی تکمیل سے خود نبوت کو ختم کردیا۔ اس میں یہ نکتہ پنہاں ہے کہ زندگی کو ہمیشہ قیود کا پابند نہیں رکھا جاسکتا۔ شعور ذات کی تکمیل کے لیے ضروری تھا کہ انسان کو اس کی ذاتی قوتوں پر چھوڑ دیا جائے۔ اسلام نے دینی پیشوائی اور پادشاہت کو بھی تسلیم نہیں کیا۔ علیٰ ہذا قرآن مجید نے انسان کے محسوسات و مدرکات اور غور و فکر پر باربار زور دیا ہے۔ اور کہا ہے کہ تاریخ اور فطرت دونوں علم کے ذرائع ہیں۔ یہ سب اس خیال کے مختلف پہلو ہیں جو انقطاع نبوت کی یہ ہیں کام کرتا ہے۔ لیکن یہاں یہ غلط فہمی نہ ہو کہ باطنی واردات۔ الہام و کشف (مدیر) کو جو باعتبار کیفیت شعور نبوت سے مختلف نہیں اب زندگی سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ قرآن مجید نے انفس اور آفاق دونوں کو علم کا ماخذ ٹھہرایا ہے۔ آیاتِ الٰہیہ کا ظہور (داخلی) محسوسات اور (خارجی) مدرکات دونوں میں ہوتا ہے۔ اور انسان کا فرض ہے کہ اپنی واردات کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لیتا رہے اور اس طرح معلوم کرے کہ ان میں کہاں تک حصولِ علم کی صلاحیت موجود ہے۔ لہٰذا ختم نبوت کا یہ مطلب نہیں کہ اب زندگی پر عقل کی حکمرانی مقدور ہوچکی ہے۔ اس میں جذبات کو دخل نہیں ہوگا۔ ایسا ہونا نہ ممکن نہ مقصود۔ عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت یہ ہے کہ اس سے باطنی واردات کے متعلق ایک آزاد اور ناقدانہ طرزِعمل کرنے میں مدد ملتی ہے کیونکہ اس سے یہ ماننا لازم آتا ہے کہ اب نوعِ انسانی کی تاریخ میں کوئی شخص اس بات کا دعویٰ نہیں کرے گا کہ وہ کسی مافوق الفطرت اختیار کی بنا پر ہمیں اپنی اطاعت کے لیے مجبور کرسکتا ہے۔ پس ختم نبوت کا مقصد یہ ہے کہ ہماری داخلی واردات کی دنیا میں بھی نئے نئے مظاہر علم کا انکشاف ہو۔ کیا اڈیٹر صاحب لائٹ انکار کرسکتے ہیں کہ یہ انسان کے شعور ذات کی تکمیل میں ایک ضروری مرحلہ تھا جس کی اہمیت کا شاید وہ اپنے مخصوص عقائد کی وجہ سے ٹھیک اندازہ نہیں کرسکے۔ بہرکیف ختم نبوت کا مسئلہ اس قدر اہم ہے اور اس کے متعلق علامہ اقبال نے جن خیالات کا اظہار فرمایا ہے اگر ان کی مزید تشریح کردی جائے تو غیر مناسب نہ ہوگا۔ یوں بھی ایک علمی اور دینی بحث کی حیثیت سے اس بارے میں کسی مزید غلط فہمی کی گنجایش باقی نہیں رہنی چاہیے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ تشکیل جدید کی جس عبارت سے اڈیٹر لائٹ نے ٹھوکریں کھائی ہیں۔ ان کا موضوع عقلی اعتبار سے ختم نبوت کی تائید کرنا ہے۔ یعنی یہ کہ آنحضرت ا کے بعد بعثت انبیا کا سلسلہ بند ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے امور ذیل کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ اوّل یہ کہ عقل اور وحی دونوں کو علم ماخذ ٹھہرا کر ان کا باہم مقابلہ کرنا صحیح نہیں۔ اس لیے کہ علم کا ذریعہ انسان کے داخلی اور خارجی حواس ہیں۔ عقل انکشافات حواس کی تنقید کرتی ہے۔ خواہ علومِ فطرت کی دنیا میں ہمیں اپنے خارجی حواس کی بدولت جو علم حاصل ہوتا ہے۔ عقل نے اس کی صحت و عدم صحت کا جائزہ لیتے ہوئے مختلف نظریوں اور اصول و کلیات کی بنا رکھی اور انسان کو اس کے بعض مغالطوں پر مطلع کیا۔ مثلاً طلوع و غروب آفتاب یا سکونِ زمین… اسی طرح تکمیل وحی کے بعد عقل کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہر مدعی الہام و کشف کی نفسیاتی حالت کی تنقید کرے تاکہ اس امر کا پتہ چل سکے کہ جو شخص الہام و کشف کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس کی شخصیت کیا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سنت اسلامیہ میں اس تنقید کا مدار قرآن و سنت ہوگا۔ دوسرے یہ کہ وحی بے شک حصولِ علم کا ایک ذریعہ ہے لیکن اس میں اور علم بالحواس میں فرق یہ ہے جہاں علم بالحواس محنت اور انتظار کا پابند ہے اور اس کے لیے قید زمانی شرط وہاں وحی میں علم کا یہ زمانی عنصر غائب ہوجاتا ہے۔ گویا یہ ایک لمحے یا ’’طرفتہ العین‘‘ میں ان حقائق کا انکشاف ہے جن کو ہم اپنے حواس کی مدد سے ہزارہا سال کی مدت میں بھی معلوم نہیں کرسکتے۔ باعتبار کیفیت اگر ہم علم بالوحی کا تصور کرنا چاہیں تو اس کے لیے الہام و کشف یا آرٹ اور فلسفہ و حکمت کی دنیا میں ’’القا‘‘ کی مثال پیش کی جاسکتی ہے لیکن جس طرح بلحاظ قدر و قیمت الہام و کشف کا درجہ ’’القا‘‘ سے بلند ہے اسی طرح کشف و الہام کو وحی سے کوئی نسبت نہیں کیونکہ کشف و الہام کی کیفیت انفرادی ہوتی ہے۔ وہ دوسروں کے لیے حجت نہیں۔ برعکس اس کے وحی ایک اٹل اور ناقابل انکار حقیقت ہے اور اس سے جن حقائق کا انکشاف ہوتا ہے ان کی پابندی ہر شخص پر فرض ہے۔ لہٰذا اصطلاحاً وحی کا لفظ اسی وقت استعمال کیا جاتا ہے جب خود اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے کسی کو ہم کلامی کے لیے منتخب کرے اور اس طرح سے انسان کی ہدایت و رہنمائی کا مقصد پورا ہوتا رہے یہی وجہ ہے کہ نبی کی حیثیت ہمیشہ اجتماعی ہوتی ہے اور اس کا وجود ہمارے لیے حجت۔ ضروری نہیں کہ ہم عقلاً اس کی تمام مصلحتوں کو سمجھ سکیں۔ تیسرے یہ کہ اسلام سے پہلے جو ادوار تمدن گزرے ہیں ان میں باوجود اختلافات کے ایک بات مشترک ہے اور وہ یہ ان سب کی بنا استخراج پر تھی۔ جو استقرا کے برعکس تحقیق حق اور تسخیر فطرت کا ایک سہل مگر ناقص طریق ہے اس لیے کہ یہ وہ منہاج علم ہے جو تجربہ اور مشاہدہ اور محنت و انتظار کی سعی و جہد سے آزاد ہے۔ اسی لیے وحی الٰہی کی ضرورت تھی کہ باربار انسان کو اس کی غلطیوں پر متنبہ کرے۔ لہٰذا اس کے رشد و ہدایت کے لیے ہر جگہ اور ہر زمانے میں انبیا علیہم السلام مبعوث ہوتے رہے۔ جن کی تبعیت و پیروی فرض تھی۔ یہ گویا تاریخ انسانی کا عہد طفولیت ہے جس میں انسان اپنی ترقی کے ابتدائی مراحل طے کررہا تھا۔ وحی الٰہی نے بتدریج اس کی تربیت کی۔ اگر یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا تو ناممکن تھا کہ انسان کے اندر اعتماد علی النفس پیدا ہوتا اور وہ اپنے شعور ذات کی من کل الوجوہ تکمیل کرسکتا کیونکہ اس کے لیے کوئی نظامِ حیات آخری اور قطعی نہیں تھا۔ تکمیل وحی کی ضرورت خود اس عنصر پر دلالت کرتی ہے کہ اس سے قبل انسانیت کی تکمیل نہیں ہوئی تھی۔ لیکن اس سے ان برگزیدہ اور مقدس افراد کی عظمت پر کوئی حرف نہیں آتا۔ جو منصب نبوت سے سرفراز ہوئے۔ اس لیے کہ یہاں بحث نوع انسانی سے ہے۔ اس کے تدریجی ارتقا سے کہ حکمت الٰہیہ کس طرح اس کو اس مرحلے پر لے آئی جب اسے علم استقرائی سے روشناس کرانا مقصود تھا۔ (علم استقرائی کے بغیر یہ ممکن نہیں کہ انسان اپنے ماحول پر غالب آسکے) اور رسالت محمدیہ کے ذریعے زندگی کی آخری اور دوامی اساس اس پر منکشف کی۔ اس امر کو قرآن پاک نے کس خوبی سے تکمیل دین اور تمام نعمت سے تعبیر کیا ہے اور حقیقت میں یہ نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہم انسانوں پر اتنا بڑا احسان ہے جس کا حق قیامت تک بھی ادا نہیں ہوسکتا۔ البتہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس آخری ہدایت کے ہوتے ہوئے بھی انسان چھوٹی چھوٹی اور وقتی ہدایتوں کا محتاج ہے یا یہ کہ وحی محمدی کے باوجود قانون حیات کی تکمیل ابھی باقی ہے۔ یعنی وہ لوگ جو ضرور نبوت کے قائل ہیں تشریعی ہو یا غیر تشریعی اور وہ لوگ جو مغربی خیالات کے زیر اثر نظام شریعت کو اپنے لیے حجت نہیں سمجھتے۔ وہ دانستہ یا نادانستہ نبوت محمدیہ کے منکر ہیں۔ اس لیے کہ وہ انسان کو پھر اس دور کی طرف لے جانا چاہتے ہیں جہاں سے اسلام ان کو آگے لے آیا تھا۔ بالفاظِ دیگر وہ تکمیل دین اور اتمام نعمت کا مطلب نہیں سمجھتے اور انھیں تعلیماتِ قرآنی میں کوئی بصیرت حاصل نہیں۔ چوتھے یہ کہ اختتام وحی یا انقطاع نبوت سے یہ استدلال کرنا غلط ہے کہ اب عقل کو (نعوذباللہ) وحی پر ترجیح حاصل ہے۔ لہٰذا اس سے مقصود تعیت وحی کو ختم کردینا ہے۔ یہ کہنا کہ آیندہ کے لیے نزولِ وحی کو روک دیا گیا ہے اس سے یہ نتیجہ کہاں مرتب ہوتا ہے کہ اب وحی کی پیروی ضروری نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں تنہا یا باہم اس درجہ مختلف ہیں کہ ان کو دنیا کی کوئی منطق ایک نہیں ٹھہرا سکتی۔ اس لیے ہمیں اپنی زندگی کے متعلق جو بصیرت حاصل ہوئی ہے اس کا سرچشمہ بھی وحی ہے۔ یہ وحی الٰہی ہے جس کی بدولت انسان نے اپنے موجودہ دورِ ارتقا میں قدم رکھا۔ لہٰذا ان میں سے ایک کا انکار گویا دوسرے کا انکار ہوگا۔ یہ کیونکر ثابت ہوا کہ نبوت محمدیہؐ نے ہمارے لیے جو راہ مقرر کی ہے اس کا اختیار احکامِ نبوت کو رد کرتا ہے اس سے تو خود بخود احکامِ نبوت کا اتباع لازم آتا ہے۔ اگر اسلام نے انسان کو علوم استقرائی سے روشناس کرایا اور اس کو باربار عقل و فکر اور مشاہدے کی دعوت دی تو عقل و فکر اور مشاہدے کے ساتھ استقرائی علوم کا وجود کس دلیل کے ماتحت اسلام کا منافی ہے؟ اس سے اگر کوئی نتیجہ مرتب ہوسکتا ہے تو صرف یہ کہ اگر شعورذات کی تکمیل کے لیے ضروری تھا کہ انسان کو اس کی ذاتی قوتوں پر چھوڑ دیا جائے تو یہ اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک انسان محمد رسول اللہ ا کی غلامی اختیار نہ کرے۔ لہٰذا نبوتِ محمدیہ کی ختمیت ہی اس کی ابدیت پر دلالت کرتی ہے بلکہ اگر ہم چاہیں بھی تو احکامِ نبوت سے آزاد نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ یہ احکامِ زندگی کی گہرائیوں سے پیدا ہوئے ہیں جن کو فطرت صحیحہ خودبخود قبول کرتی ہے۔ ان کا اتباع گویا تقاضائے فطرت کا اتباع ہے اسی لیے اسلام کو دین فطرت کہا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے خود ہمارے فائدے کے لیے پسند کیا یہ مقصود نہیں تھا کہ وہ ہمارے لیے تکلیف کا باعث ہو۔ مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَج۔۷؎ پانچویں یہ کہ نبوت کے دو پہلو ہیں۔ ایک وہ مخصوص حالات و واردات جن کومدنظر رکھتے ہوئے اسلامی تصوف میں نبوت کو روحانیت کا ایک مقامِ خاص (مقام بھی تصوف کی ایک اصطلاح ہے) تصور کیا جاتا ہے اور دوسرا سنت نبوی جس سے ایک جدید اجتماعی اور سیاسی فضا کی تخلیق ہوتی ہے اور انبیا و مرسلین جماعت انسانی کے سامنے اخلاق و اعمال کا ایک نیا تخیل پیش کرتے ہیں جس کے اقرار سے انسان کمالاتِ زندگی تک پہنچتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص اس جدید نظام میں شریک نہیں ہوتا وہ کمالاتِ ذات سے محروم رہتا ہے۔ اس محرومی کو مذہبی اصطلاح میں لفظ کفر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ گویا ریاست کی تصدیق محض صاحب رسالت کے مرتبہ و مقام کا اعتراف نہیں بلکہ یہ عبارت ہے اس کی سنت کے اتباع اور جس اخلاقی فضا کی تخلیق اس کے وجود سے ہوئی تھی اس میں پرورش حاصل کرنے سے۔ اگر کوئی شخص اس پابندی سے گریز کرتا ہے تو بلاشک و شبہ کافر ہے۔ لہٰذا نبوت کا اطلاق اسی وقت ہوسکتا ہے جب کسی شخص میں دونوں اجزا موجود ہوں بالفاظِ دیگر ختم نبوت کے یہ معنی ہوں گے کہ جناب رسالت مآبؐ کے بعد اب کوئی شخص اس بات کا دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ ان اجزاکا حامل ہے یعنی ایک طرف اسے روحانیت کا وہ مقام حاصل ہے جو انبیا کے لیے مخصوص تھا اور دوسری جانب اس کی ذات ملت کے لیے حجت کہ اگر ہم اس کی جماعت میں داخل نہیں ہوتے تو گویا کفر کے مرتکب ہوتے ہیں جو شخص اس قسم کا دعویٰ کرتا ہے وہ کاذب ہے اور شریعت اسلامی کی رو سے واجب القتل جیسا کہ مسیلمہ کذاب کی مثال سے صاف ظاہر ہے کہ اسے باوجود رسالت محمدیہ۔ؐ کی تصدیق کے قتل کردیا گیا۔ البتہ ختم نبوت کا یہ مطلب نہیں کہ مکالمہ الٰہیہ، کشف و الہام کا سلسلہ، منقطع ہوگیا کیونکہ ہر سچے اور اخلاص مند مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اسلام کو بطور دین فطرت کے اپنی ذات پر منکشف کرے۔ یہ گویا اس کے پیش کردہ حقائق سے اتحاد تصال کی کوشش ہے، جس کو اصطلاحاً لفظ ’’تصوف‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے گمر اس طرح انسان کو جو مقام حاصل ہوتا ہے اس کو ولایت سے موسوم کیا گیا ہے کیونکہ نبی آخر الزمان علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد الہام کو کشف کی حیثیت محض ثانوی ہے وہ کسی شخص کے ذاتی واردات اور مشاہدات تو ضرور ہیں۔ لیکن ان کی جماعتی حیثیت کچھ بھی نہیں اُمت کو اس کی تنقید و تحقیق، علیٰ ہذا تنقیص کا حق حاصل ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ صاحب الہام ان کو اپنے لیے حجت سمجھے مگر یہ کہنا کہ وہ تمام عالم اسلام کے لیے بھی حجت ہوسکتے ہیں۔ غلط ہوگا کیونکہ اس طرح استقرار تنقید اور روایت و درایت غرضیکہ تاریخ اور علم و حکمت کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ یہی فتنہ تھا جس سے اُمت کو محفوظ رکھنے کے لیے ختم نبوت کی ضرورت پیش آئی تاکہ وحی محمدی کو قیامت تک حجت ٹھہرایا جاسکے گویا ختم نبوت سے مقصد مطلقاً باب نبوت بند کردینا ہے۔ یعنی یہ کہ اب انسان کی تاریخ میں کسی جدید اخلاقی اور اجتماعی فضا کی تخلیق نہیں ہوگی اس کو جس چیز کی ضرورت تھی مل گئی۔ انسان اس بات کا محتاج نہیں کہ وہ اپنی ہدایت و رہنمائی کے لیے نئے نئے انبیا کی آمد کا منتظر رہے اس کی تکمیل ذات اور اعتماد علی النفس کے تمام مراحل پورے ہوچکے ہیں۔ خدا کا بھیجا ہوا قانون اور اس کا عملی نمونہ یعنی سنت نبوی اس کے سامنے ہیں۔ یہ اس کا فرض ہے کہ وہ اپنی سعی و کوشش سے اس راہ پر چلے اور اس طرح فیوض و برکات الٰہیہ کا مستحق ہو۔ لیکن یہ امر کہ ملت اسلامیہ کے لیے جناب رسول مقبولؐ کے علاوہ کسی دوسرے انسان کا اتباع اور پیروی ضروری ہے، صحیح نہیں ۔ اس کا مطلب ہوگا کہ نبوتِ محمدیہؐ کے باوجود ابھی انسان کو مزید ہدایت اور رہنمائیوں کی ضرورت ہے حالانکہ کتاب و سنت کے ہوتے ہوئے ایمان ویقین کی تکمیل ہوچکی ہے اور اب انسان اپنی نجات کے لیے کسی دوسرے انسان کا محتاج و منتظر نہیں۔ تاریخ انسانی کے ایک دور میں البتہ اس کی ضرورت تھی لیکن ظہورِ اسلام کے ساتھ اس دور کا جس کے نفسیاتی خصائص میں انتظار اور بے اعتمادی شامل ہیں، لہٰذا اس کے لیے ’’مجوسی ثقافت‘‘ کی اصطلاح وضع کی گئی خاتمہ ہوگیا کیونکہ تکمیل دین کے بعد اس امر کی ضرورت نہیں رہتی تھی کہ انسان کو اور وحیوں اور ہدایتوں کا منتظر رکھا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اسلام میں تشریعی اور غیر تشریعی نبوت، ظل و بروز بعث، مجددین و نامورین اور ظہورآئمہ کے جو تصورات قائم ہیں وہ سب مجوسی اندازِ خیال کا نتیجہ ہیں اور ختم نبوت میں حارج ہوتے ہیں۔ اسلام کو ان سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ جن احادیث و روایات کو ان کی تائید میں پیش کیا جاتا ہے ان کے باوجود تمام ائمہ وصوفیا اور سلف صالحین نے اس قسم کے کسی عقیدے کو صحیح تسلیم نہیں کیا۔ گویا مجوسی ثقافت کے حامی ان کی جو تاویل کرتے ہیں غلط ہے۔ شرعی لحاظ سے دیکھا جائے تو قرآن و سنت سے ان کی کوئی سند نہیں ملتی۔ اور عقلی اعتبار سے وہ اعتماد ذات اور تکمیل شعور کی اس دولت کو چھین لیتے ہیں جو بنی نوع انسان پر اسلام کا ایک زبردست اور ناقابل انکار احسان ہے۔ حوالے اور حواشی ۱- مضمون کا عنوان ہے: Qadianism & Orthodox Muslims یہ مضمون شروانی کی مرتبہ کتاب Speeches, Statements and Writings of Iqbal (لاہور ۱۹۷۷ئ) میں شامل ہے۔ ۲- مصنف کا رسالہ طلوعِ اسلام جو ان دنوں دہلی سے شائع ہوتا تھا۔ ۳- Light انگریزی ہفت روزہ جو قادیانیوں کا ترجمان تھا۔ ۴- Truth انگریزی ہفت روزہ جو قادیانیوں کی لاہوری جماعت کا ترجمان تھا۔ ۵- تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ص۱۹۳ ۶- اس پیراگراف میں اقبال کے جن خیالات کو پیش کیا گیا وہ تشکیل جدید میں صفحہ۹۳،۴ ۹ پر ملتے ہیں۔ ۷- سورۃ الحج، آیت ۷۸۔ ترجمہ: اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں۔ ز……ز……ز تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ (علامہ اقبال کے انگریزی خطبات مدراس) ابھی چند سال ہوئے مشہور مستشرق اے آر نکلسن۱؎ نے جریدہ اسلامیہ کی ایک اشاعت میں پیامِ مشرق پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا۲؎ کہ ’’اقبال کے سمجھنے کے لیے اسی قدر غور و تفکر، وسعت مطالبہ اور عمیق احساسات کی ضرورت ہے، جس کا اظہار عالم اسلامی کے اس ممتاز ترین فاضل کے ایک ایک لفظ سے ہوتا ہے۔‘‘ جن لوگوں کو علامہ ممدوح کے کلام سے تھوڑا بہت شغف رہا ہے وہ پروفیسر نکلسن کی اس رائے سے اتفاق کریں گے۔ حقیقت میں ڈاکٹر صاحب کی شاعری کا مطالعہ کرنا دراصل ایک نہایت ہی بلند اور پُر از حقیقت ذہنی تحریک کا جائزہ لینا ہے، جس کی ابتدا ان کی ذات سے ہوتی ہے اور جس میں ہماری مردہ اور بے روح قوم کی نشاۃ ثانیہ کے لامتناہی امکانات مضمر ہیں۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اس ذہنی تحریک کے بنیادی افکار ایک مرتبہ شکل میں ہمارے سامنے آئے ہیں۔ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ بظاہر ایک مختصر سا مجموعہ ہے جس میں فلسفہ و کلام کے چند اہم مسائل سے بحث کی گئی ہے لیکن غور سے دیکھا جائے تو یہ ایک نہایت ہی بدیع اور مجتہدانہ تصنیف ہے، جس میں علامہ ممدوح نے عصر حاضر کی بے ربط اور منتشر زندگی میں حقائق حیات کا ایک نیا تصور پیش کیا ہے اور جس کے انقلاب آفریں نتائج کا اہل نظر کو ابھی سے احساس ہے۔ الٰہیات اسلامیہ کی تاریخ میں تشکیل جدید کی نظیر شاید ہی مل سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ علمائے اسلام نے مذہب کی عقلی تعبیر اور اس کے لیے حیاتِ انسانی میں ایک مستقل اور پائدار جگہ حاصل کرنے میں نہایت قابل قدر کوششیں سرانجام دی ہیں۔ لیکن یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی سرگرمیوں کے لیے وہی راستہ اختیار کیا جس پر ان کے پیشرو گامزن تھے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیائے قدیم میں فلسفہ و حکمت کی باقاعدہ تشکیل سرزمین یونان میں ہوئی۔ یہ بھی معلوم ہے کہ اہل یونان کی فلسفیانہ بلندی کے مقابلہ میں ان کا مذہبی تخیل نہایت پست تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مذہب سے مایوس ہوکر حکمائے یونان نے فلسفہ کے دامن میں پناہ لی اور وقت کے دثنی معتقدات کو بجز ان کے عقلی تعبیر کے صحیح تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اس طرح یونانی اور رومی تمدن کی جو عمارت تیار ہوئی اس میں مذہب کو کوئی مرکزی جگہ حاصل نہیں تھی، نہ ان نیم مذہبی اخلاقی نظامات پر جن کا تعلق گنتی کے چند افراد سے تھا اور جو زیادہ تر فلسفہ تصوف کے امتزاج کا نتیجہ تھے۔ کسی صحیح مذہبی شخصیت کا اثر تھا لہٰذا عامتہ الناس بدستور اپنے مشرکہ عقائد پر قائم رہے۔ آگے چل کر جب مذہب عیسائیت نے ایک تیز رو کی طرح بلادِ مغرب کو اپنی تبلیغی سرگرمیوں کا جولانگہ بنایا اور سامی تخیلات میں یونانی افکار کی آمیزش ہوئی تو مسیحی علما نے اس امر کی ضرورت محسوس کی کہ وہ اپنے دین کا اظہار عقائد کی شکل میں کریں۔ گویا تدوین عقائد کی تحریک یونانی اثرات کا نتیجہ تھی اور سواحل بحر روم کے قدیم مراکز تمدن میں جہاں کبھی جستجوئے علم کا چرچا رہتا تھا۔ اب مسیحی عقائد پر زبردست بحثیں ہونے لگیں۔ یہ ماحول تھا جس میں علمائے اسلام دینی غور و فکر اور فلسفہ و حکمت کی دنیا سے آشنا ہوئے اور بعض ایسے اسباب کی بنا پر جن کی تفصیل کی یہاں گنجایش نہیں۔ ان کی توجہ بھی تدوین عقائد کی طرف منعطف ہوئی۔۳؎ رفتہ رفتہ علم کلام کی بنا پڑی اور مذہب و حکمت کے دفتر میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا۔ ایسا کرنے میں اگرچہ ائمہ اسلام نے اپنی غیر معمولی ذہانت اور جودت طبع کا ثبوت دیا ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ عقل و عقیدہ کے باہمی تضاد اور وارداتِ انسانی کے مختلف مظاہر کی صحیح حقیقت معلوم کرنے میں جس نے قوموں کے ذہن کو ان کی زندگی کے مختلف ادوار میں بجاطور پر پریشان رکھا ہے، انھوں نے قرآنِ مجید کو بہت کم اپنا رہنما بنایا۔ ان کی توجہ زیادہ تر فلسفہ یونان پر رہی۔ اس سے قدرتاً یا تو فلسفہ و مذہب کی تطبیق کی کوششیں شروع ہوئیں۔ اور دین کے اٹل اور دائمی حقائق اپنی تصدیق و تثبیت کے لیے ایک متحرک، غیر قطعی اور تغیر پذیر نظام تصورات کے محتاج ہوگئے یا فکر اور عقل کی دنیا کو مذہب کے لیے بے نتیجہ مان لینے سے وارداتِ انسانی کے ان دو نہایت اہم اور فطری مظاہر میں ایک مستقل اور ابدی اختلاف پیدا ہوگیا۔ ظاہر ہے کہ مفکرین اسلام کی یہ روش تعلیماتِ قرآنی کے کسی طرح مطابق نہیں تھی۔ جس نے ہر شخص کو آیات الٰہیہ پر تفکر و تدبر کی دعوت دی ہے۔ الٰہیات اسلامیہ پر ایک نتقیدی نظر ڈالتے ہوئے علامہ ممدوح نے کس قدر صحیح فرمایا ہے: انھوں نے اس کا (قرآن مجید) مطالعہ بھی فکر یونان ہی کی روشنی میں کیا اور پھر کہیں دو سو برس میں جاکر سمجھے اور وہ بھی پورے طور پر نہیں کہ قرآن کی روح اساساً یونانیت کے منافی ہے۔ اس انکشاف نے ان کے اندر جو ذہنی بغاوت پیدا کردی تھی اس کی صحیح قدر و قیمت کا اندازہ آج تک نہیں کیا گیا۔ بہرحال یہ کچھ اس بغاوت اور کچھ غزالی کے ذاتی حالات کا تقاضا تھا کہ امام موصوف نے مذہب کی بنا فلسفیانہ تشکک پر رکھی حالانکہ یہ مذہب کی کوئی محکم اساس ہے نہ تعلیماتِ قرآنی کے مطابق… اشاعرہ میں البتہ جن مفکرین کے دل و دماغ نسبتاً تعمیری تھا، صحیح راستے پر گامزن تھے… مگر اشعری تحریک کا مقصد بحیثیت مجموعی صرف یہ تھا کہ اسلامی معتقدات کی حمایت یونانی جدلیات کے حربوں سے کی جائے۔ رہے معتزلہ سو ان کا خیال تھا کہ مذہب نام ہے عقائد کا، یہ نہیں کہ وہ منجملہ ان حقائق کے ہے جو زندگی کے لیے ناگزیر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حقیقت مطلقہ کے فہم میں انھوں نے غیر تصوری طریقہ ہائے فکر سے مطلق کام نہیں لیا…۴؎ خوش قسمتی سے عین اس وقت جب دین اسلام اس ’’بلند بانگ مگر بے روح عقلیت‘‘ کا شکار ہورہا تھا۔ امام غزالی۵؎ علیہ الرحمتہ پیدا ہوئے اور ان کی فلسفیانہ تشکیک نے اس خوفناک مرض کا ہمیشہ کے لیے ازالہ کردیا۔ لیکن چونکہ امام موصوف نے فلسفہ و حکمت سے مایوس ہوکر تصوف کا رُخ کیا تھا۔ لہٰذا وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ باطنی واردات کے اندر مذہب کا ایک مستقل سرمایہ موجود ہے۔ اس طرح انھوں نے یہ ثابت کیا کہ مذہب کو مابعد الطبیعیات اور سائنس سے الگ اپنا آزادانہ وجود قائم رکھنے کا حق حاصل ہے۔ امام موصوف کو یقین ہوگیا تھا کہ فکر ایک متناہی اور ناقص شے ہے۔ اس سے مجبوراً انھیں فکر اور وجدان میں ایک حد فاصل قائم کرنا پڑی۔ انھوں نے یہ خیال نہیں کیا کہ فکر اور وجدان آپس میں مربوط ہیں اور ان کا نشوونما ایک تہ ہوتا ہے۔ اگر فکر سے نقص اور متناہیت کا اظہار ہوتا ہے تو محض اس لیے کہ فکر زمان قار سے وابستہ ہے۔ یہ خیال کہ فکر کے لیے متناہی ہونا لازمی ہے۔ لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ ہم اس کی وساطت سے لامتناہی تک پہنچ سکیں۔ اس غلط نظریے پر مبنی ہے جو ہم نے علم کی دنیا میں فکر کے طریق ادراک کے متعلق قائم کررکھا ہے۔ لیکن جہاں علامہ ممدوح نے اس امر کو تسلیم نہیں کیا کہ فکر سے لامحالہ نقص اور متناہیت کا اظہار ہوتا ہے وہاں انھوں نے تشکیل جدید کی بنا ان استدلالات پر بھی نہیں رکھی جو متکلمین کا سرمایہ افتخار ہیں اور جن کی ’’بے تمکینی‘‘ ایک عالم میں مسلم ہے۔ فلسفے کا یہ کام نہیں کہ وہ حقائق مذہب کا ثبوت بہم پہنچائے اس کی غرض و غایت آزادانہ تحقیق ہے۔ چنانچہ ابتدائے کتاب میں ڈاکٹر صاحب نے جو نہایت ہی مختصر مگر دل پذیر دیباچہ رقم فرمایا ہے۔ اس میں اس امر کی صراحت کردی ہے کہ: فلسفیانہ غور و تفکر میں قطعیت کوئی چیز نہیں۔ جیسے جیسے جہانِ علم میں ہمارا قدم آگے بڑھتا ہے اور فکر کے لیے نئے نئے راستے کھل جاتے ہیں، کتنے ہی اور، اور شاید ان نظریوں سے جو ان خطبات میں پیش کیے گئے ہیں زیادہ بہتر نظریے ہمارے سامنے آتے جائیں گے۔ ہمارا فرض بہرحال یہ ہے کہ فکر انسانی کی نشوونما پر باحتیاط نظر رکھیں اور اس باب میں آزدی کے ساتھ نقد و تنقید سے کام لیتے رہیں۔۶؎ دراصل فلسفے اور مذہب کی باہمی تطبیق یا ان کی آویزش کا مسئلہ ایک قسم کا فتنہ ہے۔ جس سے کوئی مفید مطلب نتیجہ مرتب نہیں ہوسکتا۔ اس سے یا تو انسان ان اصنامِ خیالی کا شکار ہوجاتا ہے جن کو عقل کا آذر خود اپنے لیے تیار کرلیتا ہے یا وارداتِ مذہبی میں اس کی نگاہیں سطح سے آگے نہیں بڑھتیں اور وہ مغز کو پوست سے تمیز نہیں کرسکتا۔ جن لوگوں نے حکمت جدیدہ کا مطالعہ کیا ہے، وہ خوب جانتے ہیں کہ عصرحاضر میں مشہور جرمن فلسفی کانٹ۷؎ وہ پہلا شخص تھا جس نے عقلِ انسانی کی حدود کو متعین کیا اور مذہب کو اس امر کا موقع دیا کہ وہ فلسفہ اور سائنس سے الگ اپنا مستقل وجود قائم رکھے۔ اس وقت سے لے کر اب تک اگرچہ مغرب کا مطمح نظر برابر وسیع ہورہا ہے اور جدید فلسفہ اور سائنس کے مزاج پر مذہبیت کا غلبہ ہے۔ لیکن ابھی تک اہل یورپ کا ذہن اس ترتیب اور ہم آہنگی سے عاری ہے۔ جس سے قوموں کے نظامِ افکار میں صحیح ترکیب اور اختلاف پیدا ہوتا ہے۔ محض اس لحاظ سے دیکھا جائے تو زیر نظر خطبات آج کل غور و فکر کی دنیا میں ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں لیکن یہاں یہ عرض کردینا ضروری ہے کہ علامہ ممدوح کانٹ کی طرح اس بات کے قائل نہیں کہ عقل محض کے لیے ذاتِ الٰہی کا ادراک ناممکن ہے جیسا کہ ہم پہلے ظاہر کرچکے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب موصوف فکر اور وجدان کو ایک دوسرے سے بے تعلق نہیں سمجھتے کہ اس معاملے میں برگساں۸؎ کے ہم نوا ہیں کہ ’’وجدان فکر ہی کی ایک ترقی یافتہ صورت ہے۔‘‘ ہمیں صرف اس عقل کا قائل ہونا چاہیے جو ’’ادب خوردۂ دل‘‘ ہو۔ اور یہ اس لیے کہ انسان ایک بے پایاں شخصیت کا مالک ہے اور گو اس کے مظاہر کی انتہا نہیں اور اس کی تفسیریں بے شمار۔ لیکن اگر کوئی شخص محض ایک ’’نگہ آشنا‘‘ پیدا کرلے تو اس کی حقیقت کا فہم کچھ بھی مشکل نہیں۔ علامہ ممدوح کی نظر بھی ایک خاص حقیقت پر ہے، جس کو انھوں نے مختلف صورتوں میں ظاہر کیا ہے۔ انھوں نے جس چیز کی ترجمانی اپنی شاعری میں کی ہے اسی کو تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ میں فلسفہ کی زبان میں ادا کیا ہے۔ جاوید نامہ میں وہ خود فرماتے ہیں: من بطبعِ عصرِ خود گفتم دو حرف کردہ ام بحرین را اندر دو ظرف! حرف پیچا پیچ و حرف نیش دار تا کنم عقل و دلِ مرداں شکار! حرفِ تہ دارے بانداز فرنگ نالۂ مستانۂ از تارِ چنگ! اصلِ ایں از ذکر و اصلِ آں ز فکر اے تو بادا وارثِ ایں فکر و ذکر آبجویم از دو بحر اصل من است فصل من فصل است دہم وصلِ من است! تامزاجِ عصرِ من دیگر فتاد طبعِ من ہنگامۂ دیگر نہاد!۹؎ لہٰذا اگر شعر و غزل کی دلکش وادیوں کو چھوڑ کر شاعر نے فلسفہ کے خشک میدان میں قدم رکھا ہے تو محض اس لیے کہ: بعض طبائع میں قدرتاً یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وارداتِ باطن کی اس مخصوص نوع کو، جو مذہب کے لیے ایمان و یقین کا آخری سہارا ہے، ویسے ہی اپنے تجربے میں لائیں جیسے زندگی کے دوسرے احوال اور اس کائنات کو جسے ہم اپنے آپ سے بیگانہ پاتے ہیں اپنے اندر جذب کرلیں۔ رہا عصر حاضر کا انسان سو اسے محسوس یعنی اس قسم کی فکر کی عادت ہوگئی ہے جس کا تعلق اشیا اور حوادث کی دنیا سے ہے اور یہ وہ عادت ہے جس کی اسلام نے اور نہیں تو اپنے تہذیبی نشوونما کے ابتدائی ادوار میں حمایت کی، لہٰذا وہ ان واردات کا اور بھی اہل نہیں رہا کیونکہ ان میں وہم و التباس کی پوری پوری گنجایش ہے… ایسے منہاج کی ضرورت ہوگی جو عضویاتی اعتبار سے تو زیادہ سخت یعنی شدید بدلی ریاضت کا طالب نہ ہو بلکہ نفسیاتی اعتبار سے اس ذہن کے قریب تر جو گویا محسوس کا خوگر ہوچکا ہے تاکہ وہ اسے بآسانی قبول کرلے لیکن پھر جب تک ایسا کوئی منہاج متشکل نہیں ہوجاتا، یہ مطالبہ کیا غلط ہے کہ مذہب کی بدولت ہمیں جس قسم کا علم حاصل ہوتا ہے اسے سائنس کی زبان میں سمجھا جائے۔۱۰؎ لہٰذا تشکیل جدید کی اشاعت سے علامہ ممدوح نے وقت کی ایک اہم ضرورت کو پورا کیا۔ پانچ سو برس کے جمود کے بعد عالم اسلامی نے دفعتاً ایک کروٹ لی ہے اور نوجوانانِ اسلام جدید علم و حکمت کے زیر اثر نہایت تیزی کے ساتھ مغرب کی جانب بڑھ رہے ہیں اور ’’اس امر کی آزادانہ تحقیق ازبسکہ ضروری ہے کہ مغرب کا علم و حکمت کس نتیجے پر پہنچا ہے۔ اس کی نوعیت کیا ہے اور کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اس کے ماتحت الٰہیات اسلامیہ پر نظر ثانی کرسکیں یا اپنے فلسفہ کی تشکیل جدید کا بیڑا اُٹھائیں۔ ادھر مغرب کی دنیا بھی انقلاب سے خالی نہیں رہی جہاں انسانی فکر اور تجربات میں نہایت دوررس تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہماری زندگیاں بہت کچھ بدل گئی ہیں۔ آج ہمیں کس قدر فرائض درپیش ہیں جن کا تعلق ہماری زندگی سے نہایت گہرا ہے۔ معلوم ہوتا ہے ہم اپنی زندگی کے ماورا پہنچنا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس چیز کی طلب ہے جو نہ تو ابھی متعین ہوئی ہے۔ نہ معلوم ہم مختلف قوتوں کے ایک گرداب میں الجھ گئے ہیں اور جیساک ہ ان ادوار کا قاعدہ ہے جن میں جذبات کا ہیجان ہوتا ہے۔ ہماری زندگی مذہبی عناصر سے معمور ہے۔ اس کا اظہار رہ رہ کر ادب اور فنونِ لطیفہ میں ہورہا ہے۔ اس میں کوئی شخ نہیں کہ ہمارے لیے یہ زمانہ تغیر و انقلاب کا ہے۔ اہل جرمنی یہ تصور جس کو ولہلم ومڈل بانڈ نے اپنی مشہور کتاب مقدمہ فلسفہ سے آج سے اٹھارہ سال پیشتر تیار کیا تھا۔ یورپ کی موجودہ حالت سے کچھ بھی مختلف نہیں اور حضرت علامہ نے ان تمام مظاہر کا جائزہ لیتے ہوئے حیاتِ انسانی کا جو مربوط و متوازن تصور پیش کیا ہے وہ مشرق و مغرب کے لیے یکساں طور پر ایک احسان عظیم ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پہلا نظام الٰہیات ہے جو خالصتاً قرآن پاک کے مطالعہ پر مبنی ہے۔ اس لیے کہ علامہ ممدوح نے محسوسات و مدرکات انسانی کی تعبیر میں ہرجگہ قرآن مجید کے اس اشارے کا تتبع کیا ہے کہ ’’ہمارے ذہنی اور خارجی محسوسات دراصل ایک ہی حقیقت کے مختلف آیات ہیں جو اوّل و آخر بھی ہے اور ظاہر و باطن بھی۔‘‘ ہمارے لیے یہ ممکن نہیں کہ اس مختصر سے مضمون میں قارئین نیرنگِ خیال کی توجہ ان تمام مباحث کی جانب منعطف کرائیں جن کا تذکرہ تشکیل جدید میں موجود ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سردست اس کتاب کی سہ گانہ خصوصیات کی طرف اشارہ کردینا کافی ہوگا جن کا تعلق (۱) اسلام (۲) فلسفہ اور (۳) مذہب سے ہے۔ (۱) جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے۔ خطبات زیرنظر کا موضوع الٰہیات اسلامیہ ہے لیکن اس کی تشکیل نو میں علامہ ممدوح نے اس امر کو فراموش نہیں کیا کہ بلحاظ ایک مظہر تمدن اسلام کا جامع تصورکیا ہوگا۔ اس طرح عقلی اعتبار سے انھوں نے تمدن اسلامی کو جون وسیع اور ہمہ گیر تخیل قائم کیا ہے۔ اس میں اس کے مختلف اجزا کے تاریخی الٰہیات اسلامیہ بلکہ اس کے کسی دوسرے ذخیرے سے بھی نہیں ملتی۔ ابتدائے کتاب کے چار خطبات کو چھوڑ کر جن کا موضوع علی الترتیب (۱) علم اور مذہبی واردات یعنی وہ علم جو حواس کے ذریعے حاصل ہوتا ہے اور وہ علم جس کا ماخذ باطنی مشاہدات، وحی و الہام اور کشف ہے۔ (۲) مذہبی واردات کا فلسفیانہ معیار (۳) ذاتِ الٰہی کا تصور اور حقیقت عبادت (۴) انائے انسانی (ایغو) مسئلہ جبر و قدر اور حیات بعد الممات ہے۔ آخری دو خطبوں میں علامہ ممدوح نے تمدن اسلامی کی روح اور اس کے زندگی بخش اور متحرک عنصر یعنی مسئلہ اجتہاد سے بحث کی ہے۔ ان کی رائے میں صوفیہ کے صحیح المشرب سلسلوں نے مذہبی واردات کو اسلامی رنگ میں بہت کچھ ترقی دی ہے۔ مثال کے طور پر مسئلہ مکان و زمان ہی کو لیجیے جس کا صحیح ادراک مذہب، فلسفہ اور تمدن ہر ایک کے لیے یکساں طور پر ضروری ہے۔ اس میں اسلام کو اس بحث سے بے حد انہماک رہا ہے ان کی توجیہ ہمیشہ اس مسئلے پر رہی۔ کچھ ا س لیے کہ قرآن پاک کے نزدیک لیل و نہار کا اختلاف اللہ تعالیٰ کی وقیع تریں آیات میں سے ہے اور کچھ اس لیے کہ ایک مشہور حدیث میں دہر کو ذاتِ الٰہی کا مرادف ٹھہرایا گیا ہے۔ اکابر صوفیہ میں بعض کا خیال تھا کہ لفظ دہر میں بہت سے باطنی اسرار پوشیدہ ہیں۔ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کے نزدیک دہر اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہے… اسلامی فلسفہ کی تاریخ میں سب سے پہلے اشاعرہ نے یہ کوشش کی کہ وہ عقلی اعتبار سے زمانے کی ماہیت پر نظر ڈالیں۔ ان کی رائے میں زمانہ باہم دگر منفرد آفات کا ایک تواتر ہے۔ گویا ہر دو آفات یا لمحات زمانہ کے درمیان ایک طرح کا خلائے زبانی موجود رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس مضحکہ خیز تخیل کا باعث فقط یہ ہے کہ اشاعرہ نے زمانے پر محض خارجی حیثیت سے نظر ڈالی۔ انھوں نے یونانی فلسفہ کی تاریخ سے مطلق فائدہ نہیں اٹھایا جو خود اس غلطی کا شکار ہوگئے تھے… عرب ایک عملی قوم تھے اور وہ یونانیوں کی طرح زمانے کو بے حقیقت نہیں ٹھہرا سکتے تھے… بایں ہمہ ماہیت زمانہ کی تحقیق میں اشاعرہ نے آج کل کے علما کی طرح اس کے نفسیاتی تجربے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ لہٰذا وہ اس کے داخلی مظہر کے ادارک سے قاصر رہے۔ آگے چل کر مسلمان علما نے ان دقتوں کو بخوبی محسوس کرلیا تھا جو زمانے کے اس تصور سے پیدا ہوتی ہیں۔ ملا جلال الدین دوانی نے الزوراء میں لکھا ہے کہ اگر ہم زمانے کو ایک مخصوص مقدار فرض کرلیں جس پر ایک متحرک جلوس کی طرح جملہ حوادث رونما ہوتے ہیں اور اس مقدار کو بجائے خود ایک وحدت ٹھہرائیں تو پھر یہ کہنا پڑے گا کہ زمانہ فعالیت الٰہی کی ایک کیفیت ہے جو اس کی تمام بعد میں آنے والی کیفیات پر حاوی ہے لیکن ایک ساتھ ہی ملّا نے یہ تنبیہ کردی ہے کہ اگر غور سے کام لیا جائے تو زمانے کا تواتر محض اضافی ہے… مشہور صوفی شاعر عراقی نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس کے نزدیک جس طرح مدارجِ حیات مختلف ہیں اسی طرح زمانے کی شکلیں بھی لاتعداد ہیں… بڑے بڑے اجسام کا زمانہ جو گردشِ افلاک سے پیدا ہوا ہے ماضی، حال اور مستقبل میں تقسیم کیا جاسکتا ہے… غیر مادی اشیا کا زمانہ بھی سلسلہ وار ہے۔ لیکن بڑے بڑے اجسام کا ایک سال ان کے ایک دن کے برابر ہے… اس طرح بتدریج ہم زمان باری تعالیٰ تک پہنچتے ہیں جو مرور سے قطعاً آزاد ہے… وہ ابدیت سے بھی بالاتر ہے نہ اس کی ابتدا ہے نہ انتہا… علمائے اسلام میں امام فخر الدین رازی نے سب سے زیادہ اس مسئلے کے متعلق کاوش اور جستجو سے کام لیا ہے لیکن ان کو اعتراف ہے کہ وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچتے۔۱۱؎ تمدن اسلامی پر بھی ہمیشہ اس خیال کا غلبہ رہا کہ زمانہ ایک حقیقت ہے اور زندگی نام ہے زمانے کے اندر ایک مسلسل حرکت کا: زمانے کا یہی تصور ہے جو ابن خلدون کے نظریہ تاریخ میں ہماری دلچسپی کا خاص مرکز بن جاتا ہے اور اس لیے فلنٹ بجاطور پر اس کی تعریف میں رطب اللسان ہے۔ وہ کہتا ہے افلاطون یا ارسطو یا اگسٹائین، ان میں کوئی بھی اس قابل نہیں کہ اس کی ہمسری کا دعویٰ کرسکے۔ رہے دوسرے، سو ان کا ذکر ہی کیا ہے… ہمیں ابن خلدون کے نظریہ تاریخ سے دلچسپی ہے تو اس کی وجہ بھی ابن خلدون کا وہ تصور ہے جو اس نے تغیر کے باب میں قائم کیا۔ یہ تصور بڑا اہم ہے، کیوںکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ تاریخ چونکہ ایک مسلسل حرکت ہے زمانے کے اندر، لہٰذا یہ ماننا لازم آتا ہے کہ اس کی نوعیت فی الواقع تخلیقی۔ بالفاظِ دیگر یہ وہ حرکت نہیں جس کا راستہ پہلے سے متعین ہو۔ اب اگرچہ ابن خلدون کو مابعد الطبیعیات سے مطلق دلچسپی نہیں تھی۔ بایں ہمہ اس نے زمانے کا تصور جس رنگ میں کیا، ہم اس کے پیش نظر اس کا شمار برگساں کے پیشرو میں کریں گے… قرآن پاک کا یہ ارشاد کہ ’اختلاف لیل و نہار‘ کو حقیقت مطلقہ کی، جس کی ’ہر لحظہ ایک نئی شان ہے‘ ایک آیت تصور کرنا چاہیے، اسلامی، بعد الطبیعیات کا یہ رجحان کہ زمانہ ایک خارجی حقیقت ہے، ابن مسکویہ کا یہ نظریہ زندگی عبارت ہے ایک ارتقائی حرکیت سے اور آخر الذمہ بیرونی کا یہ صاف و صریح اور واضح اقدام کہ کائنات کا تصور بطور ایک عمل کے کرے، یہ سب باتیں ابن خلدون کو ذہناً ورثے میں ملیں۔ لہٰذا اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ وہ اس تہذیب و تمدن کی روح کو خوب سمجھ گیا تھا جس کا وہ خود سب سے زیادہ روشن اور تابناک مظہر تھا… یہ اسی کی ذہانت و فطانت تھی کہ قرآن مجید کی روح جو سرتاسر یونانی کے منافی ہے، حکمت یونان پر ہمیشہ کے لیے غالب آگئی۔ یونانیوں کے نزدیک زمانے کی یا تو کوئی حقیقت ہی نہیں تھی، جیسا کہ زینو اور افلاطون کا خیال تھا، یا یہ کہ وہ دائرے میں گردش کرتا رہتا ہے، جیسا کہ براق بطوس اور رواقین نے اس کا تصور کیا۔۱۲؎ افسوس ہے کہ یہ مختصر سا مضمون اس امر کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ ہم یہاں ان تمام بحثوں کا اعادہ کریں جو علامہ ممدوح نے زمان ومکان کے متعلق فرمائی ہیں۔ حاصل کلام یہ کہ: ذاتِ الٰہیہ کے لیے کائنات کوئی مخصوص حادثہ نہیں کہ اس کا ایک قبل اور ایک بعد ہو اور نہ کائنات اپنی ذات سے آپ قائم کہ اس کا غیر ٹھہرے۔ ورنہ اس کا مطلب تو یہ ہوگا کہ خالق و مخلوق دو الگ الگ وجود ہیں… زمان ومکان اور مادہ بجائے خود ذاتِ الٰہیہ کی آزادانہ تخلیقی فعالیت کی وہ تعبیریں ہیں جو فکر نے اپنے رنگ میں کی ہیں، ان کا کوئی مستقل وجود نہیں… وہ محض عقل کے تعینات ہیں جن کے ذریعے ہمیں حیاتِ الٰہیہ کا ادراک ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک مرتبہ جب مشہور صوفی بزرگ حضرت بایزید بسطامی کے حلقے میں تخلیق کا مسئلہ زیر بحث تھا تو ایک مرید نے ہمارے عام نقطۂ نظر کی ترجمانی یہ کہتے ہوئے بڑی خوبی سے کی کہ ایک وقت وہ بھی تھا جب صرف خدا کا وجود تھا اس کے سوا کچھ نہ تھا… شیخ نے فرمایا اور اب کیا ہے؟ اب بھی صرف خدا کا وجود ہے۔ لہٰذا عالم مادیات کی یہ حیثیت نہیں کہ ذاتی باری تعالیٰ کے ساتھ شروع ہی سے موجود ہو… بلکہ ایک مسلسل عمل جس کو فکر نے الگ تھلگ اشیا کی کثرت میں تقسیم کررکھا ہے۔۱۳؎ (۲) فلسفیانہ لحاظ سے یہ دیکھ کر مسرت ہوتی ہے کہ علامہ ممدوح کے افکار پر ’’سولاسطی فلسفہ‘‘ کا مطلق اثر نہیں۔ الٰہیات کی راہ میں سب سے بڑی دقت یہ ہے کہ اس کا فریضہ عدم و وجود، ذات ماورائے ذات اور مادیت و روحانیت کو ایک ہی حقیقت میں شمار کرنا ہے۔ علامہ ممدوح نے اس نہایت ہی نازک مسئلے کے متعلق جو رویہ اختیار فرمایا ہے وہ یہ کہ ہم ان اشتراکات یا ’’ہم آہنگیوں‘‘ کی تلاش کریں جو ممکن ہے مذہب اور سائنس کے درمیان پہلے ہی سے موجود ہوں۔ چنانچہ اس امر کا تذکرہ کرتے ہوئے کہ قدیم طبیعیات اب خود اپنی اساس کی تنقید میں مصروف ہے اور مادیت کا وہ تصور جس کو کبھی اس کے لیے ناگزیر سمجھا جاتا تھا نہایت تیزی کے ساتھ کافور ہورہا ہے۔ انھوں نے مادیت کی ماہیت پر جو دقیق بحث کی ہے وہ خالصاً فلسفیانہ ہے۔ ہم اس کے جزوی اقتباسات قارئین کرام کی خدمت میں پیش کریں گے: ارتقائی لحاظ سے دیکھا جائے تو ہمارے محسوس و مدرکات کے تین بڑے مراتب ہیں، جس میں سے ہر مرتبے کو ہم ایک عالم قرار دے سکتے ہیں یعنی مادیات و حیات اور شعور کی دنیا جو علی الترتیب طبیعیات و حیاتیات اور نفسیات کا موضوع بحث ہیں… طبیعیات ایک اختیار اور تجربی علم ہے جس کا تعلق حقائق خارجہ یعنی علم بالحواس سے ہے۔ مظاہر حواس کے علاوہ علمائے طبیعیات کے پاس نظریوں کی تصدیق و تائید کا اور کوئی ذریعہ نہیں۔ وہ اس بات کے مجاز ہیں کہ غیر مدرک اشیا مثلاً جواہر کا وجود تسلیم کرلیں لیکن ان کا ایسا کرنا محض اس لیے ہے کہ بغیر اس کے وہ اپنے تجربات حسی کی تشریح و تعبیر نہیں کرسکتے۔ جب ہم طبیعیات کا مطالبہ کرتے ہیں تو ہمیں اپنے ذہن کو حرکت میں لانا پڑتا ہے۔ یہ حرکت کیا ہے؟ اعمال ذہنی جو ہمارے قلب کی جمالی کیفیات اور وارداتِ روحانی کی طرح اسی کل کے ایک جزو ہیں جس کو ہم اپنے مدرکات و محسوسات سے تعبیر کرتے ہیں۔ بایں ہمہ ان کو طبیعیات کی حدود سے خارج سمجھا جاتا ہے اس لیے کہ طبیعیات کا مطالعہ صرف مادی اشیا تک محدود ہے۔ اب فرض کیجیے ہم کسی شخص سے سوال کریں کہ اس مادی عالم میں تم کو کن چیزوں کا ادراک ہوتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ انھی اشیا کا نام لے گا جو اس کے گرد و پیش میں موجود ہیں۔ لیکن اگر اس سے مکرر یہ سوال کیا جائے کہ تم اس چیز کا نام بتائو جس کا فی الواقع تم ان اشیا ہی سے خوراک حاصل کرتے ہو، تو اس کو کہنا پڑے گاکہ ان کے خواص کا ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب دینے میں ہم اپنے حواس کی شہادت ہی کی تعبیر کرتے ہیں اور اس تعبیر کا انحصار اس پر ہے کہ اشیا اور ان کے خواص کے درمیان ایک امتیاز قائم کیا جائے۔ بعض لوگوں نے مادے کے متعلق یہی نظریہ اختیار کیا ہے۔ یہ انگلستان کا مشہور فلسفی برکلے تھا جس نے سب سے پہلے اس نظریے کی تردید کی کہ مادہ ہمارے حواس کی نامعلوم علت ہے۔ خود ہمارے زمانے میں پروفیسر وائٹ ہیڈ نے ثابت کردیا کہ مادیت کا قدیم نظریہ سراسر ناقابل اعتبار ہے۔ اس نظریے کی رو سے یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اشیا کے خواص مدرک کی ذہنی کیفیات ہیں۔ فطرت میں شامل نہیں ہمارے ادراک کیا ہیں؟ محض فریب نظر۔ جن کے متعلق یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ فی الواقع فطرت کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اس لیے یہ نظریہ فطرت کو دو حصوں میں تقسیم کردیتا ہے۔ ایک طرف ذہنی کیفیات ہیں اور دوسری جانب ناقابل تصدیق غیر مدرک وجود جو ان کیفیات کی علت ہیں۔ اگر طبیعیات کو حقائق کا صحیح اور منظم علم حاصل ہے جن کا ادراک ہمیں حواس کے ذریعے ہوتا ہے تو ہمیں مادے کے قدیم نظریے سے فوراً دستبردار ہوجانا چاہیے۔ پروفیسر وائٹ ہیڈ کے نزدیک اس نظریے کے معنی یہ ہیں کہ فطرت کا ایک حصہ خواب ہے اور دوسرا محض قیاس۔ لیکن مادے کے تصور پر سب سے زیادہ کاری ضرب آئین سٹائن کے ہاتھوں لگی ہے۔ مسٹررسل کہتے ہیں کہ نظریۂ اضافیت نے مکان و زمان کو باہم مدغم کرکے جوہر کے قدیم تصور پر شدید حملہ کیا ہے۔ کسی مادی شے کے متعلق یہ کہنا کہ وہ اپنی بدلتی ہوئی حالتوں کے باوجود زمانے میں استقرار رکھتی ہے، صحیح نہیں۔ حقیقت میں یہ باہم دگر مربوط حوادث کا ایک نظام ہے۔ جمود کا قدیم تصور اب ترک کردیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ تمام فرائض بھی جن کی بنا پر کبھی ماونین کا یہ خیال تھا کہ مادہ سریعت السیر افکار نسبت لکھے زیادہ حقیقی اور مستقل شے ہے۔۱۴؎ یہاں قدرتاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر مادے کا رائج الوقت نظریہ ناقابل اعتبار ہے تو پھر فطرت (یعنی نیچر) کی ماہیت کیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ: عالم فطرت کوئی ساکن شے ہے، نہ کسی غیر متحرک خلا میں واقع، بلکہ حوادث کی ترکیب جس کی نوعیت ایک مسلسل اور تخلیقی حرکت کی ہے، مگر جس کو فکر الگ تھلگ سکنات میں تقسیم کردیتا ہے اور جن کو ایک دوسرے سے جو نسبت ہے اس سے زمان و مکان کے تصور متشکل ہوتے ہیں… دراصل سائنس کا یہ رویہ کہ عالم فطرت کی حقیقت بجز ایک وجود مادی کے اور کچھ نہیں، نیوٹن کے اس نظرے سے وابستہ ہے کہ مکان ایک خلائے مطلق ہے اور جملہ اشیا اس میں واقع… چنانچہ علوم ریاضی کی بنا جن اساسات پر ہے ان کی تنقید ہی سے ثابت ہوچکا ہے کہ خالص مادیت کا یہ مفروضہ کہ مادہ کوئی قائم بالذات شے ہے اور مکان مطلق میں واقع، قطعاً ناقابل عمل ہے۔۱۵؎ سطور بالا سے زمان و مکان اور دوسرے مسائل کے متعلق جن نازک بحثوں کا آغاز ہوتا ہے ان کی تفصیل کی یہاں مطلق گنجایش نہیں۔ ہمارا مقصد تشکیل جدید کی فلسفیانہ اہمیت کو ظاہر کرنا ہے جس کے لیے یہ اجمالی ارشادات کافی ہوں گے۔ البتہ ہم یہ ضرور عرض کردیں کہ علامہ ممدوح نے جن حقائق کی طرف توجہ دلائی ہے ان کو بالعموم عقل و فکر کی حدود سے ماورا سمجھا جاتا ہے۔ انسان ہمیشہ یہ محسوس کرتا ہے کہ ان کا ’’اظہار واردات‘‘ کی شکل میں تو ممکن نہیں لیکن دیدہ حکمت سے ان کا مشاہدہ شاید ہی ہوسکے۔یہ خلش اگرچہ ایک حد تک فطری ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے کون سا فلسفہ آزاد ہے۔ ثنویت سے بچنے کے لیے جو بھی نقطۂ نظر اختیار کیا جائے گا، اس میں یہ اور اس قسم کے ہزاروں تذبذب باقی رہیں گے۔ (۳) اب ہمیں مذہب کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ علامہ ممدوح نے اس کی تحقیق میں نفسیاتی منہاج پر زور دیا ہے۔ حامیانِ ثنویات کو غالباً شروع ہی سے اس پر اعتراض ہوگا لیکن ہمیں حضرت علامہ کے خیالات سن لینا چاہییں۔ انھوں نے ابتدا ہی میں اس امر کی صراحت کردی ہے کہ: ’’جب فلسفہ مذہب پر تنقید کی نگاہیں ڈالتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ مذہب کو اس کے مقدمات میں کوئی ادنیٰ جگہ حاصل ہے۔ مذہب فلسفہ کا کوئی شعبہ نہیں۔ اس لیے کہ یہ محض فکر ہے، نہ عمل نہ احساس بلکہ انسان کی ذات کلی کا مظہر۔ پھر یہ خیال بھی سراسر غلط ہے کہ فکر اور وجدان بالطبع ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ دونوں کا تعلق ایک سی سرچشمے سے ہے اور بغیر ایک دوسرے کے ان کا وجود نامکمل رہتا ہے۔ ایک منزل بہ منزل حقیقت مطلقہ کی طرف قدم بڑھاتا ہے دوسرا اس کے وجود کلی پر ہاوی ہونا چاہتا ہے۔ وجدان ایک ہی وقت میں تمام حقیقت سے لطف اندوز ہونے کا طلب گار ہے۔ فکر اس راستے کو آہستہ آہستہ اور رُک رُک کر طے کرتی ہے تاکہ وہ اس کے مختلف مراحل کو محض ان کے مشاہدے کے لیے مخصوص و منفرد کرتی جائے وجدان کے پیش نظر حقیقت مطلقہ کا ابدی اور فکر کے سامنے اس کا زمانی پہلو ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے تقویت و تازگی کا موجب بنتے ہیں اور دونوں کو حیات میں جو منصب حاصل ہے اس کے اعتبار سے ایک ہی حقیقت کی بقا کے آرزو مند ہیں۔ اگر سائنس اور فلسفہ کو یہ فخر حاصل ہے کہ ان کی توجہ محسوسات پر ہے تو مذہب کو اس سے کوئی تعرض نہیں۔ اس لیے کہ مذہب نے تو سائنس سے بھی بہت پہلے محسوسات پر زور دیا ہے جب ہم اس منصب کا خیال کرتے ہیں جو مذہب کو ہماری زندگی میں حاصل ہے تو ہم خودبخود اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ بہ نسبت مسلمات علم کے ہمارے لیے اس امر کی کہیں زیادہ ضرورت ہے کہ ہم مذہب کے اصول و عقائد کے لیے کسی عقلی اساس کی جستجو کریں۔ علم مابعد الطبیعیات کو نظر انداز کرسکتا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ اب تک اس نے ایسا ہی کیا ہے لیکن مذہب کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ محسوساتِ انسانی کے تضاد کو رفع نہ کرے یا جس ماحول میں انسان پیدا کیا گیا ہے اس کی تصدیق و تثبیت سے انکار کردے۔ مذہب کا ہر عہد عقلیت کا عہد تھا۔ ’’مذہب کا بھی محسوسات و مدرکات کی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح سائنس کو کہیں اس کا مقصد ان مقدمات کے تعبیر کرنا نہیں ہے جو علومِ فطرت کا موضوع ہیں۔ مذہب نہ کیمیا ہے نہ طبیعیات جس کا فریضہ یہ ہو کہ وہ حقائق فطرت کی ترجمانی علت و معلول کی زبان میں کرے۔‘‘ اگر ان دونوں میں اختلاف پیدا ہوجاتا ہے تو اس لیے نہیں کہ ’’ایک کی بنا محسوسات پر ہے اور دوسرا محسوسات سے آزاد۔ دونوں کی ابتدا محسوسات سے ہوتی ہے۔ لیکن جب ہم اپنی غلط فہمی سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ ایک ہی قسم کی واردات کی الگ الگ ترجمانی کرتے ہیں تو ان میں تضاد و تصادم رونما ہوجاتا ہے۔ مذہب کے پیش نظر واردات انسانی کی ایک مخصوص دنیا ہے اور اس کا مقصود یہ ہے کہ وہ اس کی صحیح اہمیت کا پورا پورا علم حاصل کرے‘‘۔۱۶؎ لہٰذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری واردات بھی محسوسات و مدرکات کی طرح کسی علم کا سرچشمہ بن سکتی ہے؟ علامہ ممدوح نے اس کا جواب اثبات میں دیا ہے۔ ان کے نزدیک (مذہب میں) تعقل کا ایک عنصر بھی شامل رہتا ہے‘‘۔۱۷؎ اگر اس علم کی نوعیت علم بالحواس سے مختلف ہے تو اس کی صحت پر کوئی حرف نہیں آتا۔ ضروری نہیں کہ جو علم غیر عقلی ذرائع سے حاصل ہو وہ بہ نسبت اس علم کے جس میں عضویاتی حرکات کو دخل ہوتا ہے ناقص ہو۔ اس کے لیے علامہ ممدوح نے وارداتِ مذہبی کے نفسیاتی تجزیے کے بعد جو شواہد پیش کیے ہیں۔ ان کو افسوس ہے کہ بخوف طوالت ہم یہاں نقل نہیں کرسکتے۔ لیکن اہل نفسیات کی یہ بدگمانی کہ چونکہ مذہبی واردات کی بنا ادراک حسی سے نہیں ہوتی۔ لہٰذا ان کو نظر انداز کردینا چاہیے صحیح نہیں۔ ایسے ہی محض ان کیفیات کی بنا پر جو باطنی واردات کو بظاہر متعین کرتی نظر آتی ہیں ان کی روحانی قدر و قیمت سے انکار کردینا بھی غلطی ہے۔ ’’اگر ذہن اور جسم کے تعلق میں ہم جدید نفسیات کا مفروضہ ٹھیک مان لیں جب بھی ازروئے منطق یہ ثابت نہیں ہوتا کہ صوفیانہ مشاہدات انکشاف حقیقت کا کوئی ذریعہ نہیں۔ نفسیاتی اعتبار سے تو سب احوال خواہ ان کا مشمول مذہبی ہو یا غیر مذہبی، عضوی کیفیات کے پابند ہیں۔ چنانچہ ذہن انسانی کا علمی انداز ویسے ہی اس کا پابند ہے جیسے مذہبی۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم نوابغ کے تخلیقی کارناموں پر حکم لگاتے ہیں تو ان باتوں کو سرے سے خاطر میں نہیں لاتے جو علمائے نفسیات نے ان کی عضوی کیفیتوں کے بارے میں قائم رکھی ہیں۔ میرا اپنا خیال تو یہ ہے کہ ایک خاص قسم کی قبولیت کے لیے شاید ایک خاص قسم کا مزاج ناگزیر ہے۔ لہٰذا یہ کہنا ٹھیک نہیں کہ جو کچھ قبول کیا جاتا ہے اس کی حقیقت بجز اس کی پیشرو کیفیت کے اور کچھ نہیں۔ دراصل ہماری نفسیاتی کیفیات سے علت و معلول کا عضوی سلسلہ جس طرح وابستہ ہے اس کا ان معیارات سے کوئی تعلق ہی نہیں جن کے ماتحت ہم باعتبار قدروقیمت کسی کیفیت کو ادنیٰ، اعلیٰ قرار دیتے ہیں‘‘۔۱۹؎ مذہبی واردات کی مثال زیادہ تر غیر واضح احساس کی ہی ہے۔ ان میں عقل و استدلال کا شائبہ تک نہیں ہوتا لیکن جس طرح انسان کے دوسرے احساسات میں ادراک کا ایک عنصر موجود ہوتا ہے۔ اسی طرح باطنی واردات میں بھی ادراک سے معرا نہیں۔ ہمارے نزدیک یہ اسی عنصر ادراک کا نتیجہ ہے۔ جس کی بدولت باطنی واردات فکر کی صورت اختیار کرتی ہیں۔ دراصل احساسات کا اقتضا ہی یہ ہے کہ ان کا اظہار فکر کی شکل میں ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ فکر اور احساس دنوں کا تعلق ہمارے داخلی مشاہدات میں ہے۔ اوّل الذکر ان کا زمانی پہلو اور دوسرا غیر زمانی… احساس گویا کسی بیرونی شے کی کشش کا نام ہے۔ جس طرح فکر کسی خارجی شے کی خبر کا۔ جب ہمارے ذہن پر احساس کی کوئی کیفیت طاری ہتی ہے تو اس کے ایک جزو لازم کے طور پر اس شے کا خیال بھی پیدا ہوجاتا ہے جس سے اس کو سکون ہوگا، یہ کہ احساس کا کوئی رُخ نہ ہو، ایسا ہی ہے جیسے کہ یہ کہ فعالیت کی کوئی سمت نہ ہو۔ اور یاد رکھنا چاہیے کہ سمت کا اشارہ ہمیشہ کسی شے کی جانب ہوا ہے۔ یہی وجہ کہ گو مذہب کی ابتدا احساس سے ہوتی ہے لیکن وہ محض احساس پر جیسا کہ خود احساس ہی کا تقاضا ہے قناعت نہیں کرسکتا۔ برعکس اس کے اس سے ہمیشہ مابعد الطبیعی جستجو کا اظہار ہوتا ہے۔ لیکن جیسا کہ عرض کردیا گیا تھا فلسفہ اور مذہب باعتبار اپنی نوعیت کے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ’’فلسفہ کا کام یہ ہے کہ وہ عقل کی عینک سے اشیا کا مشاہدہ کرے۔ اس کا مقصود صرف اس قدر ہے کہ اسے کوئی تصور مل جائے جس کے ماتحت ہمارے جملہ محسوسات و مدرکات کسی ایک نظام میں مرتسم ہوجائیں۔ گویا فلسفہ دور ہی سے حقیقت مطلقہ کا مشاہدہ کرتا ہے۔ برعکس اس کے مذہب کی تمنا یہ ہے کہ وہ اس سے ربط و اتلاف پیدا کرے۔ ایک محض نظریہ ہے، دوسرا حقیقی واردات، قرب اور اتصال۔ اس کے لیے فکر کو اپنے آپ سے بلند ہونے کی ضرورت ہے اور اس کا یہ مدعا صرف اس اسلوب ذہنی ہی کی شکل میں پورا ہوسکتا ہے جس کو مذہب نے دعا سے تعبیر کیا ہے اور جو پیغمبر اسلام ا کے لب مبارک پر تا دم آخر موجود تھی‘‘۔۱۹؎ ان نہایت ہی اہم اور دقیق مباحث کے علاوہ جن کا مجمل سا خاکہ ہم نے سطوربالا میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ تشکیل جدید میں فلسفہ اور سائنس کے سیکڑوں مسائل زیرنظر آگئے ہیں اور یہ سب کچھ اسی غیر معمولی عمق، کاوش، تحقیق اور رفعت تخیل کے ساتھ جس کے لیے علامہ ممدوح کی ذات اب کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ جس قدر کتاب کے مباحث دقیق ہیں اسی قدر انداز بیان سلیس اور دلاویز ہے ایک جرمن فاضل کی رائے ہے کہ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ عصرنو کا سب سے زیادہ تعجب خیز مظہر ہے۔‘‘ ہم سمجھتے ہیں کہ فاضل مبصر کی اس رائے میں ذرا سا بھی مبالغہ نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی حلقوں میں تشکیل جدید کے مباحث کو نہایت ذوق و شوق سے پڑھا جائے گا۔ ان کی علمی صلاحیتیںاہل مشرق سے کہیں زیادہ ہیں لیکن سب سے بڑھ کر یہ فرض مسلمانوں کا ہے کہ وہ اس کے مطالب پر غور کریں اور حضرت علامہ کے ان ارشادات سے مستفیض ہونے کی کوشش کریں جو ان کے تمدنی ارتقا میں بجا طور پر ان کی رہبری کا حق ادا کرسکتے ہیں ع ایں چنیں دیدہ رہ بیں بہ شب تار کجاست؟ حوالے اور حواشی ۱- رینالڈ ایلن نکلسن (۱۸۶۸ئ- ۱۹۴۵ئ) مشہور برطانوی مستشرق۔ ان کا اسرارِ خودی کا انگریزی ترجمہ (۱۹۲۰ئ) مغرب میں اقبال کے تعارف کا اوّلین ذریعہ بنا۔ ۲- نکلسن کا یہ مضمون پہلی دفعہ جریدہ Islamica کے شمارہ نمبر۱ (۲۵-۱۹۲۴ئ) میں شائع ہوا۔ اب یہ ڈاکٹر رفعت حسن کی مرتبہ کتاب The Sword and Sceptre میں شامل ہے۔ ۳- یہ امر کہ مسلمانوں کے اندر مذاہب دینیات کی ترتیب و تدوین کا خیال کیونکر پیدا ہوا نہایت درجہ متنازع فیہ ہے مستشرقین نے اس کو مسیحی اثرات کا نتیجہ ٹھہرایا ہے اور علمائے اسلام کی رائے بالعموم یہ ہے کہ اس کی ذمہ داری اہل ایران پر عائد ہوتی ہے۔ راقم الحروف کو ان دنوں نظریوں سے اختلاف ہے جس کا اظہار رسالہ جامعہ اشاعت ۱۹۲۹ء میں ہوچکا ہے۔ مصنف ۴- تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ص۵-۶ ۵- امام غزالی (۱۰۵۸- ۱۱۱۱ئ) مفکر اور فلسفی۔ اقبال کے محبوب صوفیہ میں سے ہیں۔ ۶- دیباچہ تشکیل جدید…، ص۴۰ ۷- کانٹ (۲۲؍اپریل ۱۷۲۴ئ- ۱۲؍فروری ۱۸۰۴ئ) جرمن فلسفی، فلسفے اور منطق کا نامور پروفیسر۔ ۸- برگساں ہنری لوئس (۱۸؍اکتوبر ۱۸۵۹ئ- ۴؍جنوری۱۹۴۰ئ) دیکھیے ’’اقبال اور حکمائے فرنگ‘‘ کا حاشیہ نمبر۷۔ ۹- جاوید نامہ، ص۲۰۲ ۱۰- دیباچہ تشکیل جدید…، ص۳۹-۴۰ ۱۱- یہ اقتباس نہیں بلکہ زمان و مکان کے بارے میں مسلم مفکرین کے ان افکار و خیالات کا خلاصہ ہے جن کی تفصیل علامہ مرحوم نے اپنے تیسرے خطبہ ’’ذاتِ الٰہیہ کا تصور اور حقیقت دعا‘‘ میں درج کی ہے۔ (تفصیل ملاحظہ ہو تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ص۱۱۱-۱۱۱۵) ۱۲- تشکیل جدید…، ص۲۰۲ ۱۳- تشکیل جدید…، ص۱۰۰-۱۰۱ ۱۴- یہ اقتباس نہیں بلکہ مادے کی ماہیت کے بارے میں علامہ اقبال کے افکار کا خلاصہ ہے جو انھوں نے دوسرے خطبے (مذہبی مشاہدات کا فلسفیانہ معیار) میں بیان کیے ہیں۔ (تفصیل ملاحظہ ہو تشکیل جدید، ص۴۸-۵۲) ۱۵- تشکیل جدید…، ص۵۲-۵۳ ۱۶- یہ علامہ کے ان ارشادات کی تلخیص ہے جو فلسفہ اور مذہب کے بارے میں، انھوں نے پہلے خطبے میں درج کیے ہیں (تفصیل ملاحظہ ہو: تشکیل جدید…، ص۳-۴) ۱۷- تشکیل جدید…، ص۲ ۱۸- تشکیل جدید…، ص۳۴ ۱۹- تلخیص تشکیل جدید…، ص۹۳-۹۴ ز……ز……ز اقبال اور اسلامی ثقافت کی روح اقبال نے اسلامی ثقافت پر قلم اٹھایا لیکن صرف اس حد تک کہ اس کی روح کیا ہے؟ اس لیے کہ جس زمانے میں وہ اپنے خطبات ترتیب دے رہے تھے۔ اس سے پہلے اشپنگلر۱؎ کی کتاب بلادِ مغرب کا زوال ان کی نظر سے گزر چکی تھی۔ اشپنگلر کا خیال تھا کہ اسلامی ثقافت کوئی ثقافت نہیں، بلکہ مجوسی ثقافت ہی کی ایک شکل، اقبال اپنی گفتگوئوں میں اگرچہ اشپنگلر اور بعض دوسرے مغربی مفکرین کے ثقافتی نظریوں پر اظہارِ خیال کرتے لیکن ۱۹۲۷ء سے پہلے اس موضوع پر قلم اُٹھانے کی نوبت نہ آئی اور وہ بھی جیسا کہ عرض کرچکا ہوں صرف اس حد تک کہ اسلامی ثقافت کی روح کیا ہے؟ بات یہ ہے کہ اسلام اگرچہ ایک ہمہ گیر، صداقت اور عالم گیر دعوت ہے جس کی نظر انسان پر ہے۔ اس کے مسائل نوعِ انسانی کے مسائل ہیں اور نوعِ انسانی ہی کی ہدایت کہ انسان اپنی غایت مقصود کو پہنچے اس کا مقصد، لیکن اسلام کو بھی دنیا کی ہر دعوت کی طرح تاریخ کے انقلابات سے گزرنا پڑا جس میں ایک طویل مدت کے بعد رفتہ رفتہ اس پر مشرق کا رنگ چڑھ گیا لہٰذا بادی النظر میں یوں معلوم ہونے لگا جیسے اسلام کی حیثیت بھی ایک مشرقی سامی تحریک کی ہے۔ بقول سعید حلیم پاشا۲؎ اسلام کیا ہے؟ اسلام ترکی ہے یا ایرانی؟ ایک عربی اسلام ہے، ایک ہندی، ایک افریقی، ایک بربر، علی ہٰذا القیاس مقامی رنگ غالب آگیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام پر جو تہیں جم گئی ہیں ہم اسلام کو ان سے پاک و صاف کریں۔ گویا تاریخ کے ایک خاص دور کا لحاظ رکھا جائے تو اس میں اسلام، اسلامی تعلیمات، اس کی تہذیب و تمدن، روحانی اور اخلاقی زندگی کا یہی منظر ہے جس کو دیکھتے ہوئے اشپنگلر یا بیکر۳؎ اور ٹائن بی۴؎ یا دوسرے مغربی مصنّفین نے اسلامی ثقافت کے بارے میں مختلف نظریے قائم کیے۔ اقبال کو انھی نظریوں کے نقد و جرح سے اسلامی ثقافت کی حقیقی روح سے پردہ اُٹھانا مقصود تھا۔ اسلامی ثقافت کی روح کیا ہے؟ خطبہ پنجم میں یہ بحث بیس صفحوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ اسلوب بیان صاف سادہ ہے۔ سلجھا ہوا، ہر پہلو سے واضح۔ بایں ہمہ اقبال نے اپنے خیالات کے اظہار میں حد درجہ ایجاز و اختصار سے کام لیا ہے۔ تفصیل و تشریح کی جگہ اشارات نے لے لی ہے۔ اشارات نہایت بلیغ اور پرمعنی ہیں جن کے فہم میں قاری کو ہر لحظہ میں احساس ہوتا ہے کہ ایک حقیقت نو اس کے ذہن میں جاگزین ہوگئی، لیکن تقاضا اس کا یہ ہے کہ اس کے فہم میں یہ تحقیق و تفحص اور آگے بڑھیں۔ پھر ایک بات یہ ہے اور باعتبار اس موضوع کے جس پر اقبال نے قلم اٹھایا نہایت درجہ اہم کہ اقبال نے اس کا آغاز نبوت اور ختم نبوت بالفاظ دیگر رسالت محمدیہ (علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) کی خاتمیت سے کیا۔ یہ ایک استثنا ہے، بجائے خود غور طلب۔ اس لیے کہ اقبال سے پہلے شاید کسی نے مسلمان ہوں، یا غیر مسلمان ثقافت کی بحث میں نبوت اور ختم نبوت کے حوالے سے قلم نہیں اُٹھایا۔ لیکن اقبال کے یہاں نبوت اور ختم نبوت ہی مدار بحث ہے جس میں حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی۵؎ کے اس ارشاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جس کا تعلق واقعہ معراج سے ہے کہ حضور رسالت مآب ا بارگاہِ الٰہی سے واپس آگئے، مجھے یہ مرتبہ حاصل ہوتا تو ہرگز واپس نہ آتا۔ اقبال نے اس بنیادی فرق کی وضاحت نہایت خوبی سے کی ہے جو شعورِ نبوت اور شعورِ ولایت میں باعتبار نفسیات پایا جاتا ہے۔ لیکن جس کے بارے میں مجھے یہاں کچھ نہیں کہنا ہے اس لیے کہ آگے چل کر آپ ہی آپ یہ اشارہ آپ کی سمجھ میں آجائے گا۔ اقبال نے قرآن مجید کے اس ارشاد کے پیش نظر کہ نبوت ایک منصب ہے جو اللہ تعالیٰ نے بعض جلیل القدر ہستیوں کو اس لیے عطا کیا کہ نوعِ انسانی کی رہنمائی فرمائیں۔ زندگی کی اس جدوجہد میں جو بدو انسانیت سے جاری ہے اور جس کی ایک غایت ہے اس کی تعلیم و تربیت سے، اسے اس امر کے لیے تیار کریں کہ وہ اس میں خود اپنی ذمہ داری سے کامیابی حاصل کرے۔ لہٰذا انبیا علیہم السلام نوعِ انسانی کے لیے ایک دعوت لے کر آئے۔ بقول اقبال وہ زمانے کی رو میں داخل ہوئے۔ انھوں نے تاریخ کا رُخ بدلا۔ علم و عمل کی دنیا میں ایک انقلاب پیدا کردیا اور یوں زندگی کا صحیح راستہ متعین کیا۔ چنانچہ یہی وہ فرق ہے جو شعورِ نبوت کو ہماری ثقافتی زندگی سے براہِ راست تعلق ہے۔ صوفی بلکہ یوں کہیے کہ مذہب کو البتہ اسلام ایک استثنا ہے ایسا کوئی تعلق نہیں۔ لہٰذا نبوت سے نوعِ انسانی کی ذہنی، اخلاقی، سیاسی اور اجتماعی زندگی کے لیے جو نتائج مرتب ہوئے ان کے، یا یوں کہیے اس کے ثقافتی پہلو کے فہم کا ایک طریق یہ کہ ہم دیکھیں انبیا علیہم السلام کیا چاہتے تھے؟ کس طرح انسان پیدا کریں؟ اس کی شخصیت کس طرح کے قالب میں ڈھل جائے؟ دوسرا یہ کہ تہذیب و ثقافت کی اس دنیا پر نظر رکھیں جس کا ظہور ان کی دعوت سے ہوا۔ اقبال کہتے ہیں یہاں یہ بحث نہیں کہ علم و حکمت کے میدان میں مسلمانوں کے کارنامے کیا ہیں؟ یہاں بحث ان تصورات سے ہے جو اسلامی ثقافت کے صورت گر ہیں جس کا اس طرح اظہار ہوا لیکن یہ جب ہی ممکن ہے جب ہماری نگاہیں اسلام کے اس عظیم تصور کی قدروقیمت پر ہوں جو عبارت ہے ختم نبوت سے اور دیکھیں کہ اس کے معنی تہذیب ثقافت کی دنیا کے لیے کیا ہیں؟ دو نتیجے ہیں جو اقبال کے اس نظریہ سے مترتب ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ اسلامی ثقافت کا سرچشمہ ہے نبوت۔ لہٰذا اسلامی ثقافت کی روح کے فہم میں ہمیں نبوت سے رجوع کرنا پڑے گا اور نبوت کے فہم میں قرآن مجید سے۔ دوسرا یہ کہ جہاں تک اس راستے کا تعلق ہے جو اسلامی ثقافت نے اس لیے اختیار کیا کہ اس کی روح واقعات اور حوادث کی دنیا میں عملاً جلوہ گر ہوجائے ہمارے لیے رسالت محمدیہؐ کا فہم ضروری ہے۔ اس کی ’خاتمیت‘ محاورہ عام میں ختم نبوت کا۔ اوّل نبوت کو لیجیے: نبوت کی جیسا کہ قرآن مجید کا ارشاد ہے ایک ابتدا ہے، ایک انتہا۔ نبوت ایک منصب ہے۔ اس کے سامنے ایک فریضہ ہے، ایک مقصد۔ یعنی اس ہدایت کا ابلاغ جس کی زندگی کو ضرورت تھی اور جو یہ تقاضائے زندگی نبوت کے ذریعے بشکل وحی و تنزیل مشہود ہوگئی۔ یہ فریضہ ادا ہوا تو بقول اقبال نبوت اپنے معراجِ کمال کو پہنچ گئی۔ اور اس کے خود اپنے خاتمے پر مہر خاتمیت ثبت کر دی جس کے معنی جیسا کہ اقبال نے لکھا ہے۔ یہ ہیں کہ انسان کو جس ہدایت کی ضرورت تھی مل گئی۔ زندگی نے وہ راستہ جس کی اسے تلاش تھی پاگیا۔ انسان بلوغ کو پہنچ گیا۔ لہٰذا بحیثیت ایک ذمہ دار ہستی کے جسے علم و عقل سے بہرہ ملا ہے۔ جسے شعور ذات کی دولت حاصل ہے اس کی شخصیت کی تکمیل اور ایک ایسے معاشرہ کی تعمیر کا جس میں اسے بہمہ وجوہ اظہارِ ذات کے مواقع میسر آئیں کوئی ذریعہ تھا تو یہ کہ انسان خود اپنے وسائل سے کام لے۔ اپنی زندگی کا بوجھ آپ اُٹھائے۔ زندگی ایک جدوجہد ہے جس میں اس کا سب سے بڑا حربہ ہے علم، مگر علم خود حاصل کرنے کی چیز ہے لہٰذا ختم نبوت نے ہمیں ہر ایسے دعوت کی بے چون و چرا پابندی سے آزاد کردیا جس کا تعلق علم، مگر علم خود حاصل کرنے کی چیز ہے کسی مافوق الفطرت سرچشمے سے ہے۔ علم جب ہی علم ہے کہ اس میں نقد و جرح کا رستہ کھلا چھوڑ دیا جائے۔ انسان کی ذہنی اور اخلاقی نشوونما جب ہی ممکن ہے کہ اپنے عقل و فکر سے کام لے۔ لہٰذا اقبال نے کہا اور نہایت صحیح کہا کہ اسلام کا ظہورِ عقل استقرائی کا ظہور ہے۔ بالفاظِ دیگر علم کا جو بھی سرچشمہ ہے اس میں خود اپنی کاوش، تحقیق و تفحص تجربے اور امتحان سے آگے بڑھنے کا۔ اقبال کے نزدیک علم کے سرچشمے تین ہیں ہمیں سائنس تاریخ اور وہ روحانی واردات اور مشاہدات جن کا تعلق انسان کے اندرون ذات اصطلاحاً قلب انسانی سے ہے۔ اقبال کا کہنا ہے کہ ہمارے روحانی اور باطنی مشاہدات، علم کا ذریعہ تو ہیں لیکن اس طرح جو علم حاصل ہوتا ہے وہ ہمارے لیے تو کیا خود صاحب مشاہدات کے لیے بھی حجت تعلق، ہمیں چاہیے اسے بغیر نقد و جرح کے قبول نہ کریں۔ اس میں غلطی اور خطا کا ایسا ہی امکان ہے جیسے علم کی کسی دوسری شکل میں۔ دراصل اسلامی تصوف کے سامنے جو مسئلہ تھا وہ بھی ان واردات اور مشاہدات کی تطہیر و تزکیے کا جن مطالعہ علم نہج پر کیا گیا کہ اس مذہبی نفسیات کا ظہور ہوا جس کے ارتقا میں خواجہ محمد پارسا۶؎ اور عراقی۷؎ کی کاوشیں بالخصوص قابل ذکر ہیں۔ نفسیات سے تاریخ کی طرف آئیے تو مسعودی،۸؎ طبری،۹؎ ابن اسحاق۱۰؎ اور ابن خلدون۱۱؎ ایسی شخصیتیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ ابن خلدون ہی وہ شخص ہے جس کے ہاتھوں تاریخ نے پہلی مرتبہ ایک ضابطۂ معلوم یعنی علم کا مرتبہ حاصل کیا۔ یوں اقوام و اُمم کی زندگی اور ان کے عروج و زوال پر قائم نظریہ کو اٹھایا گیا تو علومِ اجتماعیہ سیاسیات، معاشیات، عمرانیات کی داغ بیل پڑی جن کی ابتدا گویا ابن خلدون ہی نے کردی تھی۔ جہاں تک سائنس کا تعلق ہے مسلمانوں نے اہل یونان کا وہ نظریہ جو انھوں نے کائنات کے بارے میں قائم کر رکھا تھا اور جس کا حاصل یہ ہے کہ کائنات ایک بے حس و حرکت وجود ہے، اس میں سکون ہی سکون ہے۔ کسی تغیر یا اضافے کی گنجایش نہیں، رد کردیا۔ یونان کی نظر متناہیت پر تھی۔ کائنات متناہی ہے، محدود ہے۔ مسلمان سائنس دانوں نے اس کے برعکس کائنات کا حرکی نظریہ قائم کیا۔ ان کی نظر لامتناہیت پر تھی۔ اقبال نے اس باب میں خوارزمی،۱۲؎ بیرونی۱۳؎ اور طوسی۱۴؎ کی تحقیقات کا بالخصوص ذکر کیا ہے۔ لیکن یونانیت کے خلاف عالم اسلام کے ردِعمل کی داستان بڑی طویل ہے۔ اقبال نے اشپنگلر کے اس دعویٰ کے خلاف کہ مسلمانوں میں حرکت کا کوئی تصور نہیں تھا بہ وضاحت بتایا ہے کہ ان کی نظر ’کون‘ کی بجائے تکوین پر تھی جس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات بن رہی ہے، بنتی رہے گی۔ حیاتیات میں ابن مسکویہ۱۵؎ کا نظریہ ارتقا بالخصوص اہم ہے جاحظ۱۶؎ بعض حیاتی مظاہر کا مطالعہ کرچکا تھا۔ طبیعیات کا رُخ کیجیے تو قرآن مجید کے اس ارشاد کے ماتحت کہ کائنات اور اس کی ہر شے میں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں، علمائے اسلام کی نگاہیں محسوس و مری پر مرتکز ہوگئیں۔ عالم فطرت کا مطالعہ علم نہج پر ہونے لگا۔ اس کا وجود وہم و گمان نہ رہا بلکہ ایک حقیقت جس کے مطالعے اور مشاہدے میں ہمیں بعقل و فکر آگے بڑھتے رہنا چاہیے۔ یہ ہوا تو بقول اقبال سائنس نے اپنی اساس کو پالیا۔ اس کی ترقی اور نشوونما کا راستہ کھل گیا۔ سائنس مسلمانوں کا عطیہ ہے۔ سائنس اگر سائنس بنی تو مسلمانوں کے ہاتھوں جس کا اب اہل یورپ کو بھی اعتراف ہے گو بیکن۱۷؎ بہت پہلے کہہ چکا تھا کہ یہ ہماری تجربی منہاج، یہ منطق استقرا، یہ محسوس سے شغف، یہ سائنس کی روح، ہم اس سے عربوں ہی کی بدولت آشنا ہوئے۔ سائنس، تاریخ اور واردات وطن پر اس طرح نظر ڈالتے ہوئے اقبال نے یہ نہایت اہم نتیجہ قائم کیا کہ مسلمانوں نے جس پہلو سے بھی علم و حکمت کی دنیا میں قدم بڑھایا ان کا فکر دو باتوں پر مرتکز ہوگیا۔ ایک اس حقیقت پر کہ انسان کی آفرینش ایک ہی سرچشمے سے ہوئی۔ اس کا مبدا ایک ہے لہٰذا وحدت انسانی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے جس سے ان سب تفریقات و امتیازات کے منافی جاتا ہے جو اخلاقی روحانی، سیاسی، معاشی یا کسی اور اعتبار سے مثلاًنسل و وطن کی بنا پر انسان نے قائم کررکھی ہیں۔ ثانیاً اس بات پر کہ زمانے کا وجود حقیقی ہے۔ زمانہ حقیقت ہے تو انسان اور کائنات بھی ایک حقیقت۔ ہماری زندگی کے بھی کوئی معنی۔ تاریخ بھی جو ہمیں کسی منزل کی طرف لیے جارہی ہے اور جس میں ہمیں اپنا مقام خود متعین کرنا ہے ایک حقیقت۔ واقعات اور حوادث، تغیر اور انقلاب کی دنیا بھی ایک حقیقت پر جس پر کڑی نظر رکھنی چاہیے ورنہ ہماری زندگی کی ساری کشاکش ہماری عقلی اور فکری کاوشیں۔ ہمارے علم اجتہادات بے سود ہوکر رہ جائیں گے۔ زندگی ایک زمانی عمل ہے۔ کائنات ایک طبیعی عمل۔ وحدتِ انسانی کا حصول بھی ایک تدریجی اور محنت طلب عمل جس کا راستہ اسلام نے واضح طور پر متعین کردیا۔ رسالت محمدیہؐ کی خاتمیت سے وہ سب کاوٹیں جو اس میں حائل ہیں۔ دور ہوگئیں۔ اقبال کے نزدیک اسلام میں موروثی بادشاہت کی نفی علیٰ ہذا مذہبی پیشوائی کا رد اور عقل و فکر سے باربار خطاب تصور خاتمیت ہی کے مختلف پہلو ہیں۔ اسلام نہیں چاہتا کہ نوع انسانی سہارے لے لے کر زندگی بسر کرے۔ راقم الحروف کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ یہ جو میں نے اس سلسلے میں ’’لیڈنگ اسٹرنگز‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں ان سے مراد ہے اُمت میں مزید پیغمبروں کا ظہور۔ یہ امر ختم نبوت کے منافی ہے۔ اس ایمان و یقین، امید و اعتماد اور اطمینان کے منافی جو رسالت محمدیہ کی خاتمیت سے انسان کو حاصل ہوا اور جس سے زندگی کا صحیح راستہ، صراطِ مستقیم ہمیشہ کے لیے متعین ہوگیا۔ حضور رسالت مآبؐ نے اس باب میں تاقیامت ہماری رہنمائی فرمادی ہے۔ لہٰذا دو نتیجے ہیں جو رسالت محمدیہ کی خاتمیت سے مترتب ہوتے ہیں۔ ایک نوع انسانی کے اخلاص کا وہ عمل جس نے اسے اخلاقی روحانی سیاسی اجتماعی ہر قسم کے اسبتداد سے آزاد کردیا۔ ثانیاً یہی خاتمیت۔ وحدت انسانی کے اس عمل کی ابتدا ہے جس سے مقصود یہ ہے کہ نوع انسانی اصولاً، عملاً، ذہناً اخلاقاً سیاسی اور اجتماعی اعتبار سے ایک منضبط اور متحد عالمگیر معاشرے کی شکل اختیار کرلے۔ وہ معاشرہ جس کی مثال آپؐ نے خود اپنی ذات گرامی سے قائم کردی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: تمھارے پاس ایک ایسا پیغمبر آگیا ہے جس نے تمھارے بوجھ ہلکے کردیے، وہ زنجیریں کاٹ دیں جن میں تم جکڑے ہوئے تھے۔ لیکن دو اور باتیں ہیں جو اسلامی ثقافت کی روح سے بحث کرتے ہوئے ان خیالات سے، جن کا اقبال نے اظہار کیا ہے، واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہیں۔ ایک یہ کہ رسالت محمدیہؐ کی خاتمیت کا اشارہ اسلامی تعلیمات کی قطعیت کی طرف ہے۔ یہ قطعیت عین تقاضائے زندگی ہے۔ اس یقین و ایمان، اطمینان و اعتماد کا سرچشمہ کا ہم نے حق و صداقت کو پالیا۔ باطل سے ہمارا رشتہ کٹ گیا۔ عقل وفکر یا علم و عمل کا کوئی عقدہ، ظن و تخمین اور وہم و گمان اب ہمارے راستے میں حائل نہیں۔ یہ قطعیت ہمارے قوائے علم و عمل کے لیے قدغن لے کر نہیں آئی بلکہ ایک مہمیز ہے علم و عقل اور فکر کی کارفرمائی کے لیے۔ اس سے انتظار اور اضطراب اور بیم و رجا کی وہ خلش ہمیشہ کے لیے مٹ گئی جس میں ہماری آنکھیں مستقبل پر لگی، کوئی سہارا ڈھونڈتی رہتی ہیں۔ ہمارے علم و عمل اور عقل و فکر کی دنیا متزلزل ہوجاتی ہے۔ فرد کی زندگی کو قرار رہتا ہے، نہ معاشرے کو۔ برعکس اس کے یہ قطعیت وہ نفسیاتی قوت ہے جس سے اس قسم کے سب دعوئوں کا تعلق علم کے کسی مافوق الفطرت سرچشمے سے ہے، خاتمہ ہوجاتا ہے۔ ایسی سب گروہ بندیوں اور جماعت سازیوں کا امکان باقی نہیں رہتا جن میں کسی شخص کی ذات سے وابستگی اس لیے ضروری ٹھہرتی ہے کہ حق و صداقت کی دنیا میں ہماری جدوجہد اس کے قول و فعل کی پیروی پر موقوف ہے۔ جس سے نہ صرف حیاتِ فرد اور جماعت کے طبعی اور فطری نشوونما کا عمل رک جاتا ہے بلکہ جس سے انسان ذہناً اور اخلاقاً پھر اسی استبداد کا شکار ہوجاتا ہے جس سے اسلام نے اسے نجات دلائی تھی۔ لہٰذا یہ قطعیت بالفاظِ دیگر رسالت محمدیہؐ کی خاتمیت ہمارے لیے امید و اعتماد کا سرچشمہ ہے، آزادی اور استخلاص کا منشور۔ غالباً یہی حقیقت تھی جو کسی طرح کارلائل۱۸؎ کے ذہن میں آئی تو اسے بے اختیار کہنا پڑا کہ پیغمبر اسلام فی الواقع دنیا کے آخری پیغمبر ہیں۔ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ دوسری بات جو واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہے کسی خاص عہد یا کسی خاص سرزمین، قوم یا نسل سے بے تعلق۔ اس کا ضمیر خالصاً انسانی ہے اور یہی نکتہ ہے جس کی طرف اقبال نے اپنی تحریروں اور تقریروں، گفتگوئوں، شاعری اور فلسفیانہ افکار میں باربار اشارہ کیا ہے۔ اسلام کی نظم مشرق و مغرب پر یکساں ہے۔ لِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ۔۱۹؎ اسلام کے سامنے پہلے بھی انسان ہے اور بعد بھی انسان۔ اسلامی ثقافت کی روح میں بھی اوّل و آخر انسان اور انسانیت ہی کارفرما نظر آئے گی۔ لیکن یہ انسان اور انسانیت، بالفاظِ دیگر اسلامی ثقافت پوری طور پر مشہود ہوگی تو جب ہی کہ اقبال کی طرح ہم بھی قرآن مجید میں غوطہ زن ہوں۔ حضور رحمتہ العالمین کی ذاتِ گرامی سے براہِ راست تعلق پیدا کریں۔ رہا اشپنگلر سو یہاں مجوسی ثقافت کے بارے میں جس کی بنا پر اس نے اسلامی ثقافت کو بھی مجوسیت سے تعبیر کیا، اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ مجوسی ثقافت میں خدا کے مقابلے میں کچھ اور بھی ہستیاں ہیں جو کو قدرت اور اختیار حاصل ہے۔ لیکن اسلام نے تو ذاتِ الٰہیہ کے سوا کسی اور ہستی کو جو صفات خداوندی سے متصف ہو تسلیم ہی نہیں کیا۔ مجوسی ثقافت میں انسان نیند کی سر زندگی بسر کرتا ہے محسوس کرتا ہے اس کی ذات یوں کہیے خودی کی کوئی حقیقت نہیں۔ ہمیشہ کسی ظہور کا منتظر رہتا ہے۔ اشپنگلر نے غلطی سے انتظار کی اس کیفیت کو آمد مہدی کی روایت سے نسبت دیتے ہوئے یہ نتیجہ قائم کیا کہ مسلمان بھی مضاف زندگی میں اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔ حالانکہ اسلام ایک پیغام بیداری ہے جس نے خودی کی حقیقت پر زور دیا۔ اس کی ایک غایت، ایک نصب العین اور مستقبل ٹھہرایا۔ دنیا ایک رزم گاہ خبر و شرہی سہی گو اسلام کا نظریہ اس سے مختلف ہے لیکن اس رزم گاہ میں انسان کو کسی نہ کسی کا انتظار ہے، نہ اس کے دل میں کوئی اضطراب۔ صراطِ مسقیم اس کے سامنے ہے۔ وہ اپنی تقدیر کا آپ صورت گر ہے۔ پھر یہ جو اشپنگلر نے کہا ہے کہ مسلمان بندہ تقدیر ہے تو لفظ تقدیر کا مفہوم اس کے نزدیک وہی ہے جو قسمت کا اور جس کا اشارہ زمانے کے سامنے انسان کی بے بسی کی طرف ہے۔ اس لیے جو کچھ ہورہا ہے اسے بہرحال ہونا تھا۔ قسمت کا لکھا پورا ہوکر رہتا ہے۔ اقبال نے اس سلسلے میں زمانے کے بارے میں اسلامی نظریے کا حوالہ دیتے ہوئے، جس سے تقدیر کے اس تصور کی، جو قسمت کا مترادف ہے نفی ہوجاتی ہے، کہا ہے کہ زمانے کی حقیقت ہمیں لازماً اس امر پر مجبور کردیتی ہے کسی لمحے کو رائیگاں نہ جانے دیں۔ انسان کو یہ قدرت حاصل ہے کہ ان لامتناہی امکانات کو جو زندگی اپنے ساتھ لے کر آتی ہے اپنی ہمت اور کوشش سے جس حد تک چاہے حاصل کرے۔ اقبال نے اس امر پر بھی اظہارِ افسوس کیا ہے کہ اشپنگلر ایسے فاضل انسان نے عوام میں مروج خیالات کو اپنی تائید میں پیش کیا۔ اسلامی ثقافت کی روح کے بیان میں اقبال کے خیالات کا یہ مختصر سا خاکہ اگرچہ سرتاسر خطبہ پنجم پر مبنی ہے لیکن اس میں کہنے کی بات یہ ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اقبال کے خیالات کو کماحقہ، سمجھیں خواہ ہمیں ان سے اختلاف ہو یا اتفاق اسلامی ثقافت کی حقیقی روح جب ہی ہمارے سامنے ہوگی جب ہم قرآن مجید کا مطالعہ اس نقطۂ نظر سے کریں کہ بحیثیت ایک ثقافتی تحریک کے، جیسا کہ اقبال نے لکھا ہے اسلام کی تعلیمات کیا ہیں۔ یہ ہوگا تو ہم اس بحث میں خود بھی آگے بڑھ سکیں گے۔ (نیرنگِ خیال، لاہور ۱۹۳۲ئ) حوالے اور حواشی ۱- اوسوالڈ اشپنگلر (۱۸۸۰ئ- ۱۹۳۶ئ) Decline of the West کے مصنف، جرمن فلسفی، ان کی یہ کتاب کئی زبانوں میں ترجمہ ہوئی۔ مسلم ثقافت پر بھی بہت کچھ لکھا۔ ۲- سعید حلیم پاشا (۱۸۶۳ئ- ۶؍دسمبر ۱۹۲۱ئ) ترک مدبر اور مصلح، اسلامی معاشرت اور سیاسی مسائل پر لکھتے رہے۔ ترکی کے وزیراعظم بھی رہے۔ ۳- سرسموئل وائیٹ بیگر (۱۸۲۱ئ- ۱۸۹۳ئ) سیاح اور متکشف، ترکی اور مصر کا میں کئی سال رہا۔ ۴- آرنلڈ جوزف ٹائن بی (۴؍اپریل ۱۸۸۹ئ- ۲۲؍اکتوبر ۱۹۷۵ئ) معروف انگریز مؤرخ، مفکر، مصنف۔ ۵- عبدالقدوس گنگوہی (م۱۵۳۸ئ) عالم دین اور صوفی۔ ۶- خواجہ محمد پارسا (م۱۴۲۰ئ) مفسر قرآن، متکلم، کئی اہم کتابوں کے مصنف ہیں۔ ۷- فخر الدین ابراہیم عراقی (۶۰۰ئ- ۶۸۸ئ) شیخ بہاء الدین زکریا کے داماد اور خلیفہ، اہم صوفیہ میں شمار ہوتا ہے ان کی تصانیف میں مثنوی اور لمعات زیادہ اہم ہیں، شہاب الدین سہروردی کے تربیت یافتہ تھے۔ ۸- ابوالحسن علی بن حسین بن علی، مسعودی (م۱۹۵۷ئ) بغداد کے معروف مورخ، مصر میں مقیم رہے معتزلی تھے۔ ۹- ابو جعفر محمد بن جریر طبری (۱۸۳۹ئ- ۱۹۲۳ئ) مؤرخ، مفسر، فقیہ، نجومی۔ ۱۰- ابو عبداللہ محمد بن اسحق (۶۳۳ئ- ۷۶۷ئ) عرب مصنف، علم حدیث پر سند کا درجہ حاصل تھا۔ ۱۱- عبدالرحمن ابن خلدون (۱۳۳۲ئ- ۱۴۰۶ئ) دیکھیے مضمون ’’ڈاکٹر صاحب کے ارشادات‘‘ کا حاشیہ نمبر۸ ۱۲- ابو عبداللہ خوارزمی: ہیئت دان، تاریخ و جغرافیہ اور ریاضی کے ماہر تھے، مامون الرشید کے عہد میں شہرت پائی۔ ۱۳- محمد بن احمد البیرونی (۹۷۳ئ- ۱۰۴۸ئ) سیاح، مورخ، جغرافیہ دان، ماہر فلکیات ۱۷۵کتابوں کے مصنف ہیں۔ ۱۴- ابو جعفر محمد بصر الدین طوسی (۱۸؍فروری ۱۲۰۱ء - ۲۶؍جون ۱۲۷۴ئ) محقق، مورخ، ابن سینا کا مقلد اور رازی کا ناقد، شیعہ، سیاست دان۔ ۱۵- محمد بن یعقوب مسکویہ الرازی (۹۴۲ئ- ۱۰۳۰ئ) ادیب، مؤرخ اور فلسفی۔؎ ۱۶- الجاحظ (۷۷۶ئ- ۸۶۹ئ) بصرہ کے ماہر حیاتیات، معتزلی الٰہیات اور سیاسی رنگ کے مذہبی مباحث پر بہت کچھ لکھا، ۲۰۰ کتابوں کے مصنف۔ ۱۷- فرانسس بیکن (۲۲؍جنوری ۱۵۶۱ئ- ۹؍اپریل ۱۶۲۶ئ) برطانوی، فلسفی، سیاست دان اور انگریزی زبان کا ماہر۔ ۱۸- تھامس کار لائل (۴؍دسمبر ۱۷۹۵ئ- ۵؍فروری ۱۸۸۱ئ) سکاٹ لینڈ کا مورخ اور انشائیہ نگار ۱۹- سورہ البقرہ، آیت ۱۴۲۔ ترجمہ: مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں۔ ز……ز……ز نقیب آزادی سنا ہے میں نے غلامی سے اُمتوں کی نجات خودی کی پرورش و لذتِ نمود میں ہے۱؎ اقبال کی شاعری اور فلسفہ یا اقبال کے علمی، سیاسی اور دینی تصورات کی بجائے میں چند ایسی ہی معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں جن کا تعلق اقبال کی اس قیادت سے ہے جس نے ہمارے فکر اور عمل کی دنیا میں نہایت گہرا اور دور رس اثر پیدا کیا ہے۔ اس لحاظ سے بھی کہ فرد کے لیے تکمیل ذات اور خیر و سعادت کی راہیں کھلیں اور اس پہلو سے بھی کہ اس نوزائیدہ مملکت کو جس میں آج ہم آزادی اور اطمینان کا سانس لے رہے ہیں، ثبات و استحکام نصیب ہو۔ اس لیے کہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو قطع نظر اس ناکامی اور نامرادی کے جو اندریں صورت ہمارے لیے مقدر ہوگی، ہماری وہ عقیدت بھی جو ہمیں اقبالؒ سے ہے اور جس کا آج کل ہر کہیں بڑے جوش اور سرگرمی سے اظہار ہورہا ہے، بے معنی ہوجائے گی۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ بحیثیت مجموعی ہماری قوم اقبالؒ کی دل سے قدردان ہے لیکن یہ بات مسلمہ ہے کہ اقبال کی شاعری ہمارے لیے اُمید اور کامرانی کا پیغام لائی۔ یہ اقبال ہی کا فکر و فرہنگ ہے جس میں ہم نے اپنی نشات الثانیہ کی جھلک دیکھی اور یہ اقبال ہی کا ایمان و یقین تھا جس نے ہماری قومی اور سیاسی جدوجہد کا حقیقی رُخ معین کیا۔ تو کیا اس شاعری اور اس فلسفہ اور اس دینی اور ملّی بصیرت سے جس کی آج طرح طرح سے تشریح و تفسیر ہورہی ہے، ہمیں ایسا ہی تعلق ہونا چاہیے جیسے کسی فردِواحد کے جذبات و احساسات اور خیالات سے! اس امر سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اقبال کی ذاتی اور نجی حیثیت کے علاوہ ایک اور حیثیت بھی ہے یعنی ملّی۔ ان معنوں میں کہ وہ ہماری آزادی کا نقیب اور ہمارے قومی مقاصد اور عزائم کا ترجمان ہے۔ اس لحاظ سے کہ بحیثیت ایک دستورِ حیات ہم نے اخلاقاً اور عملاً سیاسی، اجتماعی اور تہذیبی نقطۂ نظر سے اسلام کی وہی تعبیر قبول کی جو اقبال کے سامنے تھی۔ لہٰذا ہم نے وطنی قومیت کا وہ لادینی اور مادی اصولِ سیاست ترک کردیا جو مغرب سے آیا تھا۔ اور یوں اقبال کی رہنمائی میں ہماری توجہ اس امر پر مرکوز ہوتی گئی کہ اس خطہ عظیم میں جسے مسلمانوں ہی نے کبھی ہندستان کا نام دیا تھا ایک آزاد اور جداگانہ اسلامی ریاست قائم کریں۔ ریاست اس لیے کہ قوموں کی زندگی جماعت کی زندگی ہے۔ افراد کے اتحاد و ارتباط نظم اور آئین کی۔ فرد اور جماعت میں ایک مخصوص کردار اور سیرت کی پرورش اور اس کی بقا اور تحفظ کا راز ہے۔ اس نصب العین کا حصول جو اس کی روحانی، اخلاقی، تہذیبی اور اجتماعی قدروں سے متعین ہوتا ہے۔ آزادی، خود اختیاری اور استقلال و استحکام اس کی شرط ضروری ہے۔ اسلامی اس لیے کہ اسلام میں دین و دنیا کا امتیاز ہے نہ ریاست اور کلیسا کی تفریق۔ وہ ایک اخلاقی نصب العین ہے اور ایک نظام مدنیت بھی۔ اس کو سیاست اور اجتماع میں میں بھی ایسا ہی دخل ہے۔ جیسے فرد کی زندگی میں۔ لہٰذا اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ وہ اسلامی ریاست جو ضرور تھا کہ ایک نہ ایک دن پاکستان کے نام سے معرض وجود میں آئے۔ اقبال ہی کی دیدہ وری اور سیاست فہمی کا نتیجہ ہے۔ اقبال ہی نے اس کی اساس معین کی۔ اقبال ہی نے بتایا کہ اس کی ہیئت و ترکیب کیا ہوگا۔ آئین و قوانین اور نصب العین کیا صورت اختیار کریں گے۔ پھر یہ اقبال ہی کی دور رس اور مردم شناس نگاہیں تھیں جنھوں نے دیکھا اور بالکل ٹھیک دیکھا کہ مسلمانانِ ہند کی تقدیر جس ریاست سے وابستہ ہے اس کا قیام کس کے ہاتھوں عمل میں آئے گا۔ اندریں صورت یہ کہنا کوئی مبالغہ نہیں کہ یہ دو قوموں کا نظریہ، یہ قرارداد لاہور، یہ قائداعظمؒ کی رہنمائی اور بالآخر پاکستان کی شکل میں ایک اسلامی ریاست کی تشکیل۔ یہ سب کرشمہ ہے اقبال ہی کے فکر و فراست کا۔ دراصل ہمیں اس حقیقت کے اعتراف میں تامل نہیں ہونا چاہیے کہ اگر ہم اقبال کے تجویز کردہ راستے پر نہ چلتے تو آج ہماری زندگی کا کچھ اور ہی عالم ہوتا ہم یقینا اس کا رشتہ اسلام سے نہ جوڑ سکتے۔ لہٰذا اقبال کسی فرد واحد کے خیالات اور نظریات کا مطالعہ نہیں، بلکہ اپنے ہی ماضی و حال اور مستقبل کا عکس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فکر اقبال یا دوسرے لفظوں میں اسلامی طرزِ زندگی کے احیا و تجدید کی اس تحریک سے غفلت جس کی اقبال نے نشان دہی کی، اپنے آپ سے غفلت ہے اور اپنے مقاصد حیات اور ملّی عزائم سے۔ بعینہٖ اقبال کی مخالفت، پاکستان کی مخالفت ہے اور ان آرزوئوں اور تمنائوں، فرائض اور ذمہ داریوں کی جو اس مملکت سے وابستہ اور اس کے ثبات و استحکام میں ہم پر عائد ہوتی ہیں۔ ایسے ہی اقبال پر اعتراض اور اقبال کی ناروا تنقید جیسا کہ بعض اوقات علم و حکمت کے نام پر کی جاتی ہے۔ اپنی ہستی اور اپنے وجود پر اعتراض ہے بلکہ غور سے کام لیا جائے تو اس کا سلسلہ بہت آگے جاپہنچتا ہے اس لیے کہ اقبال کے فکر و نظر کا حاصل تو یہی تھا کہ ہم اسلام کو اپنا شعار زندگی قرار دیں۔ لہٰذا اقبال سے انحراف و اختلاف کے معنی یہ ہوں گا کہ ہم اپنی زندگی کی بنا کسی دوسری اساس پر رکھیں اور یوں تاریخ کا رُخ پلٹتے ہوئے اس ساری جدوجہد کو غلط ٹھہرائی، جس کا تعلق ہمارے قریب اور بعید کے ماضی دونوں سے ہے۔ یہ حد درجے کی سفاہت ہی نہیں بلکہ ایسی غلطی ہوگی جس سے ہمارا مستقبل تاریک ہوجائے گا۔ یا پھر زیادہ سے زیادہ ہم یہ کرسکتے ہیں کہ مغرب کا اصول زندگی قبول کریں۔ لیکن اس اصول کو تو ہم پہلے ہی رد کرچکے ہیں، جسے اگر اب اختیار کریں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم اپنے ماضی و حال کی طرح ہر اس چیز کی نفی کردیں جو بمقابلہ دوسری قوموں کے ہمارا مابہ الامتیاز ہے۔ یوں بھی مغرب کا راستہ تاریکی اور ظلمت کا راستہ ہے اور انتشار اور خلفشار کا۔ اگر اس میں کوئی خوبی ہوتی تو آج ہم یہ نہ کہتے کہ مغربیت کی شکل میں جو سیلاب بلا ہماری تہذیب و ثقافت، حیاتِ ملّی اور اجتماعی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، اس کا راستہ روک دینا چاہیے۔ ہمیں اس امر پر افسوس نہ ہوتا کہ ہماری تعلیم، ہمارا ادب، ہماری معاشرت اور روزمرہ کی زندگی میں ان اصولوں اور قدروں کا اظہار کیوں نہیں ہوتا جن کے پیش نظر ہم ایک اسلامی معاشرے کی تاسیس کے آرزومند تھے۔ ہم ایسا کیوں نہیں کہتے ہیں کہ ہمیں چاہیے کہ اپنی سیرت اور کردار از سرنو اسلام کے سانچے میں ڈھالیں۔ بہرحال اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری زندگی میں اسلام کی روح کارفرما ہو۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم نے ایک اسلامی ریاست کی طرح ڈالی تو اس لیے کہ اسلام ہی وہ عالمگیر نظامِ سیاست اور جمعیت بشری کی تمہید ہے جو نوعِ انسانی کے لیے اتحاد و اتفاق، صلح و آشتی اور مادی اور اخلاقی فلاح و کامرانی کا پیغام لایا۔ ہماری خواہش ہے کہ انسانیت کبریٰ کا وہ خواب جس کی اقبال نے قرآن میں ایک جھلک دیکھی، شرمندہ تعبیر ہوجائے تو بحالت موجود ان تعلیمات کی عملی ترجمانی علیٰ ہذا عصر حاضر کی رعایت سے ان کی ذہنی اور عقلی اسا کے لیے جن کی بنا وحی و تنزیل پر ہے، ہم اقبال کے سوا اور کس کا درواز کھٹکھٹائیں گے؟ پھر یہ اقبال سے رجوع دراصل اسلام سے رجوع ہے۔ اس لیے کہ ہمیں اس سلسلے میں سروکار ہوگا تو اقبال کی ذات سے نہیں بلکہ اقبال کی اس بصیرت سے کہ انسان کے دکھ درد کا کوئی مداوا ہے تو شریعت مطہرہ اسلامیہ کی عملاً پابندی اور یہ وہ حقیقت ہے جس سے کسی مسلمان کو انکار نہیں ہوسکتا۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ پچھلے دس پندرہ برس سے اپنے اس دعوے کے باوجود کہ اقبال ہمارا قومی شاعر ہے، ہم نے تعلیماتِ اقبال کی ملّی اور اسلامی تصریحات سے جو غفلت اختیار کر رکھی ہے وہ حد درجہ افسوسناک ہے۔ اس کے بجائے کہ ہم ان تصورات سے آگے بڑھتے جن سے بطور ایک عالمی صداقت اور نظامِ علم و عمل کے ہمیں اسلام کے سمجھنے میں مدد ملی۔ لہٰذا ہم اس کے اصول و احکام کی مزید تشریح و توضیح کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی میں ان کی ترجمانی کرتے تاکہ یوں ہمارا قدم اس راستے سے ہٹنے نہ پاتا جس کی نشان دہی اقبال نے کی تھی۔ ہم اس پر گفتگو کرتے ہیں تو ایک انداز بے تعلقی میں۔ جیسے بحیثیت ایک قوم آج ہمیں جو مسائل درپیش ہیں، اقبال کو ان سے کوئی بحث نہیں۔ بحث ہے تو اس سے کہ زندگی کے شور و شغب یا عام روش سے ہٹ کر اگر کبھی ہمارے ذہن میں اس کی رفعت اور عظمت کا احساس پیدا ہو تو اقبال کے کسی شعر یا فلسفیانہ تصور سے تسکین یا اطمینان کی دولت حاصل کرلیں۔ یا پھر بہت ہوا تو ادب اور فن یا فلسفہ و حکمت کے راستے سے اقبال کی شاعری اور فکر کا جائزہ لینا شروع کردیا۔ یہ نہ دیکھا کہ اس کی نظم و نثر میں معارف اور حکم کے کیسے کیسے گوہر بکھرے پڑے ہیں۔ کسی نے تعریف کی، کسی نے تنقیص لیکن جس تعریف سے یہ راز نہ کھلے کہ بحالت موجودہ اقبال کے تصورات کی عملی تعبیر کیا ہوگی یا جس تنقیص سے ہماری اپنی ذات مجروح ہو اس سے فائدہ کیا؟ ضرورت تو اس امر کی ہے کہ فکر و فن کی بلندیوں سے اُتر کر ہم حقائق کی دنیا میں قدم رکھیں۔ اور دیکھیں کہ حکمت اقبال کے اس پس منظر یعنی اسلام کی روشنی میں جو گویا اساس ہے اس کے شعر ور فلسفہ کی ہم اپنی تہذیب و ثقافت کے احیا اور حیات اجتماعیہ کی تعمیر میں کس راستے پر قدم اٹھائیں… ہمارے دل میں ان حقائق کا واضح تصور ہونا چاہیے جن پر اسلام کے نزدیک زندگی کی عمارت قائم ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو اقبال کی تعریف و توصیف کا جذبہ بھی رائیگاں جائے گا۔ اس طرح ہم اقبال کی کاوش، فکر، بصیرت اور فراست سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکیں گے۔ اس حقیقت کو یوں سمجھیے کہ اپنے افکار اور تصورات کی عملی تعبیر میں اگر اقبال اسلام کا رُخ نہ کرتا تو اس کی شاعری اور فلسفہ کی حیثیت محض انفرادی ہوتی۔ وہ ہرگز ہرگز اس انقلاب کا سبب نہ بنتا۔ جس کی بدولت آج ہم آزادی اور خوداختیاری کی نعمتوں سے مالامال ہیں۔ لہٰذا، ضروری ہے کہ ہم ایک ایسی مرکزیت یا ایسی تحریک کی بنا ڈالیں جو فکر اقبال کی روشنی میں ان سب احوال، مسائل اور مشکلات کا جائزہ لے جو اس دستورِ حیات کی عملاً ترجمانی ہیں جس کا تعلق اسلام سے ہے، ایک رکاوٹ بن کر حائل ہیں۔ اس مرکزیت یا تحریک کا یہی ایک فرض نہیں ہوگا کہ ازروئے اسلام ہمارے دل و دماغ کی تربیت جس نہج پر ہونی چاہیے اس کا اہتمام کرے۔ جیسا کہ اقبال کی آرزو تھی۔ اس کا یہ بھی فرض ہوگا کہ زندگی کے ٹھوس اور غیر متبدل حقائق کی روشنی، علیٰ ہذا تہذیب و تمدن کے بدلتے ہوئے احوال اور افراد و اقوام کی مسلسل کش مکش کے پیش نظر اسلام کے اخلاقی، تہذیبی اور اجتماعی مقاصد اور قدروں کی ترجمانی، علم و حکمت اور زندگی کے نت نئے تقاضوں کے حوالے سے کرے۔ حقیقت وہی ہے جو زمان و مکان کا مضمون واضح ہے۔ جو ہماری سیرت و کردار میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ افکار اور خیالات۔ علیٰ ہذا فرد اور جماعت کی زندگی کا رُخ بدل دے۔ وہ نہیں جو خواب و خیال ہوکر رہ جائے۔ ہم نے جس معاشرے اور جس ریاست کی بنا ایک زبردست جدوجہد، ایثار اور قربانی سے ڈالی ہے اور اس کے لیے ہمیں جیسی جیسی مشکلات سے گزرنا پڑا۔ اس کا تصور اقبال نے پیش کیا تھا۔ اقبال ہی کے فکر و فراست، اقبال ہی کے ذوق و شوق اور جذب و گداز میں اس کے حفظ و بقا اور ثبات و استحکام کا راز پوشیدہ ہے۔ لہٰذا اگر میں کہوں کہ ہماری زندگی پاکستان سے ہے اور پاکستان کی اقبال سے، تو شاید اس پر کسی کو اعتراض نہ ہوگا۔ (اقبال پیامبر انقلاب مرتب: شورش کاشمیری، مکتبہ چٹان لاہور) حوالہ ۱- ضربِ کلیم، ص۱۶۱ ز……ز……ز اقبال اور ہم یومِ اقبال، ایک ملّی تقریب ہے اور اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ ذہنی اور روحانی اعتبار سے پاکستان کا اگر کوئی موسس تھا تو صرف اقبال لہٰذا اس موقعہ پر یہ سوال اُٹھانا بے جا نہ ہوگا کہ اقبال کیا تھے، ہم نے انھیں کیا سمجھا اور کیا سمجھ رہے ہیں۔ میرے خیال میں اقبال کے قدردانوں سے بڑھ کر شاید ہی کوئی ان کے اس قطعے کا لطف اُٹھاتا ہوگا جسے شاعر نے ایک طرح سے اپنی لوح تربت کے لیے تجویز کیا تھا اور جو ارمغانِ حجاز میں یارانِ طریقت کے زیر عنوان گویا ایک مستقل سوال ہے اس امر کے متعلق کہ ہم نے اقبال کو کیا سمجھا۔ قطعہ یہ ہے: چو رختِ خویش بر بستم ازیں خاک ہمہ گفتند باما آشنا بود! و لیکن کس ندانست ایں مسافر چہ گفت و با کہِ گفت و از کجا بود!۱؎ میں جب کبھی اس قطعے کو دیکھتا اور موجودہ حالات پر غور کرتا ہوں تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری توجہ ابھی تک اقبال کی شاعری پر ہے اور وہ بھی محض تسکین جذبات کے لیے، اقبال کے فکر، سے ہم تقریباً ناآشنا ہیں۔ حالانکہ اقبال نے شاعری کی تو اس لیے کہ وہ اپنی افتادِ طبیعت سے مجبور تھے گو ان کا کہنا یہ تھا کہ میری ذاتی مجبوری کچھ بھی ہو سمجھنے کی بات یہ ہے کہ میں کہتا کیا ہوں، یہ نہیں کہ میرے کہنے کا انداز کیا ہے۔ پھر اگر ان سیدھے سادھے الفاظ میں جو حقیقت کام کررہی ہے اسے اور زیادہ واضح طور پر سمجھنے کو جی چاہے تو اقبال ہی کی زبان سے سمجھیے: حق اگر سوزے ندارد حکمت است شعر می گردد چو سوز از دل گرفت۲؎ دراصل یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ اقبال کے سوزِ دل نے حکمت اور شعر کو ایک ہی زبان پر جمع کردیا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اقبال کی حکمت کو اقبال کے شعر سے الگ کردیں اور یوں اس ’حق‘ کے سمجھنے میں ناکام رہیں جو ان کی شاعری اور فلسفہ کی جان ہے۔ یہاں قطع نظر اس بحث سے کہ حکمت و شعر کی اس یکجائی نے ملّی اور انفرادی لحاظ سے کیا نتائج پیدا کردیے ہیں اس مسئلے کی اہمیت میں کوئی فرق نہیں آتا کہ اگر ایک فلسفی کا غور و فکر یا صاحب فن کی تخلیقات ہمارے لیے کوئی معنی رکھتی ہیں تو ہم ان کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اقبال کے طالب علم خوب جانتے ہیں کہ اس ضرورت کا خود انھیں کس قدر احساس تھا۔ ان کا باربار یہ کہنا: نہ بینی خیر ازاں مرد فرو دست کہ برمن تہمتِ شعر و سخن بست۳؎ من اے میر اُممؐ داد از تو خواہم مرا یاراں غزالخوانے شمردند۴؎ ایک طرح سے احتجاج تھا اس امر کے خلاف کے کہ ان کے قددانوں کی نظر محض ان کے فن پر ہے۔ رنگ و آب، شاعری پر، فن کے مشمول پر نہیں۔ اقبال جانتے تھے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا یہی کہ: دل ما از کنارِ ما رمیدہ بصورت ماندہ و معنی ندیدہ۵؎ پھر اس ’بصورت ماندن‘ اور ’معنی ندیدن‘ کا تعلق محض شعر و سخن سے ہوتا تو کوئی بات نہیں تھی۔ مشکل یہ ہے کہ اقبال کے ’شعر و سخن‘ میں ان کی حقائق کی ایک دنیا پوشیدہ ہے۔ چنانچہ یہی اندیشہ ان کے ایک انگریز مداح سر ڈینی سن راس۶؎ نے بھی ظاہر کیا تھا۔ سر ڈینی سن راس کے نزدیک اقبال کا اصلی کارنامہ ان کی شاعری نہیں بلکہ خطبات کا مجموعہ یعنی تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کیونکہ اقبال کے طالب علم زیادہ تر ان کے شاعرانہ حسن ادا سے مسحور ہوکر رہ جاتے اور ان کے افکار و خیالات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ یہ رائے ایک حد تک ٹھیک ہے اور اسی لیے مجھے کہنا پڑا کہ اقبال کے ’فکر‘ سے ہم تقریباً ناآشنا ہیں۔برعکس اس کے ہونا یہ چاہیے تھا کہ ہم اس ’فکر‘ کو عام کردیتے کیونکہ انسانی یا اسلامی کسی حیثیت سے دیکھا جائے زندگی کا کوئی مسئلہ نہیں جس پر اقبال نے غور نہ کیا ہو اور وہ بھی یہ جانتے ہوئے کہ اگر مسلمان اس نصب العین کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں جو اسلام کے پیش نظر ہے تو عالم انسانیت سے اپنا رشتہ جوڑ کر اور ان مقاصد اور تمنائوں میں حصہ لیتے ہوئے۔ جن سے زندگی میں کچھ حسن اور اس کے تقاضوں میں تھوڑے بہت معنی پیدا ہوجاتے ہیں۔ وہ خوب سمجھتے تھے کہ سیاسی اجتماعی اور روحانی اعتبار سے دنیا اس وقت کس مرحلے سے گزر رہی ہے۔ نوعِ انسانی کی مشکلات کیا ہیں۔ اندیشے کیا اور امیدیں کیا؟ لہٰذا مسلمانوں کا طرزِعمل موجودہ صورت حالات میں کیا ہونا چاہیے۔ دورِحاضر کے مسائل انھیں کس نقطۂ نظر سے حل کرنا ہوں گے۔ تاریخ و عمران اور انسانی تہذیب و تمدن کی گتھیاں وہ کس طرح سلجھائیں۔ علم و حکمت کے نئے نئے تصورات، اس کی روزافزوں وسعت، عالم مادیات کی تسخیر اور یوں بعض صورتوں میں ہمارے انفرادی اور اجتماعی مصالح سے اس کے تصادم کو روکنے کی کیا صورت ہے اور آخرالامر یہ کہ زندگی کے بنیادی حقائق کی تعبیر اور ان کے ماتحت اظہارِ ذات کے لیے ہمیں کیا راستہ اختیار ہوکہ اقبال نے ان سب باتوں پر غور کیا اور خوبی یہ ہے کہ ایک سچے مسلمان کی طرح اپنے ایماں و یقیں کی روشنی میں کیا۔ چنانچہ آج ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ مسائل حاضرہ کو جس پہلو سے دیکھیے اقبال نے اس میں اپنی رہنمائی کا فریضہ پوری ذمہ داری سے ادا کردیا ہے اور پھر پاکستان تو ان کا حسین ترین خواب تھا۔ بایں ہمہ سوال یہ نہیں کہ ہم نے ان کی آرزوئوں کی ترجمانی کس حد تک کی۔ یہ بھی نہیں کہ ہماری نشاتِ ثانیہ کی جو تمہید انھوں نے اٹھائی تھی اس کو ہم نے کہاں تک آگے بڑھایا۔ سوال یہ ہے کہ آیا ہم اقبال کو سمجھتے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ اس کا جواب کچھ بہت زیادہ تسلی بخش نہیں۔ مثال کے طور پر یہاں ان فلسفیانہ مسائل اور دقیق علمی بحثوں کا ذکر نہیں جن کا تعلق الٰہیات کا تاریخ و تمدن کی نزاکتوں سے ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ان کے فلسفیانہ خطبات آج بھی اہل فلسفہ کے لیے دردسر کا باعث ہوتے ہیں۔ لیکن ہم کیا ان ملّی اور عمرانی مسائل کو بھی نظرانداز کرسکتے ہیں جن کی حیثیت کل تک نظر مگر آج ایک آزاد اور خودمختار قوم کی حیثیت سے علمی اور بغایت عملی ہوچکی ہے۔ اس سلسلے میں ’’خضر راہ‘‘، رموزِ بے خودی، جاوید نامہ، ضربِ کلیم، پس چہ باید کرد اور ارمغانِ حجاز کے ان صفحات کی طرف اشارہ کردینا کافی ہوگا جو اسلام، عالم اسلام اور علیٰ ہذا نوع انسانی کے ایک جزو کی حیثیت سے ہمارے لیے نہایت گراں قدر ارشادات سے بھرے پڑے ہیں۔ پھر ایک اور نازک مسئلہ بھی ہمارے لیے حل طلب ہے اور وہ یہ کہ اقبال نے اسلام کی ترجمانی، جس رنگ میں کی ہے اس میں اور ہمارے دینی تصورات میں کوئی اختلاف تو نہیں۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ کام کسی ایک شخص کے کرنے کا نہیں لیکن ہمیں اس کام کی ضرورت اور اہمیت کا احساس بھی تو ہے۔ اگر یہ احساس موجود ہے اور اس کے ماتحت کوئی عملی قدم اُٹھایا گیا تو ہم شاید بجاطور پر کہہ سکیں کہ اقبال فی الواقع ایک نئے دور کے نقیب اور ان کی شاعری کاروانِ اسلام کے لیے بانگ درا کا حکم رکھتی تھی۔ لیکن اگر ایسا نہیں تو پھر اقبال ہی کی زبان سے مجبوراً یہ کہنا پڑے گا کہ ان کی ساری زندگی اور ساری شاعری ایک شعر میں جمع ہے: تھی کسی درماندہ رہرو کی صداے دردناک جس کو آوازِ رحیل کارواں سمجھا تھا ۷؎ (ہفت روزہ قندیل لاہور، ۲۱؍اپریل ۱۹۵۰ئ) حوالے اور حواشی ۱- ارمغانِ حجاز، ص۱۳۹ ۲- پیامِ مشرق، ص۱۰۶ ۳- زبورِ عجم، ص۱۴۶ ۴- ارمغانِ حجاز، ص۴۳ ۵- ارمغانِ حجاز، ص۱۴ ۶- سر ایڈورڈ ڈینی سن راس (۱۸۷۱ئ- ۱۹۴۰ئ) انگریز مستشرق، فارسی دان، مدرسہ عالیہ کلکتہ کے پرنسپل، لندن سکول آف اورینٹل اینڈ افریقین سٹڈیز کے اکتیس برس تک ڈائریکٹر رہے۔ ۷- بالِ جبریل، ص۱۸ ز……ز……ز اقبال اور ۱۹۷۳ء اقبال صدی کی تقریبات کا آغاز ۱۹۷۳ء میں ہوگیا تھا اور اہل علم اور اہل قلم فروغِ اقبالیات کا آغاز کرچکے تھے۔ گورنمنٹ کالج سرگودھا (اب اسے یونی ورسٹی کا درجہ دیا جاچکا ہے) کے مجلہ ضیابار میں رفیع الدین ہاشمی نے سے ایک قلمی مذاکرے کا اہتمام کیا جس میں ممتاز دانش وروں کو سوال نامہ بھیجا گیا۔ ان میں سیّد نذیر نیازی، ڈاکٹر محمد اسلم قریشی، پروفیسر عبدالشکور احسن، ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار، پروفیسر خالد علوی اور پروفیسر انیس اعظمی شامل تھے۔ سیّد نذیر نیازی نے جو مختصر جوابات دیے، ذیل میں وہ سوال نامے کے بعد دیے جارہے ہیں۔(مرتب) سوال نامہ (۱) اقبال صدی کے موقع پر علمی و ادبی حلقوں میں وہ جوش و خروش نظر نہیں آتا، جس کا اظہار غالب صدی کے موقع پر کیا گیا۔ آپ کے خیال میں اس کی وجوہ کیا ہیں؟ (۲) اقبال نے پاکستان کا تصور پیش کیا۔ یوں قیام پاکستان میں ان کا بڑا دخل ہے۔ لیکن آج پاکستان (گھٹ کر) نصف رہ گیا ہے۔ اگر اقبال زندہ ہوتے تو آپ کے خیال میں اُن کا ردِعمل کیا ہوتا؟ (۳) آپ نے اقبال کے کلام اور نثری تحریروں کا بالاستیعاب مطالعہ کیا ہوگا۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اقبال کی شخصیت اور فکر نے آپ کو کسی طور پر متاثر کیا؟ اس تاثر کی نوعیت کیا ہے؟ کیا آپ نے اقبال سے کوئی نیا تصور یا احساس حاصل کیا یا اقبال نے آپ کی ذہنی، فکری اور جذباتی زندگی کو کسی عنوان سے متاثر کیا؟ (۴) آپ کے خیال میں اقبال کا بحیثیت فنکار اور بحیثیت مفکر کیا مستقبل ہے؟ ہمیں جن حضرات گرامی کے جواب موصول ہوئے، ذیل میں سوالات کی ترتیب کے مطابق اُن کے جوابات درج کیے جارہے ہیں۔ (رفیع الدین ہاشمی) سیّد نذیر نیازی آپ کے سوالات کا جواب مشکل نہیں۔ اقبال سے اگر ہمیں وہ لگائو نہیں رہا جو کبھی تھا تو اس کی وجہ بجز اس کے اور کیا ہوسکتی ہے کہ اقبال کو جس چیز سے لگائو تھا، ہمیں اس سے لگائو نہیں ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟ یہ ایک بڑی طویل اور تلخ بحث ہے جس کا یہ موقع نہیں… اقبال نے کہا تھا اور خطاب ہمیں سے تھا۔ ’’قوم‘‘ سے: باقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیری اے کشتۂ سلطانی و ملائی و پیری۱؎ اقبال بھی سلطانی و ملائی و پیری میں دب گیا۔ اقبال کے لیے وہ جوش و خروش کیسے پید ہو جس کا آپ کو افسوس ہے کہ آج کہیں نظر نہیں آتا یا بہت کم نظر آتا ہے۔ اقبال کا فن تو آپ کے سامنے ہے۔ اس پر نقد و تبصرہ کی کیا ضرورت ہے۔ اقبال نے فن کا جو بھی معیار قائم کیا اور حقیقت یہ ہے کہ بجز اس کے فن کا کوئی معیار نہیں پھر اس کی تشریح تحریروں، تقریروں اور اپنے دواوین اشعار میں جس طرح کی، خود بھی ہر لحاظ سے اس پر پورا اُترا۔ میرے نزدیک فن کا مظہراتم: ہے رگ ساز میں رواں صاحب ساز کا لہو۲؎ ان کے ارشادات سے دل کو ہمیشہ تسکین ہوتی۔ الجھنیں اور پریشانیاں دور ہوجاتیں۔ بڑے بڑے ادق مسائل بڑی آسانی سے سلجھ جاتے۔ انسان بہت کچھ لے کر اٹھتا روحانی مسرت اور سب سے بڑھ کر دولت ایمان و یقین۔ حوالے اور حواشی ۱- ارمغان حجاز، ص۲۸ ۲- بالِ جبریل، ص۱۱۳ ز……ز……ز پروفیسر سیّد نذیر نیازی سے انٹرویو خالد بزمی [پروفیسر خالد بزمی (۱۲؍مارچ ۱۹۳۲ئ- ۱۳؍جولائی ۱۹۹۹ئ) بچوں کے ممتاز شاعر اور عربی زبان کے استاد تھے۔ گورنمنٹ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور اور بعد میں ایم اے او کالج لاہور میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ زبان دانی کا اعلیٰ شعور رکھتے تھے۔ بچوں کی شاعری اور نعت و حمد کے متعدد مجموعے شائع ہوئے۔ ابوالکلام آزاد پر نظموں کا ایک مجموعہ یادگارِ ابوالکلام کے نام سے مرتب کیا۔ انھوں نے سید نذیر نیازی سے ذیل کا انٹرویو ماہ نامہ ضیاے حرم لاہور میں شائع کیا تھا۔] حضرت علامہ اقبال کی محفلوں اور ملاقاتوں کا ذکر ہو تو ممکن نہیں کہ ان میں سے بیشتر موقعوں پر پروفیسر سیّد نذیر نیازی صاحب کا نام نہ آئے۔ بلامبالغہ سیّد صاحب اُن خوش نصیبوں میں شامل ہیں جنھیں حضرت علامہ کے افکارو نظریات خود ان کی زبان سے سننے اور ان کے بعض روزمرہ معمولات کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بیشتر مواقع میسر آئے۔ سیّد نذیر نیازی کا نام کسی بھی تعلیم یافتہ اور خاص طور پر اقبالیات کا مطالعہ کرنے والوں سے پوشیدہ نہیں ہے۔ آج علامہ اقبال اور ان کی تعلیمات کے بارے میں جو ادبی سرمایہ ہمارے سامنے موجود ہے، اُس میں سیّد صاحب کا حصہ بھی قابل قدر ہے۔ علامہ اقبال کے انگریزی خطبات Reconstruction of Religious Thought in Islam کا اُردو ترجمہ جو تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کے عنوان سے شہرت حاصل کرچکا ہے، وہ سیّد نذیر نیازی صاحب کا ایک ایسا کارنامہ ہے جو اقبال کے ساتھ ساتھ اُن کے نام کو بھی زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔ سیّد صاحب نے مذکورہ خطبات کے اُردو ترجمے کے ساتھ جو مقدمہ، حواشی اور تصریحات درج فرمائی ہیں، وہ بلامبالغہ اقبال کی تعلیمات کو سمجھنے اور سمجھانے کا اعلیٰ معیار ہیں۔ سیّد نذیر نیازی کی ایک اور قابل ذکر کتاب اقبال کے حضور کے زیرعنوان منظرعام پر آچکی ہے جس میں اقبال کی محفلوں کی ’’نشستیں اور گفتگوئیں‘‘ مذکور ہیں۔ یہ ضخیم اور عظیم کتاب ابھی اپنی جلد اوّل کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ اس کے مزید تین حصے ابھی چھپنے والے ہیں۔ سیّد صاحب کی ایک اور ضروری کتاب مکتوباتِ اقبال ہے جس میں تمام تر وہ خطوط شامل ہیں جو علامہ اقبال نے سیّد نذیر نیازی کے نام لکھے۔ اس مختصر تمہید سے سیّد صاحب کی علمی و ادبی حیثیت کا اندازہ مشکل نہیں ہے۔ ضیائے حرم میں ایک عرصے سے مشاہیر کے انٹرویو چھاپنے کا اہتمام ہے۔ زیرنظر شمارے کے لیے ایک روز میرے دوست عابد نظامی صاحب کہنے لگے کہ اس بار کسی ایسے شخص سے انٹرویو لینا چاہیے جسے علامہ اقبال سے خاص نسبت ہو۔ ہمارے ملک میں اس وقت وہ قحط الرجال ہے کہ ہم ان بیشتر شخصیات سے محروم ہوچکے ہیں جنھیں علامہ مرحوم کی محفلوں میں باقاعدگی سے شریک ہونے کا فخر حاصل تھا۔ بہت دیر تک سوچنے کے بعد میرے ذہن میں جو نام باربار آیا، وہ سیّد نذیر نیازی تھے۔ عابد صاحب نے اس نام سے اتفاق کیا اور مجھے کہنے لگے کہ اب یہ انٹرویو آپ کے ذمے ہے۔ میں نے وقتی طور پر یہ ذمہ قبول تو کرلی لیکن اب یہ سوچ رہا تھا کہ سیّد صاحب سے کہاں اور کب ملا جائے۔ ایک دو روز بعد حسن اتفاق سے میں اور عابد صاحب دنوں جناب عبدالعزیز خالد کی صاحبزادی کی تقریبِ شادی میں شامل تھے کہ وہاں سیّد نذیر نیازی صاحب بھی نظر آئے۔ عابد صاحب نے مجھ سے کہا: موقع اچھا ہے سیّد صاحب کو پکڑ لیجیے۔ ابھی ہم لوگ کھانے سے پوری طرح فارغ نہیں ہوئے تھے کہ میں نے سیّد صاحب کو اُن کی میز پر جالیا اور کسی قسم کے تکلف یا تمہید کے بغیر مدعا عرض کردیا۔ سیّد صاحب انتہائی نیک اور سادہ مزاج کے مالک ہیں۔ فرمانے لگے: آپ اس مقصد کے لیے کب آنا چاہتے ہیں؟ عرض کیا: بہت جلد، ایک دو روز میں کیونکہ ہمارا پرچہ تیاری کے آخری مراحل میں ہے۔ فرمایا: ٹھیک ہے، آپ جب چاہیں، آجائیں۔ سیّد صاحب سے دن اور وقت طے ہوگیا۔ عابد صاحب نے اس موقع پر میرے ساتھ چلنے کا وعدہ کرلیا تھا، لیکن یومِ موجود پر وہ ’’بھولے بادشاہوں‘‘ کی طرح بالکل بھول گئے۔ میں نے ان کو یاد دلانے کے لیے ایک گھنٹہ پہلے اپنے بیٹے احمد خلدون کو اُن کے دفتر میں بھیجا تو داغ کے قول کے مطابق ان کی وہی کیفیت تھی کہ: آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا بہرحال کچھ دیر بعد میں اپنا سکوٹر لے کر اُن کے سر پر موجود تھا۔ ایک گھنٹہ پہلے یاد دلانے کا یہ فائدہ تھا کہ عابد صاحب نے جلدی سے کچھ سوالات لکھ لیے، لیکن داد دینی پڑے گی کہ سوالات سب کے سب ضروری اور کام کے تھے۔اس انٹرویو میں سوالات عابد صاحب کے اور جوابات سیّد نذیر نیازی صاحب کے ہیں،گویا جس طرح مرزا داغ نے کہا تھا: آنکھ نرگس کی ، دہن غنچے کا ، حیرت میری اپنی تصویر پہ نازاں ہو ، تمھارا کیا ہے؟ اسی طرح عابد صاحب مجھے طعنہ دے سکتے ہیں کہ اس انٹرویو میں ……… تمھارا کیا ہے؟ بہرحال کوئی کچھ بھی کہے، اس انٹرویو پر نام تو میرا ہی لکھا جائے گا۔ سیّد نذیر نیازی صاحب مجلس ترقی ادب، ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ اور بزمِ اقبال کے دفاتر کے پاس کلب روڈ پر رہتے ہیں۔ ہم نے سیّد صاحب کا مکان پہلے دیکھا ہوا نہیں تھا، لیکن وہاں وہ اس قدر معروف ہیں کہ ایک چائے خانے کے مالک سے پوچھنے کے بعد دوسرے لمحے ہم سیّد صاحب کے دروازے پر دستک دے رہے تھے۔ سیّد صاحب کے ایک صاحبزادے نے اندر جاکر اپنے ابا کو اطلاع دی، تو سیّد صاحب شاید ابھی سو کر اُٹھتے تھے۔ وہ دروازے پر تشریف لائے تو اُن کی آنکھوں میں نیند کے اثرات اُجاگر تھے۔ غالباً سیّد صاحب کو تھوڑی ہی دیر بعد کہیں جانا تھا، اس لیے کسی غیر رسمی گفتگو کے بغیر میں نے پہلا سوال یوں عرض کردیا، جیسے شاعر مطلع عرض کیا کرتے ہیں۔ پہلا سوال سیّد صاحب کے تفصیلی تعارف کے بارے میں تھا۔ سیّد صاحب نے فرمایا، اس سوال کو آخر میں لے جائیے چنانچہ ان کے حکم سے مطلع آخر میں جاکر مقطع بن گیا۔ دوسرا سوال تھا کہ علامہ کے خاندان سے آپ کے روابط کس قسم کے تھے؟ سیّد صاحب نے فرمایا: علامہ اقبال کے نامور استادِگرامی شمس العلما مولانا سیّد میر حسن میرے حقیقی چچا تھے۔ آپ اس سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ علامہ کے خاندان اور ہمارے خاندان میں کس قدر گہرا ربط تھا۔ علامہ اقبال اور سیّد میر حسن کے صاحبزادے سیّد محمد تقی ایک دوسرے کے ہمجولی تھے اور دونوں لڑکپن میں ایک ساتھ کبوتر اڑایا کرتے تھے۔ اسی طرح سیّد میر حسن کے دوسرے صاحبزادے سیّد بشیر حیدر بھی علامہ کے دوستوں میں شامل تھے۔ میں اپنی عمر کے اعتبار سے چھوٹا تھا، لیکن میرے والد ماجد سیّد عبدالغنی اور علامہ اقبال کے درمیان بھی مخلصانہ تعلقات قائم تھے۔ادھر بزرگوں میں علامہ اقبال کے والدِ گرامی شیخ نور محمد سیّد میر حسن بھی ایک دوسرے کے گہرے دوست تھے۔ ہمارا تیسرا سوال علامہ کے قابل قدر استاد مولانا سیّد میر حسن مرحوم کی شخصیت کے تفصیلی تعارف کے بارے میںتھا۔ اس کے جواب میں سیّد صاحب نے فرمایا: ہمارے دادا سیّد محمد شاہ طبیب تھے اور اُس زمانے کی روایت کے مطابق بہت دیندار تھے۔ میرے والدِ مکرم بھی حافظِ قرآن تھے۔ پرانی وضع کے ان لوگوں کو دینی ماحول میسر آتا تھا۔ سیّد میر حسن مرحوم بھی اسی دینی ماحول میں پل کر جواں ہوئے تھے۔ بڑے ہوکر انھوں نے اپنی محنت سے علم حاصل کیا تھا۔ لوگ عام طور پر انھیں مولوی کہتے تھے۔ سیّد میر حسن کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو اُن کی طبیعت کا استغنا تھا۔ اُن کے شاگردوں میں مسلمانوں کے علاوہ ہندو، سکھ اور پادری تک شامل تھے۔ جن میں بعض نے مولوی صاحب کے قرب کی وجہ سے ایم اے تک عربی پڑھی۔ عیسائی تک اُن کی عزت کرتے تھے اور اُن کی وجہ سے اسلام کے بھی گرویدہ تھے۔ مولوی صاحب کی زندگی درویشانہ تھے۔ وہ گاڑھے کی چادر بھی باندھ لیا کرتے تھے۔ مزاج کے اعتبار سے وہ مرنجاں مرنج تھے۔ بے تکلف احباب کی محفل میں وہ ظرافت کا اظہار بھی کرتے تھے لیکن یہ ظرافت عمدہ اور بے ضرر تھی۔ اس میں پھکڑپن کبھی نہیں آتا تھا جو کسی کی طبیعت پر بارہو یا ناگوار محسوس ہو۔ مثال کے طور پر ایک واقعہ یا لطیفہ سن لیجیے۔ مولوی ظفر اقبال، سیّد میر حسن کے شاگرد تھے۔ ایک روز سبق کے بعد دونوں اُٹھے تو ظفر اقبال صاحب نے احتراماً اپنے استاد کا جوتا اُٹھا کر انھیں پہنانا چاہا تو سیّد میر حسن نے فرمایا: بھئی! یہ کیا کررہے ہو۔ یہ میرے جوتے ہیں… اُس زمانے میں ایک ہندو جج سخت متعصب تھا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ میرے پاس کسی مسلمان کا مقدمہ آئے اور میں اس کے برخلاف فیصلہ دوں، لیکن یہی ہندو مولوی صاحب کے علم و اخلاق کا اس قدر گرویدہ تھا کہ اکثر ان کے پاس آکر بیٹھا کرتا تھا۔ سیّد میر حسن کی شخصیت میں شعورِ ملّی بہت گہرا تھا۔ اقبال پر اُن کے اس وصف کا بھی بہت اثر تھا۔ مولوی صاحب کی ذات پر اسلامی حمیت کا بھی غلبہ تھا۔ لوگ انھیں ولی اللہ سمجھتے تھے۔ وہ واقعہ تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جب حکومت نے علامہ اقبال کو سر کا خطاب دینا چاہا، تو اقبال نے کہا تھا کہ پہلے میرے استاد سیّد میر حسن کو شمس العلما کا خطاب ملنا چاہیے اس پر یہ اعتراض کیا گیا کہ ان کی کوئی تصنیف نہیں ہے اس پر اقبال نے جواب دیا تھا کہ ان کی تصنیف میں جو ہوں۔ اقبال مولوی صاحب سے بہت ادب کے ساتھ ملا کرتے تھے۔ ایک بار سرسیّد پنجاب آئے۔ گرمی کا موسم تھا۔ گرمی محسوس کرکے انھوں نے سیّد میر حسن سے کہا کہ کیا یہی پنجاب ہے جسے آپ انتخابِ ہفت کشور کہتے ہیں؟ سیّد میر حسن نے برجستہ جواب دیا کہ اگر ہندستان (اب پاکستان اور بھارت) جنت نشان ہے تو پنجاب بھی بلاشبہ اس خطاب کا حقدار ہے۔ سیّد نذیر نیازی صاحب سیّد میر حسن مرحوم کے بارے میں یہ ضروری اور دلچسپ معلومات ارشاد فرما رہے تھے تو عابد نظامی صاحب نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ان کے بارے میں کوئی کتاب ہونی چاہیے۔ اس پر نیازی صاحب نے فرمایا: میں ان کے سوانح لکھنے کی کوشش کررہا ہوں۔ ہمارا چوتھا سوال تھا کہ آپ کو علامہ کی کس چیز (تعلیمات یا شخصیت) نے متاثر کیا؟ اس کے جواب میں سیّد نذیر نیازی صاحب نے فرمایا: میں جب ہوش سنبھالا تو شعر و ادب کا دور تھا اور علامہ اقبال کا نام خاصا نمایاں تھا۔ میں بہت عرصہ سے ان کا نام سن رہا تھا۔ مجھے ان کی شخصیت یا تعلیمات میں سے جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا۔ وہ علامہ اقبال کی اسلامی فکر تھی۔ علامہ کی تعلیمات کا مقصد وحید اسلام کی تعمیر ہے۔ میں نے اسلامی افکار و نظریات کا مطالعہ کرنا چاہا تو اقبال کے سوا اور کہیں میری تسلی نہیں ہوسکی۔ دیکھیے میں جب یہ کہتا ہوں تو اس سے دیگر اسلامی شخصیات کا استخفاف مقصود نہیں۔ بات یہ ہے کہ بہ ہمہ وجوہ مجھے اس سلسلہ میں اقبال ہی نمایاں نظر آئے۔مثال کے طور پر مولانا محمد علی جوہر بھی اسلام اور ایمان کا نمونہ تھے لیکن وہ میری نظر میں مفکر کے مقابلے میں ایک سرفروش اور جاں بکف مجاہد زیادہ تھے۔ سوال: علامہ اقبال کو تصورِ پاکستان کا بانی کہا جاتا ہے، اس کی تفصیل؟ اس سوال کے جواب میں سیّد صاحب نے فرمایا: یہ درست ہے کہ علامہ اقبال تصورِ پاکستان کے بانی تھے۔ انھوں نے مسلمانوں کے لیے اپنے زمانے کے حالات کا مقابلہ کرنے کی خاطر صحیح راہ متعین فرمائی۔ جدید سیاسی نظریات کی کشاکش میں انھوں نے ثابت کرکے دکھایا دیا کہ ہر اعتبار سے اسلامی تصور ہی ہمارا نصب العین ہے۔ اس سلسلے میں الٰہ آباد کا خطبہ ان کا بڑا کارنامہ ہے۔ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں ۱۹۳۵ء کا دور اس اعتبار سے بہت مایوس کن تھا کہ بڑے بڑے لوگ اللہ کو پیارے ہوچکے تھے۔ قومی تعمیر اور سیاست کا میدان خالی تھا۔ اس مایوسی کے دور میں اقبال ہی قائداعظم کو دوبارہ سیاست میں لائے۔ اقبال کو قائداعظم پر بہت اعتماد تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ قائداعظم کے دائو پیچ سے واقف ہیں۔ اُس دور میں بعض چوٹی کے مسلمان راہنمائوں کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو کانگریس کے ساتھ مل کر ملکی آزادی کے لیے کام کرنا چاہیے لیکن اقبال کو اس خیال سے اختلاف تھا۔ وہ آزاد مسلم لیڈرشپ کے حامی تھے۔ انھوں نے اس مقصد کے پیش نظر قائداعظم کا انتخاب کیا تھا اور قائداعظم نے پاکستان کے حصول کے لیے جو جدوجہد فرمائی، اس کا تصورِ اقبال ہی کے ذہن کی پیداوار تھا۔ اس سے اگلا یعنی چھٹا سوال تھا کہ فکر اقبال کی بنیادیں کیا ہیں؟ ان کی مختصر وضاحت فرما دیجیے! اس سوال کے جواب میں سیّد نیازی صاحب نے فرمایا کہ فکر اقبال کی بنیاد اسلام اور صرف اسلام ہے۔ ارمغانِ حجاز میں میں اقبال کہتے ہیں کہ شنیدم آنچہ از پاکانِ ملت۱؎ ترا با شوخیِ رندانہ گفتم۱؎ اقبال فرماتے تھے کہ مجھ سے پہلے ملت اسلامیہ کے اسلاف جو کچھ کہہ چکے ہیں، وہی میں کہتا ہوں۔ فرق صرف یہ ہے کہ میں وہی بات نئے انداز سے کہہ رہا ہوں۔ اقبال نے پس چہ باید کرد میں حضور نبی اکرم ا کو مخاطب کرکے کہا ہے: ایں ہمہ از لطفِ بے پایانِ تست۲؎ فکر ما پروردۂ احسانِ تست۲؎ ساتویں سوال میں سیّد صاحب سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ وہ کم از کم الفاظ میں تعلیماتِ اقبال کا خلاصہ بیان فرما دیں۔ سیّد صاحب نے فرمایا: کم از کم الفاظ اور تعلیمات اقبال کا خلاصہ؟ یہ خاصا مشکل معاملہ ہے۔ بہرحال آپ یوں سمجھیے کہ تعلیماتِ اقبال کے مطابق اسلام ہی صداقت ہے۔ اسلام ہی سے فرد اور جماعت کی زندگی بنتی ہے۔ اسلام ہی تعمیرِ شخصیت کے سلسلے میں ہماری مکمل راہنمائی کرتا ہے۔ سیرت و کردار کی تشکیل بھی اسلام ہی کی بدولت ہوتی ہے۔ اسلام ہی کی بدولت نظامِ تمدن محکم ہوسکتا ہے اور خاص انسانی معاشرہ عمل میں آسکتا ہے۔ اگر یہاں اسلام جاری و ساری ہوجائے تو نسلوں اور قوموں کی کشاکش ختم ہوجائے اور دنیا میں امن و امان اور خیر و سعادت کا دور دورہ ہو۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ نوعِ انسانی ایک وحدت ہوجائے اور مختلف مدارجِ حیات میں ترقی کرے تو یہ اسلام ہی کی بدولت ممکن ہے اس سلسلے میں حضورِ اقدس ا کا اسوۂ حسنہ اور آپؐ کی ذاتِ گرامی ایک کامل مثال کے طور پر ہماری راہنمائی کرتی ہے۔ حضور علیہ السلام کی ذاتِ مبارکہ سے مکمل راہنمائی حاصل کرنے کے لیے ہمارے دلوں میں آپؐ کی غایت درجہ محبت ہونی چاہیے۔ آپؐ کی ذاتِ گرامی سے ہمارا تعلق ’’عشق‘‘ کی حد تک ہونا چاہیے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ جب تک ایک مرید کو اپنے پیر سے جذباتی لگائو نہ ہو، وہ اس سے پوری طرح ہدایت حاصل نہیں کرسکتا۔ اقبال کی تعلیمات میں خودی کا نظریہ بھی بہت نمایاں ہے۔ خودی کیا ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ اگرچہ انسان فانی ہے لیکن اس کے باوصف اس کی یہ زندگی بے کار نہیں ہے۔ اس کا ایک مستقبل ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اپنے مستقبل کو حاصل کرنے اور اسے بہتر سے بہتر بنانے کے لیے جدوجہد اور تگ و دو کرے۔ اس منزل کے حصول کے لیے سب سے پہلے انسان اپنے آپ کی حقیقت کو سمجھے۔ یہی خودی ہے۔ اقبال کے نزدیک وحدت الوجود اور وحدت الشہود کی بحثیں چھیڑنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ انسان کو صرف یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کے وجود کا آخری کوئی مقصد ہے۔ آٹھویں سوال کی عبارت قدرے طویل تھی کہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ علامہ اقبال نے بسترِمرض (یا مرگ) پر تین معرکہ آرا لڑائیاں لڑیں ۱- قادیانیوں کے خلاف۔ ۲- کمیونسٹوں کے خلاف۔ ۳- اسلامی قومیت کے منکروں کے خلاف۔ ان معرکہ آرائیوں کی کچھ تفصیل؟ اس سوال کے پہلے حصے کا جواب نیازی صاحب نے یہ ارشاد فرمایا کہ قادیانیوں کے خلاف علامہ نے جو لڑائی تھی، وہ بہ رعایت عقیدۂ ختم نبوت تھی۔ علامہ صرف عقیدے کی حد تک قادیانی تحریک کا انسداد درست نہیں سمجھتے تھے، وہ چاہتے تھے کہ اس تحریک سے ملتِ اسلامیہ کو جو نقصانات پہنچتے ہیں، ان کا انسداد کیا جائے۔ اس موقعے پر عابد نظامی صاحب نے اس امر کی وضاحت چاہی کہ اُس دور میں اقبال کو ایسا چاہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ سیّد صاحب نے وضاحت فرمائی: اس لیے کہ قادیانی تحریک کا مقصد اتحادِ اُمت کو ختم کرنا تھا۔ اسی لیے علامہ ’’کشمیر کمیٹی‘‘ سے بھی الگ ہوگئے تھے جس میں سوئے اتفاق سے قادیانی گھس گئے تھے۔ سوال کے دوسرے حصے کے سلسلے میں گزارش ہے کہ اقبال کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں سے اس لیے برسرِپیکار تھے کہ وہ اس حقیقت سے پوری طرح باخبر تھے کہ ہمارے سیاسی اور معاشی مسائل کا حل وہ نہیں ہے جوسوشلسٹ پیش کرتے ہیں، بلکہ وہ ہے جو اسلام پیش کرتا ہے، وہ کسی حالت میں بھی اسلام کو لادین نظریات سے نیچے نہیں لانا چاہتے تھے۔ جہاں تک اس سوال کے تیسرے حصے کا تعلق ہے۔ علامہ مرحوم مسلمانوں کو ایک دینی جماعت کے ساتھ ساتھ سیاسی قوت بھی مانتے تھے۔ اس لیے جو مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ سیاسی اشتراک کے قائل تھے، علامہ کو اُن سے شدید اختلاف تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریسی مولویوں سے انھیں بھرپور جنگ لڑنی پڑی۔ ہم جو سوال نامہ اپنے ساتھ لے کر گئے تھے۔ اُس کے علاوہ ایک دو سوال اسی وقت میرے ذہن میں آئے۔ اُن میں سے ایک سوال یہ تھا کہ آج جو لوگ علامہ کے ساتھ اپنی دوستی اور بے تکلفی کے افسانے سناتے ہیں، ان میں سے دراصل کون کون ثقہ راوی ہیں؟ اس کے جواب میں سیّد صاحب نے کہا کہ علامہ سے ملنے والوں کو مختلف ادوار میں منقسم کیا جاسکتا ہے، پھر ان لوگوں کو محدود بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اصل میں ان کی محفل میں ہر قسم کے لوگ آتے تھے۔ باقی جو لوگ آج اپنی دوستی اور بے تکلفی کا اظہار کرتے ہیں، اُن میں بعض مبالغہ آرائی کرتے ہیں۔ اس موقع پر میں نے ایک یہ سوال کیا کہ علامہ کی محفل کا کوئی دلچسپ واقعہ سنائیے؟ جواب میں سیّد صاحب نے کہا کہ ایسے واقعات متعدد ہوسکتے ہیں۔ اس وقت میرے ذہن میں یہ واقعہ آرہا ہے کہ جہلم سے کچھ لوگ حضرت علامہ سے ملنے آئے۔ پہلے وہ لوگ پنجابی کے صوفی شاعر میاں محمد بخش مرحوم کی کتاب سیف الملوک کے کچھ حصے سناتے رہے اور پھر علامہ اقبال کے کچھ اشعار سنا کر کہنے لگے کہ جو کچھ میاں صاحب نے کہا ہے، آپ بھی ویسی ہی باتیں کہتے ہیں۔ اس پر علامہ مسکرائے اور فرمایا: ’’سو سیانے اکو مت، میں کجھ ہور کہناں اے؟ یعنی تمام عقل مند ایک ہی بات کہتے ہیں۔ میں ان سے الگ کوئی باتیں کیوں کہوں گا؟‘‘ ہماری ترتیب کے مطابق آخری سوال یا درخواست یہ تھی کہ ضیائے حرم کے قارئین کے نام کوئی پیغام دیجیے؟ سیّد صاحب نے فرمایا کہ قارئین ضیائے حرم کے لیے میرا پیغام یہی ہے کہ معمارِ حرم! باز بہ تعمیرِ جہاں خیز ہمارے سب سے پہلے سوال ’’اپنے تفصیلی تعارف‘‘ کے سلسلے میں سیّد نذیر نیازی صاحب نے آخر میں فرمایا: میرا سالِ ولادت ۱۹۰۰ء ہے۔ آپ یہ سن کر حیران اور شاید پریشان بھی ہوں گے کہ میں نے میٹرک تک سکول کی تعلیم قادیان میں حاصل کی۔ اس زمانے کا ایک واقعہ سنیے کہ ہمیں سکول میں تاریخِ اسلام کے معروف مرتب اکبر شاہ خان نجیب آبادی پڑھاتے تھے۔ انھوں نے ایک روز ہمیں خط لکھنے کا طریقہ سکھایا۔ تو اوپر کونے میں لکھا: ’’از قادیان دارالامان‘‘ مجھے اپنے گھر کے دینی ماحول کے باعث اُس زمانے میں بھی معلوم تھا کہ مرزائیت غیر اسلامی تحریک ہے۔ چنانچہ میں نے اپنی کاپی پر قادیان دارالامان کے بجائے لکھا: ’’قادیان دار الشیطان‘‘ اکبر شاہ خاں مرحوم نے میری کاپی دیکھی تو آپے سے باہر ہوگئے اور میرے ہاتھ پر تڑاخ تڑاخ بید لگانے لگے۔ پھر یہ بات آئی گئی ہوگئی۔ کئی سال بعد ۱۹۲۸ء میں ایک روز میں علامہ اقبال کے ہاں میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں تھا کہ علامہ کے ملازم علی بخش نے اند رآکر علامہ سے کہا۔ ایک صاحب اکبر شاہ خاں نجیب آبادی ملنے آئے ہیں۔ وہ اب مجھے پہچانتے نہیں تھے۔ لیکن میں تو خوب پہچانتا تھا۔ میں نے جب انھیں بتایا کہ میں ان کا شاگرد رہا ہوں اور انھوں نے مجھے مذکورہ واقعے پر سزا دی تھی، تو وہ افسوس کرنے لگے کیونکہ وہ اب مرزائیت سے تائب ہوچکے تھے۔ انٹرمیڈیٹ میں نے مرے کالج سیالکوٹ سے پاس کیا۔ اس کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں آگیا۔ پھر تحریک خلافت کے باعث علی گڑھ چلا گیا۔ کچھ عرصہ جامعہ ملیہ دہلی میں بھی رہا۔ ۱۹۳۶ء میں میں وہاں لیکچرار ہوگیا۔ وہاں اُن دنوں دیگر اساتذہ میں ڈاکٹر ذاکر حسین، خواجہ عبدالحئی فاروقی، ڈاکٹر عابد حسین اور اسلم جیراج پوری وغیرہ بھی تھے۔ ۱۹۳۵ء میں میں نے علامہ کے کہنے پر دہلی سے ماہنامہ طلوعِ اسلام جاری کیا۔ اس وقت طلوعِ اسلام کی پالیسی اسلامی ریاست کے قیام کی تائید کی تھی۔ علامہ کے انگریزی خطبات کا ترجمہ میں نے علامہ کے کہنے پر کیا تھا۔ پاکستان کے قیام سے پہلے میں مسلم لیگ کی پبلسٹی پر بھی مامور رہا۔ میں نے تحریک خلافت میں بھی حصہ لیا تھا۔ ایک دور میں سول سروس اکیڈمی میں بھی لیکچر تیار رہا۔ میری جو کتابیں چھپ چکی ہیں، اُن میں تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، مکتوباتِ اقبال اور اقبال کے حضور کے علاوہ کئی کتابوں کے تراجم بھی شامل ہیں۔ جب ہم اس انٹرویو سے فارغ ہوکر سیّد نذیر نیازی صاحب کی کوٹھی سے باہر آرہے تھے تو ہم دونوں کے ذہنوں میں ایک ہی تاثر تھا کہ سیّد صاحب کی سادہ اور مختصر شخصیت کو دیکھ کر بظاہر کوئی شخص یہ تصور بھی نہیں کرسکتا کہ ان کے اندر اس قدر عظیم عالم و فاضل اور محقق پوشیدہ ہے، جس نے اقبالایت میں اس قدر قابل قدر اضافے کیے ہیں۔ (ماہنامہ ضیائے حرم لاہور، اپریل ۱۹۷۵ئ) حوالے ۱- ارمغانِ حجاز، ص۱۰۴ ۲- پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق، ص۴۸ ز……ز……ز حیاتِ اقبال: غیر مطبوعہ گوشے، غیر مطبوعہ باتیں (سیّد نذیر نیازی کے تاثرات) علامہ اقبال مرحوم کے استاد مولوی میر حسن کے حقیقی بھتیجے سیّد نذیر نیازی ۱۹۳۶ء سے ان کی وفات تک علامہ کے پاس رہے۔ ان کے معمولات، افکار اور اشعار کے مایۂ خصوصی سمجھے جاتے ہیں اور اگر اقبال کے حضور میں کتاب میں اپنی اس دور کی ڈائریوں کی مدد سے علامہ کی محفلوں کی تفصیل لکھ چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ان کے پاس دو کتابوں کا مزید مواد ڈائریوں میں محفوظ پڑا ہے، وہ انھیں بھی شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، سیّد نذیر نیازی نے تحریک خلافت کے وقت کی تحریک عدمِ تعاون میں بھرپور حصہ لیا۔ کالج کی تعلیم چھوڑی، علی گڑھ گئے اور علی گڑھ مسلم کالج چھوڑ کر نیشنلسٹ مسلمانوں کے جامعہ ملیہ میں داخلہ لے لیا۔ وہ اس کالج کے بانی طلبہ میں شمار ہوتے ہیں۔ بھارت کے سابق صدر ڈاکٹر ذاکر حسین کے ہمجولیوں میں سے ہیں۔ خان عبدالقیوم خان کے ہم جماعت۔ انھوں نے ۱۹۲۹ء سے ۱۹۴۶ء تک جامعہ ملیہ میں گزارے۔ صرف ۱۹۳۶ء سے ۱۹۳۸ء تک یہ تعلق منقطع رہا۔ سیّد نذیر نیازی کے والد سیّد عبدالغنی مولوی میر حسن کے چھوٹے بھائی تھے اور محکمہ ڈاک میں ملازم تھے۔ ان کی پیدایش مارچ ۱۹۰۰ء میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم دنیا نگر ضلع گورداس پور میں حاصل کی۔ ۱۹۱۶ء میں مڈل کرنے کے بعد قادیان میں میٹرک میں داخلہ لیا، کیونکہ ان کے والد کا تبادلہ قادیان میں ہوگیا تھا… میٹرک کرنے سے پہلے ہی والد کے تبادلے کی وجہ سے سیالکوٹ منتقل ہونا پڑا۔ میٹرک سکاچ مشن ہائی سکول سے کیا۔ مرے کالج سیالکوٹ میں پڑھتے تھے او رمسلم ایسوسی ایشن کے معتمد تھے۔ جنگ عظیم زوروں پر تھی۔ ایسوسی ایشن نے ایک مسلمان کانگریسی وکیل آغا محمد صفدر کو اپنے اجلاس میں بلالیا۔ انگریز پرنسپل ناراض ہوئے اور پوچھا کہ تم ترکوں کے حامی ہو۔ ایسوسی ایشن والوں نے کہا: نہیں، ہم مسلمانوں کے حامی ہیں۔ پرنسپل نے کہا: ’’ترک بھی تو مسلمان ہی ہیں‘‘ اور ایسوسی ایشن پر پابندی لگا دی۔ ایسوسی ایشن کے ارکان نے پرنسپل کو تنگ کرنے کے لیے اپنے اصلی ناموں کے ساتھ ترک رہنمائوں کے ناموں کا اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ناموں کی قرعہ اندازی میں نذیر احمد کے حصہ میں ’’نیازی‘‘ آیا اور وہ نذیر احمد نیازی ہوگئے اور کثرتِ استعمال کی وجہ نذیر نیازی رہ گئے۔ اس طرح وہ دنیا کے واحد اور پہلے سیّد نیازی ہیں اور اپنے اس فرقِ نیازی کو ظاہر کرنے کے لیے اپنے نام سے پہلے باقاعدہ سیّد لکھنے پر مجبور ہیں، ورنہ وہ کہتے ہیں، میں ایسی چیزوں کو اہمیت نہیں دیتا۔ انٹر کرنے کے بعد لاہور میں اسلامیہ کالج میں بی اے میں داخلہ لیا۔ جلیانوالہ باغ کے قتل عام کے بعد کرفیو کے دنوں میں وہ ہوسٹل میں ہوتے تھے اور اصل کرفیو کی حقیقت کے عینی شاہد ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس وقت ہنری مارٹن نامی ایک انگریز اسلامیہ کالج کے پرنسپل ہوتے تھے جو اکنامکس پڑھایا کرتے تھے۔ ایک روز وہ کلاس میں آئے تو کہا: "Gandhi is again up for Mischief" پرنسپل کے ایسا کہنے پر میں کھڑا ہوگیا اور کہا: "I Protest" اس پر پرنسپل سے لڑائی شروع ہوئی اور ۱۹۲۰ء میں عدمِ تعاون کی تحریک کا آغاز ہوا، تو ہم نے محمد علی جوہر وغیرہ کو کالج میں بلایا، پرنسپل کو پسند نہ آیا۔ اس نے مجھے، سوہدرہ کے عبداللہ ملک اور فیروزپور کے عبدالستار کو کالج سے نکالنے کا حکم جاری کردیا۔ ہم نے کالج چھوڑنے سے انکار کردیا کہ آپ انجمن کے ملازم ہیں اور کالج مسلمانوں کا، ہمیں نکالنے کا فیصلہ صرف انجمن کرسکتی ہے۔ علامہ اقبال ان دنوں انجمن کے سیکرٹری تھے۔ انجمن کے اجلاس میں انھوں نے ہماری حمایت کی اور سرفضل حسین نے پرنسپل کی۔ کمیٹی کے اجلاس میں ہنگامہ ہوگیا۔ اقبال کو لڑکوں نے ہار پہنائے اور فضل حسین کو دھکے دیے۔ پرنسپل مارٹن اور اس کے حامی پروفیسر عبدالحمید کو لڑکوں نے کالج سے نکال دیا۔ اس واقعے کی وجہ سے انجمن نے کالج بند کردیا اور نذیر نیازی مائیگریشن کراکر علی گڑھ مسلم کالج چلے گئے۔ علی گڑھ میں بھی عدمِ تعاون کی وجہ سے مسلم کالج چھوڑنا پڑا اور ملیہ کالج کے قیام کے بعد اس میں چلے گئے، جہاں ڈاکٹر ذاکر حسین اور خان قیوم وغیرہ ان کے ساتھ ہوتے تھے۔ ان کے استادوں میں اسلم جیراج پوری اور مولانا محمد ثوافی وغیرہ شامل ہیں۔ ملیہ کالج سے بی اے کی ڈگری لینے کے بعد مرکزی کمیٹی کے حکم پر لاہور آگئے اور شاہ محمد غوث والے دفتر میں ڈیرہ ڈال کر عدمِ تعاون کی تحریک کے لیے کام شروع کردیا۔ ۱۹۲۲ء میں تحریک کے خاتمہ پر ذاکر حسین نے انھیں واپس علی گڑھ آنے کا حکم دیا، جہاں جامعہ ملیہ میں ۱۹۲۲ء سے ۱۹۳۶ء تک تعلیم و تدریس میں مصروف رہے۔ وہ اسلامی تاریخ کے شعبہ کے سربراہ ہونے کے علاوہ اکاڈمک کونسل اور نیشنل ایجوکیشن کمیٹی کے بھی رکن تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ۱۹۳۶ء میں علامہ اقبال نے انھیں لاہور بلالیا تھا۔ ان کی وفات کے بعد پنجاب یونی ورسٹی سے بی اے کیا اور پھر دہلی چلے گئے۔ جہاں مختلف حیثیتوں میں ۱۹۴۶ء تک جامعہ ملیہ اسلامیہ سے منسلک رہے۔ ۱۹۴۶ء میں لاہور آگئے۔ وہ کہتے ہیں کہ دولتانہ اور ممدوٹ وغیرہ نے مجھے مسلم لیگ کا نشر و اشاعت کا کام اپنے ہاتھ میں لینے کو کہا تھا، مگر میں تھوڑے عرصے بعد ہی ان سے الگ ہوگیا تھا۔ صرف انتخابات کے دنوں میں چند روز کام کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد ممدوٹ وزارت نے ۱۹۴۹ء میں اسلامک ری کنسٹرکشن کا محکمہ قائم کرکے انھیں اس کا ریسرچ ڈائریکٹر مقر کیا۔ ۱۹۴۹ء میں یہ محکمہ ختم کردیا گیا۔ ۱۹۴۸ء سے ۱۹۷۰ء تک وہ سول سروس اکاڈمی میں اسلامیا ت کے لیکچرر رہے۔ ۱۹۶۳ء سے ۱۹۷۰ء تک فنانس سروس اکاڈمی میں بھی بوقت ضرورت اسلامیات پر لیکچر دیتے رہے ہیں۔ بہت سی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرچکے ہیں۔ علامہ اقبال کے انگریزی خطبات تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کے نام سے اردو ترجمہ بھی انھی کا ہے جو آج تک علامہ کی اس شہرۂ آفاق تصنیف کا اردو میں واحد مستند ترجمہ ہے۔ اقبال سے پہلا تعارف ۱۹۱۸ء میں ہوا تھا اور تعلق اب تک قائم رکھے ہوئے ہیں۔ علامہ اقبال مرحوم ایک مفکر، عظیم شاعر، عاشقِ رسول ا اور سیاست دان تھے۔ ہم نے سید نذیر نیازی سے پوچھا کہ علامہ کی زندگی کے کس پہلو سے سب سے زیادہ متاثر ہیں؟ جواب میں وہ علامہ کی زندگی کے ان تمام پہلوئوں کو چھوڑ کر ایک نئی طرف نکل گئے۔ وہ اوّل و آخر انسان تھے۔ میں ان کی زندگی کے اس پہلو کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہوں ان میں کوئی تکلف و تصنع یا بناوٹ نہیںتھی۔ کسی سے دوری نہیں تھی، وہ بے تکلف گفتگو کرتے تھے۔ مخاطب خواہ کوئی بھی ہو، کوئی عام آدمی یا بڑا آدمی۔ ان کی محفل میں بیٹھنے سے ایک محبت اور لگائو کا احساس ہوتا تھا۔ ان جیسا بے تکلف ایک آدمی اور بھی تھا محمد علی جوہر۔ میں ابوالکلام آزاد۱؎ کی محفل میں بھی بیٹھا ہوں مگر اقبال والی بات کہیں نہیں ملی۔ وہ اپنی بڑائی کا کبھی اظہار نہیں کرتے تھے۔ اپنے بارے میں کوئی بات کسی سے نہیں چھپاتے تھے۔ ان کی زندگی میں کوئی عیب نظر نہیں آتا تھا۔ استادوں میں استاد، طلبہ میں طالب علم۔ جب انھیں ’’سر‘‘ کا خطاب ملا، گورنمنٹ کالج میں ان کے اعزاز میں ایک محفل منعقد کی گئی۔ ان دنوں وہ میکلوڈ روڈ پر رہتے تھے۔ وہاں سے گورنمنٹ کالج تک پیدل چل کر گئے اور طالب علموں میں گھل مل کر باتیں کرتے رہے۔ سیّد نذیر نیازی کہتے ہیں: بے تکلفی، انتہائی شرافت اور انسانیت علامہ کی زندگی کی نمایاں خصوصیات تھیں۔ انسان کی نظر اس امر پر رہنی چاہیے کہ وہ ہر لحاظ سے انسان بننے کی کوشش کرتا رہے۔ انسانی کمزوری ہر انسان میں کوئی نہ کوئی کمزوری ہوتی ہے۔ سیّد نذیر نیازی کے اس مؤقف پر کہ علامہ اوّل و آخر انسان تھے، ہم نے پوچھا کہ کیا ان میں کوئی انسانی کمزوری تھی؟ انھوں نے جواب دیا: ’’ان میں کوئی کمزوری نہیں، ان کی ایک مجبوری تھی۔ اس مجبوری کی وجہ ان کا احساسِ تنہائی تھا۔ وہ اپنے آپ کو بالکل تنہا سمجھتے تھے جو لوگ ان کے اردگرد تھے، ان کے بارے میں وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے تھے کہ وہ ان کے مشن میں ان کا ساتھ دیں گے۔ ابتدا میں جو لوگ ان کے ساتھ تھے، وہ ساتھ چھوڑ گئے اور ان کی زندگی اور مشن کے بارے میں کئی غلط فہمیاں پیدا کیں، لیکن علامہ نے اس کی کبھی کسی سے شکایت نہیں کی۔ وہ کبھی کسی کی شکایت نہیں کرتے تھے۔ ‘‘ سیّد نذیر نیازی کہتے ہیں: ’’علامہ میں مردم شناسی کم تھی جس وجہ سے انھوں نے سالک۲؎ اور مہر۳؎ جیسے لوگوں سے نقصان اٹھایا۔‘‘ انھوں نے بتایا کہ مسجد شہید گنج کے مسئلے پر علامہ نے تحریک چلانے کے سلسلے میں ایک اخباری بیان دیا۔ میں یہ بیان لے کر سالک کے پاس گیا۔ اس نے کہا، مہر کے پاس لے جائو۔ مہر کے پاس گیا تو وہ طنزیہ انداز میں باربار کہتے: ’’اچھا تو تحریک اقبال چلائیں گے! تحریک اقبال چلائیں گے‘‘! انھوں نے یہ بیان شائع کرنے سے انکار کردیا۔ علامہ کو یہ بات معلوم ہوئی تو انھیں بہت رنج ہوا۔ ان دنوں ان کی صحت کافی خراب تھی۔ وہ ان لوگوں کو ’’مخلص منافق‘‘ کہا کرتے تھے۔ تمباکو حقہ پینے والوں کے لیے تمباکو کا دھواں ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ سگریٹ کی طرح حقہ پینے والوں کا تمباکو بھی پسندیدہ ہوتا ہے۔ علامہ اقبال کے متعلق سب نے کہا ہے کہ وہ حقہ بہت پیتے تھے۔ ہم نے سیّد نذیر نیازی سے پوچھا کہ آپ ان کے قریب رہے ہیں، آپ بتا سکتے ہیں کہ علامہ تمباکو کیسا پیتے تھے اور کہاں سے منگواتے تھے؟ انھوں نے اس سلسلے میں لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ سب کام علی بخش کرتا تھا تاہم انھوں نے دوسروں سے سنا ہوا ایک واقعہ سنایا کہ جب علامہ بازار حکیماں میں رہتے تھے (وہ ۱۹۰۵ء تک وہاں رہے) تو بازار حکیماں میں ایک تمباکو فروش تھا جس کا نام رفیق تھا۔ وہ شاعر بھی تھا اور حضرتِ داغ کے شاگردوں میں شامل تھا۔ وہ ایک پیسے کی تمباکو کی پڑیا دیتا تھا۔ علامہ کو بھی ایک پڑیا بھیجا کرتا تھا جو دن بھر چلتی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ داغ کے شاگردوں میں سے ایک تارا نامی ہندو وہاں پر حلوہ بیچا کرتا تھا۔ علامہ کو اس کا حلوہ بھی بہت پسند تھا۔ علامہ کی شاعری کو ماننے والوں میں ہندوئوں کی کافی بڑی تعداد تھی۔ ان میں سے ایک گورنمنٹ کالج کے لالہ جیارام بھی تھے جو اردو ادب کے بڑے شیدائی تھی۔ انھوں نے ہی گورنمنٹ کالج میں ادبی سوسائٹی قائم کی تھی اور ہر سال بہترین نظم اور غزل کہنے والے طالب علم کو انعام دیا کرتے تھے۔ یہی سوسائٹی آگے چل کر مجلس اقبال کہلائی۔ نیازی صاحب نے بتایا کہ علامہ لالہ جی کی بڑی عزت کرتے تھے۔ ایک دفعہ خط میں انھیں ’’قبلہ لالہ جیارام‘‘ لکھ دیا۔ اقبال اور محمد علی جوہر کچھ لوگ کہتے ہیں، محمد علی جوہر۴؎ علامہ اقبال کو بھرپور سیاسی جدوجہد میں لانا چاہتے تھے۔ وہ ان کی سیاسی بے عملی کے خلاف تھے اور اکثر اس کا اظہار کرتے رہے تھے۔ ہم نے سیّد نذیر نیازی سے اس ’’اختلاف‘‘ کے بارے میں سوال تو انھوں نے جواب دیا کہ محمد علی جوہر علامہ کی بہت عزت کرتے تھے۔ جب ۲۹؍اکتوبر ۱۹۲۰ء میں علی گڑھ میں جامعہ ملیہ کا قیام عمل میں آیا تو انھوں نے (جوہر نے) مجھے کہا تھا: ’’کہاں ہے وہ اقبال جس نے ہمیں مسلمان بنایا تھا۔ میں نے یہ ادارہ بنایا ہے، اسے کہو آکر اس کا پرنسپل بن جائے۔ انھوں نے علامہ اقبال کو ٹیلی گرام بھی دیا تھا کہ آکر ملیہ کالج کے پرنسپل بن جائیں جس کے جواب میں علامہ نے لکھا کہ میں اس قابل نہیں ہوں۔ پھر انھوں نے ایک اور واقعے سے علامہ اور جوہر کے تعلقات کی وضاحت کی کہ جب محمد علی جوہر نے پہلی گول میز کانفرنس پر جانے کا اعلان کیا تو علامہ تو خوش ہوئے اور کہا کہ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ اس کا دل تبدیل ہوگیا ہے۔ کانفرنس پر جانے سے پہلے محمد علی جوہر نے لاہور آکر علامہ سے ملاقات کی تھی۔ پھر انھوں نے علی بخش کے حوالے سے بتایا کہ ملاقات کے بعد علامہ اور جوہر کو کہیں جانا تھا۔ علامہ نے بوٹ منگوائے ، تو محمد علی جوہر نے جھک کر اس کے تسمے باندھنے کی کوشش کی۔ علامہ نے پائوںپیچھے ہٹاتے ہوئے کہا: ’’تم اس قابل نہیں کہ میرے بوٹ کے تسمے باندھ سکو۔‘‘ حکیم اجمل خان اور اقبال سیّد نذیر نیازی نے علامہ کے احباب کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ علامہ کو حکیم اجمل خان۵؎ سے بہت محبت تھی۔ وہ کبھی کسی کے کہنے پر شعر نہیں پڑھتے تھے۔ بڑے بڑے راجوں کے کہنے پر بھی نہیں۔ صرف حکیم اجمل خاں ایک ایسے شخص تھے جن کے کہنے پر شعر سناتے تھے، ان کے جگری دوستوں میں مرزا جلال الدین،۶؎ میاں شاہ نواز۷؎ اور نواب ذوالفقار علی،۸؎ میاں مولوی احمد دین۹؎ اور سرعبدالقادر،۱۰؎ مولانا ظفر علی خان۱۱؎ اور فقیر سیّد افتخار الدین۱۲؎ شامل تھے۔ میاں شاہ نواز جب آخری زمانے میں فالج کی وجہ سے چلنے پھرنے کے قابل نہ رہے، تو وہ گاڑی میں بیٹھ کر اقبال سے ملنے آتے اور اقبال خود اُٹھ کر گاڑی تک جاتے تھے۔ وہ شیخ عبدالقادر کو شٰخ عالم گنڈھ کہا کرتے یعنی وہ شیخ جوہر کسی کو گنڈھ لیتا ہے (ساتھ ملا لیتا ہے۔) پسندیدہ کتاب علامہ اقبال کے قریب رہنے والوں کا کہنا ہے وہ کتابیں بہت پڑھتے تھے۔ سیّد نذیر نیازی ان کے قریب رہے ہیں۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ علامہ کو کون سی کتاب سب سے زیادہ پسند تھی؟ انھوں نے جواب دیا: آخری عمر میں قرآن اکثر پڑھتے تھے۔ ہم نے پوچھا: قرآن کے علاوہ؟ انھوں نے مغربی مفکرین کے نام گنوانا شروع کردیے کہ اقبال فلاں کو بھی پڑھے ہوئے تھے۔ فلاں کی تعریف کرتے تھے۔ ان کے پاس بیٹھے ہوئے ایک شخص نے انھیں یاد دلایا کہ اقبال مثنوی مولانا روم اور مکتوباتِ مجدد الف ثانی اکثر پڑھتے تھے، تو انھوں نے اس کی تصدیق کی۔ ہم نے پوچھا: اقبال کو اپنی کون سی کتاب، نظم یا غزل سب سے زیادہ پسند تھی؟ انھوں نے جواب دیا: اس کا کبھی ذکر نہیں ہوا۔ ورزش اور کبوتر سیّد نذیر نیازی نے بھی علامہ اقبال کے ابتدائی عمر میں باقاعدہ ورزش کرنے کی تصدیق کی اور بتایا کہ ۱۹۰۲ء کے قریب وہ کوچہ ہندومان کے قریب ایک اکھاڑے میں جایا کرتے تھے اور لالہ کدارناتھ کے ساتھ لنگوٹ باندھ کر باقاعدہ زور کیا کرتے تھے، انھوں نے بھی علامہ کی کبوترپروری۱۳؎ کا ذکر کیا اور بتایا کہ ایک دفعہ ان کے کسی قدردان نے ان کی اس کبوتر پروری کے پیش نظر انھیں مدینہ منورہ سے ایک کبوتر بھیجا، جسے بعد میں بلی کھا گئی۔ علامہ نے اور مولانا ظفر علی خان نے اس کبوتر کے بارے میں ایک مشترکہ نظم بھی لکھی تھی جو مولانا ظفر علی کی کتاب بہارستان میں شائع ہوچکی ہے۔ نیازی صاحب نے کوچہ ہنومان کے اکھاڑے کے ذکر کے ضمن میں بتایا کہ علامہ اکھاڑہ جاتے تو ہر صبح ایک ہندو راستے میں ملتا جو نہایت خوش آواز میں بھجن گاتا گزرا کرتا تھا۔ علامہ نے ایک روز اسے روک کر پوچھا ’’یہ جو بھجن تم پڑھتے ہو اس کے معنی بھی جانتے ہو۔‘‘ ہندو نے جواب دیا ’’معنی تو مجھے معلوم نہیں میں تو معنی سمجھے بغیر ہی پڑھتا رہتا ہوں۔‘‘ عادات و معمولات ہم نے سوال کیا: علامہ مسوواک کرتے تھے یا برش؟ انھوں نے بتایا، مسواک۔ کس درخت کی؟ انھوں نے جواب دیا: معلوم نہیں۔ ان کا ادا شناس ملازم علی بخش ہی سب چیزوں کا اہتمام کرتا تھا۔ وہ صبح نمازِ تہجد سے پہلے مسواک کرتے تھے۔ تہجد اور صبح کی نماز باقاعدہ پڑھتے تھے۔ شعر بھی اکثر صبح ہی کو کہتے تھے۔ جس روز عدالت میں کوئی مقدمہ ہوتا تھا، نو بجے عدالت چلے جاتے۔ واپسی پر سب سے پہلے سوٹ اتار کر پھینکتے تھے۔ سوٹ سے انھیں نفرت تھی۔ تہمد اور کرتا پہن کر کھانا کھاتے اور تھوڑا آرام کرنے کے بعد چار بجے سہ پہر سے رات بارہ بجے تک محفل جما کر بیٹھتے تھے۔ لوگ آتے رہتے تھے، جاتے رہتے تھے۔ بڑے چھوٹے، عام خواص سب، مگر وہ اسی طرح بے تکلفی میں باتیں کرتے رہتے تھے، پھبتی بڑے زور کی کستے تھے۔ رات کو کھانا نہیں کھاتے تھے۔ تھوڑا دلیا اور دودھ لیتے تھے۔ محفل میں کشمیری چائے کا دور چلتا تھا۔ انھوں نے علی بخش کے حوالے سے بتایا کہ بعض دفعہ صبح کو وہ بے تاب ہوجایا کرتے تھے اور انھیں قرآن لانے کو کہتے تھے۔ وہ قرآن لاتا تو کچھ مطالعے کے بعد واپس رکھ دیتے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ مرزا جلال الدین کے ہاں محفل میں شرکت کرتے، تو بعض دفعہ اچانک اقبال کی طبیعت پہ شعر کا درود غالب آجاتا اور وہ شعر گنگناتے لگتے۔ محفل کی کاروائی رکھ دی جاتی۔ علامہ بہت خوش الحان تھے۔ شعر کا اثر شیخ رفیق احمد کا کہنا ہے کہ علامہ نے ’’آزاد مجھ کو کردے او قید کرنے والے۔ میں بے گناہ ہوں قیدی تو چھوڑ کر دعا لے‘‘ والی نظم ’’پرندے کی فریاد‘‘ کوئٹہ کے سفر کے دوران لکھی تھی، جب وہ اپنے بڑے بھائی پر مقدمے کی پیروی کے لیے کوئٹے گئے تھے اور انھوں نے یہ شعر مقدمے کی کارروائی کے دوران دلائل دینے کے دوران پڑھا تھا جس کے بعد عدالت نے ان کے بھائی کو رہا کردیا تھا۔ سیّد نذیر نیازی کا کہا ہے کہ اس وقت تو علامہ نے ابھی وکالت کی ہی نہیں تھی صرف گورنمنٹ کالج کے پروفیسر تھے۔ ہاں البتہ کوئٹہ گئے ضرور تھے۔ مری علاقے میں بھی گئے تھے۔ لیکن ان کے وہاں جانے سے پہلے ہی ان کے بھائی کے خلاف مقدمہ خارج ہوگیا تھا، کیونکہ علامہ نے خود اس کے تمام کوائف لکھ کر براہِ راست وائس رائے لارڈ کرزن۱۴؎ کو بھیج دیے تھے اور اس کے حکم پر مقدمہ خارج کردیا گیا تھا، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس وقت تک علامہ اتنے مشہور تھے اور مقدمے کے کوائف کی وکیلانہ پیش کش سے آگاہ تھے کہ اس سے وائس رائے مقدمہ خارج کرنے کا حکم جاری کردے۔ اس نظم کی اثر آفرینی کے بارے میں نیازی صاحب نے بتایا کہ بیگم بھوپال نے یہ نظم پڑھی تو اس نے اپنے چڑیا گھر کے تمام جانور چھوڑ دیے اسی طرح نواب آف بہاول پور کی بیگم نے بھی یہ نظم سن کر تمام پنجرے کھول دیے تھے۔ سیو سیانے اِکو گل سید نذیر نیازی نے علامہ اقبال سے اپنی پہلی ملاقات میں ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ پہلی بار میں نے انھیں ۱۹۱۰ء میں امرتسر میں دیکھا تھا، جب وہ جلسے میں شرکت کرنے گئے تھے اور میں بھی اپنے والد کے ساتھ وہاں گیا، لیکن باہوش پہلی ملاقات ۱۹۱۸ء میں ہوئی اس سال میں لاہور آیا، ایک روز اقبال سے ملنے کا خیال پیدا ہوا ان کے والے گھر میں حاضر ہوگیا، مجھے آتے دیکھ کر کہا: ’’آئو جی نیازی صاحب کیہہ حال جے۔‘‘ پھر انھوں نے میرے والد کے بارے میں سوال کیے۔ میں آج تک حیران ہوں کہ انھیں کیسے معلوم ہوگیا تھا کہ مجھے نیازی کہ کر پکارتے ہیں۔ اس وقت پنجابی کے صوفی شاعر میاں محمد۱۵؎ کے کچھ مرید علامہ کے پاس بیٹھے ان سے باتیں کررہے تھے۔ ان میں ایک نے کہا: ’’تسی تے اوہی گلاں کہندے او جہیڑیاں میاں محمد نے لکھیاں نیں‘‘ اقبال نے جواب دیا: ’’سو سیانے تو اِکو گل، میں اوس توں وکی کیہ کہنا سی‘‘ عدمِ تعاون کی تحریک اور اقبال سیّد نذیر نیازی کا کہنا ہے، علامہ اقبال عدمِ تعاون کی تحریک کے دل و جان سے حامی تھے، وہ صرف گاندھی کی قیادت اور طرزِ سیاست کے خلاف تھے۔ ان کا کہنا تھا، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مسلمان اپنا الگ تشخص کھو دیں گے۔ اس سلسلے میں اُنھوں نے ایک واقعہ سنایا کہ ۱۹۲۰ء میں گاندھی جی عدمِ تعاون کی تحریک کے سلسلے میں لاہور آئے، انھوں نے لاہور کے وکیلوں، طلبہ اور دانش وروں کا ایک اجلاس بلایا جو ٹمپل روڈ پر (حمید نظامی روڈ) رام بھجوت وکیل کی کوٹھی میں منعقد ہوا تھا۔ علامہ اقبال نے بھی اس اجلاس میں شرکت کی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ اجلاس میں گاندھی کی تقریر کے بعد باہر نکلے تو میں نے علامہ اقبال سے پوچھا کہ کیا کرنا چاہیے؟ گاندھی جی نے سرکاری امداد اور تعاون سے چلنے والے تعلیمی اداروں کا بائیکاٹ کے لیے کہا تھا اور میں اسلامیہ کالج میں پڑھتا تھا جو اس ضمن میں آتا تھا، علامہ نے جواب دیا یہ ایک نفسیاتی جنگ ہے اور پھر کہا: ’’یہ تو عقل اور عشق کی لڑائی ہے‘‘ حالانکہ اس وقت ان کی جیب میںمیرے والد کا وہ خط موجود تھا جس میں انھوں نے علامہ سے کہا تھا کہ اسے کالج چھوڑنے سے منع کریں۔ سائنس اور تصوف سیّد نذیر نیازی نے بتایا کہ ایک بار علامہ نے گورنمنٹ کالج میں آئن سٹائن۱۶؎ کے نظریے پر لیکچر دیا اور مختلف مفکرین کے نظریات کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ سائنس اور تصوف کے درمیان جو فاصلہ کم ہورہا ہے، ان کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ صوفیا کی واردات اور سائنس ایک وقت ایک دوسرے کے قریب آجائیں گے۔ پھر انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ مسلمانوں کو سائنس کے عملی پہلو سے واقف ہونا چاہیے۔ انسانیت موت کے دروازے پر سیّد نذیر نیازی نے علامہ کی زندگی کی آخری رات کے واقعات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اس ڈاکٹر نے کہہ دیا تھا کہ ہوسکتا ہے، یہ رات پوری نہ کریں، ان دنوں میاں محمد شفیع (م-ش)۱۷؎ علامہ کے گھر پر ہی رہتے تھے۔ وہ علامہ کی بیماری کے پیش نظر اپنا بستر وہیں لے آئے تھے۔ حکیم احمد یار۱۸؎ بھی ان کے ساتھ ہوتے تھے۔ ڈاکٹر کے مشورے کے بعد راجا حسن اختر۱۸؎ کو امرتسر کچھ ادویات لینے بھیجا گیا۔ نوبجے کے قریب علامہ کی حالت ٹھیک ہوگئی اور وہ باتیں کرنے لگے۔ علی بخش کو وہاں پر موجود سب لوگوں کے لیے چائے اور بسکٹ لانے کو کہا۔ ساڑھے بارہ بجے حالت بہتر نظر آنے لگی تو حکیم محمد حسن قرشی نے سیّد سلامت اللہ اور مجھ سے کہا چلو اب چلتے ہیں۔ ہم باہر آئے تو انھوں نے کچھ سوچا۔ خیال آیا کہ نہیں جانا چاہیے مگر ہم چلے آئے۔ راجا حسن اختر امرتسر سے کافی دیر سے آئے اور وہیں پڑ رہے۔ چار بجے علامہ نے علی بخش سے پوچھا، یہاں کون ہے؟ اس نے بتایا حسن اختر، علامہ نے کہا: اسے اندر بلائو۔ میاں محمد شفیع (م-ش) کو حکیم کو بلانے بھیجا مگر وہ اکیلے آگئے، کہ حکیم بالاخانے پر سورہا ہے جاگتا نہیں، علامہ نے حسن اختر سے کہا قرآن پرھو، کوئی حدیث یاد ہے تو وہی سنائو۔ وہ کسی کام سے کمرے سے باہر نکلا تو پونے پانچ بجے علی بخش نے ڈاکٹر عبدالقیوم۱۹؎ کی ہدایت کے مطابق علامہ کو اینوفروٹ سالٹ کا گلاس پلایا، اس کے پانچ منٹ بعد علامہ نے کہا: ’’علی بخش میرے سینے میں درد ہورہا ہے اور پھر وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ میں صبح چھے بجے جاوید منزل پہنچا تو حکیم قرشی ٹہل رہے تھے۔ میں نے علامہ کے بارے میں پوچھا، تو انھوں نے بتایا کہ وہ اپنے خالق کے پاس جاچکے ہیں۔ حوالے اور حواشی ۱- ابوالکلام آزاد (۱۸۸۸ئ- ۱۹۵۸ئ): اعلیٰ ذہین، عالم، سیاست دان اور صحافی کئی کتابوں کے مصنف۔ ۲- عبدالمجید سالک (۱۸۹۴ئ- ۱۹۵۹ئ): صحافی، شاعر اور مزاح نگار، اقبال کے سوانح نگار بھی ہیں۔ ۳- غلام رسول مہر (۱۸۹۵ئ- ۱۹۷۱ئ): صحافی، نقاد اور مؤرخ۔ تہذیب الاخلاق اور پھول کے اڈیٹر بھی رہے۔ ۴- محمد علی جوہر (۱۸۷۸ئ- ۱۹۳۱ئ): ایک سیاسی رہنما اور انشا پرداز، صحافی، تحریکِ خلافت کے روح رواں تھے۔ ۵- حکیم اجمل خاں (۱۸۶۴ئ- ۱۹۲۷ئ) طیبہ کالج دہلی کے بانی، حکیم صادق، جامعہ ملیہ کے منتظم اعلیٰ، دہلی کی اس مقبول شخصیت کو عوام نے انھیں مسیح الملک کا نام دیے۔ ۶- مرزا جلال الدین: اقبال کے بے تکلف دوست۔ ۷- میاں شاہ نواز بار ایٹ لا تھے اور سیاسی رہنما میاں محمد شفیع کے داماد تھے۔ اقبال کے گہرے دوست تھے۔ اقبال جن دنوں بستر علالت پر تھے اور میاں صاحب فالج کی وجہ سے معذور ہوچکے تھے تو ملازم انھیں گاڑی پر بٹھا کر علامہ کے گھر لے جاتے گاڑی پلنگ کے ساتھ کھڑی جاتی اور دونوں خوش گپیاں کرتے۔ ۸- نواب ذوالفقار علی خان (۱۸۷۳ئ- ۱۹۳۳ئ) مالیر کوٹلہ کے نواب خاندان سے تھے۔ ریاست پٹیالہ کے وزیراعظم رہے۔ اقبال کے گہرے دوست تھے۔ گہرے تعلق کی وجہ سے مرزا جلال الدین، اقبال اور نواب ذوالفقار علی کو اصحابِ ثلاثہ کہا جاتا تھا۔ ۹- مولوی احمد دین (۱۸۶۵ئ- ۱۹۲۹ئ) ماہر لسانیات، نقاد، سوانح نگار مترجم اور وکیل۔ اقبال کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ اقبال کی شخصیت اور فکر و فن پر پہلی کتاب بعنوان: اقبال انھوں نے شائع کی جس میں اقبال کا خاصا کلام بھی شامل تھا۔ اقبال نے اس بات کو پسند نہ کیا اور انھوں نے کتاب کے سارے نسخے جلا دیے۔ ۱۰- سر عبدالقادر (۱۸۷۴ئ- ۱۹۵۰ئ) مخزن کے اڈیٹر، بانگِ درا کے دیباچہ نگار، وکیل۔ اقبال کے دوست تھے۔ ۱۱- ظفر علی خاں (۱۸۷۳ئ- ۱۹۵۶ئ) ادیب، شاعر، صحافی، تحریکِ خلافت کے رہنما۔ مسلم لیگ کے اساسی رکن۔ ۱۲- فقیر سیّد افتخار الدین (۱۸۶۵ئ- ۱۹۱۴ئ) بازارِ حکیماں کے مشاعروں میں اقبال کے ان سے تعلقات پیدا ہوئے۔ اقبال کے اچھے دوست تھے۔ ۱۳- کبوتر پروری: اقبال کے ذوق کبوتر پروری کی تفصیل کے لیے دیکھیے مقدمہ: مکاتیب اقبال بنام خان نیاز الدین خاں (مع تعلیقات و حواشی) مرتب راقم الحروف۔ ۱۴- لارڈ کرزن (۱۸۵۹ئ- ۱۹۲۵ئ) دربار برطانیہ کے وزیر خارجہ رہے۔ ۱۸۹۹ء سے ۱۹۰۵ء تک ہند کے وائسرائے رہے۔ بنگال کی تقسیم انھی کے عہد میں ہوئی۔ ۱۵- میاں محمد (۱۸۳۰ئ- ۱۹۰۴ئ) صوفی شاعر۔ انھوں نے مرزا صاحباں، سوہنی مہینوال، شیریں فرہاد قصے منظوم لکھے لیکن سیف الملوک زیادہ معروف بلکہ پنجابی زبان کا کلاسیک ہے۔ ۱۶- آئن سٹائن (۱۸۷۹ئ- ۱۹۵۵ئ) امریکی ماہر طبیعیات، نظریۂ اضافیت پیش کیا۔ ۱۹۲۱ء میں فزکس کا نوبل پرائز ملا۔ ۱۷- م-ش (میاں محمد شفیع) دیکھیے ’’حکیم الامت‘‘ کا حاشیہ۳۔ ۱۸- حکیم احمد یار۔ اقبال کی علالت کے آخری دور میں معالج رہے۔ ۱۹- ڈاکٹر عبدالقیوم امراضِ قلب کے ماہر تھے۔ اقبال کی علالت کے آخری ایام میں اقبال کا علاج کرتے رہے۔ ز……ز……ز سیّد نذیر نیازی سے مکالمہ ڈاکٹر خورشید رضوی [پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی ایک خوش گو شاعر، ادیب اور عربی زبان و ادب کے معروف محقق ہیں۔ گورنمنٹ کالج سرگودھا اور بعد ازاں گورنمنٹ کالج لاہور میں تدریسی فرائض سرانجام دیتے رہے۔ اب ان کا شعری کلیات یکجا کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے تالیف اور اطراف کے نام سے چھپے ہیں۔ عربی زبان کی تاریخ پہ تحقیقی کام کر رہے ہیں۔ اقبال و اقبالیات سے بھی گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ انھوں نے ایک زمانے میں سید نذیر نیازی سے انٹرویو کیا، جسے ان کی اجازت اور رسالہ اقبالیات کے شکریے کے ساتھ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔] تمہید ۳۰؍جون ۱۹۷۵ء کی صبح کو میں ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، اسلام آباد میں تھا۔ ادارہ اس وقت تک ابھی سوک سنٹر، میلوڈی مارکیٹ ہی میں کام کررہا تھا۔ جناب عبدالرحمن طاہر سورتی مرحوم کے کمرے میں ایک بزرگ بیٹھے ملے۔ سوٹ پہنے ہوئے، داڑھی مونچھ صاف، عمر خاصی مگر چاق و چوبند۔ سورتی صاحب نے تعارف کرایا کہ یہ ہیں سیّد نذیر نیازی۔ ان کے نام سے کون واقف نہ تھا۔ مل کر بڑی خوشی ہوئی اور اپنے اور علامہ اقبال کے درمیان ایک زندہ رابطے کا احساس ہوا۔ یہ محض حسن اتفاق ہے کہ اس وقت میرا پاس ایک چھوٹا سا ٹیپ ریکارڈر موجود تھا۔ چنانچہ معاً نیازی صاحب سے یہ درخواست کرنے کا خیال پیدا ہوا کہ وہ حضرت کے بارے میں روزمرہ کی کچھ باتیں ہمیں سنائیں جو محفوظ کرلی جائیں۔ ان کی شاعری اور فلسفے وغیرہ کو موضوع نہ بنایا جائے بلکہ معمولی معمولی باتوں کا ذکر ہو جو اُن سے شرفِ ملاقات رکھنے والی نسل کے بعد پھر کسی ذریعے سے معلوم نہ ہوسکیں گی۔ عرض مدعا کیا تو نیازی صاحب، جو بہت منکسر المزاج اور خوش اخلاق ثابت ہوئے، فوراً مان گئے۔ بس اتنا کہا کہ مجھے سی ڈی اے کے دفتر میں کچھ کام ہے وہ کرتا آئوں تو پھر بیٹھتے ہیں۔ سی ڈی اے کا دفتر کون سا دور تھا۔ میں نے کہا چلیے میں ساتھ چلتا ہوں۔ ہم دونوں سیڑھیاں اُتر کر سٹرک پر آئے… (ہالی ڈے ان اسلام آباد ہوٹل ابھی تعمیر نہیں ہوا تھا)… اور بالکل سامنے سے عوامی ویگن میں سوار ہوکر ذرا ہی دیر میں سی ڈی اے کے دفتر پہنچ گئے۔ نیازی صاحب نے کسی سے اپنے کام کا ذکر فرمایا۔ دفتر والوں نے ان کے لیے وی آئی پی روم کھول دیا۔ اس کمرے میں بہت سادہ سے دو چرمی صوفے پڑے تھے۔ ہم بیٹھے گئے۔ نیازی صاحب نے ہنستے ہوئے کہا لیجیے آج ہم بھی وی آئی پی ہوگئے۔ وہ واقعی بڑے سادہ دل انسان تھے۔ ان کے دل میں اپنی اہمیت کا ذرہ برابر احساس نظر نہ آتا تھا۔ جلد وہاں سے فراغت ہوگئی اور ہم واپس ادارہ تحقیقاتِ اسلامی میں آگئے۔ محمود احمد غازی صاحب سے… جو ابھی ڈاکٹر نہیں ہوئے تھے۔ میرے تعلقات ایک عرصے سے چلے آرہے تھے اور انھی سے ملنے میں اس روز وہاں گیا تھا۔ چنانچہ انھی کے کمرے میں نشست ہوئی۔ اس وقت گیارہ بج چکے تھے۔ اس گفتگو پر مشتمل کیسٹ اسی زمانے سے میرے پاس پڑی ہے۔ کئی بار خیال آیا کہ اسے صفحہ قرطاس پر اُتار لوں۔ ایک آدھ بار آغاز بھی کیا لیکن کام ادھورا رہ گیا۔ پھر کیسٹ نگاہ سے اوجھل ہوگئی اور روزمرہ کے بکھیڑوں میں خیال نہیں آیا۔ اب کوئی چوبیس برس کے بعد کہیں یہ ارادہ پورا ہورہا ہے۔ گفتگو کو ازسرِنو سنا تو معلوم ہوا کہ ریکارڈنگ کیسٹ کے ایک ہی جانب ہے اور بات چیت اچانک درمیان ہی میں ختم ہوجاتی ہے۔ دوسری جانب کچھ اور چیزیں ہیں جو مجھے یاد ہے کہ میں نے خود ریکارڈ کی تھیں۔ یہ بات بعید از قیاس ہے کہ اس گفتگو کے کسی حصے کو مٹا کر میں نے کوئی اور چیز ریکارڈ کرلی ہو۔ بہرحال اب یہ یاد نہیں آتا کہ گفتگو… یا اس کی ریکارڈنگ… ادھوری کیوں رہی۔ خیر جو کچھ بھی محفوظ رہ گیا ہے افادے سے خالی نہیں اس لیے اسے کاغذ پر منتقل کردیا ہے۔ بعض باتیں ریکارڈنگ سے پہلے بھی ہوچکی تھی… مثلاً عزت بخاری کے شعر والی بات… اور ریکارڈنگ کے دوران نیازی صاحب نے انھیں دہرایا جس کا احساس قارئین کو ہوگا۔ قارئین یہ بھی محسوس کریں گے کہ یہ ایک بے ساختہ سی گفتگو ہے جو کسی قسم کی منصوبہ بندی کے بغیر کی گئی۔ اس میں استطراد (Digression) بھی بہت ہے اور کہیں کہیں ایک طرح کی بے ربطی کا احساس ہوتا ہے کیونکہ نیازی صاحب بات کرتے کرتے بعض اوقات سیاق کلام کے بارے میں سہو کا شکار ہوجاتے ہیں۔ مثلاً جب وہ طبیعت میں انکسار کے حوالے سے ایک واقعہ سناتے ہیں تو دراصل ایک لطیفہ سنا دیتے ہیں جس سے انکسار پر کچھ روشنی نہیں پڑتی، تاہم کچھ آگے چل کر جب وہ یہ بتاتے ہیں ہیں کہ علامہ ہر آنے والے سے، خواہ وہ عالم ہو یا جاہل، یوں ملتے تھے کہ جیسے ان میں اور ملاقاتی میں کوئی فرق نہیں، تو غالباً یہ وہ مثال ہے جو وہ انکسار کے سلسلے میں لانا چاہتے تھے۔ نیازی صاحب کا ذہن ماضی کی یادوں میں یکایک کہیں سے کہیں منتقل ہوجاتا ہے اور بسا اوقات قرینے کی وضاحت نہیں ہوپاتی۔ اس سے بھی ایک طرح کا ابہام پیدا ہوجاتا ہے۔ پھر یہ کہ آمنے سامنے گفتگو میں بولنے والے کے صرف الفاظ ہی نہیں سنے جاتے، بہت کچھ ابلاغ اس کے چہرے کے تاثرات، آواز کے اُتار چڑھائو، ہاتھوں کی حرکت اور آنکھوں کی کیفیت سے ہوتا ہے اور یہ سب کچھ تحریر میں منتقل نہیں ہوسکتا۔ اس مکالمے کو کاغذ پر اُتارتے ہوئے میری کوشش رہی ہے کہ اسے ہر ممکن حد تک جوں کا توں رہنے دیا جائے۔ ہاں کہیں کہیں بعض لفظوں کی کچھ زیادہ ہی تکرار سے غیر ضروری الجھائو کا احساس کرتے ہوئے یا آواز کے بہت مدھم اور غیر واضح ہوجانے کے باعث معمولی سے حذف سے ضرور کام لیا گیا ہے۔ اُمید واثق ہے کہ ایسا کرتے ہوئے مکالمے کے اصل خدوخال میں کوئی خاص فرق نہیں آیا ہوگا۔ آخر میں بعض وضاحتوں یا حوالوں کے لیے حواشی کا اضافہ بھی کردیا گیا ہے۔ مکالمہ خورشید رضوی: نیازی صاحب! ہماری خواہش ہے کہ جن بزرگوں کو حضرت علامہ کی صحبت سے مستفید ہونے کا، آپ کی طرح، بہت طویل عرصے تک موقع ملا ہے، وہ ان کی روزمرہ زندگی کی کچھ چلتی پھرتی تصویریں ہمارے لیے محفوظ کرجائیں۔ اگر آپ چند واقعات سے ہمیں سرفراز کرسکیں تو بڑی نوازش ہوگی۔ سیّد نذیر نیازی: رضوی صاحب آپ کا ارشاد بجا ہے۔ یہ فی الواقع بہت بڑی سعادت تھی کہ مجھے حضرت علامہ کے ارشادات سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔ واقعات کو بہت ہیں، ایک واقعہ عرض کرتا ہوں۔ حضرت علامہ کی علالت نے جب بہت طول کھینچا اور وہ تقریباً چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے تو یہ زمانہ تھا جس میں انھوں نے ارمغان حجاز مجھے یہ کہنا چاہیے کہ… ابتدا تو بہت پہلے ہوچکی تھی ارمغان حجاز کی غالباً سینتیس میں، جب ان کے دل میں یہ آرزو پیدا ہوئی کہ حج کریں… لیکن شروع میں، جب وہ ارمغان حجاز کی تسوید فرما رہے تھے، تو آخر میں بسبب اپنی علالت کے ان کے لیے ممکن نہیں تھا کہ جو رباعیاں۱؎ ہورہی ہیں ان کو خود اپنے ہاتھ سے نقل کریں۔ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوتا تو سب سے پہلے یہ ارشاد ہوتا کہ ایک رباعی ہوگئی ہے، دو ہوگئی ہیں، ان کو نقل کرلو۔ ایک روز جب میں حاضر ہوا اور بیاض لے کر بیٹھا تو انھوں نے فرمایا کہ چند ایک رباعیاں ہیں اور … انھیں لکھ ڈالو۔ تو میں نے جب ابتدا کی تو مجھ سے فرمایا کہ یہ شعر ہے عزت بخاری کا… ذرا اسے دیکھ ڈالو اور اس کے بعد میری جو رباعیاں ہیں ان کو لکھو۔ اس لیے کہ اس کا،… حصے کا، …یہ جو ہے ارمغان حجاز کا… اس کا عنوان ہے ’’حضور رسالت‘‘۔ میں نے جب شعر پر نظر ڈالی تو میں کچھ رُک گیا۔ تو مجھ سے فرمایا کہ کیا سوچ رہے ہو؟ کیا بات ہے کہ تم رُک گئے؟ تو میں نے عرض کہ اس میں یہ جو مصرع ہے پہلا، اس میں جو چند الفاظ ہیں مجھے اچھے معلوم نہیں ہوتے۔ ہیں یہ حضورؐ کی شان میں لیکن اس میں کچھ مناسب نہیں یہ الفاظ۔ تو مجھ سے فرمایا کہ میں اس مصرع کو پڑھ ڈالوں۔ تو مصرع یوں تھا کہ: ادب گاہیست در زیر زمیں از عرش نازک تر فرمایا کہ ہاں، واقعی تمھارا خیال ٹھیک ہے۔ اس کو یوں بدل دو: ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر تو اس ذرا سی تبدیلی لفظ سے، دیکھیے کیسی شعر کی اصلاح ہوگئی اور مصرع کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ خورشید رضوی: تو وہ اسے گویا درست سمجھتے تھے، اس قسم کی کوئی اصلاح… نذیر نیازی: وہ… اُن کا خیال یہ تھا کہ جہاں کہیں کسی شاعر کے کلام میں ایسا کوئی نقص نظر آئے یا… وہ کہتے یہ تھے کہ جب آمد ہوتی ہے تو اُس وقت ضبط نہیں ہوتا شاعر کو اپنے آپ پر۔ جو کچھ آتا ہے وہ بے تکلف… اور… وہ کہتا چلا جاتا ہے، لکھتا چلا جاتا ہے۔ تو اب یہ ہے کہ یا تو اسے نظر ثانی کا موقع ملے۔ اور اگر موقع نہیں ملا لیکن اس طرح کا کوئی سقم ہو تو اس کو ٹھیک کرنا دراصل شاعر کا جو مقصد ہے اسی کو پورا کرنا ہے۔ خورشید رضوی: تعاون ہے ایک طرح کا… نذیر نیازی: اُسی سے تعاون ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ خورشید رضوی: غالباً آپ نے فرمایا تھا۲؎ کہ انھوں نے یہ بھی کہا کہ عزت بخاری بھی شاید یہی کہنا چاہتا تھا… نذیر نیازی: ہاں، عزت بخاری غالباً یہی کہنا چاہتا تھا، بلکہ کہنے لگے، دیکھیے مولانا روم ہیں۔ وہ تو، آپ جانتے ہیں کہ لکھنے والے تھے، کاتب تھے، اُن کے، حسام الدین چلپی۔ اور اُن کا یہ کام تھا کہ آئے… ایک کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد… اتنی آمد تھی کہ وہ کہتے چلے جاتے تھے اور وہ لکھتے چلے جاتے تھے۔ اُس میں مولانا کو موقع تو نہیں ملا پھر سے اُس کو، مسودے کو، دیکھنے کا۔ تو اس میں بھی بعض، چند ایک، ایسی باتیں ہیں جن کو میں تو ٹھیک کردیا کرتا ہوں اور ٹھیک کردینے میں کوئی حرج نہیں۔ تو وہ سمجھتے تھے کہ اس میں، شاعر کی بلندی، اس کی عظمت میں کوئی فرق نہیں آیا… اور … بہت سے واقعات ہیں۔ محمود احمد غازی: لیکن نیازی صاحب! کیا ہر ایک کو یہ حق دیا جاسکتا ہے؟ اس کے لیے بہرحال کچھ مخصوص لوگ ہوں گے جن کو یہ اجازت ہوگی کہ وہ اس طرح کی اصلاح کی جسارت کریں؟ نذیر نیازی: یہ تو آپ نے صحیح فرمایا۔ ہر شخص کا تو یہ حق نہیں ہے۔ اب کوئی ایسا ہی صاحب نظر اور صاحب ذوق اگر کوئی انسان ہو اور وہ کچھ… یہ سمجھے کہ اس میں اصلاح کی ضرورت ہے تو جب تو ٹھیک ہے۔ لیکن یہ کہ اگر آپ ہر شخص کو یہ حق دیں تو پھر تو مناسب نہیں ہے۔ یہ آپ نے ٹھیک فرمایا۔ خورشید رضوی: نیازی صاحب! کبھی ایسا بھی اتفاق ہوا کہ آپ نے علامہ صاحب کے کسی شعر میں کوئی ترمیم ایسی کی ہو اور انھوں نے اسے قبول کیا ہو؟ نذیر نیازی: میں نے تو کوئی خاص ترمیم نہیں کی بلکہ جب، یہ فرما رہے تھے تو بالِ جبریل میں ان کی ایک غزل ہے: مٹا دیا مرے ساقی نے عالم من و تو پلا کے مجھ کو… خورشید رضوی:مئے لا الٰہ الا ھو نذیر نیازی: تو میں نے ہی عرض کیا کہ: پلا کے جامِ مئے لا الٰہ الا ھو اس پہ مسکرائے کہ… ہاں۳؎ … اسی طرح ایک مرتبہ میں بیٹھا تھا تو یہ تھا کہ یہ نسخہ مرتب ہورہا تھا اُن کا زبورِ عجم کا… اور پھر بالِ جبریل کا۔ بالِ جبریل کا نام اصل میں، آپ نے مکتوبات میں پڑھا ہوگا، وہ… شروع میں جو ان کے ذہن میں آیا تھا، وہ ’’نشانِ راہ‘‘۴؎ تھا۔ خورشید رضوی: اچھا نذیر نیازی: تو انھوں نے لکھا بھی ہے مجھے کہ دلّی میں محاورہ کیا ہے یہ معلوم کرو اور اس طرح کی چند ایک باتیں… بہرحال… میں نے جب ان کی وہ غزل جو ہے نا: اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں تو اس میں میں نے عرض کیا کہ ایک شعر تو رہ گیا۔ نہایت اچھا شعر ہے۔ کہنے لگے ہاں اُس کا اضافہ کردو۔۵؎ اسی طرح اُن کے ذہن میں یہ بات تھی کہ… یہ جو ہے… گویا… خورشید رضوی: تدوین… نذیر نیازی: نہیں، یہ ان کا جو دیوان ہے… جو پیامِ مشرق کے بعد چھپی… زبورِ عجم اس میں وہ کچھ حواشی کا اضافہ کرنا چاہتے تھے۔ اور میرا خیال ہے کہ شاید اس طرح کا ایک… اگر آپ اجازت دیں، میں یہ لفظ استعمال کروں، ’’محشّٰی‘‘ نسخہ شاید تھا۔۶؎ اس کا پتہ نہیں چلا کہ کیا ہوا۔ اور… یہ سب چیزیں اُن کے ذہن میں تھیں۔ مگر یہی ہے کہ خرابیِ صحت نے اُن کو موقع نہیں دیا، فرصت نہیں ملی اُن کو… یا حج ہی کا ارادہ تھا اُن کا، تو بہت دنوں کا تھا۔ آپ نے ’’ذوق و شوق‘‘ وہ نظم پڑھی ہے نا ’’ذوق و شوق‘‘ اس میں… لکھا بھی ہے انھوں نے کہ میر اخیال تھا کہ میں حج کے لیے جائوں لیکن میں نے پھر یہ سوچا کہ ضمناً تو جانا ٹھیک نہیں ہے نا۷؎ کہ مجھے خرچ ملا سرکار کی طرف سے اور میں جائوں… دریغ آمدم زاں ہمہ بوستاں تہی دست رفتن سوئے دوستاں۸؎ تو وہ سینتیس میں جب وہ … ارادہ اُن کا پختہ ہوا اور انھوں نے خط و کتابت شروع کی جہازران کمپنی سے۹؎ تو اُس وقت، پھر یہ اشعار کی جو آمد ہے یہ بہ شکل کتاب کے یا رباعیوں کے اس کی ابتدا ہوئی اور یہ مجموعہ مرتب ہوتا گیا۔ اڑتیس میں جب ’’یومِ اقبال‘‘ ہوا،۱۰؎ پہلا، اور دہلی سے پرویز صاحب اور مولانا اسلم اور اسد ملتانی مرحوم۱۱؎ … اب تو سوائے پرویز کے سب مرحوم ہوگئے ہیں…۱۲؎ یہ لوگ، یہ حضرات آئے اور اُن سے ملاقات ہوئی تو مولانا نے فرمایش کی کہ آپ اپنا کلام سنائیے۔ کہنے لگے مجھے تو یاد نہیں۔۱۳؎ میری طرف اشارہ کیا کہ ان سے کچھ سن لو تو میں نے دو چار رباعیاں اُنھیں سنائیں۱۴؎ …تو سوئے شہرے کہ بطحا در رہِ اوست تو باش ایں جا و با خاصاں بیا میز کہ من دارم ہوائے منزلِ دوست۱۵؎ یہ کہتے کہتے، مصرع ان سے ادا نہیں ہوا… اس قدر… یعنی رقت طاری ہوئی، آنسوئوں کی جھڑی جیسے لگ جاتی ہے۔ پھر جب کچھ طبیعت بحال ہوئی، میں نے کچھ رُخ بدلنے کے لیے کچھ دوسری رباعی… ذرا مختلف تھی اس سے… تو انھوں نے خود کہا کہ دیکھیے نا مولانا یہ تو سفرنامہ ہے اور صحیح جو ہے، ارمغانِ حجاز وہ تو وہاں پہنچ کر میں لکھ سکوں گا۔ اسے تو تمہید سمجھ لیں۔ یہ تو ابھی ارضِ راہ میں ہوں اور یہ سب کچھ ہورہا ہے۔ خورشید رضوی: اچھا نیازی صاحب! آپ کے پاس وقت تو بہت کم ہے اور شاید زیادہ زحمت دینی مناسب نہ ہوگی، ایک مختصر سی بات ہے، اُس پہ کچھ روشنی ڈال دیجیے گا۔ علامہ اقبال شعر جب پڑھتے تھے… کبھی ترنم سے آپ نے انھیں پڑھتے ہوئے سنا؟ نذیر نیازی: میں نے سنا ہے… خورشید رضوی: کیا انداز تھا اُن کے پڑھنے کا؟ نذیر نیازی: نہایت عمدہ ترنم ہے۔ جو ماہرین ہیں موسیقی کے، اُن کا خیال ہے کہ اُن کی دھن آساکی تھی۔ خورشید رضوی: آسا نذیر نیازی: آسا… تو میرا… یعنی میں تو شد بد نہیں رکھتا… لیکن جہاں… جو سنا ہے کہ آسا میں کچھ اس طرح سے الاپ… یعنی اس طرح سے وہ… تو میرا خیال ہے کہ شاید یہ بات ٹھیک ہے۔ میں نے اُن کی نظمیں ایک تو: نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا ایک وہ: ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز تو بہت وہ کھینچتے… ستیزہ کا آآر… اور بڑا، کچھ، … لے ان کی بہت بلند چلی جاتی… اور پھر اُس کو بم ہوتا تھا، یعنی زیر ہوتا تھا، پھر اونچے… تو یہ… بہت سی… یعنی اٹھارہ میں انیس میں۱۹؎ میں نے سنا ہے۔ نہایت خوش الحان تھے اور بڑے… درد تھا… اور ایسا سننے والے متاثر ہوتے تھے۔ حالانکہ میں آج سوچتا ہوں کہ ایسے ہی جاہل لوگ تھے اُس وقت جیسے آج ہیں۔ اور ان کے افکار اور اُن کے جو جذبات کی شدت اور گہرائی ہے اس کو کہاں تک لوگ سمجھتے ہوں گے اس وقت۔ لیکن یہ ہے کہ وہ جب پڑھتے تھے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سب کا ذہن وہی ہوگیا جو ان کا ہے اور اس طرح سے سے متاثر ہوتے تھے۔ بالکل یہ… پھر بعض ان کے لطیفے بھی ہیں۔ وہ… انجمن کا جلسہ ہورہا تھا تو شاہ نواز نے کہا کہ بھئی اقبال… اقبال سے ان کی بڑی بے تکلفی تھی… لنگوٹیے تھے، جیسے عام زبان میں ہم کہتے ہیں… کہنے لگے وہ جارج… لائڈ جارج۱۷؎ نے لکھا ہے کہ ترک ہیں… ہمارے ساتھ شریک ہوجائیں جہاد میں مسلمان جو ہندوستان کے ہیں… ترک ہیں، بڑے ظالم ہیں۱۸؎ … تو وہ مشہور قطعہ جو ہے کہ: اخبار میں یہ لکھتا ہے لندن کا پادری وہ اسی وقت موزوں ہوا۔ اور شاہ نواز نے کہا کہ بھئی ذرا اقبال کا ایک قطعہ بھی سن لیجیے: بلی چوہے کو دیتی ہے پیغام اتحاد وہ جو کچھ تھا… ایسا ہی کچھ… طبیعت میں ان کی بڑا انکسار تھا۔ انکسار کا یہ عالم تھا کہ ایک صاحب ان سے ملنے آئے اور بیٹھ گئے۔ کچھ انھوں نے خیریت پوچھی اور اس کے بعد کہنے لگے کہ جناب آپ نے بڑی خدمت کی ہے قوم کی، آپ کی شاعری اور آپ کا فلسفہ اور یہ وہ …خاموش سنتے رہے… اس کے بعد کہنے لگے کہ میں تو ڈاکٹر صاحب آپ کا کلام پڑھتا ہوں تو بے حد ’’محظوظ‘‘ ہوتا ہوں۔ تو انھوں نے فرمایا کہ بہت شکریہ جناب کا۔ اور ہاتھ بڑھایا، کہنے لگے اب آپ تشریف لے جائیے، خدا کرے میرا کلام آپ سے محفوظ رہے۔ اسی طرح ایک اور صاحب آئے… اور یہ بھی ایسا ہی ہے، لطیفہ ہی سا ہے۔ وہ بھی، وہ بھی بیٹھ گئے اور … وہ وقت ایسا تھا، یا وہ دور ایسا تھا، ان کی بیماری کا… ڈاکٹروں نے، معالجین نے منع کررکھا تھا کہ وہ حتی الوسع گفتگو نہ کریں۔ لیکن یہ ہے کہ وہ برابر گفتگو کیے جارہے ہیں اور ہم خاموش ہیں، روک نہیں سکتے۔ خیر بہرحال وہ رکے اور کہنے لگے کہ ڈاکٹر اب تو آپ چھوڑ دیجیے، اب آپ حقہ یہ آپ کے لیے حقہ ٹھیک نہیں ہے، اب ترک کردیجیے حقہ نوشی۔ کہنے لگے نہیں صاحب، ایسا نہیں ہوسکتا۔ بات یہ ہے کہ یہ میرا دوست ہے۔ جب تک میں اس سے بات نہیں کرتا، یہ بات نہیں کرتا۔ خورشید رضوی: تو یہ بذلہ سنجی تھی… نذیر نیازی: بذلہ سنجی تھی ان میں… اس طرح… بات یہ ہے کہ کوئی مبتدی ہو، طالب علم ہو، جاہل ہو، کوئی ہو… وہ اس طرح سے اس سے گویا ایک… ان کے درمیان قائم ہوجاتا تھا ایک تعلق خاطر کہ جیسے ان میں اور نووارد میں، یا جو بات کہنے والا ہے اس میں، کوئی فرق نہیں… تو… جیسے بالکل معلوم نہیں کہ کب کی ہم نشینی ہے۔ کچھ لوگ آئے جہلم کی طرف سے۔ تو وہ بیٹھ گئے اور انھوں نے کچھ باتیں کرنا شروع کیں۔ وہی اُن کا پوٹھوہاری لہجہ… اور وہ جو کچھ تھا… وہی ثقیل پنجابی ایک طرح کی… تو اس کے بعد کہنے لگے کہ دیکھیے جو کچھ آپ کہتے ہیں یہی تو میاں محمد کہتے ہیں سیف الملوک میں۔ تو کہنے لگے بھئی وہ پنجابی میں مثل ہے ’’سو سیانے اِکو مت‘‘ عقل مند سو ہوش، پچاس ہوں، بات تو ایک کہیں گے، میں کچھ ان سے مختلف کہتا… تو… خاموش ہوگئے… بہت پسند آئی ان کو بات… اس طرح سے یہ تھا کہ… ایک طالب علم ایک روز آیا، وہ بیٹھ گیا۔ اس نے سلام کیا… خیر… تو اس سے پوچھا کہ میاں کیسے آئے ہو، کیا مشکل ہے، کیا ہے؟ اس نے کہا صاحب، میں صرف آپ کو دیکھنے آیا تھا۔ کہنے لگے اچھا بھئی، کیا بات ہے مجھ میں؟ کہنے لگا صاحب مجھے نہیں معلوم۔ میں جب گھر سے چلا ہوں… معلوم نہیں کسی دور دراز علاقے کا نام لیا پنجاب کے… تو میں جب چلا تو انھوں نے مجھ سے کہا تھا لاہور میں دیکھنے کی چیزیں… تو اس میں… جو انھوں نے فہرست تیار کی… مقبرہ جہانگیر کا، شالارمار باغ، یہ … تو اس میں آپ کا نام بھی تھا کہ ڈاکٹر اقبال… (ہنستے ہوئے) تو یہاں آگئے۔ بہت ہنسے کہ اچھا میاں مجھ کو دیکھ لیا اور دیکھ لو… اور اچھا جائو لاہور میں کوئی اور چیز رہ گئی ہے دیکھنے کی تو اسے دیکھو۔ واقعات تو رضوی صاحب، بہت ہیں۔ یہ ہے کہ وہ بات سے بات نکلتی ہے نا۔ آپ اگر کچھ… کوئی خاص مجھ سے سوال پوچھیں تو میں اس کا جواب دوں۔ محمود غازی: نیازی صاحب! آپ کے علم میں یہ ہے کہ علامہ کی کوئی تقریر یا کبھی شعر پڑھتے ہوئے ریکارڈ ہوا ہو؟ نذیر نیازی: ایساکبھی نہیں ہوا۔ محمود غازی: لیکن ریکارڈ تو اس زمانے میں تھا۔ قائداعظم کی سن چالیس کی تقریر ریکارڈ ہوئی۔ نذیر نیازی: ہاں، مگر اڑتیس میں فوت ہوگئے نا۔ تو ایک تو ان کی بیماری اور کچھ… بے اعتنائی اس قوم کی۔ خیال ہی نہیں پیدا ہوا۔ اب دیکھیں نا، یہی لے لیجیے کہ ان کی تاریخ ولادت کیا ہے۔ تو یہ چیز تو اس وقت طے کرنے کی تھی جب ان کا انتقال ہوا۔ لیکن یہ ہے کہ اس کی طرف جو ذہن گیا تو گیا چوہتر اور تہتر میں۔ اب وہ سینکڑوں روایات ہیں اور اس میں اب آپ کو ایک فیصلہ کرنا ہے۔ اب، جو لوگ صحیح رہنمائی کرسکتے تھے یا جن کی… جو … بات، گویا، سند ہوتی، کچھ تو چلے گئے، ہندو تھے، سکھ تھے۔ ان کے شاگرد تھے، بہت… وہ، مولوی صاحب کے… جو ان کے ہم سبق تھے…۱۹؎ تو غالباً وہ بھی اب سب کے سب ختم ہوچکے۔ تو یہاں جو لوگ تھے گویا… کہنا چاہیے کہ… رخصت ہوگئے دنیا سے۔ اب کون فیصلہ کرے۔ اب یہ ہے کہ جو… مواد ملا اس کی بنا پر ایک فیصلہ کردیا گیا کہ جناب جہاں تک مواد ملتا ہے ہمیں… تو اس کی رعایت سے ہم یہ فیصلہ کررہے ہیں۔ ممکن ہے یہ فیصلہ، آپ کسی روز کہہ دیں کہ غلط ہے… لیکن اُس وقت کسی کو خیال نہیں آیا… تو اس طرح سے اور بہت سی چیزیں ہیں… خورشید رضوی: نیازی صاحب! آخری عمر میں علامہ صاحب مطالعہ کچھ کرتے تھے کسی وقت میں؟ یا، چونکہ بیشتر، لوگ ان سے ملنے آتے رہتے تھے اور صحت بھی ان کی اچھی نہیں تھی… نذیر نیازی: یہ جو آپ فرماتے ہیں نا… ان کا… یہ ایک عجیب چیز ہے… اور غالباً ہر… جو نابغہ ہے… اس میں ایک یکتائی سی ہوتی ہے۔ دیکھیے یہ نہیں کہ صحت جب ان کی بگڑی… میں تو ان سے … سن اٹھارہ سے باربار ان کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا… میں یہ دیکھتا تھا… خود میرے ذہن میں سوال پیدا ہوتا تھا کہ یہ مطالعہ کب کرتے ہیں؟ مطالعے میں ان کی جو نظر تھی… وہ… میں عرض کروں کہ اس قدر گہری تھی اور جو کچھ اس میں… کوئی چیز کسی کتاب میں ہوتی تھی اس قابل کہ اسے… گویا… یاد رکھا جائے، کچھ اس طرح سے ان کے ذہن میں مرتسم ہوجاتی تھی، کہنا چاہیے، جیسے کوئی نقش مرتسم ہوجاتا ہے، کہ تعجب ہوتا… مثلاً ایک روز مجھ سے کہنے لگے… میں نے ایک چھوٹا سا مضمون لکھا۔۲۰؎ اپنے نام سے نہیں، ایسے ہی، وہ جب بتیس تینتیس میں یہ قصہ چل رہا تھا احرار اور قادیانیوں کا۔ تو اس میں… مجھ سے کہنے لگے یہ تم نے ٹھیک لکھا ہے، یہ لکھنا چاہیے، یہ نہیں… کہنے لگے مگر دیکھیے پنجاب یونی ورسٹی لائبریری میں ایک کتاب ہے Civils and Seers۲۱؎ اس کو… فلاں صفحہ ہے اس کا۔ اسے پڑھ ڈالو تو یہ سارا قصہ جو قادیانیت کا ہے یہ وہاں سے دیکھ لو۔ تو خیر صاحب میں وہ …چھوٹی سی کتاب تھی… وہ میں کتاب لے آیا تو میں نے اس کو شروع سے لے کر آخر تک پڑھنا شروع کیا۔ اس میں کہیں وہ… حتیٰ کہ وہ صفحہ، جو اشارہ کیا تھا انھوں نے… تو دیکھا میں نے تو کبھی نہیں تھا۔ البتہ اس کے نیچے ایک فٹ نوٹ تھا اور جو کچھ تھا اس فٹ نوٹ میں تھا تین سطروں میں، جو مغز تھا، جوت بات تھی… تو یہ کیفیت تھی۔ اب کہ آپ فرمائیے نا آپ نے ابھی مجھ سے پوچھا ہے کہ وہ مطالعہ ان… کتابیں ان کی نشست گاہ میں، اگر آپ ان سے ملتے اور بیٹھے، تو ایک الماری تھی، جس میں زیادہ سے زیادہ میرا خیال ہے، ڈیڑھ دو سو کتابیں سماسکتی تھیں۔ اس کے بھی دو تین خانے خالی رہتے تھے۔ اوپر کے خانے میں قرآن مجید کا انگریزی اور اُردو نسخہ… اور کوئی ایسی کتاب۔ لغت کی یا کوئی دوسری۔ کوئی چار چھے کتابیں اس خانے میں، دس پندرہ اس بیس اس میں۔ مشکل سے یہ کتابیں ہوں گی۔ اب، پڑھتے کب تھے، کیا کرتے تھے۔ ایک صاحب تھے خواجہ سلیم… اب وہ ہیں لاہور میں،۲۲؎ اللہ ان کو خوش رکھے اور زندہ رکھے، ان کا کام تھا کہ وہ ڈاکٹر صاحب کے لیے کتابیں لائیں گے۔ تو جب دیکھیے دوسرے تیسرے روز وہ ایک باقاعدہ پلندہ اُٹھائے کتابوں کا… وہ پہنچتے تھے، میکلوڈ روڈ پہ یا جاوید منزل میں اور دوسرے تیسرے روز وہ واپس… تو سوال یہ تھا کہ یہ دس بیس کتابیں وہ کیسے ورق گردانی فرماتے اور اس میں جو کچھ دیکھنے کی بات تھی دیکھ لیتے۔۲۳؎ تو میں نے جو دیکھا، یا جو رائے میری ہے، وہ یہ ہے کہ وہ بہت سحر خیز تھے۔ پہلی بات۔ لکھا بھی ہے کہ: نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحر خیزی اور علی بخش کہتا ہے کہ میرا یہ فرض تھا کہ مصلیٰ اور پانی کا لوٹا وضو کے لیے اور قرآن مجید اور جائے نماز یہ… تو وہ تہجد بھی پڑھتے کبھی اور فجر پڑھتے، قرآن مجید پڑھتے اور اس کے بعد وہ بیٹھ کر یا لیٹ کر، میرا خیال ہے کوئی ڈیڑھ دو گھنٹہ مطالعہ کرتے تھے۔ تو پھر وہ اگر۲۴؎ بہت کم جاتے تھے عدالت میں، ہائی کورٹ میں… تو یہ ہے مثلاً کوئی مقدمہ ہے، اس کے لیے تھوڑی سی تیاری کرنا ہے، اور اس میں بھی ان کا یہ تھا کہ بھئی خرچ اگر دو سو روپیہ ماہوار ہے تو بس اگر فیس آگئی ہے دو سو تو اور کوئی مقدمہ نہ لو۔ یہ ان کی مستقل روایت تھی۔ تو وقت ان کا جو تھا مطالعے کا وہ نو دس تک یا آٹھ تک تھا۔ جیسا کہ … ان کی ضرورت تھی، کسی عدالت میں جانے کی، ہائی کورٹ میں… اگر نہیں ہے تو نہ سہی۔ …صبح کا… اس کے بعد جب وہ… جاتے تو کچھ لوگ آتے، ملاقاتیں شروع ہوجائیں۔ ہائی کورٹ سے واپس آتے تو آرام کرتے اور اس وقت ممکن ہے کہ وہ جب کچھ… تھوڑی سی نیند لیتے، اس وقت ممکن ہے کہ تھوڑا سا مطالعہ کرتے ہوں۔ اس کے بعد پھر برابر رات کے بارہ بج جاتے، گیارہ بج جاتے، بعض دفعہ ایک بج جاتا، تو تیسرے پہر سے جو نشست شروع ہوتی… (ہنستے ہوئے)… بیٹھک لگتی تھی، آپ کہہ لیجیے وہ برابر سلسلہ رہتا۔ اور کوئی موضوع نہیں تھا جس پر کچھ… نہ کہتے ہوں۔ باتیں ہوتیں، ہر طرح کی… ہوتی رہتیں۔ اس میں عامی، خاص، ان کے احباب سبھی طرح کے… جو آیا بس وہ بیٹھ گیا۔ اور جب جی چاہا اُٹھ کے چلا گیا۔ تو پھر برابر گفتگو رہتی۔ یہ تھا ان کا انداز۔ اس میں، میں یہی سمجھا ہوں کہ جیسے میں نے عرض کیا، کہ ہر نابغہ جو ہے وہ کچھ… نابغہ اس لیے ہے کہ جس چیز کو ہم شاید دو دن میں حاصل کرتے ہیں وہ دو لمحوں میں اسے مل جاتی ہے۔ تو یہ تھا ان کے مطالعے کا انداز۔ اور اس میں۲۵؎ یہ ہے کہ ان کا کوئی… یہ نہیں ہے کہ کوئی تصنع ہو اس میں یا تکلف کی بات ہو… یا خود انھوں نے کسی وقت یہ رائے قائم کی ہو۔ وہ ابتدا ہی میں انھوں نے مجھ سے کہا کہ جب میں پڑھتا ہوں، مطالعہ کرتا ہوں، یا کوئی مسئلہ میرے سامنے آتا ہے، کچھ ہوتا ہے،… تو جب میں رُک جاتا ہوں اور مجھے بظاہر حل نظر نہیں آتا تو پھر میں کلامِ پاک سے رجوع کرتا ہوں… قرآن مجید سے، تو پھر میں جب رجوع کرتا ہوں تو وہ مشکل میری حل (ہوجاتی ہے)۲۶؎ میں نے ایک دفعہ ان سے کہا، میں نے کہا، یہ نطشے کے بارے میں اس قدر… لوگوں نے خواہ مخواہ ایک طومار باند ھ رکھا ہے…۲۷؎ جو کچھ ہے… کہنے لگے چھوڑیے مجھے تو رنج اس کا نہیں ہے کہ لوگ لکھتے ہیں… مجھے تو دکھ اس کا ہے کہ ہمارے ہاں زوال ہے۔ میں دیکھتا ہوں لوگ اعتراض کرتے ہیں… اُٹھ کہ خورشید کا سامانِ سفر تازہ کریں۲۸؎ میں کیا کہوں، تمام ہماری ادبی روایات ختم ہوچکی ہیں۔ اس طرح سے باقی روایات ختم ہوچکیں… تو یہ… تو رونے کی بات یہ ہے۔ یہ کیا ہے۔ ٹھیک ہے کسی نے کہہ دیا کچھ… جو کچھ ہے… تو اس وقت محمد اسد Leopold Weiss۲۹؎ وہ بھی میرے ساتھ بیٹھے تھے۔ انھوں نے بہت زور دیا۔ کہنے لگے پھر بھی… انھوں نے انگریزی میں ان سے کہا کہ پھر بھی دیکھیے نا تھوڑی بہت گویا مدد ہوجائے گی ہم لوگوں کی، اگر آپ نطشے کے بارے میں کچھ اپنے خیالات کا اظہار فرما دیں۔ کہنے لگے بہت اچھا۔ مجھ سے کہنے لگے بھئی کل دوپہر کا وقت ٹھیک رہے گا۔ خیر وہ… میں پہنچا… تو اب… چھوٹی سی میز رکھی تھی، اس پہ کاغذ اور قلم دوات… بیٹھ گیا تو کہنے لگے ذرا… اشارہ کیا الماری کی طرف… تو میرا یہ خیال تھا شاید کوئی فلسفے کی یا کوئی اور کتاب ہے جو اشارہ کررہے ہیں… کہنے لگے نہیں قرآن مجید… تو میں اٹھا لایا تو سورہ حشر کا آخری جو رکوع ہے… الملک القدوس السلام … یہ پورا کہنے لگے اور پھر اس کے بعد انھوں نے اشارات… کی… ابتدا کردی۔ اب… وہ میں لکھتا چلا جاتا تھا… چار چھے۳۰؎ … میرا ارادہ ہے اس کو مرتب کرنے کا… ویسے تو وہ انھوں نے، عبدالواحد نے، جو آج کل ہیں چیئرمین، وائس چیئرمین، اقبال اکیڈیمی کے، انھوں نے بڑی زیادتی کی ہے کہ انھوں نے ایک مجموعہ چھاپا ہے اس میں اسے بھی چھاپ دیا ہے۔۳۱؎ لیکن یہ ہے کہ وہ Notes کہاں کہاں گئے، امریکہ میں پہنچے، یو-کے میں پہنچے… کن ہاتھوں سے گزرے، کیا صورت تھی… وہاں اس زمانے میں ایک صاحب پروفیسر آئے تھے، بوسٹن یونی ورسٹی سے۔ ان سے میں ملا۔ انھوں نے استفادہ کیا۔ وہ ساتھ لے گئے۔ پھر… مجھے واپس کردیے۔ پھر انھوں نے… انگلستان میں ایک عبداللہ یوسف علی تھے، صدر تھے، انھوں نے کچھ اظہارِ خیال کیا… ان Notes کے بارے میں… میں یہ سب کچھ لکھنا چاہتا تھا کہ وہ ان Notes کے بارے میں… کیسے لکھے گئے، کیا صورت ہوئی کن ہاتھوں میں یہ کہاں کہاں سے… انھوں نے کچھ زیادتی فرمائی کہ انھوں نے چھاپ دیا اس کو۔ بہرحال، وہ میرے ذہن میں ابھی تک ہے کہ میں بطور مقدمے کے یا کسی طرح سے وہ میں… اسے لکھوں۔۳۲؎ تو میرا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ ہمیشہ یہ سمجھتے تھے۳۳؎ ایک عام ہم… کہنے کی بات ہوگئی ہے ناکہ قرآن مجید میں سب کچھ ہے۔ مگر یہ کہ فی الواقع ہم سمجھیں، ثابت کرسکیں اور یا، صحیح، جو فی الواقع معنی ہیں اس کے… تو وہ بالعموم… گفتگو میں یہی ہوتا تھا۔ ذرا سی بات ہوئی تو انھوں نے فوراً قرآن مجید کی طرف اشارہ کیا، ذرا سی بات ہوئی تو کہا کہ دیکھیے نا ایسا ہے… مجھ سے کہنے لگے کہ میں… یہ جب… نظریۂ اضافیت آیا ہے تو میں بڑے چکر میں رہا دیر تک… آئن سٹائن کا کہ Its a growing universe … تو میں بڑے چکر میں رہا۔ تو میں نے ایک روز علی بخش سے کہا، میں نے بھئی علی بخش ذرا قرآن مجید اٹھا لائو… تو تعجب ہے کہ جب میں نے کھولا تو پہلی آیت جس پر میری نگاہ پڑی… میں کئی تلاوت کرچکا تھا، یہ تھوڑا ہی ہے کہ میں نے اس روز قرآن مجید پر… گویا… مجھے ضرورت پیش آئی… بچپن میں برابر۳۴؎ … تو پہلی جو آیت… میری نگاہیں جس آیت پر… سامنے آئی وہ ’’یزید فی الخلق ما یشائ‘‘۳۵؎ … تو میری مشکل حل ہوگئی۔ تو اسی طرح ایک روز ہم بیٹھے تھے۔ جنات کی گفتگو شروع ہوگئی۔ بھئی ہیں یا نہیں ہیں… آپ جانتے ہیں… یہ تو قصہ ایسا ہے غیر مختتم۔ تو میں نے کہا ایک شیعہ عالم ہیں ان کا کچھ یہ خیال ہے… خیر اس پر غور کیا۔ اس کے بعد جب (یہ کہا کہ صاحب)۳۶؎ وہ برابر ہے کہ انا سمعنا۳۷؎ … جو کچھ ہے۔ تو کہنے لگے کہ: Why not a denizen of some other planet یہ… خورشید رضوی: (دہراتے ہوئے) Why not a denizen of نذیر نیازی: some other planet…یہ بھی تو ہوسکتا ہے… و انہ…پھر آیت پڑھی… کہ وہ تو ان کو جمع کرنے پر قدیر ہے نا… وہ جو آیت ہے کہ انہ علی جمع۳۸؎ … تو میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے ذہن میں جہاں فلسفہ اور یہ شعر اور یہ… وہاں ساتھ ساتھ اس کے حوالے میں (…)۳۹؎ اور قرآن مجید یہ سب ان کے ذہن میں رہتا تھا اور وہ … یہ تربیت ان کی کچھ ایسی ہوئی تھی، اساتذہ ان کو ایسے ملے… تو شروع ہی میں، کچھ اللہ تعالیٰ کا، یہ کہنا چاہیے فضل ہے۔ ان کے والد جو تھے کچھ ان کا ذہن بھی ایسا ہی تھا… تو وہ شروع ہی سے ان کا ایک خاص تعلق تھا… یہ کہنا غلط ہے کہ صاحب، انھوں نے یہ لیا… وہاں سے لیا اور تطبیق اس کو دے دی اور یہ کیا۔ یہ (…)۴۰؎ باتیں ہیں۔ جو نہیں جانتا ان کو وہ اس طرح کی باتیں کہہ سکتا ہے۔ محمود غازی: یہ جنات کے بارے میں تو آپ نے بڑی دل چسپ بات کہی۔ کیا اس پر کسی نے پھر تفصیل سے مطالعہ کیا؟ نذیر نیازی: نہیں… پھر بات یہ ہے کہ یہ جو… مطالعہ یہ جو ہے نا… بہت سی چیزوں کا… اب، یہ اس دور کی باتیں جب ان کی صحت بالکل گر چکی تھی۔ اب اس میں مزید جو ہے نا طوالت… کلام، جو ہے…۴۱؎ مثلاً کہنے لگے، دو آدمی عجب پیدا ہوئے ہندستان میں۔ ایک سیّد احمد خاں اور ایک مرزا غلام احمد۔ ایک نے دعا سے انکار کردیا ایک نے بات بات پہ دعا کی۔۴۲؎ تیس روپے آجائیں، بیس روپے آجائیں، دعا کی ہے (ہنستے ہوئے)… اور ایک نے انکار کردیا، یہ بات غلط ہے۔ اس کو تو سلجھایا ہے… مسئلے کو… نام لیا انھوں نے ابن عربی کا، پھر کچھ ابن خلدون کی طرف اشارہ کیا۔۴۳؎ اب میرے ذہن میں یہ تھا کہ اگر موقع ملے تو میں دریافت کروں کہ اشارہ کریں کہ کہاں اور کیسے؟ …میں… اعتراف ہے مجھ کو کہ میں نے ورق گردانی کی ابن خلدون کی… اور یہ بھی میری… معلوم نہیں ہوسکا کہ کیا تھا ان کے ذہن میں… لیکن یہ کہ میں پوچھ نہیں سکا…۴۴؎ خورشید رضوی: یہ جنات کے سلسلے میں؟ نذیر نیازی: نہیں، یہ دعا کے سلسلے میں… انھوں نے کہا… یہ بات تو ٹھیک ہے کہ سرسیّد کا انکار غلط ہے، پرویز صاحب کا بھی یہی ہے نا… اور مرزا صاحب کا… وہاں تو بات بات میں ہوتا ہے کہ دعا کیجیے… اچھا دعا کیجیے، یہ ہوجائے، دعا کیجیے… اس پر وہ کہہ اُٹھے کہ وہ دعا کو بہت کم سمجھتے ہیں۔ خورشید رضوی: یعنی یہ انداز درست نہیں ہے۔ نذیر نیازی: یہ درست نہیں، نہ انکار کا، نہ اس کو اس طرح سے گویا انتہا… یہ چیز ہوجائے کہ تو…یہ… اب باتیں تو دیکھیے نا رضوی صاحب بہت نہیں ہیں۔ خورشید رضوی: نوازش بڑی جی، آپ کی… بہرحال… نذیر نیازی: آپ نے بہرحال، وہ جو چلتی پھرتی تصویر تھی… نہیں آسکی۔ خورشید رضوی: بڑی نوازش محمود غازی: دو ایک باتیں کچھ ان کی روزمرہ زندگی کے بارے میں بھی… نذیر نیازی: میں نے تو عرض کیا ناکہ ان… معمول ان کا یہ تھا کہ بس… صبح…ض کیا میں نے کہ یہ تو پابندی تھی، قرآنِ مجید کی تلاوت اور فجر یا تہجد۔ لکھا بھی ہے: لطف قرآن سحر باقی نہ ماند۴۵؎ اب اس کے بعد یہ ہے کہ… یہ میں عرض کرچکا… اگر تو انھیں جانا ہے باہرپھر تو بہ تکلف کوٹ اور پتلون پہنتے تھے۔ مگر جو نفرت ان کو اس لباس سے تھی، میں سمجھتا ہوں شاید ہی کسی اور … اور ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ یہاں کوئی ایسا درزی پیدا ہو جس نے اندر گویا … اوریجنیلٹی ہو… جو لباس ایجاد کرے۔ جیسا ایجاد ہوتا رہا… کہنے لگے یہ جو لباس ہے ہمارا… ٹھیک ہے اب وہ وقت کا ساتھ نہیں دیتاا لیکن اس میں بھی قطع و برید ہوتی رہی ہمیشہ۔ یہ شیروانی ہے، اچکن ہے، چپکن ہے، جو کچھ ہے، انگرکھا ہے… تو ایسا ایسا… جس میں مادہ ایجاد ہو… لیکن انھیں بڑی اس سے نفرت تھی… اور پھر یہ ہے کہ وہ اب، اس کے بعد انھوں نے دوہرا تہمد ہوتا ہے لٹھے کا یا دوسرا تیسرا اور جناب بنیان ہے اور ایک قمیض ہے اور بڑے مزے سے بیٹھے ہیں… رات تک اپنے مزے سے بیٹھے ہیں۔ اور اگر جاڑا ہے تو انھوں نے کوئی دھسہ یا کوئی شال یا کوئی اس طرح کی چیز اوڑھ لی… کھانے پینے میں بڑا کم تکلف… صبح میں نے دیکھا کہ لسی کا ایک گلاس اور ایک آدھ بسکٹ۔ دوپہر میں دو خمیری روٹیاں۔ مگر یہ ہے صاحب سالن کا ذائقہ اچھا ہو، رنگ اچھا ہو، بو اچھی ہو… شاعر آدمی ہیں نا، صاحب فن… کم ہو لیکن یہ… شام کو پھر دلیہ اور دودھ خورشید رضوی: جی؟ نذیر نیازی: دلیہ اور دودھ… حوالے اور حواشی ۱- اہل عروض کے نزدیک یہ رباعیاں نہیں ہیں۔ سیّد نذیر نیازی صاحب نے اپنے مضمون ’’علامہ اقبال کی آخری علالت‘‘ میں خود وضاحت فرمائی ہے: ’’رباعیات- یا قطعات۔ اس لیے کہ اوزان کی رو سے غالباً انھیں قطعات کہنا ہی زیادہ مناسب ہے۔ اگرچہ حضرت علامہ نے خود ان کو رباعیوں ہی سے تعبیر کیا۔‘‘ (سہ ماہی اردو انجمن ترقی اردو (ہند) نئی دہلی، ’’اقبال نمبر‘‘، اکتوبر ۱۹۳۸ئ، ص۱۰۵۷) مزید تحدید کے ساتھ انھیں ’’قطعات‘‘ بھی نہیں بلکہ ’’دوبیتیاں‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہے۔ یہاں حافظ محمود شیرانی صاحب کے ۱۹۴۰ء کے ایک مضمون، ’’رباعی کے اوزان یاد رکھنے کا ایک آسان طریقہ‘‘ سے بھی ایک اقتباس برمحل ہوگا: ’’… بہت سے لوگوں کو رباعی کے باب میں دھوکا ہوا ہے ڈاکٹر سر محمد اقبال کے متعلق مشہور ہے کہ وہ بعض غیر رباعی اوزان کو رباعی سمجھتے رہے اور جب انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوا، اس کے ازالے کی کوشش کی۔‘‘ (مقالات حافظ محمود شیرانی، مجلس ترقی ادب لاہور، ۱۹۸۵ئ، ۸؍۲۴۶) ان دو بیتوں کا عروضی اعتبار سے ’’رباعی‘‘ نہ ہونا بجا لیکن یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ شیرانی صاحب کے ارشاد کے مطابق، علامہ کو اپنی غلطی کا احساس کب ہوا اور اس کے ازالے کی کوشش کب اور کیونکر کی جبکہ ارمغانِ حجاز کے مسودے میں بھی… جو ان کا آخری مجموعہ ہے اور ان کی وفات کے بعد شائع ہوا… بخط علامہ ان منظومات کو ’’رباعیات‘‘ ہی لکھا گیا ہے۔ علامہ نے علم عروض سبقاً سبقاً پڑھا تھا (دیکھیے تلوک چند محروم ’’علامہ اقبال سے ایک مختصر ملاقات‘‘ سالنامہ ہفت روزہ چٹان شمارہ ۳۰؍جنوری ۱۹۵۶ئ، ص۴۷) چنانچہ وہ رباعی کے مسلمہ اوزان سے ناواقف نہ تھے۔ ان کے ابتدائی کلام ہی میں کم از کم دو رباعیاں ریکارڈ پر ہیں۔ ایک اپریل۴ ۱۹۰ء کی جو انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں مولانا حالی نظم پڑھ کر سنانے سے قبل انھوں نے فی البدیہ کہہ کر پڑھی: مشہور زمانے میں ہے نام حالی معمور مئے حق سے ہے جامِ حالی میں کشور شعر کا نبی ہوں گویا نازل ہے مرے لب پہ کلامِ حالی اور دوسری جو جون ۱۹۰۵ء میں شائع ہوئی: واعظ! ترے فلسفے ہوں میں حیراں منطق ہے تری نئی ، نیا طرزِ بیاں انسان کے واسطے ہے مذہب لیکن تو کہتا ہے ، مذہب کے لیے ہے انساں (دیکھیے محمد حنیف شاہد، اقبال اور انجمن حمایت اسلام، کتب خانہ انجمن حمایت اسلام لاہور، جولائی ۱۹۷۶ئ، ص۸۰-۸۱) (ڈاکٹر گیان چند ابتدائی کلامِ اقبال بترتیب مہ و سال ریسرچ سنٹر حیدرآباد (ہند) ۱۹۸۸ئ، ص۲۴۷،۲۸۲) چنانچہ یہ تصور کرنے کے بجائے کہ ’’وہ بعض غیر رباعی اوزان کو رباعی سمجھتے رہے‘‘ یہ توجیہ زیادہ قرین قیاس ہوگی کہ رباعی کے اوزان سے واقفیت کے باوجود وہ ان کے بارے میں زیادہ جکڑبندی کے قائل نہ تھے اور دوبیتی کو بھی، چار مصرعوں کی رعایت سے، رباعی کہنے میں مضائقہ نہ سمجھتے تھے جیسا کہ بابر طاہر عریاں کی دو بیتیاں بالعموم ’’رباعیات‘‘ ہی کے نام سے مشہور ہیں۔ علامہ کی دو بیتیاں بھی بیشتر اسی وزن میں ہیں اور غالباً انھوں نے ازروئے سہو نہیں بلکہ برسبیل توسع ان کو رباعی کہنے میں کوئی حرج نہیں سمجھا۔ پھر ان کا یہ ذہنی توسع صرف اس وزن تک محدود بھی نہیں۔ چنانچہ جب محمد رمضان صاحب نے اس نے درخواست کی کہ یہ شعر: تو غنی از ہر دو عالم ، من فقیر روز محشر عذر ہائے من پذیر ور حسابم را تو بینی ناگزیر از نگاہِ مصطفیؐ پنہاں بگیر انھیں بخش دیے جائیں تو علامہ نے اپنے مکتوب، مؤرخہ ۱۹؍فروری ۱۹۳۷ء میں تحریر کیا: ’’شعر کسی کی ملکیت نہیں۔ آپ بلاتکلف وہ رباعی کو آپ کو پسند آگئی ہے، اپنے نام سے مشہور کریں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔‘‘ (بشیر احمد ڈار (مرتب) انوارِ اقبال اقبال اکادمی پاکستان، کراچی، مارچ ۱۹۶۷ئ، ص۲۲۲-۲۲۳) ۲- ریکارڈنگ سے فوراً پہلے کی بات چیت کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر تمہید میں ہوچکا۔ ۳- تاہم علامہ نے اس مشورے کو قبول نہیں کیا۔ ۴- سہو کلام ہے۔ یہ نام ’’نشانِ راہ‘‘ نہیں ’’نشانِ منزل‘‘ تھا جیسا کہ خود نیازی صاحب نے لکھا ہے۔ (دیکھیے سیّد نذیر نیازی مکتوباتِ اقبال،اقبال اکیڈمی کراچی، ۱۹۵۷ئ، ص۱۸۷، ۱۸۸) ۵- اس شعر کی تعیین کے لیے دو ایک اقتباس مفید ہوں گے: بالِ جبریل کی اشاعت پر جب میں نے عرض کیا یہ شعر: عرصہ محشر میں میری خوب رسوائی ہوئی داور محشر کو اپنا رازداں سمجھا تھا میں ’’کیا آپ نے خود ہی خارج کردیا؟ فرمایا نہیں اسے محفوظ کرلو‘‘ (سید نذیر نیازی دانائے راز، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۷۹ئ، ص۳۱۷) ’’ہم میں سے کسی نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب اس غزل کا بہترین شعر یعنی: عرصہ محشر میں میری خوب رسوائی ہوئی داور محشر کو اپنا رازداں سمجھا تھا میں شائع ہونے سے رہ گیا۔ کہنے لگے: ’’ہاں، مگر مجھے اس بات کا اس وقت خیال آیا جب کہ کتاب کاتب کے پاس جاچکی تھی اور اس شعر کا اندراج ممکن نہ تھا۔‘‘ (محمود نظامی (مرتب) ملفوظاتِ اقبال مع حواشی و تعلیقات از ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ۱۹۷۷ئ، ص۲۱۲، چند ملاقاتیں از سیّد الطاف حسین) یہ شعر جو بالِ جبریل میں شامل ہونے سے رہ گیا اس غزل میں سرزد ہونے والا اوّلین شعر تھا۔ غزل ڈاکٹر تاثیر اور ان کے ساتھیوں کے اصرار پر فی البدیہہ کہی گئی تھی۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے ملفوظاتِ اقبال، ص۱۲۶-۱۲۹، ایک فیضانی لمحے کی یاد از ڈاکٹر تاثیر) ۶- ’’تھا‘‘ پر زور دیتے ہوئے۔ غالباً یہ وہی نسخہ ہے جس کا ذکر نیازی صاحب نے مکتوباتِ اقبال میں یوں رقم کیا: ’’زبورِ عجم کا نیا نسخہ (اردو ترجمے کے ساتھ) البتہ شائع نہیں ہوسکا۔ یہ ترجمہ حواشی کی شکل میں تھا‘‘ (مکتوباتِ اقبال، ص۲۷۰) ۷- یہ بات علامہ نے نیازی صاحب سے زبانی کہی تھی جیسا کہ نیازی صاحب نے لکھا ہے: ’’سنہ ۱۹۳۲ء میں انگلستان سے واپس آئے ہوئے، جب وہ موتمر اسلامیہ میں شرکت کے لے بیت المقدس تشریف لے گئے ہیں تو اس وقت سفر حجاز کا سامان تقریباً مکمل ہوچکا تھا۔ لیکن پھر جیسا کہ انھوں نے خود مجھ سے فرمایا ’’اس بات سے شرم آتی تھی کہ میںگویا ’’ضمناً‘‘ دربار رسول ا میں حاضر ہوں۔‘‘ خیر اس وقت تو یہ ارادہ پورا ہونے سے رہ گیا مگر ان کے تاثرات دب نہ سکے اور ان کا اظہار اس نظم میں ہوا جو ’ذوق و شوق‘ کے عنوان سے بالِ جبریل میں موجود ہے۔‘‘ (سہ ماہی اردو انجمن ترقی اردو (ہند) نئی دہلی، ’’اقبال نمبر‘‘، اکتوبر ۱۹۳۸ء ص۱۰۵۶، ’’علامہ اقبال کی آخری علالت‘‘ از سیّد نذیر نیازی‘‘ یہی بات علامہ نے اپنے بھائی شیخ عطا محمد صاحب سے بھی فرمائی تھی۔ (دیکھیے اعجاز احمد، مظلوم اقبال، کراچی ۱۹۸۵ئ، ص۱۵۳) ۸- یہ شعر، جو علامہ نے نظم ’’ذوق و شوق‘‘ کے آغاز میں نقل کیا ہے، بوستانِ سعدی کے دیباچے میں ’’سبب نظم کتاب‘‘ کے ذیل میں وارد ہوا ہے۔ سعدی فرماتے ہیں کہ اقصائے عالم کی سیر کے بعد وطن لوٹتے ہوئے، خالی ہاتھ آنا مجھے مناسب معلوم نہ ہوا چنانچہ یہ سخن ہائے شیریں بطور ارمغان لایا ہوں۔ اسی کو تلمیح بناتے ہوئے علامہ نے دوسری گول میز کانفرنس کے موقع پر لندن، پیرس، روم، مصر اور فلسطین کے سفر سے واپس آتے ہوئے اس شعر کو استعمال کیا ہے کہ مجھے بھی اقصائے عالم کی سیر سے وطن واپس آتے ہوئے خالی ہاتھ آنا مناسب معلوم نہ ہوا چنانچہ یہ اشعار… (جن میں سے اکثر فلسطین میں لکھے گئے)… بطور ارمغاں لایا ہوں۔ نظم ’’ذوق و شوق‘‘ کی فضا البتہ ضرور اس سفر حجاز کی ہے جو تصور میں کیا گیا۔ شاید اسی مناسبت سے سعدی کا یہ شعر نیازی صاحب کے ذہن میں علامہ کی تمنائے حاضری کے ساتھ لازم وملزم ہوگیا چنانچہ انھوں نے مکتوباتِ اقبال (ص۷۷) میں بھی اسی سیاق میں اسے نقل کیا ہے۔ ۹- مضمون ’’علامہ اقبال کی آخری علالت‘‘ میں بھی نیازی صاحب نے ذکر فرمایا ہے کہ: ’’اب ۱۹۳۷ء میں ان کی حالت بہتر ہوئی تو انھوں نے مختلف جہازراں کمپنیوں سے خط کتابت شروع کردی‘‘ (سہ ماہی اردو حوالہ بالا) ۱۰- ۹؍جنوری ۱۹۳۸ء (دیکھیے سیّد نذیر نیازی اقبال کے حضور، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ۱۹۸۱ئ، ص۳۶) ۱۱- ان تینوں حضرات، اور انھی کے زمرے میں شیخ سراج الحق، کے بارے میں تعارفی حواشی کے لیے دیکھیے اقبال کے حضور، حوالہ بالا۔ ۱۲- پرویز صاحب بھی ۲۴؍فروری ۱۹۸۵ء کو وفات پاگئے۔ ۱۳- اصل سبب غالباً آواز کی معذوری تھی چنانچہ اس واقعے کی تفصیل اقبال کے حضور میں یوں موجود ہے: ’’… حضرت علامہ نے بات ختم کی تو انھوں نے تبرک کی فرمایش کردی۔ فرمایا میں تو معذور ہوں، انھیں کچھ یاد ہو تو… اشارہ میری طرف تھا… سن لیجیے۔‘‘ (اقبال کے حضور، ص۳۸) ۱۴- ’’انھیں سنائیں‘‘ کے الفاظ ٹیپ میں بہت مدھم ہیں غالباً اسی طرح ہیں۔ ۱۵- لفظ ’’دوست‘‘ نیازی صاحب نے ایرانی لہجے میں اور بہت کھینچ کر، گویا علامہ کی رقت جذبات کی محاکات کے لیے، ادا کیا ہے کیونکہ جذبات سے مغلوب ہوکر وہ خود نشید فرمانے لگے تھے۔ یہ دوبیتی ارمغانِ حجاز میں حصہ ’’حضورِ حق‘‘ کی آخری دو بیتی ہے۔ گویا اس میں ’’حضور سالت‘‘ کے آغاز کا قرینہ رکھا گیا ہے۔ پہلا مصرع، جو یہاں نہیں لایا گیا، یوں ہے: بدن واماند و جانم در تگ و پوست اقبال کے حضور میں اس واقعے کی تفصیل یوں درج ہے: ’’میں نے مصرع اوّل پڑھا۔ دوسرا مصرع پڑھ رہا تھا کہ علامہ پر رقت طاری ہوگئی اور وہ باربار اس کا تکرار کرنے لگے۔ میں خاموش ہوگیا۔ اس پر انھوں نے تیسرا مصرع خود ہی ارشاد فرمایا لیکن ابھی پوری طرح ادا نہیں کرپائے تھے کہ آواز گلوگیر ہوگئی اور وہ یوں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے کہ احباب دہلی پریشان ہوگئے‘‘ (اقبال کے حضور، ص۳۸) غالباً مراد یہ ہے کہ چوتھا مصرع ابھی پوری طرح ادا نہیں کرپائے تھے جیسا کہ اس مکالمے سے ظاہر ہے کہ لفظ ’’دوست‘‘ پر پہنچتے پہنچے دل بے قابو ہوگیا۔ ۱۶- سنین اندازے سے بتائے گئے۔ نظم ’’ارتقا‘‘… (ستیزہ کار رہا ہے… الخ) انجمن حمایت کے پینتیسویں سالانہ جلسے کے ۴؍اپریل ۱۹۲۰ء کے پہلے اجلاس میں سنائی گئی (دیکھیے اقبال اور انجمن حمایت اسلام، ص۸۶-۸۷، مظلوم اقبال، ص۱۲۴) اسی روز بعد از دوپہر، دوسرے اجلاس میں ’’لندن کا پادری‘‘ والا قطعہ بھی سنایا گیا (دیکھیے اقبال اور انجمن حمایت اسلام، ص۸۷)۔ اس قطعے کا ذکر حاشیہ نمبر۱۸ میں، نیازی صاحب ہی کے الفاظ میں آرہا ہے۔ انھوں نے وہاں بھی اس اجلاس کا زمانہ ۱۹۲۰ء کے بجائے ’’۱۹۱۹ء کا ابتدائی زمانہ‘‘ قرار دیا ہے جو سہو ہے۔ ۱۷- George Lloyd وزیراعظم برطانیہ )۱۹۱۶ئ- ۱۹۲۲ئ)۔ غالباً یہاں ان کا نام سہواً آگیا ہے کیونکہ اشعار میں حوالہ پادری کا ہے اور روداد انجمن حمایت اسلام سے بھی اسی کی تصدیق ہوتی ہے (دیکھیے اقبال اور انجمن حمایت اسلام، حوالہ بالا)۔ خودی نیازی صاحب نے یہی واقعہ اقبال کے حضور میں انگلستان کے لاٹ پادری یعنی آرچ بشپ آف کنٹربری کے حوالے سے لکھا ہے جس کی تفصیل آیندہ حاشیے میں آتی ہے۔ ۱۸- یعنی ترک زیادتی کررہے ہیں لہٰذا مسلمانانِ برصغیر انگریزوں کا ساتھ دیں۔ اس واقعے کی تفصیل نیازی صاحب نے اقبال کے حضور میں یوں بیان کیا ہے: ’’… لیکن میاں شاہ نواز سے ان کی دوستی محض دوستی ہی نہیں تھی، یار باشی تھی کہ جب کبھی مل بیٹھتے بڑی مزے کی صحبت رہتی۔ چنانچہ سالہاسال گزر گئے وہ منظر اب تک میرے سامنے ہے جب ۱۹۱۹ء کا ابتدائی زمانہ تھے اور اسلامیہ کالج لاہور میں انجمن حمایت کا سالانہ اجلاس ہورہا تھا۔ حضرت علامہ صدارت گاہ کے عقب میں برآمدے کے پاس کھڑے میاں صاحب سے باتیں کررہے ہیں۔ کسی نے کہا آپ نے ٹائمز کی یہ خبر پڑھی ہے، آرک بشپ آف کنٹربری نے کہا ہے کہ ترکنوں نے ارمنوں پر جو ظلم ڈھائے ہیں ان سے اسلام کا چہرہ داغ دار ہوگیا ہے۔ اب کہ جنگ ختم ہوچکی ہے مسلمانانِ ہند کو چاہیے کہ اور نہیں تو محض اسلام کی خاطر ہم سے مل جائیں اور ترکوں کے خلاف آواز اٹھائیں۔ اس پر میاں صاحب کو بے اختیار ہنسی آگئی۔ کہنے لگے ’’خوب! بلی چوہے کو دعوت اتحاد دے رہی ہے۔‘‘ حضرت علامہ بھی نہایت محظوظ ہوئے اور برجستہ وہ قطعہ ارشاد فرمایا جس کا آخری شعر ہے: سن کر ، یہ بات خوب کہی شہنواز نے بلی چوہے کو دیتی ہے پیغامِ اتحاد‘‘ (اقبال کے حضور، ص۱۹) پھر اسی صفحے پر حاشیے میں درج کیا ہے کہ: ’’پورا قطعہ یوں ہے: اخبار میں یہ لکھتا ہے لندن کا پادری ہم کو نہیں ہے مذہب اسلام سے عناد لیکن وہ ظلم ننگ ہے تہذیب کے لیے کرتے ہیں ارمنوں پہ جو ترکان بدنہاد مسلم بھی ہوں حمایت حق میں ہمارے ساتھ مٹ جائے تا جہاں سے بنائے شر و فساد سن کر ، یہ بات خوب کہی شہنواز نے بلی چوہے کو دیتی ہے پیغامِ اتحاد‘‘ جیسا کہ حاشیہ نمبر۱۶ میں گزر چکا ہے نیازی صاحب نے انجمن کے اس اجلاس کو سہواً ۱۹۱۹ء کا کہا ہے جبکہ فی الحقیقت اس کا انعقاد ۴؍اپریل ۱۹۲۰ء کو ہوا تھا۔ ۱۹- یعنی مولوی میر حسن صاحب کے بہت سے شاگرد جو علامہ کے ہم سبق تھے وہ بڑی تعداد میں اس وقت تک موجود تھے۔ ۲۰- یہ جملہ معترضہ ہے یعنی نیازی صاحب نے ایک مضمون لکھا جس کے حوالے سے ان کی اور علامہ کی یہ گفتگو ہوئی۔ ۲۱- کتاب کا نام بڑی تیزی سے بولا گیا ہے اور کچھ اسی طرح سنائی دیتا ہے۔ تاہم پنجاب یونی ورسٹی لائبریری میں اب اس نام کی کتاب کا سراغ نہیں مل سکا، احتیاطاً پنجاب پبلک لائبریری میں بھی دیکھا گیا نیز یہ فرض کرتے ہوئے بھی جستجو کی گئی کہ Savelle یا اس سے مشابہ کسی نام کے مصنف کی کوئی تصنیف ہو اور نیازی صاحب نے مثلاً Savelle's کہہ کر کتاب کا نام لیا ہو، لیکن کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔ ۲۲- خواجہ سلیم صاحب سابق پروفیسر گورنمنٹ کالج، لاہور، ۳۰؍ستمبر ۱۹۷۹ء کو لاہور ہی میں انتقال فرما گئے۔ ان کی تاریخ وفات کا علم، بہت جستجو کے بعد، ان کے فرزند فاروق سلیم صاحب سے ہوا جو اسلام آباد میں نیشنل بنک کے زونل چیف ہیں۔ (خواجہ سلیم صاحب سے متعلق بعض معلومات کے لیے دیکھیے، ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی، اقبال کی صحبت میں، مجلس ترقی ادب، لاہور، نومبر ۱۹۷۷ئ، ص۲۰۹-۲۱۱) ۲۳- یہاں وہ تبصرہ لائق ذکر ہے جو علامہ نے نپولین کی رفتار مطالعہ پر کیا تھا۔ جب ان کے سامنے اس امر پر حیرت کا اظہار کیا گیا کہ نپولین کے لیے جیل میں روز صبح کو بہت سی کتابیں لائی جاتی تھیں اور شام کو سب واپس ہوجاتی تھیں تو انھوں نے کہا کہ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ میں خود تھوڑے سے وقت میں بہت سی کتابیں پڑھ ڈالتا ہوں۔ اصل میں مطالعہ جب وسیع ہوجاتا ہے تو بہت سی باتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف وہی حصے پڑھ لیے جاتے ہیں جن میں کوئی نئی بات ہو۔ ایسی کتاب تو کہیں صدیوں میں ایک لکھی جاتی ہے جو شروع سے آخر تک بالاستیعاب پڑھنے کے لائق ہو۔ ۲۴- یہاں جملہ ہائے معترضہ نے گنجلک پیدا کردی ہے۔ مراد غالباً یہ ہے کہ اگر عدالت جانا ہوا تو دو گھنٹے کے بعد مطالعہ روک کر جانے کی تیاری کرتے ورنہ ملاقاتیوں کی آمد تک مطالعہ جاری رہتا۔ ۲۵- یہاں سے روئے سخن علامہ کے تعلق بالقرآن کی طرف ہوگیا ہے۔ ۲۶- بہت مدھم اور غیر واضح۔ ۲۷- غالباً کچھ لوگوں کے اس خیال کی طرف اشارہ ہے کہ علامہ نے اپنے بعض نظریات نطشے سے اخذ کیے ہیں۔ (دیکھیے اقبال کے حضور،ص۶۵) ۲۸- نیازی صاحب نے سہواً ’’تازہ کریں‘‘ کی جگہ ’’پیدا کریں‘‘ بولا۔ سیاق کلام میں اس مصرع کا موقع و محل بھی واضح نہیں ہوتا۔ شاید مراد یہ ہو کہ علامہ کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ اعتراضات پر افسوس نہ کرنا چاہیے بلکہ تازہ کاری پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے قدم آگے بڑھانا چاہیے۔ اصل مقام افسوس تو تازہ کاری کا زوال ہے۔ ۲۹- Leopold Weiss معروف آسٹرین نو مسلم۔ اسلامی نام محمد اسد Road to Mecca اور دیگر اہم کتاب کے مصنف۔ ۲۰؍فروری ۱۹۹۲ء کو وفات پائی۔ تدفین غرناطہ کے قبرستان میں ہوئی (ان کے بارے میں دیکھیے مجلہ اقبال بزمِ اقبال، لاہور، جولائی ۱۹۹۸ئ، حصہ انگریزی، ص۲) ۳۰- مراد غالباً یہ کہ چار چھے صفحات املا کرا دیے۔ ۳۱- سیّد عبدالواحد کی تالیف Thoughts & Reflections of Iqbal کی طرف اشارہ ہے جو شیخ محمد اشرف نے لاہور سے مئی ۱۹۶۴ء میں شائع کی۔ اس میں ص۲۳۸-۲۴۰ پر Note on Nietzche کے زیرعنوان یہ اشارات شامل ہیں۔ حاشیے میں یوں وضاحت کی گئی ہے: This note was dictated by Iqbal to Mr. Nazir Niazi in the summer of 1937. Mr. Niazi has very kindly handed over the note to Iqbal Academy, Karachi. The Academy has been kind enough to supply a copy of the note to the Editor. There is so much misunderstanding about Iqbal's indebtedness to Nietzche that this note will be read with interest by all student of Iqbal. --Ed. (p. 238) ۳۲- شاید اسی منصوبے کے پیش نظر نیازی صاحب نے لکھا: ’’دیکھیے اس سلسلے میں رقم الحروف کی کتاب Notes on Nietzche جو اقبال اکیڈیمی کے زیراہتمام شائع ہورہی ہے۔‘‘ (اقبال کے حضور، ص۶۶، حاشیہ ۳)۔ افسوس یہ منصوبہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ ۳۳- یعنی اصل موضوع بدستور وہی ہے، علامہ کا تعلق بالقرآن۔ ۳۴- مدعائے کلام غالباً یہ ہے کہ یوں تو بچپن ہی سے تلاوت کا معمول رہا ہے اور یہ آیت کچھ اسی روز نظر سے نہیں گزری تھی لیکن اس مخصوص حوالے سے اس کی معنویت کا احساس اسی روز ہوا۔ ۳۵- القرآن ۳۵؍۱ ’’وہ خلق میں جو اضافہ چاہتا ہے، کرتا ہے۔‘‘ آیت پڑھتے ہوئے نیازی صاحب نے سہواً آغاز ’’واللہ‘‘ کے الفاظ شامل کیے جو اس آیت کا حصہ نہیں ہے۔ یہ سہو ان کے ترجمہ خطبات میں بھی در آیا ہے۔ (دیکھیے سیّد نذیر نیازی تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، بزمِ اقبال لاہور، ۱۹۵۸ئ، ص۱۰۴) افزونی کائنات کے اس تصور کو خطبات میں بھی زیربحث لایا گیا ہے۔ مثلاً پہلے خطبے میں آتا ہے: "... Again the Univverse is so constituted that it is capable of extension: 'He (God) adds to His creation what He Will' (35:1). It is not a block universe, a finished product, immobile and incapable of change. (Allama Muhammad Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam. Edited and annotated by M.Saeed Sheikh, Iqbal Academy, Pakistan/Institute of Islamic Culture, Lahore, 2nd ed.. 1989, p.8) اسی طرح دیکھیے تیسرے خطبے کی یہ سطور: "Siinche the crative activity of God is ceaseless the number of the atoms cannot he finite. Fresh atoms are coming into being every moment, and the Universe is therefore constantly growing. As the Quran says: 'God adds to His creation what He wills." (ibid. p.55) نیز دیکھیے پانچواں خطبہ، ص۱۰۶۔ ۳۶- غیر واضح ۳۷- اشارہ ہے سورہ جن کی اوّلین آیت کی طرف: ’’قُلْ اُوْحِیَ اِلیَّ اَنَّہُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِنَ الْجِنِّ فَقَالُوْا اِنَّا سَمِعْنَا قُرْآناً عَجَبًا‘‘ (القرآن، ۷۲؍۱) (کہہ دیجیے کہ مجھے وحی سے معلوم ہوا ہے کہ جنات کے ایک گروہ نے کان لگا کر سنا اور پھر کہا کہ ہم نے عجب طرح کا پڑھنا سنا ہے۔) ۳۸- غالباً سورۃ الشوریٰ کی آیت یاد کرنے کی کوشش میں سہواً ’’انہ‘‘ زبان پر آگیا ہے۔ آیت کے اصل الفاظ یوں ہیں: ’’وَہُوَ عَلٰی جَمْعِہِمْ اِذَاَ یَشَآئُ قَدِیْرٌ‘‘ (القرآن، ۴۲؍۲۹) (اور وہ جب چاہے انھیں جمع کرنے پر خوب قادر ہے) ۳۹- غیر واضح ۴۰- غیر واضح ۴۱- شاید یہ مراد ہے کہ اب اگر بات سے نکلے گی تو طوالت کلام پیدا ہوجائے گی۔ ۴۲- اس بحث کی تفصیل کے لیے دیکھیے اقبال کے حضور،ص۳۵۹-۳۶۱، ۳۸۹-۳۹۰ ۴۳- دیکھیے اقبال کے حضور،ص۳۶۲، ۳۹۰ ۴۴- یہ گفتگو ۱۷؍مارچ ۱۹۳۸ء کو ہوئی تھی۔ علامہ کی ناسازی طبع کے باعث اس حوالے کی وضاحت ممکن نہ ہوسکی جیسا کہ نیازی صاحب نے لکھا ہے: ’’… ابن خلدون اور ابن عربی! ہمارا خیال تھا کہ حضرت علامہ اپنے اس ارشاد کی وضاحت میں شاید کچھ خود ہی فرمائیں گے کہ انھوں نے دفعتاً قرشی صاحب سے کہا: ’’مجھے ضعف محسوس ہورہا ہے۔‘‘ اور پھر سامنے رکھے ہوئے تکیوں پر سر ٹیک دیا۔ ہم پریشان تھے… ‘‘ (اقبال کے حضور، ص۳۶۲) ’’… ایک روز پہلے انھوں نے اشاروں ہی اشاروں میں فرمایا تھا کہ دعا میں جو نکتہ پوشیدہ ہے اس کو سمجھے تو ابن خلدون کا ابن عربی۔ لیکن نہ مجھے ان کی تحریروں سے استفادہ کرنے کا موقع ملا نہ حضرت علامہ نے اپنے ارشاد کی وضاحت میں کوئی بات کہی۔‘‘ (اقبال کے حضور، ص۳۹۰) ۴۵- مثنوی پس چہ باید کرد میں ’’در حضورِ رسالت مآب‘‘ کے زیرعنوان اپنی علالت کا حال عرض کرتے ہوئے بندش آواز کی طرف اشارہ کیا ہے: نغمۂ من در گلوئے من شکست شعلۂ از سینہ ام بیروں نجست در نفس سوزِ جگر باقی نہ ماند لطفِ قرآنِ سحر باقی نہ ماند (کلیات اقبال (فارسی)، شیخ غلام علی اینڈ سنز، مارچ ۱۹۷۸ئ، ص۸۴۶) ز……ز……ز آرنلڈ، سر طامس: ۱۲۶ آزاد، ابو الکلام: ۲۸۹، ۳۰۸ آغا خان، سر سلطان محمد شاہ: ۱۹۵، ۲۱۲ آئن سٹائن: ۱۵۴، ۱۵۵، ۱۶۰، ۲۴۱، ۳۰۷، ۳۰۹، ۳۲۳ ابن اسحاق: ۲۷۰ ابن تیمیہ: ۲۲۶، ۲۲۸ ابن حزم: ۲۲۹، ۲۴۱ ابن خلدون: ۳۵، ۳۷، ۲۵۸، ۲۷۰، ۲۷۵، ۳۲۵، ۳۳۴ ابن رشد: ۱۶۱ ابن سینا: ۲۷۵ ابن عربی: ۲۶۵، ۳۲۵، ۳۳۴ ابن مسکویہ: ۲۵۸، ۲۷۰، ۲۷۵ ابو اللیث صدیقی، ڈاکٹر: ۳۲۸ ابو سعید خدری: ۹۱، ۱۰۱ ابھیاٹکر، پروفیسر: ۲۰۸ اجمل خان، حکیم: ۳۰۳، ۳۰۸ احمد خلدون: ۲۹۰ احمد دین، مولوی: ۳۰۴، ۳۰۸ احمد یار حکیم: ۳۰۷، ۳۰۹ ارسطو: ۱۳۴، ۱۳۶، ۲۵۸ اسپنگلر: ۲۶۷، ۲۷۰، ۲۷۳، ۲۷۴ اسد ملتانی: ۲۴، ۳۱۶ اسکندر: ۸۲، ۱۳۶ اسلم جیراج پوری: ۲۴، ۳۱، ۲۹۸، ۳۰۰، ۳۱۶ افتخار الدین، سید: ۳۰۴، ۳۰۸ افلاطون: ۱۳۴، ۱۳۶، ۲۵۸، ۲۵۹ اکبر الٰہ آبادی: ۳۳ اکبر شاہ خان نجیب آبادی: ۲۹۲ اگسٹائین: ۲۵۸ البیرونی: ۲۷۰، ۲۷۵ الجاحظ: ۴۵، ۵۳، ۲۷۵ الطاف حسین سید: ۲۲۸ الیگزینڈر: ۱۴۵ الٰہی بخش، ڈاکٹر کپتان: ۸۵، ۹۳، ۱۰۱ امام شافعی: ۱۳۶ امیر چند، کرنل: ۹۴، ۱۰۱ امیر شکیب ارسلان: ۶۳، ۹۹ انیس اعظمی: ۲۸۷ اوس پنسکی: ۱۴۵، ۱۵۴، ۱۵۵، ۱۶۰ ایکرمان: ۷۹، ۱۰۰ بایزید: ۴۳، ۹۰، ۱۰۱، ۱۸۴، ۲۵۹ برکلے: ۳۵، ۳۷، ۱۴۱، ۱۶۰، ۲۶۰ برگساں: ۱۳۰، ۱۳۲، ۱۳۴، ۱۳۶، ۱۴۱، ۱۴۲، ۱۴۵، ۱۵۱، ۱۵۲، ۲۵۴، ۲۶۵ بریڈلے: ۱۴۲، ۱۴۴، ۱۶۰ بشیر حیدر، سید: ۲۷، ۲۹۱ بلھے شاہ: ۸۸ بو علی: ۱۳۹ بو لہب: ۱۴۰ بہجت وہبی، ڈاکٹر: ۵۶، ۹۸ بی ایم شرما، ڈاکٹر: ۹۸ بیرن والتھہائم: ۲۸، ۳۱، ۹۳، ۱۰۱ بیکر: ۴۵، ۵۳، ۲۶۷، ۲۷۴ بیکن: ۲۷۱، ۲۷۴ بیگم نواب بھوپال: ۳۰۶ پرویز، غلام احمد: ۳۱۶، ۳۲۵ تاثیر، ڈاکٹر محمد دین: ۳۲۸ تارا: ۳۰۲ ٹائن بی: ۲۶۷، ۲۷۴ جاحظ: ۲۷۰ جارج لائڈ: ۳۱۸، ۳۳۰ جاوید اقبال، ڈاکٹر: ۳۰، ۵۵، ۶۸، ۹۰ جعفر بلوچ: ۲۶ جلال الدین دوانی، ملا: ۲۵۷ جلال الدین مرزا:۳۰۴، ۳۰۵، ۳۰۸ جمال الدین افغانی: ۲۲۴ جمعیت سنگھ، ڈاکٹر: ۷۲، ۹۳، ۱۰۰ جنید: ۴۳، ۱۸۴ جوہر، محمد علی: ۲۸، ۳۱، ۲۹۱، ۲۹۲، ۲۹۳، ۳۰۰، ۳۰۳، ۳۰۸ جیا رام، لالہ: ۳۰۳ جیمز، ولیم: ۱۷۷ چشتی، معین الدین: ۲۶، ۳۱ چنگیز: ۸۲ حالی: ۷۲، ۳۲۷ حسام الدین چلپی: ۳۱۴ حسرت، چراغ حسن: ۳۳، ۳۷ حسن اختر، راجا: ۲۳، ۳۰، ۳۱، ۸۷- ۸۹، ۹۴، ۹۵، ۲۴۳، ۲۴۴، ۳۰۷ حسینؓ: ۱۸۳ حفیظ جالندھری: ۵۷، ۹۸ حلاج: ۱۳۶ خالد بزمی: ۲۸۹ خالد علوی، پروفیسر: ۲۸۷ خالدہ ادیب خانم: ۶۸، ۶۹، ۱۰۰ خان عبدالقیوم خان: ۲۹۹ خلیلؑ:۳۱۷ خوارزمی: ۲۷۵ خورشید رضوی: ۳۱۱، ۳۱۲- ۳۱۵، ۳۱۷، ۳۲۳، ۳۲۵، ۳۲۶ داغ: ۲۹۰، ۳۰۲ دولتانہ، محمد ممتاز: ۳۰۱ دیوان علی: ۸۸، ۹۰، ۱۰۱، ۱۵۷ ڈیکارٹ: ۱۴۱ ڈینی سن، راس سر: ۲۸۴، ۲۸۶ ذاکر حسین، ڈاکٹر: ۵۶، ۹۸، ۲۲۸، ۲۹۹، ۳۰۰ ذوالفقار علی خان، نواب: ۳۰، ۳۰۴، ۳۰۸ رازی: ۲۳، ۲۳۲، ۲۵۸ رام بھجوت: ۳۰۶ رحما: ۸۸، ۱۰۱ رسطالیس: ۱۳۹ رشید احمد صدیقی: ۲۷، ۳۱ رفعت حسن، ڈاکٹر: ۲۶۵ رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر: ۲۸۷ رفیق: ۳۰۲ رفیق احمد شیخ: ۳۰۵ روسو: ۳۶، ۱۵۶، ۱۶۰ رومی: ۲۳، ۱۰۸، ۱۱۰، ۱۱۱، ۱۳۹، ۲۴۱ زرتشت: ۱۵۰ زیلستر، ڈاکٹر: ۸۶، ۱۰۱ زینو: ۲۵۹ سالک، عبدالمجید: ۹۱، ۱۰۱، ۳۰۲، ۳۰۸ سائمن، سر جان: ۲۱۲ سر راس مسعود ڈاکٹر: ۶۸، ۷۱، ۹۹ سراج الحق، شیخ: ۲۴، ۳۱ سراج الدین، منشی: ۲۷، ۳۱ سرسید احمد خان: ۲۸، ۳۶، ۷۳، ۱۹۲، ۱۹۷، ۲۹۳، ۳۲۵ سرمد: ۱۶۵ سعدی، شیخ: ۴۵، ۵۳، ۳۲۹ سعید حلیم پاشا: ۲۶۷، ۲۷۴ سکندر اعظم: ۴۵ سلامت: ۵۰، ۵۳ سلامت اللہ، سید: ۹۴ سلیم: ۱۸۴ سلیم خواجہ: ۵۰، ۵۱، ۳۲۱، ۳۳۱ سلیم منصور خالد: ۱۰۵ سنجر: ۱۸۴ سوامی شردھانند: ۲۱۲ سید احمد بریلوی:۵۳ سید عبداللہ، ڈاکٹر: ۵۳ شاہ اسمٰعیل: ۴۴، ۵۳ شاہ محمد غوث: ۳۰۰ شاہ نواز، میاں: ۳۰۴، ۳۰۸، ۳۱۸، ۳۳۰، ۳۳۱ شاہ ولی اللہ: ۳۴، ۳۷، ۵۳، ۲۲۶ شلر: ۹۳، ۱۰۱ شوپن ہاوئر: ۸۳، ۱۴۲، ۱۴۳، ۱۵۳، ۱۶۰، ۱۷۳، ۱۷۴، ۱۷۷ شہاب الدین سہروردی: ۷۱، ۱۷۶، ۲۷۴ شیخ عطا محمد: ۶۸، ۹۹ شیکسپیئر: ۱۶۸، ۱۶۹ صلاح الدین، سلجوقی سردار: ۶۹، ۷۳، ۱۷۵، ۱۷۷ طبری، ابو جعفر بن جریر: ۲۷۰، ۲۷۴ طوسی: ۲۷۰ ظفر اقبال، مولوی: ۲۹۲ ظفر علی خان: ۳۰۴، ۳۰۸ عابد حسین، ڈاکٹر سید: ۱۶۹، ۱۷۶، ۲۹۸ عابد علی عابد، سید: ۸۸، ۱۰۱ عابد نظامی، پروفیسر: ۲۹۰، ۲۹۱، ۲۹۵ عالمگیر، اورنگ زیب: ۳۳، ۳۷، ۱۹۶، ۲۱۲ عبدالحمید پروفیسر: ۳۰۰ عبدالحئی فاروقی، خواجہ: ۲۹۸ عبدالرحمن، طاہر سورتی: ۳۱۱ عبدالستار: ۳۰۰ عبدالشکور احسن: ۲۸۷ عبدالعزیز خالد: ۲۹۰ عبدالغنی سید: ۲۹۱، ۲۹۹ عبدالقادر، شیخ: ۲۷، ۳۰۴، ۳۰۸ عبدالقدوس گنگوہی: ۲۶۸، ۲۷۴ عبدالقیوم، ڈاکٹر: ۹۴، ۹۶، ۱۰۱، ۳۰۷، ۳۰۹ عبداللہ ملک: ۳۰۰ عبداللہ یوسف علی: ۳۲۳ عبدالواحد: ۳۲۱، ۳۳۲ عبدالوہاب، حکیم نابینا: ۵۷- ۶۷، ۶۹، ۷۰، ۷۲، ۷۴، ۸۴- ۸۷، ۹۵، ۹۶، ۹۸ عراقی، فخر الدین ابراہیم: ۲۷۴ عزت بخاری: ۳۱۲- ۳۱۴ علی بخش: ۲۸، ۳۰، ۴۷، ۴۸، ۵۰، ۵۱، ۵۵، ۶۱، ۶۳، ۶۸، ۸۳، ۸۷، ۸۸- ۹۰، ۹۶، ۲۳۳، ۲۴۱، ۲۹۷، ۳۰۳، ۳۰۵، ۳۰۷، ۳۰۸، ۳۲۱، ۳۲۳ عمر بن العاص: ۶۳ غالب، اسد اللہ: ۲۳، ۱۶۲، ۱۶۷، ۲۸۷ غزالی: ۱۷۴، ۱۷۷، ۲۵۳، ۲۶۵ غلام حسین ذوالفقار: ۲۸۷ فاروق سلیم: ۳۳۲ فان فیلٹ ہائیم: ۱۷۵، ۱۷۷ فرخ سیر: ۶۳ فریڈرک وہائٹ، سر: ۲۰۸ فضل الحق چودھری: ۴۸، ۵۳ فضل حسین، سر: ۳۰۰ فقیر محمد، حکیم: ۵۵، ۹۸ قاآنی، مرزا حبیب: ۴۷، ۵۳ قائداعظم: ۲۶، ۲۸، ۲۱۵، ۲۱۸، ۲۷۸، ۲۹۲، ۳۱۹ کارلائل: ۲۷۲، ۲۷۵ کانٹ: ۴۰، ۴۱، ۱۴۳، ۱۴۸، ۱۵۴، ۱۵۶، ۱۶۰، ۱۷۳، ۱۷۴، ۱۷۷، ۲۵۴، ۲۶۵ کبیر، بھگت: ۳۷ کدار ناتھ، لالہ: ۳۰۴ کرزن، لارڈ: ۳۰۶، ۳۰۹ کمال اتاترک: ۹۸ کومٹ: ۱۴۲، ۱۵۶ گاندھی: ۳۴، ۲۱۲، ۳۰۶ گوئٹے: ۹۳، ۱۱۰، ۱۱۱، ۱۲۶، ۱۶۷ لاجپت رائے: ۲۱۴ لوتھر: ۱۵۵، ۱۶۰، ۱۷۲ لینن: ۱۸۵ لیو پولڈ وینس: ۱۰۳، ۳۲۲، ۳۳۲ مارکس: ۱۵۶، ۱۷۳ مالوی، مدن موہن: ۲۱۲ مامون الرشید: ۲۷۵ مجدد الف ثانی: ۳۳، ۳۷ محسن تاثیر: ۱۶۵ محمد اسد علامہ: ۸۶، ۱۰۵، ۳۲۲، ۳۳۲ محمد اسلم قریشی: ۲۸۷ محمد پارسا، خواجہ: ۲۷۰ محمد تقی، سید: ۲۹۱ محمد ثوافی، مولانا: ۳۰۰ محمد حسن قرشی،حکیم: ۲۳، ۲۸، ۳۱، ۴۸، ۵۰، ۵۱، ۵۳، ۵۶، ۷۴، ۸۲، ۸۳- ۸۸، ۹۱، ۹۳، ۹۵، ۹۶، ۱۰۰، ۳۰۷ محمد حسین، چودھری: ۲۳، ۲۴، ۲۸، ۳۰، ۳۹، ۴۸، ۴۹، ۵۰، ۵۳، ۵۵، ۶۸، ۵۱، ۸۳، ۸۷- ۹۰، ۹۴، ۹۵، ۱۰۳، ۱۰۴ محمد شاہ، سید: ۲۹۱، ۲۹۳ محمد شفیع (م-ش): ۲۳، ۳۰، ۲۷، ۸۸، ۹۴، ۹۵، ۳۰۷، ۳۰۸، ۳۰۹ محمد عبداللہ چغتائی: ۳۳۲ محمد مصطفی ا: ۳۶، ۴۴، ۷۳، ۷۵، ۷۷، ۹۲، ۹۳، ۹۷، ۱۲۹، ۱۳۸، ۱۸۷، ۲۰۴، ۲۲۱، ۲۲۲، ۲۳۰، ۲۳۴، ۲۳۷، ۲۴۵، ۲۴۷، ۲۴۸، ۲۴۹، ۲۶۴، ۲۶۸، ۲۷۱- ۲۷۳، ۲۸۴، ۲۹۴، ۲۹۵، ۳۰۱، ۳۲۹ محمد یوسف، ڈاکٹر: ۸۵، ۱۰۱ محمود احمد غازی: ۳۰۲، ۳۱۴، ۳۲۵ محمود شیرانی، حافظ: ۳۲۶ محمود نظامی: ۲۲۵ مختار احمد انصاری، ڈاکٹر: ۵۶، ۶۸، ۷۲، ۹۸ مرزا غلام احمد: ۳۲۴ مسعود: ۲۷۰، ۲۷۴ مسیلمہ کذاب: ۲۴۸ مظفر الدین، ڈاکٹر: ۸۵، ۱۰۱ ممتاز حسن: ۱۷۴ ممدوٹ، افتخار الدین: ۳۰۱ ممنون حسن خان: ۱۰۱ مودودی، ابوالاعلی: ۱۰۳-۱۰۵ مولانا روم: ۱۶۰، ۲۳۹، ۳۱۴ مہر، غلام رسول: ۹۱، ۱۰۱، ۳۰۲، ۳۰۸ میاں محمد: ۲۹۶، ۳۰۶، ۳۰۹، ۳۱۹ میر حسن، مولوی: ۲۹۱، ۲۹۲، ۲۹۹، ۳۳۱ میک ٹے گرٹ: ۴۱، ۱۴۲، ۱۴۳، ۱۴۵، ۱۵۳، ۱۵۴، ۱۶۰ نپولین: ۳۶، ۱۷۶، ۳۳۲ نذیر حسین محدث: ۴۴، ۵۳ نطشے: ۱۳۰، ۱۳۲، ۱۳۴، ۱۳۶، ۱۴۲، ۱۴۵-۱۵۰، ۱۵۸، ۱۷۰- ۱۷۳، ۱۷۶، ۱۸۱، ۲۲۳، ۲۴۰، ۳۲۲ نکلسن: ۲۵۱، ۲۷۳ ابتدائی کلام اقبال: ۳۲۷ اردو: ۳۲۶، ۳۲۷ ارمغان حجاز: ۴۱، ۴۳، ۴۶، ۴۷، ۵۲، ۵۳، ۸۱، ۱۰۰- ۱۰۲، ۱۶۰، ۲۲۸، ۲۳۲، ۲۴۰، ۲۸۳، ۲۸۵، ۲۸۶، ۲۸۸، ۲۹۴، ۲۹۸، ۳۰۶، نمرود: ۱۴۳ نواب بھوپال، حمید اللہ خان: ۷۰، ۷۱، ۹۹ نہرو، جواہر لال: ۷۳، ۲۱۸ نہرو، موتی لال: ۲۱۲ نہری مارٹن: ۳۰۰ نیاز علی چودھری: ۱۰۳، ۱۰۵ نیوٹن: ۱۵۴، ۱۷۳ والدہ جاوید: ۶۷، ۷۰ وائٹ ہیڈ: ۱۴۳، ۱۴۴، ۱۶۰، ۲۶۰، ۲۶۱ ہٹلر: ۳۱ ہلاکو: ۸۲ ہدایت اللہ: ۹۰ ہنری مارٹن: ۳۰۰ ہومر: ۲۹، ۳۱ ہیگل: ۱۴۱، ۱۴۲، ۱۴۸، ۱۵۱، ۱۵۳، ۱۵۶، ۱۶۰، ۱۷۳، ۱۷۷ ہیوم: ۱۴۱، ۱۶۰ یار محمد خان، ڈاکٹر: ۶۴، ۹۳، ۱۰۱ یوسف حسین خان، ڈاکٹر: ۹۸ ۳۱۳، ۳۲۶، ۳۳۰ اسرار و رموز: ۲۳۲، ۲۴۰، ۲۴۱، ۲۶۵ اسرارِ خودی: ۹۸، ۱۰۲، ۱۳۶، ۱۶۱، ۱۷۱، ۲۴۰ اطراف: ۳۱۱ اقبال: ۳۰۸، ۳۳۲ اقبال اور انجمن حمایت اسلام: ۳۲۷ اقبال پیامبر انقلاب: ۲۸۱ اقبال ریویو: ۲۲۸ اقبال کی صحبت میں: ۳۲۲ اقبال کے حضور: ۴۱، ۱۰۵، ۲۹۸، ۲۸۹، ۲۹۹، ۳۲۹- ۳۳۴ اقبالیات: ۳۱۱ اقبالیات اسد ملتانی: ۳۱ اقبال، شخصیت اور شاعری: ۳۱ الجہاد فی الاسلام: ۱۰۴ امروز: ۲۱۹ اناجیل: ۷۹ انقلاب: ۱۰۱، ۲۰۸ اوڈیسی: ۲۹ ایشیا: ۱۰۵ ایک فیضانی لمحے کی یاد: ۳۲۸ بالِ جبریل: ۳۱، ۶۷، ۸۰، ۱۳۶، ۱۳۸، ۱۶۰، ۱۷۶، ۱۷۷، ۱۷۹- ۱۸۱، ۱۸۵- ۱۹۲، ۲۱۶، ۲۱۹، ۲۳۲، ۲۴۰، ۲۸۶، ۲۸۸، ۳۱۵، ۳۲۸، ۳۲۹ بانگ درا: ۱۰۲، ۱۲۶، ۱۷۶، ۱۷۹، ۲۳۲، ۲۴۰، ۳۰۸ بائبل: ۱۰۰ بخاری شریف: ۸۶ بلادِ مغرب کا زوال: ۲۶۷ بوستانِ سعدی: ۳۲۹ بہارستان: ۳۰۴ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق: ۷۳، ۱۰۰، ۱۳۶، ۲۲۸، ۲۳۲، ۲۴۰، ۲۸۵، ۲۹۴، ۲۹۸، ۳۳۴ پھول: ۳۰۸ پیام مشرق: ۱۳۶، ۱۶۷، ۱۸۰، ۱۸۶، ۱۸۹، ۲۵۱، ۲۸۶، ۳۱۵ تالیف: ۳۱۱ ترجمان القرآن: ۱۰۴ تشکیل جدید: ۷۸، ۹۰، ۱۲۹، ۲۴۳، ۲۴۴، ۲۵۰، ۲۵۱، ۲۵۳- ۲۵۶، ۲۶۱، ۲۶۴- ۲۶۶، ۲۸۹، ۲۹۸، ۳۰۱، ۳۳۳ تلمیحات اقبال: ۱۰۱ تہذیب الاخلاق: ۳۰۸ ٹائمز: ۳۳۱ ٹائمز آف انڈیا: ۲۰۸ ٹروتھ: ۲۴۳، ۲۵۰ جامعہ: ۲۶۵ جاوید نامہ: ۲۹، ۳۹، ۱۶۴، ۱۶۵، ۱۶۹، ۱۷۰، ۱۷۶، ۲۴۱، ۲۵۴، ۲۶۵، ۲۸۵ جرس کارواں: ۳۰ چٹان: ۳۲۷ چند ملاقاتیں: ۳۲۸ حکمت قرآن: ۲۴۰ داس کیپیٹل: ۱۷۷ دانائے راز: ۳۱ دیوانِ شمس تبریز: ۲۴۱ دیوانِ غالب: ۱۶۵،۱۸۰ ذکر اقبال: ۱۰۱ راوی: ۱۷۵ رموزِ بے خودی: ۹۸، ۲۲۷، ۲۲۸، ۲۸۵ روحِ اقبال: ۹۸ زبورِ عجم: ۱۶۵، ۱۸۰، ۲۳۲، ۲۴۰، ۲۸۶، ۳۱۵ زمیندار: ۱۰۱ زورائ: ۲۵۷ سول اینڈ ملٹری گزٹ: ۹۰ سیف الملوک: ۲۹۶، ۳۰۹، ۳۱۹ شاہنامۂ اسلام: ۹۸ شذراتِ فکر اقبال: ۱۲۱ شعرِ اقبال: ۱۰۱ شیراز: ۲۱۴، ۲۱۹ صوفی: ۲۱۱ ضربِ کلیم: ۳۱، ۷۰، ۷۳، ۱۲۸، ۱۳۶، ۲۲۸، ۲۳۲، ۲۴۰، ۲۸۱، ۲۸۵ ضیائے حرم: ۲۸۹، ۲۹۰، ۲۹۷، ۲۹۸ طلوعِ اسلام: ۲۴۳، ۲۵۰، ۲۹۸ عہد نامہ عتیق: ۷۹، ۱۰۰ فائوسٹ: ۱۶۹، ۱۷۱ فصوص الحکم: ۵۱ فیہ ما فیہ: ۲۴۱ قرآن: ۲۵، ۲۷، ۳۷، ۴۴، ۵۰، ۷۰، ۷۱، ۷۵، ۷۸، ۷۹، ۱۲۹، ۱۳۹، ۱۵۸، ۱۷۴، ۲۱۱، ۲۲۱، ۲۲۲، ۲۳۰، ۲۳۴، ۲۳۷، ۲۴۵، ۲۴۷، ۲۴۸- ۲۴۹، ۲۶۴، ۲۶۸، ۲۷۰، ۳۰۴، ۳۰۵، ۳۲۱، ۳۲۳، ۳۲۴، ۳۳۴ قندیل: ۲۸۶ کلیات اقبال (فارسی): ۹۸، ۳۳۴ کلیاتِ قاآنی: ۴۷ کیمیائے سعادت: ۵۱ گیتا: ۵۱ لائٹ: ۲۴۳، ۲۴۴، ۲۴۵، ۲۵۰ مثنوی مولانا روم: ۲۴۱، ۳۰۴ مخزن: ۱۰۲، ۳۰۸ مقالاتِ محمود شیرانی: ۳۲۶ مقدمہ فلسفہ: ۲۵۸ مکاتیب اقبال بنام خان نیاز الدین خان: ۳۰۹ مکتوباتِ اقبال: ۹۸-۱۰۰، ۲۸۹، ۲۹۸، ۳۳۸- ۳۲۹ مکتوباتِ مجدد الف ثانی: ۳۰۴ ملفوظاتِ اقبال: ۳۲۸ منشوراتِ اقبال: ۱۶۵ نیرنگ خیال: ۱۸۸، ۲۵۶، ۲۷۴ یادگار ابوالکلام: ۲۸۹ یکجا:۳۱۱ Civils and Seers 320 Decline of the war 74 Islamica:265 Prolegma in Heaven 176 Road to Mecca 332 آسٹریا: ۵۹، ۸۹ آکسفررڈ: ۶۰ آئر لینڈ: ۳۷ اٹلی:۴۷، ۸۷، ۸۹ احد: ۹۱ افغانستان: ۶۷، ۸۰، ۱۷۷، ۱۸۰ الٰہ آباد: ۲۱۸، ۲۳۱، ۲۹۳ امرتسر: ۳۰۶، ۳۰۷ امریکہ: ۳۲۳ اندلس: ۸۰، ۱۶۵، ۲۴۱ انقرہ: ۹۱ انگلستان: ۴۶، ۴۷، ۵۹، ۶۵، ۶۶، ۸۰، ۲۶۰، ۳۲۳، ۳۲۸ ایران: ۱۳۴ ایشیا: ۸۹، ۱۳۰، ۱۳۱، ۱۳۴، ۲۰۶ بارودلی: ۱۹۲، ۲۱۲ بازار حکیماں: ۳۰۲ بحر روم: ۲۵۲ برطانیہ: ۸۹، ۲۱۱، ۳۳۱ بطحا: ۸۱، ۳۱۶ Speeches, Statments and writings of Iqbal 250 The critique of pure reason 140 The Reconstruction of Religious Thoughts in Islam 289 The Sword and Scepte 265 بغداد: ۴۵، ۸۸، ۱۹۷ بلوچستان: ۳۴، ۱۹۵، ۲۰۶، ۲۰۸ بنارس: ۲۰۹ بنگال: ۳۰۹، ۱۹۲، ۱۹۴، ۱۹۵، ۲۱۰ بہار: ۵۳ بھارت: ۲۹۹ بھوپال: ۶۸- ۷۳، ۸۲ بیت المقدس: ۳۱، ۳۲۸ پاکستان: ۲۵، ۲۸، ۳۱، ۵۳، ۱۰۱، ۱۷۷، ۲۱۳، ۲۱۵، ۲۲۸، ۲۳۰، ۲۷۹۸، ۲۸۷ پانی پت: ۷۲ پٹنہ: ۲۰۹ پٹیالہ: ۲۱۴، ۳۰۸ پنجاب: ۴۹، ۵۵، ۸۴، ۱۸۵، ۱۹۱، ۱۹۲، ۱۹۴، ۱۹۵، ۲۰۶، ۲۱۴، ۲۹۳ پیرس: ۳۲۹ ترکی: ۳۲، ۵۳، ۶۰، ۶۸، ۱۰۰، ۲۲۶، ۲۷۴ تہران: ۹۱ ٹمپل روڈ: ۳۰۶ جاوید منزل: ۲۳، ۲۴، ۲۹، ۷۰، ۸۳- ۸۵، ۸۷، ۹۵- ۹۷، ۳۰۸، ۳۲۱ جرمنی: ۲۸، ۳۱، ۹۶، ۱۶۹، ۱۷۴ جلیانوالہ باغ: ۲۱۱، ۳۰۰ جنوبی افریقہ: ۶۱ جنوبی ایشیا: ۲۰۷ جہلم: ۵۰، ۲۹۶، ۳۱۹ چورا چوری: ۲۱۲ چین: ۱۳۴ حجاز: ۸۰، ۸۱، ۹۵ حیدر آباد (ہند): ۸۵ دجلہ: ۱۸۳ دنیا نگر: ۲۹۹ دہلی: ۲۵، ۵۶، ۵۷، ۶۰، ۶۴، ۶۹، ۷۰، ۷۳، ۷۴، ۸۲، ۱۶۷، ۱۹۵، ۲۰۰، ۲۰۶، ۲۰۹، ۲۹۸، ۳۰۱، ۳۱۶ راولپنڈی: ۵۰، ۹۳ روس: ۴۶، ۸۹ روم: ۱۳۴، ۱۴۶، ۱۵۵، ۳۲۹ ریاض منزل بھوپال: ۷۱ ریلوے سٹیشن لاہور: ۷۴ سر ہند: ۶۳ سرحد (صوبہ): ۳۴، ۱۹۵، ۲۰۶، ۲۰۸ سکاٹ لینڈ: ۶۰ سندھ: ۳۴، ۱۹۵، ۲۰۶، ۲۰۸، ۲۰۹ سومنات: ۲۶، ۱۸۳ سوہدرہ: ۳۰۰ شارع عبدالمجید بن بادیس: ۲۹ شارع علامہ اقبال: ۲۹ شاہی مسجد: ۵۵، ۹۷ شمال مغربی ہند: ۲۰۶، ۲۰۷، ۲۰۹ شمال مغربی یورپ: ۱۵۷ شمالی ہند: ۸۴ طبیہ کالج لاہور: ۳۱ عراق: ۶۶ علی گڑھ: ۶۸، ۱۰۰، ۱۹۷، ۲۹۸، ۳۰۳ فرات: ۱۸۳ فرانس: ۴۷، ۱۵۶، ۱۷۳، ۱۷۶ فرید کوٹ: ۲۱۴ فلسطین: ۴۶، ۱۸۳، ۳۲۹ فیروز پور: ۳۰۰ قادیان: ۲۴۳، ۲۹۰، ۲۹۹ قرطبہ: ۸۸، ۱۸۹ قلعہ جمال پور: ۱۰۵ کابل: ۹۱ کبیر: ۱۸۴، ۱۸۹ کتب خانہ انجمن پنجاب: ۳۲۷ کربلا: ۲۷، ۲۹ کشمیر: ۳۱، ۳۴، ۶۶، ۸۲ کلکتہ: ۱۹۵، ۲۸۶ کوچہ ہنومان: ۳۰ کوئٹہ: ۳۰۵ کیمبرج: ۹۱ گجرات: ۱۹۱ گورداسپور: ۲۹۹ لاہور: ۲۷، ۲۸، ۳۱، ۴۳، ۵۲، ۵۳، ۵۵، ۵۶، ۵۷، ۶۰، ۶۳، ۶۶، ۷۰، ۷۲-۷۴، ۹۷، ۱۰۱، ۱۰۳، ۱۰۵، ۱۷۵، ۱۹۵، ۱۹۶، ۲۷۸، ۲۸۶، ۲۸۹، ۳۰۰، ۳۰۱، ۳۰۳، ۳۰۶، ۳۱۹، ۳۲۱ لکھنؤ: ۱۹۲- ۱۹۴، ۱۹۸، ۲۱۲ لندن: ۳۱، ۵۶، ۳۱۸، ۳۲۱، ۳۲۹، ۳۳۰ مدراس: ۱۹۴ مدینہ: ۸۰، ۳۰۴ مسجد قرطبہ: ۱۸۴، ۱۸۹ مشرقی پاکستان: ۵۳ مصر: ۳۴، ۵۳، ۶۳، ۷۹، ۲۲۶، ۳۱۹، ۳۲۹ مغربی پاکستان: ۳۰ مکہ: ۶۱ میدنہ: ۸۸، ۳۰۴ میکلوڈ روڈ: ۵۷، ۶۸، ۳۲۱ میلوڈی مارکیٹ: ۳۱۱ میو روڈ: ۲۹، ۶۸، ۹۷، ۱۰۳ نابھ: ۲۱۴ نجد: ۲۲۶ واہ کینٹ: ۳۰ وسطی ایشیا: ۲۰۷ وی آنا: ۵۹، ۷۲ ویمر: ۱۶۷، ۱۷۶ ہالی ڈے ہوٹل اسلام آباد: ۳۱۱ ہند: ۲۳، ۲۵، ۷۳، ۱۹۱، ۱۹۲، ۱۹۳، ۱۹۷، ۱۹۹، ۲۰۱، ۲۰۴، ۲۰۵، ۲۱۰، ۲۱۴، ۲۳۱ ہندوستان: ۳۱، ۳۴، ۳۶، ۴۶، ۷۳، ۷۵، ۸۴، ۹۷، ۹۸، ۱۱۱، ۱۲۵، ۱۳۴، ۱۷۷، ۱۸۰، ۱۹۱، ۱۹۲، ۱۹۴، ۱۹۵، ۱۹۶، ۱۹۷- ۲۰۲، ۲۰۴،- ۲۰۸، ۲۱۰، ۲۱۲، ۲۱۳، ۲۱۴، ۲۱۹، ۲۷۸، ۲۹۳، ۲۹۸، ۳۲۴ یثرب: ۸۰ یورپ: ۲۸، ۵۹، ۶۵، ۷۲، ۷۹، ۸۰، ۱۱۸، ۱۲۱،، ۱۲۲، ۱۲۷، ۱۲۸، ۱۳۰، ۱۳۱، ۱۳۴، ۱۳۵، ۱۳۷، ۱۳۹، ۱۴۰-۱۴۳، ۱۴۶، ۱۵۵، ۱۵۷، ۱۶۷، ۱۷۱- ۱۷۳، ۱۷۶، ۱۸۰، ۱۸۳، ۱۹۷، ۲۱۴، ۲۱۵، ۲۱۶، ۲۵۴، ۲۵۶، ۲۷۰، ۲۷۱ یونان: ۳۱، ۱۲۰، ۱۴۶، ۲۵۲، ۲۷۰ ژ…ژ…ژ ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد: ۳۱۱ ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور: ۲۹۱ ادارہ معارف اسلامی لاہور: ۱۰۵ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور: ۲۹۷، ۳۰۷، ۳۳۰ اقبال اکادمی پاکستان کراچی: ۳۲۸ اقبال اکادمی پاکستان، لاہور: ۳۱، ۳۲۳، ۳۲۸ انجمن ترقی اردو (ہند)، نئی دہلی: ۳۲۶، ۳۲۹ انجمن حمایت اسلام، لاہور: ۳۱۹ انجمن خدام القرآن: ۲۲۹ اورینٹل کالج لاہور: ۵۳ ایم اے او کالج، لاہور: ۲۸۹ بازارِ حکیماں لاہور: ۳۱۸، ۳۲۸، ۳۲۹ بزمِ اقبال، لاہور: ۲۹۱، ۳۳۲ بیت المقدس: ۸۰ پنجاب یونی ورسٹی، لاہور: ۳۰۱ تحریک ترکِ موالات: ۳۱، ۳۳، ۳۶، ۳۷، ۱۹۱، ۲۱۱ تحریک خلافت: ۲۹۸ جامعہ عثمانیہ دکن: ۱۰۱ جامعہ ملیہ، دہلی: ۵۶، ۶۸، ۱۰۰، ۲۹۸، ۲۹۹، ۳۰۰، ۳۰۱، ۳۰۸ جرمن پاک انسٹی ٹیوٹ: ۱۷۴ حرم پاک نبیؐ: ۸۰، ۸۱ حرمِ کعبہ: ۸۱ حزب الاحناف: ۵۲ دار السلام، پٹھان کوٹ: ۱۰۳، ۱۰۵ دولت مستقلہ افغانستان: ۶۹، ۷۲، ۷۴ دیال سنگھ کالج، لاہور: ۱۰۱ ریسرچ سنٹر، حیدرآباد (ہند): ۳۲۷ سکاچ مشن ہائی سکول سیالکوٹ: ۲۹۹ سنگھٹن تحریک: ۱۹۴، ۲۱۲ شدھی تحریک: ۱۹۴، ۲۱۲ طبیہ کالج، لاہور: ۳۱، ۷۴، ۳۰۸ علی گڑھ مسلم کالج: ۲۹۹، ۳۰۰ علی گڑھ، یونی ورسٹی: ۹۹ فنانس سروس اکیڈمی لاہور: ۳۰۱ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج: ۱۰۱ گورنمنٹ کالج، سرگودھا: ۳۱۱ گورنمنٹ کالج، لاہور: ۳۰۱، ۳۰۹، ۳۱۱ لندن سکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز: ۲۸۶ مانچسٹر یونی ورسٹی: ۱۶۰ مجلس ترقی ادب، لاہور: ۲۹۱، ۳۲۶ مرکزی مجلس اقبال، لاہور: ۳۱ مرے کالج، سیالکوٹ: ۲۹۷، ۲۹۹ موتمر اسلامی: ۳۲۸ ژ…ژ…ژ