سیر اقبال شناسی در افغانستان عبدالرؤف خان رفیقی ۲۰۰۲ء فھر ست مشمولات صفحہ نمبر الف : ابتدائیہ ۶ باب اول (حیات اقبال، تحریرات) ۱۹ ۱: دکتور اقبال … سرور خان گویا ۲۰ ۲: علامہ اقبال … شہزادہ احمد علی خان درانی (مدیر انجمن ادبی) ۳۰ ۳: پیام اقبال بہ ملت کہسار … علامہ محمد اقبال ۴۷ ۴: افغان و ایران … علامہ محمد اقبال ۴۸ ۵: زوال و انحطاط اسلام…محمد سکندر خان، معلم دارالمعلمین ۵۰ ۶: افغانستان از نقطۂ نظر فضلای ھندوستان ۵۸ الف : سواد بیانیہ رئیس انجمن ادبی ۶۱ ب: خیر مقدم جناب قاری عبداﷲ خان ۶۶ ج : ترجمہ نطق جناب سر راس مسعود ۷۰ د : ترجمہ نطق جناب سید سلیمان ندوی ۷۳ ہ: ترجمہ نطق علامہ سر محمد اقبال ۷۸ ۷: تقریظ و انتقاد بر مسافر …سرور خان گویا ۸۲ ۸: افغانستان بہ یک نظر اجمالی … تقریظ از علامہ محمد اقبال ۹۳ باب دوم ( وفات اقبال سے ۱۹۷۷ء تک، تحریرات) ۹: وفات دکتور اقبال شاعر و فیلسوف شھیر ھند …سید قاسم رشتیا ۱۰۰ ۱۰: اقبال …شہزاد ہ احمد علی خان درانی ۱۰۲ ۱۱: اقبال و افغانستان … غلام جیلانی اعظمی ۱۱۵ ۱۲: منتخبات اشعار اقبال … سرور خان گویا ۱۲۵ ۱۳: مجلس یاد بود علامہ در مصر و علاقہ مندی انجمن ادبی بہ آن ۱۴۵ ۱۴: خودی در نظر اقبال از دکتور سید عابد حسین، ترجمہ قیام الدین خادم ۱۴۶ ۱۵: خطاب اوقیانوس بہ قطرہ … علامہ اقبال ۲۰۴ ۱۶: اقبال … آریانا دائرۃ المعارف ۲۰۶ ۱۷: اقبال و افغانستان … دکتور عبدالحکیم لجیبی ۲۴۶ ۱۸: پیام مشرق … امان افغان ۲۵۲ باب سوم (۱۹۷۸ء تا ۲۰۰۰ئ) ۱۹: اقبال و افغانستان … دکتور حق شناس ۲۸۸ ۲۰: بزرگداشت اقبال بزرگ …دکتور سید خلیل اﷲھاشمیان ۳۰۷ ۲۱ : امروز زدای برای فردا… لاجور بنھشری ۳۳۵ ۲۲: افغانستان در آئینہ قرآن …احمد جان امینی ۳۵۸ ۲۳: ساعتی در خدمت علامہ اقبال …سید قاسم رشتیا ۳۷۰ ۲۴: قلب آسیا، گذرگاہ و نظر گاہ علامہ اقبال … ۳۷۵ سر محقق عبداﷲ بختانی خدمتگار باب چہارم (عقیدت منظوم افغانان بہ حضور اقبال) ۲۵ : علامہ شرق … شاغلی بیتاب ملک الشعرا ۳۸۸ ۲۶:قصیدہ در مرثیہ فیلسوف وطن خواہ، ۳۹۰ پروفیسر اقبال غفراﷲ، ملک الشعرا قاری عبداﷲ ۲۷: اقبال کیست … ملک الشعرا قاری عبداﷲ ۳۹۴ ۲۸ :بیاد علامہ محمد اقبال… محمد ابراھیم خلیل ۳۹۶ ۲۹: رثایِ اقبال …غلام دستگیر خان مہمند ۳۹۸ ۳۰: خطاب بہ اقبال … عبدالہادی داوی ۴۰۱ ۳۱ : امام مشرق و شاعر مشرق، سید جمال الدین ۴۰۳ و علامہ اقبال … عبدالحی حبیبی ۳۲ : علامہ اقبال مرحوم … عبدالحی حبیبی ۴۰۸ ۳۳: بیاد اقبال …مایل ھروی ۴۱۱ ۳۴: غزل حکیم شرق علامہ اقبال … استاد خلیل اﷲخلیلی ۴۱۴ ۳۵: بہ پیش گاہ علامہ دکتور محمد اقبال لاھوری… ۴۱۵ استاد خلیل اﷲ خلیلی ۳۶: آموزگار بزرگ، بر مزار اقبال در لاھور … ۴۲۱ استاد خلیل اﷲخلیلی ۳۷: بر آرامگاہ عارف شرق علامہ محمد اقبال لاھوری … ۴۲۳ استاد خلیل اﷲخلیلی ۳۸ : کعبہ و اقبال …استاد خلیل اﷲخلیلی ۴۲۵ ۳۹ : دمی با اقبال… استاد خلیل اﷲخلیلی ۴۲۹ ۴۰ : جواب مسافر … دکتور محمد رحیم الہام ۴۳۵ متفرقات تصاویر نایاب اقبال شناسان افغانستان ۴۴۳ تصاویر نایاب مقامات تاریخی افغانستان در زمان سفر اقبال بہ افغانستان نمونہ ھای اشعار اقبال، خطاطی شدہ در افغانستان کتابیات ابتدائیہ پرورگارِ دو جہاں کی بارگاہ میں لاکھوں حمد و سپاس، جسں نے ناچیز، سراپا تقصیر کو یہ توفیق عطا فرمائی اور سعادت بخشی کہ جہانِ علم و ادب میں اقبال اور افغانستان کے بارے میں کچھ کام کر سکوں۔ میرے لیے یہ امر باعثِ صد افتخار و اعزاز ہے کہ اقبال جس قوم سے والہانہ عشق کرتے تھے، میں اسی قوم کے نذرانۂ عقیدت و احترام سے اہل علم و دانش کو آگاہ کر سکوں جو اسں نے اپنے اس عظیم محسن و مرّبی کے حضور پیش کیاہے۔ بلاشبہ حضرت علامہ محمد اقبال افقِ شرق پر اپنی بھرپور ضیاپاشیوں کے ساتھ اس طرح جلوہ افروز ہوئے کہ جس نے غلام ھندوستان کے باسیوں کو بالخصوص اور مسلم ملت کو بالعموم نجات اور استقلال کی نوید سنائی۔ اپنے گراں قدر افکار سے گنجینہ ہائے دانش کو جلا بخشی، اور مشرق کو احساسِ تشخص دلا کر اسے آگے لانے کی کوشش کی۔ اپنے ھدف تک پہنچنے کے لیے نہ صرف شاعری کو وسیلے کے طور پر استعمال کیا بلکہ نثر میں بھی اپنے افکار کو بقائے دوام بخشا۔ افکارِ اقبال کا ارتقائی عمل محدود ھندوستانی قومیت سے ھوتے ہوئے لامحدود فلسفۂ وحدتِ اسلامی پر منتج ہوا اور جغرافیائی سرحدات سے بے نیاز رنگ و نسل سے بالاتر، زبان و بیان سے مبرا ھو کر ملت اسلامیہ کو لاالہ الااﷲ کی تلقین کی، تہذیب غرب سے بیزار ھو کر مشرقی ثقافتی عظمت کو برقرار رکھنے کی تبلیغ کی۔ کتاب اﷲ اور سنت رسول اﷲ ﷺ کو اپنا کر ملت کو کائنات کی تسخیر کی راہ دکھلائی۔ جہاں بیں و جہاں آرا بننے کے لیے مذہب مقدسہ کے اسرار و رموز سے آگاہی پر زور دیا۔ مردِ مومن، مردِ خود آگاہ، صاحب جلال و جمال، صاحب بیخودی کی لافانی اصطلاحات وضع کیں۔ سب سے بڑھ کر یہ احسان کہ مشرقی شاعری کے مشھور و معروف مروج اندازِ فکر کو یکسر تبدیل کر کے اس تصورِ شبِ ناتمام، فراقِ و ہجر، زلفِ خوبان، خمارِ میخانہ، تشنگیِ حسرت، اور دریوزہ گریِ ساقی کی محدود سرحدات سے نکال کر شعرِ مشرق کو پیغمبرانہ مسلک قرار دے کر ایک نئے مکتب فکر ( SCHOOL OF THOUGHT)کی تاسیس کی۔ حضرت علامہ کی فکری تشکیل میں جن مشاہیر نے بنیادی کردارادا کیا، ان میں تین افغان شخصیات سر فھرست ہیں۔ اقبال نے فقہی علم میں حضرت امام ابو حنیفہؒ سے استفادہ کیا۔ ان کی بصیرت افروز و مدلل تحقیقات علمی کو پرکھ کر ان سے فکری استحکام پایا۔ حضرت مولانا جلال الدین بلخی سے روحانی اکتساب کیا۔ ان کی جلالی شان کے روبرو انتہائی عجز و عقیدت سے پیش ھو کر انہیں مرشد رومی کا خطاب دے کر اپنے آپ کو مرید ہندی کے لقب سے یاد کیا۔ سیرِ عرفان میں رومی کا مقتدی بن کر سیر و سلوک کے اسرار و رموز، کیفیات و مقامات سے آشنا ہوئے۔ اسی طرح ایک اور مردِ خود آگاہ سید جمال الدین افغانی کی جمالی شان و شوکت بھی اقبال کی توجہ کا مرکز بنی، جن کے سیاسی تدبر سے دنیائے اسلام میں بیداری کی لہر اٹھی۔ یہی افغانی تھے جن سے اقبال نے عالمگیر اسلامی امۃ یا بین الاسلامیت کے آفاقی نظر یے کا خمیر حاصل کیا۔ گویا حضرت بلخی کے تصوف و عرفان اور افغانی کے رمز سیاست سے بھرہ مند ھو کر اقبال صاحب جلال و جمال بنا۔ حیات اقبال میں برصغیر میں جاری سیاسی کشمکش کے دوران بھی اقبال کو اس خطے کا جو نجات دہندہ نظر آیا، وہ افغان ہی تھا یعنی غازی امان اﷲ خان۔ جس طرح برصغیر پاک و ہند سے ہندؤں اور مرہٹوں کے ظلم و ستم کو ختم کرانے کے لیے اس وقت کے عظیم اسلامی قائد حضرت شاہ ولی اﷲ دہلوی نے اپنے مکتوبات کے ذریعے جدید افغان ملت کے مؤسس احمد شاہ درانی کو ھندوستان پر حملوں کی ترغیب دی اور یہی پانی پت کے عظیم معرکے کے ابتدائی اور بنیادی عوامل تھے، بالکل اسی طرح غلام ھندوستان کی بیدار مغز اورجذبۂ حریت سے مغلوب شخصیت حضرت علامہ محمد اقبال، غازی امان اﷲ خان کو خطاب کرتے ہیں۔ اپنی شھرہ ٔ آفاق کتاب پیام مشرق کا انتساب غازی امان اﷲ خان کے نام سے کرتے ہوئے انہیںاپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اعلیٰ اوصاف و کردار اور حریت و آزادی کی تلقین کرتے ہیں۔ من حیث القوم افغان حساس واقع ہوئے ہیں۔ اقبال کی زندگی ہی میں افغان ان کے اعلیٰ مقام اور تفکر و تدبر سے آشنا ھو گئے تھے، چنانچہ جب نادر شاہ نے بچہ سقہ کے بعد اقتدار سنبھالا تو بنیادی اصلاحات نافذ کیں۔ اس دوران کابل یونیورسٹی کے نصاب اور افغانستان میںتعلیمی رہنمائی کے لیے اس عظیم دوست اقبال کو باقاعدہ افغانستان آنے کی دعوت دی۔ یہ دعوت ایک تاریخی واقعہ ثابت ہوئی۔ حضرت علامہ کے ہمرکاب مولانا سید سلیمان ندوی نے سیر افغانستان رقم ڈالی، اور حضر ت علامہ نے مثنوی مسافرجہانِ علم و ادب کو عطا کی۔ جب ہم ’’سیر اقبال شناسی در افغانستان‘‘ کا جائزہ لیتے ہیں، تو پتہ چلتا ہے کہ اقبال کے سفر افغانستان سے پہلے ہی افغانستان میں اقبال شناسی کا آغاز ہو چکا تھا۔ چونکہ اقبال کا سفر افغانستان اکتوبر اور نو مبر ۱۹۳۳ ء میں ھوتا ہے لیکن اقبال پر سرور خان گویا مرحوم کا مقالہ مارچ ۱۹۳۱ء میں شائع ھوتا ہے۔ یہ باب اظھر من الشمس ہے کہ اقبال شناسی کا آغاز افغانستان میں ایران سے کافی پہلے کافی ھو چکا تھا۔ اس حقیقت کے مختلف علل و اسباب ہیں۔ اقبال کے منظوم کلام کا تقریباً دو تہائی حصّہ فارسی پر مشتمل ہے۔ اس وجہ سے بھی افغانستان میں اقبال فہمی آسانی سے ممکن تھی۔ اس کے علاوہ افغانستا ن کے حکمران و سیاسی زعما امیر امان اﷲ خان اور نادر شاہ سے اقبال کے ذاتی مراسم تھے۔ ادبی مشاہیر علامہ صلاح الدین سلجوقی، سرورخان گویا اور سردار علی احمد خان درانی سے بھی گہرے مراسم تھے۔ سفرِ افغانستان کے دوران مختلف علمی و ادبی رجال سید قاسم رشتیا، غلام جیلانی جلالی، عبدالہادی خان، ملک الشعراء قاری عبداﷲ، امین اﷲ زمریانی اور علامہ عبدالحئی حبیبی جیسی شخصیات سے ملاقاتیںہوئیں۔ اور بقول ڈاکٹر محمد ریاض خان مرحوم اکثر پڑھے لکھے افغانیوں کو کلامِ اقبال کے ساتھ قابل رشک حد تک عشق ہے۔ افغانی بالعموم اقبال کے اردو کلام سے بھی آگاہ ہیں۔ ( اقبال ممدوح عالم ص ۲۸۵) اس کا بین ثبوت عبدالہادی خان داوی کی تصنیف ’’آثار اردوئی اقبال‘‘ ہے جس کی دو جلدیںکابل سے شائع ھو چکی ہیں، اور جس میں موصوف نے نہ صرف اقبال کے اردو اشعار کا شاندار علمی انداز سے جائزہ لیا ہے بلکہ اقبال کے بیشتر اردو کلام کا منظومفارسی ترجمہ بھی کیا ہے۔ جب کہ ایران میں سید محمد علی داعی الاسلام اور سید محمد محیط طباطبائی کے مقالات ’’دکتور اقبال و شعر فارسی وی‘‘ ارمغان ۱۹۳۸ء اور محیط ۱۹۴۵ ء میں شائع ھوتے ہیںاور بقول ڈاکٹر محمد ریاض خان ایران میں اقبال پر مقالات اور کتب لکھے جانے کا سلسلہ علامہ مرحوم کے بعد شروع ھوتا ہے۔ ( اقبال ممدوح عالم ۲۸۵۔۲۸۶) آج سے تقریبا ایک عشرہ پہلے ۱۹۹۲ ء میں اسلام آباد میں ایک اہل قلم کانفرنس کے دوران استاد محترم مرحوم و مغفور ڈاکٹر ریاض صاحب کا لیکچر ’’اقبال اور ملت افاغنہ‘‘ سننے کا موقع ملا۔ لیکچر کے اختتام پر میں نے ڈاکٹر صاحب سے اقبال اور افغانوں کے حوالے سے کئی سوالات کیے۔ جن کے جوابات انھوں نے بڑے مدلل اور معقول انداز میں دیے، نہ صرف یہ بلکہ مسرت کا اظہار کرتے ہوئے چائے کے وقفہ میں مجھے اقبال اور افغانوں پر کام کرنے کی تلقین فرمائی۔ لہذا میں باقاعدہ ان کے حلقہ تلامذہ میں شامل ہوا۔ اس وقت وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ اقبالیات کے سر براہ تھے، میں نے وہاں ایم فل میں داخلہ لے لیا۔ افسوس کہ میرے دورانِ تحقیق ہی وہ اﷲ کو پیارے ھو گئے۔ انہی کی عطا کردہ تحریک کی برکت ہے کہ میں آج افغانستان میں اقبال شناسی کی روایت پر پی ایچ ڈی کر رہا ھوں۔ الحمداﷲ۔ اور زیر نظر کتاب میرے اس تحقیقی منصوبے کا ایک حصّہ ہے۔ افغانستان میں اقبال شناسی پر سب سے پہلا مقالہ ’’افغانستان اور ایران میں اقبال پر مقالات و کتب‘‘ بھی ڈاکٹر محمد ریاض مرحوم کا تحریر کردہ ہے۔ اس مقالے میں اس موضوع پر انتہائی بنیادی معلومات یکجا کی گئی ہیں۔ اس وقت تک افغانستان میں اقبال پر کوئی مستقل کتاب شائع نہیں ہوئی تھی۔ البتہ ڈاکٹر صاحب کو جو مقالات افغانی مطبوعات میں ملے تھے ان کی مختصر فھرست دی گئی ہے۔ مجھے اس تحقیق کے دوران ڈاکٹر صاحب کی فھرست میں منقول درج ذیل مقالات نہیں مل سکے :۔ ۱۔ ادب (دو ماہی )کابل جون جولائی ۱۹۴۵ ء یاد بود علامہ اقبال، پروفیسر غلام حسن مجددی۔ ص ۳۰۔۳۸ ۲۔ ادب ( دو ماہی ) کابل اپریل یا جولائی ۱۹۴۲ء فلسفہ ٔ اقبال، پروفیسر غلام حسن مجددی۔ ص ۳۔ ۸ پروفیسر غلام حسن مجددی کابل یونیورسٹی کی ادبیات فیکلٹی کے ڈین تھے۔ موصوف کے یہ دونوں مقالے ان کے وہ خطابات ہیں جو یومِ اقبال کے موقع پر پاکستانی سفارت خانے کے زیر اہتمام پڑھے گئے اور اقبال کے فلسفۂ خودی کو اجاگر کیا گیا۔ ( اقبال ممدوح عالم ص ۲۸۸) کابل شمارہ دسمبر ۱۹۳۲ ء انتخاب سخنی با نژاد نو، از اقبال، ادارۂ مجلہ ۳۰۔ ۳۹ کابل شمارہ اکتوبر ۱۹۳۳ء ورود معارف ہند، ادارہ مجلہ کابل شمارہ اپریل ۱۹۳۴ء اشعارِ اقبال (ساقی نامہ کشمیر از پیام مشرق) ادارہ ص ۳۹۔ ۴۰ کابل شمارہ اپریل ۱۹۳۹ ء علامہ اقبال کی پہلی برسی ادارہ۔ ص ۳۴۔ ۳۵ مجلہ کابل کا اجراء ۱۳۱۰ھ ش میں ھوتا ہے اور سال اول کے شمارہ نمبر دس ہی سے اقبال شناسی کا آغاز ھوتا ہے۔ حیات اقبال میں مجلہ کابل میں مطبوعہ درج ذیل نشریات میرے علم میں آئی ہیں : ۱۔ سال اول شمارہ ۱۰۔ ۱۵ حوت ۱۳۱۰ ھ ش ۵ ؍مارچ ۱۹۳۱ء دکتور اقبال سرور خان گویا ( معرفی شعر فارسی ) ص ۱۹ تا ۲۳ ۲۔ سال دوم شمارہ اول سرطان ۱۳۱۱ ھ ش؍ ۲۲ جون ۱۹۳۲ء مشاہیر اسلام (علامہ اقبال) از علی احمد خان درانی، مدیر انجمن ادبی ص ۱۲۔ ۲۰ ۳۔ شمارہ ایضاً اقبال کی اپنی تحریرسے کابل مجلہ کے لیے ارسال کردہ نظم معہ تصویر پیام بملت کہسار ملحقہ بر صفحہ ۲۰ ۴۔ سال دوم شمارہ ۳ سنبلہ ۱۳۱۱ ھ ش ؍۲۳ اگست ۱۹۳۲ء افغان و ایران علامہ محمد اقبال ( از اشعار جاوید نامہ) ۵۔ سال دوم شمارہ ھفتم جدی ۱۳۱۱ ھ ش؍ ۲۲ دسمبر ۱۹۳۲ ء زوال و انحطاط اسلام از محمد سکندر خان، معلم دارالمعلمین ص۹تا ۳۲ ۶۔ شمارہ ایضاً انتخاب، نژاد نو از علامہ محمد اقبال ( ادارۂ مجلہ ) ص ۳۰۔ ۳۹ ۷۔ شمارہ اکتوبر ۱۹۳۳ء ورود معارف ہند، ادارہ مجلہ ( اقبال اوران کے رفقائے سفر کا دورۂ افغانستان کا خیر مقدم) ۸۔ سال سوم شمارہ ھفتم اول جدی ۱۳۱۲ ھ ش ؍ ۲۲ دسمبر ۱۹۳۳ء از ص ۸۱۔ ۹۴ افغانستان از نقطۂ نظر فضلائے ھندوستان: پہلے سید سلیمان ندوی، سر راس مسعود اور سر علامہ محمد اقبال کے دورۂ افغانستان کا ذکر ہے۔ بعد میں انجمن ادبی کابل کی تقریر و سپاس، پھر قاری عبداﷲملک الشعرا افغانستان کا فارسی منظوم خیر مقدم، اور اس کے بعد ان تین زعما کی تقاریر کا متن ہے۔ اس تمام متن کی تلخیص سید سلیمان ندوی کی سیر افغانستان میں موجود ہے۔ جب کہ اقبال کی تقریر کا متن ’’مقالات اقبال‘‘ از سید عبدالواحد معینی لاھور سے شائع ہوا ہے۔ ۹۔ سال چہارم شمارہ ھفتم اول جدی ۱۳۱۳ ھ ش ؍۲۳ دسمبر ۱۹۳۴ء تقریظ و انتقاد بر مثنوی مسافر از محمد سرور خان گویا ص ۸۵ تا ۸۹ ۱۰۔ شمارہ ۲۲ مارچ ۱۹۳۵ء ص ۸۶۔ ۹۰ افغانستان بیک نظر اجمالی ( اقبال کی تقریظ کا فارسی ترجمہ ) ۱۱۔ شمارہ اپریل ۱۹۳۴ء اشعار اقبال ( ساقی نامہ و کشمیر از پیام مشرق ادارہ ص ۳۹۔ ۴۰) وفات اقبال کے بعد مقالات کی تفصیل بے جا ھوگی، ہرتحریر و مقالے کے ساتھ مکمل حوالہ موجود ہے۔ کیونکہ کتاب کے مشمولات ترتیب دیتے ہوئے سنِ اشاعت کی ترتیب کو ترجیح دی گئی ہے، سنِ اشاعت کی ترتیب سے کتاب میں افغانستان میں اقبال کی شائع شدہ تخلیقات و تحریرات اور ان کے فکروفن، سیرت و شخصیت پر لکھی گئی نگارشات شامل ہیں۔ ایک مقالہ پیام مشرق پر موجود ہے جو کابل کے امان افغان کے شمارہ ۹۔ ۱۰۔ ۱۱ ۱۳و ۱۷ میں شائع ہوا ہے۔ ان شماروں کے سنِ طباعت کا پتہ نہیں چل سکا اور نہ ہی اس کے لکھنے والے کے نام کا۔ البتہ یہ مقالہ حضرت علامہ کی صد سالہ تقریبات کے سلسلے میں کابل سے مطبوعہ صدیق رھیو کی کتاب ’’اقبال و افغانستان‘‘ کے صفحہ نمبر ۱ تا ۲۱ میں شائع ہوا ہے پس اس کتاب کو ۱۹۷۷ء میںشائع ہونے والی کتب کے ردیف میں شامل کیا جاتا ہے۔ صدیق رھیو کی یہ کتاب ۱۹۷۷ء میں وزارت اطلاعات و کلتورکی جانب سے بیہقی پبلشنگ ہاؤس کابل نے شائع کروائی ہے، صفحات کی تعداد ۸۸ ہے۔ اس کے علاوہ حضرت علامہ پر افغانستان میں پشتو میں بھی ایک کتاب شائع ہوئی ہے (پشتون اقبال کی نظر میں ) از عبداﷲ بختانی پشتو ئولند کابل سنِ اشاعت ۱۳۳۵ ھ ش ص ۶۸ ( اقبال کا تعارف، نظریات۔ سفرِ افغانستان اوربعض در شعرائے افغانستان کا منظوم خراج تحسین شامل ہے۔ ) فاضل محترم عبدالہادی داوی مرحوم نے آثار اردوی اقبال بھی دو جلدوں میں شائع کی۔ اس کی جلد دوم جوبیہقی پبلشنگ ہاؤس نے مطبع دولتی کابل سے قوس ۱۳۵۶ ھ ش میں شائع کی، میرے زیر ِ مطالعہ رہی۔ اس کتاب میں جناب داوی نے بانگ درا کے مشمولات پر پہلے نہایت عالمانہ و فاضلانہ رائے دی ہے اس کے بعد ان کے اردو اشعار کا منظوم فارسی ترجمہ کیا ہے، جو نہایت اہم کاوش ہے اور اقبالیاتی ادب میں قابلِ قدر اضافہ ہے۔ کتاب میں افغانوں کے ھاں اقبال شناسی کا ذکرکرتے ہوئے صرف فارسی نگارشات شامل کی ہیں، جب کہ افغانستان کے پشتونوںکی اقبال شناسی پر الگ بحث موجود ہے۔ جس کا حصّہ نظم ’’اقبال تہ عقیدت پیر رومی‘‘ میں شامل ہے جب کہ پشتو مقالات اقبال پر راقم الحروف کی پشتو تحقیقی کتاب ’’سرّ اقبال‘‘ میں شامل ہیں۔ پھر بھی تحقیقی اصولوں کے تحت درج ذیل مقالات کاذکرضروری سمجھتا ھوں : ۱۔ اقبال، آریانا دائرۃ المعارف پشتو جلد ۳ مطبع دولتی کابل ۱۳۳۷ ھ ش ۲۔ د اقبال نظریات، عبداﷲ بختانی پشتانہ علامہ اقبال پہ نظر کی کابل ۱۳۳۵ ھ ش ۳۔ د اقبال د افغانستان سفر، عبداﷲ بختانی ایضاً ۴۔ اقبال او پشتانہ شاہیر، عبداﷲ بختانی ایضاً ۵۔ د خوشحال او اقبال د اشعار و مشترکی خواص عبداﷲ بختانی ننگیالی پشتون کابل ۱۳۴۵ ھ ش ۶۔ اتحاد بین المسلمین، عبدالرؤف نوشھروی قلم ( مجلہ ) سال چہارم شمارہ ۲ ۱۳۶۸ ھ ش جون جولائی ۱۹۸۹ ء منظومات میں درج ذیل ہیں :۔ ۱۔ د اقبال پہ وفات، قیام الدین خادم مجلہ کابل سال ۸ جوزا ۱۳۱۷ ھ ش؍ مئی جون ۱۹۳۸ ء ۲۔ د اقبال ویر گل باچا الفت حوالہ ایضاً اس کے علاوہ عبدالہادی، شھرت ننگیال اور حبیب اﷲ رفیع کی تخلیقات شامل ہیں۔ کتاب میںجابجا افغانستان میں اقبال کی شائع شدہ تصاویر بھی شامل ہیں جب کہ افغانستان کے مشھور و معروف عالمی خطاط عزیز الدین وکیلی فوفلزائی کے خطاطی کردہ اقبال کے اشعار کے نمونے بھی زینت کتاب ہیں۔ ان تمام حضرات کا شکریہ ادا کرتا ھوں جنھوں نے ان کاوشوں میں میرا بھرپور ساتھ دیا۔ خصوصاً جناب حمد اﷲ صحاف اور محمد ظاھر سرک کا شکریہ ادا کرنا واجب سمجھتا ھوں جنھوں نے بنیادی مواد فراہم کیا۔ اقبال اکادمی کے فعال اور مخلص ناظم جناب ڈاکٹر محمد سہیل عمر صاحب اور بزرگ و قابل احترام نایب ناظم ڈاکٹر وحید عشرت کا ممنون ہوں۔ جنھوں نے اقبالیات پر بندے کی اس کاوش کو طباعت کا اعزاز بخشا۔ عبدالرؤف رفیقی حبیبی اکیڈیمی حاجی مدد خان مینہ چمن بلوچستان ۲۰ جولائی ۲۰۰۲ء حصّہ اوّل حیات اقبال تک تحریرات دکتور اقبال از مجلہ کابل سال اول شمارہ ۱۰ ۱۵ حوت ۱۳۱۰ ھ ش/۵ مارچ ۱۹۳۱ء ص۱۹ تا ۲۵ بقلم، سرور گویا دکتور اقبال شاعر بزرگ و نامدار کشور ھند است۔ علوم عالیۂ شرقی را در خود ھند تحصیل و شعب مختلفہ حکمت نظری و الہیات و معقولات را در برلن یکی از پایہ تخت ھای معتبر و محتشم بلاد اروپا است اکمال نمودہ و تاریکی افق سیاہ مغرب را محو اشراقات ضمیر مستنیر خود ساختہ است۔ اشعار و منظومات او مانند اکثر شعرای بزرگ و نامدار دنیا ھمہ معرف اخلاق و شوق تعلیمات است کہ میخواھد قارۂ بزرگی را تحت الشعاع افکار خویش قرار دھد و بیش از آنچہ محیط در وی اثر کند خود در محیط تاثیر نماید، در تمام آثار او یک روح حقیقت و یک قلب سوزان مملو از عواطف و احساسات صلح وصلاح و وسعت مشرب و روح سعی و عمل و مبارزہ در حیات کہ مسلک و مشرب پاک متصوفین بزرگ اسلامی است، دیدہ می شود۔ اشعار اقبال دارای آن تعالیم اخلاقی عالی است کہ میتواند سر مشق زندگانی و نوید سعادت بشری قرار گیرد۔ اقبال علاوہ برشھرت فوق العادۂ کہ در خود مملکت پہناور ھند دارد در سائر ممالک اروپا و شرق نیز بی نہایت مشھور است، دکتور نکلسن، مستشرق شہیر انگلیس و معلم ادبیات در دارالفنون اکسفورد انگلستان کہ یگانہ متتبع و زندہ کنندہ نام و آثار اقبال در عالم فرنگ است، میگوید: اقبال سر تا سر قارۂ ھند را مسخر نمود و در تصرف خویش نگاھداشت و او یگانہ شاعر و پیشوائی است کہ مملکت پیر ھند از افکار جوان او پیروی کردہ است۔ از آثار دکتور اقبال تا آنجا کہ نگارندہ اطلاع دارم آثار و کتب ذیل بطبع رسیدہ است و بعضی ھنوز در تحت طبع است۔ پیام مشرق (بزبان فارسی بجواب گوتہ شاعر شہیر آلمان) نالہ یتیم (بزبان اردو ) زبور عجم ( بزبان فارسی ) رموز بیخودی ( فارسی) اسرار خودی (فارسی )۔ بانگ درا ( اردو ) جاوید نامہ ( بزبان فارسی بجواب دانتی شاعر ایطالیا کہ ھنوز در تحت طبع است ) از تاریخ تولد و مسقط الراس و سنین عمر و خطوط مسافرت و دورہ ھای تحصیل و غیرہ عوارض و خصوصیات حیات این شاعر شہیر چون دستم تہی است نتوانستم کہ بدقت درین باب چیزی بنویسم ناچار بہ این چیزھا اکتفا رفت و وعدۂ کہ دانشمند معظم و دوست محترمم آقای صلاح الدین خان سلجوقی دادہ اند امید قوی دارم کہ شرح حال مبسوط و کاملی از حضرتش بقلم توانا و مقتدر خویش در بمبئی نگاشہ و ما در آتیہ قریب درج صحایف مجلۂ کابل نمائیم۔ اینک نمونۂ از اشعار آبدار شان را از ( اسرار خودی ) نقل و اقتباس می کنیم۔ اطاعت خدمت و محنت شعار اشتر است صبر و استقلال کار اشتر است گام او در راہ کم غوغاستی کاروان را زورقِ صحراستی نقش پایش قسمت ھر بیشۂ کم خور وکم خواب و محنت پیشۂ مست زیرِ بار محمل میرود پای کوبان سوی منزل میرود سر خوش از کیفیت رفتار خویش در سفر صابر تر از اسوار خویش تو ھم از بر فرائض سر متاب (۱) بر خوری از عندہ حسن المآب در اطاعت کوش ای غفلت شعار (۲) میشود از جبر پیدا اختیار تاکس از فرمان پذیری کس شود آتش ار باشد ز طغیان خس شود ھر کہ تسخیر مہ و پروین کند خویش را زنجیری آئین کند باد را زندان گل خوشبو کند قید بو را نافۂ آھو کند میزند اختر سوی منزل قدم پیش آئینی سر تسلیم خم سبزۂ پروین نمو روئیدہ است پائمال از ترک آن گردیدہ است لالہ پیہم سوختن قانون او برجہد اندر رگ او خون او ٭٭٭ ۱: تلمیح است بہ آیۂ شریفۂ قرآنی۔ ۲: اشارہ است بطرف مسئلہ مشھور جبر و اختیار الھیات اسلامیہ مقصدش اینکہ حریت راست و اعلا از اطاعت مولٰی کہ پابندی بفرائض است بوجود می آید۔ قطرہ ھا دریاست از آئین وصل ذرہ ھا صحراست از آئین وصل باطن ھر شئی ز آئینی قوی تو چرا غافل ز این سامان روی باز ای آزاد دستور قدیم زینت پا کن ھمان زنجیر سیم شکوہ سنج سختی آئین مشو از حدود مصطفی بیرون مرو ضبط نفس: نفس تو مثل شتر خود پرور است خود پرست و خود سوار و خودسر است مرد شو آور زمام او بکف تا شوی گوھر اگر باشی خزف ھر کہ بر خود نیست فرمانش روان می شود فرمان پذیر از دیگران طرح تعمیر تو از گل ریختند با محبت خوف را آمیختند خوف دنیا خوف عقبٰی خوف جان خوف آلام زمین و آسمان حب مال و دولت و حب وطن حب خویش و اقربا و حب زن امتزاج ما و طین تن پرور است کشتۂ فحشا ھلاک منکر است تا عصای لا الٰہ داری بدست ھر طلسم خوف را خواھی شکست ھرکہ حق باشد چو جان اندر تنش خم نگردد پیش باطل گردنش خوف را در سینۂ او راہ نیست خاطرش مرعوب غیر اﷲ نیست ھر کہ در اقلیم لا آباد شد فارغ از بند زن و اولاد شد می کند از ما سویٰ قطع نظر می نہد ساطور بر حلق پسر(۱) با یکی مثل ھجوم لشکر است جان بچشم او ز باد ارزان تر است لا الہ باشد صدف، گوھر نماز قلب مسلم را حج اصغر نماز در کف مسلم مثال خنجر است قاتل فحشا و بغی و منکر است(۲) روزہ برجوع و عطش شبخون زند ٭٭٭ ۱: اشارہ است بطرف قربانی حضرت ابراھیم خلیل اﷲ۔ ۲: اشارہ بطرف آیۂ شریفہ ان الصلوٰۃ تنہی عن الفحشا۔ خیبر تن پروری را بشکند مومنان را فطرت افروز است حج ھجرت آموز و وطن سوز است حج طاعتی سرمایہ جمعیتی ربط اوراق کتاب ملتی حب دولت را فنا سازد زکوٰۃ ھم مساوات آشنا سازد زکوٰۃ دل ز حتی تنفقوا محکم کند زر فزاید الفت زر کم کند این ھمہ اسباب استحکام تست پختہ و محکم اگر اسلام تست اھل قوت شو ز ورد یا قوی تا سوار اشتر خاکی شوی نیابت الھی گر شتر بانی جہانبانی کنی زیب سر تاج سلیمانی کنی تا جہان باشد جہان آرا شوی تاجدار ملک لایبلی شوی(۱) نائب حق در جہان بودن خوش است بر عناصر حکمران بودن خوش است ٭٭٭ ۱: یعنی مملکتی کہ از دست برد زمان محفوظ و مصئون است۔ نائب حق ھمچو جان عالم است ھستی او ظل اسم اعظم است از رموز جز و کل آگہ بود در جہان قائم بامر اﷲ بود خیمہ چون در وسعت عالم زند این بساط کہنہ را برھم زند فطرتش معمور و می خواھد نمود عالمی دیگر بیارد در وجود صد جہان مثل جہان جز و کل روید از کشت خیال او چو گل پختہ سازد فطرت ھر خام را از حرم بیرون کند اصنام را نغمہ را تار دل از مضراب او بھر حق بیداری او خواب او شیب را آموزد آھنگ شباب می دھد ھر چیز را رنگ شباب نوع انسان را بشیر و ھم نذیر ھم سپاہی ھم سپہ گر ھم امیر مدعای علم الاسماستی سر سبحان الذی اسراستی از عصا دست سفیدش محکم است قدرت کامل بعلمش توام است چون عنان گیرد بدست آن شہسوار تیز تر گردد سمند روزگار خشک سازد ھیبت او نیل را میبرد از مصر اسرائیل را از قم او خیزد اندر گور تن مردہ جانہا چون صنوبر در چمن ذات او توجیہ ذات عالم است از جلال او نجات عالم است ذرہ خورشید آشنا از سایہ اش قیمت ھستی گران از مایہ اش زندگی بخشد ز اعجاز عمل می کند تجدید انداز عمل جلوۂ خیزد ز نقش پای او صد کلیم آوارۂ سینای او زندگی را می کند تفسیر نو می دھد این خواب را تعبیر نو ھستی مکنون او را ز حیات نغمۂ نشیندۂ ساز حیات طبع مضمون بند فطرت خون شود تا دو بیت ذات او موزون شود مشت خاک ما سر گردون رسید زین غبار آن شہسوار آید پدید خفتہ در خاکستر امروز ما شعلۂ فردای عالم سوز ما غنچۂ ما گلستان در دامن است چشم ما از صبح فردا روشن است مشاھیر بقلم شہزادہ احمد علی خان درانی مدیر انجمن ادبی از مجلہ کابل سال دوم شمارہ اول سرطان ۱۳۱۱ ھ ش؍ ۲۲ جون ۱۹۳۲ء ص ۱۲ تا ۲۰ {علامہ اقبال} ملتی کہ می خواھد از ھبوط پستی و نکبت نجات یافتہ، شان و عظمت خود را در انظار عالم و خاطر جہانیان روشن نماید، نخستین یک گونہ تموج پستی و ذلت را در خود احساس می کند و یکی از افراد آن جامعۂ بیدار شدہ کاروان ساکت و صامت را از اثر کلام و سوز نالۂ خودبشاھراہ صحیح سر گرم تلاش و جستجو میگرداند۔ آنہمہ طوفانات غنود و جمودیکہ بر ملل اسلامیہ طاری و مستولی شدہ اکنون ھمہ کس حس کردہ و در اکثر ممالک قائدین ملت بعقل رسا و فہم دراک قوم خود را پیش میبرند۔ اقبال نیز یکی از این قائدین بشمار میرود کہ صدای پرسوز وی برای ملت و قومش کار صور اسرافیل را دادہ است۔ در ۱۸۷۰ عیسوی، شھر سیالکوت ( پنجاب) سر زمین مردم خیز ھند را کہ مولد و منشای مسعود سعد سلمان، امیر خسرو، فیضی، غنی، واقف، غنیمت، بیدل، غالب و پرورش گاہ بدر چاچ، عرفی، نظیری، صائب، ظھوری و کلیم و سلیم است، مژدہ ظھور اقبال داد۔ نعرہ زد عشق کہ خونین جگری پیدا شد حسن لرزید کہ صاحب نظری پیدا شد فطرت آشفت کہ از خاک جہان مجبور خود گری، خود شکنی، خود نگری پیدا شد {اقبال} آبا و اجداد این نونہال ھند از مسلمانان جدید کشمیر بودہ اند، چنانکہ خود در ضمن توصیف کشمیر میگوید: سرت گردم ای ساقیٔ ماہ سیما بیار از نیاکان ما یادگاری ازان می فشان قطرۂ بر کشمیری کہ خاکسترش آفریند شراری جای دیگر گفتہ: مرا بنگر کہ در ھندوستان دیگر نمی بینی برھمن زادۂ رمز آشنای روم و تبریز است اقبال بعد از فراغت تعلیم مدرسہ در گورنمنت کالج لاھور داخل شدہ، علاوہ دیگر علوم انگلیسی تحصیلات فارسی را در سایۂ عاطفت شمس العلما مولوی سید میر حسن صاحب مرحوم کہ در نظم و نثر فارسی شھرت و فضیلت زیادی داشت، بہ پایان رسانید۔ چون از ایام صغارت طبع موزونی داشت، توجہات استاد یگانہ فکر رسای این نونہال برومند و این شگوفۂ نو رسیدہ را بہ زبان فارسی آبیاری نمودہ، شیوا بیانی را تقدیر وی گردانید۔ پروفیسر آرنلد کہ علاوہ از فلسفۂ جدید در ادبیات عرب ھم ماھر بود، با تعلیم فلسفہ و نکات حکمت آشنایش ساخت۔ اقبال بہ اندک زمان شھرت بسیا ر پیدا نمود، مایۂ شگفت اقرانش برآمد، در امتحان ایم، اے، از دارالفنون پنجاب کامیاب گردید، نخست در گورنمنت کالج لاھور بدرس دادن فلسفہ پرداخت و سپس جہت اکتساب علوم عالیہ در سنہ ۱۹۰۵ عیسوی روانۂ اروپا شد و بعد از گذشت سہ سال از آلمان سند پی۔ ایچ۔ دی و خطاب دکتور را حاصل کردہ بوطن عودت نمود۔ اقبال از خرد سالی اشعار خوبی را در زبان ھندوستانی میگفت، در مراحل اولیۂ شاعری جملہ رعنائی حسن و زیبائی عشق از کلامش پیداست، چون پروردۂ آغوش یک خانوادۂ تصوف است لذا کلامش را بچاشنی تصوف چنان زیبندہ تر میسازد کہ چشم تعقل در امواج حیرت می غلطد، بہ انکشاف اسرار کائنات و کشف غوامض الہیات از عالم مرموز حکمت بہ آسانی عبور و مرور نمودہ، ژولیدگی ھای لاینحل مظاھر حقیقی را بہ تخیلات فلک پیمای خود صورت سہل تری می بخشد۔ فطرت و مظاھر قدرت را مثلاً لب ساحل، دل صحرا، روانی آب، شام گاھان، نمود سبزہ، ھجوم گل، عظمت کوھسار، سکوت دشت، ھجر قیر گون لیل، اشراقات سحر گاھی، درخشانی انجم، نمود ماہ و سایر جزئیاتیکہ نزد ما در اطراف شان چیزی گفتن در خور اعتنا نیست چنین رسم میکند کہ خوانندہ را استعجابی دست میدھد۔ استعارات شیرین، تشبیہات بکر و محاورات دلکش کلامش را یک سلسلۂ از در آبدار میسازد۔ در نشاط باغ کشمیر مینویسد: خوشا روزگاری خوشا نوبہاری نجوم پرن رست از مرغزاری زمین از بہاران چو بال تذر وی ز فوارہ الماس بر آبشاری نہ پیچد نگہ جز کہ در لالہ و گل نہ غلطد ہوا جز کہ بر سبزہ زاری لب جو خود آرائی غنچہ دیدی؟ چہ زیبا نگاری چہ آئینہ داری نواھای مرغ بلند آشیانی در آمیخت با نغمۂ جویباری تو گوئی کہ یزدان بہشت برین را نہاد است در دامن کوھساری برای کرمک شب تاب میگوید: یک ذرۂ بی مایہ متاع نفس اندوخت شوق اینقدرش سوخت کہ پرانگی آموخت پہنای شب افروخت واماندہ شعاعی کہ گرہ خورد و شرر شد از سوز حیات است کہ کارش ھمہ زر شد دارای نظر شد پروانۂ بیتاب کہ ھر سو تگ و پو کرد بر شمع چنان سوخت کہ خود را ھمہ او کرد ترک من و تو کرد یا اختر کی ماہ مبینی بہ کمینی نزدیک تر آمد بہ تماشای زمینی از چرخ برینی در میادین حسن و عشق دشنہ ھای جگر دوز را در زلفین غالیہ بار پوشانیدہ، و در تموجات چین جبین صد صاعقہ را غلطان نمودہ، ھر شعر وی داستانیست از شجاعت اسلاف کہ صد ھزار دستان سام را در برگرفتہ است۔ اقبال اگرچہ در انصرام کلام جنبۂ ثقالت را نمی آورد تاھم در بادی النظر از نشیب و فراز تخیل و چین و شکن ھای پیرایۂ فلسفہ اش پی بردن دشوار تر مینماید زیرا کہ اختصاص و جامعیت کلام در ھر نکتہ اش طوفان حقایق و معارف را برپا ساختہ، بقول حضرت بیدل : ’’معنی بلند من فہم تند می خواھد سیر فکرم آسان نیست کو ھم و کوتل دارم‘‘ اقبال با مھرہ ھای فلسفہ، تاریخ و الھیات و مہارتش را بر بساط سیاست چیدہ از یکسو درین عالم جہد و جہاد، درین عرصۂ کون و فساد، درین فراخنای تنازع للبقا و درین میدان تگ و تاز با شاطران سیاسی و شیوا بیانان ھمعصر و فیلسوفان باریک بین دست و گریبان است و از جانب دیگر ممکنات حیات را در اخلاق اﷲ دیدہ بملت راہ راست اسلام را ہدایت میکند۔ اقبال اضمحلال و سکون شاعر ی را کہ تنزل او حکم تنزل اقوام و امم را دارد،در شکستہ کاروان ملت را مثل ’’قیس اعثی‘‘ (۱ ) بہ کار زار علم و عمل و گیرو دار جد و جہد پیش میراند : بیا کہ غلغلہ در شھر دلبران فگنیم جنون زندہ دلان ھر زہ گرد صحرا نیست مرید ھمت آن رھروم کہ پا نگذاشت بجادۂ کہ در و کوہ و دشت و دریا نیست ٭٭٭ ۱: شاعر نابینای عرب کہ شعر حماسی وی در عرصۂ جدال و قتال آتش شجاعت را در صفوف لشکریان مشتعل میکرد۔ اقبال نہ مثل بعضی جادو نفسان سحر بیان کہ ملت شانرا از تاثیر کلام خود سست و مبھوت ساختہ تک عالم حیات و یک جہان زندہ را کہ عبارت از شور و شغب و زد و خورد است بموت مطلق سکون و حیرت خانۂ جنون بادل شکستگی و مظلومیت جوگیانہ آشنا ساختہ اند، بود بل میخواھد ھم آن اثراتی را کہ تعلیم مسلک قناعت و توکل شعرای متصوفین شرق و قادر الکلامان جادو رقم و سحرطرازانِ رنگین بیان بہ تخیلات ناممکن الحصول خود ملت و قوم را در ورطۂ نکبت و فلاکت بردہ اند، بر کشیدہ بجادۂ محرک اعتلا رھنمونی کند۔ از ھمینجاست کہ گرمی سخنش در محافل خوابیدہ کشاکش سعی و عمل و در عروق منجمد اقوام تموج حیات و شور اضطرار را جریان دادہ در مصاف زندہ گی با قوت ارادی مستنیر میسازد، چنانچہ ھمین عقیدۂ خود را یکجا در انگلیسی ھم اظہار مینماید: ’’جملہ انجام جدوجہد آدم تنہا حیات است و بس، و تمام علوم و فنون تحت حصول ھمین مقصد آمدہ، از ینرو اندازۂ منفعت ھر علم و فن از قوت حیات آفرینش وی کردہ میشود،مثلاً اعلی ترین فن ھمانست کہ قوت ارادی جبلی را بما تولید کند، و ما را در کار زار حیات و مصاف زندگی برای ’’مقابلہ‘‘ طاقت مردانگی ابذال نماید، جملہ اثرات خواب آور کہ از ’’حقیقت‘‘ تعلیم گریز بدھند فی نفسہ یک پیغام انحطاط و ممات است، ادبیات از ’’نقوش عالم افیون‘‘ خوردہ باید مبرا باشد، اصوال ’’العلم للعلم‘‘ ایجاد زمانہ تنزل است کہ در مقصد ما را از جذبۂ عمل و ذوق حیات محروم میسازد‘‘ (مقتبس مقالۂ اقبال از ’’نیو ایرا‘‘) داستانہای غم و الم کہ از رشحات خامۂ عنبر شمامہ اش رقم گرفتہ سخن آفرینی را بسحر بیانی مبدل میگردانید، ھر باب و عنوانش تفسیریست از آیات کارنامہ ھای اسلاف و ھر شعر وی داغیست از محبت قومی کہ ازو قطرات خونین تر اوش یافتہ صفحات تاریخ را یک حدیقۂ رنگین و یک مینو سواد نوبہار میسازد۔ اقبال عموماً در معارف حسن و عشق مذاق فلسفہ را با چاشنی تصوف بہم آمیختہ، کاروان خود را با قافلہ سالار رومی در کنار رکن آباد و مصلی گلگشت میدھد، در علو تفکر و نزاکت تخیل کلیم و بیدل را بیاد می آورد، در حسن تخاطب بابل شیراز را زندہ میسازد، در مثالیہ غنی را از کشمیر و صائب را از اصفہان بر می انگیزد و پیمانۂ تعزل را مثل خواجہ حافظ و نظیری سرشار مینماید و علاوہ از محاسن شعری در فلسفہ وتاریخ حیات اقوام و امم و جملہ نکات حکمت و الہٰیات کہ موجب ترقی نوع بشر است با علوم دینیۂ اسلامیہ معلوماتی وسیع و جہان شمولی دارد، مطالعات کتب اروپائی حضرتش را مصور جذبات و حسیات نِمودہ، چون در اطراف محاسن اصناف کلام او صاحب قلمان شرق و غرب تصانیف زیادی نوشتہ اند و نیز نمونہ ھای اشعار فلسفی و تصوف، طرز ادا، نزاکت زبان و سلاست بیان و علو تخیل او چیزی نوشتن از قدرت خامہ ھم بیرون می بینیم۔ لذا شمۂ از ان احساس و تعلیمی را کہ او در یک جامعہ تولید نمودہ بر پیشگاہ ناظرین معارف پرور اھدا مینمائیم۔ اقبال ملت را بہ نیش ھای قلمی خود از نواقص نفاق و بی مروّتی کہ مایۂ نکبت و ادبار است آگاہ ساختہ ابواب پند و نصایح را گاہ از زبان طبیعت و گاہ از زبان طیور و گاہ از زبان اجرام فلکی باز مینماید، چنانچہ حالت نکبت وفلاکت یک جہان ساکن و صامت را از زبان مۂ گیتی فروز بتشبیہات دھشتناکی پیرایۂ ذیل رسم میکند۔ شورہ بوم از نیش گژدم خار خار مور او اژدر گز و عقرب شکار صرصر او آتش دوزخ نژاد زورق ابلیس را باد مراد آتشی اندر ہوا غلطیدۂ شعلۂ در شعلۂ پیچیدۂ آتشی از دود پیچان تلخ پوش آتشی تندر غو و دریا خروش در کنارش مارھا اندر ستیز مارھا با کفچہ ھای زھر ریز شعلہ اش گیرندہ چون کلب عقور ھولناک و زندہ سوز و مردہ نور ای خدا چشمم کبود و کور بہ ای خدا این خاکدان بی نور بہ اقبال در اول نظر انحطاط عالم اسلام را حس کرد، پستی ملت، زبونی قوم، مصائب امت، زوال مفاخر اسلامی و سکوت قائدین طلسم خاموشی اش را درھم شکست، طبع خدا داد وی آہ ھای سینہ سوز و نالہ ھای جانکاھش را با حسن فصاحت و شور بلاغت بر بستہ، نخست بزبان ھند باز بہ آھنگ فارس بمشرق رسانید۔ عشق پامال خرد گشت و جہان دیگر شد بود آیا کہ مرا رخصت آھی بخشد در حقیقت اقبال جذبات زخم خوردہ را از اعماق دل بر فراز سخن بر آوردہ، تا نالہ ھای بیتابی کہ در جگر و داستان غم آلودی کہ در نظر دارد، وانمود۔ تمام عالم اسلام را از نتائج نواقص امتیاز ملت و وطن یعنی قیود ملی و نہایت مکانی آگاہ نماید و سمند تخیل ایشانرا بتازیانہ ھای عبرت از حدود جغرافیائی و رنگ و بو بتوحید مطلق و ذوق طلب رھسپار جادۂ رفعت و منازل ارتقا و اعتلا بگرداند۔ بنابرین خواھش دارد کہ افراد واقوام پریشان در سلک واحد منسلک گردیدہ برای تمام عالم اسلام یک قلب مشترک پدیدار آید : قلب ما از ھند و روم و شام نیست مرز بوم او بجز اسلام نیست تنہا پیروی ام الکتاب دیدہ میگوید: گر تو میخواھی مسلمان زیستن نیست ممکن جز بقرآن زیستن دل بہ سلمی عرب باید سپرد تا دمد صبح حجاز از شام کرد اندکی از گرمی صحرا بخور بادۂ دیرینہ از خرما بخور اقبال ھر جا ملت را از بی راھیہا آگاہ و ھوشیار میگرداند : ترسم کہ تو میرانی زورق بسراب اندر زادی بحجاب اندر، میری بحجاب اندر چون سرمۂ رازی را از دیدہ فرو شستم تقدیر امم دیدم پنہان بکتاب اندر بر کشت و خیابان پیچ، بر کوہ و بیابان پیچ برقی کہ بخود پیچد میرد بسحاب اندر بی درد جہانگیری آن قرب میسر نیست گلشن بگریبان کش ای بو بگلاب اندر اقبال از خدا ھمین آرزو دارد تا کلامش را چنان سوز و تاثیری مرحمت کند کہ ملت مسحور را بیدار ساختہ در طلب جستجو سر گرم عمل بیابد و باغ خزان رسیدۂ اسلام دوبارۂ خرم و شاداب گردد: ای کہ ز من فزودۂ گرمی آہ و نالہ را زندہ کن از صدای من خاک ھزار سالہ را غنچۂ دل گرفتہ را از نفسم گرہ کشای تازہ کن از نسیم من داغ درون لالہ را ٭٭٭ اشک چکیدہ ام ببین ھم بنگاہ خود نگر ریز بہ نیستان من برق و شرار اینچنین اقبال از عالم اسلام نا امید نیست بل امیدوار است از خاکستر گرم یک اخگر کوچک تری را عالمتاب بیند و چشمانش در ظلمات الیل بر ناصیۃ السما دوختہ تا ضیای اختر اقبال مسلمانان بفیوض تعلیمات قدس ردای ظلماتی شب ادبار را تہ نمودہ سر از اشراقات عالم نورانی با جمال منور و درخشان بر آورد و عالم انسانیت را از پنجۂ معصیت بار ظلوم و بدبختی و چنگال نکبت پاش سیاہ مستی برباید: بخوان ازبر صداقت را عدالت را شجاعت را کہ عالم باز می گیرد ز تو کار امامت را(۱) جملہ تعلیمات اقبال مملو از آرزوھا ست و نا امیدی را ھر جا ممانعت میکند : ٭٭٭ ۱: ترجمہ از ’’طلوع اسلام‘‘ در طلب کوش و مدہ دامن امید ز دست دولتی ھست کہ یابی سرِ راھی گاھی ٭٭٭ مسلم استی سینہ را از آرزو آباد دار ھر زمان پیش نظر لا یخلف المیعاد دار ٭٭٭ ز قید و صید نہنگان حکایتی آور مگو کہ زورق ما روشناس دریا نیست اقبال ھر جا درس خودی میدھد تا قوم بدون امدادو اعانت غیری بہ نیروی سر پنجۂ محنت در حصول ترقی ممکنات خارجی خود کوشان گردیدہ بی نیازانہ بمیدان اقبال پا گذارد چنانچہ میگوید: ’’بمنزلی رسد آن ملتی کہ خود نگر است‘‘ ’’ز خاک خویش طلب آتشی کہ پیدا نیست تجلی دگری درخور تماشا نیست‘‘ مرید پیر خراباتیان خود بین شو نگاہ او ز عقاب گرسنہ تیز تر است ای زاھد ظاھر بین گیرم کہ خودی فانیست لیکن تو نمی بینی دریا بحباب اندر من فقیر بی نیازم مشربم اینست و بس مومیائی خواستن نتوان، شکستن میتوان مثل آئینہ مشو محو جمال دگران از دل و دیدہ فرو شوی خیال دگران آتش از نالۂ مرغان حرم گیر و بسوز آشیانی کہ نہادی بہ نہال دگران تذکرۂ جمیل جاوید نامہ کہ تازہ ترین تصنیف و آخرین اثر علامہ اقبال است در نظر داشتیم تحت عنوان تقریظ و انتقاد بیاوریم ولی نظر بلزوم تذکر آن درین مقالہ بی مناسبت نخواھد بود اگر یک نگاہ سرسری بآن معطوف شدہ در قید نگارش بیاید : جاوید نامہ چون چنین نوشتن باید از تنگنای قلم بفراخنای قرطاس بمعرض ظھور آید، بعضی مغربیان نابلد اشہب بد لگام خود را در بازیگاہ خیال ھمعنان مشرقیان ندیدہ حسب تقاضای طبیعت خویش بر مذاھب و ملل تاخت می آورند تا دل شان از حرص پر گفتن و افسانہ تراشیدن سبکبار گردد، اما ھمینجاست کہ دانتی، شاعر مشھور و افسانہ نگار ایطالیائی زمینہ ھای افسانۂ خود را از نوشتہ ھای دورۂ اسلامی اعراب یعنی از تصانیف شیخ اکبر محی الدین ابن عربی، ابوالعلای معری و از خود کلام اﷲ شریف سرقت نمودہ باشاعر نابینای یونانی ھومر، در تخیلات بہشت و طبقات دوزخ فرو رفتہ است و این سیر جنت و جہنم خود را ’’دیوائن کامیدی‘‘ نام نہاد۔ این شاعر بی باک با رھنمائی رھبر نابینائی خود بر اھانت بانی اسلامی ھم لب کشودہ است، قلم غیرت رقم و کلک ناموس شعار حضرت علامہ اقبال در پاسخ وی ’’جاوید نامہ‘‘ را نوشتہ بشیوا بیانان و سخن سنجان حقیقت جو کذب دانتی و حقانیت اسلام را نشان دادہ و در ضمن فریضۂ انسانیت را ادا نمودہ است۔ علامۂ موصوف درین کتاب خود بر ھیچ مذھب و بانی آن نتاختہ بلکہ از زبان خداوندان باطل اقوام و ارباب انواع قدیم و پیغمبران و پیشوایان ملل تاریخ منور صداقت اندود اسلام وتقدس و برگزیدگی حضرت خیر البشر ر ا بصورتی پیش میکند کہ خود بخود عالم بشریت تمیز زشت و زیبا را کردہ و بیگانہ مصدق حقانیت اسلام واقع میگردد۔ اقبال در اینجا نیز از فریضۂ عادی خویش غافل نماندہ تازیانہ ھای عبرت را برمفارق بعضی خوابیدگان ملت خود می نوازد۔ اقبال در تخیل فلک پیمائی خود سیر نہ افلاک را میکند، درین سیر بی انتہائی او رھبر و راھنمایش دانندۂ اسرار حقیقت و بینندۂ غوامض معرفت حضرت مولانا جلال الدین رومی بلخی است کہ در حقیقت شایان رھبری یک عالم تماشائیان روزگار شدہ میتواند، اقبال درین سیر و گردش نہ افلاک خود قائدین عموم طبقات و مشاھیر تاریخی امم را می بیند کہ ھر یک برای سر زمین خود پیامی و سلامی میرساند و درین صورت ابواب پند و نصائح را بر وی ملت خود بطریق نو و مبتکری میکشاید، اقبال نام خود را درین اثر ’’زندہ رود‘‘ میگوید، و بساجا ھای افلاک را از دل خود نام مینہد، مثلا در قمر یک وادی را ’’یرغمید‘‘ یک بزرگ ھندی را ’’جہان دوست‘‘ کہ ترجمۂ و شوامترا است، میگوید۔ دگر جاھا را ’’طاسین محمد‘‘ و ’’طاسین گوتم‘‘ و ’’طاسین زر دشت‘‘ وغیرہ، می نامد۔ عناوین را نیز بہ پیرایۂ غریبی آوردہ مثلا ’’نوحۂ ابوجہل در حرم کعبہ‘‘ وغیرہ۔ خلاصہ جملۂ عالم اسلام و بعضی ملل غربی کہ اقبال را شناختہ اند خدمات بیش بہای او را بدیدۂ تقدیر و تحسین می بینند۔ ما، در خاتمہ مقال خود را بہ آخرین غزل اقبال کہ ’’پیام اقبال بہ ملت کہسار‘‘ است و درین تازہ گی مستقیماً با قطعۂ تصویر او شان برسم ’’یادگار‘‘ بہ انجمن ادبی ما اھدا گردیدہ است بپایان میرسانیم۔ افغان و ایران {از مجلہ کابل سال دوم شمارہ ۳ اول سنبلہ ۱۳۱۱ ھ ش؍ ۲۳ اگست ۱۹۳۲ ء ص ۱۷} آنچہ بر تقدیر مشرق قادر است عزم و حزم پہلوی و نادر است پہلوی آن وارث تخت قباد ناخن او عقدۂ ایران کشاد نادر آن سرمایۂ درانیان آن نظام ملت افغانیان از غم دین و وطن زار و زبون لشکرش از کوھسار آمد برون ھم سپاھی ھم سپہ گر ھم امیر با عدو فولاد و با یاران حریر من فدای آنکہ خود را دیدہ است عصر حاضر را نکو سنجیدہ است غربیان را شیوہ ھای ساحری است تکیہ جز بر خویش کردن کافری است از علامہ داکتر اقبال ٭٭٭ ۱: یہ اشعار جاوید نامہ آن سوئے افلاک میں ابدالی کے حتمی عنوان سے شائع ہوئے ہیں { کلیات اقبال شیخ غلام علی ایند سنز اشاعت پنجم ۱۹۸۵ء ص ۷۶۸۔ } تنزل و انحطاط اسلام بقلم محمد سکندر خان معلم دارالمعلمین حوالہ۔ از مجلہ کابل سال دوم شمارہ ھفتم اول جدی ۱۳۱۱ ؍ ۲۲ دسمبر ۱۹۳۲ء ص ۹ تا ۳۲ ص ۱۵ تا ۳۱ نہیں ملے درگذشتہ مجلہ کابل موضوع مسابقہ انجمن ادبی را متذکر شدہ ضمناً دو قصیدۂ نمرہ شدہ و جایزہ انجمن را حاصل کردہ بودند۔ آنہا را بملاحظہ قارئین محترم مجلہ میکنم و ضمناً وعدہ کردہ بودیم کہ از مقالات نثر آنہائیکہ جایزہ را بردہ اند نیز خواھیم رسانید۔ از جملہ مسابقین نثر در موضوع انحطاط اسلام کہ جایزہ اول را جناب محمد سکندر خان دارالمعلمین کابل و جایزہ ثانی را آقای رجب علی خان متعلم مکتب حبیبیہ کابل بردند،حاصل موضوع نگارش ھر دو نفرشان ھم تقریباً نزدیک است صرف ما حسبِ وعدہ عیناً درین صفحات بملاحظہ قارئین محترم خود میرسانیم : با عظمت و اقتدار اسلامی کہ در ھنگام وحشت و جہالت ملل متمدنہ کنونی و طبعی را در عرصۂ دنیا احراز نمودہ واسطہ ھدایت و مدنیت اقوام مختلفۂ عالم اثر بعضی بی اعتنائی ھای پیرو ان این دین مقدس در عرصۂ چند قرن دور افتادہ ھزاران منزل از شاھراہ ترقی دور و بورطۂ انحطاط و تنزل گرفتار علل عمدہ و اسباب مہمہ کہ این ملت مترقی و متمدن را بانحلال حالیہ تصادف است : تبدیل نظام حکومت از طرز شورائی بطرز غیر شورائی، ترک امر بالمعروف و نہی عن المنکر، نفاق، عدم پابندی و بعضی شرایط بود ہ است کہ ھر یک در اوراق آتیہ تذکار میشود۔ تصویر محمد سکندر خان معلم مکتب دارالمعلمین، صاحب جائزہ نمرہ (۱) از یک زمان و بارھا این مسئلہ مطرح بحث واقع گردیدہ۔ این تنزل چیست ؟ بکدام وسائل ممکن است حسنات گم شدہ را بہ عوض سیئات موجودہ اسلامیان رجعت داد؟ علمای اجتماعی از نیم قرن باین سمت مصروف جدوجہد اند اسباب و علل حقیقی این تنزل اسلامیان را در یافتہ باصلاح آن پردازند، ادبا و فضلا افکار و خیالات خود را درین موضوع بطریقہ ھای مختلفہ برشتہ تحریر در آوردہ اند، بعضی از آنہا میگویند کہ مسلمانان از صنعت، حرفت و تجارت بی بھرہ و روگردان بودہ و در نتیجہ گرفتارمصائب گوناگون شدہ اند۔ ازین رو لازم است توجہ خود را جانب صنعت و تجارت منعطف نمایند برخی را عقیدہ بر آن است کہ محمدیان در تحصیل خط و سواد و اکتساب علوم گوناگون کوتاھی کردہ در مسابقہ ٔ علمی از اقوام ھمسایہ عقب ماندہ اند و اھمیت وعظمت خود را از دست دادہ اند لذا حتمی است کہ در ترویج علم و فضل کوشان باشند۔ گروھی برین است کہ اسلامیان گرفتار عادات مذمومۂ اسراف اند باید کفایت شعاری و اقتصاد را بیاموزند۔ اگرچہ عنوانہای فوق منتہا درجہ مستحسن و قابل تمجید است اما اگر بہ نظر غور دیدہ شود علل و اسبابی را کہ متذکر شدیم از اصل حقیقت بعید افتادہ است۔ اسلام بجہانیان بہترین ضابطہ و قانون تمدن و حیات را تقدیم نمودہ است۔ متاسفانہ پیروان این قانون تمدن را ترک گفتہ بجایش ملت ھای غیر آنرا اخذ کردہ اند، حالانکہ تمدن اصل آرزوھا و منتہائی ترقی است چہ انسان از تعلیمات عامۂ اسلام براہ ھدایت از نورش اقتباس و از ھدایتش فلاح و منزل مقصود را در می یابد، اسلام و احکام در تاریخ حیات انسانی بہترین دستور العمل حیات است ولی مسلمانان چون اصول اسلام کہ اصل و اساس عزت، شرافت و عظمت شان بود منصرف شدہ وچیزھائی را کہ اسلام ازان منزہ و بیزار است جزو تعلیمات اسلامی قرار دادہ در صفوف اتحاد ومودت، نفاق را راہ دادند در بلای درمان ناپذیر شقاق و نفاق مبتلا گشتہ در نتیجہ مدنیت را عقیم و ضعیف ساختند۔ خداوند عالم تعالی شانہ‘ جہت تشکیل حکومت و نظام سلطنت بعضی شروط را در قرآن فرمودہ است ؛ قومیکہ بر ھمان شرائط عامل گردیدہ پابندی داشتہ باشند۔ حتماً عظمای سلطنت و سعادت فائز و سرافراز خواھند شد بر عکس سیئآت اگردر جمعیتی حکمران شدہ و بکثرت شیوع یابد از نعمت بزرگ محروم و در قعر مذلت و فلاکت و ادبار خواھد افتاد۔ باید دانست کہ تعلیمات و اصول قرآنی تا ھنوز ھیچگاہ غلط و غیر صحیح ثابت نشدہ در صحبت قول و آیات قرآنی بسی شواھد و ثبوتہا وجود دارد۔ لہذا الزام است کہ من حیث القوم حالت موجودۂ خود را بر مضامین و احکام قرآنی تحقیق و تفتیش نمایند کہ آیا مسلمانان بحیث عمومی مطابق فرامین ھستند یا تغیرٍیافتہ با تعلیمات قرآنی منا سبتی ندارند۔ قرآن شریف مسلمانان راسخ العقیدہ را بمژدۂ سلطنت و حکومت مفتخر گردانیدہ است صحابہ کرام رضوان اجمعین کہ مسلمانان ثابت قدم و اعمال شان موافق محک قرآنی بودہ حکومت را در عالم دارا بودند، بعد از صحابہ کرام ھر قدر کہ مسلمین از تعلیمات غفلت نمودند بہمان اندازہ در حکومت و ترقی دنیوی شان ضعف پدید آمدہ است و اقبال شان زوال پذیر گردید و ذلت و ادبار درتجسس مسلمانان بودہ و استیلا یافت۔ تاریخ سیزدہ و نیم صد سال برین مقال شاھد است کہ اسلامیان ھنگامیکہ برخلاف اوامر اسلامی اقداماتی نمودہ اند بر ایشان ناکامی رسیدہ است۔ فیلسوف شہیر ’’جمال الدین افغانی‘‘ کہ نہ صرف عالم متبحر بلکہ از نابغہ ای حساب میرفت در رسالۂ رد نیچریت علت تنزل اسلام را ضعف عقاید قرار دادہ است۔ اظھار داشتہ: چون آداب و اخلاق و دیانت محمدیہ از غالب نفوس مسلمانان نشدہ لہذا بہزار نوع کوشش بعد از سالہای دراز اراضی شامیہ از دست ایشان گرفتہ، چنگیزیان را بشرف اسلام مشرف کردند و لیکن نتوانستہ ضعف را بکلی زائل سازند و آن سلطہ و قوۂ خود را اعادہ نمایند زیرا آن عقائد پسندیدہ بودہ است۔ ارباب تاریخ ابتدای انحطاط مسلمانان را از محاربۃ صلیب میگیرند۔ آغاز ضعف مسلمانان و تفرق آنہا را از شروع آن تعلیمات فاسدہ ارائہ بگیرند دکتر اقبال کہ ترجمان حقیقت است چنین مینویسد: لاالہ گوئی بگو از روی جان تا ز اندام تو آید بوی جان مھر و ماہ گردد ز سوز لا الہ دیدہ ام این سوز را در کوہ و کاہ این دو حرف لا الہ گفتار نیست لا الٰہ جز تیغ بی زنہار نیست با پشیزی دین و ملت را فروخت ھم متاع خانہ و ھم خانہ سوخت لا الٰہ اندر نمازش بود و نیست نالہ ھا اندر نیازیش بود و نیست نور در صوم و صلٰوۃ او نماند جلوۂ در کائنات او نماند آنکہ بود اﷲ او را ساز و برگ فتنہ او حبّ جان و ترس مرگ رفت از او آن مستی و ذوق و سرور دین او اندر کتاب و او بگور ھم جہاد و حج نماند از واجبات رفت جان از پیکر صوم و صلٰوۃ روح چون رفت از صلوۃ و از صیام فرد نا ھموار و ملت بی نظام سینہ ھا از گرمی قرآن تہی از چنین مردان چہ امید بہی از خودی مرد مسلمان در گذشت ای خضر دستی کہ آب از سر گذشت صاحب ذوقیکہ طالب ادب و نظافت حقیقی باشد و تعلیمی جوید کہ بندہ را در زندگانی و حیات آنجہانی بکار آید و از رذائل کہ در بعضی از شعب تمدن جدید برروی آمدہ صیانت نماید تا بعد از تعمق و تدقیق بروی روشن شود و بذوق سلیم در یابد زندگانی دنیا در راہ یافت و پاک داشتن جوارح از خیانت راھی سلیم تر از طریق نیست و نفرین بر ان عقول و اذہانیکہ اسلام را مانع تمدن و منافی ترقی شمردہ یکبارگی طریق حق نمودہ در بادیۂ ضلالت خود را پرتاب کنند۔ میتوان گفت بعضی از مسلمانان ھم و عالمان بی عمل مسلمانی را زبان زد خاص و عام نمودہ منفور عالم نمودند در ھیچ دین آن چنا نکہ در مسلمانی در باب ترک رذائل و نگہداشت جوارح از خیانت و کذب توصیہ شدہ نخواھد بود۔ اسلام بہ اتفاق و جہد و کوشش و رحم و دلسوزی و شفقت و اظہار حق و ھمدردی دلالت نمودہ، گمان نمی کنیم کہ دین و مسلک دیگری نمودہ باشد۔ تصور نباید کرد کہ مسلمانی کسی را بترک دنیا و جہد و کوشش خواندہ باشد بلکہ ’’لا رھبانیۃ فی الاسلام‘‘ ’’لیس للانسان الا ماسعی‘‘ و ’’یاایھا آمنو جاھد و ا الکفار و المنافقین‘‘ در باب مامور بودن ما بکوشش مجاھدہ برھان قطعی است و ھیچگاہ طلب از وجہ مشروع مانع دین نیست۔ مال را کز بھر دین باشی حمول نعم مال صالح گفتش رسول دین ما را بہ نگہبانی ثغور و غیرت و شہامت و حفظ وطن از تعرض اغیار و سلحشوری مامور فرمودہ: مصلحت در دین ما جنگ و شکوہ مصلحت در دین عیسی غار کوہ و عجیب اینکہ ما مسلمانان از بی علمی و وحشت از فوائد علمی و سیاسی کنار گیری کردہ بغارھا در آمدیم، میدان مبارزہ و ننگ و ناموس را برای دیگران گذاشتم و اجانب از علم و ھنر و شجاعت، عدل و استقامت ھر چند قرآن مجید فریاد می کند { و لا تأکلوا اموالکم بینکم بالباطل } امر می کند از رشوۃ و خیانت دور باشیم و { ان اﷲ یامرکم بالعدل و الاحسان } را کسی نمیخواند و اگر میخواند در آن تفکر نمیکند و بہ عمل نمی آورد : ھر چہ ھست از قامت ناساز بی اندام ما ست ورنہ در آیات دین یک ذرۂ اکراہ است رئیس الاحرار سید جمال الدین افغانی چنین اظہار دارند: دین اسلام آن یگانہ دین است کہ سرزنش پیروی کور کورانہ را می نماید، و مطالبہ برھان را در امور بمتدینین می دھد۔ در ھر جا خطاب بعقل می کند و جمیع سعادات را نتائج خرد و بینش قرار میدھد و ضلالت را بہ بیعقلی و عدم بصیرت نسبت می دھد۔ متفرقات افغانستان از نقطۂ نظر فضلای ھندوستان {از مجلہ کابل سال سوم شمارہ ھفتم، اول جدی ۱۳۱۲ ھ ش؍۲۲ دسمبر ۱۹۳۳ء از ص ۸۱ تا ۹۴} مجلۂ کابل بہ نمرۂ (۳۰) در نظر داشت شرحی از مجاری مسافرت فضلای محترم ھندی، جناب علامہ داکتر سر محمد اقبال صاحب و جناب فاضل سر راس مسعود صاحب و جناب علامہ سید سلیمان صاحب ندوی و باقی رفقای سفر شان نوشتہ و نظریات عالی واحساساتی را کہ این بزرگان عالم اسلام و فضلای محترم مملکت ھمجوار نسبت بافغانستان ما خالصانہ اظہار میفرمایند از آن شرح دادہ و ضمناً بوسیلۂ این مجلہ از جنابان شان تشکری نمودہ باشیم، ولی بدبختانہ حادثۂ شہادت اعلیحضرت غازی محمد نادر شاہ فقید ما را تعزیہ دار ساختہ در نمرۂ (۳۰) جز سطور ماتم و سوگواری موقعی نیافتیم تا دیگر موضوع را اشاعہ نمائیم۔ اینک این سطور مختصر را محض یاد آوری و تقدیر عواطف و احساسات پاک و بی آلایش آندوستان صمیمی و مھربان خود درینجا مسطور و ضمناً از بیانات فضلای محترم کہ در ضمن دعوت انجمن ادبي در ھوتل کابل بمقابل نطق رئیس انجمن ما ایراد فرمودہ اند تذکری مینمائیم۔ جناب علامہ سر محمد اقبال، سر راس مسعود، سید سلیمان صاحب ندوی کہ ھر تصویر سر راس مسعود سید سلیمان ندوی علامہ محمد اقبال بہ تصویر پہلی بار مجلہ کابل میں { سال سوم شمارہ ھفتم اول جدی ۱۳۱۲ ھ ش بمطابق ۲۲دسمبر ۱۹۳۳ء ملحقہ بر ص ۸۱۔ ۴۹۹ } شائع ہوئی۔ یہ تصویر بعد میں مجلہ کابل ہی کے سال ۸ شمارہ ۳ جوزا ۱۳۱۷ ھ ش بمطابق مئی جون ۱۹۳۸ء میں بھی شائع ہوئی جو سالِ وفات اقبال کے مناسبت میں مقالات کے ساتھ شامل تھا۔ (رفیقی) کدام امروز مثل ستارہ ھاي درخشندہ در محیط ھند افادہ و نور افشانی مینمایند ھویت بلند و مقام ارجمند شان از بدیہات و توضیح است چہ کمتر کسی در عالم شرق حتی در بعضی ممالک مغربی خواھد بود کہ باین اسامی گرامی آشنا نبودہ و بمقام فضل و لیاقت آنہا معرفتی نداشتہ باشد۔ این فضلای محترم با دو نفر رفقای ھمسفر شان آقای ھادی حسن خان معلم فارسی کالج علیگر و آقای مولویغلام رسول خان معلم سابقۂ مکتب حبیبیہ کابل درتاریخ (۲۹) برج میزان نسبت بدعوت وزارت جلیلۂ معارف و ملاحظۂ پروگرام دارالفنون افغانستان و ضمناً سیاحت کابل و زیارت فضلای مرحومۂ غزنی و تشرف بحضور ھمایون اعلیحضرت شھریار شہید کہ آنرا از چند سال قبل آرزو داشتند، زحمات این مسافرت را بخود ھموار کردہ از طریق پشاور و جلال آباد وارد کابل و فضلا و معاریف کابل اعم از طبقات دولتی و ملتی کہ ھر کدام غائبانہ باین مہمانان محترم خود علاقہ و محبت قلبی داشتند بحضور شان شتافتہ و از صحبت شان استفادہ مینمودند۔ چند روزی کہ در کابل اقامت گزین بودند ھر طبقہ و ھر صنف از اعاظم و فضلاباجاب شان علایق آمد و شد داشتہ و بدعوت ھای عصریہ و شام و نہار از طرف بلدیۂ کابل و دیگر مقامات محترمہ مدعو می گردیدند۔ ضمناً انجمن ادبی کابل ھم جناب شانرا بدعوت شام در ھوتل کابل تکلیف دادہ و درآن شب کہ جمعی از محترمین و فضلای کابل حضور داشتند نخست جناب رئیس انجمن ادبي کابل خطابۂ خیر مقدم را قرائت فرمودند : کہ ما بہ ترتیب سواد خطابہ ھا و ترجمۂ نطق ھاي فضلای محترم کشور ھند را بنظر قارئین میرسانیم۔ سواد بیانیۂ انجمن ادبی کابل فضلای محترم! اجازہ بفرمائید کہ ھیئت انجمن ادبی کابل بنام ادبا و اھل قلم افغانستان، احساسات مملو از محبت و صمیمیت خودھا را بحضور تان عرض و از تشریف آوری جنابان شما اظہار شکریہ کردہ ( خوش آمدید) و صفا آوردید، بگویند۔ کشور پہناور ھند کہ ھمیشہ مہد پرورش فضلای نام آور و ادبای بزرگ بودہ، و در آغوش خود رجال معروف و سخنوران شہیری از قبیل بیدل ھمہ دل، صائب اصفہانی، حکیم، سلیم، طالب آملی، فیضی فیاضی بالاخرۃ شبلی نعمانی و امروز صاحبان قریحۂ بلندی ھمچہ فیلسوف شہیر اجتماعی مثل اقبال سخنور و فرزندان بزرگی مثل سر راس مسعود و علامہ سید سلیمان ندوی و پروفیسر معروف ھادی حسن بعرصۂ وجود آوردہ است ؛ البتہ آن خاک بزرگ و مستعد گہوارۂ علم و فضل مشرق بشمار بودہ و ما خیلی آنرا باحترام مینگریم۔ ستارہ ھای روشن افق ھند کبیر ھموارہ در فضای گیتی پرتو انداختہ و برای عزت و سر بلندی مشرق و مشرقیان خدمات و مجھودات خیلی بزرگ و با قیمتی کردہ است۔ پس ما اگر فضلای بزرگ فرزانۂ آن کشور نامی امثال حضرات عالی شما را در خاک خود می بینیم۔ بدیہی ست خورسند و مسرور گردیدہ و بہ استعداد بلند مشرق افتخار مینمائیم۔ مشرق ؛ عظمت گذشتۂ، مشرق متمدن قدیمہ کہ مہد علم و تربیت جہان و منبع فضل و ادب آنروزہ بود، و ذخایر با قیمتش تا ھنوز بس ملل مترقیۂ دنیای امروزہ را ثروتمند و غنی گردانیدہ است ممکن بود شرق در اثر پس ماندگی ھای امروزہ از خاطرھا فراموش شود، ولی می بینیم قومیکہ امروز از شرقیان برای احیای نام و شئون و افتخارات گذشتۂ این سر زمین عزیز با نہایت جدیت و علاقہ مندی خدمت میکند، فرزندان و نام آوران صحیح ھند است۔ دارالفنون بزرگ علیگرھ کہ امروز از بہترین مراجع تحصیل فضل وکمال اولاد شرقی شمردہ میشود، نتیجۂ ھمت و شاید فتوت و جوان مردی و شرق دوستی فاضل مغفور حضرت سید احمد کبیر یعنی یادگار برجستۂ یکی از فرزندان نجیب کشور ھند است۔ آثار و مؤلفات پر قیمت حضرت اقبال کہ ھر کدام روح اخلاق، سعی، عمل، اسرار مہمۂ اجتماعی و بالآخرہ عواطف نفیسۂ شرق دوستی و اسلام پرستی را در اجساد افسردۂ شرقیان میدمد ھمہ نمونہ ھای ھمت و مجاھدات اولاد کشور ھند است۔ ھنگامیکہ شاھان علم دوست و ادب پرور افغانستان یعنی غزنویان، غوریان ازین کہسار رخت سفر بربستہ و علوم و ادبیات را در کشور ما یتیم گذاشتند، فقط ملت قابل و مستعد ھند بود کہ باحیای آثار پر قیمت شعرا و فضلای آن سر زمین ھمت گذاشتند و آن جواھرات گران بہا را تا امروز محفوظ نمودند۔ امروز می بینیم در مملکت شرق دوستداران شعرا و فضلای بلخ و غزنی و قیمت شناسان رجال معروفۂ افغانستان و تازہ کنندۂ نام و آثار فضلا و بزرگان شرق و اسلام بیشتر ملت بزرگ و مردان حق شناس کشور ھند است۔ امروز کہ در اثر رحمت بیکرانۂ حضرت باری، افغانستان ما از ورطہ ھای خیلی خونین و ھولناکی نجات یافتہ و زمام ادارہ آن بکف با کفایت فرزند علم دوست و ادب پرور این کشور یعنی اعلیحضرت محمد نادر شاہ غازی و یگانہ مجدد شرافت و شئون افغانستان قدیم رسیدہ و در سایۂ مجاھدات این شھریار بزرگ میخواھد علم و ادب، حیات و شئون تاریخی خود را تجدید نماید ؛ می بینیم ھمدردی و پذیرائی ھای خوبی بیشتر از طرف فضلای ھند میشود یعنی احساس و ادراک نفیس ملت نجیب ھند، مطالب سود مندعالم اسلام و شرق بیشتر اھمیت دادہ تقدیر مینماید۔ ھند و ایران و افغانستان کہ وطن ادبیات فارسی و سرزمین شعرای بزرگ و بلند قریحۂ شرق اند البتہ قیمت رجال و فضلای ھمدیگر خود را خوبتر بہ نظر محبوبیت دیدہ و افتخار توامی در جہان دارند۔ بالآخرہ میگوئیم، فضلای محترم! کشور ھند نہ تنہا بلکہ عموم خاک شرق وطن معنوی شما است و آن آرزوھا و سر بلندی کہ دارید و ھدف مقصود شما خاک شرق است ! شرقیان بالخاصہ افغانستان ما موفقیت ھا را در راہ این آمال بزرگ تان یعنی عظمت سر زمین شرق از خدا تمنا می نماید، ضمناً میگوئیم گرچہ کہسار افغانستان خالی از تجملات مغرب است، و این سر زمین برای مسرت پرتکلف مادی ھنوز موقعی نیافتہ شاید خوشگذرانان ممالک خارجہ مسافرت و سیاحت اینجا را نپسندند، ولی یقین داریم و صاحبان فضل و قریحہ میدانند کہ این سر زمین وطن سلطان محمود غزنوی، مرز و بوم غوریان و ابدالیان مسقط الرأس ابن سینا بلخی، سنائی غزنوی، عنصری، عسجدی، دقیقی، فاریابی بالآخرہ سید جمال الدین افغانی است۔ البتہ میدانید کشور افغانستان مأمن ملتی است، افراد آن عموماً اسلامیت و شرقیت را دوستدار صمیمی بودہ و محل حکمرانی پادشاہ شریفی مثل اعلیحضرت محمد نادر شاہ غازی و یگانہ ہوا خواہ عزت و اعتلای عالم اسلام و شرق است، آخراً عرض میکنم این مجلسی کہ بافتخار شما ترتیب یافتہ نمونہ ایست از ابراز عواطف و احساسات ادبا و فضلای ملت و حکومت افغانستان، و ما آرزو داریم حضرت محترم شما در کشور عزیز خود این ھدیہ را کہ مقصد از محبت و صمیمیت خالصانۂ ماست نمایاندہ شدہ و بعموم برادران محترم ھندی سلام و احترام دوستانۂ ما را بر سانید و ازین علایق قلبی و معنوی ما کہ از سالہا بہ نسبت ملت محترم ھند در دل داریم بآنہا تذکری بدھید۔ در خاتمہ از قبول این زحمت کہ حضرات شما بما افتخار بخشیدہ و دعوت انجمن ما را پذیرفتہ اید خیلی ممنون و متشکر بودہ سعادت و موفقیت شما و ملت بزرگ ھند را از خدا تمنا مینمائیم۔ در آخر میگوئیم مترقی باد عالم شرق و مسعود باد عالم اسلام۔ ٭ و بعد سواد منظومہ خیر مقدم آنی را کہ جناب قاری عبداﷲ خان عضو انجمن انشاد فرمودہ بودند بحضور فضلای محترم از طرف جنا ب مدیر انجمن قرائت گردید۔ خیر مقدم اثر طبع جناب قاری عبداﷲ خان عزیزان ز ھندوستان آمدند در افغانستان مہمان آمدند در آنان یکی دکتر اقبال ھند سخن پرور و واقف از حال ھند ادیب سخن گستر نکتہ سنج کہ ھر نکتہ اش بہتر آمد ز گنج چمن گرد طرز رنگین اوست شکر پارۂ حرف شیرین اوست کلامش چو اوج بلندی گرفت سخن رتبۂ ارجمندی گرفت زند طعنہ آھنگ او برق را کہ خواھان بود نہضت شرق را نوین شیوۂ را بہ سبک کہن در آمیخت از قدرت علم و فن چو اندر سخن جادۂ نو گزید پیامی ز مشرق بمغرب رسید سخن را در آمیخت چون با علوم ازو زندہ شد طرز مولای روم چو فکرش پی فیلسوفی گرفت طراز سخن طرزصوفی گرفت نوایش ھم آھنگ با نفخ صور کہ افسردگان را در آورد بشور چو بلبل بآھنگ کہسار ما ز ھند آمد این طوطی خوش نوا دگر آنکہ او نامور سید است گزین نخبۂ آل سرسید است ھنر مند سر راس مسعود نام کزو مکتب ھند دارد نظام روان ھنرمندی و جان علم علیگر برد زود بستان علم بعالم گر آن مکتب آوازہ یافت ز جہد وی این قدر و اندازہ یافت رئیس دبستان دران مرز و بوم شناسای قابل بطرز علوم سوم سیّد ما کہ از ندوہ است ز دانش بہ ھندوستان قدوہ است ز فیض دمش تازہ شد جان علم دو اقلیم دانش سلیمان علم چہ کلکش بمعنی طرازندہ شد خیالات شبلی ازو زندہ شد چہ در شاھراہ حقایق شتافت ’’معارف‘‘ ازو رونق تازہ یافت مضامین او جملہ محکم بود نگارش بکلمش مسلم بود دگر مرد دانای ھادی حسن پروفیسری واقف از علم و فن بانگلیسی و فرس عالم بود زبان دری را معلم بود ادیب سخن پرور فارسی سخنہای او گوھر فارسی بلفظ دری چون تکلم کند ز شوقش شکر دست و پا گم کند سخنہاش دلکش بیانش ملیح چو ایرانیان لھجۂ او فصیح ز بھر سیاست درین بوم و بر کشیدند از ھند رخت سفر ز رہ این عزیزان رسیدند خوش بکابل کنون آرمیدند خوش ورود مشاھیر ھندی نژاد بود رابط افزای حب و داد ازین آمدن دل چوگل گل شگفت بصد خرمی خیر مقدم بگفت غنیمت بود دیدن دوستان چو در فصل گل جلوۂ بوستان مسلمان زھر جا بہم دوست بہ چو بادام توام بیک پوست بہ بہمسایہ ھمسایہ گر وا رسد برش بھرۂ دین و دنیا رسد دل صاف احباب خرم بود چو در بین ھم رشتہ محکم بود خوش است ای عزیزان ز ھم پرس و جوی کہ آید مگر آب رفتہ بہ جوی سپس آقای ھادی حسن معلم فارسی کالج علیگر، بفارسی نطق مشحون از عواطف و احساسات صمیمانۂ خود و رفقای محترم خود نسبت بافغانستان و اتحاد عالم اسلام و تقدیر زحمات و خدمات اعلیحضرت شھریار شہید ایراد و آرزو ھاي آتیۂ خود شان را نسبت بترقیات این کشور اسلامی بیان فرمود کہ بواسطۂ نبودن نسخۂ سواد آن شرح آن متاسفانہ محروم ماندہ ایم، بعد جناب سر راس مسعود صاحب رئیس کالج علیگر و جناب علامہ سید سلیمان صاحب ندوی و آخراً جناب علامہ سر محمد اقبال صاحب ھر کدام بنوبۂ خود نطق ھای آتی را با نہایت فصاحت و گیرندگي بہ اردو ایراد فرمودند کہ ما عیناً ترجمہ فارسی آنہا را درینجا بنظرقارئین محترم میرسانیم : ترجمہ نطق جناب سر راس مسعود صاحب آقایان محترم و میزبان مھربان : از کمال خلوص اظہار مسرت و تشکر می نمایم و از عہدۂ شکرانۂ این التفات و پذیرائی کہ در حق بندہ مبذول فرمودید نمیتوانم بدر آیم۔ میخواھیم احساسات و جذبات قلبی مسلمانان ھندوستان را بہ شماھا برسانم از میان ما ھا علامہ سید سلیمان ندوی نمایندۂ علمای کشور ھند میباشند و دوست محترم من علامہ اقبال نمایندہ آن طائفہ است کہ عناصر قدیم و جدید را بہم آمیختہ و یک معجون روح پرور ازان ترکیب نمودہ است۔ خود من نہ از گروہ علما میباشم و نہ از فرقۂ شعرا بلکہ دورۂ تعلیمات خودم را بیشتر در ممالک اروپا طی کردہ ام ولی قلب من از عظمت و احترام این دو زمرہ سرشار و لبریز است۔ شما را یقین میدھم کہ مسلمانان ھند یک محبت و علاقہ مندی فوق العادہ نسبت بہ شما دارند و آرزوی قلبی ما ھمین است کہ افغانستان عزیز را در حالت ترقی و تمدن و رفاہ و آسایش و امینت کامل ببینیم از آنجا کہ افغانستان از نقطۂ نظر جغرافیائی بین شرق و غرب واقع شدہ لہذا ما میل داریم کہ افغانستان بہترین نمونہ ٔ از تہذیب و اخلاق اسلامی بودہ و در عین حال تمام عناصر مفید و زیبائی ھای غرب را باخود منظم و ھمراہ داشتہ باشد، ھر چند کہ از الطاف و عنایات شما خیلی متجسس و ممنونم اما شخصیت فوق العادۂ این نابغہ کہ خوشبختانہ پادشاہ کنونی شما میباشد چنان بر قلب من اثر کردہ کہ از عہدۂ وصف این عاجز بیرون است، ھیچگاہ ممکن نخواھد بود کہ بندہ آن ساعاتی را فراموش کنم کہ خوشبختانہ در خدمت اعلیحضرت اقدس ھمایونی برایمن دست داد۔ من یقین دارم ھر مملکتی کہ مانند پادشاہ ملت دوست شما پادشاہ داشتہ باشد حتماً آن مملکت بمدارج ترقی و تعالی و تکامل خواھد رسید۔ اکنون فریضۂ شما است کہ با تمام موجودیت خودھا بھر وسیلۂ کہ ممکن است در خدمت و اطاعت او آمادہ و مہیا بودہ باشید و این را یقین بدانید کہ اگر یک نفر مانند این عاجز بتواند در امور عرفانی شما خدمتی بنماید، پس برای انجام ھمان خدمات بندہ ھمہ وقت حاضر و آمادہ خواھم بود، ولی این حرف را نگفتہ نگذرم کہ باید جوانان مملکت افغانستان عزت و احترام موسفیدان را ھمہ وقت مدنظر داشتہ نگذارند کہ از اختلاف رای در وحدت ملی شان رخنہ پیدا شود، تاریخ شہات میدھد کہ تمام خسارات مسلمانان نتیجۂ نفاق و تفرقہ در بین شان بودہ است، پس از گذشتہ عبرت گرفتہ اکنون اتحاد و اتفاق را ھدف آمال ملی و کمال مطلوب خود بسازید۔ در خاتمہ مجدداً از الطاف و پذیرائی صمیمانۂ شما اظہار تشکر و امتنان می نمایم و ھیچگاہ عواطف صمیمانہ شما را فراموش نخواھم کرد۔ ٭ ترجمہ نطق علامہ سید سلیمان ندوی، مؤسس و مدیرمجلۂ معارف اعظم گر برادران ھمدین و ھموطن و عزیزان علم و فن ! امروز ما خیلی خوش بخت استیم کہ درین مجمع خود را با شما می بینیم۔ دعوت اعلیحضرت غازی چند نفر از خادمان علم و ادب را درینجا و باز اجتماع آنہا با فضلا و علمای این مملکت عزیز درین انجمن ادبی، نزد من آغاز یک دورۂ با شان و شوکت تاریخی میباشد۔ برادران گرامی ! ھندوستان و افغانستان مملکت جداگانہ نبودہ بلکہ یکیست، شاید پیش از یک و نیم یا دو صد سال نشدہ باشد کہ بین این دو مملکت تفرقۂ حایل شدہ ولی این دو مملکت در عصر قدیم بودائی در یک رشتہ منسلک بودند چنانچہ در ملک شما یادگار ھای سنگی این اتحاد در زیر زمین ھا بھر قدمی دستیاب می شود کہ موزہ خانہ شما نیز دارای آن اسناد سنگی میباشد۔ از آغاز دورۂ اسلامی تنہا شما بودید کہ بوسیلۂ شما نہ فقط دیانت و کیش بلکہ علم و فن نیز در قلب ھندوستان (سرایت نمودہ است )سلاطین غزنی و شاھان غوری درینجا می زیستند ولی دائرہ حکمرانی شان الی ھندوستان ممتد بود کذا اھل بابر در ھند می زیستند مگر دائرہ حکومت شان الی افغانستان بود۔ و این دو مملکت مثابۂ دو دست درجسم واحد یک حکومت شاھنشاہی قرار یافتہ بود۔ امروز بعد از یک و نیم صد سال این وھلۂ اولین است کہ این ھر دو دست باز برای اتحاد سیاسی نی بلکہ برای اتحاد علمی و ادبی و برای تشیید مودت باھم تماس صمیمانہ می نمایند۔ برادران افغانی! بزرگان شما در ھندوستان تنہا حکمرانی جسمانی و مادی نکردہ اند بلکہ حکومت معنوی و ذھنی را نیز دارا بودند۔ زبان فارسی کہ از سالیان قدیم لسان ادبی و علمی ھندوستان بودہ و حال نیز میباشد این زبان فقط بوسیلۂ شما بما رسیدہ است۔ از جملہ علمای شما میر زاھد ھر وی کہ از ھرات شما است، آثار و رسایل او از سہ صد سال قبل در درس گاھہای عربی ھندوستان معیار دروس فلسفۂ انتہائی ما میباشد۔ شعرای شہیر و بزرگ فارسی زبان کہ درین ملک پیدا شدہ اند ھمچنانکہ از لحاظ مولد نسبت بکدام شھری از شھرھای افغانستان دارند، ھمچنان از لحاظ مسکن یا مدفن منسوب بیکی از شھر ھای ھندوستان میباشند۔ چقدر شعرائی ھستند کہ از غزنی، بلخ، بدخشان یا از دیگر شھرھا و علاقہ جات شما بودند و بنام لاھوری و دھلوی مشھور گردیدند، من تذکرہ لباب الالباب عوفی را مطالعہ کردہ ام و آنہا طوری وانمود میدارند کہ این شعرا در یک رشتۂ وحدت چنان منسلک بودند کہ از تاریخ نیز فیصلۂ لاھوری و غزنوی بودن بمشکل تفکیک میشود۔ این دو مملکت چنان رابطۂ باھم داشتند کہ اگر فاضلی درینجا پیدا میشد یک قمست عمر خود را درآنجا بسر میبرد و کسی کہ درآنجا پیدا میشد برای چندی درینجا استراحت مینمود۔ مثلا مسعود سعد سلمان کہ از شعرای دورۂ دوم است، ایشان را ھندی یا افغانستانی گفتن و تمیز کردن مشکل است۔ من باغ ھای جلال آباد و کابل را دیدم۔ چشمہ سارھای کوھی، انہار، فوراہ ھا، آبشار ھا را تماشا کردم کہ در ھر نقطہ خاک این مملکت آشکارا میباشند و بمن یقین شد کہ اھل بابر در کشمیر و ھندوستان کہ بآن کثرت باغہا احداث کردہ اند و با ھر جا چشمہ ھای مصنوعی ساختہ اند آنہمہ نقل از مناظر افغانستان بودہ است۔ باغ ھای امیر شہید در جلال آباد، باغ بابر در کابل باغ ھای پغمان و دیگر باغہای افغانستان با شالامار لاھور چقدر مشابہت طبیعی دارد۔ و این ذوق مناظر طبیعی در آل تیمور فطری موجود بود کہ آن را در ھند عملاً بروی کار آوردہ اند حتی کہ در دیوان عام و خاص نیز جوی ھای گنگ و چمن را ترتیب و گلکاری نمودہ اند۔ برادران علم و فن ! چیزی کہ در سابق شدہ آیا حالا باز نمیتواندبشود؟تذکار تفرقۂ سیاسی و دوری و علیحدگی را بگذارید، این سرنوشت انقلابات عالم است یعنی گاھی چنین و گاھی چنان، و حالات سیاسی ھموارہ تغیر پذیر و تعلقات آن در شرف شکستن و پیوند شدن است، ولی تعلقات علم و ادب دایمی و برقرار میباشد۔ از شمشیر سلطان محمود غزنوی عرصۂ گذشت کہ شکستہ و اوراق فتوحات شان از قرن ھاست کہ از ھم متلاشی گردیدہ ولی قلم حکیم سنائی غزنوی تا حال باقی و موجود و شیرازۂ اوراق فتوحات ادبی شان تا کنون مرتب و باقیست۔ بیائید بنام سلطان محمود غزنوی، شہاب الدین غوری و آل بابری و بنام سنائی غزنوی، مسعود سعد سلمان لاھوری، خسرو دھلوی، حسن دھلوی، فیضی اکبر آبادی و بیدل عظیم آبادی بجانب ھمدیگر دست مودت و محبت را دراز کنیم۔ افغانستان مدام تحسین طاقت جسمانی و نیروی مادی خود را از دنیا حاصل کردہ است ولی اکنون لازم است کہ وی تحسین طاقت دماغی و پہلوانی ذھنی خود را نیز از عالم حاصل کند۔ انجمن ادبی شما مستحق تحسین و ستایش است کہ او در راہِ مذکور گامزن شدہ است و در ھر ماہ طاقت و نیروی خود را بطور بسیار خوب در معرض نمایش میگذارد۔ من بدون خوف و تردید میتوانم بگویم کہ مجلۂ کابل دوش بدوش با بہترین مجلات علمی ھندوستان بلکہ مشرق میرود، و در نمایش این دور بہجت افزا دست او از ھمہ زیادہ کار فرما است۔ برادران ھمسایہ! آیا این جای تعجب نیست کہ ما یک یک شاعر و ادیب انگلستان، فرانسہ و آلمان را بشناسیم و بر شاھکار ھای آنہا سر بشکنیم ولی با ادبا و اھل قلم این دو مملکت ھمسایہ نا آشنا و بیگانہ باشیم۔ حال اینکہ بین بزرگان قدیم این ھر دو نقطہ نہ تنہا روابط بومی بکہ شاید اتحاد ملی و نسبی نیز موجود باشد۔ ولی ازین زیادہ تر اینکہ بین شان یک اتحاد ناقابل شکست علمی و ادبی بود و جقدر جای افسوس است کہ از دو قرن بین ما اینقدر بعد و دوری واقع گردیدہ کہ نہ ما از شعر او ادبای شما واقف ھستیم و نہ شما از ما۔ باید از مجلۂ کابل انجمن ادبی ممنون شویم کہ ما را با اھل قلم لایق و شعرا و ادبای معرفی گردانیدہ و ما ھمدیگر خود را شناختیم۔ برادران علمی و فنی! سیاسیون را بگذارید کہ مصروف شعبدہ بازی ھای خود باشند و بیائید کہ ما بنام علم و فن با ھمدیگر پیمان محبت و دوستی تازہ کردہ و عہد رفاقت و آشنائی را مستحکم سازیم، و ما ھر دو مملکت در تعمیر یک شرق جدید علمی و ادبی دوش بدوش کار بکنیم۔ اتحاد قلوب از ھر نوعیکہ باشد بدگمانی و غلط فہمی ھا را دور میسازد۔ ھندوستان بوسیلۂ نوجوان ھای خود بہ تعمیر خود مصروف است و افغانستان نیز۔ لہذا درین تعمیر لازم و ضروری است کہ نوجوانان ھر یک ازین دو مملکت با جوانان مملکت دیگر حسن ظن و حسن اعتماد داشتہ باشند، ھر چند کہ درین راہ اتحاد خیلی مشکلات میباشد ولی برای حصول این مقصد عزیز ما را باید کہ صد نوع مشکلات را مقابلہ بنمائیم۔ بھر یک گل زحمت صد خار می باید کشید۔ و آخر دعوانا ان الحمد اﷲ رب العالمین۔ در خاتمہ سعادت و ترقی مملکت عزیز افغانستان و صحت و موفقیت پادشاہ علم دوست و ادب پرورآن اعلیحضرت محمد نادر شاہ غازی کہ این ھمہ پیشرفت افغانستان در تحت رایت و حسن تدابیر شان است، از خدا تمنا داریم۔ ٭ ترجمہ نطق علامہ سر محمد اقبال بعد از بیانات سید سلیمان صاحب ندوی و داکتر سر راس مسعود کہ حسیات عواطف ما را بصورت خوبی ترجمانی نمودہ اند۔ چیزی باقی نماندہ کہ من بگویم اما گمان میکنم اعضای انجمن ادبی کابل ازین جانب توقع دارند کہ در جواب خیر مقدم و خوش آمدھای کہ از روی لطف با بلیغ ترین وجہی شرح دادہ اند، چیزی بگویم۔ من از انجمن ادبی کابل خیلی ممنونم کہ در حق من نظماً و نثراً حرفہای خوب و سخن ھای پر از حسیات مھربانانہ گفتہ اند۔ من ھم میل دارم کہ فقط و فقط از فعالیت ھا وکاروائی ھای جوانہای ھئیت انجمن ادبی کابل بحث رانم، ھیچ شک ندارم کہ ھئیت انجمن از اھمیت کار خود و مسئولیت آن بخوبی مسبوقند، عقیدہ ٔ من این است کہ آرت ( فنون لطیفہ ) یعنی ادبیات یا موسیقی و یا معماری ھر چہ باشد ھر یک معاون و خدمتگار حیات است و بنابرین ’’آرت‘‘ را باید ایجاد بگوئیم نہ تفریح۔ شاعر اساس زندگی یک ملت را آباد یا ویران میتواند بکند۔ وقتی مملکت سعی دارد کہ در عصر حاضر تاریخ افغانستان در ساحہ حیات نوینی داخل شود، پس بر شعرای این مملکت لازم است کہ برای اخلاف نوجوان رھنمای حقیقی گردند، از زندگانی تمجید نمودہ مرگ را بزرگ جلوہ گر نسازند، چہ ( آرت، وقتیکہ از ) مرگ تعریف نماید و آن را بزرگ نشان دھد در آنحال (خیلی مخوف و مہلک ) است۔ و حس عاریاز قوت محض یک پیغام مرگ است۔ دلبری بیقاھری جادو گری است دلبری با قاھری پیغمبری است میخواھم توجۂ شما را بہ نقطہ ای معطوف و تمرکز دھم و آن عبارت است از یک واقعہ از وقایع حیات نبویﷺ۔ مروی است وقتی از اشعار امراء القیس کہ از نوابغ شعرای عرب است بحضور اقدس نبوی خواندہ شد فرمودند: اشعرالشعراء وقاید ھم الی النار ازین ارشاد سراسر رشاد بطوری واضح روشن میشود کہ کمال شعر ھم گاھی بہ اھالی سؤ تاثیر می بخشد، امور موقوف علیہ حیات یک ملت محض یک شکل و صورت نیست چیزیکہ حقیقتاً بہ ملت مربوط است عبارت است از مفکورۂ کہ شاعر بہ پیشگاہ ملت عرضہ میدارد و نظریات بلندیست کہ میخواھد در قوم خود پیدا کند۔ ملتہا بہ دستیاری شعرا پیدا میشوند و بہ پا مردی سیاسیون نشوونما نمودہ می میرند۔ پس تمنا میرود کہ شعرا و محررین نوجوان افغانستان دمندۂ روحی در معاصرین گردند کہ آنہا رفتہ رفتہ در اخیر خود را شناختہ بتوانند انانیت یک ملتی کہ بہ جادۂ نہضت بی سپر است وابستہ بہ تربیہ میباشد ولی تربیۂ کہ شالودۂ آن بروی احتیاط برداشتہ شود۔ پس وظیفہ انجمن اینست کہ مفکورہ ھای نسلہای نوجوان را بوسیلۂ ادبیات تشکیل و ترسیم نمایند و بہ آنہا چنان یک صحت روحانی ببخشد کہ بالاخرہ انانیت خود را ادراک و قابلیتی بہم رساندہ بگویند: دو دستہ تیغم و گردون برھنہ ساخت مرا فسان کشید و بروی زمانہ آخت مرا من آن جہان خیالم کہ فطرت ازلی جہان بلبل و گل را شکست و ساخت مرا نفس بہ سینہ گدازم کہ طایر حرمم توان ز گرمی آواز من شناخت مرا میخواھم یک نکتہ ٔ دیگر را نیز بگویم و بگذرم، موسولینی یک نظریۂ قشنگی را ارائہ نمودہ است کہ مقصد آن اینست، باید اتلی، برای حصول نجات خود، یک ملیونری پیدا کند کہ گریبان اتلی را از چنگ دیوان ملل اینگلوساکسونی خلاص کردہ بتواند، و یا باید کولمبس دیگری را بیابد کہ یک براعظم دیگر را کشف نماید، اگر شما را ز نجات افغانستان را از من استفسار نمائید خواھم گفت کہ افغانستان محتاج بمردیست کہ با تمام موجودیت خود این مملکت را از حیات قبیلہ وی اخراج و بہ حیات وحدت ملی آشنا نماید، ولی مسرورم ازانکہ افغانستا ن مردی را بدست آوردہ کہ از دیر باز انتظار او را میکشید، من یقین دارم کہ شخصیت ایجاد کار اعلیحضرت نادر شاہ را برای این آفریدہ اند کہ افغانستان را یک ملت جدیدی در ایشیا ساختہ بدنیا معرفی نماید، نوجوانان این وطن را باید کہ این قائد بزرگ را آموز گار و معلم تعلیم و تربیۂ خود بشاسند زیرا تمام زندگانی او پر از ایثار، اخلاص و صداقت بہ مملکت خود، محبت و عشق بہ اسلام است۔ تقریظ و انتقاد مسافر تحریر از سرور خان گویا(۱) از مجلہ کابل سال چہارم شمارہ ھفتم اول جدی ۱۳۱۳ھ ش؍ ۲۳ دسمبر ۱۹۳۴ء ص ۸۵ تا ۸۹ آخرین اثر نفیس ستارۂ درخشان ھند و فاضل شہیر مشرق جناب علامہ دکتور سر محمد اقبال است کہ احساسات حقیقی جنابش را نسبت بمحبت عالم اسلام و رقت و افسوسیکہ راجع بترقیات و عظمت از دست رفتۂ کشور اسلامی داشتہ و امیدھا و آمالیکہ مخصوصاً برای استقبال مشعشۂ این خاک پاک اسلام دارند، جناب شانرا وادار ساختہ در ضمن مسافرت مختصریکہ چندی قبل بافغانستان فرمودہ بودند آنرا در حدود چند صد بیت برشتۂ نظم کشیدہ اند۔ اقبال بزرگ، اقبال سخن ور، اقبال اسلام پرست را نہ تنہا ما از سبب انشاد این رسالہ کہ از تحریک وجدان پاک و عواطف سرشار واحساس صادقانہ و شریفانہ کہ خاصہ ٔ آنمرد بزرگ بودہ و راجع بکشور و زمامداران لائق ما سروردہ اند، تمجید میکنیم، بلکہ مقام و منزلت اقبال در مشرق امروزی خاصہ دنیای اسلام ھمچو آفتاب روشنی است کہ نور و فیوضات حضرتش ھمہ مشرقیان را مستنیر و مستفید میگرداند۔ ٭٭٭ ۱: مجلے کی فھرست میں یہ تقریظ انجمن ادبی کی جانب سے لکھی گئی ہے۔ جبکہ ڈاکٹر محمد ریاض مرحوم نے اس تحریر کو سرور خان گویا کی تحریر لکھا ہے ( اقبال ممدوح عالم ص ۲۸۹) امروز اگر ادبای عالیمقامی از قبیل سعدی، حافظ، مولوی، بیدل آفتاب ھای بزرگی از افق کشور اسلام افول نمودہ اند ملل اسلام می باید بوجود اقبال خود را روشن سازند۔ اقبال امروز سخن را جان و حیات تازہ بخشیدہ و آنہمہ ھدایات اخلاقی و اجتماعی کہ مقرون بصرفہ ٔ امروزۂ ملل اسلام بودہ و ایراد آن بہر واعظ و ناطق و سخن سنجی مشکل است، اقبال بکمال مہارت و تر دستی قوالب سخن یعنی سخن روح دار، سخن پرمغز، سخن مطبوع، سخن مؤثر و جان پرور را تہیہ و آمادہ مینماید۔ یکی از فضایل عمدہ و بزرگ علامۂ ممدوح کہ ما را بمدحش بی اختیار می نماید اینست کہ وی فضل و استعداد خود را مخصوص ھند نساختہ بلکہ از جملۂ فضلا و خدام بین المللی اسلام بشمار میرود۔ این فاضل شہیر یک سوزش حقیقی ھموارہ برای سعادت گذشتہ و از دست رفتۂ عالم اسلام داشتہ و بہ تمام قوا وموجودیت خود در صدد رھمنونی و سنجیدن چارہ ھا برای عودت ترقی و عظمت اسلام باشد۔ ما از خدای توانا بقای این وجود گرامی را تمناکردہ و احترامات و تشکرات خود را بہ حضرت شان تقدیم داشتہ ضمناً برای استفادۂ ھموطنان بہ انتخاب بعض قسمتہای (مسافر) اینک میپردازیم: {انجمن} نادر افغان شہ درویش خو رحمت حق بر روان پاک او کار ملت محکم از تدبیر او حافظ دین مبین شمشیر او چون ابوذر خود گداز اندر نماز ضربتش ھنگام کین خارا گداز عہد صدیقؓ از جمالش تازہ شد عہد فاروقؓ از جلالش تازہ شد از غم دین در دلش چون لالہ داغ در شب خاور وجود او چراغ در نگاھش ھستی ارباب ذوق جوھر جانش سراپا جذب و شوق خسروی شمشیر و درویشی نگہ ھر دو گوھر از محیط لاالہ فقر و شاھی واردات مصطفیٰ است این تجلیہای ذات مصطفی است این دو قوت از وجود مومن است این قیام و آن سجود مومن است فقر سوز و درد و داغ و آرزوست فقر را در خون طپیدن آبروست فقر نادر آخر اندر خون طپید آفرین بر فقر آن مرد شہید ای صبا ای رہ نورد تیزگام در طواف مرقدش نرمک خرام شاہ در خواب است پا آھستہ نہ غنچہ را آھستہ تر بکشا گرہ مسافر وارد می شود بہ شھر کابل و حاضر میشود بحضور اعلیحضرت شہیدؒ شھر کابل خطۂ جنت نظیر آب حیوان از رگ تاکش بگیر چشم صائب از سوادش سرمہ چین روشن و پایندہ باد آن سر زمین در ظلام شب سمن زارش نگر بر بساط سبزہ می غلطد سحر آن دیار خوش سواد، آن پاک بوم باد او خوشتر ز باد شام و روم آب او برّاق و خاکش تابناک زندہ از موج نسیمش، مردہ خاک ناید اندر حرف و صوت اسرار او آفتابان خفتہ در کہسار او ساکنانش سیر چشم و خوش گھر مثل تیغ از جوھر خود بی خبر قصر سلطانی کہ نامش دلگشاست زائران را گرد راھش کیمیاست شاہ را دیدم در آن کاخ بلند پیش سلطانی فقیری دردمند خلق او اقلیم دلہا را گشود رسم و آئین ملوک آنجا نبود من حضور آن شہ والا گھر بینوا مردی بہ دربار عمر جانم از سوز کلامش در گداز دست او بوسیدم از راہ نیاز پادشاھی خوش کلام و سادہ پوش سخت کوش و نرم خوی و گرم جوش صدق و اخلاص از نگاھش آشکار دین و دولت از وجودش استوار خاکی و از نوریان پاکیزہ تر از مقام فقر و شاھی باخبر در نگاھش روزگار شرق و غرب حکمت او رازدار شرق و غرب شھر یاری چون حکیمان نکتہ دان رازدان مدّوجزر امّتان پردہ ھا از طلعت معنی گشود نکتہ ھای ملک و دین را وانمود گفت ’’از آن آتش کہ داری در بدن من تو را دانم عزیز خویشتن ھر کہ او را از محبت رنگ و بوست در نگاھم ھاشم و محمود اوست‘‘ در حضور آن مسلمان کریم ھدیہ آوردم ز قرآن عظیم گفتم ’’این سرمایۂ اھل حق است در ضمیر او حیات مطلق است اندرو ھر ابتدا را انتہا است حیدرؓ از نیروی او خیبر گشاست‘‘ نشۂ حرفم بخون او دوید دانہ دانہ اشک از چشمش چکید گفت ’’نادر در جہان بیچارہ بود از غم دین و وطن آوارہ بود کوہ و دشت از اضطرابم بی خبر از غمان بی حسابم بی خبر نالہ با بانگ ھزار آمیختم اشک با جوی بہار آمیختم غیر قرآن غمگسار من نبود قوتش ھر باب را بر من گشود‘‘ گفتگوی خسرو والا نژاد باز با من جذبۂ سرشار داد وقت عصر آمد صدای الصّلوٰت آن کہ مؤمن را کند پاک از جہات انتہای عاشقان سوز و گداز کردم اندر اقتدای او نماز رازھایِ آن قیام و آن سجود جز بہ بزم محرمان نتوان گشود بر مزار شہنشاہ بابر خلد آشیانی بیا کہ ساز فرنگ از نوا بر افتاد است درون پردۂ او نغمہ نیست فریاد است زمانہ کہنہ بتان را ھزار بار آراست من از حرم نگذشتم کہ پختہ بنیاد است درفش ملّت عثمانیان دوبارہ بلند چہ گویمت کہ بہ تیموریان چہ افتاد است خوشا نصیب کہ خاک تو آرمید اینجا کہ این زمین ز طلسم فرنگ آزاد است ھزار مرتبہ کابل نکوتر از دِلّی است کہ آن عجوزہ عروس ھزار داماد است درون دیدہ نگہ دارم اشک خونین را کہ من فقیرم و این دولت خداداد است اگرچہ پیر حرم ورد لاالٰہ دارد کجا نگاہ کہ برّندہ تر ز پولاد است بر مزار حضرت احمد شاہ باباعلیہ الرحمہ مؤسّس ملّت افغانیہ تربت آن خسرو روشن ضمیر از ضمیرش ملّتی صورت پذیر گنبد او را حرم داند سپھر با فروغ از طوف او سیمای مھر مثل فاتح آن امیر صف شکن سکّہ ای زد ھم بہ اقلیم سخن ملّتی را داد ذوق جستجو قدسیان تسبیح خوان بر خاک او از دل و دست گھر ریزی کہ داشت سلطنت ھا برد و بی پروا گذاشت نکتہ سنج و عارف و شمشیر زن روح پاکش با من آمد در سخن گفت می دانم مقام تو کجاست نغمۂ تو خاکیان را کیمیاست خشت و سنگ از فیض تو دارای دل روشن از گفتار تو سینای دل پیش ما ای آشنای کوی دوست یک نفس بنشین کہ داری بوی دوست ای خوش آن کو از خودی آئینہ ساخت وندر آن آئینہ عالم را شناخت پیر گردید این زمین و این سپھر ماہ کور از کور چشمیہای مھر گرمی ھنگامہ ای می بایدش تا نخستین رنگ و بو باز آیدش بندۂ مؤمن سرافیلی کند بانگ او ھر کہنہ را برھم زند ای تو را حق داد جان ناشکیب تو ز سرّ ملک و دین داری نصیب تقریظ و انتقاد افغانستان بہ یک نظر اجمالی از مجلہ کابل ۲۲ مارچ ۱۹۳۵ء ص ۸۶ تا ۹۰ کتابیست راجع بحالات تاریخی و مدنی و جغرافیائی و مختصر حالات عمومی وطن عزیز ما افغانستان کہ باین تازگی ھا جناب فاضل شہیر مولانا جمال الدین احمد خان بی۔ ای آنرا بزبان انگلیسی در ھند تالیف و طبع نمودہ۔ برعلاوہ نفاست طباعت و برجستہ گی مضامین وغیرہ صفاتیکہ یک کتاب مخصوص بہ سلیقۂ مطبوعات و تالیفات امروزہ آنرا دارا میباشد واین اثر نفیس آنہمہ محسنات را حاوی است۔ چیزیکہ بیشتر جالب توجہ شدہ و ما را وادار بتقدیر بر می نماید، اینست کہ اطلاعات و معلومات مؤلف فاضل بقدری صحیح و محقق است کہ نگارش ھمچہ موضوع تا امروز از عہدہ یک نگارندہ داخلی ھم خارج بودہ۔ این اثر نفیس از طرف مطبوعات معروف ھند تا حال چندین مراتبہ تقریظ و تمجید شدہ و بھر خوانندہ القای محبوبیت نمودہ است۔ ما بوجود آوردن این اثر گرامی را کہ حقیقتاً یک شاھکار قلم فاضلانہ جناب مولوی جمال الدین احمد خان است بمعزی الیہ تہانی و تبریک گفتہ ضمناً تقریظی کہ دراین کتاب بہ زبان انگلیسی از طرفِ فاضل یگانہ علامہ سر محمد اقبال صاحب شدہ ترجمہ آنرا برای خوب تر شدن این کتاب بنظر قارئین محترم میرسانیم و بذواتیکہ دارای زبان انگلیسی اند خواھش داریم از مطالعہ این کتاب غافل نمانند۔ مقدمہ تقریظ کتاب : نگارش فاضل علامہ سر محمد اقبال صاحب از من خواھش شد دو سہ سطری بہ عنوان مقدمہ در اطراف این کتاب گران قیمت کہ راجع بہ افغانستان نگارش یافتہ بنویسم، من این تکلیف را بنظر رضا و استحسان می نگرم زیرا سرور و علاقہ ام بافغانستان نہ تنہا از جہتی است کہ من افغانہا را دایماً یک ملت غیور و دارای قوۂ خستہ گی ناپذیر در زندہ گی میدانم بلکہ شرفیابی بحضور اعلیحضرت شہید محمد نادر شاہ غازی آن پادشاہ صاحب شمشیر و تدبیر بیشتر مرا قانع نمودہ کہ نبوغ او در پیکرِ ملّتِ افغان روح تازہ دمیدہ و چشم ملت را بہ منظر عالم امروزہ باز نمودہ، تاریخ افغانستان تاکنون از دسترس مطالعہ و تقدیر برکنار ماندہ چہ ضبط وقایع حقیقۃً تاریخ نی بلکہ از مواد تاریخ بشمار میرود، بلی وقائع بمثابۂ الفاظ است، مورخی میخواھد کہ از الفاظ معانی آن را در یابد آن این مطلب تاکنون در تاریخ افغانیان چہ در ھند و چہ در افغانستان ابداً بمنصۂ ظھور نیامدہ۔ ملتیکہ افراد نامور از قبیل محمد غوری، علاء الدین خلجی، شیر شاہ سوری، احمد شاہ ابدالی،امیر عبدالرحمٰن خان وبالٓاخرہ اعلیحضرت نادر شاہ و از ھمہ برتر مولانا سید جمال الدین افغانی کہ در عصر ما از جہات متعدد بزرگترین فرد مسلمانی و بی ریب یکی از اعاظم و رجال آسیا است بدنیا دادہ البتہ اینچنین یکی از عناصر مہم در حیات آسیا بشمار میرود۔ در ازمنۂ ماضیہ بلخ، بامیان، ھدہ، کابل، غزنہ، ھرات سالیان درازی بنوبۂ خود از مراکز علمی و ادبی و تہذیبی آسیا بودہ اند، علاقہ و صمیمیت دود مان شاھی حاضرہ بما اطمینان کامل می بخشد کہ آنہا شوکت و حشمت گذشتۂ خود را باز خواھند یافت۔ ھر وقت کہ افغانستان بیادم می آید قلب من یک تابلوی ازین اقلیم را ھمانطور کہ در برگ ریزان سال گذشتہ دیدہ بودم بقدرت سحر آفرینی در مقابل دیدگانم میگذارد۔ من در یک خانہ مطالعہ کہ با نہایت سادگی و متانت آرستہ و مشرف بہ باغی است نشستہ ام، طرف مقابلہ با آن سوی باغ یک قطعہ پہناوری از زمین نرمک نرمک روبہ فراز رفتہ، تپہ ھائی ملافی می شود کہ آن تپہ ھا مانند امواج متوالیاً روبعروج رفتہ بہ سلسلۂ سر بفلک کشیدہ جبال ھندوکش منتہی می شود۔ قطار منظم پایہ ھای جسیم برق گیر کہ از آبشار دور دست برق می آورد،بسینۂ این ناحیہ افتادہ است۔ آسمان بتقریب غروب خورشیدبالوان قشنگ نظر فریب رنگین شدہ و سایہ ھای طویل با عجلہ و شتاب زدگی تمامی روی این وادی در حرکت است۔ درختان راستان و سیم اندام چنار در تاریکی شام از نسیم شامگاھان با برگ ھای خزان رسیدہ اھتراز خفیفی دارند۔ در سکوت نیم رنگ شفق درختان دھکدہ ھای دور دست و سلسلۂ کوہ ھا کہ در دریای غبار شامگاھان شنا میکنند یک منظرۂ نشان می دھد کہ حسن و زیبائی آن مربوط بہ عالم رؤیا و خیال است، در سکوت آن شام دفعۃً آواز اذان بلند می شود و رفقای ما یکایک جای خود را میگذارند، من از تاثیر آواز مؤذن بیخود شدہ از ھمہ دیر تر بخانۂ نماز می رسم و می بینم کہ ذات ملوکانہ با کمترین خادمانش شانہ بشانہ ایستادہ اند۔ این واقعۂ کوچک سہ صفت خیلی برجستۂ افغان ھا را اظہار میدارد: ۱۔ احساسات عمیق مذھبی ۲۔ آزادی کامل از امتیازات حسبی و نسبی ۳۔ توازن کاملی کہ بوسیلۂ آن افغان ھا ھموارہ شئون ملی و مذھبی خویش را حفظ نمودہ اند۔ این روح محافظہ کاری، ھمیشہ منبع بزرگ قوت افغانہا بودہ و خواھد بود، و ھمین است کہ آنہا را با گذشتۂ شان، بدون اینکہ دو موافقت و ھم آھنگی ایشان با یک دورۂ جدید، سکتہ وارد کند، در یک تماس زندہ نگہ میدارد۔ دانش محافظہ کارانۂ افغانہا، عرف و عادات قدیمۂ شان را در نزدشان محبوب ساختہ و در عین حال و سنگینی این عرف و عادات، روح پیشرفت آتیۂ شان را دچار اختناق نمی کند۔ روزی در لاھور بہ دکان افغان سالخوردۂ کہ پیشۂ عطاری داشت، برخوردم، مشار الیہ زیادہ از پنجاہ سال عمر خویش را در غرب بسر بردہ و اخیراً در آستریلیا توطن گزیدہ بود، انگلیسی آستریلیائی خواندہ و نوشتہ نمیتوانست مگر بخوبی تکلم میکرد۔ من گفتم : ’’آیا افغانی ھنوز بیاد تان خواھد بود؟‘‘ ۔ این سوال در اعماق قلبش نفوذ کردہ،آبدیدہ رخشندہ تر گردید و معلوم شد خاطرات جوانی او یک بار دیگر در حافظہ اش حاضر و اخیراً بصورت قطعۂ از غزلیات عشقیہ پشتو تراوش نمودہ، و این پیر مرد افغان را از گرمای سو زندہ لاھور بہ وادیہای سرد و گوارای اجدادش سوق داد۔ غریزۂ محافظہ کاری افغانہا خیلی شگفت انگیز است، در عین حالیکہ بنیان محکم آن رخنہ ناپذیر است۔ از مؤثرات وایجابات تمدن جدید، متجسس شدہ طرح ھمرنگی میریزد۔ این است راز یگانۂ صحت و قوت جبلی افغان۔ افغانستان در قرون اولٰی، مرکز بزرگ تجارت بودہ و در قرون وسطی ھم این را حفظ کردہ است تا وقتیکہ راہ ھای بحری تجارت در دنیای جدید کشف و مورد استعمال قرار گرفت۔ این مملکت از نقطۂ موقعیت کلید دنیای سیاست و تاریخ را بہ دست داشتہ و خواھد داشت۔ پروفیسر لاید میگوید : درینجا ( افغانستان ) یکی از مہمترین قطعات قارۂ آسیا دیدہ میشود۔ این شرح مختصر وقائع افغانستان کہ خیلی واضح، سادہ و بی آلایش بودہ حقیقت را صداقت کارانہ آشکار میکند۔ مولود زحمات دو برادر اینست کہ در اثنای اقامت سالیان دراز در افغانستان بنتیجۂ مشاھدات شخصی خود ھا را با مطالعۂ بہترین منابع و تازہ ترین معلومات رسمی ضم و ا کمال کردہ اند، بنا بر این جای آن دارد کہ مکرر حسن استقبال کردہ شود۔ خیلی بجاست کہ مصنفین کتاب، آندورۂ را کہ مظھر صنائع و محاصیل امنیت میباشد ھدف توجۂ قرار دادہ و از ادوار محاربات بی شمار و تہاجمات و اغتشاشات داخلی کہ در بادی نظر برجستہ ترین منظر تاریخ افغانستان را جلوہ میدھد منصرف شدہ اند۔ مصنفین علاوہ بر تہیہ معلومات قیمتی و مستند بہ مملکت افغانستان چند مسائل خیلی دلچسپ در اطراف موقعیت افغانستان و پیشرفت تمدن آن ( از نقطۂ براہ پیشرفت تمدن دنیا ) بمیان آوردہ اند۔ مگر ھنوز کارھای زیادہ درین زمینہ باقی است۔ و امید دارم فضلا و علمای افغانی در کشف عظمت گذشتۂ مملکت خویش، منتہای جدیت و زحمت بکار خواھند برد۔ باب دوم وفات اقبال سے ۱۹۷۷ء تک وفات داکتراقبال شاعر و فیلسوف شھیر ھند بقلم سید قاسم رشتیا(۱) از مجلہ کابل سال ۸ شمارہ ۳ جوزا ۱۳۱۷ ھ ش ؍مئی جون ۱۹۳۸ء ص ۷۸ خبر جگر خراشی کہ بشب اول ثور از ھند بدست آمد، حاکی از فوت داکتر سر محمد اقبال شاعر و فیلسوف بزرگ ھند بود کہ باثر مرض ضیق النفس بتاریخ مذکور در شھر لاھور بعمر ۶۳ سالگی بدرود حیات گفت ( انا لللہ و انا الیہ راجعون) مرحوم داکتر اقبال نہ تنہا یک ادیب و یک فیلسوف عالیمقام بودہ، بلکہ علاوۃً بتمام معنی یک عالم عصری و در عین زمان از پیشوایان ملت ھند بشمار میرفت، و از طرفی ھم علاقۂ مفرطی بہ افغانستان داشتہ، در تمام اشعار و آثار خود، از ملت افغانستانستایش و بسا اندرزھای خویش را بہ افغانیان خطاب کردہ است۔ با وصف تمام اینہا طبیعی است کہ فقدان ھمچہ یک رجل نامور بہ چہ اندازہ اسباب تأثر ملت و حکومت افغانستان گردیدہ و قلوب ھمہ را داغدار ساختہ است۔ خصوصاً وزارت معارف و انجمن ادبی کہ روابط قریب تری بافقید مذکور داشت، از این سانحہ پیش از ھمہ متأثر و بمجرد شنیدن خبر اسف ٭٭٭ ۱: مجلے کی فھرست میں اس تحریر کے لکھنے والے کا نام نہیں لکھا گیا ہے بلکہ مدیریت نشریات پر اکتفا کیا گیا ہے جبکہ صدیق رھیو نے ’’افغانستان و اقبال‘‘ کے ص ۵۰ پر اس تحریر کو بقلم سید قاسم رشتیا لکھا ہے جبکہ ڈاکٹر محمد ریاض مرحوم نے اس تحریر کو سرور خان گویا، شاہزادہ احمد علی خان درانی ( ممدوح عالم ص ۲۹) سے منسوب کیا ہے۔ انگیز مزبور، بہ اظہار مراتب تالم عمیق خویش و ابراز ھمدردی بہ ملت ھند و بازماندگان آن مغفور پرداختہ، علاوۃً برای آنکہ از شخصیت و خدمات ادبی و اجتماعی داکتر اقبال مرحوم، تذکاری بعمل آمدہ باشد، بتاریخ پنجشنبہ ۸ ثور مجلس یاد بود با شکوھی در سالون مقابل وزارت معارف ترتیب و دران رجال بزرگ و مامورین عالی رتبہ و ادبا و فضلای پای تخت را دعوت نمود۔ تا در ضمن ادای مراسم تعزیت، کلماتی چند راجع بہ ترجمۂ حال و خدمات قلمی و فکری آن مرحوم نیز بشنوند۔ این مجلس بساعت دہ و نیم صبح منعقد و بہ قرائت چند آیۂ شریفہ ازقرآن پاک افتتاح و سپس جناب سرور خان گویا مدیر شعبۂ ادبیات و حفظ آثار انجمن، بوکالت وزارت معارف و انجمن ادبی علی الترتیب خطابہ ھائی را کہ از طرف جناب شہزادہ احمد علی خان درانی مدیر عمومی انجمن راجع بہ شرح حال اقبال و از طرف جناب غلام جیلانی خان اعظمی معاون عمومی نسبت بہ روابط اقبال با افغانستان ترتیب یافتہ بود، با یک سلسلہ اشعار نغزی کہ از آثار خود آن مرحوم انتخاب کردہ بود قرائت کردند و در اخیر مرثیۂ پشتو کہ بواسطۂ جناب قیام الدین خان خادم عضو شعبۂ نشریات انجمن سرودہ شدہ بود از طرف جناب امین اﷲ خان زمریالی معاون شعبۂ ادبیات خواندہ شدہ، بالٓاخرہ پس از آن مرثیۂ کہ جناب قاری عبداﷲ خان ملک الشعراء بزبان فارسی نظم فرمودہ بودند، از طرف جناب سرور خان گویا قرائت گردید و مجلس بہ تلاوت چند آیۂ قرآن مبین خاتمہ یافت۔ اینک ما در ذیل این سطور پس از تجدید مراتب تأثر خود، صورت خطابہ ھای مذکور را با مقالات و مراثی دیگری کہ بتقریب وفات آن مرحوم از طرف اعضای انجمن ترتیب شدہ درج میکنیم : اقبال از مجلہ کابل سال ۸ شمارہ ۳ جوزا ۸۱۱۷ ھ ش مئی جون ۱۹۳۸ء ص ۷۹ تا ۸۲ از شہزادہ احمد علی خان درانی در ۱۸۷۵ عیسوی شھر سیالکوت ( پنجاب) سر زمین مردم خیز ھند را کہ مولد و منشأ مسعود سعد سلمان، امیر خسرو، فیضی، غنی، واقف، غنیمت، بیدل، غالب و پرورش گاہ بدر چاچ، عرفی، نظیری، صائب، ظھوری، اشکی و کلیم و سلیم است، مژدہ بہ ظھور اقبال داد: نعرہ زد عشق کہ خونین جگری پیدا شد حسن لرزید کہ صاحب نظری پیدا شد فطرت آشفت کہ از خاک جہان مجبور خودگری، خودشکنی، خود نگری پیدا شد اقبال بعد از فراغت تعلیم مدرسہ در گورنمنت کالج لاھور داخل شدہ علاوہ بر دیگر علوم انگلیسی تحصیلات فارسی در محضر تدریس شمس العلماء مولوی سید میر حسن صاحب مرحوم کہ در نظم و نثر فارسی شھرت و فضیلت زیادی داشت، بہ انتہا رسانید۔ چون از ایام صغارت طبع موزونی داشت توجہات استاد یگانہ فکر رسای این نونہال برومند و این شگوفۂ نو رسیدہ را بزبان فارسی آشنا کرد تا بشیوا بیانی مہارتی پیدا نمود، و پروفیسر آرنلد کہ علاوہ از فلسفۂ جدید در ادبیات عرب ماھر بود تعلیم فلسفہ و نکات حکمت رھبرش گردید۔ اقبال بہ اندک زمان شھرت بسیار پیدا نمود ودر امتحان ایم، ای از دارالفنون پنجاب کامیاب شد، نخست در گورنمنت کالج لاھور درس فلسفہ و سپس جہت اکتساب علوم عالیہ روانۂ اروپا شد و بعد از سہ سال از آلمان پی۔ ایچ، دی و خطاب دکتوری را حاصل کردہ بہ وطن عودت نمود۔ اقبال از خرد سالی اشعارخوب و رشیقی میگفت، در مراحل اولیۂ شاعری جملہ رعنائی و زیبائی از کلامش پیداست۔ چون پروردۂ آغوش یک خانوادۂ تصوف است لذا کلامش را بچاشنی تصوف طوری گوارا می نماید کہ عقل بہت میشود۔ در انکشاف اسرار کائنات و کشف غوامض الہیات از عالم مرموز حکمت بہ آسانی عبور مرور نمودہ پیچیدگی ھای لاینحل کائنات را در اثر تخیلات فلک پیمای خود صورت سہل تری می بخشد، نوامیس فطرت و مظاھر قدرت مثلاً کنار ساحل، دل صحرا، روانی آب، لذت شام گاھان، نمائش سبزہ، جلوۂ گل، عظمت کوھسار، سکوت دشت، معجرقیر گون شب، اشراقات سحر گاھی، تلالؤ انجم، پرتو ماہ و دیگر ازین قبیل مناظر را کہ در وصف آن ھا چیز گفتن و نوشتن قدرت سرشاری میخواھد طوری رسم میکند کہ خوانندہ را استعجابی دست میدھد، استعارات شیرین، تشبیہات بکر، محاورات دلکش کلامش را رشتۂ از در رمتلا لای آبدار میسازد، در نشاط باغ کشمیر مینویسد : خوشا روزگاری، خوشا نوبہاری نجوم پرن رست از مرغزاری زمین از بہاران چو بال تذروی ز فوارہ الماس بار آبشاری نہ پیچد نگہ جز کہ در لالہ و گل نہ غلطد ہوا جز کہ بر سبزہ زاری لب جو خود آرائی غنچہ دیدی؟ چہ زیبا نگاری چہ آئینہ داری نواھای مرغ بلند آشیانی در آمیخت با نغمۂ جویباری تو گوئی کہ یزدان بہشت برین را نہاد است در دامن کوھساری برای کرمک شب تاب میگوید: پہنای شب افروخت واماندہ شعاعی کہ گرہ خورد و شرر شد از سوز حیات است کہ کارش ھمہ زر شد دارای نظر شد پروانۂ بیتاب کہ ھر سو تگ و پو کرد بر شمع چنان سوخت کہ خود را ھمہ او کرد ترک من و تو کرد یا اخترعی ماہ بمبینی بہ کمینی نزدیک تر آمد بہ تماشای زمینی از چرخ برینی اقبال اگرچہ در انصرام کلام جنبۂ ثقالت را نمی آورد باز ھم در اول امر بہ نشیب و فراز تخیل و در چین و شکن ھای موضوعات فلسفہ اش پی بردن دشوار تر مینماید زیرا کہ اختصار و جامعیت کلام او در ھر نکتۂ طوفان حقایق و معارف را بموج در آوردہ، بقول حضرت بیدل: معنی بلند من فہم تند می خواھد سیر فکرم آسان نیست کوھم و کتل دارم اقبال در بساط فلسفہ، تاریخ و الہیات مھرہ ھای شطارت و مہارتش را روی سیاست چیدہ از یکسو درین عالم جدوجہد، درین عرصۂ کون و فساد، درین فراخنای تنازع للبقا، درین میدان تگ و تاز با مردمان سیاسی و شیوا بیانان ھمعصر و فیلسوفان باریک بین دست و گریبان گشتہ و دیگر طرف تودۂ عوام را بسلوک حسن اخلاق و راہ راست اسلام ھدیات میکند۔ اقبال مانند بعضی از شعرا نبود کہ ملت را در زیر تاثیر کلام خود آوردہ و آنہا را سست و مبہوت ساختہ و در نتیجہ عالم حیات و یک جہان زندہ را کہ عبارت از شور و شغف و زد و خورد است، بموت مطلق سکون و حیرت جنون، دل شکستگی و مظلومی جوگیانہ میکشاند بلکہ میخواست مسلک قناعت و توکل را کہ شعرای متصوفۂ شرق در اثر تخیلات ناممکن بملت و قوم تعلیم و آنہا را بورطۂ نکبت و فلاکت کشاندہ اند از رواج انداختہ بجادۂ محرک اعتلا رھنمونی کند، از ھمین جاست کہ سوز سخنانش محافل افسردہ را گرم ساخت و راہ کشاکش سعی و عمل را نشان داد در عروق منجمد اقوام موج حیات شور و اضطرار را جریان داد تا در مصاف زندگی قوت ارادی را بکار در اندازد، چنانچہ ھمین عقیدۂ خود را یکجا در انگلیسی ھم اظھار مینماید: ’’جملۂ انجام جدوجہد آدم تنہا حیات است و بس، تمام علوم و فنون برای حصول ھمین مقصد روی کار آمدہ ازین رو منفعت ھر علم و فن از قوت حیات آفرینش وی تخمین میشود مثلاً اعلی ترین فن ھمانست کہ قوت ارادی جبلی را بما تولید کند، و ما را در کار زار حیات و معرکۂ زندگی برای ( مقابلہ) تاب و توان مردانگی ببخشد برعکس تمام اثرات خواب آور کہ در ( حقیقت ) بہ ما تعلیم گریز میدھد در ذات خود یک پیغام انحطاط و ممات است۔ باید دامن ادبیات از آلایش توھمات بنگ مبرا باشد، اصول ( العلم للعم) اختراع عہد تنزل است کہ در مقصد ما را از جذبۂ عمل و ذوق حیات محروم میسازد۔‘‘ مقتبس مقالۂ اقبال ( از نیو ایرا) داستانہای غم والم کہ از رشحات خامۂ توانای او رقم یافتہ سخن آفرینی را بسحر بیانی مبدل میگرداند، ھر باب و ھر عنوانش تفسیریست از نشان کار نامہ ھای اسلاف و ھر شعروی داغی است از محبت قومی کہ قطرات خونین ازو تراوش یافتہ صفحات تاریخ را مانند سواد نو بہار خرم میسازد۔ اقبال عموماً درحسن و عشق مذاق فلسفہ را با چاشنی تصوف بہم آمیختہ، گاہ در روان قافلہ سالار رومیؒ داخل می شود و گاہ در کنار رکن آباد و مصلی با خواجہ بسیر گلگشت می رود، در بلندی تفکر و نزاکت تخیل کلیم و بیدل را بیاد می آورد، در حسن تخاطب بلبل شیراز را زندہ میسازد، در مدعا مثل روح غنی کشمیری و روان صائب اصفہانی را تکان میدھد۔ پیمانۂ تغزل را مانند خواجہ حافظ و نظیری لبریز اثر میکند علاوہ از محاسن شعری در فلسفہ و تاریخ حیات اقوام و امم وجملہ نکات حکمت و الٰہیات کہ موجب ترقی نوع بشر است با علوم دینیۂ اسلامیہ معلوماتی وسیع و جہان شمولی دارد، مطالعات کتب اروپائی حضرتش را مصور جذبات و حسیات نمودہ، چون در اطراف محاسن اصناف کلام او جیز نویسان شرق و غرب تصانیف زیادی نوشتہ اند بہ تخصیص کہ راجع بہ اشعار فلسفی و تصوف، طرز ادا، نزاکت زبان و سلاست بیان و علو تخیل او چیز گفتن یا نوشتن از قدرت خامۂ نگارندہ برترمی نماید لذا شمۂ ازان احساس و تعلیمی را کہ او در یک جامعہ تولید نمودہ در پیشگاہ ناظرین معارف پرور اھدا مینمائیم۔ اقبال ملت را بہ کاوشہای قلمی خود از نواقص نفاق و بی مروتی کہ مایۂ نکبت و ادبار است آگاہ ساختہ ابواب پند و نصایح را گاہ از زبان طبیعت و گاہ اززبان طیور و گاہ از زبان اجرام فلکی میکشاید چنانچہ حالت نکبت و فلاکت یک جہان ساکن و صامت را از زبان ماہ گیتی فروز با تشبیہات دھشتناکی بہ پیرایۂ ذیل رسم میکند : صرصر او آتش دوزخ نژاد زورق ابلیس را باد مراد آتشی اندر ہوا غلطیدۂ شعلۂ در شعلۂ پیچیدۂ آتشی از دود پیچان تلخ پوش آتشی تندر غو و دریا خروش درکنارش مارھا اندر ستیز مارھا باکفچہ ھای زھر ریز شعلہ اش گیرندہ چون کلب عقور ھولناک و زندہ سوز و مردہ نور ای خدا چشمم کبود و کور بہ ای خدا این خاکدان بی نور بہ اقبال در اول نظر انحطاط عالم اسلام را حس کرد پستی ملت، زبونی قوم، مصائب امت، زوال مفاخر اسلامی و سکوت قائدین طلسم خاموشی اش را درھم شکست۔ طبع خدا داد وی نالہ ھای سینہ سوز و آہ جانکاھش را با حس فصاحت و شور بلاغت در آمیخت (نخست بزبان ھند) و بعد بآھنگ فارس بمشرق رسانید: عشق پامال خرد گشت و جہان دیگر شد بود آیا کہ مرا رخصت آھی بخشند در حقیقت نواھای شعری اقبال تمام عالم اسلام را از نتائج نواقص امتیاز ملت و وطن (یعنی قیود ملی نہایت مکانی ) آگاہ نمودہ، سمند تخیل ایشان بتازیانہ ھای عبرت از حدود رنگ و بوی ظاھر توحید مطلق و ذوق طلب رھسپار جادۂ رفعت و منازل ارتقا اعتلا بگرداند، بنابرین تمنا دارد کہ افراد و اقوام پریشان بہ ملک واحد منسلک گردیدہ برای تمام عالم یک قالب پد یدار آید۔ قلب ما از ھند و روم و شام نیست مرز و بوم او بجز اسلام نیست و این عقیدش را کہ: گردشی باید کہ گردون از ضمیر روزگار دوش من باز آرد اندر کسوت فردای من تنہا در پیروی ام الکتاب دیدہ میگوید: گر تو میخواھی مسلمان زیستن نیست ممکن جز بقرآن زیستن دل بہ سلمی عرب باید سپرد تا دمد صبح حجاز از شام و کرد اندکی از گرمی صحرا بخور بادۂ دیرینہ از خرما بخور اقبال ھر جا ملت را از اعوجاج بی راھیہا آگاہ و ھوشیار میگرداند: ترسم کہ تو میرانی زورق بسراب اندر زادی بحجاب اندر، میری بحجاب اندر چون سرمۂ رازی را از دیدہ فروشستم تقدیر امم دیدم پنہان بکتاب اندر برگشت و خیابان پیچ، بر کوہ و بیابان ھیچ برقی کہ بخود پیچید میرد بسحاب اندر بی درد جہانگیری آن قرب میسر نیست گلشن بگریبان کش ای بو بگلاب اندر اقبال از خدا ھمین آرزو داشت تا کلامش را چنان سوز و تاثیری مرحمت کند کہ ملت مسحور را بیدار ساختہ براہ طلب و جستجو سرگرم عمل نماید تا باغ خزان رسیدۂ اسلام دوبارہ خرم و شاداب گردد: ای کہ زمن فرودۂ گرمی آہ و نالہ را زندہ کن از صدای من خاک ھزار سالہ را غنچۂ دل گرفتہ را از نفسم گرہ گشای تازہ کن از نسیم من داغ درون لالہ را اشک چکیدہ ام بہ بین ھم بنگاہ خود نگر ریز بہ نیستان من برق و شرار این چنین اقبال از عالم اسلام ناامید نیست بل امید وار است از خاکستر گرم اخگر کوچک تری را عالمتاب بیند و چشمانش در ظلمت الیل بر ناصیۃ السما دوختہ تا ضیای اختر اقبال مسلمان بفیوض تعلیمات قدس ردای ظلماتی شب ادبار را تہیہ نمودہ سر از اشراقات عالم نورانی با جمال منور و درخشان بر آورد و عالم انسانیت را از پنجۂ معصیت بار ظلوم و بدبختی و چنگال نکبت پاش سیاہ مستی بر باید : بخوان ازبر صداقت را عدالت را شجاعت را کہ عالم باز می گیرد ز تو کار امامت را جملہ تعلیمات اقبال مملو از آرزو ھاست و ناامیدی را ھر جا ممانعت میکند : در طلب کوش و مدہ دامن امید ز دست دولتی ھست کہ یابی سر راھی گاھی اقبال ھر جا درس خودی میدھد تا قوم بدون امداد و اعانت غیری بہ نیروی سر پنجۂ محنت قرینش در حصول ترقی ممکنات خارجی خود کوشان گردیدہ بی نیازانۂ بمیدان اقبال پا گزارد چنانچہ میگوید : بمنزلی رسد آن ملتی کہ خود نگر است ز خاک خویش طلب آتشی کہ پیدا نیست تجلی دگری در خور تماشا نیست مرید پیر خراباتیان خود بین شو نگاہ او ز عقاب گرسنہ تیز تر است آتش از نالۂ مرغان حرم گیر و بسوز آشیانی کہ نہادی بہ نہال دگران آخراً این مرد بزرگ از سہ یا چہار سال باین طرف بود کہ باختلال صحت جسمانی گرفتار شدہ از عموم کنارہ گیری مینمود و در آخر وھلہ مرحوم بہ مرض ضیق النفس مبتلا گردید و سہ ماہ بود کہ مرض مذکور شدت گرفت بالٓاخرہ بہ صبح پنجشنبہ ۲۱ اپریل (اول ثور) خیلی مرض او وخیم گشتہ، داکتر مرحوم بہ پنج و نیم ساعت صبح داعی اجل را لبیک گفت ( انالللہ و انا الیہ راجعون) اقبال تا دم مرگ از ابراز جذبات خود بزبان توانای شعر، خود داری نکردہ بلکہ دران لحظات دشوار نیز قریحۂ سرشار او برای اظہار احساسات سوز ناکش آمادہ بودہ است چنانچہ دقیقہ قبل از جان سپردن، رباعی ذیل را سرودہ : سرود رفتہ باز آید کہ ناید نسیمی از حجاز آید کہ ناید سر آمد روزگار این فقیری دگر دانای راز آید کہ ناید و سپس در لحظۂ باز پسین این بیت را گفتہ از آن پس بہ تکرار کلمۂ شہادت پرداختہ: نشان مرد مومن با تو گویم چو مرگ آید تبسم بر لب اوست اقبال و افغانستان غلام جیلانی اعظمی از مجلہ کابل سال ۸ شمارہ ۳ جوزا ۱۳۱۷ ھ ش ؍ مئی جون ۱۹۳۸ء ص ۸۳ تا ۸۵ علامہ شہیر داکتر سر محمد اقبال فقید شاعر و فیلسوف معروف ھند، یگانہ آرزومند سعادت اسلام مخصوصاً دوستدار افغانستان بود۔ طوریکہ در نگارش ھمکاران محترم توضیح شد کہ مغفور سر محمد اقبال نہ تنہا مربی و رھنمائی تربیہ وی و اخلاقی و غمخوار منحصر بہ فرد ھند بود بلکہ اقبال دل باختۂ ترقیات و سعادت عموم مسلمین و عالم شرق شمردہ میشد، آری این ادعا را محبت و علاقہ مندی قلبی وی نسبت بہ افغانستان عزیز ما خوب تر ثابت مینماید۔ موقعیکہ افغانستان بتحصیل استقلال خود موفق گردید اقبال خود را غرق یک عالم سرور و افتخارات دیدہ و با یک جہان مسرت و ابتہاج محافل متعدد شادمانی در منزل خود ترتیب میداد و بدوستان خود از موفقیت افغانستان تبریک میگفت و ھر جا افغانی را مصادف میشد چون جان عزیز در برگرفتہ صمیمانہ و احترام کارانہ از وی پذیرائی می نمود۔ کسانیکہ از عواطف ذاتی و احساسات فطری اقبال نسبت بافغانستان واقف نبودند تصور میکردند کہ اقبال بلبلی است کہ از شاخسار گلشن افغانستان پرواز نمودہ و در چمن ھند رحل اقامت افگندہ و این ھمہ تمائل و نیایش او نسبت بافغانستان ناشی از علایق ذاتی و وحدت عرق و خون ملی است۔ آری افکار نفیس و احساسات نجیب اقبال وی را در نظر یک افغان ھم جز افغان جلوہ نمیداد۔ اقبال در آثار قیمت داریکہ بزبان فارسی دارد غالباً از اظہار این عشق و علاقہ مندی نسبت بافغانستان خود داری نتوانستہ، چنانچہ در اثر معروف خود، پیام مشرق، شہامت افغانان را ستایش نمودہ میفرماید: ملتی آوارۂ کوہ و دمن در رگ او خون شیراز موج زن زیرک و روئین تن و روشن جبین چشم او چون جرہ بازان تیز بین کذا موسیقی افغانی را باین طور مینماید: بسی گذشت کہ در انتظار زخمہ و ری است چہ نغمہا کہ نہ خون شد بہ ساز افغانی و در جائی علایق سرشار خود را بسہ ممالک اسلامیۂ شرقی نشاندادہ میفرماید: اگرچہ زادۂ ھندم فروغ چشم من است ز خاک پاک بخارا و کابل و تبریز اقبال از آغاز تحصیل حریت و استقلال کاملۂ افغانستان الٰی دورۂ شورش داخلی آن مسرورانہ حیات بسربردہ و با دیدۂ امید واری باین خاک مینگریست و آثاریکہ درینمدت از فکر رسا و طبع توانای او نشئت کردہ در ھر کدام یا بعضاً از ذکر افغانستان فرو گذاشت نہ نمودہ مثلاً در یک اثر خود موسوم بہ ( جاوید نامہ) این درھای گران بہا را در تحت عناوین مختلف ضمن حکایات و تخیلات عارفانہ نسبت بہ افغانستان و رجل بزرگ آن جا دادہ۔ راجع بہ سید جمال الدین افغانی و سعید حلیم پادشاہ ترک با عالم رؤپا تخیل کردہ و روح پاک آنہا را در فلک عطارد دیدہ حکایت می نماید: من بہ رومی گفتم این صحرا خوشست در کوھستان شورش دریا خوش است من نیابم از حیات این جا نشان از کجا می آید آواز اذان گفت رومی این مقام اولیاست آشنا این خاکدان با خاک ما است بوالبشر چون رخت از فردوس بست یک دو روزی اندرین عالم نشست این فضاھا سوز آھش دیدہ است نالہ ھای صبح گاھش دیدہ است زائران این مقام ارجمند پاک مردان مقامات بلند پاک مردان چون فضیل و بوسعید عارفان مثل جنید و بایزید خیز تا ما را نماز آید بدست یک دو دم سوز و گداز آید بدست رفتم و دیدم دو مرد اندر قیام مقتدی تاتار و افغانی امام پیر رومی ھر زمان اندر حضور ظلمتش برتافت از ذوق و سرور گفت مشرق زین دو کس بہتر نہ زاد ناخن شان عقدہ ھای ما کشاد سید السادات مولانا جمال زندہ از گفتار او سنگ و سفال ترک سالار آن حلیم دردمند فکر او مثل مقام او بلند باچنین مردان دو رکعت طاعت است ورنہ آن کاریکہ مزدش جنت است در اھمیت و موقعیت افغانستان میفرماید: در نہاد ما تب و تاب از دل است خاک را بیداری و تاب از دل است تن ز مرگ دل دگرگون می شود در مساماتش عرق خون می شود از فساد دل بدن ھیچ است و ھیچ دیدہ بر دل بند و جز بر دل مپیچ آسیا یک پیکر آب وگل است ملت افغان دران پیکر دل است از فساد او فساد آسیا در گشاد او گشاد آسیا تا دل آزادست آزاد است تن ورنہ کاھی در رہ باد است تن ھمچو تن پابند آئین است دل مردہ از کین زندہ از دین است دل موقعیکہ افغانستان در سال ۱۳۰۷ دچار نفاق داخلی و گرفتار شورش خانگی گردید، اقبال با پر و بال شکستہ در زاویۂ آشیانۂ خویش باحال پر از حزن و ملال بسر میبرد و بہ مصیبت افغانستان اشک حسرت می بارید در طول آنمدت بدبختی ھر افغانیکہ اقبال در ھند ملاقات کردہ ویرا جز بحال حزن و غمگین و ریختن سیلاب اشک نہ دیدہ۔ اقبال در ھمین موقع با عزم متین مصروف تہیۂ اعانہ برای افغانستان بودہ و یک جم غفیری از وطن داران خود را برای اعطای آن مستعد ساختہ بود ولی در عین حال کہ خبر استلای اشرار بوی رسید اقبال با تأسف دست از کار کشید۔ پس از غایلۂ مصیبت افغانستان و نجات آن بدست حق پرست اعلیحضرت شھریار شہید، اقبال نشاط تازۂ پیدا کردہ و دوبار بچمن کامرانی پر و بال کشود، نظر باینکہ تحصیل استقلال وطن و بالٓاخرہ نجات آن از اختلافات و خونریزی ھای داخلی بعزم مردانہ و شمشیر دلاورانۂ اعلیحضرت محمد نادر شاہ شہید صورت گرفتہ بود اقبال مزید بعقیدت و اردات مندی کہ بشخصیت بلند آن پادشاہ مغفور داشت در ابراز این دو خدمت بزرگ بیشتر والہ و مفتون ذات ھمایون شان گردیدہ و ھموارہ بہ تمجید و ستایش آن شہریار بزرگ صمیمانہ مترنم بود۔ اقبال با ھمان نظر محبت و علاقہ مندی کہ بہ پادشاہ و ملت افغانستان مینگریست خواست کہ عواطف و احساسات سرشار وعلاقہ مندی خود را متضمن چند بیت اشعار نماید، چنانچہ در سال ۱۳۱۲ این ابیات را با یک قطعہ فوتوی خود بمجلۂ کابل فرستاد و آن قطرات قیمتدار کہ جوھر عواطف و احساسات نفیس علاقہ مندی و محبت سر شار اوست و بصورت حروف از نوک قلم بصفحۂ کاغذ چکیدہ، این است : صبا بگوی بافغان کوھسار از من بمنزلی رسد آن ملتیکہ خود نگر است مرید پیر خراباتیان خود بین باش نگاہ او ز عقاب گرسنہ تیز تر است ضمیر تست کہ نقش زمانۂ تو کشد نہ حرکتِ فلک است این نہ گردش قمر است دگر بہ سلسلۂ کوھسار خود بنگر کہ تو کلیمی و صبح تجلی دگر است بیا بیا کہ بہ دامان نادر آویزیم کہ مرد پاک نہاد است و صاحب نظر است کذا عقاید صمیمانۂ خود را نسبت بہ شخصیت بزرگ شھریار شہید در اثر معروف خود جاوید نامہ چنین تصویر می نماید: نادر آن سرمایۂ درانیان آن نظام ملت افغانیان از غم دین و وطن زار و زبون لشکرش ازکوھسار آمد برون ھم سپاھی ھم سپہ گر ھم امیر بہ اعدا فولاد و بایاران حریر من فدای او کہ خود را دیدہ است عصر حاضر را نکو سنجیدہ است اقبال کہ قلب او در شورش خانمان بر انداز سال ۱۳۰۷ افغانستان خیلی خستہ و متأثر شدہ بود، پس از رفع آن بدبختی خواست تا یک بار سعادت ما بعد افغانستان را بچشم خود دیدہ و بزیارت نجات بخشندۂ آن شھریار شہید مشرف شود لہذا این عشق و آرزو از چندی بود کہ در کانون دماغ اقبال روشن شدہ و بدوستان و ارادت مندان افغانی خود ھر وقت اظہار می نمود، حکومت ما کہ از ارادۂ مسافرت اقبال ملتفت شد مقدم او را گرامی داشتتہ بہ آمدن افغانستان دعوتش فرمود۔ آن مرحوم بلا درنگ بکمال میل قلبی با دو نفر فضلای نامور ھندی رفقای خود علامۂ سید سلیمان ندوی و فاضل مغفور سر راس مسعود از طریق پشاور و جلال آباد وارد کابل گردید بااینکہ از نخستین ورود بخاک افغانی الٰی ایام توقف و باز عودت بوطن از طرف حکومت و مقامات عالیہ بطور مجلل و شانداری پذیرائی و برای فراھم آوردن خورسندی و خوشی خاطر او از ھیچ گونہ لوازم مہمان دوستی مضائقہ نمی گردید ولی چیزیکہ قلباً و روحاً اقبال را مسرور و مبتہج میگردانید دیدار پادشاہ افغانستان اعلیحضرت شہید و ملاقات برادران افغانی او و زیارت رجال بزرگ افغانستان و مزارھای واقع درین مملکت بودہ از قبیل مزار اعلیحضرت سلطان محمود غزنوی، حضرت حکیم سنائی، اعلیحضرت احمد شاہ کبیر وغیرہ۔ موقعیکہ اقبال مرحوم ازھند وارد کابل شد و بنوبۂ خود انجمن ادبی دعوتی بافتخار وی ترتیب دادہ و در آن دعوت رجال بزرگ و فضلای مہم مرکز شمولیت داشتند و خیر مقدمی از طرف انجمن بحضورش قرائت گردید، اقبال عواطف و احساسات نفیسی را از خود ابراز دادہ و در حضور آن مجمع نطق غرائی ایراد نمود، حقیقۃً جدیت الفاظ و صراحت کلام صاف و صمیمانۂ اقبال در آنشب سامعین را والہ و شیدای بیانات خالی از ریای او نمودہ، مھر و محبت اقبال را در دل ھر افغانیکہ در آن مجمع حاضر بود، عمیقانہ جاگزین گردانید۔ اقبال ضمن آن بیانات حکیمانہ فرمود کہ تمنا داردبوسیلہ شعر روح جدی را بمعاصرین خود بدمد تا آنہا رفتہ رفتہ خود را شناختہ صحت روحانی خود را درک و قابلیتی بہم رساندہ و بگویند: دو دوستہ تیغم و گردون برھنہ ساخت مرا فسان کشید و بر وی زمانہ آخت مرا من آنجہان خیالم کہ فطرت ازلی جہان بلبل و گل را شکست و ساخت مرا نفس بسینہ گدازم کہ طائر حرمم توان ز گرمی آواز من شناخت مرا شکست کشتی ادراک مرشدان کہن خوشا کسی کہ بدریا سفینہ ساخت مرا و ھم در جملہ آن بیانات فرمود کہ ’’اگر شما نجات افغانستان را از من بپرسید خواھم گفت کہ افغانستان محتاج بہ مردیست کہ با تمام موجودیت خود این مملکت را از حیات قبیلہ وی اخراج و بہ حیات وحدت ملی آشنا نماید ولی مسرورم ازینکہ افغانستان مردی را بدست آوردہ کہ از دیر باز انتظار او را میکشند، من یقین دارم کہ دست قدرت، اعلیحضرت نادر شاہ را برای آن آفرید کہ افغانستان را یک ملت جدیدی ساختہ بدنیا معرفی نماید۔‘‘ اقبال مرحوم بعد عودت بہ ھند رسالۂ بعنوان ’’مسافر‘‘ ترتیب دادہ و روی دست داشت و در ھمین موقع شہادت شہریار شہید سعید و جلوس ھمایون اعلیحضرت المتوکل علی اﷲ اتفاق افتاد لذا اقبال در ھمین اثر خود عواطف خلوصیت مندانہ را بحضور شہریاری باین ترتیب شرح می دھد: ای قبای پادشاھی بر تو راست سایۂ تو خاک ما را کیمیاست خسروی را از وجود تو عیار سطوت تو ملک و دولت را حصار از تو ای سرمایۂ ملک و ظفر تخت احمد شاہ را شان دگر سینہ ھا بی مہر تو ویرانہ بہ از دل و از آرزو بیگانہ بہ آبگون تیغی کہ داری در کمر نیم شب از تاب او گردد سحر نیک می دانم کہ تیغ نادر است من چہ گویم باطن او ظاھر است درین مثنوی مرحوم اقبال آمال و آرزو ھای خود را نسبت بہ افغانستان بہ حضور ملوکانہ شرح دادہ و در آخر می گوید: ای فروغ دیدۂ برنا و پیر سِرِّکار از ھاشم و محمود گیر ھم ازان مردیکہ اندر کوہ و دشت حق تیغ او بلند آوازہ گشت منتخبات اشعار اقبال از مجلہ کابل سال ۸ شمارہ ۳ جوزا ۱۳۱۷ ھ ش؍ مئی جون ۱۹۳۸ء ص ۸۶ تا ۹۱ منتخباتی است از آثار منظوم حضرت اقبال کہ از وی آن ذوق شعری و افکار فلسفی و سائر جذبات آن مرحوم فہمیدہ می شود۔ انتخاب از ’’سرور گویا‘‘ در وصف خود گوید: تا مرا رمز حیات آموختند آتشی در پیکرم افروختند یک نوائی سینہ تاب آوردہ ام عشق را عہد شباب آوردہ ام پیر مغرب شاعر المانوی(۱) آن قتیل شیوہ ھای پہلوی بست نقش شاھدان شوخ و شنگ داد مشرق را سلامی از فرنگ در جوابش گفتہ ام پیغام شرق ماہ تابی ریختم بر شام شرق تا شناسای خودم خود بین نیم با تو گویم او کہ بود و من کیم ٭٭٭ ۱۔ اشارہ بہ ’’پیام غرب‘‘ اثرِ گوئتی، شاعر آلمانی او ز افرنگی جوانان مثل برق شعلۂ من از دم پیران شرق او چمن زادی چمن پروردۂ من دمیدم از زمین مردۂ او چو بلبل در چمن ’’فردوس گوش‘‘ من بصحرا چون جرس گرم خروش ھر دو دانای ضمیر کائنات ھر دو پیغام حیات اندر ممات ھر دوخنجر صبح خند، آئینہ فام او برھنہ من ھنوز اندر نیام ھر دو گوھر، ارجمند و تاب دار زادۂ دریای ناپیدا کنار او ز شوخی در تہ قلزم تپید تا گریبان صدف را بر درید من بہ آغوش صدف تابم ھنوز در ضمیر بحر نایابم ھنوز آشنای من ز من بیگانہ رفت از خمستانم تہی پیمانہ رفت من شکوہ خسروی او را دھم تخت کسریٰ زیر پای او نہم او حدیث دلبری خواھد ز من رنگ و آب شاعری خواھد ز من کم نظر بیتابی جانم ندید آشکارم دید و پنہانم ندید فطرت من عشق را در بر گرفت صحبت خاشاک و آتش در گرفت حق رموز ملک و دین بر من کشود نقش غیر از پردۂ چشمم ربود برگ گل رنگین ز مضمون من است مصرع من قطرۂ خون من است تا نپنداری سخن دیوانگیست درکمال این جنون فرزانگیست از ھنر سرمایہ دارم کردہ اند در دیار ھند خوارم کردہ اند لالہ و گل از نوایم بی نصیب طائرم در گلستان خود غریب بسکہ گردون سفلہ و دون پرور است وای بر مردی کہ صاحب جوھر است زندگی جہد است و استحقاق نیست جز بہ علم انفس و آفاق نیست گفت حکمت را خدا خیر کثیر ھر کجا این خیر را بینی بگیر سید کل، صاحب ام الکتاب پردگیہا بر ضمیرش بیحجاب تصویریست کہ در سال ۱۳۱۲ حین مسافرت دوستانۂ فضلای ھندی در کابل گرفتہ شدہ۔ از چپ بہ راست : مرحوم داکتر اقبال۔ جناب سید سلیمان ندوی۔ مرحوم سر راس مسعود۔ تصویر متأسفانہ در این اواخر دو تن ازین بزرگان علم و ادب کہ عبارت از راس مسعود و اقبال باشد یکی بعد از دیگری وفات یافتہ اند۔ گرچہ عین ذات را بی پردہ دید رب زدنی از زبان او چکید علم اشیا علم الاسماستی ھم عصا و ھم ید بیضا ستی جان ما را لذت احساس نیست خاک رہ جز ریزۂ الماس نیست علم و دولت نظم کار ملت است علم و دولت اعتبار ملت است آن یکی ازسینۂ احرار گیر وان دگر ازسینۂ کہسار گیر دشنہ زن پیکر این کائنات در شکم دارد گھر چون سومنات لعل ناب اندر بدخشان تو ھست برق سینا در قہستان تو ھست ٭ گذشتی تیز گام ای اختر صبح مگر از خواب ما بیزار رفتی من از نا آگہی گم کردہ راھم تو بیدار آمدی بیدار رفتی ٭ شنیدم در عدم پروانہ می گفت دمی از زندگی تاب و تبم بخش پریشان کن سحر خاکسترم را و لیکن سوز و ساز یک شبم بخش ٭ نہ افغانیم و نی ترک و تتاریم چمن زادیم و از یک شاخساریم تمیز رنگ و بو بر ما حرام است کہ ما پروردۂ یک نو بہاریم ٭ زندگی شبی زار نالید ابر بہار کہ این زندگی گریۂ پیہم است درخشید برق سبک سیر و گفت خطا کردہ ای خندۂ یکدم است ندانم بہ گلشن کہ برد این خبر؟ سخنہا میان گل و شبنم است حکمت و شعر بوعلی اندر غبار ناقہ گم دست رومی پردۂ محمل گرفت این فروتر رفت و تا گوھر رسید آن بگردابی چو خس منزل گرفت حق اگر سوزی ندارد حکمت است شعر می گردد چو سوز از دل گرفت ٭ دعا یارب درون سینہ دل باخبر بدہ در بادہ نشہ را نگرم آن نظر بدہ این بندہ را کہ با نفس دیگران نزیست یک آہ خانہ زاد مثال سحر بدہ سیلم، مرا بجوی تنک مایۂ میپچ جولانگہی بوادی وکوہ کمر بدہ سازی اگر حریف یم بیکران مرا با اضطراب موج سکون گھر بدہ شاھین من بصید پلنگان گذاشتی ھمت بلند و چنگل ازین تیز تر بدہ رفتم کہ طائران حرم را کنم شکار تیری کہ نافگندہ فتدکارگر بدہ خاکم بہ نور نغمۂ داؤد برفروز ھر ذرۂ مرا پر و بال شرر بدہ ٭ چند بہ روی خود کشی پردۂ صبح و شام را؟ چھرہ گشا تمام کن جلوۂ ناتمام را سوز و گداز حالتی است، بادہ زمن طلب کنی پیش تو گر بیان کنم مستی این مقام را من بسرود زندگی آتش او فزودہ ام تو نم شبنمی بدہ لالۂ تشنہ کام را عقل ورق ورق بگشت عشق بہ نکتہ ای رسید طائر زیرکی برد دانۂ زیر دام را نغمہ کجا و من کجا ساز سخن بہانہ ایست سوی قطار می کشم ناقۂ بی زمام را وقت برھنہ گفتن است من بہ کنایہ گفتہ ام خود تو بگو کجا برم ھم نفسان خام را؟ ٭ خطاب بر ملل شرق پس چہ باید کرد ای اقوام شرق؟ آدمیّت زار نالید از فرنگ زندگی ہنگامہ برچید از فرنگ پس چہ باید کرد ای اقوام شرق؟ باز روشن می شود ایّام شرق در ضمیرش انقلاب آمد پدید شب گذشت و آفتاب آمد پدید یورپ از شمشیر خود بسمل فتاد زیر گردون رسم لادینی نہاد گرگی اندر پوستین برہ ای ھر زمان اندر کمین برہ ای مشکلات حضرت انسان ازوست آدمیّت را غم پنہان ازوست در نگاھش آدمی آب و گل است کاروان زندگی بی منزل است ھر چہ می بینی ز انوار حق است حکمت اشیا ز اسرار حق است ھر کہ آیات خدا بیند، حُر است اصل این حکمت ز حُکمِ اُنظر است بندۂ مومن ازو بھروزتر ھم بہ حال دیگران دلسوزتر علم چون روشن کند آب و گلش از خدا ترسندہ تر گردد دلش علم اشیا خاک ما را کیمیاست آہ! در افرنگ تأثیرش جداست عقل و فکرش بی عیار خوب و زشت چشم او بی نم، دل او سنگ و خشت علم ازو رسواست اندر شھر و دشت جبرئیل از صحبتش ابلیس گشت دانش افرنگیان تیغی بدوش در ھلاک نوع انسان سخت کوش با خسان اندر جھان خیر و شر در نسازد مستی علم و ھنر آہ از افرنگ و از آئین او آہ از اندیشۂ لادین او علم حق را ساحری آموختند ساحری نی کافری آموختند ھر طرف صد فتنہ می آرد نفیر تیغ را از پنجۂ رھزن بگیر ایکہ جان را باز می دانی ز تن سحر این تہذیب لادینی شکن روح شرق اندر تنش باید دمید تا بگردد قفل معنی را کلید عقل اندر حکم دل یزدانی است چون ز دل آزاد شد شیطانی است زندگانی ھر زمان در کشمکش عبرت آموز است احوال حبش شرع یورپ بی نزاع قیل و قال برہ را کرد است بر گرگان حلال نقش نو اندر جھان باید نھاد از کفن دزدان چہ امید گشاد؟! در جنیوا چیست غیر از مکر و فن؟ صید تو این میش و آن نخچیر من! نکتہ ھا کو می نگنجد در سخن یک جہان آشوب و یک گیتی فتن ای اسیر رنگ، پاک از رنگ شو مؤمن خود، کافر افرنگ شو رشتۂ سود و زیان در دست تست آبروی خاوران در دست تست این کہن اقوام را شیرازہ بند رایت صدق و صفا را کن بلند اھل حق را زندگی از قوت است قوت ھر ملت از جمعیت است رای بی قوت ھمہ مکر و فسون قوت بی رای جہل است و جنون سوز و ساز و درد و داغ از آسیاست ھم شراب و ھم ایاغ از آسیاست عشق را ما دلبری آموختیم شیوۂ آدم گری آموختیم ھم ھنر، ھم دین ز خاک خاور است رشک گردون خاک پاک خاور است وانمودیم آنچہ بود اندر حجاب آفتاب از ما و ما از آفتاب ھر صدف را گوھر از نیسان ماست شوکت ھر بحر از طوفان ماست روح خود در سوز بلبل دیدہ ایم خون آدم در رگ گل دیدہ ایم فکر ما جویای اسرار وجود زد نخستین زخمہ بر تار وجود داشتیم اندر میان سینہ داغ بر سر راھی نھادیم این چراغ ای امین دولت تہذیب و دین آن ید بیضا برآر از آستین خیز و از کار امم بگشا گرہ نشۂ افرنگ را از سر بنہ نقشی از جمعیت خاور فکن وا ستان خود را ز دست اھرمن دانی از افرنگ و از کار فرنگ تا کجا در قید زنّار فرنگ زخم ازو، نشتر ازو، سوزن ازو ما و جوی خون و امیّد رفو خود بدانی پادشاھی، قاھری است قاھری در عصر ما سوداگری است تختۂ دکان شریک تخت و تاج از تجارت نفع و از شاھی خراج آن جہانبانی کہ ھم سوداگر است بر زبانش خیر و اندر دل شر است گر تو می دانی حسابش را درست از حریرش نرم تر کرباس تست بی نیاز از کارگاہ او گزر در زمستان پوستین او مخر کشتن بی حرب و ضرب آئین اوست مرگہا در گردش ماشین اوست بوریای خود بہ قالینش مدہ بیدق خود را بہ فرزینش مدہ گوھرش تف دار و در لعلش رگ است مشک این سوداگر از ناف سگ است رھزنِ چشم تو خواب مخملش رھزن تو رنگ و آب مخملش صد گرہ افکندہ ای در کار خویش از قماش او مکن دستار خویش ھوشمندی از خم او می نخورد ھر کہ خورد اندر ھمین میخانہ مُرد وقت سودا خندخند و کم خروش ما چو طفلانیم و او شکر فروش محرم از قلب و نگاہ مشتری است یارب این سحر است یا سوداگری است تاجران رنگ و بو بردند سود ما خریداران ھمہ کور و کبود آنچہ از خاک تو رست ای مرد حر آن فروش و آن بپوش و آن بخور آن نکوبینان کہ خود را دیدہ اند خود گلیم خویش را بافیدہ اند ای ز کار عصر حاضر بیخبر چرب دستیہای یورپ را نگر قالی از ابریشم تو ساختند باز او را پیش تو انداختند چشم تو از ظاھرش افسون خورد رنگ و آب او تو را از جا برد وای آن دریا کہ موجش کم تپید گوھر خود را ز غواصان خرید تصویر منظرۂ عمومی مجلس ترحیم و یاد بودی کہ بمناسبت وفات علامہ داکتر اقبال پنجشنبہ ۸ ثور از طرف وزارت معارف و انجمن ادبی در سالون مقابل وزارت انعقاد یافتہ بود، بر پشت میز خطابہ جناب سرور خان گویا مشغول ایراد خطابہ می باشند: نادر افغان شہ درویش خو رحمت حق بر روان پاک او کار ملّت محکم از تدبیر او حافظ دین مبین شمشیر او چون ابوذر خود گداز اندر نماز ضربتش ھنگام کین خارا گداز عہد صدیقؓ از جمالش تازہ شد عہدِ فاروقؓ از جلالش تازہ شد از غم دین در دلش چون لالہ داغ در شب خاور وجود او چراغ در نگاھش مستی ارباب ذوق جوھر جانش سراپا جذب و شوق خسروی شمشیر و درویشی نگہ ھر دو گوھر از محیط لاالہ فقر و شاھی واردات مصطفٰیؐ است این تجلّیہای ذات مصطفیٰؐ است این دو قوت از وجود مؤمن است این قیام و آن سجود مؤمن است فقرِ، سوز و درد و داغ و آرزوست فقر را در خون تپیدن آبروست۔ فقر نادر آخر اندر خون تپید آفرین بر فقر آن مردِ شہید ای صبا ای رہ نورد تیزگام در طواف مرقدش نرمک خرام شاہ در خواب است پا آھستہ نہ غنچہ را آھستہ تر بگشا گرہ از حضور او مرا فرمان رسید آنکہ جان تازہ در خاکم دمید ’سوختیم از گرمی آوازِ تو ای خوش آن قومی کہ داند رازِ تو از غم تو ملّتِ ماآشناست می شناسیم این نواھا از کجاست ای بہ آغوش سحاب ما چو برق روشن و تابندہ از نور تو شرق یک زمان در کوھسار ما درخش عشق را باز آن تب و تابی ببخش تا کجا در بندھا باشی اسیر تو کلیمی راہ سینائی بگیر طی نمودم باغ و راغ و دشت و در چون صبا بگذشتم از کوہ و کمر خیبر از مردان حق بیگانہ نیست در دل او صد ھزار افسانہ ایست جادہ کم دیدم ازو پیچیدہ تر یاوہ گردد در خم و پیچش نظر سبزہ در دامان کہسارش مجوی از ضمیرش بر نیاید رنگ و بوی مجلس یاد و بود علامہ اقبال در مصر و علاقہ مندی انجمن ادبی بہ آن از مجلہ کابل شمارہ ۱۲، ۱۳۱۷ ھ ش حوت فروری، مارچ ۱۹۳۹ء چندی قبل ھندی ھای مقیم مصر مجلس یاد بودی بہ تذکار حضرت داکتر اقبال، شاعر و فیلسوف معروف ھند ( کہ در مرور سال جاری وفات یافتہ است) در قاھرہ ترتیب و دران تمام ممالک شرقی و اسلامی را کہ بہ آن فقید بزرگ علاقہ مندی داشتند دعوت نمودہ بودند۔ انجمن ادبی ھم نظر بہ محبت و علاقۂ کہ علامہ اقبال در حیات خود بہ افغانستان داشتہ و در آثار خود ھموارہ از آن یاد کردہ، پیام ذیل را بہ نامِ کمیتۂ منعقدین مجلس مذکور ذریعۂ تلگراف مخابرہ کردہ است : ’’انجمن ادبی افغانستان بمناسبت سالگرۂ یاد و بود شاعر و فیلسوف عالیمقام عالم شرق حضرت داکتر اقبال مرحوم بروح آن فقید بزرگ کہ عشق اسلامیت و شرقیت او بہمگان معلوم است، تحیات خالصانہ فرستادہ، ضمناً حیات جوانان ھندی مقیم مصر را کہ بیاد و بود آن متفکر بزرگ شرق مجلس تذکار برپا و جذبات اسلامیت و شرقیت را دران زندہ کردہ اند، تقدیر مینماید۔‘‘ خودی در نظر اقبال از مجلہ کابل سال ۹ شمارہ ۷ میزان ۱۳۱۸ ھ ش/ ستمبر، اکتوبر ۱۹۳۹ء امروز درعالم اسلام از شخصیت بزرگ علامہ داکتر اقبال مرحوم ھیچ کسیکہ باادبیات علاقۂ داشتہ باشد، بیخبر نخواھد بود۔ علامۂ موصوف بالقاب شاعر بزرگ ایشیا و شاعر اسلام شھرت یافتہ است۔ علامہ قلب نہایت رقیق و دماغ خیلی دور رس و نکتہ سنجی را دارا بودہ کہ برای یک شاعر فلسفی لزوم دارد۔ وی با ملت افغانیان میل و محبت مخصوصی داشت، این است کہ جمعی از صاحبان ذوق وقریحۂ وطن با طرز مخصوص ادب او دلچسپی زیادی دارند۔ بنا بر این مقالہ ھذا را کہ روح شاعری اقبال گفتہ می شود و بہ قلم یکی از فضلای بارز ھند، داکتر سید عابد حسین نوشتہ شدہ است ترجمہ و اقتباس نمودم۔ یقین دارم قرائت مقالۂ ھذا کہ افادۂ مطالب ذیل را می نماید: مقام شعر و شاعری درحیات امروزی، علت انحطاط اسلام، مسئلہ وحدۃ الوجود، بنیاد فلسفۂ حیات اقبال، خودی، بیخودی، ضبط نفس، و۔۔۔ و۔۔۔‘‘ جہت قارئین کرام ما باعث دلچسپی خواھد شد۔ قیام الدین ’’خادم‘‘ ٭٭٭ گر شما خصوصیت بارز شاعری اقبال را معرض سوال قرار دادہ، بپرسید حتما بہ شما جواب خواھند گفت کہ اقبال شاعر فلسفی و اشعار او کاملاً فلسفیانہ است۔ این تعریف در وھلۂ اول شما را بہ این تصور می کشاند کہ آیا فلسفہ شعر می شود؟ چہ فلسفہ تعبیر جامد و بیروح حقیقت، و شعر ادراکات زندہ و آبدار زندگی است کہ اعصا ب را تحریک و روح را حساستر و لطیفتر می گرداند۔ فلسفی صورت کائنات را ذھناً ادراک و این ادراکات خود را در ضمن تصورات مجرد بیان می نماید، کہ بر لوحۂ دل نقش می گردد۔ بالعکس شاعر جنبش نبض کائنات و حرکت قلب حیات را حس کردہ احساسات خود را بواسطۂ نقوش و نغمہ ھای متحرک در اعماق دلہای ما داخل و بادوران خون ما یکجا می نماید: حق اگر سوزی ندارد حکمت است شعر می گردد چو سوز از دل گرفت اینکہ میگویند شعراقبال شعر فلسفی است، چہ معنی دارد، آیا شعر اقبال مثل نظریات حکمت از سوز و گداز زندگی خالی است ؟۔ کسانیکہ با شعر اقبال سروکاری دارند، آنہا میدانند کہ شعر اقبال ترجمۂ حیات و چشمۂ زندگیست کہ مزرعۂ آمال را سر سبز میگرداند۔ وقتیکہ لفظ فلسفہ برای شعر مستعمل شود، در آنوقت یک صنعت فلسفہ یعنی ’’کلیت و ھمہ گیری موضوع‘‘ مد نظر میباشد۔ کلام اقبال را باین لحاظ فلسفیانہ میگویند کہ وی تصور کلی زندگی را معرض بحث قرار میدھد، موضوع شعرش نصب العین جامع حیات قوم و ملت است کہ ما آنرا فلسفۂ تمدن میگوئیم۔ ورنہ اگر بلحاظ طرز ادا دیدہ شود شعر اقبال ازان سوز و گداز و رنگ و آھنگ لبریز است کہ روح شاعری ایشیا بحساب میرود۔ ممکن است بعضیہا تصور نمایند کہ اقبال در نالہ ھای خود طبقۂ خاص یعنی مسلمانہا را کہ حجم دائرۂ آن در مقابل انسانیت خیلی محدود و تنگ است مورد خطاب قرار دادہ و شعرای غزلگوی ایران و ھندوستان بلحاظ وسعت نظر نسبت بہ اقبال پیشقدم بنظر می آیند، چہ آنہا جذبات و کیفیات عموم انسانیت را کشیدہ اند، ولی اگر بنظر دقت دیدہ شود باید اعتراف نمود کہ محض جذبات و کیفیات نگاری چیزی و تعبیر تصور مکمل زندگی چیز دیگر میباشد۔ جذبات در تمام انسانہا یکسان است لکن نصب العین در تمام انسانہا بیک صورت نمی باشد۔ اگرچہ در ھر عصر و ھر زمان بعض افراد بودہ و ھستند کہ تصور یک تمدن عالمگیر انسانی را در مخیلۂ خود میپرورانند، لیکن این خیال فقط تصور مجرد و بصورت فلسفہ بودہ است۔ این تصور تاکنون در دل ھیچ کدامی چنین یک تعلق زندۂ پیدا نکردہ است کہ لازم شعر بندی برین موضوع بودہ باشد۔ تاحال ھر شاعر بنا بر میلان طبیعت خواستہ است عکس انسانیت را در آئینہ کدام ملت یا قوم مخصوص ببیند۔ حالا در ذھن ما این سوال پیدا میشود کہ کدام یک از تصور قوم و ملت وسعت زیادی دارد؟ اگر لفظ قوم را باصطلاح مغربیہا بر جماعت و گروھی اطلاق نمائیم کہ در بین آنہا قدر مشترک تنہا نسل و وطن باشد، و لفظ ملت را باصطلاح و محاورۂ اقبال بر جماعت و گروھی اطلاق کنیم کہ موجبات وحدت آنہا نصب العین روحانی و اخلاقی بودہ باشد۔ البتہ این یک تسلیم خواھد شد کہ تصور ملت نسبت بقوم وسیعتر و بسرحد انسانیت قریبتر است، زیرا در دنیا فرق نسل و وطن ھمیشہ موجود بود و خواھد بود۔ و اگر این خیال زیادہ اھمیت دادہ شود اتحاد نوع انسانی محال میگردد۔ ولی فقط بہ واسطہ یک نصب العین اخلاقی و روحانی میتوان نوع انسانی را بیک مرکز واحدی جمع نمودہ محل تصور و امکان قرار داد۔ اولاً باید دید نصب العین کہ اقبال میپروراند، چہ و چگونہ است ؟ و آیا میشود نصب العین وی ر ا در دایرۂ محدودی خیال کرد؟ جہت اینکہ ما بتوانیم شاعری اقبال و نصب العین زندگی او را بخوبی بفہمیم لازم است کہ این نقش را با منظر تاریخی آن محل تدقیق قرار دھیم ؛ درآنوقتیکہ افق ھند معرض تابش آن ھلال نو گردید کہ متعاقباً بر فلک شعر و ادب ماہ کامل گشتہ اشعار تابندۂ خود را درانحوالی منتشر نمود، دران وقت مشرق و خصوصاً عالم اسلام را تاریکی حزن و یاس فرا گرفتہ و مخصوصاً حالت مسلمین ھند بواسطۂ نادانی و اسارت خیلی موجب رقت بود، درانوقت حرارت و جوش زندگی در قلوب عامہ خاموش و بھر طرف کہ نظر انداختہ می شد جز خاکستر سرد یأس و حرمان چیزی بنظر نمی آمد ؛ ھیبت فاتحین و صولت تمدن مغربی بر دلہای مسلمانان ھند استیلاء کردہ و آنہا میخواستند از مقابل این قوت مخوف فرار کنند۔ ولی این قوت مخوف مانند مقناطیس آنہا را طرف خود جذب مینمود۔ در عین ھمین حالت یکنفر مسلمان خود دار و باھمت یعنی سید احمد مرحوم کہ او یقین داشت در تہ این کمزوری سطحی یک قوت فولادی مضمر است، مسلمانان را بتماس تمدن مغرب ترغیب کرد۔ این تماس در وھلۂ اول برای آنہا صدمات و مشکلاتی فراھم کرد۔ مگر در نتیجہ شرارہ ھائی ازان سرزد کہ در دلہای مسلمانان ھند آتش غیرت و حمیت برافروخت۔ درین حالت اگر تدبیر و سیاست را یک طرف گذاشتہ و فقط از جنبۂ شعر و ادب ملاحظہ فرمائید دو شخصیت ممتاز در نظر شما نمودار میشود کہ یکی حالی و دوم اکبراست۔ اول الذکر بلہجۂ سوز و گداز داستان عروج و زوال ملت اسلام را سرائیدہ یاد عظمت و اقبال گذشتہ را تازہ گردانید و عرق حمیت آنہا را تحریک کرد۔ مؤخر الذکر مسلمانہا را در پیرایۂ ظرافت از اسارت ذھنی اغیار آگاہ گردانید و احترام مذھب و تمدن شانرا دوبارہ در نظر آنہا قائم نمود۔ حالی جدت پسند بود، برخرابیہای تہذیب قدیم تنقیدات محکمی مینمود و طرف خوبیہای تہذیب جدید رھنمائی میکرد۔ اکبر قدامت پسند بودہ بر تمام چیزھای تہذیب جدید میخندید، و تہذیب قدیم را تعریف مینمود۔ مگر ھر دوی آنہا توانستد حس عزت قومی را در مسلمانہا بیدار و حوصلۂ اعتماد بخود را در آنہا پیدا نمودہ و آنہا در ظلمت یأس طرف روشنی امید ھدایت کند۔ با این ھم دو شاعر بزرگ فوق نتوانستند بعمق نظریات اسلاف خود پی ببرند۔ آنہا مرض قوم مریض خود را تشخیص نمودند، لیکن سبب و علت مرض را دریافت کردہ نتوانستند۔ اکبر سبب تنزل اسلام را طوری گمان کرد کہ مسلمین از مرکز یعنی مذھب خود منحرف گشتہ اند، و حالی تصور نمود کہ آنہا اجتہاد فکر و وسعت نظر را گذاشتہ مقلد و تنگ نظر گردیدہ اند، لیکن یکی ازین دو ھم باینطرف پی نبردندکہ آنہا از مرکزشان چرا منحرف شدہ، و چرا مقلد و تنگ خیال گردیدند؟ برای دریافت این علل و عوامل کہ اسباب تأخیر مسلمین گردیدہ است، نظر فلسفیانہ اقبال ضرورت بود۔ ممکن است مؤرخ گوید کہ دولت و حکومت مسلمانہا را کاھل و عیش پرست گردانیدہ و این کاھلی و عیش پرستی باعث شد تا آنہا را تدریجاً از فعالیت و حرکت باز داشتہ دچار سستی و جمود نماید، لیکن اقبال چون باوجود تاریخ دانی بفلسفۂ تمدن و فلسفۂ نفس نیز آشنا بود این توصیہ را کافی ندانستہ و او معتقد بود یک ملت باعزمیکہ عظمت و اقتدار خود را بر لوح خاطر عالم ثبت کردہ مادامیکہ از زھر تعیش و کاھلی روحانی مسموم شدہ باشد ھرگز باین حالت نمیرسد کہ قوای ذھنی و عملی خود را از دست بدھد۔ این عامل روحانی کہ از دیگران بمسلمین سرایت کردہ بعقیدۂ اقبال عبارت از عقیدۂ ’’وحدت الوجود‘‘ میباشد بنابرین عقیدہ وجود نفس انفرادی باطل و احساس تکلیف فرد و اخلاق فردی رفع قرار دادہ شدہ است۔ این عقیدہ بنیاد مذھب و اخلاق را متزلزل نمودہ ذوق سعی و عمل را محو گردانیدہ است۔ تفصیل این اجمال را از زبان خود اقبال بشنوید: ’’در تحقیق و تدقیق مسئلہ انا در بین تاریخ ذھنی مسلمانہا و ھندوھا یک مماثلت عجیبی موجود است۔ از ھمان نقطۂ نظریکہ سری شنکر گیتا را تفسیر نمودہ است۔ عین این طریق را شیخ محی الدین عربی اندلسی در تفسیر قرآن شریف اتخاذ نمودہ کہ بر دل و دماغ مسلمانہا اثر عمیق وارد نمودہ است۔ علم و فضل و شخصیت عظیم شیخ اکبر مسئلہ وحدۃ الوجود را کہ او مفسر پرجوش آن بحساب میرود، عنصر لاینفک تخیل اسلامی قرار داد۔ اوحد الدین کرمانی و فخر الدین عراقی از شیخ اکبر نہایت درجہ متأثر گردیدہ و رفتہ رفتہ تمام شعرای قرن ۱۴ عجم در زیر اثر ھمین فکر و خیال در آمدند۔ قوم نازک خیال و لطیف الطبع ایران این مشقت طویل دماغی را کہ جہت رسیدن از نقطہ جز بسرحد کل تحمل آن ضروری بود تاب نیاوردہ این فواصل بعیدہ را طی نمود، و در ’’رگ چراغ‘‘، ’’خون آفتاب‘‘، ’’شرار سنگ‘‘ و ’’جلوۂ طور‘‘ مشاھدہ نمودند‘‘ ’’خلاصہ اینکہ حکمای ھند در مسئلۂ وحدۃ الوجود دماغ خود ھا را مخاطب نمودند۔ مگر شعرای ایران در تفسیر این مسئلہ طریقۂ را اختیار کردند کہ از کردہ پر خطر است یعنی آنہا قلب را آماجگاہ ساختند، و از نکتہ آفرینی ھای حسین و جمیل خود ھا تمام قوم اسلام را از ذوق عمل محروم نمودند‘‘ مقصد مسئلۃ وحدۃ الوجود کہ در بالا بہ آن اشارہ شدہ است کہ وجود حقیقی عبارت از ذات صانع است و مخلوق، کہ عالم طبیعی و انسان در آن داخل است داری وجود اعتباری و موسوم و درحقیقت یک پرتو نور ایزدی است۔ و ما بسبب کوتاہ نظری خود این اصنام خیالی را حقیقی تصور کردہ و ھمین پردہ ھای تعیینات ما را از معرفت ذات محروم گردانیدہ است۔ احساس وحدت در حد ذات خود کیفیتی است از حالات قلب کہ در اوقات مخصوصہ بروز میکند و اگر زمان بخواھد این کیفیت را در قید بیان آرد غیر از الفاظ در دسترس خود چیزی نمی یابد۔ ولی شاعر این الفاظ را گرفتہ پرواز مینماید، و در لباس خوشنما و رنگین پیچاندہ بقدری دلکش و دلفریب میسازد کہ دل و دماغ شنوندہ را مسحور مینماید، این است تصوفیکہ شیخ علی حزین راجع بہ آن گفتہ است: ’’برای شعر گفتن خوب است‘‘ اگر این قیل و قال محض برای تفریح میبود چندان باکی نداشت۔ ولی متأسفانہ اقوامیکہ بمرض تن پروری گرفتار شدہ از تکالیف و مشکلات زندگی متوحش و ھراسان میشوند و برای خالی کردن شانہ از بار این تکالیف حیلہ و بہانہ میجویند، آنہا این قسم شاعری متصوفانہ را فلسفۂ حیات خود ھا قرار میدھند۔ موھوم بودن کائنات، بی حقیقت بودن نفس انسانی، ھمچنین بی ثباتی حیات بی حاصل بودن سعی و عمل، تمام اینہا خیالاتیست کہ در نغمہ ھای دلفریب کہ در سابق باعث صبر و سکون وکیف و سرور میگردید، حال موجب یأس و قنوت حزن و ملال میشود، این خیالات قوم را یکدفعہ از یاد درآورد دوبارہ نمیگذارد کہ برخیزد۔ این بود ماجرائیکہ بر عالم اسلام گذشت و بنابر ھمین در بین آنہا بی مرکزی، بی اصولی و بیعملی پیدا شد۔ این بود یک علت بزرگ امراض انفرادی و اجتماعی عالم اسلام کہ آنرا حکیم ملت اقبال دریافت نمودہ و برای ازالہ آن قوت خداداد مسیحائی اش را صرف کرد۔ این عقیدہ را کہ نزد اقبال وجہ حقیقی زوال ملت اسلام است ’’بنام نفی خودی‘‘ مینامد و میخواھد بنظریۂ ’’اثبات خودی‘‘ آنرا رد نماید۔ لفظ خودی یا انانیت در فارسی بمعنی کبر و غرور مستعمل است مگر اقبال آنرا بطوریک اصطلاح فلسفیانہ برای این احساس و عقیدہ استعمال کردہ است کہ نفس فرد یا انا اگر چہ مخلوق و ھستی فانی است اما وجود علیحدہ دارد کہ سبب عمل پایدار و لازوال میگردد، چنانچہ در دیباچۂ اسرار خودی میفرماید: ’’این لفظ درین نظم بمعنی غرور استعمال نشدہ است طوریکہ عموماً در اردو و فارسی باین معنی مستعمل است، مفھوم این لفظ محض احساس نفس یاتعیین ذات میباشد۔ ھمین تصور خودی بنیاد فلسفۂ حیات و کائنات اقبال میباشد۔ میگویند کہ فلسفہ از ابہام و حیرت آغاز میشود درینجا سوالیکہ اقبال را در حیرت انداختہ این است کہ در این وحدت وجدانی یا نقطۂ روشن و این چیز پر اسرار کہ شیراز بندکیفات غیر محدود فطرت انسانی است، این خودی یا انا، یا من کہ از روی عمل خود ظاھر و از روی حقیقت خویش پنہان است، چیست؟ آیا این حقیقت لازوال است یااینکہ زندگی محض بطور عارضی جہت حصول اغراض عملی خویش خود را درین فریب تخیل با دروغ مصلحت آمیز نمایان کردہ است۔ از نقطۂ اخلاق شناختن طرز عمل افراد و اقوام منوط و منحصر بدادن جواب این سوال است، اینست کہ علما و حکمای تمام اقوام عالم جہت پیدا کردن این جواب بر طبق مذاق و طبیعت خود ھا سعی و کوشش نمودہ اند چنانچہ اقوام فلسفی مزاج مشرق انایا شخصیت انسانی را محض فریب تخیل می پندارند و از گردن انداختن این بار گران را یگانہ وسیلۂ نجات می شناسند با لعکس مذاق عملی اقوام مغرب آنہا را بہ نتائج کہ خاطر خواہ و متقاضی فطرت آنہا بود سوق نمود۔۔۔تحریک اسلامی در ایشیای غربی یگانہ پیغام عمل بودہ کہ این تحریک انا را ھستی مخلوقی می پندارد کہ بواسطۂ عمل لازوال و پایدار میگردد۔ من این مسئلۂ دقیق را از پیچیدگیہای دلائل فلسفی آزاد نمودہ کوشش نمودہ ام تا برنگ تخیل رنگین گردد، و در معرفت و شناخت این حقیقت آسانی پیدا گردد۔‘‘ بیائید ببینید خیالیکہ اقبال اینجا بطور مجمل در نثر بیان کردہ است، تفصیل آن ازفیض طبع این سخنور باکمال، جامۂ شعر پوشیدہ چہ قدر دلنشین و دل آویز، روح پرور و روح افزا، جان بخش و جان نواز گردیدہ است۔ اصل کائنات بعقیدہ اقبال وجود بسیطی است کہ قوتہا را شعور و ارادہ درآن مضمر میباشد۔ برای اینکہ این قوتہا را در معرض فعل بیاورد، نفس خود را در خود و غیر خود یا باصطلاح فلسفہ بموضوع و معروض منقسم نمود۔ علت غائی غیر خود این است کہ جہت مشاھدۂ خودی کار آئینہ، و برای ارتقای خودی کار معمول را بدھد۔ خودی جہت تکمیل و استحکام خویش با غیر خود تصادم مینماید و بذریعۂ این تصادم قوتہای مکنونہ انسانی نشوونما یافتہ و متدرجا مراتب ترقی خود را طی می نماید۔ ھستی خودی حرکت دایم و عمل پیہم و کشمکش و کار زار است۔ بہمان اندازہ کہ یک چیز در خودی خود مستحکم و بر غیر خود غالب باشد بہمان اندازہ قیمت او در مدارج حیات متعین میگردد: پیکر ھستی ز اسرار خودی است ھر چہ می بینی ز اسرار خودی است خویشتن را چون خودی بیدار کرد آشکارا عالم پندار کرد صد جہان پوشیدہ اندر ذات او غیر او پیداست از اثبات او سازد از خود پیکر اغیار را تا فزاید لذت پیکار را چون حیات عالم از روز خودی است پس بقدر استواری زندگی است چون زمین بر ھستی خود محکم است ماہ پابند طواف پیہم است ھستی مھر از زمین محکم تر است پس زمین مسحور چشم خاور است حلقۂ آخرین این سلسلہ ارتقأ انسان است: خودی کیاہے راز درون حیات خودی کیا ہے بیداری کائنات ازل اس کے پیچھے ابد سامنے نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے زمانے کے دھارے میں بہتی ہوئی ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر ہوئی خاک آدم میں صورت پذیر خودی کا نشمین ترے دل میں ہے فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے ترجمہ: خودی چیست؟ راز درون حیات و بیداری کائنات است، کہ ازل در عقبش و ابد پیشروی اوست، نہ بطرف عقب خود حد دارد و نہ بجانب مقابل خود۔ در جریان زمان جاری بودہ ھجوم امواج دریای بیکران زمانرا پذیرفتہ و از روز ازل درین کشمکش اسیر بودہ، آخر در خاک آدم صورت پذیر گشت۔ محل خودی در دل تو است۔ مثلیکہ فلک در مردمک چشم تو جا دارد۔ ٭٭٭ انسان باعتبار مدارج در کائنات ازینجہت نسبت بہمہ برتر است کہ در ذات او، برای (خودی) قابلیت و استعداد شعور نفس، و شعور مقصد خود حاصل گشتہ و ھمین شعور او را از تمام اشیای دیگر ممتاز مینماید۔ او نیز مثلِ دیگر مخلوقات مخلوق است ؛ اما ھستی او ھستی اعتباری نہ بلکہ حقیقی است۔ بمقابل او وجود عالم فطرت اضافی محض و پابند ادراک و مشاھدۂ حضرت انسان است : این جہان چیست؟صنم خانۂ پندارمن است جلوۂ اوگرودیدۂ بیدار من است ھمہ آفاق کہ گیرم بنگاھی او را حلقۂ ھست کہ ازگردش پرکارمن است ھستی و نیستی ازدیدن ونادیدن من چہ زمان وچہ مکان شوخی افکار من است ٭٭٭ جہان را فربہی از دیدن ما نہانش رستہ از نادیدن ما جہان غیر از تجلی ھای ما نیست کہ بی ما جلوۂ نور و صدانیست جہان رنگ و بو گلدستۂ ما ز ما آزاد و ھم وابستۂ ما خودی او را بیک تارنگہ بست زمین و آسمان و مھر و مہ بست ٭٭٭ وجود خودی یا انا بنا بعقیدۂ دیکارت بدیہی است چرا کہ او بلا واسطہ بنفس خود شعور دارد، در حالیکہ ھستی غیر خود یعنی عالم فطرت محتاج دلیل است۔ اگر انسان راجع بوجود خود شک داشتہ باشد این شک بذات خود دلیل است برینکہ درینجا ذاتیکہ شک میکند موجود است: اگر گوئی کہ من وھم گمان است نمودش چون نمود این و آن است بگو با من کہ دارای گمان کیست یکی در خود نگر آن بی گمان کیست جہان پیدا و محتاج دلیلی نمی آید بفکر جبرئیلی خودی پنہان ز حجت بی نیاز است یکی اندیش و دریاب این چہ راز است خودی را حق بدان باطل مپندار خودی را کشت بیحاصل مپندار ٭٭٭ احساس خودی نقطۂ آغاز زندگی انسانی است و برای پیمودن مراتب کمال زندگی تقویت روح خودی لازم میباشد۔ چنانچہ سابقا شرح دادیم بنیان خودی وقتی مستحکم و پایدار میشود کہ انسان با غیر خود یعنی با ماحول خود متصادم گردد، و برای تأمین مقاصد جدیدہ کہ وقتا فوقتاً در جلو اعمال انسانی عرض اندام میکند مصروف عمل و دربحبوحۂ این گیرو دار بر ماحول خود غلبہ جستہ رفع مشکلات و بندش ھا را وجہۂ ھمت قرار دھد۔ و باین واسطہ قوای ذھنی و عملی خود را پی در پی تیز نمودہ ترقی میدھد، روز بروز آتش خودی در سینہ اش مشتعل تر شدہ میرود۔ زندگانی را بقا از مدعاست کاروانش را درا از مدعا ست زندگی در جستجو پوشیدہ است اصل او در آرزو پوشیدہ است از تمنا رقص دل در سینہ ھا سینہ ھا از تاب او آئینہ ھا ما ز تخلیق مقاصد زندہ ایم این سوز آرزو طالب خودی را آرام نمیگذارد، در حصول یک مقصد برای حصول یک مقصد بلند تر کوشش می نماید۔ و باینصورت در راہ طلب جلو تر میرود۔ و زندگانی عبارت است از ھمین بیقراری و ناآرامی، وسعی پیہم و جہد مسلسل، سکون ولو کہ سکون بہشت ھم بودہ باشد جہت نفس انسانی پیام مرگ است: چہ کنم کہ فطرت من بمقام در نسازد دل ناصبور دارم چو صبا بہ لالہ زاری چو نظر قرار گیرد بہ نگار خوبروئی تپد آن زمان دل من پی خوبتر نگاری ز شرر ستارہ جویم ز ستارہ آفتابی سر منزلی ندارم کہ بمیرم از قراری چو ز بادۂ بہاری قدحی کشیدہ خیزم غزلی دگر سرایم بہ ھوای نوبہاری دل عاشقان بمیرد بہ بہشت جاودانی نہ نوای درمندی نہ غمی نہ غمگساری ٭٭٭ منازل ترقی بہ تسخیر این عالم زمان و مکان ختم میگردد۔ چشم تخیل شاعر برای جدوجہد انسان، ماورای این، میدانہای نو و تازہ می بیند: خودی کی یہ ہے منزل اولیں مسافر! یہ تیرا نشمین نہیں تری آگ اس خاکداں سے نہیں جہان تجھ سے ہے تو جہان سے نہیں بڑھے جا یہ کوہ گراں توڑ کر طلسم زمان و مکاں توڑ کر جہاں اور بھی ہے ابھی بے نمود کہ خالی نہیں ہے ضمیر وجود ہو اک منتظر تیری یلغار کا تری شوخیِ فکر و کردار کا ترجمہ: این کہ تو دران بودہ ای، منزل اولین خودی است،ای مسافر ! این مکان نشیمن و مسکن تو نیست، آتش تو ازین خاکدان نیست جہان از تو است و تو از جہان نیستی۔ پیش برو این کوہ گران و طلسم زمان و مکان را بشکن، جہان و عالم دیگر نیز وجود دارد کہ ضمیر ھستی از ان خالی نیست و آن عالم بہ ھجوم شوخی فکر و عمل تو انتظار دارد تا مفتوح تو گردد۔ قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں تو شاھیں ہے پرواز ہے کام تیرا ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں ترجمہ:باین عالم رنگ و بو قناعت مکن زیرا چمن و آشیان دیگری نیز ھست، تو شاھین ھستی کار تو پرواز است، پیشروی تو دیگر آسمانہا نیز وجود دارد، تو نباید در قید این روز و شب پابند شوی زیرا کہ برای تو زمان و مکان دیگر نیز ھست۔ ٭٭٭ در مورد پیمودن این طریق بہ رھنما کہ آن عبارت از عشق است ضرورت می افتد۔ مرد کامل آنرا میگویند کہ مدارج معرفت نفس را طی نمودہ بمعراج خودی رسیدہ باشد۔ نام دوم محبت تقلید است۔ لیکن درینجا معنی عشق و یا تقلید این نیست کہ عاشق خود را در ذات معشوق و یا مقلد، حیات خود را در حیات مرشد محو نماید یا ازین دو منبع قوت مستعار روحانی را اخذ نمودہ تقویت مصنوعی حاصل نماید، بلکہ مقصود این است کہ وی ازین شخصیت عالی راز تکامل خود را آموختہ بقوتہای خود نشوونما بخشد۔ و باین واسطہ اساس شخصیت و خودی خود را محکم و استوار نماید : نقطۂ نوری کہ نام او خودی است زیر خاک ما شرار زندگی است ازمحبت میشود پائندہ تر زندہ تر، سوزندہ تر، تابندہ تر کیمیا پیدا کن از مشت گلی بوسہ زن بر آستان کاملی کیفیت ھا خیزد از صہبای عشق ھست ھم تقلید از اسمای عشق عاشقی محکم شو از تقلید یار تا کمند تو شود یزدان شکار عشق باشخاص خام از خود فراموشی و از خود رفتگی نشان میدھد، در حالیکہ بہ پختہ کار ھا خود داری را می آموزد۔ بھر دل عشق رنگ تازہ بر کرد گہی با سنگ و گہ با شیشہ سر کرد ترا از خود ربود و چشم تر داد مرا باخویشتن نزدیکتر کرد ٭٭٭ محبت نصب العین غیر فانی خودی انسان فانی را تکمیل کردہ پایدار مینماید : تند و سبکسیر ہے گرچہ زمانے کی رو عشق خود ایک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام ترجمہ: اگرچہ رفتار زمانہ تند و تیز است، ولی عشق بذات خود سیلابی است کہ سیلاب دیگر را سد میگردد۔ در تقویم عشق سوای عصر روان دیگر اینچنین زمانہ ھا نیز میباشد کہ ھیچ نام ندارد۔ ٭٭٭ جہت حصول ھدایت پیشروی مرد کامل سر نیاز خم کردن خود را مستحکم مینماید ولی بخاطر مال و دولت جاہ و منصب دست نگر ارباب اقتدار بودن خودی را ضعیف و کمزور می سازد۔ فقر و استغنا از مقدمترین و مہمترین شرائط خودی است: ای فراھم کردہ از شیران خراج گشتۂ روبہ مزاج از احتیاج از سوال افلاس گردد خوار تر از گدائی گدیہ گر نادار تر از سوال آشفتہ اجزای خودی بی تجلی نخل سینای خودی وای بر منت پذیر خوان غیر گردنش خم گشتہ از احسان غیر ای خنک آن مرد کاندر آفتاب می نخواھد از خضر یک جام آب چون حباب از غیرت مردانہ باش ھم ببحر اندر نگون پیمانہ باش سوال و گدائی تنہا این نیست کہ مفلس از خانہ دولتمند خواست نماید بلکہ ھر طریقۂ کہ انسان دران بذات خود تکلیف را برداشت ننمودہ از محنت دیگران استفادہ نماید، بعقیدۂ اقبال ھمہ اینگونہ طریقہای حصول دولت در گدائی داخل است۔ در بین گدائی و فقر زمین و آسمان فرق است گدائی احتیاج مال دنیا و جانب دیگران دست دراز کردن است اما فقر از لذایذ مادی بی نیاز شدن و قوت ھای کائنات را تسخیر کردن بر نوامیس فطرت حکمرانی و قیام امن و امان را در دنیا اعلام نمودن و مظلومانرا از پنجۂ ظالمان نجات دادن است۔ چیست فقر ای بندگان آب و گل؟ یک نگاہ راہ بین، یک زندہ دل فقر خیبر گیر با نان شعیر بستۂ فتراک او سلطان و امیر فقر بر کر و بیان شبخون زند بر نوامیس جہان شبخون زند با سلاطین بر فتد مرد فقیر از شکوہ بوریا لرزد سریر از جنون می افکند ہوئی بشھر وا رھاند خلق را از جبر و قھر بر نیفتد ملتی اندر نبرد تا درو باقیست یک درویش مرد آبروی ما ز استغنای اوست سوز ما از شوق بی پروای اوست ٭٭٭ اک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچیری اک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہانگیری اک فقر ہے قوموں میں مسکینی و دلگیری اک سے مٹی میںخاصیت اکسیری ترجمہ: یکنوع فقر بصیاد وضع نخچیری می آموزد۔و از یکنوع فقر دیگر، اسرار جہانگیری کشف میگردد،از یک قسم فقر در اقوام مسکینی و دلگیری، و از یک قسم دیگر در خاک خاصیت اکسیر پیدا میشود۔ چڑھتی ہے جب فقر کی سان پہ تیغ خودی ایک سپاہی کی ضرب کرتی ہے کار سپاہ ترجمہ: وقتیکہ تیغ خودی بہ سنگ فقر تیزگردد در آنوقت ضرب یک سپاھی کار لشکر را انجام میدھد۔ ٭٭٭ کمال ترک نہیں آب و گل سے مہجوری کمال ترک ہے تسخیر خاکی و نوری میں ایسی فقر سے اے اہل حلقہ باز آیا تمہارا فقر ہے بے دولتی و رنجوری ترجمہ: کمال ترک و دستبردار شدن، بیزاری از آب و گل نیست، بلکہ کمال ترک تسخیر عالم خاک و نور است۔ ای یاران مجلس، من ازین قسم فقر کہ شما دارید بیزار ھستم، زیرا کہ فقر شما معنی بی دولتی و رنجوری دارد۔ ٭٭٭ وقتیکہ خودی از عشق و محبت و فقر و استغنا مستحکم گردد، درآنوقت تمام قوتہای کائنات در قبضہ و تصرف انسان می آید: از محبت چون خودی محکم شود قوتش فرماندہِ عالم شود پنجۂ او پنجۂ حق می شود ماہ از انگشت او شق می شود ٭٭٭ قلندران کہ بہ تسخیر آب و گل کوشند ز شاہ باج ستانند و خرقہ می پوشند بہ خلوت اند و کمندی بہ مھر و مہ پیچند بہ خلوت اند و زمان و مکان در آغوش اند ٭٭٭ قوت لا محدود خودی وظیفۂ تعمیر و تخریب را اجرا میکند۔ برای اینکہ از خودی کار تعمیر گرفتہ شود، باید خودی را توسعہ داد و آنرا تادیب و تربیت نمود ( مثال خودی بی قید و بی تربیت شیطان است کہ راجع بآن نظریۂ اقبال خیلی دلچسپ است۔ اقبال نیز مانند (گوئتی) شیطان را قوت بدی نی، بلکہ قوہ عظیم الشان خودی و تخلیق می پندارد، کہ از راہ مستقیم محبت و اطاعت گمراہ گردیدہ است) اولین مرتبۂ تأدیب و تہذیب خودی اطاعت است یعنی پابندی بآن قانون حیات کہ خالق کائنات برای مخلوق مقرر کردہ است: ھر کہ تسخیر مہ و پروین کند خویش را زنجیریِ آئین کند باد را زندان گل خوشبو کند قید بو را نافۂ آھو کند می زند اختر سوی منزل قدم پیش آئینی سر تسلیم خم سبزہ بر دین نمو روئیدہ است پایمال از ترک آن گردیدہ است لالہ پیہم سوختن قانون او رقص پیرا در رگ او خون او قطرہ ھا دریاست از آئین وصل ذرہ ھا صحراست از آئین وصل باطن ھر شی ز آئینی قوی تو چرا غافل ازین سامان روی باز ای آزاد دستور قدیم زینت پاکن ھمان زنجیر سیم شکوہ سنج سختی آئین مشو از حدود زندگی بیرون مشو ٭٭٭ درجہ دوم خودی ضبط نفس است و آن اینکہ انسان قوای سرکش و خود سر را در تحت تصرف و اقتدار خود آوردہ، خصوصاً بر جذبات محبت نفسانی و خوف کہ نسبت بدیگر قوای خیلی قوی است، غلبہ نماید : نفس تو مثل شتر خود پرور است خود پرست و خود سوار و خود سر است مرد شو آور زمام او بکف تا شوی گوھر اگر باشی خزف طرح تعمیر تو از گل ریختند با محبت خوف را آمیختند خوف دنیا، خوف عقبیٰ، خوف جان خوف آلام زمین و آسمان حب مال و دولت و حب وطن حب خویش و اقربا و حب زن تا عصای لاالہ داری بدست ھر طلسم خوف را خواھی شکست ھر کہ در اقلیم لا آباد شد فارغ از بند زن و اولاد شد بعد از گذشتن این دو مدارج انسان بآن درجہ و مرتبہ میرسد کہ اوج کمال انسانیت شمردہ میشود۔ و آن درجۂ نیابت الہی است و حاصل نمودن این مرتبہ بلند ترین نصب العین خودی بحساب میرود، کہ در تلاش آن انسان از ھزار ھا سال باینطرف سرگرم سعی بودہ و میباشد ؛ نائب حق در جہان بودن خوش است برعناصرحکمران بودن خوش است نائب حق ھمچو جان عالم است ھستی او ظل اسم اعظم است از رموز جز وکل آگہ بود در جہان قائم بامراﷲ بود ٭٭٭ ای سوار اشہب دوران بیا ای فروغ دیدۂ امکان بیا رونق ھنگامۂ ایجاد شو در سواد دیدۂ آباد شو نوع انسان مزرع و تو حاصلی کاروان زندگی را منزلی سجدہ ھای طفلک و برنا و پیر ازجبین شرمسار ما بگیر ٭٭٭ کبھی ای حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں ترجمہ: ای حقیقتیکہ بتو انتظار میشود ! وقتی بلباس مجاز ظاھر شو، زیرا کہ ھزارھا سجدہ در جبین نیازمن بآمدن تو بیقرار است۔ خاکی و نوری نہاد بندۂ مولا صفات ہر دو جہان سے غنی اس کا دل بے نیاز اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل اس کی ادا دلفریب اس کی نگہ دلنواز نرم دمِ گفتگو گرم دم جستجو رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاکباز نقطۂ پرکار حق مرد خدا کو یقین ورنہ یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز عقل کی منزل ہے وہ، عشق کا حاصل ہے وہ حلقۂ آفاق میں گرمی محفل ہے وہ ترجمہ: بندہ ای کہ بصفات مولی متصف بودہ باشد خاکی است اما نوری صفات، کہ دل بی نیاز او از ھر دو جہان مستغنی است۔ امیدھای او کم اما مقاصدش نہایت بلند است ادای او دلفریب و نگاہ او دلنواز است۔ لہجۂ گفتگویش نرم اما در جستجو خیلی گرم و تند۔ در ھر دو حالت رزم و بزم پاکدل و پاکباز میباشد۔ یقین مرد خدا نقطۂ پرکار حق است ورنہ این عالم تمام وھم و طلسم و مجاز است۔ منزل عقل اوست و حاصل عشق او، در حلقہ دھر وجود او موجب گرمی محفل است۔ در سطور بالا خلاصۂ آن قانون انسانی کہ پابندی بآن موجب تکمیل خودی است بیان گردید۔ این قانون قانون علاقہ بین فرد و ملت است کہ اقبال آنرا بیخودی میگوید۔ شعرای ایران، افغانستان و ھندوستان از قدیم الایام ذات الہی را بہ دریا و نفس انسانی را بہ قطرہ تشبیہ داد ہ آمدہ اند۔ اقبال از تمثیل قطرہ و دریا تعلق فرد و ملت را ظاھرمی نماید لیکن فرد اقبال از اتصالِ قطرہ بہ دریا، ھستیِ قطرہ فنا نمیگردد، بلکہ بیش از پیش قوت و استحکام را حاصل نمودہ دائرۂ مقاصد بلندش توسعہ یافتہ و قوای او منظم و منضبط میشود و خودیش پایدار و لازوال میگردد: فرد تا اندر جماعت گم شود قطرۂ وسعت طلب قلزم شود فرد تنہا از مقاصد غافل است قوتش آشفتگی را مائل است قوم با ضبط آشنا گرداندش نرم رو مثل صبا گرداندش چون اسیر حلقۂ آئین شود آھوی رم خوی او مسکین شود ٭٭٭ فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں ترجمہ: وجود فرد بملت قائم است و بہ تنہائی ھیچ نیست۔مثل موجیکہ در دریا وجود دارد و تنہا ھیچ نمیباشد ٭٭٭ تا اینجا از کلام اقبال جستہ جستہ مباحث عالمگیر و عالم شمول تصور خودی را منتخب نمودہ در معرض مطالعۂ شما گذاشتیم۔ درین شکی نیست کہ فلسفۂ اقبال مملو ازروح اسلامیت، و فی حد ذاتہ مخاطب او مسلمان است۔ اما مثل یک شاعر حقیقی بدرد ھمہ متألم بودہ، دائرہ محبت او وسیع و پیام ھای حکیمانۂ وی بعموم بشریت است۔ او بہ پیروان تمام مذاھب و ملل خودی و حفظ روایات مخصوص ملی خویش را تعلیم می دھد۔ تاکہ آنہا بتوانند بیک نصب العین صحیح زندگی مواصلت ورزیدہ و بآن قریب تر گردند: من نگویم از بتان بیزار شو کافری شایستۂ زنار شو ای امانتدار از تہذیب کہن پشت پا بر ملت آبا مزن گر ز جمعیت حیات ملت است کفر ھم سرمایۂ جمعیت است تو کہ ھم در کافری کامل نہ ای لائق طرف حریم دل نہ ای ماندہ ایم از جادۂ تسلیم دور تو ز آذر، من ز ابراھیم دور قیس ما سودایی محمل نشد در جنون عاشقی کامل نشد ٭٭٭ از شعر و کلام اقبال اشعار زیادی استخراج میشود دال براینکہ مخاطب او ملت مخصوص نبودہ بلکہ وی در گفتہ ھای خود ھمہ نوع انسانی را بدون امیتاز مذھب و ملت مورد خطاب قرار دادہ است۔ برای ثبوت این دعوی جملۂ چند از کلام خود اقبال کہ در دیباچۂ پیام مشرق صراحۃ نوشتہ است اقتباس مینمائیم: ’’اگرچہ ما نمیتوانیم اندازۂ اضطراب باطنی اقوام عالم را بنا بر جہتی کہ ما خود ازین اضطراب متأثریم بطور صحیح تشخیص کردہ اندازۂ نمائیم معذالک می توان گفت کہ این اضطراب مقدمۂ یک اضطراب عظیم روحانی و تمدنی میباشد۔ جنگ عظیم یورپ بذات خود یک قیامتی بودہ، چہ جنگ مذکور تقریباً نظام دنیای قدیم را بکلی فنا کرد، و از خاکستر تہذیب و تمدن در اعماق زندگی یک انسان نو، و جہت بود و باش آن دنیای جدیدی را تعمیر مینماید۔ مشرق و علی الخصوص مشرق اسلامی بعد از صدھا سال از خواب غفلت بیدار گردیدہ است۔ اما اقوام مشرق باید ملتفت گردند کہ زندگی بذات خود نمیتواند انقلابی را در اطراف خود بر انگیزد، مگر وقتیکہ وجودش ابتداء در ضمیر انسان ھا متشکل نگردد۔ این قانون لایتغیر فطرت کہ قرآن پاک در الفاظ سادہ و بلیغ ( ان اﷲ لا یغیر بقوم حتی یغیروا ما بانفسہم) بیان کردہ است، حاوی ھر دو پہلوی زندگی فردی و اجتماعی است و من در کلام فارسی خود کوشش کردہ ام تا صدق این قضیہ را ثبت نمایم۔‘‘ ’’در عصر حاضر در دنیا و خصوصاً در ممالک مشرق ھر آن کوششیکہ مقصد آن، نگاہ اقوام و افراد را از حدود جغرافیائی بالاتر نمودن و تجدید یا تولید سیرت صحیح انسانی باشد۔ قابل احترام است۔‘‘ شما از سطور بالا دریافتید کہ نصب العین اقبال نگاہ اقوام و افراد را از حدود جغرافیائی بلند نمودن و تجدید یا تولید سیرت صحیح و قوی انسانی است۔ این نصب العین را اقبال در تصانیف خود مدنظر داشتہ خواستہ است آنرا بمشرق و مغرب ابلاغ نماید۔ ٭٭٭ چنانچہ پیشتر اظہار داشتہ ایم تصوریک انسانیت عالم شمول از نقطۂ نگاہ نظریات فلسفی ممکن است و مادامیکہ خواستہ شود این تصور در یک نصب العین زندہ مدنظر قرار گیرد، در آنوقت آدم وسیع النظر ھم باین مجبور است کہ بدواً این تصویر انسانیت را در آئینہ کدام ملت خاصی نگاہ کند۔ برای اقبال ملت بیضای اسلام کار این آئینہ را میدھد۔ در نظر اقبال تکمیل حقیقی خودی و ربط حقیقی فرد باملت بذریعۂ اسلام ممکن است۔ زیرا کہ در اسلام رشتۂ اتحاد فرد و ملت تصور محدود نسل و وطن قرار نگرفتہ بلکہ بعقیدۂ وسیع توحید و رسالت میباشد : با وطن وابستہ تقدیر امم بر نسب بنیاد تعمیر وطن اصل ملت در وطن دیدن کہ چہ باد و آب وگل پرستیدن کہ چہ ملت ما را اساس دیگر است این اساس اندر دل ما مضمر است مدعای ما مآل ما یکیست طرز و انداز خیال ما یکیست لاالہ سرمایۂ اسرار ما رشتہ اش شیرازۂ افکار ما ملت بیضا تن و جان لاالہ ساز ما را پردہ گردان لاالہ ٭٭٭ از رسالت در جہان تکوین ما از رسالت دین ما آئین ما از رسالت صد ھزار ما یک است جزوِ ما از جزوِ ما لاینفک است از میان بحر او خیزیم ما مثل موج از ھم نمیریزیم ما دین فطرت از نبی آموختیم در رہ حق مشعلی افروختیم این گھر از بحر بی پایان اوست اینکہ یک جانیم از احسان اوست قوم را سرمایۂ قوت ازو حفظ سرِّ وحدت ملت ازو ٭٭٭ برای فرد آزادی حقیقی فقط در ملت اسلام حاصل شدہ زیرا ھمین ملت حریت، مساوات و اخوت را در معنی حقیقی آن بنوع انسان نشان دادہ است عقیدۂ توحید امتیاز نسل و نسب را از میانہ برداشت۔ غریب ھا را از تسلط امراء و زیر دست ھا را از سلطۂ زبردست ھا آزاد نمود، عدل و انصاف را حاکم و انسان ھا را برشتۂ اسلام برادر ھمدگر گردانید: ملتی از ماسوا بیگانۂ بر چراغ مصطفی پروانۂ نا شکیب از امتیازات آمدہ در نہاد او مساوات آمدہ پیش قرآن بندہ و مولا یکی است بوریا و مسند دیبا یکی است عشق را آرام جان حریت است ناقہ اش را ساربان حریت است موسی و فرعون و شبیر و یزید این دو قوت از حیات آمد پدید زندہ حق از قوت شبیری است باطل آخر داغ حسرت میری است ماسوی اﷲ را مسلمان بندہ نیست پیش فرعونی سرش افگندہ نیست کل مؤمن اخوۃ اندر دلش حریت سرمایۂ آب و گلش ٭٭٭ یکی از شرائط اھم خودی اینست کہ نفس از قیود زمان و مکان آزاد گردد۔ و این مطلب فقط در آغوش ملت اسلام حاصل میگردد کہ از حدود زمان و مکان بالا تر است زیرا کہ احساس او بر تخیل مادی نسل و وطن نی بلکہ بر عقیدہ روحانی توحید و رسالت مبنی است، نسل فنا میگردد، رشتۂ وطن از ھم گسیختہ میتواند مگر رشتۂ کلمۂ توحید غیر فانی و لازوال است۔ جوھر ما با مقامی بستہ نیست بادۂ تندش بجامی بستہ نیست عقدۂ قومیت مسلم گشود از وطن آقای ما ھجرت نمود حکمتش یک ملت گیتی نورد بر اساس کلمہ ای تعمیر کرد ھر کہ از قید جہات آزاد شد چون فلک در شش جہت آباد شد ٭٭٭ امت مسلم ز آیات خداست اصلش از ھنگامۂ قالوابلی است تا خدا ان یطفؤ فرمودہ است از فسردن این چراغ افسردہ است رومیان را گرم بازاری نماند آن جہانگیری جہانداری نماند شیشۂ ساسانیان در خون نشست رونق خمخانۂ یونان شکست مصرھم در امتحان ناکام شد استخوان او تہ اھرام شد در جہان بانگ اذان بودست و ھست ملت اسلامیان بودست و ھست برای ملت اسلامی قرآن کریم آئین حیات و اخلاق محمدی اسوۂ زندگی است۔ از عمل نمودن بقانون الہی در سیرتش پختگی و از پیروی بآداب محمدی در آن حسن و دلکشی پیدا میگردد۔ مرکز مشھور آن کعبہ و نصب العینش حفظ و نشر توحید است: تو نمی دانی کہ آئین تو چیست زیر گردون سر تکوین تو چیست آن کتاب زندہ قرآن حکیم حکمت او لایزال است و قدیم نسخۂ اسرارِ تکوین حیات بی ثبات از قوتش گیرد ثبات از یک آئینی مسلمان زندہ است پیکر ملت ز قرآن زندہ است ٭٭٭ غنچۂ از شاخسار مصطفیٰ گل شو از باد بہار مصطفیٰ از بہارش رنگ و بو باید گرفت بھرۂ از خلق او باید گرفت فطرت مسلم سراپا شفقت است در جہان دست و زبانش رحمت است قوم را ربط و نظام از مرکزی روزگارش را دوام از مرکزی راز دار راز ما بیت الحرام سوز ما ھم ساز ما بیت الحرام تو ز پیوند حریمی زندۂ تا طواف او کنی پائندۂ در جہان جان امم جمیعت است در نگر سر حرم جمعیت است ٭٭٭ زانکہ در تکبیر راز بود تست حفظ و نشر لاالہ مقصود تست تا نخیزد بانگ حق از عالمی گر مسلمانی نیاسائی دمی آب و تاب چھرۂ ایام تو در جہان شاھد علی الاقوام تو تا بدست آورد بنض کائنات وانمود اسرار تقویم حیات در جہان وابستۂ دینش حیات نیست ممکن جز بآئینش حیات ھمین یک آیینی و یکجہتی، ھم مرکزی و ھم مقصدی ملت را متحد نمودہ نفس واحد می سازد و درآن احساس خودی اجتماعی ظاھر میگردد۔ کہ ازان بخودی فرد تقویت رسیدہ محکم تر و وسیعتر میگردد این احساس خودی ملت ھم مثل احساس خودی فرد باینطریق توسیع و استحکام می یابد کہ درتنازع بقا با قوای عالم خارجی مجادلہ نمودہ بذریعہ علم حقائق آنرا بشناسد و بواسطۂ عمل آنرا تسخیر نماید۔ عالم اسباب را حقیر پنداشتہ و آن را ترک نمودن بغایت غفلت است عالم اسباب میدان عمل فرد و ملت و تربیت گاہ عقل و ارادہ آنہاست۔ اگر انسان بواسطۂ علم بر ماحول خود غلبہ ننماید خود مغلوب گشتہ و ھلاک خواھد شد۔ بنا بر آن تحصیل علم اشیاء نیز مثل معرفت نفس جہت نشوونمای خودی ضروری است: ھر کہ محسوسات را تسخیر کرد عالمی از ذرۂ تعمیر کرد کوہ و صحرا، دشت و دریا، بحر و بر تختۂ تعلیم ارباب نظر ای کہ از تأثیر افسون خفتۂ عالم اسباب را دون گفتۂ خیز و واکن دیدۂ مخمور را دون مخوان این عالم مجبور را غایتش توسیع ذات مسلم است امتحان ممکنات مسلم است کاروان رھگذار است اینجہان نقد مؤمن را عیار است اینجہان گیر او را تا نہ او گیرد ترا ھمچو می اندر سبو گیرد ترا جستجو را محکم از تدبیر کن انفس و آفاق را تسخیر کن چشم خود بگشا و در اشیا نگر نشۂ زیر پردۂ صہبا نگر تا قوی از حکمت اشیا شود ناتوان باج از توانایان خورد علم اشیا اعتبار آدم است حکمت اشیا نثار آدم است برای تقویت و توسعۂ احساس خودی علاوہ بر فرار گرفتن علم کائنات و تسخیر آن برای قوم لازم است کہ تاریخ و روایات خود را نگہ بدارد زیرا تاریخ جہت حیات اقوام حکم قوۂ حافظہ را دارد کہ در بین ادراکات مختلفہ فرد ربط و تسلسل پیدا میکند، در ھنگام ھجوم حیات خارجی اگر مرکز ’’من‘‘ و یا ’’انا‘‘در دست او باشد در آنوقت حافظہ میتواند احساس خویش را حفاظت نماید بہمین طریق بواسطۂ تاریخ نیز میتوان در ادوار مختلف ملت ربط و تسلسل پیدا نمود۔ در دنیا آن اقوام زندہ می مانند کہ رشتۂ خود را از طرفی بماضی و از طرف دیگر بمستقبل خود پیوند دھد، زندگی عبارت از ھمین احساس تسلسل میباشد: کودکی را دیدی ای صاحب نظر کو بود از معنی خود بیخبر نقش گیر این و آن اندیشہ اش غیر جوئی غیر بینی پیشہ اش چشم گیرایش فتد بر خویشتن دستکی بر سینہ میگوید کہ ’’من‘‘ یاد او با خود شناسایش کند حفظ ربط دوش و فردایش کند این ’’من‘‘ نوزادہ آغاز حیات نغمہ بیداری ساز حیات ٭٭٭ ملت نوزادہ مثل طفلک است طفلکی کو در کنار مادر است بستہ با امروز او فرداش نیست حلقہ ھای روز و شب در پاش نیست چشم ھستی را مثال مردم است سینہ را بینندہ و از خود گم است صد گرہ از رشتہ او واکند تا سر تار خودی پیدا کند گرم چون افتد بکار روزگار این شعور تازہ گردد پایدار نقشہ ھا بردارد و اندازد او سرگذشت خویش را می سازد او قوم روشن از سواد سرگذشت خودشناس آمد ز یاد سرگذشت نسخۂ بود ترا ای ھوشمند ربط ایام آمدہ شیرازہ بند ضبط کن تاریخ را پائندہ شو از نفسہای رمیدہ زندہ شو سر زند از ماضیِ تو حالِ تو خیزد از حالِ تو استقبالِ تو مشکن ار خواھی حیاتِ لازوال رشتۂ ماضی ز استقبال و حال موج ادراک تسلسل زندگیست می کشان را شور قلقل زندگیست ٭٭٭ تا حال دو پہلو از تصور خودی اقبال مورد بحث گرفتہ شدہ، یکی اینکہ خودی با غیر خودی یعنی با عالم خارجی و دیگر اینکہ بانفس اجتماعی یعنی ملت چہ ربط و علاقہ دارد آنچہ با قیماندہ اینست کہ علاقۂ فرد بہ حیث یک مخلوق با خالق چیست؟ این قسمت از آن دو ربط ما قبل الذکر، نازکتر و لطیف تر است۔ شما دیدید کہ خودی مادامیکہ با غیر خود تماس میکند قوای غیر خود را تسخیر و بہ دایرہ خود وسعت و استحکام میفزاید و از پابندی با قوانین فطرت کہ عبارت از عقائد روحانی توحید و رسالت است رشتۂ علائق آنہا محکم تر و پایدار تر میگردد۔ حال باید دید کہ این موجود پایندہ با ذات لایزالی کہ وی و تمام دیگر کائنات را آفریدہ است چہ تعلق دارد و با کدامین رشتہ مربوط است؟ تا اینجا کہ بحث نمودیم موضوع کلام اقبال تماماً عبارت از مسائل فلسفۂ نفس و فلسفۂ تمدن بودہ، کہ درآن جذبات داخلی کم دخل داشت۔ جذبات روح شاعری ست و در مسائل خشک فلسفی کہ از کیف و رنگ جذبات خالی و عاری بودہ باشد شعریت یعنی جذبات پیدا نمودن کار آسانی نیست، این یکی از فضائل اقبال است کہ از سوز دل، حکمت را لباس شعر پوشاندہ است۔ از شعرای قدیم و جدید آسیا بسیار کم اشخاص با او درین میدان داخل شدہ اند۔ اکنون وی در میدان تصوف قدم میگذارد و واردات قلب را در لباس نازک تصورات ناتمام، معرض بیان و ا ظہار قرار میدھد۔ از یک لحاظ این مرحلہ بشاعر آسیا از ھمہ کردہ زیاد آسان است، زیرا کہ این احساسات در طبیعت او راسخ گردیدہ است و علاوتاً درین زمینہ آنقدر شعریت موجود است کہ خود بخود در قالب شعر جای میگیرد۔ اما اگر از جانب دیگر ملاحظہ نمایند این میدان بقدری پامال گردیدہ کہ درآن راہ نوی را پیدا کردن خیلی مشکل است، اما اقبال طرز خیال جدائی دارد و از ھمین جہت تصوف اقبال بجہت خود راہ جدیدی باز کردہ و ویرا بآن راہ میکشاند کہ منزل فلسفۂ حیات او میباشد۔ این ھمان مقام نازکی است کہ درآن صاحبان ذوق روحانیت محو شدہ اند، در جام اول بادۂ معرفت رشتۂ علم کائنات و احساس خودی از دست شان خطا میخورد، و فقط اقبال است کہ در عالم بیخودی ھم نمی خواھد امانتی کہ خدای تعالی بایشان سپردہ است فراموش نماید۔ ٭٭٭ در بالا گفتہ بودیم کہ طالب خودی در محبت آن ’’مرد خدا‘‘ کہ در مدارج خودی ازو بلند بودہ باشد سرشار میگردد۔ خصوصاً آن مستی و کیفیت کہ مبداء منتہا و خالق و پروردگار خودی یعنی محبت خدای تعالی در دل او پیدا مینماید تا چہ اندازہ خواھد بود، انسان در دائرۂ ارتقاء خود بعد ازانکہ تمام مراحل خودی را طی نماید نیز ناقص و ناتمام میماند، و آن جلوۂ کمال و تمام کہ در ذات مطلق بنظر او می آید دل او را بلا اختیار بجانب خود کش مینماید۔ این کشش را عشق مینامند۔ عشق سہ منزل دارد ؛ آرزو و جستجو، دیدار، و وصل۔ تصور منزل سوم نزد شعرای قدیم تصوف این است کہ طالب در مطلوب مثل قطرہ در دریا فانی گردد۔ ظاھر است کہ معنی وصل محدود و نا محدود غیر ازین بخیال نمی آید۔ مگر نزد اقبال عشق فقط دو منزل دارد :منزل اول منزل سوز وگداز و آرزو است، منزل دوم منزل کیف دیدار است کہ راحت بخش و اضطراب افزا میباشد۔ غیر ازین منزل سوم نیست۔ بعد از کامیابی لذت دیدار ھم نفس انسانی از روح مطلق جدا میماند و از درد جدائی بیقرار میباشد۔ این فطرت و تقدیر اوست۔ حالا تفصیل این اجمال را در کلام خود اقبال ملاحظہ فرمائید، نزد شعرای متصوف غایہ تخلیق عالم شھود این است کہ شاھد مطلق درین آئینہ جمال خود را نظارہ نماید: دھر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں ھم کہاں ھوتے اگر حسن نہ ھوتا خود بیں ترجمہ: د ھر جز غیر از جلوۂ وحدت و یکتائی معشوق دیگر چیزی نیست، ما کجا میبودیم اگر حسن خود بین و تماشا کنندۂ ذات خود نمیبود؟ اقبال نیز ھمین خیال را تعقیب مینماید: صورت گری کہ پیکر روز و شب آفرید از نقش این و آن بہ تماشای خود رسید فرق اینقدر است کہ نزد دیگر متصوفین ما سوا موھوم محض و نزد اقبال موجود است۔ اما طوریکہ در بالا گفتہ آمد، در ضمیر کائنات حیات حقیقی یعنی قوت خودی مضمر است۔ بنا بر آن مظاھر کائنات وھم محض نیست بلکہ اقلا بالقوہ دارای وجود میباشد۔ وقتیکہ این قوت رفتہ رفتہ ترقی نمودہ در ذات انسان شعور و ارادہ را حاصل نماید، در آنصورت وجودش نمایان میگردد چنانچہ میلاد آدم آغاز دور جدید است در حیات زیرا کہ او حوصلہ شعور ھستی خود معرفت ھستی مطلق را دارا میباشد۔ نعرہ زد عشق کہ خونین جگری پیداشد حسن لرزید کہ صاحب نظری پیدا شد فطرت آشفت کہ از خاک جہان مجبور خودگری خودشکنی خودنگری پیدا شد آرزو بیخبر از خویش بآغوش حیات چشم وا کرد و جہان دگری پیدا شد این مخلوق نو از سوز و ساز و عشق و گداز معمور است، در دل او از ابتدا علاوہ از شوق شناخت حقیقت محدود خود شور معرفت ایزدی موجود است چنانچہ بزبان حال میگوید: چہ خوش است زندگی را ھمہ سوز و ساز کردن دل کوہ و دشت و صحرا بدمی گداز کردن بہ گداز ھای پنہان بہ نیاز ھای پیدا نظری ادا شناسی بہ حریم ناز کردن گہی جز یکی ندیدن بہجوم لالہ زاری گہی خار نیشزن را ز گل امتیاز کردن ھمہ سوز نا تمامم ھمہ درد آرزویم بگمان دھم یقین راکہ شہید جستجویم ٭٭٭ ابتدا آرزوی او تا این اندازہ محدود میباشد کہ پردہ ھای ما سوا از پیشش بر داشتہ شود و جمال شاھد مطلق را بی حجاب نظارہ نماید۔ چند بروی خود کشی جلوہ صبح و شام را چھرہ کشا تمام کن جلوۂ ناتمام را بر سر کفر و دین فشان رحمت عام خویش را بند نقاب بر کشا، ماہ تمام خویش را اگر او طاقت دیدار دارد، البتہ آرزوی وی بر آوردہ میشود، و گاہ گاھی نوری از حسن مطلق او نمودار و بعد غائب شدہ از نظر پنہان میگردد۔ نہ این عالم حجاب او را، نہ آن عالم نقاب او را اگر تاب نظر داری، نگاھی میتوان کردن ٭٭٭ بہ دیگران چہ سخن گسترم ز جلوۂ دوست بہ یک نگاہ مثال شرارہ میگذرد ٭٭٭ تو ز راہ دیدۂ ما بضمیر ما گذشتی مگر آنچنان گذشتی کہ نگہ خبر ندارد ٭٭٭ مگر طالب دیدار را ازین تسکین حاصل نمیگردد بلکہ اضطراب قلب او بیشتر میگردد۔ و ازین کشش عاجز آمدہ، میخواھد کہ کشش بحر وجود تیزتر گردیدہ قطرۂ خودی او را در آغوش در آوردہ سکون دائمی بخشد: فرصت کشمکش مدہ این دل بیقرار را یک دو شکن زیادہ کن گیسوی تابدار را ٭٭٭ تو ہے محیط بیکران میں ھوں ذرا سی آب جو یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بیکنار کر ترجمہ: تو مثل بحر بیکران ھستی، و من مانند جویآب کم، یا مرا ھمکنار خود نما یا بی کنار کن۔ ٭٭٭ لیکن درین دیدار وصل، این اندیشہ است کہ قطرہ در دریا داخل گردیدہ خودی خود را از دست ندھد و این سخن بہیچصورت پسند اقبال نمیگردد۔ اگر نظارہ از خود رفتگی دارد حجاب اولی نگیرد با من این سودا بہا از بس گران خواھی ٭٭٭ اگر یک ذرہ کم گردد ز انگیز وجود من بہ این قیمت نمیگیرم حیات جاودانی را ٭٭٭ البتہ اقبال طالب آنچنان وصلی نیست کہ وجود انفرادی قطرہ محو گردد ولی این اندیشہ را بی جا میداند زیرا او معتقد ست کہ از دیدار و معرفت الہی آب و تاب خودی کم نی، بلکہ زیادہ میشود۔ کمال زندگی دیدار ذات است طریقش رستن از بند جہات است چنان با ذات حق خلوت گزینی ترا او بیند و او را تو بینی بخود محکم گذر اندر حضورش مشو ناپید اندر بحر نورش چنان در جلوہ گاہ یار می سوز عیان خود را، نہان او را، برافروز ٭٭٭ اگر قطرہ از کم مایگی خود، خود را در مقابل دریامعدوم و ناچیز تصور مینماید، بحر حقیقت بقای خودی او را ضمانت مینماید و ویرا رنگ ھستی می بخشد۔ یکی قطرہ باران ز ابری چکید خجل شد چو پہنای دریا بدید کہ جائی کہ دریاست من کیستم گر او ھست حقا کہ من نیستم و لیکن ز دریا برآمد خروش ز شرم تنک مایگی رو مپوش ز موج سبکسیر من زادۂ ز من زادۂ در من افتادۂ بیاسای در خلوت سینہ ام چو جوھر درخش اندر آئینہ ام گہر شو در آغوش قلزم بزی فروزانتر از ماہ و انجم بزی ٭٭٭ درینصورت جوش عشق در قطرۂ ناچیز ظرفیتی پیدا میکند کہ بتواند دریا را در آغوش خود جا دھد۔ در سینۂ من دمی بیاسائی از زحمت و کلفت جدائی خیال حفظ خودی منافی عشق نیست، بلکہ عین عشق است۔ محک حسن دل عاشق است و فروغ بزم حسن از دم عاشق۔ او خودی خود را جہت نفس خود نی بلکہ بخاطر معشوق حفظ میکند۔ خدای زندہ بی ذوق سخن نیست تجلی ھای او بی انجمن نیست کہ برق جلوۂ او بر جگر زد کہ خود آن بادہ و ساغر بہ سرزد عیار حسن و خوبی از دل کیست مہ او در طواف منزل کیست الست از خلوت ناز کہ برخاست؟ بلی از پردۂ ساز کہ برخاست؟ اگرمائیم گردان جام ساقی است بہ بزمش گرمی ھنگامہ باقی است مرا دل سوخت بر تنہائی او کنم سامان بزم آرائی او مثال دانہ می کارم خودی را برای او نگہ دارم خودی را طوریکہ گفتہ ام وصل حقیقی محدود با نامحدود این است کہ محو گردد۔ وصل را کہ اقبال دربین بندہ و خدا بہ آن قائل است در حقیقت وصل نیست، بلکہ یک حالت مخصوصی است کہ درآن بجای سکون سوز و ساز فراق بیشتر و موجبات بی قراری قویتر میشود۔ او در من و من در وی ھجران کہ وصال است این ای عقل چہ میگوئی ای عشق چہ فرمائی؟ ٭٭٭ ازو خود را بریدن فطرت ماست تپیدن نارسیدن فطرت ماست نہ ما را در فراق او عیاری نہ او را بی وصال ما قراری نہ او بی ما نہ ما بی او چہ حال است فراق ما فراق اندر وصال است ٭٭٭ گاھی در سوز فراق اقبال خود را باین تسلی میدھد این کیف سوز و گداز نصیب انسان و خدا ازآن بی نیاز است۔ سوز و گداز حالتی است بادہ زمن طلب کنی پیش تو گریبان کنم مستی این مقام را ٭٭٭ متاع بی بہا ہے درد و سوز آرزو مندی مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی ترجمہ: درد و سوز آرزو متاع بی بہائی ھست، در حالیکہ مقام بندگی را بمن دادۂ این بشان خداوندی نخواھم داد۔ گاھی در حال شوخی تخیل می پندارد ھمانطوریکہ بندہ در ھجر خدا بیقرار است، خدا نیز در فراق بندہ بیقرار است۔ ما از خدای گم شدہ ایم او بہ جستجو است چون ما نیازمند و گرفتار آرزو است بھرحال این جدائی برای انسان مبارک است زیرا کہ این کیفیت مایۂ حیات خودی او میباشد۔ جدائی عشق را آئینہ دار است جدائی عاشقان را سازگار است اگر ما زندہ ایم از دردمندی است و گر پائندہ ایم ازدرد مندی است ٭ عالم سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق وصل میں مرگ آرزو، ہجر میں لذت طلب ترجمہ: سوز و ساز نسبت بوصل در فراق زیاد است، در وصل آرزو می میرد و در ھجر لذت طلب میسر میگردد۔ گرمی آرزو فراق؛ لذت ہای و ہو فراق موج کی جستجو فراق، قطرے کی آبرو فراق ترجمہ: گرمی آرزو و لذت ھای و ھو از فراق است، جستجوی موج از فراق و آبروی قطرۂ نیز از فراق است۔ ٭٭٭ این است خلاصۂ آن نظریۂ حیات کہ اقبال بما عرضہ نمودہ است۔ این شاعر فیلسوف دارای آنچنان دل و دماغی بود کہ از سوز حیات و درد کائنات لبریز، و باسرار و معارف محرم بود۔ وقتی کہ او بہ د نیامی آید مشرق و خصوصاً مشرق اسلامی کہ تا آنوقت در خواب گران غفلت افتادہ بود، میخواھد حرکتی بہ خود بدھد مگر کابوس بیخودی کہ بردل و دماغ او حملہ بردہ است مانع از حرکت او میشود، مغرب کہ از بیدار مغزی خود بر ربع مسکون قبضہ نمودہ است در نشۂ طمع و نخوت غرق، با آن قوتہای انقلاب کہ در نفس آن نشوونما می نماید متصادم میشود۔ دل شاعر بہ ضعف و بیچارگی آسیا کہ در قید مذلت گرفتار است و چیزی کردہ نمیتواند و بہ نا عاقبت اندیشی یورپ کہ در قعر ھلاکت می افتد و چیزی نمی بیند می سوزد۔ شاعر بہ اسباب بی عملی یکی و بر بی بصری دیگری غور نمودہ و نظر حقیقت شناسی او از اشیای سطحی در گذشتہ بران تصورات حیات می افتد کہ برآن بنیاد ھر دو تہذیب قائم است، وی در می یابد کہ ماؤف کنندۂ قوی ذھنی آسیا و شل کنندۂ دست عمل او فلسفۂ نفی خودی و نفی کائنات است، درین شکی نیست کہ یورپ اھمیت اثبات خودی را دانست در میدان عمل داخل گردیدہ است و زندگی خود را بواسطۂ ارتباط در بین فرد و جماعت استوار و محکم نمودہ است لیکن چونکہ بنیاد ربط بر اساس عقیدۂ روحانی مبنی نیست بلکہ بر شالودۂ نظریۂ تنگ مادی نسل و وطن گذاشتہ شدہ است بنا برآن نصب العین صحیح در نزد اقبال اسلام است ولی چون پیروان اسلام بنا بر عقیدۂ وحدت وجودکہ نفی و کائنات راتعلیم می نماید متاسفانۂ بمرض غفلت و جمود گرفتار گردیدند ودر مکافات این عمل از روی سیاست و ذھنیت اسیر یورپ گردید، اقبال ھمینکہ حقایق مذکورہ را درک میکند ملت اسلام را بواسطۂ این نغمات جان بخش و شیرین از خواب غفلت بیدار و خدمتی را کہ خداوند تعالی بہ وی سپردہ است ادا مینماید و در صدد آن برآمدہ کہ از سلاسل ذلت مادی و روحانی کہ اطراف وی را فرا گرفتہ است نجات بدھد۔ اقبال در شرق و غرب یک تحول سیاسی و اقتصادی عظیمی را مشاھدہ مینماید و برای اینکہ این را صحیح راھبری نماید میخواھد اول بعالم اسلام و ثانیاً تمام اقوام عالم یک انقلاب روحانی تولید کند، اقبال ازدنیا رحلت نمود ولی صدای دلفریب او در فضای عالم ھنوز طنین انداز است و خواھد بود۔ مایۂ روشندلی دوستی با ناتوانان مایۂ روشندلیست موم چون با شمع سازد شمع محفل می شود بی بھرہ مباش چون زندہ زکار خویش بی بھرہ مباش چون تیشہ بسوی خویش دایم متراش خطاب اوقیانوس بہ قطرہ از مجلہ کابل سال ۱۴ شمارہ ۱۰ دلو ۱۳۲۳ھ ش تماشای شام و سحر دیدۂ چمن دیدۂ دشت و در دیدۂ بہ برگ گیاھی بدوش سحاب درخشیدی از پرتو آفتاب گہی ھمدم تشنہ کامان راغ گہی محرم سینہ چاکان باغ گہی خفتہ درتاک و طاقت گداز گہی خفتہ در خاک و باسوز و ساز ز موج سبک سیر من زادۂ زمن زادۂ در من افتادۂ بیاسای در خلوت سینہ ام چو جوھر درخش اندر آئینہ ام گھر شو در آغوش قلزم بزی فروزان تر از ماہ و انجم بزی (علامہ اقبال مرحوم) ٭٭٭ یہ نظم مجلہ کابل نے ترکی سے سید جمال الدین افغانی کے جسدِ خاکی کے کابل واپسی پر طبع کروائی ہے(رفیقی) اقبال از آریانا دائرۃ المعارف چہاردھم انجمن آریانا دائرۃ المعارف افغانستان جلد سوم، مطبوعہ کابل،قوس ۱۳۳۳ ھ ش ۱۹۵۴ء ص ۶۷۲ تا ۶۸۱ اقبال: داکتر محمد اقبال پسر شیخ نور محمد یکی از شعرای نامور زبان فارسی و اردو و از نوابغ شرق و اسلام است، اصلاً از براھمہ کشمیر می باشد، اجدادش بہ دین اسلام مشرف شدند و در شھر لاھور سکونت داشتند۔ چنانچہ راجع بہ نسب خود گوید : مرا اگرچہ بہ بتخانہ پرورش دادند چکید از لب من آنچہ در دل حرم است اقبال در سال ۱۲۹۴ ھ ق (۱۲۵۴ ھ ش) مطابق ۱۸۷۵م در شھر سیالکوت از نوابع لاھور متولد گردید۔ تعلیمات ابتدائی را در مشن سکول Mission School لاھور بپایان رسانیدہ در گورنمنت کالج لاھور داخل گردید و علاوہ بر علوم عصری و زبان انگلیسی ادبیات فارسی و عربی را نیز فرا گرفت۔ مخصوصاً در فارسی طوری وسعت نظر پیدا کرد کہ این زبان را مدار شعری خود قرار داد۔ اقبال از گورنمنت کالج بدرجہ (M.A)ٖفارغ گردید و در اورینتل کالج و گورنمنت کالج در فلسفہ سمت استادی یافت۔ وی در سال ۱۹۰۵م بلندن رفتہ دریونیورستی کیمبرج داخل گردید۔ وی باری اروپا را گردش نمودہ بعد از نوشتن رسالہ ئی بنام ( ترقی ماوراء الطبیعیہ درایران) The Development of Metaphysie in Persia )) و تقدیم بہ دانشگاہ میونح از دانشگاہ مذکور سند Ph.Dگرفتہ بلندن رفت و بعد از ادای امتحان سند بیرستری یعنی (وکیل داد گستری) را دریافت و بہ ھند مراجعہ کردہ در گورنمنت کالج لاھور بہ حیث استاد موظف گردید و ھم در محکمہ عدلیہ بہ حیث وکیل دعوی کار میکرد ولی چندی بعد ازین کار مستعفی شد۔ اقبال در سال ۱۳۱۲ ھجری شمسی (نومبر ۱۹۳۳م) بہ افغانستان آمدہ بعد از چند روز توقف در کابل از راہ غزنی و قندھار بہ ھند مراجعت کرد و ھنگام زیارت آرامگاہ حکیم سنائی این مثنوی را گفتہ: آہ غزنی آن حریم علم و فن مرغزار شیر مردان کہن دولت محمود را زیبا عروس از حنا بندان او دانای طوس خفتہ در خاکش حکیم غزنوی ازنوای او دل مردان قوی و راجع بہ بارگاہ سلطان محمود چنین سرودہ: خیزد از دل نالہ ھا بی اختیار آہ آن شھریکہ اینجابود پار گنبدی در طوف اوچرخ برین تربت سلطان محمود است این داکتر اقبال دو ھمسر اختیار نمود و صاحب سہ اولاد گردید کہ دو پسر و یک دختر باشد۔ از فرزندانش یکی آفتاب اقبال و دیگری جاوید اقبال و دخترش منیرہ بانو نام داشت۔ داکتر اقبال مردی بود متدین و بہ اسلام و اسلامیان علاقہ مفرط و شدید داشت۔ بہ ملل شرق نیز علاقہ مند بود و از پسمانی ممالک شرق خیلی متأثر بود و شکایت میکرد، خصوصاً بہ حال زبونی و عالم اسلام نالہ میکرد۔ چنانچہ در یک اثر خود بنام ’’ارمغان حجاز‘‘ بہ بارگاہ پیشوای بزرگ اسلام ضجہ کرد و میگوید : مسلمان فاقہ مست و ژندہ پوش است ز کارش جبریل اندر خروش است بیا نقش دگر ملت بریزیم کہ این ملت جہان را بار دوش است دکتور اقبال بہ پیروی نابغہ افغان سید جمال الدین میکوشید تا اھل اسلام را درس ھمت بیاموزد و ایشان را از استعماریون غرب نجات بخشد۔ لہذا در آثار قیمت دار خود ھمیشہ زبان تنبیہ را بہ مسلمین سر دادہ است چنانچہ در یک جا گوید: ز محکومی مسلمان خود فروش است گرفتار طلسم چشم و گوش است ز محکومی رگان در تن چنان است کہ ما را شرع و آئین بار دوش است اقبال عزت نفس و مناعت طبع را دوست داشت و بمردم خویشتن شناسی را تلقین می کرد کہ اساس فلسفہ خودی او می باشد طوریکہ می گوید : بخود خزیدہ و محکم چو کوھساران زی چو خس مزی کہ ھوا تیز و شعلہ بی باک است وی شخصی بود صاحب عالی شجاعت کلہ پوش و انقلاب مشرب۔ چنانچہ میگوید: مرا در عصر بی سوز آفریدند بخاکم جان پر شوری دمیدند چو نخ در گردن من زندگانی تو گوئی بر سر دارم کشیدند اقبال در سیاست نیز سہم گرفتہ و مخصوصا در مجادلہ سیاسی ھند نصیب بزرگی دارد۔ وی بہ مسلم لیگ علاقہ مند بود چنانچہ محمدعلی جناح کہ بعداً در وقت خروج انگلیس و تقسیم ھند بہ تشکیل پاکستان موفق شد راجع بہ اقبال گفتہ است : اقبال نہ تنہا متفکر بل راھنما و رفیق من بود در تاریک ترین روزگار مسلم لیگ مانند یک صخرہ محکم و پا بر جا ماند و ھر گزمتزلزل نشد وقتیکہ در سال ۱۳۰۹ شمسی۔ ۱۹۳۰ م تحت ریاست سر آغا خان کنفرانس مسلم انعقاد یافت، داکتر اقبال درآن سہم بارز گرفتہ و بعداً رئیس کنفرانس مذکور منتخب شد۔ در سال ۱۳۱۱ شمسی۔ ۱۹۳۲ م جلسہ مسلم لیگ بہ ریاست اقبال افتتاح شدہ و مفکورۂ پاکستان را در خطابۂ خود بہ مسلم لیگہا گوشزد نمودکہ بالاخرہ مسلم لیگ برین اساس خط مشی خود را تعیین و تعقیب کردند، در اغلب مجامع سیاسی شرکت می نمود و برای انداختن سلطہ اجنبی مجاھدہ می کرد کہ نمی توان تمام فعالیت سیاسی او را درین جا تذکر داد۔ اقبال نہ تنہا در شعر و ادب شخص بزرگی بود بلکہ در علوم و فلسفہ نیز نگاہ ژرفی داشت۔ چہ بعد ازینکہ از دانشگاہ میونخ آلمان در فلسفہ سند دکتری حاصل کرد۔ بسا کتب و آثار فلاسفہ معاصر را مطالعہ و درین راہ تتبع عمیق نمود۔ نخستین اثر فلاسفی او ھمانا فلسفہ ماورا الطبیعہ در ایران است کہ قبلاً تذکر یافت۔ علامہ داکتر اقبال بہ افغانستان و ملت افغان علاقہ مستحکمی داشت چنانچہ در اثر خود ’’پیام مشرق‘‘ احمد شاہ بابای درانی را مؤسس ملت افغان دانستہ و ملت افغان را در پیکر آب و گل آسیا بہ منزلہ دل پنداشتہ و گفتہ است اگر دل آزاد باشد پیکر ھم آزاد خواھد بود و این عقیدہ خود را چنین اظہار میکند : آسیا یک پیکر آب و گل است ملت افغان دران پیکر دل است تا دل آزاد است آزاد است تن ورنہ کاھی در رہ باد است تن از فساد او فساد آسیا در گشاد او گشاد آسیا اقبال در اثر حزن و اندوہ و تأثراینکہ نسبت بہ ملل شرق عموماً و راجع بہ انحطاط عالم اسلامی خصوصاً داشت در اواخر عمر بہ ضعف گرفتار گردید۔ مخصوصاً از سال ۱۹۳۴م بہ امراض مبتلا شد و وقتاً فوقتاً رنجور این بیشتر میگردید تا اینکہ بساعت پنج و نیم صبح ۲۱ اپریل ۱۹۳۸م مطابق ۲ ثور ۱۳۱۷ ھ ش (۱۳۵۷ ھ ق ) بہ عمر ۶۲ سالگی زندگانی را بدرود گفت۔ آثار گران بہائی کہ از داکتراقبال ماندہ است حسب ذیل می باشد: ۱: مثنوی اسرار و رموزیکہ بفارسی نخستین بار در سال ۱۹۱۵و بار دوم و سوم در ۱۹۴۰ و ۱۹۴۸ م بطبع رسیدہ ۲: پیام مشرق کہ بار اول در سال ۱۹۲۳ و بعدا در سنوات ۱۹۲۴۔ ۱۹۲۹۔ ۱۹۴۲۔ ۱۹۴۴۔ ۱۹۴۶ و ۱۹۴۸ م طبع شدہ ۳: ارمغان حجاز کہ در سال ھای ۱۹۳۸۔ ۱۹۴۴۔ ۱۹۴۶۔ ۱۹۴۸ و ۱۹۵۱ م چاپ گردیدہ ۴:۔ زبور عجم کہ در سنوات ۱۹۲۸۔ ۱۹۴۴و ۱۹۴۸ بچاپ رسیدہ ۵: جاوید نامہ کہ آن را بنام پسر خود جاوید اقبال تسمیہ کردہ و در سالہای ۱۹۳۲۔ ۱۹۴۵ و ۱۹۴۷ م طبع شدہ ۶ : پس چہ باید کرد در سال ۱۹۳۶ سرودہ شد ۷: مسافر، این اثر را پس از سیاحت افغانستان سرودہ و آغاز آن بنام اعلیحضرت شہید محمد نادر شاہ بودہ و چنین گفتہ : نادر افغان شہ درویش خو رحمت حق بر روان پاک او و در سال ھای ۱۹۳۱۔ ۱۹۴۴۔ ۱۹۴۷ بہ چاپ رسیدہ است۔ ۸: بال جبریل کہ در سال ۱۹۳۵۔ ۱۹۴۱۔ ۱۹۴۲۔ ۱۹۴۴م طبع گردیدہ ۹ : ضرب کلیم در زبان اردو ۱۰: حرف اقبال در زبان اردو ۱۱: بانگ درا در زبان اردو ۱۲: فلسفہ ماوراء الطبیعیہ در ایران ۱۳: تجدید فکر مذھبی در اسلام افکار فلسفی اقبال : نیم قارۂ ھندوستان کہ از قرنہا تحت اسارت و استیلای ملل اروپائی واقع شدہ بود باید از خواب بیدار می شد لذا خروش قابل اذھان بہ سمع او رسید پنبۂ غفلت از گوش بر آورد و چشم باز گردد، فرزند ارجمند او داکتر محمد اقبال بر حال پرملال وی چنین نوحہ میکند: ای ھمالہ ای اطک ای رود گنگ زیستن تا کی چنان بی آب و رنگ شرق و غرب آزاد و ما نخچیر غیر خشت ما سرمایہ ٔ تعمیر غیر زندگانی بر مراد دیگران جاودان مرگ است نی، خواب گران اقبال فلسفہٗ اروپا را بکمال توجہ مطالعہ میکرد، افکار فلسفی علمای یورپ را آنقدر و نارسا یافت کہ از اختلاف معانی و بیان علمای یورپ خستہ شد و بہ فلسفۂ اسلام بیشتر گروید چنانچہ درین مضمون میسراید : می از میخانۂ مغرب چشیدم بجان من کہ درد سر خریدم نشستم با نکویان فرنگی ازان بی سوز تر روزی ندیدم در جای دیگر داکتر اقبال از فلسفہ اروپائیان شکایت میکند: علم اشیا خاک ما را کیمیاست آہ در افرنگ تاثیرش جداست عقل و فکرش بی عیار و خوب و زشت چشم او بی نم، دل او سنگ و خشت آہ از افرنگ و از آئین او آہ از اندیشۂ لا دین او اقبال از شعرای متصوفین بود، فلسفۂ مرغوب و مطلوب اقبال تصوف اسلام است۔ برخی از مسلمانان و بعضی از مستشرقین اروپائی بہ این خیال اند کہ تصوف اسلام ھمان شالودۂ فکر افلاطونی و اقتباس از فلسفہ نیوپلوتنی است حالانکہ تصوف اسلام اساساً با فکر افلاطون و ھم پلوتون خیلی فرق دارد۔ افلاطون میگوید کہ خداوند مادہ راکہ از پیش موجود و پریشان بود نظم داد و کائنات را آفرید، وجود کائنات ازان خدا وند است، ھمچو ضیای آفتاب کہ سر چشمہ آن خود آفتاب می باشد، کائنات یک مخلوق زندۂ با روح عقل است، خداوند خیر کل و جمال مطلق است۔ ومیخواست کائنات را خلق کند پس احسن و زیبا آفرید۔ پلوتنیس کہ از ۲۰۴ تا ۲۷۰ میزیست موجد فکر نو افلاطونی است، آخرین فیلسوف ازمنہ قدیمہ گفتہ می شود۔ او فلسفۂ افلاطون را خیلی خوب توضیح و تشریح کردہ است، وی نظریہ خود را کہ با فلاسفہ سلف موافقت میکند خوب توسعہ داد، استدلال پلوتنیس از تثلیث شروع می شود اما تثلیثِ پلوتنیس تثلیث نصاریٰ نیست، این تثلیث عبارت ازاحد، عقل و روح است در فلسفۂ پلوتینس علیہ مادیون بسیار راسخ است فلسفہ الہیات پلوتنیس این سہ مساوی نیستند احد مافوق عقل و روح است پس از احد عقل و بعد از عقل مرتبۂ روح است۔ از بیان پلوتنیس وضیعیت احد روشن نیست گاھی آن را خدامیگوید و ھنگامی آن را نیکوئی و خیر مینامند احد را وجود یا ھستی واحد مینماید و عقیدہ دارد کہ برین ھستی واحد اسناد دیگر نباید حمل کرد۔ بہ عقیدہ پلوتنیس احد را نمی توان تصریح کرد۔ سکوت را در تصریح احد نسبت بہ تشریح آن ترجیح میدھد۔ متصوفین وجودی اسلام بہ فحوای قرآن عظیم الشان معتقداند کہ خداوند متعال کائنات را از ھیچ خلق فرمود حالانکہ افلاطون، ارسطو و سائر بقدامت ھیولای کائنات اعتراف مینمایند کہ این عقیدہ مخالف دین مبین اسلام است۔ متصوفین اسلام وجود حق تعالی را بشکل وحد محدود و محصور نمیدانند، ھمچنانکہ از شکل وحد در ازل منزہ بود پس از حقیقت کائنات حالانیز از شکل وحد مبرا ست، وجود خالق تعالی حقیقت و باطن جمیع موجودات است، مقصود متصوفین اسلام از کلمہ وجود صفات باری تعالی است وجود حق تعالی بذات خود قائم و سائر موجودات بہ وجود حق تعالی قیام دارند، موجود خالق کل جل شانہ وجود حقیقی و وجود ما سوای آن در خارج منتفی است بہ کنہ و حقیقت وجود خالق تعالی عقل و حواس رسیدہ نمی توانند زیرا حقیقت ذات خداوند از قیاس و وھم بشر متعال است، عقل و حواس انسان محدثات اند، محدث ھمچو خود محدثی را درک کردہ می تواند ذات و صفات باری تعالی از حدوث منزہ و مقدس ھستند وجود خالق تعالی را مراتب بسیار است، اول آنہمہ مراتب، مرتبہ لا تعین و اخلاق و ذات بحث است اما معنای آن این نیست کہ درین مرتبات قید اطلاق و سلب تعین ثابت است بلکہ معنی آن این است کہ وجود درین مرتبہ از نعوت اضافی منزہ و از ھر قید حتی از قید اطلاق نیز مبراست زیرا اطلاق حقیقی مثل اطلاق مجازی اطلاق مفید نیست چنانچہ اطلاق مجازی بعدم اطلاق مفید است پس وجود باری تعالی نہ بہ اطلاق مجازی بلکہ بہ اطلاق حقیقی مطلق است و ھمچنین از لاتعین نیز مقصد لاتعین حقیقی است نہ لا تعین مجازی کہ تقابل تعین است، این مرتبہ را مرتبۂ احدیت نیز می نامند۔ مرتبہ دوم : تعین اول است کہ عبارت از علم خداوندی جلٗ شانہ بروجہ مجمل از ذات و صفات خداوندی وجمیع اشیاست کہ آن را مرتبۂ وحدت و حقیقت محمدیہ میگویند۔ مرتبہ سوم: تعین ثانی است کہ عبارت از علم خداوند عز و سبحہ بر وجہ مفصل از ذات و صفات خداوندی و جمیع اشیاست این مرتبہ را و احدیت و مرتبہ حقیقت انسانیہ تسمیہ میکنند۔ مرتبہ چہارم: مرتبہ ارواح است کہ بصورت اشیای مجردہ بسیط ظاھر میگردد۔ مرتبۂ پنجم : مرتبہ عالم مثال است کہ این مرتبہ عبارۃ از اشیای مرکبۂ لطیفہ است کہ تجزی تبعیض قبول نمی کند۔ مرتبہ ششم : مرتبہ عالم اجسام است کہ این مرتبہ عبارت از اشیای کشیفہ است کہ تجزی و تبعیض قبول میکنند۔ مرتبہ ھفتم : مرتبہ ایست کہ جامع تمام مراتب جسمانی و نورانی و وحدت و واحدیت می باشد و مرتبۂ اخیر تجلی و انسان است درین مراتب مرتبۂ اولی مرتبۂ لا ظھور است و شش مراتب دیگر ظھور مراتب کلیہ اند ازین شش مراتب مرتبہ اخیر آن انسان است و در انسان وقتی کہ بر عروج و انبساط در پیغمبر ذیشان اسلام حضرت محمدﷺ واقع شدہ است، ازین رو، آنحضرتﷺ خاتم الانبیاء و نبوت بآنحضرت ﷺ خاتمہ یافت، اسمای مرتبۂ الوھیت را بمراتب کون و خلق واسمای مراتب کون و خلق را بہ مرتبۂ الوھیت اطلاق کنون جائز نیست۔ وجود را دو کمالی است یکی کمال ذات و دیگر آن کمال اسما۔۔۔ کمال ذاتی عبارت از ظھور کمال ذات خداوندی بہ نفس خود اوست و غنای مطلق خاصۂ این کمال است معنای غنای مطلق این است کہ حضرت حق جل و ھی در نفس فی خود جمیع شئون و اعتبارات الیہ و گوتیہ و احکام و لزوم مقتضیہ را بوجہ کلی اجمالی مشاھدہ میفرماید کہ جملہ اینہا بذات پاک خداوند مشھوداند۔ این مشاھدہ را غنای مطلق ازین جہت مینامند کہ حق تعالی از ظھور عالم علی وجہ التفصیل متغنی است زیرا مشاھدۂ جمیع موجودات بذات خالق کائنات عزوجل حاصل است، این مشاھدہ شھود غیبی است، کمال اسمائی وجود باری تعالی عبارت از ظھور الوھیت در نفس شود و شھود ظل وجود حق تعالی عزاسمہ در تعینات خارجیہ یعنی در عالم واشیاست، این شھود عبا و عینی وجودیست مانند شھود مجمل در مفصل و واحد در کثیر۔ وجود واحد در موجودات حلول و اتحاد نمیکند زیرا حلول و اتحاد مستلزم وجود است کہ یکی بدیگری حلول نماید حالانکہ وجود یکی است۔ باید دانست کہ کلمہ وجود را متصوفین وحدۃ الوجودی اصطلاحاً برای افادہ یک مفھوم کلی تخصیص کردہ اند زیرا کملہ دیگری نیافتند کہ آن مفھوم کلی را افادہ کند ورنہ مقصد صوفیہ از کلمہ وجود اسم جنس نیست و ذات واجب تعالی را در تعین مخلوقات و مکنونات و خصوصیت احوال ایشان عین آن شی نمیدانند بلکہ صوفیہ وجود واجب الوجود را از ادراک عقل و حس متعال میشناسند و اشیای متعنیہ را عین وجود خداوند (ج) نمی گویند، زیرا وجود حضرت حق جل شانہ از صورت و شکل منزہ است۔ صوفیہ کرام واضح معترفنند کہ وجود حق تعالی دا من حیث ذات خداوندیش ھیچ نمیفہمیم و فھم بشر درکنہ ذات حق جل شانہ قاصر است۔ صرف در مخلوقات، صفات خالقیت و قدرت الہی را مشاھدہ میکنیم۔ صوفیہ اشیا را بذات خود قائم نمی دانند بلکہ حادث، ممکن، متبدل، متغیر، متجزی، منقسم، فانی، متعدد و متکثر میدانند۔ وجودی را کہ بہ اشیا نسب میکنند آن را ظل وجودی میگویند و بہ آیہ کریمہ قرآن عظیم الشان ’’الم تر الی ربک کیف مدالظل‘‘ اشارہ و تمسک می کنند۔ جناب امام حجۃ اسلام غزالی علیہ الرحمہ درکتاب مشکاۃ الانوار خود می نویسد: وجود بہ نفس خود دو قسم است یکی آنکہ وجود بذات خود است و دیگر آنکہ وجود بغیر خود است۔ وجود شی کہ از غیر است وجود مستعمار است بہ نفس خود قائم نیست بلکہ ذات آن شی عدم محض است وحیثیت وجود آن بغیر است، درین صورت وجود حقیقی شدہ نمی تواند، ھمچنان کہ حضرت حق جل شانہ نور حقیقی است موجود حقیقی یعنی حقیقت الحقائق ھم ھمان ذات پاک است، ازین جاست کہ عارفان راہ حقیقت از حضیض مجاز بذروہ حقیقت صعود نمودہ بجز وجود واجب الوجود بوجود ھیچ چیزی قائل نشدند و بغیر از ذات پاک خداوند جل شانہ ھر شی را ھا لک و فانی مشاھدہ کردند، متصوفین کرام ھمچو سو فسطائیہ وجود ممکنات را سراب و عاری از حقیقت نمیدانند، سو فسطائیہ از ممکنات بکلی انکار میکنند، پروتاغورس میگفت کہ ’’کائنات در حرکت است، اعیان برای اختلاط با ھم بسوی یکدیگر می شتابند تا یک شی معین شوند لکن آنہا را شی گفتہ نمی توانیم، موجود ھم نیستند، صرف می توان گفت کہ از اختلاط باھم یک وضع معین بخود گرفتہ اند، انسان با سائر اعیان علاقہ نامتناھی را حائز است، اشیا در نظر انسان بحال مخصوص خود تجلی میکند، انسان مقیاس اشیا است، علم حقیقت اشیا برای انسان میسر نیست، فہم انسان بہ حقیقت اشیا نمیرسد، ازین رو ھیچ چیزی موجود نیست۔‘‘ حالانکہ متصوفین اسلام حقایق ممکنات را کہ اعیان ثابتہ مینامند عبارت از صور علمیہ میدانند کہ در علم الہی ثابت گردیدہ اند و از علم الہی منفک نمی شوند، بنا بران اعیان ثابتہ وجود خارجی ندارند اگر وجود خارجی میداشتند علم الہی حادث میشد، حقایق اشیا مرآت ظہور ظل وجود واجب الوجود اند و یا اینستکہ وجود حق مرآت است و این صور در آن ظہور نمودہ اند، حقائق اشیا ظل وجود حق اند، وجود حق نیستند، زیرا وجود حق در مرتبۂ ازلیہ احدیت بھیچ مظھری تعلق نمیگیرد۔ بمرتبہ و احدیت ظھور آن باعتبار ذاتی نیست باعتبار شئونی و تجلیات است، چنانچہ آیہ کریمہ میفرماید : ’’الم تر الی ربک کیف مداظل‘‘ ظل وجود علمی بر اعیان مدگردیدہ، این اعیان صور اسما و صفات شدند کہ ظاھر و باھر مخلوق خداوند بیمانند میباشند، در آیہ کریمہ آمدہ است کہ اعیان مذکور مامور امر کن واقع شدہ اند، ازین رو عدم محض بودن مسکونات بحیث انفس شان است۔ باعتبار ظھور وجودی قطعاً موجود می باشند اما وجود شان مستعار است، متصوفین اسلام عقیدہ وحدت الوجود را چنانچہ پیشتر گفتہ شد از قرآن کریم استنباط کردہ اند نہ از فلسفہ افلاطون و پلوتنیس وغیرہ، چنانچہ آیہ کریمہ می فرماید، ’’بہر طرفی کہ رو بگردانید بہمان طرف خداست۔ ‘‘ و نیز اینکہ ’’ما از شما باو قریب تر ھستیم لکن شما نمی بینید۔ ‘‘ آیہ کریمہ: ’’ھر جا کہ باشید او تعالی بمعیت شماست۔‘‘ آیہ کریمہ: ’’اول و آخر و ظاھر و باطن او تعالی است و بھر چیز دانا است۔‘‘ آیہ کریمہ: ’’ما علامات خود مانرا در آفاق و در انفس ایشان واضح مینمائیم، آیا نمی بینید ؟‘‘ مقصود ما ازین شرح فلسفہ وحدت الوجودی تذکار عقیدہ مرحوم مغفور دکتور اقبال است، علامہ اقبال در مثنوی اسرار خودی مینویسد کہ اصل نظام عالم از خودیست و تسلسل حیات تعینات بر استحکام خودی انحصار دارد، چنانچہ می سراید : پیکر ھستی ز آثار خودیست ھر چہ می بینی ز اسرار خودیست خویشتن را چون خودی بیدار کرد آشکارا عالم پندار کرد صد جہان پوشیدہ اندر ذات او غیر او پیداست از اثبات او کلمہ خودی را دکتور اقبال در عوض کلمہ ’’وجود‘‘ اتخاذ کردہ است مقصد دکتور اقبال از خودی وحدت الوجود است، چنانچہ درین رباعی خود واضح میسراید : من از بود و نبود خود خموشم اگر گویم کہ ھستم خود پرستم و لیکن این نوای سادۂ کیست کسی در سینہ میگوید کہ ھستم برخی می گویند دکتور اقبال کلمۂ ’’ایگو‘‘ را کہ ترجمہ آن در عربی ’’انا‘‘ است بہ کلمہ خودی عوض کردہ است، انا ھم نزد متصوفین آوازیست کہ از ھمان وجود واحد کہ مرآت صور اشیا است بروز میکند۔ متصوفین وقتیکہ از ما سواء اﷲ تجرید می کنند بہ مرتبہ کشف و شھود میرسند و در ھمان مرتبہ روحانی بجز نور تجلی وجود حق ھیچ چیزی بہ آنہا مشھود نمیگردد، چنانچہ مولانا جامی علیہ الرحمہ میفرمایند : در صورت آب گل عیان غیر تو کیست در خلوت جان و دل نہان غیر تو کیست گفتی کہ ز غیر من ببرد از دلت ای جان جہان در دو جہان غیر تو کیست این است مرتبہ عشق حقیقی کہ یگانہ وسیلہ رسیدن بحقیقت الحقایق است دکتور اقبال میسراید: قطرہ چون حرف خودی ازبر کند ھستی بی مایہ را گوھر کند نقطۂ نوری کہ نام او خودیست زیر خاک ما شرار زندگیست از محبت میشود پایندہ تر زندہ تر سوزندہ تر تابندہ تر از نگاہ عشق خارا شق شود عشق حق آخر سراپا حق شود تصوف اسلام کہ از پایۂ علم گذشتہ بمرتبۂ عرفان صعود کرد در حقیقت فلسفۂ عشق است، اسلام عشق را یک ملکہ روحی اثبات می کند، محبت یا بہ الفاظ دیگر میل معتدل کہ بہ جمال و کمال اشیا در انسان پیدا میشود عاطفہ است، اما وقتیکہ محبت شدید تر میگردد انسان از خود و ما سوا اﷲ تجرید میکند، بالکلیہ فکر او ذکراً بخدا متوجہ و محو می شود، بمقام عشق میرسد۔ معنی عشق حقیقی در تصوف اسلام ھمین است۔ در اطوار سبعہ تصوف ھمین مقام و مر تبہ عشق را فنا فی اﷲ میگویند چنانچہ مولانا جلال الدین بلخی می فرماید: عشق آمد و شد چو خونم اندر رگ و پوست تا کرد مرا خالی و پر کرد ز دوست اجزای وجودم ھمگی دوست گرفت نامیست ز من بر من و باقی ھمہ اوست مولانا درین رباعی مرتبۂ عشق را چنین تصریح میکند : بی روی تو بلبلان گلستان چہ کنند بی یاد تو عاشقان بہ بستان چہ کنند یک جرعہ شراب شوق در جامم ریز وانگاہ نظارۂ کہ مستان چہ کنند دکتور اقبال بہ ھمین مضمون میسراید: شنیدم در عدم پروانہ می گفت دمی از زندگی تاب و تبم بخش پریشان کن سحر خاکسترم را و لیکن سوز و ساز یک شبم بخش متصوفین اسلام عقل بشر را برسیدن حقایق از راہ محسوسات قاصرمیدانند، زیرا عقل ااز تاثیرات و تمایلات و شواھد خارجی و حسیات انسانی متأثر گردیدہ سھو و خطا میکند، چنانچہ چشم کرہ آفتاب را از کرۂ زمین خورد تر می بیند و آفتاب را بطواف زمین در حرکت مشاھدہ می کند و تشنہ سراب را دریای آب صور مینماید، لکن وجدان بشر کہ آن راعقل بالفعل مینامند و یک ملکہ روحی است کہ خیر را از شر و صوا ب را از خطا تمیز میکند، نزد متصوفین یگانہ وسیلۂ رسیدن بحقیقت الحقایق است، چنانچہ فرمود ہ اند ’’الوجدان فی حد ذاتہ لا یکون الا مطابقا للواقع‘‘ یعنی وجدانی در حد ذات خود بامر واقع مطابقت میکند، وجدان در موقع تفاوت خویش از محسوسات اجتناب مینماید و حواس را بخود راہ نمیدھد، بذات خود با صفای باطن قضاوت میکند، قرار میدھد و حکم میکند۔ ھمچنان کہ قرآن کریم ماھیت روح را بفحوای آیہ کریمہ: ’’قل الروح من امر ربی‘‘ امر رب وانمود فرمودہ است، فلاسفہ نیز بہ ماھیت روح تا امروز پی نبردہ اند، اما روح را توجیہاتی میکنند کہ ازان جملہ میگویند : ’’روح عبارت از اصل حیات است وصفت ممیزہ حیات تمثیل است یعنی اغذیہ را بعناصر بدن بحال مماثل رسانیدن است کہ بہ این معنی روح در انسان و حیوان و ثبات یکسان است چرا کہ حیوان و نبات نیز تمثیل و نشوونما میکنند‘‘ بعضی روح را حساس بالارادہ توجیہ کردہ اند کہ بہ این جہۃ حیوانات از نباتات تفریق میشوند، برخی آن را روح انسانی و نفس ناطقہ مینامند کہ بہ این معنی انسان از حیوان علیحدہ و ممتاز میگردد۔ دکارت کہ از فلاسفہ قرن ھفدھم اروپاست میگوید: ’’حقیقت را ازین استنباط مینمایم کہ من اشتباہ میکنم، چون اشتباہ میکنم ادراک میکنم، چونکہ ادراک میکنم موجود ھستم، برای ادراک موجود شدن ما لازم است پس در صورتیکہ موجود ھستم و ادراک میکنم آنچہ را کہ روشن و متمایز تصور میکنم ھمہ حق ھستند، لہذا تصور و روشن و متمایز اساس معیار حقیقت است، یعنی یقین و ایمان کامل وسیلۂ بحق و اصل شدن است و یقین و ایمان کامل عشق حقیقی است و محل ایمان وجدان است‘‘ اسلام نیز قلب انسان را محل تصدیق وانمودمی فرماید چنانچہ متصوفین میگویند دل لطیفہ ای است محل معرفت و سر لطیفہ ای محل مشاھدات، ازین رو در نظر عارف دل یک لطیفہ یا ملکہ ایست کہ انسان بواسطہ آن حق و باطل را تفریق میکند و حق را تصدیق و باطل را تردید مینماید، این ملکہ یا لطیفہ نزد متصوفین بنام دل و بہ نظر حکما و فلاسفہ بہ اسم وجدان معروف است، دل یا بہ الفاظ دیگر وجدان را متصوفین کرام چنین تعریف میکنند : ’’بدانکہ مراد از دل بزبان اشارت آن نقطۂ است کہ دائرہ وجود از او در حرکت آمد و کمال یافت و سرازل و ابد در و پہم پیوست و مبتدای نظر در روی بہ منتہای بصر رسید، رحمان و منزل قرآن است و حامل و محمول سر امانت و لطف الہی است، صورت او از عین عشق مصور است و بصیرت او بنور مشاھدہ منور و از امتزاج روح نفس و عشق بصورت قلب متولد گشت وبر منال برزخی میان بحر روح و بحر نفس واسطہ شد و ھر دو بایستاد تا اگر در بین روح و نفس بغی رو دھد مانع گردد‘‘ دکتور اقبال در ھمین مضمون میسراید: چہ میپرسی میان سینہ دل چیست خرد چون سوز پیدا کرد دل شد دل از ذوق تپش دل بود لیکن چو یکدم از تپش افتاد گل شد کانت فیلسوف مشھور آلمان کہ از سنہ ۱۷۲۴ تا سنہ ۱۸۰۴م می زیست، می گفت کہ عقل نظری بہ کنہ ذات باری تعالی نمیرسد اما صفات حق تعالی را بما اثبات میکند، وجود واجب الوجود بواسطہ عقل عملی ’’وجدان‘‘ خوبتر اثبات شدہ می تواند یعنی بہ قلب انسان کہ مصدر قانون اخلاق است اثبات وجود واجب الوجود بہتر تجلی میکند۔ کانت اعتراف میکرد کہ عقل نظری دلائل واضح و روشن برای وجود حق تعالی اقامہ میکند، اما بہ حقایق ذات او تعالی نمیرسد عقل نظری بعضا انسان را بہ ضلالت سر دچار میسازد اما وجدان یا بہ الفاظ دیگر عقل عملی انسان را بہ ایفای وظائف بلا قید و شرط امر میکند، چنانچہ بسی اوقات دیدہ شدہ کہ انسان حیات خود را بدون فکر مکافات برای نجات یک فرد ھمجنس خود بہ تہلکہ می اندازد، این امر وجدانی و قانون اخلاقی را خدای عز و جل در ضمیر انسان ودیعت و موھبت میفرماید و قانون اخلاق از وجدان بشر ظھور میکند، عدالت را بجز خدای تعالی ھیچ کس در دنیا فراھم کردہ نمی تواند لہذا خدای عزوجل موجود و بعث بعد الموت در آخرت حق است، انسان باید آزاد باشد تا متقی شود و بسعادت برسد ورنہ پرھیز کاری جبری تقویٰ نیست۔ اسلام نیز بندہ را فاعل مختار می شناسد۔ قرآن کریم میفرماید ’’من شاء فلیؤمن و من شاء فلیکفر‘‘ در آیہ دیگر میفرماید ’’من عمل صالحا افلنفسہ و من اساء فعلیہا‘‘ عقیدہ اھل سنت و جماعت برآنست کہ بندہ فاعل مختار است و درخلق عمل نیک بندگان رضای او تعالی مقصود و در خلق عمل طالح بندہ مشئیت خالق عزوجل موجود است اما از عمل طالح بندگان خوشنود نیست، خداوند ھر دو قسم عمل بندہ را خلق می کند و بندہ را بر ارادۂ او قادر می سازد۔ چنانچہ آیہ کریمہ میفرماید : ’’و اﷲ خلقکم و ما تعملون‘‘ از فلاسفہ مشھور فرانسہ فلاماریون در جبر و اختیار اعمال بشر چنین میگوید : اعمال بشر نہ جبر محض اند و نہ اختیار محض، عمل انسان نتیجہ ارادہ اوست و ھم عوامل خارجی کہ در تحت اختیار او نمی باشند در ارادۂ وی مؤثر اند، عقیدہ دکتور اقبال در مسئلہ جبر و اختیار ازین رباعی ھویدا ست: بہ روما گفت با من راھب پیر کہ دارم نکتہ ای از من فراگیر کند ھر قوم پیدا مرگ خود را ترا تقدیر و ما را کشت تدبیر در جای دیگر میگوید: کلک حق از نقشہای خوب و زشت ھر چہ ما را سازگار آمد نوشت بندۂ آزاد را آید گران زیستن اندر جہان دیگران ھر کہ او را قوہ تخلیق نیست پیش ما جز کافر و زندیق نیست وجدان بشر عمل صالح و طالح را بہ مرتکب وانمود میکند و انسان را بہ عمل صالح وادار می سازد اما بعضی از بندگان کہ اسیر تمایلات خود ماندہ اند، ھدایت وجدان را قبول نمی کنند و مرتکب عمل طالح میشوند۔ متصوفین اسلام وجدان انسان را آئینہ تجلی انوار حقیقت میدانند و عشق حقیقی را کہ منزہ از تمایلات نفسانی بشر است ملکہ با لطیفہ وجدانی مینامند و یگانہ وسیلہ نجات انسان از آلایشہای مادی وانمود می کنند۔ عشق در مذھب متصوفین اسلام حالت جذب و محو عاشق است بصفات محبوب، چنانچہ حضرت جنید قدس اﷲ سرہ العزیز میفرمایند : ’’المحبۃ دخول صفات المحبوب علی البدل من المحب‘‘ دکتور اقبال درین مضمون می سراید: کرا جوئی چرا در پیچ و تابی کہ او پیداست تو زیر نقابی تلاش او کنی جز خود نبینی تلاش خود کنی جز او نیابی دکتور اقبال منزلت صدق و یقین را مقام کشف حقایق وانمود می کند و در ھمچہ مقام عالی صحبت روح الامین میسر میگردد یعنی اسرار حقیقت بہ انسان منکشف میشود چنانچہ میفرماید: مقام شوق بی صدق و یقین نیست یقین بی صحبت روح الامین نیست گر از صدق و یقین داری نصیبی قدم بی باک نہ کس در کمین نیست در جای دیگر دکتور اقبال میسراید: مذھب عصر نو آئینی نگر حاصل تہذیب لادینی نگر زندگی را شرح و آئین است عشق اصل تہذیب است دین، دین است عشق ظاھر او سوزناک و آتشین باطن او نور رب العالمین دین نگردد پختہ بی آداب عشق دین بگیر از صحبت ارباب عشق دکتور اقبال عشق را رھنمای کوائف حیات میداند، عشق را وسیلۂ کشف کائنات مینامد، اقبال می گوید کہ ارتقا و اعتلای انسان از عشق است، انسان بہ یمن و اقبال عشق بر نفس خود و اشیا مسخر میگردد، عشق حر و آزاد است، معشوق خود را جستجو میکند، ھیچ مانعی را درین راہ قبول ندارد، اقبال درین خصوص میسراید: جہان از عشق و عشق از سینۂ تست سرورش از می دیرینۂ تست جزاین چیزی نمی دانم ز جبریل کہ او یک جوھر از آئینۂ تست اقبال آتش عشق را در کانون سینہ مسلمانان منطفی و خام میدید، مسلمانان را از طلب و جستجوی ترقی و اعتلا عاری و جامد مشاھدہ میکرد، بر حال مسلمانان بہ این الفاظ افسوس و الم خود را اظہار می نمود: ز جان خاور آن سوز کہن رفت تنش واماند و جان او ز تن رفت چو تصویری کہ بی تار نفس زیست نمیداند کہ ذوق زندگی چیست اقبال میخواست آن عشق دل افروز و آتش جانسوز را در حیثیت دل و دماغ مسلمانان بار دیگر شعلہ ور گرداند و ھستی بی سایہ و حیات بی مقصد و بی غایہ ملل شرق را جان تازہ بخشد۔ چنانچہ میگوید: از نوای پختہ سازم خام را گردش دیگر دھم ایام را فکر شرق آزاد گردد از فرنگ از سرود من بگیرد آب و رنگ اقبال کوشش میکرد کہ برای فروغ زندگانی و فراغ بی سروسامانی مسلمانان وسیلہ ایجاد کند، بجز تبلیغ و تنبیہ چارہ دیگر نیافت، شعر و شاعری خود را واسطہ تبلیغ افکار سیاسی و اجتماعی خویش قرار داد چنانچہ درین بیت میگوید : شعر را مقصود گر آدم گریست شاعری ھم وارث پیغمبریست اقبال سکوت را سقوط قوم میداند، در قومی کہ تبلیغ نیست آن قوم در نظر اقبال مشرف بہ موت است چنانچہ اقبال از زبان مولانای روم بخود چنین میگوید: آتشی استی بزم عالم برفروز دیگران را ھم ز سوز خود بسوز از نیستان ھمچو نی پیغام دہ قیس را از قوم حی پیغام دہ نالہ را انداز نو ایجاد کن بزم را از ھای و ھو آباد کن خیز و جان نو بدہ ھر زندہ را از قم خود زندہ تر کن زندہ را آشنای لذت گفتار شو ای درای کاروان بیدار شو اقبال از شور و سوز سید جمال الدین افغانی الہام گرفتہ با نالہ ونوحہ درد انگیز مسلمانان را از خواب گران تکان داد، اقبال اسارت و غلامی ملل اسلامی را از استبداد و خود پرستی سلاطین و تن پروری و جاہ طلبی ملا و عالم مسلمان و انمود میکند، چنانچہ می سراید : آہ ازان قومی کہ از پا بر فتاد میر و سلطان زاد و درویشی نزاد داستان او مپرس از من کہ من چون بگویم آنچہ ناید در سخن در گلویم گریہ ھا گردد گرہ این قیامت اندرون سینہ بہ مسلم این کشور از خود ناامید عمر ھا شد با خدا مردی ندید لاجرم از قوت دین بدظن است کاروان خویش را خود رھزن است از سہ قرن این امت خوار و زبون زندہ بی سوز و سرور اندرون ٭٭٭ زشتی اندیشہ اور را خوار کرد افتراق او را ز خود بیزار کرد تا نداند از مقام و منزلش مرد ذوق انقلاب اندر دلش طبع او بی صحبت مرد خبیر خستہ و افسردہ و حق ناپذیر نی بکف مالی کہ سلطانی برد نی بدل نوری کہ شیطانی برد شیخ او لورد فرنگی را مزید گرچہ گوید از مقام بایزید دولت اغیار را رحمت شمرد رقص ھا گرد کلیسا کرد و مرد اقبال فکر ترک دنیا و عزلت گزینی مسلمانان را انتقاد میکند و کسانیکہ حدیث ’’الفقر فخری‘‘ را بہ ترک دنیا و فرار از مشکلات زندگانی توجیہ و تفسیر می کند، او را بدگفتہ حقیقت فقر را چنین شرح مینماید: چیست فقر ای بندگان آب و گل یک نگاہ راہ بین یک زندہ دل فقر کار خویش را فہمیدن است بر دو حرف لاالہ پیچیدن است فقر ذوق و شوق تسلیم و رضا است ما امینیم این متاع مصطفی است برگ و ساز او ز قرآن عظیم مرد درویشی نگنجد در گلیم با سلاطین در فتد مرد فقیر از شکوہ بوریا لرزد سریر معنای فقر این نیست کہ انسان در مشکلات زندگانی ھمت باختہ و خود را حقیر ساختہ ترک مبارزہ و مجادلہ کند بلکہ معنی فقر از کمک غیر بی نیازی است قرآن کریم میفرماید ’’نصیب خود ر ا از دنیا فراموش مکن‘‘ بار دوش جامعہ و فامیل خود گردیدن و بہ تن پروری زیستن فقر نیست فقر از ضرر مال و جان بنی نوع خود اجتناب کردن است، فقر بر خواھشات و احتراصات خود غالب و حاکم شدن است، فقر از حرص و آز پرھیز کردن و بمال و جاہ دنیا افتخار و ماھات نداشتن است۔ دکتور اقبال درین معنی میسراید: ای کہ از ترک جہان گوئی مگو ترک این دیر کہن تسخیر او فقر مؤمن از جہان آب و گل باز را گوئی کہ صید خود بہل حل نشد این معنی مشکل مرا شاھین از افلاک بگریزد چرا نیچی فیلسوف آلمان کہ دشمن دین و اخلاق بود در مسئلہ ارتقای زندگانی با اقبال ھمنواست، نیچی میگفت : ’’من از ھر چیز بیشتر بقدرت ارادہ معتقد ھستم، من قدرت عزم وارادہ را در تحمل مصائب و نوائب امتحان میکنم، علو عزم و ارادہ از مقاومت آن معلوم است آنقدر مقاومت میباید تا مسئلہ بنفع عازم تمام شود‘‘ نیچی میگوید کہ : ’’دین نصارا در دل انسان خوف و ترس تولید میکند، فخر و مباھات انسانیت را محو میکند، قدرت و توان آدم را ضعیف می سازد، انسان را بہ اندیشہ و حزن دچار میکند و شعور انسان را می رباید، مجبوراً انسان بہ باطن مخوف و مغبون خویش رجوع کردہ ھستی خود را می کاھد۔‘‘ اقبال در شان اسلام چنین می فرماید: اندر آہ صبحگاہ او حیات تازہ از صبح نمودش کائنات بحر و بر از زور طوفانش خراب در نگاہ او پیام انقلاب درس لا خوف علیم میدھد تا دلی در سینہ آدم نہد عزم وتسلیم و رضا آموزدش در جہان مثل چراغ افروزدش صحبت او ھم خذف را در کند حکمت او ھر تہی را پر کند بندۂ درماندہ را گویند کہ خیز ھر کہن معبود را کن ریزریز اقبال تعلیم و تربیہ اسلام را برای بنی نوع بشر بہترین وسیلہ سعادت میداند و مسلمانان را تنبیہ میکند کہ از خواب و خور کم کنیدو بار دیگر بزرگی از دست دادہ را تصاحب نمائید: کوہ و صحرا، دشت و دریا، بحر و بر تختۂ تعلیم ارباب نظر ای کہ از تاثیر افسون خفتہ ای عالم اسباب را دون گفتہ ای خیز و واکن دیدۂ مخمور را دون مخوان این عالم مجبور را غایتش توسیع ذات مسلم است امتحان ممکنات مسلم است میزند شمشیر دوران بر تنت تا ببینی ھست خون اندر تنت سینہ را از سنگ روزی ریش کن امتحان استخوان خویش کن حق جہان را قسمت نیکان شمرد جلوہ اش با دیدۂ مؤمن سپرد کاروان رھگذر است این جہان نقد مومن را عیار است این جہان گیر او را تا نہ او گیرد ترا ھمچو می اندر سبو گیرد ترا تا ز تسخیر قوای این نظام ذوفنونی ھای تو گردد تمام نائب حق در جہان آدم شود بر عناصر حکم او محکم شود دست رنگین کن ز خون کوھسار جوی آب گوھر از دریا برآر جستجو را محکم از تدبیر کن انفس و آفاق را تسخیرکن تو کہ مقصود خطاب انظری پس چرا این راہ چون کوران بری اشتراکیت در نظر اقبال باید دانست کہ فلسفہ اشتراکیت از فلسفۂ اضداد اشتقاق گردیدہ است و فلسفہ اضداد اگرچہ از قدیم بین فلاسفہ و حکما موضوع بحث بودہ اما این فلسفہ راھیگل در تحت یک نظام فکری ترتیب و تدوین کردہ است کہ بنام فلسفہ ھیگل معروف است ھیگل میگفت کہ نہ تنہا اشیاء بر ضد خود قائم ھستند بلکہ در دنیا تا امروز ھر قدر ترقی و اعتلائی کہ بہ وقوع رسیدہ و عالم انسانیت در عرصہ تاریخ ھر قدر پیشرفت نمودہ است سبب اصلی و محرک حقیقی آنہمہ ارتقا و اعتلا جنگ و پیکار اضداد است۔ چنانچہ ھرتصور چون از مراحل ابتدائی پیشتر می رود ضد آن تصور از خود آن ظھور میکند و ازین دو تصور ضدین یک تصور سومین بوجود می آید۔ اگر انسان بر فکری، خوب غور و خوض کند و آن را بہ کمال منطقی برساند در آن حال محسوس خواھد کرد تصوری یراکہ ابتدا و آغاز کردہ بود در انتہا ازان تصور چیزی باقی نماندہ است۔ ھیگل درینخصوص ھمچہ مثال ارائہ میکند و میگوید کہ شما برین حکم عام اخلاقی نظر کنید کہ در تمام مذاھب مشترک است، چنانچہ ھر مذھب امر می کند کہ امداد غربا بر ھر ذی استطاعت واجب است پس اگر این حکم اخلاقی تعمیل شود و ھر صاحب استطاعت بہ غربا امداد کند در امم غریب نخواھد ماند، غربا ھمہ مالک بضاعت خواھند شد و فکر امداد غربا بنا بر تکامل منطقی خود باطل می شود زیرا غریب در مملکت باقی نماندہ است بہ کی امداد کردہ شود۔ مثال دیگر کہ ھیگل درین خصوص بیان میکند ھمانا شفقت مادر است بہ اولاد۔ مادر اولاد خود را دوست دارد۔ فرزند خود را بجان پرورش و نوازش میکند اما اگر تنہا شفقت مادر مربی اولاد می بود اولاد امر مادر را در خواھشات ردیا قبول نمیکرد۔ ازینجاست کہ مادر رعب خود را نیز در دل اولاد باید ایجادکند، درین صورت محبت ضد خود خوف را ایجاب میکند۔ خلاصہ ھر فکر یا تصور پس از رسیدن بیک حدود مرتبہ نفی میگردد لکن از نفی آن اثبات نوی ظھور می نماید کہ بر ضد اول می باشد۔ ھیگل سبب این نفی و اثبات ھمانا محدود و ناقص بودن تصورات را وانمود میکند ھر تصور بنا بر محدود بودن خود ضد خویش را ایجاد مینماید و بنا بر ظھور ضد خود نفی می شود اما تصور نو نفی ھر جز، تصور سابق نیست بلکہ اجزاء ناقص آن را نفی میکند و از آنجای کہ تصور جدید میکند ازین رو تصور جدید نسبت بہ تصور منتفی خیلی وسیع می باشد، ازین رو از ترکیب اضداد یک وحدت نو ایجاد می شود کہ از ھر دو وسیعتر است، اما این وحدت جدید نیز محکوم بہ نفی میشود و آن عمل انتفا بر او جاری و ساری میگردد و این سلسلہ ھمیشہ بر یک منوال دوام میکند۔ مثلاً ھمینکہ تصور وجود پیدا می شود تصور عدم در حال ظھور می نماید اگر وجود از تعینات و نشوونما مبرا باشد عدم است لیکن از دو تصور وجود عدم تصور ثالث کون یا حدوث ظاھر می شود زیرا در ھستی ھم وجود وھم خود موجود است، پس از ترکیب ضدین وجود و عدم و حیات نو (ھستی) ظھور مینماید کہ حاوی ھر دو ضدین است۔ ھیگل ازین عمل ارتقا بہ این نتیجہ رسید کہ مدارج مابعد از مدارج اول متعین میگردند زیرا ھر تصور مخالف تصور اول را نفی میکند و از تعلق تصور اول تصور مخالف متعین میگردد، چنانچہ از ظھور ریشہ و تنہ و شاخہ تخم فنا میشود۔ لیکن جوھر تخم بصورت ارتقا در تنہ و شاخہ و خوبتر و بہتر موجود است، ھیگل میگوید کہ قیمت ھای ھستی ھیچگاہ فنا پذیر نمی باشد در حافظہ روح کائنات ھر قیمت محفوظ می ماند و در فساد صرف صورت خارجی آن از میان میرود، جوھر اصلی معدوم نمیگردد۔ ھیگل این جدال نفی و اثبات را عمل جدلی (Dialectical (Processمینامد۔ بہ عقیدہ ھیگل تاریخ انسان عبارت از ھمین کش مکش و جنگ اضداد است۔ بیدل نیز عقیدۂ ھیگل را صدھا سال پیشتر از ھیگل چنین وانمود فرمودہ بود: مقصدی گر بود از ھستی ھمین آزار بود ورنہ در گنج عدم آسودگی بسیار بود ھیگل این عمل جدلی را فطرت زندگی میداند و زندگانی را از قدرت واحد و مخفی وانمود می کند کہ بہ عقیدہ متصوفانۂ ھیگل این قدرت واحد روح مطلق است یعنی خدای عزوجل است کہ بہ این واسطہ کمال قدرت و قوہ خالقیت خود را ظاھر می نماید۔ متصوفین اسلام ھستی اشیا را از ظل وحدت وجود می دانند کہ ھمیشہ ارتقا و تکامل میکند۔ فلسفۂ کارل مارکس بر ھمان نظریہ اضداد و عمل جدلی کہ ھیگل وانمود کردہ تعمیر گردیدہ است، لکن نظریہ کارل مارکس با فلسفہ ھیگل ازین نقطۂ نظر فرق دارد کہ ھیگل وقوع جنگ اضداد را در میادین تصورات وانمود میکند و مظاھر خارجی حیات را درین محاربات ذیمدخل نمی داند، میگوید صرف وقتی کہ یک تصور بر تصور دیگر فاتح میگردد انسان و ماحول خارجی آن بہ تصور فاتح منقاد میشوند بہ عقیدہ ھیگل محرک تغییر اساسہائی تمدن و تہذیب و معاشرت انسانی ھمانا تفسیر و انقلابات عالم افکار بشری است۔ لکن کارل مارکس محرک تغییر اساسہای تمدن و تہذیب و معاشرت انسان، تغییر و انقلاب شرائط زندگی و نظام معاشرت انسان را وانمود میکند و ادعا می نماید کہ محرک تغیر اساسہای تمدن و تہذیب و معاشرت انسان تغیر و انقلابات عالم افکار نیست بلکہ عمل جدلی را ھمین انقلابات شرائط زندگانی و تغیرات نظام معاشرتی انسانی ایجاد میکند، چنانچہ نظام سرمایہ داری تا وقتی بجامعہ خدمت میکرد تا آن کہ تقسیم مساوی منافع بین سرمایہ دار و کارگر موضوع بحث نبود، از سرمایہ صرف طبقہ متمولین مامور و بورژ وا انتقاع می نمودند، متمولین و مامورین و طبقہ بورژوا بر حال پرملال رنجبران ھیچ رحمی نداشتند، از محنت و رنج دست پای این طبقہ اعظمی انتقاع میکردند، ازین رو بر ضد سرمایہ داری قیام کمیونیزم ناگزیر است زیرا سرمایہ ھیچگاہ منتشر نمی شود۔ از خاصیت سرمایہ داری است کہ سرمایہ نزد اشخاص محدود تمرکز میکند و بہ مرور ایام احوال کارگر بہ فجیع ترین منوال مبتلا میگردد۔ ازین رو طبقہ رنجبران برای استرداد حق خود بر علیہ سرمایہ دار قیام میکند و روزی میرسد کہ کارگر و کشاورز بر سائر مردم اصول مساوات را مرعی می سازد، افکار کارل مارکس زادۂ فکر رنجبریست، وی یکی از فلاسفہ عصر نزد ھم اروپاست کارل مارکس در پیشگوئی ھای خود میگوید کہ حکومت کارگران و کشاورزان استوار و برقرار خواھد شد این حکومت اشتراکی امتیازات طبقات را از میان مرتفع خواھد ساخت بلکہ اصناف را ھم محو خواھد کرد۔ دکتور اقبال بر کارل مارکس اعتراض و انتقاد میکند و میفرماید: دین آن پیغمبر حق ناشناس بر مساوات شکم دارد اساس تا اخوت را مقام اندر دل است بیخ او در دل نہ بر آب و گل است در جای دیگر داکتر اقبال میسراید: غریبان گم کردہ اند افلاک را در شکم جویند جان پاک را رنگ و بو از تن بگیرد جان پاک جز بہ تن کاری ندارد اشتراک دکتور اقبال از عیش پرستی امروز بیشتر از ماضی شکایت میکند، نسل نو مسلمانان نسبت بہ ماضی خیلی آوارہ و بیکارہ گردیدہ اند، ھیچ بخود نیامدہ اند، از فضایل مدنیت اروپا محروم و از رذائل آن مشئوم گردیدہ اند، معنای حریت را در قید و قیود اساسہای اخلاقی و ایمانی بشر جستجو دارند، بہ ھیچ یک وصف و حسن اخلاق قائل نیستند، تماماً بر احساسات و احتراصات خود زندگانی میکنند، نسل نو مسلمان متنفر از ماضی و از خود راضی ھستند، دین، اخلاق، وطن مادر، پدر و اولاد ھیچ یکی را لایق وابستگی خود نمی دانند در نظر این طائفہ بر انداختن اساس و اصول ورع و تقوی عدالت است، پاکدامنی و حسن عقیدہ را تعصب دانستہ تحقیر می کنند، می گویند بھر معنی و اوصاف باید اروپائی شد زیرا فضائل اروپا را بدون رذائل آن کسب نمیتوان کرد۔ ھر چیز یکہ طبیعت انسان بانسان امر میکند باید بہ آن عمل کرد در جوانان این عصر آنقدر رقابت و حقد و حسد حکم فرماست کہ دو نفر بر حل یک مشکل ھم فکر و ھم ارادہ شدہ نمی توانند۔ نفاق و شقاق جوانان امروزی نسبت بہ دورہ ھای و حشت و دھشت دیروز خانہ بر انداز تر است۔ لذا ملل اسلامی افغان، ایران، ترک و عرب را در آثار تنبیہی خود بہ لحن شدید و سوز ناکی انتقاد می نماید۔ چو رخت خویش بربستم ازین خاک ھمہ گویند با ما آشنا بود و لیکن کس ندانست این مسافر چہ گفت و باکی گفت و از کجا بود؟ {اقبال} اقبال و افغانستان دکتور عبدالحکیم طبیبی از اقبال و افغانستان، ص الف تا د صد سال قبل، در شھر سیالکوت، در یک خانوادۂ بازرگان کشمیری، طفل خندانی بجہان چشم گشود، کہ در جوانی و پیری در شبہ قارۂ ھند و پاکستان و حتی خارج سرحدات کشور خود شھرت یافت، و ھر کس افکار، اشعار و احساسات پرجوش، پر کیف و پر درد او را بحرمت زیاد استقبال می کرد۔ اقبال با افغانستان از اوان طفولیت تا روزگاران پیری و پختگی، عشق و علاقہ داشت و روح آزاد منش، تاریخ پر از شکوہ و جلال، افکار فلسفی و عرفانی مردم این سر زمین ھمیشہ مورد تمجید و تقدیر او می بود کہ در اشعار سوزان او این محبت و علاقہ مندی منعکس میشد۔ امروز کہ افغانستان مانند کشور مولد او پاکستان و سایر ملل خاطرہ تجلیل صدمین سال حیات او را احترام میکند یک چیز تازہ نیست، زیرا از نیم قرن بہ این طرف در مطبوعات افغانستان تقدیر از مقام ادبی، فلسفی و اجتماعی اقبال بعمل آمدہ و مردم ما او را یکی از دوستداران بزرگ افغانستان و افغانیان دانستہ اند۔ زیرا اقبال افغانستان را قلب آسیا و ممد حیات و زندگانی این منطقہ میدانست و میگفت: آسیا یک پیکر آب و گل است ملت افغان درآن پیکر دل است از فساد او فساد آسیا در گشاد او گشاد آسیا تا دل آزاد است آزاد است تن ورنہ کاھی در رہ باد است تن البتہ ارتباط داکتر اقبال، با افغانستان یک امر طبیعی بود، زیرا پدرش نور محمد و جدش محمد رفیق پیش از آنکہ بہ سیالکوت نقل مکانی کنند، در کشمیر زندگانی داشتند کہ آنوقت استعمار خط جدایی را بین دیار او شان و ما ایجاد نکردہ بود۔ داکتر اقبال، قبل از آنکہ بہ تاریخ ۲۲ اکتوبر ۱۹۳۳ بکابل، بہ حیث مہمان انجمن ادبی وارد شود، در عالم خیال و روحانی با سنگ و چوب، آسمان و زمین، نوابغ و سلاطین وراد مردان دینی و عرفانی ما آشنا بود و در اشعار خود با سوز و جذبۂ زیاد شرق را بہ جلال دورہ محمود زابلی و احمد شاہ ابدالی متوجہ میساخت، و در تصوف و عرفان از سنایی و مولوی و جامی الہام میگرفت و ھمچنین سید جمال الدین را ناجی بیداری مشرق زمین می شمرد، و چینین میسرود: خیبر از مردان حق بیگانہ نیست در دل او صد ھزار افسانہ ایست ملتی گم گشتۂ کوہ و کمر در جبینش دیدہ ام چیز دگر زانکہ بود اندر دل من سوز و درد حق ز تقدیرش مرا آگاہ کرد و یا در زبور عجم کہ میگفت: فکر رنگینم کند نذر تہیدستان شرق پارۂ لعلی کہ دارم از بدخشان شما حلقہ گرد من زنید ای پیکران آب و گل آتشی در سینہ دارم از نیاگان شما بلی این عشق و علاقہ بہ گذشتگان افغانی، بلکہ بہ معاصرین او نیز پا بر جا بود، چنانچہ خطابہ پیام مشرق او در ۱۹۲۳م بہ اعلیحضرت امان اﷲ خان و حضور او بہ استقبال اعلیحضرت محمد نادر شاہ در بازگشت شان برای نجات وطن، در ایستگاہ ترن لاھور و دعای موفقیت او برای نجات وطن نمونہ، این عشق و علاقہ مندی بہ مردان معاصر افغانستان میباشد۔ چنانچہ گفتہ شد کہ در عالم سیاست و آزادی مشرق ھمیشہ افکار و مبارزات سید جمال الدین افغانی الہام بخش اقبال بود زیرا در طی اشعار سوزان خود اقبال با سید افغانی در گفت و شنود بود کہ البتہ این نجوا و گفت و شنود از کودکی اقبال ریشہ گرفتہ بود زیرا وقتی علامہ اقبال، ابو الکلام آزاد و مہاتما گاندی در مدارس لاھور، کلکتہ و گجرات مشغول تحصیل بودند مقالات پرشور سید افغانی در اخبار ’’معلم شفیق‘‘ حیدر آباد و یا خطابہ ھای پر ھیجان او در ’’البرت ھال‘‘کلکتہ آتش بجان مبارزین آیندہ ھند شمول اقبال می افروخت و این رابطہ روحانی تا دم مرگ نزدشان باقی ماند۔ طوریکہ گفتم در ساحہ عرفان و تصوف نیز حکیم فرزانہ لاھور باعارفان بزرگ افغانستان چون سنائی، مولوی و جامی رابطہ نزدیک روحانی داشت کہ جاوید نامۂ اقبال شاھد آن است و شاید این رابطہ نیز از ایام کودکی با متصوفین افغان قایم شدہ بود زیرا ھنگامی کہ در طفولیت ھر صبح و شامی اقبال بسوی مدرسہ میرفت در آستان صوفی بزرگ غزنہ علی ھجویری (دا تا گنج بخش ) کہ در لاھور مدفون است دعا و شمع نثار می کرد و این اخلاص راتا وقتی کہ در ھمان شھر مدفون شد دوام میداد۔ اقبال وقتی در مسافرت خویش بہ مزار حکیم بزرگ سنائی حاضر شد از حال رفت و این شعر را سرود: آہ غزنی آن حریم علم و فن مرغزار شیر مردان کہن دولت محمود را زیبا عروس از حنا بندان او دانای طوس خفتہ در خاکش حکیم غزنوی از نوای او دل مردان قوی در فضای مرقد او سوختم تا متاع نالہ ای اندوختم گفتم ای بینندۂ اسرار جان بر تو روشن این جہان و آن جہان آنچہ اندر پردۂ غیب است گوی بو کہ آب رفتہ باز آید بجوی در ارمغان حجاز نیز اخلاص و ارادت خود را بہ رومی و جامی چنین اظہار میکند: مرا از منطق آید بوی خامی دلیل او دلیل ناتمامی برویم بستہ درھا را گشاید دو بیت از پیر رومی یا ز جامی در قبول فلسفۂ ’’انسان کامل‘‘ اقبال عرفان غرب و شرق را با زیبائی و کمال تمام عجین کردہ کہ بہتر از تصور ’’نیچہ‘‘، ’’دانتہ‘‘، ’’ملتن‘‘ ، و ’’گویتہ‘‘ میباشد۔ زیرا ھستۂ اصلی تفکر اقبال بر روی عرفان مولانا جلال الدین بلخی بنا یافتہ بود و از آن باعث ’’جاوید نامہ‘‘ اقبال بہتر از ’’کمیدی الہی‘‘ دانتہ میباشد کہ میتوان آنرا اودیسہ روحانی این شاعر شوریدہ نامید و او را از پیروان صادق مکتب سنائی، رومی، جامی و ابوالمعانی بیدل دانست کہ خودش نیز بہ آن معترف است۔ در افغانستان نہ تنہا اقبال را بہ نسبت دوستی او با افغانستان احترام می کنند بلکہ احترام او بہ نسبت آن است کہ وی آخرین شاعر شیوای دری شبہ قارہ ھندو پاکستان نیز میباشد کہ بہ بیدل احترام داشت و با اینکہ در مسایل فلسفی از ’’ھگل‘‘ و ’’گویتہ‘‘ بعضاً الہام می گرفت ولی خود میگوید کہ مرزا بیدل و مرزا غالب خاصیت شرقی بودن او را برایش حفظ کردہ اند۔ ’’نظریہ خودی‘‘ علامہ اقبال در کتاب اسرار خودی و غزلہای ناب او در ’’زبور عجم‘‘ و ’’پیام مشرق‘‘ او کہ بہ اعلیحضرت امان اﷲ خان اھدا کردہ است و کتاب مسافر او کہ در عہد اعلیحضرت شہید ترتیب شدہ بود از آثار مہم ادبی و عرفانی او میباشد۔ امروز کہ چہل سال از مرگ و صد سال از تولد این شاعر نامدار شرق میگذرد، مردم افغانستان مبارزات او را کہ با حربۂ ’’قلم وشعر‘‘ علیہ استعمار برای کشور خود و مشرق زمین نمودہ است بہ نظر احترام می نگرند و این نشریہ نمونۂ احترام مردم ما بہ این عارف پاک دل میباشد۔ دکتور عبد الحکیم طبیبی قوس ۱۳۵۶۔ شھر نو شمارہ ۹۔ ۱۰۔ ۱۱۔ ۱۳و ۱۷ امان افغان پیام مشرق نہ ترنمی نہ جوشی نہ طپیدنی نہ دردی نہ خم سپھر تاکی می نارسیدہ باشی {بیدل} ’’پیام مشرق‘‘ نام مجموعہ اشعار و افکار، یکی از مجموعہ ھای جدیدی است کہ در ادبیات فارسی در این عالم تاریک، مثل ماہ طلوع نمودہ اثرشاعر شہیر عالم اسلام ’’دکتور اقبال‘‘ است، اقبال از خطہ کشمیر بینظیر و مقیم لاھور ھندوستان است۔ اقبال در بہترین مکاتب اروپا ’’کیمبرج‘‘ تکمیل تعلیم نمودہ و در آلمان دوقتور فلسفہ (پی۔ ایچ۔ دی)شدہ برآمدہ است۔ برای فلسفہ شاید جایی عالی تر از آلمان در دنیای امروز موجود نیست۔ گویا اقبال درجہ منتہای ’’عرفان‘‘ این خاکدان را طی کردہ است۔ و بعد پیش فطریت و حقیقت اسلام سر بلند خود را خم نمودہ است۔ فطو بی لہ۔ اقبال اعتراف میکند کہ این دردمندی او، این آگاھی قلبی او، این محبت او بہ رسول ﷺ و سنن سینہ از برکت انفاس مبارک بعض حضرات اھل دل است۔ خرد آموخت مرا درس حکیمان فرنگ سینہ افروخت مرا صحبت صاحب نظران اقبال اروپا را بنظر حکمیانہ دیدہ، مضار و مساوی این مدنیت سفید او را متنفر ساختہ۔ و شاید دردمندی دینی او را ھمین تجارب نیز تقویہ نمودہ است۔ اقبال شعر را در مکتب استعداد بیتاب خود تکمیل کردہ، دماغ او را فلسفہ صیقل نمودہ، و دل دردمند او منظور کیمیا گران معنی گردید۔ لہذا اقبال مالک افکار عالیہ و حقیقت شناس، اسم بامسمی شد۔ اقبال را مردم مملکتش شناختند او را ’’ترجمان حقیقت‘‘ و ’’مصور فطرت‘‘ خواندند۔ دیگران بہتر تر شناختند و اشعارش را از مکاتب و کتب درسی کشیدند۔ حالا حکومت او را ’’سر‘‘ خطاب دادہ کہ بگفتہ خود او ’’ابتلا‘‘ است و منورین ھند آنرا از ’’عجایب خطابات‘‘ می خوانند۔ اقبال تنہا برای ھند نیست۔ زیرا مہمترین آثار او در زبان فارسی نوشتہ شدہ است۔ اقبال از تمام عالم اسلام است۔ خود ھم بقید نسل و نسب نیست۔ بلکہ اگر قیدی دارد عشق مسلک و مسلک عشق است۔ اشعار اردوی اقبال مثل اشعارفارسیش وجد آورست۔ در آثار فارسی او رموز بیخودی و اسرار خودی خیلی مشھور و مرغوب است۔ شعرا دو قسم ھستند۔ یکی آنان کہ غایہ و غرض شان شعر است و شعرشان تصویر ھمان قصورات بدیعہ کہ منطق آنرا شعر میگوید۔ و آیۂ حقایق گشای (یقولون ما لا یفعلون و فی کل وادیہیمون) چھرہ نمای آن آوارہ گان خیال است۔ نوع دیگر حضرات با مسلک و متفکری اند کہ آنرا وسیلۂ حسن افادۂ و استحصال مطلب صحیح ساختہ اند مثل سعدی، جامی، رومی، سنایی رحمہم اﷲ تعالی اجمعین۔ درین عصرھای اخیر، ما یک رقم شعرایی داشتیم کہ در سنگین ساختن خواب غفلت ملت ما ھیچ تقصیری نکردہ اند۔ بیدل در مقابل یک سکتۂ لفظی کہ آنرا ’’ضرورت شعری‘‘ خواندہ بودند۔ ’’شعر چہ ضرور؟‘‘ فرمودہ بود۔ آیا این شعرای ما کہ رو حیات را گرفتار سکتۂ فلجی ساختہ اند چہ میگفت؟ این شاعر ھا از تنزل و خرابی معنویات جامعہ خیلی ’’بلی خیلی‘‘ کمتر متجسس بودند۔ بلکہ خود یکی از خرابی ھا بودند و اھمیت این بدیعہ ’’شعری‘‘ را کہ در دست ناشستۂ شان زھر آگین شدہ بود، نمیدانستند، و درک نمی کردند کہ بہ دل و روح مردم چہ نشترھای زھر دار میدر آورند۔ اینہا کشتۂ الفاظ بودند۔ تلازم و تناسب معنی بیگانہ، صنایع دیوانگانہ، مبالغات فوق الامکان، تشبیہات و استعارات بیمعنی مقصد این بیمقصد ھا بود۔ ’’عشق‘‘ این عاطفہ قدسی را بدرجۂ ’’امرد پرستی‘‘ تنزل دادہ بودند، کلمہ ھای عربی در شعر آوردن را ثقالت و سخافت می نامیدند۔ تنہا کلمات بلکہ مضامین جدی و اخلاقی و سیاسی ھم بر طبع و پریشان و میگسار غزل ھای شان مثل سنگ گران بود۔ شعر تنہا برای گل و نخل، چمن و بلبل و سراپا ھای معشوق ناقابل تصور موھوم ایشان مخصوص بود۔ ولی الحمدﷲ این بی مبالاتی، این مدہ (مود) فرسودہ دیگر از قلمرو عالم میرود فنا شود۔ (اگرچہ بقدر لازم ھنوز رفتار فنای آن سرعت ندارد ) حالا دیگر ملت اسلامیہ ایام غفلت خانخانان را تنفر میکنند۔ حالا دیگر بجای الفاظ بہ معنی و بجایِ کالبد یا روح متوجہ می شوند، حالا سیلی استادانہ دھر ما را از خواندن ’’واقف‘‘ با دیدہ ھای اشکبار منع کردہ میرود، مثلی کہ در ھر طرف لزوم راہ، راھبر و راہ پیما داریم، ھر چیز نشان منزل مقصود می جوییم، شعر را ھم از ھمہ زیاد تر و شاید از ھمہ اولتر باید برای ھمین سفر مسابقۂ حیات استعمال کنیم۔ بلی ما در دست چرخ تقدیر خواہ خود را خبر کنیم یا نکنیم بمسابقہ حیات آغاز کردہ ایم۔ ھر کہ مسابقہ را باخت، مثل عہد رومای کبری، غذای شیران گرسنہ می شود، حیات دیگر با او کناری ندارد، او صرف ادامۂ حیات دیگران میشود۔ بلی حیات حیوانات بہ محو حیات انسان ھا ادامہ میشود، ھمین است احکام نیروھای امروزہ، کہ بر تخت سلطنت مدنیت نام وحشت مطلقہ تمکن دارند۔ توجہ بہ ’’شعری‘‘ را از ھمہ اولتر گفتم۔ باین خیال کہ افراد موجود ملت ما ھمہ نمیتواند بمکتب در آمدہ و مثل اولاد ھای شان از کوچکی تہیۂ این مسابقہ بکنند و بہ این مسابقہ و تنازع مجبور ھستند زیرا در صورت مسابقہ نکردن زود تر بعالم عدم می شتابند، شعر آن انجکسیون روحانی است کہ این افراد را نیز متجسس ساختہ بحال می آورد، و اگر خون در بدن شان قطعاً فاسد یا منجمد نشدہ باشد، اگر در دل شان تیشی موجود باشد، این واسطہ یگانہ است۔ برای اینکہ اصلاح مزاج از حیات مایوس، غیرت نامانوس شان را بنماید۔ در تاریخ بیداری ملل دنیا، علی الخصوص اقوام اسلامیہ، شعر اثرھای مخصوصی دارد۔ شعر را یک گونہ الہام میگویند، فی الواقع شعر ’’صدای دل‘‘ است۔ صدای دل در دلہا جامی کند۔ ھر قدر دل دردمند تر باشد، شعر سوختہ تر و سو زندہ تر می آید۔ اینک اقبال یکی از اھل دل است کہ دلش دردمند و کلامش دلگزین است۔ مقصد این مقالہ ھمان اشعار و خیالات را با مختصری شرح بہ ملت بی شاعر خود شنواندن است، نہ اینکہ تنقید یاتقریظ پیام مشرق نمودن۔ از جہت خیلی دیری کہ ترجمہ ھای انگریزی و فرانسوی و آلمانی آن کتاب ھم طبع شدہ اند، نہ این ارادہ محمود است و نہ این بضاعت موجود۔ علاوہ بر فارسی دانہای افغانستان دیگر فارسی زبانہا ھم خیلی محتاج این اشعار یا قراضہ ھای ازین حسیات زندگی بخش است و بہ واسطۂ این مقالات شاید خدمتی برای ایفای مقصد اشعار فارسی اقبال کردہ باشیم۔ پیام مشرق عبارت از مجموعہ ایست، کہ بہ اقسام متنوعہ شامل و ھر کدام محور یک خیال معین یا گلدستۂ افکار بکراند۔ ما ھر حصہ را جدا جداتقدیم و تعریف میکنیم: اول : تمہید تمہید کتاب بقلم خود داکتر اقبال و بزبان از دوست کہ در آن ترجمہ حال گویتی شاعر مشھور جرمنی کہ پیام مشرق در جواب دیوان او نوشتہ شدہ است و ’’تاریخ جریان شرقی‘‘ در ادبیات آلمانی مختصراً ذکر و مقصد حقیقی ’’پیام مشرق‘‘ کہ دعوت حیات است توضیح نمودہ شدہ است۔ تلخیص ترجمہ این مقدمہ را کہ نثر اقبال را نشان میدھد درینجا درج میکنیم: تلخیص تمہید ’’پیام مشرق‘‘ محرک اصلی این تصنیف ’’دیوان مغربی‘‘ نام دیوانی است کہ حکیم حیات آلمان ’’گویتی‘‘ نوشتہ است و ’’ھانیا‘‘ در باب آن دیوان گفتہ است : ’’این دیوان گلدستۂ اخلاص و عقیدتی است کہ مغرب بمشرق تقدیم کردہ است۔‘‘ ’’گویتی‘‘ در ابتدای شباب خود بطرف تخیلات مشرق مایل بود۔ در اثنای کہ در شتراسبرگ، بہ مطالعۂ قانون مشغول بود۔ صحبت ’’ھر در‘‘ یکی از مشاھیر ادبای جرمنی را یافت و چون ’’ھردر‘‘ حضرت سعدی را با نہایت احترام و دلچسپی میدید، بعض ابواب گلستان را بہ جرمنی ترجمہ کردہ بود، و شاگرد ھای خود را بطرف سعدی توجہ میداد۔ صحبت ھای او ھم اثری بر گویتی انداخت۔ در ۱۸۱۲م کہ ’’فان ھیمر‘‘ ترجمہ مکمل دیوان خواجہ حافظ را شایع کرد، از ھمین وقت ’’جریان مشرقی‘‘ در ادبیات جرمنی آغاز شد۔ گویتی درین زمان کہ ملت جرمنی از ھر طرف بدرجہ نہایی انحطاط یافتہ بود، شصت و پنجسالہ، فطرتش برای شمولیت عملی در جریان ھای سیاسی موزون نبود۔ از ھنگامہ آرائیہای عمومی اروپا بیزار شدہ روح بیتاب و بلند پرواز او در فضای امن و سکون شرق نشیمن گرفتن خواست۔ ترنمات حافظ در تخیلات او ھیجان بزرگی برپا کرد تا صورت مستقل ’’دیوان مغربی‘‘ بہ وجود آمد۔ ترجمۂ مذکور دیوان حافظ تنہا محرک گویتی نی بلکہ ماخذ تخیلات محیرۂ او بود۔ چنانچہ بعضا نظم ھای او ترجمہ خالص اشعار خواجہ است و بعضا قوہ تخیل گویتی کہ از اثر یک مصرع حافظ بر شاھراہ نوی افتادہ است و مسایل عمیق و دقیق زندگی را از آن اخذ می نماید: (بیلشوسکی) کہ ترجمۂ حال گویتی راتالیف کردہ است مینویسد: ’’در نغمہ نوازیہای بلبل شیراز گویتی صورت خود را میدید و گاہ گاہ حس میکرد کہ شاید روح او در شرق در پیکر حافظ زندگی بسر کردہ است۔ ھمان مسرت زمینی، ھمان محبت آسمانی ھمان سادگی، ھمان عمق، ھمان جوش و حرارت، ھمان وسعت مشرب، ھمان گشادہ دلی، ھمان آزادگی از قیود و رسوم، والحاصل در ھمہ چیز او را مثل حافظ می یابیم۔ ھمچنانکہ حافظ ترجمان اسرار است، گویتی ھم است۔ ھمچنانکہ در الفاظ سادۂ حافظ جہان معانی آبادست، ھم چنان در بی ساختگی گویتی حقایق و اسرار جلوہ افروزند۔ ھر دو پسندیدہ امیر و غریب اند و ھر دو فاتحین بزرگ عصرخود را متاثر کردہ اند (حافظ تیمور و گویتی نپولین را) ھر دو در اثنای تباھی عمومی اطمینان و سکون باطنی خود را حفظ کردہ ترنم قدیم خود را جاری داشتہ اند…‘‘ گویتی، علاوہ بر حافظ در تخیلات خود ممنون احسانہای شیخ عطار، سعدی، فردوسی و ادبیات عمومیہ اسلامیہ است۔ یگان جای بہ قید ردیف و قافیہ غزل ھم نوشتہ است و استعارہ ھای فارسی را در زبان خود بعضا بسیار بی تکلفانہ استعمال میکند، مثلاً ’’گوھر اشعار‘‘، ’’تیر مژگان‘‘ و ’’زلف گرہ گیر‘‘۔ حتی بطرف امرد پرستی نیز اشاراتی مینماید۔ نام حصص مختلفۂ دیوان خود را ھم فارسی نہادہ مثلا مغنی نامہ، ساقی نامہ، عشق نامہ، تیمور نامہ، حکمت نامہ وغیرہ۔ باوجود این گویتی مقلد ھیچ شاعر فارسی نبود، فطرت شاعرانہ اش کاملاً آزاد است۔ نوا سرایی او درلالہ زارھای شرق عارضی است۔غربیت خود را ھرگز از دست نمی دھد و نظرش تنہا بران حقایق مشرقی می افتد کہ فطرت مغربی او آنرا جذب کردہ میتواند۔ خلاصہ میتوان گفت کہ ’’جریان مشرقی‘‘ رادر ادبیات جرمنی گویتی آغاز نمودہ است۔ در ’’پیام مشرق‘‘ کہ صد سال بعد از ’’دیوان مغربی‘‘ نوشتہ است مدعا از جلب توجہ بہ آن حقایق ملی و مذھبی و اخلاقی است کہ بہ تربیت باطنی و اقوام تعلق دارد۔ بین احوال امروزۂ مشرق و صد سال پیشتر جرمنی، ضرور مماثلتی موجود است، اندازۂ حقیقی اھمیت اضطراب باطنی اقوام عالم را ما ازین جہت تعیین کردہ نمیتوانیم کہ خود ما ھم با آن اضطراب متاثریم و الا این اضطراب فی الواقع پیش خیمہ یک انقلاب روحانی و مدنی است۔ محاربۂ عالمگیر اروپا ۱۸۔۱۹۱۴ء یک قیامتی بود کہ نظام دنیای سابق رااز ھر پہلو تباہ نمود و حالا از خاکستر تہذیب و تمدن در اعماق فطرت حیات یک ’’آدم نو‘‘ و برای اقامت آن یک ’’دنیای نو‘‘ تعمیر میکند، کہ ھیولای آن را در تصنیفات حکیم ’’آین ستاین‘‘ و ’’برگان‘‘ میتوان دید۔ اروپا نتایج علمی و اخلاقی و اقتصادی خود را بچشم سر دیدہ است و از سینیور ’’نیتی‘‘ (سابق رئیس الوزرای ایطالیا) داستان دلخراش ’’انحطاط فرنگ‘‘ را ھم شنیدہ است ولی افسوس است کہ مدبرین نکتہ رس ولی محافظہ کار اروپا اندازۂ حقیقی آن انقلاب حیرت انگیز را کہ در وجدان انسانی واقع شدنی است، خوب معلوم نمودہ اند۔ اگر خالص باعتبار ’’ادبی‘‘ ببینیم معلوم می شد کہ پس از کوفت این محاربہ بزرگ اضمحلال قوای حیات در اروپا برای نشوو نمای یک مفکورہ صحیح و پختہ ادبی نامساعد است۔ بلکہ خوف است کہ آن جذبات قلب را از افکار دماغ تمیز کردہ نمیتواند بر طبایع ملل غالب نیاید۔ البتہ امریکا در اجزای مدنیت غربیہ یک عنصر صحیح معلوم می شود و سبب آنہم شاید ھمین است کہ این ملک از قدیم آزاد است، وجدان اجتماعی او اثرات و افکار نو را بہ آسانی پذیرفتہ می تواند۔ شرق، علی الخصوص شرق اسلامی، پس از عصر ھا خواب، حالا چشم باز کردہ است ولی آنہا باید حس کنند کہ زندگی در حوالی خود ھیچ انقلابی تولید کردہ نمیتواند، تاکہ اول در اعماق باطنی آن انقلاب نیفتد و ھیچ دنیای جدیدی وجود خارجی نمی گیرد، تا اول در وجدان انسانی وجود آن متشکل نشود۔ این قانون فطرت کہ قرآن حکیم آنرا در الفاظ سادہ و بلیغ ’’ان اﷲ لایتغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بانفسہم‘‘ بیان فرمودہ است بر ھر دو پہلوی زندگی خواہ فردی خواہ اجتماعی حاوی است و من در تصانیف فارسی خود سعی کردہ ام کہ ھمین حقیقت را مدنظر بدارم۔ درین ایام، در تمام دنیا، علی الخصوص در مشرق ھر کوششی کہ مقصد آن نگاہ و نظر افراد و اقوام را از حدود جغرافی بالاتر ساختہ، در آنہا تجدید تولیدیک سیرت صحیح وقوی انسانی باشد، قابل احترام است، ازین جہت است کہ من این چند ورق را بنام نامی اعلیحضرت امیر افغانستان امیر امان اﷲ خان منسوب می نمایم، زیرا کہ آنہا از پہلوی ذھانت و فطانت فطری ازین نکتہ بخوبی آگاہ معلوم میشوند و مخصوصا تربیت افغانہا را در نظر دارند۔ اﷲ تبارک و تعالی درین کار عظیم الشان حامی و ناصر شان باشد۔ (انتہی) درین تلخیص از تفصیل جریان شرقی در ادبیات آلمانی متاسفانہ صرف نظر کردیم، کاش ذوق جوانان ما بگفتۂ اقبال اینگونہ مضامن را جمع و تحریر و تدقیق نمایند۔ دوم۔ اھدائیہ: بعد از تمہید آغاز نظم بہ اھدائیہ است کہ خیلی پُر از درد و التماس است۔ مخاطب آن پادشاہ دانشمند و پر از امید و بلند نگاہ ماست۔ من خود گاھی از خواندن این مثنوی سیر نشدہ ام۔ اینک با شما ھم آواز شدہ باز یکجا میخوانیم: ای امیر کامگار ای شھریار نوجوان و مثل پیران پختہ کار چشم تو از پردگیہا محرم است دل میان سینہ ات جام جمست عزم تو پایندہ چون کہسار تو عزم تو آسان کند دشوار تو ھمت تو چون خیال من بلند ملت صد پارہ را شیرازہ بند ھدیہ از شاھنشہان داری بسی لعل و یاقوت گران داری بسی ای امیر ابن امیر ابن امیر ھدیہ از بینوایی ھم پذیر تا مرا رمز حیات آموختند آتشی در سینہ ام افروختند یک نوای سینہ تاب آوردہ ام عشق را عہد شباب آوردہ ام پیر مغرب شاعر آلمانوی آن قتیل شیوہ ھای پہلوی بست نقش شاھدان شوخ و شنگ داد مشرق را سلامی از فرنگ در جوابش گفتہ ام پیغام شرق ماھتابی ریختم بر شام شرق تا شناسای خودم خودبین نیم با تو گویم او کہ بود و من کیم او ز افرنگی جوانان مثل برق شعلۂ من از دم پیران شرق او چمن زادی چمن پروردہ ای من دمیدم از زمین مردۂ ای ھر دو دانای ضمیر کائنات ھر دو پیغام حیات اندر ممات ھر دو خنجر صبح خند آئینہ فام او برھنہ من ھنوز اندر نیام ھر دو گوھر ارجمند و تاب دار زادۂ دریای ناپیدا کنار او ز شوخی در تہِ قلزم تپید تا گریبانِ صدف را بر درید آشنایِ من ز من بیگانہ رفت از خمستانم تہی پیمانہ رفت من شکوہ خسروی او را دھم تخت کسری زیر پای او نہم او حدیث دلبری خواھد ز من رنگ و آب شاعری خواھد ز من کم نظر بیتابی جانم ندید آشکارم دید و پنہانم ندید فطرت من عشق را در بر گرفت صحبت خاشاک و آتش در گرفت حق رموز ملک و دین بر من گشود نقش غیر از پردۂ چشمم ربود برگ گل رنگین ز مضمون منست مصرع من قطرھاز خون منست تا نپنداری سخن دیوانگی است در کمال این جنون فرزانگی است از ھنر سرمایہ دارم کردہ اند در دیار ھند خوارم کردہ اند لالہ وگل از نوایم بی نصیب طایرم در گلستان خود غریب بسکہ گردون سفلہ و دون پرورست وای بر مردی کہ صاحب جوھرست دیدہ ای خسرو کیوان جناب آفتاب ما توارت بالحجاب ابطحی در دشت خویش از راہ رفت از دم او سوز الااﷲ رفت مصریان افتادہ در گرداب نیل سست رگ تورانیان ژندہ پیل آل عثمان در شکنج روزگار مشرق و مغرب ز خونش لالہ زار عشق را آئین سلمانی نماند خاک ایران ماند و ایرانی نماند سوز و ساز زندگی رفت از گلش آن کہن آتش فسرد اندر دلش مسلم ھندی شکم را بندۂ خود فروشی دل ز دین بر کندۂ در مسلمان شان محبوبی نماند خالد و فاروق و ایوبی نماند ای ترا فطرت ضمیر پاک داد از غم دین سینۂ صد چاک داد تازہ کن آئین صدیقؓ و عمرؓ چون صبا بر لالۂ صحراگذر ملتی آوارۂ کوہ و دمن در رگ او خون شیران موجزن زیرک و روئین تن و روشن جبین چشم او چون جرہ بازان تیز بین قسمت خود از جہان نایافتہ کوکب تقدیر او ناتافتہ در قہستان خلوتی ورزیدۂ رستخیز زندگی نادیدۂ جان تو بر محنت پیہم صبور کوش در تہذیب افغان غیور تا ز صدیقان این امت شوی بھر دین سرمایۂ قوت شوی زندگی جہد است و استحقاق نیست جز بعلم انفس و آفاق نیست گفت حکمت را خدا خیر کثیر ھر کجا این خیر را بینی بگیر سید کل صاحب لم الکتاب پردگیہا بر ضمیرش بیحجاب گرچہ عین ذات را بی پردہ دید رب زدنی از زبان او چکید علم اشیا علم الاسماستی ھم عصا و ھم ید بیضاستی علم اشیا داد مغرب را فروغ حکمت او ماست می بندد ز دُوغ جان ما را لذت احساس نیست خاک رہ جز ریزۂ الماس نیست علم و دولت نظم کار ملت است علم و دولت اعتبار ملت است آن یکی از سینۂ احرار گیر وان دگر از سینۂ کہسار گیر دشنہ زن در پیکر این کائنات در شکم دارد گھر چون سومنات لعل ناب اندر بدخشان تو ھست برق سینا در کہستان تو ھست کشور محکم اساسی بایدت دیدۂ مردم شناسی بایدت ای بسا آدم کہ ابلیسی کند ای بسا شیطان کہ ادریسی کند رنگ او نیرنگ و بود او نبود اندرون او چو داغ لالہ دود پاکباز و کعبتین او دغل ایمن و غدر و نفاق اندر بغل در نگر ای خسرو صاحب نظر نیست ھر سنگی کہ میتابدگھر مرشد رومی حکیم پاک زاد سر مرگ و زندگی بر ما گشاد ھر ھلاک امت پیشین کہ بود زانکہ بر جندل گمان بردند عود سروری در دین ما خدمتگریست عدل قارونی و فقر حیدریست در ھجوم کار ھای قوم و دین با دل خود یکنفس خلوت گزین ھر کہ یکدم در کمین خود نشست ھیچ نخچیر از کمند او نجست در قبای خسروی درویش زی دیدۂ بیدار و خود اندیش زی قائد ملت شہنشاہ مراد تیغ او را برق و تندر خانہ زاد ھم فقیری ھم شہ گردون فری آرد شیری در لباس بوذری غرق بودش در زرہ بالا و دوش در میان سینہ دل موئینہ پوش آن مسلمانان کہ میری کردہ اند در شہنشاھی فقیری کردہ اند در امارت فقر را افزودہ اند مثل سلمان در مداین بودہ اند حکمرانی بود و سامانی نداشت دست او جز تیغ و قرآنی نداشت ھر کہ عشق مصطفی سامان اوست بحر و بر در گوشۂ دامان اوست سوز صدیقؓ و علیؓ از حق طلب از رہ عشق نبی از حق طلب زآنکہ ملت را حیات از عشق اوست برگ و ساز کائنات از عشق او ست جلوۂ بی پردہ او وا نمود جوھر پنہان کہ بود اندر وجود روح را جز عشق او آرام نیست عشق او روزیست کو را شام نیست خیز و اندر گردش آور جام عشق در قہستان تازہ کن پیغام عشق بعد از ھدائیہ ’’لالہ طور‘‘ مجموعہ رباعیات است۔ لالہ طور طبع فطرت دوست و صحرا پسند اقبال، بیش از ھمہ گلہا لالۂ خود روی صحرایی را مورد دقت ھای شاعرانہ و جستجوھای حکیمانہ خود قرار دادہ است۔ سینۂ مسلم، تجلیگاہ دیگر و نالہ او شعلہ دیگر است۔ از ھر لالۂ کہ ازین طور سر زند اثر ھمان جذوہ مامول است کہ موسیؑ امید العلہم یصطلون داشت۔ بیدل علیہ الرحمہ درین موضوع یکقدم بیشتر می نہد کہ میفرماید: شوق بر کسوت ناموس جنون میلرزد عوض داغ مبادا ید بیضا بخشند لالۂ طور چہ زیبا نامی است برای آن نالہ ھای سوختہ و برجستہ کہ از ’’وادی المقدس‘‘ روح بیتاب ایمان میخیزد۔ این مجموعہ رباعیات کہ شعر و دین در آن مزوج است درچار چوبۂ ھر رباعی خود دروازہ شھراہ نو ’’حیات‘‘ باز مینماید و حتی دلہای بیخون رامایل تپش و نیاز۔ ازین جملہ کہ ۱۵۵ رباعی است، من جسارت انتخابی ورزیدہ ام۔ اما در ترک ھر رباعی خون جگر خوردہ این انتخابات را نقل میکنم۔ ولی قبل از آن باید مضامین و مواضیعی را کہ محور مطالب رباعیات مذکورہ اند، با یک د و مثالی مختصراً ذکر وتعریف میکنم، تا دیدہ شود کہ اقبال تخم چہ تربیتی در اعماق روح نسل آتی مسلمانان می افشاند: مگر غنچوں کی صورت ہو دل درد آشنا پیدا چمن میں مشت خاک اپنا پریشان کر کے چھوڑوں گا میتوان مواضیع مہمۂ اساسیہ ’’لالۂ طور‘‘ بلکہ گل اثر ھای اقبال را بدین صورت تصنیف و تحلیل نمود۔ ۱۔ حضور و نیاز: قبل از شرح حضور و نیاز اقبال عرض یک حقیقت بیمحل نیست۔ در یک وقت غیر رسمی خوشبختانہ بحضور اعلیحضرت غازی پادشاہ حقایق آگاہ ما شرف حضور داشتم و ذکر اقبال شیرینی مجلس بود، اعلیحضرت از افکار اقبال اظہار خوشی میکردند و تقدیر مینمودند و می فرمودند: ’’اقبال یک عیب دارد کہ بحضور الہی خطابہ ھای قدری گستاخانہ میکند مثلا مکالمہ خدا و انسان تو شب آفریدی چراغ آفریدم وغیرہ‘‘ مضمون ھمایون، زمینہ مبادلہ افکار حضار گرامی مجلس در حق نظمہای دیگر اقبال مثل ’’شکوہ‘‘ وغیرہ شدند۔ منہم حصہ گرفتم و این را ارادۂ جدی اقبال نینگاشتم، و بعضی مثالہا از شعرای سلف درین باب آوردن خواستم و گفتم شاید اقبال میخواھد ازین راہ بہ انسان ھا اھمیت و مکانت علو و کرامت حقیقی شان را بفہماند، ولی من خودھم قبول میکنم کہ تجاوزات اقبال یکقدری از اندازہ زیاد است۔ افکار و احساسات تصحیحۂ پادشاہ ما اسباب صد مسرت و شکران است۔ اما اقبال از آداب و نیاز خالی نیست۔ در ھیجان حسیات و بزم بی تکلف و بعضا ادب ناشناس شعر این گونہ زواید سر زدہ است، ورنہ اقبال در ھر چیز جلوہ ’’او جل جلالہ‘‘ می بیند در نظر او ھر ورقی معرفت است، ھر موجودی آئینہ تجلیات احدیت و ھمہ کائنات مصروف نیاز و عبادت۔ ’’لالہ طور‘‘ با این رباعی حامدانہ آغاز میشود: شہید ناز او بزم وجود است نیاز اندر نہاد ھست و بود است نمی بینی کہ از مھر فلک تاب بہ سیمای سحر داغ سجود است مثالہای دیگر: فروغ روی گل از بادۂ او صنوبر بندۂ آزادۂ او حریمش آفتاب و ماہ و انجم دل آدم در نگشادۂ او ٭٭٭ فروغ او بہ بزم باغ و راغ است گل از صہبای او روشن ایاغ است شب کس در جہان تاریک نگذاشت کہ در ھر دل ز داغ او چراغ است ۲۔ فلسفہ: فلسفہ بہ ’’شب در بیابان‘‘ میماند۔ اگر قبول کنیم کہ راھبر است باز ھم تا بیابان، ولی از بیابان کسی را فلسفہ بہ منزل مقصود رساندہ نمیتواند۔ تنہا در امکانات و احتمالات مختلفہ تگ و دو میدھد۔ اقبال شب و ھولناک این بیابان رابا کمک جذوۂ نورانی طور ’’عقیدت‘‘ طی کردہ است، و چون غالبا از راہ ’’حیرت‘‘ بمقصد رسیدہ است، در لالہ طور ما دو نوع افکار فلسفی می یابیم، کہ یکی سوالات یا کیفیات متعدی نسبت بفطرت حیات و کائنات است کہ اقبال نمیتواند آنہا را حل کند۔ و لہذا با کمال حیرت ازو سر زدہ، این قسم ھای آن انسان را بہ دقت ’’جستجو‘‘ و ’’حیرت‘‘ دعوت می کنند و اینہا بر انسان لمحات پر حظ و مصروفی میگذرانند۔ آرزوی و حل این معما ھا در اقبال بدرجہ گرم است کہ دنیا و مافیہا را بیافتن جواب یکسوال خود می بخشد، چنانچہ در ’’می باقی‘‘ یک شعردارد: گفتند ھر چہ در دلت آید ز ما بخواہ گفتم کہ بی حجابی تقدیرم آرزوست در لالہ طور قریب دوازدہ رباعی در ھمین موضوع و ھمین سوالات است۔ مثال: چسان گنجید دل اندر گل ما چسان زاید تمنا در دل ما بچشم ما کہ می بیند چسان سوزد چراغ منزل ما ٭٭٭ بہ شبنم غنچۂ نورستہ میگفت نگاہ ما چمن زادان رسا نیست در آن پہنا کہ صد خورشید دارد تمیز پست و بالا ھست یا نیست نوع دیگر این رباعیات فلسفیانہ، اعتراف صریح بہ نارسایی عقل و نبودن عقل اعتماد گاہ کاملی برای ھر چیز و احتیاج آن بہ ’’عشق‘‘ است۔ ذاتا ھمہ فلاسفہ باندازہ ھای مختلفہ باین حقیقت قایلند و تبدلات عقاید فنیہ ھر روزہ دلایل نو برین می آورند۔ بہ کنہ اشیا کسی نرسیدہ و آخر ھر چیز تخمین است ’’تولستوی‘‘ میگوید : ’’کسیکہ بکنہ حیات پی بردن می خواھد مثل آسیا بانی است کہ در تحقیق آنکہ قوت چیست و آب آسیا را گردانیدہ میتواند وقت آرد کردن گندم را ضایع کند۔ باید دانست کہ حیات برای چیست نہ اینکہ حیات چیست؟‘‘ عمر فلسفہ را تاریخ از سہ ھزار سال زاید نشان میدھد۔ ولی ھنوز این معماھا را حل نتوانستہ است۔ ’’حیرت‘‘ ھمچنان کہ مقام آخرین عرفاست مقام آخرین عقل سلیم ھم ھمان است۔ مثال: ھزاران سال با فطرت نشستم بہ او پیوستم و از خود گسستم و لیکن سر گذشتم این دو حرفست تراشیدم، پرستیدم، شکستم ٭٭٭ خرد زنجیری فرد و دوش است پرستار بتان چشم وگوش است صنم در آستین پوشیدہ دارد برھمن زادۂ زنار پوش است لالہ طور: در اقسام سابق معرفی اقبال، گویتی، دیوان مغربی، پیام مشرق، و یک دو نمونۂ ’’لالہ طور‘‘ از احساسات اقبال را نشان دادیم۔ این دو نمونہ تعلق بہ احساساتی داشتند کہ اظہار خود آنہا زیاد تر از تعلیم مطلوب شاعر میباشد۔ اگرچہ از آنہم تعلیمات گرفتہ میشوند اما در اقسام ما بعد ما دعوت اقبال را کہ بہ ارادۂ تعلیم نوشتہ شدہ است خواھیم یافت۔ این دعوت تجدد ذھنی و تربیت فکری را مجملا بدین چند موضوع تصنیف میتوان کرد۔ ۱: عشق و دردمندی ۲: سخت جانی، زحمت دوستی ۳: اعتماد نفس، تحقیق، اجتہاد ۴: طلب و جستجو ۵: آرزو پروری ۶: ھمت عالی ۷: تقدیر، اھمیت و مکانت انسانی ۸: فداکاری ۹: گریز از پول دوستی ۱۰: شناختن مواقع استمعال قوای خود ۱۱: عدم خوف از مرگ ۱۲: دقت ۱۳: ترک نیشنلزم ۱۴: احترام دین این تعلیمات عبارت از محض عنوان ھانیست کہ خوش اقبال آمدہ و طبع شاعرانہ او را متاثر نمودہ، موضوع قلم فرسایی او شدہ باشند، خیر بلکہ اینہا اجزای ضروری تجدد و حیات و حلقہ ھای لازمی آن سلسلہ اند کہ علاوہ بر خواھش سلیم دماغ او را نیز در نتیجہ تتبعات و مطالعات مرتبہ متاثر ساختہ اند۔ مناسبت و احتیاج منطقی این فضایل را کہ ’’برای تحصیل مطلب‘‘ بین ھمدیگر دارند ذیلا عرض مینماییم۔ ’’عشق و دردمندی‘‘ وقتیکہ حس مطلب یک مطلوب چنان در دل تمرکز کرد کہ یک آن فراموش نشد۔ گاھی خاطر از آن ماندہ نشد، مثل آتش فروزان بود، ابدا، خموشی پذیر نبود، خوف ھیچ خطر ھولناک، و ھیچ امید دلکشی بر آن اثر نمی انداخت، و ھیچ صدمہ و تکانی خاطر را مثل سوزن قطب نما از سمت مطلوب انحراف نداد، آنرا ’’عشق‘‘ میگویند ’’درد‘‘ می خوانند۔ ’’عشق‘‘ انسان را دایماً بہ نقطہ مطلوبہ متوجہ میسازد، ’’عشق‘‘ غفلت را میسوزاند، تنبلی را اعدام مینماید، و در وقت ماندگی دوبارہ گرمی و قوت فعالیت میدھد۔ ’’عشق‘‘ یاس را نمی شناسد۔ پس از عاشق گاھی ’’مطلوب‘‘ و راہ رسیدن ’’مطلوب‘‘ پنہان نیست۔ و ھر کہ مطلوب را گم نکرد ضرور بہ آن می رسد۔ عشق : شایق است بطرف ’’مطلب‘‘ ھر قدر بلند باشد ھمانقدر ’’تحمل مصایب‘‘ است کہ در عناوین فوق بنام ’’سخت جانی و زحمت دوستی‘‘ و ’’فداکاری‘‘ ذکر شدند۔ این تحمل دلاورانہ ’’اعتماد نفس‘‘ میطلبد۔ اعتماد نفس ممکن نیست تا اساس ’’طلب‘‘ و ’’طرز طلب‘‘ بر ’’تحقیق‘‘ خود شخص مبنی نباشد۔ ’’تحقیق‘‘ امکان ندارد تا حس ماندگی ناپذیر ’’جستجو‘‘ را انسان پیدا نکند۔ عشق از آرزو تولدشدہ است، و خادم آرزو است۔ پرورش آرزو پرورش عشق است۔ ھم چنانکہ پرورش آرزو و عشق ھمت عالی پیدا میکند۔ اینہا لازم و ملزوم یک دیگرند۔ انسان کہ صاحب ھمت عالی باشد، باید بہ اھمیت خود مدرک شود تا اعتماد نفس کامل تر گردد و در راہ طلب پختہ تر و برای اختیار کردن طرز صحیح برای’طلب و موفق شدن شناختن موافق استعمال قوای خود و دقت در شناختن کیف و کم و خواص ھمہ ماحول خود ضروری است۔ ’’خوف‘‘ عموما با یک دلیل منطقی نمای ’’نرسیدن بمطلب‘‘ انسان ھا رااز ’’طلب‘‘ می اندازد، ھمت ھا را پست میکند و لی این دلیل نبودن عشق است والا: یا جان رسد بجانان یاجان ز تن برآید اقبال ’’خوف مرگ‘‘ مانعۂ بزرگ این راہ دیدہ و لہذا بحقیقت آن توجہ کردہ و آنرا ناقابل ترس نشان میدھد۔ اقبال در راہ و اصول مطلوب کہ ’’ترقی مسلم‘‘ است برای کتلۂ موجودہ اسلامیان لغزشگاہ ھای خطرناکی ھم دیدہ، و آنرا ناگفتہ نمیگذارد۔ اول این خطرہ ھای سہمگین مادیت پرستی، نفع پرستی و پول دوستی است، دوم آن وطن پرستی است، سوم آن ’’دھریت‘‘ است کہ بتقلید اروپا ممکن است رایج شدہ، مقاصد سینہ وصامحہ اسلام را ترک گرداند و خود شان مقصد شدہ معبود مردم گردند۔ این بود مناسبت و تسلسل این فضایل و تعلیمات و لزوم و احتیاج آنہا در راہ حصول مطلب کہ اگر در اعماق باطنی و رو حیات ملت جای بگیرند شبہ نیست کہ دوبارہ یک مدنیت صالحہ اسلامیہ را تجدید کردہ میتواند۔ حالا ما امثلہ این عنوان ھا را برای دقت قارئین عرض میکنیم: عشق: بیا ای عشق ای رمز دل ما بیا ای کشت ما ای حاصل ما کہن گشتند این خاکی نہادان دگر آدم بنا کن از گل ما ٭٭٭ شنیدم در عدم پروانہ میگفت دمی از زندگی تاب و تبم بخش پریشان کن سحر خاکسترم را ولیکن سوزو ساز یک شبم بخش در این موقع یکدفعہ از مثنوی رومی ھم یکچند بیت بشنوید: شاد باش ای عشق خوش سودای ما ای طبیب جملہ علت ھای ما ای دوای نخوت و ناموس ما ای تو افلاطون و جالینوس ما آتش است این بانگ نای و نیست باد ھر کہ این آتش ندارد نیست باد سخت جانی و زحمت دوستی: عافیت طلبی را اقبال ’’عجمیت‘‘ خواندہ و تلعین میکند۔ بیدل درین موضوع عجب مضمونی دارد: موجیم کہ آسودگی ما عدم ماست ما زندہ برانیم کہ آرام نداریم مراھر وقت صدای آمرانہ حکیمانہ ’’اخشو شلوا‘‘ بہشت گوش است۔ مگو از مدعای زندگانی ترا بر شیوہ ھای اونگہ نیست من از ذوق سفر آنگونہ ھستم کہ منزل پیش من جز سنگ رہ نیست ٭ میا را بزم بر ساحل کہ آنجا نوای زندگانی نرم خیزست بدریا غلط و باموجش در آویز حیات جاودان اندر ستیز است ٭ ز مرغان چمن ناآشنایم بشاخ و آشیان تنہا سرایم اگر نازکدلی از من گران گیر کہ خونم می تراود از نوایم خودی، اعتماد نفس، تحقیق و اجتہاد اعتماد بر نفس، منتظر بیگانگان بودن، بار خود را برداشتن حتی بجای تقلید از تحقیقات خود قناعتی حاصل کردن، یکی از دعوت ھای مہم است۔ مثال دلا نارایی پروانہ تاکی نگیری شیوۂ مردانہ تاکی یکی خود را بسوز خویشتن طواف آتش بیگانہ تاکی ٭٭٭ میان آب و گل خلوت گزیدم ز افلاطون و فارابی بریدم نکردم از کسی دریوزۂ چشم جہان را جز بچشم خود ندیدم طلب وجستجو: ’’طلب‘‘ دلیل عشق حتی مژدۂ وصال امید در عین ھجران ھمراہ میباشد۔ ھر گاہ این ستارہ غایب شد۔ بمنزل نتوان رسید حتی راہ رفتہ بہبود صنایع خواھد شد۔ مثال: خود او گفت بچشم اندر نگنجد نگاہ شوق در امید وبیم است نمیگردد کہن افسانۂ طور کہ در ھر دل تمنای کلیم است ٭٭٭ زیان بینی ز سیر بوستانم اگر جانت شہید جستجو نیست نمایم آنچہ ھست اندر رگ گل بہار من طلسم رنگ و بو نیست آرزو: ’’آرزو‘‘ چراغ امید را روشن می دارد۔ در دلی کہ آرزو نیست امید جاندارد و از داغ عشق بویی یافتہ نمیشود۔ باصطلاح اقبال این گل است نہ دل ! جہان ھمہ یک آرزوی مجسم است۔ یا آرزو جہان مسلم: مثال: جہان کز خود ندارد دستگاھی بہ کوی آرزو می جست راھی ز آغوش عدم دردیدہ بگریخت گرفت اندر دل آدم پناھی ٭٭٭ دل من بیقرار آرزویی درون سینہ من ھای و ھویی سخن ای ھمنشین از من چہ خواھی کہ من با خویش دارم گفتگویی باب سوم { ۹۷۸ام تا ۲۰۰۰م} اقبال و افغانستان دکتور حق شناس مقدمہ: ھمچنانکہ لاھور و غزنہ را در دل قرنہا و زمان ھا پیوندھا بودہ است، فرزندگران مایۂ لاھور (علامہ اقبال) برسنت پیشینیان و انگیزہ ھای اخوت اسلامی و روابط معنوی، این پیوندھا را استوار تر کردہ است و ابعاد تازہ ای بران بخشیدہ است، ارادت او بہ مولانا و سنایی و نگرانی اش از دست برد استعمار بر حریم اسلام و امت مسلم، ریشہ ھای علائق و روابطش را با افغانستان و مردمش استحکام بخشیدہ است کہ بررسی و ارزیابی آن در ھر کتاب و رسالہ ای میکند، معہذا بمنظور بزرگداشت این فیلسوف گرانمایہ و انقلابی اسلام و تجلیل یاد بود آن اینک درین مختصر تعلقات خاطر اقبال و یاد ایامی را بہ اجمال و ایجاز باز گو می کنیم کہ روح اقبال در آن متجلی و مظھری از اندیشہ ھای تاریخی و دور نگری او نسبت بہ افغانستان است، امید است مطالعۂ آن احساس پیوندھای اسلامی و تاریخی و ھمزیستی را بیش از پیش در دلہای برادران پاکستانی و افغانی ما بر انگیزد و نتائج و انتباہ مثبتی درپی داشتہ باشد۔ ٭ نغمہ سرای حدیقۂ توحید، متفکر و فیلسوف بزرگ مشرق زمین، علامہ اقبال لاھوری کہ جشن گرامی داشت آن ھر سال در کشور ھای مسلمان تجدید تجلیل میشود، از جملہ کسانیست کہ روزگار کمتر دیدہ است و مادر ایام کمتر پروریدہ است۔ او در مجھز ترین دانشگا ھھای فکر و فلسفی اروپا درس حکمت کنہ فلسفہ را فراگرفت و از و کیف اندیشہ ھای ارسطوئی و افلاطونی آگاھی یافت۔ بہ ھر اندازہ ای کہ درژرفای محتوٰی و افکار فلاسفۂ غرب اندر می شد، کرۂ مشکلات ذھنی و فکری اش فزونی می یافت و راہ مقصودش ناپیدا مینمود۔ شھباز فکرتش قلہ ھا و اقیانوس ھا را درھم مینمود۔ ولی از کوی دوست نشانی نمی یافت۔ بناچار بہ وطن بازگشت و آن جام جھان بینی راکہ سالھا در طلبش بود واز بیگانگانش باز می جست، در خود و معارف و فرھنگ خود یافت۔ سیری در مدارس فکری شوق و مطالعۂ اندیشہ ھا و اندوختہ ھای حکما و عرفا و فلاسفۂ اسلام تردد خاطرش را بہ آرامش کشانید و نور امیدی سراپایش را فرا گرفت و مسیرش را ادامہ داد و وادی ھا و صخرہ ھا رادرھم نوردید۔ ھر قدر پیش میرفت نور و روشنائی بیشتر می شد و نقش قدم ھای کاروان ھا راھھای تعدادی رادر پھنۂ بیکران تصورات، جلو چشمش مجسم می کرد کہ تشخیص و تمیز و انتخاب یکی از آن ھا برایش دشوار مینمود۔ فریاد ھای نھانی و نالہ ھای شبانگاھی اش، پردہ ھای یأس را از ھم درید و قافلہ سالار معرفت و خود آگاھی، حضرت مولینا جلال الدین بلخی، رمز و راز سلوک را در گوشش فرا خواند و شمعی فرا راھش افروخت کہ در پرتو آن اقبال، رہ و رسم بندگی و زندگی را آموخت و بہ جای رسید کہ اینک از زبان خودش مطالعہ میفرمائید: شب دل من مایل فریاد بود خامشی از یاری ام آباد بود شکوہ آشوب غم دوران بدم از تہی پیمانگی نالان بدم این قدر نظارہ ام بیتاب شد بال و پر بشکست و آخر خواب شد روی خود بنمود مرد حق سرست کو بحرف پہلوی قرآن نوشت گفت ای دیوانۂ ارباب عشق جرعۂ گیر از شراب ناب عشق بر جگر ھنگامۂ محشر بزن شیشہ بر سر دیدہ بر نشتر بزن تا بکی چون غنچہ میباشی خموش نکہت خود را چو گل ارزان فروش در گرہ ھنگامہ داری چون سپند محمل خود بر سر آتش ببند چون جرس آخر ز ھر جزوی بدن نالۂ خاموش را بیرون فگن آتش استی بزم عالم برفروز دیگران را ھم ز سوز خود بسوز از نیستان ھمچو نی پیغام دہ قیس را از قوم حی پیغام دہ نالہ را انداز نو ایجاد کن بزم را از ھای و ھوی آباد کن زین سخن آتش بہ پیراھن شدم مثل نی ھنگامہ آبستن شدم چون نوا از تار خود برخاستم جنتی از بھر گوش آراستم بر گرفتم پردہ از راز خودی وا نمودم سِرِّ اعجاز خودی بلی، مولینا بہ گونہ ای کہ اقبال بدان اشارہ می کند در خرمن ھستی و اندیشہ اش آتش زد و از گم گشتگی و سرگشتگی اش وارھانید و سر حقیقت را برایش باز گفت و بر حریم اسرارش رھنمائی کرد۔ اقبال پس از این برخورد روحانی دیگر شیفتۂ مولینای بلخ گردید و ھمہ دشواری ھا و مشکلات فکری و فلسفی خود را در دانشگاہ اندیشۂ اول شدہ یافت و شوری در نہادش شعلہ ور گردید و نور و گرمی اش بر روان ھا ذوق و مستی بخشید و بر پیکر افسون شدگان استعمار روح تازہ دمید۔ بدانگونہ کہ فکر عالی و فلسفۂ انقلابی مولینا انقلابی در مغز و کلۂ اقبال ایجاد کرد، این فرزند پر شور شایستہ و اندیشمند اسلام نیز مشرق زمین و ھم میھنان خویش را درس آزادی و انقلاب آموخت و در نتیجہ ملیون ھا انسانی را کہ زنجیر استعمار پا و دوش شان را خستہ و افسردہ کردہ بود و یارای حرکت و جنبش رانداشتند، از قیدو بند ذلت و اسارت وارھانید و قبای خود کامگی و آزادی پوشانید۔ اقبال نخستین وسوسہ ھای انقلاب و اثرات و الھاماتی را کہ از روح و معرفت و افکار مولینا کسب می کند و او را بہ ارشاد و رھنمائی مردم بہ قیام و آزادی خواھی بر می انگیزد، ھمہ جا در آثارش بخوبی منعکس کردہ است کہ این است نمونہ آن: پس چہ باید کرد ای اقوام شرق باز روشن میشود ایام شرق در ضمیرش انقلاب آمد پدید شب گذشت و آفتاب آمد پدید پیر رومی مرشد روشن ضمیر کاروان عشق و مستی را امیر منزلش بر تر ز ماہ و آفتاب خیمہ را از کہکشان سازد طناب نور قرآن درمیان سینہ اش جام جم شرمندہ از آئینہ اش از نی آن نی نواز پاک زاد باز شوری در نہاد من فتاد گفت جانھا محرم اسرار شد خاور از خواب گران بیدار شد بدین منوال اقبال با استفادہ از نظریات و اندیشہ ھای مولینا و نیز طرز دید و تفکر سید جمال الدین افغانی برای نجات کشورش و بیداری مشرق زمین و راز خودی تلاش ھای ارزندہ ای انجام داد کہ آزادی ھندو پاکستان و جنبش کشور ھای آفریقائی ثمرۂ آن است و نقش وی در زمینہ برای ھمیشہ بر ناوک تاریخ مشرق زمین خواھد درخشید، و پیام محبت وانسانی دوستی اش قرنھا در فضای ھستی طنین انداز خواھد بود۔ بدانگونہ کہ گفتہ آمد این برھمن زادۂ لاھور با مرشد بلخی و حکیم غزنوی پیوندھا دارد و دانش و بینش آنان نفوذ و اثر خاصی در روح و آزادی وارد کردہ است۔ بحدی کہ میتوان گفت اقبال بعد از آشنائی و معرفت بہ آثار و افکار مولانا دیگر بہ ھمہ آن اندوختہ ھا و فلسفہ ھای کہ از غرب فرا گرفتہ بود پشت پا میزند و آنھمہ گھر ھای فضیلت و آدمیت را کہ در اقیانوس خلقت جستجو می کرد، از بحر بیکران و پر تلاطم افکار مولانا می یابد۔ اقبال، این شیفتۂ اسلام و فرھنگ انسان سازی باری رخت سفر بر می بندد و با کاروان شعر وحلۂ محبت راھی کابل میشود۔ او در این سفر بمدد ھوش توانا و قوۂ درک و شناخت، با مردم و اجتماع ما آشنائی بیشتر پیدا می کند و چون روان شناس ماھری خصوصیت آنان را در می یابد و درد ھا و راز ھای ما را تشخیص و از آن چنین وصف می کند : ملتی آوارۂ کوہ و دمن در رگ او خون شیران موج زن زیرک روئین تن و روشن جبین چشم او چون جرہ بازان تیز بین قسمت خود از جھان نایافتہ کوکب تقدیر او ناتافتہ چنانکہ کہ پیداست اقبال با ھمہ ستایشی کہ از زیرکی مردم افغانستان میکند، از بدبختی ھا و بیچارگی ھا و پسماندگی ھای این ملت نیز رنج می برد و تلخ کامی و بی نصیبی مردم ما را با عباراتی بسیار لطیف و توجیھاتی آمیختہ باتسلی بیان می کند و چنان مینماید کہ ھنوز طالع این قوم در خواب است و آنچہ از ھستی قسمت شان می باشد، بدان دست نیافتہ اند۔ این تأثر و یاس اقبال وقتی فزونی می یابد کہ درک می کند افراد کشور ما ھر یک بہ نوبۂ خویش کوس ’’لمن الملک‘‘ میزنند و در گرداب خودی و خود خواھی دست و پا می افشانند و آتش کین توزی و نفاق، نظام فکری و اداری آنان را درھم ریختہ است و آنگاہ بہ آشفتہ روزی وبد حالی ایشان اشک حسرت می ریزد و میگوید کہ: سر زمینی کبک او شاھین مزاج آھوی او گیرد از شیران خراج در فضایش جرہ بازان تیز چنگ لرزہ بر تن از نھیب شان پلنگ لیکن از بی مرکزی آشفتہ روز بی نظام و ناتمام و نیم سوز بیش از نیم قرن از گفتار علامہ ٔ لاھور ی می گذرد و در این مدت چھرہ جھان، بار بار دگر گونی ھا یافت، دیگران دل ذرہ را شگافتند و باب کہکشان ھا را بر روی خود گشودند و بر کرۂ ماہ راہ یافتند و صد ھا گرۂ ناگشودۂ زندگی را از ھم گشودند و بیک حیات آسودہ و آرام دست یافتند۔ ولی دردا و حسرتا کہ در طول این ھمہ ایام حتی رنج خود خواھی و بی اتفاقی ما درمان نیافت و نظام زندگی و خصلت قبیلوی ما عوض نگردید۔ بر خود و بر تاریخ خود جفا کردیم و بنام اسلام احکام اسلامی را نادیدہ انگاشتیم و سرانجام دیدیم آنچہ را کہ نبایستی می دیدیم۔ بی اعتنائی بہ اوامر الھی و سرکشی از فرمان او تعالی و غفلت در انجام امور دینی و انسانی بلا و مصیبتی در پی داشت کہ اینک دمار از روزگار ما بر آوردہ است، و در پھنای بیکران گیتی جاہ و اعتباری نداریم، دردناکتر اینکہ با گذشت زمان و کسب دانش و تجربہ بیماری نفاق و جاہ طلبی ھای ما ھر روز مزمن ترمیشود و در حالی کہ در لبۂ پرتگاہ نابودی قرار گرفتہ ایم بازھم این شیوۂ کشندہ را دنبال می کنیم و غافل از آنیم کہ تاریخ و مردم با ما محاسبہ خواھند کرد و در دادگاہ زمان حجت و برھانی نخواھیم داشت۔ آری، اقبال در آئینہ ضمیر تابناک خویش حال و آیندۂ ما را خواندہ بود و از آنچہ او بیم داشت و اظھار تاثر می کرد، امان نیافتیم و درد و بیچارگی ما فزونی یافت۔ بہ ھر حال اقبال با ھمہ احساس ناراحتی از عدم اتحاد عملی و فکری مردم و نظام اجتماعی درھم پاشیدۂ آنان، افغانستان و مردمش را می ستاید و از ھر جا کہ دیدن کردہ است، از آن بہ نیکی ھا یاد می کند کہ مثالش را در زیر مطالعہ می کنید: اقبال در کابل: شھر کابل خطہ ای جنت نظیر آب حیوان از رگ تاکش بگیر چشم صائب از سوادش سرمہ چین روشن و پایندہ باد آن سرزمین در ظلام شب سمن زادش نگر بر بساط سبزہ می غلطد سحر آن دیار خوش سواد آن پاک بوم یاد او خوشتر ز یاد شام و روم آب او براق و خاکش تابناک زندہ از موج نسیمش مردہ تاک ناید اندر حرف و صوت اسرار او آفتاب بی خفتہ در کہسار او ساکنانش سیر چشم و خوش گھر مثل تیغ از جوھر خود بی خبر اقبال نیز چون صائب اصفھانی شیفتۂ زیبائی ھا و طبیعت با صفای کابل است و کابلیان اصیل و با فرھنگ را گرامی میدارد و آنان ر ا در خوش گھری و ارجمندی بہ تیغ جوھر دار تشبیہ می کند و ایکاش زندہ می بود تا می دید کہ آنھمہ سبزہ و گل و آنھمہ نزھت و صفائی در زیر چرخھای پر خون تانک ھا و زرہ دار ھای وحشیان آدم کش روسی و قدم ھای کثیف و ناپاک قشون سرخ از میان رفتہ است و در باغ و راغش جز زاغ و زغن و جز رنگ وبوی خون اثری نیست۔ اقبال در غزنہ و بر تربت سنائی: پس از دیدن کابل اقبال مشتاقان بہ غزنہ میرود و پیش از ھر چیزی بہ آستان سنائی می شتابد: آہ غزنی آن حریم علم و فن مرغزار شیر مردان کہن دولت محمود را زیبا عروس از حنا بندان او دانای طوس خفتہ در خاکش حکیم غزنوی از نوای او دل مردان قوی آن حکیم غیب آن صاحب مقام ترک جوش رومی از ذکرش تمام در فضای مرقد او سوختم تا متاع نالہ ای اندوختم شوق و شور و حالی کہ اقبال لاھوری از ژندہ پوش بیدار دل غزنہ در خود احساس مینماید، خود بحث جداگانہ است کہ در این مختصر مجال آن میسر نیست۔ اقبال بر ویرانہ ھا و خرابہ ھای غزنہ: اقبال پس از حضور بر مزار سنائی متوجہ اوضاع و احوال شھر غزنہ میشود و نگاھھای تند و ژرف نگرش در جستجوی کاخھا و کوشک ھای بہ گردش می پردازد کہ تاریخ در ذھنش بر جا گذاشتہ بود و فکر می کرد کہ لحظہ ای بعد وارد باغ فیروزہ میشود و سر مشام جان را معطر می کند ذوق دید از مدارس و کتابخانہ ھا و تماشای سیاہ فاتح و پیل سوار ذھن و فکرش را بخود مشغول میداشت اما ھمینکہ در ماحول نظر انداخت و چشم بر افق غزنہ دوخت، آنھمہ پندارھا و تصاویر از پردۂ گمان و خیالش بدر افتاد و ھر چہ نگاہ کرد و باز جست، جز ویرانہ چیزی نیافت۔ بی اختیار بہ گریہ درآمد و فریاد کشید و گفت : خیزد از دل نالہ ھا بی اختیار آہ آن شھری کہ اینجا بود پار آن دیار و کاخ کو ویرانہ ایست آن شکوہ و فال و فر افسانہ ایست در جریان این تاثر و اندوہ و گریہ و اشک ریزی اقبال بہ خداوند مناجات می کند و از او تعالی میخواھد کہ بار دیگر محمود را زندہ گرداندتا غزنہ شوکت پارینہ اش را باز یابد، و حیثیت از دست رفتہ مشرق زمین اعادہ گردد۔ شعلہ ای از خاک او باز آفرین آن طلب آن جستجو باز آفرین باز جذب اندورن او را بدہ آن جنون ذوفنون او را بدہ شرف را کن از وجودش استوار صبح فردا از گریبانش برآر اقبال در اثر احساس پاک و آرزوی نیکی کہ برای اعتلا و معموری افغانستان داشت، فکر می کرد دیگر زمانہ را علاء الدین و چنگیزی نیست و غزنہ میتواند بہ ھمت و مساعی محمودی، آنھمہ جلال و شکوہ از دست رفتہ اش را باز یابد و باز ھم مایۂ افتخار مشرق زمین گردد۔ لیکن گذشت روزگار نشان داد کہ مادر ایام از این چنگیز ھا و ابوجھل ھا بسیار زادہ است و روی زمین بارھا بدست ایشان و بخون آدم تر شدہ است۔ چنانچہ چنگیز عصر ما (بریژنیف) برج و باروی غزنہ را درھم ریخت و کوی و ایوانش را بہ آتش کشید و دشت ’’نو بھار‘‘ را از خون فرزندان محمود رنگین ساخت۔قیل وقال مدارس بہ خاموشی گرائید و زمزمہ و مستی کودکان دبستانی رااز میان برد۔ قتل عام و کشتار ھای دستہ جمعی و بی رسمی ھا و بی مروتی ھای کہ سفاکان وحشی روس بہ آن دست یازیدند، صفحہ جنایات چنگیز و چنگیزیانی را از ھم شست و بلکہ ننگین دیگری بر دامان تاریخ استعمار و کاخ نشینان کرملن افزود۔ اقبال در قندھار: حکیم و عارف دل آگاہ لاھور از غزنہ احرام سفر می بندد و راھی قندھار میشود تا از زیارت خرقہ مبارک، آب و رنگی بہ قبای خویش باز دھد و نمی فیضی بر جبینش نقش بندد۔ ھمینکہ وارد شھر میشود، ھمہ مظاھر و پدیدہ ھا توجہ اش را جلب می کند و بی اختیار لب بہ ستایش می گشاید و میگوید کہ: قندھار آن کشور مینو سواد اھل دل را خاک او خاک مراد رنگ ھا بوھا ہواھا آب ھا آب ھا تابندہ چون سیماب ھا لالہ ھا در خلوت کھسار ھا نارھا یخ بستہ اندر نارھا کوی آن شھر است ما را کوی دوست ساربان بربند محمل سوی دوست دریغا کہ اقبال زندہ نیست تا می دید کہ دیگر در قندھار جز اشک و خون از انار و لالہ اثری نیست و آن کوی و برزنی کہ وی برآن عشق می ورزید و شیفتہ اش بو د، بدست بیداد گران خون آشام پیمان ورشو چھرہ در خاک کشیدہ است و جز سوگ و ماتم ذوق و حالی دیدہ نمیشود۔ اقبال بر تربت احمد شاہ: اقبال پس از زیارت خرقہ مبارک بر تربت احمدشاہ ابدالی میرود و از وی چنین وصف می کند: تربت آن خسرو روشن ضمیر از ضمیرش ملتی صورت پذیر مثل فاتح آن امیر صف شکن سکہ ای زد ھم باقلیم سخن ملتی را داد ذوق جستجو قدسیان تسبیح خوان بر خاک او ازدل و دستی گھرریزی کہ داشت سلطنت ھا برد و بی پروا گذاشت این فیلسوف ارجمند ھر یک از سلاطین و فرمانروایان افغانستان را بگونہ ای وصف می کند کہ پنداری عمر ھا در صحبت و دربار آنھا بودہ و مافی الضمیر و ما ھیت ھر یک را درک و شناسائی کردہ است، چنانچہ احمد شاہ را بہ سلطان مھر فاتح ’’ترکی‘‘ تشبیہ می کند و تحرک او را در کشور سازی و بی اعتنائی اش را بہ ثروت و مکنت دنیا می ستاید۔ اقبال و ظاھر شاہ: حکیم فرزانہ اسلام و مشرق زمین در فروغ ضمیر و خرد تابناکش دریافتہ بود کہ در عہد ظاھر شاہ بی دینی و ستیزہ گری در برابر حق پرستان رونق می یابد و فتنہ ھائی ببار می آورد کہ حریم اسلام جلوہ گاہ کفر و الحاد میشود و سرانجام زوال و نابودی او و ملت افغانستان فراھم می گردد۔ در زمینہ این نگرانی و آیندہ نگری و بر حذر داشتن او از لاقیدی و بی اعتنائی شعری برایش میفرستد کہ چند بیتی از آن در اینجا نقل میشود: برگ و ساز ما کتاب وحکمت است این دو قوت اعتبار ملت است آن فتوحات جھان ذوق و شوق این فتوحات جھانی تحت و فوق ھر دو انعام خدای لایزال مؤمنان را آن جمال است این جلال لیکن از تھذیب لادینی گریز زانکہ او با اھل حق دارد ستیز فتنہ ھا این فتنہ پرداز آورد لات و عزی در حرم باز آورد متاسفانہ چنانکہ دیدیم پیشگوئی ھای اقبال و نصایح سودمند او در مغز ظاھر شاہ کارگر نیفتاد و ازآنچہ اقبال او را بر حذر داشتہ بود بہ آن گرائید و علم و حکمت را کہ ھر دو پایہ ارتقا و ادامہ حیات ملت ھاست نادیدہ انگاشت، بی اعتنائی اش در ترویج فساد و فحشی و حمایت او از بی دینان و ملحدان فتنہ ھا ایجاد کرد و خود و ملت افغانستان رادر چنگ این فتنہ ھا از پا در آورد و ھمان لات عزی ’’داود و ترہ کی‘‘ کہ اقبال از آنھا نام بردہ بود، بر حریم وطن و حصار دین راہ یافتند و بی حرمتی ھا کردند، و افسون کمیونیزم دلھا را از فروغ ھدایت باز داشت و درفرجام ملت را بہ این بدبختی وسیہ روزی کشید۔ نتیجہ: اقبال در جبین ھستی ملت افغانستان نقش آیندہ اش را بہ روشنی خواندہ بود و قلب پر فروغش از آنچہ این کشور در قبال داشت بخوبی میدانست، او پی بردہ بود کہ سر زمین محمود و احمد شاہ روزی بدست فتنہ ایام زیر و رو خواھد شد و بنا بر این سعی کردہ است تا آخرین دید و شناخت خود را از اوضاع افغانستان و اھمیت جغرافیائی آن بیان کند و بر مسئولان آمر در منطقہ ھشدار دھد، تا آنچہ او می گویددرک کنند و از بی میلی و بی تفاوتی در این بارہ بر حذر باشند۔ ورنہ مرگ و نیستی شان حتمی خواھد بود۔ این حکیم وارستہ و روشندل در تحلیل نھائی خویش میگوید کہ : آسیا یک پیکر آب و گل است ملت افغان دران پیکر دل است از حیات او حیات آسیاست از ممات او ممات آسیاست چنانکہ ملاحظہ میشود، اقبال بادرایت و آگاھی از نقشہ ھای استعمار و اھمیت ستراتیژی افغانستان، این کشور راھستہ و مرکز آسیا میخواند و آنرا بر قلبی در پیکر آسیا تشبیہ می کند کہ طلسم حیات و ممات منطقہ وابستہ بہ اوست لیکن بدبختی آسیا در این است کہ سرنوشت ملت ھای آن اغلب در اختیار آنان نیست، یا نمیدانند و یا زیرکانہ و محرمانہ با استعمار گوشۂ چشمی بھم میرسانند و یا (بمصداق پہلوان زندہ خوش است) فرصت را غنمیت می شمرند و از خطراتی کہ در کمین آنھا است احساس مسؤلیت نمی کنند۔ ورنہ تجاوز روس بر افغانستان نقطۂ آغاز یست کہ رؤیاھای سلطہ جوی استعمار سرخ را در منطقہ بخوبی منعکس می کند و مینماید کہ با سرعت و وسعت ممکن جرقہ ھای این آتش سوزان و کشندہ در آسیا سرایت خواھد کرد و دیری نخواھد بود کہ پرچم ننگین روسی بر فراز سفینہ ھای آبھای گرم و خلیج فارس بہ اھتزاز در خواھد آمد و آنگاہ دست ندامت بسر کوفتن و فریاد ذلت و خواری کشیدن ثمرہ ای نخواھد داشت و ھر گونہ احمال در برابر ھجوم ضد انسانی روس فجایعی را بہ بار خواھد آورد کہ جبر انش در قرنھا ناممکن خواھد بود۔ روح اقبال شاد و یادش گرامی باد۔ بزرگداشت اقبال بزرگ روہ میاشنی قلم، سال دوم شمارہ چہارم، ۱۳۶۶ھ ش، عقرب، اکتوبر نومبر ۱۹۸۷ء شگوفہ ھای زایندہ فرھنگ دری را بوستان ھای ادب کہ در سر زمین خراسان و نیمقارۂ ھند پروردہ شدہ جاودانہ معطر مینمایند۔ در مکتب ادبی خراسان را (افغانستان ماورا اولنھر و ایران) بعد از تامین استقلال سیاسی این منطقہ، شالودہ ادب دری از اواسط قرن سوم ھجری بہ بعد شکل گرفت و در مدت تقریبادو صد سال بعد ھمگام با آھنگ سیاسی و اجتماعی آنوقت بجھت پختگی و نضج میرفت۔ ادب پروری سلطان غزنہ و محیطی کہ محمود برای رشدادب دری فراھم کرد، مکتب ادبی خراسان راشکوفانتر ساخت و آنگھی در اواخر سدہ پنجم ھجری در نتیجہ تحولات سیاسی اجتماعی آنوقت دو انکشاف جدید ادبی در منطقہ پدید آمد، یکی تأسیس مکتب ادبی عراق بود (عراق اسم شھریست در ایران کہ ایرانیھا آنرا اراک تلفظ و نوشتہ کنند) و در آن بر جنبہ اجتماعی شعر توجہ بیشتر مبذول گردید۔ درین دورہ بود کہ اشعار فلسفی۔ تصوفی و حماسی متضمن پند و اندرز پدید آمد و این نوعی عکس العمل بود بمقابل مداحی کہ در مکتب خراسان رونق گرفتہ بود۔ دومی انتقال و پخش دین مبین اسلام و معرفی فرھنگ و زبان دری بھندوستان توسط مردم افغانستان بقیادت محمود غزنوی است کہ در پرتو عرفان اسلامی از امتزاج فرھنگھای سانسکرت و دری مکتب ادبی ھند تولد شد و تا قرن ھفتم ھجری بہ پختگی و شگوفانی انجامید۔ ارزشھای ادبی و فلسفی این مکتب بیشتر در سر زمینھای افغانستان و ماوراء النھر مقبول افتاد ولی مکتب عراق نو آوری ھای مکتب ھند را مھجور و مبھم و غریب خواند و از آن فاصلہ گرفت کہ خلای ناشی از آن تاکنون در ایران پر نشدہ است۔ در حالیکہ افغانستان در جریان بلکہ در سر راہ ھر دو مکتب قرار گرفت و با ھر دو داد و گرفت داشت۔ محمد اقبال شاید آخرین شاعر میراث مغتنم مکتب ادبی ھند باشد (شاید بخاطری میگوئیم کہ در اثر بی مبالاتی حکومتھای افغانستان و ایران بساط تدریس زبان و ادب دری در ھند و پاکستان کہ مدت چند قرن زبان رسمی آن سر زمین گردیدہ بود بر چیدہ است)در پس منظر این مکتب شاعرانی مانند بیدل، غالب، امیر خسرو دھلوی، غنی کشمیری و دہ ھای دیگرسراغ داریم کہ زبان دری را پرورش دادہ شاھکار ھایی بجا گذاشتہ اند و این علاوہ بر شاعران فارسی زبانیست کہ از ایران ماوراء النھر و افغانستان بھندوستان آنوقت رحل اقامت گزیدند مانند صائب تبریزی، طالب آملی، کلیم کاشانی، مسعود سعد سلمان و عدۂ دیگر کہ از ھجوم چنگیزخونریز جان سلامت بردہ بہ آن دیار رھسپار شدند۔ شاعران نامدار مکتب ھند بطور عموم سبک خراسان را پروردہ اند، منتھی مقداری شکر ھندی نیز بہ آن فزودہ اند۔ ولی اقبال از مکتب عراق نیز بھرہ برداشتہ و چنانکہ در بیت ذیل مدعی است ھر آئینہ میراث ھر سہ مکتب ادب دری و عرفان مولوی را ’’در بزم شوق‘‘ آوردہ است: آنچہ من در بزم شوق آوردہ ام دانی کہ چیست؟ یک چمن گل، یک نیستان نالہ، یک خمخانہ می یعنی میراث مکتب ھند میراث عرفان مولوی بلخی میراث مکتبھای خراسان و عراق یک چمن گل: یک چمن گل۔ صد چمن گل۔ چمنستان۔ خونِ رگ گل و صدھا ترکیب دیگر ازین قبیل از اصطلاحات و نوآوریھای مکتب ھند است کہ خصوصا در اشعار میرزا عبدالقادر بیدل بکثرت دیدہ میشود۔ اقبال ترکیب ’’یک چمن گل‘‘ را بطور استعارہ بمعنی میراث مکتب ھند افادہ کردہ و چون خود او مولود این مکتب است آنرا در اول مصرع دوم۔ مقدم بر دو استعارۂ دیگر قرر دادہ است۔ (دیوان بیدل ندارم تا چند مثالی مینوشتم) یک نیستان نالہ: این نالۂ ھمان نای است کہ رومی نواختہ و ھشت صد سال است کہ آتش عشق آن شعلہ ور میباشد: آتشست این بانگ نای و نیست باد ھر کہ این آتش ندارد نیست باد (رومی) اقبال راکہ خداوند عالم چشم ’’پرنور‘‘ و ’’دید جان‘‘ نصیب فرمود ’’این آتش را یافتہ و پذیرفتہ و از ’’جوشش عشق‘‘ آن نیستانی آفریدہ کہ ھر نای آن ’’شرح درد اشتیاق‘‘ می نالد: روی خود بنمود پیر حق سرشت کو بحرف پھلوی قرآن نوشت گفت ای دیوانۂ ارباب عشق جرعہ ای گیر از شراب ناب عشق از نیستان ھمچو نی پیغام دہ قیس را از قوم حی پیغام دہ نالہ را اندازِ نو ایجاد کن بزم را از ھای و ھو آباد کن زین سخن آتش بہ پیراھن شدم مثل نی ھنگامہ آبستن شدم ٭٭٭ گرہ از کار این ناکارہ وا کرد غبار رھگذر را کیمیا کرد نی آن نی نواز پاکبازی مرا با عشق و مستی آشناکرد {اقبال} اقبال عارف است نہ صوفی، چنانکہ پیشوای او مولانای بلخی، صاحب مثنوی معنوی عارف بود۔ مولانا مفسر قرآن است چنانکہ مثنوی تفسیریست از کلام رب العالمین ’’کو بحرف پہلوی قرآن نوشت‘‘ کیش وحدت الوجودی کہ میراث افلاطون و حکمای یونان ومغایر تعلیمات قرآن است در نی نامۂ مولانای روم بہ این روایت آمدہ کہ گویا: ھر کسی کو دور ماند از اصل خویش بازجوید روزگار وصل خویش ولی مولانا بعد از توضیح جھان بینی افلاطون کہ منکر محسوسات عالم وجود و متکی بر ھیئت عقل میباشد، بزبان عارفانہ رابطہ معشوق و عاشق را در چوکات اید یالزم عرفانی در رد پندار افلاطون بیان میدارد و عقل او محدود و عاجز از درک و فھم محیط انسان می پندارد کہ لا حدود میباشد و اما شور پروردگار بھمہ جا و در ماورای حدود محسوس انسان پراکندہ است۔ چنانکہ گوید : جملہ معشوق است و عاشق پردہ ای زندہ معشوق است و عاشق مردہ ای چون نباشد عشق را پروای او او چومرغی ماند بی پروای او پر و بال ما کمند عشق اوست مو کشانش میکند تا کوی دوست من چگونہ ھوش دارم؟ پیش و پس چون نباشد نور یارم پیش و پس نور او در یمن و یسر و تحت و فوق بر سر و بر گردنم چون تاج و طوق {رومی} اقبال نیز دل رامرکز عشق و ایدآل خویش پنداشتہ عقل جھان بین افلاطون را نمیخرد: تکیہ بر عقل جھان بین فلاطون نکنم در کنارم دلکی شوخ و نظر بازی ھست و چون نالۂ نای مولانا را بگوش دل شنیدہ و رمز آنرا دریافتہ است، حکمت افلاطون را افسون و اندیشہ وحدت الوجودی او را زیان آور میخواند۔ ازوست: راھب دیرینہ افلاطون حکیم از گروہ گوسفندان قدیم رخش او در ظلمت معقول گم در کہستان وجود افگندہ سُم آنچنان افسون نامحسوس خورد اعتبار از دست و چشم و گوش برد گفت سرِ زندگی در مردن است شمع را صد جلوہ از افسردن است عقل خود را بر سر گردون رساند عالم اسباب را افسانہ خواند کار او تحلیل اجزای حیات قطع شاخ سرو رعنای حیات فکر افلاطون زیان را سود گفت حکمت او بود را نابود گفت فطرتش خوابید و خوابی آفرید چشم ھوش او سرابی آفرید منکر ھنگامۂ موجود گشت خالق اعیان نامشھود گشت قوم ھا از سکر او مسموم گشت خفت و از ذوق عمل محروم گشت {اقبال} اشعار اقبال ھمہ اش مست از نالہ ھای نی و سرشار از ارادت بمولانا ست، ھر آئینہ حق ارادت را بجا و ’’یک نیستان نالہ‘‘ را چنان بہ نوا اندر ساختہ کہ بھترش در ادب مکتب ھند دیدہ نشدہ است۔ یک خمخانہ می: از استعارات مکتب ادبی عراقست و مراد اقبال کیف و شور و سوز شاعران و عارفان این دورہ است کہ بجان وی آتش زدہ اند: عطا کن شور رومی سوز خسرو عطا کن صدق و اخلاص سنایی گہی شعر عراقی را بخوانم گہی جامی زند آتش بجانم {اقبال} در اواخر قرن پنجم ھجری ادبیات دری از موقف درباری بودن جھت اجتماعی شدن گرائید و سعی برای بیان ناھمواریہای اجتماعی در قالب شعر کہ بنوع خود از یکنوع تکامل ادبی نمایندگی میکرد، پدید آمد۔ از جانب دیگر تصوف در قلمرو شعر پا گذاشت و بخش مھم بل مرغوب آن گردید۔ صوفی عاشق خدا، عشق او شوریدگی برای شناخت خدا و کاینات و ذات او تعالی معشوق صوفی قرار گرفت۔ صوفیان و عارفان کہ در طریق شناخت خدا و انسان و اسرار خلقت از اصول اخلاقی خاصی پیروی می نمودند در ھمان عقاید خود یعنی در قید معنی ظاھری کلمات نماندند بلکہ می، میخانہ، خمخانہ۔ ساغر و مینا را برای بیان مفاھیم عرفانی بکار می گماشتند۔ این سمبولیزم عرفانی در اشعار سنایی، رومی، سعدی، حافظ و جامی بیشتر جلب توجہ مینماید۔ بطور مثال در این ابیات حافظ کہ پیر می فروش او را محرم راز نمیسازد ولی بخامشی و می نوشی سفارش میکند۔ می و می فروشی افادہ ھای مجازیست: احوال شیخ و قاضی و شرب الھیودشان کردم سوال صبحدم از پیر می فروش گفتا نگفتنی ست سخن گرچہ محرمی درکش زبان و پردہ نگھدار و می بنوش {حافظ} ششصد سال بعد اقبال میخواھد اسرار پیر می فروش را فاش سازد ولی بطوری کہ ’’موج می‘‘ میشود و در ’’کسوت مینا‘‘ می پیچد: تابہ کی چون غنچہ میباشی خموش؟ نگہت خود را چو گل ارزان فروش فاش گو اسرار پیر می فروش موج می شو کسوت مینا بپوش {اقبال} واینھم جواب دیگری کہ اقبال در طریق کشت و درو بہ حافظ شیرازی دادہ است: مزرع سبز فلک دیدم و داس مہ نو یادم از کشتۂ خویش آمد و ھنگام درو {حافظ} تخم دیگر بکف آریم و بکاریم ز نو کانچہ کشتیم ز خجلت نتوان کرد درو {اقبال} اکنون کہ در کسوت اقبال برگزیدہ ھای گلاب خراسان، نسترن عراق و نرگس ھندوستان را استشمام نمودیم۔ بپاس ارادتی کہ این مسلمانزادۂ بر ھمنستان ھند بہ وطن، زبان و مشرب ما دارد، میسزد کہ در تجلیل روز یاد بود او با مردم برادر پاکستان سہیم شویم و از دیوان خاطرات این مرد مومن گلدستہ ھای دیگری بہ اھل ذوق تقدیم نمائیم۔ ایمان اقبال ایمان اقبال اسلام است ولی اسلام شناسی اقبال قدمی فراتر و کاملتر از ھمکیشان اوست۔ وی از قماش مسلمانانی نیست کہ چون پدر مسلمان بودہ تنھا بمیراث اسلام قانع و راضی بودہ باشد۔ بلکہ عارف و دانشمندیست کہ سایر ادیان را بر خواندہ و از بین آنھا اسلام را برگزیدہ است۔ اقبال در محیطی میزیست کہ اسلام با عنعنہ چند ھزار سالہ بود، اھمیت مسابقہ دادہ، مسیحیت از طریق دستگاہ عظیم استعمار و بقدرت پول تبلیغ میشد و یہودیت و زردشتی نیز پیروان زیاد و آزادی عمل داشتند۔ او اسلام را بہ ارادۂ خود از طریق عقل و شعور پسندیدہ و مفید حال بشر تشخیص نمودہ چنانکہ در وصف نبی الاخرین حضرت سرور کایناتؐ و آئین و حکومت و مساوات اسلامی و بطلان تبعیضات قومی و نژادی کہ شریعت محمدیؐ بہ ارمغان آوردہ، می گوید: در شبستان حرا خلوت گزید قوم و آئین و حکومت آفرید در جھان آئین نو آغاز کرد مسند اقوام پیشین درنورد از کلید دین در دنیا گشاد ھمچو او بطن اُم گیتی نزاد در نگاہ او یکی بالا و پست با غلام خویش بر یک خوان نشست امتیازات نسب را پاک سوخت آتش او این خس و خاشاک سوخت اقبال فلسفۂ اسلام و پنج بنای مسلمانی را درین پنج بیت خلاصہ کردہ است: لاالہ باشد صدف گوھر نماز قلب مسلم را حج اصغر نماز در کف مسلم مثال خنجر است قاتل فحشا و بغی و منکر است روزہ بر جوع و عطش شبخون زند خیبر تن پروری را بشکند مومنان را فطرت افروز است حج ھجرت آموز و وطن سوز است حج حب دولت را فنا سازد زکوٰۃ ھم مساوات آشنا سازد زکوٰۃ اقبال تاریخ اسلام را مطالعہ بل تحلیل کردہ اسباب زوال خلافتھای اسلامی و پسمانی ملل مسلمان را بر شمردہ، بی تصمیمی و بی ثباتی مسلمانان را مسئول آن میداند۔ وی بمسلمانان طعنہ میزند کہ در طریق ثبات از پا می افتند و دو گامی بیشتر نمیگذارند و در حالیکہ برھمن بت خود را برای نیایش بر سر طاق میگذارد مسلمان قران را برای نمود بطاق فراموشی میسپارد: درِ صد فتنہ را بر خود گشادی دو گامی رفتی و از پا فتادی برھمن از بتان طاق خود آراست تو قرآن را سر طاقی نہادی اقبال جہان بینی دینی خود را از متن قرآن و احادیث رسول خدا و رھبر اسلام میگیرد ولی بناچار در زمان و مکانی میزیستہ کہ خرافات بر مسلمانان چیدہ بودہ و اشخاصی بلباس مرشد، ملا و صوفی مردم را می قاپیدند۔ اقبال کہ رسالت تنویر مسلمانان را متعھد میباشد بمقابل این بدع و خرافات می ایستد و بہ مسلمانان میگوید: بہ بند صوفی و ملا اسیری حیات از حکمت قرآن نگیری بہ آیاتش ترا کاری جز این نیست کہ از یٰسںٓ او آسان بمیری اقبال از آن صوفی و ملا کہ درتلاش حلواست گریزان است: دل ملا گرفتار غمی نیست نگاھی ھست در چشمش نمی نیست ازآن بگریختم از مکتب او کہ در ریگ حجازش زمزمی نیست و بہ آن صوفی و ملا کہ بہ رسالت و معنی قرآن نپرداختہ، آیات مبارک را برای مصروف ساختن مسلمانان و مقاصد نفسانی حفظ و قرائت می کنند …قالو سلاما میگوید: ز من بر صوفی و ملا سلامی کہ پیغام خدا گفتند ما را ولی تأویل شان در حیرت انداخت خدا و جبرئیل و مصطفیٰ را اقبال شخصیتی دارد دارای دو بعد۔ در بعد ظاھری و تصنعی خود معلم و عالم و فیلسوفیست کہ عالیترین مدارج دانش شرق و معیار ھای مدنیت غرب را تمثیل مینماید ولی در بعد درون گرایی خود مسلمان و شرقی است و شور درونی خود را کہ مثل عرفان اسلامی و جھان بینی شرق اوست، در قالب شعرھای ناب بزبان دری ریختہ است، بنوعی کہ اگر مثنوی مولوی را تفسیر کامل قرآن بخوانیم دیوان اقبال تفسیر منتخباتیست از قرآن۔ منتھی وی طریق درون روشنی و تزکیہ نفس را برای نجات نفس خود یا تحصیل جاہ و جلال مادی نمیخواھد۔ او در غم مسلمان ھندی خون جگر میخورد و در جستجوی یک رھبر است تا فکر ساختمان یک جامعہ اسلامی را بمسلمانان ھند تلقین کند: تب و تاب دل از سوز غم تست نوای من ز تاثیر دم تست بنالم زآنکہ اندر کشور ھند ندیدم بندہ ای کو محرم تست اقبال در بحبوحہ قدرت امپراطوری بریتانیای کبیر چشم بدنیا گشود (۲۲ فروری ۱۸۷۳ئ) ( پاکستان تایمز مورخ ۲۱ اپریل ۱۹۷۹ مقالہ یی بقلم احمد نبی خان، تاریخ تولد اقبال را سوم ذیعقدہ ۱۲۹۴ مصادف ۹ نومبر ۱۸۷۷ نوشتہ است و در اواخر قرن نوزدھم شھرت او در ھمہ محافل ادبی ھند پیچیدہ بود۔ انگلیسھا باو حرمت و ارج میگذاشتند ولی طبع حساس او با استعمار ناسازگار افتاد و راہ تنویر و تربیت مردم را در پیش گرفت و بدین ترتیب در میدان سیاست داخل گردید۔ اقبال بمنظور تحریک و بیدار ساختن مردم اسیر ھند خصوصاً مسلمانان نیم قارہ آثار و اشعاری نوشت کہ بعد از وفات او حیثیت منشور پاکستان را پیدا کرد۔ در نیم قارۂ ھند اگر تاگور را مربی ھندوان میخوانند، اقبال مرشد مسلمانان شناختہ می شود: یا مسلمان را مدہ فرمان کہ جان بر کف بنہ یا درین فرسودہ پیکر تازہ جانی آفرین یاچنان کن یاچنین یا بکش در سینۂ من آرزوی انقلاب یا دگرگون کن این زمان و این زمین یاچنان کن یاچنین {اقبال} مبارزۂ اقبال چند جانبہ بود۔ در دورہ استیلای انگلیس قدرت کلیسای مسیحی برای مسیحی ساختن مسلمانان بکار افتادہ بود۔ ھندوان برای انتقام جویی و ضعیف ساختن عقاید اسلامی تشویق و تحریک میشدند۔ انگلیس نمیخواست ھندوستان را ترک کند۔ ھندوھانمیخواستند پاکستان ایجاد شود۔ اقبال با ھمۂ اینھا نیز با ارتجاعی کہ در بین حلقہ ھای اسلامی چراغ غیر را روشن میساختند، مبارزہ میکرد۔ بزم مسلم از چراغ غیر سوخت مسجد او از شرار دیر سوخت شیخ در عشق بتان اسلام باخت رشتۂ تسبیح از زنّار ساخت اقبال بار اول در جلسۂ مسلم لیگ منعقدہ الٰہ اباد (۱۹۳۰) برای مسلمانان شمال غرب ھند طرح تاسیس یک فدراسیون مسلمان نشین در نیم قارہ سخن میگفت، این مطلب را بیان کرد: ’’من از تاریخ اسلام یک درس آموختہ ام و آن اینست کہ در لحظات حساس و بحرانی تاریخ کہ مسلمین پشت سر گذاشتہ اند ھمیشہ این دین اسلام بودہ کہ مسلمانہا را نجات دادہ است نہ اینکہ مسلمین اسلام را نجات دادہ باشند۔‘‘ بہ این اساس اقبال مؤسس پاکستان است۔ اگرچہ مرگ بہ اقبال مہلت نداد کہ در جشن استقلال پاکستان اشتراک ورزد ولی حزب مسلم لیگ طرح اقبال را دو سال بعد از مرگ شاعر (قطعنامہ پاکستان۔ ۱۹۴۰) تصویب کرد و چند سال بعد از آن کشور اسلامی پاکستان تأسیس شد۔ بلی انکشاف اوضاع در نیم قارہ ھند در مسیری در آمد کہ گروہ ھای مسلمان ھند مجبور شدند اسلام را بحیث یک ایدالوجی، یک طریقہ زندگی و یک وسیلہ تنازع بقا بپذیرند، وانگہی تأسیس پاکستان مستقل مسلّم شدہ بود و اینک حدود چہل سال از موجودیت آن میگذرد۔ ملت پاکستان اینک ۹ سال است از جھاد برحق مردم افغانستان پشتیبانی و با آوارگان و رنجدیدگان ما کمک و مساعدت مینماید کہ با منافع علیای پاکستان سازگار است و لقب پر افتخار انصار را کمایی کردہ۔ درین فرصت کہ ملت انصار پاکستان خاطرہ معلم و مرشد، این عارف بزرگ مشرق زمین را تجدید و تجلیل مینماید جا دارد کہ افکار و اندیشہ ھای آن مربی لاھوری را بپوئیم و از آن باز آموزیم: نوای من از آن پر سوز و بیباک و غم انگیز است بخاشاکم شرار افتادہ و باد صبحدم تیز است مرا بنگر کہ در ھندوستان دیگر نمی بینی برھمن زادہ ای رمز آشنای روم و تبریز است {اقبال} ایمان راسخ و مبارزۂ بی غش اقبال را تا سرحد تاسیس یک کشور جدید در قارہ آسیا موفق گردانید و این سر مشقیست برای ھر مسلمان متعھد۔ اقبال و زبان دری اردو زبان مادری اقبال است ولی بزبان انگلیسی و آلمانی نیز تحصیل کردہ و آثار علمی نوشتہ کہ در انگلستان و آلمان نشر گردیدہ است۔ لیکن آثار عارفانہ اقبال بزبان دری است۔ گو اینکہ زبان دری عطیہ خداوندی و ’’آہ صبحگاھی‘‘است کہ زبان حال شاعر قرار گرفتہ چنانکہ نفیس ترین اشعار و عالی ترین افکار او بہ دری بیان شدہ است: بامن آہ صبحگاھی دادہ اند سطوت کوھی بہ کاھی دادہ اند اقبال خود و رموز خودی را بزبان دری دریافتہ و باین زبان با خالق کاینات و مخلوقات او سخن گفتہ، سوھان عشق را باین زبان چشیدہ و اسرار کیف و کم عالم را باین زبان بیان نمودہ است: عشق سوھان زد مرا آدم شدم عالم کیف و کم عالم شدم حرکت اعصاب گردون دیدہ ام در رگ مہ گردش خون دیدہ ام {اقبال} بلی این عشق کہ ’’در رگ مہ گردش خون‘‘را بہ شاعر مکشوف ساختہ و فکر او را مسحور و خامہ اش را ’’شاخ نخل طور‘‘ گردانیدہ زبان دری کہ یکی از زبان ھای مردم افغانستان است، از اوست: گرچہ ھندی در عذوبت شکر است طرز گفتار دری شیرین تر است فکر من از جلوہ اش مسحور گشت خامۂ من شاخ نخل طور گشت {اقبال} و آنگہی اقبال فارسی رابا رفعت اندیشہ خود موافق یافتہ و فطرت او این زبان را پسندیدہ بطور یکہ در اشعار اردوی خود نیز ترکیبات فارسی را مسلط ساختہ است: پارسی از رفعت اندیشہ ام در خورد با فطرت اندیشہ ام {اقبال} طرفہ نیست کہ علامہ اقبال این سخنور معجزہ آفرین زبان دری کہ غیر از قصیدہ تمام ابحار و ابواب شعر را پیمودہ حتی طرحھا و قالب ھای نو آفریدہ است، بزبان دری تکلم و محاورہ نمیتوانست۔ باری مرحوم سرور گویا اعتمادی بمن گفتہ بود کہ در سال ۱۹۳۳ ھنگامیکہ علامہ اقبال بہ دعوت دولت افغانستان بکابل رفتہ بود با رجال و ادبای افغانی بزبان اردو یا انگلیسی صحبت میکرد، و یکی دو بار کہ میزبانان افغان سر صحبت را بزبان دری گشودہ بودند علامہ اقبال با خضوع و شرمندگی معذرت خواستہ بود۔ در ھمین سفر بود کہ اقبال بہ مزار سنایی، محمود غزنوی، احمد شاہ درانی و خرقہ مبارک شتافتہ و خاطرات آن را در اثری بنام مسافر نوشتہ است۔ در علم زبانشناسی فراگرفتن زبان دوم یادو سہ زبان افزون بر زبان مادری بخش مہمی را بنام ’’زبانشناسی روانی۔ Psycholinguistics‘‘ تشکیل میدھد، و بہ دو شعبہ تقسیم میشود : یکی فراگرفتن زبان دوم (سوم یاچہارم) توسط خورد سالان، دیگری توسط کلان سالان۔ از آنجائیکہ اقبال زبان دری را در کلان سالی در مدرسہ آموختہ است این موضوع از لحاظ اصول و اسلوب ھای تدریس تہیہ مواد درسی و محیط درسی قابل مطالعہ میباشد کہ امیدوارم دانشمندی باین کار در پاکستان ھمت بگمارد و این شگفتی را کہ از لحاظ معیارھای تربیتی حایز اھمیت فراوان است بکاود۔ در دورہ استعمار انگلیس سیستم تعلیم و تربیہ انگلیسی در قسمت تدریس زبان مبتنی بر ’’اصول ترجمہ۔ Translation Method بود کہ از میراث تربیتی یونان باستان بودہ، و بعوض زبان گفتار بالای زبان نبشتہ بیشتر تاکید مینمود، بنوعی کہ حفظ لغات و متون ادبی و تقویت دستور حایز اھمیت و سفارش بود و بزبان مکالمہ کمتر توجہ میشد۔ از آنجائیکہ آموختن زبان محاورہ تسلط نداشت ولی در زبان نبشتہ مبتکر و خلاق است و در حالیکہ شاعر شدن کسبی نبودہ بلکہ یک استعداد خارق العادہ و یک عطیہ خداوندی پنداشتہ می شود اما آموختن زبان کسبی میباشد و اشکال مختلف دارد۔ مثلاً مکالمہ در یک زبان خارجی برای مقاصد محاورہ و رفع ضروریات آن کہ در شرایط اکثر افغانھای مھاجر مقیم اروپا، امریکا صدق میکند۔ اینھا نوشتن و خواندن بزبان خارجی را بلدنیستند بلکہ یک عدہ کلمات و جملات زبان خارجی را بدون توجہ بدستور آن حفظ میکنند و بکار می بندند۔ شکل دیگر آن آموختن، خواندن و نوشتن در یک زبان از طریق آموختن دستور آن میباشد کہ بزبان مکالمہ کمتر توجہ میشود و این شکلیست کہ اقبال زبان دری را آموختہ ولی چنان اشعار نغز، پختہ و بکر درآن سرودہ است کہ بمشکل میتوان پذیرفت وی بزبان دری مکالمہ نمیتوانستہ است۔ پس در سیستم تدریس مبتنی بر ’’اصول ترجمہ‘‘ مزیتھایی وجود دارد کہ باز کاوش آن برای مھاجرین افغانی در پاکستان یا ھر کلان سالی کہ بخواھد زبان خارجی را بیاموزد مثمرو برای رشتہ تدریس زبان خارجی آموزندہ خواھد بود۔ اقبال و افغانستان درین بخش عوامل و انگیزہ ھایی بررسی میشود کہ اقبال را متوجہ افغانستان گردانیدہ است۔ اقبال زندگی را در جہد و آزادی رادرستیز می پالد و چون آنرا در محیط خود نمی یابد در جستجوی معشوقہ آزادی بہ افغانستان دل می بندد: مسلم ھندی چرا میدان گذاشت؟ ھمت او بوی کراری نداشت مشت خاکش آنچنان گردید سرد گرمی آواز من کاری نکرد {اقبال} اقبال فجایع اجتماعی ناشی از بھرہ برداریہا ودستبرد استعمار را بچشم سر میدید۔ از مشاھدہ غلامی در ھندوستان رنج میبرد و شب غلامان را بدون افق امید می پنداشت: شب ھندی غلامان را سحر نیست بہ این خاک آفتابی را گذر نیست بہ ما کن گوشۂ چشمی کہ در شرق مسلمانی ز ما بیچارہ تر نیست {اقبال} اقبال مبارزات آزادیخواھی مردم افغانستان را کہ در ھندوستان قیامھا و نھضتھای آزادیبخش گردیدہ و بنیاد امپراطوری با عظمت انگلیس را متزلزل ساختہ بود ستایش میکرد، تخم آزادی را کہ سید جمال الدین افغانی در ھندوستان خفتہ کاشتہ بود، پرورش و آب میداد و از آن بمنظور بیدار ساختن مردم ھند الھام میگرفت۔ از اینجا ست کہ در بخش سیاست و آزادیخواھی احمد شاہ ابدالی و سید جمال الدین افغانی مخاطب او قرار دارند و در سایر موارد چند بخش دیوان او وقف خصایل نیک مردم افغانستان شدہ است۔ نہ تنھا این بلکہ اقبال موجودیت یک ملت مبارز مانند افغانستان در آسیا را برای آزادی منطقہ ضروری می پندارد، ملت افغان راقلب آسیا میخواند؛ آسیا یک پیکر آب و گل است ملت افغان در آن پیکر دل است {اقبال} شیوۂ اسلام گرایی، آزادیخواھی و موقف ضد ماتریالستی سید جمال الدین افغانی، اقبال را در جملہ پیروان صادق او قرار دادہ است۔ پیام ’’افغانی‘‘ را بملت روس کہ در حقیقت تحلیل پایہ ھای چوبین جھان بینی ماتریالستی، این کیش غیر بشری و لاخدایی میباشد، صادقانہ منعکس نمودہ است: روسیان نقش نوی انداختند آب و نان بردند و دین در باختند حق ببین، حق گوی و غیر از حق مجوی یک دوحرف ازمن بہ آن ملت بگوی چیست قرآن؟ خواجہ را پیغام مرگ دستگیر بندہ ای بی ساز و برگ ھیچ خیر از مردک زرکش مجو لن تنالواالبر حتی تنفقوا رزق خود را از زمین بردن رواست این متاع بندہ و مالک خداست بندۂ مومن امین حق مالک است غیر حق ھر شی کہ بینی ھالک است {اقبال} اقبال بہ سہ پادشاہ افغانستان پند نامہ نوشتہ و ھر کدام آن شاھکار ادبی است۔ در تفسیر شریعت و اصول تواضع، عدالت ومردم نوازی کہ اگر آنھا بکار می بستند، افغانستان امروز بہ این سرنوشت دچار نمیگردید۔ مردم افغانستان کہ بنظر مسلمانان ھند زمانی تاج بخش و آزادی بخش بودند، و بقول اقبال: سر زمینی کبک او شاھین مزاج آھوی او گیرد از شیران خراج در فضایش جرہ بازان تیز چنگ لرزہ بر تن از نہیب شان پلنگ این مردم اینک امروز بخانہ انصار پاکستان مھاجر شدہ اند چونکہ ’’بی نظام و ناتمام و نیم سوز‘‘ ماندند۔ چونکہ دین را میراثی و تضمین شدہ پنداشتند و رسالت آنرا نجستند، آیات را حفظ کردند ولی بمعنی و محتوی آن نپرداختند و ملا را باین کار گماشتند کہ او ھم در تلاش حلوا شد۔ رھبران ما خود خواہ، کم سواد و دشمن دانش اند۔ روحانیون ما در پی پر کردن جیب و متاع دنیا و مردم ما بی آذوقہ، بی مسکن و بی مکتب و بیخبر ماندند۔ نتیجہ آن شد کہ افغانستان سر زمین ایدآلی اقبال، چہل سال بعد از مرگ او، بدست اولاد خودش، دستخوش تھاجم اجنبی قرار گرفت۔ معھذا اگراقبال را ھاتفی بپذیریم کہ ھر آیینہ ھست پس ھوشدار او ر انیز باید بخاطر بسپاریم کہ در مورد افغانستان گفتہ است : از فساد او فساد آسیا در گُشاد او گُشاد آسیا {اقبال} و فساد کنونی کہ کمونستہای خدا ناشناس بہ افغانستان آوردہ اند ھمہ اولتر متوجہ ملت مسلمان و تمامیت ارضی پاکستان است۔ این طاغوتیست کہ بدر وازہ پاکستان جا گرفتہ بلکہ بحرم پاکستان نفوذ کردہ و مرشد پاکستان علاج آنرا در جھاد سراغ دارد۔ اقبال جنگ را براہ خدا و عقیدہ بحکم خیر می پذیرد و در طلب مقصود معنوی و دفع غیر شر را بر صلح مرجح میشمارد: صلح شر گردد چو مقصود است غیر گر خدا باشد غرض جنگ است خیر گر نگردد حق ز تیغ ما بلند جنگ باشد قوم را ناارجمند ھر کہ خنجر بھر غیر اﷲ کشید تیغ او در سینۂ او آرمید {اقبال} بعقیدۂ اقبال در جہاد قرب حق جستن مضمر است و ’’مسلم ار عاشق نباشد کافر است‘‘ اقبال حتی بار سنگین تری در ورای تعمیل فریضہ جہاد را بر روشنفکران و دانشمندان حوالہ میدارد: من آن علم و فراست را پر کاھی نمیگیرم کہ ازتیغ و سپر بیگانہ سازد مرد غازی را پرداختن بہ انسان متعھدی چون اقبال کہ ھر لحظہ حیات عقلانی خود را وقف تربیت ھمنوعان خود خاصہ بیداری ملتھای مسلمان نمودہ بہ این مختصرنامیسر است و آنگہی در مورد اقبال ھر قدر سخن بگوئیم سخنی مانند او نگفتہ ایم و چون ھمہ سخن را او خود گفتہ مقال ما در مقدمہ ناتمام است۔ ولی بمنظور سھم گرفتن در روز اقبال کہ ھر سال در پاکستان تجلیل میشود ودر افغانستان آزاد نیز برگزار میشد و من در آن زمان در زمرۂ استادان پوھنتون کابل مقالاتی در سفارت پاکستان مقیم کابل خواندہ بودم، اینک بہ نمایندگی از استادان آوارۂ پوھنتون آزاد کابل این برگ سبز را من حیث نمونہ ارادت مردم آزادۂ افغانستان بہ اقبال لاھوری و ھموطنانش تقدیم میدارم و برای ملت برادر پاکستان استحکام مبانی اسلام و بقای استقلال شانرا مسئلت مینمایم۔ موفق باد جہاد و مقاومت ملی مردم افغانستان! پایندہ باد افغانستان آزاد و مؤمن! جاودان باد رھبری اسلام! امروز زدائی برای فردا از نایل، لاجوردینشھری میثاق خون، شمارہ مسلسل ۳۳، ۳۴ جوزا سرطان ۱۳۶۶ ھ ش؍ شوال ذیقعدہ ۱۴۰۷ ھ ق من، ھنوز میروم، ھنوز در راھم، سر منزل اقامت دور و ناپیداست، شمعی در امواج بیکرانۂ سیاھی در آن دور دستھای دور میلرزد، نمی دانم کہ آتشی کاروان رفتہ است و یا بہ سپیدہ ھای بامداد ’’فردا‘‘ نزدیک می شویم، اما در افق می نگرم ھنوز نشانۂ از ’’رسیدن‘‘ و بارقہ از منزل ھویدا نیست۔ ھر قدر میروم ھنوز کہ ھنوز است خود را در امروز می یابم و چون غواصی از دست رفتہ ای، در امروز شناورم، ’’فردائی‘‘ کہ خواھد آمد ھنوز سر بہ زانوی ابدیت غیب خوابیدہ است و ھنوز در سرمدیت زیبا و خاموش، مکتوم است، گوئی ھرگز ’’بیدار‘‘ نخواھد شد و نخواھد آمد۔ میگویند میآید، من بسوی او رھسپارم و او بسوی من میآید۔ اما ’’بھم‘‘ نرسیدہ ایم، و قرنھاست کہ در امروزمدفونم۔ ھنوز ’’امروز‘‘است، بزرخ شب کہ ’’امروز‘‘ را بہ ’’فردا‘‘ می پیوندد، ھنوز پیش روست و گامی تا ھنوز بسوی ’’او‘‘ نرفتہ ام۔ نکند تداوم ملال انگیز و تھوع آور امروز، ایمان بفردا و فردا ھا را در دلھا بمیراند۔ ھیھات! میگویند کار می کند و ھمگان دست بکار و ستیزہ اند تا گنجینۂ سپید ’’فردا‘‘ را از ظلمت برزخ شب، چون حجم سنگین حقیقت استخراج کنند و ماندگاری و فنا ناپذیریش را تضمین نمایند و ’’انسان‘‘ این حجم مجھول را از رسوب غم آلود در امروز و مناسبات حاکم بر امروز نجات اعطا کنند، وہ، چہ خوب باور است این پندار خیال انگیز و ’’گفتن‘‘ موھوم وھمینست کہ ھمیشہ، گفتن آسانتر جلوہ می نماید تا… اما، من نیز ننشستہ ام و سکوت را باور نکردہ ام و خواھی نخواھی باین قبیلۂ شتاب کہ آھنگ رفتن را تداوم می بخشند و میروند، ھمراھم و میروم، چہ، اگر نروم نیز رفتہ ام، چون زمان و جامعہ حرکت درنگ ناپذیر را طی می کنند، و اگر نروم پس ’’نیستم‘‘۔ و اکنون … درحصار ’’امروز‘‘ محبوسم، ھمہ در حصار امروز محبوسند، تنفس در کہن شھر ’’امروز‘‘ خفقان انگیز و تھوع آور است، پنجرہ از حصار امروز بہ ’’فردا‘‘ و ’’فرداھا‘‘ ھنوز نکشودہ اند تا گاھی ذرات طلائی رنگ از خورشید فردا، بہ سلول ’’امروز‘‘ ما دعوت شود و گرما و روشنائی بیاورد۔ ای وای، ھنوز این گرداب، حیات ’’من‘‘ و ’’ما‘‘ ست، در تداوم راہ و در تسلسل رفتن نشستہ ام و بہ امروز کہ پایان ناپذیر بودنش بر ایمان ھا و بر جانھا غلبہ کردہ است، می نگرم و میاندیشم کہ چسان از در و دیوان زندگی در امروز، ابابیل بلاو ابتذال میریزد، و میاندیشم کہ چگونہ اضطراب و ملالت، ارواح و اجسام ’’مخلوقات‘‘ رادر خود پیچیدہ است۔ باری می نگرم کہ غول مادیت امروز، تماھی قلہ ھای پر بلندی معنویت فردا را فتح کردہ است و می رود تا کلیہ مرزھا را طبعیت و ’’آنسو ترھا‘‘ را نیز تسخیر کند۔ باری، میاندیشم کہ فردا، خواھی نخواھی خواھد آمد و گسترۂ ھستی را فتح خواھد کرد۔ ولی آیا ’’فردا‘‘ ساختہ و پرداختۂ ’’امروزہ‘‘ نیست؟! و آیا فردا نباید آن زادۂ امروز و آفریدۂ منطقی امروز نیست ؟ ! و آیا فردا، اثر شلاقھای روان سوز امروز را در خویشتن خویش احساس نمی کند ؟ ! بالٓاخر… آیا فردا ادامۂ تاریخ و علمی امروز نیست؟!! و… و… نہ، نہ احساس خستگی انگیز ناامیدی را در خود باور نمی کنم و پنجرہ را بہ روی ذرات یأس کہ از عینیت امروز و بیرون مایگی حاکمیت ’’امروز‘‘ منشا میگیرند، می بندم و تمامی اتمھای وی را از ذھن خویش شستشو می دھم، تا باشد باور کنم کہ حرکت بسوی فردا و آنھم فردای روشن و تہی از ھنگام، حقیقت تاریخی و واقعیت انکار ناپذیر علمی است و بدینگونہ باور باشد کہ امید بہ فردا و ایمان بہ طلوع فردا، در من پویائی، امید و حرکت را ایجاد نماید۔ آری، باور میکنم کہ فردا خواھد آمد، و خوبترین پیامھا و طلائی ترین انوار را ھمراہ با ہوایش بدین شھر ظلمت و ظلم ھدیہ خواھد آورد۔ ھنوز میروم و لی باھجوم ناامیدی کہ برھر لحظۂ من مستولی می شود، سختانہ مبارزہ میکنم۔ میروم ولی لشکر اھریمنی ھزاران سؤال بی پاسخ در برابرم قرار میگیرند، میروم ولی ’’تداوم راہ‘‘ سیلاب سؤالات دوزخی را بسویم سراز یر می کنند و راھبندان تشکیل می دھند و من ھنوز در کشتزار وجودم جوانہ ھای سبز امید را، امید بہ ماندن و امید بہ زیستن را بذرمی کنم و ھمگی موانع رفتن را با جوابھای مبھم از مسیر بر میدارم و میروم کہ زندہ باد رفتن بسوی فردا و فرداھا، ولی باز شلاقھای طاقت سوز سوال کہ کدام فردا؟ ! و من بلا درنگ جواب میدھم کہ فردای روشن!! کدام فردا ی روشن؟! از کجا؟! از بطن امروز از اینھمہ ابتذال ظلمت و تھوع؟ آیا مگر نہ اینست کہ بنیاد تعمیر فردا را بااین چنین معمار و اینچنین ’’خشت ھا‘‘ باید استوار داشت؟! و آری، چون استیلای ظلمت شب بر سیمای روز انبوہ سوالات بر من مستولی می شوند و ھستی رافرا می گیرند ولی من با گستاخی تمام و تہاجمی بینظیر خود را در امواج ابھام و نفہمیدن رھا می کنم و چون تخدیری جنون آمیز بر سر ھمگی پرشھای عقل و دل، نھیب میزنم و خود را بہ ’’ھمرنگ جماعت‘‘ بودن و یا شدن کہ حتماً دست جمع پیروز است فرا میخوانم و اقناع میکنم۔ در چنین کشاکشی وجود خویش را عرصہ در گیری تضاد نیروھای اھریمنی می یابم، عقل طغیان کردہ، احساس مرتکب معصیت می شود و ھمہ و ھمہ در مقابل ’’روح عاطفہ‘‘ و روان امید بفردا، صف آرائی می کنند و جنگ افروختہ می شود و ھستی من چون مقبرہ روح معذب، زمینۂ بیرحمانہ ترین و بیگانہ ترین درگیریھا و پیکارھا قرار میگیرد و عاطفہ مظلوم ’’تداوم رفتن‘‘ را شکست خوردہ تر از ھمیشہ و مستوجب رحم می یابم و با یک تھاجم پر شور ناشی از امید بفردا، بر نیروھای جھنمی عقل و استدلال و۔۔۔ حملہ میبرم و بر دل نہیب می کشم و بہ رفتن بسوی فردا، و فردا از ’’امروز‘‘ و مناسبات امروزی، ادامہ می دھم۔ فردا! ای کہ خواھی آمد وھستی را صفائی ملکوتی و جلال روحانی خواھی بخشود و طومار ضلالت ’’امروز‘‘ ماندگار را درھم خواھی پیچید، مامورین متعھد ’’امروز‘‘ و خدمتگزاران و عملہ استبداد ’’امروز‘‘ تعھد نسپردہ اند کہ مستقبل تو باشند و در راہ ’’ظھور‘‘ فتح استمرار تو ھمرکاب شوند و یا منتظر بدرقہ باشند اینھا میخواھند تا امروز را نہ تنھا پاسداری و حفظ کنند بلکہ می خواھند و مصمم اند، باتمام نیروھای مھاجم خویش برای تداوم ’’امروز‘‘ مناسبات امروز با کلیہ نیروھای مدافع فردا و فردا بجنگند تا مباد امروز سقوط کند و فرداو مناسبات عادلانہ فردا پدید آید۔ چہ اگر امروز و فرھنگ و مناسبات امروز سقوط کند عملہ ھا و مھرہ ھای امروز نیز خواھند مُرد و ناپدید خواھند شد، یعنی حیات ’’امروز یان‘‘ و مدافعان امروز درگیر و تداوم و بہبود وضع امروز است و ھمزمان با طلوع فردا و مرگ امروز اینھا نیز خواھند مرد و زوال خواھند پذیرفت۔ آرزوی واپسین ’’امروزیان‘‘ اینست تا اگر بتوانند ھر چہ سریعتر امروز را بہ ’’ضحاک ظلمت شب‘‘ و برزخ غم آلود ناشی از آن، تسلیم نمایند و شب را بیاغازند و ھر چہ بیشتر ’’سنگ ھا را ببندند و سگھا را رھا کنند۔‘‘ فردا! خستگی ناشی از زیستن در ’’امروز‘‘ قرن ھاست، آدمی؛ این دائرۃ المعارف انگیزہ ھا و مجموعہ اضطرابھا، نیاز ھا و استعداد ھا را در خویش می فشارد و روح او را معذب میدارد، شجاع ترین روحھا و بیدار ترین دلھا درین مقبرۂ ساکت و منجمد مدفون شدہ اند و خوبترین حماسہ ھا و زیبا ترین اندیشہ ھا در تلاش ’’فردا‘‘ و در جھت نگونسار کردن احکمیت ’’امروز‘‘ شمع حیات خویش را خاموش کردہ اند، ولی ھنوز ’’امروز‘‘ ادامہ دارد و تداوم و تسلسل می یابد۔ قرون از معبر تاریک زمان می گذرد، زمان زدگی روح ھستی و جھان را می افسرد، نسلھایی ھم میآیند و میروند، آدمی با پندارھا و گمانھایش در منجلاب و مرداب ’’امروز‘‘ غرق است و ھنوز از گرفتاری و حسرت مینالد و راھی فراسوی فردای خوبترین نمی یابد۔ مسلماً نسلھای انسانی در ھمگی عصرھا برای ’’امروز زدائی‘‘ کار و مبارزہ کردہ و برای یافتن راھی بسوی روشنائی فردا و پیوستن بہ صمیمت روح فردا، کوششھای خستگی ناشناسی ابراز نمودہ اند و قربانیھای بیشماری درین ’’رہ‘‘ اھدا کردہ اند ولی ھمگی این تلاشھا بعنوان مجموعہ افتخارات مبارزہ انسانی در جھت ’’امروز زدائی‘‘تنھا انبوہ تجارب مبارزاتی و فرھنگی است کہ بر غنای فرھنگ مبارزہ با امروز، بھم انباشتہ شدہ است و محصول نتائجی قطعی در جھت سرنگونی امروز و پی ریزی فردا منجر نگردیدہ است و ھنوز کہ ھنوز است مائیم و امروز و مائیم و مناسبات امروزی و مھرہ ھا و عملہ ھای مربوط بہ آن۔ تاریخ را می کشائیم، این چاکر رسوای سلاطین، شہزادگان و زور مداران را ھر سطرش یادیست از شہزادۂ و ھر ورقش خاطرہ ایست از عشرت بیرحمانہ پادشاھی۔ ھیچ علمی اینھمہ رسوائی و عدم تعھد را بیاد ندارد کہ تاریخ دارد، و تاریخ غم آلودترین فرودھای قانونمندہ ’’امروز‘‘ را کہ پادشاھان ناشی از ’’امروز‘‘ و شہزادگان ناشی از مناسبات ’’امروز‘‘ درتداوم تاریخی امروز فاجعہ آفرینی کردہ اند بہ نمایش ’’دروغین‘‘ میپردازد و از حکمیت غیر عادلانہ و امروزی، عصر ھا حماسہ ھای ستایش برانگیز ارائہ میدھد۔ اینکہ چرا تاریخ کتمان می کند، دروغ میگوید و بہ باطل دغی متوسل می شود و باطل راچون حق و در جامۂ حق ابراز می کند، یک پاسخ میتوان گفت و آن اینکہ تاریخ سر در آخور سلاطین و زور مداران دارد و تاریخ زادۂ مناسبات امروز است و در ’’خدمت امروزیان‘‘ قرار میگیرد، از مردم و فردا خبری در آن نیست و اگر ھست در رابطہ با زور مداران امروزیست و نوع زندگانی ایشان برروی خاک و ھمین۔ اما گہ گاہ در حاشیہ و در سطری می شود سراغ پای جرقہ ھای سوزان جستجوی فردا و پویش فرداھا را گرفت و می بینی درین زاویہ کوتاہ پرداختن بہ فردا چہ حماسہ ھای بزرگ و چہ شجاعتھای سترگ و چہ سرودھای سرشار از مفھوم و عشق و چہ ترانہ ھای لبریز از درد و معنی و چہ جانھای پاک و نفیس درتاریخ کہ وقف بر اندازی حکومت ’’امروز‘‘ و وقف مبارزہ برای طلوع حاکمیت فردا ’’و فرداھا‘‘ شدہ است۔ درود بر روان شان۔ آری درین نشست با تاریخ مضمون بلند مبارزہ علیہ امروز را و مفھوم چی افگندن نظام روشنائی بخش فردا را با روح شجاع مبارز تنی چند از شعراء و چگونگی درگیری و تضاد او شان ’’امروز‘‘ و مناسبات امروزی و ھمچنان چگونگی سیمای جامعہ فردا را، در آثار و افکار و احوال ایشان بہ جستجو و پویش می نشینیم تا یادشان و یاد تفکرشان چراغی باشد در راہ مبارزہ بر ضد امروز و سقوط و ھبوط ناشی از آن۔ باری، درین پویش، حافظ را، لسان الغیب را، می یابیم کہ سر بہ زانو ی تفکر نشستہ و غمھای پیدا و ناپیدای خود را در بیکرانگی اندیشہ ھایش مطرح می کند و می نالد۔ او را می یابیم کہ از پنجرہ سلول امروز، ’’فردا‘‘ ر ا و گرمی و حرارت فردا را عمیقاً احساس می کند۔ حافظ این بہ امروز نشستہ حاضر و شاھد فردا کہ بہ امروز خود را نیالودہ است و بہ امروز خونکردہ است، بہ تجسیم زیبا و مبارک فردا میپردازد و تبلور تصویر فردا را و انعکاس شکست کنگرہ سیاہ امروز را بدینگونہ ارائہ میدھد کہ می شنویم: بیا تا گل بر افشانیم و می در ساغر اندازیم فلک را سقف بشگافیم و طرح نو دراندازیم بدینگونہ حافظ ظھور و حضور خویش را در فردا و جامعۂ فردا حالی می کند و در قفس طلائی امروز چون کبوتری اسیر می نالد و باری پرواز در ساحت بیکرانہ فردا بہ نجوا و ترانہ می نشیند و گلبون جگر او از دیدہ خامہ توانایش، نفیس ترین لالہ ھا را فرو میریزد۔ حافظ این برانگیختہ فردا کہ در سلول ناموزون امروز پابۂ عرصہ وجود نھادہ و در چنین فضائی بی مناسبتی زیستہ و رشد کردہ است چون مولوی و عطار و سنائی و سایر خود برانگیختگان را عضوی لشکری می فھمد کہ ماموریت ’’شگافتن سقف فلک‘‘ امروز را عھدہ دارد و موظف است تا ’’طرح نو‘‘ جامعہ فردا را کہ ھمان گل بر افشاندن و آزادی گستردن است پی ریزد و ایمانش درین گرامی راہ از ھیچ آسیبی و یاسی نھراسد و دلش از ھیچ وسوسہ و اضطرابی نلرزد و عقب ننشیند۔ او خویش را فرزند تہاجم فردا و یورش فردا علیہ ظلمات امروزو بدبختیھا و تیرہ روزیھای ناشی از آن می شناسد۔ بناء ھمگی حصار ھا و ھمگی مانع ھا را خویش می شکند و ھموار می کند و سوی ساحل رھیدگی می شتابد، قصد حیات او را شوق و حال فردا می سازد و تاروپود شمع حیاتش در جہت فردا و فردا ھا می سوزد۔ تاروپود ترانہ ھای او از شوق شگفتن فردا نغمہ پرداز است از افسردن غم آلود در امروز نگران و گلہ مند۔ آری، این شاعر نگرانیھای بزرگ ھمچون اقبا ل، ھیجانات آتشین ھیچ اثری جز کینہ با امروز برای پیروزی فردا نیافریدہ است۔ دشمنی و تضاد این دو بر انگیختہ خدا، با وضع موجود و مناسبات متداوم آن، ناشی از بیدار دلی، درد و فہمیدن بیکرانہ ایشان از ضلالت و عمق امروز و زیبائی و فضائل عالی فرداھا مبدأ میگیرد کہ ھیچ وسوسہ عزیزی و شیطانی نتوانستہ است جلو مبارزات مسلم ایشان را علیہ امروز در جھت فردا سد کند، بناء حماسہ بزرگ این روحھای عظیم آنست کہ تمامی ذرات اشراقی و عرفانی وجود و آثار شان را بیداری، روشنائی و مبارزہ علیہ امروز برای ساختن جامعۂ فردا و فرداھا تشکیل می دھد۔ حافظ چون مولوی و مولوی چون سنائی و سنائی چون اقبال و اقبال چون… رنج نامہ در جھت محکومیت امروز و رھائی از حصار ’’روزمرہ گی‘‘ امروز، تقدیم جامعہ انسانی کردہ اند کہ بعنوان گنجینۂ تجارب فرھنگی و مبارزاتی و بعنوان دستاورد رنج و مجموعہ بینظیر ’’طرح نو‘‘ ’’فردا‘‘ برای ھمہ نسلھائیکہ علیہ امروز در تداوم تاریخ مبارزہ مینماید و برای فردای شکوھمند آزادی تلاش می ورزند، می تواند دستور العمل کار و مبارزہ راھکشا قرار گیرد، چہ این مجموعہ ھا ھمہ حاوی جریان بیداری و روند روشنائی و درد است۔ حافظ و اقبال متاسفانہ در امروزی ترین زمینہ ھای امروز زیستہ اند و باھمگی ناھنجاری ھا و نابسامانیھای امروز در مخوف ترین سیمایش مواجہ شدہ اند، اما بہ رنگ آمیزی و فردا سازی خیالی امروز نپرداختہ اند و ھرگز با قلم تفنن و خیال صحنۂ زندان را چون عرصۂ آزادی میناتورکاری نکردہ اند و برای فریب خلق، اوھام و باطل راجامۂ روشنائی و حق نپوشانیدہ اند، و ھمیش چھرہ زشت امروز را در قبایی کہ برا زندۂ آنست تصویر کردہ اند و ارائہ دادہ اند و اینچنین برای بیداری واقعی نسلھا کارکردہ اند۔ ھیچ وسوسہ از درون و بیرون مانع ابراز مفھوم حق در آثار و گفتار شان نشدہ است و ھیچ ذلتی را بہ بہانی کتمان و دگرگونہ جلوہ دادن سیمای حق نپذیرفتہ اند، و چنین است کہ سیمای ایشان تجسیم بیداری حق و روشنائی را بہ نفع امروز و بحساب امروزیان از آفریدہ ھا و آفرینشھای ھنری شان حذف کردہ اند وعلیہ جامعۂ فردا در خدمت زور مداران قرار گرفتہ اند، و با امروز، مھرہ ھای امروز، خویشاوندی و تفاھم برقرار کردہ اند و نہ تنھا در جھت بیداری خلق نکوشیدہ اند بلکہ بہ تحمیق و تخدیر ملتھا پرداختہ اند و چھرۂ فردا را زشت و چھرہ امروز را زیبا و قابل ستایش، نقاشی کردہ اند۔ اما حافظ چون اقبال قھرمان فرداست و ابر مرد پر درخشش امیدھای مجروح مردم در آئینہ فرداھاست۔ گستاخی شعر او ترانہ ھای او را فنا ناپذیر و ماندگار می سازد و ستیزیدن خلل ناپذیرش جاودانگی اور را مخلد میگرداند۔ آری، تجسیم باورھای مردم، تجسیم اندیشہ ھا و درد ھای مردم و تجسیم مبارک فردای مردم ھمراہ باخلوص و عنصر بیداری، شعر او را مخلوطی می سازد کہ بایست چون آئینہ و آئین، آئینہ ھمیشہ قامت افراختۂ مردم و آزادی فردای مردم را در آن نگریست و بہ داوری نشست۔ حافظ این ’’ندامتی‘‘ گستاخ و عارف روشندل، حاکمیت امروز را سقف فلک می انگارد کہ باید با قبول تمامی بلیات و آفات بمبارزہ علیہ آن برخاست و آن را شگافت و بہ زیر کشید یعنی جامعہ امروز را باانقلاب ویرانگر از بنیاد بایست ویران کرد و ’’طرح نو‘‘ جامعہ فردا را علی الرغم مقاومت ھمگی نیروھای اھریمی در خدمت امروز، بنیاد نھاد و فردا و فرداھا رابہ نفع آزادی مردم و نسلھا پیروز کرد۔ البتہ این اعتقاد و این ایمان بزرگ، تنھا مرتبط بہ حافظ نیست و تنھا مرتبط بہ شاعر نیست و چہ بساروحھای نفیس و جانھای پاک از گرایشھای گوناگون و صنف ھای و قشرھای مختلف اجتماعی کہ بدین باور بزرگ بودہ اند و درین رھگذار آنقدر ایستادہ اند و مقاومت کردہ اند کہ ھستی خود را نیز از دست دادہ اند۔ فردای حافظ، فرار نومیدانہ از ھیولای ھراس انگیز امروز است و فرار از واقعیت کریہ و زشت بسوی حقیقت زیبا۔ او فردائی را کہ دنبالۂ تدریجی، تسلسل و منطقی امروز ھست وعصارۂ عمل امروز را میراث می برد۔ فردائی مطلوب خود را نمی شناسد و بہ آن معتقد و امیدوار نیست۔ فردای حافظ ’’سقف سنگین فلک‘‘ را کہ بیدار گر است و جفاگستر، از بنیاد فرو میریزد و در دنبالہ امروز بل در گورستان امروز بعنوان ’’طرح نو‘‘ پی ریزی می کند۔ فردای حافظ علماً، ھیچ آثاری و نمودی از امروز را با خودحمل نمی کند، فردای حافظ فردای انقلاب است و فردای تداوم امروز نیست۔ فردای حافظ، تداوم محافظہ کارانۂ امروز نیست و تبدیل و انتقال موسسات، مھرہ ھا و ارزشھای امروز بہ شھر طلوع فردا نیست، فردای حافظ در صبح پیروزی و در لحظۂ حدوث، ھمگی تا باوری ھای باور شدہ راتعطیل و سرنگون می سازد و ارزشھای نوین انسانی راجانشین ارزشھای کہن و خرافی می سازد۔ آری، در ایمان حافظ، انقلاب گستاخ فردا و فرداھا را ’’مھرہ ھا و معیار ھای امروز‘‘ ھرگز پی ریزی نمی کنند و اینھا بعنوان خصم فردا و دشمن انقلاب نہ تنھا در کار ساختن فردا و انقلاب فردا سھمی شائستہ ندارند بل اینھا طرفدار و ہواہ خواہ ’’امروزند‘‘ و اوضاع موجود، کہ در انقلاب فردا، قبل از ھمہ بایست بہ ’’دار‘‘ مجازات انقلاب آویختہ شوند۔ آری، ھمانگونہ کہ ’’امروز‘‘ مدافعین و مناسبات خاص را می پرورد، فردا نیز مناسبات عادلانہ ٔ خاص خواھد داشت و مسلماً مدافعین سر سخت و پیگیری نیز تحویل جامعۂ بشری خواھد داد کہ کارنامۂ حیات شان حاوی مبارزات خلل ناپذیر و جھاد ھای آتشین در راہ پیروزی فردا و طلوع فردا میباشد کہ اقبال نیز از دودمان فردا و تبار جامعہ نوین فردا بحساب می آید۔ اقبال این فرزند فردا کہ حضور امروزی دارد و متولد امروز است، بحساب فردا و بنفع فردا زندگی می کند، او تبلور درخشان سیمای ’’آیندہ‘‘ در ’’حال‘‘ است و تجسم جامعۂ رشید فردا در امروز نگون بخت و ذلیل۔ حقاکہ او نسل فردا و قامت افراختہ ای ’’آیندہ‘‘ در حصار متروک و خفقان انگیز ’’حال‘‘ است۔ در اعتقا او، ھیچکس جز ’’او‘‘ در ساختن و باز آفریدن فردا مسئوول نیست کہ باچنین تعبیر عظمت رسالت ’’کار‘‘ برای فردا و تعھد ’’نسل انسان‘‘ در برابر جامعۂ نوین رانمایش میدھد۔ اصولا او فرزند فردا و فردا ھاست و او فرزند صحرا و صحرا ھاست۔ بینش او در محدودۂ امکان و در عرصۂ حیات جز تغییر و تحول نمی شناسد و روی این باور عمیق، تحول و حرکت را مظھر حضور ھستی و ناموس ازلی برای حیات و وجود می فھمد و دلیل بقا و استمرار وجود می شناسد، از دیدگاہ او، تاریخ فلسفی انسان ھمزمان با حرکت و پویائی آغازمی شود، او در جوھر ھستی و در نہاد و ژرفای حیات بوجود مبدأ تحول و منشأ حرکت ایمان دارد۔عشق بہ حرکت را محوریت ھستہ ای کائنات می فھمد و اصل ’’موج بودن‘‘ را قاعدہ کلی و وجہ مشترک برای مطالعۂ خصلتھای ذاتی و جوھری تمامی پدیدہ ھا و نمود ھا می یابد۔ فلسفۂ او حاوی طرح بزرگ درنگ ناپذیری و استمرار حرکت ابدی بہ ’’الی اﷲ المصیر‘‘ است و توقف و درنگ را در کار تکاملی، تکوینی و تخلیقی نمی پذیرد، او لحظۂ توقف ھستی را متساوی با مرگ و نیستی می انگارد۔ آری، اقبال بنیاد باور مندیھای فلسفی خود را بر بنای تحول فنا ناپذیر اعمار می کند و محور تغییر و حرکت را دلیل ابقأ و احیای جامعہ می بیند۔ بربنای اندیشہ این اندیشمند جامعہ و حتی ھستی ھمیشہ بار مثبت تحول را با خود ھمراہ دارد و چون دریاچۂ زلال، ھر لحظہ دستخوش دگرگونی و رسان است کہ بالمحۂ درنگ و توقف می بوسد و می میرد۔ دیدگاہ ھای فلسفی اقبال در کلیت حال، تنھا بہ اثبات ’’ثبات اصل تغییر‘‘ منتہی می شود و دیگر عالم ممکن را صحنہ تغییر مسمتر و تحول ابدی می یابد۔ نگرش فلسفی اقبال در اعمار تفکر فرھنگی و تغییر بنای بینشھایِ سیاسی و اجتماعی او حیثیت ھستہ محوری را دارد کہ ناگزیر جھان و ھستی را موجود ’’ھر لحظہ شوندہ‘‘ می فھمند، بناء با چنین باورمندی شکوھمندی برای دگر گون کردن چھرۂ سیاسی و اجتماعی امروز و رسیدن بہ فردای آزادی و فرداھائی آزادی دست بکار می شود و راہ برای تجدید و نو سازی جامعہ را بر می گزیند۔ او منقلب کردن افکار را بمعنی منقلب کردن جامعہ و دگرگونی در عرصۂ تفکر و اندیشہ را بمفھوم تغییر وضع سیاسی و تحول رفتار اجتماعی جامعہ انسانی می داند۔ او حصار ھای تقلبی امروز را کہ ناشی از سمت تفکر دنیا پرستانہ و خود محور بینیھای ’’امروزیان‘‘ است۔ درھم می شکند و ھمراہ با اندیشہ ھایش بہ جنگ امروز نفرینی میرود و برای فردای نوین خود را مہیا می سازد۔ چہ، او خود عنصر غیر امروز یست کہ چون شہباز مغرور درتنگنای قفس امروز و تنھا زیستہ است و برای آزادی پرواز در گسترۂ فرداھا می نالد و در تلاش است تا از اعماق این گمگشتگی ھا و مقابر، خود و دیگران را بیرون برد و بہ افق ھای نوین رستگاری و زیبائی نزدیک سازد۔ ای وای ! دلم برای این خوبترین و بزرگترین زندانی زمان می سوزد، حیف است کہ چنین برانگیختہ مردانی، در ظلمت ظلم، در سیاھچال اسارت و در زنجیر استبداد حماقت امروز، متحمل عذاب عظیم روح باشند و بجرم آزادی خواھی و بلند اندیشی و فرار از سیاھی ارتجاع و ذلت و بجرم حرکت بسوی روشنائی و نورانیت فردا، قبول درد و مصائب نمایند۔ تجیسم اندیشہ ھای اقبال، افشا کنندۂ عمق مظالم و ظلمت بیدرد حاکم بر زمان اوست۔ او پندار جاودانگی و نظام لجام گسیختۂ امروز را بامعیار فلسفۂ تحول ناسازگار می یابد و حیات را ثمرۂ تحول و انتقال تحول بہ تحول دیگر می یابد و زندگی را موج بیقرار، بیقراری و شتاب می فھمد و بدینگونہ تفسیر و تبیین، معمای حیات و راز بقای جامعہ را دریافت می کند و ھیجان آلود بیدرنگ می گوید : موجیم کہ آسودگی ما عدم ماست ما زندہ بہ آنیم کہ آرام نباشیم اقبال، آدمی را مجموعۂ بینظیر ھیاھوھا، ھیجانھا و سازھا و آھنگھا می انگارد کہ با عبور از معبر تحول و تکامل ھمیشگی، بسوی ’’شدن‘‘ و ’’رشد‘‘ در حرکت و بیقراریست۔ دائرۃ المعارف شناخت اقبال، ’’آدمیت‘‘ آدمی را، موج شتاب آلود ’’گذشتن‘‘ و ’’رفتن‘‘ می فھمد کہ اگر بیقراری و اضطراب و حرکت را ازو حذف کنند بہ مبدأی حیوانی خود باز میگردد و سقوط می کند۔ و آنجا کہ میگوید : موج ز خود رفتۂ تیز خرامید و گفت ھستم اگرمیروم گر نروم نیستم او وجود را و ھستی را کہ چلچراغ کنگرہ نیستی است و دستاورد قرنھا گمگشتگی در عدم لایتناھی خداوندیست ناشی از خرامیدن، رفتن و جنبیدن و تحول شدن می داند، و خروج ھستی را از شام عدم بہ اساس حرکت موجی و متحول ارائہ میدھد و ھرگز بہ ’’وجود‘‘ و ’’ھست‘‘ فاقد حرکت در عالم امکان معتقد نیست۔ از ھمین جا و بر مبنای ھمین اعتقاد فلسفی و باور دینی است کہ کنگرہ نگرشھای سیاسی و اجتماعی خود را در جامعہ استوار می کند و باور می سازد کہ در پرتو چنین تفکر سیاسی رژیم امروز را سرسختانہ نفی و رد می کند و جنگ را برای بچنگ آوردن فردا و نظام فردا می آغازد، و با چنین آغازی آگاھانہ در جھت بیداری خلق و ملتھا شمع وجود خویشرا فرا راہ ظلمت ھای اجتمای قرار میدھد و بنفع فردا، راہ امروز را ظلمت زدائی می کند۔ او ہوا دار طلوع قلبھا و آمادگی دلھا و مہیا بودن جانھا و روانھاست تا زمینہ و زمان در جہت طلوع انقلاب فردا و ساخت جامعہ فلاح و رستگاری قرار گیرد۔ بدیھی است کہ چنین نگریستن برتر، میتواند کاخ حکومت ’’امروز‘‘ را ویران کند و کنگرۂ زیبای جامعۂ فردا را بر افرازد۔ باری، ببرکت الھام از چنین بارقہ و شناختی کہ پیشروان نہضت انسانی فردا بعنوان مجموعہ از بیداری و اھتمام علم و جہاد و فداکاری، و ایمان از خود بہ ودیعت نھادہ اند و روشنائی بر خطوط ’’راہ‘‘ و حرکت ایجاد کردہ و رفتہ اند، ما نیز میرویم تا باشد نسلی از نسلھای انسانی ثمرہ این مبارزہ و جھد را دریا بند و حیات آدمی برای ھمیش از قید اسارت در ’’امروز‘‘ نجات یابد و فردا بحساب انسانیت انسان ظھور کند و پدید آید۔ و البتہ بدیہی است کہ نجات ما از گردونہ چنین بیھودگی و مھمل ماندن و ظلم دیدن و ستم کشیدن در گیرو جھد آگاھانہ و عارفانہ تمامی صاحب دلان روشن آئین است کہ چراغ عمر خود را وقف ایجاد فردا، وقف آزادی و وقت رھیدگی انسان نمایند، در غیر اینصورت و این چنین قربانی، نمیشود بہ عمر سیاہ امروز اختتام بخشید و یا برای فردای موعود کار کرد۔ برای اینچنین انقلاب عظیمی، بیداری فردا، عنصر فردا، عشق فردا، و ایمان فردا را باید تجھیز کرد۔ چہ خو گرفتگان ’’امروز‘‘ اگر مدعی پیروز کردن فردا در تداوم امروزند، راھی بسوئی نخواھند برد، بدون اعلام انحلال، منحل خواھند شد۔ آری، اینھا سقوط خود را در ’’امروزی گری‘‘ بدلائل گوناگون در یافتہ اند و اسناد اضمحلال خویشرا تصویب و امضاء کردہ اند۔ بناء بہ ساحل نجات لنگر نیانداختن کشتی مبارزہ از آنست کہ امروزیان آلودۂ بہ امروز با نقاب فردا و با نقاب تزویر فرداھا ظاھر شدہ اند و در متن مبارزہ ایجاد کشمکش کردہ اند و ایمانھای صدیق مبارزہ را پوسانیدہ و روحھای شجاع مبارزہ را بہ عقب نشینی مجبور کردہ اند۔ بدیھی است یکی ازین گرفتاری بزرگ و بہ انجام ’’راہ‘‘ رسیدن بدون بمنزل مقصود رسیدن، معلول امروزی اندیشیدن برای مبارزہ با امروز در جھت فرداست و مولود بکار گیری معیارھا و پیمانہ ھای مورد استفادہ امروز است برای پیروزی عدالت فردا، در حالیکہ قطعاً فردا نہ تنھا امروز نیست و آھنگی و ساز دیگر دارد، بلکہ فردا مضمون دیگر طرح دیگر، اندیشیدن دیگر و عمل دیگر است کہ نہ تنھا با معیار ھای کنونی قابل اندازہ گیری نیست بلکہ اصولاً اصل وجود معیارھا و پیمانہ ھای فعلی در صبح فردا، قابل ارزش و اھمیت نیستند و مسلماً این معرفتھا، معیارھا و شناخت شناسیھا، در مقام تضاد و مخالف فردا قرار دارند و از ھمین روست کہ نظام فردا، نظام انقلابی خواھد بود۔ چہ، اگر فردا و وضع فردا، توصیف ھا و موازنہ ھای امروز را در مورد خویش بپذیرد، مسلماً آنھم ’’امروز‘‘ است نہ فردای موعود و قابل انتظار۔ انکار ناپذیر ’’اینھمہ‘‘ کہ بر شمردیم ابزارھای کہنہ و تزلزل پذیر امروز ھستند کہ ھمزمان باطلوع انقلاب فردا ھمراہ با رژیم امروز و تمامی زمینہ ھای کار برد و گستردہ عمل شان، محکوم بہ فنا و نابودی ابدی ھستند۔ بناء ھیچ معیار شناخت وتئوری معرفتی و دانش تحلیلی نسبت بہ حدوث واقعہ فردا، و آن لحظہ ھای بزرگ انفجار کہ یک نظام فرسودہ بر مبنای آن فرو می ریزد و بہ نظام نوین منتقل میگردد، بدست نیست و شک مقوی فردا و بہ تعبیر دیگر مقولہ انقلاب، موقع حدوث و انفجار، منطق بردار و تحلیل پذیر نیست و خارج از دست تبیین و تفسیر ظھور می کند و پدید میآید و ھمزمان و ھمپای آن انقلاب و در جریان انقلاب معیارھا و شناخت ھایِ تجربہ، باز سازی آفریدہ می شوند یعنی منطق و معیار ھا و تحلیل ھا بر ماموریت تفسیر امروز و موسسات و اوضاع ناشی از امروز را دارند و رژیم گذشتہ و یا موجود را کالبد شگافی علمی می کنند، ھرگز صلاحیت قانونی وعلمی و توضیح و داوری در مورد فردا و چگونگی جریان ناشناختۂ نظام فردا را ندارند و بدیھی است کہ ھمزمان با حدوث انقلاب ھمپای سایر ارزشھا، نھادھا و موسسات و مناسبات مربوط بہ رژیم امروز درھم کوبیدہ می شوند و از بین میروند۔ و مقولہ ھای نوین، معیار ھای نوین، شناخت ھا، ارزشھا و معرفتھای نوین برخاستہ از طبعیت نظام انقلابی فردا، جانشین ھمگی دست آورد ھای نظام امروز میشود و انقلاب فردا با سیمای فردا، آرزو ھای فردا و نیاز ھای فردا آغاز می یابد۔ بلی، فردا طومار تعفن تاریخی امروز را می پیچد و بہ زیستن، واقعیت و بہ انسانیت مفھوم و معنی اضافہ خواھد کرد۔ فردا، خود محدود سازی اجتماعی را بہ نفع آزادی، عدالت و کرامت انسانی، جانشین خود محور بینی ھا و خود سریھا و ہوا پرستی ھا کہ منجر محدود سازی دیگران در تدوام تاریخ می شدہ است خواھد ساخت۔ فردا، بانخستین بارقہ طلوع امر اعتلای انسان و اعتلای ’’آدمیت‘‘ آدم را برفرازمقبرہ حیوان پرستی، شی شدن و شی بودن آدمی، مطرح خواھد کرد و مفہوم فردا کہ بر اساس تنفر و انزجار از امروز و نظام امروز بر مبنای یک انقلاب خونین پدیدار خواھد شد، ھرگز سنتھا و آئین ھای امروز را نخواھد داشت و با بقایای آن ستیز خواھد داشت و فردا ھرگز بدتر از امروز نخواھد بود، فردا ھرگز سقوط انسان نیست و ھبوط آدمی را بفرود ھای غم انگیز ظلم و ظلمت بعہدہ نخواھد داشت۔ ’’فردا‘‘ بر بنای اینکہ با وضع موجود ناسازگار است و در مقام ضدیت با آن علم مبارزہ بلند کردہ است، زیبا ترین و بالندہ ترین خواھد بود۔ ھر زشتی و تھمتی را نسبت دادن بوضع موجود، برازندہ و زیباست و علیہ حاکمیت مطلوب فردا، ھر تھمتی عصیان و ھر عصیانی سقوط است و ناشی از امروزی دیدن، امروزی اندیشیدن و امروزی داوری و عمل کردن است۔ بہ امید فردای آزادی و فردای خجستگی و بالندگی انسان۔ کالج مسجد۔ پشاور ۲۹۔۱۔۱۳۶۶ افغانستان در آئینۂ قرآن عرب از سرشک خونم ھمہ لالہ زار بادا عجم رمیدہ بو را نفسم بھار بادا تپش است زندگانی تپش است جاویدانی ھمہ ذرہ ھای خاکم دل بی قرار بادا {اقبال} از احمد جان امینی وقتی تکوین شخصیت و ھویت کنونی جھان را بصورت یک کل تحقیق و بررسی نمائیم، جھان و تکامل فعلی آن تصادفی و آنی بوجود نیامدہ، بلکہ بصورت تدریجی رشد و تکامل یافتہ، و این تکامل تدریجی در تمام اصناف و انواع پدیدہ ھای جہان اعم در چھرہ ھای فرد، اجتماع، اقتصاد و مذھب و … محصول تضادھا و تنازعات و کشمکش ھای ذات البینی درونی و بیرونی ھمان اصناف و انواع بودہ کہ شامل پدیدہ ھای طبیعی ھم میگردد۔ بطوریکہ مثبت ھا و منفی ھا، نرھا و مادہ ھا و راست ھا و چپ ھا و … عواملی اند کہ پدیدہ ھای جدید را تولید و تکامل می بخشند۔ و این برق و نور است کہ از جرقہ ھای الکترون ھای مثبت و منفی و این موجودات حیہّ اند کہ از اجتماع تخمہ ھائی نر و مادہ بوجود می آیند و … و اینکہ امروزہ ما پدیدہ ھا را بصورت کامل و تمام عیار و در خدمت خویش و مسخر مشاھدہ میکنیم کہ علوم از زمین بآسمان ھاعروج نمودہ و پدیدہ ھا و اجسام بیجان در خدمت انسان قرار گرفتہ، ادیان متکامل و قوانین مترقی بر اجتماعات حکومت میکند۔ ھمہ و ھمہ تحت مدو جزر زمانی، مکانی و میکانیکی طبیعی شکل و صورت تکاملی یافتہ است۔ وای بسا ھلاکت و نابودی دہ ھا پدیدۂ موجب تولد پدیدہ ھای متکاملتر دیگری گردیدہ اند۔ واقعات تاریخی و یا بعبارت دیگر حوادث و وقایعیکہ تاریخ ھا را ساختہ و می سازد و جوامع را از مرحلۂ بہ مرحلۂ دیگر گذر و سوق میدھد۔ بیرون ازین ضابطۂ عمومی نبودہ بلکہ این وقایع تاریخ ساز روح و عنصر اصلی ھمہ این سوقیات و تکاملات بحساب می رود۔ شخصیت تاریخی ملل و اجتماعات مولود مرھون ھمین کشمکش ھا و تنازعات بودہ، بعبارت دیگر ھمین کشمکش ھا و تنازعات اند کہ صفحات برازندہ و زرین اجتماعات و تاریخ را تشکیل می دھد و برابر است این تضاد ھا و کشمکشھا در سطح افراد باشد یا ملت ھا و یا پدیدہ ھای طبیعی دیگر۔ لحظات خاموش و سکوت را جوامع صفحات بی رنگ و نام گم و بی رونق اجتماعات را تشکیل می دھد کہ نسل ھای بعدی نقطۂ بر ازندہ و راہ طی شدہ رادر لابلای آن سراغ و ملاحظہ کردہ نمیتوانند۔ بعبارت دیگر افراد و ملل کہ درروند تاریخ با طرح و عملی نمودن انقلابات مھر سکوت را در ھم شکستہ و صحنہ آرائی کردہ اند، از دیگر ملل و افراد تبارز و شخصیت کسب و در خانوادہ انسانیت ھمچون قلہ شامخ پر ثمر و شجر را مینماید کہ نمای آن از فواصل دور نمایان و توصل بآن فضیلت ھا و خیرات ھا را در برداشتہ است۔ حتی ھمین کوہ ھای بلند است کہ در ساختار جغرافی زمین زیبائی و تنوع بخشیدہ، در چگونگی اوضاع مختلف جوی کہ باعث ادامۂ حیات انسان و نباتات و حیوانات است نقش عمدہ را بازی میکند۔ حال با تحلیل مشخص از موقعیت فرد، اجتماع و پدیدہ ھای طبیعی بسراغ کشور مردم خودمان افغانستان، قھرمان و مسلمان، می برآئیم۔ می بینیم افغانستان ظاھراً مواضع کوچک بشکل مشت گرہ خوردۂ ر امینماید کہ در اطلس ھای جھان قرار گرفتہ است۔ اما مطالعہ و ارجاع بہ متون تاریخی این خطہ در ھر مقطع از زمان این را نشان میدھد کہ خصوصیت تسلیم ناپذیری، جنگ و درھم کوبیدن متجاوزین، طاغوطیان و افکار ناسازگار و ناسالم حاکم بر زمان از خصوصیات فطری این سامان بودہ و پیوستہ پیشگام نہضت ھای مترقی و آزادی بخش جھان بودہ است کہ باین کتلۂ کوچک معنویت و کیفیت بخصوص بخشیدہ است کہ چون قلۂ شامخ تبارز و چون نگین در عرشہ اطلس جھان تلؤلؤ میکند۔ حضرت علامہ اقبال لاھوری، شاعر و صوفی با کرامت اسلام و شرق، نقش افغانستان را در آسیا چہ موزون تحلیل و پیشگوئی کردہ است : آسیا یک پیکر آب و گل است ملت افغان در آن پیکر دل است از گشاد او گشاد آسیا وز فساد او فساد آسیا گویا حقیقتاً محدودۂ جغرافی این کشور حرم سرای آزادگان و باشندگان آن پاسداران امین بودہ اند کہ در طول تاریخ بہ جنایت کاران، متجاوزین و بیگانگان و لجام گسیختگان فرصت و اجازۂ آن را ندادہ اند کہ پای کثیف و جنایت کارشان حریم پاک این خطہ آزادگان مسلمان را ملوث سازد۔ حضرت اقبال صاحب باز ھم در لابلای اشعارش شخصیت ھا و حتی حیوانات افغانستان را چنین تشریح و تشبیہ نمودہ است: خیبر از مردان حق بیگانہ نیست در دل او صد ھزار افسانہ ای است سر زمین کبک او شاھین مزاج آھوی او گیرد از شیران خراج در فضایش جرہ بازان تیز چنگ لرزہ بر تن از نہیب شان پلنگ این اولین و آخرین مورد نبودہ است کہ ملت مسلمان افغانستان بانیروی ایمان و عقیدہ در قرن بیست امپراطوری روسیۂ متجاوز و ھم پیمانان آن را در میدان نظامی، سیاسی و فکری شکست و چرخ تمدن جھانی را بہ سود مسلمین و آزادی خواھان پیش بردہ و ریکارد جدیدی را در تاریخ معاصر برقرار نمودہ است بلکہ این ملت با ایمان در ھر مقطع از زمان و در ھر شرایط ناھموار، علمبردار نہضت ھای مترقی بودہ است۔ چنانچہ بہ شواھد تاریخ: بیرق جھان کشائی اسکندر مقدونی در تعرض بہ ھمین خاک ما بزمین افتید و از پیشروی بعد باز ماند۔ طلسم جھان کشائی و انسان کشی چنگیز خان مغل در تعرض قرن ششم ھجری بدست ھمین پدران قھرمان ما شکست۔ امپراطوری جھان کشائی انگلیس کہ باصطلاح آفتاب در پہنای افقھای آن جای غروب نداشت، در قرن ۱۹ و ۲۰ در زمین ما غروب کرد۔ و اینکہ این ملت و این زمین پیوستہ علمبردار نہضت ھای اسلامی و سمبول آزادگی بودہ است، بی گمان نصرت الٰھی، فطرت مسلمۂ این اولادھای آدم علیہ اسلام بودہ است۔ ملت ما باصبر و استقامت و توصل بہ کلمۂ توحید و قربانی جگر گوشہ ھا و عزیزان و نثار خون پاک خویش در طول انقلاب اسلامی و مقاومت علیہ امپراطوری خون آشام روسیہ شوروی آیہ ھای قرآنی و احادیث نبوی را تفسیر و ترجمہ عملی و واقعی نمودہ اند۔ اگر دانشمندان، مفسرین و متخصصین قرآن شناسی در گذشتہ و حال قرآن را بزبان ترجمہ و تفسیر و کتب خانہ ھا را مملو نمودہ اند، ملت ما قرآن را در خویش تصویر، تفسیر و قرآن متحرک گردیدہ اند۔ بقول عالم مجاھد اسلام سید قطب شھید: ’’سخنان ما ھمچون مجسمہ ھای است کہ خون ما بآن جان می بخشد‘‘ و این ملت افغان است کہ بانثار خون خویش سخنان خویش را جان بخشیدہ اند و علی الرغم ھمہ نا برابری ھای نظامی، اقتصادی و انسانی ولی با قلب زندہ و با برتری ایمان و عقیدہ و غلبہ بر الحاد و کفر و دھریت جھانی روسیہ بہ جھانیان کہ ھمہ معادلات جھانی را در لابراتوار مادی و ظواھر تحلیل و بررسی و نتیجہ گیری میکردند۔ این آیۂ کریمہ: {کم من فیہ قلیلۃ غلبت فیۃ کیثرۃ باذن اﷲو اﷲ مع الصابرین} بسا از طائفہ اند اندک کہ غالب میشود جماعت بسیار را بحکم خدا و خداوند ھمراہ صابران است۔ غلبہ و پیروزی اقلیت ھای را کہ ملبس بالباس تقوٰی و حقیقت اند، تفسیر و تثبیت نمودند۔ وای بسا کہ عدہ قلیلی بر فرقہ ھای دشمن روسیہ غالب آمدہ اند و با اینکہ ملت ما در لابلای امواج خون جگر گوشہ ھا و عزیزان برفراز ویرانہ ھایِ خانہ ھایِ محقر شان بی یار و یاور، با شکم گرسنہ و چشم اشکبار بہ مقاومت دلیرانہ خویش ادامہ دادند۔ این آیہ کریمہ از فھرست آیہ ھای قرآنی ترجمہ و برملا شد: {و لا تھنوا و لا تحزنوا و انتم الاعلون ان کنتم مومنین} و سست مشوید و اندوھناک مباشید و شما غالبید اگر ھستید ایمانداران۔ و این نسخہ ترجمہ و تفسیر عملی را بجھان و دیپارتمنت ھای علوم قرآنی عرضہ داشتند کہ محکومیت ملت ھای اسلامی در عصر ما کہ تعداد نفوس آن ھا از یک ملیارد در جھان بیشتر است، از قلت، فقر و … آن ھا نبودہ بلکہ عامل اساسی این ھمہ بدبختی ھا دوری از تعالیم والای اسلامی است۔ اینجاست کہ دو ملیون یھود در جریان جنگ (۴۰) سالہ بر اعراب کہ نفوس انسانی آنھا بالاتر از (۱۰۰ ملیون) است غالب آمدہ است۔ و بر عکس ملت ما کہ بیش از ۱۷ ملیون نفوس ندارد بہ نیروی ایمان بر روسیہ کہ بیش از سہ صد ملیون نفوس دارد غالب آمدہ اند۔ ملت ما بہ پیروی از این آیۂ قرآنی: {ان یمسکم قرح فقد مس القوم قرح مثلہ و تلک الایام نداولھا بین الناس} اگر برسد بشما زحمتی پس بہ تحقیق رسیدہ است کافران را زخم مانند آن و این روزھا می گردانیم آن را میان مردم۔ باآنکہ در آتشکدہ ھای نمرودی زمان روسیہ از شش جھت مورد اذیت و آلام قرار میگرفت بہ رجوع بہ بارگاہ خدا مردانہ استقامت کردند و یکبار دیگر این ملت ابراھیمی داستان ھای ابراھیم خلیل را در عصر ما زندہ و مجسم ساخت، و سنگر اسلام را حفظ نمود۔ مولانا اقبال می فرماید: زمانہ باز برافروخت آتش نمرود کہ آشکار شود گوھر مسلمانی درآ بہ سجدہ و یاری ز خسروان مطلب کہ روز فقر نیاکان ما چنین کردند و با امحاء کفر و دھریت در افغانستان و طرد و محکومیت نظام کمیونیزم بہ مھر و امضاء رھبران جھانی آن ھمچون گورباچوف و … و پیادہ کردن دین اسلام این آیۂ کریمہ : {ان الدین عند اﷲ الاسلام} ھر آئینہ دین پسندیدہ نزد خدا اسلام است احیا و تثبیت نمودند کہ دین و قانون جز اسلام مقبول شدہ نمیتواند و این شعار کاذبانہ کمونیزم جھانی کہ اسلام را افیون ملت ھا میخواندند، افیون نہ بلکہ اکسیر جان بخش شد کہ ملت ھای مظلوم و محکوم و مردہ را بیدار ساخت و با جھاد ظفر مند خویش ثابت ساختند کہ تمام ادیان و مذاھب و افکار ساختہ بشر ناقص نا دوام و غیر قابل قبول عامہ بودہ نہ ملت ھا و نہ خدای جھان بآن اھمیت قایل میشوند۔ و این آیہ کریمہ تفسیر عملی گردید: {و من یبتغ غیر الاسلام دیناً فلن یقبل منہ و ھو فی الاخرۃ من الخاسرین} و ھر کہ طلب کند غیر از اسلام دین دیگر را پس ھرگز قبول کردہ نمیشود از وی و اوست در آخرت از زیان کاران۔ و نمای عملی شکست و خسران ملحدین۔ و تمام پیروان باطل را در ھمین جھان و بدست مجاھدین مسلمان افغانستان مشاھدہ میکنیم۔ پس ای انسانھا، ای مبارزان، ای آزای خواھان و ای ھمہ کسانیکہ با ندای سلیم فطرت لبیک میگوئید و ای ھمہ کسانیکہ خواھان تحکیم عدالت انسانی ھستید و ای کسانیکہ خواھان خلافت خدایی انسان در روی زمین ھستید و ای کسانیکہ خواھان تفکیک حدود انسانی از حیوانی ھستید و ای کسانیکہ کہ خواھان حیات جاودانی و آرامش روانی ھستید، بشما، بخون سرخ یک و نیم ملیون شہدای افغانستان می نویسم، و با نعرہ ھای ملکوتی اﷲاکبر، لاالہ اﷲ فریاد میکشم۔ معیار ھای پوسیدہ حاکم بر جوامع خویش را در ھم بکوبید معیار برتری کثرت زور و زرنیست، بل تقوی، حق طلبی و عدالت پسندی است۔ قلت و کثرت نباشد اعتبار زندگی ای بسا یک ذرہ کان کوہ و بیابان بشکند دقت کنید یک انسان دہ ھا رمہ گوسفند را ھدایت می کند و می چراند و بر قوی ھیکل ترین حیوانات ھمچون شیر حکومت و سیادت می کند۔ یک حجر کریمہ (طلا) از سنگلاخہا پر ارجتر است۔ یک آفتاب جھان را منور و حیات می بخشد۔ یک قھرمان توانستہ و می تواند کتلۂ از بشریت را رھبری کند چون پیامبران الھی و قھرمانان و… بشما ای مسلمانہا فریاد میکشم در قیام و روند مبارزاتی تان ھمچون خدا ناشناسان سست عنصر و اندوھناک نباشید و این آیہ کریمۂ را پیوستہ بخاطر بیاورید: (و لن تجعل اﷲ الکافرین علی المومنین) و ھرگز نگرداند خداوند کافران را بر مومنان راھی برای غلبہ و اگر در سنگر، حجر و صنف و ھر کجائی قرار دارید با زمزمہ این اشعار مولانا اقبال لاھوری وجدان و شور سلیم خویش را بیدار و برقص آورید: مسلمانیکہ داند رمز دین را ناید پیش خلق اﷲ جبین را اگر گردون بکام او نگردد بکام خود بگرداند زمین را ای مبارزین بپا خواستۂ عالم اسلام ! شکستہ و محرومیت رمز و کلید طبیعی موفقیت ھا ست۔ از شکست ھا و زخم ھائیکہ در جریان مبارزہ و جنگ متحمل میشوید مایوس نشوید۔ در امواج و روشنائی تند وغرور آفرین آن بساحل مقصود کہ ھماناتحکیم حکومت اسلامی و رھائی تودہ ھای محروم است، بہ پیش بروید۔ خداوند میفرماید : ترجمہ : اگر بشما زخمی و آسیبی از طرف دشمن می رسد، بدشمنان شما نیز چنین آسیبی می رسد، در حالیکہ شما امید ثواب و حیات آخرت دارید و آنھا ندارند۔ بی داغ دل بدامن صحرا نمی روم آن جا کہ درد نیست تماشا نمی روم در سینہ تا طلاطم دریا نپرورم چون موج تند بر رخ دریا نمی روم ای انسان ھا ! بدانید دین مقبول دین خداست۔ نہ دیانت ھای ساختۂ انسان، نہ راہ مارکس و لینن و … پس در جھت حاکمیت دین خدا ھمگی تلاش کنید و باین وسیلہ از خسران دنیا و آخرت خویش جلوگیری نمائید۔ مسلمانان جھان ! اکنون کہ ما عدۂ قلیلی بر عدۂ کثیری کمونیزم روسیہ غالب آمدہ ایم۔ اکنون کہ ما بر دیگران برتر شدہ ایم و دیروز کہ کشور ما در اطلس جھانی مشتی بیش نبود، قلہ بر ارزندہ را در خریطہ جھان احراز نمودہ است۔ اکنون کہ دین ما (اسلام ) مقبول عام شدہ است۔ اکنون کہ مکاتب حیوانی کمونیزم و دیوار ھای پوشالی کہ میان ملت ھا بلند و احداث کردہ بودند، یکی بعد دیگر بدست خودشان در ھم می ریزد و مکتب کمونیزم رسماً باطل اعلام میگردد، شما ھم با توسل بہ دین خدای جھان و تمسک بہ سنت ھدی حضرت محمدؐ و با تعقیب و ملاحظہ از کارنامہ ھای مبارزاتی ما، البتہ با لباس تقوی موفقیت ھای خویش را در سطح جھانی تثبیت و بہ نوبۂ خویش منحیث امت عظیم اسلامی آیہ ھائی دیگر قرآن را در خویش تصویر و تمثیل کنید۔ و کلمۃ اﷲ العلیا {دوہ میاشنی قلم، سال ششم، شمارہ سوم ۱۳۷۰ ھ ش، سلواغہ کب فروری مارچ ۱۹۹۲ئ} ساعتی در خدمت علامہ اقبال سید قاسم رشتیا ۱۱ جدی ۱۳۷۵ علامہ اقبال در خزان سال ۱۹۳۳ بہ معیت دو تن دگر از دانشمندان ھندی، سید سلیمان ندوی و سر رأس مسعود، بنا بہ دعوت دولت افغانستان از کابل و چند شھر دگر افغانستان دیدن نمود کہ خاطرات این سفر دلچسپ او در مجموعۂ بہ نام ’’مسافر‘‘ در قالب شعر در آوردہ شدہ است و از ھر حیث قابل خواندن است۔ من درآن زمان در جملۂ اعضای انجمن ادبی کابل بودم و از حسن اتفاق در ھیئت پذیرایی این مھمانان عالیقدر نیز اشتراک داشتم۔ سفر آنھا اساساً بہ غرض مشورہ دربارہ چگونگی تأسیس اولین پوھنتون افغانستان بود کہ از آرزوھای اعلیحضرت محمد نادر شاہ بہ شمار میرفت۔ چنانچہ پوھنتون اول آن را بہ نام فاکولتۂ طب قبلاً تأسیس کردہ بودند۔ ولی اندکی پس از بازگشت دانشمندان بلند پایہ ھندی کہ ھر یک در رشتۂ خود مقام برجستہ ر ا در کشور خود حایز بودند، اعلیحضرت نادر شاہ بہ شہادت رسید و پروگرام تأسیس پوھنتون تا چندین سال بہ تعویق افتاد۔ در سال ۱۹۳۵ من بہ معیت مادرم کہ مریض بود برای بار اول بہ شبہ قارہ مسافرت نمودم و تداوی مادرم در لاھور صورت میگرفت۔ در خلال مدت سہ ماھی کہ در آن شھر بہ سر میبردم تا یک اندازہ لسان اردو را یاد گرفتم کہ برای محاورہ عادی کافی بود۔ در ھمین بین بہ فکر افتادم تا از علامہ اقبال کہ در کابل بہ حضور شان معرفی شدہ بودم دیدن نمایم۔ سراغ منزل شان را گرفتہ یک روز بہ آنجا رفتم۔ منزل علامہ اقبال از عمارات یک طبقہ ٔ نو ساخت در یک محلہ رھایشی حومۂ شھر لاھور بود و در مقابل دروازہ یک لوحۂ کوچک روی پایۂ چوبی نصب شدہ بود کہ روی آن این عبارت سادہ خواندہ میشد : محمد اقبال وکیل دعوا۔‘‘ زنگ دروازہ را فشار دادم۔ شخصی بہ دروازہ ظاھر شد، پرسید چہ میخواھی؟ کارت خوت را کہ در زیر نام، آرزوی خود را برای ملاقات علامہ بہ قلم نوشتہ بودم، برایش دادم۔ کمی بعد برگشتہ مرا بہ داخل عمارت رھنمایی کرد۔ علامہ اقبال کہ در یک اطاق سادہ و بی ہوا بہ روی بستر افتادہ بود، بہ دیدن من روی بستر نشست و با من مصافحہ کرد و از این کہ از یک جوان افغان در منزل خود پذیرائی مینماید اظھار خوشنودی نمود۔ صحبت ما بہ زبان اردو البتہ از طرف من بہ صورت شکستہ و ابتدایی ادامہ یافت۔ علامہ با تبسم تشویق آمیز فرمود : اگر نمی دانستم کہ افغان استید فکر میکردم با یک کشمیری صحبت میکنم۔ از این لطف و حسن نظر شان تشکر کردم۔ بعد سخن را جانب افغانستان دور دادہ گفت من از اول جوانی بہ افغانستان عشق و علاقۂ خاصی داشتم۔ طبیعت کوھستانی و مردم آزادہ وتاریخ پر ماجرای آن مرا بیش از ھر کشور دگر بہ سوی افغانستان جلب میکرد۔ رجال بزرگ شمشیر و قلم را کہ از این سرزمین مرد خیز برخاستہ بہ حیث پیشوایان خود محسوب مینمودم۔ محمود غزنوی، شیر شاہ سوری و احمد شاہ درانی ھمیشہ قھرمانان خیالی من بودہ اند۔ در حالی کہ مولانای بلخی و سنایی غزنوی وسید جمال الدین افغانی را مرشدان راہ طریقت خود میدانم۔ در دورۂ معاصر جنگھای بیدریغ مردم افغانستان بر ضد امپریالیزم انگلیس بہ خاطر دفاع از آزادی شان تا زمان حصول استقلال کامل این کشور، الھام بخش اکثر سرودہ ھای من میباشد۔ بزرگ مردانی مانند غازی امان اﷲ خان و افکار روشن و آرزوھای والای او برای آزادی و سر بلندی مشرق زمین در قلب من ھموارہ جایگاہ بلندی دارد۔ مسرورم کہ یک فرزند والا گھر دگر افغان اعلیحضرت محمد نادر شاہ را ھم شخصاً کمی پیش از شہادت شان زیارت کردم۔ خلاصہ من شیفتۂ کشور شما و دوستدار مردمان نجیب آن میباشم، و برایم مایہ خوشی است کہ در این شامگاہ زندہ گانی بار دگر بہ دیدار یک جوان افغان نایل گردیدم تا احساسات درونی و عشق و علاقۂ عمیق قلبی خود را توسط او بہ مردم با جوھر افغانستان برسانم۔ علامہ اقبال این جملات صمیمانہ را در حالی کہ ھر دم سرفہ گلویش رامیگرفت، یکی بعد دگر با لحن پر ھیجانی یکایک ادا می کرد و من سراپا سکوت و محو گفتار سر گوش مانند این مرد بزرگ بودم، و تنھا سر خود را بہ علامت اظھار امتنان شور میدارم، تا این کہ گفتار بلند بالای او بہ پایان رسید۔ مثل این کہ از عوالم دگری بہ زمین فرود آمدہ باشد، بانگاہ پرسش آمیزی بہ من نگریستہ گفت: ببخشید آنقدر از دیدن شما حظ بردم و بہ بیان احساسات و اندیشہ ھای درونی خود مشغول گردیدم کہ فراموش کردم بپرسم شما چای ھندی را میپسندید یا بہ چای انگلیسی عادت دارید؟ من بدون تأمل جواب دادم کہ چای ھندی را میپسندم بزودی ملازم سینی چای را مقابلم قرار داد۔ من در حالی کہ ھنوز گفتار محبت آمیز و خوش آیند او در ذھنم طنین انداز بود، خواستم یک قاشق کلان بورہ را بہ پیالہ چای بریزم کہ صدای بہ گوشم رسید کہ میگوید احتیاط کنید این شکر نیست نمک است و بعد با تبسم معنی داری بہ من نگریستہ افزود اکنون دانستم کہ شما بہ چای ھندی آشنا نیستید اجازہ بدھید برای تان چای انگلیسی فرمایش بدھم۔ از این پیش آمد ناراحت شدم اما علامہ اقبال کہ ضمناً چای بہ اصطلاح انگلیسی را فرمایش دادہ بود، موضوع را ادامہ دادہ پرسید کہ از کتابھای او کدام یک بیشتر در افغانستان خوانندہ دارد، گفتم ھمۂ آثار شما مورد پسند و علاقۂ مردم ما میباشد، خصوصاً کہ در ھر یکی از آنھا از بزرگان کشور ما یاد و تمجید نمودہ اید، ولی پیام مشرق کہ دیباچۂ آن خطاب بہ غازی امان اﷲ خان و حاوی اندرزھای حکیمانہ است و ھمچنین مجموعہ اخیر مسافر کہ شرح مسافرت شما و رفقای محترم تان بہ افغانستان است، بیش از دگران طرف مراجعہ مردم مامیباشد۔ سپس خواھش کردم تا یکی از رباعیات مملو از حکمت خود را بہ قسم یادگار در کتابہ جیبی ام بہ قلم خود بنویسد کہ با مہربانی قبول نمودہ این رباعی را نوشت۔ نہ انجم تا بہ انجم صد جھان بود خرد ھر جا کہ پر زد آسمان بود و لیکن چون بہ خود نگریستم من کران بیکران در من نہان بود با اظھار سپاس از حضور آن مرد بزرگ در پایان یک ساعت صحبت بسی ارزندہ، و فراموش نشدنی مرخص شدم اما خاطرۂ آن روز و از آن ساعت برای ھمیشہ در ضمیرم باقیست۔ ’’علامہ اقبال در اثر ھمین بیماری جانگداز( نفس تنگی) دو سال بعد از پا درآمدہ بہ رحمت حق پیوست‘‘ روح پاک او شادباد! قلب آسیا : گذرگاہ و نظرگاہ علامہ اقبال سر محقق عبداﷲ بختانی خدمتگار وفا: ۱۰ جدی۱۳۷۶ ھ ش زندگی سالھا در کعبہ و بتخانہ نالید تا از بزم عشق دانای رازی برون آمد۔ رموز خودی را بی پردہ گفت اسرار خود ی را فاش ساخت، مغز قرآن برداشت، زبور عجمش نامید، با بانگ درا، پیام مشرق را باز گفت : پس چہ باید کرد ای اقوام شرق! ستارۂ اقبال در شب تیرہ و تاردر آسمان مشرق درخشید، بر مغرب نیز پرتو افگند۔ گویا ستارۂ بخت انسان و نور انسانیت بود، نوری بہ سان عاطفۂ انسانی۔ باری این کوکب درخشان، از افق شرق میھن ما طالع گردید۔ دانای راز رازدار ماشد۔ آن کہ شرق و غرب را نیک میدانست و از سرشت، سرگذشت و سرنوشت ملل آگاہ بود، شیشہ ناموس عالم در بغل داشت، ھر کہ پا کج میگذاشت، خون دل او میخورد، میکوشید ھر منکری را با دستانش تغییر دھد، با ایمان راسخ قلم بہ دست میگرفت، دم را با قلم یار میساخت، ھرآنچہ منکر است انگشت می گذاشت۔ چیزی را در دل نگہ نمیداشت، او بود کہ با خطرناکترین منکرات زمین و زمانش رزمید از قبیل استعمار، استثمار، نادانی، بزدلی، گمراھی و بیراھی۔ بلی! علامہ محمد اقبال، نور خورشید آسمان علم، ادب و سیاست، کہ ماضی، حال و آیندہ امم را با بیان تند، شیرین و روشن درمیان میگذاشت۔ سخنوری کہ بہ جواب پیر مغرب نکتہ دان آلمانی، گویتہ، پیام مشرق را سرود و این ھدیۂ ارجناکش را بہ پادشاہ افغانستان، اعلیحضرت امان اﷲ خان پیشکش نمود و در مقدمہ تصویر عینی امت اسلامی را چنین کشید : دیدہ ای ای خسرو کیوان جناب آفتاب ما توارت بالحجاب ابطحی در دشت خویش از راہ رفت از دم او سوز الا اﷲ رفت مصریان افتادہ در گرداب نیل سست رگ تورانیان ژندہ پیل آل عثمان در شکنج روزگار مشرق و مغرب ز خونش لالہ زار عشق را آئین سلمانی نماند خاک ایران ماند و ایرانی نماند سوز و ساز زندگی رفت ازگلش آن کہن آتش فسرد اندر دلش مسلم ھندی شکم را بندہ ای خود فروشی دل ز دین بر کندہ ای شاعر، مسلمان ھندی و ترکی، حجازی و مصری، ایرانی و تورانی را با صراحت انتقاد کرد۔ ناتوانیھای مادی، معنوی و روانی شان را تشخیص داد۔ قانونمندی ناتوانیھا را دریافت۔ آن را عمومیت بخشید و انتقادش را خلاصہ کرد: در مسلمان شان محبوبی نماند خالد و فاروق و ایوبی نماند مگر، در ھمین فضا، خطاب بہ شاہ ما، ملت ما را ستود: ای تو را فطرت خمیر پاک داد از غم دین سینۂ صد چاک داد تازہ کن آیین صدیق و عمر چون صبا بر لالۂ صحرا گذر ملت آوارہ ٔ کوہ و دمن در رگ او خون شیران موجزن زیرک و روئین تن و روشن جبین چشم او چون جرہ بازان تیز بین قسمت خود از جھان نا یافتہ کوکب تقدیر او نا تافتہ جان تو بر محنت پیہم صبور کوش در تہذیب افغان غیور تا ز صدیقان این امت شوی بھر دین سرمایۂ قوت شوی زندگی جہد است و استحقاق نیست جز بہ علم انفس و آفاق نیست گفت حکمت را خدا خیر کثیر ھر کجا این خیر بینی باز گیر علم و دولت نظم و کار ملت است علم و دولت اعتبار ملت است آن یکی از سینۂ احرار گیر وان دگر ازسینہ کہسار گیر گویا حکیم شرق مشخص ساخت کہ علت العلل پسمانیھای ملت افغان، ناداری و نادانی است۔ و بہ شاہ کشور مشورہ داد کہ برای تہذیب این ملت غیور، علم را از سینۂ احرار و ثروت را از سینہ کہسار میہنش بر گیرد۔ بلی! شاید حکیم در آرزوی سیر و گلگشت کہسار ما نیز بود۔ تا در اکتوبر ۱۹۳۳ م، ھفتاد و دوسال قبل از امروز، چون صبا بر لالۂ صحرا خرامید۔ خیبر از مردان حق بیگانہ نیست در خمیرش صد ھزار افسانہ نیست جادہ کم دیدم ازو پیچیدہ تر پارہ گردد در خم و پیچش نظر سبزہ در دامان کہسارش مجوی از خمیرش بر نیاید رنگ و بوی سر زمینی کبک او شاھین مزاج آھوی او گیرد از شیران خراج در فضایش جرہ بازان تیز چنگ لرزہ بر تن از نہیب شان پلنگ معذلک بر کاستیھای اجتماعی و رنجھای روانی این قوم غیور و شجاع انگشت گذاشت : لیک از بی مرکزی آشفتہ روز بی نظام و ناتمام و نیم سوز آن یکی اندر سجود این در قیام کاروبارش چون صلوۃ بی امام ریزریز از سنگ او مینای او آہ از امروز بی فردای او مسافر از ننگرھار بہ خطۂ جنت نظیر، کابل رسید۔ در قصر دلکشا با پادشاہ کشور ملاقات کرد۔ ’’نادر افغان شہ درویش خو‘‘ را بہ ستایش نشست۔ درد دلھای شان را دربارہ ملک و دین درمیان گذاشتند۔ شاہ ’’فقیر دردمند‘‘ را عزیز و برادر خواند و مقدم او را گرامی داشت۔ مھمان گرانقدر بہ ’’گذرگاہ‘‘ گذر کرد، بہ آرامگاہ بابر شتافت۔ غزلی سرود و در آن گفت: خوشا نصیب کہ خاک تو آرمید این جا کہ این زمین ز طلسم فرنگ آزاد است ھزار مرتبہ کابل نکوتر از دلی است کہ آن عجوزہ عروس ھزار داماد است درون دیدہ نگہ دارم اشک خونین را کہ من فقیرم و این دولت خدا داد است وفد علمای ھند (علامہ اقبال، سر راس مسعود، سید سلیمان ندوی) در ترتیب پروگرام درسی دارالعلوم عربی کابل علمای افغان را یاری رسانید۔ شاعر مھمان مورد تکریم و تحسین و پذیرائی صمیمانۂ دانشمندان و ادبا در محفل انجمن ادبی کابل قرار گرفت۔ از کابل رھسپار غزنی گردید۔ بر تربت حکیم سنایی، سلطان محمود و بزرگان دگر اشک فراوان ریخت۔ بہ قندھار رفت۔ فضای آن شھر احساساتش را ھیجانیتر ساخت : قندھار آن کشور مینوسواد اھل دل را خاک آن خاک مراد رنگھا، بوھا، ہواھا، آبھا آبھا تابندہ چون سیمابھا لالہ در خلوت کہسار ھا نارھا یخ بستہ اندر نارھا خرقہ مبارک حضرت رسول اکرم را زیارت نمودہ بوسید۔ مست، مسحور و محو تماشای این مقام گفت: سینا است کہ فاران است؟ یارب چہ مقام است این ھر ذرہ خاک من چشمی است تماشا مست از زیارت احمد شاہ بابا الھام گرفت، حرف باطنش را بہ ’’پور نادر‘‘ ’’ظاھر‘‘ساخت۔ سفر پایان پذیرفت۔ قصۂ مفصل اقبال مسافر را، در ’’مسافر‘‘ اقبال میخوانیم و در می یابیم کہ زندگی یک سفر است۔ در رہ دور و دراز بہ نشیب و بہ فراز۔ شاعر سفر دگری نیز دارد و آن عروج روحانی و یا سفر تخیلی ویست بہ اوج جھان، کیھان و فراتر از آسمانھا۔ اقبال در اثر جاودان خویش، مثنوی ’’جاوید نامہ‘‘ داستان سفر شاعرانہ اش را بہ سر رسانیدہ است۔ او در عالم خیال بہ سیر، سیاحت و سفر دور درازی پرداختہ و در جریان سیر بہ عالم بالا توانستہ است با ارواح بزرگان دین و دولت اسلامی، گفت و شنودھایی داشتہ باشد۔ تعجب نباید کرد، شاعر در این سفر خیالی خویشتن را ’’زندہ رود‘‘ نامیدہ و ’’رومی‘‘ یعنی مولانا جلال الدین بلخی را مرشد، رھبر و رھنمایِ سفرش معرفی کردہ است۔ زندہ رود در این سفر بہ فلک عطارد میرسد۔ آنرا ماوای ارواح پاک در می یابد۔ دو تن را در نماز میبیند، مقتدی تاتار و افغانی امام، تاتار مصلح بزرگ ترک سعید حلیم پاشا و افغانی، سید جمال الدین است۔ در این اثنا رھبر زندہ رود، رومی گفت : گفت مشرق زین دوکس بہتر نزاد ناخن شان عقدہ ھای ما کشاد سیدالسادات مولانا جمال زندہ از گفتار او سنگ و سفال ترک سالار آن حلیم دردمند فکر او مثل مقام او بلند با چنین مردان در رکعت طاعت است ورنہ آن کاری کہ مزدش جنت است بعد از نماز، رومی امام و مقتدی را بہ زندہ رود معرفی نمود۔ زندہ رود با افغانی صحبت مفصلی داشت کہ برای دریافت آن راز ونیازھا، بایست حتماً بہ جاوید نامہ رجوع کرد۔ در ماورای آسمانھا، در قصر سلاطین مشرق زمین، زندہ رود بہ ملاقات ابدالی، اعلیحضرت احمد شاہ بابا رسید کہ مکالمۂ دلپذیر شان جاوید نامہ را دلپذیر ترساختہ است۔ ضمن صحبت، ھر دو، استعداد فطری ملت افغان را بیان و تصدیق نمودہ، از عقبمانی این ملت در گذشت روزگار، اندیشہ ھای شان را تبارز دادہ اند مثلاً : ابدالی در بارہ این ملت جوان پرسید: آن جوان کو سلطنتھا آفرید باز در کوہ و قاز خود رمید آتشی در کوھسارش برفروخت خوش عیار آمد برون یا پاک سوخت؟ و زندہ رود شکایت کنان جواب داد: امتان اندر اخوت گرم خیز او برادر با برادر در ستیز از حیات او حیات خاور است طفلک دہ سالہ اش لشکرگر است بیخبر خود را ز خود پرداختہ ممکنات خویش را نشناختہ ھست دارای دل و غافل ز دل تن ز تن اندر فراق و دل ز دل مرد رھرو را بہ منزل راہ نیست از مقاصد جان او آگاہ نیست زندہ رود گرم و گرمتر شد۔ تاجایی کہ شکایتھای خیلی صریح و پوست کندہ، خوشحال خان ختک را باز گفت : خوش سرود آن شاعر افغانشناس آنکہ بیند باز گوید بی ھراس آن حکیم ملت افغانیان آن طبیب ملت افغانیان راز قومی دید و بیباکانہ گفت حرف حق با شوخی رندانہ گفت اشتری یابد اگر افغان حر با براق و ساز و با انبان در ھمت دونش از ان انبان در می شود خوشنود با زنگ شتر ابدالی سخنان انتقاد آمیز زندہ رود را خیلی پر اھمیت تلقی کرد، بہ آن ارج فراوان گذاشت۔ ملت افغان را قلب پیکر آسیا خواند و صحت و فساد پیکر را مربوط و منوط بہ صحت و فساد قلب دانست: در نہاد ما تب و تاب از دل است خاک را بیداری و خواب از دل است تن ز مرگ دل دگرگون میشود در مساماتش عرق خون میشود از فساد دل بدن ھیچ است ھیچ دیدہ بر دل بند و جز بر دل مپیچ آسیا یک پیکر آب وگل است ملت افغان در آن پیکر دل است از فساد او فساد آسیا در کشاد او کشاد آسیا تا ز دل آزاد است آزاد است تن ورنہ خاکی در رہ باد است تن سالھا سپری شد۔ شاعر گرانمایہ بہ سفر آخرت شتافت۔ اشعار و افکار گھربار وی، این ودیعۂ گرانبھا، تا ھنوز ھم نادیدہ، ناشنودہ و ناخواندہ ماند۔ چو رخت خویش بربستم ازین شھر ھمہ گفتند: با ما آشنا بود و لیکن کس ندانست این مسافر چہ گفت و با کہ گفت و از کجا بود؟ سر زمین اقبال از قید اسارت فرنگ آزاد شد و دران ھند، پاکستان و بنگلہ دیش بہ وجود آمد۔ مگر سرنوشت قلب آسیا زخم خونینی بہ جا گذاشت۔ کہ اینک بہ ناسور مبدل گردیدہ است۔ دریغا کہ ’’آسیا‘‘ ھنوز ھم، بہ گونۂ شایستہ و بایستہ، متوجہ نگردیدہ کہ تشویق فیلسوف شرق و شاعر ارجمند آسیا ھنوز ھم پا بر جاست : از فساد او فساد آسیا در گشاد او گشاد آسیا ھنوز ھم وقت است کہ جھان، خصوصاً ملل آسیا و بالاخص کشورھای ھمسایہ ٔ ما، بہ نسخہ و توصیہ پربھای شاعر حکیم توجہ و دقت فراوان مبذول دارند، و بیندیشند کہ ھمین اکنون ھم از فراز آسمانھای عقل و خرد، سگنالھایی بہ گوش ھوش ساکنان کرۂ خاک میرسد کہ ھشدار : اگر شعلہ ھای آتش جنگ برادرکشی را در سر زمین افغان فرو ننشانید، و این ملت را باز مصئون و مأمون نسازید، لہیب آتش فساد بالترتیب و بالنوبہ دامنگیر حال و مآل تان خواھد گردید، و این، تنھا تصویر و تخییل شاعرانہ، خوشبینانۂ سرایندہ جاوید نامہ نی، بلکہ اندیشہ و پیشگویی حکیمانہ و منطقی دیالیکتیکی و اجتماعی سیاسی یک فیلسوف سیاستدان و نوای عصر و زمان ماست کہ با حقایق تاریخی و واقعیتھای جغرافیایی انطباق دارد : آسیا یک پیکر آب و گل است ملت افغان در آن پیکر دل است از فساد او فساد آسیا از گشاد او گشاد آسیا تا دل آزاد است آزاد است تن ورنہ خاکی در رہ باد است تن فاعتبروا یا اولی الالباب، و السلام کابل، خیر خانہ ۲۰ سرطان ۱۳۷۴ مطابق ۱۱ جولای ۱۹۹۵ باب چہارم عقیدت منظوم افغانیہا بحضور اقبال علامہ شرق مرد آزادہ داکتر اقبال آن بہی خواہ قوم در ھمہ حال تاکہ جان داشت گفت آزادی تا دم مرگ خواست استقلال غیر خدمت برای ھمنوعان در سر او دگر نبود خیال خامۂ او چو صور اسرافیل روح معنی دمید در اجیال با غم قوم خاطرش توأم در وطن دوستی نداشت مثال بر سر حق قوم با اعدا ھمہ اوقات داشت جنگ و جدال پی تأمین وحدت ملی عمر در باخت آن ستودہ خصال اندرین رہ کشیدہ زحمتہا گشت سیمای بدر او چو ھلال ثمر سعی او بود کہ شدہ ملکش آزاد بعد چندین سال کاش بودی حیات تا دیدی آخرین آرزوی خود اقبال این زمان فرد فرد پاکستان ھست ممنونش از نسا و رجال یاد و بودی ازو کنند مدام ننمایند زین مرام اھمال بلکہ این نوع شخص ملی را عالمی قدردان بود بکمال قوم افغان کہ فطرۃً ھستند جملگی دوستدار استقلال مسلکاً دوستدار او باشند زو ستایش کنند در ھمہ حال روح این مرد دائماً خواھند شاد و خرم ز ایزد متعال از برایش بہشت از در حق ھمچو بیتاب میکنند سوال قصیدہ در مرثیہ فیلسوف وطن خواہ پروفیسر اقبال غفراللہ از طبع ملک الشعرا قای عبداللہ اقبال رخت بست و ز ھندوستان برفت کان فیلسوف عالم شرق از میان برفت باید بہ نارسایی بخت دژم گریست کہ اقبال را گذاشت، کہ زود از جہان برفت افتاد گوھری ز کف دھر روی خاک بیچارہ دھر بین، کہ بر او این زیان برفت از دست مفت، دامن اقبال دادہ یی شرمی کن ای زمانہ ز دست چسان برفت پیر و جوان، چو طفل یتیم اند اشکریز کان زندہ دل ادیب، بطبع جوان برفت نام و نشان فلسفہ محو ار شود بجاست کان فیلسوف صاحب نام و نشان برفت اقبال رفت ترسم از ادبار روزگار می آید این بجای وی، آری چو آن برفت دیگر کجا رسد بحریفان پیام شرق کان نکتہ سنج شاعر شیرین زبان برفت واماندہ تلخکام، ز حرمان خویش گوش کان منطق موثر و، سحر بیان برفت آن خیر خواہ عالم اسلام، ناگہان نا دیدہ ذوق رابطۂ این و آن برفت دیگر رموز حکمت دین از کہ بشنویم آن کاشف حقایق راز نہان، برفت درس خوشش ز مکتب مولای روم بود در عقل و نقل زآن پی آن راستان برفت فکرش بان دوبال، کہ از عقل و نقل داشت چندان گرفت اوج کہ بر آسمان برفت از بسکہ داشت حب وطن در ضمیر پاک چندان شتاب کرد، کزین آشیان برفت دل را توان شرح نباشد ازو مپرس کز رفتنش چہا بسر ناتوان برفت رنگ ثبات در چمن دھر، چون ندید چون بوی گل جریدہ ازین گلستان برفت روحش بسان فکر بلندش گرفت اوج زین خاکدان پست، بباغ جنان برفت دیدہ است بایزید و جنید و فضیل را روحش چو در عروج، بوادی جان برفت آنچہ مقام سید افغان نمود، کشف با رومی اش حرف امام آذان برفت یکبارہ از نصایح پُرسود، لب ببست شاید ز ما بچرخ برین گر فغان برفت درس خودی و خود نگری داد چون بقوم آنگاہ خود، بمرحلۂ بیخودان برفت آثار خود بدھر چو جاوید ماندہ است ھرگز نمرد گرچہ ازین خاکدان برفت آسود از گداز غم دھر خوش بخاک گویی چر اشک غمزدہ از دیدگان برفت جسمش بزیر خاک اگر رفت باک نیست روحش چو زین خرابہ بدارجنان برفت یادش مقیم خلوت دلہا و نام او از بسکہ زندہ است کران تاکران برفت تاریخ فوت خامہ الف بر کشیدہ گفت اقبال ھند ماہ صفر از جہان برفت عدۂ حروف مصرع اخیر بحساب جمل (۱۳۵۷) ھزار و سہ صد پنجاہ ھشت میشود و چون عدد الف را کہ یکی است ازاں کشیدہ شود ھزارو سہ صد و پنجاہ ھفت می ماند کہ تاریخ فوت اوست۔ اقبال کیست ادیب سخن گستر نکتہ سنج کہ ھر نکتہ اش بہتر است ز گنج چمن گردۂ طرز رنگین اوست شکر پارۂ حرف شیرین اوست کلامش چو اوج بلندی گرفت سخن رتبۂ ارجمندی گرفت زند طعنہ آھنگ او برق را کہ خواھان بود نہضت شرق را نوین شیوۂ را بہ سبک کہن در آمیخت از قدرت علم و فن چو اندر سخن جادۂ نو گزید پیامی ز مشرق بمغرب رسید سخن را در آمیخت چون باعلوم ازو زندہ شد طرز ملای روم چو فکرش پی فیلسوفی گرفت طراز سخن طرز صوفی گرفت نوایش ھم آھنگ با نفخ صور کہ افسردگان را در آرد بشور چو بلبل بہ آھنگ کہسار ما ز ھند آمد این طوطی خوشنوا ٭٭٭ یہ منظومہ جناب بختان نے قاری عبداﷲ کے دیوان سے نقل کیا ہے، پشتانہ علامہ اقبال پہ نظر کی ص ۶۰ بہ یاد علامہ محمد اقبال محمد ابراھیم خلیل بیار بادہ کہ محفل بنام اقبال است بنام روز جھان احتشام اقبال است چہ بادہ، بادۂ پر زور عشق آزادی کہ وصف آن ھمہ جا در کلام اقبال است پیالہ گیر کہ تبلیغ دین و حریت بہ قلقل لب مینا و جام اقبال است بیا کہ ملت اسلام و کافۂ مشرق رھین نشۂ جام مدام اقبال است بیا کہ دوستی قوم و ملت کہسار بھر نکات و حروف پیام اقبال است بیا کہ خطۂ ما قلب آسیا موسوم بسلک نظم حقیقت نظام اقبال است بہ ھوش باش کہ غصب حقوق ھر قومی خلاف رای صواب التزام اقبال است بیا کہ بادہ عرفان و گردش ایام کنون بنزد حقیقت بکام اقبال است بیا، بیا کہ ز بوی گل بہار مراد بچار فصل معطر مشام اقبال است بیا کہ فلسفہ و منطق و سخندانی بھر یک از اثراتش بدام اقبال است ز مہد تا بلحد خوب گفت و خوب نوشت کہ آنہمہ بجہان فیض عام اقبال است بیا کہ گرچہ تہِ خاک رفتہ بر سرخاک بھر کجا سخن از احترام اقبال است بقول خواجہ بفحوای حکم زندہ دلی رقم بصفحۂ عالم دوام اقبال است خطا بود کہ خطابش کنیم لاھوری کہ قلب مردم عارف مقام اقبال است در اختتام ھدایای مغفرت ز خلیل بجسم نامی و جان گرام اقبال است ٭٭٭ یہ نظم سالگرہ اقبال کی مناسبت سے کابل میں ۱۳۳۱ھ ش میں پڑھی گئی۔ پشتانہ علامہ اقبال پہ نظر کی، ص ۶۷ رثای اقبال از طبع جناب غلام دستگیر خان مہمند چیست این شور و شر مردم و آواز خروش کہ رسد دمبدم از غمکدۂ ھند بگوش نالہ و شور و فغانیکہ برد از سرھوش شنود گوش دل این واقعہ از بانگ سروش می ندانی کہ بہند این چہ خروش و زاریست شیون مرگ سر اقبال بعالم طاریست شاعر ھند ز دیر عدم آباد برفت رخت بربستہ و با خاطر ناشاد برفت یا کہ از بزم سخن نامور استاد برفت ساز عشرت ھمہ را یک بیک از یاد برفت نہ مسلمان بغمش ماتم و شیون دارد سینۂ چاک ببین گبر و برھمن دارد شاعری ھمچو سر اقبال بدنیا کم بود سخنانش بدل خستہ دلان مرھم بود طبع اوصاف ز آئینہ و جام جم بود دیدہ اش از غم ابنای وطن پرنم بود روز و شب فکر بہ بہبود مسلمان میداشت خانۂ قلب پر از جوھر ایمان میداشت کرد با طرز غزل تازہ روان سعدی از سخن لطف ببخشید بیان رومی ماند بنیاد سخن خوبتر از فردوسی گوی سبقت بربود از شعرای نامی روح دانتی شدی مہبوت ازان فکر رساش خاست از مرقد گوئتی بفضا مدح و ثناش رفت آن قافلہ سالار ادب، قافلہ ماند خاک غم رفتن او بر سر گیتی افشاند اشہب مرگ بر انگیختہ و تند براند چشم پوشیدہ ازین غمکدہ و دیر نماند پس ازین چشم نبیند رخ اقبال دگر نکند گوھر گفتار خود ابذال دگر مرد عارف چو رود دولت پایندہ ازوست ھم در اقلیم سخن خاطرھا زندہ ازوست شمع عرفان بجہان روشن و تابندہ ازوست گوھر فیض بھر جای پراگندہ ازوست صاحب فیض دلا مردم فرخندہ بود کشت او شان ثمر و حاصل آیندہ بود و از فکرت و از عقل رسای اقبال آوخ از شیوہ و از حسن ادای اقبال حیف از طبع گھر ریز و صفای اقبال می سزد نوحہ نمائیم برای اقبال حیف دانا کہ رود زود تر از دیر فنا نشود زود نظیرش بجہان ھم پیدا خطاب بہ اقبال عبدالہادی داوی پریشان صبا بگوی بہ اقبال خوش بیان از من کلام تست کہ سر تا بہ پای آن اثر است صدای زندگی از سر زمین مردہ خوش است کہ نالہ ھای اسیرانی ز سوزش جگر است عجب نباشد اگر سر زدہ است از ظلمات کہ آب چشمۂ حیوان کوکب سحر است چرا خراب نسازد چگونہ در ندھد چو سیل تند وچو صہبایِ ناب شعلہ ور است چرا زمین دل آسیا نخنداند کز آب دیدہ ابر بہار پاکتر است شعار نظم تو تریاق سم استعمار نظام نثر تو اسہام ظلم را سپر است چو تیشہ تو زبان آشنای کوھسار است بہ گوش کاھن ما نیز گرم و پرشرر است خطابہ تو بہ عنوان ’’ای جوان عجم‘‘ بہشت گوش پریشان سرمۂ بصر است دل و دماغ منور کجاست تا داند چہ پیش گوی صادق چہ کشف معتبر است ٭٭٭ سالنامہ کابل شمارہ ۴۵۔ ۴۶، ۱۳۵۸ ھ تا ۱۳۵۹ ھ ش ص ۱۰۰۸ امام مشرق و شاعر مشرق (سید جمال الدین افغانی و علامہ اقبال مرحوم) از علامہ عبدالحئی حبیبی فروان خفت مرد مشرقی زاد نکرد از مجد دور رفتگان یاد فروغ شعلۂ دل باز افسرد بقید بندگی، آزادہ افتاد نیامد از نجف آوای حیدرؓ نگفت اسرار بلخی را کسی باز ز دشت خاوران و طور سینا نیامد بال شھبازی بہ پرواز ز دل آن جوشش و سوز کہن رفت تب و تاب از روان انجمن رفت نوای بلبلان گردید خامش ازان صرصر کہ بالای چمن رفت نگون شد پرچم ترک دلاور ستم افسرد روح ترکیان را شرار جور قاجاری بہ ایران سراپا سوخت آن مرزیلان را نمیدانم چہ آمد بر خراسان بہ مرز سور از شاھان جفا رفت بہ ھند و کابل و ارض مقدس ز استبداد شاھی ماجرا رفت چگویم از دم افسون افرنگ؟ ھمو ما را ز خود بیگانہ تر ساخت ز خود وا رفتگان وادی جھل بنادنی عدو را راھبر ساخت چمن افسرد و بلبل گشت خامش خزان آمد کنون آنجا گلی نیست تہی شد آن قدح، بشکست ساغر بہ بزم اندر ھمانا قلقلی نیست نماند شور و ذوق آن درد جاوید نخیزد آہ گرم از سینۂ سرد ننالم از فسون غرب تنھا کہ با من ھر چہ کرد آن آشنا کرد ز دست شاہ و میر افغان و نالہ فراوان تاخت این قوم جفا کار چو شد شرقی اسیر قید شاھان غلامی راد مردان را کند خوار نہ بد در شرق یک مرد دل آگاہ کہ خیزد بر خلاف جورشاھان سراید پیش ما مزمار نہضت فروزد شعلۂ فر نیاگان برامد یک ھشیواری ز افغان جمال افزود مشرق را ز نورش عصای وی طلسم سحر غربی بخاک افگند با افسون و زورش ندای قُم ازو شد زندہ از نو بہ شرقی داد درس مجد و رفعت بکاخ شاہ و میر آتش در افگند نوایش سوزناک و دل پُر الفت ز تأثیر نوایش واژگونہ فتاد آئین استبداد و بیداد ز بطن مام مشرق سالہا بعد چنین فرخ اثر نیکو پسر زاد شکست از ضرب او اصنام اوھام وجودش جامدان را مرگ نو بود بایران و بمصر و ترک و افغان ندای قم ازو ھر خفتہ بشنود رضا و کامل و زغلول و عبدہ ازو خواندند درس زندگانی کہن فکر ملوکیت ازو خوار ندایش انقلابی آورد آنی ھمانا فکر این مرد فداکار بمشرق روشنی داد و ضیا داد یکی مرد غیور و راد و آزاد بہ ندرت ھمچو وی اندر جہان زاد روان روشن دلی پر درد و دانش پیام انقلاب آورد مارا نوایش محشر خوابیدگان بود ازان مرگی امیر و کدخدا را (درد دل و پیام عصر از علامہ عبدالحئی حبیبی ص ۱۰۸تا ۱۱۰) علامہ اقبال مرحوم از علامہ عبد الحئی حبیبی پس از چندی چو سید از جھان رفت درآمد بر افق رخشندہ خورشید برھمن زادۂ رمز آشنائی فراز چرخ چون اختر بتابید برآمد مرد دانائی ز کشمیر دلش گرم و روانش شعلہ انگیز پیامی داد مشرق را سر از نو کہ ای شرقی ز خواب ژرف برخیز ز اسرار خودی درسی بما داد رموز زندگی را کرد افشا زبورش نغمۂ داؤد بودی درایش کاروان را کرد احیا نمیدانم چی شوری در دلش بود؟ سرودی نغمہ ھا در نای رومی نیاید بعد ازو دانای رازی کزو بازار عشق آید بگرمی بما اسرار عشق جاودان گفت ز دل گفت از مقام روح و جان گفت شب تاریک ما را نور افزود ازین گیتی سرود و زآن جھان گفت فقیری بد ولی دانای رازی دلی در سینہ اش پر درد و شوری نگاھش تیز بین و فکر صائب بکاخ انجماد از وی فتوری خود آگہ مرد حق بینی کہ وی داد نکو درس خودی مر شرقیان را بآئین و ثقالت پای بندی ازو رونق فزودی این و آنرا الا باد صبا از ما درودی رسان بر مرقدش در خاک لاھور دیار عشق جلابی و مسعودی خدایا باد، چشم بد ازان دور ٭٭٭ درد دل و پیام عصر، از عبدالحئی حبیبی، ص ۱۱۷تا ۱۱۳ بیاد اقبال مایل ھروی شاعر شوریدۂ خود آگہی آسمان فضل و دانش را ھمی در نیستان دلش سوز نفیر گرم رہ، گرم تپش، صاحب ضمیر دہ کہ دل شد سلسلہ جنبان او عشق آری عشق شد ایمان او کیست این شاعر کہ ذوق او رساست نالہ اش سوزندہ، جانش باصفاست نام او اقبال و مقبول از نوا ھست آھنگ کلامش جانفزا ھمچو رومی مست جام عشق بود شہپر روحش بدام عشق بود این یکی نقش خودی در باختہ وان دگر در بیخودی پرداختہ صد خمستان نشہ در صہبای اوست اینہمہ ازعشق بی پروای اوست خامۂ پرتاب او تابندہ است آتش دل را برون افگندہ است پختہ سوز و پرنوا و درد زا با تب و تاب خودی بود آشنا می ندانم عشق جان افروز او مھر و مہ را میفروزد سوز او از جگر تا گوھر ناب آورد نالہ را از سینہ بیتاب آورد سوز آھنگ کلامش دلنواز پردۂ ھر ساز او سینہ گداز در خلال نغمۂ او شورھا میجہد از آتش او طورھا آتشین شعرش شرر افزا بود ھمچو مژگان بتان گیرا بود بسکہ جولان میکند تاب و تبش پر فروغ افتادہ ماہ نخشبش لالہ از تاب و تبش داغ است داغ چون فروزد در دل صحرا چراغ نغمہ اش جولان درد و آہ بود از دل خیبر نکو آگاہ بود من چگویم شوخی مضمون او لالہ ھا میروید از ھامون او آتشی اندر نیستانم گرفت از نوای او شرر جانم گرفت نالہ ھای او سراپایم بسوخت در دل پرذوقم آتش برفروخت در حق ما، حق سرود از تاب جان آن بلند آوازۂ آتش بیان ’’آسیا یک پیکر آب و گل است ملت افغان دران پیکر دل است‘‘ ٭٭٭ اقبال و افغانستان ص ۷۷۔ ۷۸ غزل حکیم شرق علامہ اقبال از استادخلیل اللہ خلیلی بیا کہ ساز فرنگ از نوا بر افتادست درون پردۂ او نغمہ نیست فریاد است زمانہ کہنہ بتان را ھزار بار آراست من از حرم نگذشتم کہ پختہ بنیادست درفش ملت عثمانیان دوبارہ بلند چہ گویمت کہ بہ تیموریان چہ افتادست خوشا نصیب کہ خاک تو آرمید اینجا کہ این زمین ز طلسم فرنگ آزادست ھزار مرتبہ کابل نکوتر از دھلی است ’’کہ آن عجوزہ عروس ھزار داماد است‘‘ درون دیدہ نگھدارم اشک خونین را کہ من فقیرم و این دولت خداداد است اگرچہ پیر حرم درد لا الہ دارد کجا نگاہ کہ برندہ تر ز پولادست (از کلیات اشعار خلیل اللہ خلیلی، ص ۵۰) بہ پیشگاہ علامہ دکتر محمد اقبال لاھوریؒ از استاد خلیل اﷲخلیلی از کلیات و اشعار استاد خلیل اﷲ خلیلی ص ۵۰ تا ۵۲ باد آبان آمد و آورد با خود مشک ناب خوش بخند ای صبحدم، خرم بتاب ای آفتاب قاصدآمد نامۂ لاھور دارد در بغل نامہ اینک نغمۂ فردوس دارد در خطاب نامۂ شوق است باید بر سر و چشمش نہاد قاصد یار است ازمن بوسہ خواھد بی حساب شھر لاھور است شھر دوستان از باستان دوستان را یاد کردن دور نبود از صواب داستان غزنہ و لاھور بس دلکش بود ای حریف نکتہ دان از حرف حق ابرو متاب این دو شھر سالخورد ا ز خرد سالی بودہ اند ٭٭٭ در سال ۱۳۵۶ دانشگاہ پنجاب استاد خلیلی را دعوت نمود تا در سالگرد علامہ محمد اقبال لاھوری اشتراک ورزد۔ اما از طرف حکومت وقت افغانستان اجازہ مسافرت بہ استاد خلیلی دادہ نشد و لذا استاد قصیدہ ذیل را انشاد نمودہ بہ دانشگاہ پنجاب فرستاد۔ چون دوحرف از یک عبارت چون دوباب ازیک کتاب قاصد آمد خواند بر گوش دلم پیغام جان عاشق لب تشنہ را داد از نوید وصل آب گفت آنجا انجمن برپا نمودہ اھل دل انجمن یا انجم تابان ز جمع شیخ و شاب گفت بر بالین اقبال است روشن شمع فیض ماہ و انجم دور وی پروانہ سان در پیچ و تاب چون کشد منّت ز نور شمع بالین کی؟ کز دل روشن بر آوردہ ھزاران آفتاب ٭ درسیہ عصری کہ شد در پردہ لیلای سخن شاھدمعنی بہ رخ افگند از دھشت نقاب کعبۂ حق پایمال لشکر دجال شد لانۂ طاووس دین شد جای پرواز غراب خاصہ بر آزاد مردان دیار مصطفی قافلہ سالار امی حامل ام الکتاب شہسواران عجم را تیغ ھمت شد ز کف پاسداران حرم را چشم غیرت شد بخواب روز میدان بود اما جنگجویان خفتہ خوش وقت جولان بود اما بال و پر بستہ عقاب مغزھای اھل فکر آشفتہ اندر جرّ و بحث لفظ ھا جای معنی قشرھا جای لباب باز ماند از اوج مؤمن با پر و بال یقین شد فرو آسیمہ سر با پای شک در منجلاب راھزن شد میر شب تارا جگر شد تاجور خانۂ خلق خدا از جور اینان شد خراب آن خدیو بی خبر، این ناخدای بی خدا کرد از خون ستمکش جام عشرت پر شراب اختلاف اھل قدرت کرد یکبارہ تباہ خرمن این را در آتش حاصل آنرا در آب سود خوار سنگدل ز اشک یتیم بیگناہ بست خلخال نگار خویش را لعل مذاب بیوۂ فرزند مردہ جان سپرد از فرط جوع خواجہ را خوناب اشکش زینت زین و رکاب در سیہ عصری کہ در اکلیل فرماندار ھند دانہ ھای اشک می تابید چون در خوشاب بانوی گیتی ز نخوت داشت بر سرکوہ نور مھر را یکدم نبود از کشور حکمش غیاب در چنین عصر سیہ تابید ناگہ اختری نور افشان از ورای ظلمت چندین حجاب اختراقبال مؤمن جلوہ افزا شد ز شرق کز فروغش دیدہ و دل جاودان شد بھرہ یاب بر گرامی نامۂ وی ثبت آثار عمر بر نگارین خاتم وی نقش نام بوتراب نعرہ زد کای ملت افسردہ تا کی خواب ناز صبح شد بر پای شو در دھر افگن انقلاب در مسلمانی غلامی نیست فرمانش بدر در مسلمانی اسارت نیست زنجیرش بتاب قفل را بشکن کہ فرمان خدا در دست تست بند را بگسل کہ مؤمن را نباشد بند و باب ای علم دار حرم راہ کجا داری بہ پیش؟ زمزم این جا تشنہ تا کی می روی جویای آب چون تویی معمار فطرت خود جھان خویش ساز از بہشت اجنبی الاجتناب الاجتناب از شکوہ نعرۂ وی چاک شد جیب سحر ھم جرس جنبید و ھم مرکب روان شد با شتاب نعرہ ای توفندہ طوفانی کہ لرزاند زمین نعرہ ای برق جھانسوزی کہ بشگافد سحاب واعظ از میدان مسلمان را بہ خلوت داد راہ رند ما بردش بہ میدان باز چون عہد شباب گفت مؤمن را بود در راہ حق فخر از جھاد داغ خون بر سینہ اش بہتربود از لعل ناب ای مجدد، ای ز تو آرایش کاخ کہن ای معلم، ای ز تو روشن چراغ جد و باب ای بلال قرن ما خاموش گردیدی چرا لب گشا یکدم کہ جان آمد بلب از اضطراب بانگ الا اﷲ بر کش تا بلرزد کاخھا روی این فرش رمادی زیر این نیلی قباب حرف زن، تعلیم دہ، تدبیر کن، تکبیر گو ای جبینت صبح امت، صبح شد یکدم بتاب دیدہ بگشا تا ز تأثیر نگاہ نافذت دیو عصر ما گریزد ھمچو شیطان از شھاب بردہ را شور جنون آموز کز فریاد وی خواجہ را چتر مرصّع پوچ گردد چون حباب عشق را بار دگر افروز در قندیل دل تا نماید رھرو ما را حقیقت از سراب نوجوان عصر را، آموز اسرار خودی تا ستاند جام از جم تیغ از افراسیاب تا شناسد مھرۂ بازیگران دھر را مھرہ ھا از مھر برکف ما رھا زیر ثیاب مشت خاری داشتم کردم نثار روضہ ات مشت خارم را بہ لطف خویش کن بویا گلاب ٭ آموزگار بزرگ بر مزار اقبال در لاھور۔ سال ۱۳۴۳ استاد خلیل اﷲ خلیلی ای کہ ما را گردش چشم عقاب آموختی دیدۂ بیدار خود را از چہ خواب آموختی شام جمعی را نمودی از فروغ فیض روز تیرہ شب را روز کردن ز آفتاب آموختی خفتگان را با صریر شعلہ انگیز قلم صد تکان دادی و چندین انقلاب آموختی گردن احرار در یوغ اسارت بود خم بند بگسستن بہ مردم از رقاب آموختی زندگی گفتی خط فاصل بود با بندگی ای دلیل قاطع از فصل الخطاب آموختی ھر سؤالی را کہ مشکل بود بر عقل سلیم از دبستان دل آنرا صد جواب آموختی با رموز بیخودی راز خودی آمیختی مشت خاک مردہ را رفتار آب آموختی کاروان در راہ و منزل دور و دشمن در کمین رھروان شوق را درس شتاب آموختی عقل را رہ، شوق را جان، قلب را ذوق حضور این بہ در واماندگان را فتح باب آموختی خواجہ را گفتی ننوشد بعد ازین خون فقیر بینوا را راہ و رسم اعتصاب آموختی آہ از آن ملت کہ باشد یأس در راھش حجاب ای امید قوم، تو رفع حجاب آموختی مولوی در گوش جانت گفت رازی بس بزرگ زان معلم معنی ام الکتاب آموختی ملت توحید را از مکر دنیای فرنگ حرف حرف و فصل فصل و باب باب آموختی در کہن تاریخ شرق انگیختی شور نوین شوکت پارینہ را عہد شباب آموختی ٭٭٭ از کلیات و اشعار استاد خلیل اﷲخلیلی ص ۱۵۳ بر آرامگاہ عارف شرق علامہ اقبال لاھوری استاد خلیل اﷲ خلیلی تربت اقبال را کردم طواف دولتی دیدم درانجا بی خلاف دیدۂ بیدار او اندر منام وان دو دستی تیغ خفتہ در نیام مشت خاکش بردہ بر گردون سبق تابد از ھر ذرہ اش انوار حق آسمان بر خاک او پیرایہ ای ’’آفتابی در میان سایہ ای‘‘ خلوت آرای رموز بیخودی محرم اسرار آیات خودی تا بہ حشر از سینۂ آگاہ او بشنوی فریاد الااللہ او زندہ از وی رسم و راہ معنوی روشن از وی خانقاہ مولوی از سنایی سوزھا در سینہ اش و زنی بلخی نوا در نغمہ اش این نواھا از نوای کبریاست کاروان خفتہ را بانگ دراست این نوا بیرون دمد از نای عشق وین گھرھا زاید دریای عشق زد سبوی بادہ نوشان فرنگ از غریو نعرۂ وحدت بہ سنگ نعرۂ او در دل ما کار کرد خفتگان شرق را بیدار کرد بر مزارش بود لوحی تابدار یادگار سر زمین کوھسار در دل آن سنگ از افکار وی باز خواندم بھترین اشعار وی از کلیات و اشعار استاد خلیل اﷲ خلیلی ص۳۸۲۔ ۳۸۳ کعبہ و اقبالؒ(۱) خلیل اﷲ خلیلی ای محفل عاشقان اقبال وی مجمع دوستان اقبال بودیم بہ آرزو کہ امسال آییم بہ اُستان اقبال صد بوسہ زنیم از سر شوق بر خاک سپھرشان اقبال اسرار خودی ز سر بخوانیم در نامۂ جاودان اقبال جوئیم رموز بیخودی را بار دگر از زبان اقبال راز دل دردمند گوئیم با مردم رازدان اقبال بینیم کہ باز شھر لاھور گردیدہ مدیحہ خوان اقبال ٭٭٭ ۱: در ثور ۱۳۴۵ شاعر از طرف دانشمندان لاھور برای شرکت در مراسمی کہ بہ مناسبت بزرگداشت علامہ اقبال برگزار می شد دعوت شدہ بود چون در آن ھنگام اتفاق مسافرت در حجاز افتاد و شوق زیارت حرمین شریفین گریبان گیر گردید، از شمول در آن محفل عذر خواست باین ترکیب بند : بینیم کہ باز آن کہن شھر نازد بہ دل جوان اقبال گوئیم پیام از سنایی ھر روز بہ گوش جان اقبال خوانیم ز مولوی سخن ھا تا مست شود روان اقبال بودیم بدین امید شادان کامد خبری ز کشور جان گفتند حرم درش گشادہ بر خلق صلای عام دادہ لیلای سیاہ پوش کعبہ از چھرہ نقاب بر گشادہ آنجا کہ ھزار ماہ و خورشید سر بر در عزتش نھادہ آنجا کہ امین وحی جبریل دربان صفت از ادب ستادہ آنجا کہ کلاہ فخر شاھان بنھادہ شکوہ وی قلادہ بر پایۂ آستانۂ آن کردہ فلک از ادب و سادہ آن مھد مھین کہ خاک پایش رشک مہ و آفتاب زادہ یعنی کہ جمال نور احمد زین طور جلال جلوہ دادہ زین قلہ ھمای فخر و اقبال بگرفتہ جھان جان تہ بال این مژدہ چو آفتاب یکبار تابید بہ کلبۂ دل تار ھم حافظہ رخت بست و ھم ھوش ھم دست فتاد و ھم دل از کار عشق آمد و شد بہ یک تجلی سلطان قلمرو دل زار احرام حریم شوق بستیم پرواز کنان بسوی دلدار ماندیم رخ نیاز بر در سودیم سر ادب بہ دیوار پروانہ صفت طواف کردیم بر شمع برین خانۂ یار این عذر من ار بہ خاک اقبال ای باخبران کنید تذکار از تربت او صدا برآید کاحسنت بہ این خجستہ کردار چون یافت خلیل بتگر ما در کوی خلیل بت شکن بار این خلعت نو مبارکش باد وین تاج طراز تارکش باد ٭٭٭ از کلیات و اشعار استاد خلیل اﷲ خلیلی ص ۱۸۲۔ ۱۸۳ دمی بااقبال استاد خلیل اﷲ خلیلی یاد ایامی کہ با شعر و کتاب آشنا گشتم در آغاز شباب بستہ بودم با سخن پیوند نو دادہ بودم دل بہ مھرش در گرو مشق می کردم غزلھای دری بال افشان ھمچو پرواز پری در جوانی شعر رقصان می شود پای کوبان دست افشان می شود یا جوانی شعر چون یکجا شود مست و شور انگیز و جان افزا شود بود عصری برگ ریزان و خزان شھر کابل رشک گلزار جنان نور خورشیدش ز ھر روزی فزون آسمانش صاف و نغز و نیلگون آرمیدہ در دل تالاب ھا ھمچو آینیہ فروزان آب ھا بادھایش در کمال اعتدال مشک افشان از جنوب و از شمال برگھا را کیمیا ساز خزان کردہ با ذرات طلا زرفشان باغ بابر شاہ با ذوق مغل زر بہ بار آوردہ جای خار و گل من درین فرخندہ روز دلنواز گشتم از بخت ھمایون سرفراز حکم شد از سوی دولت ناگہان تا بہ باغ آیم بہ نام میزبان با رفیقان دگر شامل شوم ھمدم مردان صاحبدل شوم میھمانان وارد بستان شدند در سرای خویشتن مہمان شدند سیّد والا سلیمان زمان عالم دین، عارف ھندوستان وان دگر سرراس مسعود شھیر از علوم شرقی و غربی خبیر درمیانہ حضرت اقبال بود آفتاب شعر را تمثال بود از جبینش نور قرآن آشکار وز لقایِ وی خزان ما بھار با سنایی کردہ ساغرھا نگون در بساط لای خواران جنون عارف راز آشنای مولوی عصر حاضر را چراغ معنوی شرق را شلاق غیرت خامہ اش درس امت جاودانی نامہ اش آنکہ بعد از کشور پاک حجاز با در و دیوار افغان گفت راز دیدہ در چشم عقاب خشمگین ملت کہسار را نقش مبین آسیا راخواندہ نقش آب و گل گفتہ افغان را دران پیکر چو دل ھر سہ تن بستند صف بر قبر شاہ شاہ خفتہ بی خبر در خوابگاہ مشت خاک وی نہان درجوف سنگ نی نوای نغمہ نی شیپورجنگ نی بساط خسروی نی تخت عاج نی زکوہِ نور برقی نی ز تاج زایران دست دعا افراشتند عرضہ کردند آنچہ در دل داشتند منظر خورشید و الوان خزان صفحہ سیمابگون آسمان زایران را جذب سوی خویش کرد خاکیان را آسمان اندیش کرد مھر را دیدند پویا سوی شام می نہد لرزان بہ بام چرخ گام می رود تا بوسہ ھای آخرین کوھساران را گذارد بر جبین باغ مانند بہشت آراستہ برگ برگش شستہ و پیراستہ گفت سید این مناظر این جمال این بہشت روح بخش بی مثال قلب بابر را بہ خود تسخیر کرد شاہ را بر دست و پا زنجیر کرد زان جھت فرمود کز ھندوستان جا دھندش در دل این بوستان شاعر آزادۂ بالغ نظر از رموز حال و ماضی باخبر سبزگون سیمای وی شد لالہ گون جوش زد در رگ رگ وی موج خون خامہ را بگرفت بر جای عصا خامہ ای جادوکش معجزنما اھل دل را خامہ جای اژدھاست حرف حق برھان مردان خداست گاہ چشمش بود سوی آسمان بر فضای نیلگون بیکران گاہ سوی قلہ ھای برف پوش محمل خورشید شان بر روی دوش گاہ سوی کابل جنت نظیر مولد آزادگان شیر گیر گاہ سوی تربت خاموش شاہ جای مسند سنگ گورش تکیہ گاہ خامہ با انگشت وی ھمکار بود آسمان پرواز و اختر بار بود رای خود را با قلم اظھار کرد قول سیّد را بہ شعر انگار کرد این غزل روشنگر سیمای ماست ماضی ما، حال ما، فردای ماست ٭٭٭ از کلیات و اشعار استاد خلیل اﷲ خلیلی ص ۵۸۴۔ ۵۸۵ اھداء بہ علامہ داکتر محمد اقبال لاھوری جواب مسافر از پوھاند دکتور محمد رحیم الہام { این پارچہ را بہ تاریخ ۵ دسامبر سا ل۱۹۷۷ م در کانگرس بین المللی صدمین سالگرد تولد علامہ محمد اقبال لاھوری، بر تربت آن آزادہ مُرد، در لاھور توسط گویندۂ آن خواندہ ام ولی تاکنون نشر نشدہ است۔ شاد روان اقبال در ختم سفر بہ افغانستان منظومہ یی بہ عنوان مسافر سرود و نشر کرد۔ این پارچہ اصلاً بہ جواب آن ’’مسافر‘‘ سرودہ شدہ است۔} اندران وقتی کہ آن دانای راز حضرت اقبال، پیر سرفراز آن خدیو ملک فقر و بی نیاز شمع سان روشن، و لیکن بی گداز کرد سوی کشور افغان گذر دفتری بنوشت در ختم سفر اندران دفتر بسی دُر سفتہ است نکتہ ھای بھتر از دُر گفتہ است نزد ھر افغان شد آن دفتر عزیز ھمچو لعل و چون دُر و گوھر عزیز ٭ گرچہ آن پاکیزہ بُد ھمراز ما با خبر از درد و سوز و ساز ما کام وی شیرین بُد از جام جلال(۱) پیر بلخ آن رازدان باکمال گرچہ بود اندر کنار گنج بخش(۲) آن کہ از غزنین بہ لاھور راندہ رخش گرچہ بُد لعل بدخشانش نگین کرد چون در کلک شعر انگشترین گرچہ آن دانای راز انجمن گفت با دنیا بہ لفظ ما سخن(۳) گرچہ اندر شعرش آن صاحب یقین گفتہ بود این نکتۂ مھر آفرین ’’آسیا یک پیکر آب و گل است ملت افغان در آن پیکر دل است از فساد او فساد آسیا از گُشاد او گُشاد آسیا‘‘ گرچہ درس از بوعلی آمُختہ بود دیگ فکرت با سنایی پُختہ بود باز ھم خود را مسافر خواندہ بود وین لقب بر دفتر خود ماندہ بود ٭ خواستم من ھم خطابی آورم وان مسافر را جوابی آورم گرچہ من مہجورم از نور وصال میزنم اندر ھوای وصل بال اشک چشمی میفشانم پر ز درد از رخم تا بسترد آھستہ گرد ٭ صبحگاھان چون برید خوشخرام بھر ما آورد این خرم پیام گفت، راہ خطۂ لاھور گیر مقصد نزدیک و راہ دور گیر رو بد ان جایی کہ باشد مہد راز یادگار روزگاران دراز ھر درخت باغ وی افسانہ ای ھر گلش بنشاندہ ای فرزانہ ای طوطیش منقار دارد پر شکر گلبنش بیجادہ دارد پر گھر دیدہ خاکش بس فراز و بس نشیب دارد اندر دفتر تاریخ زیب بس کہ ازخون شہید انباشتہ ست نرگس آنجاچشم مردم کاشتہ ست آبھا در حوضھای شالمار میجہد مستانہ و سیماب وار تا رسد بر تربت صاحبدلی راز دانی، راد مردی، مقبلی تا نھد برتربت اقبال سر گردد از اسرار ھستی با خبر ٭ چون شنیدم این پیام خوشگوار شوق شد آتش، بہ جانم زد شرار در دل من رازھا آمد پدید سوز جان را سازھا آمد پدید برگ بی برگی گرفتم در بساط لاف درویشی زدم از انبساط ھمچو شاھین از فراز کوھسار پرکشود، بی خبر، دیوانہ وار شوق وصل ازبسکہ مستی میفزود جانم از تن پیشدستی مینمود محمل من بود بال جبرئیل آن کہ ھست الھام یزدان را بدیل جرعۂ جام سنایی در دھان درد ھجویری نہان اندر بیان سید افغانیم بر رہ دلیل پرتوم از شمع بلخی در سبیل ٭٭٭ آن کہ در شبھای تار زندہ گی مھر وی دارد چو خور تابندہ گی خفتہ را گوید کہ بر خیز، ای پسر از سراب وھم بگریز، ای پسر تو ز دریایی، سوی دریا شتاب موج زن، چون ریگ در ساحل مخواب گر خرد ھر چند باشد رھبرت عشق باید گاہ رفتن شپھرت ٭ آمدم اینک بہ پیش شاہ عشق پیش اقبال، این چراغ راہ عشق آن کہ از رمز خودی آگاہ بود درد بود و سوز بود و آہ بود آن کہ زنجیر غلامی پارہ کرد دردھای مردمان را چارہ کرد از کلام اﷲ کلید تازہ یافت سوی باغ آرزو دروازہ یافت گشت فارغ از گزند بیش و کم سر کشید از دیر در کنج حرم رھبر خود جستجو را بر گزید در خطرھا آرزو را برگزید از رموز سرّ حق آگاہ گشت ھر کجا با خلق او ھمراہ گشت نالۂ مظلوم در شعرش دوید دست گشت و دامن ظالم درید از شراب زندہ گی سرشار شد آن قدر شد نشہ تا ھشیار شد سنگ زد چندان بہ مینای فرنگ تاشکستش ریخت زان مینا فرنگ مردمان ھند را بینش فزود گرد ذلت از رخ مردم زدود بر گرفت از حکمت قرآن سبق ھم ز حق گفت و ھم از مردان حق باشد از افلاک برتر خاک او صد سلامم بر روان پاک او من بہ درگاھش نیاز آوردہ ام تحفہ ای از سوز و ساز آوردہ ام قطرہ ای چند از دو چشم من چکید خون دل بُد شعر شد، سویش دوید تا شود گلدستہ بر سنگ مزار تا ابد ماند در آنجا یادگار {از ھفت روزہ وفا جریدہ اتحادیہ نویسندگان آزاد افغانستان، پشاور ۱۱ جدی ۱۳۷۵ ھ ش} ٭٭٭ ۱: مقصود مولینا جلال الدین بلخی است ۲: مقصود علی بن عثمان جلابی ھجویری غزنوی، معروف بہ داتا گنج بخش ۳: مقصود زبان فارسی دری است۔ ۴: مقصود جمال الدین افغانی است۔ متفرقات ٭ مقامات تاریخی افغانستان در زمان مسافرت علامہ اقبال بہ افغانستان و این تمام را سیاحت گردیدہ بود۔ تصویر وھم چنان بعضی اقبال شناسان افغانستان ٭ مآخذات الف۔ کتب ۱: آریانا، دائرۃ المعارف فارسی، انجمن آریانا دائرۃ المعارف افغانستان جلد سوم مطبع عمومی، کابل ۱۳۳۳ ھ ش ۲: اقبال و افغانستان،از صدیق رھپو،وزارت اطلاعات وکلتور، بیہقی کتابخانہ، کابل ۱۹۷۷ء ۳: دردِ دل و پیام عصر،عبدالحئی حبیبی،ادارہ تحقیقات علامہ عبدالحئی حبیبی، مطبوعہ پشاور ۲۰۰۰ء ۴: کلیات اقبال فارسی، شیخ غلام علی ایند سنز۔طبع پنجم، ۱۹۷۵ء ۵: کلیات و اشعار خلیل اﷲ خلیلی مطبوعہ پشاور، ۲۰۰۰ء ۶: اقبال ممدوح عالم، داکتر سلیم اختر، بزم اقبال لاھور، طبع اول نومبر ۱۹۷۸ء ۷: پشتانہ د علامہ اقبال پہ نظر کی، عبداﷲ بختانی پشتو ئولند، کابل، ۱۳۳۵ ھ ش ۸:خوشحال خان ختک، اویوخونور فرھنگیالی، عبداﷲ بختانی، مطبوعہ پشاور، ۲۰۰۱ء ۹: توریالی پشتون مطبع دولتی کابل، بی تا ب۔ رسائل و مجلات و اخبارات: ۱۰: امان افغان شمارہ ۱۰۔ ۱۱۔ ۱۳۔ ۱۷ ۱۱: سالنامہ کابل، مسلسل ۴۵۔ ۴۶ ۱۳۵۸ ھ ش۔ ۱۳۵۹ ھ ش ۱۲: مجلہ کابل، سال اول شمارہ ۱۰، ۱۵ حوت ۱۳۱۰ ھ ش،۵ مارچ ۱۹۳۱ء ۱۳: مجلہ کابل، سال دوم، شمارہ اول، سرطان ۱۳۱۱ ھ ش ۲۲ جون ۱۹۳۲ء ۱۴: مجلہ کابل، سال دوم، شمارہ سوم، سنبلہ ۱۳۱۱ ھ ش، ۲۳ اگست ۱۹۳۲ء ۱۵: مجلہ کابل، سال دوم، شمارہ ھفتم، جدی ۱۳۱۱ھ ش، ۲۲ دسمبر ۱۹۳۲ء ۱۶: مجلہ کابل، سال سوم، شمارہ ھفتم، جدی ۱۳۱۲ھ ش، ۲۲ دسمبر ۱۹۳۳ء ۱۷: مجلہ کابل، سال چہارم، شمارہ ھفتم، جدی ۱۳۱۳ھ ش، ۲۳ دسمبر ۱۹۳۴ء ۱۸: مجلہ کابل، سال چہارم، شمارہ ھفتم، جدی ۱۳۱۳ ھ ش، ۲۲ مارچ ۱۹۳۵ء ۱۹: مجلہ کابل، سال ہشتم، شمارہ سوم، جوزا ۱۳۱۷ ھ ش، مئی جون ۱۹۳۸ء ۲۰: مجلہ کابل، سال ہشتم، شمارہ ۱۲، حوت ۱۳۱۷ ھ ش، فروری مارچ ۱۹۳۹ء ۲۱: مجلہ کابل، سال نہم، شمارہ ھفتم، میزان ۱۳۱۸ ھ ش، ستمبر اکتوبر ۱۹۳۹ء ۲۲: مجلہ کابل، سال ۱۴، شمارہ ۱۱، دلو ۱۳۲۳ ھ ش، ۲۳: مجلہ قلم پشاور، سال دوم، شمارہ چہارم، ۱۳۶۶ ھ ش، اکتوبر نومبر ۱۹۸۷ء ۲۴: مجلہ قلم پشاور، سال ششم، شمارہ سوم، ۱۳۷۰ ھ ش، ۱۹۹۲ء ۲۵: مجلہ میثاق خون، ۲۶: مجلہ میثاق خون، شمارہ مسلسل ۳۳۔ ۳۴، جوزا سرطان ۱۳۶۶ ھ ش، شوال ذیقعدہ ۱۴۰۷ ھ ق ۲۷: اخبار وفا، اتحادیہ نویسندگان آزاد افغانستان پشاور، ۱۱ جدی ۱۳۷۵ ھ ش ۲۸: اخبار وفا، اتحادیہ نوسیندگان آزاد افغانستان پشاور، ۱۰ جدی ۱۳۷۶ ھ ش تمت باالخیر الحمداﷲ