اقبال کی مابعد الطبیعیات ڈاکٹر عشرت حسن انور مترجم ڈاکٹر شمس الدین صدیقی اقبال اکادمی پاکستان جملہ حقوق محفوظ ہیں ناشر: ناظم اقبال اکادمی پاکستان چھٹی منزل ، ایوان اقبال ، لاہور Tel: [+92-42] 6314-510,9203573 Fax: [+92-42] 631-4496 Email: iqbalacd@lhr.comsats.net.pk Website: www.allmaiqbal.com ISBN 969-416-029-4 طبع اوّل: تعداد : قیمت: مطبع : محل فروخت :۱۱۶ میکلوڈ روڈ ، لاہور ، فون نمبر ۔ ۷۳۵۷۲۱۴ فہرست ۱- عرضِ مترجم ۲- پیش لفظ ۳- دیباچہ ۴- باب اوّل: کلماتِ تعارف ۵- باب دوم: وجدان کا طریق ۶- باب سوم: خودی ۷- باب چہارم: عالمِ مادی ۸- باب پنجم: وجودِ مطلق یا خدا ۹- فرہنگ ۱۰- اشاریہ ژ…ژ…ژ عرضِ مترجم علامہ اقبال کی اخلاقی تعلیمات کے مختلف پہلوئوں پر شارحین و ناقدینِ اقبال نے بہت کچھ لکھا ہے لیکن ان کے مابعد الطبیعی افکار کو کسی منظم و مربوط انداز میں پیش کرنے کی کوششیں اُردو میں بہت ہی کم ہوئی ہیں۔ چونکہ علامہ کے مابعد الطبیعی افکار کا اصل مآخذ ان کے وہ خطبات ہیں جو الٰہیات اسلامیہ کی تشکیل جدید کے موضوع پر انگریزی میں دیے گئے تھے اس لیے ان کی مابعد الطبیعیات پر بیشتر تحریریں انگریزی زبان ہی میں ملتی ہیں۔ ضرورت محسوس ہورہی تھی کہ اُردو میں بھی کوئی مربوط کتاب اس موضوع پر شائع ہو۔ چنانچہ اس ضرورت کی تکمیل کے لیے میں نے ڈاکٹر عشرت انور کی کتاب میٹا فزکس آف اقبال کا یہ ترجمہ کیا ہے۔ ڈاکٹر انور نے اپنی بحث کو تقریباً تمام تر اقبال کی نثری تحریروں پر مبنی کیا ہے، نہ کہ اشعار پر اور یہ کوشش کی ہے کہ اقبال کا موقف خود ان کے بیانات سے اور ان تنقیدوں سے جو دوسرے مفکرین پر انھوں نے کی ہیں، متعین و مستنبط کیا جائے۔ میرے ترجمے کو وقیع اور اُردو کے مزاج کے مطابق بنانے کی خاطر میرے احباب ڈاکٹر اطاعت یزداں (استاد فارسی پشاور یونی ورسٹی) اور جناب سیّد محمد احمد سعید (استاد فلسفہ کراچی یونی ورسٹی) نے اصل سے مقابلہ کرتے ہوئے بڑی توجہ سے اس پر نظر ڈالی اور مفید مشورے دیے۔ میں اپنے ان دونوں کرم فرمائوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ستمبر ۱۹۷۶ئ ڈاکٹر شمس الدین صدیقی صدر شعبۂ اُردو پشاور یونی ورسٹی پیش لفظ اقبال کی مابعد الطبیعیات پر یہ رسالہ لکھ کر ڈاکٹر عشرت حسن نے اس عظیم شاعر فلسفی کے مطالعے کی راہ میں بڑی اہم خدمت انجام دی ہے۔ ضرورت تھی کہ اقبال کے بنیادی تصورات ___ وجدان، خودی ، عالم مادی اور خدا ___کی پوری احتیاط سے چھان بین کرکے انھیں قطعیت کے ساتھ معین کردیا جائے ڈاکٹر عشرت نے اس مشکل کام کا بیڑہ اُٹھایا اور اسے کامیابی سے پورا کیا۔ میری رائے میں اقبال کو سمجھنے کے سلسلے میں یہ رسالہ درحقیقت بہت ممد و معاون ثابت ہوگا اور میں پُرزور سفارش کرتا ہوں کہ جو لوگ اقبال کے فکر کی گہرائیوں تک پہنچنا چاہتے ہیں وہ یہ رسالہ ضرور پڑھیں۔ گزشتہ ربع صدی سے ہندوستان میں اقبال ایک بڑی ذہنی و اخلاقی قوت کی حیثیت سے مؤثر رہے ہیں اور موجودہ زمانے کے ہندوستانی مسلمان کے ذہن کو سمجھنا اقبال کے گہرے مطالعے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ سیّد ظفر الحسن علی گڑھ، ۲۵؍دسمبر ۱۹۴۳ء دیباچہ اقبال کی مابعد الطبیعیات پر اس رسالے میں مَیں نے اقبال کے موقف کو قرآنِ مجید اور اسلامی متصوفین و فلاسفہ کے حوالے سے پیش کرنے سے احتراز کیا ہے سوائے ایسے مقامات کے جہاں یہ حوالے ناگزیر تھے یہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ اقبال کے فلسفیانہ تصورات کی تعبیر و ترجمانی ان تصورات کے بَل پر اپنے آپ ہو۔ سچ پوچھیے تو اقبال کے فلسفے کو قرآن مجید اور اسلامی الٰہیاتی فکر کے تعلق سے پیش کرنا ایک علیحدہ کتاب کا متقاضی ہے اور یہ کوشش اسی وقت کی جاسکتی ہے جبکہ اقبال کی مابعد الطبیعیات کی، خود اپنے بَل پر مکمل تشریح و تفہیم ہوچکی ہو۔ میں نے اقبال کے مابعدالطبیعیاتی حصے کو اسی طرح پیش کیا ہے جس طرح خود اقبال نے اس کی وضاحت کی ہے یا جس طرح دوسرے نظریات پر___خواہ وہ قدیم ہوں، جدید ہوں یا اسلامی ہوں___ان کی تنقید سے اس کا استخراج کیا جاسکتا ہے، کیونکہ اقبال کے منفی نکات ہمیشہ مثبت نکات کا دیباچہ ہوتے ہیں اور جب وہ کسی موقف پر تنقید کرتے ہیں تو ساتھ ہی اس مثبت جہت کی طرف اشارہ بھی کردیتے ہیں جس طرف ان کا ذہن کام کررہا ہوتا ہے۔ چنانچہ میں نے صرف ان کی فلسفیانہ تحریروں اور خاص کر اسلامی الٰہیات کی تشکیلِ جدید پر ان کے خطبات پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ہے تاکہ اپنے دلائل کی تائید اور اپنی بحث کا ثبوت فراہم کرسکوں۔ اگرچہ جی بہت للچاتا تھا لیکن میں نے اپنے نتائج کے لیے ان کی شعر و شاعری پر انحصار نہیں کیا ہے۔ میرے اخذ کردہ نتائج ان کے خطبات، ان کی کتاب فلسفۂ عجم اور ان کے بعض مقالات و مکتوبات سے، جو مختلف رسالوں اور مجموعوں میں شائع ہوچکے ہیں، بخوبی تصدیق پالیتے ہیں۔ اقبال نے یہ کتاب اپنی پی ایچ ڈی کے لیے مقالے کے طور پر لکھی تھی جو بعد میں طبع ہوئی۔ کچھ عرصے کے بعد ان کے خیالات اس کتاب سے بہت کچھ مختلف ہوچکے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ مجھ سے ضمناً اس کا تذکرہ بھی کیا تھا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کی فکر دو منازل سے گزری ہے، ماقبل وجدانی اور وجدانی۔ پہلی منزل میں وہ اس روایتی طرز فکر کی اتباع کرتے ہیں جو ہمہ اوستی یا وحدت الوجودی تصورات سے قریبی تعلق رکھتا تھا۔ اور اس دور کے شکستہ و متزلزل مسلم معاشرے کو بہت اپیل کرتا تھا۔ لیکن یورپ کے سفر نے ان کے حوصلے اور فکر کو نئی توانائی اور ان کے عزم کو نئی قوت بخشی، ان میں ایک سیاسی رد۔ّ۔ِعمل پیدا ہوا۔ اب وہ انفعالیت، سکون و جمود اور نفی ذات کے بجائے فعالیت، عمل اور اظہارِ ذات پر زور دینے لگے۔ انھیں اپنے خیالات میں تقویت برگساں، نیطشے اور میک ٹیگرٹ کے مطالعے سے حاصل ہوئی۔ اور اس طرح وہ ذات یا خودی کی حقیقت اور ارادے کی قوت کو بنیادی اہمیت دینے لگے لیکن یہ ان کے دل و دماغ کو مطمئن کرنے کے لیے کافی نہ تھا، چنانچہ انھوں نے خدا، خودی، خودی کی آزادی و اختیار اور لافانیت یعنی بقائے روح کے علم کا ادعا کیا۔ ان سب باتوں کا اثبات انھیں وجدان کی بنا پر کرنا ضرور ہوا۔ اب یہاں ہم سمندر کے کنارے پیاسے نہیں کھڑے رہتے بلکہ بحرِ لامتناہیت میں اُتر کر اس کے تیز دھاروں اور اس طوفانوں اور خطروں میں سے گزرتے ہیں، ہمیں اپنی فکر کے بڑھتے ہوئے سایوں کا شعور ہوتا ہے اور ہم اس پر محدود و ناقص ہونے کا الزام لگانے لگتے ہیں۔ حقیقتِ نہائی اور اس کے متعلق تمام مقولات کی اب براہِ راست وجدان کی بنا پر توثیق کی جاتی ہے۔ یہ آخری منزل اقبال کے فلسفے کے لیے اہم ترین ہے اور میں نے صرف اسی کو پیش نظر رکھا ہے کیونکہ یہی وہ منزل ہے جو انھیں ایک طرف مغربی مفکرین سے اور دوسری طرف ’مسلم فلاسفہ‘ سے ممتاز کرتی ہے۔ اس سلسلے میں، میں نے میک ٹیگرٹ، برگساں، نیطشے، برکلے لائبنز اور کانٹ کے نظریات کے اثرات اور ان پر علامہ اقبال کی اصلاحات اور ترمیمات سے بھی کچھ بحث کی ہے لیکن اس خوف سے کتاب کا اصل متن سنگلاخ اور دوسرے فلسفیوں سے تقابلی مطالعے کی وجہ سے بوجھل نہ ہوجائے، میں نے حتی الامکان اِن مقابلوں کو پاورق میں رکھا ہے۔ آخر میں کتابیات دے دی گئی ہے جس میں تقریباً وہ سبھی کتابیں آگئی ہیں جو علامہ اقبال نے لکھی ہیں اور جواب تک اقبال پر شائع ہوئی ہیں۔۱؎ ۱- ظاہر ہے کہ یہ کتابیات صرف ۱۹۴۳ء تک کی مطبوعات پر مشتمل ہے۔ گزشتہ ۳۳،۳۴ برسوں میں اقبال پر اتنا کچھ شائع ہوچکا ہے کہ اب کتابیات کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی۔ چنانچہ ترجمے میں اسے حذف کر دیا گیا۔ (مترجم) میں نے اپنے استاد ڈاکٹر سید ظفرالحسن، پروفیسر علی گڑھ یونی ورسٹی کا مرہونِ منت ہوں کہ انھوں نے بڑی شفقت کے ساتھ میری گراں قدر رہنمائی فرمائی۔ حق یہ ہے کہ میں نے اُنھی کی صحبت میں مذہب اور فلسفے کو سمجھنا سیکھا۔ مجھ پر جناب ایم۔ایم۔ شریف، ریڈر، مسلم یونی ورسٹی کا شکریہ بھی واجب ہے جنھوں نے اس کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں کئی قیمتی مشوروں سے مجھے نوازا۔ یکم دسمبر ۱۹۴۳ء عشرت انور مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ باب اوّل کلماتِ تعارف اسلام میں مذہب اور فلسفے کو ہم آہنگ کرنے کی سب سے مربوط کوشش بیسویں صدی میں غالباً صرف اقبال ہی نے کی ہے۔ ان کے کام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اسلام کی مذہبی فکر یعنی الٰہیات کو نئے سرے سے تشکیل دینے کی سعی کی اور: ویسا ہی کارنامہ سرانجام دیا جیسا صدیوں پہلے ہمارے عظیم متکلمین مثلاً نظام اور اشعری نے یونانی سائنس اور فلسفے کے مقابلے میں انجام دینے کی کوشش کی تھی۔۱؎ لیکن اقبال کا تشکیل نو کا کام یونانی فکر سے فیضان نہیں حاصل کرتا بلکہ اس کے برعکس وہ تو یونانی فکر پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور واضح کرتے ہیں کہ یونانی فلسفے کی روح خالص سوچ بچار۲؎ ہے۔ اور محض سوچ بچار قسم کا فکر نہ تو مقرون۳؎ (یعنی محسوس و مادی) عالم ہی کو گرفت میں لانے کی قدرت رکھتا ہے اور نہ ہی حقیقتِ نہائی یعنی حقیقتِ مطلقہ۴؎ کا قطعی علم مہیا کرنے میں کام آسکتا ہے۔ بلکہ وہ تو حقیقتِ مرئی یعنی عالم محسوس کا بھی انکاری ہوتا ہے۶؎ مثلاً افلاطون کے سوچ بچار نے اُسے اس عقیدے تک پہنچایا کہ عالمِ مرئی غیر حقیقی ہے کیونکہ وہ ہمیشہ متغیر ہے حالانکہ حقیقت کو قائم و دائم ہونا چاہیے۔ صرف تصورِ کلی۶؎ ہی کو دوام ہے لہٰذا اعیان۷؎ یا تصورات ہی ثابت اور دائمی ہیں، صرف وہی حقیقی معنوں میں حقیقی ہیں اور عالمِ محسوس جو تکمیلی مراحل۸؎ میں ہے غیر حقیقی ہے۔ چنانچہ جیسا کہ کانٹ بتاتا ہے: تمام اصلی تصورئیین۹؎ کا موقف یہ ہے کہ حواس اور مشاہدے کے ذریعے سارا وقوف ۱۰؎ سوائے فریبِ نظر یعنی التباس۱۱؎ کے اور کچھ نہیں اور ان کی صداقت صرف فہمِ محض۱۲؎ اور عقل۱۳؎ کے تصورات میں پائی جاتی ہے۔۱۴؎ لیکن سوچ بچاری فکر بغیر تجربے۱۵؎ کے کبھی علم اور حقیقت کی یقینی بنیادوں تک نہیں پہنچاتا، وہ خلا میں اپنے پر پھڑپھڑاتا رہتا ہے اور کسی نتیجے تک نہیں پہنچتا۔ کوئی علم خالص قبلِ تجربی۱۶؎ انداز میں ممکن نہیں ہے، تجربہ سارے علم کے لیے ضروری زینے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اقبال نے جدید فلسفے سے فیض حاصل کیا ہے۔ جدید فلسفہ خصوصاً کانٹ کے بعد سے، بنیادی طور پر عملی یا تجربی۱۷؎ ہے۔ اسلام کی روح بھی بنیادی طور پر تجربی یا عملی ہے۔ اسلام کے نزدیک دنیا حقیقی ہے نہ کہ صرف ایک عارضی تماشا۔ تجربہ علم کا ایک ضروری مآخذ ہے۔ جیسا کہ اقبال واضح کرتے ہیں اسلام نے تجربے پر اس زمانے میں زور دیا جب کہ سائنس اس سے آشنا نہیں تھی۔۱۸؎ لیکن جدید سائنس کی روح بعض جدید فلسفیانہ مکاتبِ فکر کی طرح بہت ادعائی۱۹؎ ہے۔ جدید علوم اور فلسفے حسی تجربے پر زور ضرور دیتے ہیں لیکن اس خیال کی طرف مائل ہیں کہ صرف محسوسات ہی حقیقی ہیں۔ یہ کسی ایسی حقیقت کے امکان سے جو حسی تجربے سے ماورا ہو۲۰؎ آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ برعکس اس کے، اسلام یہ کہتا ہے کہ محسوسات سے ماورا ایک نیا اُفق ہے، ماورائی حقیقت کا اُفق۔ اسلام محسوسات کو حقیقی تسلیم کرتا ہے لیکن اس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ محسوسات ہی تنہا حقیقت نہیں۔ عصرحاضر کے سائنس دان اپنے حسی تجربے کو اس قدر اہم سمجھتے ہیں کہ اس کے ماورا کسی بالاتر عالم کی حقیقت تسلیم کرنے سے قاصر ہیں۔ نتیجتاً جدید ذہن، مدرک و محسوس۲۱؎ کے لیے فطری میلان رکھتا ہے اور حیات و کائنات کے کسی روحانی مفہوم یا قدر کا انکار کردیتا ہے۔ وہ خدا اور معاد یعنی حیات بعدالموت۲۲؎ پر کوئی ایمان نہیں رکھتا۔ علاوہ ازیں جدید ذہن میں عالمِ مادی، تمام اشیا اور واقعات کے مابین ایک غیر متغیر رشتۂ لزوم۲۳؎ کی حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔ جدید ذہن کے لیے عالمِ مادی اپنی ماہیت ہی میں میکانکی یعنی خود کار ہے، اسی لیے سائنس دان میکانکی کی جانب داری کرتا ہے اور تمام نامیاتی نشوونما اور حیات حتیٰ کہ شعور کی توجیہ بھی میکانکی طور پر لازمی اور معین۲۴؎ (یعنی کہ جبری) کی اصطلاحوں میں کرتا ہے۔ اس سے اختیار کے لیے۲۵؎ کوئی گنجایش باقی نہیں رہ جاتی۔ اور اختیار کا انکار کرنے کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تمام اخلاقی اور مذہبی ولولے اور تمنائیں ہمارے دل کے اندر ہی گھٹ کر ختم ہوجاتی ہیں، اختیار ہماری تمام مذہبی اور عملی سرگرمی کے لیے ایک ضروری مسلمہ ہے۔ میکانیت ہماری ذات کو ایک واہمہ یا ایک بے بنیاد مفروضہ بنا کر رکھ دیتی ہے، میکانیت، خودی یعنی ذات کو محض میکانکی قوتوں کی آماجگاہ بنادیتی ہے جس کا اپنے طور پر کوئی وجود نہیں۔ چنانچہ اقبال کے پیش نظر جو مسئلہ ہے وہ وجودِ باری تعالیٰ، ذات یعنی خودی کی حیثیت، اس کے اختیار اور حیات بعدالموت یعنی معاد کو ثابت کرنے کا مسئلہ ہے۔ اقبال کا فلسفہ بنیادی طور پر مذہبی ہے اگرچہ بقول پروفیسر نکلسن: وہ فلسفے کو کبھی مذہب کے تابع نہیں کرتے۔۲۶؎ اقبال کے لیے مذہبی صداقتیں بنیادی ہیں اور از بس اہمیت رکھتی ہیں۔ اقبال ان ہی صداقتوں کا اثبات کرنا چاہتے ہیں۔ صرف نظریہ اور محض حِسی تجربہ، دونوں ہی ان صداقتوں کا اثبات کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ کانٹ کے برخلاف اقبال علم کو عملی و تجربی حقیقت یعنی محسوسات تک محدود کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں بلکہ وہ اس سے آگے جاتے ہیں۔ ایک شاعر فلسفی کی حیثیت سے، اپنے زورِ بیان کے ساتھ، وہ اسلامی صوفی۲۷؎ کے دروازے پر دستک دیتے ہیں تاکہ باری تعالیٰ کا، اسرارِ ذات کا، اس کے اختیار اور معاد کا براہ راست انکشاف ہو۔ اس طرح ہستی مطلق کے وجود اور اس کی حقیقت کو ثابت کیا جاسکتا ہے اور اس کی ماہیئت کا تحقق ہوسکتا ہے، لیکن یہ صرف ایک غیر معمولی تجربے کے ذریعے ممکن ہے جسے اقبال وجدان کا نام دیتے ہیں۔ حقیقت کو کلی طور پر گرفت میں لینا یعنی حقیقتِ مطلقہ کا درک۲۸؎ ہی اس وجدان کا مقصود ہے۔ یہ ایک نادر تجربہ ہے اور صرف چند برگزیدہ افراد ہی اس کے امین ہوتے ہیں۔ وجدان سے رجوع کرنے کا تقاضا نیا نہیں بلکہ درحقیقت اقبال سے پہلے بھی یہ دعوت دی جاچکی ہے۔ انسانی ذہن نے اس اضافی علم سے ناآسودہ ہوکر جو عقل اور حسی تجربے سے حاصل ہوتا ہے، صوفیانہ تجربے کی جستجو کی ہے۔ نظری۳۰؎ شعور حقیقتِ مطلقہ کو گرفت میں لانے کا متمنی ہوتا ہے لیکن اس میں ناکام رہتا ہے، اس بات کو کانٹ نے پایۂ ثبوت تک پہنچا دیا ہے۔ علمِ مطلق کی یہ پیاس شاید ایک خاص قسم کے وجدان سے بجھائی جاسکتی ہے۔ صوفی کے دعوے کے مطابق حقیقت کے مطلق یا مکمل علم کی یہ فطری آرزو صرف وجدان ہی سے پوری ہوسکتی ہے۔ لیکن غزالی اور کئی دیگر صوفیہ نے وجدان کو ایک نادر ملکۂ علم قرار دیا ہے جو عقل و ادراک۱۳؎ سے مختلف ہے۔ اسی بات نے وجدان کی صحت کو بعض مفکرین کے خیال میں مشکوک بنادیا ہے۔ لیکن اقبال اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک وجدان بھی عقل و ادراک جیسا ایک وسیلۂ علم ہے، البتہ وہ وجدان کو علم کی ارفع صورت قرار دیتے ہیں اگرچہ کیفی۳۲؎ اعتبار سے وہ دوسرے وسائل علم کی طرح ہے یہ درست ہے کہ وجدان ایک طرح کا احساس۳۳؎ ہے لیکن اس کا مطلب موضوعیت۳۴؎ میں اُتر جانا نہیں ہے۔ یہ احساس اپنی خاصیت میں بنیادی طور پر وقوفی۳۵؎ ہے اور حسی ادراک ہی کی طرح معروضی۳۶؎ ہے۔ علاوہ ازیں وجدان کی معروضیت کو شک و شبہے کی نظر سے اس لیے دیکھا گیا ہے کہ صوفی حقیقتِ مطلقہ یعنی خدا کے ادراک۳۷؎ سے آغاز کرتا ہے اور وجدان کو اسی کی حد تک محدود رکھنا چاہیے۔ برعکس اس کے اقبال خود اپنی ذات کے وجدان سے آغاز کرتے ہیں اور اس طرح وجدان کو ہمارے عام تجربے سے قریب تر لے آتے ہیں۔ وہ ذات کے وجدان کے بعد حقیقت اور پھر حقیقتِ مطلقہ کے وجدان تک پہنچتے ہیں۔ اپنی ذات کے وجدان کا باب ہم سب کے لیے کھلا ہوا ہے۔ اہم فیصلوں اور عمل کے بعض حساس لمحوں میں ہمیں اس کا تجربہ ہوتا ہے۔ یہ وجدان ہمیں اپنی ہستی کی گہرائیوں تک لے جاتا ہے اور ہمیں اپنی حقیقت کا براہِ راست یقین دلاتا ہے۔ تجربیین۳۸؎ اور عقلیین۳۹؎ دونوں بہرحال ذات کی حقیقی ماہیت منکشف کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ تجربیین ذات کو صرف وارداتِ نفس۴۰؎ کی آمد و شد قراردیتے ہیں۔ لیکن ان واردات کو ایک دوسرے سے علیحدہ رکھتے ہوئے وہ اس وحدت کو نظر انداز کردیتے ہیں جو ان واردات کو ایک کل میں شیرازہ بند کرتی ہے۔ بقولِ برگساں: وہ ان وارداتِ نفس کو خواہ کتنا ہی پاس پاس رکھیں اور درمیانی وقفوں کا کتنا ہی احاطہ کریں اور ایغو ہر دفعہ ان سے بچ نکلتا ہے آخر کار ایک پیکرِ خیالی۴۱؎ کے سوا انھیں کچھ ہاتھ نہیں آتا۔۴۲؎ عقلیین بھی ذات کی حقیقی ماہیئت کو گرفت میں لانے سے قاصر ہیں۔ وہ صرف ایک تعقلی وحدت۴۳؎ کو فرض کرتے ہیں جسے وہ ایغو کا نام دیتے ہیں اور جس میں وارداتِ نفس یوں جاگزیں ہوتی ہے جیسے خلا۴۴؎ میں ہوں۔ وہ شے کی تہ۔َ۔ تک یعنی ذات کی اصل ماہیئت اور اس کی ہستی تک نہیں پہنچ پاتے۔ لیکن ’’حقیقی تجربیت‘‘۴۵؎ یا وجدان ہماری ہستی کی انتہائی گہرائیوں کو براہِ راست ہمارے لیے منور کردیتا ہے۔ یہیں پر ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح وحدت میں کثرت۴۶؎ ہے اور کثرت میں وحدت۔ ذات یا خودی محض سکونی اور جداگانہ حالتوں کے مجموعے کا نام نہیں ہے۔ ایسی دو حالتوں کے مابین ہمیشہ ایک تیری حالت پائی جاتی ہے۔ یہ سب حالتیں ایک دوسرے کے ساتھ بہت قریبی طور پر گُندھی ہوئی ہیں۔ وہ ان بڑھتی اور چڑھتی ہوئی موجوں کی طرح ہوتی ہیں جنہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا اور کسی خشک خطۂ زمین پر علیحدہ کرکے ان کا جداگانہ مشاہدہ اور ان پر تجربہ۴۷؎ نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ ماہرینِ نفسیات کا خیال ہے۔ اسی طرح کا مشاہدہ اور تجربہ ہماری ذات کی اصل ماہیئت ہم پر کسی طور منکشف نہیں کرپاتا۔ ذات یا خودی اپنی ماہیئت میں بنیادی طور پر حرکی۴۸؎ ہے، اس کی ماہیئت مسلسل نشوونما، مسلسل اضافہ اور مسلسل عمل ہے۔ اسی طرح ذات کا وجدان ہمیں وہ نقطۂ انحراف فراہم کرتا ہے جو عقلیین اور تجربیین کے طریقِ تحقیق سے اپنا راستہ الگ کرتا ہے۔ یہ راستہ چڑھائی میں پیچ دار اور مشکل ہے لیکن اشیا کی اساسی ماہیئت کے براہِ راست انکشاف تک ہمیں لے جانے کی امید دلاتا ہے۔ یہ ہمارے لیے خدا کا وجدان ظن و قیاس۴۹؎ کے بجائے ایک حقیقی امکان بنادیتا ہے۔ ہم اس طرح وجداناً اپنی ہستی اور فطرت سے گزر کر ذاتِ باری تعالیٰ تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اقبال بالتکرار ہم سے اپیل کرتے ہیں کہ خود اپنی ذات سے یگانگت، ہمدردی اور لگاؤ پیدا کریں کہ اس طرح ذات کی حقیقت، اختیار اور معادکے اثبات تک پہنچنا ممکن ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ہمارے لیے وجودِ باری تعالیٰ کے اثبات اور اس کی ماہیئت کے ادراک کی راہ بھی ہموار کردیتا ہے۔ تاہم اقبال خود یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ انھیں خدا کا وجدان حاصل ہوا ہے، البتہ انھیں اس کا یقین ہے کہ بعض درخشاں لمحات میں انھیں اپنی ذات کا وجدان ہوا ہے، انھیں اس کا بھی یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وجدان بھی ذات کے وجدان کی سی خاصیت رکھتا ہے۔ پہلی بات یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات جیسی کہ وہ وجدان سے منکشف ہوتی ہے اپنی ماہیئت میں حرکی اور حد درجہ فعال ہے۔ حقیقت ایک حیاتِ لامتناہی ہے، وہ خود رہنما،۵۰؎ خود شعور توانائی۵۱؎ یا قوت ہے جو ہمیشہ فعال ہے، اس کا ہر فعل بجائے خود ایک حیات ہے جو اپنی جگہ پر ایک خود راہنما توانائی ہے۔ خارج سے دیکھا جائے تو یہ افعال۵۲؎ مکانی اشیا اور واقعات ہیں بعض افعال اپنی نمو۵۳؎ کے دوران میں خود شعور ہوگئے ہیں۔ یہی من و تو ہیں۔۵۴؎ دوسری بات یہ کہ اللہ تعالیٰ کوئی غیر شخصی وجود نہیں ہے جیسا کہ ہمہ الہٰیت یا ہمہ اوست کے قائل سمجھتے ہیں۔ وہ ایک شخص ہے ہم اس سے شخصی رابطہ قائم کرسکتے ہیں کیونکہ حیات کی ماہیئت یہ ہے کہ وہ کسی ذات میں اپنا اظہار کرے۔ کونی یا کائناتی حیات جیسی کوئی چیز نہیں ہے، حیات کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک مرکز کی حامل ہو جسے ذہن کہتے ہیں۔ تیسری بات یہ کہ اللہ تعالیٰ کے وجود سے ہماری ذات کی نفی۵۵؎ لازم نہیں آتی۔ ذات کا وجدان ہمیں اپنی ذات یا خودی کی مستقل حیثیت کا یقین بخشتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا وجدان ہمارے اس یقین کی تصدیق کرتا ہے۔ ساری کائنات میں ایغوئیت۵۶؎ کا ایک صعودی۵۷؎ انداز نظر آتا ہے۔ اس ایغوئیت کا شعور سب سے پہلے ہمیں اپنی ذات میں ہوتا ہے، پھر اس معروضی یعنی خارجی فطرت میں جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اس کے بعد اس کا شعور ذاتِ باری تعالیٰ میں ہوتا ہے جو تمام حیات کے اصولِ نہائی۵۸؎ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اقبال کا فلسفہ اس طرح ایغوئیت یا خودی کا فلسفہ ہے۔ ان کے لیے تمام حقیقت کا محور ایغوئیت ہے۔ اسی لیے اقبال کے فلسفے کو سمجھنے کے لیے بہترین طریقہ یہ ہے کہ پہلے وجدان سے بحث کی جائے، پھر ذات یعنی خودی سے، اور اس کے بعد عالمِ مادی سے گزرتے ہوئے ذاتِ باری تعالیٰ تک پہنچنے کی کوشش کی جائے۔ ژ…ژ…ژ حواشی ۱- یہ الفاظ ڈاکٹر سیّد ظفر الحسن کے ہیں جو انھوں نے اپنے صدارتی خطبے میں اس وقت استعمال کیے تھے جب ۱۹۲۹ء میں اقبال مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ میں اسلامی الٰہیات کی تشکیل جدید کے موضوع پر خطبات دے رہے تھے۔ ۲- Speculative ۳- Concrete ۴- Ultimate Reality ۵- اسلامی الٰہیات کی تشکیل جدید از اقبال (انگریزی متن شائع کردہ آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس لندن ۱۹۳۴ئ) ص۳ آگے بھی ’’تشکیل جدید‘‘ کے سب حوالے اسی اڈیشن سے دیے گئے ہیں۔ ۶- The Universal ۷- Ideas ۸- Becoming ۹- Idealists ۱۰- Cognition ۱۱- Illusion ۱۲- Pure understanding ۱۳- Reason ۱۴- مستقبل کی مابعدالطبیعیات کا مقدمہ از کانٹ (انگریزی)، ص۱۴۷ ۱۵- Experience ۱۶- A priori ۱۷- Empirical ۱۸- تشکیل جدید، ص۱۷۲ ۱۹- Dogmatic ۲۰- تشکیل جدید، ص۱۷۷ ۲۱- Tangible and perceptible ۲۲- Immortality ۲۳- Bond of necessity ۲۴- Necessary and determined ۲۵- Freedom ۲۶- اسرارِ خودی کے انگریزی ترجمے کا مقدمہ، ص۱۳ ۲۷- Mystic ۲۸- Comprehension ۲۹- Relative ۳۰- Theoretical ۳۱- perception ۳۲- Qualitatively ۳۳- Feeling ۳۴- Subjectivism ۳۵- Cognitive ۳۶- Objective ۳۷- Apprehension ۳۸- Empiricists ۳۹- Rationalists ۴۰- Psychical States ۴۱- Vain phantom ۴۲- مقدمۂ مابعد الطبیعیات (انگریزی)، ص۲۷ ۴۳- Conceptional unity ۴۴- void ۴۵- بالفاظ برگساں "True empiricism" ۴۶- Multiplicity ۴۷- Experiment ۴۸- Dynamic ۴۹- Conjecture ۵۰- Self-directing ۵۱- Energy ۵۲- Acts ۵۳- Development ۵۴- ڈاکٹر سیّد ظفر الحسن کے صدارتی خطبے سے اقتباس۔ ۵۵- Obliteration ۵۶- Egohood ۵۷- Rising ۵۸- Ultimate Principle خ…خ…خ باب دوم وجدان کا طریق کانٹ نے اپنے مقدمے۱؎ میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ: آیا مابعد الطبیعیات ممکن ہے؟ اور اس کا جواب نفی میں دیا تھا۔ اس منفی جواب کے لیے اس نے جو وجوہ پیش کیں وہ ان خصوصیات پر مبنی ہیں جو ہمارے علم سے مخصوص ہیں۔ ہمارا علم زمان و مکان سے متعین ہوتا ہے کیونکہ عالم دو لازمی اجزائے ترکیبی پر مشتمل ہے۔ یعنی اشیا اور اشیا میں تغیرات ___اشیا بغیر مکان کے ہمارے لیے ناقابل فہم ہیں۔ ہم تمام اشیا کو مکان کے اندر ہی دیکھتے ہیں۔ اشیا بذاتِ خود کیا ہیں ہم نہیں کہ۔َ۔ سکتے کیونکہ اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہمیں ایک بلند تر وسیلۂ علم کی ضرورت ہوگی اور اشیا کو مکان کے غلاف سے نکالنا ہوگا۔ اسی طرح اشیا کے تغیرات کے لیے زمان کو مقدم تسلیم کرنا پڑے گا۲؎ کیونکہ کوئی تغیر بغیر زمان کے ممکن نہیں ہے۔ اگر زمانہ نہیں تو تغیر بھی نہیں۔ علاوہ ازیں کانٹ کے نزدیک زمان اور مکان معروضی حقیقتیں نہیں ہیں۔ وہ حقیقت کا ادراک کرنے کے لیے صرف ہمارے شئون۳؎ یا ہماری جہتیں ہیں۔ دوسرے الفاظ میں وہ موضوعی۴؎ ہیں اور موضوع۵؎ یعنی ناظر سے علیحدہ اپنا کوئی وجود نہیں رکھتیں۔ اب اگر زمان و مکان موضوعی ہیں اور سب اشیا زمان و مکان میں ہیں تو گویا جو کچھ ہم دیکھتے ہیں وہ صرف مظاہر۶؎ ہیں اور اشیا جیسی کہ وہ خود ہیں یا بالفاظ دیگر ’’شے کماہی‘‘۷؎ یا شے بذاتہ ہمیشہ ہماری گرفت سے بچ نکلتی ہے۔ ہم اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتے جو نہائی یا مطلق ہے۔ مابعدالطبیعیات اگر اس نہائی یا مطلق حقیقت یعنی ’’شے کماہی‘‘ کو جاننے کی کوشش ہے تو یہ ناممکن ہے۔ کانٹ نے اسی لیے مابعد الطبیعی امور میں پسپائی۸؎ یا علیحدگی کا مسلک اختیار کیا۔ اقبال اس خیال سے پورے طور پر متفق ہیں کہ زمان و مکان معروضی نہیں ہیں، ایسا کوئی موجود بالذات۹؎ خلا نہیں ہے جس میں اشیا واقع ہیں اور نہ موجود بالذات زمان ہی ہے جو ایک خط کی طرح ہو جس پر ہم حرکت کرتے ہوں۔ اقبال کے نزدیک بھی کانٹ کی طرح، زمان و مکان موضوعی ہیں۔ لیکن جہاں کانٹ زمان و مکان کی موضوعیت سے یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ ہمارا سارا علم صرف مظاہر یعنی اشیا بظاہر کا ہے یعنی اشیا جیسی کہ وہ ہمیں دکھائی دیتی ہیں، اقبال کانٹ سے اس بات پر اختلاف کرتے ہیں کہ ’’شے کماہی‘‘ یعنی حقیقتِ شے کا علم ممکن نہیں ہے۔ کانٹ کا نظریہ شے کے بارے میں جیسی کہ وہ دراصل ہے اور جیسی کہ وہ بظاہر نظر آتی ہے، خود مابعد الطبیعیات کے امکان سے متعلق سوال کی نوعیت کو بڑی حد تک متعین کردیتا ہے۔۱۰؎ جہاں تک تجربے کی عام سطح کا تعلق ہے کانٹ کا یہ خیال درست ہے کہ مابعدالطبیعیات ممکن نہیں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ: آیا تجربے کی عام سطح ہی وہ واحد سطح ہے جس سے علم حاصل ہوسکتا ہے۔۱۱؎ اقبال کے خیال میں یہ واحد سطح نہیں ہے، کیونکہ زمان و مکان کا مفہوم وجود۱۲؎ کے فرقِ مراتب سے بدلتا جاتا ہے۔ زمان و مکان جامد، اٹل اور نہ بدلے جانے والے شئون یا جہات نہیں ہیں اگرچہ کانٹ انھیں ایسا ہی سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ ہمارا سارا علم انھیں قوالب یا سانچوں میں ڈھلتا اور متعین ہوتا ہے۔۱۳؎ اقبال کے خیال میں یہ شئون یا جہات خود ہم سے برتر یا فروتر ہستیوں کے تعلق سے نئے مفہوم کی گنجایش رکھتے ہیں۱۴؎ اور نتیجتاً تجربے کا ایک ایسا درجہ بھی ہوسکتا ہے جو زمان و مکان کی قیود سے آزاد ہو۔ پہلے مکان کو لیجیے۔ یہ ایک ’’حرکی مظہر‘‘۱۵؎ ہے۔۱۶؎ اس نتیجے تک پہنچانے والی ایک کوشش عراقی۱۷؎ نے بھی کی تھی۔ عراقی کے نزدیک مکان کی تین قسمیں ہیں یعنی مادی اجسام کا مکان، غیر مادی ہستیوں کا مکان اور باری تعالیٰ کا مکان۔ ’’مادی اجسام‘‘ کے مکان کو عراقی نے مزید تین قسموں میں تقسیم کیا ہے۔ اول کثیف۱۸؎ اجسام کا مکان جن کے لیے جگہ گھیرنا لازم ہے، اس مکان میں حرکت کے لیے وقت کی ضرورت ہوتی ہے، اجسام جگہ گھیرتے ہیں اور اپنی جگہ سے ہٹائے جانے کی مزاحمت کرتے ہیں۔ ثانیاً لطیف اجزا کا مکان ہے مثلاً ہوا اور آواز کا۔ اس میں بھی اجسام اگرچہ ایک دوسرے کے مزاحم ہوتے ہیں اور ان کی حرکت کا حساب بھی وقت ہی سے کیا جاتا ہے، لیکن ان میں اور کثیف اجسام کے وقت میں فرق ہے۔ جب تک ہم کسی نلکی سے اس کے اندر کی ہوا نکال نہیں لیتے اس میں دوسری ہوا داخل نہیں ہوسکتی۔ لیکن آواز کی موجوں کو دیکھیے تو ٹھوس اور کثیف اجسام کے وقت کے مقابلے میں ان کے وقت کی عملاً کوئی حقیقت نہیں۔ ثالثاً روشنی یا نور کا مکان ہے، سورج کی روشنی دنیا کے دور دراز گوشوں میں دیکھتے ہی دیکھتے فوراً پہنچ جاتی ہے اس طرح نور کی رفتار میں وقت تقریباً صفر تک گھٹ جاتا ہے۔ لہٰذا ہم کہ۔َ۔ سکتے ہیں کہ نور کا مکان ہوا اور آواز کے مکان سے مختلف ہے جس کا ایک اور بڑا واضح ثبوت یہ ہے کہ چراغ کی روشنی کمرے کی ہوا کو ہٹائے بغیر ہر سمت میں پھیل جاتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نور کا مکان ہوا کے مکان سے لطیف تر ہے___لیکن اگرچہ فاصلے کا عنصر بالکلیہ غیرحاضر نہیں ہے۔ تاہم نور کے مکان میں باہمی مزاحمت کا کوئی امکان نہیں ہے، ایک چراغ کی روشنی اگرچہ کسی ایک خاص نقطے تک ہی پہنچتی ہے لیکن ایک ہی کمرے میں ایک سو چراغوں کی روشنیاں ایک دوسرے کو اپنی جگہ سے ہٹائے بغیر آپس میں مل جاتی ہیں۔‘‘ اب غیر مادی ہستیوں کے مکان مثلاً فرشتوں کے مکان کی طرف آیے۔ یہ ملحوظِ خاطر رہنا چاہیے کہ فاصلے کا عنصر ان کے مکان سے بالکلیہ غیر حاضر نہیں ہے، اگرچہ وہ بآسانی پتھر کی دیواروں سے گزر سکتے ہیں۔ لیکن حرکت یعنی نقل مکانی۲۰؎ سے آزاد نہیں ہوسکتے۔ البتہ انسانی روح مکان سے آزاد ہے، وہ نہ تو حرکت میں ہے نہ سکون میں۔ آخراً اللہ تعالیٰ کا مکان تمام ابعاد سے منزہ ہے،۲۱؎ وہ تمام لامتناہیوں۲۲؎ کا نقطۂ اتصال ہے۔ لیکن اقبال کے خیال میں عراقی کا یہ مفروضہ غلط ہے کہ مکان ایک معطیہ۲۳؎ چیز ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عراقی ارسطو کے روایتی جامد و ثابت۲۴؎ کائنات کے تصور کی طرف فطری جھکاؤ رکھتا تھا۔ اقبال کے خیال میں کائنات حرکی اور ناشی۲۵؎ یعنی نموپذیر ہے۔ کوئی مطلق مکان ایسا نہیں ہے جس میں سب اشیا واقع ہوں۔ خود مکان کا تصور ہماری موضوع ساخت۲۶؎ پر منحصر ہے۔۲۷؎ انسانوں کا مکان تین ابعاد میں ناپا جاتا ہے یعنی طول، عرض اور عُمق۔ لیکن ہمارے حواس اور ہماری نفسی قوتوں میں کمی یا اضافہ کرکے ہمارے ابعاد میں کمی یا اضافہ کرنا ممکن ے، مثلاً ایک گھونگے کو لیجیے۔ وہ صرف حس۲۸؎ کا حامل ہے: وہ ہمیشہ ناخوشگوار سے خوشگوار کی جانب ایک خط میں سفر کرتا ہے اور غالباً اس خط کے علاوہ اور کسی چیز کا شعور نہیں رکھتا اور نہ کسی شے کو محسوس کرسکتا ہے۔ یہی خط اس کی کل کائنات ہے۔۲۹؎ اس طرح گھونگا یک بُعدی ہستی ہے۔ اپنے سارے جسم کا زور لگا کر وہ درخت کے تازہ پتے کے کنارے تک پہنچتا ہے لیکن اسے ایسا معلوم ہوتا ہوگا گویا پتا اس لمحے دائرہ زمان سے نکل کر خود اس کی طرف آرہا ہو۔۳۰؎ اس کے لیے ساری کائنات، مستقبل اور ماضی یعنی زمان پر مشتمل ہے اب ظاہر ہے کہ ایک ایسا حیوان جو حس کے علاوہ ادراک کا بھی حامل ہو، وہ دنیا کو کسی یک بعدی ہستی کے مقابلے میں مختلف طور پر محسوس کرے گا۔ ایسا حیوان دنیا کو ایک سطح۳۱؎ کے طور پر محسوس کرے گا۔ سوال کیا جاسکتا ہے کہ دنیا اُسے سطح کی طرح کیوں نظر آئے گی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ دنیا اُسے سطح کی طرح اس لیے نظر آئے گی کہ یہ ہمیں بھی اسی طرح نظرآتی ہے۔ ہم میں اور اس حیوان میں فرق یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ دنیا ایک سطح نہیں ہے درحالیکہ حیوان یہ نہیں جان سکتا۔۳۲؎ وہ تو ہر چیز کو اسی طرح قبول کرلیتا ہے۔ جیسی وہ نظرآتی ہے اور پھر حیوان تین ابعاد کو ایک ساتھ ناپ نہیں سکتا۔ یہ اس واقع سے ثابت کیا جاسکتا ہے کہ حیوان کوئی تعقلات۳۳؎ نہیں رکھتے۔ مثال کے طور پر کسی مکعب کو تین سمتوں میں ناپنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک سمت میں ناپتے ہوئے دوسرے دوابعاد کو بھی ذہن میں رکھا جائے۔ یعنی انھیں یاد رکھا جائے، لیکن انھیں ذہن میں صرف تعقلات کے طور پر رکھنا ممکن ہے۔۳۴؎ اس لیے وہ حیوانات جو تعقلات نہیں رکھتے صرف دو بعدی ہوتے ہیں۔ ایسا حیوان تیسرے بُعد کا ادراک نہیں کرسکتا۔ تیسرے بُعد کو وہ ہمیشہ محسوس تو کرتا ہے لیکن دیکھتا نہیں ہے۔۳۵؎ مثلاً وہ زاویوں اور خمیدہ سطحوں کا ادراک نہیں کرسکتا، یہ اس کے لیے حال میں واقع نہیں ہوتے۔ یہ مستقبل میں ہوتے ہیں۔ جب وہ خمیدہ سطح پر حرکت کرتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ نئے خطوط نظر آتے ہیں اور پھر غائب ہوجاتے ہیں۔ جو ہمارے لیے تیسرا بُعد ہے اس کے لیے وہ زمان میں ہے۔ لیکن آدمی کو بیک وقت تینوں ابعاد دیکھنے میں کوئی وقت نہیں لگتا۔ حیوان کے لیے جو چیز زمان ہے وہ آدمی کے لیے ایک مظہرِ مکانی ہے۔۳۶؎ اب یہ ظاہر ہوگیا ہوگا کہ ہمارا مکان ایک معروضی حقیقت نہیں ہے۔ بعض حیوانوں کا مکان یک بعدی ہے، بعض کا دو بعدی، اور ہمارا سہ بعدی، یہ امر کہ تین سے کم بُعد ہوسکتے ہیں ہمیں اس امکان کی طرف لے جاتا ہے کہ تین سے زیادہ بُعد بھی ہوسکتے ہیں۳۷؎ لیکن یہ اس وقت ممکن ہوگا جب ہماری نفسی قوتوں میں جس نسبت سے اضافہ ہوتا ہے اسی نسبت سے ابعاد کی تعداد میں ناگزیر طور پر اضافہ ہوتا ہے۔ اب زمان کو لیجیے اس میں بھی مختلف قسموں کی گنجایش ہے۔ ’’جو ہستیوں کے فرقِ مراتب کے مطابق ہوتی ہیں۔‘‘ کثیف یعنی ٹھوس اجسام کا زمان، جیسا کہ عراقی بتاتا ہے، کچھ اس نوعیت کا ہے کہ: جب تک ایک دن نہیں گزر جاتا دوسرا دن نہیں آتا۔۳۹؎ لیکن غیر مادی ہستیوں کا زمان اگرچہ اپنی خاصیت میں مسلسل یعنی سلسلہ وار۴۰؎ ہوتا ہے تاہم کثیف اجسام کے زمان کا پورا ایک سال کسی غیرمادی ہستی کے ایک دن سے زیادہ نہیں ہوتا۔۴۱؎ عراقی کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا زمان حالِ محسوس ہے۔۴۲؎ وہ مرور۴۳؎ یعنی تغیر۴۴؎ اور تواتر۴۵؎ کی خاصیت سے بالکل پاک ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بصارت تمام مرئیات کو اور اس کی سماعت تمام مسموعات کو ایک ناقابلِ تقسیم عملِ ادراک کی صورت میں دیکھ اور سُن لیتی ہے۔۴۶؎ اس طرح اللہ تعالیٰ کا زمان ایک دائمی حال یعنی جاودانی آنِ موجودہ۴۷؎ ہے۔ لہٰذا زمان و مکان ہستیوں کے فرقِ مراتب کے مطابق ہوتا ہے۔ اقبال اس پر یہ اضافہ کرتے ہیں کہ ایک ہی ہستی کے تجربے کی مختلف سطحوں پر زمان کی تعبیر مختلف ہوتی ہے۔ ادراک کی سطح پر زمان ہمیں خالصاً مکانی نظر آتا ہے، ہم اپنی حرکات کو ’’اب‘‘ اور ’’اب نہیں‘‘ کی اصطلاحوں سے تعبیر کرتے ہیں اور یہ دونوں اصطلاحیں عملاً ’’یہاں‘‘ اور ’’یہاں نہیں‘‘ کا مفہوم رکھتی ہیں۔ زمان ایک ایسا خط ہے جس کا کچھ حصہ ہم طے کرچکے ہیں، کچھ مستقبل میں طے کریں گے اور جس کے صرف تھوڑے سے حصے پر ہم ’’حال‘‘ میں تصرف رکھتے ہیں۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ حال وجود ہی نہیں رکھتا، وہ تو ایک ایسا لمحہ ہے جو یا تو کسی قریبی مستقبل میں یا قریبی ماضی میں واقع ہے۔ لیکن اگر زمان کو ذات کی گہرائیوں سے مشاہدہ کیا جائے تو اپنی خاصیت کے اعتبار سے وہ قطعاً متسلسل یا سلسلہ وار نہیں ہے۔ اس میں ماضی، حال اور مستقبل باہم اس طرح گندھے رہتے ہیں کہ ایک وحدت تشکیل پاتی ہے۔ وہ برگساں کے الفاظ میں ’’استدام‘‘۴۸؎ ہے جس میں تغیر تو ہے لیکن تواتر نہیں ہے۔۴۹؎ چنانچہ زمان اور مکان، جنہیں کانٹ نے سارے تجربات کے سانچے۵۰؎ قرار دیا تھا اپنے مفہوم میں سکونی ۵۱؎ اور معین نہیں ہیں۔ ان کا مفہوم نفسی قوتوں میں اضافے کے یا کمی کے ساتھ ساتھ بدلتا جاتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کانٹ نے علم کو جس عام ’’مکانی زمانی‘‘ تجربے کی سطح تک محدود کیا تھا، اس کے علاوہ بھی تجربے کی دوسری سطحیں ہوسکتی ہیں۔ بے شک مابعدالطبیعیات ممکن نہیں ہے اگر عام تجربہ ہی تجربے کی واحد اور آخری سطح قرار پائے۔ لیکن اگر تجربے کی اگر ایسی سطحیں ممکن ہیں جو ’’زمانی مکانی‘‘ تعینات سے آزاد ’’حقیقت فی نفسہٖ‘‘ کا انکشاف کرتی ہیں، تو پھر مابعدالطبیعیات بھی ممکن ہے۔ اب اقبال کا کہنا یہ ہے کہ تجربے کی عام سطح سے بلند تر بھی ایک سطح ہے جو وجدانی تجربے کی سطح ہے۔ وجدانی تجربہ ایک نادر تجربہ ہے جو اپنی مثال آپ ہے اور بنیادی طور پر دوسرے تجربوں سے مختلف ہے جو نہ ادراک ہے نہ فکر۔ وجدان میں ہم فکرو ادراک کی حدود سے ماورا چلے جاتے ہیں۔ وجدان ہم پر ایک ایسی حقیقت منکشف کرتا ہے جو نہ تو ادراک کی گرفت میں آتی ہے اور نہ فکر کی اور جس کی مندرجہ ذیل خصوصیات ہیں: (۱) وجدان، حقیقت کا حضوری یعنی بلاواسطہ۵۳؎ تجربہ ہے۔ اس تجربے میں حقیقت فی نفسہٖ ہم پر منکشف ہوتی ہے۔ حضوری یا بلاواسطہ تجربے کی حیثیت سے یہ ادراک سے مشابہ ہے۔ وجدانی تجربے میں حقیقتِ مطلقہ کا بلاواسطہ درک ہوتا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کا علم ’’بالکل اسی طرح ہوتا ہے جیسا کہ دوسری اشیا کا۔‘‘ یہاں علم براہ راست ہے لہٰذا وجدان، فکر سے مختلف ہے کہ فکر کے ذریعے سے حاصل شدہ علم ہمیشہ بالواسطہ۵۴؎ ہوتا ہے۔ فکر میں کسی معروض کا براہِ راست ادراک نہیں ہوتا۔ فکر کی مدد سے حاصل کردہ علم ہمیشہ استنباطی۵۵؎ رہتا ہے۔ اس کے برعکس وجدان میں علم کا معروض براہِ راست اس طرح ادراک میں آتا ہے گویا سامنے رکھی ہوئی کوئی شے۔ اللہ تعالیٰ کوئی ریاضیاتی وجود یا ایسے تعقلات کا نظام نہیں ہے جو باہم مربوط تو ہوں لیکن تجربے سے بے نیاز ہوں۔۵۶؎ وہ ایک موجود فی الخارج۵۷؎ معروضی ہستی ہے۔ وجدان، ادراک کی طرح ہے جو علم کے لیے معطیات۵۸؎ فراہم کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حضور۵۹؎ براہِ راست قلب پر طاری ہوتا ہے اور اس کا فوراً بلاواسطہ ادراک کرلیا جاتا ہے چنانچہ بقول ابن عربی اللہ تعالیٰ ایک ’’وجودِ مدرک‘‘۶۰؎ ہے نہ کہ ایک تعقل۔۶۱؎ ہم اس کا اسی طرح مشاہدہ کرسکتے ہیں جیسے ان چیزوں کا جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ لیکن اس بنا پر وجدان کو محض ادراک کا ہم پلہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ وہ ادراک سے یوں مختلف ہے کہ ادراک میں حس کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے، کوئی ادراک بغیر حس کے ممکن نہیں ہے، ہمارے سارے ادراکات اعضائے حس Sence Organs کی وجہ سے ممکن ہوتے ہیں، لیکن وجدان میں ’’کسی عضویاتی۶۲؎ مفہوم میں حس کوئی کردار ادا نہیں کرتی۔‘‘۶۳؎ یہاں اعضائے حس کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں ادراک صرف اجزا کا ہوسکتا ہے جو حقیقت کو جزواً جزواً اپنی گرفت میں لاتا ہے۔ لہٰذا ہمارے ادراکی علم کی تکمیل کے لیے ہمیں دوسرے ادراکات کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود بھی یہ علم ناتمام رہتا ہے۔ ادراک کُل کو گرفت میں نہیں لاسکتا لیکن وجدان کُل کو گرفت میں لے آتا ہے۔ وجدان میں حقیقتِ کلی کا براہِ راست درک ہوتا ہے۔ (۲) وجدان، قلب کی مخصوص صفت یا خاصیت ہے،۶۴؎ یہ ذہن یا عقل کا خاصہ نہیں ہے۔ ذہن یا فکر صرفِ عالمِ مظاہر یعنی عالم مجاز۶۵؎ کو یا بالفاظ دیگر حقیقت کے اس پہلو کو جو حسی ادراک میں منکشف ہوتا ہے اپنی گرفت میں لے سکتی ہے۔ اس کے برعکس قلب ہمیں حقیقت کے ایسے پہلو سے روشناس کراتا ہے جہاں حسی ادراک کی رسائی نہیں۔۶۶؎ علاوہ ازیں فکر ہمیشہ ’’معروضات یعنی اشیا کے گرد گھومتی رہتی ہے۔‘‘۶۷؎ حقیقت کو مقولات۶۸؎ یعنی ذہنی قوالب کے ذریعے گرفت میں لانا اس کا وظیفہ ہے۔ لیکن یہ مقولات خود ہمارے آفریدہ ہیں، یہ ان لیبلوں کی مانند ہیں جو ہم چیزوں پر چسپاں کرتے ہیں جن کو اصلاً اشیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ چنانچہ اشیا فکر کے قابل میں ڈھل کر ہمارے لیے ویسی نہیں رہتیں جیسی وہ بذاتِ خود ہیں بلکہ ایسی ہوجاتی ہیں جیسی وہ ہمارے تعلق سے نظرآتی ہیں۔ اس لیے وہ سارا علم جو فکر سے حاصل کیا جاتا ہے اضافی۶۹؎ ہوتا ہے۔ نتیجتاً ایسا علم ہمیشہ مجازی یعنی مظاہر کا ہوتا ہے۔ لیکن وجدان کے ذریعے جو ایک کیفیتِ قلبی ہے ہم اپنی ذات سے ماورا ہوکر حقیقتِ مطلقہ تک پہنچ سکتے ہیں۔ ہم اشیا کا علم قلب کے ذریعے یعنی اشیا میں خود جاگزیں ہوکر حاصل کرسکتے ہیں۔ وجدان کا عمل یہی ہوتا ہے۔ لیکن یہ صرف احساس۷۰؎ کے واسطے سے ممکن ہے۔ یہ احساسی تجربہ ایک نادر احساس ہے جس میں کُل اسی طرح منکشف ہوتا ہے گویا کہ وہ ادراک میں آیا ہو۔ باعتبارِ احساس، وجدان ایک اور لحاظ سے فکر سے مختلف ہے۔ وہ علم جو فکر کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر ناقابلِ ابلاغ ہوتا ہے کیونکہ فکر اپنے معروضات کو تعقلات یا کلیات کے واسطے سے گرفت میں لاتی ہے۔ جو الفاظ میں ظاہر کیے جاتے ہیں اور سب کی مِلک بن سکتے ہیں۔ لیکن وجدان بنیادی طور پر ناقابلِ ابلاغ ہوتا ہے کیونکہ وہ احساس ہے اور احساس کو دوسروں تک نہیں پہنچایا جاسکتا۷۱۱؎ کہ وہ غایت درجہ شخصی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوفیانہ تجربے یعنی روحانی مشاہدے کو صحیح صحیح مافیہ۷۲؎ الفاظ میں ادا نہیں کیا جاسکتا کہ دوسروں کی دسترس میں آجائے۔ یہاں زبان ہمارا ساتھ نہیں دیتی۔ وجدان الفاظ و تعلقات اور مقولات کے اندر نہیں سماسکتا۔ صوفیانہ تجربہ چونکہ ایک احساسی امر ہے۔ اس بنا پر یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ صوفی اپنے مخصوص تجربے میں خود اپنی داخلیت یا موضوعیت کے دھندلکے میں ڈوب جاتا ہے۔ یہ درست نہیں، بلکہ اس کا تجربہ ایک ’’وقوفی مافیہ‘‘ رکھتا ہے اور ہمارے دوسرے عام تجربات یعنی عام مشاہدات کی طرح معروضی ہوتا ہے۔ یہ احساس ایک معروض کے شعور پر ختم ہوتا ہے اور کوئی احساس اس قدر اندھا نہیں ہوتا کہ خود اپنے معروض کا کوئی تصور نہ رکھتا ہو۔‘‘۷۳؎ صوفیانہ تجربے کا معروض حقیقی اور وجودی۷۴؎ یعنی درحقیقت موجود ہوتا ہے۔ (۳) وجدان کی ایک اور صفت اس کی ناقابلِ تجزیہ کلیت ہے۔۷۵؎ اس میں کُل حقیقت ایک ناقابلِ تقسیم وحدت نظرآتی ہے حتیٰ کہ تجربے کا موضوع یعنی صاحبِ تجربہ خود بھی اس وحدت میں ’’غرق ہوجاتا ہے۔‘‘۷۶؎ اس تجربے میں ذات اور غیر ذات کے امتیاز کا کوئی امکان نہیں، صوفی خود اپنی ذات سے غافل ہوجاتا ہے، وہ اپنے آپ کو مِٹادیتا ہے، وہ اب اپنا وجود ہی نہیں رکھتا، وہ خود اپنے معروض کے علاوہ اور کچھ نہیں رہ جاتا۔ حقیقت اس پر ’’واحد کُل‘‘ کے طور پر منکشف ہوتی ہے جو ناقابلِ تقسیم اور ناقابلِ تجزیہ ہے۔ تجربے کی عام سطح پر یہ صورتِ حال نہیں ہوتی۔ تجربے کی عام سطح کو صاف طور پر موضوع اور معروض میں تحلیل کیا جاسکتا ہے۔ نیز معروض مختلف حسی ’’مہیجات‘‘ میں تقسیم ہوجاتا ہے، مثلاً تجربے کے لاتعداد معطیات، میز کے واحد مشاہدے میں ضم ہوجاتے ہیں اور ان معطیات کے ذخیرے سے، میں انھیں چن لیتا ہوں جو زمان و مکان کے ایک خاص نظم میں مرتب ہوجاتے ہیں اور انھیں میز کی نسبت سے ہموار کرلیتا ہوں۔ لیکن وجدان کے عمل میں یہ ممکن نہیں ہے۔ اس صورت میں حقیقت ایک ناقابلِ تجزیہ وحدت کے طور پر منکشف ہوتی ہے۔ (۴) علاوہ ازیں، وجدان میں یہ ’’ناقابلِ تجزیہ وحدت‘‘ ایک یکتا ذات کے طور پر منکشف ہوتی ہے۔۷۸؎ وہ اپنے آپ کو ایک شخص کے طور پر ظاہر کرتی ہے۔ یہ ’’یکتا ذات‘‘ ہماری اپنی ذات سے ماورا ہوتی ہے۔ وہ ایک ایسی چیز کی طرح ہے جو ہمارے سامنے ہے اور ہمیشہ ہم سے پرے ہے۔ لیکن یہ بات استبعادی۷۹؎ معلوم ہوگی کہ صوفی اس ذات سے قریب ترین ربط رکھتا ہے۔ اگرچہ وہ ماورا ہے تاہم ہمہ گیر۸۰؎ یعنی محیطِ کل ہے، کیونکہ تجربے کے عمل میں صوفی اس کے ساتھ مکمل وحدت کا شعور رکھتا ہے۔ اس کی اپنی ذات اس ہمہ گیر وحدت میں غرق ہوجاتی ہے اور موضوع و معروض کا عام فرق محو ہوجاتا ہے اس کے باوجود جو کچھ براہِ راست ادراک میں آتا ہے وہ ایک ذات ہے، ایک شخص ہے۔ لیکن ہر ذات ذہن کی حامل ہوتی ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ کے ذہن کو ہم اپنے دائرہ فہم میں نہیں لاسکتے۔ لہٰذا وہ ہمیشہ ہم سے ’’ماورا‘‘۸۱؎ رہتا ہے، ورا الورا‘‘۸۲؎ رہتا ہے۔ تاہم یہ اللہ تعالیٰ کا ذہن بطور ایک ذات یا خودی کے ہے جس کا صوفی وجدانی ادراک کرتا ہے۔ اس کی تصدیق جوابی عمل۸۲؎ سے ہوتی ہے۔ کیونکہ بلاشبہ جوابی عمل ایک باشعور ذات کی موجودگی کا معیار ہے۔‘‘۸۴؎ (۵) وجدان چونکہ حقیقت کو بطورِ کُل درک کرتا ہے، اس لیے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ’’سلسلہ وار زمان‘‘ غیر حقیقی ہے۔ صوفی حقیقت سے سرسری نہیں گزرتا، وہ حقیقت کے پہلوؤں کو الگ الگ کرکے اور جزوی طور پر نہیں دیکھتا بلکہ اسے بطورِ کل وجدان کے ایک لمحے میں گرفت کرلیتا ہے۔ وہ ’’سرمدیت‘‘ یعنی از سے ابد تک کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ چنانچہ زمان میں تسلسل۸۵؎ یا تواتر اس کے لیے کوئی وجود نہیں رکھتا، وہ غیر حقیقی ہے۔ یوں تو برگساں بھی وجدان کا حامی ہے لیکن اس کے لیے وجدان بنیادی طور پر ’’ذہنی ہم خیالی یا ہمدردی‘‘۸۶؎ ہے لیکن ہم خیالی یا ہمدردی اپنے قطعی معنی میں وجدان نہیں ہے۔ وہ وجدان تک پہنچنے میں ہماری مدد ضرور کرتی ہے لیکن خود وجدان نہیں ہے۔ ’’وجدان‘‘، حقیقت کا ’’براہِ راست ادراک‘‘ ہے۔ اور ادراک مشتمل ہوتا ہے ادراک کرنے والے یعنی مدرک اور شے مدرکہ پر۔ ہمدردیِ محض میں ادراک کرنے والے کی نفی کا رجحان غالب ہوتا ہے۔ کسی شے کا معروضی علم حاصل کرنے کے لیے، بقولِ برگساں، ہمیں اپنے آپ کو تمام یادداشتوں سے پاک کرنا ہوگا، لیکن اس کا مطلب انجامِ کارذات کی مکمل نفی کے مترادف ہوگا۔ کیونکہ ذات یادوں کی شیرازہ بندی سے عبارت ہے۔ ’’جب میں کسی مقام یا شخص کو شناخت کرتا ہوں تو اس سے یہی مراد ہوتی ہے کہ میں اسے اپنے ہی ماضی کے تجربے سے منسوب کرتا ہوں۔ نہ کہ کسی دوسرے ایغو یعنی ذات کے تجربات سے۔‘‘۸۷ ہماری ذہنی حالتوں۸۸؎ کا یہی منفرد باہمی ربط ہے جسے ہم لفظ ’’میں‘‘ سے ظاہر کرتے ہیں۔ اسی بنیادی وحدت اور کثرت۸۹؎ یا گوناگونی سے ایغو عبارت ہے۔ اقبال کے خیال میں برگساں وجدان کی صرف بیرونی سطح تک ہی پہنچا۔ وہ وجدان کی اصل ماہیت کو نہ سمجھ سکا۔۹۰؎ لیکن اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ وجدان سے مطابقت رکھنے والی کوئی معروضی حقیقت نہیں ہے مثلاً اللہ تعالیٰ کے وجدان کے بارے میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے، نیز یہ کہ حواس سے حاصل ہونے والا علم ہی علم کی وہ واحد قسم ہے جو ہم حاصل کرسکتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ بتایا جاچکا ہے، تجربے کی عام سطح کے علاوہ بھی حقیقت کو جاننے کے اور طریقے ہیں۔ یقینا خود اپنی ذات کا وجدان ہمیں وہ نقطۂ انحراف فراہم کرتا ہے جو ہمیں عام طریقۂ علم سے الگ لے جاتا ہے۔ بذریعۂ وجدان، ذات کا براہِ راست ادراک عام معنی میں ناقابلِ فہم ہے لیکن اس بنا پر اسے مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ یہی بات اللہ تعالیٰ کے وجدان کے بارے میں کہی جاسکتی ہے۔ ہر ملک اور زمانے میں ماہرینِ مذہب نے اس امر کی شہادت دی ہے کہ ہمارے عام شعور کے ساتھ شعور کی دیگر امکانی صورتیں۹۱؎ بھی پائی جاتی ہیں اور شعور کی یہ صورتیں زندگی بخش اور علم بخش تجربات کے امکانات روشن کرتی ہیں۔ صوفی کو یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے صوفیانہ تجربے یا مشاہدے کا ایک ناقابل تردید واقعہ ہے، وہ اللہ تعالیٰ کا براہِ راست ادراک کرتا ہے۔ اس بارے میں اسے نہ کوئی شک ہوتا ہے نہ ابہام۔ اور وجدان کا یہ راستہ سب کے لیے کھلا ہے۔ ایک دہر یہ بھی اللہ تعالیٰ کا وجدان حاصل کرسکتا ہے بشرطیکہ وہ اس کے لیے وہ زحمت اٹھائے جو ناگزیر ہے۔ نیز یہ کوئی اعتراض نہیں کہ ’’وجدان‘‘ عضوی لحاظ سے معین ہوتا ہے۔۹۲؎ یعنی وجدانی تجربے کی صلاحیت کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ انسان ایک خاص قسم کے مزاج اور موڈ کا حامل ہو جو کچھ زیادہ صحت مند نہ ہو کیونکہ صوفی کا تجربہ ایک غیر منظم۹۳؎ دماغ کی پیداوار ہوتا ہے، ایک غیر منظم دماغ جو خللِ اعصاب یا ویسے ہی کسی اور مرض میں مبتلا ہوتا ہے، اس دماغ کے مقابلے میں جو مکمل طبعی۹۴؎ حالت میں ہو، وجدانات کو قبول کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتا ہے چنانچہ ایک نفسیاتی مریض یعنی وارفتہ نفس۹۵؎ شخص بآسانی اپنے لیے صوفیانہ وجدان کے امکان کا مدعی ہوسکتا ہے۔ وہی ’’کسی پیکر موہوم کو نام اور مقام سے منسوب کرسکتا ہے‘‘___لیکن یہاں یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ آیا تمام ذہنی حالتیں عضوی لحاظ سے معین نہیں ہوتیں؟ سائنسی ذہن بھی عضوی لحاظ سے اتنا ہی معین ہوتا ہے جتنا کہ مذہبی ذہن۔‘‘۹۶؎ کیونکہ بعض خاص قسم کے تجربوں کے لیے خاص قسم کا مزاج ضروری ہے۔ علاوہ ازیں یہ کہنے سے کہ مذہبی تجربات خلل اعصاب کا نتیجہ ہوتے ہیں اور فاسد۹۷؎ ہوتے ہیں، یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ یہ تجربات کوئی قدر و قیمت نہیں رکھتے۔ اول تو وہ ان معنوں میں فاسد نہیں ہوتے بلکہ پورے طور پر طبعی حالت کے حامل ہوتے ہیں کہ وہ معروضی حقیقت کو منکشف کرتے ہیں اور ایک ’’وقوفی مافیہ‘‘ رکھتے ہیں۔ وہ محض التباسات۹۸؎ نہیں ہوتے، ثانیاً یہ تجربات فاسد اور خللِ اعصاب کا نتیجہ ہی کیوں نہ ہوں صداقت کے تجربات ہوتے ہیں یہی سبب ہے کہ ایسا تجربہ، صاحبِ تجربہ کی شخصیت کو بدل دینے کی ناقابلِ تغیر قوت رکھتا ہے۔ اس میں ایغو کی قوتوں کو مرتکز کرنے اور اس طرح سے اسے ایک نئی شخصیت عطا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔۹۹؎ وہ صاحبِ تجربہ کے لیے تکمیل اور روحانی نشوونما کے پوشیدہ امکانات کھول دیتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پیغمبر کے معاملے میں یہ نام نہاد خللِ اعصاب اسے اپنی شخصیت کو اجاگر کرنے کی قوت ہی نہیں بخشتا بلکہ اپنے ارد گرد کی ساری دنیا کو ایک نئے سانچے میں ڈھال دیتا ہے۔ وہ اپنے باطنی تجربات کی روشنی میں دنیا کو ناقص اور پسماندہ پاتا ہے اور اپنے روحانی تجربے کے مطابق بنی نوعِ انسان کی زندگی کو ایک نیا ولولہ بخشتا اور ان کے کردار کو سنوارتا ہے۔ کیا یہ سب محض واہمہ ہے؟ نہیں۔ محض ایک وہمی تخیل بنی نوعِ انسان کی تقدیروں کو بدلنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ پیغمبر بھی وہم و گمان کا شکار ہوتا ہے لیکن وہ کھرے کو کھوٹے سے الگ کردیتا ہے۔۱۰۰؎ وہ یہ فیصلہ ’’امرربی‘‘۱۰۱؎ کی روشنی میں کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا تجربہ لاکھوں کے قلوب کو گرما دیتا ہے۔ انسانیت نے ہمیشہ اپنا سرمذہب کے آستانے پر جھکایا ہے اور صرف یہیں اسے سکون اور طمانیتِ خاطر نصیب ہوئی ہے بنی نوعِ انسان کی ساری تاریخ اس امر کی گواہ ہے۔ مذہب کوئی احمقانہ واہمہ نہیں ہے بلکہ ’’اقدار کے مطلق اصول کو گرفت میں لینے کی ایک سوچی سمجھی کوشش ہے۔‘‘۱۰۲؎ یہی وجہ ہے کہ مذہب کو اقدار کی درجہ بندی میں ہمیشہ سب سے بلند مقام دیا گیا ہے۔ یوں بھی نفسیات کو یہ کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ صوفیانہ تجربے کو فاسد کہے جبکہ نفسیات نے ابھی تک صوفیانہ شعور کے متعلق کوئی تحقیق نہیں کی ہے۔ اس نے ابھی تک کسی نابغہ۱۰۳؎ کی نفسیات کا جائزہ بھی نہیں لیا ہے۔ نابغہ کا تجربہ بھی گوکا ملاً طبعی ہوتا ہے تاہم ماہرنفسیات کو خللِ اعصاب کا نتیجہ یا تجربۂ فاسد نظر آسکتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ نفسیات نے ابھی تک نام نہاد عام تجربے سے ہٹ کر تجربات کی دوسری سطحوں کے امکانات کو قبول نہیں کیا ہے۔ ایسی سطحیں اپنے دائرہ عمل میں بالکل معقول اور متین و مستقیم ہوسکتی ہیں اور عام یعنی طبعی سے مختلف عضوی حالتوں سے متعین ہوسکتی ہے۔ عام یعنی طبعی سطح سے مختلف ہر عضوی حالت لازماً فاسد اور اعصابی خلل کا نتیجہ نہیں ہوتی۔۱۰۴؎ اگر ہمیں عام تجربے سے ماورا کوئی اور توقع ہو تو پھر ہمیں اس امر کا سامنا بڑی جرأت مندی کے ساتھ کرنا چاہیے خواہ اس سے ہماری عام طرزِ فکر و اندازِ حیات میں کسی قسم کا خلل یا ردوبدل ہی واقع ہوجائے۔۱۰۵؎ بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ مذہب ہماری دبی ہوئی خواہشات اور ہیجانات کا اظہار۱۰۶؎ ہے۔ ماہرین تحلیلِ نفسی کہتے ہیں کہ انسان اپنے ماحول سے کبھی مطمئن نہیں ہوسکتا، وہ اس سے ناآسودہ ہی رہتا ہے۔ یہ ناآسودگی کچھ تو اس کی شعلہ فشاں روح کی وجہ سے ہے جو ہمیشہ اسے نئی امیدوں اور آرزوؤں کے لیے برانگیختہ کرتی رہتی ہے اور کچھ ان ناقابلِ عبور مشکلات اور محالات کی وجہ سے جن میں وہ گھِرا رہتا ہے۔ وہ اپنی فطرتِ کاملہ کی آسودگی کا لُطف اُٹھانے سے قاصر رہتا ہے۔ وہ صرف اپنی چند خواہشات سے لُطف اندوز ہوتا ہے اور وہ بھی دوسروں کے استخفاف۱۰۷؎ کے بل پر۔ نظر انداز کیے ہوئے ہیجانات اس کے تحت الشعور میں خوابیدہ ہیں تاکہ کسی لمحے بھی شعور میں اُبھرسکیں۔ خواب اور اعصابی خلل اور ایسے ہی دوسرے افعال میں ان مسترد شدہ ہیجانات کو اپنی تسکین کا موقع ملتا ہے۔ مذہب صرف ایک افسانہ ہے جو انھیں مسترد شدہ ہیجانات نے گھڑا ہے تاکہ بے قید پروازِ خیال کو ایک پرستان میسر آسکے۔۱۰۸؎ اس طرح مذہب، اصل میں اس خوفناک سخت و سنگین حقیقت سے فرار کا ایک راستہ ہے جس میں آدمی گھِرا ہوا ہے۔ انسان ایسے افسانے تراش لیتا ہے تاکہ اپنے وجود کو قابلِ برداشت اور زندگی کو بسر کرنے کے لائق بنالے۔ مذہب بھی ایسا ہی ایک افسانہ ہے جو اس کے زخموں پر مرہم رکھتا ہے۔ اس کی کوششوں کو مہمیز کرتا اور اسے اپنے ماحول کی تمام خرابیوں پر غالب آنے کی اُمید دلاتا ہے۔ لیکن اب ’بقول اقبال‘ پہلا سوال یہ ہے کہ ذہن میں ایک ’’لاشعور منطقے‘‘ کا تسلیم کرنا ایک بے دلیل مفروضہ۱۰۹؎ دعویٰ نہیں ہے؟۱۱۰؎ انسان کے طبعی یا عام نفس کے پیچھے کوئی کباڑ خانہ نہیں ہے جہاں پراگندہ ہیجانات منتظر رہتے ہوں۔ بلکہ پراگندہ ہیجانات کا شعور میں اُبھرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ حقیقت کی جوابی عمل کی دوسری راہیں بھی ہیں جو ہمارے ان مروجہ طریقوں کے علاوہ ہیں، جن کے ہم عادی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ لاشعور کی حقیقت کو اگر تسلیم بھی کرلیا جائے تب بھی صوفیانہ تجربے کا لاشعور سے علّی طور پر ۱۱۱؎ ’’متعین ہونا اور اس بنا پر موضوعی ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ صوفی پورے طور پر آگاہ ہوتا ہے کہ وہ ایک معروضی حقیقت کے روبرو ہے جس کا شعوری طور پر ادراک کرتا ہے اور جس کی والہانہ پرستش کرتا ہے۔ صوفی کا تجربہ سائنس دان کے تجربے کی طرح ایک ’’مقرون یعنی موجود فی الخارج تجربہ‘‘ ہوتا ہے جہاں وہم و گمان کا کوئی گزر نہیں ہوتا۔ سچ تو یہ ہے کہ مذہب کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے یہ کہنا چاہیے کہ مذہب نے سائنس سے بہت پہلے مقرون تجربے کی ضرورت پر زور دیا۔۱۱۲؎ تیسری بات یہ ہے کہ اگرچہ بعض مذاہب ایسے ہوسکتے ہیں جو زندگی کے تلخ حقائق سے فرار کے راستے سمجھاتے ہیں لیکن یہ بات ہر مذہب کے لیے درست نہیں ہے، مثلاً اسلام ہمیں زندگی کے مصائب اور مایوسیوں کا مرادانہ وار مقابلہ کرنے کی تلقین کرتا ہے نہ کہ ان سے فرار کی۔ فرائڈ اور آگے جاتا ہے اور ہماری تمام خواہشات کو جنسی ہیجان سے منسوب کرتا ہے۔ اس کے خیال میں چونکہ یہی بنیادی محرک ہے۔ لہٰذا ہماری تمام تمنائیں جنسی ہیجان ہی کی شکلیں ہیں۔ مذہب بھی اس ہیجان کی کارستانی کے سوا اور کچھ نہیں۔ جب ماحول جنسی ہیجان کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے تو جنسی ہیجان لاشعور میں چلا جاتا ہے جہاں ایک مخفی قوت کی حیثیت سے دبا رہتا ہے جو بہرحال اپنا اظہار، عبادت اور پرستش کی مختلف صورتوں میں کرتا ہے۔ اس سے انسان کو جنسی ہیجان کی جزوی اور بالواسطہ تکمیل کا موقع ملتا ہے۔ لیکن اقبال کے نزدیک یہ بات درست نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مذہبی شعور جنسی شعور سے بالکل مختلف ہوتا ہے بلکہ دونوں اکثر ایک دوسرے کے مخالف ہوتے ہیں۔ مذہب، نفسِ انسانی پر پابندیاں عائد کرتا ہے اور جنسی ہیجانات کی روک تھام کرتا ہے، لیکن اس بنا پر یہ نہیں سمجھنا چاہیے، جیسا کہ یونگ نے غلطی سے سمجھا ہے، کہ مذہب، شہوت۱۱۳؎ کی سرگرمیوں پر اخلاقی پابندی عائد کرنے کا محض ایک حیاتیاتی طریقہ ہے۔ یونگ کے مطابق مذہب کا مقصد انسانی معاشرے کے گرد اخلاقی نوعیت کے حصار قائم کرنا ہے تاکہ معاشرے کو ایغو کی بے لگام جبلّتوں سے محفوظ کیا جائے۔ لیکن مذہب محض اخلاقیات سے بڑھ کر اور بھی کچھ ہے۔ اس کا مقصد ایغو کا ارتقا ہے۔ اور اس ارتقا کی تلاش موجود عرصۂ حیات سے بہت آگے کی جانی چاہیے۔ اخلاقیات اور ضبطِ نفس یقینا ہماری تمنائے ارتقا میں معاون ثابت ہوتے ہیں لیکن وہ ایغو کے ارتقا میں محض ابتدائی منازل ہیں۔۱۱۴؎ مذہب کی روح استکمال کی تمنا۱۱۵؎ نہیں بلکہ حقیقتِ مطلقہ سے براہِ راست تعلق کی تمنا ہے، مذہب، جیسا کہ میتھوآرنلڈ نے سمجھا ہے، صرف ’’جذبات بھرے اخلاق‘‘۱۱۶؎ کا نام نہیں ہے۔ وہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کا مقصد تمام زندگی اور وجود کے اساسی سرچشمے سے قریبی ربط حاصل کرنا ہے۔ یہ تمنا عبادت اور پرستش میں اپنا اظہار کرتی ہے۔۱۱۷؎ وجدان کے عمل میں صوفی بھی استکمال کا تمنائی نہیں ہوتا بلکہ اس کی یہی آرزو ہوتی ہے کہ وہ حقیقتِ مطلقہ سے ہمیشہ گہری دوستی رکھے۔۱۱۸؎ اور حقیقت تو یہ ہے کہ بعض صوفیا اس تجربے کے دوران میں اخلاقی ضابطوں کو ان کے رسوم ظاہری سمیت مسترد کردیتے ہیں۔۱۱۹؎ مذہب صرف عقائد اور نظریات کا ایک ضابطہ اور اس لحاظ سے ادعاتی، اخلاقیات کا نام نہیں ہے۔ تمام اچھے مذاہب ’’اقدار کے اصولِ مطلق کو گرفت میں لینے کی دانستہ مہم‘‘ ہوتے ہیں۔۱۲۰؎ تمام مذاہب ہم میں فوق الحواس اور ورا الوراحقیقتِ مطلقہ کا شعور بیدار کرتے ہیں۔ قرآن مجید کا اصل مقصد آدمی میں، اللہ تعالیٰ اور کائنات کے ساتھ اس کے بوقلموں تعلقات و روابط کے برتر شعور کو بیدار کرنا ہے۔۱۲۱؎ اور آدمی کے لیے اس نورافشاں شعور کا مقصدِ نہائی اسے اپنے طور پر حقیقتِ حقّہ کو دریافت کرنے میں مدددیتا ہے۔ مذہبی زندگی کو تین منزلوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایمان، فکر اور اکتشاف یا عرفان۔۱۲۲؎ پہلی منزل میں ہم بلاکسی شک اور شبہے کے جو کچھ ہم سے کہا جاتا ہے اسے بطور عقیدہ یا اصول یا حکم کے تسلیم کرلیتے ہیں۔ دوسری منزل میں ہم عقلی طور پر اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جس پر یقین کرنے کو کہا گیا ہے۔ گویا ہم اپنے ایمان کی ایک مابعد الطبیعیات بناتے ہیں۔ تیسری منزل میں ہم حقیقتِ مطلقہ سے براہِ راست تعلق پیدا کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ اس منزل میں ہم اپنے طور پر تمام قانون اور وجود کے سرچشمے کو خود دریافت کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ہم خود حققتِ مطلقہ کا تجربہ (یعنی مشاہدہ) کرنے کے آرزومند ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ ’’صوفیانہ تجربہ جو باعتبارِ نوعیت یعنی کیفاً۱۲۳؎ انبیا کے تجربے (یعنی احوال و واردات) سے مختلف نہیں ہوتا، اب ایک اہم واقع کے طور پر معدوم ہوگیا ہے۔۱۲۴؎ براہِ راست تجربہ تو ساری مذہبی زندگی کا حقیقی مقصد ہے۔ مذہبی اصول و عقائد پہلی منزل میں ہمیں ایک بوجھ محسوس ہوتے ہیں لیکن ان کی حقیقی معنویت تیسری منزل میں براہِ راست منکشف ہوجاتی ہے۔ اس وقت وہ خارج سے عائد کردہ نہیں رہتے بلکہ پتہ چلتا ہے کہ وہ اس ہستی کی رویت میںممدومعاون ہیں جو تمام قانون اور وجود کا سرچشمہ ہے۔ اس طرح مذہب بنیادی طور پر اکتشاف اور تجربے (یعنی مشاہدے) کا عمل ہے۔ لیکن اب یہ سوال اُٹھایا جاسکتا ہے کہ مذہبی تجربہ خالصتاً شخصی اور ناقابلِ ابلاغ ہوتا ہے۔ صوفی کو جو تجربہ ہوتا ہے وہ ہمیشہ اس کا اپنا ہی رہتا ہے، وہ ایسا نہیں ہوتا کہ تعقلات میں دوسروں تک پہنچایا جاسکے۔ اس لیے وہ علم عامہ کا سرچشمہ نہیں ہوسکتا۔ لیکن اقبال کی رائے میں اس طرح وجدان ایک علم بخش تجربے کی حیثیت سے باطل نہیں قرار پاتا۔ جو علم، وجدان سے حاصل ہوتا ہے وہ ناقابلِ ابلاغ ہوتے ہوئے بھی بہرحال علم ہے، اور حقیقتِ مطلقہ کا براہِ راست علم۔ مذہبی تجربے کے ناقابلِ ابلاغ ہونے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مذہبی آدمی کی سعی و جستجو بے سود ہے۔‘‘۱۲۶؎ علاوہ ازیں اس تجربے کا ناقابلِ ابلاغ ہونا کوئی وزنی اعتراض نہیں ہے۔ یوں دیکھیے تو ہم خود اپنی ذات کا تجربہ دوسروں تک نہیں پہنچا سکتے۔ پھر بھی ہم اس تجربے کے حامل ہوتے ہیں جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ ہماری ذات موجود اور حقیقی ہے۔ یہ بات کہ صوفیانہ تجربہ ناقابلِ ابلاغ ہوتا ہے اس بنیادی صداقت کو ظاہر کرتی ہے کہ ایغو کی اساسی ماہیت نادر و یکتا ہے اور اس کے احساسات اور تجربات کی بوقلمونی نہایت ہی مخصوص نوعیت رکھتی ہے۔ کوئی چیز جو نادر و یکتا ہو عام تعقلات میں قابلِ ابلاغ نہیں ہوتی۔ اور پھر ہم تعقّلات کے ذریعے حاصل ہونے والے علم کو اس قدر مقدس کیوں قرار دیں؟ تعقّلات تو ہمارے روزمرہ تجربات کے بھی پورے طور پر آئینہ دار نہیں ہوتے جیسا کہ برگساں بتاتا ہے کہ: تعقلات علامتیں ہیں جو ان اشیا کا بدل بن جاتی ہیں جن کے لیے وہ بطور علامت استعمال ہوتی ہیں، یہ عمل ہم سے کسی کوشش کا تقاضا نہیں کرتا۔ اگر ان کا بدقتِ نظر جائزہ لیا جائے تو ہر تعقل اشیا کے صرف اسی پہلو کو محفوظ رکھتا ہے جو اس شے میں اور دوسری اشیا میں مشترک ہوتا ہے۔۱۲۷؎ وہ کبھی ہمیں کسی چیز کی انفرادی ماہیت سے آشنا نہیں کرتا۔ جو علم تعقلات کے ذریعے حاصل ہوتا ہے وہ صرف اضافات اور مشابہات پر مشتمل ہوتا ہے، شے بذاتہ یا شے کماہی کا نہیں ہوتا۔ بعض اوقات یہ کہا جاتا ہے کہ صوفیہ کے تجربات ایک دوسرے کی تردید کرتے ہیں مثلاً ایک صوفی الہٰیت۱۲۸؎ یعنی شخصی خدا کے وجود کا اثبات کرتا ہے تو دوسرا ہمہ الہٰیت۱۲۹؎ یعنی وحدت وجود کا۔ اور یہ اختلافات ثابت کرتے ہیں کہ ان کے تجربات معروضی نہیں ہوتے بلکہ صرف ان کے واہمے کی تخلیق ہوتے ہیں۔ یہ تو ایک امر واقع ہے کہ مختلف صوفیوں کے تجربات میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن یہ واقعہ صرف یہ ظاہر کرتا ہے کہ صوفی کے لیے گوناگوں تجربات کے امکانات موجود ہیں۔ اور تجربات، درجات کے حامل ہوتے ہیں۔ آخری تجربہ وہ منزل نہیں ہے جہاں صوفی اپنے آپ کو محبوب کی ذات میں فنا کردیتا ہے اور سمندر میں قطرے کی مانند مل جاتا ہے بلکہ وہ منزل ہے جہاں اس کی شخصیت اور بھی زیادہ محکم اور عمل پذیر ہوئی ہے۔ ایغو کی جستجو کا مقصود انفرادیت کی حدود سے آزادی نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اس کا مقصود انفرادیت کی زیادہ قطعی تصریح ہے۔۱۳۰؎ یہ حصول تدریجی اور یہ تجربہ معروضی ہوتا ہے۔ ژ…ژ…ژ حواشی ۱- مستقبل کی مابعد الطبیعیات کا مقدمہ ۲- Presuppose ۳- Modes ۴- Subjective ۵- Subject ۶- Phenomena ۷- Noumena ۸- Withdrawal ۹- Self-existing ۱۰- تشکیل جدید، ص۱۷۲ ۱۱- ایضاً، ص۱۷۲ ۱۲- Being ۱۳- تشکیل جدید، ص۱۷۳ ۱۴- ایضاً، ص۱۳۰ ۱۵- Dynamic appearance ۱۶- تشکیل جدید، ص۱۹۰ ۱۷- عراقی فارسی کا مشہور صوفی شاعر ہے۔ ۱۸- Gross bodies ۱۹- تشکیل جدید، ص۱۲۹، ۱۳۰ ۲۰- Motion ۲۱- تشکیل جدید، ص۱۳۰ ۲۲- Infinites ۲۳- Given ۲۴- Fixed ۲۵- Growing ۲۶- Subjective constitution ۲۷- اس نکتے پر اقبال روسی مفکر او سپنسکی کے خیالات سے متفق معلوم ہوتے ہیں۔ اس خیال کی وضاحت کے لیے میں نے او سپنسکی کے ان دلائل کا خلاصہ دے دیا ہے جو اس نے اپنی تصنیف ٹرشیم آرگینم Tertium Organum میں پیش کیے ہیں۔ ۲۸- Sensation ۲۹- ٹرشیم، ص۱۰۶ ۳۰- ایضاً، ص۱۰۷ ۳۱- Surface ۳۲- ٹرشیم، ص۱۰۱ ۳۳- Concept ۳۴- ٹرشیم، ص۱۰۲ ۳۵- ایضاً، ص۱۰۴ ۳۶- Spatial phenomenon ۳۷- اقبال: او سپنسکی کے اس خیال سے تو متفق معلوم ہوتے ہیں (تشکیل جدید، ص۳۹، ۳۸) لیکن او سپنسکی زمان کو ایک مظہر مکانی سمجھتا ہے جو مکان میں واقع ہے۔ اس کا چوتھا بعد مکان کے مترادف ہے۔ لیکن اقبال کے نزدیک زمان مکانی نہیں ہے بلکہ استدامی Durational ہے۔ ۳۸- Psychic powers ۳۹- تشکیل جدید، ص۷۱ ۴۰- Serial ۴۱- تشکیل جدید، ص۷۱ ۴۲- Specious present ۴۳- Passage ۴۴- change ۴۵- Succession ۴۶- تشکیل جدید، ص۷۲ ۴۷- Eternal now ۴۸- Duration ۴۹- مصنف نے سہواً یوں لکھا ہے (جس کا ترجمہ یہ ہوتا ہے) کہ ’’تواتر تو ہے لیکن تغیر نہیں‘‘ استدام کا یہ مفہوم بداہتاً غلط ہے۔ (مترجم) ۵۰- Forms ۵۱- Static ۵۲- Reality as it is in itself ۵۳- Immediate ۵۴- Mediate and Indirect ۵۵- Inferential ۵۶- تشکیل جدید، ص۱۷۔ مطلب یہ ہے کہ باری تعالیٰ ریاضیاتی وجودوں کی محض معقول فی الذہن نہیں جس کی خارج میں کوئی ہستی نہ ہو۔ (مترجم) ۵۷- Concrete ۵۸- Data ۵۹- Presence ۶۰- Percept ۶۱- Concept مطلب یہ ہے کہ تعقلات کا تعلق ہمارے ذہن سے ہوتا ہے خارج سے نہیں اور باری تعالیٰ موجود فی الخارج ہے کہ نہ کہ محض موجود فی الذہن (مترجم) دیکھیے تشکیل جدید، ص۱۷۳ ۶۲- Physiological ۶۳- تشکیل جدید، ص۱۵ ۶۴- ایضاً، ص۱۵ ۶۵- Phenomenal world ۶۶- تشکیل جدید، ص۱۵ ۶۷- مقدمۂ مابعد الطبیعیات (انگریزی) از برگساں، ص۱ ۶۸- Categories ۶۹- Relativeدیکھیے تنقیدِ عقل محض (انگریزی) از کانٹ، ص۲۳۲ و مابعد ۷۰- Feeling ۷۱- تشکیل جدید، ص۱۸، ۲۰ ۷۲- Content ۷۳- تشکیل جدید، ص۲۰۔ مطلب یہ ہے کہ کوئی احساس اپنے مقصد سے بے خبر نہیں ہوتا، ادھر احساس کی کیفیت طاری ہوئی، اُدھر اس شے کا خیال بھی ایک جزوِ لازم کی طرح اس میں شامل ہوگیا جس سے اس کو تسکین ہوگی۔ (مترجم) ۷۴- Existential ۷۵- تشکیل جدید، ص۱۷ ۷۶- غرق ہونے کا مطلب یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ ذات اس وحدت میں جذب ہوجاتی ہے یا اس کی کم قدری ہوجاتی ہے۔ اقبال کے نزدیک ذات یعنی خودی فنا نہیں ہوتی بلکہ صوفیانہ تجربے کے عمل میں صرف عارضی طور پر دب جاتی ہے۔ ۷۷- Sense stimuli ۷۸- تشکیل جدید، ص۱۸ ۷۹- Paradoxical ۸۰- Immanemt ۸۱- Beyond ۸۲- Beyond the beyond ۸۳- Response ۸۴- تشکیل جدید، ص۱۸، ۱۹ ۸۵- Sequence ۸۶- Intellectual sympathyدیکھیے مقدمۂ مابعد الطبیعیات، ص۸ ۸۷- تشکیل جدید، ص۹۵ ۸۸- Mental States ۸۹- Diversity ۹۰- اقبال کا خیال وجدان کے حد وسع یا دائرہ کار کے بارے میں بھی برگساں سے مختلف ہے جیسا کہ آگے کے ابواب سے ظاہر ہوگا۔ ۹۱- Potential types ۹۲- Organically determined ۹۳- Disorganised ۹۴- Normal ۹۵- Psychopath ۹۶- تشکیل جدید، ص۲۲ ۹۷- Abnormal ۹۸- Illusions ۹۹- تشکیل جدید، ص۱۵ ۱۰۰- ایضاً، ص۲۲، ۲۶، ۱۸۰ ۱۰۱- Imperative from above ۱۰۲- تشکیل جدید، ص۱۷۸، ۱۷۹ ۱۰۳- Genius ۱۰۴- تشکیل جدید، ص۱۸۳ ۱۰۵- ایضاً، ص۱۷۹ ۱۰۶- Impulses ۱۰۷- At the expense ۱۰۸- تشکیل جدید، ص۲۳ ۱۰۹- Gratuitous hypothesis ۱۱۰- تشکیل جدید، ص۲۳ ۱۱۱- مصنف نے Casually determined لکھا ہے جو غالباً طباعت کی غلطی ہے۔ Casually کا ترجمہ ’’اتفاقیہ طور پر‘‘ ہوگا۔ (مترجم) ۱۱۲- تشکیل جدید، ص۱۷۲ ۱۱۳- Libido ۱۱۴- تشکیل جدید، ص۵۸ ۱۱۵- Yearning for Perfection ۱۱۶- Morality touched with emotion ۱۱۷- تشکیل جدید، ص۵۸ ۱۱۸- Closest intimacy ۱۱۹- مثلاً شمس تبریز، حلاج وغیرہ ۱۲۰- تشکیل جدید، ص۱۷۹ ۱۲۱- ایضاً، ص۸ ۱۲۲- ایضاً، ص۱۷۱ ۱۲۳- Qualitatively ۱۲۴- تشکیل جدید، ص۱۲۰ ۱۲۵- Vision ۱۲۶- تشکیل جدید، ص۱۷۳ ۱۲۷- مقدمۂ مابعد الطبیعیات، ص۱۵ ۱۲۸- Theism ۱۲۹- Pantheism ۱۳۰- تشکیل جدید، ص۳۸۷ خ…خ…خ باب سوم خودی اقبال کا فلسفہ اصل میں خودی کا فلسفہ ہے۔ خودی بیک وقت اقبال کی فکر کا نقطۂ آغاز بھی ہے اور بنیادی نکتہ بھی۔ خودی ہی انھیں مابعدالطبیعیات کی شاہراہ تک پہنچاتی ہے۔ کیونکہ یہ ذات یا خودی ہی کا وجدان ہے جو مابعدالطبیعیات کو اقبال کے لیے ممکن بناتا ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ وجدان انھیں خود حاصل ہوا ہے۔۱؎ ذات یعنی خودی ایک واقعی حقیقت ہے، وہ وجود رکھتی ہے اور اپنے طور پر وجود رکھتی ہے، ہم وجدانی طور پر جانتے ہیں کہ وہ سب سے زیادہ حقیقی ہے، ہم اس کی حقیقت کا براہِ راست وجدان کرسکتے ہیں۔ اس طرح خودی کا وجدان ہمیں اپنے ذاتی تجربے کی حقیقت کا غیرمتزلزل ایقان مہیا کرتا ہے۔ نیز وجدان نہ صرف خودی کی حقیقت کا اثبات کرتا ہے بلکہ اس کی ماہیت اور جوہر کو بھی ہم پر آشکار کردیتا ہے۔ خودی جیسی کہ وہ وجدان میں منکشف ہوتی ہے، ہادیانہ یعنی رہنما،۲؎ آزاد۳؎ اور غیر فانی ہے۔ ہمہ الہٰیت یا وحدتِ وجود کے ماننے والوں نے خودی کی حقیقت سے انکار کیا ہے، وہ مظاہر کی دنیا کو غیر موجود اور غیر حقیقی قرار دیتے ہیں۔ دنیا کو غیر حقیقی قرار دینے کے بعد آدمی بھی اپنی تمام اخلاقی اور سماجی ذمے داریوں اور ولولوں سمیت عدم میں گم ہوجاتا ہے۔ عمل، سعی اور ترقی خواہ افراد کی ہو یا اقوام کی، عقیدہ ہمہ الہٰیت کی اساس پر برقرار نہیں رکھی جاسکتی۔۴؎ لہٰذا خودی کو صحیح معنی میں موجود اور درحقیقت حقیقی ماننا ہمہ الہٰیت کے بنیادی عقیدے کے منافی ہے کیونکہ یہ عقیدہ نہ تو تجربے کے کسی متناہی مرکز کو تسلیم کرتا ہے اور نہ دنیا کو معروضی حقیقت سے متصف کرتا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اقبال عقیدۂ وحدت الوجود یعنی ہمہ الہٰیت کے خطرناک نتائج سے آگاہ ہوتے گئے حالانکہ وہ خود اپنے ابتدائی زمانۂ فکر میں اس عقیدے کے معترف تھے۔ ہمہ الہٰیت کے خلاف ان کی دلیلوں کا خلاصہ یہ ہے: (ا) اول تو یہ کہ معطیاتِ حواس۵؎ اور فکر کی ادراکی سطح کو غیر حقیقی نہیں قراردیا جاسکتا۔ عالم یعنی دنیا وجود رکھتی ہے۔۶؎ ہم اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کرسکتے۔ وحدت الوجودی یہ کہ۔َ۔ سکتا ہے کہ ہمارے حواس ہمیں دھوکا دیتے ہیں اور عالم بظاہر موجود نظر آتا ہے۔ اسی لیے نظریۂ وحدتِ وجود سے ناتا توڑنے کے لیے اس سے زیادہ قوتِ فکر و ایقان کی ضرورت ہے جتنی کہ صرف مظاہر کے ادراک سے ہمیں حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ اقبال ایک اور اہم ملاحظے کو دلیل میں لاتے ہیں۔ یہ نظریۂ وحدتِ وجود کے خلاف ایک ناقابلِ اعتراض تحقیق کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ملاحظہ خودی یا ایغو کی حقیقت کو اپیل کرنے سے عبارت ہے۔۷؎ یہ بات کہ ذات یا خودی کسی نہ کسی مفہوم میں حقیقی ہے، نظریۂ ہمہ الہٰیت بھی پورے طور پر رد نہیں کرسکتا۔ وحدت الوجودی پر یہ واجب ہے کہ وہ اس نام نہاد معروضی عالم کے وجود کی توجیہ کرے اور یہ دو طرح ممکن ہے۔ مظاہر کو یا تو اللہ تعالیٰ کا صدور۸؎ (یعنی اشراق یا تجلی) قرار دیا جاسکتا ہے یا پھر اس کا ظہور۔۹؎ لیکن یہ دونوں کوششیں آخر اس امر پر منتج ہوتی ہیں کہ معروضی عالم میں وجود کے مختلف مدارج ہیں۔۱۰؎ نتیجتاً بعض درجوں کی ہستیاں جو اللہ تعالیٰ کی ماہیت۱۱؎ سے زیادہ قریبی تعلق رکھتی ہیں، دوسری سطحوں کی ہستیوں سے زیادہ حقیقی سمجھی جائیں گی۔ اس طرح وحدت الوجودی بنیادوں پر بھی خودی کی برتر حقیقت کو رد کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ شاید یہی خیال تھا جس نے اقبال کے ابتدائی وحدت الوجودی افکار کی بنیادوں کو ہلاکر رکھ دیا اور انھوں نے باقی مظاہر کے مقابلے میں انسانی خودی کی فوقیت اور حقیقت پر زور دینا شروع کردیا۔ انھیں اس اندازِ فکر میں اپنے استاد میک ٹیگرٹ سے مزید تقویت ملی جو ہیگل کے عین مطلق۱۲؎ کے نظریے کی متابعت کرتے ہوئے حقیقت کو روح مانتا ہے۔ اس روح کو وہ ہیگل کے اصول کے مطابق متمائز یا تفرقی۱۳؎ سمجھتا ہے اور یہ کہ ان تفرقات۱۴؎ میں سے ہر ایک چونکہ کل روح نہیں ہے اس لیے متناہی ہے۔ میک ٹیگرٹ کو تفرقات کے اس اصول میں یہ ثابت کرنے کا امکان نظرآتا ہے کہ متناہی ایغو ہی وجودِ مطلق کے واحد تفرقات ہیں اور اس لیے صرف وہی حقیقی طور پر حقیقی اور غیر فانی ہستیاں ہیں۔۱۵؎ لیکن یہ متناہی تفرقات وجودِ مطلق کی وحدت کو پارہ پارہ نہیں کرتے کیونکہ وحدت وجودِ مطلق کا جوہر ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جبکہ کُل پورے طور پر ہرجزو کے اندر ہو، بصورت دیگر وحدت محض اجزا کے مجموعے میں ملے گی اور یہ اجزا یعنی تفرقات کو خود وجود مطلق سے زیادہ اہمیت دینے کے مترادف ہے۔ علاوہ ازیں تفرقات یا اجزا کو بھی پورے طور پر کُل یا وجودِ مطلق کے اندر ہونا چاہیے۔ بصورتِ دیگر ہیگل کے اصول کے مطابق وجودِ مطلق کی وحدت متناہی اجزا یا تفرقات میں صحیح معنی میں متمائز یعنی متفرق نہیں ہوگی۔ اب کُل اور اجزا کا اس قسم کا تعلق صرف اشخاص کی جمعیت۱۶؎ ہی میں قابلِ فہم ہوسکتا ہے۔۱۷؎ یہاں ہر شخص وقوف کے ذریعے سے کُل کی نمایندگی کرتا ہے۔ خود شعور افراد کل کو یعنی جمعیت کو جانتے ہیں۔ کل جمعیت کے وقوف ہی میں وجود رکھتا ہے۔ چنانچہ کُل ہر فرد میں پورے طور پر نمایندگی پاتا ہے۔ علاوہ ازیں جمعیت کے کُل بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اِن اجزا یعنی افراد کی حامل ہو۔ لہٰذا انفرادی ایغو جو وقوف کی صفت سے متصف ہیں وجودِ مطلق کے لازمی تفرقات قرار دیے جانے چاہئیں، صرف وہی صحیح معنی میں اور کلی طور پر وجودِ مطلق کی نمایندگی کرتے ہیں۔ چونکہ صرف وہی لازمی تفرقات ہیں اس لیے انھیں حقیقی اور غیر فانی ہستیاں قراردینا ہوگا نہ کہ بے بنیاد اور التباسی جیسا کہ وحدت الوجودی سمجھتے ہیں۔۱۸؎ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال اس میلانِ فکر سے اتنے متاثر ہوئے کہ اسی کو اپنے فلسفے کی بنیاد بنالیا۔ وحدت الوجود پر نکتہ چینی کرتے ہوئے وہ بتلاتے ہیں کہ خودی چونکہ حقیقی اور موجود ہے لہٰذا اس کا مقصود وجودِ مطلق میں خود کو جذب کر دینا نہیں ہوسکتا جیسا کہ وحدت الوجودی سمجھتے ہیں۱۹؎ اس میں تو خودی کا ابطال یا انکار مضمر ہوگا۔ یہ خیال کہ میں غیر موجود ہوں، غیر حقیقی ہوں، آدمی کی فکری اور عملی ذات دونوں ہی کے لیے ناقابل قبول ہے۔ میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں۔ ڈیکارٹ کا مشہور تاریخی قول ہے۔ فکر کے عمل میں اُس موضوع کا وجود منطقی طور پر مقدم ہوتا ہے جو فکر کرتا ہے لہٰذا ہمارے سوچنے کے عمل کا موضوع یعنی سوچنے والا ضرور وجود رکھتا ہے۔۲۰؎ اسی طرح ہر عمل میں عمل کرنے والے کا وجود منطقی طور پر مقدم ہوتا ہے۔ میں ارادہ کرتا ہوں اس لیے میں وجود رکھتا ہوں۔ تاہم یہ صرف استنباطات ہیں اور ہمیں دور تک نہیں لے جاتے۔ خودی پھر بھی ایک تعقل ہی رہتی ہے۔ کیا ہم اس سے آگے جاسکتے ہیں؟ اقبال کا جواب اثبات میں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی ذات یا خودی کا وجدان کرسکتے ہیں۔ ہم براہِ راست دیکھ سکتے ہیں کہ خودی حقیقی ہے اور موجود ہے، بلکہ ہماری خودی ہی وہ سب سے حقیقی چیز ہے جسے ہم جان سکتے ہیں۔ اس کی حقیقت ایک واقعہ ہے۔۲۱؎ ہم اس کے بلاواسطہ وجدان کی بنا پر اس کا براہِ راست ادراک کرتے ہیں۔ اور اس کی حقیقت کا اثبات کرتے ہیں۔ یہ وجدان، عظیم فیصلے، عمل اور گہرے احساس کے لمحوں میں ممکن ہے۔ عمل، سعی اور جدوجہد ہماری ہستی کے عمیق نہاں خانوں کو ہم پر کھول دیتی ہے اور ہم براہِ راست اپنی خودی کے موجود ہونے کا ادراک کرتے ہیں۔ خودی ہماری سرگرمی اور عمل کے مرکز کی حیثیت سے منکشف ہوتی ہے۔ یہی مرکز بنیادی طور پر ہماری شخصیت کا بطن البطون۲۲؎ یعنی جوہر ہے۔ اسے ایغو سے موسوم کرنا چاہیے۔ ہماری پسند اور ناپسند، ہمارے فیصلوں اور ارادوں کے پیچھے یہی ایغو کارفرما ہوتا ہے۔ ایغو براہِ راست موجود اور حقیقی ہستی کے طور پر منکشف ہوتا ہے۔ ایغو کے وجود کا علم کسی طرح استنباطی نہیں ہے۔ بلکہ یہ خودی کا اپنا براہِ راست ادراک ہے، یہ وجدان ہے۔ لہٰذا صرف وجدان ہی خودی کے وجود اور اس کے حقیقی ہونے کی سب سے یقینی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ خودی کی ماہیت کیا ہے؟ غزالی خودی کو ذہنی حالتوں اور تجربوں سے بالا ایک جداگانہ شے قرار دیتے ہیں۔۲۳؎ ان کے خیال میں وہ ایک ایسا جوہر ہے۲۴؎ جو سادہ (یابسیط) ناقابل تقسیم اور غیر متغّیر ہے۔ انواع و اقسام کے تجربات آتے جاتے رہتے ہیں لیکن روحانی جوہر ہمیشہ جوں کا توں رہتا ہے۔ لیکن اس تعریف سے ہمیں خودی کی ماہیت کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ پہلے تو وہ ایک مابعدالطبیعی وجود ہے اور اسے اس لیے فرض کیا گیا ہے تاکہ اس سے ہمارے تجربات کی توجیہ ہوسکے۔ لیکن کیا ہمارے تجربات اس میں اسی طرح جاگزیں ہوتے ہیں جیسے کسی جسم میں رنگ؟ کیا وہ خودی سے ویسا ہی ربط رکھتے ہیں جیسے مادی جواہر سے کیفیات۲۵؎ یا خصائص؟ یقینا ایسا نہیں ہے۔ ثانیاً جیسا کہ کانٹ بتاتا ہے تجربے کی وحدت پر روحانی جوہر کا بسیط ہونا اور نتیجتاً غیر متغیر ہونا منحصر سمجھا جاتا ہے لیکن اس وحدت سے نہ تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ ناقابلِ تقسیم ہے، نہ ہی یہ کہ وہ غیر متغیر ہے۔۲۶؎ ثالثاً یہ نظریہ دوہری یعنی بٹی ہوئی شخصیت کے نفسیاتی مظاہر کی توجیہ کرنے سے قاصر ہے۔۲۷؎ اس طرح مابعدالطبیعی مکتبِ فکر خودی کی ماہیت کے بارے میں ہماری کوئی رہنمائی نہیں کرتا۔ قدیم نفسیاتی مکتبِ فکر بھی اس سلسلے میں ہماری کوئی رہنمائی نہیں کرتا۔ نفسیات، خودی یا ذات کو محض حسیات، احساسات اور فکر کا ایک بہاؤ سمجھتی ہے اور ان کا علیحدہ علیحدہ مطالعہ کرتی ہے۔ لیکن یہ نہیں بتاتی کہ وہ ایک دوسرے سے کس طرح منسلک و مربوط ہیں۔ نفسیات خودی کو محض تجربات کا انبار سمجھتی ہے لیکن خودی محض تجربات کا ذخیرہ نہیں ہے۔ تمام انواع و اقسام کے تجربات کے پس پردہ ایک باطنی وحدت بھی ہے اور یہی وحدت ہے جو تمام تجربات کا محور ہے۔ یہ ہماری ہستی کا مرکز ہے۔۲۸؎ نفسیات، خودی کی اس باطنی ماہیت کو گرفت میں نہیں لاتی۔ اقبال کہتے ہیں کہ عقلیت اور تجربیت سے قطع نظر کرکے ہمیں خود اپنے شعور کی باطنی گہرائیوں پر توجہ دینی چاہیے اور وجدان سے کام لینا چاہیے۔ وجدان ہی میں خودی کی حقیقی ماہیت اور جوہر منکشف ہوتا ہے لیکن جس خودی کا انکشاف وجدان میں ہوتا ہے اسے الفاظ اور مروجہ زبان میں بیان کرنا ایک بڑا خطرہ مول لینا ہے۔ ہماری زبان ارفع شعور کے کسی نئے تجربے کو ادا کرنے کا اچھا وسیلہ فراہم نہیں کرتی۔ اسی لیے خودی کی ماہیت کی جستجو کرنے سے پہلے یہ مناسب ہے کہ ہم اس زبان اور اُن مصطلحات کی ناتمامی اور نقص کی معذرت کرلیں جو فکر کے قدیم طریقوں اور روایتی فلسفوں کی حد تک محدود ہیں۔ یہ تو درست ہے جیسا کہ ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں کہ خودی تجربات کی آمدوشد ہے لیکن یہ تجربات کسی بھی حال میں ایک دوسرے جدا نہیں سمجھے جاسکتے اور نہ انھیں ایک دوسرے سے جدا کیا جاسکتا ہے تاکہ فرداً فرداً ان کا مشاہدہ کیا جائے۔ تجربہ مسلسل ہوتا ہے اور درمیان میں کہیں قطع نہیں ہوتا۔ خودی، حسیات، احساسات اور تاثرات وغیرہ کا پیہم، غیر منقطع بہاؤ ہے۔ ہمارے اندر ’’ایک تغیر بلا تواتر‘‘۲۹؎ ہے۔ یہ حرکتِ محض ہے۔ نیز احساسات کی گونا گونی کے پیچھے ایک وحدت ہے جو متنوع تجربات کو موتیوں کی طرح ایک لڑی میں پرودیتی ہے۔ اس طرح بقول برگساں وحدت میں کثرت اور کثرت میں وحدت ہوتی ہے۔۳۰؎ بہرحال وحدت سے یہاں یہی مراد ہے کہ ایک ہی ایغو تمام مختلف تجربات کو محسوس کرتا ہے جسے وہ ’’میرے‘‘ تجربات کے طور پر ادا کرتا ہے یہ ایغو ہی ہے جو تاثرات اور تجربات کے بہاؤ کو محسوس کرتا ہے۔ ایغو اپنی فعلیت میں اپنی قدر و قیمت کا اندازہ کرتا ہے۔ وہ بنیادی طور پر قدر آشنا۳۱؎ ہے۔ لیکن قدر و قیمت کا اندازہ لگانا اسی وقت ممکن ہے۔ جب اس کی فعلیت بامقصد ہو۔ قدر و قیمت کا اندازہ لگانا کامرانی کے بغیر اور کامرانی مقصد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ خودی ہمیشہ کسی سمت میں حرکت کرتی ہے۔ اسی طرح وہ اپنی بنیادی ماہیت میں رہنما یعنی ہادیانہ ہوتی ہے۔ اسی بنا پر خودی کی حیات اساسی طور پر اس کے ارادی رویّوں۳۲؎ میں مضمر ہے، بلکہ فی الواقع اس کی ہستی عمل، آرزو اور تمنا پر منحصر ہے، جو آدمی ان سے عاری ہے، وہ حیات سے عاری ہے۔ حیات ہمارے لیے تمناؤں، آرزوؤں، خواہشوں اور بے تابیوں کے مترادف ہے۔ ہم جتنا زیادہ ان کا ذائقہ چکھتے ہیں اتنا ہی مدارجِ حیات میں اوپر چڑھتے چلے جاتے ہیں۔ ہماری ساری ہستی کا دارومدار خواہشات اور اعمال پر ہے۔ اگر یہ نہ ہوں تو ہماری حیات بے جان اور جامد چیزوں کے مماثل ہوجائے۳۳؎ تمنائیں ایک تخلیقی قوت رکھتی ہیں۔ وہ ہمیں حیات اور عمل کے لیے اُکساتی ہیں، ہمارے سامنے نئے اُفق اور نئے آدرش پیش کرتی ہیں۔ ان کے زیر اثر ہماری ہستی میں زندگی کی ایک لہر سی دوڑ جاتی ہے جیسے ہم کسی برقی توانائی کے زیر اثر ہوں۔۳۴؎ تمناؤں کی یہ تخلیقی قوت جسے اقبال بعض اوقات ’’سوز‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ ہماری شخصیت کا بطن البطون ہے۔ ایغو تمناؤں اور ولولوں کے سوزِ مسلسل میں نشوونما اور وسعت پاکر ایک مضبوط اور طاقت ور شخصیت بن کر اُبھرتا ہے۔ نتیجتاً یہ بات بالکل غلط ہے، جیسا کہ بعض مکاتب فکر نے تعلیم دی ہے کہ ہمیں تمناؤں سے نجات حاصل کرنی چاہیے اور ارفع زندگی عدمِ تمنا سے عبارت ہے۔ یہ تمنائیں عشق میں حددرجہ قوی اور مضبوط ہوجاتی ہیں۔ عشق انھیں ایک نئی حیات، نیا سوز اور حرارت بخش دیتا ہے۔ یہ صرف عشق ہی ہے جس میں آدمی ہمیشہ نئی آرزوؤں، تمناؤں، خواہشوں اور بے تابیوں کا مسلسل اُمنڈتا ہوا سیلاب محسوس کرتا ہے۔ عشق زندگی کو ایک معنی اور ایک نئی قوت بخش دیتا ہے۔ ایغو عشق سے مستحکم ہوتا ہے۔ اقبال کے یہاں عشق بہت وسیع مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے اپنی جانب کھینچنے اور جذب کرنے کی آرزو مراد ہے، قدروں اور آدرشوں کی تخلیق اور ان کے حصول کی کوشش اس کی بلند ترین صورت ہے۔۳۵؎ تمام تمنائیں، خواہ عشق سے تقویت یافتہ ہوں یا نہ ہوں کسی نہ کسی سمت میں حرکت کرتی ہیں ان کے لیے ماحول کا وجود مقدم ہوتا ہے، جب تک کہ ایک معروضی دنیا سے تعلق نہ رکھیں وہ نشوونما پانا تو درکنار زندہ ہی نہیں رہ سکتیں یہی وجہ ہے کہ ایغو کی حیات ایک معروضی حقیقت سے ربط و تعلق قائم کرنے پر منحصر ہے، خواہ اس سے دنیا مراد لیں یا جمعیت و معاشرہ یا حقیقتِ مطلقہ۔ خودی علیحدگی اور تنہائی میں نشوونما نہیں پاسکتی۔ ایغو کو ہر قدم پر کسی غیرایغو کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے، آیا ایغو کی فعلیت خود اس کی اپنی ذات سے متعین ہوتی ہے۔ یا ان چیزوں سے جو خارجی ہیں؟ عام مفہوم میں اس سوال کا مطلب یہ ہے کہ آیا ہم آزاد و بااختیار ہیں یا نہیں؟ کیونکہ بظاہر ایغو اپنے موجودہ ماحول میں گرد و پیش کے مختلف عوامل سے متعین معلوم ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہماری ساری فعلیت آخر کار ہمارے مادی تقاضوں اور طبعی حالتوں سے متعین ہوتی ہے۔۳۶؎ یہی تقاضے اور حالتیں ہمیں عمل پر مجبور کرتی ہیں، ہمارے تمام اعمال میکانکی طور پر قوانینِ علّیت سے مشروط یعنی ان کے پابند ہوتے ہیں۔ علّیت سے یہاں یہ مراد ہے کہ ہر وقوعہ لازماً اس سے پہلے کے ایک وقوعے سے متعین ہوتا ہے۔ بعض مقدمات۳۷؎ ناگزیر طور پر چند خاص نتائج پر منتج ہوتے ہیں۔ چونکہ ایسا کوئی عمل نہیں ہے جس کے بعض ضروری متقدمات نہ ہوں، اس لیے ہمارے سب اعمال اپنے متقدمات ہی سے متعین ہوتے ہیں، بالفاظ دیگر ہمیں کوئی اختیار یا آزادیٔ عمل حاصل نہیں ہے۔ ضروری نہیں کہ متعین کرنے والے عوامل مادی ہی ہوں، وہ ذہنی بھی ہوسکتے ہیں ہمارے احساسات و افکار ہمارے ماقبل احساسات و افکار سے متعین ہوتے ہیں، ایک احساس دوسرے احساس تک لے جاتا ہے۔ اور آخری فکر اپنی ماقبل فکر سے علّی طور پر مربوط ہوتی ہے۔ لہٰذا نہ صرف مادی مظاہر بلکہ ہماری فعلیت اور فکر کی ذہنی دنیا بھی میکانیت اور جبر کے قوانین میں جکڑی ہوئی ہے۳۸؎ کوئی آزادی یا اختیار نہ تو ہم سے خارج کی دنیا میں ممکن ہے اور نہ ہماری ذات یا خودی کے اندر۔ لیکن اگر فکر اور عمل علّی طور پر متعین ہوتے ہیں تو پھر ہم دو نتیجوں تک پہنچتے ہیں۔ اولاً یہ کہ فکر کے طریق عمل، تصدیق یعنی حکم لگانے۳۹؎ کے طریقِ عمل نہیں ہیں، تصدیقات یا حکم نہ صحیح ہیں نہ غلط، اور یہ کہ دنیا میں کوئی نئی فکر یا نیا فلسفہ نہیں ہوسکتا۔۴۰؎ ہمارے تمام افکار لازماً اور کُلاً ماقبل افکار اور فلسفوں سے متعین ہوتے ہیں، گویا فکر کی آزادی حاصل نہیں ہے کہ وہ بھی میکانکی اور مستقل و جامد روابط یا اضافات۴۱؎ میں مقید ہے۔ ثانیاً یہ کہ آدمی کے اعمال چونکہ متعین اور مقرر ہیں لہٰذا اس کا کوئی جواز نہیں کہ ہم اس سے اخلاقی معیاروں کا تقاضا کریں۔ اور اس پر سماجی اور سیاسی احکام عائد کریں۔ اس لحاظ سے نظامِ اخلاق محض ایک دھوکا بن جاتا ہے۔ کیونکہ انسان کے لیے انتخاب کا کوئی موقع نہیں ہے کہ نظامِ اخلاق کو قبول کرے اور اس کے مطابق عمل کرے، ہمارے اعمال ہمارے محرکات۴۲؎ کی طرح متعین اور مجبور ہیں۔ اب خواہ ماہر نفسیات کچھ ہی کہیں، اقبال کہتے ہیں کہ فکر بنیادی طور پر میکانکی نہیں ہے۔۴۳؎ اگر بحث کے لیے مان بھی لیا جائے کہ فکر علّی طور پر حسی تاثرات، احساسات اور ادراکات سے مربوط ہے تب بھی ان احساسات و ادراکات سے بالا ایک فیصلہ کرنے والی خودی یا ذات ہے۔۴۴؎ وہ ان پر اس طرح نظر ڈالتی ہے گویا اوپر سے دیکھ رہی ہو، وہ اپنے آپ کو مختار محسوس کرتی ہے کہ یہ راستہ اختیار کرے یا وہ۔ سوچنے والا موضوع یعنی فکر کرنے والی خودی آزاد ہوتی ہے۔ یہ سارے علم کا بنیادی مفروضہ ہے، اس مفروضے کے بغیر علم ناممکن ہوگا۔ اور تلاشِ صداقت محض ایک مذاق بن جائے گی۔ نیز یہ تو ممکن ہے کہ ایک فکر دوسری فکر کی باعث ہو یا اس پر اثر انداز ہو لیکن دونوں کا تعلق لزوم کا نہیں۔۴۵؎ فیصلہ کرنے والی ذات آزاد ہے کہ دوسروں کی فکر کو قبول کرے، مسترد کرے، یا اپنی فکر کے مطابق بنالے۔ وہ اس کا محاکمہ اسی طرح غیر جانب داری کے ساتھ اور آزادانہ کرتی ہے۔ گویا وہ ایک منصف ہے۔ ہمارے فلسفے، ہمارے فیصلوں کی مانند ہمارے آزاد انتخاب اور آزاد ارادے کا اظہار ہیں۔ ہمیں کوئی فکر متاثر نہیں کرتی تاآنکہ ہمارا ارادہ اسے پسند نہ کرے۔ ہمارا ارادہ ہمارے فکر کی تشکیل میں اور ہمارے فلسفوں میں ایک اہم حصہ لیتا ہے۔۴۶؎ ارادہ ہماری شخصیت کا بطن البطون یا جوہر ہے، وہ برسرعمل ایغو ہے۔ لہٰذا یہ ایغو ہی ہے جو فکر کی قدر و قیمت متعین کرتا ہے اور یہ تعینِ قدر یعنی تثمین۴۷؎ آزادانہ ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں بامقصد فعلیت کا ہماری زندگی میں واقع ہونا ظاہر کرتا ہے کہ ہم ایسی قوتوں سے دھکیلے نہیں جاتے ہیں۴۸؎ جو پُشت سے کارفرما ہے، بلکہ ہم شعوری طور پر مستقبل کی طرف حرکت کرتے ہیں۔۴۹؎ ہماری ساری فعلیت مقصدی یاغائی ہوتی ہے۔ ہماری حیات بامقصد فعلیت کی حیات ہے۔ لیکن یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ مقصد کی مقناطیسی قوت ہمیں اپنی طرف کھینچ رہی ہے گویا جبرولزوم کے تحت ہم کھینچے جارہے ہیں ایسی صورت میں یہ ایک طرح کی معکوس تعلیل ہوگی جو آزادی کے لیے کوئی گنجایش نہیں چھوڑے گی۔ لیکن اول تو مقصد یا غایت ہماری آفریدہ ہے۔۵۰؎ ہم خود ہی اپنے آگے ایک غایت یا آدرش رکھتے ہیں۔ ایغو پہیم نئی آرزوؤں اور غایتوں کو پیش نظر رکھتا ہے اور ان غایتوں کا انتخاب خود ایغو پر منحصر ہوتا ہے، کسی اور چیز پر نہیں۔ ثانیاً اپنے اعمال اور تمنیات میں خواہ وہ اخلاقی ہوں یا غیر اخلاقی، ہم براہ راست اپنی شخصی تعلیل کا شعور حاصل کرتے ہیں۔۵۱؎ جب ہم کوئی ارادہ کرتے ہیں تو یہ جانتے ہیں کہ یہ ہم خود ہی ہیں جو ارادہ کررہے ہیں۔ اس طرح آزادی یا اختیار کا براہِ راست وجدان کیا جاسکتا ہے۔ اختیار براہِ راست ہماری ہستی میں فعال اور حوصلہ آفریں محسوس ہوتا ہے۔ اس لیے اختیار صرف ایک اصولِ موضوعہ۵۲؎ نہیں جسے ہم نظام اخلاق کو ممکن بنانے کے لیے فرض کرلیتے ہیں، جیسا کہ کانٹ سمجھتا ہے، بلکہ وہ خود انسانی شعور کا ایک واقعہ ہے۔ وجدان ہی کے ذریعے ہم اپنی خودی کے عمیق گوشوں میں اُترتے اور اسے فعال اور مختار ادراک کرتے ہیں۔ اس طرح اختیار محض ایک استنباط نہیں ہے بلکہ ایغو براہِ راست اپنے آپ کو ایک علتِ فاعلی۵۳؎ کے طور پر ادراک کرتا ہے نہ کہ دوسرے عوامل پر مبنی۔ سچ پوچھیے تو میکانکی تعلیل سے حیات کے مظاہر کی قطعاً توجیہ نہیں ہوتی۔ جیسا کہ ہالڈین نے بتایا ہے، اس سے تحفظِ ذات اور تولید کی توجیہ نہیں ہوسکتی۔ طبیعی وجود کے دائرے میں بھی میکانکی تعطیل ہماری ایک سہولت بخش اختراع ہے تاکہ ایغو کے تعقلات و روابط کو سمجھا جاسکے، ورنہ وہ ایک حتمی صداقت نہیں ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ ایک وقوعہ دوسرے وقوعے سے کیوں مربوط ہے۔ لیکن ایغو کو ایسے حالات میں رہنا ہوتا ہے جو اس کی فعلیت اور آزادی کے راستے میں رکاوٹیں اور موانعات پیدا کرتے ہیں۔ صرف ان حالات پر قابو پاکر ہی ایغو اپنی آزادانہ فعلیت برقرار رکھ سکتا ہے۔ اسی لیے فکر، دنیا کو مظاہر کی کئی مصنوعی وحدتوں میں تقسیم کردیتی ہے اور اس کے لیے لازم ہوتا ہے کہ انھیں باہم مربوط شکل میں گرفت کرے۔ اس طرح ہمارے لیے ان حالات پر قوی تسلط حاصل کرنے کی صورت پیدا ہوتی ہے اور ایغو اپنی حرکت کو کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رکھ سکتا ہے۔۵۴؎ اسی لیے فکر بھی بالواسطہ ایک وسیلۂ اختیار ہے۔ یہ بات حیوانی اور انسانی دنیا میں پائے جانے والے فرق سے اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے۔ حیوانات چونکہ فکر سے عاری ہوتے ہیں اس لیے مادی حالات کو اسی طرح قبول کرلیتے ہیں جیسے کہ وہ ہیں اور اپنی زندگی ان پابندیوں اور مجبوریوں کے مطابق گزارتے ہیں جو ان پر عائد ہوتی ہیں۔ لیکن وہ بھی حرکت کی ایک اضافی آزادی یا اختیار کے حامل ہیں جو ماحول کے آگے سر تسلیم خم کرنے یا اس سے اختلاف کرنے کی شکل میں انھیں حاصل ہے۔ اگرچہ بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ آدمی بھی اسی ماحول میں جی رہا ہے جو اُسے دیا گیا ہے لیکن وہ (حیوانات کے برعکس) ماحول کی اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اس کی آزادی یا اختیار اس کے اعمال سے ظاہر ہے کہ اُس کا ہر عمل مظاہر کو بدلتا اور سنوارتا ہے۔ اگر اس کے اختیار کے راستے میں مادی حالات (ناقابل شکست) رکاوٹ ڈال دیتے ہیں تو اسے اپنی خودی کے لیے اپنے آپ کو وقف کرلینے کی قدرت تو حاصل ہے۔۵۵؎ اس طرح ہماری فعلیت میں ہر رکاوٹ اور مزاحمت ایغو کی قوت اور بصیرت کو تیز تر کرتی جاتی ہے۔ یہ ہمیں خود شعور بنادیتی ہے اور خود اپنے قلب کے عمیق گوشوں میں ایک آزاد علت اور آزاد شخصیت کو پانے میں مددگار ہوتی ہے۔ یہ کہنا کہ قرآنی تصورِ تقدیر آزادی و اختیار کے منافی ہے۔۵۶؎ درست نہیں ہے۔ کیونکہ تقدیر ایغو کے لیے کسی مقررہ پروگرام سے عبارت نہیں ہے۔ ایغو کو انتخاب اور عمل کی آزادی حاصل ہے۔ تقدیر ایغو کا باطنی دائرہ اثر یا حدِ وسیع۵۷؎ ہے۔ ایغو (کسی خارجی چیز سے نہیں بلکہ) اپنے باطنی امکانات سے محدود ہے لیکن اس تجدید سے ہم پر لازماً جبر کا اطلاق نہیں ہوتا۔ کیونکہ ایغو اپنے امکانات کی حدود کے اندر مختار ہے۔ ایغو نہ صرف کہ یہ مختار ہے بلکہ غیر فانی بھی ہے اور اقبال اس خیال کے قائل ہیں کہ یہ بات وجدان ہم پر واضح کرتا ہے۔ بقائے ابدی یا حیاتِ جاودانی کے بارے میں مختلف تصورات پائے جاتے ہیں۔ ابنِ رشد نے عقل کو عالمگیر اور ابدی قرار دیا۔ اور کہا کہ وہ انفرادیت سے ماورا ہے، اس لیے عقل جو متناہی اشخاص میں نظرآتی ہے کبھی موت سے ہم کنار نہیں ہوتی۔۵۸؎ لیکن یہ تو نوعِ انسانی کے غیر فانی ہونے کی بات ہے نہ کسی فرد کے۔۵۹؎ نیطشے بقائے ابدی کے بارے میں اپنا مقدمہ اس سائنسی مفروضے پر قائم کرتا ہے کہ توانائی کبھی ضائع نہیں ہوتی، دنیا ایک تمام شدہ وحدت۶۰؎ ہے جس میں توانائی ضائع نہیں ہوسکتی۔ توانائی کی مقدار ہمیشہ یکساں رہتی ہے، اس لیے توانائی کے مراکز مختلف امتزاجات کی شکل میں بار بار رونما ہوتے ہیں۔ موت توانائی کے ضیاع کا باعث نہیں ہوسکتی۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ مختلف مراکزِ توانائی اپنی وحدت کھوکر ایک وقفے کے بعد دوبارہ اُبھر آتے ہیں۔ یہ نیطشے کا تکرارِ ابدی کا نظریہ۶۱؎ ہے۔ لیکن ایسی حیاتِ جاودانی تو ’’ناقابلِ برداشت‘‘۶۲؎ ہے۔ اس تصور میں بھی من و تویعنی افراد لافانی نہیں بلکہ توانائی اور اس کے متناہی مراکز میں ابدی تکرار کا عمل لافانی ہے۔ یہ استدلال اس لحاظ سے ابن رشد کے استدلال جیسا ہی ہے جو عقل کو عالم گیر اور لافانی، اور متناہی ایغو میں اس کے ظہور کو اس کے وجود کا عارضی پہلو قرار دیتا ہے۔ برگساں کے ’’جوشِ حیات‘‘ کی صورت میں اس سے مشابہ ہے کہ اس نے جوش حیات کو تمام وجود کے عالم گیر اصول کے طور پر پیش کیا ہے۔۶۳؎ یہ جوشِ حیات بلاانقطاع اپنے آپ کو مختلف صورتوں اور شکلوں، مختلف افراد و اشخاص میں ظاہر کررہا ہے۔ صور و اشکال، افراد و اشخاص کچھ عرصے کے بعد غائب ہوجاتے ہیں لیکن ان کے خاتمے سے خود حیات کا خاتمہ نہیں ہوجاتا۔ حیات بے نہایت اور ابدی ہے، وہ نئے مظاہر اور نئی فعلیتوں کا ایک مسلسل اور ناقابلِ انقطاع عمل ہے۔ لیکن یہ بھی حیات کے جاودانی ہونے کا بیان ہے نہ کہ انفرادی اشخاص کا۔ یہاں بھی شخصی بقائے دوام نہیں ہے جس کی ہم جستجو کررہے ہیں۔ البتہ کانٹ شخصی بقا کا اثبات کرتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اخلاقی عامل یعنی انسان کو خیر کثیر۶۴؎ حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو دو مختلف النوع عناصر، کامل فضیلت۶۵؎ اور کامل مسرت پر مشتمل ہے۔ لیکن اس زندگی کے مختصر عرصے میں یہ تحصیل ممکن نہیں ہے چنانچہ ہمیں بقائے دوام یعنی فرد کے لیے دائمی وجود اور لامتناہی پیش رفت کو فرض کرنا ہوگا۔ بقائے دوام کا یہ تصور بلاشبہ شخصی ہے، لیکن یہ استدلال اس مفروضے پر مبنی ہے کہ فضیلت یا نیکی اور مسرت کی تکمیل یا اہتمام کسی نہ کسی طرح ممکن ہے۔۶۶؎ اگر یہ مان بھی لیا جائے تو یہ واضح نہیں کہ اس ہم آہنگی کو حاصل کرنے کے لیے لامتناہی مدت کیوں درکار ہے؟ کامل فضیلت اور کامل مسرت کا اتمام اگر واقع بھی ہو تو یقینا مستقبل کے کسی لمحے میں ہوگا، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس اتمام کے لیے لامتناہی مدت درکار نہیں ہے اور نتیجتاً انسانی روح کا لافانی ہونا لازمی نہیں۔ اقبال کا کہنا یہ ہے کہ عظیم فیصلے اور عمل کے لمحوں میں ایغو اپنے آپ کو براہِ راست خود مختار اور آزاد ادراک کرتا ہے، وہ اپنی آزاد تعلیل اور حرکت کا براہِ راست اور غیر متزلزل وجدان حاصل کرتا ہے۔ اس طرح اسے زمان و مکان کے مقولات یعنی ذہنی قوالب سے ماورا رکھنا ہوگا جو کہ ہمیں اشیا کو میکانکی اور جبری روابط میں دکھاتے ہیں۔۶۷؎ طبیعیات میں زمان، مکان کے مترادف ہوتا ہے، ایک وقوعہ دوسرے وقوعے کے بعد ہوتا ہے اور زمان اس متسلسل ربط کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس طرح ہر وقوعہ طے شدہ اور جبری ہوجاتا ہے۔ اس سے تو خود ہماری خودی کو بھی متعین فرض کرنا ہوگا۔ کیونکہ زمان کی متسلسل خاصیت کے مطابق ہر احساس اور ہر فکر اپنے سوابق کا لازمی نتیجہ دکھائی دیتی ہے۔ لیکن خود اپنی خودی کے وجدان میں ہم ایک اور زمان پاتے ہیں جو اپنی ماہیت میں متسلسل نہیں ہے۔ جیسا کہ برگساں کہتا ہے کہ وہ ’’استدام‘‘ ہے۔ تغیر بلا تواتر، وہ خالص حرکت ہے۔ ہم اس خالص حرکت کا ادراک اپنے باطنی نفس کا مشاہدہ کرکے حاصل کرسکتے ہیں۔ یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ برسرعمل ایغو یا انائے فعّال خود بخود دائماً حرکت کررہا ہے، کام کررہا ہے اور تمنا کررہا ہے۔ وہ ایک آزاد عامل ہے اور اپنے آپ کو آزادانہ طور پر اپنی تمناؤں اور آدرشوں سے متعین کررہا ہے۔ اعلیٰ آدرشوں اور تمناؤں کو حاصل کرنے کے لیے اس کی یہ حرکت اسے محسوس کراتی ہے کہ وہ ہستی اور وجود کے پیمانے میں ایک مستقل، دائمی عنصر ہے۔۶۸؎ گویا عمل ہمیں اس وجدان سے نوازتا ہے جس میں خودی لافانی نظرآتی ہے۔ ہم اپنی حیاتِ جاودانی کی ایک جھلک اپنی اسی دنیوی زندگی میں وجدان کے ذریعے سے دیکھ سکتے ہیں۔۶۹؎ لیکن یہاں اقبال ایک استثنا بتاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسے ایغو بھی ہوتے ہیں جن میں ایغوئیت کا شعور بہت مدھم طور پر جھلملاتا ہے، اس لیے وہ اپنے قلب کی گہرائیوں میں جھانک کردیکھنے کے اہل نہیں ہوتے۔ چنانچہ وہ اپنے آپ کو خود مختار اور مستقل، دائمی وجود کی طرف بڑھتے ہوئے نہیں محسوس کرتے۔ وہ پھول کی طرح مرجھا جاتے اور اس کی خوشبو کی طرح فضائے صحرا میں معدوم ہوجاتے ہیں۔ بقائے دوام ’’ہمارا حق نہیں بلکہ ہمیں اسے شخصی سعی سے حاصل کرنا ہوگا۔‘‘۷۰؎ ہم اپنے عمل سے اپنی خودی کے شعور کو نشوونما بخشتے اور تقویت دیتے ہیں، نیز یہ عمل ہی کے ذریعے ممکن ہے کہ ہم ایک لافانی ہستی کی حیثیت سے اپنی تکمیل کریں۔ عمل ہی میں ہم اپنے لافانی ہونے کا وجدان کرتے ہیں اپنی حیات ابدی کا براہِ راست وجدان کرلیتے ہیں۔ بقائے دوام کے ’’آہنگ‘‘ کا احساس، عمل اور کشمکش سے گہرا اور بسیط ہوتا چلا جاتا ہے۔ ژ…ژ…ژ حواشی ۱- تشکیل جدید، ص۴۴، ۴۵۔ برگساں کے تصورِ استدام کی توضیح کرتے ہوئے اقبال نے کہا کہ ’’گہرے غور و فکر کے لمحات میں جب کہ انائے فعال معطل ہو جاتا ہے، ہمیں موقع ملتا ہے کہ اپنے عمیق تر نفس میں ڈوب کو محسوسات و مدرکات کے حقیقی مرکز تک جاپہنچیں۔‘‘ (مترجم) ۲- Directive ۳- Free یعنی مختار نہ کہ مجبور ۴- دیباچہ اسرارِ خودی (انگریزی)، ص۱۸ ۵- sense data ۶- تشکیل جدید، ص۹، ۱۰ ۷- دیباچہ اسرارِ خودی (انگریزی)، ص۱۷ ۸- Emanation ۹- Manifestation ۱۰- فلسفۂ عجم (انگریزی)، ص۱۱۶، ۱۳۴، ۱۳۵، ۱۵۵ ۱۱- Nature ۱۲- Absolute Idea ۱۳- Differentiated ۱۴- Differentiation ۱۵- ہیگل کی کونیات (انگریزی) از میک ٹیگرٹ، ص۷۱ ۱۶- Community ۱۷- ہیگل کی کونیات، ص۱۳ ۱۸- ایضاً، ص۳۷ ۱۹- دیباچہ اسرارِ خودی (انگریزی)، ص۱۸ ۲۰- زبورِ عجم، ص۲۳۷ ۲۱- پیامِ مشرق، ص۳۸ ۲۲- Core of our Personality ۲۳- تشکیل جدید، ص۹۵ ۲۴- Substance ۲۵- Qualitites ۲۶- تشکیل جدید، ص۹۵ ۲۷- ایضاً، ص۹۶ ۲۸- Nucleus ۲۹- متن کے لحاظ سے ’’تواتر بلا تغیر‘‘ ترجمہ ہوگا لیکن متن میں طباعت کی غلطی معلوم ہوتی ہے۔ (مترجم) ۳۰- اقبال، برگساں اور نیطشے کے تصوراتِ خودی کا تقابلی مطالعہ آگے کے باب میں دیکھیے۔ ۳۱- Appreciative ۳۲- Will attitudes ۳۳- اسرارِ خودی (انگریزی)، ص۱۶ ۳۴- ایضاً، ص۱۶ ۳۵- دیباچہ اسرارِ خودی، ص۱۵۔ اقبال نے اس نکتے پر اپنی شاعری اور نثر دونوں میں بہت زور دیا ہے۔ نیطشے کی تعلیمات اس نکتے سے اس قدر قریبی نسبت رکھتی ہیں کہ یہ خیال ہوتا ہے کہ اقبال نیطشے سے ضرور متاثر ہیں۔ لیکن وہ اس عنصر کی اخلاقی و روحانی تفسیر و تلقین میں نیطشے سے بہت آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ۳۶- تشکیل جدید، ص۱۰۱ ۳۷- Antecedents ۳۸- تشکیل جدید، ص۱۰۲، ۱۰۳ ۳۹- Judgment ۴۰- فلسفۂ عجم، ص۳۶ ۴۱- Relations ۴۲- Motives ۴۳- تشکیل جدید، ص۱۰۱، ۱۰۲ ۴۴- ایضاً، ص۹۷ ۴۵- فلسفۂ عجم، ص۹۶ ۴۶- دیکھیے فلسفۂ عجم کا مقدمہ اور باب پنجم۔ اقبال نے عجمی فلسفے سے جو بحث کی ہے وہ تمام تر اسی اصول پر مبنی ہے۔ ۴۷- Evalution ۴۸- متن کے لحاظ سے ترجمہ ’’دھکیلے جاتے ہیں‘‘ ہوگا لیکن یہ طباعت کی غلطی معلوم ہوتی۔ (مترجم) ۴۹- تشکیل جدید، ص۱۰۲ ۵۰- ایضاً، ص۱۰۲ ۵۱- مطلب یہ ہے کہ اپنے اعمال و تمنیات کے ذمہ دار ہم خود ہوتے ہیں۔ (مترجم) ۵۲- Postulate ۵۳- Efficient cause ۵۴- تشکیل جدید، ص۱۰۲ ۵۵- ایضاً، ص۱۱ ۵۶- سورہ۵۴ آیت ۵۰ ۵۷- تشکیل جدید، ص۴۷ ۵۸- فلسفہ، اسلام میں (انگریزی) از ڈی بوئر، ص۱۹۴، ۱۹۵ ۵۹- تشکیل جدید، ص۱۰۶ ۶۰- Closed of unity ۶۱- عزم للقوۃ جلد دوم (انگریزی)، دفعہ ۱۰۶۶، ص۴۳۰ ۶۲- تشکیل جدید، ص۱۰۹ ۶۳- اقبال اپنے ابتدائی دور میں جب کہ وہ ہمہ الہٰیت یا وحدۃ الوجود کے قائل تھے، اسی خیال کے حامی تھے مثلاً دیکھیے: بانگِ درا، ص۲۹۲، ۲۹۳ وغیرہ ۶۴- Greatest good۔ کانٹ نے اصل میں شخصی بقا کو خیرِ کثیر پر نہیں بلکہ خیر برترین (Supreme good) پر مبنی کیا ہے جس کا مطلب اخلاقی تکمیل ہے تاہم اقبال نے کانٹ کے تصور پر جو نکتہ چینی کی ہے وہ اس پر بھی برابر صادق آتی ہے۔ ۶۵- Perfect Virtue جس کا ترجمہ کامل نیکی بھی ہوسکتا ہے۔ (مترجم) ۶۶- تشکیل جدید، ص۱۰۷ ۶۷- ایضاً، ص۴۵ ۶۸- دیباچہ اسرارِ خودی، ص۲۳ ۶۹- اقبال اس خیال کے حامل معلوم ہوتے ہیں بقائے دوام کا مسئلہ مابعد الطبیعیات یا اخلاقیات کی بہ نسبت مذہبت کے دائرے میں زیادہ آتا ہے اسی لیے وہ اپنی بحث کو قرآن پر مبنی کرتے ہیں۔ قرآن میں آیا ہے کہ انسان ایغو جس کے ارتقا میں سالہا سال لگ گئے ایک سوکھے پتے کی طرح پھینک نہیں دیا جاسکتا (سورہ ۷۵ آیت ۳۶) اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کے نشوونما کے لا محدود امکانات ہیں علاوہ ازیں قرآن نے برزخ کی حالت کا بھی ذکر کیا ہے (سورہ ۱۰۱ آیت ۱۰۲)۔ اس سے مراد شعور کی وہ ہالت ہوسکتی جو زمان و مکان کے بارے میں ایغو کے روّیے میں تبدیلی کی خاصیت رکھتی۔ زمان و مکان کے بارے میں ہمارا موجود طرزِ خیال ہماری موجودہ جسمانی ساخت پر منحصر ہے۔ اس ساخت کی تحلیل کے ساتھ زمان و مکان کے بارے میں نقطۂ نظر میں تبدیلی بھی ضرور واقع ہوگی اور ہم ایک حالت سے دوسری حالت میں گزرتے چلے جائیں گے اور لافانی ہوجائیں گے (سورہ۸۴ آیت ۹۰) نیز قرآن نے دوبارہ زندہ ہونے کا ذکر کیا ہے اور یہ افراد ہی کے لیے ممکن ہے۔ (سورہ ۱۹ آیت ۹۵) یہ نکتہ اس طرف دلالت کرتا ہے کہ ہمارا متناہی وجود صرف وہمی نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے تبھی تو متناہی فرد سے لامتناہی کی قربت حاصل کرنے کا تقاضا کیا گیا ہے۔ ۷۰- تشکیل جدید، ص۱۱۳ خ…خ…خ باب چہارم عالمِ مادی خارجی عالم وجود رکھتا ہے، وہ موجود ہے اور حقیقی ہے، ہمارے ادراکات ہم پر ایسی حقیقت کو منکشف کرتے ہیں جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ اقبال اور آگے بڑھ کر یہ کہتے ہیں کہ نہ صرف ادراک میں بلکہ علم کی ہر قسم میں علم حاصل کرنے والا موضوع یعنی باشعور نفس ہمیشہ اپنے مقابل ایک معروضی حقیقت رکھتا ہے، موضوع اور معروض یا بالفاظ دیگر عالمِ اور معلوم کی ثنویت تمام علم کے لیے لازم ہے۔ نیز فعلیت و سعی ہمارے شعور کا ایک ٹھوس واقعہ ہے۔ لیکن ہر فعلیت و سعی میں ہم اپنے آپ کو کسی مخالف چیز سے رُکتا ہوا پاتے ہیں۔ ایغو کی حیات مشتمل ہے ایغو کے ماحول پر اور ماحول کے ایغو پر حملے یعنی باہمی جدال پر۔۱؎ ماحول یعنی خارجی عالم کا وجود اس طرح لازمی ہے۔ لیکن اس خارجی عالم کی ماہیت کیا ہے؟ ماہر طبیعیات اپنے مشاہدے اور تجربوں کی بنا پر یہ کہتا ہے کہ اس کی ماہیت مادی ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے سخت اور جامد جواہر سے بنا ہے جو ایک خلا میں واقع ہیں، اس خلا کو ہم مکان کا نام دیتے ہیں۔ یہ جواہر چھوٹے چھوٹے، ناقابلِ تقسیم اورغیر متداخل۲؎ طبیعی وجود ہیں۔ اشیا انھیں جواہر کے امتزاجات ہیں۔ سوائے جواہر کے اور کوئی چیز درحقیقت وجود نہیں رکھتی۔ باقی جو کچھ ہے محض عارضی ہے۔ لیکن اقبال کہتے ہیں کہ طبیعی حقیقت کے بارے میں یہ طرزِ خیال بودا ہے۔ یہ تصور اشیا کو جوہریت سے منسوب کرنے پر قائم ہے جو برکلے کی بحث کے مطابق ناقابلِ قبول ہے۔۳؎ مادّی عالم کے بارے میں قدیم تصور جو ارسطو کے زمانے سے چلا آرہا ہے یہ ہے کہ عالم ایک تکمیل شدہ شے ہے جو خلا یعنی مکان میں واقع ہے۔ یہ تصور، عالم کو طے شدہ اور ناقابل نشوونما بنادیتا ہے۔ لیکن آئن سٹائن کی طبیعیات نے ثابت کردیا ہے کہ یہ تصور باطل ہے۔ اگر اس میں سے تمام اشیا نکال لی جائیں تو کیا مکان تب بھی ویسا ہی رہے گا جیسا کہ اشیا کی موجودگی میں ہے؟ نہیں، وہ یقینا ایک نقطے کی حد تک سکڑ جائے گا۔ لہٰذا مکان ایک معروضی (یعنی خارجی) حقیقت نہیں ہے۔ مکان کے غیر حقیقی ثابت ہونے سے اس میں واقع جامد جواہر کا غیر حقیقی ہونا بھی لازم آتا ہے۔ اس طرح کلاسیکی طبیعیات کی جامد مادیت۴؎ ناپید ہوجاتی ہے۔ مادہ کوئی مستقل چیز نہیں جو مکان میں پڑی ہوئی ہو۔ وہ صرف ’’باہم مربوط حوادث یا وقوعات کا ایک نظام ہے‘‘۵؎ جیسا کہ آئن اسٹائن کہے گا، یا پھر وائٹ بیڈ کے الفاظ میں وہ ایک ’’عضویہ‘‘ یا نامیہ۶؎ ہے۔ لہٰذا عالم، مکان میں موجود جامد جواہر کا ایک مرکب یا مجموعہ نہیں ہے۔ تو پھر مادے کی ایجابی ماہیت کیا ہے؟ ہم نے اب تک سائنس دانوں کا معروضی طریق برتا اور یہ ناکام رہا، اولاً اس لیے کہ یہ طریق محض حسی ادراک سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کی مدد اور رہنمائی سے ہم نے صرف اشیا کے گرد گھومنا سیکھا ہے اور ان کے وجود کی گہرائیوں میں داخل ہونے کے قابل نہیں ہوئے ہیں۔ ثانیاً اس معروضی طریق نے تجربی عالم کو مدرک اور مدرکات کی ناقابلِ تحویل ثنویت میں تقسیم کردیا ہے۔ اقبال اس بات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس بارے میں اقبال کی فکر برگساں کی فکر سے بڑی قربت رکھتی ہے۔ دونوں کے خیال میں ماہیت نہ تو حسی ادراک سے منکشف ہوسکتی ہے نہ فکر سے۔ فکر بھی حسی ادراک کی مانند حقیقت کو سکونی اور جامد فرض کرتی ہے۔۷؎ ارسطو کے زمانے سے لے کر اب تک سارے عقلیتی فلسفے کائنات کو ایک مستقل ٹھوس بلاک یعنی کا لبد قرار دیتے رہے ہیں۔ تغیر اور حرکت کے مقولات یعنی ذہنی قوالب بھی، جو وقتاً فوقتاً کائنات پر منطبق کیے گئے ہیں، کائنات کو جامد اور تعددومعین کردار کا حامل فرض کرتے ہیں۔ علیت کا تصور جو طبیعیات میں برتا جاتا رہا ہے اس بات کو بخوبی ثابت کرتا ہے۔ علّیت کی روح یہ ہے کہ سوابق اور عواقب باہمی طور پر پہلے سے طے ہیں۔۸؎ بقول برگساں تمام فلسفے حقیقت کی ماہیت کے بارے میں ایک فطری تعصب سے آغاز کرتے ہیں، ساری مابعد لطبیعیات اس نقص کی حامل ہے کہ اس کی تفتیش جامد سکونی اور مستقل حقیقت کی تلاش میں ایک پہلے سے طے شدہ سفر ہے۔ لہٰذا ہمیں موضوع (یعنی ذات مدرک) اور اس کے تجربے سے آغاز کرنا چاہیے۔ ہم موضوع کو براہِ راست وجدانی طور پر جانتے ہیں۔ موضوع کو عالم مادی یا معروض کی ماہیت کے بارے میں اپنی تفتیش کا آغاز خود اپنی خودی یا ذات سے کرنا چاہیے۔ اسے آگے بڑھنے کا راستہ مادے کو خود اپنی ذات کی مثال کے طور پر سمجھنے سے ملے گا۔ نامعلوم کا علم، معلوم کی تمثیل یعنی قیاسِ تمثیلی سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ برگساں نے مادے کے علم کو وجدان کے ذریعے حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔۹؎ اقبال کا خیال کچھ اور ہے۔ بقول برگساں وجدان ہمارے لیے قابلِ رسائی پہلے تو خالص ادراک سے کام لینے کی بنا پر ہوتا ہے جو حافظے یعنی یادوں سے غیر ملوث ہوتا ہے، چونکہ انسان میں یادوں کے عناصر کی بہتات ہوتی ہے، اس لیے یہ غیر ملوث خالص ادراک، حیوانی دنیا میں جس قدر ہم نیچے اُترتے جائیں اسی قدر زیادہ ملتا جائے گا۔ ثانیاً بقول برگساں اجسام میں مقامی تغیرات کو مسترد کرنا ہوگا۔ کیونکہ اجسام اس حیثیت سے وجود ہی نہیں رکھتے۔۱۰؎ لہٰذا اشیا کو علیحدہ وجودوں کے طور پر نہیں خیال کرنا چاہیے۔ چنانچہ وجدان کے عمل میں جسم کا مادّہ، اس کی شکل و صورت، اس کی مقدار اور وضع سب کچھ غائب ہوجاتا ہے۔ اور جو کچھ رہ جاتا ہے اسے ایک ’’زندہ تسلسل‘‘ کا نام دیا جاسکتا ہے۔ اس طرح ہمیں جمود اور خالص ادراک میں نرمی کے ساتھ اُتر کر مادے سے مکمل یگانگت اور ہمدردی حاصل کرنی چاہیے۔ لیکن اس کے لیے ہر شے کو فراموش کردینا حتیٰ کہ اپنی ’’ایغو‘‘۱۱؎ (یعنی خودی) کو بھی فراموش کردینا ہوگا۔ اقبال کے خیال میں یہ منزل قابل حصول نہیں ہے، نیز یہ ایسی منزل بھی نہیں ہے جس کی ہمیں تمنا کرنی چاہیے۔ اقبال تو ایغو کے جرأت مندانہ اثبات پر زور دیتے ہیں نہ کہ اس کے کسی اور حقیقت میں انجذاب پر، خواہ وہ حقیقت برتر ہو کہ کم تر۔ اسی لیے اقبال برگساں کے تصور وجدان سے کنارہ کرلیتے ہیں۔ چونکہ وہ اس معاملے میں (یعنی مادے کی ماہیت جاننے کے معاملے میں) خود اپنے ذاتی وجدان کا، اس لفظ کے اپنے بتائے ہوئے معنی میں دعویٰ نہیں کرتے، اس لیے قیاس تمثیلی سے کام لینے پر مجبور ہیں۔۱۲؎ تاکہ عالمِ مادّی کی ماہیت کو متعین کریں۔ تو پھر جب ہم اپنی ذات یا خودی کا وجدان کرتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں؟ برگساں کے الفاظ میں: مجھے گرمی یا سردی لگتی ہے، میں مسرور یا مغموم ہوتا ہوں، میں کوئی کام کررہا ہوتا ہوں یا بے کار ہوتا ہوں، میں اپنے ارد گرد جو کچھ دیکھتا ہوں یا کسی اور چیز کے بارے میں سوچتا ہوں۔ حسیات، احساسات، ارادے اور تصورات اس قسم کے تغیرات ہیں جن میں میرا وجود منقسم ہے اور یہ تغیرات اپنے رنگ میں میرے وجود کو رنگتے رہتے ہیں، گویا میں معدوم ہوئے بغیر متغیر ہوتا رہتا ہوں۔۱۳؎ اب تغیر کا لفظ خود زمان کے تصور کی دلالت کرتا ہے کہ تغیر صرف زمان ہی میں ممکن ہے۔ ذات یا خودی کا وجدان اس نکتے کی تصدیق کرتا ہے۔ وہ زمان جس کا ذکر لوگ عام زندگی میں کیا کرتے ہیں اقبال کے نزدیک حقیقی زمان نہیں ہے۔ عام تصور کا زمان، جیسا کہ نیوٹن نے اس کو بیان کیا ہے: مطلق، صادق اور ریاضیاتی زمان ہے جو فی نفسہ اور اپنی ماہیت سے، بلاکسی خارجی چیز سے نسبت یا تعلق و ربط کے یکساں رواں رہتا ہے۔ اس زمان کو ہم ماضی، حال اور مستقبل کے تصورّات سے ناپتے ہیں۔ کوئی واقعہ یا شے یا تو ماضی میں واقع ہوتی ہے یا حال میں ہوتی ہے یا مستقبل میں واقع ہوگی۔ یہ گویا یوں کہنے کے مترادف ہے کہ کوئی شے یا واقعہ یا تو ’’اب‘‘ ہے یا ’’اب نہیں ہے۔‘‘ سچ تو یہ ہے کہ یہ زمان متعدد الگ الگ ’’آنات‘‘۱۴؎ سے عبارت ہے۔ ہم اس کا خیال مکان میں ایک خط کی طرح کرتے ہیں۔ یہ ’’اب‘‘ اور ’’اب نہیں‘‘ درحقیقت مکان میں ’’یہاں‘‘ اور ’’یہاں نہیں‘‘ کے مترادف ہے۔ یہ متسلسل زمان ہے۔ لیکن اگر ہم عالم سے آنکھیں بند کرلیں اور خود اپنی ذات پر مرکوز کرلیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ: ہم میں ایک مستقل بہاؤ ہے جو کسی اور بہاؤ سے مشابہ نہیں ہے یہاں حالتوں کا ایک ایسا تواتر ہے۱۵؎ جس کی ہر ایک حالت آگے آنے والی حالت کا اعلان بھی کرتی ہے اور جو کچھ اس سے پہلے تھا اس کو اپنے میں لیے ہوئے ہوتی ہے۔ یہ سب ایک مشترک حیات سے گہرے طور پر تحریک یافتہ ہوتی ہیں اور یہ بتایا نہیں جاسکتا کہ ایک حالت کہاں ختم ہوتی ہے اور دوسری کہاں شروع ہوتی ہے۔۱۶؎ درحقیقت ان میں سے کوئی بھی حالت نہ شروع ہوتی ہے نہ ختم ہوتی ہے، بلکہ سب ایک دوسرے میں منضبط ہوجاتی ہیں۔ اس طرح تواتر کے بغیر تغیر ہوتا ہے۔ برگساں اس کو استدام کا نام دیتا ہے۔ زمان کا یہ تصور کُلی طور پر کیفی۱۷؎ ہے (برعکس عام تصورات کے جو کمیتی Quanttative ہے) اور جیسا کہ اقبال نے واضح کیا ہے یہ کیفی تصور ہماری باطنی خودی سے مخصوص ہے۔ اس باطنی خودی کو اقبال نے آشنا قدر۱۸؎ خودی کا نام دیا ہے۔ اس طرح قدر آشنا خودی کا زمان محض واحد ’’اب‘‘ ہے جسے عقلی یا فاعلی خودی عالم مکان سے اپنی وابستگی کے باعث آنات کے ایک سلسلے میں تقسیم کردیتی ہے جسے ایک رشتے میں موتیوں کے دانے۔ گویا یہاں قدر آشنا خودی میں مکان سے غیر ملوث خالص استدام پایا جاتا ہے۔۱۹؎ اس زمانِ خالص میں، ماضی، حال اور مستقبل ایک نامی وحدت بناتے ہیں جس میں سب کچھ بہ یک وقت موجود ہوتا ہے، تمام ہیجانات، خواہشات اور امیدیں پیہم نشوونما پاتے ہوئے بہاؤ اور تغیر کی ایک تغیر وحدت بناتی ہیں۔ یہاں ہمیں میکانکی اور جبری مظاہر نہیں ملتے بلکہ ایک آزاد اور متغیر شخصیت ملتی ہے جس میں کوئی انقطاع نہیں اور جو اپنے لیے نئے نئے مقاصد امیدیں اور تمنائیں پیدا کررہی ہے۔ یہ حرکی شخصیت یا ایغو اپنی بنیادی ماہیت میں حد درجے تخلیقی ہوتا ہے۔ خودی کی تمثیل پر قیاس کرکے یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ طبیعی عالم بھی زمان میں وجود رکھتا ہے۔۲۰؎ لیکن زمان کسی خودی ہی کی خاص ملکیت ہے، لہٰذا عالم کو بھی ایک منفرد خودی ہی سمجھنا ہوگا۔ وائٹ ہیڈ کے الفاظ میں عالم ایک عضویے یا نامیے کی مانند ہے نہ کہ جواہر کے ایک سکونی بلاک یعنی کالبد کی مانند۔۲۱؎ لہٰذا عالمِ مادّی کی ماہیت ایک خودی کی ماہیت ہے، یہ حیات ہے، یہ ایک مستقل بہاؤ اور تغیر ہے۔ حقیقت سکونی نہیں ہے۔۲۲؎ حقیقت کی حیات کے کوئی دو لمحے ایک دوسرے کے مشابہ نہیں ہوتے، اس میں ہمیشہ ایک پیہم فعلیت، عمل اور حرکت ہے حیات کے لیے مادی خول یا جسم ضروری نہیں ہے۔۲۳؎ دراصل حیات کے خارجی مظاہر کو ایک جسم کی ضرورت ہے نہ کہ خود حیات کو۔ یہ نظریہ یا دعویٰ جدید طبیعیات سے بھی توثیق پاتا ہے جس کے مطابق جوہر کی ماہیت برق ہے نہ کہ برقائی ہوئی کوئی شے۔ حیات ایک مابعدالطبیعی وجود ہے، وہ جوشِ حیات ہے۔۲۴؎ لیکن کیا حیات صرف حرکت ہے؟ نیطشے کے مطابق حیات کی ماہیت پیہم فعلیت ہے۔ حیات ہمارے ہیجانات میں بہترین طور پر ظاہر ہوتی ہے۔ ہیجان اپنی ترقی یافتہ صورت میں عام طور پر ’’ارادے‘‘ سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اب اگر ارادے کی اصطلاح کا اطلاق، ہیجانات کی تمام صورتوں پر یعنی پست ترین سے لے کر بلند ترین ہیجانات پر کیا جائے تو حیات کی ماہیت بہترین طور پر ’’ارادے‘‘ میںظاہر ہوتی ہے۔ شوپنہار نیطشے اور برگساں تینوں اس امر پر متفق ہیں۔ برگساں کہتا ہے کہ یہ ارادہ صرف ارادۂ حیات ہے۔ لیکن اقبال اس تصور کو ناتسلی بخش قرار دیتے ہیں کیوں کہ وہ کہتے ہیں کہ ہماری ساری حیات غائی طور پر متعین ہوتی ہے، ہم اپنے لیے نئی نئی امیدوں، آدرشوں اور تمناؤں کا انتخاب کرتے رہتے ہیں اور تمام آدرش، فکر اور ذہانت پر دلالت کرتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خودی صرف ارادہ نہیں ہے بلکہ ارادے اور فکر کے تانے بانے سے بنی ہے۔ فکر ارادے کا متخالف نہیں ہے۔ ہماری فعال زندگی میں فکر، ارادہ اور مقصد سب ایک دوسرے میں گتھے ہوئے ہیں اور ایک نامی وحدت بناتے ہیں۔۲۵؎ نیز انسانی خودی میں محض جینے کا ہیجان ایسا مظہر ہے جو نظر انداز کیے جانے کے قابل ہے، یہ ہیجان صرف حیات کی پست سطحوں میں پایا جاتا ہے۔ انسان میں یہ ہیجان (محض جینے کی بجائے) اچھی زندگی گزارنے کے ارادے کا روپ دھار لیتا ہے۔ یہ امریوں ثابت ہوجاتا ہے کہ انسان ہمیشہ خطرات مول لینے کے لیے تیار رہتا ہے۔ اگر صرف جی لینا ہی مقصود ہوتا، تو پُرخطر مہمات ناممکن ہوتے۔۲۶؎ انسان خطرات کو محض بقائے حیات کے لیے نہیں بلکہ حیات کو بہتر بنانے کے لیے مول لیتا ہے۔ اس مقصد کے لیے بعض اوقات خود زندگی کو قربان کردیا جاتا ہے (یعنی جان ہی کو داؤ پر لگادیا جاتا ہے) بہتر زندگی کی تعریف کئی مختلف تعقلات سے کی جاسکتی ہے۔ نیطشے نے اس کی تعریف عزم للقوۃ کہ۔َ۔ کر کی ہے۲۷؎ وہ کہتا ہے: طاقت کی محبت بنی نوع انسان کا عفریت ہے، آپ انسانوں کو ہر ممکن چیز دے دیجیے، صحت، خوراک، مکان، راحتیں لیکن وہ ہمیشہ ناخوش اور متلون ہی رہتے ہیں کیونکہ یہ عفریت انتظار کرتا رہتا ہے اور اسے مطمئن کرنا ضروری ہے۔ انسانوں سے اور سب چیزیں لے لیجیے لیکن اس عفریت کو مطمئن کردیجیے تو وہ اتنے ہی خوش رہیں گے جتنے ممکنہ طور پر انسان اور عفریت خوش ہوسکتے ہیں۔۲۸؎ ہم میں ارفع سے ارفع خواہشات اور کمالات تک پہنچنے کی ایک ناقابلِ تسکین خواہش پائی جاتی ہے۔ ہم ہمیشہ بلند سے بلند تر تمناؤں کی طرف مائل رہتے ہیں۔ حیات کی یہ فطرت ہے کہ وہ اپنی نشوونما اور توسیع چاہتی ہے۔ ہیجان کا ہر مرکز تمام مکان کا آقا بننے کے لیے، اپنی طاقت میں توسیع کرنے کے لیے اور مزاحمت کرنے والی ہر چیز کو پیچھے دھکیل دینے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ لیکن چونکہ وہ دوسروں کی طرف سے بھی مستقلاً ایسی ہی کوششوں سے دوچار رہتا ہے اس لیے ان سے مفاہمت و مصالحت کرلیتا ہے یعنی وہ ان کے ساتھ جو اُس سے کافی مطابقت رکھتے ہیں، متحد ہوجاتا ہے تاکہ مل جُل کر طاقت حاصل کرنے کا منصوبہ بنائے۔۲۹؎ اس طرح نیطشے کے خیال میں: عالم سوائے عزم للقوۃ کے اور کچھ نہیں ہے۔۳۰؎ نیطشے کے لیے طاقت واحد قدر ہے، مذہب، اخلاق، آرٹ اور سائنس سبھی اس واحد مقصد کے مختلف ذرائع ہیں کہ طاقت حاصل کی جائے۔ اقبال نیطشے سے پورا اتفاق نہیں کرتے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ محض طاقت کے علاوہ انسان کے لیے اور بھی کئی قدریں ہیں مثلاً عشق۔ عشق لازماً قوت کا عشق نہیں ہوتا، نہ ہی وہ قوت کے مترادف ہے، کیونکہ قوت تخریبی بھی ہوسکتی ہے۔ علاوہ ازیں خودی کی نشوونما اور توسیع اُس کی افزونی۳۱؎ یا ارتکاز کے ایک متوازی عمل کے ساتھ ساتھ ہوتی ہے۔ لہٰذا بقول اقبال عزم للقوۃ بالذات نہیں ہے، یہ تو ایک اور آگے کی غایت یعنی حیات کی افزونی یا ارادۂ ایغوئیت۳۲؎ کے لیے ایک ذریعہ ہے۔ یہ آخر الذکر غایت بنیادی ہے۔ عزم للقوۃ خودی کی دوسری صحت مند فعلیتوں کی طرح ہماری ایغوئیت کی تکمیل کرتا ہے۔ لیکن عزم للقوۃ پر ضرورت سے زیادہ زور دینا ایغو کی ہمہ جہتی نشوونما اور وحدت کو پارہ پارہ کردینے کا باعث ہوتا ہے۔۳۳؎ لہٰذا ایغوئیت وہ غایت ہے جس پر ہماری تمام فعلیتیں مرکوز ہوتی ہیں۔ یا انھیں اس طرف رہنمائی کرنی چاہیے۔ شخصیت کا تصور ہمیں ایک معیارِ قدر عطا کرتا ہے۔ اور یہی خیر و شر کا مسئلہ بھی طے کردیتا ہے۔ جو کچھ شخصیت کو مستحکم کرتا ہے خیر ہے اور جو اسے کمزور کرتا ہے وہ شر ہے۔ آرٹ، مذہب اور اخلاقیات، سب کو شخصیت کے نقطۂ نظر سے پرکھنا چاہیے نہ کہ عزم للقوۃ کے معیار سے۳۴؎ لیکن ایغوئیت نہ صرف آخر میں ہوتی ہے بلکہ ابتدا میں بھی ہوتی ہے۔ ہماری زندگی، ہماری فعلیت، خواہشات اور تمنائیں ممکن ہی اس لیے ہوتی ہیں کہ ہماری حیات ایک ایغو ہے۔ ہماری حیات متناہی مراکز میں واقع ہوتی ہے اور متناہی ’’اینیت‘‘۳۵؎ کی شکل اختیار کرتی ہے۔ نیطشے کا عزم للقوۃ اور برگساں کا ہیجان برائے حیات، تجربے کی متناہی مراکز (یعنی ایغوؤں) ہی کی وجہ سے بامعنی کلمات بنتے ہیں۔ چنانچہ خودی کی تمثیل پر قیاس کرکے اقبال ساری کائنات میں انفرادیت اور ایک فرد کی طرح نشوونما حاصل کرنے کا رجحان دیکھتے ہیں جس کی ارفع ترین شکل انسانی ایغو ہے ایغو کی صورت میں فرد، اپنے طور پر خود مکتفی ایک مرکز بن جاتا ہے۔ بقول اقبال عالم اپنی تمام جزئیات سمیت، میکانکی نقطۂ نظر کے مادے کے جوہر سے لے کر انسانی ایغو کی آزادانہ حرکت تک ’’عظیم انائیت‘‘۳۶؎ کا انکشاف ذات ہے۔ ہر جوہر خواہ وہ وجود کی کتنی ہی پست سطح پر کیوں نہ ہو ایک ایغو ہے۔ ہستی کے سارے ساز میں ایغوئیت کا تدریجی طور پر بڑھتا ہوا نغمہ گونج رہا ہے حتیٰ کہ وہ انسان میں اپنی تکمیل کو پہنچ جاتا ہے۔۳۷؎ طبیعی اشیا کی بنیادی ماہیت کو متعین کرلینے کے بعد اب ہم یہ سوال اُٹھا سکتے ہیں کہ آیا ایغو کے لیے جسم ضروری ہے جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔ اقبال کا جواب نفی میں ہے۔ ایغو کے لیے جسم کی ضرورت کا یہ سوال مادے کی ناقص اور مبہم تعریف سے پیدا ہوتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ جوہریت پسندوں نے جو مادے کو جامد و ثابت، سکونی اور مجہول سمجھا ہے، یہ درست نہیں۔ روح یا عزم و ولولہ ہی مطلق حقیقت ہے لیکن اس میں تفرید اور ارتکازِ ذات کا میلان پایا جاتا ہے۔ چنانچہ اسی لیے یہ روح یا عزم و ولولہ اپنے آپ کو جسم اور ذہن میں ظاہر کرتا ہے۔۳۸؎ ذہن اپنی خود شعوری کی خصوصیت کی وجہ سے ایغو کے طور پر تفرید و نشوونما کے عزم کا بہترین ظہور ہے جو اب تک معلوم ہوسکا ہے جسم بھی بنیادی طور پر یہی عزم ہے، البتہ اتنا ہے کہ یہ ’’ذیلی ایغوؤں کا ایک مجموعہ ہے۔۳۹؎ لہٰذا یہ دونوں یعنی جسم اور ذہن اساساً ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہیں۔ بلکہ ذہن ذیلی ایغوؤں کی زیریں بستیوں ہی سے، جنھیں جسم کہتے ہیں، نمودار ہوتا ہے۔ ذہن اور جسم دونوں ایک ہی نظام سے تعلق رکھتے ہیں۔ جسم ذہن کے نمودار ہونے کو ممکن بناتا ہے۔ اس طرح ہم ایک روحانی واحدیت۴۰؎ تک پہنچتے ہیں۔ اب ہوتا یہ ہے کہ ایغو کشاکش یعنی تناؤ امیدو آرزو کے بڑھتے ہوئے عمل سے نشوونما پاتے، متغیر ہوتے اور خود شعوری کی بہتر سطحوں تک پہنچتے ہیں۔ برعکس اس کے بے عملی اور آرام و سکون اس خود مکتفی وحدت یعنی ایغو کو برباد کرتی ہے۔ اس نکتے کے ساتھ ایک اور پُر معنی نکتہ وابستہ ہے۔ اقبال غائیت۴۱؎ کا اثبات کرتے ہیں حالانکہ نیطشے اور برگساں اس کے منکر ہیں۔ نیطشے کے نزدیک کائنات کا کوئی پہلے سے متعین مقصد نہیں ہے۔ وہ کسی مقررہ منزلِ مقصود کی طرف نہیں جارہی ہے۔۴۲؎ کائنات ایک دوری حرکت ہے جو اپنے آپ کو پہلے بھی بے شمار دفعہ دہراچکی ہے اور ہمیشہ دہراتی رہے گی۔۴۳؎ لیکن خود نیطشے کے قول کے مطابق کائنات کی اصل عزم للقوۃ ہے اور عزم للقوۃ بنیادی طور پر تخلیقی ہے۔ لہٰذا عالم خود آفریں آرٹ کا ایک کارنامہ ہے۔۴۴؎ اقبال کہتے ہیں کہ ابدی تکرار، ابدی تکوین نہیں ہے بلکہ یہ وہی تصورِ ہستی ہے جو تکوین کا بھیس بدل کر سامنے آرہا ہے۔۴۵؎ برگساں کے نزدیک غائیت کو تسلیم کرنے سے زمان غیر حقیقی اور ’’بے سود‘‘۴۶؎ ہوجاتا ہے۔ حقیقت کے لیے مستقبل کے دروازے کھُلے رہنے چاہئیں ورنہ وہ آزاد اور تخلیقی نہیں رہے گی۔ برگساں کے جوشِ حیات کی کوئی منزل نہیں ہے۔ وہ اپنے رویے میں بالکل مستبدانہ، غیر ہدایت یافتہ، بے نظم اور ناقابلِ پیش بینی ہے۔ حقیقت ایک آزاد تخلیقی ہیجان کی ماہیت رکھتی ہے۔ خود لفظ ہیجان ظاہر کرتا ہے کہ یہ بے بصر اور متلون قوت ہے جو ہنگامہ خیز اور ہردم متغیر ہے۔ غائیت، حقیقت کے لیے ایک غایت متعین کرکے آزاد تخلیقیت کو محض ایک التباس بنادیتی ہے۔ اس معاملے میں اس حد تک تو اقبال بھی برگساں سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ: اگر غائیت کا یہ مطلب ہے کہ کسی منصوبے پر ایک پہلے سے طے شدہ غایت یا مقصد کے مطابق عمل کیا جارہا ہے تو اس سے زمان ضرور غیر حقیقی یا باطل ہوجاتا ہے۔ اس کی رو سے سب کچھ پہلے سے ابد میں کسی جگہ طے شدہ ہے اور واقعات کی زمانی ترتیب سوائے اس ابدی قالب یا منصوبے کی نقلِ محض کے اور کچھ نہیں۔۴۷؎ غائیت کے اس تصور کے لحاظ سے واقعات یا حوادث واقع نہیں ہوتے بلکہ صرف ہم ان سے دوچار ہوتے ہیں۔ سب کچھ پہلے سے متعین و طے شدہ ہے۔ عالم میں نہ تو کوئی آزادانہ تخلیق ہے نہ نشوونما، جو کچھ ہمیں تخلیق کے طور پر نظر آتا ہے وہ بھی پہلے سے طے شدہ اور مقدر۴۸؎ ہے اور ہم صرف اسٹیج پر متحرک کٹھ پتلیوں کی طرح ہیں جنہیں پردے کے پیچھے سے کھینچا جارہا ہے اگرچہ اس کشش کو ہم دیکھتے نہیں ہیں۔ اس تصور غائیت اور میکانکی علیت میں صرف یہ فرق ہے کہ میکانکی علیت ہمیں پیچھے سے دھکیلتی ہے اور غائیت ہمیں آگے سے اپنی طرف کھینچتی ہے۔ لیکن اقبال ہمیں بتاتے ہیں کہ غائیت کا ایک اور مفہوم بھی ہوسکتا ہے یہ مفہوم ہم پر اس وقت منکشف ہوتا ہے جب ہم اپنے شعور کا تجزیہ کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہمارا براہِ راست تجربہ ہمیں بتاتا ہے ہماری حیات، ہماری خواہشوں، مقصدوں اور غایتوں سے متعین ہوتی ہے اور یہ خواہشیں، مقاصد اور غایتیں خود آفریدہ ہوتی ہیں (یعنی کوئی اور ہمارے لیے متعین نہیں کرتا بلکہ ہم خود کرتے ہیں)۔ اگرچہ ایسی کوئی بعید متعینہ منزلِ مقصود نہیں ہے جس کی طرف ہر حرکت کررہے ہیں تاہم جیسے جیسے حیات کا عمل نشوونما اور توسیع پاتا جاتا ہے، نئے مقاصد، تازہ غایات اور مثالی پیمانۂ قدر کی ترقی پذیر تشکیل ہوتی رہتی ہے جو کچھ ہم ہیں اس کے موقوف ہوجانے ہی سے ہماری تکوین ہوتی ہے، حیات، موت کے ایک سلسلے سے گزرنے کا نام ہے۔۴۹؎ لیکن جب ہم رُک کر کسی خاص نقطے سے اپنی زندگی پر پیچھے مُڑ کر نظر ڈالتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ ہم کچھ بنے ہیں وہ اس لیے بنے ہیں کہ ایک ایسی قطعی غایت سے متعین ہوئے ہیں جس کی ہم نے بالکل پیش بینی نہیں کی تھی۔ ہم پیہم غایات اور مقاصد تخلیق کرتے رہتے ہیں اور جب انھیں تخلیق کرتے ہوتے ہیں تو اپنے آپ کو فاعل مختار محسوس کرتے ہیں۔ لیکن یہ متغیر اور آزادانہ انتخابِ غایات خود ہمیں ایک آخری حالت پر پہنچا دیتا ہے۔ اس آخری حالت کو پہلے سے طے شدہ قرار دینا گویا زندگی میں اختیار کے تصور کو بالکل ہی مسترد کردینا ہے۔ اقبال کے خیال میں برگساں نے ہماری باطنی ماہیت کا مناسب تجزیہ نہیں کیا کیونکہ اس نے یہ تجزیہ پست سطح کی ہستیوں کی تمثیل پر قیاس کرکے کیا لیکن وہاں بھی تو تحت الشعوری مقاصد پائے جاتے ہیں، البتہ انسانی اعمال کی سطح پر یہ مقاصد شعوری ہوجاتے ہیں۔ غایات و مقاصد خواہ وہ شعوری رجحانات کے طور پر موجود ہوں یا غیر شعوری، وہی ہمارے شعوری تجربے کا تانا بانا بناتے ہیں، اور غایات کے تصوّرات کسی مستقبل کے حوالے کے بغیر سمجھ میں نہیں آسکتے۔۵۰؎ اس طرح اقبال غائیت کو قبول کرتے ہوئے بھی حقیقت کے لیے مستقبل کے دروازے کھلے رکھتے ہیں۔ چنانچہ کائنات بھی، ہماری اپنی خودی کی تمثیل پر قیاس کرتے ہوئے ایک آزاد تخلیقی خاصیت کی حامل قرار پاتی ہے۔ وہ بھی حیات کی سی ماہیت رکھتی ہے۔ تمام حیات آزاد، تخلیقی اور جدت پسند ہے، لہٰذا کائنات بھی پیہم نشوونما پانے والی کائنات ہے جو ہر آن پھل پھُول رہی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ کائنات ارادے، فکر اور مقصد کی ایک نامی وحدت ہے۔۵۱؎ وہ ’’غیر منظم، باطل، ظالم، متناقض اور فریبندہ‘‘۵۲؎ نہیں ہے جیسا کہ نیطشے سمجھتا ہے بلکہ عقل اور تدبیر کی حامل ہے۔ وہ قطعی طور پر ایک غایت کی طرف مائل ہے۔ لیکن یہ غایت ہمارے لیے مستقبل میں ہے اور ہمیشہ مستقبل میں رہے گی۔ چنانچہ کائنات کی کوئی آخری حالت نہیں ہے، وہ تو ایک پیہم ترقی پذیر، خود زار اور خود ارتقای کائنات ہے جس کی نشوونما اور ارتقا کے باطنی امکانات کی کوئی حدونہایت نہیں ہے۔۵۳؎ ژ…ژ…ژ حواشی ۱- تشکیل جدید، ص۱۲، ۹۷ ۲- Impenetrable ۳- لاک نے طبیعی اشیا کی خاصیتوں کو دوزمروں میں تقسیم کیا تھا، بنیادی اور ثانوی۔ لاک کے مطابق بنیادی خاصیتیں جیسے جسمیت پھیلائو یا گنجایش صورت شکل وغیرہ اشیا کی خلقی ولا ینفک خاصیتیں ہیں اور ثانوی خاصیتیں جیسے رنگ، آواز، ذائقہ وغیرہ خلقی نہیں بلکہ موضوعی ہیں یعنی مشاہد پر منحصر ہیں برکلے نے واضح کیا کہ بنیادی اور ثانوی خاصیتوں کا یہ فرق من مانا ہے۔ اگر ثانوی خاصیتیں یعنی رنگ، ذائقہ اور آواز وغیرہ موضوعی ہیں تو بنیادی خاصیتیں بھی موضوعی ہی ہیں یعنی مشاہدے پر ہی منحصر ہیں۔ انھیں ثانوی خاصیتوں سے الگ نہیں کہا جاسکتا اور جو بات بنیادی خاصیتوں کے لیے درست ہے وہی بنیادی جوہر پر بھی صادق آتی ہے جس سے اشیا عبارت سمجھی جاتی ہیں برکلے نے کہا کہ بنیادی جوہر کا تصور بے سود ہے، اس تصور کے لیے کوئی اصل بنیاد نہیں ہے چنانچہ عالمِ خارج معروضی طور پر وجود نہیں رکھتا۔ لیکن اقبال برکلے کی طرح خارجی عالم کے وجود سے انکاری نہیں ہیں۔ وہ اشیا یعنی معروضیت کی جوہریت کو نہیں مانتے اور آئن سٹائن سے اتفاق کرتے ہیں جس نے جوہر کی معروضی یعنی خارجی ماہیت کو رد نہیں کیا بلکہ اس تصور کو رد کیا کہ جوہر محض مکان میں واقع کوئی چیز ہے۔ ۴- Fixed materiality ۵- تشکیل جدید، ص۳۶ ۶- Organismتشکیل جدید، ص۳۷ ۷- تشکیل جدید، ص۴۹ ۸- اس قسم کا استدلال اقبال کے یہاں اگرچہ صاف صاف اور واضح الفاظ میں نہیں ہے لیکن مقدر ضرور ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ علت کا تصور جس کا بنیادی خلاصہ یہ ہے کہ معلول سے مقدم ہے، سائنس کے نفس مضمون کے لیے متلازم ہے۔ دیکھیے تشکیل جدید، ص۴۹، ۱۸۵ ۹- تخلیقی ارتقا (انگریزی)، ص۲۵۱ ۱۰- مادہ اور ذہن (انگریزی)، ص۶۹، ۲۶۸ ۱۱- I-am-ness ۱۲- تشکیل جدید، ص۴۴، ۴۸ ۱۳- تخلیقی ارتقا، ص۱ ۱۴- Nows ۱۵- Succession ۱۶- مقدمۂ ما بعد الطبیعیات، ص۹، ۱۰ ۱۷- Qualitative ۱۸- Appreciative Self ۱۹- تشکیل جدید، ص۴۷ ۲۰- ایضاً، ص۴۴ ۲۱- ایضاً، ص۳۶، ۳۷ ۲۲- ایضاً، ص۴۸ ۲۳- ایضاً، ص۴۸ ۲۴- Elan Vital ۲۵- تشکیل جدید، ص۵۰تا۵۲ ۲۶- بانگِ درا،ص۲۹۲ تا۳۲۳، پیامِ مشرق،ص۳۳، ۴۰، ۱۴۳، ۱۴۵ ۲۷- عزم للقوۃ (انگریزی)، جلد دوم، دفعہ ۶۳۶، ص۱۲۱ ۲۸- طلوع صبح (انگریزی) دفعہ ۲۶۳، ص۲۴۸ ۲۹- عزم للقوۃ دفعہ ۶۳۶، ص۱۲۱ ۳۰- عزم للقوۃ دفعہ ۱۰۶۷، ص۴۳۲ ۳۱- Intensification ۳۲- یہ اصطلاح اقبال کی نہیں ہے بلکہ میری اختراع کردہ ہے۔ ۳۳- اسرارِ خودی (فارسی)، ص۴۴ تا۵۸ ۳۴- مقدمۂ اسرارِ خودی (انگریزی)، ص۲۲ ۳۵- This-ness مقدمہ اسرارِ خودی (انگریزی)ص۱۶۔ مطلب یہ ہے کہ مکان کی حدود قبول کرتی ہے۔ ۳۶- The great I-am ۳۷- اقبال کا یہ موقف لائبنز کے موقف سے بہت مشابہ ہے۔ لائنبز کائنات کو قوت کی ماہیت جیسا سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ قوت قوتی وحدتوں میں اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہے جنھیں وہ ’’حونادرت‘‘ کا نام دیتا ہے۔ لیکن اقبال اور لائبنز میں بڑاق فرق یہ ہے کہ لائبنز کائنات کی ماہیت کو قوت میں منکشف سمجھتا ہے نہ کہ حیات میں۔ حیات قوت سے بڑھ کر کوئی چیز ہے۔ لائبنز اگرچہ بعض اوقات اختیار اور ارادے کا بھی ذکر کرتا ہے لیکن اسے موناد کے لیے بنیاد نہیں بناتا، وہ اس بارے میں بہت مبہم ہے۔ برعکس اس کے اقبال کائنات کی بنیادی ماہیت کو ارادیت عزم اور فکر سے عبارت سمجھتے ہیں۔ جیساکہ ہم دیکھ چکے ہیں انھوں نے اس بارے میں برگساں کے تصور کو بھی بہتر بنایا ہے۔ اقبال فکر کو بنیادی طور پر ارادے کا متخالف نہیں سمجھتے، لہٰذا ان کا تصورِ کائنات مبنی بر فعلیت ارادی ہے درحالیکہ لائنبز نے اپنے آپ کو صرف قوت کے طبیعی مقولے تک محدود کرلیا ہے۔ اس کے علاوہ لائنبز کا موناد طبیعیات کے جوہر کی طرح ہے بایں اختلاف کہ یہ ایک قوتی جوہر ہے نہ کہ مادی۔ لیکن ایک موناد کے لیے ہیولیٰ Materia Prima ایک ناگریز ضرورت ہے۔ خود خدا بھی اسے ہیولیٰ سے محروم نہیں کرسکتا جس کے بغیر وہ فعل محض Actus purus یعنی خود خدا ہوجائے گا۔ (دیکھیے لائبنز کا فلسفہ از رسل ص۱۴۴)۔ لیکن خدا کسی موناد کو مادۂ ثانوی Materia Secundus یعنی ان مونادوں کے اجتماع سے جو اس کے جسم کو بناتے ہیں محروم کرسکتا ہے۔ اس کے برعکس اقبال کے نزدیک ایغو مادی ہے ہی نہیں۔ ایغویت کو انفرادی و خود شعور حیات کی طرف ایک میلان کے طور پر سمجھنا چاہیے۔ مادی خول حیات کے لیے ضروری نہیں بلکہ حیات کے مظاہر کے لیے ضروری ہے۔ ۳۸- زبورِ عجم، ص۱۷، ۲۱۶ ۳۹- تشکیل جدید، ص۱۰۰ ۴۰- Spiritual monism ۴۱- Teleology ۴۲- عزم للقوۃ (انگریزی) جلد دوم دفعہ ۵۱۵، ص۳۰ ۴۳- عزم للقوۃ جلددوم دفعہ ۱۰۶۶، ص۴۳۰ ۴۴- ایضاً، دفعہ ۶۱۷ ص۱۰۸، دفعہ ۱۰۵۹ ، ص۴۲۴ ۴۵- تشکیل جدید، ص۱۷۷ ۴۶- تخلیقی ارتقا (انگریزی)، ص۴۱ ۴۷- تشکیل جدید، ص۵۱۔ مصنف نے اقبال کا اقتباس جس طرح نقل کیا ہے اس کی رُو سے ’’نقل محض‘‘ کی جگہ ’’تکرار محض‘‘ ترجمہ ہوگا۔ میں نے اصل اقتباس کا ترجمہ دیا ہے۔ (مترجم) ۴۸- Preordained ۴۹- تشکیل جدید، ص۵۲ ۵۰- ایضاً، ص۵۱، ۵۵ ۵۱- ایضاً، ص۲۰ ۵۲- عزم للقوۃ جلد دوم، دفعہ ۵۲۳، ص۳۸ ۵۳- تشکیل جدید، ص۵۴ خ…خ…خ باب پنجم وجودِ مطلق یا خدا جیسا کہ گذشتہ باب میں واضح کیا گیا، کائنات ایک آزاد تخلیقی ارادے کی ماہیت رکھتی ہے، تمام موجودات کی تہ۔َ۔ میں یہی ارادہ کارفرما ہے، یہ تمام مظاہر میں پھوٹا پڑ رہا ہے، تمام حقائق میں اپنا اظہار کررہا ہے، اس کے پیچھے کوئی طاقت یا دباؤ کارفرما نہیں، یہ کسی جبری قانون کے تابع نہیں کیونکہ ایسی صورت میں وہ تخلیقی نہیں رہے گا۔ اب اس آزاد تخلیقی ارادے کو دو طرح سمجھا جاسکتا ہے، یا تو یہ ایک بے بصر قوت ہے جو اپنے سامنے کوئی مقصد نہیں رکھتی یا پھر یہ مقصدی قوت ہے اور اپنی تخلیق کو ایک غایت کے لحاظ سے متعین کرتی ہے۔ بے بصر قوت کا مفروضہ دو لحاظ سے مشکوک ہے۔ اولاً یہ کہ عالم جیسا کہ ہم اسے جانتے ہیں ایک گڈمڈ اور متنافض انبار نہیں ہے۔ جہاں تک ہم دیکھتے ہیں وہ ایک غائی اور معقول کل ہے، وہ اٹکل پچو نہیں ہے بلکہ اس میں ایک معقولیت ہے۔ ہماری کائنات ایسی کائنات ہے جس میں نظم و نسق کی حکمت ہے۔۱؎ ثانیاً یہ کہ ہمارے شعور کے واقعات بھی اسی طرف رہنمائی کرتے ہیں کہ ہماری زندگی قانون و اصول سے عاری نہیں ہے بلکہ قطعی طور پر غایات سے متعین ہوتی ہے۔ تمام انسانی اعمال مقصدی ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں دوسرے متبادل نظریے کو تسلیم کرکے کائنات کو اساسی طور پر عقلاً ہدایت یافتہ تخلیقی حیات سمجھنا چاہیے۔۲؎ البتہ اب یہ سوال پیدا ہوگا کہ عالم اپنے سے خارج میں کسی ہستی سے ہدایت یافتہ ہے یا وہ خود ہی ایک ذات یا خودی ہے جو ذی عقل اور بامقصد ہے؟ پہلا مفروضہ کہ کائنات، خارج کی کسی ہستی سے ہدایت یافتہ ہے ناقابلِ قبول ہے کیونکہ اس صورت میں ایک تو غایت کو کائنات پر اوپر سے تھوپنا پڑے گا۳؎ اور اس سے کائنات میں تمام تخلیقی آزادی محض ایک التباس بن جائے گی کہ غایت پہلے سے دی ہوئی ہے اور خارج سے دی ہوئی ہے اور کائنات اسی سے متعین ہورہی ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ ہستی خود اس مواد کی خالق نہیں ہوگی جس کی وہ ہدایت و رہنمائی کررہی ہے۔۴؎ اس طرح یہ ہستی محض ایک ناظم کی حیثیت رکھے گی۔ تیسرے یہ کہ اگر کسی طرح سے اُسے خود ہی مادے کا خالق مان لیا جائے تو پھر اس کی دانش سے یہ بات متصادم ہوتی ہے کہ وہ اپنے سے علاوہ ایک مادہ تخلیق کرکے اپنے لیے خود ہی مشکلات پیدا کرلے۔۵؎ لہٰذا یہ مفروضہ کہ عالم سے باہر ایک ہستی ہے جس نے کائنات کے لیے ایک غایت متعین کردی ہے، ناقابلِ قبول ہے۔ اس طرح دوسرے متبادل نظریے کو مانے بغیر چارہ نہیں کہ کائنات خود ہی ایک خودی یا ایغو ہے۔۶؎ یہ مفروضہ ہماری اپنی خودی کے تجربے سے بخوبی توثیق پاتا ہے۔ ہماری حیات ایک ایغو کی حیات ہے، یہ شعور کا محض ایک بہاؤ نہیں ہے بلکہ اس میں ایک مرکز بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ساری حیات اپنی نوعیت میں انفرادی ہے، ہر طرف ایغوئیت کا عزم کارفرما نظرآتا ہے۔۷؎ ساری کائنات میں ایغوئیت کا ایک تدریجی، بڑھتا ہوا نغمہ سنائی دیتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ اپنی اضافی تکمیل انسان میں حاصل کرلیتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہمیں ایک ہمہ محیط ایغو کے وجود کو بھی ماننا ہوگا۔۸؎ کیونکہ کائنات کو بطورِ کُل ایک ایغو ہی سمجھنا چاہیے۔ کائنات ایک ارادے کی حامل ہے اور ارادہ چونکہ مقصدی ہوتا ہے اس لیے کائنات کو بھی مقصدی ماننا چاہیے اور یہ اُسی وقت ممکن ہے کہ خود کائنات کو ایک ایغو سمجھا جائے۔ اب ایغوئیت کا جوہر اس کی انفرادیت کے نجی حلقے میں مضمر ہے۹؎ اور انفرادیت کی بنیادی ماہیت اس کا رہنمایانہ یا ہادیانہ عمل ہے۔۱۰؎ لہٰذا ایغوئیت حوالے کا ایک نقطہ ہے، چنانچہ کائنات کو محض حوادث یا وقوعات کا ایک بہاؤ نہیں سمجھنا چاہیے۔۱۱؎ بلکہ حوالے کے ایک مرکز یعنی ایغوئیت کا حامل سمجھنا چاہیے۔۱۲؎ اس طرح اقبال ہمہ الہٰیت سے علیحدہ اپنا راستہ بناتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایغوئے مطلق یا خودی مطلق کا تعلق متناہی ایغوؤں کے ساتھ کیا ہے؟ اس تعلق کو تین طریقوں سے سمجھا جاسکتا ہے: ۱- اول یہ کہ خودیِ مطلق واحد حقیقت ہے اور متناہی ایغو اس میں جذب ہیں اور ایغوئے مطلق سے الگ کوئی وجود نہیں رکھتے، صرف ایغوئے مطلق حقیقی ہے۔ ۲- دوم یہ کہ ایغوئے مطلق، متناہی ایغوؤں کے وجود کو مٹائے بغیر انھیں اپنی خودی میں لیے ہوئے ہے۔ ۳- سوم یہ کہ ایغوئے مطلق متناہی ایغووں سے الگ اور بالا ہے۔ اقبال تیسری صورت کو یکسر مسترد کردیتے ہیں۱۳؎ یہ صورت متناہی اور لامتناہی میں ایک خلیج پیدا کردیتی ہے وہ کہتے ہیں کہ: جس لامتناہی تک متناہی کی نفی کرکے پہنچا جائے وہ باطل لامتناہی ہے، نہ تو اس طرح خود لامتناہی کی توجیہ ہوسکتی ہے، اور نہ اس متناہی کی جسے ہم اس کے مقابل میں لاتے ہیں۔۱۴؎ اول الذکر موقف حقیقتِ مطلقہ سے شخصیت و ایغوئیت منسوب کرتا ہے اور اس ہمہ اوستی طرزِ فکر سے آگے ایک مثبت قدم ہے جو حقیقت کی ماہیت نہائی کو ایک غیر شخصی خاصیت کا حامل سمجھتا ہے مثلاً نور، قوت، حیات، ارادہ، فکر یا عقل وغیرہ۔۱۵؎ تاہم یہ طرزِ فکر اب بھی ہمہ اوستی مسلک سے وابستہ ہے کیونکہ اس کی رو سے حقیقتِ مطلقہ کے سوا اور کچھ وجود نہیں رکھتا، متناہی ایغو اس میں جذب اور غرق ہیں اور اس لحاظ سے وہ اپنی کوئی ہستی نہیں رکھتے۔ اقبال اس موقف کو بھی مسترد کردیتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اول تو خودی کا وجدان ہم پر یہ منکشف کرتا ہے کہ خودی اپنی ایک ہستی رکھتی ہے۔۱۶؎ وہ اپنی ہستی کا شعور رکھتی ہے اور اپنی آزادی و اختیار کا بھی شعور رکھتی ہے۔ وہ کسی خارجی قوت مثلاً ایک برتر ایغو سے متعین نہیں ہوتی، اس کی فعلیت بنیادی طور پر اُن غایتوں اور مقصدوں سے متعین ہوتی ہے، جو خود اس کی آفریدہ ہیں۔ علاوہ ازیں اس کی ہستی ابدی ہے، آزاد فعلیت اس کی حیاتِ دائمی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ثانیاً ہم یہ تسلیم نہیں کرسکتے کہ ہماری زندگی میں جو چیزیں بہترین اور حسین ہیں وہ بالکل نکمی اور بے قدر و قیمت ہیں، کیا میری حیات صرف ایک تفریحی کھیل کے طور پر تخلیق ہوئی ہے اور کیا یہ بات ساری بنی نوعِ انسان کے لیے بھی درست ہے؟ یقینا ایسا نہیں ہے۔۱۷؎ زندگی کے حقائق حیاتیات کی دنیا میں پیہم ترقی اور ارتقا کی طرف اشارہ کرتے ہیں،۱۸؎ لیکن ماہرِ حیاتیات اس مفروضے پر قناعت کرلیتا ہے کہ انسان ارتقای عمل کی آخری کڑی ہے۔ یہ مفروضہ بے سند ہے۔ انسان نے پست ترحیات سے نشوونما پائی ہے اور یہ سمجھنا غلط ہے کہ اس پر ارتقای عمل ختم ہوگیا ہے۔ ارتقا کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ ترقی ایک اضافی اصطلاح ہے اور اس کی کوئی حدود نہیں۔ علاوہ ازیں اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ انسان اور کائنات اپنے ارتقا کے آخری نقطے پر پہنچ گئے ہیں تو ہماری زندگی اور ہمارا وجود ناقابل برداشت ہوجائے گا کہ اس میں کوئی سعی اور کوئی تمنا باقی نہیں رہے گی۔ ابدی حالتِ تکمیل یا اس تکمیل کی ابدی تکرار جس کا نیطشے قائل ہے، ہماری کائنات اور ہماری حیات کو ہمیشہ کے لیے جامد اور متعین بنادیتی ہے۔۱۹؎ لیکن نشوونما اور تخلیق کا امکان فطرت اور خودی کے مشاہدے سے بخوبی ثابت ہوجاتا ہے۔ کیا یہ سب کچھ غیر حقیقی ہے؟ نہیں۔ ثالثاً وحدت الوجودی صوفیہ و مفکرین جس تجربے پر اپنے نظریے کو مبنی قرار دیتے ہیں، خود ان کی بنیادوں پر مشکوک ہے۔ مثلاً مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندی اس نظریے کی صحت کو اپنے صوفیانہ تجربے یعنی وارداتِ روحانی کی بنا پر محلِ نظر سمجھتے ہیں۔ ان کے صوفیانہ تجربے کے مطابق جو حقیقتِ مطلقہ ان پر منکشف ہوئی وہ شخصی ہے،۲۰؎ وہ کوئی غیر شخصی ہستی نہیں جیسے قوت، ارادہ، نور وغیرہ، وہ خود شعور ہے اور ہم اس کو جوابی عمل کے واقعے سے جان سکتے ہیں۔ یہ خودی مطلق ہماری التجاؤں کو سُنتی اور ہمارے افکار و احساسات کو سمجھتی ہے۔ علاوہ ازیں حقیقتِ مطلقہ کا وجدان ہماری اپنی خودی کو مٹا نہیں دیتا، البتہ وجدان کے واقعی عمل میں صاحبِ تجربہ یعنی مُشاہد کی نجی شخصیت وقتی طور پر دب جاتی ہے۔ لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ وہ پورے طور پر مٹ جاتی یا فنا ہوجاتی ہے۔ لہٰذا صوفیہ یہ سمجھنے میں غلطی پر ہیں کہ وجدان کے عمل میں عالم اور معلوم ایک ہوجاتے ہیں۔ حق یہ ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ معلوم ہمیشہ عالم سے الگ اور غیر رہتا ہے۔۲۱؎ البتہ وجدان میں ایک لحاظ سے عالم اور معلوم ایک ہوجاتے ہیں، وہ یوں کہ صوفی اللہ تعالیٰ کے لیے اپنے انتہائی عشق اور جذبے کی وجہ سے اس کے خیال میں پورے طور پر جذب ہوجاتا ہے۔ یہ تجربہ اس سے اپنے احساسات کی شدت کے مطابق اضافی طور پر کلی طور پر اپنے آپ کے غیر موجود یا فنا ہوجانے کا دعویٰ کراتا ہے، وہ فی الواقع جذباتی طور پر ایغوئے مطلق میں جذب اور غرق ہوجاتا ہے لیکن یہ انجذاب و غرق وجودی نہیں ہوتا یعنی اس کا وجود مٹ نہیں جاتا۔ اس کے علاوہ جس طرح مجدد الف ثانی نے بتایا ہے اس وجدان کے مختلف درجے ہیں۔۲۲؎ صوفیہ بالعموم ابتدائی منازل ہی پر قانع ہوجاتے ہیں۔ ان منازل میں انھیں یوں لگتا ہے کہ متناہی خودی یعنی ان کی اپنی ذات بالکل غیر موجود اور غیر حقیقی ہے۔ یہ احساس و شعور اگر کسی صوفی پر طاری ہوجائے۲۳؎ اور اس تجربے کو آخری منزل سمجھ بیٹھے تو یہ اس کی غلطی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ براہِ راست تجربے یا مشاہدے کی کئی منزلیں اور مقامات ہیں اور آخری منزل وہ ہے جب صوفی بحیثیت ایک ہستی حقیقی کے اللہ تعالیٰ کا اس طرح متقابل ہوتا ہے گویا حقیقتِ مطلقہ کے روبرو ہے۔۲۴؎ یہ تجربہ انسانی شخصیت یعنی خودی کے جرأت مندانہ اثبات تک لے جاتا ہے نہ کہ اس کی نفی و عدم تک۔۲۵؎ اس طرح (لامتناہی خودی اور متناہی خودیوں کے باہمی تعلق کے بارے میں) ہمیں دوسری متبادل صورت کو ماننا پڑتا ہے یعنی یہ کہ متناہی خودیاں حقیقی اور موجود ہیں اور ایغوئے مطلق ان کے وجود کو مٹائے بغیر انھیں اپنی خودی میں لیے ہوئے ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوگا کہ یہ کس طرح ممکن ہے۔ یا تو ایغوئے مطلق انھیں اپنے تخیل میں یا پھر اپنی ہستی میں لیے ہوئے ہے۔ اول الذکر نظریہ پھر ہمیں ہمہ الہٰیت یا وحدت الوجودی تصور تک لے جاتا ہے، اسے اقبال قبول نہیں کرتے کیونکہ اس کی تصدیق ہماری اپنی خودی کے تجربے سے نہیں ہوتی۔۲۶؎ اگر انسانی ایغو کو صرف خدا کے تخیل کی تخلیق سمجھا جائے تو وہ حیات سے عاری اور محض خیال ہوجائے گا اور اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ وہ کسی نہ کسی طرح زندگی و فعلیت کا حامل ہے تب بھی اس کی حیات و فعلیت خدا کے تخیل سے متعین ہوگی نہ کہ خود اس سے۔۲۷؎ ایسی صورت میں اسے کسی طرح حقیقی اور موجود بالذات نہیں مانا جاسکتا، ظاہر ہے کہ ایک موجود متناہی ایغو اس کے تمثالِ محض سے قطعاً مختلف ہے۔ لہٰذا ہمیں یہ ماننا چاہیے کہ ایغوئے مطلق، متناہی ایغوؤں کو، ان کا وجود مٹائے بغیر، اپنی ہستی میں لیے ہوئے ہے۔ حقیقتِ مطلقہ کو خودی سے عبارت سمجھنا چاہیے۔ لیکن یہ خودی کائنات سے ایسی الگ نہیں گویا اس میں اور ہم میں کوئی مکانی فصل ہو۔۲۸؎ خودی مطلق ان معنوں میں ماورائی نہیں ہے جن معنوں میں تجسیمی الہٰیین اسے ماورائی سمجھتے ہیں۔۲۹؎ خودیِ مطلق نافذ کُل یا ہمہ گیر۳۰؎ ہے کیونکہ وہ ساری کائنات کا احاطہ کرتی ہے لیکن وہ ان معنوںمیں ہمہ گیر یا نافذِ کُل نہیں جو روایتی طرز کے ہمہ الہٰیین سمجھتے ہیں کیونکہ وہ ایک شخصی حقیقت ہے نہ کہ غیر شخصی (جیسا کہ ہمہ الہٰیین اسے قرار دیتے ہیں)۔ وہ ایغوئیت یعنی ہماری طرح خود اپنی ’’انیت‘‘۳۱؎ کے شعور کی حامل ہے، لیکن اس کی ’’انیت‘‘ ہمارے تجربے کی گرفت میں نہیں آسکتی۔ مختصر یہ کہ وہ نافذِ کُل یا ہمہ گیر بھی ہے اور ماورا بھی،۳۲؎ تاہم نہ محض یہ ہے نہ محض وہ۔ نفوذِ کلی یا ہمہ گیری اور ماورائیت دونوں ہی باتیں حقیقتِ مطلقہ کے لیے درست ہیں۔۳۳؎ لیکن اقبال اس ایغوئے مطلق کی ماورائیت پر نسبتہً زیادہ زور دیتے ہیں۔ اولاً اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے نافذِکُل یا ہمہ گیر ہونے کا تصور ہمہ اوستی رجحانِ فکر سے نسبت رکھتا ہے اور اس نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ انسانی خودی غیر حقیقی اور غیر موجود ہے، درآنحالکہ اقبال کو اس بات پر اصرار ہے کہ انسانی خودی غیر حقیقی نہیں ہے بلکہ ایغوئے مطلق سے الگ اپنی ہستی رکھتی ہے۔ متناہی اور لامتناہی کے اس باہمی اتفاق و افتراق کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے۔ خودیِ مطلق کے ہمہ گیر یا نافذِ کُل ہونے پر زیادہ زور دینے سے انسانی ایغو ہستیِ لامتناہی میں براہِ راست جذب و تحلیل ہوجاتا ہے اور یہ خودی کی حقیقت کو ترک کردینے کے مترادف ہوگا، درحالیکہ اسی پر اقبال کی ساری فکر اور فلسفے کی عمارت کھڑی ہے۔ البتہ ایغوئے مطلق کی ماورائیت پر نسبتہً زیادہ زور دینا یکسر بے محل نہیں کہ اس سے انسانی ایغو کی حقیقت مزید اجاگر ہوتی ہے۔ ایک طرف تو ماورائی تصورِ باری تعالیٰ متناہی ایغو کے وجود کو نمایاں کرتا ہے اور دوسری طرف ہستیِ لامتناہی کی انفرادیت و ایغوئیت کو عیاں کرتا ہے۔ ثانیاً اس لیے کہ ماورائیت مذہبی شعور کو بہتر انداز میں آسودہ کرتی ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ: (i) حقیقتِ مطلقہ کو ماورائی سمجھا جائے۔ خودیِ مطلق کو خودیِ متناہی سے الگ یا غیر ہونا چاہیے کیونکہ انسان کی وہ مایوسی جو اس کی اپنی ذاتی دقتوں اور گردو پیش کی مزاحمتوں سے جنم لیتی ہے یہ تقاضا کرتی ہے کہ انسان اس سرچشمے سے مدد حاصل کرے جو اس کے مصائب کا مآخذ نہ ہو اور جسے سارے عالم پر پورا تسلط حاصل ہو۔ فی الواقع یہ کائنات سے مافوق سرچشمے سے آنے والی مدد ہی وہ غایت ہے جس کے لیے مذہبی شعور ایسی ایک ماورائی ہستی کے وجود کو مانتا ہے۔۳۴؎ تاہم یہ ہستی جو انسان سے غیر ہے، غیریت کے باوجود متناہی خودیوں اور کائنات کا احاطہ کرتی ہے، درحقیقت کوئی شے بھی ’’کلی طور پر اس سے غیر‘‘ نہیں ہوسکتی۔۳۵؎ (ii) نیز یہ کہ اس حقیقتِ مطلقہ کو ایک شخصیت سمجھا جائے۔ یہ بات اقبال کے یہاں بار بار دہرائی گئی ہے کہ حقیقتِ مطلقہ ایک شخص یا ایغو ہے۔ ہمارے (تجربی) واقعات کی (فلسفیانہ) تنقید سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ حقیقتِ مطلقہ عملی طور پر ہدایت یافتہ حیات ہے جو ہمارے تجربۂ حیات کے پیش نظر سوائے ایک نامی کُل کے اور کسی طرح تصور نہیں کی جاسکتی، ایسا نامی کُل جو بہت اچھی طرح مربوط ہے اور ایک مرکز کا حامل ہے۔ چونکہ حیات کی یہی خصوصیت ہے اس لیے حیاتِ مطلقہ کو سوائے ایک ایغو کے اور کسی طرح تصور نہیں کیاجاسکتا۔۳۶؎ وہ ایک بے مثل فرد ہے لیکن انفرادیت اس فرد کی متناہیت پر دلالت نہیں کرتی، وہ مکان کا پابند نہیں، اس کو خارج سے ملفوف کرنے والا کوئی مکان نہیں۔ اس کی لامتناہیت عمیق۳۷؎ ہے نہ کہ ’’ممتد‘‘۳۸؎ (یعنی وسیع): ایغوئے مطلق کی لامتناہیت اس کی تخلیقی فعلیت کے لامحدود باطنی امکانات میں مضمر ہے، کائنات جیسی کہ ہم جانتے ہیں۔ ان امکانات کا محض ایک جزوی اظہار ہے۔۳۹؎ اگر دقت نظر سے دیکھا جائے تو ایغوئے مطلق کی شخصیت حسبِ ذیل صفات کی دلالت کرتی ہے: (i) خلاقی (ii) ہمہ دانی (iii) قدرت کاملہ اور (iv) سرمدیت یعنی دائمیت۔ اقبال کی فکر میں ان سب کی گنجایش ہے۔ (i) ایغوئے مطلق اصلاً خلاق ہے اور اس کی خلاقی لامحدود ہے۔ وہ صرف ایک ناظم یا مہتمم نہیں ہے جو پہلے سے دی ہوئی کسی چیز پر عمل کررہا ہو۔۴۰؎ اگر ایسا ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ ناقص اور بے بس ہے۔ نہ ہی وہ مادے کا پیدا کرنے والا ان معنوں میں ہے کہ مادہ اس سے علیحدہ اور خارجی کوئی شے ہو کیونکہ یہ اس کی دانش کے برخلاف ہے کہ وہ پہلے مادے کی تخلیق کرکے خود اپنے لیے مشکلات پیدا کرے اور پھر اسے خود اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالے۔۴۱؎ وہ از خود خلاق ہے۔ اس کے لیے ’غیر خود‘ اپنے آپ کو کسی غیر کی طرح پیش نہیں کرتا جو اس کے متقابل ہو، اگر ایسا ہو تو اسے بھی ہماری متناہی خودی کی طرح اس متقابل غیر سے مکانی ربط میں آنا ہوگا___ جسے ہم فطرت یا غیر خود قراردیتے ہیں وہ حیات الہٰیہ میں صرف ایک سریع السیر لمحہ ہے۔۴۲؎ لہٰذا ایغوئے مطلق کے لیے تخلیق خود اس کے باطنی امکانات کا بے نقاب ہونا ہے۔ علاوہ ازیں ہر خودی کا ایک کردار ہونا ضروری ہے یعنی اس کے اطوار اور رویوں میں ہمواری و یکسانی ہونی چاہیے، ایسی خودی کا تصور کرنا ممکن نہیں جو کسی کردار کی حامل نہ ہو۔۴۳؎ اسی لیے ایغوئے مطلق کا بھی ایک کردار ہونا چاہیے۔ فطرت ایک نامی کُل ہے جو یکساں اطوار اور رویوں کی حامل ہے۔ حیات الہٰیہ سے نامی طور پر وابستہ ہونے کے باعث اس کے رویے کو الٰہی فعلیت کی عادت سمجھا جاسکتا ہے۔ اس لحاظ سے فطرت لامتناہی بن جاتی ہے کیونکہ یہ الٰہی فعلیت کی مظہر ہے۔ یہ لامتناہی ہے کیونکہ اس کا تعلق ایسی خودی سے ہے جس کے باطنی امکاناتِ تخلیق لامحدود ہیں اور نتیجتاً اس کی لامتناہیت عمیق ہے نہ کہ ممتد یا مکانی۔ (ii) ایغوئے مطلق ہمہ داں یعنی عالمِ کُل ہے۔ جہاں تک متناہی ہستیوں کا تعلق ہے علم ہمیشہ کسی ایسی چیز کا علم ہے جو کہ عالم سے الگ ہے فرض یہ کیا جاتا ہے کہ ایک واقعی ’’غیر‘‘ فی ذاتہ وجود رکھتا ہے جو عالمِ ایغو کا متقابل ہوتا ہے۔۴۴؎ یہ تناظر مطالعہ باطن میں بھی غائب نہیں ہوتا۔ علم کے معروض سے یہاں بھی عالم الگ ہی رہتا ہے۔ لیکن ایغوئے مطلق کسی واقعی غیر کامتقابل نہیں ہوتا۔ اس میں علم کا عمل اور علم کا معروض ایک ہی ہیں۔۴۵؎ وہ ہمہ محیط اور ہمہ گیر ہے، اس کا عمل تخلیقی ہے، وہ علم رکھتا ہے اور اسی وقت خود ہی اپنے علم کا موضوع بھی ہے۔ اس لیے اس کا عمل لازماً ہمہ دانی ہے کیونکہ اس سے باہر کچھ نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تاریخ کی ساری حدِ رسائی کو ایک ناقابلِ تقسیم عمل ادراک میں دیکھ لیتا ہے۔ ہمہ دانی کا یہ مطلب نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہر چیز پہلے سے دی ہوئی اور متعین ہے اور اللہ تعالیٰ کو صرف اسے ذہن نشین کرلینا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ادراک اپنے سے باہر کسی چیز کا ادراک نہیں ہے، وہ ایک زندہ تخلیقی فعلیت ہے۔ وہ تخلیق کرتا ہے جس لمحے وہ جانتا ہے اور وہ جانتا ہے جس لمحے وہ تخلیق کرتا ہے۔ اس طرح مستقبل خدا کی تخلیقی حیات کے نامی کل میں موجود رہتا ہے لیکن وہ ایک کھلے غیر متعین امکان کی طرح موجود رہتا ہے نہ کہ واقعات و حوادث کی ایک ایسی ترتیب کی صورت میں جس کا قطعی خاکہ پہلے سے مقرر ہو۔۴۶؎ (iii) ایغوئے مطلق قادرِ کل ہے، لیکن قدرتِ کاملہ کیا ہے؟ اس کا مطلب ایسی لامحدود طاقت نہیں ہے جو بے بصر اور متلون ہو۔۴۷؎ کیونکہ ایک معنی میں وہ محدود ہے یعنی خود اپنی فطرت، اپنی دانش اور اپنی نیکی سے محدود ہے۔ تمام فعلیت خواہ وہ تخلیقی ہو یا اور کسی قسم کی، ایک طرح کی تحدید ہے جس کے بغیر اللہ تعالیٰ کو موجود فی۔الخارج فعال ایغو کی طرح تصور کرنا محال ہے۔۴۸؎ لیکن یہ تحدید اللہ تعالیٰ کو ضعیف یا بے بس نہیں بنادیتی۔ صرف اتنا ہے کہ اس کی طاقت و قدرت لاینفک طور پر اس کی دانش اور اس کی نیکی سے مربوط ہے۔ خدائے تعالیٰ کی لاانتہا و لامحدود طاقت کا اظہار کسی من مانے اور متلون طریق پر نہیں ہوتا بلکہ اس میں ایک اصول، ایک باقاعدگی، ایک نظم اور ترتیب کارفرما ہے۔ الٰہی ارادہ بنیادی طور پر نیکی کی طرف حرکت کرتا ہے۔ لیکن اب یہاں یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ آیا شر اور الم دنیا میں صریحاً محسوس نہیں ہوتا؟ اور یہ امر خدائے تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ، دانش اور نیکی کا نقبض معلوم ہوتا ہے۔ شر سے تو صرفِ نظر کرنا ممکن ہے لیکن الم ایک مظہر واقعی کی حیثیت سے باقی رہتا ہے۔ پھر الٰہی نیکی سے شر اور الم کو ہم آہنگ کرنا کس طرح ممکن ہے؟ اقبال کا جواب یہ ہے کہ ہماری کائنات ایک ناقص کائنات ہے۔۴۹؎ نشوونما کے مظاہر ایغوؤں کے ارتقا اور تکمیل کا رجحان رکھتے ہیں۔۵۰؎ انسان میں ایغوئیت نے اپنا اضافی کمال حاصل کیا ہے۔ لیکن کمالِ کلی ابھی بہت دور ہے۔ الم اور مرئی شر کے مظاہر ہمیں اپنی ایغوئیت کے استعمال اور استکمال کی آرزو برقرار رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔ لہٰذا شر اور الم کو مطلق نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ وہ ہماری ایغوئیت اور شخصیت کے استکمال کی کوششوں میں کامیاب یا ناکام ہونے سے مُضاف یا متلازم ہوتے ہیں۔۵۱؎ (iv) ایغوئے مطلق سرمدی یعنی ابدی ہے، وہ اس لیے ابدی ہے کہ ایغوئے مطلق ہے۔ لیکن سرمدیت یا ابدیت ہے کیا؟ عام طور پر اس سے مراد ایسا زمانہ ہے جس کی نہ ابتدا ہے نہ انتہا۔ مظاہر کی دنیا میں تواتر اور تغیر پایا جاتا ہے اور یہ ہمیں اس نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ ہر ابتدا کی بھی ایک ابتدا ہے اور تواترِ بے نہایت کی بھی ایک انتہا ہے۔ لیکن زمان کا یہ تصور اصلاً متسلسل اور غلط ہے۔ اگر ہم خود اپنی ذات پر نگاہ ڈالیں تو دیکھیں گے کہ یہاں تغیر بلا تواتر پایا جاتا ہے۔ تمام باطنی حالتیں ایک دوسرے میں نفوذ کررہی ہیں اور ہم یہ نشان دہی نہیں کرسکتے کہ ایک حالت کہاں ختم ہوتی ہے اور دوسری کہاں شروع ہوتی ہے۔ استدام ایک نامی کُل ہے جس میں ماضی پیچھے نہیں رہ جاتا بلکہ حال کے ساتھ ساتھ چلتا اور حال میں کارفرما رہتا ہے۔ اسی طرح مستقبل بھی آگے اس طرح پڑا ہوا نہیں ہے جس پر سے ہمیں گزرنا ہے، وہ پہلے ہی حال میں ہے یعنی وہ حال میں ایک کھلے ہوئے غیر متعین امکان کے طور پر موجود ہے۔۵۲؎ یہ زمان یعنی استدام ہی ایغوئے مطلق کی حیات پر منطبق ہوسکتا ہے۔ اس کی خودی چونکہ محیطِ کل خودی ہے اس لیے تاریخ کی ساری حدرسائی کو اپنی حیاتِ باطنی میں بطور ایک آن یا لمحے کے لیے ہوئے ہے۔ چنانچہ اس کے لیے نہ کوئی ابتدا ہے نہ انتہا، سب کچھ ایک لمحے میں اس کے زیرِ نظر ہے۔ وہ ہماری طرح زمانے کی تاریخ پر آہستہ اور تدریجی قدموں سے نہیں گزرتا۔ فی الواقع وہ خود ہی تمام زمان کا سرچشمہ ہے اور اس لیے اس سے متقدم ہے۔ علاوہ ازیں مذہبی شعور تقاضا کرتا ہے کہ ایغوئے مطلق سے قریبی ربط یعنی وصال کا امکان ہونا چاہیے۔ یہ ربط یا وصال عمل عبادت و دعا میں حاصل کیا جاتا ہے۔ عبادت و دعا اپنی ماہیت ہی میں دو افراد کو فرض کرتی ہے، عابد اور معبود۔ لہٰذا انسانی خودی کو الٰہی خودی سے غیر ہونا چاہیے۔ عبادت و دعا تبھی معنویت رکھ سکتی ہے کہ انسانی خودی کو ایک علیحدہ ہستی کا حامل تصور کیا جائے۔ چنانچہ اقبال بڑے شدومد سے انسانی اور الٰہی ایغوؤں کی اس خاصیت پر اصرار کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ انسانی ایغو کبھی الٰہی ایغو میں غائب یا گُم نہیں ہوتا۔ لیکن عبادت و دعا کیا ہے؟ تجسیمی الہٰیت پسند اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے معجزے بروئے کار لائے جاسکتے ہیں۔ عبادت و دعا بجلی کے کوندے یا گولی کے رُخ کو موڑ سکتی ہے یا آسمان سے آگ برسا سکتی ہے جیسا کہ ایلانجا کی دعا سے ہوا تھا۔۵۳؎ اقبال اسے ماننے میں پس و پیش کرتے ہیں۔ دعا و عبادت کا ایک اور تصور بھی ہے۔ دعا کا مفروضہ یہ ہے کہ تمھارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تم کو کس چیز کی احتیاج ہے اور اس کا اختتامی فقرہ ہوتا ہے، میری نہیں بلکہ تیری مرضی پوری ہوگی۔ اس کا مقصد فطرت کو فوق الفطرت ذرائع سے مسخر کرنا نہیں بلکہ قلبِ انسانی پر حکمرانی کرنا ہے جو نافرمانی اور دل شکستگی کے مابین ڈگمگاتا ہے اور اپنے آپ کو اس قابل نہیں پاتا کہ خود اپنی قسمت یا تقدیر کے حوالے کرسکے۔۵۴؎ دعا کا یہ تصور بنیادی طور پر ہمہ اوستی طریقِ فکر کا نتیجہ ہے۔ یہاں انسانی خودی کی نفیِ کلی ہے۔ علاوہ ازیں اگر مرضیِ الٰہی ایک طوقِ گراں کی طرح ہمارے گلے میں آویزاں ہے تو پھر دعا کا امکان ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اقبال اپنے مخصوص حرکی فلسفۂ خودی کے تحت دعا کے اس تصور کو قبول نہیں کرتے اقبال کے نزدیک دعا اولاً تو قلب انسانی کے لیے جبلی ہے۵۵؎ کہ آدمی کو دعا کے بغیر چارہ نہیں، یہ مدد اور رہنمائی حاصل کرنے کی ایک شدید آرزو کا نام ہے اور اس لحاظ سے تمام مذہبی شعور کا ایک اہم عامل یا عنصر ہے۔ ثانیاً دعا تامل کا ایک انداز ہے، اس کا مقصد روحانی تنویر ہے، وہ کائنات کی ہیبت ناک خاموشی میں اپنی پکار کے جواب کے لیے انسان کی باطنی آرزو ہے۔۵۶؎ لہٰذا دعا کا عمل انسانی ایغو اور حقیقتِ مطلقہ کے مابین براہِ راست رابطہ قائم کردیتا ہے۔ ثالثاً دعا اپنا ایک اثر رکھتی ہے، وہ ہمارے جذبات کو عمیق تر اور ہمارے ارادے کو حرکی بناتی اور اس طرح اپنے گردو پیش کی دنیا میں بڑی بڑی تبدیلیاں لانے کی طاقت و قدرت عطا کرتی ہے۔ یہ اکتشاف یا عرفان کا ایک یکتا طریق ہے جس کے ذریعے متجسس ایغو اپنی نفیِ ذات کے لمحے ہی میں اپنا اثبات کرتا ہے اور اس طرح اپنی قدر و قیمت سے آشنا ہوکر بجا طور پر سمجھتا ہے کہ اس کی حیثیت کائنات کی زندگی میں سچ مچ ایک فعال عنصر کی ہے۔۵۷؎ مذہبی شعور اس کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ انسانی ایغو کو لامتناہی زمان تک وجود برقرار رکھنے کا اہل ہونا چاہیے۔ دوسرے الفاظ میں انسانی خودی کو لافانی ہونا چاہیے۔۵۸؎ یہ لافانی ہو تبھی اس کا امکان ہوگا کہ متناہی ایغو لامتناہی ایغو سے تقرب حاصل کرے۔۵۹؎ ہماری حیات ایک بلبلے کی طرح نہیں ہے جو ایک دفعہ پیدا ہوکر ختم ہوجاتا ہے۔ اگر ایسا ہو تو پھر ہماری تمام مذہبی تمنائیں بے معنی اور لاحاصل ہوجائیں گی۔ اقبال کے نظامِ فکر میں مذہبی یا الہٰیت پسندانہ شعور پر زور دینے میں دعا اور حیاتِ جاودانی کے تصور کا بڑا حصہ ہے۔ وہ رفتہ رفتہ اس ہمہ اوستی طریقِ فکر سے بہت دور چلے گئے تھے جس پر شروع شروع میں اعتقاد رکھتے تھے۔ فی الواقع یہ بات کہ وہ حقیقتِ مطلقہ کو ایک شخص مانتے ہیں جو خلاقی ہمہ۔دانی اور ابدیت کی صفات رکھتا ہے اُنھیں الہٰیت پسندی کا علمبردار بنادیتی ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال ایک الہٰیت پسند ہیں۔ لیکن یہ ذہن نشین رہنا چاہے کہ ان کا ایغوئے مطلق، قدیم الہٰیت پسندوں کا خدا نہیں ہے ’’جو آسمانوں میں رہنے والا‘‘ ہے۔ اقبال کا خدا ساری کائنات کا احاطہ کرتا ہے، صرف اسی میں متناہی ایغو اپنی ہستی کو پاتے ہیں۔ یہ حیاتِ الٰہی ہی کا سیلِ رواں ہے جو ہمارے وجود کا سرچشمہ ہے اور جس میں ہم موتیوں کی طرح پیدا ہوتے اور زندگی بسر کرتے ہیں۔۶۰؎ یہاں ہم ہستی مطلق کے بارے میں اقبال کے موقف کا مقابلہ میک ٹیگرٹ سے کرسکتے ہیں جو ان کے استاد تھے۔ میک ٹیگرٹ، ہیگل کی تقلید کرتے ہوئے حقیقتِ مطلقہ کو ہستی مطلق قرار دیتا ہے۔۶۱؎ تفرقات کے اصول کے مطابق ہستی مطلق متناہی ایغوؤں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ چنانچہ میک ٹیگرٹ کہتا ہے کہ متناہی خودیاں دائمی ہیں اور ہستی مطلق ایک ایغو یا خودی نہیں ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ: میرا اعتقاد ہے کہ ہماری اپنی بقائے دوام کے لیے کوئی ثبوت فراہم کرنا مشکل ہوگا تاآنکہ خدا کو ایک شخص نہیں بلکہ ایک جمعیت یا انجمن قرار دیا جائے، اسی طرح یہ بھی اتنا ہی مشکل ہے کہ ہم ایک شخصی خدا کا تصور قائم کریں جو ہمارے وجود کو اس کے ارادے پر منحصر قرار نہ دے، ایسا ارادہ جس کے فیصلوں کی پیش بینی ہماری عقل نہیں کرسکتی۔۶۲؎ اقبال میک ٹیگرٹ کے دونوں دعووں کو مسترد کرتے ہیں۔ پہلے دعوے کے تعلق سے وہ کہتے ہیں کہ ہستی مطلق محض ایک جمعیت یا انجمن نہیں ہوسکتی کیونکہ کوئی جمعیت افراد کے بغیر ممکن نہیں ہے، اگر ہستی مطلق جمعیت ہوتی تو متناہی ایغوؤں سے بالا اور علیحدہ وجود نہیں رکھ سکتی تھی۔ علاوہ ازیں ہستی مطلق کے تفرقات کے ہمیشہ کے لیے مقرر اور محدود تعداد میں ہونے کی وجہ سے کائنات میں نئے ایغوؤں کی تخلیق کا کوئی امکان باقی نہیں رہ جاتا، لیکن اس انجمن کے ارکان مقرر نہیں ہیں بلکہ نئے اراکین برابر پیدا ہو رہے ہیں، لہٰذا کائنات ایک تکمیل شدہ عمل نہیں ہے۔۶۳؎ تخلیق کا عمل جاری ہے اور انسان بھی اس میں اپنا حصہ ادا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر متناہی خودیاں ہستی مطلق کے لازمی تفرقات ہیں تو اس انجمن میں ایک دائمی و ابدی نظم و ترتیب اور تطبیق ہونی چاہیے حالانکہ کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ نظم ابدی و دائمی طور پر حاصل نہیں کیا گیا ہے بلکہ ہم ’’بدنظمی و فساد سے بتدریج نظم و کون کی طرف سفر کررہے ہیں اور اس کارنمایاں کی تکمیل میں مددگار ہیں۔۶۴؎ یہ عمل غیر شعوری نہیں ہے بلکہ شعوری اور جبلی طور پر ہماری کوششوں سے حاصل ہوتا ہے۔ میک ٹیگرٹ کے دوسرے دعوے کے متعلق کہ شخصی خدا کا ایسا تصور قائم کرنا مشکل ہے جس میں ہمارا وجود اس کے ارادے پر منحصر نہ ہو، اقبال کہتے ہیں کہ معاملہ یوں نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کو ایک شخص ہی سمجھنا چاہیے لیکن وہ کوئی انسان جیسا تجسیمی شخص نہیں ہے اور نہ ایک معما رانہ ذہن ہے جو کائنات پر باہر سے عمل کررہا ہو، بلکہ وہ ساری کائنات کو محیط ہے، تمام متناہی خودیاں اس کا حصہ ہیں، ہماری حیات اس کی ہستی سے نامی طور پر وابستہ ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنی ایغوئیت یا اختیار سے عاری ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خود اپنی مرضی سے متناہی خودیوں کو اپنی حیات میں حصہ۔دار بنایا ہے۔ اس کے علاوہ متناہی اور لامتناہی کے اس نازک تعلق کو گرفتِ ادراک میں لانے کے لیے ایک مثال مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ انسانی ایغو مکانی و زمانی نظام سے تعلق رکھنے کی حیثیت سے زمان و مکان میں گم ہے لیکن ایک ایغو کی حیثیت سے جو شخصیت کا حامل ہے وہ زمان و مکان سے جدا اور علیحدہ ہے۔۶۵؎ اسی طرح خدا کے تعلق سے ہمارا وجود ہمارا اپنا ہے اور ہمارے افکار واعمال خود ہمارے متعین کردہ ہیں۔ لہٰذا ایک شخصی خدا لازماً متناہی ایغوؤں کی ہستی و اختیار کا نقیض نہیں ہے۔ ژ…ژ…ژ حواشی ۱- تشکیل جدید، ص۹ ۲- ایضاً، ص۵۸ ۳- ایضاً، ص۲۸ ۴- ایضاً، ص۲۸ ۵- ایضاً، ص۲۸ ۶- ایضاً، ص۵۳ ۷- ایضاً، ص۶۰ ۸- ایضاً، ص۵۳ ۹- ایضاً، ص۹۴ ۱۰- ایضاً، ص۹۷ ۱۱- ایضاً، ص۳۳ ۱۲- اقبال اور برگساں کے بارے میں حسب ذیل اُمور قابل ذکر ہیں: اقبال کا استدلال اور ان کے نتائج اُنھیں برگساں سے علیحدہ کردیتے ہیں۔ برگساں کے نزدیک تخلیقی قوت محض ایک بے بصر ارادہ ہے، وہ اسے ارادۂ حیات یا جوشِ حیات کا نام دیتا ہے (دیکھیے تخلیقی ارتقا، ص۹۴) یہ ارادۂ حیات آزاد اور تخلیقی ہے، یہ غیر مختتم حرکت و فعلیت کی قسم سے ہے اور بقول برگساں یہی واحد حقیقت ہے (دیکھیے تخلیقی ارتقا، ص۹۲) کثیر التعداد مظاہر اس کے شئون ہیں، یہ اپنے آپ کو فطرت میں بھی ظاہر کرتا ہے اور انسان میں بھی۔ لیکن اس کی فعلیت ایک اور حقیقت سے رُکتی ہے جو انفعالیت، جمود اور بے حسی کی حامل ہے۔ اسے برگساں مادے کا نام دیتا ہے۔ یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ اس کے بقول مادہ خود صرف ایک منفعل اور بے حس حقیقت نہیں ہے وہ اس حد تک نہیں پہنچا ہے بلکہ محض اضافی طور پر منفعل اور بے حرکت ہے چنانچہ مادہ بھی ایک طرح کے اصول حرکت و حیات کا حامل ہے۔ برگساں کے نزدیک مادہ اصولِ حرکت و حیات کی تقلیب ہے۔ ارادۂ حیات نے مادے کی اضافی انفعالیت اور عدم فعلیت پر عبور حاصل کرنے کے لیے دو طریقوں سے اپنے آپ کو ظاہر کیا ہے ایک تو اس نے اپنے آپ کو اجسام میں منظم کیا ہے جو فی الواقع خالص، غیر منظم اور جامد مادے کے مقابلے میں آزاد تر ہیں۔ جسم اپنے آپ میں حرکت اور عمل کا اصول قبول کرتا ہے۔ لیکن یہ اضافی فعلیت اور آزادی زیادہ مکمل طور پر انسانی جسم میں حاصل ہوتی ہے جو مادے کی جبریت کی اور میکانکی عمل و ردعمل کے اصول کی شدت سے تردید کرتی ہے۔ دوسرے انسانی شعور اور شخصیتیں بھی ارادۂ حیات کے لیے آزادی کا ایک ذریعہ ہیں۔ شعور فعلیت کے کام آتا ہے، چنانچہ شعور بجائے خود غایت نہیں ہے وہ ہمارے لیے فعلیت اور حیات کے ذریعے کے طور پر مفید ہے۔ لہٰذا حیات اور فعلیت شعور کے مقولے سے بلند تر ہیں۔ شعور ہماری فعلیت کی مدد کرنے کے بعد غائب ہوجاتا ہے۔ خالص فعلیت اور ارادے کی زندگی میں شعور کی ضرورت نہیں ہے، چنانچہ ارادۂ حیات یا اصول فعلیت فوق شعوری ہے نیز ہماری شخصیتیں اور خودیاں بھی ارادۂ حیات کے لیے آزادی کے ذریعے ہیں۔ ارادۂ حیات فوق شخصی یا غیر شخصی ہے۔ ایغوئیت غایت بالذات نہیں بلکہ وہ ارادۂ حیات کے لیے آزادی حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے (دیکھیے تخلیق ارتقا، ص۳۳، ۳۴) نیز ایغوئیت ارادۂ حیات کی ایک عارضی منزل ہے۔ وہ محض ایک غیر موجود حقیقت ہے کیونکہ وہ ارادۂ حیات کے علاوہ یا مزید برآں وجود نہیں رکھتی وہ محض ایک عارضی شکل ہے جسے ارادۂ حیات نے اپنے لیے قبول کرلیا ہے۔ برگساں کے مذکورہ بالاتصورات کے برعکس اقبال تخلیقی ارادے کو اساساً فکر اور ذہانت کی قسم سے سمجھتے ہیں نہ کہ ایک بے بصر اور من موجی متلون قوت۔ برگساں کے لیے انفرادیتیں اور انسانی شخصیتیں بھی ارادۂ حیات کے عکس کے سوا کچھ نہیں وہ حقیقی اوراپنے طور پر موجود نہیں۔ اس کے بر خلاف اقبال ایغوئوں کی موجود حقیقت پر غیر متزلزل اعتقاد رکھتے ہیں۔ ایغو ارادۂ حیات کے شئون ہی سہی لیکن وہ غیر حقیقی اور محض عکس نہیں ہیں (دیکھیے تشکیل جدید، ص۵۸) وہ اپنے طور پر موجود اور حقیقی ہیں۔ انفرادیت ہی حیات کا جوہر ہے، زندگی محض ایک سیلابی موج نہیں ہے، اس کی بنیادی ماہیئت ایغوئیت میں پنہاں ہے۔ برگساں نے صرف اس کی فعلیت و حرکت پر زور دیا اور اسے استدام کا نام دیا لیکن اقبال کہتے ہیں کہ استدام کا تصور بغیر ایک خودی کے نہیں ہوسکتا، خودی یا ایغو زمان و مکان سے مقدم ہے (دیکھیے تشکیل جدید، ص۵۳) یہ صرف ایغو ہی ہے جو زمان و مکان میں اپنی فعلیت کا ادراک کر سکتا ہے چنانچہ اقبال ارادۂ حیات کو ایغوئیت کے برتر مقولے کے تحت رکھتے ہیں۔ اس ایغوئیت کو اقبال کی اصطلاح میں یہاں ایغوئے مطلق یا خودی مطلق کا نام دیا جاسکتا ہے۔ برگساں کے لیے ارادۂ حیات یا جوشِ حیات ہی حقیقت مطلقہ ہے اور اسی لیے حقیقت مطلقہ کے بارے میں اس کا موقف ہمیشہ بالکل ہمہ اوستی یا وحدت الوجود ہی رہتا ہے۔ اقبال کا موقف یہ نہیں ہے۔ ۱۳- تشکیل جدید، ص۲۸ ۱۴- ایضاً، ص۲۷، ۲۸ ۱۵- ایضاً، ص۵۸ ۱۶- ایضاً، ص۹۳۔ نیز دیکھیے کتاب ہذا کا تیسرا باب۔ ۱۷- ایضاً، ص۱۱۲ ۱۸- ایضاً، ص۱۱۵ ۱۹- ایضاً، ص۱۷۷ ۲۰- ایضاً، ص۱۸، ۶۱، ۷۴ ۲۱- ایضاً، ص۱۲، ۱۱۱، ۱۱۲، ۱۸۲، ۱۹۳ ۲۲،۲۳- مجدد کا تصورِ توحید (انگریزی) از ڈاکٹر برہان احمد فاروقی، ص۸۲، ۱۰۱، ۱۰۲ تا ۱۰۶ ۲۴- تشکیل جدید، ص۱۷۹ ۲۵- ایضاً، ص۱۷۹ ۲۶- معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کو خود کبھی وجدانِ الٰہی کا تجربہ نہیں ہوا کیونکہ وہ کبھی اس کا دعویٰ نہیں کرتے، البتہ وجدان خودی کا دعویٰ وہ ضرور کرتے ہیں۔ ۲۷- اقبال نے اگرچہ صراحتاً ہمہ الہٰیت کو اپنی تنقید و تثمین کا اس طرح نشانہ نہیں بنایا ہے لیکن ان کی فکر سے یہی بات مستنبط ہوتی ہے۔ ۲۸- تشکیل جدید، ص۶۲ ۲۹- ایضاً، ص۶۲، ۷۳ ۳۰- Immanent ۳۱- I-am-ness ۳۲- اس نکتے کو سمجھنے کے لیے عراقی کا قول مفید ہوسکتا ہے کہ جس طرح روح بدن کے اندر ہوتی ہے نہ باہر، نہ اس سے متصل نہ متصل، بایں ہمہ اس کا اتصال بدن کے ہر ذرّے سے قائم ہے، اسی طرح حیاتِ الٰہیہ کا تعلق کائنات سے ہے۔ (مترجم) ۳۳- تشکیل جدید، ص۵۸ ۳۴- مجدد کا تصورِ توحید، ص۵۷، ۵۸ ۳۵- تشکیل جدید، ص۶۲ ۳۶- ایضاً، ص۷۴ ۳۷- Intensive ۳۸- Extensive ۳۹- تشکیل جدید، ص۶۱ ۴۰- ایضاً، ص۲۸ ۴۱- ایضاً، ص۲۳ ۴۲- تشکیل جدید، ص۵۳ ۴۳- ایضاً، ص۵۳ ۴۴- ایضاً، ص۳۳ ۴۵- ایضاً، ص۷۴ ۴۶- ایضاً، ص۷۵ ۴۷- ایضاً، ص۷۶ ۴۸- ایضاً ۴۹- ایضاً، ص۷۷ ۵۰- ایضاً ۵۱- ایضاً ۵۲- ایضاً، ص۴۷ ۵۳- مقدمۂ فلسفہ (انگریزی) از پال سین، ص۲۵۰ ۵۴- مقدمۂ فلسفہ از پال سین، ص۲۶۱ ۵۵- تشکیل جدید، ص۸۴ ۵۶- ایضاً، ص۸۷ ۵۷- ایضاً ۵۸- اس نکتے پر بحث باب سوم میں ہوچکی ہے۔ ۵۹- تشکیل جدید، ص۱۱۰، ۱۱۱ ۶۰- ایضاً، ص۶۸ ۶۱- ہیگلین کو سمولوجی یعنی ہیگل کی کونیات (انگریزی) دفعہ ۶۲، ص۵۸ ۶۲- ہیگل کی کونیات، مقدمہ، ص۳ ۶۳- مقدمہ اسرارِ خودی (انگریزی)، ص۱۸ ۶۴- ایضاً، ص۱۸ ۶۵- تشکیل جدید، ص۱۱۲ خ…خ…خ فاسد Abnormal تمثیل Analogy تحریک یافتہ Animated متقدمات Antecedents تجسیمی بشری Anthropomorphic تجسیمی الہٰیین Anthropomorphic theists قدر آشنا۔ تثمینی Appreciative درک کرنا۔ ادراک کرنا Apprehend درک، ادراک Apprehension قبل تجربی Apriori معمارانہ ذہن Architectonic Intelligence تکوین Becoming مقولات Categories علّیت Causality تحقق Certainty مقرون Concrete ظن و قیاس Conjecture ملاحظات Considerations مافیہ Content نظم و کون Cosmos معطیات Data معین Determined متمائز Differentiated امتیازات Differentiataions رہنما Directive غیر منظم Disorganised عقائد و نظریات Doctrines استدام Duration استدامی Durational حرکی مظہر Dynamic appearance فاعلی Efficient اشراق Emanation تغیر Change بدنظمی و فساد Chaos تمام شدہ Closed off وقوف Cognition وقوفی Cognitive جمعیت۔ انجمن Community فہم کرنا comprehend تعقل Concept تعقلی Conceptional سانچے Forms معطیہ Given خیر کثیر Greatest good کثیف Gross ناشی۔ نمو پذیر Growing انیت I-am-ness تصوریین Idealists اعیان Ideas ہمہ گیر۔ نافذِ کل Immanent بلاواسطہ Immediate غیر متداخل Impenetrable مفہوم Import ہیجانات Impluses ناقابل فہم Incomprehensible تجربی Empirical تجربیت Empiricism تکرارِ ابدی Eternal recurrence وجودی Existential ممتد Extensive احساس Feeling متناہی Finite بہائو Flux خلل اعصاب Neurosis شے کماہی Noumena آنات Nows مرکزہ Nucleus عضوی Organic عضوی لحاظ سے Organically عضویہ- نامیہ Organism استبعادی Paradoxical ادراک کرنا Perceive ہستیِ مدرکہ۔ شے مدرکہ Percept ادراک Perception مظاہر Phenomena وارداتِ نفس Physical states عضویاتی Physiological استنباطی۔ قباسی Inferential لامتناہیاں Infinities احکام Injuctions عقل Intellect فکری ہمدردی Intellectual sympathy افزونیت Intensification عمیق Intensive حکم Judgement زندہ تسلسل living continuity ظہور Manifestation مادیت Materiality بالواسطہ Mediate ذہنی حالتیں Mental states شئون۔ جہتیں Modes واحدیت Monism نقل مکان Motion محرکات Motives مصنوع Mould صوفی Mystic line لزوم Necessity اصولِ موضوعہ Postulate مقدر Preordained حضور Presence مقدمہ Prolegomena نفسی قوتیں Psychic powers کیفی Qualitative کیفی اعتبار سے۔ کیفاً Qualitatively عقلیین Rationalists جوابی عمل Response خود ارتقائی Self-evolving خود نشائی Self-generating حس Sensation محسوس کرنا Sense معطیاتِ حواس Sense Data سلسلہ وار Serial مظہرِ مکانی Spatial Phenomenon تلاملاتی Speculative موضوع۔ ناظر Subject موضوعی۔ ساخت Subjective constitution موضوعیت Subjectivism جوہر Substance تواتر Succession خیر برترین Supereme good کلیات Universals بنیادی Ultimate الہٰیت Theism اینیت This-ness عقل و ادراک Thought and preception حقیقت مطلقہ Ultimate Reality پیکر خیالی Vain phantom مختلف قسمیں Varieties فضیلت Virtue رویت Vision ارادی روّیے Will attitudes خ…خ…خ شخصیات آرنلڈ، میتھیو: ۳۳ آئن سٹائن: ۵۷، ۵۸، ۶۷ ابن رشد: ۵۰ ابن عربی: ۲۶ احمد، شیخ سرہندی مجدد الف ثانی: ۷۴ ارسطو: ۲۳، ۵۷، ۵۸ اشعری (امام ابوالحسن): ۱۳ اطاعت یزداں، ڈاکٹر: ۵ افلاطون: ۱۳ اقبال، علامہ: ۱۳، ۱۴، ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۸، ۱۹، ۲۰، ۲۱، ۲۲، ۲۳، ۲۵، ۲۹، ۳۲، ۳۳،۴ ۳، ۳۷، ۳۹، ۴۱، ۴۲، ۴۳، ۴۵، ۴۶، ۴۷، ۵۰، ۵۱، ۵۲، ۵۳، ۵۴، ۵۵، ۵۷، ۵۸، ۵۹، ۶۰، ۶۱، ۶۲، ۶۳، ۶۴، ۶۵، ۶۶، ۶۷، ۶۸، ۶۹، ۷۲، ۷۳، ۷۵، ۷۶، ۷۷، ۷۸، ۷۹، ۸۰، ۸۱، ۸۲، ۸۳، ۸۴، ۸۵ انور، ڈاکٹر عشرت: ۵، ۷، ۱۱ برکلے: ۵۷، ۶۷ برگساں: ۱۶، ۲۰، ۲۵، ۲۹، ۳۵، ۳۸، ۳۹، ۴۵، ۵۰، ۵۱، ۵۳، ۵۴، ۵۸، ۵۹، ۶۰، ۶۱، ۶۳، ۶۴، ۶۵، ۶۹، ۸۳، ۸۴ ڈیکارٹ: ۴۳ سعید،ڈاکٹر محمد احمد: ۵ شریف، ایم ایم: ۱۲ شوپنہار: ۶۱ صدیقی، ڈاکٹر شمس الدین: ۵ ظفر الحسن، ڈاکٹر سیّد: ۱۹، ۲۰ عراقی: ۲۲، ۲۳، ۲۴، ۳۶، ۸۵ غزالی: ۱۵، ۴۴ فرائڈ: ۳۲ کانٹ: ۱۳، ۱۴، ۱۵، ۱۸، ۱۹، ۲۱، ۲۲، ۲۵، ۳۸، ۴۴، ۴۸، ۵۱، ۵۵ لائبنز: ۶۸، ۶۹ میک ٹیگرٹ: ۴۲، ۵۳، ۸۱، ۸۲ نظام: ۱۳ نکلسن، پروفیسر: ۱۴ نیطشے: ۵۰، ۵۴، ۶۱، ۶۲، ۶۳، ۶۴، ۶۶، ۷۳ نیوٹن: ۶۰ وائٹ ہیڈ: ۵۸، ۶۱ ہالڈین: ۴۹ ہیکل: ۴۲،۴۳،۵۳،۸۱،۸۳ یونگ: ۳۳ کتب فلسفۂ عجم: ۱۰، ۵۳، ۵۴ قرآنِ مجید: ۹، ۵۵، ۵۶ مقدمہ (مستقبل کی مابعدالطبیعیات کا مقدمہ): ۱۹، ۳۶ میٹا فزکس آف اقبال: ۵ مقامات اور ادارے پشاوریونی ورسٹی: ۶ علی گڑھ: ۷، ۱۲ کراچی یونی ورسٹی: ۶ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ: ۱۲ ہندوستان: ۷ یورپ: ۱۰ اصطلاحات آنِ موجودہ، جاودانی: ۲۵ آنات: ۶۰ ابدی: ۵۰، ۵۲، ۶۴، ۷۳، ۷۹، ۸۱، ۸۲ ابدیت: ۷۹، ۸۱ اختیار: ۱۴، ۱۵، ۱۷، ۲۱، ۴۶، ۴۷، ۴۸، ۴۹، ۵۰، ۶۵، ۶۸، ۷۳، ۸۲ ارادہ: ۴۳، ۴۸، ۶۱، ۶۲، ۷۱، ۷۲، ۷۳، ۷۴، ۷۸، ۸۱، ۸۳، ۸۴ ارادہ (الٰہی): ۷۸ ارادۂ ایغوئیت: ۶۲ ارتقا: ۳۳، ۵۵، ۶۶، ۶۷، ۶۸، ۷۳، ۷۸، ۸۳، ۸۴ ارتکاز ذات: ۶۲ استدام: ۲۵، ۳۷، ۵۱، ۵۳، ۶۰، ۷۹، ۸۴ اشراق: ۵۲ اصولِ (مطلق): ۳۳، ۴۸ اصولِ موضوعہ: ۴۸ اصول نہائی: ۱۸ اضافی: ۱۶، ۲۷، ۴۹، ۷۲، ۷۳، ۷۴، ۷۸، ۸۳، ۸۴ اعیان: ۱۳ اقدار: ۳۱، ۳۳ الہٰیت: ۱۷، ۳۵، ۴۱، ۴۲، ۵۵، ۷۲، ۷۵، الہٰیت پسندی: ۸۰، ۸۱ انائے فعال (فعال ایغو): ۵۱، ۵۳، ۷۸ انفرادیت: ۳۵، ۵۰، ۶۳، ۷۲، ۷۶، ۸۴ انفعالیت: ۸۳ انکشافِ ذات: ۶۳ انیت: ۷۵ ایغو: ۱۶، ۲۹، ۳۰، ۳۳، ۳۴، ۳۵، ۳۹، ۴۲، ۴۳،۴۴، ۴۵، ۴۶، ۴۸، ۴۹، ۵۰، ۵۱، ۵۲، ۵۵، ۵۶، ۵۷، ۵۹، ۶۰، ۶۲، ۶۳، ۶۴، ۶۹، ۷۲، ۷۳، ۷۴، ۷۵، ۷۶، ۷۷، ۷۸، ۷۹، ۸۰، ۸۱، ۸۲، ۸۴ ایغو (الٰہی): ۷۹، ۸۰ ایغو (ذیلی): ۶۴ ایغو (لامتناہی): ۸۱ ایغو (متناہی، انفرادی، انسانی): ۴۳، ۵۰، ۶۳، ۷۲، ۷۵، ۷۶، ۷۹، ۸۰، ۸۲ ایغو (ہمہ محیط): ۷۲، ۷۸ ایغوئے مطلق: ۷۲، ۷۴، ۷۵، ۷۶، ۷۷، ۷۸، ۷۹، ۸۱، ۸۴ ایغوئیت (شخصیت): ۱۸، ۵۲، ۶۲، ۶۳، ۷۲، ۷۳، ۷۵، ۷۶، ۷۸، ۷۹، ۸۲، ۸۴ اینیت: ۶۳ تثمین: ۴۸، ۸۵ تجربہ: ۱۳، ۱۴، ۱۵، ۱۶، ۲۵، ۲۶، ۲۷، ۲۸، ۳۰، ۳۱، ۳۲، ۳۴، ۳۵، ۴۵، ۶۵، ۷۴، ۷۶، ۸۵ تجربہ (حضوری، بلاواسطہ): ۲۶ تجربہ (روحانی، باطنی): ۳۱ تجربہ (وجدانی): ۲۵، ۲۶، ۳۰ تجربی: ۱۳، ۱۴، ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۴۵، ۵۸، ۷۶ تجربیت: ۱۶، ۴۵ تحت الشعور: ۳۲، ۶۵ تسلسل: ۲۹، ۵۹ تصدیق: ۱۷، ۲۸، ۴۷، ۵۹، ۷۵ تصور: ۱۳، ۲۳، ۲۸، ۵۰، ۵۱، ۵۳، ۵۴، ۵۵، ۵۷، ۵۸، ۵۹، ۶۰، ۶۱، ۶۳، ۶۴، ۶۵، ۶۷، ۶۹، ۷۵، ۷۶، ۷۷، ۷۸، ۷۹، ۸۰، ۸۱، ۸۲، ۸۴، ۸۵ تصور کلی: ۱۳ تصورِ ہستی: ۶۴ تعقل: ۳۵، ۴۳ تعقلات: ۲۴، ۲۶، ۲۷، ۳۴، ۳۵، ۳۸، ۴۹، ۶۲ تعلیل: ۴۸، ۴۹، ۵۱ تعلیل (شخصی): ۴۸ تعلیل (معکوس): ۴۸ تعلیل (میکانکی): ۴۹ تعینات (زمانی مکانی): ۲۵ تغیر: ۲۱، ۲۵، ۳۰، ۳۷، ۴۴، ۴۵، ۵۱، ۵۴، ۵۸، ۵۹، ۶۰، ۶۱، ۶۴، ۶۵، ۷۹ تغیر بلاتواتر: ۴۵، ۵۱، ۷۹ تغیرات (مقامی): ۲۱، ۵۹ تفرقات: ۴۲، ۴۳، ۸۱، ۸۲ تفرید: ۶۳ تقدیر: ۳۱، ۵۰، ۸۰ تکرارِ ابدی: ۵۰ تکوین: ۶۴، ۶۵ تکوین (ابدی): ۶۴ تمثالِ محض: ۷۵ تواتر: ۲۵، ۲۹، ۳۷، ۶۰، ۷۹ جبر: ۴۷، ۵۰ جبر و لزوم: ۴۸ جبلت: ۳۳، ۸۰، ۸۲ جوشِ حیات: ۵۰، ۶۱، ۶۴، ۸۳، ۸۴ جواہر (مادی، جامد): ۴۴، ۵۷، ۵۸، ۶۱ جوہر: ۴۱، ۴۲، ۴۴، ۴۵، ۴۸، ۵۷، ۶۱، ۶۳، ۶۷، ۶۹، ۷۲، ۸۴ جوہر (روحانی): ۴۴ حالِ محسوس (داتمی): ۲۵ حرکت محض (خالص): ۴۵ حقیقت: ۱۳، ۱۴، ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۸، ۲۱، ۲۲، ۲۴، ۲۵، ۲۶، ۲۷، ۲۸، ۲۹، ۳۰، ۳۲، ۳۳، ۳۴، ۴۱، ۴۲، ۴۳، ۴۴، ۴۶، ۵۶، ۵۷، ۵۸، ۵۹، ۶۰، ۶۱، ۶۳، ۶۴، ۶۷، ۷۲، ۷۳، ۷۴، ۷۵، ۷۶، ۸۰، ۸۱، ۸۳، ۸۴ حقیقت (شخصی): ۷۵ حقیقت (طبیعی): ۵۷ حقیقت (غیر شخصی): ۷۵ حقیقت فی نفسہٖ: ۲۵، ۲۶ حقیقت کلی: ۲۶ حقیقت مرئی: ۱۳ حقیقت معروضی، خارجی: ۲۱، ۲۴، ۲۹، ۳۰، ۳۲، ۳۵، ۴۱، ۴۵، ۴۶، ۵۷ حقیقتِ مطلقہ: ۱۳، ۱۵، ۱۶، ۲۶، ۲۷، ۳۳، ۳۴، ۴۶، ۷۳، ۷۴، ۷۵، ۷۶، ۸۰، ۸۱، حقیقت نہائی: ۱۳، ۲۱ خود شعور: ۱۷، ۴۳، ۴۹، ۶۹، ۷۴ خود شعوری: ۶۳، ۶۴ خودی: ۱۴، ۱۶، ۱۷، ۱۸، ۲۰، ۲۸، ۳۹، ۴۱، ۴۲، ۴۳، ۴۴، ۴۵، ۴۶، ۴۷، ۴۸، ۴۹، ۵۱، ۵۲، ۵۳، ۵۴، ۵۵، ۵۸، ۵۹، ۶۰، ۶۱، ۶۲، ۶۳، ۶۶، ۶۸، ۷۱، ۷۲، ۷۳، ۷۴، ۷۵، ۷۶، ۷۷، ۷۹، ۸۰، ۸۱، ۸۲، ۸۴، ۸۵، ۸۶ خودی (الٰہی): ۷۹ خودی (لامتناہی): ۷۴ خودی (متناہی، انسانی): ۷۴، ۷۶، ۷۷، ۸۱، ۸۲ خودی (محیط، کل): ۷۹ خودیِ مطلق: ۷۲، ۷۴، ۷۵، ۷۶، ۸۴ خیر کثیر:۵۱، ۵۵ خیر و شر: ۶۳ داخلیت: ۲۷ ذات: ۱۴، ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۸، ۲۱، ۲۵، ۲۷، ۲۸، ۲۹، ۳۴، ۳۵، ۳۹، ۴۱، ۴۲، ۴۳، ۴۴، ۴۶، ۴۷، ۴۸، ۴۹، ۵۸، ۵۹، ۶۰، ۶۲، ۶۳، ۷۱، ۷۴، ۷۵، ۷۹، ۸۰، ۸۴ ذہن: ۱۴، ۱۵، ۱۷، ۲۴، ۲۷، ۲۸، ۳۰، ۳۲، ۳۸، ۶۳، ۶۴، ۶۷، ۷۵، ۷۸، ۸۱، ۸۲ زمان: ۲۱، ۲۲، ۲۳، ۲۴، ۲۵، ۲۸، ۲۹، ۳۷، ۵۱، ۵۶، ۵۹، ۶۰، ۶۱، ۶۴، ۷۹، ۸۰، ۸۲، ۸۴ زمان (حقیقی): ۵۹ زمان (ریاضیاتی): ۶۰ زمان (لامتناہی):۸۰ زمانِ خالص: ۶۰ زمان و مکاں: ۲۱، ۲۲، ۲۵، ۲۸، ۵۱، ۵۶، ۸۲، ۸۴ ساخت (موضوعی): ۲۱ سرمدیت (دائمیت): ۲۹، ۷۷، ۷۹ سکونی: ۱۶، ۲۵، ۵۸، ۶۱، ۶۳ شعور: ۱۴، ۱۵، ۱۷، ۱۸، ۲۳، ۲۸، ۳۰، ۳۱، ۳۲، ۳۳، ۴۳، ۴۵، ۴۸، ۴۹، ۵۲، ۵۶، ۵۷، ۶۵، ۶۹، ۷۱، ۷۲، ۷۳، ۷۴، ۷۵، ۷۶، ۷۹، ۸۰، ۸۱، ۸۴ شعور (مذہبی): ۳۳، ۷۶، ۷۹، ۸۰ شعور (نظری): ۱۵ شئون: ۲۱، ۲۲، ۸۳، ۸۴ شے کماہی (شے بذاتہٖ): ۲۱، ۲۲، ۳۵ صدور: ۴۲ ظہور: ۴۲، ۵۰، ۶۳ عدم: ۴۱، ۴۶، ۷۴، ۸۳ عرفان: ۳۴، ۸۰ عزم للقوۃ: ۵۵، ۶۲، ۶۳، ۶۴، ۶۸، ۶۹ عشق: ۴۶، ۶۲، ۷۴ عضویاتی: ۲۶ عضویہ: ۵۸، ۶۱ عقلیت: ۴۵، ۵۸ علت: ۴۹، ۶۷ علیت فاعلی: ۴۹ علیت: ۴۷، ۵۸ علیت (میکانکی): ۶۵ عین مطلق: ۴۲ غائیت: ۶۴، ۶۵، ۶۶ غیر ایغو: ۴۶ غیر خود: ۷۷ غیر ذات: ۲۸ غیریت: ۷۶ فطرت: ۱۷، ۱۸، ۳۱، ۶۲، ۷۳، ۷۷، ۷۸، ۸۰، ۸۳ فطرت (معروضی، خارجی): ۱۸ فطرتِ کاملہ: ۳۱ فعالیت: ۱۰ فعلیت: ۴۵، ۴۶، ۴۷، ۴۸، ۴۹، ۵۰، ۵۷، ۶۱، ۶۲، ۶۳، ۶۹، ۷۳، ۷۵، ۷۶، ۷۷، ۷۸، ۸۳، ۸۴ فعلیت (الٰہی): ۷۷ فعلیت (تخلیقی): ۷۶، ۷۸ فوق الحواس : ۳۳ فوق الفطرت: ۸۰ فہم محض: ۱۳ قبل تجربی: ۱۳ قدر: ۶۳ قلب: ۲۶، ۲۷، ۴۹، ۵۲، ۸۰ قیاسِ تمثیلی: ۵۸، ۵۹ کالبد: ۶۱ کُل: ۲۶، ۲۷، ۲۸، ۲۹، ۴۲، ۴۳، ۴۷، ۶۰، ۷۲، ۷۵، ۷۶، ۷۷، ۷۹ کُل (غائی اور معقول): ۷۱ کُل (نامی): ۷۶، ۷۷، ۷۸، ۷۹ کُلّیات: ۲۷ کلیت: ۲۸ کمیتی: ۶۰ کیفی: ۱۵، ۶۰ لاشعور: ۳۲، ۳۳ لاشعور منطقہ: ۳۲ لافانیت: ۱۱ لامتناہیت: ۷۶، ۷۷ لزوم: ۱۴، ۴۸ مادیت: ۵۸ ماورائیت: ۷۵، ۷۶ ماہیت: ۱۴، ۱۶، ۲۹، ۳۴، ۳۵، ۴۱، ۴۲، ۴۴، ۴۵، ۵۱، ۵۷، ۵۸، ۵۹، ۶۰، ۶۱، ۶۳، ۶۴، ۶۵، ۶۷، ۶۸، ۶۹، ۷۱، ۷۲، ۷۳، ۷۹ ماہیت (ایجابی): ۵۸ ماہیت نہائی: ۷۳ متناہیت: ۷۶ محسوسات: ۱۴، ۱۵، ۵۳ مرور: ۲۵ مطلق: ۶۰، ۷۹ مظاہر: ۲۱، ۲۲، ۲۷، ۴۱، ۴۲، ۴۴، ۴۷، ۴۹، ۵۰، ۶۰، ۶۱، ۶۹، ۷۱، ۷۸، ۷۹، ۸۳ مظاہر (میکانکی اور جبری): ۶۰ مظہر (حرکی): ۲۲ مظہر مکانی: ۲۴ معاد: ۱۴، ۱۵، ۱۷ معروض: ۲۶، ۲۷، ۲۸، ۵۷، ۵۸، ۷۷، ۷۸ معروضی: ۱۸، ۲۱، ۲۴، ۲۶، ۲۷، ۲۹، ۳۰، ۳۲، ۳۵، ۴۱، ۴۲، ۴۶، ۵۷، ۵۸، ۶۷ معروضیت: ۱۵، ۶۷ معطیات: ۲۶، ۲۸ معطیاتِ حواس: ۳۱ معطیہ: ۲۳ معقولات: ۲۷ معین (جبری): ۱۴ مقدمات: ۴۷ مقولات: ۵۱، ۵۸ مکان: ۲۱، ۲۲، ۲۳، ۲۵، ۲۸، ۳۷، ۵۱، ۵۶، ۵۷، ۵۸، ۶۰، ۶۲، ۶۷، ۶۸، ۷۵، ۷۶، ۷۷، ۸۲، ۸۴ موجود بالذات: ۲۱، ۷۵ موجود فی الخارج: ۲۶، ۳۲، ۳۸، ۷۸ موضوع: ۱۹، ۲۳، ۲۸، ۴۳، ۴۷، ۵۷، ۵۸، ۷۸ موضوعی: ۲۱، ۳۲، ۶۷ موضوعیت: ۱۵، ۲۲، ۲۷ میکانکی: ۱۴، ۴۷، ۴۹، ۵۱، ۶۰، ۶۳، ۶۵، ۸۴ میکانیت: ۱۴، ۴۷ نامیاتی: ۱۴ نامیہ: ۵۸ نفوذِ کلی: ۷۵ نفیِ ذات: ۱۰، ۸۰ واحدیت (روحانی): ۶۴ وارداتِ روحانی: ۷۴ وارداتِ نفس: ۱۶ وجدان: ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۸، ۲۵، ۲۶، ۲۷، ۲۸، ۲۹، ۳۰، ۳۳، ۳۴، ۳۹، ۴۱، ۴۳، ۴۴، ۴۵، ۴۸، ۵۰، ۵۱، ۵۲، ۵۸، ۵۹، ۷۳، ۷۴، ۸۵ وجود: ۱۴، ۱۵، ۱۷، ۲۱، ۲۲، ۲۶، ۲۸، ۲۸، ۲۹، ۳۲، ۳۳، ۳۴، ۳۵، ۳۸، ۴۱، ۴۲، ۴۳، ۴۴، ۴۶، ۵۰، ۵۱، ۵۶، ۵۷، ۵۸، ۵۹، ۶۰، ۶۱، ۶۳، ۶۷، ۷۱، ۷۲، ۷۳، ۷۴، ۷۴، ۷۵، ۷۶، ۷۸، ۸۰، ۸۲، ۸۴ وجود (طبیعی): ۴۴ وجود (غیر شخصی): ۱۷ وجود (مابعد الطبیعی): ۴۴، ۶۱ وجود (مستقل، دائمی): ۵۱ وجودِ باری تعالیٰ: ۱۴، ۱۷، ۱۸ وجودِ مدرک: ۲۶ وجودِ مطلق: ۴۲، ۴۳، ۷۱ وجودی: ۲۸، ۷۴ وحدتِ وجود (وحدت الوجود): ۴۱، ۴۲،۴۳، ۷۴، ۷۵، ۸۴ وراء الورائ: ۲۸، ۳۳ وقوفی: ۱۵ وقوفی مافیہ: ۲۷، ۳۰ ہستی: ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۲۲، ۲۳، ۲۴، ۲۵، ۲۶، ۳۴، ۳۸، ۴۲، ۴۳، ۴۴، ۴۵، ۴۶، ۴۸، ۵۱، ۵۲، ۶۳، ۶۴، ۶۵، ۷۱، ۷۲، ۷۳، ۷۴، ۷۵، ۷۶، ۷۷، ۸۱، ۸۲ ہستی (حقیقی): ۴۴ ہستی (غیر شخصی): ۷۴ ہستی (لامتناہی): ۷۵ ہستی (ماورائی): ۷۶ ہستی (متناہی): ۷۷ ہستی (موجود فی الخارج، معروضی): ۲۶ ہستی (یک بُعدی): ۲۳ ہستیِ مطلق: ۱۵، ۸۱، ۸۲ ہمہ الہٰیت: ۱۷، ۳۵، ۴۱، ۴۲، ۵۵، ۷۲، ۸۵ ہمہ اوست: ۱۷ ہمہ اوستی: ۷۳، ۷۵، ۸۰، ۸۱، ۸۴ ہیجان برائے حیات (جوشِ حیات): ۶۳ /…/…/