اقبال اور تحریک آزادی کشمیر غلام نبی خیال اقبال اکادمی پاکستان حرفے چند ’’ اقبال اور کشمیر‘‘ کے عنوان سے میری نظروں سے آج تک تین تصانیف گذری ہیں جو ڈاکٹر صابر آفاقی۔ سلیم خان گمی اور جگن ناتھ آزاد کی تحریر کردہ ہیں۔ یہ تینوں کتابیں اتفاق سے ایک ہی سال کے دوران یعنی 1977ء میں اشاعت پذیر ہوئیں۔ اس کے علاوہ بھارتی اور پاکستانی رسائل و جرائد میں اکادکا مضامین تحریر کئے گئے جن میں پہلے ہی بیان کی گئی باتوں کو دہرایا جاتا رہا۔ آج سے تقریباً بیس سال قبل اس اہم موضوع کے حوالے سے خاطر خواہ طور پر کوئی تحقیقی کام نہیں ہو اتھا لہٰذا مذکورہ تصانیف میں اقبال اور تحریک آزادی کشمیر کے تئیں ان کے عہد آفریں اور تاریخ ساز رول کے گوناگوں پہلوؤں پر بھی کماحقہ روشنی نہیں ڈالی جا سکی۔ یہی وجہ ہے کہ مرحوم شیخ محمد عبداللہ اور جگن ناتھ آزاد کی طرف سے بیان کردہ ایسی باتوں کو بھی تاریخی حقیقت کی شکل دینے کی کوشش کی گئی جن کی صحت بہرحال مشکوک تھی۔ شیخ عبداللہ نے یہ مشتبہ انکشاف کیا کہ اقبال ہی نے انہیں مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں تبدیل کرنے کی صلاح دی تھی۔ آزاد نے یہ مفروضہ قائم کر لیا کہ ’’ جاوید نامہ‘‘ میں شاعر مشرق نے شیخ عبداللہ اور میر واعظ احمد اللہ ہمدانی کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ عبداللہ اور آزاد کے ان بیانات کو میں نے پہلی بار تواریخی حقائق و شواہد کی روشنی میں مکمل طور پر رد کرنے کی سعی کی ہے۔ اسی طرح ان میں سے ایک کتاب میں شاعر کشمیر غلام احمد مہجور کے بارے میں اس حد تک مبالغہ آمیزی سے کام لیا گیا کہ بقول مصنف’’ مہجور نے 1947ء میں ڈوگروں کی سنگینوں تلے میرا دل پاکستان کے ساتھ ہے کا نعرہ لگایا۔ ڈوگرہ حکومت نے اسے گرفتار کر کے جیل میں ٹھونس دیا اور وہ جیل ہی میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد اللہ کو پیارا ہوا۔‘‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مہجور اطمینان اور آسودہ حالی کی اچھی خاصی عمر گذار کر 9اپریل1952ء کو جنوبی کشمیر میں اپنے آبائی گاؤں میں فوت ہوئے۔ گذشتہ دو دہائیوں میں اقبال اور کشمیر کے تعلق سے اہم اور معتبر تحقیقی کارنامے بالخصوص پاکستان میں منظر عام پر آئے ہیں جن کی بدولت تحریک پاکستان اور تحریک حریت کشمیر کے بارے میں اقبال کی سرگرمیوں کے کئی تاریک گوشے روشن ہو چکے ہیں۔ ’’ اقبال اور تحریک آزادی کشمیر‘‘ میری کم و بیش سات سال کی تحقیق و تلاش کا ماحصل ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اسے ہر حلقہ خیال میں پسند کیا جائے گا۔ غلام نبی خیال راول پورہ ہاؤسنگ کالونی سری نگر190005کشمیر ٭٭٭ پیش نامہ جناب احمد ندیم قاسمی نامور ادیب اور صحافی غلام نبی خیال نے ’’ اقبال اور تحریک آزادی کشمیر‘‘ لکھ کر دور حاضر کی تاریخ کا ایک نہایت اہم مطالبہ پورا کیا ہے۔ اقبال کے حوالے سے آزادی کشمیر کی تحریک کے متعلق بعض ایسی ’’ افواہیں‘‘ بھی تاریخی حقائق کی صورت میں تسلیم کی جاتی رہی ہیں جن کی تغلیظ اور اصل صورت حال سے آگاہی کا معاملہ غلام نبی خیال کے سے مصنف کا محتاج تھا۔ جنہوں نے اس تحریک کا نہ صرف مطالعہ و مشاہدہ کیا ہے بلکہ وہ خود بھی اس حریت افروز تحریک کا ایک معروف کردار ہیں۔ غلام نبی خیال حیرت انگیز محنت اور کاوش سے اپنے موضوع کے ساتھ کامیابی سے نمٹے ہیں اور اس سلسلے میں کوئی بھی بات کسی مستند حوالے کے بغیر نہیں کی۔ میں ان کی دیدہ ریزی اور جان کا ہی کی دل کھول کر داد دیتا ہوں کہ اول تو اس موضوع پر سے افواہوں اور غلط بیانیوں کی گرد اڑانا ضروری تھا اور دوئم مستقبل کے مورخ کی صحیح رہنمائی ایک ایسے شخص کی طرف سے ناگزیر تھی جو خود بھی اس تحریک کا حصہ ہو۔ غلام نبی خیال کو یہ سب سہولتیں حاصل ہیں چنانچہ انہوں نے ’’ اقبال اور تحریک آزادی کشمیر‘‘ لکھ کر نہ صرف اس مبارک تحریک کو آگے بڑھایا ہے بلکہ میری نظر میں وہ خود بھی تاریخ و ادب کا ایک یادگار وجود قرار پا گئے ہیں۔ مجلس ترقی ادب 1کلب روڈ لاہور ٭٭٭ پہلا باب تحریک حریت کشمیر جس خاک کے ضمیر میں ہو آتش چنار ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاک ارجمند سر زمین کشمیر کے سب سے اولین مورخ پنڈت کلہن نے اپنی راج ترنگنی میں بارہویں صدی عیسوی میں لکھا ہے کہ ’’ کشمیر وہ ملک ہے جسے روحانی اوصاف سے فتح کیا جا سکتا ہے مسلح افواج سے نہیں۔‘‘ کلہن کے اس آفاقی پیغام کو نظر انداز کرتے ہوئے کشمیر کی حسین وادی پر اس سے پہلے یا اس کے بعد باہر سے جو بھی نظر پڑتی اس میں ملک گیری کی ہوس اور حرص زیادہ کار فرما رہی ہے اس طرح سے کشمیر جارحوں، غاصبوں، لٹیروں اور ملک گیروں کے ہتھے چڑھتا رہا اور اس کے فطری حسن اور سادہ لوح مکینوں کی روح کو بیرونی غاصب صدیوں سے اپنے پاؤں تلے روند رہے ہیں۔ یہ ایک ستم ظریفی ہے کہ اس ملک کی تاریخ ہر موڑ پر مسلح افواج کے ہاتھوں بہتے ہوئے انسانی خون سے رقم ہوتی رہی جب کہ اس کے محکوم اور مظلوم عوام اپنی آزادی کا پرچم بلند و بالا رکھنے کی غرض سے بے مثال جانی و مالی قربانیاں دیتے رہے اور آج بھی دے رہے ہیں۔ آگ اور خون کے سمندر سے گزرتی ہوئی کشمیر کی تحریک حریت کی تاریخ اتنی ہی طولانی ہے جتنی کہ کشمیری قوم کی داستان الم ہے۔ محمد بن قاسم نے سندھ اور پائینی پنجاب پر711ء اور 713ء کے عرصے میں قبضہ کر لیا اور اس کے بعد وہ ملتان سے روانہ ہو ااور اپنے اسلحہ خانے کو سلطنت کشمیر کی سرحدوں تک لے گیا۔ عربوں کی اس پیش رفت کے عمل سے خوف زدہ ہو کر کشمیر کے راجہ چندر پیڈا نے اپنا ایک سفیر چین کے بادشاہ کے پاس بھیج دیا تاکہ عربوں کے خلاف چینی امداد حاصل کی جا سکے۔ا دھر سے اگرچہ کوئی چینی امداد حاصل نہیں ہو سکی لیکن اس کے ساتھ ہی یہاں محمد بن قاسم کو دمشق کے خلیفہ سلیمان کا بلاوا آ گیا۔ اس طرح سے کشمیر پر عربوں کی یلغار کے منڈلاتے ہوئے بادل وقتی طور پر ٹل گئے۔ خلیفہ ہشام (724ء تا743ء ) کے دور میں سندھ کے عربوں نے اپنے حریص گورنر جنید کی سربراہی میںکشمیر کو ایک بار پھر للکارا۔ لیکن راجہ للتادتیہ نے (724ء تا 760ء ) جو اس وقت فرمان روائے کشمیر تھا جنید کو شکست فاش دی اور اس کی سلطنت کو بھی مغلوب کر کے اس کے کئی حصوں پر اپنی بالا دستی کے جھنڈے گاڑ دئیے۔ جب خلیفہ منصور (754ء تا775ئ) کے عہد حکومت کے دوران ہشام بن امرات تغلیبی کو سندھ کا گورنر تعینات کیا گیا تو اس نے بھی وادی کشمیر پر ایک اور حملے کی کوشش کی اور وہ ہمالیہ کے جنوبی ڈھلوانوں تک پہنچنے میں کامیاب بھی ہوا۔ لیکن وادی میں داخل ہونے کے سلسلے میں اسے بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ یہ عربوں کی طرف سے کشمیر کو تسخیر کرنے کی آخری کوشش تھی۔ (1) محمود غزنوی نے بھی جب1015ء میں کشمیر کو زیر کرنے کا ارادہ کر لیا تو اس نے جہلم کی طرف کوچ کیا جو دریائے جہلم کے مغربی کنارے پر لاہور سے کوئی ایک سو میل شمال مغرب میں واقع ہے غزنوی توسہ میدان کے درے سے کشمیر کی وادی میں داخل ہونے کے لئے پر تولنے لگا مگر اس کی پیش قدمی کو اس درے کے پاس پونچھ کی حدوں میں واقع لوہار کوٹ کے سنگین قلعے کی وجہ سے رکاوٹ پیش آ گئی۔ محمود نے اس قلعے کو ایک ماہ تک اپنے قبضہ میں رکھا لیکن اس سے وہ کوئی عسکری فائدہ حاصل نہیں کر سکا۔ اسی دوران زبردست برف باری اور موسم کی خرابی نے اسے اپنا محاصرہ ختم کرنے پر مجبور کر لیا۔ واپس لوٹتے وقت غزنوی اپنا ہی راستہ بھول گیا اور اس ناگہانی آفت کے جال میں پھنس کر اس کے کئی فوجی اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ خود محمود غزنوی بہ مشکل اپنی جان بچا سکا۔ بامزئی لکھتے ہیں کہ اس موقع پر کشمیریوں نے بھی اس کے خلاف اپنی طرف سے زبردست مزاحمت کا مظاہرہ کیا۔ (2) کشمیر کو فتح کرنے کی خواہش محمود کے دل میں اب بھی موجیں مار رہی تھی۔ وہ دوسری بار ستمبر اکتوبر1021ء میں غزنوی سے روانہ ہو کر اس ملک پر حملہ آور ہوا اور اپنا پرانا راستہ اختیار کر کے پھر لوہار کوٹ پہنچا۔ اسے پہلی ہی جیسی ناموافق اور جان لیوا صورت حال اور موسم کا سامنا کرنا پڑا۔ محمود ناچار واپس بھاگنے پر مجبور ہوا اور ان ناکام کوششوں کے بعد اس نے پھر کبھی کشمیر کو اپنے تسلط میں لانے کی جرأت نہیں کی ۔(3) عرب حملہ آوروں کے ناکام حملوں کی زد سے اپنے آپ کو قطعی طور پر محفوظ پا کر اہل کشمیر نے پھر ایک بار اپنے حسین و جمیل ملک کی اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی زندگی کو رنگ روغن بخشنے کی کارروائیاں شروع کیں۔ اس طرح سے کم و بیش چار سو سال کے عرصے پر پھیلے ہوئے ایک خود مختار کشمیر میں امن اور آسودہ حالی کا بول بالا رہا۔ یہ اہل کشمیر کی خوش قسمتی تھی کہ اس دوران انہیں چند ایسے حکمران نصیب ہوئے جو اپنی رعایا کے ہر دکھ سکھ میں شریک ہونے کے ساتھ عام انسانوں کی فکری پرداخت اور ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی خاطر ان تھک کوشش کرتے رہے۔ پندرھویں صدی عیسوی کے آس پاس کشمیر میں سنی اور شیعہ فرقوں میں چند فروعی مسائل پر اختلافات نے ایک تشویشناک شکل اختیار کر لی۔ اس وجہ سے ملک میں سارا انتظامیہ کم و بیش مفلوج ہو کر رہ گیا اور دونوں فرقوں کے حکام۔ علماء اور اکابرین ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف ہو گئے۔ ان سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں کشمیر سے باہر کی قوتوں کو یہاں کے مقامی امور میں مداخلت یا فوجی یا سیاسی حمایت کی جو دعوتیں بار بار دی جاتی رہیں ان کا نتیجہ بالآخر یہ نکلا کہ کشمیر اپنی آزادی اور خود مختاری سے محروم ہو گیا۔ اکبر اعظم نے 20دسمبر1585ء کو راجہ بھگوان داس کی کمان میں پانچ ہزار گھوڑ سواروں پر مشتمل فوج کو اٹک سے ہوتے ہوئے وادی جہلم کے راستے کشمیر پر یلغارکرنے کے احکامات صادر کئے۔ ادھر شہزادہ یعقوب اور دیگر درباریوں نے سلطان یوسف شاہ کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ سختی کے ساتھ مقابلہ کرے لیکن یوسف شاہ غالباً اپنی کم ہمتی کے سبب اس معرکے کے منفی انجام سے خوف زدہ تھا۔ شہزادہ یعقوب نے اپنے والد کے ساتھ اختلاف کرتے ہوئے مغل حملہ آوروں کا بے جگری سے مقابلہ کیا جب وہ کشمیر کی وادی کے دروازے پر دستک دے رہے تھے۔ یعقوب شاہ نے اپنی حب الوطنی سے سرشار جذبات کو اپنی جوان مردی کی آنچ دے کر مغل فوج کا ایسا مقابلہ کیا کہ راجہ بھگوان داس کو اپنی ہزیمت سامنے نظر آئی اور اس نے یوسف شاہ اور اس کے محب وطن فرزند سے مصالحت کی پیش کش کی۔ اس صلح نامہ کی رو سے مغل اپنی ساری فوج واپس لینے پر آمادہ ہوئے۔ یوسف شاہ کو بدستور تاج و تخت کا والی تسلیم کیا گیا لیکن مغلوں کو یہ مراعت دینا قرار پایا کہ سکو ںپر اور خطبات میں شہنشاہ اکبر کے نام کا استعمال کیا جائے گا۔ بھگوان دا س نے یوسف شاہ کو ترغیب دی کہ وہ اس کے ساتھ شہنشاہ سے ملاقات کی غرض سے اٹک جائے جہاں اکبر نہ صرف اس کی تعظیم و تکریم کرے گا بلکہ اس عہد نامہ مالحت کی توثیق بھی کرے گا۔ یعقوب شاہ نے اپنے والد کو اس سفر کے خلاف مشورہ دیتے ہوئے اس کے تشویش ناک انجام سے پہلے ہی خبردار کیا تھا۔ بہرحال یوسف شاہ کو 28مارچ1586ء کو اٹک میں اکبر کے سامنے پیش کیا گیا لیکن ایک مکار مغل بادشاہ نے نہ صرف یہ کہ عہد نامہ پر مہر تصدیق ثبت کرنے سے انکار کر دیا بلکہ اس نے سلطان یوسف شاہ کو بھی قید خانے میں ڈال دیا۔ ایک غیرت مند راجپوت ہونے کے ناطے راجہ بھگوان داس نے اکبر کی اس فریب کاری کو اپنے لیے زبردست توہین تصور کر کے خود کشی کرنے کی کوشش کی۔ جب اکبر لاہور پہنچا تو اس نے یوسف شاہ کو توڈدرمل کی تحویل میں دے دیا۔ ڈھائی سال حراست میں رہنے کے بعد راجہ مان سنگھ کی مداخلت سے یوسف شاہ کو رہائی نصیب ہوئی۔ مان سنگھ یوسف شاہ کو اپنے ساتھ بہار کے صوبے میں لے گیا جہاں کشمیر کے اس آخری سلطان نے اپنی محبوبہ حبہ خاتون کی یاد اور جدائی کا کرب سہتے سہتے ایک عالم بے بسی میں14 ذی الحج1000ھ مطابق22ستمبر1592ء کو وفات پائی اور اسے پٹنہ ضلع میں بسوک نامی ایک ویران گاؤں میں سپرد خاک کیا گیا۔ پروفیسر حسن عسکری بسوک اور یوسف شاہ اور یعقوب شاہ کی خستہ حال قبروں کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں بسوک کی جگہ پٹنہ ضلع کے اسلام پور سے شمال مشرق میں تین میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس گاؤں کے نزدیک ایک ٹیلا ہے جس کے بارے میں کوئی تاریخی شہادت موجود نہیں ہے کہ وہاں اصل میں کیا تھا۔ اس جگہ کان کنوں کو اکثر سونے اور تانبے کے سکے ملے ہیں جن میں شاہجہانی عہد کے سونے کے سکے بھی شامل ہیں۔ یہاں پر دو قبریں ہیں جو مبینہ طور پر شاہ یعقوب اور یوسف شاہ کی بتائی جاتی ہیں۔ گاؤں کے لوگ ان دو شخصیتوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے البتہ بسوک سے تھوڑے سے فاصلے پر ایک اور گاؤں کشمیری چک کے نام سے جانا جاتا تھا۔ جواب محض کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔ (4) کشمیر پر مغلوں کی پر فریب گرفت اور یوسف شاہ کی پسپائی کے بارے میں مورخ ڈیو جارک لکھتا ہے کہ لوگ کہتے ہیں یہ سلطنت (کشمیر) اس خطے میں سب سے زیادہ ناقابل تسخیر تھی اور یہ کہ مغل اعظم کسی بھی صورت میں اسے مغلوب نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن کشمیر کے باشندوں کے درمیان جو گروہی اختلافات موجود تھے وہی اس غلبے کا باعث بنے۔ (5) مغل ابدشاہ عیش و نشاط کے متوالے تھے۔ اپنے جاہ و جلال کے خمار میں سرمست ہو کر وہ کشمیر کو بھی اپنی ایک سیر گاہ کے طور پر استعمال کرتے رہے۔ اس طرح سے اگرچہ مقامی آبادی پر ان کے ظلم و ستم کی کوئی کہانی تخلیق نہیں ہوئی لیکن انہوں نے کشمیری زبان اور یہاں کی مقامی تہذیب اور ثقافت کو پہننے سے روکنے کی خاطر براہ راست فارسی زبان اور اس کے فن اور تمدن کو فروغ دیا۔ سلطنت مغلیہ کا سورج مغلوں کے دبدبہ شاہی اور تفنن طبع کی روشنی کو عام کرنے کے لیے کشمیر پر ڈیڑھ سو سال تک چمکتا رہا اور پھر ڈوب بھی گیا۔ کشمیر پر افغان1752ء سے 1819ء تک یعنی 67سال قابض رہے۔ یہی وہ دور ابتلا ہے جب اہل کشمیر پر نکہت و افلاس۔ غلامی اور استحصال کے سارے جہنم کھول دئیے گئے۔ اس موقع پر ایک شاعر نے جاہل، بے رحم اور وحشی افغانوں کے ہاتھوں سر زمین کشمیر کے لٹنے کا یوں نقشہ کھینچا ہے: پرسیدم از خرابی گلشن زباغبان افغاں کشید و گفت کہ افغاں خراب کرد (میں نے باغباں سے باغ کی تباہی و بربادی کا سبب دریافت کیا تو اس نے ایک آہ کھینچ کر کہا کہ اسے افغان نے تہہ و تاراج کر لیا ہے) افغان یعنی پٹھان حکمران کشمیر میں عام طور پر اپنے ظلم اور بے رحمی کی وجہ سے یاد کئے جائیں گے۔ ان کے بارے میں یہ حکایت بھی زبان زد خاص و عام رہی ہے کہ: سر بریدن پیش ایں سنگین دلان گل چیدن است یعنی ان سنگدلوں کے نزدیک کسی کا سر کاٹنا بھی ایک پھول توڑنے کے مترادف تھا۔ (6) افغان حاکم عبداللہ خان اشک اقاسی نے کشمیر کی سر زمین پر قدم رکھتے ہی یہاں دہشت و بربریت کا بازار گرم کیا۔ اس کے لٹیرے سپاہی کشمیریوں کو لوٹتے اور قتل کرتے رہے اور انہوں نے ہر جائز اور ناجائز طریقے سے روپیہ پیسہ بٹورنا اپنا فرض منصبی تصور کیا۔ اس سلسلے میں کہا جات اہے کہ ایک موقع پر کشمیر کے ہر فرقہ سے تعلق رکھنے والے آسودہ حال اور معزز بیوپاریوں اور تاجروں کو شاہی محل میں بلوا کر ان سے کہا گیا کہ وہ اپنا سارا مال و متاع سرکار کے حوالے کر دیں ورنہ انہیں موت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس حکم کی خلاف ورزی کرنیوالے تاجروں کے سر قلم کئے گئے اور ان کے قرابت داروں کو بھی تہہ تیغ کیا گیا۔ ایک متمول شہری جلیل کا جسم لوہے کی گرم سلاخوں سے داغا گیا۔ ایک اور ذی عزت شہری قاضی خان سے پانچ لاکھ روپے جبراً وصول کئے گئے۔ حکام کو جب یہ شک ہوا کہ قاضی نے اپنی ساری دولت سرکار کے حوالے نہیں کی ہے تو اس کے بیٹے کو اس حد تک جسمانی اذیتیں دی گئیں کہ وہ بے چارہ دریا میں ڈوب کر خود کشی کرنے پر مجبور ہو گیا۔ جب ظالم و جابر اشک اقاسی کو یہ پتہ چلا کہ اب اسے دینے کے لئے لوگوں کے پاس کچھ نہیں بچا تو وہ کشمیر پر پانچ ماہ تک تانا شاہی چلا کے وادی سے واپس چلا گیا اور ایک کروڑ روپے کی مالیت سے زیادہ کی دولت اور قیمتی اشیاء اپنے ساتھ لے گیا۔ کشمیر پر سکھوں کی حکومت1819ء سے 1846ء تک یعنی27سال کے عرصے پر حاوی رہی۔ 1819ء سے 1846ء تک جب انگریزوں نے ریاست کشمیر کو گلاب سنگھ کے ہاتھوں فروخت کیا۔ سکھوں کے دور حکومت میں کشمیر پر دس گورنر راج کرتے رہے جنہوں نے اہل کشمیر پر ہر طرح کا ظلم روا رکھا اور بقل ینگ ہسبنڈوہ کشمیریوں پر سخت گیر اور زبردست حاکموں کی طرح حکومت کرتے رہے۔ (7) دیوان موتی رام نامی ایک گورنر نے کشمیری مسلمانوں کو جذباتی طور پر پریشان کرنے کی ایک ناکام کوشش میں سب سے پہلے سری نگر کی جامع مسجد پر تالا چڑھایا اور اہل اسلام کے لیے وہاں نماز پڑھنے پر پابند عائد کی گئی۔ موتی رام کو یہ خدشہ تھا کہ مسجد میں نمازوں کے ساتھ ساتھ سیاسی اجتماعات میں سکھ راج کی مخالفت ہوتی رہے گی۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کو اذان دینے سے باز رکھنے کی بھی حکومتی طور پر ہدایت کی گئی۔ (8) ایک اور حاکم پھولا سنگھ شہر سری نگر میں خانقاہ معلی کے مقابل دریائے جہلم کے دوسرے کنارے پر اپنی توپیں لیکر آیا اور اس نے نخوت کے عالم میں اعلان کیا کہ وہ اس زیارت گاہ کو بارود سے اڑا دے گا۔ کیونکہ اس کے بقول مسلمانوں کی یہ خانقاہ ایک ہندو مندر کے اوپر تعمیر کی گئی تھی۔ اس نازک صورتحال کو ابتر ہونے سے بچانے کی خاطر شہر کی ایک معزز شخصیت پنڈت بیر بل دھر نے مداخلت کی اور اس تاریخی عمارت کو مسمار ہونے سے بچا لیا۔ ڈاکٹر غلام محی الدین صوفی کے قبولؒ یہ سہرا بیر بل دھر کے سر ہے کہ جب مسلمانوں کا ایک وفد سید حسین شاہ قادری خانیاری کی قیادت میں ان سے ملاقی ہوا اور ان سے التجا کی کہ وہ سکھوں کو خانقاہ معلی کی تباہی کے اقدام سے روکیں تو انہوں نے اپنے اثر و رسوخ کو کام میں لا کر اس عمارت کو منہدم ہونے سے بچا لیا ۔ (9) اس سکھ حکمران نے البتہ کئی اور مساجد میں نماز ادا کرنے پر پابندی عائد کر دی اور سری نگر کے وسط میں واقع شاہی مسجد یا پتھر مسجد کو سرکاری ملکیت میں شامل کر لیا۔ مسلمانوں کے لئے گائے کے ذبیحہ پر بھی پابندی عائد کی گئی اور اس کے لئے سزائے موت مقرر کی گئی۔ چنانچہ اس سلسلے میں کئی مسلمانوں کو گائے ذبح کرنے کی پاداش میں سر عام پھانسی پر لٹکایا گیا۔ (10) سکھ حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ 1839 میں مر گیا اور اس کے ساتھ ہی کشمیر پر اس دور استبداد کی گرفت خود بخود ڈھیلی پڑتی گئی کیونکہ رنجیت سنگھ کی پنجاب کی اپنی سلطنت بھی افراتفری اور خانہ جنگی کا شکار ہو رہی تھی۔ رنجیت سنگھ کے ایک ملازم گلاب سنگھ ڈوگرہ نے اپنے بہادرانہ کارناموں سے مہاراجہ کا دل جیت لیا تھا اور جب مہاراجہ نے دم توڑ دیا تو گلاب سنگھ اس وقت تک سارے جموں کا فرمان روا بن چکا تھا۔ 16مارچ1846ء کو پنجاب کے شہر امرتسر میں انگریز اور مہاراجہ گلاب سنگھ کے مابین بیع نامہ امرتسر طے پایا۔ اس معاہدہ کی رو سے انگریزوں نے گلاب سنگھ کو دریائے سندھ کے مشرق اور دریائے راوی کے مغرب کے تمام علاقے جن میں ریاست جموں و کشمیر کے انسان اور حیوان اور چرند و پرند بھی شامل تھے بیچ ڈالے۔ یہ سودا محض پچھتر لاکھ روپے کے عوض طے ہوا جو آج کے پچاس لاکھ روپے کے برابر ہوتے ہیں۔ گلاب سنگھ کے پاس اس وقت چونکہ ساری رقم موجود نہیں تھی لہٰذا اس نے بقیہ پچیس لاکھ اس سال اکتوبر کی پہلی تاریخ تک ادا کرنے کا وعدہ کیا۔ اس طرح سے انگریزوں نے چند روپے فی کشمیر کے حساب سے ایک پوری قوم کو ڈوگرہ راج کے چنگل میں دے دیا۔ گلاب سنگھ نے اس سودا بازی میں اپنے اور اپنی اولاد نرینہ کے حق میں عمر بھر کے لئے ریاست کو خرید کر لیا تھا جس کے مطابق یہ بھی طے پایا کہ وہ ہر سال تنومند اسپ تازی۔ چھ پشم دار بکرے اور چھ بکریاں اور تین جوڑے کشمیری جامہ دار شالوں کا تحفہ خراج کے طور پر انگریز حاکموں کو ادا کرتا رہے گا۔ اس بہیمانہا ور غیر انسانی فعل کے شرم ناک پہلوؤں پر مقبول عام شاعر حفیظ جالندھری نے یہ طنز کیا: وادیاں کہسار جنگل پھول پھل اور سب اناج ڈھور ڈھنگر آدمی ان سب کی محنت کام کاج یہ مویشی ہوں کہ آدم زاد ہیں سب زر خرید ان کے بچے بچیاں اولاد ہیں سب زر خرید یہی وہ رسوائے زمانہ عہد نامہ ہے جسے مہاتما گاندھی نے ’’ بکری پتر‘‘ کا نام دیا۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے اسے ریاستی عوام کی غلامی کی دستاویز کہا۔ کشمیر کی تحریک حریت کے ایک سر کردہ سپاہی سردار بدھ سنگھ نے اس معاہدے کو دو ڈاکوؤں کے درمیان خرید و فروخت کا نام دیا۔ مولانا محمد سعید مسعودی نے اسے ’’ نیلامی کے مال کا سند نامہ‘‘ کہا اور مولانا غلام رسول مہر نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ’’ 1846ء میں انگریزوں نے کشمیر کو اس طرح فروخت کیا کہ امریکی آباد کاری کے ابتدائی دور میں حبشی غلام بھی شاید اس طرح بکے ہوں۔‘‘ (11) اس طرح سے وادی کشمیر اور گلگت میں رہنے والے میں بیس لاکھ انسان بھیڑ بکریوں کی طرح ایک غیر مہم جو کو فروخت کئے گئے اور یہ ساری سودا بازی ان کی علمیت کے بغیر طے پائی گئی۔ (12) گلاب سنگھ کی طرف سے نادار کشمیری مسلمانوں پر بیگار کی ایک اور زحمت نازل کی گئی۔ ایک عام آدمی کو بغیر کسی اجرت کے پہاڑی دروں اوردشوار گزار راستوں سے بوجھ اٹھا کر سینکڑوں میل پیدل طے کرنا پڑتے تھے اور اس دوران سرکاری اہل کار اس کی ننگی پیٹھ پر کوڑے برسایا کرتے تھے۔ اس طرح سے ان مظلوموں کے زندہ واپس لوٹنے کی امید بہت کم باقی رہ جاتی تھی۔ گلاب سنگھ کے حکم کے تحت مسلمانوں کے پاس کسی ہتھیار کا موجود ہونا تو در کنار ان سے معمولی قسم کے چاقو اور گھریلو استعمال کی چھریاں تک چھین لی گئیں۔ ایک مغربی سیاح بیرن سچون برگ (Baron Schonberg) جو1845ء میں کشمیر آیا لکھتا ہے ’’ میں نے بہت سے ممالک کا سفر کیا ہے لیکن میں نے کشمیر میں جو ایک انسان کی حالت زار دیکھی اس سے زیادہ ابتری کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے مصریوں کے دور حکومت میں اسرائیلیوں کی تاریخ کے ابواب یاد آ گئے جب انہیں بھی اسی طرح محنت مشقت کے دوران اپنے آقاؤں کے ہاتھوں روزانہ کوڑے کھانا پڑتے تھے۔‘‘ (13) گلاب سنگھ کے وحشی ذہن اور بہیمانہ طریق کار کے بارے میں عطا الحق سہروردی اپنی تصنیف The Tragedy of Kashmir (المیہ کشمیر) میں لکھتے ہیں’’ یہ ڈوگرہ مہاراجہ آزادی کے متوالوں کی کھال اتارنے کا ذاتی حکم دیتا تھا اور پھر اس کا مشاہدہ بھی کرتا تھا۔‘‘ گلاب سنگھ اپنے جلادوں کو حکم دیتا تھا کہ شمع آزادی کے پروانوں کی زندہ کھال اتاری جائے اور کھال سر سے پاؤں کی طرف نہیں بلکہ پاؤں سے سر کی طرف اتاری جائے کیوں کہ سر سے پاؤں کی طرف کھال اتارنے سے فوری موت ہو جاتی ہے اور اس سے اتنی تکلیف بھی نہیں ہوتی لیکن ا گر کھال پاؤں سے سر کی طرف اتاری جائے تو مقتول ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے۔ یہ کارروائی اتنی ظالمانہ تھی کہ جلاد بھی اس سے ہچکچاتے تھے لیکن گلاب سنگھ کھال اتارنے کے احکام ذاتی طور پر جاری کرتا تھا۔ کارروائی مکمل ہونے کے بعد اس کا حکم تھا کہ کھال میں گھانس پھونس بھر کر کسی درخت کی ا ونچی شاخ پر اس کی نمائش کی جائے تاکہ دوسروں کو سبق ملے۔ (14) پونچھ پر قبضہ کرنے کے بعد گلاب سنگھ نے وہاں کے عوام کا قتل عام کروایا۔ ان کے لیڈروں سردار سبز علی خان اور ملی خان کی زندہ کھالیں اتروائیں۔ سردار شمس خان کا سر قلم کرایا اور ہزاروں خواتین اور بچوں کو اغواء کر کے جموں پہنچا دیا ۔ (15) گلاب سنگھ 1846ء سے1857ء تک کشمیر کا حکمران رہا۔ بیع نامہ امرتسر جیسے معاہدہ کی رو سے بنی نوع انسان کی خرید و فروخت کے واقعہ نے اگرچہ اہل کشمیر کو اسی وقت جھنجھوڑ کے رکھ دیا تھا لیکن گلاب سنگھ کی انسان کش کارروائیوں اور خوفناک انتقامی اقدامات نے کشمیری مسلمانوں کو اس ظلم و ستم کے خلاف بغاوت کرنے سے وقتی طور پر باز رکھا۔ لیکن گلاب سنگھ کی موت کے بعد ہی یہ جذبات موجزن ہوئے اور1865ء میں کشمیر میں پہلی ابر استبداد اور مطلق العنانیت کے خلاف جہاد کی بنیاد ڈالی گئی جب کشمیری شال بافوں پر ٹیکس لگا کر داغ شال کی بدعت کا آغاز کیا گیا۔ صاحب زادہ حسن شاہ نے اس واقعہ کی تصویر کشی نہایت ہی اثر انگیز پیرائے میں کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’ کشمیر کی تاریخ کے دور قدیم۔ زمانہ وسطیٰ اور زمانہ جدید میں جا بجا محنت کشوں۔ فاقہ کشوں اور مجبور انسانوں کے ظلم و استبداد کے خلاف نبرد آزمائیوں کی داستان مسلسل ملتی ہے۔ ان میں قدیم کشمیری قبائل اور آریاؤں کی آویزش۔ عہد قدیم میں چند راجاؤں اور سرداروں کی کش مکش اور رعایا کے احتجاج ۔ سلاطین کے عہد میں ترکستانی، ایرانی اور کشمیری دھڑوں کی خونریزیاں۔ سلطان نازک شاہ کے عہد میں مرزا حیدر کے خلاف عوامی بغاوت۔ مغلیہ شہنشاہی سے کشمیریوں کی معرکہ آرائیاں اور معصومی خان کی تحریک آزادی سب میں عوامی تحریک حریت کے جانباز پروانوں کی خونی داستانیں پھوٹ پھوٹ کر نکلتی ہیں او رمورخ کے قلم کی پردہ داریوں سے جھانک جھانک کر دیکھتی ہیں۔ شال بافی کی صنعت کا کشمیر میں زمانہ قدیم سے رواج تھا۔ چنانچہ مہا بھارت کے زمانہ میں اس بات کی تاریخی شہادتیں مل جاتی ہیں۔ لیکن اکبر اعظم کے عہد سے اس صنعت کا عروج شروع ہوا۔ اور افغانوں کے عہد میں اس پر سوزن کاری اور کانی کاری کا کام شروع ہونے کی شہادت ملتی ہے۔ اس دور میں پنڈت دلارام قلی کے مشورہ پر حاجی کریم داد خان ناظم کشمیر نے اس صنعت کو حکومت کی آمدنی بڑھانے کا آلہ کار بناتے ہوئے شال بافوں پر ایک ٹیکس لگایا۔ جسے عام اصطلاح میں داغ شال کہا جاتا ہے۔ سکھوں کے دور میں اس ٹیکس میں مزید اضافہ کیا گیا او ران صنعتی مزدوروں پر عرصہ حیات تنگ ہو گیا۔ ان کے لئے اس پیشہ کو چھوڑنا بھی ممنوع قرار دیا گیا اور ایک عجیب قسم کی صنعتی غلامی کو رواج دیا گیا۔ جس کی مثال کسی ملک کی تاریخ میں مشکل سے ملتی ہے۔ مہاراجہ گلاب سنگھ نے اس استحصال میں ڈھیل دینا گوارا نہ کیا۔ گو وہ ان صنعتی مزدوروں کی جتھہ بندی سے بہت مشوش تھا اور ایک بار تو ان کی جرات و شدت مطالبہ سے بوکھلا اٹھا لیکن یہ تحریک کوئی اجتماعی صور ت اختیار نہ کر سکی۔ مہاراجہ رنبیر سنگھ نے حکومت سنبھالتے ہی کشمیر کی صنعت شال بافی کو اپنے اجارہ میں لینے کی کوشش شروع کی اور داغ شال کے محکمہ کی از سر نو تنظیم کر کے کشمیر کے بیربل دھر کے فرزند پنڈت راجہ کاک دھر فرخ کو داروغہ مقرر کر کے شہر سری نگر کے وسط میں صراف کدل کے علاقے کے قریب اس کی کچہری قائم کر دی۔ اس محکمہ کی رشوت ستانی اور جبر و استحصال سے تنگ آ کر صنعتی مزدوروں نے اپنی جتھہ بندی کر کے اجتماعی طور پر جدوجہد کا فیصلہ کر لیا۔ اس عہد کے مورخ ملا خلیل مرجان پوری نے جو پنڈت راجہ کاک دھر کا وظیفہ خوار اور حاشیہ نشین تھا،ا س صنعتی مزدور تحریک کا نہایت معاندانہ طریقے سے ذکر کیا ہے۔ بہر کیف اس جتھہ بندی سے ایوان حکومت میں ایک رعشہ پیدا ہو گیا۔ ادھر اس تحریک کے رہنماؤں نے ٹنکی کدل محلے کے رسول شیخ۔ قدہ لالہ۔ عبلی پال، اور سونہ شاہ پر مشتمل ایک وفد دیوان کرپا رام وزیراعظم کے پاس بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ دیوان مذکوران دنوں پانپور کے دورہ پر تھا۔ چنانچہ بڑی مشکل سے انہیں باریابی حاصل ہوئی اور انہوں نے اپنی دکھ بھری داستان اور محکمہ داغ شال کی رشوت ستانیوں کو بے نقاب کیا۔ ادھر راجہ کاک دھر کو جب اپنا سنگھاسن ڈولتا نظر آیا تو اس نے دیوان کے کان بھرنے شروع کر دیے کہ سب مزدور دراصل میں ڈوگرہ شاہی کا تختہ الٹنے کے درپے ہیں اور انہوں نے دیوان کرپارام اور خود راجہ کاک دھر کو بھی قتل کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ چنانچہ دیوان نے اپنی پوری قوت سے اس انقلابی صورت حال کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی اور راجہ کاک دھر کا تیر عین نشانے پر بیٹھا۔ آخر29اپریل 1865ء کی صبح خونی لبادہ پہن کر جلوہ گر ہوئی اور آزادی کے پروانے حریت کی شمع پر قربان ہونے کے لئے سر بکف ہو کر میدان میں کود پڑے۔ ایک جذبہ و شوق تھا جو انہیں تاج شہادت پہننے کے لئے بے قرار کئے ہوئے تھا۔ ان کے آہنی ارادہ اور عزم و پامردی میں ایک عجیب بانکپن تھا۔ انہوں نے استعار پرستی اور استحصال کی لعنت سے چھٹکارا پانے کی قسمیں اٹھائیں اور ایک طوفانی دریا کی طرح ساحل کو کاٹ کر امڈ آئے اور صنعتی مزدوروں کا ایک جسم غفیر میدان زال ڈگر میں جمع ہو گیا۔ دیوان کرپارام کو پل پل کی خبریں پہنچ رہی تھیں۔ عوام کے اس عزم و اتحاد کی کیفیت سن سن کر وہ کانپ رہا تھا۔ آخر کرنل بجے سنگھ کی ڈوگرہ پلٹن کو آگے بڑھنے کا حکم ہوا۔ اس فوج نے ہجوم کو چاروں طرف سے گھیر کر حاجی راتھر کے پل کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا۔ اور پھر یکایک شورش کر کے کئی لوگوں کو زخمی کر دیا۔ کئی اور آدمیوں کو اٹھا اٹھا کر دریا میں غرق کر دیا۔ اٹھائیس شہیدوں کی لاشیں دست برد سے بچ سکیں۔ تحریک آزادی کے یہ پہلے گمنام شہدا اپنے خون سے ڈوگرہ شاہی کی قسمت پر ایسی لکیر پھیر گئے جس سے تا ابد اس دور استبداد کے ماتھے پر کلنگ کا ٹیکہ لگا رہے گا۔ مزدور بپھرے ہوئے شیروں کی طرح پھر اکٹھے ہوئے اور ان شہیدوں کی لاشوں کا جلوس نکال کر رام باغ تک پہنچے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ ان لاشوں کا جلوس شوپیان اور راجوری کے راستے لے کر جموں میں مہاراجہ کے دربار میں پیش کریں گے اور اس سفاکی کی داد رسی چاہیں گے۔ راجہ کاک دھر نے یہ سنا تو اسے عوامی انتقام کے خیال سے اس قدر وحشت ہوئی کہ اس پر فالج کا دورہ پڑ گیا اور پورے ایک ماہ تک ایڑیاں رگڑ رگڑ کر وہ عدم کو روانہ ہوا۔ دیوان کرپا رام نے اس نئی صورت حال سے نمٹنے کے لئے ایک طرف تسلی، دلاسہ اور رشوت کا سہارا لیا اور دوسری طرف طاقت کا بے باک مظاہرہ کر کے جلوس کو منتشر کر دیا۔ اس کام میں وزیر پنوں۔ دیوان بدری ناتھ داروغہ عدالت اور کرنل بجے سنگھ اس کے شریک کار تھے۔ خطرہ ٹلتے ہی دیوان کرپا رام کی طفل تسلیاں رنگ لائیں اسی شام اس تحریک کے روح رواں رسول شیخ ٹنکی کدلی، قدہ لالہ، عبلی پال اور سونہ شیخ کو گرفتار کر کے قلعہ شیر گڈھی میں نظر بند کر دیا گیا۔ سب سے پہلے تازیانوں سے ان کی کھالیں تار دی گئیں اور جب وہ ادھ موئے ہو گئے تو ان کو بیڑیاں پہنا کر اور گلے میں لوہے کے گولے لٹکا کر ساتھ ہی بہنے والے دریائے جہلم میں پھینک دیا گیا۔ رسول شیخ اور عبلی پال اس تشدد کی تاب نہ لا سکے اور اسی کیفیت میں جام شہادت نوش کر کے ملک و قوم کی خدمت سے سرخرو ہوئے۔ اس کے بعد کارکنوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی اور دو تین سو کارکن سبک کے قید خانے میں ڈال دئیے گئے۔ اس طرح تحریک آزادی کی یہ درخشندہ شعاع سفاکی و استبداد اور جبر و ستم کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں چھپ گئی۔ لیکن ایک ایسی یاد چھوڑ گئی جو آئندہ محبان وطن کے دلوں کو گرماتی رہی۔ (16) مہاراجہ رنبیر سنگھ نے 1857ء میں کشمیر کی فرمان روائی کا تاج پہن لیا۔ یہ وہ تاریخی سال ہے جب انگریزوں کے خلاف ہندوستان میں جنگ آزادی کا بگل بج اٹھا تھا۔ رنبیر سنگھ نے اس غرض سے کہ اسے انگریزوں کی خوشنودی حاصل رہے دو ہزار سے زیادہ پا پیادہ اور گھوڑ سوار فوجی اور چھ توپیں دہلی روانہ کر دیں تاکہ یہ انگریزوں کی عسکری طاقت کا ایک حصہ بن سکیں۔ (17) 1876ء میں جب ایڈورڈ ہفتم جموں آیا تو استقبالیہ تقریبات پر خرچہ کا بوجھ بھی خستہ حال اور مفلس کسانوں اور مزدوروں کو اٹھانا پڑا جن کے گھروں پر شب خون مار کر یہ روپیہ ان سے زبردستی چھین لیا گیا۔ شاہ برطانیہ کے سامنے مہاراجہ رنبیر سنگھ نے ایک تقریب میں انگریزوں کے تئیں اپنی وفاداری کا اپھر اعادہ کیا۔ مہاراجہ پرتاپ سنگھ 1885ء میں تخت نشین ہوا اور1925ء میں اس کی چالیس سالہ حکومت کا اختتام ہوا۔ پرتاپ سنگھ کے بارے میں تاریخ کے صفحات ایسے واقعات سے بھرے پڑے ہیں جن سے اس کی مسلم دشمنی اور کٹر قسم کے ہندو پن کا ثبوت ملتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر صبح اٹھ کر وہ کسی مسلمان کا منہ دیکھتا تو یہ بات ناقابل حد تک اسے ناگوار گزرتی تھی۔ اگر اس کے قالین کو جس پر وہ بیٹھتا تھا کسی مسلمان یا عیسائی کا ہاتھ یا پاؤں چھو لیتا تو وہ نہ صرف قالین بدل دیتا بلکہ اپنا حقہ بھی توڑ ڈالتا جو وہ وقفہ وقفہ کے بعد پیتا تھا (18) وہ ساری عمر پنڈتوں کے مشورے کے بغیر کوئی کام کرنے پر کبھی راضی نہیں ہوا۔ جب23ستمبر1925ء کو اس کا انتقال ہوا تو دم توڑتے وقت ہندو رسم کے مطابق اسے محل کے بالائی کمرے سے جلدی جلدی اتار کر نیچے لایا گیا تاکہ وہ دھرتی ماتا کی چھاتی پر جان دیدے۔ وہاں ایک گائے اس کی منتظر تھی۔ مرتے ہوئے مہاراجہ اور گائے کے درمیان ایک دھاگا باندھا گیا کیونکہ مہاراجہ کو اس وقت اتنا ہوش ہی نہ تھا کہ وہ گائے کی دم پکڑ سکے۔ دھاگا باندھنے سے یہ امر یقینی ہو گیا کہ اس کی روح دوسری دنیا میں صحیح سلامت پہنچ جائے گی۔ اس موقعے پر ریاست جموں و کشمیر کے باہر سے ایک برہمن بھی لایا گیا اس کے سر سے پیر تک بال مونڈے گئے اور ان تمام چیزوں کی علامتیں جو مہاراجہ کے استعمال میں رہتی تھیں، اسے پیش کی گئیں مثلاً بستر کی چادریں، کھانے کے برتن، ایک موٹر، گھوڑا، سونا، چاندی، روپیہ وغیرہ۔ جب مہاراجہ کا انتقال ہوا تو اس برہمن کو پولیس نے ریاست سے نکال باہر کیا اور واپس آنے کی بالکل ممانعت کر دی کیوں کہ وہ اپنے ساتھ مرے ہوئے مہاراجہ کے تمام گناہ لے گیا تھا۔ (19) ہری سنگھ اپنے چچا پرتاپ سنگھ کی موت کے بعد1925ء میں کشمیر کا راجہ بن گیا۔ ہری سنگھ کا باپ امر سنگھ1909ء میں انتقال کر چکا تھا اور پرتاپ سنگھ کے کوئی نرینہ اولاد نہ ہونے کی وجہ سے ریاست کی حکمرانی کا تاج ہری سنگھ کے سر کی زینت بنگ یا۔ اس آخری ڈوگرہ مہاراجہ کی کابینہ میں خارجی اور سیاسی امور کے وزیر سر ایلمین بنر جی نے 1929ء کے موسم بہار میں ایک آتش بار بیان دیا جو اخبارات میں شائع ہو کر بحث و تمحیص کا موضوع بن گیا۔ یہ بیان انہوں نے 15مارچ کو لاہور میں ایسوی ایٹڈ پریس کے نمائندے کو دیا۔ اس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’ ریاست جموں و کشمیر میں راجہ اور پرجا کے درمیان کوئی تعلق نہیں۔ ریاستی عوام کے ساتھ بھیڑ بکریوں کا سا سلوک کیا جاتا ہے۔‘‘ بنر جی نے مسلمانوں کے حال زار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ریاست کے اندر مسلمانوں کی آبادی اسی فیصد ہ لیکن انہیں اچھوتوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ تعلیمی میدان میں انہیں سب سے پیچھے رکھا جاتا ہے۔ حکومت کے سارے اداروں پر ہندوؤں کا قبضہ ہے۔ا ٓزادء رائے کا کہیں نام و نشاں تک نہیں ہے اور سبھی مسلمان حاکم طبقہ کے رحم و کرم پر جی رہے ہیں۔‘‘ بنر جی دو سال تک مہاراجہ کے ساتھ کام کرنے کے بعد مستعفی ہو گئے تھے۔ ڈوگرہ راج کے دوران کشمیر کی جو حالت رہی اس کا عکس بیرن سچون برگ نے بھی اس سے قبل ہی کھینچا تھا جب انہوں نے لکھا تھا کہ زراعتی زمین کا مالک زمیندار بھارسی ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ دستکار اور جولا ہے بھی پریشان حالی میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ایک شال باف کی روزانہ مزدوری صرف چار آنہ ہے جس میں سے نصف رقم حکومت ٹیکس کی شکل میں وصول کرتی ہے۔ باقی دو آنے اسے سرکاری راشن ڈپو سے سنگھاڑوں یا چاول کی شکل میں دئیے جاتے ہیں جس کی قیمت بھی عام قیمت سے زیادہ وصول کی جاتی ہے۔ یہی وہ دن ہیں جب فانی بدایونی نے جنت ارضی کا نقشہ اس درد ناک لہجہ میں کھینچا: اس باغ میں جو کلی نظر آتی ہے تصویر فسردگی نظر آتی ہے کشمیر میں ہر حسین صورت فانی مٹی میں ملی ہوئی نظر آتی ہے پھولوں کی نظر نواز رنگت دیکھی مخلوق کی دلگداز حالت دیکھی قدرت کا کرشمہ نظر آیا کشمیر دوزخ میں سموئی ہوئی جنت دیکھی کشمیر کے عوام اگرچہ اپنی جغرافیائی حد بندیوں۔ خدا پرستی اور انسان نوازی اور دادی کے مخصوص ماحول کے صوفیانہ اور روحانی پس منظر میں جنگ جویانہ طرز عمل اختیار کرنے کے کبھی خوگر نہیں رہے ہیں۔ لیکن ان کے ذہنوں میں ہمیشہ بیرونی اور غیر ملکی جارح کے خلاف نفرت اور بغاوت کے شعلے دیکتے رہے ہیں۔ 1947ء میں جب برصغیر ہندوستان کو آزادی نصیب ہوئی اور یہ ملک دو آزاد مملکتوں بھارت اور پاکستان کے نئے پیکر میں ڈھل گیا تو کشمیر اور کشمیری عوام کی تقدیر کی کشتی پھر ہچکولے کھانے لگی وج رفتار زمانہ کی ناموافق لہروں کے تھپیڑے کھاتی ہوئی بالآخر طوفانوں کی گہرائیوں میں وقتی طور پر ڈوبنے پر مجبور ہو گئی۔ کشمیر کا تشخص اور اہل کشمیر کی آبرو ایسے ہی مخاصمانہ طوفانوں میں تحلیل کئے جانے کی غرض سے مختلف طاقتیں اس مجبوری اور عوام کی بے بسی کا سہارا وقتاً فوقتاً لیتی رہیں۔ کشمیر کے دار الحکومت سری نگر کے جنوب میں ریشم سازی کا ایک قدیم کارخانہ ہے جسے ریشم خانہ کہتے ہیں۔ اس کارخانے میں ہندو حاکموں کی طرف سے مسلمان کاریگروں اور مزدوروں کو برابر تنگ کرنے کا سلسلہ جاری تھا کہ وادی کشمیر کے مسلم نمائندوں کی طرف سے حکومت وقت کو ان زیادتیوں کے خلاف شکایات موصول ہوئیں۔ سرکار نے برائے نام ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کر لیا۔ لیکن اس کی رپورٹ کو پوشیدہ رکھا گیا۔ البتہ ایک ہندو افسر کو ہٹا کر دوسرے ہندو کو وہاں تعینات کیا گیا۔ اس پر کاریگروں نے ہڑتال کر دی۔ 21جولائی1924ء کو پولیس نے اکیس مزدور لیڈروں کو حراست میں لے لیا اور اس کے اگلے دن پولیس کی ایک بہت بھاری تعداد نے رسالہ فوج کی مدد سے تقریباً ایک ہزار مزدوروں پر حملہ کیا۔ بیشتر لوگ زخمی ہو گئے۔ اس تشدد سے اہل کشمیر کی خفتگی ختم ہوئی اور وہ بغاوت کا جھنڈا اٹھائے شخصی حکومت کے خلاف بر سر پیکار ہوئے۔ ہم عصر تحریک حریت کشمیر پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ ریشم خانہ کا یہ واقعہ بھی بہت حد تک کشمیری مسلمانوں کی بیداری کا سبب بنا۔ ان کی مظلومیت کی آواز باہر تک پہنچی اور لاہور اور امرتسر میں کل ہند مسلم کشمیری کانفرنس نے ان کی حمایت میں عام جلسے کئے۔ (20) سولہویں صدی میں مغلوں کی جارحیت کا مقابلہ کرتے ہوئے سلاطین کی رہنمائی میں کشمیریوں نے جس جگر داری کا مظارہ کیا تھا تین سو سال بعد یہ بغاوت اسی جذبہ آزادی کے تسلسل میں ایک نئی صورت اختیار کر کے سامنے آئی تھی۔ ریشم خانہ کے بارے میں منشی محمد دین فوق نے ڈوگرہ حکومت کی بربریت پر ’’ بڈشاہ کی روح سے سوال و جواب‘‘ کے عنوان سے ایک درد ناک نظم کہی جو ان کے مجموعہ کلام میں درج ہے۔ 1924ء کی اس عوامی تحریک کو اگرچہ ڈوگرہ مہاراجہ نے طاقت اور تشدد کے بل بوتے پر وقتی طور پر دبا ہی لیا۔ لیکن یہ لاواہر کشمیری کے دل و دماغ میں اندر ہی اندر پکتا رہا اور سات سال بعد پھر ایک بار جدوجہد آزادی کے ایک نئے طوفان کی شکل میں ابل پڑا۔ 1931ء کے آغاز میں صوبہ جموں کی تحصیل اودھم پور کا ایک ہندو زمیندار مسلمان ہو گیا۔ تحصیلدار نے کاغذات مال سے اس کا نام خارج کر دیا۔ اس کی جائیداد پر اس کا بھائی قابض ہو گیا۔ زمیندار نے عدالتی چارہ جوئی کی تو جج نے قانونی کارروائی کے دوران زمیندار سے کہا کہ ’’شدھ‘‘ ہو جائے تو جائیداد واپس مل جائے گی۔ زمیندار نے مرتد ہونے سے انکار کیا تو اس کا دعویٰ خارج کیا گیا۔ (21) اسی سال جموں میں کھیم چند نامی ایک انتہا پسند ہندو کے ہاتھوں قرآن شریف کی توہین ہوئی اور اس کے ساتھ ہی 29اپریل کو عید کے روز ایک امام کو مسجد میں خطبہ پڑھنے سے روکا کیا۔ ان واقعات سے مشتعل ہو کر جموں کی ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن نے کچھ احتجاجی پوسٹر چھپوا کر سری نگر بھیجے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب حکومت کے خلاف منہ سے کوئی لفظ تک نکالنا بھی بغاوت تصور کیا جاتا تھا چہ جائے کہ پوسٹر لگائے جائیں۔ یہ پوسٹر سری نگر میں در و دیوار پر لگانے کی پاداش میں ڈوگرہ سپاہی کئی لوگوں کو گرفتار کر کے لئے گئے جس کے رد عمل میں8مئی 1931ء کو جمعہ کے دن سری نگر کی تاریخی جامع مسجد میں ایک بہت بڑا احتجاجی جلسہ ہوا جس میں میر واعظ کشمیر مولانا محمد یوسف شاہ کی ایما پر غلام نبی گلکار نے اولین تقریر کی۔ اس اجتماع کا لازمی طور پر یہ نتیجہ ہوا کہ اس وقت کے کشمیر کے گورنر راے زادہ تریلوک چند کول نے جو جامع مسجد کی انتظایہ کمیٹی کا خود ساختہ صدر بھی تھا، مسجد میں تقریروں اور جلسوں پر پابندی عائد کر دی۔ جموں میں وقوع پذیر توہین قرآن اور دیگر نا خوشگوار واقعات کے سلسلے میں سارے حقائق کو مہاراجہ ہری سنگھ کے روبرو پیش کرنے کی غرض سے کشمیر اور جموں میں مسلمانوں کے چیدہ چیدہ نمائندوں کے ایک وفد کو تشکیل دی گئی جس میں وادی کشمیر سے میر واعظ مولانا محمد یوسف شاہ، میر واعظ احمد اللہ ہمدانی، سعد الدین شال، آغا سید شاہ جلالی، غلام احمد عشائی، منشی شہاب الدین اور شیخ محمد عبداللہ کو شامل کیا گیا اور جموں سے اس وفد میں شمولیت کی غرض سے چودھری غلام عباس خان، سردار گوہر رحمان، شیخ عبدالحمید اور مستری یعقوب علی کو دعوت دی گئی۔ وفد کے نمائندوں کی توثیق21جون1931ء کو سرینگر کی خانقاہ معلی کی زیارت گاہ میں منعقدہ اس عظیم الشان اجلاس میں کی گئی جس میں شرکت کرنے والوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ تھی۔ اسی جلسے کے انعقاد کو تحریک آزادی کشمیر کا سنگ میل کہا جا سکتا ہے۔ میر واعظ مولانا محمد یوسف شاہ نے اس کی صدارت کی۔ تاریخ کشمیر میں اپنی نوعیت کا یہ جلسہ عام اختتام پذیر ہوا ہی چاہتا تھا کہ عبدالقدیر نامی ایک ہٹا کٹا اور تنومند شخص بغیر کسی دعوت کے دم زدن میں اسٹیج پر موجود ہوا اور تقریر کرنے لگا۔ عبدالقدیر پشاور کا رہنے والا ایک پٹھان تھا جو ایک سیاح ٹی بی بٹ کے نوکر کی حیثیت سے مراد آباد سے کشمیر آیاد تھا اس نے اپنی تقریر میں مہاراجہ کشمیر اور ہندوؤں کو پانی پی پی کر کوسا۔ قدیر کی تقریر کو خلاف قانون قرار دے کر اسے چار روز بعد نسیم باغ کے مقام پر ایک ہاؤس بوٹ سے گرفتار کر لیا گیا۔ مقدمہ کی سماعت چھ جولائی سے شروع ہوئی جو متواتر چار دن تک جاری رہی لیکن حکومت کو یہ دقت پیش آئی کہ عدالت کے باہر روزانہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہو جاتے تھے اور عدالتی کارروائی کو جاری رکھنا مشکل ہو جاتا تھا۔ چنانچہ حکام نے فیصلہ کر لیا کہ کارروائی سری نگر کے سینٹرل جیل کے بند احاطہ میں انجام دی جائے گی اور اس کے لئے 13 جولائی کی تاریخ مقرر کی گئی۔ 13جولائی1931ء کو سلطان العارفین حضرت شیخ حمزہ مخدوم رحمتہ اللہ علیہ کے سالانہ عرس کا دوسرا دن تھا اور لوگ اس زیارت گاہ پر صبح ہی سے کوہ ماران (ہاری پربت) کے چاروں طرف سے آنا شروع ہوئے تھے۔ چونکہ سینٹرل جیل ہاری پربت کے دامن میں آستانہ مخدوم کی مشرقی سمت میں واقع ہے لہٰذا زائرین کی اکثر تعداد جیل کے بیرونی احاطے میں بھی جمع ہو گئی۔ سپاہیوں اور جیل کے پہرہ داروں کی طرف بڑھتے ہوئے ہجوم کو تتر بتر کرنے کے مسلسل عمل نے صورت حال میں مزید تناؤ پیدا کر لیا۔ کچھ دیر بعد کسی منچلے نے یہ اڑائی کہ قدیر کو پانچ سال قید کی سزا ہو گئی۔ یہ سننے کی دیر تھی کہ لوگ جوق در جوق جیل کے دروازے کھول کر زبردستی اندر داخل ہو گئے۔ سپاہی جب مغلوب ہونے لگے تو انہوں نے گولیاں چلانی شروع کیں لاشوں پر لاشیں گرنے لگیں اور یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح سارے شہر میں آناً فاناً پھیل گئی۔ یہی وہ عہد آفریں دن تھا جب اہل کشمیر نے تاریخ حریت کے ایک نئے باب کی تمہید اپنے خون سے رقم کر لی۔ حفیظ جالندھری نے اپنی نظم’’ خون کے چراغ‘‘ میں ان شہدا کی پکار اہل کشمیر کو اس طرح سنائی ہے: اے رفیو سر فروشو سنتے جاؤ ایک بات ہم بھی زندہ تھے کبھی ہم کو بھی پیاری تھی حیات تھا پر پرواز بھی اپنا کبھی افلاک پر آج ہم قبروں میں ہیں سوئے ہیں فرش خاک پر معرکہ آراؤ ہاں آگے بڑھو بڑھتے چلو غاصبوں پر تند شیروں کی طرح چڑھتے چلو اب تمہارے ہاتھ اس آغاز کا انجام ہے ہم یہاں کام آ گئے آگے تمہارا کام ہے لالہ رو یہ تربتیں یہ سینہ ہائے داغ داغ ہم نے اپنے خون سے روشن کئے ہیں یہ چراغ سر فروشو! ان چراغوں سے ضیا لیتے ہوئے آگے اور آگے بڑھو نام خدا لیتے ہوئے مسلمانان کشمیر کے سیاسی اور اقتصادی مسائل کو ایک پرچم تلے مل بیٹھ کر حل کرنے کی غرض سے اکتوبر1932ء میں کشمیر میں پہلی بار ایک باقاعدہ سیاسی تنظیم جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کا قیام عمل میں لایا گیا۔ شیخ محمد عبداللہ اس کے اولین صدر مقرر کئے گئے۔ تاریخ کشمیر کے ایک ہم عصر مورخ پر تھوی ناتھ گول بامزئی کے بقول ’’ اگرچہ کانفرنس اپنے نام کی مناسبت سے ایک ہی فرقے کی نمائندگی کی ترجمان تھی لیکن مسلم کانفرنس ابتدائے آفرینش ہی سے اپنی پالیسی کے حوالے سے ایک قومی کردار کی حامل رہی۔‘‘ (22)۔ البتہ بامزئی کے خیال میں فرقہ پرستی کے سہارے جموں میں مسلمانوں کا ایک گروہ پیدا ہوا۔ اگرچہ وادی کشمیر میں اس کا اثر بہت کم رہا۔ اس موقع پر بامزئی کا یہ الزام محض ایک متعصبانہ ذہن کا غماز ہے کہ ’’ کشمیر کمیٹی کا سربراہ بنے جانے کے بعد علامہ اقبال کی طرف سے کشمیر میں فرقہ واریت پرمبنی ایجی ٹیشن کو زندہ رکھنے کی کوشش ناکام ثابت ہوئی (23) اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ اقبال کشمیری مسلمانوں کو دیگر تمام فرقوں کے ساتھ رواداری اور رفاقت کی برابر تلقین کرتے رہے۔‘‘ 1936ء کی ابتدا میں مہاراجہ ہری سنگھ نے گوپالا سوامی آئینگر کو ریاست کا وزیراعظم مقرر کر لیا۔ آئینگر ایک انتہا پسند ہندو تھا اور اس کی نظروں میں مسلمانوں کی سیاسی قوت کو پارہ پارہ کرنے کا عمل ایک مقدم فریضہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ چنانچہ اس نے مسلمانوں کی بہتری اور برتری کے علمبردار میر واعظ مولانا محمد یوسف شاہ اور ان کے نام نہاد سیکیولر حریف شیخ عبداللہ کے درمیان اختلافات کی خلیج کو وسیع کرنے کے لئے سازشوں کا جال پھیلایا۔ یہ اختلافات پہلے ہی منظر عام پر آ چکے تھے کیونکہ عبداللہ کشمیری مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر فرقوں کی رہنمائی کرنے کے بھرم میں مسلم کانفرنس کی ہیئت کو تبدیل کر کے اسے بھارت کی انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ ہم آہنگ کرنا چاہتے تھے۔ اپنے اس جذبہ کا اظہار عبداللہ نے 26مارچ1938ء کو مسلم کانفرنس کے چھٹے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یوںکیا’’ جب ہم اپنے سیاسی مسائل کو زیر بحث لائیں تو ہمیں مسلم اور غیر مسلم کی اصطلاحوں میں سوچنے کا سلسلہ ترک کر کے فرقہ پرستی کو ختم کر دینا چاہئے اور ہمیں اپنے دروازے ان تمام ہندوؤں اور سکھوں کے لئے کھول دینے چاہئیں جو ہماری ایک غیر ذمہ دار حکومت کے شکنجے سے اپنے ملک کی آزادی میں یقین رکھتے ہیں۔‘‘ (24) 28جون1938ء کو مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کا ایک طویل اجلاس ہوا جس میں باون گھنٹوں تک گرما گرم بحث ہوتی رہی اور بعد میں ایک قرار داد کے ذریعہ یہ طے پایا کہ کانفرنس میں تمام لوگ بلا لحاظ مذہب و ملت شامل ہو سکتے ہیں۔ اس طرح جون1939ء میں مسلم کانفرنس کی جگہ باضابطہ طور پر نیشنل کانفرنس کا وجود عمل میں لایا گیا اور غلام محمد صادق کو اس کا پہلا سربراہ بنایا گیا لیکن ریاست کی کئی شخصیتوں نے اس تبدیلی سے اختلاف کرتے ہوئے مسلم کانفرنس کا دامن تھامے رکھا اور وہ اواخر عمر تک اسی تنظیم کے پرچم تلے اپنی سیاسی کارکردگی انجام د یتے رہے۔ خاص طور پر جب 1944ء میں قائداعظم محمد علی جناح کشمیر کے دورہ پر آئے اور انہوں نے مسلم کانفرنس کے سالانہ اجلا س کی صدارت کی تو اس سے اس تنظیم میں ایک نئی روح پھونکی گئی۔ جوزف کور بیل کا کہنا ہے کہ ’’ حالات بہت جلد نیشنل کانفرنس کے خلاف ہو گئے۔ چونکہ برطانوی ہند میں مسلمان ایک خود مختار پاکستان کی تحریک کے حامی بنتے گئے۔ جموں و کشمیر میں بھی مسلمان چودھری غلام عباس کی زیر قیادت مسلم کانفرنس میں واپس آنے لگے اور اس طرح سے انہوں نے شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کی صفوں کو خیر باد کہہ دیا۔‘‘ (25) 1945کے موسم گرما میں سری نگر سے 30میل شمال مغرب میں سوپور کے سیبوں کے قصبے میں نیشنل کانفرنس کا ایک تاریخی اجلاس ہوا جس میں کل ہند سٹیٹش پیوپلز کانفرنس کی مجلس قائمہ کے کئی اراکین نے جواہر لال نہرو کی قیادت میں شرکت کی ان میں ممتاز کانگریسی رہنما مولانا ابو الکلام آزاد اور خان عبدالغفار خان بھی شامل تھے۔ اس اجلاس کی کارروائی کے دوران ہندوستانی سیاست دانوں نے اپنی تقریروںمیں اس حد تک سیکیولرزم اور فرقہ وارانہ یک جہتی کی ضرورت پر زور دیا کہ عبداللہ کو اپنا آپ ان کی طرف کھینچتا ہوا محسوس ہوا اس کے بعد تاریخ گواہ ہے کہ شیخ عبداللہ اسی وقت سے کشمیر اور ہندوستان کے رشتہ کو قائم کرنے کی سیاست گری میں مصروف کار ہوئے۔ مئی1946ء میں شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس نے مہاراجہ کشمیر کے خلاف یہ دو نعرے لگا کر کویٹ کشمیر (Quit Kashmir) کی تحریک شروع کی کہ ’’ بیع نامہ امرتسر کو توڑ دو۔ کشمیر کو چھوڑ دو۔‘‘ تاکہ اقتدار علی کشمیری عوام کے ہاتھوں میں منتقل کیا جا سکے۔ اس تحریک کو بھی نئی دہلی کے کانگریسی سیاست دانوں کی پس پردہ حمایت حاصل تھی کیونکہ کشمیر چھوڑ دو کا نعرہ لگا کر جب عبداللہ گرفتار کر لئے گئے تو جواہر لال نہرو ان کے ساتھ اپنی یک جہتی کا مظاہرہ کرنے کی غرض سے دوڑے دوڑے کشمیر کی طرف روانہ ہوئے لیکن ہری سنگھ نے انہیں بھی مظفر آباد کے نزدیک دو میل کے مقام پر گرفتار کروایا۔ کیونکہ مہاراجہ کی طرف سے کشمیر میں نہرو کے داخلے پر پہلے ہی پابندی عائد کی گئی تھی۔ کشمیر چھوڑ دو تحریک کے آغاز پر عبداللہ کے خلاف وادی کشمیر میں ان الزامات کی بوچھاڑ ہوئی کہ یہ ایجی ٹیشن دراصل انہوں نے اپنی گرتی ہوئی ساکھ بحال کرنے کی غرض سے چلائی ہے۔ کیونکہ ہند نواز پالیسیوں کی وجہ سے وہ اہل کشمیر میں اپنی مقبولیت کھو چکے تھے۔جیسا کہ ان کے ایک دیرینہ ساتھی پریم ناتھ بزاز نے بھی اپنے اخبار’’ ہمدرد‘‘ میں عبداللہ پر موقعہ پرستی کا الزام عائد کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ انہیں مسلمانوں یا ہندوؤں کا نمائندہ کہلانے کا کوئی حق نہیں پہنچتا کیونکہ ایک طرف مسلمان عام طور پر مسلم کانفرنس کے پیروکار ہیں اور دوسری جانب ہندوؤں کی اپنی جماعتیں موجود ہیں۔‘‘ (26) شیخ عبداللہ کو یہ تحریک چلانے کی پاداش میں نو سال کی قید ہوئی لیکن اس کے صرف سولہ مہینے بعدہی انہیں ستمبر1947ء میں رہا کر دیا گیا۔ جوز کوربیل کے خیال میں عبداللہ کی یہ غیر متوقع رہائی نئی دہلی میں وزیراعظم جواہر لال نہرو کی مداخلت سے ہی ممکن ہو سکی کیونکہ مسلم کانفرنس کے جن رہنماؤں کو جموں میں ایسی ہی ایجی ٹیشن چلانے کے لئے اگرچہ کم مدت کی سزائیں ہوئی تھیں لیکن انہیں بدستور جیلوں میں ہی بند رکھا گیا۔ (27) مقامی سطح پر شیخ عبداللہ اور ان کی جماعت نیشنل کانفرنس اب بھارت کے کانگریسی رہنماؤں خاص کر جواہر لال نہرو کے اس ’’ دام الفت‘‘ میں پھنس چکے تھے جس کے ذریعہ نرو اپنی ’’ سحر آفرین خوبصورتی کی حامل عورت کی طرح حسین و جمیل وادی کشمیر‘‘ کو ہمیشہ کے لئے بھارت کا ایک حصہ بنانے کا بہت ہی پیارا خواب دیکھ رہے تھے۔ تاریخ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ شیخ عبداللہ نے محض اقتدار کی خاطر اور غالباً محمد علی جناح کے تئیں اپنے رویہ سے خوف زدہ ہو کر نہرو کا یہ خواب خود ہی پورا کر لیا۔ حالانکہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد بھی قائداعظم عبداللہ کو قبول کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کر رہے تھے۔ عبداللہ کی عاقبت نا اندیشی ایک پوری کشمیر قوم کو کھا گئی اور ایک چھوٹی سی وادی میں رہنے والے اس قوم کے لاکھوں لوگ جن مصائب اور طرح طرح کی پریشانیوں سے دو چار ہوئے اور ہوتے رہے ہیں، شیخ عبداللہ اگر ایک جہان دیدہ سیاست دان ہوتے تو غالباً ان کا فہم انہیں چند لمحوں پر حاوی وہ اقدام کرنے سے اسی وقت باز رکھتا جس کی سزا صدیوں پر پھیلے ہوئے ایک عرصہ دراز کے لئے بے گناہوں اور بے قصوروں کا مقدر بن سکتی ہے۔ 1947ء میں جب ہندوستان آزاد ہوا تو ایک آزاد اسلامی مملکت پاکستان کا وجود بھی عمل میں آیا۔ متحدہ ہندوستان میں موجود پانچ سو چوراسی نیم خود مختار ریاستوں سے کہا گیا کہ وہ برصغیر کی تقسیم کے ساتھ ہی اپنے عوام کی خواہشات کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ ملحق ہو جائیں۔ ریاست جموں کشمیر میں اس وقت پانچ اہم علاقے شامل تھے جن میں وادی کشمیر جموں، لداخ اور گلگت اور بلتستان شامل ہیں، کل ملا کر ریاست میں مسلمانوں کی آبادی77 فیصد کی بھاری اکثریت میں تھی۔ اس کا منطقی نتیجہ یہی تھا کہ مہاراجہ ہری سنگھ پاکستان کے ساتھ ریاست کے الحاق کا اعلان کرتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا حالانکہ اس سے قبل 19جولائی1947ء کو کشمیری مسلمانوں کی نمائندہ سیاسی تنظیم مسلم کانفرنس نے سری نگر میں ایک قرار داد کے ذریعہ ریاست کے پاکستان کے ساتھ ملحق ہونے کی تائید کی تھی۔ کشمیر کے ساتھ ساتھ ہند کی دو اور ریاستوں حیدر آباد اور جونا گڑھ نے بھی الحاق کے معاملہ میں اپنی مرضی کو ترجیحی طور پر روبہ عمل لانے کی سعی کی جو بہر حال ناکام بنا دی گئی۔ حیدر آباد کا حکمران ایک مسلمان میر عثمان علی خان نظام دکن تھا جو خود مختار رہنے کا خواہش مند تھا لیکن بھارت سرکار نے اس عندیہ کی بنا پر کہ ریاست میں اکثریت ہندوؤں کی ہے اور انہیں ایک مسلمان حکمران کی ماضی کے تابع نہیں رکھا جا سکتا، 13ستمبر1948ء کو فوج کشی کر کے حیدر آباد پر دھاوا بول دیا اور اسے بھارت کے ساتھ ملحق کر دیا۔ یہ ریاست اب آندھرا پردیش کہلاتی ہے۔ اسی طرح مغربی ہند میں واقع ایک چھوٹی سی ریاست جونا گڑھ کے مسلمان حکمران نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا ارادہ کیا چونکہ اس سیاست میں بھی آبادی کی اکثریت ہندوؤں پر مشتمل تھی لہٰذا بھارتی فوج جونا گڑھ میں بھی داخل ہو گئی اورایک استصواب رائے کے ذریعہ یہ معلوم کیا گیا کہ جوناگڑھ کی ریاست کے لوگ بھارت کے ساتھ الحاق کے حق میں ہیں۔ یہ ریاست اب بھارتی صوبہ گجرات کا ایک حصہ ہے۔ ریاست جموں و کشمیر کے سلسلے میں ان اصولوں اور قواعد کو مکمل طور پر بالائے طاق رکھا گیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ پچاس سال گذر جانے کے باوجود ابھی تک کشمیر کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ نہیں ہو سکا ہے۔ اگرچہ انجمن اقوام متحدہ نے کئی قرار دادیں اس غرض سے منظور کی ہیں کہ ایک آزادانہ رائے کے ذریعہ اہل کشمیر سے یہ دریافت کیا جائے کہ آیا وہ بھارت میں رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ اپنی تقدیر وابستہ کرنے کے خواہاں ہیں۔ 15اگست1947ء اور26اکتوبر1947ء کے چھوٹے سے عرصے کے دوران کشمیر کے حوالے سے برصغیر میں صورتحال میں زبردست تغیرات ظاہر ہوئے اور مہاراجہ ہری سنگھ کی افواج کے ظلم و ستم کے خلاف پونچھ ضلع میں مقامی بغاوت بعد میں ایک مکمل جنگ کی صورت اختیار کر گئی۔ کوئی ایک سو سال قبل گلاب سنگھ ڈوگرہ نے یہیں پر مسلمانوں کا قتل عام کرایا تھا جس کی خون آشام یادیں اب تک پونچھ کے لوگوں کو چر کے لگا رہی تھیں۔ بھارت نے پاکستان پر الزام لگایا کہ اس نے مہاراجہ ہری سنگھ کی خود مختار ریاست پر قبائلیوں کے ذریعہ حملہ کروایا اور 26اکتوبر کو کشمیر بھارت الحاق کے بعد نئی دہلی پر یہ شرط عائد ہو گئی کہ وہ ریاست جموں و کشمیر کا علاقائی تحفظ کرے جواب اس کے بقول ’’ بھارت ہی کا ایک حصہ بن چکی تھی۔‘‘ فی الحقیقت مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے بھارت سرکار کو فوجی امداد کے لئے درخواست دینا اور پھر راتوں رات بھارتی مسلح افواج کا سری نگر پہنچ جانا ایک ایسی سازش کا پردہ چاک کرتا ہے جس کے تانے بانے اس سے قبل ہی نئی دہلی اور سری نگر کے درمیان بنے گئے تھے اس سلسلے میں شیخ محمد عبداللہ نے اپنے سیاسی مربی اور دوست، وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی علی الاعلان حمایت کے بل بوتے پر مہاراجہ ہری سنگھ کو ریاست بدر کرنے اور بعد میں ریاست کو بھارت کا حصہ بنانے کا منصوبہ بہت پہلے مرتب کر لیا تھا۔ 1932ء میں قائم شدہ مسلم کانفرنس کو بعد میں1939ء میں نیشنل کانفرنس میں تبدیل کرنے کی تحریک بھی عبداللہ کو نہرو ہی سے ملی تھی جس میں عبداللہ کو شیشے میں اتارنے والے چند غیر مسلموں پریم ناتھ بزاز۔ سردار بدھ سنگھ اور کیشپ بندھو نے ایک موثر رول ادا کیا تھا تاکہ اہل کشمیر کی بھاری اکثریت کے منشاء کے خلاف کشمیر کو بھارت کے ساتھ ملحق کیا جائے۔ السٹائر لیمب نے بالخصوص کشمیر بھارت الحاق کے سلسلے میں اپنی تحقیقاتی تصانیف میں بھارت کے اس دعویٰ کی نفی کی ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے واقعی دستاویز ہند کشمیر الحاق پر اپنے دستخط ثبت کر لئے ہیں۔ لیمب نے تاریخی واقعات کے تسلسل کی روشنی میں کہا ہے کہ مہاراجہ اس دستاویز پر دستخط کرنے سے ہر وقت کتراتے ہی رہے۔ اسی حقیقت کے پیش نظر حکومت ہند نے دستاویز الحاق کے اصل مسودہ کو آج تک ایک سرکاری دستاویز کی حیثیت میں یا بین الاقوامی اخبارات میں کبھی پیش نہیں کیا۔ ایک بھارتی صحافی ایم جے اکبر نے بھی جو خود کانگریس جماعت کے ممبر پارلیمنٹ رہ چکے ہیں، ہند کشمیر الحاق کو’’ پاکستان کو کشمیر سے محروم رکھنے والی نہر و ماؤنٹ بیٹن سازش‘‘ کا نام دیا ہے۔ (28) 22اکتوبر1947ء کو شروع ہونے والی ’’ قبائلی مداخلت‘‘ سے لے کر 27اکتوبر تک کے تمام حالات و واقعات اور مہاراجہ ہری سنگھ، شیخ عبداللہ۔ مہر چند مہاجن اوروی پی مینن کی حرکات و سکنات کا تاریخ وار مشاہدہ کرنے کے بعد پروفیسر لیمب یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ’’ اصل دستاویز الحاق در حقیقت ایک طبع شدہ فارم سے زیادہ کچھ نہیں تھی جیسے کہ ڈرائیونگ لائسنس کے لئے چھپی ہوئی درخواستیں فوری طور پر دستیاب ہوتی ہیں۔ لہٰذا اسی لئے اس میں ریاست کے نام مہاراجہ کے دستخط اور تاریخ کے لئے جگہ خالی چھوڑ دی گئی تھی۔ اسی دستاویز کے ساتھ ایک اور طبع شدہ قبولیت نامہ بھی منسلک تھا۔ جس پر گورنر جنرل کی حیثیت میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے دستخط ثبت کرنا اور تاریخ درج کرنا مقصود تھا۔‘‘ کشمیر کے وزیراعظم مہر چند مہاجن کے لئے یہ کوئی دشوار عمل نہیں تھا کہ وہ 27اکتوبر کو اپنے ساتھ ایسا ہی ایک فارم لے کر پھر جموں گئے جس پر ایک روز قبل یعنی 26اکتوبر کی تاریخ درج تھی۔ اس پر گورنر جنرل کی منظوری کے دستخط پہلے ہی کروائے گئے تھے مگر ان پر27اکتوبر کی تاریخ درج تھی تاکہ مہاراجہ آرام سے اس پر دستخط کر سکیں۔ (29) حقائق کی روشنی میں بھی یہ بات ثابت نہیں ہو سکتی کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے 26اکتوبر ہی کو جموں میں دستاویز الحاق پر اپنے دستخط ثبت کر لئے ہوں کیونکہ ان کے اپنے ہی صاحبزادے ڈاکٹر کرن سنگھ کے بقول وہ اس روز سفر میں تھے۔ کرن سنگھ اس دن کا چشم دید حال یوں بیان کرتے ہیں: ’’ اس روز یعنی25اکتوبر کو دسہرہ کی تقریب پر مجھے پیلس میں اکیلا چھوڑ دیا گیا جب کہ میرے والد اور ان کے مصاحب شہر کے محل میں ایک خوب صورت ہال میں دربار لگائے بیٹھے تھے۔‘‘ یکایک ساری روشنیاں گل ہو گئیں۔ حملہ آوروں نے دو میل کے مقام سے سری نگر جانے والی اس شاہراہ پر کشمیر کے واحد مہورا کے بجلی گھر کو تباہ کر دیا تھا جس سے وہ وادی کشمیر کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے۔ پھر یک بیک ایسا نظر آنے لگا کہ پیلس میں سرگرمیاں تیز تر ہوئی ہیں۔ نوکر چاکر پریشان حالی میں ادھر سے ادھر دوڑ رہے تھے تاکہ پٹرومیکس کی روشنیوں سے تاریکیوں کو دور کیا جا سکے۔ میرے والد دربار سے فوری طور پر لوٹ آئے۔ ان کا چہرہ سنجیدہ اور مرجھایا ہوا تھا۔ اسی دوران وی پی مینن جہاز میں سری نگر آئے اور انہوں نے میرے والد کو جموں جانے کی تلقین کی جسے پہلے مہاراجہ نے فلور نہیں کیا لیکن بعد میں وہ راضی ہوئے۔ اس کے بعد شب خون کا مارا ہوا27اکتوبر کو رات گئے سری نگر سے ہجرت کا طویل سفر شروع ہوا۔ ہم ساری رات سفر میں رہے اگرچہ ہم اس وادی کو خیر باد کہنے کی ہر گز خواہش نہیں رکھتے تھے جس پر ہمارے آباؤ اجداد نے نسل در نسل حکمرانی کی تھی۔ ہمارا قافلہ 28اکتوبر کو پو پھٹتے وقت نو ہزار فٹ کی بلندی پر درہ بانہال کے پاس رینگ رہا تھا۔ میرے والد اپنی گاڑی خود چلا رہے تھے اور ان کی بغل میں ان کا ایک دوست اور فرانسیسی جوہری وکٹر روزن تھال بیٹھا ہوا تھا۔ ان کے پیچھے دو اسٹاف آفیسر بھری ہوئی پستولوں سمیت گاڑی میں سوار تھے۔ وکٹر نے مجھے بعد میں بتایا کہ مہاراجہ اس سفر کے دوران ایک لفظ بھی نہیں بولے جب وہ دوسری شام کو جموں پہنچے تو انہوں نے صرف یہ ایک بات کہی کہ ’’ کشمیر ہم سے چھن چکا ہے۔‘‘ (30) کشمیر کی سرحدوں پر قبائلیوں کی نقل و حرکت کے بارے میں بھارت سرکار کا یہ دعویٰ کہ وہ اس سلسلے میں قطعاً بے خبر تھی اور اسے صرف اس خط سے ہی تازہ صورت حال کا علم ہوا جوہری سنگھ نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو26اکتوبر کو لکھا۔ واقعاتی طور پر غلط ثابت ہو چکا ہے۔ ابھی ستمبر ہی کا مہینہ تھا کہ اس ماہ کی 27تاریخ کو پنڈت جواہر لال نہرو نے بھارت کے نائب وزیراعظم اور وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کو ایک گیارہ نکاتی خط لکھا۔ اس میں ایک ممکنہ ’’پاکستانی مداخلت‘‘ کا تذکرہ کرتے ہوئے نہرو نے خبردار کیا کہ’’ مجھے شک ہے کہ آیا مہاراجہ اور اس کی ریاستی فوجیں اس صورت حال کا مقابلہ کر سکتی ہیں جب تک کہ انہیں ایک عام حمایت حاصل نہ ہو۔ لہٰذا ظاہر ہے کہ کشمیر میں جو سب سے بڑی عوامی جماعت ہے اور جو ان کا ساتھ دے سکتی ہے وہ شیخ عبداللہ کی قیادت والی نیشنل کانفرنس ہے۔ اگر اتفاق سے یہ جماعت مہاراجہ کی مخالف یا بالکل الگ تھلگ ہی رہی تو مہاراجہ اور اس کی سرکار بھی الگ تھلگ ہو کے رہ جائے گی اور پھر پاکستانیوں کو نسبتاً ایک کھلا میدان ہاتھ آ جائے گا۔‘‘ لہٰذا مجھے اس کے سوا اور کوئی راستہ نظر نہیں آتا کہ مہاراجہ سب سے پہلے شیخ عبداللہ اور نیشنل کانفرنسیوں کو جیلوں سے رہا کرے۔ ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے ان کی حمایت حاصل کرے۔ انہیں اس بات کا احساس دلائے کہ مہاراجہ اس معاملے میں نیک نیت ہے اور پھر وہ بھارت کے ساتھ اپنی وابستگی کا اعلان کرے۔ ایک بار جب کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق ہوا پھر پاکستان کے لئے ریاست پر سرکاری طور پر یا غیر سرکاری طور پر بھارت سے پنجہ لڑائے بغیر حملہ کرنا بے حد مشکل بن جائے گا۔ میں اس بات کو بے حد اہمیت کا حامل سمجھتا ہوں کہ ریاست جموں و کشمیر کے بھارت کے ساتھ ملحق ہونے میں کوئی دیر نہیں ہونی چاہئے۔ شیخ عبداللہ پاکستان سے دور رہنے کے لئے بے چین ہیں اور وہ ہم پر ہر قسم کے مشورہ کے لئے اعتبار کرتے ہیں۔ (31) پروفیسر لیمب کے خیال میں یہ مراسلہ اس بات کی شہادت پیش کرنے کے لئے بے حد اہمیت کا حامل ہے کہ کشمیر کا مسئلہ بھارت پاک تصادم کی شکل اختیار کر سکتا تھا جس کے نتیجے میں براہ راست بھارتی عسکری مداخلت عمل میں آ سکتی تھی۔ اس سے صاف طور پر بھارت کی یہ دلیل بھی رد ہو جاتی ہے کہ بھارت کو22اکتوبر1947ء کے واقعہ سے زبردست حیرانی ہوئی تھی۔ (32) ستمبر1947ء میں جیل سے عبداللہ کی رہائی کے ساتھ ہی بھارت کے ساتھ ان کے سیاسی رشتے کا ارادہ پھر ایک بار بے نقاب ہو چکا تھا۔ کل ہند سٹیٹس پیوپلز کانفرنس کے سیکرٹری دوار کا ناتھ کاچرو نے نہرو کو اکتوبر کے پہلے ہفتہ میں یہ اطلاع دی کہ ’’ شیخ عبداللہ اور ان کے قریبی ساتھیوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ شامل ہونگے لیکن یہ فیصلہ ابھی تک مشتہر نہیں کیا گیا ہے اور تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ گویا نیشنل کانفرنس نے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔‘‘ (33) شیخ محمد عبداللہ کے بھارت سے منسلک ہونے کے فیصلے کے بارے میں مہر چند مہاجن نے بھی ایک ایسے تاریخی واقعہ کا ذکر کیا ہے جس میں عبداللہ کی بروقت خاموشی غالباً کشمیر کو بھارت کا ایک حصہ بنانے سے بچا سکتی تھی۔ کشمیر کی سنگین صورت حال کے فوراً بعد جب مہر چند مہاجن بھارت کی فوجی امداد کے حصول کے لئے دہلی گئے اور جواہر لال نہرو نے فوری طور پر یہ امداد دینے میں ہچکچاہٹ سے کام لیا تو ان کے بقول ’’ پھر میں نے وزیراعظم ہند جواہر لال نہرو کو بتایا کہ مجھے (مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے) یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر ہمیں فوری طور پر فوجی امداد نہیں دی گئی تو میں پاکستان چلا جاؤں ۔ یہ سن کر نہرو پریشان ہو گئے اور ناراضگی میں مجھ سے بولے‘‘ مہاجن دفع ہو جاؤ۔ ’’ میں کحڑا ہو کر کمرے سے نکلنے والا ہی تھا کہ سردار پٹیل نے میرے کان میں یہ کہہ کر مجھے روکے رکھا کہ مہاجن تم پاکستان نہیں جاؤ گے۔‘‘ ’’ اسی وقت وزیراعظم کو کاغذ کا ایک پردہ دیا گیا۔ انہوں نے وہ پڑھا اور بہ آواز بلند کہا‘‘ اچھا شیخ صاحب کا بھی یہی خیال ہے شیخ عبداللہ اس ڈرائنگ روم کے ساتھ ملحق ایک شبستان میں بیٹھ کر یہ ساری گفتگو سن رہے تھے جہاں ہم بات کر رہے تھے۔ نہرو کا لہجہ اسی وقت بدل گیا۔(34) نام نہاد بھارت کشمیر الحاق کی رو سے بھارتی افواج کو ظاہری طور پر 27اکتوبر کو سری نگر روانہ کیا گیا لیکن اس سے قبل ہی ریاست جموں کشمیر میں پٹیالہ کی مسلح افواج داخل ہو چکی تھیں حالانکہ ریاست پٹیالہ برصغیر کی تقسیم کے ساتھ ہی بھارت کا ایک جزو لاینفک بن چکی تھی اور اس کی اپنی ریاستی افواج کا خود مختار کردار ختم ہو کے رہ گیا تھا اور وہ بھارت سرکار کی فوج کا ایک باضابطہ حصہ بن چکی تھیں۔ پٹیالہ کے سکھ مہاراجہ نے اکتوبر کے پہلے دو ہفتوں میں ہی مہاراجہ ہری سنگھ کے پاس اپنی پیادہ فوج کی ایک بٹالین اور توپ خانہ بھیجا تھا۔ غالباً یہ امر اسی وقت طے پایا تھا جب مہاراجہ پٹیالہ جولائی 1947ء میں کشمیر کے دورے پر آیا تھا۔ 27اکتوبر کو جب بھارتی فوجی دستے علی الصباح سری نگر کے ہوائی اڈہ پر اترے تو انہیں یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ پٹیالہ کے بندوقچی پہلے ہی سے اس ہوائی اڈہ کا محاصرہ کئے ہوئے تھے جہاں انہیں کم از کم 17اکتوبر سے تعینات کیا گیا تھا۔ یہ بندوقچی کس طرح سری نگر لائے گئے اس کا آج تک کوئی پتہ نہیں چل سکا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انہیں ان گاڑیوں میں بھر بھر کر کشمیر پہنچا یا گیا جو رسد اور دیگر اشیاء لے کر جموں سے سری نگر آئی تھیں۔ یہ رسد بھارت سرکار کی طرف سے مہاراجہ کی اس التجا کے بعد روانہ کی گئی تھی کہ پاکستان نے ریاست کو اشیاء کی فراہمی بند کر دی ہے۔ بھارتی فوج کی مداخلت کے فوراً بعد پٹیالہ کا مہاراجہ یدھور ندر سنگھ بہ نفس نفیس اپنے فوجیوں کی کمانڈ کرنے کی غرض سے جموں آ گیا۔ (35) السٹائر لیمب کی رائے میں پٹیالوی دستوں کی آمد خفیہ طور پر عمل میں لائی تھی اور اس کا علم سردار پٹیل اور وزیر دفداع بلدیو سنگھ کو تھا لیکن وزیر اعظم نہرو کو اس اقدام سے بے خبر ہی رکھا گیا۔ ایک پاکستانی تاریخ دان کی رائے میں بھارت اور پاکستان کے درمیان تعطل کے شکار سب سے زیادہ کشمیر کے لوگ ہوئے ہیں جنہیں اس تنازعہ کے حل نہ ہونے کی وجہ سے سیاسی اقتصادی اور ثقافتی طور پر بے حساب نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ 1947ء میں سیکیولر قوم پرستوں اور مسلمان قوم پرستوں کی تقسیم نے کشمیر کے بحران کو پیدا کرنے کی سمت میں راستہ ہموار کیا۔ شیخ عبداللہ نے خود اپنے سوانح حیات میں تسلیم کر لیا ہے کہ تقسیم کے دنوں میں کشمیر کے عام آدمی کا رحجان پاکستان کی طرف تھا۔ا س طرح سے عبداللہ نے خود اپنے سیاسی مفادات کی قربان گاہ پر کشمیری عوام کے سکھ چین کی بلی چڑھا دی۔ (36) یکم جنوری1948ء کو بھارت انجمن اقوام متحدہ کے پاس اپنا یہ مقدمہ لے کر گیا کہ ’’ پاکستان نے اس کی سرزمین پر حملہ کیا ہے جو قانونی طور پر اس کا ایک حصہ ہے۔‘‘ اقوام متحدہ نے اس سلسلے میں بھارت اور پاکستان کے دلائل سنے اور بالآخر یہ فیصلہ دیا گیا کہ ریاست جموں و کشمیر میں ایک غیر جانب دار رائے شماری کروا کے کشمیر کے لوگوں کی خواہش معلوم کی جائے۔ بھارت کے اس موقف کی بنا پر کہ ریاست اس کا ایک ’’ اٹوٹ انگ‘‘ ہے اس فیصلہ سے متعلق قرار دادیں آج تک روبہ عمل نہیں لائی جا سکی ہیں۔ 1947ء کے بعد بھارت اور کشمیر کے رشتے کی جو کہانی ہے وہ کلاسیکی یونانی ادب کے کسی المیہ سے زیادہ افسوس ناک اور غم ناک ہے۔ جواہر لال نہرو نے ایک بار کہا تھا کہ ’’ شیخ عبداللہ کشمیر ہے اور کشمیر شیخ عبداللہ‘‘ لیکن1953ء میں اسی شیخ عبداللہ کو جو ریاست کے وزیراعظم کے عہدہ جلیل پر تھے، اپنے منصب سے ہٹا کر قید خانے کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ پہلے ان کے خلاف اس الزام کی تشہیر کی گئی کہ وہ امریکہ کے ساتھ ساز باز کر کے ایک خود مختار کشمیر کے لئے سر گرم عمل تھے۔ لیکن جب یہ حربہ کارگر ثابت نہ ہوا تو 1958میں ان کے خلاف کشمیر سازش کیس دائر کیا گیا جس کی رو سے عبداللہ پاکستان کے ساتھ اس سازش میں ملوث تھے جس کا مقصد ریاست کی حکومت کا تختہ الٹنا تھا۔ اصل میں1947ء ہی سے نئی دہلی کی طرف سے ریاست جموں و کشمیر میں جمہوری اداروں کو تہس نہس کر کے کشمیری عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کی پالیسی اپنائی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست میں نہ تو کسی حکومت کو اپنی آئینی مدت پورا کرنے کا موقعہ دیا گیا۔ نہ ہی انتخابات آزادانہ طور پر عمل میں لائے گئے۔ اور نہ ہی انتظامیہ اور عدلیہ کی آزادی کا احترام کیا گیا۔ 1953ء میں بھارت کے سب سے بڑے وفادار اور کشمیر بھارت الحاق کے علمبردار شیخ عبداللہ کو پس زنداں کر کے ان کے نائب بخشی غلام محمد کو وزیراعظم کی گدی پر بٹھایا گیا۔ اس موقعہ پر لارڈ برٹرینڈرسل نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ’’ بھارتی حکومت کی بین الاقوامی معاملات میں جس بلند نظری کا پرچار کرتی ہے جب یہ نظر آئے کہ اپنی اس بلند نظری کو بھارت ہی نے کشمیر کے سلسلے میں خاک میں ملا دیا ہے تو دل پر ایک احساس نامرادی چھا جاتا ہے۔‘‘ (37) 1963ء میں بخشی کو بھی کامراج پلان کی بھینٹ چڑھا کر اپنے عہدہ سے دست بردار ہونے پر مجبور کیا گیا۔ 1963ء میں شمس الدین ریاست کے تیسرے وزیراعظم بنائے گئے۔ اسی سال دسمبر میں سری نگر کی حضرت بل کی زیارت گاہ سے آنحضور کے موئے مقدسﷺ کو چرایا گیا تو شمس الدین کو بھی نا معلوم وجوہات کی بنا پر چلتا کیا گیا۔ اپریل1964ء میں غلام محمد صادق وزیر اعلیٰ مقرر ہوئے تو چند سال گذرنے کے بعد ان کے خلاف بھی کانگریس کے صدر سید میر قاسم اور ایک اور بھارت نواز سیاست دان محمد شفیع قریشی کو صف آراء ہونے کی ہدایت کی گئی۔ دسمبر1971ء میں خدا نے صادق کی لاج رکھ لی اور وہ انتقال کر گئے۔ 1971ء میں میر قاسم کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا اور چار سال بعد جب بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کی چوکھٹ پر شیخ عبداللہ اپنی سابقہ غلطیوں کی ندامت کا اظہار کر کے پھر ایک بار ’’ بھارت نواز‘‘ بننے کی قسم کھا کر سجدہ ریز ہوئے تو میر قاسم کو ہٹا کر عبداللہ کو وزیر اعلیٰ مقرر کیا گیا۔ 1982ء میں عبداللہ نے وفات پائی۔ اگر وہ کچھ برس اور زندہ رہتے تو شاید ان کا بھی وہی حشر ہوتا جو بعد میں ان کے صاحبزادے فاروق عبداللہ کا ہوا۔ عبداللہ کے انتقال کے بعد ستمبر1982ء میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو بر سر اقتدار لایا گیا لیکن صرف دو سال سے بھی کم عرصے میں اندرا گاندھی نے انہی کے بہنوئی غلام محمد شاہ کو حرص و ہوا کے جال میں پھنسا کر جولائی 1984ء میں ایک ایسی کٹھ پتلی حکومت کا سربراہ مقرر کر لیا جو بعد میں ’’کرفیو سرکار‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ کیونکہ شاہ کے مختصر دور حکومت میں کوئی مہینہ ایسا نہیں جاتا تھا جب شاہ سرکار عوامی غیض و غضب کو دبانے کی خاطر کرفیو پر کرفیو نافذ نہ کرتی۔ فروری1986ء میں جب مفتی سعید کی کشمیر کانگریس کے آوارہ گردوں نے جنوبی کشمیر کے اسلام آباد ضلع کے چند دیہاتوں میں کشمیری پنڈتوں (ہندوؤں) کی جائیدادوں کو نقصان پہنچایا تو ریاستی گورنر جگ موہن نے نئی دہلی کی ہدایت پر شاہ کو معطل کر کے ریاست پر گورنر راج لاگو کر دیا۔ اکتوبر1984ء میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ان کا فرزند راجیو گاندھی بھارت کا وزیراعظم بن گیا تھا جس نے نومبر1986ء میں پھر فاروق عبداللہ کو ریاست جموں کشمیر کا وزیر اعلیٰ نامزد کر لیا۔ مارچ1987ء میں راجیو گاندھی اور فاروق عبداللہ کی ملی بھگت سے کشمیر میں حسب معمول اور پھر ایک بار فریب دہی اور دھوکہ بازی پر مبنی دھاندلیوں سے پر جو انتخابات کرائے گئے تاکہ مسلم متحدہ محاذ نامی حزب اختلاف کو عوامی حمایت حاصل ہونے کے باوجود ناکامی سے دو چار کیا جائے، وہ ان ساری غیر آئینی اور غیر قانونی کارروائیوں کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئے کیونکہ انہی انتخابات کے بعد کشمیری نوجوانوں نے 1947ء کے بعد پہلی بار بندوق ہاتھ میں اٹھا کر بھارت کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ یہ جنگ آج بھی جاری ہے پچھلی نصف صدی کے دوران بالعموم اور 1990ء کے بعد بالخصوص اہل کشمیر نے آزادی کی منزل پانے کی جستجو میں جو بھی مرحلے طے کیے ان میں گام گام پر ہزاروں کشمیریوں کا خون بکھرا پڑا۔ زعفران زاروں اور چناروں کے دیس میں پلنے والے مجبور اور مقہور لوگوں کا یہ خون کبھی نہ کبھی رنگ لائے گا اور کل کی سر سبز اور لہلہاتی وادی کشمیر جو آج لہولہان ہو چکی ہے زندگی اور آزادی کی فضاؤں میں شگفتہ اور شاداب ہو کر پھر جھوم اٹھے گی۔ ٭٭٭ حوالہ جات پہلا باب:تحریک حریت کشمیر 1کشمیر انڈردی سلطانز۔ محب الحسن۔ علی محمد اینڈ سنز سری نگر۔ 1974ئ، ص28 2اے ہسٹری آف کشمیر۔ پرتھوی ناتھ کول بامزئی۔ میٹرو پالٹن بک کمپنی نئی دہلی۔ 1973ء ص308 3دی لایف اینڈ ٹائمز آف سلطان محمود آف غزنہ۔ ایم ناظم۔ کیمبرج پریس لندن۔ 1931ئ، ص105-104 4کشمیر انڈر دی سلطانز۔ ص180-181 5اکبر اینڈ دی جیسیوٹس۔ ڈیو جارک۔ ترجمہ سی ایچ پاینے۔ براڈوے سیریز لندن۔ 1926۔ ص76 6دی ویلی آف کشمیر۔ سر والٹر آر لارنس۔ کیسر پبلشرز سری نگر۔ 1967ئ۔ ص197 7کشمیر۔ سر فرانسس ینگ ہسبنڈ۔ اے اینڈ سی بلیک۔ لندن 1917ئ۔ ص142 8اے ہسٹری آف کشمیر۔ بامزئی۔ ص611 9کشیر۔ ڈاکٹر جی ایم ڈی صوفی۔ جلد دوم۔ پنجاب یونیورسٹی پریس لاہور۔ 1949ء ص726 10اے ہسٹری آف کشمیر۔ بامزئی۔ ص611 11ہفت روزہ نصرت لاہور۔ کشمیر نمبر28فروری1960ئ۔ ص237 12سڑگل فار فریڈم ان کشمیر۔ پریم ناتھ بزاز۔ کشمیر پبلشنگ کمپنی نئی دہلی۔ 1954ء ص123 13اے ہسٹری آف کشمیر۔ بامزئی۔ ص656 14صدائے کشمیر۔ مرتبہ غلام نبی خیال۔ کشمیری رائیٹرس کانفرنس سری نگر۔ 1994ئ۔ ص13-14 15جہد مسلسل۔ امان اللہ خان۔ ایس ایس کمبائنڈ۔ راولپنڈی۔ 1992۔ ص333 16ہفت روزہ اقبال۔ سری نگر۔ 24مئی 1971ء 17تاریخ کشمیر۔ زمانہ ما قبل تاریخ تا اقوام متحدہ۔ عنصر صابری۔ پروگریسو بکس لاہور۔ 1991ئ۔ ص137 18ایضاً۔ صڈ140 19نصرت کشمیر نمبر لاہور۔ ص76 20اقبال اور کشمیر۔ ڈاکٹر صابر آفاقی۔ اقبال اکادمی پاکستان لاہور۔ 1977ئ۔ ص66-67 21اقبال کا سیاسی سفر۔ محمد حمزہ فاروقی۔ بزم اقبال لاہور۔ 1992ئ۔ ص364 22ایضاً۔ ص719 23ایضاً۔ ص722 24ایضاً۔ ص722 25ڈینجران کشمیر۔ جوزف کوربیل۔ پرنسٹن یونیورسٹی پریس۔ نیو جرسی۔ 1966ء ۔ ص22 26ایضاً۔ ص22-23 27ایضاً ۔ ص70 28کشمیر ۔ بی ہاینڈ دی ویل ۔ وایکنگ نئی دہلی۔ 1991ئ۔ ص99 29کشمیر۔ اے ڈسپیوٹڈ لیگیسی۔ السٹایر لیمب۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کراچی۔ 1993ئ۔ ص143 30 ہیرا پرنٹ۔ کرن سنگھ۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس۔ بمبئی، 1983ئ۔ ص57-59 31سردار پٹیلس کار سپانڈنس۔ جلد اول۔ 1945-50ء نیو لایٹ آن کشمیر۔ نو جیون پبلشنگ ہاؤس۔ احمد آباد۔ 1971ئ۔ ص49-50 32کشمیر اے ڈسپیوٹڈ لیگیسی۔ ص142 33سردار پٹیلس کار سپانڈنس۔ ص54 34لکنگ بیک۔ مہر چند مہاجن۔ ایشیا پبلشنگ ہاؤس بمبئی۔ 1963ئ۔ ص152 35کشمیر۔ اے ڈسپیوٹڈ لیگیسی۔ ص131اور کشمیریز فایٹ فار فریڈم۔ محمد یوسف صراف۔ فیروز سنز لاہور۔ 1979ئ۔ ص909 36ماس ریزسٹنس ان کشمیر۔ طاہر امین۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز اسلام آباد۔ 1995ئ۔ ص29 37نیو ہوپس فار اے چینجنگ ورلڈ۔ برٹرینڈرسل۔ لندن 1955ئ۔ ص145-146 ٭٭٭ دوسرا باب اقبال کا حسب و نسب تنم گلے ز خیابان جنت کشمیر دل از حریم حجاز و نواز شیر از است اقبال کا وطن کشمیر ہے اور وہ ایک والہانہ پن کے ساتھ اپنے آپ کو اس ’’ جنت کشمیر کا ایک پھول‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ کوئی چار سو سال قبل اقبال کے جد امجد شیخ صالح محمد عرف بابو لولی حاجی جنوبی کشمیر میں شیخ العالم حضرت شیخ نور الدین نورانی کے ہاتھ پر بیعت کر کے مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔ ان کا رہائشی گاؤں تحصیل کولگام کے نزدیک پرگنہ آڈونی کے پاس موضع چکو میں تھا۔ قبول اسلام سے قبل بابا لولی حاجی بھی ذات کے برہمن تھی اور پیشہ زمینداری تھا آپ نے کئی حج پا پیادہ کئے تھے اور اس لحاظ سے حاجی کہلائے۔ آپ کوئی بارہ سال تک سیاحت میں کشمیر سے باہر رہے اور واپس وطن لوٹنے پر غیبی اشارہ پا کر حضرت شیخ العالم کے چوتھے خلیفہ حضرت بابا نصر الدین کے مرید ہوئے۔ آپ سلطان زین العابدین بڈ شاہ کے مشائخ میں سے تھے۔ آپ کی قبر چرار شریف میں اپنے مرشد حضرت بابا نصر الدین کے جوار میں آستانہ شیخ العالم میں ہے۔ (1) ڈاکٹر نظیر صوفی کے بقول بابا صالح محمد جوان ہوئے تو باپ نے شادی کر دی۔ فقیر طبع بابا جی کو شادی راس نہ آئی۔ بیوی بڑی تلخ مزاج ملی۔ اس سے نہ بنی۔ تنگ آ کر گھر بار چھوڑ کر اسلامی دنیا کی سیر کو نکل کھڑے ہوئے۔ فقر کی طلب لڑکپن سے ہی تھی۔ ملک ملک پھرے اور وہاں کے اللہ والوں سے ملتے ملاتے پورے بارہ سال سفر میں کاٹے۔ ہر سال فریضہ حج بھی ادا کرتے رہے۔ باطنی تشنگی کہیں نہ مٹی تو اشارہ غیبی سے کشمیر واپس آئے اور بابا نصر الدین کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ لوجر میں ان کے پاس ہی رہنے لگے اور بہت جلد صاحب کمال ہو گئے۔ مرشد کی نگاہ میں ایسے جچے کہ انہوں نے داماد بنا لیا۔ (2) ڈاکٹر صوفی آگے چل کر بیان کرتے ہیں کہ حضرت بابا لولی حاجی تقریباً چالیس سال کی عمر میں واپس آ کر843ہجری میں بابا نصر الدین کے مرید ہوئے اور ان سے خلافت پائی۔ اس کے بعد بھی یہ روحانی نسبت ان کی نسل میں جاری و ساری رہی۔ پھر اقبال کے پر دادا کے والد شیخ محمد اکبر کا زمانہ آ گیا۔ وہ اگرچہ صاحب اولاد تھے لیکن اپنی مجذوبانہ کیفیت کی بنا پر سیلانی فقیر بن گئے۔ پھرتے پھراتے سنکھتر (پنجاب) پہنچے اور ایک سید گھرانے میں قیام کیا۔ اس گھر میں ان کی وفات کے بعد جب ان کا پڑپوتا شیخ جمال الدین جموں سے ہوتا ہوا سنکھترہ پہنچ گیا تو صاحب خانہ ان کے ساتھ روکھے پن سے پیش آیا۔ پھر وہ سنکھترہ سے سیالکوٹ چلے آئے اور محلہ کھٹکلیاں میں مقیم ہو گئے۔ اقبال کے دادا شیخ محمد رفیق نے بھی موجودہ اقبال منزل کا گلی والا حصہ خرید کو ویڑھ کشمیریان میں رہائش اختیار کر لی۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کا خیال ہے کہ اقبال کے بزرگوں نے اٹھارویں صدی کے آخر یا انیسویں صدی کے ابتدائی دور میں جب کشمیر افغانوں کے قبضے سے نکل کر سکھوں کے تسلط میں آ رہا تھا۔ عدم تحفظ کے عالم میں ہجرت کی۔ چونکہ اس زمانہ میں ان کے بزرگوں کا وطن تحصیل گولگام میں تھا۔ اس لئے وہ بانہال کو طے کرتے ہوئے جموں کے راستے سیالکوٹ پہنچے اور یہیں آ کر مقیم ہو گئے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی تصنیف ’’ زندہ رود‘‘ میں اقبال کا شجرہ نسب یوں درج کیا ہے: جموں کے ایک صاحب علم محقق بلدیو پرشاد شرما کو چنڈی گڑھ کے مرکزی سرکاری کتب خانہ میں گورنمنٹ کی جن تواریخی دستاویزوں کی نمائش دیکھنے کا موقع ملا ان میں بقول شرما ’’ ساڑھے سات روپے کی مالیت کے ایک اسٹامپ پر اقبال کی اپنی تحریر بھی تھی جس میں انہوں نے لکھا ہے‘‘ من کہ محمد اقبال بیرسٹر ایٹ لا لاہور ولد شیخ نور محمد مرحوم قوم سپرو (کشمیری پنڈت) سکنہ شہر سیالکوٹ حال بیر سٹر ایٹ لا لاہور کا ہوں۔ اس بیان پر گواہ کے طور پر محمد حسین سپرنٹنڈنٹ دفتر ڈائریکٹر انفارمیشن بیورو پنجاب لاہور کے دستخط موجود ہیں اور یہ دستاویز لاہور کی ایک عدالت میں رجسٹری شدہ ہے۔ (3) منشی محمد دین فوق نے اپنی ’’ مشاہیر کشمیر‘‘ میں اقبال کے بزرگوں کا ایک قدیم کشمیری پنڈت خاندان سپرو کے ساتھ تعلق کا ذکر کیا ہے۔ فوق کے مطابق ’’ اقبال کو کشمیری پنڈتوں کے ایک قدیم خاندان سے تعلق ہے جس کی ایک شاخ اب تک کشمیر میں موجود ہے۔ اقبال کے جد اعلیٰ سوا دو سو سال ہوئے کہ مسلمان ہو گئے تھے۔ گوت ان کی سپرو ہے۔ ان کے بزرگوں کا اسلام پر ایمان لانا ایک ولی کے ساتھ عقیدت کی وجہ سے ہوا اور وہ حسن عقیدت اس وقت تک اس خاندان میں موجود ہے۔‘‘ (4) بعض حضرات کا بیان ہے کہ 1857ء کا ہنگامہ فرو ہونے کے بعد بابا صالح کی اولاد ہجرت کر کے سیالکوٹ میں مقیم ہوئی۔ پہلے پہل اقبال کے دادا نے یہاں سکونت اختیار کی۔ ان کا نام شیخ محمد رفیق تھا۔ لیکن جیسا کہ عام کشمیری لہجہ کے مطابق رحمان کے لئے رحمانا اور غفار کے لئے غفارا جیسے عرف مروج ہیں وہ بھی شیخ رفیقا کہلاتے تھے اور کشمیری پشمینہ کے دھسوں (شالوں) کی تجارت کرتے تھے۔ اقبال کے والد نور محمد عرف شیخ نتھو پہلے تو نائب وزیر اعلیٰ بلگرامی کے یہاں پارچہ دوزی پر ملازم تھے۔ ان کی بیوی یعنی اقبال کی والدہ اس تنخواہ میں سے ایک حبہ بھی نہ لیتی تھی کیونکہ ان کے نزدیک نائب وزیر اعلیٰ کی آمدنی کا غالب حصہ شرعاً جائز نہ تھا۔ کچھ عرصہ بعد شیخ نور محمد نے ملازمت ترک کر لی اور برقعوں کی ٹوپیاں سینے لگے جس کے ساتھ کشمیری پیشہ ور ان علی العموم وابستہ تھے۔ (5) اقبال اپنے برادر شیخ عطا محمد کو 5اکتوبر1925ء کو ایک خط میں اپنے آبائی حسب و نسب کے بارے میں اس طرح مطلع کیا۔ ’’ الحمد للہ علی ذالک۔ جاوید اب بالکل تندرست ہے۔ آج پورے ایک سال کا ہو گیا ہے۔ اس کی والدہ آج قربانی دینے میں مصروف ہے۔‘‘ آپ اور والد مکرم یہ سن کر خوش ہوں گے کہ مدت کی جستجو کے بعد آج اپنے بزرگوں کا سراغ مل گیا ہے۔ حضرت بابا لولی حج کشمیر کے مشہور مشائخ میں سے تھے۔ ان کا ذکر خواجہ اعظم کی تاریخ کشمیر میں اتفاقاً مل گیا ہے۔ والد مکرم نے جو کچھ اپنے بزرگوں سے سنا تھا وہ بحیثیت مجموعی درست ہے۔ ان کا اصلی گاؤں نوچرنہ تھا بلکہ موضع چکو پرگنہ آورن (آڈونی) تھا۔ بارہ سال کشمیر سے باہر رہے اور ممالک کی سیر میں مصروف رہے۔ بیوی کے ساتھ ان کے تعلقات اچھے نہ تھے اس واسطے ترک دنیا کر کے کشمیر سے نکل گئے۔ واپس آنے پر اشارہ غیبی پا کر حضرت بابا نصر الدین کے مرید ہوئے جو حضرت نور الدین کے مرید تھے۔ بقیہ عمر انہوں نے بابا نصر الدین کی صحبت میں گزاری اور اپنے مرشد کے جوار میں دفن ہیں۔ اب امید ہے کہ مزید حالات معلوم ہو جائیں گے۔ خواجہ اعظم کا تذکرہ مختصر ہے مگر یہ مختصر نشان غالباً مزید انکشافات کا باعث ہو گا۔ ان حالات کے معلوم ہونے کا سبب بھی عجیب و غریب ہے۔ دہلی یونیورسٹی کے رجسٹرار الہ آباد یونیورسٹی سے ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے ایک کتاب کشمیری تہذیب و تمدن پر لکھ رہے ہیں۔ میں ان کے ممتحین میں سے ہوں۔ باقی دو ممتحین انگلستان اور آئرلینڈ کے پروفیسر ہیں۔ اتفاق سے رجسٹرار صاحب کل آئے ہوئے تھے انہوں نے کسی اپنے دوست کو ہدایت کی ہوئی تھی کہ خواجہ اعظم کی تاریخ کشمیر کا قلمی نسخہ میرے مکان پر پہنچا دے۔ وہ شخص قلمی نسخہ تاریخ مذکور کا لایا۔ میں اس وقت فارغ ہی بیٹھا تھا۔ یہی کتاب دیکھنی شروع کر دی۔ دو چار ورق ہی الٹے تھے کہ بابا صاحب کا تذکرہ مل گیا جس سے مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ غالباً بابا نصر الدین کی اولاد کشمیر میں ہو گی۔ ان سے مزید حالات معلوم کرنے کی توقع ہے اور کیا عجب کہ ان کے پاس اپنے مریدوں کا سارا سلسلہ موجود ہو۔ (6) واقعات کشمیر یا تاریخ کشمیر اعظمی میں یہ تذکرہ یوں درج ہے ’’ بابا لولی حاجی پرگنہ آڈون کے موضع چکو کے رہنے والے تھے انہوں نے شادی کر رکھی تھی۔ وقت صحبت عورت کو وہ اچھے نہ لگے اور یوں خلع ہو گیا۔ اس صورت حال نے دنیا سے ان کا دل ٹھنڈا کر دیا۔ وہ اب کعبہ چلے گئے اور بارہ سال کی سیاحت کے بعد کشمیر لوٹ آئے جہاں غیبی اشارے پر حضرت بابا نصر الدین کے مرید ہو گئے۔ اور باقی عمر ان ہی کی خدمت و صحبت میں بسر کی۔ رحلت کے بعد پیر بزرگوار کے پہلو میں آستانہ چرار میں آسودہ خاک ہوئے۔ ‘‘ (7) ڈاکٹر اکبر حیدری کا خیال ہے کہ بابا لولی کسی بھی شہادت کی بنا پر اقبال کے مورث اعلیٰ نہ تھے ’’ اصل بات یہ ہے کہ صوفی غلام محی الدین دہلی یونیورسٹی کے رجسٹرار تھے۔ جنہوں نے اپنی تھیسیس کشمیر پر لکھی اور اسے الہ آباد یونیورسٹی میں پیش کیا۔ اقبال اور ایک کوئی انگریز ان کے ممتحن تھے۔ صوفی صاحب اور محمد دین فوق خواجہ اعظم کی کتاب ’’ واقعات کشمیر‘‘ کا ایک نسخہ اقبال کے پاس لے کر گئے اور ان سے کہا کہ اس تاریخ میں بابا لولی حاجی آپ کے جد بزرگوار کا ذکر ہے اقبال کو کیا معلوم تھا۔ بس تب سے فوق نے رٹ لگائی کہ بابا لولی حاجی اقبال کے جد اعلیٰ تھے۔‘‘ (8) اقبال نے برادر شیخ عطا محمد کے نام 5اکتوبر1925ء کے مراسلہ میں فوق کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے جیسا کہ اکبر حیدری نے لکھا ہے کہ صوفی صاحب اور فوق کتاب لے کر اقبال کے پاس گئے۔ اقبال فوق کے تذکرہ کو ہر گز نظر انداز نہیں کرتے کیونکہ اقبال اور فوق کی قرابت داری اپنے وقت کی بے مثال دوستی شمار کی جاتی تھی۔ صوفی غلام محی الدین کے سلسلے میں حیدری کا کہنا ہے کہ اقبال کے علاوہ ایک انگریز ان کا ممتحن تھا جب کہ اقبال نے دو اور ممتحنوں کا ذکر کیا ہے جن کا تعلق انگلستان اور آئرلینڈ سے تھا۔ واقعاتی لحاظ سے حیدری کے متنازعہ بیان سے قطع نظر بھی انہوں نے تحقیقی دلائل کی روشنی میں یہ بات ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی ہے کہ بابا لولی حاجی اقبال کے جد اعلیٰ نہیں تھے۔ اقبال کی روز مرہ زندگی کے بارے میں ایک کشمیری خادم سے بہت ہی دلچسپ اور مفید معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ جنوبی کشمیر کا رہنے والا غلام محمد بٹ نامی یہ شخص تقریباً ڈھائی سال تک لاہور میں اقبال کے یہاں برابر ان کے انتقال تک گھر میں نوکر رہا۔ بٹ دراصل جنوبی کشمیر کے مشہور باغاتی ضلع شوپیان کا باشندہ تھا اور 1980ء کے آس پاس جب اس نے اقبال کے ساتھ اپنی مصاحبت کی داستان بیان کی ہے وہ ایک ملحقہ تحصیل پلوامہ کے زاہد باغ علاقہ میں سکونت پذیر تھا اور ملاقی ناظر کو لگامی نے بٹ کی اس وقت کی عمر ستر سال بتائی ہے۔ (9) اب یہ علم نہیں وہ بقید حیات ہے یا نہیں۔ غلام محمد بٹ کے بیان سے اقبال کے روز کے معمولات کے کئی مخفی گوشے سامنے آ جاتے ہیں لہٰذا اس تفصیل کو بغیر کسی تحریف و تبدیلی کے درج کیا جاتا ہے: ’’ میں شوپیان کا رہنے والا ہوں۔ جہاں میرے والد 1931ء کی ایجی ٹیشن کے دوران ڈوگرہ حکومت کے کارندوں کی گولی کا شکار ہو کر جاں بحق ہوئے۔ میں ان دنوں بہت چھوٹا تھا۔ حالات اس قدر خراب ہو گئے کہ مجھے اس سانحہ کے دو تین سال بعد ہی گھر سے فرار ہونا پڑا او رمیں تیرہ چودہ سال کی عمر میں پنجاب چلا گیا۔ میں تین چار سال تک لاہور میں رہا اور پھر وطن واپس آ گیا۔ بعد میں پلوامہ آ گیا جہاں مجھے خانہ داماد کی حیثیت میں ایک گھر کا فرد بننا پڑا اور تب سے میں یہیں سکونت پذیر ہوں۔‘‘ میں ایک تو ان پڑھ ہوں۔ دوسرے ان دنوں میں چھوٹا سا لڑکا ہی تھا اور مجھے علامہ کی شخصیت، شہرت اور بڑائی کا احساس قطعاً نہ تھا۔ ہاں علامہ جیسی پر کشش شخصیت کے ساتھ نشست و برخاست اور ان کی صحبت نے سینکڑوں اشعار نقش کر دئیے تھے۔ مگر بہت زمانہ گذر چکا ہے ۔ تقریباً چالیس سال کا عرصہ پھر بھی مجھے علامہ کے بہت سے اشعار یاد ہیں۔ میں لاہور کے ایک کشمیری مہاجر اور رئیس ملک غلام دستگیر کے ہاں بطور گھریلو نوکر کام کرتا تھا اور میرے ذمہ جو کام تھے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ ملک صاحب موصوف کے ہاں پالی جانے والی ایک گائے کا سارا دودھ (نو پاؤ=سوا دو کلو کے قریب) علامہ کے ہاں پہنچا دوں۔ علامہ یہی دودھ اپنی کشمیری چائے میں استعمال کرتے تھے۔ اس دوران مجھے علامہ کے علاوہ ان کی بیویوں نے بھی دیکھا اور سب نے چاہا کہ میں ان ہی کے پاس رہوں۔ اگرچہ میری تنخواہ اور کھانے پینے کا انتظام ملک صاحب ہی کے ذمہ تھا۔ یہاں بھی میرے ذمہ حسب معمول بازار سے ضروری چیزیں خرید لانا اور ملک صاحب کے گھر سے دودھ لانا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ میں اکثر اوقات علامہ کا حقہ تیار کرتا، حسب ضرورت پانی بھرتا اور چلم رکھتا تھا۔ کبھی کبھی علامہ کے ہاں بھی ان کے اصرار پر کھاتا پیتا تھا۔ پہلے پہلے جب میں وہاں گیا تو علامہ چاہتے تھے کہ گھر کے کام کاج کے علاوہ میں کچھ اور کام بھی سیکھوں۔ اسی لئے انہوں نے مجھے ایک فرم’’ جان محمد اینڈ سنز‘‘ میں بھیجا۔ جہاں ہسپتالوں کے لئے بیڈ (Bed) وغیرہ بنتے تھے۔ یہ کام میرے لئے ناقابل برداشت ہو گیا۔ میری بدقسمتی تھی کہ میں نے یہاں کام سیکھنے میں ہچکچاہٹ محسوس کی اور ملک صاحب کے گھر میں شکایت کی جنہوں نے مجھے اس کام سے چھٹکارہ دلایا او رمیں صرف علامہ کے گھر بطور خادم ہی کام کرتا رہا۔ علامہ اگرچہ اس بات پر راضی نہ تھے تاہم مجھے چھوٹا سمجھ کر کچھ نہ کہا۔ وہ مجھے کاکا جی کے نام سے پکارتے تھے۔ ان دنوں میری عمر تیرہ چودہ سال کے قریب تھی اور میں وہاں اڑھائی سال تک رہا۔ علامہ دن میں ایک بار کھانا کھاتے تھے۔ جس میں عام طور پر چاول ہی ہوا کرتے تھے۔ سادہ گوشت اور شوربہ ملا کر کھانا کھاتے تھے۔ کبھی کبھی پلاؤ بھی کھاتے تھے۔ خصوصاً عید کے دن وہ گھر کے تمام افراد کے ساتھ مل کر کھانا کھاتے تھے۔ اس دن کئی قسم کے کھانے پکتے تھے۔آپ سب میں تھوڑا تھوڑا سا کھا لیتے۔ صبح کے وقت وہ نمکین چائے پیتے تھے اور دن میں بھی کبھی وقفہ وقفہ کے بعد چائے نوش فرماتے تھے۔ اصل میں کھانا وہ ایک بدیسی جرمن خاتون کی نگرانی میں کھایا کرتے تھے جو آپ کو کھانے کے وقت سوٹ وغیرہ پہناتی اور ٹائی بندھواتی تھی اور پورے اہتمام کے ساتھ کھانا کھلواتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ علامہ نے اس خاتون سے کہا کہ وہ اب کھانا کھاتے وقت شلوار پہننا چاہتے ہیں۔ تو اس خاتون کی اجازت سے ہی آپ نے اپنی یہ خواہش پوری کی اور پتلون کی بجائے شلوار پہننے لگے۔ وہ جرمن خاتون ایک تو علامہ اقبال کے لئے کھانے پینے اور پہننے کے کپڑوں وغیرہ کا اہتمام کرتی اور دوسرے جاوید اور منیرہ کو پڑھاتی تھی اور ان کی نگہداشت کرتی تھی۔ ان کے ہاں ہمیشہ دس بارہ آدمیوں کی محفل ہوتی۔ لوگ عام طور پر یہاں لپٹن چائے پیا کرتے تھے مگر کچھ لوگ علامہ کی نمکین چائے پینے کی خواہش ظاہر کرتے تھے۔ ہم (باقی افراد خانہ) اکثر کھانا رسوئی میں ہی کھاتے تھے۔ چولہے میں لکڑی جلتی تھی۔ ایک چولہا مٹی کا بنا تھا جیسے یہاں ہوتا ہے۔ اور دوسرا لوہے کا۔ وہاں جو پتی ہم استعمال کرتے تھے وہ میں نے یہاں بہت تلاش کی نہیں ملی۔ وہ بند پیکٹوں میں ہوتی تھی۔ چائے تو بالکل کشمیری طریقے سے ہی تیار کی جاتی تھی یعنی پتی کو تانبے کے پتیلے میں خوب ابالا جاتا تھا۔ تھوڑی سی پتی سے ہی اعلیٰ قسم کی گاڑھی چائے بنتی تھی۔ جس کا رنگ بعد میں دودھ ملانے میں سرخ گلابی ہو جاتا ہے۔ دودھ کو الگ سے بہت دیر تک ابالا جاتا تھا۔ جب تک کہ وہ بہت دیر تک انگیٹھی پر رکھا جاتا۔ تب جا کر پیالوں میں انڈیلا جاتا علامہ کو بھی چائے پیالی میں ہی پیش کی جاتی تھی۔ حالانکہ سما وار وہاں بھی تھے۔ مگر وہ استعمال میں نہیں لائے جاتے تھے۔ ان کے سماوار کشمیری سماوار جیسے نہ تھے بلکہ امرتسری سماوار تھے۔ جب علامہ ایک پیالی ختم کرتے تو دوسری پیالی رسوئی سے پیش کر دی جاتی۔ کبھی کبھی چائے دانی میں لا کر بھی ان کے سامنے رکھی جاتی۔ اور اس طرح کوئی خادم ان کو یکے بعد دیگرے کئی پیالیاں پیش کر دیتا۔ میں نے بھی کئی بار یہ خدمت انجام دی ہے۔ علامہ کے پاس بہت سے لوگ، بڑے آدمی، دولت مند اور لیڈر اور علماء آتے تھے۔ اس وقت مجھے کچھ یاد نہیں۔ یہ ان کے قریبی رشتہ داروں کے علاوہ ہیں۔ مثلاً سکندر حیات خاں، چودھری ظفر اللہ خاں، مرزا بشیر الدین محمود احمد، چودھری خلیق الزماں، قاسم رضوی، عبدالرب نشتر، مولانا ظفر علی خان، سر فیروز خاں نون (یہ اصل میں لون تھے اور جب حکومت نے لون خاندان سے زمین کی ملکیت کا حق چھین لیا تو انہوں نے لون کو نون کر دیا۔ اس طرح وہ زمین رکھنے کا حق حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے )غضنفر علی خان، محمد علی جناح، لیاقت علی خان، مولانا مودودی، ابن الحسنی اصلاحی، علامہ مشرقی (جن کا اصل نام ملک عنایت اللہ تھا) عطا اللہ شاہ بخاری، نواب ممڈوٹ، ممتاز دولتانہ، نور الدین، غلام مصطفیٰ نایکو، سر دیا کرشن کول، سر چھوٹو رام، عبدالقیوم خان، پیر مانکی شاہ صاحب، پیر جماعت علی شاہ، میاں امیر الدین، میاں جلال الدین گٹیا، سر محمد اسماعیل، سر عبدالرحیم نائٹ، محمد مکرم خان، حاجی سبحان خان، غلام غوث، مرزا باقر کوتوال، داروغہ صاحب، احمد الدین بٹ، حاجی عبدالرحیم، ماسٹر عبدالعزیز بٹ، ایڈیٹر وطن، ظفر مہدی، ملک غلام دستگیر، سر آغا خان، علی عباس بمبئی والا، خواجہ ناظم الدین، خواجہ شہاب الدین، سر عبدالمنان اور سر عبدالکریم۔ کشمیر سے بہت دور سے لوگ وہاں آتے تھے۔ مجھے سب کے نام یاد نہیں ہیں۔ حاجی علی خان آتے تھے۔ شیخ محمد عبداللہ آتے تھے اور میں اس وقت وہاں نہے تھا لیکن بعد میں علامہ نے غلام مصطفی نایکو اور دوسرے کئی سرکردہ لوگوں کو جمع کر کے ہدایت کی کہ وہ شیخ صاحب کی حمایت کریں۔اور ان کی مدد کریں۔ مجھے یاد ہے کہ مولانا ظفر علی خان نے اس سلسلے میں کچھ مخالفت کی تھی مگر علامہ نے آپ کو سمجھایا اور کہا کہ شیخ محمد عبداللہ ہی ایک نڈر اور بہادر لیڈر کے فرائض انجام دے سکتے ہیں۔ شیخ صاحب کے مقابلے میں کوئی شخص نہیں جو کشمیریوں کو آزادی کی تحریک کے لئے تیار کر سکتا ہے۔ کشمیر سے جو بھی آتا اس کی وہاں قدر ہوتی تھی۔ حتیٰ کہ جب بالن لے کر بھی کوئی کشمیری آتا تو اسے اس کے خوب دام دئیے جاتے اور اس کے ساتھ ہی کھانا کھلایا جاتا۔ ایک دفعہ ایک کشمیرن بھیک مانگنے وہاں آ گئی تو علامہ نے کھونٹی پر لٹکے اپنے کوٹ کی جیب سے کچھ پیسے نکالے اور اس کے ہاتھ میں تھما دئیے۔ اس پر سامنے بیٹھے ہوئے اخبار وطن کے ایڈیٹر نے جن کو وطن کے نام سے ہی یاد کیا جاتا تھا علامہ سے کہا کہ آپ کسی کشمیری کو دیکھ کر بے تاب کیوں ہو جاتے ہیں۔ اور چاہتے ہیں کہ اس کے لئے کچھ نہ کچھ کریں۔ ایڈیٹر وطن نے اپنے انداز میں علامہ پر فقرہ سا کسا تھا۔ جسے علامہ نے بھانپ لیا اور کہا کہ یہ سب وطن کی مائیں بہنیں ہیں نا؟ اس پر حاضرین نے زور کا قہقہہ لگایا۔ ایک دفعہ ایک کشمیری گویا آیا جس کا نام دلاور ملک تھا وہ شاید بلہ پورہ شوپیان کا رہنے والا تھا۔ اس نے پنجابی اور اردو گانے سنانا چاہے۔ وہاں موجود سامعین میں سے بیشتر لوگ بھی پنجابی اور اردو گانے سننا چاہتے تھے مگر علامہ نے اصرار کیا کہ وہ کسی کشمیری شاعر کا کلام سنائے اور پھر اس نے رسول میر اور محمود گامی کے کچھ گانے سنائے۔ علامہ اس دوران داد دیتے رہے اور جھومتے رہے۔ کچھ لوگوں نے پوچھا کہ آپ کیا سمجھے؟ کہ اس قدر داد دی ۔ آپ نے فرمایا میں سب کچھ سمجھا۔ کاش آپ بھی سمجھ پاتے تو آپ بھی داد دینے سے باز نہ رہتے۔ آپ محمود گامی کا ذکر اکثر کرتے اور ان کی تعریفیں کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ایک کشمیر ی مزدور سبزی منڈی سے بوری میں شلغم لے کر آیا تو اس کو اندر بلایا گیا۔ اسے کھانا کھلایا گیا اور بی بی جی نے مزدوری کے علاوہ کھونٹی پر ٹنگا ہوا ایک اچھا خاصا کپڑا بھی اسے دیا۔ اس کے ساتھ ہی ایک پنجابی مزدور گندم منڈی سے کچھ گیہوں لے کر آیا اسے فقط کچھ رقم دی گئی۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف علامہ بلکہ بیگمات بھی کشمیریوں کا خاص خیال رکھتی تھیں۔ اس وقت مجھے ایک اور واقعہ بھی یاد آ رہا ہے۔ ایک دفعہ وہاں کسی گھر میں شادی ہو رہی تھی اور وہاں عورتوں نے رات کو ایک مجرا کیا۔ جس میں انہوں نے طنزاً کشمیریوں کی نقل اتاری۔ ایک عورت نے کشمیری چادر لپیٹ لی تھی اور کلہاڑا کاندھے پر اٹھایا تھا۔ جس سے وہ تماشائیوں کو ہنساتی جاتی تھی۔ یہ بات کسی طرح علامہ تک پہنچی تو آپ کو سخت غصہ آیا اتنا غصہ کہ آپ نے صبح چائے پینے سے پہلے ہی ملک غلام دستگیر اور غلام مصطفی نایکو وغیرہ کو بلایا اور یہ واقعہ سنا کر کہا کہ اس حقارت آمیز حرکت کے خلاف ایجی ٹیشن کی جائے کیوں کہ یہاں22ممبران ہیں جن میں21کشمیری ہیں اور صرف ایک پنجابی ہے یعنی یہاں کشمیری بسنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ بعد میں تحقیقات سے معلوم ہوا کہ یہ حرکت اول تو یہاں بسنے والی کشمیر عورتوں نے ہی کی تھی۔ دوسرے انہوں نے کہا کہ وہ شادی بیاہ پر ایسے تماشے طنزاً نہیں بلکہ ایک دلچسپ کھیل کے طور پر کرتی رہتی ہیں۔ اور اب آئندہ وہ ایسا نہیں کریں گی۔ اس یقین دہانی کے بعد ہی علامہ کا غصہ جاتا رہا۔ ایک دفعہ ایک کشمیری پیر صاحب آئے۔ بالکل ہٹے کٹے اور بلند قامت کے۔ مجھے معلوم ہوا کہ یہ ان کے آبائی پیر صاحبان میں سے ہیں۔ اس کے بعد بی بی جی نے مجھ سے کہا تم تکیہ سید واں محلہ گیلانیاں جا کر مسجد عبدالغفار سے مزید تین پیر صاحبان کو لاؤ۔ میں وہاں سے تین اور پیر صاحبان کو لے آیا۔ یہ بتا دوں کہ اس مسجد میں کئی کشمیری پیر صاحبان تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے لئے جمع ہوتے تھے۔ جنہیں رات کو عموماً ختمات وغیرہ پڑھنے کے لئے مختلف گھروں میں مدعو کیا جاتا تھا۔ اس طرح سے وہ جو پیسہ کماتے تھے مسجد عبدالغفار کے مہتمم فرزند عبدالغفار کے حوالے کرتے تھے۔ جو تین پیر صاحبان میں وہاں سے لے کر آیا انہوں نے مذکورہ بالا پیر صاحب کی معیت میں رات گئے تک مولود شریف پڑھا اور صبح انہیں ہدیہ پیش کیا گیا۔ بڑے کشمیری پیر صاحب کو علامہ نے ایک سو روپیہ دیا۔ اور ان سے پیر صاحب کے بارے میں دریافت کیا۔ بعد میں جب کشمیر آیا تو میں نے ان بڑے پیر صاحب کو یہاں دیکھا وہ لو کٹی پورہ کے پیر سلام شاہ صاحب تھے۔ ایک اور پیر شمس الدین کو بھی میں نے وہاں دیکھا تھا۔ وہ بھی لوکٹی پورہ کے رہنے والے ہیں۔ علامہ اکثر کہتے تھے کہ ہم کشمیری ہیں اور کولگام کے رہنے والے ہیں اور کولگام کے نزدیک ہی کہیں ہمارا آبائی گاؤں ہے۔ جہاں سے ہجرت کر کے ہمارے آبا سیالکوٹ میں آ کر بسے ہیں۔ ملک غلام دستگیر اور علامہ دونوں اپنے آپ کو ایک ہی تحصیل یعنی تحصیل کولگام کے اصلی باشندے تصور کرتے تھے۔ علامہ مجھ سے بھی اسی لئے زیادہ پیار کرتے تھے کہ میں بھی کولگام تحصیل کا رہنے والا ہوں۔ ملک غلام دستگیر علامہ کے خاص دوستوں میں سے تھے جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ وہ بھی اصل میں کشمیری ہی تھے۔ ملک صاحب اپنے آپ کو تحصیل کولگام کے کسی نزدیکی گاؤں سے آئے ہوئے اپنے اجداد کی اولاد تصور کرتے ہوئے علامہ کے گھر کا بہت سا انتظام خود ہی کرتے تھے۔ وہ بہت بڑے رئیس تھے۔ ان کا ایک بیٹا سلطان احمد ہوائی جہاز کا پائلٹ تھا۔ ان کا ایک عزیز ہوتا تھا محمد مکرم خان جو کہ علامہ کے ہاں اکثر آیا جایا کرتا تھا۔ مکرم کی آواز بہت سریلی تھی۔ علامہ ان سے اکثر گیت اور غزلیں سنا کرتے تھے۔ وہ کبھی علامہ کے اشعار گاتا اور کبھی کسی اور شاعر کے۔ ایک دفعہ علامہ نے اس سے کہا کہ بہادر شاہ ظفر کا کوئی گیت سنائے۔ مکرم خان نے کہا کہ ان کی غزلوں میں کمزوری اور بزدلی کا عنصر غالب ہے لیکن آپ کی شاعری سے بہادری اور حوصلہ مندی اور ہمت پیدا ہوتی ہے میں تو آپ ہی کا کلام گاؤں گا علامہ نے کہا مجھے ظفر کا کلام بھی بہت پسند ہے تو محمد مکرم خان نے ظفر کی غزل سنائی: نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں ایک بار میں نے اسے کلام غالب بھی گاتے سنا ہے۔ علامہ نماز کے پابند تھے ۔ جمعہ کے دن وہ صبح سویرے نہاتے اور پھر عطر وغیرہ مل کر تیار رہتے اور ظہر کی نماز ادا کرنے کے لئے بادشاہی مسجد جاتے۔ رات کو میں اکثر وہاں نہیں رہتا بلکہ ملک غلام دستگیر کے ہاں ہی رات گزارتا تھا اور جب صبح علامہ کے ہاں آتا تو اکثر علامہ کو بستر میں ابھی سوتے ہی دیکھتا تھا اور وہ آٹھ بجے کے قریب بستر سے اٹھتے۔ میں نے وہاں سنا کہ وہ اکثر صبح بہت سویرے اٹھتے۔ نماز وغیرہ ادا کرتے پھر سو جاتے۔ آخری ایام میں ان کی صحت بھی اکثر ٹھیک نہیں رہتی۔ لہٰذا ہو سکتا ہے کبھی نماز ادا کرنے میں کوتاہی بھی ہوئی ہو۔ وہ گھر سے شاذ و نادر ہی باہر جاتے۔ زیادہ سے زیادہ جمعہ کے دن بادشاہی مسجد تک یا کبھی کسی خاص معاملے کی وکالت وغیرہ کے سلسلے میں۔ پیر صاحب مانکی شریف جب آپ کے ہاں آتے تو با جماعت نماز ادا کرنے کا آپ کی کوٹھی پر ہی اہتمام ہوتا۔ پیر صاحب کے اصرار پر آپ نے کئی بار امامت کے فرائض بھی انجام دئیے۔ کبھی ایسا بھی ہوا نماز باجماعت کوٹھی پر ہی ادا ہوئی۔ مگر علامہ صحت کی خرابی کے باعث اس میں شریک نہ ہو سکے۔ آپ صبح کے وقت اکثر بہت دیر تک قرآن شریف کی تلاوت کرتے تھے اور کبھی کبھی دن کے وقت بھی تلاوت کرتے تھے۔ اس کے لئے الگ ایک کمرہ تھا۔ میں نے وہاں یہ بھی سنا کہ وہ تلاوت کرتے وقت اتنا روتے کہ قرآن شریف کے اوراق تر ہو جاتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ ان دنوں وہ کبھی کبھار ہی وکالت کرنے کچہری جایا کرتے۔ کبھی روپیہ باہر سے آیا کرتا تھا۔ یہ کیسا روپیہ تھا؟ مجھے اس کا علم نہیں صرف سننے میں آتا تھا کہ کتابوں کا روپیہ ہے یا پھر کسی بڑے نواب وغیرہ نے بھیجا ہے۔ ایک دفعہ کا واقعہ مجھے یاد ہے کہ بی بی جی نے مجھ سے کہا کہ میں علامہ سے کہوں کہ بازار سے دکانداروں اور دھوبی وغیرہ کے بل آئے ہیں اور ان کو پیسے دینے ہیں۔ آپ کے پاس اس وقت شاید کچھ نہیں تھا۔ اس لئے آپ نے کہا کہ ان سے کہو کہ جلدی نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ انتظام کر دے گا۔ اس وقت مولانا ظفر علی خان ایڈیٹر زمیندار وہاں بیٹھے تھے۔ ان کو مخاطب کر کے آپ نے کہا کہ اخبار میں میری طرف سے اشتہار چھاپیں کہ اگر کسی شخص کو وکالت کرنا مقصود ہو تو میں تیار ہوںَ مولانا صاحب نے اسی وقت ٹیلی فون اٹھا کر ایسا ہی کیا۔ا تنے میں ایک جرمن خاتون اور اس کا خاوند آ گئے جن کی ہالینڈ میں کوئی فرم وغیرہ تھی۔ اور جس پر وہاں کسی شخص نے جبراً قبضہ کر لیا تھا۔ وہ علامہ سے وکالت کرانا یا مشورہ کرنا چاہتے تھے جس کے معاوضہ کے طور پر انہوں نے علامہ کو اسی وقت سولہ ہزار روپے دے دیے۔ علامہ نے مولانا ظفر علی خان سے کہا کہ جس اشتہار کے چھاپنے کے لئے ابھی کہا گیا تھا اسے اب نہ چھاپا جائے۔ مولانا صاحب نے کہا کہ چھپنے دیجئے کیا حرج ہے کوئی اور بھی آپ کی وکالت سے مستفید ہو سکتا ہے لیکن آپ نے کہا کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ضرورت کا خرچہ تو بھیج دیا ہے اگر اور ضرورت پڑے تو وہ خود انتظام کر دے گا۔ علامہ ہمیشہ بہترین کپڑے بنواتے تھے۔ یوں تو وہ زیادہ دولت مند نہیں تھے۔ ان کے گھر میں میں نے اس زمانے میں دو قالین، کچھ دریاں، گھر کا سامان، چند چارپائیاں، چند کرسیاں اور کتابیں دیکھی تھیں اور بس۔ مگر وہ اعلیٰ قسم کے سوٹ پہنتے۔ ان کے پاس جتنے سوٹ تھے شاید ہی کسی بڑے رئیس کے پاس رہے ہوں۔ وہ گھر پر بھی عام طور پر اعلیٰ قسم کا سوٹ پہنتے بشرطیکہ طبیعت اچھی ہوتی۔ کبھی اوور کوٹ اور پگڑی بھی پہن لیتے۔ ٹوپی وہ اکثر قراقلی پہنتے تھے۔ جو افغانستان سے آتی تھی۔ میں نے افغانستان کے نادر شاہ کو دیکھا ہے جب وہ اپنے ہمشیر زادہ ظاہر شاہ کو ساتھ لے کر وہاں آئے۔ وہ علامہ کے لئے بہترین تمباکو اور ایک درجن قراقلی ٹوپیاں لائے تھے۔ ایک دفعہ کچھ بیرونی مہمان جو شاید انگریز تھے ملنے آئے۔ اس وقت علامہ باہر دالان میں کچھ گھریلو کپڑے پہن کر ایک کرسی پر بیٹھے تھے جس کی صرف تین ٹانگیں تھیں اور چوتھی ٹانگ کے بدلے میں کچھ اینٹیں اس کے نیچے رکھ دی تھیں۔ جب مہمانوں نے آپ کو دیکھا تو وہ اپنے دوسرے ساتھیوں سے جو ان کو لے کر وہاں آئے تھے کچھ بگڑ گئے بعد میں جب اصل حالات سے آگاہی ہوئی تو وہ علامہ سے ملے اور انہوں نے کہا کہ وہ علامہ کو کچھ اور ہی سمجھ بیٹھے تھے۔ علامہ بحث و مباحثہ میں شریک ہوتے تھے۔ کئی بار کچھ باتوں پر زور دار بحث ہوتی تھی۔ ایک دفعہ سر آغا خان نے علامہ کو کچھ رقم بھیجی تھی تو آپ نے فرمایا کہ اس رقم کو مسلم لیگ یا انجمن حمایت اسلام کو بھیج دیا جائے۔ اتنے میں مسٹر لیاقت علی خان بھی آ گئے تو انہوں نے علامہ کو مشورہ دیا کہ آپ یہ اپنے مصرف میں لا سکتے ہیں۔ تب آپ نے کہا کہ اچھا جاوید کے لئے ایک اچکن بنوانے کا انتظام کیا جائے اس پر مسٹر لیاقت علی خان نے کہا کہ میرے لئے بھی ایک اچکن بنوائیے۔ علامہ نے ہنستے ہوئے سوال کیا کہ آپ جو کوٹ پہنے ہوتے ہیں۔ اب اچکن کی کیا ضرورت ہے۔ انہوں نے اوور کوٹ اتار دیا۔ اندر پہنے کوٹ پر پیوند لگا تھا۔ علامہ نے آپ سے کہا کہ آخر وہ نوابی کا پیسہ کہاں رکھا ۔ خان صاحب نے جواب دیا کہ وہ مسلم لیگ کو دے دیا۔ یہ سن کر علامہ نے کہا کہ اپنی نوابی تک تو مسلم لیگ پر نچھاور کر دی اور مجھے یہ روپیہ ذاتی مصرف میں لانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ یہ روپیہ بھی مسلم لیگ کو دیا جائے۔ ایک دفعہ وہاں ظفر مہدی تھے وہ وہاں آتے رہتے تھے۔ مگر آج علامہ اور ان کے درمیان کچھ بحث چھڑ چکی تھی۔ بحث کا موضوع کشمیری تمدن تھا۔ پھر بنی اسرائیلیوں (یہودیوں) کے متعلق باتیں ہونے لگیں تو علامہ نے ایک صندوق کھولا اور ایک کشمیری عورت کا کسابہ نکال کر اپنی بات کے ثبوت میں دکھایا جسے آپ نے اپنی دادی (یا پڑدادی مجھے پورا یاد نہیں) کا بتایا۔ اسے علامہ نے سنبھال کر رکھا تھا۔ علامہ کے تین بچے تھے۔ آفتاب احمد پہلی بیوی سے تھے جو میرے ہوتے وہاں نہیں ہوتے اور میں نے سنا ہے کہ انہوں نے علامہ سے بھی زیادہ تعلیم حاصل کی تھی۔ ان دنوں کا واقعہ ہے ایک بڑے رئیس نے شملہ پہاڑی کے مقام پر ایک مکان شیش محل کے نام سے بنایا اور اس مکان کا علامہ کے حق میں بیع نامہ کروایا۔ جب علامہ نے اس کو دیکھا تو بہت خوش ہوئے اور اس کو اپنے لئے قبول کرتے ہی فیصلہ کیا کہ اس میں ایک ہسپتال قائم کیا جائے جس کا انتظام وہ آفتاب احمد کے ہاتھ میں دینا چاہتے تھے۔ مگر معلوم ہوا کہ آفتاب احمد نے یہ بات تسلیم نہ کی۔ پھر علامہ کو ایک بار شملہ سے ٹیلی فون پر یہ اطلاع ملی کہ آفتاب احمد انگریزوں کی طرف سے بحیثیت سفیر (یا ملازم) جرمنی جا رہے ہیں تو آپ کو یہ سن کر بہت غصہ آیا اور ٹیلی فون چھوڑ کر فرمایا کہ آفتاب احمد اب اس گھر میں نہیں آ سکتا ہے۔ آفتاب احمد کے علاوہ ایک اور بیٹا جاوید احمد اور ایک بیٹی منیرہ کو میں بھی اچھی طرح سے جانتا ہوں جو دوسری بیوی سے تھے۔ جاوید ان دنوں مجھ سے ذرا بڑے ہی تھے اور منیرہ ان سے چھوٹی تھی۔ منیرہ کے حق میں علامہ کی زندگی میں بات ٹھہری تھی کہ ایک شخص میاں امیر الدین (لاہور) کے لڑکے سلیم کو خانہ داماد بنایا جائے اور بعد میں یہی ہوا تھا۔ میاں امیر الدین ایک بہت بڑے رئیس تھے۔ ٭٭٭ حوالہ جات دوسرا باب: اقبال کا حسب و نسب 1کشمیر علامہ اقبال کی نگاہ میں۔ جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال۔ روزنامہ نوائے وقت لاہور۔ 10فروری1977ء 2علامہ اقبال کی روحانی نسبتیں۔ ہفت روزہ کشیر راولپنڈی۔ 5نومبر1985ء 3مجلہ شیرازہ۔ کلچرل اکادمی سری نگر۔ اقبال نمبر اپریل 1980ء 4مشاہیر کشمیر۔ لاہور 1948ء ۔ ص45 5ہما ڈائجسٹ دہلی۔ اقبال نمبر۔ اکتوبر1976ء 6کلیات مکاتیب اقبال۔ مرتبہ سید مظفر حسین برنی۔ جلد دوم۔ اردو اکادمی دہلی 1991ئ۔ ص607-609 7واقعات کشمیر۔ خواجہ محمد اعظم دیدہ مری۔ ترجمہ خواجہ حمید یزدانی۔ اقبال اکادمی پاکستان لاہور۔ 1995ئ۔ ص151 8کلیات مکاتیب اقبال۔ جلد دوم۔ ص768 9غلام محمد بٹ کا بیان ہے کہ وہ 1931ء کے تین چار سال بعد تیرہ چودہ برس کی عمر میں پنجاب چلا گیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی پیدائش 1920ء کے آس پاس ہوئی ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ وہ 1980ء میں ستر سال کا تھا۔ صحیح نہیں ہے البتہ اس کی عمر اس وقت ساٹھ سال کی ہو گی۔ مجلہ شیرازہ کلچرل اکادمی۔ سری نگر۔ اپریل1980ء ٭٭٭ تیسرا باب سوانح حیات مرا بنگر کہ در ہندوستاں دیگر نمے بینی برہمن زادۂ رمز آشنائے روم و تبریز است اقبال پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں 9نومبر1877ء بروز جمعہ پیدا ہوئے۔ اقبال کے والد شیخ نور محمد کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ وہ پڑھے لکھے نہ تھے۔ لیکن ’’ روزگار فقیر‘‘ کے مصنف نے اس بارے میں کہا ہے کہ ’’ اتنی بات تو بے شک درست ہے کہ شیخ نور محمد نے کسی مکتب یا اسکول میں باقاعدہ تعلیم نہیں پائی تھی۔ لیکن یہ بات قطعاً غلط ہے کہ وہ سرے سے پڑھنا لکھنا ہی نہیں جانتے تھے۔ ان کے اہل خاندان نے اس کی تصدیق کی ہے کہ شیخ نور محمد اپنے صاحبزادہ ڈاکٹر محمد اقبال کی اردو فارسی کتابیں جو ان کی زندگی میں ہی شائع ہو گئی تھیں قریب قریب روزانہ پڑھتے نظر آتے۔ پڑھنے میں روانی کم ہوتی۔ رک رک کر پڑھتے لیکن بعض مقامات پر ان کی آواز میں کپکپی اور رقت پیدا ہو جاتی اور آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے والد نہ صرف یہ کہ ڈاکٹر صاحب کی کتابیں پڑھ سکتے تھے بلکہ ان کے مفہوم و مطلب کو بھی سمجھتے تھے۔ شیخ صاحب اپنے دستخط بڑے سادہ انداز میں کرتے تھے۔‘‘ (1) شیخ نور محمد کے ہاں دو لڑکے اور چار لڑکیاں پیدا ہوئیں مگر صرف دو لڑکے اقبال اور ان کے برادر اکبر شیخ عطا محمد زندہ رہے۔ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم نے اقبال کے والد کے ساتھ اپنی پہلی ہی ملاقات میں ایک دلچسپ قصہ بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ اس ملاقات میں شیخ نور محمد صاحب نے اقبال کی پیدائش کا ایک دلچسپ قصہ مجھے سنایا۔ فرمانے لگے کہ اقبال ابھی ماں کے پیٹ میں تھا کہ میں نے ایک عجیب خواب دیکھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نہایت خوش نما پرندہ سطح زمین سے تھوڑی بلندی پر اڑ رہا ہے اور بہت سے لوگ ہاتھ اٹھا کر اور اچھل کر اسے پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ کسی کی گرفت میں نہیں آیا میں بھی انہیں تماشائیوں میں کھڑا تھا اور خواہش مند تھا کہ غیر معمولی جمال کا یہ پرندہ میرے ہی ہاتھ آ جائے۔ وہ پرندہ یک بیک میری آغوش میں آ گرا۔ میں بہت خوش ہوا اور دوسرے منہ تکتے رہ گئے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد مجھے اس خواب کی تعبیر ملی کہ پرندہ عالم روحانی میں میرا ہونے والا بچہ ہے جو صاحب اقبال ہو گا۔ اقبال کے حصول کمال اور اس کی شہرت کے بعد مجھے اپنی تعبیر کے درست ہونے کا یقین ہو گیا۔‘‘ عالم مثال میں ارواح پرندوں کی طرح متمثل ہوتی ہیں۔ انجیل میں ہے کہ روح القدس فاختہ کی صورت میں زمین پر اترتی ہوئی دکھائی دی۔ (2) شیخ نور محمد کو بچپن میں شیخ نتھو بھی کہا جاتا تھا۔ اس نام کے پس منظر میں بیان کیا جاتا ہے کہ شیخ نور محمد کی پیدائش سے قبل ان کے والدین کے یہاں دس فرزند پیدا ہوئے تھے جن میں سے کوئی زندہ نہیں رہا اور وہ یکے بعد دیگرے خدا کو پیارے ہو گئے۔ شیخ نور محمد کے پیدا ہوتے ہی ان کے والدین نے اپنے اعتقاد کی پیروی میں کئی ایسی رسومات ادا کیں جن کے نتیجے میں وہ اپنے اس اکلوتے بیٹے کی زندگی کے طالب تھے۔ چنانچہ ایک درویش کے کہنے پر پیدا ہوتے ہی نور محمد کی ناک چھیدی گئی اور اس میں ایک نتھ پہنائی گئی۔ا سی نسبت سے ان کا نام شیخ نتھو پڑ گیا۔ شیخ نور محمد اپنے فرزند ارجمند اقبال کے انتقال سے آٹھ سال قبل 1930ء میں اپنے شہر پیدائش سیالکوٹ میں ہی وفات پا گئے۔ اقبال کی والدہ امام بی بی ایک نیک سیرت اور خدا پرست خاتون خانہ تھیں۔ جنہوں نے بچپن میں اقبال کی مذہبی اور فکری تعلیم و تربیت میں بہت بڑا رول ادا کیا۔ اقبال نے خود اپنی والدہ کی اس شفقت اور تربیت کا اپنی نگارشات میں بار بار ذکر کیا ہے۔ امام بی بی 78سال کی عمر میں9نومبر1914ء کو انتقال کر گئیں تو اقبال نے اس ماتم سخت پر ایک طویل مرثیہ لکھا جس کے آخری اشعار یوں ہیں: زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے اقبال نے اپنی زندگی میں تین شادیاں کیں جن کا تعلق گجرات، لاہور اور لدھیانہ کے گھرانوں سے تھا۔ ان کی تیسری اہلیہ سردار بیگم کے بطن سے جاوید اقبال اور منیرہ بالترتیب 1924ء اور 1930ء میں پیدا ہوئے۔ ایک بیوی کریم بی بی کا لڑکا آفتاب اقبال 1979ء میں وفات پا گیا۔ اقبال کے اولین استاد مولوی سید میر حسن تھے جو چودہ سال کی عمر میں ہی حافظ قرآن ہو کر مولوی بن گئے۔ انہوں نے سیالکوٹ کے مشن سکول میں اقبال کی تدریس کی جہاں سے اقبال نے 1893ء میں دسویں جماعت کا امتحان پاس کر لیا۔ 1922ء میں پنجاب کے گورنر نے اقبال کو ملاقات کے لئے بلایا اور انہیں بتایا کہ نائٹ ہڈKnighthoodکے لئے ان کے نام کی سفارش کی جا رہی ہے۔ اور وہ اس پیش کش کے بارے میں اقبال کی رائے معلوم کرنا چاہتے تھے۔ اقبال نے جب ہاں کہہ دی تو گورنر پنجاب نے اقبال سے کہا کہ وہ شمس العلماء کے خطاب کے سلسلے میں کسی پنجابی مسلمان عالم کی سفارش کریں۔ اقبال نے جواباً کہا میں یہ نام اس شرط پر بتاتا ہوں کہ اس کے بعد کسی اور نام پر غور نہیں کیا جائے گا۔ اقبال نے جب اپنے استاد مولوی میر حسن کا نام تجویز کیا تو گورنر پوچھنے لگے کہ انہوں نے کون کونسی کتابیں تصنیف کی ہیں۔ اقبال نے جواب دیا’’ انہوں نے تو کوئی کتاب تصنیف نہیں کی ہے لیکن میں ایک ’’ زندہ تصنیف‘‘ آپ کے سامنے موجود ہوں جسے گھر بلا کر’’ سر‘‘ (Sir) کے خطاب کی پیش کش کی جا رہی ہے‘‘ (3) یکم جنوری1923ء کو اقبال کو سر کے خطاب سے نوازا گیا اور ان کے استاد کو بھی شمس العلماء کا خطاب دیا گیا۔ شمس العلماء مولوی سید میر حسن 1929ء میں انتقال کر گئے۔ اقبال نے1897ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کیا اور دو سال بعد اسی درسگاہ سے ایم اے کی ڈگری حاصل کر لی۔ 1905ء میں آپ انگلستان روانہ ہوئے اور وہیں سے 1908ء میں بار ایٹ لاء کیا اسی سال انہیں جرمنی کی میونخ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری مل گئی جو ان کے مقالہ ’’ ایران میں ما بعد الطبیعیات کا ارتقائ‘‘ (The Evolution of Metap Hysics in Persia) پر انہیں دی گئی۔ 1908ء میں وطن واپسی پر آپ تین سال بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ کے پروفیسر ہو گئے۔ 1923ء میں اقبال پنجاب لیسجلیٹو کونسل کے ممبر منتخب ہوئے۔ ان کے حق میں اگرچہ دو امیدوار میاں عبدالعزیز اور ملک محمد حسین پہلے ہی دستبردار ہو چکے تھے۔ لیکن جب تیسرے امیدوار خان بہادر ملک محمد دین مقابلہ پر ڈٹے رہے تو اقبال نے انتخاب میں انہیں تین ہزار ووٹوں سے شکست دی۔ اقبال جہاں شعر و سخن کی دنیا میں ایک نام پیدا کر چکے تھے وہاں فلسفہ حیات اور مذہبی امور کی کماحقہ آگاہی کی بدولت انہیں ایک روحانی مقام بھی حاصل ہو چکا تھا۔ اپنی شخصیت کے بارے میں نامعلوم اسرار و اخبار کے حقائق ان پر فاش ہوتے جا رہے تھے۔ ایک خدا داد عطیہ کے طور پر اقبال کو جو روحانی بلندی ودیعت ہوئی تھی اور جو مرتبہ عظیم انہیں مشیت ایزدی نے بخشا تھا اس کا ایک ثبوت ان کے اس مکتوب سے ملتا ہے جو انہوں نے 23اپریل 1920ء کو اپنے والد شیخ نور محمد کے نام تحریر کیا۔ اس خط میں اقبال نے اس مشہور واقعہ کا ذکر کیا ہے جس کے مطابق ایک بار آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بوقت نماز آپ کو طلب فرمایا۔ وہ اپنے والد بزرگوار سے اس بارے میں رہنمائی اور صلاح کی التجا کرتے ہوئے لکھتے ہیں’’ قریباً چار ماہ کا عرصہ ہوا کہ مجھے ایک گمنام خط آیا جس کا مضمون یہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں تمہاری ایک خاص جگہ ہے جس کا تم کو علم نہیں۔ اگر تم فلاں وظیفہ پڑھا کرو تو تم کو بھی اس کا علم ہو جائے گا وہ وظیفہ خط میں درج تھا۔ میں نے اس خیال سے کہ وہ گمنام تھا اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ اب وہ خط میرے پاس نہیں ہے۔ معلوم نہیں ردی میں مل ملا کر کہاں چلا گیا ۔‘‘ پرسوں کا ذکر ہے کہ کشمیر سے ایک پیرزادہ مجھ سے ملنے آیا اس کی عمر تیس پینتیس سال کی ہو گی۔ شکل سے شرافت کے آثار معلوم ہوتے تھے۔ گفتگو سے ہوشیار۔ سمجھ دار اور پڑھا لکھا معلوم ہوتا تھا۔ مگر پیش تر اس کے کہ وہ مجھ سے کوئی گفتگو کرے مجھ کو دیکھ کر بے اختیار زار و قطار رونے لگا۔ میں نے سمجھا کہ شاید مصیبت زدہ ہے اور مجھ سے کوئی مدد مانگتا ہے استفسار حال کیا تو کہنے لگا کہ کسی مدد کی ضرورت نہیں مجھ پر خدا کا فضل ہے میرے بزرگوں نے خدا کی ملازمت کی۔ اب میں اس کی پنشن کھا رہا ہوں رونے کی وجہ خوشی ہے نہ غم۔ مفصل کیفیت پوچھنے پر اس نے کہا کہ کشمیر میں میرے گاؤں نوگام میں جو سری نگر کے قریب ہے میں نے عالم کشف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دربار دیکھا۔ صف نماز کے لئے کھڑی ہوئی تو حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ محمد اقبال آیا ہے کہ نہیں؟ معلوم ہوا کہ محفل میں نہیں ہے۔ اس پر ایک بزرگ کو اقبال کے بلانے کے لئے بھیجا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک جوان آدمی جس کی ڈاڑھی منڈی ہوئی تھی۔ اور رنگ گورا تھا مع ان بزرگ کے صف نماز میں داخل ہو کر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ پیرزادہ صاحب کہتے ہیں کہ اس سے پہلے میں آپ کی شکل سے واقف نہ تھا۔ نہ نام معلوم تھا۔ کشمیر میں ایک بزرگ مولوی نجم الدین صاحب ہیں جن کے پاس جا کر میں نے یہ سارا قصہ بیان کیا تو انہوں نے آپ کی بہت تعریف کی۔ وہ آپ کو آپ کی تحریروں کے ذریعہ جانتے ہیں۔ گو انہوں نے آپ کو کبھی دیکھا نہیں۔ اس دن سے میں نے ارادہ کیا کہ لاہور جا کر آپ سے ملوں گا سو محض آپ کی ملاقات کے لئے میں نے کشمیر سے سفر کیا اور آپ کو دیکھ کر مجھے بے اختیار رونا اس واسطے آیا کہ مجھ پر میرے کشف کی تصدیق ہو گئی کیونکہ جو شکل میں نے آپ کی حالت کشف میں دیکھی اس سے سر مو فرق نہ تھا۔ اس ماجرہ کو سن کر مجھ کو معاً وہ گمنام خط یاد آیا جس کا ذکر میں نے اس خط کی ابتدا میں کیا ہے۔ مجھے سخت ندامت ہو رہی ہے اور روح نہایت کرب و اضطراب کی حالت میں ہے کہ میں نے کیوں وہ خط ضائع کر دیا۔ اب مجھ کو وہ وظیفہ یاد نہیں جو اس خط میں لکھا تھا۔ آپ مہربانی کر کے اس مشکل کا کوئی علاج بتائیں کیونکہ پیرزادہ صاحب کہتے تھے کہ آپ کے متعلق جو کچھ میں نے دیکھا وہ آپ کے والدین کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ جو کچھ انہوں نے کہا ہے بالکل صحیح ہے کیونکہ میرے اعمال تو اس قابل نہیں ہیں ایسا فضل ضروری ہے کہ دعا کا ہی نتیجہ ہو لیکن اگر حقیقت میں پیرزادہ صاحب کا کشف صحیح ہے تو میرے لئے لا علمی کی حالت سخت تکلیف دہ ہے۔ اس کایا تو کوئی علاج بتائیے یا مزید دعا فرمائیے کہ خدا تعالیٰ اس گرہ کو کھول دے (4) اس نامہ کے جواب میں شیخ نور محمد نے کیا رائے دی اس کا کوئی علم نہیں البتہ یہ بات قابل توجہ اور اہل کشمیر کے لئے قابل ستائش ہے کہ اس سربلندی اور سر فرازی کا مژدہ اقبال کو سب سے پہلے انہی کے ایک ہم وطن پیزادہ نے سنایا۔ دسمبر1930ء میں کل ہند مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الہ آباد کے خطبہ صدارت میں اقبال نے باقاعدہ طور پر پاکستان کا تصور پیش کیا۔ اس کے کوئی دس سال بعد23مارچ1940ء کو لاہور میں دریائے راوی کے کنارے اسی تنظیم کے ایک اور تاریخی اجلاس میں قرار داد پاکستان پیش کی گئی جس کی صدارت کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا’’ مسلمان ایک الگ قوم ہے۔ ہماری تہذیب الگ ہے۔ ہماری ثقافت الگ ہے ہمارے نام الگ۔ ہماری قدریں الگ۔ ہمارے قوانین اور ضابطے الگ۔ ہمارے اخلاقی قوانین الگ، ہمارے رسم و رواج الگ، ہمارے احساسات الگ اور ہماری امنگیں الگ ہیں۔ مختصر یہ کہ زندگی کے بارے میں ہمارا پورے کا پورا نقطہ نظر الگ ہے اور بین الاقوامی قوانین کے تمام اصولوں اور ضابطوں کے مطابق مسلمان الگ قوم ہیں۔‘‘ (5) 1931ء اور1932ء میں اقبال دوسری اور تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کی غرض سے لندن گئے اور اسی دوران روم اور سپین کا بھی دورہ کیا۔ اپنے سفر روم کے دوران انہوں نے اٹلی کے مشہور ڈکٹیٹر مسولینی سے بھی ملاقات کی۔ سپین کی مسجد قرطبہ پر تحریر کردہ ان کی نظم اردو شاعری میں تخیل فن کے کمال کا ایک بے مثال نمونہ ہے۔ اس طویل نظم کے چند اشعار یوں ہیں: جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی روح امم کی حیات کش مکش انقلاب صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر 1930ء کے اوائل میں کشمیر سرکار کے خارجی اور سیاسی امور کے وزیر سر ایلبین بنر جی نے اپنے اس مشہور بیان کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ جس میں انہوں نے مہاراجہ ہری سنگھ کی سرکار میں مسلمانوں کے تئیں روا رکھے گئے غیر انسانی سلوک اور ان کے حقوق کی پامالی پر اپنے غم اور افسوس کا اظہار کیا تھا۔ اس بیان نے سارے کشمیر کے ساتھ ساتھ ملحقہ پنجاب میں بھی تہلکہ مچا دیا او رمہاراجہ کے چند وفاداروں نے اسے محض ایک تشہیری شوشہ قرار دینے کی غرض سے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ لیکن بات بہرحال پھیل گئی اور تاج برطانیہ کو بھی اس بیان کی حقیقت اور صداقت سے اہل کشمیر کا فکر لاحق ہوا۔ لیکن کشمیر بہرحال ایک خود مختار ملک تھا لہٰذا انگریزوں نے اس نازک مسئلہ میں کسی قسم کی مداخلت کرنے کے برعکس خاموش رہنا ہی مناسب خیال کیا۔ ادھر مہاراجہ ہری سنگھ نے مسلمانوں کی خاطر جمعی کے لئے یہ افواہ اڑائی کہ وہ عنقریب کابینہ میں ایک مسلمان وزیر کو شامل کرے گا جسے غالباً تعلیم کا محکمہ دیا جائے گا۔ روزنامہ انقلاب نے ’’ریاست کشمیر اور مسلمان‘‘ کے عنوان سے اس پر یہ اداریہ لکھا’’ اگر یہ درست ہے اور اگر مہاراجہ نے صدق دل سے مسلمانوں کی تالیف قلوب کا ارادہ کیا ہے تو اس کا نتیجہ یقیناً اچھا ہو گا۔ لیکن ہم مہاراجہ صاحب کی خدمت میں ایک مخلصانہ اور خیر خواہانہ گذارش کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اس مسلمان ممبر کے انتخاب میں مردم شناسی کا ثبوت دیں اور کسی ایسے مسلمان ممبر کو اپنا قلمدان وزارت تفویض کریں جو کشمیر کے علاوہ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی ہر دل عزیز اور ممتاز سمجھا جاتا ہو۔ ہمارے نزدیک اس عہدہ کے لئے مسلمانوں میں موزوں ترین شخصیت علامہ اقبال کی ہے۔ آپ تعلیم یافتہ مسلمانوں میں جو مرتبہ رکھتے ہیں وہ محتاج بیان نہیں۔ آپ کے علم و فضل کی وجہ سے دوسرے مذاہب کے لوگ بھی آپ کی بے انتہا تکریم کرتے ہیں اس کے علاوہ ایک بہت بڑا وصف جو آپ کو ریاست کشمیر کی خدمت کے لئے دوسروں سے ممتاز کرتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ بھی خطہ کشمیر ہی کے رہنے والے ہیں اور آپ کو طبعاً کشمیریوں سے ہمدردی ہو گی۔ تعلیمی ممبر کے لئے آپ سے زیادہ موزوں شخص کوئی نہیں کیونکہ آپ کی زندگی ہی سراپا علم و فضل ہے۔‘‘ اگر مہاراجہ صاحب کشمیر نے علامہ اقبال کی خدمات حاصل کر لیں تو مسلمانان ملک میں ریاست کشمیر کے متعلق بہت اچھا خیال پیدا ہو جائے گا۔ حضرت علامہ کے لئے کسی ریاست کی تعلیمی ممبری کوئی بہت بڑا اعزاز نہیں لیکن آپ کی خدمات کا حاصل ہو جانا ریاست کشمیر کے لئے یقینا باعث اعزاز ہو گا۔ حضرت علمہ علم و فضل میں بلند پایہ رکھنے کے علاوہ تعلیمی امور کا وسیع عملی تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ مثلاً آپ کالج میں پروفیسر رہ چکے ہیں۔ مدت سے یونیورسٹی میں اعلیٰ منصب پر چلے آئے ہیں۔ آپ کا علم و فضل ہمہ گیر ہے۔ اگر مہاراجہ صاحب کو حضرت علامہ ایسی بلند پایہ شخصیت کے لانے میں زیادہ مصارف بھی برداشت کرنے پڑیں تو ہمیں یقین ہے کہ وہ ریاست کے اعزاز و رعیت کی گراں قدر فلاح کے مقابلے میں بالکل بے حقیقت ہوں گے۔ حضرت علامہ سے ہماری استدعا ہے کہ اگر انہیں اس قسم کا کوئی موقع ملے اور وہ کسی ہندی ریاست کی ہندی رعایا علی الخصوص کشمیری رعایا کی خدمت کی مہلت پائیں تو اسے قبول فرمائیں۔ مسلمانان کشمیر کے لئے آپ کا تقرر بے انتہا اطمینان کا باعث ہو گا اور بعض کو تہ اندیش افراد نے والی ریاست کو رعایا کی حقیقی مصیبتوں سے نا واقف رکھ کر جو صورت حال پیدا کر دی ہے ۔ وہ خدا کے فضل سے یقینا رفع ہو جائے گی اور یہ تقرر بجائے خود اس حقیقت کا ظاہر و باہر ثبوت ہو گا کہ مہاراجہ ہری سنگھ بہادر اپنی کثیر التعداد مسلم رعایا کی مصیبتوں کو رفع کرنے کا پختہ اور مصمم ارادہ فرما چکے ہیں۔ (6) اس سلسلے میں لازمی طور پر یہ افواہیں گشت کرنے لگیں کہ اقبال ہری سنگھ کی سرکار میں اپنے لئے کوئی عہدہ حاصل کرنے کے درپے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی شوشہ بازیوں سے ان کے سیاسی مطمع نظر کے بارے میں غلط فہمیاں بھی پیدا ہوئیں۔ کچھ عرصہ بعد14اگست1930ء کو یوم کشمیر کے ایک اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کشمیر کمیٹی کے ایک سرگرم رکن سید محسن شاہ نے اس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا’’ ہندو اخبارات ان مسلم قائدین کے متعلق جو مسلمانان کشمیر کی حمایت کرتے ہیں مختلف قسم کی جھوٹی افواہیں پھیلا رہے ہیں۔ انہوں نے ایک اخبار’’ کیسری‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ اخبار لکھتا ہے کہ اقبال کشمیر کے وزیراعظم بننا چاہتے ہیں اور سید محسن شاہ جج بننے کے آرزو مند ہیں۔‘‘ اس پر اقبال نے مداخلت کرتے ہوئے اسی جلسہ عام میں واضح کیا کہ ’’ وہ ایسے حاکم کی وزارت پر لعنت بھیجتے ہیں۔‘‘ (7) اپنی عمر کے آخری ایام میں اقبال کئی جسمانی مرضوں میں مبتلا رہے جن میں سے ایک موذی مرض نے ان کی قوت گویائی کو بھی سلب کر لیا۔ ان دنوں وہ عام طور پر اپنی رہائش گاہ میں ایک کمرہ میں پلنگ پر لیٹے رہتے اور اکثر و بیشتر عقیدت مندوں اور احباب کی باتیں سنتے ہی رہتے کیونکہ خود کلام کی طاقت باقی نہیں رہی تھی۔ لیکن اس عالم اضطراب میں بھی جب بھی کوئی شخص آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم یا مکہ و مدینہ کی بات چھیڑتا تو اقبال کی پژ مردہ آنکھوں کے تارے چمکنے لگتے اور کئی بار انہیں اس تذکرہ پر زار زار روتے بھی دیکھا گیا ہے اس عالم کو ان کے مصاحب فقیر سید وحید الدین نے بھی قلم بند کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ آخری زمانہ میں تو یہ کیفیت ہو گئی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر آ جاتا تھا تو ڈاکٹر صاحب کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلتے تھے اور آخر عمر میں یہ کیفیت اس انتہا کو پہنچ گئی تھی کہ ہچکی بندھ جاتی تھی۔ آواز بھرا جاتی تھی اور وہ کئی کئی منٹ مکمل سکوت اختیار کر لیتے تھے تاکہ اپنے جذبات پر قابو پا سکیں اور گفتگو جاری رکھ سکیں۔‘‘ جب ڈاکٹر صاحب راؤنڈ ٹیبل کانفرنس سے واپس آئے تو والد مرحوم ان سے ملنے گئے۔ بڑی مدت کے بعد ایک دوسرے سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس لئے بڑے تپاک سے ملے اور ڈاکٹر صاحب سے ان کے سفر کے تجربات کے متعلق گفتگو ہونے لگی۔ والد مرحوم نے اثنائے گفتگو میں کہا’’ اقبال تم یورپ ہو آئے ہو۔ مصر اور فلسطین کی بھی سیر کی کیا اچھا ہوتا کہ واپسی پر روضہ اطہر کی زیارت سے بھی آنکھیں نورانی کر لیتے‘‘ یہ سنتے ہی ڈاکٹر صاحب کی حالت دگرگوں ہو گئی یعنی چہرے پر زردی چھا گئی اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے چند لمحے تک یہی کیفیت رہی پھر کہنے میںلگے’’فقیر میں کس منہ سے روضہ اطہر پر حاضر ہو جاتا۔‘‘ (8) اقبال کی تصانیف میں سب سے پہلے ان کا وہ مقالہ شامل ہے جو انہوں نے ’’ ایران میں ما بعد الطبیعیات کا ارتقائ‘‘ کے نام سے پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لئے لکھا۔ یہ مقالہ انہوں نے 1905ء سے 1908ء تک اپنے قیام یورپ کے دوران تیار کیا اور اسی پر انہیں میونخ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل ہوئی۔ اس مقالہ کی صرف پچاس جلدیں ایک جرمن محقق ڈاکٹر رچرڈ مونگ (Dr Richard Monnig) کی مساعی سے شائع ہوئی تھیں۔ اقبال1930ء میں مسلم ایجوکیشنل ایسوسی ایشن آف ساؤتھ انڈیا کی دعوت پر ایک مذاکرے میں شمولیت کی غرض سے مدراس گئے جہاں انہوں نے چھ لیکچر دئیے جو بعد میں ’’ اسلام میں مذہبی تصور کی تعمیر نو ‘‘ (Reconstruction of Religious Thought in Islam) کے عنوان سے انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں شائع ہوئے۔ اردو میں یہ مقالات ترجمہ کی شکل میں اشاعت پذیر ہوئے۔ اقبال کے فارسی کلام کا پہلا مجموعہ ’’ اسرار خودی‘‘ 1915ء میں شائع ہوا اور اس کا دوسرا حصہ ’’رموز بے خودی‘‘ تین سال بعد منظر عام پر آیا۔’’ پیام مشرق‘‘ اقبال کی ان فارسی منظومات کا ایک اور مجموعہ ہے جو انہوں نے مشہور جرمن شاعر گوئٹے کے ’’ دیوان مغربی‘‘ کے جواب میں لکھیں۔ ’’پیام مشرق‘‘ 1923ء میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد ان کا اردو کلام پہلی بار’’ بانگ درا‘‘ (1924) شائع ہوا اور پھر’’ زبور عجم‘‘ فارسی میں1927ء میں طبع ہوئی ’’ جاوید نامہ‘‘ (1932) اور ’’ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ (1936) کے بعد اردو کے ساتھ ساتھ اقبال کا باقی فارسی کلام ’’ ارمغان حجاز‘‘ میں شامل ہے جو 1938ء میں ان کی وفات کے بعد چھپ گئی۔ ان کی شاعری کے دیگر مجموعے ’’ بال جبریل‘‘ اور’’ ضرب کلیم‘‘ ہیں جو بالترتیب 1935ء اور1936ء میں شائع ہوئے۔ شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر سر شیخ محمد اقبال اکسٹھ برس کی عمر پا کر 21اپریل1938ء کو انتقال کر گئے۔ فکر و فن کے اس پیغمبر اور ادب و فلسفہ کے عالم بے بحر کی وفات سے ایک دن قبل اور ان کے داعی اجل کو لبیک کہنے تک کے دوران کا حال ان کے صاحبزادہ جاوید اقبال نے ان الفاظ میں کیا ہے۔ 20اپریل1938ء کی صبح کو ان کی طبیعت کچھ سنبھل گئی تھی انہوں نے بمطابق معمول دلیہ کے ساتھ چائے کی پیالی پی۔ میاں محمد شفیع سے اخبار پڑھوا کر سنے اور رشید حجام سے شیو بنوائی۔ دوپہر کو ڈاک میں جنوبی افریقہ کے کسی اخبار کے تراشے موصول ہوئے۔ خبر یہ تھی کہ وہاں کے مسلمانوں نے نماز جمعہ کے بعد اقبال، مصطفی کمال اور محمد علی جناح کی صحت اور درازی عمر کے لئے دعا کی ہے۔ کوئی ساڑھے چار بجے بیرن فان والتھایم انہیں ملنے کے لئے آ گئے۔ والتھایم نے جرمنی میں اقبال کی طالب علمی کے زمانہ میں ان کے ساتھ کچھ وقت گذارا تھا۔ اور اب وہ جرمنی کے نازی لیڈر ہٹلر کے نمائندہ کی حیثیت سے ہندوستان اور افغانستان کا سفر کر کے شاید ان ممالک کے حالات کا جائزہ لے رہے تھے۔ ہندوستان کا دورہ مکمل کر چکنے کے بعد وہ کابل جا رہے تھے۔ اقبال اور والتھایم دونوں تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ تک ہایڈل برگ یا میونخ میں اپنی لینڈ لیڈی (Land Lady) اور احباب و اساتذہ کی باتیں کرتے رہے۔ پھر اقبال نے انہیں سفر افغانستان کی معلومات فراہم کیں۔ جب والتھایم جانے لگے تو اقبال نے ان سے بڑی گرم جوشی کے ساتھ مصافحہ کر کے انہیں رخصت کیا۔ شام کی فضا میں موسم بہار کے سبب پھولوں کی مہک تھی۔ اس لئے پلنگ خوابگاہ سے اٹھوا کر دالان میں بچھوا لیا اور گھنٹہ بھر کے لئے وہیں لیٹے رہے پھر جب خنکی بڑھ گئی تو پلنگ گول کمرہ میں لانے کا حکم دیا۔ گول کمرہ میں ساڑھے سات سالہ منیرہ اور آپا جان کے اندر چلے جانے کے بعد فاطمہ بیگم پرنسپل اسلامیہ کالج برائے خواتین گھنٹہ آدھ گھنٹہ کے لئے آ بیٹھیں اور ان سے کالج میں درس قرآن کے انتظامات کے متعلق باتیں کرتی رہیں۔ رات کو آٹھ ساڑھے آٹھ بجے چودھری محمد حسین، سید نذیر نیازی، سید سلامت اللہ شاہ، حکیم محمد حسن قرشی اور راجہ حسن اختر آ گئے۔ ان ایام میں میاں محمد شفیع اور ڈاکٹر عبدالقیوم تو جاوید منزل میں ہی مقیم تھے۔ اقبال کے بلغم میں ابھی تک خون آ رہا تھا اور اسی بنا پر چودھری محمد حسین نے ڈاکٹروں کے ایک بورڈ کی میٹنگ کا انتظام جاوید منزل میں کیا تھا۔ اس زمانہ کے معروف ڈاکٹر کرنل امیر چند، الٰہی بخش، محمد یوسف، یار محمد، جمعیت سنگھ وغیرہ سبھی موجود تھے اور انہوں نے مل کر اقبال کا معائنہ کیا۔ گھر میں ہر کوئی ہراساں دکھائی دیتا تھا۔ کیونکہ ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ اگر رات خیریت سے گذر گئی تو اگلے روز نیا طریق علاج شروع کیا جائے گا۔ کوٹھی کے صحن میں مختلف جگہوں پر اقبال کے احباب دو دو تین تین کی ٹولیوں میں کھڑے باہم سرگوشیاں کر رہے تھے۔ اقبال سے ڈاکٹروں کی رائے مخفی رکھی گئی لیکن وہ بڑے تیز فہم تھے۔ احباب کا بکھرا ہوا شیرازہ دیکھ کر انہیں یقین ہو گیا تھا کہ ان کی موت کا وقت قریب آ پہنچا ہے۔ چند یوم پیشتر جب کسی نے ان کی صحت کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا تو فرمایا تھا۔ میں موت سے نہیں ڈرتا۔ بعد ازاں اپنا یہ شعر پڑھا: نشان مرد مومن با تو گویم چو مرگ آید تبسم برلب اوست پس اس رات وہ ضرورت سے زیادہ ہشاش بشاش نظر آ رہے تھے۔ راقم کوئی نو بجے کے قریب گول کمرہ میں داخل ہوا تو پہچان نہ سکے پوچھا کون ہے؟ راقم نے جواب دیا جاوید۔ ہنس پڑے اور فرمایا بن کر دکھاؤ تو جانیں۔ پھر اپنے قریب بیٹھے ہوئے چودھری محمد حسین سے مخاطب ہو کر فرمایا چودھری صاحب اسے جاوید نامہ کے اخیر میں وہ دعا’’ خطاب بہ جاوید‘‘ ضرور پڑھوا دیجئے گا۔ اتنے میں علی بخش اندر داخل ہوا۔ اسے اپنے پاس بیٹھنے کے لئے کہا علی بخش نے بلند آواز میں رونا شروع کیا۔ چودھری محمد حسین نے اسے حوصلہ رکھنے کی تلقین کی تو فرمایا آخر چالیس برس کی رفاقت ہے۔ اسے رو لینے دیں۔ رات کے گیارہ بجے اقبال کو نیند آ گئی۔ چودھری محمد حسین، حکیم محمد حسن قرشی، سید نذیر نیازی اور سید سلامت اللہ شاہ خاموشی سے اٹھ کر چلے گئے۔ البتہ میاں محمد شفیع اور ڈاکٹر عبدالقیوم کے علاوہ راجہ حسن اختر نے اس رات جاوید منزل میں ہی قیام کیا اور باہر دالان میں چارپائی بچھا کر لیٹ گئے۔ راقم بھی بمطابق معمول اپنے کمرے میں جا کر سو رہا۔ اقبال کوئی گھنٹہ بھر کے لئے سوئے ہونگے کہ شانوں میں شدید درد کے باعث بیدار ہو گئے ڈاکٹر عبدالقیوم اور میاں محمد شفیع نے خواب آور دوا دینے کی کوشش کی مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ فرمایا دوا میں افیون کے اجزاء ہیں او رمیں بے ہوشی کے عالم میں مرنا نہیں چاہتا۔ علی بخش اور میاں محمد شفیع ان کے شانے اور کمر دبانے لگے تاکہ درد کی شدت کم ہو لیکن تین بجے رات تک ان کی حالت غیر ہو گئی۔ میاں محمد شفیع حکیم محمد حسن قرشی کو بلانے ان کے گھر گئے مگر ان تک رسائی نہ ہو سکی اور ناکام واپس آ گئے۔ اقبال درد سے نڈھال تھے میاں محمد شفیع کو دیکھ کر فرمایا افسوس قرشی صاحب بھی نہیں پہنچ سکے۔ تقریباً پونے پانچ بجے راجہ حسن اختر اٹھ کر اندر آئے انہیں بھی حکیم محمد حسن قرشی کو بلانے کے لئے کہا۔ وہ بولے حکیم صاحب رات بہت دیر سے گئے تھے اور اس وقت انہیں بیدار کرنا شاید مناسب نہ ہو۔ اس پر اقبال نے یہ قطعہ پڑھا: سرود رفتہ باز آید کہ ناید نسیمے از حجاز آید کہ ناید سر آمد روزگار ایں فقیرے وگر دانائے راز آید کہ ناید راجہ حسن اختر قطعہ کا مطلب سمجھتے ہی حکیم محمد حسن قرشی کو لانے کے لئے روانہ ہو گئے اقبال کے کہنے پر ان کا پلنگ گول کمرہ سے ان کی خواب گاہ میں پہنچایا گیا۔ انہوں نے فروٹ سالٹ (Fruit Salt) کا گلاس پیا۔ صبح کے پانچ بجنے میں کچھ منٹ باقی تھے۔ اذانیں ہو رہی تھیں سب کا خیال تھا کہ فکر کی رات کٹ گئی۔ ڈاکٹر عبدالقیوم اور میاں محمد شفیع صبح کی نماز ادا کرنے کی خاطر قریب کی مسجد میں پہنچ گئے تھے اور صرف علی بخش ہی اقبال کے پاس رہ گیا تھا۔ اسی اثنا میں اچانک اقبال نے اپنے دونوں ہاتھ دل پر رکھے اور ان کے منہ سے ہائے کا لفظ نکلا۔ علی بخش نے فوراً آگے بڑھ کر انہیں شانوں سے اپنے بازوؤں میں تھام لیا۔ فرمایا دل میں شدید درد ہے اور قبل اس کے کہ علی بخش کچھ کر سکے انہوں نے اللہ کہا اور ان کا سر ایک طرف ڈھلک گیا۔ 21اپریل1938ء کو پانچ بج کر چودہ منٹ پر صبح کی اذانوں کی گونج میں اقبال نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔ طلوع آفتاب کے بعد جب راقم اور منیرہ نے ان کے دروازہ کی دہلیز پر کھڑے ہو کر ڈرتے ڈرتے اندر جھانکا تو خواب گاہ میں کوئی بھی نہ تھا۔ کھڑکیاں کھلی تھیں اور وہ پلنگ پر سیدھے لیٹے تھے۔ انہیں گردن تک سفید چادر نے ڈھانپ رکھا تھا جو کبھی کبھار ہوا کے جھونکوں سے ہل جاتی تھی۔ ان کی آنکھیں بند تھیں چہرہ قبلہ کی طرف تھا مونچھوں کے بال سفید ہو چکے تھے اور سر کے بالوں کے کنارے پر راقم کے کہنے سے آخری بار لگائے ہوئے خضاب کی ہلکی سی سیاہی موجود تھی۔ (9) اقبال کے انتقال کی خبر مشتہر ہوتے ہی شہر لاہور اور دیگر علاقوں میں جو حالت غیر پیدا ہوئی اس کا چشم دید حال اور سفر آخرت کی روداد فقیر سید وحید الدین کی زبانی اس طرح قلم بند ہوئی ہے۔ ’’ میں نے یہ خبر سنی تو بے اختیار آنکھوں کے سامنے آنسو امنڈ آئے فوراً جاوید منزل کا رخ کیا۔ ڈاکٹر صاحب کا وفادار ملازم علی بخش کوٹھی کے باہر چیخیں مار مار کر رو رہا تھا۔ مرحوم جس کمرہ میں اکثر سویا کرتے تھے اس کمرہ میں اسی پلنگ پر لیٹے تھے اور سکوت ابدی نے انہیں اپنی آغوش میں لے رکھا تھا۔ ان کے قریب چند احباب کے ساتھ چودھری محمد حسین اور مسٹر محمد شفیع جو ممتاز صحافی ہیں کھڑے تھے سب کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور شدت گریہ سے ہچکی بندھی ہوئی تھی میں کچھ دیر تک چپ چاپ ان کے چہرے کو تکتا رہا چہرہ اضمحلال اور پژ مردگی کے آثار سے پاک تھا پیشانی پر طمانیت کے زاویے ابھر رہے تھے اور ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔‘‘ میں کچھ دیر یونہی چپ چاپ استغراق کے عالم میں کھڑا رہا۔ پھر یک بارگی چونک پڑا اور بے تابانہ مرحوم کے کمرہ سے نکل آیا۔ ڈاکٹر صاحب کے جگری دوست چودھری محمد حسین تجہیز و تکفین دوسرے لوگوں کے سپرد کر کے مرحوم کی ابدی خواب گاہ کے لئے مناسب جگہ کی تلاش میں مصروف ہو گئے۔ سب کا یہی خیال تھا کہ ان کے مزار کے لئے کوئی ایسی جگہ منتخب کی جائے جو ان کے شایان شان ہو۔ چودھری صاحب کی رائے تھی کہ علامہ کو مسجد عالمگیری کے سامنے دفن کیا جائے۔ اس کے لئے محکمہ آثار قدیمہ کے اعلیٰ افسروں کی اجازت حاصل کرنا ضروری تھا چنانچہ ان سے رابطہ قائم کر کے یہ اجازت حاصل کر لی گئی ہجوم لمحہ بہ لمحہ بڑھتا چلا جاتا تھا۔ ہر شخص حکیم الامت کا دیدار کرنا چاہتا تھا۔ خواب گاہ کے قریب غسل خانہ تھا اس کا دروازہ کھلوا دیا گیا تاکہ لوگ آخری مرتبہ ان کا دیدار کر لیں۔ میں سہ پہر کو جب دوبارہ جاوید منزل پہنچا تو تکفین کے بعد مرحوم کا جنازہ کوٹھی کے باہر لایا جا رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ تین میل لمبے راستے میں جنازہ کو کاندھا دینے کی حسرت خاطر خواہ پوری ہو گی۔ مگر یہ میرا خیال بالکل غلط نکلا۔ دیکھتے ہی دیکھتے لاہور اور بیرون شہر کے مسلمانوں کا ایک ایسا سیلاب امڈ آیا کہ میلوں تک انسانوں کے سر ہی دکھائی دیتے تھے۔ جیسے لاہور کے راستوں میں آج انسانوں کے جسم اگ آئے ہیں۔ غازی علم الدین اور ڈاکٹر اقبال دو ہی ایسے خوش نصیب انسان گذرے ہیں جن کے لئے پورا لاہور شہر حرکت میں آ گیا۔ اتنا بڑا تعزیتی اجتماع پھر دیکھنے میں نہیں آیا۔ میری نگاہوں میں وہ سماں اب تک گھوم رہا ہے۔ سردار سندر سنگھ مجیٹھیا کار میں ڈاکٹر صاحب مرحوم کی قیام گاہ پہنچے اور جنازہ پر پھولوں کا بڑا سا ہار ڈالتے ڈالتے ان کا چہرہ رنج و ملال کی تصویر بن گیا۔ دراصل اپنے بے پناہ اخلاص کے سبب ڈاکٹر صاحب غیر مسلموں میں بھی اتنے ہی مقبول تھے جتنے مسلمانوں میں۔ جنازہ پانچ بجے شام منٹو روڈ سے جو اب اقبال روڈ کے نام سے مشہور ہے روانہ ہوا تو اژدہام کی یہ کیفیت تھی کہ جنازہ کو کاندھا دینا تو ایک طرف اس کے قریب پہنچنا بھی نا ممکن نظر آنے لگا۔ جنازہ جب اسلامیہ کالج کے سامنے سے گذرا تو وہاں بڑا ہی سادہ لیکن رقت انگیز منظر دیکھنے میں آیا۔ چھوٹے چھوٹے یتیم بچے ہاتھوں میں اپنی تیار کردہ سیاہ کاغذ کی جھنڈیاں اٹھائے قطار در قطار نظم و ضبط کے ساتھ کھڑے تھے۔ جنازہ گذرا تو انہوں نے جھنڈیاں سرنگوں کر دیں۔ معصوم بچوں کے ان بھولے بھالے چہروں پر غم و ملال کی دھندلی دھندلی پرچھائیاں۔ اظہار غم کا یہ منظر اس قدر سادہ لیکن پر اثر تھا کہ میں بے اختیار رو پڑا۔ اور اب بھی تصور کرتا ہوں تو یہ دلدوز سماں از خود رفتہ کر دیتا ہے۔ جو بے مثال ماتمی جلوس حکیم الامت کے جسد خاکی کو آرام گاہ تک لے جا رہا تھا۔ اس میں سوگوار عوامی کی بھاری تعداد ہی شامل نہ تھی شہر اور صوبہ پنجاب کی سرکردہ ہندو۔ مسلمان اور عیسائی شخصیتیں بھی شریک غم تھیں۔ گورنر پنجاب اور ہزہائی نیس بہاولپور کے پرائیویٹ سیکرٹری، ہائی کورٹ کے جج، وزرائ، اعلیٰ حکام اور عمائدین قوم سوگوار عوام کے آگے آگے چل رہے تھے۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے سارا چمن اداس ویران اور خزاں رسیدہ ہے۔ شاہی مسجد کے اندر پہنچ کے نماز جنازہ ادا کی گئی اور جسد خاکی سپرد خاک کیا گیا۔ (10) اقبال کے ایک کشمیری نوکر غلام محمد بٹ نے بھی ان کے راہی ملک عدم ہونے کا حال اس طرح قلم بند کیا ہے۔’’ آپ کی وفات پر ہر کوئی رویا تھا ایک سکھ کرتار سنگھ نے جو راولپنڈی یا پشاور کا تھا۔ آپ کے انتقال کی جو خبر سنی تو آپ کی کوٹھی کے باہر سڑک پر اپنا سر پٹکنے لگا۔ اس کے ماتھے پر چوٹیں آئی تھیں۔ علامہ خود پکے مسلمان تھے مگر کسی ایک فرقہ کے ساتھ منسلک نہیں تھے وہاں شیعہ سنی حتیٰ کہ احمدی بھی آتے تھے۔ ان کے علاوہ کئی فرقوں کے لوگ بھی آتے تھے اور وہ ہر ایک کی عزت کرتے تھے۔ جو کوئی بھی اسلام کو پھیلانے کا کام کرتا اس سے خوش ہوتے۔ ایک دفعہ اہل قرآن کی طرف سے ایک شخص ممتاز حسین آپ سے ملا تو آپ نے ان کی بہت آؤ بھگت کی اور کہا کہ یہ لوگ قرآن کو پھیلانے کا کام کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک دفعہ محمد مکرم خان نے شکایت کی کہ وہابی ’’بی بی پاک دامن‘‘ (11) میں داخل ہوتے ہیں۔ میں ان کو سختی سے روک لوں گا۔ مگر آپ نے فرمایا یہ سب لوگ مسلمان ہیں۔ تفریق کی باتیں مت کیجئے۔‘‘ علامہ میرے وہاں بطور خادم رہنے سے پہلے ہی کسی تکلیف میں مبتلا تھے مگر وہ بستر پر بہت کم لیٹتے۔ صرف آخری آٹھ دس دن وہ بستر علالت پر رہے۔ انہیں معدہ وغیرہ کی تکلیف تھی اور ایک آنکھ سے آنسو زیادہ بہتے تھے۔ اور اس کی روشنی بھی کم ہو گئی تھی۔ جس رات ان کا انتقال ہوا میں وہاں نہیں تھا۔ ان کی وفات پر لوگ جوق در جوق وہاں آنے لگے۔ میں بھی جنازہ کے ساتھ تھا۔ علامہ کی کوٹھی سے بادشاہی مسجد تک پانچ چھ میل تک کا راستہ لوگوں سے پر تھا۔ جنازہ کے ساتھ علامہ مشرقی کی بیلچہ پارٹی کے افراد بھی تھے جنہوں نے جنازہ کے بعد لوگوں کو بادشاہی مسجد سے باہر ہی روک لیا۔ علامہ کے مدفن پر جہاں تک میرا خیال ہے صرف تیرہ آدمی تھے۔ جن میں سے ایک میں بھی تھا اور شاید ایک ہی کشمیری۔ ان میں ملک غلام دستگیر اور محمد مکرم خان بھی شامل تھے۔ اس وقت وہاں آفتاب احمد بھی آئے۔ علامہ کے لئے راتوں رات قبر کھدوائی گئی تھی اور اس کو سیمنٹ سے پختہ بنوایا گیا تھا۔ مزار پر اخروٹ کی لکڑی کا بنا ہوا ایک صندوق لایا گیا جو کسی زمانے میں ملک غلام دستگیر کے والد ملک امیر بخش نے اپنے لئے کشمیر سے بنوایا تھا اور بعد میں علامہ کی خواہش کے مطابق انہی کو دیا تھا۔ اسی صندوق میں علامہ کے جسد خاکی کو رکھ کر قبر میں اتارا گیا۔ جن لوگوں نے کفن کی گانٹھ کھولنے پر علامہ کے آخری دیدار کئے۔ ان میں آفتاب احمد، علامہ کی دونوں بیویاں، دونوں بچے، اور شیخ عطا محمد اور وہاں پر موجود جو دوسرے لوگ شامل تھے۔ میں نے آپ کے چہرے سے کفن اٹھایا تو آپ کا چہرہ ہنستا ہوا نظر آتا تھا۔ اور زندگی میں بھی اتنا صحت مند، صاف اور روشن چہرہ نہ تھا جتنا اس وقت تھا بلکہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ صحت یاب ہو کر ہنستے ہوئے مولائے کریم کی خدمت میں جا رہے ہیں اس کے بعد جب ہم گھر آئے تو ہزاروں لوگ وہاں آئے۔ بڑے بڑے رئیس ہندو اور مسلمان رو رہے تھے۔ چھوٹی بی بی جی نے روتے روتے کہا کہ جن لوگوں نے علامہ کو قبر میں اتارا ان کا حق میں کیسے ادا کر سکوں گی۔ اور میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان میں تم بھی ہو۔ (12) کلکتہ کے روزنامہ ’’ سٹیٹس مین‘‘ نے اپنی 22اپریل1938ء کی اشاعت میں اقبال کے انتقال کی جو تفصیلی خبر شائع کی وہ یوں تھی کل 21اپریل کو ساڑھے پانچ بجے یہاں لاہور میں ڈاکٹر سر محمد اقبال اچانک انتقال کر گئے وہ اس وقت اکسٹھ سال کے تھے۔ ایک شاعر، فلسفی اور سیاست داں جس کا نام اردو شعر و ادب میں اسلامی روح کو بیدار کرنے والے محرک کے طور پر ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ہر دلعزیز محبوب شاعر کی وفات کی خبر سنتے ہی سارا لاہور سوگ میں ڈوب گیا۔ تمام دفاتر بند ہو گئے۔ اور ان کی تجہیز و تکفین کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ اردو کے مشہور شاعر و فلسفی کا جسد خاکی جب شاندار نظم و ضبط کے ساتھ لاہور کی تاریخی بادشاہی مسجد کی عمارت کے متصل سپرد خاک کیا گیا تو تقریباً بیس ہزار مسلمان اپنے محبوب شاعر کے آخری دیدار کو موجود تھے۔ کل صبح سویرے ہی سے ہر مذہب و ملت کے لوگ ڈاکٹر اقبال کی جائے سکونت پر آخری خراج عقیدت ادا کرنے کے لئے آنا شروع ہو گئے تھے۔ جس نے اپنی گذشتہ ستائیس سالہ ادبی زندگی میں ہندوستان کو اردو شاعری کے روپ میں ایک اچھوتا اسلوب اور نیا انداز فکر عطا کیا۔ موصوف کے کلام میں جذبہ حب الوطنی کا عنصر نمایاں تھا۔ جنازہ کا جلوس ٹھیک پانچ بجے منٹو روڈ سے شروع ہوا جو تقریباً ڈھائی گھنٹہ میں بادشاہی مسجد پہنچا۔ جب جلوس شہر کی مرکزی شاہراہ سے گذر رہا تھا تو ہزاروں سوگوار اسلامی پرچم لئے سرنگوں تھے۔ گورنر مسٹر ہنری کریک کی جانب سے گورنر کے پرائیویٹ سیکرٹری نے شرکت کی۔ میت میں شریک ہونیوالوں میں شہر کے وزرائ، پنجاب کے چیف سیکرٹری، قائم مقام چیف جسٹس، ہائی کورٹ کے جج صاحبان اور معزز شہری شامل تھے۔ گھوڑا سوار اور عام پولیس ہجوم دید کو قابو کرنے میں بے بس تھی۔ عزت مآب گورنر بہاول پور کی طرف سے پھولوں کے ہار ڈالے گئے۔ تقریباً درجن بھر سوگوار میت کو کاندھا دیے ہوئے تھے جو پھولوں سے لدا ہوا تھا۔ قائم مقام چیف جسٹس کی صدارت میں لاہور ہائی کورٹ میں تعزیتی جلسہ ہوا۔ گذشتہ شب کلکتہ کے پارک سرکس میدان میں مسلمانوں کی جانب سے خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ایک عام اجتماع ہوا۔ دراصل یہ میٹنگ مسٹر محمد علی جناح کو استقبالیہ دینے اور عرب فلسطین مجاہدوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرنے کی غرض سے بلائی گئی تھی۔ لیکن جونہی سر محمد اقبال کی موت کی خبر ملی تو جلسہ تعزیتی سوگ میں تبدیل ہو گیا۔ مرحوم شاعر سر محمد اقبال کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے مسٹر جناح نے کہا کہ بلا شبہ اقبال دنیا کے عظیم ترین شاعروں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے ملکی سیاست میں ایک خاص طرح کا رول ادا کیا ۔ ان کا عظیم کارنامہ اور ان کیا دبی خدمات دنیا میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ مسٹر جناح نے مزید کہا کہ ذاتی طور پر وہ برسوں ہمارے دوست فلاسفر اور رہنما رہے ہیں۔ پنجاب مسلم لیگ تحریک کے تاریک دور میں وہ چٹان بن کر اڑے رہے اور اپنے تنہا ہاتھوں سے آل انڈیا مسلم لیگ کا پرچم بلند کیا۔ یہ ان کے لئے یقینا باعث تسکین ہوا ہو گا کہ ان کی موت سے چند روز قبل ہی پنجاب ایک فرد کی طرح متحد ہو کر ابھرا۔ اس عظیم کارنامہ میں سر محمد اقبال کی خدمات عام لوگوں سے مخفی نہیں ہیں۔ اسلام کا ایک بڑا سپوت۔ ایک شریف النفس روح۔ ایک عظیم مرد مجاہد اور ایک بہترین ہندوستانی ہم سے جدا ہو گیا۔ مسٹر جناح نے مزید بیان جاری رکھتے ہوئے فرمایا۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے یہ الفاظ اپنے سبھوں کے احساس کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ان کے بچھڑنے سے جو خلدا پیدا ہوا ہے خاص طور سے مسلم طبقہ کے اندر وہ پر ہونا مشکل ہے۔ مولانا ظفر علی خان نے کہا کہ سر محمد اقبال کی جدائی نے اسلامی دنیا کو ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کو جھنجھوڑ دیا ہے۔ ان کی شاعرانہ حیثیت اور فکری عظمت کو فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔ انہوں نے اسلامی تصور کو اپنے انداز اشاریت سے مغربی دنیا میں روشناس کرایا اور اس کے غلط رنگ کو اپنے فہم و ادراک سے مغربی اقوام کے ذہنوں سے زائل کر دیا۔ انہوں نے اپنے لوگوں کی تعلیم میں بھی ایک نئی زندگی بخش دی۔ مولانا شوکت علی نے کہا کہ سر محمد اقبال کا پیغام اسلامی دنیا اور خصوصاً مشرق کے لئے خود شناسی اور امید کا پیغام ہے۔ یہ امر قابل تسکین ہے کہ ان کا اسلامی دنیا کو متحد دیکھنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اخیر پر مندرجہ ذیل تعزیتی قرار داد منظور کی گئی: ’’ کلکتہ کے مسلمانوں کا یہ عام جلسہ اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتا ہے اور ڈاکٹر سر محمد اقبال کے کھونے کو ہندوستان کے لئے نقصان عظیم تصور کرتا ہے۔ جو نہ صرف فرزندان توحید میں ایک تھا بلکہ ایک عظیم شاعر۔ فلسفی اور ملک کا سچا سپاہی تھا۔ یہ جلسہ ان کے پس ماندگان کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہوئے برابر کا غم میں شریک ہے۔‘‘ تعزیتی پیغامات بھیجنے والوں میں رابندر ناتھ ٹیگور، مولانا ابو الکلام آزاد، کانگریس کے صدر سبھاش چندر بوس اور خواجہ ناظم الدین بھی شامل تھے۔ ٹیگور نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ سر محمد اقبال کی اچانک موت سے ہندوستانی ادب میں جو خلا پیدا ہوا ہے اس کے پر ہونے میں ایک عرصہ لگے گا۔ ہندوستان نے ایک ایسے شاعر کو کھو دیا جس کے کلام میں بین الاقوامی اپیل نمایاں تھی۔ سبھاش چندر بوس نے اقبال کی وفات کا ماتم کرتے ہوئے کہا کہ ان کا نام ہندوستانیوں کے دل میں ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے گا جیسا کہ انہوں نے اپنے کلام کے ذریعہ مادر وطن ہندوستان کو دنیا کی خوبصورت ترین سر زمین کا تصور عطا کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اقبال اگرچہ بعد کو ایک خاص سیاسی نظریہ کے قائل ہو گئے تھے جس سے ہم میں سے بیشتر اتفاق نہ کرتے تھے مگر پھر بھی ہم میں سے کسی نے ان کی وطن پرستی اور خلوص نیت پر اعتراض نہیں کیا۔ اس سوگوار عالم میں ہماری تمام ہمدردیاں ان کے احباب خانہ کے ساتھ ہیں اور ہم ہندوستان کے ایک بہت بڑے سپوت کے آگے سر جھکاتے ہیں۔ (13) ٭٭٭ حوالہ جات تیسرا باب: سوانح حیات 1روزگار فقیر، فقیر سید وحید الدین، لائن آرٹ پریس لاہور1963ص240 2فکر اقبال، بزم اقبال لاہور1991، ص30 3روزگار فقیر، ص42-43 4کلیات مکاتیب اقبال، جلد دوم، ص175-177 5ماہنامہ آنچل دہلی۔ تقسیم پاکستان نمبر1972ص54 6روزنامہ انقلاب لاہور11جون1931 7زندہ رود، جاوید اقبال، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور،1989ص704 8روزگار فقیر،ص36-37 9زندہ رود۔ ص1071-1075 10روزگار فقیر، ص248-251 11لاہور کی ایک پارک کا نام 12مجلہ شیرازہ، کلچرل اکادمی سری نگری، اپریل1980 13روزنامہ سٹیٹس مین کلکتہ، 22اپریل1938تلخیص و ترجمہ پندرہ روزہ بخشیات کلکتہ، یکم دسمبر1977 ٭٭٭ چوتھا باب اقبال اور درد وطن آہ یہ قوم نجیب و چرب دست و تر دماغ ہے کہاں روز مکافات اے خدائے دیر گیر؟ شیخ محمد اقبال جب44سال کی عمر میں جون1921ء میں پہلی بار کشمیر آئے تو انہوں نے یہاں نشاط باغ کے سایہ دار چناروں سے آگ اور دھواں اٹھتا ہوا دیکھا۔ انہیں وادی لولاب کے شاداب مرغ زاروں میں ویرانیاں اگتی نظر آئیں اور ان کی نگاہیں خلد کشمیر کی روش روش پرچھائی ہوئی مردنی اور پژمردگی پر مرکوز ہو گئیں۔ ان کے جواں دل کی دھڑکنوں کے ساتھ ہر طرف بکھری ہوئی کشمیریوں کی نواہائے جگر سوز ہم آہنگ ہوئیں۔ وہ یہاں چند مقدمات کی پیروی کے سلسلے میں آئے تھے مگر تقریباً دو ہفتوں کے قیام کے دوران ان کا دل وطن کی چوٹ سے بلبلا اٹھا۔ اس زمانہ میں کشمیر مطلق العنانیت اور شخصی حکمرانی کے آہنی پنجے تلے کراہ رہا تھا اور کشمیری قوم بے یار و مددگار تھی۔ اس بھیانک تاریکی کے سیاہ اور گھناؤنے پردے میں اقبال کو چہار سو خاموشی اور سر بمہر سکوت کے سوا اور کچھ نظر نہیں آیا۔ جب ان کی فکر رسانے تڑپتی ہوئی سیمابی جوئباروں اور رواں دواں جھرنوں کا موازنہ اہل کشمیر کے ساکت و جامد خون سے کیا تو انہوں نے اپنی اسی نوائے دل سوز کو اپنے محسوسات کا پیکر اظہار دے کر بے ساختہ یہ دعا مانگی: ازاں مے فشاں قطرہ بر کشیری کہ خاکسترش آفریند شرارے غلام کشمیر کی بے جان اور بے حس فضاؤں سے اٹھتی ہوئی بے کسی اور بے بسی کی سرد آہیں اقبال کی زبان سے فغان بن کے نکلیں اور ان کے خیالات کا پیکر جذبات کی حرارت اور حدت سے پگھل کر شعری آبگینوں کی صورت میں اس طرح ڈھل گیا: آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر سینہ افلاک سے اٹھتی ہے آہ سوز ناک مرد حق ہوتا ہے جب مرعوب سلطان و امیر کہہ رہا ہے داستان بے دردی ایام کی کوہ کے دامن میں وہ غم خانہ دہقان پیر آہ یہ قوم نجیب و چرب دست و تر دماغ ہے کہاں روز مکافات اے خدائے دیر گیر؟ اور: موت ہے اک سخت تر جس کا غلامی ہے نام فکر و فن خواجگی کاش سمجھتا غلام! شرع ملوکانہ میں جدت احکام دیکھ صور کا غوغا حلال حشر کی لذت حرام اے کہ غلامی سے ہے روح تری مفمحل سینہ بے سوز میں ڈھونڈ خودی کا مقام اہل کشمیر کی مفلوک الحالی، استحصال، توہم پرستی، تنگ نظری اور جہالت کا مکمل نقشہ اقبال نے ’’ساقی نامہ‘‘ میں کھینچا ہے۔ یہ نظم انہوں نے قیام کشمیر کے دوران مشہور عالم نشاط باغ میں تخلیق کی ہے۔ شاعر نے اس نظم کو دو حصوں میں منقسم کر کے کشمیر کے بے مثال حسن و زیبائی کا طربیہ اور کشمیر کے لوگوں کی سفید پوشی اور افلاس کا المیہ ایک اثر انگیز تقابلی مطالعہ کے ساتھ پیش کیا ہے: خوشا روزگارے خوشا نوبہارے نجوم پرن رست از مرغ زارے زمیں از بہاراں چوبال تدروے زفوارہ الماس بار آبشارے نہ پیچدنگہ جز کہ در لالہ و گل نہ غلطد ہوا جز کہ بر سبزہ زارے لب جو خود آرائی غنچہ دیدی؟ چہ زیبا نگارے چہ آئینہ دارے چہ شیریں نوائے چہ دل کش صدائے کہ می آید از خلوت شاخسارے بہ تن جاں بہ جاں آرزو زندہ گردد ز آوائے سارے زبانگ ہزارے نواہائے مرغ بلند آشیانے در آمیخت بانغمہ جوئبارے تو گوئی کہ یزداں بہشت بریں را نہاد است در دامن کوہسارے کہ تار حمتش آدمی زادگان را رہا سازد از محنت انتظارے چہ خواہم دریں گلستاں گر نہ خواہم شرابے کبابے ربا بے نگارے سرت گردم اے ساقی ماہ سیما بیار از نیاگان ما یاد گارے بہ ساغر فروریز آبے کہ جاں را فروزد چو نورے بسوزد چونارے شفایق برویاں زخاک نژندم بہشتے فرو چیں بمشت غبارے نہ بینی کہ از کاشغر تا بہ کاشاں ہماں یک نوا بالد از ہر دیارے ز چشم امم رسخت آں اشک نابے کہ تاثیر او گل دماند زخارے کشیری کہ بابندگی خو گرفتہ بتے می تراشد ز سنگ مزارے ضمیرش تہی از خیال بلندے خودی نا شناسے زخود شرمسارے بریشم قبا خواجہ از محنت او نصیب تنش جامہ تار تارے نہ در دیدہ او فروغ نگاہے نہ در سینہ او دل بے قرارے ازاں مے فشاں قطرۂ برکشیرہ کہ خاکسترش آفریند شرارے اقبال حساس تھے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ خود کشمیری الاصل تھے۔ نشاط اور شالیمار کے دیدہ زیب اور نظر فریب نظاروں نے اگرچہ وقتی طور پر ان کے فکر و ذہن کو محظوظ کر بھی لیا لیکن ان مناظر کے پس پردہ کشمیری عوام کی زندگی جس ویرانی اور سوختگی کے الاؤ میں جل رہی تھی اس کی آنچ نے اقبال کے دل کو بھی پگھلا کے رکھ دیا اور انہوں نے زور استبداد سے کراہتے ہوئے کشمیریوں کی آہ و بکا کو ان اشعار کا روب بخشا جو اقبال ہی کے اس مصرعہ کے مصداق ایک گہرے تاثر کی حامل ہیں: دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے ساقی نامہ سے کوئی بیس اکیس سال قبل ہی اقبال نے کشمیر کی زبوں حالی اور عالم بے بسی وطن سے اپنی دوری۔ اہل کشمیر کے لئے اتحاد و اتفاق کی تاکید اور اس فردوس ارضی کے قدرتی حسن پر آٹھ قطعات موزون کئے تھے جو ’’ کشمیری گزٹ‘‘ کے دسمبر1901ء کے شمارہ میں شائع ہوئے۔ یہ جریدہ اسی سال ستمبر میں چودھری جان محمد گنائی نے کشمیری قوم کے ترجمان کی شکل میں لاہور سے منشی محمد دین فوق کی ادارت میں جاری کیا تھا۔ قطعات یوں ہیں: ظلم سہتے ہیں وطن اپنا نہ جن سے چھٹ سکا شکوہ حکام پر اے دل نہیں تیرا بجا کیا عجب کشمیر میں رہ کر جو ہے ان پر جفا پائے گل اندر چمن دائم پراست از خارہا ٭٭٭ پنجہ ظلم و جہالت نے برا حال کیا بن کے مقراض ہمیں بے پروبے بال کیا توڑ اس دست جفا کیش کو یا رب جس نے روح آزادی کشمیر کو پامال کیا ٭٭٭ کہکشاں میں آ کے اختر مل گئے اک لڑی میں آ کے گوہر مل گئے واہ واہ کیا محفل احباب ہے ہم وطن غربت میں آ کر مل گئے ٭٭٭ بت پرستی کو میرے پیش نظر لاتی ہے یاد ایام گذشتہ مجھے شرماتی ہے ہے جو پیشانی پہ اسلام کا ٹیکا اقبال کوئی پنڈت مجھے کہتا ہے تو شرم آتی ہے ٭٭٭ موتی عدن سے لعل ہوا ہے یمن سے دور یا نافہ غزال ہوا ہے ختن سے دور ہندوستاں میں آئے ہیں کشمیر چھوڑ کر بلبل نے آشیانہ بنایا چمن سے دور ٭٭٭ سو تدابیر کی اے قوم یہ ہے اک تدبیر چشم اغیار میں بڑھتی ہے اسی سے توقیر در مطلب ہے اخوت کے صدف میں پنہاں مل کے دنیا میں رہو مثل حروف کشمیر ٭٭٭ سامنے ایسے گلستان کے بھی گر نکلے جیب خجلت سے سر طور نہ باہر نکلے ہے جو ہر لحظہ تجلی گہ مولائے جلیل عرش و کشمیر کے اعداد برابر نکلے ٭٭٭ کشمیر کا چمن جو مجھے دل پذیر ہے اس باغ جاں فزا کا یہ بلبل اسیر ہے ورثے میں ہم کو آئی ہے آدم کی جائیداد جو ہے وطن ہمارا وہ جنت نظیر ہے مولانا غلام رسول مہر نے انہی دنوں کا یہ غیر مطبوعہ قطعہ اقبال بھی ’’ سرود رفتہ‘‘ میں نقل کر کے محفوظ کر لیا ہے: دہر کی شان بقا خطہ کشمیر میں دیکھ باغ جنت کی ہوا خطہ کشمیر میں دیکھ ذرے ذرے میں ہے اک حسن کا طوفان بپا جوش میں لطف خدا خطہ کشمیر میں دیکھ جاوید نامہ کے ’’ آنسوئے افلاک‘‘ میں اقبال ایک دیوانہ کی زبان سے احوال وطن بیان کرتے ہوئے اس کی تصویر کشی کرتے ہیں جب یہ دیوانہ باد صبا سے مخاطب ہو کر اسے کشمیر کا انسانی مسلہ مجلس اقوام میں لے جانے کی دہائی دیتا ہے: باد صبا اگر یہ جینیوا گذر کنی حرفے زما بہ مجلس اقوام بازگوے(1) دہقان و کشت و جوئے و خیاباں فروختند قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند جاوید نامہ میں جب اقبال کی ملاقات حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانی رحمتہ اللہ علیہ اور غنی کشمیری کے ساتھ ہوتی ہے تو ان کی گفتگو کا موضوع بھی نمایاں طور پر کشمیر کی خستہ حالی۔ غلامی اور جدوجہد آزادی کے لئے ایک عزم نو بن کر ابھر آتا ہے۔ اقبال اپنے وطن کی خوبصورتی اور اس کی درماندگی کے بارے میں کہتے ہیں: کوہ ہائے خنگ سار او نگر آتشیں دست چنار او نگر در بہار لعل می ریزد زسنگ خیزد از خاکش یکے طوفان رنگ لکہ ہائے ابر در کوہ و دمن پنبہ پراں از کمان پنبہ زن کوہ و دریا و غروب آفتاب من خدارا دیدم آنجا بے حجاب با نسیم آوارہ بودم در نشاط بشنو از نے می سرودم در نشاط مرغکے می گفت اندر شاخسار با پشیزے می نیر زد ایں بہار لالہ رست و نرگس شہلا دمید باد نو روزے گریبانش درید عمر ہا بالید ازیں کوہ و کمر نستر از نور قمر پاکیزہ تر عمر ہا گل رخت و بربست و کشاد خاک ما دیگر شہاب الدین نژاد (2) اقبال امیر کبیر کو خطہ کشمیر کی محکومی سے زندہ رود کی زبانی یوں آگاہ کرتے ہیں: جاں زاہل خطہ سوزد چوں سپند خیزد از دل نالہ ہائے درد مند زیرک ودر اک و خوش گل ملتے است در جہاں تر دستی او آیتے است ساغرش غلطندہ اندر خون اوست در نے من نالہ از مضمون اوست از خودی تا بے نصیب افتادہ است در دیار خوں غریب افتادہ است دست مزد او بدست دیگراں ماہی رودش بہ شت دیگراں کارواں ہا سوئے منزل گام گام کار او نا خوب و بے اندام و خام از غلامی جذبہ ہائے او بمرد آتشے اندر رگ تاکش فسرد یہاں پر شاعر کو کشمیریوں کے شاندار ماضی اور ان کی عظمت رفتہ کی یاد بے محابا طور پر ستاتی ہے: در زمانے صف شکن ہم بودہ است چیرہ و جانباز و پردم بودہ است اس موقعہ پر ممتاز کشمیری شاعر غنی کشمیری نے احوال کشمیر کے تغیر اور مستقبل کی تابنا کی کی یوں نشاندہی کی ہے: دل میان سینہ شان مردہ نیست اخگر شاں زیر یخ افسردہ نیست باش تا بینی کہ بے آواز صور ملتے بر خیزد از خاک قبور اس جگہ اقبال نے حضرت امیر کبیر جنہیں شاہ ہمدان کے لقب سے نوازا گیا۔ کی زبان سے بیع نامہ امرتسر کی طرف بھی اشارہ کر کے اس حقیقت ازل کو آشکارا کیا ہے کہ سودا بازی سے ملک خریدے جا سکتے ہیں لیکن بادشاہی نہیں خریدی جا سکتی: می تواں ایراں و ہندوستاں خرید پادشاہی را زکس نتواں خرید اس کے بعد شاعر نے غنی کشمیری کے الفاظ میں ہند کی تحریک آزادی کے علمبرداروں اور جاں نثاروں کو کشمیر کے سپوت کہلو اکر ان کی مدح سرائی کی ہے۔ اقبال بصد ناز و افتخار کہتے ہیں کہ کاروان آزادی کے یہ قافلہ سالار میرے ہی وطن کے خمیر سے اٹھے ہیں اور ان ضوفگن ستاروں کا مطلع میرا محبوب کشمیر ہے: ہند را ایں ذوق آزادی کہ داد؟ صید را سودائے صیادی کہ داد؟ آں برہمن زاد گان زندہ دل لالہ احمر ز روئے شاں خجل تیز بین و پختہ کارو سخت کوش از نگاہ شاں فرنگ اندر خروش اصل شان از خاک دامن گیر ماست مطلع ایں اختراں کشمیر ماست جاوید نامہ کے فلک زحل میں اقبال ہندوستان کی تاریخ سیاست کے دو مشہور غداروں میر جعفر اور میر صادق کی روحوں کو دیکھتے ہیں اور گلشن ہند میں غلامی کا بیج بونے والے دن دو قوم فروشوں کی اس طرح ملامت کرتے ہیں: جعفر از بنگال صادق از دکن ننگ آدم ننگ دیں ننگ وطن ناقبول و نا امید و نا مراد ملتے از کارشاں اندر فساد می ندانی خطہ ہندوستان آں عزیز خاطر صاحب دلاں در گلش تخم غلامی را کہ کشت؟ ایں ہمہ کردار آں ارواح زشت یہاں پر شاعر کے سامنے ہندوستان کی روح ظاہر ہوتی ہے جسے شاعر نے ایک ایسی پاک زاد حور سے مماثلت دی ہے جس کی آنکھوں میں سرور لایزال اور جس کا وجود برگ گلاب کا بنا ہوا ہے۔ یہ روح غلامی میں مقید اور محکومی میں محبوس ہے اور فریاد کرتی ہے۔ آزادی کی تڑپ لئے ہوئے اقبال کے یہ تاثرات ہر دل کو بھی تڑپاتے ہیں: شمع جاں افسردہ در فانوس ہند ہندیاں بیگانہ از ناموس ہند مردک نا محرم از اسرار خویش زخمہ خود کم زند بر تار خویش بر زمان رفتہ می بندد نظر ز آتش افسردہ مے سوزد جگر بند ہا بردست و پاے من از وست نالہ ہائے نار سائے من از وست اسی طرح ان اشعار میں اقبال نے میر جعفر اور میر صادق کے لئے کہا ہے کہ وہ ہر دور میں ہوں گے اور ان کی قوم فروشی اور غداری کا سلسلہ تاریخ میں موجود رہے گا: دین او آئین او سوداگری است عنتری اندر لباس حیدری است تا جہان رنگ و بو گردد دگر رسم آئین او گردد دگر ظاہر او از غم دیں درد مند باطنش چوں دیریاں زنار بند جعفر اندر ہر بدن ملت کشے است این مسلمانے کہن ملت کشے است خند خنداں است و باکس یار نیست مارا گر خنداں شود جزمارنیست از نفاقش و حدت قومے دو نیم ملت او از وجود او لیئم ملتے راہر کجا غارت گرے است اصل اواز صادقے یا جعفرے است الامان از روح جعفر الامان الامان از جعفران ایں زمان ’’ زبور عجم‘‘ کے اخیر پر اقبال نے غلاموں کے فنون لطیفہ اور مذہب اور آزاد لوگوں کے فن تعمیر کی توضیح و تشریح کی شکل میں جو موازنہ کیا ہے اس کا ماحصل بعد میں شاعر کے ایک نعرۂ انقلاب کی شکل میں ظہور پذیر ہو جاتا ہے: خواجہ از خون رگ مزدور سازد لعل ناب از جفاے دہ خدایاں کشت دہقاناں خراب انقلاب اے انقلاب! عبدالحق کے بقول’’ اقبال کسی نظام میں بھی انسان اور اس کے استحصال کو برداشت نہیں کرتے۔ کسی بھی نظام میں جب ظالمانہ قوتیں انسان کی آبرو ریزی کرتی ہیں تو اقبال پوری قوت کے ساتھ ان کے خلاف صف آراء دکھائی دیتے ہیں۔ اقبال انقلاب بپا کرتے ہیں مگر اقبال کے یہاں انقلاب ظاہر و باطن دونوں کا ہے۔‘‘ (3) غلامان ہند کی مردہ دلی کے ساتھ ساتھ محکومان کشمیر کی تن آسانی بھی اقبال کے افکار حریت کو ایک ایسا آہنگ اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہے جس میں شاعر کی انفرادی زندہ دلی اور بیداری فکر و عمل کا نغمہ بھی ہے اور اس قومی خفتگی کا مرثیہ بھی: میں بندہ ناداں ہوں مگر شکر ہے تیرا رکھتا ہوں نہاں خانہ لاہوت سے پیوند اک ولولہ تازہ دیا میں نے دلوں کو لاہور سے تاخاک بخارا و سمرقند تاثیر ہے یہ میرے نفس کی کہ خزاں میں مرغان سحر خواں میری صحبت میں ہیں خورسند لیکن مجھے پیدا کیا اس دیس میں تو نے جس دیس کے بندے ہیں غلامی پہ رضا مند لیکن اقبال کے ان تمام محسوسات پر حب وطن کا ہی عنصر غالب رہتا ہے۔ کشمیر کے عشق نے انہیں اسی طرح سارے ہندوستان سے عشق کرنے کی ترغیب دی جس طرح بقول محمد دین تاثیر ’’ہندوستان کی محبت نے اقبال کو سارے جہاں کی محبت سکھائی‘‘ (4) اقبال کے آخری مجموعہ کلام’’ ارمغان حجاز‘‘ میں جو منظومات کشمیر سے متعلق ہیں ان میں بیان کی گئی واردات اور تجربات کو ذہن نشین کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی شان نزول اور پس منظر کو بھی زیر نظر رکھا جائے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اقبال کو کشمیر سے بے پناہ محبت تھی۔ انہیں یہاں کے ذرے ذرے سے مجنونانہ عشق تھا۔ ایک طرف وہ اس وادی گل پوش سے شعلے اٹھتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور دوسری جانب کشمیر کے لوگ اس آتش باری کو مکافات عمل سمجھ کر پھولوں کی طرح قبول کر لیتے تھے۔ ایسے مواقع پر اقبال اہل کشمیر کی غفلت اور بے حسی کا ماتم کرتے ہیں۔ ارمغان میں ایک ہی صفحے پر درج دو نظموں کے یہ مفردات ان متضاد مگر والہانہ جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں: چہ بے پروا گذشتند از نوائے صبح گاہ من کہ برد آں شور و مستی از سیہ چشمان کشمیری؟ اور اس کے ساتھ ہی کہتے ہیں: جس خاک کے ضمیر میں ہو آتش چنار ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاک ارجمند کشمیر کے حوالے سے اقبال کے اس قبیل کے اشعار باغیانہ جلال اور خطیبانہ کمال بھی رکھتے ہیں اور ان میں یاسیت اور قنوطیت کے برعکس رجائیت کا پہلو بھی نمایاں ہو جاتا ہے۔ اگرچہ بعض اوقات ان کا یہ کلام کسی درماندہ رہرو کی صدائے دردناک کی باز گشت معلوم ہوتا ہے: حاجت نہیں اے خطہ گل شرح و بیاں کی تصویر ہمارے دل پر خوں کی ہے لالہ! تقدیر ہے اک نام مکافات عمل کا دیتے ہیں یہ پیغام خدایان ہمالہ سرما کی ہواؤں میں ہے عریاں بدن اس کا دیتا ہے ہنر جس کا امیروں کو دو شالہ ٭٭٭ نصیب خطہ ہو یا رب وہ بندہ درویش کہ جس کے فقر میں انداز ہوں کلیمانہ چھپے رہیں گے زمانے کی آنکھ سے کب تک گہر ہیں آب ولر کے تمام یک دانہ ٭٭٭ ہمالہ کے چشمے ابلتے ہیں کب تک خفر سوچتا ہے ولر کے کنارے ’’ ارمغان حجاز‘‘ کے اخیر کا اکثر حصہ کشمیر سے متعلق ہے جسے شاعر نے ملازا دہ ضیغم لولابی کشمیری کی بیاض سے تصوراتی طور پر وابستہ کر کے اپنے وطن کے سیمابی چشموں کی روانی کی تعریف کے ساتھ کشمیری عوام کی جہد مسلسل اور حرکت پیہم کی تمنا کی ہے۔ ایک روایت کے مطابق ایک بار جب آپ کشمیر کی حسین و دل فریب وادی لولاب میں تشریف لے گئے اور سارا دن وادی میں گھومنے پھرنے کے بعد اپنے میزبان شاعر میر سبحان کے گھر لوٹے تو آپ افسردہ خاطر تھے (5) خوبصورت لوگوں کی اس خوبصورت وادی میں آپ کو کوئی ایسا مرد درویش نظر نہیں آیا تھا جس کی نظر میں نور فراست ہو۔ آپ کے دکھ اور اندوہ کا اندازہ ان اشعار سے لگایا جا سکتا ہے جو آپ نے لولاب کی وادی کو مخاطب کر کے لکھے : (6) پانی ترے چشموں کا تڑپتا ہوا سیماب مرغان سحر تیری فضاؤں میں ہیں بیتاب اے وادی لولاب! گر صاحب ہنگامہ نہ ہو منبر و محراب دیں بندۂ مومن کے لئے موت ہے یا خواب اے وادی لولاب! ہیں ساز پہ موقوف نوا ہائے جگر سوز ڈھیلے ہوں اگر تار تو بیکار ہے مضراب اے وادی لولاب! ملا کی نظر نور فراست سے ہے خالی بے سوز ہے میخانہ صوفی کی مئے ناب اے وادی لولاب! بیدار ہوں دل جس کی فغاں سحری سے اس قوم میں مدت سے وہ درویش ہے نایاب اے وادی لولاب! اقبال کشمیر کے دور استبداد کی صعوبتوں اور آلام کو اپنے دل میں گہرے اثر کے ساتھ محسوس کرتے تھے۔ یہ ضرب کاری اگرچہ ان پر بار بار پڑتی رہی لیکن وہ کبھی بد دل نہیں ہوئے بلکہ غلامی کے اس مہیب سناٹے میں انہیں آزادی کے گل پوش اور نغمہ سنج ماحول کا روشن جلوہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ سعادت علی خان ’’ بزم اقبال‘‘ میں ایک گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں’’ میرے کمرے میں داخل ہونے پر اس غیر فانی تبسم نے جس پر ہزار الفاظ قربان ہوں مجھے اپنے پاس کی ایک کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ سلسلہ گفتگو کشمیر سے متعلق تھا۔ کشمیر میں آزادی کی روح صدیوں کے تشدد اور جبر کے بعد اپنا سر ابھار رہی تھی۔ ریاست اسے ہر طریق سے پھر دبانا چاہتی تھی لیکن علامہ مرحوم فرما رہے تھے کہ یہ نا ممکن ہے۔ یہ روح کی چنگاری ہے شعلہ بن کے رہے گی۔ محفل میں ایک صاحب نے کشمیریوں کی غربت اور جہالت کا ذکر کیا۔ مرحوم مسکرائے۔ غربت و جہالت قوت ایمان کی راہ میں نہ کبھی سد راہ ہو سکے ہیں او ر نہ ہوں گے۔ ہم توامی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں۔ مسلمان کے لئے غربت و جہالت کی آڑ لینا اس کی روحانی کمزوری کی پکی دلیل ہے۔‘‘ (7) اپنے ایک مراسلہ میں بھی جو مبینہ طور پر کشمیری شاعر غلام احمد مہجور کو اقبال نے 12مارچ 1923ء کو لکھا وہ اس یقین کا اعادہ کرتے ہیں کہ ’’ میرا عقیدہ ہے کہ کشمیر کی قسمت عن قریب پلٹا کھانے والی ہے۔‘‘ اگرچہ اس انقلاب کے لئے انہوں نے یہ شرط اولین رکھی تھی کہ ’’ کشمیرکے لوگوں میں خود داری کی روح بیدار کی جائے‘‘ (8) کشمیر کے مستقبل کی تابناکی کے بارے میں اقبال کا یہی پرتو خیال اس نظم میں نظر آتا ہے: گرم ہو جاتا ہے جب محکوم قوموں کا لہو تھرتھراتا ہے جہان چار سو و رنگ و بو پاک ہوتا ہے ظن و تخمین سے انسان کا ضمیر کرتا ہے ہر راہ کو روشن چراغ آرزو وہ پرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں عشق سیتا ہے انہیں بے سوزن و تار رفو ضربت پیہم سے ہو جاتا ہے آخر پاش پاش حاکمیت کا بت سنگیں دل و آئینہ رو اقبال کے تصور وطنی کی رو سے سارا جہان ان کا گھر ہے جس میں ملکوں اور صوبوں کی حد بندیاں کسی حیثیت کی حامل نہیں: ہر ملک ملک ماست کہ ملک خدائے ماست لیکن اس کے باوجود مادر وطن کشمیر کی محبت ان کی رگ و پے اور دل و دماغ میں بسی ہوئی تھی۔ اقبال نے چونکہ اپنی ساری زندگی کشمیر سے باہر گذاری جس کی وجہ سے حب الوطنی کا جذبہ اور احساس شدید سے شدید تر شکل میں ان کے دل میں موجزن رہا۔ مولانا عبدالسلام ندوی کی یہ رائے کتنی برمحل ہے کہ ’’ وطن کی محبت تو ایک سیاسی تخیل ہے جو دوسرے ملکوں اور دوسری قوموں سے بغض و نفرت اور رشک و رقابت کا جذبہ پیدا کرتا ہے اور ڈاکٹر صاحب اس قسم کی وطنیت کے سخت مخالف تھے لیکن اس کے ساتھ ہر شخص کا ایک خاص منشا ہوتا ہے جو ایک محدود رقبہ زمین سے تعلق رکھتا ہے اور اس سے اس کو فطری لگاؤ ہوتا ہے۔ اور اسی طرح کے فطری لگاؤ کا نام وطن کی محبت ہے جو ایک نہایت شریفانہ، اخلاقی بلکہ فطری جذبہ ہے۔ جس سے کسی شریف آدمی کا دل خالی نہیں ہو سکتا۔ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ مکہ میں اس قدر ستائے گئے تاہم ان کو جب مکہ یاد آتا تھا تو روتے تھے اور پکار کر یہ اشعار پڑھتے تھیــ:‘‘ الا لیت شعری ہل ابیتن بواد و حولی ازخر و جلیل وھل اردن یوماً میاہ مجنتہ وھل یبدون لی شامتہ و نخیل (آہ! کیا کبھی پھر وہ دن آ سکتا ہے کہ میں مکہ کی وادی میں ایک رات بسر کروں اور میرے گرد اذخر اور جلیل ہوں (9) اور کیا وہ دن بھی ہو گا کہ میں مجنتہ کے چشمے پر اتروں اور شامہ اور نخیل (10) مجھ کو دکھائی دیں )(11) مولانا ندوی نے یہاں اہل کشمیر کے لیے اقبال کے جذبہ استحسان سے متعلق یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ ’’ ظفر وال کے ایک تحصیل دار نے ایک مقدمہ میں کشمیریوں کے متعلق مفسد اور بہادر کے لفظ لکھ دئیے۔ واقعہ یہ تھا کہ دس بارہ آدمیوں نے تین کشمیریوں پر مار پیٹ کا دعویٰ کیا۔ تحصیل دار نے فیصلہ میں لکھا کہ بظاہر یہ باور کرنا بہت مشکل ہے کہ دس بارہ آدمی تین آدمیوں سے مار کھا سکیں لیکن عام طور پر چونکہ کشمیری مفسد اور بہادر ہوتے ہیں اس لئے اگر ان تین کشمیریوں نے اپنے سے چوگنی تعداد کے حریفوں کو زخمی کر دیا ہو تو تعجب کی کوئی وجہ نہیں۔ ایک من چلے کشمیری نے اس فیصلہ کی مصدق نقل لے کر آل انڈیا مسلم کشمیری کانفرنس کے دفتر میں بھیجی کہ اس تحصیل دار نے ہم کو مفسد قرار دیا ہے اس پر ہتک اور توہین کا مقدمہ دائر ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر صاحب سیکرٹری تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ تحصیل دار نے جو کچھ لکھا ہے وہ صحیح ہے۔ جو قوم بہادر ہے وہ ضرور مفسد ہے۔ اور جو مفسد ہے وہ بہادر اور دلیر ہے۔ اس فیصلے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ابتداء کشمیریوں کی طرف سے نہیں تھی اس لئے وہ لا تفسد و افی الارض کے ذیل میں نہیں آ سکتے بلکہ انہوں نے قومی غیرت سے کام لے کر اپنی مدافعت کی ہے۔‘‘ (12) اقبال نے اپنے بدن کو خیابان کشمیر کے پھول سے تشبیہہ دی ہے انہیں کشمیریوں کے حسن اور خوبصورتی پر ناز تھا اور وہ اپنے وطن کے خون کی خاصیت اور نسل کی انفرادیت کو قائم رکھنا چاہتے تھے۔ ’’ آثار اقبال‘‘ میں ان کی وطن نوازی کا ایک واقعہ مذکور ہے جس سے اقبال کی ذہانت، لطافت اور خوش طبعی بھی آشکارا ہوتی ہے۔ ایک بار کشمیری خاندان کا ایک شخص کاٹھیا واڑ میں شادی کرنا چاہتا تھا لیکن ڈاکٹر صاحب نے اسے منع کر دیا اور کہا کہ پنجاب کی کسی کشمیری برادری سے باہر شادی نہ کرو۔ اس پر ایک نوجوان طالب علم نے اعتراض کیا کہ آپ تو ہمیشہ کہا کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو ذات پات کی تمیز مٹا دینی چاہئے کیونکہ ہماری ذات صرف اسلام ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ہنس کر جواب دیا یہ تو بالکل صحیح ہے لیکن خواجہ۔۔ ۔۔ اگر وہاں شادی کر لے تو اس کی اولاد بھی کالی کلوٹی ہو گی اور اس طرح اس خاندان سے وہ صباحت رخصت ہو جائے گی جو کئی پشتوں سے اس کی خصوصیت چلی آ رہی ہے۔ میں تو چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کے بچے نہایت خوش رو اور سرخ و سپید ہوں تاکہ ہم لوگ صحیح معنی میں ملت بیضا بن جائیں۔ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کے بقول’’ زندگی کے تمام ادوار میں کشمیر اور اہل کشمیر سے اقبال کی محبت اور ان کی غلامی اور کسمپرسی پر اقبال کی جگر کاہی مسلسل قائم رہی۔‘‘ (13) اقبال کی ایک بہت بڑی کمزوری یہ تھی کہ ان کی محفل میں جہاں مختلف طبقہ ہائے خیال کے دانشور، قانون دان، ادیب، صحافی، شاعر اور علماء آتے رہتے تھے وہاں جب بھی کوئی کشمیری محفل اقبال میں پہنچ جاتا تو وہ بسا اوقات دوسروں کے ساتھ اپنی گفتگو یا سلسلہ کلام کو منقطع کر کے اپنے اس ہم وطن کی طرف فوراً اور پوری دلچسپی کے ساتھ رجوع کرتے۔ پھر ایسا ہوتا کہ موضوع سخن کہیں سے کہیں پہنچ کر براہ راست کشمیریوں کی زبوں حالی ان کی محکومیت اور ان کی تحریک آزادی کے تذکرہ میں تبدیل ہو جاتا۔ شیخ محمد عبداللہ کہتے ہیں کہ ’’ جب اقبال کی زبان پر یہ جملہ آ جاتا ہے کہ میں سپرو ہوں تو ان کا چہرہ سرخ ہو جاتا ہے۔ 1930ء میں جب وہ جواہر لال نہرو سے ملے تو میں نے دیکھا کہ دونوں کے چہروں پر کیا جذبات جلوہ گر تھے۔‘‘ (14) تاہم اپنی گوت سپرو جتلائے جانے کے بارے میں اقبال کوئی حتمی رائے قائم نہیں کر سکے تھے۔ اور وہ اس تعلق میں تواریخی ثبوت کی برابر تلاش کر رہے تھے۔ چنانچہ وہ 16جنوری1934ء کو محمد دین فوق کے نام ایک خط میں رقم طراز ہیں۔’’ مجھے معلوم نہیں لفظ سپرو کے معانی کشمیری زبان میںکیا ہیں۔ ممکن ہے اس کے معنی وہی ہوں جو آپ نے تحریر فرمائے ہیں یعنی وہ لڑکا جو چھوٹی عمر میں بڑوں کی سی ذہانت دکھائے۔ البتہ کشمیری برہمنوں کی جو گوت سپرو ہے اس کے اصل کے متعلق جو کچھ میں نے اپنے والد مرحوم سے سنا تھا وہ عرض کرتا ہوں۔‘‘ جب مسلمانوں کا کشمیر میں دور دورہ ہوا تو براہمہ کشمیر مسلمانوں کے علوم و زبان کی طرف بوجہ قدامت پرستی یا اور وجودہ کے توجہ نہ کرتے تھے۔ اس قوم میں پہلے جس گروہ نے فارسی زبان وغیرہ کی طرف توجہ کی اور اس میں امتیاز حاصل کر کے حکومت اسلامی کا اعتماد حاصل کر لیا سپرو کہلایا۔ اس لفظ کے معنی ہیں وہ شخص جوسب سے پہلے پڑھنا شروع کرے (یا جس نے سب سے پہلے پڑھنا شروع کیا)’’ س‘‘ تقدم کے لئے کئی زبانوںمیں آتا ہے اور ’’ پرو‘‘ کا روٹ وہی ہے جو ہمارے مصدر’’ پڑھنا‘‘ کا ہے۔ والد مرحوم کہتے تھے کہ یہ نام کشمیر کے برہمنوں نے اپنے ان بھائی بندوں کو ازراہ تعریض و تحقیر دیا تھا جنہوں نے قدیم رسومات و تعلقات قومی و مذہبی کو چھوڑ کر سب سے پہلے اسلامی زبان و علوم کو سیکھنا شروع کیا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ نام ایک مستقل گوت ہو کر مشہور ہو گیا ہے۔ دیوان ٹیک چند (ایم اے) جو پنجاب میں کمشنر تھے۔ ان کو تحقیق لسان کا بڑا شوق تھا۔ ایک دفعہ انبالہ میں انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ لفظ سپرو کا تعلق ایران کے قدیم بادشاہ شاہ پور سے ہے اور سپرو حقیقت میں ایرانی ہیں جو اسلام سے بہت پہلے ایران کو چھوڑ کر کشمیر میں آباد ہوئے اور اپنی ذہانت و فطانت کی وجہ سے برہمنوں میں داخل ہو گئے۔ واللہ اعلم پنجاب میں جہاں تک مجھے معلوم ہے کوئی گھر مسلمان سپرو خاندان کا نہیں ہے اعجاز (15) کی شادی کے وقت اس امر کی جستجو کی گئی تھی مگر ناکامی ہوئی۔ (16) سیاست کشمیر میں گہری دلچسپی لینے کی اقبال کی لگن اور جذباتی رشتہ کس حد تک مضبوط و مستحکم تھا حفیظ جالندھری نے بھی اس تعلق میں1921ء کا ایک واقعہ قلم بند کیا ہے۔ اس روز حفیظ لاہور میں اقبال کے انارکلی والے مکان میں حاضر تھے۔ وہ کہتے ہیں’’ میں علامہ کے حضور بیٹھا تھا۔ علی بخش ان کا ملازم ایک چٹ لایا جس پر دو نام لکھے ہوئے تھے۔ خواجہ سعد الدین شال اور سید نور شاہ نقشبندی از سری نگر کشمیر۔ علامہ نے ان کو بلایا، بٹھایا میں ایک طرف بیٹھا ہوا سنتا رہا۔ گفتگو ریاست جموں و کشمیر کے بارے میں تھی۔ اس گفتگو کا لب لباب جو میرے قلب پر پیوست ہوا یہ تھا کہ پنجاب اور ہندوستان پر انگریزوں کا تسلط ہٹانے کے لئے ہندو مسلم بھائی بھائی تو بن رہے ہیں مگر ساری دنیا کی ایک واحد سر زمین جس کو ارضی بہشت قرار دیا جا چکا ہے اس میں بسنے والے ترانوے فیصد مسلمان جن کی تعداد بتیس لاکھ ہے 1846ء سے ہندوؤں، ڈوگروں، سکھوں، برہمنوں اور بودھوں کے پنجے میں جانوروں کی طرح انگریزوں کے زیر شمشیر انتہائی ذلت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ جب بھی انسانیت کی زندگی اختیار کرنا چاہتے ہیں ان پر ظلم و ستم کی تازہ بہ تازہ بارش کر دی جاتی ہے۔‘‘ علامہ نے ان کو اتحاد اور جہاد کا مشورہ دیا۔ وہ چلے گئے۔ میں نے دیکھا کہ علامہ کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔ (17) گھنشیام سیٹھی اقبال کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے اقبال کے اس والہانہ عشق وطن کی اس واقعہ سے تصویر کشی کرتے ہیں: ’’ 1935ء کے دن تھے۔ میں ان دنوں لاہور میں پڑھتا تھا ۔علامہ اقبال دن دنوں میکلوڈ روڈ پر ایک پرانی سی کوٹھی میں رہتے تھے۔ ان کی میو روڈ والی کوٹھی جاوید منزل بن رہی تھی۔ جب کبھی میں میکلوڈ روڈ سے گذرتا ان سے ملنے کی ادبی خواہش دل میں چٹکیاں لینے لگتی۔ علامہ سے ملنے کی ایک دیرینہ خواہش ہوتے ہوئے بھی ان کے پاس جانے کی ہمت مجھ میں نہیں تھی۔ اگرچہ مجھے معلوم تھا کہ ان تک پہنچنے میں کسی طرح کی کوئی دقت نہ ہو گی لیکن مجھ پر علامہ کا اتنا رعب پڑا ہوا تھا کہ دلی خواہش ہوتے ہوئے بھی جانے کی ہمت نہ کر پاتا۔‘‘ شاید نومبر کا مہینہ تھا۔ جب مشہور افسانہ نگار پریم ناتھ پردیسی مرحوم لاہور آئے اور میرے ساتھ میکلوڈ روڈ پر ٹھہرے۔ ان کے آنے کے تقریباً ایک ہفتہ بعد ہم دونوں جناب بشیر احمد مدیر’’ہمایوں‘‘ اور بیرسٹر شیو نرائن شمیم کو ساتھ لیکر علامہ سے ملنے کے لئے چلے۔ علامہ بادامی رنگ کا ہرے کنارے والا کشمیری دھسہ اوڑھے حقہ کی نے منہ میں لئے بستر پر گٹھڑی سے بنے تکیے پر ٹیک لگائے نیم دراز تھے۔ جناب شیو نرائن شمیم نے ہم دونوں کا تعارف کرایا یہ جان کر کہ ہم دونوں کشمیری ہیں وہ بہت خوش ہوئے اور مسکرا کے انہوں نے یہ شعر پڑھا: ناظر بڑا مزا ہو جو اقبال ساتھ دے ہر سال ہم ہوں شیخ ہو اور شالا مار ہو (18) کہنے لگے کہ میں کوئی بار کشمیر ہو آیا ہوں۔ لیکن طبیعت سیر نہیں ہوئی۔ آہ! کیا جگہ ہے! (19) سیٹھی نے اقبال کے ساتھ اپنی آخری ملاقات کے اختتامی لمحوں کی تصویر کشی بھی اسی مضمون میں یوں کی ہے۔ ’’ میں نے آنکھوں میں اجازت مانگی جو مل گئی۔ میرے باہر نکلتے نکلتے علامہ نے کہا۔ وہاں پہنچ کر وہاں کی قومی تحریک کے بارے میں ضرور کچھ لکھنا۔‘‘ ’’ کوشش کروں گا‘‘ میں نے کہا بولے’’ میں چاہتا ہوں کہ ہر ایک کشمیری نوجوان اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے اور حصول آزادی اور اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے بے شک مر مٹے۔‘‘ میں نے کہا’’ لیکن۔۔۔۔۔‘‘ بولے’’ اس کے بعد کیا کہو گے۔ میں جانتا ہوں۔ یہ باتیں کسی قوم کو بیدار ہونے سے نہیں روکتیں۔ کسی قوم کی آزادی کی راہ میں روڑے نہیں اٹکا سکتیں، غربت، جہالت اور دوسری کمیوں کی آڑ لینا خود اپنی کمزوریوں کا اعتراف کر لینا ہے۔ لیکن یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔‘‘ جب انہوں نے آخریا لفاظ کہے تو میں باہر جا چکا تھا۔ آج سوچتا ہوں انہوں نے کتنی بڑی پیشین گوئی کی تھی۔ کشمیر کے نوجوان آج جاگ چکے ہیں اور اپنے آپ کو دوسروں کے برابر کھڑا کرنے کے لئے کوشاں ہیں مگر اقبال ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ اقبال کی محفل میں جو بھی کشمیری بالخصوص کوئی نوجوان کشمیری جاتا وہ وہاں سے مادر وطن کی آزادی اور سرخ روئی کے لئے درس بصیرت لے کر لوٹتا۔ سعادت علی خان نے بھی ایک ایسا واقعہ اس طرح سے تحریر کیا ہے۔’’ ایک طرف کشمیر کے ایک مذہبی تعلیم یافتہ نوجوان بھی بیٹھے ہیں اور علامہ مرحوم کی خدمت میں مالی امداد حاصل کرنے کی غرض سے حاضر ہوئے ہیں۔‘‘ انہیں مخاطب کر کے فرمایا۔ تمہارا اس وقت پنجاب میں ہونا اگرچہ درد ناک نہیں تو تعجب انگیز ضرور ہے۔ تم بے کاری کا رونا رو رہے ہو اور تمہارے ہم وطن اپنی آزادی اور حقوق کے لئے طرح طرح کی قربانیاں کر رہے ہیں۔ غربت اور بھوک کی شکایت کرتے ہو۔ اپنے وطن کو واپس چلے جاؤ۔ آزادی کی راہ میں کود پڑو۔ اگر قید ہو جاؤ گے تو کھانے کو ضرور مل ہی جائے گا۔ اور اس گداگری سے بچ جاؤ گے۔ اگر مارے گئے تو مفت میں شہادت پاؤ گے اور کیا چاہتے ہو۔ اگر قرآن نے تمہیں یہ بھی نہیں سکھایا تو تم اور کیا سیکھے ہو؟ اگر کشمیر جانا ہو تو کرایہ کے پیسے میں دیتا ہوں نوجوان نے گردن جھکا لی۔ سب خاموش تھے (20) اقبال نے اگرچہ متانت اور انکساری کے ساتھ ایک بار پریم ناتھ پردیسی سے کہا تھا ’’ کہ میری شاعری میں اول تا آخر جدوجہد ہی جدوجہد ہے لیکن میں عملی انسان نہیں ہوں‘‘ (21) اور یہ بھی کہا جاتا تھا کہ وہ بذات خوداپنی زندگی کے کسی شعبے میں عملی شخص نہیں رہے۔ لیکن ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کی اس حقیقت بیانی سے انکار بھی ممکن نہیں کہ ’’ ان کی شعلہ نوائی سے بڑے بڑے قومی رہنما اپنی روحوں میں گرمی پیدا کرتے تھے اور اسی روشنی میں عمل پیرا ہوتے تھے۔ ایک بار مولانا محمد علی جوہر نے آپ سے کہہ ہی دیا۔‘‘ تم نے ہمیں تو مومن بنا دیا مگر خود۔۔۔۔ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا’’ سنو بھائی! تم نے دیکھا ہو گا کہ جب قوالی ہوتی ہے تو قوال بے حد اطمینان سے گاتا ہے لیکن سننے والے ہو حق کرتے ہیں۔ وجد میں آتے ہیں۔ ناچتے ہیں، بے ہوش ہو جاتے ہیں اور اگر یہی کیفیتیں قوال پر طاری ہو جائیں تو قوالی ختم ہو جائے۔ میں تو قوم کا قوال ہوں میں گاتا ہوں تم ناچتے ہو۔ کیا تم چاہتے ہو کہ میں بھی تمہارے ساتھ ناچنے لگوں؟ ‘‘ (22) اقبال چونکہ خود کوئی سیاست دان یا کسی سیاسی جماعت کے سرگرم عمل کارکن تو تھے نہیں کہ ان سے سیاست دانوں کی سی سرگرمیوں کی توقع کی جا سکتی تھی لیکن جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے انہوں نے اپنے آتش بار قلم سے اس خطہ ارضی کی تحریک حریت کی ہر قدم پر آبیاری کی اور اہل کشمیر کے دل اپنی شاعری کی حدت اور حرارت سے گرمائے۔ اقبال محکوم کشمیریوں کو ایک سربلند اور با وقار قوم کی حیثیت میں دیکھنا چاہتے تھے اور اس مطمع نظر کو تقویت بخشنے کی خاطر وہ ہر اس شخص سے خودی۔ خود پسندی اور خود شناسی کے طلب گار ہوتے جو ان کی محفل میں کسی بھی قسم کی دست نگری یا عاجزی کا مظاہرہ کرتا۔ یہ جذبات اقبال کے دل و دماغ میں بار بار موجزن ہوتے تھے اور ان کا اظہار بھی وہ بار بار کرتے اور اس حقیقت کے پیش نظر بھی کرتے کہ ان کی مجلس میں تقریبا ً ہر وقت کوئی نہ کوئی کشمیری موجود رہتا تھا۔ اقبال کا پیغام حیات، جہد مسلسل اور حرکت پیہم کا حامل تھا۔ اور وہ سہل انگاروں اور جاہ طلب افراد کو ہر گز پسند نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے مقابلے میں متحرک اور کوشاں افراد کی قدر افزائی کرتے تھے۔ ایک واقعہ کے مطابق ان کی بزم میں’’ ایک میانہ قد، زرد رو، اجنبی نامانوس شکل کا نوجوان وارد ہوا جو جاوا کا رہنے والا تھا اور وہاں کے کسی رسالہ یا اخبار کا نامہ نگار تھا اسلامی ممالک کا درہ کرنے غرض سے گھر سے نکلا تھا۔ لاہور میں مولانا ظفر علی خان کے یہاں مقیم تھا۔ زادہ راہ دوسروں کی مہمان نوازی اور فیاضی تھی۔ علامہ مرحوم کے پاس بھی سوال کے لیے حاضر ہوا تھا۔ مرحوم نے ملازم سے پانچ روپے منگوا کر اس کو دیتے ہوئے کہاکہ اگر تم میں کچھ صلاحیت ہے تو ممکن ہے کہ یہ اسلامی ملکوں کا سفر کسی حد تک تمہاری ذہنی و دماغی ترقی کا باعث ہو لیکن جب تم واپس اپنے ملک پہنچو گے۔ یہ بھیک مانگنا تمہاری روح کو تو بالکل فنا کر دے گا۔ دماغ یا روح؟ اس کا فیصلہ تم خود کر لو اور فرمانے لگے تمہارے اس طرح گھر سے نکل پڑنے نے ایک پرانے واقعہ کی یاد تازہ کر دی۔ میں شملہ سے واپس آ رہا تھا۔ امرتسر کے سٹیشن پر گاڑی کھڑی تھی۔ کھڑکی میں سے باہر دیکھا تو چند ترک پلیٹ فارم پر نظر آئے۔ ترکوں کو دیکھ کر میرا دل قابو میں نہیں رہتا۔ فوراً اٹھا اور گاڑی سے باہر نکلا۔ ان سے باتیں شروع کیں۔ وہ گھر سے حج کے ارادے پر نکلے تھے لیکن ساتھ ہی ایران، افغانستان اور ہندوستان کی سیر بھی کرنا چاہتے تھے۔‘‘ جاوا کے نوجوان نے خیال ظاہر کیا کہ غالباً پیسے والے ہوں گے۔ لیکن علامہ مرحوم فرمانے لگے۔’’ نہیں، معمولی حیثیت کے معلوم ہوتے تھے۔ تھرڈ کلاس میں سفر کر رہے تھے۔ البتہ بجائے بھیک مانگنے اور دوسروں کی مہمان نوازی کا فائدہ اٹھانے کے اپنی عقل اور محنت پر بھروسہ کرتے تھے۔ جہاں جاتے وہاں کی مخصوص چیزیں خرید کر دوسری جگہ بیچ دیتے اور اس طرح تجارت کرتے ہوئے قلیل منافع پر ان کا گذران تھا۔ کتنے اچھے ہیں یہ ترک، آزادی ان کا حق ہے۔‘‘ (23) اقبال کو اسی طرح اپنے ضمیر کی صفائی اور اپنے اصولوں کی ابدیت پر ناز تھا۔ وادی کشمیر کے ایک سیاست دان غلام محی الدین قرہ نے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اقبال کی بزم آگہی آراستہ تھی کہ عبدالمجید سالک نے علامہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ نظام حیدر آباد دکن نے آپ کے ’’ جاوید نامہ‘‘ کے اس شعر کو پسند نہیں کیا ہے کیونکہ اس میں بقول نظام کے ان کے جد میر صادق کی توہین کی گئی ہے: جعفر از بنگال صادق از دکن ننگ ملت ننگ دین ننگ وطن علامہ اس بات پر چونکے اور پھر کہا سالک! تم نے یہ کہہ کر میرے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا ہے۔ اب میں نظام کا وظیفہ قبول نہیں کروں گا۔ چنانچہ علامہ اقبال نے اپنے خادم علی بخش کو آواز دے کر بلایا اور اسے ہدایت کی کہ آئندہ جب نظام کا منی آرڈر آیا کرے تو اسے فوراً بھیجنے والے کے نام واپس لوٹا دیا کرو۔ (24) رواں صدی کی تیسری دہائی کی ابتدا میں جب کشمیر میں دبے ہوئے عوام نے آزادی کا خواب دیکھا تو اس خواب کی تعبیر کے حوالے سے ان کے دل و دماغ طرح طرح کے خیالات سے موجزن ہوئے۔ وہ زمانہ سارے کشمیر میں بے قراری اور بے چینی کا زمانہ تھا۔ کشمیر کی اکثر سیاسی شخصیتیں ان ممتاز کشمیریوں سے سیاسی رہنمائی کی غرض سے لاہور کا چکر لگاتی تھیں جو اگرچہ وطن سے دور پنجاب کے اس مشہور شہر میں آباد تھے لیکن جن کے دلوں میں درد وطن موجیں مار رہا تھا۔ شیخ محمد عبداللہ اور ان کے ساتھی اس تعلق میں خصوصاً اقبال کی صحبتوں سے استفادہ حاصل کرتے اور وقتاً فوقتاً ان کی رہبری سے فیض پاتے رہے ہیں۔ عبداللہ اقبال کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں۔’’ اقبال سے میں1926-27ء میں ملا جب میں سلامیہ کالج لاہور میں بی ایس سی کا طالب علم تھا۔ جب میں ان سے ملنے گیا تو میں نے اپنا تعارف اس طرح سے کیا کہ میں کشمیری ہوں اور یہاں لاہور میں طالب علم ہوں پھر کئی بار ان کے پاس گیا اور مختلف موضوعات پر ان سے گفتگو ہوا کرتی تھی۔ وہ اپنی کوٹھی کے برآمدہ یا کمرے میں چارپائی پر بیٹھا کرتے تھے اور حقہ کے کش پر کش لگاتے تھے۔ ان کا نوکر علی بخش وقفوں کے بعد چلم بھر کر لاتا اور ہمیں کشمیری نمکین چائے پلائی جاتی تھی۔‘‘ اقبال کی سادگی، متانت اور سنجیدگی قابل داد تھی۔ وہ عام طور پر سفید لباس پہنتے اور ان کی چارپائی کی چادر بھی سفید ہی ہوا کرتی۔ ان کی اس سادگی اور رہن سہن نے مجھے کافی متاثر کر دیا۔ یہاں عبداللہ نے اقبال کے ساتھ کشمیر کے میر واعظ احمد اللہ ہمدانی کی (یہ نام لئے بغیر) ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے’’ 1934میں رمضان کے مہینے میں ہم اقبال سے ملنے گئے۔ ہم میں ایک مولوی صاحب بھی تھے۔ ان کے بارے میں جب معلوم ہوا کہ وہ لاہور آئے ہیں تو فرمایا کہ اگر آپ یہاں لاہور آنے کی بجائے وہیں کشمیر میں گولی کھاتے تو تحریک آزادی تقویت پاتی۔ باہر آ کر مولوی صاحب نے اقبال کی شان میں زبردست گستاخی کی۔‘‘ (25) اپنے سوانح حیات میں بھی وہ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں’’ میر واعظ صاحب سے تو کچھ جواب نہ بن پڑا لیکن ان کے چہرے پر ملال کے آثار نمایاں ہو گئے۔ جب ہم علامہ سے رخصت ہو کر نکلے تو مولانا نے دل کی بھڑاس علامہ مرحوم کو جلی کٹی سنانے سے نکال لی۔ کہنے لگے ’’خود تو بے روزہ ہیں۔ چارپائی پر بیٹھے بٹھائے ٹھاٹھ سے حقہ پی رہے ہیں اور مجھ سے کہتے ہیں کہ سینے پر گولی کیوں نہ کھائی۔ کوئی اپنا ہوتا تو پھر دیکھتا یہ مشورہ کیسے دیتے؟‘‘ مولانا کی اس برافروختگی پر میرے من میں لڈو پھوٹ رہے تھے۔ لیکن میں نے ان کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے کہا کہ ایسی باتوں پر غصہ کرنا آپ کے شایان شان نہیں۔‘‘ (26) حیرانی کا مقام یہ ہے کہ شیخ عبداللہ کے ایک نمک خوار اور سپاس گذار صدر الدین مجاہد نے اپنے اس مربی اور محسن کے بیان کو جھٹلا کر یہ واقعہ اس شکل میں کیوں بیان کیا ہے کہ ’’ حضرت علامہ اقبال نے میر واعظ احمد اللہ صاحب کو اپنے مکان پر بلا کر انہیں ملک و قوم کے لئے جلا وطن ہونے پر مبارک باد دی۔ مولانا ہمدانی نے حضرت علامہ سے کہا کہ میں ملک کی آزادی کے لئے اپنی جان تک دینے کو تیار ہوں۔‘‘ (27) شیخ محمد عبداللہ بالخصوص اور تحریک کشمیر کے دوسرے زعماء بالعموم جدوجہد آزادی کشمیر کے آغاز سے لے کر ہی اقبال کا کلام عوامی جلسوں اور اجتماعوں میں ذوق و شوق سے پڑھ کر کشمیریوں کا لہو گرماتے رہے۔ عبداللہ نے اس سلسلہ میں اقبال کا سب سے زیادہ اثر قبول کیا تھا۔ اسبات کا اعتراف کرتے ہوئے وہ خود کہتے ہیں’’ میں نے سیاسی زندگی میں اقبال کے کلام سے ہمیشہ روشنی حاصل کی ہے۔ اس کلام کے فکری عناصر اور پیغام انسانیت آج کے دور میں روشنی کا معیار ہے کیونکہ وہ عالم انسانیت کے شاعر تھے۔‘‘ اس سلسلے میں سرکاری کارندوں کی طرف سے کلام اقبال کی جو مختلف تاویلیں کی جاتی تھیں اس کی ایک دلچسپ مگر مضحکہ خیز مثال یہ ہے کہ 1934ء میں جب اہل کشمیر پر پھر دارو گیر کا مرحلہ آن پڑا تو چودھری غلام عباس خان نے ایک بیان کے ذریعہ سول نافرمانی کا حکم دیا۔ ان کے اس نعرہ سے ساری فضا میں نئے انقلاب نے کروٹ لے لی۔ روزانہ جلسے اور جلوس ہوتے رہے۔ خاص کر خانقاہ معلی سری نگر میں تقریروں کا یہ سلسلہ ایک نئے ولولے کے ساتھ جاری ہوا۔ ایک بار چودھری صاحب کی تقریر کے بعد عبدالغفار والنٹیر نامی ایک سیاسی کارکن نے بھی تقریر کی جس کی ابتدا انہوں نیا قبال کے اس شعر سے کیـ: سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو اس موقع پر ڈیوٹی پر تعینات مجسٹریٹ نے اس شعر کے یہ عجیب و غریب معانی سرکار کو لکھ کر بھیج دئیے کہ سلطان روم کشمیر میں آئے گا اور مہاراجہ کے تخت پر قبضہ کر لے گا۔ چنانچہ عبدالغفار کو اس کی پاداش میں ڈیڑھ سال قید اور پانچ سو روپے کے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ اس شہر آشوب میں کئی ایسے مواقع بھی آئے جب شعر اقبال نے کشمیری سیاست کی سمتیں متعین کر لیں اور مقامی سیاست کاروں کو حریت کی راہ پر آگے بڑھانے کی ترغیب دی۔ درگا پرشاد دھر اس حقیقت کے اعتراف میں کہتے ہیں کہ ’’ نیشنل کانفرنس کی جدوجہد آزادی میں بعض مواقع ایسے بھی آئے ہیں جب اقبال کے اشعار نے ہماری رہنمائی کی ہے۔ اور ایک موقع پر ہمیں اپنی پالیسی متعین کرنے میں اقبال کے اشعار نے مدد دی۔‘‘ (28) 1946ء کی بات ہے۔ ہندوستان میں برطانیہ کا وزارتی مشن آیا ہوا تھا۔ اس وقت آل انڈیا سٹیٹس پیوپلز کانفرنس نے جس میں حیدر آباد کے نمائندے بھی شامل تھے۔ یہ تجویز پیش کی کہ وزارتی مشن سے ریاستوں کے نمائندوں کی حیثیت سے راجواڑے اور نواب بات نہیں کریں گے بلکہ سٹیٹ کانفرنس بات کرے گی۔ یہ تجویز مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہر لال نہرو نے بہت پسند کی۔ لیکن کانگریس کے بعض نمائندوں نے اس کی مخالفت کی۔ اس وقت شیخ محمد عبداللہ کی رہنمائی میں سٹیٹ پیوپلز کانفرنس کی کشمیر شاخ نے جو نیشنل کانفرنس کے نام سے مشہور تھی، کشمیر چھوڑ دو کا نعرہ بلند کیا اس نعرہ کو اقبال کے ان شعروں سے تحریک ملی تھی۔ جن میں انہوں نے لیگ آف نیشنز کے حوالے سے کہا تھا: باد صبا اگر بہ جینیوا گذر کنی حرف زما بہ مجلس اقوام باز گوے دہقان و کشت وجوے و خیاباں فروختند قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند ریاست جموں و کشمیر کے ایک سابق وزیر اعلیٰ سید میر قاسم نے بھی اس خیال کی تائید و توثیق کرتے ہوئے لکھا ہے ’’ میں کالج کی تعلیم کے دور سے ہی آزادی کی تحریک میں دلچسپی لینے لگا تھا۔ یہ دو ربرصغیر کے عوام کے لئے ایک زبردست ذہنی انقلاب اور جذباتی ہیجان کا دور تھا۔ صدیوں کے محکوم و مجبور عوام ایک زبردست استبدادی قوت سے لوہا لے کر غلامی کا جو اتار پھینکنے کے لئے میدان عمل میں سربکف کود پڑے تھے۔ اس اہم اور نازک دور میں اقبال کی حب وطن اور حریت کے جذبے سے بھرپور نظموں نے سرفروشان آزادی کے لئے رجز کا کام دیا اور برصغیر کے کونے کونے میں ترانہ ہندی گونج اٹھا۔‘‘ (29) شیخ عبداللہ کو 1953ء میں بھارت سرکار نے باوجود اس امر کے کہ وہ ریاست جموں و کشمیر کے وزیراعظم تھے، زنداں خانہ میں ڈال دیا تو انہوں نے اپنی نظر بندی کے طویل دورانیہ میں مختلف جیلوں سے اپنے سیاسی ہم سفروں، عقیدت مندوں اور احباب و اقارب کو جو ہزاروں خطوط لکھے انہیں پڑھ کر ایسا گمان ہوتا ہے کہ ان کا مضمون کلام اقبال کو ذہن اور نظر میں رکھ کر ہی باندھا گیا ہے۔ چنانچہ’’ مکاتیب شیخ‘‘ میں اقبال ہی کے یہ نعتیہ اشعار عبداللہ نے اپنی زبان میں نذر رسالت کئے ہیں: اے ظہور تو شباب زندگی جلوہ ات تعبیر خواب زندگی در جہاں شمع حیات افروختی بندگاں را خواجگی آموختی پردہ ناموس فکرم چاک کن این خیابانے زخارم پاک کن در عمل پایندہ تر گرداں مرا آب نیسانم گہر گرداں مرا اس مجموعہ خطوط میں اگرچہ بار بار اقبال کے ایسے اشعار کو پیش کیا گیا ہے جن میں اقبال شاعر کم اور مصلح او رمبلغ زیادہ دکھائی دیتے ہیں لیکن ان مراسلوں کی سیاسی اور مذہبی نوعیت کے پیش نظر اقبال کے اسی قبیل کے اشعار کا انتخاب موزوں اور برمحل معلوم ہوتا ہے۔ اس مجموعہ میں شاید ہی ایسا کوئی خط ہو جس میں شیخ عبداللہ نے کلام اقبال سے خوشہ چینی نہ کی ہو۔ وہ خود کہتے ہیں’’ میں اقبال کی شاعری اور ان کے فلسفہ پر ساری دنیا کا حق تسلیم کرنے کے باوجود ان کی ذات پر کشمیر کے حق کو فائق۔ اول اور افضل سمجھتا ہوں۔ صرف اس لیے نہیں کہ علامہ اقبال کے آباء و اجداد کا تعلق کشمیر سے تھا اور انہوں نے اپنے کشمیری نژاد ہونے پر فخر کیا ہے بلکہ اس لیے کہ وہ کشمیر کے سچے عاشق۔ اہل کشمیر کے سچے دوست اور ہمدرد، ان کی آزادی کے بہت بڑے علمبردار، ان کی غریبی اور غلامی کے ماتم گسار اور مطلق العنانیت کے خلاف ہماری جدوجہد میں ہمارے شریک کار تھے۔‘‘ 1931ء میں تحریک حریت کشمیر کے آغاز میں میں نے کلام اقبال سے بھرپور استفادہ کر کے ایک غلام قوم کا لہو گرمایا تھا۔ میں اپنی تقریروں میں اقبال کے حیات آفریں اور روح پرور اشعار کا بکثرت استعمال کرتا تھا اور غلامی کے اس حوصلہ شکن اور مایوس کن دور میں سننے والوں کے دلوں میں آزادی اور انقلاب کی لہریں اٹھتی تھیں۔ کشمیر میں آزادی کی تحریک شروع ہوئی تو اقبال اس سے براہ راست وابستہ ہو گئے۔ اگرچہ وہ بنیادی طور پر شاعر تھے سیاست دان نہیں لیکن آزادی کی تحریک کو چلانے کے سلسلے میں انہوں نے ہمیشہ ہماری صحیح رہنمائی کی اور وقتاً فوقتً ہمیں مشورہ دیتے رہے۔ اقبال پر تنگ نظری اور فرقہ پرستی کا الزام لگانے والے تنگ نظروں کو یہ سن کر شاید تعجب ہو گا کہ میں نے سیکیولر ازم اور نیشنل ازم کا پہلا سبق اقبال سے ہی لیا ہے۔ یہ غالباً1936ء کا واقعہ ہے کہ میں اقبال کی خدمت میں حاضر ہوا۔ کشمیر کی سیاست کے متعلق تبادلہ خیال ہو رہا تھا تو انہوں نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ غیر مسلموں کو بھی اپنی تحریک میں شامل کیجئے اس سے آپ کے موقف کو تقویت ملے گی۔ میں نے کہا ہم کوشش تو کر رہے ہیں لیکن غیر مسلم ساتھ نہیں دیتے تو اقبال نے جواب دیا آپ اپنی کوشش جاری رکھئے۔ 1939ء میں مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں بدلنے کے لئے جہاں اور بھی کئی وجوہات اور محرکات تھے وہاں اقبال کے مشورہ کا بھی اس میں بڑا عمل دخل تھا۔ (30) اپنے متنازعہ فیہ سوانح حیات’’ آتش چنار‘‘ میں بھی شیخ عبداللہ نے اس واقعہ کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے ’’ ہندوستان میں سٹیٹ پیوپلز کانفرنس پنڈت جواہر لال کی قیادت میں قائم ہوئی جس کا مقصد راجواڑوں کی عمل داری کے تحت ہندوستانی ریاستوں کے عوام کے حقوق کے لئے تحریک چلانا تھا۔ یہ بات صاف ظاہر تھی کہ اگر مسلم کانفرنس کے زعماء تحریک حریت کشمیر کی ہندوستان کے قوم پرستوں سے حمایت چاہتے ہیں تو انہیں اپنے نظریات میں وسعت پیدا کرنا ہو گی اور جماعت کے نام اور اس کے دستور میں تبدیلی لاناہو گی۔ حسن اتفاق سمجھ لیجئے یا مشیت ایزدی کہ کشمیر کے دوسرے عظیم فرزند اور تحریک حریت کشمیر کے دعا گو اور مربی علامہ اقبال نے 1937ء میں مجھے کچھ اسی قسم کا مشورہ دیا۔ وہ ان دنوں علیل تھے۔ میں نے انہیں کشمیر آنے کی دعوت دی۔ ان کے کشمیر میں داخلہ پر 1931ء سے پابندی عائد تھی۔ اس پابندی کو واپس لینے کی درخواست کی گئی اور جب اجازت نامہ آیا تو سردی کا زمانہ آ گیا تھا۔ا ور اقبال نے دوسرے سال کے لئے اپنا دورہ کشمیر ملتوی کر دیا۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ دوسرے سال وہ جنت ارضی کے بدلے جنت فردوس کی سیاحت کے لئے بلائے جائیں گے۔‘‘ جب میں ان سے رخصت ہوا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ کشمیریوں کی نجات اسی میں ہے کہ وہ ایک متحدہ تنظیم میں شیرازہ بند ہو جائیں اور مسلم کانفرنس کے دروازے غیر مسلموں پر بھی کھول دئیے جائیں صرف یہی صورت کشمیر کے لئے آزادی حاصل کرنے کی ہو گی ورنہ آپسی اختلافات کو غرض مند اور مفاد خصوصی رکھنے والے دوست اچھالتے رہیں گے۔ (31) شیخ عبداللہ کے بقول ’’اقبال 21اپریل1938ء کو چل بسے لیکن ان کے اس خواب کی تعبیر ان کی وفات کے چودہ مہینے بعد نکلی جب 11جون 1939ء کو کشمیری لیڈروں نے مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں تبدیل کرنے کا تاریخی قدم اٹھایا۔‘‘ (32) عبداللہ کے ان دنوں کے ایک کشمیری ہندو مصاحب پریم ناتھ بزاز نے بھی عبداللہ ہی کے حوالے سے اس بات پر یوں روشنی ڈالی ہے۔ ’’ 1934ء میں جب ہم سیاسی کام کے سلسلے میں لاہور میں تھے تو عبداللہ نے مجھ سے کہا کہ ڈاکٹر محمد اقبال نے کشمیر کے مسلمان لیڈروںکو زور دار الفاظ میں اس بات کا مشورہ دیا ہے کہ انہیں پنڈتوں کے ساتھ بہترین تعلقات کی آبیاری کرنا چاہیے۔ عبداللہ نے مجھے مطلع کیا کہ تصور پاکستان کے بانی کا خیال یہ ہے کہ پنڈت بنیادی طور پر محبان وطن ہیں اور اگر انہیں اچھی طرح اور عزت دار زندگی او رمحفوظ مستقبل کا یقین دلایا جائے تو وہ ریاست کی تعمیر میں ایک نمایاں رول ادا کر سکتے ہیں۔‘‘ (33) درگا پرشاد دھر بھی بزاز کی ہاں میں ہاں ملا کر کہتے ہیں۔’’ کشمیر کی سیاسی زندگی پر جہاں پنڈت جواہر لال نہرو کا گہرا اثر تھا وہاں اقبال کی شخصیت اور فکر کی بھی گہری چھاپ تھی۔ کشمیر نیشنل کانفرنس کی ہمہ گیر تشکیل میں اقبال کے مشورے شامل تھے۔ شروع میں کشمیر کی سیاسی تنظیم مسلمانوں تک محدود تھی اور اس کا نام مسلم کانفرنس تھا۔ اقبال نے شیخ محمد عبداللہ صاحب کو یہ مشورہ دیا کہ جب تک اس تحریک میں کشمیر کے دوسرے فرقے اور طبقے شامل نہیں ہوں گے اس وقت تک اس کی کامیابی دشوار ہے۔ اس کے بعد سے مسلم کانفرنس کشمیر نیشنل کانفرنس میں تبدیل ہو گئی اور کشمیر کے مسلم اور ہندو عوام نے مل کر پرانے جاگیری ظلم و جبر۔ ریاستی نظام اور بیرونی شہنشاہیت کی ریشہ دوانیوں کے خلاف جدوجہد کی‘‘ (34) شیخ محمد عبداللہ کا یہ بیان کہ اقبال نے انہیں مسلم کانفرنس کے بدلے میں کشمیر میں ایک ایسی سیاسی جماعت بنانے کا مشورہ دیا تھا جس میں غیر مسلموں کے لئے بھی دروازے کھلے ہوں ابھی تک متنازعہ فیہ بنا ہوا ہے اور اس پر شک کے جو بادل پہلے ہی سے منڈلا رہے تھے وہ اب بھی نہیں چھٹ سکے ہیں۔ قبل اس کے عبداللہ کے اس اہم اور تاریخی نتائج کے حامل بیان کی تردید یا توثیق کی جا سکے جس میں انہوں نے اقبال جیسی عالمگیر قدر و منزلت کی شخصیت کو زیر تذکرہ لایا ہے، یہاں پر چند ایسے متعلقہ سوالات پیدا ہوتے ہیں جن کی توضیح اب بھی مطلوب ہے۔ ورنہ تاریخ کا ایک عام طالب علم شیخ محمد عبداللہ کے اس بیان کو مصلحت کوشی پر مبنی دروغ گوئی سے تعبیر کرے گا ورنہ اسے بعینہہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو گا۔ اس کتاب کو دو تین صفحات پیچھے کی طرف لے جانے سے واضح ہو جاتا ہے کہ عبداللہ ’’1936ء میں اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے‘‘ اور چونکہ وہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ میں حاضر ہوا‘‘ تو صاف ظاہر ہے کہ ان کے ساتھ اور کوئی کشمیری سیاست کار نہیں تھا (35)۔ ان کی اپنی تصنیف’’ آتش چنار‘‘ میں اقبال سے ملاقات کا یہ سال 1937ء بتایا گیا ہے (36)۔ اور پریم ناتھ بزاز لکھتے ہیں کہ ’’ 1934ء میں جب ہم سیاسی کام کے لئے لاہور میں تھے تو عبداللہ نے مجھ سے کہا کہ ڈاکٹر محمد اقبال نے کشمیر کے مسلمان لیڈروں کو زور دار الفاظ میں اس بات کا مشورہ دیا ہے کہ انہیں پنڈتوں کے ساتھ بہترین تعلقات کی آبیاری کرنا چاہئے۔‘‘ (37) اب یہ طے کرنا ایک محقق ہی کا کام ہو سکتا ہے کہ ان تین الگ الگ برسوں میں سے کس سال عبداللہ اقبال سے ملاقی ہوئے؟ بزاز کے بقول عبداللہ نے ان سے یہ بھی کہا تھا کہ اقبال نے کشمیر کے مسلمان ’’ لیڈروں‘‘ کو مشورہ دیا ہے جب کہ خود عبداللہ اس ملاقات کو 1936ء سے جوڑتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ میں (اکیلا) اقبال کی خدمت میں حاضر ہوا‘‘ یہ تضاد بیانی قابل توجہ ہے۔ شیخ عبداللہ نے اقبال سے وابستہ اس بیان کو اپنی سیاسی زندگی کے ہر موڑ پر اچھالا ہے خاص کر جب انہوں نے اپنی سیاست کا دھارا1947ء کے بعد بھارت سرکار کے ایوانوں کی طرف موڑ دیا جس کے عوض انہیں کشمیر کا وزیراعظم بنایا گیا۔ یہاں یہ سوا بھی پیدا ہوتا ہے کہ سوائے پریم ناتھ بزاز اور درگا پرشاد دھر کے جنہیں عام اصطلاح میں بھارت نواز ہندو ہی کہا جا سکتا ہے، عبداللہ کے کسی بھی برگزیدہ ساتھی نے اس واقعہ کی تصدیق نہیں کی ہے اگرچہ ان میں سے اکثر اقبال کے ساتھ ملاقاتیں کرتے رہتے تھے۔ شیخ عبداللہ کے ان ہم عصر سیاست دانوں میں میر واعظ احمد اللہ ہمدانی، سعد الدین شال، نور شاہ نقشبندی، عبدالصمد ککرو، محمد دین فوق، مولانا محمد سعید مسعودی، بخشی غلام محمد، غلام محمد صادق حتیٰ کہ دو غیر مسلم بزرگ سیاست دان سردار بدھ سنگھ اور پنڈت کشیپ بندھو بھی شامل تھے جنہوں نے عبداللہ کے مفروضہ پر تادم مرگ کوئی رائے زنی نہیں کی۔ یہاں تاریخ کے اوراق یہ بھی بتاتے ہیں کہ اقبال نے اس قسم کی گفتگو کسی اور ایسے شخص کے ساتھ بھی کبھی نہیں کی جو کشمیر کی سیاست یا تحریک آزادی کے ساتھ اس وقت بلا واسطہ یا بالواسطہ عمل دخل رکھتا ہو۔ اسی طرح یہاں پر اس ضمن میں اقبال کے اپنے ان مسلمہ خیالات کو زیر نظر رکھنا بھی ضروری ہو گا جن میں انہوں نے کبھی کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ 7جون 1933ء کو دئیے گئے ایک بیان میں وہ اسبات کا اعادہ کرتے ہیں کہ ’’ کشمیر میں ابھی بہ یک وقت دو یا تین اسلامی سیاسی جماعتوں کے کام کرنے کا وقت نہیں ہے۔ وقت کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ریاست میں مسلمانوں کی نمائندہ صرف ایک ہی جماعت ہو۔‘‘ مسلم کانفرنس کا دوسرا سالانہ اجلاس میر پور میں1933ء میں15 سے 17دسمبر تک منعقد ہوا جس کی صدارت شیخ محمد عبداللہ نے کی۔ اس اجتماع میں شرکت کی غرض سے کہا عبداللہ نے اقبال کو جو دعوت نامہ بھیجا تھا اس کے جواب میں اقبال نے 2اکتوبر1933ء کو لکھا ’’ مجھے یقین ہے کہ بزرگان کشمیر بہت جلد اپنے معاملات سلجھا سکیں گے۔ اسبات کے لئے میں ہر لحظہ دست بدعا ہوں۔ اور یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے آپ کی مساعی کو بار آور کرے گا۔ لیکن جو مختلف جماعتیں سنا ہے کہ بن گئی ہیں۔ ان کا باہمی اختلاف آپ کے مقاصد کی تکمیل میں بہت بڑی رکاوٹ ہو گا۔ ہم آہنگی ہی ایک ایسی چیز ہے جو تمام سیاسی و تمدنی مشکلات کا علاج ہے۔ ہندی مسلمانوں کے کام اب تک محض اسی وجہ سے بگڑے رہے کہ یہ قوم ہم آہنگ نہ ہو سکی۔ اور اس کے افراد اور بالخصوص علمائے کرام اوروں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنے رہے بلکہ اس وقت بھی ہیں۔‘‘ (38) ’’ مکاتیب ا قبال‘‘ کے ان اقتباسات سے ذرہ بھر بھی یہ شائبہ نہیں ہوتا کہ اقبال کشمیر میں مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم مسلم کانفرنس کی ہیت بدل کر اسے ایک سیکیولر جماعت بنوانے کا کوئی خیال رکھتے تھے۔ ایک کشمیر نژاد پاکستانی کالم نگار کلیم اختر نے بھی اس موضوع پر اپنے اظہار خیال میں عبداللہ کے دعویٰ کو جھٹلا کر ان کی مسلم کانفرنس سے نیشنل کانفرنس کی طرف قلا بازی کو در حقیقت چند بھارت نواز اورکانگریس پرست عناصر کی تحریک کا ماحصل قرار دیا ہے۔ اس سلسلہ میں وہ تحریک آزادی ہند کے ایک نامور رہنما اور سانحہ جلیان والہ باغ1919کے ہیرو ڈاکٹر سیف الدین کچلو کے تذکرہ میں لکھتے ہیں کہ ’’ ڈاکٹر کچلو طبعاً سیکیولرزم کے پرچارک تھے۔ اسی لئے ریاست جموں و کشمیر کے غیر مسلم عناصر بھی ان کے مداح تھے اور جب وہ سری نگر جاتے تو بعض اوقات ان کا قیام غیر مسلموں کے ہاں ہی ہوتا تھا۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کی مسلم تحریک کو متحدہ قومیت کے قالب میں ڈھالنے کی ساری ذمہ د اری پنڈت جواہر لال نہرو اور ڈاکٹر سیف الدین کچلو پر عائد ہوتی ہے۔ چنانچہ 1938ء میں مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں بدلنے کا فیصلہ کیا گیا اور 1939ء میں آل جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس قائم کر دی گئی۔ واقعات شاہد ہیں کہ شیخ محمد عبداللہ لاہور میں ڈاکٹر سیف الدین کچلو سے ملتے رہتے تھے اور 1934ء میں ہی یہ بات ان کے ذہن نشین کر دی گئی تھی کہ وہ کشمیر میں متحدہ قومیت کا ڈنکا بجائیں اور تحریک کشمیر کو کانگریس کی قومی تحریک کے ساتھ شامل کر دیں۔ تحریک حریت کشمیر کے بانیس ردار گوہر رحمان لودھی نے ایک بار راقم کو بتایا تھا کہ ’’ ڈاکٹر کچلو کا شیخ عبداللہ پر گہرا اثر تھا۔ جنہوں نے عبداللہ کے ذہن میں یہ بات ڈالی تھی کہ کشمیریوں کے دو بڑے دشمن ہیں۔ ایک ڈوگرہ مہاراجہ اور دوسرا برطانوی سامراج۔ اس لئے تم اپنی تحریک کو قومی تحریک میں شامل کرو۔ اس کے ساتھ ہو جاؤ اور سب مل کر پہلے برطانوی سامراج کو نکالیں اور اس کے بعد مہاراجہ خود بخود ختم ہو جائے گا اور جب تم مہاراجہ کشمیر کے خلاف لڑتے ہو تو برطانوی ہند کی حکومت اس کی حمایت کرتی ہے کیونکہ وہ ان کا ساتھی اور پروردہ ہے۔‘‘ ان تاریخی حقائق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جموں و کشمیرمسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں بدلنے اور پریم ناتھ بزاز کے ساتھ مل کر قوم پرست اخبار’’ ہمدرد‘‘ نکالنے میں سب سے اہم کردار ڈاکٹر کچلو نے ادا کی اتھا۔ یہ بات درست نہیں ہے کہ علامہ محمد اقبال نے شیخ محمد عبداللہ کو اس تبدیلی اک مشورہ دیا تھا۔ گو شیخ عبداللہ تبدیلی فکر و عمل میں علامہ کا نام بھی لیتے ہیں لیکن ریکارڈ سے یہ ثابت ہے کہ مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں بدلنے کا فیصلہ جون 1938ء میں ہوا اور باقاعدہ تنظیم 1939ء میں عمل میں آئی جب کہ علامہ کا انتقال اس سے پہلے ہی اپریل 1938ء میں ہو چکا تھا۔ (39) اقبال اور شیخ عبداللہ ہی کے حوالے سے جگن ناتھ آزاد نے بھی ایک ایسی ادبی بد دیانتی کا ارتکاب کیا ہے کہ اگر اسے حقیقی تناظر میں بے نقاب نہ کیا جائے تو اقبال کے خوشہ چینوں اور اقبالیات کے طالب علموں کو کسی بھی وقت آزاد کے اس مفروضہ سے بھی گمراہی کا شکار ہونا پڑے گا۔ اصل میں جگن ناتھ آزاد کی اپنی مجبوری اور ذاتی غرض مندی تھی جس کے پیش نظر انہوں نے اپنی کتاب ’’ اقبال اور کشمیر‘‘ کے ذریعہ شیخ محمد عبداللہ کو شیشے میں اتار ہی لیا۔ شیخ عبداللہ 1977ء میں کشمیر میں جنتا پارٹی کو شکست فاش دینے کے بعد پھ رایک بار انتخابات میں ایک طاقت ور سیاسی شخصیت اور حکمران کی صورت میں ابھرے تھے اور آزاد نے بھی یہی وقت اپنی تصنیف کی اشاعت کے لئے چن لیا جس میں بقول آزاد اقبال نے شیخ عبداللہ کو اپنی ایک نظم میں خراج تحسین پیش کیا ہے (40) ’’ جاوید نامہ‘‘ میں ایک باب کا عنوان ہے’’ زیارت امیر کبیر حضرت سید علی ہمدانی و ملا طاہر غنی کشمیری‘‘ اس باب میں غنی اقبال سے کہتے ہیں: ہیچ مے دانی کہ روزے در ولر موجد مے گفت باموج دگر چند در قلزم بہ یک دیگر زنیم خیر تا یک دم بہ ساحل سر زنیم زادہ ما یعنی آں جوئے کہن شور او در وادی و کوہ و دمن ہر زماں بر سنگ رہ خود را زند تابنائے کوہ رابر می کند آں جواں کو شہر و دشت و در گرفت پرورش از شیر صد مادر گرفت سطوت او خاکیاں را محشرے است ایں ہمہ از ماست نے از دیگرے است زیستن اندر حد ساحل خطاست ساحل ما سنگے اندر راہ ماست باکراں در ساختن مرگ دوام گرچہ اندر بحر غلطی صبح و شام زندگی جولاں میان کوہ و دشت اے خنک موجے کہ از ساحل گذشت (کیا تو نہیں جانتا کہ ایک دن جھیل ولر کی ایک موج نے دوسری سے یہ کہا۔ اس سمندر میں ہم کب تک ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراتی رہیں گی۔ ہماری اولاد یعنی پرانی نہر تو ایسی ہے کہ اس کا شور و ہنگامہ کوہ و دمن میں برپا ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو راستے کے پتھر پر پٹختی ہے یہاں تک کہ پہاڑ کی بنیاد ہلا دیتی ہے۔ وہ دختر جواں سال (آزاد نے اسے ’’ جوان‘‘ لکھا ہے) جو شہر و دشت پر چھا گئی۔ اس کی پرورش تو سو ماؤں کے دودھ سے ہوئی ہے۔ اس کی سطوت اہل زمین کے لئے ہنگامہ محشر سے کم نہیںہوتی۔ یہ سب کچھ ہمارا اپنا ہے کسی دوسرے کا نہیں۔ ساحل کی حدود کے اندر جینا خطا ہے کیونکہ ہمارا ساحل ہماری راہ کا پتھر ہے۔ کنارے سے سمجھوتہ کر لینا تو حقیقت میں مرگ دوام کی حیثیت رکھتا ہے۔ خواہ تم صبح و شام دریا میں غلطاں کیوں نہ رہو۔ زندگی تو نام ہے کوہ و دشت میں گردش و جولانی کا۔ میں اس موج کو سلام کرتا ہوں جو ساحل سے نکل گئی ۔) ڈاکٹر صابر آفاقی نے اپنی کتاب ’’ اقبال اور کشمیر‘‘ میں’’ آں جواں کو شہر و دشت و در گرفت‘‘ کا ترجمہ ’’ وہ دختر جواں سال جو شہر و دشت پر چھا گئی‘‘ کیا ہے جس سے ان کی مراد یہی ہے کہ ’’ زادہ ما‘‘ یعنی ہماری یعنی ولر کی موجوں کی پیداوار یا اولاد ایک ’’ جوئے کہن‘‘ ہی ہے جسے آفاقی نے آگے چل کر’’ دختر جواں سال‘‘ کہا ہے (41)۔ اور آزاد سے’’ ایک جوان‘‘ (42) کہہ کر پکارتے ہیں۔ جگن ناتھ آزاد کہتے ہیں’’ اقبال کے الفاظ میں ولر کشمیر کی جدوجہد بلکہ خود کشمیر کے لئے ایک علامت کا کام دے رہا ہے۔ اب یہ علامت یعنی سر زمین کشمیر اپنے دو فرزندوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ان دو میں ایک معمر اور ایک جوان ہے۔ واضح رہے کہ یہ 1931-32کی بات ہے۔ گویا سر زمین کشمیر کا معمر فرزند میر واعظ مولانا ہمدانی ہے اور نوجوان فرزند شیخ محمد عبداللہ ہے اور یہ دونوں حضرات اس وقت تحریک آزادی کشمیر کے قائد تھے۔‘‘ (43) تاریخی واقعات اور حقائق زمانہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ 1931یا1932ء کے دوران شیخ عبداللہ یا میر واعظ احمد اللہ ہمدانی سیاست کشمیر میں اس مقام کو ہرگز نہیں پہنچے تھے کہ اقبال جیسا عالمگیر شہرت کا مالک سخن ور انہیں اپنے کلام میں خراج تحسین پیش کرتا اور ان کے حق میں ایسے استعارے اور تشبیہات استعمال کرتا جو تاریخ اسلام کے عہد ساز مجاہدوں، سپہ سالاروں اور رہنماؤں کے لئے برحق ہیں (44) یعنی وہ جوئے کہن جس کا وادی اور کوہ و دمن میں شور برپا ہے اور جو ہر لمحہ اپنے آپ کو رستے کے پتھروں سے ٹکرا رہی ہے تاکہ پہاڑ کو جڑ سے اکھاڑ دے ’’یا۔۔۔‘‘ وہ جوان جس نے شہر و دشت و در پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس نے ایک سو ماؤں کا دودھ پی کر پرورش پائی ہے۔ لوگوں کے لئے اس کی سطوت محشر کا حکم رکھتی ہے۔ بقول آزاد’’ جوئے کہن‘‘ سے مراد میر واعظ ہمدانی اور نوجوان سے مطلب شیخ عبداللہ ہے۔ 1931ء کے ایام میں شیخ عبداللہ کی سیاسی زندگی کا آغاز ہوا۔ وہ انہی دنوں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم ایس سی کر کے آئے تھے اور مہاراجہ ہری سنگھ کی سرکار میں ایک سکول میں مدرس ہو گئے تھے۔ اسی طرح میر واعظ احمد اللہ ہمدانی سے زیادہ کشمیر کی سیاسی زندگی کے قافلہ سالاروں میں میر واعظ مولانا یوسف شاہ، خواجہ سعد الدین شال، غلام احمد عشائی اور غلام نبی گلکار کا نام سر فہرست تھا۔ میر واعظ ہمدانی کے بارے میں تو خود شیخ عبداللہ نے یہ واقعہ سنایا ہے کہ جب وہ کشمیر چھوڑ کر لاہور گئے تو اقبال نے وہاں انہیں لاہور میں پناہ لینے پر زبردست جھاڑ پلائی اور یہاں تک کہا کہ اگر تم وہاں گولی کھا کر شہید ہو جاتے تو بہت تھا۔ اس پر ہمدانی نے اقبال کے بارے میں بعد میں یہ کہا تھا کہ ’’ وہ چرسی قسم کا ایک آدمی ہے۔‘‘ کیا اس مفروضہ کو قابل اعتبار کہا جا سکتا ہے کہ اقبال انہی دنوں اسی ہمدانی کو اپنے ایک شعری فن پارہ میں خراج تحسین پیش کریں؟ ’’ جاوید نامہ‘‘ کی اشاعت فروری1932ء میں ہوئی۔ جبکہ اس کے بعد بھی اقبال اپنے خطوط میں شیخ عبداللہ کو کسی خاص القاب و آداب کا در خور نہیں سمجھتے تھے۔ 2اکتوبر1933ء کو انہوں نے جو خط عبداللہ کو لکھا اس میں انہیں صرف’’ ڈیر شیخ عبداللہ صاحب‘‘ (45) کہہ کر پکارا۔ اور پھر22جنوری1934ء کے مراسلہ میں سید نعیم الحق وکیل کے نام خط میں عبداللہ کا ذکر اس عام انداز میں کیا۔’’ میں نے شیخ عبداللہ صدر کانفرنس سے بھی تذکرہ کیا ہے۔‘‘ (46) میر واعظ ہمدانی کا اقبال کی طرف سے ہزیمت خوردہ ہونے کا واقعہ 1936ء میں پیش آیا جبکہ ’’ جاوید نامہ‘‘ اس سے پورے چار سال قبل شائع ہو چکی تھی۔ (دیکھئے ص210-211) 1977ء کے آس پاس جب جگن ناتھ آزاد نے اپنی کتاب شائع کر لی، وہ کشمیر میں بھارت سرکار کے محکمہ اطلاعات میں اپنی عمر کے لحاظ سے ملازمت کا عرصہ پورا کرنے کے بعد ریٹائرمنٹ کی دہلیز پر کھڑے تھے۔ لیکن وادی کشمیر چونکہ ’’ درآمدی‘‘ افسروں کے لئے ہر لحاظ سے ایک منفعت بخش جگہ رہی ہے لہٰذا انہوں نے ریاستی حکومت ہی کے زیر سایہ باقی ماندہ زندگی سرکاری نوکری میں گذارنے کی سبلیں کر لیں جن میں سب سے زیادہ کاگریہی ثابت ہوئی کہ شیخ عبداللہ پر یہ باور کرایا گیا کہ واقعی ا قبال نے انہیں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ آزاد کا کام ہو گیا اور انہیں جموں یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی سربراہی نصیب ہوئی (47) آزاد کے اس بے بنیاد مفروضہ پر کشمیر میں تنقید و تردید کا جو سلسلہ چل پڑا اس پر وہ کوئی خاطر خواہ رد عمل ظاہر نہیں کر سکے۔ اس سے قبل 25اکتوبر1975ء کو جب سری نگر میں انہوں نے اقبال سیمینار میں اسی تعلق سے ایک مقالہ پڑھا تھا تو علی سردار جعفری نے بھی بعض لوگوں کا حوالہ دیتے ہوئے ان سے کہا تھا کہ 1931ء میں شیخ محمد عبداللہ کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں تھی اس لئے اس مقالہ میں شیخ صاحب کا ذکر بے جوڑ سی بات ہے۔ (48) ہم نے بھی اس وقت اقبال کے تخلیق کردہ کرداروں’’ جوئے کہن‘‘ اور’’ نوجوان‘‘ کو بالترتیب سر زمین کشمیر اور فرزندان کشمیر سے تخیلاتی طور پر مماثلت دینے کے ساتھ ساتھ یہ بات کہی تھی کہ اس قسم کا ایک اور کشمیری کردار اقبال’’ ارمغان حجاز‘‘ میں ملازادہ ضیغم لولابی کی شکل میں بھی پیش کر چکے ہیں لہٰذا یہ ضروری نہیں کہ ان کے ہر کردار کو تاریخی روپ دے کر ان کے خیالات کی ایک انوکھی توضیح کی جائے۔ا ٓزاد کی مجوزہ تصنیف کے بارے میں ہم نے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ ’’ آزاد صاحب نے جب ’’ اقبال اور کشمیر‘‘ عنوان کی کتاب تحریر کرنے کا اعلان کیا تھا تو ہم نے ان کے اس قابل قدر خیال پر اپنی خیال آرائی کرتے ہوئے آج سے ایک دو سال قبل اس خدشہ کا اظہار کیا تھا کہ شاید وہ اس موضوع کے ساتھ انصاف نہ کر سکیں کیونکہ اس پر قلم اٹھانے والا اگر تحریک آزادی کشمیر اور کشمیری زبان سے کماحقہ واقف نہ ہو تو اقبال کو کشمیری کی جدوجہد آزادی کے پس منظر میں ذہن نشین کرنا مشکل ہو گا۔‘‘ (49) بہرحال قارئین کو آزاد کی کتاب کی افادیت پر بھی تبصرہ کرتے وقت خود آزاد کے ا س اعتراف گناہ کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ’’ دراصل یہ موضوع جس تحقیق کا مستحق ہے مجھے اس کے لیے نہ وقت میسر تھا نہ سہولت اور نہ ہی وہ اطمینان حاصل رہا۔‘‘ (50) اقبال خاک کشمیر سے اٹھے تھے اور زندگی کے اس مرحلے پر جب وہ جوانی کے جوبن پر تھے انہیں کشمیر کا دورہ کرنے کی خواہش بار بار ستاتی رہی۔ یہ چاہت اس طرح ان کے دل میں کروٹیں لینے لگی کہ کم و بیش ہر اس خط میں جو وہ کشمیر کے حوالے سے اپنے احباب کو لکھتے،ا سباب کا بار بار ذکر چھیڑتے کہ وہ کشمیر جانا چاہتے ہیں۔ اپنی عمر کے آخری حصہ میں اقبال جیسے عمر بھر کے عاشق محمدی کے دل میں زیارت مکہ و مدینہ کا شوق بھی تازہ دم ہو گیا۔ لیکن علالت نے چونکہ انہیں بستر استراحت کے ساتھ ملحق کر رکھا تھا لہٰذا زیارت خانہ کعبہ اور روضہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمنا کو انہوں نے اپنے تصورات ہی کی دنیا میں پورا کر لیا۔ ’’ ارمغان حجاز‘‘ میں شامل حضور حق اور حضور رسالت کے عنوان سے ان کا وہ کلام اس ذہنی اور فکری حج کا عکاس ہے جس کی ادائیگی میں اقبال نے اپنے دل و دماغ کے سارے دریچے کھول کر ان میں خدا اور رسول کی عظمتوں کی خوشبوؤں کو بسایا ہے: بہ ایں پیری رہ یثرب گرفتم نوا خواں از سرود عاشقانہ چوں آں طائر کہ در صحرا سر شام کشاید پر بہ فکر آشیانہ ٭٭٭ بہ منزل کوش مانند مہہ نو دریں نیلے فضا ہر دم فزوں شو مقام خویش اگر خواہی دریں دیر بحق دل بند و راہ مصطفی رو ٭٭٭ شرم از اظہار می آید مرا شفقت تو جرات افزاید مرا مست شان رحمت گیتی نواز آرزو دارم کہ میرم در حجاز ان آخری دنوں میں پھر کشمیر آنے کا ان کا ارمان بھی پورا نہ ہو سکا نہ ہی زیارت حرمین ان کے مقدر میں لکھی ہوئی تھی۔ اقبال جب اڑتیس سال کے ہوئے تو انہیں کشمیر آنے کی خواہش ہوئی جو ان کا وطن مالوف تھا۔ چنانچہ لاہور سے 5مئی 1915ء کو مہاراجہ کشن پرشاد کے نام ایک خط میں لکھا ’’ یہاں کرہ نار کے اندر بیٹھے ہیں۔ اس موسم میں خدا لاہور کی تپش سے بچائے۔ امسال کشمیر کا قصد ہے۔‘‘ (51) اسی سال 16جولائی کو اسی مہاراجہ کے نام ایک اور مراسلے میں اس خواہش کی تجدید کی ’’گرمی کے موسم میں کشمیر کی ہوا اور آپ کے ہمرکاب ہوں تو اس سے بڑھ کر او رکیا مسرت ہو سکتی ہے۔ خدا نے چاہا تو کبھی یہ موقعہ بھی آئے گا۔‘‘ (52) بالآخر یہ مراد جون1921ء میں بر آئی جب وہ اپنے ایک خاص دوست اور جموں و کشمیر ریذیڈنسی کے میر منشی خاں صاحب منشی سراج الدین کی درخواست پر ایک مقدمہ کی پیروی کے سلسلے میں سری نگر آئے۔ شیخ محمد بخش اور شیخ کریم بخش کشمیر کے نامور رئیس تھے۔ لیکن بعد میں ان کی حالت دگر گوں ہو گئی۔ پنجاب نیشنل بینک سری نگر نے ان کے خلاف عدالت سے فیصلہ صادر کرواتے ہوئے ان کی ہزاروں کی جائیداد کو نیلام کروا دیا۔ منشی سراج الدین شیخ محمد بخش کے داماد تھے اور منشی صاحب ہی کی التجا پر اقبال اس مقدمہ کے سلسلے میں پہلی بار کشمیر آئے۔ جون1921ء کے بعد آپ اگست کے مہینہ میں بھی کشمیر آئے۔ مہاراجہ کشن پرشاد ہی کو11 اکتوبر 1921ء کو لکھتے ہیں’’ امسال اگست میں ایک مقدمہ کے لئے کشمیر جانے کا اتفاق ہوا۔‘‘ (53) اس سے قبل جون میں وارد کشمیر ہونے کی ایک اور مراسلہ میں خود تصدیق کر لی ہے جو 12 جولائی 1921ء کو مولانا غلام قادر گرامی کے نام لکھا ’’ میں کشمیر سے بیمار واپس لوٹا ٹانگ میں درد ہے۔ جس کی وجہ سے چلنے پھرنے میں دقت ہے۔‘‘ (54) اگست1921ء میں اقبال ایک کشمیری باشندہ رحمان راہ کے مقدمہ کی پیروی کی خاطر دوسری بار کشمیر آئے جو قتل کے الزام میں ملوث تھا۔ اقبال کے دونوں موکلوں یعنی شیخ محمد بخش اور رحمان راہ کو سزائیں ہوئیں اس طرح سے اگرچہ ان کا یہ ’’ قانونی‘‘ دورہ ناکام ہی رہا مگر ان کے عقیدت مند چشم براہ ہو کر ان کی میزبانی کا فخر حاصل کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے تگ و دو کرتے رہے۔ اقبال کے اس قیام کشمیر کو مرزا کمال الدین شیدا، خواجہ عبدالصمد ککرو، غلام محی الدین قرہ اور غلام نبی وانی سوگامی کے دولت کدوں سے منسوب کیا گیا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے اپنے دو ہفتوں کے قیام کے دوران ان سبھی حضرات کی مہمان نوازی کا لطف لیا ہو۔ محی الدین قرہ کے بقول اقبال ان کے غم بزرگوار اور غلام محمد صادق کے والد خواجہ عبدالغفار فارغ کے مہمان بن کر ان کے گھر واقع بند مالو سری نگر میں مقیم رہے کیونکہ ان کے فارغ صاحب کے ساتھ جو خود بھی ایک فاضل اور شاعر تھے دوستانہ مراسم تھے۔ (55) لیکن جاوید اقبال کہتے ہیں کہ ’’ آپ تقریباً دو ہفتے تک سری نگر میں ٹھہرے اور ہاؤس بوٹ میں قیام کیا۔‘‘ (56) اس سلسلہ میں محمد عمر نے اقبال کی ڈل جھیل کی سیر کا شاعرانہ حال یوں بیان کیا ہے۔ (57) ’’ اگست 1921ء کا وہ تاریخی مہینہ ہے جب حضرت اقبال آخری بار اپنے وطن مالوف کشمیر میں تشریف لائے اور اس سر زمین کا درد بھرے دل سے مطالعہ کیا۔ جس کے تاثرات ان کے کلام میں پائے جاتے ہیں۔مگر اس کے پہلو میں آپ نے فضائے کشمیر کے متعلق جہانگیر کے زاویہ نگاہ کو نظر انداز نہ کیا۔ ان کے مشاہدہ کا حاصل یہ تھا کہ مناظر فطرت کی فراوانی اور آب و ہوا کی شادابی کی رو سے جس نے کہا خوب کہا کہ زمین پر اگر فردوس ہے تو یہی خطہ کشمیر ہے۔‘‘ ان ناقابل فراموش دنوں میں ایک دن جناب مولوی احمد دین مرحوم وکیل لاہور، منشی نور الٰہی مرحوم (میرے ازلی شریک کار) اور خاکسار نے بڑی جدوجہد کے بعد حضرت والا کو جھیل ڈل کی سیر پر مجبور کیا۔ جنہیں آنحضرت کا شرف قرب حاصل ہے۔ ان پر مخفی نہیں کہ آپ کو کسی جگہ تشریف ارزانی فرمانے پر آمادہ کرنا کس قدر مشکل مہم تھی۔ موٹر کے ذریعہ نشاط باغ جا کر ڈل کی بہار دیکھنا آپ نے مصنوعی (خلاف فطرت) قرار دیا۔ او رہم تینوں آنحضرات کے ساتھ شکارہ میں بیٹھ کر ڈل کی طرف روانہ ہوئے۔ شالیمار۔ نسیم اور نشاط باغ کو پسند کیا اور زہد شکن کا خطاب عطا کیا۔ کیا جامع توصیف ہے۔ واپس ہوئے تو دونوں وقت مل رہے تھے۔ آفتاب آخری منزل پر پہنچ رہا تھا۔ شفق پھول برسا رہی تھی اور یہ منظر سالم کا سالم ڈل کے شفاف پانی میں تیر رہا تھا۔ تھوڑی دیر تک صحیفہ قدرت کے اس سنہری ورق کا خاموشی سے مطالعہ کرے کے بعد خلاق معانی بحر فکر میں غوطہ زن ہوئے اور دو در شہوار نکال لائے۔ جناب کا ارادہ انہیں ایک نظم میں منسلک کرنے کا تھا۔ مگر طبیعت کا رحجان کسی اور طرف ہو گیا اور یہ دو اشعار میرے پاس پڑے رہے: تماشائے ڈل کن کہ ہنگام شام دہد شعلہ را آشیاں زیر آب بشو دید زتن تاغبار سفر زند غوطہ در آب ڈل آفتاب(58) جگن ناتھ آزاد کے بقول اقبال کے دل میں کشمیر آنے کی جو خواہش تھی وہ انہوں نے محمد دین فوق کے نام ایک خط میں8جون 1917ء کو ظاہر کی اور ان کی یہ خواہش چار برس بعد پوری ہوئی۔ (59) یہ غلط ہے دراصل اقبال 1915ء ہی میں اس خواہش کا اظہار کر چکے تھے جس کا ثبوت ان کے مہاراجہ کشن پرشاد کو تحریر کردہ 5مئی اور5جولائی کے مراسلوں سے ملتا ہے۔ اس طرح سے اپنے وطن عزیز کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا ان کا خواب چار برس نہیں بلکہ چھ سال بعد شرمندہ تعبیر ہوا۔ جگن ناتھ آزاد اقبال کے دوبار کشمیر آنے کے بارے میں پوری واقفیت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ انہوں نے صرف یہی کہنے پر اکتفا کیا ہے کہ ’’ قراین و شواہد اور دستیاب شدہ تحریریں اس امر کی تصدیق نہیں کرتیں کہ اقبال جون1921ء سے پہلے یا بعد میں کشمیر تشریف لائے ہوں‘‘ (60) حالانکہ آزاد نے اپنے مضمون’’ اقبال کا سفر کشمیر‘‘ میں کشمیر میں اقبال کے ایک ہم سفر اور مصاحب محمد عمر (نور الٰہی) کے جس چشم دید بیان کا ذکر کی اہے اس میں محمد عمر واضح طور پر کہتے ہیں کہ ’’ جب حضرت اقبال اگست1921ء میں ’’ آخری‘‘ بار اپنے وطن مالوف کشمیر میں تشریف لائے اگر اقبال کا کشمیر کا سفر ایک ہی بار ہوا ہوتا تو محمد عمر’’ آخری‘‘ بار نہیں لکھتے۔‘‘ اقبال کم از کم دوبار کشمیر آئے اس کی تصدیق بجائے خود نہی کے ان دو مراسلوں سے ہوتی ہے جو انہوں نے وادی سے واپسی کے بعد دونوں بار بالترتیب مولانا گرامی اور مہاراجہ کشن پرشاد کو لکھے۔ مولانا کو 12جولائی 1921ء کو لکھتے ہیں’’ میں کشمیر سے بیمار واپس لوٹا‘‘ اور مہاراجہ کو 11اکتوبر کو اسی سال ایک خط میں یہ اطلاع دیتے ہیں کہ ’’ امسال اگست میں ایک مقدمہ کے لئے کشمیر جانے کا اتفاق ہوا‘‘ (61) تحقیقات کی دنیامیں اپنی سطحی کوشش کے نتیجہ میں آزاد یہ بات بھی واضح تاریخوں کی روشنی میں ذہن نشین کرنے میں ناکام ہی رہے۔ 1931ء میں جب انقلاب کشمیر کا نیا باب کشمیریوں کے خون سے رقم ہوا تو اقبال پھر ایک بار کشمیر جانے کے لئے بے چین نظر آنے لگے لیکن کشمیر کمیٹی سے وابستہ تھے اور اہل کشمیر کی صعوبتوں اور غلامی کے خلاف آوز اٹھانے میں انہوں نے ان تھک محنت سے سارے کشمیر کو پنجاب بھر میں ایک قابل توجہ مسئلہ کی صورت میں اجاگر کیا تھا لہٰذا مہاراجہ ہری سنگھ نے ان پر کشمیر میں وارد ہونے پر پابندی عائد کر دی۔ 1932ء کے بعد خاص طور پر کشمیر کے حالات سیاسی سطح پر روز بروز بگڑتے گئے اور عوام الناس ڈوگرہ شاہی کے شخصی راج کی انسان کش پالیسیوں کے خلاف صف بستہ ہونے لگے۔ مسلمانان کشمیر کی غیر سیاسی شکایات کے ازالہ کی خاطر حکومت کشمیر نے گلانسی کمیشن کا تقرر عمل میں لایا تھا مگر خود سرکار نے 1933ء تک اس کی سفارشات پر کوئی عمل نہیں کیا۔ا سی دوران وادی اور وادی سے باہر کئی کشمیری سیاسی رہنماؤں کو گرفتار بھی کیا گیا جس کے رد عمل میں سارے کشمیر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ جون1933ء میں اقبال از سر نو آل انڈیا مسلم کشمیر کمیٹی کے صدر منتخب ہوئے۔ وہ اپنے ایک اور ساتھی ملک برکت علی کے ساتھ ایجی ٹیشن میں ایک نئی روح ڈالنے کی خاطر پھر کشمیر آنا چاہتے تھے لیکن حکومت کشمیر نے حکومت پنجاب سے درخواست کی کہ وہ اقبال یا کشمیر کمیٹی کے دیگر ممبروں کو کشمیر آنے سے باز رکھے۔ اس پر پنجاب سرکار کے ایک افسر سی سی گار بیٹ نے اقبال کی خدمت میں11جولائی کو یہ خط لکھا (62) ’’ مائی ڈیر سر محمد۔ گورنر ان کونسل کو پوری طرح علم نہیں ہے کہ آیا اب آپ آل انڈیا کشمیر کانفرنس کے صدر ہے اور ان کو یہ باور کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ آپ بہر صورت کشمیر جانے کا قصد کر رہے ہیں۔ لیکن انہیں ہزہائی نیس مہاراجہ کشمیر کی حکومت کا مراسلہ موصول ہوا ہے جس میں حکومت پنجاب سے درخواست کی گئی ہے کہ آپ کو بحیثیت صدر کانفرنس مطلع کر دیں کہ حکومت کشمیر کی خواہش ہے کہ اس وقت تک کانفرنس کا کوئی رکن ہزہائی نیس کی حکومت کی اجازت کے بغیر کشمیر نہ جائے نیز یہ کہ اگر کانفرنس یا اس کے ممبران نے مقامی مسلمانوں کی جانب سے معاملات میں دخل اندازی کرنے یا گفت و شنید کرنے کی کوشش کی تو وہاں کے حالات بد سے بدتر ہو جائیں گے۔‘‘ خوش قسمتی سے فی الحال حالات قابو میں ہیں: آپ کا مخلق سی سی گاربیٹ پنجاب سول سیکرٹریٹ، شملہ (63) لاہور میں ان دنوں آل انڈیا کشمیر کمپنی ٹمپل روڈ پر واقع تھی وہاں سے اقبال نے 13 جولائی 1933ء کو جواباً یہ مراسلہ تحریر کیا’’ آپ کے نیم سرکاری خط کا بہت بہت شکریہ جو مجھے کل موصول ہوا۔ ذاتی ذرائع سے حاصل کردہ معلومات نیز پنجاب پریس میں شائع شدہ خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیر میں حالات ہر گز اطمینان بخش نہیں ہیں۔ ہجرت کی تحریک پہلے سے چل رہی ہے اور سول نافرمانی کی مہم شروع کا ارادہ ہے۔ یہ کافی وحشت ناک صورت حال ہے اور عین ممکن ہے کہ یہ بقیہ ہندوستان کے مسلمانوں میں نقص امن کا باعث ہو۔ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ گورنر صاحب کو یہ یقین دہانی کرا دیں کہ کشمیر کمیٹی کو محض یہ تردد ہے کہ کسی طرح کشمیر میں حالات معمول پر رہیں۔ اس وقت نہ میں اور نہ ہی کمیٹی کا کوئی رکن کشمیر جانے کا ارادہ کر رہے ہیں۔ بہرکیف اگر حالات اس حد تک خراب ہوئے جن سے کشمیر کے باہر رہنے والے مسلمانوں میں نقص امن ہو جائے تو میں پیش بینی نہیں کر سکتا کہ کشمیر کمیٹی کیا اقدام کرے گی۔ دریں اثناء کمیٹی امید کرتی ہے کہ مسلمانوں کی جائز شکایتوں کے فوری تدارک کی ضرورت کو گورنمنٹ براہ کرم کشمیر گورنمنٹ کے ذہن نشین کرائے۔‘‘ (64) اس کے بعد کشمیر سرکار نے 1937ء کے اخیر پر اقبال کو کشمیر آنے کی اگرچہ رسمی اجازت دے ہی دی لیکن اس وقت موسم سرما کا درود ہو چکا تھا اور وہ جاڑے میں کشمیر جیسی پہاڑی جگہ پر جا کر اپنی بگڑی ہوئی صحت کو مزید زک پہنچانا نہیں چاہتے تھے۔ لیکن کشمیر کو پھر ایک بار دیکھنے کی تڑپ ان کے دل میں برابر وقت تک موجود رہی جب اپریل 1938ء میں انہوں نے انتقال کیا۔ ٭٭٭ حوالہ جات چوتھا باب: اقبال اور درد وطن 1جاوید نامہ کی اشاعت1932ء میں ہوئی۔ یہ اتفاق زمانہ ہی ہے کہ مسئلہ کشمیر اس کے سولہ سال بعد جنوری 1948ء میں انجمن اقوام متحدہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ 2ایک مشہور بادشاہ جس نے 761ھ سے 780ھ تک کشمیر پر حکومت کی اور جس کے عہد میں اہل کشمیر نے کاشغر، تبت، گلگت اور اسکردو کو بھی فتح کر لیا۔ زین العابدین بڈ شاہ اسی کا پوتا تھا۔ 3تنقید اقبال اور دوسرے مضامین، ڈاکٹر عبدالحق، جمال پریس دہلی 1976ء ص21 4نثر تاثیر، ڈاکٹر محمد دین تاثیر مرتبہ فیض احمد فیض، اردو اکادمی بہاول پور،1963ء ص157 5تحقیقی ذرائع اور تاریخی حوالوں سے اقبال کے دورہ لولاب کی کہیں پر بھی تصدیق نہیں ہوتی ہے۔ 6کشمیر، ادب اور ثقافت، سلیم خان گمی، ادارہ مطبوعات پاکستان کراچی، 1963ئ، ص88-89 7بزم اقبال میں ذکر کشمیر، آئینہ سری نگر، 5اکتوبر1975 8محمد دین فوق کے نام 19دسمبر1922ء کا مراسلہ، کلیات مکاتیب اقبال، اردو اکادمی دہلی، جلد اول 1989ء ص409 9مکہ میں گھاس کی دو قسموں کے نام 10مکہ کے دو پہاڑ 11اقبال کامل، مطبع معارف اعظم گڈھ، 1948ء ، ص84-85 12ایضاً۔ ص85 13فکر اقبال، ص55 14علی سردار جعفری اور جگن ناتھ آزاد کے ساتھ ٹیلی ویژن انٹرویو جو سری نگر سے 13اگست 1976ء کو دس بجے شب پیش کیا گیا۔ 15اقبال کے برادر زادہ شیخ اعجاز احمد۔ 16کلیات مکاتیب اقبال، مرتبہ سید مظفر حسین برنی، اردو اکادمی دہلی، جلد سوم 1993ء ص451-452 17اقبال اور کشمیر، ڈاکٹر صابر آفاقی، اقبال اکادمی پاکستان لاہور، 1977ص76 18یہ شعر محمد شاہ دین ہمایوں کا ہے جو ان کی نظم ’’ شالا مار باغ کشمیر‘‘ کا آخری شعر ہے یہاں شیخ سے مراد سر شیخ عبدالقادر ہے۔ لیکن ناظر کون ہے؟ یہ بھی خیال ہے کہ یہ اشارہ ڈاکٹر محمد دین ناظر کی طرف ہے جو 1909ء میں انجمن کشمیری مسلمانان کے ایک نائب صدر چن لئے گئے تھے۔ 19علامہ اقبال سے چند ملاقاتیں، ماہنامہ تعمیر سری نگر، خالد کشمیر نمبر، جولائی 1961ء ص56-61 20بزم اقبال میں ذکر کشمیر، روزنامہ آئینہ سری نگر، 5اکتوبر1975 21گھنشیام سیٹھی، ماہنامہ تعمیر سری نگر، جولائی1961 22علامہ اقبال دیدہ و شنیدہ، دوار کا داس شعلہ، ماہنامہ آجکل نئی دہلی، دسمبر1976ء ص28 23بزم اقبال میں ذکر کشمیر، آئینہ سری نگر، 5اکتوبر1975 24جریدہ اکادمی، کلچرل اکادمی سری نگر، ستمبر1976 25ریڈیو کشمیر سری نگر سے کمال احمد صدیقی کے ساتھ انٹرویو۔ 21اپریل1976 26آتش چنار، علی محمد اینڈ سنز سری نگر۔ 1986ء ص191-192 27یاد رفتگان، میر واعظ احمد اللہ ہمدانی، ہفت روزہ محاذ، سری نگر، 24اکتوبر1964 28خطبہ صدارت، اقبال سیمینار، حیدر آباد، 14دسمبر1974 29ہما دہلی، اقبال نمبر، اکتوبر1976ء ص354 30ایضاً، ص24-26 31آتش چنار، شیخ محمد عبداللہ، ص228-229 32ریڈیو کشمیر سے انٹرویو، 21اپریل1976 33سڑگل فار فریڈم ان کشمیر، بزاز، ص718 34خطبہ صدارت، اقبال سیمینار، حیدر آباد، 14دسمبر1974 35ہما ڈائجسٹ اقبال نمبر، اکتوبر1976 36آتش چنار، ص228 37سڑ گل فار فریڈم ان کشمیر، ص718 38کلیات مکاتیب اقبال، جلد سوم، ص402 39علامہ اقبال اور ڈاکٹر کچلو، کلیم اختر، نوائے وقت لاہور، 26اگست1994 40کچھ عرصہ بعد آزاد نے سرکاری طور پر جو ’’ اقبال نمائش‘‘ سری نگر میں منعقد کرائی اسے بھی ڈاکٹر اکبر حیدری نے ایک ’’ ادبی فراڈ‘‘ قرار دے کر یہ الزام عائد کیا کہ اس میں بیشتر تصاویر ’’روزگار فقیر‘‘ سے بغیر اجازت کے سرقہ کی شکل میں نقل کر کے دکھائی گئیں۔ آئینہ سری نگر، 17مئی 1981 41اقبال اور کشمیر، صابر آفاق، ص112 42اقبال اور کشمیر، جگن ناتھ آزاد، علی محمد اینڈ سنز سری نگر، 1977ص186 43اقبال اور کشمیر، آزاد، ص187 44آزاد کی طرف سے علامہ اقبال کے اشعار کی وضع کردہ تشریح کے سلسلے میں تفصیلاً رائے زنی کرنا اس لئے بھی مناسب اور برمحل تصور کیا گیا کہ آزاد کے اس مفروضہ کو محققین کی طرف سے نادانستہ طور پر تاریخی لحاظ سے قبول کرنے کا خطرہ لاحق ہو سکتا تھا جس کے نتیجہ کے طور پر کشمیر کے بارے میں اقبال کے سیاسی موقف اور امت مسلمہ کے اتحاد و یک جہتی کے لیے ان کے نظریہ کی تردید ہونے کا احتمال تھا۔ 45کلیات مکاتیب اقبال، جلد سوم، ص402 46ایضاً، ص453 47کشمیر یونیورسٹی کے ایک سرکردہ مدراس نے اس وقت آزاد کے اس دانش گاہ میں داخلے پر یہ فقرہ کسا تھا۔ ’’ اس طرح سے کشمیر کی تدریسی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ قائم کیا گیا کہ لالہ جگن ناتھ بی اے کو ایک یونیورسٹی میں سربراہ شعبہ بنایا گیا۔‘‘ 48اقبال اور کشمیر، آزاد، ص193 49کشمیر، اقبال اور جگن ناتھ آزاد، غلام نبی خیال، روزنامہ اقبال سری نگر، 22 اکتوبر 1977 50اقبال اور کشمیر، آزاد،ص11 51کلیات مکاتیب اقبال، جلد اول، ص372 52ایضاً، جلد اول، ص389 53ایضاً، جلد دوم، ص281 54ایضاً، جلد دوم، ص261 55اکادمی، کلچرل اکادمی سری نگر، 5ستمبر1976 56زندہ رود، جاوید اقبال، ص424 57محمد عمر جموں و کشمیر کے ایک ڈراما نویس تھے۔ وہ اپنے نام کے ساتھ ہمیشہ نور الٰہی کا اضافہ کرتے تھے۔ جو ان کے ایک جگری دوست کا نام تھا محمد عمر جموں میں اسسٹنٹ کمشنر تھے اور نور الٰہی ڈپٹی کمشنر کے عہدہ پر فائز تھے۔ یک جان و دو قالب کی مثال تھے اور اسی لئے ہمیشہ محمد عمر نور الٰہی کے مقبول نام سے جانے جاتے تھے۔ 58رسالہ ہزار داستان لاہور، اکتوبر1922 59اقبال کا سفر کشمیر، ماہنامہ آجکل نئی دہلی، اگست1976 60ایضاً 61کلیات مکاتیب اقبال، جلد دوم، ص261-281 62گاربیٹ (1881-1972)1929میں پنجاب سرکار کا چیف سیکرٹری مقرر ہوا۔ 63کلیات مکاتیب اقبال، جلد سوم، ص1048 64ایضاً، ص364 ٭٭٭ پانچواں باب اقبال اور یاران وطن اصل شاں از خاک دامن گیر ماست مطلع این اختراں کشمیر ماست مولانا انور شاہ کشمیری امام العصر شیخ الحدیث مولانا سید انور شاہ کشمیری (1875-1933) سر زمین کشمیر کے ان مایہ ناز فرزندوں میں سے تھے جنہوں نے ہندوستان کے ساتھ ساتھ ساری دنیائے اسلام میں اپنی فکری بلندی اور ذہنی صلاحیت کے بل بوتے پر وہ نام کمایا کہ اقبال کو ان کے ساتھ جب بھی ہم کلام ہونے کا موقعہ نصیب ہوا تو وہ بار بار اپنی قسمت پر رشک کرتے نظر آئے۔ اقبال کے جو خطوط مولانا انور شاہ کے نام دستیاب ہیں ان میں اقبال ہمیشہ ان سے ’’ محذوم و مکرم حضرت قبلہ مولانا‘‘ کہہ کر ہی مخاطب ہوتے تھے۔ مولانا انور شاہ وادی کشمیر کے پر فضا شمالی علاقے لولاب میں پیدا ہوئے۔ یہ وادی اپنی بے مثال خوبصورتی اور فطرت کی بھرپور رعنائیوں کی وجہ سے ہر سو مشہور ہے۔ اقبال نے اپنی ایک نظم میں اسی وادی گل پوش سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے: پانی تیرے چشموں کا تڑپتا ہوا سیماب مرغان سحر تیری فضاؤں میں ہیں بیتاب اے وادی لولاب! مولانا نے ساڑھے چار سال کی عمر میں ہی اپنے والد مولانا سید محمد معظم شاہ سے قرآن پاک شروع کیا اور چھ برس کی عمر تک قرآن کے علاوہ فارسی کے متعدد رسائل بھی پڑھ ڈالے۔ پھر ایک اور مقامی مدرس مولانا غلام محمد صوفی پورہ سے فارسی اور عربی میں تعلیم حاصل کر لی۔ چودہ سال کی عمر میں مولانا انور شاہ مزید تعلیم اور تحقیق علم کی خاطر کشمیر سے ہجرت کر کے چلے گئے۔ دو چار سال تک کئی مقامات کا دورہ کرنے کے بعد آپ بعد میں کسب کمال کی غرض سے شمالی ہندوستان کے مشہور علمی اور دینی مرکز دار العلوم دیوبند میں چلے گئے اور ندو العلماء میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن سہارنپوری۔ مولانا محمد اسحاق امرتسری اور مولانا غلام رسول ہزاروی جیسے اکابرین کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر کے نمایاں شہرت اور اعزاز کے ساتھ سند فراغت حاصل کر لی۔ بعد میں آپ پھر کشمیر آئے اور وہاں سے حرمین کی زیارت کو گئے جہاں مصر، شام، عراق اور طرابلس کے جلیل القدر علماء نے آپ کی بے حد عزت کی۔ ان میں سے چند عالموں نے مولانا کو اپنی طرف سے سندیں بھی عطا کیں جن میں انہیں’’ الفاضل الشیخ محمد انور بن مولانا محمد معظم شاہ الکشمیری‘‘ لکھا گیا۔ واپسی کے بعد مولانا نے کشمیر ہی کے شمال مغربی ضلع بارہ مولہ میں مدرسہ فیض عام کی بنیاد ڈالی۔ اپنی علمی جستجو میں نئی نئی منزلوں سے ہم کنار ہونے کی چاہت میں مولانا نے ہندوستان کے کئی شہروں کا دورہ کیا اور بعد میں29مئی 1933ء کو دیوبند ہی میں رحلت فرمائی۔ اقبال نے اس موقعہ پر کہا’’ اسلام کی ادھر کی پانچ سو سالہ تاریخ شاہ صاحب کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے۔‘‘ (1) اقبال کو مولانا انور شاہ کے ساتھ جو عقیدت تھی وہ بیان سے باہر ہے۔ مولانا نے بھی ایک بار نہایت فخر سے اپنے ایک شاگرد مولانا محمد انوری لائل پوری سے کہا تھا کہ ’’ جتنا استفادہ مجھ سے ڈاکٹر اقبال نے کیا ہے شاید ہی کسی مولوی نے کیا ہو۔‘‘ (2) مارچ1925ء میں جب مولانا انور شاہ انجمن خدا الدین کے اجلاس میں شرکت کی غرض سے لاہور چلے گئے تو اقبال نے نہایت عجز و انکسار کے ساتھ انہیں یہ دعو ت نامہ ارسال کیا۔ ’’ میں اسے اپنی بڑی سعادت تصور کروں گا اگر آپ کل شام اپنے دیرینہ مخلص کے ہاں کھانا کھائیں۔ جناب کی وساطت سے حضرت مولوی حبیب الرحمان صاحب، قبلہ عثمانی حضرت مولوی شبیر احمدصاحب اور جناب مفتی عزیز الرحمان صاحب کی خدمت میں بھی یہی التماس ہے، مجھے امید ہے کہ جناب اس عریضہ کو شرف قبولیت بخشیں گے۔ آپ کو قیام گاہ سے لانے کے لئے سواری یہاں سے بھیج دی جائے گی۔‘‘ (3) ’’ ارمغان حجاز8؎ کے اخیر پر‘‘ ملازادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض کے عنوان سے کشمیر پر اقبال کی جو نظمیں درج ہیں، ان کے بارے میں چند احباب کی یہ رائے ہے کہ ضیغم لولابی سے مراد دراصل مولانا انور شاہ ہی ہیں، لیکن تحقیقی طور پر اسبات کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ ضیغم لولابی ایک تخیلات کردار ہے۔ جس کی زبان میں شاعر نے اہل کشمیر جیسی ’’ نجیب اور چرب دست اور تر دماغ‘‘ قوم کی محکومی اور مجبوریوں کو اپنے شاعرانہ پیکر میں ڈھالا ہے۔ خلیفہ عبدالحکیم کا بھی یہی خیال ہے کہ ’’ ارمغان حجاز میں ملا زادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض اقبال کا اپنا بیاض قلب ہے۔ اس میں کشمیر کے متعلق اقبال کا جذبہ اور اضطراب اس کے فلسفہ حیات کی آمیزش سے نہایت در دو گداز کے ساتھ ظاہر ہوا ہے۔‘‘ (4) محمد دین فوق منشی محمد دین فوق اقبال کے ہم وطن ہم عمر اور ہم راز تھے۔ فوق1877ء میں شہر اقبال سیالکوٹ کے ایک دیہات میں پیدا ہوئے۔ ان کا بھی آبائی وطن کشمیر ہے۔ جہاں اب بھی موضع ہر دو شیوہ زینہ گیر تحصیل سوپور میں کچھ اراضی آپ کی ملکیت بتائی جاتی ہیں جہاں ان کے جد امجد میاں حسن ڈار مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد حکومت میں کشمیر سے ہجرت کر کے پنجاب چلے گئے تھے۔ اقبال کی طرح فوق بھی داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔ 1901ء میں جب انہوں نے اپنا ہفت روزہ اخبار’’ پنجہ فولاد‘‘ جاری کیا تو اس کے اجراء پر داغ نے یہ مختصر سی نظم انہیں لکھ کر بھیج دی: ہوا ہے پنجہ فولاد جاری خریدارو نیا اخبار دیکھو جناب فوق کی گلکاریوں سے نیا اخبار یہ گلزار دیکھو سنا دو مصرعہ تاریخ اے داغ یہ لو اخبار جوہر دار دیکھو اقبال نے بھی اپنے اس دوست کی طرف سے اس ہفت روزہ کے جاری ہو جانے پر ایک نظم موزون کی جس میں شاعرانہ نزاکتوں سے زیادہ شاعر کے خلوص و رفاقت کا جذبہ کار فرما ہے۔ اس نظم کے چند اشعار یوں ہیں: پنجہ فولاد اک اخبار ہے جس سے سارا ہند واقف کار ہے غیر سے نفرت نہ اپنوں سے بگاڑ اپنے بیگانے کا ہر دم یار ہے وہ لطائف ہیں کہ پڑھتے ہیں جنہیں لوٹنے میں دل کبوتر وار ہے کیوں نہ نظم و نثر کا چرچا رہے جب ایڈیٹر ناظم و سرشار ہے ہے مدلل رائے اس اخبار کی ہے وہ کافر جس کو کچھ انکار ہے رائے زن اس سے نہیں بڑھ کر کوئی منصفوں کو اس کا آپ اقرار ہے جتنے بھی ہم عصر دیکھیں غور سے فقرے فقرے سے ٹپکتا پیار ہے کون ہے اس بانکے پرچے کا مدیر بات یہ بھی قابل اظہار ہے لیجئے مجھ سے جواب مختصر یہ معما کچھ نہیں دشوار ہے نام ہے اس کا محمد دین فوق عمر چھوٹی ہے مگر ہشیار ہے شوق ہے مضمون نویسی کا اسے طبع گویا ابر گوہر بار ہے ’’ پنجہ فولاد‘‘ کی اشاعت سے پہلے فوق’’ پیسہ اخبار‘‘ میں ملازم تھے۔ اس کے بعد وہ’’ کشمیری گزٹ‘‘ سے وابستہ ہو گئے اور پھر1906ء میں’’ کشمیری میگزین‘‘ کے نام سے ایک ماہنامہ نکالا۔ کشمیری میگزین میں مختلف موضوعات پر تبصروں اور شذروں کے علاوہ خاص طور پر کشمیر سے متعلق مقالات اور مضامین حتیٰ کہ خبریں بھی شائع ہوا کرتی تھیں۔ فوق کی ان تھک کوششوںکا یہ نتیجہ نکلا کہ ہندوستان کے عوام کشمیر اور یہاں کے حالات سے واقفیت حاصل کر کے اپنے آپ کو جذباتی طور پر کشمیر سے وابستہ اور قریب محسوس کرنے لگے اور کشمیریوں کے مسائل پر ہمدردانہ غور بھی کرنے لگے۔ (5) کشمیری میگزین کے اولین شمارے ہی میں اقبال کا ایک مضمون ’’ ولایتی چھٹی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا اور اس طرح یہ رسالہ اقبال کے فکر و تخلیق کا ایک سہارا بن گیا۔ اقبال نے انہی اخبارات و جرائد میں محمد دین فوق کو پہلے فخر قوم و ملت اور بعد میں مجدد الکشا مرہ کے خطابات سے نوازا۔ اس زمانہ میں اہل کشمیر اپنی جہالت اور افلاس کی تاریک دنیا میں گھرے ہوئے اپنے مقدر پر قانع تھے جس میں ان کے لئے محکومی، مظلومیت اور غلامی کی ابتری مخصوص ہوئی تھی۔ لیکن اقبال نے فوق کی قلمی اور فکری بصیرت کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے اپنے اس ہم وطن ساتھی کے ساتھ شانہ بہ شانہ کشمیریوں کے حال زاد کو بدلنے اور نوجوانان کشمیر کو تعلیم کی ترغیب دینے کی غرض سے حتی المقدور کوششیں کیں۔ اقبال نے اس سلسلے میں میگزین میں’’ کشمیر کے طالب علموں کو وظائف‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون بھی چھاپا جس میں اس بات پر افسوس ظاہر کیا گیا کہ کشمیر کے نوجوان تعلیم و تربیت میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے۔ مضمون میں کہا گیا تھا کہ ’’ انجمن کشمیری مسلمانان نے وادی کشمیر کے طلباء کو علی گڑھ کالج اور اسلامیہ کالج لاہور میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے دس روپیہ ماہوار کے آٹھ وظیفے اور بیس روپیہ ماہوار کا ایک وظیفہ دینے کا اہتمام کیا ہوا ہے لیکن کشمیر کے کسی طالب علم نے ان وظیفوں میں سے کوئی وظیفہ لینے کی درخواست نہیں دی۔ مسلمانان کشمیر کی تعلیمی اور اخلاقی حالت پر برسوں سے رونا رویا جا رہا ہے۔ لیکن مصیبت و بے کسی کی داستان وہ اثر رکھتی ہے کہ جب کہو اور جب سنو۔ اس قصہ کہن میں وہی تازگی نظر آتی ہے باشندگان کشمیر کا سب سے بڑا عیب ان میں تعلیم کا نہ ہونا ہے اور اسی عیب نے ان کی تمام خوبیوں کو چھپا لیا ہے:‘‘ تعلیم نہ ہونے سے ہدف سب کا ہے کشمیر جو چاہے وہ اب تیر ملامت کے چلائے اقبال کے علاوہ پنجاب میں کئی ایسے کشمیری آباد تھے جو وہاں آسودہ حالی اور فارغ البالی کی زندگی بسر کرتے تھے لیکن انہوں نے انجمن کو کھوٹی کوڑی بھی چندہ یا عطیہ کے طور پر نہیں دی بلکہ ان میں سے ایک بدبخت نے اقبال کی کشمیر نوازی پر طنز کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ وہ ’’ غلیظ، گندے اور سہل انگار کشمیریوں کو نواہائے جگر سوز سے جھنجھوڑ رہے ہیں۔‘‘ اس سرد مہری اور عدم تعاون کے باوجود اقبال اپنے رفیقوں خاص کر فوق کو لے کر پس ماندہ۔ دور افتادہ اور مجبور و مقہور کشمیری قوم کے لئے درمے قلمے سخنے مصروف جہاد رہے۔ 1904ء میں اقبال ہی کے کہنے پر مہاراجہ پرتاپ سنگھ کے نام فوق نے اس غرض کے لئے ایک درخواست پیش کی کہ انہیں سری نگر سے کشمیر نام کاایک رسالہ جاری کرنے کی اجازت دی جائے۔ اس درخواست پر اپنی رائے درج کرتے ہوئے مہاراجہ نے متعلقہ وزیر کو ہدایت کی کہ وہ ایک ایسا قانون بنانے پر سوچ بچار کرے جس کی رو سے آئندہ اس قسم کی درخواستوں پر کسی قسم کا غور ہی نہ کیا جا سکے۔ فوق نہ صرف ایک شاعر اور صحافی تھے بلکہ وہ ایک اعلیٰ پایہ کے مورخ او روقائع نگار بھی تھے۔ انہوں نے کشمیر اور اہل کشمیر کے بارے میں کئی تواریخی کتابیں تصنیف کی ہیں۔ جن میں مشاہیر کشمیر، تاریخ اقوام کشمیر، شباب کشمیر، مکمل تاریخ کشمیر، خواتین کشمیر، تاریخ اقوام پونچھ وغیرہ شامل ہیں۔ 1911ء میں انہوں نے کشمیر پر ایک نظم لکھی جس میں اس محکوم ملک میں انقلاب کی بشارت دی گئی۔ وہ لکھتے ہیں’’ 13دسمبر1911ء کو دو دن کے لئے گھڑتل (سیالکوٹ) گیا تھا اس تاریخ کو وہاں پانچ بجے شام کے ذہن کشمیر کی طرف منتقل ہو گیا اور ذیل کے اشعار لکھے گئے:‘‘ خطہ کشمیر میں ہر کوئی بے توقیر ہے علم کے دشمن جو ہیں ان کی یہی تعزیر ہے حسن بھی میوے بھی چشمے بھی ہوا بھی پر فضا پھر یہ کیا جو کوئی دل والا ہے وہ دل گیر ہے تو نے تو گرتی ہوئی قومیں اٹھائی ہیں بہت اے فلک اس کے سنبھلنے کی بھی کچھ تدبیر ہے عن قریب آنے کو ہے کشمیر میں بھی انقلاب وقت استاد زماں ہے اور زمانہ پیر ہے 1926ء میں محمد دین فوق ریاست جموں و کشمیر کے ضلع اودھم پور کے پہاڑی مقامات کد اور بٹوت پر گئے تو وہاں بھی کشمیر کی غلامی اور کشمیریوں کی زبوں حالی کا یہ رونا رویا: دامن قرار دل کے سب تار تار دیکھے جب تیری وادیوں کے کچھ آبشار دیکھے جس نے تیری خزاں کے ایسے نکھار دیکھے گلزار خلد کی پھر وہ کیا بہار دیکھے بادل کا گھر کے آنا کد کی پہاڑیوں پر اے کاش وہ نظار پھر چشم زار دیکھے کچھ زرد زرد چہرے کچھ سرد سرد آہیں غم آفریں مناظر یہ بے شمار دیکھے فوق اپنی صحافتی زندگی کو مزید فعال بنانے کی غرض سے اور اپنے وطن مالوف کشمیر کے حالات سے دنیا کو زیادہ سے زیادہ واقف رکھنے کی خاطر سال میں چھ مہینے لاہور اور چھ ماہ کشمیر میں قیام کرتے تھے۔ جب بھی کشمیر سے دوری کے وقفہ میں طوالت آ جاتی تو بے اختیار کہہ اٹھتے: والہانہ عشق ہے کشمیر سے روح زخمی ہے وطن کے تیر سے محمد عبداللہ قریشی نے فوق اور کشمیر کے درمیان ایک ابدی رشتہ کی باریکیوں اور لطافتوں کا خاکہ یوں کھینچا ہے۔ ’’ کشمیر کی فضا یکسر معمور حسن اور تمام تر لبریز محبت ہے۔ اور جس میں سانس لینا گویا شعر کی دنیا میں رہنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وادی شعر ستان کے حسین و جمیل مناظر، موسموں کے تغیر و تبدل، سورج چاند کی گردشیں، صبح و شام کے رنگ برنگے قوس قزحی نظارے، برف سے لدے ہوئے سبز پوش اونچے اور نیچے پہاڑ، اناج کے سر سبز شاداب کھیت، رنگین اور لذیذ پھلوں کے بوجھ سے جھکے ہوئے درخت، چاول کی خوشبودار فصلیں، مختلف قسم کے خوش رنگ و خوش آواز پرندے، گھنے جنگل، صاف و شفاف جھیلیں، ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے قدرتی چشمے۔ پہاڑی ندی نالے، پھولوں کی آباد بستیاں، شگوفوں کی نکہت بینریاں، آبشاروں کی ترنم ریزیاں، بادو باراں کی حشر خیزیاں، انسانی تعلقات کی پیچیدگیاں، حکام کی چیرہ دستیاں، صداقت کے لئے قربانیاں، اقتصادی بلندی اور پستیاں، سماجی خوبیاں اور برائیاں اور سیاسی مد و جذر آپ کی شاعری کے خاص جذبات و تاثرات کے عکس دوسروں کے دلوں پر نقش کرتے ہیں۔‘‘ (6) اہل کشمیر کی وقتی بے حسی اور خفتگی کے عالم سے فوق بیزار رہتے ہوئے بھی اس ملک کے مستقبل سے ہمیشہ مطمئن نظر آئے۔ اپنے ان اشعار میں فوق نے اسی تابناک مستقبل کی پیش گوئی کی ہے: ہاں مگر اک وقت آنے کو ہے بعد انقلاب فطرت باری کا ہو گا پھر ارادہ کامیاب ذرہ ہائے خاک سے چمکیں گے پھر سورج نئے ہوں گے پھر انوار کے معدن نئے مخرج نئے ان خرابوں سے کھنچے گی پھر یہاں تازہ شراب آئے گا پھر اس خزاں آلودہ گلشن پر شباب مجھ میں غیرت ہو تو غالب تجھ پہ آ سکتا ہے کون تجھ میں جرات ہو تو پھر آنکھیں دکھا سکتا ہے کون ہاں نہ گھبرا رحمت حق مہرباں ہو جائے گی جنت کشمیر اک دن پھر جواں ہو جائے گی اور یہ اشعار: سبب شورش کشمیر تو جو کچھ ہو مگر آج کشمیر یہ کہتا ہے کہ بیدار ہوں میں خاک پاک خطہ کشمیر ہے جنت مگر قہر دوزخ کا نمونہ ہے وہاں بیگار بھی ٭٭٭ کشمیر ہے اک شیر مگر سویا ہوا ہے جاگے گا تو مشکل سے وہ جائے گا سنبھالا جس دن وہ دہاڑے گا تو گونج اٹھے گی دنیا لرزے گی زمیں ہوں گے سمندر تہہ و بالا محمد دین فوق 30دسمبر1939ء کو شب اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ابو الاثر حفیظ جالندھری حفیظ جالندھری (1900-1982) کا وطن مالوف تو جالندھر تھا لیکن انہوں نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ جموں و کشمیر میں گذرا۔ ان دنوں کشمیر میں تحریک آزادی کا نعرۂ وادی کشمیر میں گونج رہا تھا اور حفیظ نے بھی اس عوامی جدوجہد کی حمایت میں کم و بیش ایک کشمیری شاعر کا سا درجہ حاصل کر لیا۔ حفیظ بار بار کشمیر آتے رہے اور انہوں نے جموں اور سری نگر کے شہروں میں ادبی اور ثقافتی اجتماعات اور مشاعروں میں اپنی ولولہ خیز نظموں اور پر جوش کلام سے اہل کشمیر کے دل گرما دئیے۔ چنانچہ 1946ء میں جب کشمیر چھوڑ دو کی تحریک شروع ہوئی تو وہ سری نگر ہی میں تھے۔ حکومت کشمیر نے انہیں گرفتار کر کے ریاست بدر کر دیا۔ اس موقعہ پر انہوں نے یہ بیان جاری کیا۔ ’’ شیخ محمد عبداللہ نے کشمیر چھوڑ دو کا نعرہ کانگریس یا پنڈت جواہر لال نہرو کے کہنے پر نہیں لگایا بلکہ اس نعرے کا سبب وزارتی مشن کی باشندگان ریاست ہائے ہندوستان سے چشم پوشی اور کانگریسی کی اس سلسلے میں مصلحت آمیز اور خود غرضانہ خاموشی تھی۔ شیخ عبداللہ کے خیال میں اس وقت چپ رہنا باشندگان کشمیر کے لئے دائمی غلامی کو قبول کرنے کے مترادف تھا۔‘‘ (7) پاکستان کے ایک معتبر اخبار’’ نوائے وقت‘‘ نے اس تحریک کے بارے میں اپنے اداریہ میں لکھا۔’’ کشمیر میں سچ مچ قیامت صغریٰ برپا ہے۔ اخبارات میں جو اطلاعات شائع ہو رہی ہیں وہ بالکل یک طرفہ ہیں۔ خبر رسانی کے سارے ذرائع حکومت کے کنٹرول میں ہیں اور حکومت صرف تصویر کا ایک رخ پیش کر رہی ہے۔ پنجاب کے مسلمانوں نے کشمیری مسلمانوں کے دکھ کر ہمیشہ اپنا دکھ سمجھا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ کشمیر پر ابتلا کے اس دور میں بھی پنجابی مسلمان ان کی ہر ممکن امداد میں بخل سے کام نہیں لیں گے۔ شیخ عبداللہ کی سیاست سے اختلاف کا اب کوئی سوال نہیں کشمیر میں تشدد کی چکی میں سب مسلمان پس رہے ہیں۔ مسلم کانفرنس اور نیشنل کانفرنس کا کوئی امتیاز نہیں رہا۔‘‘ (8) حفیظ جالندھری نے 1931ء کے شہدائے کشمیر پر طویل مرثیہ ’’ خون کے چراغ‘‘ کے عنوان سے تحریر کر لیا۔ اسی طرح ان کی لکھی ہوئی تاریخ ساز نظم ’’ تصویر کشمیر‘‘ سارے برصغیر ہندو پاک میں زبان زد خاص و عام ہوئی۔ ان منظومات نے ان دنوں بالخصوص کشمیر کے ہر گھر میں مقبول ترین کلام کا درجہ حاصل کر لیا۔ حفیظ جالندھری اقبال کے شیدائی تھے۔ اور بقول کلیم اختر’’ اقبال اور مولانا ظفر علی خان کے بعد یہ حفیظ جالندھری ہی تھے جنہوں نے ڈوگرہ حکومت کو للکارا اور کشمیریوں کے درد و غم کی داستان کو برصغیر ہندو پاک کے گوشہ گوشہ میں پہنچایا۔‘‘ (9) حفیظ کو عمر بھر کشمیر اور اہل کشمیر سے جو ذاتی محبت رہی اس کا تجزیہ کرتے ہوئے سید ضمیر جعفری کہتے ہیں ’’ ان کی شاعری میں کشمیر حسن بیان کا کوئی سہارا یا استعارہ نہیں ہے بلکہ ایک مستقل موضوع ہے۔ فکر و خیال کا ایک مسلسل دھارا ہے۔ جس میں حقیقت اور کشمیر سے ذاتی محبت خاص طور پر جھلکتی ہے جو نغمہ اور آنسو بن کر شعر کے پیکر میں ڈھل گئی ہے۔‘‘ میں سمجھتا ہوں کہ حفیظ کو اپنے فن میں نفاست زیبا اور فکر کی مخصوص چھاپ کشمیر ہی نے بخشی ہے۔ شاعر کے ذاتی پس منظر کے طور پر یہاں یہ بیان کر دینا ضروری ہے کہ حفیظ بائیس برس کے تھے کہ پہلی بار بانہال کے راستے سے پا پیادہ ہی وادی کشمیر کی سیاحت کو گئے۔ پھر اس کے بعد1946ء تک وہ تقریباً ہر سال باقاعدگی کے ساتھ وہاں جاتے رہے اور اس طویل مدت میں اس کے دور دراز گوشوں تک گھوم آئے۔ اس زمانہ میں کشمیری مسلمانوں نے ڈوگرہ راج کے خلاف تحریک حریت کا علم بلند کیا تھا۔ اس تحریک کے قائدین سے حفیظ کے ذاتی دوستانہ مراسم تھے۔ چنانچہ حفیظ جب بھی کشمیر پہنچے تو شاعروں اور ملی جلسوں میں اپنی شعلہ نوائی کے ذریعہ گویا عملاً تحریک حریت کشمیر میں شامل ہوتے رہے۔ حفیظ جب تک کشمیر نہیں آئے تھے محض غزل کے شاعر تھے۔ کشمیر کو دیکھا تو انہوں نے 1932ء میں اپنی زندگی کی پہلی نظم لکھی جس کا عنوان تھا’’ چشمہ ویری ناگ پر ایک آنسو‘‘ جو اس وقت کے مقبول رسالہ ’’ شباب اردو‘‘ (لاہور) میں شائع ہو کر زبان زد خاص و عام ہو گئی۔ افسوس کہ یہ نظم جو مسلمانان کشمیر کی ناداری و محکومی کی منہ بولتی تصویر ہے ’’ شباب اردو‘‘ کے اوراق کے ساتھ اب نایاب ہو چکی ہے۔ چنانچہ حفیظ غزل کے ساتھ ساتھ نظم نگاری کی طرف بھی مائل ہو کر دل سوز گیتوں، رنگین نغموں اور حسین ترانوں کی اس طرز خاص کے موجد و موسس بن گئے جس کی سادگی اور پرکاری، نغمگی اور شیرینی اردو شاعری کا ایک عہد آفرین باب ہے۔ میں تو ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ حفیظ اگر کشمیر نہ گئے ہوتے تو تعجب نہیں کہ اردو شاعری میں حسن و نغمگی کے ان موتیوں سے کس حد تک اور کب تک محروم رہتی جو آج حفیظ کی تخلیقات میں جا بجا جھلملاتے دکھائی دیتے ہیں۔ کشمیر سے حفیظ کی محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ غزل میں بھی کشمیر کو نہیں بھولتے: کشمیر ہے وہ جلوہ گر اس کی راہ میں فرقت کی وادیاں ہیں پہاڑ انتظار کے کشمیر میں حفیظ جلے دل کی یادگار ڈھیری ہے ایک راکھ کی نیچے چنار کے اس موقعہ پر ان کی مستقل تخلیقات میں ان کی معرکہ آرا نظم ’’ تصویر کشمیر‘‘ کو بڑی شہرت و قبولیت حاصل ہوئی اور اس نظم نے جو1934ء میں کہی گئی تھی تحریک حریت کو بڑی مدد دی۔ جس طرح حفیظ نے کشمیر کو دیکھا اور محسوس کیا ہے۔ ذاتی سیاحت کے دوران خود میں نے بھی اسی نظر سے دیکھا اور اسی دل سے محسوس کیا تھا مگر میرے دل میں جو خیال آیا وہ حفیظ کی کھینچی ہوئی اس تصویر کشمیر کو دیکھنے سے ہی پیدا ہوا تھا۔ (10) ’’ تصویر کشمیر‘‘ بلا شک تحریک آزادی کشمیر سے متعلق شعری ادب میں ایک عہد نامہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ تخلیق اب طبع شدہ صورت میں بھی نایاب ہی ہے۔ لہٰذا اس طویل نظم میں سے منتخبہ اشعار کو یہاں پر نقل کرنا بہرحال مفید ثابت ہو گا: معرکہ در پیش ہے جذبات کی تصویر کا ہو رہا ہے تذکرہ کشمیر میں کشمیر کا کھینچنا تصویر کا لانا ہے جوے شیر کا رنگ بھر دے اے قلم الفاظ میں تاثیر کا لطف جب ہے کہہ اٹھے ہر نقش اس تحریر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کشمیر کی تصویر کا چار سو پہرے کھڑے ہیں ساکت و صامت خموش تاج نوران کے سروں پر جسم ان کے سبز پوش ایک ہی قانون قدرت کے ہیں یہ حلقہ بگوش کچھ نہیں جز خدمت کشمیر کوہساروں کو ہوش روکتے ہیں راستہ ہر دشمن بے پیر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کشمیر کی تصویر کا تابہ دامان نظر چیلوں کے دیوداروں کے بن سینہ ہر سنگ خارا سے رواں نہر لبن بو الہوس کے واسطے لیکن یہ رستے ہیں کٹھن مر گیا سر پھوڑ کر ان پتھروں سے کوہکن سن لیا تھا نام بے چارے نے جوئے شیر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کشمیر کی تصویر کا دامن سونہ مرگ سے قایم ہے فطرت کا سہاگ حسن کی مورت امرناتھ آئینہ ہے شیش ناگ ہاے چشموں کی روانی ہاے چرواہوں کے راگ اک مری آنکھوں کی ٹھنڈک اک میرے سینے کی آگ نقش حیرت ہوں مجھے یارا نہیں تقریر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کشمیر کی تصویر کا خوبصورت کھیت بھی گلزار بھی کہسار بھی خوبصورت پھول بھی اشجار بھی اثمار بھی خوبصورت ہر بشر مفلس بھی اور زردار بھی ظاہر کشمیر رنگیں بھی ہے اور پرکار بھی باطن کشمیر لیکن پیٹ ہے انجیر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کشمیر کی تصویر کا حسن کی افراط خوبی کی فراوانی یہاں ہے نظر کو اعتراف تنگ دامانی یہاں بہر جان و جسم ہر نعمت کی ارزانی یہاں بے کس و محتاج لیکن نوع انسانی یہاں نقش فریادی ہے یہ تقدیر کی تحریر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کشمیر کی تصویر کا وادی و کہاد پر ایسی بہار آئی ہوئی نخل آدم زاد پر لیکن خزاں چھائی ہوئی اس قدر خوش رنگ کلیاں اور مرجھائی ہوئی راکھ میں چنگاریاں جیسے ہوں کجلائی ہوئی حسرت آلودہ ہے چہرہ ہر جوان و پیر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کشمیر کی تصویر کا اک طرف مہمان خوش اوقات خوش دل خوش لباس اک طرف ہے میزباں فاقہ زدہ تصویر یاس اک طرف مئے کا نشہ پھل کا مزہ پھولوں کی باس اک طرف بے کیف مزدوروں کا حاصل بھوک پیاس اک تماشائی ہے اک فرزند ہے کشمیر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کشمیر کی تصویر کا ہاے جہلم کے یہ بجرے ہائے آنچل کی یہ اوٹ چادر آب رواں دونوں طرف رنگین گوٹ ہائے ہانجی کا یہ کنبہ جس کا سرمایہ ہے بوٹ یہ مشقت یہ فلاکت لب پہ نغمہ دل پہ چوٹ شیر سے محروم ہے مالک ہے جوئے شیر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کشمیر کی تصویر کا جس کی محنت سے چمن میں روئے گل پرخندہ ہے اس کا گھر تاریک اس کا اپنا منظر گندہ ہے نقش صناعی کا جس کی لوح دل پر کندہ ہے اس کی مجبوری کو دیکھو بندگی کا بندہ ہے سانس لینے میں بھی اس کو خوف ہے تعزیر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کشمیر کی تصویر کا یہ چمن اغیار کی شعلہ خرامی کے لئے یہ ثمر شیریں ہیں اپنی تلخ کامی کے لئے زندگانی ہے یہاں مرگ دوامی کے لئے مائیں جنتی ہیں یہاں بچے غلامی کے لئے ہر نفس اک سلسلہ ہے قید بے زنجیر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کشمیر کی تصویر کا حاکم و محکوم میں تیغ و گلو کا امتیاز اور دونوں پائے مغرب پر ہیں مجبور نیاز یہ برہمن کے بھجن یہ شیخ صاحب کی نماز کر رہے ہیں قید نا محسوس کی رسی دراز ہے نگاہوں میں نہاں صیاد اس نخچیر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کشمیر کی تصویر کا کیا تجھے معلوم ہے یہ نہر کیوں ہے بے قرار سر ٹپکتے ہیں زمیں پر کس لئے یہ آبشار سرو کیوں ہیں پابہ گل اور دم بخور کیوں ہیں چنار سر جھکائے کیوں کھڑے ہیں نخل ہائے بار دار سبزہ کیوں منہ تک رہا ہے آسمان پیر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کشمیر کی تصویر کا کون جانے کس لئے رنگین گل روتے ہیں خوں اس حسیں بارہ دری پر سوگ سا طاری ہے کیوں محو عبرت کیوں کھڑے ہیں سنگ موسی کے ستوں کیوں شکستہ قلب فواروں کو ہے جوش جنوں منتظر ہے باغ کس کے خواب کی تعبیر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کشمیر کی تصویر کا چشم شاعر کے ہیں آنسو ان کو مٹی میں نہ رول بے خبر انمول جوہر کو ترازو سے نہ تول ایک گوشے میں ادب سے بیٹھ جا منہ سے نہ بول او تماشائی تصور شرط ہے آنکھیں نہ کھول چشم دل سے دیکھ نقشہ گردش تقدیر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کشمیر کی تصویر کا غلام احمد مہجور کشمیری پیرزادہ غلام احمد مہجور کشمیری جنوبی کشمیر کے پلوامہ ضلع کے مترگام دیہات میں پیدا ہوئے۔ آپ کا سن ولادت1888ہے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کر لی اور بعد میں سرینگر شہر میں اردو کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد امرتسر چلے گئے جہاں مولانا شبلی نعمانی سے ان کی ملاقات ہوئی۔ مولانا نے ان کے تخلص کے بارے میں سوال کیا کہ انہیں کس کا ہجر ہے کہ مہجور تخلص کر لیا ہے۔ جواب دیا حضور بندہ پرور میں اپنے وطن سے دور ہوں۔ مولانا شبلی نے سوال اس طرح سے دوہرایا جب وطن واپس چلے جاؤ گے تو پھر کس کا ہجر ہو گا۔ جواب دیا حضور پھر آپ کے ہجر میں مہجور ہوں گا۔ مولانا اس جواب سے بے حد خوش ہوئے۔ مہجور نے پنجاب کے شہر قادیان میں فن خوشنویسی بھی سیکھا اور بعد میں1908ء میں واپس کشمیر لوٹے اور محکمہ مال سے وابستہ ہو گئے۔ ان دنوں ایک طرف محمد دین فوق کا مشہور رسالہ ’’ کشمیری میگزین‘‘ مہجور کے زیر مطالعہ رہا اور دوسری طرف اقبال کے ایک ممدوح اور اردو کے مشہور شاعر چودھری خوشی محمد ناظر کی ماتحتی میں ان کا ادبی ذوق نکھرتا گیا۔ ناظر اس وقت کشمیر میں محکمہ مال میں بندوبست افسر تھے۔ مہجور نے پہلے پہلے اردو اور فارسی میں شاعری کی لیکن بعد میں اپنی مادری زبان کشمیری کی طرف رخ موڑ کر اس زبان کو اپنی خوبصورت اور مترنم شاعری سے مالا مال کر دیا اور شاعر کشمیر کہلائے۔ مہجور کو اپنی جوانی ہی کے دنوں میں شبلی نعمانی، اقبال اور محمد دین فوق سے بار بار ملاقاتیں کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ آپ 1945ء میںپٹواری کے عہدہ سے سبکدوش ہوئے اور 9اپریل 1952ء کو انتقال کیا۔ ان کی میت کو سرکاری اعزاز کے ساتھ مشرقی سرینگر میں مقبول کشمیری شاعرہ حبہ خاتون کی قبر کے قریب دفن کیا گیا۔ کشمیری شاعری میں حبہ خاتون اور رسول میر کے بعد مہجور کو سب سے زیادہ عوامی مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان کی شاعری میں لوک رنگ کی وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جنہوں نے ان کے کشمیری گیتوں اور نغموں کو وادی کشمیر کے گوشہ گوشہ میں مقبول عام کیا اور یہ گیت ہر قبیلے کے لوگ گاتے اور پسند کرتے رہے۔مہجور نے کشمیری میں قومی اور وطنی شاعری کے نئے دور کا آغاز کیا اور آزادی ہند کے بعد کی ان کی چند نظمیں تو نام نہاد آزادی کامنہ چڑاتی نظر آتی ہیں۔ اپنے ہم عصر اور ایک انقلابی کشمیری شاعری عبدالاحد آزاد کی طرح مہجور بھی اقبال سے متاثر رہے۔ اقبال کے ساتھ ان کی ملاقاتوں کا سلسلہ برابر جاری رہا جس کی وجہ سے مہجور ان کے خیالات اور درد وطن کے محسوسات سے بھی متاثر ہوتے رہے۔ اس سلسلہ میں ایک بار مہجور نے ایک مراسلہ میں اقبال کے سامنے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ ایک تذکرہ شعرائے کشمیر لکھ رہے ہیں جس کے لئے انہیں ضروری مواد کے سلسلہ میں رہنمائی کی جائے۔ اقبال نے اس کے جواب میں12مارچ1923ء کو مہجور کے نام لکھا۔’’ مجھے یہ معلوم کر کے کمال مسرت ہوئی کہ آپ تذکرہ شعرائے کشمیر لکھنے والے ہیں۔ میں کئی سالوں سے اس کے لئے تحریک کر رہا ہوں مگر افسوس کسی نے توجہ نہ کی۔ آپ کے اردوں میں اللہ تعالیٰ برکت دے۔‘‘ افسوس کہ کشمیر کا لٹریچر تباہ ہو گیا۔ا س تباہی کا باعث زیادہ تر سکھوں کی حکومت اور موجودہ حکومت کی لاپروائی اور نیز مسلمانان کشمیر کی غفلت ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ وادی کشمیر کے تعلیم یافتہ مسلمان اب بھی موجودہ لٹریچر کی تلاش و حفاظت کے لئے ایک سوسائٹی بنائیں۔ ہاں تذکرہ شعرائے کشمیر لکھتے وقت مولانا شبلی کی شعر النجم آپ کے پیش نظر رہنی چاہیے۔ محض حروف تہجی کی ترتیب سے شعراء کا حال لکھ دینا کافی نہیں ہو گا۔ کام کی چیز یہ ہے کہ آپ کشمیر کے فارسی شعراء کی تاریخ لکھیں۔ مجھے یقین ہے کہ ایسی تصنیف نہایت بار آور ہو گی اور اگر کبھی خود کشمیر کی یونیورسٹی بن گئی تو فارسی زبان و ادب میں اس کا کورس ہونا یقینی ہے۔ میرا عقیدہ ہے کہ کشمیر کی قسمت عنقریب پلٹا کھانے والی ہے۔ انوار اقبال میں اس خط کا آخری جملہ یوں ہے۔’’ میرے پاس کوئی مسالہ تذکرہ شعراء کے لئے نہیں ہے ورنہ آپ کی خدمت میں ارسال کرتا۔‘‘ (11) اس مراسلہ کے بارے میں چند اختلافات سامنے آئے ہیں لیکن حقائق کی تہہ میں جانے سے بہر صورت یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ خط مہجور کشمیری ہی کے نام تحریر کیا گیا البتہ یہ سوال ہنوز تشنہ جواب ہے کہ کیا مہجور نے زندگی کے کسی بھی موڑ پر تذکرہ شعرائے کشمیر لکھنے کا ارادہ کیا بھی تھا ۔ یا نہیں؟ ’’ اقبال نامہ‘‘ کے مطابق یہ خط کسی ظہور الدین مہجور کے نام لکھا گیا ہے (12) اور مولانا عبدالسلام ندوی اپنی تصنیف’’ اقبال کامل‘‘ میں بھی یہی نام استعمال کرتے ہیں۔ انوار اقبال میں بشیر احمد ڈار نے لکھا ہے کہ یہ خط اصل میں محمد دین فوق کے نام تحریر کردہ ہے۔ ’’ کلیات مکاتیب اقبال‘‘ کے مولف کے بقول’’ بشیر احمد ڈار کو اس خط کے متعلق غلط فہمی یوں پیدا ہو گئی کہ فوق نے اس کا عکس تاریخ اقوام کشمیر جلد دوم (ص232-233) کے درمیان ا قبال کے حالات زندگی کے تحت اقبال کی تصویر کی پشت پر شائع کیا۔ چونکہ خط کا عکس نام اور پتہ کی طرف سے نہیں چھپا بلکہ نفس مضمون کی طرف سے چھپا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو اصل مکتوب کے بارے میں غلطی ہوئی۔‘‘ (13) مہجور کے نام اقبال کے ایک اور خط سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مراسلہ مہجور ہی کے نام لکھا گیا۔ مہجور نے اپنی ایک مختصر سی تصنیف اقبال کو بھیج دی جو انہوں نے کشمیری زبان کے ایک صوفی شاعر رحیم صاحب سوپوری کے بارے میں لکھی تھی۔ اقبال نے 6اپریل 1923ء کو اس کتابچہ کی رسید میں مہجور کو یاد دلایا کہ ’’ مجھے یقین ہے کہ کشمیر اور کشامرہ کے متعلق آپ اپنی تصنیف کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ بالخصوص کشمیر کے شعراء کے تذکرہ کی طرف جلد توجہ دیجئے۔‘‘ (14) محمد دین فوق بھی اپنی تاریخ اقوام کشمیر میں مہجور کی اس زیر تکمیل تصنیف کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ ذوق سخن کے علاوہ فن تاریخ سے بھی مہجور کو بے حد دلچسپی ہے۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں جن میں’’ حیات رحیم‘‘ چھپ چکی ہے ایک کتاب پٹواریوں کے لئے ’’ پٹواری‘‘ کے نام سے لکھی ہے۔ جو ابھی غیر مطبوعہ ہے لیکن ان سب سے فائق اور مفید تر کتاب جو آپ نے ترتیب دی ہے وہ شعرائے کشمیر کا تذکرہ ہے جس کی دو تین جلدیں راقم کی نظر سے بھی گذر چکی ہیں۔ افسوس کہ یہ کتاب ابھی تک زیور طبع سے آراستہ نہیں ہو سکی ہے۔‘‘ (15) جہاں تک مہجور کی مختلف تصانیف یا تالیفات کا تعلق ہے ان میں سے کسی جگہ اس قسم کے تذکرہ شعراء کا کوئی ذکر نہیں آتا۔ لہٰذا یہ معمہ ابھی تک حل نہیں ہو سکا ہے کہ انہوں نے اقبال کے نام اپنے مراسلوں میں ایسی کونسی تصنیف کا ذکر کیا جس کے چند جلدیں فوق نے بھی دیکھی تھیں لیکن جس کا بعد میں کہیں نام و نشان تک نہیں مل سکا۔ مہجور نے جو کچھ لکھا وہ سارے کا سارا ذخیرہ بالکل اصلی حالت میں ان کی وفات کے بعد بھی موجود رہا۔ اس طرح سے ایک ضخیم تذکرہ شعراء کے مسودہ کا غائب ہو جانا ایک نا قابل فہم امر بن جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں یہاں اس مشہور تذکرہ شعرائے کشمیر کا ذکر کرنا بے محل نہ ہو گا جو مہجور کے ہم عصر اور شاگرد عبدالاحد آزاد نے تصنیف کیا تھا اور جو ان کی موت کے بعد’’ کشمیری زبان اور شاعری‘‘ کے نام سے تین جلدوں میں کشمیر کی کلچرل اکادمی نے1958ء میں شائع کیا۔ا ٓزاد کی یہ تاریخ ساز کتاب اردو زبان میں لکھی گئی ہے۔ آزاد نے اس تذکرہ میں ایک پورا حصہ مہجور کے لئے وقف کر دیا تھا۔ یہ حصہ انہوں نے نظر ثانی اور واقعات کی تصحیح کے لئے مہجور کے حوالے کیا تو بعد میں پتہ چلا کہ مہجور نے اس میں سرخ روشنائی سے جا بجا ایسے اضافے کئے ہیں جن سے ان کی اپنی مدح سرائی مقصود تھی۔ میں ان دنوں اکادمی میں شعبہ مطبوعات کے سربراہ کے عہدہ پر فائز تھا لہٰذا مجھے اس ترمیم شدہ مسودہ کو خود دیکھنے کا موقعہ ملا جسے بعد میں من و عن شائع کیا گیا۔ اس بات کے امکان کو قطعی طور پر رد نہیں کیا جا سکتا۔ کہ مہجور نے اپنی خط و کتابت میں اقبال کو آزادی کے اس مسودہ کی موجودگی سے آگاہ کیا ہو۔ مہجور کو اقبال سے متعارف کرانے کا فریضہ چودھری خوشی محمد ناظر ہی نے پورا کیا جو محکمہ مال میں مہجور کے افسر تھے۔ اقبال جب 1921ء میں کشمیر آئے تو یہاں مہجور سے بھی ان کی ملاقات ہوئی۔ اقبال نے انہیںمشورہ دیا کہ وہ بزم ادیبان کشمیر بنائیں تاکہ کشمیر کے شاعر، ادیب اور دیگر قلم کار ایک جگہ بیٹھ کر روز مرہ کے مسائل پر تبادلہ خیال کر کے اہم محرکات سے متاثر ہو سکیں اور انہیں اپنے تخلیقی سلسلے میں نمایاں کریں۔ اقبال نے اس موقعہ پر مہجور کو یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ کشمیری زبان ہی میں شاعری کریں جو ان کی مادری زبان ہے۔ مہجور نے اپنی کئی نظموں میں اقبال کی تقلید کی ہے اگرچہ اس قسم کی شعری تخلیقات ان کے ابتدائی دور سے ہی تعلق رکھتی ہیں اور اکثر و بیشتر اردو میں تحریر کی گئی ہیں۔ا قبال کی نظم’’ خطاب نہ نوجوانان مسلم‘‘ جب شائع ہوئی تو مہجور نے بھی اس کی تقلید میں ’’ خطاب بہ مسلم کشمیر‘‘ لکھی جو 6 جون 1924ء کے ’’ اخبار کشمیر‘‘ میں شائع ہوئی۔ اس نظم کے چند اشعار یوں ہیں: بتا اے مسلم کشمر کبھی سوچا بھی ہے تو نے تو ہے کس گلشن رنگیں کا برگ شاخ عریانی شکستہ پائی بغداد پر تھا نوحہ خواں سعدی ہے اندلس کے لئے اقبال محو مرثیہ خوانی مگر صد صیف اجزا گلشن اسلام کشمر میں کوئی کرتا نہیں جز آب شبنم اشک افشانی (16) اقبال جب 1938ء میں انتقال کر گئے تو مہجور نے یہ تاریخ وفات لکھی: آہ اقبال! آفتاب آسمان شاعری مولانا ظفر علی خان مولانا ظفر علی خان اقبال ہی کے شہر سیالکوٹ کے ایک دیہات میں1870ء میں پیدا ہوئے۔ اس لحاظ سے وہ اقبال سے عمر میں سات سال بڑے تھے۔ 1892ء میں وہ اپنے والد مولانا سراج الدین کے پاس سری نگر چلے آئے جو کشمیر کے محکمہ ڈاک و تار میں ملازم تھے۔ یہاں ظفر علی خان کچھ عرصہ تک ملازم بھی رہے۔ اپنے اخبار’’ زمیندار‘‘ کے ذریعہ جہاں مولانا ظفر علی خان نے انگریزوں کے خلاف جدوجہد کو ایک جہاد بنا لیا وہاں آزادی کشمیر کی تحریک میں بھی وہ اپنے زور دار قلم کا بھر پور حصہ ادا کرتے رہے۔ ان کے زور قلم کا یہ عالم تھا کہ تحریک پر کہی گئی ان کی کوئی بھی نظم گھنٹوں میں لاہور سے کشمیر تک کا سفر طے کر کے ہر شخص کی زبان پر ترانہ آزادی کی طرح گونج اٹھتی تھی۔ اپنے قیام کشمیر کے دوران دراصل مولانا کو ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے ان کے دل و دماغ کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ چونکہ اس وقت ان کی رگوں میں جوانی کا ابلتا ہوا خون دوڑ رہا تھا لہٰذا یہ اثر بعد میں ان کے انگریز مخالف اشعار میں لالی کی طرح کھل اٹھا۔ ظفر علی خان کے ایک سوانح نگار محمد اشرف خان کے عطا کے مطابق وہ کشمیر کے پہاڑی مقام گلمرگ میں ایک روز ڈاک خانہ کے باہر بیٹھے تھے کہ ایک انگریز فوجی افسر گھوڑے پر سوار وہاں آن پہنچا اور بڑی نخوت سے مولانا کو پاس بلا کر حکم دیا کہ جب تک میں واپس نہیں آتا اس گھوڑے کی لگام پکڑے رہو۔ مولانا کویہ حکم اس قدر توہین آمیز لگا کہ انہوں نے انگریز فوجی کو دو ٹوک جواب دیا اور وہاں سے چل پڑے۔ چنانچہ اس گستاخی کی شکایت حکام بالا سے کی گئی اور پھر ظفر علی خان اپنے والد کے کہنے پر کشمیر سے چلے گئے۔ اقبال نے ایک بار ان کے بارے میں کہا تھا کہ ’’ نہایت قابل آدمی ہیں اور ان کا ذہن مثل برق کے تیز ہے۔‘‘ (17) جب انہوں نے اپنی عملی زندگی میں اپنے گرد و پیش پر نظر ڈالی تو انہیں سارے برصغیر کے ساتھ ساتھ کشمیر کی غلامی کا بھی قلق ہوا جس پر انہوں نے اپنے آتش بار قلم سے کئی باغیانہ مضامین لکھے۔ اس کے علاوہ آپ نے سیاسی اور مذہبی اجتماعات میں بھی کئی بار کشمیر کے ڈوگرہ مہاراجہ کے خلاف اپنی آواز بلند کی۔ انہی دنوں انہوں نے ہندی مسلمانوں کے بارے میں یہ شعر کہے: شریعت سے نگہباں پا بہ جولاں ہوتے جاتے ہیں مسلمانوں کی آزادی کے ساماں ہوتے جاتے ہیں پڑی ہے کھلبلی مغرب میں یہ برقی خبر سن کر کہ مشرق کے مسلمان پھر مسلماں ہوتے جاتے ہیں جولائی1931ء کے واقعہ کشمیر کے ساتھ ساتھ جب جموں میں بھی گولی چلی اور وہاں پر انگریزوں کے ایک فوجی دستہ نے شہیدوں کی تجہیز و تکفین میں رکاوٹیں پیدا کیں تو مولانا اس پر برافروختہ ہوئے اور انہوں نے مہاراجہ ہری سنگھ کے نام یہ اشعار لکھ کر بھیجے: ہم تو یہ سمجھے تھے یہ خطہ ہے کالوں کا وطن آپ کہتے ہیں کہ کشمیر ہے گھر گورے کا سو ہری سنگھ سمجھ لیں کہ اکھڑنا ہے محال جم گیا پاوں یہاں آ کے اگر گورے کا اسی اللہ کے بندے کو مسلماں سمجھو ڈوگرے کا نہ جسے خوف نہ ڈر گورے کا تحریک حریت کشمیر کے حوالے سے ان کے یہ اشعار بھی کشمیر کے ہر گلی کوچے میں مقبول عام ہوئے: ہر طرف ہنگامہ پھر برپا ہے دار و گیر کا ہو رہا ہے پھر ہرا زخم کہن کشمیر کا گونجتی ہے پھر فضا زنجیر کی جھنکار سے شور جس میں دب رہا ہے نعرہ تکبیر کا ہے خطا اتنی کہ کیوں کرتے ہیں اپنا حق طلب ہیں یہ ساری سختیاں خمیازہ اس تقصیر کا بادشاہ بے مہر ہے اور بے نیاز اس کا وزیر شکوہ کس سے کیجئے پھوٹی ہوئی تقدیر کا ایک لے دے کے خدا باقی ہے جس کے عرش پر حق ہے کچھ کشمیریوں کے نالہ شب گیر کا 1931ء ہی میں تحریک کشمیر کے ایک اہم باب کی جو سرخی شہیدوں کے لہو سے لکھی گئی اسے ایک شاندار تصویر کی صورت دے کر پیش کرنے میں مولانا ظفر علی خان اپنے قلم کا بے تحاشا استعمال کرتے رہے۔ اس وقت کشمیریوںکی حمایت میں مجلس احرار اسلام بھی لاہور میں میدان عمل میں کود پڑی تو مولانا نے یہ اشعار موزون کئے: اگر اک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوئے تو وہ اس عہد میں پنجاب کے احرار ہوئے خیل باطل سے اگر بر سر پیکار ہوئے تو وہ اسلام کے جانباز رفقا کار ہوئے پردہ موت سے نکلے گی حیات جاوید کہ مسلمان شہادت کے طبگار ہوئے جس نے ڈھایا تھا کبھی ظلم کی بنیادوں کو پھر مسلمان اسی جذبہ سے سرشار ہوئے ہڈیاں جن کی ہیں چونا تو لہو ہے گارا قصر آزادی کشمیر کے معمار ہوئے مولانا نے کشمیری سیاسی رہنماؤں شیخ محمد عبداللہ، میر واعظ مولانا محمد یوسف شاہ، چودھری غلام عباس خان، سردار گوہر رحمان اور اللہ رکھا ساغرکے ساتھ نہایت قریبی مراسم تھے اور وہ وقتاً فوقتاً انہیں کشمیر کے سلسلے میں اپنے مشوروں سے نوازتے رہتے تھے۔ اللہ رکھا ساغر سے متاثر ہو کے ہی مولانا نے یہ اشعار کہے: ساغر سے کہا میں نے کہ اے رونق محفل تحریر تیری شستہ ہے تقریر شگفتہ اسلام کی دولت تری گھٹی میں پڑی ہے موتی تیری جھولی میں ہیں ناسفتہ و سفتہ ہم نیند کے ماتوں کو بھی اللہ جگا دے بیدار ہے دنیا کی ہر ایک ملت خفتہ 1947ء میں جب کشمیر کے جنوب مغرب میں مقامی لوگوں نے ڈوگرہ استبداد کے خلاف مسلح بغاوت کا علم بلند کیا تو ظفر علی خاں نے ان مجاہدین کشمیر کے نام یہ زندگی بخش اشعار نذر کئے: گھر سے نکلے ہو پیمبر کے گھرانے والو تو سر اللہ کے رستے میں کٹاتے جاؤ نوع انساں کو غلامی سے چھڑانے والو پرچم آزادی کامل کا اڑاتے جاؤ گردنیں قیصر و کسریٰ کی جھکانے والو وہی زور آج بھی دنیا کو دکھاتے جاؤ باندھ کر سر سے کفن جنگ میں جانے والو ندیاں خون شہادت کی بہاتے جاؤ رسن و دار کو خاطر میں نہ لانے والو جشن آزادی کشمیر مناتے جاؤ مولانا ظفر علی خان اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہے۔ ان کے معاصرین میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانا ابو الکلام آزاد، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، حکیم اجمل خان، مولانا حسرت موہانی اور سر فضل حسین جیسی محب الوطن ہستیاں شامل تھیں۔ اقبال تو ظفر علی خان کے ہم جلیں تھے جن کے ساتھ ان کا سیاسی رشتہ خاص طور پر کشمیر کے تعلق سے ایک مکمل مفاہمت اور خیالات و محوسات کی ہم آہنگی پر ہمیشہ قائم رہا۔ مولانا عمر بھر ایک فعال شخصیت رہے۔ انہوں نے اس وقت کی تاریخ سازی تحریکوں یعنی تحریک ختم نبوت، تحریک آزادی ہند، تحریک پاکستان اور تحریک آزادی کشمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 23مارچ1940ء کو لاہور میں دریائے راوی کے کنارے ایک تاریخی اجلاس میں جب قرار داد لاہور کے ذریعہ پاکستان کا مطالبہ کیا گیا تو اس قرار داد کی تائید میں تقریر کرنے والوں میں مولانا ظفر علی خان بھی شامل تھے۔ مولانا ظفر علی خان اس زمانہ میں بار بار جموں اور سری نگر کا سیاسی اور اجتہادی دورہ کرتے رہے۔ تحریک کشمیر کے سلسلے میں پنجاب کے جن اخباروں نے سب سے پہلے کشمیر کو اپنا موضوع بنایا ان میں مولانا کا ’’ زمیندار‘‘ سرفہرست ہے۔ چنانچہ اقبال بھی کشمیر کے سلسلہ میں اپنے بیانات یا انجمن کشمیر ی مسلمانان کی سرگرمیوں کی تشہیر کے لئے ’’ زمیندار‘‘ کا انتخاب ترجیحی لحاظ سے کیا کرتے تھے۔ مولانا ظفر علی خان صحافی بھی تھے اور شاعر بھی۔ خطیب بھی تھے اور سیاست دان بھی۔ عالم دین بھی تھے اور مصلح بھی۔ ان کا سارا وجود مسلمانوں کی آزادی اور فکری سر بلندی کے لئے وقف تھا۔ اپنی اس خواہش کی تکمیل میں انہوں نے ہندوستان اور کشمیر کے مسلمانوں کے جذبات کی جو آبیاری کی وہ انہی کا خاصہ ہے۔ ان کے اخبار کی بار بار ضمانتیں ضبط ہوئیں۔ قرقیاں ہوئیں اور آپ کئی بار گرفتار کئے گئے۔ لیکن ملکی آزادی کے لئے وہ تادم مرگ برابر اپنی جدوجہد میں مصروف عمل رہے۔ آپ نے 1956ء میں وفات پائی۔ عبدالصمد ککرو مقبل 1875ء میں ملک کشمیر میں ایک زبردست قحط پڑا جس کے اثرات سے ملک کے کئی گھرانے باہر کے شہروں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ان میں سے اکثر ہمسایہ ریاست پنجاب کے شہروں لاہور اور امرتسر اور پھر یوپی تک پہنچ گئے۔ لاہور میں جو کشمیری پناہ گزین آباد ہوئے وہاں ایک ممتاز فرزند کشمیر میاں کریم بخش ان کی دل و جان سے امداد کرتے تھے۔ میاں کریم بخش پہلی کشمیری کانفرنس کے صدر تھے اور عبدالصمد ککرو کے والد خواجہ عبدالعزیز ککرو کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات تھے۔ عبدالصمد ککرو 1836ء میں کشمیر کے شمال مغربی ضلع بارہ مولہ میں پیدا ہوئے تھے اور اپنی امارت اور آسودہ حالی کے سبب رئیس کشمیر بھی کہلاتے تھے۔ میاں کریم بخش اور عزیز ککرو کی وفات کے بعد ان کی اولاد میں سے عبدالصمد ککرو اور میاں شمس الدین اور نظام الدین ایک دوسرے کے یار و مددگار بن گئے۔ عبدالصمد ککرو کا قیام لاہور میں عام طور پر اسی بارود خانہ میں ہوتا جو میاں کریم بخش ہی کے وقت سے کشمیریوں کا مرکز بنا ہوا تھا۔ انہی دنوں ککرو اور اقبال کی ملاقات ہوئی اور یہ دونوں ایک قلیل عرصہ کے دوران ایک دوسرے کے مونس و غم خوار بن گئے۔ عبدالصمد ککرو نے ساتھ ہی لاہور میں ان سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لینا شروع کیا جن کا تعلق کشمیر کی آزادی کے ساتھ تھا۔ نتیجہ کے طور پر انجمن حمایت اسلام کی بنیاد ڈالی گئی اور عبدالصمد ککرو کئی اور سماجی اور سیاسی تنظیموں کے ساتھ بھی وابستہ ہو گئے۔ مولانا غلام رسول مہر ان کے بارے میں لکھتے ہیں۔’’ خواجہ عبدالصمد ککرو قومی کاموں میں سرگرمی سے حصہ لیتے تھے۔ انجمن کے جلسوں میں آتے تھے تو خوب چندہ دیتے تھے۔ خود بھی تقریریں کرتے تھے۔ نیز شاعروں اور مقرروں کی حوصلہ افزائی میں بھی سب سے پیش پیش رہتے تھے۔ اقبال سے انہیں بے حد محبت تھی۔‘‘ (18) اسی طرح سید نذیر نیازی رقم طراز ہیں کہ ’’ ایک بار جب حضرت علامہ اقبال نے کشمیری کانفرنس میں اپنی نظم ’’ شکوہ‘‘ (19) پڑھی تو اس کے اختتام پر خواجہ عبدالصمد ککرو جو جلسہ گاہ میں موجود تھے اور ایک بیش قیمت کشمیری شال (شاہ توس) اوڑھے ہوئے تھے۔ اپنی جگہ سے اٹھے اور وہ شال علامہ کے شانوں پر ڈال دیا۔ اور فرط جذبات سے حضرت علامہ سے بزرگانہ بغل گیر ہوئے۔ ازاں بعد اس شال کو جلسہ گاہ میں نیلام کیا گیا۔ جسے ایک مخیر انسان نے خریدا اور روپیہ انجمن کے چندہ میں دے دیا۔‘‘ (20) عبدالصمد ککرو خودشاعر تھے اور اردو میں صمد اور فارسی میں مقبل تخلص کرتے تھے۔ جب ان کا جواں سال طالب علم فرزند غلام حسن فوت ہوا تو سوگوار باپ نے اف تک نہ کی۔ مگر اقبال نے ان کے مجروح جذبات اور نوجوان کی وفات حسرت آیات کے صدمہ کو اظہار کی شکل دے کر ایک مرثیہ لکھا جو رسالہ ’’ مخزن‘‘ میں جولائی1902ء میں مدیر جریدہ سر شیخ عبدالقادر کی ان تعارفی سطور کے ساتھ شائع ہوا۔’’ ہمارے عنایت فرما رئیس بارہ مولہ علاقہ کشمیر خواجہ صمد صاحب ککرو ہیں۔انہیں چند ماہ ہوئے اپنے چہیتے اور ہونہار بیٹے کے مرگ ناگہاں کا داغ دیکھنا نصیب ہوا۔‘‘ خواجہ صاحب ذی علم اور علم دوست رئیس ہیں اور خود زبان فارسی میں شاعر ہیں اور مقبل تخلص کرتے ہیں مگر اس رنج نے ان کی طباعی اور زندہ دلی پر پانی پھیر دیا ہے اور انہیں تصویر غم بنا دیا ہے۔ شیخ محمد اقبال صاحب نے ان کی طرف سے مرحوم کا نوحہ لکھا ہے جو درج ذیل ہے: اندھیرا صمد کا مکاں ہو گیا وہ خورشید روشن نہاں ہو گیا بیاباں ہماری سرا بن گئی مسافر وطن کو رواں ہو گیا گیا اڑ کے وہ بلبل خوش نوا چمن پائمال خزاں ہو گیا نہیں باغ کشمیر میں وہ بہار نظر سے جو وہ گل نہاں ہو گیا گیا کارواں اور میں راہ میں غبار رہ کارواں ہو گیا گرا کٹ کے آنکھوں سے لخت جگر میرے صبر کا امتحاں ہو گیا بڑھا اور اک دشمن جانفشاں دھواں آہ کا آسماں ہو گیا ستم اس غضب کا خزاں نے کیا بیاباں میرا بوستاں ہو گیا ہوئی غم کی عادت کچھ ایسی مجھے کہ غم مجھ کو آرام جاں ہو گیا کسی نوجواں کی جدائی میں قد جوانی میں مثل کماں ہو گیا جدائی میں نالاں ہوں بلبل نہ کیوں وہ گل زیب باغ جناح ہو گیا وہ سرخی ہے اشک شفق رنگ میں حریف مئے ارغواں ہو گیا بنایا تھا ڈر ڈر کے جو آشیاں وہی نذر برق تپاں ہو گیا کروں ضبط اے ہم نشیں کس طرح کہ ہر اشک طوفاں فشاں ہو گیا غضب ہے غلام حسن کا فراق کہ جینا بھی مجھ کو گراں ہو گیا دیا چن کے وہ غم فلک نے اسے کہ مقبل سراپا فغاں ہو گیا خواجہ عبدالصمد ککرو مقبل پچاسی سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ اقبال لاہور سے تعزیت کے لئے بارہ مولہ کشمیر پہنچے اور پھر وہاں سے سری نگر چلے گئے جہاں ان کے پرانے عقیدت مندوں صاحبزادہ محمد عمر، منشی سراج الدین اور منشی نور الٰہی نے استقبال کیا۔ یہ 1921ء کا واقعہ ہے۔ (21) خان صاحب منشی سراج الدین آپ 26فروری 1876ء کو یعنی اقبال کی ولادت سے ایک سال پہلے پیدا ہوئے۔ 1899ء میں ریاست کشمیر کی ریذیڈنسی میں مشیر منشی ہو گئے۔ موسم سرما میں ان کا دفتر سری نگر سے سیالکوٹ منتقل ہو جاتا تھا۔ جہاں اقبال کے ساتھ ان کے گہرے مراسم قائم ہو گئے۔ اقبال ایک بار خان صاحب کے والد نسبتی شیخ محمد بخش کے ایک مقدمہ کے سلسلے بہ نفس نفیس کشمیر آئے۔ شیخ محمد بخش اور سیٹھ کریم بخش کشمیر کے دو نامور رئیس تھے لیکن بعد میں ان کی مالی حالت دگر گوں ہو گئی جب ایک بینک نے ان کے خلاف عدالت سے فیصلہ صادر کروا دیا جس کے نتیجہ میں ان کی جائیدادیں نیلام کی گئیں۔ منشی سراج الدین کو شعر و سخن کے ساتھ دلی شغف تھا۔ وہ سخن فہم تھے اور ادبی اجتماعات کی شمع محفل ہوا کرتے تھے۔ اقبال ان کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں’’ آپ ہندوستان کے ان چند لوگوں میں ہیں جن کو شاعری سے طبعی مناسبت ہے اور اگر نیچر ذرا فیاضی سے کام لیتی تو آپ کو زمرہ شعراء میں پیدا کرتی۔ بہرحال شعر کا صحیح ذوق شاعری سے کم نہیں بلکہ کم از کم ایک اعتبار سے اس سے بہتر ہے۔ محض ذوق شعر رکھنے والا شعر کا ایسا ہی لطف اٹھا سکتا ہے جیسا کہ خود شاعر اور تصنیف کی شدید تکلیف اسے اٹھانی نہیں پڑتی۔‘‘ (22) انہوں نے سری نگر کے وسطی علاقہ ناوپورہ میں اپنے رہائشی مکان میں ایک بے مثال کتب خانہ قائم کر لیا تھا جس میں نادر و کمیاب کتابیں اور مخطوطات جمع تھے۔ لیکن 1903ء میں جب کشمیر میں سیلاب آیا تو یہ متاع بیش بہا بھی بہت حد تک ضائع ہو گئی۔ ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد آپ نے سری نگر ہی میں سکونت اختیار کر لی۔ اور پھر1961ء میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ منشی سراج الدین نے ایک بار1902ء میں سری نگر سے چار انگوٹھیاں اقبال کو تحفہ میں بھیج دیں تو اقبال نے نہ صرف انہیں شکریہ کا ایک خط تحریر کیا بلکہ اس تحفہ کی رسید میں اردو اور فارسی ابیات پر مبنی ایک نظم بھی تحریر کر کے خان صاحب کو ارسال کی۔ اپنے خط میں وہ لکھتے ہیں۔’’ دو تین روز سے طبیع تبہ سبب دورہ درد کے علیل ہے۔ یہ چند شعر قلم برداشتہ آپ کے شکریہ میں عرض کرتا ہوں۔ میرا ارمغان یہی ہے۔ اسی کو قبول کر کے مجھے مشکور کیجئے۔ چاہیں تو پیشانی پر چند اردو سطور لکھ کر ’’ مخزن‘‘ میں بھیج دیجئے۔‘‘ (23) یہ نظم یوں ہے: آپ نے مجھ کو جو بھیجی ارمغان انگشتری دے رہی ہے مہر و الفت کا نشاں انگشتری زینت دست حنا مالیدہ جاناں ہوئی ہے مثال عاشقاں آتش بجاں انگشتری تو سراپا آیتے از سورہ قرآن فیض وقف مطلق اے سراج مہرباں انگشتری میرے ہاتھوں سے اگر پہنے اسے وہ دلربا ہو رموز بے دلی کی ترجماں انگشتری ہو نہ برق افگن کہیں اے طائر رنگ حنا تاکتی رہتی ہے تیرا آشیاں انگشتری ساغر مئے میں پڑا انگشت ساقی کا جو عکس بن گئی گردابے آب رواں انگشتری ہوں بہ تبدیل قوانی فارسی میں نغمہ خواں ہند سے جاتی ہے سوئے اصفہاں انگشتری یارم از کشمر فرستا داست چار انگشتری چار در صورت بمعنی صد ہزار انگشتری چار را گر صد ہزار آوردہ ام اینک دلیل شد قبول دست یارم ہر چہار انگشتری داغ داغ موج مینا کاری اش جوش بہار می دہد چوں غنچہ گل بوئے یار انگشتری در لہانور آمد و چشم تماشا شد تمام بود در کشمیر چشم انتظار انگشتری (24) یار را ساغر بکف انگشتری در دست یار حلقہ اش خمیازہ دست خمار انگشتری ما اسیر حلقہ اش او خود اسیر دست دوست اللہ اللہ دام و صیاد و شکار انگشتری خاتم دست سلیمان حلقہ در گوش دے است اے عجب انگشتری را جاں نثار انگشتری وہ چہ بکشاید بدست آں نگار سیم تن ماند گرزین پیشتر سر بستہ کار انگشتری من دل گم گشتہ خود راکجا جویم سراغ دزدی دزد حنارا پردہ دار انگشتری راز دار وزدہم دزد است در بازار حسن چشمک دزد حنا را راز دار انگشتری ہر دو باہم ساختند و نقد دلہا می برند پختہ مغز انگشت جاناں پختہ کار انگشتری نو بہار دل فریب انگشتری در دست یار برگ گل انگشت و آغوش بہار انگشتری من خورم خون جگر از حسرت پابوس دوست بوسہ بردستش زند لیل و نہار انگشتری بو الہوس ز انگشتری طرز اطاعت یاد گیر می نہد سر بر خط فرمان یار انگشتری ماہ نو قالب تہی کرد است از حسرت بہ چرخ جلوہ فرما شد چو ما در انگشت یار انگشتری ارمغانم سلک گوھر ہاست یعنی این غزل کز سراجم نور ہا آمد چہار انگشتری گشت اے اقبال مقبول امیر ملک حسن کرد او مارا گرہ آخر زکار انگشتری ٭٭٭ حوالہ جات پانچواں باب: اقبال اور یاران وطن 1محفل اقبال۔ شیرازہ کلچرل اکادمی سری نگر، اپریل 1980ئ، ص232 2ایضاً، ص221 3کلیات مکاتیب اقبال، جلد دوم، ص580 4فکر اقبال، ص55 5منشی محمد دین فوق کشمیری، انوار احمد، شیرازہ، کلچرل اکادمی سری نگر، شمارہ 4، 1973ئ، ص42 6جریدہ شیرازہ کلچرل اکادمی سری نگر، نومبر1964ئ، ص128 7روزنامہ نوائے وقت لاہور22دسمبر1988 8نوائے وقت لاہور، 26مئی 1946 9نوائے وقت لاہور، 22دسمبر1988 10عکاس کشمیر، ماہنامہ ماہ نو کراچی، اکتوبر1962 11انوار اقبال بشیر احمد ڈار، اقبال اکادمی پاکستان لاہور، 1967ئ، ص221 12اقبال نامہ، مرتبہ شیخ عطاء اللہ، جلد اول، شیخ محمد اشرف لاہور، ص58-59 13کلیات مکاتیب اقبال، جلد دوم، ص337 14ایضاً، ص441 15اقبال 84، مرتبہ ڈاکٹر وحید عشرت، اقبال اکادمی پاکستان لاہور، 1986ئ، ص112-113 16ماہنامہ ماہ نو لاہور، نومبر1984 17کلیات مکاتیب اقبال، جلد اول، ص704 18سرود رفتہ، مرتبہ غلام رسول مہر اور صادق علی دلاوری، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، 1959 19مشاہیر کشمیر، اقبال کے ایک کشمیری ہم نشین، ہفت روزہ چٹان لاہور، 29ستمبر1975 20فقیر وحید الدین کہتے ہیں کہ یہ 1911ء کا واقعہ ہے اور نظم انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ جلسہ میں پڑھی گئی۔ روزگار فقیر، ص123 21خواجہ عبدالصمد ککرو، اقبال کے ایک کشمیری ہم نشین، کلیم اختر، ہفت روزہ چٹان لاہور، 29ستمبر1975 22کلیات مکاتیب اقبال، جلد اول، ص412 23باقیات اقبال، مرتبہ سید الواحد معینی، کتب خانہ نذیریہ دہلی، ص33 24لاہور میں آ کر یہ سراپا چشم تماشا ہو گئی۔ کشمیر میں یہ چشم انتظار بنی ہوئی تھی۔ کلیات مکاتیب اقبال، جلد اول، ص65 ٭٭٭ چھٹا باب اقبال اور تحریک آزادی کشمیر ازاں مئے فشاں قطرۂ برکشیری کہ خاکسترش آفریند شرارے جس زمانہ میں اقبال پیدا ہوئے وہ مسلمانوں کے لئے بے حسی اور ادبار کا زمانہ تھا ہندوستانی 1857ء کی جنگ آزادی میں شکست کھانے کے بعد ہمت ہار کر ہتھیار ڈال چکے تھے۔ مسلمانوں پر انگریز حاکموں نے بغاوت کا الزام لگا کر ان کی بری طرح سرکوبی کر لی تھی۔ اور بظاہر ان میں ایک نئی زندگی کی تجلی کی کوئی رمق بھی باقی نہیں رہی تھی۔ سرسید احمد خان اور ان کے رفقاء اس خفتہ قوم کو جھنجھوڑ کر بیدار کرنے کی کوشش پیہم کر رہے تھے مگر ان میں کوئی حرکت نظر نہیں آ رہی تھی۔ ادھر دنیائے اسلام کا بھی کم و بیش یہی حال تھا۔ مسلمان حکمران یا توغیر ملکیوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے ہوئے تھے یا اپنی رعایا کے لئے وہ نہایت جابر و قاہر تھے۔ وہ خود عیش و عشرت میں سرشار تھے اور رعایا کو جہالت و افلاس میں سرمست رکھا تھا۔ یورپ کے گدھ ان کو مردار سمجھ کر ان پر ہر طرف ٹوٹ پڑے تھے۔ بقول محمد حسین سید ’’ اس حال میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر رحم کرتے ہوئے ان کی اصلاح اور سدھار کے لئے دنیائے اسلام میں چند باکمال ہستیوں کو مامور کیا۔ ترکی میں مصطفی کمال، ایران میں رضا شاہ پہلوی، مصر میں زغلول پاشا، ہندوستان میں مولانا محمد علی اور ابو الکلام وغیرہ پیدا کئے، ان میں سے کسی نے تو موقعہ مناسبت مل جانے کی وجہ سے اپنا کام پورا کر لیا۔ کسی نے کام کو شروع کر دیا مگر مکمل نہ کر سکے اور کچھ تکمیل کے لئے شب و روز کوشاں رہے۔ امت کی یہ اصلاح و سدھار الگ الگ وطنی اور نسلی بنیادوں پر ہوئی۔ اب ضرورت ایک ایسے معمار کی تھی جو ان مختلف اینٹوں سے ابراہیمی و مصطفویٰ بنیادوں پر ایک نئے حصار کی تعمیر کرے۔ اللہ نے اس کام کے لئے اقبال کو ہندوستان میں پیدا کیا۔ (1)‘‘ عبدالرحمان طارق اس دور میں مسلمانوں کی تاریخ کے ہم عصر اثرات کے رد عمل میں اقبال کے مقام اور رول کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں’’ اقبال ایک ایسے دیدہ ور ہیں جو خود بیدار ہیں اور دوسروں کو بیدار کرنا چاہتے ہیں۔ وہ طریق عمل میں خود مردانہ وار گامزن ہیں اور دوسروں کو بھی اسی راستہ پر چلانا چاہتے ہیں کہ ان کی قوم بھی اس نعمت عظمیٰ سے سرفراز ہو۔ ان کا سینہ سوز محبت سے اس لئے مالا مال ہے کہ قوم اسے اپنے لئے عام کرے تاکہ وہ اپنی کھوئی ہوئی شان دوبارہ حاصل کر سکے۔ وہ اسلاف کی عظمت کو بار بار اس لئے یاد دلاتے ہیں کہ مسلمان پھر سے ان کی پیروی کر کے غلامی کی ذلت سے نجات حاصل کر سکیں۔ ان کا دل مسلمانوں کی موجودہ بے حسی اور جمود کو دیکھ کر کڑھتا ہے اسی لئے وہ احساس خودی اور ضبط نفس کے پاکیزہ جذبات کو ایک دفعہ پھر ان کے اندر تروتازہ کر دینا چاہتے ہیں۔ (2)‘‘ اس سلسلے میں اقبال کے خیالات میں مسلمانوں کے تنزل اور ابتلا کے بارے میں اس وقت ایک معنی خیز تبدیلی آ گئی جب انہوں نے جارج برنارڈشا کے یہ الفاظ سن لئے کہ ’’ دنیا میں سب سے اچھا مذہب اسلام ہے مگر سب سے بدتر قوم مسلمان‘‘ اس کے بعد وہ ساری عمر اہل اسلام کی ذہنی، فکری، روحانی اور تمدنی زندگی کے نکھار کو اس پسماندہ قوم کی متاع حیات بنائے جانے کی سعی کرتے رہے جس کے واضح اشارے ان کے کلام میں جا بجا ملتے ہیں۔ جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے وہ اقبال کا آبائی وطن ہونے کے ناطے ہمیشہ ان کی نظروں میں رہا۔ اہل کشمیر کے دور غلامی کی تاریک پرچھائیوں کے آر پار ان کی عقابی نظروں نے بغاوت اور انقلاب کے دھارے دریائے جہلم کی لہروں سے پھوٹتے ہوئے دیکھے تھے۔ بقول ممتاز حسن ’’کشمیر کی جدوجہد کا منظر اقبال نے وجدانی طور پر صاف اور واضح دیکھا تھا۔ اس سے قبل کہ کشمیر میں کسی ہل چل کے آثار ظاہر ہوں ان کو نظر آ گیا کہ مطلع پر طوفانی بادل جمع ہو رہے ہیں۔‘‘ (3) اس سلسلے میں ’’ پیام مشرق‘‘ میں ان کی نظم’’ ساقی نامہ‘‘ جو انہوں نے جون1921ء میں سری نگر میں مشہور مغل باغ نشاط میں تحریر کی تھی، اس واقعہ کی پیشین گوئی ہے جو 1924ء میں کشمیر میں ریشم خانہ کے مزدوروں کے ساتھ پیش آیا۔ اس نظم کے چند اشعار یوں ہیں: کشیری کی با بندگی خو گرفتہ بتے می تراشد زسنگ مزارے ضمیرش تہی از خیال بلندے خودی ناشنا سے ز خود شرمسارے بریشم قبا خواجہ از محنت او نصیب تنش جامہ تار تارے نہ در دیدہ او فروغ نگاہے نہ در سینہ او دل بے قرارے ازاں مئے فشاں قطرۂ بر کشیری کہ خاکسترش آفریند شرارے ممتاز حسن ہی کہتے ہیں’’ ایک روز علامہ کی صحبت میں کشمیر کی سیاسی تحریک پر گفتگو ہو رہی تھی۔ علامہ موصوف فرمانے لگے‘‘ میں نے کشمیر سے متعلق جو نظم ساقی نامہ نشاط باغ میں بیٹھ کر لکھی تھی اس میں ریشم ساز کارخانوں اور کاری گروں کا ذکر بھی شامل تھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ بعد میں کشمیر کی سیاسی تحریک وجود میں آئی تو اس کی ابتدا بھی ایک ریشم کے کارخانہ میں کاری گروں کی بغاوت سے ہی ہوئی۔ (4) اقبال کے ایک او رہم نشین سعادت علی خان بھی ’’ ملفوظات اقبال‘‘ میں اس محفل کا ذکر کرتے ہیں جس میں کشمیر ہی موضوع سخن تھا اور کئی حضرات اس پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔ اسی دوران ریشم خانہ کی بغاوت کا ذکر چھڑ گیا تو اقبال یکایک فرمانے لگے کہ ’’ میں تو نبی ہوتا ہوتا رہ گیا۔ حالات نے جاوید نامہ کی طباعت و اشاعت میں تاخیر کر دی ورنہ کشمیر کے اس ہیجان کو تو میں مدت سے دیکھ رہا تھا۔‘‘ (5) اگر یوں کہا جائے کہ اقبال نے سخن گوئی کے علاوہ اپنی ساری عمر کشمیر اور کشمیریوں کی سیاسی اور اقتصادی آزادی کے لئے وقف کی تھی تو بے جا نہ ہو گا۔ فروری 1896ء میں لاہور میں رہائش پذیر کشمیریوں نے انجمن کشمیری مسلمانان کا قیام عمل میں لایا۔ اس کا مقصد عام طور پر شادی و غمی کے رسوم کی اصلاح اور تعلیم و تجارت وغیرہ کی ترقی کے لئے کوششیں کرنا تھا۔ مولانا غلام رسول مہر نے اس کے ابتدائی عمل کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا کہ اسی سال انجمن کا پہلا اجلاس ہوا جس میں مولانا عبدالمجید سالک کے بقول محمد دین فو ق کی فرمائش پر اقبال نے ستائیس اشعار پر ایک نظم پڑھی جس کا عنوان ’’ فلاح قوم‘‘ تھا (6) اور جس میں اقبال نے انجمن کے قیام، اس کے لائحہ عمل اور ا سکی کامیابی پر اپنے خیالات کا یوں اظہار کیا تھا جو ان کی طالب علمی کے زمانہ کی شاعری کا نمونہ ہے: کیا تھا گردش ایام نے مجھے محزوں بدن میں جاں تھی کہ جیسے قفس میں صید زبوں چڑھائی فوج الم کی ہوئی تھی کچھ ایسے علم خوشی کا میرے دل میں ہو گیا تھا نگوں کیا تھا کوچ جو دل سے خوشی کی فوجوں نے لگائے خیمہ تھی واں رنج کے جنود و قشوں غم و الم نے جگر میں لگا رکھی تھی آگ بنا ہوا تھا میرا سینہ رشک صد کانوں زبس کہ غم نے پریشاں کیا ہوا تھا مجھے یہ فکر مجھ کو لگی تھی کہ ہو نہ جائے جنوں جو سامنے تھی میری قوم کی بری حالت امڈ گیا میری آنکھوں سے خون کا سیحوں انہی غموں میں مگر مجھ کو اک صدا آئی کہ بیت قوم کی اصلاح کے ہوئے موزوں پئے مریض یہ اک نسخہ مسیحا تھا کہ جس کو سن کے ہوا خرمی سے دل مشحوں غبار دل میں جو تھا کچھ فلک کی جانب سے دبے اسی میں رنج و غم بھی صورت قاروں ہزار شکر کہ اک انجمن ہوئی قائم یقیں ہے راہ پر آئے گا طالع واژوں ملے گا منزل مقصود کا پتہ ہم کو خدا کا شکر کہ جس نے دئیے یہ راہ نموں ہلال وار اگر منہ میں دو زبانیں ہوں ادا نہ پھر بھی ہو شکر خداے کن فیکوں مثال شانہ اگر میری سو زبانیں ہوں نہ طے ہو زلف رہ شکر ایزاد بے چوں چلی نسیم یہ کیسی کہ پڑ گئی ٹھنڈک چمن ہوا میرے سینے میں خار سوز دروں یہ کیا خوشی ہے کہ دل خود بہ خود یہ کہتا ہے بعید رنج سے اور خرمی سے ہے مقروں خوشی سے آ کے خدا جانے کیا کہا اس نے اچھل رہا ہے مثال تموج جیحوں کرم سے اس کے وہ صورت فلاح کی نکلی کہ حصن قوم ہر اک شر سے گیا مصئوں خدا نے ہوش دیا متفق ہوئے سارے سمجھ گئے ہیں تیری چال گنبد گردوں چراغ عقل کو روشن کیا ہے ظلمت میں ہمارے ہاتھ میں آ جائے گا در مکنوں مزا تو جب ہے کہ ہم خود دکھائیں کچھ کر کے جو مرد ہے نہیں ہوتا ہے غیر کا ممنوں بڑھے یہ بزم ترقی کی دوڑ میں یا رب کبھی نہ ہوں یہ قدم تیز آشنائے سکوں اسی سے ساری امیدیں بندھی ہیں اپنی کہ ہے وجود اس کا پئے قصر قوم مثل ستوں دعا یہ تجھ سے ہے یا رب کہ تا قیامت ہو ہماری قوم کا ہر فرد قوم پر مفتوں جو دوڑ کے لئے میدان علم میں جائیں سبھوں سے بڑھ کے رہے ان کے فہم کاگگوں کچھ ان میں شوق ترقی کا حد سے بڑھ جائے ہماری قوم پہ یا رب وہ پھونک دے افسوں دکھائے فہم و ذکا و ہنر یہ اوروں کو زمانے بھر کے یہ حاصل کریں علوم و فنوں جو تیری قوم کا دشمن ہو اس زمانے میں اسے بھی باندھ لے اقبال صورت مضموں 1909ء میں اقبال انجمن کشمیری مسلمانان کے جنرل سیکرٹری ہوئے۔ ان کا انتخاب 6 فروری کو ہوا جب انجمن کو اس کے اصل نام یعنی انجمن کشمیری مسلمانان ہند سے تبدیل کر کے اسے پنجاب کے کشمیریوں کے مفادات تک محدود کیا گیا۔ اس سے قبل 1907ء میں جموں میں بھی انجمن کشمیریان جموں کے نام سے اسی قسم کی ایکا ور جماعت کا قیام عمل میں لایا گیا تھا لیکن اس کے عہدیداروں اور چند برگزیدہ کارکنوں کی باہمی رسہ کشی اور رقابت کی وجہ سے اس کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔ اقبال کو اس صورت حال سے بے حد رنج ہوا اور انہوں نے ’’ کشمیری میگزین‘‘ کے ستمبر1909ء کے شمارہ میں’’ انجمن کشمیریان جموں کا حشر‘‘ کے عنوان سے ایک عبرت آموز شذرہ قلم بند کیا جس کی ابتدا انہوں نے ایک نہایت ہی زور دار اور طنزیہ شعر سے اس طرح کی: ایک وہ ہیں کہ نیا رنگ جما لیتے ہیں ایک ہم ہیں کہ بنا کر بھی مٹا لیتے ہیں اقبال اس مختصر سے مضمون میں افسوس کے ساتھ لکھتے ہیں کہ ’’ دو سال سے کچھ زائد عرصہ گذرا کہ راقم الحروف نے کشمیری میگزین کے توسط سے انجمن کشمیریان جموں کے انعقاد کی خوشخبری اپنے بھائیوں کو سنائی تھی اور بانیان و حامیان انجمن کے سرسبز اور نہایت مفید ثابت ہونے کا خیال ظاہر کیا تھا اور خداوند ذوالجلال سے اس کی عمر درازی اور ترقی پذیر ہونے کے لئے بصد عجز و نیاز دعا کی تھی۔افسوس ہزار افسوس کہ اس دعا کی در اجابت تک رسائی نہ ہوئی اور خاکسار کا خیال غلط نکلا۔ ہائے وہ اٹھتا ہوا بلا کا جوش کدھر گیا اور وہ غیر معمولی سرگرمی کدھر گئی؟‘‘ 1896ء میں اقبال سیالکوٹ سے نئے نئے لاہور آئے تھے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے کے طالب علم تھے ’’ فلاح قوم‘‘ بعد میں ان کے ولایت سے واپس آنے کے بعش کشمیری میگزین کے مارچ1909ء کے شمارہ میں ان کی نظر ثانی اور اجازت کے بعد شائع ہوئی۔ اقبال نے اپنے جو قطعات کشمیر انجمن کشمیری مسلمانان لاہور ہی کے اجلاس میں پڑھ کر سنائے تھے ان میں سے ایک قطعہ ہے: سو تدابیر کی اے قوم یہ ہے اک تدبیر چشم اغیار میں بڑھتی ہے اسی سے توقیر در مطلب ہے اخوت کے صدف میں پنہاں مل کے دنیا میں رہو مثل حروف کشمیر اس قطعہ کا آخری مصرعہ ساری عمر’’ اخبار کشمیر‘‘ لاہور کا ماٹو رہا۔ یہ آٹھوں قطعات بعد میں کشمیری میگزین کے اکتوبر1909ء کے شمارہ میں بھی شامل کئے گئے اور اس کتاب میں کسی دوسری جگہ درج ہیں۔ 1909ء میں جب انجمن کشمیری مسلمانان کی تشکیل کے موقعہ پر اس کے عہدیدار منتخب ہوئے تو اس کی تنظیمی شکل یہ رہی: صدر: خان بہادر خواجہ عبداللہ بخش نائب صدر: میاں شمس الدین رئیس میونسپل کمشنر، خواجہ کریم بخش، اکاؤنٹنٹ، میاں نظام الدین رئیس، خواجہ کمال الدین بی اے وکیل، شیخ محمد کاظم سپرنٹنڈنٹ ڈاک خانہ جات، سید محمد شاہ وکیل حاجی میر شمس الدین اور ڈاکٹر محمد دین ناظر۔ جنرل سیکرٹری: ڈاکٹر شیخ محمد اقبال، ایم اے پی، ایچ، ڈی، بار ایٹ لا جوائنٹ سیکرٹری: منشی حیدر محمد ہیڈ کلرک ریلوے اسسٹنٹ سیکرٹری: محمد دین فوق فنانشل سیکرٹری: منشی معراج الدین، ڈرافٹس مین ریلوے محاسب: منشی قادر بخش، اکاؤنٹنٹ نوٹ گھر ان کے علاوہ خواجہ رحیم بخش، ای اے سی، منشی محمد حفیظ، شیخ خان محمد ڈپٹی پوسٹ ماسٹر، بابو نبی بخش بی اے انسپکٹر ڈاک خانہ جات، شیخ محمد دین ایم اے پروفیسر مشن کالج لاہور، (آنریبل جسٹس و سابق گورنر سندھ) شیخ برکت اللہ ڈپٹی انسپکٹر مزنگ، منشی احمد دین اکاؤنٹنٹ نہر، بابو نبی بخش ٹھیکیدار ریلوے، خواجہ امیر بخش ہیڈ کلرک محکمہ جنگلات وغیرہ نہ صرف کشمیری برادری کے چند درخشندہ ستارے تھے بلکہ لاہور کی تمام قوم کے سر بر آوردہ رکن تھے کیونکہ ان میں اکثر افراد ایسے بھی تھے جن کا کسی نہ کسی حیثیت سے مسلمانوں کی ہر جماعت بالخصوص انجمن حمایت اسلام سے گہرا تعلق تھا۔ (7) دسمبر1908ء میں آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا سالانہ اجلاس امرتسر میں منعقد ہوا۔ آنریبل نواب بہادر خواجہ محمد سلیم اللہ خان آئی سی آئی ای، نواب آف ڈھاکہ اس کے صدر تھے۔ چونکہ وہ بھی کشمیری تھے اس لئے کشمیری برادری کے بہت سے بزرگ شوق ملاقات میں پنجاب کے مختلف شہروں سے کھنچ کر امرتسر پہنچے۔ انجمن کشمیری مسلمانان لاہور نے نواب صاحب کی خدمت میں ایک سپاس نامہ پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ 27دسمبر کو ایک وفد غیر رسمی طور پر ایڈریس کا وقت مقرر کرنے کی خاطر سرکٹ ہاؤس امرتسر میں حاضر ہوا۔ اس وفد میں خان بہادر خواجہ اللہ بخش، مولوی احمد دین وکیل، خواجہ رحیم بخش، خواجہ امیر بخش، حاجی میر شمس الدین جنرل سیکرٹری انجمن حمایت اسلام، منشی غلام محمد خادم، منشی محمد دین فوق، بابو غلام حسین اور بابو حیدر محمد خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ خان بہادر اللہ بخش نے ہر ایک کا تعارف کرایا اور حاضری کی علت نمائی بیان کی۔ نواب صاحب نے دست شوق بڑھا کر ہر ایک سے مصافحہ کیا اور وفد سے ملنے کے لئے 28دسمبر کی شام کا وقت مقرر کیا۔ چنانچہ دوسرے روز سیالکوٹ، امرتسر، راولپنڈی، سرگودھا، گوجرانوالہ، لائل پور، لدھیانہ، گور داس پور، وزیر آباد، ڈیرہ غازی خان، جیکب آباد، سندھ وغیرہ کے نمائندوں کا ایک وفد مقررہ وقت پر سرکٹ ہاؤس امرتسر پہنچا۔ اقبال اس وفد میں شامل تھے۔ انہوں نے نہایت بلند آواز سے فارسی زبان میں سپاسنامہ پڑھا۔ اس سپاس نامہ میں نواب صاحب کے خیر مقدم کے بعد ترک کشمیر کا تذکرہ تھا او رپھر لکھا تھا کہ کشمیری قوم نے باوجود اجنبی ہونے کے علو م و فنون اور حصول مراتب و وجاہت میں وہ کشش کی ہے کہ مقامی اقوام ان کی ذہانت اور طباعی دیکھ کر دنگ رہ گئی ہیں۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ اپنے قومی بھائیوں یعنی اہل خطہ مسلمانان پنجاب کی سرپرستی قبول فرمائیں تاکہ جمعیت قومی کا شیرازہ بکھرنے نہ پائے اور ہماری ضروریات قومی اور حفاظت حقوق کی کوششیں جاری رہ سکیں۔ محمد عبداللہ قریشی کے بقول چونکہ یہ سپاسنامہ نایاب ہے لہٰذا انہوں نے اسے اقبال کی ایک یادگار سمجھ کر من و عن یوں نقل کیا ہے: الحمد اللہ امروز ساعت سعید بل روز عید کہ اہل خطہ ا ز مختلف مقامات صوبہ پنجاب بخدمت اقدس برائے خیر مقدم جناب والا حاضر شدیم واز شرف ملقات مشرف گشتیم: اے آمدنت باعث آبادی ما ذکر تو بود زمزمہ شادی ما پوشیدہ نیست کہ اسلاف بغرض سیر و سیاحت و ترقی تجارت و حصول روزگار راہ غربت گرفتند واز قطعہ جنت نظیر خویش انفراق نمودہ دریں ملک ہندوستاں بہ مقامات مختلف اقامت در زید ندو در صورت اجنبی زندگانی می کردند۔ ہنگامے کہ آفتاب اقبال مغربیہ بہ ہندوستان طلوع نموداقوام مختلف ایں دیار از علوم مغربیہ بہرہ اندوز گشتند، دراں زماں ایں بزرگان خطہ باوجود مشکلات مہاجرت دریں راہ قدم نہادند و افتاں و خیزاں خویشتن را بجاے رسانید ند کہ امروز باعتبار علوم فنون و حصول مراتب و وجاہت دنیویہ واد اے فرائض دینیہ وبہ نظر تہذیب اخلاق و خیر خواہی دولت انگلشیہ در صف اقوام ترقی یافتہ گرفتند، ازاں جاکہ اہل خطہ را از فضل ایزد منان در ملک ہندوستان جمعیت قوم بحصول پیوستہ کشمیریان صوبہ پنجاب بہ کمال آرزو مندی برائے قبولیت عہدہ پیترن (Patron) بعضو روالا عرض رسان اندوامید دارند کہ جناب والا از منظوری ایں درخواست جملہ برادران خطہ را مشکور و ممنون سازندو و در انصرام ضروریات قومی و حفاظت حقوق اہل خطہ بیشتر از پیشتر سعی فرمایند۔ ما ازاں خیر خواہی دولت برطانیہ کہ از طریق عمل جناب ظاہر و ثابت شدہ است دمی شود بہ خودمی نازیم: از بیم جان و مال ہراساں نہ گشتہ ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند گورنمنٹ عالیہ کہ ازراہ الطاف خسروانہ اعزاز بزرگ یعنی عہدہ ممبر کونسل ہائے جناب والا صفات را عطا فرمودہ است ما اہل خطہ شکریہ این نعمت ادا کردن نمی توانیم دبد رگاہ خداوند کریم دعا کنیم کہ حکومت برطانیہ را بر جادہ مستقیم بر قرار دارد: ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد نواب صاحب نے اس سپاس نامہ کا جواب انگریزی میں دیا جس کا خلاصہ یہ ہے: ’’ صاحبو! نہیں نہیں بھائیو! میں آپ کے سپاسنامہ اور ملاقات سے بہت خوش ہوا۔ میں اس وقت اپنے بھائیوں کے درمیان ہوں اور ان کی ہر خدمت کے لئے جو مجھ سے ممکن ہو سکے حاضر اور تیار ہوں۔ آپ نے خواہش ظاہر کی ہے کہ میں آپ کی قومی انجمن کا Patron (مربی) بنوں میں ہر چند اس قابل نہیں لیکن آپ کی خوشی کو مد نظر رکھ کر آپ کی خواہش منظور کرتا ہوں اور خوش ہوں کہ میری قوم حکومت کی وفادار اور جاں نثار ہے۔‘‘ (8) ایجوکیشنل کانفرنس کے خطبہ صدارت میں نواب صاحب نے اعزاز صدارت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا’’ اگرچہ میری صحت اجازت نہیں دیتی تھی کہ میں اتنی د ور کا سفر اختیار کروں اور اس شاندار مجمع میں شریک ہوں مگر آپ حضرات کے اخلاص نے مجھے مجبور کیا اور ڈھاکہ سے یہاں تک کھینچ لایا۔ ڈھاکہ امرتسر سے سینکڑوں میل پر واقع ہے مگر میں یقین کرتا ہوں اور یقین کرے کی کافی وجوہ میرے پاس موجود ہیں کہ میں اپنے وطن میں ہوں۔ میرے خیال میں امرتسر کی آبادی پنجاب میں بہ لحاظ کشمیری آبادی کے بہت زیادہ ہے اور اپنے خواص اور پیداوار اور صنائع کے اعتبار سے ثانی سری نگر ہے اور شاید آپ حضرات واقف ہوں گے کہ میں کشمیری الاصل ہوں۔ اس حیثیت سے اپنے موجودہ وطن سے جس قدر آگے بڑھوں گا اصلی وطن یعنی کشمیر مجھ سے قریب تر ہوتا جائے گا۔‘‘ اقبال کی تحریک سے نواب صاحب نے 5فروری 1909ء کو ایسریگل لیجسلیٹو کونسل کے اجلاس میں حکومت ہند سے یہ سوال بھی پوچھا کہ آیا کشمیری فوج میں بھرتی ہو سکتے ہیں یا نہیں۔ اگر ہو سکتے ہیں تو آج کل کتنے کشمیری سرکاری فوجوں میں ہیں؟ نیز امرتسر اور سرحد کشمیر پر جو کشمیری آباد ہیں کیا وہ پنجاب کے قانون انتقال اراضی کی تعریف میں شامل ہیں یا نہیں؟ اس سوال کے جواب میں حکومت ہند کی طرف سے کہا گیا کہ کشمیری قوم کے فوج میں بھرتی ہونے پر کوئی روک ٹوک نہیں مگر رجمنٹوں میں چونکہ اس کی کلاس کمپوزشن نہیں یعنی کوئی کمپنی پلٹن میں یا کوئی ٹروپ رسالہ میں کشمیریوں کے لئے نہیں اس لئے ہندوستانی فوج میں کوئی کشمیری بھرتی نہیں ہوتا۔ اسی طرح حکومت کی طرف سے یہ جواب بھی دیا گیا کہ جو کشمیری امرتسر اور حدود کشمیر میں رہتے ہیں پنجاب کے قانون انتقال اراضی سے ان پر کچھ خراب اثر نہیں پڑا۔ پنجاب میں کاشتکار قوم مشتہر ہونے کے لئے کشمیریوں کو حکومت پنجاب سے درخواست کرنی چاہیے۔ پنجاب گورنمنٹ کو حکومت ہند سے دریافت کئے بغیر ہر قوم کو کاشتکار مشتہر کر دینے کا اختیار ہے۔ (9) اس سلسلہ کو آگے بڑھانے کی غرض سے اقبال نے کئی مراسلے اس وقت سرگرم عمل احباب کو لکھے تاکہ ان مساعی کا کوئی مثبت نتیجہ سامنے آ سکے۔ ان خطوط میں وہ عام طور پر فوجی بھرتی اور حصول اراضی کی ضرورت اور اہمیت، برادری اور حکام دونوں پر واضح کرتے رہے۔ ایک مراسلہ محمد دین فوق کے نام یوں تحریر کیا: برادر مکرم و معظم، السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ آپ کو شاید معلوم ہو گا کہ ہمارے مربی و محسن جناب سر آنریبل خواجہ محمد سلیم اللہ صاحب نواب بہادر کے سی ایس، آئی سی آئی ای نواب ڈھاکہ نے 5 فروری 1909ء کو وائسریگل کونسل میں کشمیریوں کے متعلق فوج اور زمینداروں کی بابت سوالات پیش کئے تھے۔ فوج کے متعلق تو صاحب بہادر کمانڈر انچیف افواج ہند لارڈ کچنر (10) نے فرمایا کہ کشمیری مسلمانوں کو فوج میں بھرتی ہونے کے لئے کوئی رکاؤٹ نہیں ہے اگرچہ کشمیریوں کی کوئی کمپنی یا سکاڈرن علیحدہ موجود نہیں ہے۔ اس امر کے متعلق انجمن کشمیری مسلمانان لاہور علیحدہ کوشش کر رہی ہے مگر فی الحال میں آپ کی توجہ دو سوالوں کی طرف منعطف کرنا چاہتا ہوں۔ زراعت پیشہ اقوام کے متعلق جو جواب نواب صاحب کے سوال کا دیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ لوکل گورنمنٹ جس قوم کو مناسب سمجھتی ہے اقوام بندی زمینداری میں شامل کر لیتی ہے۔ گورنمنٹ پنجاب کو یہ دونوں سوال اور جواب زمینداری کے متعلق حضور وائسرائے بہادر نے بھیجے تھے۔ گورنمنٹ ممدوح نے حکم جاری فرمایا کہ کمشنر اپنے اپنے علاقے کی مفصل رپورٹ کریں کہ آیا کشمیری مسلمان اقوام بندی زمینداری میں شامل کر لئے جائیں یا کئے جانے کے لائق ہیں۔ کمشنر صاحب بہادر نے ڈپٹی کمشنروں کے نام حکم صادر فرمایا ہے کہ وہ ان کو اس معاملہ میں مدد دیں۔ ڈپٹی کمشنروں نے تمام کشمیری زمینداروں کی ایک فہرست مرتب کروائی ہے جس سے ان کو معلوم ہو گا کہ پنجاب میں کتنے کشمیری زراعت پیشہ ہیں۔ ڈپٹی کمشنر صاحب سیالکوٹ کا حکم نہایت صاف ہے۔ انہوں نے تحصیلداروں سے چار امور دریافت فرمائے ہیں یعنی۔ 1قوم کشمیری کے افراد کا عموماً کیا پیشہ ہے؟ 2کس قدر کشمیری ایسے ہوں گے جن کا گذارہ صرف زراعت کاری پر ہے؟ 3اگر وہ مالکان اراضی ہیں تو کب سے انہوں نے زمین حاصل کر لی ہے؟ 4 کوئی کشمیری دخیل کار ہے یا نہیں؟ اس حکم سے معلوم ہوتا ہے کہ مفصلات اور شہروں میں بود و باش رکھنے والے زراعت پیشہ کشمیریوں کی جو فہرست تیار ہو گی اس میں مندرجہ بالا چار امور کا خیال رکھا جائے گا۔ آپ مہربانی کر کے تحصیلدار صاحبوں کو اس فہرست کے مرتب کرنے میں خود بھی امداد دیں اور دیکھیں کہ یہ فہرست بموجب حکم ڈپٹی کمشنر بہادر تیار کی جاتی ہے یا نہیں۔ تمام اہل خطہ کو جو آپ کے علاقہ میں رہتے ہیں اچھی طرح سمجھا دیا جائے کہ وہ اپنے اپنے گاؤں میں فہرست تیار کرنے میں امداد دیں تاکہ مکمل فہرست تیار ہو سکے اور ہماری گورنمنٹ کو معلوم ہو جائے کہ کشمیری کس قدر پنجاب میں زمیندار ہیں اور زمینداری کا کام کرتے ہیں۔ اگر آپ کو معلوم ہو کہ یہ فہرست بموجب حکم صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر تیار نہیں ہوئی تو صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر کی خدمت میں مودبانہ درخواست کریں کہ وہ ان کے بموجب حکم تیار کرنے کا صادر فرمائیں۔ جو نقشہ کہ تیار ہو رہا ہے اس کی ایک نقل انجمن کشمیری مسلمانان لاہور کے پاس جس قدر جلد ممکن ہو سکے ارسال فرمانے کی کوشش کریں۔ یہ چٹھی اپنے بھائیوں کو جو مفصلات میں رہتے ہیں جلدی بھیج دیں تاکہ ان کو معلوم ہو جائے کہ کس قسم کی فہرست ہونی چاہئے۔ اگر وہ دیکھیں کہ فہرست بموجب حکم بالا تیار نہیں ہوئی یا نہیں ہوتی تو وہ آپ کی معرفت صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر سے خط و کتابت کریں۔ اس غرض کے لئے کہ مندرجہ بالا تمام قوم کے افراد متفقہ طور پر اپنی بہبودی کے لئے کوشش کریں نیز دیگر امور کے لئے جو قوم سے بحیثیت مجموعی تعلق رکھتے ہوں میں تحریک کرتا ہوں کہ آپ اپنے سنٹر (مرکز) میں ضرور کشمیر مجلس قائم کریں۔ اس کے علاوہ ہر ایسے مقام میں جہاں آپ کا اثر ہو اپنے دیگر بھائیوں کو کشمیری مجلس قائم کرنے کی ترغیب بھی دیں کیونکہ اس طریق سے نہ صرف قوم کے افراد میں اتحاد و یگانگت کی صورت پیدا ہو گی بلکہ قومی حقوق کی حفاظت اور توسیع میں بھی سہولت ہو گی۔ (11) خاکسار محمد اقبال بیرسٹر ایٹ لا جنرل سیکرٹریا نجمن کشمیری مسلمانان لاہور (12) دوسری چٹھی جو اقبال نے اراکین انجمن کشمیر مسلمانان کے نام ارسال کی۔ یہ تھی: برادر مکرم و معظم، السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ انجمن کشمیری مسلمانان لاہور کی طرف سے پہلے بھی مسئلہ زمینداری کے متعلق ایک مطبوعہ چٹھی بعض قومی کمیٹیوں اور بزرگان قوم کی خدمت میں ارسال کئے جانے کے علاوہ کشمیری میگزین بابت مئی 1909ء میں شائع ہوئی ہے جو امید ہے تمام برادران کی نظر سے گذری ہو گی۔ اس مسئلہ پر دیگر قومی کمیٹیوں کے علاوہ انجمن کشمیری مسلمانان لاہور بھی غور کر رہی ہے۔ بلکہ اس نے ایک چٹھی بخدمت صاحب سینئر سیکرٹری جناب لیفٹیننٹ گورنر صاحب بہادر صوبہ پنجاب بدین مضمون ارسال کی ہے کہ کشمیری زمینداروں کی فہرست اقوام بندی صرف ضلع سیالکوٹ و گورداس پور تک ہی محدود نہ رہے بلکہ یہ حکم ازراہ الطاف خسروانہ دیگر اضلاع مثلاً گوجرانوالہ، لاہور، امرتسر، جہلم، راولپنڈی، لدھیانہ، اٹک، ہزارہ وغیرہ میں بھی جہاں کشمیری آبادی کثرت سے ہے نافذ کیا جائے۔ صاحب ممدوح کی خدمت میں ایک نقشہ بھی اس مضمون کا ارسال کیا گیا ہے کہ فہرست کس طریق سے تیار ہونی چاہئے۔ جواب آنے پر سب بھائیوں کو بذریعہ میگزین اطلاع دی جائے گی۔ فوجی مسئلہ کی ضرورت اور اہمیت سے بھی انجمن غافل نہیں ہے۔ اس معاملہ کے متعلق خاموشی اس لئے ہے کہ ہمارے مربی و محسن نواب بہادر سر خواجہ محمد سلیم اللہ صاحب بہادر کے سی ایس، آئی سی آئی ای نواب آف ڈھاکہ نے اپنی ایک تازہ چٹھی بنام جنرل سیکرٹری انجمن کشمیری مسلمانان لاہور میں وعدہ فرمایا ہے کہ وہ صاحب کمانڈر ان چیف بہادر افواج ہند سے ملاقات کر کے اس سلسلہ کی نسبت فرمائیں گے۔ اب نواب صاحب ممدوح کو تمام امور متعلقہ خدمات فوجی سے آگاہی کی ضرورت ہے تاکہ پوری واقفیت حاصل کر کے حضور کمانڈر انچیف بہادر سے گفتگو کر سکیں اور صراحت و وضاحت سے اپنے بھائیوں کی مردانگی اور جاں نثاری اور ان کی فوجی خدمات کا تذکرہ کر سکیں۔ ایسا مصالحہ بہم پہنچانا معمولی بات نہیں ہے اور نہ ہی ایک شخص یا ایک کمیٹی کا کام ہے جب تک تمام برادری متفقہ کوشش سے اس میں ہاتھ نہ بٹائے گی یہ کام سر انجام نہ ہو گا۔ اس لئے سب بھائیوں کی خدمت میں گذارش ہے کہ وہ کشمیری انجمن لاہور کو اس معاملے میں مدد دیں اور نقشہ ملازمان اہل خطہ فوج کو جو لف ہذا ہے اچھی طرح سے پر کر کے جتنی جلدی ہو سکے جنرل سیکرٹری کو واپس ارسال فرمائے تاکہ نواب صاحب بہادر کی خدمت میں افواج ہند کے کشمیری بہادروں کی مکمل فہرست ارسال کر دی جائے۔ آپ ہر گز یہ خیال نہ فرمائیں کہ اس نقشہ سے کسی طرح ہمارے ان بھائیوں کو جو اس وقت صیغہ فوج میں ملازم ہیں نقصان پہنچے گا۔ نقصان پہنچنے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ گورنمنٹ آف انڈیا اور خود کمانڈر انچیف بہادر تسلیم کر چکے ہیں کہ کشمیری مسلمان فوجوں میں ملازم ہیں۔ ان کے لئے کوئی بندش اور رکاؤٹ نہیں ہے البتہ ان کی تعداد تھوڑی ہے۔ لاہور کی کمیٹی جس میں ہماری برادری کے اکثر اہل الرائے اور قانون دان بزرگ شامل ہیں اپنے بھائیوں کے اس خیال پر کافی سے زیادہ غور کر چکی ہے اور وہ ہر طرح مطمئن ہے بلکہ ایسی فہرستوں کے مرتب ہونے سے قومی فائدہ کی بہت بڑی توقع رکھتی ہے۔ کمیٹی کوشش کر رہی ہے کہ ہمارا ایک Deputationجس میں ہماری برادری کے معزز فوجی پنشن یافتہ عہدہ دار خصوصیت سے شامل ہوں بہ سر پرستی نواب بہادر آف ڈھاکہ صاحب بہادر کمانڈر انچیف کی خدمت میں اس غرض سے حاضر ہو کہ کشمیری مسلمانوں کی رجمنٹ یا مختلف رجمنٹوں یا رسالوں میں کمپنی علیحدہ بنائے جانے کا حکم صادر فرمایا جائے۔ اگرچہ برادران قوم نے فہرستیں اور نقشے مکمل کر کے جلد تر واپس کر دئیے تو غالب توقع ہے کہ رجمنٹ ضروری ہماری گذارش پر توجہ فرمائے گی۔ اس چٹھی کے ساتھ علاوہ نقشہ ملازمان اہل خطہ فوج کے ایک نقشہ مردم شماری اہل خطہ کا بھی ہے۔ اس کی خانہ پری بھی ضروری ہے، اس نقشہ سے نہ صرف اپنی برادری کی صحیح مردم شماری ہی دریافت کرنا مقصود ہے بلکہ یہ امر بھی جیسا کہ نقشہ کے ملاحظہ سے آپ کو معلوم ہو جائے گا مدنظر ہے کہ قوم کے خواندہ اور نا خواندہ اور بیکار اور با کار اصحاب کا حال بھی معلوم ہو جائے تاکہ کمیٹی حتی المقدور اپنے بھائیوں کو کسی قسم کی امداد پہنچا سکے۔ دنیا اس بات کو تسلیم کر چکی ہے کہ بغیر تعلیم کے کوئی قوم زندہ قوموں میں شمار نہیں ہو سکتی۔ جس قدر قومیں آج آپ کو مہذب، شائستہ اور ترقی یافتہ نظر آتی ہیں وہ سب علم کے زینے سے ہی آسمان عروج و کمال کو پہنچی ہیں۔ا ٓپ کو بھی یاد رہے کہ آپ میں بھی وہ سچے موتی و جواہر موجود ہیں جن کی چمک دمک سے دنیا حیران اور خیرہ ہو سکتی ہے لیکن صرف جلا کی ضرورت ہے اور جلا تعلیم کے ذریعہ ہی ہو سکتی ہے۔ آخر میں پھر یہ گذارش کرتا ہوں کہ دونوں نقشے فوجی اور مردم شماری بہت جلد پر کر کے واپس ارسال فرمائیں۔ اگر یہ نقشے ختم ہو جائیں تو آپ لاہور کمیٹی سے اور طلب فرما سکتے ہیں۔ یا اسی نمونے کے اور نقشے دستی بنا سکتے ہیں۔(13) قوم کا خادم (ڈاکٹر شیخ ) محمد اقبال، ایم اے بیرسٹر ایٹ لاء لاہور انجمن کشمیری مسلمانان لاہور کی بنیادوں پر بعد میں آل انڈیا مسلم کشمیری کانفرنس لاہور عالم وجود میں آئی جس نے اہل کشمیر میں بیداری پیدا کرنے اور تعلیمی پستی دور کرنے میں بڑا کام کیا۔ اس کانفرنس کے پہلے جنرل سیکرٹری بھی اقبال ہی تھے۔ بعد میں سید محمد محسن شاہ بی اے ایل ایل بی اس کے سیکرٹری ہو گئے تھے۔ ان ایام میں خواجہ احمد شاہ رئیس لدھیانہ اور خواجہ یوسف شاہ رئیس امرتسر پنجاب کونسل کے ممبر تھے۔ وہ دونوں کشمیری تھے اور قومی معاملات میں خوب دلچسپی لیا کرتے تھے۔ خواجہ احمد شاہ کی طرف سے لاہور میں انگریزی اخبار’’ پنجاب اوبزرور‘‘ جاری تھا جس کے ایڈیٹر مختلف وقتوں میں شیخ عبدالقادر، شیخ عبدالعزیز اور ملک برکت علی رہے۔ شیخ عبدالعزیز اپنے آپ کو’’ اعزازی کشمیری‘‘ کہا کرتے تھے ادھر فوق صاحب کشمیری میگزین میں کشمیری مسلمانوں کی بے کسی اور حکومت کشمیر کی بے توجہی کا حال بیان کرتے رہتے۔ لیکن اخباروں کی چیخ و پکار اور کشمیری کانفرنس کے مقرروں کی دھواں دھار تقریروں کے باوجود دربار کشمیر کسی مطالبہ پر کان نہیں دھرتا تھا بلکہ قرار دادوں اور شکایتوں کے پہنچنے کی رسید تک نہ دیتا تھا۔ یہ حالات نہایت مایوس کن اور حوصلہ شکن تھے لیکن ارکان کانفرنس نے ہمت نہ ہاری۔ آخر ان کے عزم و استقلال کی بدولت ایک وقت آیا جب قرار دادوں کی رسیدیں بھی آنے لگیں۔ حکام سے ملاقاتیں بھی ہونے لگیں اور کانفرنس کے وفد مہاراجہ پرتاپ سنگھ کے سامنے اصالتاً اپنی شکایات پیش کرنے لگے۔ دو ایک موقعوں پر اقبال نے بھی ان میں شامل ہو کر کشمیری کانفرنس کی ترجمانی کا حق ادا کیا۔ 1909ء یا 1910ء کی بات ہے کہ ایک مرتبہ کشمیری کانفرنس کا وفد مہاراجہ پرتاپ سنگھ والئی کشمیر کی خدمت میں بمقام کشمیر ہاؤس لاہور جانے والا تھا۔ فوق صاحب ا قبال کو بلانے گئے اقبال ان دنوں انار کلی والی بیٹھک میں رہتے تھے۔ا نہوں نے یہ کہہ کر جانے سے انکار کر دیا کہ ’’مہاراج دن کے بارہ بجے سے پہلے کسی مسلمان کا منہ دیکھنا پسند نہیں کرتا اور میں کسی وقت بھی اس کی شکل دیکھنا نہیں چاہتا۔ غضب خدا کا ایک ایسا شخص جس کے شہر جموں کا نام صبح ہی صبح لینا نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو تک منحوس سمجھتے ہیں اس منحوس شہر کا رہنے والا مسلمان کو منحوس سمجھ کر اس کی شکل سے نفرت کرتا ہے؟‘‘ فوق صاحب نے کہا یہ بات تو صحیح ہے کہ مسلمان بارہ بجے سے پیشتر اس کے پاس نہیں جا سکتے لیکن اس کی ایک وجہ بھی ہے وہ یہ کہ مہاراجہ صبح سویرے اٹھ کر اشنان کرنے کے بعد پوجا پاٹھ کرتے ہیں۔ برہمن ان کے گرد ہوتے ہیں اس میں کافی وقت صرف ہو جاتا ہے۔ پھر حقہ بھرا جاتا ہے۔ جس کے کش لگاتے لگاتے کھانے کا وقت ہو جاتا ہے اور خواہ مخواہ بارہ بج جاتے ہیں۔ تب کہیں جا کر ان کو برہمنوں اور رسوئی کے کام سے فرصت نصیب ہوتی ہے۔ اسی لئے وہ اپنے وزیروں اور بڑے بڑے اہلکاروں کو بھی بارہ بجے دوپہر سے ایک بجے تک ہی جے جے اور سلام کا موقع دیا کرتے ہیں۔لیکن ان باتوں سے اقبال کی تسلی کب ہو سکتی تھی، انہوں نے ایک نہ سنی اور نہیں آئے۔ وفد کے باقی ممبر وقت مقررہ پر کشمیر ہاؤس پہنچے۔ انہیں ایک چھوٹے سے خیمے میں بٹھایا گیا۔ دیوان امر ناتھ چیف منسٹر تھے وہ کچھ گھبرائے ہوئے سے تھے۔ تھوڑے تھوڑے وقفہ کے باہر باہر آ جاتے اور پھر خیمے میں آ کر باتوں میں مشغول ہو جاتے۔ ملاقات کا وقت آٹھ بجے شام تھا۔ مگر جب نو بج چکے تو ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا اور دیوان صاحب کو خیمے سے باہر لے گیا معلوم ہوا کہ مہاراجہ صاحب جو کسی کو اطلاع دئیے بغیر اپنے گوروجی کے پاس چلے گئے تھی اور جن کی تلاش میں دیوان صاحب پریشان ہو رہے تھے تشریف لے آئے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد سب کو بڑے کمرے میں بلایا گیا غالباً اواخر دسمبر کے دن تھے کمرے میں انگیٹھی جل رہی تھی اور مہاراجہ صاحب گاؤ تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ سب سلام کر کے فرش پر بیٹھ گئے کچھ معروضات پیش کیں۔ مہاراجہ صاحب نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ دیوان صاحب آپ سے گفتگو کر چکے ہیں۔ وہ آپ کی باتوں کا خیال رکھیں گے۔ سرکار کو خود بھی خیال ہے۔ اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ سب سلام کر کے چلے آئے لیکن حیران تھے کہ یہ کیسی ملاقات ہے۔ ایک طرف تو دن گنے جاتے تھے اس دن کے لئے اور دوسری طرف نشتند و گفتند و ند خاستند کا معاملہ ہوا۔ پہلے وفد کی ناکامی کے بعد جب دوسرے سال مہاراجہ صاحب لاہور آئے تو کانفرنس نے پھر وفد لے جانے کا فیصلہ کیا۔ اس دفعہ ایک میورنڈم بھی تیار کیا گیا جس کا لہجہ کس قدر تلخ تھا۔ دیوان بشن داس ہوم منسٹر اور وزیر تعلیمات تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس تحریر سے کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ بہتر یہ ہے کہ جو کچھ کہنا ہو زبانی کہہ دیجئے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ اس وفد میں آنریبل خواجہ یوسف شاہ ممبر کونسل پنجاب، خان بہادر اللہ بخش اور سید محسن شاہ وغیرہ شامل تھے۔ ریاست کی طرف سے اس موقعہ پر دیوان بشن داس ہوم منسٹر، خان بہادر شیخ مقبول حسین ریونیو منسٹر اور ایک دو اور معزز افسر موجود تھے۔ جب مہاراجہ کی ایما سے سب کرسیوں پر بیٹھ گئے تو آپ نے چھوٹتے ہی فرمایا۔ سرکار ہمیشہ فرشی دربار کیا کرتے ہیں لیکن آپ کی خاطر آج کرسیوں کا دربار لگایا گیا ہے۔ ارکان وفد نے شکریہ ادا کیا پھر خان بہادر شیخ غلام صادق، آنریبل خواجہ یوسف شاہ اور خان باہدر خواجہ اللہ بخش باری باری مسلمانان کشمیر کی تعلیمی اور اقتصادی پس ماندگی کا ذکر کرتے رہے اور مہاراجہ کو ان کی فلاح و بہبود کی طرف توجہ دلاتے رہے۔ مہاراجہ نے جو کچھ جواب میں ارشاد فرمایا اس سے معلوم ہوتا تھا کہ دیوان بشن داس صاحب ان سے میمورنڈم کے تند و تلخ لہجہ کا ذکر کر چکے تھے۔ آپ نے فرمایا’’ سرکار کو ساری خبر ہے کہ لیڈر کس طرح بنا کرتے ہیں۔ جو شخص بہت باتیں کرتا ہے بس وہ لیڈر ہے۔ جو ہندو مسلم فساد کرانے میں سب سے پیش پیش ہے بس وہ لیڈر ہے۔ جو فرقہ وار مطالبات پر زور دیتا ہے بس وہ لیڈر ہے، آپ لوگوں کو اگر اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ ایسی ہی ہمدردی ہے تو کشمیر ہاؤس آ جانا تو آسا ہے ذرا تکلیف اٹھا کر کشمیر آئیے ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں۔ گھر بیٹھ کر باتیں بنانے سے کیا فائدہ؟ وہ کشمیر ہے پنجاب نہیں ہے۔ ہم وہاں ہندو مسلم سوال پیدا نہ ہونے دیں گے۔‘‘ مہاراجہ صاحب ایک ہی سانس میں یہ سب باتیں کہہ گئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے انہوں نے زبانی یاد کر رکھی تھیں۔ خان بہادر خواجہ عبداللہ بخش تو پولیٹیکل مذاق کے آدمی تھے۔ انہوں نے فوراً کہا کہ سرکار کے عہد میں آج تک ہم نے ریاست میں ہندو مسلم فساد کا ذکر نہیں سنا۔ یہ الفاظ سرکار کے منہ ہی سے پہلی مرتبہ سنے ہیں۔ا گر خدانخواستہ کبھی ایسا ناخوشگوار واقعہ پیش آیا تو ہم اس فساد کو ٹالنے اور امن قائم کرنے میں اپنی جانیں تک لڑا دیں گے اور کشمیر آنے کی جو دعوت دی گئی ہے اس کے لئے اہل وفد دل و جان سے شکر گذار ہیں اور بندہ تو بن بلائے ہی ہر سال حاضر ہو جاتا ہے صرف ان لوگوں کے اطمینان کی ضرورت ہے۔ مہاراجہ صاحب نے فرمایا کہ سرکار کی زبان پر اعتبار نہیں؟ بس ہم نے کہہ دیا ہے یہی ہماری زبان اور یہی ہماری تحریر ہے۔ وفد کے لوگ حیران تھے کہ کس قسم کے مطالبات اور معروضات لے کر آئے تھے اور کس قسم کا جواب لے کے جا رہے ہیں۔ آخر ایک مرتبہ اقبال کے دوست انہیں بھی پرتاپ سنگھ کے پاس لے ہی گئے۔ یہ بھی لاہور ہی کا واقعہ ہے۔ مہاراجہ کشمیر ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کا مہاراجہ سے تعارف کرایا گیا۔ بعض دوستوں نے اس ملاقات سے پہلے ہی مہاراجہ صاحب سے ڈاکٹر صاحب کی علمی شہرت اور ان کی شاعرانہ عظمت کا کچھ ذکر کر رکھا تھا۔ مہاراجہ صاحب بے تکلف کہنے لگے ’’ ڈاک دار صاحب سنا ہے آپ بیت بناتے ہیں؟‘‘ ڈاکٹر صاحب نے بھی شوخی سے جواب دیا’’ سرکار بیت نہ کبھی میں نے بنائی ہے اور نہ کبھی میرے باپ دادا نے۔ اس کے علاوہ میں ڈاکدار بھی نہیں۔ نہ میں نے کبھی ڈاک کا کام کیا ہے نہ میرے بزرگوں نے۔‘‘ مہاراجہ صاحب اقبال کے ساتھیوں کا منہ دیکھنے لگے۔ انہوں نے کہا’’ حضور یہ شاعر ہیں اور شعر کہتے ہیں۔ شعر کو بیت بھی کہتے ہیں۔ انہوں نے بیت کو وہ بیت (بید ) سمجھا جس سے کرسیاں بنائی جاتی ہیں۔‘‘ مہاراجہ صاحب بولے’’ ٹھیک کہا آپ نے انہوں نے وہی بیت سمجھا ہو گا ۔ کوئی شعر سنائیے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب شعر پڑھنے لگے تو مہاراجہ نے فرمایا’’ نہیں صاحب یوں نہیں گا کر پڑھئے۔ اسی لے میں جس کی آپ کے دوست تعریف کرتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے منشی محمد دین فوق کی طرف دیکھا اور دبی زبان میں کہا جی تو یہی چاہتا ہے کہ میرے دوستوں کے پاؤں میں گھنگرو باندھے جائیں تو میں گاؤں۔ لیکن مہاراجہ کے احترام نے شوخی کا منہ بند کر دیا۔ اس کے بعد پانچ سات شعر ترنم ہی سے پڑھے۔ آپ کے بعد مہاراجہ نے خود بھی فارسی کے چند شعر سنائے پھر کہا’’ ڈاکٹری میں آپ نے کون سا امتحان پاس کیا ہے؟‘‘ ڈاکٹر صاحب نے کہا’’ میں تو فلسفہ کا ڈاکٹر ہوں۔ فزیشن و سرجن ڈاکٹر نہیں ہوں‘‘ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کے ساتھیوں میں سے ایک نے کہا کہ سرکار یہ بھی آپ کی رعایا ہیں۔ مہاراجہ نے پوچھا’’ وہ کیسے؟ یہ لاہور کے رہنے والے ہماری رعایا کس طرح ہو گئے؟‘‘ ساتھی نے کہا’’ ان کے آباؤ اجداد کشمیر کے رہنے والے تھے۔ ان کی ذات سپرو ہے۔ پنجاب میں ان کا وطن سیالکوٹ ہے۔‘‘ مہاراجہ نے کہا’’ بہت اچھا۔ سرکار آپ کو کشمیر آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ آپ ضرور آئیں۔‘‘ یہ واقعہ ڈاکٹر صاحب نے ایک مرتبہ خود سنایا تھا مگر وہ مہاراجہ کی دعوت پر کشمیر نہ آ سکے۔ کشمیری کانفرنس کے بارے میں جب اقبال بالآخر یہ محسوس کرنے لگے کہ مسلمان عالمگیر اخوت کے نصب العین کو نظر انداز کر کے برادریوں کے فریب میں مبتلا ہو گئے ہیں تو آپ نے اس کانفرنس کے کاموں میں دلچسپی لینی چھوڑ دی۔ چنانچہ کانفرنس کا جو بارہواں سالانہ اجلاس اپریل 1918ء میں سیالکوٹ میں منعقد ہوا آپ نے اس میں شرکت نہیں کی۔ اس وقتی مایوسی اور دل برداشتگی کے باوجود اقبال کا ذہن شب و روز آزادی کشمیر کے خواب دیکھنے میں محو رہتا۔ قریشی کے بقول وہ کشمیر کے روشن اور درخشندہ مستقبل سے کبھی مایوس نہیں ہوئے۔ انہوں نے جب کبھی کہا یہی کہا کہ ایسا زرخیز ملک، ایسے روشن دماغ اور ذہین وذکی لوگ اور ایسی صناع و ہوشیار قوم ہمیشہ کے لئے کبھی غلام نہیں رہ سکتی۔ ان کی امید کا دامن یہاں تک بڑھا ہوا تھا کہ کہا کرتے تھے کہ اگر کشمیر کے لوگ بیدار ہو گئے ان کو زمانہ کا ساتھ دینے کی توفیق ہوئی اور آزادی کی فضا میں سانس لینے کا موقع ملا تو یہ سارے ہندوستان کو بیدار کریں گے اور اس کے راہ نما ثابت ہوں گے۔ چنانچہ بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا کہ ہندوستانی ریاستوں کی چھ کروڑ آبادی میں سب سے پہلے کشمیر کے لوگوں ہی نے جبر و استبداد کے خلاف آواز اٹھائی اور ان کی دیکھا دیکھی باقی ریاستوں کی رعایا نے بھی قدیم نظام حکومت بدلوانے کے لئے ہاتھ پاؤں مارے۔ (14) 1925ء میں کشمیری مسلمانوں نے اپنی بے کسی کی داستان اور بے بسی کا حال زار جس تاریخی میمورنڈم کی شکل میں وائسرائے ہند کو پیش کیا، پیر محمد افضل مخدومی کے مطابق وہ اقبال ہی کے مشورہ پر تیار کیا گیا تھا اور اس قسم کے مشورے کشمیری اکابرین کو فراہم کرنے کے لئے اقبال کی ایما پر محسن شاہ، محمد دین فوق اور محی الدین امرتسری وقتاً فوقتاً سری نگر آتے رہتے تھے۔ تحریک حریت کشمیر کے ساتھ اقبال کی فکری اور جذباتی وابستگی کے والہانہ پن کی تصویر کشی مخدومی نے اس طرح کی ہے۔ ’’ کہتے ہیں کہ طالب علمی کے شوخ و شنگ زمانہ میں جب علامہ اقبال سیالکوٹ میں اپنے آبائی وطن کے ’’ ہتو‘‘ سے دو چار ہوتے تھے تو ان سے حال و احوال کے ساتھ جنت نظیر کے ندی نالوں۔ آبشاروں اور کوہساروں کا ذکر چھیڑ کر مغموم رہتے تھے۔‘‘ (15) ہمارے ایک خاندانی بزرگ حضرت حفیظ اللہ مخدومی فرماتے تھے کہ جب وہ موسم سرما میں سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور لدھیانہ اپنے آبائی مریدوں کے پاس جاتے تو وہ تمام کشمیری خاندان جن میں جسٹس دین محمد، شیخ عطا محمد، علی بخش ہیڈ ماسٹر، پہلوانان لاہور اور امرتسر، حضرت ہردی بابا ریشی رحمتہ اللہ علیہ (ریش مالوبٹہ مالو صاحب) کے ایام عرس میں اسی طرح گوشت نہیں کھاتے جس طرح مقامی کشمیری معتقدین احترام کے طور پر کھانے سے پرہیز کرتے ہیں۔ ان میں حضرت علامہ کے والد ماجد بھی شامل تھے اور یہ روایت اس خاندان میں عرصہ دراز تک قائم رہی۔ اپنے قیام کشمیر کے دوران ایک طرف اقبال اگرچہ کشمیر کی جنت ارضی کے مرغزاروں، آبشاروں اور گل پوش سبزہ زاروں کا مشاہدہ بھی کرتے رہے لیکن دوسری جانب یہاں کے رئیسوں، سجادہ نشینوں اور مولویوں کو جو ان دنوں کشمیر کے افلاس زدہ باشندوں کی طرف سے نمائندگی کے نام نہاد مدعی تھے۔ حریت، عزت اور غیرت کے فلسفیانہ پیغام سے روشناس کراتے رہے۔ چنانچہ جب 30مارچ 1927ء کو لارڈ ارون وائسرائے ہند کشمیر کے دورے پر آئے تو کشمیر کے چند باغیرت جاگیرداروں اور رئیسوں نے پیرزادوں کی مدد سے ایک خفیہ میورنڈم ان کی خدمت میں پیش کیا جس میں مظلومیت اور غلامی کی وہ ساری داستان درج تھی جو مطلق العنان حکمران نے کشمیریوں پر روا رکھی تھی۔ بلکہ خانقاہ معلی سری نگر کے سامنے کالی جھنڈیوں کا مظاہرہ بھی ہوا تھا۔ یہ اس فہم و ادراک کے پس منظر میں بیان کیا جاتا ہے جو حضرت علامہ اپنے دورہ کشمیر کے دوران اہل کشامرہ کے ذہن میں ڈال چکے تھے۔ اس پاداش میں کئی صادق القول معززین کشمیر کو بے شمار مصائب اور آلام کا سامنا کرنا پڑا۔ اور اس کی پاداش میں جلا وطنی، ضبطی جاگیرات، محرومی دربار وغیرہ اک خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا گیا۔ حضرت علامہ کی مساعی صرف وادی گل پوش تک ہی محدود نہ تھی۔ بلکہ اپنے ہم وطنوں کی مظلومیت اور بے بسی کی داستان وہ وائسریگل لاج تک بھی پہنچاتے تھے خود مہاراجہ کو متوجہ کرنے کے لئے حالات و واقعات کا دلخراش جائزہ پیش کرتے تھے۔ ’’ تاریخ مفتی محمد شاہ سعادت‘‘ میں کئی ایسے محضر ناموں کا واضح طور پر ذکر درج ہے۔ حکیم مشرق اس مسلم کانفرنس کے روح رواں تھے۔ جو پنجاب خاص کر لاہور اور امرتسر میں مقیم کشمیری حضرات نے ذہین کشمیری طلباء کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں وظائف کا اہتمام کرنے کی غرض سے قائم کی تھی۔ا س ادارہ کے طفیل متعدد کشمیری طلبا 1920ء سے 1935ء تک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ان میں اب بھی بڑے بڑے افسران اور لیڈر شامل ہیں۔ اسی ادارہ کے جنرل سیکرٹری جناب سید محسن شاہ مرحوم تھے۔ اس کے علاوہ موسم گرما میں سرکردہ کشمیری حضرات علامہ کی طرف سے سفیر بن کر سری نگر آتے تھے اور اجتماعی و انفرادی رابطے قائم کر کے یہاں احساس زیست پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ستمبر1926ء میں جب ایسا ہی ایک وفد کشمیر آیا تو اس کے ساتھ سر محمد شفیع نے بھی رفاقت کی تھی۔ جناب شیخ محمد صادق، سید محسن شاہ، محمد دین فوق، خواجہ غلام محی الدین ایڈیٹر کشمیری میگزین تو ہر سال وارد ہوتے تھے۔ اور حضرت علامہ اقبال کا پیغام موثر ذرائع سے لوگوں تک پہنچاتے تھے۔ 22 جولائی 1927ء کو شیخ الحدیث حضرت مولانا انور شاہ صاحب عرصہ دراز کے بعد جب وطن عزیز تشریف لائے اور مواعظ احسنہ کا سلسلہ شروع کیا اس کے لئے بھی حضرت علامہ نے ہی ان سے استدعا کی تھی۔ الغرض وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہی کشمیر میں آزادی کی جو قندیل روشن ہوئی وہ اسی ضرب کلیمی کا نتیجہ تھی۔ اقبال نے مارچ1931ء میں الہ آباد کے ایک ملی اجتماع میں اپنے خطبہ کے دوران فکر فردا کے اس شعر کی نشان دہی کی تھی جو صرف چند ماہ بعد 13جولائی 1931ء کو کشمیری کے مجاہدان آزادی کے گرم اور پاک خون سے دہک اٹھا تھا۔ اور جو قلیل مدت میں آفتاب عالم تاب بن کر تحریک آزادی کشمیر کے عظیم الشان پرچم کو انتہائی آن بان کے ساتھ لہرائے جانے کا باعث بنا۔ حضرت علامہ نے اپنے وجدان و عرفان کے پیغام میں آبائی وطن کے نشیب و فراز کو کبھی محو نہیں ہونے دیا بلکہ جہاں کہیں بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ وہاں ان کا لہجہ سچی محبت اور گہری ہمدردی کے جذبہ سے رقت انگیز ہو گیا ہے۔ شاعر مشرق نے اپنی زندگی کے بیشتر حصہ میں کشمیر کے افق پر مہیب اور ہولناک شخصی راج کے منحوس سائے منڈلاتے دیکھے تھے اور یہ سب کچھ دیکھ کر ان کا انسان دوست، حساس اور وطن پرست دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ تاریخ ان کی ان گنت عظمتوں میں سے اس اولو العزمی کا خاص طور پر ذکر کرے گی کہ وہ ان باسعادت اور مجاہدانہ عزائم کی ہستیوں کے پیش رو اور میر کاروان تھے۔ جنہوں نے آزادی کشمیر کا خواب دیکھا اور اہل کشمیر کو خوش حال اور ترقی یافتہ دیکھنے کی تمنا کی۔ یہی نہیں بلکہ اپنے آفاقی لب و لہجہ سے کشمیریوں کو ان کی زبوں حالی کا احساس دلایا۔ 1936ء میں کشمیر کے حریت پسندوں کی شخصی راج یعنی ڈوگرہ راج کے آمروں کے ساتھ ایک اور ٹکر ہوئی۔ روایتی مظالم کے علاوہ سرکردہ رہنما جلا وطن بھی ہوئے ان میں حضرت مولانا محمد سعید مسعودی اور مولانا احمد اللہ میر واعظ ہمدانی وغیرہ شامل تھے۔ حضرت علامہ نے لاہور میں ان کے قیام و طعام اور دیگر سہولیات کے لئے اہتمام کرا لیا روزانہ ان کشمیری حضرات سے ملاقات کے دوران کشمیر کے حالات دریافت کرتے اور انہیں اپنے مفید اور کار آمد مشوروں سے نوازتے۔ ایک بار جب میر واعظ ہمدانی ان سے ملنے گئے حضرت علامہ نے پہلے اردو اور فارسی میں تکلم شروع کیا۔ مگر میر واعظ ’’ زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم‘‘ کے مصداق سمجھ سے بالاتر رہے۔ مولانا مسعودی نے عرض کی حضرت ہمارے میر واعظ اردو، فارسی اور پنجابی نہیں سمجھتے ہیں۔ یہ سن کر حکیم مشرق ورطہ حیرت میں پڑ گئے اور مولانا محمد سعید مسعودی کی طرف دیکھتے رہے اور کچھ دیر خاموشی کے بعد فرمایا ’’ آہ میں اپنی کشمیری زبان سے نابلد ہوں۔‘‘ پھر مسحور کن لہجہ میں مخاطب کر کے کہا کہ آزادی وطن کے طلب گار مجاہد کے لئے یہ کس قدر سعادت ہوتی کہ وہ بجائے جلائے وطن ہونے کے اپنی سر زمین پر جام شہادت نوش کرتا۔ اس کے صرف دو دن بعد مولانا مسعودی خفیہ طور پر سرحد پار کر کے واپس وطن آئے اور تحریک میں نئی جان ڈال دی۔ یہ علامہ کی مجوزہ رہنمائی تھی کہ اس تحریک میں ظالموں اور جابروں کو شکست فاش ہوئی۔ 1937ء کے ایام بہار کی بات ہے کہ راقم الحروف کے ساتھ کچھ کشمیری دوست طباعت کا اہتمام کرنے کے لئے لاہور گئے۔ چند سرکردہ تمدنی شخصیتوں سے مل کر یہ تمنا تھی کہ کسی طرح حضرت علامہ سے ملاقات ہو جائے۔ ان دنوں بہ سبب علالت کے ان کے یہاں شرف باریابی نا ممکنات میں سے تھا۔ ہمارے ایک رفیق ایک فاضل اجل حکیم صاحب کے شناسا تھے جو دن میں دو ایک بار جاوید منزل جاتے تھے۔ اپنی خواہش کا اظہار ان کے سامنے کیا۔ ازراہ کرم علامہ کے یہاں انہوں نے یہ تذکرہ کیا کہ کچھ کشمیری حضرات ملاقات کے خواہش مند ہیں۔ حکیم صاحب کا کہنا ہے کہ جب حضرت علامہ نے کشمیری کا لفظ سنا وفور جذبات سے زردی مائل چہرے پر گلابی رنگ کی بشاشت پیدا ہوئی۔ جب ہم سب کو شرف باریابی نصیب ہوا اس وقت علامہ پلنگ پر دراز تھے اور ایک بڑے تکیہ کے سہارے حکیم حسن صاحب اور یوسف سلیم صاحب سے مصروف گفتگو تھے۔ آنکھیں شاید بند تھیں۔ سیاہ چشمہ چڑھا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ چھاتی کو درد نے گھیرا ہے۔ مشفقانہ انداز میں فرمایا کہیے کشمیر کا کیا حال ہے۔ کچھ سننے کے بعد کہا۔ آپ کیسے لاہور آئے۔ جواب سن کر فرمایا۔ شیخ عبداللہ کیسے ہیں؟ تحریک حریت کی کیا نوعیت ہے۔ کیا تعلیم عام ہوئی ہے؟ ہم نے حضرت علامہ سے اختصار کے ساتھ تمام حالات عرض کیے۔ پھر انہوں نے نصیحت فرمائی کہ آپ لوگ تو اب بیدار ہو چکے ہیں۔ اب باہمی یکجہتی، اتحاد اور نئی نسل کو تعلیم کی طرف راغب کرنے کی ضرورت ہے۔ وقت آئے گا جب انشاء اللہ کشمیر استبدادی چنگل سے آزاد ہو گا۔ میری تمنا ہے ایک بار پھر دل کھول کر کشمیر کو دیکھ لوں۔ (16) تیرہ جولائی کے خون آشام واقعہ کے بعد25جولائی 1931ء کو شملہ میں نواب سر ذوالفقار علی خان کی قیام گاہ Fair View پر ہند کے چند سر بر آوردہ مسلمانوں کا ایک اجلاس ہوا (17) جس میں کشمیر کی سنگین اور نازک صورت حال کا جائزہ لینے کی غرض سے غور و حوض کیا گیا۔ ایک طویل مباحثہ کے بعد متفقہ طور پر یہ طے پایا کہ ایک کل ہند کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے۔ کمیٹی کے صدر مرزا بشیر الدین محمود اور مولوی عبدالرحیم درد اس کے سیکرٹری ہوئے۔ ممبران میں اقبال، نواب ذوالفقار علی خان، خواجہ حسن نظامی، نواب ابراہیم علی خان آف کھنج پورہ، خان بہادر شیخ رحیم بخش، سید محسن شاہ ایڈووکیٹ، مولانا محمد اسماعیل غزنوی، مولوی نور الحق ایڈیٹر’’ مسلم آؤٹ لک‘‘ حبیب شاہ ایڈیٹر’’ سیاست‘‘ مولانا حسرت موہانی، مولانا محمد یعقوب، ڈاکٹر شفاعت احمد خان، مولانا شفیع داؤدی، ایم حسن شہید سہروردی، مولانا ظفر عالم، وجیہہ الدین اور میاں جعفر شاہ شامل کئے گئے۔ (18) ’’ انقلاب‘‘ نے اس اجتماع کے بارے میں مفصل طور پر اظہار رائے کر کے مزید تفصیلات اس طرح بیان کیں۔’’ پچھلے دنوں شملہ میں بعض بزرگان ملت اس غرض سے جمع ہوئے تھے کہ مظلمون مسلمانان کشمیر کی حمایت کے لئے ایک زبردست آل انڈیا کمیٹی قائم کریں جو ڈوگرہ راج کے ظلم و ستم اور مسلمانوں کی مظلومی کو دور کرنے کی غرض سے کسی مناسب پروگرام پر عمل شروع کر دے۔‘‘ 25جولائی کو شملہ میں بعض اکابر ملت کا اجتماع ہوا۔۔۔۔ اور ایک آل انڈیا کشمیر کمیٹی قائم کی گئی۔ امید ہے کہ عنقریب ہندوستان بھر کے مسلمان قائدین اس کمیٹی میں شریک ہو جائیں گے اور یہ کمیٹی اس قدر وقیع ہو جائے گی کہ ریاست کشمیر اور حکومت انگریزی کے ارباب حل و عقداس سے آسانی کے ساتھ تغافل نہ کر سکیں گے۔ مولانا عبدالحامد بدایونی نے پچھلے دنوں فرمایا تھا کہ کشمیر کا معاملہ چونکہ تمام مسلمانوں کا ہے اس لئے ہم اس میں احمدیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہیں۔ یہ اعلان ہر حلقہ میں نہایت پسند کیا گیا۔ خواجہ حسن نظامی نے بھی اسی قسم کے خیالات ظاہر کئے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے اکابر علماء و مشائخ کو بھی اب مسلمانوں کی ضرورت اتحاد کا احساس ہو گیا ہے۔ یہ امر ملت اسلامیہ کے لئے نہایت نیک فال ہے۔ آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے اپنا حساب باقاعدہ مسلم بینک آف انڈیا لاہور میں کھول دیا ہے۔ ارباب خیر سے توقع ہے کہ وہ جلد سے جلد انتہائی اولو العزمی اور فیاضی سے فراہمی سرمایہ میں حصہ لیں گے کیونکہ مظلومین کشمیر کے لئے سب سے بڑی ضرورت روپے کی ہے۔ جن درد مند حضرات کو مسلمانان کشمیر کی امداد کر کے دنیا و آخرت میں سرخ روئی حاصل کرنا مقصود ہو انہیں چاہئے کہ حسب استطاعت چندہ مسلم بینک کو بھیجیں۔۔۔۔۔ اگر مسلمانوں نے جلد سے جلد اس کار خیر کی طرف توجہ کی تو مظلومین کشمیر انشاء اللہ کبھی ایسے وحشیانہ مظالم کے شکار نہ بنائے جا سکیں گے۔ (19) 3اگست1931ء کو کمیٹی کے سیکرٹری عبدالرحیم درد نے مہاراجہ ہری سنگھ کو ایک مراسلہ ارسال کیا جس میں یہ درخواست کی گئی کہ کشمیر کے حالات کا بہ نفس نفیس جائزہ لینے کی غرض سے کمیٹی کے ایک وفد کو کشمیر جانے کی اجازت دے دی جائے جس میں نواب ابراہیم علی خان، خواجہ حسن نظامی، خواجہ رحیم بخش اور مولوی اسماعیل غزنوی شامل ہوں گے۔ لیکن مہاراجہ نے یہ دلیل دے کر اس وفد کو وارد کشمیر ہونے کی اجازت دینے سے انکار کر لیا کہ اب صورت حال معمول پر آ گئی ہے اور وفد کی موجودگی سے مقامی طور پر جذبات میں نیا ہیجان اور غلط فہمیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہ اطلاع سیکرٹری کمیٹی کو مہاراجہ نے ایک برقیہ کے ذریعہ دیدی۔ (20) دو روز بعد یعنی 5اگست کو احمدی فرقہ کے سربراہ کی طرف سے مہاراجہ کو ایک اور برقیہ بھیجا گیا جس میں بیان کیا گیا کہ کشمیر میں ایجی ٹیشن شدید اور گہری ہے۔ اس کے علاوہ یہاں مسلمانوں میں بھی کشمیر کے بارے میں ایجی ٹیشن ہے لہٰذا آپ کی طرف سے وفد کو خوش آمدید کہنے سے تناؤ کم ہو سکتا ہے جب کہ معزز شخصیتوں کے وفد پر پابندی عائد کرنے سے مسلمانوں کے دلوں میں غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس کے چند روز بعد کشمیر سرکار نے ایسے احکامات جاری کئے کہ کشمیر کمیٹی اور دیگر ایسی انجمنوں کے ممبران اگر وارد کشمیر ہونے کا اقدام کریں تو انہیں صوبہ کشمیر میں کوہالہ اور رام کوٹ میں اور جموں میں سوچیت گڈھ اور جموں شہر میں حراست میں لیا جائے گا۔ اس طرح سے جن اشخاص پر کشمیر جانے کی پابندی عائد کی گئی ان میں یہ شخصیات شامل تھیں۔ اے خان صدر سنٹرل لیبر فیڈریشن، ایس ڈی حسن جنرل سیکرٹری، ایم رفیق ایڈووکیٹ، غلام مصطفی ایڈووکیٹ، مولانا احمد سعید سیکرٹری جمعیتہ علماء ہند، ملک برکت علی ایڈووکیٹ، محمد عبدالعزیز صدر میونسپل کمیٹی لاہور، ایم امام الدین سیکرٹری انجمن امداد طبی، بی آر دیوان، نواب سر ذوالفقار علی، نواب ابراہیم، خواجہ حسن نظامی، شیخ رحیم بخش، مولوی اسماعیل غزنوی، خان بہادر دین محمد، خان بہادر حاجی رحیم بخش، سید محسن شاہ، سید حبیب اور کل ہند کشمیر کمیٹی کے دیگر سبھی ممبران۔ (21) اس سلسلہ میں ایک کشمیری پنڈت (ہندو) گاشہ لال کول نے اقبال کے حوالے سے ایک ایسی کذب بیانی سے کام لیا جس کی بنا پر اقبال پر بغاوت کرنے کے لئے اہل کشمیر کو اکسانے کا الزام لگ سکتا تھا۔ گاشہ لال نے تاریخ کشمیر پر چند کتابیں بھی تحریر کی ہیں اور کشمیر کی تحریک آزادی کی ابتدا کے زمانہ میں وہ ظاہری طور پر مسلمانوں کا خیر خواہ بننے کا مظاہرہ کرتا تھا لیکن اپنی سرشت کے ناطے مہاراجہ کا وفادار تھا۔ چنانچہ ’’ انقلاب‘‘ کے مدیر عبدالمجید سالک کو بعد میں گاشہ لال کی فتنہ انگیزی اور دروغ گوئی کا اس طرح سے پردہ چاک کرنا پڑا’’ ایک شخص گاشہ لال نے کشمیر کی نام نہاد تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے من جملہ دوسری غلط بیانیوں اور دروغ بافیوں کے یہ بھی کہا ہے کہ آل انڈیا کشمیر کانفرنس کے لاہور اجلاس میں، میں بھی گیا تھا۔ وہاں جناب سالک مدیر’’ انقلاب‘‘ سے ملاقات ہوئی اور اس کے بعد ہم ڈاکٹر اقبال کے ہاں گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ریاست میں اس قدر بے چینی اور شورش پیدا کرنی چاہئے کہ بغاوت ہو جائے۔‘‘ حقیقت حال یہ ہے کہ کانفرنس کے دنوں جموں کے بعض کارکنوں کے ساتھ ایک نوجوان کشمیری پنڈت دفتر ’’ انقلاب‘‘ میں آیا۔ نام مجھے ٹھیک یاد نہیں جس کے متعلق کارکنوں کا بیان یہ تھا کہ وہ ریاست کشمیر کی رعایا کا حامی اور ڈوگرہ راج کے جبر و تشدد کا سخت مخالف ہے۔ چونکہ جموں کے احباب حضرت علامہ کی زیارت کے مشتاق تھے اور اس ہندو نوجوان نے بھی اشتیاق ظاہر کیا۔ اس لئے میں ان سب کو ساتھ لے کر حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مسائل کشمیر کے متعلق گفتگو ہوتی رہی لیکن یہ کہنا پرلے درجے کی بد دیانتی اور شرارت ہے کہ حضرت علامہ نے شورش اور بغاوت کی ترغیب دی۔ آپ نے یہ فرمایا کہ کشمیر میں ڈوگروں کو تو کسی تحریک کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ حکومت ان کی ہے۔ باقی رہے کشمیری پنڈت اور مسلمان، ان دونوں کو باہمی اتحاد کر کے اپنے حقوق کے لئے کوشش کرنی چاہئے تاکہ یہ معاملہ راعی و رعایا کے درمیان رہے اور لوگوں کو اس بات کا موقع نہ ملے کہ اس کو ہندو مسلم مسئلہ بنا دیں۔ اس کے سوا جو کچھ بیان کیا گیا وہ قطعاً جھوٹ ہے۔ (22) گاشہ لال کو ل بی اے بقول ’’ انقلاب‘‘ بعض وزرائے کشمیر کا زر خرید بن کر ان کے آلہ کار کا کام انجام دے رہا تھا (23) پونا کے اخبار’’ مراٹھا‘‘ میں بھی اس نے اسی قسم کا ایک مضمون لکھا تاکہ اقبال کو تحریک حریت کشمیر کے ضمن میں غلط رنگ میں پیش کیا جائے ا ور دوسری طرف ہندوستان کے ہندو اکثریتی والے علاقوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو شہ دی جائے۔ اس مضمون میں گاشہ لال نے تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے دئیے گئے اپنے بیان کے برعکس یہ الزام تراشی کی ’’ دوران ملاقات علامہ اقبال نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ریاست کشمیر کے مسلمان قانون کی خلاف ورزی کریں اور بم بنائیں تو مسٹر اے (مہاراجہ صاحب کشمیر) کو کمزور کر سکتے ہیں۔‘‘ (24) عبدالمجید سالک نے گاشہ لال کی اس ہرزہ سرائی کو ’’ انتہائی ناپاکی طبع اور تاریکی ضمیر کا ماحاصل‘‘ قرار دیا ہے۔ 9اگست1931ء اتوار کو لاہور کے مسلمانوں کی تمام جماعتوں کا ایک مشترکہ اجلاس برکت علی محمڈن ہال میں منعقد ہوا جس کی صدارت اقبال نے کی۔ اس نشست میں کشمیری مصیبت زدگان کی امداد کا مسئلہ زیر غور لایا گیا۔ بعد میں یہ فیصلہ ہوا کہ اہل کشمیر کی مدد کے لئے سارے پنجاب میں14اور15اگست کو عام جلسے کئے جائیں اور14اگست کو ایک جلوس بھی نکالا جائے۔ 14اگست کے مظاہرے کی غرض سے کشمیر کمیٹی کے مقامی سیکرٹری کی طرف سے یہ اعلان نامہ اخباروں میں شائع کرایا گیا: مسلمانو! کشمیر کے بتیس لاکھ مظلوم اور غلام بھائیوں کو آزاد کرانا تمہارا فرض ہے۔ اگر تم نے 14تاریخ کو کشمیر ڈے (Kashmir Day) پر اپنی عزت و حمیت کا ثبوت نہ دیا تو دشمن خوش ہو گا اور اسے یقین ہو جائے گا کہ یہ قوم اب مر چکی ہے۔ لاہور کی مقامی کشمیر کمیٹی کے فیصلہ کے مطابق14اگست کو بروز جمعہ بوقت چھ بجے شام دہلی دروازہ ایک عظیم الشان جلوس مظلوم کشمیری بھائیوں کی حمایت میں نکالا جائے گا جس میں اکابر و عمائد قوم شمولیت فرمائیں گے اور اختتام جلوس پر بیرون موچی دروازہ ایک عظیم الشان جلسہ زیر صدارت جناب علامہ سر محمد اقبال صاحب منعقد ہو گا۔ مفصل پروگرام بعد میں شائع کیا جائے گا۔ تمام مساجد کے خطیب صاحبان سے درخواست ہے کہ وہ جمعہ کے خطبہ میں اعلان فرما دیں کہ ہر مسلمان بوڑھا اور بچہ، امیر اور غریب جلوس اور جلسہ میں جوق در جوق شامل ہو کر اپنی غیرت و حمیت اسلامی کا ثبوت دے۔ (25) ’’ انقلاب‘‘ نے اس اجتماع اور جلوس کی کامیابی کی غرض سے مسلم اکابرین پنجاب کی طرف سے جاری کردہ اپیل ان سرخیوں کے ساتھ نمایاں طور پر شائع کر لی۔ کشمیر کے بتیس لاکھ مسلمانوں کی بربادی، ڈوگرہ راج کی ہولناک سفاکی علامہ سر محمد اقبال کی صدارت میں مسلمانان لاہور کا عظیم الشانہ جلسہ اگرچہ کئی صدیوں سے کشمیر کے مظلوم اور مفلوک الحال مسلمان ڈوگروں کی سرمایہ دارانہ حرص و آز کے شکار ہو رہے ہیں لیکن دو ماہ سے جو ہولناک مظالم ان پر برپا کئے جا رہے ہیں ان کو سن کر کوئی حساس مسلمان بلکہ شریف انسان ایسا نہیں کہ اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے نہ ہو جاتے ہوں۔ آج کشمیری مسلمانوں کا مذہب محفوظ نہیں ہے۔ قرآن مجید اور مساجد کی علانیہ بے حرمتی کی جاتی ہے۔ ڈوگرہ سپاہیوں کے ہاتھوں مسلمان عورتوں کی عزت پائمال ہو رہی ہے۔ بیسیوں مسلمانوں کو گولیوں کا نشانہ بنا کر شہید اور سینکڑوں کو زخمی کر دیا گیا ہے۔ زخمیوں کے ساتھ نہایت بے رحمانہ اور سفاکانہ سلوک برتا جا رہا ہے۔ معززین کو جیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں پھینک جا رہا ہے۔ تمام مسلم آبادی پر خوف و ہراس اور دہشت طاری کر دی گئی ہے۔ اور ان مظلوم انسانوں کی آواز دبانے اور باہر کی دنیا کو اس سے بے خبر رکھنے کے لئے آزاد تحقیقاتی وفود کو حدود کشمیر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ان مظالم کو دیکھتے ہوئے لاہور کی تمام مسلم جماعتوں کا ایک نمائندہ اجتماع علامہ سر محمد اقبال کی زیر صدارت 9اگست کو برکت علی اسلامیہ ہال میں منعقد ہوا اور فیصلہ ہوا کہ ڈوگرہ راج کے ان سفاکانہ اور وحشیانہ مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے اور مظلومین کشمیر کے ساتھ اظہار ہمدردی کے لئے 15-14اگست کو تمام پنجاب میں جماعت احرار اسلام پنجاب کے زیر اہتمام جلسے کئے جائیں۔ 14اگست کو اسلامی جماعتیں متفقہ طور پر ہر جگہ جلوس نکالیں اور جلسوں میں مظالم کے خلاف اظہار نفرت اور مظلومین کے ساتھ اظہار ہمدردی کی قرار دادیں منظور کی جائیں۔ اس لئے ہر مسلمان کا فرض ہے کہ بتیس لاکھ مظلوم بھائیوں کی امداد کے لئے پوری قوت کے ساتھ آواز بلند کریں۔ سرمایہ کی فراہمی اور رضا کاروں کی بھرتی کے لئے پوری تیاری کریں۔ تاکہ ڈوگرہ راج کی ہولناک سفاکیوں کے خلاف جس وقت عملی اقدام کا فیصلہ ہو تو تمام پنجاب کے مسلمان جنگ کے بگل کی آوا ز سن کر فوراً میدان میں اتر آئیں۔ المشتہران: چودھری افضل حق سابق ممبر لیجسلیٹو کونسل، ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین، میاں عبدالعزیز صدر بلدیہ لاہور، مولانا احمد علی ناظم انجمن خدام الدین لاہور، مولانا غلام مرشد خطیب مسجد اونچی بھاٹی دروازہ لاہور، میاں نظام الدین رئیس اعظم لاہور، خان بہادر شیخ دین محمد ایڈووکیٹ، حاجی شمس الدین، مولوی محمد یعقوب ایڈیٹر’’ لایٹ‘‘ ، سیدمحسن علی شاہ سیکرٹری آل انڈیا کشمیری کانفرنس، خواجہ غلام محمد، ملک لال دین قیصر، خواجہ اللہ بخش گنائی، سید افضال علی شاہ حسنی، میاں محمد نذیر ایڈووکیٹ، مولانا غلام رسول مہر مدیر’’ انقلاب‘‘ ، ڈاکٹر عبدالقوی ایم بی بی ایس، میاں فضل الکریم وکیل، شیخ حسن الدین ایڈووکیٹ، مولانا مظہر علی اظہر، مولانا سید محمد داؤد غزنوی (26) طے شدہ پروگرام کے مطابق اہل کشمیر کے ساتھ اپنی یکجہتی کے مظاہرہ کی خاطر14اگست کو لاہور میں ایک بہت بڑا جلوس نکالا گیا جس میں کم و بیش ایک لاکھ لوگوں نے شمولیت کی۔ جلوس میں شامل لوگوں نے ’’ اللہ اکبر‘‘ ۔’’ شہیدان کشمیر زندہ باد‘‘ اور’’ ڈوگرہ رجا مردہ باد‘‘ کے نعرے لگائے۔ یہ جلوس دہلی دروازہ سے لاہور شہر میں داخل ہو کر سنہری مسجد، کشمیری بازار، ڈبی بازار، بزاز ہٹہ، رنگ محل اور حویلی کابلی مل سے ہوتا ہوا رات کو نو بجے باغ بیرون موچی دروازہ پہنچا جہاں اقبال کی صدارت میں ایک یادگار جلسہ ہوا۔ اقبال نے اس تاریخی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا’’تحریک آزادی کشمیر کو فرقہ وارانہ رنگ دینا غلط ہے۔ یہ بین الاقوامی تحریک کا حصہ ہے۔ نغمہ انقلاب چاز دانگ عالم میں گونج رہا ہے اور انقلابات جہاں کا اثر اہل کشمیر پر ہونا لازمی ہے۔ اب کوئی مہاراجہ یا نواب عوام کی مرضی کے خلاف عوام پر حکومت نہیں کر سکتا۔‘‘ (27) کشمیر کمیٹی کے دوش بدوش مجلس احرار پنجاب نے بھی کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورت حال میں دلچسپی لینا شروع کیا۔ اس مجلس نے مولانا سید عطا اللہ شاہ بخاری کی سربراہی میں جتھے کشمیر بھیجنے کا فیصلہ کیا لیکن انہیں بعد میں کشمیر سرکار نے راستے میں ہی روک لیا۔ اس جوش و جذبہ نے ایک منفی رخ یہ اختیار کر لیا کہ کشمیر کمیٹی اور مجلس احرار کشمیریوں کی ہمدردی اور غم گساری میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے میں مشغول ہوئیں اور اس طرح سے ان کی صفوں میں اتحاد و یگانگت کے برعکس حسد اور رقابت نے لی۔ اس تعلق میں مرزا بشیر پر کشمیری مسلمانوں کو قادیانی (مرزائی) بنانے کا الزام عائد کیا گیا حتیٰ کہ شیخ محمد عبداللہ کے بارے میں بھی یہ بات زبان زد خاص و عام ہوئی کہ انہوں نے مرزائیت کو اپنا لیا ہے اور تبدیلی مذہب کے اس عمل میں انہیں کشمیر کے ایک مرزائی مولوی عبداللہ وکیل نے شیشے میں اتارا ہے۔ الزام ورد الزام کے اس مایوس کن ماحولمیں مرزا بشیر نے کمیٹی کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا اور ان کی جگہ اقبال اس کے صدر منتخب کئے گئے۔ اقبال نے صدارت کا عہدہ سنبھالتے ہی سب سے پہلے یہ کوشش کی کہ باہمی اختلافات کو یکسر نظر انداز کر کے کشمیر کی فریاد پر توجہ دی جائے اور جس قدر ہو سکے کشمیریوں کی اخلاقی اور مادی امداد کی جائے۔ اقبال کی ان مساعی کا یہ خاطر خواہ نتیجہ نکلا کہ کمیٹی اور مجلس کے اراکین کے علاوہ بھی پنجاب کی کئی سیاسی شخصیتوں نے یک جان و یک زبان ہو کر تحریک آزادی کشمیر کی حمایت کو اپنا مطمع نظر بنا لیا جس کا یہ فائدہ ہوا کہ اس تحریک نے اپنے قائدین کی بے سر و سامانی کے باوجود قلیل عرصہ میں ایک ہمہ گیر اور منظم جدوجہد کی صورت اختیار کر لی اور ڈوگروں کے شخصی راج کی سطوت شاہی کا محل اس کی گھن گرج سے لرزنے لگا۔ 5جون1933ء کو اقبال نے اپنے منصب کے فرائض کی انجام دہی کے سلسلے میں اولین فرصت میں وائسرائے ہند کو ایک برقیہ ارسال کیا جس میں کشمیر کے ابتر حالات پر اظہار تشویش کرتے ہوئے سرکار کو زور اور جبر کے اقدامات سے گریز کرنے کے لئے کہا گیا۔ برقیہ میں کہا گیا۔ ’’ حالات کشمیر سے مسلمانان ہند میں سخت اضطراب برپا ہو گیا ہے اور اس بات کا اندیشہ ہے کہ ریاست میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں گی۔ آل انڈیا کشمیر کمیٹی یہ توقع کرتی ہے کہ ریاست کی حکومت ان حالات میں گولی باری، لاٹھی چارج اور گرفتاریوں سے محترز رہے گی۔‘‘ (28) کشمیر میں1932ء میں مسلم کانفرنس کے قیام کے بعد سیاسی قیادت دو حصوں میں بٹ گئی تھی جہاں کشمیر میں عام مسلمانوں کی اکثریت میر واعظ مولانا محمد یوسف شاہ کی ہم خیال تھی وہاں شیخ محمد عبداللہ اپنی سیاسی حکمت عملی کو کانگریس جماعت کے زیر اثر ایک سیکیولر قالب میں ڈھالنے کے درپے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کشمیر کی قیادت کی سوچ اور طرز عمل میں رفتہ رفتہ خلیج بڑھتی ہی گئی۔ جموں میں شیخ عبداللہ کی حمایت نہ ہونے کے برابر رہی جب وہاں کے مقامی سیاسی رہنماؤں چودھری غلام عباس خان، اللہ رکھا ساغر اور چودھری حمید اللہ خان نے وادی میں میر واعظ کی طرف اپنا دست تعاون دراز کیا۔ 4جون1933ء کو کشمیر کمیٹی کا جو اجلاس لاہور میں ہوا اس میں اور باتوں کے علاوہ ان اختلافات پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا گیا’’ کمیٹی مسلمانان کشمیر کے باہمی فسادات پر نہایت رنج اور افسوس کا اظہار کرتی ہے اور انتہائی زور کے ساتھ اپنے ہم مذہب بھائیوں سے درخواست کرتی ہے کہ وہ باہم تعاون اور موالات سے کام لیں۔‘‘ (29) کمیٹی نے یہ بھی فیصلہ کر لیا کہ ایک نمائندہ وفد کشمیر بھیجا جائے جو متحارب طبقات کے درمیان صلح کرائے اس وفد میں شمولیت کی خاطر اقبال، حاجی رحیم بخش، ملک برکت علی، سید حبیب، محمد دین فوق، سید محسن شاہ، حاجی شمس الدین، پروفیسر عبدالقادر، پروفیسر علیم الدین سالک اور شمس الدین حسن کے نام تجویز کئے گئے۔ (30) کشمیر میں میر واعظ کے پرستاروں اور شیخ عبداللہ کے حامیوں کے اختلافات نے فسادات کی شکل اختیار کر لی جس سے اقبال بے حد رنجیدہ خاطر ہوئے۔ مہاراجہ نے کشمیر میں ان کی آمد پر پابندی عائد کر رکھی تھی لہٰذا وہ اس عناد و فساد کو دبانے میں کوئی عملی رول ادا نہ کر سکے البتہ شیخ عبداللہ کے نام اپنے 2اکتوبر1933ء کے مراسلہ میں انہوں نے عبداللہ کو خبردار کیا کہ ’’ جو مختلف جماعتیں سنا ہے بن گئی ہیں ان کا باہمی اختلاف آپ کے مقاصد کی تکمیل میں بہت بڑی رکاؤٹ ہو گا۔‘‘ کشمیر کی روز افزوں بگڑتی ہوئی سیاسی اور معاشی حالت کو دیکھ کر دربار کشمیر نے 1932ء میں گلانسی کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں اصلاحات کا اعلان کیا۔ اقبال نے ’’ سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ کے نامہ نگار سے ایک ملاقات کے دوران اس اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا’’ باشندگان ہند دربار کشمیر کے اس اعلان کا تہہ دل سے خیر مقدم کریں گے۔ مجھے امید ہے کہ گلانسی کمیشن کی تمام سفارشات پر بہت جلد مکمل طور پر عمل درآمد ہو جائے گا اور حکومت ان لوگوں کا مکمل اعتمار حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی جن کے لئے اصلاحات نافذ کی گئی ہیں۔ اس حصول محکم کے لئے حاکم اور محکوم کے درمیان امن اور باہمی اتحاد کی فضا پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ امن اور باہمی اتحاد کے لئے حکومت کو ان سے اس طرح سلوک کرنا چاہئے جس سے ان کو اس امر کا احساس ہو جائے کہ حکومت ان کی زندگی اور آرزوؤں کا کوئی علیحدہ جزو نہیں ہے بلکہ ان کا اپنا ایک الگ ادارہ ہے۔ جس کے ذریعہ ان کی جائز آرزوئیں عملی شکل اختیار کرتی ہیں۔‘‘ میں کرنل کالون کو ضرور یہ مشورہ دوں گا کہ لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے اور حکومت اور ان کے درمیان خوشگوار تعلقات کو بحال کرنے کے لئے کرنل موصوف کو چاہئے کہ میر پور اور بارہ مولہ کی عدالتوں میں جو فوجداری اور دوسری مقدمات زیر سماعت ہیں ان کو واپس لئے جانے کا حکم جاری کریں۔ اگر ایسا کیا گیا تو نظام کشمیر اور اس کے یورپین وزیراعظم کی شہرت اور انصاف پروری کو چار چاند لگ جائیں گے اور وزیراعظم کے خلاف جو پروپیگنڈہ شروع ہوا ہے اس کا خاتمہ ہو جائے گا۔ انہوں نے آگے چل کر کہا’’ مجھے امید ہے کہ شیخ محمد عبداللہ کو بہت جلد رہا کیا جائے گا اور وہ اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان جو سیاسی یا دوسرے اختلافات ہیں ان کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی اور اس طرح اصلاحات پر عمل درآمد کرنے کی غرض سے ان کے درمیان باہمی تعاون کا سلسلہ قائم کیا جائے گا۔‘‘ (31) ایک مطلق العنان دور حکومت کے آہنی پنجے تلے کراہتے ہوئے غلام کشمیریوں کی تیرہ بختی کے سلسلے میں اور کیا ستم ظریفی ہو سکتی تھی کہ ایک طرف خود کشمیر میں ایک ہی مقصود کے حصول کا دعویٰ کرنے والے سیاسی رہنما باہمی تضادات اور معمولی اختلافات پر اپنی مقدس تحریک کر قربان کر رہے تھے اور دوسری جانب لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں رہنے والے ان کے غم گسار اور غم خوار بھی کشمیر کمیٹی کے نام پر کبھی یکجا ہوتے اور کبھی ایک دوسرے کی مخالفت میں مظلوم کشمیریوں کو بھول ہی جاتے۔ کشمیر اور پنجاب میں کشمیریوں کے روشن مستقبل کا خواب دیکھنے والوں کے اندازے خود ان کی اپنی کوتاہ نظری کی وجہ سے غلط ثابت ہو رہے تھے۔ اقبال کی انتھک محنت اور مخلصانہ کوششوں کے باوجود کشمیر کمیٹی جن اختلافات اور ذاتی نظریات کے تضاد کا شکار ہو کر رہ گئی تھی ان سے چھٹکارا پانے کی غرض سے اقبال نے خود ہی اس کمیٹی کو توڑنے کا اعلان کیا۔ ان کا یہ بیان 20جون 1933ء کو جاری ہوا جس میں وہ کہتے ہیں۔ ’’ کشمیر کمیٹی میں میری صدارت محض عارضی تھی۔ کمیٹی کی تشکیل کشمیر میں غیر متوقع واقعات کے اچانک رونما ہونے پر صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے ہوئی تھی۔ اور اس وقت یہ خیال تھا کہ اس قسم کی کمیٹی کی ضرورت جلد ختم ہو جائے گی۔ اس لئے کمیٹی کا کوئی نظام مرتب نہیں کیا گیا تھا اور صدر کو آمرانہ اختیارات دئیے گئے تھے۔‘‘ یہ خیال کہ کشمیر کمیٹی کی ایک مستقل ادارہ کی حیثیت سے ضرورت نہ ہو گی ریاست میں پیدا ہونے والے واقعات نے غلط ثابت کر دیا۔ لہٰذا بہت سے ممبران نے یہ سوچا کہ کمیٹی کا ایک باقاعدہ نظام ہونا چاہئے اور عہدیداروں کا انیا انتخاب ہونا چاہئے کمیٹی کے ارکان اور اس کے طریقہ کار کے متعلق کچھ لوگوں کے اختلافات نے جس کے اسباب کا یہاں ذکر مناسب نہیں ہو گا اس خیال کی مزید تائید کی چنانچہ کمیٹی کا ایک اجلاس طلب کیا گیا جس میں کمیٹی کے صدر نے اپنا استعفیٰ پیش کر دیا۔ پچھلے ہفتے کے آخری دنوں میں کمیٹی کا ایک اور جلسہ ہوا۔ اس میں ممبران کے سامنے نظام کا مسودہ پیش کیا گیا جس کی غرض و غایت یہ تھی کہ کمیٹی کی حیثیت ایک نمائندہ جماعت کی سی ہو لیکن ممبران نے اس سے اختلاف ظاہر کیا۔ البتہ بحث مباحثہ اور گفتگو سے مجھے اندازہ ہوا کہ یہ لوگ دراصل کمیٹی کو دو ایسے حصوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں جن میں اتحاد صرف برائے نام ہی ہو گا چنانچہ میں نے اپنا استعفیٰ پیش کرنے سے پہلے ممبران کو اپنی رائے سے اچھی طرح آگاہ کیا تھا۔ بدقسمتی سے کمیٹی میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے مذہبی فرقے کے سوا کسی دوسرے کا اتباع کرنا سرے سے گناہ سمجھتے ہیں۔ چنانچہ احمدی وکلاء میں ایک صاحب (32) نے جو میر پور کے مقدمات کی پیروی کر رہے تھے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں واضح طور پر اپنے اس خیال کا اظہار کر دیا۔ انہوں نے صاف طور پر کہا کہ وہ کسی کشمیر کمیٹی کو نہیں مانتے اور جو کچھ انہوں نے یا ان کے ساتھیوں نے اس ضمن میں کیا وہ ان کے امیر کے حکم کی تعمیل تھی۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں نے ان کے اس بیان سے اندازہ لگایا کہ تمام احمدی حضرات کا بھی یہی خیال ہو گا اور اس طرح میرے نزدیک کمیٹی کمیٹی کا مستقبل مشکوک ہو گیا۔ میں کسی صاحب پر انگشت نمائی نہیں کرنا چاہتا۔ ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے دل و دماغ سے کام لے اور جو راستہ پسند ہو اسے اختیار کرے۔ حقیقت میں مجھے ایسے شخص سے ہمدردی ہے جو کہ کسی روحانی سہارے کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے کسی مقبرے کا مجاور یا کسی زندہ نام نہاد پیر کا مرید بن جائے۔ جہاں تک مجھے علم ہے کشمیر کمیٹی کی عام پالیسی کے متعلق ممبران میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے۔ پالیسی کے اختلاف کی بنا پر کسی نئی پارٹی کی تشکیل پر اعتراض کرنے کا کسی کو حق نہیں پہنچتا۔ لیکن جہاں تک میں نے حالات کا جائزہ لیا ہے کشمیر کمیٹی کے چند ارکان کو جو اختلافات ہیں وہ بالکل بے تکے ہیں۔ ان حالات کے پیش نظر مجھے اس امر کا یقین ہے کہ کمیٹی میں اب ہم آہنگی کے ساتھ کام نہیں ہو سکتا اور ہم سب کا مفاد اسی میں ہے کہ موجودہ کشمیر کمیٹی کو ختم کیا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجا سکتا کہ مسلمانان کشمیر کی رہنمائی اور مدد کے لئے برطانوی ہند میں ایک کشمیر کمیٹی ضرور ہونی چاہیے اس لئے اگر برطانوی ہند کے مسلمان اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو وہ مجاز ہیں کہ ایک کھلے عام اجلاس میں ایک نئی کشمیر کمیٹی کی تشکیل کریں۔موجودہ حالات کے پیش نظر مجھے صرف یہی راستہ دکھائی دیتا ہے۔ (33) 1933-34کے زمانہ تک اقبال مسلمانوں کے باہمی اختلافات، اندرونی انتشار اور اپنی علالت طبع کے باعث سیاست سے تقریباً کنارہ کش ہو چکے تھے۔ سید سلیمان ندوی کو لکھتے ہیں’’میں خود مسلمانوں کے انتشار سے بے حد درد مند ہوں اور گذشتہ پانچ چار سال کے تجربہ نے مجھے سخت افسردہ خاطر کر دیا ہے۔‘‘ (34) اور مولانا عبدالماجد دریا باوی کے نام اپنے 24 ستمبر1933ء کے مکتوب میں کہتے ہیں’’ گذشتہ چار پانچ سال کے تجربہ نے مجھے بہت درد مند کر دیا ہے۔ اس لئے جلسوں میں میرے واسطے کوئی کشش باقی نہیں رہی۔‘‘ (35) البتہ عملی سیاست سے اس سبکدوشی کے باوجود اقبال کے دل میں کشمیر کے مظلومو کا درد کروٹیں لیتا رہا۔ ان دنوں آزادی کشمیر کے جیالوں کو شخصی راج کے ظالم ارباب حل و عقد مختلف فرضی مقدمات میں ماخوذ کر کے قید خانوں میں ڈال دیا کرتے تھے۔ اقبال ان مقدمات کی پیروی کے لئے اپنے وکیل دوستوں سے برابر رابطہ قائم رکھے ہوئے تھے اس تعلق میں ملک برکت علی ایڈووکیٹ اقبال کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے تھے لیکن فروری 1934ء میں انہیں انتخابات میں کھڑا ہونا پڑا لہٰذا اقبال نے پٹنہ کے ایک معروف قانون دان سید نعیم الحق کو بعض ایسے مقدمات کی پیروی پر رضا مند کر لیا۔ شیخ عبدالحمید ایڈووکیٹ صدر کشمیر مسلم کانفرنس جموں ان تمام قانونی مساعی کے مرکز تھے اور اقبال نے نعیم الحق کو بھی ان ہی کے سپرد کر دیا۔ 25دسمبر1933ء کو اپنے مراسلہ میں نعیم الحق کے نام لکھتے ہیں۔’’ کشمیر کے مسلمانوں کی امداد و اعانت آپ کا بڑا ہی کرم ہے۔ ‘‘ مقدمات کی تاریخیں فروری 1934ء میں حسب ذیل ہیں:ـ 5سے 10فروری تک مقدمہ سکھ چین پور، 4سے 17فروری تک مقدمہ علی بیگ، دونوں مقدمات کی سماعت جموں میں ہو گی۔ کیا آپ دونوں مقدمات کی پیروی کے لئے تیار ہیں۔ ملک برکت (علی) فروری میں اپنے انتخاب میں مصروف ہوں گے۔ ہم سب آپ کی مکرر اعانت کے لئے نہایت احسان مند ہوں گے۔ا گر آپ تکلیف گوارہ فرمائیں تو مجھے فوراً بذریعہ تار اپنی آمادگی سے مطلع فرمائیں تاکہ ضروری کاغذات بھیج سکوں۔ کوشش کروں گا کہ آپ کے لئے ایک مددگار مہیا کیا جائے۔ عبدالحمید صاحب نے مجھے اطلاع دی ہے کہ آپ نے ذکر کیا تھا کہ پٹنہ کے (مخیر رئیس) سید عبدالعزیز صاحب مسلمانوں کی امداد کو ہر وقت تیار ہوں گے۔ آپ میری طرف سے ان کی خدمت میں کشمیر کے بے بس مسلمانوں کی امداد کی درخواست کیجئے۔(36) 1934ء کے آغاز میں بہار ایک تباہ کن زلزلہ آیا جس سے سارے علاقہ کو بے حساب نقصان اٹھانا پڑا لیکن نعیم الحق اس آفت سماوی کے باوجود اپنے ارادہ پر قائم رہے اور انہوں نے بہرحال اقبال کے احترام اور مسلمانان کشمیر کی ہمدردی میں یہ مقدمات لڑنے کا فیصلہ برابر قائم رکھا۔ا س کی اطلاع انہوں نے اقبال کو دیدی جس کے جواب میں اقبال نے ان کو لکھا’’ نوازش نامہ کے لئے جو ابھی ابھی موصول ہوا ہے۔ سراپا سپاس ہوں مجھے پٹنہ میں دوستوں کے متعلق حد درجہ تشویش تھی اور میں تار دینے ہی والا تھا کہ آپ کا نوازش نامہ موصول ہو گیا۔ زلزلہ کی ہولناکی سے طبیعت پر غم و یاس کی فراوانی اور پریشانی اور پریشان خاطری کے باوجود مقدمہ کی پیروی کی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لئے آپ کی ہمت و مستعدی لائق صد ہزار داد و ستائش ہے۔ مجھے میر پور کے مقدمہ کی نقل فیصلہ موصول ہو گئی ہے لیکن ابھی دوسرے کاغذات کا انتظار ہے۔ میں سمجھتا ہوںکہ اس مقدمہ کی پیروی کا بار بھی آپ ہی کو اٹھانا پڑے گا۔‘‘ (37) حیدر آباد دکن کے محمد باہدر خان نواب بہادر یار جنگ نے اس صدی کی چوتھی دہائی کے اوائل میں دکن میں مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کی خاطر ایک پر اثر تحریک چلائی۔ وہ کل ہند ریاستی مسلم لیگ کے صدر بھی رہے۔ نواب بہادر کو اقبال کے ساتھ خاص عقیدت تھی۔ اس قرابت داری اور تعلق کو خواجہ حسن نظامی نے اقبال اور نواب کے درمیان پہلی ملاقات میں اس تعارفی جملہ کے ساتھ اقبال کو مخاطب کر کے کہا تھا’’ اگر آپ بادشاہ ہیں تو یہ آپ کے سپہ سالار ہیں اور اگر آپ شمع ہیں تو یہ آپ کے پروانے ہیں اور اگر آپ دانا ہیں تو یہ آپ کے دیوانے ہیں۔‘‘ (38) اقبال کشمیریوں کی ناگفتہ بہ حالت کے پیش نظر انہیں قلمے در مے سخنے غرض ہر طرح کی مدد کرنے کے لئے بے قرارر رہتے تھے۔ چنانچہ کشمیری مظلوموں پر جو لا تعداد مقدمات سرکار نے عائد کر رکھے تھے ان میں دفاعی معاملات کو آسان بنانے کی غرض سے نواب بہادر کو بھی مالی امداد کی درخواست کی اور اس التجا کے وقت انہیں ذرہ بھر بھی یہ احساس نہ رہا کہ کیا یہ درخواست قبول ہو گی بھی یا نہیں یا یہ کہ کہیں اس میں حمیت انسانی پر کوئی حرف تو نہیں آتا۔ یہ سب وہ اس لئے کرتے رہے کیونکہ ان کا مقصد بہرحال کشمیری قوم کو نکبت و افلاس اور جبر و قہر کی زنجیروں سے آزاد کرانا تھا۔ 14ستمبر1933ء کو نواب بہادر کو لکھتے ہیں ’’ مظلومین کشمیر کی امداد کے لئے آپ سے درخواست کرنے کے لئے یہ عریضہ لکھتا ہوں۔ اس وقت حکومت کی طرف سے ان پر متعدد مقدمات چل رہے ہیں جن کے اخراجات کی وجہ سے فنڈ کی نہایت ضرورت ہے مجھے یقین ہے کہ آپ کی تھوڑی سی توجہ سے یہ مشکل حل ہو جائے گی۔۔۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ آپ مسلمانان کشمیر کو امداد کا مستحق تصور کرتے ہیں۔ یہ طباع اور ذہین قوم ایک مدت سے استبداد و ظلم کا شکار ہے۔ اس وقت مسلمانان ہند کا فرض ہے کہ ان کی موجودہ مشکلات میں ان کی مدد کی جائے۔ ‘‘ (39) اس دوران اقبال کے مرزائیوں کے ساتھ تعلقات بگڑ چکے تھے۔ اقبال کو اندیشہ تھا کہ مرزائی اپنے ایک خاص مذہبی نقطہ نظر سے کشمیر کی سیاست کا استحصال کرنے کے درپے ہیں اور انہیں فی الحقیقت کشمیری مسلمانوں کے وسیع تر سیاسی اور اقتصادی مفادات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس نقطہ نظر کو تقویت دینے کی خاطر وادی کشمیر کی مشہور سیاسی شخصیت شیخ محمد عبداللہ کو بھی اپنے جال میں پھانس لیا تھا اور عبداللہ کے مرزائی بننے کا چرچا سارے کشمیر میں ہو رہا تھا۔ اسی سلسلہ میں یہ واقعہ ہوا کہ 30جنوری1933ء کو میر واعظ مولانا محمد یوسف شاہ نے سری نگر میں خانقاہ نقشبندیہ میں وعظ خوانی کرتے ہوئے شیخ محمد عبداللہ کے بارے میں علی الاعلان کہا کہ وہ مرزائی ہو گئے ہیں اور ریاستی مسلمانوں کو بھی اسی راہ پر لگا رہے ہیں۔ اس کے چند ماہ بعد یعنی اکتوبر میں مرزائی رہنما مرزا بشیر الدین محمود کا ایک کھلا خط’’ برادران کشمیر کے نام‘‘ شائع ہوا جس میں انہوں نے میر واعظ یوسف شاہ کی مخالفت اور شیخ عبداللہ کی حمایت کی۔ اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ لاہور میں منعقدہ کشمیر کمیٹی کے ایک اجلاس میں عبداللہ نے جماعت احمدیہ سے اپنی لاتعلقی کا اعلان کیا۔ اس اجلاس کی صدارت اقبال کر رہے تھے۔ اقبال اب مرزائیت اور مرزائیوں کے داؤ پیچ کو سمجھ کر ان کی کشمیر نوازی کی ہر کارروائی کو رد کرنے لگے۔ میر پور کے مقدمہ کے حوالہ سے بھی انہوں نے پٹنہ ہی کے نعیم الحق کو زحمت دی تھی لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ اس کی پیروی مشہور مرزائی قانون دان سر ظفر اللہ خاں کریں گے تو انہوں نے 9فروری 1934ء کو نعیم الحق کو لکھا’’ جس مقدمہ کی پیروی کے لئے میں نے آپ سے درخواست کی تھی اس کی پیروی چودھری ظفر اللہ خان کریں گے۔ عبدالحمید صاحب نے مجھے اطلاع دی ہے۔ او رمیں نے ضروری سمجھا کہ آپ کو ہر قسم کی زحمت سے بچانے کے لئے مجھے فی الفور آپ کو مطلع کرنا چاہئے۔ چودھری ظفر اللہ خان کیونکر اور کس کی دعوت پر وہاں جا رہے ہیں مجھے معلوم نہیں شاید کشمیر کانفرنس کے بعض لوگ ابھی تک قادیانیوں سے خفیہ تعلقات رکھتے ہیں۔ ‘‘ (40) ایک طرف مرزائیوں کی ریشہ دوانیوں سے اقبال لاہور میں برگشتہ خاطر تھے اور دوسری جانب کشمیر میں میر واعظ مولانا یوسف شاہ اور شیخ محمد عبداللہ کے حامیوں کے درمیان روز افزوں اختلافات نے انہیں اور بھی رنجیدہ خاطر بنا رکھا تھا۔ شیخ عبداللہ کے نام ایک خط میں 2 اکتوبر 1933ء کو انہیں محسوسات کا اظہار کرتے ہوئے بزرگان کشمیر کو عقل و فراست سے کام لینے کی تلقین کرتے ہیں۔ ’’ ہم آہنگی ہی ایک ایسی چیز ہے جو تمام سیاسی اور تمدنی مشکلات کا علاج ہے۔ ہندی مسلمانوں کے کام اب تک محض اس وجہ سے بگڑ رہے ہیں کہ یہ قوم ہم آہنگ نہ ہو سکی اور اس کے ا فراد اور بالخصوص علماء اوروں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بنے رہے بلکہ اس وقت بھی ہیں۔ آپ کے ملک کو یہ تلخ تجربہ نہ ہو۔ ‘‘ (41) 1931ء میں باقاعدہ طور پر شروع ہونے والی تحریک حریت کشمیر کے اتار چڑھاؤ پر اقبال کی گہری نظر تھی۔ انہیں جب بھی موقع ملا تو وہ اپنے خطابات، بیانات، منظومات اور دیگر نگارشات میں آزادی کشمیر کی حمایت کرتے رہے۔ 1931ء اور1932ء میں انہوں نے آل انڈیا مسلم کانفرنس کی صدارتی تقریروں میں آزادی کشمیر کی تحریک کو ’’ نئے دور کا پیش خیمہ‘‘ قرار دیا اور امید کی کہ یہ ’’ ڈوگرہ شاہی کے خاتمہ کی ابتدا ہو گی۔‘‘ 1932ء کے صدارتی خطاب میں اقبال نے کہا جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے مجھے ان واقعات کے تاریخی پس منظر میں جانے کی ضرورت نہیں جو حال ہی میں رونما ہوئے ہیں ایسی قوم کا جاگ اٹھنا جس میں شعلہ خودی بجھ چکا ہو غم اور مصائب کے باوجود ان لوگوں کے لئے مسرت کی بات ہے جو ایشیائی قوموں کی اندرونی کشمکش سے واقف ہیں۔ کشمیر کی تحریک انصاف پر مبنی ہے اور مجھے کوئی شبہ نہیں کہ اس ذہین اور صناع قوم میں اپنی شخصیت کا احساس نہ محض ریاست بلکہ تمام ہندوستان کے لئے عافیت کا باعث ہو گا۔ وہ زمانہ ریاست جموں کشمیر میں ایک پر آشوب زمانہ تھا۔ جموں اور سری نگر میں سینکڑوں رہنما یان قوم اور محبان وطن دار و گیر کا شکار تھے لیکن عوام الناس اپنے موقف کے راستہ پر پورے عزم اور استقلال کے ساتھ گامزن تھے اور ڈوگروں کے جور و جبر کے باوجود ان کے قدم نہیں لڑکھڑائے۔ کشمیری مسلمانوں کی بیداری اور سارے ہندوستان میں وسیع النظر قوتوں کی طرف سے ان کی حمایت کا یہ خاطر خواہ نتیجہ نکلا کہ حکومت ہند نے کرنل کالون کو کشمیر کا وزیر اعظم بنا کر بھیجا۔ لیکن اس کے باوجود حالات پوری طرح سدھر نہ سکے۔ کچھ ہی روز بعد شیخ محمد عبداللہ، میر واعظ مولانا یوسف شاہ اور کئی سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا۔ اقبال نے یہ غمناک صورت حال دیکھ کر 7جون 1933ء کو ایک بیان دیا جس میں انہوں نے کہا’’ کشمیر گورنمنٹ کے تازہ اعلانیہ میں کہا گیا ہے کہ سری نگر میں اب حالات پر سکون ہیں لیکن جو اطلاع مجھے معتبر ذرائع سے ملی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حالات اتنے اچھے نہیں ہیں جتنے کہ سرکاری اعلامیہ میں بتائے گئے ہیں۔‘‘ میرا تو خیال ہے کہ خود حکومت کشمیر کے ارکان میں ایسے لوگ ہیں جو کرنل کالون کی پالیسی کو ناکام بنانے کی کوشش میں ہیں۔ حکومت کشمیر کے ایک تازہ اعلامیہ میں دنیا کو بتایا گیا ہے کہ مسلم جماعتوں کے لیڈروں کی گرفتاری کابینہ کے متفقہ فیصلے کے مطابق عمل میں لائی گئی ہے۔ ایک معتبر خبر کے ذریعہ جو مجھے اپنے طور پر موصول ہوئی ہے۔ اس بیان میں کوئی صداقت نظر نہیں آتی۔ حکومت کشمیر کی سفاکی، درندگی اور بربریت سے اسی طرح پردہ سر کایا جاتا ہے۔ میں کشمیر کی کسی جماعت کی بلا وجہ حمایت نہیں کرنا چاہتا لیکن دونوں جماعتوں کے لیڈروں کی گرفتاری، لوگوں پر دروں کی بارش اور عورتوں اور بچوں پر گولی چلانا اور لاٹھی چارج ایسے واقعات ہیں جو کشمیر کو پھر ان مصیبتوں میں ڈال دیں گے جن سے کرنل کالون نے اپنی حکمت عملی سے نجات دلائی تھی۔ مجھے امید ہے کشمیر گورنمنٹ موجودہ واقعات کا نفسیاتی پس منظر معلوم کرنے کی کوشش کرے گی اور ایسا رویہ اختیار کرے گی جس سے ریاست میں امن اور آشتی کا دور دورہ ہو جائے۔ میں مسلمانان کشمیر سے استدعا کرتا ہوں کہ وہ ان تحریکوں سے خبردار رہیں جو ان کے خلاف کام کر رہی ہیں اور اپنے درمیان اتفاق و اتحاد پیدا کریں۔ کشمیر میں ابھی بیک وقت دو یا تین اسلامی سیاسی جماعتوں کے کام کرنے کا وقت نہیں ہے وقت کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ریاست میں مسلمانوں کی نمائندہ صرف ایک ہی جماعت ہو۔ (42) 13جولائی1933ء کو اقبال نے پنجاب سرکار کے چیف سیکرٹری سی سی گاربیٹ کو بھی کشمیر کے بگڑے ہوئے حالات کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایک مراسلہ ارسال کیا جس میں اور باتوں کے علاوہ اس بات کی تاکید کی گئی کہ ’’ کشمیر کمیٹی امید کرتی ہے کہ مسلمانوں کی جائز شکایتوں کے فوری تدارک کی ضرورت کو گورنمنٹ براہ کرم کشمیر گورنمنٹ کے ذہن نشین کرائے۔ ‘‘ (43) اس سے کوئی دو ہفتہ قبل کشمیر کمیٹی کے از سر نو وجود میں آنے پر اقبال نے کمیٹی کے سیکرٹری ملک برکت علی ایڈووکیٹ کی معیت میں30جون1933ء کو ایک اپیل شائع کی جو تحریک آزادی کشمیر کے حوالہ سے ایک خاص مقصدیت اور پس منظر کی حامل ہے۔ اس اپیل میں انہوں نے کہا ’’موجودہ زمانہ میں ہندوستان کے اندر تحریک خلافت کے بعد تحریک کشمیر ایک ایسی تحریک ہے جس سے خالص اسلامی جذبات کو عملی مظاہرہ کا موقع ملا اور جس نے قوم کے تن مردہ میں حیات کی لہر ایک دفعہ پھر دوڑا دی۔ اہل خطہ (کشمیر) ملت اسلامیہ ہند کا جزو لاینفک ہیں اور ان کی تقدیر کو اپنی تقدیر نہ سمجھنا تمام ملت کی تباہی و بربادی کے حوالے کر دینا ہے۔ اگر مسلمانوں کو ہندوستان میں فی الحقیقت ایک مضبوط و مستحکم قوم بننا ہے تو ان نقطوں کو ہر وقت ذہن میں رکھنا ہو گا۔ اول یہ کہ شمال مغربی سرحدی صوبہ کو مستثنیٰ کرتے ہوئے حدود ہندوستان کے اندر جغرافیائی اعتبار سے کشمیر ہی وہ حصہ ہے جو مذہبی اور کلچرل حیثیت سے خالصتاً اسلامی ہے اور ایسا اسلامی کہ اسلام نے وہاں جبروا کر اہ سے گھر پیدا نہیں کیا۔ بلکہ یہ بار آور پودا حضرت شاہ ہمدان جیسے نیک و کامل بزرگان دین کے ہاتھوں کا لگایا ہوا ہے اور نہی کی مساعی تبلیغ دین کا نتیجہ ہے جنہوں نے گھر بار اور وطن محض اس لئے ترک کئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے پیغام سے ان دیار و ممالک کے بسنے والوں کو بہرہ ور کریں اور الحمد اللہ کہ وہ بدرجہ اتم کامیاب ہوئے۔ دوسری بات جسے مسلمانان ہند کبھی نظر انداز نہیں کر سکتے یہ ہے کہ ان کی تمام قوم میں سب سے بڑھ کر اگر صناعی و ہنر مندی اور تجارت کو بخوبی چلانے کے جوہر نمایاں طور پر کسی طبقے میں موجود ہیں تو وہ یہی اہل خطہ کا گروہ ہے۔‘‘ افسوس ہے کہ اہل کشمیر کی زبوں حالی انہیں اپنی قوم کا مفید عنصر بننے کے راستے میں مانع آ رہی ہے بلکہ اقوام عالم کی اس نوع کی ترقی ان کی خدمات سے محروم ہے۔ ورنہ اگر ان کی زندگی بھی قوموں کی زندگی ہو تو صناعی اور ہنر مندی کے طبعی جوہر ہندوستان کی اقتصادی حالت کو بدل دینے میں ممد ثابت ہوں۔ بہرحال اہل خطہ قومیت اسلامیہ ہند کے جسم کا بہترین حصہ ہیں اور اگر وہ حصہ درد و مصیبت میں مبتلا ہے تو ہو نہیں سکتا کہ باقی افراد ملت فراغت کی نیند سوئیں۔ (44) بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں ہندوستانی مسلمانوں کے قائدین نے اپنی زندگیاں چند عظیم مقاصد کے حصول کے لئے وقف کیں جن میں عام طور پر مسلمانوں کی جہالت اور ناخواندگی کا خاتمہ، قومی سطح پر سیاسی بیداری اور انسانی حقوق کے تحفظ کا احساس، انگریزوں کے نو آبادیاتی نظام کے خلاف دوسرے گروہوں کے دوش بدوش جنگ آزادی میں بھر پور شمولیت اور پاکستان کی تخلیق شامل ہیں۔ اقبال نے اگرچہ ان سبھی شعبوں میں اپنی استعداد اور فکر و عمل کے سہارے حتی المقدور کام سر انجام دئیے لیکن ان کا عشق تو کشمیر کی آزادی سے ہوا تھا اور کشمیر ان کا محبوب ہوتے ہوئے ان کے دل و دماغ پر ہر طرح سے چھایا ہوا تھا۔ کشمیر کی تحریک آزادی کے تعلق میں اقبال کو ایک ہی پریشانی لاحق ہوئی کہ وہ مسلمانوں کی تفریق اور اختلافات کے باعث بار بار دل افسردہ ہوتے رہے۔ وہ اس وادی زرخیز کی کشت ویران میں آزادی اور نئی زندگی کے پھول کھلتے دیکھ کر اپنی سب سے بڑی تمنا کو پورا کرنے کے خواہاں تھے لیکن عمر نے ان کے ساتھ وفا نہ کی۔ آخری عمر میں اقبال کی ایک بڑی خواہش یہ تھی کہ وہ ایک بار پھر کشمیر آ سکیں لیکن ان کا یہ ارمان تشنہ تکمیل ہی رہ گیا اور وہ کشمیر کی آئندہ نسلوں کے لئے یہ بشارت دے کر ہم سے بچھڑ گئے کہ : جس خاک کے ضمیر میں ہو آتش چنار ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاک ارجمند ٭٭٭ حوالہ جات چھٹا باب: اقبال اور تحریک آزادی کشمیر 1اقبال ان کا نام اور کام، دریا د اقبال، مرتبہ خواجہ عبدالحمید، گورنمنٹ کالج لاہور ص51-53 2پیام اقبال، مرتبہ عبدالرحمان طارق، چمن بک ڈپو دہلی 1938ئ، ص42-43 3 مقالات ممتاز، ڈاکٹر ممتاز حسن، ادارہ یادگار غالب کراچی، 1995ء ، ص317 4روزنامہ الجمعیتہ دہلی، 10اپریل 1977 5منقولہ از اقبال اور کشمیر، آزاد، ص130 6سرود رفتہ، مرتبہ مہر و صادق علی، ص80 7اقبال اور انجمن کشمیری مسلمانان، محمد عبداللہ قریشی، ادبی دنیا لاہور، اپریل 1973ء 8خلاصہ از کشمیری میگزین لاہور، جنوری 1909 9سول اینڈ ملٹری نیوز لدھیانہ، کشمیری میگزین لاہور مارچ1909 10لارڈ ہوریشیو ہر برٹ کچنر جو 1902ء سے 1909ء تک بھارتی فوج کے کمانڈر انچیف رہے۔ 11 کشمیری میگزین لاہور، مئی 1909 12کلیات مکاتیب اقبال جلد اول، ص168-170 13کشمیری میگزین لاہور، جون1909 14یہ رویداد محمد عبداللہ قریشی نے لاہور کے ادبی دنیا جریدہ کے اپریل 1973ء کے شمارہ میں قلم بند کی ہے۔ 15ان دنوں یعنی رواں صدی کے اوائل میں ہزاروں مفلوک الحال کشمیری مزدوری کرنے کی غرض سے پنجاب کے شہروں لاہور، سیالکوٹ، راولپنڈی، امرتسر، جالندھر اور لدھیانہ جایا کرتے تھے، ان جگہوں کے مقامی باشندے اور مغرور اہل دول انہیں ’’ ہتو‘‘ کہہ کر پکارتے تھے جس کے معنی ہیں ’’ ارے‘‘ یا’’ اوے‘‘ 16روزنامہ نوائے صبح سری نگر، 5مارچ1978 17دی مسلمان، کلکتہ 13 اگست1931 18دی سٹیٹس مین، کلکتہ 28جولائی 1931 19 روزنامہ انقلاب لاہور، ادارہ 31جولائی 1931 20پولیٹکل اویکننگ ان کشمیر، رویندر جیت کور، اے پی ایچ پبلشنگ کارپوریشن نئی دہلی، 1996ء ص156 21ایضاً ص157 22روزنامہ انقلاب لاہور، علامہ اقبال کے خلاف ناپاک غلط بیانی 16اگست1931ء 23روزنامہ انقلاب لاہور، 29اگست1931 24ایضاً 29اگست1931 25اقبال کا سیاسی سفر، محمد حمزہ فاروقی، بزم اقبال لاہور، 1992ء ، ص330 26روزنامہ انقلاب لاہور، 13اگست1931 27ہفت روزہ کشیر راولپنڈی، 3اگست1982 28روزنامہ انقلاب لاہور، 8جون1933 29ایضاً 30ایضاً 31ایضاً، 6اگست1933 32چودھری سر محمد ظفر اللہ خان جو بعد میں پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ بن گئے۔ 33اقبال اور سیاست ملی، رئیس احمد جعفری ندوی، اقبال اکیڈمی کراچی 1958ء ص 301-304 34کلیات مکاتیب اقبال، جلد سوم، اردو اکادمی دہلی 1993ء ص395 35ایضاً ص397 36اقبال اور سیاست ملی، ص156-157 37ایضاً، ص158-159 38اوراق گم گشتہ، رحیم بخش شاہین، اسلامک پبلی کیشنز لاہور، 1979ء ص28 39کلیات مکاتیب اقبال، جلد سوم ص389 40ایضاً، ص466 41ایضاً، ص402 42اقبال اور سیاست ملی، ص299-300 43کلیات مکاتیب اقبال، جلد سوم، ص364 44زندہ رود، جاوید اقبال، ص817-818 ٭٭٭ کتابیات الف آتش چنار، شیخ محمد عبداللہ، علی محمد اینڈ سنز سری نگر، 1986ء اقبال بنام شاہ، محمد عبداللہ قریشی، بزم اقبال لاہور1986ء اقبال اور فارسی شعرائ، محمد ریاض، اقبال اکادمی لاہور پاکستان، 1977ء اقبال کے حضور، سید نذیر نیازی، اقبال اکادمی پاکستان لاہور1971ء انوار اقبال، بشیر احمد ڈار، اقبال اکادمی پاکستان لاہور،1967ء اقبال ایک مطالعہ، غلام حسین ذوالفقار، اقبال اکادمی پاکستان لاہور1987ء اقبال اور حیدر آباد، نظر حیدر آباد، اقبال اکادمی پاکستان لاہور1962ء اقبال اور عبدالحق، ممتاز حسن، مجلس ترقی ادب لاہور1973ء اقبال کا سیاسی کارنامہ، محمد احمد خان، اقبال اکادمی پاکستان لاہور1977ء اقبال کے ہم نشین، صابر کلوروی، مکتبہ خلیل لاہور1985ء اقبال جہان دیگر، محمد فرید الحق، گردیزی پبلشرز کراچی1983ء اقبال دانائے راز، عبداللطیف اعظمی، مکتبہ جامعہ دہلی 1978ء اقبال کے آخری دو سال، عاشق حسین بٹالوی، اقبال اکادمی پاکستان لاہور1978ء اقبال نامہ اول و دوم، شیخ عطاء اللہ، شیخ محمد اشرف تاجر کتب لاہور1945ئ۔ 1951ء اردو انسائیکلو پیڈیا، فیروز سنز لمیٹڈ لاہور 1966ء اقبال نامے، اخلاق اثر، طارق پبلی کیشنز بھوپال،1981ء اقبال، مولوی احمد دین، انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی1970ء اشاریہ مکاتیب اقبال، صابر کلوروی، اقبال اکادمی پاکستان لاہور1984ء اقبال یورپ میں، سعید ورانی، اقبال اکادمی پاکستان لاہور1985ء اقبال کے خطوط جناح کے نام، محمد جہانگیر عالم، یونیورسل بکس لاہور1984ء اقبال اور کشمیر، جگن ناتھ آزاد، علی محمد اینڈ سنز سری نگر1977ء اقبال اور کشمیر ، سلیم خان گمی، یونیورسل بکس لاہور1977ء افکار اقبال، صابر ابوہری، ماڈرن پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی 1995ء اقبال فلسفی اور شاعر، سید وقار عظیم، علی گڑھ بک ڈپو علی گڑھ1975ء اقبال کی کہانی، ظہیر الدین احمد الجامعی، اعجاز پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی1985ء اقبال اور قومی یکجہتی، منظر اعجاز، شوبی آفسیٹ پریس نئی دہلی، 1994ء اقبال اور لذت پیکار، حق نواز، اقبال اکادمی پاکستان لاہور1984ء اقبالیات ماجد، عبدالماجد دریا بادی، اقبال اکیڈمی حیدر آباد دکن 1979ء اقبال شاعر اور سیاست دان، رفیق ذکریا، انجمن ترقی اردو ہند نئی دہلی 1995ء اقبال کا سیاسی سفر، محمد حمزہ فاروقی، بزم اقبال لاہور1992ء اقبال اور قائد اعظم، احمد سعید، اقبال اکادمی پاکستان لاہور1989ء اقبال صد سالہ جشن ولادت، انجمن سادات امروہہ کراچی، 1981ء اقبال 84ئ، مرتبہ وحید عشرت، اقبال اکادمی پاکستان لاہور1986ء اقبال 85ئ، مرتبہ وحید عشرت، اقبال اکادمی پاکستان لاہور1989ء اقبال 86ئ، مرتبہ وحید عشرت، اقبال اکادمی پاکستان لاہور1990ء اقبال کامل، عبدالسلام ندوی، مطبع معارف اعظم گڑھ1948ء اقبال اور سیاست ملی، رئیس احمد جعفری ندوی، اقبال اکیڈمی کراچی1958ء اوراق گم گشتہ، رحیم بخش شاہین، اسلامک پبلی کیشنز لاہور1979ء اے ہسٹری آف اردو لٹریچر، علی جواد زیدی، ساہتہ اکادمی نئی دہلی1993ء اے ہسٹری آف کشمیر، پی این کول بامزئی، میٹروپالیٹن بک کمپنی نئی دہلی 1973ء اکبر اینڈ دی جیسیوٹس، ڈیو جارک، براڈوے سیریز لندن1926ء ب باقیات اقبال، مرتبہ سید عبدالواحد معینی، کتب خانہ نذیریہ دہلی 1975ء پ پولیٹیکل اویکننگ ان کشمیر، رویندر جیت کور، اے پی ایچ پبلشنگ کارپوریشن نئی دہلی، 1996ء پیام اقبال مرتبہ عبدالرحمان طارق، چمن بک ڈپو نئی دہلی1938ء ت تاریخ ادبیات ایران، رضا زادہ شفیق لرندو المصنفین دہلی 1985ء تاریخ کشمیر، زمانہ ما قبل از تاریخ تا قرار داد قوام متحدہ، عنصر صابری، پروگریسیو بکس لاہور1991ء تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ترجمہ سید نذیر نیازی، بزم اقبال لاہور1957ء تلمیحات اقبال، عابد علی عابد، بزم اقبال لاہور1985ء تنقید اقبال اور دوسرے مضامین، عبدالحق، جمال پریس دہلی 1976ء تحریک کشمیر اور احرار، تاج الدین لدھیانوی، مکتبہ مجلس احرار لاہور1968ء ج جہد مسلسل، امان اللہ خان، ایس ایس کمبائنڈ راولپنڈی 1992ء ح حیات اقبال کی گم شدہ کڑیاں، محمد عبداللہ قریشی، بزم اقبال لاہور1982ء حیات حافظ، اسلم جے راج پوری، مکتبہ جامعہ دہلی 1983ء خ خدوخال اقبال، محمد امین زبیری، تھری اے پرنٹرس کراچی 1986ء خطوط اقبال، رفیع الدین ہاشمی، مکتبہ خیابان ادب لاہور1976ء خطوط غلام رسول مہر، المہر لاہور1983ء خطوط اقبال بنام بیگم گرامی حمید اللہ شاہ ہاشمی ، محبوب بک ڈپو فیصل آباد1978ء د دانائے راز، سید نذیر نیازی، اقبال اکادمی پاکستان لاہور1979ء دی لائف اینڈ ٹائمز آف محمود آف غزنہ، ایم ناظم، کیمبرج پریس لندن1931ء دی ویلی آف کشمیر، سر والٹر آر لارنس، کیسر پبلشرز سری نگر1967ء ڈ ڈینجران کشمیر، جوزف کوربیل، پرنسٹن یونیورسٹی پریس نیو جرسی1966ء ذ ذکر اقبال، عبدالمجید سالک، بزم اقبال لاہور1955ء ر روح مکاتیب اقبال، محمد عبداللہ قریشی، اقبال اکادمی پاکستان لاہور1977ء روزگار فقیر، سید وحید الدین، لاین آرٹ پریس کراچی 1966ء رود کوثر، شیخ محمد اکرام، ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور1979ء رجال اقبال، مرتبہ عبدالرؤف عروج، نفیس اکیڈمی کراچی1988ء روح اقبال، یوسف حسین خان، غالب اکیڈمی نئی دہلی 1976ء ز زندہ رود، جاوید اقبال، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور1989ء س سیاحت نامہ کشمیر و پنجاب، بیرون چارلس ہیوگل، ترجمہ محمد حسن صدیقی، مجلس ترقی ادب لاہور،1990ء سیرت اقبال،محمد طاہر فاروقی، قومی کتب خانہ لاہور1978ء سرود رفتہ، مرتبہ غلام رسول مہر اور صادق علی، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور1959ء سڑگل فار فریڈم ان کشمیر، پریم ناتھ بزاز، کشمیر پبلشنگ کمپنی نئی دہلی 1954ء سردار پٹیلس کار سپانڈنس، جلد اول1945-50ء نیو لایٹ آن کشمیر، نو جیون پبلشنگ ہاؤس احمد آباد1971ء ش شاد اقبال، محی الدین قادری زور، سب رس کتاب گھر حیدر آباد1942ء ص صحیفہ اقبال، مرتبہ یونس جاوید، بزم اقبال لاہور1986ء صدائے کشمیر، مرتبہ غلام نبی خیال، کشمیری رائیٹرس کانفرنس سری نگر1994ء ف فکر اقبال، خلیفہ عبدالحکیم، بزم اقبال لاہور1991ء فریڈم ایٹ مڈ نایٹ، لیری کالنس اور ڈامنک لیپرے، وکاس پبلشنگ ہاؤس دہلی،1976ء ک کلیات مکاتیب اقبال، مرتبہ سید مظفر حسین برنی، جلد اول دوم دوم، اردو اکادمی دہلی 1993, 1991, 1989ء کشمیری مسلمانوں کی سیاسی جدوجہد، مرزا شفیق حسین، قومی ادارہ برائے تحقیق تاریخ و ثقافت، اسلام آباد1985ء کلیات اقبال اردو، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور1989ء کلیات اقبال فارسی، نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد1990ء کشمیر ادب اور ثقافت، سلیم خان گمی، ادارہ مطبوعات پاکستان کراچی1963ء کشمیر کی جنگ آزادی، سردار محمد ابراہیم خان کلاسیک لاہور1966ء کشمیر، چراغ حسن حسرت، قومی کتب خانہ لاہور1948ء کشمیر کی کہانی، ظہور احمد، مکتبہ لاہور، لاہور1969ء کش مکش، چودھری غلام عباس خان، اردو اکیڈمی لاہور1950ء کشمیر، این انوٹیٹڈ بیلیو گرافی، مرزا شفیق حسین، انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک ہسٹری اسلام آباد1981ء کشمیر انڈر دی سلطانز، محب الحسن، علی محمد اینڈ سنز سری نگر1974ء کشمیر، سر فرانسس ینگ ہسبنڈ، اے اینڈ سی بلیک لندن1917ء کشیر، جی ایم ڈی صوفی، پنجاب یونیورسٹی پریس لاہور1949ء کشمیر ہیپی ویلی، ویلی آف ڈیتھ، ولیم بیکر، پولسن کمیونیکیشنز لاہور 1994ء کشمیر بی ہانیڈ دی ویل، ایم جے اکبر، وایکنگ نئی دہلی 1991ء کشمیر، اے ڈسپیوٹڈڈ لیگیسی، السٹایر لیمب، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، کراچی1993ء کشمیریز فایٹ فار فریڈم، محمد یوسف صراف، فیروز سنز لاہور،1979ء کشمیر، آزادی کی جدوجہد، ترتیب سفیر اختر، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز، اسلام آباد1991ء گ گفتار اقبال، محمد رفیق افضل، ادراہ تحقیقات پاکستان لاہور1977ء ل لکنگ بیک، مہر چند مہاجن، ایشیا پبلشنگ ہاؤس بمبئی 1963ء م ملفوظات اقبال، ابو اللیث صدیقی، اقبال اکادمی پاکستان لاہور1977ء مقالات اقبال، سید عبدالواحد، آئینہ ادب لاہور1982ء معاصرین اقبال کی نظر میں، محمد عبداللہ قریشی، مجلس ترقی ادب لاہور1977ء مکتوبات اقبال، سید نذیر نیازی، اقبال اکادمی پاکستان لاہور1957ء محب وطن اقبال، سید مظفر حسین برنی، ہریانہ ساہتیہ اکادمی چندی گڑھ 1984ء محمد اقبال، میر سید میر شکر، اقبال انسٹی ٹیوٹ سری نگر1983ء منشورات اقبال، بزم اقبال لاہور1988ء مقالات ممتاز، ممتاز حسن، ادارہ یادگار غالب کراچی1995ء محرکات تحریک پاکستان، کرامت علی خان، غالب پبلشرز لاہور1995ء ماس ریزسٹنس ان کشمیر، طاہر امین، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد1995ء مسئلہ کشمیر، کل آج اور کل، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز، اسلام آباد1989ء ن نقش اقبال، سید عبدالواحد، آئینہ ادب لاہور1965ء نثر تاثیر، محمد دین تاثیر، مرتبہ فیض احمد فیض، اردو اکادمی بہاولپور، 1963ء نیو ہوپس فار اے چینجنگ ورلڈ، برٹرینڈرسل، لندن1955ء و واقعات کشمیر، محمد اعظم دیدہ مری ترجمہ خواجہ حمید یزدانی، اقبال اکادمی پاکستان لاہور1995ء ولی سے اقبال تک، سید عبداللہ، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور1995ء ہ ہیرا پرنٹ، کرن سنگھ، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، بمبئی 1983ء ی یاد اقبال، خواجہ عبدالحمید، اعتقاد پبلشنگ ہاؤس دہلی،1974ء ٭٭٭ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End