اقبال عہد آفریں ڈاکٹر اسلم انصاری اقبال اکادمی پاکستان جملہ حقوق محفوظ ناشر محمدسہیل عمر ناظم اقبال اکادمی پاکستان (حکومتِ پاکستان، وزارت بین الصوبائی رابطہ) چھٹی منزل ، ایوانِ اقبال ، لاہور Tel: [+92-42] 36314-510 [+92-42] 99203-573 Fax: [+92-42] 3631-4496 Email: info@iap.gov.pk Website: www.allamaiqbal.com ISBN 978-969-416-462-5 طبع اوّل : ۲۰۱۱ء تعداد : ۵۰۰ قیمت : ۔؍۲۵۰روپے ٹائٹل ڈیزائن : خالد فیصل khalidfaisal@gmail.com مطبع : شرکت پرنٹنگ پریس، لاہور محلِ فروخت : ۱۱۶ میکلوڈ روڈ ، لاہور، فون نمبر ۳۷۳۵۷۲۱۴ فہرست دیباچہ ۵ ۱- اقبال: عہد آفریں ۱۱ ۲- اقبال کی بیانیہ شاعری ۲۵ ۳- اقبال اور عشقِ رسولؐ ۴۳ ۴- اقبال کا تصورِ تاریخ ۷۳ [ابن خلدون اور اشپنگلر کے افکار کی روشنی میں] ۵- تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ ۱۰۵ [اسلامی افکار کے تناظر میں] ۶- خطباتِ اقبال پر ایک نادر تبصرہ ۱۱۷ ۷- فارسی شعر و ادب میں اقبال کی فکری اور فنی ترجیحات ۱۲۹ ۸- اقبال کی مختصر ترین فارسی مثنوی: بندگی نامہ ۱۴۵ ۹- اقبال کا ذوقِ تعمیر ۱۶۵ ۱۰- اقبال کی شاعری میں ڈرامائی عناصر ۱۷۷ ۱۱- اقبال کا لفظی تخیل ۱۸۹ ۱۲- اقبال اور احمدشاہ ابدالی ۱۹۷ ۱۳- شاعرِ مشرق اور عبدالرحمن چغتائی ۲۱۱ ۱۴- ’ہمالہ‘… نظم یا کسی طویل نظم کا ابتدائیہ ۲۳۷ [ایک تجزیاتی مطالعہ] ۱۵- اقبال اور نسلِ نو ۲۴۹ ۱۶- سنگ و خشت یا افکارِ تازہ ۲۵۷ [اقبال کا ایک شعر] ۱۷- اقبال: شخص اور شخصیت- ایک نظر میں ۲۶۳ دیباچہ اُردو تنقید میں اقبالیات کے شعبے نے جو فروغ پایا ہے، ممکن ہے اس کو دیکھ کر بعض لوگ سوچتے ہوں کہ اقبال کے بارے کیوں اتنا لکھا جارہا ہے، یہ استعجاب اس سوال کی صورت میں بھی ظاہر ہوسکتا ہے کہ اقبال کے فکروفن کا کوئی پہلو ایسا بھی رَہ گیا ہے جو ابھی تشنۂ تشریح و تنقید ہو یا تحقیق و جستجو کی دسترس سے دور رہا ہو۔ سوال و استعجاب انسانی فطرت کا خاصا ہیں، فطرت اور عظیم فن دونوں انسان کو سوال پر اُکساتے اور حیرت میں مبتلا کرتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اقبال پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، اور لکھا جارہا ہے… اور جو کچھ اب تک لکھا گیا ہے، اس میں تکرار و اعادہ کی صورتیں بھی یقینا موجود ہوں گی، لیکن دُنیا کے تمام عظیم شاعروں کی شہرت و مقبولیت اور ان کا دوامِ فن اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اُن کے کلام میں انسانی فکروتخیل اور جذبات کو متاثر کرنے کی ایسی خوبی موجود ہے جو کسی عہد یا زمانے سے مخصوص نہیں، کسی شاعرکی عظمت کا انحصار بہت حد تک اُن فکری اور فنی خوبیوں پر ہے جو انسانی فکروخیال اور جذبات و احساسات کو ہر آنے والے زمانے میں متاثر کرتی رہتی ہیں۔ اقبال کے فن میں یہ خوبیاں بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ ان کی شاعری انسانی فکروتخیل کو متاثر بھی کرتی ہے اور متحرک بھی، اسی لیے ان کو پڑھنے والا اس ذوقِ جستجو سے بہرہ مند ہوئے بغیر نہیں رَہ سکتا جو ان کے فکر کا ایک اہم موضوع اور اُن کی شاعری کا وصفِ خاص ہے۔ اقبال کا فکروفن بذاتِ خود تحقیق و جستجو کا سب سے بڑا جواز ہیں، اسی لیے محقق اور متجسس کی دُنیائے فکر کی حدود اس کے لیے وجہِ اعتذار ہوں تو ہوں، اقبال جیسے عظیم شاعر پر کچھ لکھنے کے لیے مزید کسی عذر خواہی کی ضرورت نہیں رہتی… اقبال کے فکروفن کی عظمت کے متعارف پہلوئوں کے علاوہ اُنھی سے متعلق اور بھی کئی ایسے پہلو ہیں جو عام طور پر ’خیالِ عظمت‘ کی تیز روشنی میں چھپے رہتے ہیں، لیکن تنقیدی نقطۂ نظر سے کسی طرح کم اہم نہیں اور اس میں بھی شک نہیں کہ اقبال کے فکروفن کے بہت سے ایسے گوشے موجود ہیں، جو ’اقبالیات‘ کی روز افزوں ثروت مندی کے باوجود اقبال کے طالب علموں اور نقادوں کے لیے دعوتِ فکر کا باعث ہیں۔ اقبال کی شاعری اور اُن کی دوسری تحریریں ایک جہانِ معنی ہیں، ان تحریروں کے مطالب اور ان کے فکری اور فنی لوازم ہمیں مسلسل غوروفکر پر آمادہ کرتے رہتے ہیں۔ چونکہ یہ مقالات و مضامین قابلِ ذکر زمانی فصل سے لکھے گئے ہیں، اس لیے ان میں بعض حوالوں کا اعادہ ضرور نظر آئے گا۔ لیکن یہ تمام حوالے ہر مضمون کی اپنی ضروریات کے تحت شامل کیے گئے۔ اس لیے صرف چند مقامات پر ان حوالوں کی تکرار کی صورت ناگزیر تھی۔ اس تالیف میں ایک خاص اہتمام یہ بھی کیا گیا ہے کہ اقبال کی فارسی شاعری کے تمام حوالوں کے ساتھ اُن کے تراجم بھی دیے گئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اقبال پر لکھتے ہوئے عام طور پر اس کا التزام نہیں کیا جاتا جس سے عام قاری کو خاصی اُلجھن ہوتی ہے۔ ان مضامین میں فارسی اشعار کے تراجم کی جو روش اختیار کی گئی ہے۔ اُمید ہے عام قارئین کے علاوہ اقبالیات کے طالب علم بھی اسے عمومی افادیت سے خالی نہیں پائیں گے۔ یہ تمام تراجم ناچیز مؤلف کی کاوش کا نتیجہ ہیں۔ اقبال عہد آفریں… کے مضامین میں موضوعات کے تنوع کے باوجود ایک داخلی ربط موجود ہے۔ جسے بآسانی محسوس کیا جاسکتا ہے، اس ربط کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ یہ سب مضامین اقبال کے فکروفن کو سمجھنے کی کوششوں کا نتیجہ ہیں، اس لیے ناگزیر طور پر ان میں باہمی تعلق موجود ہے۔ مجھے احساس ہے کہ بعض موضوعات پر اس سے پہلے بھی خامہ فرسائی ہوچکی ہے، جس کے نتیجے میں قابلِ قدر تحریریں اقبالیات کا حصہ بن چکی ہیں تاہم رسمی انکسار سے قطعِ نظر کرتے ہوئے بعض موضوعات کے بارے میں مَیں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اُنھیں پہلی بار اس طرح زیربحث لایا گیا ہے۔ مثلاً اقبال کی بیانیہ شاعری، تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ اسلامی افکار کے تناظر میں، اقبال کی مختصر ترین مثنوی، بندگی نامہ، فارسی شعروادب میں اقبال کی فکری اور فنی ترجیحات، خطباتِ اقبال پر ایک نادر تبصرہ، اقبال کا لفظی تخیل… اور اقبال اور احمد شاہ ابدالی۔ ایسے موضوعات ہیں جن سے میرے خیال میں اس پیشتر اعتنا نہیں کیا گیا۔ اقبال کے تصورِ تاریخ کے مطالعے میں پہلی بار ابن خلدون اور اشپنگلر کے خیالات کو تفصیل سے بیان کرکے اقبال کے تصورِ تاریخ کے ساتھ ان کا موازانہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح اقبال اور عبدالرحمن چغتائی کے بارے میں جو کچھ اب تک لکھا گیا تھا۔ اس میں چغتائی کے بارے میں بالخصوص اور اسلامی یا مشرقی مصوری کے بارے میں بالعموم فنی بصیرت کا بھرپور اظہار نہیں ملتا، اس موضوع پر میرا مضمون جو اس کتاب میں شامل ہے، ’عملِ چغتائی‘ کے فنی تجزیے کی حیثیت بھی رکھتا ہے، اور اس حقیقت کے جائزے کی بھی کہ چغتائی کا فن کس حدتک اقبال کے جہانِ معنی کی رنگ و خط میں تفسیر یا تعبیر پیش کرسکا ہے۔ اسی طرح اگرچہ تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن اس کی قدورقیمت کو فلسفے اور تصوف کے مہماتِ مسائل کے شعور کے ساتھ اسلامی فکر کی تاریخ کے تناظر میں رکھ کر متعین کرنے کی کوشش نہیں کی گئی تھی۔ میرا مضمون اس سمت میں ایک طالب علمانہ سعی ہے۔ اگر یہ اور دوسرے مباحث اقبالیات کے کسی ایک طالب علم کے بھی کام آسکیں تو مَیں سمجھوں گا کہ میری یہ ناچیز سعی بے ثمر اور رائیگاں نہیں رہی۔ اقبال عہد آفریں ایک عرصے سے ناپید تھی، اس کے موجودہ ایڈیشن کی اشاعت کے لیے مَیں اقبال اکادمی پاکستان (لاہور) کے علم دوست اور اقبال شناس ناظم جناب محمد سہیل عمر صاحب کا شکرگزار ہوں کہ اُنھوں نے اسے اپنے ادارے کے معیارِ طباعت کے مطابق شائع کرکے میری ناچیز کاوشوں کو اقبال شناسوں کے وسیع تر حلقے تک پہنچانے کا اہتمام کیا۔ ڈاکٹراسلم انصاری اقبال: عہد آفریں کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ فنونِ ادب میں شاعری کی ہمہ گیر تاثیر کو ہر عہد میں تسلیم کیا گیا ہے، شاعروں نے انفرادی اور اجتماعی زندگی پر بعض حیرت انگیز اثرات مرتب کیے ہیں، اسی لیے شاعروں کو انسانی تمدن کے معماروں میں شامل کیا جاتا ہے، اثرانگیزی کے اعتبار سے شاعری کو بعض صورتوں میں موسیقی پر بھی فوقیت حاصل ہے، موسیقی کا اثر کیفیات تک محدود ہے، شاعری انسانی زندگی میں جس نوع کے تحولات پیدا کرنے پر قادر ہے، اس کی کوئی مثال موسیقی کی تاریخ میں شاذ ہی ملے گی، شاعری انسان کے فکر، جذبے اور تخیل کو یکساں طور پر متاثر کرتی ہے اور بعض اوقات غیرمعمولی محرکِ عمل کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے، دُنیا کے تمام بڑے شاعروں نے اپنے عہد کو کسی نہ کسی طرح ضرور متاثر کیا ہے، شاعری کی فوری اثرانگیزی کی جو مثالیں تاریخ میں محفوظ رہی ہیں، تاثیرِ شعرکے ثبوت میں بہت کافی ہیں، مثلاً امیر نصر بن احمد سامانی کارددکی کے اشعار سے متاثر ہو کر اپنے وطن بخارا کی محبت میں بے قرار ہوجانا اور عرب شاعر میمون بن قیس کے کلام کا لوگوں کے لیے شہرت یا رسوائی کا باعث ہونا وغیرہ، لیکن بلند پایہ شاعری کے اثرات اس سے کہیں زیادہ دیرپا اور دوررس ثابت ہوتے ہیں، فردوسی، سعدی، رُومی اور حافظ کئی صدیوں سے اہلِ مشرق کے دلوں پرحکمرانی کررہے ہیں، بقولِ کارلائل- اطالوی شاعر ڈانٹے نے اپنے شعری شاہکار ’’طربیۂ ایزدی‘‘ کے ذریعے عیسویت کی گیارہ گنگ اور بے زبان صدیوں کو زبان بخش دی۔ اکثر بڑے شعرا نے اپنے فکروتخیل اور حسنِ کلام کی بدولت انسانوں کے اذواق و اشواق کے ساتھ ساتھ فکروفن کے معائیر کو بھی متاثر کیا، نظامی عروضی سمرقندی نے شاعری کی جو تعریف وضع کی ہے، اس کی رُو سے شاعری اُن مقدماتِ موہومہ (متخیّلہ) سے عبارت ہے، جن کے ذریعے چھوٹی چیز کو بڑا، اور بڑی چیز کو چھوٹا، اور اسی طرح خوب کو زشت اور زشت کو خوب دکھایا جاسکتا ہے، اسی لیے شاعری دُنیا میں بڑے بڑے اُمور کے وجود میں آنے کا سبب بن جاتی ہے ( واُمورِ عظام رادر نظامِ عالم سبب شود۱؎) مشرق کے علمائے شاعری میں نظام عروضی سمرقندی پہلا نقاد ہے جس نے ’’نظامِ عالم‘‘ میں ’’اُمورِ عظام‘‘ کے اسباب میں شاعری کو بھی شامل کیا ہے، لیکن اس کی نظر میں بھی شاعری کے فوری اثرات ہیں جو قصیدہ گو شعرا بادشاہوں کی طبائع پر اپنی بدیہہ گوئی اور لطفِ کلام سے پیدا کردکھاتے تھے، البتہ بعض متقدمین نے عرب قبائل کی اجتماعی زندگی میں شاعر کی اہمیت اور تاثیر کو بھی تفصیل سے بیان کیا ہے۔۲؎ لیکن شاعری کی تاثیراتِ معنوی کو آج کے علوم و انتقاد کی روشنی میں زیادہ صراحت اور قطعیت کے ساتھ سمجھا جاسکتا ہے، شاعری تہذیبوں کے باطن کی رُونمائی ہے، یہ فرد کے باطن میں اجتمای لاشعور کی کارفرمائی ہے، یہ عکسِ حیات و نقدِ حیات ہی نہیں تخلیقِ حیات بھی ہے، اسی لیے تاریخِ انسانی کے بعض عظیم تحولات کے پس منظر میں دوسرے بڑے عوامل کے ساتھ ساتھ شاعری بھی کارفرما نظرآتی ہے، بیشک شاعری نے انقلاب برپا کر دکھائے ہیں، لیکن دُنیا میں بہت کم شعرا ایسے گزرے ہیں جنھیں ہم… شاعرِ مشرق علامہ اقبال کی طرح صحیح معنوں میں ’عہد آفریں‘ کَہ سکیں۔ یوں تو دُنیا کے اکثر بڑے شعرا اپنے عہد کی زندگی پر اثر انداز ہوئے ہیں، لیکن شعرِ اقبال نے بیسویں صدی میں برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی پر جو گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور عصرِحاضر کے مسلمانوں کی ہیئتِ اجتماعیہ کی تشکیل میں جو اہم بنیادی کردار اداکیا ہے۔ اس کی مثالیں نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہیں، اقبال کے فکروفن نے تاریخ، سیاست اور ادب پر یکساں طور پر اثرات چھوڑے ہیں، اُنھوں نے اُردو شاعری میں ایک ایسی روش اختیار کی جس کی کوئی مثال اس سے پہلے موجود نہیں تھی، اُنھوں نے شاعری میں تاریخی شعور کو شامل کرکے زندگی اور شاعری دونوں کے آفاق کو حیرت انگیز طور پر وسیع کیا، اُنھوں نے اُردو شاعری کو اس رفعت وشکوہ سے آشنا کیا جو دُنیا کی بہت کم زبانوں کے حصے میں آسکے ہوں گے، اُنھوں نے اُردو نظم و غزل پر فکر، خیال، جذبے اور اظہار کے یکسر نئے ابواب وا کردیے، وہ اپنے ساتھ ایک نیا طرزِ فکر اور نیا طرزِ احساس لائے، اس فکر واحساس کی جڑیں تو ماضی کی علمی، ادبی اور تہذیبی روایات میں تھیں، لیکن اس کا دامن زندگی کے نئے سے نئے تجربے کے لیے وا تھا، اقبال نے اُردو شاعری کی لفظیات میں ایک عظیم تغیر پیدا کردیا، اور شعری معنویت کے رشتے عصری حقائق اور تاریخ و تہذیب کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ استوار کردیے، اُنھوں نے شاعری کو فلسفہ اور فلسفے کو زندگی عطا کی اور مغربی افکار کے مقابلے میں مشرقی فکر کے حیات بخش عناصر کو اس طرح نمایاں کیا کہ اس سے مشرق اور مغرب دونوں کو نئی روشنی میسر آسکے۔ اُنھوں نے شاعری کو استدلال دیا اور استدلال کو منطق کے بے جان کلیوں سے نکال کر زندگی کی حقیقتوں کے قریب لے آئے، شعری معنویت کے جن نئے امکانات کو اُنھوں نے اپنی شاعری میں منکشف کیا، وہ صرف اُردو شاعری ہی نہیں، پوری دُنیائے ادب میں کم نظیر ہیں، اقبال نے مشرقی ادب کی تاریخ میں شاید پہلی بار یہ تصورِ شعر پیش کیا کہ شاعری مقصود بالذات نہیں، بلکہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے مقاصدِ عالیہ کی تشریح و تکمیل کا ایک مؤثر ذریعہ ہے…لیکن شاعری کو ایک وسیلہ یا ذریعہ قرار دینے کے باوجود اُنھوں نے شاعری کو فکروتخیل اور اُسلوبِ بیان کی جن بلندیوں سے آشنا کیا، اُنھیں اُردو شاعری میں یکسر ایک نئے جہانِ معنی کے انکشاف کے مترادف قرار دیا جاسکتا ہے۔ اُن کی شاعری کی اشاعت کے ساتھ ہی اُردو شاعری اور برصغیر کے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں بنیادی اور اُصولی تبدیلیاں رُونما ہونا شروع ہوگئیں، وہ ایک نئے جہانِ معنی کے پردہ کشا اور ایک نئے آہنگِ شاعری کے عَلم بردار تھے، اُنھوں نے اُردو شاعری کو فکروخیال اور اُسلوب و آہنگ کی اس بلندی سے مالامال کیا جسے صدیوں پہلے ایک رُومی نقاد لان جائی نس (longinus) نے ’’ارفعیت‘‘ (sublimity) سے تعبیر کیا تھا۔ اس ارفعیت نے شعروادب کو نئی جہتیں عطا کیں اور برِصغیر کے مسلمانوں کو ایک نیا تاریخی، علمی، انسانیاتی، تخلیقی اور سیاسی شعور عطا کیا، اُنھوں نے شاعری کو ایک ایسی علمی جہت عطا کی جو کلیتہً کم نظیر تھی، اُنھوں نے ثابت کردیا کہ عصرِحاضر میں ایک بہت وسیع اور رچے ہوئے علمی شعور کے بغیر بلندپایہ شاعری وجود میں نہیں آسکتی۔ اُنھوں نے شاعری کو علم کی وسعت کے ساتھ مشروط کردیا اور عصرِحاضر کی علمی صداقتوں کو اس فنی شعور کے ساتھ شاعری میں لے آئے کہ علم وفنون کے درمیان کوئی فاصلہ باقی نہ رہا۔ چھٹی صدی ہجری میں صاحبِ چہار مقالہ نے شاعری کو ’نظامِ عالم‘ میں جن ’اُمورِ عظام‘ کا سبب قرار دیا تھا وہ چودھویں صدی ہجری میں اقبال کی شاعری کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئے۔ اقبال نے شاعری کی زبان کو بالخصوص اور علم و ادب کی زبان کو بالعموم ایک نئی تبدیلی سے روشناس کیا۔ اُردو زبان کو علمی طور پر جو قوت سرسیّداور اُن کے رفقائے نے عطا کی تھی، شاعری میں اس کا اثر ابھی اتنا نمایاں نہیں تھا۔ اگرچہ مولانا حالی نے شاعری کی زبان کو بہت حد تبدیل کیا، لیکن حالی کی زبان مجموعی طور پر کسی نئی لسانی تشکیل کے مترادف نہیں تھی۔ اقبال نے زبان میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت کا احساس پیدا کیا۔ اور اپنی شاعری کے ذریعے ایک ایسی شعری زبان تخلیق کی جو مستقبل کی علمی اور ادبی ضرورتوں کے علاوہ معاشرتی اور عمرانی تبدیلیوں کا ساتھ بھی دے سکتی تھی۔ اقبال نے اپنی لسانی تشکیل کی بنیاد محاورے اور قدیم تلازمات کی بجائے… زبان کے فطری عمل پر رکھی۔ اس نئی شاعرانہ زبان میں محسوسات اور خیالات (مجردات) کے ساتھ ساتھ خارجی حقائق کو بیان کرنے کی بھی پوری پوری صلاحیت تھی، اس کے باوجود یہ زبان علم و ادب کی قدیم روایات سے یکسر منقطع نہیں تھی۔ عصرِحاضر کی تمام بڑی شعری تحریکات میں اقبال کے اثر کو کسی نہ کسی صورت میں ضرور کارفرما دیکھا جاسکتا ہے۔ اقبال سے پیشتر اُردو میں بلندپایہ شاعری کے تمام تر اجزا غزل ہی میں ملتے ہیں۔ اقبال کے شاعرانہ نبوغ نے نظم کو غزل کے علاوہ دوسری تمام شعری اصناف کا ہم پلہ بنا دیا۔ اگرچہ اُردو نظم اقبال سے پہلے وجود میں آچکی تھی لیکن poem کے معنوں میں نظم کا جدید تصور اتنا واضح نہیں ہوا تھا۔ بلکہ نظم اپنی ہیئتوں سے پہچانی جاتی تھی، مثلاً قصیدہ، مثنوی، مرثیہ، ترکیب بند، ترجیع بند، مسدس، مخمس، رُباعی اور قطعہ وغیرہ، البتہ قدیم شاعروں میں نظیراکبرآبادی ضرور ایک ایسے شاعری ہیں جو اِن تمام ہیئتوں کو نظم یا poem کے جدید تصور کے قریب لے آئے تھے، اسی لیے ان کی نظموں میں اصل اہمیت ہیئت کی نہیں بلکہ موضوع اور اس سے متعلقہ جذبات و احساسات کی ہے، یعنی نظیر کی نظم کے مختلف النوع اجزا میں ایک ایسی تعمیراتی وحدت ضرور پیدا ہوجاتی ہے جو نظم کا اصل فنی تقاضا ہے… یہی وجہ ہے کہ سودا کے قصائد یا میر حسن کی مثنویات کو ان معنوں میں نظم نہیں کیا جاسکتا جن معنوں میں نظیر کی نظمیں، نظمیں کہلاتی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اُردو میں نظم کے جدید یا مغربی تصور کو رائج کرنے کا سہرا حالی اور آزاد کے سر ہے، جنھوں نے انجمنِ پنجاب کے زیراہتمام جدید مشاعروں کی بنیاد ڈالی، ان مشاعروں نے جدید نظم گوئی کے رجحان کو جس پرجوش ادبی تحریک کی صورت دے دی، اس کی رُوحِ رواں خود حالی اور آزاد تھے، جنھیں ہرحال میں جدید نظم کے اوّلیں معمار تسلیم کیا جانا چاہیے۔ حالی اور آزاد نے جدید نظم کو اس کا ابتدائی فنی تصور دیا، اس ابتدائی فنی تصور میں نظم کے لیے موزوں ترین ہیئت مثنوی ہی کو خیال کیا گیا… لیکن اقبال کی شاعری نے اُردو نظم کی دُنیا میں ایک حقیقی انقلاب برپا کردیا۔ جس طرح مرزا غالب نے اُردو غزل کو آفاقی شاعری کا لب ولہجہ عطا کیا تھا، اسی طرح اقبال نے بھی بیک جست اُردو نظم کو دُنیا کی بلندپایہ شاعری کا ہم عنان وہم زبان بنا دیا، اس کارنامے میں اُردو کا کوئی اور شاعر اُن کا شریک نہیں ہے، اُردو نظم جو ابھی یک رُخی، سادہ اور نقشِ معریّٰ تھی، اقبال کے ہاتھوں پہلودار، پیچیدہ اور رنگین بن گئی۔ اقبال نے نظم کو بیانِ واقعہ کی سادہ اور مستقیم صورتِ حال سے نکال کر اسے جذبے اور تخیل کی پیچیدہ تر صورتِ حال سے آشنا کیا اور نظم کے اجزا کو فنی تَہ داری کے ساتھ سہ ابعادی بنادیا۔ نظم جو اقبال سے پیشتر ایک حرفِ سادہ تھی۔ اقبال کے جوہرِ تخلیق کی بدولت ایک ایسا نغمہ بن گئی جس میں حیات و کائنات کی کئی صداقتوں کو سمودیا گیا تھا۔ اقبال نے نظم کو خطِ مستقیم کا مسافر ہونے کی بجائے نغماتی تحرک اور آہنگ کے خم و پیچ سے آشنا کیا۔ اور نظم کو ایک بیج کی طرح نقطۂ آغاز سے بڑھنا اور پھلنا پھولنا سکھایا، اُردو نظم پہلی بار اقبال ہی کے ہاں ایک نامیاتی وحدت کے طور پر رُونما ہوئی جس میں تعمیراتی وحدت کا حسن بھی موجود ہے۔ اقبال سے پہلے کی نظم، وہ جو کچھ بھی تھی، صرف خارج کی ترجمان تھی اور شاعری کی لطافت اور وسعت سے بہت حد تک عاری تھی، اقبال نے اسے خارج کے ساتھ ساتھ داخل کی دُنیا سے بھی آشنا کیا اور اسے ان شعری لطافتوں سے بھی مالامال کیا جن کے بغیر شاعری، شاعری کہلانے کی حق دار نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح اقبال نے نظم کو ایک ایسا ڈکشن عطا کیا جو اگرچہ بہت حد تک روایت کے ذخیروں سے مستفاد تھا تاہم وہ بحیثیتِ مجموعی زندگی کی نئی حقیقتوں کی ترجمانی کی صلاحیت بھی رکھتا تھا اور ایک نئے طرزِ احساس کا حامل تھا… یہی وہ حقیقت ہے جسے اقبال کے اوّلیں مبصر سرعبدالقادر نے اُن کی اوّلیں مقبول نظم ’ہمالہ‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ’’اس میںانگریزی خیالات تھے اور فارسی بندشیں۔‘‘ انگریزی خیالات سے مراد مغربی افکار نہیں بلکہ ایک نیا طرزِ احساس ہے جو وجود میں نہ آتا اگر اقبال مغربی افکار اور انگریزی شاعری کی اسالیب سے متعارف نہ ہوتے۔ اقبال کے زیراثر اُردو نظم نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہمہ گیر ادبی تحریک کی صورت اختیار کرلی۔ نظم گوئی اور نظم نگاری کی جو متنوع صورتیں جوش ملیح آبادی، سیماب اکبرآبادی، ساغرنظامی، اختر شیرانی، احسان دانش اور اس عہد کے دوسرے شعرا کے ہاں نمودار ہوئیں اور ان سب کا رشتہ کسی نہ کسی شکل میں اقبال کے فنِ نظم سے جا ملتا ہے۔ اگرچہ نظم کے لیے مسدّس کی ہیئت کا احیا مولانا حالی نے کیا، لیکن یہ اقبال کی نظمیں ’شکوہ‘ اور ’جوابِ شکوہ‘ تھیں جن کی حیران کن مقبولیت نے مسدّس کو نظم کی ایک مصدقہ ہیئت بنا دیا تھا۔ اسی طرح اقبال نے نظم کو جو رفعتِ خیال اور لہجے کا شکوہ عطا کیا تھا، اس نے بھی نظم کے لیے ایک مروّجہ اور معیاری لہجے کی حیثیت اختیار کرلی تھی۔ گویا اقبال نے اُردو نظم میں ایک پورے عہد کو جنم دیا۔ اور اُردو نظم کی تاریخ پر بہت گہرے اور دوررَس اثرات مرتب کیے۔ لیکن نظم کے عناصرِ ترکیبی میں جلال و جمال اور فکرو غنائیت کا جو خوبصورت امتزاج اقبال نے پیدا کیا، اس کی تقلید ایسی آسان نہ تھی، لیکن اقبال کے اثرات اس کے باوجود ہمہ گیر تھے، اور ان اثرات کی یہی ہمہ گیری تھی جس نے اقبال کے طرز کو واضح طور پر ایک دبستان نہ بننے دیا، وگرنہ جدید شاعری پر ان کے اثرات کا تجزیہ کیاجائے تو بیسویں صدی کی اُردو شاعری کا ایک معتدبہ حصہ ’دبستانِ اقبال‘ کی شاعری کہلانے کا مستحق ہے۔ کچھ ایسی ہی قلبِ ماہیت اقبال نے اُردو غزل کی بھی کی، جس کی تاریخ نظم کی تاریخ سے کہیں طویل اور تَہ دار تھی۔ غزل جس کی رمزیات کے رشتے ہمارے تمدن کی تاریخ میں بہت دور تک پھیلے ہوئے ہیں، دُنیا کی ایک انوکھی اور منفرد طرزِ شاعری ہے جس میں الفاظ لازمی طور پر تَہ دار معنویت کے حامل ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ تلازمانی رشتوں میں جکڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ غزل کی اشاریت و رمزیت اور غنائیت و لطافت نے اسے ہر عہد کی مقبول ترین صنفِ سخن بنائے رکھا ہے، اس صنفِ شاعری میں، جس میں عمومیت کے امکانات ہر حال میں موجود رہتے ہیں، ایک انفرادی لب ولہجہ ہی نہیں بلکہ ایک نیا اُسلوب پیدا کرنا غیرمعمولی شاعرانہ صلاحیت کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ اقبال نے غزل میں ابتدائی طور پر جس شاعر سے اثر قبول کیا، اس کے اُسلوب کا طرۂ امتیاز ہی زبان تھا، یعنی داغ… جو لہجے کی کاٹ اور زبان کے معاشرتی اطلاقات کے اعتبار سے اپنے استاد ذوق سے بھی کچھ آگے ہی نظر آتے ہیں، اقبال نے آغاز میں اپنے استاد ہی کے لسانی دبستان کی پیروی کی، لیکن اُن کی ابتدائی غزلیں، جن پر روائتی غزل اور داغ کی زبان کا رنگ نمایاں ہے، اس حقیقت کی طرف ضرور اشارہ کرتی ہیں کہ اقبال زبان کے روائتی سانچوں کو نئی اطلاقی صورتوں میں برتنے کے خواہاں ہیں داغ سے اُنھوں نے زبان پر ماہرانہ گرفت حاصل کرنے کا ہنر ضرور سیکھا، اور وہ ارتجال و بداہت (spontaniety) جو داغ کی شاعری میں روانی پیدا کرتی ہے، اقبال کے ہاں اُسلوبِ بیان پر کامل گرفت کی صورت اختیار کر گئی۔ لیکن اقبال کی یہ کامل گرفت صناعانہ سے زیادہ خلاقانہ ہے جس کی بدولت اُنھوں نے اُردو غزل کو ایک نیا انبساط، ایک نئی وسعتِ خیال اور فکر کی ایک نئی جہت عطا کی۔ اس نئے اُسلوبِ غزل میں، جو اقبال کی اختراعی صلاحیتوں کا رہینِ منت ہے، اقبال نے غزل کے تمام اشارات اور رُموز و علائم کی ماہیت کو بدل کر رکھ دیا۔ غزل کا من و تو، جو صرف عاشق و معشوق کی طرف اشارہ کرتا تھا، نئی سے نئی انسانی صداقتوں کا آئینہ دار بن گیا۔ غزل کا ’میں‘ (من) جو صرف ایک ناکام عاشق تھا، اقبال کی غزل میں عشقِ جلیل کا نمائندہ ہونے کے ساتھ ساتھ عصرِحاضر کا انسان بن گیا جو کائنات کے حسن کا معترف بھی ہے اور اس کی قوتوں کا حریفِ بے باک بھی۔ یہ ’میں‘ وہ ہے جو آدم اور ابن آدم دونوں کی نمائندگی کا حق ادا کرتا ہے۔ یہ ’میں‘ مشرق کی انا بھی ہے، اور اسلامی تمدن کا نفسِ ناطقہ بھی۔ اسی واحد متکلم میں مشرق و مغرب کے انسان کی درماندگیاں بھی سمٹ آئی ہیں اور نوعِ انسانی کے تخلیقی امکانات بھی۔ واحد متکلم کے مطالب کی یہی بوقلمونی اور وسعت ہے جو اقبال کی غزل کو عصرِحاضر کے انسان کا نغمۂِ تخلیق بنا دیتی ہے۔ اقبال نے غزل کو ایک نئی جغرافیائی دُنیا عطا کی، جس کی وسعتوں میں کوہ الوند و کوہِ دماوند سے لے کر ساحلِ نیل و خاکِ کاشغر سمٹے ہوئے ہیں۔ یہ دُنیا بیک وقت اسلامی مشرق کی دُنیا بھی ہے، اور عصرِحاضر کے انسان کی رزم گاہِ فکروتخیل بھی۔ اقبال نے غزل کو دائروں میں تکرار کرتی ہوئی زبان کی بجائے ایک ایسی زبان دی جو آگے کی طرف پھیلتی اور حرکت کرتی ہے، خیال کی اس پیش قدمی (progression) نے غزل کی زبان کی قدیم گچھے دار صورتوں کو توڑ کر شعری زبان کا ایک نیا سانچہ تیار کیا۔ اقبال نے غزل میں الفاظ کی مرتکز تَہ داری (concentrated centrality) کی بجائے الفاظ کی نامیاتی پیش رفت (progressive organic growth) کو اہمیت دی، اور یوں اُردو غزل کو لسانی اور فکری پھیلائو کی نادر فنی صورتیں میسر آئیں۔ اقبال نے اُردو غزل کو لہجے کی تازگی، فکر کی بلندی، جذبے کی سچائی اور خارجی کائنات سے ایک نئی نسبت عطا کی، اُردو غزل جو اپنے تکراری پیمانوں کی بدولت ایک جوئے تنک آب بن کر رَہ گئی تھی اور جس میں عشق و عاشقی کے فرسودہ کھیل اور بے مایہ صوفیت کے سوا کچھ باقی نہیں رہا تھا، اقبال کی بدولت ایک دریائے تندوتیز بنی، جس نے عصرِحاضر کی تمام صداقتوں کو سینے سے لگایا اور اُنھیں ایک نئے نظامِ علائم میں منتقل کردیا۔ ایلیٹ نے کہا ہے کہ ہر بڑا شاعر ناگزیر طور پر اپنے لیے ایک نیا اُسلوب شاعری تخلیق کرتا ہے جو اس کی تخلیقی واردات کو بیان کرسکے، یوں شاعری میں ایک نئے معیار اور شاعری کی تعریف میں ایک نئے عنصر کا اضافہ ہوتا ہے اور ہمیں (یعنی نقادوں کو) شاعری کے مجموعی تصور میں تبدیلی اور شاعری کی تنقید کے معائیر میں ردّوبدل کرنا پڑتا ہے۔ اُردو شاعری میں غالب اور اقبال نے یقینا ایسا ہی کیا، اُنھوں نے اپنے لیے نئے اسالیبِ شاعری کی تخلیق کی، اُردو شاعری کے مروّجہ اسالیب و تصورات کو حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا… جب اقبال نے اپنی شاعری کا آغاز کیا تو اُردو میں حالی اور آزاد کی بدولت قومی اور فطرت پسندی کی شاعری وجود میں آچکی تھی۔ اس روایت کو آگے بڑھا کر عظیم آفاقی شاعری کی وسعتوں اور عظمتوں سے آشنا کرنا ہرکس و ناکس کے بس کی بات نہیں تھی۔ اس کے لیے اقبال جیسے خلاق شاعر کا فکروتخیل درکار تھا، جس میں زندگی کی بڑی سے بڑی صداقت بھی آسانی کے ساتھ طرزِ جلیل کی بلاغت اور شاعرانہ لطافت و نغمگی کے سانچے میں ڈھل جائے۔ اقبال نے اُردو شاعری کو زبان و بیان اور فکروتخیل کے اعتبار سے جو کچھ دیا، اس کی بدولت پوری اُردو شاعری دوحصوں میں منقسم نظر آتی ہے، ایک وہ جو اقبال سے پہلے تھی اور ایک وہ جو اقبال کے بعد صورت پذیر ہوئی۔ فکرِ مجرد کو شاعری سے ہمیشہ بُعد رہا ہے، اس لیے کہ فکرِ مجرد اپنی مصدقہ صورتوں کو منطق کے سانچوں میں ظاہر کرتی ہے۔ جب کہ شاعری تخیل کی آزاد پرواز سے وجود دمیں آتی ہے، اسی لیے شاعری کی ابتدائی تعریفوں میں فکر (thought) کو شاعری کے عناصرِترکیبی میں شامل نہیں کیا گیا۔ اگر فکروتخیل کی اس لفظی نزاع سے قطعِ نظر کرلیا جائے۔ اور ان میں بُعدالمشرقین تسلیم کرنے پر زور نہ دیا جائے تو اس حقیقت کو پہچاننے میں زیادہ دقت پیش نہیں آسکتی کہ شاعری بھی فکر کا ایک منفرد اُسلوب یا سانچہ ہے، جو منطق سے مختلف ضرور ہے، لیکن منطق اور اس شاعرانہ تفکر میں ضدین کا رشتہ نہیں، بلکہ ایک ہی قوت کے اظہار کے دو مختلف پیرائے ہیں البتہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کسی کو تأمل نہیں ہوسکتا کہ منطق فکر کی تنظیم ہے اور شاعری فکر کی تخلیقی حرکت ہے۔ بہرحال فلسفہ (جو فکر کے منطقی لوازمات سے مشروط ہے) اور شاعری کو کبھی ایک نہیں سمجھا گیا یہ اور بات ہے کہ دُنیا کی عظیم شاعری کا ایک بہت بڑا حصہ فلسفیانہ فکر کی دولت سے مالامال ہے، اس کے باوجود اگر ہم دُنیا کے بڑے شاعروں کو فلسفی یا مفکر کہیں تو یہ زیادہ تر مجازاً ہوگا حقیقتاً نہیں، جب کہ اقبال دُنیا کے وہ منفرد شاعر ہیں جو فی الحقیقت ایک مفکر بھی ہیں اور اُنھوں نے فلسفے کے فکرِبارد کو جس طرح شاعری کے تخیلِ رنگیں اور جذبۂ گرم کے ساتھ پیوند کیا ہے، اس کی صورت عالمی ادب میں صرف جرمن شاعر گوئٹے یا اقبال کے عظیم پیش رَو غالب کے ہاں نظرآتی ہے (اقبال نے غالب اور گوئٹے کی مشابہتوں پر خود بھی بہت زور دیا ہے)،… البتہ غالب کے برعکس اقبال کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ (اقبال) فلسفیانہ افکار کو تمثیل اور استعارے کی بجائے راست انداز میں بھی بیان کرنے پر پوری قدرت رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اُن کے ہاں تمثیل و استعارے کا پردہ موجود نہیں، بلکہ وہ جب چاہتے ہیں تمثیل و استعارہ کو چھوڑ کر راست اندازِ بیان اختیار کرلیتے ہیں، اور اس کے باوجود ان کے ہاں شعریت کی سطح برقرار رہتی ہے۔ اقبال کا ایک بہت بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اُنھوں نے اُردو شاعری کے اجزائے ترکیبی میں سنجیدہ تفکر کا اضافہ کیا اور میتھیو آرنلڈ کے الفاظ میں شاعری کو نقدِ حیات کا ذریعہ بنایا۔ تنقیدِ حیات اور سنجیدہ تفکر کی اس خوبی نے اقبال کو بیک وقت ایک عظیم شاعر، ایک عظیم مفکر، تہذیب و تمدن کا ایک نقاد اور ایک معلمِ حیات بنا دیا۔ اگر تاریخِ فلسفہ کے مغربی مؤلفین اور مؤرخین کے معیارِ تدوین کو آخری اور قطعی نہ سمجھا جائے تو اقبال کو جدید فلسفے کی تاریخ میں بھی ایک ہم مقام ملنا چاہیے۔ یہ ایک ناخوشگوار حقیقت ہے کہ تاریخِ فلسفہ کے مغربی مؤلفین نے مسلمان مفکرین کے افکار کو انسانی فکر کی تاریخ کا حصہ کبھی نہ سمجھا۔ وہ سٹوری آف فلاسفی کے مصنف وِل ڈیوارنٹ ہوں یا تاریخِ فلسفہ کے مؤلف اسٹیس، مسلمان فلسفیوں کے خیالات یا فلسفیانہ نظاموں کو انسانی فکر کے رواں دھارے میں شامل نہیں سمجھتے اور اپنی تاریخِ فلسفہ میں جگہ دینے کے لیے تیار نہیں، یہاں تک کہ غزالی، ابن رشد، ابن عربی، ابن خلدون، بو علی سینا اور فارابی جیسے عظیم الشان مفکرین اور معلمین کو بھی انسانی فکر کے ارتقا کی تاریخ میں چنداں اہمیت کا حامل نہیں سمجھا جاتا، اس لیے اگر اقبال کو عصرِحاضر کے فلسفیوں میں شامل نہیں کیا جاتا تو اس میں حیرت کی بات نہیں، عام طور پر فلسفہ کے مغربی مؤرخین اپنی تالیفات کو مغربی فکر کی تاریخ تک محدود رکھتے ہیں اور اپنے موضوع کی حدود کو اپنے اس رویّے کا جواز بناتے ہیں۔ لیکن وہ تالیفات جو مغربی فکر کی تاریخ تک محدود نہیں رکھی جاتیں ان میں بھی مسلمانوں کے افکار کا کہیں تذکرہ نہیں ملتا۔ بہرحال بیسویں صدی کے مفکرین میں اقبال اُصولاً ایک امتیازی مقام کے مستحق ہیں۔ اس لیے کہ اُنھوں نے جدید فلسفے کے ارتقائی عمل کی آخری کڑی کو مکمل کیا ہے۔ دُنیا کے کسی بھی فلسفی کے تمام تر خیالات کلی طور پر طبع زاد نہیں ہوتے۔ ہر فلسفی اپنے خیالات کا تانا بانا اپنے پیش روئوں کے خیالات اور فلسفے کے مسلّمات سے تیار کرتا ہے۔ افلاطون یا ہیگل جیسے فلسفی دُنیا میں چند ایک ہی ہیں جنھوں نے انسانی فکر کی کایاپلٹ دی ہو یا ایسا نظامِ فکر پیش کیا ہو جس میں متقدمین و معاصرین سے استفادہ نہ ہونے کے برابر ہو۔ اسی لیے کسی بھی قابلِ ذکر یا بڑے فلسفی کی اصل اہمیت یہ ہوتی ہے کہ وہ انسانی فکر میں کسی نئے تصور کا اضافہ کردے۔ اس اعتبار سے اقبال کا شمار یقینا عصرِحاضر کے بڑے فلسفیوں میں ہونا چاہیے کہ اُنھوں نے فلسفے کو ایک نئی مابعدا لطبیعیاتی تعبیر کا مواد فراہم کیا اور انسانی فکر کی تاریخ میں ’خودی‘ یا ’انا‘ کی تخلیقی فعلیت کو اس قدر شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا۔ یہ کہنا تو مبالغہ ہوگا کہ اقبال سے پہلے خودی کا کوئی تصور موجود نہیں تھا، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اقبال سے پیشتر کسی مفکر نے اپنے فلسفے کی اساس خودی یا انا کی تخلیقی فعلیت کے تصور پر نہیں رکھی، اگرچہ اس تصور کے آثار ہمیں مغربی فکر کی تاریخ میں کانٹ ہی سے ملنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اسپینوزا کا تصورِ ارادہ بھی انا کی تخلیقی فعلیت ہی کی طرف اشارہ کرتا ہے، برگسان کا عقلِ تجربی یا عقلِ منطقی کے مقابلے میں وجدان کو اہمیت دینا بھی اسی رجحان کا آئینہ دار ہے، لیکن مغربی فلسفے کے اس میلان یا رجحان کی منطقی تکمیل اقبال کے تصورِ خودی ہی میں ہوتی ہے، اسی طرح اقبال نے اسلامی تصورات کے حوالے سے زندگی اور کائنات کی رُوحانی اور اخلاقی تعبیر کا جو منہاج استوار کیا ہے، وہ انھیں عصرِحا ضر میں ایک مابعد الطبیعیاتی مفکر کے طور پر ضرور خصوصی اہمیت کا حامل بناتا ہے۔ اپنے انگریزی خطبات میں اقبال نے مذہب، فلسفہ اور سائنس کے درمیان مشترکہ اقدار اور خصوصیات تلاش کرنے اور اُنھیں بہت حد تک ہم آہنگ کرنے کی جو سعی کی ہے، وہ بھی بذاتِ خودکم اہمیت کاکارنامہ نہیں ہے۔ ان کی یہ سعی اُنھیں مذہبی مفکروں کی صف میں بھی ممتاز کرتی ہے۔ اور اسلامی فکر کی تاریخ میں اُنھیں غیرمعمولی امتیاز بھی عطا کرتی ہے،… حقیقت یہ ہے کہ مشرق میں اُن کے افکاروخیالات کی اصل اہمیت اور قدروقیمت زیادہ تر اسلامی افکار کے حوالے سے ہے، اور یہ حوالہ ایسا ہے جو اُنھیں غالباً دُنیا کی ہر چیز سے زیادہ عزیز تھا۔ اسلامی مشرق میں ان کا اصل کارنامہ قدیم افکار کی تنقیح اور انتخاب کے علاوہ عصرِحاضر کے اسلامی تفکر کے لیے بعض اساسی خطوط فراہم کرنا ہے۔ اُن کے تفکر نے مسلمانوں کے فکر کے لیے مہمیز کاکام دیا ہے، اس میں شک نہیں کہ اُن کے بعد اسلامی مشرق کو ابھی تک اُن سے بڑا یا اُن جیسا کوئی مفکر نصیب نہیں ہوا۔ لیکن تفکر کے جس عمل کو اُنھوں نے جاری کیا ہے اسے ایک عظیم فکری کارنامے سے کم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جن عوامل نے جدید دُنیا میں اسلامی تمدن کے احیا اور اسلامی تفکر کی پیش رفت کو ایک ہمہ گیر تحریک کی صورت دے دی ہے ان میں اقبال کے فکر اور شاعری کو اوّلیں اور مؤثر ترین حیثیت حاصل ہے۔ مشرق اور اسلام سے محبت اور اسلام کی نشأۃِ ثانیہ کی آرزو کو اقبال نے پوری دُنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک طرزِ احساس اور نصب العین بنا دیا ہے، ان کے عہدآفریں شاعر اور مفکر ہونے کے لیے اس سے بڑی شہادت کیا ہوگی کہ اُن کا فکر عصرِحاضر کے مسلمانوں کے طرزِفکر اور طرزِ احساس کی اساس بن گیا ہے۔ اقبال نے شاعری کو ایسے علوم وفنون کا حوالہ بنا دیا ہے، جن کے بغیر عصرِرواں میں انسانی زندگی کی کوئی تشریح یا تعبیر مکمل نہیں ہوسکتی، فلسفہ جو ہمارے قدیم مکتبوں میں اشاراتِ بوعلی سینا، شمسِ بازغہ یا سُلّم العلوم تک محدود تھا، اقبال اسے عملی زندگی کی بساط پر لے آئے اور ثمریت یا نتائجیت کا ایک ایسا منہاج پیدا کیا جو بیک وقت تصوریت یا عینیت (idealism) اور حقیقت پسندی (realism) کا ایک متوازن امتزاج پیش کرتا تھا۔ اُنھوں نے برصغیر کی علمی دُنیا میں فلسفے کے آفاق کو ایک طرف مولانا رُوم، بیدل، عراقی اور مجدد الف ثانی تک اور دوسری طرف برگساں، وہائٹ ہیڈ، نطشے اور گوئٹے تک وسیع کیا اور مسلمانوں کے لیے نیز انسانی فکر کے ارتقا کے ہر سنجیدہ طالب علم کے لیے مسائل و معارف کا ایک ایسا تناظر (perspective) فراہم کیا، جس کی روشنی میں حیاتِ انسانی کے دقیق اور اہم مسائل کو زیادہ آسانی اور صراحت کے ساتھ دیکھا اور سمجھا سکتا ہے۔ اسی طرح اُنھوں نے نفسیات میں میکڈوگل اور ولیم جیمز کے خیالات کو عام علمی دُنیا میں متعارف کرایا، اور وجدانی فلسفے کی مقبولیت اور تشریح کے لیے نئے خطوط و اشارات مرتب کیے۔ اُنھوں نے مذہب، سائنس اور فلسفے کی ممکنہ تطبیق تلاش کرتے ہوئے مذہبی واردات کو سمجھنے اور پرکھنے کے بعض معائیر بھی مقرر کیے اور عملاً فلسفے، نفسیات اور مذہب کے اُن مسائل کو چھؤا جن کا مسلمانوں کی تمدنی زندگی کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے۔ اس خاص مقصد کے لیے اُنھوں نے مسلمانوں کے لیے ایک ایسا نظامِ حوالگی (frame of referces) ترتیب دیا، جس میں ماضی کے بعض ایسے فکری حوالوں کو زندہ کیا گیا تھا، جو عمومی فراموش گاری کا شکار ہوکر طاقِ نسیاں کی زینت بن چکے تھے۔ بالخصوص مولانا رُوم کے افکار پر اُن کا زور ایک ایسا عمل تھا جس نے مولانا رُوم ہی کو نہیں بلکہ اسلامی فکر کی پوری روایت کو ایک زندہ حوالے کے طور پر ذہنوں کے سامنے لاکھڑا کیا۔ اگرچہ مولانا کے کلام اور افکار سے دلچسپی اقبال کے افکار کی اشاعت سے پہلے بھی موجود تھی۔ اور مولانا شبلی نعمانی نے سوانح عمری مولانا رُوم، لکھ کر اس عمومی دلچسپی کو تاریخی اور فکری اساس بھی فراہم کردی۔ لیکن اقبال نے مولانا رُوم کو پورے اسلامی تمدن کے ایک عظیم اور مثالی شاعر کی حیثیت سے جدید اسلامی دُنیا کے سامنے پیش کیا اور فکرِ رُومی سے استفادے کی عملی صورتیں بھی پیش کیں، غرض اقبال نے جدید اسلامی فکر کو ایک نئی تحریک بھی دی اور اسے حوالوں کا نظام بھی دیا تاکہ وہ خود مکتفی بھی رہے اور اس کے رشتے اپنے اصلی سرچشموں کے ساتھ بھی برقرار رہیں۔ اقبال نے اپنی فارسی شاعری کے ذریعے برصغیر کے اسلامی تمدن کو اس کے قدیم تہذیبی اور علمی سرچشموں سے مربوط کیا اور اُردو شعر و ادب کو بھی دہلی، لکھنؤ اور اکبرآباد کی نفی کیے بغیر، شیراز و تبریز کی طویل شعری، ادبی اور فکری روایت کی یاد دلائی، اُنھوں نے ایشیا میں ایک عظیم تر اسلامی تمدن کے نشووارتقا کا خواب دیکھا اور اس خواب کو پیرایۂ تعبیر دینے کے لیے ایک ایسا فکری سانچہ بھی دیا جسے ہم اس مثالی اسلامی تمدن کی فکری اور تہذیبی اساس کَہ سکتے ہیں۔ اکثر فلسفیوں کو معلمین بھی کَہ دیا جاتا ہے، اقبال کو بھی اگر ایک معلم کہا جائے تو غلط نہ ہوگا بلکہ لفظ کا صحیح ترین اطلاق ہوگا،… اگر برصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی اور اجتماعی زندگی کی تشکیلِ نوکے طویل عمل میں اقبال کے کردار کا تجزیہ کریں تو وہ صحیح معنوں میں ایک معلمِ قوم کی حیثیت میں اپنا تاریخی کردار ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں، بلکہ اگر اُنھیں عصرِحاضر کا ایک عظیم معلمِ قوم کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اُنھوں نے ایک مثالی معلمِ قوم کی طرح اپنی قوم کی ذہنی، جذباتی، فکری اور اجتماعی ضرورتوں کو محسوس کیا، اُن کے مسائل کا دقتِ نظر سے تجزیہ کیا، اُن کے سردو خنک سینوں میں مقصدِ حیات کا شعلہ بھڑکایا، اُن کے دلوں میں زندہ رہنے کی اُمنگ بیدار کی، اُنھیں بتایا کہ جذبے کی حرارت، کردار کی صلابت… اور ارادے کی قوت قوموں کی زندگی میں کیا معنی رکھتی ہے۔ اُنھوں نے اپنی قوتِ تخلیق، تاثیرِ سخن اور اخلاصِ فکر سے ایک پوری قوم کی قلبِ ماہیت کردی۔ اُنھوں نے قوم کو جو نصب العین دیا وہ بیک وقت مثالی بھی تھا اور حقیقت پسندانہ بھی۔ جنوب مغربی ایشیا میں ایک آزاد اسلامی مملکت کی تشکیل، ایشیا میں ایک نئے اسلامی تمدن کی صورت پذیری اور عالمِ اسلام کا اتحاد۔ اقبال کے نصب العین کے تین بنیادی زاویے ہیں۔ جنوب مغربی ایشیا میں ایک آزاد اسلامی مملکت کاقیام اُن کی وفات کے صرف نوسال بعد عمل میں آگیا،… اور عالمِ اسلام کے واقعات کی رفتار اس حقیقت کی طرف اشارہ کررہی ہے کہ اقبال کا مرتب کیا ہوا نصابِ فکروعمل شعوری اور لاشعوری، دونوں سطحوں پر، ایک نئی اسلامی دُنیا کی تشکیل میں نہایت گہرے اور دوررَرس اثرات کا حامل ثابت ہورہا ہے: گمان مبر کہ بپایان رسید کارِ مغان ہزار بادۂِ ناخوردہ در رگِ تاک است! عصرِحاضر میں تاریخ کے عمل کی جدلیت کو سمجھنے میں اقبال نے جس بصیرت کا اظہار کیا، وہ حیران کن بھی ہے… اور سبق آموز بھی۔ وہ صمیمِ قلب سے مشرق اور ایشیا کی مظلوم و محکوم اقوام کی بیداری اور آزادی کے خواہاں تھے۔ اگرچہ اُن کا پیغام عالمگیر ہے، اور وہ ادبیاتِ عالم میں پورے مشرق کی نمائندگی کرتے ہیں، تاہم اُن کی نظریں خاص طور پر ایشیا کی بیدار ہوتی ہوئی اقوام کی صورتِ احوال پر مرکوز تھیں۔ اُن کی شاعری میں بیسویں صدی کے اوائل کے ایشیا کی بہت سے اہم تحریکات کا پرتَو ملتا ہے۔ وہ ایشیائی اقوام کے ہر نئے اقدام کو دلچسپی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ آزادی کی ہر تحریک میں اُنھیں ایشیائی تہذیب کی برتری اور تاریخِ عالم میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے امکانات کا سراغ ملتا ہے۔ ان کا یہ کارنامہ کم اہمیت کا حامل نہیں کہ اُنھوں نے بیسویں صدی میں اُردو شاعری کو پورے ایشیا کے احساسات اور اُمنگوں کا ترجمان بنا دیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اُنھوں نے اسلامی دُنیا کو بالخصوص ایک نئی زندگی کا پیغام دینے کے علاوہ اسے ایک نیا فکری، انسانی اور تاریخی تناظر بھی عطا کیا۔ اُن کی شاعری میں اسلام کی نشأۃِ ثانیہ کی آرزو کے ساتھ ساتھ مظلوموں اور محکموموں کی صورتِ حال کا تجزیہ بھی ملتا ہے۔ اُنھوں نے نہایت واضح انداز اور مؤثر ترین پیرائے میں مغرب کے استعماری نظاموں سے اپنی بیزاری کا اظہار کیا، اُنھوں نے مشرقی اور ایشیائی اقوام کو خودشناسی، خودگری اور خودنگری کا سبق دیا اور اُنھیں قوت اور توانائی کے حصول کی راہ دکھائی، لیکن قوت اور توانائی کو عالمگیر انسانی اُخوت اور انسانی فوزوفلاح کے بلند تر مقاصد کے لیے صَرف کرنے کا سبق بھی صراحت کے ساتھ دیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس قوت پسندی کے باوجود اُنھوں نے ہر نوع کے استعمار و استبداد کو ردّ کردیا، اور صرف اُنھیں مقاصدِ عالیہ کی نشاندہی کی جو مجموعی طور پر پوری انسانیت کے لیے قابلِ آرزو ہوسکتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ علامہ اقبال کا فکروفن آج بھی حیات آفریں تصورات کا سرچشمہ ہے۔ اُنھوں نے جس طرح مشرقی اور ایشیائی اقوام کو ایک نئے فکری انقلاب سے دوچار کیا۔ اس کی پیش بینی خود اُن کے ہاں بھی موجود تھی۔ پس از من شعرِ من خوانند و می رقصند و می گویند جہانے را دگر گون کرد یک مردِ خود آگاہے! /// اقبال کی بیانیہ شاعری اُردو کے پہلے بڑے نقاد اور نظم گوئی میں اقبال کے پیش رَو۔ مولانا الطاف حسین حالی نے اُردو شعریات کی زرخیز زمین میں واقعاتی اور فطری شاعری کے تصور کا جو بیج بویا تھا، اسے اقبال کی آبیاری نے ایک تناور اور بارآور درخت بنادیا۔ ایک ادبی نصب العین اور تنقیدی معیار کی حیثیت سے حالی کے فطری شاعری کے تصور کی اپنی حدود ضرور تھیں، جن سے، وقت آنے پر، شعروادب کا آگے گذر جانا ناگزیر تھا، اس لیے کہ دوسرے تخلیقی فنون کی طرح شاعری میں جو چیز تخیئلی یا فنی صداقت کہلاتی ہے، اس کی گنجائش صرف واقعاتی یا ’’فطری‘‘ شاعری کے مخصوص تصور میں کچھ زیادہ نہیں ہوسکتی تھی، … اسی لیے اقبال کی شاعری جو واقعیت اور مثالیت کے امتزاج سے اُبھری، اور جس نے فکر اور جذبے کی غیرمعمولی وسعت اور گہرائی کو اپنے اندر سمو لیا، حالی کے تصورِ شاعری سے بہت آگے کی چیز معلوم ہوتی ہے۔ تاہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ تاریخی اعتبار سے اقبال کی شاعری کا ایک حصہ حالی کی واقعاتی اور فطری شاعری سے کوئی نہ کوئی تعلق ضرور رکھتا ہے، اور یہ وہی حصہ ہے جسے ہم بیانیہ شاعری کی کسی قدر وسیع اصطلاح کے ذیل میں لاسکتے ہیں۔ بیانیہ شاعری کی ایک بہت بڑی روایت اُردو اور فارسی شاعری میں مثنوی کی صورت موجود رہی ہے، اور اقبال کے فن کی ایک جہت اُن کی مثنوی نگاری بھی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال نے نہ صرف یہ کہ بیانیہ شاعری کی اس عظیم الشان روایت سے رشتہ منقطع نہیں کیا بلکہ اسے اپنے فن کا ایک اہم حصہ بھی بنایا۔ حکیم سنائی، مولانا رُوم اور محمود شبستری کی مثنویاں ہمیشہ ان کے رُوبرو رہیں۔ نہیں کہاجاسکتا کہ اُنھوں نے فردوسی اور نظامی کے فن سے کتنا اثر قبول کیا، لیکن اتنی بات یقینی ہے کہ اُن کی وسعتِ نظر فارسی مثنوی نگاری کی پوری روایت کو محیط تھی،… اسی طرح مغرب کی طویل نظموں کا بھی، جن میں ڈانٹے کا طربیۂ ایزدی،… ملٹن کی فردوسِ گم گشتہ اور گوئٹے کا فاؤسٹ بطورِ خاص شامل ہیں، اُنھوں نے حکیمانہ تجزیہ کیا تھا، غرض دُنیا کی تمام عظیم الشان بیانیہ شاعری، جو حکیمانہ خیالات کی حامل اور جذبے کے اظہار کی نادر صورتوں کو شامل تھی، شعروادب کی دوسری تمام قابلِ قدر اور قابلِ ذکر اصناف کے علاوہ، ان کے تخلیقی شعور میں رچی ہوئی تھی۔ ہماری شعری روایت، یہاں تک کہ ہمارے جدید تر تنقیدی معائیر میں بھی،… مثنوی اور غزل کی شاعری کو یہ کَہ کر ایک دوسرے کی ضد سمجھا گیا ہے کہ مثنوی کی (بیانیہ) شاعری خارجیت سے عبارت ہے اور غزل سراسر داخلیت کی شاعری ہے۔ ایک حد تک یہ بات درست بھی ہے، لیکن تخلیقی اظہار کی خود اپنی رمزیت اس قطعی تقسیم کو غیرواقعی ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس سلسلے میں ایک اور امتیاز کو بھی ملحوظ رکھا جاتا رہا ہے۔ اور وہ یہ کہ بیانیہ شاعری سیدھی اور سپاٹ اور تَہ داری سے یکسرعاری ہوتی ہے۔ جب کہ غزل۔ (یعنی داخلیت)۔ کی شاعری رمزوایما، اشاریت اور علامت آفرینی سے کام لیتی ہے اوّل تو یہ امتیازات محض عقلی، فنی اور اعتباری ہیں کہ ان سے اصناف کی عمومی تفہیم اور تجزیے میں آسانی رہتی ہے، عملاً ادب میں اس تقسیم پر کامل طور سے پوری اُترنے والی مثالیں کم ہی ہیں… اور اگر اس طرح کا کوئی بُعدالمشرقین تھا بھی تو اقبال کی خلاّقی اور ترکیبی صناعی نے اسے محو کردیا تھا۔ یہ بات اقبالیات کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ اقبال کی نظموں میں تغزل کے عناصر ان کے نظمیہ آہنگ میں اجزائے ترکیبی کی حیثیت رکھتے ہیں، اور ان کی غزلوں کا آہنگ بعض اوقات نظم کے مزاج اور ہیئت کو چھو لیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اقبال نظم کو صرف بیانیہ شاعری تک محدود نہیں سمجھتے تھے اور نہ غزل کو صرف و محض داخلی واردات کا پابند خیال کرتے تھے۔ ہر خلاّق شاعر کی طرح وہ اصناف کی کڑی تقسیم کے قائل نہیں تھے۔ اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اقبال کی شعری ہیئتیں اپنے اندر فنی تکمیل کی پوری شان رکھتی ہیں… لیکن موضوع کی اہمیت، خیال کا تقدم اور تخلیقی تجربے کی وحدت اور جامعیت اُنھیں اصناف کی وضعی تقسیم کا پابند نہیں بناسکتی تھیں اسی لیے جب ہم اقبال کی بیانیہ شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمارے پیشِ نظر نہ اصناف کی رسمی تقسیم ہوتی ہے اور نہ بیانیہ شاعری کی وہ محدود تعریف جو تنقید اور تدریس کی عملی ضروریات سے پیدا ہوتی ہے۔ اقبال کو بیانِ واقعہ پر جو بے مثال قدرت حاصل ہے اس کے نظائر دُنیا کے انگشت شمار بڑے شعرا کے ہاں ہی ملیں گے۔ اقبال کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ بیانِ واقعہ کو سپاٹ اور بے تَہ نہیں ہونے دیتے، دُنیا کی اعلیٰ درجے کی بیانیہ شاعری میں بھی یہ ایک کمی ضرور محسوس ہوتی ہے کہ وہ اکثر وبیشتر ابعاد سے خالی ہوتی ہے، وہ فردوسِ گم گشتہ کا خالق ملٹن ہو یا پانچ عظیم الشان مثنویوں کا شاعر نظامی، پہلوداری اور معنوی گہرائی سے اکثر عاجز نظرآتے ہیں۔ ڈانٹے کی ’طربیۂ خداوندی‘ میں علامات کا ایک نظام ضرور دریافت کیا گیا ہے لیکن پہلی نظر میں وہ بھی ایک لہجے اور ایک تَہ کی شاعری نظر آتی ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ مغرب میں ڈانٹے اور مشرق میں اقبال ہی ایسے شاعر ہیں جنھوں نے خارجی واقعیت کے بیان کو لطیف رمزیت اور معنوی گہرائی سے مملوکیا ہے۔ یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ بیانیہ شاعری سے آخر ہماری مراد کیا ہے… بالخصوص اقبال کی شاعری کے مطالعے میں یہ اصطلاح کس حد تک ہمارا ساتھ دے سکتی ہے، مطلق معنوں میں تو شاعری کی ہر نوع ایک طرح کا ’بیان‘ ہی ہے، چاہے وہ خارجی واقعیت کا ہو یا داخلی (جذبے، فکر اور تخیل کی) صداقتوں کا لیکن بطور اصطلاح کے اس لفظ کی ایک دشواری یہ ہے کہ اس کے تضمنات ہمیں ارسطو کے تصورِ محاکات (imitation) کی طرف زیادہ لے جاتے ہیں بہ نسبت تخلیقی اظہار (creative expression) کے تصور کے۔ جب کہ صورتِ حال یہ ہے کہ اقبال محض فطرت کی نقالی کو کسی صورت بھی فن میں مستحسن خیال نہیں کرتے لیکن یہ ایک بہت بڑا مغالطہ ہوگا اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ بیانیہ شاعری صرف فطرت کی نقالی کے مترادف ہوتی ہے… یہ تو شاعر کی اپنی افتادِ طبع اور فنی رویّے پر منحصر ہے کہ وہ بیانِ واقعہ (narration) کو صرف محاکات تک محدود رکھتا ہے یا اسے تخلیقی اظہار کا پیرایہ بھی دیتا ہے، ہومر کی اوڈیسی، ڈانٹے کا طربیۂ خداوندی، فردوسی کا شاہنامہ، نظامی کا خمسہ، ملٹن کی فردوسِ گشتہ، گوئٹے کا فاؤسٹ، کیٹس کی سینٹ ایگنیز کی شام اور اقبال کا جاوید نامہ ہرگز ہرگز نقالی کے ضمن میں نہیں آتے حالانکہ یہ سب اساساً بیانیہ شاعری ہی کے شاہکار ہیں۔ غرض بیانِ واقعہ اور تخلیقی اظہار اجتماعِ ضدین نہیں کہ ناممکن ہو۔ فن کی دُنیا میں اقبال کا نصب العین ’فطرت کی غلامی سے آزاد‘ ہونا اور زندگی میں ’فطرت کو مسخر‘ کرنا ہے، لیکن ان دونوں تصورات میں فطرت کو معکوس سمت میں سفر کرنے کی کوئی تلقین یا اشارہ بھی مضمر نہیں۔ فطرت کو تسخیر کرنا فطرت کو نیست ونابود کر دینے کے مترادف نہیں، نہ ہی فطرت کی غلامی سے آزاد ہونے سے مراد فن کو کلی طور پر غیرفطری بنانا ہے۔ جس طرح زندگی کے معاملے میں اقبال یہ چاہتے ہیں کہ فطرت کی طاقتیں برتر انسانی مقاصد کی تکمیل کے کام آئیں اسی طرح فن کے معاملے میں بھی ان کا معیار یہ ہے کہ فطرت کے اجزا کو برتر تخلیقی مطالب کے کام آنا چاہیے۔ مغرب کے رُومان پسند شعرا کی طرح فطرت کی اسیری اور فطرت کی پرستش اقبال کے فنی مقاصد سے کبھی ہم آہنگ نہیں رہی۔ البتہ مظاہرِ فطرت کے ساتھ اقبال بھی ویسی ہی ہم آہنگی محسوس کرتے ہیں۔ جیسی دُنیا کے تمام بڑے شعرا، خلاّق ذہنوں اور روشن ضمیروں نے محسوس کی ہے۔ انسان پوری کائنات کو مسخرکرلے تب بھی فطرت کا حسن اس کے دل کو لبھاتا رہے گا اور فطرت کا جلال اسے متحیر کرتا رہے گا۔ ملکیت اور تسخیر کسی چیز کے حسن کو زائل نہیں کردیتے۔ موضوعات کے اعتبار سے اقبال کی بیانیہ شاعری کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: ۱- فطرت: فضا بندی اور منظر آفرینی ۲- صورتِ واقعہ: محاکاتی اور ڈرامائی ۱- فطرت: فضابندی اور منظر آفرینی فطرت اور مظاہرِ فطرت اپنے خارجی شئون اور وجودی رمزیت کے ساتھ اقبال کی شاعری کا سب سے وسیع پس منظر ہیں، اِنھیں پیش منظر میں آتے یا پیش منظری مطالب و مرایا کے ساتھ آمیز ہوتے دیر نہیں لگتی۔ اقبال کی اوّلین نظمیں ہوں یا اُن کی طویل حکیمانہ اُردو فارسی نظمیں اور مثنویات، فطرت ہر مقام پر اپنی جمالیاتی اور وجودی رمزیت کے ساتھ جلوہ گر ہے، یہ اور بات ہے کہ اس رمزیت کا تعین خود شاعر کے مزاج اور زندگی اور کائنات کے بارے میں اس کے مجموعی مگر غیرمبہم نقطۂ نظر اور اس کے فکری ارتقا کے مدارج سے ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر فطرت کے بارے میں اقبال کا رویہ بیک وقت شاعرانہ اور حکیمانہ ہے، ایک سطحی فطرت پر ست شاعر کی طرح وہ فطرت کے ہر مظہر کو قابلِ اعتنا خیال نہیں کرتے، بلکہ انتخابی عمل کے قائل ہیں۔ فطرت کے بارے میں اُن کے ذہنی ارتقا کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ۱- فطرت پسندی، ۲-فطرت سے ہم آہنگی اور ۳-تسخیرِ فطرت۔ لیکن اس مضمون میں ہمارا اصل مدعا اس ذہنی ارتقا کا مطالعہ نہیں، بلکہ تقسیمِ موضوعات کے طریقِ کارکو اختیار کرتے ہوئے اس قدرتِ کلام کا تجزیہ ہے جس کا اظہار اقبال کے بیانِ واقعہ میں ہوتا ہے۔ فطرت کے دو بہت بڑے ارضی مظاہر، جن کے ساتھ انسان کا تعلق روزِ اوّل سے ہے، کہسار اور سمندر ہیں۔ کہسار اپنی رفعت، جذالت اور سنگینی کے باعث اور سمندر اپنی ایک طرح کی لامتناہیت، وسعت اور گہرائی کے باعث، انسان کو ہمیشہ حیرت واستعجاب وسعت اور ارفعیت کے احساسات سے آشنا کرتے رہے ہیں۔ صفحۂ ارض پر دونوں فطرت کے جلیل القدر مظاہر ہیں اور انسان صدیوں سے ان کے اسرار کو کھولنے اور ان کی قہرمانی پر قابو پانے میں کوشاں ہے، انسان کے لیے ان کا وجود حسن بھی ہے، طاقت بھی اور نامعلوم و ناقابلِ گرفت کا خوف بھی۔ سمندر زندگی کا سرچشمہ ہے اور کرۂ ارض کو پوری طاقت اور قہرمانی سے گھیرے ہوئے ہے، اس لیے انسان کے اجتماعی لاشعور کے ساتھ اس کا تعلق بہت ’’گہرا‘‘ ہے۔ لیکن ماہرینِ نفسیات کی رائے ہے کہ انسانوں کو مجموعی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک وہ جو ’’کوہستانی‘‘ (یعنی کہسار پسند) ہیں اور ایک وہ جو ’’بحری‘‘ ہیں یعنی سمندر کو پسند کرنے والے۔ شعروادب اور تخلیقی فنون میں بھی یہ دونوں مظاہر علامات و اشارات کے بہت بڑے سرچشمے ہیں۔ اُردو اور فارسی شاعری میں مجموعی طور پر سمندر، دریا، موج، ساحل، طوفان اور قطرہ و گوہر کی علامات زیادہ ہیں، دشت و صحرا (جو ایک اعتبار سے سوکھے ہوئے سمندر ہیں) اس سے بھی زیادہ علامت خیز اور خیال انگیز ہیں۔ دشت اور سمندر (جو ایک دوسرے کا ظاہری اور معنوی تکملہ ہیں) اُردو اور فارسی شاعری میں علامات کے بڑے ماخذ ہیں۔ ہماری شاعری میں کوہساروں کا ذکر بھی یقینا ہے۔ لیکن ایسا دلفریب اور معنی خیز نہیں جیسا دشت و دریا کا تذکرہ… ہماری شاعری میں اس دشت و دریا پسندی کی نفسیاتی وجوہات کیا ہوسکتی ہیں، اس کا تجزیہ ایک الگ مطالعے کا متقاضی ہے۔ لیکن جہاں تک اقبال کے ذوقی میلانات کا تعلق ہے، وہ اس معاملے میں بھی انفرادیت کے حامل ہیں۔ وہ پانی کے بہائو اور آبشاروں کے ترنم کو یقینا پسند کرتے ہیں لیکن سمندر کے مقابلے میں ان کا ذوقِ نظر کہساروں کے مشاہدے سے زیادہ اہتزاز حاصل کرتا ہے اس لیے کہ کہسار ان کے نزدیک محکمیت، مقاومت، ارفعیت اور اپنی ذات میں خود مکتفی ہونے کی علامت ہیں: بہ خود گزیدہ و محکم چون کوہساران زی چون خس مزی کہ ہوا تند و شعلہ بیباک است ’اپنے آپ میں مرتکز ہوکر پہاڑوں کی طرح محکم زندگی بسر کر، تنکے کی طرح نہ جی کہ ہوا تیز اور شعلہ بے باک ہے۔‘ اگرچہ یہ ایک اتفاق ہے، لیکن کیا یہ محض اتفاق ہے کہ اقبال کی اوّلین نظم کوہسارِ ہمالہ کے بارے میں ہے۔ اس کی وادیوں میں کالی گھٹائیں خیمہ زن ہیں، اس کے دامن کا چشمہ اس کے لیے آئینۂ سیال ہے، اور موجِ ہوا کا دامن اس آئینے کے لیے رُومال کاکام کرتا ہے… یہ کوہسار گویا عناصرِ فطرت کی بازی گاہ ہے۔ آتی ہے ندی فرازِ کوہ سے گاتی ہوئی کوثر و تسنیم کی موجوں کو شرماتی ہوئی آئنہ سا شاہدِ قدرت کو دکھلاتی ہوئی سنگِ رَہ سے گاہ بچتی، گاہ ٹکراتی ہوئی چھیڑتی جا اس عراقِ دل نشیں کے ساز کو اے مسافر، دل سمجھتا ہے تری آوازکو لیلیِ شب کھولتی ہے آکے جب زلفِ رسا دامنِ دل کھینچتی ہے آبشاروں کی صدا وہ خموشی شام کی جس پر تکلم ہو فدا وہ درختوں پر تفکر کا سماں چھایا ہوا کانپتا پھرتا ہے کیا رنگِ شفق کہسار پر خوشنما لگتا ہے یہ غازہ ترے رخسار پر گو اس نظم کا آخری شعر بتاتا ہے کہ اقبال نے کسی طویل نظم کی تمہید کے طور پر لکھا ہے لیکن اقبال نے اس نظم کے ذریعے پہلی بار کوہساروں کی دُنیا کے حسن و جلال کی ایک اجمالی جھلک دکھلائی ہے۔ یہی ہمالہ آگے چل کر مثنوی اسرارِ خودی میں ایک ’کردار‘ کی صورت اختیار کرلیتا ہے: آب زد در دامنِ کہسار چنگ گفت روزے با ہمالہ رودِ گنگ اے ز صبحِ آفرینش یخ بدوش پیکرت از رودہا زنار پوش حق ترا با آسمان ہمراز ساخت پات محرومِ خرامِ ناز ساخت طاقتِ رفتار از پایت ربود ایں وقار و رفعت و تمکیں چہ سود؟ زندگانی از خرامِ پہیم است برگ و سازِ ہستی از موجِ رم است پانی نے کوہسار کے دمن پر پنجہ مارا۔ یعنی ایک روز دریائے گنگا نے ہمالہ سے کہا۔ تو صبحِ آفرینش سے برف کا بوجھ کاندھے پر اُٹھائے ہوئے ہے اور تیرے پیکر پر، ندیوں کی زُنّاریں ہیں۔ خدا نے تجھے بلندی اور رفعت میں آسمان کا ہمراز بنا دیا ہے۔ لیکن تیرے پائوں کو خرامِ ناز سے محروم کردیا ہے۔ قدرت نے تیرے پائوں سے رفتار کی طاقت چھین لی ہے اس عالم میں تیرا یہ وقار یہ بلندی اور یہ تمکنت کیا معنی رکھتی ہے؟ زندگی خرامِ مسلسل سے عبارت ہے۔ زندگی کا سازوسامان تو مچلتی ہوئی موج کا دوسرا نام ہے۔ پہاڑ کو دریا کے اس طعنے نے برافروختہ کیا اور اس نے کہا… تیری وسعت میرا آئینہ ہے، تیرے جیسے ہزاروں دریا میرے سینے میں موجزن ہیں۔ یہ خرامِ ناز جس کا تم ذکر کررہے ہو اصل میں سامانِ فنا ہے… جو بھی اپنے مقام سے گذرا فنا ہونے کے ہی لائق تھا، تو اپنے آپ سے آگاہ نہیں، اسی لیے اپنے نقصان پر فخر کررہا ہے۔ زندگی بر جائے خود بالیدن است از خیابانِ خودی گُل چیدن است قرن ہا بگذشت و من پا در گلم تو گمان واری کہ دور از منزلم ہستیم بالید و تا گردون رسید زیرِ دامانم ثریا آرمید ہستیِ تو بے نشان در قلزم است ذروۂ من سجدہ گاہِ انجم است چشمِ من بینائے اسرارِ فلک آشنا گوشم ز پروازِ ملک ’’تازِ سوزِ سعیِ پہیم سوختم لعل و الماس و گہر اندوختم در درُونم سنگ و اندر سنگ نار آب را بر نارِ من نبود گزار‘‘ زندگی اپنے مقام پر نشوونما پانے کا نام ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں خودی کے باغ سے پھول چننے کا نام ہے۔ صدیاں گزر گئیں اور میرے پائوں زمین میں دھنسے ہوئے ہیں۔ تو شاید یہ سمجھتا ہے کہ مَیں اپنی منزل سے دور ہوں۔ میری ہستی نے نشوونما پائی اور آسماں تک پہنچ گئی۔ یہاں تک کہ خوشۂ پرویں نے میرے دامن میں آرام کیا۔ تیری ہستی سمندر میں جاکر بے نشان ہوجاتی ہے، جب کہ میری بلندی کو ستارے بھی سجدہ کرتے ہیں میری آنکھ آسمانوں کے اسرار دیکھتی ہے اور میرے کان فرشتوں کی آواز سنتے ہیں۔ میں سعیِ پہیم کی آگ میں ایسا جلا کہ لعل و الماس اور گوہر سے دامن بھرلیا۔ میرے دل میں پتھر اور پتھر میں آگ ہے… اس آگ پر پانی کا گذر نہیں ہوسکتا۔ نظم ہمالہ سے لے کر اسرارِ خودی کے اس مکالمے تک کوہسار کی علاماتی معنویت میں جو ارتقا واقع ہوا وہ ظاہر ہے… ہمالہ کے علاوہ اقبال کی شاعری میں جن پہاڑوں کا ذکر ہوا ہے، وہ دماوند، الوند، البرز، کوہِ اخم اور طور ہیں، لیکن ان کا ذکر سرسری ہے، کوہساروں کے دوسرے متعلقات وادیوں اور غاروں سے بھی اقبال کو خاصی دلچسپی ہے، اُردو کا ایک شعر خاصا معنی خیز ہے۔ مدت سے ہے آوارۂ افلاک مرا فکر کر دے تو اسے چاند کی غاروں میں نظر بند پہاڑوں اور غاروں کے کچھ مناظر جاوید نامہ میں بھی ملتے ہیں (عارف ہندی کہ بہ یکے از غارہائے قمر خلوت گرفتہ و اہلِ ہند، اورا جہان دوست می گویند)… اقبال کے بیانیہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ انھیں تفصیل و اطناب پر پوری گرفت حاصل ہے۔ منظر آفرینی اورفضابندی کے لیے جتنی تفصیل ضروری ہوتی ہے اتنی ہی کام میں لاتے ہیں اور جہاں اختصار برتتے ہیں وہاں بھی ایک ماہر مصور کی طرح چند لکیروں اور ایک دو رنگوں سے تصویر میں گہرائی پیدا کردیتے ہیں۔ جاوید نامہ میں چاند کی ایک غار کا منظر یوں بیان کیا ہے۔ من چو کوران دست بردوشِ رفیق پا نہادم اندران غارِ عمیق ماہ را از ظلتمش دل داغ داغ اندرو خورشید محتاجِ چراغ وہم و شک برمن شبیخوں ریختند عقل و ہوشم را بدار آویختند تا نِگہ را جلوہہا شد بے حجاب صبحِ روشن بے طلوعِ آفتاب وادیِ ہر سنگِ او زنار بند دیوسار از نخلہائے سربلند از سرشتِ آب و خاکت این مقام یا خیالم نقش بندد در مقام در ہوائے او چومے ذوق و سرور سایہ از تقبیلِ خاکش عینِ نور نے زمینش را سپہرِ لاجورد نے کنارش از شفقہا سرخ و زرد مَیں نے اندھوں کی طرح اپنے رفیقِ سفر کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر اس گہرے غار میں قدم رکھ دیا۔ (وہاں ایسا اندھیرا تھا کہ) خود چاند کا دل بھی اس ظلمت سے داغ داغ تھا، اس گہرے غار میں اگر سورج اُترتا تو اسے بھی (راستہ دیکھنے کے لیے) چراغ کی ضرورت پڑتی۔ مجھ پر اوہام و شکوک نے ہلہ بول دیا، اور میرے عقل و ہوش کو گویا سولی پر چڑھا دیا۔ یہاں تک کہ اچانک آنکھوں نے روشنی محسوس کی۔ صبح کا سا سماں تھا لیکن بغیر سورج کے… اس مقام پر ہر پتھر اور ہر چٹان نے زنّار باندھی ہوئی تھی۔ بڑے بڑے درخت دیووں کی طرح سے تھے۔ (مَیں نے سوچا) آیا یہ جگہ دُنیا کے آب و خاک سے تعلق رکھتی ہے۔ یا محض میرے خیال نے خواب میں نقشہ باندھا ہے۔ اس جگہ کی ہوا میں شراب کا سا نشہ تھا وہاں سایہ بھی عینِ نور تھا۔ نہ اُس کی زمین کے لیے نیلا آسمان تھا، نہ اس کے اُفق شفق کی وجہ سے سرخ یا زرد تھے۔ اس منظر میں ہیبت اور تحیر… تشویق اور اہتزاز سے ’واقعیت‘ اور ڈرامائیت کا ایک خاص رنگ پیدا کیا گیا ہے۔ ہیبت اور جلال کا ایسا ہی ایک ملا جلا منظر طاسینِ مسیح میں رئویائے حکیم طالسطائی (جاوید نامہ)کے آغا ز میں نظر آتا ہے۔ درمیانِ کوہسارے ہفت مرگ وادیِ بے طائر و بے شاخ و برگ تابِ مہ از دود، گردِ او چوقیر آفتاب اندر فضائش تشنہ میر رودِ سیماب اندران وادی روان خم بہ خم مانندِ جوئے کہکشان پیشِ اُوپست و بلندِ راہ ہیچ تند سیر و موج موج و پیچ پیچ سات اموات کے اس کہسار کے درمیان (یعنی اس مرگ آشام پہاڑ کے دامن میں) ایک وادی تھی بے بہار اور بے شاخ و برگ، جہاں پرندوں کا نام و نشاں تک نہ تھا۔ اس وادی کے گرد دھوئیں سے چاندنی بھی سیہ فام تھی۔ اس فضا میں سورج بھی آئے تو پیاسا مرجائے، اس وادی میں پارے کی ایک نہر بَہ رہی تھی۔ کہکشاں کی ندی کی طرح بل کھاتی ہوئی۔ اس کی روانی کے آگے بلند و پست سب برابر تھے۔ تند اور موج در موج اور بل کھاتی ہوئی ندی تھی وہ۔ اقبال کی بیشتر تصاویر اور مناظر مرکب اور بو قلموں ہیں۔ کبھی رنگوں کی ترکیب اور کبھی ضدین کا تقابل ان تصاویر کو دلچسپ اور فنی معنویت کا حامل بناتا ہے، غارِ قمر کی منظر نگاری میں مطلق ظلمت اور مطلق روشنی کا تقابل تھا، جن کے سرچشمے دیکھنے والے کی آنکھ سے اوجھل ہیں اسی منظر میں گہرائی اور بلندی کا تقابل بھی موجود ہے۔ رویائے حکیم طالسطائی میں کوہسارِ ہفت مرگ کی دھواں دھار اور ٹھہری ہوئی فضا اور سیماب کی چمکتی ہوئی اور بل کھاتی ہوئی تیز روندی کا تقابل ہے۔ ضدین کا تقابل اور مختلفات یا متنوعات کا موازنہ جو اقبال کے ذہنی عمل کی ایک خصوصیت ہے، منظرآفرینی اور فضابندی میں اکثر قائم رہتا ہے۔ اقبال نے ایک اور کوہستانی مقام کا ذکر بھی بڑی محبت اور دل سوزی کے ساتھ کیا ہے۔ مثنوی ’مسافر‘ میں خیبر اور اس کے مضافات کا ذکر اس طرح کرتے ہیں: خبیر از مردانِ حق بیگانہ نیست در دل او صد ہزار افسانہ ایست جادہ کم دیدم ازو پیچیدہ تر یاوہ گردد در خم و پیچیش نظر سبزہ در دامانِ کہسارش مجو از ضمیرش بر نہ آید رنگ و بو سر زمینے کبکِ اُو شاہین مزاج آہوئے او گیرد از شیران خراج در فضایش جرّہ بازان تیز چنگ لرزہ بر تن از نہیبِ شان پلنگ ’خیبر مردانِ حق سے بیگانہ نہیں،… اس کے سینے میں ہزاروں کہانیاں مدفون ہیں۔ اس کے راستوں سے پیچیدہ راستے مَیں نے کہیں نہیں دیکھے، ان راستوں کے پیچ و خم میں نظر بھی بھٹک جاتی ہے اس کے پہاڑوں کے دامن میں سرسبزی اور شادابی کی تلاش نہ کر اس کے باطن سے رنگ و بو کے گل وگلزار کم ہی پھوٹتے ہیں۔ (لیکن) یہ سرزمین ایسی ہے کہ اس کے تیتر بھی شاہین کا سا مزاج رکھتے ہیں۔ اس کے غزال شیروں سے خراج لیتے ہیں۔ اس کی فضائوں میں بازوں کے پنجے تیز تر رہتے ہیں۔ باز، جن کے خوف سے شیر اور چیتے بھی لرزہ براندام رہتے ہیں۔ کوہساروں سے وابستہ تصورات (images) میں سے جو تصور اقبال کے تخیل کو سب سے زیادہ وجد میں لاتا ہے اور اُنھیں ایک خاص نفسی اہتزاز عطا کرتا ہے۔ پہاڑوں کے دامن میں لالہ و گُل (خصوصاً گُلِ لالہ) کا کِھلنا ہے۔ گُلِ لالہ کی سرخی کے بغیر دامنِ کوہسار کی تصویر ان کے نزدیک نامکمل ہی رہتی ہے۔ پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن مجھ کو پھر نغموں پہ اُکسانے لگا مرغِ چمن پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار اودے اودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے پیرہن برگِ گُل پہ رکھ گئی شبنم کا موتی بادِ صبح اور اس موتی کو چمکاتی ہے سورج کی کرن متحرک تصویر آفرینی (cinematography) کے نقطۂ نظر سے یہ ایک مکمل تصویر ہے۔ کوہ ودمن کا ایک مجموعی منظر جس میں چراغِ لالہ سے روشنی ہے، پس منظر میں مرغِ چمن کی نغمہ طرازی… مقامِ نظر ذرا اور قریب ہوا تو پھولوں کے پیکر اور ان کے رنگ بھی اُجاگر ہوئے… تصویر اور واضح اور قریب تر ہوئی تو برگِ گُل پر شبنم کا موتی دکھائی دیا جسے سورج کی کرن مزید چمکا رہی ہے۔ باغ وراغ اور گلزار وخیاباں کے متعلقات میں گُلِ لالہ اقبال کا محبوب ترین ذہنی پیکر یا تصور (image)ہے۔ چوں چراغِ لالہ سوزم در خیابانِ شما اے جوانانِ عجم، جانِ من و جانِ شما! لالۂ صحرایم از طرفِ خیابانم برید در ہوائے دشت و کہسار و بیابانم برید زداغِ لالۂ خونین پیالہ می بینم کہ این گسستہ نفس صاحبِ فغان بود است پیامِ مشرق کا پہلا حصہ جو قطعات پر مشتمل ہے۔ ’لالۂ طور‘ کے عنوان سے معنون ہے جو شاعر کی اپنی ذات کی علامت ہے۔ اسی کتاب کی ایک نظم کا عنوان ’لالہ‘ ہے… جس کا پہلا شعر ہے۔ آن شعلہ ام کہ صبحِ ازل درکنارِ عشق پیش از نمودِ بلبل و پروانہ می تپید میں (لالہ) و ہ شعلہ ہوں کہ بلبل و پروانہ کی نمود سے پہلے صبحِ ازل عشق کے پہلو میں بھڑکتا تھا… ساقی نامہ میں اقبال نے لالہ کو۔ شہیدِ ازل لالہ خونیں کفن کہا ہے۔ لالہ کے ساتھ اقبال کی کامل تطبیق (identification) بالِ جبریل کی نظم ’لالۂ صحرا‘ میں نظر آتی ہے۔ یہ گنبدِ مینائی، یہ عالم تنہائی مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی تنہائی بھٹکا ہوا راہی مَیں، بھٹکا ہوا راہی تو منزل ہے کہاں تیری اے لالۂ صحرائی خالی ہے کلیموں سے یہ کوہ و کمر ورنہ تو شعلۂ سینائی، مَیں شعلۂ سینائی کوہسار اور دشت و باغ کے بعد اقبال کی وابستگی آبِ رواں سے نظر آتی ہے۔ یہ آبِ رواں ان کی شاعری میں آبشار، جوئے تنک آب اور آبِ جو سے بڑھ کر دریا اور سمندر کم ہی بنتا ہے۔ سمندر کا بیان جاوید نامہ میں صرف ایک دو جگہ ہی ہے اور وہ بھی عام سمندر نہیں بلکہ قلزمِ خونیں ہے… لیکن قلزمِ خونیں سے پہلے آبِ رواں کا تذکرہ مقصود ہے۔ اوّلیں نظموں میں ’ایک آرزو‘ میں اقبال فطرت سے ہم کنار ہونے کی بے پایاں خواہش کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ اس نظم میں چار شعر آبِ رواں کی تصویر کشی میں صرف ہوئے ہیں: صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں ندی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو ہو دل فریب ایسا کہسار کا نظارہ پانی بھی موج بن کر اُٹھ اُٹھ کے دیکھتا ہو آغوش میں زمیں کی سویا ہوا ہو سبزہ پھر پھر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گُل کی ٹہنی جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو ندی اور کہسار کے تصور سے پیوستگی… جس کا نقطۂ آغاز ہمالہ کے دامن میں بہنے والی ندی ہے۔ ’ساقی نامہ‘ کے ان شعروں میںمکمل ہوتی ہے: وہ جوئے کہستاں اُچکتی ہوئی اٹکتی، لچکتی، سرکتی ہوئی اُچھلتی، پھسلتی، سنبھلتی ہوئی بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی رُکے جب توسل چیر دیتی ہے یہ پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ جاوید نامہ میں دریا اور سمندر کے مناظر دو جگہ اُبھرتے ہیں…ایک فلکِ زہرہ پر دریائے زہرہ، اور دوسرے فلکِ زحل پر قلزمِ خونیں۔ دریائے زہرہ برف پوش پہاڑوں کے پیچھے واقع ہے جس کے بارے میں رُومی زندہ رود کو بتاتے ہیں: آن کہستان، آن جہانِ بے کلیم آن کہ از برف است چون انبارِسیم درپسِ اوقلزمِ الماس گون آشکارا تر درونش از برون نے بموج و نے بہ سیل او را خلل در مزاجِ او سکونِ لمیزل وہ کوہستان… وہ پہاڑ کہ جسے کوئی کلیم میسر نہیں آیا۔ وہ جس کی چوٹیاں برف کی سفیدی سے چاندی کے انبار معلوم ہوتی ہیں، اس کے پیچھے ایک نیلگوں سمندر ہے، جس کا باطن اس کے ظاہر سے بھی زیادہ آشکار ہے… اس سمندر میں نہ موجیں اُبھرتی ہیں نہ طوفان آتے ہیں۔ اس کے مزاج میں ایسا سکون ہے جو کبھی زائل نہیںہوتا۔ بحر بر ما سینۂ خود وا کشود یا ہوا بود و چو آبے وا نمود قعرِ اُویک وادیِ بے رنگ و بو وادیِ… تاریکیِ اُو تو بہ تو پیر رُومی سورۂ طٰہٰ سرود زیر دریا ماہتاب آمد فرود کوہ ہائے شستہ و عریان و سرد اندرون سرگشتہ و حیران دو مرد سمندر نے ہمارے لیے اپنا سینہ کھول دیا۔ یا شاید یہ ہوا تھی کہ پانی کی طرح دکھائی دیتی تھی۔ اس سمندر کی گہرائی میں ایک بے رنگ و بو وادی تھی۔ ایسی وادی کہ جس میں تاریکیاں ایک دوسرے سے لپٹی ہوئی تھی۔ اس مرحلے پر پیر رُومی نے سورہ طٰہٰ پڑھنی شروع کردی۔ (تب) چاند نیچے۔ سمندر میں اُتر آیا۔ (اُس وادی میں) پہاڑ تھے روئیدگی کے بغیر۔ عریاں اور ٹھنڈے۔ ان میں ہمیں دو مرد حیران اور پریشان نظر آئے۔ ان خیالی مناظر میں سب سے خوفناک منظر۔ قلزمِ خونیں۔ لہو کے سمندر کا ہے جس نے زندہ رود (اقبال) کو بھی چند لمحات کے لیے دہشت زندہ کردیا۔ شاعر اس کے بیان سے اپنے آپ کو عاجز پاتا ہے: آنچہ دیدم می نہ گنجد در بیان تن زسہمش بے خبر گردد زجان من چہ دیدم؟ قلزمی دیدم زخون قلزمے، طوفان برون، طوفان درون در ہوا ماران چو در قلزم نہنگ کفچہ شبگون، بال و پر سیماب رنگ موجہا درّندہ مانندِ پلنگ از نہیبش مردہ بر ساحل نہنگ بحر ساحل را امان یک دم نداد ہر زمان کُہ پارۂ در خون فتاد موجِ خون با موجِ خون اندرستیز درمیانش زورقے در اُفت و خیز جو کچھ مَیں نے دیکھا۔ وہ الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتا۔ اس کے خوف سے جسم، رُوح سے بیگانہ ہوجاتا ہے۔ مَیں نے کیا دیکھا۔ ایک سمندر دیکھا خون سے لبریز۔ ایسا سمندر کہ جس کے اندر بھی طوفان تھے اور باہر بھی طوفان تھے۔ ہوا میں سانپ لہراتے تھے اور اُنھیں کی طرح سمندر میں نہنگ (سمندری بلائیں) مچلتی تھیں۔ ان کے پھن کالے اور پر پارے کی طرح چمکیلے تھے۔ موجیں شیروں کی طرح پھاڑ کھانے والی تھیں، ان کے خوف سے نہنگ ساحلوں پر ہی مرجاتے تھے۔ طوفان کے تھپیڑوں سے ساحل پر ایک لمحے کے لیے بھی سکون نہیں تھا۔ لحظہ بہ لحظہ چٹانیں ٹوٹ ٹوٹ کر سمندر میں گرتی تھیں (اور شور برپا کرتی تھیں) خونیں موجیں ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل ٹکرا رہی تھیں۔ اور اُنھیں موجوں میں ایک کشتی ہچکولے کھارہی تھی۔ ان مثالوں سے بخوبی اس اَمر کا اندازہ ہوسکتا ہے کہ اقبال جب منظر آفرینی کی طرف مائل ہوتے ہیں تو ان کا کوئی بھی نقش پارہ شاہکار سے کم درجے کا نہیں ہوتا۔ یہ اور بات ہے کہ سمندر کے بیان سے اقبال کو کچھ زیادہ انشراح حاصل نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے نزدیک فطرت کے مقاصد کی نگہبانی یا بندۂ صحرائی کرسکتا ہے یا مردِ کہستانی! ساحلوں پر رہنے والے اور سمندر کی موجوں سے لڑنے والے کردار شاید اقبال کی نظر میں کچھ زیادہ نہیں جچتے۔ اس کا سبب عین ممکن ہے۔ اقبال کے نزدیک یہ ہو کہ سمندر سے تعلق رکھنے والے سمندر ہی کے اسیر ہوجاتے ہیں۔ سمندر کی موجوں سے لڑتے رہنے میں ان کی اتنی توانائی صرف ہوجاتی ہے کہ وہ مقصد آفرینی کے چنداں قابل نہیں رہتے۔ تاہم استعارے اور علامات کی حد تک موج و دریا اقبال کی پسندیدہ علامات ہیں۔ بہرحال اقبال کی بیانیہ شاعری میں فطرت اور اس کے مظاہر کا بیان خاص اہمیت کا حامل ہے فطرت کہیں نقطۂ آغاز ہے، کہیں نقطۂ اختتام اور کہیں رہوارِ خیال کو تازہ دم کرنے کے لیے راحت کا ایک وقفہ۔ بانگِ درا کی بیشتر نظمیں فضا بندی سے شروع ہوتی ہیں مثلاً… ’گورستانِ شاہی‘ کی منظربندی کا آغاز اس طرح سے ہوتا ہے: آسماں بادل کا پہنے خرقۂ دیرینہ ہے کچھ مکدر سا جبینِ ماہ کا آئینہ ہے چاندنی پھیکی ہے اس نظارۂ خاموش میں صبح صادق سورہی ہے رات کی خاموش میں کس قدر اشجار کی حیرت فزا ہے خامشی بربطِ قدرت کی دھیمی سی نوا ہے خامشی باطنِ ہر ذرّۂ عالم سراپا درد ہے اور خاموشی لبِ ہستی پہ آہِ سرد ہے ہر چند کہ اقبال کی منظر آفرینی خارجیت (objectivity) کے تمام قرائن رکھتی ہے لیکن اس کے باوجود اقبال جس بھی منظر یا مظہر کو بیان کرتے ہیں اس میں ایک طرح کی داخلیت ضرور پیدا کردیتے ہیں۔ اس طرح کہ وہ منظر یا مظہر ایک زندہ اور سانس لیتی ہوئی حقیقت دکھائی دینے لگتا ہے۔ اسے اقبال کا وصفِ خاص ہی خیال کرنا چاہیے۔ ورنہ بہت کم شعرا ہیں جو بے جان واقعیت کو اپنے اعجازِ فن سے زندہ کردکھاتے ہوں۔ یوں تو اقبال کی تمام تر شاعری منظرآفرینی اور فضابندی کے حسن سے آراستہ ہے۔ لیکن بعض مناظر ایسے ہیں کہ بیانیہ شاعری ان پر بجا طور پر ناز کرسکتی ہے۔ ان میں سے چند مناظر پر فطرت کے بیان کو ختم کیا جاتا ہے۔ خاموش ہے چاندنی قمر کی شاخیں ہیں خموش ہر شجر کی وادی کے نوا فروش خاموش کہسار کے سبز پوش خاموش فطرت بے ہوش ہوگئی ہے آغوش میں شب کے سو گئی ہے کچھ ایسا سکوت کا فسوں ہے نیکر کا خرام بھی سکوں ہے تاروں کا خموش کارواں ہے یہ قافلہ بے درا رواں ہے خاموش ہیں کوہِ و دشت و دریا قدرت ہے مراقبے میں گویا (ایک شام: دریائے نیکر (ہائیڈل برگ) کے کنارے پر) قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں چشمۂ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں حسنِ ازل کی ہے نمود، چاک ہے پردۂ وجود دل کے لیے ہزار سود ایک نگاہ کا زیاں سرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحابِ شب کوہِ اضم کو دے گیا رنگ، برنگِ طیلساں گرد سے پاک ہے ہوا، برگِ نخیل دُھل گئے ریگِ نواحِ کاظمہ نرم ہے مثلِ پرنیاں، آگ بجھی ہوئی اِدھر، ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر کیا خبر اس مقام سے گذرے ہیں کتنے کارواں (ذوق و شوق) ساحلِ دریا پہ مَیں اِک رات تھا محوِ نظر گوشۂ دل میں چھپائے اِک جہانِ اضطراب شب سکوت افزا، ہوا آسودہ، دریا نرم سیر تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویرِ آب جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفلِ شیرخوار موجِ مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مستِ خواب رات کے افسوں سے طائر آشیانوں میں اسیر انجمِ کم ضَو گرفتارِ طلسمِ ماہتاب (خضرِ راہ: شاعر) ۲- صورتِ واقعہ (situation): محاکاتی اور ڈرامائی صورتِ واقعہ (situation) میں خود واقعہ (event) بھی شامل ہے، ان دونوں کے بیان کے لیے ہمارے ہاں محاکات کی اصطلاح رائج رہی ہے،… محاکات میں حکایت اور روایت )بطورnarration ) کا مفہوم بھی شامل ہے، غیر ڈرامائی بیان میں ڈرامائی عنصر بھی محاکات ہی سے اُبھرتا ہے،…مشرق و مغرب کی تنقید میں شاعری کی ایک تعریف مدتوں مروّج رہی ہے یعنی یہ کہ شاعری محاکات یا لفظی مصوری کا دوسرا نام ہے، ظاہر ہے کہ شاعری کی تمام جزوی تعریفات کی طرح یہ بھی ایک اُدھوری تعریف ہے، تاہم اس سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اگر شاعری ہر طرح کے بیان… اور اظہار (expression) کو جامع ہے تو اس میں صورتِ واقعہ کا بیان ازخود شامل ہوجاتا ہے۔ کوئی بھی صورتِ واقعہ کبھی سادہ (simple) نہیں ہوگی، اس کو متشکل کرنے میں کئی طرح کے عوامل کارفرما ہوں گے، ان عوامل کو گرفت میں لاتے ہوئے صورتِ واقعہ کا بیان ہمیشہ مرکب (complex) ہوجاتا ہے۔ اس میں کردار، فضا، موڈ، مکالمہ، رنگ، روشنی غرض وہ تمام اجزا آجاتے ہیں جو کسی بھی صورتِ واقعہ کو مکمل کرنے میں معاون ہوسکتے ہیں۔ اقبال کو صورتِ واقعہ کے بیان پر بھی اتنی ہی گرفت حاصل ہے جتنی منظریا مفرد اشیا کے بیان پر…! بلکہ منظر اور صورتِ واقعہ اکثر باہم پیوست نظرآتے ہیں… یہاں ہم صورتِ واقعہ کی ایک مثال سے بحث کریں گے… بانگِ درا کی ایک نظم ’غلام قادر رُہیلہ،… محاکاتی اور ڈرامائی طرزِ بیان کا بہترین نمونہ ہے۔ اس میں کرداروں کی داخلی کیفیات نے بیانِ واقعہ میں نفسیاتی گہرائی پیدا کردی ہے۔ یہ صورتِ واقعہ بنیادی طور پر ایک کردار (غلام قادر رُہیلہ) سے وابستہ ہے، لیکن واقعہ اور کردار دونوں ایک دوسرے کی رُونمائی میں معاون ثابت ہوتے ہیں، … صورتِ حال… تاریخ کا ایک سنگین (grim) لمحہ ہے، جس میں ایک انحطاط پذیر طبقہ (جس کی نمائندگی اس طبقے کی خواتین کررہی ہیں) ایک وحشیانہ قوت کے مقابل ہے،… نظم کا آغاز ایک اور واقعہ کے اجمالی ذکر سے ہوا ہے جو زیرنظر واقعہ کا معنوی ’دیباچہ‘ ہے۔ رہیلہ کس قدر ظالم، جفا جو، کینہ پرور تھا نکالیں شاہِ تیموری کی آنکھیں نوکِ خنجر سے دیا اہلِ حرم کو رقص کا فرماں ستم گر نے یہ اندازِ ستم کچھ کم نہ تھا آثارِ محشر سے بھلا تعمیل اس فرمانِ غیرت کش کی ممکن تھی شہنشاہی حرم کی نازنینانِ سمن بر سے بنایا آہ! سامانِ طرب بیدرد نے ان کو نہاں تھا حسن جن کا چشمِ مہر و ماہ و اختر سے لرزتے تھے دلِ نازک، قدم مجبورِ جنبش تھے رواں دریائے خوں شہزادیوں کے دیدۂ ترسے یونہی کچھ دیر تک محوِ نظر آنکھیں رہی اس کی کیا گھبرا کے پھر آزاد سر کو بارِ مغفر سے کمر سے اُٹھ کے تیغِ جانستاں، آتش فشاں کھولی سبق آموزِ تابانی ہوں انجم جس کے جوہر سے رکھا خنجر کو آگے۔ اور پھر کچھ سوچ کر لیٹا، تقاضا کررہی تھی نیند گویا چشمِ احمر سے بجھائے خواب کے پانی نے اخگر اس کی آنکھوں کے نظر شرما گئی ظالم کی درد انگیز منظر سے پھر اُٹھا اور تیموری حرم سے یوں لگا کہنے شکایت چاہیے تم کو نہ کچھ اپنے مقدر سے مرا مسند پہ سو جانا بناوٹ تھی، تکلف تھا کہ غفلت دور ہے شانِ صف آرایانِ لشکر سے یہ مقصد تھا مرا اس سے کوئی تیمور کی بیٹی مجھے غافل سمجھ کر مار ڈالے میرے خنجر سے مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے اس واقعے میں کہانی یا حکایت (story)کا مزاج نمایاں ہے،… لیکن اس واقعے میں شاید اتنی ڈرامائیت مضمر نہیں جتنی اس کے مرکزی کردار غلام قادر رہیلہ کے انداز و اطوار سے پیدا ہوگئی ہے،… رہیلہ نے تیموری حرم کو ایک آخری موقع اپنے آپ کو justify کرنے کا دیا ہے،… اور اس نے نیند کا بہنا کیا ہے۔ لیکن تیموریوں کا انحطاط اتنا کامل اور تیموری حرم کے لیے صورتِ حال کی تبدیلی اتنی اچانک ہے کہ وہ رہیلہ کی اس ڈرامائی پیشکش کے مفہوم کو سمجھنے سے ہی عاری رہتا ہے۔ رہیلہ کی شخصیت، اندازِ گفتگو اور طرزِ عمل کی تصویرکشی میں اقبال نے وہ سب فنّی حربے استعمال کیے ہیں جو ایک ڈرامائی شاعر کو زیبا ہیں۔ اس سنگین اور دہشت ناک منظر میں اقبال نے حزن و ملال کے عناصر کو شامل کرکے صورتِ حال کو انسانی اور فنی اعتبار سے ’گوارا‘ بنایا ہے،… اور اس حزنیہ سُر کے ذریعے… رہیلہ کے اپنے تبصرے سے قطعِ نظر… اس واقعے کو تمدنی تنقید کا حصہ بنا دیا ہے۔ صورتِ واقعہ کے بیان اور کردار نگاری کے مرکب اظہار میں اقبال کی بہت سے نظمیں مثالی حیثیت رکھتی ہیں۔ مثلاً ابوالعلامعرّی… نادر شاہ افغان… جنگِ یرموک کا ایک واقعہ، سیرِفلک وغیرہ… اقبال کا بیانیہ ہمیشہ ابعاوی (dimensional) ڈرامائی، بوقلموں اور مرکب ہوتا ہے،… مظاہر،کردار اور واقعات کی خارجی صورت پذیری… داخلی محرکات اور تاثرات سے لبریز ہوتی ہے،… اقبال کبھی تو اپنے لیے ڈرامائی علیحدگی (detachment) پسند کرتے ہیں لیکن زیادہ تر ان کی ذات صورتِ حال میں پوری طرح شامل (involved)رہتی ہے۔ صورتِ حال کی معنویت کو پوری طرح اُجاگر کرنے کے لیے وہ تبصرے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یہ تبصرہ کبھی کرداروں کی زبان سے ہوتا ہے اورکبھی خود شاعر کی جانب سے، بحر اور ردیف و قافیہ کا انتخاب، آہنگ اور لہجے کا زیروبم صورتِ واقعہ کا پورا پورا ساتھ دیتے ہیں۔ رمز و ایما، تفصیل و اطناب آغاز و انجام، موڈ (mood)اور رفتار (tempo) منظر اور پس منظر… غرض ’بیانیہ‘ کے تمام اجزاو عناصر اور آئین و ضوابط ہر حال میں اقبال کے پیشِ نظررہتے ہیں اور وہ جس چیز سے چاہتے ہیں زیادہ اور جس سے چاہتے ہیں کم کام لیتے ہیں۔ ان معنوں میں وہ ’کاملِ ابلاغ‘ کے شاعر ہیں اور ابہام کو صرف فنی ضرورت کے تحت مناسب جگہ دیتے ہیں… بیانیہ شاعری کی طویل تاریخ میں اقبال… ہومر، ڈانٹے… اور فردوسی و نظامی کے ہم سخن اور ہم آئین ہیں۔ /// اقبال اور عشقِ رسولؐ بہ مُصطفیٰؐ بِرسان خویش را کہ دین ہمہ اوست اگر بہ او نہ رسیدی، تمام بولہبی است! (اقبال) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محامد و محاسن کی مدح و ثنا ظہورِ قُدسی کے بعد ہر صاحبِ فکرِ سلیم و طبعِ مستقیم کے لیے وجہِ نشاط و سرمایۂ افتخار رہی ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آپؐ کے ظہور سے پیشتر ہی آپؐ کی تعریف و توصیف کا آغاز ہو چکا تھا۔ کُتبِ سماوی اور صحائفِ انبیائے پیشیں میںآپؐ کی آمد کی مصدقہ اور مسلّمہ پیش گوئیوں میں آپؐ کے لیے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں اُن میں صریحاً آپؐ کی مدح و تحسین ہے۔ انجیل میں آپؐ کے لیے حضرت عیسیؑ کی زبان سے فارقلیط کا لفظ استعمال ہوا ہے۔جس کا ترجمہ یونانی میں بری کلیطاس (بمعنی تشفی دہندہ) کیا گیا، لیکن فی الحقیقت اس کا ترجمہ انجیلِ بارناباس کی رو سے بری کلیوطاس ہی ہے جس کے معنی محمدؐ اور احمدؐ ہیں، فارقلیط (فرء کے معنی عبرانی میں بوجھ اُٹھانے والے کے ہیں، اور رسالت سے بڑا بوجھ اور کون ساہو سکتا ہے) پار یا فارعبرانی میں ایک کثیر الاستعمال مادّہ ہے جس کی رُو سے اس کے معنی جمیل و جلیل و مفخر و مہذب و حمید و محمود و محمد ہیں۔۱؎ محققین کے نزدیک فرء قلیط کے معنی ہیں رسولِ مکہ،۲؎ اور فارقلیط کے معنی ہیں’محمدِ مکہ‘ انجیل ہی میں آپؐ کا نام ایک جگہ (عبرانی میں) حمِدَہ بھی آیا ہے جس کے معنی ہیں بہت تعریف کیا گیا۔ ۳؎ تمام علمائے بلاغت اس بات پر متفق ہیں کی لفظ محمد ، حمد سے مبالغے کا صیغہ ہے، اور حمد کے معنی ہیں کسی بہت اچھی چیز کی بہت ہی اچھی تعریف و تحسین۔ قرآنِ کریم کی رُو سے حضرت عیسیٰؑ کی زبانی آپؐ کا نام احمد بتایا گیا ہے… یَأتی مِن بَّعدِی اسمُہ احمد(۶:۶۱) احمد کے معنی ہیں بہت زیادہ حمد و ستائش کرنے والا اور محمد کے معنی ہیں جس کی یکے بعد دیگرے ستائش کی جائے، اور وہ جو مسلسل اور پیہم وجہِ حمد و ستائش ہو۔۴؎ آپؐ کی ولادتِ با سعادت پر جب حضرت عبدالمطلب نے آپ کا نام محمدؐ رکھا تو اہل مکّہ نے حیرت سے استفسار کیا کہ آپ نے اپنے خاندان کے مروجہ ناموں کو چھوڑ کر یہ نام کیوں رکھا؟ اُنھوں نے کہا:’’میں چاہتا ہوں کہ میرا بچہ دُنیا بھر کی ستائش اور تعریف کے شایاں قرار پائے‘‘۔۵؎ اگر ظہورِ قدسی کے وقت سے متعلقہ تمام روایات کو سامنے رکھا جائے تو اس میں شک نہیں رہتا کہ دُنیا میں آپ کی تشریف آوری کے ساتھ ہی آپؐ کی پیہم تعریف و توصیف شروع ہو گئی تھی۔ یہ تسمیّہ (یعنی حضرت عبدالمطلب کا محمد نام رکھنا) بذاتِ خود حضرت عبدالمطلب کی طرف سے تعریف و ستائش ہے۔ آپؐ کے چچا حضرت ابو طالب نے، جنھوں نے آپؐ کی پرورش میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا، آپؐ کی شان میں اس وقت شعر کَہ دیے تھے جب آپؐ ابھی کم سن تھے۔ حضرت ابو طالب کا ایک شعر ہے: واَبیَضُ یستَسقَے الغَمَامُ بِوَجھِہ ثِمال الیَتٰمیٰ، عِصمَۃ للارامل وہ گورے مکھڑے والا جس کے روئے تاباں سے بارش کی دُعا کی جاتی ہے یتیموں کا ملجا و ماویٰ اور بیوائوں کی خبر گیری کرنے والا ہے۔ (صلی اللہ علیہ وسلم) ۶؎ بعثت سے بہت پہلے ہی آپ کے اخلاقِ ستودہ کے باعث آپ کو الصادق اور الامین کہا جاتا تھا۔ قرآن کریم نے آپؐ کے لیے اِنَّکَ لَعَلیٰٰ خلُقٍ عظیم (اے پیغمبر، آپ بے شک اعلیٰ صفات پر پیدا کیے گئے ہیں) فرمایا، آپؐ نے اپنی بعثت کے مقاصد بیان کرتے ہوئے فرمایا: بعثت لاتمم حسن الاخلاق (میں حسنِ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں) نیز فرمایا بعثت لاتمم مکارم الاخلاق (میں تو اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ مکارمِ اخلاق کو درجۂ کمال تک پُہنچا دوں)۔ آپؐ کے پیروکاروں اور جاں نثاروں (رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے آپؐ کی مدح و توصیف میں جو کُچھ کہا، اس سے کتبِ احادیث و تاریخ و سیر لبریز ہیں، شاعری میں اگرچہ آپؐ کی تعریف و تحسین کے معاملے میں اولیّت کا سہرا حضرت ابو طالب کے سر رہا جنھوں نے آپؐ کی کم سنی ہی میں آپؐ کی شان میں شعر کہے، لیکن صحابۂ کرامؓ میں یہ فوقیّت حضرت حسانؓ بن ثابت اور حضرت کعبؓ بن زہیر کے حصے میں آئی، حضرت حسانؓ بن ثابت فرماتے ہیں: صَلی الإلٰہ وَمَن یَحفُّ بِعَرشِہ والطَیِبون عَلَی المبارکِ اَحمَد اسلام جب اقصائے عالم میں پھیلا تو حُبِ رسولؐ کے چراغ بھی چار دانگِ عالم میں روشن ہوئے، عربی، فارسی، ترکی اور اُردو جو زیادہ تر مسلمانوں کی علمی، ادبی اور تہذیبی زبانیں رہی ہیں، نعتِ رسولِ مقبول ؐ کے خزینوں سے مالا مال ہیں، فارسی میں (اور اُردومیں) سنائی، سعدی، نظای اور جامی سے لیکر غالب اور اقبال تک ہر قابلِ ذکر شاعر نے نعت کو وجہِ افتخار سمجھا ہے۔متاخرین میں اقبال ایک ایسے منفرد شاعر ہیں جنھوں نے اُردو اور فارسی دونوں زبانوں میں مدحتِ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک نئے اُسلوب اور نئے آہنگ کے ساتھ اختیار کیا، چُنانچہ اقبال کے فکری اور فنی امتیازات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اُنھوں نے نعتیہ شاعری میں غیر معمولی شیفتگی، والہانہ پن اور خلُوصِ فکر کو ظاہر کیا، اقبال کے باطن میں عشقِ رسولؐ کے سرچشمے جس طرح رواں دواں تھے اس کے پیشِ نظر اس نوع کی نعتیہ شاعری کا وجود میں آنا ایک بالکل قُدرتی بات تھی۔ شاعر اور مفکر سے بڑھ کر اُن کے لیے اگر کوئی اور چیز وجہِ افتخار و انبساط ہو سکتی تھی تو وہ عاشقِ رسولؐ، کا لقب ہے۔ عشقِ رسولؐ میں اُن کی شیفتگی کو دیکھتے ہوئے اس سے بہتر اور کوئی لفظ ذہن میں آہی نہیں سکتا۔ اقبال کی حینِ حیات میں بے شمار لوگوں نے اُنھیں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکرِ مبارک پر اشکبار ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ مولانا عبدالمجید سالک لکھتے ہیں: (وہ) مشرق و مغرب کے علُومِ معقول پر حاوی تھے، یورپ میں فلسفہ کے متعلق کوئی قابلِ ذکر تصنیف شائع ہوتی تو اُن کی خدمت میں فی الفور پہنچ جاتی۔ مذہب، تاریخ، عمرانیات کا کوئی مسئلہ ایسا نہ تھا جس پر اُنھوں نے انتہائی دِقتِ نظر صرف نہیں کی۔ لیکن اس کے باوجود ان کے گُدازِ قلب اور رقتِ احساس کا یہ عالم تھا کہ جہاں ذرا حضور سرورِ کون و مکاں صلی اللہ علیہ وسلم کی رأفت و رحمت یا حضور کی سروریِ کائنات کا ذکر آتا، حضرت علامہ کی آنکھیں بے اختیار اشکبار ہو جاتیں اور دیر تک طبیعت نہ سنبھلتی۔ وہ حضور ؐ کی ذاتِ والا کو ساری کائنات سے افضل مانتے تھے…(وہ) تحقیقاً اس عقیدے کو تسلیم کرتے تھے، اور جب اس پر گفتگُو فرماتے تو القاد الہام، مقامِ نبوت، انسانیتِ کاملہ ، توازنِ جذبہ و ادراک اور حُریتِ انسانیت کے مسائل پر نفسیاتِ جدید کی رُو سے ایسی سیر حاصل بحث فرماتے کہ کسی مخالف کو بھی حضورؐ کے انسانِ کامل ہونے میں شبہ کی گنجائش باقی نہ رہتی۔۷؎ مرزا جلال الدین بیر سٹر اسی سلسلے میں لکھتے ہیں: (اقبال) خواجہ حالی مرحوم کے مُسدس کے تو عاشق تھے۔ میرے پاس ریاست ٹونک کا ایک شائستہ مذاق ملازم تھا، اسے ستار بجانے میں خاص دسترس تھی اور وہ مسدس حالی ستار پر ایک خاص طرز سے سنایا کرتا۔ ڈاکٹر صاحب التزام کے ساتھ ہر دوسرے تیسرے اس سے مسدس سننے کی خواہش کرتے۔ حضور سرورِ کائناتؐ کی تعریف میں وہ بند جو ’’وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا‘‘ سے شروع ہوتے ہیں جو مسدس حالی کے آخر میں ہیں۔ اُنھیں بطورِ خاص مرغوب تھے۔ اس کو سنتے ہی اُن کا دل بھر آتا اور وہ اکثر بے اختیار رو پڑتے۔ اسی طرح اگر کوئی عمدہ نعت سنائی جاتی تو اُن کی آنکھیں ضرور پر نم ہو جاتیں۔۸؎ اسلام اور شارعِ اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اُن کی والہانہ شیفتگی کی لا تعداد مثالیں اُن کے سوانح میں بکھری نظر آئیں گی۔ اقبال کا اپنا ادعا بھی ہمیشہ یہی رہا اور امرِ واقع بھی یہی ہے کہ ان کے افکار و خیالات کا سر چشمہ قرآن کریم اور نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرتِ طیبہ تھی۔ اُن کے کلام کے ایک معتدبہ حصے سے جنابِ رسالت مآبؐ کی ذاتِ گرامی سے جس بے پایاں عقیدت کا اظہار ہوتا ہے، اسے عشقِ رسولؐ، کے علاوہ کسی اور لفظ سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ اقبال کے کلام میں عشق، جنوں، جذب و فراق، سوز و سرور اور کیف و ہستی کی جو کیفیات جا بجا نظر آتی ہیں، اقبال کی ذاتی زندگی میں ان کیفیات و جذبات کا مرجع حضورِ اکرمؐ ہی کی ذاتِ والا صفات تھی۔ یہ عقیدت یا قلبی لگائو ان کے بعض اشعار میں اتنے بھر پور اور مؤثر انداز میں ظاہر ہوا ہے کہ اقبال … نظامی، جامی، سعدی، قدسی اور دُوسرے اعلیٰ درجے کے نعت گو شعرا کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے وابستگی اور لگائو اقبال کے لیے صرف ایک ذاتی رجحان یا صرف ایک اعتقادی مسئلہ نہیں تھا، بلکہ ایک طرزِ احساس اور طرزِ فکر تھا جو اُن کی پوری زندگی پر محیط تھا، اور وہ اس جذبے کوپوری اُمتِ مسلمہ کا طرزِ احساس اور طرزِ فکر بنا دینا چاہتے تھے۔ اسی لیے کہا: بہ مُصطفیٰؐبرسان خویش راکہ دین ہمہ اوست اگر بہ او نہ رسیدی، تمام بولہبی است بانگِ درا کے حصۂ اول میں جو کلام شامل ہے وہ ۱۹۰۵ء تک کا لکھا ہوا ہے، یعنی یہ تمام شاعری اقبال کے سفرِ یورپ سے پہلے کی ہے، اس کے حصۂ غزلیات میں ایک غزل کا مقطع ایسا ہے کہ اسے ہم اقبال کی شاعری میں اُن کے جذبۂ عشقِ رسول ؐ کے اظہار کا نقطۂ آغاز کَہ سکتے ہیں، وہ مقطع ہے: ہوا ہو ایسی کہ ہندوستاں سے اے اقبال اُڑا کے مُجھ کو غبارِ رہِ حجاز کرے! بانگِ درا کے حصۂ دوم میں، جو ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک کے زمانے میں لکھی گئی منظُومات پر مشتمل ہے، اگرچہ، صقلیہ، جیسی نظم بھی شامل ہے، جس میں اقبال کے ملی جذبات پہلی بار بھر پورا انداز میں ظاہر ہوئے ہیں، نعت کا کوئی شعر شامل نہیں ہے، … تاہم ستمبر ۱۹۰۵ء میں سفرِ یورپ کے آغاز میں، بحری جہاز میں لکھے ہوئے ایک نسبتاً نو دریافت خط کے ایک حصے سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ عشقِ رسولؐ کا جذبہ اقبال کی زندگی کے ہر مرحلے میں ایک شدید، گہری اور ذاتی معنویت کی حامل جذباتی وابستگی کے طور پر موجود رہا، یہ خط جو، اخبارِ وطن، لاہور کے مدیر مولوی انشاء اللہ خاں کے نام لکھا گیا، اور اُنھیں کے اخبار میں شائع بھی ہوا، اقبال کی داخلی اور ذہنی زندگی کے لطیف جذباتی محرکات میں عشقِ رسولؐ کی مرکزی حیثیت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے، یہ ایک طویل خط ہے، بلکہ اسے اقبال کا طویل ترین مکتوب بھی کہا جا سکتا ہے، اس خط میں اقبالـ نے اپنے سفر کے ابتدائی حصے کے احوال تفصیل سے لکھے ہیں، (یہ خط اُن کی کامیاب جزئیات نگاری کا نمونہ بھی ہے)۔ یہ خط جو ساحلِ عدن سے ۱۲ ستمبر ۱۹۰۵ء کو لکھا گیا، ساحلِ عدن ہی کے تذکرے کے ساتھ اس طرح ختم ہوتا ہے: اب ساحل قریب آتا جاتا ہے اور چند گھنٹوں میں ہمارا جہاز عدن جا پہنچے گا۔ ساحلِ عرب کے تصور نے جو ذوق و شوق اس وقت دل میں پیدا کر دیا ہے، اس کی داستاں کیا عرض کروں، بس یہی دل چاہتا ہے کہ زیات سے اپنی آنکھوں کو منور کروں: اللہ رے خاکِ پاکِ مدینہ کی آبرو خورشید بھی گیا تو ادھر سر کے بل گیا اے عرب کی سرزمین! تجھ کو مبارک ہو! تو ایک پتھر تھی جس کو دُنیا کے معماروں نے رد کر دیا تھا، مگر ایک یتیم بچے نے خدا جانے تجھ پر کیا افسوں پڑھ دیا کہ موجودہ دُنیا کی تہذیب و تمدن کی بنیاد تجھ پر رکھی گئی۔۹؎ باغ کے مالک نے ملازموں کو مالیوں کے پاس پھل کا حصہ لینے کو بھیجا لیکن مالیوں نے ہمیشہ ملازموں کو مارپیٹ کے باغ سے باہر نکال دیا اور مالک کے حقوق کی کُچھ پروا نہ کی۔ پہ آہ! اے پاک سرزمین ! تو وہ جگہ ہے جہاں سے باغ کے مالک نے خود ظہور کیا تا کہ گُستاخ مالیوں کو باغ سے نکال کر پھُولوں کو اُن کے نامسعود پنجوں سے آزاد کرے۔ تیرے ریگستانوں نے ہزاروں مقدس نقشِ قدم دیکھے ہیں اور تیری کھجُوروں کے سائے نے ہزاروں ولیوں اور سلیمانوں کو تمازتِ آفتاب سے محفُوظ رکھا ہے۔ کاش میرے بد کردار جسم کی خاک تیرے ریت کے ذروں میں مل کر تیرے بیابانوں میں اُڑتی پھرے اور یہی آوارگی میری زندگی کے تاریک دنوں کا کفارہ ہو!کاش میں تیرے صحرائوں میں لُٹ جائوں اور دُنیا کے تمام سامانوں سے آزاد ہو کر تیری تیز دُھوپ میں جلتا ہوا اور پائوں کے آبلوں کی پروانہ کرتا ہوا اس پاک سرزین میں جا پہنچوں جہاں کی گلیوں میں اذانِ بلال کی عاشقانہ آواز گونجتی تھی۔ از عدن مورخہ ۱۲ ستمبر راقم محمد اقبال۱۰؎ اقبال کی تمام نثری تحریروں میں یہ سب سے زیادہ انوکھی تحریر ہے، اسے اقبال کی شاعرانہ اور جذباتی نثر کا بہترین نمونہ قرار دیا جا سکتا ہے، اس میں اقبال کی زندگی کا سب سے عمیق جذبہ اس طرح سے منعکس ہو گیا ہے۔ ’جس طرح عکسِ گُل ہو شبنم کی آر سی میں‘ اس عکسِ گُل نے اقبال کی شاعری میں وہ باغِ ہمیشہ بہار کھلا دیا جسے ہم اُن کی نعتیہ شاعری کَہ سکتے ہیں۔ ’اے پاک سرزمین تو وہ جگہ ہے جہاں سے باغ کے مالک نے خود ظہور کیا۔ ’کاش‘ میں تیرے بیابانوں میں لُٹ جائوں،…اذانِ بلال کو عاشقانہ آواز، کَہ کر اقبال نے اس ’صدائے حق‘ کو نہ صرف ہمارے گوشِ تخیل کے قریب کر دیا ہے، بلکہ دُنیا کی آوازوں میں اس کی نوعیت اور اس کا مابہ الامتیاز بھی بتا دیا ہے۔ غالباً اس سے کُچھ ہی عرصہ پیشتر اقبال اپنے ابتدائی دورِ شاعری کی شہر ۂ آفاق نظم، فریادِ اُمت، میں ایسے ہی جذبات کا اظہار کر چکے تھے، گو یہ نظم اقبال کے متروکاتِ شعری میں سے ہے، لیکن اس کا نعتیہ حصہ اب بھی اقبال کے شعری شہ پاروں میں رکھا جا سکتا ہے،…فریادِ اُمت، ترکیب بندکی ہیئت میں لکھی گئی ہے، اور اس کے ابتدائی چار طویل بند ’تمہید ‘ کا درجہ رکھتے ہیں، ان چار ابتدائی بندوں کو ہم ایک خاص نوع کی طویل غزلیں بھی کَہ سکتے ہیں، جن کا آہنگ بلند مگر لے حُزنیہ ہے، صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس حزنیہ لے کی تہ میں جذبات و احساسات کا ایک زبردست طوفان کر وٹیں لے رہا ہے۔ چوتھے بند کا آخری شعر (خفیف سے تصرف کے ساتھ) مشہور نعت گو شاعر قدسی کا ہے: المدد سیدِ مکی مدنی العربی دل و جان باد فدایت چہ عجب خوش لقبی اس طویل نظم میں نعتیہ اشعار کی تعداد خاصی ہیـ،…اگرچہ اکثر اشعار پر روایت کا پر تَو ہے، لیکن شاعر کی طباعی اور مدحتِ رسولؐ میں آنے والے سالوں میں اُن کا منفرد اُسلوب ان شعروں میں بھی جھلک جاتا ہے: تیری اُلفت کی اگر ہو نہ حرارت دل میں آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا کبھی یثرب میں اویسِ قرنی سے چھپنا کبھی برقِ نگہِ موسیء عمراں ہونا قاب قوسین بھی، دعویٰ بھی عبودیت کا کبھی چلمن کو اُٹھانا، کبھی پنہاں ہونا لطف دیتا ہے مُجھے مِٹ کے تری اُلفت میں ہمہ تن شوقِ ہوائے عربستاں ہونا یہی اسلام ہے میرا، یہی ایماں میرا تیرے نظارۂ رخسار سے حیراں ہونا خندۂ صبحِ تمنائے براہیم استی چہرہ پرداز بحیرت کدۂ میم استی پیرہن عشق کا جب حسنِ ازل نے پہنا بن کے یثرب میں وہ آپ اپنا خریدار آیا میں نے سوگلشنِ جنت کو کیا اس پہ نثار دشتِ یثرب میں اگر زیرِ قدم خار آیا ماعرفنا نے چھپا رکھی ہے عظمت تیری قاب قوسین سے کھلتی ہے حقیقت تیری حسن تیرا مِری آنکھوں میں سمایا جب سے تیر لگتی ہے شعاعِ مہ و انجم مُجھ کو موت آجائے جو یثرب کے کسی کوچے میں میں نہ اُٹھوں جو مسیحا بھی کہے قُم مُجھ کو ہمہ حسرت ہوں، سراپا غمِ بربادی ہوں ستمِ دہر کا مارا ہوا فریادی ہوں اے کہ تھا نوح کو طوفاں میں سہارا تیرا اور براہیم کو آتش میں بھروسا تیرا اے کہ مشعل تھا ترا ظلمتِ عالم میں وجود اور نورِ نگہِ عرش تھا سایا تیرا اے کہ پر تَو ہے ترے ہاتھ کا مہتاب کا نُور چاند بھی چاند بنا پاکے اشارا تیرا گرچہ پوشیدہ رہا حسن ترا پردوں میں ہے عیاں معنیٔ لولاک سے پایہ تیرا ناز تھا حضرتِ مُوسیٰؑ کو یدِ بیضا پر سو تجلی کا محل نقشِ کفِ پا تیرا کیا کہوں اُمتِ مرحوم کی حالت کیا ہے جس سے برباد ہوئے ہم وہ مصیبت کیا ہے تقریباً اسی زمانے میں اقبال نے وہ نعت لکھی جس کا مطلع ہے: نگاہ عاشق کی دیکھ لیتی ہے پردۂ میم کو اُٹھا کر وہ بزمِ یثرب میں آکے بیٹھیں ہزار مُنہ کو چھپا چھپا کر یہ نعت بھی بہت حد تک روایتی خیالات پر مشتمل ہے، اگر ’’مدینے کے کبوتر کی یاد‘‘ کی نسبت اقبال سے درست ہے تو یہ نظم بھی اُن کے اُسی دورِ شاعری سے تعلق رکھتی ہے لیکن یہ تمام اقبال کے شعری متروکات ہیں، جنھیں بو جوہ اُنھوں نے اپنے مرتبہ کلام میں شامل نہیں کیا۔ بانگِ درا کی اُن نظموں میں جو ۱۹۰۸ء اور ۱۹۲۴ء کے درمیان لکھی گئیں، اُن میں ’شکوہ‘ کی تخلیق پر مقدم ایک نظم ہے۔ ’ایک حاجی مدینے کے راستے میں…ـ‘ جس میں بظاہر تو اس زمانے کے سفرِ مدینہ کے خطرات و مہلکات کا تذکرہ ہے، لیکن بالواسطہ شاعر کے شوقِ زیارت کا بیان ہے، اس نظم میں لاشعُوری طور پر عرب لینڈ اسکیپ کی یاد متشکل ہوتی ہے، یہ نظم ہر عہد کے مسلمانوں کی زیارتِ مدینہ کی آرزُو کی آئینہ دار بھی ہے۔ تخلیقی سطح پر یہ نظم انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں سفرِ حجاز کے عمومی اور مکے سے مدینے کے سفر کے خاص حالات کی ایک خیالی بازیافت ہے: قافلہ لُوٹا گیا صحرا میں، اور منزل ہے دور اس بیاباں، یعنی بحرِ خشک کا ساحل ہے دور ہم سفر میرے شکارِ دشنۂ رہزن ہوئے بچ گئے جو ہو کے بیدل سوئے بیت اللہ پھرے اس بخاری نوجواں نے کس خوشی سے جان دی موت کے زہر اب میں پائی ہے اس نے زندگی! خنجرِ رہزن اسے گویا ہلالِ عید تھا ’’ہائے یثرب‘‘ دل میں لب پہ نعرۂ توحید تھا خوف کہتا ہے کہ یثرب کی طرف تنہا نہ چل شوق کہتا ہے کہ تو مسلم ہے، بیباکانہ چل بے زیارت سوئے بیت اللہ پھر جائوں گا کیا؟ عاشقوں کو روزِ محشر مُنہ نہ دکھلائوں گا کیا؟ خوفِ جاں رکھتا نہیں کُچھ دشت پیمائے حجاز ہجرتِ مدفونِ یثرب میں یہی مخفی ہے راز گو سلامت محملِ شاہی کی ہمراہی میں ہے عشق کی لذت مگر خطروں کی جاں کا ہی میں ہے آہ ! یہ عقلِ زیاں اندیش کیا چالاک ہے اور تاثر آدمی کا کس قدر بے باک ہے جس دَور میں اقبال نے شکوہ اور جوابِ شکوہ، جیس نظمیں تخلیق کیں وہ مسلمانانِ عالم کے لیے ایک عالمگیر انحطاط و انتشار کا زمانہ تھا، اقبال مسلمانانِ عالم کی اس عمومی صورتِ حال پر ہمہ وقت بے تاب و بے قرار رہتے تھے۔ جوابِ شکوہ لکھنے سے کچھ ہی عرصہ پیشتر اقبال نے طرابلس کے شہیدوں کے حوالے سے ایک نظم …’’حضورِ رسالت مآبؐ میں‘‘،…لکھی یہ نظم بارگاہِ نبویؐ میں شاعر کی ایک خیالی حضوری کو بیان کرتی ہے، فرشتے شاعر کو بزمِ رسالتؐ یعنی حضورِ آیۂِ رحمتؐ… میں لے جاتے ہیں، بارگاہِ نبویؐ سے شاعر سے خطاب کیا جاتا ہے: کہا حضور ؐ نے اے عندلیبِ باغِ حجاز کلی کلی ہے تری گرمیِ نوا سے گداز ہمیشہ سر خوشِ جام وِلا ہے دل تیرا فتادگی ہے تری غیرتِ سجودِ نیاز اُڑا جو پستیِ دُنیا سے تو سوئے گردوں سکھائی تجھ کو ملائک نے رفعتِ پرواز نکل کے باغِ جہاں سے برنگِ بو آیا ہمارے واسطے کیا تحفہ لے کے تو آیا؟ حضورؐ! دہر میں آسودگی نہیں ملتی تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی ہزاروں لالہ و گُل ہیں ریاضِ ہستی میں وفا کی جس میں ہو بو، وہ کلی نہیں ملتی مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں جو چیز اس میں ہے، جنت میں بھی نہیں ملتی جھلکتی ہے تری اُمت کی آبرو اس میں طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں‘‘ نظم ’جوابِ شکوہـ ‘ جو بارگاہِ ایزدی سے ’شکوہ‘ میں بیان کیے گئے خیالات و سوالات کا جواب ہے، اقبال کے عشقِ رسولؐ کی ایک بھر پور جھلک پیش کرتی ہے۔ اس میں خداوندِ قدوس کی طرف سے مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تمھاری فوزوفلاح کا تمام تر انحصار اتباع و عشقِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے: قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے دہر میں اسمِ محمدؐ سے اُجالا کر دے اگلے دو بندوں میں نظامِ تکوین میں ’اسمِ محمد‘ کے فیضان اور برکات کا تذکرہ کیا ہے: ہو نہ یہ پھول، تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو چمنِ دہر میں کلیوں کا تبسّم بھی نہ ہو یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو، خم بھی نہ ہو چمنِ دہر میں کلیوں کا تبسّم بھی نہ ہو خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے دشت میں، دامنِ کہسار میں، میدان میں ہے بحر میں، موج کی آغوش میں، طوفان میں ہے چین کے شہر، مراکش کے بیابان میں ہے اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے رفعتِ شانِ رَفَعنا لَکَ ذِکرک دیکھے ’جوابِ شکوہ‘ کا اختتام جس شعر پر ہوتا ہے وہ بھی اسی سلسلۂ خیال کا ایک نقطۂ عروج ہے، یعنی: کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں اسرارِ خودی، (مطبوعہ ۱۹۱۵ئ) اور رُمُوزِ بے خودی (مطبوعہ ۱۹۱۸ئ) اقبال کی فکری اور فنی پختگی کے اولیں شاہکار ہیں۔ یہی دو عظیم الشان مثنویاں ہیں جن میں اقبال کے تمام اہم خیالات و افکار یک جا اور مربوط انداز میں بیان ہوئے ہیں،…اگرچہ اقبال نے ان دو مثنویوں کے بعد بہت کچھ لکھا لیکن اُن کے فلسفۂ خودی اور نظریۂ حیات کی اساسی تشکیل انھی مثنویوں میں ہوئی۔ اُن کے فلسفیانہ فکر…اور فلسفۂ اجتماعیت کے تمام اساسی نکات ان مثنویوں میں موجود ہیں، آگے چل کر اقبال نے جو کچھ کہا، وہ ایک اعتبار سے انھی نکات کی تشریح و تفسیر ہے…یہی وہ مثنویاں ہیں جن کی بدولت اقبال…’رومیِ عصر‘ کہلائے، انھی میں اقبال کا وہ انقلاب آفریں پیغام ہے جس نے بیسویں صدی میں ملتِ اسلامیہ کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ایک عظیم تغیر برپا کر دیا…ان مثنویوں کی تخلیق کے زمانے میں اقبال کے جذبۂ حُبِ رسولؐ میں مزید پختگی و گہرائی اور فکری و معنوی وسعت پیدا ہوئی…’اسرارِ خودی چونکہ خودی کے استحکام سے بحث کرتی تھی، اس لیے اس میں اس موضوع کا حوالہ صرف ایک جگہ موجود ہے یعنی خودی کی بقا و استحکام کے لیے ضبطِ نفس اور اطاعتِ شریعت کا حوالہ…لیکن رُمُوزِ بے خودیمیں اقبال نے اطاعتِ شریعت اور عشقِ رسولؐ کے نفسیاتی، فلسفیانہ، اخلاقی اور تمدنی مضمرات کو پہلی بار اس شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے۔ رُمُوزِ بے خودی میں ارکانِ اساسیِ ملتِ اسلامیہ، کے عنوان سے رُکنِ اوّل کے ذیل میں توحید اور رُکنِ دوم کے ذیل میں رسالت کے مفہوم و معنویت کی تشریح کی ہے، ’رسالت‘کے تحت وہ لکھتے ہیں: حق تعالیٰ پیکرِ ما آفرید وزرسالت در تنِ ما جان دمید حرفِ بے صوت اندرین عالم بُدیم ازرسالت مصرعِ موزون شدیم از رسالت درجہان تکوینِ ما از رسالت دینِ ما آئینِ ما از رسالت صد ہزارِ مایک است جزوِ ما از جزوِ ما لاینفک است آن کہ شانِ اوست یَھدِی مَن یُرید از رسالت حلقہ گردِ ما کشید حلقۂ ملت محیط افزاستے مرکزِ او وادیِ بطحاستے ما ز حکمِ نسبت اوملتیم اہلِ عالم را پیامِ رحمتیم ازمیانِ بحرِ او خیزیم ما مثلِ موج از ھم نمی ریزیم ما اُمتش در حرزِ دیوارِ حرم نعرہ زن مانندِ شیران درا جم اللہ تعالیٰ نے ہمارا پیکر تخلیق کیا، اور اس کے بعد رسالت کے ذریعے ہمارے جسم میں رُوح پھونکی۔ ہم اس دُنیا میں بے آواز الفاظ تھے۔ رسالت (کے فیض) سے ہم مصرعِ موزوں بن گئے۔ ہماری تشکیل و تکوین دُنیا میں رسالت ہی سے ہے، یہ رسالت ہی ہے جس سے ہمارا دین…ہمارا آئینِ زندگی بھی ہے۔ رسالت کے سبب ہم لاکھوں بھی ہوں تو ہم ایک ہیں، اور ہمارا ہر جزو دُوسرے جزو سے پیوست ہے۔ وہ خداوندِ قدوس کہ جس کی شان یَھدِی مَن یُرید ہے، یعنی جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ اس نے (خطِ) رسالت سے ہمارے ارد گرد دائرہ کھینچ دیا ہے، ملت کا دائرہ اپنے محیط کو وسیع کرتا ہے اور اس کا مرکز وادیِ بطحا ہے، ہم اسی (مرکز) کی نسبت سے ایک قوم (ملت) ہیں اور اسی نسبت سے ہم دُنیا والوں کے لیے پیغامِ رحمت ہیں، ہم اس کے سمندر کے درمیان سے اُبھرتے ہیں۔ اور موج کی طرح بکھرتے نہیں، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت (کے افراد) دیوارِ حرم کی پناہ گاہ میں جنگل کے شیروں کی طرح گرجتے ہیں۔ اس شعر کا مضمون، جس میں اقبال نے افرادِ ملتِ اسلامیہ کو جنگل کے شیروں سے تشبیہ دی ہے حضرت امام بوصیری ۱۲؎ کے قصیدۂ بردہ کے ایک شعر سے مستعار لیا گیا ہے۔ اس شعر کا حوالہ اقبال نے خود ہی حاشیے میں دے دیا ہے۔ جنگل کے معنوں میں لفظ اَجَم جو کہ ایک غریب لغت ہے، اسی شعر کے زیرِ اثر اختیار کیا گیا ہے، وہ شعر قصیدۂ بردہ، کی ’’الفصل الثامن فی ذکرِ جھاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ میں قصیدے کا ۱۳۹ واں شعر ہے: اَحَلَّ اُمَّتَہ فِی حِرْز مِلَّتِہ کَالَّلیثِ حَلَّ مَعَ الاَشبَالِ فِی اَجَم آپ ّصلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنی اُمت کو اپنی شریعتِ حقہ کے محفُوظ حصار میں اتارا (اور مخالفوں اور دُشمنوںسے اُن کی اس طرح حفاظت کی) جیسے وہ شیر (لیث) جو اپنے بچوں (اشبال جمع شبل بمعنی بچۂ شیر) کے ساتھ اپنے بیشے (اَجَم: گھنا جنگل) میں مقیم ہو۔ اس کے بعد اقبال کہتے ہیں: معنیِ حرفم کنی تحقیق اگر بنگری با دیدۂ صدیق اگر قوتِ قلب و جگر گردد نبیؐ از خدا محبوب تر گردد نبیؐ قلبِ مومن راکتابش قوت است حکمتش حبل لوریدِ ملت است دامنش از دست داون مردن است چو گل از بادِ خزان افسردن است زندگی قوم از دمِ اُویافت است ایں سحر از آفتابش تافت است فرد از حق، ملت ازوی زندہ است از شعاعِ مہرِ او تابندہ است دینِ فطرت از نبیؐ آموختیم در رہِ حق مِشعلے افروختیم ایں گہر از بحرِ بے پایانِ اُوست ماکہ یک جانیم، از احسانِ اُوست تانہ ایں وحدت زدستِ ما ردو ہستیِ ما با ابد ہمدم شود پس خدا بر ما شریعت ختم کرد بر رسولِؐ ما رسالت ختم کرد رونق از ما محفلِ ایام را او رُسل را ختم و ما اقوام را اے مخاطب، اگر تو میرے الفاظ کی تحقیقی کرے، اور اگر تو صدیقِ اکبرؓ کی نظر سے دیکھے تو (تو دیکھے گا) کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام (مومن کے لیے) قلب و جگر کی قوت بن جاتے ہیں، بلکہ وہ خدا سے بھی زیادہ محبوب ہو جاتے ہیں۔آپؐ کی لائی ہوئی) کتاب مومن کے دل کے لیے قوت (کا سر چشمہ) ہے اور آپ کی حکمت (سنّت) مِلت کی رگِ زندگانی ہے۔ آپؐ کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دینا(فی الحقیقت) مر جانے کے مترادف ہے، یہ پھول کے خزاں کی ہوا سے مرجھانے کے مترادف ہے۔ قومِ (مسلم) نے آپؐ ہی کے نفسِ جانفرا سے زندگی پائی ہے (ملتِ اسلامیہ کی یہ) صبحِ درخشاں آپؐ (کی رحمت) کے سورج سے طلُوع ہوئی ہے۔ فرد حق تعالیٰ سے اور ملت آپؐ سے زندہ ہے، اور آپؐ ہی کے آفتابِ رحمت سے تابندہ ہے…ہم نے دینِ فطرت کی تعلیم آپؐ ہی سے حاصل کی ہے جس کے نتیجے میں ہم نے راہِ حق میں مشعل جلائی ہے۔ یہ موتی اُنھیں کی رحمت ور أفت کے بحرِ بے پایاں سے ہے، اور ہم (افرادِ اُمتِ مسلمہ) اگر ایک ہیں تو یہ بھی آپؐ ہی کا احسان ہے۔ اگر ہم اس وحدت کو ہاتھ سے نہ جانے دیں، تو ہماری ہستی لازوال (ابد کی ہمسفر) ہو جائے گی۔ چنانچہ خداوند تعالیٰ نے ہم پر شریعت اور ہمارے رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم پر رسالت و نبوت ختم کردی، زمانے کی محفل کی رونق اب صرف ہمیں سے ہے۔ اس لیے کہ نبی اکرمؐ انبیا و رُسل کے خاتم ہیں اور ہم اقوام کیے! ان شعروں میں آخری دو شعروں کا مضمُون بھی حضرت امام بوصیری کے ایک شعر سے لیا گیا ہے۔ جسے اقبال نے خود ہی حاشیے میں نقل کر دیا،…یہ شعر’’الفصل السابع فی ذِکرِ مِعراجِ النَبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘کا آخری اور قصیدے کا ایک سو انیسواں شعر ہے: لَمَّا دَعَی اللہ دَاعِینَا لِطاعتِہٖ بِاَکرَمِ الرُّسُلِ کنّا اَکرَمَ الاُمَم چونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے داعی (حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم) کو اکرم الرُسُل (نبیوں میں سب سے مکرم) کَہ کر اپنی طاعت کے لیے بلایا ہے اس لیے (اس نسبت سے) ہم (افرادِ اُمتِ مسلمہ) بھی تمام اُمتوں میں سب سے مکرم قرار پاتے ہیں۔ رُمُوزِ بے خودیکے ایک باب میں جس کا عنوان ہے: ’’در معنیِ این کہ چون ملتِ محمدیہ مؤسَّس بر توحید و رسالت است، پس نہایتِ مکانی ندارد‘‘۔ (اس مفہوم کی تشریح میں کہ چونکہ ملتِ محمدیہ توحید و رسالت کے تصورات پر استوار ہے، اس لیے اس کے لیے کوئی مکانی یعنی جغرافیائی حد نہیں ہے) کعبؓ بن زہیر کے مشہور قصیدۂِ نعت کے حوالے سے اقبال کہتے ہیں: پیشِ پیغمبرؐ چو کعبؓ پاک زاد ہدیۂ آورد از بَاَنتَ سُعاد در ثنایش گوہرِ شب تاب سُفت سیفِ مسلول از سیوف الہند گفت آن مقامش بر تر از چرخِ بلند نامدش نسبت بہ اقلیمی پسند گفت سیفؓ من سیوف اللہ گو حق پرستی، جز براہِ حق مپو ہمچناں آن رازدارِ جزو و کل گردِ پایش سرمۂِ چشمِ رُسل گفت با اُمت، ’’ز دُنیائے شما دوست دارم طاعت و طیب و نسا‘‘ گر ترا ذوقِ معانی رہ نما است نکتۂ پوشیدہ در حرفِ ’’شما‘‘ست یعنی آں شمعِ شبستانِ وجود بود در دُنیا و از دُنیا نبود جلوۂ او قدسیاں راسینہ سوز بود اندر آب و گل آدم ہنوز پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں جب پاک زاد کعبؓ (بن زہیر) اپنے قصیدے بَاَنتَ سُعاد کا تحفہ لائے، تو گویا اُنھوں نے مدحِ رسولؐ میں شب تاب موتی پروئے، اُنھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سیوف الہند (ہندوستان کی تلواروں) میں سے سیفِ مسلول کہا۔ تو رسولِ اکرمؐ کہ جن کا مقام آسمانِ بلند سے بھی بلند تر ہے، اُنھیں ایک خطۂِ زمین سے اپنی نسبت پسند نہ آئی، چنانچہ آپؐ نے فرمایا کہ مُجھے اللہ کی تلواروں میں سے تلوار کہو، اور چونکہ تم حق پرست ہو، اس لیے سوائے حق پرستی کی راہ کے اور کوئی راہ اختیار نہ کرو۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ہر جزو و کل کے رازداں ہیں، اور آپؐ کے قدموں کی خاک انبیا کی آنکھوں کا سرمہ ہے، اُمت سے فرمایا کہ میں تمھاری دُنیا میں سے خوشبو اور عورت کو پسند کرتا ہوں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے، تو اے مخاطب، اگر ذوقِ معانی تیرا رہنما ہو تو حرفِ شما(تم یا تمھاری دُنیا) میں ایک نکتہ پوشیدہ ہے یعنی وہ شمعِ شبستانِ وجود، صلی اللہ علیہ وسلم، دُنیا میں تو تھے، لیکن دُنیا کے نہیں تھے۔ ابھی آدم، آب و گِل ہی میں تھے کہ آپ ؐ کا جلوہ قُدسیوں کے لیے سینہ سوز (آتشِ عشق کا باعث) بن چکا تھا۔ آخری شعر کی وضاحت کے لیے اقبال نے حاشیے میں اس حدیث کے الفاظ نقل کیے ہیں: کنتُ نبیّاً وَ آدَمَ بَینَ المَا ئِ والطِین۔ (آدم ابھی مٹی اور پانی کے درمیان تھے کہ میں نبی تھا) کعبؓ بن زہیر کے قصیدے کے حوالے کی تشریح اقبال نے حاشیے میں ان الفاظ میں کی ہے: حضرت کعبؓ نبی کریمؐ کو بہت ایذا دیا کرتے تھے۔ فتح مکہ کے بعد مکہ سے بھاگ کر طائف چلے گئے وہاں سے قصیدہ بَا نَت سُعاد لکھ کر حضورِ اکرمؐ کی خِدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے گذشتہ گناہوں کی معافی مانگی۔ حضور نے ان کو معاف کر دیا اور قصیدے کے صلے میں اپنی چادر عطا فرمائی، اس قصیدے میں کعبؓ نے حضورؐ کو ’’سیف مِن سیوف الہند‘‘ (ہندوستان کی تلواروں میں سے ایک تلوار) کے الفاظ سے مخاطب کیا۔ مگر حضورؐ نے کعبؓ کے مصرع میں اصلاح دے کر فرمایا ’’سیف مِن سیوفِ اللہ‘‘ کہنا چاہیے( یعنی اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار )‘‘ ۱۳؎ ــرُمُوزِ بے خودیکے ایک باب کا عنوان ہے ’’در معنیِ این کہ حسنِ سیرت ملیہ از تادُب بآداب محمدیہؐ است‘‘۔ (اس مفہوم کے بیان میں کہ…ملت اسلامیہ کا حسنِ سیرت نبیِ اکرمٔ کے آداب و اخلاق سے خود کو آراستہ کرنے میں ہے)… اس باب میں اقبال اپنی ذاتی زندگی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے جو اُن کے عنفوانِ شباب کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے، کہتے ہیں کہ ایک روز ایک سائل ہمارے گھر کے دروازے پر قضائے مبرم کی طرح آکھڑا ہوا اور پیہم صدائیں دینے لگا، میں نے غُصے میں آکر اس کے سر پر لکڑی دے ماری، جس سے اس کی دن بھر کی کمائی گر گئی۔ میرے والد اس پر بے حد آزُردہ ہوئے، اور اُن کے چہرے کا گلشن مرجھا گیا، اُن کے سینے میں دل تڑپنے لگا اور دم بدم آہِ سرد بھرنے لگے، اور اُن کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ میں شدتِ انفعال سے لرزنے لگا۔ اور بے چین ہو گیا، میرے والد نے کہا: کل روزِ قیامت جب خیر الرُسل کی اُمت اُن کے گرد جمع ہو گی۔ نمازی اور علمائے اُمت، شہدائے اُمت جو دین کی حُجت اور آسمان ملت کے درخشندہ ستارے ہیں، زاہدانِ پاک باز، عاشقانِ دل فگار اور عاصیان شرمسار(سب جمع ہوں گے) اس وقت جب اس غم نصیب فقیر کی فریاد بلند ہو گی تو میں نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کیا جواب دوں گا، جب وہ استفسار فرمائیں گے: ’’حق جوانے مسلمے با تو سپرد کو نصیبے از دبستانم نبرد از تو این یک کار آسان ہم نشد یعنی آن انبارِ گِل آدم نشد‘‘ حق تعالیٰ نے ایک نوجوان مسلمان کو تیرے سپرد کیا تھا، جو میرے دبستان سے مستفید نہ ہو سکا۔ تجھ سے اتنا سا کام بھی نہ ہو سکا، یعنی اس مٹی کے تودے کو انسان بھی نہ بنا سکا! اند کے اندیش و یاد آر اے پسر اجتماعِ اُمتِ خیر البشرؐ باز این ریشِ سفیدِ من نگر لرزۂ بیم و امیدِ من نگر بر پدر این جورِ نازیبا مکن پیشِ مولا بندہ را رسوا مکن غنچۂ از شاخسارِ مُصطفیٰؐ گل شو از بادِ بہارِ مصطفیٰؐ از بہارش رنگ و بو باید گرفت بہرۂ از خُلقِ او باید گرفت مرشدِ رُومی چہ خوش فرمُودہ است آنکہ یم در قطرہ اش آسودہ است ’’مگسل از ختم الرسلؐ ایامِ خویش تکیہ کم کن بر فن و بر گامِ خویش‘‘ فطرتِ مسلم سراپا شفقت است‘ در جہان دست و زبانش رحمت است آنکہ مہتاب از سر انگشتش دونیم رحمتِ اُو عام و اخلاقش عظیم از مقامِ او اگر دور ایستی از میانِ معشرِ ما نیستی میرے بچے، کچھ سوچ اور روزِ جزا اُمتِ خیر البشرؐ کے اجتماع کو یاد رکھ، پھر میری سفید داڑھی کو بھی دیکھ، اور میری اس امید وبیم کو بھی نظر میں رکھ، باپ پر ایسا ستمِ ناروا نہ کر، ایک غلام کو اپنے آقاؐ کے سامنے رُسوا نہ کر، تو شاخسارِ مُصطفیٰ ؐ کا ایک غنچہ ہے، تو اس باغ کی بہار کی ہوا سے پھول بن جا۔ باغِ رسالت کی بہار سے رنگ و بو حاصل کرنا چاہیے اور آپؐ کے خلقِ عظیم سے بہرہ مند ہونا چاہیے۔ مر شدِ رُومی نے کیا اچھا کہا ہے، مرشدِ رُومی کہ اس کے قطرے میں سمندر سما گیا ہے، اُنھوں نے کہا ہے کہ اپنے زمانے کو ختم الرسلؐ سے منقطع نہ کر، اور اپنے علم و ہُنر اور اپنی رفتار و گام پر بھروسہ نہ کر، مسلمان کی فطرت سراپا شفقت ہے، دُنیا میں مسلمان کی زبان اور اس کے ہاتھ مخلوقاتِ عالم کے لیے باعثِ رحمت ہیں (باعثِ زحمت نہیں)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرِ انگشت سے چاند دو ٹکڑے ہو گیا،…اُن کی رحمت عام اور ان کے اخلاق عظیم ہیں۔ اگر تو اُن کے مقام سے دور جا کھڑا ہوگا تو تو ہم میں سے نہیں ہوگا۔ رُمُوزِ بے خودی کا اختتام، عرضِ حالِ مصنف بحضورِ رحمۃ للعالمینؐ پر ہوتا ہے، یہی وہ منظومۂ بے مثال ہے جس میں اقبال کا فکر اور فن دونوں تکمیل کی بلندی پر دکھائی دیتے ہیں، ان اشعار میں اقبال نے اپنے جذباتِ عقیدت، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکارمِ اخلاق اور عالمِ کون و مکان میں آپ کے ظہور و بعثت کی معنویت کو کمالِ فن کے ساتھ پیش کیا ہے آپؐ کی ذاتِ گرامی وہ حقیقتِ منتظرہ تھی جس کی آمد کی نوید تمام آسمانی کتابیں دیتی چلی آرہی تھیں بحرِ امکان کی موج موج اس گوہرِ نایاب سراغ کی جستجو میں بے تاب تھی جو ابھی محیطِ کائنات کی پہنائیوں میں مضمر تھا، آپؐ کی ذاتِ مبارک آیۂ کائنات کا مفہومِ کلی تھی جو دیر یاب تھا : آیۂ کائنات کا معنیِ دیر یاب تو نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بو اے ظہورِ تو شبابِ زندگی جلوہ ات تعبیرِ خوابِ زندگی اے زمین از بارگاہت ارجمند آسمان از بوسۂ بامت بلند شش جہت روشن زتابِ روئے تو ترک و تاجیک و عرب ہندوئے تو از تو بالا پایۂ این کائنات فقرِ تو سرمایۂ این کائنات درجہان شمعِ حیات افروختی بندگان را خواجگی آموختی بے تو از نابودمندی ہا خجل پیکرانِ این سرائے آب و گل تا دمِ تو آتشے از گِل کشود تو دہ ہائے خاک را آدم نمود ذرہ دامن گیرِ مہر و ماہ شد، یعنی از نیروئے خویش آگاہ شد تا مرا اُفتاد بر رویت نظر، از اب و ام گشتۂ محبوب تر اے بصیری را رِدا بخشندۂ بربطِ سلما مرا بخشندۂ ذوقِ حق دہ ایں خطا اندیش را اینکہ نشناسد متاعِ خویش را گر دلم آئینۂ بے جوہر است ور بحرفم غیرِ قرآن مضمر است اے فروغت صبحِ اعصار و دہور چشمِ تو بینندۂ مَا فی الصدور پردۂ ناموسِ فکرم چاک کن این خیابان را ز خارم پاک کن اے وہ ہستی کہ آپؐ کا ظہور زندگی کا شباب ہے، آپؐ کا جلوہ زندگی کے خواب کی تعبیر ہے، اے وہ ہستی کہ زمین آپؐ کی بارگاہ کی بدولت ارجمند ہے، اور آسمان بھی آپ کے بامِ بلند کو بوسہ دینے سے ہی بلند ہوا ہے، شش جہت آپ کے رُوئے منور سے روشن ہوتے ہیں، (آپؐ آقا ہیں اور) ترک و تاجیک و عرب آپ کے غلام ہیں۔ کائنات کا مرتبہ آپؐ ہی سے بلند ہوا ہے، آپؐ کا فقر اس کائنات کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ آپؐ ہی نے دُنیا میں زندگی کا چراغ روشن کیا، آپ ہی نے غلاموں کو سرداری سکھائی ہے۔ آپؐ کے بغیر اس دُنیا ئے آب و گِل کے تمام پیکر اپنی بے بضاعتی پر نادم اور شرمندہ تھے۔ آپؐ نے اپنے نَفَسِ پاک سے مٹی میں آگ روشن کی ہے، اور تودۂ خاک کو آدم بنا دیا ہے، آپ ہی کے الطاف و عنایات سے ذرّوں نے مہرو ماہ کا دامن جا پکڑا ہے، یعنی ذرّہ اپنی حقیقت و قوت سے آگاہ ہو گیا ہے۔ جب سے آپؐ کے رُوئے منوّر پر میری نظر پڑی ہے، آپؐ مجھے ماں، باپ سے زیادہ محبوب ہو گئے ہیں…اے بو صیری کو چادر عطا کرنے والے۔ آپ ہی نے مُجھے بربطِ سلمیٰ (مراد ہے جوہرِ شاعری) عطا کیا ہے۔ آپ مُجھ غلط اندیش کو ذوقِ حق عطا فرمائیے اس لیے کہ میں اپنی متاع کو نہیں پہچانتا اگر میرا دل ایک آئینۂ بے جوہر ہے(یعنی روشن نہیں) اور اگر میرے حرف(میری شاعری) میں سوائے مطالبِ قرآن کے اور کوئی چیز مضمر ہے تو اے وہ ہستی کہ آپ کا جمال زمانوں کی صبح ہے اور آپ کی چشمِ مبارک سینے کے بھیدوں کو بھی دیکھ لیتی ہے، …میرے فکر کے ناموس کا پردہ چاک کر دیجیے، اور مُجھ ایسے کانٹے سے اس باغ (اُمتِ مسلمہ) کو پاک کر دیجیے‘‘۔ ۲ تہذیبِ اسلامی کی تاریخ میں فکر و عمل کی سطح پر دو تحریکیں بے حد اہمیت کی حامل ہیں، ایک تصوّف کی ہمہ گیر تحریک جو قرونِ اولیٰ سے ہی مسلمانوں کی مذہبی زندگی کے انفرادی پہلو پر محیط ہو گئی تھی، اور دُوسرے وہ عقلی تحریک جو مسلمانوں میں یُونانی علوم کی اشاعت سے پیدا ہوئی، اور بالآخر مسلمانوں کے مخصوص دینی فلسفے، یعنی علم الکلام پر منتج ہوئی، یہ دونوں تحریکیں مسلمانوں کے دینی علُوم، تفسیر و حدیث، فقہ اور تاریخ و سیر پر مستزاد تھیں، اور فی الحقیقت(بعض عقلی تحریکوں کو چھوڑتے ہوئے) اسلامی طریقِ زندگانی اور اسلامی طرز فکر ہی میں پیوست تھیں۔ اس میں بھی شک نہیں کہ تصوف اور علم الکلام کو صرف دو تحریکیں قرار دینا بھی کچھ ایسا صحیح نہیں اس لیے کہ بہت جلد یہ دونوں تحریکیں بے شمار دُوسری تحریکوں اور دبستانوں میں منشعب ہوئیں، تاہم اس سے ہماری مراد دو اساسی طریقوں کی نشاندہی ہے۔ خود تصوّف نے بہت جلد فلسفے کے بے شمار تصورات و دقائق کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا،…بہر صورت تصوّف اور علم الکلام کی تحریکوں کے آغاز سے جہاں اور معتقدات کی عقلی توجیہات پیش کی گئیں وہاں مقامِ نبوّت، منصبِ رسالت اور حقیقتِ رسالت و نبوتِ محمدیہؐ کو بھی بعض عقلی ذرائع سے سمجھنے کی کوشش کی گئی، اگرچہ ان عقلی ذرائع کی تہ میں صوفیا کے رُوحانی واردات بھی یقیناً کار فرما تھے، اسی لیے کہا جا سکتا ہے کہ اس سلسلے میں فلاسفۂ متصوفین سب سے پیش پیش رہے،… چُنانچہ جُوں جُوں فلاسفۂ متصوفین اسلام کے اعتقادات کی عقلی اور نفسیاتی تو جیہوں کو ایک ما بعد الطبیعیاتی نظام میں ڈھالتے چلے گئے، ’’حقیقتِ محمدیہؐ‘‘ کا تصور اس نظام کا جزوِ اعظم بنتا چلا گیا۔ ’’حقیقتِ محمدیہؐ‘‘ کے تصور کی عقلی، نفسیاتی اور اعتقادی توجیہہ و تشریح سب سے پہلے اندلس کے صوفی مفکر اور فلسفۂ وحدت الوجود کے بانی شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن العربی نے کی، فی الحقیقت ’’حقیقتِ محمدیہؐ‘‘ کے تصور کے بانی ابن العربی ہی ہیں جن سے صدر الدین قونیوی یا قونوی کے ذریعے عبدالکریم الجیلی نے اثر قبول کرتے ہوئے ’اِنسانِ کامل‘ کا نظریہ پیش کیا۔ ایران کے مذہبی فلاسفۂ متاخرین میں میر باقر داماد، اور اُن کے شاگرد رشید مُلا صدر الدین شیرازی عرف مُلا صدر انے اس تصور کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ماہیّتِ وجود کی تشریح کے سلسلے میں (بالخصوص وحدت الوجود کے بعض اصطلاحی مباحث کے نقطۂ نظر سے) اقبال کو ابن العربی سے کتنے ہی فروعی یا بنیادی اختلافات کیوں نہ ہوں، …’’حقیقتِ محمدیہؐ‘‘ کے معاملے میں اُن سے (ابن العربی سے) کلیتہً متفق نظر آتے ہیں۔ اگرچہ اقبال نے نبوت و رسالتِ محمدؐیہ کی تشریح میں کہیں بھی حقیقتِ محمدیہؐ کی اصطلاح استعمال نہیں کی، لیکن جو کچھ اُنھوں نے اس سلسلے میں کہا ہے اسے ’حقیقتِ محمدیہؐ‘ کے تصور کے بہت قریب یا اس کی تشریح کہا جا سکتا ہے،… عر فا کے نزدیک حقیقتِ محمدیہؐ کی تشریحات کیا ہیں؟ اس سوال کا جواب بے حد تفصیل طلب ہے اور اس مختصر مضمون کے دامنِ مطالب سے بہت حد تک افزوں بھی، اس لیے اس تصور کو اشارۃً مرزا عبدالقادربیدل کے ان اشعار کے ذریعے بیان کیا جاتا ہے جو اُن کی مثنوی ’’طلسمِ حیرت‘‘ میں شامل ہیں: محمدؐ…صافیِ آئینۂ قُدس! ہمان سرمایۂِ گنجینۂ قُدس نوای عشرتِ نُہ پردۂِ ساز نشاطِ محفلِ انجام و آغاز چہ واجب، نشۂ سرجوشِ نورش چہ ممکن، دُردِ مینای ظہورش خمِ امکان کہ ہستی نام دارد، زجوش اومئے در جام دارد ظہورش غازۂِ تقییدِ آفاق بطونش بی نیازی ہائے اطلاق جہان، مرآتِ انوارِ جمالش دلِ ہر ذرّہ، فانوسِ خیالش یقین تا بُرد در آئینہاش راہ، نشد بے پردہ نقشے جز ہو اللہ زبانم قابلِ حمدِ خدا شُد کہ با نامِ محمدؐ آشناشد زہے نامی کہ جان دیوانۂ اوست بم و زیرِ جہان پروانۂ اوست دران خلوت کہ دور ازکیف و کم بود نگاہ و جلوہ در خوابِ عدم بود چوشد حسنِ حققت جلوہ اندیش محمد دید در آئینۂ خویش زآغوشِ احد یک میم جوشید کہ بیرنگی لباسِ رنگ پوشید زاحمد بر احد چیزی نیفزود اگر میمی فزود، آں ہم یکی بود صدا و ساز یک تار است اینجا گہریک موجِ ہموار است اینجا!۱۴؎ کائنات کی تشکیل و تکمیل… یعنی ارتقائی حرکت میں ایک حقیقتِ منتظرہ کے تلاش و انتظار کے خیال کو مرزا بیدل اشعار میں اس طرح بیان کرتے ہیں: بحر بے تاب کہ آن گوہرِ نایاب کجاست چرخ سرگشتہ کہ خورشیدِ جہان تاب کجاست دَیر زین غصہ در آتش کہ چورنگ است صنم کعبہ زین درد سیہ پوش کہ محراب کجا ست اقبال نے ’حقیقتِ محمدؐیہ ‘ کے تصور اور اس سے متعلقہ دُوسرے تصورات کی طرف ان اشعار میں اشارہ کیا ہے: لوح بھی تو، قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب گنبدِ آبگینہ رنگ، تیرے محیط میں حباب عالمِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ ذرّۂ ریگ کو دیا تو نے طلُوعِ آفتاب شوکتِ سنجر و سلیم، تیرے جلال کی نمود فقرِ جنید و بایزید تیرا جمالِ بے نقاب شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب تیری نگاہِ ناز سے، دونوں مراد پا گئے عقل غیاب و جستجُو عشق، حضور و اضطراب ’’عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ‘‘۔ کَہ کر اقبال نے نبوت اور بالخصوص ’نبوتِ محمدؐ‘ کی طرف ایک خاص اشارہ کیا ہے اس قسم کے اشارے اُن کی نعتیہ شاعری میں اور اُن کے کلام میں اکثر ملتے ہیں، ’اے مقام و منزلِ ہر راہرو‘۔ گردِ تو گردد حریمِ کائنات، ’اے وجودِ تو جہانِ نو بہار‘ ان اشارات کی تشریح گو کسی قدر تفصیل کی متقاضی ہے‘ تا ہم اجمالاً اتنا کہا جا سکتا ہے کہ زندگی اور کائنات کی حقیقت کو سمجھنے کے دو ہی راستے ہیں، ایک تو اُصولِ مادہ جسے قانونِ علت و معلول بھی کہا جا سکتا ہے اور دوسرا نفسِ انسانی!۔ اقبال کے تصوراتی نظام میں نفس انسانی کو۔ جس کا اصطلاحی نام اُنھوں نے ’خودی‘ رکھا ہے۔ مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اقبال ذہنِ انسانی یا نفسِ انسانی کو مادے پر مقدم سمجھتے ہیں اور حقیقت کی توجیہ (مادے کے مقابلے میں) ذہن ہی سے کرتے ہیں۔ عقل ان کے نزدیک محدُود ہے، اس لیے مطلق حقیقت کا علم اس کے بس کی بات نہیں، وجدان البتہ ایک ایسی صلاحیت ہے جس کے ذریعے مطلق حقیقت کا علم حاصل کیا جا سکتا ہے۔ وجدان کے سلسلے میں ان کے خیالات وہی ہیں جو مولانا رُوم اور برگساں کے ہیں لیکن وجدان بھی چونکہ محدود انا سے تعلق رکھتا ہے اس لیے اس کی بھی حدُود ہیں۔ البتہ جب وجدان ’’عشق‘‘ کے درجے تک پہنچ جاتا ہے، تو اس میں انکشافِ حقیقت کی وسعتیں پیدا ہو جاتیں ہیں۔ عشق اور وحی کو اسی لیے اُنھوں نے بطورِ مترادف بھی استعمال کیا ہے: عشق دمِ جبرئیل، عشق دلِ مُصطفیٰؐ عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام اگر فلاسفۂ متصوفین…اور بالخصوص شیخ اکبر ابن العربی کی اصطلاحات استعمال کریں۱۵؎ تو کہا جا سکتا ہے کہ زمانِ دہری۱۶؎ اور زمانِ عصری۱۷؎ …زمانِ سرمدی۱۸؎ کی اظہاری صورتیں ہیں، زمانِ سرمدی ایک مفہوم کلی ہے، اس کا اظہار واقعات و حوادثِ کائنات کی صورت میں ہو رہا ہے،…یہ اس کی تکوینی صورت ہے، تکمیلی صورت وہ ہے جس میں یہ موضوعی یا داخلی۱۹؎ صورت اختیار کرتا ہے، یہی داخلی یا موضوعی صورت نفسِ انسانی ہے۔ زمانہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے حیات و کائنات کے اغراض و مقاصد کا حامل ہے۔ زمانے کے ان تصورات کی روشنی میں اقبال کا ایک بیان ملاحظہ ہو۔ ’’تشکیلِ جدید‘‘ کے پانچویں خطبے میں اقبال لکھتے ہیں کہ’’…اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یُوں نظر آئے گا جیسے پیغمبرِ اسلامؐ کی ذاتِ گرامی کی حیثیت دُنیائے قدیم اور جدید کے درمیان ایک واسطے کی ہے۔ بہ اعتبار اپنے سر چشمۂ وحی کے آپؐ کا تعلق دُنیائے قدیم سے ہے، لیکن با عتبار اس کی رُوح کے دُنیائے جدید سے۔ یہ آپؐ ہی کا وجود ہے کہ زندگی پر علم و حکمت کے وہ تازہ سر چشمے منکشف ہوئے جو اس کے آئندہ رُخ کے عین مطابق تھے…اسلام میں چونکہ نبوت اپنے معراجِ کمال کو پہنچ گئی تھی، اس لیے اس کا خاتمہ ضروری ہو گیا‘‘۔ سلسلۂ وحی و ہدایت اور سیرت و اخلاق میں رسولِ اکرمؐ کی یگانہ اور بے مثال حیثیت کے علاوہ اقبال کو ’ختمِ نبوت‘ کے مسئلے سے ما بعدالطبیعیاتی نقطۂ نظر سے بھی دلچسپی تھی اور عمرانی نقطۂ نظر سے بھی! ’خاتم النبیین‘ یا تصورِ خاتمیت کا مسئلہ غالب کے زمانے کی الٰہیات کا بھی اہم ترین مسئلہ تھا، اس لیے اُنھوں نے ایک فارسی مثنوی میں اپنے نقطۂ نظر سے اس مسئلے کی تشریح کی، اس مثنوی کا ایک اہم شعر ہے: ہر کجا ہنگامۂ عالم بود رحمۃ للعالمینے ہم بود یعنی جہاں کہیں بھی ہنگامۂ ہست و بود اور نظامِ وجود ہوگا، اس کی تکمیل کے لیے رحمۃ للعالمینؐ کا وجودِ مسعود بھی ہوگا۔ اقبال کو خاتمیت کے مسئلے سے مدت العمر دلچسپی رہی تھی، وہ ختمِ نبوت کے فلسفیانہ اور عمرانی بنیادوں پر قائل تھے۔ اس لیے اپنی عظیم مثنوی جاوید نامہ میں جسے اُنھوں نے پایانِ عمر میں تصنیف کیا، اور جو اُن کے فکر و فن کے کم و بیش تمام ارتقائی مراحل کا ما حصل بھی ہے، وہ زندہ رود کی صورت میں مسئلۂِ خاتمیت پر غالب کے ساتھ طالب علمانہ انداز میں مباحثہ کرتے نظر آتے ہیں، اور غالب سے مذکورہ با لا شعر کی وضاحت طلب کرتے ہیں، غالب کا کہنا ہے: خلق و تقدیر و ہدایت ابتداست رحمۃ للعالمینی انتہاست یعنی ہر سلسلۂ تخلیق کی ابتدا تقدیر و ہدایت سے ہوتی ہے، تقدیر سے مراد قوانین فطرت اور ہدایت سے مراد سلسلۂ وحی و نبوّت، قوانین فطرت کائناتِ خارجی کی علامت ہیں اور ہدایت۔ حیات داخلی کی۔ غرض معروض و موضوع، مادہ اور ذہن…انفس و آفاق…کی تکمیلِ معنوی کا آخری نقطہ رحمۃ للعالمینی ہے، یہ شعر سن کر اقبال، غالب سے مزید تشریح کا مطالبہ کرتے ہیں، غالب اعتراف کرتے ہیں کہ اس نکتے کی مزید تشریح مُشکل ہے، اس کا اظہار خطا سے خالی نہیں(ایں سُخن رافاش تر گفتن خطاستـ، نکتہ رابر لب رسیدن مُشکل است) بلکہ کُفریات کی حدُود میں داخل ہو جاتا ہے(آنچہ توازمن بخواہی کا فری است)، اس پر حلاج واشگاف انداز میں کہتا ہے: ہر کجا بینی جہانِ رنگِ و بو آن کہ از خاکش بروید آرزو یاز نُورِ مُصطفیٰ او را بہاست یاہنوز اندر تلاشِ مُصطفیٰ است جہاں کہیں بھی تم رنگ و بو (عالمِ امکاں) کا ہنگامہ دیکھو گے،…یعنی وہ دُنیا کہ جس کی خاک سے آرزو اُگتی ہے، تو تم دیکھو گے کہ یا تو وہ عالم نبوتِ مصطفیٰ کے نُور سے فیض یاب ہو چکا ہوگا۔ یا ابھی اس فیضان کی تلاش میں ہوگا‘‘۔ لیکن اقبال کی تسلی اس جواب سے بھی نہیں ہوتی،…اور وہ غالب کو چھوڑ کر حلاج سے پوچھتے ہیں: از تو پرسم، گرچہ پرسیدن خطاست سرِّ آن جوہر کہ نامش مُصطفیٰؐ است آدمی یا جوھری اندر وجود، آن کہ آید گاہے گاہے در وجود، (اے حلاج)‘‘ میں تجھ سے پوچھتا ہوں، اگرچہ پوچھنا غلطی ہے(تاہم میں پوچھتا ہوں) کہ وہ جوہر جس کا نام مصطفیٰؐ ہے، کیا وہ آدمی(کوئی معین شخص) ہے یا وجود میں چھپا ہوا جوہر ہے جو کبھی کبھی وجود کے پردے میں ظاہر ہوتا ہے؟‘‘ (عبدالکریم الجیلی کے نزدیک حقیقتِ محمدؐیہ، ایک جوہر ہے جو کبھی کبھی معین اشخاص کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اقبال اسی تصور کے حوالے سے یہ سوال پوچھ رہے ہیں) اس سوال کے جواب میں ’حلاج ایک بلیغ اور پر زور جواب دیتا ہے‘ (جو فی الحقیقت اقبال ہی کے خیالات ہیں، یعنی تاریخی اعتبار سے ان خیالات کا حسین بن منصور حلاج کے خیالات سے کوئی تعلق نہیں، یا کم از کم حسین بن منصور حلاج نے ان خیالات کا کہیں اظہار نہیں کیا) حلاج کہتا ہے: پیشِ او گیتی جبین فرسودہ است خویش را خودعبدہ‘ فرمودہ است عبدہ‘ از فہمِ تو بالا تر است زانکہ او ہم آدم و ہم جوہراست جوہرِ او نے عرب نے اعجم است آدم است وہم زآدم اقدم است عبدہ‘ صورت گرِ تقدیر ہا اندرو ویرانہہا…تعمیر ہا عبدہ‘ ہم جانفزا، ہم جانستان عبدہ‘ ہم شیشہ ہم سنگِ گران عبد دیگر، عبدہ‘ چیزے دگر ما سراپا انتظار او منتظر عبدہ‘ دہراست و دہر از عبدہ‘ ست ماہمہ رنگیم، اوبے رنگ و بوست، عبدہ‘ با ابتدا، بے انتہاست عبدہ‘ راصبح و شامِ ما کجاست کس زسرِّ عبدہ‘ آگاہ نیست عبدہ جز سرِّ اِلا اللہ نیست لا الٰہ تیغ و دمِ او عبدہ‘ فاش تر خواہی، بگو ھو عبدہ‘ عبدہ‘ چند و چگونِ کائنات، عبدہ‘ رازِ درونِ کائنات مدعا پیدا نگردد زین دو بیت تا نہ بینی از مقامِ مارَمَیت! اُس کے سامنے زمین نے اپنا ماتھا رگڑا ہے، اس نے اپنے آپ کو عبدہ‘ فرمایا ہے۔ عبدہ‘ تیرے فہم سے بالا تر ہے اس لیے کہ وہ آدم بھی ہے اور جوہر بھی۔ اس کا جوہر نہ عربی ہے نہ عجمی،…وہ آدمی بھی ہے، اور آدم سے پیش تر بھی، عبدہ‘ تقدیر کی صورت بناتا ہے، اس کے دائرۂِ فیضان میں ویرانے بھی تعمیر میں بدل جاتے ہیں۔ عبدہ‘ جانفزا بھی ہے، اور جاں ستاں(جان لینے والا) بھی، وہ شیشہ بھی ہے، اور سنگِ گراں بھی۔’عبد‘ اور چیز ہے اور عبدہ‘، اور چیز، …ہم اس کے لیے سراپا انتظار ہیں،…اور وہ منتظر ہے(یعنی جس کا انتظار کیا جا رہا ہے) عبدہ‘ دہر ہے، … اور دہر عبدہ سے ہے۔ ہم سراپا رنگ ہیں، اور وہ بے رنگ و بو ہے۔ عبدہ‘ کی ابتدا تو ہے، لیکن اس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ عبدہ کے صبح و شام ہمارے صبح و شام سے بہت مختلف ہیں۔ عبدہ‘ کے راز سے کوئی بھی آگاہ نہیں ہے۔ عبدہ الا اللہ کے بھید کے سوا اور کُچھ نہیں ہے۔ لاَ اِلٰہ اگر تلوار ہے تو عبدہ‘ اس کی دھار ہے۔ اور اگر اس سے بھی زیادہ کھلی ہوئی بات چاہتا ہے تو کَہ : وہی عبدہ‘ ہے، عبدہ‘ کائنات کا کیف و کم ہے۔ عبدہ ‘کائنات کا راز ِدرون ہے۔ اس کے باوجود ان چند شعروں سے مفہوم واقعی ظاہر نہیں ہو سکتا جب تک کہ ما رمیت اذ رمیت ولکن اللّٰہ رما (اے نبیؐ، آپ نے نہیں ماریں وہ کنکریاں جب کہ ماریں تھیں، بلکہ اللہ نے ماری تھیں)، کا مقام تری نظر میں نہ ہو۔ اس جواب کو سن کر اقبال نے ذوقِ دیدار کے تقاضوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ حلاج کہتا ہے: معنیِ دیدارِ آن آخر زمان حکم اوبر خویشتن کردن روان درجہان زی چون رسولؐ انس و جان تاچون اوباشی قبولِ انس و جان باز خود را بین، ہمیں دیدارِ اوست سنتِ او سرِّ از اسرارِ اوست اُس نبیِ آخر الزماںؐ کے دیدار سے مراد یہ ہے کہ تو اس کے حکم کو اپنی ذات پر نافذ کردے، تو دُنیا میں اس رسولؐ انس و جاں کی طرح زندگی بسر کر، تا کہ اسی کی طرح تو انس و جاں میں مقبول ہو جائے۔ (جب تو اس کے احکامات کو اپنے اُوپر نافذ کر چکے) تو پھر اپنے آپ کو دیکھ، یہی اس کا دیدار ہوگا، اس لیے کہ اس کی سنت بھی اس کے اسرار میں سے ایک سِرّ (بھید) ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رحمت و رأفت، اپنے مکارِم اخلاق اور اپنے اسوۂ حسنہ سے عالمِ انسانیت کو کیا کچھ عطا کیا، اس کی ایک جھلک اقبال نے ہمیں رُمُوزِ بے خودی کے ایک باب میں دکھائی ہے، اس باب کا عنوان ہے: ’’درمعنیِ ایں کہ مقصودِ رسالت محمدؐیہ تشکیل و تاسیسِ حُریت و مساوات و اخوتِ بنی نوعِ آدم است‘‘۔ اس باب کی تمہید میں اقبال کہتے ہیں کہ… انسان، اِنسان پرست تھا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ غلام و زیر دست تھا، قیصرو کسریٰ کی سطوت اس کے لیے (سفرِ حیات میں) رہزن تھی۔ اس کے ہاتھ پائوں میں غلامی کے حلقے تھے، کاہن، پادری، سلطان، بادشاہ یہ سب اس کے شکاری تھے اور وہ تنہا شکار تھا۔ بادشاہ بھی، اور کلیسا کا بوڑھا پادری بھی، اس کی کھیتی کے لیے خراج کے حکم نامے لکھتے تھے، اس ضعیف شکار کے لیے کلیسا کا جنت فروش اسقف جال بنتا تھا۔ برہمن اس کے باغ سے پھول لے جاتا تھا۔ اور مُغ زادہ اس کے خرمن کو آگ لگاتا تھا۔ غلامی سے اس کی فطرت پست ہو چکی تھی اور اس کی (فطرت کی) بانسری میں بے شمار نغمے خون ہو چکے تھے۔ تا امینے حق بحق داران سپرد بندگان را مسندِ خاقان سپرد شعلہ ہا از مردہ خاکستر کشاد کوھکن را پایۂ پرویز داد اعتبارِ کاربندان را فزود خواجگی از کارفرمایان رلود قوتِ او ہر کہن پیکر شکست نوعِ انسان راحصارِ تازہ بست تازہ جان اندر دِم آدم دمید بندہ را باز از خداوندان خرید زادنِ اُو مرگِ دُنیائے کُہن مرگِ آتش خانہ و دیر و شمن حریت زاد از ضمیرِ پاکِ اُو ایں مَے نوشین چکید از تاکِ اُو عصرِ نو کین صد چراغ آوردہ است چشم در آغوشِ اُو وا کردہ است نقشِ نَو بر صفحۂ ہستی کشید اَمتے گیتی کشائے آفرید اُمتے از ماسوا بیگانۂ بر چراغِ مُصطفیٰ پروانۂ اُمتے از گرمیِ حق سینہ تاب ذرہ اش شمعِ حریمِ آفتاب تب ایسا ہوا کہ ایک امین (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حق داروں کو ان کا حق دے دیا یعنی غلاموں کو خاقانوں (بادشاہوں) کی مسند عطا کر دی، اُسؐ نے ٹھنڈی راکھ سے شعلے اُٹھا دیے اور پہاڑ کاٹنے والے کو پرویز کا رُتبہ عطا کر دیا۔ اس نے کام کرنے والوں کی عزت کو بڑھا یا اور کارفرمائوں سے سرداری چھین لی۔ اُسؐ کی قوت نے ہر پرانے پیکر کو توڑ دیا، اُسؐ نے آدمیت کے گرد ایک تازہ حصار قائم کیا۔ اس نے آدم کے پیکرِ خاکی میں ایک نئی رُوح پھونک دی …اور غلاموں کو اُن کے آقائوں سے دوبارہ خرید لیا۔ اس کا ظہور دراصل پرانی دُنیا کی موت تھی، یعنی آتش کدوں اور بت کدوں کی موت، آزادی (کا تصور) اُسؐ کے ضمیرِ پاک سے پیدا ہوا۔ یہ حیات بخش شراب اُسی کے ہاں سے ٹپکی۔ عہد حاضر جو ہزاروں چراغ روشن کر لایا ہے، اس عہدِ نو نے بھی اُسؐ کے آغوشِ رحمت و حکمت میں پرورش پائی ہے۔ اُسؐ نے زندگی کے ورق پر ایک بالکل نئی تصویر کھینچ دی، اور ایک ایسی اُمت پیدا کی۔ جو زمین کی فاتح تھی، ایسی اُمت جو ماسویٰ اللہ سے بیگانہ تھی،…اور چراغِ مصطفیٰؐ کی پروانہ تھی۔ اس اُمت کا سینہ حق کی گرمی سے گرم تھا۔ اس کے ذرے کو بھی آفتاب کے گھر میں چراغ کی حیثیت حاصل تھی۔ مختصر یہ ہے کہ عشق رسولؐ کا جذبہ اقبال کے رگ و پے میں، اور اُن کی ساری زندگی کے تاروپود میں جاری تھا اور جاری و ساری رہا، … جاوید نامہ کی تکمیل کے بعد ۱۹۳۶ء میں اُنھوں نے جو دو فارسی مثنویاں لکھیں، …’’(پس چہ باید کرد اے اقومِ شرق،…اور مسافر) وہ بھی اس جذبے اور مسلسل فکری رَو کی گونج سے خالی نہیں،…’پس چہ باید کرداے اقوامِ شرق‘ کے اختتام پر اُنھوں نے اپنی نظم ’جواب شکوہ،…اور مسدسِ حالی، کے انداز میں مسلمانوں کی حالتِ زار پر آنسو بہائے ہیں، اور حضورِ رسالت مآبؐ میں اس صورتِ حال پر فریاد کی ہے۔ نظم کے اس حصے کا نام ہے ’’در حضورِ رسالت مآبؐ‘‘ اس پر ایک نوٹ بھی دیا ہے، جس کا مفہوم ہے کہ ۳ اپریل ۱۹۳۶ء کو میں دارالاقبال بھوپال میں تھا، سیّداحمد خاں کو خواب میں دیکھا اُنھوں نے فرمایا کہ اپنی بیماری کیے بارے میں حضورِ رسالت مآبؐ میں عرض کرو۔ نظم کا یہ حصہ گو یا خواب میں سر سیّداحمد خاں کے ایما کی تعمیل میں حضور رسالت مآبؐ میں ایک عرض داشت بلکہ فریاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن اس نظم میں بھی اقبال نے اپنی بیماری کے احوال کے بیان اور آرزوئے شفا پر اُمتِ مسلمہ کے احوالِ زبوں کے بیان کو مقدم رکھا ہے تاہم یہاں ہم صرف وہی اشعار نقل کرتے ہیں جنھیں نعت یا مدحت کہا جا سکتا ہے: اے تو مابے چارگان را سازو برگ وارہان این قوم را از ترسِ مرگ سوختی لات و مناتِ کہنہ را تازہ کردی کائناتِ کہنہ را در جہانِ ذکر و فکرِ انس و جان توصلوٰتِ صبح، تو بانگِ اذان لذتِ سوزو سرور از لاالٰہ در شبِ اندیشہ نُور از لااِلٰہ نے خدا ہا ساختیم از گائوخر نے حضورِ کاہنان افگندہ سر نے سجودے پیش معبودانِ پیر نے طوافِ کوشکِ سُلطان و میر این ہمہ از لطف بے پایانِ تست فکرِ ما پرور دۂِ احسانِ تست ذکرِ تو سرمایۂ ذوق و سرور قوم را دارد بہ فقر اندر غیور اے مقام و منزلِ ہر راہرو جذبِ تو اندر دلِ ہر راھرو گردِ تو گردَد حریمِ کائنات از تو خواہم یک نگاہِ التفات اے پناہ من حریمِ کوئے تو من بہ امیدی رمیدم سوئے تو مہرِ تو بر عاصیان افزون تراست در خطا بخشی چو مہرِ مادر است با پرستارانِ شب دارم ستیز باز روغن در چراغِ من بریز اے وجودِ تو جہانِ نوبہار پرتوِ خود را دریغ از من مدار تا ز غیر اللہ ندارم، ہیچ امید یا مرا شمشیر گردان یا کلید گرچہ کشتِ عمرِ من بے حاصل است چیزکے دارم کہ نامِ او دل است دارمش پوشیدہ از چشمِ جہان کز سُمِ شبدیزِ تو دارد نشان اے کہ دادی کُرد را سوزِ عرب بندۂ خود را حضورِ خود طلب! اے وہ ہستی کہ ہم بے چاروں کے چارہ ساز اور متاعِ حیات ہیں۔ اس قوم کو خوفِ مرگ سے نجات عطا فرمائیے، آپ نے پرانے بتوں یعنی لات و منات کو جلا دیا اور پرانی دُنیا کو نیا بنا دیا، جنوں اور انسانوں کے ذکر و فکر کی دُنیا میں آپ ہی صبح کی نماز ہیں اور آپ ہی اذان کی آواز ہیں لا الٰہ ہی سے سوزو سرور کی ساری لذتیں ہیں، غم کی رات میں لا اِلٰہ ہی سے روشنی پھوٹتی ہے، ہم نے (آپ کی تعلیمات کی بدولت) نہ تو گائو، خر(جانوروں) کو اپنا خدا بنایا، نہ ہی کاہنوں اور جادوگروں کے آگے سرجھکایا۔ نہ ہم نے پرانے بتوں کے آگے سجدے کیے۔ نہ سُلطان و امیر کی کوشک کے گرد طواف کیا، لیکن یہ سب کچھ آپ ہی کے لطفِ بے پایاں سے ہے، ہماری سوچ آپ ہی کی پرور دۂ احسان ہے۔ آپ کا ذکر ذوق و سرور کا سرمایہ ہے جو آپ کی اُمت کے افراد کو فقر میں بھی غیور رکھتا ہے۔ اے وہ ہستی کہ آپ ہر راہرو کی منزل بھی ہیں اور مقام بھی، ہر مسافر کے دل میں آپ ہی کی کشش ہے، حریمِ کائنات آپ کے گرد طواف کرتا ہے، میں آپ سے صرف ایک نگاہِ التفات کا خواہاں ہوں، آپ کا کوچہ میری پناہ گاہ ہے، میں امیدِ کرم سے آپ کی طرف دوڑ کر آیا ہوں۔ گنہگاروں کے لیے آپ کی محبت کچھ زیادہ ہی ہے، خطائیں معاف کرنے میں آپ کی محبت ماں کی محبت سے بھی افزوں ہے، …میں دراصل رات (اندھیرے) کے پرستاروں (یعنی مغرب اور مغرب پرستوں) سے جنگ کر رہا ہوں، اس لیے میرے چراغ میں تھوڑا سا تیل اور ڈال دیجیے، چونکہ میں اللہ کے سوا کسی اور سے کوئی امید نہیں رکھتا، اس لیے یا مجھے تلوار بنا دیجیے یا کلید!اگرچہ میری ٍعمر کی کھیتی بے حاصل رہی ہے، لیکن میرے پاس ایک چھوٹی سی چیز ہے جسے دل کہتے ہیں، اسے میں نے دُنیا کی نظروں سے چھپا کر رکھا ہوا ہے، اس لیے کہ اس پر آپ کے گھوڑے کے سُم کا نشان ہے، اے وہ ہستی کہ آپ نے کُردوں کو بھی عربوں کا ساسوز عطا کر دیا ہے، مجھے بھی اپنے حضور میں طلب فرمائیے! ان تمام مسلمان مفکرین کی طرح جو مختلف ادوار میں احیا و تجدیدِ رُوحِ اسلامی میں کوشاں رہے۔ اقبال کی بھی کوشش یہی رہی کہ انسانیتِ کبریٰ کے اس نصب العین کو جو رسولِ اکرمؐ کی ذاتِ گرامی میں مجسم ہوا۔ ایک دفعہ پھر مسلمانوں کے سامنے بالخصوص اور عالمِ انسانیت کے سامنے بالعموم پیش کریں۔ ان کی تمام فلسفیانہ، متصوفانہ اور مصلحانہ کاوشوں کا جوہر اصلی یہی ہے کہ صاحبِ قرآن کی عطا کردہ بصیرتوں کو عام کریں اور عصرِ حاضر کے اِنسان کو اس کی اصلی منزل سے روشناس کرائیں۔ اقبال کی انفرادیت اس میں نہیں کہ اُنھوں نے رسولِ اکرمؐ کی مدح کی۔ اُن کی انفرادیت اس میں ہے کہ اُنھوں نے مقامِ رسالت اور ہدایتِ نبوت کو جدید علوم کی روشنی میں نفسیاتی اور فلسفیانہ توجیہات کے ساتھ عصرِ نو کے درماندہ ذہن اور شکستہ و حیران دل کے سامنے پیش کیا۔ اقبال نے اپنے کلام میں با ختلافِ سیاق رسولِ اکرمؐ کو جن ناموں سے یاد کیا ہے ان میں سے چند ایک یہ ہیں: لوح، قلم، الکتاب، آیۂِ کائنات کا معنیِ دیر یاب، جوہرے اندر وجود، مطافِ حریمِ کائنات، عبدہ، مقام و منزلِ ہرراہ رَو، صلوٰتِ صبح و بانگِ اذاں، نو بہارِ کائنات، حاملِ خلقِ عظیم، صاحبِ لولاک، سرِ اِلَّا اللہ، چند و چگونِ کائنات، رازِ درونِ کائنات، شہسوار، نُور، محیط، بصیر، بحر، آفتاب، عشق، رحمۃ للعالمین، خاتم النبیّین …(صلی اللہ علیہ وسلم) اقبال نے اپنے آخری لمحات میں جو قطعہ اپنے قریبی احباب کو سنایا۔ اس میں بھی حجاز کا لفظ موجود ہے، جو اُن کے عشقِ رسولؐ کی گواہی دی رہا ہے،…وہ قطعہ جو شہرۂِ آفاق ہو چکا ہے، اس عظیم شاعر اور محبِ رسولؐ کا آخری منظوم کلام ہے، اس لیے بار بار بڑھنے اور غور کرنے کے لائق ہے: سرودِ رفتہ باز آید کہ ناید نسیمے از حجاز آید کہ ناید سرآمد روزگارِ این فقیرے دگر دانائے راز آید کہ ناید وہ نغمہ جو بکھر چکا، واپس آئے گا یا نہیں؟ سر زمینِ حجاز کی خنک اور مُشکبار ہوا پھر ادھر آئے گی یا نہیں؟…اس فقیر کا زمانۂ ٍعمر تو ختم ہو چکا، کوئی اور دانائے راز آئے گا…یا نہیں…؟؟ وہ سفر جو مدینے کے کبوتر کی یاد، فریادِ اُمت…اور دُوسرے نعتیہ اشعار سے شروع ہوا تھا، اس قطعے پر ختم ہوا، نواب مرزا داغ نے کہا تھا: آغاز کو کون پوچھتا ہے انجام اچھا ہو آدمی کا! یہاں آغاز و انجام دونوں سعید و مسعُود رہے، ایک زندگی جو از ابتدا تا انتہا…اُمتِ مسلمہ کے غم میں محزوں اور اس کی اصلاح و ترقی کی کاوشوں میں صَرف ہوئی اور جس کے مضمُون ہی نہیں متون و جد اول پر بھی عشقِ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا رنگ غالب و نقش آفریں رہا۔ اس کے سعید و مبارک ہونے میں کیا شک باقی رہ جاتا ہے۔ /// حواشی ۱- بحوالہ بشریٰ، عنایت رسول چریا کوٹی، ص ۱۹،۲۰،۲۱۔ ۲- ایضاً، ص ۲۵۔ ۳- ایضاً، ص ۱۰۶، ۱۰۷۔ ۴- تاج۔ ۵- علامہ قاضی سلمان منصور پوری: رحمۃ للعالمین، جلدا، ص ۴۱ (بحوالہ ابو الفدائ، ص ۱۱۰)۔ ۶- الملل والنحل لشھر ستانی (م ۵۴۸ھ)۔ ۷- اقبال نامہ، مقالہ از مولانا عبدالمجید سالک۔ ۸- ملفوظاتِ اقبال۔ ۹- یہی وہ خیال ہے جس کی تشریح اقبال نے کئی سال بعد اپنے خطبات میں جا بجا علمی بنیادوں پر کی، اور جو اسلام کے علمی منہاج کے بارے میں عصرِ حاضر کے علمی انکشافات کی بنیاد بن گیا۔ ۱۰- اخبارِ وطن، لاہور۔ جلد ۵ نمبر۳۹، اکتوبر ۱۹۰۵ئ۷۔ ۱۱- عربی شعر و ادب میں نعت کے میدان میں حضرت حسان بن ثابتؓ کے بعد جس شاعر کو سب سے زیادہ شہرت و مقبولیت ملی وہ حضرامام محمد بن سعید بو صیری ہیں جو عام طور پر امام بوصیری کے نام سے جانے جاتے ہیں، یکم شوال ۶۰۸ھ مطابق ۷ مارچ ۱۲۱۳ء کو مصر کے ایک قصبہ ولاص میں پیدا ہوئے، سلسلۂ نسب مشہور بربر قبیلہ صنہاجہ تک پہنچتا ہے، کنیت ابو عبداللہ، خاندان کی نسبت سے صنہاجی، مقامِ ولادت کی نسبت سے دُلاصی اور مقامِ سکونت کے حوالے سے بوصیری کہلاتے ہیں، تمام ائمہ فن نے ان کے کمالِ فن کا اعتراف کیا ہے، اس عہد کے بزرگ اور نامور مصری صوفی حضرت ابوالعباس احمد المرسی (م۶۸۶ھ) کے مرید تھے، کہا جاتا ہے کہ ان کے کلام میں جو سوز و گداز ہے وہ حضرت المرسی کا فیضانِ نظر ہے۔ اُنھیں حضرت حسان بن ثابتؓ کے بعد عربی زبان کا سب سے بڑا نعت گو تسلیم کیا گیا ہے۔ ۱۳- کعب بن زہیر: زمانۂ جاہلیت کے ایک نامور اور بلند پایہ شاعر زہیر بن ابی سُلمیٰ مُزنی کے بیٹے تھے، زہیر اس پائے کا شاعر تھا کہ اس کا ایک قصیدہ سبع معلقات میں شامل ہے، کعبؓ نے ایک بار اشعار میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجوکہی، جس پر آنحضرتؐ نے اُن کا خون رواقرار دے دیا۔ اور لوگ اُن کے قتل کے درپے رہنے لگے، ان کے بھائی بجیرؓ نے جو مسلمان ہو گئے تھے، اُنھیں توبہ کی تلقین کی، لیکن یہ نہ مانے، آخر تمام دوستوں کی حمایت سے مایوس ہو کر حضرت ابو بکر صدیقؓ کے توسط سے آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا مشہور ’قصیدۂ لامیہ‘ جو بَا نَت سُعاد کے الفاظ سے شروع ہوتا ہے پیش کیا، آنحضرتؐ نے نہ صرف اُنھیں معاف کر دیا، بلکہ اپنی چادر بھی عطا فرمائی اس ’لامیہ‘ کا مطلع، جو عاشقانہ تشبیب کا آغاز ہے، یہ ہے: بانت سعاد و قلبی الیوم متبول متیتم ئِ شرھا لم یُغدَ مکبول ’’سُعاد (محبوبہ کا نام) جُدا ہو گئی ہے، اس صدمے سے آج میرا دل محزوں ہے، اس کی محبت میں میرا دل اس قیدی کی طرح ہے جس کا کسی نے فدیہ ادا نہ کیا ہو اور وہ زنجیروں سے جکڑا ہوا ہو‘‘۔ یہ قصیدہ ہر دَور میں معروف اور متداول رہا ہے، کئی بانوں میں اس کے تراجم ہوئے ہیں اور کئی شرحیں لکھی گئی ہیں، یورپ کی کئی زبانوں میں بھی اس کے تراجم اور شرحیں موجود ہیں۔ اس قصیدۂ نعت کے صلے میں کعبؓ کو دربارِ رسالت مآبؐ سے جو چادر عطا ہوئی وہ اُن کے خاندان میں رہی، یہاں تک کہ امیر معاویہؓ نے چالیس ہزار درہم کے عوض اسے خرید لیا، پھر یہ چادر عہد بعہد اموی اور عباسی خلفا کے پاس رہی یہاں تک کہ خلفائے عثمانی کی ملکیت میں آ ئی۔ زہیر بن ابی سُلمیٰ( کعبؓ کا والد) جاہلی شعر ا میں اتنا ممتاز تھا کہ بعض لوگ اسے امراء القیس سے بھی بڑا شاعر قرار دیتے ہیں، حضرت ٍعمر فاروقؓ نے ایک بار زہیر کے ایک ممدوح کے ایک لڑکے سے کہا تھا: ’’اپنے باپ کی تعریف میں زہیر کے کچھ اشعار سنائو‘‘۔ اشعار سننے کے بعد حضرت عمرؓ نے کہا: تم نے اسے جو کچھ دیا تھا وہ تو ختم ہو چکا، اس نے جو کُچھ تم کو دیا، وہ ابھی باقی ہے‘‘۔ زہیر دولت مند ہونے کے باوجود بے حد خوش اخلاق، نرم خو، متحمل مزاج، صائب الرائے، پاک باز، صُلح پسند تھا اور خدا وندِ قدوس اور روزِ جزا پر مکمل طور پر ایمان رکھتا تھا۔ زہیر کا باپ، وہ خود، اس کی دونوں بہنیں سلمیٰ اور خنساء اور دونوں لڑکے کعبؓ اور بجیرؓ سب عر ب کے قابلِ ذکر شعرا تھے۔ ۱۴- کلیاتِ بیدل، جلد سوم۔ مطبوعہ، پوہنی وزارت، کابل، ۱۳۴۲۔ ۱۵- ان اصطلاحات و مباحث کے سلسلے میں شیخ اکبر کی تصنیفات (مثلاً فتوحاتِ مکیہ و فصوص الحکم) کے علاوہ حضرت مجدد الف ثانی کے مکتوبات، مولانا محمد قاسم نانوتوی کی تصنیفات (بالخصوص آبِ حیات) سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ نیز اس سلسلے میں شیخ تاج الدین محمود کی کتاب غایۃ الامکان فی معرفۃ الزمان و المکان اور عین القضاۃ ہمدانی کی کتاب غایۃ الامکان فی درایۃ المکان کا مطالعہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ 15- Universal Time. 16- Temporal Time. 17- Aboslute Time. 18- Subjective. /// اقبال کا تصورِ تاریخ [ابنِ خلدون اور اشپنگلر کے افکار کی روشنی میں] دورِ جدید کے مفکرین نے جو فلسفۂ وجودیت کی طرف جھکائو رکھتے ہیں،…تاریخ کو کلیتاً ناقابلِ فہم قرار دیا ہے۔ کارل لووِتھ اپنی تالیف تاریخ میں مفہوم (Meaning in Hisotry) میں لکھتے ہیں کہ ’’ تاریخ کا مسئلہ مجموعی طور پر خود اپنے ہی تناظر میں ناقابلِ جواب (ناقابلِ تشریح) ہے۔ تاریخی عمل (یا اعمال) کسی جامع یا آخری مفہوم کی کوئی شہادت نہیں دیتے، بظاہر تاریخ کا کوئی حاصل یا ثمر نہیں۔ تاریخ کے مسئلے کا نہ کوئی حل پیدا ہوا ہے نہ ہو سکے گا۔ اس لیے کہ اِنسان کا تاریخی تجربہ…ناکامیابی سے عبارت ہے‘‘۔۱؎ تاریخ کے بارے میں یہ طرزِ فکر نسبتہً جدید ہے، اور اُن ذہنی رویوں کی نشاندہی کرتا ہے جو وجودی فِکر کی تہ میں عام طور پر کارفرما نظر آتے ہیں۔ قدیم فلسفیوں اور مفکرینِ تاریخ نے تاریخ کی تعبیر میں جو کاوش کی ہے، موجودہ فلسیانہ فکر اس کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہے، تاریخ کے بارے میں ہیگل کا مشہور قول…تاریخ ہمیں صرف یہی سکھاتی ہے کہ ہم تاریخ سے کچھ نہیں سیکھ سکتے،…اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ تاریخ میں معانی تلاش کرنا فعلِ عبث ہے، لیکن ہیگل کے قول کی ایک تشریح یہ بھی ممکن ہے کہ چونکہ تاریخ ہمیشہ نئی سے نئی صورتِ احوال کو پیدا کرتی رہتی ہے اس لیے ماضی کی روشنی میں حال یا استقبال کے بارے میں کوئی حُکم نہیں لگایا جا سکتا۔ اس تشریح سے قطع نظر ہیگل تاریخ کو قابلِ فہم اور قابلِ تشریح سمجھتا ہے اور اسے ایک جدلیاتی عمل سے تعبیر کرتا ہے۔ اس عمل میں ہر چیز یا ہر مرحلہ اپنی انتہا کو پہنچ کر اپنی ضد کو جنم دے رہا ہے، وجودی مفکروں میں کارل جیسپر انسان کے تاریخی تجربات کے بارے میں کہتا ہے۔ ’’لا متناہی حقائق (بھی) ہمیں ساری حقیقت کو سمجھنے میں کوئی مدد نہیں دیتے۔ ان سے ہمیں تہذیبوں اور مخصوص ادوار کے مواد اور وقت (کی رَو) میں انسان کی حقیقی راہِ عمل کو جاننے اور سمجھنے میں کوئی بھی مدد نہیں ملتی‘‘۔ اس میں شک نہیں کہ تاریخ کے بظاہر لا مختتم عمل میں لامتناہی حقائق کی ایسی درجہ بندی کرنا جو زندگی اور تہذیبوں کو کوئی قطعی مفہوم دے سکے، اتنا آسان نہیں جتنا عام طور پر خیال کر لیا جاتا ہے۔ وہ مفکرین جو کائنات کی غیر مادی تعبیر پیش کرتے ہیں، تاریخ کو ایک بے معنی عمل یا واقعات کا ایسا طومار قرار نہیں دے سکتے جن میں کوئی بھی معنوی ربط موجود نہ ہو، اقبال کے نزدیک تاریخ کا عمل ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے، جس سے انسان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے اور جو قطعاً معنویت سے عاری نہیں۔ تاریخ کے بارے میں اقبال کے افکار ایک مربوط فلسفۂ تاریخ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس مبحث میں اس ابتدائی سوال کی بھی اہمیت ہے کہ فلسفۂ تاریخ سے ہماری کیا مراد ہے۔ نسبتہً سادہ الفاظ میں’’فلسفۂ تاریخ سے مراد تاریخِ عالم کی تعبیر کا ایک ایسا نظام ہے جس میں کسی ایک اصلِ اُصول کے ذریعے تاریخی واقعات و حوادث کو اس طرح متحد کیا جائے، اور اُن میں اس طرح سے ایک جہت پیدا کی جائے کہ اس عمل سے ان واقعات و حوادث کے آخری معنوں کی طرف رہنمائی ہو سکے۔‘‘۲؎ اکثر مغربی مفکرین کا خیال ہے کہ تاریخی تفکر صرف عصرِ حاضر کے شعُور کی خصوصیت ہے، لیکن اس خیال کا سبب یا تو اسلامی مشرقی افکار سے لا علمی ہے یا اُن افکار کی قدرو قیمت کو کم کرنے کا جذبہ ہے۔ تاہم اس میں شک نہیں کہ مغربی فکر کی تاریخ میں تاریخی تفکر نسبتہً جدید فکری رویہ ہے۔ یونان، جو جدید مغربی فکر کا عظیم پیشرو سمجھا جاتا ہے، (حالانکہ فی الحقیقت اسلامی تمدن جدید مغربی علمی عہد کا پیشرو ہے) تاریخ کے بارے میں کوئی واضح یا فلسفیانہ نقطۂ نظر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ لیکن قدیم یونانی مؤرخوں نے تاریخ کے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ اس لیے بھی اہم ہے کہ اس سے تاریخ کے بارے میں قدیم ترین تصورات سامنے آتے ہیں اور اس لیے بھی کہ اس کے ذریعے ہمیں زماں اور تاریخ کے بارے میں یُونانیوں کے ذہنی رویے کا علم حاصل ہوتا ہے اصل میں یونانیوں کو وقت (time) اور تاریخ (history) سے کہیں زیادہ عقلِ کُل (logos) اور کائنات (cosmos) سے دلچسپی تھی۔ وہ تاریخ کو عام طور پر نشو و نما اور انحطاط پذیری کے تصورات کے ذریعے سمجھتے تھے۔ زندگی اور کائنات کے بارے میں یونانیوں کا عمومی نقطۂ نظر یہ تھا کہ ہر چیز دائرے میں حرکت کرتی ہے۔ آہنگ، تواتر اور عدم تغیر پذیری حیات و تاریخ کے اس تصور کے بنیادی خدوخال ہیں۔ اشپنگلر، جس کے نظریات سے ہمیں قدرے تفصیل سے بحث کرنا ہے، زمانے کے بارے میں یونانیوں کے تصورات کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:’’کلا سیکل(جس سے مراد ہے یونانی) تہذیب میں تاریخ (نام کی کوئی چیز نہیں تھی) یہ تہذیب صرف و محض’حال‘ کا شدید اور گہرا احساس رکھتی تھی‘‘۔ دُنیا کی اکثر قدیم تہذیبیں کسی تغیر سے آشنا ہونے سے قبل صرف لمحۂ موجود ہی کو قابلِ توجہ سمجھتی تھیں۔ یہ رویہ اُنھیں پر سکون ضرور رکھتا تھا، لیکن اُن کی تخلیقی پیش رفت میں حارج تھا۔ ہیر و ڈوٹس کے نزدیک تاریخ گذرے ہوئے واقعات کا ریکارڈ ہے تاکہ گذری ہوئی باتوں کی یاد لوگوں کے ذہن سے وقت گذرنے پر محو نہ ہو جائے، نیز یہ کہ عظیم کارنامے فراموش گاری کا شکار نہ ہو جائیں۔ ہیروڈوٹس کا زمانی ترتیب کا تصور بھی وقت کے بارے میں تمام یونانی تصورات کی طرح دائرے کی صورت میں مکمل ہوتا ہے۔ اس کے نزدیک تاریخ ایک تکراری سانچہ ہے، جس میں قانونِ تلافی کا آفاقی اُصول توازن پیدا کرتا ہے۔ ایک اور یونانی مؤرخ تھوسی ڈائی ڈس کے نزدیک تاریخ اس سیاسی جدوجہد کی کہانی ہے جو انسانی فطرت کی غیر مبدل خصوصیات پر مبنی ہے۔ چونکہ انسانی فطرت تغیر پذیر نہیں اس لیے تاریخ کے عمل میں بھی کوئی نئی تبدیلی پیدا نہیں ہو سکتی۔ واقعات جس طرح پہلے رُونما ہو چکے ہیں۔ اسی طرح آئندہ بھی رُونما ہوں گے، مستقبل کسی طرح بھی ماضی سے مختلف نہیںہوگا۔ نیز یہ کہ تاریخ میں کلی طور پر کوئی نئی چیز وقوع پذیر نہیں ہو سکتی۔ البتہ ایک یونانی مؤرخ پولی بی اس ایسا ضرور ہے جس کے ہاں تاریخ میں مستقبلیت کا دھندلا سا تصور موجود ہے۔ پولی بی اس کے نزدیک واقعاتِ عالم رُوم کے عالمگیر غلبے کے نصب العین کی طرف سفر کر رہے ہیں۔ گویا اس کے خیال میں تاریخ کے عمل میں ایک ’ارتقائی عمل‘ کی جھلک ضرور موجود ہے۔ پولی بی اس کے خیال میں تاریخ مقدر کے قانونِ تغیر پذیری کے مترادف ہے، تاریخ۔ (قسمت کے) ایک کنارے سے دوسرے کنارے کی طرف جست کرتی رہتی ہے، اس لیے مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔اس لیے کہ ماضی کے واقعات کو سامنے رکھ کر مستقبل کے بارے میں آسانی سے پیش قیاسی ہو سکتی ہے۔ جدید مغربی مفکروں میں ہیگل وہ مفکر ہے جس نے تاریخ کے عمل میں انسانی ارادے کو شامل دیکھا ہے، اور تاریخ میں انسانی دُکھ درد (suffering) کے مفہوم کو بھی سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ہیگل نے فلسفۂ تاریخ پر خطبات (۱۸۳۰ئ) میں تاریخ کے بارے میں اپنے خیالات اور تاثرات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب ہم سلطنتوں کے عروج و زوال افراد اور اقوام کے ظہور و غیبت اور ثروت مند ادوار کی کم حاصلی اور بے ما یہ محرکات کے حیرت انگیز ثمرات کو دیکھتے ہیں تو ہمارے ذہن میں جو خیال سب سے پہلے پیدا ہوتا ہے وہ عام تغیر کا خیال ہے۔ جب ہم بادشاہتوں کو اُداس کر دینے والے کھنڈروں کی صورت میں دیکھتے ہیں تو تغیر کا خیال ہمارے ذہنوں میں منفی معنوں میں اُبھرتا ہے، لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ قوموں کو نئی زندگی بھی اسی تغیر کے اُصول سے ملتی ہے تو تغیر ایک مثبت تصور بن جاتا ہے۔ ہیگل کو تاریخی عمل دُکھ درد سے مملو نظر آتا ہے۔ چنانچہ تاریخی عمل اورانسانی دُکھ درد کا سرچشمہ اس کے نزدیک خود انسانی جذبے اور انسانی ارادہ ہیں۔ لیکن’’جب ہم تاریخ کو مذبح خانے کی سل کے طور پر دیکھتے ہیں جس پر اقوام و ملل کی خوشیوں، اقلیموں کی دانائی اور افراد کی نیکیوں کو قربان کیا جاتا رہا ہے، تو ہمارے ذہن میں لامحالہ یہ سوال اُبھرتا ہے کہ آخر کس آخری مقصد کے لیے یہ عظیم الشان قربانیاں پیش کی گئی ہیں؟‘‘۳؎ ہیگل نے تاریخ کو ایک جدلیاتی عمل سے تعبیر کیا ہے جس میں ہر چیز سے اس کی ضِد برآمد ہو رہی ہے، اور ایک عالمگیر خیال (universal idea) اپنے آپ کو اس جدلیاتی عمل کے ذریعے مکمل کر رہا ہے۔ ہیگل کا نظریۂِ تاریخ بہت پیچیدہ اور مبسوط ہے، تاہم ہیگل ہی وہ مفکر ہے جس نے تاریخ کی تعبیر کے لیے تاریخ سے ماورا حوالہ (عالمگیر خیال) پیش کیا ہے۔ یہاں تاریخ کے بارے میں ایک اور نقطۂ نظر کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ یہ نقطۂ نظر جرمن مفکر شاعر گوئٹے کا ہے جو اقبال کے ادبی ممدوحین میں سے ہے۔ گوئٹے کے نزدیک ’’تاریخ لایعنی ترین چیز ہے۔ یہ بلند پایہ مفکر کے لیے مہملات کا تارِ عنکبوت ہے‘‘۔ وہ اپنے نامور معاصر شلر کو اپنے ایک خط (۹ مارچ ۱۸۰۲ئ) میں لکھتا ہے’’مجموعی طور پر ہم جس چیز کا مشاہدہ کر سکتے ہیں، وہ ندیوں اور دریائوں کا ایک زبردست منظر ہے، جو فطری لزوم کے تحت بلندیوں اور وادیوں سے باہم دگر اُمڈ پڑتے ہیں، یہاں تک کہ وہ کسی بڑے دریا کی طغیانی کا سبب بن جاتے ہیں۔ اس سیلاب میں وہ بھی غرق ہو جاتے ہیں جنھوں نے اس کی پیش بینی کی تھی،…اور وہ بھی جنھیں اس کا سان و گمان بھی نہ تھا۔ اس عظیم الشان تجربی عمل میں تمہیں سوائے فطرت، کے اور کچھ نہیں دکھائی دیتا۔ اس چیز کا تو شائبہ بھی دکھائی نہیں دیتا جس کو ہم فلسفی ’آزادی‘ کہنے کے خواہاں رہتے ہیں۔‘‘ مغرب کے جن مفکروں نے مربوط انداز میں تاریخ کے بارے میں اپنے نقطۂ نظر کا اظہار کیا ہے، ان میں ہیگل کے علاوہ برک ہارٹ، والیٹئر، وائکو، مارکس اور کامٹے کے نام خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں لیکن اقبال نے ان سب کے افکار سے کچھ زیادہ اعتنا نہیں کیا۔ ہیگل کے ’صدف‘ کو اُنھوں نے ’گہر‘ سے خالی قرار دے دیا تھا، شاید اس لیے کہ ہیگل جدلیت کے پردے میں ایک بار پھر کائنات کی ثنویت پسند انہ تعبیر پیش کرتا ہے جس کے ذہنی رشتے زرتشتیت اور مجوسیت کے ساتھ ملائے جا سکتے ہیں۔ والٹئیر کو چھوڑتے ہوئے اکثر مغربی مفکرینِ تاریخ نے تاریخ عالم میں عیسوی رمزیت تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم مغربی مفکرینِ تاریخ میں جس مفکر نے سب سے زیادہ اقبال کی توجہ کو مبذول کیا ہے۔ جرمن مصنف اشپنگلر ہے، جس کی کتاب زوالِ مغرب (Decline of the West) نے عالمگیر شہرت حاصل کی۔ تنقیدِ مغرب، مغربی تہذیب کے زوال کی پیشین گوئی، تہذیبوں کے نشو و ارتقا کا مخصوص تصور اور اسلام کے بارے میں مغالطہ آرائی…یہ سب ایسی باتیں تھیں جن کی بدولت اقبال،اشپنگلر کی طرف زیادہ متوجہ ہوئے۔ آسوالڈ اشپنگلر(۱۸۸۰۔۱۹۳۲ئ) اقبال کا ہم عصر ہی تھا،…اس کے بارے میں یہ بات بالخصوص قابلِ ذکر ہے کہ وہ جرمن فلسفیوں کی روایات کے برعکس کوئی باقاعدہ فلسفی، مفکر یا ادیب نہیں تھا۔ بلکہ ایک ہائی اسکول ٹیچر تھا، تاہم اس کا مدرس ہونا ہی اس کے افکار کی عمومی کشش کا باعث بنا اس کی کتاب زوالِ مغرب کی پہلی جلد پہلی جنگِ عظیم کے چار سالوں کے اختتام پر ۱۹۱۸ء میں شائع ہوئی، کتاب کی دوسری جلد ۲۳۔۱۹۲۲ء سے قبل شائع نہ ہو سکی۔ اس کا نظریۂ تاریخ تہذیبوں کے بارے میں اس کے مخصوص تصور پر مبنی ہے، اس کے خیال میں ہر تہذیب ایک عضو یاتی یا نامیاتی وحدت ہے اور ہر تہذیب کو نامیاتی وحدت (organism) کی طرح ایک ہی دورِ حیات میسر آتا ہے، ایک عضویے کی طرح کسی تہذیب یا معاشرے کی زندگی بھی بچپن، بلوغت اور کہولت سے عبارت ہوتی ہے۔ جس طرح نامیاتی وحدت اپنی موت کے بعد دوبارہ زندہ نہیں ہو سکتی اسی طرح تہذیبیں بھی جب زوال آشنا ہوتی ہیں تو ان کے لیے حیاتِ نو کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ اشپنگلر کے نقطۂ نظر سے تہذیبوں کے مابین کسی ارتقائی عمل کا کوئی رشتہ موجود نہیں ہوتا، ہر تہذیب اپنی جگہ پر خود مکتفی اور خودکار ہوتی ہے، تاریخ کا عمل تہذیبوں کو خطِمستقیم میں مربوط نہیں کرتا، بلکہ دائروں میں گردش کرتا ہے، ہر تہذیب ایک دائرہ ہے جس کی اپنی حرکت اور اپنی رفتار ہے، گویا اشپنگلر کے نزدیک ارتقائی عمل تہذیبی وحدتوں میں تو ہوتا ہے لیکن پوری انسانی زندگی میں نہیں ہوتا۔ وہ ایک تہذیب اور دوسری تہذیب کے درمیان تشبیہ (analogy) کا تعلق تو دیکھتا ہے لیکن ان کے مابین ارتقائی رشتے کا اقرار نہیں کرتا۔ تاریخ میں تکرار اور اعادے کا تصور اشپنگلر سے مخصوص ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ ایک ہمیشہ سے جانی بوجھی ہوئی بات ہے کہ ’’تاریخ عالم میں ’اظہاری پیمانوں‘ (expression-forms) کی تعداد محدود ہے، ادوار، عہد، واقعات و احوال اور اشخاص دائمی طور پر اپنے سانچے(type) کو دہراتے رہتے ہیں۔‘‘وہ کہتا ہے کہ بے جان چیزوں کو توریاضیاتی قوانین کے تحت سمجھا جا سکتا ہے لیکن ’زندہ صورتوں‘ (living forms) کو صرف اور صرف تشابہ یا مشابہت (analogy) کے ذریعے ہی سمجھا جا سکتا ہے، اسی لیے تاریخ اس کے نزدیک اس اعتبار سے اشکال و تحریکات کا مطالعہ ہے، گہرائی کے ساتھ، اور اُن کی آخری معنویت کا تجزیہ کرتے ہوئے۔ اس کے خیال میں ہم زندگی کو علامات کے ذریعے ہی سمجھ سکتے ہیں، یہ علامات بھی کسی مفکر کے باطن سے ہی برآمد ہو سکتی ہیں۔ اس نے اپنی کتاب کے نظرِ ثانی شدہ ایڈیشن کے دیباچے میں لکھا: ’’ایک مفکر وہ شخص ہوتا ہے جس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے عہد کی،اپنی بصیرت اور فہم کے مطابق علامت سازی کرے، اس کے علاوہ اس کے پاس چارۂِ کار بھی نہیں۔ وہ اسی طرح سوچتا ہے جس طرح وہ سوچنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ صداقت بالآخر اس کے لیے دُنیا کی وہ تصویر ہے جو اس کی پیدائش کے ساتھ پیدا ہوئی ہے، یہ وہ دُنیا ہے جو اس نے ایجاد نہیں کی، بلکہ اسے اس (مفکر) نے خود اپنی ذات میں دریافت کیا ہے۔ یہ ایک بار پھر اس کی اپنی ذات ہے!یہ اس کی اپنی ہستی ہے جو الفاظ کے سانچے میں ڈھل گئی ہے۔ یہ اس کی شخصیت کا مفہوم ہے جو ایک اصلِ اُصول یا عقیدے (doctrine) کی صورت میں ڈھل گیا ہے۔ یہ اصلِ اُصول، جہاں تک اس کی اپنی ذات کا تعلق ہے۔ ناقابلِ تغیر ہے، کیونکہ صداقت اور اس کی زندگی کا ملاً ہم صورت (identical) ہیں۔ یہ علاماتیّت لازمی ہے، یہی انسانی تاریخ کا پیرایۂِ اظہار اور اس کا ظرف ہے۔ وہ تمام فاضلانہ فلسفیانہ کام جو اس سیاق سے باہر رہ کر لکھے جاتے ہیں، محض سطحی اور پیشہ وارانہ لٹریچر کا حصہ ہوتے ہیں۔‘‘ اشپنگلر کی تصنیف ثقافتوں کی رمزیت کی تشریحات کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہے، اشپنگلر کے مرکزی خیال سے قطعِ نظر، اس کتاب کا ہر صفحہ خیال انگیز جُملوں سے مملو ہے، اس کا ہر جُملہ خیال انگیز…اور ہر خیال۔ لامحدود معانی کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اس کے فیصلوں میں حیران کن قطعیت ملتی ہے۔ مثلاً وہ کہتا ہے کہ مکان (space) کی منطق علت و معلول ۴؎ ہے، جب کہ زماں کی منطق مقدر۵؎ ہے جسے ہم زندگی کا نامیاتی لزوم۶؎ بھی کَہ سکتے ہیں۔ اپنے افکار و خیالات کے بارے میں اشپنگلر کا کہنا ہے کہ ’’میں نے اپنے عہد کا فلسفہ لکھا ہے‘‘۔ وہ کہتا ہے کہ ’’میں نے اس کتاب (زوالِ مغرب) میں تاریخی پیش بینی کے اُصول دریافت کرنے کی کوشش کی ہے، یعنی یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کسی تہذیب کو آئندہ کیا پیش آنے والا ہے۔ بالخصوص وہ تہذیب جو آج مغربی یورپی امریکی، تہذیب کہلاتی ہے۔ وہ مزید کہتا ہے کہ دُنیا بطور ’عالمِ فطرفت ‘ فلسفے کا واحد موضوع رہی ہے لیکن میں نے دُنیا کو بطورِ ’زندگی‘ دیکھنے کی کوشش کی ہے،… (اس کتاب میں) دُنیا کی عظیم تہذیبوں، اُن کے ثقافتی مظاہر مثلاً ادب، زبان، ڈراما، فلسفہ اور فن تعمیر کے معنی دریافت کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس طرح کہ دُنیا کی دوسری تہذیبوں اور اُن کے ثقافتی مظاہر کے ساتھ اُن کے نامیاتی رشتے کو دریافت کیا جا سکے۔ اشپنگلر کے نزدیک کسی تہذیب کے تمام مظاہر، علاماتی مفہوم اور علاماتی رشتہ رکھتے ہیں۔ زوالِ مغرب میں اس نے جو سوالات اُٹھائے ہیں ایک لحاظ سے اُن کا تعلق صرف مغربی تہذیب ہی نہیں، انسانیت کے مستقبل سے بھی ہے۔ اس کے اپنے الفاظ میں: کیا تاریخ کی کوئی منطق (دریافت کی جا سکتی) ہے؟ کیا کسی نظام کے تمام اتفاقی اور ناقابلِ شمار عناصر سے ماورا کوئی ایسی چیز بھی ہے جسے ہم تاریخی انسانیت کا ما بعد الطبیعیاتی ڈھانچہ قرار دے سکیں؟ کوئی ایسی چیز جو تہذیب کی ظاہری شکلوں…مثلاً معاشرتی، روحانی اور سیاسی مظاہر سے لازمی طور پر الگ ہو اور ان مظاہر پر انحصار نہ کرنے والی ہو،…اگر ایسا ہے (یعنی ایسی کوئی چیز موجود ہے جس سے تاریخی عمل کا غیر مادی حوالہ وجود میں آسکے) تو اس کو جاننے کے ابتدائی مفروضے کیا ہوں گے؟ زوالِ مغرب کے مقدمے میں وہ بار بار یہ سوال اُٹھاتا ہے کہ کیا تاریخ کی بنیاد عظیم عمومی حیاتیاتی سانچوں (general biologic archetypes) پر استوار ہے؟ اشپنگلر کا تمام تر فلسفۂ تاریخ اس سوال کا اثبات میں جواب دینے کی کوشش سے عبارت ہے۔ اس کی تمام سعی یہی ہے کہ وہ ثابت کر دکھائے کہ تاریخ دراصل تہذیبوں کی تاریخ ہوتی ہے، اور تہذیبیں حیاتیاتی وحدتیں ہوتی ہیں جو انسان کی طرح پچپن، جوانی اور بڑھاپے کے مدارج سے گزرنے کے بعد معنوی طور پر مر جاتی ہیں،… اور جو تہذیب ایک دفعہ اپنے تمام حیاتیاتی یا نامیاتی امکانات کو صرف کر چکے اسے نئی زندگی کی کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ اس خیال کو وہ تاریخ کا نامیاتی ڈھانچہ (organic structure of history) کہتا ہے۔ نقادوں نے اس نظریہ کو تاریخ کا حیاتیاتی یا نامیاتی تصور (organicism) قرار دیا ہے۔ اس پر بہت کچھ تنقید کی گئی ہے اور دو تین دہائیوں کی شہرت اور مقبولیت کے سوا مغرب نے اشپنگلر کے خیالات کو سنجیدہ توجہ کے لائق سمجھنا چھوڑ دیا ہے، بہر حال،… اشپنگلر کے مطالعے سے جو چند نکات فوری طور پر ہمارے سامنے آتے ہیں وہ یہ ہیں: ۱- اشپنگلر تاریخِ عالم میں کسی ارتقائی عمل یا ارتقائی حرکت کو تسلیم کرنے سے بہت حد تک انکاری ہے، اس لیے کہ اس کے نزدیک تاریخ کے معنی…مقصد نہیں بلکہ مقدر (destiny) کے ہیں۔ تاریخ تہذیبوں (ثقافتوں) کے عروج و زوال سے عبارت ہے، جب ایک تہذیب کا دورِ حیات چند مقررہ اُصولوں اور سانچوں کو دہرا چکتا ہے تو اس کا اختتام قریب آجاتا ہے۔ اسی طرح وہ ایک تہذیب اور دوسری تہذیب کے درمیان مشابہت (analogy)کا رشتہ تو دیکھتا ہے لیکن اُن کے مابین کسی ارتقائی عمل کے رشتے کو تسلیم نہیں کرتا۔ ۲- اگرچہ وہ کہیں کہیں دبے دبے لفظوں میں تاریخ کے لیے انسانی فیصلے اور انسانی ارادے کو بھی ضرور ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ لیکن فی الحقیقت اس کے نظریئے کے منطقی لزومات کے پیشِ نظر اس کا نظریہ فرد کی آزادی یا علامہ اقبال کی اصطلاحات میں’انفرادی خودی‘ کے تخلیقی اظہار کے لیے کوئی گنجائش نہیں رکھتا۔ اس کے نظامِ تصورات میں فرد،…ایک مجبورِ عمل ذرّہ ہے جو کسی بڑے نظام، تہذیب، ثقافت یا عہد کے مزاج کی تشکیل و تکمیل کرنے پر مجبور ہے۔ ۳- اشپنگلر زوالِ مغرب کے پہلے ہی جُملے میں اعلان کرتا ہے کہ وہ تاریخ میں پہلی بار، تاریخی پیش بینی کے اُصول وضع کرنے کی سعی کر رہا ہے۔ کارل لووتھ کے الفاظ میں،…’’اس نوع کی سعی کے معنوی مضمرات یہ ہیں کہ تاریخ کا سفر بذاتِ خود کسی ضرورت یا التزام کے تحت متعیّن شُدہ ہے۔ تاریخی ثقافتوں کی اہمیت دوائرِ حیات (life-cycles) کی جبری تکمیل میں ہے…یعنی…نشونما،… بالیدگی اور پژمردگی۔ چونکہ تاریخ کے عمل میں نہ تو مشیتِ ایزدی کارفرما ہے نہ انسان کا ارادہ، اس لیے تاریخ کی کوئی منزل یا کوئی نصب العین نہیں ہے۔ اس کی تمام تر عظمت و رفعت اس کی بے مقصدیت میں ہے۔ ۴- اسلام کے بارے میں اشپنگلر کا کہنا ہے کہ اسلامی تہذیب کی رُوح مجوسی ہے، یعنی زرتشتیّت اور مجوسیّت کی طرح خیر اور شرکی ثنویّت کے تصور پر استوار ہے۔ اقبال کے لیے اشپنگلر کے اس دعوے میں ایک جذباتی کشش تھی کہ مغربی تہذیب اپنی بالیدگی کی انتہا کو پہنچنے کے بعد اپنے زوال کی حدوں کو چھونے لگی ہے۔ لیکن اقبال کے لیے کسی بھی ایسے نظامِ فکر یا تاریخ کی کسی بھی ایسی تعبیر کو قبول کر لینا بے حد مشکل تھا جس میں۷؎ زمانے کو یا تاریخ کے عمل کو ایک ارتقائی حرکت کے طور پر نہ دیکھا گیا ہو اور جس میں۸؎ انفرادی انا کی تخلیقی صلاحیتوں کو تاریخ کے ناقابلِ پیش گوئی عنصر کی حیثیت سے تسلیم نہ کیا گیا ہو۔ بہر حال اقبال نے اشپنگلر کا تذکرہ اپنے خطبات میں کیا ہے اور اس کے افکار کو تنقیدی نقطۂ نظر سے دیکھا ہے۔ اقبال کے ہاں سب سے پہلے اشپنگلر کا نام تشکیلِ جدید الہٰیاتِ اسلامیہ کے چوتھے خطبے میں ملتا ہے جس کا عنوان: ’خودی جبر و قدر اور حیات بعد الموت‘ ہے،…اس خطبے میں وہ تقدیر کے حوالے سے اشپنگلر کا ذکر کرتے ہیں اور اسلام کے بارے میں اس کی ایک رائے کا حوالہ دے کر اس کے حیاتیاتی تصور پر تبصرہ کرتے ہیں، چنانچہ وہ لکھتے ہیں: لیکن پھر قرآن مجید نے بار بار تقدیر کی طرف اشارہ کیا ہے۔ لہٰذا ہمیں تقدیرکے مسئلے پر بھی غور کر لینا چاہیے، بالخصوص اس لیے کہ زوالِ مغرب، میں اشپنگلر نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اسلام بھی خودی کی نفی کا خواہش مند ہے، حالانکہ تقدیر کے بارے میں قرآن مجید کا جو تصور ہے اس کی تشریح ہم اس سے پہلے کر آئے ہیں(یعنی دوسرے خطبے میں) پھر جیسا کہ اشپنگلر نے خود بھی لکھا ہے دُنیا سے یگانگت پیدا کرنے کے دو ہی طریق ہیں، ایک عقلی،۹؎ دوسرا جس کے لیے کوئی مناسب لفظ نہیں ملتا، اس لیے حیاتی،…عقلی طریق کے ماتحت تو ہم کائنات کا ادراک اس طرح کرتے ہیں کہ وہ علت و معلول کا ایک کڑا نظام ہے۔ ’حیاتی‘ طریق کا تقاضا البتہ یہ ہے کہ بحیثیت ایک ایسے’کل‘ کے جو زمانِ متسلسل کی تخلیق اس لیے کر رہا ہے کہ اپنے اندرونی تنوع کا اظہار کر سکے، ہم زندگی کو بطور ایک شئے ناگزیر چُپ چاپ قبول کر لیں۔ لیکن پھر کائنات کی طرف ’حیاتی‘ طریق ہی پر قدم بڑھانا وہ چیز ہے، جسے قرآن پاک نے ایمان سے تعبیر کیا ہے، لہٰذا ایمان سے مطلب یہ نہیں کہ ہم چند ایک قضیوں کو بے چون و چرا صحیح مان لیں۔ برعکس اس کے یہ تیقن اور اعتماد کی وہ کیفیت ہے جس کے لیے انسان کو بڑی نادر واردات اور تجربات سے گزرنا پڑتا ہے اور جس کی اہل صرف وہی شخصیتیں ہو سکتی ہیں جو نہایت درجہ مضبوط ہوں اور اس قسم کی تقدیر پرستی کو، جو اس صورت میں ناگزیر ہے، برداشت کرنے کی اہل (ہوں)۔۱۰؎ ایسی نادر واردات اور تجربات کی تشریح میں، جو انسان کو ایمان کی حقیقی کیفیت سے آشنا کر سکیں‘ اقبال نے حضرت علیؓ کے قول کہ ’میں قرآنِ ناطق ہوں‘ حسین بن منصور حلاج کے نعرۂِ اِنا الحق، اور بایزید بسطامی کے قول، سبحانی ما اعظم شانی، کا حوالہ دیا ہے اور کہا ہے کہ ’’اسلامی تصوّف کے اعلیٰ مراتب میں اتحاد دو تقرب سے یہ مقصود نہیں تھا کہ متنا ہی خودی لامتناہی خودی میں جذب ہو کر اپنی ہستی فنا کر دے، بلکہ یہ کہ لامتناہی۔ متناہی کے آغوشِ محبت میں آجائے‘‘۔ چنانچہ اس تصورِ ایمان سے جس نوع کی تقدیر پرستی پیدا ہوتی ہے… اس تقدیر پرستی کا تقاضا نفیِ ذات نہیں جیسا کہ اشپنگلرکا خیال ہے۔ یہ زندگی ہے، وہ بے پایاں طاقت اور قُدرت جو کسی مزاحمت کو تسلیم نہیں کرتی اور جس کی بدولت انسان اس وقت بھی، جب ہر طرف سے گولیاں برس رہی ہوں باطمینان ادائے صلوٰۃ میں مصروف رہتا ہے۔‘‘۱۱؎ یہاں یہ سوال بھی خاصا اہم ہے کہ اقبال نے اشپنگلر کے جس’حیاتی‘ طریق کار کو ’ایمان‘ کے مترادف یا مشابہ قرار دیا ہے، کیا اشپنگلر کے ہاں بھی یہ اصطلاح ’ایمان یا ایمان بالغیب‘ کے مترادف یا مشابہ ہے؟ اشپنگلر کے ہاں یہ اصطلاح زندگی کے تہذیبی مظاہر کی تشریح کے ایک کلیدی تصور کو ظاہر کرتی ہے اشپنگلر تہذیب یا ثقافت کو ایک حیاتیاتی مظہر اور ایک نامیاتی وحدت فرض کرتا ہے اور اس کی حینِ حیات کے وہی مدارج بتاتاہے جو کسی بھی نامیاتی وحدت یا حیاتیاتی مظہر کے ہو سکتے ہیں، یعنی نشونما، بالیدگی اور پژمردگی،…ہو سکتا ہے اقبال اس (حیاتی یا حیاتیاتی) طریقِ کار کو وجدانی طریقِ کار (intuitional method) کے مترادف سمجھتے ہوں، اور اس طرح اسے ’ایمان‘ کے ہم معنی قرار دیتے ہوں۔ اشپنگلر کا قدرے تفصیلی تذکرہ اقبال نے تشکیلِ جدید الہٰیاتِ اسلامیہ کے پانچوں خطبے،’ اسلامی ثقافت کی رُوح‘ میں کیا ہے۔ اس خطبے میں پہلی بار اشپنگلر کا ذکر وہ یونانیوں کے حوالے سے کرتے ہیں: اشپنگلر کہتا ہے کہ یونانیوں کی نظر ہمیشہ تناسب پر رہی۔ لامتناہی سے اُنھیں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اُن کا ذہن ہمیشہ وجودِ متناہی کی قُدرتی شکل وہیئت اور اس کے قطعی اور معین حدود میں الجھا رہا۔۱۲؎ اس کے برعکس اسلامی تہذیب و ثقافت کی تاریخ کا مطالعہ کیجیے تو ہم دیکھتے ہیں کہ فکرِ محض ہو یا نفسیاتِ مذہب یعنی تصوّف کے مداجِ عالیہ، دونوں کا نصب العین یہ رہا کہ لامتناہی سے لطف اندوز ہوں، بلکہ اس پر قابو حاصل کریں۔۱۳؎ اس خطبے میں اقبال نے ثابت کیا ہے کہ کائنات کا حرکی تصور پیش کرنے میں مسلمان مفکرین جدید سائنسی فکر کے پیش رَو ہیں۔ اس لیے کہ نصیر الدین طوسی اور البیرونی نے مکانِ مطلق اور عدد کے قدری تصور کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ البیرونی دُنیا کا پہلا ریاضی دان ہے جس نے جدید ریاضی کے نظریۂ تفاعل (idea of function) کی طرف قدم بڑھایا اور ایک ساکن اور ٹھہری ہوئی کائنات کے تصور کو ناقص اور ناقابلِ قبول قرار دیا۔ ریاضی میں تفاعل کا نظریہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کائنات صرف ایک مکانی حقیقت ہی نہیں، ایک زمانی حقیقت بھی ہے۔ اشپنگلر نے جدید ریاضی کے اس نظریۂ تفاعل کو خالص مغرب کی چیز قرار دیا ہے۔ اقبال اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: اشپنگلر کے نزدیک تفاعل کا ریاضیاتی تصور مغرب کی خاص چیز ہے۔ وہ کہتا ہے دُنیا کی کسی تہذیب نے اس کی طرف اشارہ نہیں کیا۔ لیکن بیرونی نے نیوٹن کے قائدۂ ادراج۱۴؎ کی تعمیم سے کہ اسے مثلثی تفاعل۱۵؎ کی بجائے ہم جس تفاعل میں چاہی بدل دیں۔ ثابت کر دیا کہ اشپنگلر کا دعویٰ باطل ہے۔۱۶؎ اس مبحث میں اقبال یونانیوں کے تصورِ عدد کو قدر (magnitude) کی بجائے نسبت (relation) میں بدل دینے میں خوارزمی اور البیرونی کا تذکرہ کرتے ہوئے اشپنگلر کے ایک ’تصورِ عدد‘ کا حوالہ دیتے ہیں: یونانیوں کے یہاں عدد کا تصور بھی محض قدر کا تصور تھا۔ حالانکہ جب خوارزمی نے حساب سے جبر و مقابلہ کی طرف قدم بڑھایا تو یہ تصور ’قدر‘ کی بجائے نسبت میں بدل گیا۔ پھر آگے چل کر بیرونی نے واضح طور پر وہ تصور قائم کیا ہے جسے اشپنگلر ’سنینی عدد‘ ۱۷؎سے موسوم کرتا ہے اور جس سے ہمارا ذہن کون۱۸؎ کی بجائے تکوین۱۹؎ کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔۲۰؎ اشپنگلر نے تہذیبوں کے مزاج کو سمجھنے میں حقائق و واقعات کا جو غیر معمولی ذخیرہ فراہم کیا ہے، اس سے اس کی وسعتِ معلومات کا پورا پورا ثبوت ملتا ہے۔ اس نے تہذیبوں کو ان کے علوم و فنون، اُن کی علامات اور اُن کی اجتماعی رمزیت کے ذریعے سمجھنے کا ایک انوکھا طریقِ کار دریافت کیا، لیکن معلوم نہیں کہ اسلام اور مسلمانوں سے اس جرمن مؤرخ کو کیا پرخاش تھی کہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اس کا کوئی تبصرہ تنقیص اور غلط بیانی کے شائبے سے خالی نہیں۔ اقبال نے بالکل بجا کہا ہے کہ…’’اسلام اور اسلامی تہذیب کے بارے میں اشپنگلر نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان کی تحقیق و تنقید کے لیے ایک دفتر چاہیے۔‘‘۲۱؎ اس میں بھی شک نہیں کہ اسلامی دُنیا کے علمی حلقوں کو اقبال ہی نے اشپنگلر کے خیالات و افکار سے روشناس کیا۔ اور اس کے ’تعصبات‘ پر علمی انداز میں تبصرہ کیا۔ اقبال نے اشپنگلر کی علمیت کو یقیناً تسلیم کیا ہے۔ یونانی تہذیب کے بارے میں اس کے تجزیات کو دُنیا کے تمام قابلِ ذکر علمی حلقوں کی طرح، اقبال نے بھی تحسین کی نگاہ سے دیکھا ہے، لیکن اسلامی تہذیب کے بارے میں اس کے نتائج کو گمراہ کن اور مغالطہ آفریں قرار دیا ہے۔ اشپنگلر کا سب سے بڑا علمی دجل یہ ہے (جس کی طرف اقبال نے اشارہ کرنا ضروری نہیں سمجھا) کہ وہ تہذیبوں کے نامیتی تصور کو مطلقاً اپنا علمی انکشاف قرار دیتا ہے اور کسی ماخذ کا حوالہ دینا ضروری نہیں سمجھتا، آج تک پو ری مغربی دُنیا یہی سمجھتی آرہی ہے کہ تہذیبوں کے نامیاتی تصور کی تشکیل میں اشپنگلر علمی طور پر کسی کا زیر بارِ احسان نہیں ہے، حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ تہذیبوں کو نامیاتی وحدتوں کے طور پر دیکھنے کا انداز کلیتاً اسلامی ہے جس کی اولین علمی تعبیر ابنِ خلدون نے دُنیا کے سامنے پیش کی۔ قرآن کریم میں سورۃ الاعراف میں قوموں کی ’زندگی‘ کے بارے میں ایک واضح اشارہ موجود ہے، فرمایا گیا ہے: وَ لِکُلِّ اُمَّۃ اَجَل ج فَاِذَا جَآ ئَ اَجَلُھُم لَا یَستَاخِرُونَ سَاعَۃً وَّ لَا یَستَقدِمُونَ (ترجمہ) ہر اُمت کے لیے ایک وقت مقرر کر دیا گیا ہے، چنانچہ جب کسی اُمت کے لیے ٹھہرایا ہوا وقت آگیا پھر تو نہ ایک پَل تاخیر ہو سکتی ہے اور نہ ایک پَل پہلے(وہ وقتِ مقرر آسکتا ہے) اقبال نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے: ’(اس) آیت پر نظر رکھیے تو اس کی حیثیت ایک مخصوص تاریخی تعمیم کی ہے۔ جس میں گویا بڑے حکیمانہ انداز میں یہ سمجھایا گیا ہے کہ اُممِ انسانی کا مطالعہ بھی ہمیں بطورِ اجسامِ نامیہ علمی نہج پر کرنا چاہیے۔ لہٰذا اس سے بڑی غلط بیانی اور کیا ہو سکتی ہے کہ قرآن پاک میں کوئی ایسا خیال موجود نہیں جو فلسفۂ تاریخ کا سرچشمہ بن سکے، حالانکہ بہ نگاہِ حقیقت دیکھا جائے تو ابنِ خلدون کا ’مقدمہ‘ سرتا سراس رُوح سے معمور ہے جو قرآن مجید کی بدولت اس میں پیدا ہوئی، وہ اقوام و امم کے عادات و فضائل پر حکم لگاتا ہے تو اس میں بھی زیادہ تر قرآن پاک ہی سے استفادہ کرتا ہے۔ ۲۲؎ مقدمہ میں ابنِ خلدون کا سب سے بڑا علمی انکشاف ہی یہی ہے کہ وہ تاریخ کے مطالعے کے لیے عمرانیاتی طریقِ کار وضع کرتا ہے اس کے نزدیک تہذیبیں اور معاشرے ساکن نہیں،… اور سب سے اہم بات یہ کہ افرادِ انسانی کی طرح قومیں اور ملتیں بھی اپنی ایک طبعی عمر رکھتی ہیں، جس سے آگے جانا ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اس حد تک یہ عین اسلامی اور قرآنی نظریہ ہے،…لیکن اس کی تشریح میں ابنِ خلدون نے اپنی جدتِ طبع سے کام لیا ہے اور یہ نظریہ قائم کیا ہے کہ ’’جس طرح اشخاص کی قمری حساب سے ایک عمر ہے او ر وہ عموماً ایک سو بیس سال ہوتی ہے، اسی طرح ریاست و سلطنت کی بھی ایک عمر ہوتی ہے، جو تین ’’اجیال‘‘ سے متجاوز نہیں ہو جاتی، ’’جیل‘‘ تقریبا‘‘ چالیس برس کا ہونا چاہیے‘‘۲۳؎ ابنِ خلدون نے قوموں کی زندگی پر ’’ایک سو بیس سال کی عمرِ طبعی‘‘ کے نظرئیے کا اطلاق کرنے کی بہت کوشش کی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک علمی تکلف نظر آتا ہے۔ قرآنِ کریم نے یہ تو کَہ دیا ہے کہ ہر قوم کے لیے وقت کا ایک اندازہ ٹھہرا دیا گیا ہے، لیکن قرآن نے اس انداز ے کو طبعی اُصولوں ے مشروط کرنے کی بجائے ہمیشہ ’اعمالِ خیر‘ اور ’اعمالِ شر‘ کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ قوموں کا عروج و انحطاط اُن کے اعمال سے وابستہ ہے، قرآنِ کریم کا یہ تصور اس آیت میں بہت واضح طور پر موجود ہے: ذَلِکََ بِاَنَّ اللّٰہ لَم یَکُ مُغَیِّرا نِّعمَۃً اَنعَمَھَا عَلیٰ قَوم حَتیٰ یُغَیّرُوا مَا بِاَنفُسِھِم وَ اَنَّ اللّٰہَ سَمِیع عَلِیم (الانفال:۵۳) (ترجمہ) اور یہ اس لیے ہوا کہ اللہ کا مقرر ہ قانون ہے کہ جو نعمت وہ کسی گروہ کو عطا فرماتا ہے اسے پھر کبھی نہیں بدلتا جب تک کہ خود اسی گروہ کے افراد اپنی حالت نہ بدل لیں، اور (اس لیے بھی کہ) اللہ (سب کی) سنتا اور (سب کچھ) جانتا ہے۔۲۴؎ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قوموں کا عروج و زوال اُن کے اعمال سے رُو پذیر ہوتا ہے۔ گویا ان کے اپنے باطن سے برآمد ہوتا ہے اس لیے کہ اعمال کا سرچشمہ افراد کا باطن ہی ہوتا ہے، کوئی خارجی قوت اقوام پر باہر سے ذلت وادبار مسلط نہیں کرتی، (علاماتی طور پر خارج سے جو کچھ پیش آتا ہے وہ بھی اقوام و افرا دکے باطن ہی کی خارجی تمثیل ہوتی ہے)،… بہر حال، یہاں ہمارا مقصد صرف یہ کہنا تھا کہ قوموں کے لیے عمرِ طبیعی کا تصور یعنی قوموں کو ایک نامیاتی وحدتوں کی صورت میں دیکھنے کا منہاج (method) اشپنگلر کا ذاتی انکشاف نہیں بلکہ ابنِ خلدون کاآزمایا ہوا طریقِ کار ہے، اور یہ ممکن نہیں کہ اشپنگلر نے ابنِ خلدون کے افکار سے استفادہ نہ کیا ہو! اسلام کے بارے میں اشپنگلر کا سب سے بڑا مغالطہ انگیز بلکہ گمراہ کن بیان یہ ہے کہ اسلام مجوسیت کی بدلی ہوئی صورت ہے، علاوہ ازیں مغربی تہذیب میں جو ضد یونانیت (anti-hellinistic) عناصر کار فرما ہیں، اُنھیں وہ صرف مغربی تہذیب کا کارنامہ قرار دیتا ہے، حالانکہ اس معاملۂ خاص میں مغرب اسلامی علوم و فنون کا رہینِ منت ہے۔ جنھوں نے یونان کے سکونیاتی نظریۂ حیات کے مقابلے میں ایک حر کی تصورِ حیات پیش کیا ہے اور علوم و فنون میں تجربے اور مشاہدے کی اہمیت کو واضح کیا، یونانی فکر کی ساری سر بلندی منطقی فکر کی مہارت میں مضمر ہے، اسلامی تہذیب نے منطقی فکر کے مقابلے میں تجربی علوم کو اہمیت دی اور یوں زندگی، تفکر اور علوم و فنون کے لیے ایک ایسا منہاج فراہم کیا جو فی الحقیقت عصرِ حاضر کی جدید علمی دُنیا کی اساس ثابت ہوا۔ لیکن اشپنگلر اسلام اور اسلامی تمدن کو یہ اعزاز بخشنے کے لیے تیار نہیں۔ تہذیبوں کو ہر اعتبار سے خود مکتفی قرار دینے میں اشپنگلر نے جس طرح مبالغے سے کام لیا ہے اس کی غرض علامہ اقبال کے نزدیک یہی ہے کہ وہ ثابت کر سکے کہ مخالفِ یونانی طرزِ فکر میں مغرب کسی اور تہذیب کار ہینِ منت نہیں۔ اسلام پر مجوسیت کے اثرات اور مغربی تہذیب کے چند یونانی عناصر کے معاملے میں اشپنگلر کے خیالات و تعصبات پر اقبال کی تنقید کا ایک حصہ تطویل کے احتمال کے باوجود اپنی اہمیت کے پیشِ نظر یہاں نقل کیا جاتا ہے، اقبال فرماتے ہیں: اشپنگلر کا دعوی ہے کہ کوئی بھی تہذیب ہو، اسے اپنی جگہ پر ایک جسمِ نامی تصور کرنا پڑے گا اس لیے کہ زماناً دیکھا جائے تو کسی تہذیب کا اس تہذیب سے جو اس سے متقدم ہے یا متأخر، کوئی تعلق نہیں ہوگا۔اشپنگلر کے نزدیک ہر تہذیب کا اپنا ایک نقطۂ نظر ہوتا ہے اور وہ جس شئے کو دیکھتی ہے اسی نقطۂ نظر کے ماتحت، جسے دوسری تہذیبوں کے افراد سمجھ ہی نہیں سکتے۔ یہ دعویٰ ہے جس کی حمایت میں اشپنگلر کا اضطراب اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ وہ ایک واقعے کے بعد دوسرا اور ایک تعبیر کے بعد دوسری تعبیر پیش کرتا اور اس طرح واقعات اور تعبیرات کا ایک طو مار کھڑا کر دیتا ہے تا کہ کسی نہ کسی طرح یہ ثابت ہو جائے کہ مغربی تہذیب کی مخالفِ یونانیت رُوح اس کی اپنی ذہانت و فطانت نتیجہ ہے، نہ کہ ان اثرات کا جو بہت ممکن ہے اس نے اسلامی تہذیب سے قبول کیے ہوں، کیونکہ یہ تہذیب ۲۵؎ کیا باعتبارِ روح اور کیا باعتبارِ نوعیت، اشپنگلر کے نزدیک خالصتاً مجوسی ہے… ہم ان خطبات میں بار بار کَہ چکے ہیں کہ عصرِ حاضر کی روش اگر یونانیت کے منافی ہے تو اس کی ابتداد راصل اس بغاوت سے ہوئی جو عالمِ اسلام نے فکرِ یونانی کے خلاف کی مگر اشپنگلر اس بات کو کیسے تسلیم کر سکتا ہے؟ کیونکہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ تہذیبِ جدید کی مخالفِ یونانیت رُوح سچ مچ اُن اثرات کا نتیجہ ہے جو اس نے اپنی پیش رو (یعنی اسلامی) تہذیب سے قبول کیے تو تہذیبوں کی باہمدگر آزادی اور جُدا گانہ نشو نما کے متعلق اشپنگلر کا دعویٰ یک قلم باطل ہو جائے گا۔ میری رائے میں اشپنگلر کا یہی اضطراب کہ وہ اپنے اس دعوے کو کسی نہ کسی طرح صحیح ثابت کر سکے، اس امر کا باعث ہوا کہ بحیثیت ایک ثقافتی تحریک اس نے اسلام کو بڑی غلط اور فاسد نگاہوں سے دیکھا۔۲۶؎ اسلام کے بارے میں اشپنگلر کے ان خیالات کو دیکھتے ہوئے فوری طور پر ایک اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ مغربی تہذیب پر اسلام کے اثرات کو تسلیم کرنے کیے لیے تیار نہیں کہ اس کے نزدیک ہر تہذیب ایک خود مکتفی وحدتِ نامیہ ہے، تو اس نے اسلام پر مجوسیت کے اثرات کو کیوں کر تسلیم کر لیا۔ اس ممکنہ اعتراض کا سدِّباب اس نے یہ کیا کہ تمام علمی اور تاریخی شواہد اور صداقتوں کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے یہودیت، قدیم کلدانی مذہب، ابتدائی عیسائیت، زرتشیّت اور اسلام کو ’’مجوسی مذاہب‘‘ کا مجموعہ اور نتیجۃً ایک ہی ثقافتی تحریک قرار دے دیا۔ اس غیر علمی اور غیر تاریخی رویے سے اس نے کیا حاصل کرنا چاہا؟ مغربی تہذیب کی برتری؟ وہی مغربی تہذیب جس کے زوال کا وہ خود بہت بڑا منّا د تھا۔ یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے بارے میں یہ تو درست ہے کہ تینوں مذاہب سامی الاصل ہیں اور خدا کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہیں لیکن تہذیبی یا ثقافتی اعتبار سے یہودیت اور عیسائیت، اسلام سے کم سے کم مشابہتیں رکھتی ہیں؛اور اگر ان مذاہب کے ’الہامی‘ ہونے کے اعتبار سے انھیں ایک بڑی تہذیبی تحریک قرار دے بھی دیا جائے پھر بھی مجوسیت اور قدیم کلدانی مذاہب کو یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے مشابہ قرار دینا بلکہ ان سب کو ایک ہی نام دے دینا۔ یعنی ’’مجوسی مجموعۂ مذاہب‘‘ یا تو بہت بڑی علمی بد دیانتی ہے یا کھلی ہوئی عقلی اور علمی گمراہی ہے۔ بالخصوص اشپنگلر نے علمِ تاریخ کے بارے میں مسلمان حکما اور خاص طور پر ابنِ خلدون کے علمی اکتشافات کا تذکرہ نہ کر کے بلکہ ان کی علمی اور تاریخی قدر و قیمت پر پردہ ڈال کر ایک ناقابلِ فہم علمی کوتاہی کا ثبوت دیا ہے۔ اقبال کو جرمن قوم کے افکار سے بہت دلچسپی تھی، اس لیے وہ اکثر جرمن مفکرین کے خیالات کو قابلِ اعتنا سمجھتے تھے، نطشے اور گوئٹے ان کے پسندیدہ جرمن مفکرین تھے، اشپنگلر اُن کا ہم عصر مفکر تھا، اس لیے اُنھوں نے اسے قابلِ توجہ ضرور سمجھا، لیکن اس کے افکار میں اقبال کی دلچسپی کی اوّلیں وجہ، جیسا کہ سطورِ بالا میں بھی اشارۃً عرض کیا گیا، اشپنگلر کا یہ دعویٰ تھا کہ مغربی تہذیب اپنے نقطۂ عروج کو چھو کر عنقریب زوال پذیر ہونے والی ہے، یہ خیال چونکہ اقبال کے ذاتی فکری نتائج سے ہم آہنگ تھا، اس لیے اقبال نے علمی سطح پر اس کی پذیرائی کی، لیکن اشپنگلر کے ہاں اس سے زیادہ اقبال کی دلچسپی کا کوئی اور سامان موجود نہیں تھا،اشپنگلر زندگی، کائنات اور تاریخ کی کوئی اخلاقی، رُوحانی یا مابعدالطبیعیاتی تعبیر پیش نہیں کرتا، البتہ اقبال نے اس کے اس خیال کو ضرور اہمیت دی کہ تہذیبوں کی بھی ایک عمرِ طبیعی ہوتی ہے، اور وہ بھی نامیاتی وحدتوں کی طرح نشو نما پاتی اور اپنے انجام کو پہنچتی ہیں۔ لیکن اقبال نے اپنے خطبات میں واضح الفاظ میں اس خیال کو اسلامی اور قرآنی تصور قرار دیا ہے اور اس کے علمی انکشاف کو ابنِ خلدون سے منسوب کیا ہے۔ اقبال غالباً پہلے اسلامی مفکر ہیں جنھوں نے قرآن کریم کے نظریۂِ علم کو سمجھنے اور پھر بیان کرنے کی سعیِ بلیغ کی، اُنھوں نے اس مسئلے کو ایسی صراحت کے ساتھ بیان کیا، جو قطعی طور پر بے مثال تھی۔ اُنھوں نے کہا کہ قرآن کریم کے نزدیک علم کے تین بڑے ذرائع ہیں۔ ا۔ انسان کا اپنا باطن (یعنی عقل وادراک، فکرو وجدان اور جذبات و محسوسات وغیرہ) ۲۔ مشاہدۂِ فطرت یا مشاہدۂِ کائنات اور ۳۔تاریخ…تاریخ کو ایک بنیادی ذریعۂ علم قرار دینا اسلام کا ایک بہت بڑا علمی کارنامہ ہے جس کی قدر و قیمت کو کما حقہ، کبھی نہیں سمجھا گیا، تاہم بیسویں صدی میں یہ اقبال کے مقدر میں تھا کہ وہ مسلمانوں اور علمی دُنیا کو تاریخ کے بارے میں اسلام کے اس انقلاب آفریں نقطۂ نظر کی طرف متوجہ کریں، اقبال نے اس سلسلے میں پوری علمی جُرأت کے ساتھ قرآن کریم کے تصورِ تاریخ کا خاکہ ابھارنے کی کوشش کی ہے۔ اس معاملے میں البیرونی، ابن مسکویہ اور ابنِ خلدون سے بھی پورا پورا استفادہ کیا ہے، اقبال نے اکثر بڑے مسلمان مفکروں کی طرح ان تینوں مذکورہ بالا مفکروں کے افکار میں بھی ان اجزا کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے جنھیں فکرِ جدید اور زندگی اور کائنات کے حر کی تصور کی بنیا د قرار دیا جا سکے، حرکت اور تغیّر کے تمام تصورات جو ان مفکروں کے ہاں نظر آتے ہیںاقبال کے نزدیک اسلامی فکر کے ثمرات ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ابنِ خلدون تاریخ نگاری میں ایک نئے (method) اور ایک نئے طرزِ فکر کا بانی ہے۔ اس نے تاریخ کو عمرانیات کے ساتھ مربوط کیا اور مشرق و مغرب کے بہت سے محققین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ فلسفۂ تاریخ اور علمِ عمرانیات کی بنیادیں ابنِ خلدون ہی نے فراہم کی ہیں، اگرچہ ابنِ خلدون کے نظریۂِ تاریخ کو بہ تمام و کمال قرآنِ کریم کے تصورِ تاریخ یا اس کی تشریح کے مترادف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ خود اقبال نے بھی ایسا نہیں کیا، البتہ ابنِ خلدون کے مقدمہ اور کتاب العبر کی جلد اوّل میں تاریخ و عمرانیات میں جو ربط پایا جاتا ہے، نیز ابنِ خلدون نے تاریخ کے تصور کی تشکیل میں حرکت و تغیّر کو جو اہمیت دی ہے اس کے پیشِ نظر اقبال نے اس کے خیالات کو قابلِ توجہ قرار دینے کے ساتھ ساتھ اُنھیں اسلامی فکر سے مستفاد قرار دیا ہے۔ اقبال دو تصورات کو قرآنی تعلیمات کا سنگِ بنیاد قرار دیتے ہیں، ۱۔وحدتِ مبدئِ حیات (زندگی کسی ایک ہی سر چشمے سے پیدا ہوئی ہے، ’’اور ہم نے تمہیں نفسِ واحدہ سے پیدا کیا‘‘ (القرآن ۴:۱)اور ۲۔ زمانے کو حقیقی تسلیم کرنا اور زندگی کا یہ تصوّ ر کہ وہ ایک مسلسل اور مستقل حرکت سے عبارت ہے۔ اقبال اس دوسرے قرآنی تصور (زمانہ حقیقی ہے اور زندگی دائمی حرکت کا دوسرا نام ہے) کو ابنِ خلدون کے تصورِ تاریخ کی تشکیل میں شامل پاتے ہیں اس لیے کہتے ہیں: زمانے کا یہی تصور ہے جو ابنِ خلدون کے نظریۂِ تاریخ میں ہماری دلچسپی کا مرکز بن جاتا ہے… اسلامی تہذیب و تمدن نے اپنے اظہارکے لیے جو راستہ اختیار کیا اس پر نظر رکھیے تو یہ کسی مسلمان ہی کا کام ہو سکتا تھا کہ تاریخ کا تصور بطور ایک مسلسل اور مجموعی حرکت کے کرتا، یعنی زماناً ایک ایسے نشو و نما کی حیثیت سے جس کا ظہور ناگزیر ہے گویا ہمیں ابنِ خلدون کے نظریۂِ تاریخ سے دلچسپی ہے تو اس کی وجہ بھی ابنِ خلدون کا وہ تصور ہے جو اس نے تغیّر کے باب میں قائم کیا ہے، یہ تصور بڑا اہم ہے، کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ تاریخ چونکہ ایک مسلسل حرکت ہے زمانے کے اندر، لہٰذا یہ ماننا لازم آتا ہے کہ اس کی نوعیت فی الواقع تخلیقی ہے۔ بہ الفاظ، دیگر یہ وہ راستہ نہیں جو پہلے سے متعین ہو…اس نے زمانے کا تصور جس رنگ میں کیا ہم اس کے پیشِ نظر اس کا شمار برگساں کے پیش رووں میں کریں گے۔(۷۲) اقبال کے نزدیک ابنِ خلدون کی اہمیت ایک تو اس لیے ہے کہ وہ پہلا (مسلمان) مفکر اور مؤرخ ہے جس نے تاریخ کو ایک علم کی حیثیت سے مدوّن کرنے کی ضرورت کو محسوس کیا اور تاریخ کی پہلی علمی (نیز کسی حد تک فلسفیانہ) تعبیر پیش کی(ہر چند کہ یہ تعبیر اشارات پر ہی مشتمل ہے) اقبال کے لیے ابنِ خلدون کی اہمیت کا دوسرا سبب یہ ہے کہ ابنِ خلدون نے تاریخ کے عمل کو بہت حد تک قرآن کریم کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ نیز اس نے تاریخ کو عمرانی اور نفسیاتی حقائق کے ذریعے سمجھنے کی کوشش بھی کی ہے۔ اس کی نفسیاتی ژرف نگاہی کو انصاف پسند مغربی محققین نے بھی تسلیم کیا ہے، علامہ اقبال نے پہلے خطبے میں پروفیسر میکڈانلڈکا قول نقل کیا ہے۔ ’’ابنِ خلدون کے بعض نفسیاتی افکار بڑے دلچسپ ہیں۔ وہ اگر آج زندہ ہوتا تو مسٹرولیم جیمز کی کتاب مشاہداتِ مذہبی کی گوناگونی کو بنظرِ استحسان دیکھتا۔۲۸؎ چارلس اِساوی نے اپنی کتاب ’تاریخ کا عرب فلسفہ‘ میں ٹو ائن بی کے حوالے سے لکھا ہے کہ’’ ابنِ خلدون نے اپنی عالمگیر تاریخ کتاب العبر کے مقدمے میں پہلی بار تاریخ کے ایک ایسے فلسفے کی تشکیل کی جو اپنی نوعیت کا عظیم ترین کارنامہ ہے جو کسی بھی ذہن نے کسی بھی زمان و مکان میں تخلیق کیا ہے‘‘۔ اسی کتاب میں سارٹن کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ’’ابنِ خلدون ایک تاریخ دان، سیاستدان، ماہرِ عمرانیات، ماہرِ اقتصادیات اور احوالِ انسانی کا ایک باریک بیں طالب علم تھا۔ وہ انسان کے ماضی کو اس لیے جاننا چاہتا تھا کہ اس کی روشنی میں انسان کے حال اور مستقبل کو سمجھ سکے‘‘۔ علامہ اقبال لکھتے ہیں کہ ’’فلیٹ بجا طور پر اس کی (ابنِ خلدون کی) تعریف میں رطب اللسان ہے۔ وہ کہتا ہے کہ افلاطون ہو یا ارسطویا اگسٹائین، ان میں کوئی بھی اس قابل نہیں کہ اس کی ہمسری کا دعویٰ کر سکے، رہے دوسرے، سو ان کا ذکر ہی کیا ہے۔ ان کا تو اس کے ساتھ نام بھی نہیں لیا جا سکتا۔‘‘۲۹؎ ابوزید عبدالرحمن الملقب بہ ولی الدین ابنِ خلدون ایک انوکھا انسان تھا۔ آٹھویں صدی ہجری۳۰؎ کے اس مؤرّخ نے غیر معمولی حالات میں زندگی بسر کی، اس کا خاندان اشبیلیہ (اُندلس) سے تعلق رکھتا تھا، اور ساتویں صدی عیسوی میں اشبیلیہ سے تونس آگیا تھا، اس کے آبائو اجداد وائل بن حجر کی اولاد سے تھے اور عرب قبیلہ کندۃ سے تعلق رکھتے تھے، ابنِ خلدون کے اجداد کو اُندلس میں عزت و توقیر نصیب ہوئی اور وہ اہم مناصب پر فائز ہوتے رہے۔ ابنِ خلدون نے کم عمری ہی میں علومِ متداولہ پر دسترس حاصل کر لی اور اکیس برس کی ٍعمر میں تونس کے بادشاہ نے اسے اپنا ’’کاتب العلّامہ‘‘ مقرر کیا۔ لیکن ابنِ خلدون کی بقیہ زندگی مختلف حکمرانوں اور امرا کے درباروں میں گزری، اس نے کئی سفر کیے، وہ مالکی فقہ کا پیرو کار اور ماہر تھا۔ اس نے جامع الازہر اور بعض دوسری اہم درسگاہوں میں درس بھی دیے۔ وہ دہ تین بار قاہرہ میں قاضی القضاۃ مقرر کیا گیا، ۸۰۳ھ میں اس نے سلطان الناصر کی جانب سے دمشق میں امیر تیمور سے بھی ملاقات کی، کہا جاتا ہے کہ امیر تیمور اس کی علمیت، اندازِ گفتگو اور شخصی وجاہت سے بہت متاثر ہوا۔ ابنِ خلدون اپنی وفات تک قاہرہ کے قاضی القضاۃ کے عہدے پر فائز رہا،…اس نے اپنی شہرۂِ آفاق تاریخ اور مقدمہ قلعۂ ابن سلامتہ میں گوشہ نشین ہو کر ۷۷۶ھ اور ۷۷۹ھ کے درمیان مکمل کی، کتاب کا پورا نام ہے کتاب العبر و دیوان المبتدا والخبر فی ایام العرب و العجم والبربر ومن عاصرھم من ذوی السلطان الاکبر۔ یہ کتاب ایک مقدمے اور سات جلدوں پر مشتمل ہے، علمی دُنیا میں ’’مقدمۂِ ابنِ خلدون ‘‘ کو زیادہ شہرت حاصل ہوئی، محققین کی رائے میں کتاب کی مختلف جلدیں ایک سی قدرو قیمت کی حامل نہیں تاہم یہ ایک بہت اہم تصنیف ہے، یہی وہ کتاب ہے جو جدید فلسفۂ تاریخ اور عمرانیات (sociology) کی اساس ثابت ہوئی، اس کتاب میں ابنِ خلدون نے پہلی بار تاریخ کو ایک ’علم‘ قرار دیا، اور اس علم کے رشتے معاشرتی احوال کے مطالعے کے ساتھ استوار کیے، یہ کتاب ابنِ خلدون کی پچاس سالہ علمی اور عملی زندگی، نیز وسیع مطالعے اور مشاہدے کا حاصل ہے۔ بقول الفریڈبیل، اس کتاب کا مقدمہ، جس میں ’’عربی علوم اور تہذیب کے تمام شعبوں سے بحث کی گئی ہے، مصنّف کے خیالات کی گہرائی، وضاحتِ بیان اور اصابتِ رائے کے لحاظ سے یقیناً اپنے زمانے کی سب سے اہم تصنیف ہے، اور بظاہر کسی مسلمان کی کوئی بھی تصنیف اس سے سبقت نہیں لے جا سکی۔‘‘۳۱؎ مقدمہ اور تاریخ ابنِ خلدون کے دُنیا کی اکثر بڑی زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں ۳۲؎… مقدمہ اور تاریخ کے علاوہ ابنِ خلدون کی تین تالیفات اور بھی ہیں۔ یعنی ۱-شرح البردۃ، ۲-الحساب، ۳-المنطق۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ ابنِ خلدون نے اپنی کتاب میں تاریخ یا علمِ تاریخ کی کوئی ایسی تعریف پیش نہیں کی، جس سے اس کے نظریۂ تاریخ کا براہِ راست اندازہ کیا جا سکے، البتہ مقدمہ،…اور تاریخ میں اس نے جو علمی رویہ اختیار کیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ تاریخ کو بھی دوسرے علوم کی طرح حقائق اور تجربے اور مشاہدے سے مشروط کرتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابنِ خلدون کے ہاں تاریخ کا ایک جامع اور مربوط تصور ضرور موجود ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ منطقی اعتبار سے تاریخ کی کوئی جامع اور مانع تعریف نہ وضع کر سکا ہو لیکن یہ کہنا شاید قرینِ انصاف نہیں کہ اس کے ہاں تاریخ کا کوئی مربوط تصور موجود نہیں۔ اگر حقیقت یہی ہوتی تو وہ کسی طرح بھی جدید فلسفۂ تاریخ اور تاریخ کے عمرانی منہاج کا بانی قرار دیے جانے کا مستحق نہ ہوتا۔ مقدمے کی ایک فصل میں تاریخ کی ایک واضح تعریف موجود ہے اور وہ یہ ہے’’اعلم ان فن تاریخ فن عزیز المذھب…اذ ھو یوقفنا علیٰ احوال الماضیین من الامم واخلاقھم۔ یعنی تمہیں جاننا چاہیے کہ فنِ تاریخ ایک وقیع فن ہے،…یہ ہمیں ماضی کی اقوام کے احوال اور اخلاق سے واقف کرتا ہے‘‘۔ تاریخ کو ’’فن عزیز المذہب‘‘ کہنے کا حاصل یہی ہے کہ وہ تاریخ کو ایک بے حد اہم علم سمجھتا ہے، نیز تاریخ اس کے نزدیک صرف بادشاہوں کے حالات یا اُن کے سنین و شہور (chronology) نہیں بلکہ یہ اقوامِ ماضیہ کا علم ہے جو اممِ گذشتہ کے احوال سے بحث کرتا ہے۔ بالخصوص اُن کے اخلاق(عادات و اطوار اور عمومی معاشرتی کوائف) کی روشنی میں …!یہ تعریف بہت حد تک جامع ہے۔ تاہم مقدمے میں ایک اور مقام پر تھوڑی سی تفصیل اور بھی ہے جس سے اس کے نظریۂِ تاریخ پر مزید روشنی پڑتی ہے۔ابنِ خلدون لکھتا ہے: ’’اعلم انہ لما کانت حقیقۃ التاریخ انہ خبر وعن الاجتماع الانسانی انہ ہو عمران العالم‘‘۔۳۳؎ یہاں ابنِ خلدون نے تاریخ کو’’ خبر‘‘ قرار دیا ہے جس کا تعلق اجتماعِ انسانی سے ہے اور اجتماعِ انسانی عمران العالم (ساری دُنیا کا انسانی معاشرہ) ہے۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو فی الحقیقت جدید مطالعۂ تاریخ اور علم العمران کی بنیاد قرار دیے جا سکتے ہیں…اگر تجزیہ کریں تو بظاہر ان اُدھوری تعریفوں سے ایک بہت حد تک جامع تعریف بھی اخذ کی جا سکتی ہے مثلاً ۱-’’علم تاریخ ایک وقیع اور اہم علم ہے‘‘۔ ابنِ خلدون سے پیشترکسی نے تاریخ کو علم یا فن قرار نہیں دیا تھا۔ اور نہ ہی اس کی اہمیت کو اس طرح تسلیم کیا تھا۔ ۲-’’یہ علم ہمیں اقوامِ ماضیہ کے احوال و اخلاق سے واقف کرتا ہے‘‘۔ ابنِ خلدون پہلا شخص ہے جس نے تاریخ کو اقوام و امم سے وابستہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ تاریخ اممِ ماضیہ کے احوال و اخلاق کے مطالعے کا نام ہے۔ محض سنین و شہور کی کھتائونی یا سلاطین کے احوال سے عبارت نہیں، یہ تاریخ کا پہلا وسیع اور علمی تصور ہے جو دُنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔ ۳-تاریخ کی حقیقت یہ ہے کہ یہ’خبر‘ ہے‘‘۔ خبر ایک خالص اسلامی اصطلاح ہے، جس سے مراد ہے کسی خاص واقعے کے بارے میں جو ماضیِ قریب یا ماضیِ بعید میں پیش آیا، ممکنہ حد تک صحیح روایت جو راویوں کے ناموں اور اُن کے الفاظ کی حامل بھی ہو۔ روایت کی صحت میں مسلمانوں کی کدوکاوش دُنیا سے پوشیدہ نہیں ہے، ابنِ خلدون نے تاریخ کو خبر کَہ کر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ تاریخ میں روایت کی صداقت اور راویوں کی ثقابت کیا معنی رکھتی ہے۔ ۴-’’تاریخ کا تعلق ’اجتماعِ انسانی‘ سے ہے‘‘۔ گویا کسی فردِ واحد کے احوال کو ہم تاریخ نہیں کَہ سکتے بلکہ یہ انسان کی اجتماعی صورتِ حال کا مطالعہ ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں ابنِ خلدون تاریخ کو عمرانیات کے ساتھ ملا دیتا ہے،…’’انہ خبر وھو عن الاجتماع انسانی‘‘ کَہ کر اس نے علمِ تاریخ کے سائے میں عمرانیات یا علم العمران (sociology) کی بنیاد بھی رکھ دی،…اس خیال کے لیے کہ انسان کا مطالعہ اس کے فطری ماحول اور معاشرتی احوال کے سیاق و سباق میں کیا جانا چاہیے، دُنیا فی الحقیقت ابنِ خلدون ہی کی رہینِ منّت ہے۔ ۵-’’اجتماعِ انسانی دراصل’ عمران العالم ہے‘‘۔‘اگر ابنِ خلدون اجتماعِ انسانی کے بعد ’عمران العالم‘ کا اضافہ نہ کرتا تو بھی ’اجتماعِ انسانی‘ کی اصطلاح اسے جدید عمرانیات کا بانی ثابت کرنے کے لیے کافی تھی۔ لیکن اس نے ’اجتماعِ انسانی، پر ’عمران العالم‘ کا اضافہ کر کے واضح کر دیا کہ وہ تاریخ کو انسان کی اجتماعی صورتِ حال…اور پوری دُنیا کی انسانی معاشرت کا مطالعہ سمجھتا ہے۔ اس سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ وہ تاریخ کو کسی ایک خطے یا قوم تک محدود نہیں کرتا بلکہ تاریخ کے عمل کو تہذیبِ انسانی کی مجموعی صورتِ حال کے مطالعے کے مترادف قرار دیتا ہے، اس اشارے میں ایک اشارہ یہ بھی پنہاں ہے کہ ابنِ خلدون کے نزدیک تاریخ ایک مجموعی عمل (general process) ہے جس کا تعلق انسان کی عمومی اور مجموعی معاشرتی صورتِ حال سے ہے تاہم علم تاریخ اس کے نزدیک ایک ایسا علم ہے جو کسی خاص عہد یا ملت کے مخصوص حالات و واقعات کو موضوعِ بحث قرار دیتا ہے۔‘‘۳۴؎ اگر ان نکات پر مزید چند تصورات کا اضافہ کر دیا جائے تو ابنِ خلدون کا تصورِ تاریخ نکھر کر سامنے آجاتا ہے وہ چند تصورات یہ ہیں: ۶-تغیّر اور اُصولِ حرکت: ابنِ خلدون نے تاریخ کے عمل میں تغیر اور اُصولِ حرکت کو کارفرما دیکھا،…اُسوقت تک کی علمی ترقی اور تصورِ تاریخ کے ارتقا کو دیکھا جائے تو یہ ایک انقلاب آفریں تصور ہے کہ زندگی انفرادی ہو یا اجتماعی، معرضِ تغیّر میں ہے اور معاشرے کے ہر عمل میں اُصولِ حرکت کارفرما ہے خواہ یہ حرکت پیش رفت کی ہو یا مراجعت کی۔ اس تصور کا سرچشمہ یقیناً قرآن کریم کا یہ تصور ہے کہ اقوام کی زندگی تغیّرات سے دو چار رہتی ہے جیسا کہ واضح طور پر ارشاد فرمایا گیا ہے:وَ تِلکَ الَا یَّامُ نُداوِلُھَا بَینَ النَّاسِ اور یہ ایّامِ (عروج و زوال) ہیں، جنھیں ہم انسانوں (قوموں) میں اِدھر سے اُدھر پھراتے رہتے ہیں(کہ کبھی ایک کو جیت یا بلندی نصیب ہوتی ہے اور کبھی دوسرے کو)۔ سورۂ آلِ عمران کی یہ آیت اُن آیاتِ کریمہ میں سے ہے جو جنگِ اُحد میں مسلمانوں کی شکست کے بعد اُن کی تالیفِ قلب کے لیے نازل ہوئیں۔لیکن اُنھیں آیات میں قرآن کریم نے اپنا فلسفۂ تاریخ اور قوموں کے عروج و زوال کے اسباب و علل بھی اجمالاً بیان کر دیے ہیں اس سے پیشتر کی آیات میں قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ ’تم سے پہلے بھی دُنیا میں قوموں کے لیے عروج و زوال کے قوانین کار فرما رہے ہیں۔ پس دُنیا کی سیر کرو اور دیکھو کہ احکامِ حق کو جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا ۳۵؎گویا قرآنِ کریم نے قوموں کے عروج و زوال کو عمومی طور پر ان کے اعمالِ (خیر و شر) کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ بہر حال ابنِ خلدون نے اُصولِ تغیّر کو تاریخ کے مطالعے کا اصلِ اُصول قرار دیا ہے۔ ۷۔تاریخ ایک مراجعتی یا دَوری عمل ہے: ابنِ خلدون کے افکار اور فلسفۂ تاریخ کا مطالعہ کرنے والے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں بہت حد تک حق بجانب ہیں کہ تاریخ ابنِ خلدون کے نزدیک ایک بار بار مراجعت کرنے والی حرکت یا دَوری عمل (cyclic movement)سے عبارت ہے گویا تاریخ کا عمل ہر بار ایک دائرے کو مکمل کرتا ہے اور ہر نئے دائرے کی نوعیت کم و بیش گذشتہ دائرے کی طرح ہوتی ہے۔ ابنِ خلدون کے نزدیک تاریخ کا عمل خطِ مستقیم میں نہیں، اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ پوری حیات انسانی میں ایک عمودی یا ارتقائی حرکت کو تسلیم نہیں کرتا۔ لیکن ایسا اس نے الفاظ میں نہیں کہا بلکہ اس کی بعض عبارات سے متبادر ہوتا ہے۔ یا ان تصورات سے مفہوم ہوتا ہے جو اس نے تہذیبوں کی عمرِ طبیعی کے بارے میں پیش کیے ہیں۔ ۸-عبرت اندوزی اور حکمت افروزی: ابنِ خلدون نے تاریخ کو علومِ حکمیہ (philosophy) کا درجہ دینے کی سعی کی۔ اس نے کہا کہ تاریخ بھی حکمت کا ایک شعبہ ہے، نیز اس سے واقعاتِ عالم کے اسباب و علل کا تجزیہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان واقعات و حوادث سے عبرت اندوزی اور حکمت پذیری کا کام بھی لیا جانا چاہیے۔ ابنِ خلدون کی کتاب کا پورا نام (جیسا کہ سطور بالا میں بتایا جا چکا ہے)کتاب العبر و دیوان المبتدا والخبر فی ایام العرب و العجم والبربر ومن عاصرھم من ذوی السلطان الاکبر ہے۔ اسے بعد کے تمام مؤرخین نے ’’کتاب العبر‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ ابنِ خلدون کے تصورِ تاریخ میں لفظ ’عبر‘ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ دورِ جدید کے ایک معنی آفریں محقق۔ محسن مہدی نے اپنی تحقیق۳۶؎میں’عبر‘ اور ’ایّام‘ کے الفاظ کو کلیدی حیثیت دی ہے اور ابنِ خلدون کے تصور تاریخ کی تشریح انھیں دو الفاظ کے حوالے سے کی ہے،’عبر‘ ’عبرت‘ کی جمع ہے، اور عبرت کے معنی ہیں کسی واقعے یا شئے یا افراد و اقوام کے احوال سے ایسے نتائج اخذ کرنا جو نتائج اخذ کرنے والے کے لیے اخلاقی اصلاح کا باعث بن سکیں۔ عام الفاظ میں اسے پندو نصیحت بھی کَہ سکتے ہیں۔ ابنِ خلدون واقعات کو ’ساکن‘ حالت میں نہیں دیکھتا بلکہ کڑی سے کڑی ملا کر ایک مسلسل سلسلۂ ظہور کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔ اس مرحلۂ بحث میں مناسب ہے کہ ہم ابنِ خلدون کے تصورِ تاریخ کو خود اس کے اپنے الفاظ میں یک جا کرنے کی سعی کریں۔ ’کتاب العبر‘ کا مقدمہ۔ جو مقدمۂ ابنِ خلدون کے نام سے شہرۂ آفاق ہے، اور ’خلدونیات‘ کا سرچشمہ ہے، ایک ایسی تحریر سے شروع ہوا ہے جسے مقدمے کا پیش لفظ کہا جا سکتا ہے۔ اس پیش لفظ کا آغاز ایک خطبے سے ہوتا ہے خطبے کے بعد ابنِ خلدون نے اس طرح آغازِ کلام کیا ہے: امّا بعد،…تاریخ کا اُن فنون میں شمار ہے جن کو تمام قومیں عام طور پر پڑھتی پڑھاتی رہتی ہیں۔ اور سفر تک کی تکالیف اس کی خاطر برداشت کرتی ہیں۔ عوام و جہلا بھی اس کی معرفت کی راہ میں پیش قدمی دکھاتے ہیں۔ اور ملوک واکابر بھی اس میں انتہائی دلبستگی اور رغبت کا اظہار کرتے ہیں۔ غرض علما و جہلا ہر دو برابر اس میں اپنے ذہنی مذاق کا سامان مہیا پاتے ہیں۔ کیونکہ اگر تاریخ ایک طرف ظاہر میں محض گذشتہ ایام اور سابق دولتوں کے حالات ہمارے سامنے لاتی ہے اور ایامِ ماضیہ کو ہمارے رُو بُرو لا کر رکھتی ہے اور طرح طرح کے اقوال و امثال سے وہ بھر پور ہے۔ اور ہماری بھری مجلسوں کا ایک دلچسپ موضوعِ گفتگو بنتی ہے۔ اور ہم کو یہ بھی بتاتی کہ بدلتے ہوئے حالاتِ زمانہ نے مخلوقاتِ عالم کو کس طرح پیہم انقلاب و ردو بدل میں رکھا۔ اور کس طرح حکومتیں سمٹیں اور بڑھیں۔ اور اُنھوں نے زمین کو آباد کیا۔ یہاں تک کہ آخر میں اُن پر بھی کوچ کا نقارہ بجا اور بربادی نے اُن کو بھی آن لیا۔ تو دوسری طرف باطن میں تاریخ اپنے اندر ایک نظریہ بھی رکھتی ہے۔ یعنی کائنات کے علل اور ان کے دقیق مبادی کو سامنے لاتی ہے۔ واقعات کے اُسلوب کا علم بخشی ہے۔ اور اُن کے گہرے اسباب کو آشکار کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ فنونِ حکمت میں وہ بھی اپنا ایک مرتبہ رکھتی ہے اور سزا وار ہے کہ علومِ حکمیہ میں اس کا شمار ہو۔ اور انھیں حالات کے پیشِ نظر معتمد مؤرخینِ اسلام نے واقعاتِ زمانہ کو بہ تمام و کمال جمع و مرتب کیا۔ اور پھر ان کو کتابی شکل میں لائے۔۳۷؎ اس پیش لفظ میں اس کے بعد ابنِ خلدون نے مؤرخین گذشتہ اور اپنے عہد کے تاریخ نگاروں کی سہل انگاری پر ایک بھر پور تبصرہ کیا ہے جس سے اندزہ ہوتا ہے کہ اس نے گذشتہ اور معاصر تاریخ نگاری (historiography) کا کس طرح بہ امعانِ نظر مطالعۂ کیا تھا اور کس طرح ہر ممکن حد تک اُن کی خامیوں سے آگاہ تھا۔ مقدمے کا آغاز اس نے تاریخ کی فضیلت کے بیان سے کیا ہے اس سے بھی اس کے تصورِ تاریخ کی تشریح ہوتی ہے۔ وہ لکھتا ہے: واضح رہے کہ تاریخ ایک بلند مرتبہ شعبۂ علم، کثیر الفوائد خوش نتائج فن ہے۔ کیونکہ وہ ہم کو سابق اُمتوں کے اخلاقی حالات، انبیاء علیہم السلام کی سیرتوں اور سلاطین کی حکومتوں اور اُن کی سیاستوں سے روشناس کرتا ہے۔ تا کہ جو شخص دینی و دنیوی معاملات میں اُن میں سے کسی کی پیروی کرنا چاہے تو اس کا دامن فائدے سے خالی نہ رہے۔ لہٰذا اس میں ضرورت ہے کہ متعدد ماخذوں کا پتہ لگایا جائے، مختلف علوم سے واقفیت حاصل کی جائے اور مؤرخ فکرِ صحیح اور گہری نظر بھی رکھتا ہو کہ اس کے ذریعے وہ حق و صداقت کی راہ پا سکے اور لغزشوں اور اغلاط سے اپنا دامن بچا سکے۔ کیونکہ اخبار میں اگر محض نقل پر نظر قاصر رکھی جائے اور اُصولِ عادت، قواعدِ سیاست، طبیعتِ تمدن اور اجتماعِ انسانی کے حالات کو پیش نظر نہ رکھا جائے۔ اور نہ غائب وغیر موجود کو حاضر و موجود پر قیاس کیا جائے تو غلطی، لغزش قدم اور سچائی کے راستے سے ہٹ جانے کے خطرے سے نجات نہیں مل سکتی۔۳۸؎ سطورِ بالا میں ابنِ خلدون کے تصور تاریخ کے بارے میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے اگر اس پر مقدمے اور مقدمے کے پیش لفظ کے ان اقتباسات کی روشنی میں…چند مزید اشارات کا اضافہ کر دیا جائے تو ابنِ خلدون کا تصورِ تاریخ اپنی تمام وسعتوں اور حدود کے ساتھ اُبھر کر سامنے آجاتا ہے۔ وہ اشارات یہ ہو سکتے ہیں: ۱-تاریخ ایک بلند مرتبہ شعبۂ علم اور کثیر الفوائد، خوش نتائج فن ہے۔ ۲-تاریخ واقعات کائنات میں اسباب و علل کی دریافت اور واقعات کے نہایت لطیف و دقیق مبادی کے تجزیے سے عبارت ہے۔ ۳-تاریخ واقعات کے اُسلوب کا علم ہے۔ یعنی ایک خاص تاریخی صورتِ حال میں واقعات و حالات کس نہج یا اُسلوب (style or manner)سے اُبھرتے اور وقوع پذیر ہوتے ہیں، یہ علم اس کا مطالعہ کرتا ہے۔ ۴-واقعات کے اسباب گہرے ہوتے ہیں۔ یعنی ہمارے علم وا دراک کی عمومی سطح سے کہیں عمیق، عملِ حیات کی تیز رَو میں گُم…اور ظاہری واقعات کے شدتِ ظہور میں لپٹے ہوئے تاریخ کا علم انھیں (لاشعور کی) گہرائی سے علم و شعور کی روشن اور واضح سطح پر لے آتا ہے۔ اس طرح واقعات کو اُن کے حقیقی اسباب کے ساتھ ملا کر مطالعہ کرنا فی الحقیقت ایک علم کا درجہ رکھتا ہے۔ ۵-تاریخ نگاری صرف نقل در نقل نہیں بلکہ ایک ایسا علم ہے جو کئی دوسرے علوم سے واقفیت کا تقاضا کرتا ہے۔ ۶-من گھڑت خرافات، بے بنیاد باتیں، لغو اور کمزور روایات اور خود ساختہ افسانے تاریخ نہیں۔ نہ سنی سنائی باتوں کا نام تاریخ ہے، یہ فن نا اہلوں اور محدود علم و بصیرت رکھنے والوں کا فن نہیں بلکہ وسیع النظر، وسیع المطالعہ، اُصول پسند، حقیقت نگار محققین کا علم ہے۔ اس اجمالی خاکہ کے اتمام پر ہم ایک بار پھر اقبال کے الفاظ دہراتے ہیں’’…اسلامی تہذیب و تمدن نے اپنے اظہار کے لیے جو راستہ اختیار کیا، اس پر نظر رکھیے تو یہ کسی مسلمان ہی کا کام ہو سکتا تھا کہ تاریخ کا تصور بطور ایک مسلسل اور مجموعی حرکت کے کرتا، یعنی زماناًایک ایسے نشوونما کی حیثیت سے جس کا ظہور ناگزیر ہے‘‘۔ اقبال کو مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ، اُن کی ملی زندگی کے مختلف دھاروں کے مدو جزر کی روداد، سیاسیاتِ اسلامیہ اور فکرِ اسلامی کے نشو و ارتقا کی تاریخ سے،…اور قوموں کے عروج و زوال کے محرکات کی تفہیم و تحسین کے عمل سے جو گہری دلچسپی اور وابستگی تھی اس کی بدولت ناگزیر تھا کہ اُن کے ہاں تاریخ کے بارے میں ایک مخصوص رویّہ پیدا ہو جائے۔ اقبال کی نظم و نثر میں اُن کا یہ رویّہ یا اندازِ نظر ایسا مربوط و مسلسل ہے کہ ہم اسے بجا طور پر اُن کا تصورِ تاریخ یا فلسفۂ تاریخ کَہ سکتے ہیں۔ اگرچہ اُن کا فلسفۂ تاریخ زیادہ تر اُن کے استدراکات سے عبارت ہے جو اُنھوں نے کسی حد تک البیرونی اور بہت حد تک ابنِ خلدون … اور مغربی مؤرخوں میں اشپنگلر کے خیالات و تصورات کا محاکمہ کرتے ہوئے سپردِ قلم کیے ہیں۔ اسی طرح اقبال کے تصورِ تاریخ کا ایک رشتہ ان کے تصورِ زمان و مکاں سے بھی ملتا ہے جس کی توضیح اُنھوں نے اپنے خطبات میں شرح و بسط کے ساتھ کی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اقبال کا نظریۂِ تاریخ بہت حد تک قرآن کریم کے تصورِ تاریخ ہی کی تعبیروتفسیر ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ تاریخ کے بارے میں اُن کا سب سے بڑا دعویٰ کہ یہ استقرائی عمل کا بہت بڑا ماخذ ہے، قرآنِ کریم کے اُصولِ تاریخ سے مستنبط ہے۔ اسے اصطلاحاً تاریخی استقرا (historical induction)کَہ سکتے ہیں۔ اسے منطقی استقرا(ogical induction) کی ایک عملی صورت سمجھنا چاہیے، دونوں سے مراد یہ ہے کہ کسی بھی موضوع سے متعلقہ حقائق کو اس طرح مرتب کیا جائے اور اُن کی اس طرح درجہ بندی کی جائے کہ اُن سے کسی عمومی نتیجے کا استخراج کیا جا سکے۔ اس حقیقت کی طرف اُنھوں نے ایک شعر میں واضح اشارہ کیا ہے: میں کہ مری غزل میں ہے آتشِ رفتہ کا سراغ میری تمام سر گزشت، کھوئے ہوئوں کی جستجُو! یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ غیر موزوں نہیں کہ اکثر و بیشتر صورتوں میں تاریخ سے اقبال کی مراد اسلامی تاریخ ہی ہے۔ اسلامی تاریخ کے زندہ تر، قوی تر اور جلیل و جمیل تر اجزا و عناصر کی تشکیلِ نَو، اقبال کی ذہنی اور جذباتی زندگی میں سب سے بڑی قوّتِ محرکہ رہی ہے۔ اقبال کے ہاں تاریخی استقرائیت (historical induction) کی یہ ایک عملی صورت تھی۔ اقبال کا سفرِ ہسپانیہ فہمِ تاریخ میں اُن کے استقرائی طریقِ کار کا ایک عملی نمونہ تھا۔ ۱۹۳۲ء میں جب اُنھیں گول میز کانفرنس کے لیے مسلمانان ہند کا نمائندہ منتخب کیا گیا تو اُنھوں نے افریقہ، ترکی اور ہسپانیہ کی سیاحت کا ارادہ کر لیا۔ ایک خط میں لکھتے ہیں:’’میں پورے شمالی افریقہ، ترکی اور ہسپانیہ کی سیاحت کا قصد رکھتا ہوں۔ دو ایک ماہ میں قطعی نتیجے پر پہنچ جائوں گا۔‘‘۳۹؎ یہ خط ۲۱ مئی ۱۹۳۲ء کو لکھا گیا تھا۔ چند ماہ بعد ۲۱ اگست ۱۹۳۲ء کو اُنھوں نے ایک اور خط میں لکھا: ’’اگر اب کے نکلا تو اسپین کی سیر کا بھی قصد ہے۔ ان شاء اللہ عربوں کے قدیم شہر بھی دیکھوں گا اور اُن پر لکھوں گا بھی‘‘۔۴۰؎ اُنھوں نے اس ارادے کو عملی جامہ پہنایا، پیرس میں برگساں سے ملاقات کے بعد اُنھوں نے فرانسیسی محقق میسینوں (Massignon) سے ملاقات کا شوق بھی ظاہر کیا۔ جس نے عربوں کے عہد کے اسپین پر تحقیقی کام کیا ہے۔ اس ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔ اقبال نے اس ملاقات میں میسی نوں سے اسلام کے بارے میں مغربی دُنیا کے بدلتے ہوئے رویے کا ذکر کیا، میسی نوں نے تسلیم کیا کہ یورپ پر مسلمانوں کے بہت احسانات ہیں، اقبال ہسپانیہ میں سب سے پہلے میڈریڈ گئے۔ میڈریڈ سے اسکوریال، جہاں مسلمانوں کی عربی تصانیف کا بہت بڑا ذخیرہ اقبال کے لیے خصوصی کشش کا سبب تھا۔ اسکوریال سے وہ طلیطلہ پہنچے، اس شہر کو اُنھوں نے عربی تمد ن کے آثار و باقیات کا خوبصورت نمونہ پایا۔ یہاں سے وہ قرطبہ پہنچے جس کی عظیم الشان اور شہرۂ آفاق مسجد نے اُن کے دل و دماغ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ جو ’مسجد قرطبہ‘ جیسی عظیم الشان نظم کی تخلیق کا باعث ہوئے،…اس سفر کے دوران اقبال کا تاریخی شعور پورے عروج پر رہا،… اور استقرائی طریق کار کو آزمانے کے اُنھیں پورے مواقع میسر آئے۔ مسجد قرطبہ کے بارے میں کسی اور موقع پر اُنھوں نے کہا تھا:’’میری رائے میں آج تک اس سے زیادہ خوبصورت اور شاندار مسجد روئے زمین پر نہیں بنی۔ اس کے نقوش دیکھ کر جو لذت قرآن اور اسلام کے مفہوم کے متعلق میں نے حاصل کی وہ بیسیوں تفسیروں سے حاصل نہ کر سکا۔‘‘۴۱؎ اس مسجد قرطبہ کے بارے میں اُنھوں نے ایک بار کہا تھا:"It is a commentary on the Quran written in stones" بہرحال اسلامی تاریخ اقبال کے لیے تاریخ کا نمونہ (prototype) ہے، تاہم عمومی معنوں میں بھی اقبال نے تاریخ کی معنویت کی خاص توضیح کی ہے، بنیادی طور پر اُن کی تاریخیت ان کے تصورِ زماں پر استوار ہے۔ خود زمانے کو بھی وہ ایک ارتقائی حرکت قرار دیتے ہیں۔ تاہم تاریخ زمانے میں ایک تخلیقی حرکت ہے جو محض مرورِ زماں (passage of time) سے مختلف بلکہ اس پر اضافہ ہے، اگرچہ مرورِ زماں کائنات میں واقعہ ہونے والی ہر حرکت کی تہ میں موجود ہوتا ہے لیکن عالمِ فطرت میں وقوع پذیر ہونے والی حرکات تاریخ نہیں، تاریخ انسانی اعمال سے پیدا ہوتی ہے اور انسانی اعمال نتیجہ ہیں ارادے اور عمل کے ہم آہنگ ظہور کا۔ انسانی ارادہ اور عمل تاریخ کو ایک اخلاقی اور باطنی مفہوم عطا کرتے ہیں، یہ ارادہ و عمل ہی ہیں جو اقبال کے تصورِ تاریخ کو اُن کے تصورِ خودی سے مربوط کرتے ہیں، چونکہ تاریخ انسانی ارادے اور عمل کی بدولت فیصلہ کن لمحات میں داخل ہوتی ہے۔ اس لیے قومی الارادہ اشخاص تاریخ کے عمل میں شامل رہتے ہیں، اور بعض صورتوں میں تاریخ کی تخلیق کرتے ہیں، یہاں سے ہمیں اقبال کی رجال پرستی یا اعاظم پرستی (hero worship) کا سراغ ملتا ہے، رجال یا ابطال (heroes) جن کے ذریعے ’خودی‘ کی قوتِ تخلیق کا بھر پور اظہار ہوتا ہے تاریخ کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اُن کا جوشِ کردار تاریخ کے دھاروں کو بدل دیتا ہے: راز ہے، راز ہے، تقدیرِ جہانِ تگ و تاز جوشِ کردار سے کھل جاتے ہیں تقدیر کے راز جوشِ کردار سے شمشیرِ سکندر کا طلوع کوہِ الوند ہوا جس کی حرارت سے گداز جوشِ کردار سے تیمور کا سیلِ ہمہ گیر سیل کے سامنے کیا شَے ہے نشیب اور فراز صفِ جنگاہ میں مردانِ خدا کی تکبیر جوشِ کردار سے بنتی ہے خدا کی آواز! (نپولین کے مزار پر) تاریخ کے عمل میں انسانی خودی کی اس فیصلہ کن قوتِ تخلیق و حرکت کو ایک اور جگہ اقبال نے ندرتِ فکر و عمل قرار دیا ہے۔ ندرتِ فکر و عمل کیا شے ہے؟ ذوقِ انقلاب! ندرتِ فکروعمل کیا شئے ہے؟ ملت کا شباب! ندرتِ فکر و عمل سے معجزاتِ زندگی ندرتِ فکر و عمل سے سنگِ خارہ لعلِ ناب! (مسولینی) اقبال کے نزدیک تاریخ کے عمل میں افراد و اقوام کی ذہنی زندگی کا تسلسل رُونما ہوتا ہے، اگرچہ تاریخ کو کوئی فوری ارادے سے تخلیق نہیں کر سکتا، اس لیے کہ تاریخ میں اسباب و علل کا سلسلہ بہر حال کارفرما رہتا ہے، لیکن تاریخ کے جبری لزوم کو اگر کوئی توڑ سکتا ہے تو وہ انسانی خودی کی بے پناہ قوتِ تخلیق ہے، اس کے باوصف اقبال تاریخ کی حیران کن قوتوں،…اور اس کی بے کراں معنویّت کو اُصولاً تسلیم کرتے ہیں، اور تاریخ کے علم کو کسی قوم کی اجتماعی خودی کی بقا اور نشو و نما کا ایک بہت بڑا ذریعہ خیال کرتے ہیں، شاعری میں اُن کا تصورِ تاریخ ان اشعار میں بیان ہوا ہے: چیست تاریخ اے زخودبیگانۂ داستانے، قصۂ، افسانۂ؟ این ترا از خویشتن آگہ کند آشنائے کار و مردِ رہ کند رُوح را سرمایۂ تاب است این جسمِ ملّت راچواعصاب است این شعلۂِ افسردہ در سوزش نگر دوش در آغوشِ امروزش نگر شمعِ او بختِ امم را کوکب است روشن از وی امشب وہم دیشب است بادۂِ صد سالہ در مینای اُو مستیِ پارینہ در خمہائے اُو ضبط کن تاریخ را پائندہ شو از نفس ہائے رمیدہ زندہ شو اے اپنے آپ سے غافل، (تجھے معلوم بھی ہے کہ) تاریخ کیا ہے؟ کیا محض حکایاتِ پارینہ؟ یا افسانے اور من گھڑت قصے؟(نہیں تاریخ یہ نہیں، بلکہ کچھ اور چیز ہے) یہ تجھے اپنے آپ سے آگاہ کرتی ہے، یہ تجھے کارداں (کاموں کو سمجھنے والا) اور مردِ راہ بناتی ہے۔ یہ رُوح کے لیے سرمایۂ فروغ و درخشندگی ہے۔ اگر کوئی قوم ایک جسم ہے تو تاریخ اس جسم کے لیے اعصاب کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کی جلن میں بجھے ہوئے شعلے کو دیکھو، اس کے ’آج‘ میں گزرے ہوئے ’کل‘ کو دیکھو۔ اس کی شمع قوموں کے بخت کا ستارا ہے،…آج کی رات، اور گزرے ہوئے کل کی رات بھی اسی (چراغ) سے روشن ہے…اس کی صراحی میں سو سالہ شراب ہے، اور اس کی شراب میں گزرے ہوئے سالوں کی مستی ہے، تاریخ کو محفوظ کر، اور جادواں ہو جا، تاریخ کی بدولت تو جاتی ہوئی سانسوں سے زندہ ہو جا۔ اقبال نے تاریخ کو ’’بختِ اقوام کا کوکب‘‘ کَہ کر علمِ تاریخ کی اہمیت و معنویت کی طرف بے حد مؤثر اور خوبصورت انداز میں اشارہ کیا ہے۔ تاریخ خود بینی، خودگری اور خود سازی کے عمل کے لیے ایک آزمائش بھی ہے اور علم و آگہی کا ایک وسیلہ بھی، یہ حال و استقبال کو ماضی کے ساتھ مربوط کر کے قوموں میں وقت کی کلیّت کا احساس پیدا کرتی ہے۔ یہ فطرت اور زمانے کے سنگم پر صاحبِ ارادہ انسان کی تخلیقی فعلیّت اور آزاد علیّت کا اجتماعی اظہار ہے جو ہر حال میں اخلاقی معنویت سے لبریز اور ایک داخلی منطق کی آئینہ دار ہوتی ہے، یہ مرورِ زماں کے بظاہر بے کیف و کم عمل میں واقعات و حوادث کے نقش و نگار کے مسلسل اضافے کی حیثیت رکھتی ہے، تاریخ خاکِ مردہ، میں زندگی کی کروٹوں سے عبارت ہے۔ اس میں داخلی اور خارجی تضادات ٹکرائو اور کشمکش ایک صورتِ حال کو جنم دیتے ہیں جو افراد و اقوام کے کردار کی صلابت اور ان کی صلاحیتِ بقا کے لیے ایک امتحان گاہ بن جاتی ہے،…تاریخ اپنی جبریت و لزوم (historical determaination) کے باوجود انسانی خودی کو انتخاب (choice) اور آزادیِ عمل کا راستہ دکھاتی ہے، یہ تاریخ ہی ہے جو انسان کو اس کے امکانات سے روشناس کرتی ہے، تاریخ مرورِ زماں کا انسانی مفہوم بھی ہے، اور ایک ایسی خود مختار فعلیّت بھی جس کا دھارا انسان کو تقدیر و مشیّت بن کر بھی چھوتا ہے اور ارادہ و عمل کا پیغام بن کر بھی۔ قوموں کی زندگی بالخصوص تاریخ کے حوالے سے وجود میں آتی ہے اور آگے بڑھتی ہے۔ زندہ فرد از ارتباطِ جان و تن زندہ قوم از حفظِ ناموسِ کُہن مرگِ فرد از خشکیِ رودِ حیات مرگِ قوم از ترکِ مقصودِ حیات قوم روشن از سوادِ سرگذشت خود شناس آمد زیادِ سرگذشت سرگذشتِ او گر از یادش رود باز اندر نیستی گُم می شود (جس طرح) فرد جسم اور روح کے باہمی ربط سے زندہ ہوتا ہے اسی طرح قوم اپنے ناموسِ کہن(عظمتِ رفتہ) کی حفاظت سے زندہ رہتی ہے۔ فرد موجِ حیات کے خشک ہو جانے کے سبب مر جاتا ہے اور قوم اپنے (اجتماعی) نصب العین کو چھوڑ دینے پر مرگ آشنا ہو جاتی ہے۔ قوم اپنی سرگذشت (تاریخ) کی تحریر سے ہی روشن رہتی ہے، یہ اپنی تاریخ کو یاد رکھنے سے ہی خود شناس بنتی ہے۔ اگر قوم کے حافظے سے اس کی تاریخ محو ہو جائے تو وہ نیستی کے (اندھیروں میں) گُم ہو جاتی ہے۔ اشپنگلر نے تاریخ میں ارتقائی حرکت کو ماننے سے بہت حد تک انکار کیا ہے۔ ابنِ خلدون نے بھی تاریخ کے ارتقائی عمل کا واضح الفاظ میں اقرار نہیں کیا، اقبال…تاریخ کو ایک مربوط، اور مسلسل ارتقائی اور تخلیقی حرکت تسلیم کرتے ہیں جو انسان کی اجتماعی زندگی کے ساتھ بہت گہرا تعلق رکھتی ہے، بلکہ اقوام کی باطنی زندگی اس ارتقائی اور تخلیقی حرکت کے ذریعے زمانے میں متشکل ہوتی ہے اور تاریخ اپنے آپ کو اقوام کے اجتماعی اعمال…اور اُن کے تخلیقی اعمال کی صورت میں ظاہر کرتی ہے، اس لیے تاریخ کا مفہوم اقوام کی اجتماعی زندگی کی سرگذشت اور اس کی علاماتی معنویت سے مختلف کوئی چیز نہیں ہے۔ اگرچہ یہ ’’اجتماعیت‘‘ سے وابستہ ہے لیکن غیر معمولی تخلیقی قوتیں رکھنے والے انسانوں کی بدولت اس کے عمل میں ’’جست یاز قند‘‘ بھی پائی جاتی ہے،…تاریخ کی یہ جست بعض اوقات غیرمعمولی افراد کی دخل اندازی کی رہین منت بھی نہیں ہوتی، بلکہ اپنے داخلی عمل کے بطون سے ہی کسی تخلیقی جست کو برآمد کر لیتی ہے، اخلاقی اور ما بعد الطبیعیاتی اعتبار سے اقبال کے ہاں تاریخ کے عمل میں پاداش عمل تو ہے، رجعتِ قہقہری (regressioin) یا ابدی ارتقا و رجعت (eternal recurrence) نہیں ہے۔ یہ حال کی استقبال میں پیش رفت ہے۔ زندگی کے نئے امکانات کو منکشف کرتے ہوئے،…گویا تاریخ کے کسی نقطے یا آن میں اتمام کی شان نہیں ہے، بلکہ ربط وار تقا کا ایک ایسا عمل ہے جو مسلسل تکمیل (perfection) کو وجود میں لا رہا ہے: یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکوں یا بقولِ غالب: آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز پیشِ نظر ہے آئنہ دائم نقاب میں! /// حواشی 1- Carl Lowith, Meaning in History, p.191. 2- Carl Lowith, Meaning in History, Introduction. 3- Lecture on the philosophy of History (trans) 1900, p.21. 4- Cause and effect. 5- Destiny. 6- Organic Necessity in life. ۷- یہاں اشپنگلر کا قول ختم ہو جاتا ہے۔ ۸- تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ، پانچواں خطبہ، مترجم: سیّدنذیر نیازی، ص ۲۰۳۔ ۹- ادراج Interpolation۔ ۱۰- مثلثی تفاعل۔Trignometrical function ۱۱- تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ، پانچواں خطبہ، مترجم: سیّدنذیر نیازی، ص ۲۰۵ ۱۲- سنینی عددChronological Number۔ ۱۳- کونBeing ۔ ۱۴- تکوینBcoming ۔ ۱۵- تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ، پانچواں خطبہ، ص ۲۰۵ ۱۶- اشپنگلر نے اس سیاق میں ریاضیاتی، (Mathemetical) کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ملاحظہ ہو۔ مقدمہ زوالِ مغرب۔ ۱۷- تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ، دوسرا خطبہ، مترجم: سیّدنذیر نیازی، ص۱۶۵۔۱۶۶۔ ۱۸- تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ، دوسرا خطبہ، مترجم: سیّدنذیر نیازی، ص۱۶۶۔ ۱۹- یہاں اشپنگلر کا قول ختم ہو جاتا ہے ۲۰- تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ، پانچواں خطبہ، مترجم: سیّدنذیر نیازی، ص۲۰۳۔ ۲۱- ادراج Interpolation۔ ۲۲- مثلثی تفاعلTrignometrical Function۔ ۲۳ تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ، پانچواں خطبہ، مترجم: سیّدنذیر نیازی، ص۲۰۵۔ ۲۴- سنینی عدد chronological number۔ ۲۵- کونBeing ۔ ۲۶- تکوینDecoming ۔ ۲۷- تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ، پانچواں خطبہ، مترجم: سیّدنذیر نیازی، ص ۲۰۵۔ ۲۸- تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ، ص ۲۲۰ ۲۹- تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ، ’’اسلامی ثقافت کی رُوح‘‘، ص ۲۱۲، ۲۱۳۔ ۳۰- مولانا محمد حنیف ندوی۔ افکارِ ابنِ خلدون(بحوالہ مقدمۂِ ابنِ خلدون) ادارہ ثقافت اسلامیہ، ص ۵۹،۶۰۔ ۳۱- مولانا ابوالکلام آزاد، ترجمان القرآن، جلد ۲ ص ۶۶، ۳۲- یعنی اسلامی تہذیب ۳۳- تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ، پانچواں خطبہ، مترجم: سیّدنذیر نیازی، ص ۲۱۸،۲۱۹ ۳۴- تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ، پانچواں خطبہ، مترجم: سیّدنذیر نیازی، ص ۲۱۶، ۲۱۷ ۳۵- تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ، ص ۲۶ ۳۶- تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ، ص ۲۱۶ ۳۷- ابنِ خلدون ابوزید عبدالرحمن ولی الدین: ۷۳۲ھ/۱۳۳۲ء میں تیونس میں پیدا ہوا اور ۸۰۸ھ/۱۴۰۶ء میں قاہرہ میں فوت ہوا۔ ۳۸- دائرہ معارفِ اسلامیہ۔ مقالہ’’ ابنِ خلدون‘‘ جلد اوّل، ص ۵۰۶۔ ۳۹- دیسلان نے مقدمے کا ۱۸۶۲ء میں فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیا تاریخ کے ایک حصے کا لاطینی ترجمہ اوسلو سے ۱۸۴۰ء میں شائع ہوا۔ اُردو ترجمہ مقدمہ ابنِ خلدون مع سوانح۔ لاہور ۱۹۱۰ء اُردو ترجمہ مقدمہ ابنِ خلدون از سعد حسن خاں، کراچی، اُردو ترجمہ تاریخ ابنِ خلدون از احمد حسین الٰہ آباد، ۱۹۰۱ء اُردو ترجمہ تاریخ ابنِ خلدون از ڈاکٹر عنایت اللہ، لاہور۔ ۱۹۶۰ئ۔ ۴۰- مقدمہ طبع عبدالواحد واتی، مع تعلیقات، قاہرہ۔ ۱۹۵۷ئ، جلد اول، ص، ۲۶۱۔ ۴۱- مقدمہ ابنِ خلدون، پیرس ایڈیشن، ج ا، ص، ۵۰ ۔ ۴۲- القرآن۔ سورۂ آلِ عمران۔ آیت: ۱۳۷۔ 43- Muhsin Mehdi: Ibn Khaldun's Philosophy of Histroy, London. 1957. ۴۴- مقدمہ ابنِ خلدون، اُردو ترجمہ از مولانا سعد حسن خاں یوسفی (فاضل الٰہیات) نور محمد اصح المطابع کراچی، ص ۳۳۔ ۴۵- مقدمہ ابنِ خلدون، اُردو ترجمہ از مولانا سعد حسن خاں یوسفی (فاضل الٰہیات) نور محمد اصح المطابع کراچی، ص ۳۹۔ ۴۶- شیخ عطاء اللہ، مرتب، اقبال نامہ، حصہ دوم، ص ۴۸۴۔ ۴۷- شیخ عطاء اللہ، مرتب، اقبال نامہ، حصہ دوم، ص ۲۲۰۔ ۴۸- عبدالحمید: اقبال کے چند جواہر ریزے، ۱۹۴۷ئ، ص ۴۳۔ /// تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ [اسلامی افکار کے تناظر میں] علامہ اقبال کے شہرۂِ آفاق خطبات جو انگریزی میں{Six Lectures On Reconstruction of Religious Thought In Islam} کے عنوان سے، اور اب اُردو میں تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ کے نام سے مشہور ہیں، عصرِ حاضر کے اسلامی افکار کی دُنیا میں ایک گراں قدر سرمائے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگرچہ اسلامی فکر کے ایک خاص پہلو کے بارے میں اقبال کے پیش رو مولانا شبلی نعمانی ’الکلام‘ اور ’علم الکلام‘ کے نام سے اسلام کی متکلمانہ تعبیر و توجیہ کی روایت اور اس کے بنیادی مسائل پر دو اہم کتابیں پیش کر چکے تھے۔ لیکن ان دونوں کتابوں کا تعلق اسلامی عقائد کی نظری سَمت سے تھا۔ اسلامی تمدن کی فلسفیانہ اساس مولانا شبلی کا موضوع نہیں تھی۔ اس سے پیشتر حجۃ اللّٰہ البالغۃ یقینا ایک ایسی تصنیف تھی جسے کئی صدیوں کے ذہنی اور فکری جمود کے بعد اسلامی فکر میں ایک انقلابی تموّج، اور ایک نئے موڑ کی حیثیت حاصل ہے، حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے اپنی اس مجتہدانہ تصنیف میں اسلام کے عمرانی پہلوئوں کی فکر انگیز تشریح کی، اور اسلامی معاشرے میں کئی اعتبارات سے بعض بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت پر زور دیا۔ یہ ایک نئی ترقی پسندانہ سوچ تھی جس نے مغل تہذیب کے زوال و انحطاط کی تاریک رات کی کوکھ سے جنم لیا تھا،…لیکن یہ ترقی پسند سوچ دین کی کوئی نئی تعبیر نہیں تھی، بلکہ مسلّمہ عقائد اور مستند روایات و تعبیرات کی روشنی میں ایک انحطاط پذیر مسلمان معاشرے میں ایک ایسی تبدیلی کا پیغام تھا جو مسلمانوں کو نہ صرف دین کی اخلاقی، روحانی اور معاشرتی تعلیمات کے قریب لا سکے، بلکہ انھیں تعلیمات کے فیضان سے اُن کی دُنیاوی زندگی کو بھی بہتر خطوط پر استوار کر سکے۔ حضرت شاہ ولی اللہ کا یہی وہ پیغامِ انقلاب تھا، جو تحریکِ مجاہدین، جنگِ آزادی (۱۸۵۷ئ) اور کئی دوسر دینی تحریکات اور احیائی میلانات میں ایک قوتِ محرکہ کی حیثیت سے کار فرما اور اثر انداز رہا۔ تاہم حضرت شاہ ولی اللہ کا فکری فریم ورک، مسلّمہ اور مروّجہ ما بعد الطبیعیات تھی، جسے اُنھوں نے وحدت الشہود کی بعض اصطلاحات کے علاوہ،…بہت سی ذاتی اصطلاحات کے ذریعے بیان کیا، لیکن اس بیانِ نَو کا مقصود اسلامی مابعد الطبیعیات کی تنظیم نَو نہیں، بلکہ اسلام کے معاشرتی اور عمرانی تصورات کی توضیح تھی۔ یہ اور بات ہے کہ حضرت شاہ صاحب کی تحریروں کا ایک بہت بڑا حصہ ان کے تصوف کی توضیحات پر مشتمل ہے۔ اگر عصرِ حاضر میں کوئی جدید اسلامی تصوف ہو سکتا ہے تو وہ شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی تصنیفات سے ہی برآمد ہوتا ہے۔ اُن کی خدمات اگرچہ گوناگوں ہیں، لیکن فکری سطح پر وہ اسلامی معاشرے میں نئے معاشرتی اور عمرانی انقلاب کے داعی، اور تصوف کی ایک نئی…اور نسبتاً زیادہ انسانی (human) اور عملی تعبیر کے بانی ہیں۔ اگر معروضی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو گذشتہ پانچ سو سال میں، برِ صغیر میں اسلام فکر کی نشو و ارتقا کے تین بڑے علاماتی نشان نظر آتے ہیں یہ خیال رہے کہ اس اسلامی فکر کے اجزا میں خالصتاً ما بعد الطبیعیاتی اور متصو فانہ افکار سے لے کر سیاسی عمرانی افکار (socio-political thought) کی کئی رَویں بھی شامل ہیں۔ لیکن ان سب تموجّات و تحریکات کے جذباتی مافیہ(emotional content) میں ایک بہت بڑی خواہش شامل رہی ہے، اور وہ تھی اسلامی معاشرے کے لیے حیاتِ نو اور اسلام کی نشأۃِ ثانیہ کی خواہش جو حضرت مجدّدِ الفِ ثانی کے مکتوبات سے لے کر…اقبال کے مقالے’’ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ تک…ہر صادقانہ علمی اور دینی خدمت میں نمایاں طور پر کام کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ بہر حال،…بر صغیر کی گذشتہ پانچ سو سال کی تاریخ میں تین تصنیفات کی علاماتی حیثیت اور قدر و قیمت ہے۔ یعنی حضرت مجدد الف ثانی کے مکتوبات، حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کی تصنیف حجۃ اللّٰہ البالغۃ اور علامہ اقبال کے خطبات یعنی تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ،…اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ اس سارے عرصے میں اسلامی فکر کے بارے میں صرف یہی تین کام ہیں جو وقیع ہیں، اس سارے عرصے میں نہ معلوم کتنے ہزار بلکہ کتنے لاکھ صفحات اسلامی فکر اور اسلامی روایات کی تشریح و تدوین میں صرف ہوئے ہوں گے۔ انیسویں صدی میں خود سر سیّداحمد خاں بھی بذاتِ خود ایک دبستانِ فکر کی حیثیت رکھتے ہیں،…خیر آبادی مکتبِ فکر جس کی حُریّتِ فکر کو حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی کی یاد ہمیشہ تازہ رکھتی ہے، اسلامی فکر کی بعض بہترین روایات کا امین رہا ہے،… یہی وہ خیر آبادی مکتب فکر ہے جس کے ایک فرزندِ گرامی کی تصنیف (رسالہ در ماہیت زماں از علامہ عبدالحق خیرآبادی) کی تلاش علامہ اقبال کو ایک طویل عرصے تک رہی،… اسی طرح اٹھارویں اور انیسویں صدی کے شمالی ہند میں کئی اور دبستان اور شخصیتیں ہیں جنھوں نے اسلامی فکر کے تحفّظ … اور اس کے بہترین اجزا کی نظم و ترکیب میں گراں قدر خدمات انجام دی ہوں گی، لیکن… ان پانچ سو سالوں میں اسلامی فکر کے روشن ترین نقطے جن سے فکرِ تازہ کے آفتاب و ماہتاب طلوع ہوتے دکھائی دیتے ہیں…یہی تین ہیں: مکتوباتِ امامِ ربّانی، حجۃ اللّٰہ البالغۃ اور خطباتِ اقبال…ان تینوں نقاط میں ہمیں اسلامی فکر کی ربط و تنظیم اور تشکیلِ نَو کا ایک عمل واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ اور یہی وہ خصوصیت ہے جو اسلامی فکر کی تاریخ میں انھیں ایک ناقابلِ فراموش اجتماعی واردات (collective experience) کی حیثیت عطا کرتی ہے۔ ’خطباتِ اقبال‘… اپنی دو پیش روعظیم تصانیف کے مقابلے میں ابھی بہت حد تک علمی اعتبار سے نادریافت شُدہ (undiscovered) ہے اس لیے کہ ابھی تک اس کے فکری مشتملات (thought contents) کی مناسب درجہ بندی نہیں ہو سکی، یعنی اس کے بنیادی فکری اجزا کو پوری طرح دریافت نہیں کیا جا سکا، ان خطبات میں عصرِ حاضر میں اسلام کی جن تمدنی ضرورتوں کا ذکر ملتا ہے، ان تمدنی ضرورتوں کو ابھی تک اُن کے پورے انسانی، تہذیبی اور اخلاقی سیاق و سباق کے ساتھ تسلیم نہیں کیا گیا، ابھی تک یہ بھی نہیں سمجھا جا سکا کہ ان خطبات کے فکری اجزا کا اقبال کی شاعری کے ساتھ کیا رشتہ ہے؟ اور کیا ایسا کوئی رشتہ موجود ہے بھی یا نہیں؟ وہ علمی، منطقی اور سائنسی سولات، جن کے جوابات اقبال نے اسلامی فکر کی تاریخ میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے،…کیا مزید کسی تنقیح کے متقاضی نہیں؟ خطبات کا بھر پور علمی تجزیہ مشرق و مغرب کی بہت سی علمی اور فلسفیانہ روایات سے گہری واقفیت کا تقاضا کرتا ہے، نیز اس بات کی آگہی کا تقاضا بھی کرتا ہے آخر اقبال اسلامی فکر کو کیوں اس کی ثمریت یا نتیجہ خیزی (pragmatic value) کے نقطۂ نظر سے از سر نو متشکل کرنا چاہتے تھے۔ کیا بنیادی حوالوں کے ساتھ ایسا کرنا ممکن ہے بھی سہی یا نہیں؟ اور اگر ہے تو وہ کون سی شرائط ہیں جو اس عمل…(اسلامی فکر کی تشکیلِ نو) کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کے ساتھ اس ثمریت یا نتیجہ خیزی کے معیار پر بھی پوری اُترتی ہوں، جو ان خطبات کی تسوید و تشکیل کے وقت اقبال کے پیش نظر تھی… اس میں شک نہیں کہ یہ خطبات ہماری دانش گاہوں میں فلسفے کے اعلیٰ نصابات میں شامل ہیں،…لیکن اگر ان خطبات کو اسلامی فکر کی تاریخ کے پس منظر میں رکھ کر نہ دیکھا جائے، اور عصر حاضر میں مسلمانوں کی تمدنی ضرورتوں کے ساتھ اس کے رشتے کی نوعیت کو نہ سمجھا جائے تو اس کی معنویت کا بہترین حصہ ہماری رسائی سے دور رہتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ خطبات اسلامی فکر کی تاریخ میں ایک سنگِ میل یا ایک نئے سر چشمۂ فیضان (source of inspiration) کی حیثیت رکھتے ہیں، ان خطبات نے احیائے اسلام کی جدید تحریکات کو ایک فکری جہت اور ذہنی ضخامت عطا کی ہے، ان خطبات کی خالصتاً فلسفیانہ قدر و قیمت کے باوصف، اُنھیں بجا طور پر عصر حاضر میں ایک نئے علم الکلام کا نقطۂ آغاز بھی کہا جا سکتا ہے، ان خطبات کی اشاعت مسلمانوں کے فلسفیانہ افکار کے مطالعے اور اُن کی تلاش و جستجو کے لیے ذوق و شوق کی محرک بھی بنی۔ ان خطبات نے گزرتے ہوئے حوالوں کے ذریعے ہی سہی،…مسلمان مفکروں، دانش وروں اور صوفیوں کے بعض ایسے احوال و اقوال کی جھلک دکھائی ہے، جن کے بارے میں فوری طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے کہ ان میں اور عصر حاضر کے بلند ترین عمیق ترین فکر کے اسالیب میں بعض حیرت انگیز مشابہتیں موجود ہیں،…لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اقبال نے مغربی فکر اور اسلامی فکر میں جزوی یا کُلی مشابہتیں تلاش کی ہیں، یہ ان کا مقصود نہیں تھا۔ وہ تو ان خطبات میں، اور کئی باتوں کے علاوہ، یہ بھی دکھانا چاہتے تھے کہ کائنات کے بارے میں انسان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی معلومات،…جدید طبیعیات سے اُبھرنے والے نئے تصورِ کائنات،…اور جدید نفسیاتی حقائق کی روشنی میں۔ نیز انسان کی جدید تر تمدنی ضرورتوں…اور فکری مسائل کی روشنی میں…اگر کسی ممکنہ مذہب کے خدو خال واضح ہوتے ہیں تو وہ اسلام ہی ہے، جس کے اساسی تصورات اور جس کی فکری روایات میں عصرِ حاضر کے ہر نئے چیلنج کو قبول کرنے…اور اسے رد کرنے یا اس کا حل تلاش کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ان خطبات کو مرتب کرتے ہوئے اقبال کے پیشِ نظر فکرِ انسانی کی دو بڑی روایتیں یا دو بڑی دُنیائیں تھیں، مغربی فکر کی دُنیا، اور مشرقی فکر کی دُنیا، ان ہر دو دُنیائوں کے فکری تار و پود کا استقصا کرتے ہوئے ان کے پیش نظر ان دونوں کے قدیم و جدید مسائل بھی تھے،…وہ مسلمان صوفیا اور مفکروں کے افکار کے شارح ہی نہیں ناقد بھی ہیں،…ایک طرف تو وہ مغربی افکار کے مقابلے میں اسلامی فکر کی صحت اور صلابت کو واضح کرنا چاہتے ہیں، دوسری طرف مغربی فکر کے جدید ترین، بلند ترین اور روشن ترین نقطے بھی اُن کی نظر میں ہیں۔نیتشے، برگساں، وہائٹ ہیڈ، برٹرینڈرسل، ولیم جیمز، اوسپنسکی، یونگ اور سب سے بڑھ کر آئن اشٹائن جو جدید مغربی فکر اور سائنس کے معمارانِ اعظم ہیں، ہمہ وقت ان کے پیش نظر ہیں،…لیکن ان کی قدرومنزلت تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ وہ مغربی فکر کے داخلی تضادات اور اصلِ حقائق تک پہنچنے میں اس فکر کی نارسائی سے بھی بہت اچھی طرح واقف ہیں،…بلکہ اس سلسلے میں مغربی فکر کا کوئی اور نقاد…شاید ہی اُن کے فکر کی وسعت کو پہنچ سکے۔ اسی طرح وہ اسلامی فکر کے بہترین اجزا کی تنظیم و تشکیلِ نو اس طرح کرنا چاہتے ہیں کہ… ان فکری اجزا کے وہ معنوی مضمرات زیادہ روشن ہو سکیں، جن کا کوئی رشتہ عصرِحاضر کے فکری مسائل سے ہو، اور جو مسلمانوں کو باطنی زندگی کے احیا،… اور اجتماعی زندگی میں ’’اجتماعیت‘‘ کے اسلامی اُصول یاد دلا سکیں۔ اگر ان مقاصد کو سامنے رکھیں،…تو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ان خطبات کی تشکیل میں اقبال کی مشکلات کتنی گونا گوں ہوں گی… اور اُن کی نوعیت کیا رہی ہو گی پہلے دو خطبات میں اُن کا زور ان نکات پر ہے کہ جدید تجربی سائنس کا پیش رو اسلام ہی ہے جس نے استقرائی فکر (induction) کی حوصلہ افزائی کی۔ دُوسرا نکتہ یہ کہ جدید طبیعیات نے کائنات کی مادی تعبیر پر ضرب کاری لگا دی ہے، اب مادہ کوئی ایسی حقیقت نہیں رہا…جس کے ذریعے مادئیّن…مذہب کی صداقتوں کو فوری طور پر رد کر سکیں۔تیسرے اور چوتھے خطبے میں اسلام کی مابعد الطبیعیات کو نئے خطوط پر متشکل کرنے کی کوشش کی ہے،…اور انائے انسانی کو مرکزی حوالہ قرار دیتے ہوئے اسلامی مابعد الطبیعیات کے بعض بے احد اہم مسائل پر بحث کی ہے…پانچواں اور چھٹا خطبہ… عصرِ حاضر میں مسلمانوں کی سیاسی، معاشرتی اور تمدنی ضروریات کی روشنی میں اسلامی تہذیب کے اُصولِ حرکت اور اُصولِ اجتہاد کی تشریح کی ہے۔ اقبال نے اس بات پر قطعاً زور نہیں دیا کہ یہ خطبات…کسی بھی سطح پر کسی مربوط اسلامی فلسفے کے خدو خال اُجا گر کرتے ہیں۔ البتہ،…اس بات کی طرف ضرور اشارے ملتے ہیں کہ ان کی بدولت ایسی کسی بھی مخلصانہ سعی کی بنیادیں رکھی جاسکتی ہے جو زود یا بدیر،…کسی جدید اسلامی نظامِ افکار کی تشکیل و ترتیب پر منتج ہو۔ جدید طبیعیات کے حیرت انگیز انکشافات… اورعلم کے بدلتے ہوئے تصورات کی روشنی میں اقبال کی یہ اُمید بے جا نہیں تھی کہ اگر سائنسی ترقی کی رفتا یہی رہی تو عنقریب انسانی علوم میں ایک انقلابِ عظیم بر پا ہونے کا امکان ہے،…اقبال کو محسوس ہوتا ہے کہ انسانی علم اور انسانی فکر کا یہ متوقع انقلاب،…انسان کو مذہب (اور بالخصوص اسلام) سے دور کرنے کے بجائے، اس کے قریب لے آئے گا۔ یہی وہ توقع ہے جس کی بدولت اقبال اسلامی فکر میں ’نئے انسان‘ کے مسائل کا حل یا اس کے امکانات کی جھلک دیکھتے ہیں۔ وہ مغرب کی علمی ترقی اور تمدنی پژمردگی کے درمیان علّت و معلول کا رشتہ تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جدید مغربی تمدن اخلاقی اور رُوحانی معنوں میں جس یا س وقنوطیت اور بے ثمریت کو اپنے باطن میں چھپائے ہوئے ہے،…اقبال اس سے بخوبی واقف ہیں، اسی لیے وہ ساتویں خطبے (کیا مذہب کا امکان ہے!) میں ایک جگہ مغربی تمدن کے حوالے سے عصر حاضر کے انسان کی تصویر ان الفاظ میں کھینچتے ہیں: ’’حاصلِ کلام یہ ہے کہ عصر حاضر کی ذہنی سرگرمیوں سے جو نتائج مترتب ہوئے ان کے زیرِ اثر انسان کی رُوح مردہ ہو چکی ہے، یعنی وہ اپنے ضمیر اور باطن سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ خیالات اور تصورات کی جہت سے دیکھیے تو اس کا وجود خود اپنی ذات سے متصادم ہے، سیاسی اعتبار سے نظر ڈالیے تو افراد افراد سے (متصادم ہیں) اس میں اتنی سکت ہی نہیں کہ اپنی بے رحم انانیت اور ناقابلِ تسکین جوعِ زر پر قابو حاصل کر سکے، یہ باتیں ہیں جن کے زیر اثر زندگی کے اعلیٰ مراتب کے لیے اس کی جدو جہد بتدریج ختم ہو رہی ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ وہ درحقیقت زندگی ہی سے اکتا چکا ہے۔ اس کی نظر (صرف خارجی) حقائق پر ہے، یعنی حواس کے اس سرچشمے پر جو اس کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ لہٰذا اس کا تعلق اپنے اعماقِ وجود سے منقطع ہو چکا ہے۔۱؎ مغربی فکر اور مغربی نظامِ زیست کے زیر اثر پروان چڑھنے والے انسان کے باطن کی یہ تصویر کسی طرح بھی مبالغہ آمیز نہیں، جدید انسان اپنے ضمیر اور باطن سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے،…یہی وہ خیال ہے جسے ژونگ نے اپنی معرکہ آراتصنیف’’جدید انسان، روح کی تلاش میں‘‘۔ میں نفسِ انسانی کے بارے میں نئی سے نئی معلومات کی روشنی میں گویا علمی بُنیادوں پر ثابت کیا ہے۔ اقبال کے الفاظ میں ’بے رحم انانیت اور ناقابلِ تسکین جوعِ زر‘ نے انسان کو اس ’’اندرونیت‘‘ (inwardness) سے محروم کر دیا ہے، جسے ژونگ، سائکی (psyche) کہتا ہے، اور جو حیاتِ انسانی میں ایک ایسی باطنی گہرائی پیدا کرتی ہے، جس کا رشتہ زندگی کے بڑے اخلاقی، روحانی، اور انسانی نصب العین کے ساتھ استوار ہو سکتا ہے…لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ اقبال مشرق کی ذہنی، فکری اور عملی صورت حال سے بھی پوری طرح باخبر ہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ صورت حال جتنی اُن کے سامنے واضح تھی، شاید ہی کسی اور اسلامی مفکر کے سامنے رہی ہو،…اسی لیے اُنھوں نے تصوف کے بعض مروجہ تصورات اور رسوم (rituals) پرکڑی تنقید کی ہے چنانچہ جدید مغربی انسان کی صورت حال کے موازنے میں وہ مشرق کا بھی تجزیہ کرتے ہیں: کچھ ایسی ہی کیفیت مشرق کی ہے۔ اس لیے کہ سلوک و عرفان کے جو صوفیانہ طریق از منۂ متوسطہ میں وضع کیے گئے تھے اور جن کی بدولت مشرق و مغرب میں کبھی مذہبی زندگی کا اظہار بڑی اعلیٰ اور ارفع شکل میں ہوا تھا، اب عملاً بے کار ہوچکے ہیں۔ یوں بھی اسلامی مشرق میں تو بہ نسبت دوسرے ممالک کے ان سے جو نتائج مترتب ہوئے شاید کہیں زیادہ المناک اور حسرت انگیز ہیں۔ بجائے اس کے کہ یہ طور طریق اُن قویٰ کی شیرازہ بندی کریں جن کا تعلق انسان کی اندرونی زندگی سے ہے۔ تاکہ یوں اس میں یہ صلاحیت پیدا ہو کہ تاریخ کی مسلسل حرکت میں عملاً حصہ لے سکے، اس کی تعلیم یہ ہے کہ ہمیں دُنیا ہی سے منہ موڑ لینا چاہیے۔۲؎ لیکن تصوف اور نظامِ خانقاہی پر اس تنقید کے باوجود،… وہ عصر حاضر میں مذہب کے علمی جواز کو صوفیا کی واردات (religious ecperience) ہی میں تلاش کرتے ہیں۔ اسی آخری خطبے میں وہ حضرت شیخ احمد سرہندی کے تنقیدی منہاجِ تصوف کی تحسین کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ…’’اُنھوں نے اپنے زمانے کے تصوف کا تجزیہ جس بے باکی اور تنقید و تحقیق سے کیا اس سے سلوک و عرفان کا ایک نیا طریق و ضع ہوا‘‘۔ چنانچہ شیخ احمد سرہندی کے ایک مرید کے احوال باطنی۔ اور اُن کے بارے میں حضرت شیخ کی انتقادی رائے نقل کرنے کے بعد اقبال اسلامی تصوف کی روشنی میں نفس انسانی کی علمی قدرو قیمت کا تذکرہ کرتے ہیں: شیخ موصوف نے ان ارشادات میں جو امتیازات قائم کیے ہیں، ان کی نفسیاتی اساس کچھ بھی ہو، اس سے اتنا ضرور پتہ چلتا ہے کہ اسلامی تصوف کے اس مصلحِ عظیم کی نگاہوں میں ہماری اندرونی واردات اور مشاہدات کی دُنیا کس قدر و سیع ہے۔ اُن کا ارشاد ہے کہ اُن بے مثال واردات و مشاہدات سے پہلے، جو وجودِ حقیقی کا مظہر ہیں، عالمِ امر …یعنی اس دُنیا سے گزر کرنا ضروی ہے جسے ہم (سائنس اور فلسفۂ کی زبان میں) رہنما توانائی کی دُنیا کہتے ہیں۔۳؎ زیادہ واضح الفاظ میں اقبال عصر حاضر میں مذہب کی علمی توجیہ صوفیانہ واردات ہی میں تلاش کرتے ہیں…لیکن اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کی صوفیانہ واردات کی موجودہ صورتوں سے مطمئن نظر نہیں آتے، یا کم از کم عصرِحاضر کی تمدنی زندگی میں اُن کی نتیجہ خیزی اُن کے نزدیک زیادہ اطمینان بخش نہیں۔ لیکن وہ اس کے امکان کو کسی طرح رد نہیں کرتے، بلکہ اس واردات میں ایک کیفیاتی (qualitative) تبدیلی کے خواہاں ہیں، خود آگہی، خود شناسی اور شعورِ خویشتن۔ وارداتِ باطن کی اس مطلوبہ کیفیاتی تبدیلی کاجلی عنوان ہے،…وہ ثمریت پسندانہ نقطۂ نظر سے چاہتے ہیں کہ اس وقت فرد کی تمام نفسی واردات کا اولیں ما حاصل استحکامِ ذات اور بعد ازاں ملت کی اجتماعی زندگی کے لیے اس کی اندرونی اور بیرونی صلاحیتوں کا مفید ہونا ہے۔ اگر تصوف کی کوئی نہج اپنے آپ کو نئے علمی اکتشافات کی کسوٹی پر کسے جانے کے لیے پیش نہیں کرتی، یا فرد کو معاشرے سے منقطع کرنے پر زور دیتی ہے،…یا فرد کو تمدنی معنوں میں خلاق اور سود مند نہیں بناتی، تو اقبال کے نزدیک وہ آج کے مسلمان کے لیے کسی طرح بھی موزوں اور مفیدِ مطلب نہیں۔ ۲ خطبات کی فکری اور تمدنی غایات کو خود اقبال نے بھی ایک مختصر سے دیباچے میں کمال بلاغت کے ساتھ بیان کر دیا ہے، وہ اسلام کی حقیقت پسندی، یعنی خارجی کائنات کے ساتھ ذہنِ انسانی کے تجربی (empirical) اور استقرائی (inductive) رشتے کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے اپنے عہد کے اسلامی علوم کے نمائندوں، بالخصوص باطنی واردات کے علمبرداروں کے بارے میں کہتے ہیں: صحیح قسم کے سلسلہ ہائے تصوف نے بے شک ہم مسلمانوں میں مذہبی احوال و واردات کی تشکیل اور رہنمائی میں بڑی قابلِ قدر خدمات سرانجام دی ہیں، لیکن آگے چل کر ان کی نمائندگی جن حضرات کے حصے میں آئی وہ عصر حاضر کے ذہن سے بالکل بے خبر ہیں، اور اس لیے موجودہ دُنیا کے افکار اور تجربات سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکے۔ وہ آج بھی انھیں طریقوں سے کام لے رہے ہیں، جو ان لوگوں کے وضع کیے گئے تھے جن کا تہذیبی مطمحِ نظر بعض اہم پہلوئوں کے اعتبار سے ہمارے مطمحِ نظر سے بہت مختلف رہا ہے۔ گویا اقبال کے نزدیک مذہب کی اندرونی صداقت کا انحصار واردتِ باطن پر ہے، لیکن جیسا کہ اقبال نے حضرت شیخ احمد سر ہندی کی، ایک مرید کے احوال باطنی پر تنقید کے حوالے سے ثابت کیاہے، وارداتِ باطنی کوئی قطعی الثبوت چیز نہیں بلکہ اضافی (relative) ہیں اور ان کی تنقیح و تشکیل ہر حال میں ضروری ہوتی ہے،…عصر حاضر میں اقبال جن نئے علمی اکتشافات کی توقع رکھتے ہیں، ان میں ایک ایسے علمی منہاج (method) کی دریافت کا امکان بھی اُن کے پیش نظر ہے، جس کے ذریعے وحدتِ حیات کے قرآنی تصور کی روشنی میں حیات و کائنات کا مطالعہ کیا جا سکے گا، یہ ایک ایسا منہاج ہوگا جو اقبال کے الفاظ میں: ’’عضو یاتی اعتبار سے تو زیادہ سخت یعنی شدید بدنی ریاضتوں کا متقاضی نہ ہو، لیکن نفسیاتی اعتبار سے اس ذہن کے قریب تر ہو جو گویا محسوس (concrete) کا خو گر ہو چکا ہے، تا کہ وہ اسے بآسانی قبول کرے‘‘۔ بظاہر کسی ایسے علمی طریق کار کا وجود میں آنا بعید از امکان بھی نہیں، جس کے ذریعے محسوس کے خوگر ذہن کو حیات کی وحدت کے تجربے اور مشاہدے کے قابل بنایا جا سکے۔ جدید طبیعیات اور حیاتیات از خود اسی منزل کی طرف اُفتاں و خیزاں گام زن دکھائی دیتی ہیں، لیکن یہ دونوں علوم مذہبی واردات کے تجزیے کو کسی طرح اپنے دائرۂ کار میں شامل نہیں کر سکتے،…یہ کام نفسیات کسی حد تک کر سکتی ہے، لیکن ابھی دوسرے طبیعی علوم سے اشتراک و استفادے کی قائل نہیں۔ چنانچہ اقبال اسی دیباچے میں کہتے ہیں: جب تک کوئی ایسا منہاج متشکل نہیں ہو جاتا۔ یہ مطالبہ کیا غلط ہے کہ مذہب کی بدولت ہمیں جس قسم کا علم حاصل ہوتا ہے، اسے سائنس کی زبان میں سمجھا جائے… چنانچہ یہی مطالبہ ہے جسے ان خطبات میں جو مدراس مسلم ایسوسی ایشن، کی دعوت پر مرتب ہوئے اور مدراس، حیدر آباد، اور علی گڑھ میں دیے گئے، میں نے اسلام کی روایاتِ فکر… اور ان ترقیات کا لحاظ رکھتے ہوئے جو علم انسانی کے مختلف شعبوں میں حال ہی میں رُونما ہوئی ہیں، الٰہیاتِ اسلامیہ کی تشکیل جدید سے ایک حد تک پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ اقبال نے یہاں صرف سائنس کا لفظ استعمال کیا ہے، لیکن خطبات کے سارے علمی سیاق و سباق کو ملحوظ رکھا جائے تو بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ ان خطبات میں اقبال نے اسلام کے مابعد الطبیعیاتی افکار، اسلامی نظامِ صلوٰۃ و عبادت، اسلام کی معاشرتی اور تمدنی ماہیت اور مسلمانوں کی مذہبی واردات کو ۱۔جدید سائنسی علوم بالخصوص طبیعیات و حیاتیات اور ۲۔جدید نفسیات کی زبان میں بیان کرنے کی ایک بھر پور اور کامیاب کوشش کی ہے۔ محدود معنوں میں اسے ہم اسلامی تصوف کی تشکیلِ نو کی کوشش بھی کَہ سکتے تھے لیکن اس کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ عصر حاضر میں اسلامی تمدن کو درپیش کم و بیش تمام اجتماعی مسائل اور ان کی تنقیح اس میں شامل ہو گئی ہے۔ اب اگر ہم برِ صغیر کی اسلامی فکر کی تاریخ کے ان تین منور نقطوں کا مختصر تجزیہ کریں تو اس کی نوعیت یوں ہو گی۔ ۱-حضرت مجدد الف ثانی:مکتوبات، عقیدۂ توحید کی فلسفیانہ تشریح، وحدت الوجود سے وحدت الشہود کی طرف سفر، ایک نئے نظامِ تصوف کی تشکیل۔ موضوع : فرد دسویں اور گیارہویں صدی ہجری، سولہویں اور سترہویں صدی عیسوی، ۲-حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی:حجۃ اللّٰہ البالغۃ اور دوسری تصانیف، حکمتِ شریعت کی عقلی تشریحات، قدیم نظام تصوف میں ایک نیا منہاج قائم کرنے کی کوشش، اسلامی معاشرے کی تشکیل نو۔ موضوع : معاشرہ۔ بارہویں صدی ہجری اٹھارہویں صدی عیسوی ۳۔ علامہ محمد اقبال: خطبات، اُردو شاعری، نئی صوفیانہ واردات کی تشکیل جس میں فرد اور اس کی انا کو مرکزی حیثیت حاصل ہو، لیکن اس کی انفرادیت بالآخر ملت کی وحدت میں گم ہو جائے، مذہبی واردات کو جدید سائنس اور فلسفے کی زبان میں بیان کرنے کی کوشش، نئے اور فعال تر اسلامی معاشرے کی تشکیل، موضوع، فرد! اور معاشرہ۔ چودھویں صدی ہجری بیسویں صدی عیسوی اگر ان خطبات میں اقبال کے ما بعد الطبیعیاتی افکار کا پہلو اتنا نمایاں نہ ہوتا تو اُنھیں عصر حاضر میں مسلمانوں کا سب سے بڑا عمرانی مفکر قرار دیا جا سکتا تھا، اب بھی اُن کی یہ حیثیت غیر مسلمہ نہیں، گو بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تصورِ خودی کی نفسیاتی اور مابعدالطبیعیاتی تشریحات اُن کے بیشتر افکار پر چھائی ہوئی ہیں۔ لیکن اگر اقبال کی ثمریت یا نتیجہ خیزی کو دیکھا جائے تو،…اپنے تمام فلسفیانہ مضمرات کے باوجود، تصورِ خودی بیسویں صدی کے مسلمانوں کے لیے ایک خالص عمرانی یا تمدنی تصور بھی ہے، گو اقبال نے کہیں بھی ’بقائے اصلح‘ اور جُہد للبقا‘ کے تصورات کو حوالہ نہیں بنایا، لیکن دیکھا جائے تو جُہد للبقا، ایک بلند تر اخلاقی نصب العین کی حیثیت سے اُن کے نظام افکار میں رچا ہوا ہے، اسی طرح اگر بقائے اصلح کو اقبال کی لفظیات میں بیان کیا جائاے تو ’بقائے اقویٰ، کا تصور سامنے آتا ہے۔… ’خودی،…اپنی تعمیمی صورت میں تو ایک انسانی مفہوم ہے لیکن فکر اقبال کے مخصوص سیاق و سباق میں یہ لفظ ایشیا کے مسلمانوں کے اجتماعی تشخص کا استعارہ ہے، یہی ایک تصور تھا جس نے بیسویں صدی کے نصف اوّل میں برصغیر کے مسلمانوں کے تخیّل کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ لیکن اگر اقبال کی مثنوی رموزِ بے خودی اور خطبات کے آخری تین ابواب کا غائر مطالعہ کیا جائے تو ایک نتیجہ خود بخود اُبھر کر سامنے آجاتا ہے، اور وہ یہ کہ خود یابی، خودفہمی، خود شناسی، خود آگہی…اقبال کے نزدیک مسلمانوں کی اجتماعیت کی حیاتِ ثانیہ کے لیے نقطۂ آغاز کی حیثیت رکھتی ہے، چوتھا باب: خودی، جبرو قدر، حیات بعد الموت،…اور چھٹا باب: الاجتہاد فی الاسلام،…اسلامی تمدن کے تین اہم تصورات کی وضاحت کرتے ہیں۔ یعنی ۱۔آزادیِ عمل، ۲۔استقرائی تجربیت(inductive empiricism) اور ۳۔اجتہاد، چوتھے باب میں ان تین تصورات کی مابعد الطبیعیات مرتب کی گئی ہے، اور اس کے ساتھ ہی ’تقدیر‘ کے اسلامی مفہوم کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس کا حاصل آزادیِ عمل کا تصور ہے، جو تمام اسلامی تعلیمات کی تَہ میں کار فرما ہے۔ استقرائی تجربیت یعنی سائنسی نقطۂ نظر جو تجربات کو جمع کر کے، اُن کی تنظیم اور تنظیم کے بعد اُن کی تعمیم کرتا ہے، اقبال کے نزدیک اسلامی تہذیب کے اولین ادوار کی عطا ہے، یہی وجہ ہے کہ ابن خلدون، اپنے نظریۂِ تاریخ کی بدولت اور ابن مسکویہ اپنے ارتقائی تصورات کی بدولت مسلمانوں کی علمی تاریخ میں بے حد اہم ہیں، اقبال نے ان کے تصورات کو اسلامی تمدن کے اُصول حرکت کی علامت کے طور پر ییش کیا ہے۔ یہ اُصول کہ حرکت ہی تہذیبوں اور اقوام کو زندہ رکھتی ہے، اقبال کے نزدیک بے حد اہم تھا،’زمان‘ کی ماہیت کو سمجھنے کی تمام تر کوششیں اس لیے بھی تھیں کہ مسلمانوں کو ایک بار پھر زندگی کے اُصولِ حرکت سے وابستہ کیا جا سکے۔ ’خطبات‘ کے پانچویں باب… ’’اسلامی ثقافت کی رُوح‘‘ میں اقبال نے علمِ تاریخ سے مسلمانوں کی وابستگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’(تاریخ) کے علمی مطالعے کے لیے بڑے وسیع اور بڑے گہرے تجربے کے ساتھ ساتھ بڑی پختہ عقلِ عملی کی ضرورت ہے، علاوہ ازیں زندگی اور زمانے کی ماہیت کے بارے میں بعض اساسی تصورات کے نہایت صحیح ادراک کی بھی۔ لہٰذا بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو اس سلسلے میں دو بڑے تصور ہمارے سامنے آتے ہیں۔۴؎ اور یہ دو تصور ہیں ۱-وحدتِ مبدائِ حیات اور ۲-زمانے کا تصور بطور ایک مسلسل اور مستقل حرکت کے،…دیکھا جائے تو پہلے تصور کا تعلق سائنس کے مستقبل سے ہے، اور دوسرے کا مسلمانوں کے مستقبل سے۔ ابنِ خلدون کے تصورِ زمان پر محاکمہ کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں: اسلامی تہذیب و تمدن نے اپنے اظہار کے لیے جو راستہ اختیار کیا، اس پر نظر رکھیے تو یہ کسی مسلمان ہی کا کام ہو سکتا تھا کہ تاریخ کا تصور بطور ایک مسلسل اور مجموعی حرکت کے کرتا، یعنی زماناً ایک ایسے نشو و نما کی حیثیت سے جس کا ظہور ناگزیر ہے، گویا ہمیں ابنِ خلدون کے نظریۂ تاریخ سے دلچسپی ہے تو اس کی وجہ بھی ابن خلدون کا وہ تصور ہے جو اس نے تغیر کے باب میں قائم کیا ہے۔ یہ تصور بڑا اہم ہے، کیوں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ تاریخ چونکہ ایک مسلسل حرکت ہے زمانے کے اندر، لہٰذا یہ ماننا لازم آتا ہے کہ اس کی نوعیت فی الواقع تخلیقی ہے۔ بہ الفاظ دیگر یہ وہ حرکت نہیں جس کا راستہ پہلے سے متعین ہو، اب اگرچہ ابنِ خلدون کو مابعد الطبیعیات سے مطلق دلچسپی نہیں تھی بلکہ وہ درحقیقت اس کا مخالف تھا، بایں ہمہ اس نے زمانے کا تصور جس رنگ میں پیش کیا، اس کے پیش نظر ہم اس کا شمار برگساں کے پیش رووں میں کریں گے۔۵؎ زمانے کو مسلسل اور مستقل حرکت قرار دینے، اور …تاریخ کو زمانے میں، یا خود زمانے کی تخلیقی فعلیت قرار دینے کا واضح مفہوم یہی ہے کہ مسلمان، اس خیال کو کہ اُن کی انفرادی اور اجتماعی تقدیر ہمیشہ کے لیے مقرر کر دی گئی ہے، ذہن سے جھٹک دیں، اور اس حقیقت کا صراحت کے ساتھ ادراک کریں کہ تاریخ کی فعلیت ایک تخلیقی عمل ہے،… جس سے مراد ہے ایک ایسے مستقبل کی تخلیق یا نمود… جسے بطور’تقدیر‘ کے پہلے سے معین نہیں کر دیا گیا، غرض،… اقبال کی ہر فلسفیانہ اور محققانہ سعی کی غایت یہ ہے کہ مسلمانوں کو سعی و عمل، اور حیاتِ نو کی طلب پر آمادہ کیا جا سکے، اس اعتبار سے ان کے تمام تصورات، عصرِحاضر میں اسلام اور اسلامی تمدن کے عمرانی پہلوئوں کی طرف راجع ہیں۔ ’الاجتہاد فی الاسلام‘ میں اُنھوں نے اسلام کے تصورِ تاریخیت کی روشنی میں قانون اسلام کی نشو و ارتقا کے اُصول سے بحث کی ہے، اس کی غایت بھی یہی ہے کہ مسلمانوں میں ’اجتہاد‘ کی ’روایت‘ کو زندہ کیا جائے، تا کہ وہ نئے زمانے کے مسائل سے عہدہ بر آ ہونے کی سعی کر سکیں۔ اگر اُن تاثرات کا صرف ایک سرسری جائزہ ہی لیا جا سکے جو اقبال کے فکرو فن نے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی پر مرتب کر دکھائے، اور اُن سیاسی اور عمرانی تبدیلیوں کو سامنے رکھا جائے جو گذشتہ نصف صدی میں عالم اسلام میں وقوع پذیر ہوئیں، نیز جدید علمی دُنیا کے انکشافات کی روشنی میں مسلمانوں کی طرف سے اسلام اور قرآن کریم کی تشریح اور تعبیر کی کوششوں کو بھی پیش نظر رکھا جائے تو بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ… اقبال کے خطبات جدید اسلامی فکریات کی تاریخ میں…ایک اہم موڑ، ایک نئے باب، اور ایک منارۂِ نُور کی حیثیت رکھتے ہیں، جن کی بدولت عالمِ اسلام میں علومِ اسلامی کے احیا کی تحریکوں میں استحکام پیدا ہوا، اور اسلام کی نشأۃِ ثانیہ کی منزل مسلمانوں کو واضح اور قریب تر نظر آنے لگی۔ حواشی ۱- تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، کیا مذہب کا امکان ہے؟، مترجم: سیّدنذیر نیازی۔ ۲- تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، کیا مذہب کا امکان ہے؟، مترجم: سیّدنذیر نیازی۔ ۳- تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، کیا مذہب کا امکان ہے؟، مترجم: سیّدنذیر نیازی۔ ۴- تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، مترجم: سیّدنذیر نیازی،ص۲۱۵،۲۱۶۔ ۵- تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، مترجم: سیّدنذیر نیازی،ص۲۱۶،۲۱۷۔ /// خطباتِ اقبال پر ایک نادر تبصرہ اقبال کے شہرۂِ آفاق خطبات…جو ’’مدراس مسلم ایسوسی ایشن‘‘ کی دعوت پر مرتب ہوئے اور مدراس، حیدر آباد (دکن) اور علی گڑھ میں دیے گئے، مجموعی صورت میں پہلی بار ۱۹۳۰ء میں شائع ہوئے۔ اس وقت یہ چھ خطبات تھے۔ اس لیے انھیں (six lectures) کہا جاتا رہا۔ ان خطبات کا ساتواں خطبہ۔ ’’کیا مذہب کا امکان ہے‘‘۔ ان میں بعد میں شامل کیا گیا۔ یہ مقالہ لندن کی ارسٹوٹی لین سوسائٹی، کی دعوت پر لکھا گیا تھا۔ اس اضافے اور بعض ترامیم کے ساتھ خطبات کا موجودہ متن ۱۹۳۴ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ ان خطبات نے جدید اسلامی فکر کی تاریخ میں بہت جلد ایک کلاسیک کی حیثیت اختیار کر لی۔ اور عصرِ حاضر کی اسلامی فکر و دانش پر اس کے اثرات بہت گہرے اور دور رس ثابت ہوئے۔ ان خطبات نے برصغیر کے جدید تعلیم یافتہ اور تعلیماتِ اسلامی میں بصیرت حاصل کرنے کے خواہشمند لوگوں کو شروع ہی میں چونکا دیا تھا، اس لیے کہ یہ واقعی اسلام اور قرآن کے بارے میں غائر مطالعے کا ثمرہ اور عمیق بصیرت کے حامل تھے۔ یہ خطبات اس وقت شائع ہوئے جب اقبال کی شاعرانہ اور مفکر انہ حیثیت مسلَّم ہو چکی تھی، اور ان کی ہر بات کو وقعت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور گوشِ دل سے سنا جاتا تھا۔ لیکن ان خطبات پر اولیں تبصروں کا ریکارڈ محفوظ نہیں۔ البتہ سہ ماہی اسلامک کلچر حیدرآباد (دکن) کیشرہ اشاعت سے ان خطبات پر ایک تبصرہ ضرور سامنے آیا ہے۔ جو اولیں تبصرہ ہونے کی حیثیت سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اسے اس کی تاریخی اہمیت کے پیشِ نظر ایک نادر تبصرہ کہا جا سکتا ہے۔ یہ تبصرہ حیدرآباد کوارٹرلی (انگریزی) کی ۱۹۳۱ء کی اشاعت میں شامل ہے، اس کا مطلب ہے کہ تبصرہ نگار کے پیشِ نظر خطبات کا وہ ایڈیشن ہے جو ۱۹۳۰ء میں شائع ہوا جو صرف چھ خطبات پر مشتمل تھا۔سہ ماہی اسلامک کلچر حیدرآباد (دکن) میں شائع ہونے والے تبصرے برصغیر کی علمی اور اسلامی دُنیا میں خاص اہمیت رکھتے تھے اور بالعموم حیدر آباد کے مقتدر ادیبوں اور نقادوں سے لکھوائے جاتے تھے۔ خیال رہے کہ سہ ماہی اسلامک کلچر حیدرآباد ،… بیسویں صدی کے رُبع اوّل کے اختتام پر مشہور انگریز نو مسلم اور قرآن کریم کے مشہورِ عالم انگریزی مترجم محمد مارما ڈیوک پکتھال نے حیدر آباد (دکن) سے جاری کیا تھا۔ اور وہی اس کے مدیر بھی تھے۔ اس مجلے کے قارئین کا حلقہ صرف برصغیر ہی نہیں۔ ایشیا،یورپ، افریقہ اور امریکہ تک پھیلا ہوا تھا۔ اس لیے اس میں شائع ہونے والی تحریروں کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ یہ مجلہ دراصل جدید تعلیم یافتہ مسلمان علما اور محققین کا ترجمان تھا۔ خطباتِ اقبال کا زیرِ نظر تبصرہ سہ ماہی اسلامک کلچر حیدرآباد کی ۱۹۳۱ء کی جلد میں صفحہ ۶۷۷ سے ۶۸۳ تک پھیلا ہوا ہے۔ تبصرے کے اختتام پر تبصرہ نگار نے اپنے پورے نام کی بجائے اپنے نام کے ابتدائی حروف یعنی M.P. لکھے ہیں چونکہ مجلے کی لوح پر مارما ڈیوک پکتھال کا نام مدیر کی حیثیت میں لکھا ہوا ہے، اس لے یہ قیاس کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی کہ تبصرہ نگار خود مارماڈیوک پکتھال ہیں جنھیں جدید اسلامی دُنیا اُن کی خدمات کے پیشِ نظر احترام کی نظر سے دیکھتی ہے۔ اس تبصرے کی اہمیت کئی اعتبار سے ہے۔ ایک تو یہ کہ خطباتِ اقبال پر غالباً یہ اولیں تبصرہ ہے جس کا لکھنے والا ایک سنجیدہ علمی حلقے سے تعلق رکھتا ہے۔ دوسرے یہ کہ مبصّر…جدید اسلامی دُنیا میں خود بھی ایک ممتاز حیثیت کا حامل ہے، اور عصرِ حاضر میں اسلام کی علمی سر بلندی اور علومِ اسلامی کے احیا کے عمل میں فعال حیثیت سے شامل رہا ہے۔ محمدمارماڈیوک پکتھال کے بارے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اُنھوں نے بھی مدراس کی اُسی تنظیم یعنی مدراس مسلم ایسوسی ایشن کی دعوت پر مدراس میں خطبات دیے، جس کی دعوت پر علامہ اقبال نے اپنے خطبات مرتب کیے تھے۔ پکتھال کے لیکچرز تعداد میں آٹھ تھے اور Cultural side of Islam کے نام سے شائع ہوئے۔ پکتھال کے یہ خطبات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے ہندو طلبا کے نصاب میں شامل تھے (تہذیبِ اسلامی، کے نام سے ان خطبات کا ترجمہ بھی ہو چکا ہے) قرآنِ کریم کے مترجم اور ایک نو مسلم عالم کی حیثیت سے پکتھال کی بالغ نظری اور فکرِ اسلامی کے ساتھ ان کی گہری وابستگی کا اندازہ اُن کے اپنے خطبات کے ایک اقتباس سے کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی نظامِ حیات میں قرآنِ کریم اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کی مرکزیت کے بارے میں وہ لکھتے ہیں: ہر وہ شخص جسے قرآنِ کریم کے مطالعے کی سعادت نصیب ہوئی ہے، تسلیم کرے گا کہ قرآنِ کریم ان لوگوں کے لیے جو اس کی تعلیمات پر عامل ہوں، اس دُنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کا وعدہ کرتا ہے۔ نیز یہ کہ قرآنِ کریم کے پیشِ نظر بنی نوع انسان کی فلاح و کامرانی ہے جو قوائے انسانی کی بالیدگی اور عطیاتِ الٰہی کی آراستگی سے نصیب ہو سکتی ہے۔ اگر مسلمانوں نے کوئی ایسا طریقِ زندگی یا طرزِ عمل اختیار کر لیا ہے، جو تعلیماتِ قرآنی اور صریح احکامِ نبویؐ پر مبنی نہیں، تو وہ ایک غیر اسلامی طریق ہے، جس کا سراغ نظامِ اسلامی کے باہر ملے گا۔ مسلمانوں کو کوئی غیر شرعی نظام قبول کر کے، خواہ وہ بظاہر اُن کی ترقی کے راستے میں حارج نظر نہ آتا ہو، فلاح و کامیابی کی اُمید نہ رکھنی چاہیے۔ ہر نیا آئین جو تعلیماتِ قرآنی کے صریح منافی اور ہادیِ برحقؐ کی تعلیم و عمل کے مخالف ہوگا، مسلمانوں پر کامیابی کی راہیں مسدود کر دے گا۔ مسلمانوں کے لیے کسی غیر اسلامی آئین کا اختیار کرنا اپنے آپ کو ورطۂِ ہلاکت میں ڈالنا ہے ۔۱؎ غرض خطباتِ اقبال، کے اولیں انگریزی مبصّر …محمد مارما ڈیوک پکتھال، خود بھی علومِ اسلامی کے احیا کی تاریخ میں امتیاز کے حامل ہیں۔ اُن کا تبصرہ (انگریزی زبان میں) ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے۔ جن سے خود علامہ اقبال نے اپنے خطبات کے دیباچے کا آغاز کیا ہے، اور وہ الفاظ ہیں: قرآنِ کریم ایک ایسی کتاب ہے جو ’فکر‘ کی بجاے ’عمل‘ پر زور دیتی ہے، یوں بھی بعض طبائع میں قدرتاً (خلقاً) یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ ایک ایسی کائنات کو جسے ہم اپنے آپ سے بیگانہ پاتے ہیں۔ اس مخصوص باطنی واردات کو ایک قوی الاثر عمل کے طور پر تازہ کر کے، خود میں جذب کر لیں جس (باطنی واردات) پر آخر کار ایمان و یقین کا انحصار ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں جدید (عہد کے) انسان نے اپنے آپ کو ’محسوس‘ کا خوگر کر کے یعنی ایسی فکر کو ترقی دے کر جو اشیا اور حوادث کی دُنیا سے متعلق رہتی ہے۔ (گویہ فکری میلان خود اسلام نے اور نہیں تو کم از کم اپنے تہذیبی نشو و ارتقا کے ابتدائی ادوار میں ضرور اُبھارا تھا) خود کو ایسی (باطنی) واردات کا اہل نہیں رہنے دیا۔ وہ (جدید انسان) ان واردات کو شک و شبہ کی نظروں سے دیکھتا ہے۔ کیونکہ (علمی نقطۂ نظر سے) ان میں وہم والتباس آفرینی کے تمام امکانات موجود ہیں۔۲؎ اس اقتباس کے بعد مبصّر (پکتھال) کا اپنا تبصرہ شروع ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: یوں سر محمد اقبال چھ خطبات پر جو اس وقت ہمارے پیش نظر ہیں، اپنے دیباچے کا آغاز کرتے ہیں، خود خطبات ایک کوشش ہیں اس ’عمل‘ میں چھپے ’فکر‘ کی توضیح کی جس پر قرآن نے زور دیا ہے، نیز یہ اس خصوصی مذہبی تجربے (باطنی واردات) کو اُن اصطلاحات میں بیان کرنے کی کوشش بھی ہے جو ’جدید انسان‘ کے لیے قابلِ فہم ہوں! کوئی شخص یہ استدلال پیش کر سکتا ہے کہ قرآن کی زبان (تو) غایت درجے میں واضح ہے۔ اور مصنف (یعنی اقبال کے نقطۂ نظر سے) وہ ذہن جو اس قسم کی (فلسفیانہ اصطلاحات سے مملو) توضیحات کا تقاضا کر سکتا ہے۔ گم گشتہ اور کسی حد تک کج رو (یا کج بین) ہی قرار دیا جا سکتا ہے، خوش بختی سے’جدید انسانوں‘ کی اکثریت اس نوع کی گم گشتگی (اور کجروی) سے پاک ہے۔ لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ ایسے ذہنوں کی (دُنیا میں) کمی نہیں جو کسی بھی ایسی صداقت کو سنجیدگی کے ساتھ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے جو جدید سائنسی فلسفے کی مشکل اور ادق اصطلاحات میں ملفوف نہ ہو۔ اور ایسے ذہن اکثر تکنیکی لوگوں کے ہی ہوتے ہیں اور چونکہ یہ ایک تکنیکی عہد ہے، اس لیے (ایسے ذہنوں کے حامل لوگوں کو) مہذب یا ترقی یافتہ (elite) قرار دیا جاتا ہے۔ سر محمد اقبال ایسے لوگوں تک اُن کی اپنی زبان میں اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے سر گرم کار ہوئے ہیں۔ اور چونکہ اُنھیں ’ادق اصطلاحات‘ کے استعمال پر مکمل قُدرت حاصلہ ہے، اس لیے یہ بات یقینی ہے کہ اُنھیں (اقبال کو) ایسے لوگوں سے احترام آمیز سماعت حاصل ہوگی۔ ہم اس بات پر حیرت کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ آخر ان لوگوں پر ان خطبات کا کیا اثر ہوا جنھوں نے انھیں ’سماعت‘کیا،…! یہ خطبات تو واضح طور پر پڑھے جانے کے لیے ہیں۔ نہایت احتیاط اور غور و فکر سے پـڑھے جانے کے لیے، یہ (خطبات ) فکر سے لبریز عبارات و تراکیب سے اس طرح مملو ہیں، اور ایسے پیراگرافوں سے عبارت ہیں جن کے مطالب مکرر مطالعے سے ہی منکشف ہو سکتے ہیں۔ ان خطبات نے یقینا اُن سامعین کو مبہوت اور حیرت زدہ کر دیا ہوگا۔ جنھوں نے انھیں مدراس، حیدر آباد (دکن) اور علی گڑھ میں سنا ہوگا۔ اس حیرت زدگی اور حواس باختگی نے بے شک اس رائے کو راہ دی ہوگی جو ہم تک بھی پہنچی ہے(یعنی) سر محمد اقبال نے اسلام کی بیّن روشنی کو دُھندلا دیا ہے۔ (لیکن) یہ رائے غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ یہ حقیقت نہیں ہے، سر محمد اقبال نے اس کے برعکس، ان خطبات کے ذریعے اسلام کی وہ بہترین خدمت سر انجام دی ہے۔ جو آج کسی بھی مسلمان کے لیے ممکن ہو سکتی ہے۔ (اقبال) نے جدید افکار کے پنڈتوں،۳؎ کے رُوبرو اُن کی اپنی زبان میں…اور اس علمیّت کے ساتھ جو ان کی علمیّت سے کسی طرح کم نہیں، ثابت کر دکھایا ہے کہ اسلام فی الحقیقت اُنھیں (یعنی جدید افکار کے علمبرداروں) کا مذہب ہے،…اگرچہ وہ اس حقیقت کو جانتے نہیں۔ یہ اس تبصرے کا ابتدائی حصہ ہے جس میں غالبا ً پہلی بار کوئی محقق یا دانشور ان خطبات کی علمی قدرو قیمت کا جائزہ لے رہا ہے؛اس تبصرے کے آغاز میں بظاہر احساس ہوتا ہے کہ مبصّر بین السطور اس بات پر طنز کر رہا ہے کہ قرآن کریم نے تو ’فکر‘ کی بجائے ’عمل‘ پر زور دیا ہے، لیکن اقبال اسی ’عمل‘ میں مضمر…فکری مشتملات کو بیان کرنے کی سعی کر رہے ہیں، اسی طرح فنّی یا علمی اصطلاحات کے لیے jargon (اصطلاحات کا گورکھ دھندا) کا استعمال بھی ظاہر کرتا ہے کہ مبصر کا اندازِ بیاں کسی قدر طنزیہ ضرور ہے۔ مبصر کا دعویٰ ہے کہ اصطلاحات سے لبریز زبان کا تقاضا صرف گم گشتہ (bewildered) اور کج فکر (pervert) ذہن ہی کرتے ہیں، جو صداقت کو سادہ پیرائے میں پسند نہیں کرتے، اور یہ خوش قسمتی ہے کہ ایسے گم گشتہ اور کج فکر ذہن زیادہ نہیں ہیں۔ اور اگر ہیں بھی تو اُن کے لیے سر محمد اقبال نے یہ خطبات تحریر کیے ہیں۔ اس تبصرے کا آغاز کچھ اسی طرح سے ہوا ہے، لیکن جیسے جیسے تبصرہ آگے بڑھتا ہے، مبصر کو خطبات کی علمی قدر و قیمت کا احساس ہوتا ہے، اور وہ اسے عصرِحاضر میں اسلام کی سب سے بڑی اور بہترین خدمت قرار دیتا ہے کہ اسلام کے حقائق و عقائد کو جدید علمی زبان میں بیان کیا جائے، ہوسکتا ہے اس طنزیہ پیرائے میں مبصر کا روئے سخن اقبال سے زیادہ مغرب کے مادہ پسند گم گشتہ،…اور’ کج بین و کج فکر‘ ذہنوں کی طرف ہو، جو سادہ حقیقت کو بھی اصطلاحات کے گورکھ دھندے میں اُلجھادیتے ہیں…بہرحال، مبصر فوری طور پر تسلیم کرنے پر آمادہ ہے، کہ خطبات کے ذریعے اقبال نے (عصرِ حاضر میں) اسلام کی بہت بڑی خدمت سر انجام دی ہے،! صرف یہی نہیں علامہ اقبال نے کچھ اور بھی کیا ہے۔ وہ اسلامی تعلیمات کی کچھ ایسی صداقتوں کو سامنے لے آئے ہیں جنھیں خود مسلمانوں نے بھی غلط سمجھا تھا، یا پھر اُنھیں نظر انداز کر رکھا تھا۔ اس سلسلے میں ہم صرف ایک مثال پر اکتفا کرتے ہیں ’’خاتم النبیّینؐ کے اصل معنی (کیا ہیں؟) محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) آخری نبی اور رسول ہیں۔ اس لیے ان کے پیغام نے استقرائی طریقِ تفکر (inductive method of reasoning) کو جاری کر کے، انسان کو مطالعۂ فطرت اور مظاہر و حقائق (خارجی) کے تجزئیے پر آمادہ کر کے انسان کو ’’صراطِ ترقی‘‘ پر گامزن کر دیا ہے۔ اس لیے اب اس الہامی ہدایت کی ضرورت نہیں رہی جو نوع انسان کے عہدِ طفولیت میں ضروری تھی۔ تاہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اب اللہ تعالیٰ انسانوں کو ہدایت اور رہنمائی نہیں دیتے بلکہ (اس کا اصل مطلب یہ ہے کہ) اب انسان بذاتِ خود اس حیثیت میں ہے کہ اس ہدایت کی جستجو کر سکے، اور خدائی منصوبے کا ایک جزو ہے کہ وہ خود ایسا کرے (یعنی انسان خود اپنے لیے ہدایت و رہبری کی تلاش کرے‘‘)۔ تبصرے کا بیشتر حصہ یہاں ختم ہو جاتا ہے، اس کے بعد خطبات اقبال سے طویل اقتباسات نقل کیے گئے ہیں،…اور ان اقتباسات کے ساتھ ہی تبصرہ اختتام پذیر ہو جاتا ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر ان خطبات کے بارے میں اقبال کے اپنے خیالات و محرکات کا بھی کسی قدر سراغ لگایا جائے،…اس سوال کا جواب کہ خود اقبال کے نزدیک ان خطبات کے اولیں مخاطب کون ہیں، خود اقبال ہی کے الفاظ میں یہ ہے،…اپنے دیرینہ دوست میر غلام بھیک نیرنگ کو ایک مکتوب میں اقبال نے ان خطبات کے بارے میں ۵ دسمبر ۱۹۲۸ء کو لکھا: …باقی رہا لیکچروں کے ترجمے کا کام۔ سو یہ کام نا ممکن نہیں تو مشکل اور از بس مشکل ضرور ہے۔ ان لیکچروں کے مخاطب زیادہ تر وہ مسلمان ہیں جو مغربی فلسفے سے متاثر ہیں اور اس بات کے خواہشمند ہیں کہ فلسفۂ اسلام کو فلسفۂ جدید کے الفاظ میں بیان کیا جائے اور اگر پرانے تخیلات میں خامیاں ہیں تو ان کو رفع کیا جائے۔ میرا کام زیادہ تر تعمیری ہے، اور اس تعمیر میں مَیں نے فلسفۂ اسلام کی بہترین روایات کو ملحوظِ خاطر رکھا ہے۔ مگر میں خیال کرتا ہوں کہ اُردو خواں دُنیا کو شاید ان سے فائدہ نہ پہنچے، کیونکہ بہت سی باتوں کا علم میں نے فرض کر لیا ہے کہ پڑھنے والے یا سننے والے کو پہلے سے حاصل ہے، اس کے بغیر چارہ نہ تھا۔۴؎ اس خط سے واضح ہوتا ہے کہ اقبال کے نزدیک : ۱-ان خطبات کے مخاطب خود مسلمان ہی ہیں ۲-تاہم، ایسے مسلمان جو فلسفۂ اسلام کو فلسفۂ جدید کی زبان میں سمجھنا چاہتے ہیں ۳-ان خطبات کا ایک مقصد پرانے مذہبی افکار میں ترمیم و تنسیخ بھی ہے۔ ۴- یہ اور بات ہے کہ اقبال کے نزدیک عام اُردو خواں ان خطبات (یا ان کے ترجمے؟) سے زیادہ استفادہ نہیں کر سکتا، کیونکہ ان کو لکھتے ہوئے سامع یا قاری کے بارے میں فرض کر لیا گیا ہے کہ وہ فلسفے کے بہت سے مسائل سے آگاہ ہے۔ تبصرے کے مزید اقتباسات پیش کرنے سے پیشتر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ختم نبوت کے تصور کے بارے میں اقبال کے افکار خود اقبال ہی کی زبان میں پیش کیے جائیں۔ اقبال کے یہ افکار ہمیں اُن کے پانچویں خطبے میں ملتے ہیں۔ جس کا عنوان ہے: ’اسلامی ثقافت کی رُوح‘،۵؎…اس خطبے کے آغاز میں اقبال نے شعورِ نبوت اور شعورِ ولایت کے امتیازات اختصار کے ساتھ بیان کیے ہیں… اسی مبحث میں وہ عقہدۂِ ختم نبوت کو اسلام کا ایک نہایت ہی اہم اور بُنیادی تصور قرار دیتے ہیں، لیکن اس عقیدے کی تشریح میں اُنھوں نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اسے وہ ’’عقیدۂِ ختم نبوت کی ثقافتی قدر و قیمت‘‘ کی توضیح قرار دیتے ہیں۔ اس موضوع پر اقبال کے یہ خیالات بے حد نادر اور حیرت انگیز وسعتِ نظر کے حامل ہیں، چنانچہ وہ فرماتے ہیں: ’’ایک اعتبار سے نبوت کی تعریف یوں بھی کی جا سکتی ہے کہ یہ شعورِ ولایت کی وہ شکل ہے، جس میں وارداتِ اتحاد (unitary experience) اپنی حدود سے تجاوز کر جاتی ہیں، اور اُن قوتوں کی پھر سے رہنمائی یا از سر نو تشکیل کے وسائل ڈھونڈتی ہیں جو حیاتِ اجتماعیہ کی صورت گر ہیں۔ گویا انبیاء کی ذات میں زندگی کا متناہی مرکز (یعنی انسانی خودی) اپنے لامتناہی اعماق میں ڈوب جاتا ہے۔ تو اس لیے کہ پھر ایک تازہ قوت اور زور سے اُبھر سکے۔ وہ ماضی کو مٹاتا اور پھر زندگی کی نئی نئی راہیں منکشف کر دیتا ہے ‘‘۔۶؎ اس نکتے کی وضاحت کے بعد اقبال وحی کو اس کے نہایت عمومی مفہوم میں بیان کرتے ہیں اور اسے فطرت کی ایک عمومی رہنمائی قرار دیتے ہیں، لیکن تسلیم کرتے ہیں کہ مراحل کے اختلاف سے یا نشو و نما کے مدارج کی رعایت سے اس کی ماہیت اور نوعیت بھی بدلتی جاتی ہے۔ اس استدلال کی اگلی کڑی یہ ہے کہ شعورِ نبوت کو ’’کفایتِ فکر‘‘ اور’’ انتخاب‘‘سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس بے حد نازک اور دقیق مسئلے کو اقبال نے جدید انسانی تمدن کی امتیازی خوبی (یعنی استقرائی یا تجربی طریق کار) کے پس منظر میں رکھ کر دیکھنے کی سعی کی ہے۔ اس خاص نکتے کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یوں نظر آئے گا جیسے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذاتِ گرامی کی حیثیت دُنیائے قدیم اور جدید کے درمیان ایک واسطے کی ہے۔ بہ اعتبار اپنے سرچشمۂ وحی کے آپؐ کا تعلق دُنیائے قدیم سے ہے، لیکن بہ اعتبار اس کی رُوح کے دُنیائے جدید سے۔ یہ آپؐ ہی کا وجود ہے کہ زندگی پر علم و حکمت کے وہ تازہ سر چشمے منکشف ہوئے جو اس کے آئندہ رُخ کے عین مطابق تھے۔ لہٰذا اسلام کا ظہور جیسا کہ آگے چل کر خاطر خواہ طریق پر ثابت کر دیا جائے گا، استقرائی عمل کا ظہور ہے۔ اسلام میں نبوت چونکہ اپنے معراجِ کمال کو پہنچ گئی تھی۔ لہٰذا اس کا خاتمہ ضروری ہو گیا…اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ وارداتِ باطن کی کوئی بھی شکل ہو، ہمیں بہر حال حق پہنچتا ہے کہ عقل اور فکر سے کام لیتے ہوئے اس پر آزادی کے ساتھ تنقید کریں، اس لیے کہ اگر ہم نے ختمِ نبوت کو مان لیا تو گویا عقیدۃً یہ بھی مان لیا کہ اب کسی شخص کو اس دعویٰ کا حق نہیں پہنچتا کہ اس کے علم کا تعلق چونکہ کسی مافوق الفطرت سرچشمے سے ہے، لہٰذا ہمیں اس کی اطاعت لازم آتی ہے۔ ان طویل اقتباسات کو یہاں نقل کرنے کی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی کہ ختمِنبوت جیسے اہم عقیدے یا۔ تصور کے بارے میں اقبال کی تشریحات و توضیحات کے اہم تر اجزا ایک نظر میں سامنے آسکیں اور ان کا موازنہ اُس نہایت مختصر استدراک سے کیا جا سکے جو ہمیں محمد مارماڈیوک پکتھال کے تبصرے میں ملتا ہے۔ پکتھال کے ملخص سے محسوس ہوتا ہے کہ اقبال کے نزدیک ختمِ نبوت کی غایت صرف یہ ہے کہ انسان اپنی عقل و فکر سے کام لے سکے، اور اسی لیے اسلام نے مسلمانوں میں عمل اور استقرائی طریقِ علم کو فروغ دینے کی سعی بلیغ کی ہے، اگرچہ اقبال کے استدلال کا ایک جزو یقینا یہی ہے لیکن اقبال کا استدلال صرف یہیں ختم نہیں ہو جاتا، اس لیے کہ اگر یہ استدلال یہیں ختم کر دیا جائے تو اس کا مطلب لازمی طور پر یہ ہوگا کہ اب انسان کو شعورِ نبوت سے رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ اپنی عقل اور تجربے سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ لیکن اقبال کے استدلال کے بعض حصے جو اُوپر کی سطور میں نقل کیے گئے، صراحتہً ثابت کرتے ہیں کہ اقبال کا مطلب صرف یہ نہیں…بلکہ اُن کے نزدیک ختمِ نبوت کے عقیدے کا لازمی نتیجہ یہ طرزِ عمل ہے کہ اب ہمارے لیے کسی بھی انسان کی رُوحانی واردات اس طرح حُجّت نہیں کہ ہم اُسے ماننے اور اس کو پیش کرنے والے کی اطاعت کرنے پر مجبور ہوں، اس لیے کہ ماننے اور اطاعت کرنے کے لیے مکمل ترین ضابطہ، بلند ترین انسانی معیار ہمارے سامنے آچکا ہے۔ اور اب اگر ہمیں باطنی ذرائع سے علم حاصل کرنا ہو تو اس کے لیے ہمیں اپنے تنقیدی شعور کو بھی مسلسل بیدار اور مصروفِ کار رکھنا ہوگا۔ اقبال نے اس ساری بحث میں کہیں بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ختمِ نبوت کی توضیح و توجیہہ میں جو کچھ وہ کَہ رہے ہیں، وہ آخری اور قطعی حیثیت رکھتا ہے یا ختمِ نبوت کی تمام ترحکمت کا احاطہ کرتا ہے…شاید اقبال کا مقصود بھی یہ نہیں تھا، وہ تو اس تصور کے نفسیاتی اور تمدنی پہلوئوں سے بحث کر رہتے تھے، اور اس میں شک نہیں کہ اُنھوں نے پہلی بار اس تصور کی فلسفیانہ اور تاریخی توجیہ پیش کی جو ہر حال میں خیال انگیز اور تجزیاتی ہے۔ پکتھال کے تبصرے کا دُوسرا حصہ خطباتِ اقبال کے طویل اقتباسات پر مشتمل ہے جن میں اقبال نے اس بات کی وضاحت کی کہ قرآن نے تاریخ اور روایات کو کس طرح قبول کیا ہے۔ اور کس طرح بیان کیا ہے۔ اس سلسلے میں اقبال نے ’قصۂِ آدم کا بطورِ خاص حوالہ دیا ہے…چنانچہ پکتھال اپنے تبصرے میں کہتے ہیں: قرآنِ کریم میں انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے جو قصص بیان ہوئے ہیں، اُنھیں جب ہم بائبل اور دوسری مقدس کتابوں میں بطور تاریخی حکایات کے دیکھتے ہیں تو قصص القرآن کی حکمت اور عقلیت ہمیں غیر معمولی دکھائی دیتی ہے۔ اس حقیقت کو بہت کم لوگوں نے محسوس کیا ہے: اور ہم بطورِ خاص سر محمد اقبال کے ممنون ہیں کہ اُنھوں نے ہماری سنجیدہ توجہ کو اِدھر مبذول کی ہے، مثال کے طور پر: بہر حال ادب قدیم کا جائزہ لیجیے تو ہبوطِ آدم کے قصے کی ایک نہیں کئی شکلیں ملیں گی۔ رہا یہ امر کہ اس روایت کا ارتقا کس طرح ہوا، سو یہاں اس کی تفصیل ممکن نہیں۔ ہم ان مراحل کی حد بندی بھی نہیں کر سکتے جن سے گزر کر اس نے مختلف شکلیں اختیار کیں۔ بعینہ ہم ان مقاصد سے بھی بے خبر ہیں جو بتدریج ان گوناگوں تبدیلیوں کا سبب بنے۔ البتہ جہاں تک اس روایت کی سامی شکل کا تعلق ہے، ہم کَہ سکتے ہیں کہ اس میں غالباً شروع شروع کے انسان کی یہ خواہش کام کر رہی تھی کہ ایک ایسے ماحول میں جس سے وہ قطعا ً نامانوس تھا، جس میں موت ارزاں اور بیماریاں عام تھیں اور جہاں اس کو اپنا آپ برقرار رکھنے میں قدم قدم پر رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا، اپنی زبوں حالی اور دُکھ درد کا اظہار کر سکے۔ وہ اس قابل تو تھا نہیں کہ قوائے فطرت کی تسخیر کرے، لہٰذا زندگی کے بارے میں اس نے قدرتاً ایک ایسا نظریہ اختیار کر لیا جس پر یاس اور قنوط کا غلبہ تھا۔ چنانچہ قدیم بابل کے ایک کتبے میں سانپ (لنگ) اور درخت اور عورت…مرد کو سیب (علامت بِکر) نذر کرتے ہوئے۔ سب ہی موجود ہیں۔ یہاں یہ کہنا لا حاصل ہوگا کہ اس قصے کا اشارہ کس طرف ہے۔ مسرت اور سعادت کی ایک مفروضہ حالت سے انسان کے اخراج کی طرف، مردوزن کی سب سے پہلے جنسی فعل کی پاداش میں…لیکن جونہی ہم اس روایت کا مقابلہ جو قرآنِ مجید میں بیان ہوئی ہے، ’کتابِ پیدائش‘ کی روایت سے کرتے ہیں۔ تو صاف نظر آنے لگتا ہے کہ اوّل الذکر کا انداز کس قدر مختلف ہے۔ لہٰذا قرآنِ مجید اور’عہد نامۂ عتیق‘ کی روایات کا یہی فرق اس امر کی دلیل ہے کہ قرآنِ پاک کا اس قصے سے کچھ اور ہی مقصد ہے…۔ یہ اقتباس اقبال کے تیسرے خطبے سے لیا گیا ہے۔ جس کا عنوان ہے:’’ذات الٰہیہ کا تصور اور …حقیقتِ دُعا‘‘…ظاہر ہے کہ فاضل مبصر نے اصل انگریزی متن سے ہی اقتباس پیش کیا ہے،…لیکن یہ اقتباس یہیں ختم نہیں ہو جاتا بلکہ اسی تسلسل میں وہ تین نکات بھی من و عن نقل کیے گئے ہیں جو اقبال نے آدم و حوا اور ہبوطِ آدم کے بارے میں قرآنی روایت کی توضیح میں پیش کیے ہیں، علامہ پکتھال کے تبصرے پر اس استدراک کو مربوط رکھنے کے لیے ہم یہاں اقبال کے ان ’نکاتِ ثلاثہ‘ کی تلخیص پیش کرتے ہیں: ۱-قرآنِ کریم نے قصۂ آدم کو جنسی تلازمات سے الگ کرنے کے لیے سانپ اور پسلی کا ذکر نہیں کیا۔ اسی طرح قرآنِ کریم نے آدم و حوا کی بجائے صرف ’آدم‘ کا ذکر کیا ہے، اور آدم سے بھی کوئی مخصوص انسان مراد نہیں، بلکہ اس کی حیثیت ایک تصور کی ہے۔ ۲-قرآنِ مجید نے قصۂ آدم کو دو الگ الگ حکایتوں میں تقسیم کیا ہے، ایک وہ جس میں صرف ’الشجرہ‘ کا ذکر آیا ہے، اور دوسری وہ جس میں ’شجرۃ الخلد‘ اور ’مُلکِ لا یبلی‘ کا۔ قرآنِ کریم کا ارشاد ہے کہ شیطان نے ’آدم اور اس کی بیوی‘ کو ورغلایا اور اُنھوں نے ممنوعہ درخت کا پھل چکھ لیا۔ عہد نامۂِ عتیق میں ہے کہ جونہی آدم سے اولیں گناہ سرزد ہوا۔ اسے باغِ عدن سے نکال دیا گیا، اور مزید سزا بھی دی گئی۔ ۳-عہد نامۂ عتیق میں آدم کے جرمِ نافرمانی کی بنا پر زمین کو ملعون ٹھہرایا گیا، جب کہ قرآن کے نزدیک زمین انسان کا مستقر اور متاع ہے، جس کے لیے اسے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ قرآنِ کریم نے کہیں یہ نہیں کہا کہ آدم اُسی جنت سے نکالا گیا تھا جو نیکو کاروں کا دائمی مسکن ہے۔ قرآنِ پاک کی اس روایت میں جنت سے مراد حیاتِ انسانی کا ابتدائی دَور ہے، جس میں انسان کا اپنے ماحول سے ابھی عملاً کوئی رشتہ قائم نہیں ہوا تھا۔ اور انسان اپنی بے بسی اور حاجت مندی کے احساس سے عاری تھا۔ ان طویل اقتباسات کے بعدمبصّر ایک بار پھر خطبات کے کچھ اور مقامات سے ویسے ہی طویل اقتباسات پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں: ہم مجبور ہیں کہ اپنے قاری کے سامنے دو اور طویل اقتباسات پیش کریں، تا کہ ہم نے ان خطبات میں استعمال کی جانے والی ’’جدید‘‘ تراکیب و زبان اور اس کے ساتھ ہی ساتھ ان خطبات کی گراں مائگی کے بارے جو جو کچھ کہا ہے، اس کو مثالوں سے ثابت کیا جا سکے۔ یہ طویل اقتباسات جن کو مبصّر نے نقل کیا ہے، خطبات کے ان مباحث سے متعلق ہیں جن میں اقبال نے کائنات اور وقت (زمان و مکاں) کی ماہیت کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے، اور ثابت کیا ہے کہ کائنات کوئی تکمیل یافتہ حقیقت نہیں بلکہ ہر لمحہ معرضِ وجود میں آرہی ہے۔ اس مبحث میں اقبال نے جدید سائنس اور بالخصوص طبیعات کے بدلے ہوئے نظریوں کی روشنی میں مادی کائنات کی غیر مادی تعبیر پیش کی ہے جس کی طرف خود جدید سائنس بھی مسلسل اشارے کر رہی ہے،…تبصرے میں نقل کیے گئے اس طویل اقتباس کا اختتام اس ٹکڑے پر ہوتا ہے: …لیکن جیسا کہ ہم دیکھ آئے ہیں، زمان و مکاں اور مادہ بجائے خود ذاتِ الٰہیہ کی آزادانہ تخلیقی فعالیت کی وہ تعبیریں ہیں جو فکر نے اپنے رنگ میں کی ہیں، ان کا کوئی مستقل وجود نہیں کہ اپنے سہارے آپ قائم رہ سکیں۔ وہ محض عقل کے تعیّنات ہیں جن کے ذریعے ہمیں حیاتِ الٰہیہ کا ادراک ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک مرتبہ جب مشہور صوفی بزرگ حضرت بایزید بسطامی کے حلقے میں تخلیق کا مسئلہ زیر بحث تھا تو ایک مرید نے ہمارے عام نقطۂ نظر کی ترجمانی یہ کہتے ہوے بڑی خوبی سے کی کہ ایک وقت وہ بھی تھا جب صرف خدا کا وجود تھا، اس کے سوا کچھ نہ تھا۔ لیکن اس کے جواب میں شیخ کی زبان سے جو الفاظ نکلے وہ اور بھی زیادہ معنی خیز تھے۔ شیخ نے فرمایا اور اب کیا ہے؟ اب بھی صرف خدا ہی کا وجود ہے۔ لہٰذا عالمِ مادیات کی یہ حیثیت نہیں کہ ذاتِ باری تعالیٰ کے ساتھ شروع ہی سے موجود ہو، اور جس پر گویا وہ اب دور سے عمل کر رہا ہے۔ بلکہ ایک مسلسل عمل جس کو فکر نے الگ تھلگ اشیا کی کثرت میں تقسیم کر رکھا ہے۔۷؎ اس اقتباس کے ساتھ ہی زیرِ نظر تبصرہ بھی اپنے اختتام کو پہنچتا ہے،… مبصر کے اختتامی الفاظ یہ ہیں: سر محمد اقبال کی (یہ) کتاب ایک مخصوص ذہنیت کے غیر مسلموں اور اُن مسلمانوں کے لیے لکھی گئی ہے جو ایک بدیسی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کیے باعث اس ذہنیت کا شکار ہو گئے ہیں۔ تاہم یہ کتاب اس بات کی حقدار ہے کہ وہ تمام لوگ جو اسلام یا جدید فلسفہ یا دونوں میں دلچسپی رکھتے ہیں، اس کتاب کا مطالعہ نہایت غور و خوض کے ساتھ کریں۔ اس نسبتاً طویل تبصرے میں مبصر نے خطبات کے مباحث کو تین مقامات پر زیادہ قابلِ توجہ سمجھا ہے: ۱-عقیدۂِ ختم نبوت کے بارے میں اقبال کی فلسفیانہ اور نفسیاتی توضیحات ۲-آدم و حوا کے بارے میں قرآنی روایات کی توضیحات ۳-ماہیتِ زمان و مکان کے بارے میں اقبال کے نہایت عمیق و دقیق اور فلسفیانہ استدراکات۔ خطبات کے یہ تین مباحث جو جزوی طور پر پیش کیے گئے ہیں، خطبات کے تمام تر مباحث کی پوری طرح نمائندگی نہیں کرتے، لیکن مبصر اور تبصرے کی اپنی حدود ہوتی ہیں، پکتھال نے بہر حال اقتباسات کے لیے اہم مباحث ہی منتخب کیے ہیں۔ اگرچہ خطباتِ اقبال کے اولیں مبصر علامہ محمد مارما ڈیوک پکتھال ان خطبات کی علمی قدروقیمت اور اقبال کی خدمات کے معترف دکھائی دیتے ہیں، تاہم اس بات کو بھی بہ آسانی محسوس کیا جا سکتا ہے کہ اُنھیں اس بات کا اچھی طرح اندازہ نہیں ہوا کہ اسلامی فکر کے احیا اور جدید اسلامی افکار کی پیش رفت میں ان خطبات کو کیا اہمیت حاصل ہونے والی ہے، اس تبصرے کے بین السطور سے اس بات کا اندازہ کر لینا بھی کچھ ایسا مشکل نہیں کہ پکتھال کے نزدیک اسلام کو جدید فلسفے کی زبان میں پیش کرنا مغرب کے بعض مخصوص اور محدود حلقوں کے لیے مناسب یا ضروری ہے، وگرنہ شاید اس کی چنداں ضرورت نہ تھی، اقبال نے اپنے خطبات میں جس وسعتِ مطالعہ، فکر کی گہرائی اور اسلامی مابعد الطبیعیات کے بارے میں حیرت انگیز بصیرت کا اظہار کیا ہے، اور جدید سائنسی افکار سے جو غیر معمولی واقفیت بہم پہنچائی ہے، خطبات کے مبصّر علامہ پکتھال کما حقہ، اس کی تحسین کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔ اس کے باوجود یہ ایک علمی تبصرہ ضرور ہے، جس میں مبصر نے خطبات کے تین مباحث کو حوالہ بنایا ہے۔ اس تبصرے کی سب سے بڑی خوبی اس کی تاریخیت ہے۔ خطباتِ اقبال پر یہ کسی بھی زبان میں سب سے پہلا علمی تبصرہ ہے، جس میں گو کسی قدر تأمل اور احتیاط کے ساتھ۔ ان خطبات کی علمی اور فلسفیانہ قدرو قیمت کو بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ اور عصرِ حاضر میں اسلام کے لیے اقبال کی علمی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف بھی کیا گیا ہے۔ حواشی ۱- تہذیبِ اسلامی (محمد مارما ڈیوک پکتھال کے خطباتِ مدراس، ترجمہ از شیخ عطا اللہ، ایم۔ اے۔ ۲- دیباچہ: تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ۔ ۳- مبصّر نے انگریزی میں بھی یہی لفظ استعمال کیا ہے۔ ۴- مکاتیبِ اقبال ۵- The Spirit of Islamic Culture ۶- تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ، ترجمہ از سیّدنذیر نیازی۔ ۷- تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ،تیسرا خطبہ’’ذاتِ الٰہیہ کا تصور اور حقیقتِ دُعا‘‘، ترجمہ از سیّدنذیر نیازی۔ /// فارسی شعر و ادب میں اقبال کی فکری اور فنی ترجیحات اپنی کئی انفرادی خصوصیات کے علاوہ اقبال اپنی وسعتِ مطالعہ میں ممتاز اور منفرد تھے، اُن کا مطالعۂ شاعری بے حد غائر اور وسیع تھا، وہ اُردو، فارسی، انگریزی، عربی اور جرمن کے علاوہ کئی دوسری زبانوں کے شعر و ادب کے فکری اور فنی دقائق پر بہت گہری نظر رکھتے تھے۔ اُن کا ذہن ادبیاتِ عالم کی معنوی تمثالوں کا تصویر خانہ تھا جس کی ترتیب و آرائش میں محتاط انتخاب اور تنقیدی احتساب کو کام میں لایا گیا تھا، اس لیے کہ اقبال شاعری کے فکری مافیہ (thought content) کے بہت بڑے ناقد تھے۔ وہ شعر کو انسانی تمدن کی تعمیر و شکست، دونوں حالتوں میں بہت بڑا اور مؤثر ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اس سلسلے میں اُن کی یہ تمثیل بہت مشہور ہے کہ ’’ایک انحطاط پسند فن کار کا تخیل… اگر وہ اپنی قوم کے افراد پر افسوں طرازی کر سکتا ہو۔ اٹیلا اور چنگیز کے لشکروں سے زیادہ تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے‘‘۔۱؎ اقبال کے نزدیک شعر کی قدرو قیمت اور افادیت کا تعین کرتے ہوئے شعر کے فنی محاسن سے کہیں زیادہ اس کے فکری اجزااور مؤثرات کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے، یعنی فنی خوبیوں سے قطعِ نظر کرتے ہوئے یہ دیکھنا چاہیے کہ شعر انفرادی انسانی خودی کی تکمیل و استحکام اور اجتماعی تمدنی ہیئت کی تشکیل میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے۔ شعر و ادب کے معاملے میں بھی اُن کے ردوقبول کے پیمانے وہی تھے جو دوسرے فنونِ لطیفہ کے لیے تھے۔ فن (آرٹ) اُن کے نزدیک مقصود بالذات نہیں۔ کسی اور ’غایت‘ کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اس لیے ادبیاتِ عالم کے فکری اور معنوی محاسن کی تحسین میں اُنھوں نے اپنے اس معیارِ انتقاد سے کبھی صرفِ نظر نہیں کیا۔ مغربی زبانوں میں انگریزی اور جرمن اور مشرقی زبانوں میں اُردو، فارسی اور عربی شعر و ادب۔ اُن کے مطالعۂ ادب کے خصوصی دوائر تھے،…لیکن فارسی زبان اور شعر و ادب سے اُن کے فکر و تخیل کا جو رشتہ تھا۔ وہ کسی اور زبان سے نہیں تھا۔ جہاں تک تخلیقی عمل کا تعلق تھا۔ اُردو کے بعد فارسی اُن کے لیے ایک بے حد قدرتی اور موزوں ترین وسیلۂ اظہار تھی۔ اور یہی وہ زبان ہے جس میں اُن کے فکر کے دقیق ترین۔ اور شاید بہترین…اجزا معرضِ بیان میں آسکے ہیں۔ اُنھیں خود بھی اس بات کا اچھی طرح سے اندازہ تھا کہ اُن کا فکری عمل (thought process) فارسی شاعری کے اسالیبِ بیان کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ ہے۔ مثنوی اسرارِ خودی کی تمہید میں فرماتے ہیں: گرچہ ہندی در عذوبت شکر است طرزِ گفتارِ دری شیریں تر است فکرِ من از جلوہ اش مسحور گشت خامۂ من شاخِ نخلِ طور گشت پارسی از رفعتِ اندیشہ ام در خورد با فطرتِ اندیشہ ام اس سلسلہ میں اُنھوں نے اپنی رفعتِ اندیشہ (sublimity of thought) کا بطورِ خاص تذکرہ کیا ہے اور شاید فارسی شاعری کی یہی رفعتِ اندیشہ ہی ہے جو ہمیشہ اُن کے دامنِ دل کو اپنی طرف کھینچتی رہی۔ لیکن اُن کے ردو قبول کے پیمانے ہمیشہ وہی رہے جو تھے،…فارسی شعرا میں اُنھوں نے مولانا رُوم کو اپنا پیرومرشد اور (جاوید نامہ میں) اپنا رُوحانی رہبر تسلیم کیا، اور خواجہ حافظ شیرازی کو، جنھیں اربابِ تصوف کی نظر میں ہمیشہ بلند مقام رہا ہے، رد کر دیا۔ اگرچہ حافظ کے افکار پر جو کڑی تنقید ’اسرارِ خودی‘ کے پہلے ایڈیشن میں شامل تھی، بعد کی اشاعتوں میں حذف کر دی گئی، لیکن حافظ کی شاعری کے بارے میں اقبال کے نقطۂ نظر میں کبھی تبدیلی نہیں آ ئی۔ اور اس سلسلے میں اُنھوں نے معذرت خواہانہ رویہ بھی کبھی اختیار نہیں کیا۔ وہ حافظ کے فنی کمال کے یقینا معترف ہیں۔ اپنی ۱۹۱۰ء میں وقتاً فوقتاًلکھی ہوئی ڈائری… ’افکارِ پریشاں‘، میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں، ’’اپنے نگینوں کے طرح ترشے ہوئے الفاظ میں حافظ نے نغمۂ بلبل کی شیریں اور لاشعوری روحانیت کو سمو دیا ہے‘‘۔۲؎ اسرارِ خودیکے پہلے ایڈیشن کی اشاعت (۱۹۱۵ئ) کے بعد اپنے ایک مکتوب میں حافظ کے بارے میں اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: خواجہ حافظ کی شاعری کا میں معترف ہوں۔ میرا عقیدہ ہے کہ ویسا شاعر ایشیا میں آج تک پیدا نہیں ہوا اور غالباً پیدا نہیں ہوگا۔ لیکن جس کیفیت کو وہ پڑھنے والوں کے دل پر طاری کرنا چاہتے ہیں، وہ کیفیت قوائے حیات کو کمزور و ناتواں کرنے والی ہے۔۳؎ اس سلسلے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ فنی کمال اور صناعی (craft and artistary) کے نقطۂ نظر سے اقبال نے ایسے توصیفی کلمات کسی اور شاعر کے لیے شاید ہی لکھے ہوں گے۔ اور یہ بات بھی روز بروز واضح ہوتی جا رہی ہے کہ اقبال کے لیے غزل (فارسی) میں حافظ اور مثنوی میں مولانا رُوم ہی قابلِ تقلیدنمونہ (ماڈل) تھے اپنی فارسی غزل کے صوتی آہنگ اور اس کی لسانی تشکیل میں سب سے زیادہ اثر اُنھوں نے حافظ شیرازی ہی سے قبول کیا ہے،…اپنی طالب علمی کے ایام میں یورپ میں عطیہ فیضی سے اُنھوں نے کبھی یہ بھی کہا تھا کہ کبھی کبھی میں ایسا محسوس کرتا ہوں کہ حافظ کی رُوح مجھ میں سرایت کر گئی ہے۔ یہ وہ خیال ہے جو عظیم جرمن شاعر گوئٹے نے کئی بار اپنے ’دیوانِ شرقی‘ میں ظاہر کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اقبال نے یہ احساس اپنی طالب علمی میں گوئٹے ہی سے مستعار لیا ہو۔ اور جہاں تک خود گوئٹے کا تعلق ہے، وہ اقبال کے عمر بھر کے محبوب شاعروں میں رہا ہے۔ بہر حال اقبال کی یہ قطعی راے تھی کہ حافظ کی شاعری کے فکری عناصر اور اس کے فن کی تاثیر …دونوں مل کر انسانی خودی کے لیے سُکرو صحو (بے خودی وبے ہوشی) کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس لیے انسانی خودی کی تکمیل اور ایک مثالی معاشرے کی تشکیل میں نہ صرف یہ کہ معاون نہیں، بلکہ ضرر رساں ہیں۔ کم و بیش ایسی ہی رائے اُنھوں نے افلاطون کے بارے میں بھی ظاہر کی اور اس رائے کو کبھی واپس نہیں لیا۔ وہ افلاطون جسے قرونِ وسطیٰ کے مسلمان حکما و مفکرین’افلاطونِ الٰہی‘ کے نام سے یاد کرتے تھے، اقبال کے ہاں گو سفند قرار پایا(الحذر، ازگوسفنداں الحذر ) اُن کے نزدیک حافظ اور افلاطون کا تصورِ حیات سکونیاتی ہے،…جب کہ مولانا رُوم کا تصورِ حیات حرکی اورارتقائی ہے، اسی لیے اقبال نے فکری اعتبار سے جتنا استفادہ مولاناروم سے کیا، اتنا کسی بھی دوسرے بڑے سے بڑے شاعر سے نہیں کیا۔ لیکن اقبال اور مولانا رُوم کے فکری رشتوں کی تفصیل بیان کرنے سے بیشتر، اس سیاق و سباق میں حافظ شیرازی کے پہلو بہ پہلو سرزمینِ شیراز ہی کے ایک عظیم فرزند اور عظیم شاعر کا تذکرہ بھی ضروری ہے جس کے نام اور کلام کا سکہ سات صدیوں سے فارسی زبان و ادب کی اقلیم میں رواں دواں ہے، یعنی حضرت سعدی شیرازی، جو غزل میں حافظ کے پیشرو، اور فارسی شعر و ادب (بالخصوص فارسی غزل کی جمالیات و لسانیات) کے عظیم اور اوّلین معماروں میں سے ہیں! اقبال کے فنی اسالیب میں کئی جگہ سعدی کی جھلک نظر آتی ہے۔ اُن کے کئی اشعار کی اقبال نے تضمین بھی کی ہے، اُن کے اشعار و مصارع سے استفادہ بھی کیا ہے،…اور یہ اس لیے قابلِ فہم ہے کہ اقبال نے جس قدیم نظامِ تعلیم کی جھلک اپنے استاد علامہ میر حسن کی تدریس میں دیکھی تھی، اس نظام میں حافظ اور رُومی سے کہیں زیادہ سعدی شیرازی کو اہمیت حاصل تھی، گلستان و بوستان نے کئی صدیوں تک بر صغیر میں اسلامی تمدن کو ذہنی اور لسانی آب و رنگ عطا کیا ہے،…اور آج بھی شیخ سعدی کی حیثیت ویسی ہی مسلّمہ ہے لیکن اقبال کی رفعتِ اندیشہ کی جستجو کی تسکین گلستان و بوستان میں زیادہ نہیں ہو سکتی تھی، گلستان و بوستان…قرونِ وسطیٰ، میں ایشیائی اسلامی تمدن، اس کے کرداروں اور منظر ناموں اور وسیع انسانی بصیرتوں کا ایک قابلِ قدر اور زندۂ جاوید ذخیرہ ضرور ہے۔ لیکن وہ تصوریت یا مثالیت پسندی (idealism) جو مولانا رُوم کے کلام میں اُبھرتی ہے۔ اس دُنیا میں کم ہی چہرہ نمائی کرتی ہے، اس میں شک نہیں کہ شیخ سعدی اپنے عملی اخلاقی تصورات میں اکثر و بیشتر اُن حقائق کا بیان بھی کرتے ہیں جنھیں اخلاقِ عالیہ (higher ethics) کی اساس کہنا چاہیے، لیکن اقبال نے کوئی تبصرہ کیے بغیر، سعدی کے تصوراتِ حیات سے زیادہ استفادہ نہیں کیا،…انسانی زندگی کی نشو و بقا اور صعود و ارتقا اور عصر حاضر میں ایک متحد، متحرک اور ترقی پذیر اسلامی تمدن کی تشکیلِ نو کے نقطۂ نظر سے وہ مولانا رُوم کے مقابلے میں کسی اور شاعر یا مفکر کے فکری اور فنی مضمرات و مؤثرات کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہ تھے۔ اس میں شک نہیں کہ مولانا رُوم نے جس طرح زندگی کے حقائق اور متصوفانہ فکر کے دقائق کو باہم مربوط کیا ہے، اس کے پیشِ نظر اُنھیں بجا طور پر چھٹی اور ساتویں صدی ہجری کے اسلامی تمدن کے داخلی اضطراب کی آواز، اور اسی تمدن کے تخلیقی امکانات کی علامت قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن رُومی کا دائرۂ کار اس سے بھی وسیع ہے، وہ کسی ایک صدی یا چند صدیوں کے شاعر نہیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اُن کی فکر کئی صدیوں کو محیط ہے،مثنویِ معنوی رُوح انسانی کا ایک لازوال نغمہ ہے، جو زندگی کے المیہ اور طربیہ سے ماورا ہو کر زندگی کو ایک ماورائی معنی عطا کرتا ہے، لیکن یہ ماورائیت (transcendentalism)ایک خلاق تمدن کی بنیاد بننے کی پوری پوری صلاحیت رکھتی ہے،…یہ نظم…مثنویِ معنوی…ایک بحرِ موّاج ہے جس کی ہر موج اسلامی تمدن کے اجتماعی لاشعور کی گہرائیوں سے اُبھر کر عصری شعور کے ساحلوں سے ٹکراتی اور انھیں فکر و صداقت کے ابدی طور پر چمکیلے اور نایاب موتیوں سے مالا مال کر دیتی ہے۔ مولانا رُوم نے اسلامی فکر کے جوہری اجزا کو اس طرح مرتب کیا ہے کہ انسانی فکر کے بے شمار گوشے منور ہو گئے ہیں،…اور لاتعداد فکری مغالطے، جنھوں نے فکرِ صحیح کے ساتھ ساتھ ایمان و یقین کے راستے مسدود کر رکھے تھے، تارہائے عنکبوت کی طرح بکھر کر لاشئے ہو گئے ہیں، فکرِ انسانی کی تنقید،…اور ایمان و یقین کی قوتوں کی دریافت،…یہ ہیں وہ دو بنیادی خصوصیات جن میں عصرِ حاضر میں اگر کوئی مولانا رُوم کا شریک ہو سکا ہے کہ تو وہ علامہ اقبال ہیں، جنھوں نے کم و بیش سات صدیوں کے فصلِ زمانی کے بعد، اسلامی تمدن کے مروّجہ فکری سانچوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اُن کے بیشتر حصوں کو فرسودہ اور مرگ آموز قرار دیا، اور مغرب کے فکری ضابطوں اور نئی تجربی منطق کی کمزوریوں پر بھر پور تنقید کرتے ہوئے اسلامی تمدن کو ایک نیا…مربوط فکری نظام دیا، جسے ہم مولانا رُوم کے افکار کی بازگشت تو نہیں کَہ سکتے، تاہم دونوں کی فکری یگانگت اور ہم آہنگی اُنھیں اسلامی شعریات کی تاریخ میں…نیز اسلامی فکر کی پیش رفت کی تاریخ میں بھی…کم و بیش ایک ہی سا امتیاز عطا کرتی ہے۔ کارلائل کو جب شاعروں میں ہیرو (بطلِ جلیل) کی تلاش ہوئی تو اس نے ایک کی بجائے دو شاعروں کا انتخاب کیا، یعنی ڈانٹے اور شیکسپئیر کا…جو اس کے نزدیک (مغربی)دُنیا میں شاعری کے ’ہیرو‘ ہیں…ان دونوں کے بارے میں کارلائل نے کہا کہ اُنھوں نے قدیم و جدید(مسیحی) دُنیا ئوں کو اپنی اپنی ملکیتوں میں تقسیم کر لیا، قدیم دُنیا ڈانٹے کی ہے اور جدید شیکسپئیر کی۔ کچھ یہی صورتِ حال کامل مشابہتوں کے ساتھ نہ سہی، ہمیں مولانا رُوم اور اقبال کی دکھائی دیتی ہے۔ وہ اسلامی تمدن میں قدیم و جدید دُنیائوں کے علمبردار ہیں،…کارلائل نے ڈانٹے کے بارے میں لکھا ہے کہ اس نے اپنی عظیم نظم ’طربیۂ ایزدی‘ میں (عیسوی دُنیا کی) دس خاموش صدیوں کو زبان دی۔۴؎ اگریہ خیال مستعار لے لیا جائے تو اس کا انطباق مولانا رُوم اور اقبال پر بھی ہوتا ہے،…اسلامی تمدن کی سات صدیوں کو مولانا رُوم نے اور مزید سات صدیوں کو اقبال نے شاعری کی زبان دی،…یہ ایک بہت وسیع تعمیم ضرور ہے، اور اس کا مطلب اسلامی تمدن کی دوسری عظیم الشان شخصیتوں کے علمی، ادبی اور اخلاقی کارناموں کی قدرو قیمت کو گھٹانا نہیں،… تاہم ان دونوں عظیم مفکر شاعروں کا اسلامی تہذیب کے نشو و ارتقا اور اسلامی فکر کی حیاتیاتی اور نامیاتی تشکیل کے ساتھ بہت ہی پر اسرار رشتہ دکھائی دیتا ہے۔ فارسی شاعری میں مثنوی نگاری کی دو واضح طور پر الگ الگ روایتیں نشو و نما پاتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں، ایک روایت تو وہ ہے جس کے سرخیل فردوسی اور نظامی ہیں، اسے مثنوی میں داستان گوئی کی روایت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، اس روایت کے اتباع کرنے والوں میں حضرت امیر خسرو جیسے شعرا بھی ہیں، دوسری روایت متصوفانہ یا عارفانہ مثنوی نگاری کی ہے۔ جس کے سرخیل تو سنائی اور عطّار ہیں، لیکن اس کو بلندیوں تک پہنچانے والے رُومی ہیں، بوستان، گلشنِ راز، مثنوی بو علی قلندر، بیدل کی مثنویات…عرفان، محیطِ اعظم، طورِ معرفت اور طلسمِ حیرت بھی اسی روایت کا حصہ ہیں، مثنوی نگاری کی اس ثانی الذکر روایت نے مختصر حکایات اور داستانوں کو فلسفیانہ حقائق اور عارفانہ مسائل کے بیان کا ذریعہ بنایا، اور فلسفیانہ شاعری کے لیے زبان و بیان، اور علامات و استعارات کا ایک وسیع و بلیغ نظام مرتب کیا۔ اقبال نے اپنی فارسی مثنویات میں اسی روایت کو آگے بڑھایا ہے،…لیکن فنی ہیئت اور تکنیک کے بہت سے معاملات میں وہ مولانا رُوم ہی کی پیروی کرتے دکھائی دیتے ہیںاسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی تو بالخصوص مثنویِ معنوی ہی کے تتبع میں لکھی گئی ہیں، گو زبان و بیان کے اعتبار سے اقبال بذاتِ خود ایک نئے طرز کے بانی ہیں، اور سبکِ عراقی، سبکِ خراسانی اور سبکِ ہندی کے امتزاج سے ایک ایسی شاعرانہ زبان کو وجود میں لاتے ہیں جو قدیم و جدید کا سنگم بھی ہے اور زندگی کے نئے مسائل کو بیان کرنے کی اہلیت بھی رکھتی ہے۔ تاہم ’اسرار و رموز‘ کی تمثیل نگاری پر واضح طور پر مولانا رُوم کے تمثیلی طرزِ بیان کا پر تو دکھائی دیتا ہے،… اقبال نے اپنی تین بڑی…اور تین مختصر مثنویاں… یعنی اسرارِ خودی، رموزِ بے خودی، جاوید نامہ…اور پس چہ باید کرداے اقوامِ شرق، مسافر اور بندگی نامہ،…مثنویِ معنوی ہی کی بحر…(بحرِ رمل مسدّس: فاعلاتن فاعلاتن فاعلات) میں لکھی ہیں، گلشنِ راز جدید صرف ایک استثنا ہے،… اس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مثنویِ معنوی کی بحر میں اقبال کو ایک نسبتاً جدید تر شعری اُسلوب کے لیے کتنے امکانات دکھائی دیے ہوں گے۔ مولانا رُوم کے بعد اقبال نے فارسی کے جن شعرا کو کم و بیش یکساں حد تک سراہا ہے، وہ مرزا عبدالقادر بیدل، مرزا غالب اور حکیم سنائی غزنوی ہیں۔ بہت سی داخلی شہادتیں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ اپنی فکری نشو و نما کے بعض اوّلین ادوار میں اقبال، بیدل سے بے حد متاثر تھے، اور غالب سے کہیں زیادہ بیدل کی فکری اور فنی عظمت کے قائل تھے، یہاں تک کہ وہ بعض صورتوں میں اپنے عہد کے نوجوانوں کو فکرِ بیدل کی طرف متوجہ کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں، اس لیے کہ ان کے خیال میں بیدل ایک حرکت پسند شاعر ہیں، اور اُن کی شاعری انسانوں کو خود آگہی اور خود شناسی کی طرف بھی مائل کرتی ہے، بیدل کی ایک لسانی ترکیب’خرام کا شتن‘ سے اقبال کے ذہن کو خاصی تحریک ہوئی اور اُنھوں نے اس ترکیب سے نتیجہ اخذ کیا کہ جو شاعر ’بونے‘ کے لیے بھی خرام لاتا ہے، اس کے ہاں حرکت پسندی کی اور کیا کیا صورتیں نہ ہوں گی۔ بانگِ درا کی کئی نظموں میں بیدل کے اشعار کی تضمین کی گئی ہے، لیکن فارسی کلام میں بیدل کا تذکرہ کسی ایک جگہ بھی نہیں…اس میں شک نہیں کہ بیدل ایک ایسا شاعر ہے جس کے ہاں فلسفیانہ تفکر، فن اور زندگی کے ہر پہلو پر چھایا ہوا دکھائی دیتا ہے، اور استعاراتی پیرائے میں حرکت پسندی، خود آگاہی، خود نموداری اور مظہر یاتی فعلیت کی بے شمار ایسی متنوع صورتیں موجود ہیں جو اقبال کے ذہن کے لیے بے حد کشش کا باعث ہو سکتی تھیں۔ اور ہوئیں، لیکن بیدل کا اُسلوبِ شاعری، اپنی تمام تر شعری خوبیوں کے باوجود، جس طرح کی مشکل پسندی اور اغلاق کا حامل تھا، وہ اقبال کے لیے تادیر کسی مثبت فنی قدروقیمت کا قطعی اور آخری معیار نہیں ہو سکتا تھا۔ اپنی انگریزی میں لکھی ہوئی یادداشتوں (افکارِ پریشاں) میں اقبال نے بیدل کے اس شعر کی نہایت خوبصورت فنی پیرائے میں تحسین کی ہے: نزاکت ہا ست در آغوشِ میناخانۂ حیرت مژہ برہم مزن، تا نشکنی رنگِ تماشا را مرزا غالب، اُردو اور فارسی شاعری میں اقبال کے عظیم پیشرو ہیں، سر عبدالقادر سمیت اُن تمام اربابِ نظر نے جنھیں اقبال کے ابتدائی کلام کو مبصرانہ انداز میں دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا، واضح طو ر پر محسوس کر لیا تھا کہ اقبال، شاعری میں غالب کے طے کیے ہوئے راستوں پر چل رہے ہیں اور ان کے اُسلوبِ شاعری کا رشتہ مجموعی طور پر رنگِ غالب ہی سے ملتا ہے۔ اگرچہ آگے چل کر اقبال کے فکر اور اسالیبِ بیان میں جو غیر معمولی وسعت پیدا ہوئی اس نے پیرویِ غالب کی ابتدائی صورتوں کو ایک نئی معنویت دے دی، تاہم اقبال پایانِ عمر تک غالب کی عظمت کے معترف رہے۔ جس غالب کو اُنھوں نے اپنے عنفوانِ شباب میں خراجِ عقیدت پیش کیا تھا(بانگِ درا کی چوتھی نظم: ’مرزا غالب‘) اس کی یاد جاوید نامہ کے رُوحانی سفر میں بھی ان کے ساتھ رہی۔ نوجوانی میں انھیں مرزا غالب اور گوئٹے کے فکرو تخیل اور آفاقیت میں مشابہت نظر آتی تھی، آنے والے سالوں میں بھی اُن کی رائے تبدیل نہیں ہوئی۔ آہ، تو اُجڑی ہوئی دلّی میں آرامیدہ ہے گلشنِ ویمر میں تیرا ہمنوا خوابیدہ ہے جاوید نامہ میں اُنھوں نے حلاج، غالب اور قرۃ العین طاہرہ کو ایسی ارواحِ جلیلہ قرار دیا ہے جنھوں نے بہشت میں رہنے کی بجائے گرشِ جاوداں کو ترجیح دی ہے، اقبال کے نقطۂ نظر سے یہ بہت بڑی تحسین اور غیر معمولی خراجِ عقیدت ہے، اس لیے کہ اس رویے میں، جو اُنھوں نے خیالی طور پر حلاج، غالب اور قرۃ العین طاہرہ سے منسوب کیا ہے،…حیاتِ اخروی میں بھی انفرادی انا کی آزادی کی ایک ممکنہ صورت ہے،…اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اقبال کو بیدل کی طرح غالب کی شاعری میں بھی ’خودی‘ کے تصورات اور استحکامِ انا کی آرزو نظر آتی ہے۔ جاوید نامہ میں ’فلکِ مشتری‘ کے احوال میں اقبال نے غالب کی وہ شہرۂِ آفاق غزل نقل کی ہے جس کا مطلع ہے: بیاکہ قاعدۂ آسمان بگردانیم قضا بگردشِ رطلِ گران بگردانیم اس باب میں اقبال نے زندہ رود کی زبان سے غالب سے اُن کے اس شعر کی تشریح کے سلسلے میں استفسار کیا ہے: قمری کفِ خاکستر و بُلبل قفسِ رنگ اے نالہ، نشانِ جگرِ سوختہ کیا ہے؟ غالب نے جواب میں جو کچھ کہا،…وہ وجود کی ماہیت اور ضمیرِ وجود میں تب تابِ آرزو (سوزِ جگر) کی رنگ آفرینی اور شعلہ سامانی پر ایک خوبصورت تبصرہ ہے: نالۂ کو خیزد از سوزِ جگر ہر کجا تاثیرِ او دیدم دگر قمری از تاثیر اُو، واسوختہ بلبل از وَی رنگ ہا اندوختہ اندرو مرگی بآغوشِ حیات یک نفس اینجا حیات، آنجا ممات آنچنان رنگی کہ ارژنگی ازوست آنچناں رنگی کہ بیرنگی ازوست تو ندانی این مقامِ رنگ و بوست قسمتِ ہر دل بقدر ہای وہوست یا برنگ آ، یا ز بیرنگی گذر تا نشانے گیری از سوزِ جگر وہ فریاد جو سوزِ جگر سے پیدا ہوتی ہے،…مجھے اس کی تاثیر ہر جگہ نئی دکھائی دی ہے۔ قمری اس کی تاثیر سے جل بجھی ہے اور بلبل نے اسی سے سامانِ رنگ فراہم کر لیا ہے،…اس میں مرگ بآغوشِ حیات ہے، یہ ایک وقت میں یہاں زندگی… اور وہاں موت ہے۔ یہ اس طرح کا رنگ ہے کہ رنگوں کی بوقلمونی…ارژنگ…اسی سے پیدا ہوتا ہے، یہ وہ رنگ ہے کہ بے رنگی کا سرچشمہ بھی یہی ہے،…تو نہیں جانتا کہ یہ رنگ و بو کا مقام ہے اور یہاں…ہر دل کی قدر و قیمت کا انحصار اس حقیقت پر ہے کہ وہ کتنی ہائے و ہو کرتا ہے…چنانچہ تو بھی یا کوئی رنگ پکڑ لے، …کسی رنگ میں پختہ ہو جا، یا اس بے رنگی کو چھوڑ دے، تا کہ تجھے اس سوزِ جگر کا پتا چلے کہ یہ کیا ہے؟ اس سلسلۂ کلام میں …اقبال نے غالب سے ختم المرسلینؐ، اور رحمۃ للعالمینؐ، کے مفاہیم پر گفتگو کی ہے، یہ مکالمہ جاوید نامہ کے اہم ترین اور پر زور ترین مکالمات میں سے ہے،… اس سوال کے جواب میں کہ عالمِ آب و گِل کے ساتھ رحمۃٌ للعالمینؐ کے تصور کا کیا تعلق ہے، اقبال نے مرز غالب سے کہلوایا ہے کہ: ہر کجا ہنگامۂِ عالم بود رحمۃٌ للعالمینیؐ ہم بود (جہاں کہیں بھی عالمِ ہست و بود کا ہنگامہ ہے، وہاں رحمۃ للعالمینؐ بھی ہے) اقبال نے اس خیال کی مزید توضیح چاہی ہے،…غالب نے قدرے تامل کے ساتھ جواب دیا ہے، خلق و تقدیر و ہدایت ابتداست رحمۃٌ للعالمینیؐ انتہاست! (تخلیق،…تقدیر اور ہدایت،…عالمِ خلق و امر کی ابتدا ہیں اور ان کی انتہا رحمۃ للعالمینیؐ ہے) در اصل اس مکالمے کا پس منظر ختم المرسلین کے تصور کی تشریح میں وہ بحث ہے جسے ’امتناع و امکانِ نظیر‘ کی بحث کہا جاتا ہے،…یہ بحث شاہ اسمٰعیل شہید دہلوی اور مولانا حیدر بخش کے درمیان تھی، لیکن علامہ فضل حق خیر آبادی اور مرزا غالب کو بھی اس بحث میں شامل کر لیا گیا،…مرزا غالب نے اس بحث کو اپنے ایک منظوم استدراک (مثنوی) میں سمیٹا ہے،… جاوید نامہکے اس مکالمے کے بعض اشعار غالب کی اسی مثنوی سے لیے گئے ہیں،…لیکن اس مثنوی کے کچھ شعر ایسے بھی ہیں جو ’امتناع نظیر‘ کے تصور کو زیادہ وضاحت کے ساتھ پیش کرتے ہیں،…گو اس مکالمے میں شامل نہیں ہوئے، مثلاً: آنکہ مہر و ماہ و اختر آفرید می تواند مہرِ دیگر آفرید لیک اندر عالم ازروئے یقیں خود نمی گنجد دو ختم المرسلین وہ خالقِ کائنات جس نے سورج، چاند، ستارے پیدا کر دیے ہیں، وہ چاہے تو دوسرا سورج بھی پیدا کر سکتا ہے، لیکن ازروئے یقین…اس عالم میں دو ختم المرسلین ہو ہی نہیںسکتے۔ ان تمام باتوں کے باوجود، اقبال کے فارسی کلام کے مطالعے سے یہ بات واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے کہ اُن کے ہاں غالب کی فارسی شاعری کے اثرات اتنے زیادہ اور اتنے واضح نہیں کہ اُنھیں (اقبال کو) آسانی کے ساتھ صرف سبکِ ہندی کا شاعر قرار دیا جا سکے۔ حکیم سنائی غزنوی اور شیخ فرید الدین عطار کو متصوفانہ شاعری میں غیر معمولی اہمیت حاصل رہی ہے، وہ فلسفیانہ اور عارفانہ شاعری میں مولانا رُوم کے پیش رَو ہیں،… اقبال کے ہاں عطار کا تذکرہ چند مقامات پر ضمنی صورت میں ہے،… اقبال نے عطار کے دو یاتین اشعار میں تصرف بھی کیا ہے،… اقبال کے تصورِ ابلیس اور شیخ عطار کے تصورِ شیطان میں کچھ مماثلتیں بھی دریافت کی گئی ہیں۔ لیکن عطار کے فکر سے اقبال کی وابستگی کچھ زیادہ ثابت نہیں ہوتی، یہ اور بات ہے کہ اقبال،…عطار کا ذکر رُومی اور سنائی کے ساتھ ہی کرتے ہیں،…البتہ سنائی ایک ایسے شاعر ہیں، جو رُومی کے بعد اقبال کے ممتاز ترین ادبی اور فکری ممدوحین میں دکھائی دیتے ہیں۔ اسلامی فکر کی دُنیا میں…اقبال کے نقطۂ نظر سے رُومی اور سنائی دو مرکزی شخصیتیں ہیں، اقبال کی ایک مختصر سی نظم جس کا عنوان ہی ’اقبال‘ ہے، اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے: فردوس میں رُومی سے یہ کہتا تھا سنائی مشرق میں ابھی تک ہے وہی کاسہ وہی آش حلاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر اِک مردِ قلند نے کیا رازِ خودی فاش بالِ جبریل کی غزلیات کے ایک حصے کے آغاز میں قبال نے یہ تمہیدی نوٹ لکھا ہے: اعلیٰ حضرت شہید امیر المؤمنین نادر شاہ غازی کے لطف و کرم سے نومبر ۱۹۳۳ء میں مصنف کو حکیم سنائی غزنوی کے مزار اقدس کی زیارت نصیب ہوئی۔ یہ چند افکارِ پریشاں، جن میں حکیم ہی کے ایک مشہور قصیدے کی پیروی کی گئی ہے، اس روزِ سعید کی یاد گار میں سپردِ قلم کیے گئے ہیں: ما از پئے سنائی و عطار آمدیم‘‘ اس ذیل میں اقبال کی ساٹھ کے قریب وہ اُردو غزلیں ہیں، جنھوں نے اُردو غزل کے لفظی آہنگ اور اس کے جہانِ معنی کی کایا پلٹ کے رکھ دی،… مثنوی مسافر میں (اکتوبر ۱۹۳۳ئ) اقبال’’سفر بہ غزنی وزیارتِ مزار حکیم سنائی‘‘ کے عنوان سے غزنی کی تعریف میں لکھتے ہیں: خفتہ در خاکش حکیمِ غزنوی از نوائے اُو دلِ مردان قوی سنائی کو اقبال نے حکیمِ غیب، قرار دیا ہے، اور سنائی اور اپنا موازنہ اس طرح کیا ہے: من ز پیدا، اُو زپنہاں در سرور ہر دو را، سرمایہ از ذوقِ حضور او نقاب از چہرۂ ایمان کشود فکرِ من تقدیرِ مؤمن وا نمود ہر دو را از حکمتِ قرآن سبق او ز حق گوید، من از مردانِ حق سنائی کے ساتھ اقبال کی اس گہری جذباتی وابستگی کا اصل سبب سنائی کی عارفانہ مثنوی حدیقۃ الحقیقۃ ہے… جو فی الحقیقت فارسی کی تمام متصوفانہ اور فلسفیانہ مثنویوں کی سرخیل ہے، اسے مثنویِ معنوی پر بھی زمانی تقدم حاصل ہے،…اور اسی سے فارسی میں حکیمانہ، فلسفیانہ اور متصوفانہ مثنویوں کی اس عظیم روایت کا آغاز ہوا ہے، جس کی روشنی میں اقبال نے اپنی حکیمانہ مثنویاں مکمل کیں۔ حدیقۃ دراصل شاعری میں اسلامی ما بعد الطبیعیات کی بنیاد ہے، اسی لیے مولانا رُوم کے بعد اقبال جس شاعر کے لیے سب سے زیادہ عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ حکیم سنائی غزنوی ہیں۔ سنائی کے بعد اقبال کے نظامِ ترجیحات میں غالباً محمود شبستری اور حکیم خاقانی شروانی کا مقام ہے، ثانی الذکر کو اقبال نے ’’اربابِ نظر کا قرۃ العین‘‘ اور ’’محرمِ عالمِ مکافات‘‘ کہا ہے، غالباً اس میں خاقانی کی اخلاقی اور حکیمانہ شاعری کی طرف اشارہ ہے،… لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خاقانی کے اخلاقی اور حکیمانہ افکار اقبال کے فکری مزاج سے کچھ زیادہ مناسبت نہیں رکھتے تھے…البتہ محمود شبستری اور گلشنِ راز جدید اقبال کے لیے کُچھ زیادہ خیال انگیز ہیں۔ محمود شبستری نے اپنی شہرۂ آفاق مثنوی گلشنِ راز میں ماہیتِ وجود اور علاماتِ تصوف کے بارے میں سیّدمیر حسینی ہروی کے اُٹھائے ہوئے سوالات کا جواب منظوم صورت میں دیا ہے، اور یہ مثنوی در حقیقت فلسفۂ وحدت الوجود ہی کی ایک تشریح ہے،…جس کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں شاعری کی اُن اصطلاحات کے عرفانی(روحانی اور ما بعد الطبیعیاتی) مطالب متعین کیے گئے ہیں۔ جن کا بظاہر دین یا تصوف سے کوئی تعلق نہیں، یہ وہ علامات ہیں جو آگے چل کر غزل کی شاعری کی اساس ٹھہرے،…ان میں انسانی اعضا مثلاً چشم و لب و رخسار، متعلقاتِ خرابات مثلاًرند، شراب، شاہد، پیمانہ، شمع، نیز کفر، بت، زنار جیسے الفاظ کی بھی ایسی تشریح کی گئی ہے کہ ان کے علاماتی مطالب۔ تصوف کے حقائق کی توضیح کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ غزل اور تصوف دونوں کی مجازی علامات کی تعبیرات ہیں جنھوں نے غزل اور تصوف دونوں کو کئی صدیوں تک ان علامات اور ان سے متعلقہ تلازمات کا اسیر رکھا ہے،… اسے ہم وحدت الوجود کے لیے ایک مجازی نظامِ علامات سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں،…اس کے تاثرات اور معنوی اہمیت کے پیش نظر اقبال اس مثنوی سے صرفِ نظر نہیں کر سکتے تھے، اسی لیے اُنھوں نے گلشنِ راز جدید کے نام سے اس مثنوی کا ’جواب‘ لکھا۔ اورمتوازی صورت میں وحدت الوجود کے مقابلے میں ماہیت الوجود کی تشریح وحدت الشہود اور استحکامِ انائے انفرادی کے نقطۂ نظر سے کی ہے،… اقبال نے محمود شبستری کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کے نقطۂ نظر سے واضح طور پر اختلاف کیا ہے،… اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گلشنِ راز (شبستری) کے مقابلے میں گلشنِ راز جدید (اقبال) میں شاعرانہ بیان کی سطح کہیں بلند اور پرکشش ہے۔ فارسی شعر و ادب میں اقبال کی ترجیحات کا مطالعہ سلبی اعتبار سے بھی کیا جا سکتا ہے، یعنی کن شعرا کا تذکرہ نہ ہونے کے برابر ہے یا کم سے کم ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو فارسی کے تین عظیم شعرا کا نام خاصی اہمیت کا حامل ہے، فردوسی، نظامی اور عمر خیام…فارسی کے یہ مایۂ ناز شعرا صرف فارسی ہی میں نہیں عالمی ادب میں بھی اہم ہیں، بالخصوص فردوسی اور خیام پوری دُنیا میں عظیم شعرا کی شہرت رکھتے ہیں۔ اقبال نے اپنی تمام تر شاعری میں فارسی اور غالباً دُنیا کے سب بڑے رزم نگار (epic poet) فردوسی کا ذکر کم سے کم کیا ہے، پیامِ مشرق کے اُردو دیباچے میں صرف دو مقام پر فردوسی کا ذکر ہوا ہے وہ بھی ضمناً اور تبعاً۔ یعنی گوئٹے کے حوالے سے : خواجہ حافظ کے علاوہ گوئٹے اپنے تخیّلات میں شیخ عطار، سعدی، فردوسی اور عام اسلامی لٹریچر کا بھی ممنونِ احسان ہے…۔ (دیباچہ پیامِ مشرق) یا پھر ہائنے کی ایک نظم کا حوالہ ہے جس میں وہ بقولِ اقبال…’’اپنے آپ کو عالمِ خیال میں ایک ایرانی شاعر تصور کرتے ہوئے، جس کو جرمنی میں جلا وطن کر دیا گیا ہو، لکھتا ہے: اے فردوسی، اے جامی، اے سعدی، تمھارا بھائی زندانِ غم میں اسیر، شیراز کے پھولوں کے لیے تڑپ رہا ہے۔ (دیباچہ: پیامِ مشرق) بالِ جبریل میں فردوسی کے ایک شعر کی تضمین‘ اور مثنوی ’مسافر‘ میں ایک شعر کی تحلیل کے سوا فردوسی کا تذکرہ اگر کہیں ہے تو وہ بھی مثنوی ’مسافر‘ ہی کے دو اشعار ہیں، جن میں اسے نکتہ سنجِ طوس، اور دانائے طوس، کہا گیا ہے۔ نکتہ سنجِ طوس را دیدم بہ بزم لشکرِ محمود را دیدم بہ بزم دولتِ محمود را زیبا عروس از حنا بندانِ اُو دانائے طوس لیکن ایک عظیم رزم نگار، حکیم یا معلمِ اخلاق کی حیثیت سے فردوسی کا تذکرہ کہیں بھی نہیں ہے۔ ادبیاتِ عالم اور بالخصوص ادبیاتِ مشرق میں اقبال کو زندگی اور حُسن کے جن اقدار و تصورات کی تلاش تھی، غالباً فردوسی کے ہاں اُن کی جھلک کم سے کم تھی،…یہی سبب ہے کہ اقبال کے سارے کلام میں کہیں ایک بار بھی لفظ ’’شاہنامہ‘‘ کا ذکر نہیں آیا،… یہی صورت حال فارسی کے دوسرے بڑے مثنوی نگار مولانا نظامی کی بھی ہے، جو حماسہ سرائی (رزم نگاری) اور قدرتِ کلام میں کسی طرح بھی فردوسی سے کم نہیں، اُن کا ذکر بھی صرف پیامِ مشرق کے دیباچے میں ہوا ہے،…’ضربِ کلیم‘ کی ایک نظم ’’جاوید سے‘‘… میں اقبال نے نظامی کے یہ دو شعر تضمین کیے ہیں: غافل منشین، نہ وقتِ بازی است وقتِ ہنر است و کارسازی است جائے کہ بزرگ بایدت بود فرزندیِ من نداردت سود پیامِ مشرق کے دیباچے میں اقبال نے نظامی کا یہ شعر نقل کیا ہے: گفت کز جملۂ ولایتِ روس بود شہری بہ نیکوئی چو عروس ان مختصر تذکروں کے علاوہ فردوسی اور نظامی…اقبال کی ترجیحات میں کہیں اور دکھائی نہیں دیتے۔ اس سے بظاہر یہی نتیجہ برآمد کیا جا سکتا ہے کہ اقبال کو فردوسی اور نظامی کی افسانہ طرازی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور وہ ان کے کلام میں نئے اُبھرنے والے مشرق اور اسلامی تمدن کے لیے حیات آموزی اور حیات آفرینی کے زندہ عناصر نہیں دیکھتے تھے۔ حالانکہ شاہنامہ… فردوسی (یا ایرانِ قدیم) کے اخلاقی تصورات سے مملو ہے، لیکن یہ تصورات کسی فلسفۂ حیات سے مربوط نہیں،… نہ ہی ’شاہنامہ‘ کی کوئی ما بعد الطبیعیاتی اساس ہے، اقبال کی فارسی مثنویات میں کوئی مثنوی ’شاہنامہ‘ کی بحر میں نہیں، حالانکہ اس بحر کو مثنوی کے لیے اکثر موزوں سمجھا گیا ہے۔ البتہ پیامِ مشرق کی دو مختصر نظمیں…’پندِ باز با بچۂ خویش‘ اور ’طیارہ‘ اس بحر میں ضرور ہیں…رستم د ستان (شاہنامے کا ہیرو) کی قہر مانی اور سکندر اعظم (سکندر نامہ) کی کشور کشائی نے اقبال کی متخیلہ کو متاثر نہیں کیا، شاہنامے کے کرداروں کی زر دشتی مابعد الطبیعیات (نور و ظلمت کی آویزش) اقبال کے افکار سے زیادہ مناسبت نہیں رکھتی تھی۔اسی لیے مشرقی ادبیات کے اس عظیم شاہکار نے اقبال کے فکرو فن پر کوئی قابلِ ذکر اثر مرتب نہیں کیا، علاوہ ازیں شاہنامے کے کرداروں کی دیو مالائی تشکیل، انسانی تخیّل کی جس سرگرمی کانتیجہ ہے۔ اقبال کو اس سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ نظامی کی خیالی دُنیائے رزم و بزم میں بھی اقبال کے لیے زیادہ دل کشی کا سامان نہیں تھا۔ حکیم عمر خیام کا نام بھی اقبال کے ہاں صرف ایک جگہ ملتا ہے۔ جاوید نامہ کے ایک شعر میں مریخ کے انجم شناس کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ وہ فارسی میں گفتگو کر رہا تھا: آدمی را دید و چون گل بر شگفت در زبانِ طوسی و خیام گفت گویا اقبال نے خیام کو علمِ نجوم اور علم الافلاک کے تلازمات میں جانا ہے اور اس کی شاعری سے جو فی الواقعہ اقبال کی رُوح شاعری سے قطبین کے فاصلے پر ہے، چنداں اعتنا نہیں کیا۔ ایرانی شعرا کے بعد اقبال نے برصغیر کے جن فارسی گو شعرا کو اہمیت دی ہے، وہ حضرت امیر خسرو، عرفی، نظیری، صائب، ابو طالب کلیم اور ملا غنی کاشمیری ہیں تاہم امیر خسرو کا تذکرہ چند قطعات میں بر بنائے عقیدت کیا ہے: رہے نہ ایبک و غوری کے معرکے باقی ہمیشہ تازہ و شیریں ہے نغمۂ خسرو ایک دو اشعار یا مصرعوں کی تضمین کے سوا خسرو کا تذکرہ کہیں نہیں۔ البتہ عرفی کے بعض اشعار کی تحلیل یا تضمین کی گئی ہے،… اور ایک اُردو نظم میں اسے بھر پور خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہے، یقینا عرفی کا فلسفیانہ اُسلوبِ شاعری، اس کی بلند آہنگی اور اس کی ’انانیت‘ اور خود نمائی، فلسفیانہ مفہوم میں اقبال کے لیے قدرو قیمت کی حامل تھی، نظیری کے تغزل اور ابو طالب کلیم کی معنی آفرینی نے بھی اُنھیں خاصا متاثر کیا…غنی کا شمیری سے اقبال کو ایک گو نہ جذباتی وابستگی ہے ، اپنی ایک فارسی نظم (غنی کشمیری: پیامِ مشرق) میں اُنھوں نے اس روایت کو منظوم کیا ہے کہ ملا غنی جب گھر میں ہوتے تھے تو گھر کا دروازہ بند رکھتے تھے، گھر سے باہر جاتے تو دروازہ کھلا چھوڑ دیتے، لوگوں نے استفسار کیا تو کہا کہ میرے گھر میں مجھ سے زیادہ قیمتی چیز اور کون سی ہے جس کی حفاظت کے لیے دروازہ بند کیا جائے۔ جاوید نامہ میں غنی کشمیری کو امیر کبیر سیّدعلی ہمدانی کے ساتھ جنت الفردوس میں دکھایا گیا ہے اور اس کی زبان سے خطۂ کشمیر کے حسن اور علم پروری کی تحسین کی گئی ہے اور اس کی نجات کی دُعا کی گئی ہے،…اقبال نے اپنی ایک مشہور اُردو نظم ’خطاب بہ نوجوانانِ اسلام‘ میں غنی کے اس شعر کو تضمین کیا ہے: غنی روزِ سیاہِ پیرِ کنعان را تماشا کن کہ نورِ دیدہ اش روشن کند چشمِ زلیخا را ان شعرا کے علاوہ، جن کا ان سطور میں تذکرہ کیا گیا،…ایران اور بر صغیر کے بے شمار فارسی گو شعرا ہیں جن کے اشعار کی تحلیل و تضمین اقبال کے ہاں ملتی ہے، یا کسی نہ کسی صورت میں ان کا تذکرہ موجود ہے،… پھر بھی ان کے ناموں کی فہرست کو ایک نظر دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال کا فارسی شعر و ادب کا مطالعہ کتنا وسیع اور عمیق تھا، اور اُنھیں قدرت نے اخذ و اکتساب کی غیر معمولی صلاحیتیں عطا کی تھیں…اگر اُنھیں کسی شاعر کا صرف ایک شعر بھی ایسا ملا ہے جو اُسلوب یا معانی و مطالب کے اعتبار سے قابلِ قدر ہے، تو اُنھوں نے اس کی تضمین کی ہے، یا اسے کسی ایسے عنوان سے نقل کیا ہے کہ شعر زندہ ہو گیا ہے۔ عزت بخاری، گیارہویں صدی ہجری کے ایک بے حد کم معروف شاعر ہیں لیکن اُن کے ایک شعر نے اقبال کے جذبے اور تخیّل کو اتنا متاثر کیا ہے کہ ارمغانِ حجاز کے ایک باب ’حضورِ رسالتؐ‘ کا ضمنی عنوان یہی شعر ہے، اس میں شک نہیں کہ شعر اپنے جذبے اور اُسلوب کے اعتبار سے واقعی بلند پایہ ہے،… لیکن یہ اقبال کی نگاہِ جوہر شناس تھی جو فارسی ادب کے دو اوین کے انبار سے اس جوہر پارے کو نکال لائی…اور جدید اسلامی دُنیا کے لیے اس کو زندہ، بلکہ زندۂِ جاوید کر دیا،… شعر ہے: ادب گاہیست زیرِ آسمان از عرش نازک تر نفس گم کردہ می آید جُنیدؓ و بایزیدؓ اینجا! فارسی کے ایسے بہت سے معاصر یا ماضیِ قریب کے شعرا کا ذکر بھی ان کی تحریروں اور ان کی شاعری میں ملتا ہے،… جن میں کچھ تو شہرۂِ آفاق ہوئے اور کچھ گم نام ہی رہے، لیکن اقبال کی تحسینِ شعری کے لیے کوئی چیز بھی حجابِ نظر کا نام نہیں دیتی تھی۔ وہ اچھے شعر کی داد و تحسین میں کبھی کمی نہیں کرتے تھے،… اُن کی نظر فارسی کے تمام اہم اور غیر اہم شعرا کے کلام کے قابل قدر حصوں، اور فارسی شاعری کے تمام اسالیب پر تھی،… اُن کی فنی ترجیحات میں فکر و خیال کی رفعت کے ساتھ ساتھ بیان کی ندرت اور دلکشی بھی تھی، محوی دکنی کے اس شعر کی داد اُنھوں نے محض ندرتِ خیال کی بنا پر دی ہے: نگاہ کردنِ دُزدیدہ ام بہ بزم بدید میانِ چیدنِ گل باغبان گرفت مرا! اقبال…فارسی کے عظیم شاعر تھے،… لیکن اس کے ساتھ ہی وہ فارسی شاعری کے ایک عظیم نقاد بھی تھے اور اُن کی براہِ راست یا با لواسطہ تنقید…فارسی شاعری کی تنقید میں بذاتِ خود ایک دبستان کا درجہ رکھتی ہے۔ حواشی ۱- مرقع چغتائی۔ پیش لفظ۔ 2- "In words like cut jewels, Hafiz put the sweet unconscious spirituality of nightingale". Stray Reflections, p.152. ۳- مکتوب بنام مہاراجہ سرکشن پرشاد، مورخہ ۳ اپریل ۱۹۱۴ئ۔ 4- "And so in this Dante, as we said , had later silent centuries, in a very strang way, found a voice" Carlyle:: On Heroes and Heroworship. /// اقبال کی مختصر ترین فارسی مثنوی: بندگی نامہ غلامی،… انسانی تمدن کے دامن کا قدیم تریم داغ ہے،… دُنیا کی تمام قدیم تہذیبوں اور عظیم الشان سلطنتوں کے استحکا م اور اُن کے معیشی نظام کا بہت کچھ انحصار غلامی کے ادارے پر تھا۔ حضرت مسیح علیہ السلام سے تقریباً دو ہزار سال پہلے کا مہذب و متمدن مصر صرف تہذیب و تمدن کا ہی نہیں، غلاموں کی خرید وفروخت کا بھی بہت بڑا مرکز تھا لیکن غلامی کے آثار اس سے پہلے بھی ملتے ہیں۔ سمیریوں کے بعض آثار بتاتے ہیں کہ وہ عورتوں کو غلام بنایا کرتے تھے اور غلام عورتوں کو ’’باہر سے آئی ہوئی عورتیں‘‘ کہا جاتا تھا۔ تورات میں لکھا ہے کہ ایک موقعہ پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک خاص واقعے کی خبر دی گئی تھی۔ یعنی فرمایا گیا تھا کہ ’’تیری اولاد ایک ایسے ملک میں جائے جو اُن کا ملک نہ ہوگا۔ وہاں لوگ اُسے غلام بنالیں گے اور چار سو برس تک وہاں رہے گی۔‘‘ (پیدائش،۱۵:۱۳) تورات کی اس پیش گوئی کا مصداق حضرت یوسفؑ اور اُن کے بھائی ہیں، جو مصر میں پہنچے… اور بنی اسرائیل کہلائے۔ مصر میں بنی اسرائیل کی آمد سے پیشتر ہی غلامی کا رواج عام تھا، اور کئی صدیوں سے چلا آرہا تھا۔ عام طور پر متمدّن مصر کی اطراف و جوانب کے بدوی بالخصوص عبرانی اور کنعانی مصر میں غلام بنالیے جاتے تھے۔ اسی لیے جب سوداگروں کے ایک قافلے کا گذر اُس کنویں کے قریب سے ہوا جس میں حضرت یوسفؑ کو بھائیوں نے گرا دیا تھا، اور ایک آدمی پانی کی تلاش میں کنویں میں اُترا تو حضرت یوسفؑ کو دیکھ کر وہیں سے پکار ’’یا بشریٰ، ہذا غلام‘‘۔ (اے اہلِ قافلہ) خوشخبری ہو کہ (یہاں نیچے کنویں میں) ایک لڑکا ہے۔‘‘ گویا کسی لاوارث لڑکے کا کسی اہلِ قافلہ کو مل جانا اس بات کی دلیل تھی کہ اُس لڑکے کو بغیر کسی مزید استحقاق کے غلام بنایا جاسکتا ہے۔ یا بطورِ غلام فروخت کیا جاسکتا ہے۔ مصر ہی کی طرح یونان بھی،… جو جدید تہذیب و تمدن اور جدید علوم وفنون کا سرچشمہ اور نقطۂ آغاز کہلاتا ہے اور انسانی تہذیب کے قدیم مراکز میں سے ہے، اپنی متمدن زندگی کی معیشت کا انحصار غلامی ہی پر رکھتا تھا۔ سقراط، افلاطون اور ارسطو جیسے عظیم مفکروں نے، جن کی قوتِ ادراک، فہم و فراست اور عقل وتمیز پر آج بھی انسانی دانش ناز کرسکتی ہے، غلامی کی روایات کو قطعاً حیرت کے ساتھ نہیں دیکھا۔ وہ فلسفی جنھوں نے صداقت، حسن اور خیر کے تصورات تک رسائی حاصل کی۔ ریاضی کی مقادیر اور اقلیدس کی اشکال کو دریافت کیا، فکرِصحیح کے اُصول مقرر کیے اور زندگی کے ہر خوب و ناخوب پر جی کھول کر بحثیں کی (مکالماتِ افلاطون)، … انسانی تہذیب کے جسم پر غلامی کے بدنما داغ کو نہ دیکھ سکے،… یہ اخلاقی ناسور اُنھیں انسانی تہذیب کے جسم کا ایک قدرتی اور فطری حصہ دکھائی دیا۔ قدیم دُنیا غلامی کے سہارے زندہ تھی، یہ شخصی غلامی (slavery)تھی۔ جو متمدن دُنیا کے تختِ رواں کو اپنے کاندھوں پر اُٹھائے رکھتی تھی۔ یہ ایک ناگزیر حقیقت جسے اُس عہد کی ترقی یافتہ تہذیبوں کے تمام اداروں کی توثیق حاصل تھی۔۱؎ طلوعِ اسلام کے وقت بھی اس وقت کی پوری مہذب دُنیا میں مروّج تھی۔ اسلام نے غلامی کو اس کے تاریخی وجوب (historical necessity) کے پیشِ نظر یکسر منسوخ تو نہیں کیا، کیونکہ ایسا کرنا تاریخی طور پر ناممکن (historical impossibility) تھا، تاہم اس کے لیے تقلیل اور تدریج کا اُصول اپنایا۔ غلاموں کے ساتھ برابری اور مساوات کے سلوک اور بات بات پر غلاموں کو آزاد کرنے کی تلقین،… اس عہد کے عظیم ترین انقلابی اقدامات تھے۔ اگرچہ غلامی ظہورِ اسلام کے بعد آنے والے کئی ادوار تک موجود رہی، لیکن اسلام کے قانونِ تدریج نے اسے اس طرح ختم کیا کہ غلاموں کو تخت و تاج اور علوم وفنون کا وارث بنا دیا۔ یہ اسلام ہی کی تعلیمات کا اثر تھا۔ کہ غلامی عملاً دُنیا سے مفقود ہوتی چلی گئی۔ اور اب اسے مہذب دُنیا کا شعور اور ضمیر کسی شکل میں بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ البتہ جدید دُنیا میں فکرِانسانی کی کجی اور ہوسِ اقتدار و مال وزر نے سیاسی بالادستی اور استعماریت کی صورت میں غلامی کی نئی شکلیں دریافت کرلیں، بہرحال غلامی شخصی ہو یاسیاسی، حیاتِ انسانی کے اخلاقی نشوو ارتقا میں حائل ہے۔ غلامی انسان کے اخلاقی جوہر کو برباد کردیتی ہے غلامی انسانوں کے بہترین اخلاقی جوہر کو کس طرح برباد کرکے رکھ دیتی ہے۔ اسے علامہ اقبال نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: از غلامی دل بمیرد در بدن از غلامی رُوح گردد بارِ تن از غلامی ضعفِ پیری در شباب از غلامی شیرِ غاب افگندہ ناب از غلامی بزمِ ملت فرد فرد این و آن با این و آن اندر نبرد آن یکے اندر سجود این در قیام کار و بارش چون صلوٰۃِ بے امام درفتد ہر فرد بافردے دِگر ہر زمان ہر فرد را دردے دگر از غلامی مردِ حق زنار بند از غلامی گوہرش نا ارجمند کور ذوق و نیش را دانستہ نوش مردۂ بے مرگ و نعشِ خود بدوش غلامی سے دل جسم میں مرجاتا ہے اور رُوح جسم کے لیے بارِ گراں ہوجاتی ہے۔ غلامی میں جوانی میں بھی بڑھاپے کی سی کمزوری لاحق ہوجاتی ہے۔ غلامی میں شیرِبیشہ کے دانت بھی گرجاتے ہیں۔ غلامی میں قومیں فرد فرد ہوکر بکھر جاتی ہیں اور افراد ایک دوسرے سے برسرِپیکارہوجاتے ہیں۔ غلام قوم کے کاروبارِ حیات کی حالت نمازِ بے امام کی سی ہوجاتی ہے کہ کوئی سجدے میں ہے اور کوئی قیام میں۔ غرض افراد ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں،… اور ہر فرد کے دل میں ہروقت کوئی نیا دُکھ پیدا ہوتا رہتا ہے۔ غلامی کی بدولت مردِ حق پرست بھی زنار باندھ لیتا ہے، غلامی اُس کے گوہر کو بے قیمت قرار دے دیتی ہے۔ غلام کور ذوق ہوجاتا ہے (اس کی حسیات اور اندازے غلط ہوجاتے ہیں) وہ زہر کو شربت سمجھ لیتا ہے۔ وہ مرنے سے قبل ہی مرجاتا ہے اور اس طرح جیتا ہے کہ گویا اپنی نعش کو اپنے کندھوں پر اُٹھائے ہوئے ہے۔ تاریخی اعتبار سے اقبال ایک محکوم قوم میں پیدا ہوئے تھے، لیکن اُن کی رُوح بیدار تھی، اور مسلمانوں کے لیے سیاسی آزادی کے حصول کی خواہش اُن کے باطن کا سب سے بڑا محشرستان تھی۔ یہی وہ آرزوئے حریت تھی جس نے اُردو زبان کو عظیم شاعری اور برِصغیر کے مسلمانوں کو ایک آزاد مملکت کا خواب عطا کیا۔ اگر حقیقت پسندانہ تخیل اور تجزیے سے کام لیا جائے تو آسانی سے محسوس کیا جا سکتا ہے کہ اقبال کی شاعری کا تمام تر تاروپود۔ مسلمانوں کے اتحاد، اسلام کی نشأۃِ ثانیہ اور برِصغیر کے مسلمانوں کے لیے بالخصوص اور پوری دُنیا کے مسلمانوں کے لیے بالعموم آزادی کی خواہش سے تیار ہوا ہے۔ اُن کا گریۂ نیم شبی اور آہِ سحرگاہی۔ اُن کے اشکِ خونیں اور ان کی جگرکاوی،… سب کی علتِ غائی مسلمانوں کی پنجۂ ملوکیت واستعمار سے آزادی تھی۔ ان کی شاعری اور ان کی ذاتی علمی، ادبی اور سیاسی تحریروں کا ایک بہت بڑا حصہ آزادی و حریت کی تجلیل اور غلامی و محکومی کی مذمت سے عبارت ہے۔ وہ حرفِ راز جو اُنھیں ’جنوں‘ نے سکھایا تھا، اور جس کو زبان پر لانے کے لیے اُنھیں ’نفسِ جبرئیل‘ کی ضرورت تھی، یا ’خودی‘ یا ’آزادی‘ تھا… دیکھا جائے تو خودی اور آزادی ایک ہی حقیقت کی دو تعبیریں ہیں۔ جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی کھلتے ہیں غلاموں پر اسرارِ شہنشاہی! دانشِ حاضر نے جس سحرِقدیم کو پھر زندہ کیا ہے۔ اس کے لیے اقبال نے چوبِ کلیم کو ضروری قرار دیا ہے۔ غرض یہ کلیمی، شبانی اور چوبِ کلیم، مردِ درویش کی حریت کیشی، انائے محکم کی بخود گزیدگی، خودی کی تیغِ تیز، عشق کا شورِ حشر انگیز… صوفیا کا سوزِ مشتاقی اور دو عالم میں نہ سما سکنے والا مردِ آفاقی… یہ سب نفسیاتی اور مابعد الطبیعیاتی معنوں میں خودی (ego or self) کے استعارے اور سیاسی معنوں میں آزادی و حریت کے اشارے ہیں۔ یوں تو اقبال نے جو کچھ کہا۔ ایجابی طور پر آزادی و حریت کے نفسی، تہذیبی، معاشرتی، اخلاقی اور سیاسی مضمرات کی تشریحات کے طور پر کہا۔ لیکن سلبی طور پر، آزادی کی منفی صورت۔ محکومی اور غلامی کے بارے میں بھی اپنی شعری تخلیقی قوت کا ایک معتدبہ حصہ صَرف کیا ہے۔ تاہم غلامی و محکومی۔ یعنی بندگی کے موضوع پر اُنھوں نے ایک مکمل مثنوی ’’بندگی نامہ‘‘ بھی تصنیف کی، جو گلشنِ راز جدید کے ساتھ زبورِ عجم کے آخر میں بطور تتمے کے شامل ہے۔ بندگی نامہ ’بندگی نامہ‘… اقبال کی مختصر ترین فارسی مثنوی ہے، جو صرف ۱۶۸؍ اشعار پر مشتمل ہے لیکن اپنی بلاغت اور فنی خوبیوں کے اعتبار سے اقبال کے کسی بھی دوسرے شہ پارے سے کم نہیں۔ اختصار کے باعث اُسے ہم اُن کی ایک کوچک (minor ) مثنوی ضرور کَہ سکتے ہیں لیکن اسے بھی اقبال کی شاعری میں وہی مقام حاصل ہے جو اُن کی کسی بھی دوسری اہم نظم کو حاصل ہوسکتا ہے۔ ’بندگی نامہ‘… ۱۹۲۷ء میں زبورِ عجم کے تتمے کے طور پر شائع ہوئی۔ اس سے اگلی تصنیف شہرۂ آفاق مثنوی جاوید نامہ ہے جس کا سنِ اشاعت ۱۹۳۳ء ہے۔ان دونوں مثنویوں میں کچھ ربط معنوی بھی ہے جس کی تفصیل آئندہ سطور میں بیان ہوگی۔ ’بندگی نامہ‘ بھی اقبال کی تمام بڑی اور اہم مثنویوں کی طرح مثنویِ معنوی کی بحر میں ہے۔ شاید اس موضوع پر یعنی محکومی اور بندگی کے موضوع پر … دُنیا میں اور کوئی نظم یا مثنوی نہیں لکھی گئی۔ اس لیے اس مثنوی کو بھی اقبال کا ایک منفرد فنی کارنامہ قرار دینا مبالغہ نہ ہوگا۔ یہ مثنوی چار بڑے عنوانات (ابواب) پر مشتمل ہے؛ … یعنی ۱- بندگی نامہ (تمہید) ۲- دربیانِ فنونِ لطیفۂ غلامان ۳- مذہبِ غلامان ۴- در فنِ تعمیرِ مردانِ آزاد دوسرا باب، دو ذیلی عنوانات، موسیقی اور مصوری پر مشتمل ہے۔ اس طرح پوری نظم چار ابواب اور پانچ ٹکڑوں پر مشتمل دکھائی دیتی ہے۔ مثنوی کا آغاز ایک ڈرامائی صورتِ حال سے ہوتا ہے۔ ’’مہِ گیتی فروز‘‘ نے ایک بار خداوندِ دو عالم سے کہا کہ مجھے وہ وقت یاد آتا ہے جب روزوشب کی گردش نہیں تھی اور مَیں وقت کے ضمیر میں سویا ہوا تھا۔ نہ میرے نور سے دشت ودر آئینہ پوش تھے، اور نہ میرے حسن کی کشش سے دریا میں موجوں کا خروش تھا، افسوس وجود کی اس نیرنگی اور افسوں طرازی پر، افسوس اس چمک دمک اور ذوقِ نمود پر، مَیں نے سورج سے چمکنا سیکھ لیا اور ایک مردہ خاک دان کو بھی چمکا دیا، وہ خاکدان جو منور تو ہے لیکن بافراغ نہیں۔ اس کے چہرے پر غلامی کے داغ ہیں۔ اس کا آدم یزداں کُش اور آدم پرست ہے۔ اے خدا! جب سے تُو نے مجھے اس عالمِ آب وگِل میں پیدا کیا ہے، مَیں اس کرۂ ارضی کے طواف سے خجل ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ دُنیا نورِ جاں سے واقف ہی نہیں بلکہ یہ دُنیا مہرو ماہ کی جلوہ سامانیوں کی مستحق ہی نہیں۔ در فضائے نیلگوں اُو را بہل رشتۂِ ما نوریان از وَی گُسل یا مرا از خدمتِ او واگزار یا ز خاکش آدمِ دیگر بیار اس آدم (یا اس کرۂ ارضی) کو فضائے نیلگوں میں گم کردے اور ہم درخشندہ سیاروں کا رشتہ اس سے منقطع کر دے۔ مختصر یہ کہ یا مجھے اس سیارے کی خدمت سے موقوف فرما، یا پھر اس کی خاک سے کوئی نیا آدم پیدا کر۔ اس تمہید کے بعد‘…غلامی کے اثرات کا نہایت مؤثر بیان ہے، جواس مضمون کے ابتدائی حصے میں نقل ہوا۔ اس کے بعد علامہ اقبال…’مہِ سیم گوں‘ ہی کی زبانی ایک عجیب و غریب جہنمی منظر کا نقشہ بیان کرتے ہیں، جس نے شاعرانہ استدلال کو تاثیر اور بلاغت کے نقطۂ عروج پر پہنچا دیا ہے۔ ایک خوفناک جہنمی منظر شورہ بُوم از نیشِ کژدم خارخار مُورِ او اژدر گز و عقرب شکار صرصرِ اُو آتشِ دوزخ نژاد زورقِ ابلیس را بادِ مُراد آتشے اندر ہوا غلطیدۂ شعلۂ در شعلۂ پیچیدۂ آتشے از دودِ پیچان تلخ پوش آتشے تندرغو و دریا خروش در کنارش مارہا اندر ستیز مارہا با کفچہ ہائے زہر ریز شعلہ اش گیرندہ چُوں کلبِ عقور ہولناک و زندہ سوز و مُردہ نُور درچنین دشتِ بلا صد روز گار خوش تر از محکومیِ یک دم شمار! (ماہِ سیمگوں کہتا ہے کہ اے پروردگار)…ایک ایسی سرزمین جو نیش ہائے عقرب کی کثرت سے خارخار ہو رہی ہو، جس کی چیونٹیاں اتنی بڑی ہوں کہ اژدہائوں کو ڈنک مارتی ہوں اور بچھوئوں کو شکار کرتی ہوں‘… اس سرزمین میں ایسی گرم ہوا چلتی ہو جو دوزخ نژاد ہو‘… بلکہ وہ ایسی ہوا ہو کہ ابلیس کی کشتی کے لیے بادِ مراد ہو‘…اُس سرزمین کی ہوائوں میں آگ کے شعلے بھڑک رہے ہوں، بلکہ شعلے میں شعلہ بل کھا رہا ہو، ایسی آگ جو بل کھاتے دُھوئیں کی چادر سے تلخ پوش ہو، اور آگ کے کناروں پر سانپ ایک دوسرے سے سرگرمِ ستیز ہوں، سانپ جن کے پھنوں سے زہر رس رہا ہو‘… اور وہ آگ ایسی ہو کہ جس کے شعلے پھاڑ کھانے والے کتوں کی طرح ہوں‘…ہولناک، زندہ کو جلا دینے والے‘…اوربے نُور، تیرہ و تار شعلے!(تو اے خدا) ایسے دشتِ بلا میں سو سال رہنا بہتر ہے‘… غلامی کے ایک (تاریک) لمحے سے! ایک فنی تجزیہ جیسا کہ اُوپر کی سطور میں بیان ہوا، ’’بندگی نامہ‘‘…۱۹۲۷ء میں زبورِ عجم کے تمتے کے طور پر شائع ہوئی ، قیاساً کہا جا سکتا ہے کہ یہ مثنوی ۱۹۲۷ء ہی میں یا اس سے کچھ عرصہ قبل لکھی گئی۔ اور زبورِ عجم کے بعد اقبال کی جو شعری تصنیف شائع ہوئی، وہ اُن کی عظیم الشان مثنوی جاوید نامہ تھی، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ تین سال میں مکمل ہوئی، جاوید نامہ کا سال اشاعت ۱۹۳۲ء ہے۔ گویا اس کا آغاز ۱۹۲۹ء یا ۱۹۲۸ء میں ہوا ہوگا‘…یہاں ایک سول پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ’بندگی نامہ‘ کے فوراً بعد اقبال نے (فارسی مثنوی میں) جاوید نامہ لکھنا شروع کیا ہو…؟ اور کیا یہ ممکن ہے کہ جاوید نامہ لکھنے کی فوری تحریک اقبال کی متخیلہ کو ’بندگی نامہ‘ کے اسی جہنمی منظر سے ہوئی ہو…؟ اس میں شک نہیں کہ ایک طویل ڈرامائی نظم لکھنے کا خیال اقبال کے دل میں شروع ہی سے تھا۔ ڈانٹے کی نظم ’طربیۂ ایزدی‘ بھی ایک طویل عرصہ سے اقبال کے لاشعور میں تھی‘… ہو سکتا ہے ’بندگی نامہ‘ کا یہ بند لکھنے کے بعد اقبال کو محسوس ہوا ہو کہ وہ…’طربیۂ ایزدی‘ کی طرز پر…جنت اور دوزخ کے مناظر پر مشتمل ایک ڈرامائی اور بیانیہ مثنوی لکھنے کی پوری قدرت رکھتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ جاوید نامہ میں جنت اور دوزخ کے مناظر کا بیان اس طر ح نہیں جس طرح ’طربیۂ ایزدی‘ میں ملتا ہے، بلکہ یہ کہنا زیادہ موزوں ہوگا کہ جاوید نامہ کی فنی اسکیم ’طربیۂ ایزدی‘ سے کلی طور پر مختلف ہے‘… علاوہ ازیں جاوید نامہ میں دوزخ یا دوزخی ماحول کے مناظر کم سے کم ہیں‘… اس لیے کہ اس میں بیان کیے گئے رُوحانی سفر کے دوران کہیں ’’رسمی دوزخ‘ ‘ واقع نہیں ہے، اس کے باوجود‘ … جاوید نامہ کا ایک ایسا ٹکڑا ضرور ہے جو ’بندگی نامہ‘ کے اس مذکورہ بالا بند سے بہت گہری مشابہت رکھتا ہے ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ’بندگی نامہ‘ کے اس دوزخی منظر میں ’’زورقِ ابلیس‘…یعنی ابلیس کی کشتی کا ذکر ہے۔ لیکنجاوید نامہ میں ابلیس کشتی پر نمودار نہیں ہوتا‘…بلکہ گھٹا ٹوپ تاریکی سے اُبھرنے والے ایک شعلے سے نمودار ہوتا ہے، البتہ فلکِ زحل، پر بعض ارواحِ رذیلہ (مثلاً صادق و جعفر) کو قلزمِ خونیں میں زورق نشیں (کشتی پر سوار) دکھایا گیا ہے‘… جاوید نامہ کا وہ حصہ جو ’بندگی نامہ‘ کے اس بند سے مشابہت رکھتا ہے‘… قلزمِ خونیں‘…کا ایک مختصر سابیان ہے، جو ایک مکمل جہنمی کیفیت کو بیان کرتا ہے۔ آنچہ دیدم، می نگنجد در بیان تن زسہمش بے خبر گردد ز جان من چہ دیدم؟ قلزمے دیدم زخون قلزمے، طوفاں برون، طوفان درون در ہوا ماران چو در قلزم نہنگ کفچہ شبگون، بال و پرسماب رنگ موجہا درندہ، مانندِ پلنگ ازنہیبش مردہ بر ساحل نہنگ بحر، ساحل را امان یک دم نداد ہرزمان کُہ پارۂ درخون فتاد موجِ خون باموجِ خون اندر ستیز درمیانش زورقے در افت و خیز (اس کے بعد) میں نے جو کچھ دیکھا (اس کی ہولناکی) بیان میں نہیں آسکتی۔ جسم اُس کے خوف سے جان سے بے خبر اور بے گانہ ہو جاتا ہے، میں نے کیا دیکھا؟ میں نے خون کا ایک سمندر دیکھا، ایسا سمندر جس کے باطن میں بھی طوفان تھے اور ظاہر میں بھی طوفان تھے (اُس سمندر کے اوپر) ہوا میں سانپ اس طرح تھے جیسے اس سمندر میں نہنگ تھے۔ و ہ سانپ جن کے پھن کالے تھے اور بال وپر چاندی کی طرح چمکیلے تھے۔ اس سمندر کی موجیں چیتوں کی طرح پھاڑ کھانے والی تھیں۔ اس کے خوف سے دریائی جانور ساحل پر مُردہ پڑے تھے، سمندر‘…کنارے کو پل بھر چین نہیں لینے دیتا تھا۔ ہر گھڑی کوئی نہ کوئی چٹان اُس بحرِ خونیں میں گرتی تھی‘…موجیں موجوں سے ستیزہ کارتھیں‘… اسی سمندر میں ایک کشتی ہچکولے کھاتی ہوئی چلی آرہی تھی‘۔ ان دو مناظر میں فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے (بندگی نامہ)کا تعلق ایک شورہ بوم (سرزمینِ شوروخار زار) سے ہے، جب کہ دوسرا منظر (جاوید نامہ) ایک قلزمِ خونیں کی تفصیل بیان کرتا ہے، پہلے میں آگ کے شعلے او ر تاریکی ہے، دوسرے میں موجوں کا شور اور چٹانوں کے ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے سے پیدا ہونے والے دھماکے ہیں، پہلے منظر میں آگ کے شعلے پھاڑ کھانے والے کتوں کی طرح دکھائے ہیں۔دوسرے منظر میں موجوں کو چیتے کی طرح پھاڑ کھانے والا بتایا گیا ہے۔ البتہ سانپ اور ان کے زہریلے پھن دونوں مناظر میں موجود ہیں‘… ایک منظر میں آگ کی سُرخی ہے۔ دوسرے میں دریائے خونیں کی سُرخی ہے، خوف اور ہولناکی۔ دونوں زبردست بصری یا تصویری قدرو قیمت (pictorial value) کے حامل ہیں‘… اور شاعر کی قوتِ بیان کی دلیل ہیں۔(تاہم چونکہ جاوید نامہ ایک طویل نظم ہے اس لیے اس میں منظر نگاری اور بیانِ واقعہ کی صورتیں کہیں زیادہ ہیں) غلاموں کے فنونِ لطیفہ : موسیقی اور مصوری مثنوی کے دوسرے باب کا عنوان’’دربیانِ فنونِ لطیفۂ غلامان‘‘ ہے۔ جس میں اقبال نے موسیقی اور مصوری کے حوالے سے غلاموں کے فنونِ لطیفہ کے معنوی مضمرات سے بحث کی ہے۔ اقبال کا نظریۂ فن اظہاری۲؎ اور مابعد الطبیعیاتی۳؎ ہے۔ اظہاری ان معنوں میں کہ یہ انا کی تخلیقی فعلیت کا براہِ راست اظہار ہے۔ اور ما بعد الطبیعیاتی ان معنوں میں کہ انا کی مادی میکانکیت سے آزادی اور اس کا ایک آزاد علیت۴؎ ہونا اس کی تخلیقی فعلیت ہی میں ظاہر ہوتا ہے، اقبال انحطاط پذیر قوموں کے فنون کو مرگ آموز، اور فعال و متحرک قوموں کے فنون کو حیات افروز سمجھتے ہیں اس سلسلے میں ان کا نقطۂ نظر واضح طور پر معیار پسندانہ (normative) ہے۔ فطرت پسندانہ (naturalistic) نہیں‘…وہ فن کو قوت و حرکت کا مظہر دیکھنا چاہتے ہیں، تا کہ ان کے ذریعے فرد اور معاشرے کی فعالیت زندہ رہے۔ وہ جمال میں جلال کی آمیزش کو ضروری سمجھتے ہیں۔ شاعر کی نوا ہو کہ مغنیّ کا نفس ہو جس سے چمن افسردہ ہو وہ بادِ سحر کیا بے معجزہ دُنیا میں اُبھرتی نہیں قومیں جو ضربِ کلیمی نہیں رکھتا وہُ ہُنر کیا ’بندگی نامہ‘ میں پہلی بار اقبال نے غلاموں اور محکوموں کے فنونِ لطیفہ کی معنویت پر تفصیل کے ساتھ تبصرہ کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ میں غلامی کے افسوں کے بارے میں کیا بتائوں۔ غلامی کے فنون سرتا سرمرگ ساماں ہوتے ہیں۔ مرگ ہا اندر فنونِ بندگی من چہ گویم از فسونِ بندگی غلاموں اور محکموں کے فنون کے باے میں ان کا قطعی فیصلہ ہے کہ اُن کے فنون۔ زندگی کی حرارت اور شعورِ خلّاق کی روشنی سے عاری ہوتے ہیں۔ اس باب میں موسیقی کے عنوان سے غلاموں کے ذوقِ نغمہ پر اس طرح تبصرہ کرتے ہیں: نغمۂ اُو خالی از نارِ حیات ہم چو سیل افتد بدیوارِ حیات چُون دلِ اُو تیرہ سیمائے غلام پست چُون طبعش نواہائے غلام از دلِ افسردۂ اُو سوز رفت ذوقِ فردا، لذّتِ امروز رفت از نئے اُو آشکارا رازِ اُو مرگِ یک شہر است اندر سازِ اُو ناتوان و زار می سازد تُرا از جہان بیزار می سازد تُرا الخدر، این نغمۂ موت است وبس نیستی در کسوتِ صوت است و بس غلام کا نغمہ زندگی کی حرارت سے خالی ہوتا ہے، وہ زندگی کی دیوار پر سیلاب کے تھپیڑوں کا سا اثر کرتا ہے۔ غلام کی تو پیشانی بھی اُس کے دل کی طرح تیرہ و تار ہوتی ہے۔ اسی طرح غلام کا نغمہ بھی اُس کی طبیعت کی طرح پست ہوتا ہے۔ اُس کے پژ مُردہ دل سے سوز جا چکا ہے۔ اُسے کسی فردا کا انتظار نہیں، نہ ہی امروز اس کے لیے لذّتِ حیات کا سرچشمہ ہے۔ اُس کی بانسری واقعی اس کے راز کو آشکارا کر رہی ہے۔ اس کے ساز میں ایک شہر کی موت کا نوحہ چھپا ہوا ہے۔ یہ نغمہ تجھے کمزور اور نحیف بنا دے گا۔ تجھے دُنیا سے بیزار کر دے گا۔ خدا کی پناہ! یہ نغمہ ہے موت، بس! یوں سمجھنا چاہیے کہ اس نغمے میں ’’نیستی‘‘ نے آواز کا لباس پہن لیا ہے۔ قومیں اپنے ظاہری اعمال میں اپنے باطن کی دُنیا کو متشکل کرتی ہیں، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ بیرونی دُنیا میں کوئی تبدیلی لانے سے پہلے اپنے اندر کی دُنیا میں تبدیلی لے آئو، عمومی معاشرتی رویے ہوں ، یا افراد کی تخلیقی سرگرمیاں‘ …ایک خاص حد تک معاشرے کی عمومی صورتِ حال کو بیان کرتی ہیں۔ محکومی اور غلامی کے اپنے تقاضے ہیں، زندگی اور انا کی آزاد فعلیت کا راستہ مسدود ہو جانے پر، ہر لمحہ ضمیر کی آواز کے کچلے جانے پر محکوموں میں ذوقِ حیات کے چشمے سُوکھ جاتے ہیں، یا ان میں جبلّت مرگ (death instinct) کا زہر گھل جاتا ہے۔ شعور باہر سے آنکھیں بند کر کے اندر دیکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے‘ …اور اندر‘ …سوائے نیستی کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ کیونکہ حیاتِ شاعرہ میں ’ظاہر و باطن‘ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ ظاہر باطن پر، اور باطن ظاہر پر اثر انداز ہے۔ غلام سرچشمۂ حیات سے منقطع ہو تا ہے: بندگی از سرِّ جان ناآگہی ست اسی باب میں اقبال نے مثالی نغمے کی خوبیاں بھی بیان کی ہیں، اور مولانا رومؒ کے حوالے سے صورت و معنی کے امتیاز و یگانگت پر بھی ایک مختصر سا استدراک نظم کیا ہے، مثالی نغمے کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: نغمہ باید تُندرَو مانندِ سیل تا برد از دل غمان را خیل خیل نغمہ می باید جنون پروردۂ آتشے در خونِ دل حل کردۂ از نمِ اُو شعلہ پروردن توان خامشی راجزوِ اُو کردن توان می شناسی؟ درسروداست آن مقام ’کاندرو بے حرف می روید کلام‘ نغمہ ہونا چاہیے۔ سیل کی طرح تند رَو، تاکہ دل سے غموں کے بوجھ اُتار سکے، نغمہ ہونا چاہیے جنوں کا پرورش کیا ہوا۔ ایسا کہ اس کے خون میں آگ گھلی ہوئی ہو، ایسا نغمہ کہ اس کے نم سے شعلے کو پروان چڑھایا جا سکے، اور خاموشی کو بھی اس کا حصہ بنایا جا سکے۔ تو جانتا ہے؟…کہ نغمے میں ایک مقام ایسا بھی ہوتا ہے جہاں بغیر الفاظ کے کلام پیدا ہوتا ہے۔ ’کاندروبی حرف می روید کلام،…مولانا رومؒ کا مصرع ہے، ان کا پورا شعر ایک مناجات کا حصہ ہے، جس میں وہ ایک کردار کی زبان سے خداوند تعالیٰ سے درخواست کرتے ہیں: اے خدا، بنما تو جان را آن مقام کاندرو بے حرف می روید کلام یعنی اے پرودگار ‘ … تو (میری) رُوح کو وہ مقام دکھا جہاں الفاظ کے بغیر کلام کی روئیدگی ہوتی ہے‘ یہ شعر مولاناروم کے لطیف ترین خیالات کا ترجمان ہے۔ اقبال نے اس کیفیت کو حیات آفریں نغمے کی خصوصیت قرار دیا ہے، کہ اس میں بلندی، یا تاثیر کے ایسے مقام پنہاں ہوتے ہیں جہاں کلام بے منّتِ حرف تراوش کرتا ہے، ایک موقعے پر اقبال کے ایک مداح نے اقبال کے اس تبصرے پر کہ ہندوستان کی موسیقی گرمی سے خالی ہے، جب یہ کہا کہ ہندوستان کی موسیقی بھی خاصی ہیجان انگیز ہے۔ قوالی میں یہی موسیقی کافی گرمی پیدا کر لیتی ہے۔ تو اقبال نے قوالی کے فن پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ: میں اسے مصنوعی گرمی کہتا ہوں، جس طرح منشیات سے کوئی شخص طبیعت میں ہیجان پیدا کرے‘‘۔ اس سلسلۂ گفتگو میں اُن سے مزید سوال کیا گیا کہ ’’کیا آپ کا مطلب ہے کہ وجد و حال کی کیفیت مصنوعی ہے‘‘؟ تو اس کے جواب میں اقبال نے جو کچھ کہا وہ موسیقی بالخصوص قوالی کے بارے میں اقبال کی بلیغ ترین تنقیدات میں سے ہے۔ اُنھوں نے کہا: ان لوگوں(صوفیا) نے وجد و حال کو ایک cult(کسی فرقے کا مخصوص طرزِ احساس) بنا لیا ہے۔ یہ کیفیت واقعی اُن پر طاری ہوتی ہے لیکن جب وہ اپنے جوش و جذبات کو اس طرح فرد کرلیتے ہیں تو پھر ان میں باقی کچھ نہیں رہتا، اور وہ جذبہ دوبارہ طاری نہیں ہوتا۔۵؎ موسیقی میں بھی اقبال کے نزدیک معنویت بہت اہم ہے‘ …موسیقی کی تجریدی معنویت جب تک حیات آفرینی کی معنویت پیدا نہیں کر لیتی، اقبال کے نزدیک شا یانِ سماعت نہیں رہتی، جب کہ ہمارے مطرب (موسیقار یا قوال) نے معنی(زندگی) کا جلوہ دیکھا ہی نہیں، بلکہ صورت سے دل بستہ ہے، اور معنی سے بھاگا ہوا ہے؛ مطربِ ما جلوۂ معنی ندید دل بصورت بست و از معنی رمید موسیقی کے بعد اس باب میں اقبال نے محکوموں اور غلاموں کی مصوّری کی طرف رجوع کیا ہے، ۱۹۲۸ء میں ’’مُرقّعِ چغتائی‘‘ کا مختصر پیش لفظ لکھتے ہوئے اُنھوں نے منکسرانہ انداز میں کہا تھا کہ وہ (مصوری کے موضوع پر) فنی انتقاد کے اہل نہیں، اگرچہ قرائن بھی یہی بتاتے ہیں کہ اقبال کو مصوری کے تکنیکی پہلوئوں سے کچھ زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ لیکن ان کی بصیرت اور غیر معمولی انتقادی نظر سے مصوری کے رموز و علائم اور اس کے جمالیاتی پہلو اوجھل نہیں ہو سکتے تھے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اُنھوں نے اپنی معاصر مصورانہ کاوشوں کو غلاموں اور محکوموں کی مصوری کی علامت کے طور پر دیکھا، اور اُس میں اُنھیں شعلۂِ حیات کی حرارت دکھائی دی، نہ خودی کی ’قاہرانہ‘ خلاقی (دلبری بے قاہری جادوگری ست)۔ تاہم اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اُنھوں نے اپنے عہد کی مصوری کے زیادہ سے زیادہ موضوعات کا مطالعہ کرنے کی کوشش کی‘ …اور ’بندگی نامہ‘ میں اُنھیں موضوعات کو اُنھوں نے محکوموں کی مصوری کی مثال کے طور پر پیش کیا‘ … ہم چنان دیدم فنِ صورت گری نَے براہیمی درو، نے آزری راہبے در حلقۂ دامِ ہوس دلبرے باطائرے اندر قفس خسروے پیشِ فقیرے خرقہ پوش مردِ کوہستانیِ ہیزم بدوش نازنینے در رہِ بُت خانۂ جوگئےؐ در خلوتِ ویرانۂ پیرکے از دردِ پیری داغ داغ آنکہ اندر دستِ او گل شُد چراغ مطربے از نغمۂ بیگانہ مست بلبلے نالید و تارِ اوگسست نوجوانے از نگاہے خوردہ تیر کود کے برگردنِ بابائے پیر اس طرح میں نے فنِ صورت گری کو دیکھا کہ نہ اس میں ’ابراہیمی‘ ہے ، نہ آزری…(اس فن کے موضوعات عام طور پر یہ ہیں) ایک تارکِ دُنیا راہب ہے جو ہوس کے جال کا اسیر ہے۔ ایک خوبصورت محبوب ہے جس کے سامنے پنجرے میں ایک پرندہ ہے۔ ایک بادشاہ ایک خرقہ پوش فقیر کی خدمت میں حاضر ہے۔ ایک کوہستانی آدمی نے کاندھوں پر لکڑیاں اُٹھائی ہوئی ہیں۔ مندر کی طرف جاتی ہوئی ایک خوبصورت عورت، ویرانوں کی تنہائی میں ایک جوگی…ایک بوڑھا جس کا سراپا دردِ پیری سے داغ داغ ہے اور جس کے ہاتھ میں چراغ بُجھ گیا ہے، ایک مطرب جو کسی اور کے نغمے سے مست ہے، بلبل نے فریاد کی ہے اور (مطرب کے ساز کا) تار ٹوٹ گیا ہے۔ ایک نوجوان ہے جو کسی کے تیرِ نگاہ کاشکار ہے، یا پھر ایک بچہ ہے جو ایک بوڑھے بابا کی گردن پر سوا ر ہے۔ (غرض یہ ہیں محکومانہ مصوری کے موضوعات)۔ ان سب موضوعات کو اقبال نے مضمونِ مرگ اور افسونِ مرگ قرار دیا ہے۔ اور ایک طرح سے ان موضوعات کو رَد کر دیا ہے۔ یہ سوال کہ اقبال نے معاصر مصوری کے ان موضوعات کا جائزہ کن ذرائع سے لیا، ایک اہم سوال ہے، ڈاکٹر محمد عبد اللہ چغتائی نے عبدالرحمن چغتائی کے عنوان سے اپنے ایک طویل مضمون میں مرقعِ چغتائی کی تدوین کے محرکات و مسائل کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے… ’’اسی ضمن میں ہم ایک روز علامہ اقبال کے ہاں گئے اور اُنھیں اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ اس کتاب پر ایک ’’پیش لفظ‘‘ انگریزی زبان میں لکھیں گے، اگرچہ ڈاکٹر صاحب نے شروع شروع میں انکار کیا، مگر با لآخر مان گئے‘‘۔۶؎ ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی نے واضح طور پر اس بات کا تاثر دیا ہے کہ چونکہ علامہ اقبال نے اس سے پیشتر مصوری پر کچھ نہیں لکھا تھا…اور مصوری کا کوئی مجموعہ بھی ان کے سامنے موجود نہیں تھا، اس لیے اُنھیں مرقعِ چغتائی کا ’پیش لفظ‘ لکھنے میں خاصا تأمل تھا۔ ڈاکٹر چغتائی کے اس تاثر کی تائید اقبال کے ایک خط سے بھی ہوتی ہے۔ جو اُنھوں نے اپنے اس مضمون میں نقل کیا ہے۔ یہ خط جو اقبال نے ۷ دسمبر ۱۹۲۶ء کو ڈاکٹر چغتائی کو لکھا‘…اتفاق سے ’اقبال نامہ‘ میں بھی شامل ہے‘… اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال کسی موضوع پر کچھ لکھنے سے پہلے اس کے مالہ و ماعلیہ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کے عادی تھے۔ اس خط میں وہ ڈاکٹر چغتائی کو لکھتے ہیں:۷؎ ’’ڈئیر ماسٹر صاحب! السلامُ علیکم اگر آپ کے پاس ہندوستانی مصوروں کی بنائی ہوئی تصویروں کا کوئی چھپا ہوا مجموعہ ہو تو ایک دو روز کے لیے مرحمت کیجیے۔ میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔ اگر ایسا کوئی مجموعہ نہ ہو تو چند مشہور تصاویر کے نام ہی سہی۔ ان کے ساتھ ان کا مضمون بھی ہونا ضروری ہے۔ میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ ہندوستانی مصور بالعموم کیسے مضامین اپنے فن کی نمائش کے لیے انتخاب کرتے ہیں‘‘۔ بنگالی اسکول کی تصاویر کے نام خاص کر چاہییں۔ اس کے علاوہ مغلوں کے آرٹ پر اگر کوئی کتاب ہو تو وہ بھی ساتھ لائیے۔ محمد اقبال لاہور۔‘‘ یہ خط جن چند حقائق کی نشاندہی کرتا ہے ، وہ یہ ہیں: ۱-ستمبر ۱۹۲۶ء سے پیشتر اقبال نے ہم عصر مصوروں کے کام کا بالا ستیعاب مطالعہ نہیں کیا تھا۔ ۲-وہ تصاویر کے ساتھ اُن کا مضمون بھی چاہتے تھے۔ تا کہ جان سکیں کہ ’’ہندوستانی مصور بالعموم کیسے مضامین اپنے فن کی نمائش کے لیے انتخاب کرتے ہیں‘‘۔ ۳-اُنھیں برصغیر میں مصوری کے دونوں اہم دبستانوں۔ یعنی بنگال اسکول، اور مغل اسکول کے نمونے درکارتھے۔ تا کہ دونوں کے تخلیقی انداز کا موازنہ کر سکیں۔ ۴-اس زمانے میں مصوری کا زندہ ہم عصر دبستان بنگال اسکول ہی تھا۔ جس کی نمائندہ تصاویر کا اقبال بالخصوص مطالعہ کرنا چاہتے تھے۔ اقبال کے اس خط اور ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی کے بیان کی روشنی میں قیاساً یہ کہا جا سکتا ہے کہ برصغیر کی ہم عصر مصوری کے بارے میں اقبال نے ’بندگی نامہ‘ لکھنے سے کچھ ہی عرصہ پیشتر معلومات یکجا کیں۔ اگرچہ بظاہر ان کی فراہمی کی غرض مرقعِ چغتائی کا ’پیش لفظ‘ لکھنے کے لیے ’بیک گراونڈ‘ فراہم کرنا تھی‘… لیکن اس کا ایک اہم پہلو یہ نکلا کہ اس بہانے سے بر صغیر کی مصوری کے بعض ’’ٹائپ‘‘ موضوعات اقبال کے سامنے آگئے، یہ وہی موضوعات ہیں جن کا ذکر اُنھوں نے ’بندگی نامہ‘ میں کیا ہے،۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اقبال نے جن ’ٹائپ‘ موضوعات کا ذکر کیا ہے، اُن میں ’’نازنینے دررہِ بُت خانہ‘‘ …اور…جوگیِ درخلوتِ ویرانہ…بنگالی اسکول کے موضوعات معلوم ہوتے ہیں‘…اسی طرح ’’دلبرے با طائرے اندر قفس‘‘۔’’مردِ کوہستانیِ ہیزم بدوش‘‘۔ اور سب سے اہم پیرکے از دردِ پیری داغ داغ آنکہ اندر دستِ او گل شد چراغ ایسے موضوعات ہیں کہ ان کا سُراغ خود چغتائی کی تصاویر میں بھی لگایا جا سکتا ہے۔ اگرچہ مرقعِ چغتائی کے پیش لفظ میں اقبال نے چغتائی کی تحسین میں کسی طرح تامُل سے کام نہیں لیا۔ دیوانِ غالب کے مصور ایڈیشن کی اشاعت کو وہ بر صغیر کی جدید مصوری اور طباعت میں ایک ’’نادر کارنامہ‘‘ قرار دیتے ہیں، اور چغتائی کے فن کی تنقید میں تحسینِ ہُنر کے ساتھ ساتھ محتاط حوصلہ افزائی کا رویہ اختیار کرتے ہیں، اُن کے اپنے الفاظ میں: اس امر کے آثار نمایاں ہیں کہ پنجاب کا یہ نوجوان ہُنر مند اپنی ذمہ داریوں کا پورا احساس رکھتا ہے۔ ابھی وہ زندگی کی انتیسویں منزل طے کر رہا ہے، مستقبل ہی اس کا جواب دے گا کہ چالیس برس کی پختہ عمر میں اس کا کمال کیا رنگ اختیار کرے گا، اور کس درجے پر فائز ہوگا۔ اس عرصے میں اس کے فن سے دلچسپی رکھنے والے سارے اہلِ نظر اس کی ترقی کے منازل پر اپنی نظریں جمائے رہیں گے۔ (مرقعِ چغتائی: پیش لفظ) اس تحسینِ ہُنر کے باوجود اس مختصر سے پیش لفظ میں اقبال نے اپنے نظریۂ فن کو رقم کرنے کے علاوہ واضح الفاظ میں اس حقیقت کا اعلان کیا ہے، کہ اسلام کی تہذیبی تاریخ میں ’’سوائے فنِ تعمیر کے استثنا کے … اسلامی فنونِ لطیفہ…موسیقی، مصوری، بلکہ کسی حد تک شاعری بھی…ہنوز ظہور کے طالب ہیں‘‘۔دوسرے الفاظ میں…اقبال نے بہزاد کے کارناموں سمیت تمام تر ایرانی مصوری… اور مغل اسکول کی عظیم مصورانہ روایات کو اسلامی رُوحِ تمدّن کا ترجمان ماننے میں تائل کیا ہے۔ لیکن اگر یہ دیکھا جائے کہ اسلام کے ہنوز نا زائیدہ فنون میں اقبال نے کسی حد تک شاعری کو بھی شامل کر لیا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اسلامی فنون کے لیے کسی بے حد مثالی ہیئت کو ذہن میں رکھے ہوئے تھے۔ وگرنہ وہ مسلمانوں کی مصوری کے پورے ذخیرے کو رد نہ کر دیتے۔ ہو سکتا ہے اس ذہنی رویے کی تہ میں مسلمانوں کی مصوری میں مسجدِ قرطبہ، الحمرا اور تاج محل کے سے نقشِ جلی دیکھنے کی تمنا بھی کار فرما ہو۔ ’بندگی نامہ‘ کا یہی حصہ جس میں اُنھوں نے ’محکومانہ‘ مصوری، کے موضوعات کا جائزہ لیا ہے‘…اقبال کے تصورِ حُسن اور ان کے نظریۂ فنونِ لطیفہ کے بعض اجزا کا آئینہ دار بھی ہے، اقبال کے فلسفۂ جمالیات کی تشکیل و توضیح میں ہمیشہ اس مثنوی کے اس حصے پر بہت زیادہ انحصار کیا جاتا ہے۔ اپنے معاصر فنون اور ہنر مندوں کو وہ بے یقینی کا شکار قرار دیتے ہیں‘…اور ’بے یقین‘ کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کے لیے ’نقشِ نو‘ پیدا کرنا بے حد مشکل ہے، وہ خودی سے دُور، اور اس لیے رنجور ہے، اُس کا فنی نصب العین عوام الناس کے ذوق کی تسکین ہے۔ حسن را دریوزہ از فطرت کند رہزن و راہی تہی دستے زند حسن را از خود برون جستن خطا است آنچہ می بائیست پیشِ ما کجا است یک زمان از خویشتن رنگے نزد، بر زجاجِ ما گہے سنگے نزد از نگاہش رخنہ در افلاک نیست زانکہ اندر سینہ دل بیباک نیست خاکسار و بے حضور و شرمگیں بے نصیب از صحبتِ رُوح الامیں زندگی بے قوتِ اعجاز نیست ہر کسے دانندۂ ایں راز نیست (بے یقین) فطرت سے حسن کی بھیک مانگتا ہے، یہ راہزن ہے اور تہی دامنوں پر ڈاکہ ڈالتا ہے۔ حسن کو اپنی ذات سے باہر تلاش کرنا غلطی ہے، اس لیے کہ جو کچھ چاہییے، وہ ہمارے سامنے کہاں ہے۔ اس (بے یقین فنکار) نے ایک لمحے کے لیے بھی اپنی ذات کا رنگ ظاہر نہیں کیا، ہمارے (عمومی ادراکات کے) شیشے پر کبھی (خلاقانہ بصیرت) کا پتھر نہیں دے مارا۔ اس کی نظر وہ نہیں کہ اس سے آسمانوں میں رخنے ہو جائیں۔ اس لیے کہ اس کے سینے میں بیباک دل نہیں ہے،۔ یہ عاجزی پسند‘… بے حضور اور شرمگیں ہے‘…اسے’ رُوح الامیں‘ کی صحبت ہی میسر نہیں آئی۔ زندگی (دراصل) قوتِ اعجاز کے بغیر کچھ بھی نہیں‘…لیکن یہ وہ راز ہے کہ اسے بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ مذہبِ غلاماں مذہبِ غلاماں ’بندگی نامہ‘ کا تیسرا باب ہے، جس میں غلام و محکوم کی مذہبی زندگی کی کچھ جھلکیاں سامنے آتی ہیں۔ محکوم کی مذہبی زندگی‘…واردات سے خالی ہو کر رہ جاتی ہے، اس حقیقت کو اقبال نے مذہب اور عشق کے باہمی فراق سے تعبیر کیا ہے اہم ترین بات یہ ہے کہ محکوم اپنے دین (اخلاقی اور روحانی شخصیت) اور دانش (ادراکِ حقائق) کو بہت سستے داموں فروخت کر دیتا ہے، شاعرانہ تعبیر میں بدن کو زندہ رکھنے کے لیے ’جان‘ دے دیتا ہے۔ اگرچہ اُس کے ہونٹوں پر خدا کا نام ہوتا ہے لیکن اس کا اصل قبلہ‘… اُس کا آقا۔ اُس کا فرماں روا ہوتا ہے‘… وہ جیتا تو ہے ، لیکن ’زندہ‘ نہیں ہوتا۔ کیونکہ اقبال کے الفاظ میں مرنا اور جینا بھی اعتبارات ہی ہیں: مردن و ہم زیستن اے نکتہ رس این ہمہ از اعتبارات است و بس محکوموں کے ’آقاـ‘ اُن کو ’امروز‘ میں ایسے محو کرتے ہیں کہ اُنھیں ’فردا‘ کا منکر بنا دیتے ہیں ’فردا‘ اقبال کے ہاں زندگی کی تخلیقی فعلیت اور اس کے لا محدود امکانات کا استعارہ ہے، غلام و محکوم… حاضر و موجود کا اسیر ہے، زندگی کا وہ بُعد جو اسے مستقبل کے امکانات کے ساتھ وابستہ کر سکتا ہے، اس کی زندگی سے غائب ہے۔ محکوموں کو بعض اوقات خلعت بھی عطا ہوتے ہیں، بعض اوقات بعض امور میں زمامِ کار بھی اُن کے ہاتھ میں دے دی جاتی ہے، لیکن یہ سب کچھ اُنھیں خود سے محجوب رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ تا کہ ان کا اصل جوہر ان پر منکشف نہ ہو سکے۔ مردانِ آزاد کا فنِ تعمیر بندگی نامہ کا آخری باب ہے۔ ’’درفنِ تعمیر مردانِ آزاد‘‘۔ جس میں دراصل اقبال نے مسلمانوں کے فنِ تعمیر کی جمالیاتی رُوح کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ جیسا کہ مرقعِ چغتائی کے پیش لفظ سے متبادر ہوتا ہے، اقبال نے تمام فنونِ لطیفہ میں صرف فنِ تعمیر کو ایسا فن قرار دیا ہے، جس میں اسلامی تمدن کی رُوح وسموئی جا سکی ہے، اس سلسلے میں اقبال نے ایبک اور سوری کے کارناموں کا حوالہ دیا ہے، ایبک کے کارناموں سے مراد یقینا دہلی کی مسجدِ قوت الاسلام ہے، جو قبلِ مغل تعمیرات میں ایک اہم اسلامی تعمیر ہے۔ اور قوت و شکوہ کا مظہر ہے، اسے اقبال نے ’’خویش را از خود برون آوردن‘‘۔ اور ’’خود را تماشا کردن‘‘ قرار دیا ہے، ان دونوں تصورات کو فنی معنوں میں اظہارِ ذات(self-expresssion) کے تصور کے قریب تر قرار دیا جا سکتا ہے۔ خویش را از خود برون آورہ اند این چنین خود را تماشاکردہ اند سنگہا با سنگہا پیوستہ اند، روز گارے را بہ آنے بستہ اند دیدنِ او پختہ تر سازد ترا در جہانِ دیگر اندازد ترا نقش سوئے نقش گرمی آورد از ضمیر او خبر می آورد ہمتِ مردانہ و طبعِ بلند در دلِ سنگ این دو لعلِ ارجمند (ان عمارات کو تعمیر کرنے والوں نے) اپنے آپ کو اپنے اندر سے باہر نکالا ہے، اور اس طرح اپنی ذات کا تماشا کیا ہے، پتھر کو پتھر سے اس طرح جوڑا ہے کہ ایک لمحے میں ایک عہد کو سمو دیا ہے۔ اس تعمیراتی مظہر کو دیکھنے سے (اے مخاطب) خود تجھے بھی (سیرت و کردار کی) پختگی حاصل ہوتی ہے، ان کا نظارہ تجھے کسی اور جہان میں لے جاتا ہے (در اصل) نقش ہمیں اپنے نقش گر کی طرف لے جاتا ہے، کیونکہ نقش اپنے نقش گر کے ضمیر کی خبر دیتا ہے (ان تعمیراتی مظاہر کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ) ہمتِ مردانہ اور طبیعتِ بلند …یہ دو قیمتی جوہر ہیں جو ان پتھروں ہیں چھپے ہوئے ہیں۔ اس خیال کو اقبال نے اپنی ایک نجی گفتگو میں بھی دہرایا ہے، پروفیسر حمید احمد خاں مرحوم راوی ہیں کہ ۱۰ نومبر ۱۹۳۷ء کی ایک شام، جو اُنھوں نے بعض دوسرے احباب کے ساتھ علامہ اقبال کے ہاں گزاری، اس گفتگو کا محرک بنی، اس گفتگو میں اقبال نے مرقعِ چغتائی، کے پیش لفظ اور ’بندگی نامہ‘ میں بیان کیے ہوئے کچھ اہم خیالات کا اعادہ کیا، خیال رہے کہ یہ اُن کی وفات سے صرف چھ ماہ پہلے کی گفتگو ہے: یہ واقعہ ہے کہ فنِ تعمیر کے سوا فنونِ لطیفہ میں کسی میں بھی اسلامی رُوح نہیں آئی۔ اسلامی تعمیرات میں جو کیفیت نظر آتی ہے، وہ مجھے اور تو کہیں نظر نہیں آئی۔ البتہ پچھلی مرتبہ یورپ سے واپسی پر مصر جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں قدیم فرعونوں کے مقابر دیکھنے کا موقع ملا۔ ان قبروں کے ساتھ مدفون بادشاہوں کے بُت بھی تھے جن میں (قوت و ہیبت) کی ایک ایسی شان تھی جس سے میں بہت متاثر ہوا۔ قوت کا یہی احساس حضرت عمرؓ کی مسجد اور دلی کی مسجد قوت الاسلام، بھی پیدا کرتی ہے، بہت عرصہ ہوا جب میں نے مسجد قوت الاسلام کو پہلی مرتبہ دیکھا تھا مگر جو اثر میری طبیعت پر اُس وقت ہوا، وہ مجھے اب تک یاد ہے۔ شام کی سیاہی پھیل رہی تھی اور مغرب کا وقت قریب تھا۔ میرا جی چاہا کہ مسجد میں داخل ہو کر نماز ادا کروں۔ لیکن مسجد کے قوت و جلال نے مجھے اس درجہ مرعوب کر دیا کہ مجھے اپنا یہ فعل ایک جسارت سے کم معلوم نہ ہوتا تھا، مسجد کا وقار مجھ پر اس طرح سے چھا گیا کہ میرے دل میں صرف یہ احساس تھا کہ میں اس مسجد میں نماز پڑھنے کے قابل نہیں ہوں۔۸؎ اس سلسلہ گفتگو میں اقبال نے ’تاج محل‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: مسجد قوت الاسلام کی کیفیت اس میں نظر نہیں آتی۔ بعد کی عمارتوں کی طرح اس میں بھی قوت کے عنصر کو ضعف آگیا ہے، اور دراصل یہی قوت کا عنصر ہے جو حسن کے لیے توازن قائم کرتا ہے۔۹؎ تاہم ’بندگی نامہ‘ میں اقبال نے ’تاج‘ کو بھر پور خراجِ تحسین پیش کیا ہے، اسے ’’گوہرِ ناب‘‘ (the purest pearl) قرار دیا ہے، اور کہا ہے کہ تاج محل میں گزارا ہوا ایک لمحہ ’ابد‘ سے بھی پائندہ تر ہے۔ تاہم اقبال نے اسے قوت سے زیادہ عشق و محبت کا اظہار قرار دیا ہے۔ عشقِ مردان سرِّ خود راگفتہ است سنگ را با نوکِ مژگان سُفتہ است عشقِ مردان پاک و رنگین چون بہشت می کشاید نغمہ ہا از سنگ وخشت عشقِ(مرداں) نے تاج محل تعمیر نہیں کیا، بلکہ اپنا راز آشکار کیا ہے، گویا پتھروں کو پلکوں کی نوک سے پرویا ہے۔ عشقِ (مرداں) فردوس کی طرح پاکیزہ اور رنگین ہے۔ اور (اپنی قوتِ تخلیق سے) سنگ و خشت سے مر مریں نغمہ برآمد کر لیتا ہے۔ ’بندگی نامہ‘ اقبال کی مختصر ترین مثنوی ہے، ہو سکتا ہے کہ اسے خوبصورت ترین مثنوی بھی کہا جا سکے، اس لیے کہ اس کے اختصار نے اس میں ایک ارتکاز اور تیکھا پن پیدا کر دیا ہے اس مثنوی کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ اس میں ہیئت اور بحر کے سوا دنیا کی کسی نظم کی تقلید نہیں کی گئی۔ یہ اس موضوع پر دُنیا کی واحد نظم ہے، آزادی اور حریت کے موضوع پر بے شمار نظمیں لکھی گئی ہوں گی۔ لیکن محکوموں اور محکوم لوگوں کی نفسیات، ان کی تخلیق اور ان کی مذہبی زندگی کیا ہوتی ہے؟ دُنیا کے کسی اور شاعر یا مفکر نے اس موضوع کو اس طرح سے نہیں چھوا۔ سر سید احمد خاں یقینا ’رسالۂ ابطالِ غلامی‘ میں غلاموں کی نفسیات پر علمی بحث کی ہے، لیکن اس نفسیات کے تمدنی مضمرات کو صرف اقبال نے ’بندگی نامہ‘ میں اپنی خوبصورت شاعرانہ تعبیرات کے ساتھ پیش کیا ہے،…! اس نظم کو اقبال نے غلاموں کا نوحہ یا غلاموں کے لیے تحقیر کی لغت نہیں بننے دیا۔ اس نظم میں کہیں بھی المیہ گداز (tragic pathos) نہیں‘ … اس لیے کہ المیہ گداز نظم کے پڑھنے والے کو غلاموں کے ساتھ جذباتی تطبیق (emotional identification) کی طرف لے جاتا ، جو کسی طرح بھی اقبال کا فنی مقصود نہیں ہو سکتا تھا، یہ نظم غلاموں سے نفرت، کے جذبے کو نہیں اُبھارتی، البتہ اس نظم کے لفظی اور معنوی تاروپود میں غلام اور محکوم قابلِ رحم ضرور نظر آتے ہیں۔ لیکن یہاں بھی اقبال نے اتنی احتیاط برتی ہے کہ یونانی المیہ کی تمثیل کی طرح اس میں غلاموں کے لیے جذبۂ ترحم کو زیادہ بیدار اس لیے نہیں کیا کہ اس سے محکوم خود رحمی (self-pity) کا شکار ہو سکتے ہیں، جب کہ خود رحمی، خود شناسی اور بیداریِ باطن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ غلاموں کے لیے بھر پورا انداز میں جذبۂِ ترحم کو اُبھارنے کا ایک مقصد یہ بھی ہو تا کہ غلام قطعی معنوں میں مجبور ہیں، جب کہ اس کے برعکس اقبال کے بعض اشاراتی پیرایوں سے یہی مفہوم ہوتا ہے کہ اگر غلام اپنی حالت کو بدلنے کی سعی نہیں کرتا، تو وہ بہت حد تک اپنی غلامی کا خود بھی ذمہ دار ہے…تاہم اس نظم میں غلامی اور محکومی کے لیے اقبال کی گہری اور شدید ناپسندیدگی کا اظہار جا بجا ہوتا ہے اور یہی اس نظم کا مرکزی جذبہ ہے۔ حواشی ۱- شخصی غلامی کے بارے میں اسلام کے انقلاب آفریں اقدامات کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہوسرسید احمد خاں کی تصنیف رسالہ در ابطالِ غلامی (مقالاتِ سرسیّد، حصہ چہارم)، مطبوعہ مجلس ترقی ادب، لاہور ۲- expressionstic ۳- metaphysical ۴- free causality ۵- علامہ اقبال کے ہاں ایک شام (اقبال کی شخصیت اور شاعری)، مجموعۂ مقالات از پروفیسر حمید احمد خاں صفحہ۱۸۔ ۶- عبدالرحمن چغتائی: شخصیت اور فن مرتبہ ڈاکٹر وزیر آغا۔ ۷- اقبال نامہ، جلد دوم، صفحات، ۳۳۱، ۳۳۲۔ ۸- علامہ اقبال کے ہاں ایک شام، (اقبال کی شخصیت اور شاعری)، مجموعۂ مقالات از پروفیسر حمید احمد خاں صفحہ۱۸۔ ۹- ایضاً صفحہ ۶۲۔ /// اقبال کا ذوقِ تعمیر ہر چند کہ ایجادِ معانی ہے خدا داد کوشش سے کہاں مردِ ہُنر مند ہیں آزاد خونِ رگِ معمار کی گرمی سے ہے تعمیر میخانۂ حافظ ہو کہ بت خانۂ بہزاد بے محنتِ پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا روشن شررِ تیشہ سے ہے خانۂ فرہاد بحیثیت موضوعِ شاعری، ادبیات کے بعد…فنونِ لطیفہ میں اقبال کی توجہ سب سے زیادہ فنِ تعمیر کی طرف رہی ہے۔ بالخصوص اس فن کے خوب و نا خوب کا تجزیہ اقبال کے فنی انتقاد کا ایک اہم حصہ ہے،…شاید اس لیے کہ فن تعمیر بصری، سہ ابعادی اور مادی ہونے کے باعث…اور اسی وجہ سے حواسِ انسانی پر زیادہ مؤثر ہونے کے باعث۔ انسانی تمدن میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ حیقیت یہ ہے کہ تمدن کا خارجی وجود تعمیر کے فن کے ساتھ تَواَم ہے۔ اجتماعی زندگی کے بنیادی رویے ایک بڑی حد تک فنِ تعمیر میں ہی ظاہر ہوتے ہیں۔ کسی قوم کی اجتماعی نفسیات، خارجی حقیقت کے ساتھ اس کے روابط اور زندہ رہنے اور زندگی کو برتنے کے بارے میں اس کے عمومی رویوں کا مطالعہ اس کے تعمیراتی فنون سے بھی کیا جاتا ہے۔ تعمیر کا فن مادے کے ساتھ ہمارے اساسی اور جِبّلی رویے کے علاوہ ہمارے مادی اور ذوقی میلانات کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ اسی لیے تہذیبوں اور تمدنوں کے مؤرخ سیاسی احوال کے بعد سب سے زیادہ اہمیت فنِ تعمیر ہی کو دیتے ہیں۔ کسی عمارت کی داخلی اور خارجی وضع، اس کا مواد، اجزا کے تناسبات، اس میں آرائشی مواد کا عدم ووجود یا تقلیل و تکثیر…صرف افادی پہلوئوں ہی کی نہیں، بعض اوقات تعمیر کرنے والوں کے نفسی، اجتماعی اور جمالیاتی تصورات، اور کبھی کبھی ما بعد الطبیعیاتی میلانات کو بھی ظاہر کرتے ہیں،…اس کے علاوہ فنِ تعمیر چونکہ حواسِ انسانی پر براہِ راست اثر انداز ہوتا ہے اور انسان کی ذوقی تربیت اور جسمانی فعلیت کسی نہ کسی حد تک اس کے دائرۂ اثر میں آجاتی ہے۔ نیز چونکہ زماں اور مکاں کے ساتھ انسان کے عملی اور جسمانی رشتے کا سب سے بڑا مظہر یہی فن ہے، اس لیے اقبال نے بجا طور پر فنونِ لطیفہ کی تحسین و تنقید میں اسے زیادہ اہمیت دی ہے۔ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اقبال نے موسیقی اور مصوری کے بارے میں فنِ تعمیر کی نسبت زیادہ اظہارِ خیال کیا ہے لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ اُن کی سب سے مفصل آرا ادب اور شاعری کے بارے میں ہیں،…اس کے بعد جس فن کو سب سے زیادہ قابلِ تبصرہ اور لائقِ توجہ سمجھا ہے وہ فن تعمیر ہی ہے۔ طبعاً بھی اقبال ذوقِ تعمیر کی معنویت سے بہرہ مند تھے،… اگرچہ اُن کے نظامِ افکار میں مکاں (space)کے مقابلے میں زمان (time) کو زیادہ اہمیت حاصل ہے، لیکن اپنے ما بعد الطبیعیاتی فکر میں وہ زمان اور مکان کو ایک ہی حقیقت کے دو پہلو خیال کرتے ہیں…اور آئن سٹائن کی پیروی میں زمان اور مکان کو زماں۔ مکاں (time-space) کہتے ہیں، اسی لیے مقامات اور تعمیری مظاہر جو مکاں (space) پر انسان کے دستِ تصرف کی کرشمہ سازیوں کو ظاہر کرتے ہیں، ناگزیر طور پر اقبال کے نظامِ علامات کا حصہ ہیں۔ فنِ تعمیر سے اقبال کی اس گہری وابستگی کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ اسلامی تمدن کے بہت بڑے مبصر…اور اس تمدن کی فکری اور مابعد الطبیعیاتی اساسیات کے شارح کی حیثیت سے اقبال کو اسلامی فنِ تعمیر سے خصوصی دلچسپی ہے۔ اس تمدن نے دُنیا کو مسجدِ قرطبہ، قصر الزہرا اور تاج محل جیسے شاہکار عطا کیے ہیں اور فنِ تعمیر میں ایسی ہیئتوں کی تخلیق کی ہے جو جلال و جمال دونوں کا مجموعہ ہیں۔ فنِ تعمیر میں اقبال کا اصل نظامِ حوالگی اسلامی فنِ تعمیر ہی ہے۔ کھوئے ہوئوں کی جستجو میں وہ ’بجھی ہوئی آگ‘ اور ’ٹوٹی ہوئی طناب‘ (حجاز کی صحرائی تہذیب) کے علاوہ مسلمانوں کی عظیم الشان عمارات اور ان کے طرزِ تعمیر میں بھی عظمتِ رفتہ کو تلاش کرتے ہیں۔ بانگِ دراکی نظم ’گورستانِ شاہی‘ میں اس جذبے کا اظہار واضح، مگر ابتدائی صورت میں ہوا ہے۔ آہ !جولانگاہِ عالمگیر، یعنی وہ حصار دوش پر اپنے اٹھائے سینکڑوں صدیوں کا بار زندگی سے تھا کبھی معمور، اب سنسان ہے یہ خموشی اس کے ہنگاموں کا گورستان ہے اپنے سُکّانِ کہن کی خاک کا دلدادہ ہے کوہ کے سر پر مثالِ پاسباں استادہ ہے خوابگہ شاہوں کی ہے یہ منزلِ حسرت فزا دیدۂِ عبرت، خراجِ اشکِ گلگوں کر ادا ہے تو گورستاں، مگر یہ خاک گردوں پایہ ہے آہ! اک برگشتہ قسمت قوم کا سرمایہ ہے مقبروں کی شان حیرت آفریں ہے اس قدر جنبشِ مژگاں سے ہے چشمِ تماشا کو حذر کیفیت ایسی ہے ناکامی کی اس تصویر میں جو اتر سکتی نہیں آئینۂِ تحریر میں اس نظم میں اقبال نے گورستانِ شاہی کے مقابر کے بارے میں دو توصیفی الفاظ استعمال کیے ہیں، یعنی شان (شکوہ) اور حیرت آفریں،… شکوہ اور حیرت آفرینی ایسے فن کی خصوصیات ہیں، جسے ارفع یا جلیل (sublime) کہا جاتا ہے۔ یہ امر ثابت شدہ ہے کہ اقبال فن میں ارفعیّت (sublimity) اور تخلیقی انا کی قوت کے اظہار کو زیادہ قابلِ توجہ سمجھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی وہ تخلیقی اظہار کو خارجی حوالے کے ساتھ بھی مشروط کرتے ہیں اس لیے کہ خارجی حالات ہمارے تخلیقی رویوں پر اثر انداز ہوتے ہیں، اسی لیے فن کار کو ہر حال میں خارجی حالات کی رعایت رکھنی چاہیے، اور ان پر اپنے شعور کی گرفت کو مضبوط تر کرتے رہنا چاہیے۔ کیونکہ بالآخر یہ فن کار ہی ہوتا ہے جو اپنی تخلیقی فعلیت کی قوت اور اپنے اظہار کی بدولت خارجی کوائف کو بدل سکتا ہے اور بدل دیتا ہے۔ یقینا یہ فن کا مقصدی نظریہ ہے لیکن اقبال نے واشگاف الفاظ میں اپنے مقصدی نظریۂ فن کی تصریح کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جب کوئی قوم انحطاط کا شکار ہو کر آذر کا شیوہ (بت گری) اختیار کرتی ہے تو اس قوم کے حقیقی فن کار (مثلاً شاعر) کے کلام سے شانِ خلیل نمایاں ہونے لگتی ہے: شانِ خلیل ہوتی ہے اس کے کلام سے عیاں کرتی ہے جب اس کی قوم اپنا شعار آزری ’شعارِ آزری،…کسی قدر تشریح طلب اصطلاح ہے، بظاہر تو رسمِ آزری’بت گری اور کفر و شرک، کے مترادف ہے اور بلا شبہ اقبال عقائد کی دُنیا میں سچی توحید ہی کو سچے فن کا سر چشمہ قرار دیتے ہیں (عاشقان را بر عمل قدرت دہد)،…لیکن فنی تصورات کے حوالے سے شعارِ آزری،… فطرت کی اندھی تقلید اور نقالی کے مترادف ہے،… اور فطرت کی غلامی ((نقالی ) اقبال کے نزدیک انتہائی نا محمود شیوہ ہے۔ ’اہرامِ مصر‘ کی عظمت جس سے وہ اسی لیے متاثر ہوئے کہ ایک تو وہ دوام کے اعتبار سے فطرت کے حریف ہیں۔ دوسرے اُن کی ہیئت میں فطرت کی نقالی سے کام نہیں لیا گیا۔ اس دشتِ جگر تاب کی خاموش فضا میں فطرت نے فقط ریت کے ٹیلے کیے تعمیر اہرام کی عظمت سے نگوں سار ہیں افلاک کس ہاتھ نے کھینچی ابدیت کی یہ تصویر فطرت کی غلامی سے کر آزاد ہُنر کو صیاد ہیں مردانِ ہنر مند کہ نخچیر مجموعی طور پر تخلیقی فنون کو ہر تفصیل و اجمال، ظاہر و باطن (یعنی ہیئت و موضوع) اور تمام لفظی تلازمات اور نفسی و عقلی مضمرات کے اعتبار سے انائے انسانی کی تکمیل کا ضامن اور حرکت و عمل کے محرکات کا ترجمان ہونا چاہیے…اقبال کا تصورِ فن ہر حال میں ان کے تصورِ خودی (تکمیلِ فرد) اور اُصولِ بے خودی (تکمیلِ معاشرہ) کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس لیے جو کچھ اُنھوں نے دوسرے تخلیقی فنون کے بارے میں کہا ہے وہ فنِ تعمیر کے بارے میں بھی یکساں اہمیت کا حامل ہے۔ اگرچہ اقبال ایجادِ معانی کو خدا داد خیال کرتے ہیں لیکن تخلیق و تعمیر کے لیے محنتِ پیہم کو لازمی قرار دیتے ہیں، لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ جب تک فن کار کا داخلی اضطراب (بالخصوص خودی کی بیداری کی واردات) تخلیقی عمل میں شامل نہ ہو، اسے دوام حاصل نہیں ہو سکتا، دوام مل بھی جائے تو ایسی تخلیق کا وجود انسانی تہذیب کی پیش رفت میں رکاوٹ بنا رہتا ہے،… اسی لیے فن میں اس کی ہیئت اور اس کے مافیہ (content) کے ساتھ ساتھ اس کے محرکات بھی اہمیت رکھتے ہیں: جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا تخلیقی فنون کے معنوی اجزا…یا مجموعی معنویت میں کوئی ایسی چیز بھی ہے جسے اقبال مطلقاً حق (truth)سے تعبیر کرتے ہیں، اس کا اشارہ اُن کی اس مختصر نظم سے ملتا ہے جس میں اُنھوں نے پیرس میں تعمیر ہونے والی ایک مسجد کے طرزِ تعمیر پر تنقید کی ہے، نظم کا عنوان بھی پیرس کی مسجد ہے: مری نگاہ کمالِ ہنر کو کیا دیکھے کہ حق سے یہ حرمِ مغربی ہے بیگانہ حرم نہیں ہے، فرنگی کرشمہ سازوں نے تنِ حرم میں چھپا دی ہے رُوحِ بت خانہ یہ بت کدہ انھیں غارت گروں کی ہے تعمیر دمشق ہاتھ سے جن کے ہوا ہے ویرانہ دوسرے مباحث سے قطعِ نظر، کمالِ ہنر (cractsmanship)سے کلی طور پر اعراض کرتے ہوئے اقبال نے واضح انداز میں ثابت کیا ہے کہ فن میں محرک کو بہت اہمیت حاصل ہے،… یہاں یہ بات بھی یقیناً قابلِ ذکر ہے کہ اقبال نے اس نظم میں اور اپنے تمام اشعار میں بھی، جن میں فن کے اُصولی سرچشموں سے بحث کی گئی ہے… فن کی تنقید میں پہلی بار محرک (motif) کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔ موتف، یا محرک سے مراد وہ بنیادی جذبہ، اجمالی خاکہ یا مجموعی تصور(image) ہے جس پر کسی فنی ہیئت کا ڈھانچہ استوار ہوتا ہے،…علاوہ ازیں اس لفظ میں تخلیق کے ’باعث‘ (cause) کے ساتھ ساتھ اس کی غایت یا ’حاصل‘ (end) کے معانی بھی شامل ہیں جو تخلیق سے پہلے یا تخلیق کے دوران فن کار کے پیش نظر ہو سکتے ہیں یا کم از کم اس کے لاشعوری محرکات میں شامل رہتے ہیں۔ فن کے سرچشموں کی بحث میں اقبال نے جس ’موتف‘ (motif) یا محرک کو سب سے زیادہ اہم قرار دیا ہے۔ وہ عشق ہے،… فن کے محرکات کے بے مثال تجزیوں میں اقبال نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ خارجی احوال فن کی نوعیت کو بدل دیتے ہیں،… اس حقیقت کو وہ آزاد اور غلام قوموں کے فنون کے موازنے سے واضح کرتے ہیں،…بندگی نامہ میں اُنھوں نے آزاد قوموں کے فنِ تعمیر کے لیے الگ باب باندھا ہے… (درفنِ تعمیرِ مردانِ آزاد)… جس میں اُنھوں نے آزاد قوموں کے فنِ تعمیر کی اجمالی خوبیوں کے ساتھ ساتھ مسجدِ قوت الاسلام اور تاج محل کی جمالیاتی قدرو قیمت کا بھی جائزہ لیا ہے، مسجدِ قوت الاسلام مغلوں سے پہلے اور تاج محل مغلوں کے طرزِ تعمیر کی علامت ہیں: یک زمان با رفتگان صحبت گزین صنعتِ آزاد مردان ہم بہ بین خیز و کار ایبک و سوری نگر وانما چشمے اگر داری جگر خویش را از خود برون آوردہ اند این چنین خود را تماشا کردہ اند سنگہا با سنگہا پیوستہ اند روزگارے را بآنے بستہ اند دیدنِ او پختہ تر سازد تُرا در جہانِ دیگر اندازد تُرا نقش سوئے نقش گر می آورد از ضمیرِ او خبر می آورد ہمتِ مردانہ و طبعِ بلند در دلِ سنگ این دو لعلِ ارجمند سجدہ گاہِ کیست این، از من مپرس بے خبر، رودادِ جان از تن مپرس وائے من از خویشتن اندر حجاب از فراتِ زندگی ناخوردہ آب محکمی ہا از یقینِ محکم است وائے من، شاخِ یقینم بے نم است در من آن نیروئے اِلّا اللہ نیست سجدہ ام شایانِ این درگاہ نیست ’’تھوڑی دیر کے لیے گزرے ہوئے لوگوں کی صحبت بھی اختیار کرو، اور دیکھو کہ آزاد مردوں کی صنعت (فنی تخلیق) کس طرح کی ہوتی ہے…اُٹھو، اور ایبک و سوری کے کارنامے دیکھو…آنکھیں کھولو اگر تم میں دیکھنے کا حوصلہ ہے۔ اُنھوں نے اپنی ذات کا نظارہ اس طرح کیا ہے کہ اپنے آپ کو اپنے آپ سے باہر لے آئے ہیں۔ ایک پتھر کو دوسرے پتھر کے ساتھ اس طرح پیوستہ کیا ہے کہ زمانے کو ایک لمحے کے ساتھ باندھ دیا ہے…ایسے ہی فن کا نظارہ تجھے اپنی ذات میں پختہ تر بناتا ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ تجھے ایک نئے جہانِ معنی میں داخل کر دیتاہے…(دراصل بات یہ ہے کہ) نقش ہمیں نقش گر کی طرف لے آتا ہے، نقش ہمیں نقش گر کے ضمیر کی گہرائیوں سے باخبر کرتا ہے…پتھر کے دل میں دو قیمتی لعل ہیں ہمتِ مردانہ اور طبعِ بلند…یہ سجدہ گاہ (مسجد) کس کی ہے؟ مجھ سے نہ پوچھو…روح کا ماجرا جسم سے نہ دریافت کرو…میں تو اپنے آپ سے بھی چھپا ہوا ہوں(پوری طرح نمو دار نہیں)۔ میں نے تو زندگی کے دریا سے پانی بھی نہیں پیا…استحکام اور مضبوطی، یقینِ محکم ہی سے پیدا ہوتی ہے،… مجھ پر افسوس کہ میرے یقین کی شاخ خشک ہے۔ میرے اندر اِلاّ اللہ کی طاقت نہیں… اس لیے میرا سجدہ اس مسجد کے شایانِ شان نہیں ہو سکتا‘‘۔ یہ قطب الدین ایبک کی مسجدِقوت الاسلام کا تذکرہ ہے۔ اقبال کے یہ اشعار نہ صرف ان کے تصورِ فن کی تشریح کرتے ہیں بلکہ برِصغیر پاک و ہند میں مغلوں سے قبل کے اسلامی طرزِ تعمیر پر بہترین تبصرے کا درجہ بھی رکھتے ہیں، قبلِ عہدِ مغلیہ کے اسلامی طرزِ تعمیر میں اقبال نے جن عناصر کا سراغ لگایا ہے، وہ ہیں جذبۂ حریت (صنعتِ آزاد مردان ہم بہ بین) اظہارِ ذات، خود نگری، سنگینی، ابدیت کی شان، ہمتِ مردانہ اور طبعِ بلند کی خصوصیات…اور قوت ! عالم اسلام کی جن دو مساجد کی عظمت سے اقبال بے حد متاثر ہوئے ہیں، ان میں ایک تو مسجدِقرطبہ ہے اور دوسری یہی مسجدِ قوت الاسلام،…مؤخرالذکر مسجد کے سامنے اقبال کو اپنی انا (جو مسلمانوں کی اجتماعی خودی کے مترادف ہے) بہت کمزور دکھائی دی اور وہ ان احساسات کو ظاہر کیے بغیر نہیں رہ سکے ’مسجدِ قوت الاسلام‘ کے عنوان سے ایک نظم میں ان احساسات کو کھول کر بیان کیا ہے: ہے مرے سینۂ بے نور میں اب کیا باقی لَااِلٰہ مردہ و افسردہ و بے ذوقِ نمود چشمِ فطرت بھی نہ پہچان سکے گی مجھ کو کہ ایازی سے دگرگوں ہے مقامِ محمود، کیوں مسلماں نہ خجل ہو تری سنگینی سے کہ غلامی سے ہوا مثلِ زجاج اس کا وجود ہے تری شان کے شایاں اُسی مومن کی نماز جس کی تکبیر میں ہو معرکۂ بود و نبود اب کہاں میرے نفس میں وہ حرارت وہ گداز بے تب و تابِ دروں میری صلوٰۃ اور درود ہے مری بانگِ اذاں میں نہ بلندی نہ شکوہ کیا گوارا ہے تجھے ایسے مسلماں کا سجود یہاں اس امر کی تشریح کی چنداں حاجت نہیں کہ اس مسجد کی نظارگی سے اقبال جن احساسات سے دوچار ہوئے وہ دراصل مسلمانوں کی اجتماعی انا کی کمزوری، ان کے ذوقِ نمود کی کمی، اُن کی تخلیقی قوتوں کے جمود، یقین کے عدم استحکام اور احسا س غلامی کی ترجمانی کرتے ہیں، اس مسجد کے بارے میں اقبال کا ردِ عمل ایک طرح کے حزن…اور رنج و ملال (anguish) سے عبارت ہے،…جب کہ مسجدِ قرطبہ نے اقبال کو بیک وقت سوزو گداز، انشراح و اہتزاز…اور مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں ایک نئے رئویا سے آشنا کیا۔ واقعہ یہ ہے کہ مسجدِ قرطبہ اقبال کی ایک ایسی عظیم الشان نظم کا محرک ثابت ہوئی جس میں اقبال کے فلسفۂ حیات اور تصورِ فن کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی حیاتِ اجتماعیہ کے بہت سے تاریخی، نفسی اور جمالیاتی پہلو سمٹ آئے ہیں: اے حرمِ قرطبہ! عشق سے تیرا وجود عشق سراپا دوام، جس میں نہیں رفت و بود رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت معجزۂِ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود قطرۂِ خونِ جگر، سِل کو بناتا ہے دل خون جگر سے صدا، سوز و سرور و سرود تیری فضا دل فروز، میری نواسینہ سوز تجھ سے دلوں کا حضور، مجھ سے دلوں کی کشود تیرا جلال و جمال مردِ خدا کی دلیل تو بھی جلیل و جمیل، وہ بھی جلیل و جمیل تیری بنا پائیدار، تیرے ستوں بے شمار شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجومِ نخیل تیرے در و بام پر وادیِ ایمن کا نور تیرا منارِ بلند، جلوہ گہِ جبرئیل تجھ سے ہوا آشکار بندۂِ مومن کا راز اس کے دنوں کی تپش، اس کی شبوں کا گداز اس کا مقامِ بلند، اس کا خیالِ عظیم اس کا سرور، اس کا شوق، اس کا نیاز، اس کا ناز کعبۂ اربابِ فن ! سطوتِ دینِ مبیں تجھ سے حرم مرتبت، اندلسیوں کی زمیں ہے تہِ گردوں اگر حسن میں تیری نظیر قلبِ مسلماں میں ہے اور نہیں ہے کہیں! نقش ہیں سب نا تمام خونِ جگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر مسجدِ قرطبہ کا ’موتف‘ اقبال نے عشق کو قرار دیا ہے، جس کی یوں تو عمومی صورتیں بھی ہو سکتی ہیں لیکن اقبال کے ہاں عشق قلبِ مومن کی ایک خاص کیفیت ہے،…خودی کے تصور کے بعد اقبال کی شاعری کا سب سے اہم تصور عشق ہے جس کی بے تابی و اضطراب، سوزو گداز…اور خلاقی انسانوں کو اپنی ذات کی وسعتوں…اور زندگی کے برتر مقاصد سے آشنا کرتی ہے۔ مسجدِ قرطبہ کے تعمیراتی پیکر میں اقبال کو سب سے اہم چیز اس کا جلال و جمال نظر آ یا ہے،…مسجدِ قرطبہ اس لیے اقبال کے نزدیک فن تعمیر کا مثالی نمونہ ہے کہ ایک تو اس کا محرک جذبہ عشق ہے، دوسرے وہ نہ صرف جلال ہے، نہ صرف جمال، بلکہ ان دنوں کے امتزاج کا حسین ترین نمونہ ہے…محرکات ہی کے مسئلے میں اقبال کے نزدیک کسی فن پارے کی اصل اہمیت یہ ہے کہ وہ کسی داخلی کیفیت (بالخصوص عشق) کا معروضی پیکر (objective correlative) ہو،…مسجدِ قرطبہ انھیں معنوں میں مردِ خدا کی دلیل ہے کہ وہ مردِ خدا کے معنوی کردار کی خارجی تمثیل ہے،… اور اسی لیے مسجدِ قرطبہ کے جلال و جمال کو اگر کسی داخلی کیفیت سے نسبت ہے تو وہ مردِ خدا کا دل ہے: ہے تہِ گردوں اگر حسن میں تیری نظیر قلبِ مسلماں میں ہے اور نہیں ہے کہیں دلفروزی او ر دل کشائی…ایک اور تعمیراتی خصوصیت ہے جو اقبال کو مسجدِ قرطبہ میں نمایاں نظر آتی ہے۔ تاج محل جو مغل طرزِ تعمیر کا شاہکار ہے، انھیں خصوصیات کی وجہ سے لازوال ہے۔ ’بندگی نامہ‘ کے اسی باب میں، جس میں مسجدِ قوت الاسلام کا ذکر ہے تاج محل کے حسن عالمتاب کی جھلک بھی دکھائی گئی ہے۔ یک نظر آن گوہِ نابے نگر تاج را در زیرِ مہتابے نگر مرمرش ز آبِ روان گردندہ تر یک دم آنجا از ابد پائندہ تر عشقِ مردان سِرِّ خود راگفتہ است سنگ را بانوکِ مژگان سُفتہ است عشقِ مردان، پاک و رنگین چون بہشت می کشاید نغمہ ہا از سنگ و خشت عشقِ مردان نقدِ خوبان را عیار حسن راہم پردہ در، ہم پردہ دار ہمتِ او آنسوئے گردوں گذشت از جہانِ چند و چون بیرون گذشت زانکہ در گفتن نیاید زآنچہ دید از ضمیرِ خود نقابے برکشید ایک نظر اس خالص موتی کو بھی دیکھو…اور اگر اسے صحیح معنوں میں دیکھنا ہوتو چاندی رات میں دیکھو،… اس کا مر مر پانی سے زیادہ تیز اور اس کی دید کا ایک لمحہ ابدیت سے زیادہ پائیدار ہے، (تاج محل کیا بنایا ہے) اہلِ دل نے عشق کا راز بیان کیا ہے،…گویا پتھر کو پلکوں سے چھیدا ہے…مردوں کا عشق بہشت سے زیادہ پاک اور رنگین ہے۔ یہ عشق سنگ و خشت سے نغمے کشید کرتا ہے۔ مردوں کا عشق محبوبوں کی متاع کی کسوٹی ہے۔ یہ عشق حسن کو بے حجاب بھی کرتا ہے اور حسن کا پردہ بھی رکھتا ہے، اس کی ہمت (تاج محل کی تخلیق میں) آسماں سے بھی پرے گزر گئی ہے۔ اس نے وہ کچھ دیکھا جو بیان میں نہیں آتا…(تاج محل کی تخلیق سے) عشق نے اپنے ضمیر، اپنے نہاں خانۂِ باطن سے نقاب اُٹھا دیا ہے۔ تاج محل کے بارے میں اقبال کی پوری شاعری میں یہی ایک تبصرہ ہے۔ لیکن حق یہ ہے یہ تبصرہ جتنا مختصر ہے، اس سے کہیں زیادہ بلیغ اور خیال انگیز ہے،… تاج محل کے لیے اقبال نے جو تشبیہات استعمال کی ہیں وہ بذاتِ خود حسن کاری کا مرقع ہیں۔ گوہرِ ناب، ابد سے زیادہ پائیدار، حسن کا پردہ در بھی، اور پردہ داربھی، پاک و رنگیں، سنگ و خشت سے نغموں کے در کھولنے والا، اور ضمیرِ عشق کو بے نقاب کرنے والا تاج محل…جسے ایک کردار، ایک شخصیت بنانے میں اقبال نے غیر معمولی لفظی صناعی سے کام لیا ہے۔ اور تمام باتوں سے بڑھ کر۔ اقبال کے نزدیک تاج محل کی معنویت یہ ہے کہ اس سے عشق کے خالص اور پاکیزہ جذبے کی نمود کامل طور پر ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ تاج محل کو ’مردانِ آزاد، کے حسنِ تعمیر کا نمونہ بھی سمجھتے ہیں…تعمیراتی فنون سے اقبال کی یہ دلچسپی محض رسمی نہیں بلکہ ان کے نہایت گہرے ذاتی میلانات اور شخصی ذوقِ تعمیر کی ترجمان بھی ہے۔ ان کی شاعری میں جن عمارات کا تذکرہ آیا ہے اور ان کی جن خصوصیات پر زور دیا گیا ہے۔ اور اقبال کے تصورِ فن میں تخلیقی فنون کو جن کوائف سے مشروط کیا گیا ہے، ان کی روشنی میں اقبال کے تصورِ تعمیر کے بارے میں چند نتائج کا استخراج کرتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ فنِ تعمیر کی یہ خصوصیات اُن کے نزدیک اہم اور ضروری ہیں: ۱-شان اور شوکت [grandeur] ۲-رفعت اور عظمت [sublimity] ۳-جلال و جمال یا دلبری اور قاہری کا امتزاج (دلبری بے قاہری جادو گری ست) ۴-فطرت کی تقلید سے آزادی (فطرت کی غلامی سے کر آزاد ہُنر کو) ۵-اظہارِ ذات یا ذوقِ نمود [self-ecpression] (خویش را از خود برون آوردہ اند) ۶-محرک یا موتف [motif] (ع۔جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود ) (ع اے حرم قرطبہ !عشق سے تیرا وجود) ۷-دوام اور ابدیت کی شان [relative eternity] (یک دم آنجا از ابد پائندہ تر) ۸-خونِ جگر کی شمولیت [ self-consumation] یعنی فن کار کا داخلی سوزو گداز، اضطراب اور محنتِ پیہم (خونِ رگ معمار کی گرمی سے ہے تعمیر،مے خانۂ حافظ ہو کہ بت خانہ بہزاد، معجزۂ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود) ۹-دل افروزی اور دل کشائی [inspirational] ۱۰-احساسات کی پاکیزگی اور سچائی [purity of feeling] (عشقِ مردان پاک و رنگیں چون بہشت) ۱۱-حسن کا اظہار بھی اور اخفا بھی (حسن راہم پردہ در، ہم پردہ دار) ۱۲۔صداقت [truth] (مری نگاہ کمالِ ہنر کو کیا دیکھے، کہ حق سے یہ حرمِ مغربی ہے بیگانہ) یوں تو تقریباً ہر بڑے مفکر نے فنونِ لطیفہ کی ماہیت اور ان کے معیاری پیمانوں کے بارے میں تفصیلاً یا اجمالاً اظہار خیال کیا ہے،…لیکن کسی بھی نقادِ فن یا مفکر نے صرف فنِ تعمیر کے اتنے پہلوئوں کی نشاندہی نہیں کی،… اسی لیے یہ کہنا غلط نہیں کہ اقبال کو فنِ تعمیر کی اساسی جمالیات اور اس کے معیاری اور مثالی تصورات سے بہت گہری وابستگی تھی…اگر اقبال کو خود کسی تعمیراتی مظہر کا جمالیاتی خاکہ تیار کرنا پڑتا تو اس کی نوعیت کیا ہوتی…اس کا تھوڑا سا اندازہ جاوید نامہ کے ان اشعار سے ہوتا ہے جن میں اُنھوں نے عالمِ افلاک میں سلاطینِ مشرق کے فردوسی محلات کی منظر نگاری کی ہے،… حرف و صوتم خام و فکرم نا تمام کے توان گفتن حدیث آن مقام نوریان از جلوہ ہائے او بصیر زندہ و دانا و گویا و خبیر قصرے از فیروزہ دیوار و درش آسمانِ نیلگون اندر برش رفعتِ او برتر از چند و چگون می کند اندیشہ را خوار و زبوں آن گل و سرو وسمن، آن شاخسار از لطافت مثلِ تصویر بہار ہر زمان برگِ گل و برگِ شجر دارد از ذوقِ نمو رنگِ دگر ایں قدر بادِ صبا افسون گر است تا مژہ برہم زنی، زرد احمر است ہر طرف فوارہہا گوھر فروش مرغکِ فردوس زاد اندر خروش بارگاہے اندران کاخے بلند ذرۂ او آفتاب اندر کمند سقف و دیوار و اساطین از عقیق فرشِ او از یشم و پرچین از عقیق بر یمین و بر یسارِ آن وثاق حوریان صف بستہ با زرین نطاق درمیاں بنشستہ بر اورنگِ زر خسروانِ جم حشم، بہرام فر میری آواز اور میرا لہجہ خام…اور میری فکر نا تمام ہے۔ اس مقام کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے۔ فرشتے اس کے جلوے سے آنکھیں روشن کرتے ہیںإ بلکہ زندہ و دانا اور سخن پرداز اور باخبر بن جاتے ہیں۔ یہ ایک محل تھا جس کے دیوار و درفیروزہ کے تھے، نیلگوں آسماں کو اس محل نے اپنی وسعت میں سمولیا تھا، اس کی بلندی فکر و تخیل سے بھی بلند تر تھی، اسے دیکھ کر فکرو تخیل خواروزبوں ہو کر رہ جاتے تھے…وہ اس کے پھول اور سروسمن اور شاخسار،… لطافت میں وہ منظر تصویر بہار کی طرح تھا۔ اس کے پھول اور پتے ذوقِ نمو کے باعث ہر لمحہ ایک نیارنگ اختیار کرتے تھے۔ ہوا کی جادو گری کا یہ عالم تھا کہ ادھر تم نے پلکیں جھپکیں، اُدھر زرد رنگ سرخ میں بدل چکا تھا…ہر طرف فوارے موتی لٹاتے تھے اور فردوس کا پرندہ زمزمہ پرداز تھا۔ اس بلند اور پر شکوہ محل میں ایک دربار آراستہ تھا، اس کے ذرے آفتاب کو بھی اسیر کیے ہوئے تھے۔ اس کی چھت اور دیواریں اور ستون عقیق کے تھے، فرش الماس کا اور کیلیں پھر عقیق کی تھیں۔ اس کی رسی کے دونوں جانب حوریں سونے کے کمر بند باندھے ہوئے صف بستہ تھیں۔ درمیان میں سونے کے تخت پر جمشید کی سی حشمت اور بہرام کی سی شان و شوکت والے سلاطین بیٹھے ہوئے تھے۔ اس تصوراتی تعمیر میں بھی بلندی اور رفعت کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ منظر ایک خاص سیاق و سباق کا حصہ ہے اور اس کی تَہ میں فردوس کے بارے میں مسلمانوں کے عمومی تخیلات بھی کار فرما ہیں، تاہم اگر اسے اقبال کے تعمیری تخیلات کا ایک نمونہ قرار دے لیا جائے تو کچھ ایسا غلط نہ ہوگا،…اس تخئیلی عمارت میں بھی زیادہ اہمیت گل و گلزار ہی کی تفصیل کو حاصل ہے۔ اس منظر کی سب سے دلچسپ خصوصیت یہ ہے کہ اس کے برگ و گل ہر لمحہ ایک نیا رنگ اختیار کرتے ہیں اور زرد، پلک جھپکنے میں سرخ ہو جاتا ہے اور رنگوں کی یہ تلوین اور بو قلمونی ہر لمحہ جاری رہتی ہے۔ اقبال کے تخیل میں جو زبردست حرکیت ہے شاید یہ اسی کا حصہ ہو،…ایک ساکن اور ٹھہرا ہوا فردوس ویسے بھی اقبال کو پسند نہیں آسکتا تھا۔ مجموعی طور پر یہ تصور کیاہمیں مغلیہ عمارات (بالخصوص تاج محل، مقبرہ جہانگیر اور شالا مار باغ) کے قریب نہیں لے جاتا؟کہیں ایسا تو نہیں کہ مغل شہنشاہ مسلمانوں کے فردوسی تخیلات کو بہت حد تک مجسم کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے؟ اگر کسی چیز کا تذکرہ نہ کرنا اور اسے بظاہر ایک متعلقہ بحث سے غیر متعلق قرار دینا بھی ایک تنقیدی رویہ اور تنقیدی تبصرہ ہے، تو اقبال نے اسلامی طرزِ تعمیر کے سوا کسی اور طرزِ تعمیر پر تبصرہ نہ کر کے یقینا ایک بہت بڑا تنقیدی فیصلہ صادر کیا ہے۔ اگر کسی نے یونانی اور رُومن عمارات کی پر شکوہ خنکی، اُن کے بھاری بھر کم جُثوں میں تخلیقی انا کی حرارت، تابانی اور بے تابی کی کمی اور عشق کے سوز و گداز کی قطعی عدم موجودگی کو محسوس کیا ہے، اگر کسی نے ہندو طرزِ تعمیر میں دلفروزی اور دلکشائی، رفعت اور شکوہ اور پیدائی اور آشکارائی کے عناصر کو یک قلم مفقود پایا ہے تو اسے اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی کہ اقبال نے یونانی رُومن اور ہندو طرزِ تعمیر کا تذکرہ یا اس پر تبصرہ کیوں نہیں کیا۔ اقبال کے ذوقِ تعمیر کی وسعت اور بلندی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ عمارت یا عمارات تو ایک طرف رہیں،… اس عہد آفریں شاعر نے ایک نئی ریاست، ایک نئی مملکت کی تشکیل و تعمیر کے تصور کو متشکل کیا۔ اس ریاست کی تعمیری اساس اقبال کے ذوقِ تعمیر پر استوار ہے۔ /// اقبال کی شاعری میں ڈرامائی عناصر اقبال کے فن کی ہمہ گیری کا ایک پہلو یہ بھی ہے اُن کی شاعری میں اس عہد کے تخلیقی فنون کے تمام زندہ اور توانا اجزا،…ایک کامل وحدت کے ہم آہنگ اور متناسب اجزا کی صورت میں،…اپنی جھلک دکھاتے ہیں۔ اگرچہ اقبال نے ڈراما نہیں لکھا، اس لیے ان کی شاعری اور ڈرامے کے فن میں بظاہر کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا، لیکن امرِ واقع یہ ہے کہ اقبال کی شاعری کا بیشتر حصہ ڈرامائی فنون سے گہری واقفیت اور وابستگی کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ یُوں بھی شاعری اور ڈرامے کا تعلق بہت قدیم ہے۔ ٹی۔ایس ایلیٹ کا یہ کہنا کہ شاعری ہمیشہ ڈرامے کی طرف مائل رہتی ہے اور ڈراما شاعری کی طرف،…حیقیت سے اتنا بعید بھی نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ مغرب کی ادبی روایات میں شاعری اور ڈرامے میں کئی صدیوں تک جو ناگزیر تعلق رہا ہے اس کی مثال اُردو ادب میں تلاش کرنا بے سود بھی ہے اور بے محل بھی،…اس لیے کہ ہمارے ہاں شاعری نے ڈرامے کے تصور سے بے نیاز (اور بہت حد تک بے خبر) رہ کر اپنی تکمیل کی ہے۔ جب کہ مغرب میں ڈراما، شاعری کے فروغ کا باعث اور شاعری، ڈرامے کی مقبولیت کا سبب بنتی رہی ہے، اور ان دونوں فنون میں گویا رُوح و بدن کا تعلق قائم رہا ہے۔ ہماری شعری روایات کی تشکیل میں ڈرامے کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہے، اس کے باوجود اُردو شاعری میں ڈرامائی عناصر کا سراغ لگا نا کچھ ایسا مشکل بھی نہیں، گو اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر بھی چارۂِ کار نہیں کہ شاعری اور ڈرامے کے فنی روابط کا مطالعہ صحیح معنوں میں مغربی ادب کے حوالے سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ اس حقیقت سے سبھی اتفاق کرتے ہیں کہ شاعری صرف نظم (verse) یا کلامِ موزوں کے مترادف نہیں،…لیکن دُنیا کے بیشتر قابلِ ذکر ڈراما نگاروں نے اپنے فن میں ایک خاص طرح کی گہرائی پیدا کرنے کے لیے منظوم ڈرامے کو ہی منتہائے نظر قرار دیا۔ اعلیٰ پائے کے ڈرامانگاروں کی ایک کثیر تعداد شاعری(بصورتِ کلامِ موزوں) کو ڈرامائی ہیئت کا اہم ترین حصہ سمجھتی رہی ہے…گوئٹے،شلر، راسین، مارلو، شکسپیئر، ابسن اور ہمارے عہد میں ٹی ایس ایلیٹ،… شاعری اور ڈرامے کے باہمی تعلق کے بہت بڑے رمزشناس ہیں۔ آڈن، اشرووڈ اور دوسرے درجے کے دوسرے منظوم ڈراما نگاروں سے قطعِ نظر،…ایلیٹ نے شاعری اور ڈرامے کے تعلق کو ایک بار پھر زندہ کر دیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ شاعری اور ڈراما،…دونوں کی اساس انسانی کلام کے اجزا اور ان کے ترکیبی اُصولوں پر ہے۔ شاعری اورڈراما،…دونوں الفاظ کو ان کی تمام تر امکانی قوتوں کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ جہاں کلام (speech) ہے وہاں ڈرامے کی اساس موجود ہے، اس لیے کہ کلام اپنی فعلی ماہیّت میں مخاطبت کا متقاضی ہے، چاہے فوری طور پر کوئی سننے والا موجود ہو یا نہ ہو، یہی وجہ ہے کہ جس طرح ڈراموں میں، خواہ وہ نثری ہوں یا منظوم، ہمیں اعلیٰ درجے کی شاعری کے اجزا مل جاتے یں، اس طرح اچھی اور اعلیٰ درجے کی شاعری بھی (چاہے وہ کسی زبان کی ہو اور کسی بھی عہد سے تعلق رکھتی ہو) ڈرامائی عناصر سے یکسر خالی نہیں ہو سکتی۔ اس صورتِ حال کی بہترین مثال علامہ اقبال کی شاعری ہے جس میں ڈرامائی عناصر کا عمل و تعامل غیر معمولی حد تک قابلِ توجہ ہے،… یوں تو جیسا ابھی اشارہ کیا گیا، شاعری میں ڈرامائیت کی مثالیں ہر اچھے اور بڑے شاعر کے ہاں مل جاتی ہیں،…مثلاً میر کا ایک سادہ ساشعر ہے: کہا میں نے گُل کو ہے کتنا ثبات کلی نے یہ سن کر تبسّم کیا! اس ایک شعر میں ڈرامے کے تمام تر اجزا موجود ہیں،… کردار، مکالمہ، عمل (اور ردِّعمل) اور منظر یا صورتِ واقعہ (situation) ڈرامائی ہیئت کے نمایاں عناصر ہیں،…مذکورہ شعر میں یہ تمام عناصر یا اجزا موجود ہیں۔ کردار (میں اور کلی) مکالمہ (کہا میں نے :گُل کو ہے کتنا ثبات) اور عمل یا رد عمل (کلی نے یہ سن کر تبسم کیا)،…منظر یا صورتِ واقعہ بھی خود شعر ہی میں مضمر ہے…غرض اس سادہ سے شعر میں کسی ڈرامائی ٹکڑے کے تمام لوازم موجود ہیں،…لیکن یہ …اور شاعری میں ڈرامائی عناصر کی دوسری مثالیں اتفاقی اور غیر شعوری قرار دی جا سکتی ہیں، جب کہ اقبال کے ہاں ڈرامائی عناصر جس واضح، مکمل اور معنی خیز صورت میں نظر آتے ہیں اس سے سوائے اس کے اور کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ اقبال نے انھیں اپنے فنی مقاصد کی تکمیل کے لیے کامل فنی شعور کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈراما سہ ابعادی فن ہے، جس کی اصل رُوح حرکت، عمل اور آویزش ہے، ڈرامے میں تجسیم اور تمثیل کی جو شان ہے وہ ڈرامے کے علاوہ کسی اور فن میں ظاہر ہو ہی نہیں سکتی،… لیکن اس کی جزوی اور اعتباری صورتوں کو ہم ڈرامائی عناصر سے تعبیر کرتے ہیں۔ ڈرامائی اندازِ تخاطب، خود کلامی، مکالمہ، کردار نگاری، تجسیم و تمثیل اور علامت گری ڈرامائی ہیئت کے یہ وہ اجزا ہیں کہ اگر شاعرانہ ہیئت میں شامل ہو جائیں تو شاعری میں ڈرامائیت پیدا کر دیتے ہیں، اور یہ بات خاصی حیرت انگیز ہے کہ اُردو میں منظوم ڈرامے (یا محض ڈرامے) کی کسی بہت بڑی اور زندہ روایت کی عدم موجودگی کے باوجود اقبال نے اپنی بہت سی شاعرانہ ہئیتوں کی تکمیل کے لیے ڈرامے کے ان اجزا سے بہت زیادہ کام لیا ہے، ڈرامائی خطابت کا ایک خاص انداز، تخاطب میں لہجے کا اتار چڑھائو، آہنگ کا مجموعی تاثر، متکلم اور مخاطب کے باہمی تعلق کا تعین، مکالمے کے ذریعے گفتگو کرنے والے کرداروں کی سیرت اور اُن کی باطنی شخصیت کا انکشاف…وہ خصوصیات ہیں جو اقبال کی ڈرمائی صلاحیتوں اور ان صلاحیتوں کے حیرت انگیز اظہار پر پوری پوری روشنی ڈالتی ہیں۔ یہ سوال کہ اقبال نے ڈراما کیوں نہیں لکھا، اس مبحث میں خاصہ اہمیت کا حامل ہے، بعض داخلی شہادتوں کی بنا پر اس سوال کے جواب میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے، ایک خارجی حقیقت جسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، یہ ہے کہ اقبال کے سامنے اسٹیج اور ڈرامے کی کوئی زندہ روایت موجود نہیں تھی جس کو کام میں لا کر وہ ڈرامے کو ایک فعال، مؤثر اور ہمہ گیر میڈیم کے طور پر استعمال کرتے۔ اگر مارلو کے لیے انگریزی ڈرامے کی کوئی زندہ روایت موجود نہیں تھی تو کم از کم یوروپین اسٹیج اور ڈرامے کا ایک وسیع پس منظر ضرور اسے حاصل تھا،… اقبال کے لیے ایشیائی یا مشرقی روایت نہ ہونے کے برابر تھی، کالی داس اور شکنتلا کا تعلق اُردو ادب کے ساتھ زندہ روایت کے طور پر کبھی نہیں رہا، امانت کی اندر سبھا کا ذکر کیا جائے تو واقعہ یہ ہے کہ وہ اندر سبھا والی نیم ڈرامائی روایت ہی تھی جس کی انتہائی اور آخری صورت آغا حشر کے ڈرامے ہیں۔ جس طرح داستانی طرزِ احساس اور کلاسیکی نثر باغ و بہار سے آگے نہیں جا سکتی تھی، (فسانۂ عجائب کو باغ و بہار سے ماقبل کی رنگین نثر کا احیا سمجھنا چاہیے۔) اسی طرح وہ ڈرامائی روایت جس کا نقطۂآغاز امانت کی اندر سبھا کو قرار دیا جاتا ہے آغا حشر کے ڈراموں سے آگے نہیں بڑھ سکتی تھی، سب سے اہم بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ اقبال ہر حال میں ایک مشرقی تھے اور مشرقی ہی رہنا چاہتے تھے…اور ڈراما اس وقت تک صرف مغرب ہی کی چیز تھی، مزید برآں اقبال کو ڈرامے پر کچھ مابعد الطبیعیاتی اعتراضات بھی تھے، جن کی تشریح ہم ذرا آگے چل کر کریں گے،…لیکن اس سب کے باوجود ڈرامے کے فن کی سیمیائی نمود، کردار نگاری کی فطری استعداد اور مکالماتی اندازِ بیاں کی خوبی ان کے دامنِ دل کو اپنی جانب کھینچتی ضرور تھی،… یہی وجہ ہے کہ ان کی ابتدائی نظموں میں بھی مکالماتی اندازِ بیان موجود ہے۔ بانگِ درا کے حصۂ اوّل میں ہی کم از کم گیارہ نظمیں اس انداز کی ہیں۔ اس مجموعے کی اولین نظم بھی ڈرامائی تخاطب کی نظم ہے، ایک مکڑا اور مکھی، ایک پہاڑ اور گلہری، ایک گائے اور بکری مکالمے پر مبنی ہیں… ’’خفتگانِ خاک سے استفسار‘‘ اگرچہ مکالماتی نظم نہیں، مگر ڈرامائی تاثر سے بھر پور ہے۔ ڈرامائی تاثر اس نظم کے دوسرے بند سے ہی شروع ہو جاتا ہے اور کسی نقطۂ عروج کی جانب مائل نظر آتا ہے: تھم ذرا بیتابیِ دل، بیٹھ جانے دے مجھے اور اس بستی پہ چار آنسو گرانے دے مجھے اے مئے غفلت کے سرمستو، کہاں رہتے ہوتم؟ کچھ کہو اس دیس کی آخر جہاں رہتے ہو تم! وہ بھی حیرت خانۂ امروز و فردا ہے کوئی؟ اور پیکارِ عناصر کا تماشا ہے کوئی! اس کے بعد حیات ما بعد الممات اور عالمِ ارواح کے بارے میں سوالات کا ایک طویل سلسلہ ہے جو نقطۂ عروج پر ختم ہوتا ہے: آہ وہ کشور بھی تاریکی سے کیا معمور ہے؟ یا محبت کی تجلی سے سراپا نور ہے؟ تم بتا دو راز جو اس گنبدِ گرداں میں ہے؟ موت اِک چُبھتا ہوا کانٹا دلِ انساں میں ہے؟ ’موت اِک چُبھتا ہوا کانٹا دل انساں میں ہے،… اس نظم کا ڈرامائی نقطۂ عروج بھی ہے اور نقطۂ اختتام بھی۔ اسی طرح عقل و دل، انسان اور بزمِ قدرت،عشق اور موت، زاہد اور رندی، ایک پرندہ اور جگنو، بچہ اور شمع، تمام تر مکالماتی نظمیں ہیں۔ ’رخصت اے بزمِ جہاں‘ کا پہلا شعر زبردست ڈرامائی تاثر کا حامل ہے: رخصت اے بزمِ جہاں!سوئے وطن جاتا ہوں میں آہ، اس آباد ویرانے میں گھبراتا ہوں میں آباد ویرانے کا قولِ محال (paradox) بھی ڈرامائی حیرت خیزی کا ایک ذریعہ ہے۔ بانگِ درا کی نظموں میں اگر ’آہ‘ کے لفظ کی تکرار، سوالات کی کثرت اور طرزِ استفہام کو بھی سامنے رکھا جائے تو ڈرامائی معنویت کے کئی پہلو سامنے آتے ہیں۔ ’اخترِ صبح ‘ ایک مختصر سی نظم ہے جسے دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: پہلا حصہ: ستارہ صبح کا روتا تھا اور یہ کہتا تھا ملی نگاہ مگر فرصتِ نظر نہ ملی ہوئی ہے زندہ دمِ آفتاب سے ہر شے اماں مجھی کو تہِ دامنِ سَحَر نہ ملی بساط کیا ہے بھلا صبح کے ستارے کی نفس حباب کا، تابندگی شرارے کی دُوسرا حصہ: کہا یہ میں نے کہ اے زیورِ جبینِ سحر غمِ فنا ہے تجھے! گنبدِ فلک سے اُتر ٹپک بلندیِ گردوں سے ہمرہِ شبنم مرے ریاضِ سخن کی فضا ہے جاں پرور میں باغباں ہوں، محبت بہار ہے اس کی بِنا مثالِ ابد پائیدار ہے اس کی! ڈرامائی طرزِ بیان کی ایک خصوصیت موازنہ اور تقابل بھی ہے، جو حقائق کی دو طرفہ یا اضدادی معنویت کو ظاہر کرتاہے۔ اقبال نے اس اُسلوب کو ہمیشہ غیر معمولی فنی بصیرت کے ساتھ استعمال کیا ہے، جس کی ایک مثال یہ مختصر سی نظم ’اخترِ صبح‘ہے اور دوسری بڑی مثال شکوہ اور جوابِ شکوہ ہیں۔ ڈرامائی تخاطب، تقابل، توازن، استفہام، استعجاب، امر، نہی، ترغیب، تحریص، تنبیہ، طنز، ایمائیت اور آہنگ کے اعتبار سے شکوہ اور جواب شکوہ ایسی بھر پور نظمیں ہیں کہ شاید اُردو شاعری میں ان کی مثال اور کہیں نہ مل سکے۔ ان اور دوسری تابلِ ذکر نظموں کا صیغۂ واحدِ متکلم اپنے اندر ہیر و کی پوری شان رکھتا ہے اور اس کا اندازِ بیان یونانی ڈرامے کی طرزِ جلیل میں بدل جاتا ہے۔’صقلیہ‘ (جزیرۂ سسلی) کے کچھ شعر اسی حقیقت کو ثابت کرتے ہیں: رولے اب دل کھول کر اے دیدۂ خوننابہ بار وہ نظر آتا ہے تہذیبِ حجازی کا مزار آہ! اے سسلی! سمندر کی ہے تجھ سے آبرو رہنما کی طرح اس پانی کے صحرا میں ہے تو یہاں بھی اقبال نے سمندر کو پانی کا صحرا کَہ کر ڈرامائی قولِ محال سے کام لیا ہے۔ ’رات اور شاعر‘ ایک اور مکمل طور پر مکالماتی نظم ہے،…لیکن بانگِ درا کی نظموں میں مکالماتی اعتبار سے ’شمع اور شاعر‘ اور ’خضرِ راہ‘ سب سے زیادہ اہم ہیں۔ اگرچہ ان نظموں میں شاعر اور شمع دونوں محض علامات ہیں جن کے ذریعے اقبال نے اپنے افکار و خیالات کا اظہار کیا ہے تاہم ان سے کردار نگاری اور کردار آفرینی میں اقبال کی فنی بصیرت کا اندازہ ضرورہوتا ہے۔ کردار اور مکالمہ…ڈرامائی ہیئت کے دو اہم ستون ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر کردار نہ ہو تو مکالمہ بھی وجود میں نہیں آسکتا…کردار ہی دراصل ڈراما نگار کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوتے ہیں، اس لیے کہ اگر کرداروں پر اس کی گرفت نہ ہو تو واقعات بھی صحیح معنوں میں متشکل نہیں ہو سکتے…اب اگر ذرسا غور کیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ اقبال کی شاعری کا جہانِ معنی آفریں بے شمار کرداروں سے آباد ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ایک عظیم خلاق کی طرح اقبال جس شے کو بھی دیکھتے ہیں اسے کردار میں بدل دیتے ہیں۔ وہ بے جان چیزوں میں نفسی محرکات کا سراغ لگاتے ہیں، اور ان کی شخصیت کا تعین کر دیتے ہیں۔ اس کا سبب غالباً یہ بھی ہے کہ وہ کائنات کو متناہی انائوں (finite egos)کا ظہور قرار دیتے ہیں اس لیے اگر انھیں ذرے ذرے میں تشخص اور انفرادیت کے آثار نظر آتے ہیں تو کوئی حیرت کی بات نہیں، اجمالی طور پر اقبال کی دُنیا کے کرداروں کو چار حصوںمیں تقسیم کیا جا سکتا ہے، ۱-مادی اور نباتی دُنیا کے کردار مثلاً ہمالہ، گلِ رنگیں، گلِ پژمردہ، شمع، سیّدکی لوحِ تربت وغیرہ ۲-حیوانی زندگی کے کردار۔ حیوانی زندگی کے کردار۔ اقبال کی دُنیا میں کم ہیں، جو ہیں وہ وحوش کے مقابلے میں طیور سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں، ان میں سب سے اہم شاہین کا کردار ہے۔ ۳-انسانی کردار (واقعی) مثلاً ہیگل، مسولینی، لینن، نپولین، معرّی، غلام قادر رُہیلہ، منصور بن حلاج، قرۃ العین طاہرہ، شرف النسائ، غنی کاشمیری، سُلطان ٹیپو، وغیرہ ۴-انسانی کردار (تخئیلی) مثلاً بابائے صحرائی، عارفِ ہندی(اس کردار کا تعلق ہندو دیومالا سے ہے)، ملاضیغم لولابی، محراب گل، مریخ کا منجم اور مریخ کی نبیّہ۔ ان میں شاہین، اور ’مردِ مومن‘ سب سے زیادہ علاماتی وسعت کے حامل ہیں، غیر انسانی کرداروں میں…اقبال کا سب سے اہم کردار ابلیس ہے، جو ان کی شاعری میں بعض افکار و خیالات کے اظہار کے لیے غیر معمولی کردار ادا کرتا ہے، بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اقبال کی شاعری کا سب سے بڑا ڈرامائی کردار ابلیس ہے، ڈرامائی ہیئت میں مکالمہ اور کردار ایک نامیاتی وحدت کا حصہ ہوتے ہیں۔ کرداروں کی حرکات و سکنات سے ڈرامے کا عمل نمو پاتا اور مکالمہ اس کی معنویت کا تعین کرتا ہے۔ کردار کا سکوت بھی ایک لحاظ سے مکالمے ہی کا بدل ہے۔ اس لیے کہ کردار کی خاموشی بھی کسی کیفیت یا مفہوم ہی کو ظاہر کرتی ہے۔ بہر حال مکالمے میں اختصار و تفصیل کا تناسب ڈراما نگار (یاشاعر) سے غیر معمولی نفسیاتی ژرف نگاہی اور باریک بینی کا تقاضا کرتا ہے اقبال کی بعض نظمیں کردار نگاری اور مکالمات کے اعتبار سے شاہکار کا درجہ رکھتی ہیں اور کسی عظیم ڈرامے کا حصہ نظر آتی ہیں۔ بالِ جبریل کی نظم ’جبریل و ابلیس‘ میں دونوں کرداروں کا مکالمہ اتنا بھر پور اور برجستہ ہے کہ غیر ڈرامائی شاعری میں اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ مکالمات کا ایک ایک لفظ دو متضاد کرداروں کی سیرت اور شخصیت کا آئینہ دار ہے۔ نظم کا آغاز جبریل کے استفسار سے ہوتا ہے: ہمدمِ دیرینہ، کیسا ہے جہانِ رنگ و بو؟ سوال کا یہ انداز جبریل ہی کے لیے موزوں تھا۔’ہمدمِ دیرینہ‘کے ساتھ ہی جبریل و ابلیس کے قدیم ربط کا تصور اُبھرتا ہے۔ جب دونوں بارگاہِ قدس میں حسبِ مراتب موجود رہتے تھے، ابلیس کے مردُود ہو جانے کے بعد…اسے ہمدمِ دیرینہ کہنا جبریل کی طرف سے بلند تر اخلاقی شعور کا ثبوت ہے۔ اس ایک لفظ کے ذریعے ابلیس کو اس کی عظمتِ رفتہ بھی یاد دلائی گئی ہے۔ غرض ہمدمِ دیرینہ کی مختصر سی ترکیب میں سجودِ آدم اور اس سے قبل کی پوری داستان سمو دی گئی ہے ابلیس کا جواب بھی ایک ہی مصرع میں ہے، اور ایک ہی مصرع میں جہانِ رنگ و بو کا سارا المیہ اور ساری عظمت و برتری بیان کر دی گئی ہے۔ سوال تھا : ہمدمِ دیرینہ، کیسا ہے جہان رنگ و بو! جواب ملا: ’’سوزو ساز و درد و داغ و جستجو و آرزُو!‘‘ جبریل…حق اور خیر کا نمائندہ ہے،…اپنی اس حیثیت میں بھی، اور حقِ رفاقت کے خیال سے بھی، چاہتا ہے کہ ابلیس، جو اس کا ہمدمِ دیرینہ بھی ہے، اپنی گمراہی سے باز آجائے اور اپنی گذشتہ رفعتوں اورعظمتوں کو پالے، اس لیے جبریل کا دوسرا سوال یہ ہے: ہر گھڑی افلاک پر رہتی ہے تیری گفتگو کیا نہیں ممکن کہ تیرا چاکِ دامن ہو رفو؟ ابلیس کا جواب…یونانی المیہ کے ہیرو کی یاد دلاتا ہے، یہ لب و لہجہ دُنیا کے عظیم ترین شعرا کے ہاں ہی نظر آتا ہے: آہ، اے جبریل، تو واقف نہیں اس راز سے کر گیا سرمست مجھ کو ٹوٹ کر میرا سبو اب یہاں میری گزر ممکن نہیں، ممکن نہیں کس قدر خاموش ہے یہ عالمِ بے کاخ و کو مکالمے کے آخری حصے میں ابلیس کے لہجے میں کسی قدر تلخی اور طنز کا عنصر بھی در آیا ہے: دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزمِ خیر و شر کون طوفاں کے طمانچے کھا رہا ہے۔ میں کہ تو! گر کبھی فرصت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے قصۂِ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو؟ ابلیس کے کردار میں جو ڈرامائی امکانات مضمر ہیں، وہ ہمیشہ اقبال کے ذہن کو اپنی جانب کھینچتے رہے،…اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ ہمارے مفکرین اور صوفیا بالخصوص محی الدین ابن عربی، مولانا رُوم، اور عبدالکریم الجیلی نے ابلیس کے کردار کی علاماتی اور تمثیلی معنویت میں خاصا غور و تأمل کیا ہے، مولانا رُوم نے اسے ’’خواجۂ اہل فراق‘‘ کہا ہے…اور صوفیا کے اکثر تذکروں اور ملفوظات میں بھی اس کردار کی تمثیلی رمزیت سے فائدہ اُٹھا یا گیا ہے۔ علاوہ ازیں مغرب کے شعر و ادب میں بھی ابلیس کی ڈرامائی صورت گری پر خاصا زور صرف کیا گیا ہے، اس لیے اقبال کی بہت سی اہم ڈرامائی نظموں کا مرکزی کردار ابلیس ہے جس کے ذریعے اقبال خیر و شر اور جبر و اختیار کے ما بعد الطبیعیاتی مسائل کے علاوہ عصرِحاضر کے سیاسی اورتہذیبی مسائل کا بھی تجزیہ کرتے ہیں۔ یہاں ہم اقبال کے تصورِ ابلیس سے بحث نہیں کر رہے، بلکہ اقبال کی شاعری میں اس کی ڈرامائی معنویت پیش نظر ہے۔ ’ضربِ کلیم‘ کی ایک نظم ’’تقدیر‘‘ کا ذیلی عنوان ہے ’ابلیس و یزداں،…اس نظم کا مرکزی خیال شیخ اکبر محی الدین ابن عربی سے ماخوذ ہے اور جبر و اختیار کے مسئلے سے تعلق رکھتا ہے۔ ابلیس تاویل کے راستے سے اپنے ’انکار‘ کے جُرم کو مشیتِ ایزدی پر محمول کر رہا ہے جیسا کہ جبریوں کا قائدہ ہے کہ وہ اپنا الزام مشیت کی طرف منتقل کر دیتے ہیں۔ چنانچہ ابلیس کا اعتراف: اے خدائے کن فکاں، مجھ کو نہ تھا آدم سے بیر آہ! وہ زندانیِ نزدیک و دور و دیر و زود حرفِ استکبار، تیرے سامنے ممکن نہ تھا ہاں مگر تیری مشیت میں نہ تھا میرا سجود اس اعتراف میں بھی آدم (نسلِ آدم) کی کوتاہ بینی اور کم نگاہی پر کھلی ہوئی چوٹ موجود ہے، جس مخلوق کو سجدہ کرنے کی پاداش میں ابلیس کو قربِ خدوندی سے محروم ہونا پڑا۔ ابلیس اسے بھول نہیں سکتا، بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ آدم کی کمزوریوں کا سب سے بڑا رمزشناس ٹھہرا،… غرض ابلیس نسلِ آدم کو بھلا سکتا ہے نہ معاف کر سکتا ہے، اسے اس حقیقت کا شدت کے ساتھ احساس ہے کہ قصۂ آدم اسی کے خونِ انا سے رنگین ہو سکا۔ (یہ تصریحات اقبال کی کردار نگاری ہی سے اُبھرتی ہیں) کردار کی نفسیاتی گرہوں کو پیش نظر رکھنا کردار نگاری کے فن کا لازمی حصہ ہے، اور اقبال اس پہلو کو کبھی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے…ابلیس کے اعتراف کے بعد یزداں اور ابلیس کا ایک مکالمہ جو ایک ہی شعر میں مکمل ہو جاتا ہے، ڈرامائی گفتگو کا بہترین نمونہ ہے۔ یزداں کا سوال بنیادی اور قانونی نوعیت کا ہے، اس سوال کے جواب پر ہی ابلیس کے جُرم کی نوعیت کے تعین کا دارومدار ہے۔ یزداں: کب کھلا تجھ پر یہ راز؟ انکار سے پہلے کہ بعد؟ ابلیس: بعد…!اے تیری تجلی سے کمالاتِ و جودا! یہی جواب متوقع بھی تھا،…تقدیر اور مشیت کی تاویل اہلِ انکار کا معروف حیلہ ہے۔ اور ابلیس سے بڑا حیلہ جُو کون ہوگا۔ اس جواب کے بعد ابلیس کو شا یانِ خطاب نہیں سمجھا گیا بلکہ فرشتوں کو دیکھ کر یہ تبصرہ کیا گیا ہے: پستیِ فطرت نے سکھلائی ہے یہ حُجت اسے کہتا ہے تیری مشیّت میں نہ تھا میرا سجود دے رہا ہے اپنی آزادی کو مجبوری کا نام ظالم اپنے شعلۂ سوزاں کو خود کہتا ہے دود ابلیس کا تذکرہ خاصا طویل ہو رہا ہے، لیکن اس حقیقت سے قطعِ نظر کہ اقبال نے ابلیس کے کردار کو کن مطالب کی توضیح کے لیے علامت کے طور پر استعمال کیا۔ یہ بات اپنی جگہ پر اہم ہے کہ اس کردار کی تشکیل میں اقبال نے غیر معمولی فنی بصیرت سے کام لیا ہے، …اقبال کی شاعری میں ہمیں جہاں بھی اس کردار کی جھلک نظر آتی ہے، وہیں ہمیں اعلیٰ درجے کی ڈرامائی شاعری کا سراغ بھی ملتا ہے۔ ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘،… اس سلسلے کی شاید سب سے اہم نظم ہے، جس میں ابلیس اور اس کے شیاطین کی حکمتِ عملی اور ان کا طریق کار کھل کر سامنے آتا ہے۔ ابلیس کی انانیت، خود پسندی، ہر اخلاقی ضابطے سے بے نیازی اور انسانی زندگی کے معاملات میں اس کا صاحبِ تصرف ہونا…ابلیس کے مکالمات کی معنوی جہتیں ہیں۔ ایک دو ٹکڑے ڈرامائی خطابت کا بہترین نمونہ ہیں…مثلاً یہ عناصر کا پرانا کھیل! یہ دُنیائے دوں ساکنانِ عرشِ اعظم کی تمنائوں کا خوں اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز جس نے اس کا نام رکھا تھا جہانِ کاف و نُوں میں نے دکھلایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب میں نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں میں نے ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر کا میں نے منعم کو دیا سرمایہ داری کا جنوں کون کر سکتا ہے اس کی آتشِ سوزاں کو سرد جس کے ہنگاموں میں ہو ابلیس کا سوزِدروں جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند کون کر سکتا ہے اس نخلِ کہن کو سرنگوں یا مثلاً: ہے مرے دستِ تصرف میں جہانِ رنگ و بو کیا زمیں، کیا مہر و مہ، کیا آسمانِ تو بہ تو دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا شرق و غرب میں نے جب گرما دیا اقوامِ یورپ کا لہو ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس اُمت سے ہے جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو کردار آفرینی کے یہ غیر معمولی آثار…کرداروں کی کثرت…ان کی علاماتی معنویت اور مکالمے پر کامل فن کا رانہ گرفت…اس بات کی قوی شہادتیں فراہم کرتے ہیں کہ اقبال کو ڈرامائی فنون سے گہری وابستگی تھی، صرف وابستگی ہی نہیں بلکہ ان کی تکنیکی پہلوئوں پر پوری دسترس حاصل تھی، لیکن اس کے باوجود اقبال نے کوئی مکمل ڈراما نہیں لکھا…یا شاید زیادہ صحیح بات یہ ہو کہ اُنھوں نے ڈراما لکھنا پسند نہیں کیا،…اس قطعی فنی رویے کا تعلق یقینا ان کے مخصوص نظریۂ فن کے ساتھ ہے، جس کی تشریح کا یہ محل نہیں،…ہر وہ فن یا فنی عمل جو انسان کو خود فراموشی کی طرف لے جائے…انسانی خودی کی تکمیل میں مانع ہے، جس فن میں خودی کا آزادانہ ظہور نہ ہو اقبال کے نزدیک قطعی طور پر قابل ترک ہے …اور ڈراما اقبال کی نظر میں اداکار اور ناظر دونوں کی خودی کی نفی کرتا ہے۔ کیونکہ اداکار اور ناظر دونوں کو ڈراما نگار کی فنی مشیت کا پابند ہونا پڑتا ہے اور اپنی خودی کو بھول کر کسی خیالی یا حقیقی غیر کی خودی کا اظہار کرنا پڑتا ہے۔ بحیثیت ایک تخلیقی فن کے ڈرامے کی عظمت اپنی جگہ پر، لیکن اقبال کی تحلیلی منطق اسے کسی اور ہی نقطۂ نظر سے دیکھتی ہے،…ڈراما حقیقی ہوتے ہوئے بھی غیر حقیقی…اور غیر حقیقی ہوتے ہوئے بھی حقیقت کا اعتبار قائم کرتا ہے…اس کی یہی ’’سیمیائی نمود‘‘ یا حقیقت کا فریب،…اسے اقبال کی ما بعد الطبیعیات میں غیر معتبر قرار دیتا ہے۔ اسٹیج پر جو واقعات ہو رہے ہیں، وہ ہر چند کہ وقوع پذیر ہو رہے ہیں لیکن ’فی الواقع‘ ان کی ’حقیقت‘ کچھ نہیں…لیکن اس کے باوجود اداکاروں کا عمل۔ باوجود نقالی، غیر حقیقی، فرضی اور خیالی ہونے کے عمل کی ایک صورت تو ہے، لیکن یہ عمل ایسا ہے جو اداکار اور ناظر کی ذاتی خودی کو بالیدہ اور مستحکم نہیں کرتا۔ ڈراما۔ اداکار اور ناظردونوں کو عالمِ امکاں کی ایک ’جہتِ معدوم‘ میں لے جاتا ہے، اور اس طرح اداکار اور ناظر کی خودی ڈرامے کے ’معدوم‘ کرداروں کی خودی میں تحلیل ہو جاتی ہے،…ڈرامے کے فن پر اقبال کی یہ تنقید ایک اعتبار سے انتقادِ عالیہ کا درجہ رکھتی ہے…فن کی دُنیا میں یہ نظریہ اقبال…اور صرف اقبال ہی سے مخصوص ہے…اس منفرد اور خیال انگیز نظریے کا اظہار اقبال نے اپنی ایک نظم ’’تیاتر‘‘ میں کیا ہے: تری خودی سے ہے روشن ترا حریمِ وجود حیات کیا ہے اسی کا سرور و سوز و ثبات بلند تر مہ و پرویں سے ہے اسی کا مقام اسی کے نور سے پیدا ہیں تیرے ذات و صفات حریم تیرا، خودی غیر کی، معاذ اللہ دوبارہ زندہ نہ کر کاروبارِ لات و منات یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تو نہ رہے رہا نہ تو، تو نہ سوزِ خودی نہ سازِ حیات پھر بھی کون کَہ سکتا ہے کہ اگر اقبال نے ڈراما لکھا ہوتا تو وہ مشرق میں شیکسپئیر اور گوئٹے کے مثیل نہ ہوتے! /// اقبال کا لفظی تخیّل شاعری کی تنقید میں تخیّلِ سماعی (auditory imagination)ایک نسبتاً جدید اصطلاح ہے جسے انگریزی زبان کے نامور شاعر اور نقاد ٹی ایس ایلیٹ نے شاعرانہ تخیّل کے ایک خاص پہلو کی وضاحت کے لیے وضع کیا، اور اب جدید تنقید نے اسے اپنی روز مرہ کی اصطلاحات میں شامل کر لیا ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ تخیّل کو عام طور پر بصری یادوں کے تموّج سے یاد کیا جاتا ہے۔ جو اپنی تخلیقی فعلیّت کی بدولت پرانی صورتوں میں رد و بدل کر کے نئی نئی صورتیں وضع کرتا رہتا ہے۔ اسی طرح تخیّل کا ایک پہلو وہ بھی ہے جس کا تعلق آوازوں کی یادداشت سے ہے۔ ایلیٹ کا ایما یہ ہے کہ جس طرح شاعر کے تخیّل میں بصری یادوں (visual memories) کا ذخیرہ ہوتا ہے، اسی طرح ایک صوتی یادوں (sound memories) کا ذخیرہ بھی ہوتا ہے، جس کی بدولت شاعر کا ’’گوشِ تخیّل،…(چشمِ تخیّل کی رعایت سے) پرانی اور نئی آوازوں کی گونج سنتا ہے، تخیّل کی اس صلاحیت کو ایلیٹ نے ’سماعی تخیّل‘،… یا تخیّلِ سماعی کا نام دیا ہے، یہ قوت یا صلاحیت شاعر کے کلام کی نوعیت پر بھی اثر انداز ہوتی ہے، کیونکہ اسی کی بدولت کسی شاعر کے ہاں خاص قسم کے صوتی سانچے (sound pattterns) پیدا ہوتے ہیں، جس سے اس کی شاعری کو ایک انفرادی آہنگ حاصل ہوتا ہے۔ یہ صورت یوں تو عمومی طور پر بھی درست ہے، لیکن جس طرح ایک عام شاعر،… الفاظ کے استعمال میں کوئی انفرادیت نہیں رکھتا، اسی طرح اس کا سماعی تخیّل بھی اس کے شعری آہنگ کی ساخت میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کرتا۔ تخیّل کی یہ ساری خلاّقی ہمیں صرف بڑے شعرا کے ہاں ہی نمایاں انداز میں نظر آتی ہے،…اگر سماعی تخیّل کا مزید تجزیہ کیا جائے تو اس میں ایک ایسی چیز بھی بنیادی طور پر شامل ہے جسے وضاحت کی خاطر ’’لفظی تخیّل‘‘ (verbal imagination)کہا جا سکتا ہے،… جس کا دائرۂ یاد داشت تمام سنے اور پڑھے ہوئے الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے اور جو نئی تراکیب (phrases) کی تشکیل میں…اور بعض اوقات مطلقاً نئے الفاظ کی اختراع میں کارفرما ہوتا ہے،… غور کیا جائے تو محسوس ہو گا کہ لفظی تخیّل…بصری اور سماعی تخیّل کی سرحد پر واقع ہے۔ کیونکہ نئے الفاظ و تراکیب کی تشکیل و اختراع میں الفاظ کی صوتی یادوں کے ساتھ ساتھ…الفاظ کی صوَرِی یادیں بھی شامل ہوتی ہیں،… ہم بعض الفاظ کو محض اُن کی صوتی قدرو قیمت کی بدولت، بعض کو اُن کی صوری قدروقیمت… اور بعض کوان دونوں کی وجہ سے یاد رکھتے ہیں،…ایک خلاق انسان کے تخیّل میں الفاظ اپنے تمام ابعاد کے ساتھ زندہ رہتے ہیں۔ اقبال کے تخیّل کی زرخیزی اُن کے تخلیقی کارناموں کی وسعت اور ضخامت سے بھی ظاہر ہے، اور اُن کی نوعیت سے بھی،…نئی تراکیب کی ساخت میں اُنھیں جو مہارت اور قدرت حاصل ہے اس کی مثال اُن کے دو عظیم پیش رووں …مرزا بیدل اور مرزا غالب ہی میں ملتی ہے۔ اقبال کی تراکیب نُدرت اور معنوی لطافتوں کے اعتبار سے اُردو اور فارسی دونوں زبانوں کی شاعری کا سرمایۂِ افتخار اور گنجینۂِ اظہار ہیں…ان سطور میں ہمارا مقصد اقبال کی لسانی اختراعات کے صرف ایک پہلو سے بحث کرنا ہے جسے ہم اقبال کا لفظی تخیّل کَہ سکتے ہیں، اور اس لفظی تخیّل کا بھی صرف ایک ہی پہلو ہمارے پیش نظر ہے جس کا تعلق کلی طور پر نئے الفاظ کی ایجاد و اختراع سے ہے۔ زَروان: رُوحِ زمان و مکاں اُن کے تخیّل کے دوسرے پہلوئوں کی طرح اقبال کا لفظی تخیّل بھی زیادہ بھر پور انداز میں جاوید نامہ میں ظاہر ہوا ہے، کیونکہ اس نظم میں اقبال کو بعض ڈرامائی کرداروں کے لیے کچھ انوکھے نام وضع کرنے پڑے ہیں۔ چنانچہ اس سلسلے میں سب سے پہلا نام اُنھیں ’رُوحِ زمان و مکاں‘ کے لیے وضع کرنا تھا جو مسافر (آگے چل کر زندہ رود) کو عالم علوی کی سیاحت کے لیے لے جاتی ہے۔ اس رُوح زمان و مکاں، کو اقبال نے ’’زروان‘‘ کا نام دیا ہے، جو زمان و مکان کا ہم قافیہ بھی ہے، اور کچھ اور معنوی پہلو بھی رکھتا ہے،…لفظی تخیّل میں تلازماتی اُصول (law of association) تخیّل کی بنیادی فعلیّت کے طور پر کام کرتا ہے،… لیکن یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ’زَروان،…کوئی کُلّیتہً نیا لفظ نہیں، بلکہ ’زربان‘ اور ’زرفان‘ کی صورت میں فارسی زبان کا ایک قدیم لفظ ہے، زربان اور زرگان کو ’فرہنگِ عمید‘کے مؤلف نے ایک ہی لفظ کو قرار دیا ہے، اور زرفان کے تحت اس لفظ کے معنی یہ لکھے ہیں: زرفان۔ ص (بفتح زا و سکونِ را) پیرِ کہنسال، پیرِ فرتوت، زربان و زرمان و زروان ہم گفتہ شدہ۔ نامِ ابراہیم خلیل راہم گفتہ اند، وبایں معنی زرہون ہم گفتہ شدہ۔ (فرہنگِ عمید: باب زا۔ مطبوعہ تہران) گویا رُوحِ زمان و مکاں، کے لیے ’زروان‘ کا نام استعمال کرنے کی سب سے بڑی وجہ کہنگی اور قدامت کا مفہوم ہے، جو اس لفظ کے بنیادی معنی ہیں۔ لغت میں اس لفظ کے ساتھ ’ص‘ کی علامت بتاتی ہے کہ یہ اسم صفت ہے، لیکن اس لفظ کو حضرت ابراہیم خلیلؑ کا نام (اور ان معنوں میں زرہون) تسلیم کرنے میں مؤلفِ فرہنگِ عمید کا ماخذ کیا ہے، یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا آسانی سے جواب نہیں دیا جا سکتا۔ اسلامی روایات حضرت ابراہیمؑ کا نام ’زرہون‘ ہونے کی بالکل تائید نہیں کرتیں، تورات میں بھی ایسا کوئی اشارہ موجود نہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ حضرت ابراہیمؑ کا کوئی دوسرا نام بھی تھا۔ البتہ تورات میں یہ ضرور لکھا ہے کہ خداوند تعالیٰ کی طرف سے حضرت ابراہیمؑ سے عہد کیا گیا کہ مستقبل بعید میں اُن کا نام ابرام سے براہیم میں بدل دیا جائے گا۱؎ یہ امکان کہ مؤلفِ فرہنگ نے قدیم ایرانی روایات سے یہ نام اخذ کیا ہوا، اس لیے زیادہ قرین قیاس نہیں کہ ایران کی قدیم مذہبی روایات میں سامی پیغمبروں کا کوئی تذکرہ کہیں نہیں ملتا۔ سوائے زرتشت کے جسے قدیم ایرانی پیغمبر مانتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ ایران کی کسی قدیم مذہبی روایت میں زرہون کو ابراہیم سمجھ لیا گیا ہو۔ بہر حال یہ ایک قدیم الاصل لفظ ہے، جس کے معنوں میں قدامت کا مفہوم بنیادی طور پر شامل ہے۔ لیکن زربان، زرفان اور زروان…میں سے ’زربان‘ ہی بظاہر لفظ کی اصل صورت دکھائی دیتا ہے۔ اگر اس کو مان لیا جائے تو اس کا اصل حصہ ’زر‘ اور ’بان‘ لا حقہ متصور ہو سکتا ہے اور اس صورت میں ’زربان،… کیمیا گر یا سونا بنانے والے کے معنی بھی دے گا۔ عین ممکن ہے کہ قدیم ایرانی اساطیر میں ’وقت‘ کو ایک بوڑھے کیمیا گر کی صورت میں تصور کیا گیا ہو۔ اس لیے کہ وقت ہی زر (gold) ہے اور وقت ہی زر آور ہے، اقبال کے ہاں روحِ زمان و مکاں کے لیے ’زروان‘ کا لفظ ایک مخصوص صوتی قدروقیمت کے ساتھ نخستمثالی معنوں (archetypal meanings) کا حامل بھی ہے۔ زندہ رُود جاوید نامہ کے ابتدائی ابواب میں،… اقبال نے اپنے لیے، یا اس شخصیت کے لیے جو آسمانی سفر پر روانہ ہو رہی ہے، صیغۂ واحد متکلم استعمال کیا ہے، اور ایک عنوان میں اس کے لیے ’مسافر‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ لیکن کچھ آگے چل کر یعنی ’فلکِ عطارد‘ کے اختتام پر…یہ عنوان ملتا ہے۔ ’’پیرِ رُومی بہ زندہ رودمی گوید کہ شعرے بیار‘‘ (پیرِ رُومی زندہ رود سے کہتا ہے کہ کوئی شعر سنائو) اس پر زندہ رود ایک غزل پیش کرتا ہے جس کا مطلع ہے: این گل و لالہ تو گوئی کہ مقیم اند ہمہ راہ پیما صفتِ موجِ نسیم اند ہمہ اس غزل کے بعد ’مسافر‘ کا لفظ پھر کہیں نہیں ملتا اور نظم کا سیاق و سباق بتاتا ہے کہ جاوید نامہ کے واحد متکلم (میَں ) کا نام زندہ رود ہے۔ زندہ رود کا لفظی مطلب ہے ’زندہ دریا‘ یعنی ہمیشہ بہنے والا دریا،۲؎ تمام قدید اساطیر اور تعبیرات میں دریا کو وقت کی علامت قرار دیا گیا ہے،…گویا اقبال نے خود کو رُوحِ عصر یا روحِ زمان قرار دیا ہے، دیکھا جائے تو زندہ رود بھی ’زروان‘ ہی کی انائے متبادل (alter-ego) ہے۔ ہمارے قدیم صوفیانہ ادب میں بعض صوفیا کے ناموں کے ساتھ ’زندہ پیر‘ یا ’زندہ پیل‘ کا اضافہ بھی ملتا ہے۔ مثلاً ایک صوفی شاعر حضرت احمد جام کے نام کے آخر میں ’زندہ پیل‘ کا لفظ بھی لکھا ہوا ملتا ہے۔۳؎ ہو سکتا ہے اقبال نے جاوید نامہ میں اپنے لیے زندہ رود کا نام اختیار کرنے میں ان روایات سے بھی شعوری یا غیر شعوی طور پر کوئی اثر قبول کیا ہو۔ تاہم ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس کی ایک اور توجیہ بیان کی ہے جس سے اس لفظ کی معنوی اور علاماتی وسعت میں اضافہ ہوا ہے۔ اپنی تصنیف زندہ رود: حیاتِ اقبال کا تشکیلی دَور،… کے پیش لفظ میں وہ لکھتے ہیں: زندہ رود، نام بھی اُنھوں نے غالباً آنحضورؐ کے حوالے سے اپنے لیے چُنا اس کا پس منظر یہ ہے کہ اقبال جرمن شاعر گوئٹے کے بڑے مداح تھے۔ گوئٹے قرآنی تعلیمات اور حیاتِ طیبہ سے بے حد متاثر تھا۔ یہاں تک کہ اس نے پیغمبرِ اسلامؐ پر ایک منظوم تمثیل تحریر کرنے کا ارادہ کیا، لیکن صرف ابتدائیہ ہی لکھ سکا۔ تمثیل کی تکمیل کی نوبت نہ پہنچی۔ اس ابتدائیہ یا نظم بعنوان ’محمدؐ‘ میں حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کی آپس میں گفتگو کے دوران گوئٹے نبوت کی تشریح کے سلسلے میں آنحضورؐ کے لیے ’حیات آفریں جوئے آب‘ کی تشبیہ استعمال کرتا ہے، جس کا کام بہت سے نالے ندیوں کو اپنی آغوش میں لے کر سمندر یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانا ہے۔ اقبال نے یہ نظم پڑھی ہوئی تھی اور ا س کی تشبیہات اور استعارات سے بھی بخوبی واقف تھے، بلکہ اس کا آزاد ترجمہ بھی پیامِ مشرق کی نظم ’جوئے آب‘ میں کیا تھا۔ چونکہ وہ آنحضورؐ کو انسانِ کامل سمجھتے تھے۔ اس لیے اُن کے نزدیک ہر مسلمان کے لیے آنحضورؐ کے نقش قدم پر چلنا فرض تھا، اس جذبے کے تحت اُنھوں نے جاوید نامہ کے رُوحانی سفر کے لیے اپنا نام زندہ رود منتخب کیا‘‘۔ وادیِ یرغمید یا وادیِ طواسین ’یرغمید،…اُردو اور فارسی میں ایک بے معنی لفظ ہے، لیکن یہ جاوید نامہ میں فلکِ قمر پر واقع ہے، اس وادی کو ملائکہ ’وادیِ طواسین‘ بھی کہتے ہیں۔ کیونکہ جاوید نامہ کے روحانی اسفار کی دُنیا میں طاسینِ گوتم، طاسینِ زرتشت، طاسین مسیح اور تاسین محمدؐ اسی وادیِ یرغمید یا وادیِ طواسین میں واقع ہیں۔ ’طواسین‘ کی اصطلاح یقینا حسین بن منصور حلاج کی تصنیف ’کتاب الطواسین‘ سے لی گئی ہے۔ جسے صوفیانہ لٹریچر میں عام طور پر بلند مقام دیا جاتا ہے۔ طاسین در اصل ’طا‘ اور ’سین،… یعنی ط،س ہے،… جو صوفیانہ ادب میں رمزیاتی مفہوم کا حامل ہے۔ (ط کو طہٰ اور س کو’ یٰسین‘ کی علامت سمجھا جا سکتا ہے۔ جو قرآن مجید کے حروفِ مقطّعات ہیں)۔ لیکن اسی وادی کو وادیِ یرغمید، کہنا ایک فنی حربے کے سوا اور کچھ نہیں…لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ لفظ ایک خالص فنی اختراع ہونے کے باوجود غریب، مغلق یا مہمل بالکل نہیں لگتا او ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بھی فارسی لغت ہی کا ایک حصہ ہے…! مرغدین، برخیا اور فرزمرز فلکِ مریخ پر ہمیں تین انوکھے نام ملتے ہیں،… مرغدین، برخیا اور فرزمرز،…مرغدین تو مریخ کے ایک شہر کا نام ہے، لیکن برخیا اور فرزمرز…دو کردار یا شخصیتیں ہیں،… ’مرغدین‘ بھی ’یرغمید‘ کی طرح ایک لفظی اختراع ہے، م، ر،اورغ کی اصوات بتاتی ہیں کہ اسے خطۂِ کشمیر کی ایک وادیِ گلمرغ (گل مرگ) کی ایک تلازماتی لیکن متغیر صورت قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ’مرغدین‘ کو ایک ’مقامِ ارجمند‘ کہا گیا ہے،… اور اس کی بلند عمارتوں کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے، جو ’مرغدین‘ کو کشمیر سے زیادہ کوئی مغربی شہر ثابت کرتا ہے،…’مرغدین‘ کے ساکنوں کی خوبی یہ ہے کہ وہ شیریں سُخن، خوب رُو، نرم خو اور سادہ پوش ہیں…اور یہ سب خوبیاں ہمیں اہلِ خطہ (اہلِ کشمیر) میں دکھائی دیتی ہیں۔ برخیا۔ اہلِ مریخ کا ابوالآ باء یعنی آدم ہے جسے فرز مرز، آمرِ کردار زشت نے بہشت میں بہکانے کی کوشش کی، لیکن کامیاب نہ ہوا، اس استقامتِ کردار کے صلے میں برخیا اور اس کی نسل کو ایک اور دُنیا (جہانِ دیگرے) یعنی مریخ کی دُنیا عطا ہوئی، خیال رہے کہ جاوید نامہ میں صرف فلکِ مریخ ہی ایک ایسا مقام ہے جو دُنیا کی طرح مخلوق سے آباد ہے، اس دنیا میں رصد گاہیں بھی ہیں جہاں انجم شناس مطالعۂ نجوم میں محو رہتے ہیں،… ’فرزمرز‘ کے مقابلے میں برخیا ایک نسبتاً معروف لفظ ہے،…مفسرینِ قرآن کریم کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعات میں قرآنِ کریم نے جس شخص کے بارے میں فرمایا ہے کہ ’’اس کے پاس کتاب کا علم تھا‘‘۔ (عندہ علم من الکتاب) وہ حضرت سلیمانؑ کا معتمدِ خاص اور کاتب (یا وزیر) آصف بن برخیا تھا، مفسرین یہ قول حضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے) نقل کرتے ہیں۔۴؎ فرزمرز، … بھی یرغمید اور مرغدین کی طرح ایک لفظی اور صوتی اختراع ہے،… فرزمرز مریخ کا ابلیس یا اہر من ہے، جو ابوالآ بائے مریخ برخیا کو بہکانے کے لیے اس کے پاس بہشت میں جاتا ہے اور ناکام لوٹتا ہے۔ ہو سکتا ہے اس لفظ کی تخلیق میں ہُر مز یا ’اہورا مزدا‘ جیسے الفاظ کے تلازمات بھی شامل رہے ہوں۔ اگر اہر من کی راکو ساکن مان لیا جائے تو عروضی اعتبار سے فرزمرز اہرمن کا ہم وزن ہے، زکی تکرار نے اس کی صوت کو مؤکد بنا دیا ہے۔ اقبال کی زرخیز متخیّلہ نے با معنی ناموں کے وضع کرنے میں بھی بہت گہرے فنی شعور کا ثبوت دیا ہے، مثلاً۔ ملا ضیغم لولابی اور محراب گل افغان ان کی شاعری کے دو کردار ہیں، (ملا ضیغم لولابی کشمیری اور محراب گل افغان ہے) جن کے ذریعے اقبال نے اہلِ خطہ اور افغانوں کو خود شناسی اور خود گری کا پیغام دیا ہے، دیکھا جائے تو صوتی اور معنوی اعتبار سے یہ نام اتنے موزوں ہیں کہ ان سے بہتر کا تصور ہی نہیں ہو سکتا۔ اقبال کی عام لفظی تراکیب بھی ان کی متخیّلہ کے اثر سے خالی نہیں۔ زبان،… انسان کا نشان امتیاز اور تسمیہ (چیزوں کو نام دینے کی صلاحیت) اس کا جوہر انسانیت ہے، زبان پر گرفت فکر کے ارتقا کی پہلی شرط اور پہلا زینہ ہے، اگرچہ اعلیٰ درجے کی شاعری صرف زبان کے وسیع علم کے مترادف نہیں۔ لیکن اعلیٰ درجے کی شاعری تخلیق کرنے میں زبان کا وسیع علم بہت اہم کردار ادا کر سکتا ہے،… ایک خلاّق ذہن کے لیے زبان لغت، منطق اور گرامر سے ماورا ایک ایسی حقیقت ہوتی ہے جسے صرف اس کے براہِ راست تجربے ہی سے جانا جاتا ہے۔ اگرچہ انسانی فکر اور اس کے تخلیقی اور غیر تخلیقی اظہارات میں زبان کا کردار اور اس کا عمل دخل بے حد پیچیدہ اور ذوجہات ہے، لیکن شاعری بنیادی طور پر ہے ہی زبان کا کھیل، اس میں زبان ذریعۂِ اظہار بھی ہے اور مقصود بالذات بھی، اسی لیے شاعری میں زبان کا عمل اور بھی نازک اور پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ شاعری کے تمام معروف اجزا،… جذبہ، تخیّل، تفکر اور ارادہ۔ زبان ہی کے ذریعے اپنے آپ کو متشکل کرتے ہیں، لیکن زبان انھیں متشکل کرنے کے ساتھ ان سے ماورا ہونے کی سعی بھی کرتی ہے اور زبان کا یہی وہ عمل ہے جو شاعری میں ’شعریت‘ کا ضامن بنتا ہے۔ اقبال نے اُردو شاعری کی زبان کو کئی طرح سے متاثر کیا ہے، اُن کے سماعی اور بصری تخیّل نے بے شمار نئے الفاظ کو اُردو کی شعری اور نثری لغت کا حصہ بنایا ہے۔ ان کی ہزاروں تراکیب کی تشکیل میں اُن کے فکر کی معنی آفرینی کے ساتھ ساتھ ان کے لسانی یا لفظی تخیّل نے بھی بے حد اہم کردار ادا کیا ہے۔ خودی، کلیمی، شبانی، بانگ بمعنی صدا، اُمم، میانہ بمعنی درمیان، قلندر، مردِ مومن، زوج، زروہ، جوّہ، فرنگ یا افرنگ، بانگِ سرافیل، نغمۂ جبریل، فردا، امروز، زمان و مکاں، غرض یہ اور ان جیسے کتنے ہی الفاظ ہیں جو اُردو کی شعری لغت میں کہیں بھی موجودنہیں تھے، مگر آج ہمیں وہ لفظ زندہ، با معنی اور متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ اقبال نے زبان کو وسعت ہی نہیں دی، اسے ایک نیا صوتی منظریہ (soundscape) بھی عطا کیا ہے، جس نے اُردو زبان کو اس کے تمدنی ماضی…فارسی اور عربی سے پیوند دے کر اسے نئے زمانے کی حقیقتوں کو بیان کرنے کے قابل بنا دیا ہے۔ /// حواشی ۱- تورات کی عبارت یوں ہے: ’’جب ابرامؔ ننانوے برس کا ہوا تو خداوند اُس پر ظاہر ہوا، اور اس سے کہا، میں خدائے قادر ہوں، تو میرے حضور چل اور کامل ہو، اور میں اپنے اور تیرے درمیان عہد باندھوں گا اور تجھے نہایت ہی بڑھائوں گا۔ تب ابرامؔ سر کے بل گرا اور خدا نے اُس سے ہمکلام ہو کر کہا۔ دیکھ، مَیں اپنا عہد تیرے ساتھ باندھتا ہوں، اور تو اقوام کے انبوہ کا والد ہوگا، اور تیرا نام پھر ابرامؔ نہیں، بلکہ تیرا نام ابراہیم ہوگا، کیونکہ میں نے تجھے اقوام کے انبوہ کا والد بنایا ہے، اور میں تجھے نہایت ہی بڑھائوں گا اور قومیں تیری نسل سے ہوں گی، اور بادشاہ تیری اولاد میں سے نکلیں گے۔ تکوین، باب۱۷:۱تا۶ 2- The living or the everflowing stream. ۳- دیوان حضرت احمد جام زندہ پیل، مطبوعہ نول کشور ۱۹۲۳ئ۔ ۴- تفسیر ابن کثیر، جلد ۳ ،ص ۳۲۴؛ نیز تاریخ ابن کثیر، جلد ۲ ،ص ۲۳۔ /// اقبال اور احمد شاہ ابدالی اقبال نے جن سلاطینِ اسلام کو اپنی شہرۂِ آفاق نظم جاوید نامہ میں ’آن سوئے افلاک‘ کا مقامِ بلند عطا کیا ہے، وہ نادر شاہ، احمد شاہ ابدالی اور سُلطانِ شہید (سلطان ٹیپو) ہیں جو اپنے کردار کی صلابت، حُریّت پسندی اور خاراشگافی کی بدولت اقبال کے نزدیک بے حد مؤقراور لائقِ تحسین ہیں، آن سوئے افلاک،… جاوید نامہ کا آخری باب ہے، یہی وہ مرحلۂِ خاص ہے جس میں جنت الفردوس کی جھلک دکھائی گئی ہے، وگرنہ اس سے پیشتر جو کچھ بھی ہے وہ سیرِ افلاک یا سیرِ سیّارگان ہے، ہر سیّارے کی دُنیا اس سیّارے کا فلک ہے، جس کے اپنے مقامات و احوال ہیں اور اپنے کردار و اشخاص، لیکن ترتیب کے اعتبار سے یہ سب اس مقام یا مرحلۂِ خاص کی تمہید ہیں جسے اقبال نے ’آن سوئے افلاک‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اس کے آغاز میں ’مقامِ حکیمِ المانوی نطشہ‘ ہے، اور اس کے بعد ’حرکت بجنت الفردوس ہے، جنت۔ الفردوس کا اولیں منظر ’قصرِ شرف النسا‘ ہے، یعنی گورنر (لاہور و ملتان) عبدالصمد کی صاحبزادی شرف النساء کا محل جو ایک ہاتھ میں قرآنِ کریم دوسرے ہاتھ میں تلوار لے کر سکھوں کے حملوں کے خلاف مدافعت کرتی ہوئی شہید ہوئی تھی۔ اس مقام کے بعد اقبال (زندہ رود) کو امیر کبیر حضرت سیّدعلی ہمدانی اور ملا طاہر غنی کشمیری کی زیارت حاصل ہوتی ہے۔ یہ ایک طویل صحبت ہے جس میں زندہ رود شاہِ ہمدان اور غنی کاکشمیری سے جی بھر کر باتیں کرتا ہے، اس کے بعد ہندی شاعر بھر تریؔ ہری سے ایک مکالمہ ہے، اور آخر میں وہ مقامِ بلند ہے جہاں سلاطینِ اسلام سے ملاقات ہوتی ہے۔ اس مقام کو حرکت بہ کاخِ سلاطینِ مشرق (نادر، ابدالی، سلطانِ شہید) کا عنوان دیا گیا ہے، اقبال نے انھیں رُومی کے الفاظ میں ’’خسروانِ مشرق ‘‘ کہا ہے: خسروانِ شرق اندر انجمن سطوتِ ایران و افغان و دکن نادر آن دانائے رمزِ اتحاد با مسلمان داد پیغام وداد مردِ ابدالی، وجودش آیتے داد افغان را، اساسِ ملتے آن شہیدانِ حمیت را امام آبروئے ہند و چین و روم و شام نامش از خورشید و مہ تابندہ تر خاکِ قبرش از من و تو زندہ تر عشق رازے بود، بر صحرا نہاد تو ندانی، جان چہ مشتاقانہ داد از نگاہِ خواجۂ بدر و حنین فقر و سلطان، وارثِ جذبِ حسین رفت سلطان زین سرائے ہفت روز نوبتِ او در دکن باقی ہنوز (’مولانا رُوم نے زندہ رود سے کہا کہ فقیروں کی صحبت کے بعد اب سلاطین کی صحبت کا رنگ بھی دیکھو) خسروانِ مشرق، جو دراصل ایران و افغانستان اور دکن کی شان و شوکت ہیں، انجمن آراستہ کیے ہوئے ہیں۔ نادر وہ بادشاہ ہے جس نے اتحادِ باہمی کے راز کو سمجھا اور مسلمانوں کو ایک بار پھر محبت اور دوستی کا پیغام دیا۔ اور ابدالی وہ مردِ میدان ہے جس کا وجود دراصل ایک آیت ہے، اس نے افغانوں کو ایک قوم ہونے کی بنیاد فراہم کی اور وہ محبت کے شہیدوں کا امام (ٹیپوسلطان) جو اپنی مردانگی اور حریت پسندی کی بدولت ہندو چین و رُوم و شام کی آبرو ہے،اس کا نام چاند سورج سے زیادہ روشن اور اس کی قبر کی مٹی مجھ سے اور تجھ سے زیادہ زندہ ہے۔ عشق ایک راز تھا۔ اس نے اسے دشتِ زندگی میں آشکار کر دیا، کیا تجھے معلوم نہیں کہ اس نے کس بے تابی سے جان دی؟ اصل میں خواجۂ بد روحنین (حضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم) کی نگاہِ کرم کا اثر ہے کہ فقرو سلطانی دونوں جذبِ حسینؑ کے وارث بن گئے ہیں۔ اگرچہ سلطانِ شہید اس دُنیائے فانی سے رخصت ہوا، لیکن اس کے نام کا نقارہ آج بھی دکن میں بجتا ہے، ! جیسا کہ بآسانی اندازہ کیا جا سکتا ہے، اقبال (رومی کی زبانی) سلطانِ شہید کے بارے میں زیادہ پر جوش ہیں، یہ جوشِ بیان اور جوشِ عقیدت تادیر قائم رہتا ہے،… اس باب میں سب سے زیادہ جگہ (قدرتی طور پر اور بجا طور پر) سلطانِ شہید کو دی گئی ہے، اس سے کم احمد شاہ ابدالی کو اور سب سے کم نادر شاہ کو…بہر حال، یہ تینوں سلاطین فردوس کے سب سے دل کشا مقام پرانجمن آرا ہیں، اس سے پیشتر فردوس کے صرف ایک مقام کے حسن کا تذکرہ تفصیل سے کیا گیا ہے۔ اور وہ قصرِ شرف النسا ہے، لیکن یہ ’کاخِ سلاطینِ مشرق‘ قصرِ شرف النسا سے کہیں آراستہ اور دلکشا ہے، اقبال کہتے ہیں کہ میرے حرف و صوت خام اور میری فکر نا تمام ہے، میرے بس میں نہیں کہ میں اس مقام کی کیفیات کو بیان کر سکوں۔ یہ وہ مقام تھا کہ فرشتوں کی آنکھیں اس کے مشاہدے سے روشن ہوتی تھیں اور وہ اس مقام کو دیکھ کر زندہ، دانا اور خبیر ہو جاتے تھے۔ قصرے از فیروزہ دیوار و درش آسمانِ نیلگون اندر برش رفعتِ او برتر از چند و چگون می کند اندیشہ را خوار و زبوں آں گل و سرو و سمن، آن شاخسار از لطافت مثلِ تصویرِ بہار ہر زمان برگِ گل و برگِ شجر دارد از ذوقِ نمو رنگِ دگر این قدر بادِ صبا افسون گراست تامژہ برہم زنی، زرد احمراست ہر طرف فوارہ ہا گوہر فروش مرغکِ فردوس زاد اندر خروش بارگاہے اندران کاخِ بلند ذرّۂ او آفتاب اندر کمند سقف و دیوار و اساطین از عقیق فرشِ او از یشم و پرچین از عقیق بر یمین و بر یسارِ آن وثاق حوریان صف بستہ با زرین نطاق درمیان بنشستہ بر اورنگِ زر خسروانِ جم چشم، بہرام فر (وہ) ایک محل تھا، جس کے دیوار و در فیروزے کے تھے، وسیع اتنا کہ آسمانِ نیلگوں اسی میں سمایا ہوا تھا۔ اس کی رفعت ہر کیفیت سے بالا تر تھی، اس کے بارے میں غور و فکر کرنے سے عقل کو اپنی بے بسی کا احساس ہوتا ہے۔ پھر وہ پھول اور سرو وسمن، وہ شاخسار، لطافت میں بہار کی تصویر تھے، پھول کی پتیاں اور درختوں کے پتے، ہر لمحہ ذوقِ نمو کی بدولت نیا رنگ دکھاتے تھے، بادِصبا وہاں ایسی جادوگر ہے، کہ پلک جھپکنے میں زرد… سُرخ ہو جاتا ہے، فوّارے ہر طرف موتی بکھیر رہے تھے، اور فردوس کا باسی پرندہ نغمہ سرا تھا۔ اس بلند محل میں ایک دربار تھا جس کا ذرّہ گویا آفتاب پر کمند ڈالتا تھا اس دربار کی چھت، دیوار اور ستون، سب عقیق کے تھے، فرش اس کا سنگِ یشب کا تھا اور اس میں پرچیں کاری عقیق کے ٹکڑوں سے کی گئی تھی۔ اس بارگاہ کے دائیں بائیں زرّیں کمر حُوریں صف بستہ کھڑی تھیں، درمیان میں ایک چاندی کے تخت پر وہ جمشید کی سی شکوہ اور بہرام کا سا طنطنہ رکھنے والے بادشاہ فرو کش تھے۔ اس منظر کی صورت گری میں اقبال نے فنی اعتبار سے بہت کاوش کی ہے، اور شاید جاوید نامہ میں یہی ایک مقام ایسا ہے جس پر ’فردوس‘ یا اس کے تصورات کا اطلاق کیا جا سکے… وگرنہ اس سے قبل کی سیرِ سیار گان کو کسی طرح بھی ’سیرِ فردوس ‘ نہیں کہا جا سکتا، واقعہ یہ ہے کہ جاوید نامہ کا روحانی سفر ڈانٹے (ڈوائن کامیڈی) کے سفر سے بہت کم مشابہت رکھتا ہے، ڈانٹے نے اسلامی روایات سے استفادہ کرتے ہوئے جہنم، برزخ اور فردوس کی سیر کی ہے، جب کہ اقبال جہنم اور برزخ کے تصورات کو چھوڑ کر چھ ستاروں (قمر، عطارد، زہرہ، مریخ، مشتری اور زحل) کے افلاک کی سیر کرتے ہیں۔ اور آخر میں ’آن سوئے افلاک‘ کا سفر اختیار کرتے ہیں۔ ۲ بیسویں صدی کے آغاز میں ایشیائی اقوام میں قومی بیدای اور سیاسی آزادی کی تحریکیں کچھ ایسی حقیقتیں تھیں جن سے، اقبال کے نزدیک، رُوگردانی ممکن نہ تھی، ایشیا کی بیداری میں اقبال ایک نئی دُنیا کے ظہور کے امکانات دیکھتے تھے، اگرچہ ایشیا کی تقدیر کے بارے میں کچھ اندیشے بھی اُن کے ذہن میں ضرور پیدا ہوتے ہیں، لیکن مجموعی طور پر وہ مغرب کے مقابلے میں ایشیا کی سیاسی انگڑائی کو خود عالمِ انسانیت کے لیے بھی ایک خوش آئند امکان تصور کرتے ہیں۔ اسی لیے ضربِ کلیم کو جسے اُنھوں نے خود ہی دورِ حاضر کے خلاف اعلانِ جنگ، قرار دیا ہے، فرما نروائے بھوپال اعلیٰ حضرت سر حمید اللہ خان سے منسوب کرتے ہوئے کہتے ہیں: زمانہ با اُممِ ایشیا چہ کرد و کند کسے نہ بود کہ این داستان فروخواند تو صاحبِ نظری، آنچہ در ضمیرِ من است دلِ تو بیند و اندیشۂ تو می داند بگیر این ہمہ سرمایۂ بہار از من کہ گل بدستِ تو از شاخ تازہ ترماند زمانے نے ایشیا کی اقوام و ملل کے ساتھ کیا کچھ کیا اور ابھی نجانے کیا کچھ کرے گا،… یہ ایک داستان ہے، اور اس داستان کو پڑھنے والا کوئی بھی نہیں تھا۔ تو صاحبِ نظر ہے، اس لیے جو کچھ میرے ضمیر میں ہے، تیرا دل اسے دیکھتا ہے، اور تیرا ذہن اسے پڑھ سکتا ہے(میرے یہ افکار ایک سرمایۂ بہار ہیں) مجھ سے یہ سرمایۂ بہار لے لے…کہ (بقولِ شاعر)تیرے ہاتھ میں پھول شاخ کی نسبت زیادہ تر و تازہ نظر آتا ہے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ اقبال جب مشرق کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد زیادہ تر ایشیا ہی ہوتا ہے، مثلاً ایک مختصر نظم میں یورپ اور ایشیا کا موازنہ کرتے ہیں۔ نہ ایشیا میں، نہ یورپ میں سوزوسازِ حیات خودی کی موت ہے یہ، اور وہ ضمیر کی موت دلوں میں ولولۂِ انقلاب ہے پیدا قریب آگئی شاید جہانِ پیر کی موت (انقلاب: ضرب کلیم) اس ’ولولۂ انقلاب ‘ کی ایک نوائے حیات انگیز تو خود اُن کی اپنی شاعری اور افکار ہی ہیں،…لیکن اس کا پر تو وہ خارجی احوال و ظروف میں بھی دیکھتے تھے۔ اسی لیے ایشیا کے مستقبل کے بارے میں اُن کے ہاں ایک گہری آرزو مندی دکھائی دیتی ہے، لیکن اس آرزو مندی کا مرکزی نقطہ یہ خیال ہے کہ اس بیدار ہوتی ہوئی نئی دُنیا میں مسلمانوں کو تشکیلی کردار ادا کرنا چاہیے۔ اور ایشیا کی جن مسلمان قوموں کی طرف اُن کی نظر بار بار اُٹھتی ہے، اُن میں برِصغیر کے مسلمانوں کے علاوہ ملتِ افغانیہ بھی ہے جس کی اجتماعی شخصیت میں اقبال کو ایک فعال اور تاریخ ساز صلاحیت کے آثار دکھائی دیتے ہیں، اگرچہ اقبال کے ہاں یہ احساس بھی شدید ہے کہ ملتِ افغانیہ، ابھی اُسی خوابِ نوشینہ میں ہے، جو ایشیا کی دوسری اقوام کی تقدیر رہا ہے، لیکن اُن کی نظر امکانات پر ہے، اس لیے اُنھوں نے محراب گل افغان کے نام سے بیس غزلیں اور نظمیں لکھی ہیں جو ’ضربِ کلیم‘ میں بطورِ تتمہ شامل ہیں،…ملتِ افغانیہ کے ساتھ اس ذہنی وابستگی کی بدولت اقبال کی نظر بار بار اس کی تاریخ کی طرف جاتی ہے، اور اُن کے ذہن میں اس قوم کے بانی کی تصویر اُبھرتی ہے، جسے تاریخ احمد شاہ ابدالی کے نام سے یاد رکھتی ہے۔ اس لیے جن سلاطینِ اسلام کا ذکر اقبال کے ہاں محبت اور عقیدت کے ساتھ ملتا ہے، اُن میں شاید سرِ فہرست نام احمد شاہ ابدالی ہی کا ہے، جاوید نامہکی تصنیف سے پیشتر جب وہ نادر شاہ بادشاہِ افغانستان کی دعوت پر افغانستان گئے تو بابر اور محمود غزنوی کے مزارات کی زیارت کے بعد اُنھوں نے احمد شاہ ابدالی کے مزار کی زیارت بھی کی، اس موقعے پر اُن کے ذہن میں جو تاثرات اُبھرے وہ ان کی ایک مختصر فارسی مثنوی ’مسافر‘ میں شامل ہیں۔ اس پارۂِ نظم کا عنوان ہے ’’بر مزارِ احمد شاہ بابا مؤسسِ ملتِ افغانیہ‘‘… اس میں اقبال پہلی بار احمد شاہ ابدالی کو ایسا پر زور خراجِ عقیدت پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں: تربتِ آن خسروِ روشن ضمیر از ضمیرش ملتے صورت پذیر گنبدِ او را حرم داند سپہر بافروغ از طوفِ او سیمائے مہر مثلِ فاتح آن امیرِ صف شکن سکۂ زد ہم بہ اقلیمِ سخن ملتے را داد ذوقِ جستجو قدسیان ’تسبیح خوان‘ برخاکِ اُو از دل و دستِ گُہر ریزے کہ داشت سلطنت ہا برد وبے پروا گذاشت نکتہ سنجِ عارف و شمشیرزن روحِ پاکش بامن آمد درسخن گفت می دانم مقامِ تو کجاست نغمۂ تو خاکیان را کیمیاست خشت و سنگ از فیض تو دارائے دل روشن از گفتارِ تو سینائے دل پیش ما اے آشنائے کوئے دوست یک نفس بنشین کہ داری بوئے دوست اُس روشن ضمیر بادشاہ کی تربت (کے بارے میں کیا کہوں) جس کے ضمیر میں ایک قوم متشکل ہوئی۔ آسمان اس کے مزار کے کے گنبد کو اپنے لیے حرم تصور کرتا ہے۔ اور سورج کی پیشانی بھی اس کے طواف سے چمک دمک حاصل کرتی ہے،… اس امیرِ صف شکن نے بھی فاتح (بہ تصریحِ اقبال: سلطان محمد فاتح، فاتحِ قسطنطنیہ) کی طرح اقلیم سخن میں بھی اپنا سکہ رائج کیا، اس نے ایک قوم کو ذوقِ جستجو عطا کیا۔ فرشتے اس کی خاکِ مزار پر تسبیح خواں ہیں۔ اس کا دل اور اس کا ہاتھ، دونوں موتی لٹانے والے تھے…اسی لیے اس نے سلطنتیں فتح کیں اور پھر اُن کو بے نیازانہ چھوڑ بھی دیا، وہ ایک نکتہ سنج، عارف اور شمشیرزن تھا، اس کی رُوحِ پاک مجھ سے ہم کلام ہوئی۔ اس نے کہا مجھے معلوم ہے کہ تیرا مقام کیا ہے (اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ) تیرا نغمۂِ شاعری خاکیوں کے لیے کیمیائی تاثیر رکھتا ہے۔ تیرے فیض سے سنگ و خشت میں بھی دل کی دھڑکنیں پیدا ہو گئی ہیں اور دل کا طورِ سینا تیری گفتار سے روشن ہے، اے کوچۂ دوست کے آشنا، ذرا ہمارے قریب آ، تھوڑی دیر ہمارے پاس بیٹھ کہ تجھ سے ہمیں بوئے دوست آتی ہے۔ اس تمہید کے بعد اقبال نے احمد شاہ ابدالی کی زبان سے ملتِ افغانیہ (اور ملتِ اسلامیہ) کو خود گری اور خودنگری نیز نظامِ کہنہ کی شکست سے نظامِ نو کی تعمیر کا پیغام دیا ہے،… دراصل یہ پیغام بھی ایک تمہید ہے، اس طویل خطاب کی، جس کا عنوان ہے خطاب بہ پادشاہِ اسلام اعلیٰحضرت ظاہر شاہ اَیَّدَ اللّٰہ بنصرہ،… بہرحال روحِ ابدالی اقبال سے مخاطب ہو کر کَہ رہی ہے: اے خوش آن کواز خودی آئینہ ساخت وندران آئینہ عالم را شناخت پیر گردید این زمین و این سپہر ماہ کور از کورچشمیہائے مہر گرمیِ ہنگامۂ می بایدش تانخستین رنگ و بو باز آیدش بندۂ مومن سرافیلی کند بانگِ اُو ہر کہنہ را برہم زند کیا ہی اچھا ہے وہ جس نے اپنی خودی کو آئینہ بنایا اور اس آئینے میں دُنیا کو دیکھا۔ یہ زمین اور یہ آسمان بوڑھے ہو گئے ہیں۔ چاند بھی سورج کی کور چشمی سے تاریک ہو چکا ہے۔ اسے گرمیِ ہنگامہ کی ضروت ہے۔ تا کہ اس کا اولیں رنگ دوبارہ آسکے، بندۂ مومن اسرافیلی کرتا ہے، اس کی آواز ہر پرانی چیز کو توڑ دیتی ہے۔ ۳ احمد شاہ ابدالی،… قیاساً ۱۷۲۲ء میں ملتان کے مقام پر پیدا ہوا۔ (ملتان میں پیدا ہونے کے عمومی نظریئے سے بعض مؤرخین نے اختلاف کیا ہے، میر غلام محمد غبار مصنف احمد شاہ بابائے افغان، نے ۱۱۴۳۵ھ(۱۷۲۲ئ) میں ہرات میں اس کی پیدائش بتائی ہے) یہ زمانہ افغانیوں کے انتشار کا زمانہ تھا، احمد شاہ کے عنفوانِ شباب میں نادر شاہ اپنی سلطنت کے استحکام و توسیع میں مصروف تھا۔ سولہ برس کی عمر میں نادر شاہ نے اسے اپنا یساول بنا لیا۔ بہت جلد اسے ’بنک باشی‘ یا افسرِ خزانہ بنا دیا گیا۔ نادر شاہ اس کی صلاحیتوں سے اتنا متاثر تھا کہ سرِدربار اس کی تحسین میں کہا کرتا تھا کہ میں نے ایران تو ران اور ہندوستان میں احمد ابدالی جیسا جوہرِ قابل کہیں نہیں دیکھا۔ نادر شاہ نے اس کی کمان میں چار ہزار بہادر ابدالی سوار دے رکھے تھے، اور اسے اپنے خیمۂ شاہی کے دوسرے دروازے پر تعینات رکھتا تھا، کہا جاتا ہے کہ نظام الملک آصف جاہِ دکن نے (نادر شاہ کی فتح دہلی کے چند روز بعد) اپنی غیر معمولی قیافہ شناسی کی بنا پر احمد شاہ کے بادشاہ بننے کی پیش گوئی بھی کی تھی۔ ۱۷۴۷ء میں نادر شاہ کو اس کے ایرانی امرا (صالح خاں اور محمد خاں) نے قتل کر دیا، یہ وہ واقعہ ہے جس نے افغانیوں پر اُن کی قومیت اور اُن کی ممکنہ آزادی کے دروازے کھول دیے، اُنھیں احمد شاہ کی شخصیت میں اپنی قوم کے لیے ایک مسیحا کی جھلک پہلے ہی سے نظر آتی تھی۔ نادر شاہ کے قتل نے احمد شاہ کی حیثیت کو اور مستحکم کر دیا تھا۔ وہ نئی افغان قومیت کا بانی بن سکتا تھا،… نادر شاہ کے قتل کے بعد ایک درویش (صابر شاہ) نے احمد شاہ کو بتاکید کہا کہ وہ اپنے آپ کو ’شاہ‘ کہنا شروع کردے، لیکن احمد شاہ نے اس وقت تک توقف کیا جب تک قبائلی سرداروں نے اسے اپنا بادشاہ منتخب نہیں کر لیا۔ اسی متذکرہ درویش نے اسے ’’بادشاہِ دُرِ دوراں‘‘ کا خطاب بھی دیا، تاہم احمد شاہ نے ازراہِ انکسار اپنے آپ کو ’’دُرِ دوراں‘‘ کی بجائے صرف ’’دُرِ دُرّاں‘‘ کہلانے پر اکتفا کیا۔ ایک عرصے تک اپنے ارد گرد کے علاقوں کو فتح کرنے اور اُن کا انتظام درست کرنے کے بعد احمد شاہ مشرقی علاقوں بالخصوص پنجاب کی طرف متوجہ ہوا۔ ملتان اور لاہور اس کی توجہ کا خاص مرکز تھے، ملتان اس لیے کہ اس کی جائے پیدائش بھی کہلاتا تھا، اور لاہور اس لیے کہ مغل سلطنت کا ایک اہم صوبہ تھا جس کی دولت مندی کے افسانے بہت مشہور تھے۔ لاہور (پنجاب) کو فتح کرنے میں احمد شاہ کو معین الملک (میر منو) گورنر لاہور کے ساتھ کئی معرکے پیش آئے۔ جن میں بالآخر فتح احمد شاہ ہی کو ہوئی،…اس کے کچھ عرصے بعد اسے دہلی فتح کرنے کا پھر خیال آیا، اس وقت دہلی پر عالمگیر ثانی کی حکومت تھی۔ مشرق اور جنوب میں انگریز نواب سراج الدولہ کو(۱۷۵۷ئ) میں شکست دے کر شمال اور شمال مغرب کی طرف بڑھ رہے تھے، اس پر آشوب دَور میں سیواجی کا لگایا ہوا پودا برگ و بار لارہا تھا۔ مرہٹے ایک زبردست طاقت بن چکے تھے، بظاہر اس اُبھرتی ہوئی طاقت کو دبانے کی کوئی صورت نہ تھی۔ نادرشاہ کے حملے (۱۷۳۹ئ) اور سکھوں اور مرہٹوں کی شورشیں دہلی کی حکومت کو کمزور سے کمزور تر کرتی جا رہی تھیں۔ سبھی لوٹنے والے تھے اور سبھی روپے پیسے کے خواہاں تھے۔ بقولِ میر: چور اُچکّے، سکھ، مرہٹے، شاہ و گدا سب خواہاں ہیں چین سے ہیں جو کچھ نہیں رکھتے، فقر بھی اک دولت ہے یاں! ان حالات میں قریب تھا کہ شمال مغربی ہند میں ہندو مرہٹہ ہمیشہ کے لیے چھا جائیں، اور مسلمانوں کی رہی سہی مرکزیت خاک میں مل جائے، امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ (۱۷۰۳ئ-۱۷۶۲ئ) نے مسلمانوں کی نشأۃ ثانیہ کے لیے معاشرتی اور عمرانی اصلاحات کے ساتھ ایک زبردست اور منظم تحریک چلائی اور احمد شاہ ابدالی کو دعوت دی کہ وہ ہندوستان پر حملہ آور ہو کر مسلمان دشمن اور اسلام دشمن طاقتوں کے مقابلے میں مسلمانوں کا تحفظ کرے۔ احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان پر کئی حملے کیے اور بالآخر دہلی کو بھی فتح کر ہی لیا، (عالمگیر ثانی کی طرف سے کوئی قابل ذکر مزاحمت نہیں ہوئی)…لیکن وہ جنگ جو برِصغیر کی تاریخ پر دوررس اثرات مرتب کرنے والی تھی، اور جس نے مرہٹوں کی عسکری طاقت کو، جسے زودیا بدیر مسلمانوں کے خلاف استعمال ہونا تھا۔ آنے والے کئی ادوار کے لیے ختم کر دیا، پانی پت کی جنگ تھی جو احمد شاہ ابدالی اور مرہٹوں کے درمیان لڑی گئی،…یہ معرکہ جنوری ۱۷۶۱ء میں پیش آیا اور پانی پت کی تیسری جنگ کہلایا۔ اس مشہور جنگ میں احمد شاہ ابدالی کی فوجوں نے مرہٹوں کو شکستِ فاش دی،… لیکن احمد شاہ نے دہلی کا تخت بدستور مغل حکمران کے پاس ہی رہنے دیا…اگرچہ اس کے عہد میں پنجاب میں سکھوں کا عمل دخل زیادہ وسیع نہ ہو سکا لیکن جونہی ابدالی کی فوجیں کابل کا رُخ کرتی تھیں، پنجاب میں سکھوں کی دہشت گردی شروع ہو جاتی تھی،…اس کے باوجود ہندوستان پر ابدالی کے حملوں کے اثرات بہت دیر پا ثابت ہوئے اور اس کا وجود شمال مغربی علاقوں کے مسلمانوں کے لیے سیاسی تقویت کا باعث رہا۔ چونکہ اس کی شخصیت میں درویشی اور سلطانی کا خوبصورت امتزاج تھا، اس لیے اقبال کے فکرو تخیل کے لیے اس میں بے حد کشش تھی، اس کی زندگی دلِ گداز اور بازو ئے شمشیرزن سے عبارت تھی، اس کی شخصیت میں ملتِ اسلامیہ کے لیے دردمندی کا سراغ ملتا ہے، اس نے دہلی کو فتح کرنے کے باوجود اس پر قبضہ نہیں کیا اور اپنی حدودِ سلطنت کو پنجاب تک محدود رکھا، اس نے ساری زندگی نادر شاہ کو ایک محسن کی حیثیت سے یاد کیا اور اس کے خاندان کے افراد کے ساتھ عزت و توقیر کا سلوک کیا۔ بحیثیت مجموعی احمد شاہ ابدالی کی شخصیت اٹھارہویں صدی میں مغربی اور جنوب مغربی ایشیا پر چھائی ہوئی نظر آتی ہے، اس کی کشور کشائی اور سیاسی حکمتِ عملی سے ملتِ اسلامیہ کو فائدہ ہی پہنچا، سب سے بڑھ کر یہ کہ اس نے برصغیر کے ان علاقوں کو مرہٹوں کی عسکری دستبرد کے امکانات سے محفوظ کیا۔ جنھیں آگے چل کر کم و بیش دو صدی بعد ایک مملکتِ خداد د کہلانا تھا۔ اس لیے اقبال کی دور رس نگاہیں ماضی کے جن محسنین پر بار بار رُکتی تھیں اُن میں احمد شاہ ابدالی بے حد اہمیت کا حامل تھا۔ یوں بھی اپنے جوشِ کردار، قوتِ عمل اور فقر پسندی کے اعتبار سے وہ اقبال کے لیے ایک مثالی شخصیت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی لیے اُنھوں نے احمد شاہ کو جاوید نامہ میں بہت نمایاں مقام دیا ہے۔ ۴ ایک فنی شاہکار کی حیثیت سے جاوید نامہ اقبال کی تمام شعری تصانیف میں خصوصی امتیاز کا حامل ہے۔ یہ اقبال کے پختہ تر شعری اور فنی شعور کا ثمرہ اور ان کے فکری ارتقا کا حاصل ہے،اس لیے اس کی فکری اور فنی جہتیں یکسا ں اہمیت کی حامل ہیں۔ لیکن جاوید نامہ کا تمام فکری اور فنی تاروپود ایک ہی جذبے اور ایک ہی مرکزی خیال سے عبارت ہے، اور وہ ہے عصر حاضر میں اسلام اور مسلمانوں کی حیاتِ ثانیہ کو ممکن بنانے کی سعیِ بلیغ جس میں اقبال پوری زندگی ہمہ تن مصروف رہے۔ جاوید نامہ میں جن کرداروں کو اقبال نے حیاتِ جاوید عطا کی ہے، ان سب کی معنویت کا دارومدار بھی اسی ایک نکتے پر ہے کہ وہ کس حد تک اقبال کے افکار کو تمثیل و علامت کے علاوہ صراحت کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں۔ جاوید نامہ میں اقبال نے تاریخ کو مستقبل پر پھیلا کر دیکھا ہے، اس پھیلائو کا حاصل وہ مطالب ہیں جو عہدِرواں میں اسلامی تمدن کی بقا و احیا سے تعلق رکھتے ہیں، ان کرداروں میں، جنھیں جاوید نامہ کی حیاتِ سرمدی میں سب سے بلند مقام عطا کیا گیا ہے، جرمن فلسفی نیتشے، امیرِ کبیر حضرت سیّد علی ہمدانی، ملا طاہر غنی کاشمیری، ہندی شاعر بھر تری ہری اور سلاطینِ مشرق میں نادر شاہ، احمد شاہ ابدالی اور سلطانِ شہید ہیں۔ اس خیالی یا تمثیلی ملاقات میں جو جاوید نامہ کے مرکزی کردار زندہ رود کو ان جلیل القدر ہستیوں سے حاصل ہوتی ہے، مولانا رُوم کو ہر موقع پر ایک رہبر اور تعارف کرانے والے کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کا خِ سلاطین میں جہاں اسلامی مشرق کے جلیل القدر سلاطین ہیں اور جو تمام لوازماتِ شاہانہ سے آراستہ ہے، رُومی کی جانب سے تعارفی کلمات کے بعد گفتگو کا آغاز نادر شاہ کرتا ہے، جو زندہ رود (یعنی اقبال) کو نکتہ سنجِ خاوری کے الفاظ سے مخاطب کرتا ہے، اسے اس کی فارسی گوئی کی دا دبھی دیتا ہے، اور اس سے ایران کا حال بھی دریافت کرتا ہے،… اس سوال کے جواب میں اقبال نے جو کچھ (زندہ رود کی زبانی) کہا ہے، اسے اسلامی تمدن کی تاریخ میں ایک زبردست تبصرے کی حیثیت حاصل ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایران نے ایک مدت کے بعد آنکھیں تو کھولی ہیں، لیکن جلدی ہی ایک حلقۂِ دام میں گر گیا ہے، وہ اگرچہ خود تہذیب کا خالق ہے، لیکن اس وقت تہذیبِ فرنگ کا مقلّد ہے، اسے اپنے حسب و نسب پر فخر و مباہات اور تحقیرِ عرب سے فرصت ہی نہیں ہے۔ وہ پرانی قبروں سے زندگی مانگ رہا ہے۔ اس کا دامن کسی زندہ واردات سے خالی ہے، وطنیّت میں غلو کر کے وہ خود کو بھول رہا ہے اس نے رُستم کے عشق میں حیدر (علی المرتضیٰ) کو فراموش کر دیا ہے،…اس جواب کا اختتام ان اشعار پر ہوتا ہے: آنکہ رفت از پیکرِ او جانِ پاک بے قیامت بر نمی آید ز خاک مردِ صحرائی بہ ایران جان دمید باز سوئے ریگ زارِ خود رمید کہنہ را از لوحِ ما بسترد و رفت برگ و سازِ عصرِ نو آورد و رفت آہ، احسانِ عرب نشناختند از تشِ افرنگیاں بگداختند و ہ جانِ پاک جو اس کے (ایران کے) بدن سے رُخصت ہو گئی ہے، وہ قیامت برپا ہوئے بغیر واپس نہیں آسکتی۔ ایک مردِ صحرائی نے ایران کی خاک میں زندگی (کے پھول) اُگائے، لیکن (جلد ہی) اپنے ریگ زاروں کو لَوٹ گیا۔ اس نے ہماری (فکر و عمل) کی تختی سے قدامت (کے نقش) کو مٹا دیا تھا۔ وہ ایک نئے عہد کا سازو رخت لے آیا تھا۔ افسوس (اہلِ ایران نے) عربوں کے احسان کو نہ پہچانا اور فرنگیوں کی بھڑکائی ہوئی آگ سے پگھل گئے۔ اِدھر زندہ رود نے یہ الفاظ کہے اور اُدھر حکیم ناصر خسرو علوی کی رُوح ظاہر ہوئی جو ایک غزل مستانہ سنا کر غائب ہو گئی۔ جاوید نامہ میں اس علوی مبلغ اور شاعر کی صرف یہی ایک جھلک دکھائی گئی ہے۔ یہ غزل اپنے مطالب کے اعتبار سے اقبال کے افکار سے بہت حد تک ہم آہنگ ہے، اور اس غزل کو جاوید نامہ کے لیے منتخب کرنے کا سبب بھی یقینا یہی ہے،…اس غزل کے بعد ابدالی زندہ رود سے سوال کرتا ہے، اس سوال میں ’آن جوان‘ سے مراد وہ افغان قوم ہے جس نے ابدالی کی سر کردگی میں تاریخ میں پہلی بار اپنے قومی تشخص کو دریافت کیا تھا۔ آن جوان کو سلطنت ہا آفرید باز در کوہ و قِفارِ خود رمید آتشے در کوہسارش برفروخت خوش عیار آمد برون یا پاک سوخت وہ جواں جس نے سلطنت پیدا کی تھی، پھر لوٹ کر اپنے پہاڑوں اور بے آب و گیاہ میدانوں کی طرف چلا گیا تھا اور اس نے اپنے کہساروں میں آگ جلائی تھی۔ کیا وہ اس آگ میں خالص سونے کی طرح مزید نکھر گیا یاجل کر خاک ہو گا؟اس سوال کے جواب میں زندہ رود جواب دیتا ہے: اُمتان اندر اخوت گرم خیز او برادر با برادر در ستیز ازحیاتِ اُو حیاتِ خاور است طفلکِ دہ سالہ اش لشکر گراست بے خبر خود خود را ز خود پرداختہ ممکناتِ خویش را نشناختہ ہست دارائے دل و غافل زِدِل تن ز تن اندر فراق و دل زدل خوش سرود آن شاعرِ افغان شناس آنکہ بیند، باز گوید بے ہراس ’’اشترے یابد اگر افغانِ حُرّ با یراق و ساز و با انبارِ دُر ہمتِ دونش ازان انبارِ دُر می شود خوشنود با زنگِ شُتر‘‘ ’قومیں بھائی چارے کے اُصول پر سرگم عمل ہیں۔ لیکن اس (افغان) کا یہ عالم ہے کہ بھائی بھائی آپس میں لڑ رہے ہیں۔ اس کی زندگی سے مشرق کی زندگی ہے۔ اس (قوم) کا دس سالہ لڑکا بھی لشکر گر ہے لیکن اپنے آپ سے بے خبر ہو کر خود سے خالی ہو گیا، اس نے اپنے امکانات کو نہیں پہچانا۔ سینے میں دل تو رکھتا ہے، لیکن دل سے بے خبر ہے اس کے جسم کو جسم کا اور دل کو دل کا فراق درپیش ہے۔ اس افغان شناس شاعر (خوشحال خاں خٹک) نے کیا خوب کہا ہے، وہ شاعر جو کچھ دیکھتا ہے، بے خوف و خطر کَہ دیتا ہے، وہ کہتا ہے ’’اگر کسی افغان کو سازو سامان اور موتیوں سے لدا ہوا اُونٹ مل جائے تو اس کی پستیِ ہمت موتیوں کے ڈھیر کو چھوڑ کر اُونٹ کی گھنٹی سے زیادہ لطف اندوز ہوگی،… زندہ رود کا یہ جواب اور خوشحال خاں خٹک کے قول کا حوالہ ابدالی کے سلسۂِ خیال کے لیے مہمیز ثابت ہوتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہم (افغانیوں) کی فطرت میں اضطراب و بے قراری روزِ ازل سے ہے۔ در اصل اس مٹی کے ڈھیر (انسان) میں بیداری دل کی بدولت ہے۔ دل مرجائے تو جسم دگرگوں ہو جاتا ہے۔ دل کی دگرگونی سے جسم ہیچ رہ جاتا ہے۔ اس لیے (اے مخاطب)دل پر ہی نگاہ رکھ اور اس کے سوا کسی اور چیز سے وابستہ نہ رہ۔ ایشیا آب و گل کا ایک پیکر ہے، اور ملت افغان اس پیکر میں دل کی حیثیت رکھتی ہے،… اس کے انتشار میں ایشیا کا انتشار، اور اس کی کشادِ کار میں ایشیا کی کشادِ کار مضمر ہے،… اگر دل آزاد ہے تو جسم بھی آزاد ہے۔ وگرنہ جسم تو ہوا کے راستے کا ایک تنکا ہے۔ اور بس ! لیکن جسم کی طرح دِل بھی کسی آئین کا پابند ہے۔ یہ کینے سے مردہ اور ’دین‘ سے زندہ ہو جاتا ہے۔ دین کی قوت مقامِ وحدت سے ہے اور وحدت جب ظاہر و مشہود ہوتی ہے تو ملت بن جاتی ہے۔ ابدالی کے اس طویل محاکمے میں مغربی تہذیب پر ایک بھر پور تنقید بھی شامل ہے،جو فی الحقیقت اقبال کی شاعری کا ایک اہم موضوع ہے۔ احمد شاہ ابدالی کی زبان سے یہ تنقید اور بھی سخت اور معنی خیز ہو جاتی ہے، اس لیے کہ احمد شاہ ابدالی کے عہد میں برِصغیر میں فرنگی اپنا جال پوری طرح بچھا چکے تھے۔ احمد شاہ ابدالی اپنے محاکمے میں تہذیبِ مغرب کی قوت کا راز دریافت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ افرنگ کی قوت علم و فن سے ہے: شرق را از خود برد تقلیدِ غرب باید این اقوام را تنقیدِ غرب قوتِ مغرب نہ ازچنگ و رباب نے ز رقصِ دخترانِ بے حجاب نے ز سحرِ ساحرانِ لالہ رُوست نے زعریان ساق و نے از قطعِ موست محکمی اورا نہ از لادینی است نے فروغش از خطِ لاطینی است قوتِ افرنگ از علم و فن است از ہمین آتش چراغش روشن است حکمت از قطع و بریدِ جامہ نیست مانعِ علم و ہُنر عمامہ نیست علم و فن را اے جوانِ شوخ و شنگ مغز می باید نہ ملبوسِ فرنگ اندریں رہ جز نگہ مطلوب نیست این کُلہ یا آن کُلہ مطلوب نیست فکرِ چالاکے اگر داری بس است طبعِ درّاکے اگر داری، بس است! تقلید مغرب اہلِ مشرق کو اپنے آپ سے بیگانہ بنارہی ہے، چاہیے یہ کہ اقوامِ مشرق تہذیبِ مغرب کی تنقید (یاتجزیہ) کریں۔ مغرب کی قوت چنگ ورباب یا بے پردہ لڑکیوں کے رقص میں مضمر نہیں۔ یہ قوت لالہ رُو (خوبرو) ساحروں کی ساحری، اعضائے بدن کی عریانی یا بالوں کے کاٹنے میں نہیں۔ مغرب اگر محکم و مستحکم ہے تو یہ اس کی لادینیت یا لاطینی رسم الخط کی بدولت بھی نہیں۔ افرنگ کی قوت علم و فن سے ہے، یہی وہ آگ ہے جس سے اس کا چراغ روشن ہے۔ علم وحکمت کا تعلق لباس کی وضع قطع سے نہیں ہے، عمامہ علم و ہنر کے حصول میں رکاوٹ نہیں۔ اے شوخ و شنگ نوجوان! علم کے لیے مغز درکار ہے نہ کہ مغربی طرزِ لباس۔ اس راستے میں نظر کے سوا اور کچھ نہیں چاہیے۔ کلاہ و سرپوش کی یہاں کوئی تخصیص نہیں۔ اگر تیرے پاس فکرِ چالاک اور طبعِ درّاک ہے تو یہ کا فی ہے۔ غالباًیہ پہلا موقع ہے کہ ہمیں اقبال کے ہاں مغرب کی تنقید کے ساتھ ساتھ اس کی قوت کا تجزیہ بھی ملتا ہے، ابدالی کے الفاظ میں اقبال کا یہ محاکمہ کتنا صحیح ہے کہ مشرقی اقوام ظواہر میں مغرب کی مقلد ہیں، نیز اُن تمام رسوم میں جو حظِ جسمانی اور نشاط پسندی سے تعلق رکھتی ہیں، مغرب کی تقلید کی جا رہی ہے۔ نہیں کی جا رہی تو علم و فن میں جو دراصل تہذیبِ فرنگ کی قوت کا اصل سرچشمہ ہے اور علم و فن کے لیے کسی لباس یا وضع قطع کی قید نہیں، اہلِ مشرق اپنے تہذیبی تشخص کو قائم رکھتے ہوئے بھی جدید علوم و فنون حاصل کر سکتے ہیں۔ اس لیے کہ علم و فن کے لیے مغز (ذہن) درکار ہے نہ کہ کسی مخصوص وضع کا لباس! اسی سلسلۂ کلام میں اقبال نے ترکوں کی مغرب پسندی کو بھی نشانۂِ تنقید بنا یا ہے، ابدالی ہی کی زبان میں کہتے ہیں: ترکِ از خود رفتہ و مستِ فرنگ زہرِ نوشین خوردہ از دستِ فرنگ زانکہ تریاقِ عراق ازدست داد من چہ گویم جز ’خدایش یار باد‘ بندۂِ افرنگ از ذوقِ نمود می برد از غربیان رقص و سرود نقدِ جانِ خویش در بازد بہ لہو علم دشوارست می سازد بہ لہو از تن آسانی بگیرد سہل را فطرتِ اُو درپذیرد سہل را سہل را جُستن درین دیرِ کہن این دلیلِ آن کہ جان رفت ازبدن! تُرک جو اپنے آپ میں نہیں رہا بلکہ مستِ فرنگ (شیدائے فرنگ) ہو گیا ہے۔ فرنگ کے ہاتھوں میٹھا زہر پی چکا ہے، چونکہ اس نے عراق کے تریاق…(عراق سے مجازاً مراد عرب، اور عرب سے مراد دینِ اسلام) کو ہاتھ سے دے دیا ہے، اس لیے اب میں اس کے سوا کیا کَہ سکتا ہوں کہ خدا ہی اس کا نگہبان ہو۔ تہذیبِ افرنگ کے (ذہنی) غلام ظاہری چمک دمک پرمرمٹے ہیں اور مغربیوں سے صرف رقص و سرود ہی سیکھ رہے ہیں۔ چونکہ علم کا حصول دشوار تھا، اس لیے اُنھوں نے رقص و سرود اور لہو و لعب ہی اختیار کر لیا۔ تن آسانی کی بدولت آسان کو اختیار کر لیا۔ ان کی فطرت آسان ہی کو پسند کرتی ہے۔ حالانکہ اس قدیم دُنیا میں آسان کی تلاش ثابت کرتی ہے کہ (تلاش کرنے والے کے) جسم سے جان رخصت ہو چکی ہے۔ اگرچہ زندہ رود کے ساتھ اپنے طویل مکالمے کے اختتام پر ابدالی مشرق کی تقدیر کو پہلوی و نادر (رضا شاہ پہلوی اور نادر شاہ) کے عزم و حزم کے ساتھ وابستہ کر تاہے، جوعصرِحاضر میں زیادہ حقیقت پسندانہ رویہ دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن اقبال کے نقطۂ نظر سے رضا شاہ پہلوی اور نادر شاہ دوسری جنگِ عظیم سے قبل کے اسلامی مشرق میں مسلمانوں کے اقتدار اور سیاسی سر بلندی کی علامت تھے۔ یوں بھی ابدالی کے کردار کی نفسیات کا تقاضا تھا کہ وہ مشرق کی تقدیر کو ایران و افغانستان کے بادشاہوں کے عزم و ہمت سے وابستہ کرے،…! اگرچہ احمد شاہ ابدالی…ایرانی فاتح نادر شاہ کا پرور دہ تھا، لیکن ایک قوم کا مؤسِس ہونے کے اعتبار سے، اور فقرو سلطانی کے انوکھے امتزاج کی بدولت وہ انیسویں صدی کے نصف اوّل میں ایشیائے کوچک اور جنوبی ایشیا کے مسلمانوںکے لیے اُمید، حرکت و عمل اور عروج و اقتدار کی علامت دکھائی دیتا ہے۔ اسی لیے اقبال نے اسے مثنوی ’مسافر‘ میں زبردست خراجِ تحسین پیش کیا، اور جاوید نامہ میں اسے سلاطینِ مشرق کی ایک نمائندہ علامت بنا دیا۔ اگرچہ ابدالی کے لیے برِ صغیر میں انگریزوں کے بڑھتے ہوئے اقتدار کو روکنا اور پنجاب میں سکھوں کی قوت کو ختم کرنا بوجوہ ممکن نہ تھا۔ تاہم اس نے افغانوں کو اُن کا قومی تشخص اور ایک آزاد اور خود مختار سلطنت عطا کرنے کے ساتھ ساتھ برِصغیر کے شمالی اور شمال مغربی علاقوں میں مسلمانوں کی گھٹتی ہوئی قوت میں اضافہ کیا۔ انیسویں صدی میں برِ صغیر کے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی پرابدلی کی حکمتِ عملی کے اثرات بہت دور رس ثابت ہوئے۔ ملتِ اسلامیہ کی سر بلندی کے لیے اس کا جذبۂِ جہاد اور جوش عمل آج بھی ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے، وہ ایک درویش خو بادشاہ تھا جس میں بے شمار انسانی خوبیاں موجود تھیں۔ ایک عظیم فاتح ہونے کے باوجود اس کے ہاں ملک گیری کی وہ ہوس دکھائی نہیں دیتی جو اس جیسے فاتحین کی اوّلین خصوصیت ہوتی ہے۔ اقبال نے اسے جو خراجِ تحسین پیش کیا ہے، اسے کسی طرح بھی بے جا نہیں کہا جا سکتا۔ /// شاعرِ مشرق اور عبدالرحمن چغتائی اقبال کی معاصر دُنیا، اور اقبال کے بعد کی تین چار دہائیوں میں عبدالرحمن چغتائی کے فن کو بتدریج جو مقبولیت اور شہرت حاصل ہوئی، اس نے اُسے بجا طور پر مصورِ مشرق اور بہزادِ عصر بنادیا، اور آج اپنے بہت سے مخصوص فنی لوازمات و تلازمات کے ساتھ اور ایسی بہت سی فنی خصوصیات کے باوجود جنھیں بعض اربابِ نقد و نظر تکنیکی اعتبار سے نقائص کے زمرے میں شمار کرتے ہیں، چغتائی مصوری کی دُنیا میں مشرق کا واحد نمائندہ ہے جس کا کام اتنی کثیر تعداد میں دُنیا کے سامنے بکھرا ہوا ہے کہ مانی و بہزاد کے نام صرف افسانہ دکھائی دیتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ یوں تو لا تعداد معلوم وغیر معلوم مشرقی مصوروں کے کارنامے ہیں جن سے مشرق کے کلاسیکی شعر و ادب کے اوراق زرنگار و زرفشاں ہیں، اور جنھیں مجموعی طور پر مشرقی یا اسلامی مصوری کے شاندار نام سے یاد کیا جاتا ہے، تاہم اپنے کام کی نوعیت اور اپنے تجدیدی کارنامے کی بدولت استاد بہزاد۱؎ کے بعد چغتائی ہی ایک ایسا نام ہے۔ جو اسلامی مشرق کی مخصوص مصورانہ روایات کی علامت بن گیا ہے۔ چغتائی نے مشرق کی مصورانہ روایات کو جوں کا توں قبول نہیں کیا۔ بلکہ اُن میں اس طرح کا تصرف کیا ہے کہ مشرقی مصوری میں اس کی انفرادیت مسلّمہ ہو گئی ہے۔ شاعری اور مصوری کے رشتوں کے بارے میں دونوں فنون کے نقادوں اور دوسرے مفکروں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ شاعری کے محاکاتی پہلو کی اہمیت کے پیش نظر بعض نقادوں نے شاعری کو الفاظ کی مصوری قرار دیا ہے۔ اسی طرح مصوری کی تنقید میں غنائیت (lyricism) توازن، آہنگ اور امیجری جیسی اصطلاحات بھی استعمال کی گئی ہیں جو بنیادی طور پر شاعری کی تنقید و تفہیم سے تعلق رکھتی ہیں۔ شاعری اور مصوری کا ایک رشتہ اور بھی ہے۔ دُنیا کے اکثر بڑے شاعروں کو یہ امتیاز حاصل رہا ہے کہ اُن کے ہم عصر یا بعد کے مصوروں نے اُن کے شاعری کے موضوعات یعنی واقعات و مناظر اور کرداروں کو تصویری سانچے میں ڈھالا ہے۔ شاعری کو مصور کرنے کی روایات اسلامی مشرق میں بہت اہم رہی ہیں۔ شاہنامۂِ فردوسی، خمسۂِ نظامی ، گلستان و بوستانِ سعدی اور اسی نوع کی دوسری بیانیہ یا غنائیہ شاعری کو مختلف ادوار کے بہترین مصوروں کی تصویری ترجمانی حاصل رہی ہے۔ قدیم مشرق کا کوئی اہم شعری نسخہ (محظوطہ) ایسا نہیں جو نقاشانہ مصوری کے شہ پاروں سے مزیّن نہ ہو، اُستاد بہزاد، اُس کا شاگرد میر قاسم، ہرات کا نقاش میرک(مصطفیٰ عالی کے نزدیک بہزاد کا اُستاد) پیر سید احمد تبریزی، خلیل مرزا، عبدالصمد شیرازی اور اسی قبیل کے تمام اساتذۂِ فن جو تاریخ میں زندۂ جاوید ہیں،…جدید معنوں میں طبع زاد مصور نہیں بلکہ تزئین کار، یا مرقع نگار (illustrators) ہیں قدیم اصطلاح میں اُن کے فن کو مرقع نگاری یا مرقع سازی سے تعبیر کیا گیا ہے،…اس حقیقت کے باوجود کہ مرقع سازی (illustration) عصر حاضر میں فنی قدرو قیمت کے اعتبار سے ضمنی اور ثانوی قدرو قیمت کی حامل ہے، قدیم مرقع سازی اور مینا طوری مصوری(miniature painting) صرف مشرقی مصوری ہی نہیں، پوری دُنیائے فن کا گراں قدر سرمایہ ہے۔ ان کی مرقعاتی قدرو قیمت (illustrative value) سے قطع نظر جس طرح مغرب کے تمام بڑے بڑے مصورانہ شاہکار ماڈل (model) کی شرط سے آزاد نہیں تھے، اس طرح مشرق کی مصوری بھی مرقع سازی کے مفہوم کی حامل ہوئے بغیر وجود میں نہیں آسکتی تھی۔ مغربی مصوری کے مداحوں اور نقادوں نے مشرقی مصوری پر اُصولِ تناظر (perspective) سے عدم واقفیت کا الزام لگایا ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے اُنھوں نے اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا ہے کہ مشرقی مصوری اپنی ماہیت اور عناصرِ ترکیبی کے اعتبار سے مثالیت یا عینیت (idealism) کی طرف میلان رکھتی ہے، جب کہ اُن کی (مغربی) مصوری حقیقت نگاری یا فطرت پسندی کے اُصولوں پر اُستوار ہے۔ مشرقی مصوروں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ’بیرون‘ کے ساتھ ساتھ ’اندرون‘ کو بھی دکھانا چاہتے ہیں۔ اس لیے اُن کے ہاں اشیا، کردار اور مناظر اُصولِ تناظر کی پابندی کے ساتھ نہیں بلکہ ایک نوع کی ماورائی (transcendental) ترتیب کے ساتھ اُبھرتے ہیں۔ یہ وہی ترتیب ہے جسے آج کی اصطلاح میں سرئیلزم (surealism) کہا جاتا ہے۔ اس کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مشرقی شاہکاروں میں اُصولِ تناظر کی پابندی نام کو بھی نہیں پائی جاتی۔ ایسا کہنا صریحاً غلط ہوگا۔ اس لیے کہ مشرق کے تمام بڑے فن پاروں میں اُصولِ تناظر کی رُونمائی اس حد تک یقینا موجود ہے، جس حد تک وہ تصویر کے ماورائی یا عینی مفہوم میں حارج نہیں۔ جن لوگوں نے بہزاد کی تصویر’زلیخا کا محل‘ دیکھی ہے، اُنھیں اچھی طرح اندازہ ہوگا کہ بہزاد نے کس طرح محل کے درو بام، صحنوں، صحنچیوں اور اندر باہر کھلنے والی کھڑکیوں کے ساتھ ساتھ محل کی پوری ہیئت یا کلیت …اور اُس کی تشکیلی پیچیدگی (structural complexity) کو تمام تر جمالیاتی اُصولوں کے ساتھ بیان کیا ہے۔ غرض مشرقی مصوری کے اُصول و اسالیب اس کے اپنے ہیں، اُس کی جمالیات (aesthetics) اُس کی اپنی ہے،…اور اس کی رُوحِ تمدن سے پوری طرح ہم آہنگ رہی ہے۔ مشرقی مصوری پر دوسرا بڑا اعتراض تصویر میں سائے (shadow) کا نہ ہونا ہے۔ مغربی تصویر سائے اور روشنی کے امتزاج (charischaro) سے وجود میں آتی ہے۔ مغربی تصویر کو دیکھ کر آپ بتا سکتے ہیں کہ اس میں روشنی کا سرچشمہ (source of light) کون سا ہے یا کس طرف ہے۔ جب کہ مشرقی تصویر میں روشنی کے سرچشمے کا سراغ نہیں لگا یا جا سکتا۔ اس لیے کہ مشرقی تصویر تمام کی تمام روشنی میں ہوتی ہے۔ مشرقی تصویر کے رنگ روشنی میں نہائے ہوئے ہوتے ہیں۔ اسی لیے مشرقی تصویر دراصل روشنی اور رنگ کے باہمی حلول و سریان سے وجود میں آتی ہے، ہو سکتا ہے اس کا سبب مسلمانوں کا تصورِ نور ہو۔ جس طرح مشرقی ادب میں المیہ تمثیل (tragedy) نہیں، لیکن المیہ کے اجزا شاعری میں تحلیل ہو گئے ہیں، اسی طرح مشرقی مصوری میں سایہ و ظلمت موجود نہیں، بلکہ رنگ اور روشنی کی دُنیا میں تحلیل ہو گئے ہیں۔ اس کی ایک ما بعد الطبیعیاتی توجیہ یہ بھی ہے کہ مشرقی (اسلامی) تصوف (حیات و کائنات کی روحانی تعبیر) شر (evil) کو وجودیات میں ایک اعتبار تو تسلیم کرتا ہے۔ لیکن اسے وجود کی ماہیت میں شامل نہیں سمجھتا۔ اور کائنات کو مجموعی طور پر خیر کا مظہر سمجھتا ہے۔ اسی لیے مشرقی مصوری اور خاص طور پر مسلمانوں کی مصوری میں سایہ اور ظلمت کوئی اعتبار حاصل نہیں کرتے کہ وہ تصویر (جو کسی حد تک عالم موجودات کی علامت بھی قرار دی جا سکتی ہے) کی ماہیت میں شامل نہیں۔ مختصر یہ کہ رنگ اور روشنی کی اس دُنیا میں سیاہ یا سیاہی اتنی کم مقدار میں ہے کہ نہ ہونے کے برابر ہے دراصل اسلامی تمدن کے ما بعد الطبیعیاتی تصورات میں روشنی اصل وجود اور رنگ وجود کی مظہریت ہے (essence and phenomena) گویا زندگی اور کائنات کا مظہری پہلو ’رنگ‘ سے عبارت ہے،…شاید یہی سبب ہے کہ فارسی شاعری میں جو ایک مخصوص ما بعد الطبیعیاتی اساس رکھتی ہے، ’رنگ‘ کا لفظ ایک بے حد معنی خیز علامت یا استعارے کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ مرزا عبدالقادر بیدل، مرزا اسد اللہ خاں غالب اور علامہ اقبال کی شاعری میں یہ لفظ کم و بیش ایک ہی معنی میں استعمال ہوا ہے، یعنی یہ لفظ اپنی تمام معنوی وسعتوں اور تمام رمزیاتی اطلاقات اور مضمرات کے ساتھ زندگی کے مظہریاتی پہلوئوں ہی کی تشریح کرتا ہے۔ مثال کے طور پر بیدل کا صرف ایک ہی شعر کافی ہوگا: عشق از مشتِ خاکِ آدم ریخت ایں قدر خُون کہ رنگِ عالم ریخت یعنی ’عشق‘ نے آدم کی مُٹھی بھر خاک سے اس قدر خون نچوڑا کہ اس سے عالمِ (موجودات) کا رنگ ٹپک پڑا یا چھلک پڑا۔ غرض ’روشنی‘ اور ’رنگ‘…مشرقی مصوری کے بنیادی تصورات اور اہم ترین اجزائے ترکیبی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ رنگ کی آمیزش، اُس کی انفرادی اور ترکیبی خصوصیات، اور اس کی بہار آفرینی کے سلسلے میں اسلامی مشرق (خصوصاً ایران) کے مصور…چین کی روایاتِ مصوری سے ضرور مستفید ہوئے ہوں گے، لیکن ان کو وضع دینے (treatment) میں مسلمان مصوروں کے اپنے تصورات کار فرما ہیں۔ اور جہاں تک روشنی کے سیلان و سریان کا تعلق ہے، مشرق و مغرب میں کوئی بھی مسلمانوں کا حریف نہیں۔ معترضین کا یہ کہنا کہ مشرقی تصاویر میں روشنی کے سرچشمے کا پتا نہیں چلتا، یعنی معلوم نہیں ہوتا کہ روشنی تصویر کی اشیا کو کس جانب سے منور کر رہی ہے، ایک ایسا اعتراض ہے جو صرف وہی لوگ کرتے ہیں یا کر سکتے ہیں جو مغرب کی حقیقت نگاری، (خارجیت پسندی) کو فن کا آخری منہاج اور مطلق تصور سمجھتے ہیں اور مشرقی علوم و فنون کی رُوح کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ خود مغرب میں اُٹھنے والی مصوری کی جدید تحریکات مثلاً تاثریت (impressionism) اظہاریت (expressionism) مکعبیت (cubism) دادائیت (dadaism) سرئیلیت (surealism) نے خارجی حقیقت نگاری کے مسلّمہ اُصول کو کلی یا جزوی طور پر رد کر کے ہی تصویری سطح کی نئی دُنیائوں کو دریافت کیا ہے، ممکن ہے اسے محض ایک توجیہ خیال کیا جائے ، لیکن غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ شرقی مصوروں نے روشنی کو کسی ایک جانب یا تصویر کی کسی ایک سمت سے مخصوص یا محدود نہیں کیا، بلکہ روشنی اُن کے نزدیک اشیا و کردار اور مناظر و مرایا میں اس طرح جاری و ساری ہے کہ وہ اصل وجود بن جاتی ہے اور اشیا کو اُن کی ہیئتیں عطا کرنے کے لیے رنگوں کا لباس پہن لیتی ہے، اس لیے اس کو کسی مخصوص جانب سے دکھانا اُسے محدود کر دینے کے مترادف ہوگا، مشرقی مصوری میں رنگ اور روشنی کی اس معنوی اور وجودیاتی یا مظہریاتی حقیقت کو بہت کم سمجھا گیا ہے، خود مشرقی ناقدین نے بھی اس نکتے کی طرف کم ہی اشارہ کیا ہے۔ تاہم اس بات کا اعتراف سب کو کرنا پڑا ہے کہ رنگ جس طرح اپنی فطری طاقت اور تابانی، اپنے ترکیبی مزاجوں، اور اپنی حیات بخشی اور حیات افروزی کے ساتھ مشرق کی اسلامی مصوری میں نمودار ہوئے ہیں، دُنیا کی کوئی اور روایتِ مصوری اس کی مثال شاید پیش نہ کر سکے۔ یہ رنگ و نور کی مصوری کا ایسا بہشت آفریں پہلو ہے جس کی جمالیاتی قدرو قیمت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ اس روایتِ مصوری کو ہم مجموعی طور پر ’نشاطِ رنگ‘ کا تجربہ کَہ سکتے ہیں، جو تصویر کی سطح پر ایک نوع کے القائی سکوت (inspirational queitude) کو متشکل کرتا ہے اور عام طور پر عبارت (نظم و نثر) کے جلو میں نمودار ہوتا ہے۔ عبارت (یالفظ) کے ساتھ تصویر کی وابستگی ایک اور مفہوم میں بھی اسلامی تمدن کے مخصوص مزاج کو ظاہر کرتی ہے۔ اسلام میں روایت با للفظ کی جو اہمیت رہی ہے اور علوم کی اشاعت میں قرونِ اولیٰ اور قرونِ وسطیٰ کے اسلامی ادوار نے جو اہم کردار ادا کیا ہے، اس کا فطری تقاضا ہی یہی تھا کہ ’نقش‘ (تصویر) عبارت کے جِلو میں رہے، یہی سبب ہے کہ قدیم مصور دواوین میں نقش یا تصویر’عبارت‘ کے بین السطور ’اشارہ‘ ہے جو رنگ و نُور کے سانچے میں ڈھل گئی ہے۔ عبدالرحمن چغتائی، لاہور کے ایک معزز معمار خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے اجداد سکھوں کے عہد میں ممتاز رہے۔ خود عبدالرحمن چغتائی اور ان کے برادرِ اصغر ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی نے اپنی کئی تحریروں میں اپنا سلسلۂ نسب عہدِ شاہجہان کے مشہور معمار …معمارِ تاج اُستاد احمد لاہوری سے ملایا ہے۔۲؎ اس اعتبار سے ان کا خاندان ایک طویل عرصے سے برِصغیر میں اسلامی فنِ تعمیر اور بالخصوص مغل طرزِ تعمیر کی روایات کا امین چلا آرہا ہے…اور اگر توارث اور اجتماعی لاشعور کی کوئی حقیقت ہے تو اُسے چغتائی کے فن پاروں میں زندہ حقائق کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ مغل تعمیرات میں ڈیزائن اور ’سٹرکچر‘ کے علاوہ آرائشی صناعی کو بے حد اہمیت حاصل ہے۔ مغل تعمیرات کی یہ آرائشی صناعی بذاتِ خود ایک بہت بڑا فن ہے۔ اور مغل عہد میں، گو ایک ضمنی فن کی حیثیت سے ہی سہی، ایک زندہ روایت کے مترادف رہا ہے۔ چغتائی کی تصویروں کا آرائشی پہلو اسی مغل آرائشی صناعی کی روایت کی توسیع ہے، چغتائی نے اس آرائشی صناعی کو عمارات سے نقل کیا ہے یا نہیں، اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا، لیکن اسے چغتائی کو ورثے میں ملنے والی روایت ضرور کہا جا سکتا ہے۔ یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ عبدالرحمن چغتائی اور ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی اپنے سلسلۂ نسب کو استاد احمد لاہور معمارِ تاج، یا معمارِ شاہجہانی سے ملانے کے ناقابلِ تردید دلائل و شواہد نہیں رکھتے،…اس لیے کہ تاج محل کی تخلیق یا تعمیر کے سلسلے میں کسی مستند نام کی تلاش میں محققین ایک طویل عرصے تک سرگرداں رہے ہیں، ۱۹۳۱ء میں علامہ سلیمان ندوی نے ادارہ معارفِ اسلامیہ، لاہور میں ایک گراں قدر مقالہ: ’لاہور کا ایک معمار خاندان‘ کے عنوان سے پڑھا، جس میں اُنھوں نے انکشاف کیا کہ تاج محل کی تخلیق و تعمیر کو اُستاد احمد لاہوری سے منسوب کیا جا سکتا ہے، جسے ’معمارِ شاہجہانی‘ کا خطاب بھی حاصل تھا ۔ ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی اپنے جدِّ امجد(دادا) رحیم بخش کے بارے میں لکھتے ہیں: ایک زبانی روایت کے توسط سے مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ رحیم بخش کے والد محمد صلاح عہدِ شاہجہانی کے مشہور معمار…احمد معمار…کے خاندان سے تھے۔( ۳) ان زبانی روایت کی بنیاد پر ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی نے ایک شجرۂ نسب بھی مرتب کیا ہے۔ جومحولہ بالا مضمون میں شامل ہے۔ اس شجرۂِ نسب میں استاد احمد لاہور معمارِ شاہجہانی کا مختصر شجرہ بھی شامل ہے۔ اپنے خاندان کے بارے میں خود عبدالرحمن چغتائی کا ایک بیان ہے کہ: جہاں تک میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے یہ معمار خاندان غزنی سے ہندوستان آیا اور اس کا موروثی رشتہ ہرات سے تھا۔ اور یہ پادشاہ جہانگیر کے عہد ہی میں اپنے اعلیٰ اوصاف اور روایات کی بنا پر بر سراقتدار آیا، برسوں لاہور میں مقیم رہا۔ وہ ہر خدمت انجام دیتا رہا جو ا س کے سپرد کی جاتی رہی۔ خصوصیت سے اس خاندان کو نقاشی ، خطاطی، پچی کاری، پرچین کاری، ڈیزائن، نقشہ جات اور بنائے تعمیر میں بڑا دخل تھا۔۴؎ حتمی دلائل اور ناقابلِ تردید شواہد کی کمی کے باوجود تمام قرائن اسی حقیقت کی طرف راجع ہیں کہ عبدالرحمن چغتائی کا خاندان لاہور کے ایک قدیم اور بہت بڑے معمار خاندان سے تعلق رکھتا تھا، نیز اس خاندان کی زبانی روایات بتاتی ہیں کہ اسے استاد احمد معمارِ شاہجہانی سے تعلق تھا۔ بہر حال عبدالرحمن چغتائی کو مغل فن تعمیر کی صنّاعانہ روایات ورثہ میں ملیں، جن کی ایک بھر پور جھلک چغتائی کے شاہکاروں میں نظر آتی ہے۔ چغتائی نے اپنے فن کا آغاز ۱۹۱۶ء کے آس پاس کیا۔ وہ میو سکول آف آرٹس کا طالب علم تھا، اور مصوری کی رسمی تعلیم سے کافی حد تک بہر مند تھا،۔ اس زمانے میں پورے برِصغیر میں مصوری کا ایک ہی دبستان فروغ پا رہا تھا۔ یعنی بنگال سکول آف آر ٹ،۔ جس کے بانی رابندرناتھ ٹیگور اور ان کے بھائی روبندروناتھ تھے۔ اور اُنھیں کی نسبت سے یہ دبستانِ فن بعد میں ’ٹیگور اسکول آف آرٹ‘‘ بھی کہلایا۔ بیسویں صدی کے رُبعِ اول میں یہ واحد دبستانِ مصوری تھا جو ان معنوں میں زندہ روایات کا حامل تھا کہ اس کے ذریعے ہندوکلچر اور ہندو دیو مالا کو ایک نئی زندگی مل رہی تھی۔ دہلی اور لاہور کے مسلمان مینا طوری مصور (miniaturists) اپنے گھروں میں بیٹھے کچھ فرمائشی تصویریں بنا رہے تھے اور برِصغیر کی آرٹ گیلریاں بنگال سکول آف آرٹ کے مصوروں کی تصویروں سے مزیّن تھیں،…چغتائی نے ۱۹۱۶ء ہی میں کلکتے کا ایک سفر بھی کیا اور بنگال اسکول کے بڑے مصوروں مثلاً رابندرناتھ ٹیگور، گوگیندرناتھ ٹیگور اور نندلال بوس سے بھی ملاقات کی، اور ان کے فن کا مطالعہ کیا۔ ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی کا کہنا ہے کہ چغتائی کلکتہ سے لوٹا تو اس کے ذہن میں بنگالی اسکول کے مقابلے میں اسلامی یا مغل روایات کی روشنی میں کام کرنے کا خیال پیدا ہو چکا تھا۔عبدالرحمن چغتائی کے کئی بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے ہندو موضوعات پر بھی بہت تصویریں بنائیں، …مثلاً اپنے ایک نہایت اہم مضمون ’’میری تصویریں میری اپنی نظر میں‘‘۔ وہ لکھتا ہے: میری تصویریں جن میں مغل، ایرانی، ہندو، پنجابی، کشمیری، اور برہمن۔ سبھی شامل ہیں، ان کو دیکھ کر ایک مغربی نقاد نے کہا تھا کہ نئے موضوع اور اختراعات کو تصویری قالب میں ڈھالنا ایک ذہین اور چابکدست مصور ہی کا کام ہے۔( ۵) تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نے بہت جلد اپنے لیے اپنے موضوعات کا تعین کر لیا۔ اور وہ تھے مغل اور اسلامی مشرق کے کردار،…چونکہ بیسویں صدی میں خیام کی شہرت و مقبولیت کو مشرق و مغرب میں ایک نئی زندگی ملی، اس لیے یہ ایک قدرتی بات تھی کہ چغتائی نے بھی مشرقی موضوعات کی تلاش میں ’’خیامی‘‘ موضوعات کو اپنایا، تاہم اس کا کہنا ہے کہ اس نے مولانا رُوم، سعدی، حافظ اور اقبال سے بھی کردار یا موضوعات لیے،…اور سب سے اہم بات یہ کہ اس نے بہت سے موضوعات مرزا غالب کی شاعری سے اخذ کیے،…مرزا غالب جو ایک عظیم آفاقی شاعر ہونے کے علاوہ انیسویں صدی میں ایشیائی اسلامی تمدن کی واحد تخلیقی علامت تھے۔ اپنے اسی مضمون کے آغاز میں جس کا حوالہ دیا گیا، چغتائی رقم طراز ہیں: …میری ہر تصویر…ایک ایسی تخلیق ہے جو اپنے خالق کی ذہنی کاوش، تہذیبی شعور، وجدان اور عرفان کی نشاندہی کرتی ہے…میں نے شہرزاد، بدرالبدور، الہ دین، سند باد، خلیفہ ہارون الرشید، زبیدہ خاتون، ابوالحسن، رقاصائیں اور کنیزیں، سپاہی اور جرنیل، سلطان اور بیگمات آقا اور غلام، دخترانِ حرم اور دوشیز گانِ خانہ بدوش تخلیق کی ہیں…ان کرداروں کی کردار نگاری کی ہے جو ہماری گذشتہ عظمت، روایات، ثروت، شرافت، شان و شوکت اور امانت کے علمبردار تھے، اور وہ کسی سحر سے سحر زدہ نہیں تھے۔ چغتائی نے کہیں یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ ’’میرے فن کی ابتدا ہوئی تو بیل بوٹوں سے۶؎‘‘…لیکن اُن کی تقدیر میں بیسویں صدی میں مصورِ مشرق کہلانا تھا، اس لیے اُنھوں نے اپنی صلاحیتوں کو بہت جلد اسلامی تمدن یا مشرقی مصوری کی اسلامی روایات کو از سرِ نو زندہ کرنے کے لیے وقف کر دیا، وہ آغاز ہی سے آبی رنگوں کے مصور تھے۔ اور آبی رنگوں ہی سے اُنھوں نے وہ شاہکار تخلیق کیے جن پر مشرقی روایاتِ مصوری کو ہمیشہ ناز رہے گا۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ چغتائی آبی رنگوں کے مصور تھے لیکن وہ اپنے رنگ کس طرح استعمال کرتے تھے، یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب آسانی سے نہیں دیا جا سکتا۔ اُن کے بارے میں عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ وہ واش (wash) کی تکنیک استعمال کرتے تھے لیکن واش کی تکنیک اُنھوں نے کہیں سے مستعار نہیں لی، بلکہ طویل تجربوں اور سالہا سال کی جانفشانی سے خود ایجاد کی ہے۔۷؎ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پہلے کاغذ کو ’سیزن‘ کرتے تھے اور پھر اُسے تصویر کے لیے استعمال کرتے تھے۔ تصویر بنانے سے پہلے کاغذ پر پنسل سے خاکہ کشی کا اُنھوں نے کہیں ذکر نہیں کیا۔ ’واش تکنیک‘ کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ رنگ لگانے کے بعد اُنھیں آبی غسل دیتے تھے (واش کرتے تھے) اسی لیے ان کی تمام تصاویر میں آبی رنگ ایسی لطافت، نرمی اور ملائمت کے حامل ہیں جس کی کوئی مثال قدیم مشرقی مصوری میں نہیں ملتی۔ صرف یہی ایک ایسا اجتہاد ہے جس کی بنا پر اُنھیں ایک اُستاد فن کار تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ اُن کی تکنیک کا صرف ایک پہلو ہے۔ تکنیک کے بعد اُسلوب کا مرحلہ ہے۔ اور چغتائی کے اُسلوب کے بارے میں بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ اُنھوں نے ایرانی مصوری کی مغل روایات، خالص ایرانی روایات، ہرات کے دبستانِ فن (دبستانِ بہزاد) کے علاوہ بنگال اور راجپوت دبستانوں سے بہت کچھ سیکھا اور ان تمام دبستانوں کے بہترین اجزا کو ایک ایسے اسلوب کی تشکیل میں صرف کیا جسے آج دُنیا میں صرف چغتائی کا اُسلوب ہی کہا جا سکتا ہے۔ مشرقی مصوری کے ہم عصر دبستانوں میں یہی ایک اُسلوب ہے جو بذاتِ خود ایک دبستان بھی ہے اور ایک صاحبِ طرز مصور کی انفرادیت کا نشان بھی! اسی اُسلوب کے ذریعے چغتائی نے اپنی تصویروں میں مشرق کو ایک بار پھربھی زندہ کیا، اور مشرقی ادب سے وہ تمام اجزا منتخب کیے جن کے ذریعے مشرق کی ایک مثالی (idealistic) بصری تصویر متشکل کی جا سکتی تھی۔ چغتائی کا فن رنگوں کی معجزانہ آمیزش ، خطوط کی حیرت انگیز نزاکت اور رعنائی، خطوط کے بہائو (flow) رنگوں کے امتزاج اور پیکروں کے تجسیمی آہنگ سے اُبھرنے والی غنائیت (lyricism) کا فن ہے،…چغتائی کی دُنیا میں رنگ ہی رنگ ہیں، وہ زندگی کی مثالی حقیقتوں کا ادراک ’رنگ‘ اور ’خط‘ کے ذریعے کرتا ہے، اس کی تصویری سطح کا کوئی رقبہ رنگ کی نور افشانی اور تابانی سے خالی نہیں۔ روشنی (light) اس کی تصویروں میں ’رنگ کی تابانی‘ کے طور پر ہر حصۂِ تصویر میں گھلی ہوئی ہے، وہ نور و ظلمت کے تضاد کے مصور نہیں بلکہ رنگوں کی تابانی کے مصور ہیں، وہ اپنے خطوط کے ذریعے زندگی کی درشتی اور صلابت کو ظاہر کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں…وہ اس بات پر بھی قادر ہیں کہ ارفعیت (sublimity) کی تجسیم کر سکیں، لیکن اُنھوں نے زیادہ تر لطیف، غنائی تصویریں بنائی ہیں۔ جو مشرق کی غنائی شاعری کے مصورانہ بدل ہیں۔ مرقع چغتائی کے مقدمہ نگار ڈاکٹر جیمز کزن نے بجا طور پر چغتائی کی تصویروں کے شیریں خطوط کو تصویر کے خطوط سے زیادہ کسی غیر سماعی شاعری کی سطور قرار دیا ہے، جنھیں مصور نے بصری حقیقت بنا دیا ہے، اُنھوں نے اپنی مصورانہ لغت (pictorial diction) مصوری کی ایرانی او رمغل ایرانی یا ہند ایرانی روایات سے اخذ کی ہے، لیکن اس لغت کو، اس بصری زبان کو اُنھو ںنے کامل مجتہدانہ شان، اور بیان پر پوری قدرت رکھنے والے صاحبِ طرز مصور کے طور پر برتا ہے۔ اور یہی وہ خصوصیت ہے جو چغتائی کے فن کی انفرادی اور امتیازی خصوصیت ہے۔ فنِ مصوری میں چغتائی کو ایک مسلّم الثبوت استاد اور ایک صاحبِ طرز مصور کا مقام دلانے میں ان کے اولیں مرقعِ مصوری…مرقعِ چغتائی نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ دیوانِ غالب کو مصور کرنے کی تحریک اپنے عہد کے مشہور معلّم اور اُستاد شاعر ڈاکٹر محمد دین تاثیر نے کی، اور اُنھیں کے مشوروں کے ساتھ ۱۹۲۷ء میں مرقعِ چغتائی شائع ہوا۔ اس کا پیش لفظ علامہ اقبال نے انگریزی میں لکھا، یہی وہ پیش لفظ ہے جس میں اقبال نے اپنے نظریۂ فن کو پہلی بار وضاحت کے ساتھ (نثر میں) پیش کیا اگرچہ مرقعِ چغتائی، فن مصوری میں ایک بہت بڑا اقدام تھا، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اقبال نے اپنے پیش لفظ میں چغتائی کی زیادہ تحسین نہیں کی۔ بلکہ دیباچے کے اختتام پر صرف اتنا کہا ہے کہ: تاہم یہ اشارات ہمیں بتاتے ہیں کہ پنجاب کا نوجوان مصور ایک فنکار کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری کو محسوس کر رہا ہے۔ وہ ابھی صرف انتیس سال کا ہے۔ وہ جب چالیس سال کی پُختہ عمر کو پہنچے گا تو اس کا فن کیا صورت اختیار کرے گا، اس کا انکشاف صرف مستقبل ہی کرے گا۔ اسی اثنا میں وہ سب جو اس کے فن میں دلچسپی رکھتے ہیں، اس کی فنی پیش رفت کو غائر توجہ سے دیکھیں گے۔ مرقع چغتائی کی اشاعت نے چغتائی کو فنِ مصوری میں ’کلاسکس‘ کا درجہ عطا کر دیا، غالب کی شاعری اور شخصیت کا ’ہند ایرانی‘ پس منظر چغتائی کی مصوری کے ’مغل ایرانی‘ پس منظر سے بہت حد تک ہم آہنگ تھا، مرقع چغتائی کی اشاعت سے مشرقی مصوروں کی ایک اور روایت بھی زندہ ہوئی کہ اُن کا فن شعر و ادب کی تصویر گری سے عبارت تھا، چغتائی نے اس مقصد کے لیے دیوانِ غالب کو بطورِ ’متن‘ منتخب کیا۔ اس حسنِ انتخاب پر ذوقِ سلیم اور وقت نے مُہر توثیق ثبت کر دی۔ اس کی تصاویر اور آرائش کو جو بھی دیکھتا تھا مصورِ مشرق، اور’’ بہزادِ عصر‘‘ کے الفاظ خود بخود اس کے ذہن میں گردش کرنے لگتے تھے۔ مرقع چغتائی کی اشاعت کے دوران ہی غالباً علامہ اقبال کے لیے چغتائی کے فن کو بہ نگاہِ غائر اور کسی قدر تفصیل کے ساتھ دیکھنا ممکن ہوا وگرنہ جہاں تک اقبال کے مشاغلِ زیست کا تعلق ہے اُنھیں شعر و ادب اور افکار کی دُنیا کے علاوہ کسی اور فنِ لطیف سے عملی دلچسپی لینے کا وقت کم ہی ملتا ہوگا۔ ہو سکتا ہے انھی دنوں میں یا آنے والے سالوں میں…بالخصوص جاوید نامہ کی تصنیف کے ایام میں۔ اقبال کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا ہو کہ اُن کے کلام کو بھی مصور کیا جائے، اُنھوں نے یقیناً طربیۂ ایزدی (ڈوائن کامیڈی) کے مصور ایڈیشن دیکھے ہوں گے، خود جاوید نامہ کے مناظر بھی اس کا تقاضا کرتے ہیں کہ اُنھیں تصویری پیکروں میں ڈھالا جائے۔ ۲ اپنی تمام تر عینیّت یا تصوریت (idealism) کے باوجود اقبال اپنی شاعری میں زندگی کے دقیق ترین نکات کے شارح اور حیات و کائنات کے بارے میں بہت سے ایسے خیالات کے ترجمان ہیں جنھیں خود اُنھیں کے ادراک ہی سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ اپنی فکری وسعتوں اور فلسفیانہ مطالب کے باوجود اقبال کی شاعری میں حیرت انگیز حد تک بصری مواد (pictorial value) موجود ہے جس سے مصور کو نقش آفرینی اور نقش آرائی کے لا تعداد زاوئیے میسر آسکتے ہیں۔ عام حالات میں کسی فلسفی شاعر کے ہاں اتنے بصری مواد کی توقع کم ہی کی جا سکتی ہے۔ لیکن اقبال نے اپنی شاعری میں بیانیہ اسالیب، غنائی عناصر ، اور حکیمانہ افکار کو اس طرح ایک ہم آہنگ و حدت میں تحلیل کر دیا ہے کہ اس ترکیبِ نو (synthesis) نے آہنگ، امیجری، محاکات اور لفظی موسیقی کے بہترین بلکہ معجز نما امکانات کو حقیقت بنا دیا۔ غالب کی طرح اقبال کا تخیل بھی نادرہ کار تھا۔ اُنھیں تمثیل آفرینی،تجسیم اور صُوَری یا بصری تشکیل (محاکات) پر غیر معمولی دسترس حاصل تھی۔ وہ خیال کو منظر عطا کرنے پر پوری طرح قادر تھے، جس طرح وہ الفاظ کی اصوات کے رمز شناس تھے، اسی طرح لفظ کی تصویر آفرینی کی قوتوں کو بھی اچھی طرح جانتے تھے اور اُن کے نہایت فنکارانہ استعمال کے ہُنر سے بہرہ ور تھے۔ اس لیے کوئی بھی مصور جسے نقش آفرینی کے لیے کسی ’مثالی متن‘ کی تلاش ہو، اقبال کی شاعری سے مایوس نہیں ہو سکتا۔ بلکہ اقبال کا مطالعہ اس کے لیے انشراحِ خاطر کا باعث ہو سکتا ہے، بالخصوص اقبال کی فارسی غزل محاکاتی شاعری کا بہت بڑا ذخیرہ ہے جس سے تصویری مواد آسانی سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی کی روایت ہے ( ۸)کہ ’’۱۹۲۲ء میں ’’خضرِ راہ‘‘ کا مصور ایڈیشن بھی پیش کرنے کا اعلان ہوا تھا، مگر یہ ایڈیشن کبھی تیار نہ ہو سکا۔‘‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال اپنے کلام کو مصور کرانے میں ایک گو نہ دلچسپی ضرور رکھتے تھے، عبدالرحمن چغتائی نے عملِ چغتائی کے آغاز میں اقبال کی اس دلچسپی یا خواہش کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے، وہ لکھتے ہیں: علامہ اقبال کی ہمیشہ یہ آرزو رہی کہ ان کے کلام کا ایک باتصویر اور جامع ایڈیشن شائع کیا جائے۔ وہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ صحت بحال ہو جائے تو جاوید نامہ کا انگریزی ترجمہ کروں گا اور اسے ترتیب دوں گا ۔ اس میں تمھارے بنائی ہوئی تصویریں ہوں گی اور اس کو نوبل پرائز کے لیے پیش کروں گا۔ موضوع کے تقاضوں کے پیش نظر جاوید نامہ کی مصوری کے لیے ایک خاص طرز کے محاکاتی اُسلوب کی ضروت تھی جو ’آسمانی سفر‘ کے اہم مرحل کو کامیابی کے ساتھ تصویر کا پیر ا یہ عطا کر سکے ‘… جہاں تک چغتائی کے اُسلوب کا تعلق ہے، اُسے عام معنوں میں محاکاتی نہیں کہا جا سکتا، چغتائی کے فن میں غزل کی سی اشاریت اور رمزیّت (suggestiveness) ہے۔ بیانِ واقعہ کے لیے چغتائی کا اُسلوب اپنے اندر کچھ زیادہ گنجائشیں نہیں رکھتا۔ جاوید نامہ میں ڈرامائیت ہے اور تیز رو مناظر ہیں۔ جنھیں گرفت میں لانے کے لیے کسی واقعیت نگار مصور کا موقلم ہی موزوں ہو سکتا تھا۔ چغتائی خود ایک صاحب طرز مصور ہے، صاحب طرز فن کار ایک اعتبار سے اپنے طرز یا اُسلوب کا اسیر بھی ہوتا ہے، وہ اپنے اُسلوب کے التزامات کو چھوڑ نہیں سکتا۔ یہی مشکل اقبال کو مصور کرنے میں چغتائی کو درپیش تھی۔ ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی کا بیان ہے کہ چغتائی اس سلسلے میں اقبال کے ذہنی تقاضوں کو پورا نہ کر سکا۔ اس معاملے کو ڈاکٹر محمد عبداللہ چغائی سے زیادہ کوئی نہیں جان سکتا ۔ اور اُنھوں نے کمالِ دیانت سے اس حقیقت کا اعتراف کر لیا ہے کہ چغتائی اقبال کی توقعات پر پورا نہ اتر سکا: علامہ نے بہت کوشش کی تھی کہ چغتائی جاوید نامہ کے اشعار کو اُن کی مرضی کے مطابق مصور کرے، مگر یہ حقیقت ہے کہ چغتائی علامہ کی تسلی نہیں کر سکا تھا۔ علامہ در اصل ان تصویروں کو بھی اپنے تخیل کے مطابق دیکھنا چاہتے تھے۔ اس کے برعکس جب علامہ نے اپنے اُنھیں خیالات کی مصوری کے لیے استاد اللہ بخش سے کہا تو اُس نے بعض خیالات کو زیادہ تسلی بخش طریقے سے پیش کیا۔۹؎ آج ہمارے لیے یہ جاننا بے حد مشکل ہے کہ اقبال کس اُسلوبِ مصوری میں جاوید نامہ کی تصویری شرح چاہتے تھے، اور اُن کے پیشِ نظر تصاویر کا معیار کیا تھا۔ نیز یہ کہنا بھی بہت مشکل ہے کہ وہ تصاویر جو علامہ اقبال کے خیالات کی تشریح میں استاد اللہ بخش نے بنائیں، کیا ہوئیں۔ بہر حال یہ ایک امرِواقع ہی ہے کہ اقبال اپنے فکرو فن کی مصورانہ تعبیر کے لیے چغتائی کے اُسلوب سے کچھ زیادہ مطمٔن نہ ہو سکے۔ کیا اقبال کے پیشِ نظر جدید مغربی مصوری کے محاکاتی اسالیب تھے یا ’ڈوائن کامیڈی‘ کے مصوروں کے اسالیب تھے؟ اس سوال کا جواب دینا آسان نہیں۔ لیکن یہ بات اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ چغتائی کا ذہن اور فن جس فضا میں پروان چڑھا اس میں اقبال کے اشعار و افکار کی گونج تھی اور اُن کی شخصیت کے تذکرے تھے۔ اقبال کی حیرت انگیز شخصیت اپنے قریبی ماحول اور اپنے آس پاس کے لوگوں کے لیے مستقل طور پر انشراحِ خاطر (inspiration) کا باعث تھی۔ مرقع چغتائی کی تخلیق کا باعث بھی علامہ اقبال کے حلقۂِ احباب کا ایک فرد (ڈاکٹر محمد دین تاثیر) تھا اگرچہ چغتائی اقبال کی زندگی میں اُن کے کلام کو مصور نہ کر سکے، لیکن اقبال کو مصور کرنے کی خواہش ایک طویل عرصے تک چغتائی کے دل میں چٹکیاں لیتی رہی، چغتائی نے شاعرِ مشرق سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کے کلام کو مصور کریں گے۔ یہ وعدہ اقبال کی وفات کے تیس سال بعد عملِ چغتائی کی صورت میں پورا ہوا۔ اگرچہ چغتائی نے اس بات کا وضاحت سے اظہار کیا ہے، کہ اُن کی فنی پختگی کایہ وہ مقام تھا جہاں وہ خیام کو مصور کرنے کے پوری طرح اہل ہوئے تھے، اسے وہ اپنے لیے ایک ’’فطری تقاضا‘‘ کہتے ہیں۔ اقبال کو مصور کرنے کی خواہش خیام کو مصور کرنے کی خواہش پر غالب آئی، چغتائی کہتے ہیں کہ (اقبال سے کیے گئے) اس وعدے کی تکمیل کی خاطر اُنھوں نے اپنے اور کئی ’’بڑے بڑے مقاصد‘‘ کو چھوڑا: …بلکہ اُن کا گلا دبا دیا ہے۔ اسے میں نے ہر مقصد پر مقدم جانا، اس لیے کہ علامہ سے اس کا وعدہ کر چکا تھا۔ عمر خیام کی اشاعت میرے لیے ایک فطری تقاضا تھا۔ میں نے اسے اُس وقت ترک کیا جب وہ تکمیل کی منزل پر تھا۔ اس کی طلب ایک بین الاقوامی طلب تھی اس کے ہر رُخ اور پہلو میں حسن کی جولانیاں اور حیات کے جمالیاتی تصور تھے وہ رُومانی اور روحانی قدروں کا مرقع تھا… (The Art of Chughtai) کی اشاعت تقسیم کے وقت اس منزل پر پہنچ چکی تھی کہ اب تک اُس کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہوتے، مگر میں نے شاعرِ مشرق کے مصور ایڈیشن کو ان سب پر ترجیح دی۔ (عملِ چغتائی) چغتائی نے اپنے فن کے بارے میں کئی مقامات پر خود بھی اظہار خیال کیا ہے۔ اگرچہ ’مرقعِ چغتائی‘‘ میں ’سخن ہائے گفتنی‘ کا اُسلوب چُغلی کھاتا ہے کہ یہ تحریر بتمام و کمال ڈاکٹر محمد دین تاثیر کی نہ سہی، اس میں ان کے مطالعات اور ان کے قلم نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی طرح عملِ چغتائی کے نثری تبصروں کے بارے میں بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سب کے سب خود چغتائی ہی نے لکھے، اس لیے کہ انھیں تبصروں میں بعض ایسے جُملے بھی آگئے ہیں جن میں چغتائی کے لیے واحد غائب کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ تاہم یہ کہنا بھی صحیح نہ ہوگا کہ ان تحریروں میں چغتائی کی نہیں بلکہ کسی اور ذہن کی ترجمانی کی گئی ہے۔ بہر حال عملِ چغتائی میں چغتائی کو اپنے فن کے بارے میں کھل کر بات کرنے کا پورا موقع ملا ہے، چنانچہ ایک جگہ اپنے فن کے بارے میں ایک نسبتاً واضح تر بیان میں وہ رقم طراز ہیں: ہمارے فن کارکلاسیکی فن کی اصطلاح سے کچھ اس طرح گھبراتے ہیں جیسے دہریّت مذہب سے، لیکن کلاسیکی فن اور اس کی افادیت پر میرا ایمان ہے، اگرچہ میرے فن نے فن کی حیثیت سے ابھی وہ کلاسیکی رُتبہ حاصل نہیں کیا جس کی نمائندگی کا میں متمنی ہوں۔ تاہم اس میں ہر جگہ ہماری اپنی شکل و صورت اور اپنے خدو خال کا عکس نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ اور کہا جا سکتا ہے کہ فرانسیسی، چینی اور جاپانی آرٹ کی طرح میری تخلیق بھی اپنے معاشرے اور اپنی تہذیب کی ترجمان ہے، اور یہ میری خود اعتمادی کا کرشمہ ہے کہ میرا آرٹ اتنا ہی جدید اور جدید تر ہے جتنا کہ کسی قوم کے فن کو جدید یا تجریدی کہا جا سکتا ہے، میرے رنگ اور رنگوں کی ساخت، میرے خط اور خطوں کا بنائو اور میری تکنیک اور تکنیک کے طریق ایسے ہیں کہ اگر اُستاد بہزاد، میرک، گوردھن، انوپ چتر ، فرخ بیگ قلماق، رضاعباسی، خواجہ عبدالصمد، میر سید علی تبریزی جیسے باکمال لوگوں کو میرا آرٹ دیکھنے کا موقع ملے تو اُن کے لیے یہ کہنے کا محل نہیں ہوگا کہ وہ ایرانی اور مغل آرٹ کو جہاں چھوڑ گئے تھے وہ وہیں رکا پڑا ہے۔ یا مشرقی آرٹ ترقی پذیر عناصر سے محروم ہیں، یا ان تصویروں کے خالق نے معاشرے کی ضرورتوں سے فرار اختیار کر کے تخلیقی افکار سے منہ موڑا ہے یا فن کے نئے تقاضوں اور نئی قدروں کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں، میں نے جذبات کی توانائی اور مضامین کی فراوانی کے ساتھ ساتھ رنگوں، خطوں اور تکنیک کے معاملے میں بھی رہبری کی ہر ممکن خدمت انجام دی ہے…میرا فن اندھی تقلید نہیں، خود فراموشی نہیں، یہ آزادیِ فکر ہے ، روشن ضمیری ہے، انفرادیت ہے اس میں رُوحِ مشرق بیدار ہے، میں نے ذہن میں کبھی یہ تامل پیدا نہیں ہونے دیا کہ کوئی قوت ان چشموں کو بند کر دے گی جن سے یہ روشنیاں پھوٹ نکلی ہیں۔ اگر آج کے فنِ مطلق کو یا اُس کے مجرّد آرٹسٹوں کو بائبل کے مذہبی کرداروں کو مصور کرنے کا حق حاصل ہے تو ہمیں بھی اپنے شاندار ماضی اور غیر فانی کرداروں کو فنی پیکر میں ڈھالنا جائز ہے۔۱۰؎ ۳ یہ سوال کہ کیا چغتائی…اپنے آخری مجموعۂ مصوری عملِ چغتائی میں اقبال کی رُوحِ شاعری کو اپنے فن میں منعکس کر سکا‘… اقبالیات اور چغتائی کے فن سے دلچسپی رکھنے والے نقادوں اور طالب علموں کے لیے یکساں اہمیت اور دلچسپی کا باعث ہے۔ اس سوال کی روشنی میں اقبال اور چغتائی کے موضوعات اور اسالیب کا ایک مختصر سا موازنہ پیشِ نظر رکھنا غیر مناسب نہ ہوگا۔ اقبال اور چغتائی دونوں (یقینا چغتائی اقبال ہی کے زیر اثر ) مشرق کے دلدادہ ہیں۔ لیکن چغتائی کا مشرق اپنی ساری جمالیات کے باوجود وہ ہے ’’جو کبھی تھا‘‘۔ جب کہ اقبال کا مشرق، ماضی کے تمام حوالوں کے باوجود وہ ہے ’’جو کبھی ہوگا‘‘۔ چغتائی کے پاس مشرق کا ماضی کا وژن (vision) ہے، اقبال کے پاس اُس کے ممکنہ مستقبل کا…!دونوں کے ہاں مشرق ایک عینی (ideal) صورت میں جلوہ گر ہے۔ لیکن چغتائی کا مشرق…مشرق کے کلاسیکی ادب… …اور مغل ایرانی مصوروں کی دُنیا کا مشرق ہے، جب کہ اقبال کا مشرق ایشیا اور اسلامی مشرق کا وہ مستقبل ہے جس کی جھلک اقبال کو اپنے وجدان میں اور اقوامِ عالم کے انقلاب کے آئینے میں نظر آتی تھی۔ اقبال کے لیے ’حرکت‘ حیات و کائنات کا اصلِ اُصول ہے، جب کہ چغتائی کے ہاں ایک مراقباتی سکون ملتا ہے، چغتائی کی تصویروں میں حرکت کو capture کرنے کی بجائے اشیا اور کرداروں کو ’ادائے ساکن‘ (pose) کا اسیر کیا گیا ہے۔ اقبال کے ہاں الفاظ بھی ناطق اور متحرک ہیں۔ چغتائی کے ہاں رنگوں کی ایک عظیم الشان مگر خاموش دُنیا ہے۔ جس میں پتّا تک نہیں ہلتا(چغتائی کی ہزاروں تصاویر میں کوئی ایک تصویر بھی ایسی نہیںجس میں کوئی ایک کردار دوسرے کردار سے ہم کلام ہو رہا ہو۔ یہ اور بات ہے چغتائی کا سارا فن ایک ’بے حرف مکالمہ‘ ہے!)اقبال اور چغتا ئی کے موازنے کی اس سے زیادہ گنجائش نہیں ہے ، اس لیے کہ دونوں کی اقالیم مختلف ہیں، اور یہ کہنا قطعا ً مبالغہ نہیں کہ اقبال کی دُنیا کہیں وسیع، معنی خیز، اور دقائقِ حیات سے لبریز ہے۔ عملِ چغتائی… چغتائی کی ان تصاویر کا مجموعہ ہے جنھیں اقبال کے بعض موضوعات سے کوئی معنوی ربط ہے۔ عملِ چغتائی چغتائی کی کم و بیش ایک سو تصاویر پر مشتمل مرقعِ مصوری ہے۔ جس میں مصور نے ماضی اور حال کے درمیان ذہنی رشتے کو مکمل کرنے کی کوشش کی ہے، یہ وہ مرحلہ ہے جو اس سے پیشتر چغتائی کے فن میں نہیں آیا تھا۔ اس کا فن تغزّل اور داستانوں کے موضوعات کا نقش گر تھا۔ اس مرقعے میں وہ ان موضوعات کو مصور کرتا ہے جن کا تعلق ماضیِ قریب اور کسی حد تک حال سے ہے۔ عملِ چغتائی میں کلامِ اقبال کا متن اس طرح نہیں جس طرح مرقع چغتائی میں دیوانِ غالب کا متن ہے۔ البتہ کہیں کہیں اقبال کے منتخب اشعار اور منظومات بھی دیے گئے ہیں، ان سب پر مستزاد ہر تصویر کے پہلو بہ پہلو مصنف یا مصنف کی جانب سے کسی کے لکھے ہوئے طویل تبصرے ہیں جو زیادہ تر چغتائی کے فن کی تحسین سے عبارت ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ روحِ مشرق کو تصویری پیرائے میں منکشف کرنے کے تاریخی اہمیت کے کارناموں پر چغتائی کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ لیکن عملِ چغتائی میں شامل تحریریں کئی مقامات پر موضوع سے غیر متعلق ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح ان تحریروں کے ساتھ ساتھ ہر تصویر پر ایک تبصرہ انگریزی زبان میں موجود ہے، اور بعض صورتوں میں اُردو میں لکھا ہوا تبصرہ انگریزی میں لکھے ہوئے تبصرے سے کسی طرح مطابقت نہیں رکھتا۔ اس صورتِ حال پر ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی نے اپنے محولہ بالا مضمون ’عبدالرحمن چغتائی‘ میں ان الفاظ میں تبصرہ کیا ہے: یہ بات البتہ کھٹکتی ہے کہ کتاب کے متن میں اُردو اور انگریزی تحریر کو خلط ملط کر دیا گیا ہے مجھے یہ اندازِ ترتیب کسی طرح معقول اور موزوں نظر نہیں آتا۔ اس طرح یہ بات ممکن نہیں رہی کہ لوگ ایک منظم کتاب سے استفادہ کر سکیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ علامہ اقبال کے کلام کو مختلف عنوانات کے تحت مرتب کیا جاتا۔ اگر اقبال کے ارتقائے شاعری پر بھی کچھ اشارات ہوتے اور ساتھ ہی مختلف عنوانات کے تحت شاعری کا تجزیہ بھی کیا جاتا تو پتا چل جاتا کہ مصور اسے علمی نقطۂِ نظر سے بھی پیش کر رہا ہے۔ بہر حال چغتائی ایک مصور ہے اور یہ کتاب اس کی تصاویر کا مجموعہ ہے۔ اس سے زیادہ اس سے توقع بھی نہیں کرنی چاہیے۔ ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی کے اس تبصرے کا آخری حصہ دعوتِ فکر دیتا ہے، یہ درست ہے کہ اگر اقبال کے کلام کو مختلف عنوانات کے تحت یکجا کر کے اُنھیں مصور کیا جاتا تو شاید عملِ چغتائی کا تاثر کچھ اور ہوتا۔ لیکن چغتائی سے اس بات کی توقع کسی طرح بھی نہیں کرنی چاہیے کہ وہ اقبال کے کلام کو مصور کرنے کے ساتھ ساتھ اُس کا علمی تجزیہ بھی پیش کرے۔ عملِ چغتائی کا مطالعہ کرتے ہوئے جس سوال کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہونی چاہیے وہ یہ ہے کہ چغتائی… اقبال کے فکرو فن کے کن کن اجزا کو…کس حد تک تصویر کی زبان میں بیان کر سکا ہے۔ یہاں ایک بات واضح طور پر بیان کی جا سکتی ہے کہ اقبال کو مصور کرنے کے لیے چغتائی کے پاس تین ذرائع یا approches تھیں ۔ یعنی ۱- اقبال کے موضوعات ۲- اقبال کے مناظر، اور ۳- اقبال کے کردار فکری مافیہ کے معنوں میں اقبال کے موضوعات بے شمار ہیں۔ ان کے ہاں ایسے افکار کی کثرت ہے جنھیں بیان کرنے کے لیے موزوں ترین اُسلوب ’تجریدی‘ پیرایۂ بیان ہی ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ان کی بیانیہ شاعری میں ایسے مناظر کی کمی نہیں جو شایانِ تصویر بصری مواد کے حامل ہیں۔ اور موضوعاتِ مصوری کا آخری سر چشمہ وہ کردار ہیں جو ہمیں اقبال کی شاعری میں تمثیلی یا حقیقی صورت میں ملتے ہیں۔ چغتائی نے عملِ چغتائی میں زیادہ تر اس آخری ذریعے سے استفادہ کیا ہے۔ یعنی اقبال کے بعض اہم کرداروں کو اپنی تصاویر کا موضوع بنایا ہے۔ ان کرداروں میں زیادہ تر مغل تاریخ کے کردار ہیں …تاہم اس انتخاب کا دائرہ خاصا وسیع بھی ہے۔ ان کرداروں میں مغل تاریخ سے بابر، ہمایوں، جہانگیر، اورنگ زیب عالگیر، نور جہاں اور زیب النسائ…اور اسلامی تاریخ سے طارق ابنِ زیاد، صلاح الدین ایوبی، ہارون الرشید،ٹیپو سلطان، زبیدہ خاتون اور شرف النساء جیسے کردار ہیں… جن کے ذریعے (باستثنائے ہارون الرشید) اقبال نے اپنے افکار کو تجسیم عطا کی ہے، چغتائی نے بھی فکرِ اقبال کے عناصرِ جلال کو ظاہر کرنے کے لیے انھی کرداروں کو چُنا ہے، عملِ چغتائی میں ان کے علاوہ اور بھی کئی معلوم و نا معلوم کردار ہیں جو عظمت، تقدس، شان و شوکت، اور عظمتِ رفتہ کو بیان کرتے ہیں۔ ان کرداروں میں غلام لڑکی اور مؤذن جیسے نامعلوم اور غنی کاشمیری، حسین بن منصور حلاج اور قیس عامری جیسے معلوم کردار بھی ہیں۔ جن سے چغتائی نے اقبال کی ذہنی دُنیا کی عکاسی کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان سطور میں ہم عملِ چغتائی کی بعض اہم تصاویر کا کسی قدر تفصیلی جائزہ پیش کرتے ہیں۔ داستان گو عملِ چغتائی کی اولیں تصویر ہے، جس کے بارے میں متنِ تبصرہ میں کہا گیا ہے کہ اس تصویر کو علامہ اقبال کی تحسین اور توجہ حاصل رہی ہے، اس کے تصویر کے پس منظر میں ’تاج محل‘ ستاروں کے نور اور خود اپنی تابانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ پیش منظر میں ایک خوبصورت طائوس (مور) ایک شاخِ شجر پر آرامیدہ ہے۔ شاخِ شجر جو اپنی انتہا میں مور کے پروں کے رنگوں کے قریب پہنچ گئی ہے۔ تصویر میں ایک خوبصورت توازن پیدا کرتی ہے، یہ توازن ڈیزائن کے اعتبار سے بھی ہے اور معنوی اعتبار سے بھی۔ ایک طرف سنگِ مر مر میں متشکل رنگ و نُور کی وہ دُنیا ہے جسے تاج محل کہتے ہیں، اور دوسرے طرف فطرت کے حسن کی وہ رنگینی اور مینا کاری ہے جسے طائوس کہا جاتا ہے، ان دو مظاہر کے توازن سے…نیز پس منظر میں تاج محل کے عمودی خطوط…اور پیش منظر میں طائوس کے خمیدہ اُفقی خطوط سے ایک نہایت خوبصورت بصری آہنگ پیدا کیا گیا ہے۔ اس تصویر میں تاج محل کی ’ہو بہو‘ عکاسی نہیں (جو اسے فوٹو گرافی بنا دیتی) بلکہ اس عظیم الشان عمارت کی شاعرانہ باز آفرینی ہے۔ اس لیے اس تصویر کو جلال سے زیادہ جمال… اور اس سے بھی آگے رنگ اور خط کی لطیف تر غنائیّت کا عکاس کہا جا سکتا ہے۔ اقبال نے اپنی مختصر ترین فارسی مثنوی ’بندگی نامہ‘ میں ’’درفنِ تعمیرِ مردانِ آزاد‘‘ کے عنوان سے مسلمانوں کے فنِ تعمیر کے بعض مظاہر کی تحسین کی ہے۔ اُن میں تاج محل بھی ہے، اقبال نے اسے شاعری کی زبان میں ’گوہرِ ناب‘ اور مردانِ پاک کے عشق کا مظہر قرار دیا ہے،۔ ’داستان گو‘… یعنی تاج محل اور طائوس کی اس تصویر کو اقبال کے انھیں اشعار سے مربوط کیا گیا ہے۔ لیکن اس تصویر کو ’داستان گو‘ کا عنوان کیوں دیا گیا، اس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔ غلام لڑکی: ایک سیاہ فام لڑکی کی تصویر ہے، جس کا چہرہ ایک لطیف ہلال کے ہالے میں ہے۔ اس سیاہ فام لڑکی کے ہاتھوں میں غالباً اپنی ’مالکہ‘ کے جوتے ہیں ، لیکن گردن بلند، سر بلند اور سر کشیدہ ہے، آنکھوں میں بیداری اور خود مختاری کے عزم کی ایک ہلکی سی جھلک بھی موجود ہے۔ جو اس تصویر کو مؤثر اور معنی خیز بناتی ہے‘… یہ سیاہ فام لڑکی سیاہ افریقہ کی غلامی کی تصویر ہے‘… اقبال کی اصطلاح میں یہ کالی دُنیا دراصل ’’ہلالی دُنیا‘‘ ہے جسے عشق کی زبان میں ’’بلالی دُنیا‘‘ بھی کہا جاتا ہے‘…شاید یہی سبب ہے کہ اس غلام لڑکی کے چہرے کو ایک ’ہلال ‘ کی قدوسی روشنی نے اپنے ہالے میں لے رکھا ہے، چغتائی کی شاہکار تصویروں میں سے ہے۔ اذانِ بغداد: اسلامی تمدن کے ماضی کی ایک جھلک سیب کا درخت: اس تصویر کا عنوان ’’ماں اور بچہ‘‘ بھی ہو سکتا ہے، ایک کشمیری ماں اپنے بچے کے ساتھ دکھائی گئی ہے حسن اور رنجوری، زندگی اور افلاس زدگی کی ایک خوبصورت تصویر‘… چغتائی کی اُن معدودے چند تصویروں میں سے ایک جن پر واقعیت پسندی کا اطلاق بھی کیا جا سکتا ہے۔ اخترِ صبح: اس تصویر کو چغتائی کے فن کے نقطۂِ عروج سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ صحرا کا اُفقی کٹائو جس کے ایک سرے پر محمل بردار اونٹ محوِ سفر ہے، اور انتہائی بلندیوں پر صبح کا ستارا چمک رہا ہے، جس کی ایک نوک زمین کی طرف اس طرح جھکی ہوئی ہے جیسے زمین کو چھو لینا چاہتی ہے۔ آسمان کی وسعت نے تصویر کے سارے کینوس کو گھیر رکھا ہے، ایسا لگتا ہے جیسے صحرا کی رات آسمان کی وسعت میں منقلب ہو گئی ہے، جس کے دامن کے ایک گوشے میں صبح کا ستارہ نویدِ صبح کی طرح جگمگا رہا ہے۔ اقبال کا یہ قطعہ اس تصویر کا زیبِ عنوان ہے: گذشتی تیز گام، اے اخترِ صبح مگر از خوابِ ما بیزار رفتی من از ناآگہی گم کر دہ راھم تو بیدار آمدی، بیدار رفتی تصویر کا عربی صحرائی لینڈ اسکیپ اقبال کی صحرائی امیجری کے قریب دکھائی دیتا ہے، تصویر کی سب سے بڑی فنی خوبی یہ ہے کہ نگاہ کا سفر ’ستارۂِ صبح‘ سے شروع ہوتا ہے، اور اسی پر ختم ہوتا ہے۔ ناقۂِ لیلیٰ: محض ایک تصویر جس میں لیلیٰ، ناقۂِ لیلیٰ ، مجنوں اور غزالانِ صحرا کو جمع کر دیا گیا ہے بظاہر اس تصویر کا کلامِ اقبال کے کسی بصری پہلو سے کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا۔ دانائے راز: طرازِ عنوان اقبال کا یہ شعر ہے: نہ اُٹھا پھر کوئی رُومی عجم کے لالہ زاروں سے وہی آب و گلِ ایراں وہی تبریز ہے ساقی جس سے ذہن میں فوری طور پر مولانا رُوم کا تصور اُبھرتا ہے، لیکن ’دانائے راز‘ کے عنوان سے چغتائی نے جو تصویر بنائی ہے وہ مشرق کے کسی بھی مردِ خود آگاہ کی تصویر ہو سکتی ہے‘…رومی، سعدی، نظام الملک طوسی، ابن سینا، عمر خیام غرض اسے اسلامی مشرق کے کسی بھی مردِ خودآگاہ کا چہرہ کَہ سکتے ہیں۔ یہ فردوسی یا بزرجمہر کی تصویر بھی ہو سکتی ہے۔ اس ’سیاہ و سفید‘ تصویر میں مشرق کے ’مردِ دانا‘ کا IMAGE انتہائی فنی مہارت کے ساتھ اُبھارا گیا ہے۔ چہرے کے خدو خال عربی اور لباس عجمی ہے۔ نور جہاں اور جہانگیر: اسے چغتائی کی ایک عام مغل تصویر کہا جا سکتا ہے۔ جس میں مغل ماحول کو کسی قدر آرائش کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔ برقِ نگاہ: اس عنوان سے جنگل میں ایک چیتے کی تصویر ہے۔ ذیلی عنوان کے طور پر اقبال کا یہ شعر دیا گیا ہے: ملے گا منزلِ مقصود کا اُسی کو سُراغ اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ مبصّر نے لکھا ہے:’’علامہ اقبال نے تصویر دیکھی تو فرمایا چیتے کی آنکھ کسی ناگ کی آنکھ ہے،۔ تاثیر نے دیکھا تو بولا، کتنا بھی کہوں کہ یہ تصویر چغتائی کی نہیں، مگر اس کے فن کی گہرائیوں کو کون چھپا سکے گا۔ چیتے کی نشست، اس کی انفرادیت ، رنگوں کی آمیزش، پس منظر کی جھلکیاں۔ یہ ملکہ کسے حاصل ہوگا‘‘…اقبال نے شاہین کے تجسس اور چیتے کے جگر کو مصافِ زندگی میں شامل ہونے کے لیے لازمی قرار دیا ہے، چغتائی نے ’چیتے‘ کی علامت کے نفسی مضمرات کو اس طرح پیش کیا ہے کہ باید و شاید، ایک سیاہی مائل نیلگوں رات اور سرخ پتھر یلی چٹان کے دامن میں اور خواب آلود جھاڑیوں کے سائے میں۔ یہ جنگلی درندہ اس طرح آرامیدہ ہے کہ ہلکی سے ہلکی آہٹ پر چونک سکتا ہے۔ تصویر میں سنگلاخ زمیں اور کرخت ماحول کو چغتائی نے اپنے لطافت خیز طرز سے جس طرح اُبھارا ہے، اُس نے تصویر کو ایک لازوال شاہکار بنا دیا ہے۔ پیش منظر میں ایک درخت کا لطیف سا تنا اور تنے کے دامن میں سرخ پتوں کا ایک تھال سا، تصویر میں توازن پیدا کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے جلال کے دامن میں جمال کا شعلہ روشن ہے۔ اقبال اور رُومی: اس مجموعے کی اہم ترین تصاویر میں سے ہے، سربفلک پہاڑ جن کا پیش منظری حصہ سیاہی اور تاریکی میں ہے۔ اور پس منظری حصہ جو دراصل تصویر کا معنوی پیش منظر بھی ہے، ایک اُلوہی اور قدوسی روشنی میں ہے۔ پہاڑ کی چوٹی پر رُومی کے پہلو میں اقبال اس طرح ایستادہ ہیں کہ رُومی ایک روشن سایہ اور اقبال ایک زندہ پیکر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ تصویر ڈانٹے کے اطالوی اور مغربی مصوروں مثلاً بوتیچلی (botticelli) اور گستائودورے (gustave dore) کی یاد دلاتی ہے، جنھوں نے ورجل اور ڈانٹے کے روحانی سفرکی اسی نوع کی لاتعداد تصویریں تخلیق کی ہیں۔ یہ تصویر اقبال کے روحانی سفر کے تجمل…اور رُومی سے ان کے ذہنی اور وجدانی رشتے کو ظاہر کرتی ہے۔ معمارِ حرم: ماں، باپ اور بچے کی تصویر ہے، جس کا عنوان سے کوئی ربط دکھائی نہیں دیتا۔ شرف النسائ: مغل جمالیات کے رچائو کے ساتھ مشرقی نسائیت کی ایک مکمل تصویر، تلوار اور کتاب (الفرقان) کی رفاقت میں شرف النساء مشرقی تجمل، عفت مآبی اور توازن و اعتدال کی مکمل تصویر دکھائی دیتی ہے۔ شرف النساء جاوید نامہ کا ایک تاریخی کردار ہے‘…شرف النساء نے ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے میں قرآنِ کریم لے کر پنجاب میں سکھوں کا مقابلہ کیا تھا۔ وہ حاکمِ پنجاب عبدالصمد خاں کی صاحبزادی تھی۔ چغتائی اس کردار کی صلابت، جزالت اور معصومیت کو بیان کرنے میں بہت حد تک کامیاب ہوا ہے۔ انجمن آرا: اس مجموعے کی ایک خالصتاً جمالیاتی اور مغل تصویر، تصویر کا مرکزی کردار (انجمن آرا) سبز لباس میں سُرخ پتوں کے سائے میں ہے۔ سُرخ پتوں نے ایک قدرتی چتر کی صورت اختیار کر لی ہے۔ چغتائی کے انفرادی اُسلوب اور پسندیدہ موضوع (مغل) کے ساتھ ایک خوبصورت تصویر جس کے جمالیاتی تناسبات صرف چغتائی ہی کی گرفت میں آسکتے تھے۔ منصور حلاج: جاوید نامہ میں اقبال نے منصور حلاج (حسین بن منصور حلاج) کو ارواحِ جلیلہ میں شمار کیا ہے۔ جنھوں نے فردوس کے مقابلے میں گردشِ جاودانی کو ترجیح دی ہے۔ اس عنوان سے چغتائی کی اس تصویر کو عملِ چغتائی کی عظیم ترین تصویر قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایک تصویر میں مشرق کی بہت سی رمزیات کے ساتھ (چغتائی کے ہاں غالباً پہلی مرتبہ) ایک نیم متصوفانہ اسرار پیدا ہو گیا ہے۔ تصویر میں منصور کو مصلوب ہونے کی بجائے سنگسار ہونے کے لیے شہر سے باہر لایا گیا ہے۔ منصور ایک پتھریلے سے احاطے میں لوگوں سے منہ موڑے ہوئے ہے۔ شہر سے باہر آنے والوں کا ہجوم ایک سیل کی طرح اس مقامِ خاص کی طرف رواں دواں ہے۔ تماشائیوں میں عوام بھی ہیں اور خواص بھی۔ اربابِ اختیار بھی ہیں اور اصحاب جبہ و دستار بھی، منصور کے قریب ایک پھول پڑا ہے۔ غالباً یہ وہی پھول ہے جو حضرت شبلی نے پتھر کے عوض منصور کو مارا تھا(تصویر میں شبلی کا تشخص نمایاں نہیں) منصور کے چہرے کے گرد ایک نورانی ہالہ ہے اور چہرے پر ایک الوہی روشنی کی جھلک ہے جسے عشق کی بلاکشی نے قدرے سنولا دیا ہے۔ صرف یہی ایک تصویر عبدالرحمن چغتائی کو مصورِ مشرق قرار دینے کے لیے کافی ہے۔ غنی کاشمیری: اقبال کا ایک پسندیدہ کردار جسے اُنھوں نے جاوید نامہ میں تفصیل کے ساتھ پیش کیا ہے لیکن یہ تصویر کسی بھی کشمیری کی تصویر ہو سکتی ہے۔ بنتِ اُمم: فاطمہ بنت عبداللہ کے عنوان سے اقبال کی ایک نظم میں یہ شعر اس تصویر کا ذیلی عنوان ہے: اپنے صحرا میں بہت آہو ابھی پوشیدہ ہیں بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں تصویر میں عورت کو بطورِ بنتِ اُمم دکھایا گیا ہے ۔ عورت جب تاریخ کا ورق اُلٹ دینے کا عزم لے کر کھڑی ہو جاتی ہے تو بہت حد تک اسی طرح ہوتی ہے۔ فروغِ دیدہ: ایک نا معلوم الاسم سلطان اپنے کہسار نما مہیب قلعے کے سامنے کھڑا ہے۔ معلوم نہیں اس تصویر کا عنوان ’فروغِ دیدہ‘ کیوں رکھا گیا ہے۔ تصویر کی ساری خوبی قلعے کی مخصوص ساخت میں ہے، ایسے ہی کوہستانی قلعے کو’شاہنامہ‘ کی زبان میں ’دژِکہنہ ‘ کہا جاتا ہے۔ مسجدِ قرطبہ: کسی عظیم الشان زیرِ تعمیر مسجد کو اندر سے دکھایا گیا ہے، ابھی مسجد بغیر مرکزی گنبد کے ہے اور شاید اس وقت گنبد کی تعمیر کا مرحلہ درپیش ہے۔ مسجدِ قرطبہ کے ساتھ اس زیرِ تعمیر مسجد کی کوئی نسبت دکھا ئی نہیں دیتی۔ عہد و پیماں: مغل جمالیات کی زبان میں کسی ہندو راجے اور رانی کی تصویر معلوم ہوتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ راجا جنگ پر جانے سے پہلے (راجپوتی دستور کے مطابق) اپنی رانی سے تلوار لے رہا ہے۔ مردِ مومن: ع۔’’حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن ‘‘ اس تصور کو اُجاگر کرنے کے لیے ایک سبز پوش مردِ مومن کو دکھایا گیا ہے ۔ پس منظر میں حوروں کے غول ہیں، دو حوریں اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ مردِ مومن کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ لیکن سبز پوش مومن ان سب سے بے نیاز اپنے کسی خیال میں محو ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک طویل سبحہ ہے، شایہ یہ سبحہ گردانی میں مصروف ہے۔ اورنگ زیب عالمگیر: اقبال کا پسندیدہ کردار ہے، اقبال نے اسے ’’ترکشِ ما را خدنگِ آخریں ‘‘ قرار دیا ہے۔ تصویر میں وہ (اورنگ زیب عالمگیر) ایک مرمریں تخت پر قدرے سادہ گائو تکیے کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے کچھ سوچ رہا ہے (آرام نہیں کر رہا) ہاتھ میں ایک غلاف پوش کتاب جو یقینا کلامِ پاک ہے اس لیے کہ قریب ہی ایک خالی رحل بھی موجود ہے۔ پس منظر میں دریا (غالباً جمنا) اور اس کے سبز پوش و گل منظر کنارے ہیں۔ اورنگ زیب کے چہرے سے اس کا زہدو تکشف نمایاں ہے۔ تصویر کی سادگی اورنگ زیب کی سادگی کو ظاہر کرتی ہے لیکن تصویر اورنگ زیب کے کردار کی تاریخی معنویت کو کسی طرح بیان نہیں کرتی۔ مؤذن: ایک خوبصورت رمزیاتی تصویر۔ میناروں اور گنبدوں کا ایک شہرِ خمو شاں جس میں اذان کی گونج زندگی کی حرکت پیدا کر رہی ہے۔ سلطانِ شہید: ایک بہت بڑی توپ کے سائے میں سلطانِ شہید حضرت ٹیپو سلطان ایک ڈھال کو بغل میں لیے ، تلوار پر ہاتھ رکھے عزمِ جہاد کی مکمل تصویر بنے ایستادہ ہیں۔ تصویر میں آرائش بہت زیادہ ہے، اس کے باوجود تصویر میں سلطانِ شہید کے کردار کی جھلک موجود ہے۔ خلیفہ ہارون الرشید: اُس تاریخی دَور کی علامت جب عربوں کا تجمل عجمی تخیل کی لطافت میں ڈھل رہا تھا۔ پس منظر میں بغداد کے الف لیلائی گنبد و مینار۔ خلیفہ ہارون الرشید اس تصویر کے کردار سے بڑھ کر کیا ہوگا غزالِ صحرائی: ایک سُرخ و زردگوں صحرا میں غزالِ صحرائی کی تصویر۔ جنرل طارق: ہاتھ میں ایک کشتی کا ماڈل لیے، جس میں ایک آدمی نیزا تانے کھڑا ہے، جنرل طارق، بہت حد تک اپنے تاریخی کردار کی جھلک دکھاتی ہے۔ رُخِ زیبا: ایک خوبصورت تصویر اسحاق موصلی: ایک مسلمان سائنسدان، اپنے علمی اور فنی پس منظر کے ساتھ۔ شہرت: اس تصویر میں ایک نیم عریاں عورت نے اپنے سر پر جلتا ہوا شمعدان اُٹھا رکھا ہے۔ اس تصویر کے تمام تر تلازمات ہندو اور راجپوتی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی دیوداسی رقص کے لیے تیار ہو کر مندر میں داخل ہوئی ہو اور مورتی کے سامنے بیٹھ گئی ہو۔(مورتی تصویر میں موجود نہیں، اس کا وجود اشاراتی ہے) دخترِ حرم: ایک خوبصورت تصویر عملِ چغتائی کے آخر میں ایچنگ کی تکنیک میں اقبال کی ایک خوبصورت تصویر ہے جو اقبال کی شخصیت کا خوبصورت خاکہ پیش کرتی ہے۔ مجموعی طور پر’ عملِ چغتائی چغتائی کا ایک خوبصورت مرقع ہے۔ جس کی اکثر تصویروں کا رشتہ اقبال کے فکرو فن کے ساتھ ملایا جا سکتا ہے، لیکن اسے اقبال کی مصورانہ تعبیر کہنا صرف جزوی طور پر ہی درست ہو سکتا ہے۔ عملِ چغتائی میں موضوعات اور اُسلوب کا تنوع ہے، مرقع چغتائی کی تصاویر مراقباتی ہیں، اور اُن میں ایک ’بے خودی‘ کی کیفیت موجود ہے۔ جب کہ عملِ چغتائی کی تصاویر میں زندگی اور حرکت کے آثار موجود ہیں‘…اور کرداروں کے چہروں پر شعور کی بیداری کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے، واضح الفاظ میں عملِ چغتائی کی تصاویر زیادہ ’زندہ‘ ہیں عمل چغتائی میں زندگی، حرکت، رنگ اور روشنی کے تصورات زیادہ واضح اور اثر انگیز ہیں۔ ان میں جدید معنوں میں حقیقت پسندی کا ایک عنصر بھی موجود ہے‘… ان تصاویر میں کہیں کہیں جلال و جمال کا وہ امتزاج بھی اپنی جھلک دکھا دیتا ہے، جو اقبال کا پسندیدہ مثالی تصور ہے‘… مرقع چغتائی میں صرف مغل ایرانی مشرق کی دُنیا ہے ، جب کہ عمل چغتائی میں اسلامی مشرق کی نمود بھی دکھائی دیتی ہے‘…لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اس سوال کا جواب دینا آسان نہیں کہ کیا عملِ چغتائی فنی اعتبار سے مرقع چغتائی سے بہتر یا کم از کم اس کے ہم پلہ ہے…؟ مرقع چغتائی… مصور کی امنگوں، اُس کے نشاطیہ میلانات اور اُس کی جمال دوستی کا آئینہ داتھا،۔ عمل چغتائی مصور کے قومی اور ملی تقاضوں کی تکمیل ہے، مرقع چغتائی میں تغزل کے عناصر زیادہ تھے، عملِ چغتائی میں تغزل کے ساتھ ساتھ واقعیت پسندی اور صلابت و جزالت کے اجزا بھی موجود ہیں۔ اس اعتبار سے عملِ چغتائی میں ارفعیت (sublimity) کی خصوصیات زیادہ ہیں…عملِ چغتائی… مصور کے فنی سفر کا منطقی نتیجہ ہے۔ مرقع چغتائی کے نثری دیباچے کا اختتام چغتائی نے اقبال کی ایک فارسی نظم کے اس بند پر کیا تھا۔ دم چیست؟ پیام است، شنیدی؟نشنیدی در خاکِ تو یک جلوۂ عام است،ندیدی دیدن دگر آموز، شنیدن دگر آموز! عملِ چغتائی… غالباً اسی…دیدن دگر آموز، شنیدن دگر آموز…کا جواب ہے۔ لیکن اسے صرف ایک ’نگاہِ مکرر‘ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ مصور کی اپنی تاریخ و تہذیب کے ساتھ وابستگی کی ایک شعوری تعبیر ہے‘…اسی لیے مجموعی طور پر اس میں فنی پختگی کے عناصر زیادہ ہیں۔ مرقعِ چغتائی کی طرح عملِ چغتائی بھی … مشرقی تمدن کی ایک خوبصورت علامت کے طور پر ہمیشہ زندہ رہے گا۔! /// حواشی ۱- اُستاد کمال الدین بہزاد، اسلامی دُنیا کا سب سے مشہور مصور جو ۸۱۵ھ/۱۴۵۰ء اور ۸۶۵ھ/۱۴۶۰ء کے درمیان پیدا ہوا، اور ۹۴۲ھ/۱۵۳۲ء میں فوت ہوا، اسے اپنے عہد کا عظیم ترین مصور تسلیم کیا گیا، اُسے سلطان حسین بائیقرا، شاہ اسمٰعیل صفوی اور شاہ طہماسپ صفوی جیسے بادشاہوں کی سر پرستی حاصل رہی، ۹۲۸ھ/۱۵۱۴ء میں شاہ اسمٰعیل کے شاہی کتب خانے کا کتابدار مقرر ہوا۔ خواند میر اور قاضی احمد جیسے نقادانِ فن نے اُس کی نفاست اور جیتی جاگتی تصویریں بنانے کی صلاحیت کی تحسین کی ہے، اُسے قلم پر گرفت، خاکہ کشی اور صورت گری میں تمام معاصرین پر فوقیت حاصل تھی۔ وہ کوئلے (چار کول) سے خاکہ کشی میں بھی مہارت تامہ رکھتا تھا۔ شہنشاہ بابر نے اُسے ’’نازک قلم‘‘ کہا ہے۔ شہنشاہ جہانگیر بھی اُس کے فن کا مداح اور اس کا طرز شناس تھا۔ جہانگیری اُسے خلیل مرزاشاہ رُخی) کے طرزِ مصوری کا پیرو کار بتاتا ہے۔ ۸۹۳ھ میں اس نے بوستانِ سعدی کو مصور کیا، ایک حکایت کے بالمقابل اُس نے زلیخا کے محل کی ’تصویر بنائی، جو بہزاد ہی نہیں مشرقی اسلامی مصوری میں بھی ایک نادر الظہور شاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔ ۲- عبدالرحمن چغتائی: فن اور شخصیت، مرتبہ ڈاکٹر وزیر آغا(مقالہ: عبدالرحمن چغتائی از ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی)۔ ۳- ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی۔ مقالہ عبدالرحمن چغتائی، مشمولہ، عبدالرحمن چغتائی مرتبہ ڈاکٹر وزیر آغا۔ ۴- ’’معمارِ تاج‘‘ (مقالہ) از عبدالرحمن چغتائی مطبوعہ ماہِ نو، استقلال نمبر، ۱۹۵۳ئ۔ ۵- عبدالرحمن چغتائی: فن اور شخصیت، مرتبہ ڈاکٹر وزیر آغا۔ ۶- ’’معمارِ تاج‘‘ (مقالہ) از عبدالرحمن چغتائی مطبوعہ ماہِ نو، استقلال نمبر، ۱۹۵۳ئ۔ ۷- ’میری تصویریں میری نظر میں‘ مشمولہ کتاب عبدالرحمن چغتائی: فن اور شخصیت، مرتبہ ڈاکٹر وزیر آغا۔ ۸- ’’عبدالرحمن چغتائی‘‘ (مقالہ) از ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی مشمولہ عبدالرحمن چغتائی: فن اور شخصیت، مرتبہ ڈاکٹر وزیر آغا۔ ۹- ’’عبدالرحمن چغتائی‘‘ (مقالہ) از ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی مشمولہ عبدالرحمن چغتائی: فن اور شخصیت، مرتبہ ڈاکٹر وزیر آغا۔ ۱۰- دیباچہ عملِ چغتائی /// ’ہمالہ‘… نظم یا کسی طویل نظم کا ابتدائیہ؟ [ایک تجزیاتی مطالعہ] تخلیقی محرکات اتنے گوناگوں، تَہ در تَہ اور پیچیدہ ہوتے ہیں کہ تخلیق کی ظاہری یا فوری معنوی دلالتوں میں اُن کو تلاش کرنا بعض اوقات بالکل بے سود ہوتا ہے، یہ کہنا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے کہ کوئی تخلیق۔ مثلاً کوئی نظم یا تصویر۔ ایک خاص صورت کیوں اختیار کرلیتی ہے۔ یہ درست ہے کہ کوئی بھی تخلیقی تجربہ عام طور پر اپنی ہیئت اور اپنا آہنگ اپنے ساتھ لاتا ہے، لیکن ہیئت اور آہنگ کو متشکل کرنے کی مثال تخلیقی پیکر کو پتھر کی سنگینی سے آزاد کرانے کی سی ہے، فن کار کو اپنے تخلیقی تجربے کے لیے ہیئت اور آہنگ کو بہرحال خود ہی متشکل کرنا پڑتا ہے، اور ایسا کرنے میں وہ لاشعوری محرکات سے آزاد نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ تخلیقی محرکات کے نقطۂ نظر سے کسی تخلیق کا تجزیہ کچھ ایسا بے ثمر نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ آہنگ ہو یا ہیئت، الفاظ ہوں یا مطالب، بہرطور ایک زندہ ذہنی عمل سے اُبھرتے ہیں اور یہ زندہ ذہنی عمل فرد کی تخلیقی انا سے اُبھرنے کے باوجود کسی عہد اور کسی معاشرتی صورتِ حال ہی میں صورت پذیر ہوتا ہے۔ اور جہاں تک لاشعوری تخلیقی محرکات کا تعلق ہے، وہ تخلیقی فرد کے لاشعور تک محدود نہیں ہوتے، بلکہ اُن کے ریشے تو نسلوں اور اقوام کے اجتماعی لاشعور کی دوریوں تک پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔ اقبال کے تخلیقی شعور نے جس عہد میں آنکھ کھولی، وہ شاعری کی حد تک توانائی کی کمی کا عہد تھا۔ اس عہد اور غالب کی شاعری میں داغ و امیرمینائی کی غزل کا ایک جیتا جاگتا عہد حائل تھا اور غزل کے دائرے پھیلنے کی بجائے سمٹ رہے تھے، حالی اور آزاد کی جدید نظم گوئی وجود میں آچکی تھی اور نئے ذہنوں پر اُس کے اثرات یقینا مرتب ہورہے تھے۔ لیکن حالی و آزاد کی نظمیں ایک شعوری اور افادی عمل کی پیداوار تھیں اور تخلیق کے لاشعوری سرچشموں سے کہیں بہت قریب واقع نہیں ہوئی تھیں، اس لیے اُردو شاعری کی روحِ خلاق اپنے اظہار کے لیے نئی وسعتوں اور نئی گہرائیوں کو دریافت کرلینے کے لیے بے چین اور مضطرب تھی۔ یہ نئی وسعتیں اور گہرائیاں غزل کے ایک شعر کی مرتکز تَہ داری (concentrated centrality) میں نہیں سمٹ سکتی تھیں۔ یہ طلب سمٹائو کی نہیں بلکہ پھیلائو کی تھی، وہی پھیلائو جو کسی طویل اور مہتم بالشان نظم ہی میں ظاہر ہوسکتا ہے۔ طویل نظم کا تصور اُردو شاعروں کے لیے بالکل نامانوس یا اجنبی بھی نہیں تھا، مثنوی اور قصیدہ طویل نظم ہی کی شکلیں ہیں، ایک بھرپور مرثیے کو بھی طویل نظم ہی کہا جائے گا لیکن نظم کے جدید تصور کے ساتھ طویل نظم ابھی اُردو شاعری میں اپنی فنی بنیادوں کو دریافت نہیں کرپائی تھی۔ مسدسِ حالی یقینا ایک طویل نظم تھی جس میں اُردو شاعری پہلی بار ایک طویل مکالمے کی صورت سے آشنا ہوئی۔ اس میں خودکلامی بھی تھی، مخاطبت بھی اور آہنگ بھی۔ اسی لیے یہ نظم اُس وقت بھی زندہ تھی اور آج بھی ایک زندہ نظم ہے، یہ معنوی طور پر بھی ضخیم تھی، اس لیے کہ اس کے معنوی رشتے تاریخ میں بہت دور تک پھیلے ہوئے تھے، لیکن یہ نظم نغمے سے زیادہ مخاطبت (وعظ) سے اُبھری تھی، اس کی رِثائیت نے اس میں ایک جذباتی گہرائی بھی پیدا کردی ہے، لیکن بذاتِ خود یہ نظم بھی اس بات کا اشارہ تھی کہ اُردو شاعری کی طویل نظم کے لیے نئے سے نئے پیرائے تلاش کرنے چاہییں۔ اقبال جن کے طالب علمانہ شعور پر یقینا حالی اور آزاد کی منظومات سایہ فگن رہی ہوں گی، اپنی ابتدائے شاعری میں حالی اور آزاد سے زیادہ داغ کو قابلِ تقلید سمجھتے تھے۔ خیال رہے کہ حالی کے ساتھ آزاد کا ذکر یہاں محض ضمناً اور تبعاً ہے وگرنہ حالی کے اثرات کے مقابلے میں آزاد کے اثرات ایسے قوی دکھائی نہیں دیتے کہ اُنیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل کی شعری اور ادبی صورتِ حال میں اُن کا ذکر لازمی کیا جائے، یہ اور بات ہے کہ ایک محدود زمانی سیاق و سباق میں حالی کے ساتھ ساتھ آزاد کی نظمِ جدید کے مؤثرات کو بھی کلی طور پر خارج از بحث قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کوئی طویل نظم تخلیق کرنے کی خواہش اقبال کے دل میں زمانۂ طالب علمی ہی سے موج زن تھی۔ کوئی ایسی نظم جسے طوالت اور معنوی گہرائی کے اعتبار سے، نیز وسعتِ موضوع کے اعتبار سے دُنیا کی عظیم الشان نظموں مثلاً ملٹن کی فردوسِ گم گشتہ، ڈانٹے کی طربیۂ ایزدی، یا گوئٹے کی منظوم تمثیل فاؤسٹ کے ہم پلہ اور مماثل قرار دیا جاسکے، یہ خواہش یقینا مغربی ادب کے مطالعے کا نتیجہ تھی، لیکن اس خواہش کی تَہ میں مشرق کی عظمت کو شاعری میں اُجاگر کرنے کا خیال بھی اپنی ابتدائی صورتوں میں ضرور کارفرما تھا۔ اقبال کے زمانۂ طالب علمی کے ایک رفیق، میرغلام بھیک نیرنگ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں: ہاں، ایک بات ضرور لکھنے کے قابل ہے، ہماری ان سہ سالہ صحبتوں میں اقبال اپنی ایک سکیم باربار پیش کیا کرتے تھے۔ ملٹن کی مشہور نظم (paradise lost) اور (paradise regained) کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ واقعاتِ کربلا کو ایسے رنگ میں پیش کروں گا کہ ملٹن کی (paradise regained) کا جواب ہوجائے گا مگر اس تجویز کی تکمیل کبھی نہ ہوسکی۔ مَیں اتنا اور کَہ دوں کہ اُردو شاعری کی اصلاح و ترقی کا اور اس میں مغربی شاعری کا رنگ پیدا کرنے کا ذکر باربار آیا کرتا تھا۔ [اقبال کے بعض حالات، غلام بھیک نیرنگ۱؎] اُردو شاعری کی اصلاح و ترقی اور اس میں مغربی رنگ پیدا کرنے کا خیال اُس عہد کی علمی و ادبی دُنیا کا ایک عمومی رویہ تھا۔ حالی اور آزاد کی نظم گوئی اور حالی کے مقدمۂ شعر و شاعری نے اس خیال کو باقاعدگی سے پروان چڑھایا تھا، لیکن طویل نظم لکھنے کا خیال اقبال کی اپنی ذہنی زندگی کی پیداوار تھا۔ اس میں شک نہیں کہ اُردو شاعری اقبال کی شاعری کے وجود میں آنے سے پہلے، وہ کچھ نہیں تھی جو کچھ خود اقبال اسے دیکھنا چاہتے تھے۔ فکروابلاغ کی سطح پر ایک ایسی ضخامت (a certain magnitude) جو شاعری کو ایک ہمہ گیر لہجہ اور آفاقی اپیل عطا کرتی ہے، ابھی نمو پذیر نہیں تھی، یا اُس کی نموپذیری ابھی ظاہر نہیں ہوئی تھی۔ اس صورتِ حال میں مرزا غالب کی شاعری ایک خاموش مگر یقینی اثر کے طور پر مسلسل اپنا کام کررہی تھی، غالب نے جو طرزِ شاعری ایجاد کیا تھا۔ اس میں یہ طاقت تھی کہ مستقبل کے شعری اسالیب کی صورت پذیری کو متاثر کرسکے۔ خود غالب کے ہاں بھی ہمیں شاعری اور شاعری کے اسالیب میں کسی بڑی یا اساسی تبدیلی کی دبی دبی خواہش کا احساس ہوتا ہے۔ اُن کا یہ کہنا کہ: بقدرِ ذوق نہیں ظرفِ تنگنائے غزل کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے غزل کی ہیئت سے بالاتر ہوکر کسی نئے شعری پیرایۂ اظہار کی دریافت یا تخلیق کی خواہش کا نتیجہ ہے۔ حالی شاعری میں کسی بڑی تبدیلی کی ضرورت کے احساس میں برابر کے شریک تھے، اور وہی اس تبدیلی کا نقطۂ آغاز بھی بنے۔ غرض اپنے عہد کی عمومی ادبی فضا کے زیراثر، اور خود اپنے اندرونی تخلیقی تقاضوں کی روشنی میں، شاعری میں ایک نئے لہجے، نئے پیرایۂ اظہار اور نئے طرزِ احساس کی ضرورت کا احساس اقبال کو شروع ہی سے تھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فردوسِ گم گشتہ، (ملٹن)، ڈوائن کامیڈی (ڈانٹے) اور فاؤسٹ (گوئٹے) جیسی طویل نظمیں یا تماثیل پڑھتے ہوئے اقبال کے دل میں اس خواہش کا اُبھرنا بالکل فطری تھا کہ اُردو شاعری کے دامن کو بھی ایسی عظیم تخلیقات سے مالامال کیاجانا چاہیے۔ اسے ہم نوجوان اور طالب علم اقبال کی ادبی ambitions ہی کَہ سکتے ہیں کہ وہ واقعاتِ کربلا کو نظم کرکے اُردو شاعری میں ملٹن کی فردوسِ گم گشتہ یا فردوسِ بازیافتہ کا جواب پیدا کرنا چاہتے تھے۔ واقعاتِ کربلا کو نظم کرنے کا خیال اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ اقبال ابھی طویل نظم کو صرف رزمیہ (epic) کے طور پر دیکھتے تھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اس وقت تک مراثی انیس کی رزمیہ اور رثائی دُنیا سے آشنا ہوچکے ہوں اور واقعاتِ کربلا میں اُنھیں ایک طویل اور عظیم نظم کا مواد دکھائی دیتا ہو۔ اقبال شروع ہی سے وسیع المطالعہ تھے اور اُردو شاعری کے تمام اہم اور قابلِ ذکر پیرائے اور اسالیب بہت جلد ان کے سامنے آگئے تھے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ انیس کی شاعری کو بیانیہ شاعری کے ’موڈل‘ (model) کے طور پر دیکھتے ہوئے اقبال نے مسدّس کی ہیئت کو موزوں، فطری اور مکمل یا کم ازکم فوری طور پر موزوں پیرایۂ بیان خیال کیا ہوں۔ اس لیے کہ اوّلیں نظم جو اُنھوں نے لکھی، وہ نظم جس نے اُنھیں ادبی حلقوں میں بطورِ شاعر متعارف کرایا، ہیئت کے اعتبار سے مسدّس ہی کی شکل میں تھی، یعنی ’ہمالہ‘! ہوسکتا ہے کہ مسدّس کی ہیئت کا ماخذ انیس کے مرثیوں کی بجائے حالی کی مسدّسِ مدوجزرِ اسلام ہو، اگر میر غلام بھیک نیرنگ کی روایت میں واقعاتِ کربلا کو نظم کرنے کی خواہش کا تذکرہ نہ ہوتا تو یہ بات زیادہ قرین قیاس ہوتی کہ اقبال کی اوّلین نظم کی ہیئت کے انتخاب میں حالی کی مسدّس نے ضرور کچھ نہ کچھ کردار ادا کیا ہے۔ اتنی بات یقینی ہے کہ اقبال اس وقت فارسی کی عظیم صوفیانہ نظموں مثلاً منطق الطیر، مثنویِ معنوی اور گلشنِ راز وغیرہ سے اس حد تک متاثر نہیں ہوئے تھے کہ مثلاً مولانا رُوم کے طرز کی مثنوی لکھنے کی خواہش اُن کے دل میں پیدا ہوتی۔ بانگِ درا کی پہلی اور اقبال کی پہلی مشہور نظم ’ہمالہ‘ میں کچھ ایسے قرائن موجود ہیں جن کی روشنی میں اقبال کی اس نظم کو اُن کی طویل نظم لکھنے کی خواہش کے حوالے سے بھی مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ قرائن کچھ اور نتائج کے استنباط میں بھی رہنمائی کرتے ہیں۔ اس نظم پر اوّلین تبصرہ مدیر مخزن سرعبدالقادر کا ہے، جو کئی اعتبارات سے قابلِ توجہ اور قابلِ تجزیہ ہے۔ اقبال کے طالب علمانہ دورِ شاعری کا تذکرہ کرتے ہوئے سرعبدالقادر لکھتے ہیں: اتنے میں ایک ادبی مجلس قائم ہوئی جس میں مشاہیر شریک ہونے لگے اور نظم و نثر کے مضامین کی اس میں مانگ ہوئی۔ شیخ محمد اقبال نے اس کے ایک جلسے میں اپنی وہ نظم جس میں ’’کوہِ ہمالہ‘‘ سے خطاب ہے، پڑھ کر سنائی۔ اس میں انگریزی خیالات تھے اور فارسی بندشیں۔ اس پر خوبی یہ کہ وطن پرستی کی چاشنی اس میں موجود تھی۔ مذاقِ زمانہ اور ضرویاتِ وقت کے موافق ہونے کے سبب بہت مقبول ہوئی اور کئی طرف سے فرمائشیں ہونے لگیں کہ اسے شائع کیا جائے۔ مگر شیخ صاحب یہ عذر کرکے کہ ابھی نظرِثانی کی ضرورت ہے، اسے اپنے ساتھ لے گئے اور وہ اس وقت چھپنے نہ پائی۔ [بانگِ درا: دیباچہ] دیباچہ بانگِ درا کا یہ اقتباس بھی پورے دیباچے کی طرح بہت اہم اور معنی خیز ہے، اس میں نظم ’ہمالہ‘ کی ایک مختصر سی تنقیدی تحسین (critical appreciation) موجود ہے، جسے ایک نظر میں یوں دیکھا جاسکتاہے: ۱- نظم ’ہمالہ‘ میں انگریزی خیالات تھے۔ ۲- فارسی بندشیں (نوعیت یا کثرت کے اعتبار سے) قابلِ توجہ تھیں۔ ۳- اس پر خوبی یہ کہ وطن پرستی کی چاشنی اس میں موجود تھی۔ ۴- مذاقِ زمانہ اور ضرورتِ وقت کے موافق ہونے کے سبب نظم بہت مقبول ہوئی سرعبدالقادر کے اس بیان سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس ادبی مجلس کے مذکورہ جلسے میں سرِمحفل اقبال سے اس نظم کو شائع کرنے کی فرمائشیں بھی ہوئیں اور غالباً کسی نے اس نظم کا مسودہ بغرضِ اشاعت طلب بھی کیا لیکن اقبال، نظرِثانی کی ضرورت کا عذر کرتے ہوئے ’’اسے اپنے ساتھ لے گئے۔‘‘ اس واقعے کا اگلا حصہ بھی سرعبدالقادر ہی کے الفاظ میں سننے کے لائق ہے: …اس بات کو تھوڑا ہی عرصہ گذرا تھا کہ مَیں نے ادبِ اُردو کی ترقی کے لیے رسالہ مخزن جاری کرنے کا ارادہ کیا۔ اس اثنا میں شیخ محمد اقبال سے میری دوستانہ ملاقات پیدا ہوچکی تھی۔ مَیں نے اُن سے وعدہ لیا کہ اس رسالہ کے حصۂ نظم کے لیے وہ نئے رنگ کی نظمیں مجھے دیا کریں گے، پہلا رسالہ شائع ہونے کو تھا کہ مَیں اُن کے پاس گیا اور مَیں نے ان سے کوئی نظم مانگی۔ اُنھوں نے کہا ابھی کوئی نظم تیار نہیں، مَیں نے کہا ’ہمالہ‘ والی نظم دے دیجیے اور دوسرے مہینے کے لیے کوئی اور لکھیے۔ اُنھوں نے اس نظم کے دینے میں پس وپیش کی کیوں کہ اُنھیں یہ خیال تھا کہ اس میں کچھ خامیاں ہیں۔ مگر مَیں دیکھ چکا تھا کہ وہ بہت مقبول ہوئی۔ اس لیے مَیں نے زبردستی وہ نظم اُن سے لے لی۔ اور وہ مخزن کی پہلی جلد کے پہلے نمبر میں جو اپریل ۱۹۰۱ء میں نکلا شائع کردی، یہاں سے گویا اقبال کی اُردو شاعری کا پبلک طور پر آغاز ہوا۔ [بانگِ درا: دیباچہ] اگرچہ نظم ’ہمالہ‘ کو اشاعت کے لیے دینے میں اقبال کے پس و پیش کا ظاہری سبب یہی ہے کہ اقبال کے نزدیک اس میں کچھ خامیاں تھیں اور ابھی نظم پر نظرِثانی کی ضرورت تھی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صورتِ حال واقعی یہی تھی؟ یا یہ محض ایک ’معاشرتی عذر‘ تھا اور نظم کو اشاعت کے لیے نہ دینے کا اصل سبب کچھ اور تھا؟ اقبال ریاکاری سے ہمیشہ دور رہے اور اُن کے اِس عذر کو سخن سازی پر محمول کرنا بے جواز ہوگا۔ اس لیے کہ یہ نظم بعینہٖ وہ نہیں، جو پہلی بار مخزن میں شائع ہوئی۔ بانگِ درا میں شامل کرتے وقت اقبال نے اس میں خاصی ترمیم کی۔ یہ اَمر یقینی ہے کہ اس نظم کو پہلی بار اشاعت کے لیے دیتے ہوئے اقبال کے ذہن میں اس کے الفاظ و تراکیب پر نظرِثانی کا خیال موجود تھا۔ لیکن اس نظم کا غائر مطالعہ بتاتا ہے کہ اقبال کے تأمل کا سبب محض نظرِثانی کی ضرورت کا احساس نہیں، بلکہ کچھ اور بھی تھا،… نظم ’ہمالہ‘ کا سارا معنوی تاروپود اس امکان کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ صرف ایک نظم کے طور پر نہیں، بلکہ کسی طویل نظم کے ابتدائیے کے طور پر لکھی گئی تھی۔ لیکن ادبی حلقوں میں فوری مقبولیت اور سرعبدالقادر کے اصرار نے اسے ایک مکمل نظم بنادیا اور وہ نظم نہ لکھی جاسکی جس کے لیے ’ہمالہ‘ ایک خوبصورت اور ڈرامائی ابتدائیہ ہوسکتی تھی، اس نظم کی اُٹھان بتاتی ہے کہ یہ نظم صرف آٹھ بندوں میں ختم ہوجانے کے لیے نہیں لکھی گئی تھی: اے ہمالہ! اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں تجھ میں کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں تو جواں ہے گردشِ شام و سحر کے درمیاں ایک جلوہ تھا کلیمِ طورِ سینا کے لیے تو تجلّی ہے سراپا چشمِ بینا کے لیے جس نظم کا موضوع یا ایلیٹ کے الفاظ میں نسبتِ خارجی (objective correlative) ہمالہ کا سا عظیم الشان سلسلۂ کوہ ہو، اس نظم کی فنی اور موضوعی غایات صرف آٹھ بندوں میں حاصل نہیں ہوسکتیں۔ یہ یقینا کسی طویل نظم کا موضوع ہے۔ فرض کیجیے کہ کوہِ ہمالہ سے متعلق یہ سلسلۂ خیال فنی اعتبار سے کافی بھی ہو، تب بھی نظم میں مناظرِ فطرت کے بیان سے انسانی تمدن کی تاریخ کی طرف گریز کا واضح اشارہ ملتا ہے۔ نظم کا آخری بند ہی ’گریز‘ کا وہ ٹکڑا ہے جس میں شاعر کا روئے سخن دُنیائے فطرت سے انسانی زندگی کے احوال کی طرف مڑتا دکھائی دیتا ہے۔ نظم کا آخری بند پکار پکار کر کَہ رہا ہے کہ میں اختتامی بند نہیں بلکہ گریز کا ٹکڑا ہوں، اس بند میں ایک بار پھر کوہِ ہمالیہ سے تخاطب اس بات کی واضح دلیل ہے کہ نظم میں ایک نیا موڑ آگیا ہے، اور یہاں ایک نئے سلسلۂ خیال کا آغاز ہوتا ہے: اے ہمالہ! داستاں اُس وقت کی کوئی سنا مسکنِ آبائے انساں جب بنا دامن ترا کچھ بتا اُس سیدھی سادی زندگی کا ماجرا داغ جس پر غازۂ رنگِ تکلف کا نہ تھا ہاں، دکھا دے اے تصور! پھر وہ صبح و شام تو دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو! کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ یہ نظم اس بند پر ختم ہوجائے جس میں شاعر کوہِ ہمالیہ سے اُس وقت کی داستاں سنانے کا مطالبہ کر رہا ہے، جب اس کا دامن آبائے انساں کا مسکن بنا۔ (وادیِ گنگ و جمن میں انسانی تمدن کا آغاز ہوا) ہمالیہ کی زبانی اُس سیدھی سادی زندگی کا ماجرا سننا (یا سنانا) چاہتا ہے جس پر رنگِ تکلف کے غازے کا داغ نہ تھا اور تصور سے قدیم ایام کی تصویر دکھانے اور گردشِ ایام سے پیچھے کی طرف دوڑنے کا تقاضا کررہا ہے؟ نظم کا یہ اختتام کسی طرح سے بھی ’اختتام‘ نہیں بلکہ کسی نئے سلسلۂ کلام کا نقطۂ آغاز لگتا ہے، میر غلام بھیک نیرنگ کا یہ بیان کہ اقبال کے دل میں طویل نظم لکھنے کی خواہش ایامِ طلب علمی ہی سے موجزن تھی، نظم ’ہمالہ‘ کو اشاعت کے لیے دینے میں (نظرثانی کی ضرورت کے عذر کے ساتھ) اقبال کا مسلسل پس و پیش اور نظم کا آخری بند، جوہر اعتبار سے گریز (point of departure) یا گریز کا ٹکڑا دکھائی دیتا ہے۔ یہ سب چیزیں مل کر اِسی ایک حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ’ہمالہ‘ اپنی اُس شکل میں جس میں اسے شاعر نے تخلیق کیا، نظم نہیں بلکہ کسی طویل نظم کا ابتدائیہ تھی جو نہ لکھی گئی یا نہ لکھی جاسکی۔ نظم کے آخری بند کے تمام معنوی قرائن بتاتے ہیں کہ اقبال کے دل میں برِصغیر کی تاریخ کے کسی ابتدائی باب یا ابواب کو نظم کرنے کا ارادہ ضرورتھا، جو پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ ہوسکتا ہے وہ برِصغیر کی ابتدائی تاریخ کو اختصار کے ساتھ بیان کرنے کے بعد برِصغیر میں مسلمانوں کی تاریخ کو قلم بند کرنا چاہتے ہوں۔ ایک طویل نظم کی صورت میں! /// توضیحات و استدراکات ۱- اپنے کلام میں اقبال کی ترمیم و اصلاح نقدِ ادب کا موضوع بھی ہے اور اُن کے فنی ارتقا کو سمجھنے کا ایک ذریعہ بھی۔ اقبال کی اوّلیں نظم جو اُن کی ملک گیر شہرت کا سبب بنی ’ہمالہ‘ تھی، جس کے بارے میں بعض قرائن کی روشنی میں سطورِبالا میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اپنے مطالب اور بعض معنوی تلازمات کی بدولت یہ نظم کسی ممکنہ طویل نظم کا ابتدائی حصہ یا تمہید معلوم ہوتی ہے، اس نظم کے سلسلے میں چند اور اہم نکات بھی پیشِ نظر رہنے چاہییں۔ یہ نظم مخزن میں ’’کوہستانِ ہمالہ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی اس پر سر عبدالقادر نے یہ مدیرانہ نوٹ لکھا: ’’شیخ محمد اقبال صاحب اقبال ایم اے، قائم مقام پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور جو علومِ مغربی ومشرقی دونوں میں صاحبِ کمال ہیں۔ انگریزی خیالات کو شاعری کا لباس پہنا کر ملک الشعرائے انگلستان ورڈس ورتھ کے رنگ میں کوہِ ہمالہ کو یوں خطاب کرتے ہیں۔‘‘ اس نوٹ سے ایک بار پھر اس تاثر کی تائید ہوتی ہے کہ سر عبدالقادر کے نزدیک اقبال کے فن کی… یا کم از کم اس نظم کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس میں ’’انگریزی‘‘ (یعنی مغربی) خیالات کو اُردو شاعری کا جامہ پہنایا گیا تھا۔ نیز اس نظم میں اُنھیں اقبال انگریزی زبان کے شہرۂ آفاق فطرت پرست اور رُومان پسند شاعر ورڈز ورتھ کے رنگ میں لکھنے والے نظر آئے۔ اور اس میں شک نہیں کہ اس نظم میں فطرت پرستی کا جو شاعرانہ رویہ نظرآتا ہے، اس کی نسبت انگریزی کے رُومان پسند شعرا (ورڈز ورتھ، شیلے، بائرن، کیٹس، ٹینی سن اور برائوننگ وغیرہم) سے قائم کی جاسکتی ہے، اقبال نے انگریزی کے ان رومان پسند شاعروں سے جو اثرات قبول کیے ان کا مطالعہ اگرچہ تفصیلی طور پر نہیں کیا گیا، تاہم کچھ قابلِ قدر کام ضرور ہوا ہے۔ (اس سلسلے میں پروفیسر حمید احمد خاں مرحوم کا مقالہ ’’اقبال اور انگریزی شعرا‘‘ بالخصوص اہمیت کا حامل ہے۔) مخزن میں شائع ہونے والی اقبال کی نظم ’’کوہستانِ ہمالہ‘‘ جو بعد کو انتخابِ مخزن (حصۂ اوّل) کے حصۂ نظم کی پہلی نظم قرار پائی۔ اپنی ابتدائی یا اصلی صورت میں یوں تھی۔ اے ہمالہ، اے فصیلِ کشور ہندوستان چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں تجھ پہ کچھ ظاہر نہیں دیرینہ روزی کے نشاں تُو جواں ہے دورۂ شام و سحر کے درمیاں تیری ہستی پر نہیں بادِ تغیر کا اثر خندہ زن ہے تیری شوکت گردشِ ایام پر امتحانِ دیدۂ ظاہر میں کوہستان ہے تُو پاسبان اپنا ہے تُو، دیوارِ ہندوستاں ہے تُو سوئے خلوت گاہِ دل، دامن کشِ انساں ہے تُو مطلعِ اوّل فلک جس کا ہو وہ دیواں ہے تُو برف نے باندھی ہے دستارِ فضیلت تیرے سر خندہ زن ہے جو کلاہِ مہرِ عالم تاب پر سلسلہ تیرا ہے یا بحرِ بلندی موجزن رقص کرتی ہے مزے سے جس پہ سورج کی کرن تیری ہر چوٹی کا دامانِ فلک میں ہے وطن چشمۂ دامن میں رہتی ہے مگر پر تو فگن چشمۂ دامن میں ہے آئینۂ سیال ہے دامنِ موج ہوا جس کے لیے رومال ہے ابر کے ہاتھوں میں رہوارِ ہوا کے واسطے تازیانہ دے دیا برقِ سرِکوہسار نے اے ہمالہ کوئی بازی گاہ ہے تو بھی، جسے دستِ قدرت نے بنایا ہے عناصر کے لیے ہائے کیا جوشِ مسرت میں اُڑا جاتا ہے ابر فیلِ بے زنجیر کی صورت چلا جاتا ہے ابر جنبشِ موجِ نسیمِ صبح گہوارہ بنی جھومتی ہے کیا مزے لے لے کر ہر گل کی کلی یوں زبانِ برگ سے کہتی ہے اس کی خامشی دستِ گل چیں کی جھٹک میں نے نہیں دیکھی کبھی کَہ رہی ہے میری خاموشی ہی افسانہ مرا کنجِ خلوت خانۂ قدرت ہے کاشانہ مرا نہر چلتی ہے سرودِ خامشی گاتی ہوئی آئنہ سا شاہدِ قدرت کو دکھلائی ہوئی کوثر و تسنیم کی مانند لہراتی ہوئی ناز کرتی ہے فرازِ راہ سے جاتی ہوئی چھیرٹی جا اس عراقِ دل نشیں کے ساز کو اے مسافر، دل سمجھتا ہے تری آواز کو لیلیٔ شب کھولتی ہے آکے جب زلفِ رسا دامنِ دل کھینچتی ہے آبشاروں کی صدا وہ خموشی شام کی جس پر تکلم ہو فدا وہ درختوں پر تفکر کا سماں چھایا ہوا کانپتا پھرتا ہے کیا رنگِ شفق کہسار پر خوش نما لگتا ہے یہ غازہ ترے رخسار پر وہ اُچھالی پنجۂ قدرت نے گیند اِک نور کی جھانکتا ہے وہ درختوں کے پرے خورشید بھی دل لگی کرتی ہے ہر پتے سے جس کی روشنی میرے کانوں میں صدا آئی مگر کچھ دور کی دل کی تاریکی میں وہ خورشیدِ جاں افروز ہے شمعِ ہستی جس کی کرنوں سے ضیا اندوز ہے وہ۱؎ اُصولِ حق نمائے نقشِ ہستی کی صدا رُوح کو ملتی ہے جس سے لذتِ آبِ بقا جس سے پردہ رُوئے قانونِ محبت کا اُٹھا جس نے انساں کو دیا رازِ حقیقت کا پتا تیرے دامن کی ہوا میں سے اُگا تھا یہ شجر بیخِ جس کی ہند میں ہے، چین و جاپاں میں ثمر تُو تو ہے مدت سے اپنی سرزمیں کا آشنا کچھ بتا ان راز دانانِ حقیقت کا پتا تیری خاموشی میں ہے عہدِ سلف کا ماجرا تیرے ہر ذرے میں ہے کوہِ اُلمپس۲؎ کی فضا ایک جلوہ تھا کلیمِ طورِ سینا کے لیے تُو تجلی ہے سراپا، چشمِ بینا کے لیے اے ہمالہ داستاں اُس وقت کی کوئی سنا مسکنِ آبائے انساں جب بنا دامن ترا کچھ بتا اُس سیدھی سادھی زندگی کا ماجرا داغ جس پر غازۂ رنگِ تکلف کا نہ تھا ہاں دِکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تُو دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تُو آنکھ اے دل کھول اور نظارۂ قدرت کو دیکھ اس فضا کو اس گل و گلزار کی رنگت کو دیکھ اپنی پستی دیکھ اور اس کوہ کی رفعت کو دیکھ اس خموشی میں سرورِ گوشۂ عزلت کو دیکھ شاہدِ مطلب ملے جس سے وہ ساماں ہے یہی دردِ دل جاتا رہے جس سے وہ درماں ہے یہی (اقبال) (۱)-بدھ مذہب کی طرف اشارہ ہے۔ (۲)-کوہِ اُلمپس۔ یونان میں ایک مشہور پہاڑ ہے جس پر قدیم یونانی خیالات کے مطابق دیوتائوں کے دربار ہوتے تھے۔ ۲- مذکورہ بالا فٹ نوٹس اصل نظم کے ساتھ شائع ہوئے تھے۔ انتخابِ مخزن میں بھی فٹ نوٹس کو… برقرار رکھا گیا ، ’بانگِ درا‘ کی نظم ’’ہمالہ‘‘… اور مخزن کی نظم ’’کوہستان ہمالہ‘‘ میں جو لفظی اختلاف ہے اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال نے اس نظم کی اشاعت کے بعد بھی اس میں خاصی ترمیم کی۔ اور نظم کے چار بند (آٹھواں، نواں، دسواں اور بارہواں) حذف کردیے، اس میں وہ بند بھی ہے۔ جس میں بدھ مت کے بانی اور سرزمین ہند کے دوسرے بانیانِ مذاہب کی تعلیمات کی طرف اشارہ ہے۔ دسویں بند میں شاعر کوہِ ہمالہ سے اُن ’’راز دانانِ حقیقت‘‘ کا پتا پوچھتا ہے۔ جنھوں نے اس سرزمین کو علم و اخلاص کی روشنی عطا کی۔ اسی طرح گیارہویں بند میں ایک بار پھرشاعر کوہِ ہمالہ سے ماضی کی داستاں سنانے کی خواہش کرتا ہے۔ اگرچہ نظم کا آخری اور بارہواں بند جسے بعد میں حذف کردیا گیا۔ نظم کو ایک طرح کا نقطۂ اختتام عطا کرتا ہے۔ جس سے محسوس ہوتا ہے کہ نظم اتنی ہی تھی۔ اس کے باوجود نظم کا سارا تاروپود اسی نتیجے کی طرف رَہنمائی کرتا ہے کہ اقبال برِصغیر کی تاریخ کے حوالے سے، ابتدا ہی سے کوئی طویل نظم لکھنے کے خواہشمند تھے۔ نظم میں جو لفظی تبدیلیاں کی گئیں، اُن سے شاعر کے تیزی سے ترقی پذیر فنی شعور کا پتا چلتا ہے۔ نطم کی متروک اور موجودہ صورت کے موازنے سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ نظم کا موجودہ متن (مشمولہ بانگِ درا) فنی تکمیل کابہترین نمونہ ہے۔ ۳- مخزن کے عام شماروں کی عدم دستیابی کے باعث یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ اقبال کی کون کون سی نظمیں وقتاً فوقتاً اس جریدے میں شائع ہوتی رہیں۔ لیکن اقبال کے فن کی قدروقیمت کا جو احساس سرعبدالقادر کے قلم سے ٹپکتا ہے، اُس سے بظاہر اس خیال کی طرف رہنمائی ہوتی ہے کہ اقبال کی وہ تمام نظمیں جو مخزن کے عام شماروں میں شائع ہوئیں، انتخابِ مخزن میں شامل کرلی گئی ہوں گی۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ مخزن میں شائع ہونے والی اقبال کی تمام نظمیں انتخابِ مخزن میں شامل نہیں ہیں۔ بہرحال انتخابِ مخزن میں شامل ہونے والی نظموں کے عنوانات یہ ہیں: ۱-کوہستانِ ہمالہ، ۲-حسن اور زوال، ۳-ایک پرندے کی فریاد، ۴-ہمارا دیس، ۵-نیا شوالہ۔ ان تمام نظموں میں اقبال نے کافی حک و اضافہ کیا۔ انتخابِ مخزن کے حصہ غزل میں اقبال کی صرف دو غزلیں شامل کی گئی ہیں، ان غزلوں کے مطلعے یہ ہیں۔ ۱- ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی ۲-نگاہ پائی ازل سے جو نکتہ بیں مَیں نے ہر ایک چیز میں دیکھا اسے مکیں مَیں نے انتخابِ مخزن میں اقبال کو جن شعرا کے دوش بدوش جگہ ملی اُن میں نظم گوئوں میں خوشی محمد ناظر، ظفرعلی (مولانا)، حسرت موہانی، نیرنگ (غلام بھیک)، اکبر الٰہ آبادی، مولوی اسمٰعیل میرٹھی، سرور جہاں آبادی، جلیل اور احسن… اور غزل گوئوں میں شاد عظیم آبادی، حسرت موہانی، مرزا ہادی، آغا شاعر قزلباش دہلوی، مرزا ارشد گورگانی، نیرنگ اور مولانا حبیب الرحمن شروانی کے نام اہم ہیں۔ ترتیب کے اعتبار سے ان شعرا میں سے بعض پر اقبال کو اور بعض کو اقبال پر مقدم رکھا گیا ہے،لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انتخابِ مخزن کی ترتیب حفظِ مراتب کے اعتبار سے نہیں بلکہ مخزن میں اشاعت کی زمانی ترتیب کے اعتبار سے ہے۔ /// حوالہ جات ۱- مطالعۂ اقبال (منتخبہ مقالاتِ اقبال)، مرتبہ گوہر نوشاہی۔ اقبال اور نسلِ نو مرزا غالب اُردو اور فارسی شاعری میں اقبال کے عظیم پیش رو ہیں، اُن کا ایک شعر ہے: ہوں گرمیِ نشاطِ تصور سے نغمہ سنج مَیں عندلیبِ گلشنِ ناآفریدہ ہوں یعنی میں تصور سے حاصل ہونے والی سرخوشی کی حرارت سے نغمہ پرداز ہوں، گویا مَیں ایک ایسے گلشن کا بلبل ہوں جو ابھی پیدا نہیں ہوا۔ واقعہ یہ ہے ہر بڑا شاعر اور ہر بڑا مفکر ایک اعتبار سے گلشنِ ناآفریدہ کا عندلیب ہوتا ہے، اس لیے کہ شاعری اور تفکر دونوں جب اپنی بلندیوں پر پہنچتے ہیں تو اُن کا تعلق خودبخود مستقبل کے ساتھ ہوجاتا ہے، آپ اس کو یوں بھی کَہ سکتے ہیں کہ شاعری اور تفکر بلند ہی اس وقت ہوتے ہیں جب وہ اپنے آپ کو انسانیت کے مستقبل سے وابستہ کرتے ہیں۔ ماضی کا تجزیہ اور حال کا مطالعہ بھی شاعری اور فکر میں عظمت اور گہرائی پیدا کرسکتا ہے اور کرتا ہے، لیکن وہ شاعر اور مفکر جو انسانیت کے لیے کوئی پیغام رکھتا ہو مستقبل کے حوالے کے بغیر اپنے پیغام کو مکمل نہیں کرسکتا، اور یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ مستقبل کی تشکیل کا انحصار ہمیشہ آنے والی نسلوں پر ہوتا ہے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ مستقبل نوجوانوں کا ہے تو خلافِ واقعہ نہیں، مستقبل واقعی ان لوگوں کا ہے جو آج نوعمر ہیں اور زندگی کا سفر شروع کرنے کی تیاریاں کررہے ہیں۔ گوئٹے نے کہا تھا کہ نوجوانوں میں ہماری دلچسپی کا اصل سبب یہ ہے کہ اُن کے سامنے ایک درخشاں مستقبل ہوتا ہے، اُن کی آنکھوں میں آنے والے دنوں کے خواب اور اُن کی باتوں میں آنے والی بہاروں کے ناشگفتہ پھولوں کی مہک ہوتی ہے، گوئٹے نے یہ بات نفسیاتی نقطۂ نظر سے کہی ہے، لیکن مقصد اس کا بھی یہی ہے کہ مستقبل کی دُنیا کی تشکیل نوجوان نسلوں کے اندازِ نظر اور طرزِ فکر پر ہے۔ یہاں تک کہ بزرگ نسلیں فکروتہذیب اور علوم و فنون کا جو ورثہ اپنے پیچھے چھوڑتی ہیں اُس کی بقا… اس کی تشریح و تعبیر اور اُس کی تہذیبی قدروقیمت کا انحصار بھی نوجوان نسلوں پر ہوتا ہے۔ اسی لیے ہر سنجیدہ مفکر اور باشعور معاشرہ نوجوان نسلوں کی تعلیم و تربیت کی اہمیت پر زور دیتا چلا آیا ہے، نوجوان… اپنی نوجوانی کی ترنگ میں اس بات کی اکثر پروا نہیں کرتے کہ ان سے بڑی عمر کے لوگ ان میں کیوں دلچسپی رکھتے ہیں یا اُن سے کیا توقعات وابستہ کرتے ہیں اور کیوں…؟ لیکن نوجوانوں کی بے پروائی سے بزرگ نسلوں کی ذمہ داریوں میں کسی طرح کمی واقع نہیں ہوتی… عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اقبال جیسا شاعر اور مفکر جو پوری انسانیت کے سامنے ایک درخشاں اور تابناک مستقبل کا خاکہ پیش کرتا ہے، نسلِ نو کو کس طرح نظرانداز کرسکتا تھا۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اُن کے کلام اور ان کی نثری تصانیف کے بیشتر حصوں کے مخاطب نوجوان لوگ ہی ہیں۔ انسانِ کامل، مردِ مومن، تکمیلِ خودی اور تسخیرِ کائنات کے جو نصب العینی مقاصد اقبال عالمِ انسانیت کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اُن کی تکمیل کا تمام تر انحصار خود اقبال کے نزدیک بھی آنے والی نسلوں ہی کے ذوقِ عمل پر ہے۔ اقبال نے معاشرے کے کسی طبقے کے افراد کے بارے میں نہیں کہا کہ مجھے ان سے محبت ہے، سوائے نوجوانوں کے: محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند ذرا خیال کیجیے… گوئٹے کا کہنا یہ ہے کہ لوگ نوجوانوں میں اس لیے دلچسپی لیتے ہیں کہ اُن کے سامنے ایک وسیع اور درخشاں مستقبل ہوتا ہے… لیکن اقبال نے دلچسپی کی جگہ محبت کا جذباتی لفظ استعمال کیا ہے لیکن اس محبت کو مشروط کردیا۔ یعنی مجھے اُن جوانوں سے محبت ہے جو ستاروں پہ کمند ڈالتے ہیں… ہم جانتے ہیں کہ ستاروں پہ کمند ڈالنا شاعرانہ اندازِ بیاں ہے، اگرچہ اب انسان کے قدم ستاروں اور سیاروں تک پہنچنے لگے ہیں اور تسخیرِ کائنات اقبال کے نزدیک انسان کا سب سے بڑا نصب العین ہے، لیکن اس شعر میں اُن کی مراد وہ نوجوان ہیں جن کے حوصلے بلند ہیں، جن کے مقاصد بلند تر ہیں اور جو اپنے بلند تر مقاصد کی تکمیل میں ہر لمحہ کوشاں ہیں… اقبال نے اپنے افکار کی تشریح کے لیے بعض خیالی کردار بھی تخلیق کیے ہیں، جن میں سے ایک محراب گل ہے، محراب گل کی زبانی وہ جوانوں کے مثالی کردار کی خصوصیات بیان کرتے ہیں، محراب گل کہتا ہے: وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا شباب جس کا ہے بے داغ، ضرب ہے کاری اگر ہو جنگ تو شیرانِ غاب سے بڑھ کر اگر ہو صلح تو رعنا غزالِ تاتاری ستاروں پہ کمند ڈالنے والے، بے داغ شباب اور ضربِ کاری کے حامل، جنگ میں شیرانِ غاب اور صلح میں رعنا غزالِ تاتاری… یہ ہے مثالی نوجوانوں کی وہ تصویر جو اقبال کے ذہن میں اُبھرتی ہے، اس تصویر کے پس منظر میں وہ خودی ہے جو فولاد سے زیادہ مضبوط ہے: اُس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی ہو جس کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا پُر دم ہے اگر تُو تو نہیں خطرۂ اِفتاد اقبال کو اپنے عہد کے نوجوانوں سے شکایات بھی تھیں، اور وہ ان کے لیے کئی طرح کی دُعائیں کرتے تھے: خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تُو کتاب خواں ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں کتاب خواں… اور صاحبِ کتاب ہونے میں جو فرق ہے وہ وہی ہے جو گفتار اور کردار میں ہے۔ لیکن اس سلسلے میں اقبال کو اصل شکایات مغربی تصوراتِ زندگی پر مبنی اس نظامِ تعلیم سے ہیں جو نوجوانوں کی خودی بیدار کرنے کی بجائے اُن کے شعور پر معلومات کے پردے ڈال دیتا ہے اور علم و ادراک کی بلندی سے آشنا نہیں ہونے دیتا۔ اسی لیے وہ نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں: اُس جنوں سے تجھے تعلیم نے بیگانہ کیا جو یہ کہتا تھا خرد سے کہ بہانے نہ تراش فیضِ فطرت نے تجھے دیدۂ شاہیں بخشا جس میں رکھ دی ہے غلامی نے نگاہِ خفاش مدرسے نے تری آنکھوں سے چھپایا جن کو خلوتِ کوہ و بیاباں میں وہ اسرار ہیں فاش لیکن اس کے باوجود اقبال نسلِ نو سے کسی صورت میں نااُمید نہیں، ان کا خیال ہے کہ اگر آدمی کے جوہر میں لااِلٰہ کی تعلیم رچی ہوئی ہو تو فرنگیانہ تعلیم اس کی خودی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ جاوید سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں: غارت گرِ دیں ہے یہ زمانہ ہے اس کی نہاد کافرانہ سرچشمۂ زندگی ہوا خشک باقی ہے کہاں مئے شبانہ خالی ان سے ہوا دبستاں تھی جن کی نگاہ تازیانہ جوہر میں ہو لا اِلٰہ تو کیا خوف تعلیم ہو گر فرنگیانہ اقبال نے مختلف تاریخی اور خیالی کرداروں کی زبان سے جو نصائح چھوڑے ہیں ان سب کا خطاب نژادِ نو سے ہی ہے۔ مثلاً اُن کی ایک نظم کا عنوان ہے ’’سلطان ٹیپو کی وصیت‘‘ ظاہر ہے کہ سلطانِ شہید کی یہ وصیت آنے والی نوجوان نسلوں ہی کے لیے ہے، اس نظم میں سلطانِ شہید کی زبان سے اقبال نے جو کچھ کہا ہے وہ اس قابل ہے کہ اُسے آبِ زر سے لکھا جائے، اور اس سے بڑھ کر نئی نسل کے ہر فرد کے دل و دماغ پر نقش ہو۔ فرماتے ہیں: تو رَہ نوردِ شوق ہے؟ منزل نہ کر قبول لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول اے جوئے آب، بڑھ کر ہو دریائے تندو تیز ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول کھویا نہ جا صنم کدۂ کائنات میں محفل گداز، گرمیِ محفل نہ کر قبول صبحِ ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول باطل دوئی پسند ہے، حق لاشریک پر شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول آپ نے اکثر خیال کیا ہوگا کہ اقبال کی شاعری میں شاہین کا بہت تذکرہ ہے، ممکن ہے یہ بھی سوچا ہو کہ شاہین بھی اقبال کی شاعری کی دیگر علامات کی طرح ایک علامت ہو جس کے ذریعے اقبال نے اپنے افکار و خیالات کو تمثیلی طور پر پیش کیا ہے، لیکن اگر ذرا غوروتامل سے کام لیں تومعلوم ہوگا کہ شاہین اقبال کے ہاں بنیادی طور پر نسلِ نو کا استعارہ ہے… اور عجیب بات یہ ہے کہ ہم نے شاہین کے لفظ کو واقعی بلند ہمت نوجوانوں اور نسلِ نو کے افراد کے لیے بطورِ استعارہ قبول کرلیا ہے، اس علامت یا استعارے کے ذریعے اقبال نے نسلِ نو سے بہت ساری باتیں کہی ہیں۔ مثلاً ایک بوڑھا عقاب اپنے بچے سے کَہ رہا ہے: بچۂ شاہیں سے کہتا تھا عقابِ سال خورد اے ترے شہپر پہ آساں رفعتِ چرخ بریں ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام سخت کوشی سے ہے تلخِ زندگانی انگبیں جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزا ہے اے پسر وہ مزا شاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں ایک اور نظم میں نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں: عقابی رُوح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں نظر آتی ہے اُن کو اپنی منزل آسمانوں میں نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر تو شاہیں ہے، بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں وہ فارسی نظمیں جن میں شاہین اپنے بچے کو خطاب کرتا نظر آتا ہے، دراصل نسلِ نو کے نام اقبال کے پیغامات کی تشریحات ہیں۔ اور ان سب نظموں کا مرکزی خیال یہی ہے کہ نوجوانوں کو اپنے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کا ادراک حاصل کرنا چاہیے اور اپنے جوشِ کردار اور قوتِ عمل سے دُنیا میں ایک نیا طرزِ زندگی پیدا کرنا چاہیے جس کی بنا تعمیرِ خودی اور تسخیرِ کائنات کے تصورات پر ہو۔ جاوید نامہ… جو فارسی زبان میں اقبال کا عظیم ترین فنی کارنامہ ہے۔ اقبال کے بیشتر افکار کا آئینہ دار ہے، اس طویل نظم (مثنوی) کے اختتام پر ایک اور مختصر مثنوی ضمیمے کے طور پر شامل ہے، جس کا عنوان ہے ’’خطاب بہ جاوید، ا س کا ذیلی عنوان ہے، ’’سخنے بہ نژادِ نو‘‘… گویا اقبال نے اس نظم میں دراصل نسلِ نو سے خطاب کیا ہے، اس نظم کی ابتدا اس خیال سے ہوتی ہے کہ تمھیں تمھاری ماں نے ’’لا اِلٰہ‘‘ کہنا سکھایا، اب اگر ’’لااِلٰہ‘‘ کہو تو رُوح کی گہرائیوں سے کہو اس ابتدائی نکتے کے بعد مومن کی تعریف کی ہے کہ مومن کسی کا غلام نہیں ہوسکتا، مومن غدار، فقیر اور منافق نہیں ہوسکتا، مسلمانوں نے ’’لااِلٰہ‘‘ کی رُوح کو خیرباد کَہ دیا ہے، اس لیے اب اس کے صوم و صلوٰۃ بے نور، اس کی کائنات بے تجلیِ حیات ہوگئی ہے، کبھی محبتِ خداوندی اس کی زندگی کا سرمایہ تھی، اب حبِ مال اور خوفِ مرگ اس کی زندگی کی اساس ہے، عصرِحاضر کے افکار نے اس سے ذوق و شوق اور سوزو سرور کی متاعِ گراں بہا چھین لی ہے، عصرِحاضر جو عقلِ بے باک اور دلِ بے گداز سے عبارت ہے، سراسر غرقِ مجاز ہے، علم و فن ، دین و سیاست اور عقل ودل۔ تمام کے تمام آب و گِل (مادی نصب العین) کا طواف کر رہے ہیں، ایشیا جو طلوعِ آفتاب کی سرزمین ہے، اپنے آپ سے محجوب اور غیر کے جلوے میں گم ہے، ایشیا کا دل نئی واردات (اندر سے پیدا ہونے والی نئی تخلیقی حرکت) سے خالی ہے، اس کا زمانہ ساکن، یخ بستہ اور بے ذوقِ سیر ہوکر رَہ گیا ہے،… اس عالم میں نوجوان تشنہ لب ہیں اور ان کا جامِ شعور شرابِ آگہی سے تہی ہے۔ بے یقینی اور نااُمیدی نے اُن کی تخلیقی صلاحیتوں کو سلب کر لیا ہے۔ ان خیالات کے بعد اقبال علم کے بارے میں ایک مختصر محاکمہ پیش کرتے ہیں، فرماتے ہیں: علم تا سوزے نگیرد از حیات دل نگیرد لذّتے از واردات علم جز شرحِ مقاماتِ تو نیست علم جز تفسیرِ آیاتِ تو نیست سوختن می باید اندر نارِ حس تا بدانی نقرۂ خود را زِمس علمِ حق اوّل حواس، آخر حضور آخرِ اُو می نگنجد در شعور علم جب تک زندگی سے سوز نہ حاصل کرلے، دل واردات کی لذت سے بہرہ یاب نہیں ہوسکتا۔ (اے نوجوان) علم تیرے اپنے مقاماتِ (معنوی) کی شرح ہے، تو کتاب ہے اور علم تیری آیات کی تفسیر ہے، حواس کی آگ میں جلنا شرط ہے تاکہ تو اپنے اندر کے سونے کو تانبے سے الگ کرسکے۔(اپنی ذات کے تخلیقی جوہر کو پہچان سکے) علمِ حق کی ابتدا حواس سے ہوتی ہے، لیکن اس کا اختتام حضور ہے۔ یہ آخری مرحلہ ایسا ہے کہ شعور کے پیمانے میں نہیں سما سکتا۔ نژادِ نو کو اقبال نے چند نصائح صراحت کے ساتھ کیے ہیں ان میں ایک یہ ہے: کم خور و کم خواب و کم گفتار باش گردِ خود گردندہ چون پرکار باش کم کھائو، کم سوئو اور کم بولو اور اپنی ذات کے گرد اس طرح رہو جیسے پرکار اپنے گردگردش کرتی رہتی ہے، یعنی حفظِ ذات اور خودشناسی کو اپنا اُصول بنائو۔ اسی طرح اقبال نے نسلِ نو کو شیوۂ اخلاص اختیار کرنے اور ماسوی اللہ کے خوف سے آزاد ہونے کی تلقین کی ہے، دین کی تشریح کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں کہ دین کیا ہے؟ طلب میں جل جانے کا نام دین ہے، اس کا آغاز ادب اور اس کی انتہا عشق ہے۔پھول کی آبرو اس کے رنگ و بو سے ہے۔ ان نصائح کے اختتام پر اقبال نژادِ نو کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ پیرِ رومی کو رفیق راہ بنائے، تاکہ اسے (نژادِ نو کو) سوزوگداز کی دولت حاصل ہوسکے، اس لیے کہ رومی ہی ہے جو مغز کو چھلکے سے الگ کرسکتا ہے اور کوچۂ محبوب (راہِ حقیقت) میں استقامت کے ساتھ پائوں رکھ سکتا ہے۔ لوگوں نے رومی سے ’’رقصِ تن‘‘ کا سبق لیا ہے اور جب تک حرص اور غم کی آگ انسان کے اندر سلگتی رہتی ہے، اُس کی رُوح وجد میں نہیں آسکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ حرص عصرِحاضر کی فقیری ہے، اور حرص سے وہی آزاد ہوسکتا ہے جو اپنی ادنیٰ خواہشوں کو تسخیر کرچکا ہو! غرض نژادِ نو کے نام اقبال کے پیغامات اُن کی ساری شاعری میں بکھرے ہوئے ہیں، یہ پیغامات ساحلوں کے موتی اور آسمانوں کے ستارے ہیں جن کی چمک کبھی ماند پڑنے والی نہیں کیونکہ نئی نسلیں ہر عہد میں پیدا ہوتی رہیں گی اور اقبال کا پیغام ہر عہد کے نوجوانوں کے لیے معنی خیز رہے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کی تمام تر شاعری دراصل ہر عہد کی نژادِ نو کے لیے پیغام ہے… جستجو کا پیغام، زندگی کا پیغام اور خود آگہی کا پیغام! [نوجوانوں کی ایک انجمن سے خطاب] /// سنگ و خشت یا افکارِ تازہ [اقبال کا ایک شعر] اگرچہ یہ کہنا آسان اور اُسے ثابت کرنا خاصا مشکل ہے کہ کسی بھی فن کار کے فن پاروں کو یکجا کریں تو ایک فنی وحدت وجود میں آتی ہے، لیکن اتنی بات قرینِ صداقت ضرور ہے کہ اکثر بڑے شاعروں کی تخلیقات کسی داخلی ربط و ضبط کے تحت باہم مل کر کسی بڑی فنی وحدت کو متشکل کرنے کی طرف مائل رہتی ہیں۔ یہ ایک خصوصیت بھی ان خصوصیات میں سے ہے جو بڑی شاعری کو تہ داری عطا کرتی ہیں، اقبال کی شاعری اس داخلی ربط و ضبط کی مثالی صورت ہے، اس لیے کہ اُن کی تمام تر شعری تخلیقات جس طرح ایک مکمل فنی وحدت کی تشکیل کرتی ہیں، اس کی مثال شعر وادب میں کم ہی ملے گی۔ ادبِ عالیہ، نظم ہو یا نثر، ابلاغ و اظہار کی ایسی تخلیقی صورتوں کو پیش کرتا ہے جو اپنی ماہیت کے لحاظ سے تو ناقابلِ فہم ہیں لیکن مطالب کے اعتبار سے ہمارے فکرو وجدان کے لیے غیرمعمولی طور پر مؤثر ہیں۔ ہر عظیم ادبی تخلیق، تجربے، احساس، جذبے اور تصور کی بعض مخصوص حالتوں کی ترسیل کے ساتھ ساتھ کسی ایسی حقیقت کو بھی منکشف کرتی ہے جو عام حالات میں تعقل یا تفکر کی گرفت سے باہر رہتی ،یا اگر تعقل کی گرفت میں آبھی جاتی تو اس توانائی اور تاثیر سے خالی رہتی جو زندگی کے بطن سے اُبھرتے ہوئے خلاقانہ اظہار کے پیکر میں ڈھل کرہی برقرار رہ سکتی ہے، اقبال کے فکروفلسفہ میں غیرمعمولی توانائی اور تاثیر اسی وجہ سے ہے کہ اُن کے ہاں خلّاقانہ اظہار تکمیلیت کی انتہائی صورتوں کے ساتھ نمودار ہوتا ہے۔ ایسے بہت سے فکری مطالب جن کی عقلی توضیح کے لیے عبارت کا وسیع دامن درکار ہے، اقبال کے ہاں اشارۂ بلیغ کی صورت میں اس طرح مرتکز ہوجاتے ہیں کہ وسعتِ خیال اور وسعتِ نظر دونوں کی سمائی چند لفظوں میں ہوجاتی ہے، یہ خیال کہ خیال (idea or thought )کو مادّے پر تقدم حاصل ہے۔ ایک فلسفیانہ بحث ہے، اور ہر مابعد الطبیعیاتی فلسفے کی اساس اسی ایک خیال پر ہے… اقبال جو ایک مابعد الطبیعیاتی مفکر ہیں مادّے پر خیال کی فوقیت اور تقدم کے قائل ہیں… اس تصور کے انسانی ثمرات اور تمدنی مضمرات کیا ہیں۔ اس سوال کے جواب میں جتنے مباحث اُبھر سکتے ہیں اُنھیں اقبال نے کمالِ ہنر سے صرف ایک شعر میں سمیٹ لیا ہے، وہ شعر ہے: جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا اس شعر میں جہانِ تازہ اور سنگ و خشت کی تراکیب جس فنی لطافت کے ساتھ استعمال ہوئی ہیں، اُس نے اُنھیں علامت اور استعارہ کی وسعت دے دی ہے، اسی لیے اس شعر کو پڑھتے یا سنتے ہی ذہن میں قصرِزہرا، الحمرا، مسجدِ قرطبہ، تاج محل اور بادشاہی مسجد کی تصویریں جاگ اُٹھتی ہیں،… اس لیے کہ سنگ و خشت کا استعارہ مادّے کی علامت گری کرنے کے ساتھ ساتھ لطیف جمالیاتی تلازمات بھی رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کا ہر استعارہ مکمل ابلاغ کے لیے وسیع تر ذہنی تلازمات اور ہمہ جہت تصورات و معانی اپنے ساتھ لاتا ہے، سنگ و خشت سے یقینا پہلا تصوری تلازمہ اُن تعمیراتی شاہکاروں کا اُبھرتا ہے جن کی نمود سنگ و خشت کی صورت گری اور صورت پذیری سے ہوئی لیکن جن کے وجود کا اوّلیں نقش نفسِ انسانی کی گہرائیوں میں ہی اُبھرا ہوگا۔ اس لیے کہ ہر تخلیقی حرکت کا آغاز ہمیشہ باطن ہی سے ہوا کرتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ہر تخلیقی حرکت کے مقدر میں خارج میں مجسم ہوجانا نہیں ہوتا۔ تاج محل ایک مثالی عمارت کے طور پر نہ جانے کتنے خلاق ذہنوں کا تخلیقی نصب العین رہا ہوگا لیکن اوراقِ ایام پر اُس کا نقش صرف ایک ہی دفعہ وجود پذیر ہوسکا،… تخلیقی حرکت کو اعماقِ نفس سے اُبھار کر خارج کے ابعاد میں قائم کرنے اور زمانے کی جوئے رواں کی سطح پر اس نقشِ باطنی کو ابدی اور لازماں بنانے کا عمل جس ایقان، ریاضت اور جہدِ مسلسل کا تقاضا کرتا ہے، اس کا ظہور قوموں کی زندگی میں شاذونادر ہی ہوتا ہے، پھر یہ اتفاق بھی ہر روز نہیں ہوا کرتا کہ افراد کی تخلیقی قوت قوموں کی تخلیقی قوت سے ہم آہنگ ہوجائے۔ انفرادی قوتیں کبھی اجتماعی قوتوں سے آزاد ہوکر نہیں اُبھر سکتیں، مسجدِ قرطبہ اور تاج محل کے خلّاق فن کاروں نے تہذیبی تجربے کو جس طرح تعمیراتی ہیئت کے اُصولوں میں منتقل کیا ہے، خیال کی رعنائیوں اور جذبے کی لطافتوں کو جس طرح سنگ و خشت میں مجسم کیا ہے، اس کے پیچھے پوری زندگی کا تخلیقی شعور اور اُصولِ زندگی کارفرما ہے۔ لیکن تخلیقی شعور اور تخلیقی حرکت کے ذریعے اُصولِ زندگی کی دریافت کچھ ایسا آسان کام بھی نہیں، زندگی ہر لمحہ فکرونظر کا تقاضا کرتی ہے، اُصولِ زندگی کا کوئی رشتہ اُس وقت تک ہاتھ نہیں آپاتا جب تک حواس، ادراک اور شعور ہر لمحہ مصروفِ عمل نہ رہیں، اور یہ اُس وقت ہوتا جب کسی قوم کے تمام قویٰ بیدار و توانا ہوں اور مادّے پر شعور کی گرفت کو ہر لمحہ مضبوط رکھیں، ایسا بھی ہوتا ہے کہ صدیاں گزرجاتی ہیں اور کسی قوم کے یخ کدۂ احساس میں حیاتِ تازہ کی کوئی لہر نہیں دوڑتی، فکرِنو کی کوئی کرن مادّے کی کثیف ظلمتوں کا سینہ چاک نہیں کرتی۔ ایسی صورت میں زندگی انتقاماً شعور پر مادّے کے میکانکی اُصول مسلط کر دیا کرتی ہے، اور انسانوں کا دائرہِ عمل جبلتوں کی تسکین سے آگے نہیں بڑھ پاتا… اقبال کے شعور نے جب آنکھ کھولی تو ہند کے مے خانے، تین سو سال سے بند پڑتے تھے، مادّے پر شعور کی گرفت اتنی ڈھیلی پڑ چکی تھی کہ تخلیقی قوتوں کے اُبھرنے کا کہیں کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا، انحطاط اور فرسودگی کی فضائے تنگ میں حیاتِ تازہ کا کوئی خوشگوار جھونکا حواس کو تروتازہ نہیں کرتا تھا، اور یہ سب جرأتِ تفکر کے فقدان اور زندگی سے گریز پائی کا نتیجہ تھا۔ جس قوم نے تاج محل اور لال قلعہ تعمیر کیا تھا وہ قوم اب استعارۃً ایک اینٹ بھی کھڑی نہیں کرسکتی تھی، اس لیے کہ ایک اینٹ پر دوسری اینٹ رکھنا مادّے کے ساتھ شعور اور ارادے کی باقاعدہ مبارز طلبی ہے،… سنگ و خشت کی دُنیا آباد کرنے سے پہلے اپنے باطن کی دُنیا آباد کرنا زیادہ ضروری ہے، مادّہ اپنی تسخیر کے لیے محض حرکت کا نہیں بلکہ تخلیقی حرکت کا متقاضی ہے، محض ارادے کا نہیں بلکہ باشعور ارادے کا متقاضی ہے، محض جبلت کا نہیں بلکہ فکرونظر کا متقاضی ہے…! ایک اور واضح اشارہ اس شعر میں یہ بھی ہے کہ جہانِ نو یا جہانِ تازہ سے مراد سنگ و خشت کی نئی ترتیب نہیں بلکہ نئی ادراکی قوتیں ہیں جو زندگی کو نئی سے نئی معنویت عطا کرتی چلی جاتی ہیں، انسان جس جہانِ نو کا خواب دیکھ رہا ہے۔ اس کی بنیاد کسی نئے کشف (vision)خیال کی کسی نئی قوت پر ہوگی جو عمل اور فکر کے مروجہ پیمانوں کو یقینا بدل کے رکھ دے گی۔ لیکن کشفِ حیات اور قوتِ خیال کا سرچشمہ کہیں باہر نہیں، ہمارے بہت قریب، ہمارے اندر ہی ہے، لیکن اس تک پہنچنے کے لیے یہ لازمی ہے کہ ہم مان لیں کہ فکروخیال کو مادّے پر فوقیت حاصل ہے۔ اپنے مطالب کے اعتبار سے تو یہ شعر اسی حقیقت کی طرف اشارہ کررہا ہے جس کا اظہار ہمارے صوفیانہ اور فلسفیانہ لٹریچر میں بارہا ہوا ہے، یعنی یہ کہ خیال کو مادّے پر، انسان کو کائنات پر، انفس کو آفاق پر اور بطون کو ظہور پر اولیت اور فوقیت حاصل ہے لیکن اقبال نے اس تصور میں اہم ترمیم کی ہے۔ اقبال کے نزدیک مادّے پر ذہن اور شعور کی فوقیت ایک امرواقع اور حاصل شدہ حقیقت نہیں بلکہ مادّے اور شعور کے درمیان یہ ایک ایسی نسبت ہے جو قابلِ حصول ہے اور جس کا حصول ہی شرفِ انسانیت کا لازمہ ہے، یعنی یہ ضروری نہیں کہ مادّہ شعور ہی کا غلام رہے بلکہ یہ بھی عین ممکن ہے کہ نفسِ انسانی میں تخلیقی توانائی کی کمی کے باعث ذہن اور شعور مادّے کے غلام ہوجائیں، گویا اقبال کے نزدیک صرف تخلیقی تصورات اور تخلیقی عمل ہی افراد اور اقوام کی زندگی اور بقا کے ضامن بنتے ہیں، اس شعر میں ’’جہانِ تازہ‘‘ کی ترکیب جتنی شاعرانہ ہے اتنی ہی معنی خیز اور قابلِ توجہ بھی ہے، یوں تو زندگی کی تغیر پذیری لمحہ بہ لمحہ نئی نئی صورتوں کی تلاش میں مادّے کو ایک انقلابِ مسلسل سے گذار رہی ہے لیکن اس شعر میں جہانِ تازہ کا اشارہ مستقبل کے اُن لامحدود اور وسیع تر امکانات کی طرف ہے جن سے فائدہ اُٹھانا شعور و ادراک اور قوتِ فکر ہی کا کام ہے،… فکر ایک خالص تخلیقی عمل ہے جس کی شہودی قوت براہِ راست مادّے پر اثرانداز ہوتی ہے، کوئی بھی تہذیبی عمل اس وقت تک نتیجہ خیز، باثمر اور مؤثر فی الاستقبال نہیں ہوسکتا جب تک اُس کے پیچھے افکارو خیالات کی توانائی موجود نہ ہو،… ! اس شعر کے مخاطب وہ افراد ہیں جن پر تدبر اور تفکر کی گراں قدر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں،… ادیب ہو یا شاعر، مفکر ہو یا مدرس، سائنس دان ہو یا معلمِ اخلاق سوچنے کی ذمہ داری اُصولاً اُنھی افراد پر ہی عائد ہوتی ہے جن کی نظر زندگی کے خارجی مظاہر کے ساتھ ساتھ زندگی کے بطون یعنی انسان کے نفسی احوال پر بھی ہوتی ہے اور اس اعتبار سے افکارِ تازہ کے سرچشموں کے زیادہ قریب ہیں کہ وہ فکروخیال اور تخلیقی تصورات کو زیادہ سے زیادہ مؤثر بناسکتے ہیں،… لیکن جب قومیں سوچنا چھوڑ دیتی ہیں تو عام افراد تو رہے ایک طرف اُصولی طور پر فکروخیال سے تعلق رکھنے والے افراد بھی جامد تصورات، مردہ افکار، نیم پختہ خیالات اور نیم صداقتوں کے اسیر رہتے ہیں اور پورا معاشرہ زندگی کو ایک حرکی اور ارتقائی عمل کے طور پر دیکھنے سے محروم رہتا ہے اور یوںمعاشرے کے تمام افراد اپنی خفتہ تخلیقی صلاحیتوں کا ایک فیصد حصہ بھی بروئے کار لائے بغیر محض سانس لینے کے عمل یا مادّے کی سطحی تشکیل کو زندگی سمجھتے ہوئے، محض جبلتوں کی تسکین کو عمل کی معراج گردانتے ہوئے اور محض اینٹوں کے ڈھیر جمع کرنے کو تخلیقی عمل قرار دیتے ہوئے موت کی لکیر پھاند جاتے ہیں،… اقبال ہماری علمی اور ادبی تاریخ میں فکرِقدیم کا تکملہ اور فکرِنوکا نقطۂ آغاز تھے، اور اسی وجہ سے وہ ایک فرد نہیں بلکہ ایک تحریک تھے، ایک ایسی تحریک جس کا بنیادی تصور ہی یہ تھا کہ ہم اپنے اعماقِ جاں میں، اپنے نفس کی گہرائیوں میں ڈوب کر حقائقِ حیات کا ادراک حاصل کریں اور برتر زندگی کے لامتناہی اور متنوعِ امکانات سے آشنا ہوکر انفرادی تکمیل کے ساتھ ساتھ اجتماعی تکمیل کے عمل میں بھی باشعور طور پر شریک ہوسکیں۔ اجتماعی تکمیل کے عمل میں باشعور شرکت ہی دراصل انفرادی تکمیل کے مفہوم کو بھی مکمل کرتی ہے، لیکن افسوس کہ اقبال کے فکروفن کا شعلۂ جوالہ ہماری باطنی یخ بستگی کو نہ پگھلا سکا۔ بقولِ غالب: بے خونِ دل ہے چشم میں موجِ نگہ غبار یہ مے کدہ خراب ہے مَے کے سراغ کا! دیکھنے کے عمل میں جب تک خون جگر کا تصرف شامل نہ ہو اس وقت تک زندگی محجوب ہی رہتی ہے،…ایک مدت سے ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر مسلسل، ’’دیدیم کہ باقی ست شبِ فتنہ غنودیم‘‘… کے عمل سے گذر رہے، افکارِ تازہ کے حقیقی سرچشموں سے دوری، ذہنی مہجوری اور فکری مجہولیت کی صورت میں ہمارے سامنے ہے، جس کا ایک نتیجہ فکرونظر میں تکرار ہے، تکرار نہ صرف عمل سے گریز ہے بلکہ عمل کا فریب بھی ہے، گریز اور فریب کا عمل ہمارے فکرواحساس کی ہر سطح پر جاری ہے اور ہم اپنی باطنی غنودگی کو شعوری عمل کا درجہ دے کر آنکھیں بند کیے کچھ الفاظ دہراتے ہوئے بغیر کسی سمت کے تعین کے احساس کے چلے جارہے ہیں، ہم ہر بات کو مکرر کہتے اور مکرر سنتے ہیں لیکن نہ دل کی زبان سے کہتے ہیں اور نہ ہی دل کی زبان سے سنتے ہیں۔ اقبال کا ایک مدّعا یہ ضرور تھا کہ ہم ان کے خیالات کی روشنی میں سوچیں، لیکن اصل پیغام تو یہ تھا کہ ہم خود بھی سوچیں،… اقبال کے بعد ہم نے خود کتنا سوچا ہے اس کا اندازہ کچھ ایسا مشکل نہیں۔ [ایک ریڈیائی تقریر] /// اقبال: شخص اور شخصیت،اقبال __ ایک نظر میں مَیں ایک سیدھی سادی، دیانتدارانہ زندگی بسر کرتاہوں، میرے دل اور میری زبان کے درمیان پوری موافقت ہے۔ لوگ منافقت کی مدح وثنا کرتے ہیں۔ اگر شہرت، عزت اور ستائش حاصل کرنے کے لیے مجھے منافقت اختیار کرنی پڑے، تو مَیں گمنامی اور کسمپرسی کی حالت میں مرنا زیادہ پسند کروں گا۔ عوام کو جن کی گردن پر راون کی طرح کئی سر ہیں، اُن لوگوں کا احترام کرنے دو جو مذہب اور اخلاق کے متعلق عوام کے جھوٹے اور بے بنیاد نظریات کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں۔ مَیں اُن کے رسوم و روایات کے سامنے سرجھکانے اور ذہنِ انسانی کی آزادی کو دبانے سے بالکل قاصر ہوں، بائرن، گوئٹے اور شیلے کے معاصرین اُن کی عزت نہیں کرتے تھے۔ مَیں اگرچہ اُن کے مقابلے میں قوتِ شعری کے اعتبار سے کم ترہوں، پھر بھی مجھے فخر ہے کہ کم ازکم اس معاملے میں اُن کا ہمسر ضرور ہوں… دُنیا میری پرستش نہیں کرسکتی اور نہ مَیں اپنے آپ کو پرستش کے قابل سمجھتا ہوں، کیوں کہ مَیں تو فطرتاً خود پجاری ہوں، لیکن اگر میری رُوح کی گہرائیوں میں چھپے ہوئے خیالات لوگوں پر ظاہر ہوجائیں، اگر وہ باتیں جو مرے دل میں پوشیدہ ہیں، سامنے آجائیں تو مجھے یقین ہے کہ دُنیا میری موت کے بعد ایک نہ ایک دن ضرور میری پرستش کرے گی۔ لوگ میری کوتاہیوں کو بھول جائیں گے۔ اور آنسوئوں کی صورت میں مجھے خراجِ عقیدت پیش کریں گے۔ [خط بنام عطیہ فیضی: اقبال از عطیہ بیگم (انگریزی)] یہ سطور اُس خط سے مقتبس ہیں جو علامہ اقبال نے ۱۹۱۰ء میں حیدرآباد (دکن) کے سفر کے بعد عطیہ فیضی کے اس طعنے کے جواب میں لکھا کہ شمالی ہندوستان کے لوگ اُن کا (اقبال کا) کماحقہ احترام اور تعریف نہیں کرتے،… اس لیے ان سطور کو اقبال کی ذہنی تشکیل کے ابتدائی ادوار کی ایک جھلک قرار دینا چاہیے۔ لیکن ان سطور میں اقبال کی شخصیت کے بعض اہم پہلوئوں کے بارے میں خود اقبال کا تبصرہ، انھیں اقبال فہمی اور اقبال شناسی میں خاص اہمیت کا حامل بناتا ہے۔ دیکھا جائے تو اقبال کی عملی زندگی اُن کے اپنے بیان کی پوری تائید کرتی ہے۔ اس خط کی روشنی میں اپنے بارے میں اقبال کے تبصرے کا تجزیہ یوں ہوگا: ۱- مَیں ایک سیدھی سادھی، دیانتدارانہ زندگی بسر کرتا ہوں۔ ۲- میرے دل اور میری زبان کے درمیان پوری موافقت ہے۔ ۳- اگر شہرت، عزت اور ستائش حاصل کرنے کے لیے مجھے منافقت اختیار کرنی پڑے تو (اس صورت میں مَیں) گم نامی اور کسمپرسی کی حالت میں مرنا زیادہ پسند کروں گا۔ ۴- عوام الناس کی تعریف حاصل کرنے کے لیے مَیں اُن کی رسوم و روایات کے سامنے سرجھکانے اور ذہنِ انسانی کی آزادی کو دبانے سے بالکل قاصر ہوں۔ ۵- مَیں قوتِ شعری کے اعتبار سے بائرن، گوئٹے اور شیلے سے کم تر ہوسکتا ہوں لیکن اس اعتبار سے ان کا ہمسر ہوں کہ اُن کے معاصرین کی طرح میرے معاصرین بھی میری عزت نہیں کرتے۔ ۶- مَیں خود کو پرستش کے قابل نہیں سمجھتا کیونکہ مَیں فطرتاً خود پجاری ہوں، لیکن اگر میرے چھپے ہوئے خیالات لوگوں پر ظاہر ہوجائیں تو وہ میری کوتاہیوں کو بھول کر ضرور میری پرستش کریں گے اور مجھے آنسوئوں سے خراجِ عقیدت پیش کریں گے۔ اقبال کو قدرت نے پیش بینی اور پیش گوئی کی جو زبردست صلاحیت دی تھی، وہ محولہ بالاسطور کے آخری حصے سے پوری طرح ظاہر ہورہی ہے، اُن کے افکار کے ظاہر ہوجانے پر، اُن کے کلام اور اُن کے افکار کو جو غیرمعمولی قبولیت اور مقبولیت حاصل ہوئی، اسے شاعری کی زبان میں ’پرستش‘ ہی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، اُن کے کلام میں دلگدازی اور رقت انگیزی کی حیرت انگیز صلاحیت ہے، اُن کے اشعار جس طرح انسانوں میں وفورِ جذبات کی کیفیت پیدا کردیتے ہیں، اُس کے پیشِ نظر اقبال کی یہ پیشین گوئی بھی غلط نہیں کہ ’’(لوگ) آنسوئوں کی صورت میں مجھے خراجِ عقیدت پیش کریں گے۔‘‘ تاہم ان سطور میں اقبال نے اپنی زندگی کی جس خصوصیت کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے، وہ ایک سیدھی سادی اور دیانتدارانہ زندگی ہے، اس جملے کا پہلا حصہ نفسیاتی اور دوسرا اخلاقی معنوں کا حامل ہے۔ اگرچہ پہلے حصے پر بھی اخلاقی نقطۂ نظر سے حکم لگایا جاسکتا ہے، لیکن ’سیدھی سادی‘ سے مراد زیادہ تر طرزِ زیست ( mode of living) ہی لی جاسکتی ہے، اور ’دیانتداری‘ کا تعلق زندگی کی عملی اخلاقیات سے ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اقبال اپنی خاندانی روایات اور اپنے طبعی میلانات کی رُو سے ایک بے ریا اور بے تکلف زندگی بسرکرتے تھے، اُن کی زندگی میں کہیں بھی ریاکاری (pretesion) کا شائبہ نظر نہیں آتا۔ اسی طرح اُنھوں نے معلومہ حد تک اپنی پوری زندگی میں کبھی بھی قانوناً یا اخلاقاً کسی بددیانتی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ نہ ہی کبھی شہرت، عزت، ستائش کی خاطر منافقت سے کام لیا۔ اگر اُن میں ’منافقت کا جوہر‘ ہوتا تو وہ دُنیاوی اعتبار سے کہیں زیادہ کامیاب انسان ثابت ہوتے،… اہلِ منصب اور اربابِ ریاست سے اُن کے مراسم ضرور تھے، لیکن اُن مراسم کی خاطر اُنھوں نے اپنی ذہنی آزادی اور عزتِ نفس کو کبھی قربان نہیں کیا۔ وہ بیک وقت ایک حقیقت پسند اور خواب بیں (visionary) انسان تھے، اپنی ذاتی زندگی میں حقیقت پسند اور اپنی قوم و ملت کے لیے ایک ’خواب بیں‘… لیکن اس ’خواب بینی‘ میں بھی اُن کی نظر ہمیشہ خارجی اُمورِ واقعی اور معروضی حقائق پر ہوتی تھی، وہ ایک سچے اور کھرے انسان تھے۔ ان میں سچا انکسار بھی موجود تھا، بائرن، گوئٹے اور شیلے کے مقابلے میں اپنے آپ کو کمتر شعری صلاحیتوں کا حامل قرار دینا تو اُن کے انکسار کی بدولت ہے، اسی طرح جب اسرارِ خودی کی پہلی اشاعت کے بعد، استحکامِ خودی کے تصور اور خواجہ حافظ شیرازی پر جارحانہ تنقید کے باعث اُن کے خلاف نام نہاد صوفیا و مشائخ کی مخالفت میں شدت پیدا ہوگئی تو اُنھوں نے اپنے ایک خط میں اسی نوع کے انکسار سے کام لیتے ہوئے لکھا: اگرچہ میں کوئی غیرمعمولی ذہانت اور فطانت رکھنے والا آدمی نہیں ہوں، اور نہ کوئی غیرمعمولی علم رکھتا ہوں، تاہم عام لوگوں سے علم اور سمجھ کسی قدر زیادہ رکھتا ہوں۔ جب مجھ کو اس نتیجے تک پہنچنے کے لیے بیس سال کی ضرورت ہے تو یہ کیوں کر ممکن ہے کہ عام لوگ جو دُنیا کی دماغی اور علمی تاریخ سے پورے واقف نہیں تھوڑے غوروفکر سے اس کی حقیقت تک پہنچ جائیں۔ [مکتوب محررہ، ۱۰؍مئی ۱۹۱۶ئ، صحیفہ، اقبال نمبرص۱۷۰] اُن کے دل اور اُن کے زبان (اور قلم) کے درمیان جو حیرت انگیز موافقت تھی، اُس کے اخلاقی مضمرات وثمرات سے قطعِ نظر، اُس کی نفسیاتی معنویت بھی کم اہم نہیں۔ اگرچہ اُن کے سوانح نگاروں میں سے بعض کا خیال ہے کہ اُن کو معاشی تگ و دو میں اپنے لٹریری کام کی طرف توجہ دینے کا زیادہ وقت نہیں ملتا تھا۔ لیکن عمومی صورتِ حال میں اُن کی پوری زندگی ایک بے پناہ تخلیقی عمل سے عبارت دکھائی دیتی ہے، جس میں از اوّل تا آخر شاعر کے دل (تخلیقی تجربے) اور زبان یا قلم (صیغۂ اظہار) میں حیرت انگیز حد تک کامل مطابقت دکھائی دیتی ہے۔ اُن کی زندگی میں اس حقیقت کے آثار و شواہد اُن کے عنفوانِ شباب ہی سے ملتے ہیں کہ وہ اپنے ہر خیال اور ہر جذبے کو موزوں اور مناسب پیرائے میں بیان کرتے چلے جانے کے عادی تھے۔ خیال اور اُس کے اظہار میں اُن کے ہاں کوئی فصل یا پردہ دکھائی نہیں دیتا۔ خیال اور اُس کے اظہار میں اُن کے ہاں ایک مکمل یگانگت دکھائی دیتی ہے۔ جدید نفسیاتی استعارے میں اس حقیقت کو یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ اُنھوں نے اپنی ذات کے ’مکالمے‘ کو زندگی کی ہر سطح اور ہر دور میں جاری رکھا، اس خوبی نے اُن کے عملِ تفکر (thought process) کے جاری رہنے اور اُس کی نشوونما میں بے حد اہم کردار ادا کیا۔ اظہارِ خیال کے اعتبار سے اُن کی پوری زندگی میں ایک ارتجال اور بداہت (spontaneity) کا عمل جاری و ساری دکھائی دیتا ہے۔ تحلیلِ نفسی اور تحلیلی نفسیات کے نقطۂ نظر سے یہ اُن کی ذہنی صحت کی سب سے بڑی علامت تھی کہ اُن کا اندرونی مکالمہ، ایک دن کے لیے بھی، بلکہ شاید ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں رُکا۔ مجلسی زندگی اور شاعری میں اُن کا مخاطب کوئی بھی رہا ہو۔ اُن کی ساری زندگی ’من و تو‘ کے مکمل اور بھرپور رشتے کی تصویر دکھائی دیتی ہے، اُنھوں نے اپنے ’تو‘ کو ایک لمحے کے لیے بھی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا۔ اس ارتجال اور بداہت کا ایک بہت بڑا ثبوت اُن کے مکاتیب ہیں، جو بتاتے ہیں کہ انھوں نے کسی بھی خط کا جواب دینے میں کبھی تساہل نہیں برتا، کبھی غیرمعمولی تاخیر نہیں کی، کبھی کسی کے خط کو نظرانداز نہیں کیا، شخصی سطح پر یہی خوبی ایک ایسی خوبی ہے جو اُنھیں ذہنی اور اخلاقی طور پر ایک زندہ انسان ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ عام فہم الفاظ میں اُنھوں نے ’وقت کبھی ضائع نہیں کیا۔‘ اُن کا علم و فضل، اُن کی وسعتِ مطالعہ، اُن کے علمی و ادبی کارناموں کی ضخامت، اُن کے بروقت لکھے ہوئے خطوط اور اُن کی مجلسی زندگی کے احوال بتاتے ہیں کہ اُنھوں نے زندگی کے کسی تجربے، کسی خیال اور کسی صورتِ حال کو فکری اور تخلیقی اعتبار سے ضائع نہیں ہونے دیا۔ بے شک اُنھوں نے دُنیاوی زندگی کو اپنا مطمحِ نظر نہیں بنایا، اور اپنی پوری زندگی ملتِ اسلامیہ کے احیا و اتحاد کے لیے وقف کیے رکھی، لیکن اُنھوں نے دُنیاوی زندگی کو حقیر اور ناقابلِ اعتنا گردانتے ہوئے اُسے رَدّ بھی نہیں کیا۔ اور اُسے قبول کرتے ہوئے کبھی اپنے انسانی وقار پر بھی آنچ نہیں آنے دی۔ اُنھوں نے وظائف بھی قبول کیے (شاید اُن کی انھیں ضرورت بھی تھی) لیکن اپنی زندگی اور اپنے فکری سفر میں وہ کہیں بھی ایک عام و ظیفہ خوار شاعر کی طرح دکھائی نہیں دیتے۔ مجلسی زندگی میں اُنھوں نے کہیں بھی جھوٹی انانیت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اکبر الٰہ آبادی، مولانا حالی، اور مولانا گرامی کے ساتھ اپنے روابط میں اُنھوں نے ثابت کردکھایا کہ وہ بزرگی اور بزرگوں کا احترام کرتے ہیں۔ نواب مرزا داغ دہلوی، پروفیسر آرنلڈ اور علامہ میرحسن کے لیے اُن کے احترام اور محبت میں ان کے ہاں کبھی کمی نہیں آئی۔ جن معاصرین نے اُن سے اختلاف رائے کیا۔ اقبال نے اُ ن کے ساتھ مراسلت میں بھی تہذیب و شائستگی کے اعلیٰ معیاروں کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھا۔ اُنھوں نے اپنے کسی مخاطب کی کبھی تحقیر نہیں کی۔ لیکن کسی مخاطب سے کبھی مرعوب بھی نہیں ہوئے۔ وہ اعتراف کے قائل تھے، لیکن کسی سے مرعوب نہیں تھے۔ علامہ سیّد سلیمان ندوی کی علمی فضیلت کا اعتراف کرتے ہوئے اقبال نے اُنھیں ’علومِ اسلامیہ کی جوئے شیر کا فرہاد‘ کہا۔ علمائے کرام کا وہ بالعموم بے حد احترام کرتے تھے اور کسی مسئلے میں استفسار کرنے سے کبھی گریز نہیں کرتے تھے۔ وہ جس شہر میں بھی جاتے وہاں کے اہلِ کمال سے ملنا ضروری خیال کرتے تھے، اگرچہ وہ جہاں بھی جاتے اُن کی پذیرائی کا اہتمام پہلے سے ہوچکا ہوتا تھا۔ لیکن اگر اُنھیں اربابِ کمال کی خدمت میں خود حاضر ہونے کی ضرورت محسوس ہوتی تو ایک پل کے لیے بھی تامل نہیں کرتے تھے۔ علمی حوالوں کی تلاش میں وہ اپنے دوستوں کو مسلسل خط لکھتے تھے۔ ایک بیٹے کی حیثیت سے وہ عمر بھر اپنے والد کے تابعِ فر مان رہے۔ اسرارِ خودی اُنھوں نے اپنے والد ہی کے کہنے پر لکھی تھی۔ اُن کے والد نے اُن کو خدمتِ اسلام کی نصیحت کی تھی۔ اس نصیحت پر اُنھوں نے عمر بھر عمل کیا۔ اُن کے بڑے بھائی اُن کی تعلیم کی تکمیل میں اُن کے بہت بڑے محسن تھے۔ اقبال نے اُن کے احسان کو کبھی فراموش نہیں کیا۔ ایک باپ کی حیثیت سے وہ بچوں کی مثالی تربیت کے قائل تھے اور اُنھیں عملی زندگی کا پورا پورا شعور دینا چاہتے تھے۔ وہ ساری زندگی مرجعِ خلائق رہے۔ لیکن اس پر کبھی نازاں نہیں ہوئے، نہ ملاقاتیوں کی کثرت نے اُن کے مزاج کو کبھی مکدر کیا۔ وہ ہر سوال کا جواب علمی نقطۂ نظر سے دیتے تھے، لیکن کبھی کبھی ظرافت سے بھی کام لیتے تھے، یہ اور بات ہے کہ اُن کی ظرافت بھی علمی نکات سے مملو ہوتی تھی۔ وہ ہر محفل میں مرکزی نقطے کی حیثیت اختیار کرلیتے تھے۔لیکن دوسرے کے اظہارِ ذات کے حق کو اسی طرح تسلیم کرتے تھے، جس طرح اپنے حق کو، وہ نجی گفتگوئوں میں بھی ہر خیال کو اُس کے انسانی، نفسیاتی، تاریخی اور تمدنی پس منظر میں رکھ کر سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتے تھے۔ تحریر و تقریر میں اُن کے ہاں خیالات اور الفاظ کی کوئی کمی نہیں تھی۔ اُن کی گفتگو میں خاموشی کے معنی خیز وقفے آتے تھے۔ اسی طرح اُن کے ’مکالمے‘ میں توازن اور گہرائی پیدا ہوتی تھی۔ اُنھیں اپنے آبائی وطن کشمیر سے بے حد محبت تھی، لیکن اُنھیں پوری اسلامی دُنیا سے عشق تھا۔ وہ سفر سے گھبراتے تھے لیکن اُنھوں نے بہت سے سفر کیے، وہ کنجوس تھے نہ مسرف، میانہ رَو تھے۔ غالباً وہ بہت کم کسی کے مقروض ہوئے۔ وہ مردم شناس تھے اور اُن میں پیش بینی کی غیرمعمولی صلاحیت تھی۔ اُن کا ذہنی عمل فکروتخیل کے ایک انوکھے امتزاج سے عبارت تھا۔ اُن کا ذخیرۂ الفاظ بے حد وسیع تھا۔ لیکن اُنھوں نے الفاظ کو کبھی بے جا استعمال نہیں کیا۔ اُنھوں نے اپنی اولاد کو مسلسل اس بات کی تلقین کی کہ میری شہرت اور عظمت پر بھروسہ کرنے کی بجائے اپنے اندر ذاتی خوبیاں پیدا کرنے کی کوشش کرو۔ وہ ہر اعتبار سے خوش ذوق تھے اور فنونِ لطیفہ میں موسیقی سے لگائو رکھتے تھے۔ اُن میں کمزوریاں بھی تھی، لیکن اُنھوں نے اپنی کمزوریوں کو چھپانے کی کبھی کوشش نہیں کی، تاہم اپنی کمزوریوں کی بے جا اور بلاضرورت تشہیر بھی نہیں کی۔ اُنھیں ماضی سے لگائو تھا، لیکن اُن کی نظر ہمیشہ مستقبل پر رہتی تھی۔ وہ فلسفے کے طالب علم تھے، لیکن فلسفے کو اُنھوں نے اپنے ذہن کی آزاد فعلیت پر کبھی حاوی نہیں ہونے دیا۔ ان کا کام بتاتا ہے کہ وہ مسلسل کام کرنے کے عادی تھے، اُردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں اُن کا خط بے حد خوبصورت تھا، وہ اُردو میں خطِ شکستہ یا خطِ دیوانی میں لکھتے تھے اور بے حد روانی سے لکھتے تھے، یہی روانی اور حسنِ تحریر اُن کی انگریزی تحریروں میں بھی دکھائی دیتا ہے، وہ لکھ کر بہت کم کاٹتے تھے، لیکن کسی لفظ کا کاٹنا ضروری ہوتا تو اس میں دریغ بھی نہیں کرتے تھے۔ وہ عصرِحاضر میں اسلام کے سب سے بڑے مفکر تھے، لیکن اُنھوں نے اپنے آپ کو ایسا کہا نہیں، بلکہ اپنے آپ کو فقیر اور قلندر جیسے منکسرانہ الفاظ سے یاد کیا ہے۔ اُن میں سچا عالمانہ انکسار تھا جو سچے عالمانہ وقار سے کبھی خالی نہیں تھا۔ اُن کی زندگی تصنع اور بناوٹ سے یکسر عاری تھی، لیکن وہ blunt نہیں تھے، بہت کم تجاہلِ عارفانہ سے کام لیتے تھے۔ ملنے جلنے والوں سے بے تکلفی کے باوجود حفظِ مراتب کے قائل تھے۔ اُن کی شخصیت کی سادگی بے حد مسحور کن تھی۔ اُن کی صحبت دل و دماغ کو آسودگی بخشتی تھی، وہ اپنی زندگی ہی میں شاعرِ مشرق کہلائے۔ لیکن عام محفلوں اور مشاعروں میں اُنھیں اپنے شعر سنانے سے گریز تھا۔ وہ اپنی جوانی میں گوئٹے اور غالب کے مداح تھے، لیکن بقیۃ العمر وہ مولانا روم کے مداح اور اُنھیں کے مستفیض رہے۔ اولیاء اللہ اور سلاطینِ اسلام (عادلین و مجاہدین)کے مزاروں پرحاضر ہونے کو اپنے لیے بہت بڑی سعادت سمجھتے تھے۔ اور ایسے مواقع پر اکثر اُن پر رقت طاری ہوجایا کرتی تھی۔ لیکن رسمی اور انحطاطی تصوف کے زبردست ناقد تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے اُن کی محبت عشق کا درجہ رکھتی تھی اور عشقِ رسولؐ اُن کی زندگی کا سب سے گہرا، سب سے شدید اور سب سے پائیدار جذبہ تھا، جس سے اُن کے تمام ذہنی اور فکری رشتے وابستہ تھے جس حیرت انگیز قوتِ فیصلہ اور بصیرت کے ساتھ اُنھوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک خودمختار مملکت کے قیام کا مطالبہ انگریزی استعمار اور عالمی رائے کے سامنے رکھا۔ اُس کی مثال بھی سیاسی انقلاب کی تاریخ میں کم ہی ملے گی۔ ایسی ہی قوتِ فیصلہ اور بصیرت کے ساتھ اُنھوں نے قائداعظم کو، جو برصغیر کی سیاست سے بوجوہ مایوس ہوکر، انگلستان میں ایک کامیاب قانون دان کی زندگی گذار رہے تھے، باربار ملت کی رہبری کی طرف متوجہ کیا۔ اُنھیں اسلامی تاریخ و تہذیب کے تمام آثار یکساں طور پر مسحور کرلیتے تھے۔ لیکن اُن کی انتقادی صلاحیتیں بھی ہمیشہ بیدار رہتی تھیں۔ اقوامِ عالم میں وہ جرمن اور ترک اقوام کو بہت پسند کرتے تھے۔ اُنھوں نے اپنے خیالات اُردو، فارسی اور انگریزی زبانوں میں بیان کیے ہیں۔ ان تینوں میں سے کوئی بھی اُن کی مادری زبان نہیں تھی۔ وہ غالب کے بعد اُردو کے __ اور مولانا روم کے بعد اسلامی تمدن کے سب سے بڑے شاعر ہیں، لیکن اپنے آپ کو شاعر کہنے اور کہلانے سے گریزاں تھے۔ وہ واقعی ایک انوکھے انسان تھے۔ انوکھے اور نادر الظہور! اُردو شاعری نے اُن سے بڑا انقلاب آفریں اور تاریخِ ادب نے ان سے بڑا عہد آفریں شاعر ابھی تک نہیں دیکھا۔ عمر ہا در کعبہ و بت خانہ می نالد حیات تا ز بزمِ عشق یک دانائے راز آید بروں ///