سفر نامہ اقبال حمزہ فاروقی اقبال اکادمی پاکستان پیش لفظ سفر اقبال جب پہلی مرتبہ شائع ہوا تو اس وقت مجھے مولانا غلام رسو ل مہر صاحب کی پر شفقت رہنمائی میسر تھی۔ انہوں نے مسودے کو نہ صرف پڑھا بلکہ بعض مقامات پر اصلاح بھی کی تھی۔ ان سے ملاقاتوں اور خط و کتابت کے ذریعے میں نے روزنامہ ’’انقلاب‘‘ میں شائع شدہ مواد کے علاوہ مزید مواد تک رسائی حاصـل کی تھی۔ ۱۶ نومبر ۱۹۷۱ء کو مولانا کا انتقال ہو گیا۔ مجھے اس امر کا افسو س ہے کہ یہ کتاب ان کی خواہش کے باوجود ان کی زندگی میں شائع نہ ہو سکی۔ ۱۹۷۳ء میں یہ کتاب اس وقت شائع ہوئی تھی جب میں ملک سے باہر تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسودے کی کتابت کے دوران چند غلطیاں راہ پا گئیں ۔ اشاعت ثانی کے موقع پر میں نے یہ مناسب سمجھا کہ نہ صرف کتابت کی غلطیوں کی اصلاح کی جائے بلکہ گزشتہ پندرہ سال کے دوران اس موضوع پر جو نیا مواد میرے علم میں آیا تھا ا س سے بھی استفادہ کیا جائے۔ مزید یہ کہ اقبال سے متعلق جو مواد سفر نامہ اقبال کی اشاعت اول کے دوران نظر انداز ہو گیا تھا اور ’’انقلاب‘‘ کی فائلوں میںمحفوظ تھا سے بھی موجودہ ایڈیشن میں شامل کر دیا جائے۔ اس سفرنامے میں بے شمار شخصیتوں کا ذکر آیا ہے ان میں سے صرف انہی شخصیات سے متعلق حواشی کو شامل اشاعت کیا گیا ہے جنہیں اشاعت اول کے دوران لکھا گیا تھا۔ دیگر شخصیات پر میں نے دانستہ حواشی نہیںلکھے کیونکہ یہ اصل موضوع سے متعلق نہ تھے۔ اس کتاب کی اشاعت اول کے بعد بہت سے اہل علم حضرات نے میری حوصلہ افزائی کی تھی اور اس کے حوالے سے اپنی تصانیف میں دیے لیکن بعض مصنفین نے حوالہ دیے بغیر سفر نامہ اقبال کے مندرجات کو بلا تکلف اپنی تصانیف میں سمو دیا تھا ۔ اگر وہ ہمت کر کے اصل ماخذ تک رسائی حاصل کرتے تو عین ممکن تھا کہ وہ میری کتاب کے پہلے ایڈیشن کی خامیوں اور غلطیوں کی نشان دہی کرتے۔ کتاب کی اشاعت ثانی کے بعد میں یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہ حضرات بھی اپنی غلطیوں کی اصلاح کر لیںگے جو سفر نامہ اقبال کی اشاعت اول کی تقلید میں ان کی تصانیف میں راہ پا گئی ہیں۔ محمد حمزہ فاروقی ۱۴ اگست ۱۹۹۵ء ا؍۲۹ خیاباں شجاعت ڈیفینس ہائوسنگ اتھارٹی منطقہ ۵۔ کراچی ۷۵۵۰۰ ٭٭٭ فرمودات مہر (محمد حمزہ فاروقی کے نام مولانا غلا م رسول مہر کے خطوط سے اقتباسات) ۲۵ نومبر ۱۹۶۸ء …آپ نے اخباروں کے مطالعے میں جو کمال دکھایا ہے اس کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں ۔ مجھے تو آ پ ایسی ایک بھی مثال نہیںملی۔ لوگوں میںمحنت کا مادہ بہت کم رہ گیا ہے… ۲۲ فروری ۱۹۶۹ء … آ پ نے توجہ فرمائی‘ دیدہ ریزی‘ شوق تجسس‘ ذوق ترتیب احوال ضروریہ اور حق شناسی حد درجہ قابل قدرہے۔ میرے کان ایسی دل پذیر ہی نہیں دل افروز صدائوں سے خاصی مدت بعد آشنا ہوئے ہیں۔ یہ میں اس لیے نہیں کہہ رہاکہ آپ نے میرے لکھے ہوئے حالات پر توجہ فرمائی۔ میں نے آج سے کم و بیش اڑتیس سال پیشتر مفصل حالات اسی غرض سے عرض کیے تھے کہ ایک زمانہ آئے گا جب علامہ اقبال (مرحوم و مغفور) کی ایک ایک ادا‘ ایک ایک بات کے لیے لوگ چراغ لے کر نکلیں گے۔ لیکن مرحوم کے ساتھ لگن کی بلند آہنگیوں اور مجلس آرائیوں کے باوصف کسی نے حقائق پر توجہ مبذول نہ کی۔ ان چیزوں کے جوہری ناپید ہی رہے۔ جو جا بجا فراہم ہوئی تھیں۔ تیسری گول میز کانفرنس کے سلسلے میں حضرت علامہ مرحوم کے حالات ’’انقلاب‘‘ میں خاصی تفصیل سے چھپے تھے۔ دوسری گول میز کانفرنس سے واپسی کے بعد آل انڈیا مسلم کانفرنس کا اجلاس لاہور میں منعقد ہوا تھا۔ جس میں حضرت علامہ اقبال نے ایک نہایت بصیر ت افروز خطبہ صدارت دیاتھا۔ اس میں بہت ضروری قراردادیں منظور ہوئی تھیں۔ اس سے پیشتر’’انقلاب‘‘ نے پے در پے نہایت اہم مقالات شائع کیے تھے‘ جس سے اس خطبے اور قراردادوں کے لیے زمین آراستہ ہوئی تھی۔ آپ تھوڑی سی توجہ اس پر بھی فرما لیں تو یقین ہے کہ ایک ایسا مرقع تیار کر دیں گے جو حضرت علامہ مرحوم کے سفر انگلستان و مصر و فلسطین ہی نہیںبلکہ اس دور کی سیاست میں مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے جو سعی و جہد فرمائی تھی‘ اس کا بھی ایک حصہ مرتب فرما دیں گے او راس کے لیے عند اللہ مشکور ہوں گے کہ ہماری سیاسی سرگزشت کا اہم باب مستند طریق پر منضبط کر دیا۔ افسانہ طرازیوں یا وہ گفتاریوں شخصی ادعا وغیرہ کے جھوٹے نگوں کی مینا کاریاں بہت ہوئیں لیکن اصل کام نہ کسی کا مقصودتھا اورنہ کوئی انجام دے سکا۔ آ پ کو اللہ تعالیٰ نے بصیرت بھی عطا فرمائی ہے۔ یقین ہے کہ اس قسم کے کام وہی اصحاب صحیح اسلوب سے انجام دے سکتے ہیں جن کے پہلو خداداد ورد سے معمور ہوں۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔ کو کچھ آپ کریں گے یقین ہے وہ لوگوں کی آنکھیں کھول دے گا اور ایک نشان رہ جائے گا کہ حقیقی کام کرنے والوں کا شیوہ و شعار کیا ہوتا ہے۔ یہ محض حضرت علامہ کی سیرت ہی کا ایک اہم باب نہیں بلکہ یہ ہماری سیاسی تاریخ کا بھی ایک اہم حصہ ہے… یہ کام خود مجھے کرنے چاہیے تھے کیونکہ یہ سب کچھ میری آنکھوں کے سامنے گزرا تھا اور مشہور مثل ہے شنیدہ کے بود مانند دیدہ‘ لیکن یقین رکھیں کہ آپ ایسے درد مند اصحاب کے ہاتھوں بھی یہ داستان ترتیب پا جائے تو مجھے دلی مسرت ہو گی۔ اس لیے کہ مقصود حقیقی اصل کام ہے نہ یہ کہ انتساب کس سے ہوا۔ ٭٭٭ مقدمہ اقبال کی شاعرانہ اور فکری عظمت کی طرف لکھنے والوں نے کافی توجہ دی ہے ۔ لیکن ان کی سیاسی زندگی اور سیاسی فکر کے متعلق ابھی تک سیر حاصل بحث نہیں کی جا سکی۔ اس موضوع پر بہترین کتاب جناب محمد احمد خاں کی تصنیف ’’اقبال کا سیاسی کارنامہ‘‘ ہے اسے شائع ہوئے بیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے ۔ اور اس دوران میں کافی نیا مواد منظر عام پر آ چکا ہے۔ چند سال قبل انگریزی میں ایک کتاب اقبال کے سیاسی فکر پر شائع ہوئی تھی۔ لیکن یہ کچھ زیادہ قابل اعتماد نہیں۔ اقبال کا سب سے بڑا سیاسی کارنامہ پاکستان کا تصور ہے جو انہوںنے ۱۹۳۰ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے الہ آباد کے سالانہ اجلاس میں پیش کیا تھا‘ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقبال نے کن حالات میں یہ تصورپیش کیا تھا۔ اور اس کی اہمیت کیا ہے۔ برصغیر کی سیاسی اور تہذیبی تاریخ کا المناک پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں نے سیاسی آزادی کے لیے بے اندازہ جانی و مالی قربانیاں دی تھیں جنگ آزادی ۱۸۵۷ء سے تحریک خلافت تک سبھی تحریکوں میںمسلمان پیش پیش رہے لیکن ہر موقعہ پر وہ ان قربانیوں کے ثمر سے محروم رہے۔ مسلمانوں کی جدوجہد کا ابتداسے یہ مقصد رہا کہ آزادی کے حصول کے ساتھ ساتھ فرنگی استبداد اور سرمایہ دارانہ استحصال سے نجات حاصل کی جائے۔ انہوں نے ان مقاصد کے حصول کے لیے دوسری قوموں سے پر خلوص اشتراک کیا۔ ان کی شعوری کوشش یہ تھی کہ نفرت یا اس طرح کے دوسرے غیر صحت مندانہ عوامل راہ نہ پائیںَ سرسید نے خالص ہندوستانی نقطہ نگاہ مدنظر رکھا۔ اقبال نے سیاسی میدان میں قدم رکھا تو ان کا مطمح نظر زیادہ وسیع علمی بنیاد پر قائم ہوا۔ جہاں سرسید کی نگاہ میںہندو اور مسلمان اس ملک کی دو آنکھوں کی طرح تھے وہاں اقبال کے نزدیک ہندوستان ایک مقدس عبادت گاہ تھی جس کی عزت و ناموس کی خاطر وہ دھرموں کے بکھیڑوں کو آگ میںجلانے کے لیے تیار تھے۔ یہی موقف قائد اعظم محمد علی جناح کا تھا جو اس شرط کے ساتھ مسلم لیگ میں شریک ہوئے تھے کہ ہندوستانی قومیت کے مقصد کے حصول میں کوئی رکاوٹ نہ ہو اور اگر کسی منزل پر رکاوٹ پیدا ہوئی تو وہ اس مقصد کے لیے مسلم لیگ کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ ان تینوں رہنمائوں کی سیاسی زندگی میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ سرسید نے ہندوستانی کی حیثیت سے کام شروع کیا تھا اور انتہا مسلمانوں کے ملی تشخص کی تبلیغ پر ہوئی۔ اقبال نے بیسویں صدی کی ابتدا میں متحدہ قومیت کا راگ ایا اور اتحاد کے لیے کوشاں رہے جب کہ ہندوئوں کی طرف سے شدید نفرت کا اظہار ہوتا رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ انگریزوں سے ہر قیمت پر آزادی چاہتے تھے لیکن یہی اقبال بعد میں مسلمانوں کے ملی تشخص کے لیے ہر موقع پر تیغ عریاں کی طرح نظر آتے ہیں۔ آزدی کے لیے وہ اب بھی کوشاں تھے لیکن مسلمانوں کے ملی وجود کی قربانی کی قیمت پر نہیںَ وہ اسلام اور ملت اسلامیہ کی سربلندی چاہتے تھے۔ ان کے ہاں انگریز دشمنی بعض دیگر مسل زعما کی طرح بطور آئیڈیل کبھی نہ تھی۔ جس کے لیے وہ ملت اور دین کو بھی قربان کر دیں بلکہ وہ انگریز دشمنی کے بھی قائل نہ تھے۔ وہ ایسا طریق کا ر اختیار کرنا چاہتے تھے کہ جس سے اس برعظیم کے مسلمان اور باقی دنیا کے مسلمان اپنے ملی تشخص کو برقرار رکھ سکتے ہوں خواہ اس کے لیے انگریز کی مخالفت کی جائے یا اس سے تعاون کیا جائے۔ اقبال کے پیش نظر ملت اسلامیہ کی فلاح و بہبود تھی اور اس ضمن میں وہ کسی جغرافیائی حدود کے قائل نہ تھے۔ سرسید مرحوم کی تگ و دو محض اس برعظیم کے مسلمانوں تک محدود تھی۔ ان کے طریق کار کا پس منظر یہاں کے سیاسی حالات او ر ان کا مقصد برعظیم کے مسلمانوں کی بہتری تھا۔ انہوںنے اگر دوسرے ملکوں کے مسلمانوں کا ذکر کیا تو محض دلیل کے طور پر یا اپنے موقف کی تائید کے لیے کیا یہی حالت قائد اعظم کی تھی۔ ان کی سیاسی زندگی کا محور یہاں کے باشندے تھے آخری دور میں وہ بھی اس ذہنی انقلاب سے دوچار ہوئے۔ جس سے سرسید اور اقبال گزر چکے تھے۔ یعنی متحدہ قومیت کے حصول کے بجائے اسلامی ملت کا استحکام اور ایک نئے معاشرے کی تعمیر۔ اقبال کے ہاں اسلام اور ملت کا بین الاقوامی تصور عقلی طور پر موجود تھا۔ اور اسی لیے ان کے دل و دماغ نے مسلمانوں کی جغرافیائی تقسیم کو کبھی قبول نہ کیا۔ انہوںنے ہر خطے کے مسلمانوں کے مسائل سے دلچسپی لی۔ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے مسائل کو دنیائے اسلام کے مسائل سے وابستہ کر کے سوچا اور ان کا حل ا س پس منظر میں تلاش کرنے کی کوشش کی۔ اقبال نے گول میز کانفرنس میں شرکت کے بعد موتمر اسلامی کے اجلاس میں شریک ہونے کا فیصلہ کیا۔ موتمر کس مقصد کے لیے منعقد ہوئی اور وہاں کیا کارروائی ہوئی۔ اس کی تفصیلات حمزہ فاروقی صاحب کے مرتب کردہ سفر نامے میں ملیں گی لیکن اقبال کی زندگی کا یہ پہلو اس کے فکر کے ایک نمایاں پہلو کو واضح کرتا ہے کہ وہ بیسویں صدی میں صحیح معنوں میں جمال الدین افغانی کے مشن کی تکمیل چاہتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اس برعظیم کے مسلمانوں کے مستقبل کا دارومدار اسلامی ملت سے گہرے رابطے اور اتحاد پر ہے۔ یہ نقطہ نظر مغربی سیاست کے نظریہ قومیت کے سراسر منافی تھا۔ اسی کے خلاف اقبال نے قلمی جہاد کیا تھا۔ جمال الدین افغانی کی تحریک کو مغربی سیاست دانوں نے یورپ استعمار کے لیے خطرہ سمجھا تھا اور اسی لیے انہوںنے اخبارات اور رسالوں میں اس کے سیاسی مضمرات کے خلاف مہم چلائی ۔ اسے پین اسلام ازم کانام دیا گیا اور یورپی عوام کو اسلام کے نام پر خوفزدہ کیا ۔ اسی طرح جب اقبا ل نے مسلم ملت کا نعرہ بلند کیا تو ہندوئوں نے ان پر بھی پین اسلامزم کا حامی ہونے کا الزام لگایا۔ اقبال نے بڑی وضاحت سے اس کی تردید کی اور کہا کہ میرا موقف صرف اسلام ہے اورجو کچھ میں نے پیش کیا وہ محض اسلام کی تعلیم ہے۔ موجودہ دور میں یہ مسئلہ ایک نئی شکل میں ابھرا ہے سقوط مشرقی پاکستان کے بعد ایک گروہ کا موقف یہ ہے کہ ہمیں اب بھارت سے رجوع کرنا چاہیے اور عرب‘ ترکی ایران اور دنیائے اسلام سے اپنی نظریں ہٹا لینی چاہئیں۔ یہ نظریہ مختلف ادوار میں نئے نئے رویوں میں برعظیم کے مسلمانوں کے سامنے آتا رہا۔ اس کی ایک شکل متحدہ قومیت تھی۔ اقبال نے اس کے خلاف جدوجہد کی اور مسلمانوں کو منظم ہو کر ا س کا مقابلہ کرنے کی تاکید کی کیونکہ متحدہ قومیت کے ملی وجود کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا تھا۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ مسلمانوں کو دو طرف سے خطرہ ہے ایک مادی الحاد سے( مراد کمیونزم اور سوشلزم) اور دوسرا وطنی قومیت کی طرف سے۔ میرا عقیدہ ہے کہ اسلام کا مستقبل عرب کے مستقبل سے وابستہ ہے۔ اس سے مراد یہی ہے کہ جب تک دنیائے اسلام سیاسی ثقافتی اوراقتصادی مسائل میں اتحاد اور عملی اشتراک کا ثبوت نہ دے گی۔ اس کا مستقبل کبھی محفوظ نہیں ہو سکتا۔ ہندوستان کی سیاسی زندگی میں اقبال کا کردار بہت انقلابی تھا۔ ’’سر‘‘ کا خطاب ملے پر اپنوں اور غیروں نے انہیں تضحیک کانشانہ بنایا لیکن وہ اس سے بے نیاز ہو کر مسلمانوں کی وحدت ملی کے علمبردار رہے اگر وہ کبھی ان لوگوں کا ساتھ دیتے تھے جو صریحاً انگریزوں کے وفادار تھے۔ تو یہ اشتراک انگریز کے مقاصد کی نگہبانی کے لیے نہ تھا بلکہ مقصود مسلمانوں کا مفاد ہی تھا۔ اگر آپ نے ان لوگوں کے خلاف جدوجہد کی جو بظاہر انگریزی اقتدار کے خلاف تھے‘ اس کا مقصد بھی ملت کا مجموعی مفاد تھا۔ گول میز کانفرنس کیوں ہوئی اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمان آزادی کے لیے ہر ممکن قربانی کے لیے تیار تھے لیکن وہ آزادی کے ساتھ ملی تشخص کو بھی برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ ان کے سامنے یہ حقیقت بھی تھی کہ مغربی استعمار مسلمانان عالم کا شیرازہ بکھیرنے کے لیے ہر ممکن جدوجہد کر رہا ہے ۔ برصغیر کی آزادی سے مغربی استمعار کی چالوں کا مقابلہ کیا جا سکتا تھا۔ اس لیے وہ مکمل آزادی کے علمبردار تھے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انہوںنے ہندوئوں سے سمجھوتے کی کئی بار کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ چنانچہ اقبال فرماتے ہیں کہ ہندوستان کی آب و ہوا میں کوئی سمجھوتہ ہندی اقوام کے درمیان نہیں ہو سکا حالانکہ کم از کم مسلمانوں نے اپنے بعض ضروری اقتصادی اور اجتماعی مقاصد کو نظر انداز کر کے گزشتہ دس سال میں اس کے لیے کوشش بھی کی ہے۔ گزشتہ دس سال سے ہم اپنے اقتصادی اور سیاسی فوائد کو پس پشت ڈال کر کانگرس اور ہندوئوں کے ساتھ اتحاد کی کوشش کرتے رہے۔ لیکن اس میں آج تک ہم کو برابر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ یہ بیان اقبال نے ۱۹۳۱ء میں دیا تھا۔ اس سے قبل ہندو مسلم اتحاد کی نمایاں کوشش نہرو رپوٹ کی تیاری اور ترمیم کے سلسلے میں کی گئی تھی۔ رپورٹ کے مرسین نے جو بظاہر کانگریس کے لبرس گروپ سے تھے ہندوئوں کیلیے تو تمام مراعات اور حقوق کی سفارش کی تھی لیکن مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے لیے عملاً غلامی کے سوا کچھ نہ دیا تھا۔ اس دستور ی خاکے کو مسلمانوں کے ہر گروپ نے ناقابل قبول قرار دیا اور کوشش کی کہ اس میں مناسب تبدیلیاں ہو جائیں تاکہ وہ سب کے لیے قابل قبول ہو سکے لیکن ان کی کوششیں بار آور نہ ہو سکیں۔ اس واقعے سے مسلمانوں میں یہ احساس پیدا ہوا کہ ہندوئوں کے ساتھ مل جل کر رہنا ممکن نہیں۔ یہی وہ دور تھا کہ جب قائد اعظم محمد علی جناح نے انتہائی مایوسی کا اظہار کیا اور اسے جدائی کی طرف ایک قدم کانام دیا۔ گول میز کانفرنس نے ا س مایوسی کا مزید پختہ کر دیا اور علیحدگی کا جذبہ اور شدید ہو گیا جو نہرورپورٹ کے وقت پیدا ہوا تھا۔ مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں اقبال کی طرف سے شمالی ہند کے مسلمانوں کے لیے اس برعظیم میں علیحد ہ ریاست کا مطالبہ ایسے ہی تلخ تجربات کے نتیجے میں کیا گیا تھا جس نے بہت جلد ایک خود مختار ریاست کے مطالبے کی شکل اختیار کر لی۔ جناب حمزہ فاروقی علم و ادب کے پرانے شیدائی ہیں۔ اقبالیات سے انہیں خاص شغف ہے اور اس سلسلے میں انہوںنے تحقیق کے کٹھن راستے کا انتخاب کیا ہے ۔ اقبال سے متعلق بہت سا مواد ابھی تک اخبارات اوررسائل میں بکھرا ہوا ہے اس کو تلاش کرنا اورپھر صحیح طریقے سے مرتب کرنا معمولی کام نہیں۔ ا س کٹھن کام کی ابتدا جناب شیروانی نے کی تھی۔ بعد میں ان کی کتاب ’’حرف اقبال‘‘ کے نام سے اردو میں بھی شائع ہوئی۔ اس کے بعد کچھ اور کتابیں انگریزی اور اردو میں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ جناب حمزہ فاروقی نے پہلے روزنامہ ’’انقلاب‘‘ کے فائلوں سے ’’اقبال اور مسئلہ فلسطین‘‘ مرتب کیا جو سہ ماہی اقبال ریویو (جولائی ۱۹۶۹ء ) میں شائع ہو چکا ہے۔ یہ ان کی دوسری کوشش ہے۔ اور بڑی مستحسن۔ انہوںنے تمام مواد کو بہت عمدگی سے ترتیب دیا ہے۔ مولانا غلام رسول مہر مرحوم کی مدد سے اس سفر نامے میں وہ پہلو بھی ناظرین کے سامنے آ گئے ہیں جو اخباروں میں موجود نہ تھے۔ اقبالیات کے شائقین ضرور حمزہ فاروقی صاحب کے شکر گزار ہوں گے کہ ان کی وجہ سے اقبال کی زندگی کے کچھ پہلو زیادہ واضح شکل میں ہمارے سامنے آ گئے ہیں۔ بشیر احمد ڈار ٭٭٭ سیاسی پس منظر تحریک خلافت کی ناکامی کے بعد کا عہد مسلمانوں کے لیے بے حد پر آشوب تھا اس عظیم الشان تحریک کی ناکامی کا تد عمل بے حد شدید ہوا۔ مسلمانوں کی مرکزی قیادت انتشار کا شکار ہو چکی تھی۔ ہندو مسلم اتحاد کا وہ خواب جو مسلم زعما نے دیکھاتھا پریشان ہو گیا۔ ان حالات میں مولانا محمد علی جوہر نے بھی زندگی کے آخری دور میں جداگانہ قومیت کے حامی ہو چکے تھے۔ ہندو مسلم فسادات نے صورت حال کو مزید خراب کیا۔ چنانچہ اب مسلمانوں کی کوشش یہ تھی کہ ہندوستا ن میں ان کا دین تہذیب اور ملی تشخص متحدہ قومیت کی بھینٹ نہ چڑھنے پائے۔ دوسری طرف ہندو قائدین متحدہ قومیت کا دام ہم رنگ زمین پر بچھائے ہوئے تھے۔ اور چاہتے تھے کہ مسلمان اپنے می اور دینی تشخص کو بھلا کر ہندو قومیت میں ضم ہو جائیںَ اس بڑھتی ہوئی خلیج کو پاٹنے کے لیے دونوں قوموں کے مخلص رہ نما جدوجہد کر رہے تھے۔ لیکن ہندو فرقہ پرست تنظیمیں ان تمام کاوشوں پر پانی پھیر دیتیں۔ آزادی کی جدوجہد بھی ان اختلافات کی بنا پر بے حد متاثر ہوئی۔ انگریز حکومت نے دستور ی مسائل کے حل کے لیے ۱۹۳۰ء کے آخر میں گول میز کانفرنس بلائی۔ مقصدیہ تھا کہ ایک متفقہ دستور فارمولے کے ذریعے ایک قابل عمل آئین تیار کیا جائے۔ ستمبر ۱۹۳۰ء میں پہل گول میز کانفرنس منعقد ہوئی۔ یہ کانفرنس نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئی۔ اقبال نے ۳۱ دسمبر ۱۹۳۰ء کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں جو صدارتی خطبہ دیا تھا وہ اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس میں انہوںنے قوم کے سامنے ایک منزل متعین کی تھی اس وقت سیاسی حالات ایسے تھے کہ ان خیالات کی خاطر خواہ پذیرائی نہ ہوئی ۔ اقبال پہلی گول میز کانفرنس میں شریک نہ وہئے۔ لیکن آپ اس کانفرنس سے باہر رہ کر قومی مسائل کے حل کے لیے کوشاں تھے۔ دوسری گول میز کانفرنس کے موقع پر انگریز حکومت نے اقبا ل کو مدعو کیا ۔ عاشق حسین بٹالوی کی روایت کے مطابق انہیں شرکت کی دعوت سر میاں افضل حسین کے ایماپر دی گئی تھی۔ شملہ کے گرمائی دارالحکومت سے برطاونی ہند نے ۴ اگست ۱۹۳۱ء کو دوسری گول میز کانفرنس کے دعوت نامے مختلف اصحاب کے نام جاری کیے تھے۔ ان میں اقبال مولانا شوکت علی مولانا شفیع دائودی سر آغا خاں اور محمد علی جناح بھی شامل تھے۔ مدعوئین کے لیے ۲۶ ستمبر ۱۹۳۱ء تک لندن پہنچنا لازمی قرار دیا تاکہ اکتوبر کے آغازمیں کارروائی شروع کی جا سکے۔ (۱) ہندوستان میں رہنے والے مندوبین کے نام وائسرائے ہند کی طرف سے دعوت نامہ بھیجا گیا اور برطانوی مندوبین کے نام وزیر اعظم ریمزے میکڈانلڈ نے دعوت نامہ بھیجا۔ سفر دہلی انہیں دنو ں علامہ اقبال کا دعوت نامہ ملا کہ آپ روم میں بعض اسلامی موضوعات پر تقریر کریںَ یہ دعوت انہیںسائنو مارکونی نے Learned Men's Academy of Rome کے صدر کی حیثیت سے دی تھی۔ یہ دعوت نامہ اقبال کو جون ۱۹۳۱ء میں ملا تھا ۔ ۲؎ چند روز بعد انگلستان کی ایک علمی اور ادبی اجمن انڈیا سوسائٹی کے صدر سر فرانسیس ینگ ہزبینڈ نے علامہ اقبال سے درخواست کی کہ آپ انڈیا سوسائٹی کی نائب صدارت قبول کر لیں جسے آپ نے منظور کر لیا ۳؎۔ انڈیا سوسائٹی انگلستان کی مشہور انجمن تھی جس کی سرپراستی میں ہندوستان کی قدیم و جدید ادبیات اور فنون لطیفہ سے متعلق مذاکرات ہوتے تھے۔ علامہ اقبال کا ارادہ تھا کہ یکم ستمبر کو فرنٹئر میل سے بمبئی جائیں اور ۵ ستمبر کو گول میز کانفرنس میںشرکت کے لیے بحری جہاز سے روانہ ہو جائیں لیکن روانگی سے قبل آپ تیز بخار میںمبتلا ہو گئے آپ کے معالج ڈاکٹر یار محمد تھے۔ ان کے مشورے سے آپ ن یسفر ایک ہفتے کے لیے ملتوی کر دیا اور اس کی اطلاع بمبئی اور دہلی کے دوستوں کو بذریعہ تار دے گی (۴)۔ لاہور سے روانگی کے متعلق اقبال نے سید نذیر نیازی کو ۱۹ اگست ۱۹۳۱ء کے ایک خط میں تحریر فرمایا تھا کہ میں غالباً یکم ستمبر کی شام کو یہاں سے روانہ ہوں گا اور ۵ ستمبر کو بمبئی ممالک اسلامیہ کی سیاحت کی بڑی آرزو ہے مگریہ سب کچھ روپیہ پر منحصر ہے ۔ خطبات کے ترجمے کی اشاعت کا التوا ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ امید ہے کہ دسمبر کے آخرتک واپس آ جائوں گا۔ (۵) اقبال یکم ستمبر کو روانہ نہ ہو سکے تو نذیر نیازی صاحب نے خط کے ذریعے خیریت دریافت کی جس کے جواب میں اقبال نے ۴ ستمبر ۱۹۳۱ء کو درج ذیل خط لکھا: ’’۵ ستمبر کو نہ جا سکوں گا۔ یکم کو لاہور سے چلنے والا تھا کہ روانگی سے دو گھنٹے قبل بخار ہو گیا۔ اب ۸ ستمبر کی شام کو فرنٹئر میل سے انشاء اللہ لاہور سے روانگی ہے‘‘ ۔ (۶) مفتی اعظم فلسطین سید امین الحسینی نے اتحاد عالم اسلامی کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا اور عالم اسلام کے نمائندوں کو دعوت دی کہ بیت المقدس میں جمع ہو کر اس اتحاد کو عملی شکل دینے کی تجاویز پر غور کریں۔ اور مسلم لیگ کو جو پیچیدہ مسائل درپیش ہیں ان کا حل تلاش کریں۔ ہندوستان میں انہوںنے علامہ اقبال مولانا شوکت علی‘ مولانا شفیع دائودی‘ اور مولانا غلام رسول مہر کو اس موتمر میں شرکت کی دعوت دی۔ یہ موتمر دسمبر ۱۹۳۱ء میں منعقد ہوئی تھی۔ مولانا غلام رسول مہر نے بھی گول میزکانفرنس میںبطور صحافی شرکت کا پروگرام بنایا۔ اس کانفرنس میں ان کی شرکت کئی پہلوئوں سے ضروری تھی۔ ایک تو یہ کہ مسلمانان ہند کے سیاسی مفادکی نگرانی کی جا سکے۔ دوسرے یہ کہ اخبار ’’انقلاب‘‘ کے لیے اس کانفرنس کے کوائف مرتب کیے جا سکیں۔ تیسرے یہ کہ اس کانفرنس میں اقبال کے علاوہ اور کئی ساتھی سفر کر رہے تھے جن کی رفاقت آپ کے لیے باعث کشش تھی۔ دوران سفر آپ نے اقبا ل کے قابل اعتماد معتمد کی حیثیت سے جو خدمات انجام دیں ان کا تذکرہ آئندہ صفحات میں آئے گا۔ مولانا مہر کا ابتدا میں اقبال کے ساتھ سفر پر روانہ ہونے کا ارادہ تھا۔ لیکن پاسپورٹ ملنے میں تاخیر کی بناپر آپ کاپروگرام تبدیل ہو گیا اور آپ ۵ ستمبر کے بحری جہازسے نہ جا سکے۔ آپ کا ارادہ تھا کہ اٹلی اور فرانس کی سیر کرتے ہوئے لندن میں علامہ سے جا ملیں۔ آپ ۵ ستمبر کو لاہور سے روانہ ہوئے اور بمبئی سے ۸ ستمبر ۱۹۳۱ء کو اطالعی جہاز جینو آ سے عازم یورپ ہوئے ۔ (۷) اس دوران اقبال کی طبیعت سنبھل گئی اور آپ اپنے معالج کے مشورے سے ۸ ستمبر ۱۹۳۱ء کو لاہور سے روانہ ہوئے۔ اسٹیشن پر احباب کا اجتماع تھا۔ یہاں آپ کی ملاقات سر عبداللہ ہارون سے ہوئی۔ آپ اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے جا رہے تھے۔ اقبال سے آپ کی پندرہ بیس منٹ تک سیاسی مسائل پر گفتگو ہوتی رہی ان سے ملاقات کے بعد مدیر انقلاب عبدالمید سالک نے حضرت علامہ سے ’’انقلاب‘‘ کے لیے پیغام دینے پر اصرار کیا۔ آپ کے اصرار پر اقبال نے مندرجہ ذیل پیغام دیا: ’’اس پیغام کے بعد جو مسٹر جناح نے دیا ہے مسلمانان ہند کے لیے کسی مزید پیغام کی ضرورت نہیں (۸) ۔ مختصراً میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کوئی ایسا دستور اساسی جو مسلمانوں کے لیے اجتماعی حیثیت سے موت کا پیغام ہو ہرگز ہرگز قبول نہیںکیا جا سکتا۔ ہندوستان کی آزادی ہندوستان کی قوموں کے ہاتھ میں ہے۔ اگرچہ ہندوستان کی آب و ہوا میں کوئی سمجھوتہ ہندی اقوام کے در میان نہیںہو سکا۔ حالانکہ کم از کم مسلمانوںنے اپنے بعض ضروری اقتصادی اور اجتماعی مقاصد کو نظر انداز کر کے گزشتہ دس سال میں اس کے لیے کوشش بھی کی ہے تاہم میرا خیال ہے کہ انگلستان کی فضا اور برطانوی مدبرین کا Geniusشاید اس گتھی کو سلجھا سکے جس کو ہندوستانی مدبرین نہیں سلجھا سکے۔ آخر میں میں اپنے ہندو بھائیوں اور خصوصاً ہندو اخبار نویسوں سے صرف یہ گزارش کرنا چاہا ہوں کہ: سخن درشت مگو در طریق یاری کوش کہ صحبت من و تو در جہاں خدا ساز است (۹) اگلے روز فرنٹئر میل صبح ساڑھے دس بجے دہلی سٹیشن پر پہنچی۔ مولانا مظہر الدین مدیر سہ روزہ ’’الامان‘‘ دہلی کی روایت کے مطابق چھ بجے سے لو گ سٹیشن پرجمع ہونے لگے آپ کی آمد کے وقت تقریباً تین ہزار لوگ اسٹیشن پر جمع تھے۔ شمس العلما مولانا سید احمد امام مسجد دہلی‘ مولانا مظہر الدین خان بہادر محمد یوسف سیکرٹری خلافت کمیٹی دہلی‘ نواب ابوالحسن ‘ پروفیسر نذیر نیازی جامعہ ملیہ دہلی اور مسلم یوتھ لیگ‘ انجمن رفیق المسلمین‘ انجمن اتحاد و ترقی‘ تیموریہ ایسوسی ایشن کے ارکان اورمحمد علی سکول کے طلبہ اور اساتذہ شامل تھے جیسے ہی گاڑ ی رکی لوگوںنے نعرہ تکبیر بلند کیا اور آ پ پر پھولوں کی بارش کی۔ اقبال کی خدمت میں صوبائی مسلم کانفرنس سینٹرل مسل یوتھ لیگ انجمن رفیق المسلمین اور تیموریہ ایسوسی ایشن کی جانب سے متعدد سپاس نامے پیش کیے گئے۔ وقت کی کمی کے پیش نظر اقبال نے ان تمام ایڈرسوں کو سننے سے معذوری ظاہر کی اور فرمایا کہ انہیںمیرے ساتھ کر دیا جائے دوران سفر جب وقت ملے گا تو میں انہیںپڑھ لوں گا۔ اس کے بعد جامع مسجد کے امام مولانا سید احمد نے صوبائی مسلم کانفرنس دہلی کی طرف سے سپاس نامہ پڑھا۔ اس پر مولانا سید احمد‘ حاجی محمد یوسف۔ نواب ابوالحسن خاں رئیس دہلی‘ مولانا محمد مظہر الدین ‘ نواب عزیز احمد خاں‘ سید نواب علی اور دیگر اراکین مسلم کانفرنس کے دستخط تھے۔ علامہ نے اس کے جواب میں مندرجہ ذیل تقریر کی۔ ’’حضرت امام صاحب جنہوں نے یہ سپاسنامہ پڑ ھ کر سنایا ان کی نسبت سب سے پہلے میں آپ حضرت کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ ان کی ذات ایک مقد س ذات ہے اور یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ حضرت شاہ جہاں نے ان کے آبائو اجداد کو بخارا سے شاہی مسجد کی امامت کے لیے بلایا تھا‘‘۔ اس کے بعد فرمایا: ’’جہاں تک سیاسی مسائل کا تعلق ہے میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ نہ میرے ساتھ کوئی پرائیویٹ سیکرٹری ہے‘ جو میرے لیے ضرور ی مواد فراہم کرے‘ نہ میرے پاس سیاسی لٹریچر کا پلندہ ہے۔ جس پر میں اپنی بحثوں کی اساس قائم کروں بلکہ میرے پاس حق و صداقت کی ایک جامع کتاب (قرآن مجید) ہے جس کی روشنی میں مسلمانان ہند کے حقوق کی ترجمانی کرنے کی کوشش کروںگا۔ گزشتہ دس سال سے ہم اپنے اقتصادی وسیاسی فوائد کو پس پشت ڈال کر کانگرس اور ہندوئوں کے ساتھ اتحاد کی کوشش کرتے رہے لیکن اس میں آج تک ہم کو برابر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا لہٰذا اب اگر لندن میں بھی فرقہ وار اتحاد کی کوئی قابل اطمینان صورت نہ نکلی اور مکمل پراونشل اٹانومی (۱۰) نہ دی گئی اور مرکزی حکومت میں ان کا کافی خیال نہ رکھا گیا تو مسلمانان ہند کو اجتماعی زندگی پر انفرادی زندگی کو قربان کرنا پڑ ے گا (نعرہ ہائے تکبیر) اور مجھے یقین ہے کہ اگر بنگال اور پنجاب کی اکثریت اور مسلمانوں کی دیگر مطالبات کو تسلیم نہ کیا گیا تو جو دستور اساسی بھی ہندوستان کو دیا جائے گا مسلمانان ہند اس کے پرخچے اڑا دیں گے۔ سن رسیدہ نسل نے نوجوانوں کو اپنی جانشینی کے لیے تیار کرنے کا کام جیسا کہ چاہیے تھا ہرگز نہیں کیا‘ لہٰذا میں نوجوان نسل کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ قرآن پاک کی تعلیمات اور اسوہ حسنہ کو پیش نظر رکھیں اور اگر ان کو زندہ رہنا ہے تو وہ ان قربانیوں کے لیے تیار رہیں جو ہمیشہ سے زیادہ ان کو آئندہ دینی ہوں گی۔ (نعرہ تکبیر) مسلمانان دہلی سے خطاب کے دوران آپ نے داغ کا ایک مصرع پڑھا جس کا مفہو م یہ تھا کہ اہل کعبہ بھی اذان کا انتظار کرتے ہیں (۱۱) آ پ نے فرمایا: ’’مسلمانا دہلی کو ایسی آواز بلند کرنی چاہیے کہ جس کا کم از کم تمام ہندوستان انتظار کرے‘‘۔ تیموریہ ایسوسی ایشن کے سپاسنامے کے جواب میں آپ نے فرمایا: ’’آپ کے لیے میرے دل میں بے حد درد موجود ہے لیکن آپ سے میں صرف یہ کہوں گا کہ: جنگ تیموری شکست آہنگ تیموری بجاست سرروں می آرد از ساز سمرقندی دگر (۱۲) اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے حضرت امام صاحب مولانا مظہر الدین اور حاجی یوسف سے کچھ دیر گفتگو کی اور آتھ بجے بمبئی روانہ ہو گئے۔ ا س وقت آپ کی طبیعت کچھ کسلمندتھی۔ اور گزشتہ علالت کے اثرات باقی تھے۔ دہلی میں قیام کے بارے میں نذیر نیازی صاحب رقم طراز ہیں: ’’۹ ستمبر کی صبح کو حضرت علامہ پہنچے۔ نیاز مندوں کی خاصی تعداد ریلوے سٹیشن پر موجود تھی۔ علی بخش اس سفر میں دہلی تک ساتھ رہا… وقت اگرچہ کم تھا ارور حضرت علامہ کے چہرے پر نقاہت کے خفیف سے آثار نمایاں تھے۔ یہ سفر کی کلفت تھی یا بخار کا اثر؟ شاید دونوں کا۔ پھر بھی وہ بڑی خندہ پیشانی اور خوش دلی سے سفر لندن کی گفتگو کرتے رہے‘‘ (۱۳) قیام بمبئی حضرت علامہ ۱۰ ستمبر کو بمبئی پہنچ گئے۔ سفر میں آپ کے ساتھ علی بخش بھی تھا ۔ بمبئی میں آپ کا قیام خلافت ہائوس میں رہا ۔ اسی دن سہ پہلر کے وقت محترمہ عطیہ فیضی اور مسٹر فیضی رحمین نے آپ کے اعزاز میں ایک ٹی پارٹی دی۔ اس دعوت میں ہائی کورٹ کے جج مرازا علی اکبر خاں‘ مولانامحمد عرفان‘ ڈاکٹر غلام محی الدین صوفی‘ ضیاء الدین احمد برنی اور بہت سے اصحاب علم و فضل جمع تھے۔ اقبال ذرا تاخیرسے دعوت میں شریک ہوئے۔ یہ دعوت ’’ایوان رفعت‘‘ کے خوب صورت لان میں دی گئی تھی۔ اس پر لطف ماحول سے اقبال بہت محظوظ ہوئے۔ اور خاصی دیر تک عطیہ فیضی کے ساتھ مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے رہے۔ گفتگو کے دوران آپ پر لطف جملے بھی چست کرتے رہے۔ مثلا عطیہ بیگم نے فرمایا: ’’اقبال یاد رکھو بچے کے لیے ماں کی گود سب سے بڑی تربیت گاہ ہے‘‘۔ اور اس پر آپ نے ہنس کر پوچھا: ’’اور بیوی کی گود کے بارے میں کیا ارشاد ہوتا ہے‘‘۔ عطیہ بیگم نے انہیں جھڑک کر خاموش کر دیا۔ چائے نوشی کے بعد عطیہ بیگم نے معزز مہمان کا دیگر مہمانوں سے تعارف کرایا اوراقبال سے درخواست کی کہ وہ کوئی پیغام دیں۔ چنانچہ اقبال نے کھڑے ہو کر مختصر سی تقریر کی۔ اپنا ایک شعر سنایا اور فرمایا کہ یہی میرا پیغام ہے۔ وہ شعر یہ ہے: چناں بزی کہ اگر مرگ تست مرگ دوام خداز کردہ خود شرمسارتر گردد (۱۴) فارسی سے نابلد حضرات نے اصرار کیا کہ آپ اس کا انگریزی ترجمہ لکھو دیں چنانچہ آپ نے وہیں اس کا ترجمہ لکھو دیا جو درج ذیل ہے: Live so beautifully that if death is the end of all God himself may be put to shame for having ended thy career. لان سے حاضرین محفل کو ہال میں لے جایا گیا جہاں رقص و سرود کا اہتمام تھا ۔ تھوڑی دیر تک موسیقی ہوتی رہی۔ اس کے بعد رقص شروع ہوا۔ رقص کے دوران ایک سیاہ فام عیسائی عورت نے اپنے ’’کمالات‘‘دکھائے۔ اس دوران میں اقبال نے ایک کاغذ طلب کیا اور ذیل کے اشعار لکھ کر عطیہ بیگم کو دیے: ترسم کہ تو می رانی زورق بسراب اندر زادی بہ حجاب اندر میری بہ حجاب اندر برکشت و خیاباں پیچ برکوہ وبیاباں پیچ برقے کہ بخود پیچد میرد بہ سحاب اندر ایں صورت دل آویزے از زخمہ مطرب نیست مہجور جہاں حورے نالد بہ رباب اندر (۱۵) تھوڑی دیر بعد اقبال نے ذیل کا مزاحیہ شعر ایک کاغذ پر لکھ کر عطیہ بیگم کو دیا: ’’پرائیویٹ‘‘ عالم جوش جنوں میں ہے روا کیا کیا کچھ! کہیے کیا حکم ہے! دیوانہ بنوں یا نہ بنوں! محمد اقبال ۔ بمبئی ۔ ۱۰ ستمبر ۱۹۳۱ء اس تقریب کے بعد آپ نے مہمانوں سے ہاتھ ملائے اور ’’ایوان رفعت‘‘ سے رخصت ہوگئے (۱۶)۔ علامہ اقبال کے قیام بمبئی تک آپ کا جاں نثار ملازم علی بخش ساتھ رہا اور اس نے آپ کو یورپ عازم سفر ہونے کی اطلاع بذریعہ تار ’’انقلاب‘‘ کو دی۔ روانگی کے وقت آپ خوب صحت مند تھے۔ آپ نے اس وقت ایک بیان میں فرقہ وار مسئلہ کے عدم تصفیہ اور مندوبین کے متحدہ محاذ کی عدم موجودگی پر اظہار افسوس کیا اور فرمایا کہ ہندوستان کی سیاسی ترقی ہندوستانیوں کے ہاتھ میں ہے… جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے وہ جنگ آزادی میں کسی سے پیچھے نہیں۔ (۱۷)۔ حواشی ۱۔ انقلاب۔ جلد ۶ ۔ نمبر ۶۴۔ جمعرات۔ ۶ اگست ۱۹۳۱ء ۲۔ انقلاب۔ جلد ۶۔ نمبر ۶۵۔ جمعہ ۔ ۷ اگست ۱۹۳۱ء بمبئی میں حکومت اطالیہ کے قصل ڈاکٹر سکارپا تھے جو اقبال ک دوست اور مداح تھے ۔ انہوںنے اطالوی حکومت پرزور دے کر اقبال کو دورہ اطالیہ کا دعوت نامہ بھجوایا تھا۔ ملاحظہ فرمائیے: Letters and writings of Iqbal by B.A.Dar. P.80 ۳۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر ۶۵۔ جمعہ۔ ۷ اگست ۱۹۳۱ئ۔ ۴۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر ۹۱۔ یک شنبہ۔ ۶ ستمبر ۱۹۳۱ء ۵۔ مکتوب اقبال مرتبہ سید نذیر نیازی۔ صفحات ۷۴۔۷۳۔ ان دنوں نیازی صاحب The Reconstruction of Religious Thoughts in Islam کا ترجمہ ’’تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘‘ کے عنوان سے کر رہے تھے۔ خط میں اسی جانب اشارہ ہے۔ چنددشواریوں کی بناپر آ پ اسے وقت پر مکمل نہ کر سکے۔ ۶۔ مکتوبات اقبال ص ۷۲ ۷۔ انقلاب۔ جلد ۶۔ نمبر ۹۴۔ پنج شنبہ۔ ۱۰ ستمبر ۱۹۳۱ئ۔ ۸۔ ۵ ستمبر ۱۹۳۱ء کو قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلم اسٹوڈنٹ یونین بمبئی کے ایٹ ہوم میں تقریر کی تھی۔ آپ نے فرمایا۔ اگر جدید دستور اساسی میں بعض تحفظات نہ رکھے گئے اور بلاوجہ شرارت کے تدارک کا انتظام نہ کیا گیا تو دستور اساسی قائم نہ رہ سکے گا۔ نیز جدید دستور اساسی میںمسلمانوں کے لیے مناسب تحفظات ہوں ورنہ یہ نظام یقینی طور پر ٹوٹ جائے گا … کیا جمہوری حکومت کا مطلب یہ ہے کہ سات کروڑ مسلمانوں کے ہاتھ ایسے دستور اساسی میں جکڑ دیے جائیں جس میںہندوئوں کی ایک خاص جماعت ان پر جو مظالم جو ان کے جی میں آئے کر سکیں اور جو سلوک چاہیںان سے روا رکھیں۔ کیا حکومت خود اختیاری اسی کا نام ہے اور یہی ذمہ دار حکومت کہلاتی ہے؟ حکومت ایسی چیز نہیںجو ہر ایک کو فرداً فرداً دی جاسکے۔ حکومت کرنے کے لیے چند شرائط کی پابندی لازمی ہے اور وہ یہ ہیں کہ لوگوں کی تربیت اس طریق پر کی جائے کہ وہ مل جل کر رہ سکیں اور خواہ کتنے ہی اختلاات اورمشکلات حائل ہوں وہ انہیںخود ہی دور کر لیںَ یہ پرانی کسوٹی ہے۔ فرض کرو اگر حکومت برطانیہ نے ہندوئوں کو ایسا دستور دے دیا ہے ج ان کی مرضی کے مطابق ہے تو قدرتی طور پر مسلمان ا س کے مخالف ہوں گے اور وہ اس دستور اساسی کو تباہ کرنے کے لیے لازمی طور پر اپنی تمام قوت صرف کر دیں گے‘‘۔ انقلاب جلد ۶۔ نمبر ۔ سہ شنبہ۔ ۸ ستمبر ۱۹۱ء یہی تقریر تفصیل سے ۱۰ ستمبرکے انقلاب میں دوبارہ شائع ہوئی تھی۔ ۹۔ انقلاب۔ جلد ۶۔ نمبر ۹۴۔ پنج شنبہ ۔ ۱۰ ستمبر ۱۹۳۱ء ۔ شعر کے لیے ملاحظہ فرمائیے پیام مشرق ص ۱۷۸۔ ۱۰۔ ہندوستان کے مجوزہ آئین میں ریاستوں اور برطانوی ہند کے صوبوں کا وفاق قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ اس وفاق میں مرکز ارو صوبوں کے درمیان اختیارات کا تناسب زیر غور تھا۔ مسلمان قائدین کا مطالبہ یہ تھاکہ مجوزہ آئین کے تحت صوبوں کو خود مختاری حاصل ہو اور مرکز کو اختیارات کم حاصل ہوں اور صوبوں کا براہ راست تعلق حکومت برطانیہ سے ہو۔ ۱۱۔ نواب مرزا خان داغ کا شعر درج ذیل ہے: یا خدا جامع کار ہے نام بلند اہل کعبہ کہیں وہ آئی اذاں دہلی! ۱۲۔ یہ روئداد پہلے سہ روزہ الامان میں شائع ہوئی تھی۔ وہاں سے یہ ’’انقلاب ‘‘ میں نقل ہوئی تھی۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر ۹۶۔ شنبہ۔ ۱۲ ستمبر ۱۹۳۱ئ۔ شعر کے لیے ملاحظہ کریں پیام مشرق ص ۱۴۶۔ ۱۳۔ مکتوبات اقبال۔ مرتبہ سید نذیر نیازی۔ ص ۷۶ ۱۴۔ زبور عجم۔ ص ۸۴ ۱۵۔ جاوید نامہ۔ ص ۴۳۔۴۲۔ ۱۶ ۔ عظمت رفتہ ۔ مصنف ضیاء الدین احمد برنی۔ ص ۲۷۶۔۲۷۳ ۱۷۔ انقلاب۔ جلد ۶ نمبر ۹۸۔ سہ شنبہ ۔ ۱۵ ستمبر ۱۹۳۱ء ٭٭٭ بمبئی کرانیکل کے نمائندے سے گفتگو اقبال ۱۲ ستمبر ۱۹۳۱ء کو ’’ملوجا ‘‘ نامی جہاز سے انگلستان روانہ ہوئے۔ روانگی سے قبل بمبئی کرانیکل کے نمائندے نے آپ کا انٹرویو لیاتھا۔ بمبئی کرانیکل کانگریسی کا حامی تھا۔ کانگرس رہنمائوں کے نزدیک علامہ اقبال فرقہ پرست‘ ہندوئوں کا دشمن اور سامراج کا پٹھو تھا۔ اقبال کا جرم یہ تھا کہ وہ مسلمانوں کے جداگانہ حقوق کے علمبردار تھے اور ہندوستان میں مسلمانوں کی منفرد تہذیب و تمدن کا احیا چاہتے تھے۔ اقبال نے فرمایا میرے دل میں کسی فرقے یا قوم کے لیے تعصب نہیں۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ اسلام کو اس کی ابتدائی سادگی میں اپنایا جائے۔ میری خواہش ہے کہ ہندوستانی سکون کی زندگی بسر کریں اور مجھے یقین ہے کہ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہر فرقہ اپنی انفرادیت اور تمدن برقرار رکھے۔ نمائندہ : آپ کا پان اسلامیت کے متعلق کیا خیال ہے؟ اقبال: پان اسلامیت کی اصطلاح دو طرح استعمال ہوئی تھی۔ جہاں تک مجھے علم ہے یہ اصطلاح ایک فرانسیسی صحافی نے وضع کی تھی اور جن معنوں میں اسے استعمال کیا گیاتھا ان کا وجود اس کے تخیل کے سوال کہیں اور نہ تھا۔ میرے خیال میں فرانسیسی صحافی نے اس کے ذریعے اسلام کے اتحاد کو ایک خطرے کے روپ میںپیش کیا۔ یہ اصطلاح زرد خطرے (۱) کے انداز پر وضع کی گئی تھی۔ جس کاسہارا لے کر اسلامی ممالک کے خلاف یورپی جارحیت کو جائز قرار دیا جا سکے۔ بعد ازاں اس اصطلاح سے مراد ایک سازش تھی جس کا مرکز قسطنطنیہ تھا۔ مسلمانان عالم کے بارے میں یہ تصور کیا گیا کہ وہ یورپ ممالک کے خلاف متحد ہونے کامنصوبہ بنا رہے تھے۔ کیمبرج کے آنجہانی پروفیسر برائون نے حتمی طور پر یہ ثابت کیا تھا کہ اس طرح کی پان اسلامیت کا وجود نہ تو قسطنطنیہ میں تھا اور نہ ہی کسی اور جگہ پایا جاتا تھا۔ جمال الدین افغانی نے ایک اور انداز سے اس تخیل کو اپنایا تھا۔ مجھے یہ تو علم نہیں کہ انہوںنے یہ اصطلاح استعمال کی تھی لیکن آپ اگر ایران افغا نستان اور ترکی کو یورپ جارحیت کے خلاف متحد ہونے کا مشورہ دیا تھا۔ یہ محض دفاعی تدابیر تھی اور میرے نزدک افغانی کے تصورات بالکل درست تھے۔ لیکن ایک دوسرے نقطہ نظر سے یہ نظریہ قرآنی تعلیمات کا حامل ہے۔ اس طر ح یہ سیاسی منصوبہ نہیںبلکہ سماجی تجربہ ہے۔ اسلام رنگ نسل اور ذات پات کی قیود کو تسلیم نہیں کرتا۔ درحقیقت اسلام ہی وہ طریق حیات ہے جس نے دنیائے اسلام میںرنگ کے امتیاز کو باطل قرار دیا۔ ار اس مسئلے کو حل کیا۔ موجودہ یورپ تہذیب سائنس اور فلسفے میں ترقی کے باوجود اس مسئلے کو حل نہ کر پائی۔ پان اسلامیت ان معنوں میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ہے اور دائمی ہے۔ اس طرح پان اسلامیت در حقیقت اتحاد انسانی ہے اور ہر مسلمان اتحاد انسانی کا مبلغ ہے اور اسے ایسا ہی ہونا چاہیے۔ لیکن پان (اتحاد) کالاحقہ ترک کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ لفظ اسلام متذکرہ بالا مفاہم پر پوری طرح حاوی ہے۔ نمائندہ: کیا آپ برطانوی شہنشاہیت کو عطیہ خداوندی تصور کرتے ہیں؟ اقبال: تما م ریاستیں جو استحصال پر عمل پیرا ہیں اس سے منحرف ہیں۔ نمائندہ: کیا آپ اب بھی اپنے اس نظریہ پر قائم ہیں کہ جو آپ نے سر فرانسیس ینگ ہز بلینڈ کے نام ایک خط میں پیش کیا ھتا کہ اگر تصور خدا اشتمالیت میں شامل کر دیا جائے تو وہ اسلام ہو گا (۲)۔ اقبال: اسلام ایک معاشرتی دین ہے۔ اسلام کامل اشتراکیت اور انفرادی ملکیت کے درمیان کی راہ اختیار کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ روس نے تربیت یافتہ مزدوروں کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔ (۳) میرے خیال میں دور جدید کا انسانی ضمیر ملوکیت اور اشتمالیت میں بنیادی تبدیلیاں لائے گا ۔ توسیع پسندانہ ملوکیت کے دن گنے جا چکے ہیں اور اشتمالیت بھی کامل اشتراکیت کے روپ میں آنے سے بدل گئی ہے۔ برطانیہ اور روس میں ان کے معاشی تصورات میں بنیادی اختلافات کی بنا پر تصادم ہو گا۔ جس کے بعد تمام راست فکر افراد حق کا ساتھ دیں گے۔ اس موضوع پر مزید سوالات سے یہ واضح ہو اکہ اقبال کے انفرادی ملکیت سے متلعق نظریات انتہا پسندانہ تھے اور یہ خیالات اس دور کے مسائل کے عمل اور تصور سے بالکل مختلف تھے۔ آپ نے وضاحت کے ساتھ بتایا کہ ز مین کے انفرادی ملکیت کا تصور قرآنی تعلیمات کے منافی ہے۔ اقبال: مجھے جہاں تک اخبارات سے معلوم ہواہے کہ روس نے تصور خدا کو معاشرے کی اساس ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ اگر روس میں یہ صورت حال موجود ہے تب بھی مجھے شبہ ہے کہ یہ حالات آئندہ بھی رہیں گے ۔ مادیت اپنی خالص اور ابتدائی شکل میں انسانی معاشرے کی بنیاد نہیں بن سکتی۔ میرے علم کے مطابق روسی درحقیقت مذہبی ہوتے ہیں۔ نمائندے نے اقبال سے وضاحت طلب کی کہ بعض سمجھ دار اور ایماندار ناقدین کی رائے میں انکا موجودہ رویہ ان کی شاعری سے متصادم ہے۔ ان کا خیال ہے کہ سیاستدان شاعرپر سبقت لے گیا ہے۔ اقبا ل نے فرمایا کہ ناقدین کا فرض ہے کہ مجھے پرکھیںلیکن اس کے لیے ضروری ہیکہ یہ تنقید میری تحریروں کی مدد سے ہو۔ مجھے افسوس ہے کہ انہوں نے اسے پڑھنے یا سمجھنے کی زحمت گوارا نہیں کی قومیت کے متعلق میرے خیالات بلاشمہ تبدیل ہوگئے میں طالب علمی کے دور میں پرجوش قوم پرست تھا لیکن اب نہیں… یہ تبدیلی پختگی فکر کی بدولت آئی۔ میری بعد کی تحریریں فارسی میں ہیں جو بدقسمتی سے اس ملک میں کم سمجھی جاتی ہے۔ نمائندہ: کیا آپ شاہی نظام برقرار رکھنے کے حق میں نہیں؟ اقبال: میں نہ تو شاہی نظام برقرار رکھنے کا موید ہوںاورنہ ہی دل سے جمہوریت کا قائل ہوں لیکن جمہوریت کواس لیے گوارا کرتاہوں کہ اس کا متبادل نہیں۔ نمائندہ: آپ کا اس بارے میںکیا خیال ہے کہ آپ سیاست دان کی نسبت شاعر کی حیثیت سے ملک کے لیے مفید تر ثابت ہوتے؟ اقبال نے جواب دیا کہ انہوںنے ادبی کاوشیں ترک نہیں کیں درحقیقت ی توان کا اصل کام تھا۔ انہوںنے اپنی تازہ ترین تصنیف تشکیل جدید الہیات اسلامیہ کا تذکرہ کیا اورفرمایا کہ انگلستان سے واپسی پروہ متعلقہ موضوعات پر لکھیں گے۔ نمائندہ: آپ نے اور حضرات کی نسبت کہیں زیادہ جمیعت الاقوام اور دیگر انجمنوں کی ریاکاری کو بے نقاب کیا ہے۔ اور اس کے باوجود آپ گول میز کانفرنس پر اظہار اعتماد کر رہے ہیں۔ آپ اس تضاد کی کیا وضاحت فرمائیں گے؟ اس پر اقبال نے تیزی سے آنکھیں جھپکائیں ارو اپنے ہم دم دیرینہ حقے کی طرف رجوع کیا۔ نمائندہ: آپ قومیت کے کیوں مخالف ہیں؟ اقبال: میں اسے اسلام کے اعلیٰ نصب العین کا مخالف سمجھتا ہوں ۔ اسلام اعتقاد نہیں ہے بلکہ یہ معاشرتی قانونہے ۔ ا س نے رنگ کا مسئلہ حل کر دیا ہے۔ اس نے انسانی ذہن کو ایک نئی جہت دی ہے۔ اسلا م نے نوع انسانی کے اتحاد اور روحانی ہم آہنگی کو جنم دیا۔ نظریہ قومیت پر جس طرح موجودہ دور میں عمل میں لایا گیا وہ اسلامی نظریے کے سمجھنے میں آڑے آئی اس لیے میں اس کا مخالف ہوں۔ نمائندہ: عرب ممالک میں وفاق کے کیا امکانات ہیں؟ اقبال: میں عرب ریاستوں کے وفا ق پر یقین رکھتا ہوں لیکن اس راہ میں بعض مشکلات ہیںَ مجھے عربی زبان پر بے حد اعتماد ہے۔ کیونکہ میرے نزدیک یہ واحد مشرقی زبان ہے جس کا زندگی سے بھرپور مستقبل ہے۔ عرب اقوام کے لیے یہ مذہب کے بعد سب سے اہم ذریعہ اتحاد ہے۔ حجاز کی موجودہ صورت حال بہت زیادہ خوش آئند نہیں۔ میرے لیے اس وقت عرب وفاق کے بارے میں پیش گوئی کرنا دشوار ہے ۔ مسلم ممالک اگر اسلام کے نصب العین پر قائم رہین ت وہ انسانیت کی بے پناہ خدمت کریںگے۔ اسلام ہی دنیا میں واحد مثبت نظام ہے۔ بشرطیکہ اس پر عمل پیرا ہوں اور جدید نظریات کی روشنی میں اس پر غور و فکر کریں۔ ہندی مسلمان مستقبل میں اسلام کی سربلندی کے لیے اہم خدمت انجام دے سکتے ہیں۔ جدید اسلام کا انحصار اس نژادنو پر ہے جس نے اسلام کی مبادیات سیکھنے کے بعد مزید علم حاصل کیا ہے۔ علماء جنہیںماضی کے ورثے کا علم ہے مستقبل میں اسلام کی تشکیل جید میں بے حد مفید ثابت ہوں گے۔ اگر وہ اسلام کو درپیش معاشی اور سیاسی مسائل کا حل تلاش کر سکیں۔ مجھ سے جو بن پڑا وہ میں نے کیا اور آئندہ بھی کرتارہوں گا۔ میں نے اسلامی فلسفے کو جدید علوم کی روشنی میں پرکھا اور اگر مہلت ملی تو اسلامی فقہ پر کام کروں گا۔ جو میرے نزدیک موجودہ زمانے میں خالص الہیاتی مسائل پر غور و فکر سے زیادہ اہم ہے میں نے فقہ کے فلسفیانہ پہلو سے آغاز کیا ہے۔ یہ درحقیقت اسلام کی تشکیل جدید کا پیش خیمہ ہے۔ میں فقہ پر توجہ مرکوز کر رہا ہوں جسے علما نے صدیوں سے نظر انداز کردیا تھا قرآن حکیم کا مطالعہ اب ایک ایسی کتاب کی مانند ہونا چاہیے جس میں اقوام یاانسانوں کی تخلیق ارتقاء اور اختتام پر روشنی ڈالی گئی ہو۔ الہامی ادبیات کی تاریخ میں قرآن کریم غالباً وہپہلی کتاب ہے جس میں انسان کی زندہ اجتماعی نظام قرار دیا گیا ہے۔ قرآن کی رو سے انسان چند واضح قوانین کا پابندہے۔ جس میں اخلاقی ضوابط پر خاص طور پر زور دیا گیا ہے۔ نمائندہ: آپ گول میز کانفرنس کے اختتا م پر ہندوستان آتے ہوئے کسی اسلامی ملک کا بھی دورہ کریں گے؟ اقبال نے فرمایا کہ ان کی خواہش تھی کہ یا تو تمام اسلامی ممالک کا یا جس قدر ممکن ہوتا اس حد تک اسلامی ممالک کا دورہ کرتے لیکن وسائل کی قلت کی بناپر بہت سے ملکوں کا دورہ ممکن نہیںَ وہ انگلستان سے واپسی پر مصر ضرور جائیں گے۔ اسلامی ممالک کے دورے کا مقصد وہاں کے حالات کے مشاہدے کے بعد ایک کتاب ’’دی ماڈرن ورلڈ آف اسلام‘‘ تحریر کرنا تھی لیکن یہ امر بھی فراہمی وسائل پر منحصر ہے اس مرحلے پر کچھ کہنا ممکن نہیں۔ (۴) تعلیقات و حواشی ۱۔ زرد خطرے کی اصطلاح یورپی اقوام نے منگولی نسل کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کی تھی۔ اس نفرت کا خاص مرکز چینی قوم تھی۔ ۲۔ سر فراسیس ینگ ہزبینڈ کے نام خط اقبال کے فرزند آفتاب اقبال نے تحریر کیا تھامزید حوالے کے لیے ملاحظہ کریں۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر ۱۱۸۔ جمعہ۔ ۹ اکتوبر ۱۹۳۱ ۔ آفتاب اقبال مرحوم نے راقم الحروف کے سامنے مندرجہ بالا خط کی تصنیف کا اعتراف کیا تھا۔ یہ خط غلط طورپر اقبال سے منسوب ہے۔ انٹرویو کے لیے ملاحظہ کریں۔ Letters and writings of Iqbal. pp. 54-62 ۳۔ یہاں اقبال کی مراد یہ ہے کہ روسی معاشرے میں بھی کامل مساوات قائم نہ ہو سکی تھی۔ غیر تربیت یافتہ اور تربیت یافتہ مزدور کے مشاہروں میں خاصا فرق پایا جاتا تھا۔ ۴۔ اس انٹرویو کے ناقص اور نامکمل ترجمے روزنامہ انقلاب اور زندہ رود میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ راقم نے اصل متن سامنے رکھ کر ترجمہ کیا تھا۔ انقلاب۔ جلد ۶۔ نمبر ۱۱۸۔ جمعہ ۹ اکتوبر ۱۹۳۱ئ۔ ’’زندہ رود‘‘ جلد سوم۔ حیات اقبال کا اختتامی دور۔ از ڈاکٹر جاوید اقبال صفحات ۴۴۱۔۴۳۹ ٭٭٭ یورپ روانگی علامہ اقبال نے ۲۱ ستمبر ۱۹۳۱ء کو ’’ملوجا‘‘ جہاز سے ایک خط لکھاتھا۔ یہ خط ’’انقلاب‘‘ کی ۱۵ اکتوبر ۱۹۳۱ء کی اشاعت میں شامل ہوا تھا۔ اس خط کے متعلق میں اس قدر درج ہے کہ یہ آپ نے اپنے ایک دوست کے نام تحریر کیا تھا۔ مولانا غلام رسول مہر کی روایت کے مطابق اقبال نے یہ خط منشی طاہر الدین کے نام تحریر کیا تھا۔ منشی صاحب اقبال کے ہاں ملازم تھے۔ اور انہیں وکالت کے کام میں مدد دیا کرتے تھے ۔ اس دلکش خط میں اقبال نے سفر کے حالات بہت خوبصورت انداز میں بیان کیے ہیں۔ بہتر ہے کہ سفر کی روداد آپ اقبال کی زبان سے سنیں: ’’بمبئی پہنچتے ہی سردار صلاح الدین سلجوقی قصل افغانستان مقیم بمبئی نے دعوت دی ان کے ہاں پر لطف صحبت رہی۔ سردار موصوف فارسی او رعربی ادبیات پر پورا پورا عبور رکھتے ہیںَ عربی کی جدید شاعری سے بھی باخبر ہیں۔ فارسی میں خاقانی کے بڑے معترف ہیںَ علوم دینی میں بھی کافی دسترس رکھتے ہیں۔ ہرات کے قاضی رہ چکے ہیں۔ ان کے دولت کدے پر مرزا طلعت یزدی نے جو بمبئی میں دس سال سے مقیم ہیں ایرانی لہجے میں اپنے اشعار سنائے جو آپ کی نظر سے گزر چکے ہوں گے۔ اسی شام عطیہ بیگم صاحبہ کے ہاں سماع کی صحبت رہی‘ جہاں اہل ہوس بار نہیںپا سکتے۔ برسماع راست ہر تین چیز نیست طعمہ ہرمرفکے انجیر نیست ۱۲ ستمبر کو ایک بجے کے قریب بمبئی سے روانہ ہوئے۔ ملوجا جہاز کی وسعت کا حال علی بخش سے سنیے۔ ۱۶ کو عدن پہنچے۔ یہ اسی سرزمین کا ٹکڑا ہے جس کی نسبت حالی مرحوم فرماگئے ہیں: عرب کچھ نہ تھا اک جزیرہ نما تھا عدن میرا مقصد ساحل پرجانے کا نہ تھا مگر ہمارے شہر کے ایک نواجوان شیخ عبداللہ کے نام یہاں وکالت کرتے ہیں۔ وہ جہاز پر آئے اور باصرار اپنے ساتھ لے گئے۔ کشتی پر سوار ہو کر ساحل پراترے اور وہاں سے موٹر پر سوار ہو کر شیخ صاحب موصوف کے مکان پر پہنچے۔ وہاں مرغ پلائو کباب قورمہ سب کچھ حاضرتھا۔ کھانے کے بعد یمن کی سیاہ و تلخ و خوش گوار کافی کا دور چلا۔ آغا فکری ایرانی اور ایک ایرانی سوداگر سے ملاقات ہوئی۔ آغا فکری نہایت ہوشیار اور مستعد نوجوان ہیں۔یمنی کافی کی تجارت کرتے ہی۔ بے انتہا لسان ہیں۔ رخصت کے وقت انہوں نے مجھے ایک دانہ عقیق یمنی کا بطور یادگار کے عنایت فرمایا۔ ۲۲ سال وہئے جب میں نے عدن دیکھا تھا اس وقت کچھ نہ تھا۔ اب ایک بارونق شہر ہے اور ترقی کر رہا ہے۔ حضرت موت کے عرب یہاں ساہوکار ہیں پنجابی بھی بہت ہیں خاص کر سندھ کے دکاندار۔ مسلمانوں میں سمالی قوم بہت ہوشیار اورمحںتی ہے۔ شیخ عبداللہ سے معلوم ہوا کہ ان میں سے بعض آٹھ آٹھ دس دس زبانیں بلا تکلف بولتے ہیں عدن میں عرب نوجوانوں کا ایک لٹریری کلب بھی ہے۔ مگر چونکہ رات کا وقت تھا کلب مذکور کے ممبروں سے ملاقات نہ ہو سکی۔ غرضیکہ رات کے ساڑھے دس بجے شیخ عبداللہ کے مکان سے رخصت ہو کر تقریباً گیارہ بجے اپنے جہاز پر پہنچے۔ جہاز ساڑھے گیارہ بجے رات روانہ ہوا۔ پورٹ سعید ۲۰ ستمبر کو تقریباً ۳ بجے شب پورٹ سعید مقام ہوا یہ جگہ بھی بے انتہاترقی کر گئی ہے۔ میں تو سوچا تھا مگر ایک مصری ڈاکٹر سلیمان نے آ جگایا۔ میں اٹھا اور ان سے ملاقات کی۔ اتنے میں اور مصری نوجوان وہاں کی شبان المسلمین کے ممبر تھے ملاقات کو آئے۔ ان نوجوانوں سے مل کر طبیعت نہایت خوش ہوئی۔ ایک مصری کرنل کی لڑکی بھی ملنے کے لیے آئی۔ یہ ہمارے جہاز می ںانگلستان جا رہی ہے تاکہ علم نباتات کے مطالعہ کی تکمیل کرے پہلے چار برس وہاں رہ آئی ہے انگریزی خوب بولتی ہے۔ عام طور پراہل مصر فرانسیسی لہجے میںانگریزی بولتے ہیں۔ اس لڑکی کا لہجہ بالکل انگریزی تھا۔ لطفی بے نے جو قاہرہ کے نہایت مشہور بیرسٹر ہیں ڈاکٹر سلیمان کی زبانی سلام بھیجا تھا اور واپسی پر قاہرہ آنے کی دعوت دی تھی۔ رنپور ہ جہاز میںجس میں میرا سفر پہلے قرار پایاتھا۔ لطفی بے تشریف لائے تھے مگر افسوس کہ میں حالات کی وجہ سے سفر نہ کر سکا۔ مصرمیں کانگریسی پراپیگنڈے کا اثر آپ یہ سن کر تعجب کریں گے کہ مصر کے مسلمان عام طورپر یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانان ہند ہندوستان کی آزادی میںروڑا اٹکا رہے ہیں۔ یہ پروپیگنڈا دیگر اسلامی ممالک میں بھی کیا گیاہے۔ پورٹ سعید پر قریباً ہر مسلمان نوجوان مجھ سے یہ سوال کیا لیکن معلوم ہوتاہے کہ اب ان کی آنکھوں سے رفتہ رفتہ حجاب اٹھ رہا ہے۔ میں نے ان کو طویل لیکچر دیا اور بتایا کہ ہندوستان کا پولیٹکل پرابلم کس طرح مسلمانان ہند پر موثر ہوتا ہے۔ میری گفتگو سننے کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی طبیعت سے بہت بڑا بوجھ اتر گیا ہے۔ تقریرکے بعض حصے انہوںنے نوٹ بھی کر لیے۔ حکیم محمد صدیق جالندھر کے نوجوان نے بہ حیثیت نمائندہ رائٹر ملاقات کی۔ یہ یہاں کی راول سوسائٹی کے سیکرٹری ہیں۔ شادی بھی مصر میں ہی کر لی ہے۔ عربی خوب بولتے ہیں اور بہت ہوشیار اورمستعد معلوم ہوتے ہیںَ جہاز قریباً ساڑھے چھ بجے صبح روانہ ہوا اور مصری نوجوان صبح تک میرے کیبن میں بیٹھے رہے ۔ واپسی پر انہوںنے ساحل سے سگرٹوں کے دو ڈبے ہدیتہ ارسال کیے ۔ بحر روم بمبئی سے لیکر اس وقت تک جہاز ’’ملوجا‘‘ بحر روم کی صفوں کو چیرتاہوا چل رہا ہے ۔ سمندر بالکل خاموش ہے۔ طوفان کانام و نشان تک نہیں ہے۔ موسم بھی نہایت خوش گوار رہا ہے البتہ بحر احمر میں گرمی تھی۔ یہ سمندر عصائے کلیم کا …… جہاز پر ہم سفروں سے گفتگو یا گول میز کانفرنس پر جس کی خبریں لا سکی کے ذریعے ہر روز جہازپر پہنچ جاتی ہیں بحث و مباحثہ یا گزشتہ سال کی رپورٹوں کا ……۔ ہاں کبھی کبھی شعر و شاعری بھی ہو جاتی ہے۔ سید علی امام کو عربی‘ فارسی اور اردو کے بے شمار اشعار یاد ہیں اور پڑھتے بھی خوب ہیں۔ الولد سر لا بیم ان کے والد ماجد نواب امداد امام اثر ادبیات اردو میں ایک خاص پایہ رکھتے تھے۔ جہاز پر میں نے گوشت کھانا بالکل ترک کر دیا ہے۔ وطن میں بھی بہت کم کھاتا تھا۔ مگر یہاں تو صرف سبزی ترکاری مچھلی اور انڈے پر گزاران ہے۔ ایک تو گوشت کی طرف رغبت بہت کم ہے۔ دوسرے ذبیحہ بھی مشتبہ ہے۔ البتہ غیر مشتبہ ذبیحہ بھی کبھی کبھی مل جاتا ہے۔ وہ ا س طرح کہ سر علی امام کی بیگم صاحبہ کی نیک نفسی اور شرافت کا مجسمہ ہیں اپنے شوہر کے ہمراہ ہیںَ ذبیحہ کے متعلق خاص طور پر محتاط ہیںَ اپنا باورچی ساتھ لائی ہیں۔ ان کی عنایت سے غیر مشتبہ ذبیحہ اور مغلئی کھانا قریباً قریباً ہر روز ہماری میز تک پہنچ جاتا ہے۔ اگرچہ اس میں میرا حصہ بالعموم سبزی اور چاول تک محدود رہتا ہے۔ ’’مغرب زدہ‘‘ ہم سفر آپ کہیں گے کہ میں سب کچھ لکھ گیا۔ مگر ہم سفروں کے متعلق اب تک خاموش ہوں۔ ہمارے جہاز میں مسافر کچھ زیادہ نہیں۔ گول میز کانفرنس کے ہندو اور مسلمان نمائندے شاید سات آٹھ ہیں۔ راجہ نریندر ناتھ صاحب بھی اسی جہاز یں ہیں۔ چار مسلمان نمائندے ہیں اور چاروں مغرب زدہ۔ مغر ب زدہ مسلمان کی اصطلاح شادی معارد نے وضع کی تھی۔ نہایت پرلطف ہے۔ لیکن مسلمانوں کے اس مغرب زدہ قافلے کی کیفیت یہ ہے کہ اس میں دو حافظ قرآن ہیں۔ یعنی نواب صاحب چھتاری اور خان بہادر حافظ حسین مقدم الذکر ہر روز ورد کرتے ہیں اور سنا ہے کہ ہر سال تراویح بھی پڑھاتے ہیں۔ ضڑب خودہ ہے گرم مزاج کیوںنہ ہو۔ چاروں طرف جہاں تک نگاہ کام کرتی ہے سمندرہی سمندر ہے۔ گویا قدر ت الٰہی نے آسمان کے نیلگوں خیمے کو الٹ کر زمین پر بچھا دیا ہے۔ سویز کنال سفر کی مختصر روئداد تو میں نے لکھ دی ہے۔ سویز کنال کے متعلق لکھنابھول گیا شاید ۱۹ ستمبر کو ہم سویز کنال میں داخل ہوئے۔ فراعنہ مصر قدیم ایرانیوں مسلمانوں اور اہل فرنگ نے اپنے عروج و قوت کے زمانے میں اس نہر کے مٹے ہوئے نقوش کو ابھار کر اس سے فائدہ اٹھایا لیکن مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب اس حیرت انگیز کنال کی اہمیت یعنی تجارتی اہمیت کا خاتمہ قریب ہے۔ سیاسی اعتبار سے صلح و جنگ کے زمانے میں ہر قوم کے جہاز اس میںسے گزر سکتے ہیں۔ سویز کنال کمپنی کے بیشتر حصوں انگریزی تصرف میں ہیں اور یہ غالباً اسمعیل پاشا خدیو مصر کی عیش پرستی کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ اس نے اپنے تمام حصص انگریزوں کے ہاتھ بیچ دیے تھے۔ تقریباً ڈھائی کروڑ پونڈ کی لاگت سے ایشیا اوریورپ کے سمندروں کو ملانے والی یہ آبی سڑک تیار ہوئی تھی لیکن اب جیسا کہ میں نے اوپر لکھا ہے کہ شاید اس کی وہ اہمیت نہ رہے جو اسے پہلے حاصل تھی۔ پرواز کی وسعت و ترقی اور وسط ایشیا او ر وسط یورپ میں ریلوے کی تعمیر سے دنیا کے دو بڑے حصوں میں جدید تجارتی راستوں کا کھل جانا ایک نئی مگر خشک سویز کنال کو معرض وجود میںلانے والاہے۔ جس سے تجارتی اور غالباً سیاسی دنیا میں بھی ایک عظیم الشان انقلاب پیدا ہو گا۔ آئندہ بیس پچیس سال میں ایسا ہو گیا تو طاقتور کمزور اور کمزور طاقتور ہو جائیں گے ۔ تلک ایام نداولھا بین الناس! جہاز میں سرعلی امام سے صحبت جہاز کی روز مرہ کی زندگی کی داستان نہایت مختصر ہے۔ میں اپنی قدیم عادت کے مطابق آفتاب نکلنے سے پہلے ہی تلاوت سے فارغ ہو جاتاہوں۔ ا س کے بعد دیگر حوائج سے فراغت پاتے پاتے بک فاسٹ کا وقت آ جاتا ہے۔ برک فاسٹ کے مدینتہ النبی کے سامنے۔ سید علی امام کی مغرب زدگی کی کیفیت یہ ہے کہ ایک روز صبح کے وقت عرشہ جہاز پر کھڑے تھے میں بھی ان کے ہمراہ تھا کہ میل و فرسنگ کا حساب لگا کر کہنے لگے دیکھو بھائی اقبال اس وقت ہمارا جہاز ساحل مدینہ کے سامنے سے گزر رہا ہے یہ فقرہ ابھی پورے طورپر ان کے منہ سے نکلابھی نہ تھا کہ آنسوئوں نے الفاظ پر سبقت لے لی۔ ان کی آنکھ نمناک ہو گئی اور بے اختیار ہو کر بولے بلغ سلامی روضتہ فیھا النبی المحترم (۱)۔ ان کے قلب کی اس کیفیت نے مجھے بے انتہا متاثر کیا۔ باقی رہا میں میں مغرب زدہ بھی ہوں اور مشرق زدہ بھی البتہ مشرققی ضرب میرے لیے زیادہ کاری ثابت ہوئی۔ باقی ہم سفروں میں مسٹر جسٹس سہروردی‘ شیخ میشر حسین قدوائی اور اودھ کے دو نوجوان تعلقدار ہیں۔ قدوائی صاحب نہایت پرجوش پین اسلامسٹ ہیں۔ تبلیغی فرائض سے کبھی غافل نہیں رہتے اور اودھ کے دو تعلقداروں میں ایک عربی خوب بولتے ہیں دوسرے سمجھ لیتے ہیں مگر بول نہیں سکتے۔ ان دونوں نوجوانوں کے والد مدتوں کربلائے معلیٰ میں مقیم رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ عربی بول اور سمجھ لیتے ہیں۔ یہ ہے اس مغرب زدہ قافلے کی مختصر کیفیت باقی خدا کے فضل و کرم سے خیریت ہے (۲) یہ خط مارسائی (۳) سے ڈاک میں چلا جائے گا۔ علی بخش کو میرا سلام ضرور کہیے گا (محمد اقبال)۔ علامہ اقبال نے پورٹ سعید پر مبصروں کے سامنے جو تقریر کی تھی اس کے کچھ اقتباس حکیم صدیق محمد ناڑو نے انقلاب میں شائع کرائے تھے (۴)۔ حکیم صاحب نے جمعتہ الرابطہ الہندیہ کی جانب سے اقبال سے ملاقات کی تھی۔ مصری احباب کے سامنے اقبال نے فرمایا کہ: ’’ہندوئوںو فکر لگی رہتی ہے کہ مسلمان افغانیوں بلوچوں اور سرحد کے مسلمانوں کی مدد سے ہندوستان پرقبضہ کر لیں گے۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ اگر مصر آزاد ہو جائے تو مصری اپنا ملک ترکوں کو اس وجہ سے حوالے کر دیں کہ تر ک مسلمان ہیں؟ نیز کانگریس کا عدم تشدد محض انگریزی سنگینوں کے سامنے ہے ورنہ کانپور مرزا پور‘ سری نگر وغیرہ کے حالات سے ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے مقالبے کے لیے تشدد ہے‘‘۔ بعد ازاں علامہ اقبال ن ایک بیان بھی دیا تھا جس میں آپ نے فرمایا کہ: ’’مصری لوگوں کو شبہ ہے کہ ہندی مسلمان آزادی کے راستے میں کانٹا ہیںَ اس میں ذرا صداقت نہیں۔ اگر مصری اصحاب کے دلوں میں یہ خیال بیٹح گیا ہے تو اس لیے کہ ان اصحاب نے ہندوستان کی سیاست کو سمجھنے کی تکلیف گوارانہیں فرمائی اس لیے میں چاہتا ہوںکہ مصری اخبارات کے مندوبین ہندوستان آ کر مطالعہ کریں۔ ہندوستان میںمصری مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کیاجاتا ہے کہ مصری مسلمانوں نے قرآن اللہ اور اسلام کو خیر باد کہہ دیا حالانکہ یہ شرارت ہے‘‘۔ پورٹ سعید کے ساحل پر اقبال کے ہمراہ مشیر حسین قدوائی تھے۔ انہوںنے بھی ایک بیان دیا تھا جو درج ذیل ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’ہندی مسلمانوں کو اس لیے اندیشہ ہے کہ ہند و یا گاندھی‘ آزادی کے خواہاں نہیں بلکہ وہ حکومت ہند اور فوج برطانوی پر قبضہ جمانا چاہتے ہیں تاکہ حسب منشا فوج کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کرسکیں۔ ہندی مسلمان نہایت بے تابی سے آزادی کے خواہاں ہیں کیونکہ ان کی آزادی پر مسلم سلطنتوں کی آزادی منحصر ہے لیکن مسلمان انگریز سے آزادی لے کر ہندوئوں کے غلام نہ ہوں گے جیسا کہ ہندوئوں کا مطلب ہے‘‘۔ علامہ اقبال ۲۷ ستمبر ۱۹۳۱ء کو انگلستان پہنچ گئے تھے۔ آپ نے اپنی آمد کی اطلاع جاوید اقبال کے نام تار کے ذریعے دی تھی۔ (۵) ٭٭٭ حواشی ۱۔ مکمل شعر درج ذیل ہے: ان نلت یاریح الصبا یوما الی ارض الحرم بلغ سلامی روضتہ فیھا النبی المحترم اس موقعہ پر سر سید علی امام نے آیا ت قرآنی اوردرود و سلام کا بھی ورد کیا تھا۔ مزید حوالہ کے لیے دیکھیے ’’اقبال کی صحبت میں‘‘ مرتبہ ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی ص ۲۹۰۔ ۲۔ اقبال کے ہم سفروں میں ایک یورپی میاں بیوی بھی تھے شوہر کا نام Lively Garden تھا۔ یہ دونوں اکثر کھانے کی میز پر اقبال کے ساتھ ہوتے۔ کھانے کے بعد مختلف موضوعات پر باتیں ہوتی تھیں۔ ایک روز مسجد کے موضوع پر گفتگو ہوئی تو اقبال نے فرمایا کہ تمام روئے زمین مسجد ہے۔ انہوںنے سفر کے بعد اقبال کو یاد رکھا اور کرسمس کے موقع پر اقبا ل کو کارڈ بھیجتے تو اس پر یہ لکھا ہوتا تھا: To our good friend of India of Maloja Mr. and Mrs. Lively Garden ''THE WHOLE EARTH IS A MOSQUE'' ایضاً ص ۲۹۰۔۲۹۰ ۳۔ ملوجا جہاز کا سفر فرانسیسی بندرگاہ مارسیلز پر ختم ہونے والا تھا۔ مارسیلز کا فرانسیسی تلفظ مارسائی تھا۔ اقبا ل نے مارسیلز سے لندن سفر بذریعہ ریل کیا تھا انقلاب۔ جلد ۶۔ نمبر ۱۲۳۔ ۵ اکتوبر ۱۹۳۱ئ۔ ۴۔ حکیم صدیق محمد نارڈ کا خط انقلاب جلد ۶۔ نمبر ۱۱۷۔ پنج شنبہ۔ ۸ اکتوبر ۱۹۳۱ء کو شائع ہوا تھا۔ حکیم صاحب کے ساتھ ڈاکٹر سلیمان تھے۔ اقبال نے ان سے گفتگو کے دوران فرمایا۔ اگر ترکی وغیرہ نہ گئے تو واپسی پر مصرضرور ٹھہریں گے۔ اقبال کا ابتدا میں ارادہ تھا کہ ۵ ستمبر ۱۹۳۱ء کو بمبئی سے یورپ کے لیے روانہ ہوں لیکن بیماری کی وجہ سے انہیں اپنا پروگرا م ملتوی کرنا پڑٓ۔ حکیم صاحب اور ان کے مصری دوست عرصے سے اقبال کی آمد کے منتظر تھے۔ چنانچہ وہ ۱۴ ستمبر ۱۹۳۱ء سے یورپ جانے والے بحری جہازوں پر جاتے رہتے تھے اور مایوس ہو کر لوٹتے تھے۔ ملاحظہ کریں۔ مکتوب حکیم صدیق محمد ناڑو۔ انقلاب۔ جلد ۶ نمبر ۱۲۲۔ پنج شنبہ یکم اکتوبر ۱۹۳۱ء ۵۔ یہ تار ۲۹ ستمبر ۱۹۳۱ء کے ’’انقلاب‘ ‘ میں چھپا تھا۔ تار کا متن یہ ہے کہ میں بہ خیریت لندن پہنچ گیا ہوں۔ ’’جاوید نامہ‘‘ چھپوانے میں عجلت سے کام لیا جائے۔ انقلاب۔ جلد ۶ نمبر ۱۰۰۔ سہ شنبہ ۔ ۲۹ ستمبر ۱۹۳۱ء ٭٭٭ خطبہ الہ آباد کی بازگشت لندن میں قیام کے دوران میں اقبال کو ایک سیاسی بحث میں شریک ہونا پڑا۔ ڈاکٹر ایڈورڈ تھامسن جو آکسفورڈ یونیورسٹی میں بنگالی کے پروفیسر تھے اور کانگریس کے زبردست حمایتی تھے انہوں نے اقبال کے لندن پہنچنے پر ایک بے سروپا مراسلہ ٹائمز میں لکھا جس میں اقبال کے خطبہ الہ آباد پر تنقید کی گئی تھی۔ متحدہ ہندوستان کا تصور بہت حد تک انگریزوں کا پیدا کردہ تھا اور انہوںن سامراجی مقاصد کے تحت ہندوستان کو ایک انتظامی اور دفاعی وحدت بنا دیا تھا۔ مسلم اکثریتی صوبوں کو خود اختیاری حکومت ملنے یا ان صوبوں کو متحدہ شکل دینے کی تجویز انگریزوں اور ہندوئوں کو یکساں طور پر ناگوار تھی اس طرح شمال مغربی ہند میں مسلمانوں کا استحصال ممکن نہ رہتا تھا۔ ڈاکٹر تھامپسن کا مندرجہ ذیل مراسلہ روزنامہ’’ٹائمز‘‘ کی ۳ اکتوبر ۱۹۳۱ء کی اشاعت میں شامل ہوا تھا۔ (۱) اتحاد اسلامی کی سازش آپ کے اداریہ میںجو ’’ہندوستانی اقلیتیں‘‘ کے عنوان سے ۲۹ ستمبر کو شائع ہوا تھا۔ اس میں آپ نے جس ’’اتحاد اسلامی کی سازش‘‘ کا الزام لگایا تھا‘ اس کی بنیاد سر محمد اقبال کے گزشتہ دسمبر کے آل انڈیا مسلم لیگ کے صدارتی خطبے میں پائی جاتی ہے۔ میں خط کشیدہ میں شائع شدہ رپورٹ کا اقتباس پیش کرتا ہوں تاکہ کسی کی نظروں سے پویشدہ نہ رہے۔ میں پنجاب‘ شمال مغربی صوبہ سرحد‘ سندھ اور بلوچستان کو ایک ریاست کے روپ میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ حکومت خود اختیاری خواہ سلطنت برطانیہ کی حدود میں ہو یا اس سے باہر شمال مغربی ہند میں ایک متحد ریاست کا قیام مسلمانوں یا کم از کم مسلمانان ہند کی منزل آخر معلوم ہوتی ہے (۲)۔ جس شخص نے بھی یہ کہا کہ ہندوئوں کا مسئلہ (جسے بہت بری طرح پیش کیا گیا ہے) موزوں توجہ کا مستحق ہے اسے مسلمانوں کا مخالف قرار دیا گیا۔ اس لیے اگر اجاز ت ہو تو عرض کروں کہ جس جمہوریت کو آغاخاں نے ہندو مت کے مقابلے میں اسلام میں پایا قابل تحسین ہے ۔ مزید یہ کہ انہوںنے (اگر شائستگی مانع نہ ہو تو) عیسائیت کے مقابلے میں اسلام میں عملی طور پر انسانی اخوت کی بھوپر برتری کا ذکر کیا ہے۔ میں ہند کے شمال مغرب میں مسلم فرقہ وارانہ صوبوں کے قیام کی مخالفت نہیںکر رہا لیکن جو کچھ سر محمد اقبال مطالبہ کرتے ہیں وہ کنفیڈریشن (اندر یا باہر) نہیںتو ہند کے وفاق میں ہو گی۔ ذرا نقشہ دیکھیے اور ملاحظہ کریں کہ باقی ہندکے کون سے قابل دفاع سرحد باقی رہتی ہے۔ ڈاکٹر ایڈورڈ تھامپسن ۔ بورشل۔ آکسفورڈ اقبال نے ایک ہفتے کے بعد اس اعتراض کا مبسوط جواب دیاتھا جو ۱۲ اکتوبر کو ۱۹۳۱ء کو ٹائمز میں شائع ہوا تھا۔ اس خط میں اقبال نے ہندوستان کے مسلم اکثریتی شمال مغربی صوبے کے قیام کے بعد ہند کو لاحق بے بنیاد خطرے کا ازالہ کیا ھتا اور اس صوبے کے قیام کے لیے موزوں دلائل پیش کیے تھے۔ جنا ب عالی! آپ کے اخبار کی ۱۲ اکتوبر کی اشاعت میں ڈاکٹر تھامپسن نے میر ے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ گزشتہ دسمبر کے صدارتی خطبے کا اقتباس سیاق و سباق سے جد ا کر کے اتحاد اسلامی کی سازش کے ثبوت پر پیش کیا ہے ۔ میں پنجاب ‘ شمال مغربی سرحدی صوبہ‘ سندھ اور بلوچستان کو ایک ریاست کے روپ میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ حکومت خود اختیاری خواہ سلطنت برطانیہ کی حدود میںہو یا ا س سے باہر شمال مغربی ہند میں ایک متحد ومنظم ریاست کا قیام مسلمانوں یا کم از کم مسلمانان مغربی ہند کی منزل آخر معلوم ہوتی ہے۔ میں ڈاکٹر تھامپسن کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس اقتباس میں میں نے سلطنت برطانیہ سے باہر مسلم ریاست کا مطالبہ نہیںکیا ہے۔ بلکہ ان امکانات کی نشاندہی کی ہے کہ مستقبل بعید میں ان زبردست قوتوں کی ممکنہ صورت کیا ہو گی جو اس وقت برصغیر کی منزل مقصود کی تشکیل میں موجود ہیں۔ کوئی ہندی مسلمان جس میں ذرا سی بھی عقل ہو یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ برطانوی دولت مشترکہ سے باہر شمال مغربی ہند میں مسلم ریاستوںکا سلسلہ ایک عملی سیاسی منصوبہ ہو گا۔ میںاگرچہ بعض جوشیلے حضرات کی رائے کے برخلاف وسط پنجاب میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے ایک اوراکھاڑے کے قیام کی مخالفت کروں گا۔ لیکن میںہندوستان کے صوبوں کی دوبارہ تقسیم کا حامی ہوں۔ جس میں کسی ایک فرقے کی موثر اکثریت ہو جیسا کہ نہرو رپورٹ اور سائمن رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے۔ میری مسلم صوبوں کے متعلق تجاویز بلاشبہ اسی تصور کو پیش کرتی ہیں شمال مغربی ہند میں مطمئن اور خوب منظم صوبوں کا سلسلہ ایشیائی کہستانوں کی بھوکی اقوام کے مقابلے میں سد سکندری ہو گا۔ آپ کا مخلص محمد اقبال سینٹ جیمز پیلس۔ ایس ڈبلیو۔ ۱ ۱۰ اکتوبر ۱۹۳۱ء ٭٭٭ حواشی ۱۔ اصل متن کے لیے ملاحظہ کریں انقلاب۔ جلد ۶۔ نمبر ۱۲۶۔ سہ شنبہ۔ ۲۰ اکتوبر ۱۹۳۱ء اقبال نے ایک خط میں تحریر کیا ہے کہ ہندوئوں نے یہاں بھی میرے ایڈریس کے متعلق بعض انگریزوں سے پروپیگنڈا کرایا ہے۔ میں نے اس کا دندان شکن جواب اخبار ٹائمز میں شائع کرا دیا ہے۔ روزگار فقیر۔ جلد دوم ۔ از فقیر سید وحید الدین۔ ص ۱۹۸۔ Speeches Writings and Statements of Iqbal P. 10 جب اقبال سفر یورپ سے واپس آئے تو انہوںنے سید نذیر نیازی سے فرمایا کہ یہ ریاست ایک روز قائم ہو کر رہے گی۔ مزید یہ کہ ہمارے نوجوان طلبہ نے جو انگلستان میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں میری تجویز کردہ ہندی اسلامی ریاست کے لیے پاکستان کانام وضع کیا ہے۔ اس میںپ سے مراد پنجاب‘ الف سے افغانی سرحدی صوبہ ‘ کس سے کشمیر س سے سندھ اور تان سے بلوچستان۔ اقبال کے حضور مرتبہ سید نذیر نیازی۔ جزو اول ۱۹۳۸ء (جنوری تا مارچ) ص ۱۳۲ خواجہ عبدالرحیم اور چودھری رحمت علی لندن اور کیمرج میں اقبال سے ملے تھے اور انہوںنے مندرجہ بالا سکیم اقبال کے سامنے پیش کی تھی۔ ٭٭٭ اقبال انگلستان میں اقبال ۲۷ ستمبر ۱۸۳۱ کو گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن پہنچے۔ اس وقت تک گول میز کانفرنس کے بیشتر ہندوستانی مندوبین لندن میںجمع ہو چکے تھے۔ (۱)۔ یکم اکتوبر ۱۹۳۱ء کو غلام رسول مہر لندن تشریف لائے۔ آپ دو روز روم میں ٹھہرے ایک رات میلان میںاور تین دن پیرس میں مقیم رہے۔ لندن میں اقبال کا قیام سینٹ جیمز کورٹ میں تھا۔ ان کے قریب ہی مولانا شفیع دائودی‘ نواب احمد سعید چھتاری اورمولانا شوکت علی رہتے تھے۔ مولانا شوکت علی نے مولانا غلام رسول مہر کو اپنے ہی پاس ٹھہرا لیا تھا۔ آغا خان کا قیام رٹز ہوٹل میں تھا اور مسلم مندوبین مشورے کے لیے اکثر آغاخان کے کمرے میں واقع ہوتے تھے (۲)۔ سینٹ جیمز کورٹ کے نزدیک ہی سینٹ جیمز پیلس واقع تھا جہاں گول میز کانفرنس منعقد ہو رہی تھی۔ اقبال لندن پہنچتے ہی مرجع علم و ادب بن گئے۔ متعدد سیاسی اور علمی شخصیتیں آپ سے ملنے کے لیے آتی تھیں۔ ۳۰ ستمبر ۱۹۳۱ء کو اقبال نے وزیر ہند سر سیموئیل ہور سے ملاقات کی۔ اقبال نے سیاسیات عالم کے اہم پہلوئوں کو پیش کرتے ہوئے مسلمانوں کے مطالبات نہایت دلنشیں انداز میں بیان کیے۔ وزیر ہند اس ملاقات سے اس درجہ متاثر ہوئے کہ دوبارہ ملاقات کی آرزو کی۔ (۳)۔ یکم اکتوبر کو سر سیموئیل ہور اقبال سے ملاقات کے لیے تشریف لائے حضرت علامہ نے فرمایا روس اور برطانیہ کی کشمکش دراصل قیادت کا جھگڑا ہے۔ روس اپنے اثرات وسط ایشیا اور اسلامی دنیا میں پھیلانا چاہتا ہے۔ اور برطانیہ کی سیاسی غلطیوں کی وجہ سے وہ اپنے منصوبے کو کامیاب ہو سکتا ہے۔ برطانیہ اپنی سابقہ پالیسی کی بنا پر دنیائے اسلام کا اعتماد کھو چکاہے۔ کابل میں لوگ باہم لڑتے ہیں اور گالیاں آپ کو دیتے ہیں (۴)۔ ایران میں ایک امریکی مسافر اس لیے مارا گیا کہ لوگ اسے انگریز سمجھتے تھے ہندوستان میں بھی لو گ برطانیہ سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ اب حالت یہ ہے کہ بنارس میں ایک مسلمان تاجر اس لیے مارا گیا کہ وہ برطانوی کپڑا بیچتا تھا اور آپ نے اس کی کوئی حفاظت نہ کی۔ اگر یہی حالت رہے گی تو ہندوستا ن اور برطانیہ کے درمیان اشتراک ناممکن ہو جائے گا۔ (۵) اس زمانے میں برطانیہ میں عام انتخابات ہونے والے تھے۔ برطانوی نمائندوں کی توجہ گول میز کانفرنس کی بجائے انتخابات پر تھی۔ اس لیے کانفرنس کا کام دو تین ہفتوں کے لیے کھٹائی میں پڑ گیا تھا۔ یکم اکتوبر کو اقبال کے نام اطالوی قونصل مقیم لندن کا خط آیا تھا جس میں لکھا تھا کہ اگر اقبال اٹلی جانا چاہتے ہیں تو اطلا ع دیں اطالعی حکومت ان کے لیے ہر قسم کی سہولت بہم پہنچا کر خوش ہو گی (۶)۔ ۴ اکتوبر ۱۹۳۱ء کو مولانا فرزند رلی امام مسجد لندن نے بعض اصحاب کو لنچ پر مدعو کیا۔ ان حضرات کے نام یہ تھے۔ اقبال‘ مہر‘ مولانا شوکت علی‘ چوہدری سر ظفر اللہ خاں‘ حافظ ہدایت حسین‘ فضل الحق‘ عبدالمتین چوہدری وغیرہ۔ پرتکلف لنچ کے بعد مولانا فرزند علی نے قرب و جوار کے انگریز نو مسلموں کی جماعت سے ملوایا ۔ چند عورتوں اور بچوں اور نوجوانوں نے قرآنی سورتیں تلاوت کیں۔ ان کا تلفظ زیادہ اچھا نہ تھا لیکن اس بات پر سب نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اللہ کا آخری پیغام انگریز قوم کی زبان پر جاری ہو رہا تھا۔ ایک انگریز نوجوان عبدالرحمن ہارڈی سے حاضرین محفل بہت متاثر ہوئے ۔ ایک چھ ساتل کی انگریزی بچی نے سورۃ فاؤتحہ سنائی تو اقبال نے ایک پونڈ کا سکہ انعام میں دیا۔ اقبال نے محفل قرات کے بعد ایک مختصر اور پر تاثیر تقریر کی۔ آپ نے نومسلموں سے فرمایا: ’’آپ حضرات اپنی قلت تعداد سے دل شکستہ نہ ہوں۔ دنیائے اسلام چالیس کروڑ فرزندا ن توحید آپ کے بھائی آپ کے ہم قوم اور آپ کے ساتھی ہیں۔ یورپ کی تین زبانیں انگریزی فرانسیسی اور جرمن اوج ترقی پر ہیں لیکن میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ عربی زبان (جو قرآن پاک کی زبا ن ہے) کا مستقبل بھی بے حد درخشاں اور روشن ہے۔ اور آپ کو اس پر بھی توجہ کرنی چاہیے اور اس سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے‘‘۔ آخر میں اقبال نے امام صاحب کا شکریہ ادا کیا جن کی عنایت اور توجہ سے یہ موقع ہاتھ آیا تھا اور آپ مع اپنے رفقا مسجد سے رخصت ہو گئے۔ یہ مسجد لندن سے کچھ فاصے پر واقع تھی اور اس کے ساتھ ہی بہت وسیع قطعہ تھا۔ اندازاً ڈیڑھ ایکٹر زمین تھی اس کی ایک سمت میں سہ منزلہ مکان تھا جس میں امام کی رہائش گاہ دفتر ملنے اور کھانے کا کمرہ تھا۔ دوسرے حصے میں چھوٹی سی خوش وضع مسجد تھی۔ بقیہ زمین پر باغ تھا۔ جس میں پھولوں کی کیاریوں میں دو خوبصورت لان اور کناروں پر پھلوں کے درخت تھے۔ (۷) قیام لندن کے دوران اقبال کی ملاقات سید ضیاء الدین طباطبائی سے ہوئی آپ ایران کے وزیر اعظم رہ چکے تھے اور اس اصلاحی اقدام کے رہنما تھے۔ جس کے ذریعے رضا خان ایک معمولی افسر سے وزیر جنگ بنے تھے۔ اگر آپ چاہتے تو قاچاری بادشاہت کا تختہ الٹ کر خود تمام اختیارات سنبھال سکتے تھے۔ لیکن آپ کی نیک نفسی نے گوارا نہ کیا کہ بعد ازاں احمد شاہ قاچار سے اختلافات ہو گئے اورآپ وزارت چھوڑ کر ایران سے سوئٹزر لینڈ تشریف لائے۔ آپ کی جلاوطنی کے بعد رضاخان نے بادشاہت حاصل کی (۸) آپ نو زبانیںجانتے تھے اور ان دنوں چند روز کے لیے لندن آئے ہوئے تھے ۔ آپ نے ۷ اکتوبرکو اقبال ‘ مہر ‘مولانا شوکت علی اور مولانا شفیع دائودی کو دعوت ظہرانہ دی۔ ظہرانے کے بعد دو گھنٹے تک بات چیت ہوتی رہی۔ علامہ اقبال نے جاوید نامہ کے بعض اشعار سنائے ۔ انہیں سن کر سید صاحب تڑپ اٹھے اور اپنے رفقا سے کہنے لگے کہ ایسے اشعار آج تک نہیں سنے۔ ضرورت ہے کہ آپ کے کلام کو ایران میں بکثرت شائع کرایا جائے آپ نے اصرار کیا کہ اقبال اور مہر لندن سے واپسی پر ان کے ہاں سوئٹزر لینڈ میں ٹھہریں لیکن آپ حضرات نے اسے منظور نہ کیا۔ ۸ اکتوبر کو سفارت خانہ عراق کے سیکرٹری افضل بے نے اقبال اور ان کے رفقا کے اعزاز میں دعوت ظہرانہ دی۔ سیکرٹری اور ان کی اہلیہ نے آپ لوگوں کا پرتپاک خیرمقدم کیا اور عربی اور ترکی کھانے کھلائے۔ حضرت علامہ سے دیر تک مثنوی مولانا روم اور فرقہ مولویہ کے بارے میں گفتگو ہوئی ۔ ۹ اکتوبر کو البانہی کے سفیر ؤنے دعوت کی۔ اقبال نے ایک گھنٹے تک اسلام اور سیاسیات ہند سے متعلق باتیں کیں۔ اس گفتگو سے البانیہ کے سفیر بہت متاثر ہوئے اہی دنوں اقبال کی ملاقات عباس علمی پاشا سابق وزیر مصر سے ہوئی۔ اٹلی سے روم Learned Mens Academy of Rome(اکادمی دانشوران روم) کی جانب سے اقبال کو لیکر کی دوبارہ دععوت آئی تھی۔ لوگوں کی طرف سے روزانہ متعدد دعوتی خطوط آپ کے نام آتے تھے۔ لیکن گول میز کانفرنس کے کاموں کی بنا پر سب کے لیے وقت نکالنا ممکن نہ تھا۔ ۹ اکتوبر کو مسٹر اور مسز پنکرڈ نے علامہ اقبال کو دعوت دی۔ اس دعوت میں مہر‘ مولانا شوکت علی‘ اور مولانا شفیع دائودی شریک ہوئے۔ مسٹر پنکرڈ سیٹر ڈے ریویو کے مدیر تھے۔ اس موقع پر اقبال نے بہت پر تاثیر تقریر کی۔ آپ نے فرمایا: ’’انگریزوں کو بحر مردار اور مالی ذخائر اوردوسرے معاملات کا خیال ترک کر کے اخلاقی حیثیت سے اہل فلسطین کے ساتھ انصاف کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں سب سے پہلا کام یہ ہے کہ بالفور کا اعلان منسوخ کر دینا چاہیے‘‘۔ حاضرین اس تقریر سے بہت متاثرہوئے اور مسٹر اور مسز پنکرڈ نے باصرار آپ کو رات کے کھانے کے لیے روک لیا اور دیر تک آپ کے خیالات سے مستفید ہوتے رہے ۔ (۹) ۱۰ اکتوبر کو چودھری سر ظفر اللہ خاںنے اقبال‘ مہر‘ شفیع‘ مہر ‘ نواب احمد دسعید خاں چھتاری‘ المالطیفی‘ حافظ ہدایت حسین‘ فضل الحق‘ امام شاہ جہاں مسجد اور مولانا شفیع دائودی کے اعزاز میں شفیع ریستورنٹ Shafi's Restaurantمیں پر تکلف دعو ت دی یہ ریستوران لندن کے مرکزی علاقے میںواقع تھا۔ اوراس کا مالک امرتسر کا باشندہ محمد شفیع تھا۔ یہاں عمدہ ہندوستانی کھانے کھلائے جاتے تھے۔ دعوت سے واپسی پر اقبال نے ایک سینما کے باہر دیکھا لو گ قطار در قطار فلم کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ اس زمانے میں سینما کے شو مسلسل ہوا کرتے تھے۔ لوگ سینما ہال کے باہر کرسیوں پر بیٹھے رہتے۔ جیسے ہی لوگ باہر نکلتے لوگ اپنی باری سے اندر پہنچ جاتے یہ منظر دیکھ کر اقبال نے فرمایا: ’’قوم پاگل ہوگئی ہے۔ اونچے طبقے کے لوگ سود پر گزارا کر رہے ہیں۔ نچلے طبقے کے نوجوان کام سے بے پروا ہیں ایک گروہ بیکار ہو رہاہے کہ اسے کام نہیں ملتا عورتیں Excitementکی تلاش می ہیں۔ افسوس کہ جس قوم کی عورتیں Excitementکی تلاش میں رہیں ‘‘ (۱۰) دعوت کے بعد اقبال نے نواب احمد سعید چھتاری کے متعلق مولانا مہر کو بتایا کہ نواب صاحب حافظ قرآن ہیں اور روزانہ بالتزام تلاوت کرتے ہیں (۱۱)۔ ۱ اکتوبر کی شام کو سر ڈین سن راس (۱۲) ملاقات کے لیے تشریف لائے ۔ آپ ایک ہفتے بعد اسلامیات پر لیکچر دینے کے لیے امریکہ جانے والے تھے۔ ان سے تقریباً دو گھنٹے تک اسلام کے متعلق گفتگو ہوئی۔ اس ضمن میں دنیائے اسلام کی مذہبی تحریکیں بالخصوص بہائیت زیر بحث آئی ۔ اقبال نے اسلام کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا: اسلام ایک Dogmaticمذہب نہیں ہے۔ (۱۳) اس کا منتہائے مقصودیہ ہے کہ نوع انسانی ایک گھرانہ اور خاندان بن جائے۔ شعر اور فلسفی اس اتحاد نوع انسانی کے محض خواب دیکھتے رہے۔ لیکن اسلا م نے اس مقصد کے حصول کے لیے ایک عملی سکیم پیش کر دی۔ کم از کم دنیائے اسلام رنگ نسل اور قوم کے امتیازات بالکل فنا کر چکی ہے آج دنای میں اسلام کے سوا اور کوئی ایسا طریق نہیں جس پر کاربند ہو کر یہ امتیازات مٹ سکیں۔ اسلام نے جو فرائض ارکان یا طریق عبادات مقرر کیے ان سب کا مدعا یہ ہے کہ انسانی قلوب کو رنگ نسل اور قوم کے امتیازات سے پا ک کر دے۔ اس ضمن میں اقبال نے نماز روزہ حج زکوۃ کے حقائق اجمالی طور پر سرراس کو سمجھائے انہوںنے خواہش ظاہر کی کہ امریکہ جانے سے قبل انہیں دوبارہ ملاقات کا موقع دیں (۱۴)۔ اگلے روز ۱۴ اکتوبر کو سر ڈینی سن راس دوبارہ تشریف لائے اس دفعہ بھی گفتگو اسلام کے بار ے میں ہوئی اقبال نے فرمایا: اسلام نے جو مختلف ارکان وفرائض مقرر کیے ہیں ان کا مقصد یہ ہے کہ لووں کے دلوں سے رنگ نسل قوم وغیرہ کی تفریحات اور امتیازات مٹ جائیں۔ دنیائے اسلام میں امتیازات نہیں ہیں اسلام کے سوا اس مقصد کے لیے کوئی اور باروح تحریک موجود نہیں۔ روزے کے متعلق آپ نے فرمایا: بعض طبائع روحانیت کیطرف مائل ہوتی ہیں بعض بسیار خور ہوتے ہیں اسلام کا مقصد ان دونوں میں توازن پیدا کرنے کے علاوہ یہ بھی ہے کہ جو حضرات روزہ نہ رکھیں تو زرفدیہ دیں جس سے بھوکوں کی پرورش ہو گی۔ صفدقہ الفطر کا مقصد بھی نچلے طبقے کی بہتری ہے۔ (۱۵) ۱۶ اکتوبر کی شام کو افغان قونصل خانہ میں سردار احمد علی خاں وزیر مختار دولت بہیہ افغانیہ کی طرف سے محمد نادر شاہ غازی کی تاج پوشی کی سالگرہ منائی گئی۔ اس موقع پر خصوصی اجتماع ہوا۔ جس میں مندرجہ ذیل حضرات شریک ہوئے۔ اقبال‘ مہر‘مولانا شفیع دائودی۔ سردار اقبال علی شاہ‘ مولانا عبدالمجیب ‘ آغا خاں مع اہلیہ‘ نواب احمد سعید خاں چھتاری‘ مائیکل اوڈائر‘ لارڈ ہیڈلے ‘ سر ہنری میک موہن‘ حافظ و ہبہ سفیر دولت نجد و حجاز‘ معتمد قونصل خانہ ایران اور مولانا شوکت علی وغیرہ (۱۶)۔ اقبال کے قیام لندن کے دوران کیمبرج سے خواجہ عبدالرحیم چودھری رحمت علی اور دیگر مسلم طلبہ ملاقات کے لیے لندن تشریف لائے۔ انہوںنے اقبال کو بتایا کہ شمال مغربی ہند میںان کی مجوزہ مسلم ریاست کا نام پاکستان تجویز کیا گیا ہے ۔ اوریہ لفظ کشمیر سمت تی مسلم اکثریتی صوبوں کے نام کے پہلے حروف اور بلوچستان کے تان کا مرکب ہے۔ اقبال اس روز علیل تھے انہوںنے طلبہ سے کہاکہ پاکستان کے مختلف حروف کو گتے کے الگ الگ ٹکڑوں پر لکھ کر ان کے بستر کے گرد رکھ دیں تاکہ وہ اس نام پر غور کر سکیں (۱۷)۔ اقبال لندن میں مرجع اہل علم بنے ہوئے تھے۔ روزانہ بہت سے افراد آپ کی صحبت سے فیض اٹھاتے تھے مختلف ثقافتی اور علمی انجمنوں سے آپ کو دعوت نامے موصول ہوتے تھے۔ اور ان انجمنوں میں آپ سے تقریر کی درخواست کی جاتی تھی لیکن گول میز کانفرنس کی کارروائی میں مصروف رہنے کی بنا پر آ پ بیشتر تقریبات میں شرکت سے قاصررہے۔ ۲۰ اکتوبر کو عرب اور افریقہ کے بعض اسلامی ممالک کی سیاح خاتون مس روزیٹا فاربس نے مسز سروجنی نائیڈو کی وساطت سے اقبال کو اپنے گھر مدعو کیا۔ یہ ایک دولت مند خاتوں تھیں اور انہوںنے اقبال کو چائے کی دعوت پر مدعو کیا۔ وہاں قرآنی تعلیمات کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ اس روز لیڈی ہارٹوگ کے ہاں دعوت تھی آپ نے ایک گھنٹہ وہاں گزارا۔ ۲۱ اکتوبر کو ترک موالات کے زمانے میں مشہور ڈپٹی کمشنر لاہور کرنل فیروز تشریف لائے ان سے اقبال کی ہندوستان اور عالم اسلام کی اسلامی تحریکوں کے بارے میں باتیں ہوئیں۔ اس زمانے میں لندن یونیورسٹی میں مختلف السامی ممالک کی تحریکوں پراہل علم لیکچر دے رہے تھے۔ کرنل فیرر کا موضوع ہندوستا ن کیاسلامی تحریکات تھا۔ وہ حضرت علامہ سے نوٹ لکھوا کر لے گئے۔ چند روز بعد پروفیسر گب تشریف لائے اور انہوں نے افریقہ کی اسلامی تحریکوں کے بارے میں گفتگو کی۔ آپ نے اقبال کو لندن یونی ورسٹی میں لیکچر کی دعوت دی جسے آپ نے فرصت نہ ہونے کے باعث منظور نہ کر سکے (۱۸) اس سے قبل پروفیسر گب نے لندن یونیورسٹی کی جانب سے اقبال کو تقریر کرنے کی دعوت دی تھی۔ علامہ اقبال نے اس موضوع پر تقریر نطشے اور حلاج تجویز کیاتھا۔ یہ تقریر بھی عدم فرصت کے سبب نہ ہوسکی۔ (۱۹) ۲۳ اکتوبر کو نواب احمد سعید خاں چھتاری نے مسلم مندوبین کے اعزاز میں چائے کی دعوت دی ۔ اس میں اقبال مہر شوکت علی‘ شفیع دائودی‘ حافظ ہدایت حسین اور سعید شامل ہوئے۔ لندن میں اقبال کا تعارف ایک نیشنل لیگ آف انگلیند National League of Englandکی صدر مس مارگریٹ فارقوہرسن (۲۰) سے ہوا۔ انہیںاسلامی ممالک کے حالات سے بہت دلچسپی تھی۔ اور مختلف صورتوں میں کوشش کرتی تھیں کہ انگریزوں سے مسلمانوں کے دلوں پر ماضی میں جو چرکے لگائے گئے تھے ان کے اندر مال کی کاوش کی جائے۔ آپ نے فلسطینی عربوں کے حقوق کی بحالی کے لیے جدوجہد کی تھی اور اپنی ہم خیال خواتین کا خاصا حلقہ بنا لیا تھا۔ مس فارقوہرسن نے ۲۷ اکتوبر کو اقبال شوکت علی‘ زاہد علی‘ مہر‘ مولانا دائودی اور بعض دیگر حضرات کی دعو ت کی۔ اس میں چند انگریز خواتین اور مرد بھی شریک ہوئے ان سے کچھ دیر تک مختلف موضوعات پر باتیں ہوئیں۔ دعوت میں شرکت کے بعد یہ حضرات لرزندگان Quakersہال پہنچے۔ یہ صوفی منش انگریزوں کی جماعت تھ۔ اس جماعت کی بنیاد فاکس نے تین سو سال قبل رکھی تھی۔ ولیم پن Willian Pennبھی ا س جماعت کا رکن تھا۔ جس کے نام پینی سلوانیہ Pennyslwaniaنامی شہر آباد ہواتھا۔ اس جماعت کے افراد پر عبادت کے وقت لرزہ طاری ہو جاتا تاھ۔ اس یلے اس جماعت کے ارکان کا نام لرزندگان Quakersپڑ گیا۔ اقبال جب اپنیساتھیوں کے ہمراہ ہال میں داخل ہوئے تو دس پندرہ مرد اورعورتیں دعا میں مشغول تھیں۔ ہال کے چاروں کونوں میںبنچ بچھے ہوئے تھے اور درمیان میں مربع جگہ خالی تھی۔ جہاں پر تکلف قالین بچھا ہوا تھا۔ یہ لوگ شراب اور دیگر مسکرات سے مجتنب رہتے تھے۔ ان کی تعلیمات میں رہبانیت کا رنگ غالب تھا۔ (۲۱) اقبال کولندن کے مشہور کلب لائی سیم سے دعوت آئی تھی کہ وہ تشریف لائیں اور حاضرین سے خطاب فرمائیں لیکن اتفاق یہ ہوا کہ جس روز لائی سیم لکب میں خواتین کا جلسہ تھا ا س دن اقبال کو دیگر مندوبین کے ہمراہ وزیر ہند سے ملنا تھا مولانامہر کے خط سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ملاقات ۳ نومبر ۱۹۳۱ء کو ہوئی تھی (۲۲)۔ اس ملاقات کا ذکر انقلاب میں بھی آیا تھا ۔ (۲۳)۔ اقبال اس روز اس جلسے میں شریک نہ ہو سکے اس اجتماع میں معزز خواتین بڑی تعداد میں شریک ہوئیں جن میں لیڈی ارون لیڈی ریڈنگ اور لیڈی منٹو شامل تھیں ۔ سروجنی نائیڈو نے اقبال کی چند نظموں کا انگریزی ترجمہ سنایا (۲۴) ۴ نومبر کو اتور کے دن لارڈ اور یڈی ارون نے گول میز کانفرنس کے مندوبین کی دعوت کی تھی۔ اقبال اس میں انڈیا سوسائٹی کے اجلاس میں شرکت کے بعد شامل ہوئے تھے۔ ۵ نومبر کو ملک معظم بادشاہ انگلستان نے تقریباً چار سو اصحاب کو مدعو کیا جن میں گول میز کانفرنس کے مندوبین بھی شامل تھے (۲۵) ۸ نومبر کو اتوار کے دن اقبال اور مولانا دائودی تھیوڈر ماریسن سے ملنے گئے اور تقریباً تین گھنٹے تک ان سے باتیں کرتے رہے۔ ۱۲ نومبر کو لیڈی لارنس نے اقبال مولانا دائودی اور شوکت علی کے اعزاز میں ایٹ ہوم کا اہتمام کیا تھا جس میں متعدد خواتین شریک ہوئیں۔ سب نے مل کر اقبال سے فرمایا کہ انہیں کوئی خاص پیغام دیں۔ آپ نے فرمایا کہ انگلستان کی عورتوں کا فرض ہے کہ آئندہ نسل کو دہریت اور مادیت کے چنگل سے بچائیں۔ ۱۴ نومبر کو لارڈ لائیڈ سابق گورنر بمبئی و ہائی کمشنر مصر سے اقبال نے ملاقات کی (۲۶)۔ گول میزکانفرنس کے اعزازی سیکرٹری سید امجد علی نے لارڈ سیل کے اعزاز میں والڈ روف ہوٹل لندن میںایک شاندار دعوت کی تھی۔ اس دعوت میں دیگر مندوبین کانفرنس کے علاوہ اقبال بھی شریک ہوئے تھے (۲۷)۔ لندن میں اقبال کی قیام گاہ سے قریب ہی مولاناشفیع دائودی مقیم تھے ان حضرات کا دن رات کا ساتھ تھا اور اقبال اکثر انہیں اپنی حس مزاح کا نشانہ بناتے تھے ایک روز کسی خاتوں نے مولانا کو فون کیا اور بتایا کہ آدھ گھنٹے بعد ایک جلسہ ہونے والا تھا جس میں ان کی شرکت بہت ضروری تھی۔ مولانا نے جواب دیا۔ I am not yet dressedانگریزی خاتون ان کی انگریزی سے بہت محظوظ ہوئی اور کہنے لگی Dressed! Are you a potato or what مولوی صاحب بہت پریشا ن ہوئے اور ان سے جواب نہ بن پڑا۔ بعد میں جب انہوںنے اقبال سے اس گفتگو کا ذکر کیا تو وہ بہت ہنسے اور پھر انہیں انگریزی محاورے کے معنی سمجھائے (۲۸)۔ اقبال نے لندن کے سفر کا ایک واقعہ بیان کیا لیکن یہ واضح نہ کیا کہ یہ واقعہ کس سفر کے دوران پیش آیا تھا۔ آپ نے فرمایا جہاں روپے پیسے کا سوال ہو وہاں انگریز کی ذہنیت اورہندو کے بنیا پن میں سرمو فرق نہیںرہتا۔ انگریز پیدائشی طور پر جوئے باز اورقمار باز ہے۔ معمولی سے معمولی خدمت کے صلے میں بھی وہ انعام و اکرام کا خواہاں رہتا ہے۔ میں لندن جا رہا تھا کہ گاڑی میں کئی مسافر تھے اور میرے سامنے تاش کھیلی جا رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ دو پارٹنر ہیں جو جیتتے ہی جاتے ہیں۔ انہوںنے ہر مسافر کو کھیلنے کی دعوت دی اور کوئی بیس پونڈ ہتھیا لیے۔ میں انہیں غور سے دیکھنے لگا تو ان کی چالوں Tricksکو بھانپ گیا۔ میں نے جوا کبھی نہیں کھیلا ھتا مگر جب انہوںنے مجھے دعو ت دی تو میں تیار ہو گیا۔ چنانچہ میں کھیلا اورلندن پہنچنے پہنچتے ان سے بیس کے بیس پونڈ جیت لیے۔ جب میں گاڑی سے اترا تو وہ دونوں قمار باز میرے دائیں بائیں ہو گئے۔ خوشامد اور چاپلوسی کی باتیں کرنے لگے کہ میں کسی طرح وہ جیتی ہوئی رقم ان کے حوالے کر دوں۔ اپنی غریبی کا دکھڑا روئے اور ہندوستانیوں کی فراخدلی کی تعریفیں کرنے لگے مگر میں نے جب یہ کہا کہ تم کھیل میں دغا اور فریب کاری سے کام لیتے ہو اورمیں پولیس میں تمہاری رپورٹ کر دوں گا۔ تو فوراً نو دو گیارہ ہو گئے (۲۹)۔ اقبال کی صحت لندن میںبہت عمدہ رہی تھی لیکن ۲۱ اکتوبر کو سردی کی بنا پر دانت میں درد ہوا لیکن جلد رفع ہوگیا۔ اقبال نے ۲۲ اکتوبر ۱۹۳۱ء کو اپنے بھتیجے مختار احمد کے نام ایک خط میںتحریر کیا تھا کہ یہاں آ کر میری صحت اچھی ہو گئی بلکہ گزشتہ رات سردی کی وجہ سے دانت کا درد ہوا مگر تکلیف جلد رفع ہو گئی۔ اسی خط میں اقبال نے تحریر کیاتھا مینا رٹی کمیٹی کے تین اجلاس ہوئے اور تینوں دفعہ کمیٹی پرائیویٹ گفتگو کے لیے ملتوی ہو گئی۔ اس واسطے مجھے اپنے خیالات کے اظہا رکا موقع نہیں ہوا۔ ہندوئوں کے یہاں بھی میرے ایڈریس کے متعلق بعض انگریزوںسے پروپیگنڈہ کرایا۔ میں نے اس کا دندان شکن جواب اخبار ٹائمز میں شائع کرایا۔ ۴ نومبر کو انڈیا سوسائٹ میں میرا لیکچر ہے جس کا مضمون فلسفہ اور شعر ہے ۹ نومبر کو لی سیم کلب کی عورتوں نے دعوت دی ہے۔ وہاں میںایک ظریفانہ تقریر کروں گا۔ ۷ نومبر کو یہاں کے مسلمان طلبہ مجھے ایڈریس دینے والے ہیں (۳۰)۔ ٭٭٭ حواشی ۱۔ اقبال کے لندن پہنچنے کا ذکر مولانا عبدالمجید سالک نے اپنے مزاحیہ کالم افکار و حوادث میں کیا تھا۔ انقلاب ۔ جلد ۶ نمبر ۱۱۳ جمعہ ۔ ۲ اکتوبر ۱۹۳۱ ۲۔ مولانا شوکت علی نے اپنے ایک خط میں مسلم مندوبین کے متعلق معلومات فراہم کی تھیں یہ خط انہوںنے مدیر ’’خلافت کے نام لکھا تھا۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر ۱۲۵۔ یکشنبہ ۔ ۱۸ اکتوبر ۱۹۳۱ء ۳۔ مکتوب مہر مورخہ ۲ اکتوبر انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر ۱۲۱۔ سہ شنبہ ۱۳ اکتوبر ۱۹۳۱ء ۴۔ لڑائی کے دوران افغای اکثر یہ جملہ استعمال کرتے ہیں لعنت بر روئے فرنگی۔ ۵۔ سر سیموئیل ہور اور اقبا ل کے درمیان گفتگو کی تفصیلات راقم کو مولانا مہر کی ڈائری سے ملی تھیں۔ ۶۔ مکتوب مہر مورخہ ۲ اکتوبر۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر ۱۲۱۔ سہ شنبہ ۔ ۱۳ اکتوبر ۱۹۳۱۔ ۷۔ مکتوب مہر مورخہ ۱۱ اکتوبر۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر ۱۳۳۔ پنج شنبہ ۲۹ اکتوبر ۱۹۳۱ئ۔ ۸۔ ایران قاچاری بادشاہوں کے دور کے آخر میں زوال کی انتہائی حد پر تھا۔ اقتصادی اور سیاسی اقتدار عملاً برطانیہ اور روس کے ہاتھ میں تھقا۔ اندرونی انتشار کی بنا پر ان طاقتوں کو ایرنا کے داخلی معاملات میں دخیل ہونے کاموقع ملا۔ گراں بار قرضوں سے ایرانی معیشت تباہ ہو چکی تھی۔ ملک کی اندرونی اور بیرونی تجارت اور ذخائر معدنیات غیر ملکی کمپنیوں کے ہاتھ میں تھے۔ بادشاہ وقت نے بڑھتے ہوئے قومی اضطراب کو ختم کرنے کے لیے عوام پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی تھی۔ ۱۹۲۰ء میں ایران کی مسند وزارت یکے بعد دیگرے وثوق الدولہ اور سپہ دار اعظم کے حصے میں آئی لیکن یہ حضرات حالات پرقابو نہ رکھ سکے۔ ۱۹۲۰ء میں جریدہ رعد کے مدیر سید ضیاء الدین طباطبائی نے ملک کو غیر ملکی اقتدار سے نجات دلانے کے لیے رضا خان کو دعوت تعاو ن دی جسے انہوںنے قبول کر لیا۔ رضا خان کاسک بریگیڈ کے سپہ سالار تھے۔ طباطبائی ایک پرجوش مقرر اور اعلیٰ درجے کے سیاستدان تھے۔ آپ سید جمال الدین افغانی کے افکار سے بہت متاثر تھے۔ آپ نے ایرانی فوج کے سامنے ولولہ انگیز تقریر کی جس میں حالات کاجائزہ لنے کے بعد ایران کو ملکی اثرات سے پاک کرنے پر زوردیا تھا۔ رضا خاں نے ۱۵ فروری ۱۹۲۱ کو قزوین سے تہران کی جانب پیش قدمی کی اور ۲۱ فروری ۱۹۲۱ء کو آپ فو ج کے ساتھ تہران سے باہر خیمہ زن ہوئے احمد شاہ قاچار نے بھانپ لیا کہ فوج انقلاب کے لیے تیار تھی۔ اس نے ایک وفد جس میں دو ایرانی وزراء اور برطانوی سفارت خانہ کے دو اسر کرنل ایچ جے ہیڈسن اور ولزلے ہیگ شامل تھے۔ فوج سے مذاکرات کے لیے بھیجے لیک بات چیت کسی نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکی اور ۲۴ فروری کو رضا خاں کی فوج فاتحانہ انداز میں تہران میں داخل ہو گئی۔ جدید وزارت مرتب ہوئی جس کے وزیر اعظم سید ضیاء الدین طباطبائی تھے اور وزیرجنگ رضا خاں تھے۔ برطانیہ سے کیے گئے معاہدوں پر خط تنسیخ پھیر دیا گیا روس کی اشتراکی حکومت نے ایران سے چھینے ہوئے مقبوضات واپس کر دیے اور حکومت ایران نے روس کی اشتراکی حکومت کو تسلیم کر لیا۔ طباطبائی اور رضا خان میں اس بات پر اختلاف رائے ہو گیا کہ فوج کو سیاست سے الگ کر دینا چاہیے۔ رضا خان ملکی سیاست میں فوج کی دخل اندازی پر مصر تھے ۔ چنانچہ سید ضیاء الدین طباطبائی نے ۱۳ اپریل ۱۹۲۱ء کو وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعدآپ نے سوئٹزر لینڈ میں مقیم ہو گئے تھل آپ نے دسمبر ۱۹۳۱ء میں بیت المقدس میں منعقدہ موتمر اسلامی میں شرکت کی تھی۔ آ پ اتحاد عالم اسلامی کے پر جوش مبلغ تھے آپ کا ۱۹۶۹ء میں ایران میں انتقال ہوا تھا۔ ۹۔ مکتوب مہر مورخہ ۹ اکتوبر ۱۹۳۱ئ۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر ۱۲۸۔ جمعہ ۔ ۲۳ اکتوبر ۱۹۳۱ئ۔ ۱۰۔ یہ واقعہ راقم الحروف نے مولانا مہر کی ڈائری سے نقل کیا تھا۔ ۱۱۔ مکتوب مہر۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر ۱۳۲۔ چہار شنبہ ۔ ۲۸ اکتوبر ۱۹۳۱ء ۱۲۔ سر ایڈورڈ ڈینی سن راس مشہور مستشرق تھے آپ ۱۸۷۱ء میں پیدا ہوئے ابتدا میں لندن یونیورسٹی میںفارسی کے پروفیسر رہے پھر مدرسہ عالیہ کلکتہ کے پرنسپل مقرر ہوئے آپ نے متعدد کتابوں کو ترجمہ کیامثلاً تاریخ رشیدی وغیرہ اور چند کتابیں تالیف کیں۔ ۱۳۔ یعنی ایسا مذہب جس کی بنیادیں محض عقیدے پر نہ ہوں بلکہ اس عقیدے کی پشت پر عقلی دلائل بھی ہوں۔ ۱۴۔ مکتوب مہر ۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر ۱۳۲۔ چہار شنبہ ۔ ۲۸ اکتوبر ۱۹۳۱ئ۔ ۱۵۔ یہ اقتباس مولانا مہر کی ڈائری سے ماخوذ ہے۔ ۱۶۔ مکتوب مہر۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر ۱۳۲۔ چہار شنبہ ۲۸ اکتوبر ۱۹۳۱ء ۱۷۔ خواجہ عبدالرحیم نے ملاقات کی تفصیل ڈاکٹر جاوید اقال سے بیان کر دی تھی ملاحظہ ہو زندہ رود۔ حیات اقبال کا اختتامی دور۔ از ڈاکٹر جاوید اقبال۔ ص ۴۵۴۔۴۵۳۔ اشاعت اول ۱۹۸۴ء ۱۸۔ مکتوب مہر۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر ۱۳۸۔ پنج شنبہ ۵ نومبر ۱۹۳۱ء ۱۹۔ مکتوب مہر انقلاب۔ ۲۸ اکتوبر ۱۹۳۱ئ۔ ۲۰۔ مس فارقوہرسن نے نیشنل لیگ ۱۹۱۴ء میں قائم کی تھی اس کا مقصد برطانیہ کی جنگی مساعی میں امداد کرنا تھا۔ جنگ کے بعد اس کامقصد اشتراکیت کے خلاف جدوجہد کے علاوہ سلطنت برطانیہ کے مسلمانان عالم سے خوشگوار تعلقات قائم کرنا اور ان زیادتیوں کا مداوا کرنا تھا جو برطانیہ نے عالم اسلام کے ساتھ کی تھیں۔ مشرق وسطیٰ اور ہندوستان ان کی کاوشوں کے خاص محور تھے۔ مس فارقوہرسن کی ہندوستان کی دیگر شخصیات سے بھی خط و کتابت تھی ملاحظہ کریں: Letters and Writings of Iqbal PP.68-69 ۲۱۔ مکتوب مہر۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر ۱۴۶۔ شنبہ۔ ۱۴ نومبر ۱۹۳۱ء ۲۲۔ مکتوب مہر۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر ۱۵۰۔ پنچ شنبہ۔ ۱۹ نومبر ۱۹۳۱ء ۲۳۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر ۱۴۲۔ سہ شنبہ۔ ۱۹۳۱ء ۲۴۔ مکتوب مہر ۔انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر ۱۵۸۔ شنبہ ۔ ۲۸ نومبر ۱۹۳۱ء ۲۵۔ مکتوب مہر ۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر ۱۵۴۔ سہ شنبہ ۔ ۲۴ نومبر ۱۹۳۱ء ۲۶۔ مکتوب مہر ۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر ۱۵۸۔ شنبہ ۲۸ نومبر ۱۹۳۱ء ۲۷۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر ۱۶۹۔شنبہ ۱۲ دسمبر ۱۹۳۱ء ۲۸ ۔ اقبال کی صحبت میں ۔ مرتبہ ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی۔ ص ۲۶۲۔۲۶۱۔ مجلس ترقی ادب۔ لاہور۔ نومبر ۱۹۷۷ء ۲۹۔ ملفوظات کا پہلا ایڈیشن محمود نظامی نے ترتیب دیا تھا۔ اور اس کے لیے انہوںنے اقبال کے ساتھیوں سے مضامین لکھوائے تھے۔ اس کا دوسر ا ایڈیشن ملفوظات اقبال کے عنوان سے ۱۹۴۹ء میں شائع ہوا تھا۔ اس میں چند مضامین کا اضافہ تھا۔ یہ ایڈیشن عرصے سے ناپید تھا۔ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی نے اس کتاب پر ہاتھ صاف کیا ۔ غیر ضروری غیر متعلق اور طویل حواشی لکھے تاکہ کتاب کی ضخامت اور اس کے معاوضے میں بھرپور اضافہ ہو۔ چند ادیبوں کے مطبوعہ مضامین نامناسب کتربیونت کے بعد اس مجموعے میں شامل کر دیے اور کتاب اپنے نام سے شائع کر دی۔ بددیانتی کی یہ انتہا ہے کہ سرورق پر اصل مرتب کا حوالہ تک نہ دیا۔ تعلیقات و حواشی کی ترتیب میں بھی علمی دیانت اور سلیقے سے کام نہ لیا۔ ۳۰۔ ’’مظلوم اقبال‘‘ مرتبہ شیخ اعجاز احمد۔ ص ۳۶۲۔ کراچی۔ ۱۹۸۵ء ٭٭٭ رئوف بے اور سعید شامل سے ملاقاتیں جس زمانے میںاقبال او رمہر لندن میں تھے۔ ان کی ملاقات غازی رئوف پاشا سے ہوئی۔ رئوف پاشا کا مستقل قیام پیرس میں تھا۔ آپ بحریات ترکی پر ایک مفصل کتاب لکھنا چاہتے تھے۔ اور اس مقصد کے لیے وہ لندن میں مختلف دستاویزات اور بعض قدیم و نادر کتابوں کا مطالعہ کر رہے تھے۔ آپ عربی سمجھتے تھے اور فرانسیسی‘ ترکی اور انگریزی بولتے تھے۔ رئوف بے نے اقبال اور مہر کو سعید شامل سے ملوایا۔ سعید شامل انیسویں صدی کے قفقازی مجاہد امام شامل کے پوتے تھے۔ ۱۵ اکتوبر ۱۹۳۱ء کو رئوف پاشا اور سعید شامل مہر کی قیام گاہ پر مولانا شوکت علی سے ملنے کے لیے آئے۔ ۱۸ اکتوبر کو رئوف بے (۱) اور سعید شامل نے علامہ اقبال سے ملاقات کی۔ اس محفل میں مہر اور مولانا شفیع دائودی بھی موجود تھے۔ اس مجلس میں مسلمانوں کے اتحاد و جمعیت اور مختلف اسلامی ممالک کے سیاسی موقف کے بارے میں گفتگو ہوئی تھی۔ سعید شامل عربی ‘ ترکی اور فرانسیسی اور روسی جانتے تھے ۔ (۲) ۱۶ اکتوبر کو سعید شامل اور رئوف بے اقبال کے لیے تشریف لائے۔یہ ملاقات تقریباً تین گھنٹے جاری رہی ۔رئوف بے نے بیان کیا کہ جدید ترکی میں مصطفیٰ کمال کی اصلاحات کے خلاف شدید رد عمل پایا جاتا تھا۔ عوام نے ان کی اصلاحات بالخصوص مذہبی اصلاحات کو قبول نہیںکیا لیکن وہ کھلم کھلا اختلاف کی جرات نہیں کر سکتے تھے۔ اتاترک کی حکومت جبر و تشدد پر قائم تھی جدوجہد آزادی میں شریک بہت سے لیڈر یا تو جلا وطن ہو گئے تھے یا انہیں گوشہ نشین ہونا پڑا تھا۔ انہوں نے کمال اتاترک کی ایک عجیب عادت بتائی۔ آپ نے فرمایا کہ میدان جنگ میں ان سے بہتر جرنیل ممکن نہیں ان کی تمام تر توجہ لڑائی پر مرکوز ہوتی تھی۔ دشمن کا جہاں کہیں کمزور پہلو دیکھتے ہیں وہیں شدت سے حملہ کرتے لیکن جنگ کے بعد ضبط کا بند چھوٹ جاتا اور راگ رنگ میں بھرپور حصہ لیتے تھے۔ رئوف بے نے فرمایا کہ اگر ترک چاہتے تو انہیں فوراً ختم کر سکتے تھے لیکن یہ حرکت قومی مفادات کے لیے تباہ کن ہو گی۔ ان کی غیر موجودگی میں متبادل قیادت ممکن نہیں ۔ (۳) سعید شامل اس زمانے میں وارسا میں رہتے تھے۔ اس کے علاوہ آپ ترکی اور پیرس بھی جاتے رہتے تھے۔ ا دوروں کا مقصد شمالی قفقاز کے حق میں رائے عامہ بیدار کرنا تھا۔ آپ اپنے وطن کی سوویٹ روس کے چنگل سے نجات کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے تھے اور آپ کے تعلقات وسط ایشا کی مسلم اکثریتی ریاستوں کے نمائندوں سے تھے۔ (۴) سعید شامل (۵) نے بتایا کہ سلطان شامل مرحوم (۶) زار روس کی فوج سے شکست کھانے کے بعد سینٹ پیٹرز برگ چلے گئے جہاں زار کے مہمان کی حیثیت سے کچھ عرصہ مقیم رہے۔ بعد ازاں آپ مدینہ منورہ تشریف لے گئے سعید شامل مدینہ منورہ میں پیداہوئے اور پھر ان کا خاندان استنبول آ گیا۔ ۱۹۱۷ء میں انقلاب روس کے دوران زار کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تو سعید شامل اپنی قوت کی دعوت پر قفقاز چلے گئے اور شمالی قفقاز میں ایک مستقل جمہوری اسلامی حکومت کی بنیاد پڑ گئی۔ ۱۹۲۱ء میں بالشویکوں نے مختلف اقوام کی آزادی کے پر فریب دعووں کے باوجود ان تمام اسلامی ریاستوں پر حملہ کر دیا جو انقلاب روس کے دوران آزا د ہوئی تھیں۔ پہلے بخارا اور دوسری اسلامی ریاستوں کی آزادی سلب ہوئی ان کے بعد شمالی قفقاز کی اسلامی جمہوریہ بھی فنا کے گھاٹ اتر گئی۔ اسے جبراً سوویٹ جمہوریہ روس کا جزو بنا لیا گیا اور یہاں جبراً اشتراکی نظٓم نافذ کر دیا گیا اس وقت سے سعید شامل اپنے وطن سے دور وارسا (پولینڈ) میں رہتے تھے۔ سوویٹ افواج کے قبضے کے بعد شمالی قفقاز کے مسلمان بہت بری حالت میں تھے۔ اس ریاست کا رقبہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ مربع میل تھا اور وہاں چالیس لاکھ باشندے آباد تھے۔ ان لوگوں نے ۱۹۲۱ء مین اپنی آزادی کے تحفظ کے لیے انتہائی سرفروشی کے ساتھ روسی اشتراکی فوج کا مقابلہ کیا لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ بعض مجاہد جلاوطن ہو گئے تھے۔ بہت سے مجاہد گرفتار ہو کر شہید ہو گئے۔ اس زمانے مین بعض مجاہدین پہاڑوں میں چھپ گئے اور وقتاً فوقتاً اشتراکیوں کا ناطقہ بند کیا کرتے تھے۔ روسیوں نے طیاروںٗ کے ذریعے ان پر بمباری کی۔ جس سے بہت سے بے گناہ بھی مارے گئے تھے۔ اشتراکیوںنے شمالی قفقاز پر غاصبانہ قبضے کے بعد سب سے پہلے علماء مشائخ اور اکابر دین کو موت کے گھاٹ اتارا۔ ان کا خیال تھا کہ علماء و مشائخ کے خاتمے کے بعدم ذہبی تعلیم بھی ختم ہو جائے گی۔ اور مسلمان لا مذہب بن جائیں گے۔ ۱۹۲۵ء میں امام م شمتہ الدین کو شہید کیا گیا جو قفقاز مین انتہائی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ اشتراکی مدت سے ان کی تلا ش میں تھے۔ لیکن مقامی باشندوں نے انہیں چھپائے رکھا۔ اشتراکیوں نے مقامی آدابی پر شدید مظالم کیے ۔ امام ان مظالم کو دیکھ کر تڑپ گئے اور انہوںنے مقامی آبادی پر شدید مظالم کیے۔ انہیں عام مجرم کی حیثتی سے گولی ما ردی گئی۔ ان کے علاوہ درویش محمد حاجی بلیال حاجی ‘ شیخ محمد امین اور ابراہیم شیخ کو سزائے موت دی گئی۔ زاران روس کا دور حکومت ظلم و جبر انسانی کا تاریک ترین مرقع سمجھا جاتا تھا۔ قفقاز کے امام شامل مرحوم نے ساٹھ سال تک زاروں کے خلاف مسلح جنگ جاری رکھی اور اس طویل جہاد میں اتنے روسی جرنیل مارے گئے کہ قفقاز کو روسی جرنیلوں کا قبرستان کہا جاتا تھا۔ امام شامل شکست کھانے کے بعد جب غبہب میں اپنے آپ کو روسی فوج کے حوالے کر دینے پر مجبور ہوئے تو انہیں محض وطن سے باہر رہنے پر مجبور کیا گیا۔ اس کے برعکس مظلوم اور بیکس عوام کی آزادی کے دعوے دار اشتراکیوں نے ان علماء کو بھی سزائے موت دینے میں تامل نہ کیا جنہوںنے کسی جہاد میں حصہ نہ لیا تھا۔ اشتراکیوں کا مقصد مذہبی تعلیم اورمسلمانوں میںدینی جذبے کا خاتمہ تھا۔ اشتراکی تسلط سے قبل شمالی قفقاز میں تقریباً پانچ ہزار مدارس و مکاتب تھے‘ جن میں ڈیڑھ لاکھ بچے دینی تعلیم پاتے تھے۔ یہ مدراس مسجدوں سے ملحق تھے اور ان میں دینی تعلیم کا عمدہ انتظام تھا۔ ان کی نگرانی ائمہ مساجد کے ہاتھ میں تھی۔ اشتراکیوں نے جبراً ان مدارس کو بند کر دیا اور ان کی جگہ نئے مدرسے نہ بنائے۔ اس طرح قفقازی باشندوں کا تعلیمی نظٓم درہم برہم ہو گیا۔ تمام اسلامی اوقاف اور اشتراکی قابض ہو چکے تھے۔ یہاں وصولی زکوۃ کا عمدہ انتظام تھا اشتراکیوں نے اسے بھی ختم کر دیا۔ انہوںنے ہر جگہ مساجد کو بند کرنا شروع کر دیا تھا۔ چنانچہ ۱۹۲۵ء میں ۲۸ مساجد بند کر دی گئیں۔ ۱۹۲۷ء میں ۳۶ مساجد ۱۹۲۸ء میں ۱۱۶ مسجدین اور ۱۹۲۹ء میں ۲۱۳ مسجدیں بند کی جا چکی تھیں۔ اشتراکیوں کا قاعدہ یہ تھا کہ جن اشخاص کو وہ مذہب کی طرف مائل پاتے اور دیکھتے کہ ان کی وجہ سے مذہبی جذبہ زندہ تھا۔ اسے کسی گمنام شخص کے ہاتھوں مروا دیتے اس کے بعد قاتل کا کوئی سراغ نہ ملتا۔ ۱۹۳۱ء کے موسم بہار میں قاضی عبدالرحمن کو اذان دیتے ہوئے گولی مار دی گئی۔ قفقاز کی مجلس دفاع ملی نے روسی اشتراکیوں کے مظالم کو ایک پمفلٹ میں درج کیا تھا۔ یہ پمفلٹ انگریزی اور فرانسیسی زبان میںشائع ہوا تھا۔ (۷) سعید شامل سے اقبال کی دوبارہ ملاقات ۲۳ اکتوبر کو ہوئی۔ اس نشست میں آپ نے شمالی قفقاز کی تحریک آزادی اور اشتراکی روسیوں کے مظالم کا تذکرہ کیا۔ آپ نے فرمایا: ہماری فوجیں انقلاب روس کے بعد پیٹرو گراڈ کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ بالشویکوں نے کہاکہ ہم تو مسلمانوں کو آزاد کرانے کیلیے آ رہے ہیں۔ اور مسلمان ہم سے جنگ کر رہے ہیں ہم نے اپنی فوجیں واپس بلا لیں۔ جب بالشویکوں نے قوت حاصل کر لی تو اپنے تمام وعدے توڑ ڈالے اور ترکستان قازان اور قفقاز کی اسلامی جمہوریتیں مٹا کر سوویٹ جمہوریتیں قائم کر دیںَ اب قفقاز میںان کے مظٓلم انتہا کو پہنچ گئے ہیںَ ہم عدم اتحاد کی بنا پر تباہ ہوئے ہیں۔ ہم عالم اسلام سے فوجی اعانت یا روپے کے طلب گار نہیں بلکہ محض یہ چاہتے ہیں کہ سارا عالم اسلام اپنا ایک مرکزی ادارہ قائم کرے جس کے ساتھ مسلم اوام مرتبط ہو سکیں اور ایک دوسرے کے حالات سے واقف ہو سکیں۔ اس طرح ہر قوم میں اپنی جگہ پر ہر مخالف طاقت کے ساتھ مقابلے کی جرات پیدا ہو جائے گی (۸)۔ اس کے بعد گفتگو کا رخ اشتراکیت کی طرف مڑ گیا۔ سعید شامل اور ان کی قوم چونکہ روسی اشتاکیت سے زخم خوردہ تھی۔ اس لیے آپ اس کی شدید مخالف تھے۔ اور اقبال سے بھی بار بار کہہ چکے تھے کہ اس کے خلاف شدید مزاحمت کی ضرورت ہے۔ اقبال نے فرمایا کہ بالشیوزم یورپ کو تباہ کرنے کا Factorہے اسے تباہ نہیںکرنا چاہیے ۔سعید شامل نے جواب دیا کہ اشتراکیت بظاہر یورپی امپریلزم کے مقابلے میں بہتر معلوم ہوتی ہے لیکن درحقیقت یہ بہت بڑی برائی ہے۔ یورپی امپیریلزم تو خود بخود ضعیف ہو رہا ہے جب کہ سوشلزم روز بروز پروان چڑھ رہا ہے۔ اقبال کی رائے یہ تھی کہ بالشویزم کی مخالفت سے یورپی امپیریلزم فائدہ اٹھائے گا یورپ کے اقتصادی اور اجتماعی امراض کو اعتدال پر لانے کے لیے اس کا وجود ضروری ہے۔ اگر اسے پھیلنے کا موقع ملا تو اس کی صورتیں ہر جگہ مختلف ہوں گی ۔ (۹) ٭٭٭ حواشی ۱۔ حسین رئوف بے کے آباہ و اجداد شمالی قفقاز کے رہنے والے تھے۔ جنگ کریمیا میں ترکوں کی شکست کے بع ان کے دادا ترکی میں آباد ہو گئے تھے۔ رئوف بے کے والد عثمانی دور میں ترکی کے امیر البحر تھے۔ سلطان عبدالحمید کے دور میں آپ طرابلس منتقل ہو گئے اور وہیں رئوف بے ۱۸۸۱ ء میں پیدا ہوئے۔ ایام طالب علمی میں رئوف Young Turksپارٹی سے وابستہ ہو گئے تھے۔ ۱۹۰۸ء کے انقلابات جس کے نتیجے میں سلطان عبدالحمید کو تخت سے دست بردار ہونا پڑا تھا۔ اس میں رئوف بے کے ساتھ انور پاشا نیاز ی بے اور محمود شوکت پاشا بھی شریک تھے۔ جنگ طرابلس کے دوران آپ نے اطالویوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کی اس وقت آپ حمیدیہ جہاز کے کپتان تھے۔ جنگ بلقان کے دوران آپ نے اطالوی اوریونانی بیڑوں کو خاصا نقصان پہنچایا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران آپ نے عراق میں رہ کر بہت بہادری سے انگریز فوج کا مقابلہ کیا۔ آپ کی وطن واپسی کے بعد انگریزوں نے عراق پر قبضہ کر لیا۔ ستمبر ۱۹۱۸ء میں عزت پاشا کی وزات میں آپ وزیر بحرمقر ر ہوئے۔ عزت پاشا کے علاوہ آپ توفیق پاشا اور داماد فرید پاشا کی وزارتوں میں بھی اہم فرائض انجام دیتے رہے۔ جنگ عظیم کے بعد اتحادیوں نے سلطان وحید الدین کے ذریعے ترک افواج کو منتشر کرنا چاہا تو رئوف بے نے وزارت سے مستعفی ہو کر مصطفی کمال پاشا سے سیواس میں ملاقات کی اور ان کے ساتھ مل کر یونانیوں کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ علی رضا پاشا کی وزارت کے دوران اتحادیوں نے اناطولیہ میں ترک افواج کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا تو پارلیمنٹ نے اس سے شدید اختلاف کیا۔ اتحادیوںنے ۱۶ مارچ ۱۹۲۰ء کو پارلیمنٹ کے دیگر ارکان کے ساتھ رئوف کو بھی گرفتار کر کے مالٹا میں نظر بند کر دیا۔ آپ ۱۹۲۱ء کے اواخر میں رہا ہوئے تو فوراً انقرہ کا رخ کیا اور کمال اتاتکر کے ساتھ جنگ آزادی میں شریک ہو گئے۔ کچھ عرصہ آپ ترکی کے وزیر اعظم بھی رہے۔ آپ ترکی میں برطا نوی طرز کانظام قائم کرنا چاہتے تھے۔ جس میں سلطان برائے نام بادشاہ رہیں اور اصل اختیارات وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کے ہاتھ میں ہوں۔ مصطفی کمال نے پارلیمنٹ کے ذریعے سلطان وحید الدین کو برطرف کر دیا اور ان کی جگہ سلطان عبدالمجید خلیفہ مقرر ہوئے۔ مصطفی کمال پاشا سے اختلافات کے نتیجے میں رئوف بے نے فروری ۱۹۲۳ء میں وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ آپ نے اپنے رفقا کے ساتھ ری پبلکن پروگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کی ۔ ۲۸ اکتوبر ۱۹۲۳ء کو کمال اتاترک نے خلافت اور سلطنت کو ختم کر کے ترکی کو جمہوریہ قرار دیا۔ ۳ مارچ ۱۹۲۴ء کو ترکی پارلیمنٹ نے آل عثمان کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا۔ رئوف بے اور ان کے رفقاء خلافت کو ختم کرنے کے حق میں نہ تھے۔ ملک میں مارشل لاء نافذ کر کے سختی سے مخالفت کو کچل دیا گیا۔ حسین رئوف بے ۱۹۲۴ء کے اواخر میں جلاوطن ہو کر ٹائرول میں مقیم ہو گئے۔ ۱۹۳۳ء میں آپ ہندوستان تشریف لائے اورجامعہ ملیہ دہلی کے زیر اہتمام ترکی تاریخ پر لیکچر دیے ۱۹۳۸ء میں کمال اتاترک نے آپ کو ترکی میں آباد ہونے کی اجازت دی اور ۱۹۶۰ء میں آپ انتقال کر گئے۔ مزید تفصیلات کے لیے اتاترک از مرزا محمد دہلوی۔ دسمبر ۱۹۴۱ء ۲ ۔ انقلاب۔ جلد ۶۔ نمبر ۱۳۹۔ جمعہ ۔ ۶ نومبر ۱۹۳۱ء اقبالیات ۔ از مولانا غلام رسول مہر امجد سلیم علوی۔ ص ۵۲۔ مہر سنز پرائیوٹ لمیٹڈ۔ لاہور ۱۹۸۸ء ۳۔ یہ گفتگو راقم نے مولانا مہر کی روایت کے مطابق بیان کی ہے۔ ۴۔ ۲ ۔ انقلاب۔ جلد ۶۔ نمبر ۱۳۷۔ سہ شنبہ ۔ ۴ نومبر ۱۹۳۱ء ۔ مکتوب مہر مورخہ ۲۳ اکتوبر ۱۹۳۱ئ۔ ۵۔ سعید شامل سے راقم الحروف ۱۹۷۶ء میں استنبول میں ملا تھا اور ان سے اقبال سے ملاقاتوں کا حال دریافت کیا تھا۔ ۶۔ شمالی قفقاز کے ترکوں نے زار کی جارحیت کے خلاف طویل عرصے تک بڑی بے جگری سے مقابلہ کیا۔ یہ جدوجہد ۱۵۹۴ء سے ۱۸۵۹ء تک جاری رہی۔ ترک ملک کے چپے چپے کے لیے بہت بہادری سے لڑے ۔ حکمرانوںنے ہتھیار ڈال دیے تو عوام علمائے کرام کی سرکردگی میں جنگ کرتے رہے۔ امام شامل آخری دینی رہنما تھے جنہوں نے ۱۸۳۴ء سے ۱۸۵۹ء تک مسلسل روسیوں سے مقابلہ کیا آپ تیغ و قلم دونوں کے دھنی تھے۔ آپ مشائخ میں سے تھے اور عالم متبحر تھی مجاہدین کی قیادت سنبھالنے کے بعد آ پبے بدل سپہ سالار اور اعلیٰ درجے کی منتظم ثابت ہوئے۔ آپ نے مسلمانوں میں جہاد کی روح پھونکی او رروسی فوج کو پے در پے شکستیں دے کر روسیوں سے بہت بڑا علاقہ آزاد کرایا۔ زار روس بہر قیمت شمالی قفقاز کو اپنے تصرف میں لینے کا خواہشمند تھا۔ اس نے جدید ترین ساز و سامان سے لیس دو لاکھ روسی فوج میدان میں اتار دی جس کی قیادت لائق ترین روسی اور جرمن جرنیل کر رہے تھے۔ ی ہفوج بھی امام کے ہاتھو پے در پے شکس ت کھا رہی تھی۔ آپ کے چند ہزار ساتھیوں کی دھاک دور دور تک بیٹھی ہوئی تھی۔ رفتہ رفتہ امام کی قوت گھٹتی گئی لیکن آپ کی ہمت اور جرات میں فرق نہ آیا۔ آپ نے ایک ایک شہر اور قریہ کے لیے جہاد کیا۔ یہاں تک کہ اس آخری مسجد کے لیے بھی مقابلہ کیا جہاں آپ مقیم تھے۔ یہاں آپ کو اپنے خاندان اور مٹھی بھر ساتھیوں کے ساتھ گرفتار کیاگیا۔ آپ کی گرفتاری کے ساتھ دعوت و عزیمت کا ایک با ب ختم ہوگیا اور ۹ؤ۱۸۵ ء میں شمالی قفقاز کی آزادی سلب ہو گئی۔ ان لڑائیوں میں روسی افواج کا جس قدر نقصان ہوا تھا اس کا ذکر کرتے ہوئے روسی مورخ جنرل قاربیف نے لکھا ھتا کہ کوہستان قفقاز کے باشندوں کے ساتھ لڑائی میں ہمیں اتنے بڑے لشکر سے ہاتھ دھونا پڑا جو ہندوستان سے جاپان تک پھیلے ہوئے ملکوں کی فتح کے لیے کافی تھا۔ عرصے تک یہ علاقہ روسی جرنیلوں کے قبرستان کے نام سے مشہو ر تھا۔ ۷۔ مکتوب مہر ۔ مورخہ ۲۲ اکتوبر ۱۹۳۱۔ ۲ ۔ انقلاب۔ جلد ۶۔ نمبر ۱۳۹۔ جمعہ ۶ نومبر ۱۹۳۱ء ۸۔ مکتوب مہر۔ ۲ ۔ انقلاب۔ جلد ۶۔ نمبر ۱۳۷۔ سہ شنبہ ۔ ۴ نومبر ۱۹۳۱۔ یہ گفتگو راقم نے مولانا مہر کی ڈائری سے نقل کی ہے۔ ٭٭٭ انڈیا سوسائٹی کے اجتماع علمی سے خطاب انڈیا سوسائٹی نے اقبال سے یہ درخواس تکی کہ آپ ان کے جلسے میں اپنے فلسفے اور شاعری پر خیالات کا اظہار فرمائیںچنانچہ ۴ نومبر کی شامل کو ۵ بجے انڈیا سوسائٹی کی دعوت پر اقبال نے ایک عالمانہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس جلسے کے صدر سر فراسیس ینگ ہذبینڈ تھے۔ آ پ نے مختصڑ اور موزوں الفاظ میں اقبال کا تعارف کرایا اور فرمایا کہ سر زمین مشرق کا نہایت بلند پایہ شاعر اور فلسفی آج اپنے کلام کے متعلق خیالات کا اظہار کرے گا۔ حضرت علامہ اقبال نے اپنے خطبے کے آغاز میں فرمایا کہ : ’’بے شک میرے اشعار میں مختلف مسائل کے متعلق فلسفیانہ خیالات موجود ہیں لیکن میرا کوئی منظم و مرتب فلسفہ نہیںہے ‘ البتہ فلسفہ کے ایک مسئلے یعنی حیات بعد الممات کے ساتھ مجھے خاص دلچسپی رہی ہے۔ میںانسان کے شاندار اور درخشاں مستقبل پر پختہ یقین رکھتا ہوں او ر میرا عقیدہ ہے کہ انسان نظام کائنات میں ایک مستقل عنصر کی حیثیت حاصل کرنے کی صلاحیتوں سے بہرہ ورہے۔ یہ عقیدہ میرے خیالات و افکار میںآپ کو عموماً جاری و ساری نظر آئے گا۔ چنانچہ آپ نے متعدد اشعار اس عقیدے کی توضیح کے سلسلے میں پیش کیے اورا ن کا انگریزی ترجمہ سنایا: فروغ خاکیاں از نوریاں افزوںشود روزے زمیں از کوکب تقدیر ما گردوں شود روزے خیال ما کہ او را پرورش دادند طوفان ہا زگرداب سپہر نیلگوں بیروں شود روزے یکے در معنی نگر! از من چہ می پرسی ہنوز اندر طبیعت می خلد موزوں شود روزے چناں موزوں شود ایں پیش پا افتادہ مضمونے کہ یزداں را دل از تاثیر اوپر خوں شود روزے (۱) ٭٭٭ چناں بزی کہ اگر مرگ ماست مرگ دوام خداز کردہ خود شرمسار تر کردد! (۲) ٭٭٭ ازاں مرگے کہ می آید چہ باک است خودی چوں پختہ شد از مرگ پاک است (۳) اس کے بعد اقبال نے فرمایا کہ: پروفیسر آرنلڈ نے شاعری کی تعریف یہ کی ہے کہ یہ زندگی کا انتقاد Criticism of Lifeہے ۔ میں اس کے ساتھ اتفاق کرتا ہوں بشرطیکہ محض لائف نہیں بلکہ ڈیوائن لائف کا انتقاد کہا جائے۔ پھرآ پ نے ڈیوائن لائف کے اسلوب و انداز کی وضاحت کرتے ہوئے ذیل کے اشعار سنائے: ایں جہاں چیست؟ صنم خانہ پندار من است جلوہ او گرد دیدہ بیدار من است ہستی و نیستی از دیدن و نادیدن من چہ زمان و چہ مکاں شوخی افکار من است ساز تقدیم و صد نغمہ پنہاں دارم ہر کجا زخمہ اندیشہ رسد تارمن است اے من از فیض تو پایندہ ! نشان تو کجاست؟ ایں دو گیتی اثر ماست‘ جہان تو کجاست؟ (۴) پھر اقبال نے نظمو ں میںسے مختلف ٹکڑے اپنی شاعری کے عا م انداز و اسلوب کی وضاحت کے سلسلے میں پیش کیے۔ سب سے پہلے اردو نظم ’’حسن ‘‘ بیان کی آپ نے فرمایا کہ آج سے تقریباً ۲۵ سال پیشتر کیمبرج میںیہ نظم لکھی گئی تھی۔ اصل خیال جرمن شاعر سے لیا گیا تھا۔ لیکن میں نے اس کو بہت وسیع کر دیا: خدا سے حسن نے اک روز یہ سوال کیا جہاں میں کیوں نہ مجھے تو نے لازوال کیا ملا جواب کہ تصویر خانہ ہے دنیا شب دراز عدم کا فسانہ ہے دنیا ہوئی ہے رنگ تغیر سے جب نمود اس کی وہی حسیں ہے حقیقت زوال ہے جس کی اقبال نے فرمایا کہ یہاں تک جرمن شاعر کا خیال تھا۔ آگے جو کچھ ہے وہ میرا ہے: کہیںقریب تھا یہ گفتگو قمر نے سنی فلک پہ عام ہوئی اختر سحر نے سنی سحر نے تارے سے سن کر سنائی شبنم کو فلک کی بات بتا دی زمیں کے محرم کو چمن سے روتا ہوا موسم بہار گیا شباب سیر کو آیا تھا سوگوار گیا (۵) دوسری نظم’’حور و شاعر‘‘ جس کے اشعار حسب ذیل ہیں: نہ بہ بادہ میل داری نہ بہ من نظر کشائی عجب ایں کہ تو ندانی رہ و رسم آشنائی ہمہ ساز جستجوئے ہمہ سوز آرزوئے ہفے کہ می گداری غزلے کہ می سرائی بنوائے آفریدی چہ جہاں دلکشائے کہ ارم بہ چشمم آید چو طلسم سیمیائی شاعر دل رہرواں فریبی بہ کلام نیش دارے مگر ایں کہ لذت او نر سد بہ نوک خارے چہ کم کہ فطرت من بہ مقام در نسازد دل ناصبور دارم چو صبا بہ لالہ زارے چو نظر قرار گیرد بہ نگار خوبروئے تپد آں زماں دل من پے خوبتر نگارے زشرر ستارہ جویم زستارہ آفتابے سر منزلے نہ دارم کہ بمیرم از قرارے چوز بادہ بہارے قدحے کشیدہ خیزم غزلے دگر سرایم بہ ہوائے نو بہارے علبم نہایت آںکہ نہایتے نہ دارد بہ نگاہ نہ شکیبے بہ دل امیدوارے دل عاشقاں بمیرد بہ بہشت جاودانے نہ نوائے درد مندے نہ غمے نہ غمگسارے (۶) اقبال کی تیسری نظم ’’بوئے گل ‘‘ تھی: حورے بکینج گلسن جنت تپیدو گفت ماراکسے ز آں سوئے گردوں شبرنداد ناید بغم من سحر و شام و روز و شب عقلم ربود ایں کہ بگویند مرد و زاد! گردید موج نکہت و از شاخ گل دمید ایں چنیں بہ عالم فردا ودی نہاد وا کرد چشم و غنچہ شد و خندہ زد دمے گل گشت و برگ برگ شدو بر زمیں فتاد زاں ناز نیں کہ بندز پالیش کشادہ اند آہے است یاد گار کہ بو نام دادہ اند (۷) یہ تین نظمیں سنانے کے بعد حضرت علامہ نے اپنی فارسی تصانیف کی مختصر سی کیفیت بیان فر مائی۔ فرمایا کہ میری مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ کا ترجمہ پروفیسر نکلسن انگریزی میں کر چکے ہیں اس لیے اس کے متعلق مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ میری دوسری مثنوی ’’رموز بے خودی ‘‘ ہے۔ ’’اسرار خودی‘‘ فرد کی زدنگی سے تعلق رکھتی ہے اور رموز بے خودی میں قوموں اور جماعتوں کی زندگی کے اسرار و معارف بیان کیے گئے ہیں میری تیسری تصنیف ’’پیام مشرق‘‘ ہے جو گوئٹے کے دیوان کے انداز و اسلوب پر لکھی گئی تھی۔ اس کے بعض حصوں میں جرمن شاعر ہائینے اور گوئٹے کا جواب ہے۔ آغاز می رباعیات میں جو مشہور صوفی بابا طاہر عریاں کے سبع میں لکھی گئی ہے۔ مثلاً آرٹ یا نیچر کی بحث کے متعلق رباعیات: بہ یزداں روز محشر برہمن گفت فروغ زندگی تاب شرر بود و لیکن گر نرنجی با تو گویم صنم از آدمی پایندہ تر بود (۸) ٭٭٭ گداے جلوہ رفتی برسر طور کہ جان تو ز خود نا محرمے ہست قدم در جستجوئے آدمے زن خدا ہم در تلاش آدمے ہست (۹) اس کتاب میں یورپین مسائل کے متعلق بھی نظمیں ہیں۔ مثلاً جس زمانے میں سمندر کی آزادی پر بحث ہو رہی تھی میں نے اس مسئلے کے متعلق لکھا تھا: آزدی بحر بطے می گفت بحر آزاد گردید چین فرماں زدیوان خضر رفت نہنگے گفت رو ہر جا کہ خواہی ولے از ما نباید بے خبر رفت (۱۰) ’’پیام مشرق‘ ‘ کے بعد میری تصنیف ’’زبور عجم‘‘ شائع ہوئی۔ جس کے تین حصے ہیں۔ اول غزلیات دوم گلشن راز جدید سوم بندگی نامہ۔ حصہ او ل پھر تین حصوں پر مشتمل ہے۔ اول ’’خدا‘‘ دوم ’’انسان‘‘ سوم ’’بزم قدرت‘‘ ’’گلشن راز‘‘ سے آپ آگاہ ہیں۔ اس لیے کہ اس کا انگریزی ترجمہ ہو چکا ہے یہ ایران کے مشہور صوفی اور فسلفی محمود شبستری کی مثنوی ہے۔ خراسان کے باشندوںنے محمود سے تیرہ سوال کیے تھے۔ جن کا جواب ترتیب وار اس نے گلشن راز میں دیا ہے۔ میں نے ان میں سے نو سوال لیے ہیں اورموجودہ زمانے کے مقتضیات و احوال کو مدنظررکھ کر ان کا جواب دیا ہے۔ اس ضمن میں یورپ کی جمہوریت مذہب و سیاست کی علیحدگی اور اس قسم کے بہت سے اہم مسائل زیر بحث آ گئے ہیں۔ مثلاً جمہوریت کے متعلق میں نے لکھا ہے: فرنگ آئین جمہوری نہاد است رسن از گردن دیوے کشاد است گرو ہے را گرو ہے در کمین است خدایش یا رگر کارش چنیں است (۱۱) ’’مذہب و سیاست‘‘ کی علیحدگی کے متعلق لکھاہے: خرد را باطل خود ہم سفر کن یکے بر ملت ترکاںنظر کن بہ تقلید فرنگ از خود رمیدند میان ملک و دیں ربطے ندیدند (۱۲) بہ کف بردن جہان چارسورا مقام نور و صوت و رنگ و بو را فزونش کم کم او بیش کردن دگر گوں بر مراد خویش کردن برنج و راحت او دل نہ بسن طلسم نہ سپہر او شکسن فرورفتن چوپیکاں در ضمیرش شکوہ خسروی این ہست این است ہمیں ملک است کہ توام بہ دین است (۱۳) آخر میں ’’گلشن راز جدید‘‘ کے اشعار کے بعد اقبال نے اپنے اردو اشعار سنائے پھر فرمایا کہ میری تازہ تصنیف جاوید نامہ مطبع میں جا چکی ہے۔ اور غالباً ایک دو مہینوں میں چھپ جائے گی۔ یہ حقیقت میں ایشیا کی ڈیوائن کامیڈی ہے ۔ جیسے دانتے کی تصنیف یورپ کی ’’ڈیوائن کامیڈی‘‘ ہے ۔ اس کا اسلو ب یہ ہے کہ شاعر مختلف سیاروں کی سیر کرتا ہے اور ا س میں مختلف مشاہیر کی روحوں سے باتیں ہوتی ہیں۔ پھر جنت میں جاتا ہے اور آخر میں خدا کے سامنے پہنچتا ہے۔ اس تصنیف میں دور حاضر کے تمام جماعتی اقتصادی مذہبی ‘ اخلاقی اور سیاسی مسائل زیر بحث آ گئے ہیں اس میں صرف دو شخصیتیں یورپ کی ہیں۔ اول کچہر دوم نطشے‘ باقی تمام شخصیتیں ایشیا کی ہیں۔ دانتے نے اپنا رفیق سفر یا خضر طریق ورجل کو بنایا تھا۔ میرے رفیق سفر یا خضر طریق ’’مولانا روم‘‘ ہیں۔ میں اس تصنیف میں سے صرف ایک یا دو مثالیں پیش کر سکتا ہوں۔ مثلا چاند میں ہندوستان کے مشہور ہندو صوفی وشوامتر سے ملاقات ہوتی ہے۔ جس کا نام میں نے جاوید نامہ میں جہاں دوست رکھا ہے ا س لیے کہ وشوامتر کے معنی جہاں دوست کے ہیں۔ وشوامتر سے جو باتیں ہوئیں انہیں میں نے نہ تاسخن از عارف ہندی کے عنوان سے پیش کیا ہے: گفت مرگ عقل؟ گفتم ترک فکر گفت مرگ قلب ؟ گفتم ترک ذکر گفت آدم؟ گفتم از اسرار اوست گفت عالم؟ گفتم او خود رو بروست گفت ایں علم و ہنر ؟ گفتم کہ پوست گفت حجت چیست؟ گفتم روے دوست گفت دین عامیاں؟ گفتم شنید گفت دیں عارفاں؟ گفتم کہ دید (۱۴) کچر اور فرعون۔ آپ حیران ہوں گے کہ کچر کا ذکر اس ضمن میں کیسے آ گیا۔ ’’جاوید نامہ‘‘ میں کچر اور فرعون آپس میں باتیں کرتے ہیں ۔ فرعون کچر کو طعنہ دیتا ہے کہ یورپ کے لوگ بڑے بے رحم اور بے درد ہیںں۔ انہوںنے ہماری قبریں تک کھود ڈالی ہیں۔ کچر جواب دیتا ہے کہ ہمارا مقصد سائنس کی خدمت اور علم الآثار کی خدمت ہے۔ قبریں اس لیے کھودی ہیں کہ معلوم ہو آج سے تین چار ہزار سال قبل دنیا کی کیا حالت تھی (۱۵) فرعون اس کی تشریح کے جواب میں کہتا ہے : قبر مارا علم و حکمت بر کشود لیکن اندر تربت مہدی چہ بود؟ (۱۶) الواح اربعہ: حضرت علامہ اقبال نے فرمایا کہ ایک مقام پر میں نے چار الواح لکھے ہیں۔ لوح بدھ ‘ لوح مسیح علیہ السلام‘ لوح زرتشت‘ اور لوح محمدؐ لوح مسیح علیہ السلام طالسطائی کا ایک خواب ہے۔ لوح زرتشت میں اسلامی تصوف کے مشہور مسئلہ فضیلت نبوت پر ولایت یا ولایت بر نبوت کے متعلق بحث ہے۔ لوح محمدؐ کا یہ مضمون ہے: ’’کعبہ میں بٹ ٹوٹے پڑ ے ہیں۔ ابوجہل کی روح گریہ و زار ی کر رہی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ رہی ہے کہ انہوںنے ہمارے دین کو تباہ و برباد کیا۔ ہماری خاندانی بلند پائیگی زائل کر ڈالی اور مساوات کی تعلیم دینی شروع کر دی جو مزدکیوں سے حاصل کی گئی ہے؟ (۱۷) آخر میں حضرت علامہ اقبال نے فرمایا کہ وقت بہت کم ہے اس لیے آج اسی وقت لارڈ ارون اور لیڈی ارون کی طرف سے ایک پارٹی ہے۔ جس میں بعض دوستوں کو جانا ہے اور خود مجھے بھی جانا ہے۔ اس لیے میں اس لیکچر کو ختم کرتا ہوں ۔ سرفراسیس ینگ ہزبینڈنے آخر میں اقبال کا شکریہ ادا کیا اور اپنی جگہ عبداللہ یوسف علی کو صدر جلسہ بنا کر رخصت ہوگئے۔ مسٹر عبداللہ یوسف علی نے حاضرین سے کہاکہ اگر کسی صاحب کو علامہ اقبال سے کوئی سوال کرنا ہو تو کر لے۔ ایک صاحب نے ایک دو سوالات انسانی انا یا خودی کے بارے میں کہے۔ اس کے بعد عبداللہ یوسف علی نے اقبال کے بعض اشعار پڑھ کر ان کی تشریح کی آخر میں فرمایا کہ: ’’اقبال فرانس کے شاعر اور ڈرامانگار پال کلوڈے سے بہت مشابہت رکھتے ہیں جو اس وقت زندہ ہے لیکن افسوس کہ انگلستان کے لوگ اس سے زیادہ باخبر نہیں۔ پال کلوڈے کی تصانیف میں وہ خوبیاں ہیں اولاً وہ جو کچھ لکھتاہے مثال کے رنگ میں لکھتا ہے۔ ثانیاً وہ رومن کیتھولک کے کسی خیال کو لے کر موجودہ زمانے کے حقائق کے رنگ میں پیش کرتا ہے یعنی اس کے تمام جذبات کا محرک احیائے دین کا جذبہ ہے۔ یہی دو خصوصیتیں اقبال کی ہیں‘‘۔ آخر میں آپ نے علامہ کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ۶ نومبر کو حضرت علامہ اقبال کے اعزاز میں جس تقریب کا خاص اہتمام کیا گیا ہے امید ہے کہ اس تقریب میں ہمیں آپ سے مزید استفادے کا موقع ملے گا۔ سات بجے یہ تقریب ختم ہو گئی۔ (۱۸) ٭٭٭ حواشی ۱۔ زبور عجم۔ ص ۱۱۲ ۲۔ ایضاً۔ ص ۸۴ ۳۔ ایضاً ۔ ص ۱۶۵ ۴۔ ایضاً ص ۱۷ ۵۔ بانگ درا ص ۱۱۲ ۶۔ پیام مشرق۔ ص ۱۲۸۔۱۲۶ ۷۔ ایضاً ۔ ص ۸۹ ۸۔ ایضاً ۔ ص ۳۰ ۹۔ ایضاً۔ ص ۴۰ ۱۰۔ ایضاً ص ۲۱۷ ۱۱۔ زبور عجم۔ ص ۱۶۸۔۱۶۷ ۱۲۔ ایضاً ۔ ص ۱۵۶۔۱۵۵ ۱۳۔ ایضاً ص ۱۵۰۔ زبور عجم میں چھٹے شعر کا پہلا مصرع اس صورت میں ہے: فرور فتن چوپیکاں ضمیرش ۱۴۔ جاوید نامہ۔ ص ۳۷ ۱۵۔ جاوید نامہ۔ از اقبال ۔ اشاعت اول۔ لاہور ۱۹۳۲ئ۔ ص ۱۰۸۔۱۰۷۔ جاوید نامہ میں فرعون اور کچر کا مکالمہ اس طرح ہے فرعو ن کہتا ہے: آہ نقد عقل و دیں در باختم دیدم و ایں نور را شناختم اے جہاں داراں سوے من بنگرید اے زیاں کاراں سوے من بنگرید واے قومے از ہوس گردیدہ کور می برد لعل و گہر از خاک گور پیکرے کو در عجائب خانہ ایست بر لب خاموش او افسانہ ایست کچر جواب دیتا ہے: مقصد قوم فرنگ آمد بلند از پے لعل و گہر گورے نکند سرگزشت مصر و فرعون و کلیم می تواں دیدن ز آثار قدیم علم و حکمت کشف اسرار است و بس حکمت بے جستجو خوار است و بس ۱۶۔ واضح رہے کہ جب لارڈ کچر نے سوڈانی درویشوں پر فتح پا کر ام درمان پر قبضہ کیا تو اس نے تحریک آزادی کے رہنما مہدی سوڈانی کی قبر کھدو ا ڈالی تھی۔ مندرجہ بالا شعر میں اس واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ جاوید نامہ ص ۹۶۔ ۱۷۔ ’’جاوید نامہ‘‘ میںیہ مضمون اس عنوان سے پیش کیا گیا ہے۔ ’’نوحہ روح ابوجہل در حرم کعبہ‘‘ ص ۵۵۔۵۴ سینہ ما از محمدؐ داغ داغ ازدم او کعبہ راگل شد چراغ تابساط دین آبا در نورد با خداوندان ما کرد آنچہ کرد پاش پاش از ضربش لات و منات انتقام ازوے بگیر اے کائنات پیش غائب سجدہ بردن کوری است دین نو کور است و کوری دوری است خم شدن پیش خدائے بے جہات ! بندہ را ذوقے نہ نحشد ایں صلوت مذہب او قاطع ملک و نسب از قریش و منکر از فضل عرب! درنگاہ او یکے بالا و پست با غلام خویش بریک خواں نشست قدر احرار عرب شناختہ باکلفتان حبش در ساختہ احمراں با اسوداں آمیختند آبروئے دود مانے رنشد ایں مساوات ایں مواخات اعجمی است خوب می دانم کہ سلمانؓ مزدکی است ۱۸۔ مکتوب مہر۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر ۱۵۳۔ یکشبہ ۔ ۲۲ نومبر ۱۹۳۱ئ۔ اقبال کے اعزاز میں جلسہ ۶ نومبر کی شام کو چار بجے اقبال لٹریری ایسوسی ایشن کی طرف سے علامہ اقبا ل کے اعزاز میں ایک عظیم الشان ٹی پارٹی کا اہتمام کیا گیا۔ یہ پارٹی لندن کے ہوٹل والڈ ورف میںہوئی۔ اس میں کم و بیش چار سو منتخب اصحاب شریک ہوئے۔ گول میز کانفرنس کے تقریباً تمام مندوبین اس پارٹی میںآئے۔ ان میں سرتیج بہادر سپرو‘ مولانا شوکت علی‘ مسز نائیڈو‘ آغا خاں‘ سر محمد شفیع ‘ چودھری ظفر اللہ خاں‘ اکبر حیدری ‘ سر مرزا محمد اسمعیل‘ گاندھی جی ‘ سردار اجل سنگھ‘ مولانا شفیع دائودی‘ ڈاکٹر شفاعت احمد خاں‘ نواب مہر شاہ‘ مسٹر آئنگر‘ پروفیسر ڈاکٹر نکلسن(مترجم اسرار خودی) مائیکل اوڈائر ‘ جنرل ایلسی‘ ہیوبرٹ رلنکسن‘ ایک نو مسلم بیرونت مادام فاطمتہ العابد‘ سر عمر حیات ٹوانہ‘ نواب لیاقت علی خاں‘ المالطیفی‘ شعیب قریشی‘ ملک غلام محمد ‘ مولوی فرزند علی امام مسجد احمدیہ لندن‘ مولوی عبدالمجیب امام ووکنگ‘ سر عبدالقادر‘ شیخ حافظ وہبہ سفیر نجد و حجاز‘ ریورنڈ فرینک ہارٹ ‘ خالد شیلڈرک ‘ مس مارگریٹ فارقوہرسن‘ عبداللہ یوسف علی‘ زاہد علی‘ امجد علی شاہ او ربہت سے اکابر علم و فضل جن میں خواتین بھی شامل تھیں اس پارٹی میںشریک ہوئے۔ اس میں بہت سے ہندوستانی اور غیر ہندوستانی طلبہ بھی شریک ہوئے۔ بعض طلبہ تو کیمبرج اور آکسفورڈ سے پارٹی اور غیر ہندوستانی طلبہ بھی شریک ہوئے۔ بعض طلبہ تو کیمبرج اور آکسفورڈ سے پارٹی میںشرکت کے لیے تشریف لائے تھے۔ ان حضرات میں چودھری رحمت علی اور خواجہ عبدالرحیم قابل ذکر تھے ۔ یہ پارٹی اس اعتبار سے منفرد تھی کہ اتنے بڑے پیمانے پر منتخب شخصیتوںکا اجتماع ممکن نہ تھا۔ پارٹی ۴ بجے شروع ہوئی۔ سب سے پہلے تما م اصحاب ایک بڑے کمر ے میں جمع ہوتے رہے۔ سر عمر حیات ٹوانہ ہر آنے والے کا تعارف اقبال سے کراتے تھے۔ چائے پینے کے لیے دو بڑے ہال کمروں میں جو ایک دوسرے سے متصل تھے ان میں انتظام کیا گیاتھا۔ چائے کے بعد جلسے کی کارروائی شروع ہوئی۔ سر عمر حیات خاں ٹوانہ نے صدارت کے لیے سر عبدالقادر کا نام تجویز کیا۔ صاحب صدر نے اپنی افتتاحی تقریر میں فرمایا کہ ہم سب اس بات پر نازاں ہیں کہ آج سر زمین مشرق کا سب سے بڑا شاعر اور فلسفی ہمارے درمیان موجودہے۔ جس کے اعزاز میں ہم سب یہاں جمع ہیں ۔ پھر آپ نے ڈاکٹر نکلسن سے درخواست کی کہ وہ حضرت علامہ اقبال کا تعارف حاضرین سے کرائیں کیونکہ اقبال کے کلام کو سرزمین مغرب سے روشناس کرانے والے ڈاکٹر نکلسن ہیں۔ ڈاکٹر نکلسن کی تقریر ڈاکٹر نکلسن نے فرمایا کہ میں آج سے ۲۵ برس پیشتر ڈاکٹر اقبال سے کیمبرج میں ملا تھا۔ طالب علمی کے زمانے میں کوئی شخص کسی نوجوان کے شاندار مستقبل اور آئندہ ہونے والی عزت و شہرت کا اندازہ نہیںکر سکتا۔ مگر ڈاکٹر اقبال کے متعلق اس وقت بھی یقین تھا کہ وہ بڑے مرتبے پر پہنچیں گے اور بہ قول سعدی۔ بالائے سرش زہو شمندی! می تافت ستارہ بلندی! اس کے بعد ڈاکٹر نکلسن نے اقبال کی شاعری کے متعلق سرسری انداز میں اپنے خیالات پیش کیے اور فرمایا کہ وہ فلسفے کے دقیق مسائل کو نہایت دلکشا اوردلفریب اشعار میں پیش کرتے ہیں اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ وہ ایک خاص پیغام پیش کر رہے ہیں۔ جس میں روحانیت کا پہلو غالب ہے اور یہ پیام دہریانہ مادیت کے خلاف ہے۔ ابتدا میں لوگوں نے یہ سمجھا تھا کہ وہ دوسرے نطشے ہیں یا نطشے کے خیالات و افکار کو فارسی کاجامہ پہنا رہے ہیں۔ لیکن عمیق مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آپ کی تعلیم مختلف ہے۔ در حقیقت ان کی شاعری کا مقصد بہ اصطلاح مولانا روم جہاد اکبر ہے‘‘۔ ڈاکٹر نکلسن کی تقریر کے بعد اقبال لٹریری ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جناب نیاز محمد خان نے اقبال کی خدمت میں سپاسنامہ پڑھا‘ جس کا ترجمہ حسب ذیل ہے: بخدمت علامہ سر محمد اقبال مدظلہ العالی: ہم ا س لٹریری ایسوسی ایشن کے ارکان جو جناب کے اسم گرامی سے منسوب ہے آپ کو امروزہ آمد کی تقریب سعید پر اپنے انتہائی جذبت مسرت و امتنان کااظہار کرتے ہیں۔ ہمارا احساس ہے کہ جناب نے دنیا کو ایک ایسا پر امید پیغام دیا ہے جو اس کو یاس و نومیدی کی موجودہ حالت سے نجات دے سکتا ہے لیکن ہم یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ ابھی اس پیغام کی وہ اشاعت و توضیح نہیں ہوئی جس کا وہ مستحق ہے ۔ ابھی دنیا اس کی گہرائیوں تک نہیںپہنچی اوراسے جناب کے کلام کے پیغمبرانہ ارشادات اور ہمت افزاپہلوئوں کا احساس نہیںہوا۔ اس لیے ہمارا نصب العین یہ ہے کہ اہل مشرق بیداری کی اس صدائے پیہم کے مطالعے اور تفہیم میں اہل مغرب کی امداد کریں۔ جناب والا! آ پ جہاںعصر جدید کے ایک بلند بانگ پیغام رساں ہیں وہاں ماضی کی عظمت رفتہ کی شوکت کے افسانہ خواں بھی ہیں۔ ہمارے بہت سے رہنمائوں نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ انہوںنے آپ کی ہدایت و رہنمائی سے عرفان نفس حاصل کر لیا ہے۔ آپ ہمارے اہل فکرکو غفلت کی گہری نیند سے بیدار کرنے اور عام تماشائیوں میں اضطراب و ہیجان پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ آپ نے دنیا کے سامنے اس کے ذہنی‘ اقتصادی اور معاشرتی مسائل کی کلید پیش کی ہے۔ آپ نے تخیل کی دنیا میں انقلاب پیدا کرکے اور شعر کو عمیق خیالات و جذبات کا آلہ بنا کر شاعری پر احسان عظیم کیا ہے۔ مشرق و مغرب کا وہ فلسفہ جس کو اب تک اس کے عالموں نے بلا شرکت غیرے اپنی ملکیت بنا رکھا تھا‘ آپ نے اس کو دلفریب اشعار اور سرود و آہنگ کے قالب میںڈھال کر عامتہ الناس کی دلفریبی اور فکر اندوزی کا ذریعہ بنادیا ہے۔ آپ کی ساری حیات ادبی اس بے پناہ ملحدانہ مادیت کے خلاف ایک جرات آموز جہاد ہے۔ جس نے قوم پرستی کے لباس میں مغرب کی تمام قوتوں کو اپنا غلام بنا رکھا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ عصر حاضر کے کسی مصنف نے اس جہاد میں آپ سے زیادہ جسارت سے کا م نہیں لیا ۔ تمام جلیل القدر مطمئن فکر کی طرح جو اپنے زمانے سے بہت آگے نظر ڈالنے کے خوگر ہوتے ہیں آپ نے ہمیشہ ایسے انسانوں کے فقدان پر اظہار تاسف کیا ہے جو آپ کے بلند تخیلات کے معنی سمجھ سکیں لیکن ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ جن اسرار حیات کا آپ نے انکشاف کیا ہے ان سے اب آہستہ آہستہ لوگ آشنا ہونے لگے ہیں۔ آپ نے اپنے اشعار میں جن بلند نظریات کو پیش کیا ہے اور ان نظریات کو نثری روپ میں ایک فلسفی کی حیثیت سے پیش کیا ہے وہ اپنا اثر کر رہے ہیں اور ان تخیلات کی آخری ظفر مندی میں اب کوئی شبہ باقی نہیں رہا۔ ہمارا فرض اور حق ہے کہ ہم ان یخیلات کی تفسیر میں اپنی قوم اور دنیا کی دوسری اقوام کی امداد کریں آپ کے تمام مداحوں کی دلی دعا ہے کہ آپ مدت دراز تک علم و دانش کا نور پھیلاتے رہیں اور انسانی زندگی کو بہتر مدارج ارتقاء تک پہنچانے کی ہدایت کرتے رہیں (۱)۔ علامہ اقبال کی تقریر ایڈریس کے خاتمے پر حضرت علامہ نے رسمی شکریہ ادا کرنے کے بعد فرمایا: ۱۹۰۵ء میں میںجب انگلستان آیاتھا تومیں محسوس کر چکا تھا کہ مشرقی ادبیات اپنی ظاہر ی دلفریبیوںاور دلکشیوں کے باوجود اس روح سے خالی ہیں۔ جو انسان کے لیے امید ہمت اور جرت عمل کا پیغام ہوتی ہے۔ اور جسے زندگی کے جو ش اور ولولے سے تعبیر کرنا چاہیے۔ یہاں پہنچ کر یورپی ادبیات پر نظر ڈالی جائے تو وہ اگرچہ ہمت افروز نظر آئیں گے لیکن ان کے مقابلے کے لیے سائنس تھی جو ان کو افسردہ بنا رہی تھی۔ ۱۹۰۸ء میں انگلستان سے واپس گیا تومیرے نزدیک یورپی ادبیات کی حیثیت بھی تقریباً وہی تھی جو مشرقی ادبیات کی تھی ۔ ان حالات سے میرے دل میں کشمکش پیدا ہوئی کہ ان ادبیات کے متعلق اپنی رائے ظاہر کرنی چاہیے۔ اوران میں روح پیدا کرنے کے لیے کوئی نیا سرمایہ حیات فراہم کرنا چاہیے۔ میںاپنے وطن گیا تو یہ کشمکش میرے دل میں جاری تھی اور میںاس درجہ منہمک تھا کہ دو تین سال تک میرے عزیز دوستوں کو بھی علم نہ تھا کہ میں کیا کر رہاہوں۔ ۱۹۱۰ء میں میری اندرونی کشمکش کا ایک حد تک خاتمہ ہوا اور میں نے فیصلہ کیا کہ اپنے خیالات ظاہر کر دینے چاہیے لیکن اندیشہ تھا کہ ان سے غلط فہمیاں پیدا ہوں گی۔ بہرحال میں نے ۱۹۱۰ء میں اپنے خیالات کو مدنظر رکھ کر اپنی مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ لکھنی شروع کی۔ اردو کو چھوڑ کر فارسی میںشعر کہنا شروع کرنے کے متعلق اب تک مختلف لوگوں نے مختلف توجیہات پیش کی ہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آج میں یہ راز بھی بتا دوں کہ میں نے کیوں فارسی زبان میں شعر کہنے شروع کیے ۔ بعض اصحاب خیال کرتے ہیں کہ فارسی زبان میں نے اس لیے اختیار کی کہ میرے خیالات زیادہ وسیع حلقے تک پہنچ سکیں۔ حالانکہ میرا مقصد اس کے بالکل برعکس تھا۔ میںنے اپنی مثنوی اسرار خودی ابتداً صرف ہندوستان کے لیے لکھی تھی اور ہندوستان میں فارسی سمجھھنے والے بہت کم تھے ۔ میری غرض یہ تھی کہ جو خیالات میں باہر پہنچانا چاہتا ہوں وہ کم از کم حلقے تک پہنچیں۔ اس وقت مجھے یہ خیال بھی نہ تھاکہ یہ مثنوی ہندوستان کی سرحدوں سے باہر جائے گی یا سمندر کا سینہ چیر کر یہ یورپ پہنچ جائے گی۔ بلاشبہ یہ صحیح ہے کہ اس کے بعد فارسی کی دلکشی نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا اور میں اسی زبان میں شعر کہتا رہا۔ میں نے جو خیالات ظاہر کیے تھے۔ ان پر ابتدا میں بہت سے اعتراض ہوئے حتیٰ کہ میری نسبت کہا گیا کہ میں دہریت کی تبلیغ کر رہا ہوں اور یہ اعتراض مسیحی کلیسا کے ایک رئیس کی طرف سے پیش ہوا۔ سائنس کے مقابلے میں یورپی ادبیات کی کمزوری اور انحطاط کا مجھے جو احساس ہوا اسے میں نے مختلف اشعار میں پیش کیا ہے مثلاً عشق ناپید خرد مے گزدش صورت مار گرچہ درکاسہ زر لعل روانے دارد آخر میں آپ نے فرمایا کہ میں مکرر آ پ حضرت کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور خوش ہوں کہ اگرچہ میرے ساتھ کوئی فوج نہیں ہے‘ تاہم رفقا کی ایک کثیر جماعت میرے سامنے ہے۔ آپ اپنی تعداد کو بڑھایے۔ میں آپ کو وہی نصیحت کرتا ہوں جو میں اپنے فرزند (جاوید اقبال) کو کی ہے یعنی: کم خورد کم خواب و کم گفتار باش گرد خود گر دندہ چوں پرکار باش اور آپ کے سامنے وہی بات دہراتا ہوں جو میں نے صوفیوںسے کہی ہے: زمن گو صوفیان با صفارا خدا جو یان معنی آشنارا غلام ہمت آن خود پرستم کہ بانور خودی بیند خدا را (۲) حضرت علامہ اقبال کے بعدشیخ نور محمد نے ایک تقریر میں آپ کی شاعری کے بعض پہلو واضح کیے۔ پھر علامہ عبداللہ یوسف علی نے ایک نہایت عمدہ اور موزوں تقریر کی۔ آپ نے ’’بانگ درا‘‘ سے ایک شوریدہ خواب گاہ نبیؐ پہ رو رو کے کہہ رہا تھا (۳) والی نظم پڑھی اور اس کی تشریح کے ضمن میں حضرت علامہ اقبال کے اچھوتے اسلوب بیان کے متعلق بعض نکات واضح کیے۔ پھر فرمایا کہ ۴ نومبر کو میں نے حضرت علامہ کو فرانس کے ایک ڈرامہ نگار اور شاعر سے تشبیہہ دی تھی ۔ آج میں ایک جرمن مصنف کا نام پیش کرتا ہوں جو اس اعتبار سے ڈاکٹر اقبال سے بہت مشابہت رکھتا ہے۔ کہ وہ جرمنی میں یاس و نومیدی کے دور میں پیدا ہوا اور اس نے اپنی تحریروں کے ذریعے قوم کی ہمت بندھائی یعنی نیطشے۔ مسٹر عبداللہ یوسف علی نے آخر میں کہا کہ اقبال لٹریری ایسوسی ایشن کے ذریعے سے ہم سب اقبال کے خیالات کو یہاں کی دنیا تک پہنچاسکتے ہیں۔ اور اس ذریعہ سے ہندوستان اور یورپ کے مابین مفاہمت کی نہایت عمدہ فضا پیداکر سکتے ہیں۔ آخر میں مسز سروجنی نائیڈو نے ایک نہایت دلکش تقریر کی۔ اس موقع پر آپ نے اقبال کو ایشا کا ملک الشعراء قرار دیا تھا۔ اور فرمایا کہ میرے نزدیک اقبال اس متحدہ ہندوستان کا نشان ہیں جس پر دنیا کی امید اور امن عالم کا قیام ہے۔ (۴) پھر سرآغا خاں نے اقبال لٹریری ایسوسی ایشن کی کامیابی کی توقع ظاہر کی۔ صاحب صدر سر عبدالقادر نے اپنی اختتامی تقریر میں فرمایا۔ اقبال لٹریری ایسوسی ایشن کی یہ انتہائی خوش قسمتی یہ کہ اس کے افتتاح کے موقع پر وہ شخصیت موجود ہے جس کے نام پر یہ ایسوسی ایشن بنی ہے۔ رسمی شکریہ کے بعد یہ شاندار تقریب ختم ہوئی عام حاضرین کا خیال تھا کہ ایسی شاندار اور کامیاب تقریبیں لندن میںبہت کم دیکھی گئی تھیں۔ (۵) ٭٭٭ حواشی ۱۔ یہ ایڈریس اقبال لٹریری ایسوسی ایشن کے ارکان نے حاضرین میںچھپواکر تقسیم کیا تھا لیکن اقبال کی خدمت میںاسے نہایت عمدہ طریق میں چھپوا کر پرتکلف فریم میں پیش کیا گیا تھا ۔ ۲۔ پیام مشرق ۔ ص ۵۶ کلیات اقبال فارسی ص ۲۳۲۔ اقبال اکادمی پاکستان لاہور نیشنل بک فائونڈیشن اسلام آباد۔ ۱۹۹۰ء پیام مشرق۔ از اقبال ۔ ص ۶۷۔ اشاعت اول ۱۹۲۲ء ۳۔ بانگ درا۔ ص ۱۷۳۔ کلیات اقبال اردو۔ ص ۱۸۹۔ ۱۹۹۰ء ۴۔ انقلاب ۔ جلد ۶ نمبر ۱۴۲۔ سہ شنبہ ۔ ۱۰ نومبر ۱۹۳۱ء ۵۔ مکتوب مہر ۔ انقلاب ۔ جلد ۶ ۔ نمبر ۱۵۲۔ شنبہ ۔ ۲۱ نومبر ۱۹۳۱ء ٭٭٭ کیمبرج میں تقریر قیام لندن کے دوران حضرت علامہ کو کئی بار دعوت دی گئی کہ آپ کمبرج آ کر خطاب فرمائیں لیکن گول میز کانفرنس میں مصروف رہنے کی وجہ سے آپ وقت نہ نکال سکے۔ آخر پیہم اصرار کے بعد یہ طے ہوا کہ آپ ۱۸ نومبر کو مادر علمی کیمبرج روانہ ہوں گے۔ اس روز مولانا مہر اور مولانا محمد شفیع دائودی بھی اقبا ل کے ساتھ گئے تھے۔ مولانا شوکت علی اور ان کے صاحبزادے زاہد علی کا بھی کیمبرج پہنچنے کا ارادہ تھا لیکن مولانا شوکت علی اس روز نہ جا سکے۔ ۱۸ نومبر ۱۹۳۱ء کو دن کے دو بجے یہ حضرات کیمبرج پہنچے ۔ اس وقت بارش ہو رہی تھی۔ آپ حضرات کے استقبال کے لیے چودھری رحمت علی ‘ خواجہ عبدالرحیم اور متعدد دیگر افراد تشریف لائے پونے پانچ بجے اقبال کے اعزا ز میں چائے پارٹی کا انتظام کیا گیا۔ درمیانی وقفہ میں آ پ نے اپنے اساتذہ پروفیسر سارلے اور پروفیسر ڈکسن سے ملاقات کی۔ ٹی پارٹی کا اہتمام یونیورسٹی آرمز ہوسٹل میںکیا گیا تھا۔ اس میں بہت سے اصحاب مدعو تھے یونیورسٹی کے اساتذہ میں پروفیسر سارلے‘ ڈاکٹر نکلسن‘ پروفیسر لیوی‘ پروفیسر بریتھ ویٹ پروفیسر ایلیکس وڈ ‘ پروفیسر لیفن وغیرہ مدعو تھے ۔ سب سے پہلے مصر کے ڈاکٹر سلیمان نے اس تقریب کے بارے میں چند الفاظ کہے اور اقبال اور دیگر مہمانوں کا تعارف کرایا۔ ڈاکٹر سلیمان انٹرنیشنل مسلم ایسوسی ایشن کے صدر تھے۔ اس تعارف کے بعدپروفیسر سارلے نے تقریر کی اور فرمایا: آج سے پچیس سال قبل جب ڈاکٹر سر محمد اقبال کیمبرج میں پڑھتے تھے تو اگرچہ وہ زیادہ بولتے نہیں تھے اور خاموش سے رہتے تھے۔ لیکن کیمبرج سے جا کر انہوں نے جو عظمت اور شہرت حاصلکی وہ ہمارے لیے تعجب انگیز نہ تھی‘ اس لیے کہ ہم طالب علمی کے زمانے سے جانتے تھے کہ ان میں جوہر خاص موجود ہیں اور یہ جوہر ضرورچمکیں گے۔ پروفیسر سارلے کے بعد ڈاکٹر نکلسن اور پروفیسر لیوی نے مختصر تقریریں کیں۔ ان تقاریر کے بعد اقبال نے خطاب کیا۔ آپ نے اس اعزاز کا شکریہ ادا کیا اور اس با ت پر افسوس کا اظہار کیا کہ آج کی صحبت میںپروفیسر برائون اور پروفیسر میکیگرٹ موجود نہیں پھر فرمایا: کانفرنس کے کام میں ان کی شرکت بلاواسطہ نہیں بالواسطہ ہے۔ یہاں ہندوستان کی مختلف قوموں کی تقدیروں کافیصلہ ہو رہا تھا۔ میں نے ضروری سمجھاکہ اس کام میں شریک ہو کر میں بھی اپنے رفقا کا ہاتھ بٹائوں۔ جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ میں انہتائی رنج و افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ باہمی گفتگوئوں میں ہم کسی فیصلہ پر نہیں پہنچ سکے اور ہم میں اتحاد نہیں ہو سکا۔ میں ان نوجوانوں کو جو کیمبرج میں اس وقت تعلیم پا رہے ہیں چند نصیحتیں کرنا چاہتا ہوں۔ کیمبرج وہ سرچشمہ علم وفضل ہے جس نے یورپی تہذیب و تمدن کی ترکیب میں سب سے زیادہ حصہ لیا ہے۔ میں نوجوانوںکو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ دہریت اور مادیت سے بچیں۔ اہل یورپ کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوںنے مذہب و حکومت کو علیحدہ علیحدہ کر دیا اس طرح ان کی تہذیب روح اخلاق سے محروم ہو گئی اور اس کا رخ دہریانہ مادیت کی طرف پھر گیا۔ میرا عقیدہ ہے کہ انسانی انا کائنات کا مرکز ہے۔ یہ اولین نقطہ نظر ہے فلسفی کثرت سے وحدت کی طرف آئے ۔ صحیح راستہ یہ ہے کہ وحدت سے کثرت کی طرف جائیں (۱)۔ میں نے آج سے پچیس سال پہلے اس تہذیب کی یہ خرابیاں دیکھی تھیں تو اس کے انجام کے متعلق بعض پیش گوئیاں کی تھیں۔ میری زبان پر وہ پیپش گوئیاں جاری ہو گئیں اگرچہ میں خود بھی ان کا مطلب نہیں سمجھتا تھا (۲) یہ ۱۹۰۸ء کی بات ہے اس سے چھ سال بعد یعنی ۱۹۱۴ء میں میری یہ پیش گوئیاں حرف بہ حرف پوری ہو گئیں۔ ۱۹۱۴ء کی جنگ یورپ دراصل یورپ کی اس غلطی کا نتیجہ تھی جس کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں۔ یعنی مذہب و حکومت کی علیحدگی اور دہریانہ مادیت کا ظہور۔ بالشوزیم مذہب و حکومت کی علیحدگی کا ایک طبعی نتیجہ ہے۔ میں نوجوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ مادیت سے بچیں۔ چند روز قبل انگریز خواتین کے ایک بہت بڑے مجمع میں مجھ سے کہا گیا تھا کہ میں عورتوں کو کوئی نصیحت کروں۔ میں نے انہیں کہا تھا کہ انگریز عورتوں کا سب سے پہلااور سب سے اہم فرض یہ ہے کہ وہ آئندہ نسل کو دہریانہ مادیت کے چنگل سے محفوظ کریں۔ مذہب بے حد ضروری چیز ہے ۔ مذہب عرفان و ایقان کا نام ہے… (۳) فلاسفروں نے کیا کہا؟ وحدت بھی حقیقت ہے اور کثرت بھی حقیقت ہے کثرت کو بے وجود سمجھ کر وحدت پر زور دینے سے کوئی مفید نتیجہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ ہندوستان کے سیاسی حالات پر بھی ی نظریہ کلیتاً منطبق ہوتا ہے کہ ہمیں ماننا چاہیے کہ ہم ایک نہیں متعدد قومیں ہیں (۴) یہ ایک حقیقت ہے جسے محض یہ کہہ کر بے حقیقت نہیں بنایا جا سکتا کہ ہم ایک ہیں۔ ہندوستان کی مختلف قوموں کے صحیح اتحاد کی صورت حال یہی ہے کہ ان کے کلچروں کی محفوظیت کا یقین دلایا جائے اور اس طرح ان میں ایک دوسرے پر اعتما د کا جذبہ پیدا کر کے ملنے اور متفق ہونے کا موقع پیدا کیا جائے۔ حضرت علامہ کی تقریر کے دوران بار بار چیئر ز ہوتے رہے۔ آخر میں مختلف طلبہ نے مسئلہ انا یا خودی مذہب اور سیاسیات ہند کے متعلق اقبال سے مختلف سوالات کیے جن میںنہایت عمدہ جوابا ت دیے گئے۔ جلسہ ختم ہونے کے بعد چودھری رحمت علی اور خواجہ عبدالرحیم نے پر تکلف کھانا کھلایا۔ ساڑھے سات بجے شام کو آپ حضرت کیمبرج سے روانہ ہوئے اور دس بجے کے قریب لندن پہنچے۔ (۵) ٭٭٭ حواشی ۱۔ اس ضمن میں اقبال کی مارچ ۱۹۰۷ ء کی ایک غزل کے مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ کریں: دیار مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہو گا تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہو گا سفینہ برگ گل بنا لے گا قافلہ مور ناتواں کا ہزار موجوں کی ہوکشاکش مگر یہ دریا سے پار ہو گا (بانگ درا۔ ص ۱۵۱۔ کلیات اقبال اردو ۔ ص ۱۶۷) ۲۔ یہ جملے اصل متن میں موجود نہیں تھے انہیں راقم نے مولانا مہر کی ڈائری سے نقل کیا تھا۔ ۳۔ چند جملے پڑھے نہ جا سکے۔ ۴۔ چند حروف مٹ گئے تھے ۔ قیاسی اضافہ از راقم۔ ۵۔ مکتوب مہر۔ انقلاب جلد ۶۔ نمبر ۱۶۷۔ پنج شنبہ ۔ ۱۰ دسمبر ۱۹۳۱ء ٭٭٭ اقبال کی سیاسی سرگرمیاں گول میز کانفرنس کے مندوبین کا انتخاب برطانوی حکومت نے اپنی مصلحتوں کے پیش نظر کیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ دوسری گول میز کانفرنس کا اجلاس نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ گو ل میز کانفرنس کے مختلف فرقوں کے نمائندے کسی ایک مسئلے پر بھی متفق نہ تھے۔ برطانوی حکومت اور ہندو مندوبین مسلم مطالبات ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ اقبال اس صورت حال سے بہت مایوس ہوئے اور عبداللہ ہارون کے نام ۱۶ جنوری ۱۹۳۲ء کو ایک خط میں اقبال نے تحریر کیا تھا کہ میںافسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ انگلستان میں مسلم مطالبات پیش کرتے وقت میں بے حد مایوس تھا اور ذہن کی یہ کیفیت اب تک برقرار ہے۔ (۱) ایک اور موقع پر اقبال نے دوسری گول میز کانفرنس کے طریق نامزدگی اور انگریزوں اور ہندوئوں کی سازشوں کے بارے میں فرمایا۔ مسلمان مندوبین میں اگرچہ کامل اتحاد تھا بایں ہمہ وہ پورے طور پر قوم کی نمائندگی نہیں کر سکے۔ ان کا انتخاب اس بنا پر کیا گیا تھا کہ ہر فریق کی نیابت ہو جائے لہٰذا ان میں بعض کی موجودگی گویا برائے بیت تھی۔ غنیمت ہے کہ مسلمانوں کا اتحاد قائم رہا ورنہ انگریزوں اور ہندوئوں کی ریشہ دوانیاں جاری تھیں۔ (۲) مسلمانوں اور ہندوئو ں میںایسا کوئی سمجھوتہ نہ ہونے کی بڑی وجہ ہندو مہا سبھا کے قائدین اور سکھ مندوبین تھے۔ ڈاکٹر مونجے اور سردار اجل سنگھ نے مہاتما گاندھی پر اثر انداز ہو کر مسلمانوں کے مطالبات نظر انداز کر دیے۔ درحقیقت قومیت کا جو تصور انگریزوں اور ہند و لیڈروں کو محبوب و مرغوب تھا۔ وہ مسلمانوں کی اکثریت کے لیے ناپسندیدہ تھا۔ مسلمان اپنے حقوق کے تحفظ کے بعد ہی کانگرس کی جدوجہد آزادی میں شریک ہو سکتے تھے۔ آئے دن کے فرقہ وارانہ فسادات‘ ایک دوسرے کی دل آزادی مسلمان بزرگوں اور پیغمبر اسلام کی توہین سے متحدہ قومیت کے تصور پر ضرب کاری لگتی تھی۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں رائج استحصالی نظام سے مسلمان سیاسی ثقافتی اور اقتصادی طور پر پسماندگی کا شکار تھے اور مسلمان قائدین یہ چاہتے تھے کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان آبرومندانہ سمجھوتہ ہو جائے اور جن علاقوں میں مسلمان اکثریت میں تھے ان علاقوں میں ان کی آئینی طور پر اکثریت ہو اور اسی تناسب سے قانون ساز اداروں میں نمائندگی ہو لیکن ان کی مفاہمت کی ہر کاو ش کو ہندو زعما اور گاندھی جی نے ٹھکرا دیا۔ اس صورت حال کے متعلق اقبال نے ۶ دسمبر ۱۹۳۳ء کو ایک بیان دیا آپ نے یہ بیان پنڈت جواہر لال نہرو کے الزامات کے جواب میں دیا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ محسوس ہوتاہے کہ وہ گزشتہ تین سالوں میں لندن میں ہونے والی گول میز کانفرنس میںمسلم مندوبین کے رویے کے متعلق حقائق سے واقف نہیں۔ انہیں یقین دلایا گیا کہ گاندھی جی نے ذاتی طو ر پر مسلمانوں کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے تھے بشرطیکہ مسلمان جدوجہد آزادی میں بھرپور تعاون کا یقین دلائیں لیکن مسلمانوں کی فرقہ پرستی بلکہ رجعت پسندی اس تجویز کے آڑے آئی جو کچھ لندن میںہوا یہ بیان اس کے بالکل خلاف ہے۔ پنڈت جی نے جناب آغا خاں کو مسلمانو ں میں سیاسی رجعت پسندی کا محرک اعلیٰ قرار دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ آغا خاں نے میرے اور ہبت سے ہندوستانی مندوبین کے سامنے گاندھی جی کو یقین دلایا تھا کہ اگر ہندو کانگرس مسلم مطالبات سے متفق ہو جائے تو مسلمان گاندھی کی سیاسی جدوجہد میں خیمہ بردار کی حیثیت سے شریک ہو جائیں گے۔ گاندھی جی نے ان الفاظ کو پرکھا اورمسلم مطالبات کو مان لینے کی تجویز بعد میں ظاہر ہوئی ۔ یہ پیشکش بھی بہت سی شرطوں میں محصور تھی۔ پہلی شرط تو یہ تھی کہ گاندھی جی ذاتی طورپر مسلم مطالبات تسلیم کر لیں گے۔ اور اس کے بعد کوشش کریں گے کہ کانگرس بھی ان کو مان لے ۔ لیکن کانگرس کی رضامندی کی ضمانت نہ تھی۔ میں نے ان سے یہ عرض کیا کہ وہ کانگرس کی مجلس عاملہ کو تار دے کر اس پیش کش کے لیے ان کی رضامندی حاصل کر لیں۔ انہوںنے فرمایا کہ وہ جانتے تھے کہ کانگرس اس مسئلہ پر انہیں اختیار کل دینے پر آمادہ نہ ہو گی۔ پنڈت جواہر لال نہرو باسانی مسز سروجنی نائیڈو سے پوچھ سکتے ہیں کہ جو اس وقت میرے پاس بیٹھی تھیں ارو ان کے گاندھی جی سے متعلق تاثرات بھی مجھ جیسے تھے۔ گاندھی جی سے دریافت کیا گیا کہ وہ بدرجہ آخر ہندو اور سکھ مندوبین سے استفسار کریں۔ انہوںنے استفسار کیا اور انکی رضامندی کے حصول میں ناکام رہے اورنجی طور پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا۔ گاندھی جی کی دوسری نہایت غیر منصفانہ شرط یہ تھی کہ مسلمان اچھوتوں کے خاص مطالبات بالخصوص نیابت جداگانہ کی حمایت نہ کریں۔ انہیںسمجھایا کہ مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اچھوتوں کے مطالبات کی مخالفت کریں جن کے لیے وہ خود جدوجہد کر رہے تھے۔ اگر گاندھی جی اچھوتوں کے ساتھ باہم سمجھوتہ کر لیں تو مسلمان ان کے آڑے نہ آئیں گے۔ گاندھی جی نے بہرحال اس شرط پر اصرار کیا۔ میں یہ جاننا چاہوں گا کہ پنڈت جواہر لال نہرو اپنے معروف سوشلسٹ خیالات رکھتے ہوئے اس غیر انسانی شرط کی کس حد تک حمایت کریں گے۔ یہ تھی ان مذاکرات کی پوشیدہ تاریخ جو مسلم مندوبین اور گاندھی جی کے درمیان ہوئے تھے۔ میں اس کا فیصلہ پنڈت جواہر لال نہرو پر چھوڑتا ہوں کہ آیا ان مذاکرات کے نتائج کے ذمہ دار مسلمانوں کے نام نہاد سیاسی رجعت پسندی تھی یا اغیارکی سیاسی تنگ نظری (۳)۔ اقبال گول میز کانفرنس کی صورت حال سے کافی مایوس ہوئے تھے اور ان کی یہ کیفیت ہندوستان واپس آنے کے بعد بھی قائم رہی تھی۔ ۹ مارچ ۱۹۳۲ء کو اقبال مولانا غلام رسول مہر کے ساتھ سر میاں فضل حسین سے ملے تو انہوںنے گول میز کانفرنس کی مذمت کی تھی (۴)۔ گول میز کانفرنس کی کارروائی میں عدم دلچسپی اورمایوسی کے باوجود اقبال نے قیام لندن کے دوران ہر ممکن طریقے سے ملک و قوم کی خدمت کی۔ برطانوی حکام سے انہوںنے حیدر آباد دکن کو ڈومینیں اسٹیٹس دلوانے کی با ت چیت کی مگر سر اکبر حیدری نے ا ن کی تجویز کی مخالفت کی تھی۔ (۵) اقبال نے ایک موقعہ پر گول میز کانفرنس کی کارروائی کے متعلق فرمایا کہ اقلیتی کمیٹی کے دو اجلاس ۲۸ ستمبر اوریکم اکتوبر ۱۹۳۱ء کو منتعقد ہوئے تھے۔ ان دونوں مواقع پر اجلاس فرقہ وارانہ تصفیہ کے لیے ملتوی ہو گئے ۔ مہاتما نے پہلے یہ فرمایا کہ معاملات اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتے جب تک مسلم وفد ڈاکٹر انصاری کی شمولیت سے پابندی نہ ہٹا لے۔ اس میں ناکامی کے بعد انہوںنے مسلم وفد کو یہ باور کرایا کہ وہ ذاتی طور پر مسلم مطالبات سے متفق ہوں گے اور کانگرس ہندوئوں اور سکھوں سے ان کو منوائیں گے ۔ اگر مسلمان تین شرائط مان لیں (الف) بالغ رائے دہی۔ (ب) اچھوتوں کے لیے نیابت خصوصی سے انکار (ج) اور کانگرس کے مطالبہ کامل آزادی کی حمایت۔ مہاتما نے اس معاملے کو کانگرس میں پیش کرنے سے انکار کر دیا اور ہندوئوںاور سکھوں سے بھی مسلم مطالبات کی تائید کے حصول میں ناکام رہے۔ ۷ اکتوبر کو دو ممتاز ہندو قائدین نے یہ تجویز کیا کہ یہ معاملہ سات ثالثوں کی جماعت کے سپرد کر دیا جائے۔ یہ بھی ہندو اور سکھ مندوبین نے مسترد کر دیا۔ ۸ اکتوبر کو دو ممتاز ہندو قائدین نے یہ تجویز کیا کہ یہ معاملہ سات ثالثوں کی جماعت کے سپرد کر دیا جائے۔ یہ بھی ہندو اورسکھ مندوبین نے مسترد کر دیا۔ ۹ اکتوبر کو اقلیتی کمیٹی کا اجلاس ہوا اس موقع پر مہاتما گاندھی نے حکومت برطانیہ پر الزام لگایا کہ اس نے دانستہ عوام کے غیر منتخب نمائندوں چنے تا کہ فرقہ وارانہ تصفیہ ہو سکے۔ مسلم وفدکی جانب سے مرحوم سر محمد شفیع نے مہاتما کی اس غیر ضروری بہتان کی جس میں ارکان کی مستخبانہ حیثیت پر نکتہ چینی کی گئی تھی تردید کی اور ان پیش کردہ تجاویز کی مخالفت کی۔ یہ اجلاس اختتام کو پہنچا تو برطانوی انتخابات کی بنا پر ۱۲ نومبر تک دوبارہ اجلا س نہ ہو سکا۔ ا س دوران میں ۱۵ اکتوبر کو نجی گفتگو ہوئی۔ اس وقت ایک اہم بحث ہوئی۔ جس کا تعلق سر جیوفرے کاربٹ کی پنجابی سکیم سے تھا۔ یہ اسکیم بہت حد تک اس تجویز سے مشابہ تھی جو میں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے خطبے میں پیش کی تھی۔ اس میں ضلع انبالہ کے پنجاب سے استثنی کے بعد صوبے میں مخلوط انتخابات کو رائج کرنا تھا۔ یہ اسکیم بھی ان ہندو اور سکھ نمائندگان نے مسترد کر دی جنہیں پنجاب میں مسلم اکثریت مخلوط انتخابات کے بعد بھی گوارا نہ تھی۔ یہ مباحث بھی ناکام رہے۔ ہندی اقلیتوں کے نمائندگان جو ملک کی تقریباً نصف آبدی کے نمائندے تھے انہوںنے ہندی اکثریتی معاہدے کی تشکیل کے لیے باہم مشورہ کیا۔ ۱۲ نومبر کو سکھوں کے سوا تمام اقلیتوں نے ایک معاہدے پر دستخط کیے اور جسے رسمی طور پر ۱۳ نومبر کو اقلیتی کمیٹی کے آخری اجلاس میں وزیر اعظم کے سپرد کیا گیا۔ ہماری غیر رسمی گفت و شنید کا یہ مختصر سا جائزہ بہت کچھ وضاحت کرتا ہے ۔ یہ تو ظاہر ہے کہ ہمارے مندوبین نے فرقہ وارانہ تصفیے کے لیے اپنی طرف سے زبردست کوشش کی تھی۔ لیکن ایک بات جو میرے لیے اب تک راز ہے اور غالباً ہمیشہ را ز رہے گی وہ ہمارے نمائندوں کا ۲۶ نومبر (۶) کا اعلان تھا جو انہوںنے وفاقی ڈھانچہ کمیٹی کے اجلاس میں کیا تھا۔ جس کی رو سے وہ صوبائی خودمختاری اور مرکزی ذمہ داری کے بیک وقت نفاذ پر آمادہ ہو گئے تھے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آیا اس کی وجہ مفاہمت اور ملک کی سیاسی ترقی کے لیے ان ک ی بے چینی تھی یا کچھ متضقاد اثرات ان پر اثر انداز ہوئے۔ ۱۵ نومبر کو جب میں نے مسلم وفد سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا تو مسلم مندوبین نے طے کیا کہ وہ وفاقی ڈھانچہ کمیٹی کے مباحث میں شریک نہ ہوں پھر انہوں نے اپنے فیصلے کے برخلا ف ان مباحث میں کیوں حصہ لیا؟ آیا وفاقی ڈھانچہ کمیٹی میں ہمارے نمائندے ۲۶ نومبر کے اعلان کا مجاز رکھتے تھے ؟ میں ان سوالات کا جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں لیکن میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ مسلم قوم اس اعلان کو زبردست غلطی تصور کرتی ہے۔ بلاشبہ یہ کانفرنس اس اہم معاملے میں اپنی محکم رائے کا اظہار کرے گی۔ میں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے خطبے میں کل ہندو فا ق کے تصور کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ یہ ند کی سیاسی ترقی کے لیے رکاوٹ بن رہا ہے۔ اگر مرکزی ذمہ داری کا اطلاق کل ہندو وفاق کی تکمیل پر ہے جو مجھے اندیشہ ہے کہ کافی وقت لے گا تو میں اس صورت میںحکومت کو چاہیے کہ فوراً ذمہ دار حکومت رائج کریں تاکہ مرکزی ذمہ داری کے حصول تک ان بنیادوں کا تجربہ ہو جائے جن کا خاکہ بن چکا ہے اور وہ وفاق کا بھاری بھرکم بوجھ سبنھالنے کے لائق ہو سکیں۔ حقیقی جدید وفاقی ریاست کے حصول سے قبل یہ اہم بنیادی کام بے حد ضروری ہے۔ وفد سے الگ ہونے سے چند روز پہلے مجھے یہ شبہ ہوا تھا اور میں چند وجوہ کی بنیادپر یہ باور کرتا ہوں کہ ہمارے نمائندوں کو کچھ انگریز سیاستدانوں نے غلط مشوروں سے نوازکر برطانوی ہند کے صوبوں میں ذمہ دار حکومت کے فوری نفاذ سے روکا تھا۔ حال ہی میں لفسیٹ کمانڈر کین ورتھی نے بھی اسی خیال کا اظہا ر کیا ہے آپ فرماتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ لندن میں معتدل مزاج قائدین کو بعض انگریز سیاستدانوں نے اس مسئلے میں غلط مشوروں سے نوازا تھا۔ انہوںنے بہ عجلت ان پر کان دھرا اور صوبائی خود مختاری کی بڑی شق کو رد کر دیا۔ عجیب و غریب بات یہ ہے کہ مہامتا بظاہر ہمدردانہ اس شق پر غور کرنے کے لیے آمادہ تھے۔ وہ معتدل مزاج قائدین کو ن ہیں جن کا لفسیٹ کمانڈر نے کنایتاً ذکر کیا۔ سرتیج بہادر سپرو کے لند ن کے رویے اور اب مشاورتی کمیٹی کے صوبائی خود مختاری کے فوری نفاذ کے مطالبے کو دیکھتے ہوئے مندرجہ بالا اقتباس کے مصنف کی مراد ہندو معتدل مزاج نہیںغالباً اس کا مفہوم مسلم معتدل مزاج قائدین ہیں جن کا ۲۶ نومبر کو وفاقی ڈھانچہ کمیٹی کا اعلان ہی برطانوی وزیر اعظم کے اس بیان کا محرک بنا جس میں صوبائی اورمرکزی ذمہ داری کا بیک وقت نفاذ عمل میں آیا۔ چونکہ صوبوں میں فوری طورپر ذمہ دار حکومتوں کے قیام سے بنگال اور پنجاب میںہماری اکثریت تسلیم کیے جانے کا حتمی اعلان ممکن تھا۔ اس لیے ہمیں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ ہمارے قائدین برطانوی وزیر اعظم کی خاموشی کے اصلاً ذمہ دار ہیں جس کی وجہ سے مسلم قوم ہی کے ذہن میں ہر قسم کے شبہات جنم لے چکے ہیں۔ (۷) اقبال نے لندن کے سیاسی حالات اور گول میز کانفرنس کی کارروائی کے متعلق شیخ عطا محمد کو ۱۵ اکتوبر ۱۹۳۱ء کو تحریر کیا تھا کہ ہندوستان سے اخبار آتے ہیں ۔ عجیب و غریب خبریں اخبارات میں چھپتی ہیں۔ مثلاً پرتاپ میں لکھا ہے کہ مہاتما گاندھی کو شاہی محل میں کمرہ مل گیا ہے اور جب وہ بازار سے گزرتے ہیں تو ہزاروں لوگوں کا ہجوم ان کے گرد ہوتا ہے حالانکہ حال یہ ہے کہ ان کے آنے کا یہاں الٹا اثر ہوا ہے۔ میں نے اسی واسطے لکھا تھا کہ غیر مسلم ذرائع سے جو اخبار آئیں ان پر اعتبار نہ کیا جائے مسلمان ڈیپوٹیشن متحد ہے اور گفتگو مصالحت کے خاتمہ کا الزام ہندوئوں یا سکھوں کے سر ہے۔ اخبار ٹائمز میں مفصل حالات چھپ گئے ہیں ہاں یہ ضرو ر ہے کہ ہندو مسلمانوں کو بدنام کرنے کی ہر ممکن ہوشش کر رہے ہیں۔ مگر برٹش پبلک کو اب ان کے پروپیگنڈے کی اصل حقیقت معلوم ہو گئی ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ عام طور پر ہمدردی ہے نومبر میں مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات یعنی عالم اسلام کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنے کے متعلق انگریزوں کی طرف سے ایک بہت بڑ ی میٹنگ ہو گی جس کے پروپیگنڈے پر ایک ہزار پونڈ خرچ کیا جائے گا۔ فی الحال عام انتخابات پارلیمنٹ کی وجہ سے آفیشل میٹنگ نہیں ہو رہی ۔ ۳ نومبر کو نئی پارلیمنٹ کا اجلاس ہو گا اس کے بعد ہماری کانفرنس کی کارروائی کا آغاز ہو گا۔ اس سے پہلے مینارٹی کمیٹی کا اجلاس دو دفعہ ہوا اور دونوں دفعہ چند منٹ کے بعد اجلاس ملتوی ہو گیا۔ یہاں بھی فرصت کم ہے تمام دن لوگ آتے جاتے رہے (۸)۔ اقبال دوسری گول میز کانفرنس کے مذاکرات سے بیزار ہو چکے تھے۔ اور اس میں مزید حصہ لینے کے لیے تیار نہ تھے۔ ۱۶ نومبر کو آپ لندن سے روانگی کا ارادہ باندھ چکے تھے۔ اس مقصد کے پیش نظر آپ نے سفر کی آئندہ منزلوں کے لیے ٹکٹ بھی خرید لیے تھے۔ ۱۶ نومبر کو آپ نے سر آغا خاں کو مسلم وفد سے الگ ہونے کی اطلاع دینے کے لیے مندرجہ ذیل خط لکھا تھا: سینٹ جیمز پیلس ایس ڈبلیو۔ ۱ ۱۶ نومبر ۱۹۳۱ء ٹیلیفون نمبر۔ جیرارڈ ۷۰۷۰ جناب عالی میں بے پناہ رنج و الم کے ساتھ یہ خط تحریر کر رہا ہوں ۔ میں نے ابتدا میں سے مسلم وفد کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا تھا۔ ارکان کی پوشیدہ مخاصمتیں سازشیں بلکہ بعض حضرات کی عدم وفاداری نے مجھے بہت رنج دیا۔ اس رویے سے مایوس ہونے کے بعد میں بہت افسوس سے آپ کو مطلع کر رہا ہوں کہ آج کے بعد میرا مسلم وفد کی ظلی کابینہ سے کوئی تعلق نہ ہو گا۔ آپ کا مخلص محمد اقبال (۹) اقبال نے ۲۰ نومبر ۱۹۳۱ء کو سر سموئیل ہور وزیر ہند کو اطلاع دی کہ دہلی میں مسلم کانفرنس نے حال ہی میں جو فیصلہ صادر فرمایا ہے اس کے بعد میرا کانفرنس میں شریک رہنا بالکل بے سود ہے(۱۰)۔ گول میز کانفرنس کے اجلاس سینٹ جیمز پیلس (۱۱) میں ہوتے تھے اس کے قریب ہی بیشتر مندوبین کی رہائش تھی۔ اس زمانے میں کشمیر میں ریاستی نظام کے خلاف مظلوم عوام کی جانب سے تحریک چل رہی تھی۔ اور ریاست کے حکام مسلمانوں پربے پناہ ظلم کر رہے تھے۔ کشمیر کے ہندو مہاراجہ کے خلاف چند ماہ قبل مظلوم مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ شملہ میں کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں آیاتھا جس سے اقبال بھی رکن تھے۔ کشمیر میں شورش کا آگاز ۱۳ جولائی ۱۹۳۱ کو ہوا تھا۔ کشمیری مسلمان تعلیم اور روزگار میں ہندو اقلیت کے مقابلے میں بہت پیچھے تھے۔ مذہبی آزادی مفقود تھی۔ ان کے لیڈر جیل میں تھے اور کارکنوں اور عوام پر تشدد کی انتہا تھی ۔ اقبال نے ان مظلومین کے لیے چندہ جمع کیا کشمیر کمیٹی کے ذریعہ آئینی طور پر مسلمانان کشمیر کی مدد کی گئی۔ ریاست میں سیاسی سماجی‘ اور اقتصادی اصلاحات کے نفاذ کے لیے ہر ممکن طریقہ استعمال کیا گیا اقبال نے اپنے بعض ساتھی وکلا کو کشمیریوں کی قانونی امداد کے لیے وادی بھیجا۔ اقبال پر کشمیر میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اقبال اور ان کے ساتھیوں کی کوشش سے کشمیر میں آئینی اصلاحات کے لیے گلیسی کمیشن قائم ہوا۔ اقبال نے قیام لندن کے دوران بھی کشمیریوں کے حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد جاری رکھی۔ کشمیر میں صورت حال خراب ہونے پر سیکرٹری کشمیر کمیٹی لاہور نے اقبال وائسرائے اور مہاراجہ گلاب سنگھ کے نام ۳۰ ستمبر ۱۹۳۱ء کو تار بھیجے۔ اقبال کے نام تار میں یہ تحریر تھاکہ کشمیر کی افواج اور پولیس گولیاں چلا کر مسلمانان کشمیر کا قتل عام کر رہی ہیں۔ عورتوں کی آبروریزی ہو رہی ہے۔ بچوں کو بے رحمی کے ساتھ زدوکوب کیا جا رہا ہے۔ مذہبی مقامات کی بے حرمتی ہو رہی ہے۔ ایسے وحشیانہ مظالم آج تک دیکھنے میں نہیں آئے۔ مسلمانان ہند میں سخت جوش پھیل رہا ہے۔ گول میز کانفرنس کے مسلم ارکان سے درخواست کی جایت ہے کہ برطانوی مدبروں پر زوردیں کہ وہ نازک صورت حال کا احساس کریں۔ برقی پیغام کے ذریعے سے اپنی کارروائی سے مطلع کریں (۱۲) اقبال نے فوراً گول میز کانفرنس کے ہم خیال مسلمان مندوبین سے رابطہ قائم کیا اور اس مسئلے پر برطانوی حکومت کی توجہ دلائی۔ اس مسئلے پر برطانوی جرائد میں بھی مواد شائع ہوا تھا اور ان حضرات کی مساعی سے برطانوی جرائد کا رویہ کشمیری مسلمانوں کے متعلق بدلنے لگا۔ اس کے علاوہ کشمیر کمیٹی کے صدر مرزا بشیر الدین محمود احمد کی جانب سے کشمیر کی صورت حال کے بارے میں متعدد تار موصول ہوئے جن کی نقول مسلم مندوبین کے پاس بھیجی جاتی تھیں۔ ۲ نومبر ۱۹۳۱ء کو ایک نہایت زہرہ گداز تار ملا اور ۳ نومبر کو اقبا ل مولانا محمد شفیع دائودی اور چودھری رحمت علی وزیر ہند سیموئیل لہور سے ملے اور کشمیر کے حالات کے متعلق مفصل گفتگو کی (۱۳)۔ کشمیر میں مظالم کی تفصیلات جب برطانوی اخبارات میں شائع ہوئیں تو مسلم مندوبین کانفرنس نے حوادث کشمیر پر بحث کی اور سر محمد شفیع اقبال مولانا دائودی اور چودھری ظفر اللہ خاں نے وزیر ہند سے ۶ نومبر کو ملاقات کی اور کشمیر میں برطانوی ہند کی جانب سے فوری مداخلت پر زور دیا(۱۴)۔ ٭٭٭ حواشی ۱۔ Letters and Writings of Iqbal P.9 ۲۔ اقبال کے حضور۔ مرتبہ سید نذیر نیازی صفحہ ۵۰ جزو اول ۱۹۳۸ء (جنوری تا مارچ) اقبال اکادمی ۔ کراچی۔ جولائی ۱۹۷۱ء ۳۔ Speeches Writings and Statements of Iqbal PP. 240-241 اس بیان کے ترجمے کے لیے ملاحظہ فرمائیں انقلاب ۔ جلد ۸ ۔ نمبر ۱۳۸۔ پنج شنبہ ۔ ۷ دسمبر ۱۹۳۳ء ۔ راقم نے انگریزی متن کو سامنے رکھ کر ترجمہ کیا تھا۔ ’’انقلاب‘‘ میں گول میز کانفرنس کے ہندو اور سکھ مندوبین میں سردار اجل سنگھ اور ڈاکٹر مونجے کا نام شامل تھا جنہوں نے مسلم مطالبات ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ ۴۔ Diary and Notes of Mian Fazl-i-Hussain Edited by Dr. Waheed Ahmad. P. 111. Research Society of Pakistan Lahore 1977. ۵۔ ’’زندہ رود‘‘ ۔ حیات اقبال کا اختتامی دور۔ مصنف جاوید اقبال۔ صفحہ ۴۵۲۔ لاہور ۱۹۸۴ئ۔ ۶۔ اقبال ۲۱ نومبر ۱۹۳۱ء کو لندن سے رو م روانہ ہوگئے تھے۔ یہ اعلان ان کی عدم موجودگی پر ہوا تھا۔ ۷۔ Speeches Writings and Statements of Iqbal. PP.28.31 اقبال نے ۲۱ مارچ ۱۹۳۲ء کو آل انڈیا مسلم کانفرنس کے صدر کی حیثیت سے یہ خطبہ ارشاد فرمایا تھا۔ ۸۔ ’’مظلوم اقبال‘‘ ص ۳۶۱۔۳۶۰ ۱۰۔ انقلاب ۔ جلد ۶ ۔ نمبر ۱۵۹۔ شنبہ۔ ۲۹ نومبر ۱۹۳۱ئ۔ عملہ انقلاب کو ۲۳ نومبر کو مولانا غلام رسول مہر کا ایک تار ملا جس میں اقبال کی مسلم وفد سے الگ ہونے کی اطلاع درج تھی لیکن اس تار کے ترجمے کی اشاعت سے ہندوستان میں یہ غلط فہمی پھیلی کہ اقبال نے گول میز کانفرنس سے استعفا دے دیا ۔ ۱۰۔ انقلاب ۔ جلد ۶ ۔ نمبر ۱۵۵۔ چہار شنبہ ۔ ۲۵ نومبر ۱۹۳۱ئ۔ اس زمانے میں پبلک سروس کمیشن کے چئیرمین کی حیثیت سے سر رضا علی کی مدت ملازمت ختم ہو چکی تھی۔ دیگر ناموں کے علاوہ اقبال کا نام بھی اس اسامی کے لیے زیر غور تھا۔ کانفرنس سے استعفا کی خبر عام ہونے کے بعد اقبال کے تقرر کا امکان بھی ختم ہو گیا تھا۔ Diary and Notes of Mian Fazl-i-Hussain P.69-70 ۱۱۔ سینٹ جیمر پیلس کے متعلق مولانا مہر نے اپنے مکتوب میں لکھا تھا کہ سینٹ جیمز پیلس کسی زمانے میں شاہی محل ہو گا لیکن اب وہ ہرگز شاہی محل کے طور پر استعمال نہیں ہوتا بلکہ کانفرنس کی جلسہ گاہ ہے۔ اس میں ایک بڑ ا کمرا مندوبین عام کی نشست کے لیے ہے۔ اس سے گزر کر کانفرنس کے اس کمرے میں جاتے ہیں جس میں کھلا اجلاس ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک کمرہ ہے جس میں کمیٹیوں کے اجلاس ہوتے ہیں ۔ لمبی گیلری کے ساتھ ایک کمرا والیان ریاست کی خاص نشست و برخاست کے لیے مختص ہے اور ا س کے ساتھ کے کمرے میں کانفرنس کا سرکاری عملہ کام کرتاہے۔ جس چھوٹے کمرے کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں اس کے ساتھ ایک اور طویل گیلری ہے۔ جس کے بائیں جانب ہندوستانی مندوبین کی خاص نشست کا کمرا اور اس کے قریب مسٹر المالطیفی کا دفتر ہے۔ مکتوب مہر۔ ۱۰۔ انقلاب ۔ جلد ۶ ۔ نمبر ۱۳۳۔ شنبہ ۔ ۳۰ اکتوبر ۱۹۳۱ء ۱۲ ۔ ۱۰۔ انقلاب ۔ جلد ۶ ۔ نمبر ۱۱۳۔ جمعہ ۲ اکتوبر ۱۹۳۱ئ۔ ۱۳۔ مہر نے کچھ حالات ۴ نومبر ۱۹۳۱ء کے مکتوب میں بیان کیے تھے۔ مکتوب مہر ۔ ۱۰۔ انقلاب ۔ جلد ۶ ۔ نمبر ۱۵۰۔ پنج شنبہ ۔ ۱۹ نومبر ۱۹۳۱ء ۱۴۔ ۱۰۔ انقلاب ۔ جلد ۶ ۔ نمبر ۱۴۲۔ سہ شنبہ۔ ۱۰ اکتوبر ۱۹۳۱ئ۔ ٭٭٭ اقبال اور گول میز کانفرنس شملہ کے گرمائی دارالحکومت سے برطانوی حکومت ہند نے ہندوستان کے آئینی مسائل کے حل اور دستور سازی کی غرض سے ملک کے منتخب اکابرین کو مدعو کیا۔ ان اکابرین کے لیے یہ ضروری قرار دیا تھا کہ وہ ۲۶ ستمبر ۱۹۳۱ء تک لندن پہنچ جائیں ۔ گول میز کانفرنس کی کارروائی کا آغاز اکتوبر کے شروع میں ہونے والا تھا ۔ اقلیتی سب کمیٹی Monitory Sub-Committeeکے ارکان کے نام درج ذیل ہیں یورپی ممبران مسٹر ریمرے میکڈانلڈ (صدر) وزیر اعظم برطانیہ۔ سر ڈبلیو اے ہوویٹ ارل پیل۔ آنریبل میجر اوسٹینلے۔ مارکوئیس ریڈنگ۔ مسٹر آئزک فٹ۔ مسلمان ممبران سر آغا خاں سر سید علی امام۔ نواب احمد سعید خان چھتاری۔ اے کے فضل الحق۔ اے ایچ غزنوی۔ خان بہادر حافظ ہدایت حسین۔ علامہ اقبال۔ ڈاکٹر شفاعت احمد خاں‘ سر محمد شفیع‘ مولانا شوکت علی‘ سر سلطان احمد‘ چودھری ظفر اللہ خاں‘ مولانا محمد شفیع دائودی۔ غیرمسلم ارکان سی وائی چنتامنی‘ ڈاکٹر ایس کے دتا‘ ایم کے گاندھی‘ این ایچ جوشی‘ مدن موہن مالوی‘ سر پروروش چند رمتر‘ ڈاکٹر بی ایس مونجے‘ راجہ نریندر ناتھ‘ رائو بہادر پیٹر سلوم‘ سر اے پی پٹرو‘ دیوان بہادر رام چندر‘ رائو بی شیو رائو‘ سر چمن لال ستلواڈ‘ سر فیروز شاہ سنھا۔ سردار سمپورن سنگھ‘ رائو بہادر سری نواس‘ رائٹ آنریبل وی سی سری نواس شاستری‘ سردار اجل سنگھ‘ مسٹر امبیدکر۔ اینگلو انڈین اور ہندوستانی عیسائی اور یورپی نمائندے مسٹر ای سی بین تھل‘ سر ہیوبرٹ کار‘ کرنل سرہنری گڈنی خواتین مندوبین مسز سروجنی نائیڈو بیگم شاہ نواز ‘ مسز برائن۔ ان حضرات کوگول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے وزیر اعظم نے مدعو کیا تھا ان میں سے بہت سے حضرات کے نام اقلیتی کمیٹی کے ممبروں کی حیثیت سے اوپر آ چکے ہیں۔ ان مندوبین کے لیے یہ لازمی قرار دیا کہ یہ ستمبر کے اواخر تک لندن پہنچ جائیں۔ برطانوی مندوبین رائٹ آنریبل ریمزے میکڈانلڈ ایم پی (وزیر اعظم) لارڈ سینکی (لارڈ چانسلر) ڈبلیو و یجوڈ بین ام پی (وزیر ہند) آرتھر ہنڈرسن (وزیر خارجہ) مسٹر طامس‘ایم پی (وزیر نو آبادیات) ار پیل‘ سر سیموئیل ہور ایم پی۔ مارکوئیس ریڈنگ ‘ مارکوئیس آف لوتھین‘سر ہربرٹ ہملٹن ایم پی‘ مسٹر آئزک فٹ ایم پی۔ ان حضرات کے علاوہ دیگر وزرا کو بھی اپنے موضوعات کے متعلق کانفرنس اور کمیٹیوں کے جلسے میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ مہاراجہ الور ‘مہاراجہ گائکواڑ اور بڑودہ‘ نواب صاحب بھوپال‘ ہاراجہ بیکانیر‘ مہاراجہ رانا دھولپور‘ مہاراجہ نواں گرم‘ مہاراجہ پٹیالہ‘ مہاراجہ ریوا‘ چیف آف سانگی‘ راجہ کوریا ‘ راجہ سرپلا سریر بھوشنکر نینی‘ سرمنو بھائی مہتہ‘ صاحبزادہ سلطان احمد خاں‘ سر محمد اکبر حیدری‘ سر مرزا محمد اسمعیل ‘ دیوان بہادر ٹی آر گھوپسوگارد‘ کرنل کے این ہکسر۔ ہندوستانی مسلمان مندوبین سر صاحبزادہ عبدالقیوم‘ سر شاہ نواز خاں ‘ غلام مرتضیٰ بھٹو‘ سر غلام حسین ہدایت اللہ‘ مسٹر محمد علی جناح‘ صاحبزادہ سید مہر محمد شاہ‘ سید محمد پادشاہ‘ کپتان راجا شیر محمدخان‘ خان ڈومیلی‘ سر سید سلطان احمد۔ غیر مسلم مندوبین سر سی پی راما سوامی آئر پوبایا‘ سری پت چندر ادھر بھروا‘ جے این باسو‘ رائے بہادر کنور‘ شیشر دیال سیٹھ‘ سرمانک جی دادا بھائی‘ مہاراج ادھیراج‘ کیشو ر ا سنگھ دربھنگہ‘ ڈاکٹر ایس کے دتا ‘اووی کلیوائیل‘ ایم ایم واومن گھائین۔ سر پدم جی جنوالا‘ وی وی گری‘ اے راما سوامی آئنگر‘ بی وی جہدیو‘ ایم آرجیکر‘ این ایم جوشی‘ سرکائوس جی جہانگیر (جونیئر) ٹی ایف گون جونز ایث بی موڈی‘ دیوان بہادر اے راما سوامی مدلیا‘ دیوان بہادر راجا نریند ر ناتھ ‘ راجہ سری کرشنا چندرا‘ سردارسمپورن سنگھ ‘ تیج بہادر سپرو‘ شیو رائو‘ شری پر ملونت تمبی‘ یو آونگ تھن‘ سر پر شوتم ٹھاکر داس‘ سی ای وڈ۔ گول میز کانفرنس کے بہت سے مندوبین اقلیتی سب کمیٹی کے ممبر تھے اقبال بھی انہیںمیں شامل تھے ۔ سرکاری اعلامیے میں یہ بھی اعلان کیا گیا کہ جو مندوبین انگلستان میں ہیں ان کے نام وزیر اعظم دعوت نامہ بھیجیں اورہندوستان میںرہنے والے مندوبین کے نام وائسرائے دعوت نامہ بھیجیںگے۔ مہاتما گاندھی ۱۲ ستمبر ۱۹۳۱ء کو دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن پہنچے۔ اس روز لندن کے اخبار ’’آبزرور‘‘ کے نمائندے نے ان کاانٹرویو لیا۔ اس انٹرویو کے دوران میں نمائندے نے فرقہ ورانہ مسئلہ کے تصفیہ کے بارے میں سوال کیا جس کے جواب میں گاندھی جی نے فرمایا کہ میں ایک سادہ کاغذ پر دستخط کر دوں گا اور مسلمانوں کو اجازت دوں گا کہ وہ جو چاہیں لکھ لیں پھر میں مسلمانوں کے مطالبات کے لیے سرتوڑ جدوجہد کروں گا لیکن میرا بیان اس شرط کے ساتھ مشرو ط ہے کہ یہ مطالبات مسلمانوں کے ایک حصے کی طرف سے پیش نہ ہوں بلکہ ساری قوم کی طرف سے پیش ہوں۔ ایک نیشنلسٹ مسلم پارٹی بھی ہے ۔ میں اس پارٹی کے ساتھ دغا نہیں کر سکتا۔ میں دوسرے مسلمانوں کے مطالبات پر دستخط ثبت نہیں کر سکتا۔ مسلمانوں کی طرف سے متحدہ مطالبہ پیش ہونا چاہیے۔ (۲) مسلمان زعما اس مطالبے پر سختی سے قائم تھے کہ دستوری مسائل سے متعلق بحث چھیڑنے سے قبل اقلیتوں کے حقوق کا فیصلہ کیا جانا چاہیے۔ مسلمان زعما فیصلہ کن بات چیت کے لیے گاندھی جی کے فیصلے کے منتظر تھے۔ لیکن گاندھی جی کا رویہ مسلمانوں کے حقوق کے بار ے میں مشکوک تھا۔ اوروہ یہ چاہتے تھے کہ دیگر دستوری مسائل کے حل کو مقدم رکھا جائے اورفرقہ ورانہ مسائل کو حتی الامکان ملتوی کیا جائے۔ مسلمانوںمیں سے بھی وہ صرف قومیت کے نشے میں سرشار لیڈروںکی تجویز ماننے کے لیے تیار تھے۔ ’’آبزرور‘‘ نے ۲۰ ستمبر ۱۹۳۱ء کی اشاعت میں لکھا تھا کہ (گاندھی جی نے) اب تک دو تقریریں کی ہیں ان سے واضح ہوتا ہے کہ اگرچہ ان کا دل صلح کا آرزو مند ہے لیکن وہ ہر پابندی سے حسب دل خواہ بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں۔ انہوںنے اپنی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے مندرجہ ذیل نکات بتائے ہیں۔ ۱۔ وہ یورپینوں کے لیے خاص نیابت کے مخالف ہیں۔ ۲۔ وہ اچھوتوں کو خاص نیابت نہیں دینا چاہتے۔ ۳۔ بالغوں کے حق رائے دہی کے ساتھ بالواسطہ انتخاب کے حامی ہیں۔ (۳) اقبال کی دلچسپی کا محور جداگانہ مسلم قومیت کا احیا تھا۔ اس لیے گول میز کانفرنس میں بھی آپ زیادہ تر اقلیتوں کی سب کمیٹی کے کام میں سرگرمی سے حصہ لیتے رہے۔ یہاں اس کمیٹی کے کام کا تذکرہ تفصیل سے آئے گا ۔ ۲۸ ستمبر ۱۹۳۱ء کو اقلیتوں کی سب کمیٹی کا پہل اجلاس سینٹ جیمز پیلس میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں یہ طے پایا کہ اجلاس دو روز کے لیے ملتوی کر دیا جائے تاکہ مختلف اقوام کے نمائندے آپس میں غیر رسمی گفتگو کر سکیں۔ اس سے قبل گاندھی جی نے مطالبہ کیا کہ مسلمان نمائندے مل کر حکومت برطانیہ سے درخواست کریں کہ وہ ڈاکٹر انصاری کو مسلم نمائندے کی حیثیت سے بھیج دیں۔ مسلمانوںنے اس مطالبے کو ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ اور انہیںمسلمانوں کا نمائندہ تسلیم نہیںکیا۔ علامہ اقبال نے گاندھی جی سے سوال کیا کہ انصاری کے آنے یا نہ آنے سے قطع نظر کر کے بتائیں کہ مسلمانوں کے مطالبات کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے ۔ گاندھی جی نے جواب دیاکہ میں انہیںدرست سمجھتا ہوں۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ مسلمان حکومت برطانیہ سے کہیں کہ ڈاکٹر انصاری کو مندوب نامزد کر لیں۔ مسلما ن نمائندوںنے سب کمیٹی کے پہلے اجلاس میں کہا تھا کہ آپ اپنپے طور پر بلا لیں۔ گاندھی جی نے جواب دیا کہ اس طرح آنا ان کے لیے باعث ہتک ہو گا۔ مسلمانوںنے کہا کہ آپ کو ان پندرہ یا بیس نمائندوں کی ہتک کا خیال نہیں کہ ج کے اعتراض پر ڈاکٹر انصاری نامزدگی سے محروم رہے۔ گاندھی جی نے جواب دیا کہ اگر انصاری نہ آئے تو میں کوئی بات نہیں کرسکتا۔ مسلمانوںنے کہا کہ ان کے آنے کے بعد آپ کا کیا رد عمل ہو گا؟ آپ ن جواب دیا کہ مسلمان نمائندے ڈاکٹر انصاری سے گفتگو کے بعد ایک نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ اگر اس میں کامیابی نہ ہوئی تو میںڈاکٹر صاحب کو ا س بات پر راغب کروں گا کہ وہ مسلمانوںکے مطالبات مان لیں۔ چودھری ظفر اللہ خاں نے اس مرحلے پر سوال کیا کہ اگر ڈاکٹر انصاری راضی نہ ہوئے تو پھر کیا ہو گا۔ ؟ گاندھی جی نے جوا ب دیا کہ اس صورت میںمیں ان کا ساتھ دوں گا۔ (۴) ۔ غرض اس طرح پہلا اجلاس لاحاصل رہا۔ ’’ٹائمز‘‘ نے اس صورت حال سے متعلق ۳۰ ستمبر ۱۹۳۱ء کی اشاعت میں لکھا کہ ڈاکٹر انصاری کی غیر حاضری کے ضمن میںمہاتما گاندھی اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش نہیں ہو سکتے‘ اس لیے کہ انہوںنے کانگرس کے اجلاس کراچی میں اپنے لیے اورمحض اپنے لیے نمائندگی کا پروانہ حاصل کیا تھا۔ جب نیشنلسٹ مسلمانوں کی نامزدگی کا مسئلہ درپیش تھا تو بعض دوسرے مسلم مندوبین نے ڈاکٹر انصاری کی سخت مخالفت کی تھی بلکہ پبلک جلسوں میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر ڈاکٹر انصاری کو نامزد کیا گیا تو وہ خود کانفرنس میں شرکت سے باز رہیں گے۔ (۵) آخر میں مسٹر محمد علی جناح نے گاندھی جی سے فرمایا کہ آ پ مسلمانوں کے مطالبا ت پر غور کریں۔ اس کے متلعق ہندوئوں اور سکھوں کی رائے لے لیں اگر کوئی مفید صورت نکل آئی تو ڈاکٹر انصاری کی مندوبیت وغیرہ جیسے ثانوی معاملات بآسانی طے ہو جائیں گے (۶)۔ معاملات جوں کے توں رہے۔ مصالحت کی گفتگو کے متعلق ڈیلی نیوز کرانیکل میں ۳۰ ستمبر کی اشاعت میں شائع ہوا۔ ہندوئوں نے کل پنڈت مالوی جی کی صدارت میںایک جلسہ کیا ۔ جس میں فیصلہ ہوا کہ ہندوئوں کو جداگانہ انتخاب اور پنجاب میں مسلمانوں کے مطالبہ نمائندگی کے سوا تمام اسلامی مطالبات مان لینے چاہیے۔ جداگانہ انتخاب سے متعلق وہ اس حد تک مفاہمت پر آمادہ تھے کہ اس طریق کو دس سال کے لیے قائم رکھا جائے لیکن پنجاب میں مسلمانوں کے لیے آئینی اکثریت کے تسلیم کرنے سے تمام ہندوئوں نے انکار کر دیا۔ مسٹر گاندھی اس بات پر مصر ہیں کہ ڈاکٹر انصاری کو بلایا جائے تاکہ انگلستان پر ثابت ہو جائے کہ نیشنلسٹ مسلمانوں کی نمائندگی کا ٹھیک انتظام نہیں ہوا۔ مسلم مندوبین کی اکثریت ا س تجویز کی مخالف ہے۔ ہندوئوں میں بھی اس کی کچھ زیادہ حمایت نہیں رہی۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر گاندھی جی مسلمانوں کے تمام مطالبات قبو ل کرنے پر آمادہ ہیں تو پھر ڈاکٹر انصاری کو یہاں امداد پر بلانے سے کیا فائدہ؟ اواخر ستمبر میں یہ مشہور ہو گیا کہ گاندھی جی مسلمانوں کے مطالبات غور کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ اس موقع پر سکھوں کے نمائندے سردار سمپورن سنگھ اور سردار اجل سنگھ نے گاندھی جی کو ایک خط لکھا جو یکم اکتوبر کے ’’ٹائمز‘‘ میں چھپا تھا اس خط میں لکھا تھا کہ گاھدنی جی نے کانگرس کے اجلاس لاہور میں اپنی اورکانگرس کی طرف سے یقین دلایا تھا کہ وہ کسی ایسی مفاہمت کی موجودگی میں مسلمانوں کے ساتھ مفاہمت سے قبل سکھوں کے مطالبات پورے کیے جانے بہت ضروری ہیں۔ آخر میں انہوںنے سکھوں کے سترہ مطالبات کا ذکر کیا۔ نیز کہا گیا کہ یا تو سکھوں کو اسی مقدار میں زائد از نیابت ملنی چاہیے جس مقدار میں مسلم اقلیت کو دی گئی ہے یا پنجاب کے دو ٹکڑے کیے جانے چاہئیں۔ ۰ ۳ ستمبر ۱۹۳۱ء کو اقلیتی سب کمیٹی کا دوسرا اجلاس ہوا۔ یہ اجلاس تھوڑی دیر جاری رہا۔ گاندھی جی نے تجویز پیش کی کہ مزید گفت و شنید کی خاطر اجلاس آٹھ دن کے لیے ملتوی کر دیا جائے ۔ اسے مسلمانوں کے قائد آغا خاں نے منظور کر لیا۔ باہمی مشاورت کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی جس میں مسلمانوں کی طر ف سے مولانا شوکت علی‘ محمد علی جناح‘ سر محمد شفیع اور آغاخاں شریک تھے۔ گاندھی جی نے اس سب کمیٹی کے صدر تھے۔ (۷) ۵ اکتوبر ۱۹۳۱ء کو فیڈرل اسٹرکچر کمیٹی کا اجلاس ہوا جو ۱۵ منٹ جاری رہ کر ۹ اکتوبر تک کے لیے ملتوی ہو گیا۔ اس اجلاس میں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے نمائندوںنے مطالبہ کیا کہ وہ فرقہ ورانہ مسائل کے تصفیے تک کسی دوسری کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں کر سکتے۔ کئی مندوبین جو گفتگو میں حصے لے رہے تھے ۔ اور دونوں کمیٹیوں کے ممبر تھے اس لیے انہیں تیاری کے لیے کچھ وقت درکار تھا۔ (۸) مصالحتی کمیٹی کا ایک خفیہ اجلاس ۵ اکتوبر ۱۹۳۱ء کو منعقد ہوا۔ جس کے متعلق ۶ اکتوبر کے ’’ٹائمز‘‘ میں لکھا تھا کہ مصالحتی کمیٹی کا اجلاس کل تین بجے کے بعد دوپہر بہ صیغہ راز ہوا۔ حالانکہ راز داری محض برائے نام تھی اقلیتوںسے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے مطالبات پیش کریں۔ اقلیتوں کے نمائندوں کے بیانات سے واضح ہو گیا کہ سب جداگانہ انتخاب اورجداگانہ نیابت کے حامی ہیں۔ سر تیج بہادر سپرو اے پٹرو اور مسٹر جناح نے اپنی تقریروں میں بیان کیا کہ اگرچہ ہندوستانی سیاسات کے نقطہ نگاہ سے ان کی رائے میں مخلوط انتخاب بہترین انتخاب ہے لیکن یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اقلیتوں کے مطالبہ جداگانہ نیابت کو قبول کر لیا جائے اس غیر رسمی اجتماع کی بڑی اکثریت کا رجحان اسی جانب تھا مسٹرگاندھی نے اپنی پریشانی اور سراسیمگی کا اظہار کیا اور کہا کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ جمعرات کے دن اقلیتوں کی سب کمیٹی کے سامنے کوئی سکیم پیش کرنا بہت مشکل ہو گا۔ گاندھی جی نے کانگرس کی ہدایات کا ذکر کیااور کہا کہ انہیں کانگرس کی مجلس عاملہ کی طرف سے تار موصول ہوئے ہیں کہ ان کی ہدایات کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔ (۹) ۶ اکتوبر ۱۹۳۱ء کو گاندھی جی نے تجویز پیش کی جس میں انہوںنے بڑی حد تک مسلمانوں کے مطالبات تسلیم کر لیے تھے۔ پنجاب و بنگال میں مسلمانوں کو ۵۱ فیصد آئینی اکثریت سندھ کی غیر مشروط علیحدگی سرحد کے لیے مساوی نظام حکومت فیڈرل اسمبلی میں مسلمانوں کی ایک تہائی نمائندگی باقی ماندہ اختیارات صوبوں کی تحویل میں طریق انتخاب کا فیصلہ عام مسلمانوں کے استصواب پر چھوڑا گیا۔ گاندھی جی مندرجہ بالامطالبات ان شرائط کے ساتھ منظور کرنے پر آمادہ ہوئے کہ مسلمان سکھوں کے سوا کسی گروہ یا جماعت یا مفاد کے لیے خاص نیابت کی حمایت نہ کریں۔ بالغ حق رائے دہی مان لیں کانگرس عام آئینی مسائل سے متعلق جو مطالبات پیش کر رہی ہے اس کی حمایت کریں۔ مسلمان مندوبین نے ان شرائط پر غور کرنے کا وعدہ کیا۔ انہیںپہلی شرط ماننے سے تامل تھا کیونکہ اس قسم کا مطالبہ او تو اصولی طورپر غلط تھا۔ دوسرے اس شرط کے مان لینے کے بعد مسلمان اچھوتوں عیسائیوں اور اینگلو انڈینوں کی تائید اور حمایت سے محرو م ہو جاتے۔ ان شرائط او ر تجاویز میں مناسب ترامیم پر غور کرنے کا مسلمانوںنے وعدہ کیا۔ انہوںنے گاندھی جی سے کہاکہ آپ ہندوئوں اور سکھوں سے پوچھ لیں کہ اگر وہ مندرجہ بالا مطالبات تسلیم کرنے پر آمادہ ہوں تو مسلمان ان کی شرائط پر تبادلہ خیال کریں گے۔ ۷ اکتوبر کو ہندوئوں کی طرف سے ڈاکٹر مونجے اور سکھوں کی طرف سے سرادار اجل سنگھ نے ان مطالبات کو ماننے سے انکار کر دیا۔ سرتیج بہادر سپرو اور مسز سروجنی نائیڈو نے تجویز پیش کی کہ ان تینوں اقوام کے مطالبات کا فیصلہ کرنے کے لیے ثالثوں کے بورڈ کاقیام عمل میںلایا جائے لیکن ڈاکٹر مونجے اور سردار اجل سنگھ نے اس تجویز کو بھی مسترد کر دیا (۱۰)۔ سکھوں نے پنجاب میں مسلمانوں کی آئینی اکثریت کی مخالفت کی لیکن وہ دوسرے معاملات میں مسلمانوں کے ساتھ تعاون پر آمادہ تھے۔ انہوںنے یہ تجویز پیش کی کہ پنجاب کے دس شمالی اضلاع جہاں مسلمان ۸۷ فی صد آباد تھے انہیں یا تو ایک مستقل صوبے کی حیثیت دے دی جائے یا انہیں صوبہ سرحد میں ضم کر دیا جائے اس طرح اس صوبے کی آبادی اسی لاکھ ہو جائے گی اور بقیہ پنجاب کی ڈیڑھ کروڑ آبادی ہو گی۔ جس میں ۴۴ فیصد مسلمان ہندو ۴۲ فی صد اور سکھ ۱۴ فی صد ہو ں گے۔ اس طرح کسی قوم کی اکثریت حاصل نہ رہے گی اور ہندو اور مسلمان سکھوں کا تعاون حاصل کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ۷ اکتوبر کو رات ۱۲ بجے تک مفاہمت کی کوششیں ہوتی رہیں لیکن وہ بار آور نہ ہو سکیں۔ ۸ اکتبر کو ۱۱ بجے وزیر اعظم رمزے میکڈانلڈ کی صدارت میں اقلیبی سب کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اس سے قبل ساڑھے دس بجے مسلمان مندوبین اپنے طریق کار متعین کر چکے تھے۔ اقلیبی سب کمیٹی کے اجلاس میں وزیر اعظم نے مسٹر گاندھی سے درخواست کی کہ وہ مصالحتی گفتگو کے نتائج پیش کریں۔ گاندھی جی نے اپنی تقریر پر فرمایا کہ مختلف اقوام کے درمیان باہم فیصلہ نہ ہونے پر رنج و غم کا اظہار کیا ارو فرمایا کہ اس ناکامی کے اسباب خو د وفد ہند کی ہئیت ترکیبی میں مضمر تھے۔ سب مندوبین حکومت نامزد کردہ تھے کسی کا باقاعدہ انتخاب نہ ہوا تھا۔ آپ نے یہ تجویز پیش کی کہ اقلیتوں کی کمیٹی کو غیر معین مدت کے لیے ملتوی کر دیا جائے اور ہندوستان کے سیاسی مسائل کے حل پر زور دیا جائے اس لیے کہ فرقہ ورانہ اختلافات آزادی ملنے کے ساتھ ہی ختم ہو جائیں گے۔ اس کے بعد آ پ نے تقسیم پنجاب کی ان تجاویز کا ذکر کیا جو سکھوں او ر سر ہیوبرٹ کار نے پیش کی تھیں۔ (۱۱) سرجیو فرے کارببٹ کی تجویز کا بھی ذکر کیا۔ (۱۲) ان تجاویز کے متعلق گاندھی جی نے فرمایا کہ مجوزین ان پر مزید غور کریں۔ اس کے بعد گاندھی جی نے فرقہ ورانہ مسائل کے حل کے لیے کانگرس کا فارمولا بیان کیا۔ انہوںنے فرمایا کہ کانگرس پوری قوم کی نمائندہ جماعت ہے۔ فرقہ ورانہ حقوق کے بارے میں انہوںنے لاہور کانگرس کی قرار داد اور بمبئی میں مرتب کردہ قرارداد پڑھی۔ اچھوتوں سے متعلق کانگرس کا نقطہ نظر بیان کیا کہ میں ان کے حقوق کا منکر نہیں لیکن میری رائے میں خاص نیابت ان کے لیے مفید نہیں ہو سکتی۔ بالغ حق رائے دہی کا نفاذ ان کے لیے کافی ہے۔ اونچی جاتی والے ہندوئوں نے معاشرتی حیثیت سے اپنے اور ان کے درمیان جو خلیج حائل کر رکھی ہے و ہ سخت سے سخت تعزیر کی مستحق ہے آخر میں آپ نے فرقہ ورانہ معاملات کے تصفیہ کے لیے ایک جوڈیشنل ٹریبونل مقرر کرنے پر زور دیا۔ اور فرمایا کہ کانگرس ا س مفاہمت کے لیے تیار ہے جو مختلف اقوام ہند کے لیے باعث اطمینان ہو۔ گاندھی جی کے بعد سر محمد شفیع نے تقریر کی۔ آپ نے اپنی تقریر میں تصفیہ نہ ہونے پر رنج کا اظہار کیا اور اس الزام کی تردید کی جو برطانوی ہند کے مندوبین کی حیثیت پر لگایا گیا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ یہاں ہر جماعت کی بہترین افراد موجود ہیں کانگرس کی نمائندگی گاندھی جی کر رہے ہیںَ لبرل فیڈریشن کے اصحاب موجود ہیں ہندو سبھا کے ذمہ دار اصحاب ہیں۔ مسلمانوںکی بری اور چھوٹی جماعتوں کے یہاں نمائندے ہیں حتیٰ کہ نوزائدہ انجمن (نیشنلسٹ پارٹی) کی نمائندگی کا بھی یہاں انتظام ہے۔ نامزدگی سے قبل حکومت نے مختلف جماعتوں کے ذمہ دار اصحاب سے مشورہ کیاتھا۔ سر شفیع نے جو ڈیشنل ٹریبیول نے قیام کی بھی مخالفت کی اور کہا کہ اگر کوئی ثالث بن سکتا ہے تو وہ حکومت ہے گاندھی جی نے فرمایا تھا کہ ٹربیونل کے لیے ایک دفعہ دستوررکھ دی جائے۔ سر شفیع نے کہا کہ فرقہ ورانہ مسائل کے حل کے بغیر کوئی دستتور ہی نہیں بن سکتا۔ آخر میںآپنے اس تجویز کی سخت مخالفت کی جس کا مقصد اقلیتی سب کمیٹی کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرنا تھا۔ سر شفیع کے بعد سر پٹرو سردار اجل سنگھ اور مسٹر امبیدکر نے تقریریں کیں مسٹر امبیدکر نے اپنی تقریر میںخہا کہ مذاکرات کے بعد جب رات گئے ۱۲ بجے رخصت ہوئے تو عام خیال یہ تھا کہ مفاہمت نہ ہونے کے اسباب کے متعلق کوئی گفتگو نہ کی جائے اور الزام تراشی سے گریز کیا جائے گا لیکن گاندھی جی نے عہد شکنی کی۔ یہ درست ہے کہ انتخاب باقاعدہ نہ وہا تھا لیکن اگر انتخاب ہوا بھی تو میںمندوب بن جائوں گا۔ میں جو کچھ کر رہا ہوں میری قوم اس کی موئید ہے۔اس کے بعد آ نے ایک تار پڑھ کر سنایا جس میں اچھوتوں نے کانگرس پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ مسٹر امبیدکر ار دیگر تمام مقررین نے اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرنے کی تجویز کی مخالفت کی تھی۔ آخر میں برطانوی وزیر اعظم ریمزے میکڈانلڈ نے تقریر کی۔ آپ نے فرمایا کہ ہم بھی مفاہمت نہ ہونے پر آپ کے شریک رنج ہیں۔ ہماری دلی آرزو ہے کہ باہم سمجھوتہ ہو جائے۔ اگر آپ لوگ خود دستور مرتب کرتے تو کیا فرقہ وارانہ تصفیہ کے بغیر اس ترتیب میں کامیاب ہو سکتے تھے وزیر اعظم نے اپیل کی کہ آپ ناکامی سے نہ گھبرائیں دوبارہ کوشش کریں یقین رکھیے کہ ہم ہندوستان کے نظا م حکومت کی اصلاح چاہتے ہیں۔ ہمارا راستہ نہ روکیے۔ آخر میں وزیر اعظم نے کہا کہ چوں کہ اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرنے کی سب نے مخالفت کی ہے اس لیے اجلاس جاری رہے گا۔ مگر اس کی تاریخ اور وقت کو میری فرصت پر چھوڑ دیا جائے۔ پون بجے یہ اجلاس ختم ہو گیا۔ ۹ اکتوبر کو فیڈرل کمیٹی کااجلاس ہوا۔ اس اجلاس میںگاندھی جی کی تقریر اقلیتی کمیٹی کی ۸ اکتوبر والی تقریر سے چنداں مختلف نہ تھی۔ آپ نے فرمایا کہ فرقہ وارانہ مسئلہ کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو لیکن سب سے پہلے عام آئینی مسائل کو حل کیا جائے۔ چودھری ظفر اللہ خاں نے مسلمانوں کی طرف سے تقریر کی۔ آپ نے مسلمانوں کی پوزیشن واضح کی اور فرمایا کہ مسلمان ا سم مسئلے کے تصفیے کے بغیر عام مباحث میں شرکت کرنے سے معذور ہیںَ البتہ ان مباحث میں شریک وہ سکتے ہیں جو فرقہ ورانہ مسائل سے تعلق نہرکھتے ہوں۔ فرقہ وارانہ مسائل کے بار ے میں ہماری رائے مشروط ہو گی لیکن اس میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ ہم اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہوں گے۔ لہٰذا ظاہر ہے کہ ان مسائل میں ہماری امداد بالکل بے نتیجہ ہو گی۔ آخر میں طے پایا کہ سردست مالیاتی امور اور فیڈرل کورٹ پر بحث ہو۔ اس دوران میں فرقہ وارانہ مسائل کے حل کی کوشش جاری رہے گی۔ باقی معاملات کا فیصلہ اس مسئلے کے حل پر منحصر ہو گا (۱۳) ۔ اس اجلاس میں لارڈ سینکی نے تمام مندوبین کے مشورے کے بعد دو ایسے مسائل پیش کیے جو متنازعہ نہ تھے۔ اولاً وفاقی حکومت کے مختلف اجزا اور ریاستوں کے مابین معاملات کی ذمہ داری کا مسئلہ ثانیاً فیڈرل کورٹ کا مسئلہ۔ مالیات سے متعلق لارڈ پیل کی زیر صدارت ایک سب کمیٹی پہلے بن چکی تھی۔ جس نے اپنی رپورٹ ۱۳ اکتوبر کو پیش کی۔ اس رپورٹ میں بعض تجاویز پیش کی گئیں لیکن زور اس امر پر دیا گیا کہ ماہرین کی ایک کمیٹی مقرر کی جائے اوروہ اپنی سفارشات مرتب کرے۔ اس رپورٹ کے مطالعہ کے بعد والیان ریاست فیصلہ کریں کہ وہ وفاق میں شامل ہوں یا نہ ہوں۔ کچھ عرصے بعد فیڈرل کورٹ کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا لارڈ سینکی کی کوشش یہ تھی کہ مسلمان مندوبین اور دیگر نمائندے نے ایک مجلس مشاورت میں یہ طے ہوا کہ کہ ہر مسئلہ کسی نہ کسی شکل میں فرقہ ورانہ معاملات سے تعلق رکھتا ہے۔ اس لیے ہر نئے موضوع کے پیش کیے جانے سے پہلے انہیں چاہیے کہ وہ عام مندوبین سے مشورہ کرنے کے بعد فیڈرل کمیٹی میں شامل ہونے کے بارے میں فیصلہ کریں۔ مسلمان مندوبین نے ایک مشترکہ جلسے میں فیصلہ کیا کہ وہ اس وقت تک کسی تجویز پر غور نہیںکریں گے۔ جب تک کہ وہ تجویز پنڈت مالوی جی یا گاندھی جی کی طرف سے تحریری شکل میں پیش نہ ہو۔ (۱۴) علامہ اقبال نے اس دوران میں مسلم مطالبات سے متعلق اپنی تقریر لکھ لی تھی لیکن بعدازاں آپ مصروفیت کی بنا پر تقریر نہ کر سکے۔ (۱۵) فرقہ وارانہ معاملات کے حل نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ گاندھی جی کے ذہن پر ہندو سبھا اور سکھ چھائے ہوئے تھے پنڈت مدن مالوی جی خود تو کچھ نہیں کہتے تھے لیکن جو کچھ وہ چاہتے تھے گاندھی جی کی زبان سے کہلوا دیتے تھے۔ ایک طرف اگر ہندو مندوبین کے انتہا پسند عناصر کا غلبہ تھا تو دوسری طرف اعتدال پسند رہنما اپنی پوری کوشش کے باوجود معاملات کو تبدیل نہیں کر سکتے تھے۔ ان میں مسز سروجنی نائیڈو سر تیج بہادر سپرو اور سری نواس شاستری پیش پیش تھے۔ گاندھی جی اگر مسلمانوں کے ساتھ مفاہمت کے لیے آمادہ بھی ہوتے تو سکھ مندوبین مفاہمت نہ ہونے دیتے اور گاندھی جی اپنے اور کانگرس کے مفادات کی وجہ سے سکھوں کو چھوڑنے پر آمادہ نہ تھے۔ سکھوں اورمسلمانوں کے مطالبات میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ (۱۶) گاندھی جی نے ہندوستانی طلبہ کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ انہوںنے مسلمانوں کے سامنے یہ شرط کبھی پیش نہیں کہ کہ اچھوتوں کو نمائندگی سے محروم کر دیاجائے۔ گاندھی جی نے اپنی تقریر میں یہ بھی فرمایا کہ وہ جب تک زندہ ہیں مسلمانوںاور سکھوں کے سوا کسی کے مطالبہ نیابت کو قبول نہیں کریں گے۔ حالانکہ گاندھی جی نے مسلمان مندوبین کے سامنے پہلی شرط یہ رکھی تھی کہ وہ مسلمانوں اور سکھوں کے سوا کسی کے لیے خاص نمائندگی کی تائید نہیں کریں گے۔ درحقیقت گاندھی جی اچھوتوں کو الگ نیابت دینے کے لیے تیار نہیںتھے۔ اور مسلمانوں کے مطالبہ نیابت خصوصی کو بھی اسی شکل میں مانتے تھے۔ جس میں جداگانہ نیابت کا سوال پیدا نہ ہو(۱۷) ۱۶ اکتوبر کو مسلمان مندوبین نے گاندھی جی سے دوبارہ ملاقات کی۔ گاندھی جی نے مسلمانوں کے مطالبات اپنی گزشتہ شرائط کے ساتھ منظور کرنے پر زور دیا۔ مسلمان مندوبین نے سرجیو فر کاربٹ کی تقسیم پنجاب کے متعلق سکیم پر غور کیا (۱۸) گاندھی جی نے رٹز ہوٹل میں سر آغاخاں کی قیام گاہ پر مسلم مندوبین سے ملاقات کی اور تین تجاویز ان کے سامنے پیش کیں۔ ۱۔ پنجاب و بنگال میں اکاون فی صدنیابت اور طریق انتخاب کا فیصلہ صوبوں کے مسلمانوں کی رائے عامہ پر موقوف ہے۔ مسلم اکثریتی صوبوںمیں موجود وینٹیج قائم رہے اور طریق انتخاب کا فیصلہ وہاں کی رائے عامہ پر منحصر ہو۔ مرکزمیں ۳۳ فی صدی نمائندگی اور باقی ماندہ اختیارات صوبوں کے پاس ۔ ۲۔ سرجیو فرے کاربٹ سکیم پر عمل درآمد کی صورت میں پنجاب میںمسلمان ۶۲ فیصد ہو جائیں گے ا لے یہاں مخلوط انتخاب رائم کر دیا جائے۔ ۳۔ فرقہ وارانہ مسئلہ کانفرنس کے بعض مندوبین کی ثالثی پر چھو ڑ دیا جائئے۔ مرکز کے مالی اور دیگر مسائل اور فیڈرل کورٹ کے بارے میں فیڈرل اسٹرکچر کمیٹی کا اجلاس ۱۶ اکتوبر سے ۲۰ اکتوبر تک ملتوی ہو گیا تھا۔ مال مسائل پر ریاستوں اور برطانوی مندوبین میں اختلاف ہو گیا تھا۔ سر اکبر حیدری وزیر اعظم دکن اور نواب بھوپال کی کوششوں سے دوسرا متفقہ مارمولا تیار کیا گیا (۱۹)۔ ۲۹ اکتوبر کو مسلمان مندوبین کی ایک نشست آغا خاں کی قیام گاہ رٹز ہوٹل میں ہوئی۔ سرسری نواس شاستری آزاد اامید وار کی حیثیت سے مسلمان مندوبین سے ملے اور انہوںنے تجویز پیش کی کہ مسلمانوں کو لبرل اچھوت ہندوستانی عیسائی ‘ اینگلو انڈین اور یورپین نمائندوںسے متفق ہو کر وزیر اعظم برطانیہ سے درخواست کرنی چاہیے کہ حکومت برطانیہ اہم فرقہ وارانہ مسائل کے بارے میں جو فیصلہ کرے گی وہ اسے تسلیم کریںگے۔ انہوںنے فرمایا کہ گاندھی کانگرس سکھ اور ہندو مہا سبھا کے نمائندوں سے یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ ستھ دیں گے۔ مسلمان مندوبین نے اس تجویز کے جواب میں کہا کہ جب تک تمام جماعتوں کی طرف سے متفقہ طورپر اس قسم کی درخواست پیش نہ ہو مسلمان اس میں شرکت سے قاصر ہیں۔ اگر انہوںنے بعض جماعتوں کے ساتھ مل کر ایسی درخواست کی تو ان کی آزادی عمل ختم ہو جائے گی۔ اس جماعت س الگ ہونے کی صورت میں ہر جماعت آزاد ہو گی۔ سرسری نواس شاستری کے بعد میسور کے دیوان سر مرز ا اسمعیل نے مسلم مندوبین سے ملاقات کی۔ مرزا اسمعیل مسلمانوں اور ہندوئوں میں مقبول تھے۔ انہوںنے فرمایا کہ گاندھی جی مرکز کی ذمہد اری کے متعلق اپنی بعض شرائط میں ترمیم کے لیے آمادہ ہیں لیکن اگرمسلمان گاندھی جی کا ساتھ دیں گے تو گاندھی جی بالغوں کے حق رائے دہی کو لازمی شرط نہیں بنائیں گے اور مرکز کی ذمہ داری کے سلسلے میں امور خارجہ اور دفاع یعنی فوج پر مکمل اختیار و اقتدار کا مطالبہ پیش نہیں کریں گے۔ البتہ مالیات پر ایک حد تک اختیار کے مطالبے پر وہ جمے رہیں گے۔ مطالبات میں یہ ترمیم دور تغیر کے لیے ہو گی۔ اس آمادگی کی شرائط سے متعلق ۳۱ اکتوبر کے ’’ٹائمز‘ میں لکھا تھا۔ ’’لیکن یہ آمادہ ایک اہم شرط کے ساتھ مشروط ہے۔ شرط یہ ہے کہ پنجاب میںسکھوںاور سندھ میں ہندوئوں کے سوا کسی دوسری اقلیت کو نہ جداگانہ انتخاب کا حق دیا جائے اورنہ ان کے لیے نشستیں مخصوص کی جائیں۔ تجویزیہ تھی کہ مسلمانوں کو اچھوتوں ہندوستانی عیسائیوں‘ اینگلو انڈینوں اور یورپینوں کی نہ صرف تائید ہی سے منحرف ہوجانا چاہیے بلکہ مسٹر گاندھی کے ساتھ مل کر ان مطالبات کی مخالفت کرنی چاہیے مسلمانوں کے جواب سے مترشح ہوتا تھا کہ اگر کوئی معین فارمولا مرتب کر کے ان کے سامنے پیش کیا جائے گا تو وہ اس پر غور کریں گے لیکن اگر آخر الذکر شرط بھی اس میں شامل کی گئی تو اس میں شرکت نہیں کریں گے۔ اس بات کا کوئی امکان نہیںکہ مسلمان دوسری اقلیتوں کے ساتھ مجوزہ بالا طریق کے مطابق بے وفائی پر آمادہ ہو جائیں۔ مولانا محمد شفیع دائودی نے ’’ٹائمز‘‘ میں مالوی جی کی تجاویز کا جواب دیا۔ اس جواب میں انہو نے جمعتہ الاقوام کے دستور کی بعض دفعات کا حوالہ دے کر لکھا کہ جمعیت اپنے دو ممبر ملکوں کے درمیان ثالث تو بن سکتی ہے لیکن ایک رکن ملک کے دو مختلف فرقوں کے جھگڑوںمیں بطور ثالث مداخلت نہیںکر سکتی۔ علاوہ ازیں اس کے پا س اپنے فیصلوں کے نفاذ کے لیے کوئی بھی قوت نہیں۔ فیڈرل اسٹرکچر کا اجلاس ۲ نومبر کو ہوا۔ فیڈرل کورٹ کی بحث کے دوران مسلمان مندوبین نے فرقہ وارانہ فیصلہ ہونے تک بحث میںشرکت کرنے سے انکار کر دیا۔ سر آغا خاں نے گاندھی جی تیج بہادر سپرو اور مالوی جی سے اس دوران میںانفرادی ملاقاتیں کیں۔ (۲۰) انہی دنوں اچھوت‘ عیسائی ‘ اینگلو انڈین اور یورپی اقلیتوں کی طرف سے تحریک ہوئی کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جدا فیصلہ کر لیں تاکہ ساری اقلیتیں متحد ہو جائیں کوشش کی جا رہی تھی کہ سکھ بھی اس اتحاد میں شریک ہو جائیں لیکن سکھ اس میں شریک نہ ہوئے۔ ا س مقصد کے لیے اقلیتوں کے مندوبین نے خفیہ اجلاس منعقد کیے آخر ان تمام قوموںکا سمجھوتہ ہو گیا۔ یہ سمجھوتہ درج ذیل ہے۔ شہری و مذہبی حقوق ۱۔ کسی شخص کو پیدائش تہذیب ذات پات اور عقیدے کی بنا پر ملازمتوں یا عہدوں کے حصول سے محروم نہیں کیا جائے گا۔ نہ ہی اس کو شہری حقوق کے استفادہ کرنے سے روکا جائے گا۔ اورنہ ہی کسی خاص پیشے کے اختیار کرنے سے باز رکھا جائے گا ۔ ۲۔ تمام قوموں کو کامل مذہبی آزادی حاصل ہو گی۔ یعنی عقیدے ‘عبادت ‘ عمل ‘ تبلیغ اجتماع اور تعلیم کی آزادی لیکن یہ آزادی امن عامہ کے قیام اور اخلاق کے عام تحفظ سے مشروط ہو گی۔ کسی شخص کو تبدیلی مذہب اور عقیدے کی بنا پر معاشرتی حقوق سے محروم نہیں کیا جائے گا۔ اور نہ ہی اس پر تعزیر عائد کی جائے گی۔ ۳۔ دستور اساسی میں ا س امر کی آئینی حفاظت کا بندوبست کیا جائے گا کہ کوئی مجلس مقننہ کسی خاص وقوم کے خلاف امتیازی قانون وضع نہ کر سکے۔ ۴۔ ہر قوم اپنے خرچ پر خیراتی مذہبی اور معاشرتی ادارت مدارس اور دوسری تعلیم گاہوں کے قیام انتظام اور نگرانی کی پوری طرح حق دار ہو گی اور ان ادارات میں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مختار سمجھی جائے گی۔ ۵۔ دستور اساسی میںچھوٹی اقلیتوں کی زبان ثقافت‘ پرسنل لا‘ نشر واشاعت تعلیم اور خیراتی اداروں کی حفاظت کا موثر بندوبست ہو گا اور سب کو حکومت یا خود اختیاری ادارت کے امدادی عطیات سے مناسب حصہ ملتا رہے گا۔ ۶۔ تمام شہروں کو شہریوںکے حقوق سے کامل استفادہ کا حق حاصل ہو گا۔ اس پر کسی نوع کی پابندی عاید کرنا قانوناً موجب تعزیر قرار دیا جائے گا۔ ۷۔ مرکزی یا صوبائی حکومتوں کے ماتحت ایسے مستقل صیغے قائم کیے جائیں گے جو اقلیتوں کی خود حفاظت کریں گے اور ان کی ترقی و بہبود کے لیے ساعی رہیں گے۔ ۸۔ مرکزی یا صوبائی حکومتوں کی ترتیب میںمسلمانوں اور دوسری بڑی اقلیتوں کے نمائندوں کا مناسب لحاظ رکھنے کا کنونشن کے ذریعے بندوبست کیا جائے گا۔ ۹۔ اقلیتوں کو آئندہ تما م مجالس مقننہ میں جداگانہ انتخاب کے ذریعے نمائندگی کا حق حاصل ہو گا۔ کسی اقلیت کو اس کے تناسب سے کم حصہ نہیں ملے گا۔ (۲۱) اور نہ ہی کسی اکثریت کو اقلیت یا مساوات میں تبدیل کیاجائے گا۔ دس سال کے بعد پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کو دوسرے صوبوں میں اقلیتوں کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ اپنی رضامندی سے غیر مشروط مخلوط انتخاب یا نشستوں کے تعین کے ساتھ مخلوط انتخاب کو قبول کر لیں۔ اچھوتوں کے جداگانہ حق انتخاب میں آئندہ بیس سال تک کوئی تبدیلی نہ کی جائے بیس سال بعد تبدیلی بالغ حق رائے دہی کے نفاذ کے بعد کی جائے۔ ۱۰۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے تحت پبلک سروس کمیشن قائم کیے جائیں جو امیدواروں کی صلاحیت اور قابلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کوشش کریں گے کہ تمام قوموں کو منصفانہ حصہ مل سکے۔ جن ملازمتوں کا تقرر گورنر جنرل یا گورنروں کے اختیار میں ہو گا انہیں ہدایت کی جائے کہ وہ مختلف اقوام کے تناسب کا اندازہ کرتے رہیں۔ ۱۱۔ اگرکوئی ایسا مسودہ قانون منظور ہو جائے جو کسی قوم کے دو تہائی نمائندوں کے نزدیک مذہب یا مذہب پر مبنی معاشرتی اعمال پر اثر انداز ہو گا یا کوئی مسودہ قانون جو کسی قوم کے ایک تہائی نمائندوں کی رائے میں اساسی و بنیادی حقوق پر اثر انداز ہو گا تو یہ ارکان اس مسودے کی منظوری ایک ماہ کے اندر اندر اپنا احتجاج صدر مجلس مقننہ متعلقہ کے پاس بھیجنے کے حق دار ہوں گے۔ صدر اس احتجاج کوگورنر جنرل کے پا س بھیجنے دے گا اور اس صورت میں مذکورہ مسودہ قانون ایک سال کے لیے معطل ہو جائے گاایک سال بعد ی مسودہ دوبارہ مجلس مقننہ میں پیش ہو گا۔ اگر ارکان مجلس پیش کردہ اعتراضات کی بنا پر اس میں ترمیم کے لیے تیارنہ ہوںگے تو گورنر جنرل اسے منظور نہ کرے گا۔ مسلمانوں کے خاص حقوق ۱۲۔ الف۔ صوبہ سرحد کی خاص ضروریات کا لحاظ رکھتے ہوئے اسے دوسرے صوبوں کے مساوی درجہ دیا جائے گا۔ صوبے کی مجلس مقننہ میں نامزد ارکان کی تعداد د س فی صد سے زائدنہ ہو گی۔ ب۔ سندھ کو بمبئی سے الگ کر کے دوسرے صوبوں کی طرح مستقل صوبوں کی طرح مستقل صوبہ بنا دیا جائے گا۔ ج۔ مرکز میں مسلمانوں کی نمائندگی ایک تہائی ہو گی۔ اچھوتوں کے خاص حقوق ۱۳۔ الف۔ دستور میں یہ اعلان کیا جائے گاکہ وہ ہر رواج جو کسی خاص طبقے کو چھوت چھات کی بنیاد پر شہری حقوق سے مستفید ہونے سے روکتا ہے اسے ہرگز درست نہ سمجھا جائے۔ ب۔ اچھوتوں کے ساتھ ملازمتوں میں فراخ دلانہ برتائو کیاجائے۔ نیز پولیس اور فوج میں بھرتی کا انتظام کیاجائے گا۔ ج۔ پنجاب میں اچھوتوں کو قانون انتقال اراضی سے استفادہ کرنے دیا جائے گا۔ د۔ کسی حاکم کی طرف سے کسی مفاد میں فروگزاشت یا کسی نقصان دہ عمل کی تلافی کے لیے گورنر جنرل کے پا س اپیل کا حق ہو گا۔ ہ ۔ اچھوتوں کو ایک مقررہ تناسب سے کم نمائندگی نہ ملے گی ۔ اینگلو انڈینوںکے خاص حقوق ۱۴۔ الف۔ اینگلو انڈین جماعت کی خاص حیثیت کی بنا پر ان کے لیے ملازمتوں کا خاص لحاظ رکھا جائے۔ ب۔ وہ وزیر اعظم کی گنرانی میں اپنے تعلیمی اداروںکے نظم و نسق کے لیے آزاد ہوں گے لیکن موجودہ امداری رقم کے پیش نظر آئندہ ان اداروں کے لے فراغ دلانہ انتظام کیا جائے گا۔ ج۔ دوسری اقوام ہند کے برابر جیوری کے حقوق حاصل ہوں گے اور اینگلو انڈین ملزم کو حق حاصل ہو گا کہ وہ یورپین جیوری یا انڈین جیوری کے ذریعے اپنے مقدمے کی سماعت کرائے۔ یورپینوں کے خاص حقوق ۱۵ ۔ الف۔ صنعت اور تجارتی سرگرمیوں میں ہندوستانیوں کے برابر حقوق حاصل ہوں گے۔ حقوق میں ترجمیم کیلیے کوئی مسودہ قانون گورنر جنرل کی اجازت کے بغیر مقننہ میں پیش نہ کیاجائے۔ اس سمجھوتے کی مختلف دفعات پر کئی روز تک مشورہ ہوتارہا ۔ مسلمانوںاور دیگر اقلیتوں کے چند نمائندوں کی ایک کمیٹی مقرر ہوئی جو بحث میں شرکت کرتی رہی۔ ۱۱ نومبر کو مسلمانوں کی طرف سے آغا خاں اچھوتوں کی طرف سے ڈاکٹر امبیدکر عیسائیوں کی طرف سے رائو بہادر پیٹر سیلوم اینگلوانڈینوںکی طر ف سے سر ہنری گڈنی او ر یورپینوںکی طرف سے سر ہیوبرٹ کار نے دستخط کیے۔ ۱۱ نومبر کی شام کو یہ اصحاب وزیر اعظم سے ملے۔ ۸ اکتوبر کے اجلاس کے بعد اقلیتی کمیٹی کا اجلاس ۱۳ نومبرکو منعقد ہوا۔ گاندھی جی سکھ اور ہندو مندوبین اس سمجھوتے پر بے حد مضطرب تھے۔ چند مندوبی نے تین چار دن پہلے وزیر اعظم کے نام ایک خط بھی لکھا کہ صوبوں کے لیے خود اختیاری حکومت اور مرکز کی ذمہ داری کا فیصلہ ایک ساتھ کیاجائے۔ خط کا مقصد یہ تھا کہ سمجھوتہ موثر نہ ہو سکے گا۔ ۱۳ نومبر کی صبح کو سمجھوتے کی کاپیاں اقلیتی کمپنی کے ارکان کے پاس بھیج دی گئیں۔ صبح دس بجے اجلاس شروع ہوا۔ وزیر اعظم نے اقلیتی کمیٹی کے سامنے تمہیدی تقریر میں سمجھوتہ نہ ہونے کا تذکرہ کیا اور فرمایا کہ قوموں کی نمائندگی اور حقوق کے تحفظ کا بندوبست ضروری ہے کیونکہ ا س کے بغیر دستور کا خیال بھی ممکن نہیں۔ آخر میں آپ نے اقلیتوں کے سمجھوتے کا تذکرہ کیا جو ۱۱ نومبر کی شام کو آپ کے سامنے پیش ہوا۔ اس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سمجھوتے میںبرطانوی ہند کی ۴۶ فی صد آبادی شامل ہے۔ وزیر اعظم نے اتقریر کے اختتام پر سر آغا خان سے درخواست کی کہ آپ سمجھوتے کہ دفعات پڑھیں۔ مسلمان مندوبین نے ۱۱ نومبر کی شام کو ایک جلسے میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ ان میں سے کوئی مندوب تقریر نہیںکرے گا۔ سمجھوتہ پیش کرنے کی رسمی سی تقریر آغا خاں کے سپرد کر دی تھی اور سمجھوتے کی دفعات کمیٹی کے سامنے پیش کر دیں۔ آغا خاں کے بعد سردار اجل سنگھ نے تقریر کی۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے اور میرے رفقا نے کل سکھوں کے مطالبات سے متعلق ایک مختصر سی یادداشت تیار کی تھی جسے میں اب باقاعدہ پیش کرتا ہوں۔ (یہ یادداشت انہوںنے کمیٹی کے حوالے کر دی) آپ نے اقلیتوں کے سمجھوتے پر کڑی نکتہ چینی کی اور کہا کہ سکھوں کو جو پنجاب کی ایک اہم اقلیت ہیں۔ سمجھوتے کی گفتگو میںشریک نہیںکیا گیا یہ ظلم عظیم ہے کہ دوسرے صوبوں کی اقلیتوں نے پنجاب کی اکثریت کے ساتھ مل کر پنجاب کی اقلیتوں پر حکمرانی کے محضرکی تائید کی ہے۔ یہ سمجھوتہ سکھوں کے لیے قطعا ً ناقابل قبول ہے۔ اورنہ ہی اس سے فرقہ وارانہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ ہم یہاں اس لیے نہیں آئے کہ ووٹوں کی کثرت سے کسی مسئلے کا فیصلہ کر دیں بلکہ ہمارا مقصد یہ تھا کہ ایسا سمجھجوتہ تیار کیا جائے جو تمام اقوام کے نزدیک قابل قبول ہو۔ افسوس کہ ہم میں اتفاق نہیں ہو سکا۔ میں کسی ایسی دستاویز کو تسلیم نہیں کر سکتا جس میں پنجاب کے اندر سکھوں کی اہمیت کا لحاظ نہ رکھا گیا ہو۔ اس سمجھوتے کا مقصد اکثریت کی حکومت ہے۔ لیکن ویسی حکومت نہیںجیسی تمام پارلیمانی حکومتوں میں ہے۔ اس سمجھوتے کا مدعا جداگانہ انتخاب کے ذرعیے ہندوستان کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرنا ہے جو جمہوری اصولوںکی خلاف ورزی ہے۔ اور پارلیمانی نظام کے منافی ہے اس کی رو سے اینگلو انڈین بعض صوبوں میں چار ہزار فی صد ار بعدمیںنو ہزار فی صد ی نیابت حاصل کریںگے۔ سر ہنری گڈنی نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہم سکھوں کو اپنے ساتھ ملانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن سکھ ہم سے اتفاق کرنے پر راضی نہیںہوئے۔ سر ہیوبرٹ کار نے اپنی تقریر میں سرداراجل سنگھ کے اعتراضات کا مفصل جواب دیا۔ آپ نے فرمایا کہ ہم نے سکھوں کیلیے ان کی موجودہ نیابت س کہیں زیادہ نیابت کی تجویز پیش کی ہے۔ اگر یہ درست ہے کہ ہم بعض جگہ ۹ ہزار فی صدی نیابت کے خواہاں ہیں توسردار اجل سنگھ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس وقت ہمین وہاں ساڑھے بارہ ہزر فی صدی نیابت حاصل ہے۔ اورہم اس وقت ساڑھے تین ہزار فی صد نیابت چھوڑ رہے ہیں۔ درمیان میں راجہ نریندر ناتھ نے اپنی شعلہ مزاجی کا اظہار کیا۔ پھر ڈاکٹر مونجے نے مختصر سی تقریر کی جس میں آپ نے فرایا کہ ہندومہا سبھا کسی قیمت پر بھی جداگانہ انتخابات تسلیم نہیں کر سکتی اور نہ ہی یہ مان سکتی ہے کہ کسی قوم کو زائد از استحقاق نیابت دی جائے۔ سمجھوتے سے واضح ہوتا ہے کہ اس کی رو سے پنجاب و بنگال میں فرقہ ورانہ اکثریت قائم کرنے کی تجویز کی گئی ہے۔ ہندو مہا سبھا اس پر بھی رضامند نہیں ہو سکتی۔ مسز نائیڈو نے عورتوں کے لیے خاص مراعات کے انتظام کی مخالفت کی۔ بیگم شاہ نواز نے مسز نائیڈو کی تائید کی لیکن مسز سرائین نے مسز نائیڈو کی تجویز کی مخالفت کی۔ نواب چھتاری نے بڑے زمین داروں کانقطہ نظر پیش کیا سرچمن لال سیلو اڈ نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ میں اس گروہ سے تعلق رکھتا ہوںجو کسی فرقے میںشامل نہیںبلکہ وہ خالص سیاسی گروہ ہے۔ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ وہ کھلے اجلاس میں بیان دیں گے کہ اقلیتی سب کمیٹی سمجھوت کرنے میں کیوں ناکام رہی ہے ۔ اور اس بناپر فیڈرل اسٹرکچر کمیٹی کا کام بھی رک گیا۔ میرے رائے میں وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ خود فرقہ ورانہ مسئلے کے بارے میں فیصلہ کر دیں اورکمیٹی کا کام جار ی رہے۔ عام تقریروں سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ تمام قومیں سب معاملات میں اختلاف رکھتی ہیں لیکن یہ درست نہیں کہ اگر ہم حالات کا صحیح تجزیہ کریں تومعلوم ہوگا کہ متفق امور کے مقابلے میں اختلافی امورکی تعداد بہت کم ہے۔ مثلاً اقلیتوںکے مذہب ثقافت اور ملازمتوںوغیرہ کے تحفظ کے متعلق کوئی اختلاف نہیں۔ اہم اختلاف صرف پنجاب اوربنگال سے متعلق ہے اور یہ اختلاف ایسا نہیں کہ اس ا فیصلہ نہ ہو سکے۔ وزیر اعظم اپنے وسیع سیاسی تجربے کی بناپر یہ فیصلہ کر سکتے ہیں اور اس کے بعد تمام مشکلات دور ہوجائیںگی۔ آخر میں گاندھی جی نے طویل تقریر کی ۔ اس رائے سے اختلاف کیا کہ فرقہ ورانہ مسئلہ حل نہ ہونے کی وجہ دستور کی تدوین میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے آپ نے فرمایا: ’’یہ کانفرنس اس لیے منعقدنہیں ہوئی تھی کہ فرقہ ورانہ مسئلے کو حل کریں بلکہ آپ کی غرض یہ تھی کہ ترتیب دستور میں ہم سے مشورہ لیں ہمیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ فرقہ وارانہ مسئلے کے حل کے بغیر دستور بننا مشکل ہے یا بدرجہ آخر آپ کو اس باب میں ملک معظم کی حکومت کی پالیسی کا اعلان کرناپڑے گا۔ میرے نزدیک یہ بے حد افسوس ناک ہے کہ کانفرنس کو بے حد آرزوئوں کے بعد اس طرح ختم کر دیا جائے‘‘۔ یہ ذمہ دار حکومت کے حصول کی تدبیریںنہیں بلکہ اس کا مقصد دفتری حکومت میںکوئی حصہ لینا ہے۔ اگر حقیقی مقصد یہ ہے تو کانگرس نہ اس میںشریک ہوگی اور نہ اس کی حمایت کرے گی۔ کانگرس ملک کی ۹۵ فیصد آبادی کانمائندہ ہے ۔ ڈاکٹر امبیدکر کے سوال کیا کہ باقی ۵ فیصد آبادی کون ہے؟ گاندھی جی نے کہا کہ میں تمام اعتراضات کے باوجود اپنے دعوے پرقائم ہوں۔ کانگر س کاش کاروں کی نمائندہ ہے۔ اس مسئلے پر میں حکومت کاچیلنج قبول کرنے پر آمادہ ہوں۔ اس کے بعد آ پ نے فرقہ وارانہ مسئلے کے متعلق کانگرسی نقطہ نظر پیش کیا۔ اورفرمایا کہ: ’’یہ سب زیادہ قابل عمل سکیم ہے۔ اگر اس سکیم منظور نہ ہوتویہ فیصلہ ثالثوںکے سپرد کر دیا جائے حکومت اس کے جوڈیشنل ٹریبونل مقرر کرے اگر یہ بھی منظور نہیںاور فرقہ وارانہ مسئلے کا حل دستور کی ترتیب کی لازمی شرطہے تو ہمارے لیے نام نہاد ذمہ دارحکومت سے محروم رہنا ہی بہتر ہے‘‘۔ اس کے بعد انہوںنے بالغ حق رائے دہی کی اہمیت پر زور دیا اور فرقہ وارانہ نیابت کی مخالفت کی آخر میں ٖرمایا: ’’میں اچھوتوں کے وسیع طبقات کا نمائندہ ہوں۔ اچھوتوں کی طر ف سے آج ووٹ لیے جائیں تو مجھے سب سے زیادہ ووٹ ملیںگے۔ اچھوتوں کے لیے جداگانہ انتخاب اور خاص نیابت مفید نہیں۔ اس طرح وہ امتیاز دور نہیں ہو گا جو ان کے لیے نہیں اونچی جاتیوں کے لیے باعث شرم ہے۔ ہندوئوں میں مصلح پیدا ہو گئے ہیں اور جو اس امتیاز کو دور کنا چاہتے ہیں ڈاکٹر امبیدکر کی تجویز سے قوم میں پھوٹ پر جائے گی۔ میں اچھوتوں کا مسلمان یا عیسائی ہونا قبول کر لوں گا لیکن یہ میرے لیے ناقابل قبول ہے کہ ہر مقام پرہندو دو گروہوں میں بٹ جائیں گے۔ میں اس مطالبے کی آخر دم تک مخالفت کروں گا‘‘۔ آخر میں وزیر اعظم نے تقریر کی آپ نے فرمایا کہ: ’’جو کچھ اس کمیٹی میںپیش آیا ہے ا سکے ہم ذمہ دار نہیں۔ ہم چاہتے تھے کہ فیڈرل اسٹرکچر کمیٹی کاکام جاری رہے لیکن کمیٹی ہی کے بعض عناصر نے فرقہ وارانہ مسلے کے حل ہونے تک مباحث جاری رکھنے سے انکار کر دیا۔ اقلیتی کمیٹی کا اجلاس ہو چکا ہے غالباً پیر کو ۱۴ نومبر فیڈرل کمیٹی کا اجلاس ہوگا۔ اس کے بعد کھلا اجلاس منعقد کیا جائے گا۔ میںاقلیتوں کا فیصلہ کرنے کو تیار ہوں لیکن کیا اپ تمام اصحاب دستخط کر کے مجھے دے دیں گے کہ جو میں فیصلہ کروں گا اس کی پابندی کی جائے گی میں بارہا کہہ چکا ہوںکہ اب تک یہ نہیں ہوا مجھے کسی ایک گروہ یا کسی خاص طبقے کے دستخطوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ سارے ممبروں کے دستخطوں کی ضرورت ہے‘‘۔ وزیر اعظم کی تقریر کے بعد جزوی امور طے ہوئے اور بارہ بجے کے قریب کمیٹی کا اجلاس برخاست ہو گیا۔ برطانیہ میں عام انتخابات ۲۷ اکتوبر کو منعقد ہوئے۔ اس انتخاب میں کنزرویٹو پارٹی بڑی اکثریت سے کامیاب ہوئی۔ وزیر اعظم ریمزے میکڈانلڈ سخت مقابل یکے بعد کامیاب ہوئے اور ان کی پارٹی بھی کامیابی سے ہم کنار ہوئی۔ لیبر پارٹی کے بہت سے وزیر اور لیڈر انتخاب میں ناکام ہوئے۔ ۳ نومبر کو پارلیمنٹ کا افتتاحہوا اور ۱۰ نومبر کو ملک معظم نے رسمی افتتاح کیا۔ وزیر اعظم کے اعلان کیا کہ گول میز کانفرنس کے وہ مندوبین بدستور اپنے فرائض انجام دیتے رہیں گے جو انتخاب میں ہار گئے تھے (۲۲) اس وقت تک جو صورت حال تھی وہ اقبال نے جناب عبداللہ چغتائی کے نام ایک خط میں بیانکی تھی یہ خط اقبال نے اپنی قیام گاہ ۱۱۲ اے سینٹ جیمز کورٹ لندن سے لکھا تھا۔ ۳ نومبر ۱۹۳۱ء کے خط میں آپ نے فرمایا کہ: ’’یہ دن بہت مصروفیت کے گزرے ۔ مینارٹی کمیٹی کی میٹنگ تین دفعہ ہوئی او رتینو ں دفعہ پرائیویٹ گفتگوئے مصالحت کے لیے ملتوی ہوگئی۔ پرائیویٹ گفتگو بہت ہوئی مگر اب تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ ہندو اور سکھ مسلمانوں کے مطالبات کی مخالفت پر اڑے ہوئے ہیں۔ اب مینارٹی کمیٹی کی میٹنگ جس کا میں ممبرہوں شاید ۱۱ نومبر کو ہو۔ اسمیں بھی کچھ نہ ہو سکے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ مینارٹی کمیٹی کا کام محض مصالحت کی کوشش ہے یہ کوشش کی گئی جس کا نتیجہ اب تک کچھ نہیں ہوا (۲۳)۔ گاندھی جی نے مسلمان مندوبین سے ۱۵ نومبر کو ملاقات کی لیکن یہ ملاقات نتیجہ خیز ثابت ہوئی ۔ پنڈت مالوی جی کا ’’ٹائمز‘‘ میں انٹرویو شائع ہوا جس میں انہوںنے تصفیہ کے لیے تین تجاویز پیش کیں۔ یہ تجاویزگاندھی جی کی تجاویز سے مختلف تھیں: ۱۔ فرقہ وارانہ مسئلہ کو جمعیت الاقوام کے روبرو پیش کیاجائے۔ ۲۔ گاندھی جی کی تجویز کے مطابق اس مسئلے کو کسی جوڈیشنل ٹریبیونل کے سامنے پیش کیاجائے ۔ (۲۴) اور ۳ ۔ غیر ہندوستانی ثالثوں کے ایک بورڈ کے سامنے فیصلہ کرایا جائے۔ یہ تینوں تجاویز مسلمان مندوبین کے لیے قابل قبول نہ تھیں۔ گاندھی جی کی تجویز کی اسی اجلا س میں سر محمد شفیع اور دیگر مندوبین نے مخالفت کی تھی۔ تیری تجویز بھی مسلمان مندوبین رد کر چکے تھے اور پہلی تجویز ناقابل عمل تھی۔ اس سے قبل ۲۹ اکتوبر کو مسلمان مندوبین کی ایک نشست سر آغا خاں کی قیام گاہ رٹز ہوغل میںہوئی تھی۔ مسٹر سری نواس شاستری نے بھی اس میں شرکت کی اور آ پ نے مسلمانوں کے مطالبات کی تائید کی۔ آپ نے فرمایا کہ مسلمان مندوبین کا یہ فیصلہ بھی درست ہے کہ فرقہ وارانہ مسائل کا فیصلہ ہوئے بغیر مرکز کی ذمہ داری کے مسئلے پر بحث شروع نہیںکی جا سکتی۔ لہٰذا اگر مسلمان حکومت سے فیصلہ کرانا چاہتے ہیں تو وہ حکومت کو یقین دلائیں کہ اس کے فیصلے کی پابندی کی جائے گی۔ مسلمان مندوبین نے جواب دیا کہ وہ کسی ایسے فیصلے کو قبول نہیںکریں گے جس میں ان کے جائز مطالبات پورے نہ ہوں۔ خواہ وہ کسی کی طرف سے ہوں۔ مسلمانوں سے کہا گیا کہ وہ ان میں سے کسی ایک شکل کو اختیار کر لیں۔ اس کے بعد تین شرطیں ماننی بھی ضروری ہیں: ۱۔ بالغوں کے حق رائے دہی کی تائید ۲۔ مسلمانوں اور سکھوں کے سوا کسی دوسری قوم کے خاص نیابت کے مطالبے کی مخالفت اور ۳۔ مرکز کی ذمہ داری کے متعلق کانگرس کے مطالبات کی تائید (۲۵) گاندھی جی کی ان شرائط کو مان لینے کی صورت میں مسلمان دیگر اقلیتو ں کی حمایت سے محروم ہو جاتے تھے ان میں مسلمانوں کی سب سے بڑی اقلیت اچھوتوں کی تھی۔ یہ صدیوں سے اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کے ظلم و ستم سہہ رہے تھے۔ اصولی طور پر ان کا مطالبہ جائز تھا۔ سکھو ں نے سر جیو فرے کاربٹ سکیم رد کر دی تھی۔ ثالثی اورپنجابمیں اکاون فیصد اکثریت کو دیگر ہندو مندوبین نے رد کر دیا ۔ انہیں دنوں برطانیہ میں عامانتخابات ہو رہے تھے۔ ریمزے میکڈانلڈ کی مخلوط کابینہ انتخابات کی تیاریوںمیںمصروف تھی۔ ان کی توجہ ہٹ جانے کے بعد اقلیتی سب کمیٹی کا کوئی اجلاس ۸ اکتوبر کے بعد نہ ہوا۔ برطانوی انتخابات ۲۷ اکتوبر کو ہوئے تھے۔ (۲۶) اقلیتی سب کمیٹی کے صدر وزیر اعظم ریمزے میکڈانلڈ تھے۔ اچھوتوں کے مطالبہ نیابت خصوصی کے بارے میں اقبال اور دیگر مسلم مندوبین کا خیال تھا کہ اگر ہندو بطور خود اچھوتوں یا دوسری اقلیتوں کے ساتھ کوئی فیصلہ کر لیں تو ہمیں ان پر کوئی اعتراض نہیں لیکن اگر اس طرح فیصلہ نہ ہو سکے یعنی دوسری اقلیتیں مطمئن نہ ہوں اور خاص نیابت کا مطالبہ کریں تو مسلمانوں کے لیے اصولاً اور اخلاقاً ہرگز مناسب نہ ہو گا کہ ان کے مطالبے کی مخالفت کریں اور اپنے لیے خاص نیابت کا مطالبہ کریں۔ (۲۷) شروع سے وسط نومبر تک مسلمان مندوبین گول میز کانفرنس باہم متحد و متفق رہے لیکن بعد میںمسلمان مندوبین کے در میان اس بات پر اختلاف رائے ہو گیا کہ فرقہ وارانہ حقوق کے تصفیہ سے قبل انہیں فیڈرل سب کمیٹی کی کارروائی میں شریک ہونا چاہیے۔ کہ نہیں۔ بعض مندوبین کا خیال تھا کہ مرکز مسائل کی ناکامی یا مسائل مرکزیہ کے عدم تصفیہ کی ذمہ داری کی بجائے انہیں فیڈرل سب کمیٹی کی کارروائی میں اس شرط پر شریک ہونا چاہیے کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کا تصفیہ ہوئے بغیر کسی دستور کو تسلیم نہیںکریں گے۔ فیڈرل سب کمیٹی کی کارروائی میں شرکت پر وزیر ہند سر سیموئیل ہور لارڈ سینکی اور وزیر اعظم زور دے رہے تھے۔ مسلمان مندوبین نے ابتدا سے تمام جماعتوںسے مل کر اہم آئینی مسائل کے حل کی کوشش کی لیکن انہیں اس امر میں ناکامی ہوئی۔ گاندھی جی نے بصد خرابی مسلمانوں کے حقوق توتسلیم کر لیے لیکن انہیں کانگرس سے منظور کرانے سے انکار کر دیا مسلمانوں کے مطالبات تسلیم کرنے کے ساتھ چند شرائط کا بھی اضافہ کر دیا جن پر اچھوتوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق اور مستقل نیابت تسلیم کرنے سے انکار پر زور دیا۔ ہندو مہاسبھا اور اس کے نمائندوں نے مسلمانوں کے جائز حقوق تسلیم کرنے سے انکار کر دیاتھا۔ پھر سکھوں کے مطالبات ان پر مستزاد تھے۔ ۱۳ نومبر کو وزیر اعظم زیمرے میکڈانلڈ نے اقلیتوں کی سب کمیتی کا دوبارہ اجلاس بلایا۔ اس اجلاس میں وزیر اعظم نے مختلف افراد کے مشورے کے بعد اندازہ کیا کہ فیصلہ ہونا ممکن نہیں اس لیے انہوںنے ۱۶ نومبرکو فیڈرل سب کمیٹی کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا۔ ۱۵ نومبر کو مسلم مندوبین نے وزیر ہند سے ملاقات کی۔ اس ملاقات سے بعض مندوبین اس نتیجے پر پہنچہے کہ ۱۶ نومبر کی فیڈرل سب کمیٹی کے اجلاس میں اعلان کیا جائے گا کہ کوئی فیصلہ نہ ہو سکا اور مسلمان اور بعضدوسری جماعتوںکے مندوبین فرقہ وارانہ فیصلے کے بغیر کسی بحث میں شرکت نہیںکریں گے۔ اسی لیے یہی ممکن ہے کہ کھلا اجلا س منعقد کر کے حکومت اپنے مسلک کا اعلان کر دے۔ ۱۶ نومبر کو اجلاس منعقد ہوا۔ چند منٹ کی تقریروں کے بعد اندازہ ہوا کہ برطانوی وفد کی ناکامی مفاہمت کے اعتراف اور متذکرہ بالا فیصلے کے اعلان کے بجائے مباحث کو آگے بڑھانا چاہتا تھا۔ یہ صورت حال غیر متوقع تھی۔ لارڈ سینکی نے فرمایا کہ فوج اور معاملات خارجہ اور مالیات سے متعلق ان کی رائے معلوم نہ کی گئی تو ہمیں بہت افسوس ہو گا ل لارڈ ریڈنگ نے بھی اس کی تائید کی۔ ویج وڈ بین نے تند و تیز تقریر کی اور فرمایا کہ حکومت کانفرنس کو اس طرح ختم نہیںکر سکتی۔ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ ان تقریروں کا رد عمل یقینا غیر متوقع تھا۔ محمد علی جناح نے فرمایا کہ ہم (فیڈرل کمیٹی کے مسلمان مندوبین) تنہا کچھ نہیںکر سکتے۔ ہمیں اپنے دوسرے ساتھیوں سے مشورہ کرنے کاموقع دیا جائے لارڈ سینکی نے اصرار کیا کہ مباحث جاری رہیں مسٹر جناح نے اپنے دوسرے رفقا سے مشورے پر زور دیا۔ فیڈرل کمیٹی کا اجلاس دو گھنٹے کے لیے ملتوی ہو گیا۔ مسلم مندوبین آغا خاں کی قیام گاہ رٹز ہوٹل میں جمع ہوئے مولانا مہر نے اسمر؁لے پر بڑی دوڑ دھوپ کی۔ مسلم مندوبین سے استدعا کیکہ اگر پہلے فیصلے کے بدلنے اور مسلم کانفرنس کی قرارداد کے خلاف عمل پیرا ہونے کی مصلحت کے اعتبار سے بھی ضرورت ہے تو مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ سے اجازت مانگ کر کچھ کریں۔ لیکن مندوبین اس امر کے لیے تیار نہ تھے ایک گھنٹہ کے اندر اندر اجلاس ختم ہو گیا۔ مسلم مندوبین کا موقف تھا کہ وہ کانفرنس توڑے کا الزام اپنے سر نہیں لینا چاہتے۔ لہٰذا کانفرنس میں اعلان کر دینا چاہیے کہ مرکزکی ذمہ داری کے معاملات کے متعلق مباحث جاری رہیں لیکن مسلمان کسی ایسے دستور کو قبول نہیںکریں گے جس میں ان کے مطالبات شامل نہ ہوں گے۔ میاں سر محمد شفیع نے اس فیصلے کو کامیاب بنانے میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا تھا۔ مسٹر محمد علی جناح نے یہ فیصلہ فیڈرل کمیٹی کے اجلاس میں سنایا۔ سر شفیع نے بھی اس موقع پر تقریر کی۔ آخر میں لارڈ سینکی نے محمد علی جناح اور سر شفیع کا شکریہ ادا کیا اور اجلاس ختم ہو گیا۔ علامہ اقبال اس فیصلے کے خلاف تھے آپ چاہتے تھے کہ آئندہ مباحث سے قطعی بے تعلقی اور علیحدگی کا اعلان کیاجائے اور اگرکمیٹی کے مباحث میں حصہ لیا جائے تو کامل و مکمل درجہ مستعمرات کی تائید کی جائے۔ سر شفیع اورمسٹر جناح نے اصولی طور پر آپ کی رائے سے اتفاق کیا لیکن کمیٹی کے اجلاس میںاس تجویز پر مصلحتاً خاموشی اختیار کی۔ دیگر مندوبین نے بھی ا س تجویز کی موافقت نہیں کی۔ اقبال اس صورت حال سے بہت دل برداشتہ ہوئے آپ نے ۱۶ نومبر کو سر آغا خاں (جو مسلم لیگ کے رسمی سربراہ تھے) کوایک خط کے ذریعے وفد سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا۔ (۲۸) ۱۹ نومبر کو آل انڈیا مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کی قرارداد پہنچی تو آپ نے سیکرٹری آف سٹیٹ کو لکھ بھیجا کہ مسلمانوں کے ا س فیصلے کے بعد میرا یہاں ٹھہرنا مناسب نہیں لہٰذا ۲۱ نومبر کو میں جا رہا ہوں۔ اس اثناء میں مولانا شفیع دائودی کا مسلم مندوبین اور وفد سے اختلاف ہو گیا تھا انہوںنے بھی وفد سے الگ ہو نا مناسب سمجھا۔ (۲۹) ۲۱ نومبر کو اقبال اور مہر روم روانہ ہو گئے۔ بحیثیت مجموعی اقبال کانفرنس کی کارروائی سے مایوس تھے۔ بعض اراکین کانفرنس کے کردار سے بھی انہیںمایوسی ہوئی۔ ۲۰ نومبر ۱۹۲۱ء کو آل انڈیا مسلم کانفرنس کا اجلاس دہلی میں منعقد ہوا۔ اس میں مندرجہ ذیل حضرات شریک ہوئے۔ یہ حضرات اس اجلاس میںورکنگ کمیٹی کے ارکان تھے۔ نواب محمد اسمعیل خاں صدر‘ مسعود احمد ‘ ملک فیروز خاں نون‘ مفتی محمد صادق‘ مولانا عبدالمجید ‘ سید ذاکر علی ‘ حکیم جمیل خاں ‘ حسین امام ‘ سیٹھ عبداللہ ہارون اور خواجہ غلام السبطین ۔ اس اجلاس میںورکنگ کمیٹی نے درج ذیل قراردادیںمنظور کیں۔ ۱۔ یہ کمیٹی فیڈرل اسٹرکچر سب کمیٹی میںمسلم مندوبین کی شرکت کو اس وقت تک مسلم کانفرنس کی ہدایات کے منافی سمجھتی ہے۔ جب تک فرقہ وارانہ مسئلے کا تسلی بخش حل نہ ہو جائے اور مسلم ارکان کو متنبہ کرتی ہے کہ یہ کمیٹی ایسے کسی فیصلے کو منظورنہیں کرے گی جو کسی ایسے مسئلے سے متعلق کیاجائے جس پر مسلم کانفرنس نے اپنی قطعی رائے ظاہر کی ہو۔ ۲۔ یہ کمیٹی مسلم مندوبین کی مساعی جمیلہ کو بنظر استحسان دیکھتی ہے۔ جو انہوںنے غیر مسلم مندوبین کے ساتھ مفاہمت اور سکھوں کے سوا تمام اقلیتوں کے ساتھ تعاون اور اشتراک عمل کے سلسلے میں کی ہیں۔ مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ اعلا ن کرتی ہے کہ پنجاب اور بنگال میںمسلم نیابت کو ۵۱ فیصدی تک گھٹانا نہیںچاہیے بلکہ نیابت آبادی کے متناسب ہونی چاہیے۔ ۳۔ مجلس عاملہ قرار دیتی ہے کہ صوبہ سرحد کی صوبائی مجلس مقننہ تمام تر منتخبہونی چاہیے اور صوبہ مذکورہ کی وزارت کو وہی اختیارات ہونے چاہئیں جو دیگر صوبوں کی وزارتوں کو حاصل ہیں۔ ۴۔ ہندوستان کے مسلمان مطالبہ کرتے ہیں کہ سندھ کو غیر مشروط طورپر الگ صوبہ قرار دیا جائے مجلس عاملہ سندھ کی مالی تحقیقاتی کمیٹی کے فیصلوں سے مطمئن نہیں کیونکہ کمیٹی نے سندھ کے مصارف کی تجویز پر غور نہیں کیا جو ایک جدید صوبے کی مالی ضروریات کے موافق ہوں۔ آل انڈیا مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ نے کشمیر سے متعلق مندرجہ ذیل قراردادیں منظور کیں۔ ۱۔ کمیٹی کشمیر کے مظلوم مسلما نوں کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کرتی ہیں جن پر حکومت کشمیر نے ناگفتہ بہ مظالم توڑے ہیں اوراپنے حقوق کیلیے جنگ میں انہوںنے قربانیاں دیں انہیںبے حد قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ نیز کمیٹی مسلمانان پنجاب کی قابل تعریف کوششوں کی تعریف کرتی ہے جو انہوںنے اپنے کشمیری بھائیوں کی امداد میں انجام دی ہیں۔ مہاراجہ کشمیر کے تازہ اعلان کے پیش نظر کمیٹی توقع رکھتی ہے کہ اس پر پورے طورپر عمل کیا جائے گا اور ہز ہائی نس کی رعایا کی شکایات اور تکالیف کا پوری طرح تدارک ہو جائے گا۔ نیز کمیٹی اعلان کرتی ہے کہ جب تک مسلمانان کشمیر کی شکایات دورنہ ہوں گی مسلمانان ہند کی بے چینی کم نہ ہو گی ۔ کمیٹی حخومت ہند کومتنبہ کرتی ہے کہ اگرموجودہ حالات میںپھر مسلمانوں کو ڈوگروں کے رحم و کرم پر چھوڑا گیا تو اس کی ذمہ داری حکومت پرعائد ہو گی۔ کمیٹی مطالبہ کرتی ہے کہ کشمیر آرڈی ننس فی الفور منسوخ کردیا جائے او ر اس کی بنا پر جو افراد گرفتار ہیںانہیںفوراً رہا کردیا جائے نیز کمیٹی کے نزدیک جب تک آرڈی ننس پر عمل ہوتا رہے گا۔ مسلمانان پنجاب اور حکومت کے درمیان کسی مصالحت کی توقع نہیں اس لیے حکومت سے پرزور اپیل کی جاتی ہے کہ اس مسئلے پر مزید ایجی ٹیشن بند کرانے کے لیے جلد کارراوائی کی جائے ۔ ٭٭٭ حواشی ۱۔ ’’اردو ادب ۱۹۸۳ئ‘ ‘ مرتبہ کشور ناہید جاوید شاہین منو بھائی۔ ص ۴۰۰ لاہور۔ ستمبر ۱۹۸۴ء ۔ اقبال کے خطوط بنام ایما ویگے ناست کی عکسی نقول محمد امان ہوبہوم کی تحویل میں تھیںَ آ پ جرمن نو مسلم ہیں اور جرمنی کی وزارت خارجہ سے منسلک ہیں انہوںنے پاکستان میں شادی کی تھی۔ پاکستان میں قیام کے دوران میںآپ کے تعلقات پاکستانی اہل علم حضرات سے تھے۔ ڈاکٹر سعید اختر درانی نے ان خطوط کو جرمن اور انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا اورابتدا میں انہیں ماہنامہ ’’افکار‘‘ میں شائع کروایا تھا۔ ۲۔ ’’مظلوم اقبال‘‘ ص ۳۲۶ ۳۔ ’’ارد و ادب ۱۹۸۳ئ‘‘ ص ۴۰۱ ۴۔ یہ روایت مولانا غلام رسول مہر نے راقم الحروف سے بیان کی تھی۔ ۵۔ ’’اردو ادب ۱۹۸۳ئ‘‘ ص ۴۰۲ ٭٭٭ دورہ اطالیہ قیام انگلستان کے دوران اطالوی حکومت نے اقبال اورمولانا شوکت علی کو اطالعی قونصل مقیم لندن کی معرفت دورہ اطالیہ کی دعوت دی۔ آ پ حضرات نے ۱۰ نومبر ۱۹۳۱ء کو طامس کک کے ذریعے ٹکٹوں کا انتظام کیا تھا۔ ان کا ارادہ راستے میں روم سکندریہ قاہرہ اور بیت المقدس ٹھہرنے کا تھا۔ اس لیے آپ لوگوں نے ہر مقام کے ٹکٹ بنوا لیے تھے۔ اور روانگی کی تاریخوں سے قبل طامس کک کو ہدایات دیتے رہے۔ ان انتظامات کے بعد مولانا مہر نے ادارہ ’’انقلاب‘‘ کو ایک تار دیا تھا جس کا متن درج ذیل ہے : ’’علامہ اقبال مولانا دائودی‘ اور میں ۲۱ نومبر کو انگلستان سے روانہ ہو کر روما‘ قاہرہ اور بیت المقدس سے ہوتے ہوئے ۲۸ دسمبر کو بمبئی پہنچ جائی گے سب احباب و اعزہ کو اطلاع دے دیجیے‘‘ (۱) ۲۱ نومبر ۱۹۳۱ ء کی صبح کو اقبال ‘ مولانا شفیع دائودی‘ اور مہر لندن کے مشہور ریلوے سٹیشن وکٹوریہ پہنچے۔آپ حضرات کو رخصت کرنے کے لیے متعدد اصحاب تشریف لائے تھے۔ جن میںرئوف پاشا‘ عبدالرحمن پشاوری‘ مولوی یار محمد نائب امام مسجد پٹنی اور عبدالعزیز اسمعیل قابل ذکر تھے۔ ٹرین نو بجے روانہ ہوئی۔ تقریباً دو گھنٹے کے بعدیہ لوگ انگلستان کی بندرگاہ فوک سٹون پہنچے۔ اس وقت فرانس جانے والا بحری جہاز روانگی کے لیے تیار تھا۔ دس منٹ میں یہ لوگ جہاز پر سوار ہو گئے تھے۔ رودباد انگلستان اس روز پر سکو ن تھا۔ ساڑھے بارہ بجے جہاز فرانسیسی بندرگاہ بولون پر لنگر اندازہوا۔ اقبال اور مہر کا ارادہ تھا کہ درمیان میں کہیں رکے بغیر سیدھے روم روانہ ہوجائیں گے لیکن مولانا شفیع دائودی چند روز پیرس میں قیام کرنا چاہتے تھے۔ اقبال اور مہر بولون سے پلیمن ریل کار میں سوارہوئے۔ پلیمن کار میں ۃر مسافرکے لیے ایک چھوٹا سا کیبن ہوتاہے ۔ جس میں ایک نشست گاہ ہوتی تھی۔ سامان رھکنے کی جگہ اور منہ دھونے کے لیے واش بیشن لگا ہوتا تھا۔ رات کے وقت نشست گاہ کو الٹ دیا جاتا تو نیچے سے بستر نکل آتا جس پر ملازم سفید چادریں بچھا دیتا۔ تکیوں پر نئے غلاف چڑھائے جاتے۔ اس طرح یہ نشست گاہ بہت عمدہ بستر بن جاتی تھی۔ ہر ڈبے میں دس کیبن تھے اور اتنے ہی مسافروں کے قیا کا انتظام تھا۔ ہر ڈبے پر ایک مستق ملازم جسے کنڈکٹر کہتے تھے متعین تھا۔ دو بجے کے قریب ٹرین بولون سے روانہ ہوئی اور چار بجے پیرس کے سٹیشن گاردی نورد پہنچی۔ اقبال نے لندن سے سرادارامرائو سنگھ کو تار کے ذریعے اپنی آمد کی اطلاع دی تھی وہ سٹیشن پر موجود تھے۔ گاردی نورد سے ٹرین پیرس کے دوسرے سٹیشن گاردی لیان پہنچی۔ یہاں اقبال شیدائی سے ملاقات ہوئی۔ ان کا اصرار تھا کہ اقبال اور مہر چند روز پیرس میں قیام کریں گے لیکن یہ ممکن نہ تھا۔ ان سے کچھ دیر اسٹیشن پر بات چیت ہوئی۔ پانچ بجے کے قریب ٹرین پیرس سے روانہ ہوئی۔ اقبال اور مہر نے اپنے ٹکٹ پاسپورٹ اور سفر کے کاغذات کنڈکٹر کے حوالے کر دیے اور آرام سے سو گئے۔ ٹرین پونے چار بجے اطالوی سرحد کے نزدیک پہنچی۔ سامان کے متعلق آپ لوگوں کے پاس اطالوی سفارت خانے کی طرف سے خصوصی اجازت نامہ تھا۔ اس لیے آپ حضرات کو جگائے بغیر ہی کسٹم چیکنگ مکمل ہو گئی۔ ۲۲ نومبر کا تمام دن سفر میںگزرا۔ رات کے تقریباً پونے آٹھ بجے ریل روم پہنچی یعنی لندن سے روانہ ہوکر تقریباً پینتیس گھنٹوں میں انہوںنے بارہ سو کلومیٹر کا سفر طے کیا تھا۔ مقررہ پروگرام کے مطابق اقبال کے دوست داکٹر سکارپا (۲) استقبال کے لیے روم کے ریلوے سٹیشن پر موجود تھے۔ ان کے علاوہ اٹلی کی رائل اکیڈمی (۳) کی جانب سے روم یونی ورصٹی کے فلسفے کے پروفیسر ایرسٹا کو استقبال کے لیے تشریف لائے۔ یہ لوگ قمیتی اور آرما دہکار میں بیٹھ کر روانہ ہوئے اور انہوںنے اقبال اور مہر کو روم کے ایک اعلیٰ درجے کے ہوٹل میں ٹھہرایا ۔ رات کا کھانا آپ حضرات نے ڈاکٹر سکارپا کے ساتھ کھایا اور آپس میں دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ ۲۳ نومبر کی صبح کو ڈاکٹر سکارپا علامہ اقبا ل کے بعض ارباب علم سے ملنے کے لیے گئے۔ ایک بجے رائل اکیڈمی کے نائب صدر پروفیسر فالمیکی آئے آپ سنسکرت کے بڑے درجے کے عالم تنے اور چھ ماہ تک ڈاکٹر ٹیگور کے قائم کردہ مدرسے شانتی شانتی میں سنسکرت پڑھاتے رہے تھے۔ دو گھنٹے تک ان کے ساتھ علمی مذہبی اخلاقی اورسیاسی موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔ پروفیسر فالمیکی نے اقبال کو ۲۶نومبر کو شام کے پانچ بجے اکیڈمی میں لیکچر دینے کی دعوت دی۔ علامہ اقبال تین بجے ایک نہایت قابل اطالوی خاتون سے ملنے گئے۔ شام کو ایک بڑے اطالوی بینکر کی بیوی ملنے کے لیے آئیں۔ یہ خاتون وسط ایشیا کے مختلف حصوں کی سیر کر چکی تھیں۔ اور سفر سے واپسی پرلاہور میں ہر کشن لال کے مکان پر چند گھنٹوں کے لیے ٹھہری تھیں۔ اس خاتون کے ساتھ وسط ایشیا اور بالشویک روس کے متعلق گفتگو ہوتی رہی۔ پھر وزارت خارجہ کے ایک بڑے افسر ملاقات کے لیے آئے اور دیر تک یورپی اور ایشایائی سیاسیات کے متعلق تبادلہ خیالات کرتے رہے۔ ۲۴ نومبر کی صبح کو روم کے تاریخی مقامات دیکھنے کا پروگرام تھا۔ اقبال اور مہر کی مدد کے لیے ڈاکٹر سکارپا نے آثار قدیمہ ک یایک پروفیسر کو ساتھ کر دیا تھا لیکن پروفیسر صاحب زیادہ انگریزی نہ جانتے تھے۔ اس لیے ایک جرمن خاتون کو بھی ساتھ کر دیا۔ یہ نہ صرف انگریزی سے واقف تھیں بلکہ برما اورہندوستان کی سیر بھی کر چکی تھیں اور چند روز کے لیے روم آئی ہوئی تھیں۔ آپ حضرات ہوٹل سے نکل کر سیدھے ایمفی تھیٹر گئے۔ کچھ دیر یہاں کی سیر کے بعد قیصر آگسٹس کے باب فتح سے ہوتے ہوئے فورم (۴) میں داخل ہوئے۔ اس کے مختلف حصوں کی سیر کی۔ پھر قیاصرہ روم کے شاہی محلات Platineکے بعض حصے بھی دیکھے۔ یہ سیر تقریباً ڈھائی گھنٹے جاری رہی۔ اقبال اور مہر روم کے آثار قدیمہ کی عظمت اور جبروت‘ جلال ‘وسعت و رفعت سے بے حد متاثر ہوئے ۔ در حقیقتاس قدر عظیم عبارتں دنیا میں اور کہیں نہ تھیں۔ زمانے کی گردش سے یہ عمارتیںنہ صرف تباہ ہوئیں بلکہ گزوں زمین کے نیچے دفن ہو گئیں حالانکہ روم بدستور آباد تھا حضرت علامہ پیلاتین میں شاہی محلات کے آثار قدیمہ کے درمیان چل رہے تھے تو آپ نے فرمایا کل من علیھا فان کہنے والے نے بھی کس قدر صحیح کہا ہے۔ شام کو بعض کیٹا کومب (۵) Catacombدیکھے جن سے اقبال بہت متاثر ہوئے کیٹا کومب کے محافظوں نے بتایا کہ یہ زمین دوز اور پرپیچ راستے مسلسل آٹھ میل تک چلے گئے تھے اقبال نے انہیں دیکھ کر فرمایا مذہب بھی کیا چیز ہے کہ کوئی دوسری عقیدے اور ایمان کی قوت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ یہ جو کچھ ہوا سب مذہبی عقائد کے جوش میں ہوا۔ عقیدہ اصلاً غلط بھی ہو لیکن جب مذہب کے رنگ میں دل پرقبضہ کر لیتا ہے توانسان کے قوائے عمل میں عجیب و غریب حرارت پیدا کر دیتا ہے۔ شام کے پانچ بجے اٹلی کے مشہور فاضل پروفیسر جیٹلی سے ملاقات طے تھی۔ آپ اس زمان ے میں انسائیکلوپیڈیا اطالیہ کی ترتیب کے انچارج تھے۔ آ پ انگریزی نہ جانتے تھے اس لیے ترجمانی کے فرائض ڈاکٹر سکارپا نے انجام دیے۔ ملاقات تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہ جس میںمختلف مسائل زیر بحث آئے۔ ۲۳ نومبر کو پروفیسر جیٹلی کی صدارت میں ایک خاص علمی مجلس میںایک صاحب نے تجویزپیش کی تھی کہ شعر اور موسیقی وغیرہ کو نصاب سے خارج کر دینا چاہیے۔ دوران گفتگو یہ موضوع بھی زیر بحث آیا اقبال نے فرمایا قوم کی تعمیر و تربیت کے اصول کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ تجویز نہایت مفید معلوم ہوتی ہے۔ جیٹلی نے کہا کہ یہ چیزیں لوگوں کو متوجہ کرنے کا اچھا ذریعہ ہیں۔ اس کے بعد اچھی اورمفید باتیں لوگوں کے ذہن نشین کرائی جاسکتی ہیں۔ اقبال نے فرمایا کہ اس اعتبار سے یہ طریقہ بھی ناقص ہے۔ ہمارے ہاں ااس کا تجربہ ہو چکا ہے۔ لوگ خوش گلو شاعروں کے نام پر اشتہار دے کر لوگوں کو جمع کیا کرتے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اب اگر ٹھوس سیاسیات یا علمیات کے لیے دعوت دی جائے تو کوئی بھی نہیں آتا۔ اس ضمن میں اقبال نے اسلام کی مثال دی جس میں ان چیزوں کو دبایا گیا تھا۔ پھر فرمایا شعر شعر میں اورموسیقی موسیقی میںفرق ہے۔ اگر کوئی ایساشاعر پیدا ہوجائے جو دنیا کو حقیقی زندگی عمل اور حرکت کا موثر پیغام دے سکے یا کوئی ایسا موسیقی داں پیدا ہو جائے جو حیات اقوام کے اصول ملحوظ رکھ کر نئی راگنیاں پیدا کر سکے تو خیر! لیکن جو کچھ اس وقت ہمارے سامنے ہے اس سے قوت عمل میں ضعف وانحطاط پیداہوجانے کے سوا اور کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ اس روز صبح اقبال نے روم کے آثار قدیمہ کو دیکھا تھا۔ اس لیے ا ن کے متعلق بھی گفتگو ہوئی اقبال نے فرمایا کہ مسلمانوں کے طرز تعمیر کو دیکھیے اس کے اندر اسلامی روح کا ظہور سب سے زیادہ بہتر معلوم ہوتاہے۔ اس لیے کہ عمارتیں زیادہ دیر تک قائم رہتی ہیں اور قوم کی روح عمل اور انداز و اسلوب فکر کی زیادہ مدت تک آئینہ داری کر سکتی ہیں۔ یورپی تہذیب کی موجودہ حالات اور اس کے مستقبل کے متعلق بھی گفتگو ہوئی جس سے جٹیلی بہت متاثرہوا اور کہنے لگا کہ ایسے اچھوتے اور نادر اور بریق حقئاق خیالات کا آدمی میںنے نہیں دیکھا۔ انہوںنے اقبال سے درخواست کی کہ اگر آپ نے اپنے ان خیالات کو جو آپ نے اس صحبت میں ظاہر فرمائے ہیں مجھے لکھ دیں تو آپ کی تحریر کو باعث فخرسمجھوں گا۔ اقبال نے جواب دیا کہ یہ فرصت پر موقوف ہے۔ ڈاکٹر سکارپا اطالوی جرائد کے لیے اقبال کی سیرت اور فن کے بارے میں مضمون لکھ رہے تھے۔ انہوںنے مضمون کی تیاری کے دورا ن اقبال کی بعض نظمو ں کے کچھ حصوںکا ترجمہ اطالوی زبان میں کیا تھا۔ ان نظموں کے علاوہ انہوںنے مرثیہ سسلی کا بھی ترجمہ کیا تھا پروفسر جیٹلی سسلی کے رہنے والے تھے۔ انہوںنے بڑے شوق سے مرثیہ سسلی کا اطالوی ترجمہ دیکھا تھا اور ڈاکٹر سکارپا سے درخواست کی کہ انہیں اس کی ایک کاپی دی جائے۔ پروفیسر جیٹلی سے ملاقات کے بعد اقبال اور مہر انسائیکلو پیڈیا اطالیانہ کے دفتر تشریف لے گئے ارو مختلف شعبوں میں جا کر انسائیکلو پیڈیا کی ترتیب و تدوین کا طریقہ دیکھا۔ یہ انسائیکلوپیڈیا حکومت کی امداد کے بجائے دولت مند اطالویوں کے چندوں کی مدد سے شائع ہو رہا تھا۔ ۱۹۲۵ء میں اس کے لیے کمیٹی بنی تھی۔ اور ۱۹۲۹ء میں باقاعدہ کام شروع ہوا تھا۔ تقریباً دو ہزار افراد اس کام میں شریک تھے۔ دفتر کا مستقبل اسٹاف سو افراد پر مشتمل تھا اس کا ماہانہ خرچ نو اکھ لیرا یا دس ہزار پونڈ ماہانہ اورایک لاکھ بیس ہزارپونڈ سالانہ تھا۔ اس وقت تک اس کی بارہ جلدیں چھپ چکی تھیں۔ مکمل انسائیکلو پیڈیا چھتیس جلدوں میںشائع کرنے کا منصوبہ تھا اور دسمبر ۱۹۳۷ء تک پایہ تکمیل تک پہنچنے کا امکان تھا۔ انسائیکلو پیڈیا اطالیانہ کی طباعت کی صفائی‘ کاغذ کی نفاست‘ تصاویر اور نقشوں کی دل کشی اور جلدوں کی مضبوطی اورعمدگی کے اعتبار سے انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کی نسبت بدرجہا بہتر معلوم ہوتاتھا۔ ہر جلد میں تقریباً ایک ہزار صفحات تھے جن میں کم و بیش دو سو سفحات پر تصاویر تھیں۔ بعض تصاویر رنگین تھیں۔ چھوٹی تصاویر اس کے علاوہ تھیں۔ عرب کے متلعق جو مقالہ لکھاگیا تھا وہ نقشوں کے علاوہ نوے صفحات پر پھیلا ہوا تھا۔ دفتر کے کارکنوں کا دعویٰ تھا کہ یہ دنیا کے بہترین انسائیکلو پیڈیا تھا۔ انسائیکلو پیڈیا کے دفترسے آپ لوگ جب اپنی قیام گاہ پر واپس آئے تو انہیں مولانا شفیع دائودی کا تار ملا جس میں انہوں نے اطلاع دی تھی کہ وہ ۲۵ نومبر کو روم پہنچے والے تھے ۔ ۲۴ نومبر کو دوپہر کے وقت معلوم ہوا کہ امان اللہ خاں سابق شاہ افغانستان روم میں تھے۔ مولانا مہر نے ٹیلی فون کر کے ملاقات کی اجازت چاہی ۔ تھوڑی دیر بعد جواب ملا کہ اقبال اور مہر ۲۵ نومبر کو ساڑھے تین بجے مل سکتے ہیں۔ اورشاہ موصوف اس ملاقات سے بہت خوش ہوں گے۔ (۶) اس وقت انہیں یہ تار ملا کہ مولانا شفیع دائودی ۲۶ نومبر کی شام کو روم پہنچیں گے۔ پیرس کے سفر سے قبل مولانا شفیع دائودی نے اقبال سے درخواست کی تھی کہ وہ پیرس میں کسی واقف کے نام رقعہ لکھ دیں تاکہ وہ انہیں پیرس کی سیر کروا دے۔ چنانچہ علامہ اقبال نے اقبال شیدائی کے نام ایک خط لکھ دیا تھا۔ شیداء صاحب نے یہ خط دیکھنے کے بعد مولانا دائودی کو پیرس کی سیر کرائی تھی (۷)۔ ۲۵ نومبر کو تین بجے بعد دوپہر اقبال اور مہر سابق شاہ افغانستان امان اللہ خاں سے ملاقات کے لیے ان کے مکان پر گئے۔ ان حضرات کا خیال تھا کہ آدھ گھنٹے میں ملاقات کر کے واپس ا ٓ جائیں گے۔ لیکن شاہ موصوف نے خواہش ظاہر کی کہ اگر کوئی کام نہ ہو تو مزید ٹھہریں چنانچہ ملاقات تین گھنٹے تک جاری رہی۔ امان اللہ خاں بہت محبت سے پیش آئے زیادہ تر بات چیت انقلاب افغانستان کے بارے میں ہوئی۔ آپ نے فرمایا کہ جب میں یہ دیکھتا تھا کہ جو بندوقیں توپیں اورکارتوس میں نے اعدائے اسلام و افغانستان کیلیے جمع کیے تھے وہ خود افغانوں کے ہاتھوں افغانوںپر استعمال ہو رہے تھے تو میرا کلیجہ ٹکڑے ٹکرے ہو جاتا تھا۔ میں یہ برداشت نہ کر سکا کہ اپنے تاج اور تخت کی خاطر افغانوں کو باہمی جنگ میں الجھائوں لہٰذا باہر چلا آیا۔ گفتگو کے دوران میں انہوںنے بتایاکہ انہوںنے اپنی سوانح کا ایک حصہ مکمل کر لیا ہے ار پوری کتاب تین حصوں پر مشتمل ہو گی۔ شاہ امان اللہ خان کے قیام گاہ پر سردار عنایت اللہ خاں سے بھی ملاقات ہوئی۔ آ پ اپنے بھائی امان اللہ خاں سے ملنے ایران سے تشریف لائے تھے۔ سردار محمود طرزی کے چھوٹے صاحبزادے عبدالوہاب طرزی بھی شاہ موصوف کے ساتھ رہتے تھے آپ بہت ذکی ارو فہیم تھے ۲۷ نومبر کو آپ شاہ امان اللہ کی طرف سے ملاقات بازدید کے لیے اقبال اور مہر کی قیام گاہ پر آئے اور دو گھنٹے تک مختلف مسائل پر باتیں کرتے رہے۔ رخصت کے وقت اقبال نے ان سے کہا کہ شاہ امان اللہ کو میرا یہ پیغام دے دیجیے (۷)۔ پیر ما گفت جہاں برروشے محکم نیست از خوش و نا خوش او قطع نظر باید کرد افغانستان کے سفیر مامور اٹلی سے اقبال اور مہر کا ملنے کا ارادہ تھا لیکن انہیں اچانک پروگرام تبدیل کرنا پڑا۔ اور وہ ملاقات کیے بغیر روم سے روانہ ہوگئے۔ ۲۶ نومبر کو اقبال نے رائل اکیڈمی میں لیکچر دیا تھا ۔ (۸) ۲۷ نومبرکو مسولینی نے اقبال کو مدعو کیا ۔ ۲۷ نومبر کو روم کے بعض اخبارات میں اقبال کی مختلف تصاویر شائع ہوئیںَ اور شاعری کے متعلق مضامین چھپے۔ مرثیہ سسلی کے بعض بندوں کا ترجمہ اور رائل اکیڈمی کے لکچر کے سلسلے میں تصاویر شائع ہوئیں۔ اقبال کی ایک دوست خاتون جو اٹلی کے طبقہ امرا سے تعلق رکھتی تھیں ڈاکٹر جاوید اقبال کے نزدیک کائوسس کارینوالے تھیں (۹) ۔ انہوں نے اقبال سے دریافت کیا کہ اگر آپ کو یہاں کوئی خاص چیز دیکھنی ہے تو فرمایے تو کہ اسکا انتظام کیا جاسکے۔ اقبال نے جواب دیا کہ اطالیہ کا حسن مشہور ہے میں اس شہر روما کی حسین ترین خواتین دیکھنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ کائوسیس نے ایک ٹی پارٹی میں اعلیٰ طبقے کی چند خوبصورت خواتین کو مدعو کیا اوراقبال کو ان سے متعارف کروایا اقبال نے فرمایا اطالیہ کا حسن یورپ میںبہترین ہے اور اس ضیافت میں روما کے حسن کے بعض نہایت لطیف نمونے تھے۔ کائوسٹیس کارنیوالے کی ایک تعلیم یافتہ خاتون تھیں جو نیپلز کی رہنے والی تھیں ۔ اوراقبال کو لندن کے زمانہ طالب علمی سے جانتی تھیں۔ کائویٹس کارنیوالے نے روم میں اقبال کو اپنے ویلا میںدعوت دی تھی (۱۰) روم میں مختلف اکابر اقبال سے ملنے کے لیے آتے تھے۔ سسلی کی ایک متمول خاتون اقبال سے تین چار بار ملیں اور مصر ہوئیں کہ اقبال سسلی کا سفر کریں اور ایک ماہ وہاں قیام کریں۔ سسلی میں وہ عربی تمدن و تہذیب کے آثار دکھائیں گی خود اس کے محل میں بہت سے عرب آثار تھے لیکن اقبال نے عدم فرصت کی بنا پر دعوت قبول نہ کی۔ روم میں قیام کے دوران ایک روز اقبال اور مہر نے کولیسیم فورم اور بعض دوسرے آثار دیکھے۔ کولیسیم کے متعلق آثار محکمہ قدیمہ کے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ اس میں پچا س ہزار تماشائیوں کے بیٹھنے کا انتظام تھا۔ اقبال جب اپنی قیام گاہ پر واپس آئے تو آپ نے فرمایا دیکھو ایک طر ف رومائے قدیم کے سلاطین تھے جنہوں نے ایک عظیم الشان عمارت اس لیے بنوائی کہ پچاس ہزار انان اس میںبیٹھ کر درندوں اور انسانوںکی لڑائیوں کا تماشا دیکھیں۔ دوسری طرف ہمارے لاہور کی شاہی مسجد جو اس غرض سے تعمیر کی گئی تھی کہ وہاںایک لاکھ بندگان خدا جمع ہو کر مساوات اخوت اور محبت کے سچے اور مخلصانہ جذبات کا مظاہرہ کریں۔ اسی ایک مثال کو سامنے رکھ کر اندازہ کرو کہ اسلام دنیا کے لیے کیسی برکات و حسنات کا سرچشمہ ہے۔ ایک کیٹا کومب Catacombدیکھنے کے لیے گئے۔ اس کی وضع و ہیئت نے اقبال کے دل پر عجیب اثر ڈالا۔ اس کے بعد مصر کا اہرام اور اس کے پاس عبادت کدہ دیکھا۔ پھر فلسطین میں مسیحیوں کی بعض قدیم مذہبی عمارتیںدیکھیں۔ ان سب عمارات میں تیرگی اور زمین دوزی کا عنصر نمایاں تھا۔ اقبال نے سف کے دوران کئی مرتبہ فرمایا کہ اسلام سے قبل ہر مذہب کا رجحان تیرگی ظلمت مستوری اور اخفا کی طرف تھا۔ اسلام پہلا مذہب ہے جس نے سورج کی روشنی میںخدائے واحد و قہار کی پرستش کی اور مذہب کو مستوری او ر اخفا سے باہر نکالا اور یہ حقیقت اسلام کی عبادت گاہوں اور ماقبل اسلام کی عبادت گاہوں پر سرسری نظر ڈالنے سے آشکار ہو سکتی ہے۔ ۲۶ نومبر کو مولانا شفیع دائودی پیرس اور جنیوا سے ہوتے ہوئے روم تشریف لائے ۲۷ نومبر کو مولانا شوکت علی اور زاہد علی تشریف لائے ۔ ان لوگوںنے اقبال اور مہر سے ملاقات کی۔ ۲۷ نومبر کی شام کو اطالیہ کی پارلیمنٹ کے رکن اورنیپلز کے امیر بیرن رابرٹویکارڈی نے اقبال ار مہر سے ملاقات کی۔ انہوںنے اصرار کیا کہ اقبال اورمہر کچھ دنوں کے لیے نیپلز میں قیا م کریں ارو وہاں پمپی آئی اور ویسویس کا مشاہدہ کریں اقبال کا ارادہ تھا کہ وہ ۲۸ نومبر کو دن میں افغان سفیر متعینہ روم سے ملنے کے بعد شام کو روم سے ٹرین کے ذریعے برینڈزی روانہ ہو جائیں گے۔ لیکن بیرن ریکارڈی کے بے حد اصرارپر انہوںنے اپنے پروگرام میں تبدیلی کی۔ بیرن کا اصرار تو چند روز قیام کا تھا لیکن اقبال نے فرمایا کہ ان کے پاس وقت نہیں۔ بیرن کے شدید اصرار پر آپ نے فرمایا کہ چند گھنٹوں میں وہاں کی سیر کر آئیں گے پھر نیپلز سے برینڈزی روانہ ہو جائیں گے۔ بیرن نے وہاں سے اپنے بیٹے کو فون کیا کہ وہ ضروری انتظامات کرے۔ کچھ دیر بعد ہندوستان کے مشہور ماہر اقتصادیات پروفیسر ٹی شاہ (۱۱) تشریف لائے۔ پروفیسر شاہ گول میز کانفرنس میں شرکت کے بعد روم سیر کے لیے آئے تھے وہ بھی شریک سفر ہو گئے۔ ۲۸ نومبر کی صبح کو یہ حضرات نیپلز روانہ ہو گئے۔ ریل تین گھنٹے میں روم سے نیپلز پہنچی۔ بیرن کے صاحبزادے سٹیشن پر استقبال کے لیے موجود تھے۔ وہاں سے یہ لوگ پمپی آئی روانہ ہوئے دو گھنٹے میں پمپی آئی کے کھنڈروں کی سیر کی۔ آپ حضرات نے وہ تمام مقامات دیکھے جہاں ااس وقت کھدائی ہو رہی تھی۔ یہاں عام لوگوں کو جانے کی اجازت نہ تھی لیکن بیرن نے مہمانوں کے لیے خصوصی انتظام کیا تھا اس وقت تیز بارش ہو رہی تھی۔ اس لیے ویسوویس آتش فشاں پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنا محال تھا کیونکہ بارش میں پھسلن کی وجہ سے چوٹی پر جانا خطرناک تھا۔ شام کے وقت نیپلز کے عجائب گھر گئے۔ یہ عجائب گھر شام کے چار بجے بند ہو جاتاتھا لیکن بیرن نے مہمانوں کی خاطر اسے چھ بجے تک کھلا رککھنے کا خصوصی انتظام کیا۔ یہاں پمپی آئی ہر کولیسیم اور گرد و نواح کے دوسرے تباہ شدہ شہروں کے بیش قیمت آثار محفوظ تھے۔ ان آثار کے مشاہدے سے اقبال بے حد متاثر ہوئے ۔ سیر کے بعد اقبال اور مہر بیرن رابرٹو ریکارڈی کے مکان پرتشریف لائے۔ دو گھنٹے یہاں تک مختلف موضوعات پر باتیں ہوتی رہیںَ رات کا کھانا بھی ساتھ کھایا۔ بیرن بہت خلوص سے پیش آئے اوراس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اقبال کا قیام بہت مختصر رہا۔ بیرن کے خلوص کا یہ عام تھا کہ اقبال اور مہر کے ساتھ سٹیشن تک ساتھ گئے۔ جب یہ حضرات ٹرین پر سوار ہو کر اپنی سیٹوں پر لیٹ گئے تو گاڑی روانہ ہوے سے چند منٹ پہلے رخصت ہوئے حالانکہ اقبال اور مہر کا اصرار تھا کہ وہ بیرن کے مکان ہی سے رخصت طلب کر لیں۔ بیرن کو آخر وقت تک افسوس تھا کہ مہمانوں کا نیپلز میں قیام بہت مختصر رہا تھا۔ اقبال اور مہر ۲۸ نومبرکی رات ساڑھے گیارہ بجے نیپلز سے روانہ ہوئے اور اگلے روز برینڈزی پہنچ گئے۔ یہ سفر اس اعتبا ر سے منفرد تھا کہ تمام رات انہوںنے جاگ کر گزاری۔ ایک تو اس ریل میں سہولتیں ناکافی تھیں۔ دوسرے اطالوی نوجوانوںکے شور و غل نے ان کا سکون برباد کردیا تھا۔ یہ حضرات جب برینڈزی پہنچے تو ان سے ایک گھنٹہ قبل مولاناشوکت علی زاہد علی اور مولانا شفیع دائودی آ چکے تھے۔ یہ لوگ سیدھے روم سے آ رہے تھے ۔ جہاں انہوںنے پاپائے روم اور افغان سفیر متعنہ روم سے ملاقات کی تھی۔ اس زمانے میں اٹلی میں زندگی کی نئی لہر دوڑ رہی تھی اور ملک تیزی سے ترقی کر رہا تھا۔ اطالویوں میں گرم جوشی شیفتگی عمل اور جذبہ علو بے حد نمایاں تھا۔ فاشی حکمران پارٹی تھی اور مسولینی قوم کے لیے نجات دہندہ کی حیثیت رکھتاتھا۔ وہ وزارت عظمیٰ کے علاوہ تین وزارتوں کے فرائض انجام دیتا تھا اور تنخواہ ایک ہزار یا گیارہ سو روپے ماہانہ سے زیادہ نہ تھی۔ البتہ مکان اور موٹر سرکاری تھے۔ باقی وزراء کی تنخواہین بھی کم تھیں (۱۲) اٹلی کے سفر کے دوران اقبال مشہور مورخ پرنس کیستانی سے ملے تھے۔ اس ملاقات کا ذکر آپ نے ان الفاظ میں کیا تھا۔ جب میںاٹلی میں تھا تو مجھے ایک شخص پرنس کیتانی ملا ۔ وہ اسلامی تاریخ کا بہت دلدادہ ہے۔ اس نے تاریخ پر اتنی کتابیں لکھی ہیں اور اس قدر روپیہ صرف کیا ہے کہ کوئی اسلامی سلطنت اس کے ترجمے کا بندوبست بھی نہیں کر سکتی۔ اس نے لاکھوں روپیہ صرف کر کے تاریخی مواد جمع کیا ہے جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو اسلامی تاریخ سے دلچسپی کیوں ہے تو انہوںنے کہا کہ اسلامی تاریخ عورتوں کو مرد بنا دیتی ہے۔ (۱۳) ٭٭٭ حواشی ۱؎ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر ۱۵۴۔ سہ شنبہ ۴ ۲ نومبر ۱۹۳۱ء ۲۔ ڈاکٹر سکارپا ا س زمانے میں ہندوستان میں اٹلی کے نائب قونصل تھے۔ اقبال کا دورہ اطالیہ بھی بہت حد تک انہی کے ایما پر ہوا تھا ڈاکٹر سکارپا بہت علم دوست تھے ان کاعموماً قیام بمبئی می رہتا تھا۔ لیکن آپ جب بھی لاہور تشریف لاتے تو اقبال سے ضرور ملتے تھے ۔ ۳۔ اقبال کو اٹلی کے سفر کی دعوت اٹلی کی رائل اکیڈمی نے دی تھی۔ ۴۔ فورم میں قدیم رومیوں کے دور میں عموماً بحث و مباحثے ہوتے تھے اور قانونی مسائل طے کیے جاتے تھے۔ ۵۔ کیٹاکومب میں رومی دور کے عیسائی بزرگوں اور ولیوں کی قبریں تھیں عیسائیت کے ابتدائی دور میں جب رومی شہنشاہوں نے عیسائیت قبول نہ کی تھی اور عام لوگوں کا مذہب بت پرستی تھا تو عیسائی چھپ کر ان غاروں میں عبادت کیا کرتے تھے یہ طویل غار تھے۔ بعض عیسائی بزرگوں کو رومیوںنے شہید کر دیاتھا۔ ان بزرگوں کو زیر زمین تہ خانوںمیںدفن کیا جاتا تھا۔ ۶۔ مولانا مہر نے روم سے یہ خط ۲۳ نومبر ۱۹۳۱ء کوتحریر کیا تھا۔ درحقیقت یہ خط ۲۴ نومبر کو لکھا گیا تھا لیکن غلطی سے مہر نے اس پر ۲۳ نومبر کی تاریخ لکھ دی تھی۔ انقلاب۔ جلد ۶۔ نمبر ۱۷۰۔ یکشنبہ ۔ ۱۳ دسمبر ۱۹۳۱ء ۷۔ اس لیکچر کے اشارات ہو چکے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے: Letters and Writings of Iqbal PP. 80-82 اقبال نے راغب احسن کے نام ایک خط مورخہ ۱۰ مارچ ۱۹۳۴ء کو ایک خط میں روم کے لیکچر کے بارے میں تحریر کیا تھا۔ I am afraid I posses no copies of my speeches in Europe. The were all extempore and I did not keep any notes. The speeches in Rome Cairo and Madrid had nothing to do with politics. ’’اقبال۔ جہان دیگر‘‘ ۔ مرتبہ محمد فرید الحق۔ صفحات ۱۱۹۔۱۱۸ ۹۔ ’’آثار اقبال ‘‘ مرتبہ غلام دستگیر رشید مضمون ’’اقبال کے چند جواہر ریزے‘‘ از پروفیسر خواجہ عبدالحمید س ۷۵۔ ’’زندہ رود‘‘ جلد سوم میں ڈاکٹر جاوید اقبا ل نے بھی مندرجہ بالا حوالے سے یہ روایت نقل کی تھی۔ اس کے متعلق مولانا غلام رسول مہر نے راقم الحروف کو بتایا تھا۔ کہ یہ روایات درست نہ تھی۔ ۱۰۔ ’’زندہ رود‘‘ جلد سوم۔ حیات اقبال کا اختتامی دور۔ ص ۴۶۲۔ از جاوید اقبال۔ ۱۱۔ کے ٹی شاہ بمبئی یونیوسٹی میں اقتصادیات کے پروفیسرتھے۔ انہوںنے ہندوستانی معیشت پر چند کتابیں تصنیف کی تھیں۔ یہ مہاتما گاندھی کے دوست اور مشیر تھے۔ ۱۲۔ مولانا مہر نے یہ خط ۲۱ دسمبر ۱۹۳۱ء کو تحریر کیاتھا۔ آپ ا س وقت ایس ایس پلسنا جہاز میں ہندوستان واپس آ رہے تھے۔ جہاز بحیرہ قلزم میں سے گزر رہا تھا اور مسافروں کو شدید گرمی کا سامنا تھا۔ ۱۳۔ انقلاب۔ مورخہ ۱۳ جون ۱۹۳۲ء ٭٭٭ اقبال اور مسولینی مسولینی سے اقبال کی ملاقات کے متعلق چار رویات ہیں۔ ان میں سے پہلی ملاقات کی روایت کے سوا باقی روایتیں ایک دوسرے سے ملتی ہیںَ مولانا مہر کے بیان کے مطابق اطالوی حکومت نے انگلستان سے روم آنے اور بعد ازاں روم سے اسکندریہ تک سفر اور قیام اطالیہ کے اخراجات برداشت کیے تھے۔ مولانا مہر نے فرمایا کہ اقبال اور مسولینی کے درمیان ملاقات بہت طویل نہ تھی۔ ترجمانی کے فرائض ڈاکٹر سکارپا نے انجام دیے تھے۔ گفتگو زیادہ تر اقبا کی تصانیف کے بارے میں ہوئی تھی مسولینی نے استدعا کی کہ اقبال اطالوی حکومت کے اخراجات پر لیبیا جائیں اور وہاں دیکھیں کہ عربوں کی بہتری کے لیے اطالوی حکومت کیا اقدامات کیے تھے پھر اس مشاہدے کے بعد کوئی رائے ظاہر کریں۔ درحقیقت مسولینی اقبال کے رسوخ اور بین الاقوامی حیثیت سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔ لیکن آپ نے بہ لطائف الحیل اس پیش کش کو رد کر دیا۔ اقبال نے عدم فرصت کا عذر کیا اور فرمایا کہ ان کا مصر اور فلسطین جانے کا پروگرام طے ہے اور اس مرحلے پر ان کے لیے سفر کے پروگرام میں تبدیلی ممکن نہ تھی۔ (۱) دوسری روایت پروفیسر خواجہ عبدالحمید کی ہے۔ آپ نے اپنے مضمون’’اقبال کے چند جواہر ریزے‘‘ میں تحریر کیا تھا کہ مسولینی نے اقبال کی تعلیمات میں دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔ یہ گفتگو آدھ گھنٹہ جاری رہی۔ بات چیت کے دوران قوم اور مذہب کا بھی ذکر آیا ۔ اقبال نے فرمایا کہ اطالیہ کی موجودہ حالت اور اس کی حل طلب مشکل بہت حد تک ایسی ہے جیس کہ قبل از اسلام ایران کی تھی۔ ایران کی تہذیب فرسودہ تھی اور قوم کے قویٰ شل ہو چکے تھے۔ ان کو تازہ خون کی ضرورت تھی۔ ایران کی خوش قسمتی سے اس کے جوار میں عرب کی جری اور بادیہ پیما قوم تھی۔ جس نے ایران کو اپنا تازہ اور خالص خون دیا۔ نتیجہ یہ ہو ا کہ ایران میں حیات کی ایک نئی لہر دوڑ گئی اوریہ قوم ایک پرشکوہ تہہذیب کی حامل اور علمبردار ہوئی۔ عربی خون کی بدولت ان میں بہترین اہل فن ‘ اہل سیاست اور اہل سیف پیدا ہوئے۔ اسی طرح روما کے زوال کے بعد گاتھ اورجرمن قوموں نے اطالیہ کو نیا خون دیا ہے اور اسے قرون وسطیٰ میں نشاۃ الثانیہ نصیب ہوئی۔ اب پھر ایران اور اطالیہ دونوں کو تازہ خون کی ضرورت ہے۔ ایران اب بھی اس لحاظ صے خوش قسمت ہے کہ اسے شمال میں جری ور نیم مہذب ترکمان موجود ہیں اور مغرب میں اندرون عرب کے جری قبائل۔ یہ قومیں اپنا خون دے کر ایران کو پھر زندہ اور قوی کر دیں گی۔ لیکن موجودہ اطالیہ کے گرد اسی کی جیسی مہذب قومیں آباد ہیں۔ جن میں صحرائی وحشت اور تازگی نام کو موجود نیہں۔ اطالیہ تازہ خو ن کہاں سے لے گا؟ مسولینی اس اچھوتے خیال سے بہت متاثر ہوا۔ (۲) مسولینی سے ملاقات کے بارے میں تیسری روایت رش بروک ولیمز کی ہے۔ آپ اگست ۱۹۳۴ء کو اقبال سے ملے تھے اور اقبال نے گفتگو کے دوران مسولینی سے ملاقات کی تفصیلات بیان کیں۔ اقبال مسولینی سے ملاقات کے لیے ایک عظیم الشان ہال میں داخل ہوئے تو مسولینی کمرے کے دوسرے سرے پر ایک اونچے شہ نشین پر بیٹھا کام کررہا ھتا۔ اس نے ابتدا میں اقبال کی آمد کا کوئی نوٹس نہ لیا۔ اقبال جب قریب پہنچے تو اس نے نظر اٹھا کر دیکھا اور مصافحہ کیا۔ ابتدائی آداب و مراسم کے بعد مسولینی نے کہا۔ سنا ہے کہ آپ ایک ہفتے سے اٹلی میں ہیں۔ کیا خیال ہے اس بارے میں۔ اقبال نے تھوڑی دیر بعد جواب دیا کہ جناب والا! میرے تاثرات آپ کے لیے کیا معنی رکھتے ہیں جب کہ مجھے جناب کے ارشاد کے مطابق یہاں آئے ہوئے صرف ایک ہفتہ گزرا ہے مسولنی نے کہاکہ مگر میں یہ تاثرات جاننا چاہتا ہوں۔ اقبال نے فرمایا جناب والا! اگر آپ میرے تاثرات جاننا چاہتے ہیں تو کیا میں سب کچھ صاف صاف کہہ دوں۔ مسولینی کی حوصلہ افزائی پر اقبال نے فرمایا میں اطالویوں کے متعلق یہ سمجھتا ہوں کہ وہ ایرانیوںسے بہت ملتے جلتے ہیں۔ وہ بہت ذہین و فطین خوب رو اور فن پرست ہیں اور ان کی پشت پر تہذیب و تمدن کی کتنیہی صدیاں ہیں مگر ان میں خون نہیں۔ اس پر مسولینی بہت متعجب ہوا لیکن اقبال نے اپنا سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا ایرانیوں کو ایک فائدہ میسر ہے جو اطالویوں کو حاصل نہیں وہ یہ کہ ان کے اردگرد مضبوط توانا قومیں افغان کرد اورترک آباد ہیں جن میں وہ تازہ خون حاصل کر سکتے ہیں۔ مگر آپ اطالوی ایسا نہیں کر سکتے اس لیے آپ کمزور ہی رہیں گے۔ مسولینی نے کہا کہ پھر اطالویوں کو کیا کرنا چاہیے؟ اقبال نے فرمایا کہ یورپ سے منہ موڑ کر مشرق کار خ کرو۔ یورپ کا اخلاق افسوس ہے ٹھیک نہیں لیکن مشرق کی ہوا تازہ ہے۔ اس میں سانس لو۔ بعد میں مسولنی نے اقبا ل کو خط لکھ کر دریافت کیا کہ اطالیہ میں بؤسنے والے مسلمانوں کی خوشنودی کے لیے ان کے ذہن میں کوئی تجویز ہے۔ اقبال نے دو تجاویز پیش کیں۔ ایک ی کہ روم میں ایک مسجد بنائی جائے کیونکہ اس وقت وہاں تین سو ایرانی آباد تھے۔ دوسرے عرب علماء کی ایک کانفرنس سارنو میںمنعقد کرائی جائے جس کو وہ ایک قدیم اسلامی شہر قرار دیتے تھے۔ مسولینی سے ملنے کے بعد جب اقبال روم کے قصر وینس سے باہر تشریف لائے تو انہیں نصف درجن صحافیوں نے گھیر لیا اقبال کی رائے ڈوچے (مسولینی) کے بارے میں جانناچاہتے تھے۔ اقبال نے فرمایا ان کا کچھ کہنا خلاف مصلحت ہے کیونکہ پوپ ا س کو ناپسند کریں گے۔ اس زمانے میں گاندھی جی کی سیہ گرہ کا بہت چربچا تھا۔ ایک صحافی نے کہا کہ اگر آ پ نہیں بتائیں گے تو ہم ستیہ گرہ کے ذریعے آپ کو مجبور کریں گے۔ اقبال اس پر کچھ نرم پڑے اور فرمایا کہ میرا خیا ل ہے کہ آپ کا ڈوچے ایک لوتھر ہے مگر بغیر انجیل کے ۔ (۳) فقیر سید وحید الدین کی روایت درج ذیل ہے: اقبال نے مسولینی سے ملنے کی خود خواہش ظاہر نہیںکی تھی۔ بلکہ مسولینی نے اپنے اسٹاف کے ذریعے ملاقات پر زور دیا تھا۔ اقبال جب ملنے گئے تو وہ ایک وسیع کمرے میں میز کے قریب بیٹھا تھا۔ میز پر کاغذو ں کا انبار لتھا۔ اقبال آگے بڑھے تو وہ پیشوائی کے لیے آیا۔ اس کا قد زیادہ لمبانہ تھا۔ لیکن بازو بھرے ہوئے تھے سینہ کشادہ اور آنکھیں شکرے کی مانند تھیںَ رسمی مزاج پرسی کے بعد اس نے سوا کیا کہ میری فاشسٹ تحریک کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ اقبال نے فرمایا کہ آپ نے ڈسپلن کے اصول کا بڑا حصہ اپنا لیا ہے جسے اسلام انسانی نظٓم حیات کے لیے بہت ضروری سمجھا ہے لیکن اگر آپ اسلام کے نظری ہحیات کو پوری طرح اپنا لیں تو سارا یورپ آپ کے تابع ہو گا۔ لیکن یہ ایسی بات نہ تھی جسے مسولینی بآسانی سمجھ لیتا۔ اقبال نے مسولینی کو مشورہ دیا : Turn your back towards Europe (یعنی یورپ جس معاشرے کی ترقی کا داعی ہے تم اس کی تقلید سے اجتناب کرو)۔ مسولینی نے اقبال سے پوچھا کہ میں دنیا بھر کی ہمدردیاں کس طرح حاصل کر سکتا ہوں؟ اقبال نے فرمایا مفت تعلیم اور رہائش کا انتظام کر کے زیادہ سے زیادہ مسلمان طلبہ کواٹلی بلایے۔ مسولینی نے اقبال سے کوئی اچھوتا مشورہ طلب کیا۔ اقبال نے فرمایا۔ ہر شہر کی آبادی مقرر کر کے اسے ایک حد سے نہ بڑھنے دو۔ اس سے زیادہ بسنے والوں کو نئی بستیاں مہیا کی جائیں مسولینی نے حیرت سے پوچھا اس میں کیا مصلحت ہے؟ اقبال نے فرمایا شہر کی آباد ی جس قدر بڑھتی ہے اس کی تہذیبی و اقتصادی توانائی کم ہوتی جاتی ہے۔ اور ثقافتی توانائی Cultural Forcesکی جگہ Evil Forcesمحرکات شر لے لیتے ہیں۔ یہ میرا ذاتی نظریہ نہیں بلکہ میرے پیغمبر نے آج سے تیرہ سو سال قبل یہ مصلحت آمیز ہدایت فرمائی تھی کہ جب مدینہ منورہ کی آبادی ایک حد سے تجاوز کر جائے تو مزید لوگوں کو آباد ہونے کی اجازت کے بجائے دوسرا شہر آباد کیا جائے۔ یہ حدیث سنتے ہی مسولینی کرسی سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور میز پر دونوں ہاتھ زور سے بجانے کے بعد کہا What an excellent idea اقبال مسولینی سے دیر تک باتیںکرتے رہے۔ جب آپ رخصت ہو کر باہر آئے تو لوگوں نے انہیں گھیر لیااور تقاضا کرنے لگے کہ آپ ہمارے لیڈر کے متعلق اپنی رائے دیجیے۔ اقبال اس موضوع پر کچھ کہنے سے گریزاں تھے۔ لیکن لوگوں نے راستہ روک لیا اور اس ہجوم سے کار نکال کر لے جانا ممکن نہ تھا۔ آخر مسولینی کے سٹاف کے آدمیوں نے کہا کہ ان لوگوں سے جان چھڑانا مشکل ہے۔ اس لیے کچھ نہ کچھ کہہ دیجیے یہ سن کر اقبال نے ہجوم سے مخاطب ہو کر فرمایا مسولینی بغیر بائبل کے لوتھر ہے۔ یہ فقرہ اطالوی میں ترجمہ ہوا اور بار بار دہرایا گیا۔ بڑے بڑے پوسٹروں پریہ فقرہ درج کیا گیا ۔ (۴) ان روایات کے بارے میں یہ کہنا تو دشوار ہے کہ ان میں کتنی صداقت تھی لیکن یہ ضرور واضح ہے کہ اقبال مسولینی کی شخصیت سے بہت متاثر ہوئے تھے۔ آپ کا اٹلی میں قیام مختصر عرصے کے لیے تھا۔ اس عرصے میں اقبال کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ اطالوی معاشرے کی خوبیاں اور خامیاں اور مسولینی کے قائم کردی فاشی نظام کے حسن و قبح کا بھرپور جائزہ لے سکتے۔ ۱۹۳۱ء میں یورپ بدترین اقتصادی کساد بازاری سے گزر رہا تھا۔ ان حالات میں اقبال نے جب اطالیہ کادورہ کیا تو مسولینی کی آمریت کے تحت ملک اقتصادی اور سیاسی اعتبار سے تبدیل ہو رہا تھا۔ فاشی پارٹی کے ذریعے پوری قوم منظم ہو رہی تھی۔ اور اطالویوں میں نیا جذبہ اور نئی زندگی کی لہر دوڑ رہی تھی۔ دوسرے فاشی نظام کے اثرات اطالیہ تک محدود تھے ۔ اس وقت مسولینی کے جارحانہ عزائم اور ہوس ملک گیری کے جذبات نمایاں نہ ہوئے تھے ۔ عظیم رومی سلطنت کے طرز پر مسولینی کا خواب ملک گیری سے باہر کی دنیا پر آشکار نہ ہوا تھا۔ ان حالات میں اقبال کا مسولینی سے متاثر ہونا تعجب خیز نہ تھا۔ انہوںنے یہ دیکھا کہ اطالوی نوجوان مسولینی کی قیادت میں ملک کی تعمیر و ترقی میں مصروف تھے۔ لیکن ۱۹۳۵ء میں جب اطالیہ نے ایبی سینیا پر حملہ کیا تو اقبال نے اپنی نظموں میں اس کی بھرپور مخالفت کی تھی۔ اقبال نے ۱۲ مارچ ۱۹۳۷ء کو ایک خط میں تحریر کیا تھا کہ مسولینی کے متعلق جو کچھ میں نے لکھا ہے اس میں آپ کو تناقض نظر آتا ہے۔ آپ درست فرماتے ہیں لیکن اگر اس بندہ خڈا میں Devilاور Saintدونوں کی خصوصیات جمع وں تو میں اس کا کیا علاج کروں۔ مسولینی سے اگر کبھی آپ کی ملاقات ہو تو آپ اس بات کی تصدیق کریں گے کہ سا کی نگاہ میں ایک ناممکن البیان تیزی ہے۔ جس کو شعاع آفتاب سے تعبیر کر سکتے ہیںَ کم از کم مجھے اسی قسم کا احساس ہوا (۵) پروفیسر آل احمد سرور نے اقبال کی نظم ’’مسولینی‘‘ پر اعتراض کیا تھا کہ یہ نظم آپ کے عمومی نظریات ے خلاف معلوم ہوتی ہے۔ سرور صاحب کے شبہات رفع کرنے کے لیے اقبال نے مندرجہ بالا خط تحریر کیا تھا اقبال کی نظم درج ذیل ہے: ندرت فکر و عمل کیا شے ہے ذوق انقلاب ندرت فکر و عمل کیا شے ہے ملت کا شباب ندرت فکر و عمل سے معجزات زندگی ندرت فکر و عمل سے سنگ خارا لعل ناب رومتہ الکبریٰ دگر گوں ہوں گیا تیرا ضمیر اینکہ می بیم بہ بیداریست یا رب یا بخواب چشم پیران کہن میں زندگانی کا فروغ! نوجوان تیرے ہیں سوز آرزو سے سینہ تاب یہ محبت کی حرارت یہ تمنا یہ نمود فصل گل میں پھول رہ سکتے نہیں زیر حجاب نغمہ ہائے شوق سے تیری فضا معمور ہے زخمہ ور کا منتظر تھا تیری فطرت کا رباب فیض یہ کس کی نظر کا ہے کرامت کس کی ہے؟ وہ کہ جس کی نگہ مثل شعاع آفتاب (۶) ٭٭٭ حواشی ۱۔ یہ روایات مولانا مہر نے راقم الحروف سے بیا ن کی تھی۔ ۲۔ ’’آثار اقبال‘‘ ۔ ص ۷۵۔۷۴ ۳۔ یہ تفصیلات رش بروک ولیمز نے اپنی بیٹی کے نام ایک خط میں لکھی تھیں۔ بعد میں اسے ایک مضمون کی شکل دی گئی اور ترجمہ کر کے شاعر مشرق کے عنوان سے ماہ نو اقبال نمبر اپریل ۱۹۷۰ء میں شائع کیا گیا۔ ۴۔ ’’روزگار فقیر‘‘ ۔ جلد اول ۔مرتبہ فقیر سید وحید الدین۔ ص ۵۰۔۴۸۔اشاعت چہارم۔ مئی ۱۹۶۴ء ۔ کراچی ۵۔ ’’اقبال نامہ‘‘ حصہ دوم۔ مرتبہ شیخ عطا اللہ۔ ص ۳۱۵ ۶۔ بال جبریل ص ۱۵۷۔۱۵۶۔ کلیات اقبال اردو ص ۴۸۱۔۴۸۰ ٭٭٭ سیاحت مصر ۲۹ نومبر ۱۹۳۱ء کو سہ پہر کے وقت اقبال مہر اور مولانا شفیع دائودی برینڈزی کی بندرگاہ سے ’’وکٹوریہ‘‘ نامی بحری جہاز میں سوار ہوئے۔ ’’وکٹوریہ‘‘ لائیڈ ٹریسیو کمپنی کا جہاز تھا۔ جہاز زیادہ پرانا نہ تھا اور حسن ساخت کے اعتبار سے قابل دید تھا۔ مہر نے جہاز می داخل ہو کر سیر کی تو انہیں یہ جہاز شاہی محل کی مانند پرشکوہ نظر آیا۔ کھانے کا کمرہ تمباکو نوشی کا کمرہ اور ملاقاتیوں کا کمرہ کی آرائش بے حد نفیس تھی۔ جہاز کا فرنیچر بہت عمدہ اور پر تکلف تھا۔ کیسوں کی قطاروں کے درمیان خوب صورت گیلریاں تھیں درجہ اول کے مسافروں کے لیے الگ کیبن تھے اور ہر کیبن کے ساتھ عمدہ غسل خانہ تھا۔ جہاز کاعملہ بہت بااخلاق اور محنتی تھا۔ یہاں انگریزی جہازوں کی مانند بے جا تکلفات بھی نہ تھے۔ دوسرے کھانا بھی اعلیٰ درجے کا تھا جہا ز کا فرنیچر کھانے کے برتن‘ چھری کانٹے وغیرہ نئے اور عمدہ تھے۔ جہاز کا عملہ مسافروں کے آرام کا خاص خیال رکھتاتھا۔ یہ جہاز عام بہری جہازوں کی نسبت تیز رفتار تھا۔ عموماً بریندزی سے سکندریہ کا فاصلہ بہتر گھنٹے میں طے ہوتا تھا لیکن ’’وکٹوریہ‘‘ نے یہ فاصلہ چالیس گھنٹے میں طے کیا تھا۔ جہاز میں سوار ہونے کے بعد مہر کی طبیعت خراب ہو گئی تھی۔ اور انہوںنے بیشتر وقت کیبن میں گزارا۔مولانا دائودی کی طبیعت نسبتاً بہتر رہی۔ اقبال کی طبیعت بھی ٹھیک رہی۔ بحیرہ روم ان دنوں جوش کی حالت میںتھا۔ برینڈزی سے روانگی کے وقت مطلع ابر آلود تھا۔ ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی اور تند و تیز ہوا چل رہی تھی۔ اقبال دو چار مرتبہ مولانا مہر کے کیبن میں تشریف لائے اور یہ کہہ کر انہیں اٹھانے کی کوشش کی کہ اب سمندر اچھا ہے لیکن مہر کی یہ حالت تھی کہ آنکھ کھلنے کے بعد بستر پر پڑے رہنے میں بھی تکلیف ہوتی تھی۔ انہوںنے زیادہ وقت سو کر گزارا یکم دسمبر کو صبح پانچ بجے جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ سمندر کسی قدر ساکن تھا۔ تھوڑی دیربعد ذرا سی روشنی ہوئی تو مصر کا ساحل نظر آنے لگا۔ وکٹوریہ نو بجے صبح سکندریہ کی بندرگاہ میں داخل ہوا۔ اسکندریہ بہت خوب صورت شہر تھا۔ ساحل کے ساتھ ساتھ دور تک آبادی چلی گئی تھی۔ اور کنارے پر خوبصورت اور عالی شان عمارتین تھیں۔ یہاں کی سڑکیں بہت کشادہ تھیں۔ شاہ مصر ملک فواد زیادہ تر یہیں رہتے تھے یہاں ہندوستانی بھی خاصی تعداد میں آبادتھے۔ نہر سویز کی تعمیر سے قبل اسکندیہ کو بہت اہمیت حاصل تھی لیکن اس زمانے میں پورٹ سعید کی حیثیت اور افادیت نمایاں تھی تاہم قاہرہ کے بعد اسکندریہ دوسرے درجے پر تھا۔ اسکندریہ کو اسکندر اعظم نے ۳۳۴ قبل مسیح میں آباد کیا تھا۔ اسکندر کے انتقال کے بعد یہ بطلیموسی خاندان کا دارالحکومت بن گیا۔ بطلیموسی خاندان یونانی الاصل تھا۔ ان کے دور میں سکندریہ کو ایک بڑے علمی مرکز کی حیثیت حآل تھی یہیں وہ کتب خانہ تھا جسے جلا کر راکھ کر دینے کا بے بنیاد الزام مسلمانوں پر عائد کیا جاتا تھا۔ مسلمانوں کے عہد میں سکندریہ پر کوئی خاص اہمیت حاصل نہ تھی۔ لیکن محمد علی پاشا خدیو مصر نے اس پر خاص توجہ دی اسمعیل پاشا نے جہازوں کے لیے گودیاں بنوائیں۔ یہاں مختلف اقوام کے باشندے پائے جاتے تھے گرمیوں میں یہاں کاموسم خوشگوار ہوتا تھا۔ ا س لیے اندرون مصرسے ذی حیثیت لو گ یہاں ٹھہرتے تھے (۱)۔ مولانا مہر نے مصر پہنچنے سے قبل مصری دوستوں کو اپنے پروگرام سے مطلق کر دیا ھتا۔ چنانچہ ۱۴ نومبر کو حکیم صدیق محمد ناڑو نے اپنے ساتھیوں سے ملاقات کی اور یہ طے پایا کہ جمعیتہ الرابطہ الھندیہ اقبال اورم ہر کی آمد پر جوش خیر مقدم کرے گی اوران کے اعزاز میں ٹی پارٹی دے گی۔ حکیم صاحب جمیعتہ الرایطہ الھندیہ کے جنرل سیکرٹری تھے ۔ چنانچہ آپ دیگر مصری احباب کے ساتھ اقبال اور مہر کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ ان کے علاوہ جمیعتہ الشبان المسلمین (۲) کے ارکان بھی آئے تھے۔ مولانا شوکت علی زاہد علی او رحافظ عبدالرحمن ان لوگوں کی آمد سے پہلے اسکندریہ پہنچ چکے تھے۔ وہ بھی بندرگاہ پر موجود تھے ۔ نو بجے صبح وکٹوریہ جہاز بندرگاہ سے لگا۔ آپ حضرات جب باہر تشریف لائے تو پرنس عمر طوسون کے خاص آدمی استقبال کے لیے بڑھے۔ شبان المسلمین کے ارکان کے ہاتھوں میں جھنڈے تھے انہوںنے پر زور نعرہ ہائے تحسین سے استقبال کیا۔ فوٹو گرافروں نے تصاویر کھینچیں۔ اخباری نمائندوں نے انٹرویو لیے ۔ آپ حضرات کاروں میں سوار ہو کر پہلے تو شاہ محل گئے۔ وہاں بادشاہ مصر ملک فواد کے چیمبرلین سے ملے اور ملاقاتیوں کی کتاب پر دستخط کیے۔ پھر آ پ لو گ پرنس عمر طوسون کے مکان پر گئے لیکن شہزادہ اس وقت سکندریہ میں نہ تھا اس لیے ملاقات نہ ہو سکی۔ اس کے بعد کچھ دیر تک شہر کی سیر کی اور بارہ بجے کے قریب جمعتہ الشبان المسلمین کے دفتر پہنچے۔ ایک بجے جمعیتہ کے دفتر میں مختلف اخباروں کے نمائندے آئے۔ انہوںنے مہمانوں کے انٹرویو لیے۔ مولانا شوکت علی نے جب انٹرویو دینا چاہا تو اقبال نے انہیں ہدایت کی کہ وہ انٹرویو ذاتی حیثیت سے دیں کیونکہ یہ گول میز کانفرنس سے متعلق تھا اور مولانا نے کانفرنس کی ناکامی کا ذمہ دار مہاتما گاندھی کو قرار دیا تھا۔ جمعتہ کے دفتر میں شبان السلمین کے ارکان اور اصحاب علم و دانش تشریف لائے تھے ان سے دو ڈھائی گھنٹے تک باتیں ہوتی رہیں تین بجے مولانا شوکت علی ‘ مولانا دائودی‘ مولانا مہر‘ زاہد علی اقبال اور حافظ عبدالرحمن قاہرہ روانہ ہو گئے۔ ٹرین میں آپ حضرات کے ساتھ حکیم ناڑو بھی تھے اور آپ اقبال اور مہر کے قاہرہ میں قیام کے دوران قاہرہ میں مقیم رہے۔ اسکندریہ کے سٹیشن تک جمعتہ الشان المسلمین کے ارکان کے ساتھ گئے تھے۔ (۳) اسکندریہ سے قاہرہ تک ریل کا ساڑھے تین گھنٹے کا سفر تھا راستے میں دسنبور اور طللہ آئے۔ ریلوے لائن کے دونوں طرف نہایت عمدہ فصلیں لہرا رہی تھیں تھوڑے فاصلے پر چھوٹے چھوٹے گائوں آباد تھے۔ ان گائوں کو دیکھ کر مہر کو پنجاب کی یاد آئی۔ گائوں کے مکان کاشت کاری کے طریقے اور طرز بود و ماند بھی پنجاب کی مانند تھے۔ ساڑھے چھ بجے ٹرین قاہرہ کے سٹیشن پرپہنچی۔ اس وقت رات ہو چکی تھی لیکن ان کے استقبال کے لیے بہت سے افراد تشریف لائے تھے ان میں قابل ذکر ڈاکٹر عبدالحمید سعید بے جو جمیعتہ الشبان المسلمین کے بڑے کارکن اور پارلیمنٹ کے رکن تھے۔ ان کے علاوہ سید رشید رضا مالک و مدیر المنار مرزا مہدی بے صدر ایرانی جماعت جمعتہ الرابطہ الھندیہ القاہرہ کے ارکان مثلاً شیخ محموداحمد مہدی بے صدر ایرانی جماعت‘ جمعہتہ الرابطہ الھندیہ القاہرہ کے ارکان مثلا شیخ محمود احمد عرفانی ‘ ماسٹر امام الدین سیالکوٹی خورشید عالم محمد حسین شیخ محمد اسمعیل اور جامعہ الازہر کے ہندوستانی طلبہ شامل تھے۔ اسٹیشن پر ان لوگوں کی تصاویر کھینچی گئیں۔ اقبال ان ہنگاموں سے بہت گھبراتے تھے۔ اس لیے آپ چپکے سے ایک طرف کو نکل گئے اور تین دن تک مولانا مہر کی تصویر اقبال کے نام سے چھپتی تھی۔ بعد میں جب ان اخبارات کے منتظمین کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوںنے معذرت کے بعد صحیح تصویر شائع کی۔ مولانا شوکت علی زاہ دعلی مولانا دائودی او ر حافظ عبدالرحمن نے ڈاکٹر عبدالحمید سعید بے کے مکان پر قیام کیا۔ یہ مکان جمعیتہ الشبان المسلمین کا دفتر بھی تھا۔ اقبال اور مہر ہوٹل میٹروپول میں ٹھہرے ۔ علامہ اقبال کو ان کے ساتھیوں نے مشورہ دیا تھا کہ مصر میں اگر کوئی شخص ایک پارٹی کا مہمان بن جائے تو دوسری پارٹیاں سخت مخالفت کرتی تھیں۔ اس لیے آپ نے یہی مناسب سمجھا کہ ہوٹل میں قیام کیا جائے۔ ہوٹل میٹروپول انگریزی طرز کا اعلیٰ درجے کا ہوٹل تھا اور بہت آڑام دہ تھا۔ ابھی آپ لوگ ہوٹل میں آئے ہی تھے کہ ڈاکٹر عبدالحمید سعید بے تشریف لائے اور اصرار کیا کہ رات کا کھانا ان کی قیام گاہ پر کھایا جائے اقبال اور مہر نے فرمایا کہ وہ مسلسل سفر کی وجہ سے تھک گئے ہیں اس لیے دعوت ملتوی کر دی جائے ڈاکٹر سعید نے جواب دیا کہ انہوںنے ا س شام کو شیخ الازہر مفتی ازہر محمد علی پاشا نائب حزب الاحرار اور سابق وزیر اوقاف مرزا مہدی بے صدر ایوان تجارت اور بعض دوسرے اکابر کو مدعو کر رکھا تھا۔ ڈاکٹر سعید کے اصرار پر اقبال اور مہر کار میں سوار ہر کو تشریف لے گئے۔ دوسری طرف بعض مصری نوجوان اور اخبار نویس بھی سائے کی مانند مہمانوںکو پیچھا کر رہے تھے۔ ایک مصری نوجوان نے اصرار کی اکہ اقبال نوجوانان مصر کے نام ایک مختصر سا پیغام دیں جو علی الصبح مصر کے تمام اخبارات میں چھپ جائے گا اقبال نے فرمایا کہ نوجوانان مصر سے میری آرزو ہے کہ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے وفادار رہیں۔ ڈاکٹر سعید کے مکان پر پہنچے تو روزنامہ مز کا نامہ نگار ٓایا اسے مختصر سا انٹرویو دیا گیا بعد ازاں شیخ الازہر مفتی ازہر۔ محمد علی پاشا‘ مرز ا مہدی بے سلیمان فوزی مدیر کشکول و مز اور بعض دیگر اصحاب تشریف لائے دیر تک ان حضرات کے ساتھ مجوزہ موتمر اسلامی کے متلعق گفتگو ہوتی رہی۔ گیارہ بجے کے قریب اقبال اور مہر ہوٹل واپس ہوئے۔ اقبال اور مہر جب مصر پہنچے تو انہیں یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی جداگانہ سیاسی حیثیت کا صحیح اندازہ نہ تھا۔ پورٹ سعید سے لندن جاتے وقت یہ معلوم ہوا کہ اہل مصر مسلمانان ہند کے متعلق شدید غلط فہمیوں کا شکار تھے کانگرس کے پروپیگنڈے کے زیر اثر وہ یہ سمجھتے تھے کہ مسلمان جدوجہد آزادی میں روڑے اٹکا رہے ہیںَ اور انگریزوں کی شہہ پر وہ کسی مسئلے کو حل نہیں ہونے دیتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ گاندھی جی اصل رہنامے آزادی تھے اور کانگرس ہندوستان کی نمائندہ سیاسی جماعت تھی۔ اقبال اور مہر کا قاہرہ میں زیادہ قیام کاارادہ نہ تھا۔ ان کا پروگرام صرف پانچ روز ٹھہرنے کا تھا۔ اس دوران وہ چاہتے تھے کہ قاہرہ کے قابل دید مقامات دیکھ لیں اور جس حد تک موقع ملے مصری جریدہ نگاروں اور صحافیوں کو مسلمانان ہند کے سیاسی موقف کے بارے میں صحیح اطلاعات فراہم کریں۔ قاہرہ پہنچ کر اندازہ ہوا کہ بہت سے مصری اکابر عرصہ دراز سے اقبال اور مہر کی آمد کے منتظر تھے۔ قاہرہ کے ممتاز وکیل لطفی بے جمعہ متعدد کتابوں کے مصنف اور بہت مخلص و غیور مسلمان تھے۔ آپ کی تاریخ اور یورپی فلسفے پر بہت گہری نظر ھتی ان کے اشتیاق کا یہ عالم تھا کہ جب اقبال بمبئی سے لندن جانے والے تھے تو شوق ملاقات میں آٹھ روز پورٹ سعید پر قیام کیا لیکن اقبال بیماری کے سبب آٹھ روز بعد یورپ کے لیے روانہ ہو سکے۔ لطفی بے جمعہ ملنے سے قبل ہی اقبال کے بے حد عقیدت مند تھے ملاقات کے بعد ان کے اشتیاق میں مزید اضافہ ہوا اور اقال کے قیام قاہرہ کے دوران انہوںنے زیادہ تر وقت اقبال کے ساتھ بسر کیا۔ ان کے علاوہ کئی اصحاب نے پہلے ہی سے شیخ محمو د احمد عرفانی سے کہہ رکھا تھا کہ اقبال جب قاہرہ آئیں تو ان کے ہاں کھانا کھائیں یا چائے پارٹی میں ضرور شریک ہوں اس طرح شیخ عرفانی کے پاس بہت سے دعوت نامے جمع ہو گئے تھے۔ ۲ دسمبر کی صبح کو مولوی جلال الدین ہندی تشریف لائے۔ انہوںنے بتایا کہ وہ اگلے روز ہندوستان جا رہے تھے۔ اس لیے اقبال اور مہر دوپہر کا کھانا ان کے ساتھ کھائیں گے۔ اس دعوت میں شام کی جدوجہد آزادی کے مجاہد ڈاکٹر عبدالرحمن شہندر بھی مدعو تھے۔ ڈاکٹر شبسندر ان دنوں قاہرہ میں تھے اور فرانسیسی حکومت ان کے لیے سزائے موت کا اعلان کر چکی تھی۔ مہر کی مولانا جلال الیدن سے بے تکلفی تھی انہوںنے کہا کہ اگر ہندوستانی کھانا کھلائیے تو دعوت منظور ہے۔ ورنہ معاف فرمائے مولوی صاحب نے جواب دیا کہ ہندوستانی کھانا کھلایا جائے گا۔ حکیم محمد صدیق ناڑو شیخ عرفانی اور ماسٹر امام الدین کار لے کر حاضر خدمت ہوئے تاکہ اقال اور مہر آثار قدیمہ کی زیارت کر سکیں۔ اسی اثنا میں فوٹو گرافر آیا اور ان لوگوں کی تصویریں کھینچیں۔ اس کے بعدیہ لوگ ایک کار میں اہرام دیکھنے گئے۔ اہرا م سے واپسی پر ااپ لوگ قصر العینی گئے۔ قصر العینی قاہرہ کے قریب بہت بڑا ہسپتالت ھا جو مشہور شارح بخاری علامہ بدر الدین عینی رحمتہ اللہ علیہ کے نام سے موسوم ہوا تھا۔ روایت ہے کہ علامہ عینی نے اس مقام پر بخاری شریف کی شرح لکھی تھی۔ اس مقام کی زیارت کے بعد ااپ حضرات کچھ دیر تک بازاروں کی سیر کرتے رہے اور دوپہر کے وقت مولوی جلال الدین کے مکان پر پہنچے۔ اس قافلے سے ماسٹر امام الدین تو رخصت ہو گئے لیکن شیخ عرفانی اور حکیم ناڑو ساتھ رہے کھانے کا انتظام شام کے مشہور تاجر محی الدین الحفی مکان پر تھا۔ کھانا سردار ہرنام سنگھ کے زیر انتظام تیار ہوا تھا اور بہت عمدہ اورلذیذ تھا اور وافر مقدار میں تھا۔ مولانا مہر نے ازراہ مذاق مولوی جلال الدین سے فرمایا آپ کو اپنا ناما ب جلال الطعام والدین رکھنا چاہیے۔ اس لیے کہ آپ دین کی بھی تبلیغ کرتے ہیں اور عمدہ کھانابھی کھلاتے ہیں۔ دعوت میں محی الدین الحفی کے بھائی منیر الحفی بھی موجود تھے جو شام میں وکالت کرتے تھے۔ اوربے حد غیور اور مخلص مسلمان تھے۔ اس موقعہ پر آپ لوگوں کی ملاقات ڈاکٹر عبدالرحمن شبندر سے ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب شام میں فرانسیسی انتذاب کے خلاف برسوں جدوجہد کرتے رہے۔ اس دوران میں آپ گرفتار بھی ہوئے ۔ رہائی کے عد آپ اس زمانے میں مصر میں مقیم تھے۔ آپ اپنے مجاہدانہ کارناموں کی بنا پر رعب میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ۔ ڈاکٹر شبہندر علامہ اقبال سے گول میز کانفرنس کے متعلق باتیں کرتے رہے۔ وہ تمام حالات اخبارات میں پڑھ چکے تھے۔ انہیں یہ بھی علم تھا کہ گاندھی جی نے اچھوتوں کو مستقل حق نیابت دینے سے انکار کیا تھا اوراسی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ سمجھوتہ نہ ہو سکا۔ لیکن ڈاکٹر شبندر کا خیال تھا کہ اچھوتو ں یا اقلیتوں کے متعلق گاندھی جی ایسا نہیں کر سکتے۔ ان کے متعلق انگریزو ں نے پروپیگنڈا کیا تھا۔ اقبال نے ہندوستان کے حالات واضح کیے۔ مختلف اقوام کی پوزیشن سمجھائی۔ مسلمانوں کی جداگانہ حیثیت میل مقاصد ان کے مطالبات اور ان کی اہمیت کی وضاحت کی اور ساتھ ہی ہندوئوں کا رویہ بھی واضح کیا۔ ان باتوں کو سننے کے بعد ڈاکٹر شبہندر پکار اٹھے کہ آزادی ہند کو کوئی سچا مجاہد اچھوتوں یا اقلیتوں کے متعلق جو روش اختیار نہیں کر سکتا جو گاندھی جی نے اختیار کی۔ میں ان تمام باتوں کو محض انگریزوں کا پروپیگنڈا سمجھتا تھا۔ اس کے بعد اسلامی ممالک اور بالخصوص عرب ملکوں کے حالات کے متعلق باتیں ہوئیں۔ ڈاکٹر شبہندر نے بادیہ شام میں اپنے سفر اور عرب بدوئوں کے حالات سنائے پھر انہوںنے ایک خانہ بدوش ناخواندہ بدو کے دلکش اشعار سنائے۔ یہ محفل خاصی دیر تک جاری رہی۔ رخصت کے وقت ڈاکٹر شبہندر نے اصرار کیا کہ قاہرہ سے روانگی کے دن وہ ان کے مکان پر لنچ کھائیں گے یا کم از کم چائے پئیں۔ آخر یہ طے پایا کہ اقبال اور مہر روانگی سے دو گھنٹے قبل ڈاکٹر صاحب کے مکان پر پہنچ جائیں گے اوروہاں چائے پیئیں گے۔ اور ان کے دوستوں سے مل کر اسٹیشن روانہ ہو جائیںگے۔ ساڑھے تین بجے اقبال اور مہر ہوٹل واپس تشریف لائے ۔ اقبال ڈاکٹر شبہندر سے بہت متاثر ہوئے تھے۔ مہر نے فرمایا کہ موجودہ عالم اسلام کی بڑی بڑی شخصیتوں میں سے غازی رئوف پاشا کے بعد ڈاکٹر شبہندر دوسرے درجے کے آدمی ہیں تو اقبال نے جوا ب دیا کہ میں بھی یہی کہنے والا تھا (۴)۔ مولوی جلال الدین کی دعوت سے واپسی پر معلوم ہوا کہ متعدد افراد ان کی عدم موجودگی میں ملنے کے لیے آئے تھے اور اپنے کارڈ چھوڑ گئے۔ اخبارات کے ذریعے اقبال اور مہر کی آمد اور جائے قیام کا لوگوں کو علم ہو چکا تھا اس لیے ملاقات کے شائقین جوق در جوق آتے رہے۔ کئی حضرات ہوٹل پر آپ کے منتظر تھے۔ ان میں ایک نوجوان خاص طور پر قابل ذکرتھے انہوںنے بعد میں اقبال کے متعلق ایک طویل مضمون البلاغ میں شائع کرایا تھا (۵)۔ اقبا ل نے قاہرہ آنے سے قبل شیخ الازہر پروفیسر مصطفی المراغی کو اپنی آمد کی اطلاع دی تھی اورملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی۔ اقبال کے قیام قاہرہ کے دوران عبدالوہاب عزام پاشا اقبال سے ملے اور انہوںنے ہفتہ وار السبوعتہ میں اقبال کی شخصیت اورفن پر نہایت جامع مضامین لکھے تھے۔ عبدالوہاب عزام فارسی سے بخوبی واقف تھے ۔(۶) ۲ دسمبر کو دوپہر کے بعد سید محمد ماضی ابوالعزائم اپنے دو بیٹوں کے ساتھ تشریف لائے۔ آپ مصر کے مشور صاحب طریقت بزرگ تھے اور آپ کے مریدوں کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ آزادانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ ایک مطبع قائم کر رکھا تھا اور کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ مذہبی جذبے کے ساتھ ملکی سیاستمیں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ انہوںنے تحریک خلافت کے زمانے میں مصر میں خلافت کمیٹیاں قائم کی تھیں اور ۱۹۲۶ء میں مکہ مکرمہ کی موتمر اسلامی میں شرکت کی تھی۔ اقبال نے فرمایا کہ حضرت آپ نے کیوں تکلیف فرمائی میں خود زیارت کے لیے حاضر ہو جاتا۔ کہنے لگے کہ حضور خواجہ دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس نے دین سے تمسک کیا ہو اس کی زیارت کو جائو گے تو مجھے خوشی حاصل ہو گی لہٰذا اس ارشاد کے اتباع میں آیا ہوں تاکہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے خوش ہوں۔ یہ بات سن کر اقبال بے تاب ہو گئے۔ سید صاحب کے چلے جانے کے بعد بے اختیار اشک ریز ہو گئے اور فرمایا کہ ایسا زمانہ بھی آ گیا ہے کہ لوگ مجھ جیسے گناہ گار کو متمسک سمجھ کر حضور خواجہ دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد میں بغرض خوش نودی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ملنے آتے ہیں‘‘۔ سید صاحب دیر تک اقبال اورمہر سے باتیں کرتے رہے۔ ان کی بیش تر گفتگو دینی نصائح پر مبنی تھی آپ نے فرمایا کہ میں بادشاہوں کی ملاقات کے لیے کبھی گھر سے باہر نہیں نکلا لیکن آپ کی ملاقات کے لیے آیا ہوں۔ آپ نے اقبال سے کہا کہ آپ کا دل اور آپ کی زبان مسلمانوں کی بڑے سے بڑی خدمت انجام دے سکتے ہیں۔ مولانا مہر نے فرمایاکہ تمہارے قلم اور تمہاری زبان کو مسلمانوں کی خدمت کے لیے وقف رہنا چاہیے۔ آدھ گھنٹے کے بعد سید صاحب یہ وعدہ لے کر رخصت ہوئے کہ اقبال اور مہر کسی وقت ان کے مکان پر ملیں۔ رخصت کے وقت آپ نے فرمایا کہ میرے مکان پر کیوں نہیں ٹھہرتے وہ مکان غریبانہ سہی لیکن ہوٹل سے برا نہیں ہے۔ مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ایک شلنگ روزانہ سے زائد کرایہ نہیں لوں گا۔ سید ماضی تشریف لے گئے تو پروفیسر علی بے عبدالرزاق ملنے کے لیے آئے۔ پروفیسر صاحب کی ایک تصنیف پر کچھ عرصہ پیشتر علمائے ازہر نے ان کے خلاف فتوی دیا تھا۔ ان سے گفتگو کے دوران سیاست و مذہب کی علیحدگی کا مسئلہ زیر بحث آیا اقبال نے آدھ گھنٹہ تک اس کے مختلف پہلوئوں کو واضح کیا اور سیاست و مذہب کی علیحدگی کے نقصانات بتائے ۔ اقبال نے فرمایا کہ ساری مصیبت مادہ اور روح کو دو متبائن چیزیں سمجھ لینے سے پیدا ہوئی۔ بدھ مت اور اس کے بعد مسیحیت کا نظریہ یہ تھا کہ مادہ کو فنا کیا جائے تاکہ روح منازل ارتقاء طے کرے۔ رہبانیت کی بنیاد پر یہی نظریہ تھا۔ اسی تبائن سے مسیحی دنیا صدیوں تک باہمی کشمکش میں مبتلا رہی۔ پوپوں اور بادشاہوں میں جنگیں ہوتی رہیں۔ لوتھر پیدا ہوا۔ مذہب و سیاست علیحدہ ہو گئے اور اسی علیحدتی کا باعث باشیوزم ہے۔ مسیحیوں نے مادہ فنا کرنے کی کوشش کیتھی بالشوزیم نے اس کے برعکس روح کو جواب دے کر اپنی ساری توجہ مادہ پر مرتکز کر دی۔ اسلام اس تباہن سے پاک ہ اوریہی وجہ ہے کہ اسلام میں لوتھر کا پیدا ہونا بالکل محال ہے۔ یہ گفتگو ابھی جاری تھی کہ مصطفی نہاس پاشا رئیس حزب الوفد کی جانب سے فون آیا کہ وہ اقبال کے منتظر تھے۔ اس لیے کہ پہلے ہی ان سے ملاقات کا وقت طے ہو چکا تھا۔ چنانچہ اقبال ہر اور شیخ عرفانی علی بے عبدالرزاق سے معذرت کر کے بیت الامتہ تشریف لے گئے۔ بیت الامتہ سعد زا غول پاشا کا مکان تھا۔ یہیں حزب الوفد کادفتر تھا مصطفے نحاس پاشا بہت خلوص سے ملے ۔ وہ انگریزی سے ناواقف تھے۔ اس لیے ترجمانی کے فرائض محمود فہمی نقراشی سابق وزیر مواصلات نے انجام دیے۔ آ پ حزب الوفد کے معزز رکن تھے۔ اس وقت حزف الوفد کے کچھ ارکان اور نحاس وزارت کے چند ارکان موجود تھے مزاج پرسی کے بعد مصری سیاست کے بارے میں گفتگو شروع ہوئی۔ آدھ گھنٹہ تک بات چیت کے بعد مہمانوں نے اجازت طلب کی۔ نحاس پاشا نے خواہش ظاہر کی کہ وہ ملاقات بازدید کے لیے ہوٹل میٹروپول آئیں گے۔ دوسرے روز جب اقبال اور مہر باہر گئے ہوئے تھے تویہ لوگ آئے تھے اور دو کارڈ چھوڑ دئے تھے۔ نحاس پاشا سے ملنے کے بعد جب آپ حضرات باہر آئے تو دروازے پر ولیم بے عبید سے ملاقات ہو گئی۔ آپ قبطیوں کے لیڈر تھے۔ اور نحاس وزارت میں وزیر مال تھے۔ ان سے ملنے کے بعد اقبال اور مہر احمد زکی پاشا شیخ العروبہ سے ملاقات کے لیے ان کے مکان پرتشریف لے گئے۔ انہوںنے رات کے کھانے پر مدعو کیا تھا (۷) احمد زکی پاشا حکومت کے عہدہ داروں میں رہ چکے تھے۔ آ پ انگریزی کسی قدر رک رک کر بولتے ہوئے بہت پیارے لگتے تھے۔ تاریخ کے زبردست عالم تھے۔ آپ بے حد پرجوش مسلمان تھے اور اس زمانے میں ان کی توجہ فلسطین کے حالات کی جانب تھی۔ آپ بہت بے تکلف اورسادہ آدمی تھے ان کا خوبصورت مکان دریائے نیل کے کنارے ایک خوش نما قطعہ پر واقع تھا مکان کے ساتھ ہی خوب صورت باغ تھا۔ جس میں آم کے پیڑ لگے ہوئے تھے رات کے وقت مکان کی دوسری گیلری سے نیل کے کنارے کی لال ٹیسیں بہت دلفریب منظر پیش کرتی تھیں۔ اس وقت پاشائے موصوف اپنے مکان کے ساتھ ہی ایک نہاتی سادہ خوبصورت مسجد بنوا رہے تھے۔ جس کے ٹائلز کھڑکیاں اور دروازے اںہوںنے خاص نمونے کے مطابق بنوائی تھیں۔ احمد زکی پاشا نے ایک لمبا چغہ پہن رکھا تھا اور سر پر ایک عجب وضع کی ٹوپی تھی جس پر مندرجہ ذیل شر خوبصورت عربی میں کڑھا ہوا تھا: مامضے فات والمومل غیب و لک الساعتہ التی انت فیھا (۸) پاشا موصوف نے دعوت میں پرتکلف کھانوں کا اہتمام کیا تھا۔ کھانے کے کمرے کی چھت اور دیواروں پر مندرجہ ذیل اشعار درج تھے۔ ان کنت فی مصر ولم تک ساکنا علی نیلھا الجاری فما انت فی مصر و ان کنت فی مصر بشاطی نیلھا و مالک ن شی فما انت فی مصر و ان کنت نا شی ولم یک حائزا لانف ولا الف انت فی مصر و ان حزت وا قلنا ولم تک حائما تمیل لمن تھوی فما انت فی مصر(۹) احمد زکی پاشا اقبال اور مہر سے تقریباً ایک گھنٹے تک مسئلہ فلسطین اور موتمر اسلامی کو کامیاب بنانے کے وساء اور ذرائع پر باتیں کرتے رہے۔ ان کی گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ فلسطینی عرب قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے اس لے یہودی ان کی زمینیں خرید رہے تھے اور فلسطین پر تسلط جما رہے تھے۔ عالم اسلام کو چاہیے کہ دس لاکھ پونڈ جمع کرے اور عربوں کی زمینیں خرید کر حرم مقدس کے لیے وقف کر دے اس طرح یہود کے تسلط کا خطرہ خود بخود دور ہو جائے گا۔ رات کے گیارہ بجے اقبال مہر پاشا موصوف سے رخصت ہوئے۔ رخصت کے وقت انہوںنے وعدہ لیا کہ دوسرے روز ان کی ٹی پارٹی میں شریک ہوں خواہ پندرہ بیس منٹ کے لیے ہی شرکت کی جائے۔ ۳ دسمبر کو اقبال اور مہر کو صبح کے وقت فرصت میسر تھی۔ فرصت کو غنیمت جان کر مہر علامہ اقبال سے اجازت لے کر مصری اخبارات کے مدیروں سے منے گئے مصری اخباروں میں ہندوستانی مسلمانوں کے سیاسی موقف کے متعلق غلط فہمی پائی جاتی تھی۔ جس کی بناپرمصری اخباروں کا رویہ ہندوستانی مسلمانوں کے متعلق غیر ہمدردانہ ہی نہیں معاندانہ تھا۔ اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ ان کے سامنے صحیح معلومات نہ تھیں۔ ان کا ذریعہ معلومات یا تو انگریزی خبر رساں ایجنسیاں تھیں یا ہندو اخبارات تھے اور ان دونوں کا نقطہ نظر مسلمانوں کے متعلق معاندانہ تھا۔ اقبال اورمہر نے قاہر ہ میں اپنے قیام کے دوران کوشش کی کہ ہندوستانی مسلمانوں کا سیاسی موقف اور ہندوستان کے سیاسی حالات ان کے سامنے پیش کیے جائیں۔ مہر نے ۳ دسمبر کی صبح کو ’’المقطم‘‘ ’’الہلال‘‘ کوکب الشرق‘ ’’کشکول‘‘ اور ’’مز‘‘ کے مدیروں سے ملنے کی کوشش کی لیکن ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔ البلاغ کے ایڈیٹر عبدالقادر بے حمزہ سے ملاقات ہوئی ۔۔ ’’البلاغ‘‘ وفد پارٹی کا اخبار تھا وفد پارٹی کے اخبارات ہندوستانی مسلمانوں ے خلاف مضامین شائع کرتے رہتے تھے مہرنے اختصار کے ساتھ گول میز کانفرنس کے دوران مسلمان لیڈروں کی اختیار کردہ پوزیشن واضح کرتے ہوئے مصریوں کی غیر ہمدردان روش کی شکایت کیل عبدالقادر بے حمزہ نے فرمایا کہ ہمیں پورے حالات معلوم نہ تھے۔ ورنہ ہم اپنے بھائیوں کے خلاف کیوں کر جا سکتے ہیں (۱۰) ’’البلاغ‘‘ کے مدیر سے ملنے کے بعد مہر وفد پارٹی کے اخبار ’’الجہاد‘‘ کے دفتر گئے ۔اس کے مدیر توفیق بے دیاب سو رہے تھے۔ مہر واپس جانے لگے تو ان کے ملازم نے کہا کہ ذرا ٹھہریے میں اطلاع کراتا ہوں۔ دیاب کو اطلاع ہوئی تو انہوںنے کہا کہ میں ابھی باہر آتا ہوںَ چنانچہ سونے کے لباس ہی میں آئے ۔ پہلے اصرار کرنے لگے کہ مہر دوپہر کا کھانا ان کے ساتھ کھائیں لیکن مہر نے معذرت کر لی۔ پھر باتیں شروع ہوئیں اور تقریباً دو گھنٹے تک انہوںنے ایک ایک چیز واضح کی۔ نیز توفیق بے دیاب کے تمام سوالات کے جواب دیے۔ مدیر الجہاد نے فرمایا کہ تم اگر کوء بیان دوتو میں اخبار میں شائع کر دیتا ہوں۔ انٹرویو دینا چاہو تو آدمی بھیج دیتا ہوں مہر نے جواب دیا کہ ان تکلفات کی ضرورت نہیں۔ میرا مقصود محض یہ تھا اور ہے کہ آپ کو صحیح حالات معلوم ہو جائیں۔ تاکہ آپ خود ان امور کا خیال رکھیں اور اجانب کے پروپیگنڈے کی رو میں نہ بہہ نکلیں۔ مدیر نے فرمایا کہ میں اپنے لکھے ہوئے مضامین کی تلافی کروں گا اور خود تمہارے بتائے ہوئے حالات کی روشنی میں مسلمانان ہند کی صحیح پوزیشن اور ان کے مطالبات کو مصری پبلک کے سامنے لائوں گا۔ ۳ دسمبر کو دوپہر کے کھانے کی دعوت مرزا مہدی بے ایرانی کے ہاں تھی۔ اقبال مرزا صاحب کے ساتھ روانہ ہو گئے اور مہر بعد میں تشریف لائے۔ مرزامہدی کی دعوت میں مولانا شوکت علی‘ زاہد علی‘ مولانا شفیع دائودی علامہ سید رشید رضا‘ شیخ الازہر اور بعض دیگر اصحاب شریک ہوئے تھے ۔ چار بجے احمد زکی پاشا کی چائے پارٹی میں شریک ہوئے۔ اس میں بہت سے مصری اکابر نے شرکت کی تھی۔ یہاں سے جلد فارغ ہونے کے بعد پانچ بجے استاد علی بے عبدالرزاق کے بڑے بھائی محمود پاشا عبدالرزاق کے یہاں تشریف لے گئے۔ انہوںنے پہلے ہی دن ٹی پارٹی کی دعوت دی تھی۔ اس دعوت میں محمود پاشا رئیس حزب الاحرار‘ محمد علی پاشا‘ جعفر والی پاشا‘ سید خشبہ پاشا‘ مصطفی بے عبدالرزاق استاد فلسفہ تاریخ علی بے عبدالرزاق‘ ڈاکٹر منصور فہمی ‘ اسعد بے لطفی فواد بے سلیم‘ ڈاکٹر محمد حسین ہیکل مدیر ’’السیاستہ‘‘ اور بعض دوسرے اکابر اہل علم موجود تھے ۔ اقبال اس صحبت میں قرآن حکیم کے حقائق سے متعلق گفتگو کرتے رہے۔ محفل میں شریک اصحاب نے اعتراف کیا کہ انہوںنے اس سے قبل قرآن حکیم کی اس نظر سے تلاوت نہیں کی۔ ا س صحبت میں ڈاکٹر محمد حسین ہیکل سے ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹر ہیکل مصر کے مشہور بالغ نظر اور ذی اثر اخبار نویس تھے۔ آپ کے مقالات علمی حلقوں میں بہت توجہ سے پڑھے جاتے ھتے صحافت میں اعلیٰ مقام کے علاوہ ان کی علمی حیثیت بھی مسلم تھی۔ آپ مصر کی سب سے بڑی سیاسی جماعت حزب الاحرار کے اخبار السیاستہ کے مدیر تھے۔ ڈاکٹر ہیکل نے سیاسیات ہند کے متعلق گفتگو کی خواہش ظاہر کی۔ مہر نے جوا ب دیا کہ مجھے تو خود آپ سے ملنا ہے۔ ڈاکٹر ہیکل نے فرمایا کہ کل کسی وقت آئو اور دو ڈھائی گھنٹے فرصت نکال کر آئو۔ مہر ۴ دسمبر کو ڈاکٹر ہیکل سے ملاقات یک یے تشریف لے گئے۔ ان کے درمیان تین گھنٹوں تک باتیں ہوتی رہیں۔ ڈاکٹر ہیکل نے ہندوستان کا نقشہ سامنے رکھ کر ایک ایک صوبے کے مسلمانوں کی حالت دریافت کی۔ مہر نے شروع سے آخر تک مسلمانان ہند کے سیاسی موقف ان کے مطالبات اور ہندوئوں کے سلوک کی کفییت بیان کر دی۔ اس گفتگو کے بعد ڈاکٹر ہیکل نے د و روز بعد مسلمانان ہند کے سیاسی موقف کے بارے میںچار کالم کا ایک طویل مقالہ لکھا۔ جس میں انہوں نے مہر کی بہت تعریف کی تھی۔ یہ مقالہ مرہر کو فلسطین پہنچنے پر ملا تھا۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر ہیکل نے اس موضوع پر کئی مضامین لکھے تھے۔ مہر صاحب ڈاکٹر ہیکل کے خلوص اخلاق او رعلم و فضل سے بے حد متاثر ہوئے تھے۔ ۳ دسمبر کو محمود پاشا عبدالرزاق کے ہاں چائے پارٹی کے دوران سید محمد قاضی ابوالعزم کے صاحبزادے کار کے ساتھ آئے اور اقبال اور مہر سے درخواست کی کہ ان کی قیام گام میں چل کر چائے پئیں چنانچہ چائے پینے کے بعد یہ دونوں سید صاحب کے دولت کدے پر پہنچے۔ سید صاحب کے مکان پر مریدوں کی خاصی تعداد تھی۔ بیٹحے ہ یسید صاحب نے حسب معمول نصیتیں شروع کیں۔ آ پ نے فرمایا جب ہماری تعداد چند لاکھ تھی تو دنیا کی عظیم الشان سلطنتیں ہمارے پائوں چومتی تھیں آج ہم چالیس کروڑ ہیں مگر ہر جگہ کفار ہم پر مسلط ہیں۔اس کی کیا وجہ ہے؟ محض یہ کہ ہم نے اسلام کو چھوڑ دیا ہے۔ اس کی روح سے کنارہ کش ہو گئے ہیں۔ اقبال کے دل کی طرف کئی مرتبہ اشارہ کر کے کہا اس میں اسلام کی محبت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص شیفتگی نظر آتی ہے۔ پھر اپنے ایک مرید کو اشارہ کیا جس نے دلکش مصری لہجے میں سورۃ الفتح سنائی۔ دوسرے کمرے میں چائے کا پر تکلف انتظام تھا۔ اقبال اور مہر نے فرمایا کہ حضرت دو گھنٹے میں دو مرتبہ دو پارٹیوں میں چائے پی چکے ہیں۔ سید صاحب کے اصرار پر تیسری مرتبہ چائے پی۔ رخصت ہوتے وقت سید صاحب نے اپنی تصانیف کے دو دو نسخ؁ ہدیہ دیے۔ مریدوں نے حضرت علامہ اقبال زندہ باد کا نعرہ لگایا۔ سید صاحب کے قیام گاہ سے اقبا ل اور مہر اپنے ہوٹل آئے۔ ہوٹل سے مہر ڈاکٹر شبنہدر کے مکان تشریف لے گئے۔ یہاں کچھ وقت گزارنے کے بعد دوبارہ ہوٹل آئے۔ اس رات اقبال اور مہر کی ماسٹر امام الدین سیالکوٹی نے دعوت کی تھی۔ ۴ دسمبر کو مہر ’’السیاسیتہ‘‘ کے مدیر ڈاکٹر محمد حیسن ہیکل سے ملے۔ انہوںنے ’’کشکول‘‘ اور ’’معز‘‘ کے مدیر دے ملنا چاہا لیکن اس دفعہ بھی ملاقات نہ ہو سکی۔ پھر آ پ’’المنار‘‘ کے مدیر علامہ سید رشید رضا سے ملے وہ بہت محبت سے ملے۔ اس وقت دوپہر ہو چکی تھی ۔ علامہ رشید رضا نے فرمایا کہ کھانے کا وقت ہے لہٰذا کھانا کھلائے بغیر نہیں جانے دوں گا۔ کھانے کے دوران تفسیر القرآن اور حضرت شیخ محمد عبدہ رحمتہ اللہ علیہ کی سیرت کی پہلی جلد کے متعلق باتیں ہوئیں۔ یہ کتاب اس زمانے میں شائع ہوئی تھی (۱۱) ۴ دسمبرکی شام کو چار بجے جمعتہ الرابطہ الھندیہ نے ہوٹل میٹروپول میں پر تکلف ٹی پارٹی دی۔ یہ دعوت اقبال اور مہر کے اعزاز میں تھی اور اس میں پچاس اصحاب نے شرکت کی تھی۔ ان میں ہندوئوں مسلمانوں کے علاوہ بہت سے مصری اصحاب علم و فن بھی شریک تھے مثلاً احدم زکی پاشا‘ ڈاکٹر عبدالرحمن شہندر ‘ منیر الحفی‘ لطفی بے جمعہ‘ مدیر ’’چہرہ نما‘‘ مندوب ’’البلاغ‘‘ تقریب میں شریک ہوئے۔ حکومت کے محکمہ امن عامہ نے دو دن پہلے سے نگرانی شروع کر دی تھی۔ ایک انسپکٹر پولیس نے دریافت یا کہ یہ سیاسی جلسہ تو نہیں۔ حکیم صاحب نے جواب دیا کہ اس جمعیت کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اس لیے صرف چند طالب علم مصری مدعو کیے گئے ہیں۔ یقین دہانی کے باوجود پولیس کا دستہ نگرانی کے لیے موجود تھا۔ حکیم ناڑو (۱۲) نے جمعتہ کی جانب سے سپاسنامہ پڑھا اوراس میں انہوںنے اقبال مہر اور شرکائے دعوت کے تشریف لانے کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد آپ نے علامہ اقبال کی سر بلندی منزلت رفعت مرتبت اور جلیل الشان خدمات کا ذکر کیا۔ تھا۔ اس کے علاوہ مولانا مہر کی خدمات کا بھی ذکر کیا۔ حکیم صاحب نے فرمایا کہ جمعتہ ان کے شایان شان خدمت کرنے سے قاصر رہی ہے لیکن ان اصحاب کی فراخ دلی سے متوقع ہو کر جرات کی کہ اظہار عقیدت کے لیے اگر پھول ممکن نہیں تو پھول کی ایک پنکھڑی ہی پیش کر دیں۔ ۱۹۲۵ء سے قبل یہاں کی کوئی انجمن نہ تھی اور ملک مصر میںاکثرایسے ہندی عدم واقفیت سے آ جاتے ہیں جنہیں نہ عربی زبان آتی ہے اور نہ کوئی ذریعہ معاش حاصل ہوتا ہے۔ اور بعض وقت پاسپورٹ گم ہوجانے سے اور بھی مصیبت کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کی جمعتہ امداد کرتی ہے۔ اگرچہ برطانوی سفارت مدد کتی ہ بشرطیکہ حکومت ہند تصدیق کر دے۔ اس حالت میں غریب کو دو ماہ تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ان امور کو مدنظر رکھتے ہوئے فروری ۱۹۲۵ء میں جمعتہ الرابطہ الہندیہ قائم کی گئی۔ جمعیتہ نے متعد د ہندوستانیوں کو وطن واپس بھیجا اور کئی اصحاب کو پاسپورٹ لے کر دیے۔ بلا تمیز مذہب و ملت خدمت کی۔ اس میں شک نہیں جمعتہ متمول نہیں نہ اس کے کثیر تعداد میں ممبر نہیں۔ تاہم باری تعالیٰ کی رحمت سے جمیعتہ نے اپنے فرض سے کوتاہی نہیں کی اوریہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ مصر کے باشندے ہمیں اپنا بھائی تصور فرماتے ہیں اور اراکین جمیعتہ سے سب اکابر مصڑ اور ارکان حکومت اخلاق اور فراغ دلی کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اس ملک کے باشندوں کا شکریہ ادا کریں۔ ہمارے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ جلالتہ الملک شاہ مصر (ملک فواد) کی عمر دراز کرے۔ حکیم ناڑو کی تقریر کے بعد لطفی بے جمعہ نے اقبال کی جلالت منصب کے متعلق ایک جامع تقریر کی۔ آ پ نے فرمایا حضرت ممدوح کے متعلق ہم جو کچھ سنتے تھے انہیں دیکھا تو اس سے وہ چند پایا۔ چہرہ نما کے مدیر شیخ محمود احمدعرفانی نے اپنی تقریر میں اقبال اور مہر کی خدمات کا تفصیلی ذکر کیا۔ مسٹر پنجومل نے تقریر کے دوران اشاراتاً مولانا شوکت علی کے انٹرویو جو مختلف جرائد میں شائع ہوا تھا کا ذکر کیا۔ ان کے علاوہ منیر الحفی اور احمد ذکی پاشا نے اس موقع پر تقریریں کیں احمد زکی پاشا نے موتمر اسلامی کی اہمیت پر زور دیا اوراقبا ل اور مہر کو تاکید کی کہ اپنی ساری قومیں موتمر کو کامیاب بنانے میں صرف کر دیں۔ آخر میں اقبال نے تقریر کی ۔ آپ نے اراکین جمعتہ کا شکریہ ادا کیا اور فرمایا کہ حکیم صدیق محمد سے جمیعتہ کی خدمات کا حال سن کر بہت خوشی حاصل ہوئی اور امید ہے کہ جمیعتہ الرابطہ الھندیہ بام ترقی پر پہنچے گی۔ بلکہ ہندوستان و مصر کے رابطہ کاباعث ہو گی۔ اس وقت مصر و ہندوستا ن کے تعلقات نہایت ہی مضبوط و مربوط ہیں۔ لیکن اس سے پہلے ہندوستان اور ایران کا رابطہ زیادہ تھا بلکہ ہندوستانی تہذیب میں ایرانی تہذیب کا اثر ہے۔ (۱۳) جمیعتہ الرابطہ الھندیہ بڑی ضروری جمعیت تھی یہ مصر وہندوستان کے مابین ایک سلسلہ اتصال ہے۔ اسے جس قدر مضبوط بنایا جائے اتنا ہی اچھا ہو گا۔ اقبال کی تقریر کے بعد حاضرین محفل کی تصویر کھینچی گئی۔ (۱۴) جس روز اقبال قاہرہ پہنچے اسی روز سے مختلف حلقوں کی طر ف سے تقریر کے لیے درخواستیں ہو رہی تھیںَ اقبال نے فرصت نہ ہونے کے سبب معذرت چاہی لیکن جمیعتہ الشبان المسلمین کے ارکان نے بہت اصرار کیا بلکہ مولانا شفیع دائودی نے بھی سفارش کرائی۔ آخر لوگوں کے اصرار پر اقبال نے بھی تقریر کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ ۴ دسمبر کو شام کے سات بجے اقبال نے شبان المسلمین کے دفتر میں انگریزی کی تقریر کی ہال کھچا کھچ بھر ا ہوا تھا۔ حاضرین کی اکثریت اساتذہ اور اہل علم تھے۔ تقریر کے دوران با ربار چیئرز ہوتے رہے۔ تقریر کے خاتمے پر شبان المسلمین کی طرف سے چند کتابیں اقبال کی خدمت یں تحفتاً پیش کی گئیں (۱۵) ۔ اس اجلاس میں مشہور مصری ڈاکٹر عبدالوہاب عزام پاشا بھی شریک ہوئے تھے۔ انہوںنے اپنے تاثرات ایک مقام پر بیان کیے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ اور دل و نگاہ کی عین سعادت تھی کہ اقبال موتمر اسلامی کی طرف جاتے ہوئے جس کا اجتماع ۱۹۳۱ء میں مسجد اقصیٰ میں ہوا تھا مصر تشریف لائے۔ جمعیت شبان المسلمین نے اس زعیم عظیم کے اعزاز میں ایک جلسہ منعقد کرانے کا اعلان کیا اور میرے استاد شیخ عبدالوہاب النجار نے تجویز پیش فرمائی کہ حاضرین سے اقبال کا تعارف کرائوں ۔ اگرچہ میرا اپنا مبلغ علم کچھ نہ تھا لیکن حاضرین میں سے سب سے زادہ میں ہی آگا ہ تھا۔ یہ بات میرے لیے انتہائی شرف و مسرت کا باعث تھی اوریہ بات عالم غیب سے اقبال کے ساتھ طویل تعلق کا باعث بن گئی۔ وہ تعلق جو ایک مرید کو اپنے مرشد کے ساتھ اور ایک شاگردکو اپنے استاد کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور یہی بات پیش خیمہ بن گئی کہ اس امر کا ایک طویل مدت تک محنت و کاوش سے کام لے کر اقبال کے بارے میں کچھ لکھتا رہوں اور ان کے شعری مجموعوں کو عربی میں منتقل کرتارہوں۔ جب میں اقبال کا مختصر تعارف حاضرین سے کرا چکا تو اقبال کھڑے ہوئے اور انہوںںے انگریزی میں گفتگو کرتے ہوئے مسلمانوں کے احوال اور فکر اسلامی کے ارتقا پر روشنی ڈالی۔ اپنے علم و بیان کے دریا بہا دیے صوفیہ کے بارے مین انہوں نے جو کچھ کہا ا س میں یہ بھی ارشادکیا کہ صوفیہ مسلمانوں کے علمائے نفس ہیں۔ اس موقعہ پر اقبال نے جو پیغام دیا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ سید جمال الدین افغانی کے مقصد کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ ان کی جملہ تصنیفات کا عربی میں ترجمہ ہو تاکہ لوگ اسے سمجھ سکیں۔ دوم انہوںنے مصر میں اردو زبان کی ترویج و اشاعت پر زوردیا تاکہ اہالیان مصر ہندوستانیوں اور بالخصوص اسلامی ہند کے افکار و تعلیمات و اسلامی حقائق بلکہ انسانیت کے بلند ترین مقام کا جو شکیلی خاکہ پیش کیا ہے ا س کو ممالک اسلامیہ میں پہنچانے اور اس کے فلسفے کا حقیقی تعارف کرانے میں مدد مل سکے (۱۶) شام کے وقت اقبال اور مہر کی محمد علی پاشا کے ہاں دعو ت تھی۔ دعوت میں ان کے علاوہ استاذ علی بے عبدالرزاق او رڈاکٹر منصور فہمی کو بلایا تھا۔ محمد علی پاشا اقبال سے بعض اہم مسائل پر اطمینان کے ساتھ گفتگو کرنا چاہتے تھے۔ آپ کی راہائش مصر جدید یا قاہرہ کی نئی آبادی میں تھی۔ مصر جدید اسی جگہ بنا ہوا تھا جہاں دور قدیم میں ہیلو پولیس آباد تھا۔ یہ مقام بہت پر فضا اور صاف ستھرا تھا۔ کھانے کے دوران ہی مسئلہ سود پر بحث چھڑ گئی۔ بعد ازاں اسلامی فتوحات مسلمانوں کے زوال کے اسباب ہندوستان کی سیاسیات او ربعض دوسرے مسائل کے متعلق گفتگو کا سلسلہ جاری رہا۔ رات کے تقریباً بارہ بجے واپسی ہوئی۔ محمد علی پاشا کے متعلق اقبال کے دل میں خاص محبت و عزت تھی۔ آپ بہت فاضل اور سلجھے ہوئے ذہن کے مالک تھے۔ ان کی گفتگو ہمیشہ بہت سنجیدہ اور تہ دار ہوتی تھی۔ اسلام اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کا درد دل میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہواتھا۔ آپ ہر لحظہ اسی فکر میں رہتے تھے کہ مسلمان از سر نو سنبھلیں دوبارہ ترقی کے اوج کمال پر پہنچیں اور دنیا میں عزت مندانہ زندگی بسر کرنے کے قابل ہو جائیں۔ ۵ دسمبر کی صبح کوسید محمد ماضی ابوالعزائم نے اپنی کار مع ڈرائیور کے بھیج دی۔ کار میں اقبال اور مہر کے ساتھ شیخ محمود احمد عرفانی تھے۔ قاہرہ کے نزدیک آثار قدیمہ اور مقامات مقدسہ کی زیارت کے بعد آپ حضرات جامعہ الازہر پہنچے۔ اس کے مختلف راقوں میں طالب علم ہر وقت جمع رہتے تھے۔ اور اساتذہ سے درس لیتے رہتے تھے۔ انہوں نے تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے منطق ‘ تفسیر اور حدیث کے درس سنے۔ بعد ازاں انسپکٹرجنرل کے ساتھ جامعہ عربیہ دیکھنے کے لیے روانہ ہو گئے۔ جامعہ عربیہ درحقیقت ازہر کو نئے خطوط پر لانے کا نتیجہ تھا۔ یعنی یہاں ازہر کے طلبہ کو دور جدید کی ضروریات کے مطابق نئے اصولوں کے مطابق اسلامیات کی تعلیم دی جاتی تھی۔ انہوںنے طبیعیات کیمیا اور دیگر علوم جدیدہ کی تعلیم کا معائنہ کیا۔ یہاں ایک پروفیسر نے اقبال کی شان میں عربی میں طویل قصیدہ پڑھا۔ تمام طلبہ نے وکتور اقبال زندہ باد‘ شاعر ہندی زندہ باد‘ زعی ہندی زندہ باد کے نعرے لگائے جامعہ عربیہ سے نکے تو معلوم ہوا کہ شیخ مصطفے المراغی شیخ ازہر اپنے دفتر کے باہر مہمانوں کا انتظار کر رہے تھے۔ ان سے ملاقات کے دوران میں اقبال ن ے چند الفاظ میں ازہر کے بارے میں اپنے خیالات ظاہر کیے۔ آپ نے فرمایا راستہ وہی ہے لیکن قافلہ بدل گیا ہے اور اگر آپ موجودہ قافلے کے حالات و ضروریات کا خیال نہ فرمائیں گے و پیش نظر مقصد میں ہرگز کامیابی نہ ہو گی۔ جامعہ ازہر کی جانب تے مہمانوں کو چند کتابیں تحفتاً پیش کی گئیں۔ شیخ ازہر سے رخصت ہو کر ماسٹر محمد رمضان کے مکان پراقبال اور مہر تشریف لے گئے ماسٹر صاحب گورجرانوالہ ے باشندے تھے اور قاہرہ اور اسمعیلیہ میں فوج کا ٹھیکہ لے رکھاتھا۔ آپ کے ایک بھائی بیت المقدس میں رہتے تھے ۔ا قبال اور مہر جس روز قاہرہ تشریف لائے تو ماسٹر صاحب اسمعیلیہ میں تھے لیکن چونکہ انہیں مہمانوں کی آمد سے پہلے سے اطلاع تھی اس لیے قاہرہ میں اپنے آدمیوں کو تاکید کی کہ اقبال او ر مہر کی قاہرہ آمد کے ساتھ ہی انہیں اسمعیلیہ تار دے دیں۔ چنانچہ وہ دوسرے روز ۲ دسمبر کو قاہرہ پہنچ گئے۔ ماسٹر صاحب بہت پرتپاک طریقے سے ملے اور اصرار کرنے لگے کہ ان کے ہاں کئی دعوتیں کھائی جائیں۔ وقت کی کمی کے سبب صرف ایک وقت کے کھانے پر اکتفا کیا۔ ماسٹر صاحب کے ہاں کھانا کھانے کے بعد بھی آپ حضرات سید محمد ماضٰ ابوالعزائم کے ہاں گئے سید صاحب موصوف نے تاکید کی تھی کہ اقبال اور مہر جانے سے پہلے ایک دفعہ ضرور ملیں۔ سید صاحب نے اپنی دینی نصیحتوں کو دہرایا۔ ان کے ہان اسراء کی تقریب میں بہت بڑی محفل ہوتی تھی سید صاحب نے فرمایا کہ اس محفل تک ٹھہر جائو۔ اقبال نے جواب دیا کہ ہمارا جانا ضروری ہے اس لیے کہ موتمر اسلامی کا افتتاح اسراء ہی کی شا م کو ہو گا لیکن ہم راستے میں آپ کے رسالہ اسراء کو (جو سید صاحب نے ایک روز قبل عنایت کیا تھا) پڑھیں گے اور اس طرح آ پ کی محفل میں ایک گونہ شرکت سے محظوظ ہو سکیں گے۔ شیخ محمود احمد عرفانی نے ہنستے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صاحب اور مہر صاحب مدت سے گھر سے نکلے ہوئے ہیں اب پیشے قریب الاختتام ہیں اس لیے زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتے۔ سید ماضی نے فوراً جیب میں ہاتھ ڈالا اور اپنا کپڑے کا بٹوا نکال کر سامنے رکھ دیا۔ پھر فرمایا بتائو کتنے پونڈ چاہیے۔ یہ لوگ جتنے دن یہاں ٹھہریں اور جو کچھ خرچ کریں سب میرے ذمے ڈال دیا جائے۔ خاصی دیر تک لط صحبت جاری تھی۔ پھر یہ حضرات ہوٹل میٹروپول واپس آئے ہوٹل آنے کے بعد سامان تو قاہرہ اسٹیشن بھجوا دیا اور خود ڈاکٹر عبدالرحمن شبندر کی قیام گاہ پر چائے پینے کے لیے چلے گئے۔ وہاں انہوںنے ڈاکٹر شبہندر کی اسیری کا گیت سنا (۱۷) ۔ یہ گیت بہت پر تاثیر اور دلکش تھا۔ ڈاکٹر شبہندر کے مکان پر کئی شامی بھائیوں سے ملاقات کی۔ عراقی سفیر متعینہ مصر سے ملاقات ہوئی۔ آپ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد میں سے تھے۔ ان کے علاوہ احمد زکی پاشا علی بے عبدالرزاق لطفی بے جمعہ ڈاکٹر منصور فہمی‘ منیر الحفی ‘ اور احمد جمال پاشا الغزی سے بھی ملاقات کی۔ ان لوگو ںسے ملنے کے بعد ڈاکٹر شبہندر کے مکان سے ریلوے سٹیشن روانہ وہ گئے۔ ریلوے سٹیش پر مہمانوںکو الوداع کہنے والوں کا خاصا بڑا ہجوم تھا ماسٹر محمد رمضان کو اصرار تھا کہ اقبال اور مہر رات کے لیے کھانا ساتھ لے جائیں۔ آپ حضرات نے بہ منت کہا کہ اب کھانے کی گنجائش نہیں تاہم انہوںنے پھلوں کی ٹوکری ساتھ رکھ دی۔ اقبال اور مہر سوا پانچ بجے ریلوے سٹیشن پہنچ گئے۔ مولانا شوکت علی اور زاہد علی دور روز قبل قاہرہ سے بیت المقدس روانہ ہو چکے تھے۔ مولانا شفیع دائودی اور حافظ عبدالرحمن ساتھ روانہ ہوئے ۔ علاہ سید رشید رضا بھی ان کے ساتھ فلسطین کے سفر پر روانہ ہوئے۔ اسٹیشن پر موجود میزبانوں نے پرخلوص جذبات کے ساتھ مہمانوں کو رخصت کیا۔ ان کی خدمت میں پھولوں کے گلدستے پیش کیے۔ حکیم صدیق محمد ناڑو گزشتہ پانچ روز سے اپنا کاروبار چھوڑ کر قاہرہ میں موجود رہے تھے جب مہمان قاہرہ سے روانہ ہونے لگے تو حکیم صاحب بھی اس ٹرین پر سوار ہو گئے اور پورٹ سعید تک ساتھ گئے۔ ماسٹر محمد رمضان نے مہمانوں کی روانگی کی اطلاع تار کے ذریعے اسمعیلیہ بھیج دی تھی چنانچہ اسماعیلیہ ریلوسے سٹیشن پر جب ٹرین پہنچی تو ہندوستانیوںاور پنجابی مسلمانوں کی اصی بری تعداد ان کے استقبال کے لیے موجود تھی۔ انہوں نے مہمانوںکی خدمت مین پھول پیش کیے اور دیر تک نعرہ تکبیر اور زندہ باد کے نعرے لگائے۔ قاہرہ ریلوے سٹیشن سے ٹرین چھ بجے روانہ ہوئی (۱۸) ۔ اقبال اور مہر مصریوں کی محبت کا انمٹ نقش د ل میں لے کر رخصت ہوئے۔ (۱۹) مصری احباب کا تقاضا تھا کہ اقبال اور مہر مصر میں زیادہ عرصہ قیام کریں لیکن موتمر اسلامی میں شرکت ضروری تھی۔ اس لیے زیادہ عرصہ قیام ممکن نہ تھا۔ مصری دوستوں نے اصرار کیا کہ موتمر اسلامی کے اجلاس کے بعد دوبارہ قاہرہ آئیں لیکن ہندوستان روانگی کے طے شدہ پروگرام سے انحراف ممکن نہ تھا۔ مصری بہت مہمان نواز اور پر خلوص لوگ تھے۔ اقبال نے مصر کے سفر کے بارے میں ایک موقع پر ارشاد فرمایاتھا کہ چند ماہ ہوئے مصر جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ وہاں کے واقعات سے مجھے یہ یقین ہو گیا کہ غفلت کے پردے اٹھ چکے ہیں۔ مصر میں قومیت کا جذبہ اور جوش عمل موجود ہے۔ وہاں ایک ادارہ قائم تھا جو ملکی تمدن اور روایات کا امین ہے (۲۰)۔ ٭٭٭ حواشی ۱۔ مکتوب مہر ۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر ۱۹۲۔ یکشنبہ ۔ ۱۰ جنوری ۱۹۳۲ئ۔ ۲۔ یہ جماعت عبدالحمید سعید بے نے قائم کی تھی اور یہ وائی ایم سی اے کے طرزپر تھی۔ ی جماعت رفاہ عامہ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھی او رمذہب سے بھی گہری وابستگی تھی ۔ ۳۔ ۱۔ مکتوب مہر ۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر۱۹۲ء یکشنبہ ۱۰ جنوری ۱۹۳۲ء ۴۔ مکتوب مہر ۔ ۱۔ مکتوب مہر ۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر۱۹۳۔ دو شنبہ ۔ ۱۱جنوری ۱۹۳۲ء ۵۔ مکتوب مہر۔ ۱۔ مکتوب مہر ۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر۱۹۴۔ چہار شنبہ ۔ ۱۳ جنوری ۱۹۳۲ء ۶۔ اقبال کی صحبت میں۔ از ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی ۔ ص ۲۶۶۔۲۶۵ اخبار ’’السبوعتہ‘‘ کے وہ شمارے جن میں عزام کے مضامین شائع ہوئے تھے ۔ علامہ اقبال نے عبداللہ چغتائی کو دیے اور انہوںنے ان اخبارات کو اقبال اکادمی لاہور کے سپرد کر دیا تھا۔ عبدالوہاب عزام پاشا پاکستان بننے کے بعد مصر کی جانب سے پاکستان میں سفیر متعین ہوئے۔ اس عرصے میں انہوںنے پیام مشرق کا عربی میں ترجمہ کیا اور اس کے علاوہ متععدد مقالات کے ذریعے اقبال کی شخصیت اور فن کو عرب دنیا سے متعارف کرایا تھا۔ ۷۔ ۲ دسمبر کو رات کے کھانے پر اقبال اور مہر کو شیخ جامعہ الازہر نے مدعو کیا تھا لیکن آ پ حضرات پہلے سے احمد زکی پاشا کی دعوت قبول کر چکے تھے ۔ اس کے علاوہ بہت سے مصری اصحاب نے انہیںمدعو کیا لیکن آپ حضرات عدیم الفرصتی کے سبب بیشتر دعوتوں میں شریک نہ ہو سکے۔ صدتی پاشا وزیر اعظم مصر نے بھی انہیں مدعو کیا تھا لیکن آپ حضرات نہ جا سکے۔ ملاحظہ کریں۔ مکتوب حاجی حکیم صدیق محمد ناڑو۔ انقلاب ۔ جلد ۶ ۔ نمبر ۱۷۸۔ چہار شنبہ۔ ۲۳ دسمبر ۱۹۳۱ء ۸۔ شعر کا ترجمہ یہ ہے جو گزر چکا ہے سو گزر چکا۔ جو کچھ آنے والا ہے وہ غیب میں ہے۔ تیرے لیے صرف وہی گھڑی ہے جس میں تو موجود ہے۔ ۹۔ ان اشعار کا ترجمہ حسب ذیل ہے۔ جب تم مصر میں ہو اور دریائے نیل کے کنار ے پر مقام نہیں تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ تم مصر میں ںہیں اگرمصر میں نیل کے کنارے موجود ہو اور تمہارے پاس کوئی چیز نہیں تو سمجھ لو کہ تم مصر میں نہیں اوراگر تمہارے پاس کچھ مال بھی ہو لیکن تم الفت و محبت پر حاوی نہ ہو تو سمجھ لو کہ تم مصر میں نہیں۔ اگریہ شے بھی تمہارے پاس ہو لیکن تم اس شے کی طرف سرگرداں نہیں جس طر ف تمہارا میلان ہے تو سمجھ لو کہ تم مصر میں نہیںَ ۱۰۔ مہر کی عبدالقادر بے حمزہ سے ملاقات کے بعد مصری اخبار البلاغ میں مندرجہ ذیل اطالع شائع ہوئی تھی۔ مولانا غلام رسول مہر ایڈیٹر ’’انقلاب‘‘ لاہور دفتر البلاغ میں آئے اورایڈیٹرسے ملاقات کی۔ ہم نے انہیںمہذب علم دوست‘ محب اسلام‘ محب وطن پایا۔ ہم ان کے شکر گزار ہوئے کہ وہ ہمارے دفتر میں آئے اور اس بات کی آرزو ظاہر کی کہ ہندوستان اور مصر کے تعلقات زیادہ سے زیادہ دوستانہ و مستحکم رہیں۔ ۱۔ مکتوب مہر ۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر۱۸۱۔ یک شنبہ ۔ ۲۷ دسمبر ۱۹۳۱ء ۱۱۔ ۱۔ مکتوب مہر ۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر۱۹۴۔ سہ شنبہ ۔ ۱۳ جنوری ۱۹۳۲ئ۔ ۱۲۔ حاجی حکیم صدیق محمد ناڑو جمعتہ الرابطہ الھندیہ کے جنرل سیکرٹری تھے۔ ۱۳۔ مکتوب حکیم صدیق محمد ناڑو۔ ۱۔ مکتوب مہر ۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر۱۷۸۔ چہار شنبہ ۔ ۲۳ دسمبر ۱۹۳۱ء ۱۴۔ اس تقریب کا حال حکیم ناڑو کے علاوہ مولانا مہر نے بھی اپنے خط میں لکھا تھا۔ راقم نے ان دونوں خطوط کی مدد سے روئداد مرتب کی۔ ملاحظہ کریں۔ مکتوب مہر۔ ۱۔ مکتوب مہر ۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر۱۹۴۔ سہ شنبہ ۱۳ جنوری ۱۹۳۲ئ۔ ۱۵۔ مکتوب مہر ۔۱۔ مکتوب مہر ۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر۱۹۵ئ۔ چہار شنبہ ۱۴ جنوری ۱۹۳۲ء تقریر کے نکات کے لیے ملاحظہ کریں: Letters and Writings of Iqbal PP.80-82 ۱۶ سہ ماہی ’’اقبال‘‘ جلد ۱۳ شمارہ ۲۔ اکتوبر ۱۹۶۴ئ۔ ’’اقبال مصر میں‘‘ از حافظ عباد اللہ فاروقی ص ۸۳۔۸۲ ۱۷۔ ڈاکتر عبدالرحمن شہندر جب فرانسیسیوں کی قید میں تھے تو شام کی جدوجہد آزادی میں شریک ایک شاعر نے ایک نہایت پر تاثیر گیت ڈاکٹر صاحب کے متعلق لکھا جسے ایک خوش گلو شامی نے گایا تھا اور اس گیت کو ریکارڈ کر لیا گیا تھا۔ ۱۸ ۔ مکتوب مہر۔ ۱۔ مکتوب مہر ۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر۱۹۵۔ چہار شنبہ ۔ ۱۴ ججنوری ۱۹۳۲ء ۱۹۔ مصریوں کو بے پناہ خلوص اور اقبال سے عقیدت کا اندازہ ایک مصری ادیب عبدالرحمن عزمی کے خط سے ہوتاہے۔ آپ سکندریہ کے رہنے والے تھے اور آپ نے اقبال کے قیام مصر کے دوران ملاقات کی تھی بعد میں عبدالرحمن عزمی نے اقبال کے نام ایک خط تحریر کیا تھا۔ حضرت محترم۔ جب آ پ مسلم کانفرنس میں شریک ہونے کے لیے فلسطین جاتے وقت سکندریہ سے قاہرہ کو تشریف لے جا رہے تھے تو مجھے ٹرین میں آپ کی زیارت اور آپ کے ساتھ مکالمہ کا شرف حاصل ہواتھا۔ میں اسی وقت سے محسوس کر رہا ہوں کہ میں نے ایک نہایت بالغ نظر فاضل سے ملاقات کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زمانہ حاضر میں علامہ جمال الدین افغانی اور علامہ محمد عبدہ جیسے اکابر رجال کے انتقال کے بعد ایشیا کو ایک عالی شان اور بلند نظر انسان کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی آخر اس نے آپ کو پا لیا۔ اہل مشرق کے نزدیک آپ ہی وہ جلیل القدر انسان ہیں جس نے اپنی قابلیت اور فضیلت سے ادیبات اسلامی پر نئی روشنی ڈالی ہے۔ ار جس نے اپنی مقبول خاص و عام شاعری سے اسلام کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز کیا ہے۔ علوم اسلامیہ کی ایک نشاۃ جدیدہ کا عہد شروع ہو گیا جو اپنے نور ایقان اور علم و نظر سے تمام مشرق و مغرب پر احاطہ کرلینے والا ہ۔ اس زندقہ و دہریت کے عہد میںاقوام عالم کے سامنے اسلام کے پرچم کو سربلند کرنے کی توقع اسی شخص سے ہو سکتی ہے جس نے قرآن حکیم کے حقائق و معارف کو پوری طرح سمجھا ہو۔ جو اس کے غوامض کے سمندر میں ڈوب کر اس کی تھاہ تک پہنچ گیا اور اس کے معانی کو اس حد تک سمجھ چکا ہو جو انسانی فہم و بصیرت کی آخری حد ہے۔ اسی خیال سے میں بے حد خواہش مندتھا کہ آپ کی زیارت کروں اور آپ سے ایسا علمی استفادہ کروںجو رح کی پرورش کرے۔ اور ایک حیات تازہ کا خالق ہو۔ آپ نے از راہ نوازش وعدہ فرمایا تھا کہ آپ مجھے انگریزی اور فارسی کی تصانیف کا ایک ایک نسخہ عنایت فرمائیں گے۔ آج میں آپ کو وہ وعدہ یاد دلاتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ آپ اپنے بحر علم کے ایک پیارسے کے سیراب کرنے میں تامل نہ فرمائیں گے۔ انقلاب جلد ۶۔ نمبر ۲۳۰۔ شنبہ۔ ۲۷ فروری ۱۹۳۲ئ۔ ۲۰۔ انقلاب مورخہ ۱۳ جون ۱۹۳۲ء آثار قدیمہ کی سیر ۲ دسمبر کی صبح کو حکیم دیق محمد ناڑو شیخ محمود احمد عرفانی اور ماسٹر امام الدین کار لے کر اقبال اور مہر کی رہائش گاہ پر تشریف لائے مقصد ی تھا کہ مہمان اہرام مصر دیکھ سکیں۔ چنانچہ آپ حضرات اسی وقت اہرام کی سیر کے لیے تشریف لے گئے۔ قاہرہ سے اہرام کم و بیش دس میل کے فاصلے پر تھے۔ بہت عمدہ سڑک تھی۔ اوراس کے ساتھ ساتھ ٹرام کی لائن بھی تھی۔ سڑک کے دونوں طرف آبادی تھی۔ نئے مکان تعمیر ہو رہے تھے دریائے نیل کے کنارے خوب صورت باغ بنے ہوئے تھے۔ راستے میں جیزہ اتا تھا اوریہ اہرام سے تقریباً چار میل کے فیصلے پر تھا۔ جیزہ میںاہرام جیزہ واقع تھا۔ صقارہ کے اہرام جیزہ سے ہی نظر آتے تھے جیزہ کے بڑے اہرام تین تھے۔ ہرم اکبر ‘ ہرم اصغر اور ہرم اوسط۔ ان کے پاس چھوٹے چھوٹے اہرام تھے جن کی اونچائی پندرہ یا بیس فٹ سے زیادہ نہ تھی۔ اہرام سے تقریباً س وگز کے فاصلے پر ابوالہول واقع تھا۔ اس کے نزدیک ایک بڑے عبادت کدے کے آثار پائے گئے تھے۔ اس حصے میں جا بجا کھدائی ہو رہی تھی اور چند عمارتوں کے آثار پائے گئے تھے ۔ (۱) اقبال نے سفر سے واپسی پر ایک موقعہ پر ان آثار کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا تھا۔ کہ البتہ پچھلی مرتبہ یورپ سے واپسی پر مصر جانے کا اتفاق پیش آیا اور وہاں قدیم فرعون کے مقابر دیکھنے کا موقع ملا۔ ان قبروں کے ساتھ مدفون بادشاہوں کے بت بھی تھے۔ جن میں قوت اور ہیبت کی ایسی شان تھی کہ جس سے میں بہت متاثر ہوا (۲)۔ قاہرہ سے اہرام تک ٹرام جاری تھی۔ ٹرام کے ٹرمینس پر ایک عظیم الشان ہوٹل تھا یہاں یورپی ار امریکی سیاحوں کا ہجوم رہتا ھتا۔ ہوٹل بہت مہنگا تھا۔ اس کے دروزے پر پندرہ بیس سانڈنیاں اور پچاس ساٹھ گدھے ہر وقت موجود رہتے تھے۔ وہیں گائیڈ بھی تھے۔ لیکن یہ تمام لوازمات بہت مہنگے تھے۔ اہرام در حقیقت فراعنہ مصر کے مقبرے تھے جیزہ کے اہرام ان بادشاہوں کے بنائے ہوئے تھے جو حضرت عیسی علیہ السلام سے کم و بیش سیتیس صدیاں قبل مصر پر حکمران تھے۔ فراعنہ مصر کا عام دستور یہ تھا کہ لاشوں کو خاص مصالحے لگا کر شاہی لباب پہنا کرسار جسم پر کوئی دو انچ چوڑی باریک کپڑے کی پٹی میں لپیٹ دیتے تھے۔ صرف ہاتھ اور چہرہ کھلا رکھتے تھے اس کے بعد لاش کو سنہری تابوت میں رکھا جاتا۔ یہ سنہری تابوت ایک منقش و مصور چوبی تابوت میں رکھتے جس پر مردے کی تصویر کے علاوہ محافظ دیوتائوں کی تصاویر بھی بنا دی جاتیں۔ اس چوبی تابوت کو پتھر کے نہایت مضبوط اوروزنی تابوت میں رکھا جاتا تھا۔ اس قسم کے تابوت قاہرہ کے میوزیم میں موجو د تھے۔ اور اس کے علاوہ روم پیرس اور لندن کے عجائب گھروں میں بھی یہ چیزیں پہنچ گئیں تھیں۔ اہرام مصر کی تعمیر می دو باتوں کا خاص خیال رکھا جاتا ھتا۔ اول یہ کہ عمارت زمانے کی دستبرد کا زیادہ سے زیادہ دیر تک مقابلہ کر سکے دوم یہ کہ یہ تابوت اہ شاہی تک کوئی انسان نہ پہنچ سکے۔ اس مقصد کے پیش نظر تابوت گاہ کے راستے بے حد پیچیدہ تنگ او ر دشوار گزار بنائے جاتے تھے بلکہ ان اہرام میں باقاعدہ بھول بھلیوں کا انتظام کیا جاتا تھا اور داخلے کا دروازہ اس طرح چھپایا جاتا تھا کہ تعمیر کرنے والوں کے سوا کسی کو معلوم نہ ہو سکتا تھا کہ اندر کہاں سے جا سکتے ہیں۔ اہرام جیزہ بلند پتھریلی زمین پر واقع تھے۔ ان کے اردگرد ریت کے ٹیلے جمع ہو گئے تھے جن میں چھوٹے اہرام اور عبادت گاہ اور سفنکس وغیرہ تو دب گئے تھے لیکن بڑے اہرام بدستور محفوظ تھے۔ ان میں اگر تعمیر کے ظاہری کمالات کو تلاش کیا جائے تو مایوسی ہو گی۔ ان کی عظمت ان کی قدامت میں پوشیدہ تھی۔ یہ قدیم دنیا کا ایک عجوبہ تھے اور کم و بیش پونے چھ ہزار سال سے اسی طرح کھڑے تھے۔ اس عڑسے میں نہ تو انہیںمرمت کی ضڑورت پیش آئی اورنہ انہیں نگرانوں اور محافظوں کی ضرورت تھی۔ دنیا میں اس دوران سینکڑو ں انقلاب آئے لیکن نہ تو انہیںکوئی گزند پہنچا اور نہ ہی ان کی پائیدار ی میں فرق آیا ۔ گزشتہ صدیوں میں جو ریت کے طوفان آتے رہے تھے ان کی وجہ سے پتھروں میں چھوٹے گڑھے پیدا ہو گئے تھے۔ اہرام کو دیکھنے کے لیے آنے والوں کے پائوں کی پیہم رگڑ سے کھردرے اور درشت پتھر صاف ہو گئے تھے مگر اہرام اسی حالت میں کھڑے تھے۔ جس حالت میں پونے چھ ہزار سال قبل تھے۔ دنیا کی کوئی عمارت قدامت کے اعتبار سے ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اس اعتبار سے یہ فن تعمیرکا حیرت انگیز کارنامہ تھے۔ تینوں ہرم تین مختلف بادشاہوں نے بنائے ھتے ۔ جو یکے بعد دیگرے تخت نشین ہوئے تھے اور تینوں کی تعمیر کا زمانہ ۳۷۳۳ ق م سے لے کر ۳۶۰۰ ق م کے درمیان تھا۔ ہرم اکبر کے چاروں ضلعون میں سے ہر ایک ضلع پونے آٹھ سو فٹ تھا۔ او انچائی چار سو اکاسی فٹ تھی۔ ہر م اوسط کا ہر ضلع سات سو فٹ اور اونچائی ساڑھے تین سو فٹ تھی۔ ہرم اصغر کا ہر ضلع ساڑھے تین سو فٹ اور اونچائی دو سو پندرہ فٹ تھی۔ ہر ’’ہرم‘‘ کے ساتھ ایک عبادت کدہ بنایا جاتا تھا۔ جس میں پروہت رہتے تھے ہرم اوسط کے گرد کوئی بیس گز چوڑی اور دس باری گز گہرہ خندق نکلی تھی جس کی باہر کی دیوار کے ساتھ متعدد چھوٹے چھوٹے کمرے بنے ہوئے تھے۔ بعض کمروں کے اندر سے تابوت بھی نکلے تھے۔ ہرم اصغر کے پاس کا عبادت کدہ تمام کا تمام صاف نکل آیا تھا۔ اہرام میں جو پتھر استعمال ہوئے تھے وہ بہت لمبے چوڑے اور بھاری تھے۔ قریب میں کوئی ایسی پہاڑی نہ تھی جس سے اتنے بڑے پتھر مل سکیں۔ یہ پتھر فاصلے سے لائے گئے تھے انہیں یہاں تک لانا تو اس قدر بلندی تک پہنچانا اس زمانے کی انجینئرنگ کا کمال تھا۔ ابوالہول کا سر آدمی کا اور جسم شیر کا تھا اس کا چہرہ ناک کے ٹوٹ جانے کے بعد بالکل بگڑ گیا تھا اوریہ بت بہت بدوضع ہو گیا تھا۔ ایک روایت یہ تھی کہ اس کی ناک نپولین نے جنگ اہرام میں تڑوا دی تھی۔ سفنکس سے بالکل قریب ایک پرانا بت کدہ نکلا تھا جس میں کھدائی جاری تھی (۳)۔ ۴ دسمبر کی صبح کو اقبال نے فرمایا کہ آج دوپہر تک ضروری مقامات دیکھ لیں چنانچہ اقبال مہر اور شیخ محمود عرفانی سب سے پہلے اس میوزیم میں گئے جہاں صر ف فراعنہ کے زمانے کے آثار جمع تھے۔ یہاں توت غنخ آمون کے مقبرے سے جو اشیا نکلی تھیں ان کے لیے الگ کمرے مخصوص تھے اور باقی ادوار کے آثار الگ کمروں میں تھے۔ ان میں پرانے زمانے کے پلنگ پالکیاں‘ کرسیاں ‘ میزیں‘ اسٹول‘ مختلف اجناس کے بیج‘ انڈے اور برتن وغیرہ تھے۔ ان کے علاوہ فراعنہ کی لاشین کتے بلی مگر مچھ ہرن اور کئی دورے جانوروں کی لاشیں ممیوں کی شکل میں محفوظ تھیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور کا فرعون جو نیل میں غرق ہوا تھا کی لاش بھی وہیں موجود تھی لیکن اس زمانے میں اسے منظر عام پر نہیں لایا جاتا تھا اس لیے کہ قبطیوں نے اعترا ض کیا تھا کہ ان کے آبائو اجداد کی لاشوں کو تماشا گاہ بنانے سے ان کی ہتک ہوتی تھی۔ اس عجائب گھر کی سیر کے بعد آپ حضرات عربی عجائب گھر پہنچے۔ یہاں اسلامی دور تمدن کی یادگاریںمحفوظ تھیں۔ ان میں بعض اشیاء بہت نادر تھیں مثلاً قرون وسطی کے امیر عرب گھروں کے نمونے لکڑی کی منقش اشیاء بیش قیمت شمع دان اور فانوس تلواریں اور زرہیں عام استعمال میں آنے والی برنجی گلی اور روغنی برتن روغنی قلم دان جن میں سے ایک قلمدان حضرت امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ کا بتایا جاتا تھا۔ سلطان محمد فاتح‘ سلطان سلیمان اعظم‘ اور سلطان سلیم کی تلواریں عربی خط کے نادر نمونے اور عہد عباسی کے ملبوسات یہاں موجود تھے (۴)۔ ۵ دسمبر کی شام کو اقبال اور مہر قاہرہ سے روانہ ہونا تھا۔ ددوست اور احباب کا اصرار تھا کہ آپ حضرات مزید یہاں ٹھہریں لیکن موتمر اسلامی کی وجہ سے جانا ضروری تھا۔ انہوں نے اصرار کیا کہ موتمر سے فارغ ہو کر دوبارہ قاہرہ آئیں لیکن یہ صورت کلیتاً غیر ممکن تھی۔ قاہرہ میں قیام کا بیشتر وقت ملاقاتوں دعوتوں اور اجتماعوں میںشرکت میں گزرتا رہا۔ یہاں آنے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ مخلتف حلقے ہندوستانی مسلمانوں کی صحیح سیاسی حیثیت سے آگاہ ہو سکیں۔ دوسرے اقبال کی ذات سے سینکڑوں افراد نے بیش بہا علمی فوائد اٹھائے۔ ۵ دسمبر کی صبح کو طے پایا کہ وہ بارہ بجے تک تمام مقامات مقدسہ دیکھ لیے جائیںَ سید محمد ماضٰ العزائم نے اپنی کار ڈرائیور کے ساتھ بھیج دی تھی۔ کار میں اقبال مہر اور شیخ محمود احمد عرفانی فسطاط روانہ ہو گئے۔یوسف بے ماہر آثار قدیمہ جن کی نگرانی میں فسطاط کے آثار قدیمہ کی کھدائی ہو رہی تھی ان کی خواہش تھی کہ ساتھ جا کر تمام حصوں کی سیر کرائیں لیکن جس دن وہ تشریف لائے اقبال اور مہر مصروف تھے اور جب مہمانوں نے سیر کے لیے وقت نکالا تو یوصف صاحب ضروری سرکاری کام میںمصروف تھے اس طرح یوسف بے کا ساتھ ممکن نہ ہو سکا۔ آپ حضرات سب سے پہلے جامع عمرو ابن العاص گئے یہ وسیع مسجد ان دنوں عید گاہ کے طور پر استعمال ہو رہی تھی۔ حضرت عمر ابن العاص ؓ نے اس کی بنیاد رکھی تھی بعد کے بادشاہوں نے اس میں اضافہ کیا تھا۔ اس زمانے میں مسجد کی مرمت ہو رہی تھی۔ فسطاط کے آثار میں سے یہی باقی رہ گئی ھتی۔ اس مسجد میں دو چیزیں خاصی دلچسپ تھیں۔ اول یہ کہ ایک مقام پر عام روایت کے مطابق کسی صحابیہ نے نماز پڑھی تھی عوام الناس نے اسے چاٹ چاٹ کر گڑھے کر دیے تھے۔ حکومت نے اس پتھر کے گرد جالی لگا دی تھی۔ مسجد میں واقع چار ستونوں کے متعلق جہلا کا عقیدہ تھا کہ مسجد کے دو ستون تو مسلمان ہو گئے تھے لیکن دو ستون کافر رہ گئے۔ نماز کے بعد ہر نمازی ان ستونوں کے جوتے لگایا کرتا تھا۔ حکومت نے حفاظت کے خیال سے ان ستونوں کے اردگرد آہنی جنگلہ لگا دیاتھا۔ مسجد کے شمالی جانب کچھ فاصلے پر عیسائی بادشاہوں کے محلات اور گرجے تھے۔ اس کے جنوب میں دور دور تک فسطاط شہر آباد تھا۔ اب تو فقط پتھر کے انباروں کا میدان تھا فسطاط میں صرف مسجد ہی باقی رہ گئی تھی۔ یہاں سے تھوڑے فاصلے پر پرانا قبرستان تھا۔ قبرستان بھی بجائے خود ایک شہر نظر آتا تھا۔ کیونکہ ہر خاندان نے اپنے افراد کی زمین پر مکان تعمیر کیا تھا۔ ایک عالی شان مکان میں مصر کے مملوک سلاطین کی قبریں تھیں۔ ایک اور مکان میں خدیو خاندان کے افراد و فن تھے۔ قبرستان سے تھوڑی دور امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا مزار تھا۔ مملوک سلاطین اور خدیو خاندان کی قبرو ں پر فاتحہ پڑھنے کے بعد آپ حضرات امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر دیر تک قرآن پڑھتے رہے۔ مرقد مبارک سطح زمین سے قد آدم اونچا ھتا جس میں سبز غلاف پڑا رہتاتھا۔ اردگرد جالی لگی ہوئی تھی زائرین جالی کے گر د باہر بیٹھ کر دعا مانگتے یا قرآن پڑھتے ۔ مزار مربع کمرے پر مشتمل تھا جس پر قبہ تھا۔ دیواروں پر نہایت خوبصورت نقش و نگار تھے۔ یہ مزا رکسی مملکوت سلطان ن بنوایا تھا۔ اصل مزار کی سطح بیرونی سڑک ک سطح سے خاصی نیچی تھی۔ مرقد سے باہر لیکن کمرے کے اندر ایک دو اور قبریں تھیں اور پاس ککے کمروں میں متعدد اہل علم مدفون تھے۔ مزار کی زیارت کے بعد ااپ حضرات نے محمد علی پاشا بانی خاندان خدیو کا قلعہ او رمسجد دیکھی۔ اس کے علاوہ انہوںنے مسجد حسن اور مسج رفاعی کی بھی زیارت کی۔ قاہرہ یورپ اور ایشیا کے اتصال پر واقع تھا۔ ا س لیے یہاں دونوں تمدن پائے جاتے تھے۔ بعض جگہ دونوں کا نہایت عمدہ امتزاج تھا۔ عام پڑھے لکھے مصریوں کا لباس یورپی تھا لیکن سر پر ترکی ٹوپی پہنچتے تھے لباس سے مسلمان مصری اور قبطی کی شناخت دشوار تھی۔ قبطی کل آبادی کا سات فیصد تھے قاہرہ بہت خوبصورت شہر تھا اس کے اکثر حصے یورپ کی مانند تھے۔ یہاں کے اخبارات ہندوستانی اخبارات کے مقابلے میں بہت بلند پایہ اور معیاری تھے۔ ان کی اشاعت بھی زیادہ تھی۔ لوگ عموماً مہمان نواز تھے۔ مصر میں اور زمانے میں چار سیاسی پارٹیاں تھیں۔ اول حزب الوفد دوم حزب الاحرار سوم حزب الاتحاد چہارم حزب الشعب۔ حز ب الشعب برسراقتدار تھی اوراس زمانے میںاس جماعت کی وزارت تھی۔ اس کے حامی افراد کی تعداد بہت کم تھی۔ حزب الاتحاد کا مقصد یہ تھا کہ تمام جماعتیں مل کر ملک کی خدمت کریں۔ حزب الاحرار کے صدر محمود پاشا تھے او رنائب صدر محمد علی پاشا تھے حزب الوفد مصطفے نہاس پاشا کی جماعت تھی۔ اس زمانے میں حزب الاحرار ‘ حزب الوفد اور حزب الاتحاد حکومت کی مخالفت میں متحد تھیں۔ حزب الاتحاد کا خاص اخبار الاتحاد تھا۔ ’’حزب الاحرار‘‘ کا ’’السیاسیہ‘‘ اور حزب الوفد کے خاص اخبار ’’البلاغ‘‘ اور ’’الجہاد‘‘ تھے ۔ ’’الاہرام‘‘ اور ’’المقطم‘‘ قبطی اور مسیحی پرچے تھے وہ کسی خاص جماعت سے تعلق نہ رکھتے تھے عوام بہ حیثیت مجموعی موجودہ حکومت کے مخالف تھے۔ مصر میں اخبارات کی حکومت کی طرف سے خاص سہولتیں میسر تھیںَ مثلاً ہر اخبار کے دفر میں ٹیلی فون حکومت کی طرف سے لگا دیا جاتا تھا۔ مختلف اخباروں کو حکومت اچھی خاصی رقم بطو ر امداد دیتی تھی۔ جو جماعت برسر اقتدار آتی تھی وہ اپنے اخباروں کا خاص خیال رکھتی تھی (۵)۔ ٭٭٭ حواشی ۱۔ مکتوب مہر۔ ۱۔ مکتوب مہر ۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر۱۹۳ئ۔ دو شنبہ ۔ ۱۱ جنوری ۱۹۳۲ء ۲۔ ’’ملفوظات اقبال مع تعلیقات و حواشی ‘‘ ص ۱۵۷ ۳ مکتوب مہر۔ انقلاب ۔ ۱۱ جنوری ۱۹۳۲ء ۴۔ مکتوب مہر ۔ ۱۔ مکتوب مہر ۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر۱۹۴ئ۔ سہ شنبہ ۔ ۱۳ جنوری ۱۹۳۱ء ۵۔ مکتوب مہر۔ ۱۔ مکتوب مہر ۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر۱۹۵۔ چہار شنبہ۔ ۱۴ جنوری ۱۹۳۲ء ٭٭٭ سفر فلسطین اقبال اور مہر ۵ دسمبر ۱۹۳۱ء کو شام کے چھ بجے قاہرہ سے بیت المقدس کے لیے روانہ ہوئے۔ ٹرین سے یہ فاصلہ ۱۵ گھنٹوں میں طے ہوتا تھا۔ قاہرہ سے بنہا تک ٹرین کا رخ شمالی سمت میں تھا۔ بنہا سے اسماعیلیہ تک مشرقی سمت میں اور اسماعییلیہ سے قسطرہ تک نہر سویز کے ساتھ ساتھ ٹرین شمالی سمت کی طرف سفر کرتی رہی۔ نہر سویز کے دونوں کناروں پر قسطرہ کے دو سٹیشن تھے۔ مغربی اور مشرقی قسطرہ۔ قسطرہ پہنچنے کے بعد حکیم صدیق محمد ناڑو رخصت ہوئے اور یہاں سے پورٹ سعید روانہ ہو گئے۔ پورٹ سعید قسطرہ سے پندرہ میل دور تھا۔ مغربی قسطرہ پر ڈاکٹر سلیمان کے آمدوں نے مہمانوں کا سامان مشرقی قسطرہ کے سٹیشن پر پہنچا دیا اور آپ حضرات باآسانی فلسطین جانے والی ٹرین میں سوار ہو گئے۔ (۱)۔ ڈاکٹر محمد سلیمان کے آدمی پورٹ سعید سے آئے تھے۔ اس زمانے میں نہر سویز پر کوئی مستقل پل نہ تھا۔ لوگ یا تو کشتیوں کے ذریعے نہر پار کر تے یا خاص موقعوں پر لکڑی کا پل پھیلا دیا جاتا جو مسافروں کے گزرنے کے بعد اٹھا لیا جاتا تھا۔ مشرقی قسطرہ کے سٹیشن اور کنارہ نہر کے درمیان چنگی خانہ بنا ہوا تھا۔ جہاں مصرا ور فلسطین سے آنے جانے ولوں کے سامان اور پاسپورٹوں کی جانچ پڑتال ہوتی تھی۔ مصر اور فلسطین کی ریل گاڑی یورپ کے مقابلے میں بہت معمولی تھیں۔ بالخصوص سلیپنگ کاریں تو آرام دہ ہونے کے بجائے اچھی خاصی تکلیف دہ ہوتی تھیں۔ مشرقی قسطرہ سے رافہ تک ٹرین کا رخ مشرق کی جانب رہتاتھا۔ رافہ سے لد تک شمالی سمت میں اور لد سے قدس شریف تک تھوڑی دور تک جنوبی سمت میں پھر مشرقی جانب ٹرین سفر کرتی تھی۔ ٹرین صحرائے سینائی کا کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد بحیرہ روم کے ساحل سے بالکل قریب آ جاتی تھی۔ اور پھر لد تک سمندر کے نزدیک ہو کرگزرتی تھی۔ رافہ اور لد کے درمیان خان یونس غزہ اور مجدل کے سٹیشن آتے تھے۔ غزہ سے تین میل دور عسقلان کے کھنڈر واقع تھے۔ قسطرہ سے مجدل تک صحرائی علاقہ شروع ہو جاتا تھا۔ اقبال اوران کے رفقا نے ٹرین تبدیل کرنے اور بیت المقدس جانے والی ٹرین پر سوار ہوئے۔ فلسطین کی پہاڑیاں سردی کے موسم میں بالکل خشک معلوم ہوتی تھیں۔ وادیوںمیں زیتون کے درخت اگے ہوئے تھے۔ فلسطینی دوستوں نے بتایا کہ موسم بہار میں سارا علاقہ پھولوں پھلوںاور سبزیوں سے لبریز ہو جاتا تھا۔ بالخصوص انگوروں اورانجیروں کی تو کوئی انتہا نہ رہتی لد سے بارش شروع ہو گئی جس سے سردی بڑھ گئی تھی۔ ۶ دسمبر ۱۹۳۱ء کو صبح ساڑھے نو بجے آ پ حضرات بیت المقدس پہنچے۔ اس وقت بھی بارش ہو رہی تھی۔ اقبال مہر ‘مولانا شفیع دائودی اور حافظ عبدالرحمن کے استقبال کے لیے مفتی امین الحسینی مولانا شوکت علی اور ان کے ساتھی تشریف لائے تھے۔ داعیان موتمر نے ہر مندوب کی طبیعت اور ضرورت کے مطابق قیام کا انتظام کیاتھا۔ مجلس استقبالیہ کے انتظامات بہت عمدہ تھے انہوںنے مہمانوں کے طعام قیام آسائش اور دیگر ضروریات کا بہترین انتظام کیا ھتا۔ بعض مندوبین پیلس ہوٹل (فندق بلاس) میں ٹھہرے تھے۔ بیشتر حضرات نے گرانڈ نیو ہوٹل (فندق مرقص) میں قیام کرنا پسند کیا۔ مولانا شوکت علی‘ زاہد علی‘حافظ عبدالرحمن ‘ مولانا دائودی اور پروفیسر عبدالرئوف عرف رئوف پاشا (۲) روضتہ المعارف میں ٹھہرے۔ روضتہ المعارف ہی میں موتمر منعقد ہوئی تھی۔ اقبال اور مہر نے گرانڈ نیو ہوٹل میں قیام کرنا پسند کیا ۔ا س عمارت میں ایک حد تک خلوت اور سکون میسر تھا۔ اور یہ موتمر مقام انعقاد سے زیادہ دور بھی نہ تھی۔ مفتی امین الحسینی اور ان کے رفقا نے ہر ممکن طریقے سے مہمانوں کی خدمت اور آسائش کا خیال رکھا تھا۔ مندوبین جہاں ٹھہرے تھے وہاں کے منتظمین کو ہدایت تھی کہ مندوبین کو اگر سواری کی ضرورت ہو تو فون کر کے دس منٹ میںسواری منگوا دیں۔ ہوٹلوں میں مندوبین کے کھانے کا انتظام تھا لیکن اگر کوئی مندوب چاہتا تو روضتہ المعارف کے کھانے کے کمرے میں بھی کھانا ھا سکتا تھا ۔ ۶ دسمبر تک بیشتر مندوبین بیت المقدس پہنچ چکے تھے۔ بعض حضرات کئی روز پہلے پہنچے تھے۔ مثلاً سید ضیاء الدین طباطبائی سابق وزیر اعظم ایران‘ حسن خالد پاشا طباطبائی سابق وزیر اعظم شرق اردن‘ امیر عبدالقادر الجزائری کے پوتے امیر سعید الجزائری ۔ احمد حلمی پاشا سابق مدیر حجاز ریلوے‘ محمد حسین آل کاشف الغطاء مجتہد عراق‘ مولانا شوکت علی وغیرہ۔ بعض حضرات ۶ دسمبر کو تشریف لائے تھے مثلاً استاذ عبدالوہاب نجار مصری‘ استاذ عبدالرحمن عزام مصری‘ ریاض بک الصلح‘ علامہ سید رشید رضا‘ موسی جار اللہ‘ خیر الدین زرکلی‘ بعض حضرات ۷ دسمبر کو پہنچے مثلاًمحمد علی پاشا مصری‘ سعید بے شامل قفقازی‘ عیاض بے اسحاقی ترکستانی وغیرہ۔ بعض حضرات کے پہنچنے میں ایک دو روز کی دیر ہو گئی (۳)۔ ٭٭٭ حواشی ۱۔ مکتوب مہر ۔ ۱۔ مکتوب مہر ۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر۱۹۵ئ۔ چہار شنبہ۔ ۱۴ جنوری ۱۹۳۲ء ۲۔ عبدالرئوف عرف رئوف پاشا سیلون کے نمائندے تھے اور قسطرہ سے بیت المقدس تک اقبا ل کے ہم سفر رہے تھے۔ ۳۔ مکتوب مہر۔ ۱۔ مکتوب مہر ۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر۱۹۶ ۔ جمعہ ۔ ۱۶ جنوری ۱۹۳۲ء ٭٭٭ سرزمین انبیاء قدس کا عبرانی نام اوروشلم یا مدینتہ السلام تھا۔ مسلمان اسے القدس یا بیت المقدس کہتے ہیں۔ تاریخ میں اس شہر کا تذکرہ چودھویں صدی قبل مسیح سے شروع ہوا۔ حضرت دائو دعلیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے عہد میں تقریبا ایک ہزار سال قبل مسیح یہ شہر اوج کمال پر پہنچ گیا تھا۔ لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد اسرائیلی سلطنت پارہ پارہ ہو گئی تو یروشلم کو پہلے مصریوں نے پھر فلسطینیوںنے اور عربوں نے لوٹا۔ بعد ازاں اسوریوں نے ا س پر حملہ کر دیا۔ ۶۵۸ ق م میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی وہ یہودیوں کی ایک بڑٰ تعداد کو پکر کر بابل لے گیا۔ یہ دور تاریخ یہود میںاسیری بابل کادور کہلاتا ہے۔ ایرانیوںنے بابلیوں کا اقتدار خاک میںملا دیا اور یہودیوں کو پھر فلسطین میں آ کر یروشلم از سر نو آباد کرنے کا موقع ملا اور انہوںنے ہیکل سلیمانی کو دوبارہ تعمیر کیا۔ ۳۳۲ قبل مسیح میں اسکندر اعظم نے یروشلم کو فتح کیا تھا۔ اسکندر کے بعد کبھی قریب کے بیرونی حملہ آور ا سپر مصروف تکتاز رہے اور کبھی یہودیوں کی خانہ جنگیوں سے اسے نقصان پہنچا۔ ۶۳ قبل مسیح میں روما کے مشہور جرنیل پمپی نے اس پر قبضہ جما لیا۔ ۴۰ قبل مسیح میں رومیوں نے ہیرودیس نامی ایک یہودی کو فلسطین کا بادشاہ بنا دیا تھا جو ہیرودیس اعظم کہلاتا ہے۔ اس نے چھتیس برس کی حکومت میں یہودیوں کی کھوئی ہوئی عظمت کسی حد تک بحال کر دی تھی اور یروشلم پر ایک بار پھر رونق آ گئی لیکن ہیرودیس کے بعد پھر بد نظمی پیداہو گئی اور یہودیوں کی بار بار کی بغاوتوںسے تنگ آ کر رومیوںنے ۶۷ء میں وسپیسن کو ساٹھ ہزار فوج دے کر بھیجا۔ وسپیسن روم واپس گیا تو اس کے بیٹے ٹائٹس نے شہر کا محاصرہ جاری رکھا اور یروشلم کی فتح کے بععد اس کے سپاہیوں نے شہر کو آگ لگا دی۔ جس سے ہیکل بالکل تباہ ہو گیا۔ اور شہر کوکافی نقصان پہنچا۔ اس کے بعد یہودیوں کو کبھی سر اٹھانے کا موقع نہ ملا اور یروشلم رومیوں کے قبضے میں رہا۔ قسططین نے جس مسیحی مذہب قبول کر لیا تو یروشلم خالص عیسائی شہر بن گیا۔ ۶۱۴ء میں کیخسرو شاہ ایران نے اس پر حملہ کر کے گرجوں کو لوٹا اور باشندوں کو قتل کیا لیکن قرآن حکیم کی پیش گوئی کے مطابق ہرقل نے دوبارہ اس پر قبضہ کر لیا۔ ۶۳۷ء میں حضرت عمر فاروق ؓ کے دور خلافت میں یروشلم اسلامی ریاست کا جزو بن گیا اور اس کے بعد بارھویں صدی میں تقریباً پچاسی برس تک عیسائیوں کے قبضے میں رہا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے دوبارہ اس پر قبضہ کیا۔ ۱۹۱۷ ء میں یہ شہر انگریزوں کے تصرف میں آیا۔ بیت المقدس کئی مرتبہ برباد ہوا اور آباد ہوا۔ دنیا میں شاید ہی کوئی شہر ایسا ہو جس کے لیے اس قدر خون بہایا گیا ہو جتنا بید المقدس کے لیے بہایا گیا ھتا۔ شاید ہی کوئی شہر اتنی مرتبہ بنا اور بگڑا ہو۔ اس لیے شہر کی حدود معلوم کرنا دشوار تھا۔ کھدائی سے تین فصیلوں کے آثار نکلے تھے چوتھی فصیل سلیمان اعظم نے تعمیر کرائی تھی۔ اس فصیل کا بیشتر حصہ پہلی دو فصیلوں پر مبنی تھا۔ اصل شہر اس کے اندر واقع تھا جو چار مختلف پہاڑیوں کو ڈھانپے ہوئے تھا۔ ان میں ایک پہاڑی یعنی جبل مربا پر حرم مقدس واقع تھا۔ شہر کے مشرق میں جبل زیتو ن تھی جہاں عام روایت کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام پہاڑی پر مشہور وعظ فرمایا تھا جسے پہاڑ وعظ کہا جاتا ہے۔ اسی سمت میں فصیل سے باہر جبل زیتون کے دامن میں حضرت مریم علیہ السلام کا روضہ تھا۔ غت سمنی کا باغ یا بستان جسمانیہ (جہاں سے حضرت عیسیٰ علیہ اسلالم حسب روایت انجیل گرفتار ہوئے تھے) اس کے قریب واقع تھا۔ زکریا علیہ السلام اور حضرت دائود علیہ السلام کے بڑے بیٹے ابی سلوم کی قبریں بھی قریب ہی تھیں۔ یہودیوں کی یونی ورسٹی اور لائبریری شہر کے شمال مشرق میں جبل زیتون پر واقع تھیں۔ شہر کے شمال اور مغرب میں دور دور تک نئی آبادی پھیل رہی تھی نئی نئی عمارتیں بن رہی تھیں۔ مثلاً شمالی سمت میں پولینڈ کا قونصل خانہ حکومت فلسطین کے دفاتر‘ میوزیم جارج کا گرجا امریکی نو آبادی‘ سویڈن کا قونصل خانہ ‘ پاسچر انسٹی ٹیوٹ ‘ فرانس کا مسافر خانہ اور اسپتال‘ شمال مغرب میں حبش کا گرجا روسی عمارتیںفوجی بارکیں مصری قونصل خانہ‘ جرمن قونصل خانہ‘ امریکی مشن‘ اطالوی ہسپتال ‘ مغرب میں پیلس اسپتال‘ ملک دائود ہوٹل‘ بائبل‘انسٹی ٹیوٹ وائی ایم سی اے وغیرہ متعدد سکول اور کالج بھی انہی حصوں میں شہر سے باہر واقع تھے۔ حرم مقدس کی مشرقی دیوار میں جو دروازہ تھا اس سمت شہر کی فصیل میں کل آٹھ دروازے تھے۔ لیکن یہ دروازہ جس کا نام باب الذہب یا گولڈن گیٹ تھا صرف حرم سے تعلق رکھتا تھا اوراس زمانے میں بند تھا لہٰذ ا درحقیقت شہر کے صرف سات دروازے تھے۔ شمالی سمت میں باب جدید یاباب عبدالحمید واقع تھا۔ یہ دروازہ سلطان عبدالحمید کے دورمیں قیصر ولیم کے بیت المقدس آنے پر تعمیر کیا گیاتھا۔ باب دمشق جس کا دوسرا نام باب المعمور تھا۔ باب ہیرودیس جسے باب الزھرا کہتے تھے مشرقی سینٹ میںایک دروازہ تھا جسے عیسائی سینفز گیٹ کہتے تھے اور عرب باب الاسباط کہتے تھے ۔ اس زمانے میں اسے باب مریم بھی کہا جاتا تھا۔ حضرت مریم علیہ السلام کا مقبرہ فصیل سے باہر اس دروازے کے قریب واقع تھا۔جنوب میں باب المغاریہ اور باب صیہون اور مغربمیں باب یافہ جس کا دوسرا نام باب الخیل تھا واقع تھا۔ شہر کی آبادی اس زمانے میں ایک لاکھ سے کسی قدر کم تھی جس میں اکاون باون ہزار یہودی تھے۔ مسلمانوں کی آبادی یہود کے مقابلے میں نصف سے بھی کم تھی لیکن عیسائیوں کے مقابلے میں کسی قدر زیادہ تھی۔ شہر کی فصیل سے باہر قابل ذکر تاریخی مقامات جبل زیتون مقبرہ حضرت مریم علیہ السلام اور باغ غت سمنی تھے جبل زیتون القدس کے قریب سب سے اونچی پہاڑی تھی اور اس پر چڑھ کر ایک طرف بیت المقدس کا اور دوسری طرف بحیرہ لوط وادی اردن اوراریحا کا بہت عمدہ منظر دکھائی دیتا تھا۔ اریحا شہر کی عمارتیں یاہں سے نظر آتی تھیں۔ دریائے اردن تو نظر نہیں آتا لیکن اس کے کناروںپر اگے ہوئے درختوں کی قطار نظر آتی تھی۔ یہ پہاڑی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی میںخاص اہمیت رکھتی ہے۔ یہاں سے عیسائیوں کی روایت کے مطابق انہیں آسمان پر اٹھا لیاگیاتھا۔ مقام رفع مسیح اس وقت اچھی حالت میں نہ تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ اس جگہ کسی زمانے میں ایک عالی شان گنبد بنا ہوا تھا جو اب باقی نہ رہا تھا۔ حدود احاطہ کے اندر ایک شکستہ چھوٹا سا گنبد باقی تھا۔ جس کے وسط میں ایک ان گھڑ پتھرپر پائوں کا نشان بنا ہوا تھا۔ مزورین کی ضعیف روایت کے مطابق آسمان پر جاتے ہوئے عیسیٰ علیہ السلام کا پائوں یہاں پڑا تھا۔ جبل زیتون کی بائیں جانب شہر حضرت مریم علیہ السلام کا مقبرہ تھا بتایا جاتا ہے کہ یہ مقبرہ ایک غار کی حیثیت رکھتا تھا۔ یا یوں کہنا چاہیے کہ حضرت مریم علیہ السلام ایک نشیبی مقام پر دفن ہوئی تھیں اوربعد میں اس مقام پر اس طرح مقبرہ بنایا گیا تھا کہ یہ ایک غار بن گیا۔ قبر تک پہنچنے کے لیے ۴۸ زینے نیچے جانا پڑتا تھا قبر سنگ مرمر کی تھی۔ اس کے ساتھ کی عمارت کی وضع قطع گرجا ک ی تھی۔ مزورین کی روایت کے مطابق اسے قسططین اعظم کی ماں ملکہ ہیلینا نے بنوایا تھا۔ اس مقبرے کے قریب ہی باغ غت سمنی تھا۔ باغ غت سمنی عیسائی روایت کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی گرفتاری کا مقام تھیا۔ آپ رات کے وقت گرفتار ہوئے تھے۔ اس باغ میں بہت سے زیتون کے قدیم درخت تھے۔ مزورین کی روایت کے مطابق یہ درخت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے سے تھے۔ باغ کا تھوڑ ا سا حصہ باغ کی شکل میں تھا باقی جگہ پر عالی شان گرجا بنا ہوا تھا۔ مقام رفع مسیح سے کچھ فاصلے پر یہودیوں نے ایک اعلیٰ درجے کی یونیورسٹی قائم کی تھی۔ اس کے ساتھ ہی ایک عالی شان لائبریری تھی جس میں ایک لاکھ چالیس ہزار منتخب کتابیں تھیں۔ ان میں بعض بہت قیمتی نسخے اور محظوطات تھے۔ (۱)۔ شہر کے اندر سب سے محترم مقام حرم مقدس تھا۔ یہ بہت وسیع تھا۔ اس کی مغربی دیوار یعنی سمت قبلہ ۹۶۲ فٹ تھی۔ جنوبی دیوار میںکوئی دروازہ نہ تھا۔ مشرقی دیوار میں ایک دروازہ باب الذہب تھا اس زمانے میں یہ بند تھا۔ شمالی دیوار میں تین دروازے تھے (۱) باب الروضہ (۲) باب الغوانم تیسیر دروازے کا نام یاد نہ رہا۔ مغری دیوار میں چار دروزے تھے (۱) باب المجس (اس دروازے کے باہر کسی زمانے میں قید کی عمارت ) (۲) باب القطانین (اس دروازے سے باہر روئی بیچنے والوں کا بازا ر تھا) (۳) باب السلسلہ (۴) باب محمد یا باب مالمغاربہ (اس دروازے سے باہر اہل مغرب یعنی مراکش کے باشندے رہتے تھے۔ حرم کی مشرقی دیوار پوری کی پوری اور جنوبی دیوار کا د و تہائی حصہ شہر کی فصیل میں شامل ہو گئے تھے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں یہ ساری عمارت ہیکل میں شامل تھی۔ بلکہ ہیکل سلیمانی اس احاطہ کے جنوبی و مغربی گوشے میں تھا۔ صخرا جس پر نہ بنا ہوا تھا اس زمانے میں قربان گاہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ اس کے اندر ایک سوراخ تھا جس سے قربانیوں کا خون نیچے گرایا جاتا تھا اور وہاں سے ایک زمین دو ز نالی کے زریعے سے گزر کر وادی قدرون میںجا گرتا تھا جو جبل مربا (جس پر حرم واقع تھا) اور جبل زیتون کے درمیان واقع تھی۔ ہیرودیس کا تعمیر کردہ ہیکل رقبہ میں ہیکل سلیمانی سے بڑا تھا لیکن اس کی شمالی حد بھی باب السلسلہ پر ختم ہو جاتی تھی۔ یہودی باب السلسلہ اور باب المغاربہ کے درمیان کی جنوبی دیوار سے لگ کر روتے تھے اور یہی ان کا میکے یا مقام بکا تھا۔ اس یلے کہ یہی حصہ ہیکل یہود کی مغربی دیوار تھا۔ ان کا خیال تھا کہ ا س دیوار کا نچلا حصہ زمانہ قدیم سے بدستور محفوظ چلا آ رہا ہے اور ہیکل ڈھانے والوں نے اگرچہ اصل عمارت ڈھا دی تھی مگر اس دیوار کا کچھ حصہ باقی رہ گیاتھا۔ مبکے یا مقام گریہ کے ساتھ کوئی تین چار گز چوڑا صحن تھا جس میں یہودی جمعہ کو بع دوپہر جمع ہو کر یا باجماعت روتے تھے اور بقیہ اوقات میں اکا دکا ااتے تھے۔ اور دیوار کے ساتھ لگ کر یا تو دعائیں پڑھتے تھے یا چمٹ کر آہ و فریا د کرتے تھے۔ ایک روایت یہ بھی تھی کہ یہود کے عقیدے کے مطابق اس دیوار کے نیچے تابوت سکینہ دفن تھا۔ اقبال اور مہر جس وقت دیوار گریہ دیکھنے گئے تو تین یہودی نہایت دردناک طریق پر بین کر رہے تھے۔ یہاں فلم والوںنے اقبال اورمہر کی فلم بنائی۔ حضرت عمر فاروقؓ نے بہت تلاش کے بعد ہیکل کا اصل مقام دریافت کیاتھا۔ اس وقت یہاں ملبے کے انبار تھے اورعیسائی یہودیوں سے نفرت کے باعث یہاں غلاظت پھینکتے تھے۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے اس جگہ کو صاف کرا کے اس پر ایک مسجد بنوائی جسے عبدالملک بن مروان نے از سر نو تعمیر کروایا اور اس کی حدیں بڑھا دیں۔ بعد کے بادشاہوں نے مختلف زمانوں میں اس کی عمارت میں تبدیلیاں کی تھیں۔ عیسائیوں کے اقتدار کے زمانے میں اسے گرجا بنا دیا گیا تھا۔ مسجد سات رواقوں پر مشتمل تھی جن کی چھتیں مضبوط ستونوں پرکھڑی تھیں۔ اس میں کم و بیش پچیس ہزار افراد نماز ادا کر سکتے تھے۔ جنوبی سمت میںایک بڑا گنبد تھا باقی عمارت کی چھت گرجوں کی مانند تھی۔ یعنی درمیان سے اونچی اور دونوں طرف ڈھلوان تھی۔ مسجد سادہ مگر بہت پر جلال تھی۔ محراب کے قریب کے حصے پر عمدہ گلگاری کی گئی تھی۔ مسجد اور مغربی دیوار کے درمیان ایک پرانی عمارت تھی جسے مفتی سید امین الحسینی نے دارالآثار بنا دیا تھا۔ اس میںپرانی اشیاء محفوظ کر دی گئی تھیں۔ یہاں قرآن حکیم کے بعض نہایت نادر قلمی نسخے تھے۔ ان آثار قدیمہ میں اضافہ ہو رہا تھا اور مفتی صاحب اس دارالآثار کو نہایت قیمیت اسلامی آثار کا بہترین خزینہ بناے پر بطور خاص متوجہ تھے۔ دیوار گریہ کے ساتھ باب المغاربہ کے قریب ایک مقام براق شریف تھا۔ لوگوں کا اعتقاد تھا کہ لیلتہ الاسراء میں حضور خواجہ دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے براق یہیں باندھا تھا۔ مسجد اقصیٰ میںداخلے کے دروازے شمالی سمت میں تھے۔ ان میں ذرا پیچھے ہٹ کر ایک راستہ زمین کے اندر جاتا تھا۔ جہاں ایک مقام کو مہد عیسیٰ بتایا جاتا تھا اور آگے چل کر زمین دوز مرے آتے تھے جن کے متعلق بیان کیا جاتاتھا کہ یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے اصطبل تھے۔ حرم کے تقریباً وسط میں کوئی بارہ فٹ اونچا چبوترا تھا۔ اس کے وسط میں قتہ الصخرا تھا جو نہایت خوبصورت ہشت پہلو عمارت تھی اور اس پر نہایت عالی شان گنبد بنا ہواتھا۔ یہ عمارت اند ر سے بھی خوبصورت تھی۔ اس کے اندر وسط میںایک ان گھڑ سا بہت بڑا پتھر پڑا ہوا تھا۔ یہ ایک چھوٹی سی چٹان تھی۔ جس کو الصخرا کہتے تھے۔ قبہ کے پقس ہی ایک راستہ نیچے جانے کے لیے تھا۔ نیچے وہ سوراخ دکھائی دیتا تھا جس میں عام روایت کے مطابق یہودیوں کی قربانیوں کا خون گرتا تھا۔ اندر سے غار کافی کھوکھلا تھا۔ مزورین یہاں دو تین مقام بتاتے تھے جن میں سے ایک کو حضرت دائود علیہ السلام کا مصلے دوسرے کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مصلے اور تیسرے کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مصلے بتاتے تھے۔ تستیہ الصخرا کے چار دروازے تھے۔ جنوبی سمت کے دروازے کا نام باب القبلہ تھا۔ مغربی سمت کے دروازے کا نام باب المغرب تھا۔ شمالی سمت کے دروازے کا نام ’’باب الجنتہ‘‘ اور مشرقی سمت کے دروازے کا نام ’’باب دائود ‘‘ یا ’’باب السلسلہ ‘‘ تھا۔ قبتہ الصخرا کے پاس ہی ایک ہشت پہلو قبہ تھا جسے قبتہ السلسلہ کہتے تھے بیان کیا جاتا تھا کہ اس مقام پر حضرت دائو دعلیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی عدالت گاہ تھی۔ اور اس میں ایک زنجیر لٹکی رہتی تھی جسے زنجیر عدل کہتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اس جگہ کا نام قبتہ السلسلہ یعنی قبہ زنجیر پڑ گیا اورااسی بنا پر قبتہ الصخرا کے اس سمت کے دروازے کو باب السلسلہ کہتے تھے۔ حرم کے اندر اور قبتہ الصخرا کے چبوترے پر اور بھی چھوٹے چھوٹے قبے یا چبوترے بنے ہوئے تھے جن میں بعض سبیلیں تھیں اور بعض نماز پڑھنے کی جگہیں تھیں۔ حرم میں درخت بھی تھے۔ مسلمان مرد عورتیں اور بچے اس کے بیشتر حصے کو سیرگاہ عام کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ صرف مسجد اقصی کی مسقف حصے اور قبتہ الصخرا کے اندر جانے کے لیے جوتا اتارنا پڑتا تھا۔ مغربی دیوار کے ساتھ ایک برآمدہ سا بنا ہوا تھا۔ باب لقطانین اور باب المجس کے درمیان ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے کمروں میں سے ایک میں رئیس الاحرار مولانا محمد علی مدفون تھے۔ اور دوسرے میں شریف حسین دفن تھے۔ شریف حسین ۱۹۱۶ء میں ملک الحجاز بنے تھے اور ۱۹۲۴ء میںسلطان ابن مسعود کے حملے کے وقت حجاز سے بھاگ کر قبرس میں پناہ گزیں ہوگئے تھے۔ باب المجس اور باب الغوانم کے درمیان مجلس اسلامیہ اعلیٰ کا دفتر تھا۔ شمالی سمت میں حرم سے باہر لیکن اس سے بالکل متصل عمارتوں میں سے خاص طور پر قابل ذکر عمارت روضتہ المعارف تھی جو ایک قابل قدر اسلامی درس گاہ تھی اس درس گاہ کا قیام اور اسے ایک معمولی حالت سے اٹھا کر اعلیٰ درجے کی درس گاہ بنا دینا مفی سید امین الحسینی کا زبردست کارنامہ تھا۔ روضتہ المعارف کی عمارت بہت عالی شان تھی ا س کا ایک بہت بڑا حال تھا۔ جس میں موتمر اسلامی منعقد ہوئی تھی۔اس کا وسیع صحن تھا جس پرپتھر کا فرش تھا اور جا بجا پھولوں کی کیاریاں بنی ہوئی تھیں۔ روایت کے مطابق اس عمارت کے صحن ہی میں رومیوں کی عدالت گاہ تھی جہاں حضرت مسیح علیہ السلام بطور مجرم پلا طوس کے سامنے پیش ہوئے اور روضتہ المعارف کے بیرونی دروازے سے بالکل قریب قید خانہ تھا۔ جہاں حضرت مسیح علیہ السلام قید رہے تھے۔ اس جگہ گرجا بنا ہوا تھا لیکن عدالت گاہ کی جگہ مسلمانوں کے قبضے میں تھی۔ عیسائیوں کو ہفتے میں ایک دن یعنی جمعہ کا ایک دو گھنٹوں کے لیے اس مقام پر جمع ہو کر دعائیں پڑھنے کی اجازت تھی حضرت مسیح علیہ السلام کے قید خانہ سے لے کر کیستہ القیامتہ حسب روایت مسیحین مقام صلیب مقام دفن ار تین روز بعد دوبارہ زندہ ہونے کا مقام تک وہ مشہور راستہ جاتا تھا جسے وایا ڈل روز Via Dolrosa یا گزرگاہ وال کہنا چاہیے۔ اس لیے کہ اسی راستے سے حضرت مسیح علیہ السلام مقام صلیب تک گئے تھے۔ صلیب ان کے کندھوں پر تھی اس راستے کی بارہ منزلیں مشہورتھیں یعنی وہ مقامات جہاں حضرت مسیح علیہ السلام نے صلیب کنھدے سے اتار کر چند لمحوں کے لیے آرام کیا تھا۔ یہ منزلیں متعین تھیں اگرچہ ان کی صحت مشتبہ تھی بعض اصحاب سرے سے اس مقام کو اصل مقام صلیب نہیں مانتے جہاں کیستہ القیامتہ بنا ہوا تھا۔ شہر کے اندر دوسرا قابل ذکر مقام کیستہ القیامتہ تھا۔ جہاں مسیحیوں کی روایت کے مطابق حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب پر چڑھایا گیا تھا۔ پھر وہیں ایک قبر میں دفن کیا گیا تھا اور اس قبر سے تیسرے روز آپ جی اٹھے تھے۔ عام روایت کے مطابق یہ جگہ حضرت مسیح علیہ السلام کے تین سو سال بعد متعین ہوئی تھی اور قسطسطین کے زمانے میں یہاں گرجا بنا ہوا تھا لیکن بعض محققین اس بیان کو صحیح نہیںمانتے۔ کہتے ہیں کہ جہاں کیستہ القیامتہ نبا ہوا تھا یہ مقام پہلے شہر کی فصیل کے اندر تھا اور مستند تحریرات سے ثابت ہوتاتھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو فصیل شہر سے باہرصلیب پر چڑھایا گیا تھا اور قریب ہی کسی پہلے سے تیار شدہ قبر میں ان کی میت رکھ دی گئی تھی۔ کسیتہ القیامتہ کی موجودہ جگہ کے آس پاس کوئی قبر نہ تھی اور نہ شہر کے اندر کہیں انہیںصلیب پر چڑھایا جا سکتاتھا۔ کیستہ القیامتہ کے مومودہ مقام کو غلط قرار دینے والوں کا بیان تھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو قبتہ الصخرا کے نزدیک کسی مقام پر مصلوب کیا گیا تھا۔ صخرا کے غار کو جسے قربانیوں کے خون بہنے کا مقام بتایا جاتا تھا اور جہاں حضرت دائود علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مصلے بیان کیے جاتے تھے۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں حضرت مسیح علیہ السلام کی میت کے بعد صلیب رکھی گئی تھی اوریہیں آپ تیسرے روز جی اٹھے تھے۔ یہ جگہ رومیوں کے زمانے میں فصیل سے باہر تھی۔ اس گروہ کا دعوی یہ تھا کہ قسطیطین کے حکم سے جو کیستہ القیامتہ بنایا گیا تھا۔ وہ قبتہ الصخرا کی ہشت پہلو عمار ت تھی جسے عبدالملک بن مروان کی تعمیر کردہ عمارت سمجھا جاتاتھا۔ اس کے پاس ہی قسطنطین نے ایک گرجا بنوایا تھا۔ جس میں داخل ہونے کا دروازہ باب الذہب تھا۔ عیسائیوںنے بارہویں صدی میں فلسطین پر قبضہ کیا تو صخرا پر سنگ مرمر لگا کر ایک آلٹر بنا دیا تھا جسے صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کی فتح کے بعد اکھڑوا دیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد عیسائیوں نے موجودہ مقام کو کیستہ القیامتہ بتانا شروع کیا تھا۔ روایت ہے کہ عبدالملک بن مروان نے جو عمارت بنوائی تھی وہ قبتہ الصخرا نہ تھی بلکہ مسجد اقصی تھی۔ مسلم مورخین نے عمارت کی جو وضع اور ہئیت بیان کی تھی وہ مسجد اقصی ہی پر منطبق ہوتی تھی نہ کہ ْقبتہ الصخرا پر قبتہ الصخرا کے طرز تعمیر سے بھی وہ اپنے دعوے کے ثبوت پیش کرتے تھے۔ بہرحال کسی ایک گروہ کی تصدیق و تردید کرنی ممکن نہ تھی۔ ویسے بھی مہر صاحب کے لیے حالت سفر میں مکمل مواد سے استفادہ کرنا ممکن نہ تھا۔ لیکن کیستہ القیامتہ کو صحیح سمجھنے والوں کا دعوی یہ تھا کہ القدس کے اردگرد مختلف اوقات میں تین دیواریں تھیںَ حضرت دائود اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں آبادی موجودہ شہر کے جنوبی و مغربی گوشے میں تھی اور ہیکل سلیمانی بھی حرم مقدس کے جنوبی و مغربی گوشے میں تھا۔ شہر اور ہیکل کے درمیان ایک پل بنا ہو ا تھا۔ اس کے بعد شہر میں توسیع ہوئی تو پہے ہیکل کا شمالی حصہ تعمیر ہوا۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے دور میں کیستہ القیامتہ کا مقام شہر کی فصیل سے باہر لیکن اس مقام کے قریب واقع تھا جس فصیل کی تعمیر کے بعد یہ مقام شہر کے اندر آیا وہ فصیل ہیرودیس کے پوتے ہیرودیس ایگرپا نے ۱۵ء میں تعمیر کرواء تھی۔ اور صلیب کا واقعہ اس سے پہلے ہو چکا تھا۔ ادبیات کتاب مقدس کے انسائیکلو پیڈیا سے بھی آخر الذکر گروہ کی تائید ہوتی تھی (۲)۔ کیستہ القیامتہ کی عمارت میں داخلے کے ساتھ ایک بڑا ہال تھا اور اس کے شمال مغربی گوشے میں ایک دروازہ تھا۔ جس سے گرنے کے بعد مدور گرجا میں پہنچ جاتے تھے۔ اس کے وسط میں چھوٹی سی مسقف چاردیواری تھی۔ جس کے اندر حضرت مسیح علیہ السلام کی قبر بیا ن کی جاتی تھی۔ یہ چار دیواری سنگ مرمر کی بنی ہوئی تھی۔ اس کی ایک دیوار کے ساتھ قبر مسیح کانشان تھا۔ اس میں داخلے کا دروازہ بہت چھوٹا تھا اور اندر صرف چار پانچ افرا د کھڑے ہو سکتے تھے۔ اس مدور گرجا کے مشرق میںبھی ایک دروازہ تھا۔ جس سے ایک دوسری عمارت میں داخل ہوتے تھے۔ اس عمارت کی ایک سمت میں بیس پچیس زینے اتر کو وہ غار آتا تھا جس میں عیسائیوں کے مطابق حضر ت مسیح علیہ السلام کی صلیب اور ان کے ساتھ مصلو ب ہونے والے دو مجرموں کی صلیبیں چھپی ہوء تھیں اور انہیں قسطیطین کی والدہیلینا کی نگرانی میں کھو دکر نکالا گیاتھا۔ نزدیک ہی ایک مقامت تھا جسے مقام صلیب بتایا جاتا تھا۔ یہاں پہنچنے کے لیے دس بارہ زینے اوپر چڑھنا پڑتاتھا۔ یہاں حضرت مریم علیہ السلام کی ایک تصویر میں بیش قیمت جواہرات لگے ہوئے تھے یہاں ہر وقت زائروں کا ہجوم رہتا تھا۔ مختلف اوقات میں پادری راہب راہبائیں اورعابدوں کی ٹولیاں مسیحی طریق پر نماز پڑھتیں دعائیں مانگیں اور مذہبی گیت گاتی تھیں۔ عیسائی روایت کے مطابق یہاں رومیوں نے اپنے زمانہ اقتدار میں اس مقام کو منہدم کر کے یہاں بت خانہ بنا دیا تھا۔ قسطیطین اور اس کی والدہ ہیلینا نے عیسائیت قبول کی تو انہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام سے متعلق مقامات کی تلا ش شروع کی۔ ملکہ خود یروشلم آئی اپنے سامنے مقام کو کھلوایا اور صلیبیں نکلوائیں۔ اس کے علاوہ بیان کردہ قبر کو صاف کرایا۔ اس کیسہ کے ساتھ ہی ایک مسجد تھی جسے مسجد عمر فاروق کہا جاتا تھا۔ روایت ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ جب کیستہ القیامتہ دیکھنے آئے تونماز کا وقت ہو گیا۔پادری نے کہا کہ حضرت عمرؓ گرجے میں ہی نماز ادا کر لیں آپ نے فرمایا کہ میرے نمازپڑھنے کی وجہ سے یہاں مسلمان اس جگہ پر قابض ہو جائیں گے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے کیسہ سے باہر نکل کر اس کی بیرونی سیڑھیوں پر نماز اد ا کی اور اسی مقام پر بعد میںمسجد تعمیر کی گئی تھی۔ شہر کے اندر تیسرا قابل ذکر مقام مرقد حضرت دائود علیہ السلام و سلیمان علیہ السلام تھا جسے بنی دائود کہتے تھے۔ یہ باب خلیل کے قریب ایک مسجد تھی جس کے ایک جانب تہہ خانے میں حضرت دائود علیہ السلام و سلیمان علیہ السلام کی قبریں تھیں۔ کہا جاتاتھا کہ اس جگہ ان کے محل واقع تھے۔ اسی مسجد کے ایک حصے می مقام مائدہ مسیح بتایا جاتا تھا۔ یہاں عیسائیوں یہودیوں اور غیر مسلموں کو داخلے کی اجازت نہ تھی۔ اقبال‘ مہر اور چند حضرات ایک روز الخلیل یا جبرون گئے اس قافلے میں پنجاب کے رہنے والے محمد اختر بھی تھے۔ آپ انگریزی رسالے ’’فلسطین‘‘ کے مدیر تھے ان کے علاوہ مفتی محمد امین الحسینی نے مہمانوں کی رہنمائی کے لیے ناظر اوقاف کو بھی ساتھ کر دیا۔ الخلیل بیت المقدس سے چالیس میل دور جنوب کی جانب اقع تھا راستے میں بیت اللحم بھی آیا۔ بیت المقدس سے الخلیل تک تمام راستہ پہاڑی تھا۔ بیت اللحم القدس سے تقریباً دس بارہ میل کے فاصللے پر الخلیل والی سڑک سے کسی قدر ہٹ کر واقع تھا۔ عام زائرین الخلیل جاتے ہوئے بیت اللحم کی زیارت کر لیتے تھے۔ بیت اللحم کے نزدیک سڑک کے کنارے پر ایک چھوٹا سا قبہ بنا ہوا تھا۔ روایت کے مطابق یہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی چھوٹی بیوی راحیل جو حضرت یوسف علیہ السلام اوربنیامین کی والدہ تھیں ان کی قبر تھیں۔ آپ نے شمال کی طرف سے حبرون یا الخلیل آتے وقت راستے میں انتقال کیا۔ بیت اللحم اچھا خاصا شہر تھا۔ یہاں عیسائیوں کی آبادی زیادہ تھی۔ اقبال اور ان کے رفقا یہاں تھوڑی دیر کے لیے رکے اور انہوںنے کیسہ مولد مسیح دیکھا۔ یہ پرانی طرز کی عمارت تھی ۔ داخلے کا دروازہ چھوٹا سا ھا۔ پہلے ایک بڑا گرجا آتا تھا۔ ایک گوشے میں زمین دوز راستہ بنا ہوا تھا۔ اس کے اندر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مقام ولادت اور پیدائش کے بعد کھرلی میں رکھے جانے کا مقام دکھایا جاتا تھا۔ دوسرے راستے سے باہر نکلیں تو اس طرف بھی ایک گرجا بنا ہوا تھا۔ انجیل کی روایت یہ تھی کہ رومیوںنے مردم شماری کے سلسلے میں حکم دیا تھا کہ ہر شخص اپنے اصل وطن چلا جائے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے والد یوسف ناصرہ میں رہتے تھے۔ لیکن انکا اصلی وطن بیت اللحم تھا اس لیے وہ اپنی بیوی حضرت مریم کو ساتھ لے کر بیت اللحم آ گئے لیکن چونکہ ان کا گھر باقی نہ رہا تھا اس لیے سرائے میں ٹھہر گئے۔ یہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے یہی سرائے بعد میں کیسہ مولد نبی تھی۔ اقبال اور مہر کو فلسطین پہنچ کر عیسائیوں کے مختلف فرقوں کے درمیان بے پناہ کشیدگی اور عدم رواداری کا علم ہوا۔ بیت اللحکم میں ان عیسائی فرقوں کی جنگ اپنے عروج پر تھی۔ کیسہ مولد کے اندر انہوں نے سپاہی کھڑے دیکھے توپوچھا کہ یہ لوگ کیوں متعین ہیں؟ ا س وقت معلوم ہوا کہ مختلف فرقے آپس میں بری طرح لڑتے رہتے ہیں اس لیے قیام امن کے لیے سپاہی مامور کر دیے گئے تھے۔ ہر فرقے کے لیے ایک الگ دائرے بنا دیے گئے تھے دیواروں پر ان دوائر کے نشان بنا دیے گئے تھے کہ کوئی ایک فرقہ دوسرے دائر ے میں داخل نہیں ہو سکتا ھتا۔ سپاہی ایک فرقے کو دوسرے دائرے میں جانے سے روکتا تھا۔ نیز پہلے ہر فرقہ دوسرے فرقے کے دائرے میں غلاظت پھینک دیتا تھا سپاہی یہ بھی دیکھتے رہتے تھے کہ اس قسم کا کوئی واقعہ پیش نہ آئے۔ بیت اللحم میں سیپ اور لکڑی کا کام بہت عمدہ ہوتا تھا لیکن زیادہ تر عیسائیوں کی ضرورت کی اشیاء بنتی تھیں مثلاً صلیب‘ سجہ‘ حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی کے مختلف پہلوئوں کی تصویروں والی اشیاء بیت اللحم میں حضرت دائود علیہ السلام کی ولادت گاہ بھی تھی۔ بیت اللحم سے آگے نکلیں تو پہاڑیاں کس قدر کم ہونے لگتی تھیں اور ان کے درمیان زیادہ کھلی جگہیں آنے لگتی تھیں۔ لیکن پہاڑیوں کا سلسلہ بدستور چلا جاتا تھا بالکل میدانی علاقہ کہیں نظر نہ آیا۔ راستے میںدونوں طرف مسلسل انگورروں اور انجیروں کے کھیت تھے جو اس وقت بالکل خشک تھے۔ لیکن موسم بہار میں سرسبز ہو کر جنت ارضی کا نمونہ بن جاتے تھے عموما ً کھیتوں کے اردگرد پتھر کی دیواریں بنی ہوئی تھیں اورہر کھیت کے اندر یا تو چھوٹا سا مکان بنا ہوا تھا یا کھلا چبوترہ تھا۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ موسم گرما میں القدس کے لوگ یہ کھیت کرائے پر لے کر ان میں رہتے تھے۔ مکانوں والے کھیتوں کا کرایہ بھی کسی قدر زیادہ ہوتا۔ جن کھیتوںمیں مکانوں کے بجائے چبوترے بنے ہوئے تھے وہاں لوگ اپنے خیمے لگا لیتے تھے۔ ضرورت کی چیزیں ساتھ لے آتے اور زیادہ تر انگوروں اور انجیروں پر گزارہ کرتے اس لیے جو شخص کھیت کرایہ پر لیتا سار ے پھلوں کا وہی مالک ہوتا تھا۔ بیت اللحم سے روانہ ہوئے تو ایک طرف بڑے بڑے تالاب دکھائی دیے۔ جن کی نسبت بتایا گیا کہ انہیں حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کرایا تھا۔ تقریباً ایک گھنٹے میں اقبال اور ان کے ساتھی الخلیل پہنچے۔ یہاں بتایا گیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام‘ حضرت اسحق علیہ السلام‘ حضرت یعقوب علیہ السلام‘ حضرت یوسف علیہ السلام کے علاوہ پہلے تین پیغمبروں کی ازواج مطہرات بھی یہاں دفن تھیں۔ الخلیل خاص اسلامی بستی تھی اور یہاں کی آبادی سترہ اٹھارہ ہزار افراد پر مشتمل تھی۔ عیسائی اور یہودی یہاں بہت کم تھے۔ اقبال اور ان کے رفقا سیدھے مقام خلیل گئے۔ روایت کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام اس بستی میں رہتے تھے جب حضرت سارہ کا انتقال ہوا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے چار سو درہم دے کر ان کے مدفن کے لیے ایک غار خریدا۔ یہ غار میکفیلہ کہلاتا تھا۔ اس غار میں حضرت سارہ کو دفن کیا گیا بعد ازاں ان کے بیٹے حضرت اسحق علیہ السلام نے حضرت ابرہیم علیہ السلام کو یہاں دفن کیا۔ پھر حضرت اسحق علیہ السلام اور ان کی بیوی بھی یہاں دفن ہوئیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام اور ان کی دوسری بیوی کو بھی حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائیوں نے یہیں دفنایا۔ بنی اسرائیل حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مصر آئے تو حضرت یوسف علیہ السلام کی میت بھی ساتھ لائے تھے۔ ایک روایت یہ تھی کہ انہیں اسی جگہ دفنایا گیا تھا مگر ان کی قبر اصل غار سے باہر تھی۔ دوسری روایت یہ تھی کہ حضرت یوسف علیہ السلام نابلس میں مدفون تھے (۳)۔ غار کی نسبت عجیب و غریب روایات تھیں۔ ایک روایت یہ تھی کہ یہ غار پہلے کھلا ہوا تھا اور اس کے اندر تمام میتیں رکھی ہوئی تھیں لیکن بنی اسرائیل اپنے مردوں کو کھلا نہیں چھوڑتے تھے۔ ہیرودیس نے اس جگہ نہایت عالی شان عمارت تعمیر کرائی تھی جس کے آثار بعض جگہ نظر آتے تھے۔ مسلمانوں کے دور میں ا س حصے کو مسجد بنا دیا گیا۔ صلاح الدین کے زامنے تک غار کے اندر جانے کا راستہ کھلا تھا اگرچہ کوئی اندر جاتا نہ تھا۔ صلاح الدین نے وہ راستہ بند کرا دیا۔ جس جس مقام پر قبریں تھیں ان کے اوپر مسجد کے اندر قبروں کے نشان بنا دیے گئے تھے غار کم و بیش پچاس فٹ گہرا بتایا جاتا تھا۔ زیارت کے بعد ناظر اوقاف مہمانوں کو اپنے دفتر میں لے گئے اور قہوہ پلایا۔ پھر آپ حضرت القدس واپس آ گئے کیونکہ اس روز مندوبین موتمر ایک خاص کھانے پر مدعو تھے اور ان کا وقت پہ پہنچنا ضروری تھا۔ ایک رو ز مندوبین موتمر کی جسین میں دعوت تھی جسین یافہ کی سمت میں القدس سے تیس پینتیس میل دور تھا۔ اس دن مندوبین نے القدس سے مغرب کا حصہ دیکھا۔ جسین کی سمت میں قابل ذکر مقام رملہ تھا۔ یہ بہت بڑا قصبہ تھا اورپرانی اسلامی آبادی تھی۔ فلسطین کا یہ حصہ بھی پہاڑی تھا۔ صرف جسین کے قریب پہنچ کر پہاڑیاں کسی قدر کم ہو جاتی تھیں۔ اور ان کے درمیان زمین ذرا زیادہ کشادہ ہو جاتی تھی اس حصے میں یہودیوں کی نوآبادیاں تھیں۔ یہاں نارنگیوں کے بے شمار باغات تھے اور مندوبین کی دعوت بھی نارنگیوں کے وسیع باغ میں ہوء تھی۔ جس کے اندر باغ کے مالک نے نہایت خوبصورت مکان بنایا تھا۔ امیر عبداللہ والی شرق اردون اور امیر علی بن شریف حسین سابق شاہ حجاز نے ایک روز مندوبیج موتمر کو شرق اردن کے سرحدی مقام شونہ میں مدعو کیا تھا جو القدس سے پچاس میل کے فاصلے پر تھا ۔ اس روز مزار حضرت موسیٰ بحیرہ لوط دریائے اردن اور اریحا کا مشاہدہ کیا یہ مقامات القدس سے مشرق میں واقع تھے۔ شونہ کی سمت وادی اردن تک پہاڑیوں کا سلسلہ چلا گیا تھا۔ جو القدس سے تیس میل کے فاصلے پر ہو گا۔ اس وادی میں اریحا واقع تھا جو سمندر کی سطح سے آٹھ سو فت نیچے تھا اور گرمیوں میں یہاں بے حد گرمی ہوتی تھی۔ موسم سرما میں القدس کے امرا یہاں آ جاتے تھے کیونکہ یہاں سردی کم ہوتی تھی وادی اردن دو پہاڑی سلسلوں کے درمیان ایک نشیبی مقام تھا جس کے جنوبی حصے میں بحیرہ لوط واقع تھا۔ دریائے اردن کا ایک چھوٹا سا نالہ تھا جس کے دونوں کناروں پر درختوں کے تقریباً سو گز چوڑے گھنے جنگل تھے۔ فلسطین اور شرق اردن کی درمیانی حد یہی دریا تھا۔ اس پر لکڑی کا ایک پل بنا ہوا تھا جس پر سے گزرنے کے لیے خاص ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا۔ اس ٹیکس کو جزیہ کہتے تھے۔ دریائے اردن اریحا سے تین چار میل کے فاصلے پر جانب مشرق واقع تھا۔ اور بحیرہ لوط تین چار میل کے فاصلے پر جنوب کی جانب تھا۔ بحیرہ لوط دو بلند پہاڑوں کے درمیان واقع تھا اس کی مشرقی سمت میں موآب کا سلسلہ جبل تھا یہ بحیرہ تقریباً چالیس میل لمبا ور زیادہ سے زیادہ نو دس میل چوڑا تھا۔ اقبال اور ان کے رفقا نے اس کا صف شمای و جنوبی گوشہ دیکھا تھا۔ جہاں نمک کے میدان تھے اور مزدوروں اور منطموں کے رہنے کے لیے چند مکانات بنے ہوئے تھے۔ اس کا پانی بے حد تلخ تھا۔ اس مقام کے قریب ہی دریائے اردن بحیرہ لوط میں گرتا تھا اور دہانے سے قریب دریا کے کنارے پر عیسائیوں کی ایک زیارت گاہ تھی جہاں عام روایت کے مطابق یوحنا رسول نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بپسمہ دیا تھا۔ بحیرہ لوط سے چار پانچ میل کے فاصلے پر القدس کی جانب پہاڑیوں کے اندر اریحا والی سڑک سے ہٹ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مزار بتایا جاتا تھا۔ مزار کے ساتھ ایک مسجد تھی اور مجاوروں کے مکان تھے۔ قرب و جوار میں اور کوئی آبادی نہ تھی۔ مزار مقفل رہتا تھا اور اس کی کنجی مفتی امین الحسینی کے پاس رہتی تھی۔ یہاں سال میں ایک مرتبہ عظیم الشان اجتماع ہوتاتھا جس میںفلسطین کے اکثر مسلمان شریک ہوتے تھے۔ مندوبین موتمر کو نابلس اور یافہ سے بھی دعوتیں آتی تھیں لیکن اقبال اور مہر فلسطین سے جلد روانہ ہو گئے اوران دعوتوں میں شرکت کے لیے نہ ٹھر سکے۔ (۴)۔ حواشی ۱۔ مکتوب مہر ۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر۱۹۶۔ ۵ ۱ جنوری ۱۹۳۲ء ۲۔ مکتوب مہر۔ مکتوب مہر ۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر۱۹۷۔ شنبہ ۔ ۱۶ جنوری ۱۹۳۲ء ۳۔ مکتوب مہر ۔ مکتوب مہر ۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر۱۹۸۔ یکشنتہ ۱۷ جنوری ۱۹۳۲ء ۴۔ مکتوب مہر۔ مکتوب مہر ۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر۲۰۴۔ یکشنبہ ۔ ۲۴ جنوری ۱۹۳۲ء ٭٭٭ فلسطین کے عمومی حالات اقبال اور مہر جب فلسطین تشریف لائے تو سفر کے دوران انہوںنے دیکھا کہ پہاڑوں پر سبزے کا نام و نشان نہ تھا اور چوٹیوں پر برف جمی ہوئی تھی۔ موسم بہار میں یہ تمام علاقہ سرسبز و شاداب ہو جاتا تھا اور ہر طرف پھلوں پھولوں اور سبزیوں کے انبار لگے رہتے تھے۔ فلسطین کو ارض موعود مولانا مہر کی رائے میں اس خطے کی شادابی کی بنا پر قرار دیا گیا تھا۔ عرب دنیا میں ا س سے زیادہ حسین خطہ اور کوئی نہ تھا۔ انگور انجیر اور مالٹوں کے لیے تو یہ علاقہ دنیا بھر میں مشہور تھا۔ اس وقت عربوں اور یہودیوں کے درمیان مناففرت انگیز فضا موجودتھی۔ مقامی یہودیوں سے تو عربوں کو کوئی پرخاش نہ تھی کلیکن باہر سے درآمد شدہ یہودیوںکی وجہ سے صورت حال خاصی کشیدہ ہوگئی تھی۔ صیہونیوں کی جارحانہ قوم پرستی کی بنا پر عربوں کو شدید خطرات لاحق تھے۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کے تعلقات خوشگوار تھے لیکن یہود کاعمل دخل بڑھ جانے سے عیسائیوں کو بھی اپنے مستقبل کے متعلق خطرہ تھا۔ اقبال اور مہر گرانڈ نیو ہوٹل میں مقیم تھے۔ اس ہوٹل کاملازم دائود جو عیسائی تھا روزانہ چار پانچ مرتبہ یہود کی شکایت کرتا اورکہتا تھا کہ ہم اور مسلمان بڑے آرام سے رہتے تھے لیکن جب سے انگریز آئے ہیں اوریہودیوں نے اقتدار حاصل کیا ہے سب پر آفت آ گئی ہے۔ مشہور مورخ جارج انٹونیس ان دنوں بیت المقدس میں مقیم تھے اور انہوںنے موتمر اسلامی کے انعقاد میں عملی حصہ لیاتھا۔ آپ دن میں دو چار مرتبہ موتمر میں تشریف لائے تھے۔ ایک روز انہوںنے لنچ پر اقبال سید ضیاء الدین طباطبائی ‘ استاذ عبدالرحمن عزام۔ حسن خالد پاشا طباطبائی‘ محمد روشن اختر اور مہر کو بلایا تھا لیکن آپ حضرات کو دوسرے روز شونہ جانا تھا اس لیے آخری وقت میں معذرت کرنی پڑی ایک روز فرصت دیکھ کر انہوںنے پھر دعوت دی اور پر تکلف کھانا کھلایا۔ انگریز حکومت صیہونیوں کی پشت پناہی کر رہی تھی۔ ان کی بے پناہ تنظیم اور دولت کی وجہ سے مقامی غریب مسلمان مقابلے کی ہمت نہ رکھتے تھے۔ یورپی یہودی منہ مانگے داموں عربوں کی زمینیں اور جائدادیں خرید رہے تھے۔ تل ابیب تو خالصتاً یہودی شہر بن چکا تھا۔ عمارتوں سے عبرانی طرز تعمیر نمایاں تھا۔ یہ جدید شہر یورپی یہودیوں کے سرمائے سے تعمیر ہوا ھتا۔ فلسطین کی کل آبادی ۱۰۳۵۱۵۴ تھی۔ ۱۹۳۱ء میں مختلف اقوام کی اابادی درج ذیل ہے۔ مسلمان ۷۵۹۹۵۳‘ عیسائی ۹۰۶۰۷‘ یہود ۱۷۵۰۰۶ باقی افراد ۹۵۸۹ تھے۔ بیت المقدس کی آبادی اس وقت ایک لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ جس میں ۵۱یا ۵۲ ہزار یہودی تھے۔ باقی عیسائی او ر مسلمان تھے۔ یہودیوں نے ایک خاص حکمت عملی کے تحت ساحلی مقامات اور اہم مراکز پر قبضہ جمانا شروع کیاتاھ۔ یافہ کی بندرگاہ پر ان کا تسلط تھا۔ ملک کی تجارت اور زراعت پر صیہونی انگریزوں کی مدد سے تیزی سے چھا رہے تھے۔ صیہونیوںنے موتمر کی بھرپور مخالفت کی تھی لیکن مفتی سید امین الحسینی کے عزم اورمقامی مسلمانوں کے خلوص اور تعاون کی وجہ سے یہ موتمر کامیاب ہو کر رہی۔ القدس کے عام مسلمان مفتی صاحب کے ہر کام میں تعاون کرتے تھے جسین اور شونہ جاتے اور آتے وقت راستے میں گردوپیش کے دیہاتوں کے مسلمان مرد عورتیں اور بچے سڑکوں پر جمع تھے اور مفتی امین الحسینی زندہ باد زعمائئے اسلام زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔ اس سے مفتی صاحب کی مقبولیت کا اندازہ کیا جا سکتا تھا۔ رملہ اور اریحا میں تو مندوبین کے خصوصی استقبال کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اریحا کے باشندوں نے سب مہمانوں کو قہوہ پلایا اور تمام مندوبین کی کاروں میںپھلوں کی ٹوکریاں رکھ دیں تاکہ سفر میں کام آئیں۔ مندوبین کا قافلہ پچاس ساٹھ کاروں پر مشتمل تھا۔ موتمرنے مندوبین کو ایک پرتکلف لنچ شیخ محمود بے وجانی نے پیلس ہوٹل (بیت المقدس) میں دیا تھا۔ ایک پرتکلف ظہرانہ اسمعیل بک الحسینی نے دیا تھا توفیق الفضین نے جسین میں شاہانہ دعوت کی تھی ان کے علاوہ یافہ حیفہ نابلس اور الخلیل کے مسلمانوں کی طرف سے دعوتیں آئی تھیں(۱)۔ اقبال طبعاً سہل انگار تھے انہیں نقل و حرکت سے بہت وحشت ہوتی تھی ۔ فکری انہماک بھی نقل و حرکت سے گریز کا نتیجہ تھا۔ مہر نے ایک واقعہ نقل کیا ھتا کہ ایک روز صدر بلدیہ یروشلم نے ایک ہوٹل میں عصرانے کا انتظام کیا تھا۔ یہ ہوٹل اقبال اور مہر کی قیام گاہ سے دو فرلانگ کے لگ بھگ دو تھا۔ آپ حضرات کار میں بیٹھ کر وہاں پہنچے۔ چائے پارٹی کے بعد شرکائے ظہرانہ ایک دم باہر آئے تو ہجوم کا سماںپید ا ہو گیا اقبال نے فرمایا ان سب کو نکل جانے دو پھرہم نکلیں گے۔ جب باہر آئے تو تمام مہمان کروں میں سوار ہو کر روانہ ہو چکے تھے اور ایک بھی کار وہاں نہ تھی۔ مہر نے تجویز پیش کی کہ ہماری قیام گاہ کچھ دور تو ہے نہیں کیوںنہ ٹہلتے ٹہلتے پیدل وہاں پہنچ جائیں اقبال نے جواب دیا کہ ٹھیک ہے چلو۔ لیکن اقبال پانچ دس قد م چل کر رک گئے اور فرمایا مہر صاحب ہم تھک جائیں گے۔ اتفاقاً اسی وقت ایک کار آ گئی اور آپ ا س میں سوار ہو کر اپنی قیام گاہ پہنچے (۲)۔ موتمر کے جلسوں کی بنا پر مندوبین کو فرصت ذرا کم ملتی تھی لیکن اقبال اور مہر جو جب بھی موقعہ ملتا مقامات مقدسہ کی زیارت کر لیتے۔ مفتی صاحب اور ؤان کے رفقا کے مہمانوں کے لیے عمدہ انتظامات کیے تھے۔ ضرورت کے وقت انہیں گائیڈ اور کار مل جاتی تھی۔ اقبال نے سفر فلسطین کے تاثرات ایک موقع پر بیان کیے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے اسلام عیسائیت اور یہودیت (۳) کے مشترکہ مقامات مقدسہ کی زیارت کی۔ میرے ذہن میں ان مقامات سے متعلق روایات کی اصلیت کے بارے میں شکوک و شبہات تھے۔ لیکن اس کے باوجود میں ان سے متاثر ہوا۔ بالخصوص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقام ولادت نے مجھے متاثر کیا۔ مجھے علم ہوا کہ بیت اللحم کے گرجا کا آلٹر تین حصوں میں منقسم تھا اور یہ حصے ارمنی یونانی اور کیتھولک کلیسا کے لیے مخصوص کیے گئے تھے یہ فرقے آپس میں جھگڑتے رہتے ہیں اور کبھی کبھار آپس میں خون خرابہ ہو جاتا ہے اور ایک دوسرے کے آلٹر کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔ ہندوستان کے حالات کے برخلاف یہاں دو مسلمان سپاہی قیام امن کے لیے متعین تھے۔ سفر فلسطین میری زندگی کا ایک نہایت دلچسپ واقعہ ثابت ہوا ہے۔ فلسطین کے زمانہ قیام میں متعدد اسلامی ممالک مثلاً مراکش‘ مصر‘ یمن‘ شام‘ عراق ‘ فرانس‘ اور جاوا کے نمائندوں سے ملاقات ہوئی۔ شا م کینوجوان عربوں سے مل کر میں خاص طورپرمتاثر ہوا۔ ان نوجوانان اسلام میں اس قسم کے خلوص و دیانت کی جھلک پائی جاتی تھی جیسی میں نے اطالیہ کے فاشٹ نوجوانوں کے علاوہ کہیں اور نہیں دیکھی۔ فلسطین میںصیہونیوں کے جارحانہ عزائم اور ارض مقدس پر قبضے کے ناپاک ارادے کے بار ے میں اقبال نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ موتمر اسلامی میں مندوبین اس سکیم کی شدید مخالفت کر رہے تھے ۔ مجھے یقین ہے کہ فلسطین کو یہودیوں کا وطن بنانے کی سکیم بالآخر ناکام رہے گی کیونکہ یہودی ہرگز عمدہ کسان نہیں بن سکتا۔ ایک ضیافت کی تقریب میں ہائی کمشنر سے ملاقات ہوئی۔ وہ بے حد نیک دل واقع ہوئے ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے بہت مشتاق ہیں دورا ن گفتگو میں نے فلاحین فلسطین کی اقتصادی حالت کو درست کرنے کے لیے چند تجاویز پیش کیں۔ اقبال نے مقامات مقدسہ کی زیارت کے بعد اپنے احباب سے قرآن کریم کی آیت مقدسہ یخر جونھم من الظلمات الی النور کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام نے دنیا میں نور پھیلایا ورنہ اس سے بیشتر دنیا میں ظلمات یعنی اندھیروں میں لپٹی ہوئی تھی۔ اقبال کے پیش نظر فلسطین کے مقامات مقدسہ اور مصر و اطالیہ کے مذہبی مقامات تھے جہاں دن میں بھی بے حد تاریکی رہتی تھی(۴)۔ ایک اور موقع پر اقبال نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ میں نے وہاں یہودیوں اور عیسائیوں کی عبادت گاہیں دیکھیں یہ مقامات تہ خانوں کی صورت میں زمین کے نیچے بنائے گئے ہیں جہاں دن کے بارہ بجے اس قدر تاریکی ہوتی ہے کہ لیمپ روشن کرنے پڑتے ہیں۔ وہاں پہنچتے ہی ماحول کی اداسی غمگینی اور یبوست کا اثر اس شدت سے قلب پر پڑتا ہے کہ جسم کے قوی شل ہوتے ہیں۔ جب میں ان عبادت گاہوں کی سیر کر کے باہر آیا تو میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اسلام دنیا کا پہلا مذہب ہے جس نے انسان کو کھلی ہوا تازہ فضا اورسورج کی جاں بخش روشنی میںعبادت کی تلقین کی ہے۔ (۵) ٭٭٭ حواشی ۱۔ مکتوب مہر ۔ مکتوب مہر ۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر۲۰۴۔ یکشنبہ ۔ ۲۴ جنوری ۱۹۳۲ء ۲۔ ’’اقبال درون خانہ‘‘ مـصنف خالد نذیر صوفی ۲۴۔۲۳ ۳۔ انقلاب میں Judaismکا ترجمہ صیہونیت کیا گیا ھتا حالانکہ صحیح ترجمہ یہودیت ہے ۔ صیہونیت دور جدید کی سیاسی تحریک تھی جس کام قصد یہودیوں کے لیے قومی وطن کا حصول تھا۔ ملاحظہ کریں ’’گفتار اقبال‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ص ۱۴۷۔۱۴۴ ۔ جنوری ۱۹۶۹ء Speeches Writings and Statements of Iqbal. PP.209-210. انقلاب جلد ۶ نمبر ۱۸۶۔ یک شنبہ ۳ جنوری ۱۹۳۲ء ۴۔ ’’اقبال کی صحبت میں‘‘ ص ۲۶۶ ۵۔ ’’اقبال نامہ‘‘ مصنف چراغ حسن حسرت ۔ ص ۷۹ ٭٭٭ اوقاف فلسطین کا معائنہ مفتی سید امین الحسینی کی عمر اس وقت چالیس کے لگ بھگ تھی آپ بہت شریف بااخلاق‘ متین ‘ کم گو‘ بامروت اور مرنجاں مرنج طبیعت کے آدمی تھے۔ آپ مسلمانان فلسطین کی خدمت میں لگے رہتے تھے۔ اآپ پوری دنیا کے مسلمانوں کو بہتر سے بہتر حالت میں دیکھنے کے آرزو مند تھے۔ آپ فلسطینی مسلمانوں میں بے حد مقبول تھے۔ بڑے منظم اور کارکن تھے فلسطین میں ان کے تنظیمی کارناموں کے نہایت حوصلہ افزا مناظر نظر آتے تھے۔ آپ بیرونی پروپیگنڈے یا خارجی مدح و قدح کے جھگڑوںمیں الجھے بغیر خاموشی سے اپنے کا م میں لگے رہتے۔ انہوںنے تھوڑے عرصے میں فلسطینی مسلمانوںکو ایک سلک میں پرو دیا تھا۔ اور ان میں زندگی کی نئی روح پھونک دی تھی۔ آپ نے فلسطینی مسلمانوں کو منظم کر کے انگریزی تسلط اور صیہونی خطرے کا مقابلہ کرنے کے قابل بنا دیا تھا۔ اس زمانے میں بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ اور دیگر آثار قدیمہ کی حالت ردی ہو رہی تھی۔ مفتی صاحب نے ان کی مرمت پر زور دیا اور اس مقصد کے لیے دنیائے اسلام سے مدد طلب کی۔ ہندوستان سے دیگر مسلمان امیروں کے علاوہ نظام دکن نے بھی قابل قدر امداد دی تھی۔ اس امداد سے مسجد اقصیٰ اورقبتہ الصخرا کے ان حصوں کی مرمت ہو رہی تھی جن کے گر جانے کا خطرہ تھا۔ اس وقت تک حرم مقدس کی کچھ مرمت ہونا باقی تھی۔ مفتی صاحب نے اوقاف فلسطین کے سلسلے میں بھی قابل قدر خدمات انجام دیں تھیں۔ فلسطین کے اسلامی اوقاف کا تمام تر انتظام مجلس اسلامیہ اعلیٰ کے ذمہ تھا جس کے رئیس مفتی صاحب تھے۔ اسلامی اوقاف کی آمدنی ایک لاکھ پونڈ سالانہ تھی لیکن ۱۹۳۱ء کے خرا ب اقتصادی حالات کی بنا پر ستر ہزار پونڈ آمدنی ہوئی تھی۔ اس رقم میں سے بیس ہرزار پونڈ تعلیم پر خرچ کیے گئے تھے۔ انہوںنے فلسطین کے مختلف شہروں میں درس گاہیں قائم کیں جن میں بچوں کو جدید ضروریات کے مطابق دینی اور دنیاوی تعلیم دی جاتی تھی۔ جدید تعلیم کے علاوہ ہر درس گاہ میں بوائے سکائوٹ کی تحریک جاری کی گیء تھی۔ القدس میں بھی کئی زنانہ و مردانہ مدار س تھے۔ ان میںسب سے زیادہ معروف روضتہ المعارف اور دارالتیام تھے۔ یہ مدرسہ ۱۹۲۰ء یا ۱۹۲۱ء میں قائم کیا گیا تھا۔ اس کا آغاز بیس پونڈ سے ہوا تھا اور ۱۹۳۱ء کے اواخر میں اس کا بجٹ پانچ ہزار پونڈ سے متجاوز تھا۔ مدرسہ میں زنانہ تعلیم کا بھی انتظام تھا۔ اس کی عمارت بہت عالی شان تھی اورتعلیم کا بہت عمدہ انتظام تھا۔ اس زمانے میں یہ مدرسہ موتمر کے اجلاس کی وجہ سے بند تھا۔ دارالاتیام القدس بھی ایک منفرد درس گاہ تھی۔ اس یتیم خانہ کے قیام سے قبل مسلمان یتیم بچے عیسائی مشنریوں کے قبضے میں چلے جاتیں اور وہ انہیںتعلیم کے دوران عیسائی بنا لیتے تھے۔ مفتی سید امین الحسینی نے ایک چھوٹا سا یتیم خانہ قائم کر کے یتیم بچوں کو ادھر ادھر سے جمع کرنا شروع کیا۔ جن مسلمان بچوں کا عیسائی مشنریوں سے پتا چلا وہاں سے لڑ جھگڑ کر اپنے یتیم خانے مین لائے۔ ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا۔ پھر مختلف فنون کے کاریگر ملک بھر سے جمع کیے اور بچوں کے رجحان طبع کو دیکھتے ہوئے انہیں مختلف پیشے سکھائے۔ اس زمانے میں اس یتیم خانے میں جوتے بنانے کپڑے سینے اور کرسیاں میزیں اور فرنیچر تیار کرنے جلد بندی اور متعدد دیگر فنون سکھانے کا انتظام بھی تھا۔ اقبال اور مہر نے بچوں کی بنائی ہوئی اشیاء دیکھیں اور ان اشیاء کی عمدگی اور اعلیٰ معیار کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئے۔ ان مصنوعات کے لیے بازار میں ایک شو روم اور دکان بھی تھی۔ لوگ مختلف اشیاء کے آرڈر دیتے یتیم خانہ ان اشیاء کے آرڈروں کی تعمیل میں سال بھر مصروف رہتا۔ دکان کی آمدنی کو دارالاتیام کی توسیع اور ترقی پر خرچ کیا جاتا تھا۔ اس زمانے میں اس میں تین سو بچے اور بچیاں تھیں اس کا سالانہ بجٹ سات ہزار پونڈ کے لگ بھگ تھا۔ اس درس گاہ کے قیام سے مسلمان بچے مشنری اداروں سے محفوظ ہو گئے۔ یہاں ان کے اعلیٰ درجے کی اسلامی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا گیا اوربرے ہونے پر انہیںکسی مفید پیشے کے اختیار کرنے میں مدد دی جاتی تھی۔ مسلمانان قدس کے لیے اپنی مصنوعات کی ترقی کی راہ کھل گئی تھی ۔ اس درس گاہ کے ہر یتیم بچے کا باقاعدہ وظیفہ مقرر تھا جو اس کی عمر علم اور استعداد کی ترقی کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہتا تھا۔ وظیفہ کا ایک حصہ ارباب اہتمام کی نگرانی میں جمع ہوتا رہتا۔ جب بچہ بالغ ہو کر یہاں سے نکلتا تو جمع شدہ رقم اس کے حوالے کر دی جاتی تاکہ وہ اپنے پائوں پر کھڑا ہو سکے۔ اس دارالاتیام کے کئی افرادمختلف شہروں میں کامیاب تجارت کر رہے تھے۔ یافہ کے دو بھائیوں نے جو یہاں پلے بڑ ھے تھے اپنی محنت سے یاک عالی شان مکان خریدا۔ کئی یتیم اس وقت خود اس دارالاتیام یہ میں پانچ پانچ چھ چھ پونڈ ماہوار پر بطور معلمین ملازم ہو گئے تھے۔ ا س یتیم خانہ میںاندھوں کی تعلیم و تربیت کا بھی انتظام تھا۔ ان کا استاد بھی نابینا تھا۔ نابینا بچوں کو برش تیار کرنے بید سے کرسیاں سینے کھجور کے پتوں سے ٹوکریاں اور مصلے بنانے اور رسیاں بٹنے کی تعلیم دی جاتی تھی۔ مقصود یہ تھا کہ بچے معاشرے کا کار آمد جزو بن کر باوقار زندگی بسر کریں۔ دارالاتیام میں بوائے سکائوٹس کی تحریک جاری کی گئی تھی۔ اس کا اپنا بینڈ تھا اور فارغ اوقات میں سکائوٹس اہل شہر کو اپنی مصنوعات کی سرپرستی کی تلقین کرتے تھے ایک رو ز موتمر کے مندوبین دارالاتیام میں چائے کی دعوت تھی۔ اقبال اس روز اس دعوت میں شرکت نہ کر سکے توارباب اہتمام دوسرے روز خاص طور پر درخواست کی کہ آپ تشریف لائئیں اوراپنے قیمتی مشوروں سے ارباب اہتمام کو مشرف فرمائیں۔ اقبال گئے اور تقریباً ایک گھنٹہ تک دارالاتیام کے سپرنٹنڈنٹ اور پرنسپل سے مدرسہ کے انتظامات کے متعلق گفتگو کرتے رہے۔ پھر آپ نے تمام شعبوں کا معائنہ کیا۔ آخر میں دارالااتیام کے ارباب اہتمام نے مصری چھاپے کا ایک نہایت خوبصورت قرآن پاک بطور یادگار اقبال کی خدمت میں پیش کیا۔ اس کی جلد بندی مدرسے کے تیابومی نے کی تھی اور اس پر صدف کا بہت پرتکلف کام تھا۔ اقبال نے مدرسے کے معائنے کے بعد پانچ پونڈ تیامی کی مٹھائی کے لیے دیے ۔ اقبال کے قیام فلسطین کے دوران ایک شب بوائے سکائوٹس نے نہایت دکلش عربی قومی گیت سنائے۔ دارالاتیام کی مختلف ٹولیوںنے ملکی مصنوعات کی ترویج کے گیت سنائے۔ ۱۴ دسمبر کی شب کو فتح اندلس کے متعلق ڈرامہ دکھایا گیا۔ ڈرامے کے دوسرے ڈرابپ سین پر حاضرین نے اصرار کیا کہ اقبال بھی اپنا کلام سنائیں چنانچہ آپ نے ڈرامے کی مناسبت سے مندرجہ ذیل تین اشعار سنائے۔ طارق چو برکنارہ اندلس سفینہ سوخت گفتند کار توبہ نگاہ خرد خطاست دوریم از سواد وطن باز چوں رسیم ترک سبب زروئے شریعت کجا رواست خندید و دست خویش بہ شمشیر برد و گفت ہر ملک ملک ماست کہ ملک خدائے ماست سید محمد حسین آل کاشف الغطاء مجتہد عراق نے اس محفل میں ان اشعار کا عربی میں ترجمہ کیا۔ حاضرین نے اس پر بے پناہ مسرت کا اظہار کیا۔ انہوںنے ڈاکٹر اقبال زندہ باد شاعر اسلام زندہ باد زعیم ہند زندہ باد کے نعرے لگائے۔ شرق اردون کے ایک عرب شاعر جس نے فتح اندلس کو منظوم ڈرامے کی شکل میں پیش کیا تھا یہ اشعار مع ترجمہ نثر اسی وقت کے لیے اورکہا کہ وہ ان اشعار کا عربی نظم میں ترجمہ کریں گے۔ اگلے روز اقبا ل اور مہر فلسطین سے روانہ ہو گئے اورانہیں اس ترجمے کو دیکھنے کا موقع نہ ملا۔ مفتی امین الحسینی اوقاف کی آمدنی کو ترقی دینے کے لیے مناسب وسائل سے کام لیتے رہتے تھے۔ بیت المقدس میںایک عالی شان ہوٹل کی ضرور ت تھی۔ مفتی صاحب نے مجلس اسلامیہ اعلیٰ کی منظوری سے وقف شدہ زمین پر ساٹھ ہزار پونڈ کے صرف سے ایک عالی شان ہوٹل تعمیر کرایا جو اس وقت فلسطین بھرمیں بہترین ہوٹل تھا۔ اس ہوٹل سے مجلس اسلامیہ کو سالانہ سات ہزار پونڈ کرایہ آتا تھا اور ہوٹل کی قیمت ایک لاکھ پونڈ سے کم نہ تھی۔ (۱)۔ ٭٭٭ حاشیہ ۱۔ مکتوب مہر۔ انقلاب۔ جلد ۶۔ نمبر ۲۰۴۔ یک شنبہ۔ ۲۴ جنوری ۱۹۳۲ء ٭٭٭ موتمر اسلامی کی روئداد بیت المقدس میں موتمر اسلامی کے انعقا د کی تیاریاں مئی اورجون ۱۹۳۱ء میں شروع ہوئی تھیں۔ (۱) اس موتمر کے انعقاد کی وجوہ مندرجہ ذیل تھیں۔ ۱۔ مولانا غلام رسول مہر کی رائے میں ایک وجہ اطالویووں کا لیبیا پر فوج کشی کرنا اوریہاں کے لوگوں پر بے پناہ مظالم تھے۔ لیبیا کے ایک مجاہد عمر المختار کو اطالویوں نے گرفتار کر کے شہید کر دیا تھا۔ جس کی بنا پر عربوں اور مسلمانان عالم کے جذبات مجرو ہو ئے تھے اور انہوںنے مل جل کر سامراجی قوتوں سے مقابلہ کرنے پر زور دیا تھا۔ تاکہ دنیا بھر کے مسلمان آزاد ہو کر اپنی منزل متعین کر سکیں(۲)۔ ۲۔ بین الاقوامی صیہونیت بڑی تیزی سے فلسطین میں اپنا قبضہ جما رہی تھی۔ یورپی یہودی فلسطین آ کر جائدادیں خرید رہے تھے اور ان کی تعدا دتیزی سے بڑھ رہی تھی۔ فلسطین انگلستان کے زیر انتذاب تھا اور انگریزوں نے یہودیوںکی ہر ممک طریقے سے حوصلہ افزائی کی تھی۔ مفتی سید امین الحسینی نے مناسب سمجھا کہ عالم اسلام کے نمائندوں کو ا س مسئلے کی سنگینی کا احساس دلایا جائے اورصیہونی خطرے کے خلاف مسلمانوں کو متحد کیا جائے۔ بین الاقوامی صیہونیت کا مقصد یہ تھا کہ برطانوی انتداب کے خاتمے کے بعد یہودی فلسطین پر ناجائز طورپر قابض ہو جائیں ۔ ۳۔ بیشتر مسلم ممالک سامراجی قوتوں کے قبضے میں تے۔ وہ تیذیبی سیاسی اور علمی اعتبار سے پس ماندہ تھے۔ مسلمانوں کے اتحاد کی صورت میں عالم اسلام کو درپیش مسائل و مصائب کا حل ممکن تھا۔ بیت المقدس کی موتمر اسلامی سے قبل اسلامی ممالک کے نمائندوں کی دو موتمر منعقد ہو چکی تھیں۔ ایک تو قاہرہ کی موتمر خلافت تھی۔ یہ کانفرنس چیدہ چیدہ افراد پر مشتمل تھی۔ باہر سے بہت کم نمائندے اس میں شریک ہوئے تھے۔ مصر مین بھی اس کی شرکت صرف ایک خاص جماعت تک محدود رہی تھی۔ دوسری موتمر مکہ مکر مہ میں ۱۹۲۶ء میں سلطان ابن سعود نے منعقد کی تھی لیکن اس میں بھی صرف چند ممالک شامل ہوئے تھے جو یا تو مسئلہ حجاز میں سرگرم حصہ لیتے رہے تھے یا حکومت حجاز کے ساتھ سیاسی تعلقات رکھنے والی اسلامی حکومتوں کے مندوبین تھے (۳)۔ موتمر اسلامی کے انعقاد کی تجوزی کے بعد ایک اہم مسئلہ یہ تھا کہ عالم اسلام کے نمائندوں کو کس طرح دعوت نامہ بھیجا جائے رومی مسلمانوں کے نمائندے اس زمانے میں غریب الوطن تھے۔ مولانا شوکت علی نے روسی مسلمانوں کے نمائندوں مثلا سعید شامل‘ عیاض اسحاقی اور موسیٰ جار اللہ کے پتے حاصل کیے اوران کو موتمر میں شرکت کے دعو ت نامے پہنچائے۔ سعید شامل اور عیاض اسحاقی نے اپنی جماعتوں سے شمولیت کی اجازت حاصل کی اورموتمر میں شرکت کی (۴)۔ موتمر اسلامی کے خلاف بین الاقوامی صیہونیت اور انگریزوںنے مخالفانہ پروپیگنڈا کیا تھا ان کے علاوہ یورپی خبر رساں ایجنسیوں نے بھی موتمر کی شدید مخالفت کی برطانوی پارلیمنٹ میں لیبر پارٹی کے نمائندے ؤکرنل ویج وڈ نے ۷ دسمبر ۱۹۳۱ء کو سوال کیا کہ آیا مسلم لیگ میں مقدس مقامات اسلامی کے تحفظ پر بحث ہو گی اور ان میں دیوار گریہ بھی شام ل ہے۔ اگر ایسا ہواتو کیا یہود اور نصاریٰ کے خلاف مسلمانو ں کے مذہبی جذبات مشتعل نہ ہوں گے۔ اور کیا حکومت اس کے خلاف کوئی تدابیر اختیار نہیں کرے گی ؟ سر رابرٹ ہیملٹن نائب وذیر نو آبادیات نے جوا ب دیا کہ مجھے اس قسم کا کوئی خطرہ نظر نہیں آتا کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے جذبات مشتعل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ہائی کمشنر سے تحقیقات کرنے پر مجھے علم ہوا ہے کہ مفتی اعظم کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے اور وہ کانگرس کی کارروائی ایسے طریق پر انجام دیں گے کہ برطانوی یا فلسطین کی حکومت کو پریشانی نہ ہو (۵)۔ یورپی طاقتوں اور صیہونیوں کی مخالفت کے باوجود دنیائے اسلام اور عربوں نے موتمر کا بھرپور خیر مقدم کیا تھا۔ امام بحسی فرمانروائے یمن نے مفتی اعظم فلسطین کے مکتوب کے جواب میں ایک ٹن کافی بھیجی تھی تاکہ مندوبین کی تواضع کی جا سکے۔ امام یمن کا نمائندہ سید محمد زبادہ بھی موتمر میں شریک ہوا تھا (۶)۔ موتمر میں اسلامی اخوت کا عملی مظاہرہ ہوا اور کوشش کی گئی کہ مسلمان فقہی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک ہو جائیں ۱۱ دسمبر ۱۹۳۱ء کو بیت المقدس میں جمعہ کی نماز عراق کے ایک شیعہ عالم کی امامت میںپڑھی گئی۔ اس نماز میں مندوبین کے علاوہ فلسطینی شیعہ اور سنی بھی شریک وہئے تھے)۷) موتمر اسلامی میں ترکی اور افغانستان کے سوا ہر اسلامی ملک اور تقریباً ہر قابل ذکر اسلامی خطوں کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔ اس میں مندرجہ ذیل ممالک کے مندوبین شریک ہوئے تھے مراکش ‘ ریف‘ الجزائر‘ تونس‘ نائجیریا‘ سوڈان‘ مصر‘ طرابلس ‘ شام‘ عراشق‘ شرق اردن‘ فلسطین‘ حجاز ‘ یمن ‘ حضرموت‘ ایران‘ چینی ترکستان‘ روسی ترکستان‘ بخارا‘ قفقاز‘ ایدال‘ اور ال یوگو سلاویہ‘ ہندوستان ‘ سیلون‘ جاوا‘ فن لینڈ وغیرہ۔ ان نمائندوں میں سے بعض بڑے درجے کے ارباب علم و فضل تھے ۔ بعض اعلی ٰ درجے کی سیاسی و ملی حیثیت کے حامل تھے۔ بعض اصحاب مجالس ملی و وطنی کے ارکان تھے۔ مندوبین میں بزرگان دین بھی تھے اور مجاہدین حریت بھی۔ رزم کے میدان کے مرد بھی تھے اور بزم کے بھی بعض لوگوں کی عظمت و شہرت خوشبو کی مانند دنیا بھر میں پھیل چکی تھی اورکچھ حضرات کی شہرت اپنے وطن تک محدود تھی۔ یہ عالم اسلام کی چیدہ شخصیتوں کا اجتماع تھا (۸)۔ مقامی فلسطینی مسلمانوں کے دو گروہ مفتی سید امین الحسینی کے مخالف تھے۔ انہوںنے ایک جلسہ یروشلم کے مئیر کی صدارت میں منعقد کیا جس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ مفتی اعظم کو موتمر اسلامی کا صدر تسلیم نہ کیاجائے لیکن غیر ملکی مندوبین کو پیغام تہنیت ارسال کیے جائیں کیونکہ انہوںنے موتمر میںشرکت کرنے کے لیے سرگرمی کا اظہار کیا تھا۔ اس جلسے میں ایک ہزار سے زیادہ اشخاص شریک ہوئے (۹)۔ ۵ دسمبر ۱۹۳۱ء تک مولانا شوکت علی مفتی صاحب اور ان کے مخالف گروہوں کے درمیان مفاہمت کی کوشش کرتے رہے لیکن انہیں اس امر میں کوئی خاص کامیابی نہ ہوئی۔ بڑی ردوکد کے بعد مولانا شوکت علی نے ان حضرات کو اس پ]ر آمادہ کر لیا کہ وہ مسلم کانگررس میں شرکت تو نہ کریں گے لیکن کانگرس پر نکتہ چینی سے احتراز کریں گے اور اگر اس کی منظور شدہ قرارداد میں مفتی صاحب کی بجائے ملک کا مفاد ہو تو اس کی حمایت کریںگے۔ القدس کے موتمر کا کوئی خاص پروپیگنڈا تو نہیں ہوا لیکن اتحاد اسلامی کے دشمنوں کے مخالفانہ پروپیگنڈے کی بنا پر موتمر کی خوب تشہیر ہوئی تھی۔ اس میں شمولیت کے لیے بعض ایسے خطوں سے مسلمان نمائندے آئے تھے جہاں قابل ذکر اسلامی آبادی نہ تھی۔ ۶ دسمبر کو شام چار بجے روضتہ المعارف کے وسیع ہال میں مجلس تعارف منعقد ہوئی جس کا مقصد یہ تھا کہ شرکائے موتمر آپس میں متعارف ہو جائیں۔ اکابر فلسطین بھی ان حضرات سے واقف ہو جائیں اور ان کا موتمر میں شرکت کا شکریہ ادا کریں۔ اس وقت سخت بارش ہو رہی تھی فلسطینی مسلمانوں کی بری بڑی ٹولیاں یکے بعد دیگرے ہال میں داخل ہوئیں اور مہمانوں سے جو ہال کی دیواروں کے ساتھ کرسیوں پر بیٹھے تھے ان سے مصافحہ کرتے۔ یہ تقریب ایک گھنٹے میں ختم ہوئی تو تمام حضرات رضاکاروں ے جیوش کے ساتھ مسجد اقصیٰ کی جانب روانہ ہوئے رضاکار دلکش قومی نغمے گار رہے تھے۔ راستے میں انہوںے رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر رحمتہ اللہ علیہ کی قبر پر فاتحہ پڑھی۔ پھر مسجد اقصیٰ میں مغرب کی نماز ادا کی۔ مسجد اقصیٰ میں محفل اسراء منعقد ہوئی جس میں تلاوت ہوئی۔ ا س کے بعد نعت خوانی ہوئی اور لیلتہ الاسراء کی برکات بیان کی گئیں۔ علامہ رشید رضا ار سید محمد حسین آل کاشف انعطا نے آیات اسراء کی تفسریں بیان کیں۔ اس محفل کے اختتام پر نماز عشا ادا کی گئی۔ ۔ مسجد اس وقت پوری طرح بھر چکی تھی۔ کئی جماعتیں قتہ الصخرا میں بیٹھی تھیں۔ ان کے علاوہ بے شمار آدمی حرم کی مغربی دیوار کے ساتھ کمروں میں تشریف فرما تھے۔ نماز عشا کے بعد مفتی صاحب نے افتتاحی خطبہ پڑھا۔ آپ نے تمام شرکائے موتمر کا شکریہ ادا کیا۔ انہوںنے مسلمانوں کے اختلاف اور باہمی اتفا ق نہ ہونے کا ذکر کیا۔ موتمر کے انعقاد کا مقصد بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ اس موتمر کے انعقاد کا مقصدیہ ہے کہ ہم کسی امت یا کسی دین پر دراز دستی کرنا نہیں چاہتے ہماری غرض یہ نہیں کہ کسی سے مخاصمت پیدا کریں بلکہ ہم محض یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان یک جان اور ایک آہنگ ہو کر اپنے مصالح کے لیے جدوجہد کریں۔ المسلمون لایریدون الا الخیر لا نفسھم و لجمیع الامم و الشعوب آخر میں آپ نے مقاصد خیر مسلمین کا ان الفاظ میں تعین کیا: ۱۔ مسلمانوں کے اتحا د و تعاون کی سعی۔ ۲۔ انہیں اجتماعی اسلامی فرائض کی طرف متوجہ کرنا۔ ۳۔ ان میں صحیح اسلامی اخوت کا نشوونما ۔ ۴۔ دین اسلام کو عوارض سے بچانا عقائد کو الحاد سے محفوظ رکھنا اور اسلامی کلچر کو شائع کرنا۔ مفتی سید امین الحسینی کی تقریر کے بعد اقبال سید ضیاء الدین طباطبائی ‘ ڈاکٹر عبدالحمید سعید بے‘ استاذ عبدالرحمن عزام‘ علامہ عبدالعزیز الثعالبی اور متعدد دیگر اصحاب نے مختصر تقاریر کیں۔ یہ تقریریںعموماً موتمر کی اہمیت اور داعیان موتمر کی مساعی کے تشکر پر مبنی تھیں۔ ڈاکٹر عبدالحمید سعید بے نے مقام اور وقت کی برکات کو مدنظر رکھتے ہوئے حاضرین سے درخواست کی کہ وہ کھڑے ہو کر اللہ سے عہد کریں کہ وہ اماکن مقدسہ کی حفاظت کے لیے اپنی جان تک قربان کردیں گے۔ تمام حاضرین نے کھڑے ہو کر عہد کیا کہ اور اس کے بعد اللہ اکبر کے ؤپرجوش نعرے بلند کیے۔ یہ منظر بہت پرتاثیر تھا۔ رات کے دس بجے افتتاحی تقریب ختم ہوئی۔ ۷ دسمبر سے موتمر کا باقاعدہ اجلاس شرو ع ہوا۔ پہلے مرحلے پر عہدے داروں کے باقاعدہ انتخاب کے لیے عارضی طور پر صدر اور سیکرٹری کا انتخاب کرنا تھا عہدے داروں کے انتخاب کے لیے عرب کا عام اصول یہ برتا گیا کہ حاضرین میں سے سب سے معمر شخص صدر اورسب سے کم عمر دو سیکرٹری منتخب ہوں۔ موسیٰ کاظم پاشا الحسینی جن کی عمر ستر برسکے لگ بھگ تتھی صدر منتخب ہوئے۔ محمد مکی الناصری مندوب مراکش اور عبدالقادر مذکر مندوب جاوا سیکرٹری بنے ۔ سیکرٹریوں کی عمر بائیس سال تھی۔ سیکرٹری کا عہدہ بہت حد تک اعزازی تھا۔ اس کے فرائض میں یہ داخل تھا کہ وہ بعض ضروری اشیاء کا ریکارڈ اپنے پاس رکھتا۔ صدر کے حکم سے کوئی اعلان یا مبارکبارد ے تار پڑ ھ دیتا لیکن عموماً ان کاموں کے لیے مراقب منتخب کیے جاتے ارو یہی اجلا س کی کارروائی کو آگے بڑھاتے۔ صدر اور سیکرٹری زیادہ تر خاموش بیٹھتے اوربہت کم بولتے تھے۔ اس موقع پر دو عارضی مراقب منتخب ہوئے القدس کے ایک رئیس شیخ عبدالقادر مظفر جو مفتی صاحب کے خاص رفیق کار تھے دوسرے استاذ عزت دروزہ ا س مرحلے کے بعد عہدے داروں کا انتخاب عمل میں آیا۔ مفتی سید امین الحسینی بالاتفاق صدر منتخب ہوئے۔ سید ضیاء الدین طباطبائی (سابق وزیر اعظم ایران) اور سید محمد زبادہ (مندوب امام یمن) بالاتفاق نائب صدر منتخب ہوئے۔ چار اصحاب سکرٹری چنے گئے ۔ عبدالرئوف عرف رئوف پاشا (سیلون) ابراہم بک الواعظ (عراق) استاذ شیخ عبدالقادر مظفر (فلسطین) اور استاذ عزت دروزہ۔ شام کی نوجوانوں کی جماعت کے لیڈر شکری القواتلی اور ریاض بک الصلح مراقب مقرر ہوئے۔ احمد حلمی پاشا جوعثمانیوںکے دور میں حجاز ریلوے کے ناظم تھے۔ اور اس وقت فلسطین کے عربی بنک کے مینجنگ ڈائریکٹر تھے امین مال بنائے گئے۔ محمود آفندی الدجانی نائب امین المال منتخب ہوئے ۔ انتخاب کے بعد تمام عہدے دار اسٹیج پر صدر کے قریب بٹھا دیے گئے اور اگلے مرحلے کا آغاز ہوا۔ موتمر کے انعقاد کے موقع پر دنیائے اسلام کے مختلف حصوں سے خطوط اور تار آئے۔ ان کی تعداد سینکڑوں میں تھی بلکہ ایک مصری اخبارنویس کا کہنا ہے کہ ایک ہزار تار اور مکتوب موتمر کی تائید میں آئے تھے۔ دوران موتمر ہر جلس کے آغاز میں پندرہ منٹ ان مکاتیب اور تاروں کے لیے مخصوص تھے بعض خط پورے پڑھے جاتے تھے اور اکثر سلسلے میں محض مرسل کا نام دیا جاتا۔ یہ مکاتیب اور تار دنیا کے ہر خطے سے آتے تھے ان میں بادشاہوں علماء و فضلا‘ مختلف جماعتوں کے عہدے داروں‘ اور صاحبان جاہ و مرتبہ کے خطوط تھے۔ ان میں سے بعض اشخاص کے ناموں کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ اس لیے ہم یہ نام درج کرتے ہیں: امیر فیصل (عراق) امیر عبداللہ (شرق اردن) سلطان ابن سعود فواد بے حمزہ( وزیر خارجہ نجد و حجاز) یوسف یاسین متشار‘ پرنس عمر طوسون پاشا(مصر) احمد زکی پاشا (مصر) مصطفی نحاس پاشا(رئیس حزب الوفد مصر) ابراہیم نحسی پاشا (رئیس مجلس الشیوخ مصر) جمعتہ الشاریہ وارسا کے مہاجر مسلمان اورال کے مہاجر مسلمان‘ رئیس الوزرا شرق اردن‘ محمد نجاتی بک عضو المجلس الشریعی یعنی رکن الاخوان المسلمین نیویارک شیخ حافظ لطیف خطیب جامع مسجد رومانیہ‘ مسلمانان برلن رئیس مجلس الاعیان (ہائس آف لارڈز) عراق‘ امیر شکیب ارسلان اعلیٰ حضرت نواب صاحب بھوپال‘ امیر امین ارسلان سلطان لحج‘ احسان بک الجابری‘ بوسنیا کے مسلمان فلسطین کے آرتھوڈوکس یہودی‘ مراکش الجزائر اور تونس سے بہت سے خطوط وار تار آئے۔ تمام ضروری مسائل کے ارکان موتمر کے سامنے تھے اور مختلف اصحاب ان پر ۶ دسمبر سے غور کر رہے تھے۔ غور و فکر کے بعدیہ طے پایا کہ بعض ضروری مسائل فوری توجہ کے مستحق تھے لہٰذا مجلس انتخاب مضامین کے علاوہ سات کمیٹیاں مقرر کی جائیں ؤجو خاص خاص مسائل کے متعلق رپورٹیں اور قراردادیں تیار کرے۔ لجنتہ مقرحات صرف عام مسائل کے متعلق قراردادیں مرتب کرے۔ ان سات کمیٹیوں کے نام درج ذیل ہیں: ۱۔ لجنتہ سکتہ الحدید الحجاز یعنی حجاز ریلوے کمیٹی۔ ۲۔ لجنتہ الدعا یتہ والشر۔ پروپیگنڈا کمیٹی (عام اشاعت) ۳۔ لجنتہ الدعوۃ والارشاد یعنی تبلیغ دین کمیٹی۔ ۴۔ لجنتہ الجامعتہ مسجد الاقصیٰ ۵۔ لجنتہ الاماکن المقدسہ والبراق شریف۔ ۶۔ لجنتہ القانون الاساسی ۷۔ لجنتہ المالیات ان کمیٹیوں کے ارکان کے انتخاب کے لیے مولانا شوکت علی کی تجویز پر عمل درآمد کیا گیا۔ انہوںنے تجویز پیش کی کہ پہلے تو مندوبین موتمر آپس میں مشورہ کریں کہ کن کمیٹیوں میں شرکت کرنا پسند کریں گے۔ اس کے بعد ہر مندوب ایک کاغذ پر لکھ دے کہ وہ فلاں فلاں کمیٹی میں کام کرے گا۔ اس طرح وقت بھی بچے گا اور کام میں بھی سہولت رہے گی۔ چنانچہ اس تجویز پر عمل کیا گیا اورایک گھنٹے میں کمیٹیاں مرتب ہو گئیں۔ بعض اصحاب نے تین تین چار چار کمیٹیوں کی رکنیت قبول کی اور بعض نے ایک یا دو کمیٹیوں پر اکتفا کیا۔ بعد ازاں جس کمیٹی کا کام ختم ہو جاتا وہ اپنی رپورٹ صدر کے سامنے پیش کر دیتی اور صدر کانفرنس کے سامنے اسے بغرض منظوری پیش کر دیتا(۱۰)۔ حجا ز ریلوے کمیٹی سب سے پہلے حجاز ریلوے کمیٹی نے اپنا کام ختم کیا اور اپنی رپورٹ پیش کی رپورٹ کے ساتھ دو نہایت اہم دستاویزات شامل تھیں جنہیں موتمر کے اجلاس میں پڑھا گیا۔ اول حجاز ریلوے کے متعلق احمد حلمی پاشا کی مرتب کردہ مفصل رپورٹ دوم امیر سعید الجزائری الدمشقی کا مرتب کردہ بیا ن تھال امیر سعید امیر عبدالقادر الجزائری مرحوم کے پوتے تھے۔ آپ کا قیام دمشق میں تھا اروہاں حجا ز ریلوے کی حفاظت کے لیے جو کمیٹی بنی تھی آپ اس کے صدر تھے۔ انہوںنے یہ بیان اس کمیٹی کی جانب سے ترتیب دیا تھا۔ مختلف کاغذات کے عکس کے ذریعے یہ ثابت کیا تھا کہ ھجاز ریلوے (۱۱) وقف اسلامی تھی۔ تمام رپورٹ سن لینے کے بعد موتمر نے طے کیا کہ حجاز ریلوے مسلمانوں کے روپے سے بغرض تسہہل فریضۃ حج بنی تھی اوریہ وقف اسلامی تھی جسے مسلمانوں کے قبضے میں رہنا چاہیے۔ موتمر کی ایگزیکٹو کونسل کا اختیار دیا گیا کہ وہ اس وقف کو مختلف حکومتوں کے قبضے سے نکال کر مسلمانان عالم کی ایک معتمد علیہ مجلس کی تحویل میں لانے کی تدابیر اختیار کرے اور ساری ریلوے یک جا رہے۔ موتمر کا ہر رکن اس کے لیے بڑی سے بڑی قربانی کے لیے آمادہ تھا۔ بالخصوص شامی مسلمانوں کا جذبہ بے مثال تھا۔ شام کے مسیحی بھی حجاز ریلوے کی واپسی میں عرب مسلمانوں کے ہم نوا تھے (۱۲) حجاز ریلوے لائن ۱۹۰۹ء کلومیٹر لمبی تھی۔ ارو اس کی تعمیر پر ۵۰۱۲۸۵۰ پونڈ صرف ہوئے تھے۔ ۱۹۳۱ء تک حکومت فرانس شاامی سرحد کے اندر ریلوے کا حساب کتاب الگ رکھتی تھی اس کا روپیہ بھی بنک میں محفوظ تھا۔ حکومت فرانس ریلوے کی واپسی کے لیے بھی رضامند تھی۔ ایسٹرن ٹائمز کے نامہ نگار نے حجاز ریلوے کمیٹی کی کارروائی کے بارے میں لکھا تھا کانفرنس کی مقرر کردہ کمیٹی نے جس میں تقریباً تمام اسلامی ممالک کے نمائندے شامل ہیں دمشق سے لے کر مدینہ منورہ تک حجاز ریلوے کے متعلق تمام کام اپنے ذمہ لے لیا تھا اور اس ریلوے کو ایک مسلم ٹرسٹ کے سپرد کرنے کا فیصلہ کر دیا گیا ہے۔ جب اس کے متعلق کانفرنس میں متفقہ طور پر قرار داد منظور ہوئی تو بہت جوش و خروش کا اظہار کیا گیا (۱۳) جامعہ مسجد اقصیٰ اس رپورٹ کے بعد جامعہ اسلامیہ مسجد اقصیٰ کی کمیٹی کی رپورٹ پیش ہوئی اس کا خلاصہ یہ تھا کہ بیت المقدس میں تعلیم ثانوی کے لیے ایک ایسی یونیورسٹی قائم کی جائے جو مسلمانوں کو غیر مسلم یونیورسٹیوں سے بے نیاز کر دے۔ اس یونیورسٹی کا قیام دومرحلوں میں ہونا تھا۔ اول یونیورسٹی کی تاسیس کے لیے اسباب کی فراہمی دوم ترتیب نصاب کمیٹی۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ موتمر اسلامی کو سب سے پہلے تاسیس جامعہ کے اسباب کی فراہمی پرتوجہ دینی چاہیے مثلاً روپے کا بندوبست جس سے کافی زمین خریدی جا سکے عمارت کی تعمیر ہو سکے اور بعد ازاں یونی ورسٹی کے مصارف کی کفالت کا بندوبست ہو سکے اس مقصد کے لیے طے پایا کہ ماہر فن اصحاب کی کمیٹی مصارف کا صحیح تخمینہ پیش کرے۔ موتمر کے آئندہ اجلاس میں یونیورسٹی کے دوسرے شعبے یعنی ترتیب نصاب کا بندوبست کیا جائے گا۔ اگر مجلس ارباب فن آئندہ موتمر کے انعقاد سے قبل اپنا کام ختم کر ڈالے تو ایگزیکٹیو کونسل کو اختیار ہو گا کہ وہ عالم اسلام کے ماہرین تعلی کی امداد سے یونیورسٹی کے تعلیمی نصاب کابندوبست کرے۔ بحث کے بعد یہ قرار داد بھی منظور ہو گئی۔ اقبال نے اس زمانے کے حالات کے پیش نظر قدیم طرز کی یونیورسٹی کی مخالفت کی تھی جس میں جامعہ الازہر کی مانند صرف اسلامی موضوعات کی تعلیم دی جائے۔ بعض حضرات یہ چاہتے تھے کہ جامعہ ازہر کی طرز کی یورنیوسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے لیکن اقبال نے ایسی جامعہ کی سفارش کی جس می ںدینی و دنیاوی علوم کی دو جدید کے تقاضوں کے مطابق تعلیم دی جا سکے۔ اقبال نے یونیورسٹی کے قیام کی تجویز کو عملی طور پر محل نظر قرار دیا تھا۔ اس دور کے حالات کو دیکھتے ہوئے مسلمانان عالم سے تعاون کی توقع عبث تھی۔ پھر آپ کے نزدیک بیت المقدس اس مرکزیت کا حامل نہ تھا۔ جیسی مرکزیت قاہرہ تہران دمشق اور مدینہ منورہ کو حاصل تھی۔ القدس میں صیہونی خطرہ بھی اس شہر مقدس کے سکون کو غارت کر سکتا تھا۔ غرض یہ چند باتیں تھیں جن کے پیش نظر اقبال نے اختلاف رائے کیا تھا لیکن آپ نے اپنی بات پر اصرار نہ کیا اور بحث کی بعد اپنے موقف سے رجوع کر لیا۔ بعد ازاں جب مفتی امین الحسینی اور محمد علی پاشا القدس میں یونیورسٹی کے قیام کی خاطر چندے کے حصول کے لیے ہندوستان تشریف لائے تو اقبال نے ان حضرات ی بھرپور مدد کی تھی۔ ایسٹرن ٹائمز کے نامہ نگار نے لکھا تھا دوسرا مسئلہ جس پر بہت زیادہ بحث و تمحیص ہوئی تھی یروشلم میں ایک جامعہ اسلامیہ کے قیام کا فیصلہ تھا۔ متعد د مقررین نے اسلامی تہذیب و تمدن کے مرکز کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ لیکن بعض مثلاً الشیخ سر محمد اقبال جو لندن کانفرنس کے خاتمہ پر موتمر اسلامی میں شرکت کرنے کے لیے تشریف لائے ہیں حجاز ریلوے کے متعلق قراردادسے تو بہت متاثر ہوئے لیکن یروشلم میں یونیورسٹی کے قیام کے متعلق انہوںنے اختلاف رائے کیا۔ آپ نے فرمایا میں اس جذبہ کی تعریف کرتا ہوں جو اس تجویز کی تہہ میں کارفرما ہے۔ لیکن مجھے شک ہے کہ آیا یہ تجویز عملی طور پر ممکن بھی ہے یا نہیں (۱۴) ’’انقلاب‘‘ میں اقبال کے اختلاف رائے کے بارے میں لکھا تھا موتمر اسلامی نے یروشلم میں مسلم یونیورسٹی قائم کرنے کی تجویزمنظور کر لی ہے علامہ سر محمد اقبال کاخیال تھا کہ ا س مقصد کے لیے یروشلم موزوںمقام نہیں اور نہ موجودہ موقع اس بات کے لیے مناسب ہے (۱۵) جدید عربی لغت محمد علی پاشا نے ایک طویل تقریر میںعربی کی جدید جامع لغت کی تیار ی کا مسئلہ پیش کیا اان کی تجاویز کا خلاصہ یہ تھا۔ ۱۔ جدید اصلوں پر عربی کی جامع لغت کی تیاری۔ ۲۔ تمام عرب اقوام اور اسلامی ممالک اس کی تیاری میں حصہ لیں۔ ۳۔ اس کا مرکز مصرمیں ہو۔ ۴۔ تمام اقوام اسلامیہ اس کے مصارف کا بندوبست کریں جب تخمینی مصارفکا نصب حصہ جمع ہوجائے تو کام شروع کر دیا جائے۔ ۵۔ تیاری کے بعد لغت ایک کمیٹی کے حوالے کر دی جائے جو اس کی اشاعت کا انتظام کرے اور اس کی اشاعت سے جو رقم بچے اسے مفید عربی کتب بالخصوص قدیم عربی تصانیف کی اشاعت پر صرف کیاجائے۔ موتمر نے محمد علی پاشا کی ان تجاویز سے اتفاق کیا۔ آ پ نے جامعہ اسلامیہ کے مسئلے پر بحث کے دوران میں زمانہ حاضرہ کی عربی زبان کی ایک لغت مرتب کرانے کی اہمیت پر زور دیا تھا اور فرمایا کہ یہ ہمارے احیاء کی تکمیلی پتھر ثابت ہو گی… یہ زبان ادبی اور تعلیمی لحاظ سے بہت وسیع ہے لیکن اس میں جدید زمانہ کی اصطلاحات نہیں ملتیں۔ اس قسم کی علمی مساعی کے لیے مصر بہترین مرکز ثابت ہو گا (۱۶)۔ مالی کمیٹی کی تجاویز اس کمیٹی کی تجاویز کا ملخص یہ تھا کہ : ۱۔ موتمر کی ایگزیکٹو کونسل کے مختلف مقامات کے معتمد علیہ اصحاب کو جمع مال کے لیے مقرر کرے۔ ایک خاص کمیٹی مال کا پروگرام ترتیب دے اس پر عمل کرائے اور اس کام کی نگرانی کرتی رہے کمیٹی تمام مسلمان بادشاہوں امیروں اور اصحاب ثروت سے جمع مال کے سلسلے میں رابطہ قائم کرے گی جو لوگ بڑی بڑی رقمیں دیں گے انہیں حامیان مسجد اقصیٰ کا لقب دیا جائے گا۔ ان کے نام تختیوں ر کندہ کر کے مسجد اقصیٰ میں لگا دیے جائیں گے۔ ۲۔ سالانہ چنوں کی وصولی کے لیے تمام بلاد اسلامیہ میں کمیٹیاں بنائی جائیں کم از کم چندہ دس ملات فلسطینی (تقریباً دو شلنگ) ہو۔ ۳۔ مسلمانوں کو اموال زکوۃ کا خاص حصہ موتمر کو دینے کی طرف متوجہ کیا جائے۔ باقی تجاویز رقم کے محاسبے رسائد اور جمع و خرچ کی نسبت موقت بیانات کی اشاعت سے تعلق رکھتی تھیں۔ لجنبہ المالیہ کی تجاویز بہت خوب بحث ہوئی۔ بعض اصحاب نے جمع مال کی مختلف تجاویز پیش کیں۔ مثلاً زکوۃ کا پانچواں حصہ موتمرکے لیی وصول کیاجائے نکاح وراثت بدوں کی پیدائش کے مواقع پر کچھ رقم ہر شخص سے وصول کی جائے۔ حاجیوں سے جو محاصل وصول کیے جاتے تھے ان کا ایک حص موتمر کے لیے مخصوص کیا جائے۔ حجاج سے استدعا کی جائے کہ وہ کچھ روپیہ موتمر کو بھی دیں۔ بعض حضرات نے اس موقع پر رقمیں بھی پیش کیں۔ مثلاً محمود بک السالم نے سو پونڈ نقد دیا اور بارہ پونڈ سالانہ دینے پر آمادگی کا اطہار کیا۔ متعدد فلسطینیوں نے بھی عطیات دینے کا اعلان کیا۔ ایک حجا نے ساٹھ پونڈ جامعہ اسلامیہ کے لیے دیے۔ امیر سعید الجزائری نے اعلان کیا کہ وہ ایک سنہری گھڑی دینے کے لیے تیار ہیں یہ گھڑی ان کے والدکو سلطان رشاد محمد خان خامس نے جہاد طرابلس میں شرکت کرنے پر عطا کی تھی۔ اس سلطان مرحوم کا نام کندہ تھا۔ انہوںنے فرمایا کہ موتمر کو چاہیے کہ وہ اس گھڑی کو سلاطین اسلامیہ کی خدمت میں پیش کرے جو شخص سلطان مرحوم کے اس تحفے کی زیادہ سے زیادہ قیمت ادا کرے اسے گھڑی دے دی جائے۔ میں خود اس کے بدلے میں سو پونڈ دینے کے لیے تیار ہوں۔ جو شخص اس سے زیادہ دے گا گھڑی اس کے حوالے کر دی جائے گی۔ حاضرین نے ان تمام عطیات کا پرجوش خیر مقدم کیا۔ پروپیگنڈہ کمیٹی کی تجاویز لجنتہ الدعا یتہ والشر کی طرف سے مندرجہ ذیل تجاویز پیش ہوئیں۔ ۱۔ مقاصد موتمر کی اشاعت کے لیے فلسطین میں ایک ہئیت انتظامیہ بنائی جائے یہ کمیٹی اراکین موتمر کی مددسے ہر مقام پر نشر و اشاعت کی کمیٹیاں بنائے۔ ۲۔ ان مقاصد کی اشاعت کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کیے جائیں۔ (ا) عربی اور دوسری زبانوں میں حسب ضرورت و استطاعت موقت الشیوع رسائل کاانتظام۔ (ب) لیکچروںکا بندوبست ۔ (ج) کتابوں کی تالیف یا اخبارات میں مضامین کی اشاعت۔ (د) مدارس کی ترتیب اور احکام اسلامی کی نگہداشت کے ساتھ ڈرامہ سینما اور تقاریر کے ذریعے مقاصد کی اشاعت۔ مجلس اماکن مقدسہ کی قراردادیں لجنگہ الاماکن المقدس کی تجاویز موتمر کے نویں جلسے میں پیش ہوئیں یہ تجاویز درج ذیل ہیں: ۱۔ یہود کے مال کا بائیکاٹ کیا جائے۔ ۲۔ فلسطین ایک زرعی بنک کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ فلسطینی مسلمان گراں بار قرضوں سے نجات حاصل کر سکیں اور صیہونی ہتھکنڈوں اور سازشوں کا شکار نہ ہو سکیں۔ ۳۔ مسلمانان عالم کو فلسطین میں صیہونی خطرے کی شدت سے آگاہ کیاجائے۔ ۴۔ دیوار گریہ کمیشن نے جو تجاویز پیش کی تھیں ان کی مخالفت کی جائے(۱۷) نیز فلسطین میںآمد یہہود کی مخالفت کی جائے اور براق شریف کی حفاظت پر زور دیا جائے ۔ بقیہ جلسوں میں لجنتہ الدعوہ والارشاد اور لجنتہ القانون الاساسی کی قراردادوں پر بحث ہوئی تھی لیکن اقبال اور مہر ۱۵ دسمبر ۱۹۳۱ء کو فلسطین سے روانہ ہو گئے تھے اس لیے ان جلسوں میں شریک نہ ہو سکے۔ اس کے علاوہ موتمر میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ تمام اسلامی ملکوں میں وائی ایم سی اے کی طرح ینگ منز مسلم ایسوسی ایشن قائم کی جائے (۱۸)۔ موتمر اسلامی میں عالم اسلام کے مسائل بھی زیر بحث آئے تھے اس وقت بیشتر مسلم ممالک پر سامراجی قوتوں کا قبضہ تھا۔ چند ممالک اگر آذاد تھی تھے تو وہ اپنے مسائل میں اس قدر الجھے ہوئے تھے کہ اپنے مظلوم و مقہور مسلمان بھائیوں کی مدد سے قاصر تھے اس موتمر میں ان مسلمانوں کے مسائل زیر بحث آئیء عالم اسلام کے نمائندوں کو مسائل کی سنگینی کا احساس ہوا اور انہوںنے باہم مل کر ان مسائل کے حل کی تدابیر پر غور کیا۔ روس میں اس وقت تین کروڑ مسلمان تھے۔ روس میں اشتراکی انقلاب کے بعد مسلمان گوناگوںمصائب کا شکار تھے۔ ان کی بستیوں کا صفایا کیا جا رہاتھا۔ اسلامی تہذیب و تمدن کے نقوش کو مٹایا جا رہا تھا۔ علما صوفیہ اور اہل کمال حضرات اشتراکی انقلاب کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیے گئے مسجدوں میں تالے ڈال دیے گئے اور بے شمار دینی مدرسے بند کیے جا چکے تھے۔ روسی مسلمانوں کو مختلف قومیتوں میں تقسیم کر کے ان کی وحدت پارہ پارہ کر دی گئی تھی۔ ان پر جبراً اشتراکی قوانین نافذ کیے جا رہے تھے اور مذہب کو ختم کر کے دہریت کو رائج کیا جا رہا تھا۔ موتمر کے اجلاس میں وسط ایشیا کے مسلمانوں کے دہریت کو رائج کیا جا رہا تھا۔ موتمر کے اجالس میں وسط ایشیا کے مسلمان نمائندوں موسی ٰ جار اللہ عیاض اسحاقی اور سعید شامل بے نے روسی مظالم کی تفصیلات بتائیں ۱۹۰) کچھ مدت قبل اطالویوں نے عمر المختار کو شہید کر دیاتھا۔ مصری مندوب عبدالرحمن عزام نے موتمر کے سامنے لیبیا میں اطالویوں کے مظالم کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور موتمر کوان مظالم کے خلاف موثر احتجاج کے لیے آمادہ کیا۔موتمر کے تمام فیصلوں میں آپ کی رائے خاص اہمیت کی حامل تھی۔ (۲۰) مصر کے نمائندوں نے طرابلس میں اطالویوں کے عربوں پر مظالم کے خلاف تقریریں کیں اورپمفلٹ چھاپ کر بانٹے۔ مغرب اقصیٰ کے مندوبین نے فرانسیسیوں کے مظالم کے متعلق چھوٹے چھوٹے رسائل طبع کرا کے رفقامیں تقسیم کیے اور فرانسیسی استعمار کے خلاف تقریریں کیں (۲۱)۔ ایسٹرن ٹائمز کے نامہ نگار خصوصی نے موتمر اسلامی کے بارے میں لکھا کہ یروشلم کانفرنس کی ناکامی کے متعلق تمام خطرات بے بنیاد ثابت ہوئے ار میں یہ بات کہنے کے قابل ہوں کہ مومتر عالم اسلام کامیاب رہی اور اس ضمن میں بعض یورپین پریس ایجنسیوں کی اطلاعات غلط ہیں۔موتمر مشرق قریب کی بہت سی جماعتوں کو بیدار کرنے کا باعث ہوئی ہے۔ یہ حقیقت کانفرنس کے مندوبین کی تقریروں سے بخوبی واضح ہے۔ شرکائے کانفرنس کے علاوہ فلسطین کے عیسائیوں اور یہودیوں نے بھی یہودی تارکان وطن اورصیہونیوں کے پروپیگنڈے کی جو وہ موتمر کو ناکام بنانے کی غرض سے کرتے رہے سخت مذمت کی ہے۔ انہوںنے دنیا کے سامنے کانفرنس کے بانیوں کو ذلیل کرنے کے لیے شرمناک دروغ بافیوں سے کام لیا۔ لیکن وہ اپنی مذموم کوششوں میں بری طرح ناکام رہے اور کانفرنس میں ہر مندوب اور مقرر نے صیہونیوں کی فتنہ پردازی کی مذمت کی ہے۔ ایسٹرن ٹائمز کے نمائندے نے اقبال سے ملاقات کا حال بیان کیا تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ میں نے علامہ موصوف سے بذات خود ملاقات کی۔ آپ زبان عربی سے بخوبی واقف ہیں اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے ایرانی فلسفہ اور ایرانی شاعری پر اہم کتابیں لکھی ہیں اس جذبہ اسلامی کا جو آپ کے دل میں موجزن ہے مجھ پر بہت اثر ہوا ہے۔ اور اسلام کی ارتقائی اور مصلحانہ قوتوں پر آپ کے خیالات تقویت اسلامی کا باعث ہوئے علامہ نے فرمایا کہ اسلام تمام عالم کے لیے آخری پناہ ثابت ہو گا اور جس قدر جلدی مغرب کے مہذب ممالک اس حقیقت کو تسلیم کر لیں اتنا ہی ان کے اور مشرق کے حق میں بہتر ہو گا۔ اقبا ل نے رائٹر کے نمائندے سے ملاقات کے دوران فرمایا تھا۔ موتمر اسلامی کو بے حد کامیابی حاصل ہوئی ہے (۲۲) روانگی سے قبل اقبال نے ۱۴ دسمبر کی شام کو نہایت موثر خطبہ ارشاد فر مایا آپ کی تقریر انگریزی میں تھی اور استاذ عبدالرحمن عزام عربی میں ساتھ ساتھ ترجمہ کرتے جاتے تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’افسوس میں موتمر کے اختتام تک نہیں ٹھہر سکتا اور اس کا بھی افسوس ہے کہ عربی زبان بولنے پر پوری قدرت نہ ہونے کے باعث میں مباحث میں بھی زیادہ حصہ نہ لیتا رہا۔ میری آرزو ہے کہ ایک مرتبہ پھر مقامات مقدسہ اسلامیہ اور فلسطین کی زیارت کروں جو انبیاء کی سرزمین ہے۔ میں آپ لوگوں کو ا س روح اخوت اور مودت پر مبارکباد دیتا ہوں جس کا مظاہرہ مسلسل ہوتا رہا ہم پر واجب ہے کہ اپنے نوجوانوں کو سلامتی کی راہ پر چلائیں۔ اسلام کو اس وقت دو طرف سے خطرہ ہے۔ ایک الحاد مادی کی طرف سے اور دوسری وطنی قومیت کی طرف سے۔ ہمارا فرض ہے کہ ان دونوں خطروں کا مقابلہ کریں اور میرا یقین ہے کہ اسلام کی روح ظاہر ان دونوں خطرات کو شکست دے سکتی ہے۔ وطنی قومیت یا وطنیت بجائے خود بری چیز نہیں۔ لیکن اگراس میں خاص اعتدال کو ملحوظ نہ رکھا جائے ۔ اور افراط و تفریط پیدا ہوجائے تو اس میں بھی دہریت اور مادہ پرستی پیدا کر دینے کے امکانات موجودہیں۔ میں آپ کو نصیحت کرتاہوں کہ آپ دل سے مسلمان بنیں۔ مجھے اسلام کے دشمنوںسے اندیشہ نہیں ہے لیکن خود مسلمانوں سے مجھے اندیشہ ہے۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک نہایت پیاری حدیث یاد آئی ہے آپ فرماتے ہیں: انا حظکم من الانبیاء و انتم حظی من الامم میں توجب کبھی سوچتا ہوں شرم و ندامت سے میری گردن جھک جاتی ہے۔ کہ کیا ہم مسلمان آج اس قابل ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم پر فخر کریں؟ جب ہم اس نور کواپنے دلوں میں زندہ کر لیں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم میں داخل کیا تھا تو اس وقت اس قابل ہو سکیں گے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم پر فخر کریں۔ موتمر کی ذمہ دار ی بہت بڑ ی ہے۔ اس کے سامنے اہم کام ہیں۔ خاص طور پر حجاز ریلوے کی واپسی اور جامعہ اسلامیہ کا قیام لیکن اگر ہم اسلام و اخوت کی سچی روح سے معمور ہو کر کام کریں گے تو اپنے مقاصد حاصل کر لیں گے۔ اپنے وطنوں کو واپس جائو تو روح اخوت کو ہر جگہ پھیلا دو اور اپنے نوجوانوں پر خاص توجہ دو ہمارا مستقبل انہیں کی مساعی پر موقوف ہے۔ میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ عرب نوجوانوں میں میں نے وہ روح دیکھی ہے جو اٹلی کے نوجوانوں کے سوا کہیں نہیں دیکھی۔ عرب نوجوان بلندی مرتبت کی روح صادق سے معمور ہیں۔ میرا عقیدہ ہے کہ اسلام کا مستقبل عرب کے مستقبل کے ساتھ وابستہ ہے۔ اور عرب کا مستقبل عرب کی وحدت پر موقوف ہے۔ جب عرب متحد ہو جائیں گے تواسلام کامیا ب ہو جائے گا۔ ہم سب پر واجب ہے کہ اس باب میں اپنی ساری قوتیں صرف کریں اور اللہ تعالیٰ ہمیں کامیابی عطا کرے ۔ آپ کی تقریر کے دوران بار بار تالیاں بجائی گئیں اور نعرہ تکبیر بلند کیا گیا ۔ آخر میں ریاض بک الصلح نے کہا کہ ان کا پیغام عربی نوجوانوں کے دلوں پر نقش رہے گا اور ہم ہر جگہ اس پیغا م کو پہنچائیں گے۔ آ نے ہندوستان کے دیگر مندوبین کا بھی شکریہ ادا کیا۔ مفتی سید امین الحسینی اور بعض دیگر اکابر روضتہ المعارف کے دروازے تک اقبال کو رخصت کرنے کے لیے آئے۔ (۲۳) اقبال نے مختلف مواقع پر سفر فلسطین کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کیے تھے ۱۱ جون ۱۹۳۲ء کو جلسہ باغ بیرون موچی دروازہ زیر اہتمام مسلم انسٹی ٹیوٹ منعقد ہوا تھا۔ جس میں آپ نے فرمایا۔ فلسطین کی موتمر اسلامی میں میںنے دیکھا کہ وہاں کے نوجوان مقررین کی ڈاڑھیاں منڈھی ہوئی تھیں اور وہ کوٹ پتلون میں ملبوس نظر آ رہے تھے انہیں علم و فضل اور جوش و عمل کے اعتبار سے علمائے کرام پر فوقیت حاصل تھی۔ (۲۴) اقبال جب سفر سے واپس تشریف لائے تو یکم جنوری ۱۹۳۲ء کو لاہور کے انگریزی اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ میںآپ کا اپنا بیان شائع ہوا تھا۔ اس بیان میں آپ نے موتمر اسلامی کے بارے میں فرمایا مقامی جماعتی اختلافات کے باوجود موتمر شاندار طریق سے کامیاب رہی۔ اس عظیم الشان اجتماع میں اکثر اسلامی ممالک کے نمائندے شریک ہوئے اور اسلامی اخوت اور ممالک اسلامیہ کی آزادی کے مسائل پر مندوبین نے بے حد جوش و خروش کا اظہار کیا۔ عرب پیدائشی مقرر ہیں غالباًیہ ان کی زبان کی خصوصیت ہے کہ وہ ایسے واقع ہوئے ہیں۔ میں بہت سے سب کمیٹیوں کا رکن تھا جو بعض تجاویز پر بحث کرنے کے لیے مقرر کی گئی تھیں لیکن بدقسمتی سے میں ان سب میں شرکت نہ کر سکا۔ ایک سب کمیٹی میں میں نے یروشلم میں قاہرہ کی قدیم اورپسماندہ جامعہ ازہر کی طرز پر ایک یونیورسٹی کے قیام کی مخالفت ی تھی اور زور دیا تھا کہ مجوزہ یونی ورسٹی کا ملاً جدید انداز کی ہو۔ مجھے علم نہیںکہ یہ غلط فہمی کیسے ہوئی جس نے اس افواہ کو جنم دیا کہ میں یروشلم میں کسی بھی نوعیت کی یوینورسٹی کا مخالف ہوں۔ رائٹر نے ایک تار بھیجا تھا جس میں یہ تاثر تھا کہ درحقیقت میری پرزور خواہش ہے کہ عرب ممالک میں ایک کے بجائے کئی یونیورسٹیاں قائم ہوں جو علوم جدیدہ کو عربی میں منتقل کریں جو واحد غیر یورپی زبنا ہے جس نے دور جدید میں ترقی فکر کا ساتھ دیا ہے ۔ (۲۵) موتمر اسلامی کے انعقاد کے تین ماہ بعد اس کے فیصلوں کو عمل میں لانے کے لیے ایک مجلس تنفیذیہ یعنی ایگزیکٹیو کمیٹی منتخب ہوئی۔ یہ تمام ارکان القدس کی موتمر میں شریک ہوئے تھے۔ ان کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔ ہندوستان: علامہ سر محمد اقبال‘ مولانا شوکت علی ‘ مولانا شفیع دائودی ‘ مولانا مہر مصر: عبدالرحمن عزام بک سابق ممبر پارلیمنٹ ‘ علامہ سید رشید رضا مدیر المنار محمد علی علوبہ پاشا سابق وزیر اوقاف۔ فلسطین: الحاج توفیق آفندی ؤحماد سابق ممبر پارلیمنٹ (دولت عثمانیہ) و رکن وفد عربی وفلسطین ‘ جناب عونی بک عبدالھادی المحامی معتمد مجلس تنقیذیہ عربیہ ورکن وفد عربیہ و فلسطین۔ عراق: سعید بک ثابت سیکرٹری شرکت اقطان عراق‘ شیخ عبدالقادر آفندی المظفر رکن مجلس تنقیذیہ عربیہ‘ محمد حسین آل کاشف الغطا مجتہد شیعیان عراق۔ شرق اردن۔ سلیمان پاشا‘مندوب۔ ایران : سید ضیاء الدین طباطبائی سابق رئیس الوزرا و وزیر داخلہ ایران ۔ شام: شکری القواتلی مندوب مجلس وطنیہ دمچق‘ صلاح الدین بک (ایگریکلچر انجینئر) نائب صدر مجلس اسلامی بیروت‘ امیر سعید الجزائری نبیرہ عبدالقادر الجزائری‘ صدر مجلس دفاع حجاز ریلوے۔ طرابلس: استاذ بشیر بک سعدادی صدر مجلس تنفیذیہ طرابلس‘ برقاویہ ۔ قفقاز: امیر سعید شامل رئیس دفاع ملی قفقاز شمالی۔ تونس: علامہ عبدالعزیز الشعالبی۔ (زعیم تیونس) یمن: علامہ شیخ محمد الدین محمد زبادہ ‘ امیر قصر سعید و مندوب امام یمن۔ ترکستان: عیاض اسحاقی مالک اخبار ملی یول یوگوسلاویہ: شیخ عالم آفندی مفیح رئیس العلما بوسنہ۔ جاوا: عبدالقادر المذکر ۔ مندوب جاوا و انڈیز۔ اس مجلس تنفیذیہ کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ موتمر اسلامی کی منظور شدہ قراردادوں اور اس کے مقاصد کو مختلف ارکا ن اپنے اپنے دائرہ اثر میں پورا کریں۔ ان لوگوں کی اجتماعی کوششوں سے عالم اسلام میںمرکزیت پیدا ہو۔ عالم اسلام کو درپیش مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے اور مسلمانان عالم کے درمیان اس پلیٹ فارم کے ذریعے باہمی اخوت بڑھے۔ محمد علی علوبہ پاشا اورسید ضیاء الدین طباطبائی مومتر کے ختم ہونے کے بعد بیت المقدس میںمقیم تھے اور موتمر کے مقاصد مثلاً جامع اسلامیہ کا قیام اور صیہونیت کے زہر کے اند مال کے لیے مفتی صاحب کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔ (۲۶) ٭٭٭ حواشی ۱۔ انقلاب۔ جلد ۶ ۔ نمبر ۱۶۹۔ شنبہ۔ ۱۲ دسمبر ۱۹۳۱ء ۔ اداریہ۔ ۲۔ یہ روایت مولانا مہر نے ایک ملاقات کے دوران راقم الحروف سے بیان کی تھی۔ ۳۔ مکتوب مہر۔ انقلاب۔ جلد ۶ ۔ نمبر ۲۰۲۔ جمعہ۔ ۲۲ جنوری ۱۹۳۲ء ۴۔ انقلاب ۔ اداریہ۔ جلد ۶۔ نمبر ۲۴۶۔ جمعہ ۔ ۱۸ مارچ ۱۹۳۲ئ۔ ۵۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر ۱۶۸۔ جمعہ ۔ ۱۱دسمبر ۱۹۳۱ئ۔ انقلاب اداریہ جلد ۶۔ نمبر ۱۶۹۔ شنبہ ۱۲ دسمبر ۱۹۳۱ء ۶۔ انقلاب ۔ جلد ۶ ۔ نمبر ۱۵۴۔ سہ شنبہ ۔ ۲۴ نومبر ۱۹۳۱ء ۷۔ انقلاب۔ اداریہ۔ جلد ۶۔ نمبر ۱۷۴۔ جمعہ ۔ ۱۸ دسمبر ۱۹۳۱ء ۸ ۔ مکتوب مہر۔ انقلاب۔ جلد ۶ ۔ نمبر ۱۹۶۔ جمعہ ۔ ۱۵ جنوری ۱۹۳۲ء ۹۔ انقلاب ۔ جد ۶۔ نمبر ۱۷۱۔ سہ شنبہ ۱۵ دسمبر ۱۹۳۱ئ۔ ۱۰۔ مکتوب مہر۔ انقلاب۔ جلد ۶ نمبر ۲۰۲۔ جمعہ ۔ ۲۲ جنوری ۱۹۳۲ئ۔ ۱۱۔ حجاز ریلوے کا منصوبہ سلطان عبدالحمید نے ۱۹۰۰ء کے لگ بھگ تیار کیا تھا۔ نہر سویز پر برطانوی عمل داری کے بعد ترکوں کے لیے اس کی آبی گزرگاہ سے آزادانہ استفادہ ممکن نہ رہا تھا۔ حجاز ریلوے کی تکمیل کے بعد عرب دنیا کا نظم و نسق مستحکم ہو جاتا اور اقتصائے خلافت کے مختلف صوبوں کے درمیان رابطہ مضبوط ہوتا مزید یہ کہ حج کے سفر کی دقتیں بھی کم ہو جاتیں۔ سلطان عبدالحمید نے دنیائے اسلام سے تعاون کی اپیل کی تھی۔ ہندوستانی مسلمانوں نے اس منصوبے کی تکمیل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ہندوستان سے زیادہ تر روپیہ مولوی انشاء اللہ خاں مدیر وطن کے توسط سے بھیجا گیا۔ مولوی صاحب اقبال کے دوستوں میں سے تھے۔ ۱۹۰۴ء تک حجاز ریلوے کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا اور ریولے لائن معان تک جاری ہو گئی۔ ۱۹۰۸ء تک ریل مدینہ منوری تک پہنچ گئی آگے کام جاری تھا کہ شریف حسین والی حسین مکہ نے عربوں کو اکسا کر ریلوے لائن مکمل نہ کرنے دی اورمکہ اور مدینہ کے درمیان رابطہ نہ قائم ہو سکا۔ ۱۹۱۶ئ۔ میں شریف حسین نے بغاوت کے دوران اپنے بیٹے امیر فیصل اور کرنل لارنس کی مدد سے مدینہ کے شمال میں ریل کی پٹری اکھڑوا دی تاکہ ترک فوج کو کمک اور رسد نہ مل سکے ۔ ۱۹۳۱ء میں مسلمانوں کی خواہش تھی کہ یہ ریل کم از کم مدینہ منورہ تک دوباری جاری ہو جائے تاکہ زائرین حج اس سے مستفید ہو سکیں اورغلہ اور دیگر اجناس بہ آسانی حجاز تک پہنچائی جا سکیں۔ ۱۲۔ شامی عیسائیوں نے اعلان کیا تھا کہ یہ مسئلہ جس (طرح ) اسلامی ہے اسی طرح وطنی بھ اور اسی نقطہ نگاہ سے ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کی تائید کریں۔ انہوں نے تجویز پیش کی تھی کہ اس اسلامی دفاعی کمیٹی میں ایک عیسائی نمائندے کو شریک کیا جائے تاکہ وہ عیسائی نقطہ نظر سے حجاز ریلو کی واپسی میں اعانت کرے۔ انقلاب ۔ جلد ۶ نمبر ۲۰۰۔ چہار شنبہ۔ ۲۰ جنوری ۱۹۳۲ئ۔ ۱۳۔ انقلاب۔ جلد ۶ ۔ نمبر ۱۷۶۔ یک شنبہ۔ ۲۰ دسمبر ۱۹۳۱ء ۱۴۔ ایضاً ۱۵۔ انقلاب۔ جلد ۶ ۔ نمبر ۱۷۰۔ یک شنبہ ۔ ۱۳ دسمبر ۱۹۳۱ء ۱۶۔ انقلاب۔ جلد ۶ ۔ نمبر ۱۷۱۔ سہ شنبہ ۱۵ دسمبر ۱۹۳۱ء ۱۷۔ دیوار گریہ یہودیوں کے مقدس مذہبی مقامات میں سے ایک ہے۔ حرم مقدس کے نزدیک اس دیوار کے پاس کھڑے ہو کر یہودی اپنے گناہوں کی معافی اور رو رو کر اپنی ذلت دور ہونے کی دعائیں مانگتے ہیں یہودیوں کے خیال میں ہیکل سلیمانی میںسے صرف یہ دیوار باقی رہ گئی تھی۔ صدیوں سے یہودی اپنے ارکان مذہبی انجام دے رہے تھے لیکن صیہونیت کے ارتقاء کے بعد باہر سے آئے ہوئے یہودیوں نے دیوار گریہ برلا شرکت غیرے قبضہ جمانا چاہا۔ اس پر عربوں اور یہودیوں کے درمیان فسادات شروع ہو گئے۔ جس میں متعدد عرب اور یہودی مارے گئے عربوں کا یہ کہنا تھا کہ دیوار گریہ مسلمانوں کے مذہبی مقامات میں سے ایک ہے وہ یہودیوں اور عیسائیوں کو اس کے قریب عبادت سے نہیںروکتے لیکن یہود اس کے گرد جنگلا لگا کر خود قابض ہونا چاہتے تھے یہودیوں کی نگاہیں حرم مقدس پر تھیں جسے ڈھاکر وہ اس مقام پر ہیکل تعمیر کرنا چاہتے تھے جس کی عرب اجاززت نہیں دے سکتے تھے۔ یہ مسئلہ ۱۹۲۹ء میں بے حد سنگین شکل اختیار کر گیا۔ حکومت برطانیہ نے مجلس اقوام کی منظوری سے تین غیر ملکی نما ئندوں پر مبنی ایک کمشن مقرر کیا تھا۔ دیوار گریہ کمیشن نے پرانے تاریخی ریکارڈ اور دیگر دستاویزات کے مطالعے کے بعد اپنی رپورٹ مرتب کی۔ یہ رپورٹ جون ۱۹۳۱ء میں شائع ہوئی ۔ رپورٹ میں مسلمانوں کو دیوار گریہ کا بلا شرکت غیرے مالک قرار دیا تھا۔ اس کے ساتھ یہ شرط عائد کی کہ یہودی ہر وقت عبادت کر سکتے تھے۔ کمیشن نے یہ شرط بھی عائد کی کہ مسلمانوں کی مذہبی تقریبات کے موقع پر یہودی دیوار گریہ کے قریب باجا نہ بجائیں اور جب یہودی عبادت میں مصروف ہوں تو مسلمان انہیں دق نہ کریںَ نہ ہی دیوار کے قریب سیاسی تقریریں کی جائیں۔ مزید حوالے کے لیے ملاحظہ فرمائیں انقلاب مورخہ ۱۱ جون ۱۹۳۱ئ۔ ۱۸۔ انقلاب۔ جلد ۶ ۔ نمبر ۱۷۱۔ سہ شنبہ ۱۵ دسمبر ۱۹۳۱ء ۱۹۔ انقلاب۔ جلد ۶ ۔ نمبر ۱۷۰۔ یک شنبہ ۔ ۱۳ دسمبر ۱۹۳۱ء ۲۰۔ انقلاب۔ جلد ۱۲۔ نمبر ۱۳۳۔ شنبہ ۲۸ اگست ۱۹۳۷ء ۲۱۔ انقلاب۔ جلد ۶۔ نمبر ۲۴۶۔ جمعہ ۱۸ مارچ ۱۹۳۲ء ۲۲۔ انقلاب۔ جلد ۶ ۔ نمبر ۱۷۶۔ یک شنبہ ۔ ۰ ۲ دسمبر ۱۹۳۱ء ۲۳ ۔ مکتوب مہر۔ انقلاب۔ جلد ۶ ۔ نمبر ۲۰۳۔ شنبہ ۔ ۲۳ جنوری ۱۹۳۲ئ۔ مولانا مہر نے یہ مکاتیب پورٹ سعید سے بمبئی آتے ہوئے بحری سفر کے دوران تحریر کیے تھے آپ نے اٹلی کے سفر سے لے کر بیت المقدس سے روانگی تک کے حالات پلسنا جہاز میں قلم بند کیے تھے۔ آخری خط غالباً ۲۵ دسمبر یا ۲۶ دسمبر کو تحریر کیا تھا جب بحری جہاز ہندوستانی ساحل کے نزدیک پہنچنے والا تھا۔ ۲۴۔ انقلاب مورخہ ۳ ۱ جون ۱۹۳۲ء ۲۵۔ یہ بیان ’’انقلاب‘‘ میں شائع ہوا تھا لیکن اس کا کچھ حصہ اس کتاب میں شامل ہے۔ Speeches Writings and Statements of Iqbal, Compiled and Edited by Latif Ahmad Sherwani, PP.209-210 جو اجزا مندرجہ بالا کتاب میں شائع ہوئے ان کے متن اور انقلاب کے ترجمے میں معمولی سا فرق تھا۔ راقم نے اصل متن سامنے رکھ کر ترجمہ کیا تھا۔ انقلاب۔ جلد ۶ ۔ نمبر ۱۸۶۔ یک شنبہ ۔ ۳ جنوری ۱۹۳۲ئ۔ ۲۶۔ انقلاب مورخہ ۲ اپریل ۱۹۳۲ء ٭٭٭ ہندوستان مراجعت ۱۵ دسمبر ۱۹۳۱ء کی صبح کو اقبال اورمہر بیت المقدس سے روانہ ہوئے۔ انہیں رخصت رکنے کے لیے مفتی سید امین الحسینی‘ ریاض بک الصلح‘ سعید شامل‘سید ضیا الدین طباطبائی۔ استاذ مظفر‘ حسین خالد پاشا ‘ مولوی ناظر حسین انصاری‘ شیخ محمود آفندی الدجانی اور متعدد دیگر افراد اسٹیشن پر آئے تھے۔ اقبال اور مہر عربوں کی مہمان نوازی خلوص اور جذبات اخوت کی حسین یادوں کے ساتھ رخصت ہوئے۔ ان سے یمن کے مندوب سید محمد زبادہ تھی تھے۔ آپ یمن واپس جا رہے تھے۔ ان سے یمن کے متعلق باتیں ہوتی رہیں۔ شام کے چھ بجے ٹرین مشرقی قسطرہ کے سٹیشن پر پہنچی۔ یہاں آپ حضرات کے سفر کا ایک مرحلہ ختم ہوا۔ اقبال اور مہر اسٹیشن سے اترے تو ان کے استقبال کے لیے پورٹ سعید سے ڈاکٹر سلیمان تشریف لائے تھے ٹرین سے سامان اتارا کچھ دیر چنگی خانے میں آرام کیا اور چائے پی۔ پورٹ سعید جانے والی ٹرین ڈیڑھ گھنٹہ بعد آنے والی تھی۔ اس لیے آپ لوگ ریل کی بجائے ڈاکٹر سلیمان کی کار میں سوار ہو کر پورٹ سعید روانہ ہوگئے۔ یہ سفر ایک گھنٹے کا تھا۔ آپ لوگوں نے اپنی کار کی اطلاع حکیم صدیق محمد ناڑو کو ودی تھی۔ انہوںنے دعوت کا انتظام کیا تھا لیکن سفر کے دوران اقبال کی طبیعت ناساز ہو گئی۔ اور وہ اپنی قیام گاہ پر پہچنتے ہی آرام کرنے لگے۔ اقبال تو اس دعوت میں نہ جا سکے لیکن مہر‘ حکیم ناڑو کی دعوت میں شریک ہوئے تھے۔ اقبال کی طبیعت اگلے روز بھی خراب رہی۔ اس لیے شائقین زیارت آپ سے ملاقات نہ کر سکے۔ ڈاکٹر سلیمان کئی بار آئے اور بہت عقیدت اور توجہ سے اقبال کاعلاج کیا۔ شام کے وقت ڈاکٹر سلیمان مہر اور اقبال کو ان کی ناسازی طبع کے باوجود باصرار اپنے ساتھ لے گئے ۔ ڈاکٹر صاحب کی جرمن بیگم اقبال سے ملاقات کی بہت مشتاق تھیں۔ دعوت میں ڈاکٹر سلیمان کے دو دوست بھی شریک ہوئے۔ ڈاکٹر سلیمان کھانے کے دوران مہمانوں کی اجازت لے کر مولانا شفیع دائودی کی پیشوائی کے لیے اسٹیشن چلے گئے۔ اقبال اپنے رفقا سے اسلامی ہند کی سیاست کے متعلق گفتگو کرنے لگے ایک گھنٹے تک آپ نے بالتفصیل مسلمانوں کے سیاست موقف کی اس انداز سے تشریح کی کہ سامعین مسحور ہو کر رہ گئے۔ باتوں کا سلسلہ خاصی دیر تک جاری رہا۔ دوسرے دن روانگی سے قبل یہ لوگ دوبارہ ملنے کے لیے آئے تو کہنے لگے کہ افسوس کہ حضرت علامہ اقبال کا قیام بہت مختصر تھا اورہم جی بھر کر انکی صحبت سے مستفید نہ ہو سکے۔ ۱۷ دسمبر کو پلسنا جہاز جس سے اقبال اور مہر اور مولانا شفیع دائودی کا سفر ہند طے تھا۔ صبح کو پورٹ سعید پہنچنے والا تھا۔ اس روز حکیم صدیق محمد ناڑو دوبارہ تشریف لائے اور مصر ہوئے کہ ان کے ہاں ایک اور دعوت کھائیں کیونکہ پہلی دعوت میں اقبال شریک نہ ہو سکے تھے۔ چنانچہ اقبال اور مہر کو یہ دعوت قبو ل کرنی پڑی ۔ کھانے کے بعد جہاز پر پہنچے پلسنا جہاز چار بجے کے قریب پورٹ سعید سے روانہ ہوا۔ حکیم صدیق آخر وقت تک ان لوگوں کے ساتھ رہے۔ پلسنا جہاز میں گاندھی جی بھی واپس ہندوستان جا رہے تھے۔ وفد پارٹی نے انہیں قاہرہ آن کی دعوت دی تھی۔ پروگرام یہ تھا کہ گاندھی جی پورٹ سعید پہنچ کرکار میں قارہرہ روانہ ہو جائیں گے اور سویز سے دوبارہ جہاز پر سوار ہو جائیں گے لیکن جہاز کے منتظمین نے کہہ دیا کہ سویز پر جہاز نہیں ٹھہر سکتا اس لیے قاہرہ کا پروگرام ملتوی کرنا پڑا۔ وفد پارٹی کی جانب سے نقراشی بے گاندھی جی کے استقبال کے لیے تشریف لائے۔ نقراشی بے نے نحاس پاشا سے اقبال اور مہر کی ملاقات کے دوران ترجمانی کے فرائض انجام دیے تھے۔ جہاز پر ان سے دوبارہ ملاقات ہوئی اور دیر تک مسلمانان ہند کے متعلق باتیں ہوتی رہیں۔ پلسنا جہاز میں گاندھی جی کے آرام و آسائش کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ آپ تیسرے درجے کے مسافر تھے لیکن انہیں جو سہولتیں عملہ جہاز نے فراہم کی تھیں وہ درجہ اول کے مسافروں کو بھی میسر نہ تھیں۔ مولانا عبدالمجید سالک نے اس کے متعلق لکھا تھا۔ جس وقت گاندھی جی دوسری گول میز کانفرنس سے واپس تشریف لائے تو بھائی مہر جہاز میں آپ کے ہم سفر تھے۔ بھائی مہر فرماتے ہیں کہ گاندھی جی جہاز کے تیسرے درجے کے سفر کر رہے تھے لیکن ہندوستانی کی مسکینی اورافلساس کے اس زندہ پیکر کے لیے بکری کا دودھ مہیا کرنے کی غرض سے بحیر ہ روم سے قاہرہ کیبل بھیجے جا رہے تھے جن پر بہت سا روپیہ سرف ہو رہا تھا اور حوائج ضروریہ کے لیی گاندھی جی نے فرسٹ کلاس کے غسل خانوں کو استعمال فرماتے تھے۔ جہاں فرسٹ کلاس کے مسافر بھی بمشکل جا سکتے تھے۔ اگر ضروریات اور آسائشوں کا اتنا اچھا اتنظام میسر آ جائے تو پھر کس کم بخت کو تیسرے درجے میں سفر کرنے سے انکار ہو سکتا ہے (۱)۔ جہا ز میں ان کے علاوہ بہت سی معروف شخصیتیں سفر کر رہی تھیں مثلاً شہزادہ اعظم جاہ ولی عہد سلطنت آصفیہ‘ شہزادہ معظم جاہ ان کی بیگمات شہزادی در شہوار اور شہزادی نیلوفر ‘ ان کی والدہ یعنی معزول سلطان عبدالحمید خان کی بیگم ‘ سر اکبر حیدری صدر المہام فینانس دولت آصفیہ بیگم اکبر حیدری‘ کرنل ٹرینچ ‘ نواب عظمان یار الدولہ سپہ سالار دولت آصفی ‘ نواب ناصر نواز الدولہ‘ جناب صالح حیدری‘ بیگم صالح محمد مارما ڈیوک پکھال ‘ مسز پکھال‘ مسٹروی جے پٹیل سابق صدر اسمبلی س د انند ڈٓئریکٹر فری پریس‘ ڈاکٹر شفاعت احمد خان‘ باسومندوب بنگال اور متعدد دیگر اصحاب۔ شہزادہ اعظم جاہ کی طبیعت ناساز تھی اس لیے آپ بہت کم باہر نکلتے تھے شہزادہ معظم جاہ سے روزانہ ملاقات رہتی تھی۔ اقبال اور شہزادہ معظم جاہ گھنٹوں باتیں کرتے رہتے تھے ایک روز وہ اقبال کے پاس ایک غز ل لے کر آئے۔ ان کی خواہش تھی کہ اپنی غزل اقبال کو سنائیں اور ان سے اصلاح لیں مگر اقبال نے ان کو یہ کہ کر ٹال دیا کہ صحیح شعر کہنے کا ذوق صرف تمہارے دادا میر محبوب علی خاں کو تھا۔ نہ تمہارے باپ میں یہ ذوق ہے اور نہ کسی اور میں۔ اس طرح ان کی غزل پڑھنے کی نوبت ہی نہ آئی اوراقبال نے دوسرا موضوع چھیڑ دیا۔ (۲) اقبا ل نے سفر کے دوران کئی مرتبہ سر اکبر حیدری کے ساتھ کھانا کھایا۔ ایک دفعہ حیدری نے اقبال ہر دائودی اور ڈاکٹر شفاعت احمد خاں کی دعوت کی تھی۔ پورٹ سعید سے بمبئی تک کا سفر بہت خوشگوار ماحول میں تھا۔ سمندر کی حالت اچھی تھی۔ صرف ایک روز چند گھنٹوں کے لیے ذرا تیزی پیدا ہو گئی تھی۔ جہاز پر روزانہ فلمیں دکھائی جاتی تھیں۔ روزانہ ڈانس بھی ہوتا تھا۔ ایک فینسی ڈریس بال بھی ہوا تھا۔ عدن پر جہاز تین گھنٹے کے لیے رکا تھا مولوی شفیع دائودی اقبال اور دیگر حضرات عرشہ جہاز پر کھڑے تھے۔ مولانا دائودی کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی جو اتفاق سے سمندر میں گر پڑی ۔ مولوی صاحب پریشان ہوگئے۔ دفعتاً ان کی نگاہ صومالی لڑکوں پر پڑی ج وچھوٹی چھوٹی کشتیوں میں گھوم رہے تھے۔ مسافر سکہ پھینکتے تو وہ غوطہ لگا کہ ان سکوں کو نکال لیتے مولوی صاحب عربی سے ناواقف تھے بدحواسی کے عالم میں چلائے۔ یا شیخ یا شیخ نالک الکتاب لا ریب فیہ لاحول ولا قوۃ الا بااللہ العلی العظیم ۔ ان اللہ علی کل شئی قدیر وغیرہ ۔ لڑکے ان کے اشارے سمجھ گئے اور غوطہ لگا کر سمندر کی سطح پر تیرتی ہوئی کتاب نکال کر مولوی صاحب کو دی اقبال اور ان کے رفقا اس واقعہ سے بہت محظوظ ہوئے۔ (۳) اقال اور ان کے ساتھیوں نے عدن کی بندرگاہ پر اتر کر ایک گھنٹے تک سیر کی یہیں اطلاع ملی کہ مولانا عبدالماجد بدایونی کا انتقال ہو گیا۔ ان کی بے وقت موت کی خبر سن کر ہر شخص بہت متاثر ہوا۔ عبداللہ وکیل اپنے ساتھیوں کے ساتھ جہاز پر آئے اور خاصی دیر تک باتیں کرتے رہے ان کا ذکر اقبال نے اپنے ایک خط میں بھی کیا تھا۔ آخری عثمانی خلیفہ سلطان عبدالمجید جب خلافت سے دست بردار ہوگئے اور سلطنت عثمانیہ ختم ہو گئی تو آپ ترک وطن کر کے نیس میں آباد ہو گئے ۔ جلا وطنی کے عالم میں ان کے پاس کوئی سرمایہ نہ تھا۔ اس موقع پر نظام دکن عثمان علی خان نے ان کی دستگیری کی اور سلطان عبدالمجید کا چار سو پونڈ کا وظیفہ مقرر کر دیا۔ مولانا شوکت علی نظام دکن کے دونوں بیٹوں کا پیغام لے کر سابق سلطان ترکی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مولانا کی کوشش سے اعظم جاہ اور معظم جاہ کا رشتہ سلطان کی صاحب زادی شہزادی در شہوار اور بھانجی شہزادی نیلو فر سے طے ہو گیا (۴) ۱۲ نومبر ۱۹۳۱ء کو شہزادہ اعظم جاہ کی شادی شہزادی در شہوار سے اور معظم جاہ کی شادی شہزادی نیلو فر سے ہوئی (۵)۔ شادی کے بعد شہزادے اورشہزادیاں اپنے رفقا کے ساتھ ہندوستان واپس آ رہے تھے۔ ۲۶ دسمبر کو جہاز کے کپتان نے مہمانوں کے اعزاز میں پر تکلف دعوت دی۔ ۲۸ دسمبر کی صبح کو جہاز بمبئی پہنچ گیا۔ شہزادگان آصفیہ کے استقبال کے لیے ایک بہت بڑی جماعت ہار اور گلدستے لے کر آئی۔ سب سے پہلے کانگرس کی مجلس عاملہ کے ارکان جہاز پر آئے اورگاندھی جی کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ پھر شاہی خاندان نے اترنا شروع کیا۔ سب سے آگے علیہ حضرت سلطانہ محترمہ اوران ے بعد اعظم جاہ اور شہزادی در شہوار‘ پھر شہزادہ معظم جاہ شہزادی نیلو فر ان کے بعد سر اکبر حیدری اور بیگم حیدری روانہ ہوئے۔ اقبال اور مہر کو سامان سنبھالنے میں دیر ہو گئی تھی مولانا محمد عرفان اور احباب خلافت جہاز میں داخل ہوئے ان کے ساتھ کسٹم سے ہوتے ہوئے اقبال مہر اور دائودی صبح د س بجے دارالخلافت پہنچ گئے۔ (۶) عطیہ فیضی نے اقبال کے اعزاز میں ایوان رفعت میں دعوت کا اہتمام کیا تھا اس تقریب خاص کے لیے انہوںنے دعوت نامے بھی جاری کر دیے تھے لیکن اقبال اورمہر کا فیصلہ تھا کہ وہ بلا تاخیر لاہور کے لیے روانہ ہو جائیں گے۔ مہر ضروری سامان خریدنے اور طامس کک کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے تشریف لے گئے جب کہ اقبال دارالخلافت میں آرام کرتے رہے۔ اس دوران میں اقبال نے گول میز کانفرنس کے متعلق ایک بیان جاری کیا۔ اس زمانے میں برطانوی وزیر اعظم نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں صوبہ سرحد کو آئندہ دیگر ہندوستانی صوبوں کی مانند آئینی اصلاحات دینے کا اعلان کیا تھا۔ اقبال نے اس کو خوش آمدید ہا مسلمانوں کے دیگر مطالبات کے بارے میں آپ نے فرمایاک انہٰں انتظار سے کام لینا پڑے گا۔ اور غالباً اپنے مطالبات اور مقاصد کو منوانے کے لیے انہیں سرگرمی سے کام کرنا پڑے گا۔ صوبجاتی خود مختاری کی فوری ترویج ہر لحاظ سے مستحسن ہے۔ اس کے بعد مرکزی ذمہ داری جلد مل جائے گی۔ فرقہ وار تصفیہ اور اقلیتوں کے متعلق کافی ترقی ہوئی ہے لیکن مسٹر گاندھی نے نہایت غیر مستحسن رویہ اختیار کیا۔ اور موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی (۷) دارالخلافت سے مولانا محمد عرفان نے لاہور تار بھیجا کہ حضرت علامہ اقبال اور مولانا مہر ۰ ۳ دسمبر کی صبحکو فرنٹئر میل سے (۸بجے) لاہورپہنچ جائیں گے۔ مولانا شفیع دائودی پٹنہ جا رہے ہیں(۸)۔ شام کے وقت اقبال کے ایک دوست کی کار میں عطیہ فیضی کے مکان پر تشریف لے گئے مہر چھ بجے کے قریب عطیہ فیضی سے معذرت کے لیے ایوان رفعت پہنچے اور دس پندرہ نٹ کے بعد ’’دارالخلافت ‘ ‘ روانہ ہو گئے۔ یہاں سے آپ نے سامان اٹھایا اور بمبئی ریلوے سٹیشن پہنچے۔ اقبال نے بھی ایوان رفعت میں ایک آدھ گھنٹہ گزارا اور پھر سٹیشن تشریف لے گئے۔ اسٹیشن پر احباب خلافت اور دیگر دوست موجود تھے۔ ان میں سید فضل شاہ مالک شاہ جہاں ہوٹل بھی تھے۔ آ پ صبح عرشہ جہاز پر اقبال سے ملنے آئے تھے۔ اور اصرا ر کی اکہ ان کے ہوٹل میں قیام کیا جائے۔ لیکن اقبال اور مہر نے معذرت کی۔ اسٹیشن پر بھی آپ گلہ کر رہے تھے کہ نہ تو دعوت قبول کی اور نہ ہوٹل میں قیام کیا۔ ٹرین بمبئی ریلوے سٹیشن سے شام کے سات بج کر بیس منٹ پر روانہ ہوئی ۲۹ دسمبر کو سرائے مادھو پور کیسٹیشن پر حافظ محمد صدیق ملتانی رئیس دہلی کا تار ملا کہ اقبال اور مہر شام کا کھانا دہلی سٹیشن پر ان کے ساتھ کھائیں۔ شام کے وقت دہلی پہنچے تو احباب کی ایک کثیر تعداد سے ملاقات ہوئی۔ استقبال کے بعد نوجوانوںنے اقبال کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا۔ پھر سٹیشن پر کھانا کھایا۔ یہاں امیر احمد خاں سے ملاقات ہوئی جو اپنے بڑے بھائی مولانا مہر کی پیشوائی کے لیے سناور (کوہستان شملہ) سے دہلی آئے تھے۔ دہلی سے روانہ ہوئے تو کچھ وقت ان کے ساتھ باتوں میں گزرا ٹرین قریباً چار بجے صبح لدھیانہ سٹیشن پر پہنچی۔ یہاں اقبال کے عقیدت مند دوست پھولوں کے ہار اور کھانے پینے کی اشیاء لیے موجود تھے اقبال اورم ہر اس وقت سو رہے تھے۔ یہ لوگ مصر تھے کہ اقبال کو جگا کر انہیں ہارپہنائیں۔ مہر نے جوا ب دیا کہ اس وقت حضرت آرام فرما رہے ہیں صبح اٹھیں گے تو ہار میںان کی خدمت میں پیش کروں گا۔ امرتسر کے اسٹیشن پر حاجی محمد عبداللہ چودھری ظہور الدین پال ایڈووکیٹ و میونسپل کمشنر شیخ اعجاز احمد اور متعدد دیگر اصحاب سے ملاقات ہوئی۔ ۳۰ دسمبر ۱۹۳۱ء کو صبح آٹھ بجے ٹرین لاہور سٹیشنپر پہنچی۔ یہاں اقبال اور مہر کے مداحوں کی کثیر تعداد موجود تھی انہوںنے نعرہ تکبیر بلند کیا اور پھولوں کے بہت سے ہار گلے میں ڈالے ان کے استقبال کے لیے تقریباً تمام عمائدین شہر آئے تھے۔ (۹) اقبال اور مہر کے لاہور پہنچنے کے اطلاع پہلے سے لوگوں کو تھی مسلم یوتھ لیگ اور محمد علی رجمنٹ کے ارکان ان کے استقبال کے لیے کوشاں تھے ۔ محمد علی رجمنٹ کے سالار میاں فیروز الدین احمد نے عوام اور عمائدین شہر سے ان کے بھرپور استقبال کی اپیل کی تھی۔ ۳۰ دسمبر کی صبح کو لاہور میں دفعہ ۱۴۴ کے باوجود کثیر تعداد میں لوگ استقبل کے لیے تشریف لائے تھے۔ عمائدین شہر کے علاوہ محمد علی رجمنٹ اورجمعیت اسلام کے ارکان اور عہدے دار اسٹیشن پر موجود تھے۔ جمعیت اسلام کے ارکان نے اقبال کی خدمت میںایک سپاسنامہ پیش کیا جو ہجوم کی کثرت کی وج سے پڑھ کر سنایا نہ جا سکا۔ اس سپاس نامے میں جمعیت اسلام اور دیگر فرزندان اسلام کی طرف سے فرنگستان کے سفر سے واپسی پر ہدیہ تبرک پیش کرتے ہوئے آپ کی بے لاگ خدمات ملی و ملکی کے لیے خراج تحسین ادا کیا گیا۔ آخر میں معذرت کی کہ حضرت علامہ کی تشریف آوری کی خبر چونکہ تنگ وقت میں موصول ہوئی اور لاہور میں دفعہ ۱۴۴ کا نفاذ تھا اس لیے مسلمان اپنے محبوب رہنما کا شایان شان خیر مقد م نہ کر سکے۔ (۱۱) اقبا ل کے سفر سے واپسی پر سول اینڈ ملٹر گزت کے نمائندے نے آپ کا ایک بیان لیا تھا۔ اس بیان میں نمائندے کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اقبال نے فرمایا: میں نے کانفرنس سے اسعفا نہیں دیا بلکہ صرف مسلم وفد سے علیحدگی اختیار کی تھی اور میں نے یہ بات آل انڈیا کانفرنس کے فیصلے کے تحت کی تھی۔ آ پ نے وزیر ہند سر سیموئیل ہور کی خاص طور پر تعریف کی۔ آپ نے فرمایا ہندوستانی سیاسی مسائل پر ان کو کامل عبور حاصل ہے اور تمام برطانوی مدبرین سے زیادہ ان مسائل کی پیچیدگیوں کو سمجھتے ہیں۔ ہندوستا ن میں فرقہ ورانہ تصفیہ کے بارے میں آپ نے فرمایا۔ اگر اس مسئلے پر لارڈ ہیلثم کے ارشادات کو ذہن میں رکھ کر کام کیا جائے تو کم از کم پنجاب میں فرقہ وار تصفیہ ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں جن مسائل کو طے کیا جا چکا ہے ان پر دوبارہ بحث نہ کی جائے۔ مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخاب صوبہ سرحد اور سندھ کے مسائل رپ عملی طور پر بحٹ و تمحیص ختم ہو چکی تہے۔ دارالعلوم میں وزیر اعظم اور سر سیموئیل ہور نے ان کے متعلق بیان دے دیا ہے اب جب مسئلہ کا تصفیہ باقی ہے وہ پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کی آئینی اکثیرت کا مسلہ ہے اب اس مسئلہ کو حل کرنا چاہیے ()۱۲) وطن واپسی پر اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد نے آ پ سے فرمایا اقبال فلسطین گئے تھے لگے ہاتھ روضہ نبوی پر بھی حاضری دے آتے۔ اقبال نے جواب دیا بھائی صاحب کس منہ سے روضہ اقدس پر حاضری دیتا۔ انگلستان کا سفر حکومت ہند کے خرچہ پر کیا گیا تھا۔ انگلستان سے واپسی رپ موتمر اسلامی کے جلسہ میں شمولیت کے لیے فلسطین جانا ہوا وہاں خیال تو آیا کہ دیار حبیب قریب ہے زیارت کرتا چلوں لیکن یہ احساس سد راہ ہواکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دد پر حاضری کے لیے گھر سے صرف اسی نیت سے اور اپنے خرچ پر سفر کرنا چاہیے۔ دنیوی مقصد کے سفر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لگے ہاتھوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ پر حاضری کے لیے جانا مجھے آداب محبت کے خلاف محسوس ہوا ۔ اللہ تعالیٰ توفیق دے تو حج کی نیت بھی ہے اور زیارت روضہ رسولؐ کی بھی (۱۳)۔ تعلیقات و حواشی ۱۔ ’’افکار و حوادث ‘ ‘ از عبدالمید سالک‘ انقلاب ۔ جلد ۸۔ نمبر ۷۰۔ سہ شنبہ ۵ ۲ جولائی ۱۹۳۳ء ۲۔ ’’اقبال کی صحبت میں‘‘ صفحہ ۲۹۱ ۳۔ ایضاً ص ۲۶۴۔۲۶۳۔ اس کے علاوہ ملاحظہ کریں۔ اقبال کے حضور۔ مرتبہ سید نذیر نیازی ۔ ص ۵۱۔۵۰۔ اقبال اکادمی۔ کراچی۔ جولائی ۱۹۷۱ء ۴۔ انقلاب۔ جلد ۶ ۔ نمبر ۱۳۱۔ سہ شنبہ۔ ۲۷ اکتوبر ۱۹۳۱ء ۵۔ انقلاب۔ جلد ۶ ۔ نمبر ۱۴۹۔ چہار شنبہ۔ ۱۸ نومبر ۱۹۳۱ء ۶۔ دارالخلافت یا Khailafat Houseخلافت کمیٹی کا دفتر تھا۔ اس وقت کے سیاسی حالات کی بنا پر یہ تحریک دم تو ڑ چکی تھی۔ لیکن ملکی آزادی کے لیے یہ اب بھی کوشاں تھی۔ دارالخلافت مولانا شوکت علی کی بین الاسلامی اور وطنی آزادی کی جدوجہد کا مرکز تھا۔ اخبار ’’خلافت‘ ‘ یہیں سے شائع ہوتا تھا ۷۔ انقلاب۔ جلد ۶ ۔ نمبر ۱۸۳۔ چہار شنبہ۔ ۳۰ دسمبر ۱۹۳۱ء ۸۔ انقلاب۔ جلد ۶ ۔ نمبر ۱۸۳ئ۔ چہار شنبہ۔ ۳۰ دسمبر ۱۹۳۱ء ۹۔ مکتوب مہر۔ انقلاب۔ جلد ۶ ۔ نمبر ۲۰۴۔ یک شنبہ ۔ ۴ ۲ جنوری ۱۹۳۲۔ ۱۰۔ انقلاب ۔ جلد ۶۔ نمبر ۱۸۳۔ چہار شنبہ۔ ۳۰ دسمبر ۱۹۳۱ء ۱۱۔ انقلاب۔ جلد ۶۔ نمبر ۱۸۵۔ جمعہ یکم جنوری ۱۹۳۲ء ۱۲۔ انقلاب۔ جلد ۶۔ نمبر ۱۸۶۔ یک شنبہ ۔ ۳ جنوری ۱۹۳۲ئ۔ ۱۳۔ ’’مظلوم اقبال‘‘ از شیخ اعجاز احمد ص ۱۵۳۔ کتابیات ۱۔ مکتوبات اقبال۔ مرتبہ سید نذیر نیازی۔ اقبال اکادمی۔ کراچی ستمبر ۱۹۵۷ء ۲ ۔ ’’انقلاب‘‘لاہور اگست ۱۹۳۱ء سے مارچ ۱۹۳۲ء تک کے فائل۔ ۳۔ عظمت رفتہ مصنف ضیاء الدین احمد برنی۔ ۴۔ فغان دہلی مرتبہ فضل حسین خان کوکب۔ اشاعت ثانی۔ اکادمی پنجاب لاہور ۱۹۵۴ء ۵۔ زندہ رود۔ جلد اول مصنف ڈاکٹر جاوید اقبال۔ ۱۹۷۹ء لاہور۔ ۶۔ زندہ رود۔ جلد دوم۔ مصنف ڈاکٹر جاوید اقبال۔ ۱۹۸۱ء ۔ لاہور ۷۔ زندہ رود جلد سوم۔ مصنف ڈاکٹر جاوید اقبال ۔ ۱۹۸۴ء لاہور ۸۔ اقبال کی صحبت میں۔ مصنف ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی۔ مجلس ترقی ادب۔ لاہور نومبر ۱۹۷۷ئ۔ ۹۔ اقبال کے حضور۔ مصنف سید نذیر نیازی۔ جزو اول ۱۹۳۸ء (جنوری تا مارچ) اقبال اکادمی۔ کراچی۔ جولائی ۱۹۷۱ء ۱۰۔ اقبال نامہ جلد اول۔ مرتبہ شیخ عطاء اللہ۔ ۱۱۔ اقبال نامہ۔ جلد دوم۔ مرتبہ شیخ عطا اللہ۔ ۱۲۔ ملفوظات اقبال مع تعلیقات و حواشی۔ مرتبہ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی۔ اقبال اکادمی۔ لاہور۔ ۱۹۷۷ء ۱۳۔ آثا ر اقبا۔ مرتبہ غلام دستگیر رشید حیدر آباد ددکن۔ ستمبر ۱۹۴۴ء ۱۴۔ مظلوم اقبال۔ مصنف شیخ اعجاز احمد۔ کراچی۔ ۱۹۸۵ئ۔ ۱۵ اتاترک۔ مصنف مرزا محمد دہلوی۔ دسمبر ۱۹۴۱ئ۔ دہلی۔ ۱۶۔ کلیات اقبال (اردو ) از سر محمد اقبا۔ فروری ۱۹۷۳ئ۔ لاہور ۱۷۔ کلیات اقبال۔ (فارسی ) از سر محمد اقبال۔ فروری ۱۹۷۳ء لاہور۔ ۱۸۔ اردو ادب ۱۹۸۳ء مرتبہ کشور ناہید جاوید شاہین منو بھائی لاہور ستمبر ۱۹۸۴ء ۱۹۔ اقبال جہان دیگر۔ مرتبہ محمد فرید الحق ۲۰۔ روزگار فقیر۔ جلد اول۔ مصنف فقیر سید وحید الدین۔ اشاعت چہارم۔ مئی ۱۹۶۴ء کراچی۔ ۲۱۔ روزگار فقیر۔ جلد دومم۔ مصنف فقیر سید وحید الدین۔ اشاعت دوم۔ اگست ۱۹۶۵ئ۔ کراچی۔ ۲۲۔ سہ ماہی ’’اقبال‘‘ ۔ جلد ۱۳ ۔شمارہ ۲۔ اکتوبر ۱۹۶۴ئ۔ لاہور۔ ۲۳۔ اقبال نامہ۔ مصنف چراغ حسن حسرت ۲۴۔ گفتار اقبال۔ مرتبہ رفیق افضل۔ ادارہ تحقیقات پاکستان ۔ دانش گاہ پنجاب۔ لاہور جنوری ۱۹۶۹ئ۔ ۲۵۔ اقبال درون خانہ ۔ مصنف خالد نظیر صوفی۔ بزم اقبال لاہور۔ اپریل ۱۹۷۱ء ۲۶۔ تصانیف اقباال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ۔ مصنف ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی۔ اقبال اکادمی۔ لاہور۔ ۹ نومبرر ۱۹۸۲ء The Reconstruction of Religious Thought in Islam by Sir Muhammad Iqbal, Reprinted in May, 1971, Sh.M.Ashraf, Lahore. Letter and Writings of Iqbal, Edited and Compiled by Bashir Ahmad Dar, Iqbal Academy Karachi 1969. Speeches Writings and Statements of Iqbal. Compiled and Edited by Latif Ahmad Sherwani, Third Edition 1977 Iqbal Academy. اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The end