خطباتِ اقبال نئے تناظر میں محمد سہیل عمر اقبال اکادمی پاکستان جملہ حقوق محفوظ ہیں اس مقالے کو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ایوارڈ ۱۹۹۳ء ۔ ۱۹۹۴ء کے انعام کا مستحق قرار دیا گیا خ ناشر: ناظم اقبال اکادمی پاکستان چھٹی منزل ، ایوان اقبال ، لاہور Tel: [+92-42] 6314-510 Fax: [+92-42] 631-4496 Email: iqbalacd@lhr.comsats.net.pk Website: www.allmaiqbal.com ISBN 969-416-029-4 طبع اوّل: ۱۹۹۶ طبع دوم:۲۰۰۲ء طبع سوم: ۲۰۰۸ء تعداد : ۱۰۰۰ قیمت: ۔؍۲۰۰ روپے مطبع : دارالفکر، لاہور محل فروخت :۱۱۶ میکلوڈ روڈ ، لاہور ، فون نمبر ۔ ۷۳۵۷۲۱۴ انتساب ڈاکٹر برہان احمد فاروقی (مرحوم) کے نام کہ اس تصنیف کے ایک بڑے حصے کی حیثیت ان کے امالی سے زیادہ نہیں ہے ترتیب حرف آغاز ۷ مقدمہ ۱۹ (پہلاخطبہ) علم بالحواس اور علم بالوحی ۴۵ (دوسرا خطبہ ) وقوف مذہبی کے انکشافات کے فلسفیانہ معیار ۷۱ (تیسرا خطبہ) تصور الہ اور مفہوم دعا ۸۳ (چوتھا خطبہ) خودی، جبرو قدر، حیات بعدالموت ۹۹ (پانچواں خطبہ) اسلامی ثقافت کی روح ۱۱۵ (چھٹا خطبہ) الاجہتاد فی الاسلام ۱۳۵ (ساتواں خطبہ) کیا مذہب کا امکان ہے؟ ۱۵۳ اختتامیہ ۱۶۹ (ضمیمہ۔ ۱) خطبہ ٔ صدارت ۱۷۵ (ضمیمہ ۔ ۲) ’’مدعا مختلف ہے‘‘ ۱۸۳ (ضمیمہ ۔ ۳) سزا یا نا سزا ۱۹۹ حرف آغاز یہ مقالہ برا بھلا جیسا بھی ہے ایک علمی موضوع سے متعلق ہے اور علمی مباحث پر کسی ذاتی مسئلے کے حوالے سے گفتگو کرنا کوئی اچھی بات نہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی میں آغاز تحریر ایک ذاتی مسئلے سے کرنا چاہتا ہوں کہ میرے لیے مطلع میں ہی سخن گسترانہ بات آ پڑی ہے۔ میں نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی اس میں اور خانوادہ اقبال میں گھریلو نوعیت کے تعلقات تھے۔ بزرگوں میں کسی کی دانت کاٹی دوستی پسر اقبال سے تھی تو کسی کو ان سے بزرگانہ شفقت کی نسبت تھی۔ گھر میں ہر طرف کلام اقبال کا دور دورہ تھا۔ دیواروں پر گھر کے افراد کی اپنی خطاطی میں علامہ کے اشعار کی وصلیاں آویزاں تھیں تو کتابوں کے طاق پر اردو اور فارسی کے دواوین ہر وقت موجود رہتے تھے۔ میں نے ’’ساقی نامہ‘‘ اس عمر میں پہلی مرتبہ پڑھا، یاد کیا اور رعب اندازی کے لیے استعمال کیا جب ابھی اکثر الفاظ کے معانی میری سرحد تفہیم سے باہر تھے۔ سکول اور کالج میں جن اساتذہ کی صحبت نصیب ہوئی ان کے رگ و پے میں کلام اقبال سرایت کیے ہوئے تھا۔ یوں میری چشم شعور وا ہوئی تو علامہ کی آغوش فکر میں …ان کی شعری صداقت، عظمت فکر اور ایقانی کیفیت کے جو نقوش اس دور میں مرتب ہوئے وہ ہنوز سرمایہ جان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس سارے پس منظر میں تشکیل جدید ایک کتاب غائب کی طرح موجود تھی۔ اس سے میرا پہلا تعارف فلسفے کی باقاعدہ تحصیل کے دوران ہوا اور ایک عرصے تک یہ میری خلوت و جلوت کی رفیق رہی لیکن اس کی اہمیت میرے لیے تب بھی اور اب بھی اس لیے تھی کہ یہ میرے علامہ کی کتاب تھی۔ میرے زندہ مسائل کے لیے یہ ایک جیتا جاگتا حوالہ نہ تھا۔ اس فرق کا بڑا سبب یہ ہوا کہ اپنے ذہنی سفر اور فکری مسائل کی تحلیل و تنقیح کے عمل نے مجھے کچھ ایسے مفکرین اور کتابوں سے دوچار کر دیا تھا جو تعبیر کائنات کی ایک الگ لیکن بھر پور جہت سے مجھے روشناس کروا چکے تھے اور مغرب جدید کی تہذیب، اس کی فکری اساس، اس کا مادی تسلط، نظریاتی استیلاء اور کائناتی تاریخ میں اس کے مرتبے اور اس کے کردار سے متعلق میرے ذہنی مسائل ایک حد تک حل ہو چکے تھے۔ میرے لیے اقبال اس لیے اہم نہیں تھے کہ انہوں نے تشکیل جدیدلکھی تھی بلکہ تشکیل جدید اس لیے قابل اعتنا تھی کہ علامہ نے لکھی تھی۔ تشکیل کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ عہد جدید کے لیے اس کے معاصر اسلوب میں اسلام کی طرف سے حقائق دین کی قریب الفہم انداز میں تعبیر نو کی جائے اور ایک نئے علم کلام کی بنا رکھتے ہوئے یہ ثابت کیا جائے کہ علوم جدیدہ بالخضوص سائنس اور فلسفے کے حاصلات اصول دین سے متصادم نہیں ہیں۔ تشکیل جدید میں، ایک مفکر کے قول کے مطابق: اقبال کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ مغربی تہذیب کی آمد سے جو مخصوص صورتحال پیدا ہوئی ہے اسے پیش نظر رکھ کر اسلام اور اسلامی تہذیب میں اصول حرکت کو بیان کیا جائے۔ اب اقبال یہ بھی جانتے تھے کہ مغرب کی مسیحی تہذیب خود ایک سکونی تہذیب تھی اور مغربی تہذیب اس سکون پرستی سے آزاد ہوئی ہے تو علم جدیدہ یا سائنس کی بدولت، دوسرے لفظوں میں عقل استقرائی اور عمل اختیاری کے آزادانہ ارتقاء کے باعث۔ چنانچہ اقبال کا حقیقی مسئلہ یہ تھا کہ (۱)حرکت (۲) عقل استقرائی اور (۳) عقل اختباری کی روشنی میں اسلامی تہذیب اور اسلام کی حقیقت کو از سر نو متعین کیا جائے۔ اقبال نے اس صورت حال کا جو تجزیہ کیا ہے اور اس کی روشنی میں اسلام اور اسلامی تہذیب کی جو حقیقت بیان کی ہے آپ اس سے اختلاف کریں یا اتفاق لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ کہ سرسید، حالی، شبلی، اکبر اور دوسرے مسلمان اہل فکر نے اس صورتحال کو اس طرح نہیں سمجھا تھا جس طرح اقبال نے سمجھا۔ اقبال سے پہلے ان بزرگوں کے یہاں نئی صورتحال صرف چند تمدنی اوضاع اور معاشرتی مسائل کے تغیرو تبدل کا مسئلہ ہے جب کہ خود اقبال نے بہت وضاحت سے محسوس کر لیا کہ صورت حال کی ایسی سطحی تعبیرات سے کام نہیں چلے گا اور ہمیں زیادہ گہرائی میں اتر کر یہ دیکھنا پڑے گاکہ آیا اسلام اور اسلامی تہذیب اپنی روح کے اعتبار سے مغربی تہذیب کو قبول کر سکتے ہیں یا نہیں، اور قبول کر سکتے ہیں تو کس طرح؟ دوسرے لفظوں میں اقبال نے یہ بات سمجھ لی تھی کہ مغربی تہذیب ہمارے اندر جو تبدیلیاں لا رہی ہے اس کا تقاضا صرف اتنا نہیں ہے کہ کوٹ پتلون، چھری کانٹے یا کیک اور کوکا کولا کا جواز پیدا کر لیا جائے بلکہ اس کا تقاضا یہ ہے کہ حیات و کائنات، زمان و مکان، افعال اور فطرت، روح اور مادہ کے ان تصورات پر جو روایتی مذہبی تہذیب میں موجود تھے ان پر نظرثانی کی جائے اور ان کو از سر نو اس طرح متعین کیا جائے کہ وہ مغربی تہذیب کی حقیقی ترقی کو اپنے اندر جذب کر سکیں۔ مختصر لفظوں میں اقبال کے نزدیک مغربی تہذیب کا چیلنج ایک نئی الہیات کی تشکیل کا مطالبہ کر رہا تھا۔ اقبال نے تشکیل جدید میں جس نئی الہیات کی بنیاد رکھی ہے اس کے پیچھے اقبال کے دو بنیادی تصورات کام کر رہے ہیں (۱) اقبال یہ جانتے ہیں کہ نیا انسان ’’محسوس‘‘ کاخوگر انسان ہے جسے ’’اس قسم کے فکر کی عادت ہو گئی ہے جس کا تعلق اشیاء اور حوادث کی دنیا سے ہے‘‘۔ جس سے اقبال یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس انسان سے تعلق پیدا کرنے کے لیے ایک ایسے منہاج کی ضرورت ہے جو نفسیاتی اعتبار سے اس ذہن کے قریب تر ہو جو گویا محسوس کا خوگر ہو چکا ہے تاکہ وہ آسانی سے اسے قبول کر لے، اقبال کے نزدیک یہ کام اس قسم کے لوگ بالکل نہیں کر سکتے جو عصر حاضر کے ذہن سے بالکل بے خبر ہیں، اور اس لیے موجودہ دنیا کے افکار اور تجربات سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے(۲) پرانا طریق کار اس لیے بیکار ہے کہ الٰہیات کے وہ تصورات جن کو اب ایک ایسی مابعد الطبیعیات کے الفاظ و اصطلاحات میں پیش کیا جاتا ہے جو مدت ہوئی عملاً مردہ ہو چکی ہے ان لوگوں کی نظر میں بیکار ہیں جن کا ذہنی پس منظر یکسر مختلف ہے۔ چنانچہ ان دونوں حقیقتوں کے پیش نظر اقبال کہتے ہیں’ ’ہم مسلمانوں کو ایک یہ بڑا کام درپیش ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ماضی سے اپنا رشتہ منقطع کئے بغیر اسلام پر بحیثیت ایک نظام فکر از سر نو غور کریں‘‘ اب چونکہ عصر حاضر کے انسان سے وہ انسان مراد ہے جو مغربی تہذیب سے پیدا ہوا ہے اس لیے اقبال کی نئی الہیات کی تشکیل کی کوشش کا حقیقی مقصد مغربی اور اسلامی تہذیب کے درمیان مشترکہ عناصر کی جستجو ہے اور وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام اور اسلامی تہذیب میں کوئی ایسی بات نہیں ہے’’ جو محسوس کے خوگر‘‘ انسان کے ذہن کے مطابق نہ ہو۔ مجھے افسوس ہے کہ اسلامی تہذیب کے بارے میں میرے ذاتی خیالات کچھ اس قسم کے ہیں جن سے اقبال کی تائید نہیں ہوتی لیکن اقبال کی تشریح کرتے ہوئے میں یہاں صرف اس مسئلہ پر گفتگو کر رہا ہوں کہ اگر ہمیں مغربی تہذیب کو قبول کرنا ہے یا اپنے اندر جذب کر کے اس سے فائدہ اٹھانا ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں اقبال ہی کے ساتھ چل کر مغربی اور اسلامی تہذیب کی روح میں اتر کر ان کی ہم آہنگی کو الہیاتی بنیادوں پر ثابت کرنا پڑے گا۔ تشکیل جدید ان ہی معنوں میں ایک ایسا زبردست کارنامہ ہے جسے جدید اسلام کی بائبل کہنا چاہیے۔۱؎ یہ بائبل کس کے لیے لکھی جا رہی تھی،اس کے مخاطب کون تھے؟ علامہ کے متعدد بیانات سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ ایک نمائندہ اقتباس دیکھئے: ان لیکچروں کے مخاطب زیادہ تر وہ مسلمان ہیں جو مغربی فلسفے سے متاثر ہیں، اور اس بات کے خواہش مند ہیں کہ فلسفہ اسلام کو فلسفہ جدید کے الفاظ میں بیان کیا جائے، اور اگر پرانے تخیلات میں خامیاں ہیں، تو ان کو رفع کیا جائے۔ میرا کام زیادہ تر تعمیری ہے، اور اس تعمیر میں، میں نے فلسفہ اسلام کی بہترین روایات کو ملحوظ خاطر رکھا ہے، مگر میں خیال کرتا ہوں کہ اردو خواں دنیا کو شاید ان سے فائدہ نہ پہنچے، کیونکہ بہت سی باتوں کا علم، میں نے فرض کر لیا ہے کہ پڑھنے والے یا سننے والے کو پہلے سے حاصل ہے، اس کے بغیر چارہ نہ تھا۔۲؎ یہ فلسفہ جو اس زمانے میں ہندوستان میں پڑھایا جاتا تھا کیا تھا! برطانوی افادیت پرستوں اور حسیت پرستوں کے افکار۔ یہ فلسفیانہ افکار اس وقت جدید تھے، سائنس کے نظریات نئے تھے۔ ہمارے زمانے تک آتے آتے یہ فلسفہ کہن سال ہو گیا، سائنسی نظریات متروک ہو گئے اور دونوں کے بڑے حصے کو علمی دنیا نے اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا۔مخاطبین کے ذہنی پس منظر اور استعدادکی اس رعایت اور موضوع کے دیگر تقاضوں نے تشکیل جدید کا علامہ کی دیگر فکری کاوشوں سے ایک بُعد پیدا کر دیا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے خطبات پر تبصرہ کرتے ہوئے زندہ رود میں جو لکھا وہ اس تاثر کی بالواسطہ حمایت کرتا ہے۔ مناسب ہو گا کہ اسے یہاں نقل کر دیا جائے۔ تشکیل جدید الہیات اسلامیہ ایک مشکل کتاب ہے، کیونکہ اس میں مشرق و مغرب کے ڈیڑھ سو سے زائد قدیم جدید فلسفیوں، سائنس دانوں، عالموں اور فقیہوں کے اقوال و نظریات کے حوالے دیئے گئے ہیں اور اقبال قاری سے توقع رکھتے ہیں کہ خطبات کے مطالعہ سے پیشتر وہ ان سب شخصیات کے زمانے، ماحول اور افکار سے شناسا ہو گا۔ ان شخصیات میں بعض تو معروف ہیں اور بعض غیر معروف۔ علاوہ اس کے خطبات کا انداز تحریر نہایت پیچیدہ ہے۔ بسا اوقات کسی مقام پر ایک ہی بحث میں کئی مسائل کا ذکر چھڑ جاتا ہے اور اس پر اظہار خیال کی تکمیل کے بعد پھر چھوڑے ہوئے مسئلہ کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ بعض نظریات کی وضاحت کی خاطر نئی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں اور ان میں الفاظ کی ترتیب مطالب کے فہم و تفہیم کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہے۔ کئی مقامات پر انگریزی زبان میں استدلال ناقابل فہم ہے اور اس کے بار بار تعاقب کرنے سے بھی معانی صاف نہیں ہوتے۔۳؎ اسی کا تجربہ میرا وہ ذاتی مسئلہ ہے جس کی جانب میں نے آغاز کلام میں اشارہ کیا۔ علامہ کی شاعری کا بیشتر حصہ آج بھی پہلے کی طرح قابل قدر، فکر انگیز اور پر تاثیر ہے جبکہ خطبات کا کچھ حصہ اب صرف تاریخی اہمیت کا حامل معلوم ہوتا ہے۔ اپنے ان تاثرات کو میں نے کچھ عرصہ پہلے مختصراً لکھا تھا۔ مکرر درج کیا جاتا ہے: اقبالیات کے ذخیرے میں تشکیل جدید سے متعلق مباحث پر نظر ڈالیے توسطحی مطالعے، جزوی اقتباسات پر مبنی قیاسات، غیر مدلل مداحی اور خوش /غلط فہمیوں کا ایک طویل سلسلہ تو مل جاتا ہے لیکن حقیقی مطالعات، گہری اور دور رس جرح و نقد اور ضروری توضیحات کی حیرتناک کمی نظر آتی ہے۔ جو کچھ ہوا بھی ہے، اس کا بیشتر حصہ اسی رویے کے ذیل میں آتا ہے جسے ہم نے تشکیل جدید کا سطحی مطالعہ قرار دیا۔ ہمارے لیے اس مختصر تحریر میں یہ ممکن نہیں کہ اس موضوع پر مفصل محاکمہ یا جائزہ پیش کر سکیں، تاہم ان بنیادی سوالات کی طرف اشارے کرنے کی کوشش کی جائے گی جن کا جواب تلاش کیے بغیر علامہ کے فکر وفن کے مکمل تناظر میں نہ تو خطبات کی حیثیت اور مقام کا تعین ہو سکتا ہے نہ شاعری سے ان کے ربط و تعلق کی کلید میسر آ سکتی ہے اور نہ ان سے بامعنی اور مفید رہنمائی حاصل ہو سکتی ہے۔ پہلا سوال جو اقبالیات کو اپنے آپ سے پوچھنا ہے، یہ ہو گا کہ اصل چیز اقبال کا شعر ہے یا خطبات! شاعری کو اولیت حاصل ہے یا خطبات کو؟کیا خطبات ہمارے ادبی اور فکری سرمایے میں اسی جگہ کے مستحق ہیں جو شاعری کو حاصل ہے؟ اس بڑے سوال کے ساتھ ضمنی سوالات کی پخ بھی لگی ہوئی ہے کہ خطبات کے مخاطب کون تھے؟ اس کے موضوعات چونکہ متعین اور تحریر فرمائشی تھی نیز وسائل مطالعہ و تحقیق ۱۹۲۰۔۱۹۲۸ تک محدود تھے، لہٰذا شاعری کے آزاد ،پائدار اور تخلیقی وسیلے کے مقابلے میں خطبات زمانے کے فکری اور سیاسی تقاضوں، معاشرتی عوامل، رحجانات، نفسیاتی رد عمل اور دیگر محرکات کے زیادہ اسیر ہیں! شاعری اور خطبات کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ موارد اختلاف میں شاعری یا تو خطبات کی تابع ہو گی یا تکمیلی حیثیت رکھے گی یا متوازی چلے گی یا خطبات کے بعد کی شاعری خطبات کی ناسخ قرار پائے گی! یہ وہ سوال ہے جس سے بہت کم تعرض کیا گیا ہے اور اس کے پیچھے رجال اقبالیات کی وہ ثنویت کار فرما ہے جس کے تحت شاعری سے شغف اور اشتغال رکھنے والے عموماً خطبات سے اعتنا نہیں کرتے، اور خطبات کو موضوع تحقیق بنانے والے شاعری سے سروکار نہیں رکھتے۔ اس میں سخن گسترانہ بات یہ ہے کہ جو محققین خطبات کو اپنا موضوع بناتے ہیں، ان کی اکثریت شاعری پڑھنے اور سمجھنے سے طبعاًیا فنی اسباب کی بنا پر معذور ہے، اور اس معذوری پر پردہ ڈالنے کے لیے شاعری کو مختلف حیلوں اور دلائل سے ثانوی قرار دینے کے لیے کوشاں نظر آتی ہے۔ ان کی عام دلیل یہ ہے کہ خطبات سوچے سمجھے، جچے تلے اور غیر جذباتی نثری اظہار کا نمونہ ہیں اور شاعری اس کے برعکس یا بہر حال اس سے کم تر۔ یہ لوگ وہ ہیں جو شاعری پڑھنے یا سمجھنے کے اہل ہی نہیں، جو سوچ سمجھ کر صرف مقالہ نگاری کر سکتے ہیں اور جن کے نزدیک دیگر ہر عقلی و ذہنی سرگرمی بے سوچے سمجھے کی چیز ہے۔ ان میں سے جن کو فلسفہ بگھارنے کا زیادہ شوق ہے وہ شاعری کو لاشعوری محرکات، اجتماعی لاشعور کی برکات، آر کی ٹائپ کا اظہار اور ایسی ہی دیگر انٹ شنٹ چیزوں سے عبارت جانتے ہیں۔ اس طبقے کا رویہ اجمالاًیہ ہے کہ شاعری کی حیثیت نہ تو حکم کی ہے نہ تابع کی اور نہ ہی ناسخ خطبات کی، بلکہ اسے ایک متوازی حیثیت حاصل ہے۔ متوازی خطوط آپس میں ملا نہیں کرتے، لہذا اس رویے کا حتمی نتیجہ شعر فراموشی ہی ہو سکتا ہے، اور یہی ہوا بھی ہے۔ یہاں ایک ضمنی سوال سراٹھاتا ہے کہ اگر اقبال صرف شاعری کرتے اور خطبات نہ لکھتے تو ان کا مقام کیا ہوتا؟ مندرجہ بالا فکری رویے میں پوشیدہ منطق اس کا سامنا کرتے ہی سکڑنے لگتی ہے اور معاملہ ابہام کا شکار ہو جاتا ہے مگر اس سے شاعری اور خطبات کے تعلق کا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ خطبات کے بعد علامہ لگ بھگ دس برس زندہ رہے اور مابعد کی شاعری اور دیگر نثری تحریروں میں انہی موضوعات پر اظہار خیال کرتے رہے جو خطبات سے متعلق تھے، لہذا خطوط اور مابعد خطبات کی شاعری کا تعلق خطبات سے طے کیے بغیر ہم علامہ کے پورے فکری تناظر میں خطبات کی حیثیت کا تعین نہیں کر سکتے۔ اسی بات پر ایک اور پہلو سے غور کرنے کی ضرورت ہے، علامہ کا فکری ارتقاء یا مختلف مسائل کے مقابل ان کا موقف کہاں ظاہر ہوا ہے، شاعری میں یا خطبات میں؟ بالفاظ دیگر ان کی شخصیت اور فکر کا ارتقایاب میڈیم کونسا ہے؟ کیا وہی زیادہ قابل اعتبار نہ ہو گا؟ علامہ کی نثر اور شاعری کو صرف تاریخی ترتیب سے بھی دیکھیے تو یوں لگتا ہے جیسے ان میںباہم سوال و جواب کے ادوار کا تعلق ہے۔ نثر میں سوال قائم ہوتے ہیں، تجزیہ ہوتا ہے اور شاعری جواب دیتی ہے۔ کیا خطبات اور مابعد کی شاعری میں ایسا ہی تعلق ہے؟ یہاں پہنچ کر ہم ایک اور اہم اور بنیادی سوال سے دوچار ہوتے ہیں۔ خطبات علامہ کے حتمی نتائج فکر ہیں یا ان سوالات اور فکری مسائل کا منظر نامہ جو اس وقت عالم اسلام کو درپیش تھے؟ اگر یہ سوالات تھے تو ہمارا مندرجہ بالا مقدمہ درست ٹھہرتا ہے، اور اگر یہ حتمی جوابات تھے تو کیا آج بھی یہ جوابات وہی استناد رکھتے ہیں جو اس وقت انہیں حاصل تھا یا مابعد کے ارتقائے فکر کی روشنی میں ان کی حتمی حیثیت برقرار نہیں رہی؟ اقبال نے خود ہمیں اس کی کلید خطبات کی ابتداء میں یہ کہ کر فراہم کر دی ہے کہ فلسفیانہ فکر میں ختامی چیز کوئی نہیں ہوا کرتی۔ اس سے شخصی افکار مراد لیے جائیں یا فلسفے کے عمومی منہاج کی جانب اشارہ سمجھا جائے، دونوں اقالیم میں حتمیت کی نفی ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہخطبات کی تحریر کے وقت مسائل واقعی صورت حال سے پیدا ہو رہے تھے، اور جوابات قیاسی تھے۔ بعد کے زمانے میں مسائل کے حل کے لیے جو نیا مواد سامنے آیا، جو تازہ وسائل تحقیق میسر آئے اور علم و فلسفہ میں جتنی پیش رفت ہوئی، اس نے بہت سے قیاسات میں تبدیلی پیدا کر دی جیسے آزاد مسلم مملکت اس وقت ایک خیال تھا، آج امر واقعہ ہے۔ اسی ایک فرق سے خطبات میں پیش کردہ ان تجاویز اور افکار کی حیثیت میں تغیرواقع ہونا بدیہی ہے۔ بقول شخصے اگر کلام اقبال میں ’’نیاشوالہ‘‘ موجود ہے تو کیا خطبات اقبال میں بھی ’’نئے شوالے‘‘ موجود نہیں ہیں؟ اگلا سوال یہ ہے کہ اگر خطبات اور شاعری میں نقطۂ نظر کا کوئی فرق ہے تو یہ دولخت شخصیت کا شاخسانہ نہیں ہو سکتا کیونکہ اس سے بڑی شاعری تو کجا شاعری ہی پایہء اعتبار سے ساقط ہو جاتی ہے۔ تو پھر کیا یہ فرق شخصیت کی دو سطحوں اور وجود کے قطبین کا نمائندہ ہے جن میں سے ایک فاعلی اور موثر ہے اور دوسرا انفعالی اور تاثر پذیر؟ ایک افقی ہے، اسیر تاریخ ہے، اس سے متاثر ہوتا ہے اور سوال کرتا ہے، دوسرا عمودی ہے، تاریخ سے وراء دیکھتا ہے، جواب دیتا ہے اور آرزو کے سہارے آدرش تک رسائی چاہتا ہے۔ شاعری فاعلی جہت کا ظہور ہے اور خطبات انفعالی سطح کی تجسیم! خطبات میں بعض مسائل کے ضمن میں علامہ نے مغربی تہذب یا فکر مغرب کو اسلامی تہذیب اور افکار سے ہم آہنگ دکھانے کی بات کی ہے مثلاً فرضیہء ارتقاء ،حرکت کا تصور اور جدید سائنس (جواب متروک اور کہنہ سائنس ہو چکی ہے) وغیرہ تو اس میں کیا مصلحت تھی؟ ایک طرف ہندو اکثریت تھی جو سیاسی غلبہ حاصل کرنے پر تلی ہوئی تھی اور دوسری جانب انگریز تھے جو جدید سائنسی ترقی اور ٹیکنالوجی کے سہارے مادی غلبہ حاصل کیے ہوئے تھے کیا اقبال خطبات میں ایسے خطوط عمل واضح کرنا چاہتے تھے جن کے سہارے ان دونوں کو کسی ایسی جہت میں لے آیا جائے جہاں وہ اسلام کی فکر کا ہدف بن سکیں اور ان کی فلسفیانہ مقاومت سے مسلمانوں کی شکست خوردہ کیفیت کا مداوا ہو سکے! آخری بات! خطبات اقبال اصول دین کی تشکیل نو سے عبارت ہیں یا انہیں عقل جزوی سے پھوٹنے والی اس ثانوی فکری سرگرمی کے ذیل میںرکھا جانا چاہیے جو مرور زمان اور انسان کے متغیر ذہنی تقاضوں کے جواب میں ابھرتی ہے؟ اشیاء کی مابعد الطبیعیاتی حقیقت اور حقائق دین غیر متغیر چیزیں ہیں اور نفسوس انسانیہ اور زمانے کی رو امور متغیرہ۔ پس دین کے ابدی اور غیر متغیر حقائق کے زمانی اطلاق اور زمانے کی رو میں بہتے ہوئے، بدلتی کیفیات کے اسیر نفوسِ انسانیہ تک ان کے ابلاغ کے لیے ایک پل یا واسطہ فراہم کرنا اس فکری سرگرمی کا فریضہ ہے۔ یہ حقیقت اشیاء ہی کا ایک پہلو ہے اور اس اعتبار سے اپنا جواز رکھتی ہے۔ مگر پل ڈالنے کا یہ عمل زمانی و مکانی ہے، وقت کے تقاضوں کا اسیر ہے، وسائل کا محتاج ہے اور اپنے عناصر ترکیبی سے تاثر پذیر ہوتا ہے، لہذا آج اگر ایک پل تعمیر ہوتا ہے تو کل بہتروسائل، مختلف تقاضے یا زمان و مکان کے نئے سانچے پیدا ہونے سے لازماً اس پل کی شکل بھی بدل جائے گی اور اس فکری سرگرمی کے نتائج اپنی غرض و غایت میں یکساں ہوتے ہوئے بھی اپنے اسلوب اظہار، طریق کار اور اہداف میں باہم مختلف ہوں گے۔ اس مقدمے کا ایک اطلاق تو خود علامہ کے اپنی فکری ارتقاء اور مابعد خطبات کی شاعری میں اس کے اظہار پر ہوتا ہے۔ اس سے الگ ہو کر بھی دیکھیے تو علامہ کی زندگی میں اور ان کے بعد سے اب تک عالم اسلام اور مغرب میں تاریخی، عملی اور فکری تغیرات کا ایک سلسلہ نظر آتا ہے جو مسائل کو منہدم بھی کرتا ہے اور ان کے نئے حل بھی پیش کرتاہے۔ گزرے ہوئے ساٹھ سال کے تناظر میں خطبات پر اس پیش رفت کا کیا اثر تسلیم کیا جانا چاہیے؟۔۴؎ کم و بیش یہی بات استاد گرامی پروفیسر مرزا محمد منور صاحب نے اجمالاً اپنے ایک مقالے میں کہی جسے مسئلہ زیر غور پر بہت بلیغ تبصرہ کہا جا سکتا ہے۔ مرزا صاحب کا قول ہے کہ: ہمیں تشکیل جدید کی روشنی میں دور مابعد کے مکتوبات، بیانات، خطبات اور تصریحات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ علامہ کی سوچ ۱۹۲۹ء تک پہنچ کے رک نہ گئی تھی۔’’ فکر اقبال تشکیل جدید کے بعد‘‘ ایک مستقل کتاب کا تقاضا کرنے والا عنوان ہے۔۵؎ آئندہ صفحات میں جو تصنیف نذر قارئین کی جا رہی ہے وہتشکیل جدید کو حوالہ بنا کر انہی سوالات میں سے چند کے ممکنہ جواب تلاش کرتی ہے۔ اپنی اولین صورت میں اسے ایم فل (اقبالیات) کے تحقیقی مقالے کے طور پر لکھا گیا تھا۔ چند اضافوں اور ترامیم کے علاوہ یہ اسی مقالے کی مطبوعہ شکل ہے۔ اس نوع کی تحریروں میں نصابی، تعلیمی ضروریات اور لکھنے والے کی خام کاری کے کارن پیدا ہونے والی کمزوریاں تو ہوا ہی کرتی ہیں اور یقینا یہاں بھی قارئین ان سے دوچار ہوں گے لیکن ان دو اسباب ضعف کے علاوہ اس مقالے کی علمی کم مائیگی کا ایک اور بھی سبب ہے۔ اسے ہم موضوع تحقیق کی غیر معمولی مشکلات سے تعبیر کر سکتے ہیں۔تشکیل جدید میں کار فرما منہاج علمی کا تعین، اس منہاج کے لازمی تقاضے، اس کے برتنے کے مضمرات اور اس کے نتائج کی کامیابی ، نارسائی کا مطالعہ بہت دشوار کام تھا۔ میری یہ طالب علمانہ کو شش اس سمت میں میرا یہ پہلا قدم ہے، ڈگمگاتا قدم۔ میری نظر میں اس کی یہی حیثیت ہے اور جرح و نقد کی کسوٹی پر اس کے لیے اتنی ہی رعایت کی امید بھی رکھتا ہوں۔ اس مقالے کی تیاری میں جہاں مجھے اپنے استاد مکرم پروفیسر مرزا محمد منور صاحب کی رہنمائی کی نعمت میسر رہی ہے وہاں مطبوعہ مآخذ سے مایوسی اور ہمت شکنی کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ اس کا شکوہ صفحات ماقبل میں ضمناًآ چکا ہے لہذا لازم ہے کہ سطور ماسبق میں مذکورتشکیل جدید پر’’اچھے مطالعات کے فقدان‘‘ سے ایک نمایاں اور اہم استثناء کا تذکرہ بھی کر دیا جائے۔ ڈاکٹر برہان احمد فاروقی صاحب، میرے مطالعے اور معلومات کی حد تک، ان معدودے چند اہل علم میں سے تھے جن کو خطبات یاتشکیل جدید کے صحیح فہم، اس کے مسائل کے گہرے ادراک اور ان مسائل کے اسباب پر ناقدانہ نظر رکھنے کے اعتبار سے سب ماہرین اقبالیات میں ایک ممتاز حیثیت دی جا سکتی ہے۔۶؎ ا ستاذ گرامی کے علاوہ اپنی اس تحریر میں اگر مجھے کسی اور شخصیت سے بھر پور سرپرستی اور فکری معاونت نصیب ہوئی ہے تو وہ انہی کی ذات تھی۔ ان کے نوٹس اور گفتگو قدم قدم پر میرے لیے رہنما رہی۔ کلمۂ انتساب کے تحت جو کچھ لکھا گیا ہے وہ اعتراف حقیقت اور قدر خویش تسلیم کرنے کا عمل ہے، حسن عقیدت کا غماز نہیں۔ اللہ تعالیٰ انکو درجات بلند سے سرفراز فرمائے۔ آمین۔ محمد سہیل عمر ۱۰ محرم الحرام ۱۴۱۷ھ جولائی ۱۹۹۶ء حرف مکرر طبع ثانی اپنے نقش اوّل سے صرف، ترتیب متن اور حسنِ طباعت میں بہتر ہے۔ یہاں وہاں املاء کی چند تصحیحات ضرور کی گئی ہیں لیکن گذشتہ آٹھ سال کی اپنی تحقیقات اور اقبالیات میں منظر عام پر آنے والی تازہ تصانیف کی روشنی میں کتاب کے متن اور استدلال میں کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی ۔ محمد سہیل عمر جولائی ۲۰۰۲ء حواشی ۱) سلیم احمد،’’ اقبال اور ہند اسلامی تہذیب‘‘ نیا دور، شمارہ۱۶۵۔۱۶۶، کراچی، ص ۶۔۲۲۴۔ ۲) شیخ عطاء اللہ، اقبالنامہ ، جلد اول شیخ اشرف لاہور، ص ۱۱۔۲۱؛ نیز دیکھیے تشکیل جدید اردو ترجمہ، از سید نذیر نیازی مقدمہ؛ پس منظر کی مزید تفصیلات کے لیے دیکھیے، جاوید اقبال، زندہ رود، جلدسوم، شیخ غلام علی، لاہور، ۱۹۸۴ء ، ص ۳۶۷ نیز مکتوبات اقبال، مرتبہ سیدنذیر نیازی، ص۲۴، ۲۵، ۴۲،۴۳،۶۔۴۵؛ رفیع الدین ہاشمی، تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، اقبال اکادمی، لاہور ، ۱۹۸۲ئ،ص ۳۱۳۔ ۳) جاوید اقبال ، زندہ رود، محولہ بالا، ص ۳۷۰۔ ۴) محمد سہیل عمر، ’’خطبات اقبال۔ چند بنیادی سوالات‘‘ اقبالیات، جلد ۲۸، ش۲، جولائی ۱۹۸۷ء ، اقبال اکادمی، لاہور، ص ۴۳ (بہ ترمیم و اضافہ) ۵) مرزا محمد منور، ’’علامہ اقبال اور اصول حرکت‘‘ طبع نو، اقبال اکادمی پاکستان، ت۔ ن۔ ۶) ر۔ک۔ برہان احمد فاروقی، قرآن اور مسلمانوں کے زندہ مسائل، (بالخصوص حصہ اقبالیات) ، ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، ۱۹۸۹ئ۔ مقدمہ آٹھویں صدی ہجری کے مشہور فلسفی متکلم عضدالدین ایجی نے علم کلام کی تعریف مندرجہ ذیل الفاظ میں کی تھی: علمِ کلام وہ علم ہے جو عقائد دینی کو مستحکم طور پر ثابت کرنے کے لیے دلائل دینے اور شبہات کا ازالہ کرنے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے۔ ۱؎ دلائل کا انحصار بڑی حد تک ہر عہد کے فکری وسائل پر رہا ہے اور شبہات بھی ہر عہد کے مخصوص فکری مسائل سے جنم لیتے رہے ہیں۔ اس طرح علم کلام کے عنوان کے تحت عمل فرما ثانوی عقلی سرگرمی اور اس کے حاصلات میں ہر عہد کے تقاضے بھی منعکس ہوتے رہے ہیں اور ان کا رد عمل بھی۔ اس کے صدیوں پر پھیلے ہوئے فکری سفر کے دوران میں اسے اسلام کے دیگر مکاتب فکر یعنی اسلامی فلسفہ اور فقہ و تصوف سے بھی تاثیر و تاثر اور عمل اور رد عمل کی منزل سے گزرنا پڑا جس کے نتیجے میں طرفین کے ذخیرئہ مباحث میں اضافہ ہوا، نتائج افکار میں تغیر آیا اور نقطۂ نظر میں وسعت اور رنگا رنگی پیدا ہوئی۔۲؎ حقائق دین کے اثبات کی غرض سے وجود میں آنے والی یہ عقلی سرگرمی عہد بہ عہد تغیرات سے گزرتے ہوئے جب ہمارے زمانے اور برصغیرکی فکری فضا میں ظہور کرتی ہے تو اس کے قائلین میں یہاں کے حالات کے مطابق اہل علم کے دونوں طبقوں یعنی جدید تعلیم یافتہ اہل قلم اور قدیم نظام تعلیم کے فارغ التحصیل علماء شریک نظر آتے ہیں۔ دونوں اپنے دائرہ کار میں اور اپنے اپنے فکری وسائل کے سہارے اپنے عہد کے سوالوں کا سامنا کرتے ہیں اور ان کا جواب فراہم کرتے ہیں۔ ۳؎ جدید تعلیم یافتہ مفکرین میں عہد حاضر کی سب سے بڑی اور موثر آواز علامہ اقبال کی ہے لیکن علامہ کی فکری حیثیت محض جدید کلام کے ایک نمائندے سے کہیں بلند تر ہے۔ ان کا کثیر الجہات شعری اور نثری کارنامہ اپنے حدو وسعت کے اعتبار سے تنگنائے کلام کا اسیر نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم جدید علم کلام کی تشکیل کو ان کے پورے فکری تناظر کا ایک اہم جزو ضرور کہا جا سکتا ہے۔ علامہ کے خطبات یعنی تشکیل جدید الہیات اسلامیہ ، ۴؎ کو تقریبا سبھی ماہرین اقبالیات نے عہد حاضر میں حقائق دین کی سب سے کامیاب اور ہمہ گیر تعبیر نو قرار دیا ہے۔ علامہ اقبال کے زمانے تک آتے آتے، مغرب جدید کی تہذیب سے فکری تصادم کے نتیجے میں، ان کے عہد کے سوالات ایک مخصوص شکل اختیار کر چکے تھے جو بڑی حد تک ان سے پہلے کے ادوار سے مختلف تھی۔ دوسری طرف علامہ اقبال کے فکری و سائل بھی ان سے پہلے دور کے مفکرین کے مقابلے میں وسیع تر اور مکمل تر تھے۔ مغربی تہذیب سے جیسا براہ راست تعارف انہیں حاصل تھا اور مغربی فکر و فلسفہ پر جتنی گہرائی اور گیرائی سے ان کو دسترس حاصل تھی اس سے ان کے پیشر و بہرہ مند نہیں تھے۔ علامہ کے عہد کے فکری مسائل کی مخصوص نوعیت ان کے مخاطبین کے مخصوص ذہنی تقاضے اور علامہ کا فکری تناظر، یہ سب عناصر مل کر تشکیل جدید کو اس طرح کی دیگر کاوشوں سے ایک الگ اور ممتاز حیثیت میں لے آتے ہیں۔ اس انفرادی حیثیت کے بارے میں یوں تو اس طرح کے بیان بھی ملتے ہیں کہ ’’علامہ اقبال کے خطبات عصر حاضر کا جدید علم کلام ہیں جس کی ضرورت ارباب فکر و بصیرت عرصہ سے محسوس کر رہے تھے، اس سے انکار ممکن نہیں ہے کہ یہ علم الکلام ہمارے قدیم علم الکلام سے بدر جہا فائق، مستحکم اور ایمان و بصیرت کو جلا بخشنے والا ہے۔‘‘۵؎ لیکن ایسے بیانات سے قارئین کو یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ تشکیل جدید کی علمی منہاج میں وہ کون سے عناصر ہیں جن کی وجہ سے اس کو ایک امتیازی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر ظفر الحسن صاحب کا بیان زیادہ رہنما ہے۔۶؎ ڈاکٹر صاحب نے اپنے خطبہ صدارت میں تشکیل جدید کے خطبات پر تبصرہ کرتے ہوئے اولاً تو علامہ اقبال کی اس فکری کاوش کو سرسید احمد خان کے مکتب فکر کے تسلسل میں ایک اہم ضرورت یعنی ’’ایک جدید علم کلام کی تخلیق‘‘کی کامیاب تکمیل قرار دیا اور پھر سرسید کے اصول تفسیر اور دیگر تحریروں کے حوالے سے یہ بتایا کہ ان کے نزدیک علم کلام کا مقصد یہ تھا کہ دینی حقائق اور فلسفہ و سائنس میں عدم مطابقت نہیں ہے۔۷؎ اس مقصد کو حاصل کرنے کے سرسید نے دو طریقے بتائے تھے۔ ڈاکٹر ظفر الحسن نے اگرچہ انہیں عنوان نہیں دیا تھا تاہم سہولت کی خاطر ہم ان کے لیے ’’اصول تطبیق‘‘ اور ’’اصول تفریق‘‘ کے عنوانات قائم کر سکتے ہیں۔ اصول تطبیق یہ ہے کہ ’’یہ ثابت کیا جائے کہ مذہب جو کہتا ہے وہ حقیقت ہے اور فلسفہ و سائنس اصل میں اس سے متفق ہیں۔ جن مقامات پر اختلاف و تناقض پیدا ہو، وہاں فلسفہ و سائنس کی تردید کی جائے۔‘‘۸؎ اصول تفریق یہ ہے کہ ’’یہ دکھایا جائے کہ مذہب کی اقلیم فلسفہ و سائنس سے مختلف ہے۔ جہاں جہاں مذہب ان امور پر کلام کرتا ہے جو فلسفہ و سائنس کا موضوع ہیں تو مذہب کا مقصود بیان وہ نہیں ہوتا جو فلسفہ و سائنس کا ہے یعنی وہ فلسفہ و سائنس کی طرح ہمیں یہ نہیں بتانا چاہتا کہ ان اشیاء کی ماہیت کیا ہے؟ اس کا مقصود اخلاقی یا مذہبی نتائج ہیں یا وہ ہدایت جو ان سے حاصل کی جا سکتی ہے۔‘‘۹؎ اس کے بعد ڈاکٹر ظفر الحسن صاحب نے اپنا اولین تاثر یوں درج کیا ہے۔ ابتدا میں چندے میرا خیال یہ رہا کہ ڈاکٹر سرمحمد اقبال دوسرا طریقہ اپنائیںگے لیکن جلد ہی یہ بات کھل گئی کہ ایسا نہیں ہے……اسلام اور فلسفے کو تطبیق دینے اور ہم آہنگ کرنے کی جو غیر معمولی لیاقت ان کو حاصل ہے اس نے ان کو آمادہ کیا کہ وہ اس کام کو دوبارہ انجام دیں جو صدیوں پہلے یونانی فلسفہ و سائنس کے روبرو ہمارے عظیم علماء مثلاً نظام اور (ابوالحسن) اشعری نے اپنے لیے منتخب کیا تھا۔ اپنے ان خطبات میں انہوں نے ہمارے لیے ایک جدید علم الکلام کی نیورکھ دی ہے۔ ۱۰؎ ڈاکٹر ظفر الحسن صاحب کے تبصرے سے یہ واضح ہوا کہ علامہ کا اختیار کردہ منہاج علم اصول تطبیق سے عبارت ہے۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس اصول کا اطلاق کرتے ہوئے علامہ نے استدلال کی جو عمارت اٹھائی اس کے دروبام سے یہ اصول کیسے منعکس ہوا ہے، نیز جدید علم الکلام کی نیو رکھتے ہوئے علامہ نے اس نیو میں کیا کچھ رکھا تھا۔ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ علامہ کے مخاطبین کے ذہنی مسائل سابقہ نسلوں سے مختلف تھے۔ دوسری طرف علامہ کے علمی وسائل گہرائی اور گیرائی کے اعتبار سے اپنے پیشرو مصنفین سے مختلف بھی تھے اور متنوع بھی۔ مخاطبین کے بارے میں علامہ کا اپنا بیان کچھ یوں ہے: ان لکچروں کے مخاطب زیادہ تر وہ مسلمان ہیں جو مغربی فلسفے سے متاثر ہیں اور اس بات کے خواہشمند ہیںکہ فلسفہ اسلام کو فلسفہ جدید کے الفاظ میں بیان کیا جائے اور اگر پرانے تخیلات میں خامیاں ہیں تو ان کو رفع کیا جائے۔ میرا کام زیادہ تر تعمیری ہے اور اس تعمیر میں میں نے فلسفہ اسلام کی بہترین روایات کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ مگر میں خیال کرتا ہوں کہ اردو خوان دنیا کو شاید ان سے فائدہ نہ پہنچے کیونکہ بہت سی باتوں کا علم میں نے فرض کر لیا ہے کہ پڑھنے والے یا سننے (والے) کو پہلے سے حاصل ہے۔ اس کے بغیر چارہ نہ تھا۔۱۱؎ یہ فلسفہ جو اس زمانے کے ہندوستان میں پڑھایا جاتا تھا، کیا تھا؟ مغربی افادیت پرستوں اور حسیت پرستوں کے افکار۔اس سے جو ذہن تیار ہوتا ہے اس کی طرف بھی علامہ نے خطبات کے آغاز ہی میں اشارہ کر دیا ہے کہ ’’اسے محسوس یعنی اس قسم کی فکر کی عادت ہو گئی ہے جس کا تعلق اشیاء اور حوادث کی دنیا سے ہے۔‘‘ ۱۲؎ ……لہذا اب ہمیں تشکیل نو کے کام کے لیے ’’کسی ایسے منہاج کی ضرورت ہو گی جو……نفسیاتی اعتبار سے اس ذہن کے قریب تر ہو جو گویا محسوس کا خوگر ہو چکا ہے تا کہ وہ اسے بہ آسانی قبول کرے۔‘‘۱۳؎ اب علامہ کا ایک بیان خود اپنی افتاد طبع کے بارے میں بھی دیکھ لیجئے۔ ستمبر ۱۹۲۵ء میں صوفی غلام مصطفی تبسم کے نام خط میں لکھتے ہیں: میری مذہبی معلومات کا دائرہ نہایت محدود ہے البتہ فرصت کے اوقات میں میں اس بات کی کوشش کیا کرتا ہوں کہ ان معلومات میں اضافہ ہو۔ بات زیادہ تر ذاتی اطمینان کے لیے ہے، نہ تعلیم و تعلم کی غرض سے…… اس کے علاوہ ایک اور بات (یہ) بھی ہے کہ میری عمر زیادہ تر مغربی فلسفے کے مطالعہ میں گزری ہے اور یہ نقطۂ خیال ایک حد تک طبیعت ثانیہ بن گیا ہے۔ دانستہ یا نادانستہ میں اسی نقطۂ نگاہ سے حقائق اسلام کا مطالعہ کرتا ہوں…۱۴؎ ان عبارتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم مسئلہ زیر بحث یعنی علامہ کے منہاج علمی کے بارے میں یہ عرض کریں گے کہ علامہ کے مخاطبین دو گونہ مشکلات کا شکارتھے۔ایک طرف وہ صرف انہی مقولات (Categories)کے آشنایا انہی مقولات کے قائل تھے جو حسیت پرستی (Empiricism ) کے علمی پس منظر نے انہیں فراہم کیے تھے۔ دوسری طرف وہ ان اشکالات اور فکری الجھنوں میں مبتلا تھے جو حسیات پرستی کے مقولات کو ان کے جائز دائرہ کار سے باہر وارد کرنے سے پیدا ہوئی تھیں۔۱۵؎ علامہ نے مصلحت وقت اور اپنے علمی رجحان کا تقاضا یہ جانا کہ ان کے مقولات کا انکار کرنے کے بجائے یا ان کے علاوہ دوسرے مقولات کو تسلیم کرنے کی جانب ان کو مائل کرنے کے بجائے انہی مقولات کے اندر اور انہی مقولات کی مثال اور مشابہت کے ذریعے ان کو حقائق دین کی تفسیر کر کے دکھائی جائے اور ان کے شعور پر یہ واضح کر دیا جائے کہ خود تمہارے مسلمات کے مطابق اسلام اور علوم جدیدہ میں تضاد نہیں ہے بلکہ یہ ایک دوسرے سے مثبت طور پر ہم آہنگ ہیں۔ یہ راستہ دشوار تر ہے۔ دو اقالیم کے مقولات کا امتیاز قائم کرنا اور اس امتیاز کی بنیاد پر ان کے مد لولات کو الگ کرنا آسان ہے لیکن ایک اقلیم کے مقولات و مسلمات کے سہارے اور ان کی مثال کے ذریعے، ایک الگ اور ماوراء اقلیم کے حقائق کی تعبیر، خوگر محسوس اذہان تک منتقل کرنا، ایک مشکل کام ہے۔ اس مجرد بحث کو ہم چند مثالوں سے سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ کانٹ کے اپنے زمانے سے لے کر ہماری معاصر فکری تحریک ’’پس جدیدیت‘‘ تک جو بنیادی تصور روپ بدل بدل کر کم و بیش ہر مکتب فکر میں ظاہر ہوتا رہا ہے وہ کانٹ کے مرکزی اعتراض پر استوار ہے۔ مابعد الطبیعیات یا وجود خداوندی کے سلسلے میں کانٹ کا نظریہ مختصراً یہ تھا کہ: علم ایسے قضیہ مرکبہ وہبیہ کا نام ہے جس کے متوازی خارج میں حقیقت موجود ہو، جس کا خام مواد حواس نے مہیا کیا ہواور عقل کے بنیادی (خلقی) مقولات /مسلمات ۱۶؎ کی بنا پر قضیہ علمیہ میں کلیت پیدا ہوئی ہو۔ یوں حواس اور عقل مل کر ایک ذریعہ علم ہیں لہذا ہمارا علم یقینی حواس کے دائرے تک محدود ہے اور ورائے محسوسات کا علم یقینی ممکن ہی نہیں۔ بالفاظ دیگر چونکہ محسوس کے سوا کسی اور شے اور اس سے مختلف کسی اور اقلیم وجود کی تجربی تصدیق ممکن نہیں لہٰذا محسوس کے سوا کسی اور حقیقت کا یقینی علم بھی ممکن نہیں۔ اس بات کو آگے بڑھایئے تو یہ نتیجہ نکلے گا کہ مابعد الطبیعیات (ذات الہی، ملائکہ، مقامات معاد، وحی…) کا علم نا ممکن ہے کہ ہم یہ فرض نہیں کر سکتے کہ حقیقت اولیٰ کی ماہیت یوں ہے یا یوں ہے تا وقتیکہ یہ ہمارا تجربہ نہ ہو اور نوع انسانی کا تجربہ یہ اس لیے نہیں کہ انسانوں کا تجربہ دائرہ حواس تک محدود ہے۔ چونکہ حقیقت اولیٰ ہمارے تجربے سے باہر ہے، بنا بریں ہمارے علم سے بھی باہر ہے۔ کانٹ کے اس مرکزی خیال کا سامنا کرنے کے دو طریقے ہو سکتے تھے۔ وہی دو طریقے جو ہم نے اصول تطبیق اور اصول تفریق کے عنوانات کے تحت بیان کئے۔ کانٹ دو چیزوں کا قائل ہے۔ حسی ادراک اور اس میں تنظیم و معنویت پیدا کرنے والے خلقی مقولات فکر۔ اصول تفریق کی راہ اختیار کریں تو جواب یہ ہو گا کہ جن خلقی مقولات ۔۱۷؎ کا کانٹ کو اقرار ہے ان کے علاوہ ، ان سے اعلیٰ اور اہم تر، مقولات اس کی فکر کی رسائی سے باہر رہ گئے۔ یعنی ہم مخاطب کو کچھ اور مقولات کے وجود کی طرف متوجہ کروائیں گے جن سے ان مظاہر کی توجیہ و تعلیل ہو سکتی ہے جن کی تردید کانٹ کے سلسلۂ فکر کے نتیجے میں لازمی ہو جاتی ہے۔ یعنی اس راہ استدلال میں کانٹ کے مجوزہ مقولات میں اضافہ کرنا مطلوب ہو گا۔ اس کے برعکس اگر اصول تطبیق کی راہ اختیار کی جائے تو ہم یہ مان کر چلیں گے کہ ایک طرف تو مسلمات و مقولات فکر ہیں اور دوسری طرف حسی تجربہ۔ ہمارے مخاطبین صرف انہی دو کے قائل ہیں۔ اول الذکر صورت میں تطبیق دینے والے کی دلیل یہ ہو گی کہ اگر تجربے کا دائرہ وسیع تر کر دیا جائے اور محسوسات کے علاوہ تجربے کے کسی اور ڈھب کا اثبات کیا جائے تو امکان علم سے یہ انکار بھی اثبات میں بدل سکتا ہے۔ علامہ نے مصلحت کلام اور قریب الفہم ہونے کی رعایت سے یہی بات کہی کہ انسان کا ایک اور تجربہ بھی ہے، داخلی یا سرّی تجربہ۔ اسے وقوف مذہبی یا وقوف سرّی کہا جا سکتا ہے اور یہ نہ صرف ایک طرح سے ہمارے عمومی طبعی تجربے سے مشابہ ہے بلکہ شاید اسی تجربے کے زمرے میں شامل ہے۔۱۸؎ غور کیجئے کہ یہاں کیا دلیل کار فرما ہے۔ علامہ اپنے مخاطب کو اسی کے مسلمات کے حوالے سے اور اسی کے تسلیم کردہ مقولات سے مشابہت کی طرف توجہ دلا کر اسے حقائق دینی میں سے ایک بنیادی چیز یعنی وحی خداوندی کا قائل کر رہے ہیں۔ تقریب فہم کے لیے وہ گویا مخالف کے میدان فکر میں خود چل کر جاتے ہیں اور اسی کے اصولوں کے مطابق بیان کرتے ہیں کہ دیکھو، حسی تجربات کے علاوہ فلاں قسم کے تجربات اور بھی ہیں جو حواس کے دائرے سے باہر ہیں اور ان کا انکار بھی نہیں ہو سکتاکیونکہ ان کو خارج میں وقوع پذیر ہوتے دیکھا جاتا ہے لہذا اگر حواس کے مدرکات کے علاوہ اور بھی کچھ ہو رہا ہے تو اس پر قیاس کرکے حقیقت کے علم کے ایک اور ذریعے کے امکان کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ مثال کے طور پر علامہ نے ابن صیاد کا واقعہ پیش کیا ہے ۱۹؎ اور ولیم جیمز کا حوالہ دیا ہے۔ ۲۰؎ ابن صیاد کے واقعہ کی تفصیلات پر غور کیجئے تو واضح نظر آتا ہے کہ سارا معاملہ کشف خواطر سے زائد کا نہیں ہے اور دوسرے ذہن کے خیالات بوجھ لینے کی افقی صلاحیت سے متعلق ہے، خالصتاً اقلیم رُوانی Psychic domain میں پیش آیا اور اس میں حقائق الامور یا عالم غیب کے علم سے متعلق کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ شعور مذہبی نے وحی کے مابعد الطبیعی، معروضی مظہر میں اور اس قبیل کے نفسی تجربات کے مابین ہمیشہ ایک نوعی فرق مانا ہے۔ لیکن علامہ جس اصول تطبیق کو استعمال کر رہے تھے او رجن لوگوں کو خطاب کر رہے تھے ان دونوں کا تقاضا تھا کہ ان تک صرف اسی قبیل کے تجربے کا ابلاغ کیا جائے لہٰذا علامہ نے اپنے خطبے میں ابن صیاد کی استعدادِ کشفِ خواطر اور وحی میں فرق بیان نہیںکیا اور اس نوع کے تجربے کو بھی ذرائع علم میں شمار کیا ہے۔ مخاطب کے ذہنی مسائل کی رعایت سے اسے اسی کے مسلمات کے سہارے دین کے حقائق سمجھانے کی اس تطبیقی کوشش کی مثالیں تمام خطبات میں اور ان کے سبھی مباحث میں ملتی ہیں۔ ہم سردست ان کے تفصیلی مطالعے سے گریز کرتے ہوئے ایک اور اہم معاملے کی طرف قارئین کی توجہ دلانا چاہتے ہیں جو مذکورہ بالا اصول تطبیق کے اطلاق کے سلبی پہلو سے متعلق ہے۔ وقوف سرّی کی ابن صیاد والی مثال دے کر اور اسے ذریعۂ علم قرار دے کر علامہ نے اپنے مخاطبین کو قائل کیا کہ حسی تجربے کے علاوہ وقوف سرّی یا اس قبیل کا انسانی تجربہ بھی ممکن ہے جو اگرچہ دائرہ حواس سے باہر ہے تاہم ناقابل تردید طور پر تجربے میں آیا ہے۔ چونکہ وحی بھی بہ اعتبار نوعیت ایک وقوف سرّی ہے لہٰذا اس کا امکان بھی تسلیم کرنا ہو گا۔‘‘ وقوف سرّی (سرّی تجربہ) جوبہ اعتبار نوعیت نبی کے تجربے سے مختلف نہیں ہے انسانی زندگی میں اب بھی بطور ایک امکان کے موجود ہے۲۱؎ ……… ’’وقوف سرّی خواہ کتنا ہی غیر معمولی اور مافوق العادت کیوں نہ ہو، مسلمان کو چاہیے کہ اسے ایک کاملاً طبعی تجربہ شمار کریں جسے انسانی تجربے کے دوسرے پہلوئوں کی طرح تنقیدی تجزیے کا موضوع بنایا جا سکتا ہے۔ یہ امر آنحضرت ﷺ کے اس رویے سے عیاں ہے جو آپؐ نے ابن صیاد کے نفسی تجربات (احوال) کے بارے میں اختیار کیا۔‘‘۲۲؎ یہاں آ کر استدلال کے منطقی رخ کے تحت اس اصول تطبیق کا سلبی پہلو ظاہر ہونے لگتا ہے۔ اولاًیوں کہ اگر وقوف سرّی جو ’’بہ اعتبار نوعیت نبی کے تجربے سے مختلف نہیں ہے‘‘احتمال خطا سے بری نہیں ہے تو وحی محمدی (یا کوئی اور وحی خداوندی) بھی احتمال خطا سے بری نہیں ہو گی۔ دوسری طرف یہ دیکھیے کہ اگر دونوں تجربے یا دونوں واردات نوعیت اور کیفیت میں یکساں و ہم جنس ہیں تو تنقیدی نظر سے جائزے کا اطلاق واردات نبوی پر بھی ہو جائے گا۔ اصول تفریق کے تحت اس کا حل یہ تھا کہ انبیاء کی وحی اور وقوف سرّی کے تمام مظاہر کے درمیان ایک نوعی فرق مانا جائے تا کہ ان کے مراتب الگ کر کے ان کی شرائط اور تقاضے بھی الگ کئے جا سکیں نیز یہ بات بھی پیش نظر رکھی جائے کہ خرق عادت یا غیر معمولی اور مافوق الطبیعی تجربات گو ایک ممکن چیز ہیں مگر ان کے امکان یا ان کے وقوع سے صرف اسی درجۂ وجود کے مظاہر کا ثبوت فراہم ہو سکتا ہے یعنی Psychic اور Occult کے وجود کا ۔اس سے اقلیم روحانی سے تعلق کی ضمانت میسر نہیں آتی نہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس نوع کے تجربات کا حامل انبیاء کی طرح وحی خداوندی سے سرفراز ہو رہا ہے اور خدا سے ہم کلام ہے۔ اگر یہ فرق نہ مانا جائے تو عام آدمی کے لیے وحی پر عقیدہ رکھنے کی ضرورت ساقط ہو جائے گی اور شریعت محمدیہ بھی انسانی تجربات کی ذیل میں ایک تجربہ بن جائے گی جس کے رد وقبول کا حق عقل استقرائی کو حاصل ہو گا، اور ماوراء الطبیعی جہت سے کٹ کر نبوت محمدیہ اور ختم نبوت ہر دو صرف عقلی قدرو قیمت کی کمزور بنیاد پر تسلیم کے لیے پیش ہوں گے۔ پہلے اشکال کو رد کرنے کے لیے علامہ نے قرآن سے استدلال کیا ہے۔ ۲۳؎ اس استدلال کا منطقی قضیہ یہ ہے کہ واردات باطنی میں احتمال خطا کے باوجود اسے بطور ایک ذریعۂ علم کے رد نہیں کرنا چاہیے کیونکہ خود وحی نبوی میںیہ احتمال پایا جاتا ہے۔ اس استدلال میں جو سقم ہے اس سے ہم یہاں تعرض نہیں کر رہے۔۲۴؎ ہمیں اپنے پیش کردہ نکتے کی فکری توسیع کے طور پر عرض کرنا ہے کہ علامہ کو اپنے طریق استدلال کے منطقی نتیجے کے طور پر پیدا ہونے والے بعض اشکالات کا بخوبی اندازہ تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ جب وقوف سرّی کو اور وقوف مذہبی کو عام انسانی تجربے کے زمرے میں شمار کیا جائے گا تو اس سے اگرچہ حسیت پرستی میں گرفتار مخاطبین کو وحی کے ممکن ہونے پر دلائل سے قائل تو کر لیا جائے گا مگر ساتھ ہی وہ اساسی امتیازات بھی منہدم ہو جائیں گے جو عام انسان کے معمول بہ حسیاتی، رُوانی اور اختباری تجربات اور تنزیلات ربانی کے وصول کرنے والے خاص انسانوں کے تجربے کے درمیان شعور مذہبی کی طرف سے پیش نظر رکھے جاتے ہیں۔ وحی خداوندی کی حجیت اور صداقت پروارد ہونے والے اس اشکال کو سامنے رکھتے ہوئے اور صاحب وحی کے تجربے کا عام انسانی تجربے سے امتیاز از سر نو قائم کرنے کے لیے علامہ نے خطبہ اول کے آخر میں اور دیگر مقامات پر بھی اس ممکنہ حل کی طرف اشارہ کیا ہے: ہم برابر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ مذہبی واردات کی حیثیت در اصل ایک کیفیت احساس کی ہے جس میں دوسروں کے سامنے بطور تصدیقات ہی کے پیش کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر کسی تصدیق کے متعلق جو یوں تو ہماری دسترس سے باہر ہے ، یہ دعویٰ کیا جائے کہ اس سے ہمارے محسوسات و مدرکات کے ایک خاص عالم کی ترجمانی ہوتی ہے تو ہمیں یہ پوچھنے کا حق پہنچتا ہے کہ اس کی صحت کا ثبوت کیا ہے یعنی کیا ہمارے پاس کوئی ایسی آزمائش موجود ہے جس سے اس کے حق و باطل کا امتحان کیا جا سکے؟ یا اگر فرض کیجیے ان تصدیقات کی صحت کا دار و مدار کسی شخص کے ذاتی مشاہدات پر ہوتا تو اس صورت میں مذہب کا حلقہ بھی صرف چند افراد تک محدود رہ جاتا ۔ لیکن خوش قسمتی سے ہمارے پاس بعض ایسی آزمائشیں موجود ہیں جو ان آزمائشوں Religious experience, I have tried to maintain, is essentially a state of feeling with a cognitive aspect, the content of which cannot be communicated to others, except in the form of a judgement. Now when a judgement which claims to be the interpreatation of a certain region of human experience, not accessible to me, is placed before me for my assent, I am entitled to ask, what is the guarantee of its truth? Are we in possession of a test which would reveal its validity? If personal experience had been the only ground for acceptance of a judgement of this kind, religion would have been the possession of a few individuals only. Happily we are in possession of tests which do not differ from those applicable to other forms of knowledge. These I call the intell سے مختلف نہیں جن کا اطلاق علم کی دوسری اصناف پر ہوتا ہے اور جن کو ہم عقلی اور عملی معیارات سے تعبیر کریں گے ۔ عقلی معیار تو عبارت ہے اس ناقدانہ تعبیر سے جس میں ہم اپنے محسوسات و مدرکات کی تحقیق کسی پہلے سے قائم شدہ مفروضے کے ماتحت نہیں کرتے بلکہ جس سے بالعموم یہ دیکھنا مقصود ہوتا ہے کہ اس تعبیر کی انتہا کیا فی الواقعہ اسی حقیقت پر ہوتی ہے جس کے انکشاف میں مذہبی مشاہدات ہماری رہنمائی کرتے ہیں ، لیکن عملی معیار باعتبار نتائج ان پر حکم لگاتا ہے ۔ اوّل الذکر سے فلسفی کام لیتے ہیں، مؤخرالذکر سے انبیاء آئندہ خطبے میں ہم عقلی معیار ہی سے کام لیں گے۔۲۶ ectual test and the pragmatic test. By the intellectual test I mean critical interpretation, without any presuppositions of human expe- rience, generally with a view to discover whether our interp- retation leads us ultimately to a reality of the same character as is revealed by religious experience. The pragmatic test judges it by its fruits. The former is applied by the philosopher, the latter by the prophet. In the lecture that follows, I will apply the intell- ectual test 25 علامہ نے اس مشکل کا حل پیش کرتے ہوئے بھی اپنے اختیار کردہ اصول تطبیق کو ترک نہیں کیا بلکہ اسی کے تقاضے کے مطابق وہ معیار اور وہ آزمائشیں بطور حدود امتیاز تجویز کیے ہیں جو مخاطب کے مقولات و مسلمات فکر یا اس کے ذہنی تناظر Paradigm سے باہر نہیں ہیں۔ ’’ہمارے پاس بعض ایسی آزمائشیں موجود ہیں جو ان آزمائشوں سے مختلف نہیں ہیں جن کا اطلاق علم کی دوسری اصناف پر ہوتا ہے۔‘‘۲۷؎ ان الفاظ سے علامہ اسی مشترکہ بنیاد کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ ان کی تجویز کردہ آزمائش عملی اور آزمائش نظری دونوں کا تعلق مخالف کی اقلیم فکر کے مسلمات سے ہے۔ اوّل الذکر عملی افادیت Pragmatism پر مبنی ہے اور موخر الذکر کا تار و پود تجربیت Empiricism اور حیات پرستی Vitalismسے تیار ہوا ہے اور اس کے لیے دلائل فراہم کرتے ہوئے علامہ نے اپنے معاصر فلسفیوں کے افکار سے تفصیلی استفادہ کیا ہے اور ان کے نظریات سے مشابہت و ہم آہنگی کی بنیاد پر اپنے استدلال کو تعمیر کیا ہے۔۲۸؎ ہماری دانست میں یہ ہیں وہ عناصر ترکیبی جن پر تشکیل جدید کی منہاج علمی استوار کی گئی۔ ان کی طرف اولین اشارہ ڈاکٹر سید ظفر الحسن صاحب نے کیا تھا اور ان کے مختصر اشارات کی مدد سے تشکیل جدید کے مباحث کا تجزیہ کرتے ہوئے ہم ان نتائج تک پہنچے ہیں جن کا ایک ادھورا سا اظہار سطور ماقبل میں ہم نے کیا ہے۔ آئندہ ابواب میں تشکیل جدید کی تطبیقی منہاج کے مظاہرہ کا ہر خطبے کے حوالے سے جائزہ لیا جائے گا۔ اس سے پہلے یہ دیکھ لیا جائے کہ الٰہیات اسلامیہ کی تشکیل جدید کی ضرورت کیوں تھی؟ علامہ کے اپنے الفاظ میںا س کا جواب یہ ہے:۔ تاریخ حاضرہ کاسب سے زیادہ توجہ طلب مظہر یہ ہے کہ ذہنی اعتبار سے عالم اسلام نہایت تیزی کے ساتھ مغرب کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس تحریک میں بجائے خود کوئی خرابی نہیں کیونکہ جہاں تک علم و حکمت کا تعلق ہے مغربی تہذیب دراصل اسلامی تہذیب ہی کے بعض پہلوئوں کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے۔ لیکن اندیشہ یہ ہے کہ اس تہذیب کی ظاہری آب و تاب کہیں اس تحریک میں حارج نہ ہو جائے اور ہم اس کے حقیقی جوہر، ضمیر اور باطن تک پہنچنے سے قاصر رہیں۔۳۰؎ The most remarkable phenomenon of modern history however, is the enormous rapidity with which the world of Islam is spiritually mov- ing towards the West. There is nothing wrong in this movement, for European culture, on its intell- ectual side, is only a further devel- opment of some of the most imp- ortant phases of the culture of Islam.29 آئین اسٹائین کے نظریے نے کائنات کو ایک نئے روپ میں پیش کر دیا ہے اور ہم محسوس کر رہے ہیں کہ اس طرح ان مسائل پر بھی جو فلسفہ اور مذہب میں مشترک ہیں نئے نئے زاویوں کے تحت غور کرنا ممکن ہو گیا ہے لہٰذا اگر اسلامی ایشیا اور افریقہ کی نئی پود کا مطالبہ ہے کہ ہم اپنے دین کی تعلیمات پھر سے اجاگر کریں تو یہ کوئی عجیب بات نہیں۔ لیکن مسلمانوں The theory of Einstein has brought a new vision of the universe and suggests new ways of looking at the problems common to both religion and philosophy. No won- der then that the younger genera- tion of Islam in Asia and Africa demand a fresh orientation of their faith. With the reawakening of Islam, therefore, it is necessary to کی اس تازہ بیداری کے ساتھ اس امر کی آزادانہ تحقیق نہایت ضروری ہے کہ مغربی فلسفہ ہے کیا۔ علی ہذا یہ کہ الٰہیات اسلامیہ کی نظرثانی بلکہ ممکن ہو تو تشکیل جدید میں ان نتائج سے کہاں تک مدد مل سکتیہے جو اس سے مترتب ہوئے۔۳۲؎ examine,inan independent spirit, what Europe has thought and how far the conclusions reached by her can help us in the revision and,if necessary, reconstruction, of theolo- gical thought in Islam"31 ان خطبات میں بھی میرا یہی ارادہ ہے کہ اسلام کے بعض اساسی افکار کی بحث فلسفیانہ نقطہ نظر سے کروں تا کہ اور نہیں تو بہت ممکن ہے ہم اس حقیقت ہی کو آسانی سے سمجھ سکیں کہ بحیثیت ایک ایسے پیام کے جس کا خطاب ساری نوع انسانی سے ہے، اسلام کے معنی کیا ہیں۔ ۳۴؎ I propose to undertake a philos ophical discussion of some of the basic ideas of Islam, in the hope that this may, at least, be helpful towards a proper understanding of the meaning of Islam as a message to humanity.33 ساتھ ہی علامہ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ: اگر قوم کے زوال و انحطاط کو روکنا ہے تو اس کا یہ طریقہ نہیں کہ ہم اپنی گزشتہ تاریخ کو بے جا احترام کی نظر سے دیکھنے لگیں ، یا اس کا احیا خود ساختہ ذرائع سے کریں۔ ۳۶؎ ....a false reverence for past history and its artificial resurrection constitute no remedy for a people's decay. 35 لہٰذا قوائے انحطاط کے سدباب کا اگر کوئی ذریعہ فی الواقع مؤثر ہے تو یہ کہ معاشرے میں اس قسم کے افراد کی پرورش ہوتی رہے جو اپنی ذات اور خودی میں ڈوب جائیں، کیونکہ ایسے ہی افراد ہیں جن پر زندگی کی گہرائیوں کا انکشاف ہوتا ہے اور ایسے ہی افراد وہ نئے نئے معیار پیش کرتے The only effective power, there- fore, that counteracts the forces of decay in a people is the rearing of self-concentrated individuals. Such individuals alone reveal the depth of life. They disclose new standards in the light of which we begin to see that our environment ہیں جن کی بدولت اس امر کا اندازہ ہونے لگتا ہے کہ ہمارا ماحول سرے سے ناقابل تغیر و تبدل نہیں اس میں اصلاح اور نظرثانی کی گنجائش ہے۔ ۳۸ is not wholly inviolable and requires revision.37 علامہ کو اپنی شخصیت کی عبقریت اور صلاحیتوں کا شعور ہے۔ وہ اپنی قوم کو ایک نیا تحرک اور قوت عمل عطا کرنے کے لیے اسلام کی فکر دینی کی اس طرح تعبیر نوکرنا چاہتے ہیں کہ وہ ایک نئی مابعد الطبیعیات ، نئے علم کلام کی صورت اختیار کر لے اور مندرجہ ذیل آیت قرآنی کے ایک زندہ تجربے کا امکان پیدا ہو جائے۔ ’’ماخلقکم ولا بعثکم الاکنفس واحدۃ‘‘۳۹؎ اس کا سبب یہ ہے کہ علامہ یہ شدت سے محسوس کر رہے ہیں کہ: انسان کی روح مردہ ہو چکی ہے، یعنی وہ اپنے ضمیر اور باطن سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ خیالات اور تصورات کی جہت سے دیکھیے تو اس کا وجود خود اپنی ذات سے متصادم ہے۔ سیاسی اعتبار سے نظر ڈالیے تو افراد افراد سے۔ اس میں اتنی سکت ہی نہیں کہ اپنی بے رحم انانیت اور ناقابل تسکین جوع زرپرقابو حاصل کر سکے۔ یہ باتیں ہیں جن کے زیر اثر زندگی کے اعلیٰ مراتب کے لیے اس کی جدوجہد بتدریج ختم ہو رہی ہے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ وہ درحقیقت زندگی ہی سے اکتا چکا ہے۔ اس کی نظر حقائق پر ہے یعنی حواس کے اس سرچشمے پر جو اس کی آنکھوں کے سامنے ہے، لہٰذا اس کا تعلق اپنے اعماق وجود سے منقطع ہو چکا ہے۔ ۴۱ .... the modern man has ceased to live soulfully, i.e. from within. In the domain of thought he is living in open conflict with others. He finds himself unable to control his ruthless egoism and his infinite gold-hunger which is gradually killing all higher striving in him and bringing him nothing but life- weariness. Absorbed in the 'fact', that is to say, the optically present source of sensation, he is entirely cut off from the unplumbed depths of his own being. 40 سلوک و عرفان کے جو صوفیانہ طریق از منہ متوسط The technique of medieval mystic- میں وضع کیے گئے تھے اور ان کی بدولت مشرق و مغرب میں کبھی مذہبی زندگی کا اظہار بڑی اعلیٰ اور ارفع شکل میں ہوا تھا اب عملاً بے کار ہو چکے ہیں۔۴۳ ism by which religious life, in its higher manifestations, developed itself both in the East and West has now practically failed.42 بجائے اس کے کہ یہ طور طریق ان قویٰ کی شیرازہ بندی کریں جن کا تعلق انسان کی اندرونی زندگی سے ہے تا کہ یوں اس میں یہ صلاحیت پیدا ہو کہ تاریخ کی مسلسل حرکت میں عملاً حصہ لے سکے، اس کی تعلیم یہ ہے کہ ہمیں دنیا ہی سے منہ موڑ لینا چاہیے۔ لہٰذا یہ قدرتی بات تھی کہ ہم اپنی جہالت اور غلامی پر قناعت کر لیتے۔ اندریں صورت اگر ترک اور مصری، یا ایرانی اب نئی نئی وفاداریوں کا سہارا لے رہے ہیں تا کہ یوں انہیں قوت اور طاقت کا کوئی نیا سرچشمہ مل جائے، مثلاً حب الوطنی یا وطنیت… دور حاضر کا مسلمان قطعاً مایوس ہو چکا ہے وہ سمجھتا ہے اس کی روحانی زندگی کا احیا اب مذہب کے ذریعے ناممکن ہے۔ حالانکہ مذہب ہی وہ ذریعہ ہے جس سے افکار و خیالات کی دنیا میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور جس کے سہارے ہم زندگی، قوت اور طاقت کے دائمی سرچشمے تک پہنچتے ہیں۔ اس کا خیال ہے وہ از سر نو زندگی اور طاقت حاصل کرے گا تواس طرح کہ اپنے افکار اور Far from reintegrating the forces of the average man's inner life, and thus preparing him for participation in the march of history, it has taught him a false renunciation and made him perfectly contented with his ignorance and spiritual thraldom. No wonder then that the modern Muslim in Turkey, Egypt, and Persia is led to seek fresh sources of energy in the creation of new loyalties, such as partriotism and nationalism.......... Disappointed of a purely religious method of spiritual renewal which alone brings us into touch with the everlasting fountain of life and power by expanding our thought and emotion, the modern Muslim fondly hopes to unlock fresh sources of energy by narr- owing down his thought and emotion.Modern atheistic socia- lism,which possesses all the fervour of a new religion, rises in revolt against the very soruce which could have given it strength and Purpose. Both nationalism and atheistic soci- خیالات اور جذبات و احساسات کی دنیا تنگ کرتا چلا جائے۔ عصر حاضر کی لادین اشتراکیت کا مطمح نظر بیشک نسبتاً زیادہ وسیع ہے اور اس کے جوش و سرگرمی کا بھی وہی عالم جو کسی نئے مذہب کا…وہ اس چیز ہی سے برسرپیکار ہے جوزندگی اور طاقت کا سرچشمہ بن سکتی تھی۔ بہر حال یہ وطنیت ہو، یا لادین اشتراکیت دونوں مجبور ہیں کہ بحالت موجودہ انسانی روابط کی دنیا میں تطابق و توافق کی جو صورت ہے اس کے پیش نظر ہر کسی کو نفرت، بدگمانی اور غم و غصے پر اکسائیں۔ حالانکہ اس طرح انسان کاباطن اور ضمیر مردہ ہو جاتا ہے اور وہ اس قابل نہیں رہتا کہ اپنی روحانی طاقت اور قوت کے مخفی سرچشمے تک پہنچ سکے۔ لہٰذا یہ از منہ متوسط کا تصوف ہے ، نہ وطنیت اور لادین اشتراکیت جو اس مایوسی اور دل گرفتگی کا مداوا بنے گی جس میں آج کل کی دنیا گرفتار ہے اور جس کے زیر اثر تہذیب انسانی کو ایک زبردست خطرہ درپیش ہے معلوم ہوتا ہے اس وقت دنیا کو حیاتیاتی اعتبار سے زندہ ہونے کی ضرورت ہے۔ گویا عصر حاضر کا انسان اگر پھر سے وہ اخلاقی ذمہ داری اٹھا سکے گا جو علوم جدیدہ کے نشوونما نے اس پر ڈال رکھی ہے تو صرف مذہب کی بدولت، یونہی اس کے اندر ایمان و یقین کی اس کیفیت کا احیا ہو گا جس alism, at least in the present state of human adjustments, must draw upon the psychological forces of hate, suspicion, and resentment which tend to impoverish the soul of man and close up his hidden sources of spiritual energy. Neither the technique of medieval mystic- ism,nor nationalism, nor atheistic socialism can cure the ills of a despairing humanity. Surely the present moment is one of great crisis in the history of modern culture. The modern world stands in need of biological renewal. And religion, which in its higher manifestaions is neither dogma, nor priesthood, nor ritual, can alone ethically prepare the modern man for the burden of the great respons- ibility which the advancement of modern science necessarily invo- lves, and restore to him that attitude of faith which makes him capable of winning a personality here and retaining it hereafter.44 کی بدولت وہ اس زندگی میں ایک شخصیت پیدا کرتے ہوئے آگے چل کر بھی اسے محفوظ اور برقرار رکھ سکے گا۔ اس لیے کہ مذہب ، یعنی جہاں تک مذہب کے مدارج عالیہ کا تعلق ہے، نہ تو محض عقیدہ ہے، نہ کلیسا، نہ رسوم و ظواہر۔،۴۵ علامہ اپنے خطبات میں الٰہیات اسلامیہ کی تشکیل جدیدکے ذریعے مذہب کا ایسا ہی تصور پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے جو منہاج انہوں نے اختیار کی وہ اسلام اور علوم جدیدہ (مابعدالطبیعیات اور سائنس) کے درمیان تطبیق کے عمل سے عبارت ہے کیونکہ مذہب اور علم دونوں انسانی اقدار ہیں اور ان میں اگر تطبیق نہ ہو تو دونوں کو پہلو بہ پہلو قبول کرنا ممکن نہ ہو گا۔ ان میں بظاہر تضادات نظر آتے ہیں، مثلاً انسانی اختیار و آزادیٔ ارادہ، حیات بعد الممات، وجود خداوندی جیسے تصورات پر مذہب کی بنیاد ہے۔ حسیت پرست مابعدالطبیعیات ان تصورات کو صرف افادی حیثیت کا حامل سمجھتی ہے۔ وحی مذہب کی اساس ہے۔ اسے نفسیات خود فریبی یا نظری مغالطہ قرار دیتی ہے اور اس کے وصول کرنے والے کو دماغی مریض بتاتی ہے۔ تخلیق از عدم مذہب کی بنیادی بات ہے۔ علم حیاتیات اسے رد کر کے اس کی جگہ فرضیہ ارتقاء پیش کر دیتا ہے۔ عبادت اور دعا کی تاثیر کو کلاسیکی طبیعیات اس لیے ناقابل قبول کہتی ہے کہ یہ میکانیکی تعلیل کی کسوٹی پر پوری نہیں اترتی۔ علامہ اس بات کو لے کر آغاز استدلال کرتے ہیں کہ کلاسیکی طبیعیات نے اپنی بنیاد ہی پر تنقید شروع کر دی ہے۔ اور اس تنقید کے نتیجے کے طور پر وہ مادیت پرستی جو اس طبیعیات سے لازم و ملزوم سمجھی جاتی تھی اٹھتی جا رہی ہے اور وہ وہ دن دور نہیں ہے جب ’’مذہب اور سائنس میں ایسی ایسی ہم آہنگیوں کا انکشاف ہو گا جن کا ہمیں گمان ہی نہیں‘‘ ۴۶؎ یہیں سے مذہب اور علم جدید میں تطبیق کے امکان کا جواز پیدا ہوتا ہے۔ علامہ نے جب اپنے پہلے چھ خطبات علیگڑھ میں پیش کیے تو خطبۂ صدارت میں ڈاکٹر سید ظفر الحسن صاحب نے ان پر تبصرہ کرتے ہوئے اس تطبیق و توافق کے دو ممکنہ راستوں کی نشاندہی کی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کی گفتگو درج ذیل ہے۔۴۷؎ this purpose can be fufilled in two ways: I. Either by proving that what Religion says is the truth, and Science and Philosophy really agree with Religion; and by refuting Science and Philosophy where they disagree with it. II. Or by showing that the domain of Religion is different from that of Science and Philosophy; and where religion speaks of things with which Science and Philosophy deal its purpose in speaking of them is not the same as that of Science or Philosophy; -i.e., it does not aim at telling us, like Science or Philosophy, what the nature of such objects exactly is; it only aims at the moral or religious conclusions the guidance that can be drawn form them. علامہ نے اوّل الذکر راہ اپنائی۔ اس راہ عمل کا مضمر مقدمہ یہ تھا کہ مذہب اور علم جدید (فلسفیانہ اور سائنسی علم) کا مسئلہ، مسئلے کا حل اور ہدف و مقصد ایک ہی ہیں۔ جہاں ان میں تناقضات یا اختلافات ہوں وہاں ان کو تطبیق دینا چاہیے۔ اب ہمیں مختصراً یہ دیکھنا چاہیے کہ موارد اختلاف و تضاد کیا ہیںا ور کیوں پیدا ہوتے ہیں۔ سائنسی شعور حقیقت کا جزوا ً جزواً علم حاصل کرتا ہے۔ حقیقت کے مختلف اجزاء یا حقیقت کے پہلوئوں کا سامنا کرتے ہوئے اس کے کچھ مقولات Categories ہوتی ہیں جو اصول توجیہ کا کام کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر طبیعیات کے مقولات میں مادہ بحیثیت جو ہر، علت، معلول، کمیت، عدد وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے ذریعے حقیقت کی غیر نامیاتی اقلیم کے متنوع عناصر کی تنظیم کی جاتی ہے لیکن اگر کسی ایک شعبہ علم سے متعلق مقولات کو جو حقیقت کے صرف اسی گوشے کی توجیہ کے لیے کارآمد ہوں، پھیلا کر اور بہ اصرار وسعت دے کر، ایک بالاتر اصول بنایا جائے اور کلی صداقت کے مترادف قرار دیا جائے یا بہ الفاظ دیگر سائنس کو مابعد الطبیعیات کے رتبے پر فائز کر دیا جائے تو پیچیدگیاں اور تضادات ابھرتے ہیں اور یہ عموماً اس لیے ہوتا ہے کہ چونکہ کسی ایک اصول نے حقیقت کے کسی ایک جزو یا ایک پہلو کی کامیابی سے توجیہ کر دی ہوتی ہے لہٰذا کامیابی کے اس جوش میںا سی اصول کو اس کی جائز اور قابل عمل حدود و ثغور سے باہر وارد کرنے کی کوشش شروع ہو جاتی ہے۔ ہر مقولہ اپنی جگہ نامکمل ہوتاہے اور کلیت فکر کے تقاضے پورے نہیں کر سکتا چنانچہ جب ان مقولات کو جو جزوی صداقت ہیں، حتمی صداقت اور اصول توجیہ بنایا جائے اور ان دائروں یا اقالیم پر ان کا اطلاق کیا جائے جہاں ان مقولات سے نہیں بلکہ دوسرے مقولات سے توجیہ ممکن ہے تو پھر خلط مبحث اور فساد فکر کا آغاز ہو جاتا ہے۔ یہ طبیعیات ، حیاتیات، نفسیات، اخلاقیات، جمالیات، منطق اور الٰہیات سب علوم کا رجحان ہے۔ ہر شعبہ علم اپنے اپنے مقولات کی بنیاد پر ایک مابعدالطبیعیات کی تشکیل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ان بنیادی امتیازات کو مسمار کرنے لگتا ہے جو ان مقولات کے ذریعے توجیہ پذیر نہیں ہوسکتے، مثلاً ایک ماہر طبیعیات اپنے فکری مقولات کے جوش اطلاق میں یہ سوچنے لگتا ہے کہ ان کا دائرہ اطلاق حقیقت من حیث الکل پر محیط ہے، طبیعیات کی اقلیم سے باہر بھی ان کے اطلاق کا جواز ہے اور اس طرح مادیت پرستی کے نظریے پر آ پہنچتا ہے۔ مادیت پرستی از خود حرکات کو میکانیکی حرکات تک محدود کر دیتی ہے اور نامیاتی اور روانی (نفسیاتی) مظاہر کے اساسی اور جوہری خصائص کا انکار کر دیتی ہے۔ اس طرح حیاتیاتی فکر کے مقولات کے اطلاق میں غلو کرتے ہوئے کسی شخص کو ایسی مابعدالطبیعیات تشکیل دینے کا خیال آتا ہے جسے Vitalismیا ارتقائیت Evolutonismکہا جا سکتا ہے اور جو غیر نامیاتی حقیقت کے وجود سے منکر ہو اور جو شعور غیر نامیاتی اور شعور ذاتی سب کو مظاہر نامیاتی ہی قرار دے اور بایں سبب آزادی، خدا، تخلیق وغیرہ سب کی توجیہ کر کے صرف حیات کو بنیاد مانے اور Elan vital کو حقیقت کی اساس اور جوہر قرار دے۔ اسی مثال پر نفسیات کا بھی قیاس کیا جا سکتا ہے جو نامیاتی اور غیر نامیاتی مظاہر کی توجیہ صرف نفسیاتی تصورات کے سہارے کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ علامہ کے مخاطبین دونوں مشکلات کا شکار تھے۔ ایک طرف وہ صرف انہی مقولات کے آشنا یا انہی مقولات کے قائل تھے جو حسیت پرستی Empiricism کے علمی پس منظرنے انہیں فراہم کئے تھے۔ دوسری طرف وہ ان اشکالات اور فکری الجھنوں میں مبتلا تھے جو حسیت پرستی کے مقولات کو ان کے جائز دائرہ کار سے باہرو ارد کرنے سے پیدا ہوئی تھیں۔ علامہ نے تقریب فہم اور مصلحت کلام کاتقاضا یہ جانا کہ ان کے مقولات کے اطلاق کا انکار کرنے کے بجائے یا ان کے علاوہ دوسرے مقولات کی جانب ان کو مائل کرنے کے بجائے انہی مقولات کے اندر اور انہی مقولات کی مثال اور مشابہت کے ذریعے ان کو حقائق دین کی تفسیر کر کے دکھائی جائے اور ان کے شعور پر یہ واضح کر دیا جائے کہ خود تمہارے مقولات کے مطابق اسلام اور علوم جدیدہ میں تضاد نہیں ہے بلکہ یہ ایک دوسرے سے مثبت طور پر ہم آہنگ ہیں۔ علامہ کا اختیار کردہ راستہ پر خطر بھی تھا اور دشوار بھی۔ دو اقالیم کے مقولات کا امتیاز قائم کرنا اور اس امتیاز کی بنیاد پر ان کے مدلولات کو الگ کرنا آسان ہے لیکن ایک اقلیم کے مقولات و مسلمات کے سہارے اور ان کی مثال کے ذریعے ایک دوسری الگ اور ماوراء اقلیم کے حقائق کی تعبیر خوگر محسوس اذہان تک منتقل کرنا ایک مشکل کام تھا۔ آئندہ صفحات میں ہم یہ دیکھیں گے کہ اصول تطبیق کو مطمح نظر بنا کر اور مقولات مسلمہ کو بنیاد بنا کر علامہ نے یہ کام کیسے انجام دیا۔ یہاں ایک آخری نکتہ واضح کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے ۔ علامہ نے، اور موضوع کے اتباع میں ہم نے، فلسفیانہ افکار کے ارتقاء کے جس مرحلے تک کے افکار اور ان کے مقولات کو موضوع بحث بنایا ہے وہ پیش نظر رہنا چاہئے۔ یہ مراحل عقلیت پرستی، حسیت پرستی، ارتیابیت اور بالآخر تنقید عقل محض (جو کانٹ سے مخصوص ہے) سے عبارت ہیں۔ علامہ نے کانٹ کی فکری بنیاد میں اصلاح کر کے اس سے آگے بڑھنے کی تجویز کی ہے۔ ہماری بحث کے لیے بھی کانٹ کے دور یا مذکورہ بالا مکاتب فلسفہ کے بعد کے تغیرات سے صرف نظر کیا گیا ہے۔ مثلاً ہم نے کانٹ کے بعد Reductionism, Existentialism, Relativism, اورPsychologism سے تعرض نہیں کیا۔ حواشی ۱) متاخرین علمائے علم کلام کے معروف نمائندے عضدالدین ایجی (م ۷۵۶ھ) نے یہ تعریف اپنی کتاب مواقف میں بیان کی ہے، بحوالہ جدید انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن (نیو یارک میکملن ۱۹۸۷ئ۔ ۲۳۱:۸) یہ علم کلام کی فنی تعریف ہے۔ شرعی نقطہ ء نظر سے اہل فقہ و فتویٰ نے علم کلام کی تعریف ’’بدعت واجبہ‘‘ کی اصطلاح سے کی ہے، دیکھئے ابوزکریا محی الدین بن شرف نووی (م۶۷۶ھ) تہذیب الاسماء و اللغات ، جلد ۱ ص ۲۲۔۲۳دارالکتب العلمیہ ، بیروت ، بحوالہ نور احمد شاہتاز ’الاصل فی الاشیاء الاباحتہ‘‘ درحکمت قرآن، شمارہ اگست ۱۹۹۴ء ، لاہور، ص ۱۱۔نذیر نیازی صاحب مترجم تشکیل جدید نے بھی علم کلام کی تعریف نقل کی ہے ر۔ ک ص ۳۲۷۔ نیز دیکھیے محمد اعلیٰ تھانوی ، کشاف اصطلاحات الفنون، سہیل اکیڈمی، لاہور، ۱۹۹۳ء جلدد وم، ص ۱۲۷۲ ، جس کے مطابق ’’ھو علم من العلوم الشرعیۃ المدوّنہ‘‘ نیز جلد اول، ص ۲۲ پر اس کی تعریف یوں ہے:’’ ھو علم یقتدر معہ علی اثبات العقائد الدینیہ علی الغیر بایرادالجج و رفع الشبہ‘‘ ;منٹگمری واٹ، اسلامی فلسفہ و کلام (انگریزی) ایڈنبرگ، ۱۹۷۹ء ;ولفسن ، فلسفہ ء کلام، کیمبرج، ہارورڈ یونیورسٹی پریس، ۱۹۷۶ئ۔ ابونصر فارابی کا تبصرہ اگرچہ پرانا ہو چکا تاہم ہماری بحث کے ایک نکتے کو واضح کرنے کے لیے بہت موزوں ہے۔ پہلے تو یہ دیکھئے کہ فارابی نے علم کلام کی جو تعریف کی تھی وہی آج تک مابعد کی تعریفوں میں گونج رہی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ علم کلام کا بڑا حصہ تو معذرت خواہی سے عبارت ہے نیز علم کلام وہ علم ہے جو کسی بھی مذہبی روایت میں تاریخ کے اس مرحلے پر نمودار ہوتا ہے جب اس مذہب پر ہونے والے مختلف حملے اس بات کی ضرورت پیدا کر دیتے ہیں کہ عقائد دینی کے دفاع کا ایک منظم طریقہ اختیار کیا جائے۔ اس کے بعد فارابی علم کلام کے ماہرین یا متکلمین کو پانچ قسموں میں بانٹ دیتا ہے۔ یہ تقسیم ان دلائل کے لحاظ سے ہے جو متکلمین کی پانچوں اقسام بالترتیب استعمال کرتی رہی ہیں۔ متکلمین کا پہلا گروہ مذہب کا دفاع اس نکتے پر زور دے کر کرتا ہے کہ وحی کے ذریعے حاصل ہونے والا علم بہترین انسانی دماغوں کے اکتسابی علم سے برتر ہے۔ دوسرا گروہ مذہب کی حقانیت اس بنیاد پر ثابت کرتا ہے کہ سائنسی علم اور نصوص دینی میں مطابقت پائی جاتی ہے۔ دیکھئے فارابی، احصاء العلوم، دارالفکرالعربی، قاہرہ، ۱۹۴۹ء ص ۱۰۹۔۱۱۳ ۔ نیز دیکھیے محسن مہدی اور آر۔ لرنر (مرتبین) قرون وسطیٰ کا سیاسی فلسفہ ۔ چند مآخذ، ٹورانٹو،کینیڈا، ۱۹۶۳ء ، ص ۸۳۔ ۹۴ ؛ عثمان بکر، اسلام میں تقسیم علوم، کوالالمپور، ملائیشیا ، ۱۹۹۲ئ۔ سہیل اکیڈمی ،لاہور ، ۲۰۰۰، ص ۱۴۶۔ فارابی کی تقسیم میں پہلے دو گروہ وہی طریقے برت رہے ہیں جن کو ہم نے ڈاکٹر ظفر الحسن صاحب کے حوالے سے طریق تفریق اور طریق تطبیق کا عنوان دیا ہے۔ علامہ اقبال کا منہاج علمی، تشکیل جدید میں موخرالذکر طریقے سے قریب تر اور بنا بریں تطبیقی انداز کا حامل ہے۔ ۲) فلسفہ ء اسلام اور علم کلام کے مابین اس دوہرے عمل کی معنویت اور اثرات کے لیے دیکھیے سید حسین نصر ’’فلسفہ ، علم کلام اور تصوف‘‘ (انگریزی) مشمولہ اسلام کے روحانی پہلو۔ مظاہر، کراس روڈ، نیویارک، ۱۹۹۱ء جلد بیستم ، ص ۳۹۳۔۴۴۶؛ ’’حکمت الٰہیہ اور کلام‘‘(انگریزی) سٹوڈیا اسلامیکا، ۳۴(۱۹۷۱ئ)، ص ۱۳۹۔۱۴۹ ؛’’اسلام میں فلسفے کی حیثیت اور معنویت‘‘(انگریزی) سٹوڈیا اسلامیکا ۳۶ (۱۹۷۳ئ) ص ۵۷۔۸۰۔ نیز دیکھیے شبلی نعمانی، علم الکلام و الکلام ، نفیس اکادمی کراچی، ۱۹۸۷ء ۔ تصوف اور علم الکلام کے باہمی روابط اور تاثیر و تاثر کے عمل کا تاریخی مطالعہ ابھی اس پیمانے پر نہیں کیا گیا جیسا کہ اس موضوع کی اہمیت کا تقاضا ہے۔ ۳) رسالہ حمیدیہ کے مصنف سے لے کر قاسم نانوتوی، اشرف علی تھانوی، شبلی نعمانی اور ایوب دھلوی وغیرہ کے نام علماء کے چند نمائندوں کے طور پر پیش کئے جا سکتے ہیں۔ جدید حضرات کی طرف سے سرسید اور سید امیر علی کے بعد اگلی نسل میں سب سے بڑا نام علامہ اقبال کا ہے۔ 4- M. Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam, I. A. P, Lahore, 1989, edited and annotated by Shaikh Muhammad Saeed. اردو ترجمہ از سید نذیر نیازی، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ، بزم اقبال، لاہور، ۱۹۸۳ئ۔ ۵۔ ر۔ک: سعید احمد اکبر آبادی ، خطبات اقبال پر ایک نظر، اقبال اکادمی پاکستان لاہور، طبع ثانی، ۱۹۸۷ئ، ص ۱۱۔ یہ دعویٰ کرنے کے بعد سعید احمد صاحب نے اس فوقیت کے جو اسباب گنوائے ہیں انہیں پڑھ کر یوں لگتا ہے کہ مصنف نے علم الکلام کی تاریخ کے بارے میں چند چلتے ہوئے خیالات بیان کر دیئے ہیں۔ نہ ان کے سامنے فلسفے، کلام اور تصوف کے روابط کا واضح نقشہ ہے نہ ان کے عہدبہ عہد تغیرات کا۔ دوسری طرف تشکیل جدید کی منہاج فکر کے بارے میں بھی صرف ’’مدلل مداحی‘‘ پر اکتفا کیا گیا ہے۔ بعض مفید توضیحات پیش کرنے کے باوجود ان کی تحریر سے علامہ کے اس طریق کار کی وضاحت نہیں ہوئی جو انہوں نے تشکیل جدید میں برتا اور جس کے استعمال سے تشکیل جدید میں وہ اختصاصی شان پیدا ہوئی ہے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے۔ ۶۔ سفر جنوبی ہند سے واپسی پر علامہ نے اس وقت تک کے تحریر کردہ خطبات علی گڑھ میں بھی پیش کئے تھے۔ جلسے کے صدر ڈاکٹر سید ظفر الحسن صاحب ان دنوں شعبہ فلسفہ کے صدر تھے۔ ڈاکٹر صاحب کا خطبۂ صدارت ان کے شاگرد رشید اور ان کے فکری ورثے کے امین، ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کی وساطت سے ۵۵ سال بعد المعارف میں شائع ہوا۔ ر۔ ک: المعارف خصوصی شمارہ ۳، ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، ۱۹۸۵ء ص ۳۱۷۔ اردو ترجمے کے لیے دیکھیے ضمیمہ ۱۔ ۷۔ حوالہ بالا، ص ۳۱۸۔ سرسید کی مقرر کردہ تعریف کا موازنہ عضد الدین ایجی کی تعریف سے کیجئے تو یہ امرعیاں ہو جاتا ہے کہ ایجی کے برعکس سرسید کلام کو بہت محدود اور وقتی ہنگامی ضرورت کے معنی میں برت رہے ہیں۔ مغربی سائنس اور فلسفے کو بیان واقعہ تسلیم کرنے کے فکری مقدمے کو اس تعریف میں کار فرما آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ سرسید کے مقدمات فکر کی اسی کمزوری کی طرف مولانا قاسم نانوتوی اور بعدازاں اشرف علی تھانوی صاحب نے اشارہ کیا تھا۔ ر۔ ک: قاسم نانوتوی ، تصفیہ العقائد ، ادارہ اسلامیات ، لاہور ؛ اشرف علی تھانوی، اسلام اور عقلیات ، ادارہ اسلامیات، لاہور۔ انگریزی ترجمہ Answer to Modernism ، دارالعلوم کراچی۔ یہ مباحث عزیز احمد اور سی۔ ڈبلیو ۔ ٹرول نے بھی اپنی کتب میں پیش کئے ہیں۔ ۸۔ حوالہ بالا ۹۔ ایضاً ۱۰۔ ایضاً۔ دونوں اقتباسات کا اردو ترجمہ میرا کیا ہوا ہے۔ چونکہ یہ تحریر ہنوز کمیاب ہے، لہٰذا اس کی اہمیت کے پیش نظر متن کا مکمل ترجمہ بطور ضمیمہ شامل کیا جا رہا ہے۔ اس خطبہ صدارت کے آخری حصے (ص ۳۱۹) میں ڈاکٹر ظفر الحسن صاحب نے اپنے طلبہ کو ترغیب دلائی تھی کہ وہ ان خطبات کی اشاعت کے بعد ان کا مطالعہ کریں۔ ’’چونکہ علامہ کے افکار، بنیادی تصورات اور ان کی تفصیل و اطلاق ہر دو اعتبار سے نئے اور اسی لیے عسیرالفہم ہیں، ان کا نہایت احتیاط سے مطالعہ کیجئے۔ جو دشواریاں پیش آئیں، انہیں میرے پاس لایئے۔ مجھ سے جو ہو سکے گا، آپ کی مدد کے لیے کروں گا‘‘۔ (ص ۳۱۹) ہماری معلومات کی حد تک ان کے دو شاگردوں نے خطبات پر اعلیٰ درجے کا تحقیقی کام کیا ہے۔ ڈاکٹر عشرت حسن انور صاحب نے تشکیل جدید کو بنیاد بنا کر علامہ اقبال کے مابعد الطبیعیاتی افکار کا جائزہ لیا۔ ان کے مقالے کا عنوان اقبال کی مابعد الطبیعیات (انگریزی) تھا۔یہ کتابی شکل میں چھپ چکا ہے۔ ڈاکٹر برہان احمد فاروقی صاحب نے تشکیل جدید کے ہر خطبے کا تجزیہ ڈاکٹر ظفر الحسن صاحب کی آرا، تبصروں اور تحقیقی رہنمائی کی مدد سے کیا اور یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ مذکورہ طریق تطبیق کے اطلاق سے جو منہاج علمی بنتی ہے۔ اسے اختیار کرنے سے کتاب کے استدلال اور مباحث میں کیا کمزوری واقع ہوئی ہے اور اس عمل میں کس طرح کی مصالحت کرنا ایک ضرورت بن جاتا ہے۔ فاروقی صاحب کا مقالہ ابھی غیر مطبوعہ ہے۔ ۱۱۔ شیخ عطاء اللہ ، اقبالنامہ، جلد اول، ص ۱۱۔۲۱۰ ۱۲۔ سیدنذیر نیازی (مترجم) تشکیل جدید الہیات اسلامیہ بزم اقبال ، لاہور، ۱۹۸۳ء ص ۳۹۔ ۱۳۔ حوالہ بالا ۔ ص ۴۰۔ ۱۴۔ اقبال نامہ، محولہ ماقبل ، ص ۴۶۔ ۱۵۔ طبیعیات ، حیاتیات اور نفسیات کا موضوع بالترتیب مادہ، حیات اور شعور کے مظاہر ہیں۔ طبیعیات مادی مظاہر کی ، حیاتیات نامیاتی مظاہر کی اور نفسیات شعوری مظاہر کی توجیہ و تعلیل کرتی ہے۔ ہر شعبئہ علم کے چند مسلمہ مقولات یا اصول ہائے تعلیل ہوتے ہیں جن سے ان مظاہر کی توجیہ کی جاتی ہے۔ ان کو تسلیم کر کے یہ علوم آگے بڑھتے ہیں۔ طبیعیات کے مقولات یہ ہیں: مادہ، علت، معلول، کمیت، کیفیت، حرکت و قوت، مکان و زمان ، عدد۔ حیاتیات کے مقولات ہیں: انجذاب، نمو، جزو سے کل اور کل سے جزوکی پیدائش، انفرادیت اور از خود حرکت۔ نفسیات میں مقولات ہیں: شعور، نفس ، جذبہ، ارادہ، ادراک وغیرہ۔ ان میں سے ہر ایک کا ایک مفروضہ ہے جس سے اس کے مدلولات کی توجیہ ہوتی ہے۔ طبیعیات کا مفروضہ میکانکی علیت، حیاتیات کا مفروضہ ارتقاء اور نفسیات کا مفروضہ علیت غائی کہا جا سکتا ہے۔ اپنے اپنے شعبہ علم کے مقولات اور مفروضات کی بنیاد پر اور ان بنیادی تصورات کے سہارے ہر شعبہ اپنا تصور کائنات قائم کرتا ہے اور ا س کے دوران اپنے مقولات کا تمام حدود و قیود سے آزاد اطلاق کرنے کا میلان رکھتا ہے۔ مثلا طبیعیات کا تصور حقیقت مادہ، علت و معلول اور میکانکی تعلیل وغیرہ کے مقولات سے مرکب ہے۔ اگر انہی مقولات کے سہارے حیات و شعور دونوں کو مادے سے نموپذیر ہوتے دکھایا جائے تو یہ طبیعیات کے مقولات کا جائز حدود سے باہر اطلاق کرنا قرار پائے گا۔ اسی طرح اگر حیاتیات اپنے فکری مقولات کو جوش اطلاق میں ان اقالیم پر وارد کرنے کی کوشش کرے جہاں ان کے ذریعے توجیہ ممکن نہیں تو بھی ایک فساد فکر اور خلط مبحث کا آغاز ہو جائے گا۔ ۱۶۔ کانٹ کے اس مرکزی خیال اور اس کے مقدمات و مضمرات میں موجود فکری جھول کی تنقید کے لیے ر۔ ک: شیخ عیسیٰ نورالدین (فرتھجوف شواں) منطق اور متعالی (انگریزی) لندن، ۱۹۷۵ء ص ۳۳۔۵۵ (بالخصوص صفحہ ۳۶) ۱۷۔ ارسطو کے زیر اثر کانٹ نے مقولات کو تسلیم کیا اور ان کو چار گروہوں میں تقسیم کیا، یعنی کمیت ، کیفیت، نسبت اور وضع (Modality ) ۔ارسطو کے ہاں چوتھا مقولہ Position یا مکان کا تھا۔ یہاں یہ پیش نظر رہے کہ کانٹ نے ارسطو کے تصور مقولات کو ایک موضوعی چیز بنا دیا ہے۔ ۱۸۔ ر۔ ک: تشکیل جدید… (انگریزی) محولہ ماقبل، ص ۱۶۔ نیز دیکھیے صفحہ ۱۴،۱۴۴۔ ۱۹۔ ر۔ ک: بخاری ،الصحیح، ’’جنائز‘‘ ۷۹ شہادہ ۳۔ ’’جہاد‘‘ ۱۶۰، ۱۷۸: مسلم، الصحیح، باب فتن۔بحوالہ تشکیل جدید… (انگریزی) محولہ ماقبل ، حواشی وتعلیقات از شیخ محمد سعید ، ص ۱۶۰۔ ۲۰۔ ر۔ ک: تشکیل … (انگریزی)صفحات ۱۴، ۱۵، ۷۱، ۷۲، ۸۱،۸۲، ۸۹، ۹۰۔ واضح رہے کہ ولیم جیمز نے جو یہ سارے واقعات اکٹھے کئے ہیں، ان کا شمار صرف اقلیم روانی کے مظاہر ہی میں ہو سکتا ہے اور اس کو پرانی اصطلاح کے مطابق صرف خرق عادت قرار دیا جا سکتا ہے۔ مثلاً طویل فاصلے سے کسی واقعے کی آگاہی ، کسی واسطے کے بغیر ابلاغ فکر، ہونے والے واقعے کا قبل از وقوع علم، کسی شخص کے خیال یا نفسی کیفیت کا علم (کشف خواطر) وغیرہ اس طرح کے مظاہر کا تعلق صرف افقی جہت سے ہے اور یہ اقلیم روانی، Psychic Domain کے اندر عمل پذیر ہوتے ہیں۔ ان کے وقوع او ران کی تصدیق سے یہ لازم نہیں آتا کہ ذات باری کے ضمن میں بھی وجدانی تجربے یا وقوف مذہبی کا جواز پیدا ہو جائے۔ علامہ کے مخاطبین ادراک بالحواس کے اسیر ہیں۔ علامہ نے اس نازک فرق کو ان کے لیے مناسب حال نہ سمجھتے ہوئے بیان نہیں کیا اور صرف عمومی تصور منتقل کیا ہے۔ ۲۱۔ تشکیل … (انگریزی) محولہ ماقبل ، ص ۱۰۱ ۲۲۔ ایضاً ۔ نیز دیکھیے صفحات ۱۳۔ ۱۹، ص ۱۰۰ ۲۳۔ قرآن: سورہ ۲۲۔ آیت ۵۲ ۔ علامہ کی دلیل کے لیے دیکھیے تشکیل جدید… (انگریزی) ص۱۹۔ ۲۴۔ اس کی طرف مختصر اشارات کے لیے دیکھیے سید نذیر نیازی (مترجم) تشکیل جدید الہیات اسلامیہ (اردو) محولہ ماقبل، ص ۳۵ نیز حاشیہ ۱۱۲۔ آیت کے تراجم کے لیے ر۔ ک اشرف علی تھانوی ، بیان القرآن ، تاج کمپنی، ص ۸۔۴۰۷: پیر محمد کرم شاہ، ضیاء القران ، لاہور، ۱۳۹۹ھ، جلد چہارم، ۲۲۷۔ قدیم مفسرین نے بھی وہی مفاہیم دیئے ہیں جن کا نمونہ مذکورہ بالا دو مفسرین کی تفسیروں میں ملتا ہے۔ علامہ کا بیان کردہ ترجمہ اور مدلول آیات ان سب سے مختلف ہے۔ ۲۵۔ تشکیل … (انگریزی) محولہ ماقبل، ص ۲۲۔۲۱۔ ۲۶ ۔ تشکیل جدید (اردو) محولہ بالا ، ص ،۴۰۔۳۹ ۔ ۲۷۔ ایضاً ۲۸۔ ڈاکٹر فضل الرحمان نے اسی چیز کو محسوس کرتے ہوئے تبصرہ کیا تھا کہ علامہ نے تشکیل جدید میں اپنے معاصر سائنسی اور فلسفیانہ نظریات کو کچھ زیادہ ہی سنجیدگی سے قبول کر لیا ہے۔ دیکھیے، اسلام اینڈ موڈرنٹی، شکاگو، ۱۹۸۳ء ص، ۱۳۲۔ نیز ص ۴۔۱۵۳۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ امر البتہ نظر انداز کر دیا کہ ان مغربی معاصرین کے افکار کو نہایت سنجیدگی سے برتنے اور ان کو اہمیت دینے کا تقاضا اس طریق کار کی تعمیر میں مضمر ہے جس کو علامہ نے تشکیل جدید میں اختیار کیا تھااور جو ان کی نظر میں مصلحت وقت اور مخاطبین کی استعداد و افتاد فکر کے لیے مناسب ترین تھا۔ ۲۹۔ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ۔ مقالے میں ہر جگہ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ (تشکیل) انگریزی کے حوالوں کے لیے ادارہ ثقافت اسلامیہ اور اقبال اکادمی کا شائع کردہ ایڈیشن، لاہور ۱۹۸۹ئ، استعمال کیا گیا ہے۔ ۳۰۔ تشکیل جدید الہیات اسلامیہ۔ مقالے میں ہر جگہ تشکیل جدید الہیات اسلامیہ (تشکیل جدید) کے اردو ترجمے کے لیے بزم اقبال کا شائع کردہ ترجمہ از سید نذیر نیازی ، لاہور، ۱۹۸۳ء استعمال کیا گیا ہے۔ ۳۱۔ تشکیل … (انگریزی) محولہ بالاسبق، ص ۶۔ ۳۲۔ تشکیل جدید… (اردو) محولہ بالا، ص ۱۱۲۔ ۳۳۔ تشکیل … (انگریزی) محولہ بالا، ص ۷۔ ۳۴۔ تشکیل جدید… (اردو) محولہ بالا ص ۱۳۔ ۳۵۔ تشکیل … (انگریزی) محولہ بالا ص ۱۲۰۔ ۳۶۔ تشکیل جدید… (اردو) محولہ بالا ص ۲۳۳۔ ۳۷۔ تشکیل … (انگریزی) محولہ بالا ۱۲۰۔ ۳۸۔ تشکیل جدید… (اردو) محولہ بالا ص ۲۳۳۔ ۳۹۔ قرآن مجید : ۲۸۔۳۱۔ ۴۰۔ تشکیل… (انگریزی) محولہ بالا ص ۱۴۸۔ ۴۱۔ تشکیل جدید… (اردو) محولہ بالا ص ۹۰۔۲۸۹۔ ۴۲۔ تشکیل … (انگریزی) محولہ بالاص ۱۴۸۔ ۴۳۔ تشکیل جدید… (اردو) محولہ بالا ص ۲۹۰۔ ۴۴۔ تشکیل … (انگریزی) محولہ بالا ص ۹۰۔۱۴۸۔ ۴۵۔ تشکیل جدید… (اردو) محولہ بالا ، ص ۲۔۲۹۰۔ ۴۶۔ ایضاً ۔ ص، ۴۰، نیز تشکیل… (انگریزی) محولہ بالا ، ص رومن ۲۲۔ ۴۷۔ ر۔ ک ’’نوادر‘‘ مشمولہ المعارف، خصوصی شمارہ نمبر۳ ، جولائی اگست،۱۹۸۵ئ، ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، ص ،۳۱۷۔ پہلا خطبہ علم بالحواس اور علم بالوحی تشکیل جدید کے اس پہلے خطبے کا موضوع ہے فلسفہ اور مذہب کی وحدت: وحدت بہ اعتبار مقصود اصلی۔ علامہ کے کہنے کے مطابق فلسفہ اور مذہب دونوں کا مقصود علم ہے اور اس دعویٰ کی دلیل علامہ نے یہ بیان کی ہے کہ دونوں کا مسئلہ مشترک ہے۔ یہ دلیل مزید یہ بھی کہتی ہے کہ نہ صرف مسئلہ مشترک ہے بلکہ اس کے حل کا منہاج بھی مشترک ہے اور وہ ہے وجدان (Intuition)۔ علامہ کہتے ہیں: یہ عالم جس میں ہم رہتے ہیں اس کی نوعیت کیا ہے اور ترکیب کیا؟ کیا اس کی ساخت میں کوئی دوامی عنصر موجود ہے؟ ہمیں اس سے کیا تعلق ہے اور ہمارا اس میں مقام کیا ہے؟ باعتبار اس مقام کے ہمارا طرز عمل کیا ہونا چاہئے ؟ یہ سوالات ہیں جو مذہب، فلسفہ اور اعلیٰ شاعری میں مشترک ہیں۔ ۲؎ What is the character and general structure of the universe in which we live? Is there a permanent element in the constitution of this universe? How are we related to it? What place do we occupy in it, and what is the kind of conduct that befits the place we occupy? These questions are common to religion, philosophy, and higher poetry.1 آغاز استدلال یہ ٹھہرا کہ فلسفے ، مذہب اور شاعری کے مسائل یا موضوع و مبحث مشترک ہیں۔ یہ استدلال اپنے منطقی جھکائو کے تحت اس نتیجے کی طرف راغب ہوتا ہے کہ ان تینوں کے پیش کردہ جوابات بھی ہم آہنگ ہیں۔ اس ہم آہنگی اور توافق کی تلاش مذہب اور شاعری کو اقسام علم کے طورپر دیکھتی ہے اور اس طرح انہیں فلسفے کا ہم نشین پاتی ہے۔ لازم ہے کہ اس عمل میں حقائق مذہبی کو مقولات علمی قرار دیا جائے۔ اس مقام پر مناسب ہے کہ مذہب اور فلسفے کے امتیاز کی کچھ وضاحت کر دی جائے۔ فلسفہ حقیقت کاملہ کے علم کا مدعی ہے جبکہ مذہب اعتقاد الوہیت اور ایمان باللہ کا مقتضی ہے، وہ ایمان جو معروضی طور پر موثر بھی ہو۔ علم وہ قضیہ کلیہ موجبہ Necessary and Universal Judgment ہے جس کا مدلول حقیقت میں موجود ہو یعنی علم وہ کلی اور لازمی قضیہ ہے جس کے متوازی معروضی حقیقت موجود ہو۔ علم کا تقاضا یہ ہو گا کہ حقیقت کسی نہ کسی طرح عالم کے تجربے میں ناقابل تردید طور پر مرتسم ہو جائے نیز حقیقت اس کے مشاہدے کے مشمول و مافیہ کے طور پر مقولات علمی کے تحت وحدت میں ڈھل جائے۔ فلسفہ ان تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔ دو سری طرف مذہب ایمان باللہ کا نام ہے اور یہ ایمان عملی تقاضوں پر مبنی ہے۔ انسان کو جو صلاحیت حصول علم دی گئی ہے اس سے وہ حقیقت کلیہ کو گرفت میں لانے سے قاصر ہے۔ لیکن وہ اس طلب علم کو ترک بھی نہیں کر سکتا جو اس کے اندر پائی جاتی ہے۔ اسے جو جزوی علم حاصل ہوتا ہے اس سے وہ غیر مطمئن رہتا ہے اور علم کے آدرشی درجے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ علم کا آدرشی درجہ یہ ہے کہ ایک توحیدی اصول قائم کر کے اس سے کامیابی سے اور مربوط طور پر دنیا کی کثرت کا استنباط کیا جائے اور یہ استنباط ایک منطقی عمل پر مبنی ہو۔ لیکن کائنات کی وسعت اور عظمت اور مرعوب کن زمانی و مکانی پھیلائو نیز انسان کے ذرائع حصول علم کی کوتاہی اس کے آدرشی درجے تک پہنچنے میں مانع ہو جاتے ہیں۔ یہی نہیں انسان اپنے ارد گرد موجود اخلاقیات سے بھی غیر مطمئن ہوتا ہے اس کے وجود کا ایک محدود حصہ ان اخلاقی اصولوں کا پابند ہوتا ہے اور وہ صرف اپنے پورے وجود ہی کا نہیں بلکہ دوسرے انسانوں کو بھی اخلاقیات کا پورا پابند دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کی اپنی طبیعت اور دوسرے لوگوں میں اخلاق سے گریز کا مادہ اس کی اس کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیتا۔ وہ اس دنیا کو ایک کامل اخلاقی ضابطے میں دیکھنا چاہتا ہے اور صرف اپنا ہی نہیں بلکہ دوسرے انسانوں کے ارادہ و عمل کو مبنی براخلاق دیکھنا چاہتا ہے اور ان کا تزکیہ چاہتا ہے۔ اسی طرح انسان اپنے شاہکار ہائے ہنر سے غیر مطمئن ہوتاہے یعنی حقیقت کے اس حقیر بے حیثیت جزو سے جسے اس نے جمال عطا کیا۔ پھر وہ احساس و تشکیل جمال کے آدرشی درجے کا طالب ہوتا ہے۔ اس جہت میں اسے دنیا میں اور اپنے اندر موجود بدصورتی اور قباحت کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ وہ اپنے گرد پھیلی ہوئی پوری کائنات کو حسن و جمال کا مرقع بنانا چاہتا ہے۔ مزد برآں انسان اس کائنات کی اساس اور اصل، مرجع و مآب پر نیم دلانہ، ڈھلمل ، کمزور ایمان سے بھی غیر مطمئن رہتا ہے اور نتیجتاً اپنے مآل کار اور حسن خاتمہ سے بھی۔ یہ کیفیت عدم ایمان سے قریب ہوتی ہے لہٰذا انسان مذہب کے بھی احسانی، آدرشی درجے کا طالب ہوتا ہے۔ یہ آدرش شعوری حضور خداوندی میں زندگی بسر کرنے اور قرب خداوندی سے سرفراز ہونے سے عبارت ہے۔ جن حدود و قیود کا وہ اسیر ہے وہ اسے نہ تو وجود باری سے انکار کی اجازت دیتی ہیں کہ اس سے اس کی اپنی روحانی طلب مجروح ہوتی ہے اور نہ اس ذات کے وجود کو فرض کرنے سے کام چلتا ہے۔ اسی کرب سے یہ سوال پھوٹتا ہے کہ ’’کیا میرے آدرش کی تکمیل ممکن ہے؟‘‘ اگر جواب منفی ہے تو ا سکی تباہی ہے اور اگر مثبت ہوا تو نیا سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’ان اہداف اور اس آدرش کی تکمیل کیسے ممکن ہے؟‘‘ یعنی وہ شرائط کیا ہیں جن کو پورا کرنے سے اس آدرش کا حصول متصور ہو سکتا ہے۔ یہ ایک عملی سوال ہے اور نظری نوعیت کے سوالات سے مختلف ہے۔ وہ شرائط جن کے پورا ہوئے بغیر حصول آدرش متصور نہیں ہو سکتا ہے کچھ اس طرح ہوں گی: انسان جبر علیت سے آزاد ہو اور اس آدرش کے حصول کی ضروری جدوجہد کر سکے۔ لیکن اگر وہ آزاد ہو تب بھی اس مختصر عرصہ حیات میں وہ اس جدوجہد میں کامیاب نہیں ہو پاتا لہٰذا اسے حیات بعد الموت سے بھی متصف ہونا چاہیے۔ لیکن اگر وہ آزاد بھی ہو اور بہ معنی مذکور لافانی بھی ہو تو بھی اس کا آدرش حاصل ہونا مشکل ہے اگر کائنات اس کی فطرت سے اتنی اجنبی اور مخالف ہو جتنی کہ نظر آتی ہے۔ بنابریں کائنات کو بنیادی طور پر اس کی روحانی طلب سے ہم آہنگ ہونا چاہیے یعنی یہ کائنات ایسی ہو کہ بہ اعتبار فطرت اس کے انسانی آدرش کے مکمل تحقق میں معاون ہو سکے۔ یہ صرف اس صورت میں ہو گا کہ کائنات کو عدم سے صرف اسی مقصد کے لیے وجود میں لایا گیا ہو اور اس کی اپنی کوئی پراچین فطرت نہ ہو جس کے کارن وہ خدا کے اس نظام میں رکاوٹ بن سکے۔ اب اگر کائنات اس فطرت کی حامل ہو تب بھی یہ مشکوک ہے کہ انسان تنہا اپنی کوشش سے حقیقت کو اپنے آدرش کی صورت جان سکے گا کیونکہ کائنات کی کثرت اور وحدت اس کی گرفت سے پھسل جاتی ہے۔ اس طرح یہ بھی مشکل ہے۔ کہ وہ کبھی اس کائنات کی فطرت کو اس طرح مسخر کرے گا کہ وہ انسان کی اخلاقی اور جمالیاتی فطرت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو جائے۔ بنابریں اگر انسان کو یہ آدرش حاصل کرنا ہے تو اسے لامحالہ خارجی مدد کی ضرورت ہو گی۔ اس کی مدد کون کرسکتا ہے؟ اسے کون حقیقت سے کامل ہم آہنگی دے سکتا ہے؟ وہ کائنات کو اس نظام کا اسیر کیسے کر سکتا ہے جو انسان اور فطرت میں مطابقت کی ضمانت بن سکے؟ یہ اسی صورت ممکن ہے کہ ایک ایسی ہستی، ایک وجود واجب کو متصور کیا جائے جو اس کائنات کی اصل ہو اور جس نے اسے انسان کے اتقان و کمال کے لیے پیدا کیا ہو۔ وہی انسان کو انسان کے آدرش کے تحقق میں مدد دے سکتی ہے۔ بہ الفاظ دیگر یہ سب کچھ ممکن یوں ہو گا اگر وہ ذات انسان کو سچا علم ، صحیح اخلاق، بے غل و غش مسرت عطا کرنے پر راضی ہو اور اپنا علم دینے اور انسان اور اپنے درمیان رابطے کا امکان فراہم کرے۔ وحی اپنے آپ کو ایسا ہی راستہ قرار دیتی ہے۔ اگر اس ذات نے انسان کو یہ طلب و آروز دی ہے تو اس کے لیے ہدایت اور روشنی بھی اسی سے حاصل ہو گی۔ مذہب اسی معنی میں وحی اور اس کی حقانیت و تاثیر پر ایمان کا نام ہے۔ علامہ کے مخاطب اس پس منظر کے پورے عناصر میں شریک نہیں ہیں۔ وہ وحی کے روایتی معنوں میں قائل نہیں ہیں اور جدید علوم کے تحت تشکیل پانے والے ذہن کے نمائندہ ہیں۔ لہٰذا علامہ نے ان سے ایک بامعنی مکالمہ کرنے اور حقائق دین کی اقرب الی الفہم تعبیر کی مصلحت سے یہ کیا کہ اس تقاضائے ایمان کو علم کے مساوی یا طلب حصول علم کے مساوی قرار دیا اور اس کے ذریعے اپنے مخاطبین کو یہ نکتہ سمجھانے کی سعی کی۔ اس مساوات کو قائم کرنے کے لیے انہوں نے آغاز استدلال آنحضرت کی اس دعا سے کیا ہے جو حقائق اشیاء کے علم سے متعلق ہے۔ ’’الّٰلہم ارنی حقائق الاشیاء کماہی‘‘ ۳؎ The search for rational foundations in Islam may be regarded to have begun with the prophet himself. His Constant prayer was "God! grant me knowledge of the ultimate nature of things!"4 اس دعا کی معنویت پر ہمیں ذرا غور کرنا ہو گا۔ نیز یہ بھی غور کرنا ہو گا کہ نبی علیہ السلام کے عمیق ترین ایقان اور ایک عام آدمی کے ایمان کے مابین کیا فرق ہے: عام آدمی جو حصول یقین کی خاطر اپنے ایمان کی عقلی بنیادیں تلاش کر رہا ہو۔ نیز یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کسی عقیدے کی عقلی بنیادوں کی تلاش کسی معاشرے میں کب جنم لیتی ہے؟ نبی علیہ السلام کی ذات مہبط وحی ہے۔ وحی ایک عمل تنویر ہے جو فطرت انسانی، کائنات ، خدا اور نوع انسانی کی عملی ہدایت کے لیے فرشتے کے وسیلے سے انجام پاتا ہے۔ مہبط وحی یا وحی وصول کرنے والا اپنے مشاہدے کا اتنا یقین رکھتا ہے کہ وہ کسی عقلی یا عملی ثبوت کی ضرورت سے ماوراء ہو جاتا ہے کیونکہ وحی مشاہدہ حق کی جہت سے ایسا وفور رکھتی ہے کہ کسی اور ثبوت کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ تاہم عملی طور پر حق سے مستنیر ہونے کے باوجود نظری تقاضائے علم یا آرزوئے علم موجود رہتی ہے خواہ یہ کتنی ضمنی اور تابع کیوں نہ ہو لہٰذا ماہیت اشیاء کے علم کو مزید ایک عطاکے طور پر طلب کرنے کی گنجائش پیدا ہوتی ہے اور آپ مسلسل ارنی حقائق الاشیاء کماہی، کی دعا فرماتے ہیں۔ آپ کے اصحاب آپ پر ایمان لا کر آپ کے بتائے ہوئے اصولوں پر اپنی زندگی کو ڈھالنے میں مصروف ہو جاتے اور ان اہداف کے حاصل کرنے میں لگ جاتے ہیں جن کی ہدایت آپ نے فرمائی۔ اس مرحلے پر اسلامی معاشرے کو قرآنی وحی کے دیئے ہوئے تصور آخرت اور مابعد الطبیعیات پر غیر متزلزل اور پختہ یقین و ایمان تھا کیونکہ اس دور کے لوگ اس تاثیر سے بھی بہرہ اندوز ہو رہے تھے جو علم بالوحی کے ساتھ ساتھ حامل وحی کی ذات سے صادر ہوتی تھی اور جس کے نتیجے میں اس معاشرے کے لوگوں کے لیے مابعد الطبیعیاتی حقائق یا ماہیت اشیاء ایک’ ’شفاف‘‘ حقیقت تھی اور عالم مظاہر کا ہر جز اتنا شفاف Transparent تھا کہ ان کا شعور نظری و عملی Intellect بلا روک اس حقیقت عظمیٰ کی حضوری سے سرفراز ہوتا تھا اور مظاہر کو صاحب مظاہر اور خالق مظاہر سے مربوط کر کے دیکھتا تھا۔ بعد کو جب عقیدہ و ایمان کے اجزاء پر شک کا دور آیا تو معاشرے میں عقل جزئی۵؎ Reason کی بنیاد پر استدلال کامرحلہ شروع ہوا۔ خرد یا عقل جزئی کو فوقیت ملی اور صرف اس کے پیمانے پر وحی کے مشمولات کو پرکھنے کا عمل شروع ہوا۔ ایک محرک یہ بھی تھا کہ مسلمانوں کا رابطہ ان اقوام سے ہوا جو طویل عرصے سے اس زوال کا شکار تھیں اور صرف عقل جزئی پر تکیہ کرنے کی عادی ہو چکی تھیں۔ یہاں آ کر Reason مذہب کے معاملے میں حکم بن گیا۔ معتزلہ کی کلامی سرگرمیوں میں عقل جزئی نے حقائق دینی کو صرف فکر استدلالی کے مقولات اور اسالیب میں بند کر کے رکھ دیا۔ رویے اور رخ کی یہ تبدیلی کائنات کی سکونی تعبیر کا موجب بنی جسے علامہ ایک حرکی تعبیر سے بدلنا چاہتے ہیں۔ اس غرض سے علامہ نے آغاز میں فرمایا کہ قرآن کی روح اور فلسفہ ء یونان کی اساسیات فکر میں تضاد ہے۔ فلسفہ یونان خرد پرست یا عقل جزئی کا اسیر ہے اور قرآن غیر کلاسیکی یا ضدیونانیت کا علم بردار ہے۔ سقراط کی توجہ صرف عالم انسانی پر تھی۔ اس کے نزدیک انسان کے مطالعے کا بہترین موضوع انسان ہی ہو سکتا ہے نہ کہ نباتات اور حشرات یا ستاروں کی دنیا۔ مگر اس سے کس قدر مختلف ہیں قرآن پاک کی تعلیمات ، جس کا ارشاد ہے کہ شہد کی مکھی ایسی حقیر شے بھی وحی الہی سے بہرہ ور ہوئی اور جس نے بار بار اس امر کی دعوت دی کہ ہوائوں کے مسلسل تغیر و تبدل کا مشاہدہ کیا جائے، نیز دن رات کے اختلاف، تاروں بھرے آسمان اور سیاروں کا جو فضائے لامحدود میں تیرتے پھرتے ہیں۔ سقراط کے شاگرد رشید افلاطون کو بھی ادراک بالحواس سے نفرت ہی رہی۔ اس کا خیال تھا ادراک بالحواس سے کوئی حقیقی علم تو حاصل نہیں ہوتا ہم اس بنا پر صرف ایک رائے قائم کر سکتے ہیں۔ برعکس اس کے قرآن مجید نے سمع و بصر کا شماراللہ تعالیٰ کے گراں قدر انعامات میں کیا اور عند اللہ اپنے اعمال و افعال کا جواب دہ ٹھہرایا۔۷؎ Socrates concentrated his attention on the human world alone. To him the proper study of man was man and not the world of plants, insects, and stars. How unlike the spirit of the Qur'an, which sees in the humble bee a recipient of Divine inspiration and constantly calls upon the reader to observe the perpetual change of the winds, the alternation of day and night, the clouds, the starry heavens, and the planets swimming through infinite space! As a true disciple of Socrates, Plato despised sense perception which, in his view, yielded mere opinion and no real knowledge. How unlike the Qur'an, which regards hearing and sight as the most valuable Divine gifts and declares them to be accountable to God for their activity in this world 6 یہاں ہم دو امتیازات قائم کرنا چاہتے ہیں۔ سقراط نے جو کائنات کے بجائے انسان پر توجہ مرکوز کی تو اس سے اس کا مقصود یہ ہے کہ مابعد الطبیعیات بطور ایک سائنس کے ناممکن ہے البتہ اخلاقی زندگی ممکن ہے۔ لہٰذا ہمیں پابندی اخلاق کی سعی کرنا چاہیے اور فلسفۂ اخلاق جاننا چاہیے دوسری بات یہ کہ افلاطون کا قول قرآن سے متصادم قرار دینے کے لیے ضروری ہے کہ یہاں علم سے نہایت محدود معنی میں ادراک بالحواس مراد لیا جائے کہ قرآن توسمع و بصر کو حصول علم کے ذرائع بتاتا ہے اور افلاطون ان کی تحقیر کرتا ہے، لیکن اگر افلاطون کے قول میں علم سے مراد علم غیب، علم آخرت یا علم معاد، علم حقائق اشیاء مراد لیا جائے (اور اس معنی کے مراد لینے کا سارا قرینہ موجود ہے) تو پھر قرآن بھی اسی بات کا مدعی ہے کہ ان مراتب وجود کا علم حواس سے نہیں ہو سکتا۔ ’’لاتدرکہ الابصار وہو یدرک الابصار‘‘۔ ۸؎ غزالی پر علامہ کا اعتراض یہ ہے کہ: امام موصوف یہ نہیں سمجھے کہ فکر اور وجدان میں ایک نامی رشتہ کام کر رہا ہے۔ علیٰ ہٰذا یہ کہ فکر سے اگر متناہیت اور نارسائی کا اظہار ہوتا ہے اور ہم اسے بے نتیجہ ٹھہراتے ہیں تو اس لیے کہ فکر زمان متسلسل سے وابستہ ہے۔ ۱۰؎ He failed to see that thought and intuition are organically related and that thought must necessarily simulate finitude and inconclu- siveness because of its alliance with serial time. 9 نیز کانٹ کی تردید کی بنیاد یہ ہے کہ:۔ اپنی عمیق تر حرکت میں البتہ فکر اس قابل ہے کہ اس موجود لامتناہی تک جا پہنچے جس کے سلسلۂ ظہورو شہود میں مختلف متناہی تصور محض آنات کا حکم رکھتے ہیں۔۱۲؎ In its deeper movement, however, thought is capable of reaching an immanent Infinite in whose self- unfolding movement the various finite concepts are merely mom- ents.11 امام غزالی نے وضاحت سے یہ کہا کہ وجدان فکر ہی کا وہ درجہ ہے جہاں وہ وجود محض کو گرفت میں لا سکتی ہے۔ ۱۳؎ یعنی یہ کہ وجدان بہ اعتبار کیفیت و نوعیت فکر سے مختلف نہیں ہے۔ فکر اپنے درجہ کمال کو پہنچ کر وجدان میں ڈھل جاتی ہے۔ اس مبحث پر ہم آخری خطبے کے ضمن میں مزید گفتگو کریں گے۔ مزید یہ دیکھنا چاہیے کہ اختباریت اور خرد پرستی Rationalism کے درمیان کیا فرق ہے۔ قرآن کی روح اگر غیر کلاسیکی ہے تو کس معنی میں۔ کلاسیکی فکر کی روح خرد پرستی ہے۔ اس کے اصول کے مطابق صرف معقول ہی حقیقی ہے اور معقول تصوراتی ہے۔ چونکہ اختباری معقول نہیں ہے (یہ تصوراتی کے بجائے و جودی ہے) لہٰذا اختباری غیر حقیقی ہے۔ قرآن کی روح اختباری ذرا مختلف ہے کہ اس کے مطابق اختباری حقیقی ہے یعنی یہ ہستی مدرکِ (نفسِ مُدرِک) سے الگ اپنا وجود رکھتا ہے اور عمل ادراک میں براہ راست اس کا ادراک ہوتا ہے۔ قرآن یہ نہیں کہتا کہ اختباری ہی آخری حقیقت ہے اور صرف یہی حقیقی ہے۔ اگر قرآن یہ ضمانت دیتا ہے کہ اس پر عمل سے انسانی آدرش حاصل ہوتا ہے تو اسے اختباری کو حقیقی کہنا ہو گا۔ بلکہ ہر آدرشی جدوجہد میں اختباری کو حقیقی قرار دینے کا رویہ لازمی طور پر مضمر ہوتا ہے۔ آدرش کے حصول کی آرزو کا جنم ہی اس لیے ہوتا ہے کہ حقیقت اختباری سے مایوسی ہوتی ہے۔ حقیقت اختباری کے اثبات ہی سے سائنس اخلاقیات ، آرٹ اور دین کا امکان ہوتا ہے۔۱۴؎ نیز سماجی شعور ناممکن ہو جائے اگر خارج کی دنیا کی معروضی حقیقت کا شعور موجود نہ ہو۔ قرآن کے مطابق دنیائے حواس حقیقی ہے (اپنے مرتبہ وجود میں) البتہ ذی کمال نہیں ہے۔ اس سے یہ مراد نہیں لیا جا سکتا کہ یہ دنیا حتمی طور پر Utlimately حقیقی ہے۔ اگر ا س نکتے کو اس کے جائز حدود سے باہر وسعت دے دی جائے اور اس روح اختباریت کو زائد از جواز اہمیت دی جائے کہ حسی تجربے سے باہر اور کچھ ہے ہی نہیں تو یہ خطرہ پیدا ہو جاتا ہے کہ آسانی سے احتیاج وحی اور ہدایت نبوی سے استغنا کا دعویٰ سامنے آ جائے۔ اس لیے کہ احتیاج وحی کا اثبات ہی تب ہوتا ہے جب یہ تسلیم کر لیا جائے کہ انسان اپنی خلقی فطرت کے اعتبار ہی سے حقیقت متعالیہ کے صحیح تصور کو گرفت میں لینے سے قاصر ہے اور اپنے آدرش کے تحقق کی ضمانت دینے والے طرز عمل کا تسلی بخش علم از خود حاصل نہیں کر سکتا۔ اگر انسان میں کسی ایسے حاسہ یا ملکہ داخلی کا وجود مان لیں جو حقیقت عظمیٰ کو گرفت میں لانے کی استعداد رکھتا ہو تو وحی (جو مذہب کی بنیاد ہے) غیر ضروری ہو جاتی ہے۔ لہٰذا کشف ووجدان کی ماہیت اور دائرہ کار پر تنقیدی نظر ڈالنا ضروری ہو جاتا ہے یعنی باعتبار ماخذ علم حقیقت ہونے کے۔ علامہ اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ: قلب کو ایک طرح کا وجدان یا اندرونی بصیرت کہیے جس کی پرورش مولینا روم کے دلکش الفاظ میں نور آفتاب سے ہوتی ہے اور جس کی بدولت ہم حقیقت مطلقہ کے ان پہلوئوں سے اتصال پیدا کر لیتے ہیں جو ادراک بالحواس سے ماوراء ہیں۔ قرآن مجید کے نزدیک قلب کو قوت دید حاصل ہے اور اس کی اطلاعات، بشرطیکہ ان کی تعبیر صحت کے ساتھ کی جائے کبھی غلط نہیں ہوتیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کوئی پراسرار قوت ہے۔ اسے دراصل حقیقت مطلقہ تک پہنچنے کا وہ طریق ٹھہرانا چاہیے جس میں باعتبار عضویات حواس کا مطلق د خل نہیں ہوتا۔ بایں ہمہ اس طرح حصول علم کا جو ذریعہ پیدا ہوتا ہے ایسا ہی قابل اعتماد ہو گا جیسے کسی دوسرے مشاہدے سے۔۱۶؎ The heart is a kind of inner intuition or insight which, in the beautiful words of Rumi, feeds on the rays of the sun and brings us into contact with aspects of Reality other than those open to sense-perception. It is, according to the Qur'an, someth- ing which sees; and its reports, if properly interpreted, are never false. We must not, however, regard it as a mysterious special faculty' it is rather a mode of dealing with Reality in which sensation, in the physiological sense of the word, does not play any part. Yet the vista of experience thus opened to us is as real and concrete as any other experience. To describe it as psyc- hic, mystical, or supernatural does not detract from its value as exper- ience. 15 اس عبارت میں ایک مقدمہ محذوف ہے۔ مقدمہ یہ ہے کہ قرآن نے ’وجدان‘ یا ’ فواد‘ یا ’قلب‘ کو ایک ایسا داخلی حاسہ، ملکہ یاقوت کہا ہے جو حصول علم کے عمل میں ایک فاعلی حیثیت سے حصہ لیتا ہے اور حقیقت اولیٰ کی ماہیت کے بارے میں مثبت نتائج تک پہنچتا ہے۔ قرآن میں’فواد‘ یا’قلب‘ کا لفظ بہت سی جگہ آیا ہے۔۱۷؎ معانی کے کئی رنگ اس سے متعلق ہیں مگر ہماری سمجھ کے مطابق کہیں بھی اسے حقیقت اولیٰ کا علم حاصل کرنے والی ایسی استعداد کے معنی میں نہیں لایا گیا جو اس عمل میں کوئی فاعلی حیثیت رکھتی ہو۔ اس کی فاعلی جہت ہمیشہ اقلیم ربانی سے وابستہ نظر آتی ہے اور یہ ملکہ یا استعداد صرف انفعالی حیثیت رکھتی ہے۔ علامہ کے مخاطبین چونکہ اس معروضی اقلیم ربانی کے بارے میں طبقہ متشککین سے تعلق رکھتے تھے لہٰذا علامہ نے ان کو سمجھانے کے لیے حاصلات اور انفعالی حیثیت رکھنے والی استعداد کو فاعلی اعتبار سے پیش کیا۔ مزید براں واردات مخفی یا داخلی کی بھی نوعیتیں ہیں۔ ایک تو وہ تجربات ہیں جو صرف خرق عادت کی ذیل میں آتے ہیں مثلاً طویل فاصلے سے کسی واقعے سے آگاہی، کسی واسطے کے بغیر ابلاغ فکر، ہونے والے واقعے کا قبل از وقوع علم، کسی شخص کے خیال یا نفسی کیفیت کا علم (کشف خواطر) کی طرح کے تجربات کو Mystical کہا جا سکتا ہے اور یہ درست بھی ہوتے ہیں تاہم ان کا تعلق صرف ایک افقی جہت سے ہوتا ہے اور یہ اقلیم روانی Psychic Domain کے اندر عمل پذیر ہوتے ہیں۔ ان کے وقوع اور ان کی تصدیق سے یہ لازم نہیں آتا کہ ذات باری کے ضمن میں بھی وجدانی تجربے یا مذہبی مشاہدے کا جواز پیدا ہو جائے۔ علامہ کے مخاطبین ادراک بالحواس کے دائرے کے اسیر ہیں۔ علامہ اس نازک فرق کو جو ہم نے یہاں بیان کیا ان کے لیے مناسب حال نہیں سمجھتے اور ان کو صرف عمومی تصور منتقل کرتے ہیں کہ دیکھو، حسی تجربے کے علاوہ فلاں قسم کے تجربات اور بھی ہیں جو حواس کے دائرے سے باہر ہیں اور ان کا انکار بھی نہیں ہوسکتا کیونکہ ان کو خارج میں وقوع پذیر ہوتے دیکھا جاتا ہے لہٰذا اگر حواس کے مدرکات کے علاوہ کچھ ہو رہا ہے تو اس پر قیاس کر کے حقیقت کے علم کے ایک اور ذریعہ کے امکان کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ اپنے مخاطبین کو سمجھانے کے لیے وہ مزید کہتے ہیں کہ اس دوسری نوع کے علم کا امتحان دو طرح کیا جا سکتا ہے۔ خوش قسمتی سے ہمارے پاس بعض ایسی آزمائشیں موجود ہیں جو ان آزمائشوں سے مختلف نہیں جن کا اطلاق علم کی دوسری اصناف پر ہوتا ہے اور جن کو ہم عقلی اور عملی معیارات سے تعبیر کریں گے۔ عقلی معیار تو عبارت ہے اس ناقدانہ تعبیر سے جس میں ہم اپنے محسوسات و مدرکات کی تحقیق کسی پہلے سے قائم شدہ مفروضے کے ماتحت نہیں کرتے بلکہ جس سے بالعموم یہ دیکھنا مقصود ہوتا ہے کہ اس تعبیر Happily we are in possession of tests which do not differ from those applicable to other forms of knowledge. These I call the intell- ectual test and the pragmatic test. By the intellectual test I mean crtit- ical interpretation, without any presuppositions of human expe- irence, generally with a view to discover whether our interpretation leads us ultimately to a reality of کی انتہا کیا فی الواقعہ اسی حقیقت پر ہوتی ہے جس کے انکشاف میں مذہبی مشاہدات ہماری رہنمائی کرتے ہیں، لیکن عملی معیار باعتبار نتائج ان پر حکم لگاتا ہے۔۱۹؎ the same character as is revealed by religious experience. The pragm- atic test judges it by its fruits.18 سطور بالا میں مذکور امتحان اول کو اس طرح کے وجدان کے لیے قبول کیا جا سکتا ہے جسے ہم نے Psychic تجربات سے منسوب کیا تھا۔ لیکن اس امتحان کو اس ذات کے مشاہدے پر کیونکر لاگو کیا جا سکتا ہے جو ہر تجربے اور واردات سے بالا ہے۔ نیز اگر اس کسوٹی، اس آزمائش کو مشاہدۂ حق کا معیار مان لیا جائے تو Mystic اس وحی قرآنی پر ایمان کی ضرورت سے مستغنی ہو جائے گا جو آنحضرت پر نازل ہوئی کیونکہ اس پیمانے پر تو وہ براہ راست علم حق حاصل کرنے کی استعداد کا حامل قرار پائے گا۔ شیخ احمد سرہندی جیسے صوفی کا فیصلہ اس معاملے میںیہ ہے کہ: الحمد اللہ الذی جعل الامکان مرأۃ للو جوب وصیرالعدم مظہر للو جود والوجوب الوجود وان کاناصفتی کمال لہ سبحانہ فھو تعالی ور ائھمابل ورآء جمیع الاسماء والصفات و وراء جمیع الشیون والاعتبارات ووراء الظہور والبطون ووراء البروز والکمون ووراء التجلیات والظہورات ووراء کل موصول و مفصول ووراء المشاہدات و المکاشفات ووراء کل محسوس و معقول ووراء کل موہوم و متخیل فھو سبحانہ وراء الورآء ثم وراء الورآء ثم وراء الورآئ۔۲۰؎ ادراک بالحواس یا عام تجربہ، عقل جزئی اور وجدان سبھی اگر اس حقیقت کا احاطہ کرنے میں عاجز ہوں تو بات کیسے آگے بڑھے گی۔ عام تجربہ تو خارج از بحث ہے ہی۔ کانٹ نے خرد کی کوتاہی اور درماندگی Critique of Pure Reason میں بتادی اور علامہ نے اسے تسلیم بھی کیا۔۲۱؎ اب ہم تیسری صلاحیت یعنی وجدان یا کشف کا جائزہ لیتے ہیں۔ متصوفانہ وجدان کی استعداد حصول علم ثابت کرنے کے لیے علامہ نے احادیث میں بیان شدہ ابن صیاد کا واقعہ پیش کیا ہے جس میں آنحضرت نے اس کا امتحان کیا تھا۔۲۲؎ ابن صیاد مدینہ کے ایک یہودی گھرانے کا فرد تھا اور کہانت اور پیشگوئی کے فن میں تربیت یافتہ تھا۔ عبداللہ بن عمر کی روایت ہے کہ حضرت عمر ابن الخطاب آنحضرت اور چند دیگر صحابہ کی معیت میں ابن صیاد کے ہاں گئے وہ اس وقت اپنے محلے کے لڑکوں میں کھیل رہا تھا۔ ابن صیاد اس وقت سن شعور کو پہنچ رہا تھا۔ آنحضرت نے اس کی کمر پر تھپکی دے کر پوچھا کہ ’’کیا تم شہادت دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟‘‘ اس نے آپ کی جانب دیکھا اور کہا کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ امیین عرب کے (لیے) رسول ہیں (یعنی یہود کے لیے نہیں) پھر ابن صیاد نے کہا کہ کیا آپ مجھے خدا کا نبی مانتے ہیں؟۔ آپ نے فرمایاکہ ’’میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتا ہوں‘‘۔ پھر آپ نے اس سے پوچھا :’’تم کیا دیکھتے ہو؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’میرا سمجھا ہوا صحیح بھی ہوتا ہے اور غلط بھی‘‘ آپ نے فرمایا ’’تمہارا معاملہ مخلوط ہو گیا ہے میں اپنے دل میں ایک راز چھپاتا ہوں تم بتائو کہ یہ کیا ہے؟‘‘ جو آیت آپ نے اپنے دل میں سوچی وہ یہ تھی ’’فارتقب یوم تاتی السماء بدخان مبین‘‘۔۲۳؎ اس نے کہا ’’یہ دھواں ہے‘‘ آپ نے فرمایا ’’دور ہو، تو اپنی حد سے باہر کبھی نہیں نکل سکے گا۔‘‘ واقعے کی تفصیلات سے بالکل واضح ہے کہ سارا معاملہ کشف خواطر سے زائد کا نہیں ہے اور بالکل افقی جہت میں پیش آیا ہے، خالصتاً اقلیم روانی Psychic Domain سے تعلق رکھتا تھا اور اس میں حقائق الامور یا عالم غیب کے علم سے متعلق کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ خود ابن صیاد یہ اعتراف کر رہا ہے کہ اس کا وجدان کبھی صحیح اور کبھی غلط ہوتاہے۔ اس فرق کو ملحوظ رکھنا قدرے ضروری تھا لیکن جن لوگوں سے خطاب کیا جا رہا تھا وہ اپنے ذہنی پس منظر کی وجہ سے ایسی کیفیت میں تھے کہ ان تک صرف پہلی نوعیت کے وجدان کا ابلاغ کیا جا سکتا تھا اور وہ بھی اس کی خارجی ، نفس الامری مثال کے توسط سے لہٰذا علامہ نے اپنے خطبے میں ابن صیاد کی وجدانی استعداد اور مشاہدۂ حق کے درمیان فرق قائم نہیں کیا اور وجدان کی اس نوعیت کو علم کے ذرائع میں شمار کیا ہے البتہ اس میں احتمال خطا کو تسلیم کیا ہے۔ اس کو عملی امتحان Pragmatic test کی کسوٹی پر پرکھنا بھی اسی لیے ضروری ٹھہرایا گیا ہے۔ اب یہاں آ کر علامہ کو بھی احساس ہوا ہو گا کہ استدلال کے منطقی رخ کے تحت یہ اشکال ابھرے گا کہ وحی محمدی بھی احتمال خطا سے بری نہیں ہے۔ چنانچہ علامہ نے یہ آیت پیش کی ’’وما ارسلنا من قبلک من رسول و نبی الااذاتمنی القی الشیطان فی امنیتہ فینسخ اللہ مایلقی الشیطن ثم یحکم اللہ آیۃ۔ واللہ علیم حکیم۔۲۴؎ اس استدلال کا منطقی قضیہ یہ ہے کہ واردات باطنی میں احتمال خطا کے باوجود اسے بطور ذریعہ حصول علم کے رد نہیں کرنا چاہیے کیونکہ خود وحی نبوی میں یہ احتمال پایا جاتا ہے۔۲۵؎ Among the visions and messages, says Professor William James, some have always been too patently silly, among the trances and convulsive seizures some have been too fruitless for conduct and character, to pass themselves off as significant, still less as divine. In the history of Christian mysticism the problem how to discriminate between such messages and experiences as were really divine miracles, and such others as the demon in his malice was able to counterfeit, thus making the religious person twofold more the child of hell he was before, has always been a difficult one to solve, needing all the sagacity and experience of the best directors of conscience. In the end it had come to our empiricist criterion: By their fruits ye shall know them, not by their roots. The problem of Christian mysticism alluded to by Professor James has been in fact the problem of all mysticism. The demon in his malice does counterfeit experiences which creep into the circuit of the mystic state. As we read in the Qur'an: We have not sent any Apostle or Prophet before thee among whose desires Satan injected not some wrong desire, but God shall bring to nought that which Satan had suggested. Thus shall God affirm His revelation, for God is Knowing and Wise (22:25) 26 شیطان واقعی اپنی عداوت میں ایسی واردات افترا کر لیتاہے جو صوفیانہ مشاہدات کے حلقے میں داخل ہو جاتی ہیں۔ قرآن پاک کا ارشاد ہے: وماارسلنا من قبلک من رسول ولانبی الااذا تمنی القی الشیطان فی امنیتہ فینسخ اللہ مایلقی الشیطان ثم یحکم اللہ آیتہ واللہ علیم حکیم(۲۲:۵۳)۲۷؎ اس استدلال پر کئی اشکالات پیدا ہوتے ہیں۔ نذیر نیازی صاحب نے اپنے ترجمے کے حاشیے میں صاف لکھا ہے کہ ان کے خیال میں آیت مذکورہ بالا اس جگہ منطبق نہیں ہوتی۔۲۸؎ علاوہ ازیں جو ترجمہ دیا گیا ہے اس سے بھی کچھ مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ہم آیات اقتباس شدہ کو مابعد کی آیت سے ملا کر دیکھیں تو بات واضح ہو سکے گی۔ اور (اے محمد) ہم نے آپ کے قبل کوئی رسول اور کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا جس کو یہ قصہ پیش نہ آیا ہو کہ جب اس نے اللہ کے احکام میں سے کچھ پڑھا (تب بھی) شیطان نے اس کے پڑھنے میں (کفار کے قلوب میں) شبہ ڈالا۔ پھر اللہ تعالیٰ شیطان کے ڈالے ہوئے (شبہات) کو نیست و نابود کر دیتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ اپنی آیات کو زیادہ مضبوط کر دیتا ہے اور وہ علیم و حکیم ہے۔ اور (یہ سارا قصہ اس لیے کہا ہے) تاکہ اللہ تعالیٰ شیطان کے ڈالے ہوئے (شبہات) کو ایسے لوگوں کے لیے آزمائش بنا دے جن کے دل میں (شک کا) مرض ہے اور جن کے دل (بالکل) سخت ہیں…۲۹؎ اس سیاق و سباق میں نذیر نیازی صاحب کا تبصرہ درست لگتا ہے کہ یہ آیت اس مبحث سے غیر متعلق ہے۔ اس سے یہ مفہوم متبادر نہیں ہوتا کہ جو آپ پر نازل کیا جا رہا ہے وہ مداخلت شیطان کا احتمال رکھتا ہے اور اس میں سے اس عنصر کو خارج کر کے اس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے اور اس کی صداقت کو اس کی اصل کے حوالے سے نہیں بلکہ ثمرات و نتائج کے حوالے سے جانچا جائے گا۔۳۰؎ اس اشتباہ کا مأخذ یہ مجبوری ہے کہ مخاطبین کو وحی کا معاملہ ان مثالوں کے توسط سے سمجھایا جا سکتا تھا جو طبعی یا روانی مظاہر سے متعلق ہیں مثلاً شاعرانہ وجدان یا خرق عادت الہام و کشف۔ اگر مخاطبین کو براہ راست مبنی برایمان دلائل دیئے جاتے تو کلموا الناس علی قدر عقولھم کے اعتبار سے مناسب نہ ہوتا اور قریب الفہم بھی نہ ہوتا۔ اس بات کو تقویت علامہ کے اس فقرے سے ملتی ہے جو انہوں نے جدید نفسیات کے بارے میں اسی مبحث کے ضمن میں لکھا ہے۔ جدید نفسیات نے حال ہی میں محسوس کیا ہے کہ شعور ولایت کے مشمولات کابغور مطالعہ نہایت ضروری ہے بایں ہمہ ایسا کوئی مؤثر علمی منہاج Modern psychology has only recently begun to realize the importance of a careful study of the contents of mystic consciou- ابھی تک دریافت نہیں ہو سکا جس کے ماتحت ہم ان مشمولات کا تجزیہ کر سکیں جن کا تعلق شعور کے ورائے عقل تعینات سے ہے۔۳۲؎ sness, and we are not yet in possession of a really effective scientific method to analyse the contents of nonrational modes of consciousness.31 اس اعتراف عجز کے بعد علامہ شعور کے ان ورائے خردNon-rational اسالیب کی خصوصیات واضح کرنے کے لیے فرماتے ہیں: اس سلسلے میں پہلی قابل ذکر بات صوفیانہ مشاہدات کی حضوریت ہے، گو اس لحاظ سے بھی ان میں اور محسوسات و مدرکات کے دوسرے مراتب میں جو ہمارے لیے مدلولات علم کا سرچشمہ بنتے ہیں، فرق کرنا غلط ہو گا۔ اس لیے کہ مشاہدات تو سب ہی حضوری ہوتے ہیں۔ گویا جس طرح مدلولات حواس کے ذریعے ہم اپنے طبعی مشاہدات کے مختلف عوالم کی تعبیر کرتے ہیں تا کہ اس دنیا کا علم حاصل ہو سکے جو ہم سے خارج میں واقع ہے، بعینہ صوفیانہ مشاہدات کا تعلق جس عالم سے ہے اس کی تعبیر سے ہمیں ذات الٰہی کا علم حاصل ہوتا ہے۔ لہٰذا ان مشاہدات کو حضوری کہا جاتا ہے تو محض یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ ہمیں ذات باری تعالیٰ کا ویسے ہی علم ہے جیسے کسی دوسری شے کا۳۴؎ The first point to note is the immediacy of this experience. In this respect it does not differ from other levels of human experience which supply data for knowledge. All experience is immediate. As regions of normal experience are subject to interpretation of sense-data for our knwoledge of the external world, so the region of mystic experience is subject to interpretation for our knowledge of God. The immediacy of mystic experience simply means that we know God just as we know other objects.33 یہ صرف واردات و مشاہدات باطنی سے ہی خاص نہیں ہے۔ ہر تجربہ ہی براہ راست ہوتا ہے اور اس سے حصول علم تعبیر ذہنی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ نیز یہ بھی ملحوظ رہے کہ صوفیانہ واردات صرف اس دوسری ذات کا براہ راست تجربہ ہے جو صوفی کا غیر ہے جبکہ وحی نبوی نہ صرف اس ذات کا مشاہدہ ہے بلکہ اس کے پیغام کا بھی براہ راست تجربہ ہے جو نوع انسانی کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ دوسرا نکتہ جو علامہ نے بیان کیا کچھ یوں ہے: صوفیانہ مشاہدات کی دوسری خصوصیت ان کی ناقابل تجزیہ کلیت ہے۔ …جب ہم اپنے ماحول سے مطابقت پید اکرتے ہیں تو ہمارا عقلی شعور معمولاً اس طرح کام کرتا ہے کہ حقیقت مطلقہ کے ایک جز کے بعد دوسرے جز کی طرف قدم بڑھانے اور مہیجات کے ایک مجموعے کے بعد دوسرے مجموعے کے پیش نظر ایک خاص قسم کے ایجاب کے لیے طیار رہے۔ صوفیانہ احوال میں اس کے برعکس ہم حقیقت مطلقہ کے مرور کامل سے آشنا ہوتے ہیں جس میں ہر طرح کے مہیجات باہم مدغم ہو کر ایک ناقابل تجزیہ وحدت میں منتقل ہو جاتے ہیں اور ناظر و منظور ، یا شاہد و مشہود کا امتیاز سرے سے اٹھ جاتا ہے۔۳۶؎ The second point is the unanalysable wholeness of mystic experience........The ordinary rational consciousness, in view of our practical need of adaptation to our environment, takes that Reality piecemeal, selecting successively isolated sets of stimuli for response. The mystic state brings us into contact with the total passage of Reality in which all the diverse stimuli merge into one another and form a single unanalysable unity in which the ordinary distinction of subject and object does not exist.35 لیکن علم کی ماہیت میں یہ شامل ہے کہ وہ عالم و معلوم کے درمیان ایک بنیادی امتیاز کا تقاضا کرتا ہے ایک طرف عالم ہے جو جان رہا ہے اور دوسری طرف معلوم ہے جس کو جانا جا رہا ہے۔ اسے اگر ایک وحدت کے طور پر گرفت میں لایا جائے تو صرف اس شرط پر کہ عالم میں معلوم کا شعور ساقط ہو جائے مگر اس طرح یہ کل کا تجربہ نہیں ہو گا۔ کلیت مجموعۂ اجزاء کا نام نہیں ہے۔ اگر کلیت کو مجموعۂ اجزاء قرار دیں تو یہ ایسی کلیت ہو گی جسے بطور وحدت گرفت میں تو لایا جائے گا مگر اصل میں یہ کلیت ہو گی نہیں۔ عالم و معلوم دو بنیادی طور پر مختلف اصول ہیں اور کلیت ان دونوں پر محتوی ہے۔ کل کا وہ تجربہ جو عالم اور معلوم دونوں پر حاوی ہو نا ممکن ہے۔ تیسرا نکتہ یہ ہے: تیسری قابل ذکر بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ صوفی کا ’حال‘ ایک لمحہ ہے کسی ایسی فرید و وحید اور یکتا ہستی سے گہرے اتحاد کا جو اس کی ذات سے ماوراء مگر اس کے باوجود اس پر محیط ہو گی اور جس میں صاحب واردات شخصیت گویا ایک لحظہ کے لیے کالعدم ہو جاتی ہے۔ بایں ہمہ ان احوال کے مشمول پر غور کیا جائے تو ان کی حیثیت بھی سرتا سرخارجی ہو گی اور اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ ان موقعوں پر ہم اپنے داخل کی دنیا میں کھو جاتے ہیں۔ مگر آپ کہیں گے اگر خدا کا وجود فی الواقعہ ہم سے غیر اور اپنی ذات میں مستقل ہے تو اس کا مشاہدہ حضوری طورپر کیسے ممکن ہے؟ صوفیانہ احوال کا انفعالی ہونا تو اس امر کی دلیل نہیں کہ جس ہستی کا اس طرح شعور ہوا اس کا وجود فی الواقعہ ہم سے ’غیر‘ ہے۔ یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے بلا تحقیق و تفحص یہ فرض کر رکھا ہے کہ علم جب ہی علم ہے جب اس کی نوعیت وہی ہو جو ادراک بالحواس کے ماتحت عالم خارجی کے علم کی ہے۔ حالانکہ اس اصول کو صحیح مان لیا جائے تو ہمیں اپنی ذات کی حقیقت سے بھی انکار کرنا پڑے گا۔ بہرحال میں اس کے جواب میں روز مرہ میل جول کی ایک مثال پیش کروں گا۔ The third point to note is that to the mystic the mystic state is a moment of intimate association with a Unique Other Self, transcending, encompassing, and momentarily suppressing the private personality of the subject of experience. Consi- dering its content the mystic state is highly objective and cannot be regarded as a mere retirement into the mists of pure subjectivity. But you will ask me how immediate experience of God, as an Indep- endent Other Self, is at all possible. The mere fact that the mystic state is passive does not finally prove the veritable 'otherness' of the Self experi- enced. This question arises in the mind because we assume, without criticism, that our knowledge of the external world through sense- perception is the type of all know- ledge. If this were so, we could never be sure of the reality of our own self. However, in reply to it I suggest the analogy of our daily social experience. How do we know other minds in our social intercourse? It is obvious that we سوال یہ ہے کہ جب ہم آپس میں ملتے ہیں تو کیسے پتا چلتا ہے کہ دوسروں کے اندر بھی ہمارے ایسا ذہن کام کر رہا ہے؟ ہمیں اپنی ذات اور ہستی کا علم تو بے شک داخلی غور و فکر اور ادراک بالحواس دونوں ذرائع سے ہوتا ہے لیکن دوسرے اذہان کے مشاہدے کی ہمیں کوئی حس نہیں ملی۔ لہٰذا ہمارے پاس نفس غیر کی موجودگی کی کوئی دلیل ہے تو صرف یہ کہ دوسروں سے بھی کچھ ویسی ہی جسمانی حرکات سرزد ہوتی ہیں جیسی ہم سے اور جن کو دیکھتے ہوئے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ کوئی صاحب شعور ہستی ہمارے سامنے موجود ہے۔ یا پھر پروفیسر رائس کے تتبع میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم اپنے ابنائے جنس کو حقیقی سمجھتے ہیں تو ا س لئے کہ وہ ہمارے اشاروں کا جواب دیتے اور یوں ہمارے ناقص اظہار مطلب کی تکمیل کرتے رہتے ہیں۔ جواب ہی بلاشبہ کسی صاحب شعور ہستی کی موجودگی کا ثبوت ہے۔۳۸؎ know our own self and Nature by inner reflection and sense- perception respectively. We possess no sense for the experienceof other minds. The only ground of my knowledge of a conscious being before me is the physical move- ments similar to my own from which I infer the presence of another conscious being. Or we may say, after professor Royce, that our fell- ows are knwon to be real because they respond to our signals and thus constantly supply the necessary supplement to our own fragmentary meanings. Response, no doubt, is he test of the presence of a conscious self.37 مزید برآں: ہمیں صرف یہ کہنا ہے کہ صوفیانہ احوال میں ہمیں جس قسم کی حضوریت کا تجربہ ہوتا ہے اس کی بعض دوسری مثالیں بھی موجود ہیں۔ ان میں اورہماری طبعی واردات میں کچھ نہ کچھ مشابہت ضرور پائی جاتی ہے اور ہم ان کا شمار بھی شاید اسی زمرے میں کر سکتے ہیں۔۴۰؎ All that I mean to suggest is that the immediacy of our experience in the mystic state is not without a parallel. It has some sort of resemblance to our normal experie- nce and probably belongs to the same category.39 اب یہاں ایک مخمصہ پیدا ہوتا ہے۔ ایک طرف تو باطنی مشاہدہ ایک منفرد اور انوکھی قسم کا تجربہ ہے جسے کسی دوسرے تجربے کی اصطلاح میں بیان نہیں کیا جا سکتا اور دوسری طرف اسے بیان کرنا بھی ضروری ہے اور وہ بھی مخاطبین کے دائرہ ادراک کی محدودیت کا لحاظ رکھتے ہوئے لہٰذا دوسرے نفوس کے حضوری تجربے کی مثال سے یا اپنے نفس کے شعور کی مثال سے سمجھانے سے اس کی منفرد اور انوکھی حیثیت متاثر ہوتی ہے اور ساتھ ہی مابعد الطبیعی ہدایت (وحی سماوی) سے استغناء کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ چوتھا نکتہ یہ ہے: پھر بہ اعتبار نوعیت صوفیانہ مشاہدات چونکہ براہ راست ہی تجربے میں آتے ہیں لہٰذا ان مشاہدات کو دوسروں تک جوں کا توں پہنچانا ناممکن ہو جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ فکر کی بجائے زیادہ تر احساس کا رنگ اختیار کر لیتے ہیں۔ لہٰذا صوفی یا پیغمبر جب اپنے مذہبی شعور کی تعبیر الفاظ میں کرتا ہے تو اسے منطقی قضایا ہی کی شکل دے سکتا ہے۔ یہ نہیں کہ اس کا مشمول من و عن دوسروں تک منتقل کر سکے۔۴۲؎ پھر اگر صوفیانہ مشاہدات کو دوسروں تک پہنچانا ناممکن ہے تو ا س لیے بھی کہ یہ مشاہدات وہ غیر واضح احساسات ہیں جن میں عقلی استدلال کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ لیکن ہمارے دوسرے احساسات کی طرح صوفیانہ احساس میں بھی تعقل کا ایک عنصر شامل رہتا ہے اور میں سمجھتا ہوں یہ Since the quality of mystic exper- ience is to be directly experenced, it is obvious that it cannot be com- municated. Mystic states are more like feeling than thought. The interpretation which the mystic or the prophet puts on the content of his religious consciousness can be conveyed to others in the form of propositions, but the content itself cannot be so transmitted......41 The incommunicability of mystic experience is due to the fact that it is essentially a matter of inart- iculate feeling, untouched by disc- ursive intellect. It must, however, be noted that mystic feeling, like all feeling, has a cognitive element also; and it is, I believe, because of this cognitive element that it lends itself to the form of idea. In fact, it is the nature of feeling to seek expression in thought. It would مشمول تعقل ہے جس سے بالآخر اس میں فکر کا رنگ پیدا ہوتا ہے۔ دراصل احساس کا اقتضاہی یہ ہے کہ اس کا اظہار فکر کے پیرائے میں کیا جائے۔ معلوم ہوتا ہے دونوں کا تعلق ہمارے داخلی مشاہدات کی کسی ایک ہی وحدت سے ہے۔ فکر اس کا زمانی پہلو ہے، احساس لازمانی۔۴۴ seem that the two-feeling and idea--are the non -temporal and temporal aspects of the same unit of inner experience.... 43 غیر واضح احساس کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنا اظہار فکر کے پیرائے میں کرے، رہافکر سووہ خود اپنے وجود سے اپنا مرئی پیکر تلاش کر لیتا ہے۔۴۶؎ Inarticulate feeling seeks to fulfil its destiny in idea which, in its turn, tends to develop .......out of itself its own visible garment. 45 یہ خصوصیت تو ہر براہ راست تجربے کو حاصل ہے اور صرف صوفیانہ یا باطنی مشاہدے سے خاص نہیں ہے۔ میں اگر کسی رنگ کا ادراک کرتا ہوں تو کسی دوسرے کو اس کا جسمانی ابلاغ تو نہیں کر سکتا اس کا بیان، تصورات یا خیال میں اسکی تشکیل کر کے دوسرے کو منتقل کرتا ہوں۔ نیز اگر اس خصوصیت پر زور دیا جائے تو وحی اور الہام کے درمیان امتیاز کی دیوار ڈھے جائے گی کیونکہ علامہ کے الفاظ میں ہر دو صورتوں میں تجربے کے حاصلات اور مافیہ کو منتقل نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی فکری تعبیر بصورت منطقی قضایا کا ابلاغ کیا جاتاہے اگر ایسا کیا جائے تو اس سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ وحی نبوی کے الفاظ ربانی نہیں ہوتے بلکہ نبی کے اپنے ہوتے ہیں اور قرآن کے الفاظ براہ راست منزل من اللہ نہیں ہیں۔ اسی طرح اگر وحی ’’غیر واضح احساس‘‘ کا معاملہ ہے جس کا تعلق حقیقت اولیٰ سے ہے تو ا س کی حیثیت موضوعی تجربے کی ہو گی جو معروض سے تعلق پیدا کر رہا ہو اور یہ حیثیت اس حیثیت سے مختلف ہو جائے گی جو بطور ’’واضح تصورات‘‘ کی وحی لفظی Verbal Revelation کے اسے حاصل تھی اور جس حیثیت میں اس کا بہ آسانی دوسروں تک ابلاغ کیا جا سکتا تھا۔ علامہ کو اس مشکل کا احساس ہے لہٰذا مثال سے بات سمجھانے کے بعد انہوں نے یہ بھی اشارہ کر دیا کہ مخاطبین اگر یہاں تک بات سمجھ لیں تو انہیں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ: There is a sense in which the word is also revealed. 47 آگے چل کر علامہ خطبے کے اختتام پر اس بحث کو اس طرح سمیٹتے ہیں:۔ ہم برابر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ مذہبی واردات کی حیثیت دراصل ایک کیفیت احساس کی ہے جس میں تعقل کا ایک عنصر شامل رہتا ہے اور جس کے مشمول کو دوسروں کے سامنے بطور تصدیقات ہی کے پیش کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر کسی تصدیق کے متعلق جویوں تو ہماری دسترس سے باہر ہے، یہ دعویٰ کیا جائے کہ اس سے ہمارے محسوسات و مدرکات کے ایک خاص عالم کی ترجمانی ہوتی ہے تو ہمیں یہ پوچھنے کا حق پہنچتا ہے کہ اس کی صحت کا ثبوت کیا ہے یعنی کیا ہمارے پاس کوئی ایسی آزمائش موجو د ہے جس سے اس کے حق و باطل کا امتحان کیا جا سکے؟ یا اگر فرض کیجئے ان تصدیقات کی صحت کا دار و مدار کسی شخص کے ذاتی مشاہدات پر ہوتا تو اس صورت میں مذہب کا حلقہ بھی صرف چند افراد تک محدود رہ جاتا۔ لیکن خوش قسمتی سے ہمارے پاس بعض ایسی آزمائشیں موجود ہیں جو ان آزمائشوں سے مختلف نہیں جن کا اطلاق علم کی دوسری اصناف پر ہوتا ہے اور جن کو ہم عقلی اور عملی معیارات سے تعبیر کریں گے۔ عقلی معیار تو عبارت ہے اس ناقدانہ تعبیر سے جس میں ہم اپنے محسوسات و مدرکات کی تحقیق کسی پہلے سے قائم شدہ مفروضے کے ماتحت نہیں کرتے بلکہ جس سے Religious experience, I have tried to maintain, is essentially a state of feeling with a cognitive aspect, the content of which cannot be communicated to others, except in the form of a judgement. Now then a judgement which claims to be the interpretation of a certain region of human experience, not accessible to me, is placed before me for my assent, I am entitled to ask, what is the guarantee of its truth? Are we in possession of a test which would reveal its validity? If personal experience had been the only ground for acceptance of a judgement of this kind, religion would have been the possession of a few indiv- iduals only. Happily we are in possession of tests which do not differ from those applicable to other forms of knowledge. These I call the intellectual test and the pragmatic test. By the intellectual test I mean critical interpretation, without any presuppositions of human experience, generally with a view to discover whether our interpretation leads us ultimately to a reality of the same character as is revealed by relig- بالعموم یہ دیکھنا مقصود ہوتا ہے کہ اس تعبیر کی انتہا کیا فی الواقعہ اسی حقیقت پر ہوتی ہے جس کے انکشاف میں مذہبی مشاہدات ہماری رہنمائی کرتے ہیں، لیکن عملی معیار باعتبار نتائج ان پر حکم لگاتا ہے۔ اول الذکر سے فلسفی کام لیتے ہیں، موخرالذکر سے انبیائ۔ ۴۹؎ ious experience. The pragmatic test judges it by its fruits. The former is applied by the philosopher, the latter by the prophet.48 سوال یہ ہے کہ علم کے دیگر شعبوں میں ہم معلومات کی صداقت کا امتحان کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ اس لیے کہ ہمیں اپنے علم کے حاصلات کی صداقت پر شبہ ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ شخص جسے خود مذہبی مشاہدہ واردات یا تجربہ حاصل نہیں ہے اس کے بارے میں متشکک ہو کیونکہ یہ تجربہ اس حدتک قضایا کی شکل میں پہنچایا گیا ہے لیکن اگر خود وہ ذات، وہ شخص جو اس تجربے میں شامل ہے، جس کے نفس پر یہ تجربہ بیت رہا ہے، وہ اس کے عملی امتحان Pragmatic Test کی احتیاج محسوس کرے کہ تجربے کی صداقت اور جواز کو اس کے نتائج و ثمرات سے جانچے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خود بھی اس تجربے کے بارے میں مشکوک ہے اور یہ تشکیک اس وقت تک رفع نہیں ہو سکتی جب تک یہ تجربہ مآل کار ثمر آور اور نتیجہ خیز ثابت نہ ہو جائے۔ اس اعتبار سے دیکھئے تو بہ لحاظ تشکیک صاحب واردات اور اس واردات سے محروم آدمی میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ دونوں ہی اس تجربے کی صداقت اور جواز کے بارے میں پر یقین نہیں ہیں۔ اس بات کو ایک اور اعتبار سے دیکھئے۔ بنی اسرائیل کے نہ جانے کتنے انبیاء تھے جن کو وحی خداوندی تو حاصل تھی، ہماری اصطلاح میں مشاہدہ باطنی سے سرفراز تھے لیکن میدان عمل میں ان سے کوئی تبدیلی ظہور میں نہ آ سکی بلکہ بعض قتل تک کر دیئے گئے۔ اگر وحی کی صداقت کی کسوٹی نتائج اور ثمرات کو قرار دیں تو ان سب کو اس امتحان میں سراسر ناکام کہنا پڑے گا اور ان کی نبوت اور وحی جس پر نبوت کا دارومدار تھا معرض تشکیک میں پڑ جائے گی۔ شعور مذہبی کے دو درجات یا سطحیں ہو سکتی ہیں۔ ایک نبی کی اور ایک عام آدمی کی۔ نبی کو تو وحی کی صداقت پر ایسا محکم ایمان و ایقان اور اپنے سارے قویٰ اور وجود کی تمام صلاحیتوں کے ساتھ اس کا ایسا تجربہ حاصل ہوتا ہے کہ اسے کسی معیار، کسی امتحان کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ جس ایقان کی خاطر دوسرے لوگ آزمائش و امتحان کی احتیاج پیدا کرتے ہیں وہ نبی کو پہلے ہی از خود حاصل ہوتا ہے، جبکہ دوسر ے لوگوں کے معاملے میں یہ ایقان بعض اوقات تب بھی نصیب نہیں ہوتا جب وجدان کی تعبیرات کو عملی امتحان کی کسوٹی پر پرکھ کر صحیح معلوم کر لیا گیا ہو۔ عام آدمی کے لیے مذہب ایمان بالغیب کا معاملہ ہے جس میں کچھ شک کا عنصر ملا رہتا ہے کیونکہ یہ ایمان مستعار ہوتا ہے۔ اس لیے اس کی صداقت کے امتحان کی طلب عام آدمی کے لیے ہے نبی کے لیے نہیں۔ نبی کے لیے بھی اگر اس امتحان کی احتیاج ثابت کی جائے تو مسائل جنم لیتے ہیں۔ صرف نبی ہی نہیں، ان کے اصحاب میں بھی یہ ایمان و ایقان اتنا قوی ہوتا ہے کہ ان کے لیے بھی اس امتحان کا مسئلہ پیدا ہی نہیں ہوتا۔ اس ضمن میں ہم حضرت ابو طالب سے آنحضرت کی گفتگو پر اپنی بحث کا اختتام کرتے ہیں۔ اہل مکہ کے دبائو کے تحت ابو طالب نے آپ کو اپنے تبلیغی کام سے روکنے کی کوشش کی تھی، آپ نے ابو طالب سے کہا تھا کہ ’’اے میرے چچا، بہ خدا اگر یہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند بھی رکھ دیں تو میں اپنا کام نہیں چھوڑوں گا، میں دعوت دیتا رہوں گا تا وقتیکہ اللہ اس میں میری مدد کرے یا میں اس کوشش میں ختم ہوجائوں‘‘۔ یہ یقین و ایمان اس وحی پر تھا جو نازل ہوئی اور وہ نتائج ، وہ عملی کامیابی جو بہت بعد میں حاصل ہوئی، اس ایمان کا مأخذ اور اساس نہ تھی۔ پہلاخطبہ حواشی ۱) تشکیل (انگریزی)، مرتبہ محمد سعید شیخ، ادارہ ثقافت اسلامیہ/ اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۸۹، ص ،۱ ۲) تشکیل جدید……(اردو)ترجمہ نذیر نیازی، بزم اقبال، لاہور، ۱۹۸۳ئ، ص،۱۔ ۳) تشکیل……(انگریزی) محولہ بالا، ص ۱۵۸، نوٹ ۵ ۴) ایضاً ۔ ص، ۲۔ ۵) جلال الدین رومی ، مثنوی، اشعار۔ ج۳، ۳۱، ش ۸۔۳، ۵۱۱، ۱۔۱، ۱۷۷، ۹؛ نیز محمد حسن عسکری، جدیدیت، راولپنڈی، ۱۹۷۹ئ، ص، ۱۳۲۔ ۶) تشکیل…… (انگریزی) محولہ بالا، ص،۳۔ ۷) تشکیل جدید ……(اردو) محولہ بالا ،ص،۵۔ ۸) قرآن مجید ۔ ۱۰۳:۸۶۔ ۹) تشکیل ……(انگریزی) محولہ بالا، ص،۴۔ ۱۰) تشکیل جدید … (اردو) محولہ بالا ،ص ،۵۔ ۱۱) تشکیل … (انگریزی) محولہ بالا ،ص ،۵۔ ۱۲) تشکیل جدید …… (اردو) محولہ بالا، ص،۹۔ ۱۳) محمد غزالی، مشکواۃ الانوار، نیز احیاء العلوم بحوالہ نذیر نیازی، تشکیل جدید ،ص،۸۔ ۱۴) ظفر الحسن، ریلیزم، کیمبرج یونیورسٹی پریس، ۱۹۲۸۔ ۱۵) تشکیل (انگریزی) محولہ بالا ،ص ،۱۳۔ ۱۶) تشکیل جدید …… (اردو ) محولہ بالا، ص،۲۳۔ ۱۷) فواد، اور اس کے مشتقات کے لیے دیکھیے، قرآن مجید :۔۳۶:۱۷؛ ۱۰:۲۸؛ ۱۱:۵۳؛ ۱۲۰:۱۱؛ ۳۲:۲۵؛ ۱۱۳:۶؛ ۳۷:۱۴؛ ۷۸:۱۶؛ ۷۸:۳۳؛ ۹:۳۲؛ ۲۶:۴۶؛ ۲۳:۶۷؛۷:۱۰۴؛۱۱۰:۶؛۴۳:۱۴؛۲۶:۴۶۔ قلب کے لیے دیکھیے: ۱۵۹:۳؛ ۸۹:۲۶؛ ۸۴:۳۷؛۴۰:۳۵؛ ۵۰:۳۳؛ ۵۰:۳۷؛ ۹۷۔۱۹۴؛ ۲۶؛۲۹:۴۲؛ ۲۰۴:۲؛ ۲۷۶:۲؛ ۲۴:۸؛ ۱۰۶:۱۶؛ ۲۸:۱۸؛ ۳۳:۳۲؛ ۴۵:۲۳؛ ۸۶:۱۱؛ ۲۶۰:۲؛ ۳۳:۴؛۱۵۱:۳؛۱۰۱:۷؛۱۹۷: ۷؛ ۱۲: ۸؛ ۱۱۷:۹؛ ۷۴: ۱۰؛ ۲۸: ۱۳؛ ۱۵: ۱۲؛ ۵۷: ۲۷؛ ۳۲: ۲۶؛ ۴۶: ۲۲؛ ۳۷: ۲۴؛ ۲۰: ۲۶؛ ۵۶: ۴۰؛ ۳۳: ۱۰؛ ۴۵: ۳۹؛ ۴۰: ۱۸؛ ۴۷: ۲۴؛ ۴۸: ۴؛ ۷۹: ۸؛ ۲۶: ۴۔ ۱۸) تشکیل … (انگریزی) محولہ بالا ،ص ،۲۔۲۱۔ ۱۹) تشکیل جدید … (اردو) محولہ بالا ،ص،۴۰۔۳۹۔ ۲۰) شیخ احمد سرہندی، مکتوبات ، دفتر دوم ، مکتوب ۱، نور کمپنی، لاہور، ت۔ ن، ص ،۴۔۸۵۲۔ ۲۱) تشکیل …(انگریزی) محولہ بالا، ص،۱۴۴۔ ۲۲) ر۔ ک بخاری، ’’جنائز‘‘ ۷۹ ’’شہادۃ‘‘ ۳۔ ’’جہاد‘‘ ۱۷۸/۱۶۰؛ مسلم ’’ فتن‘‘ ۹۶۔۹۵؛ نیز دیکھیے تشکیل …(انگریزی)ص ،۱۳۔ ۲۳) قرآن مجید:۔ ۱۰:۴۴۔ ۲۴) قرآن مجید:۔۵۲:۲۲۔ ۲۵) تشکیل… (انگریزی) محولہ بالا ،ص،۱۹۔ ۲۶) ایضاً۔ ۲۷) تشکیل جدید … (اردو) محولہ بالا ،ص،۳۵۔ ۲۸) ایضاً ۔ نیز حاشیہ ۱۱۲۔ ۲۹) ترجمہ از مولانا اشرف علی تھانوی، بیان القرآن، تاج کمپنی، ص ۸۔۴۰۷ ۔ آیت سے علامہ کا بیان کردہ مفہوم مراد لینا مزید مشکل ہو جاتا ہے اگر دیگر علماء کا اختیار کردہ ترجمہ سامنے رکھا جائے جس میں یہاں تمنی کے لفظ سے ارمان کرنا، کسی اقدام کا ارادہ کرنا مراد لیا گیا ہے اور اس پر عربی زبان کے قرائن سے استشہاد کیا گیا ہے۔ ۳۰) تشکیل …(انگریزی) محولہ بالا ، ص،۲۲۔۲۱۔ ۳۱) ایضاً ۔ص ،۱۴۔ ۳۲) تشکیل جدید …(اردو محولہ بالا، ص،۲۶۔ ۳۳) تشکیل…(انگریزی) محولہ بالا، ص،۱۴۔ ۳۴) تشکیل جدید ……(اردو) محولہ بالا، ص ،۲۷۔۲۶۔ ۳۵) تشکیل …(انگریزی) محولہ بالا ، ص ،۱۵۔۱۴۔ ۳۶) تشکیل جدید …(اردو ) محولہ بالا، ص،۲۸۔۲۷۔ ۳۷) تشکیل ……(انگریزی) محولہ بالا ، ص ،۱۵۔ ۳۸) تشکیل جدید ……(اردو) محولہ بالا ، ص،۹۔۲۸۔ ۳۹) تشکیل ……(انگریزی) محولہ بالا، ص ،۱۶۔ ۴۰) تشکیل جدید ……(اردو) محولہ بالا ، ص ،۳۰۔۲۹۔ ۴۱) تشکیل ……(انگریزی) محولہ بالا، ص ،۱۶۔ ۴۳) ایضاً محولہ بالا ، ص ،۱۸۔ ۴۴) تشکیل جدید ……(اردو) محولہ بالا،ص ،۳۰۔ ۴۵) ایضاً محولہ بالا ،ص ۳۱۔۳۰۔ ۴۶) ایضاً محولہ بالا ، ص ،۳۳۔ ۴۷) تشکیل ……(انگریزی) محولہ بالا، ص،۱۸۔ ۴۸) ایضاً محولہ بالا ، ص ،۲۲۔۲۱۔ ۴۹) تشکیل جدید ……(اردو) محولہ بالا، ص،۴۰۔۳۹۔ دوسرا خطبہ وقوف مذہبی کے انکشافات کا فلسفیانہ معیار اس آزمائش یا امتحان کی بنیاد اس خیال پر ہے کہ فلسفے کی بنیاد پر قائم ہونے والے تصور حقیقت اور وحی سے حاصل ہونے والے تصور حقیقت میں کوئی اختلاف نہیں۔ عیسوی علم کلام نے جو مباحث اس ضمن میں کئے ہیں ان کا مدعا یہ ثابت کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کائنات کی اصل ہے اور ساری کثرت کا صدور اسی سے ہے۔ یہ مباحث اور فکری کاوشیں وجود خداوندی کے حق میں کونیاتی، غایتی اور وجودیاتی دلائل قائم کرنے سے عبارت ہیں۔ یہ دلائل اگر ہمیں قائل کر سکیں تو فلسفیانہ امتحان کی کسوٹی پر پورے اتریں گے۔ علامہ اقبال نے یہاں یہ نکتہ واضح کیا ہے کہ یہ دلائل ہماری رہنمائی اسی تصور حقیقت کی جانب کرتے ہیں جو وحی سے حاصل ہوتا ہے۔ اس مقصد سے علامہ نے ان دلائل میں البتہ قدرے ترمیم کر دی ہے۔ علامہ نے ان دلائل میں موجود پیچیدگیوں کو یوں واضح کیا ہے: کونیاتی دلیل: یہ ہے کہ دنیا جسے ہم جانتے ہیں نہ تو قائم بالذات ہے اور نہ آزاد حقیقت۔ فکر انسانی اس کی توجیہ تلاش کرنے میں مجبور ہوتی ہے کہ کسی ایسی چیز پر تکیہ کرے جسے اس کی علت قرار دیا جا سکے اور جو واجب الوجود، خود سے موجود اور قائم بالذات ہو۔ اس دلیل کا مقتضا یہ ہے کہ جوشے بھی وجود رکھتی ہے اس کی ہستی اس کے اپنے آپ سے نہیں بلکہ وہ اپنے وجود کے لیے ایک اور وجود کی محتاج ہے جو اس کی علت ہے۔ یہ علت اگر اپنی جگہ واجب الوجود نہ ہو تو اسے نتیجے کے طور پر کسی اور علت کا معلول جاننا ہو گا۔ اس سے وجودہائے حادث کے ایک لامتناہی سلسلے کو ماننا لازم ٹھہرے گا جس کی تمام کڑیوں میں باہمی علت و معلول کا رشتہ ہو گا۔ چونکہ اس سے دور لازم آئے گا اور یہ محال ہے لہٰذا کسی ایسے وجود پر اس کو ختم ہونا چاہیے جو ہستی کی علت غیر معلول کہی جا سکے۔ یہ علت غیر معلول وہ وجود ہے جو واجب بالذات بھی ہے، قائم بنفسہٖ اور لا محدود بھی۔ یہی وجود باری ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ یہ دلیل نتیجہ خیز نہیں ہے کیونکہ اس پر مندرجہ ذیل اعتراضات کیے جا سکتے ہیں: اولاًیہ کہ یہ دلیل منطق پر پوری نہیں اترتی کیونکہ اس کے مطابق علت و معلول کا سلسلہ ایک نقطے پر ختم ہو جاتا ہے اور اس سلسلے کے ایک رکن یاکڑی کو من چاہے انداز میں اٹھا کر علت غیر معلول کے مرتبے پر فائز کر دیا جاتا ہے۔ ثانیاً یہ کہ اس طرح جو علت اولیٰ قرار پاتی ہے وہ اپنے معلول کو شامل نہیں ہوتی اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ اس علت کا معلول اس کے وجود سے خارج ہے لہٰذا معلول کے وجود خارجی رکھنے سے اس علت اولیٰ کے مطلق ہونے اور اس کی لامحدود یت و عظمت پر ایک حد لاگو ہو جاتی ہے اور اس طرح یہ علت اولیٰ محدود ہو جاتی ہے۔ ثالثاًیہ کہ یہ علت اولیٰ واجب الوجود اور مطلق متصور نہیں ہو سکتی کیونکہ علت اور معلول کا رشتہ ’فی نفسہٖ‘ دوارکان کی، دوئی کا متقاضی ہے۔ رابعاً یہ دلیل صرف اتنا ثابت کرتی ہے کہ اصول تعلیل ضروری ہے مگر اس سے ایک وجودی علت اولیٰ یا موجود فی الخارج علت کا لزوم ثابت نہیں ہوتا۔ خامساًیہ دلیل ایسے لامحدود یا لا تعین کے تصور تک لے جاتی ہے جو محدود یا مقید کا ضد ہے مگر لا محدود کا ایسا تصور خود انتفائی اور متناقض ہے اور تضاد فی الاصطلاح کا شکار ہے۔ لہٰذا یہ دلیل بالکل غیر نتیجہ خیز اور ناقابل قبول ہے۔ علامہ کے وارد کردہ ان اعتراضات سے اگر کچھ دیر کو صرف نظر کر کے بھی دیکھا جائے تو بھی اس دلیل پر ایک اور پہلو سے اعتراض کیا جا سکتا ہے۔ اس دلیل کے حاصل کے طور پر جو اولین علت غیر معلول سامنے آتی ہے وہ ایک تصور ذہنی سے زیادہ نہیں اور اس میں کسی طرح حیات، ارادہ، تخلیق و اختیار و تصرف کے کمالات و اوصاف نہیں پائے جاتے۔ دین کے تصور الہٰ کے یہ لازمی عناصر ہیں۔ اصل میں اس دلیل کی تہ میںیہ چیز کار فرما ہے کہ مابعد البطیعیاتی علم کے تقاضے کی تسکین ایک تصور الہٰ سے کی جائے، دین کا بتایا ہوا خدا نہیں بلکہ ایک اصول تعلیل و توجیہ جسے اس طرح برتا جائے کہ عالم کی کثرت کی علت اس کے منبع واحد تک واضح ہو جائے۔ مذکورہ اوصاف و کمالات اس علت اولیٰ سے من چاہے انداز میں منسوب تو کیے جا سکتے ہیں لیکن خود اس کے مقتضیات میں سے نہیں ہیں۔ دلیل غائی: دلیل غائی کا دعویٰ ہے کہ کائنات ایک بامقصد تکوینی نظام ہے۔ اس دنیا سے ماوراء ایک ذی شعور قائم بالذات ہستی ہے جو اپنے ارادے اور مشیت سے چند غایات و مقاصد کا تعین کرتی ہے اور اس طے شدہ منصوبے کے مطابق کارہائے دنیا انجام پاتے ہیں۔ عالم مادی کی فطرت اگرچہ اپنی جگہ قدیم ہے تاہم وہ اس حکیم و قدیر صانع کے منصوبے میں ڈھل جاتا ہے۔ (اسے اصطلاحاً استدلال بالتقدیر بھی کہ سکتے ہیں) علامہ کے خیال میں یہ دلیل بھی بودی اور کمزور ہے۔ اولاً اس لیے کہ اس سے ہمیں صرف ایک ہنر مند موجود فی الخارج صانع میسر آتا ہے جو ایسے مادے پر عمل فرما ہے جو اپنی پراچین ماہیت رکھتا ہے اور یہ ماہیت تنظیم اور ترتیب و ترکیب کو قبول نہیں کرتی۔ ثانیا اس لیے کہ اس سے خالق کائنات کا پتہ نہیں ملتا صرف ایک صنعت گر کی دلیل ملتی ہے کیونکہ مادے کی پراچین ماہیت اس عقل صناع یاذی شعور صانع کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے اور اس رکاوٹ سے اس صانع کی قدرت پر ایک حد لاگو ہو جاتی ہے ثالثاً اگر خدا کو اس مادے کا خالق بھی مان لیا جائے تو یہ بات ناقابل توجیہ رہتی ہے کہ خدا نے ایسا مادہ پیدا کیوں کیا جو اس کے تصرف اور مشیت میں مزاحمت پیدا کرتاہے۔ رکاوٹ اس لیے کہ مادہ بہ اعتبار ماہیت ہی اس نظم و ترتیب کی مزاحمت کرتا ہے۔ رابعاًیوں کہ یہ صانع اپنی ماہیت میں لا محدود نہیں رہتا کیونکہ مادے کی ماہیت اس کے مقابل آ جاتی ہے۔ اس دلیل کی اصل کمزوری اس مماثلت باطلہ میں مضمر ہے جو انسانی صنعت گر اور الوہی صانعیت میں تلاش کی گئی ہے۔ تاہم اگر ہم یہ مان لیں کہ خدا خالق مادہ ہے تو نتیجتاً جو نظریہ حاصل ہو گا اسے تخلیقی خدا پرستی کہیں گے۔ اس دلیل پر اصل اشکال یہ ہے کہ اس سے یقینی طور پر ثابت نہیں ہوتا کہ تخلیق کائنات بامقصد ہے اور جو ذرائع و وسائل اس غایت کو بروئے کار لانے کے لیے اختیار کیے گئے ہیں وہ غایت کے مطابق بھی ہیں۔ وجودیاتی دلیل: وجودیاتی دلیل خدا کی ہستی کا ثبوت یوں پیش کرتی ہے: وجود مطلق کا تصور ہی اس کے حقیقی ہونے کو مستلزم ہے کیونکہ اگریہ وجود مطلق یا ہستی کامل صرف وجود ذہنی رکھتی تو یہ سب سے برتر نہ ہو گی اور اس سے ارفع ایک اور ذات کا تصور بھی کیا جا سکے گا جو وجود ذہنی اور وجود خارجی سے متصف ہو۔ اس دلیل پر اعتراض ہو سکتا ہے کہ صفت کمال لازماًوجود خارجی کی مقتضی نہیں ہے۔ ڈیکارٹ نے اس دلیل کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ وجود کامل کا تصور وجود ناقص یعنی انسان ہی میں موجود ہے۔ یہ تصور انسانی دماغ جیسی ناقص علت کا معلول نہیں ہو سکتا بلکہ وجود کامل ہی کی کارفرمائی ہو سکتا ہے۔ اس دلیل کو پیش کرنے کا ایک اور انداز یہ ہے کہ وجود کامل کا اگر تصور موجود ہے تو لازماً اس کو ہستی خارجی اور واقعی بھی حاصل ہو گی ورنہ اس کا تصور کیونکر پیدا ہوتا! بنا بریں اس ذات کا وجود ہے۔ یہ دلیل اس لیے ناکافی ہے کہ وجود کا تصور ذہنی یا وجود ذہنی اس کے وجود خارجی کو مستلزم نہیں ہے۔ کانٹ کا اس دلیل پر اعتراض یہی ہے کہ اگر میں ذہن میں تصور کر لوں کہ میری جیب میں تین سو ڈالر ہیں تو یہ کہاںلازم آیا کہ اس تصور سے میری جیب میںیہ رقم موجود ہو جائے گی؟۔ ۱؎ کانٹ کے خیال میں ڈیکارٹ کی دلیل میں جو مقدمات ہیں وہ تجزیاتی قضایائے فکری سے عبارت ہیں۔ لیکن یہ تجزیاتی استدلالی قضایا علم نہیں ہیں کیونکہ ہمیں یقین نہیں ہوتا کہ کوئی حقیقت اس کا مدلول ہے۔ کسی شے کا علم تب واقعی ہو گا جب اس کی حقیقت کا معروضی طور پر (حسی) تجربے سے اثبات کیا جا سکے۔ اس کا نظریہ مختصراً یہ ہے کہ ’’علم ایسے قضیہ مرکبہ ء وہبیہ کا نام ہے جس کے متوازی خارج میں حقیقت موجود ہو، جس کا خام مواد حو اس نے مہیا کیا ہو اور عقل کے بنیادی تصورات کی بنا پر قضیہ علمیہ میں کلیت پید اہوئی ہو۔ یوں حواس اور عقل مل کر ایک ذریعہ علم ہیں لہٰذا ہمارا یقینی علم حواس کے دائرے تک محدود ہے اور ورائے محسوسات کا علم یقینی ممکن ہی نہیں‘‘۔ یہ دلائل اور ان پر اعتراضات کیرڈ کی کتاب مقدمہ فلسفہ مذہب میں تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔ ۲؎ کتاب دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ علامہ نے وہاں سے کئی خیالات اخذ کیے ہیں۔ دلائل کونی وغائی کے اعتراضات رفع کرنے کا نکتہ بھی یہیں نظر آتا ہے۔ جسے علامہ نے وجود و تصور وجود یا موجود و معقول کی وحدت سے تعبیر کیا ہے۔ وجود ذہنی یا تصور شے اور حقیقت شے یا وجود واقعی یا خارجی میں وحدت کا خیال اس لیے ضروری ٹھہرتا ہے کہ اس کے بغیر تصور اور حقیقت کے درمیان ایک ناقابل عبور خلیج پیدا ہو جاتی ہے اور اس دوئی سے وحدت کا علم حاصل کرنے کے تقاضے کی تسکین نہیں ہو پاتی۔ اس کے لیے مزید ضروری ٹھہرتا ہے کہ مادے کے وجود خارجی سے انکار کیا جائے۔ لیکن اس سے ایک مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ عقلیت پرستی کا اصول ہی یہ ہے کہ معقول اور موجود میں وحدت یا عینیت کی نسبت ہے چونکہ حقیقت معقول ہے اور کلی ہے لہٰذا ذہنی ہے، تصوراتی ہے لہٰذا وجود ذہنی وجود واقعی و خارجی کو مستلزم ہے۔ علامہ کے ہاں جو اختباریت پر زور ہے یہ نظریہ اس کے بالکل خلاف پڑتا ہے۔ یہاں علامہ نے کیا یہ کہ کانٹ کی فکر پر ایک اضافہ تجویز کیا۔ کانٹ کو مابعد الطبیعیات کا علم ممکن نظر نہیں آتا تھا۔ اس کا سبب کانٹ کے خیال میں یہ تھا کہ محسوس کے سوا چونکہ کسی اور معلوم کی تجربی تصدیق ممکن نہیں لہٰذا محسوس کے سوا اور کسی حقیقت کا یقینی علم بھی ممکن نہیں۔ اقبال نے یہاں یہ نکتہ بڑھایا کہ اگر مذکورہ تجربے کا دائرہ وسیع تر کر دیا جائے اور محسوسات کے علاوہ تجربے کی کسی اور نوع اور کسی دیگر ڈھب کا اثبات کیا جائے تو امکان علم سے یہ انکار بھی اثبات میں بدل سکتا ہے۔ اس دائرے میں وسعت پیدا کرنے کے لیے اقبال کہتے ہیں کہ انسان کا ایک اور بھی داخلی یا باطنی تجربہ ہے جسے وقوف مذہبی (Religious Experience) یا وقوف سرّی (Mystical Experience ) کہا جاتا ہے یا وجدان کا نام دیا جا سکتا ہے۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ علامہ نے اسی خطبے میں کچھ پہلے تصور ذہنی اور وجود خارجی کی دوئی مٹ جانے کے امکان کا تذکرہ کیا ہے۔ اگر محسوسات یا علم بالحواس کے برابر آپ ایک اور طریق یا اسلوب حصول علم فرض کریں جو وقوف حسی سے جدا ہو تو معقول اور موجودکی مذکورہ دوئی از سر نو قائم ہو جائے گی۔ دوسری جانب اگر معقول اور موجود ایک دوسرے کے عین ہوں تو نتیجہ یہ ہو گا کہ وقوف ذہنی یا وقوف سرّی کو جداگانہ طریق علم کہنے میں کوئی معنی نہیں رہیں گے جبکہ یہاں یہ ایک اہم دلیل کے طور پرپیش کیا گیا ہے اور اس پر اس سارے فلسفے کی عمارت استوار ہوئی ہے جو اس وقوف سرّی کو حقیقت مطلقہ کے علم کا راستہ سمجھتا ہے۔ مابعد الطبیعیات کا علم علامہ کے خیال میں اسی لیے ممکن ہے کہ موجود و معقول، ناظر و منظور اور موضوع و معروض میں جو دوئی ہمارے عام مشاہدے میں آتی ہے وہ کسی بالا تر سطح وجود یا مرتبہ وجود پر وحدت میں ڈھل جاتی ہے۔ اس کی تہ میںیہ نظریہ ہے کہ فلسفہ، مذہب اور شعر عالی کے مسائل یکساں ہیں اور یہ تینوں ہی حقیقت الحقائق کے متلاشی ہیں اس معاملے پر آگے بھی ہم گفتگو کریں گے۔ یہاں یہ عرض کرنا ہے کہ علامہ موجود و معقول یا وجود ذہنی و وجود خارجی کی وحدت ثابت کرنے کے لیے حقیقت کے اس تصور پر تنقید کرتے ہیں جو حقیقت کو ایک مربوط نظام کی وحدت میں پیش کرنے میں ناکام ہے۔ اقبال اسی قضیہ سے آغاز کرتے ہیں کہ ہمارا زمانی تجربہ تین سطحوں پر اپنی نمود کرتا ہے۔ یہ تین سطحیں ہیں، مادہ، حیات اور شعور اور یہی بالترتیب طبیعیات، حیاتیات اور نفسیات کا موضوع ہیں۔ علامہ نے ان تینوں مختلف تصورات حقیقت پر جو تنقید اور اپنا جو نظریہ پیش کیا ہے اس کو وضاحت سے سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل نکات پیش نظر رکھنا چاہئیں۔۳؎ ۱۔ ان میں سے ہر شعبہ علم اپنے اپنے دائرہ کار کے اندر تجربے سے جمع ہونے والے مدلولات کی جانچ پرکھ ، گروہ بندی اور توجیہ و تعلیل کا کام کرتا ہے۔ طبیعیات مادی مظاہر کا، حیاتیات نامیاتی مظاہر کا اور نفسیات شعوری مظاہر کا جائزہ لیتی ہے۔ ۲۔ ہر شعبہ علم کے چند مسلمہ مقولات ہوتے ہیں یا اصول ہائے تعلیل ہوتے ہیں جن سے اس کے مظاہر و مدلولات کی توجیہ کی جاتی ہے۔ انہیں بے چوں و چرا تسلیم کر کے یہ علوم آگے بڑھتے ہیں۔ طبیعیات کی رو سے طبعی مظاہر حقیقت ہیں، حیاتیات کی رو سے مظاہر حیات حقیقت ہیں اور نفسیات کی رو سے شعوری کیفیات بطور واقعہ تسلیم کرنا ضروری ہے۔ ۳۔ طبیعیات میں یہ مقولات ہیں: مادہ ، علت و معلول، کمیت، کیفیت، حرکت، قوت، مکان، زمان، عدد۔ حیاتیات میں یہ مقولات ہیں: انجذاب ، نمو، جزو سے کل کی اور کل سے جزو کی پیدائش ، انفرادیت اور از خود حرکت وغیرہ۔ نفسیات میں مقولات ہیں شعور، نفس، جذبہ، ارادہ، ادراک وغیرہ۔ ۴۔ تمام علوم اپنے اپنے مقولات کا تمام حدود و قیود سے آزاد اطلاق کرنے کا میلان رکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان مقولات سے ہر طرح کے مظاہر و مدلولات کی توجیہ و تشریح کی جا سکتی ہے اور ان بنیادی تصورات کے سہارے ایک مابعد الطبیعیات کی تشکیل کی جا سکتی ہے۔ ۵۔ ہر سائنس کا کوئی مفروضہ ہونا چاہیے جو اس کی مدلولات کی توجیہ کرے۔ طبیعیات کا مفروضہ میکانکی علیت ۴؎ ،حیاتیات کا مفروضہ ارتقا ۵؎ ا ور نفسیات کا مفروضہ علیت غائی ۶؎ کہا جا سکتا ہے۔ ۶۔ اپنے اپنے مقولات اور اپنے مسلمہ مفروضوں کی لگن میں یہ شعبہ علم ان حدود سے باہر نکل پڑتے ہیں جہاں جائز طور پر ان کا اطلاق ہو سکتا ہے اور ان مفروضوں کی خاطر حقائق اشیا کی تردید کرنے لگتے ہیں۔ جبکہ یہ مفروضے صرف اپنے اپنے دائرے میں واقع ہونے والے مظاہر کی توجیہ کر سکتے ہیں۔ طبیعیات نے حقیقت کا جو تصور دیا ہے وہ مادہ، علت و معلول، میکانیکی تعلیل اور تعداد کے بنیادی تصورات سے مرکب ہے اور اس کے سہارے حیات و شعور دونوں ہی کو مادے کے بنیادی اصول سے نمو پذیر ہوتے دکھایا گیا ہے۔ یعنی بالفاظ دیگر حیات و شعور دونوں مادے کے منتزعات ہیں۔ علامہ اقبال کا کہنا یہ ہے کہ یہ تصور حقیقت ناکام ہو چکا ہے کیونکہ اس میں مادے کا تصور ہی ایسا ہے جو معقول اور موجود میں دوئی کا مقتضی ہے۔ قدیم طبیعیات میں مادہ عبارت ہے لاتعداد غیر محسوس ایٹموں سے جو قوانین تجاذب کے تحت ایک دوسرے پر عمل فرما ہیں۔ مگر یہ تصور حقیقت ناقابل قبول ہے کیونکہ اس نظریے کی بنیاد پر عالم خارجی کے ادراک کی تشریح یوں ہو جاتی ہے کہ عالم خارجی ذہنی ارتسامات اور نامعلوم حقیقت کے درمیان منقسم ہے جو ان ارتسامات کا سبب ہے۔ بنابریں عالم خارجی کا بلاواسطہ ادراک محال ٹھہرتا ہے۔ اس دشواری پر قابو پانے اور موجود و معقول کی وحدت قائم کرنے کے لیے علامہ یہاں برکلے کے نظریے کا حوالہ دیتے ہیں۔ اس کے خیال میں عالم خارجی قائم بالذات مادی عالم نہیں ہے بلکہ ایک وجود مدرک کے تصورات اور احساسات سے عبارت ہے۔۷؎ اب یہاں مسئلہ یہ اٹھتا ہے کہ عالم خارجی کے مستقل بالذات وجود سے برکلے کا انکار اس غرض سے تھا کہ ذہن اور شعور کے مقولات کو زیادہ بنیادی قرار دیا جا سکے اور اس طرح ان کی بنیاد پر ایک نظام مابعد الطبیعیات کی نیو رکھی جا سکے جو نفسیات کے مقولات پر مبنی ہو۔ ادھر علامہ اقبال عالم خارجی کی معروضی حیثیت کا انکار کرنے پر آمادہ نہیں ہیں خواہ برکلے کے اصول پر وجود خارجی اور وجود ذہنی متحد الاصل کیوں نہ ہوں اور موجود و معقول میں وحدت ہی کیوں نہ ثابت ہو جائے۔ لہٰذا وہ آئن سٹائن کے پیش کردہ مادے کی حقیقت کے نظریے کی طرف مائل نظر آتے ہیں جو دونوں کے مابین کی راہ ہے۔ آئن سٹائن کی طبیعیات کے مطابق مادہ نام ہے باہمد گر مربوط واقعات (یا بالفاظ نذیر نیازی ’’حوادث‘‘) کے ایک نظام کا۔ ۸؎ کلاسیکی طبیعیات کے نظریات میں یہ ایک اضافہ ہے کیونکہ علامہ کے الفاظ میں ’’خالص مادیت کا یہ مفروضہ کہ مادہ کوئی قائم بالذات شے ہے اور مکان مطلق میں واقع ہے، قطعاً ناقابل عمل ہے‘‘۔ ۹؎ آگے چل کر علامہ مادیت کے اس تصور اضافیت کو بھی رد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اس تصور کے تحت زمان بھی مکان کی ایک جہت یا چوتھی بُعد قرار پاتا ہے اور یہ چوتھی کھونٹ بھی مکان کی طرح معین اور طے شدہ امربن جاتی ہے لہٰذا ترقی، ارتقائ، پیش رفت اور تخلیقی عمل ناممکن ہو جاتا ہے اور ایک طرح کی زمانی جبریت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس اشکال سے بچنے کے لیے علامہ زمان و مکان کے اضافیت زدہ تصور میں ترمیم پیش کرتے ہیں اور زمان کو حیات سے اخذ کرتے ہیں۔ اس پر الگ سے بحث کی ضرورت ہے۔ تاہم یہاں ایک نکتہ واضح ہوجانا چاہیے کہ اس بحث میں آنے والے نام یعنی آئن سٹائن ، رسل ، وائٹ ہیڈ، کینٹر وغیرہ سائنسدان ہیں اور ان کے دلائل ان فلسفیانہ مسائل کو حل کرنے کے لیے حتمی حیثیت یا اہمیت نہیں رکھتے۔ یہ مسائل یعنی مادہ، زماں اور مکان بہت دقیق اور مابعد الطبیعیاتی جہات سے منسلک ہیں اور ان پر گفتگو کرتے ہوئے ان حضرات نے اپنے اپنے شعبہ علم کی حدود و قیود پر نظر نہیں رکھی۔ لہٰذا علامہ وہ اشکالات بیان کر کے دوسری سطح ظہور کی طرف گریز کرتے ہیں جو مادے کو حقیقت کی اساس قرار دینے سے درپیش ہو سکتے ہیں یہاں وہ وائٹ ہیڈ کے افکار کی مدد سے یہ دکھاتے ہیں کہ حیات اور شعور زیادہ بنیادی حقیقت ہے۔ وائٹ ہیڈ کے یہ افکار ان کی اس شرح میں پیش ہوئے ہیں جو انہوں نے نظریۂ اضافیت کے سلسلے میں قائم کی اور جس میں مادہ کے تصور کو ’’نامیاتی‘‘ وجود سے بدل دیا گیا۔ اب بحث حیاتیات کے دائرے میں داخل ہوتی ہے۔ یہاں تصور حقیقت حیاتیات کے تصور نمو کی بنیاد پر قائم کیا جائے گا ’’شعور کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ یہ حیات ہی کا ایک امر منتزع ہے اور اس کا وظیفہ یہ ہے کہ زندگی کے لگاتار آگے اور آگے ہی بڑھتے ہوئے سفر میں ایک نقطۂ نور فراہم کرے‘‘۔ ۱۱؎ حیات بنیادی حقیقت ہے اور اس کی توجیہ میکانکی تعلیل سے نہیں کی جا سکتی۔ اس کے برعکس میکانکیت کو حیات کے فطری مظاہر کہا جا سکتا ہے۔ برگساں کے نظریے میں خرابی یہ ہے کہ اس میں انسانی آزاد فعلیت کی گنجائش مفقود ہو جاتی ہے۔ اگر حیات کے مقولات کی بنیاد پر ایک مابعد الطبیعیات کی تشکیل کی جائے تو اس خاکے میں کائنات ایک وجود نامی ہو گا جو بڑھتا ہوا اور نموپذیر ہو گا۔ برگساں یہی کہتا ہے۔ اس کا مقتضی ہے کہ اندھی مشیت، ایک زندگی کی رو جو اسفل سطح پر مادہ ہے، مقابلتاً کم فعال اور متحرک ہے تاہم جامد نہیں ہے۔ شعور محض فعلیت حیات کی خدمت بجا لاتا ہے اور جب فعلیت حیات کو اس کی ضرورت نہیں رہتی تو یہ غائب ہو جاتا ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ برگساں کے موقف کے مطابق ارادے اور فکر کی دوئی لازم آتی ہے کیونکہ اس کے ہاں عقل کا تصور ادھورا ہے۔ فکر اور حیات واحد ہیں۔ حیات محض ایک سلسلہ ہائے اعمال توجہ ہے۔ ۱۲؎ اور عمل توجہ جو بھی ہو گا اس کی توجیہ کسی نہ کسی غایت یا مقصد کے حوالے سے کی جائے گی خواہ اس کی حیثیت شعوری ہو خواہ غیر شعوری۔ غایت یا مقصد کا تعلق مستقبل سے ہے۔ اس عنصر کا عمل دخل یہ بتاتا ہے کہ شعور میں مستقبل کی جانب دیکھنے کا ایک طرح کا رحجان پایا جاتا ہے۔ مقصد سے شعور کی آئندہ سمت کا اندازہ ہو جاتا ہے لہٰذا اگر اپنے تجربہ شعور پر قیاس کیجئے تو حقیقت کو ئی اندھی قوت حیات نہیں ٹھہرتی جس میں فکری تنویر موجود نہ ہو۔ اس کی ماہیت سرتا سرغایتی ہے۔ ۱۳؎ اس کے بعداقبال یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہماری ذات کے اندر تو اتر زمانی کا جس طرح اظہار ہوتا ہے اس کا مطالعہ بنظر غائر کرنے سے حقیقت مطلقہ کا ہمارا وہ تصور پیدا ہوتا ہے جس میں فکر، حیات اور مقصد باہم مدغم ہو کر ایک نامیاتی وحدت کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور اس تصور کے مطابق یہ حقیقت مطلقہ استدام محض (یا زمان خالص) ہے۔ ہم اس وحدت کا قیاس بھی ایک ذات واحد کی وحدت ہی کے طور پر کر سکتے ہیں۔ سب پر محیط ایک موجود فی الخارج ذات…… اسی ذات سے تمام مظاہر حیات و شعور کا صدور ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر وہی ذات واحد ان تمام مظاہر کی اصل اور منبع ہے۔ ۱۴؎ دوران خالص یا استدام محض میں موجود ہونا ذات (Self ) ہونا ہے۔ ذات ہونے کا مطلب ہے یہ کہنے کے قابل ہو نا کہ ’’میں ہوں‘‘ یا اناالموجود۔ وہی صحیح معنوں میں وجود رکھتا ہے جو یہ کہ سکے کہ ’’میں ہوں‘‘ یہ ’’میں ہوں‘‘ یہ احساس وجود یا شعور وجود جس درجے کا ہے اس سے فیصلہ ہو گا کہ شے پیمانۂ ہستی میں کس مقام پر ہے۔ کہنے کو ہم بھی کہتے ہیں کہ ’’میں ہوں‘‘۔ مگر ہمارا یہ شعور اور یہ قول ہماری ذات اور اس کے غیر میں امتیاز کا محتاج ہے اور اسی امتیاز سے اس کی نمود ہے۔ ذات خداوندی یا ذات بحت قرآن کے الفاظ میں ’’غنی عن العالمین‘‘ہے۔۱۵؎ ا س کے لیے اس کی ذات کا غیر اس سے خارج میں مدمقابل کے طور پر واقع نہیں ورنہ وہ بھی ہماری متناہی ذات کی طرح اپنے غیر سے مکانی رشتے میں بندھ جائے…… عالم طبعی یا عالم خارجی جو بظاہر موجود فی الخارج ہے اصل میں حیات خداوندی ہی کا ایک لمحہ گریزاں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ’’انا‘‘ یا ’’میں ہوں‘‘ کہنا اس کے قائم بالذات ہونے، اپنے آپ سے ہونے اور مطلق ہونے کی بنا پر ہے۔ اب دیکھیے کہ چونکہ اس ذات کی کنہ اور کیفیت جاننا انسان کے بس سے باہر ہے لہٰذا اس کی صفات یا مترجمین اقبال کے الفاظ میں سیرت و کردار کا تصور لازم آتا ہے۔ اقبال کے خیال میں فطرت کو ذات الٰہی سے وہی نسبت ہے جو سیرت و کردار کو انسان سے…… فطرت کا تصور بطور ایک زندہ اور ہر لحظہ بڑھتی ہوئی نامیاتی وحدت کے طور پر کرنا چاہیے جس پر خارج سے کوئی حد قائم نہیں کر سکتے۔ اس کی کوئی حد ہے تو باطنی، یعنی وہ ذات جو اس میں جاری و ساری ہے، جس کا ظہور عالم فطرت میں ہے اور جس سے عالم فطرت قائم ہے۔ حقیقت مطلقہ کے اس تصور میں زمان ایک لازمی عنصر ہے اور حقیقت ایک ذی شعور خلاق قوت حیات کا نام ہے۔۱۶؎ یہ تو ہوا اس تصور کا خلاصہ جو علامہ نے اس خطبے کے آخر میں پیش کیا ہے۔ اس کے چند پہلوئوں کے بارے میں مندرجہ ذیل نکات پیش خدمت ہیں۔ سب سے پہلے یہ نظر میں رکھنا ہو گا کہ یہ تصور حقیقت بربنائے کشف پیش نہیں کیا گیا بلکہ عام تجربے کا نتیجہ ہے جیسے کہ علامہ نے لکھا ہے کہ تجربے کے شواہد سے جواز ملتا ہے کہ حقیقت مطلقہ کو روحانی قرار دیا جائے یعنی ایک ذات سمجھا جائے۔ اشکال یہ ہے کہ اگر اس نتیجے تک عمومی تجربے کی بنا پر رسائی حاصل کی جا سکتی ہے تو پھر مذہبی تجربے (الہام اور وحی) کی کیا ضرورت ہے؟ نیز اگر ذات خداوندی کا وجدان یوں ممکن ہے تو وحی پر ایمان لانے یا نبوت محمدی (علی صاحبھا الصلواۃ والتسلیم) پر ایمان لانے کا لزوم باقی نہیں رہتا۔ اس نکتے کی وضاحت کے لیے ہم اپنے مقالے کے دوسرے اجزاء میں اشارے کر چکے ہیں اور لامذہب یا غیر مذہبی سامعین یا ایمان سے محروم سامعین سے خطاب کے تقاضوں اور ان کی رعایت سے پیدا شدہ مسائل حل کر چکے ہیں۔ دوسری بات یہ دیکھیے کہ علامہ نے اپنے لیے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ انہیں ذات خداوندی کا بلاواسطہ وجدانی علم حاصل ہے۔ ان کے قول کے مطابق حقیقت مطلقہ زمانی ہے اور یہ نتیجہ عام تجربے کے ذریعے مرتب ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے مالہ و ماعلیہ پر بحث ہم اگلے خطبے کی توضیح کے دوران کریں گے اور وہیں یہ بات بھی زیر بحث آئے گی کہ حقیقت کے صاحب ارادہ خلاق قوت حیات ہونے کا قول کس حد تک قابل اطمینان قرار دیا جا سکتا ہے؟ دوسرا خطبہ حواشی ۱) تشکیل ،( انگریزی) محولہ ماقبل ، ص، ۲۵۔ 2) Caird, John. An Introduction to the Philosophy of Religion, Glasgow, 1901, pp.125-150 ۳) ر۔ ک، برہان احمد فاروقی، قرآن اور مسلمانوں کے زندہ مسائل ، ادارہ ثقافت اسلامیہ، ۱۹۸۹ء ، ص، ۲۳۸۔ ۴) ایضاً ۔ ص، ۲۸۴۔ ۵) ایضاً ۶) ایضاً ۷) تشکیل ، محولہ بالا، ص، ۷۲۔ ۸) ایضاً ۔ص ،۲۸۔ ۹) ایضاً ، نیز ترجمہ نذیر نیازی ، ص ،۵۳۔ ۱۰) ایضاً ، ص، ۳۱۔ ۱۱) ایضاً ، ص، ۳۲۔ ۱۲) ایضاً ، ص، ۴۲۔ ۱۳) ایضاً ، ص ،۴۳۔ ۱۴) ایضاً ، ص، ۴۴۔ ۱۵) قرآن مجید : ۔۹۷:۳ ۱۶) ایضاً ، ص ،۴۵:۴۸۔ تیسرا خطبہ تصور الٰہ اور عبادت کا مفہوم فلسفے کی بنیاد پر قائم ہونے والے تصور اور مذہب کے پیش کردہ حقیقت مطلقہ کے تصور میں کوئی فرق نہیں، یہ ثابت کرنا امتحان عقلی کامدعا تھا۔ انکشافات مذہبی کا یہ عقلی یا فلسفیانہ امتحان سابقہ خطبے کا موضوع تھا۔ موجودہ خطبے کا موضوع یہ ہے کہ کیا تصور الہٰ اور عبادت کے مفہوم کے بارے میں بھی یہی کسوٹی استعمال کی جا سکتی ہے اور کیا ان تصورات کو بھی اسی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی صحت و صداقت کے بارے میں فیصلہ کیا جا سکتا ہے؟ دوسرے خطبے کے آخر میں علامہ نے ایک بات صراحتاً کہی تھی:۔ حیات کے عقلی تصور کا نتیجہ لازماً حلولی یا سریانی ہو گا۔۲؎ The result of an intellectual view of life therefore is necessarily pantheistic.1 فلسفۂ غرب کے اس نظریے کا ربط اسلام اور اس کے تصور خدا سے کیا ہے یہ بات آگے چل کر واضح ہو گی جب ہم اسلام کے تصور الہٰ کا تجزیہ کریں گے اور اس کے مآخذ جاننے کی کوشش کریں گے۔ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں کہ علامہ کی نظر میں مقبول ماوراء الطبیعیات وہ ہے جس میں شعور اور وجود ایک دوسرے کے عین ہوں۔ Pantheism چونکہ ایک فلسفیانہ نظریہ ہے لہٰذا اس کے بس کی یہ بات نہیں ہے کہ شعور اور وجود کی وحدت کی سعی کر سکے۔ یہ ماوراء الطبیعیات کا موضوع ہے۔ مگر ماوراء الطبیعیاتی نظریات وحدت کو ایک تصور ذہنی کے طور پر قائم کرتے ہیں، ایسا تصور جس کے سہارے کثرت کا استنباط کیا جا سکے۔ لہٰذا ہوتا یہ ہے کہ وحدت ایک امروجودی نہیں رہتا جس کی کثرت سے الگ اور ماوراء ہستی ہو اور جس سے کثرت کو منتزع کیا جائے۔ بلکہ وحدت کی حیثیت ایک عمومی خیال یا تصور کی رہ جاتی ہے۔ دوسری طرف شعور مذہبی کا لازمی تقاضا ہے کہ وحدت خداوندی ایک وجودی چیز ہو یعنی الٰہ واحد وجود خارجی سے متصف ہو اور ذہنی تصور کے مصداق نہ ہو۔ علامہ جب تصور الہٰ قائم کرتے ہیں تو حقیقت مطلقہ کو تفرید، صمدیت ، تخلیق ، قدرت، آزادی، علم ، ارادہ، وغیرہ کی صفات سے متصف دکھاتے ہیں۔ یہ صفات اور شعور مذہبی کی بیان کردہ صفات الہٰیہ کتنی مطابقت باہمی کی حامل ہیں! سطور ذیل میں اس کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ مذہبی اصطلاحات میں حقیقت مطلقہ یعنی خدا کو یکتا و کامل قرار دیا گیا ہے۔ علامہ اس کمال کو فردیت سے متعلق کرتے ہیں اور ثبوت کے طور پر سورئہ اخلاص پیش کرتے ہیں۔ ۳؎ پھر اس کمال کی تعریف متعین کرنے کے لیے برگساں کا اقتباس دیتے ہیں کہ فردیت اگر کامل ہو تو اس کی شرط کمال یہ ہو گی کہ:۔ اس وجود نامی کے کسی جزو کا اس سے الگ ہو کر اپنی ہستی برقرار رکھنا محال ہو گا۔ ۵؎ For the individuality to be perfect it would be necessary that no detached part of the organism could live separately.4 تاہم اس استدلال میں یہ امکان ہے کہ وحدت (حقیقت مطلقہ)کو ایک غیر مشخص شے بنا دیا جائے جو کائنات میں حلول کئے ہوئے ہو اور اس طرح اس کی حیثیت ایک تصور ذہنی کی رہ جائے۔ اس چیز کو مذہبی شعور قبول نہیں کر سکتا لہٰذا علامہ حقیقت کے تصور کی وکالت کرتے ہیں جو مبنی برتنزیہ ہو اور ایک مشخص ہستی یا ایک ذات واحد پر دلالت کرتا ہو۔ ۶؎ اس کے لیے وہ آیت نور ۷؎ سے بھی استشہاد کرتے ہیں اور اس کی نئی تعبیر کی ضرورت کا احساس دلاتے ہیں۔ ۸؎ جس چیز کو ہستی مشخصہ یا ذات الٰہ کہاجا رہا ہے اور جس کے لیے اس بات کی تردید کی جا رہی ہے کہ وہ کائنات میں گھلی ملی کوئی غیر مشخص شے نہیں ہے اس کا خاصہ ہے کہ اسے ماسوا سے جدا ہونے کا شعور ذات ہو، آزاد ہو اور صاحب قدرت ہو۔ اس اعتبار سے فرد ہونا اور ذات مشخص رکھنا ایک ہی چیز قرار دی جا سکتی ہے ۔ ممکن ہے کہ انفراد موجود ہو لیکن اپنے ماسویٰ کا شعور اور آزاد ارادہ و قُدرت نہ ہو تو اسے ذات قرار دینا مشکل ہے۔ علامہ نے ذات الٰہیہ کا جو تصور یہاں بیان کیا ہے اور اسے فرد کامل یا انیت مطلقہ کی اصطلاحوں سے واضح کرنے کی کوشش ہے ۹؎ اس میں دشواری یہ ہے کہ اس فرد کامل میں دوسری ہر ہستی کو اپنا غیر جاننے کا شعور نظر نہیں آتا کیونکہ اس کے سوا اور کوئی شے اس کے غیر کے طور پر موجود ہی نہیں ہے۔ فلسفیانہ فکر اور مذہب دونوں میں فردیت یا انیت کی صفت ہستی مطلق کی لازمی شرط نہیں ہے۔ مذہبی شعور مجرد فردیت پر قانع و مطمئن نہیں ہوتا چاہے یہ فردیت کتنی ہی کامل کیوں نہ ہو۔ بلکہ یوں کہیے کہ فردیت کس حد تک ایک حیاتیاتی تصور ہے اور اگر اسے اس حیثیت سے ماوراء الطبیعیات کی بنیاد کے طور پر استعمال کیا جائے تو اس کے لیے کامل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہم کہ سکتے ہیں کہ فرد کامل یا فردیت کاملہ سے علامہ کی مراد قائم بالذات اور غنی عن الغیر ہونے کی صفات ہیں۔ فردیت کامل نہیں ہے اگر یہ ذات فرید اپنے اجزاء سے الگ اپنی ہستی برقرار نہ رکھ سکے۔ اس طرح دیکھیے تو یہ فردیت اس انفرادیت سے بھی کم ہو گئی جو ایک پودے کو حاصل ہے کہ اس کے اجزاء (شاخوں) کی قطع و برید کے بعد بھی اس کی ہستی باقی رہتی ہے۔ یہ تصور تو ایک ایسے کل کا ہوا جو اپنے اجزاء سے الگ وجود نہیں رکھتا۔ لہٰذا حقیقت ایسے کل کے طور پر متصور ہوئی جو ایک فرد و ذات واحد ہے اور اپنے اجزاء سے جدا اور وراء اپنی موجود فی الخارج ہستی نہیں رکھتی۔ یہ اجزاء کی تنظیم کا دوسرا نام ہوا اور وجود مستقل سے محرومی سے عبارت ہوا۔ اس نقطۂ نظر سے ذات باری اپنی صمدیت اور قیومیت سے تہی ہو جاتی ہے جو سورئہ اخلاص میں بیان ہوئی ہے۔ ’’صمد‘‘ وہ ہے جس کی طرف ہر شے رجوع کرے اور اس کی محتاج ہو جبکہ وہ ہر شے سے بے نیاز ہو۔ ۲) حقیقت لامحدود بھی ہے بایں معنی کہ کوئی شے اس سے وراء نہیں۔ وہ لامتناہی ہے تو ان معنوں میں کہ اس کی تخلیقی فعالیت کے ممکنات جو اس کے اندرون وجود میں مضمر ہیں، لامحدود ہیں اور یہ کائنات جیسا کہ ہمیں اس کا علم ہوتا ہے ان کا جزوی مظہر۔ ۱۱؎ The infinity of the Ultimate Ego consists in the infinite inner possibilities of His creative activity of which the universe as 'known to us' is only a partial expression.10 یہ لا محدودیت ایک مذہبی تصور نہیں ہے بلکہ ریاضیاتی فکر سے اخذ کر دہ ہے ریاضی صورحسیہ یعنی زمان و مکان کا علم ہے۔ ریاضی دان مکان کو نقاط میں اور زمان کو آنات میں تقسیم کرتا ہے جن کی تعداد لامتناہی ہے۔ لامحدود کے تصور میں زمان و مکان کی لامحدودیت شامل ہو گی۔ یہ واقعاتی لامحدودیت ہے۔ علامہ کے ہاں یہ لامحدودیت حقیقت مطلقہ کی نہیں بلکہ اس حقیقت کے امکانات سے متعلق ہے اور زمانی لامتناہیت ہے۔ لامحدودیت کی ان دونوں قسموں کے برعکس مذہبی شعور جس عظمت (Infinity ) یا لامحدودیت کا داعی ہے وہ اقدار یا صفات کے بے حدود و ثغور ہونے سے عبارت ہے جنہیں صفت علم، صفت ارادہ، قدرت، رحمت، جمال وغیرہ سے موسوم کیا گیا ہے۔ ان اقدار یا صفات کے لیے سائنسی فلسفیانہ فکر میں کوئی جگہ ہی نہیں ہے۔ ۳۔حقیقت مطلقہ کا جو تصور مشاہدات کی تنقید و تحلیل سے حاصل ہوتا ہے وہ ایک ’’تخلیقی فعالیت‘‘ کا ہے حقیقت مطلقہ کی خلاقیت یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو ظاہرکرے۔ اس خود ’’دمیدگی‘‘ اس ظہور ذات کے عمل کا دوسرا نام کائنات ہے۔ سوال یہ ہے کہ ذات خداوندی کی تخلیقی فعالیت سے عمل تخلیق کا صدور کس طرح ہوتا ہے؟ اس کا جواب علامہ کے ہاں اشاعرہ کے نظریۂ جو ہریت کی ایک ترمیم شدہ صورت میں ملتا ہے۔ خالق کائنات کی تخلیقی فعالیت کا سلسلہ چونکہ برابر جاری ہے اس لیے جواہر (ایٹموں) کی تعداد بھی لامتناہی ہے کیونکہ ہر لحظ تازہ جواہر پیدا کئے جا رہے ہیں اور اس لیے کائنات میں برابر اضافہ ہو رہا ہے……… ایٹم کی ماہیت اس کے وجود پر منحصر نہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ وجود ایک صفت ہے۔ خدا کی طرف سے ایٹم کو اس صفت سے موصوف کیا جاتا ہے یہ صفت عطا ہونے سے پہلے ایٹم گویا خدا کی تخلیقی توانائی میں بالقوہ مخفی رہتے ہیں۔ ان کے وجود کا مطلب صرف یہ ہے کہ الوہی توانائی (قدرت الہٰیہ) مرئی شکل اختیار Since the creative activity of God is ceaseless the nubmer of the atoms cannot be finite. Fresh atoms are coming into being every mom- ent and the universe is therefore constantly growing. As the Qur'an says:God adds to His creation what He wills.The essence of the atom is independent of its existence.This means that existence is a quality imposed on the atom by God. Before receiving this quality the atoms lies dormant as it were in the creative energy of God and its existence means nothing more than Divine energy become visible.12 کرلیتی ہے۔ ۱۳؎ تخلیق مذہبی شعور کی ایک اصطلاح ہے۔ اس کے معنی ہیں نابود کو وجود میں لانا، کتم عدم سے عرصئہ ہستی میں ظاہر کرنا۔ فکر استدلالی یافلسفیانہ فکر کے لیے یہ ایک الجھن ہے کیونکہ اس کے لیے کسی شے کا اس طرح وجود میں آنا نا قابل تصور ہے لہٰذا علامہ نے ان دونوں میں تطبیق کے ذریعے مشکل کا حل نکالا اور تخلیق کو انائے مطلق کے ظہور ذات کاہم معنی قرار دیا۔ انائے مطلق سے صرف دیگر انائوں (انیت ہائے دیگر) ہی کا صدور ہوتا ہے۔ انائے مطلق کی تخلیقی فعالیت جس میں فکر اور عمل ایک دوسرے کے عین ہیں، انیت مطلقہ کی کارفرمائی ہے جسے ہم ان وحدتوں کی شکل میں دیکھتے ہیں جنہیں ’’انا‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے کائنات اپنے جملہ اجزاء سمیت اس عظیم ’’اننی انا‘‘۱۵؎ کا ظہور فی الخارج ہے۔ خدائی توانائی (قدرت الہٰیہ)کا ہر ایٹم خواہ اس کا درجۂ ہستی کتنا ہی پست کیوں نہ ہو بہرحال (اپنی ماہیت میں) ایک انا (ذات) ہے۔ ۱۶؎ From the Ultimate Ego only egos proceed. The creative energy of the Ultimate Ego, in whom deed and thought are identical functions as ego-unities. The world, in all its details, from the mechanical movement of what we call the atom of matter to the free movement of thought in the human ego, is the self revelation of the Great I am. Every atom of Divine energy, however low in the scale of exis- tence, is an ego.14 یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ظہور ذات کا یہ عمل اس عمل خود دمیدگی سے کس طرح مختلف ہے جو اقلیم نامیات یا نموپذیر اشیاء میں سامنے آتا ہے نیز یہ کہ اگر انائے مطلق کا ظہور پذیر ہونا اس کے عمل تخلیق کے مترادف ہے تو صفحۂ ہستی پر ظاہر ہونے والی ہر شے کا مبداء اور اصل اس انائے مطلق کی فطرت ہی ہو گا۔ اگر ہرانا ربانی اور قدسی ہے تو اس کی فعالیت کا ہر معلول بھی ربانی اور قدسی صفت ہو گا: لیکن امر واقعہ یوں نہیں ہے۔ دوسری طرح دیکھئے تو صفحۂ ہستی پر صرف مظاہر خیر ہی نہیں بلکہ شر اور شیطان کے آثار بھی موجود ہیں۔ مذکورہ استدلال کی رو سے تو شر کو بھی اسی مبداء سے منسوب کرنا ہو گا اور یہ چیز مذہبی شعور کے لیے قابل قبول نہیں۔ علامہ نے تخلیق کو علم کا ایک جزو بتایا ہے اور اس طرح یہ اصول تعلیل کے ہم معنی قرار پاتی ہے اس اعتبار سے یہ جبریت پر جا کر ختم ہوتی ہے جبکہ مذہبی شعور تخلیق کو خدا کی قدرت کا ملہ کے ثبوت کے طور پر پیش کرتا ہے اور کائنات میں عمل خدا وندی یا تاثیر و تصرف کو اس کے سہارے متصور کرتا ہے۔ کائنات میں اللہ تعالیٰ کی تاثیروتصرف اسی صورت میں ہو گا جب اس دنیا کی اپنی پراچین فطرت کچھ نہ ہو اور اسے عدم سے وجود میں لایا گیا ہو۔ اگر تخلیق کا مطلب صرف انائے مطلق کے ظہور ذات کے عمل تک محدود ہو تو یہ انائے مطلق کی آزادی سلب کرنے سے عبارت ہو گا۔ اس کی تمام فعالیت کا تعین اگر اس کی فطرت ذاتی سے ہو رہا ہے تو یہ ایک طرح کی میکانکیت ہو گی اور مذہبی شعور خدا کے تصور میں اس طرح کی چیز قبول نہیں کر پاتا۔ اناہائے محدود کے معاملے میں آزادیٔ ارادہ کا دعویٰ بھی تخلیق بطور اصول تعلیل کے ساتھ مطابقت حاصل نہیں کر پاتا۔ اس کا مفہوم تقریباً نمو پذیری کے مترادف ہو جاتا ہے اور نمو کا اصول مقولات حیاتیات میں سے ہے اس کے لیے دوسرے وجود کا ہونا لازم ہے۔ فی الاصل نمو ایک حیاتیاتی تصور ہے اور اگر تخلیق خداوندی کو اس کے سہارے بیان کیا جائے تو تخلیق کی صفت بطور ایک مذہبی اصطلاح کے اپنے معنی و تاثیر سے محروم ہو جاتی ہے۔ ۴۔ حقیقت (انائے مطلق) قادر مطلق بھی ہے۔ اس کی قدرت کا مطلب یہ نہیں کہ بے اصول اور من چاہا اظہار ہو بلکہ ایک ترتیب و نظام اس کا خاصہ ہے۱۷؎ اور اس کی قدرت کے سامنے کسی کو سرتابی کی مجال نہیں تاہم قرآن میں اللہ تعالیٰ کے لیے یفعل ما یشاء ۔۱۸؎ کی ایک آیت اور اس کے ہم معنی نصوص وارد ہوئی ہیں جس سے اظہار قدرت پر کسی طرح کی قدغن نہ ہونے کا مفہوم واضح ہوتا ہے۔ اس طرح دیکھیے تو جو قدرت علامہ کے تصور الہٰ میں ملتی ہے وہ مختلف ہے کیونکہ اس کا مدلول صرف یہ ہے کہ قدرت خداوندی کسی خارجی پابندی یا حدود کی اسیر نہیں ہے تاہم اس پر ایک ذاتی یا باطنی قید ضرور ہے وہ یوں کہ اگر ترتیب و تنظیم ایک داخلی تقاضا ہے تو ترتیب و تنظیم ایک نوع کے تقید سے مشروط ہے خواہ یہ تقید فطرت الہٰیہ کے بطون ذات ہی میں کیوں نہ موجود ہو۔ جیسے نیشکر جو اپنی خلقی قیود کے باعث کونین پیدا کرنے سے قاصر ہے اگرچہ اس کی نموبے ساختہ ہے اور اس کا اپنا ایک داخلی نظام و ترتیب ہے۔ شعور مذہبی جو تقاضا رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان چونکہ قدرت مطلقہ نہیں رکھتا لہٰذا اس کا خالق قادر مطلق ہونا چاہئے۔ یہاں فکر استدلالی اور مذہبی شعور میں فرق واقع ہوتا ہے۔ صورت حال یوں ہے کہ ذات باری کے وجود کی ضرورت یوں قائم کی گئی ہے کہ انسان اپنے آپ سے اور دنیا کی جانب سے جو اس پر ظاہر ہوتی ہے عدم اطمینان کا شکار ہے۔ اس کے کرب کا ازالہ ان دونوں سے نہیں ہو پاتا۔ اس کی تمنا ہے کہ ایک ہستی ایسی ہو جو اس کی روح کی آرزوئوں کے برآنے میں اس کی مدد کر سکے۔ اس سے لازم ٹھہرا کہ انسان اور یہ کائنات دونوں ہی ذات باری سے اپنی ماہیت میں اساسی طور پر مختلف ہوں، ایک کامل ہو دو سراناقص، اگر یہ نہ ہو تو خدا سے اور اس کی رحمت سے انسان کا واسطہ و تعلق اور دوسری طرف جزاء و سزائے خداوندی کا تصور بے معنی ہو جاتا ہے۔ ۵۔ مذہب کا تصور خدا مطلق آزادی، اختیار اور قدرت کی صفات پیش کرتا ہے۔ فلسفے کے رخ سے قائم ہونے والے تصور خدا میں صرف خارجی قیود سے آزادی ہے۔ علامہ نے دونوں شقوں میں تطبیق پیدا کی ہے۔ ایسی انیتوں کے ظہور سے جواز خود اور اس لیے ان اعمال و افعال کی اہل ہیں جن کا پیش از وقت تعین ممکن نہیں، اس ذات کی آزادی پر جس نے ہر شے کو اپنے احاطے میں لے رکھا ہے، ایک طرح کی حد قائم ہو جاتی ہے لیکن یہ حد خارج سے قائم نہیں ہوتی اس کا سرچشمہ اس کی اپنی تخلیقی آزادی ہے جس کی اس نے تحدید کی تو اس لیے کہ نفوس متناہیہ بھی اس کی زندگی، طاقت، آزادی، میں حصہ لے سکیں۔ ۲۰؎ No doubt, the emergence of egos endowed with the power of spont- aneous and hence unforeseeable action is, in a sense, a limitation on the freedom of the all-inclusive Ego. But this limitation is not externally imposed. It is born out of His own creative freedom whe- reby He has chosen finite egos to be participators of His life, power, and freedom.19 مگر اختیار یا آزادی مقولات مذہبی میں سے ایک ہے اور انسان کے اخلاقی اور مذہبی شعور کا جزو ہے اگر اس کو بے ساختہ اور از خود فعلیت کا ہم معنی قرار دیا جائے تو اس کی معنویت جاتی رہے گی اس اعتبار سے تو پودے بھی جزواً آزاد اور جانور پوری طرح آزاد ہیں کیونکہ وہ کسی خارجی دبائو کے تحت حرکت نہیں کرتے بلکہ اندرونی داعیے سے متحرک ہوتے ہیں۔ علامہ اقبال انسانی اور ربانی اختیار و آزادی کے اس ٹکرائو کی الجھن تسلیم تو کرتے ہیں مگر اسے حل کرنے کے لیے تجویز کرتے ہیں کہ یہ قید خارج سے عائد نہیں ہوتی بلکہ خود عائد کردہ ہے تاہم اختیار و آزادی کا مطلب خلقی و ذاتی آزادی ہے جو نفس مختار و آزاد کو اپنی فعلیت کے آزادانہ تعین کی ضمانت دے اور وہ ہر طرح کی خارجی یا داخلی پابندی اور قید سے بری ہو۔ مذہبی شعور ذات باری کو صاحب کمال مطلق یا ہستیٔ کامل تصور کرتا ہے۔ لہٰذا اس ذات کو صاحب رحمت، اخلاقی طور پر کامل اور غنی عن الغیر ہونا چاہیے۔ اخلاق کا تقاضا آزادی ہے۔ مذہب کی ذات ربانی اگر اخلاقی طور پر کامل ہے تو اسے مکمل طور پر مختارو آزاد بھی ہونا چاہیے۔ مذہبی شعور اگر اس پر اصرار کرتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کا اس کائنات میں ربوبیت، رحمت، ہدایت، مغفرت ، جزاء وغیرہ کی شکل میں تصرف اس کے اختیار و آزادی سے مشروط ہے۔ نیز مذہبی شعور اس کی صمدیت پر بھی زور دیتا ہے اور صمدیت میں اختیار کا تصور مضمر ہے۔ اس طرح کی آزادی و اختیار ہمیں علامہ کے مذکورہ تصور میں نظر نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ ’’العلیم‘‘ ہے ہر چیز کا عالم ہے۔۲۲؎ In Him thought and deed, the act of knowing and the act of creating, are identical.21 علم خداوندی کا مطلب ہے کہ خدا ہر شے کا عالم ہے۔ اس طرح کہ علم ادراک کُلِّی کا ایک واحد اور ناقابل تجزیہ عمل ہے جس میں یہ سارا عالم تاریخ جس کو ہم مخصوص حوادث کا ایک سلسلہ قرار دیتے ہیں بلاواسطہ اور بطور ایک دوامی ’’آن‘‘ کے اس کے علم میں آ جاتا ہے۔۲۴؎ Concept of Divine knowledge is omniscience in the sense of a single indivisible act of preception which makes God immediately aware of the entire sweep of history, regarded as an order of specific events, in an eternal, now.23 اس استدلال کا مقتضیٰ ہے کہ ہر معلوم خواہ وہ ماضی میں ہو یا حال اور مستقبل میں اللہ کے لیے ایک ہی وسیع تر حال حاضر کی طرح ہے۔ یہ تقاضا اس لیے پیدا ہوا کہ وقت یا زمان کے اساسی خصوصیات میں سے ایک یعنی تسلسل کو اس تصور سے خارج کر دیا گیا ہے۔ اس نکتے کو واضح کرنے کے لیے ہم ڈاکٹر ظفر الحسن کے اس تبصرے سے اقتباس پیش کر رہے ہیں جو علی گڑھ میں خطبات کے کلمات صدارت کے طور پر انہوں نے تحریر کیا تھا۔ In the consideration of Time I would submit that Time is in its essence Sequence Continuous. The doctrine which will make the whole course of Time "Spacious Present" to God misses the first character of Time viz. Sequence: and yet it is not necessary for God's omniscience. He can be 'alim al ghayb wa'l-shahadah with- out it on the analogy of finite spirits. This doctrine seems to be the reflex of the Greek conception of Eternity in modern metaphysics. It is Eternity temporalized or Time eternalised and a self- contradictory concept. Further from Zeno down to Cantor and Russell the scientific thinkers seem to miss its Continuity and conceive Time as a discrete quantity on the analogy of number. Their difficulties have no bearing on the distinction of Past, Present and Future, i.e. on Sequence, the other characteristic of Time.25 خود علامہ نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ’’ایسی انیتوں کے ظہور سے جواز خود اور اس لیے ان اعمال و افعال کی اہل ہیں جن کا پیش از وقت تعین ممکن نہیں، اس ذات کی آزادی پر جس نے ہر شے کو اپنے احاطے میں رکھا ہے ایک طرح کی حد قائم ہو جاتی ہے‘‘۔۲۶؎ یہ نکتہ اللہ کے علم پر ایک تحدید عائد کرتا ہے اور شعور مذہبی اسے قبول نہیں کر سکتا۔ ۷۔ خیر و شر کے مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ نے یہ نتیجہ پیش کیا ہے کہ فلسفیانہ امتحان کی کسوٹی کے مطابق خیر و شر اگرچہ ایک دوسرے کی ضد ہیں مگر اس کے باوجود ایک ہی کل سے وابستہ ہیں۔۲۸؎ Good and evil, therefore, though oposites, must fall within the same whole.27 شرکی بڑی صورتیں مادی (تکلیف، رنج و الم، مصائب جسمانی) اور اخلاقی (گناہ، برائیاں) ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ قران کی جس آیت سے یہاں استشہاد کیا گیا ہے۲۹؎ ا س میں شرمادی کا تذکرہ ہے اس سے علامہ نے یہ دلیل لی ہے کہ شرناگزیر ہے۔ تاہم یہاں انہوں نے جسمانی اور اخلاقی شر میں فرق نہیں کیا۔ جہاںتک شرمادی کا تعلق ہے تو رنج کے بغیر خوشی، بیماری کے بغیر صحت، دولت کے بغیر زندگی اور دکھ کے بغیر سکھ کا تصور نا ممکن ہے۔اس پہلو سے یہ ناگزیر نہیں ہے تاہم اگر اسے ناگزیر تسلیم کر لیا جائے اور یہ کہا جائے کہ آخر الامر یہ شر ایک بلند تر خیر کی جانب پیش رفت ہو گی یا یہ بظاہر شر ہے اور درحقیقت خیر ہے تو یہ اخلاقی برائی سے مختلف چیز ہو گی۔ اخلاقی شر کو شرعقلی کہنے سے اس کی توجیہ نہیں ہو پاتی اور اسے حصول کمال کا ذریعہ قرار نہیں دیا جا سکتا نیز اگر اسے پورے کل کا ایک عنصر قرار دیا جائے تو یہ صورتحال مذہبی شعور اور اخلاقی شعور کو گوارا نہیں ہے۔ اس کے لیے اخلاقی شر اضافی نہیں ہے مسئلہ شر کے بارے میں یہ پیچیدگی اس سے پیدا ہوتی ہے کہ محدود اور زمانی نفوس اور انائیں، انائے مطلق کے حرکت ظہور ذات سے جنم لینے والے حوادث قرار دیئے گئے اور یہ کہا گیاکہ ان اناہائے محدود میں انائے مطلق ظاہر ہوئی ہے اور اخلاقی شرانائے مطلق کے عمل ظہور ذات کا لازمی حصہ ہے۔ دوسری طرف اگر کائنات کو تخلیق خداوندی کے طور پر متصور کیا جائے تو اخلاقی شر کو اس کی مطلق حیثیت کے باوجود اللہ سے منسوب نہیں کیا جا سکتا اور اس کی صفات خیروکمال و رحمت غیر مسئول رہتی ہیں۔ علامہ کا دعویٰ یہ ہے کہ انہوں نے یہاں اسلام کے تصور الہٰ کو فلسفیانہ بنیاد اور جواز فراہم کیا ہے۔ اس نکتے پر غور درکار ہے۔ ان کے خطبے سے جو بات واضح ہو تی ہے وہ یہ ہے کہ کائنات کی ایک روح ہے، ایک انا ہے جو اپنے اجزائے متعددہ (یعنی نفوس انسانیہ) سے عینیت کا شعور رکھتی ہے۔ دوسری طرف یہ اناہائے محدود یا نفوس انسانیہ، جو خلقی طور پر ناقص ہیں اور اس کے ظہور ذات کے عمل میں صرف حوادث کا درجہ رکھتے ہیں اس کے عین ہیں مگر اس وحدت کے شعور سے محروم ہیں۔ اگر اناہائے محدود و مقیدہ اللہ سے نسبت وحدت و عینیت رکھتی ہیں اور صفات علم و قدرت میں حصول کمال کے لیے کوشاں ہیں تو ذات باری باکمال کیسے رہے گی کیونکہ خدا ان انا ہائے محدودہ کے ذریعے اپنے امکانات کے از سر نو تحقق سے مرتبہ الوہیت تک رسائی حاصل کرے گا۔ علامہ کا کہنا ہے کہ انائے مطلق کا تصور یوں کیا جائے کہ اناہائے محدودہ اس کے علم کے اندر ہیں۔ شعور مذہبی تنزیہ کامل کا متقاضی ہے لہٰذا علامہ نے بھی اسے انائے مطلق کی صفت کے طور پر بیان کیا ہے بایں معنی کہ انائے مطلق اناہائے محدودہ کے ادراک سے باہر ہے تاہم اس اعتبار سے دیکھئے تو یہ تنزیہ اس ذات کی تنزیہ ہے جو ابھی ظہور ذات کے عمل میں داخل نہیں ہوئی جبکہ انائے مطلق ظہور ذات کے عمل سے گزرتی ہے تو اناہائے محدودہ صادر ہوتی ہیں۔ تنزیہ و تشبیہ کو اکٹھا کرنا ایک مشکل کام ہے۔ تنزیہ کا تقاضا ہے کہ خدا کائنات اور انسان سے وراء اور الگ ہو۔ اس سے کلی غیریت کی نسبت رکھے کیونکہ انسان کے اپنے اندر سے اور خارج کی دنیا سے جو مشکلات ابھرتی ہیں اور اس مایوسی میں اسے جو مدد اور سہارا درکار ہوتا ہے اسے ایسے عالم سے میسر آنا چاہیے جو اس مسبب المصائب دنیا سے الگ ہو۔ ایک ایسا عالم جسے انسانوں اور اشیاء کی اس دنیا پر مکمل تصرف حاصل ہو۔۳۰؎ علامہ کا پیش کردہ نظریہ سریان Pantheism سے کس قدر قریب یا دور ہے، اس بات کا فیصلہ آسان نہیں ہے ۔ علامہ Pantheism کے قائل نہیں ہیں اور اسے اپنے تصور کے عنوان کے طور پر قبول نہیں کرتے۔ جس Pantheism کے وہ مخالف ہیں وہ کچھ اس طرح ہے کہ: عالم کثرت غیر حقیقی ہے کیونکہ وہ قائم بالذات اور بالاستقلال موجود نہیں ہے۔ اس سے انسان کی اہمیت اور مرتبہ گھٹ جاتا ہے، اختیار سلب ہو جاتا ہے اور انسانی معاشرے میں خیر کے پروان چڑھنے اور عناصر بہبود کے پنپنے کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ ایک تعبیر اور بھی ہے جو اس تصور سے قدرے مختلف ہے۔ یعنی یہ کہ: حقیقت حقہ وہ ہے جو اپنے تعینات اور شئون سے الگ اپنا وجود مستقل نہ رکھتی ہو۔ لہٰذا بطور Immanent سریانی حقیقت کے تو اس کا وجود ہے مگر بطور تنز یہی حقیقت کے موجود نہیں ہے۔ یہ تعریف وہ ہے جسے علامہ اقبال قبول کرتے ہیں تاہم اسے Pantheism کا عنوان دینے سے گریز کرتے ہیں۔ اسی تعریف سے علامہ کے وہ بیانات سمجھے جا سکتے ہیں جو حقیقت کے بارے میں ہم نے پہلے نقل کیے کہ ’’وہ وجود خارجی جو خدا کا غیر ہو موجود نہیں‘‘ ۳۱؎ اور ’’خیروشر دونوں متضاد ہونے کے باوجود ، ایک ہی کل میں شامل ہیں‘‘۔۳۲؎ اس بنیاد پر علامہ دعا اور عبادت کی اہمیت اور معنویت کی توجیہ کرتے ہیں۔ مذہب خدا کا زیادہ اجتماعی اور قریبی علم دیتا ہے اور بہ حیثیت روحانی تجلی کے ایک ذریعے کے عبادت بھی ایک حیاتی عمل ہے جس میں ہم دفعتاً محسوس کرتے ہیں کہ ہماری بے نام سی شخصیت کی جگہ بھی کسی بہت بڑی اور وسیع تر زندگی میں ہے ۳۴؎ Prayer as a means of spiritual illumination is a normal vital act by which the little island of our personality suddenly discovers its situation in a larger whole of life.33 عبادت گویا ان ذہنی سرگرمیوں کا لازمی تکملہ ہے جو فطرت کے علمی مشاہدے میں سرزد ہوتی ہیں۔۳۶؎ Prayer must be regarded as a necessary complement to the intellectual activity of the observer of Nature.35 دراصل علم کی جستجو جس رنگ میں بھی کی جائے، عبادت ہی کی ایک شکل ہے اور اس لیے فطرت کا The truth is that all search for knowledge is essentially a form of prayer. The scientific observer of علمی مشاہدہ بھی کچھ ویسا ہی عمل ہے جیسے حقیقت کی طلب میں صوفی سلوک و عرفان کی منزلیں طے کرتا ہے۔ ۳۸؎ Nature is a kind of mystic seeker in the act of prayer.37 اس کا مدلول اور مقتضی یہ ہوا کہ Nature (عالم طبعی) خدائی ہے اور خدا وہ انا ہے جس نے عالم طبعی میں اپنا ظہور ذات کیا ہے اور عالم طبعی کا علم خدا کا علم ہے۔ ازاں بعد علامہ یہ کہتے ہیں کہ: یوں بھی اگر عبادت میں خلوص اور صداقت کا رنگ موجود ہے تو اس کی روح ہمیشہ اجتماعی ہو گی۔۴۰؎ The spirit of all true prayer is social,39 اسلام نے عبادت کو اجتماعی شکل دے کر روحانی تجلیات میں بھی اجتماعی شان پیدا کر دی ہے۔۴۲؎ socialization of spiritual illumina- tion through associative prayer. 41 اسلام نے اقامت صلواۃ کے ذریعے عالم انسانی کے اتحاد و اجتماع کا حلقہ کس طرح وسیع سے وسیع تر کر دیا ہے! ۴۴؎ Islamic institution of worship gradually enlarges the sphere of human association.43 لہٰذا دعا خواہ انفرادی ہو، خواہ اجتماعی، ضمیر انسانی کی اس نہایت درجہ پوشیدہ آرزو کی ترجمان ہے کہ کائنات کے ہولناک سکوت میں وہ اپنی پکار کا کوئی جواب سنے۔۴۶؎ Prayer, then, whether individual or associative, is an expression of man's inner yearning for a response in the awful silence of the universe.45 حاصل کلام یہ کہ اسلام میں باجماعت عبادت حصول معرفت ہی کا سرچشمہ نہیں، اس کی قدر و قیمت کچھ اس سے بھی بڑھ چڑھ کر ہے۔ صلوٰۃ با جماعت سے اس تمنا کا اظہار بھی مقصود ہے کہ ہم ان سب امتیازات کو مٹاتے ہیں جو انسان اور انسان کے درمیان قائم ہیں، اپنی اس وحدت کی ترجمانی گویا ہماری خلقت میںا س کا اظہار سچ مچ ایک حقیقت کے طور پر ہونے لگے۔۴۸؎ The Islamic form of association in prayer, therefore besides its cogni- tive value, is further indicative of the aspiration to realize this essen- tial unity of mankind as a fact in life by demolishing all barriers which stand between man and man.47 اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ دعا کی معنویت اور جواز کا مندرجہ بالا بیان کس حد تک ہمیں اس تصور کے قریب لے جاتا ہے جو قرآن اور آثار نبوی سے ملتا ہے۔ اس ضمن میں پہلا فرق تو یہ نظر آتا ہے کہ اگرچہ عبادت و دعا کا دینی مفہوم بھی نتائجیت کا پہلو لیے ہوئے ہے تاہم اس کی عملی تاثیر اور نتائج اخروی نوعیت کے ہیں۔ علامہ نے نتائجیت کے پہلو پر زیادہ زور دیا ہے اور ’’اقم الصلوٰۃ لذکری‘‘۴۹؎ ا ور ’’ان الصلوٰۃ تنھی عن الفحشا ء والمنکر ولذکر اللہ اکبر‘‘ ۵۰؎ اور ’’الصلوٰۃ معراج المومنین‘‘۵۱ ؎ ’’واسجد واقترب ‘‘ ۵۲؎ جیسی نصوص سے عبادت کے مقصود کا جو تصور ابھرتا ہے انہیں مصلحتاً اجاگر نہیں کیا۔ مخالف اور متشکک سامعین سے خطاب کے تقاضے کے تحت علامہ عبادت کو نبی اور ولی کی زندگی میں نتائج و ثمرات کے اعتبار سے دیکھ رہے ہیں اور اسی انداز میں بیان بھی کر رہے ہیں۔ تاہم یہ پیش نظر رہے کہ چیزوں کی قدر کا تعین دو طرح کیا جا سکتا ہے ایک ان کی بالذات حیثیت اور دوسری بالغیر یا بالواسطہ حیثیت۔ وہ اشیاء جن کی اپنی قدر وقیمت نہ ہو اور وہ کسی دوسرے مقصد کے لیے وسیلہ ہوں ایک طرح کی ہیں اور وہ اشیاء جن کی فی نفسہٖ قدر وقیمت ہے ایسی چیزیں ہیں جو اپنی ذات سے قابل قدر ہیں خواہ ان سے کسی دوسرے مقصد کا حصول وابستہ نہ ہو۔ عبادت کی معنویت اس کی فی نفسہٖ اور بالذات قدر وقیمت سے متعین ہونا چاہیے نہ کہ ان سماجی ، نفسیاتی اور عملی نتائج سے جو اس کے ذیلی ضمنی اثرات تو شمار ہو سکتے ہیں مگر اس کا جواز وجود قرار نہیں دیئے جا سکتے۔ تیسرا خطبہ حواشی ۱) تشکیل (انگریزی) اقبال اکادمی /ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، ۱۹۸۹ئ، ص ۴۸۔ ۲) Pantheism کے ترجمے کے طور پر وحدۃ الوجود کی اصطلاح کا استعمال درست معلوم نہیں ہوتا۔ اقبال نے اگرچہ اپنی تحریروں میں کئی جگہ صراحتا وحدۃ الوجود کا ترجمہ اس لفظ سے کیا ہے تاہم اپنے مفہوم اور معنی کے اعتبار سے وحدۃ الوجود اور Pantheism میں بہت فرق ہے۔ حلول و سریان کی قدیم اصطلاح مغربی فلسفے کی اس اصطلاح کے زیادہ قریب ہے۔ تفصیل کے لیے ر۔ ک سید حسین نصر، تین مسلمان فیلسوف، لاہور ۱۹۸۸ء نیز ’’کشش و گریز…… اقبال اور ابن عربی تاریخی تناظر میں (انگریزی) اقبال ریویو، اپریل ۱۹۹۳ء ،ص ۔۲۱، اکتوبر ۱۹۹۳ئ، ص۔ ۱۳، اکتوبر ۱۹۹۴ئ، ص ۔۳۹۔ دونوں تحریروں میں اس اصطلاح کے استعمال پر مفید نکات اور مباحث شامل ہیں ؛ نیز دیکھیے :۱۔د۔نسیم ، اقبال اور وحدت الوجود، بزم اقبال، ۱۹۹۳ئ۔ ۳) قرآن مجید ۲:۱۱۲ نیز دیکھیے تشکیل …… (انگریزی) ، محولہ بالا، ص ،۵۰۔ ۴) تشکیل ……(انگریزی) ، محولہ بالا، ص، ۵۰۔ ۵) تشکیل ، اردو ترجمہ از سید نذیر نیازی، لاہور، مئی ۱۹۸۳ء ، ص، ۹۶۔ ۶) تشکیل …… (انگریزی) ، محولہ بالا، ص، ۵۱۔ ۷) تشکیل …… قرآن مجید ۳۵:۲۴۔ ۸) تشکیل …… (انگریزی) ، محولہ بالا، ص، ۵۰۔ ۹) ایضاً ۱۰) تشکیل ……(انگریزی) ، محولہ بالا، ص، ۵۲۔ ۱۱) تشکیل جدید ……(اردو) محولہ بالا، ص، ۹۹۔ ۱۲) تشکیل …… (انگریزی) محولہ بالا، ص ،۵۵۔ ۱۳) تشکیل جدید …… (اردو ) محولہ بالا، ص،۱۰۴۔ ۱۴) تشکیل ……(انگریزی) محولہ بالا، ص ،۵۴۔ ۱۵) قرآن مجید: ۔۱۴:۲۰۔ ۱۶) تشکیل جدید ……(اردو) محولہ بالا، ص، ۱۰۹۔ ۱۷) تشکیل ……(انگریزی) محولہ بالا، ص، ۶۴۔ ۱۸) قرآن مجید:۔ ۲۷:۱۴۔ ۱۹) تشکیل ……(انگریزی) محولہ بالا، ص، ۵۔۶۴۔ ۲۰) تشکیل جدید ……(اردو) محولہ بالا، ص ،۱۲۰۔ ۲۱) تشکیل ……(انگریزی) محولہ بالا، ص، ۶۴۔ ۲۲) تشکیل جدید ……(اردو) محولہ بالا، ص، ۱۱۷۔ ۲۳) تشکیل ……(انگریزی) محولہ بالا، ص، ۶۲۔ ۲۴) تشکیل جدید ……(اردو) ، محولہ بالا، ص ۔۱۱۸۔ ۲۵) ر۔ ک۔ ’’نوادر‘‘ مطبوعہ، المعارف، شمارہ خصوصی ۳، ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، ص، ۳۱۷۔ ۲۶) دیکھئے حوالہ نمبر۲۰۔ ۲۷) تشکیل ……(انگریزی) ، محوالہ بالا، ص، ۶۸۔ ۲۸) تشکیل جدید ……(اردو) محولہ بالا، ص ،۱۲۹۔ ۲۹) قرآن مجید :۔ ۳۵:۲۱۔ 30) Dr. B.A. Faruqi, The Mujaddid's Concept of Tawhid, I.I.C, Lahore, 1989, p.23. ۳۱) تشکیل ……(انگریزی) ، محولہ بالا، ص، ۵۲۔ ۳۲) دیکھیے حوالہ نمبر۲۷۔ ۳۳) تشکیل ……(انگریزی) محولہ بالا، ص، ۷۲۔ ۳۴) تشکیل جدید ……(اردو) محولہ بالا، ص ،۶۔۱۳۵۔ ۳۵) تشکیل …… (انگریزی) محولہ بالا، ص ،۷۲۔ ۳۶) تشکیل جدید …… (اردو ) محولہ بالا ص، ۱۳۷۔ ۳۷) تشکیل ……(انگریزی) ، محولہ بالا، ص ،۷۳۔ ۳۸) تشکیل جدید ……(اردو) محوالہ بالا ، ص،۱۳۷۔ ۳۹) تشکیل …… (انگریزی) محولہ بالا، ص ،۷۳۔ ۴۰) تشکیل جدید ……(اردو) محولہ بالا، ص ،۱۳۸۔ ۴۱) تشکیل …… (انگریزی) ، محولہ بالا، ص ،۷۳۔ ۴۲) تشکیل جدید ……(اردو) محولہ بالا، ص ،۱۳۸۔ ۴۳) تشکیل ……(انگریزی) محولہ بالا، ص ،۷۴۔ ۴۴) تشکیل جدید ……(اردو) محولہ بالا ، ص،۱۳۹۔ ۴۵) تشکیل ……(انگریزی) محولہ بالا، ص ،۷۴۔ ۴۶) تشکیل جدید ……(اردو) محولہ بالا، ص،۱۳۹۔ ۴۷) تشکیل ……(انگریزی) ، محولہ بالا، ص ،۵۷۔ ۴۸) تشکیل جدید …(اردو) محولہ بالا، ص ،۱۳۹۔ ۴۹) قرآن مجید۔ ۱۴:۲۰ ۵۰) ایضاً ۵۱) حدیث مبارکہ ۵۲) قرآن مجید۔ ۹۱:۹۶ چوتھا خطبہ خودی، جبروقدر، حیات بعد الموت اس خطبے کا موضوع ایک سوال ہے۔ اس سوال کا جواب فلسفے نے بھی دیا ہے اور مذہب نے بھی۔ سوال یہ ہے کہ نفس انسانی یا انسانی انا کی ماہیت کیا ہے؟ آغاز کلام میں علامہ قرآن سے استشہاد کرتے ہیں جس کے مطابق انسان اللہ کا برگزیدہ ہے، خلیفہ ہے اور آزاد شخصیت کا امین ہے۔۱؎ شعور انسانی کی وحدت انسانی شخصیت کا مرکزہ ہے۔ اسے اسلام کی فکری تاریخ میں کسی خاص دلچسپی کا حامل نہیں سمجھا گیا ۲؎ علامہ کے خیال میں اندریں حالات بہرحال اب ہمارے سامنے کوئی راستہ ہے تو یہ کہ علم حاضر کے احترام اور قدر و منزلت کے باوجود ہم اپنی آزادی رائے برقرار رکھتے ہوئے یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ اسلامی تعلیمات کی تعبیر اب علم حاضر کے پیش نظر کس رنگ میں کرنی چاہیے۔ ۴؎ The only course open to us is to approach modern knowledge with a respectful but independent attitude and to appreciate the teachings of Islam in the light of that knowledge3 خودی کے عناصر ترکیبی یا خواص کیا ہیں؟ خودی کا اظہار اس وحدت میں ہوتا ہے جسے ہم کیفیات نفسی کی وحدت سے تعبیر کرتے ہیں۔ ۶؎ The ego reveals itself as a unity of what we call mental states,5 ۱۔ وحدت:۔ کیفیات نفسی کی وحدت خودی کی دوسری نمایاں خصوصیت بطور ایک وحدت، اس کے خفا یا خلوت کا پہلو ہے جس کی بدولت ہر خودی کی اپنی ایک یکتا حیثیت ہے۔ ۸؎ 2- An other important chara- cteristic of the unity of the ego is its essential privacy which reveals the uniqueness of every ego.7 ۳۔ تسلسل یا استمرار میرا کسی شخص یا کسی مقام کو پہچاننا میری ہی گذشتہ واردات پر مبنی ہوگا، دوسروں کے تجربات اور واردات پر تو نہیں ہو سکتا۔ ۱۰؎ My recognition of a place or person means reference to may past experience, and not the past experience of another ego.9 نفس اور روح انسانی کے بارے امام غزالی کے تصور سے علامہ متفق نہیں ہیں: الہٰیات اسلامیہ کے اس مذہب میں جس کے امام غزالی شارح اعظم ہیں، ’خودی ‘ یا ’انا‘ کی حیثیت ایک سادہ ناقابل تجزیہ اور ناقابل تحول جو ہر روحانی کی ہے جسے کیفیات نفسی کے سارے مجموعے سے کلیتاً مختلف، علیٰ ہٰذا مرور زمانہ کے اثرات سے سرتاسر آزاد تصور کیا جاتا ہے تھا۔ ۱۲؎ To the Muslim school of theology of which Ghazali is the chief exponent, the ego is a simple, indivisible, and immutable soul- substance, entirely different from the group of our mental states and unaffected by the passage of time,11 یہ ایک سکونی نظریہ ہے ۱۳؎ "static view of substance" اسی طرح علامہ کو ولیم جیمز کے خیال سے بھی اتفاق نہیں ہے ،جس کے مطابق خودی یا نفسِ انسانی: خودی کیا ہے؟۔ ہمارے ذاتی احساسات، اور اس لیے ہمارے نظام فکر ہی کا ایک حصہ۱۵؎ The ego consists of the feelings of personal life, and is as such part of the system of thought.14 اس لیے کہ: شعور کے اس نظریے سے ایک تو خودی ہی کی حقیقت کا کوئی سراغ نہیں ملتا دوسرے اس سے محسوسات و مدرکات کا وہ عنصر بھی کالعدم ہو جاتا This view of consciousness, far from giving us any clue to the ego, entirely ignores the relatively permanent element in experience. ہے جسے کم از کم اضافی طور پر مستقل ٹھہرایا جاتا ہے۔۱۷؎ There is no continuity of being between the passing thoughts.16 پس انسانی خودی یا نفس یا احساس ذات یا انا کا خاصہ یہ ہوا کہ وہ شعور کی وحدت رکھتی ہے جو استمرار اور اخفاء سے مرکب ہے۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ ہمارے داخلی محسوسات و مدرکات کا مطلب ہی یہ ہے کہ خودی کا عمل دخل جاری ہے۔ جب ہم کسی شے کا ادراک کرتے، یا اس پر حکم لگاتے، یا کوئی ارادہ کرتے ہیں تو ایسا کرنے میں خودی ہی سے آشنا ہوتے ہیں۔۱۹؎ Inner experience is the ego at work. We appreciate the ego itself in the act of perceiving. judging and willing.18 یہی تجربات اور واردات ہیں جس سے اس کی تشکیل اور اس کے نظم و ضبط کا راستہ کھلتا ہے ۲۱؎ a directive energy and is formed and disciplined by its own experience20 لہٰذا میری شخصیت کا یہ مطلب نہیں کہ آپ مجھے شے سمجھیں ، میں شے نہیں، عمل ہوں۔ میرے محسوسات و مدرکات کیا ہیں؟ اعمال و افعال کا وہ سلسلہ جن میں ہر عمل دوسرے پر دلالت کرتا ہے اور جو ایک دوسرے سے وابستہ ہیں تو اس لیے کہ ان میں کوئی رہنما مقصد کام کر رہا ہے۔ میری ساری حقیقت میرے اسی امر آفرین رویے میں پوشیدہ ہے۔۲۳؎ Thus my real personality is not a thing: it is an act. My experience is only a series of acts, mutually referring to one another, and held together by the unity of a directive purpose. My whole reality lies in my directive attitude.22 ان سب نکات کے بعد بھی معاملہ پوری طرح روشن نہیں ہوا اور کسی قدر ابہام باقی رہ جاتا ہے۔ خودی کی ماہیت پوری وضاحت سے جاننے کے لیے یہ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ وہ مقصد تفصیل سے واضح کیا جائے جس کی جانب یہ رہنما توانائی رخ کرتی ہے۔ علامہ نے اس کی توضیح کے لیے ایک دوسرے سوال کا جواب دینے کی سعی کی ہے کہ خودی کا مبداء و منبع کیا ہے؟ قرآن کی آیات۔ ۲۴؎ سے دلیل دے کر انہوں نے یہ تصور پیش کیا ہے کہ نفس انسانی یا انسانی خودی یوں پیدا ہوتی ہے۔ ادنیٰ خودیوں کی وہ بستی جن کا اجتماع اور عمل و تعامل جب ایک خاص نسق پر پہنچ جاتا ہے تو اس سے ایک اعلیٰ ترخودی کا صدور ہوتا ہے بالفاظ دیگر یہ ہدایت بالذات کا مرتبہ ہے کہ جب کائنات اس میں قدم رکھتی ہے تو حقیقت مطلقہ شاید اپنا راز افشا کرتی اور یوں اپنی ماہیت کے انکشاف کا راستہ کھول دیتی ہے۔ ۲۶؎ A colony of egos of a lower order out of which emerges the ego of a higher order, when their associa- tion and interaction reach a certain degree of co-ordination. It is the world reaching the point of self- guidance wherein the Ultimate Reality, perhaps, reveals its secret, and furnishes a clue to its ultimate nature.25 وہ مطلق انا جس کی بدولت صادر کا صدور ہوتا ہے، فطرت میں جاری و ساری ہے۔۲۸؎ The Ultimate Ego that makes the emergent emerge is immanent in Nature.27 خودی کے وجود و ماہیت، نفس انسانی کے مبدائ، ذہن اور مادے کا تعلق (بطور دوا ساساً مختلف عناصر کے) جیسے سوالات کو حل کرنے میں شعور نظری کو جو اشکالات پیش کرتے ہیں وہ بظاہر علامہ کے پیش کردہ تصور نفس انسانی میں درپیش معلوم نہیں ہوتے۔ تاہم کچھ مشکلات پھر بھی محسوس ہوتی ہیں۔ پہلے تو یہ دیکھیے کہ تخلیق کا تصور جو مذہب کا ایک جزو ہے وہ یہاں پس منظر میں چلا جاتا ہے اور اس کی جگہ ارتقائے صدوری Emergent Evolution کو مل جاتی ہے۔ شعور مذہبی کے لیے آفرینش کا یہ نظریہ بہت وحشت انگیز ہے کیونکہ اس میں پہلا خطرہ تو یہ ہے کہ اس سے انسان اور خدا کی غیریت اور دوئی مٹتی معلوم ہوتی ہے نیز تنز یہ پر زد پڑتی ہے۔ پھر یہ کہ شر اور خیر ایک کل کا جزو دکھائی دیتے ہیں اور یہ بھی قبول کرنا مشکل ہے۔ سوم یہ کہ یہاں غیر نامیاتی اور غیر ذی حیات Inorganic سطح وجود سے انکار نظر آتا ہے جو امرواقعہ کے خلاف ہے۔ اس انکار کی غایت یہ ہے کہ حقیقت کو اپنی ماہیت میں نفسی یا روانی Psychic۲۹؎ فرض کیا جا سکے۔ اب یہ ثابت کرنا تو محال ہے کہ جسم (مادہ) بھی اساسی طور پر Psychic یا روانی چیز ہے۔ غیر نامیاتی موجودات کی ہستی کا انکار ہمارے اختیار میں نہیں۔ کیونکہ اس طرح ہم ایک دوسری حد کو چھونے لگیں گے۔ کیونکہ مادیت پرستMaterialist حقیقت کے روانی یا نفسی Psychic مرتبے کو تسلیم نہیں کرتا۔ دوسری طرف Psychist حقیقت کے مادی (غیر ذی حیات) پہلو سے اعراض کرتا ہے۔ دونوں صحت سے دور ہیں۔ مسئلہ حل طلب باقی رہ جاتا ہے۔ آگے چل کر علامہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا خودی اپنے فعل و عمل کا تعین خود کرتی ہے۳۰؎ میکانیکی جبر سے انکار کر کے وہ خودی کی آزادی کا اثبات کرتے ہیں۔ ان کے لیے آزادی اور از خود عمل Sponteniety ہم معنی اور مفہوماً واحد ہیں۔ رہنما یا مقصدی عمل کی اساسی خاصیت ایسی چیز نہیں جس کی توجیہ میکانیکی اصول تعلیل کی بنیاد پر کی جا سکے۔ علت و معلول کا سلسلہ اپنے مقصد کے لیے خودی کا تعمیر کردہ مصنوعی سلسلہ ہے۔ The causal chain wherein we try to find a place for the ego is itself an artificial construction of the ego for its own purposes. 31 چونکہ خودی کو ایک پیچیدہ اور مرکب ماحول میں بسر کرنا پڑتا ہے لہٰذا وہ اپنی ضرور ت کے لیے اس ماحول کے عناصر ترکیبی کو ایک ایسے نظام میں ڈھال لیتی ہے جس میں علت و معلول کا اصول کار فرما ہو، تاکہ اس کے گردو پیش کی اشیاء کے عمل اور رد عمل کی یقینی ضمانت حاصل ہو سکے۔ خودی کو آزادی اپنے ماحول کو مسخر کرنے اور اسے سمجھنے سے ملتی ہے۔۳۲؎ یہاں تک کے بیان سے یہ پتہ چلا کہ اصول تعلیل (جو شعور نظری میں پوری صلابت سے جاگزیں ہے) سے بچ کر تعلیل کی جگہ قرین مصلحت تدبیر کو دی جا سکتی ہے۔ اس تدبیر کا ماخذ اس Pan-Psychism میں ہے جس کا پہلے تذکرہ ہوا اور اس روانیت Pan-Psychism میں غیر نامیاتی (غیر ذی حیات) موجودات کا اصول توجیہ ٹھہرتا ہے۔ آزادی اور از خود حرکت میں کوئی فرق نہیں۔ ان میں فرق ہونا چاہیے کیونکہ میکانکی حرکت میںمحرک خارج از شے واقع ہے جبکہ موخرالذکر حرکت میں اشیاء کی حرکت کا داعیہ ان کے اندر ہوتا ہے۔ لیکن محض اس بناء پر کہ خودی کی حرکت اندرونی داعیات سے ہوتی ہے، اصول تعلیل معطل نہیں ہو سکتا۔ حرکت خواہ میکانیکی ہو یا از خود (حرکت بالنفس)بہرحال امر واقعہ ہوتی ہے اور ا س کا علم علت و معلول کی بنیاد پر کی جانے والی توجیہ کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ علامہ کی نظر اس مشکل پر بھی رہی ہے اور انہوں نے اس کے حل کے طور پر آزادی نفس کا تصور پیش کیا ہے۔ از خود فعلیت کے ہر موقع پر آزادی کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اس کا سامنا صرف اخلاقی فیصلوں کی صورتحال میں ہوتا ہے۔ انسان کی اپنی طبع و فطرت کے اندر یہ کشمکش جنم لیتی ہے۔ فرض کا شعور یہ تقاضا کرتا ہے کہ اخلاقی قواعد یا ضوابط کے تابع ہو کر عمل کیا جائے۔ جبکہ نفس کے حصۂ اسفل کا رحجان اس قاعدے سے بچ کر راہ عمل کی تلاش کاہوتا ہے۔ سوال یوں ہو جاتا ہے: ایک خاص صورتحال میں کسی ایک راہ عمل کا انتخاب داخلی قیود اور خارجی دبائو سے آزاد ہے یا اس پر تعلیل کا جبر کار فرما ہے؟۔ شعور اخلاق کے اساسی مضمرات میں سے ہے کہ یہ انتخاب پوری طرح آزاد ہونا چاہیے کیونکہ خیرو شر صرف اس آزادیٔ انتخاب سے مشروط ہے۔ بالفاظ دیگر آزادی وہ شرط ہے جو خیر کے تحقق کو ممکن بناتی ہے۔ نفسیات کے مختلف مکاتب فکر میں اختلاف رائے یہ نہیں ہے کہ آزادیٔ انتخاب ہے یا نہیں۔ ان کا مختلف فیہ معاملہ خودی اور نفس انسانی کی میکانیکی یا از خود حرکت کا مسئلہ ہے۔ علامہ نے اسے آزادی کے مسئلے سے منسلک کر کے دیکھا ہے۔ یہ دو سوال یعنی: از خود حرکت کیسے ممکن ہے؟ اور اختیار و آزادی کیسے ممکن ہے؟ الگ الگ ہیں۔ پہلا اقلیم نفس سے متعلق ہے اور دوسرا مابعد الطبیعیاتی ہے۔ علامہ دونوں کو ملا کر ایک امتزاج پیدا کرتے ہیں۔ اخلاقی اعتبار سے سوال یہ ہے کہ خیر کیسے ممکن ہے؟ جواب یہ ہے کہ اختیار و آزادی کے بدولت۔ اسے ایک درجہ آگے بڑھایئے کہ آزادی کیونکر ممکن ہے؟ یہاں دوامکانی جواب ہیں۔ ایک کانٹ کا جواب ہے کہ ہمیں معلوم نہیں کہ کیسے! دوسرا راستہ یہ ہے کہ سوال کا مثبت اور حتمی جواب دیا جائے اور اسے علت ومعلول کے اصول سے منسلک کر کے دیکھا جائے۔ یہاں ایک الجھن آ جاتی ہے۔ سوال یہ تھا کہ آزادی یا اختیار کیسے ممکن ہے یعنی وہ شرائط کیا ہیں جن سے اختیار ممکن ہوتا ہے یعنی اختیار کی علت کیا ہے؟ لیکن اگر آزادی کی کوئی علت ہے تو پھر یہ لزوم ہے آزادی نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ مسئلہ جبر و اختیار یا آزادی کے مسئلے پر ہم انسانی سوچ یا فکر و ذہن انسانی کی آخری حد تک پہنچ جاتے ہیںا ور آگے بڑھنے کی ہر کوشش فکری تضادات کو جنم دیتی ہے۔ علامہ نے ان سوالات کے دو جواب فراہم کئے ہیں۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ خودی کے اعمال و افعال میں ہدایت اور بامقصد ضبط و تصرف کے دو گونہ عناصر کار فرما ہیں تو یہ ماننے میں کوئی تامل نہیں رہتا کہ وہ خود بھی ایک آزاد علیت ہے۔ ۳۴؎ the element of guidance and directive control in the ego's activi- ty shows that the ego is a free personal Causality. He shares in the life and freedom of the Ultim- ate Ego who, by permitting the emergence of a finite ego, capable of private initiative, has limited this freedom of His own free will.33 یعنی خودی میں اپنی ایک توانائی اور اپنا ایک داعیہ ہے (جو خدا داد ہے) جس سے یہ خارجی محرکات کے جلو میں ہر لمحے اپنی زندگی کی سمت کا تعین کرتی ہے۔ دلیل کا رخ یہ ہوا۔ ’’ب‘‘ کی علت ’’الف‘‘ ہے۔ ’’ب‘‘ خود ’’ج‘‘ کی علت ہے لہٰذا ’’ج‘‘ بھی ’’الف‘‘ کا معلول ہے۔ بظاہر یہ درست لگتی ہے لیکن جب اس کا اطلاق یوں کیا جائے کہ خدا اختیار کی علت ہے اور اختیار و آزادی خیرو شر کی علت ہے لہٰذا خدا خیر و شر کی بھی علت ہے تو پھر یہ معاملہ جبر کا نقشہ پیش کرنے لگتا ہے۔ دوسری جگہ علامہ نے یہ کہا ہے کہ خودی کی از خود حرکت (آزادی) اس طرح بھی ہوتی ہے کہ ہر فعل کی ماہیت کا تعین ذہن کے رویے سے ہوتا ہے۔ افعال کا ناقابل تقسیم ذہنی منظر ہی آخر الامران افعال کی نوعیت کا تعین کرتا ہے۔ یہاں نکتہ یہ ہوا کہ خودی کے روانی یا Psychic اجزائے ترکیبی ہی اس میں مضمر اختیار و آزادی کی علت ہیں اور آزادی خیرو شر کی علت ہے لہٰذا خودی کی یہ ترکیب روانی (Psychic Construction) ہی خیرو شر کی علت ہے۔ یہ پھر ایک طرح سے جبر کے مترادف ہو گیا اور فاعل سے اخلاقی ذمہ داری اور خیرو شر کی جواب دہی منسوب کرنا دشوار نظر آنے لگا۔ جزاو سزا اور رضا و غضب کے تصورات اس سیاق و سباق میں اپنے معنی کھو بیٹھیں گے۔ صوفی کا مشاہدئہ لاتعین یہ معنی نہیں رکھتا کہ مقید و محدود فنا ہو کر لاتعین و لامحدود میں جذب ہو گیا۔ اسلامی تصوف کے اعلیٰ مراتب میں اتحاد و تقرب سے یہ مقصود نہیں تھا کہ متناہی خودی لامتناہی خودی میں جذب ہو کر اپنی ہستی فنا کر دے، بلکہ یہ کہ لامتناہی متناہی کے آغوش محبت میں آ جائے۔۳۶؎ In the higher Sufism of Islam unitive experience is not the finite ego effacing its own identity by some sort of absorp- tion into the Infinite Ego: it is rather the Infinite passing into the loving embrace of the finite.35 علامہ کا دیا ہوا تصور بھی اسی متصوفانہ تصور سے قریب ہے کیونکہ اس کے تحت وجود خداوندی خودی کے وجود محدود میں گم ہو جاتا ہے اور وہ اس خودی کے پہلو بہ پہلو الگ وجود رکھنے کے بجائے ایک امکان نادمیدہ یا ظہور کے ایک بروز نایافتہ امکان کے طور پر باقی رہتا ہے اور اس طرح علم ربانی خودی کے علم میں غائب ہو جاتا ہے۔ علم حق در علم ’’خودی‘‘ گم شود۔ انسانی خودی کی حیات بعد الموت انسانی خودی کی حیات بعد الموت کے سلسلے میں علامہ نے ابن رشد، کانٹ اور نطشے کے دلائل کا حوالہ دیا ہے۔ ابن رشد کے دلائل انہیں اس لیے قابل قبول نظر نہیں آئے کہ وہ اولاً تو قرآن کی اصطلاحات ’’نفس‘‘ اور ’’روح‘‘ کی غلط تفہیم پر استوار ہیں اور دوم اس لیے کہ مابعد الطبیعیاتی دلائل ایقان پیدا نہیں کر سکتے اور اس نوع کے دلائل کے ذریعے خودی کی بقایا حیات بعد الموت پر ایمان لانا مشکل ہے۔۳۷؎ کانٹ کی دلیل سے عدم اطمینان اس لیے ہے کہ ہمیں پتہ نہیں چلتا کہ فضائل اخلاق اور مسرت کے اتمام و کمال کے لیے لامحدود وقت کیوں درکار ہے۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ ان باہم متبائن تصورات کو ایک وحدت میں کیسے ڈھال دے گا؟ لیکن یہاں جو بات غیر واضح رہ جاتی ہے وہ یہ کہ فضائل اخلاق اور مسرت و سعادت کی تکمیل کے اس عمل کو اتنے لامتناہی زمانے کی ضرورت کیوں It is not clear, however, why the consummation of virtue and happ- iness should take infinite time, and how God can effectuate the conf- luence between mutually exclusive ہے؟۔۳۹؎ notions.38 یہاں دشواری یہ ہے کہ علامہ نے نفس انسانی یا خودی کی ماہیت کا جو تصور قائم کیا ہے اس کے مطابق یہ سراسر ربانی ہے کیونکہ یہ ذات الہٰی سے صادر ہوئی ہے۔ اس تصور کی روشنی میں فطرت انسانیہ کی ثنویت متصور کرنا مشکل ہے اور اس ثنویت سے جو کشمکش جنم لیتی ہے اس کو قبول کرنا بھی مشکل ہے کہ یہ اپنی اساس میں مبنی برخیر ہوتے ہوئے بھی گمراہ ہونے کا رحجان واقعی اپنے اندر رکھتی ہے۔ اسی طرح خودی کے تصور میں ایک جبر ذاتی بھی مضمر ہے جو باطنی جبر کے مترادف ہے اور اختیار کے فقدان سے عبارت ہے لہٰذا اس کی موجودگی میں کانٹ کی دلیل قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ اگر فاعل اخلاق صاحب اختیار بھی ہے اور یہ آزادی و اختیار جو اس کے محاسن میں سے ہے وہی اس کا عیب بھی ہے جب وہ اس سے دوسرے ابنائے جنس کی مساعی اخلاق میں فساد کا موجب بنتا ہے۔ اس طرح فضائل اخلاق اور مسرت کا اتصال لامحدود وقت میں بھی ناقابل تصور معلوم ہو گا تا وقتیکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اس معاملے میں نصرت کرنے کے لیے موجود نہ ہو۔ فضائل اخلاق اور مسرت خلقی طور پر متبائن نہیں ہیں بلکہ مآل کار یہ اپنی اساس میں یکجا ہو جاتے ہیں۔ بالفعل یہ متبائن ہیں کیونکہ ممکن ہے کہ مسرت خارج یا باطن میں قواعد اخلاق کی خلاف ورزی سے حاصل کی جا رہی ہو اور بنابریں کبھی بھی کاملاً خالص اور بے لوث نہ ہو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی مدد اور رحمت کے بغیر ہماری نیت اور ارادوں کی تطہیر و تزکیہ ممکن نہیں اور اس کے بغیر بے غل و غش مسرت کا حصول متصور نہیں جو ہماری بہترین مساعی اخلاق پر مترتب ہو گا۔ نطشے کا نظریہ تکرار ابدی (Eternal Recurrence) اس لیے تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ اولاً It is only a more rigid kind of mechanism ۴۰؎ (یہ ایک کڑی میکانیت ہے) ثانیاً یہ صرف ایک فوق البشر کے دوبارہ پیدا ہونے کا امیدوار ہے اور اس سے ہماری کوئی آرزو یا تمنا بیدار نہیں ہوتی۔ ثالثاً اس لیے کہ۔ یہ نظریہ اس تقدیر پرستی سے بھی بدتر ہے جس کو لفظ قسمت سے ادا کیا جاتا ہے۔ پھر اس کی بجائے کہ یوں ہمارے رگ و ریشہ میں مصاف حیات کے لیے طاقت اور ہمت پیدا ہو، یہ وہ عقیدہ ہے جس سے رحجانات عمل فنا ہو جاتے اور خودی اپنا اطناب کھو بیٹھتی ہے۔۴۲؎ Nietzsche's view which is nothing more than a Fatalism worse than the one summed up in the word Qismat. Such a doctrine, far from keying up the human organism for the fight of life tends to destory its action-tendencies and relaxes the tension of the ego.41 قرآن کی تعلیمات اس ضمن میں پیش کرتے ہوئے علامہ کہتے ہیں کہ: قرآن مجید نے تقدیر انسانی کا جو نظریہ قائم کیا ہے کچھ تو اخلاقی ہے اور کچھ حیاتی۔۴۴؎ The Quranic view of the destiny of man is partly ethical, Partly biolog- ical:43 گویا زندگی وہ فرصت ہے جس میں خودی کو عمل کے لاانتہا مواقع میسر آئے ہیں اور جس میں موت اس کا پہلا امتحان ہے تاکہ وہ دیکھ سکے اسے اپنے اعمال و افعال کی شیرازہ بندی میں کس حد تک کامیابی ہوئی۔ اعمال کا نتیجہ نہ تو لطف ہے نہ درد۔ اعمال یا تو خودی کو سہارا دیتے یا اس کی ہلاکت اور تباہی کا سامنا پیدا کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ امر کہ خودی فنا ہو جائے گی یا اس کا کوئی مسقبل ہے عمل پر موقوف ہے اور اس لیے خودی کو برقرار رکھیں گے تو وہی اعمال جن کی بنا اس اصول پر ہے کہ ہم بلا امتیاز من و تو خودی کا احترام کریں۔ لہٰذا بقائے دوام انسان کا حق نہیں۔ اس کے حصول کا دارومدار ہماری مسلسل جدوجہد پر ہے۔۴۶؎ Life offers a scope for ego-activity, and death is the first test of the synthetic activity of the ego. There are no pleasure -giving and paingi- ving acts; there are only ego-sustai- ning and ego dissolving acts. It is the deed that prepares the ego for dissolution, or disciplines him for a future career. The principle of the ego-sustaining deed is respect for the ego in myself as well as in others. Personal immortality, then is not ours as of right; it is to be achieved by personal efforts.45 یہ تصور حیات بعدالموت کی حیاتیاتی پس منظر یا حیاتیاتی حوالے سے توجیہ پیش کرتا ہے کیونکہ اس کی اخلاقی جہت اس کی حیاتیاتی جہت کی تابع ہے۔ حیاتیاتی کا عنوان قائم کرنے کا مطلب ہی یہ ہو گا کہ برزخ، حشرِ اجساد، جنت و جہنم کی حیاتیاتی تعبیر ممکن ہے اور یہ واقعاتی ہیں نہ کہ مشروط بہ فضائل اخلاق و اقدار۔ برزخ بھی انتظار اور توقف کی کوئی انفعالی حالت نہیں۔ بلکہ خودی کا وہ عالم جس میں اسے حقیقت مطلقہ کے بعض نئے پہلوئوں کی جھلک نظر آتی ہے اور The state of Barzakh, therefore, does not seem to be merely a pass- ive state of expectation; it is a state in which the ego catches a glimpse جن سے تطابق و توافق کے لیے اسے اپنے آپ کو تیار کرنا پڑتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر یہ وہ کیفیت ہے جس میں نفس انسانی کے اندر زبردست اختلال رونما ہوتا ہے، بالخصوص ان انسانوں میں جنہوں نے اپنے ذاتی نشوونما کے انتہائی مدارج طے کر لیے ہیں اور جن کی خودی زمان و مکان کے ایک مخصوص نظام میں کسی مقررہ طرز عمل کی عادی ہو چکی ہے۔ اندریں صورت یہ بھی ممکن ہے کہ بعض بد قسمت انسان اپنی ہستی کھو بیٹھیں ۔ خودی کو بہرحال اپنی جدوجہد جاری رکھنا ہے تا کہ اس میں حیات بعد الموت کے حصول کی صلاحیت پیدا ہو جائے دراصل بعث بعدالموت کوئی خارجی حادثہ نہیں۔ یہ خودی ہی کے اندر ایک حیاتی عمل کی تکمیل ہے۔ ۴۸؎ of fresh aspects of Reality, and prepares himself for adjustment to these aspects. It must be a state of great psychic unhingement, especially in the case of full-grown egos who have naturally developed fixed modes of operation on a specific spatio-temporal order, and may mean dissolution to less fortunate ones. However, the ego must continue to struggle until he is able to gather himself up, and win his resurrection. The resur- rection, therefore, is not an exter- nal event. It is the consummation of a life-process within the ego.47 جنت اور دوزخ اس کے احوال ہیں۔ مقامات یعنی کسی جگہ کے نام نہیں ہیں۔چنانچہ قرآن پاک میں ان کی جو کیفیت بیان کی گئی ہے اس سے مقصود بھی یہی ہے کہ داخلی حقیقت ، یعنی انسان کے اندرونی احوال کا نقشہ اس کی آنکھوں میں بھر جائے۔۵۰؎ Heaven and Hell are states, not localities. Their descriptions in the Qur'an are visual representations of an inner fact, i.e. character.49 بہشت کا مطلب ہے فنا اور ہلاکت کی قوتوں پر غلبے اور کامرانی کی مسرت۔ ۵۲؎ Heaven is the joy of triumph over the forces of disintegration.51 جہنم بھی کوئی ’’ھاویہ‘‘ نہیں جسے کسی منتقم خدا نے اس لیے تیار کر رکھا ہے کہ گنہ گار ہمیشہ اس میں گرفتار عذاب رہیں۔ وہ در حقیقت تادیب کا ایک عمل ہے Hell, therefore, as conceived by the Qur'an, is not a pit of everlasting torture inflicted by a revengeful God; it is a corrective experience which may make a hardened ego تاکہ جو خودی پتھر کی طرح سخت ہو گئی ہے، وہ پھر رحمت خدا وندی کی نسیمِ جان فزا کا اثر قبول کر سکے۔۵۴؎ once more sensitive to the living breeze of Divine Grace.53 اسلامی تعلیمات میں خودی کے تین درجے یا مراتب ہیں۔ عالم مادی میں دارالعمل کا مرتبہ۔ برزخ، جو حشر اور موت کے درمیان کا وقفہ ہے اور اس دارالانتظار کے بارے میں علم تفصیلی میسر نہیں اور پھر دارالجزائ۔ اخلاقی شعور کا تقاضا ہے کہ انسان اس تیسرے مرتبۂ وجود میں اپنے تشخص ذاتی کے ادراک کے ساتھ محشور ہو یعنی اسے یہ شعور ہو کہ وہ وہی فرد ہے جو اپنے مادی وجود کے ساتھ عالم دنیا میں تھا تا کہ اس کے اعمال کی جزا و سزا کا جواز درست ہو سکے۔ منکرین خدا اپنے آپ کو دھوکہ دیتے کہ عالم عقبیٰ میں کچھ نہیں ہو گا۔ حشرو نشر فریب ہے اور جزا و سزا واہمہ۔ انہیں آخرت میں کسی خیر کی توقع نہیں، قرآن ان کے سامنے پیدائش ، نمو اور تولید کی مثالیں رکھتا ہے۔ جو تصور ہم نے صفحات ماسبق میں بیان کرنے کی کوشش کی اس میں حیات بعد الموت کے تصور کی مذہبی اور اخلاقی معنویت کو سامعین کی رعایت سے کھلے لفظوں میں بیان نہیں کیا گیا بلکہ اسے قریب الفہم حیاتیاتی نظریات کے ذریعے سمجھانے کی سعی کی گئی ہے۔ اس طرح برزخ کا تصور بھی Struggle for existence and natural selection کے حیاتیاتی تصورات کے توسط سے قابل فہم بنانے کی کوشش کی گئی ہے اور حشر اجساد کو consumation of the process of life کے تصور کے وسیلے سے۔ جنت جہنم کو اس بیان میں جو احوال سے تعبیر کیا گیا ہے اور مقامات قرار نہیں دیا گیا تو ہمارا اندازہ ہے کہ یہاں ترجمے کی نارسائی کا دخل ہے۔States کے لفظ کا ترجمہ ’’احوال‘‘ کے بجائے سیاق و سباق کی رعایت سے مراتب (وجود) ہونا چاہیے بایں معنی کہ جنت وجہنم ہمارے زمان و مکاں کے اسیر مرتبہ وجود کی ’’جگہیں‘‘ نہیں ہیں بلکہ مختلف مرتبۂ وجود کے حقائق ہیں۔ چوتھا خطبہ حواشی ۱) تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ، (انگریزی) اقبال اکادمی پاکستان، ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، ص، ۷۶؛ قرآن مجید۔ ۱۲۲:۲۰، ۳۰:۲، ۱۶۵:۶، ۷۲:۳۳۔ ۲) تشکیل ……(انگریزی)، محولہ بالا ، ص ،۷۷۔ ۳) ایضاً ۔ ص، ۷۸۔ ۴) تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ، اردو ترجمہ، از سید نذیر نیازی، بزم اقبال، لاہور، ۱۹۸۳، ص،۱۴۶۔ ۵) تشکیل ……(انگریزی) محولہ بالا، ص، ۷۹۔ ۶) تشکیل جدید …(اردو) محولہ بالا ، ص، ۱۴۸۔ ۷) تشکیل … …(انگریزی) ، محولہ بالا، ص، ۷۹۔ ۸) تشکیل جدید … (اردو) محولہ بالا، ص، ۱۴۹۔ ۹) تشکیل … (انگریزی) محولہ بالا، ص، ۸۰۔ ۱۰) تشکیل جدید … (اردو) محولہ بالا، ص ، ۱۵۰۔ ۱۱) تشکیل … (انگریزی )محولہ بالا ، ص ۸۰ ۔ ۱۲) تشکیل جدید …(اردو)، محولہ بالا، ص۔ ۱۵۰۔ ۱۳) تشکیل ……(انگریزی) محولہ بالا، ص۔ ۸۱۔ ۱۴) ایضاً ۔ ص، ۸۱۔ ۱۵) تشکیل جدید …(اردو) محولہ بالا، ص، ۱۵۳۔ ۱۶) تشکیل … (انگریزی) ، محولہ بالا ،ص، ۲۔۸۱۔ ۱۷) تشکیل جدید … (اردو) محولہ بالا، ص،۱۵۳۔ ۱۸) تشکیل …(انگریزی )، محولہ بالا، ص۔ ۸۲۔ ۱۹) تشکیلجدید …… (اردو) محولہ بالا، ص۔۱۸۴۔ ۲۰) تشکیل …(انگریزی )، محولہ بالا، ص۔۸۲۔ ۲۱) تشکیل جدید ……(اردو )، محولہ بالا، ص۔۱۵۴۔ ۲۲) تشکیل …(انگریزی )، محولہ بالا، ص۔ ۳۔۸۲۔ ۲۳) تشکیل جدید … (اردو) محولہ بالا ، ص ۔ ۶۔۱۵۵۔ ۲۴) قرآن مجید۔ ۱۴۔۱۲:۲۳۔ ۲۵) تشکیل ……(انگریزی) ، محولہ بالا، ص۔ ۵۔۸۴۔ ۲۶) تشکیل جدید …(اردو)، محولہ بالا، ص۔ ۱۶۰۔ ۲۷) تشکیل ……(انگریزی) ، محولہ بالا، ص۔ ۸۵، نیز قرآن مجید۔ ۳:۵۷۔ ۲۸) تشکیل جدید …(اردو)، محولہ بالا، ص۔ ۱۶۱۔ ۲۹) یہ روانی Psychic وہ چیز ہے جسے دوسری اصطلاح میں ’’ظہور لطیف‘‘ کہا جاتا ہے اور جو عالم مادی اور اقلیم روحانی کے درمیان واقع ہے اور ہر دو اقالیم کی شرائط وجود سے بہرہ ور ہوتی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے Huston Smith, Forgotten Truth, Suhail Academy, Lahore, p.38 & 74- نیز ’’کونیات اور جدید نفسیات‘‘ مشمولہ روایت ،شمارہ اول، ۱۹۸۶ئ، طبع مکرر، لاہور، ص۔ ۳۹۱۔ ۳۰) تشکیل ……(انگریزی) محولہ بالا، ص۔ ۸۵۔ ۳۱) ایضاً ۔ ص۔۸۶۔ ۳۲) ایضاً ۔ ۳۳) ایضاً ۔ ص۔ ۸۷۔۸۶۔ ۳۴) تشکیل جدید …(اردو)، محولہ بالا، ص۔ ۱۶۴۔ ۳۵) تشکیل ……(انگریزی) ، محولہ بالا، ص۔ ۸۸؛ نیز ر۔ ک Secrets of the Self ترجمہ اسرار خودی از نکلسن ، شیخ اشرف، ۱۹۶۴، XIX۔ ۳۶) تشکیل جدید …(اردو)، محولہ بالا، ص ۔۱۶۶۔ ۳۷) تشکیل ……(انگریزی) ، محولہ بالا، ص۔ ۸۹۔ ۳۸) ایضاً ۔ ص۔ ۹۰۔ ۳۹) تشکیل جدید …(اردو)، محولہ بالا، ص۔ ۱۷۱۔ ۴۰) تشکیل ……(انگریزی)، محولہ بالا، ص۔ ۹۲۔ ۴۱) ایضاً۔ ۴۲) تشکیلجدید … (اردو) محولہ بالا، ص۔۱۷۵۔ ۴۳) تشکیل …(انگریزی )، محولہ بالا، ص۔۹۲۔ ۴۴) تشکیل جدید …(اردو)، محولہ بالا، ص ۔۱۵۵۔ ۴۵) تشکیل ……(انگریزی) ، محولہ بالا، ص۔ ۹۵۔ ۴۶) تشکیل جدید …(اردو)، محولہ بالا ، ص۔ ۱۸۰۔ ۴۷) تشکیل ……(انگریزی) محولہ بالا، ص۔ ۹۶۔ ۴۸) تشکیل جدید …(اردو)، محولہ بالا، ص۔ ۱۸۱۔ ۴۹) تشکیل ……(انگریزی)، محولہ بالا، ص۔ ۹۸۔ ۵۰) تشکیل جدید … (اردو) محولہ بالا ، ص ، ۱۸۵۔ ۵۱) تشکیل … (انگریزی) محولہ بالا، ص ، ۹۸۔ ۵۲) تشکیل جدید … (اردو ) محولہ بالا ، ص ، ۱۸۵۔ ۵۳ ) تشکیل … (انگریزی) محولہ بالا ، ص ، ۹۸ ۔ ۵۴ ) تشکیل جدید … (اردو) محولہ بالا ، ص ، ۱۸۶۔ خطبہ چہارم خودی‘ جبروقدر‘ حیات بعد الموت اس خطبے کا موضوع ایک سوال ہے۔ اس سوال کا جواب فلسفے نے بھی دیا ہے اور مذہب نے بھی۔ سوال یہ ہے کہ نفس انسانی یا انسانی انا کی ماہیت کیا ہے؟ آغاز کلام میں علامہ قرآن سے استشہاد کرتے ہیں جس کے مطابق انسان اللہ کا برگزیدہ ہے‘ خلیفہ ہے اور آزاد شخصیت کا امین ہے۔۱؎ شعور انسانی کی وحدت انسانی شخصیت کا مرکز ہے۔ اسے اسلام کی فکری تاریخ میں کسی خاص دلچسپی کا حامل نہیں سمجھا گیا ۲؎ علامہ کے خیال میں اندریں حالات ’’بہرحال اب ہمارے سامنے کوئی راستہ ہے تو یہ کہ علم حاضر کے احترام اور قدر و منزلت کے باوجود ہم اپنی آزادی رائے برقرار رکھتے ہوئے یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ اسلامی تعلیمات کی تعبیر اب علم حاضر کے پیش نظر کس رنگ میں کرنی چاہیے۔‘‘ ۴؎ "The only course open to us is to approach modern knowledge with a respectful but independent attitude and to appreciate the teachings of Islam in the light of that knowledge" 3 خودی کے عناصر ترکیبی یا خواص کیا ہیں؟ "The ego reveals itself as a unity of what we call mental states," 5 ۱۔ وحدت:۔ کیفیات نفسی کی وحدت ۶؎ ’’خودی کی دوسری نمایاں خصوصیت بطور ایک وحدت‘ اس کے خفا یا خلوت کا پہلو ہے‘‘ 2- "Another important characteristic of the unity of the ego is its essential privacy which reveals the uniqueness of every ego."7 ۳۔ تسلسل یا استمرار "My recognition of a place or person means reference to may past experience, and not the past experience of another ego"8 نفس اور روح انسانی کے بارے امام غزالی کے تصور سے علامہ متفق نہیں ہیں: ’’الہیات اسلامیہ کے اس مذہب میں جس کے امام غزالی شارح اعظم ہیں‘ ’خودی ‘ یا ’انا‘ کی حیثیت ایک سادہ ناقابل تجزیہ اور ناقابل تحول جو ہر روحانی کی ہے جسے کیفیات نفسی کے سارے مجموعے سے کلیتاً مختلف‘ علی ہذا مرور زمانہ کے اثرات سے سرتاسر آزاد تصور کیا جاتا ہے تھا,۔ ۱۰؎ "To the Muslim school theology of which Ghazali is the chief exponent, the ego is a simple, indivisible, and immutable soulsubstance, entirely different from the group of our mental states and unaffected by the passage of time," 9 یہ ایک سکونی نظریہ ہے ۱۱؎ "static view of substance" اسی طرح علامہ کو دلیم جیمز کے خیال سے بھی اتفاق نہیں ہے جس کے مطابق خودی یا نفس انسانی "The ego consists of the feelings of personal life, and is as such part of the system of thought." 12 ’’خودی کیا ہے؟۔ ہمارے ذاتی احساسات‘ اور اس لیے ہمارے نظام فکر ہی کا ایک حصہ ‘‘۱۳؎ اس لیے کہ: ’’شعور کے اس نظریے سے ایک تو خودی ہی کی حقیقت کا کوئی سراغ نہیں ملتا دوسرے اس سے محسوسات و مدرکات کا وہ عنصر بھی کالعدم ہو جاتا ہے جسے کم از کم اضافی طور پر مستقل ٹھہرایا جاتا ہے, ۱۴؎ "This view of consciousness, far from giving us any clue to the ego, entirely ignores the relatively permanent element in experience. There is no continuity of being between the passing thoughts." 15 پس انسانی خودی یا نفس یا احساس ذات یا انا کا خاصہ یہ ہوا کہ وہ شعور کی وحدت رکھتی ہے جو استمرار اور خفا سے مرکب ہے۔ "Inner experience is the ego at work. We appreciate the ego itself in the act of perceiving. judging and willing. 16 ’’ہمارا کہنا یہ ہے کہ ہمارے داخلی محسوسات و مدرکات کا مطلب ہی یہ ہے کہ خودی کا عمل دخل جاری ہے۔ جب ہم کسی شے کا ادراک کرتے‘ یا اس پر حکم لگاتے‘ یا کوئی ارادہ کرتے ہیں تو ایسا کرنے میں خودی ہی سے آشنا ہوتے ہیں۔۱۷؎ "a directive energy and is formed and disciplined by its own experience"18 ’’یہی تجربات اور واردات ہیں جس سے اس کی تشکیل اور اس کے نظم و ضبط کا راستہ کھلتا ہے‘‘ ۱۹؎ لہذا میری شخصیت کا یہ مطلب نہیں کہ آپ مجھے شے سمجھیں ‘ میں شے نہیں‘ عمل ہوں۔ میرے محسوسات و مدرکات کیا ہیں؟ اعمال و افعال کا وہ سلسلہ جن میں ہر عمل دوسرے پر دلالت کرتا ہے اور جو ایک دوسرے سے وابستہ ہیں تو اس لیے کہ ان میں کوئی رہنما مقصد کام کر رہا ہے۔ میری ساری حقیقت میرے اسی امر آفرین رویے میں پوشیدہ ہے۔‘‘۲۱؎ "Thus my real personality is not a thing: it is an act. My experience is only a series of acts, mutually referring to one another, and held together by the unity of a directive purpose. My whole reality lies in my directive attitude.20 ان سب نکات کے بعد بھی معاملہ پوری طرح روشن نہیں ہوا اور کسی قدر ابہام باقی رہ جاتا ہے۔ خودی کی ماہیت پوری وضاحت سے جاننے کے لیے یہ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ وہ مقصد تفصیل سے واضح کیا جائے جس کی جانب یہ رہنما توانائی رخ کرتا ہے۔ علامہ نے اس کی توضیح کے لیے ایک دوسرے سوال کا جواب دینے کی سعی کی ہے کہ خودی کا مبداء و منبع کیا ہے؟ قرآن کی آیات ۲۲؎ سے دلیل دے کر انہوں نے یہ تصور پیش کیا ہے کہ نفس انسانی یا انسانی خودی یوں پیدا ہوتی ہے۔ ’’ادنی خودیوں کی وہ بستی جن کا اجتماع اور عمل و تعامل جب ایک خاص نسق پر پہنچ جاتا ہے تو اس سے ایک اعلیٰ ترخودی کا صدور ہوتا ہے بالفاظ دیگر یہ ہدایت بالذات کا مرتبہ ہے کہ جب کائنات اس میں قدم رکھتی ہے تو حقیقت مطلقہ شاید اپنا راز افشا کرتی اور یوں اپنی ماہیت کے انکشاف کا راستہ کھول دیتی ہے۔‘‘ ۲۴؎ "A colony of egos of a low order out of which emerges the ego of a higher order, when their association and interaction reach a certain degree of co-ordination. It is the world reaching the point of self-guidance wherein the Ultimate Reality, perhaps, reveals its secret, and furnishes a clue to its ultimate nature." 23 ’’وہ مطلق انا جس کی بدولت صادر کا صدر ہوتا ہے ‘ فطرت میں جاری و ساری ہے‘‘۲۶ "The Ultimate Ego that makes the emergent emerge is immanent in Nature"24 خودی کے وجود و ماہیت نفس انسانی کے مبدائ‘ ذہن اور مادے کا تعلق (بطور دوا ساساً مختلف عناصر کے) جیسے سوالات کو حل کرنے میں شغور نظری کو جو اشکالات پیش کرتے ہیں وہ بظاہر علامہ کے پیش کردہ تصور نفس انسانی میں درپیش معلوم نہیں ہوتے۔ تاہم کچھ مشکلات پھر بھی محسوس ہوتی ہیں۔ پہلے تو یہ دیکھئے کہ تخلیق کا تصور جو مذہب کا ایک جزو ہے وہ یہاں پس منظر میں چلا جاتا ہے اور اس کی جگہ ارتقائے صدوریEmergent Evolution کو مل جاتی ہے۔ شعور مذہبی کے لیے آفرینش کا یہ نظریہ بہت وحشت انگیز ہے کیونکہ اس میں پہلا خطرہ تو یہ ہے کہ اس سے انسان اور خدا کی غیریت اور دوئی مٹتی معلوم ہوتی ہے نیز تنز یہ پر زد پڑتی ہے۔ پھر یہ کہ شر اور خیر ایک کل کا جزو دکھائی دیتے ہیں اور یہ بھی قبول کرنا مشکل ہے۔ سوم یہ کہ یہاں غیر نامیاتی اور غیر ذی حیات Inorganid سطح وجود سے انکار نظر آتا ہے جو امرواقعہ کے خلاف ہے۔ اس انکار کی غایت یہ ہے کہ حقیقت کو اپنی ماہیت میں نفسی یا روانی Svchic۲۷؎ فرض کیا جا سکے۔ اب یہ ثابت کرنا تو محال ہے کہ جسم (مادہ) بھی اساسی طور پر Psychic یا روانی چیز ہے۔ غیر نامیاتی موجودات کی ہستی کا انکار ہمارے اختیار میں نہیں۔ کیونکہ اس طرح ہم ایک دوسری حد کو چھونے لگیں گے۔ کیونکہ مادیت پرست Matcrialist حقیقت کے روانی یا نفسی Psychic کو تسلیم نہیں کرتا۔ دوسری طرف Psychist حقیقت کے مادی (غیر ذی حیات) پہلو سے اعراض کرتا ہے۔ دونوں صحت سے دور ہیں۔ مسئلہ حل طلب باقی رہ جاتا ہے۔ آگے چل کر علامہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا خودی اپنے فعل و عمل کا تعین خود کرتی ہے۲۸؎ میکانیکی جبر سے انکار کر کے وہ خودی کی آزادی کا اثبات کرتے ہیں۔ ان کے لیے آزادی اور از خود عمل Sponteniety ہم معنی اور مفہوماً واحد ہیں۔ رہنما یا مقصدی عمل کی اساسی خاصیت ایسی چیز نہیں جس کی توجیہ میکانیکی اصول تعلیل کی بنیاد پر کی جا سکے۔ علت و معلول کا سلسلہ اپنے مقصد کے لیے خودی کا تعمیر کردہ منصوعی سلسلہ ہے۔ "The causal chain wherein we try to find a place for the ego is itself an artificial construction of the ego for its own purposes" 29 چونکہ خودی کو ایک پیچیدہ اور مرکب ماحول میں بسر کرنا پڑتا ہے لہذا وہ اپنی ضرور ت کے لیے اس ماحول کے عناصر ترکیبی کو ایک ایسے نظام میں ڈھال لیتی ہے جس میں علت و معلول کا اصول کار فرما ہوتا کہ اس کے گردو پیش کی اشیاء کے عمل اور رد عمل کی یقینی ضمانت حاصل ہو سکے۔ خودی کو آزادی اپنے ماحول کو مسخر کرنے اور اسے سمجھنے سے ملتی ہے۔۳۰؎ یہاں تک کہ بیان سے یہ پتہ چلا کہ اصول تعلیل (جو شعور نظری میں پوری صلابت سے جاگزیں ہے) اس سے بچ کر تعلیل کی جگہ قرین مصلحت تدبیر کو دی جا سکتی ہے۔ اس تدبیر کا ماخذ اس Pan-Psychism میں ہے جس کا پہلے تذکرہ ہوا اور اس روانیت Pan-Psychism میں غیر نامیاتی (غیر ذی حیات) موجودات کا اصول توجیہ ٹھہرتا ہے۔ آزادی اور از خود حرکت میں کوئی فرق نہیں۔ ان میں فرق ہونا چاہئے کیونکہ میکانکی حرکت میںمحرک خارج از شے واقع ہے جبکہ موخرالذکر حرکت میں اشیاء کی حرکت کا داعیہ ان کے اندر ہوتا ہے۔ لیکن محض اس بناء پر کہ خودی کی حرکت اندرونی داعیات سے ہوتی ہے۔ اصول تعلیل معطل نہیں ہو سکتا۔ حرکت خواہ میکانیکی ہو یا از خود (حرکت بالنفس)بہرحال امر واقعہ ہوتی ہے اور ا س کا علم علت و معلول کی بنیاد پر کی جانے والی توجیہ کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ علامہ کی نظر اس مشکل پر بھی رہی ہے اور انہوں نے اس کے حل کے طور پر آزادی نفس کا تصور پیش کیا ہے۔ از خود فعلیت کے ہر موقع پر آزادی کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اس کا سامنا صرف اخلاقی فیصلوں کی صورتحال میں ہوتا ہے۔ انسان کی اپنی طبع و فطرت کے اندر یہ کشمکش جنم لیتی ہے۔ فرض کا شعور یہ تقاضا کرتا ہے کہ اخلاقی قواعد یا ضوابط کے تابع ہو کر عمل کیا جائے۔ جبکہ نفس کا حصہ اسفل کا رحجان اس قاعدے سے بچ کر راہ عمل تلاش کا ہوتا ہے۔ سوال یوں ہو جاتا ہے: ایک خاص صورتحال میں کسی ایک راہ عمل کا انتخاب داخلی قیود اور خارجی دبائو سے آزاد ہے یا اس پر تعلیل کا جبر کار فرما ہے؟۔ شعور اخلاق کے اساسی مضمرات میں سے ہے کہ یہ انتخاب پوری طرح آزاد ہونا چاہیے کیونکہ خیرو شر صرف اس آزادی انتخاب سے مشروط ہے۔ بالفاظ دیگر آزادی وہ شرط ہے جو خیر کے تحقق کو ممکن بناتی ہے۔ نفسیات کے مختلف مکاتب فکر میں اختلاف رائے یہ نہیں ہے کہ آزادی انتخاب ہے یا نہیں۔ ان کا مختلف فیہ معاملہ خودی اور نفس انسانی کی میکانیکی یا از خود حرکت کا مسئلہ ہے۔ علامہ نے اسے آزادی کے مسئلے سے منسلک کر کے دیکھا ہے۔ یہ دو سوال یعنی: از خود حرکت کیسے ممکن ہے؟ اور اختیار و آزادی کیسے ممکن ہے؟ الگ الگ ہیں۔ پہلا اقلیم نفس سے متعلق ہیں اور دوسرا مابعد الطبیعیاتی ہے۔ علامہ دونوں کو ملا کر ایک امتزاج پیدا کرتے ہیں۔ اخلاقی اعتبار سے سوال یہ ہے کہ خیر کیسے ممکن ہے؟ جواب یہ ہے کہ اختیار و آزادی کے بدولت۔ اسے ایک درجہ آگے بڑھایئے کہ آزادی کیونکر ممکن ہے؟ یہاں دوامکانی جواب ہیں۔ ایک کانٹ کا جواب ہے کہ ہمیں معلوم نہیں کیسے! دوسرا راستہ یہ ہے کہ سوال کا مثبت اور حتمی جواب دیا جائے اور اسے علت معلول کے اصول سے منسلک کر کے دیکھا جائے۔ یہاں ایک الجھن آ جاتی ہے۔ سوال یہ تھا کہ آزادی یا اختیار کیسے ممکن ہے یعنی وہ شرائط کیا ہیں جن سے اختیار ممکن ہوتا ہے یعنی اختیار کی علت کیا ہے؟ لیکن اگر آزادی کی کوئی علت ہے تو پھر یہ لزوم ہے آزادی نہیں۔ واقعہ یہ کہ مسئلہ جبر و اختیار یا آزادی کے مسئلے پر ہم انسانی سوچ یا فکر و ذہن انسانی کی آخری حد تک پہنچ جاتے ہیںا ور آگے بڑھنے کی ہر کوشش فکری تضادات کو جنم دیتی ہے۔ علامہ نے ان سوالات کے دو جواب فراہم کئے ہیں۔ ’’جب ہم دیکھتے ہیں کہ خودی کے اعمال و افعال میں ہدایت اور بامقصد ضبط و تصرف کے دو گونہ عناصر کار فرما ہیں تو یہ ماننے میں کوئی تامل نہیں رہتا کہ وہ خود بھی ایک آزاد علیت ہے۔‘‘ ۳۲؎ "the element of guidance and directive control in the ego's activity shows that the ego is a free personal causalty. He shares in the life and freedom of the Ultimate Ego who, by permitting the emergence of a finite ego. capable of private initiative, has limited this freedom of His own free will"31 یعنی خودی میں اپنی ایک توانائی اور اپنا ایک داعیہ ہے (جو خدا داد ہے) جس سے یہ خارجی محرکات کے جلو میں ہر لمحے اپنی زندگی کی سمت کا تعین کرتی ہے۔ دلیل کا رخ یہ ہوا۔ ’’ب‘‘ کی علت ’’الف‘‘ ہے۔ ’’ب‘‘ خود ’’ج‘‘ کی علت ہے لہذا ’’ج‘‘ بھی ’’الف‘‘ کا معلوم ہے۔ بظاہر یہ درست لگتی ہے لیکن جب اس کا اطلاق یوں کیا جائے کہ خدا اختیار کی علت ہے اور اختیار و آزادی خیرو شر کی علت ہے لہذا خدا خیر و شر کی بھی علت ہے تو پھر یہ معاملہ جبر کا نقشہ پیش کرنے لگتا ہے۔ دوسری جگہ علامہ نے یہ کہا ہے کہ خودی کی از خود حرکت (آزادی) اس طرح بھی ہوتی ہے کہ ہر فعل کی ماہیت کا تعین ذہن کے رویے سے ہوتا ہے۔ افعال کا ناقابل تقسیم ذہنی منظر ہی آخر الامران افعال کی نوعیت کا تعین کرتا ہے۔ یہاں نکتہ یہ ہوا کہ خودی کے روانی یا Psychic اجزائے ترکیبی ہی اس میں مضمر اختیار و آزادی کی علت ہیں اور آزادی خیرو شر کی علت ہے لہذا خودی کی یہ ترکیب روانی Psychic Constrtion ہی خیرو شر کی علت ہے۔ یہ پھر ایک طرح سے جبر کے مترادف ہو گیا اور فاعل سے اخلاقی ذمہ داری اور خیرو شر کی جواب دہی منسوب کرنا دشوار نظر آنے لگا۔ جزاء و سزا اور رضا و غضب کے تصورات اس سیاق و سباق میں اپنے معنی کھو بیٹھیں گے۔ صوفی کا مشاہدہ لاتعین یہ معنی نہیں رکھتا کہ مقید و محدود فنا ہو کر لاتعین و لامحدود میں جذب ہو گیا۔ "In the higher Sufism of Islam unitive experience is not the finite ego effacing its own identity by some sort of absorption into the Infinite Ego: it is rather the Infinite passing into the loving embrace of the finite." 33 ’’اسلامی تصوف کے اعلیٰ مراتب میں اتحاد و تقرب سے یہ مقصود نہیں تھا کہ متناہی خودی لامتناہی خودی میں جذب ہو کر اپنی ہستی فنا کر دے‘ بلکہ یہ کہ لامتناہی متناہی کے آغوش محبت میں آ جائے۔‘‘۳۴؎ علامہ کا دیا ہوا تصور بھی اسی متصوفانہ تصور سے قریب ہے کیونکہ اس کے تحت وجود خداوندی خودی کے وجود محدود میں گم ہو جاتا ہے اور وہ اس خودی کے پہلو بہ پہلو الگ وجود رکھنے کے بجائے ایک امکان نادمیدہ یا ظہور کے ایک بروز نایافتہ امکان کے طور پر باقی رہتا ہے اور اس طرح علم ربانی خودی کے علم میں غائب ہو جاتا ہے۔ علم حق در علم ’’خودی‘‘ گم شود انسانی خودی کی حیات بعد الموت انسانی خودی کی حیات بعد الموت کے سلسلے میں علامہ نے ابن رشد‘ کانٹ اور نطشے کے دلائل کا حوالہ دیا ہے۔ ابن رشد کے دلائل انہیں اس لیے قابل قبول نظر نہیں آئے کہ وہ اولا تو قرآن کی اصطلاحات ’’نفس‘‘ اور ’’روح‘‘ کی غلط تفہیم پر استوار ہیں اور دوم اس لیے کہ مابعد الطبیعیاتی دلائل ایقان پیدا نہیں کر سکتے اور اس نوع کے دلائل کے ذریعے خودی کی بقایا حیات بعد الموت پر ایمان لانا مشکل ہے۔۳۵؎ کانٹ کی دلیل سے عدم اطمینان اس لیے ہے کہ ہمیں پتہ نہیں چلتا کہ فضائل اخلاق اور مسرت کے اتمام و کمال کے لیے لامحدود وقت کیوں درکار ہے۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ ان باہم متبائن تصورات کو ایک وحدت میں کیسے ڈھال دے گا؟ "It is not clear, however, why the consummation of virtue and happiness should take infinite time, and how God can effectuate the confluence between mutually exclusive notions." 36 ’’لیکن یہاں جو بات غیر واضح رہ جاتی ہے وہ یہ کہ فضائل اخلاق اور مسرت و سعادت کی تکمیل کے اس عمل کو اتنے لامتناہی زمانے کی ضرورت کیوں ہے؟‘‘۔۳۷؎ یہاں دشواری یہ ہے کہ علامہ نے نفس انسانی یا خودی کی ماہیت کا جو تصور قائم کیا ہے اس کے مطابق یہ سراسر ربانی ہے کیونکہ یہ ذات الہٰی سے صادر ہوئی ہے۔ اس تصور کی روشنی میں فطرت انسانیہ کی شویت متصور کرنا مشکل ہے اور اس شویت سے جو کشمکش جنم لیتی ہے اس کو قبول کرنا بھی مشکل ہے کہ یہ اپنی اساس میں مبنی برخیر ہوتے ہوئے بھی گمراہ ہونے کا رحجان واقعی اپنے اندر رکھتی ہے۔ اسی طرح خودی کے تصور میں ایک جبر ذاتی بھی مضمر ہے جو باطنی جبر کے مترادف ہے اور اختیار کے فقدان سے عبارت ہے لہذا اس کی موجودگی میں کانٹ کی دلیل قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ اگر فاعل اخلاق صاحب اختیار بھی ہے اور یہ آزادی و اختیار جو اس کے محاسن میں سے ہے وہی اس کا عیب بھی ہے جب وہ اس سے دوسرے ابنائے جنس کی مساعی اخلاق میں فساد کا موجب بنتا ہے۔ اس طرح فضائل اخلاق اور مسرت کا اتصال لامحدود وقت میں بھی ناقابل تصور معلوم ہو گا تا وقتیکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اس معاملے میں نصرت کرنے کے لیے موجود نہ ہو۔ فضائل اخلاق اور مسرت خلقی طور پر متبائن نہیں ہیں بلکہ مآل کار یہ اپنی اساس میں یکجا ہو جاتے ہیں۔ بالفعل یہ متبائن ہیں کیونکہ ممکن ہے کہ مسرت خارج یا باطن میں قواعد اخلاق کی خلاف ورزی سے حاصل کی جا رہی ہو اور بنابریں کبھی بھی کاملاً خالص اور بے لوث نہ ہو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی مدد اور رحمت کے بغیر ہماری نیت اور ارادوں کی تطہیر و تزکیہ ممکن نہیں اور اس کے بغیر بے غل و غش مسرت کا حصول متصور نہیں جو ہماری بہترین مساعی اخلاق پر مترتب ہو گا۔ نطشے کا نظریہ تکرار ابدی اس لیے تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ اولاً It is only a more rigid kind of mechanism ۳۸؎ ایک کڑی میکانیت ۳۹؎ ثانیاً یہ صرف ایک فوق البشر کے دوبارہ پیدا ہونے کا امیدوار ہے اور اس سے ہماری کوئی آرزو یا تمنا بیدار نہیں ہوتی۔ ثالثاً اس لیے کہ۔ "Nietzsche's view which is nothing more than" a Fatalism worse than the one summed up in the word Qismat. Such a doctrine. far from keying up the human organism for the fight of life tends to destory its action-tendencies and relaxes the tension of the ego."40 ’’یہ نظریہ اس تقدیر پرستی سے بھی بدتر ہے جس کو لفظ قسمت سے ادا کیا جاتا ہے۔ پھر اس کی بجائے کہ یوں ہمارے رگ و ریشہ میں مصاف حیات کے لیے طاقت اور ہمت پیدا ہو‘ یہ وہ عقیدہ ہے جس سے رحجانات عمل فنا ہو جاتے اور خودی اپنا اطناب کھو بیٹھتی ہے‘‘۔۴۱؎ قرآن کی تعلیمات اس ضمن میں پیش کرتے ہوئے علامہ کہتے ہیں کہ: "The Quranic view of the destiny of man is partly ethical, Partly biological:"42 ’’قرآن مجید نے تقدیر انسانی کا جو نظریہ قائم کیا ہے کچھ تو اخلاقی ہے اور کچھ حیاتی‘‘۔۴۳؎ "Life offers a scope for ego-activity, and death is the first test of the synthetic activity of the ego. There are no pleasure -giving and paingiving acts; there are only ego-sustaining and ego dissolving acts, It is the deed that prepares the ego for dissolution, or disciplines him for a future career. The principle of the ego-sustaining deed is respect for the ego in myself as well as in others. Personal immortality, then is not ours as of right" it is to be achieved by personal eflorts".44 ’’گویا زندگی وہ فرصت ہے جس میں خودی کو عمل کے لاانتہا مواقع میسر آئے ہیں اور جس میں موت اس کا پہلا امتحان ہے تاکہ وہ دیکھ سکے اسے اپنے اعمال و افعال کی شیرازہ بندی میں کس حد تک کامیابی ہوئی۔ اعمال کا نتیجہ نہ تو لطف ہے نہ درد۔ اعمال یا تو خودی کو سہارا دیتے یا اس کی ہلاکت اور تباہی کا سامنا پیدا کرتے ہیں۔ لہذا یہ امر کہ خودی فنا ہو جائے گی یا اس کا کوئی مسقبل ہے عمل پر موقوف ہے اور اس لیے خودی کو برقرار رکھیں گے تو وہی اعمال جن کی بنا اس اصول پر ہے کہ ہم بلا امتیاز من و تو خودی کا احترام کریں۔ لہذا بقائے دوام انسان کا حق نہیں۔ اس کے حصول کا دارومدار ہماری مسلسل جدوجہد پر ہے۔‘‘ ۴۵؎ یہ تصور حیات بعدالموت کی حیاتیاتی پس منظر یا حیاتیاتی حوالے سے توجیہ پیش کرتا ہے کیونکہ اس کی اخلاقی جہت اس کی حیاتیاتی جہت کی تابع ہے۔ حیاتیاتی کا عنوان قائم کرنے کا مطلب ہی یہ ہو گا کہ برزخ‘ حشر‘ اجساد‘ جنت و جہنم کی حیاتیاتی تعبیر ممکن ہے اور یہ واقعاتی ہیں نہ کہ مشروط بہ فضائل اخلاق و اقدار۔ "The state of Parzakh, therefore, does not seem to be merely a passive state of expectation; it is a state in which the ego catches a glimpse of fresh aspects of Reality. and prepares himself for adjustment to these aspects. It must be a state of great psychic unhingement, espectially in the case of full-grown egos who have naturally developed fixed modes of operation on a spectifie spatio-temporal order, and may mean dissolution to less fortunate ones. However, the ego must continue to struggle until he is able to gather himself up, and win his resurrection. The resurrection, therefore, is not an external event. It is the consummation of a life-process within the ego." 46 ’’برزخ بھی انتظار اور توقف کی کوئی انفعالی حالت نہیں۔ بلکہ خودی کا وہ عالم جس میں اسے حقیقت مطلقہ کے بعض نئے پہلوئوں کی جھلک نظر آتی ہے اور جن سے تطابق و توافق کے لیے اسے اپنے آپ کو تیار کرنا پڑتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر یہ وہ کیفیت ہے جس میں نفس انسانی کے اندر زبردست اختلال رونما ہوتا ہے‘ بالخصوص ان انسانوں میں جنہوں نے اپنے ذاتی نشوونما کے انتہائی مدارج طے کر لیے ہیں اور جن کی خودی زمان و مکان کے ایک مخصوص نظام میں کسی مقررہ طرز عمل کی عادی ہو چکی ہے۔ اندریں صورت یہ بھی ممکن ہے کہ بعض بد قسمت انسان اپنی ہستی کھو بیٹھیں ۔ خودی کو بہرحال اپنی جدوجہد جاری رکھنا ہے تا کہ اس میں حیات بعد الموت کے حصول کی صلاحیت پیدا ہو جائے دراصل بعث بعدالموت کوئی خارجی حادثہ نہیں۔ یہ خودی ہی کے اندر ایک حیاتی عمل کی تکمیل ہے‘‘۔ ۴۷؎ "Heaven and Hell are states, not localities. Their descriptions in the Quran are visual representations of an inner fact, i.e. character." 48 "Heaven is the joy of triumph over the forces of disintegration." 49 "Hell, therefore, as conceived by the Qur'an, is not a pit of everlasting torture inflicted by a revengeful God; it is a corrective experience which may make a hardened ego once more sensitive to the living breeze of Divine Grace."50 اسلامی تعلیمات میں خودی کے تین درجے یا مراتب ہیں۔ عالم مادی میں دارالعمل کا مرتبہ۔ برزخ‘ جو حشر اور موت کے درمیان کا وقفہ ہے اور اس دارالانتظار کے بارے میں علم تفصیلی میسر نہیں اور پھر دارالجزائ۔ اخلاقی شعور کا تقاضا ہے کہ انسان اس تیسرے مرتبہ وجود میں اپنے تشخص ذاتی کے ادراک کے ساتھ محشور ہو یعنی اسے یہ شعور ہو کہ وہ وہی فرد ہے جو اپنے مادی وجود کے ساتھ عالم دنیا میں تھا تا کہ اس کے اعمال کی جزاء و سزا کا جواز درست ہو سکے۔ منکرین خدا اپنے آپ کو دھوکہ دیتے کہ عالم عقبیٰ میں کچھ نہیں ہو گا۔ حشرو نشور فریب ہے اور جزاء و سزا واہمہ۔ انہیں آخرت میں کسی خیر کی توقع نہیں‘ قرآن ان کے سامنے پیدائش ‘ نمو اور تولید کی مثالیں رکھتا ہے۔ جو تصور ہم نے صفحات ماسبق میں بیان کرنے کی کوشش کی اس میں حیات بعد الموت کے تصور کی مذہبی اور اخلاقی معنویت کو سامعین کی رعایت سے کھلے لفظوں میں بیان نہیں کیا گیا بلکہ اسے قریب الفہم حیاتیاتی نظریات کے ذریعے سمجھانے کی سعی کی گئی ہے۔ اس طرح برزخ کا تصور بھی Struggle for existence and natura selection کے حیاتیاتی تصورات کے توسط سے قابل فہم بنانے کی کوشش کی گئی ہے اور حشر اجساد کو "consumation of the process of life" کے تصور کے وسیلے سے۔ جنت جہنم کو اس بیان میں جو احوال سے تعبیر کیا گیا ہے اور مقامات قرار نہیں دیا گیا تو ہمارا اندازہ ہے کہ یہاں ترجمے کی نارسائی کا دخل ہے۔ states کے لفظ کا ترجمہ ’’احوال‘‘ کے بجائے سیاق و سباق کی رعایت سے مراتب (وجود) ہونا چاہئے بایں معنی کہ جنت جہنم ہمارے زمان و مکاں کے اسیر مرتبہ وجود کی ’’جگہیں‘‘ نہیں ہیں بلکہ مختلف مرتبہ وجود کے حقائق ہیں۔ خطبہ چہارم حواشی ۱) تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘ (انگریزی) اقبال اکادمی پاکستان‘ ادارہ ثقافت اسلامیہ‘ لاہور‘ ص ۷۲‘ قرآن مجید‘ ۱۲۲۔۲۰‘ ۳۰۔۲’ ۱۶۵۔۶۔‘ ۷۲۔۳۳ ۲) تشکیل ……(انگریزی)‘ محولہ بالا ‘ ص ۷۷ ۳) ایضاً ۔ ص ۷۸ ۴) تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘ اردو ترجمہ‘ از سید نذیر نیازی‘ بزم اقبال‘ لاہور ۱۹۸۳‘ ص۱۴۶ ۵) تشکیل ……(انگریزی) محولہ بالا ص ۷۹ ۶) تشکیل جدید …(اردو) محولہ بالا ‘ ص ۱۴۸ ۷) تشکیل … …(انگریزی) ‘ محولہ بالا ۷۹ ۸) ایضاً ۔ ص ۸۰ ۹) ایضاً ۱۰) تشکیل جدید …(اردو‘ محولہ بالا‘ ص ۱۵۰ ۱۱) تشکیل ……(انگریزی) محولہ بالا‘ ص ۸۱ ۱۲) ایضاً ۔ ص ۸۱ ۱۳) تشکیل جدید …(انگریزی) محولہ بالا‘ ص ۱۵۳ ۱۴) ایصاً ۔ ص ۱۵۳ ۱۵) تشکیل … (انگریزی) ‘ محولہ بالا ص‘ ۲۔۸۱ ۱۶) ایضاً ۔ ص‘ ۸۲ ۱۷) تشکیل جدید …(اردو)‘ محولہ بالا‘ ص ۱۵۴ ۱۸) تشکیل …… (انگریزی) محولہ بالا‘ ص ۸۲ ۱۹) تشکیل جدید …(اردو)‘ محولہ بالا‘ ص ۱۵۴ ۲۰) تشکیل ……(انگریزی)‘ محولہ بالا‘ ص ۳۔۸۲ ۲۱) تشکیل جدید …(اردو)‘ محولہ بالا‘ ص ۶۔۱۵۵ ۲۲) قرآن مجید: ۱۴۔۱۲/۲۳ ۲۳) تشکیل ……(انگریزی) ‘ محولہ بالا‘ ص ۵۔۸۴ ۲۴) تشکیل جدید …(اردو)‘ محولہ بالا‘ ص ۱۶۰ ۲۵) تشکیل ……(انگریزی) ‘ محولہ بالا‘ ص ۸۵‘ نیز قرآن مجید‘ ۳۔۵۷ ۲۶) تشکیل جدید …(اردو)‘ محولہ بالا‘ ص ۱۶۱ ۲۷) یہ روانی Psychic وہ چیز ہے جسے دوسری اصطلاح میں ’’ظہور لطیف‘‘ کہا جاتا ہے اور جو عالم مادی اور اقلیم روحانی کے درمیان واقع ہے اور ہر دو اقالیم کی شرائط وجود سے بہرہ ور ہوتی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے Huston. Smith, Forgothen Truth. Suhail Academy. Lahore, P.38 & 74 نیز ’’کونیات اور جدید نفسیات‘‘ مشمولہ روایت شمارہ اول ۱۹۸۶ء طبع مکرر لاہور‘ ص ۳۹۱ ۲۸) تشکیل ……(انگریزی) محولہ بالا‘ ص ۸۵ ۲۹) ایضاً ۔ ۸۶ ۳۰) ایضاًَ ۔ ۳۱) ایضاً ۔ ص ۸۷۔۸۶ ۳۲) تشکیل جدید …(اردو)‘ محولہ بالا‘ ص ۱۶۴ ۳۳) تشکیل ……(انگریزی) ‘ محولہ بالا‘ ص ۸۸: نیز ر۔ ک Secrets of the Self ترجمہ اسرار خودی از نکلسن ‘ شیخ اشرف‘ ۱۹۶۴‘ XIX ۳۴) تشکیل جدید …(اردو)‘ محولہ بالا‘ ص ۱۶۶ ۳۵) تشکیل ……(انگریزی) ‘ محولہ بالا‘ ص ۸۹ ۳۶) ایضاً ۔ ص ۹۰ ۳۷) تشکیل جدید …(اردو)‘ محولہ بالا‘ ص ۱۷۱ ۳۸) تشکیل ……(انگریزی)‘ محولہ بالا‘ ص ۹۲ ۳۹) تشکیل جدید …(اردو)‘ محولہ بالا‘ ص ۱۷۵ ۴۰) تشکیل … (انگریزی) محولہ بالا‘ ص ۹۲ ۴۱) تشکیل جدید …(اردو)‘ محولہ بالا‘ ص ۱۷۵ ۴۲) تشکیل …(انگریزی)‘ محولہ بالا‘ ص ۹۲ ۴۳) تشکیل جدید …(اردو)‘ محولہ بالا‘ ص ۱۵۵ ۴۴) تشکیل ……(انگریزی) ‘ محولہ بالا‘ ص ۹۵ ۴۵) تشکیل جدید …(اردو)‘ محولہ بالا ‘ ص ۱۸۰ ۴۶) تشکیل ……(انگریزی) محولہ بالا‘ ص ۹۶ ۴۷) تشکیل جدید …(اردو)‘ محولہ بالا‘ ص ۱۸۱ ۴۸) تشکیل ……(انگریزی)‘ محولہ بالا‘ ص ۹۸ ۴۹) ایضاً۔ ۵۰) ایضاً۔ پانچواں خطبہ اسلامی ثقافت کی روح محمدؐ مصطفی درقاب قوسین اوادنیٰ رفت و باز گردید۔ واللہ ماباز نگردیم ۲؎ Muhammad of Arabia ascended the hightest Heaven and returned. I swear by God if I had reached that point, I should never have returned 1 شیخ عبدالقدوس گنگوھی سے منسوب ان الفاظ میں شعور نبوت اور شعور ولایت کے مابین موجود نفسیاتی فرق کا شدید احساس جلوہ گر ہے۔ یہاں اسے جس نکتے کی وضاحت کے لیے پیش کیا گیا ہے وہ غور طلب ہے۔ عبارت کا مضمر مدلول یہ ہے کہ ان دوقسموں کے شعور میں اساسی فرق تو کوئی نہیں ہے بلکہ یہ نوعیت میں ایک البتہ شدت Intensity میں متفاوت ہیں۔ نبی اور ولی دونوں ہی علم کے متلاشی ہیں۔ ولی کے لیے اس کا تجربہ، مشاہدہ (واردات اتحاد) ۳؎ حتمی چیز ہے اور مقصود بالذات ہے جبکہ نبی اپنے مشاہدے کی قدر و قیمت کا امتحان کرتا ہے اور اس کو دنیا کے ٹھوس حقائق پر آزما کر دیکھتا ہے۔ ایک اعتبار سے نبوت کی تعریف یوںبھی کی جا سکتی ہے کہ یہ شعور ولایت کی وہ شکل ہے جس میں واردات اتحاد اپنے حدود سے تجاوز کر جاتیں اور ان قوتوں کی پھر سے رہنمائی ، یا از سر نو تشکیل کے وسائل ڈھونڈتی ہیں جو حیات اجتماعیہ کی صورت گر ہیں۔ گویا انبیاء کی ذات میں زندگی کا متناہی مرکز اپنے لا متناہی اعماق میں ڈوب جاتا ہے تو اس لیے کہ پھر ایک تازہ A prophet may be defined as a type of mystic consciousness in which unitary experience tends to overflow its boundaries, and seeks opportunities of redirecting or refashioning the forces of collective life. In his personality the finite centre of life sinks into his own infinite depths only to spring up again, with fresh vigour, to destroy the old, and to disclose the new directions of life.4 ُقوت اور زور سے ابھر سکے۔ ۵ یہاں مسئلہ یہ درپیش ہوتا ہے کہ اس استدلال کے منطقی نتیجے میں ولایت اور نبوت کا فرق اپنی اساس میں باقی نہیں رہتا۔ دین کا نقطۂ کمال نبوت ہے اور تصوف کا نقطہ عروج ولایت ہے۔ نبوت وہ وہبی شرف و کمال ہے جو اللہ کی عطا سے انسان کو حاصل ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں انسانوں کو ہدایت کے لیے پیام ربانی ملتا ہے۔ دوسری طرف ولایت وہ درجہ روحانی ہے جس میں متصوف تقرب الی اللہ کا تحقق حاصل کرتا ہے۔ یہ اکتسابی ہے اور مجاہد اور تقویٰ سے اللہ کی عنایت کے سہارے حاصل ہوتا ہے۔ ان میں اساسی فرق ہے۔ ولایت کے حقائق و معارف کو درجۂ یقین لازما ًحاصل نہیں ہوتا۔ ان میں غلطی کا امکان ہے جبکہ وحی کے لائے ہوئے حقائق نبوت ہر شک سے بالاتر ہیں۔ یہ حق الیقین کے مرتبے کی چیز ہیں۔ مزید برآں ولی کے مشاہدات موضوعی احوال سے عبارت ہیں جبکہ نبی کو دیا جانے والا علم معروضی اور کائناتی نوعیت کا ہوتا ہے۔ نیز نبی کو بھیجی جانے والی ہدایت کا مبنی بروحی پیغام ہر کس و ناکس کے لیے واجب الاذعان ہوتا ہے ولی کا الہام اور اس کے مضمرات کسی دوسرے کے لیے حجت نہیں ہوتے بلکہ خود صاحب الہام کے لیے بھی حجت نہیں ہوتے جب تک ان کی تصدیق وحی سے آنے والے پیام خداوندی سے نہ ہو جائے۔ مسئلہ یوں اٹھتا ہے کہ نبوت کو اختباریت کی کسوٹی پر پرکھنا ایک مناسب بات ہو گی یا نہیں؟ فلسفیانہ اعتبار سے ہی نہیں بلکہ لہٰذا انبیاء کے مذہبی مشاہدات اور واردات کی قدر و قیمت کا فیصلہ ہم یہ دیکھ کر بھی کر سکتے ہیں کہ ان کے زیر اثر کس قسم کے انسان پیدا ہوئے، علیٰ ہٰذا یہ کہ تہذیب و تمدن کی وہ کیا دنیا تھی جس کا ظہور ان کی دعوت سے ہوا۔ ۷؎ Another way of judging the value of a prophet's religious experience, therefore, would be to examine the type of manhood that he has created, and the cultural world that has sprung out of the spirit of his message.6 اسلامی ثقافت کی اس روح کی ماہیت بیان کرنے کے لیے جو پیغمبر اسلام کی دعوت سے وجود میں آئی علامہ نے اسلام کے بعض مرکزی تصورات پر غور کرنے پر توجہ دلائی ہے۔ تصوّر ختمِ نبوت جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا: ایک اعتبار سے نبوت کی تعریف یوںبھی کی جا سکتی ہے کہ یہ شعور ولایت کی وہ شکل ہے جس میں واردات اتحاد اپنے حدود سے تجاوز کر جاتیں اور ان قوتوں کی پھر سے رہنمائی ، یا از سر نو تشکیل کے وسائل ڈھونڈتی ہیں جو حیات اجتماعیہ کی صورت گر ہیں۔ گویا انبیاء کی ذات میں زندگی کا متناہی مرکز اپنے لا متناہی اعماق میں ڈوب جاتا ہے تو اس لیے کہ پھر ایک تازہ قوت اور زور سے ابھر سکے۔ ۹ A prophet may be defined as a type of mystic consciousness in which unitary experience' tends to overf- low its boundaries, and seeks opportunities of redirecting or refashioning the forces of colle- ctive life. In his personality the finite centre of life sinks into his own infinite depths only to spring up again, with fresh vigour to destroy the old, and to disclose the new directions of life.8 اس عبارت میں نبی اور نبوت کے تصورکی تفہیم کے لیے اس کو نابغہ کی تشبیہ سے سمجھانے کی سعی کی گئی ہے۔ اس لیے یہ مشکل پیدا ہوتی ہے کہ بظاہر یہ تصور خدا سے منقطع لگتا ہے اور سماجی مصلح یا تخلیقی فنکار سے زیادہ مشابہ معلوم ہوتا ہے اور اسے خدا کے حوالے کے بغیر بھی کائنات کے لیے استعمال کرنا ممکن ہے۔ یہ دشواری اس لیے پیدا ہوئی کہ علامہ جن لوگوں سے خطاب کر رہے تھے ان کی ذہنی افتاد اور علمی پس منظر میں قریب ترین تشبیہ یہی نفسیاتی توجیہ ہو سکتی تھی جس سے انہیں نبوت کے بارے میں کچھ ذہنی اور عقلی تصور قائم کرنے میں مدد دی جا سکتی۔ ٹھیٹھ قرآنی اصطلاح میں دیکھیے تو یہ انداز مسائل پیدا کر سکتا ہے کیونکہ قرآن کے مطابق نبی وہ بشر ہے جس پر خاص عنایت ربانی ہو اور اللہ کا پیغام فرشتے کے وسیلے (یا دیگر ذرائع) سے نوع انسان کی ہدایت کے لیے دیا جائے جس میں کائنات خدا اور انسان کے بارے میں بتایا جائے۔ مزید برآں قرآن مجید نے لفظ وحی کا استعمال جن معنوں میں کیا ہے ان سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ وحی خاصہ حیات ہے اور ایسا ہی عام جیسے زندگی۔ دوسری بات ہے کہ جوں جوں اس کا گزر مختلف مراحل سے ہوتا یا یوں کہیے کہ جیسے جیسے وہ ارتقا اور نشوونما حاصل کرتی the way in which the word wahy (inspiration) is used in the Qur'an shows that the Qur'an regards it as a universal property of life; though its nature and character are different at different stages of the evolution of life. The plant grow- ہے ویسے ہی اس کی ماہیت اور نوعیت بھی بدلتی رہتی ہے۔یہ کسی پودے کا زمین کی پہنائیوں میں آزدانہ سرنکالنا، یا کسی حیوان میں ایک نئے ماحول کے مطابق کسی نئے عضو کا نشوونما، یا انسان کا خود اپنی ذات اور وجود میں زندگی کی گہرائیوں سے نور اور روشنی حاصل کرنا، یہ سب وحی کی مختلف شکلیں ہیں جو ا س لیے بدلتی چلی گئیں کہ اس کا تعلق جس فرد سے تھا، یا جس نوع میں اس کا شمار ہوتا تھا اس کی مخصوص ضروریات کچھ اور تھیں۔۱۱؎ ing freely in space, the animal developing a new organ to suit a new environment, and a human being receiving light from the inner depths of life, are all cases of insp- iration varying in character accord- ing to the needs of the recipient, or the needs of the species to which the recipient belongs.10 اس عبارت سے پہلا اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا مفہوم یہ لیا جا سکتا ہے کہ وحی فوق الطبیعی اور عالم غیب کی چیز نہیں ہے بلکہ ایک کاملا ً طبعی مظہر ہے۔ قرآن میں وحی کے بارے میں جو آیات ہیں انہیں ذیل میں درج کیا جا رہا ہے تاکہ ایک عمومی تصور قائم کیا جا سکے۔ بان ربک اوحی لھا۔ ۱۲؎ واوحی فی کل سماء امرھا۔۱۳؎ واوحی ربک الی النحل …۱۴؎ اذ یوحی ربک الی۱۵؎ واوحینا الی ام موسی ان ارضعیہ …۱۶؎ واذ اوحیت الی الحوارین…۱۷؎ وماکان لبشران یکلمہ اللہ اِلا وحیا اومن وراء حجاب او یرسل رسولا فیوحی باذنہ مایشائ۔۱۸؎ ان نصوص سے یہ عمومی تصور قائم ہوتا ہے کہ وحی ایک معروضی حقیقت ہے جو انسان اور ایک فوق الطبیعی ماوراء ، الٰہ شخصی کے درمیان رابطے سے عبارت ہے۔ وحی کا لفظ دو طرح کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ (۱) ایک وصف حیات جو ذی حیات موجودات میں خلقی طور پر موجود ہے جسے شہد کی مکھی پر وحی کی آیت میں مذکور کیا گیا۔ (۲) ایک اصطلاح شرعی جو شعور مذہبی کا لازمہ ہے اور معروضی حقیقت کے طور پر مذہب کے امر واقعہ ہونے کا لازمی تقاضا ہے۔ سابقہ صفحات میں بیان کردہ تصور وحی کا اس تصور سے منطبق ہونا مشکل نظر آتا ہے۔ بلکہ شاید یہ کہنا زیادہ قرین قیاس ہے کہ وحی کے لفظ کے اول الذکر معنی کا اطلاق انسانوں کی جانب کی جانے والی وحی پر بھی کیا گیا ہے۔ مزید برآں وحی کے اس حیاتیاتی؍ ُروانی ارتقائی درجات کے نقطۂ عروج کے بارے میں یہ بیان ملتا ہے کہ: اسلام کا ظہور جیسا کہ آگے چل کر خاطر خواہ طریق پر ثابت کردیا جائے گا ، استقرائی عقل کا ظہور ہے۔ اسلام میں نبوت چونکہ اپنے معراج کمال کو پہنچ گئی لہٰذا اس کا خاتمہ ضروری ہو گیا۔۲۰؎ The birth of Islam, as I hope be able presently to prove to your satisfaction, is the birth of inductive intellect. In Islam prophecy reaches its perfection in discovering the need of its own abolition.19 اس کے شعور ذات کی تکمیل ہو گی تو یونہی کہ وہ خود اپنے وسائل سے کام لینا سیکھے۔ ۲۲؎ .............. that, in order to achieve full self consciousness, man must finally be thrown back on his own resources.21 اسلام نے اگر دینی پیشوائی کو تسلیم نہیں کیا، یا موروثی بادشاہت کو جائز نہیں رکھا، یا بار بار عقل اور تجربے پر زور دیا، یا عالم فطرت اور عالم تاریخ کو علم انسانی کا سرچشمہ ٹھہرایا تو اس لیے کہ ان سب کے اندر یہی نکتہ مضمر ہے کیونکہ یہ سب تصور خاتمیت ہی کے مختلف پہلو ہیں۔ ۲۴؎ The abolition of priesthood and hereditary kingship in Islam, the constant appeal to reason and experience in the Qur'an and the emphasis that it lays on Nature and History as sources of human knowledge, are all different aspects of the same idea of finality.23 ختم نبوت کے تصور کو دو پہلوئوں سے بیان کیا جا سکتا تھا۔ ایک اس کے عملی اور اطلاقی پہلو سے جو انسانی معاشرے میں نبوت کی ضرورت اور اس کے کار منصبی کے حوالے سے وضاحت کرے اور دوسرے اس کی بنیاد واساس یعنی وحی کی ماہیت کے حوالے سے جو اس خاتمیت کو حیاتیاتی؍ روانی عناصر کے نقطۂ تکمیل کے لازمے کے طور پر بیان کرے۔ علامہ نے اپنے سامعین کی رعایت سے دوسرا طریقۂ تفہیم اپنایا ہے۔ قرآن جب منصب نبوت کا تذکرہ کرتا ہے تو اسے تعلیم تزکیہ اور حکمت آموزی کے الفاظ سے واضح کرتا ہے۔ یتلواعلیھم آیاتک و یعلمھم الکتب والحکمۃ ویزکیھم۲۵؎ ان پر پڑھے تیری آیتیں اور سکھائے ان کو کتاب اور تہ کی باتیں اور پاک کرے ان کو۲۶؎ اس طرح خاتمیت کا مطلب یہ ہوا کہ وحی محمدی آخری وحی ہے اور آپ ﷺ آخری نبی ہیں۔ یہ دونوں نکات تاریخی واقعات ہیں اور آج تک نتیجہ خیز بھی ہیں اور تزکیہ نفوس کی ضمانت بھی۔ تازہ وحی کی ضرورت تب ہو اگر انسانی زندگی کے بنیادی مسائل پر خالص اور واضح ہدایات مفقود ہو جائیں یا نبی کی ذات لوگوں کے لیے ایمان آفرین نہ رہے۔ اگر اس خاتمیت کو عقل کے ارتقائی عمل کے ایک مفروضہ درجۂ کمال سے مشروط کر دیا جائے تو ایک علمی اشکال پیدا ہو جائے گا کہ اگر تاریخ انسانی میں پہلے کسی مرحلے پر کسی نقطۂ تاریخ پر عقل استقرائی کا کوئی مظہر مل جائے تو یہ مقدمہ منہدم ہو جائے گا اور اگر یہ بات مسلم رہے کہ اسلام سے قبل عقل استقرائی کا کوئی مظہر موجود نہیں تھا تو یہ ماقبل اسلام کے انسان، (جن میں انبیاء و اولیاء و حکمائ) بھی شامل ہیں سے ایک عیب منسوب کرنا ہو گا۔ دونوں شقیں قبول کرنا مشکل ہے اور اس میں انطباق صرف ایک ارتقائی نظریۂ تقدم کے سہارے ہو سکتا ہے اور علامہ نے اسی راہ کو اپنایا ہے۔ تاہم یہ راہ بھی خطرات سے خالی نہیں۔ اگر نظریہ فرضیۂ ارتقاء ہی کسی وجہ سے مشکوک یا باطل ہو جائے تو سارا مقدمہ پھر معرض تشکیک میں پڑ جائے گا۔ اوپر ہم نے دیکھا کہ تصور خاتمیت اس بات کو مستلزم ہے کہ اب کوئی بھی شخص اپنے الہام کو دوسروں پر حجت اور واجب التعمیل قرار نہیں دے سکتا بلکہ اپنے لیے بھی اس وقت تک قابل عمل نہیں بتا سکتا جب تک اس کی سند شریعت محمدی سے نہ مل جائے۔ مذہبی واردات کی کوئی شکل بھی کسی صوفی کو شریعت محمدی کی پابندی سے آزاد نہیں کر سکتی۔ اگر ہم یہ کہیں کہ: یہاں یہ غلط فہمی نہ ہو کہ حیات انسانی اب واردات باطن سے، جو باعتبار نوعیت انبیاء کے احوال و واردات سے مختلف نہیں، ہمیشہ کے لیے محروم ہو چکی ہے۔۲۸؎ The idea, however, does not mean that mystic experience, which qualitatively does not differ from the experience of the prophet, has now ceased to exist as a vital fact.27 نیز یہ کہ: مسلمانوں کو چاہیے کہ صوفیانہ واردات کو خواہ ان کی حیثیت کیسی بھی غیر معمولی اور غیر طبعی کیوں نہ ہو ایسا ہی فطری اور طبعی سمجھیں جیسے اپنی دوسری واردات اور اس لیے ان کا مطالعہ بھی تنقید و تحقیق کی نگاہوں سے کریں۔ آنحضرت صلعم کا طرز عمل بھی یہی تھا۔ چنانچہ ابن صیاد کے احوال نفسی کو دیکھتے ہوئے آپ نے جو روش اختیار کی وہ اس کا بین ثبوت ہے۔ ۳۰؎ Mystic experience, then, however unusual and abnormal, must now be regarded by a Muslim as a perfectly natural experience, open to critical scrutiny like other aspects of human experience. This is clear from the Prophet's own attitude towards Ibn Sayyad's psychic experiences.29 تو پھر اس دشواری سے کیسے بچنا ممکن ہو گا کہ اگر دونوں وارداتیں نوعیت اور کیفیت میں یکساں وہم جنس ہیں تو تنقیدی نظر سے جائزے کا اطلاق واردات نبوی پر بھی ہو جائے گا؟ ۳۱؎ حل تو بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ انبیاء کی وحی اور صوفیاء کی واردات باطن میں نوعی فرق مانا جائے تا کہ ان کے مراتب الگ کر کے ان کی شرائط اور تقاضے بھی الگ کئے جا سکیں۔ نیز یہ بات پیش نظر رکھی جائے کہ خرق عادت یا غیر معمولی اور مافوق الطبیعی تجربات یا مظاہر ایک ممکن چیز ہیں مگر ان کے امکان یا ان کے وقوع سے صرف اسی درجۂ وجود کے مظاہر کا ثبوت فراہم ہو سکتا ہے یعنی Psychic اور Occult کے وجود کا۔ اس سے اقلیم روحانی سے تعلق کی ضمانت میسر نہیں آتی نہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس نوع کے تجربات کا حامل انبیاء کی طرح وحی خداوندی سے سرفراز ہو رہا ہے اور خدا سے ہم کلام ہے۔ ابن خلدون نے مشاہدات صوفیاء کو ذرائع علم میں سے بیان کیا ہے۔ اسے درست تسلیم کرتے ہوئے ایک شرط عائد کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ شرط یہ کہ یہ مشاہدات ذرائع علم ہیں مگر وحی محمدی کے دائرے کے اندر اور اس کے تابع رہتے ہوئے۔ اگر یہ شرط عائد نہ ہو اور نوعیت کا فرق نہ مانا جائے تو عام آدمی کے لیے وحی پر عقیدہ رکھنے کی ضرورت ساقط ہو جائے گی اور شریعت محمدیہ بھی انسانی تجربات کے ذیل میں ایک تجربہ بن جائے گی جس کے ردو قبول کا حق عقل استقرائی کو حاصل ہو گا اور ماوراء الطبیعی جہت سے کٹ کر نبوت محمدیہ اور ختم نبوت ہر دو صرف عقلی قدروقیمت کی کمزور بنیاد پر تسلیم کے لیے پیش ہوں گے۔ ختم نبوت کے لازم ہونے کے لیے دیگر شواہد بھی علامہ نے پیش کئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اگر دینی پیشوائیت کو تسلیم نہیں کیا، یا موروثی بادشاہت کو جائز نہیں رکھا، یا بار بار عقل اور تجربے پر زور دیا، یا عالم فطرت اور عالم تاریخ کو علم انسانی کا سرچشمہ ٹھہرایا تو اس لیے کہ ان سب کے اندر یہی نکتہ مضمر ہے کیونکہ یہ سب تصور خاتمیت ہی کے مختلف پہلو ہیں۔۳۳؎ The abolition of priesthood and hereditary kingship in Islam, the constant appeal to reason and experience in the Qur'an and the emphasis that it lays on Nature and History as sources of human knowledge, are all different aspects of the same idea of finality.32 اختتام پیشوائیت کو دلیل ختم نبوت کے طور پر استعمال کرنا ذرا دشوار معلوم ہوتا ہے۔ اول اس لیے کہ نبوت خدا اور بندے کا تعلق ہے اور اس میں واسطے ہونا غیر فطری ہے۔ اسلام نے ماہیت اشیاء میں موجود ایک فطری عنصر کو بحال کیا ہے۔ دوم یہ کہ یہ براہ راست تعلق تاریخ میں پہلے بھی موجود ہے اور زیادہ پرانے زمانے میں زیادہ عام اور وافر معلوم ہوتا ہے۔ تاریخ آدم کے اولین سنہری ادوار میں ہر انسان کو یہ براہ راست رابطہ حاصل تھا۔ بعض تمدن اور ادیان اپنے زوال کے دور میں کل جگ کے زمانے میں اس اہم عنصر سے محروم ہو گئے۔ اسلام نے اسے بحال کیا جیسے اس نے دین ابراہیمی اور دین آدم کے دیگر اساسی اور روپوش عناصر کو دوبارہ نتھار کر پیش کیا۔ بنابریں اگر پیشوائیت کا ادارہ کسی پرانے عہد میں مفقود پایا جائے تو یہ نکتہ ختم نبوت کی دلیل بننے کی صلاحیت کھو بیٹھے گا۔ موروثی شہنشاہیت کو رد کرنے کا نکتہ بھی ختم نبوت کی دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ تاریخ میں اسے بھی اس سے پہلے بکثرت دیکھا گیا ہے۔ زمین پر اللہ کی حاکمیت کی نمائندگی اور اس کی نیابت کا حق وراثت نہیں بلکہ اللہ کے مقرر کردہ معیار پر پورا اترنے کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ اصول تاریخ میں پہلے بھی مثالیہ رہا ہے اور عمل میں بھی واقع ہوا ہے۔ اس کی تفصیل میں جانا یہاں ممکن نہیں صرف یہ ملحوظ رہے کہ حکومت کو وراثت سے مشروط کسی بھی دین اور تمدن نے تسلیم نہیں کیا۔ البتہ موروثی شہنشاہیت کو یکے از امکانات کے طور پر قبول کیا ہے یا پھر مظاہر زوال میں اس نے غلبہ کر لیا ہے۔ خود اسلام کی تاریخ میں جو ایک طویل سلسلہ ملوکیت ۳۴؎ نظر آتا ہے وہ اسی امکان کا وقوع در تاریخ ہے۔ اسے رد کرنے سے ہمیں اپنی تاریخ کو رد کرنا ہو گا اور اس سے ان گنت مسائل پیدا ہو جائیں گے۔ موروثی شہنشاہیت کو اگر ختم نبوت کا نقیض مان لیا جائے تو اسلام کے دور ملوکیت کو ختم نبوت کے خلاف بغاوت قرار دینا پڑے گا جبکہ ان دونوں کا کوئی لازمی تعلق نہیں ہے۔ اسی طرح تجربے، مشاہدے اور عقل جزئی یا خرد انسانی کا قرآن میں بار بار تذکرہ دو مفاہیم میں پیش ہو سکتا ہے۔ یا تو اس مفہوم میں کہ انسان اپنے تجربے اور عقل استدلالی کی ترقی کے نتیجے میں اپنی کوششوں کے سہارے اس قابل ہو گیا ہے کہ وحی کی مدد کے بغیر حقیقت مطلقہ کی ماہیت کو جان سکتا ہے۔ یا پھر اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ تجربہ اور عقل استدلالی دونوں جائز راستے ہیں جن سے انسان معرفت کی جانب کسی نہ کسی حد تک سفر کرتا ہے اور اپنی افتاد طبع کے مطابق ان کے وسیلے سے بھی توحید خداوندی کے مرکز ے تک رسائی ہو سکتی ہے نیز اسلام کے علمی ماحول میں یہ بھی شریعت کے اندر رہتے ہوئے اور توحید باری کو ملحوظ رکھتے ہوئے حصول علم کے مشروع مگر محدود ذرائع ہیں۔۳۵؎ ہماری رائے میں علامہ کی مراد موخر الذکر مفہوم سے ہے اور مقصود بیان یہ ہے کہ مسلمان اس نظر سے ان ذرائع کو دیکھیں اور ان سے غفلت نہ کریں بنابریں اس نکتے کو ختم نبوت کی دلیل بنانا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ عالم طبیعی یا مظاہر طبیعی اور تاریخ پر توجہ دلانے سے قرآن کا مقصود انسان کے شعور مذہبی کو بیدار اور چوکس کرنا ہے اور مسلمانوں کو اس بات کا احساس دلانا ہے کہ قرآن سائنسی اور روحانی دونوں علوم کا مأخذ ہے۔ اسی طرح عالم طبیعی (جسے قرآن تکوینی بھی کہا گیا ہے) بھی ہر دو علوم کا مأخذ ہے۔ پرانے ادیان میں بھی ان کو یہ حیثیت دی گئی ہے اور ان کو حقیقت کے مظاہر جان کر ان کے مطالعے کی ترغیب اور ان سے خالق کائنات پر استدلال کے وافر شواہد ملتے ہیں۔ علامہ ان سب نکات کو ختم نبوت کے دلائل کے طور پر اس لیے پیش کر رہے ہیں کہ سامعین اس اسلوب استدلال اور ان علوم کی اصطلاحات کے خوگر ہیں اور ان کو حقائق دین کی یہ تعبیر زیادہ قریب الفہم محسوس ہو گی۔ یہ اساسی فرق اگر ذہن میں رہے تو ان دلائل میں عام صاحب ایمان مسلمانوں کو جو ایک اجنبیت محسوس ہوتی ہے اس کا ازالہ ہو جاتا ہے اور ان کو ان کے صحیح تناظر میں دیکھنے اور رکھنے کا موقع فراہم ہوتا ہے۔ علامہ نے ان مغربی مفکرین کی تردید کی ہے جن کی تحریروں میں اسلامی ثقافت کی بنیاد کو یونانی فکر سے مستعار بتایا گیا ہے کیونکہ اس طرز فکر سے اسلامی تہذیب کی قدروقیمت اور اہمیت ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ علامہ کے بیان کے مطابق یونانی تہذیب کی روح عقلیت پرستی سے عبارت تھی جبکہ اسلامی تہذیب کی روح اختباری اور سائنسی تھی۔ ان دونوں میں تخالف کی نسبت تھی۔ علامہ نے اختباریت کے اس رویے کے ثبوت کے طور پر یہ بھی بیان کیا ہے کہ نظّام نے ارتیاب کو حصول علم کے اصول کے طور پر پیش کیا، غزالی نے اسے وسعت دی اور دے کارت کی فکر کی راہ ہموار کی۳۶؎ ابوالحسن اشعری نے یونانی منطق پر تنقید کی، ابن تیمیہ نے الرد علی المنطقیین کے ذیل میں استقراء کو واحد قابل اعتماد طرز استدلال قرار دیا، ابن مسکویہ نے دنیا کو پہلی بار نظریۂ ارتقاء سے روشناس کروایا اور ابن خلدون نے کائنات کا حرکی تصور پیش کیا اور تاریخ کو ایک سائینٹفک علم بنا دیا۔ اسی طرح عراقی نے اسلام کی اس روح اختباریت کے زیر اثر مکان Space کے بارے میں تعدد انواع کا نظریہ قائم کیا۔ یہی رحجانات اور یہی اختباریت کی روح مغرب کےScientific Method کے مأخذ ہیں۔ مندرجہ بالا مثالوں اور دیگر تفصیلات کا موازنہ مغرب میں پیدا ہونے والے رویوں اور ان کی سائنسی فتوحات سے کرتے ہوئے علامہ ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ یہ رویہ اسلام کا اختصاصی رویہ ہے اور اسی کی دین ہے کہ مغرب نے اسے آگے بڑھا کر اتنی علمی ترقی کی۔ اس طرح یہ ترقی اسلام کی مرہون منت ہے۔ یونانی طرز تفکر کے خلاف اسلام نے بغاوت کی اور یہی بغاوت مغرب جدید نے ورثے میں پائی۔ اس ضمن میں علامہ سپنگلر کے نظریات کا بھی رد کرتے ہیں جو مغرب کے ضد یونانی رویے کو اس کی اپنی دریافت قرار دیتا ہے اور اسلامی اثرات تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ یہی نہیں علامہ کی تنقید کے مطابق سپنگلر نے اسلام کے بارے میں چلتے ہوئے خیالات اور غیر مستند باتوں پر انحصار کر کے نظریہ سازی کر ڈالی اور اس طرح اپنے افکار کی عمارت ایک کمزور بنیاد پر تعمیر کی۔ اس استدلال کے بنیادی مقدمات میں دو چیزیں ثبوت طلب ہیں اور جیسا کہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں ان مقدمات کو سامعین کی رعایت اور مصلحت تفہیم کی خاطر اختیار کیا گیا ہے۔ قرآن مجید تاریخ اور عالم طبیعی پر بار بار توجہ دلاتا ہے اور یہ روّیہ اختباریت کے قریب بھی کہا جا سکتا ہے تاہم اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ علم کے حصول کے بارے میں قرآن کا رویہ صرف اور صرف اختباری ہی ہے کیونکہ اس کا مقتضی یہ ہو گا کہ داخلی اور خارجی تجربے میں آنے والی اشیاء کا حاصل جمع ہی کل حقیقت ہے یا انہی کا مجموعہ پوری حقیقت سے عبارت ہے۔ یہ تسلیم کرنا اس لیے ممکن نہیں کہ اس کا منطقی استدلال قرآن کے صاف صاف خلاف جاتا ہے۔ قرآن کی اختباریت بس اسی قدر معلوم ہوتی ہے کہ وہ اشیائے محسوس و مدرک کے حقیقی ہونے سے انکار نہیں کرتا۔ اسلام کا رویہ اس معاملے میں توحیدی آدرشی ہے اور کوئی آدرشی رویہ بھی اختباریت کو اپنے درجے میں حقیقت نہ ماننے کا ارتکاب نہیں کر سکتا اور چونکہ خارجی دنیا کی حقیقت کا اثبات اور معنویت اس میں دلچسپی کو جنم دیتا ہے لہٰذا مختلف علوم طبیعی کی ترقی ہوتی ہے۔ علامہ کے سامعین ایک خیال میں رچے بسے لوگ تھے۔ خیال یہ تھا کہ جدید سائنس علم کے ایک خاص طریق کار سے پیدا ہوتی ہے۔ اس طریق کار کو سائنسی طریق کار بہ معنی استقراء ۳۷؎ کہا جاتا ہے۔ یہ خیال کہ عالم طبیعی کی صرف ایک ہی طرح کی سائنس ممکن ہے اور یہ سائنسی علم اس طریقے سے ہی حاصل ہوتا ہے جسے Scientific Method کہتے ہیں ایک ایسا خیال ہے جس نے قدیم علوم اور خصوصاً اسلامی سائنس پر نظر کرنے کے لیے ہمارے زاویۂ نگاہ کو شدت سے متاثر کیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اہل علم کے حلقوں میں یہ رحجان عام ہو گیا کہ پرانے لوگوں میں اور ان کے علوم میں جس حد تک اس طریق کار کا عمل دخل اور اطلاق ملے گا اسی حد تک ان کو Scientific قرار دیا جائے گا اور اسی قدر علمی ؍سائنسی طور پر خلاق سمجھا جائے گا۔ اس پیمانے سے ناپنے کے خوگر لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے علامہ کے لیے ضروری تھا کہ اس کے مطابق بھی یہ دکھا دیتے کہ اس معیار پر بھی اسلامی تہذیب دوسروں سے کمتر نہیں ہے۔۳۸؎ یہ کام انہوں نے ہمارے بیان کردہ نکات میں کیا ہے اور یہ درست ہے کہ اسلام میں یہ طریق حصول علم بہت وضاحت سے نظر آتا ہے تاہم اس سے یہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ اسلامی تہذیب کی علمی منہاج صرف اسی طریق و منہاج علم تک محدود تھی۔ مسلمان سائنسدانوں نے خالص علوم طبیعی میں بھی جو منہاج علمی اختیار کیا وہ اس متذکرہ طریق تک محدود نہ تھا۔ اس ضمن میں اسلامی سائنس کے تحت ہونے والی مفصل اور جدید تحقیقات نے ثابت کیا ہے کہ: there is no single method which is used in that science to the exclusion of other methods. On the contrary, Islamic science has always sought to apply different methods in accordance with the nature of the subject in question and modes of understanding that subject. Muslim scientists, in their cultivation and development of the various sciences, have relied upon every avenue of knoweldge open to man, from ratiocination and interpretation of sacred Scriptures to observation and experimentation.39 کہنے کا مطلب یہ کہ کوئی ایک منہاج علم ایسا نہیں ہے جس کے بارے میں دعویٰ کیا جا سکے کہ یہ مسلمانوں کا امتیازی منہاج ہے۔ مسلمان اہل علم، فلاسفہ اور سائنسدان کئی طریق کار استعمال کرتے رہے ہیں اور جس چیز کو مغرب کے معنی میں Scientific Method کہا جاتا ہے وہ بھی یکے از طریقہ ہائے کار تھا لیکن اسے واحد امتیازی طریق کار قرار دینا مشکل ہے۔ علامہ نے یہ نکتہ جو ابھار کر پیش کیا ہے تو اس کی مصلحت بدیہی ہے۔ یہ بات ماہیت اشیاء کے بھی مطابق نہیں ہے۔ اس کو ایک اور زاویے سے دیکھیے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ: By what method did Muslim scientits arrive at their original ideas, concepts and theories which were later tested against facts or the rigor of logical analysis? How did lbn Sina arrive at his impetus theory, or Nasir al-Din-al-Tusi at his new model for planetary motion, or Shihab al-Din-Suhrawardi at his theory of corporeal objects as being degrees of light? 40 جواب یہ ہے کہ: Such creativity, whether in the case of Muslim scientists of their modern counterparts, cannot be reduced to any well-defined, step-by-step method, but always involves an intuition, a jump of a creative nature.41 یہی نہیں، مغرب کے بڑے اہل علم بھی یکتا منہاج تحقیق کے خلاف ہو چکے ہیں اور Pluralistic Methodology کا تصور فروغ پا رہا ہے۔۴۲؎ اس کی تفصیل میں جانا یہاں ممکن نہیں تاہم اتنا ضرور کہا جانا چاہیے کہ نہ صرف اسلامی تہذیب و علوم کا منہاج علم و تحقیق کسی ایک طریقے تک محدود نہیں رہا اور مسلمان کئی متوازی طریقے برتتے رہے بلکہ مغرب کے علوم کے مقابلے میں ان کا منہاج ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس کی جڑیں اسلام کے علمیاتی تناظر میں پیوست ہیں اور یہ تناظر مغرب جدید کے کارتیسی تناظر سے جدا ہے۔ یہاں مناسب ہو گا کہ امام غزالی سے منسوب کردہ تشکیک کے بارے میں بھی چند باتیں عرض کر دی جائیں۔ مغرب کا علمیاتی تناظر کار تیسی ثنویت پر مبنی ہے اور بہت سی مخالفتوں کے باجود سرکاری پالیسی کے طور پر اب بھی مقبول ہے۔ علامہ نے اس نظریۂ تشکیک کے پیشرو کے طور پر نظّام اور غزالی کے نام پیش کئے ہیںا ور اس کو بھی اسلام کے اختباری رویے اور یونانی فکر کے خلاف بغاوت کے آثار میں شمار کیا ہے۔ اس سلسلے میں پہلا نکتہ تو شیخ سعید صاحب کا تلاش کردہ سامنے رہنا چاہیے کہ علامہ نے جس مصنف ۴۳؎ کے حوالے سے یہ بات نقل کی ہے اس نے المنقذمن الضلال کو احیاء العلوم الدین سے خلط ملط کر دیا ہے۔ دوسری بات یہ پیش نظر رہے کہ غزالی کی تشکیک بظاہر دے کارت کے نظریے اور ارتیابیت سے مشابہ معلوم ہوتی ہے۔ لیکن ان دونوں کے علمی تناظر میں اتنا زیادہ بعد ہے کہ غزالی کو دیکارت کا پیشرو قرار دینا تقریباً ناممکن ہے۔ المنقذمن الضلال میں کہیں بھی کوئی بیان یا عبارت ایسی نہیں جو دیکارت کے مندرجہ ذیل فقرے کے ہم معنی ہو۔ It is necessary once in one's life to doubt all things, so far as this is possible.44 دیکارت کی تشکیک خو دماہیت علم اور نفس علم کے بارے میں ہے جبکہ غزالی زندگی کے اس بحرانی دور میں جس چیز کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں وہ حصول علم کے مختلف ذرائع اور منہاج ہیں۔ ان کی تشکیک نہ فلسفیانہ ہے نہ لاادریت اور اضافیت کی شکار۔ اس کی نوعیت مختلف دعویداروں کے دعاوی کو پرکھنے کی ہے اس پس منظر کے ساتھ کہ حقائق الامور، اور ’علم الیقین‘ کس طبقے یا کس منہاج علم سے حاصل ہوتا ہے؟ اس طرح غزالی کبھی بھی مذہبی تشکیک میں مبتلا نہیں ہوئے۔۴۵؎ اسی المنقذ من الضلال میں وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ: Form the sciences which I had practiced and the methods which I had followed in my inquiry into the two kinds of knowledge, revealed and rational, I had already acquired a sure and certain faith in God Most High, in the prophetic mediation of revelation, and in the Last Day. These three fundamentals of our Faith had become deeply rooted in my soul, not because of any specific, precisely formulated proofs, but because of reasons and circumstances and experiences too many to list in detail.46 کیا تلاش و تحقیق کے اس عمل کو کسی طرح مغربی فلسفے کی ارتیابیت سے مشابہ قرار دیا جا سکتا ہے؟ اصل مبحث کی جانب لوٹتے ہوئے ہم ایک او رنکتے کی طرف اشارہ کرنا لازم سمجھتے ہیں۔ جس طرح اسلامی تہذیب کے منہاج علم کے ضمن میں ہم نے کہا کہ اسے کسی ایک طریقے تک محدود کرنا درست معلوم نہیں ہوتا، اسی طرح یونان کے بارے میں یہ دعویٰ بھی جدید تحقیقات پر پورا نہیں اترتا کہ اس کی روح فکر سراسر عقلیت پرستی پر مبنی تھی۔ یونان کے بعض مکاتیب فکر اور بعض ادوار زوال کے بارے میں یہ بیان درست ہے لیکن یونان کے اولین ادوار خصوصاً ان کے دین کے بارے میں جو تحقیقات اور مطالعات سامنے آئے ہیں ان سے یہ پتا چلتا ہے کہ وہاں بھی کئی مناہج علمی مروج تھے اور ایک طریقہ عقلیت پرستی بھی تھا جسے آخری ادوار اور تہذیب یونان کے مٹنے کے عمل میں ایک برتری حاصل ہو گئی تا آنکہ اسی کو یونانی فکر کی شناخت بنا لیا گیا۔ مسلمانوں نے جب دیگر اقوام و ملل کے علوم سے اعتناء کیا تو اپنے توحیدی مشرب کے مطابق ردو قبول کا فیصلہ کیا اس کی نمایاںمثال ہم ابن سینا کے قول کے سلسلے میں دے چکے ہیں۔ اس کے برعکس جب مغرب کی علمی دنیا نے مسلمانوں کے توسط سے یونانی علوم ترجمہ کئے تو زیادہ تر صرف انہی کتب و علوم کو منتخب کیا جو عقلیت پرستی سے معمور تھے۔ اس سلسلے میں یہ بات قابل غور ہے کہ صدیوں تک اسلامی دنیا سے مغرب کو جو علوم منتقل ہوئے وہ صرف ایک مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے یعنی اسلام کے فلسفی/ سائنس دان Philosopher/scientist مکتب فکر سے متعلق شخصیات کے افکار۔ پھر ان افکار کی تفہیم بھی اکثر ناقص تھی یا اصل مدلول و مدعا سے ہٹ چکی تھی۔ نیز جو علوم منتقل ہو رہے تھے وہ اسلام میں علوم کی تلچھٹ سے عبارت تھے یا ثانوی حیثیت کی چیزیں تھیں جبکہ مغرب نے ان کو مرکزی بنا لیا۔ نیز ثانوی علوم اپنے اصل مرکز سے ہٹ کر اور بنیادی تناظر سے ہٹ کر ایک غیر فطری نمو کی طرف بڑھنے لگے۔ جس نے آگے چل کر مغرب کی علمی دنیا کو ایک خاص انداز میں متاثر کیا۔ بنابریں یہ کہنا چاہیے کہ علوم میں اسلامی تہذیب کا اپنا منہاج و طریق تھا، اس میں استقرائی طریقہ بھی تھا اور دیگر انداز بھی۔ مغرب نے اسلام سے جزواً سیکھا اور پھر ایک ایسی سمت اختیار کی جو اسلام ہی کیا، دیگر تمام روایتی تہذیبوں سے الگ تھی۔ مغرب کی اس غلط سمت اور انحراف کو اسلامی تہذیب سے کوئی تعلق نہیں۔ پانچواں خطبہ حواشی ۱) تشکیل جدید الہیات اسلامیہ (انگریزی) ، اقبال اکادمی / ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، ۱۹۸۹ء ص۔ ۹۹۔ ۲) لطائف قدوسی، مرتبہ شیخ رکن الدین، (لطیفہ نمبر۷۹) میں یہ قول شیخ عبدالقدوس گنگوہی علیہ الرحمتہ کا بیان کیا گیا ہے۔ علامہ نے بھی یہ قول ان سے منسوب کیا ہے۔ تاہم یہ قول بہت پہلے کے ایک عرب صوفی کے ہاں بھی ملتا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے محمود محمود الغراب۔ شرح کلمات الصوفیہ، دمشق ، ۱۹۸۱، ص،۱۴۳۔ ۳) تشکیل جدید الہیات اسلامیہ، (اردو)، ترجمہ سید نذیر نیازی، بزم اقبال، لاہور ۱۹۸۳ء ص، ۱۸۸۔ ۴) تشکیل ……(انگریزی) محولہ بالا، ص، ۱۰۰۔ ۵) تشکیل جدید …(اردو) محولہ بالا، ص، ۱۹۰۔ ۶) تشکیل …(انگریزی ) محولہ بالا، ص،۹۹۔ ۷) تشکیل جدید …(اردو) محولہ بالا، ص، ۹۱۔۱۹۰۔ ُ۸) تشکیل ……(انگریزی) محولہ بالا، ص، ۱۰۰۔ ۹) تشکیل جدید … (اردو) محوبالہ ، ص ، ۱۹۱۔ ۱۰) تشکیل …(انگریزی) محولہ بالا، ص، ۱۰۰۔ ۱۱) تشکیل جدید … (اردو) محولہ بالا ، ص ، ۱۹۱۔ ۱۲) قرآن مجید ۔ ۵:۹۹۔ ۱۳) ایضاً ۔۱۲:۶۱۔ ۱۴) ایضاً۔۶۹۔۶۸:۱۶۔ ۱۵) ایضاً۔۱۶:۸۔ ۱۶) ایضاً۔۷:۲۸۔ ۱۷) ایضاً ۔۱۱۱:۵۔ ۱۸) ایضاً۔۵۱:۴۲۔ ۱۹) تشکیل ……(انگریزی) محولہ بالا، ص، ۱۰۱۔ ۲۰) تشکیل جدید …(اردو) محولہ بالا ،ص، ۱۹۳۔ ۲۱) تشکیل … (انگریزی) محولہ بالا ، ص ،۴۔۱۹۳۔ ۲۲) تشکیل جدید … (اردو ) محولہ بالا ، ص ، ۱۹۵۔ ۲۳) تشکیل … (انگریزی ) محولہ بالا ،ص،۱۰۱۔ ۲۴) تشکیل جدید …(اردو) محولہ بالا ،ص، ۱۹۵۔ ۲۵) قرآن مجید۔۱۲۹:۲۔ ۲۶) ایضاً ۔ ترجمہ از مولانا محمود الحسن۔ مطبوعہ سعودی عرب، ۱۹۸۹ئ۔ ۲۷) تشکیل ……(انگریزی) محولہ بالا، ص، ۱۰۱۔ ۲۸) تشکیل جدید …(اردو) محولہ بالا، ص، ۱۹۴۔ ۲۹) تشکیل ……(انگریزی) محولہ بالا، ص، ۱۰۱۔ ۳۰) تشکیل جدید …(اردو) محولہ بالا، ص،۶۔۱۹۵۔ ۳۱) اس نکتے کی تفصیل کے لیے دیکھیے ، سلیم احمد ’’اقبال اور ہند اسلامی تہذیب‘‘ مشمولہ نیا دور، کراچی، شمارہ ۶۶،۶۵ ، ص، ۲۲۹۔ ۳۲) تشکیل ……(انگریزی) محولہ بالا،ص ،۱۰۱۔ ۳۳) تشکیل جدید …(اردو) محولہ بالا، ص، ۳۔۱۹۴۔ ۳۴) یہ لفظ بعض مصنفین کی تحریروں میں ایک منفی اور تحقیری مفہوم کا حامل بن کر ابھرا ہے۔ ہم اسے اس کے لغوی معنی میں برت رہے ہیںا ور ا س سے صرف ایک طرز حکمرانی کی شناخت مقصود جانتے ہیں جو اچھی بھی ہو سکتی ہے اور بری بھی۔ ۳۵) مسلمانوں میں مشائی فکر کے سب سے بڑے نمائندہ ابن سینا کا قول اس ضمن میں بہت فکر انگیز ہے۔ ابن سینا نے الاشارات و التنبیہات میں حقیقی سائنس کی ماہیت پر بحث کی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ سچی سائنس وہ ہے جو حقیقت اشیاء کا علم ان کی الوہی اصل و ماخذ کے حوالے سے تلاش کرے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے۔ Brunner, Science et Realite, Paris, 1954, p. 13 cf. Osman Bakar, Tawhid and Science Kuala Lumpur,1991, Suhail Academy, p. 23 . اسی طرح مثال کے طور پر اخوان الصفا کے رسائل میں جو اسلامی تہذیب میں عقلیت پرستی کے لیے معروف رہے ہیں ، ریاضی کے اصولوں سے توحید باری پر استشہاد ملتا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے اخوان الصفائ، رسائل ، قاہرہ ،۱۹۲۸، نیز دیکھیے S.H. Nasr, Seience and Civilazation in Islam Lahore, 1983, P.155-6 An introduction to the Islamic Cosmological Doctrines, Cambridge. MA 1964, Lodnon, 1978; Islamic Science; Reflections on Methodology in the Islamic Sciences" in Hamdard Islamicus, 3:3 (1980) pp. 3-13. یہ ان مکاتب فکر کی مثالیں ہیں جو عقلیت پرستی سے قریب ترین رویہ رکھتے تھے ورنہ اشراقی، متصوف، کلامی اور متالہین کے مکاتب فکر تو اور بھی عارفانہ جہات کے حامل تھے۔ ۳۶) علامہ نے احیاء العلوم کے سلسلے میں جس مصنف کا حوا لہ دیا ہے وہ غلطی سے منقذمن الضلال کو احیاء سے مخلوط کر بیٹھا تھا۔ احیا ء العلوم میں اس مبحث کا ذکر نہیں۔ منقذمیں بھی جس نوعیت کے شک کا تذکرہ ہے وہ دیکارت کی ارتیابیت اور مغربی فلسفے کی تشکیک سے بارہ پتھر باہر کی چیز ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے۔ Osman Bakar, "The Place of Doubt in Islamic Epistemology, Ghazzali's Philosophical Experience" in Tawhid and Science. op. cit. p. 39. ۳۷) طب کے میدان میں نوبل پرائز یافتہ ایک سائنسدان لکھتا ہے کہ: Unfortunately, we in England have been brought up to believe that scientific discovery turns upon the use of a method analogous to and of the same logical stature as deduction, namely the method of Induction--- a logically mechanised process of thought which, starting from simple declarations of fact arising out of the evidence of the senses can lead us with certainty to the truth of general laws. This would be an intellectually disabling belief if anyone actually believed it." See P. Medawar, Pluto's Republic (Oxford University Press), 1982, p. 33. ۳۸) یہ نکتہ کہ اسلامی سائنس کا منہاج جدید مغربی سائنس سے الگ تھا اور اسلامی تہذیب کے بطن سے پھوٹا تھا، سید حسین نصر نے بہت خوبی سے واضح کیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے۔ S. H. Nasr, Science and Civilization in Islam, op. cit.; An Introduction to the Islamic Cosmological Doctrines, Cambridge, MA: 1964, London, 1978 ; Islamic Science; "Reflection on Methodology in the Islamic Science" in Hamdard Islamicus, 3:3 (1980), 3-13 39) Osman Bakar, Tawhid and Science op.cit, p.14-15. 40) Ibid, p. 28 41) Ibid. 42) Ibid. p. 15-16. ۴۳) ر۔ ک تشکیل ۔(انگریزی) ص، ۱۸ (نوٹ ۱۰)۔ نیز سیر فلسفہ درایران، ترجمہ ۱۔ چ آریان پور، تہران، ص، ۲۸۔ 44) Descartes, "Principles, pt. 1,1" in The Philosophical Works of Descartes, trans. E.S. Haldane and G.R.T. Ross, (Newyork, 1955). ۴۵) تفصیل کے لیے ر۔ ک عثمان بکر، ’’غزالی……‘‘ محولہ بالا، حاشیہ ۳۴۔ 46) McCarthy, R.J. An Annotated Translation of al-Ghazzali's al Munqidh min al-dalal and other Relevant Works of al-Ghazzali, Boston, 1980, pp. 90-91. چھٹا خطبہ الاجتہاد فی الاسلام اس خطبے کا موضوع ہے وہ اصول جس کی بنیاد پر اسلام میں ترقی اور نشوونما کا تصور کیا جا سکے۔ مسئلہ یہ تھا کہ زندگی کے احوال متغیر ہوتے رہتے ہیں اور نئے سوال پیدا ہوتے رہتے ہیں ان سے نبرد آزما ہونے اور ان کے جوابات اور حل تلاش کرنے کے لیے اسلام میں صلاحیت موجود ہے۔ اس نکتے کو واضح کرنے کے لیے علامہ اسلام کے دو بنیادی اصولوں کے عمل کی جانب توجہ دلاتے ہیں۔ یعنی وحی نبوی اور توحید۔ علامہ کے اپنے الفاظ میں وحی کی ماہیت کچھ یوں ہے:۔ حیات عالم وجدانی طور پر اپنی ضروریات کا مشاہدہ کر لیتی ہے اور اس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ ہر نازک موقع پر اپنا راستہ آپ متعین کر لے- چنانچہ یہ وہی چیز ہے جس کو مذہب نے اپنی زبان میں وحی نبوت سے تعبیر کیا ہے۔ پھر یہ بھی ایک طبعی امر تھا کہ اسلام کا ظہور ایک ایسی سادہ مزاج قوم میں ہوتا ہے جو قدیم تہذیبوں کے اثرات سے یکسر پاک اور اور ایک ایسی سرزمین پر آباد تھی جہاں تین براعظم آپس میں مل جاتے ہیں۔ ۲؎ The world-life intuitively sees its own needs, and at critical mom- ents defines its own direction. This is what, in the language of religion, we call prophetic revel- ation. It is only natural that Islam should have flashed across the consciousness of a simple people untouched by any of the ancient cultures, and occupying a geogra- phical position where three conti- nents meet together1 اس اقتباس میں جو لفظ World Life استعمال کیا گیا ہے اس کے ظاہر معنی کی وجہ سے کچھ الجھن پیدا ہوتی ہے اور بعض حضرات نے اس پر اعتراضات کئے ہیں۔ پہلا اشکال یہ ہے کہ یہ اصطلاح ایک الٰہ شخصی پر ایمان کو مستلزم نہیں ہے۔ اس میں ایک طبیعی تصور کی جھلک ملتی ہے جس سے مذہب مظاہر طبیعی میں سے ایک چیز معلوم ہونے لگتا ہے اور عام انسانی تجربے کی سطح پر آ کر حیاتیاتی تصورات کے قبیل میں سے محسوس ہونے لگتا ہے۔ پہلے اور پانچویں خطبے کے ضمن میں ہم درج کر چکے ہیں کہ وحی ایک مافوق طبیعی مظہر ہے اور علامہ کا شاعری میں یہی موقف ہے۔ یہی ماوراء طبیعی تصور ہمیں صحیح بخاری ۳؎ کے اس بیان سے بھی ملتا ہے جو انہوں نے ابتداء وحی کے بارے میں درج کیا ہے۔ اس مرکزی نکتے کی تفصیل کے لیے درج ذیل بیان مددگار ہو گا۔ It was not long after this outward sign of his authority and his mission that he began to experience powerful inward signs, in addition to those of which he had already been conscious. When asked about these he spoke of true "visions" which came to him in his sleep and he said that they were "like the breaking of the light of dawn."4 The immediate result of these visions was that solitude became dear to him, and he would go for spiritual retreats to a cave in Mount Hira, not far from the outskirts of Mecca. There was nothing in this that would have struck Quraysh as particularly strange, for retreat had been a traditional practice amongst the descendants of Ishmeal, and in each generation there had been one or two who would withdraw to a solitary place from time to time so that they might have a period that was uncontaminated by the world of men. In accordance with this age-old practice, Muhammad would take with him provisions and consecrate a certain number of nights to the worship of God.5 Then he would return to his family, and sometimes on his return he took more provisions and went again to the mountain. During these few years it often happened that after he had left the town and was approaching his hermitage he would hear clearly the words "Peace be on thee, O Messenger of God" and he would turn and look for the speaker but no one was in sight, and it was as if the words had come from a tree or a stone. Ramadan was the traditional month of retreat, and it was one night towards the end of Ramadan, in his fortieth year when he was alone in the cave, that there came to him an Angel in the form of a man. The Angel said to him, "Recite!" and he said. "I am not a reciter" whereupon as he himself told it, "the Angel took me and whelmed me in his embrace until he had reached the limit of mine endurance. Then he released me and said: Recite! I said: "I am not a reciter;" and again he took me and whelmed me in his embrace, and again when he had reached the limit of mine endurance he released me and said: Recit; and again I said , "I am not a reciter". Then a third time he whelmed me as before, then released me and said:6 "Recite in the name of thy Lord who created: He createth man from a clot of blood. Recite; and thy Lord is the Most Bountiful, He who hath taught by the pen, taught man what he knew not."7 He recited these words after the Angel, who thereupon left him; and he said , "It wast as though the words were written on my heart"8 But he feared that this might mean he had become a jinn-inspired poet or a man possessed. So he fled from the cave, and when he was half-way down the slope of the mountain he heard a voice above him saying. "O Muhammad, thou art the Messenger of God, and I am Gabriel" He raised his eyes heavenwards and there was his visitant, still recognisable but now clearly an Angel, filling the whole horizon and again he said: "O Muhammad thou art the Messenger of God, and I am Gabriel." The Prophet stood gazing at the Angle; then he turned away from him but whichever way he looked the Angel was always there, astride the horizon, whether it was to the north, to the south, to the east or to the west. Finally the Angel turned away, and the Prophet descended the slope and went to his house. "Cover me!"9 he said to Khadijah as with still quaking heart he laid himself on his couch. Alarmed, yet not daring to question him, she quickly brought a cloak and spread it over him. But when the intensity of his awe had abated he told her what he had seen and heard; and having spoken to him words of reassurance she went to tell her cousin Waraqah, who was now an old man, and blind. "Holy! Holy!" he said "By him in whose hand is the soul of Waraqah, there hath come unto Muhammad the greatest Namus.10 even he that would come unto Moses. Verily Muhammad is the Prophet of this people. Bid him rest assured." So Khadijah went home and repeated these words to the Propeht, who now returned in peace of mind to the cave, that he might fulfil the number of days he had dedicated to God for his retreat. When this was completed, he went straight to the Ka'bah according to his wont, and performed the rite of the rounds, after which he greeted the old and the blind Waraqah whom he had noticed amongst those who were sitting in the Mosque; and Waraqah said to him: "Tell me, O son of my brother, what thou hast seen and heard." The Prophet told him and the old man said again what he had said to Khadijah. But this time he added" "Thou wilt be called a liar and illtreated, and they will cast thee out and make war upon thee; and if live to see that day, God knoweth I will help His cause."11 Then he leaned towards him and kissed his forehead and the Prophet returned to his home. The reassurances of Khadijah and Waraqah were follwed by a reassurance from Heaven in the form of a second Revelation. The manner of its coming is not recorded, but when asked how Revelation came to him the Prophet mentioned two ways: "Sometimes it cometh unto me like the reverberations of a bell, and that is hardest upon me; the reverberations abate when I am aware of their message and sometimes the Angel taketh the form of a man and speaketh unto me, and I am aware of what he saith.12(13) اس کے علاوہ مابعد کی وحی کے بارے میں قرآن میں جو نصوص ملتی ہیں ان سے بھی وحی کے معروضی، موجود فی الخارج اورماواراء الطبیعی ہونے ہی کا مفہوم ملتا ہے۔ ان کے مقابلے میں علامہ کے الفاظ سے ایک اشکال پیدا ہوتا ہے۔ اس کا حل اس صورت میں ممکن ہے کہ اسے سابقہ مقامات کی طرح سامعین کی رعایت کے لیے قریب الفہم اصطلاح کے استعمال سے تعبیر کیا جائے۔ ان کے سامعین حیاتیاتی علوم، سائنسی تصورات اور جغرافیائی احوال سے اچھی طرح واقف تھے۔ ان کی اس ذہنی افتاد اور علمی پس منظر کو مد نظر رکھتے ہوئے مصلحت خطاب اور مصلحت تفہیم کی خاطر یہ اسلوب اختیار کیا گیا۔ ’’حیات عالم‘‘ کے الفاظ سے ان کا مدلول ظاہری مراد نہیں لینا چاہیے بلکہ وہ معنی متعین کرنے چاہییں جو "The Spirit bloweth wherever it listeth" کے قول میں حضرت مسیح علیہ السلام نے پیش کیے یا الٰہ شخصی سے بالاتر مرتبے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے متصوفین نے ذات بحت سے مراد لیے۔ ’’حیات‘‘ اور ’’عالم‘‘ کے الفاظ بایں معنی دو حیاتیاتی اور جغرافیائی مقولات Categories پر دلالت نہیں کرتے بلکہ کائنات کے اصول واحد کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ انگریزی میں ایسی موزوں اصطلاحات کا فقدان تھا جو مروجہ مذہبی الفاظ سے الگ اور علمی طور پر مستند اور مبنی بر صحت ہوں۔ علامہ نے یہ اصطلاح وقتی ضرورت کے تحت بات سمجھانے کے لیے اختیار کی ہے اور اس سے یہ مراد نہیں لیا جا سکتا کہ وہ وحی کو جغرافیائی حالات اور حیاتیاتی ضرورت کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ اب آیئے دوسرے نکتے یعنی توحید کی طرف۔ توحید علامہ کے الفاظ میں: بطور اساس ریاست اسلام ہی وہ عملی ذریعہ ہے جس سے ہم اس مقصد میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس اصول کا تقاضا ہے کہ ہم صرف اللہ کی اطاعت کریں، نہ کہ ملوک و سلاطین کی۔ پھر چونکہ ذات الہٰیہ ہی فی الحقیقت روحانی اساس ہے زندگی کی، لہٰذا اللہ کی اطاعت فطرت صحیحہ کی اطاعت ہے۔ اسلام کے نزدیک حیات کی یہ روحانی اساس ایک قائم و دائم وجود ہے۔ جسے ہم اختلاف اور تغیر میں جلوہ گر دیکھتے ہیں۔ اب اگر کوئی معاشرہ حقیقت مطلقہ کے اس تصور پر مبنی ہے تو پھر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ثبات اور تغیر دونوں خصوصیات کا لحاظ رکھے۔ اس کے پاس کچھ تو اس قسم کے دوامی اصول ہونا چاہئیں جو ہئیت اجتماعیہ میں نظم و انضباط قائم رکھیں، کیونکہ مسلسل تغیر کی اس بدلتی ہوئی دنیا میں ہم اپنا قدم مضبوطی سے جما سکتے ہیں تو دوامی ہی کی بدولت۔ لیکن دوامی اصولوں کا یہ مطلب تو ہے نہیں کہ اس سے تغیر اور تبدیلی کے جملہ امکانات کی نفی ہو جائے، اس لیے کہ تغیر وہ حقیقت ہے جسے قرآن پاک نے اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی آیت ٹھہرایا ہے۔ اس صورت میں تو ہم اس شے کو جس کی foundation of world-unity is the principle of Tauhid. Islam, as a polity, is only a practical means of making this principle a living factor in the intellectual and emoti- onal life of mankind. It demands loyalty to God, not to thrones. And since God is the ultimate spiritual basis of all life, loyalty to God virtually amounts to man's loyalty to his own ideal nature. The ultim- ate spiritual basis of all life, as con- ceived by Islam, is eternal and reveals itself in variety and change. A society based on such a concep- tion of Reality must reconcile, in its life, the categories of permane- nce and change. It must possess eternal principles to regulate its collective life, for the eternal gives us a foothold in the world of perpe- tual change. But eternal principles when they are understood to exc- lude all possibilities of change which according to the Qur'an is one of the greates signs of God, tend to immobilize what is essenti- ally mobile in its nature.The fail- ure of the Europe in political and social sciences illustrates the form- فطرت ہی حرکت ہے، حرکت سے عاری کر دیں گے۔ اصول اول کی تائید تو سیاسی اور اجتماعی علوم میں یورپ کی ناکامیوں سے ہو جاتی ہے۔ اصول ثانی کی عالم اسلام کے پچھلے پانچ سو برس کے جمود سے۔ ۱۵؎ er principles the immobility of Islam during the last five hundred years illustrates the latter.14 اس ضمن میں سب سے پہلا حل طلب مسئلہ یہ ہے۔ حقیقت مطلقہ جو ’الحی القیوم‘ ۱۶؎ ہے وکل یوم ھوفی شان، ۱۷؎ کے مطابق اختلاف و تغیر میں جلوہ گر ہے۔ اس تصور پر مبنی معاشرہ ثبات (الحی القیوم) اور تغیر (کل یوم ھو فی شان) دونوں خصوصیات کا لحاظ رکھے گا۔ سوال یہ ہوا کہ کیا ’کل یوم ھو فی شان‘ سے تغیرات عالم طبعی مراد لیا جا سکتا ہے۔ یا یہ صفات و افعال الہٰیہ سے متعلق ہے؟ دوسرا نکتہ یہ کہ مذکورہ بالا تصور وہ ہے جو کم و بیش اور بہ اختلاف اسالیب ہر روایتی تہذیب کا تصور ہے اور اسی پر تمام روایتی معاشرے اپنی بنیاد رکھتے ہیں۔ اگر دونوں خصوصیات (ثبات وتغیر) کا لحاظ رکھنا لازم آتا ہے تو سابقہ تمام معاشروں کو بھی یہ حیثیت حاصل ہو گی اور اجتہاد ، جو اس توازن کا اصول ظاہری ہے اسلام کا اختصاص نہیں رہ جائے گا اور اگر ان دونوں خصوصیات کا لحاظ رکھنے کے باوجود بھی وہ مظاہر جنم لے سکتے ہیں جو عیسائیت میں پیدا ہوئے یا اسلام کے دور زوال میں پیدا ہوئے تو پھر یہ تصور اسلام کے اصول حرکت کی ضمانت بننے سے قاصر رہے گا۔ توحید ایک اصول عملی ہے۔ اسے ایک اصول نظری کی حیثیت سے پیش کرنے کی مصلحت یہ ہو سکتی ہے کہ اس طرح کائنات کا اصول تعلیل دریافت کیا جا سکے۔ توحید پہلے اعتبار سے انسان کی اس کوشش کی کامیابی سے عبارت ہے جو وہ اپنے آدرش کے تحقق کے لیے کرتا ہے۔ دوسرے اعتبار سے پیش کریں تو اس کی حیثیت بدل جاتی ہے، اسی طرح متغیر اور غیر متغیر یا فانی و باقی کے درمیان تعلق اور اس کی نوعیت کا تعین ایک عملی ضرورت نہیں بلکہ نظری تقاضا ہے۔ یہ فکر اور حس کو ایک مرکز پر لانے کا تقاضا ہے۔ فکر غیر متغیر کو گرفت میں لیتی ہے، حواس متغیر کی شہادت دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں حرکی اور غیر حرکی اور متحرک اور غیر متحرک تصورات کے استعمال سے ہم غیر نامیاتی اقلیم سے باہر نہیں نکل پاتے۔ یہ غیر ذی حیات اشیاء کے خواص میں سے ہیں۔ یہ کہنا کہ دنیا متحرک اور حرکی ہے اس بات کو مستلزم نہیں کہ یہ حرکت یا تحرک آئندہ بھی جاری رہے گا اور بڑھے گا کیونکہ تحرک یا حرکی حیثیت تو خارج سے آنے والے اثرات کے تحت بھی ہو سکتی ہے اور بلامقصد و سمت بھی ہو سکتی ہے۔ اسلامی معاشرے کے زوال کی وجہ جو علامہ نے بیان فرمائی ہے اس پر بھی غور کرنا مقصود ہے۔ زوال کے جتنے ذیلی، ضمنی اسباب بیان کئے جاتے ہیں ان کو ایک مرکزی سبب میں مرکوز کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ کہ اسلام کے مقصود سے غفلت اور اس کے حصول کے لیے شعوری کوشش کا فقدان ۔ اسلامی معاشرہ بالفعل موثر نہیں رہا جب اس نے اپنے منصب (شہادۃ علی الناس) ۱۸؎ سے گریز کیا اور اس نے اپنے منصب سے روگردانی تب کی جب اسلام کے اس مقصود کے حصول سے غفلت کی جو دین کی طرف سے عائد ہوتا تھا۔ یہ نکتہ بھی غور طلب ہے کہ اسلام کا سیاسی پہلو وسیلہ ہے یا مقصود؟ قرآن میں اس کی تین جہات ملتی ہیں۔ اولاً یہ کہ انسان کو دنیا میں خدا کے خلیفہ کے طور پر پیدا کیا گیا ہے۔ اس منصب کی تکمیل کے لیے اسلامی ریاست کی تشکیل اور قیام بھی ایک درجے میں مقصود قرار پاتا ہے اور صرف وسیلہ نہیں رہتا۔ دوسری طرف قرآنی اصولوں پر ریاست کا قیام ایک لازمی وسیلہ بنتا ہے۔ ترویج اخلاق و احکام اس وقت تک ناممکن ہوتا ہے جب تک فضائل اخلاق کے حصول کی راہ میں حائل خارجی موانع رفع نہ ہوں۔ اس کے لیے ریاست کی قوت ضروری ہے۔ نیز اللہ نے خلافت کا وعدہ ایمان اور عمل صالح سے مشروط کیا ہے۔۱۹؎ نتیجہ یہ کہ اسلام ایسے افراد کا معاشرہ تخلیق کرنا چاہتا ہے جو روحانیت کے حامل اور فضائل اخلاق کے لیے کوشاں ہوں اور جو حضرت عیسیٰ کے الفاظ میں اس دنیا میں اللہ کا حکم نافذ کرنا چاہتے ہوں۔ بنا بریں اہل اسلام کی ترقی کا دارومدار اس آدرش کے حصول کے لیے جدوجہد پر ہو گا اور ان کے زوال کا سبب اس سے غفلت قرار دیا جائے گا۔ اس اعتبار سے دیکھئے تو مسلم دنیا کا زوال اس چیز کا شاخسانہ ہے کہ انہوں نے اسلام کو ایک ذاتی شخصی معاملہ بنا کر رکھ دیا اور ، علامہ کے الفاظ میں ، خلافت کو صرف ضرورت اور مصلحت کی چیز بنا لیا۔ اس کے بعد علامہ نے اجتہاد کے زوال کے اسباب میں تین بڑے عناصر بتائے ہیں۔ اولاً: کچھ تو عقلیت کے حقیقی مقاصد سے غلط فہمی اور کچھ بعض عقلیین کے بے روک غور و فکر سے قدیم طرز فکر کے علماء یہ سمجھتے تھے کہ تحریک عقلیت ایک انتشار خیز قوت ہے جس سے بطور ایک نظام مدنیت اسلام کا استحکام ختم ہو جائے گا۔ وہ چاہتے تھے اسلام کا وجود اجتماعی برقرار رہے جس کا ان کے پاس کوئی ذریعہ ہوتا تو صرف یہ کہ شریعت کی قوت جامعہ سے کام لیں اور جہاں تک ہو سکے قوانین کے اندر سختی پیدا کرتے چلے جائیں۔ ۲۱؎ .....partly owing to a misunderstanding of the ultimate motives of Rationalism and partly owing to the unrestrained thought of particular Rationalists, conservative thinkers regarded this movement as a force of disintegration, and considered it a danger to the stability of Islam as a social polity. Their main purpose, therefore, was to preserve the social integrity of Islam, and to realize this the only course open to them was to utilize the binding force of Shari'ah and to make the structure of their legal system as rigorous as possible. 20 جہاں تک تصوف کے فکری پہلو کا ، جس کا آگے چل کر نشوونما ہوا، تعلق ہے وہ آزاد خیالی ہی کی ایک شاخ تھا اور اس لیے عقلیت کا حلیف۔ اس نے ظاہر و باطن پر زور دیا اور اس طرح ہر اس چیز سے جس کا تعلق حقیقت کی بجائے مشہودات سے تھا، کنارہ کشی کر لی۔ پھر جیسے تصوف کے اندر اگلی یا دوسری دنیا کی روح سرایت کرتی چلی گئی، اسلام کا یہ نہایت اہم پہلو کہ وہ ایک نظام مدنیت بھی ہے لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو گیا لہٰذا جہاں تک ظن و قیاس کا تعلق ہے ان کے غور وفکر پر بھی کوئی روک باقی نہ رہی۔ وہ اس کا سلسلہ جہاں تک چاہے پھیلا سکتے تھے۔ یہ صورت حالات تھی جس میں مسلمانوں On its speculative side which developed later, Sufism is a form of freethought and in alliance with Rationalism. The emphasis that it laid on the distinction of zahir and batin (Appearance and Reality) created an attiude of indifference to all that applies to Appearance and not to Reality. This spirit of total other-worldliness in later Sufism obscured men's vision of a very important aspect of Islam as a social polity, and, offering the prospect of unrestrained thought on its speculative side, it attracted and finally absorbed the best minds in Islam. The Muslim state was thus left کے بہترین دل و دماغ تصوف کی طرف کھنچنے لگے اور بالآخر اسی میں جذب ہو کر رہ گئے۔ اسلامی ریاست کی باگ ڈور اب متوسط درجے کے افراد، یا بے علم عوام کے ہاتھوں میں تھی تا آنکہ ایسا کوئی باہمت اور اولو العزم انسان باقی نہ رہا جو ان کی رہنمائی کرتا۔ لہٰذا انہیں اپنی عافیت اسی میں نظر آئی کہ مذاہب فقہ کی اندھا دھند تقلید کرتے چلے جائیں۔۲۳؎ generally in the hands of intellectual mediocrities, and the unthinking masses of Islam, having no personalities of a higher calibre to guide them, found their security only in blindly following the schools.22 ثالثاً:۔ یہ ایک طبعی امر تھا کہ سیاسی زوال اور انحطاط کے اس دور میں قدامت پسند مفکر اپنی ساری کوششیں اس بات پر مرتکز کر دیتے کہ مسلمانوں کی حیات ملی ایک یک رنگ اور یکساں صورت اختیار کر لے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس طرح ان میں مزید انتشار پیدا نہیں ہو گا۔ انہوں نے اس کا تدارک اس طرح کیا کہ فقہائے متقدمین نے قوانین شریعت کی تعبیر جس طرح کی تھی اس کو جوں کا توں برقرار اور ہر قسم کی بدعات سے پاک رکھا۔۲۵؎ For fear of further disintegration, which is only natural in such a period of political decay, the cons- ervative thinkers of Islam focused all their efforts on the one point of preserving a uniform social life for the people by a jealous exclusion of all innovations in the law of Shari'ah as expounded by the early doctors of Islam.24 ابن تیمیہ اور محمد ابن عبدالوھاب اس کا ایک استثنیٰ تھے مگر: اس نے مذاہب اربعہ کی قطعیت سے تو انکار کیا اور اس لیے آزادی اجتہاد کے حق پر بھی بڑے شدومد سے زور دیا ، لیکن ماضی کے بارے میں چونکہ اس کا نقطۂ نظر سرتاسر غیر تنقیدی رہا، لہٰذا امور قانون میں While it rises in revolt against the finality of the schools, and vigorou- sly asserts the right of private judg- ement, its vision of the past is who- lly uncritical, and matters of law it mainly falls back on the traditions اس نے اپنا دارومدار صرف احادیث پر رکھا۔ ۲۷؎ of the Prophet.26 اجتہاد کے زوال کے اسباب میں ایک بڑا سبب جوبیان کیا جا سکتا ہے وہ خلافت کا امور دنیا تک محدود ہو جانا تھا۔ اس سے اسلام کے لیے بھی عیسائیت جیسا خطرہ پیدا ہو سکتا تھا۔ آگے چل کر علامہ نے اجتہاد کے ضمن میں ایک حقیقی مسئلے پر گفتگو کی ہے اور ترکی کے مسئلہ خلافت کو بطور مثال پیش کیا ہے۔ ۲۸؎ کیا خلافت ایک شخص کی ہونی چاہیے یا یہ منصب ایک گروہ، منتخب اسمبلی کے سپرد بھی کیا جا سکتا ہے؟ علامہ اس ضمن میں ترکی کے اجتہاد یعنی اسمبلی کی خلافت کے حامی ہیں۔ ترکی نے یہ فیصلہ مغرب جدید کی جمہوریت یاری پبلیکن فکر کی نقالی میں کیا تھا لہٰذا اس مسئلے پر ذرا مزید غور کرنے کی ضرورت ہے۔ علامہ نے اس نکتے کو بھانپ لیا تھا لہٰذا انہوں نے کہا کہ: اس لیے کہ ایک تو جمہوری طرز حکومت اسلام کی روح کے عین مطابق ہے، ثانیاً اگر ان قوتوں کا بھی لحاظ رکھ لیا جائے جو اس وقت عالم اسلام میں کام کر رہی ہیں، تو یہ طرز حکومت اور بھی ناگزیر ہو جاتا ہے۔ ۳۰؎ The republican form of government is not only thoroughly consistent with the spirit of Islam, but has also become a necessity in view of the new forces that are set free in the world of Islam.29 اب یہاں سوال یہ ہے کہ دنیا کی سیاسی فکر بھی ارتقا پذیر ہے اوررہی ہے اور سیاسی فکر کی نشوونما کی تعبیر بھی اسی اصول پر کی جا سکتی ہے جس پر فلسفیانہ فکر کی ترقی مبنی ہے۔ سیاسی فکر کی پہلی سطح پر شہنشاہی استبداد کو جائز بتایا جاتا تھا اور ایک شخص کو حاکمیت کا استحقاق دیا جاتا تھا۔ اس سے آگے بڑھے تو دوسری انتہا کے نظریے پر پہنچے جو جزوی حقیقت ہی تھا اور اس کے پیچھے تین انقلاب تھے۔۳۱؎ یہ نظریہ تھا کہ حاکمیت عوام کا حق ہے۔ اس رد عمل کو ری پبلیکن یا اصول جمہوریت کہا گیا۔ ابھی دنیا اس مرحلے سے آگے نہیں بڑھی۔ یہ نظریہ یا اول الذکر نظریہ، دونوں ہی حقیقت سے کاملاً ہم آہنگ نہیں ہیں۔ موخر الذکر کا مقتضی مساوات اور اخوت ہے جس کے لیے لازم ہے کہ عوام بھی اپنی باری پر شریک حکومت ہوں۔ لیکن انسانی مساوات عمل کی دنیا میں افسانہ ہے امر واقعہ نہیں۔ اسلام میں اس کا متبادل مواخاۃ ہے۔ مساوات سے اپنا حق حاصل کرنے کا دعویٰ ابھرتا ہے جبکہ مواخاۃ کا مقتضی ہے کہ اگر میں کسی معاملے کو خود بخوبی انجام نہ دے سکوں تو یہ کام دوسرے مسلمان بھائیوں کے ہاتھ میں دیا جا سکتا ہے کہ وہ مجھ سے بہتر انجام دیں۔ میرے مفادات کا تحفظ ان کے سپرد کرنا ممکن ہے۔ جمہوری طرز فکر میں مضمر برابری کا دعویٰ اور اسلامی ریاست کی مساوات الگ چیزیں ہیں اس طرح جمہوریت میں مضمر فاعلی جدوجہد کا منبع وہی حقوق طلبی کا داعیہ ہے جبکہ اسلامی ریاست میں یہ چیز اللہ کے حقوق ادا کرنے اور منظم معاشرے کے لیے، یا افراد کے لیے اپنا فریضہ انجام دینے سے مربوط ہے۔ جمہوریت میں منتخب اسمبلی عوام کو جواب دہ ہے جبکہ عوام کسی کو جواب دہ نہیں۔ اسلامی ریاست میں امیر (یا خلیفہ) اور عوام دونوں خدا کو جوابدہ ہیں۔ اس طرح جمہوریت میں عوام کے نمائندوں کا فیصلہ سربراہ کے لیے واجب العمل ہے جبکہ اسلام میں شوریٰ کا فیصلہ امیر کے لیے لازم العمل نہیں ہے۔ یہ ریاست نہ تو آمریت ہے، نہ استبدادنہ ہی جمہوریت بلکہ اپنے انداز کی الگ طرز حکومت۔ اگر اسلام کو جمہوریت یاری پبلیکن طرز حکومت کے مترادف کہیں تو مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ علامہ نے ابن خلدون کے حوالے سے درج کیا ہے کہ خلافت کے بارے میں تین نظریات پائے جاتے ہیں۔ یہ کہ خلافت ایک امر شرعی ہے، ضرورت اور مصلحت سے ہے، یہ کہ اس کی سرے سے ضرورت ہی نہیں۔: ۳۳؎ That Universal Imamate is a Divine institution, and is consequently indispensable. That it is merely a matter of expediency. That there is no need of such an institution.32 علامہ ان میں کسی نظریے کے بارے میں وضاحت سے تائید یا تردید کا رویہ ظاہر نہیں کرتے۔ تاہم ترک شاعرضیاء گوکلپ کی نظم کے حوالے سے اور بین السطور مفہوم سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ دوسرے نظریے کے زیادہ قریب ہیں۔ نظم یوں ہے۔ In order to create a really effective political unity of Islam, all Muslim countries must first become independent; and then in their totality they should range themselves under one Caliph. Is such a thing possible at the present moment? If not to-day, one must wait. In the meantime the Caliph must reduce his own house to order and lay the foundations of a workable modern State. In the International world the weak find no sympathy; power alone deserves respect. 34 ترکی کے فیصلے کا جواز علامہ اس اقتباس میں دیئے گئے استدلال میں تلاش کرتے ہیں البتہ اشارہ اس جانب بھی کرتے ہیں کہ اسلام کا سیاسی نظام ایک شخصی خلافت کے بجائے جمعیت اقوام (اسلام) سے متشابہ ہے۔ ۳۵؎ ترکی کے حوالے اور بھی ہیں اور ان کی وجہ بالکل واضح ہے کہ اسلامی ممالک میں ترکی سب سے پہلے مغربی اثرات اور ان مسائل کی زد میں آیا جن کے لیے اجتہاد کی ضرورت در پیش ہو سکتی تھی۔ علامہ کے زمانے میں یہی مثال سب سے نمایاں تھی گو بعد میں تمام مسلم ممالک میں اجتہادی کوششیں ہمیں نظر آتی ہیں۔ اس لیے اپنے عہد کی مساعی اجتہاد پر ایک نظر ڈال کر پھر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ: آج جو مسئلہ ترکوں کو درپیش ہے کل دوسرے بلاد اسلامیہ کو پیش آنے والا ہے اور اس لیے سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی قانون میں کیا فی الواقع مزید نشو و نما اور ارتقا کی گنجائش ہے۔ لیکن اس سوال کے جواب میں ہمیں بڑی زبردست کاوش اور محنت سے کام لینا پڑے گا، گو ذاتی طور پر مجھے یقین ہے کہ اس کا جواب اثبات ہی میں دیا جا سکتا ہے۔۳۷؎ The question which confronts him today, and which is likely to confront other Muslim countries in the near future is whether the Law of Islam is capable of evolution; a question which will require great intellectual effort, and is sure to be answered in the affirmative.36 لیکن اس عمل میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ آزاد خیالی اور آزادی رائے میں خطرات بھی مضمر ہیں اور ان کے جانب تاریخ عالم کا مطالعہ خصوصاً یورپ میں ہونے والے واقعات اشارہ کرتے ہیں۔ مسلم زعماء کو اس ضمن میں بہت محتاط رویہ اپنانا چاہیے کہ اجتہاد کہیں انتشار فکر میں نہ بدل جائے۔۳۸؎ اسلام کے قانون یافقہ اسلامی میں ترقی، وسعت اور نئی صورتحال کا سامنا کرنے کی صلاحیت ہے یا نہیں۔ اس کا جواب اثبات میں دیتے ہوئے علامہ نے ایک اور دلیل مغربی مورخین اسلام سے بھی پیش کی ہے کہ اسلام کے طول تاریخ میں اور خصوصاً ابتدائی ادوار میں چونکہ متعدد مکاتب فقہ ابھرتے رہے ہیں لہٰذا اس تعدد اور کثرت کو اسلامی فقہ کی لچک، ہمہ گیری اور استعداد نمو و ترقی کی دلیل جاننا چاہیے۔ ۳۹؎ ان کا مطالعہ یہ بات واضح کرتا ہے کہ اسلامی فقہ جامد نہیں ہے۔ تاہم فقہ کی تدوین نو یا تنقیدی جائزے سے عوام میں ایک رد عمل کا خدشہ ہے۔ پھر علامہ اسلامی فقہ کے چار مآخذ بیان کرتے ہیں اور ان کے ضمن میں اپنے دور کے حالات کے پیدا کردہ مسائل کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہیں۔ دو نکتے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ اول یہ کہ اجماع کی حیثیت ناسخ قرآن کی ہے یا نہیں۔ اس کی علامہ تردید کرتے ہیں۔ اسی ضمن میں علامہ نے صحابہ کے اجماعی فیصلوں کی حیثیت پر بھی بحث کی ہے اور بہت محتاط رائے دی ہے۔ علامہ کی نظر اس معاملے میں اس نزاکت کو ملحوظ رکھتی ہے جو قرآن ، سنت ثابتہ، احادیث اور اطلاق بر فروع کے چار دائروں کے تقاضے سے پیدا ہوئی ہے۔ علامہ کی رائے بالکل واضح ہے کہ قرآن اور سنت ثابتہ تو احکام شرعی کا ماخذ قطعی ہیں۔ احادیث کی حیثیت دو رخی ہے۔ یا تو وہ اصل و نصوص کی شرح و تبیین کر رہی ہیں یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ان اخلاقی فیصلوں کی خبر دے رہی ہیں جو اصل و نصوص کے تحت آپ نے پیش آمدہ مسائل اور صورت ہائے احوال پر کیے۔ اول الذکر صورت میں احادیث خود ہی تبعاً متعلق بہ اصول و نصوص ہو جائیں گی اور موخرالذکر صورت میں یہ دائرہ اطلاق ہو گا جہاں تغیر کو دخل ہے، زمانے کے تقاضے اور عرف اور کئی مصالح کا لحاظ کرنا جائز ہے۔ اس دائرے میں تبدیلی اور اجتہاد کی کھلی اجازت ہے، عین یہی منشاء علامہ کی ان عبارتوں کا ہے جو اجماع صحابہ کے ضمن میں پیش ہوئیں۔۴۰؎ کسی منتخب ادارے، اسمبلی یا پارلیمنٹ یا شوریٰ کو اجتہاد کا حق دینے کے بارے میں بھی علامہ کا موقف بڑا محتاط ہے اور غالباً اسی احتیاط کے کارن قدرے مبہم بھی رہ گیا ہے۔ مگر یہ ابہام ان کے دور کی مجبوری ہے۔ دور غلامی ، فکری جمود اور تعلیمی کمزوری کی موجودگی میں اس سے زیادہ اور کیا کہا جا سکتا تھا کہ ’’علماء کو اسلامی مجلس قانون ساز کا ایک موثر جزو بنایا جائے جو قانونی مسائل پر آزادانہ بحث کے لیے رہبری اور تعاون کا فریضہ انجام دے۔۴۱؎ باطل تعبیرات کے امکان کا واحد موثر سد باب یہ ہے کہ مسلم ممالک کے تدریس قانون کے نظام کی تشکیل نوکی جائے۔ اس کے دائرے کو وسعت دی جائے۔ اور اسے جدید اصول قانون کے بالاستیعاب مطالعے سے ممزوج کیا جائے‘‘۔۴۲؎ احکام شرعی کے تعین میں الف و عادت اور عرف و رواج کی رعایت رکھنے کا نکتہ بہت اہم ہے۔ اس ضمن میں ہم ایک بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتے جو بہت سے مقامات پر خلط مبحث کا سبب بنی رہی ہے۔ علامہ نے اس نکتے کی وضاحت کے لیے شاہ ولی اللہ کے اس فکری مقدمے کو پیش کیا ہے کہ شریعت بالجملہ اور شریعت با لاطلاق میں فرق کیا جانا چاہیے۔ شریعت بالا طلاق میں زمانے اور نفوس انسانیہ کی رعایت ہوتی ہے۔ اور وہ مابعد کے لوگوں کے لیے واجب نہیں ہے۔ یہ عبارت حجۃ اللّٰہ البالغہ سے ہے۔شیخ سعید صاحب نے اپنے حواشی اور نوٹس میں اس بحث کا جو حوالہ نقل کیا ہے وہ جلد اول صفحہ ۱۱۸ کا ہے۔۴۳؎ اس جلد اور صفحے پر یہ مبحث موجود نہیں ہے۔ ازاں بعد شیخ صاحب نے اصل عربی عبارت نقل کی ہے جو ان کے بقول۴۴؎ علامہ نے الکلام از شبلی نعمانی میں دیکھی اور سید سلیمان ندوی کے نام خط میں اس کا حوالہ بھی دیا۔۴۵؎ شیخ صاحب کے پیش کردہ متن کی عبارت غالباً الکلام سے ماخوذ ہے کیونکہ عبارت کے درمیان سے چھ سطریں اور آخر سے دو سطریں جو شبلی نے حذف کیں۴۶؎ وہی شیخ صاحب کی عبارت میں بھی محذوف ہیں اور کوئی اشارا نہیں ہے کہ یہاں عبارت مسلسل نقل نہیں کی گئی۔ حجۃ اللّٰہ البالغہ کے عربی متن میں اگر یہ مبحث دیکھا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ شاہ صاحب کا مقصود وہ نہیں ہے جو ان سطور کے حذف کرنے سے برآمد ہوتا ہے۴۷؎ اور جو شبلی نے اس عبارت کو نقل کرنے کے بعد اردو میں بطور استنباط نتائج کے پیش کیا ہے۔ اس امر کی داخلی شہادت اس بات سے بھی ملتی ہے کہ شاہ صاحب نے اسی کتاب کی دوسری جلد میںالحدود کے عنوان سے سزائوں کے مبحث پر مفصل بات کی ہے۔ اگر وہ اسے اپنی اصطلاح میں شریعت بالجملہ میں سے نہ جانتے تو اسے شامل کیسے کر سکتے تھے۔۴۸؎ مزید یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ حدود و تعزیرات کو کبھی کسی فقیہ نے غیر دائمی نہیں جانا۔ ان کے نفاذ کا طریقہ البتہ اطلاق کے دائرے کی چیز ہے اور اسے حسب ضرورت تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ مقصود یہ کہ شبلی کے اس غیر صحیح استدلال سے ہمارے ہاں جو ایک نتیجہ نکالا گیا کہ کچھ اجزائے اسلام شریعت نہیں ہیں، صرف وقتی حیثیت کی چیزیں ہیں اور ان اجزاء میں دائرہ اصول و نصوص کی چیزوں کو بھی گھسیٹ لیا گیا ہے وہ درست نہیں ہے۔ چھٹا خطبہ حواشی ۱) تشکیل …… (انگریزی) ص ، ۱۱۷۔ ۲) تشکیل جدید … (اردو ) ترجمہ از نذیر نیازی، ص، ۷۔۲۲۶۔ ۳) صحیح بخاری ، کیف بداء الوحی۔ ۱:۳۔ ۴) ایضاً ۵) ابن اسحاق، سیرت رسول اللہ، وسٹن فلڈ ایڈیشن ، ص، ۱۵۱۔ ۶) بخاری، محولہ بالا۔ ۷) قرآن مجید ۵۔۱:۹۶۔ ۸) ابن اسحاق ، محولہ بالا۔ ۹) بخاری ،محولہ بالا۔ ۱۰) یونانی لفظ Nomos بہ معنی قانون خداوندی یا کتاب الہٰی کو یہاں فرشتہ وحی کے ہم معنی کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ ۱۱) ابن اسحاق، محولہ بالا، ص، ۴۔۱۵۳۔ ۱۲) بخاری، محولہ بالا۔ 13) Martin Lings, Muhammad, his Life according to the Earliest Sources, The Islamic Texts Society, Cambridge, England, 1991, p-43-44 ۱۴) تشکیل ……(انگریزی) ص،۱۱۷۔ ۱۵) تشکیل جدید …(اردو) ص ،۲۸۔۲۲۷۔ ۱۶) یہ سید نذیر نیازی کانوٹ ہے جو انہوں نے اس جگہ ترجمے پر دیا ہے۔ ۱۷) ایضاً ۔نوٹ ۳۱۔ ۱۸) قرآن مجید ۱۴۳:۲۔ ۱۹) قرآن مجید ۵۵:۲۴۔ ۲۰) تشکیل ……(انگریزی) ص،۱۱۹۔ ۲۱) تشکیل جدید …(اردو) ص، ۳۱۔۲۳۰۔ ۲۲) تشکیل ……(انگریزی) ص، ۲۰۔۱۱۹۔ ۲۳) تشکیل جدید …(اردو) ص ،۳۲۔۲۳۱۔ ۲۴) تشکیل ……(انگریزی) ص، ۱۲۰۔ ۲۵) تشکیل جدید ……(اردو)ص،۲۳۲۔ ۲۶) تشکیل ……(انگریزی) ص ،۱۲۱۔ ۲۷) تشکیل جدید …(اردو) ص ،۲۳۵۔ ۲۸) تشکیل ……(انگریزی) ص، ۲۴۔۱۲۱۔ ۲۹) ایضاً ۔ص ،۲۹۔ ۳۰) تشکیل جدید …(اردو) ص ،۲۴۳۔ ۳۱) برطانیہ ۱۶۴۶ء ۔ امریکہ ۱۷۷۰ء ۔ فرانس ۱۷۸۹ئ۔ ۳۲) تشکیل …… (انگریزی ) ص، ۱۲۶۔ ۳۳) تشکیل جدید …(اردو) ص،۲۴۳۔ ۳۴) یہ ترجمہ علامہ نے فشر کے جرمن ترجمے سے لیا ہے۔ ۳۵) تشکیل ……(انگریزی) ص، ۱۲۶۔ ۳۶) ایضاً ۔ص، ۱۲۹۔ ۳۷) تشکیل جدید …(اردو) ص ،۲۵۱۔ ۳۸) ایضاً ۳۹) ایضاً ۔ص ،۳۱۔۱۳۰۔ ۴۰) اس سلسلے میں کچھ عرصہ پہلے ایک اخباری بحث چلی تھی جس میں طرفین نے یہ اساسی امتیازات ملحوظ نہیں رکھے۔ دیکھیے یوسف گورایہ، ’’علامہ اقبال اور جدید اسلامی ریاست میں تعبیر شریعت کا اختیار ‘‘،روزنامہ جنگ، ۱۱ فروری، ۱۸ فروری، ۱۹۸۷ئ؛ محمد یوسف لدھیانوی، ’’علامہ اقبال اور جدید اسلامی ریاست میں تعبیر شریعت کا اختیار‘‘ جنگ، ۲۵۔۲۷؍ اپریل ۲۸ اپریل، ۳۰۔۲۹ اپریل، یکم مئی، ۳ مئی، ۴ مئی، ۶ مئی اور ۹ مئی، ۱۹۸۷ء ’’اقبال اجتہاد اور پارلیمنٹ‘‘ جنگ، ۱۹ مئی ۱۹۸۷ء ،۲۱ مئی، ۲۳ مئی ۱۹۸۷ئ؛ وارث میر ’’عصر حاضر کے تقاضے اور اقبال‘‘ جنگ ،۱۸ مئی ۱۹۸۷ئ؛ یوسف گورایہ ’’پاکستان، اقبال اور اجتہاد‘‘ نوائے وقت، ۹۔۸،جون، ۲۱۔۱۸ جون، ۱۹۸۴ء ؛ محمد امین ’’اسلامی ریاست میں تعبیر شریعت کے مجاز‘‘ نوائے وقت ۱۳۔۱۱ جولائی، ۱۹۸۷ئ؛ یوسف گورایہ ’’اقبال کا نظریہ اجتہاد اور پاکستان‘‘ نوائے وقت ۲۳ اگست ۱۹۸۷ئ۔ ۴۱) تشکیل ……(انگریزی) محولہ بالا ص ،۱۴۰۔ ۴۲) ایضاً ۴۳) ایضاً ۔ص ،۱۹۶۔ ۴۴) ایضاً ۔ص ،۱۹۷۔ ۴۵) شیخ عطاء اللہ اقبالنامہ، اول، ص ،۶۳۔۱۶۰۔ ۴۶) ر۔ ک ، شبلی نعمانی ، علم الکلام و الکلام ، نفیس اکیڈمی، کراچی، ۱۹۸۷ئ، محولہ بالا، ص،۸۔۲۳۷۔ ۴۷) شاہ ولی اللہ ، حجۃ اللہ البالغہ، عربی، دارالکتب الحدیثہ ، قاہرہ ، ت۔ ن، جلد اول ، ص،۸۔۲۴۷۔ ۴۸) ایضاً ۔جلد دوم،صفحات ۷۷۷۔۷۵۶ ۔ اسلامی سزائوں کے نفاذ کے ضمن میں اس نکتے کی وضاحت کے لیے کتاب کے آخر میں ملاحظہ کیجیے ضمیمہ نمبر۳ ’’سزایا نا سزا‘‘ ساتواں خطبہ کیا مذہب کا امکان ہے؟ اس خطبے میں علامہ نے کانٹ کے اسلوب میں ایک سوال اٹھایا ہے ۔ ان کا مقصود اس سوال کا اثبات میں جواب دینا ہے۔ اس سوال کا جواب نامکمل رہتا ہے جب تک ایک اور سوال اس سے منسلک کر کے نہ دیکھا جائے کہ مذہب کا امکان کیسے ہے؟ اس کی تفصیل کے لیے وہ شرائط طے کرنا ہوں گی جن کے بروئے کار آنے سے مذہب کا ایک امر واقعہ کے طور پر تحقق ہوتا ہے۔ علامہ کہتے ہیں کہ: اجمالاً پوچھیے تو مذہبی زندگی کی تقسیم تین ادوار میں ہو جاتی ہے جن میں ہر دور کو ایمان ، فکر اور معرفت کے ادوار سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور ایمان کا ہے، دوسرا فکر، تیسرا عرفان حقیقت کا۔ دور اول کی خصوصیت تو یہ ہے کہ ا س میں مذہب کا ظہور ایک ایسے نظم و ضبط کی شکل میں ہوتا ہے جسے افراد ہوں، یا اقوام ایک حکم کے طور پر اس لیے بے چون و چرا قبول کر لیتے ہیں۔ انہیں اس امر سے بحث نہیں ہوتی کہ اس نظم و ضبط کی حکمت از روئے عقل و فکر کیا ہے اور مصلحت کیا۔ Broadly speaking religious life may be divided into three periods. These may be described as the periods of 'Faith' 'Thought' and 'Discovery'. In the first period religious life appe- ars as a form of discipline which the individual or a whole people must accept as an unconditional command without any rational understanding of the ultimate meaning and purpose of that command. This attitude may be of great consequence in the social and political history of a people, but is not of much consequence in so far سیاسی اور ملی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ طرز عمل قوموں کی تاریخ میں بڑے بڑے دور رس اور وقیع نتائج کا باعث ہوتا ہے لیکن جہاں تک افراد کے اندرونی نشوونما اور وسعت ذات کا تعلق ہے اس پر اس سے کوئی خاص اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ نظم و ضبط کی پوری پوری اطاعت کے بعد وہ زمانہ آتا ہے جب لوگ عقلاً اس پر غور کرتے اور سمجھنا چاہتے ہیں کہ اس کا حقیقی سرچشمہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں مذہب کو کسی ایسی مابعدالطبیعیات کی جستجو رہتی ہے جو اس کے لیے ایک اساس کا کام دے سکے۔ یعنی منطقی اعتبار سے کائنات کے کسی ایسے نظریے کی جو تضاد و تناقض سے پاک ہو اور جس میں خدا کے لیے بھی کوئی جگہ ہو۔ لیکن تیسرا دور آتا ہے تو مابعد الطبیعیات کی جگہ نفسیات کے لیے خالی ہو جاتی ہے اور انسان کو یہ آرزو ہوتی ہے کہ حقیقت مطلقہ سے براہ راست اتحاد و اتصال قائم کرے۔ چنانچہ یہی مرحلہ ہے جس میں مذہب کا معاملہ زندگی اور طاقت و قدرت کا معاملہ بن جاتا ہے اور جس میں انسان کے اندر یہ صلاحیت پیدا ہوتی ہے کہ ایک آزاد اور بااختیار شخصیت حاصل کر لے، شریعت کے حدود و قیود کو توڑ کر نہیں بلکہ خود اپنے اعماق شعور میں اس کے مشاہدے سے۔ ۲؎ as the individual's inner growth and expansion are concerned. Perfect submission to discipline is followed by a rational understanding of he discipline and the ultimate source of its authority. In this period religi- ous life seeks its foundation in a kind of metaphysics___a logically consistent view of the world with God as a part of that view. In the third period metaphysics is disp- laced by psychology, and religious life develops the ambition to come into direct contact with he Ultimate Reality. It is here that religion becomes a matter of personal assimilation of life and power; and the individual achieves a free personality, not by releasing himsef from the fetters of the law, but by discovering the ultimate source of the law within the depths of his own consciousness.1 مذہبی زندگی کی اس تقسیم سہ گانہ کی بنیاد اور سند کیا ہے۔ غور کیاجائے تو اس میں مضمر دلیل یہ سمجھ میں آتی ہے کہ مذہب ایک طبیعی طور پر نمودار ہونے والی چیز ہے۔ جو اپنے آخری دور میں اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے۔ اس استدلال کو آگے بڑھانے کی راہ میں فوری طور پر کچھ اشکالات درپیش ہوتے ہیں۔ پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ’’خیر القرون قرنی‘‘ کی حدیث اور دیگر ارشادات نبوی جو اپنے دور اور اس دور کے لوگوں کی دینی کیفیت کو مابعد کے ہرزمانے سے بہتر قرار دیتے ہیں ان کو اس استدلال سے کیسے مطابقت دی جائے گی۔ دوسرا نکتہ یہ ہو گا کہ اگر اسے من و عن اور محمول علی الظاہر قبول کر لیا جائے تو مولانا روم (یا مابعد کے کسی بھی بڑے آدمی) کو بہ اعتبار ’’وسعت ذات اور اندرونی نشوونما‘‘ ابوبکر و عمر (رضی اللہ عنہما) سے فائق ماننا لازم آئے گا۔ علامہ اس مشکل سے نا آشنا نہیں تھے۔ لہٰذا ہماری رائے میں اس نکتے کو افقی اور زمانی طور پر قبول کرنے کے بجائے عمودی اور بہ یک آن شمار کرنا چاہیے۔ یعنی یہ کہ یہ تین درجات بیک وقت مختلف لوگوں میں پائے جاتے ہیں۔ اگر اسے اس طرح نہ مانا جائے تو یہ حدیث ہی سے نہیں قرآن سے بھی ٹکرا جائے گا جو’’ثلہ من الاولین و قلیل من الاخرین‘‘ ۳؎ کے الفاظ سے اس کمال باطنی کی اکثریت اور وفور کو پہلے ادوار سے منسوب کرتا ہے۔۴؎ نیز عقائد کے مسلمہ مسئلے یعنی فضیلت صحابہ بر آخرین کے بھی خلاف جائے گا۔ بنا بریں اس نکتے پر دوسرے انداز سے نظر کرنے کی ضرورت ہے کہ مذہبی زندگی اور کتاب و سنت پر ایمان نبی کی ملہم باللہ شخصیت سے پیدا ہوا۔ اہل ایمان کو جتنا بُعد زمانی ان کے سرمدی سرچشمہ ایمان سے ہوتا جائے گا اتنا ہی ضعف ایمان کا عموم ہوتا جائے گا۔ ایمان و ایقان کے ضعف کے ساتھ مذہبی زندگی کا دور تفکر جنم لیتا ہے۔ اس مرحلے پر معاشرہ اپنے سرچشمۂ فیض کی عقلی توجیہ تلاش کرنا شرو ع کرتا ہے تاکہ عملی زندگی میں ایک نیا تحرک پیدا ہو سکے۔ یہ زوال کا آغاز ہوتا ہے۔ عقلی بنیادوں کی یہ تلاش اصول اختباریت، وجدان یا عقلیت پرستی میں سے کسی پر بھی مبنی ہو سکتی ہے۔ اس مرحلے پر نظریہ سازی ہوتی ہے۔ یہ نظریہ سازی کسی ترقی کی علامت نہیں بلکہ اس کے برعکس ایک کمزوری کا اظہار ہوتی ہے۔ اس کی وضاحت کے لیے مندرجہ ذیل اقتباس دیکھیے۔ Now, the need for explanation does not increase with one's knowledge; rather, it becomes necessary to the extent that one is ignorant and has lost the immediate grasp of things through a dimming of the faculty of intuition and insight. As Islamic civilization drew away gradually from its source of revelation, the need for explanation increased to the degree that the spiritual insight and the perspicacity of men diminished. The early generations needed only a hint or directive (isharah) to understand the inner meaning of things; men of later centuries needed a fullfledged explanation. Through Ibn 'Arabi Islamic esotericism provided the doctrines which alone could guarantee the preservation of the Tradition among men who were always in danger of being led astray by incorrect reasoning and in most of whom the power of intellectual intuition was not strong enough to reign supreme over other human tendencies and to prevent the mind from falling into error. 5 علامہ نے مذہب کے امکان کا اثبات دو بنیادوں پر کیا ہے:۔ ۱۔ کانٹ نے اس سوال کا جواب نفی میں دیا تھا کہ کیا مابعد الطبیعیات کا امکان ہے؟۔ یہ منفی جواب قابل قبول نہیں ہے کیونکہ اس سے مذہبی حقائق کی تردید لازم آتی ہے۔ ۲۔ مذہب ایک امر واقعہ ہے اور اس پر کئے جانے والے تمام اعتراضات کا کامیابی سے رد کیا جا سکتا ہے۔ کانٹ نے مابعدالطبیعیات کے مسئلے پر جو اعتراض اٹھایا تھا اس کے دو پہلو ہیں۔ مابعد الطبیعیات بطور ایک علم (Science ) اور مابعدالطبیعیات من حیث الاعم۔ کانٹ نے مابعد الطبیعیات کے بطور ایک سائنس کے امکان سے انکار کیا ہے۔ جبکہ مابعدالطبیعیات اس کے لیے اتنی اہم ہے کہ اس نے اپنے عملی فلسفے کی بنیاد اس پر رکھی ہے۔ علامہ نے اس کی تردید کرتے ہوئے دونوں حیثیتوں کو ایک ہی شمار کیا ہے اور اس لیے تردید کی بنیاد اس بات پر رکھی ہے کہ مذہب اور فلسفے کا مسئلہ مشترک ہے۔ لہٰذا مابعدالطبیعیات کا عدم امکان مذہب کے عدم امکان کو مستلزم ہے۔ کانٹ کے استدلال کا رخ دوسری طرف ہے۔ اس کے تسلیم کرنے سے مذہب کی تردید ضروری نہیں۔ حقیقت مطلقہ موجود ہو سکتی ہے اور میرے پاس فراہم قویٰ علم اس کو گرفت میں لانے سے قاصر ہو سکتے ہیں یا یہ حقیقت میرے قویٰ علم کے احاطے میں نہیں آ سکتی بنا بریں حقیقت کا اثبات بربنائے ایمان اور اس کی ذات کے علم سے عجز کا اقرار کرنے میں کوئی تضاد نہیں۔ آگے بڑھیے تو امکان مابعد الطبیعیات کے سلسلے میں کانٹ کا منفی جواب اس لیے قابل قبول نہیں کہ ہمارے پاس ایک علم عطا کرنے والی واردات موجود ہے جسے وجدان Intuitionکہا گیا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اس دلیل سے دوسرے اور تیسرے خطبے کے استدلال سے ٹکرائو جنم لیتا ہے اور یا تو اس کے نتائج قبول کرنا مشکل ہو جاتا ہے یا یہ دعویٰ کہ ہمارے پاس ایک ایسا علم ہے جس کی بنیاد پر کانٹ کی دلیل کا توڑ کیا جا سکتا ہے، چھوڑنا پڑتا ہے۔ دوسرے خطبے میں وجود باری کی معروف دلیلوں کا تذکرہ کرنے کے بعد علامہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اگر وجو د اور فکر یا معقول و محسوس کی دوئی ختم ہو جائے تو یہ دلائل نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں۔۶؎ بنابریں علامہ نے اس دوئی کو ختم کرنے کے لیے انائے مطلق کا نظریہ پیش کیا۔ اس کاوش میں ایک چیز مضمر تھی کہ اگر فکر اور وجود واحد الاصل ہوں تو فکر حقیقت تک رسائی کے لیے کفایت کرے گی اور وحدت مان لی جائے تو کانٹ کی تردید کسی اور بنیاد پر کرنا ہو گی اور صرف ایک ایسے تجربے (واردات) کا امکان کافی نہ ہو گا جو حصول علم کا سبب ہو۔ ممکن ہے علامہ نے اس الگ نوع کے تجربے کی بنیاد پر وحدت فکر و وجود کی بات کی ہو۔ وہ خودی کے دو پہلوئوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ Efficient اور Appreciative موخر الذکر کا تعلق تخلیقی اور جمالیاتی شعور سے ہے، وہ رویہ جو کسی شاہکار ہنر کے مشاہدے میں روبہ عمل ہوتا ہے۔ یہاں پھر ہم جمالیاتی شعور اور علمی شعور میں امتیاز کر سکتے ہیں۔ کسی حسین شے کے مشاہدے میں ہم اپنے آپ سے باہر چھلک پڑتے ہیں، اس کا مظاہرہ اپنی خودی سے بے خود کر دیتا ہے اور ہم ایک طرح سے اپنے آپ سے اوپر اٹھ جاتے ہیں۔ ان مشاہدات میں منظور پر ارتکاز توجہ کی وجہ سے ناظر گویا غائب ہو جاتا ہے۔ ناظر و منظور کی دوئی ختم نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس عالم و معلوم کی دوئی حصول علم کی شرط ہے۔ بنابریں Appreciative کا لاحقہ فنون و ہنر کی داد دینے سے متعلق ہے، حصول علم کے معاملے میں اس کی نسبت قائم نہیں ہوتی۔ دوسری طرف اس الگ نوع کی واردات کے دفاع میں علامہ مندرجہ ذیل نکات پر غور کی دعوت دیتے ہیں۔ لہٰذا جب صرف مذہبی واردات پر قناعت کرتے ہوئے ہم حقیقت تک پہنچنا چاہتے ہیں تو ہمارا نقطۂ نظر لازماً انفرادی ہو جاتا ہے اور اس لیے ناممکن ہے ہم دوسروں کو بھی اس شریک کر سکیں۔۸؎ The standpoint of the man who relies on religious experience for capturing Reality must always remain individual and incomm- unicable for concepts alone are capable of being socialized. 7 اعتراض کا جواب علامہ نے یہ دیا کہ بہرحال مذہبی واردات کو اگر دوسروں تک پہنچانا ممکن نہیں تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ اہل مذہب کی جستجو سر تا سر عبث اور لا حاصل ہے ، کیونکہ ان واردات کی یہی تو وہ خصوصیت ہے جس سے ہمیں خودی کی حقیقت کا تھوڑا بہت سراغ مل جاتا ہے۔ ۱۰؎ The fact, however, that religious experience is incommunicable does not mean that the religious man's pursuit is futile. Indeed, the incommunicablility of religious experience gives us a clue to the ultimate nature of the ego.9 اور یہ بھی کہ: ان کے اندر بھی صاحب واردات کے لیے تعقل کا ایک عنصر شامل رہتا ہے۔ لیکن یہاں جو بات اہم ہے وہ یہ کہ یہی مشاہدات ہیں جن کی بدولت صاحب مشاہدات اپنی خودی کی قوتوں کو ایک مرکز پر لاتا اور اس طرح ایک نئی شخصیت کی تعمیر کر لیتا ہے۔۱۲؎ They possess a cognitive value for the recipient, and what is much more important, a capacity to centralize the forces of the ego and thereby to endow him with a new personality.11 اس پس منظر میں جب ذات نبوی کی واردات باطنی کی معنویت پر غور کیا جائے تو یوں لگتا ہے کہ یہ تجربہ حقیقت مطلقہ کا نہیں بلکہ حقیقت مطلقہ بطور الہٰ شخصی کا ہے جو انسانوں کے لیے ہدایت نازل کرتا ہے اور جو اسے وصول کرنے والے کے لیے ہی تعقل کا عنصر نہیں رکھتی بلکہ نوع انسانی کے لیے قابل ابلاغ بھی ہوتی ہے۔ وحی نبوی تصورات Concepts کی شکل میں ہوتی ہے اور قابل ابلاغ بھی ورنہ نبی کی ذمہ داری بطور ’’بلغ ما انزل الیک من ربک‘‘ ۱۳؎ معرض خطر میں پڑ جائے۔ صوفیانہ کشف و الہام اور نبوت کی اس جہت میں امتیاز بہت ضروری ہے۔ دوسرا اعتراض جو علامہ بہ دلائل رد کرتے ہیں یہ ہے کہ مذہبی واردات مخفی، مبہم اور نفسیاتی مرض کا شاخسانہ ہے اور آنحضرت ؐ نفسیاتی مریض تھے لہٰذا اس واردات کی صداقت مشکوک ہے۔ علامہ نے کہا کہ چلیے اگر یہ فرض بھی کر لیں کہ نفسیاتی مرض تھا تو بھیکچھ ایسے ہی نظریے نفسیاتی اعتبار سے آنحضرت صلعم کی ذات والا صفات کے بارے میں بھی قائم کیے جاتے ہیں۔ لیکن ذرا سوچیے تو کہ: جب کوئی انسان تاریخ عالم کا رخ ہمیشہ کے لیے بدل کر اسے ایک نئی سمت پر ڈال دے تو نفسیات کے لیے اس سے زیادہ اہم مسئلہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ ہم ان واردات کی سنجیدگی سے تحقیق کریں جن کی بدولت غلاموں کے اندر وہ صفات پیدا ہوئیں کہ انہوں نے دنیا کی امامت اور رہنمائی کا فریضہ ادا کیا اور جن کی زیر اثر قوموں اور نسلوں کے اخلاق و کردار اس طرح بدلے کہ ان کی زندگی نے ایک بالکل نئی شکل اختیار کر لی۔۱۵؎ If a psychopath has the power to give a fresh direction to the course of human history, it is a point of the highest psychological interest to search his original experience which has turned slaves into leaders of men, and has inspired the conduct and shaped the career of whole races of mankind14 یہاں بھی یہ بات پیش نظر رہے کہ علامہ نے اپنے مخاطبین کی رعایت سے یہ بات تسلیم کی کہ اگر تمہارے مفروضے پر ہی چلیں تب بھی یہ ماننا پڑے گا کہ یہ شخصیت اپنے ذہن کے تانے بانے کی اسیر نہیں تھی بلکہ خارجی معروضی حقیقت سے رابطے کی وجہ سے کارنامہ انجام دے رہی تھی۔ تاہم یہ بات غور طلب ہے کہ علامہ نے قرآن کا صریح دعویٰ کہ ’’و ماصاحبکم بمجنون‘‘ دلیل میں پیش نہیں کیا اور یہ نہیں بتایا کہ اس طرح کی عضویاتی خرابی کی شکار شخصیات میں منتشر شخصیت ضرور ہوتی ہے جبکہ آنحضرت کی شخصیت میں کسی طرح بھی اس کا شائبہ نہیں تھا۔ آگے چل کر علامہ نے اس نکتے کو مزید وسعت دی ہے اور اپنے پرانے استدلال کی توسیع کے لیے استعمال کیا ہے۔ استدلال یہ تھا کہ ایک الگ نوع اور مرتبے کے تجربے کا امکان ہے کیونکہ اس کے نتائج تاریخ نے بلا تردید ثبت کئے ہیں۔ اس تجربے کے امکان سے مذہب کا اثبات فراہم ہوتا ہے۔ اس نکتے کے تحت وہ کہتے ہیں کہ ممکن ہے نفسیات جن افراد کو بظاہر دماغی مریض تصور کرتی ہے ان میں فی الواقعہ کوئی ایسی ہستی بھی نکل آئے جسے عقل و فکر سے غیر معمولی بہرہ ملا ہو اور جو Perhaps a psychopath endowed with a great intellect___the com- bination is not an impossib- ility__may give us a clue to such اس قسم کا کوئی طریق وضع کر سکے۔ ہمارے نزدیک یہ امتزاج غیر ممکن نہیں۔ جدید یورپ میں نطشے جس کی زندگی اور سرگرمیوں سے کم از کم ہم اہل مشرق کے نزدیک تو نفسیات مذہب کی رو سے بڑے دلچسپ مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، خلقی طور پر اس قابل تھا کہ اس کام کا بیڑا اٹھا سکے۔ اس کے دل و دماغ کی سرگزشت پر نظر دالیے تو مشرقی تصوف کی تاریخ میں اس قسم کی اور بھی مثالیں مل جائیں گی۔ بے شک نطشے نے اپنے اندر عالم لاہوت کی ایک جھلک دیکھی اور وہ ایک حکم قطعی بن کر اس کے سامنے آئی۔ ہم اس کو حکم قطعی کہیں گے کیونکہ یہی جھلک تھی جس کی بدولت اس میں ایک پیغمبرانہ سی ذہنیت پیدا ہو گئی، وہ ذہنیت جو اس قسم کی تجلیات کو کسی نہ کسی طرح زندگی کی مستقل قوتوں میں تبدیل کر دیتی ہے ۱۷؎ a technique. In modern Europe, Neitzsche, whose life and activity form, at least to us Easterns, an exceedingly interesting problem in religious psychology, was endowed with some sort of a constitutional equipment for such an undertaking. His mental history is not without a parallel in the history of Eastern Sufism. That a really imperative vision of the Divine in man did come to him, cannot be denied. I call his vision imperative because it appears to have given him a kind of prophetic mentality which, by some kind of technique, aims at turning its visions into permanent life-force.16 یہاں ایک اشکال ہے کہ ایک عام آدمی کی زندگی میں یہ روحانی طلب ہوتی ہے اور ایک نبی کی زندگی میں اس طلب کی تکمیل ایک مابعد الطبیعیاتی وسیلے سے ہوتی ہے۔ ان میں فرق کیا جانا چاہیے۔ وہ نطشے کو نبی آسا قرار دیتے ہیں کیونکہ:۔ یہ صرف میں ہوں جسے ایک زبردست مسئلہ درپیش ہے۔ معلوم ہوتا ہے میں کسی جنگل میں کھویا ہوا ہوں، کسی ازلی جنگل میں۔ کاش کوئی میری دستگیری کرتا۔ میرے کچھ مرید ہوتے۔ میرا کوئی آقا ہوتا۔ اس کی اطاعت میں کیسا لطف ملتا، وہ یہ بھی کہتا تھا ’مجھے اس طرح کے انسان کیوں نہیں ملتے جن کی نگاہیں مجھ سے بھی بلند ہوتیں، جو مجھ کوحقارت سے دیکھتے۔ شاید اس لیے کہ میں نے ان کی تلاش میں 'I confront alone', he says, 'an immense problem: it is as I am lost in a forest, a primeval one. I need help. I need disciples: I need a master. It would be so sweet to obey'. And again: Why do I not find among the living men who see higher than I do and have to look down on me? Is it only that I have made a poor search? And I have so پورے خلوص سے کام نہیں لیا، حالانکہ میں ان کے لیے تڑپ رہا ہوں، ۱۹؎ great a longing for such.18 سطور ماقبل میں مذکور استدلال کو قبول کرنے میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ اگر اس تجربے کے عملی نتائج کو اس کی صداقت کی دلیل بنایا جائے تو وہ تمام انبیاء اس زمرے سے خارج ہو جائیں گے جو معاشرے میں تبدیلی نہ لا سکے یا جن پر ان کی قوم غالب آ گئی ۔ اور اگر ان کو بھی ناکامی کے باوجود شامل کیا جائے تو پھر ناکام نطشے بھی امیدوار بن سکتا ہے۔ یہ التباس اس لیے ہو رہا ہے کہ علامہ کے استدلال سے یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ شاید وہ نبوت کا جوہر اس نوع کے سوالوں کو قرار دے رہے ہیں جو نطشے کے ذہن پر طاری تھے۔ یہاں ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ جو ہر نبوت ان سوالوں کے ناقابل خطاحل میں مضمر ہے جو ایک مابعدالطبیعیاتی منبع سے حاصل ہوتا ہے۔ صرف سوالوں کا وجود اس جوہر کے ہونے کی دلیل نہیں ۔ علامہ نے اس خطبے میں اور قبل ازیں اور مقامات پر بھی نظریۂ ارتقاء کا حوالہ دیا ہے اور قدیم مسلمان حکماء اور مصنفین کے ہاں اس نظریے کے مماثل نظریات کی نشاندہی کی ہے۔ اس سلسلے میں اخوان الصفا ۲۰؎ اور ابن مسکویہ ۲۱؎ اور مولانا روم کا تذکرہ بھی آیا ہے۔ یہ بات ہے بھی درست کہ ان کے خیالات اور ڈارون والے فرضیۂ ارتقاء میں ظاہری مشابہت بھی نظر آتی ہے اور اس بنا پر ہمارے بعض ثقہ مفکرین نے بھی ان حضرات کے خیالات کو ڈارون سے مشابہ قرار دیا ہے۔ ۲۲؎ تاہم اگر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مشابہت بالکل سطحی ہے اور اسلام میں کسی بھی مفکر نے اس معنی میں ارتقاء کا اثبات نہیں کیا جس میں مغرب کے مفکرین نے کیا اور جو آج سائنسی دنیا کا سکہ رائج الوقت ہے۔ اخوان الصفاء کے ہاں اس نظریے کے بارے میں سید حسین نصر لکھتے ہیں۔ The chain of Being described by the Ikhwan possesses a temporal aspect which has led certain scholars to the view that the authors of the Rasa'il beleived in the modern theory of evolution, From what we have discussed thus far however, the divergence of the Ikhwan from modern theories of evolution should be clear. First of all, according to the Rasa'il all changes on earth occur as acts of the Universal Soul and not by an independent agent acting within bodies here on earth. Secondly, according to the Ikhwan this world is a shadow of another world more real than it, and the "idea" of everything in this world actually exists in the other, so that there is no question of a species changing into another, because the "idea" of each species is a form which is beyond change and decay. In the words of the Ikhwan: "The species and genus are definite and preserved. Their forms are in matter. But the individuals are in perpetual flow; they are neither definite nor preserved. The reason for the conservation of forms, genus and species, in matter is the fixity of their celestial cause because their efficient cause is the Universal Soul of the spheres instead of the change and continous flux of individuals which is due to the variability of their cause." The distinction between the traditional doctrine of gradation and the modern theory of evolution is clearly stated in these words of the Ikhwan themselves. There do exist, however, certain similarities between the views of the Ikhwan and modern theories in that both believe that the date of animals, just as minerals precede the plants. Also, the Ikhwan believe in the adaptation of organisms to their environment, much in the manner of the authors of the nineteenth century, but the authors of the Rasa'il consider it from a different perspective. Their whole conception of Nature is, of course, teleological. Everything exists for a purpose, the final purpose of the cosmos being the return of multiplicity to Unity within the heart of the saints. It is only in this context that the appearance in time of each kingdom is considered.23 In the Universe, where the wisdom of the Creator is to be seen everywhere, every occurrence has its reason and shows the wisdom of God, so that each creature possesses those faculties which conform to its needs. With respect to the animals, the Ikhwan write: "Providential wisdom stipulates that an animal be given on other organs than these. If it were otherwise the animal would be hindered and its safety and continued existence endangered. "Adaptation to the environment", is not the result of struggles for life or "survival of the fittest" but comes from the wisdom of he Creator, Who has given to each creature what corresponds to its need. In the deepest sense, What separates all these ideas of the Ikhwan from their modern counterparts is that for the Ikhwan the hands of God were not cut off from creation after the beginning of the world.... as is the case with the deists. On the contrary, every event here "below" is performed from "above" by the Universal Soul, which is God's agent. Consequently, the purpose of the study of Nature is to see these "vestiges of God" ___the vestigia Dei as he medieval Latinists used to express it ___ so that, thanks to the analogy existing between the Universe and man, the soul through this knowledge of cosmic realities can come to know itself better and ultimately be able to escape from the earthly prison into which it has fallen. "Thy soul, oh Brother, is one of the pure forms. Use your efforts then to know it. Thou willst succeed probably in saving it from the ocean of matter to raise it from the abyss of the body and deliver it from the prison of Nature". یہی معاملہ ابن مسکویہ کی الفوز الاصغر کا ہے اور اسی کا اطلاق مولانا روم پر ہوتا ہے۔ مثنوی میں مولانا نے جو تمام مراتب سے گزرنے کا ذکر کیا ہے ۲۴؎اس کی معنویت مغربی ارتقائی نظریات سے بالکل جداگانہ ہے اس ضمن میں ڈاکٹر نصر لکھتے ہیں۔ In discussing the classification and morphology of plants and animals a comparison may be made between the traditional concept of gradation and the modern notion of evolution. There is no doubt that many Muslim authors like Biruni and the Ikhwan were quite aware of the meaning of fossils and of the fact that during other periods of the history of the earth flora and fauna of a different kind existed on the surface of the earth. Moreover, the idea of the gradation of being or the passage of the One Spirit through all the realms of nature has been expressed by many philosophers and Sufis. All schools of Islamic thought are based on the fundamental concept of the hierachy of being but envisage it in different ways. The peripatetics speak of the levels of the Ptolematic cosmos as symbols of the levels of being, and the Illuminationists of the longitudinal angelic order. The Sufis of the school of Ibn Arabi expound their teachings in the languages of the Divine Presences and the followers of Mullas Sadra base their teachings upon the doctrine of transubstantial motion (al-harakat al-jawhariyyah). The sapiential schools of Islamic thought all believed in the vertical movement, towards perfection in a Universe in which all the possibilities of the higher states of being are present here and now and not in some imagined time in the future. They, therefore, stand totally opposed to evolution in its modern sense, whatever may be the appearances. They reject completely the views of those modernised Muslims who themselves have been affected by the psychosis of evolution and progress. 25 اس سلسلے میں تفصیلات بہت ہیں ۲۶؎ ۔ ہم صرف خلاصے کے طور پر سطور ذیل پیش کرتے ہیں۔ In all sacred Scriptures and traditional sources whether they speak of creation in six days or of cosmic cycles lasting over vast expanses of time, there is not one indication that higher life forms evolved from lower ones. In all sacred books man descends from a celestial archetype and does not ascend from the ape or some other creature. Whatever concoctions of scriptural evidence have been made up to support modern evolutionary theory since the last century, they are based upon the forgetting of the traditional and sapiential commentaries and on interpreting the vertical scale of existence in a temporal and horizontal fashion as was done philosophically as a background for the rise of nineteenth century evolutionary theory itself. The remarkable unanimity of sacred texts belonging to all kinds of peoples and climes surely says something about the nature of man. In any case, it is one more proof against those who would seek to make use of a particular text from one tradition or a few lines judiciously chosen from a certain scripture which would lend themselves more easily to misinterpretation in order to demonstrate religious support for the validity of the theory of evolutio n.27 ساتواں خطبہ حواشی ۱) تشکیل جدید الہیات اسلامیہ ، انگریزی، حوالہ ماقبل ، ص، ۱۴۳۔ ۲) تشکیل جدید الہیات سلامیہ، اردو ترجمہ ، نذیر نیازی، حوالہ ما قبل، ص، ۲۷۹۔ ۳) قرآن مجید ۔ ۱۳:۵۶۔ ۴) قرآن مجید۔ ۱۶:۵۷۔ ۵) سید حسین نصر، تین مسلمان فیلسوف (انگریزی)، لاہور ، سہیل اکادمی، ۱۹۸۳ء ص، ۹۱۔ ۶) دیکھیے جان کیرڈ، محولہ ماقبل در خطبہ اول۔ ۷) تشکیل …( انگریزی) محولہ بالا، ص، ۱۴۵۔ ۸) تشکیل جدید …(اردو) محولہ بالا ، ص ، ۲۸۲۔ ۹) تشکیل … (انگریزی) محولہ بالا ، ص ، ۱۴۵۔ ۱۰) تشکیل جدید … (اردو) محولہ بالا، ص،۲۸۳۔ ۱۱) تشکیل … (انگریزی) محولہ بالا ، ص ، ۱۵۰ ۔ ۱۲) تشکیل جدید … (اردو) محولہ بالا ، ص ، ۲۹۳ ۔ ۱۳) قرآن مجید ۔ ۶۷:۵۔ ۱۴) تشکیل …(انگریزی ) محولہ بالا ،ص ،۱۵۰۔ ۱۵) تشکیل جدید …ص،۲۹۴۔ ۱۶) تشکیل …ص ،۱۵۴۔ ۱۷) تشکیل جدید …ص ،۲۔۳۱۔ ۱۸) تشکیل …(انگریزی ) ، محولہ بالا ،ص،۵۔۱۵۴۔ ۱۹) تشکیل جدید…(اردو ) محولہ بالا ،ص، ۳۔۳۰۲۔ ۲۰) تشکیل …ص، ۸۔۱۴۷۔ ۲۱) ایضاً ۔ص، ۸۔۱۴۷۔ ۲۲) ڈاکٹر حمید اللہ، خطبات بہاولپور، ادارئہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد، ۱۹۸۵ئ، ص، ۲۰۸ ؛ نیز دیکھیے،’’ المصادر الاسلامیہ لداروین فی نظرہ عن اصل الانواع‘‘،مشمولہ الدراسات الاسلامیہ، ۱۹۸۱ئ، بحوالہ خطبات بہاولپور، محولہ بالا۔ ۲۳) مثنوی مولانا روم، مرتبہ، نکلسن، لائیڈن، ۱۹۲۹ئ، ابیات نمبر ۴۷۔۳۶۳۷۔ 24) S.H. Nasr, An Introduction to Islamic Cosmological Doctrines, Harvard, 1964, p. 71-74. 25) Nasr, Islamic Life and Thought, Lahore,1985, p.136. 26) Nasr, Knowledge and the Sacred, Lahore 1988, p-109-71, 234-42. 27) Ibid. pp. 236-7. اختتامیہ ہم نے تمام خطبات میں الگ الگ یہ دیکھا کہ ہر خطبے کے مرکزی نکات اور اہداف و مقاصد کیا تھے۔ ان کی تعبیر نو کے اسالیب میں کیا مسائل درپیش تھے اور مخاطبین کی رعایت اور تقریب فہم کی مصلحت سے علامہ نے ان کو کس طرح پیش کیا۔ اختتامیہ کے تحت ہم ان مباحث پر ایک مختصر نظر ڈالنا چاہتے ہیں اور نتیجۂ بحث کو سمیٹ کر یکجاپیش کرنا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ ڈاکٹر ظفرالحسن صاحب نے اپنے صدارتی خطبے میں وضاحت کی تھی ۱؎ علامہ نے علم الکلام کے پرانے اسالیب سے ہٹ کر ایک تیسرا اسلوب استدلال اختیار کیا ہے جو اساساً اس نکتے پر مشتمل ہے کہ فلسفہ مذہب اور شعر عالی میں بنیادی طور پر کوئی تفاوت نہیں کیونکہ ان کا ہدف مشترک ہے اور یہ ہدف ہے علم مابعد الطبیعیات۔ اس مابعد الطبیعیات کی تشکیل کے لیے علامہ نے کہا کہ یہ امر ممتنع ہوتا اگر ہم ایک نئے تجربے، ایک الگ واردات (وجدان) کے حامل نہ ہوتے۔ یہ وجدان ان کے ہاں کبھی عقل جزوی کی بالاتر شکل قرار پاتی ہے اور کبھی ایک داخلی تجربے یا باطنی مشاہدے کے مترادف۔ ساتھ ہی یہ مسئلہ بھی دوسرے خطبے میں ابھرتا ہے کہ اس خطبے کے استدلال کے مطابق یہ وجدان، ایک قضیۂ زائد از ضرورت بن جاتا ہے۔ اولاًاس لیے کہ علامہ یہ کہتے ہیں کہ عام تجربہ حقیقت کے اسی تصور تک رہنمائی کرتا ہے جہاں تک وجدان پہنچتا ہے۔ ثانیاًیہ کہ جان کیرڈ کے دلائل کی بنیاد پر وہ یہ کہتے ہیں کہ وجود خداوندی کے فلسفیانہ دلائل اطمینان بخش ہو سکتے ہیں اگر فکر اور وجود یا معقول و موجود کی وحدت متصور ہو جائے اور پھر پورا زور استدلال، فکر اور وجود کی وحدت ثابت کرنے پر صرف کرتے ہیں۔ ’وجدان‘ کا جواز وجود تلاش کرنے کی احتیاج کانٹ کے اس نتیجہ فکر کو رد کرنے سے پیدا ہوئی تھی کہ ’’مابعد الطبیعیات کا علم ناممکن ہے کیونکہ ہم یہ فرض نہیں کر سکتے کہ حقیقت اولیٰ کی ماہیت یوں ہے یا یوں ہے تاوقتیکہ کہ یہ ہمارا تجربہ نہ ہو۔ اس لیے کہ فرد انسانی حواس کی مدد کے بغیر حقیقت محسوس کو گرفت میں نہیں لا سکتا اور حقیقت اولیٰ کا تجربہ ہمیں حاصل نہیں، بنابریں حقیقت اولیٰ کا علم بھی ناممکن ہے‘‘۔ مادیت پرستوں نے طبیعیات کے مقولات کی بنیاد پر ایک مابعد الطبیعیات کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی۔ ان کی غلطی یہ تھی کہ وہ ان مقولات سے حقیقت اولیٰ کی توجیہ و تعلیل کر رہے تھے جن سے صرف غیر نامیاتی مظاہر کی توجیہ ٹھیک سے ہو سکتی تھی۔ اس تنگنائے میں علم مابعد الطبیعیات سما نہیں سکتا تھا کیونکہ حقیقت کی نامیاتی اور شعوری جہات کی توجیہ ان مقولات سے ہو نہیں سکتی تھی اور نہ مذہب، اخلاقیات اور آرٹ کے تقاضوں کی۔ علامہ نے ان حضرات کے رد کے لیے دوسرے نکتۂ استدلال کو آگے بڑھایا اور مابعد الطبیعیات کی بنا حرکت، نمو، تفرید، شعور، انا (خودی) مقصدیت ، از خود حرکت جیسے مقولات پر رکھی اور غیر نامیاتی موجودات کو بھی ’’غیر ترقی یافتہ انیتوں‘‘ (خودیوں) Colony of undeveloped egoes کی حیثیت دی۔ ان مقولات کی بنیاد پر مابعد الطبیعیات کی تعمیر سے کچھ تقاضے پیدا ہوئے اور کچھ آسانیاں میسر ہوئیں۔ بات سمجھانے کی سہولت پیدا ہوئی اور مذہب اور اخلاقیات کے معاملات پر حیاتیاتی اور نفسیاتی فکر کے مقولات کے اطلاق سے چند مسائل نے جنم لیا، مثلا: شعور مذہبی کے مضمرات میں سے ذات باری کا منشائے کمال ہونا بھی ہے اسے جبEgo's infinite possibility of unfolding itself یعنی ظہور ذات کے لامحدود امکانات کے مترادف قرار دیا جائے تو اس سے ایک مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ نئی اصطلاح میں کمال خداوندی ایک مسلسل دمیدگی کے ہم معنی ہو جاتا ہے اور اس کا صریح مطلب یہ نکلتا ہے کہ خدا بھی عمل شدنProcess of becoming کے دائرے میں اسیر ہو گیا۔ اس استدلال سے علامہ نے ثابت یہ کیا تھا کہ انسانی معاشرے میں خوب سے خوب تر کی جانب سفر ممکن ہے مگر استدلال کے منطقی انجام پر یہ معلوم ہوا کہ ذات خداوندی کے لیے بھی تغیر بہ جانب خوبی متصور ہو سکتا ہے۔ شعور مذہبی کے نزدیک کمال خداوندی کا تقاضا آزاد تصرف و تخلیق سے متصف ہونا بھی تھا۔ مذکورہ بالا استدلال کے مضمرات میں ایک دوسری بات ظاہر ہوئی کہ ذات باری ، ظہور ذات یا خود دمیدگی کے عمل میں ہے اور چونکہ ظہور کائنات بھی اسی ظہور ذات کے عمل کا حصہ ہے لہٰذا جو بھی چیزیں وجود میں آ رہی ہیں وہ خلقی طور پر اس ذات Egoکی ماہیت کے مطابق اسیرو مجبور ہیں اور، بنابریں، آزاد تصرف و تاثیر کی گنجائش ختم ہوتی نظر آتی ہے۔ آزادی و اختیار کو از خود حرکت کے مترادف کہا گیا۔ از خود حرکت تمام موجودات کی صفت قرار دی گئی کیونکہ غیر نامیاتی مادہ بھی’’Colony of egoes‘‘ ہے۔ بنابریں آزادی واختیار صرف ذات باری کی صفت نہیں بلکہ حیوانات اور ایک محدود معنی میں نباتات اور جماد، کو بھی حاصل ہوئی۔ یہ آزادی صرف ان موجودات کو تعلیل خارجی سے آزاد کرتی ہے اور جبرداخلی سے رستگاری نہیں دیتی۔ اسی معنی میں مذہبی شعور اس سے مطمئن نہیں ہوتا۔ ذات خداوندی کے بیان میں اس کی تعبیر حیاتیاتی تصور انفرادیت سے کی گئی۔ وہ انفرادیت یکتا جس کا ’’غیر‘‘ اس کے مقابل نہ ہو اور جس کا کوئی جزو اس سے الگ وجود نہ رکھتا ہو۔ تنزیہ کا تصور مذہبی شعور کے بنیادی مطالبات میں سے ہے۔ جب ہم ظہور کائنات کو ذات باری کے عمل ظہور ذات کے برابر قرار دیں گے تو تنزیہ صرف یہ ہو گی کہ خودی کا وہ حصہ جو ہنوز ظہور یا خود دمیدگی کے عمل سے منزہ ہو یا جو وجود پذیر نہ ہوا ہو۔ اسی طرح تخلیق کے تصور کی طرف آیئے۔ جب اس کو نئی اصطلاح میں حیاتیاتی تصورات کی مثال پر ’’نمو‘‘ یا ’’خود دمیدگی‘‘ کے الفاظ سے بیان کیا جائے گا اور ان تصورات کو اصول تعلیل قرار دیا جائے گا تو اس کا وہ مذہبی سیاق و سباق مجروح ہو گا جس کے حوالے سے افادیت دعا اور امور دنیا میں تصرف خداوندی متصور ہوتے ہیں۔ وحی یا تنزیل الٰہی بھی اسی طرح شعور مذہبی کے مضمرات میں سے ہے۔ اسے جب ایک معروضی حقیقت کے بجائے کائناتی صفت حیات کی اصطلاح سے بیان کیا جائے گا تو کچھ مسائل جنم لیں گے۔ علامہ نے فلسفے اور مذہب کے مشترک ہدف کو آغاز استدلال بلکہ اساس استدلال کے طور پر استعمال کیا تھا۔ اس عمل میں فلسفے کے نمائندوں کے افکار لامحالہ حوالے کے نکتے کے طور پر برتے گیے تھے اور ان سے عمومی آشنائی کو دیگر حقائق سے (بربنائے مشابہت) تعارف کے لیے وسیلہ بنایا گیا تھا۔ اس کام کے لیے اہل فلسفہ کو بہت سی جگہ چھوٹ دینا اور فلسفہ و مذہب کے امتیاز کو نظر انداز کرنا پڑا۔ یہ ایک بڑے کام کا لمحہ آغاز تھا۔ دور جدید اور فکر معاصر کے سامنے، مغرب کی یلغار کے جلو میں، اسلام کی فکر تعبیر نو۔ ایسی تعبیر جو ایک طرف اپنی اصل کی وفادار ہو اور دوسری جانب تقاضائے وقت، احتیاج مخاطبین اور علمی مسائل سے بخوبی عہدہ برا ہو سکے۔ علامہ نے اس کام کی دور جدید میں سب سے زیادہ کامیابی سے بنا رکھی۔ انہیں اپنی راہ خود نکالنا تھی اور آنے والوں کو راستہ دکھانا تھا۔ ان کی مثال کی پیروی میں اب یہ ہمارا اور آنے والوں کا فرض ہو گا کہ ان کے پیش کردہ سوالوں پر مزید تحقیق کریں ، نامکمل کو مکمل کریںاور بات کو آگے بڑھائیں۔ ابتدائی کوشش میں جو کسر رہ جاتی ہے اسے دور کریں تا کہ اسلام کی تعبیر نو کا اہم اور ضروری فریضہ اپنے لازمی تقاضوں کی رعایت کے ساتھ انجام دیا جا سکے۔ تشکیل جدید کی علمی منہاج اور تطبیقی طرز استدلال پر عمومی تبصرہ کرتے ہوئے علامہ اقبال نے ۱۹۳۲ء میں ایک بہت معنی خیز بیان دیا تھا ۲۔ اسی پر بحث اپنے اتمام کو پہنچتی ہے۔ میں نے اپنی زندگی کے گذشتہ ۳۵ سال اسلام اور موجودہ تہذیب و تمدن کی تطبیق کی تدابیر کے غورو فکر میں بسر کر دیئے ہیں اور اس عرصے میں یہی میری زندگی کا مقصد وحید رہا ہے۔ میرے حال کے سفر نے مجھے کسی حد تک اس نتیجہ پر پہنچا دیا ہے کہ ایسے مسئلے کو اس شکل میں پیش نہیں کرنا چاہیے ۔ کیونکہ اس کا مطلب بجز اس کے کچھ نہیں کہ اسلام موجودہ تمدن کے مقابلے میں ایک کمزور طاقت ہے ۔ میری رائے میں اس کو یوں پیش کرنا چاہیے کہ موجودہ تمدن کو کس طرح اسلام کے قریب تر لایا جائے ۔ اختتامیہ حواشی ۱) ڈاکٹر ظفر الحسن ’’نوادر‘‘ المعارف، شمارہ ،خصوصی ۳، ادارہ ثقافت اسلامیہ ، لاہور۔ خطبۂ صدارت کے مکمل ترجمے کے لیے دیکھیے ضمیمہ ۲۔ ۲) اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی جانب سے یکم مارچ ۱۹۳۳ء کو ٹائون ہال لاہور کے باہر باغ میں علامہ سر محمد اقبال کے اعزاز میں ایک شاندار دعوت چائے دی گئی جس میں معززین شہر نے شرکت کی۔ مولانا عبدالمجید سالک نے انسٹیٹیوٹ کی طرف سے علامہ اقبال کا ایک مختصر سی تقریر میں شکریہ ادا کیا ۔ روز نامہ انقلاب ، ۴ مارچ ، ۱۹۳۳ء ۔ ضمیمہ ۔1 خطبۂ صدارت علامہ اقبال کے خطبات تشکیل جدید الہیات اسلامیہ کی علی گڑھ (نومبر ۱۹۲۹ئ) میں پیشکش کے موقع پر صدر شعبۂ فلسفہ، علی گڑھ یونیورسٹی کے خطبۂ صدارت کا اردو ترجمہ۔ مصنف : ڈاکٹر سید ظفر الحسن مترجم : محمد سہیل عمر جناب وائس چانسلر صاحب اور حضرات گرامی! آج شام ڈاکٹر سرمحمد اقبال کے خطبے کی سماعت ضیافت علمی سے کم نہ تھی۔ گزشتہ چھ دنوں میں ہمیں ہر شام ایسی ہی علمی ضیافت نصیب ہوتی رہی ہے۔ ہمارے لیے تو یہ پورا ہفتہ ہی ایک علمی جشن کا سماں لئے ہوئے تھا۔ اس سے حیات فکر کو جلا ملی اور یونیورسٹی کی سطح علمی بلند تر ہو گئی۔ حضرات! آپ کو توقع ہو گی کہ اب میں اپنا تبصرہ پیش کروں گا۔ شاید آپ کو توقع ہو گی کہ میں آپ کو یہ بتائوں کہ بحیثیت فلسفی میں نے ان محاضرات کا مدعا و مقصود کیا سمجھا ہے جو ڈاکٹر سرمحمد اقبال نے بہ کمال عنایت یہاں پیش کئے ہیں۔ لیکن ایک فلسفی کا بیان ان باتوں کو مزید مشکل بنا دے گا۔ مزید برآں اگر میں اپنے غیر شاعرانہ انداز میں ایسی کوشش کروں بھی تو ڈر یہ ہے کہ اس سے ہمارے عظیم فلسفی شاعر کی فکر اور طرز ادا کا شاعرانہ حسن تباہ ہو کر رہ جائے گا اور اقبال بھی وہی کہنے پر مجبور ہو جائیں گے جو صائب ایک ملا کو اپنے اشعار کی شرح شاگردوں کے سامنے بیان کرتے دیکھ کر دل شکستہ ہو کر کہ اٹھا تھا کہ۔ شعر مرابہ مدرسہ کہ برد! مگر صاحب فرض تو فرض ہوتا ہے۔ صائب کے ملا کا فرض منصبی رہا ہو گا کہ وہ شعر کے کندن کو نثر کے مس خام میں تبدیل کرتا رہے۔ فرض ادا ہونا چاہیے! حضرات ! اس عظیم ادارے کا بانی ایک عالی دماغ اور دور اندیش شخص تھا۔ اسے عظیم تصورات سوجھتے تھے وہ ان کے لیے محنت کرتا تھا اور ان کو مستحکم طور پر رواج دیتا تھا۔ اس طرح اس نے اسلامی ہند کی آنے والی نسلوں کے لیے بالخصوص اور عالم اسلام کے لیے بالعموم کچھ اہداف عمل تجویز کئے۔ ڈاکٹر سر محمد اقبال ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئے اور پروان چڑھے جو سرسید احمد خان کا معتقد تھا۔ آج وہ ایسے ہی اہداف عمل میں سے ایک کو بے مثال کامیابی سے پایۂ تکمیل تک پہنچا کر ہمارے ہاں تشریف لائے ہیں۔ یہ کام مہتم بالشان حیثیت کا حامل ہے۔ اسلام میں فلسفۂ دین کی تشکیل نویا، بالفاظ دیگر، ایک نئے علم کلام کی تخلیق۔ اقبال وہ کام کرکے علی گڑھ لائے ہیں جو اس ادارے کے عظیم بانی کی دلی خواہش تھی۔ سرسید کے مزار پر اس سے بہتر نذرانہء عقیدت اور کیا پیش کیا جا سکتا ہے۔ علم کلام کا کام یہ واضح کرنا ہے کہ حقائق دینی اور فلسفہ و سائنس میں کوئی عدم مطابقت نہیں ہے نیز بنابریں مذہب پر پختہ یقین رکھتے ہوئے اور اس سے کسب ہدایت کرتے ہوئے فلسفہ و سائنس کی تعلیمات سے کوئی ٹکرا ئوپیدا نہیں ہوتا۔ اپنے اصول تفسیر اور دیگر تحریروں میں سرسید نے کہا ہے کہ یہ مقصد دو طرح سے حاصل کیا جا سکتا ہے: ۱۔ یا تو یہ ’’ثابت‘‘ کیا جائے کہ مذہب جو کہتا ہے، وہ حقیقت ہے اور فلسفہ و سائنس اصل میں اس سے متفق ہیں۔ جن مقامات پر اختلاف و تناقض پیدا ہو، وہاں فلسفہ و سائنس کی تردید کی جائے۔ ۲۔ یا یہ ’’دکھایا‘‘ جائے کہ مذہب کی اقلیم فلسفہ و سائنس کے میدان سے مختلف ہے۔ جہاں جہاں مذہب ان امور پر کلام کرتا ہے جو فلسفہ و سائنس کا موضوع ہیں تو مذہب کا مقصود بیان وہ نہیں ہوتا جو فلسفہ و سائنس کا ہے یعنی وہ فلسفہ و سائنس کی طرح ہمیں یہ نہیں بتانا چاہتا کہ ان کی اشیاء کی ماہیت کیا ہے۔ اس کا مقصود اخلاقی یا مذہبی نتائج ہیں یا وہ ہدایت جو ان سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ پہلا خطبہ سنتے ہوئے استدلال کا رخ دیکھ کر چندے میرا یہ خیال تھا کہ ڈاکٹر سر محمد اقبال دوسرا طریقہ اپنائیں گے لیکن جلد ہی میں نے بھانپ لیا کہ ایسا نہیں ہے۔ ڈاکٹر اقبال کو اسلام اور جدید فلسفہ و سائنس کے اصولوں کی جو گہری بصیرت حاصل ہے ان کے مالہ و ماعلیہ کے بارے میں انہیں جیسی تازہ ترین اور وسیع معلومات حاصل ہیں، ایک جدید نظام فکر تعمیر کرنے کی جیسی مہارت اور استعداد ا نہیں میسر ہے بالفاظ دیگر فلسفے اور اسلام کو ہم آہنگ کرنے اور تطبیق دینے کو جیسی بے مثل لیاقت ان میں پائی جاتی ہے اس نے ان کو آمادہ کیا کہ وہ اس کام کو دوبارہ انجام دیں جو صدیوں پہلے یونانی فلسفہ و سائنس کے روبرو ہمارے عظیم علماء مثلاً نظّام اور (ابوالحسن)اشعری نے اپنے لیے منتخب کیا تھا۔ اپنے ان خطبات میں انہوں نے ہمارے لیے ایک جدید علم کلام کی نیو رکھ دی ہے۔ حضرات ! یہ کام صرف وہی انجام دے سکتے تھے۔ حضرات! مجھے ان سے اصولی طور پر اس درجے کا اتفاق ہے کہ میں نہیں سمجھتا کہ ان کے بیان کردہ اصولوں پر تبصرہ کرنے کے لیے میں واقعی کوئی موزوں شخص ہوں۔ آپ نے یہ محاضرات پورے کے پورے خود ان کی زبان سے سنے۔ میں اپنے آپ کو ان محاضرات کے مرکزی خیال تک محدود رکھوں گا اور اس کو اپنے انداز میں آپ کے سامنے پیش کروں گا۔ اگر یہاں وہاں میں ان سے اختلاف رائے ظاہر کروں تو اسے اختلاف نہ جانیے گا۔ اس کی حیثیت ان مشکلات کی ہو گی جو ایک شاگرد اپنے مربی استاد کے سامنے حل کرنے کے لیے پیش کرتا ہے۔ افلاطون کے لیے محسوس اور متغیر حقیقی نہیں تھا۔ الحق کو غیر متغیر اور غیر فانی و قدیم ہونا چاہیے۔ مادی اور محسوس توفانی اور بے ثبات ہے۔ صرف کلی اور مجرد ہی باقی رہنے والا ہے۔ حقائق کلیہ یا اعیان ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ یہی فی الاصل حقیقی ہیں۔ یہ مبدء حقیقی یعنی یہ اعیان کا نامیاتی کل ہی حقیقی ہے۔ یہ خدا ہے ۔ اب یہ دیکھیے کہ اعیان یا کلیات اس طرح مستقل اور قائم نہیں ہیں جس طرح مسلسل اور ہمیشہ کے لیے قائم فی الزمان کوئی چیز۔ یہ لازمانی ہیں وقت کی اقلیم سے باہر ہیں۔ یہ اس معنی میں ابدی و قدیم ہیں کہ انہیں زمان و توقیت سے سروکار ہی نہیں۔ بنابریں حقیقت کا مشاہدہ صرف عقل کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ محسوسات کی قبیل کی ہر شے غیر حقیقی ہے۔ تغیر اور زمانے کو خدا کی ذات میں کوئی گزر نہیں۔ یہ محض التباس ہیں۔ اس تصور کے مطابق ظاہر ہے کہ خدا میں حرکت و تغیر کا گزر نہیں۔ اسے ہمیشہ سے کامل ہونا چاہیے۔ یہ یونانی عقلیت پرستی کا نظریہ ہے۔ اس کے نزدیک صرف کلی ہی حقیقی اور واقعی ہے۔ اس میں مادی ، جزئی اور زمانی کا کوئی دخل نہیں۔ لہٰذا سوالوں کا سوال یہ ہے کہ حادث کا تعلق قدیم سے کیونکر متصور ہو، وہ قدیم جو لازمانی ہے۔ اس طرح مابعد الطبیعیات میں مسئلہ زمان کو سب سے بڑے مسئلے کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس عہد حاضر کی طرح اسلام کی روح بھی اختباری ہے۔ یہ زمان اور زمانی امور کو حقیقی سمجھتی ہے۔ لہٰذا اس کے تصور حقیقت، تصور کائنات اور تصور خدا میں زمان اور زمانیات کی جگہ ہونا ضروری ہے۔ ڈاکٹر اقبال نے ہمیں ایسا ہی تصور دیا ہے۔ ان کی نظر میں حقیقت ایک ’’حیات لا محدود‘‘ہے۔ یہ ایک بامقصد اور ذی شعور توانائی کا نام ہے جو مسلسل عمل پیرا ہے۔ اس کا ہر فعل بذاتہ ایک ’’زندگی‘‘ ہے جو ایک بامقصد توانائی ہے۔ خارج سے نظر کیجیے تو یہ افعال اشیائے زمانی اور حوادث زمانی سے عبارت ہیں۔ ان افعال میں سے بعض، اس عمل ظہور کے دوران ذی شعور ہو جاتے ہیں یا شعور ذات حاصل کر لیتے ہیں۔ یہ ہم اور آپ ہیں۔ ڈاکٹر اقبال نے یہ انکشاف کیا ہے کہ تجربی امور… یعنی تجرباتی شواہد کا سائنس اور جدید فلسفے کے اصولوں پر تفصیلی محاکمہ… ایسے ہی تصور کائنات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ امر برگساں کے افکار میں بالخصوص نمایاں ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ مذہبی تجربہ جس پر اسلام کی بنیاد ہے وہ بھی اسی تصور حقیقت کی تائید کرتا ہے۔ تخلیق خیرو شر، شعور کی وحدت ، خدا سے باطنی وصال، حیات بعد الموت ، جنت ، دوزخ اور اسلام کے نظام میں اصول حرکت یعنی اجتہاد جیسے مشکل ترین تصورات پر ان کی ذہن کو جلابخشنے والی توضیحات سب اسی سے صادر ہوتی ہیں۔ تاہم وقوف مذہبی کو اگر وقوف حسی کے برابر لا کر یکساں سطح پر رکھا جائے تو اس سے فرق کی اہمیت ختم ہو جائے گی جو ان دونوں تجربات کے درمیان پایا جاتا ہے کیونکہ ایک تجربہ تو سب کو حاصل ہے۔ عمومی ہے جبکہ دوسرا تجربہ نادر الوقوع ہے، نہایت ہی نادر الوقوع اور نایاب ۔ نیز وقوف مذہبی کی دوسری خصوصیت یعنی اس کی کلیت سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس میں موضوع و معروض یا عالم و معلوم کی تمیز اٹھ جائے۔مزید برآں اگر اسے ایک کیفیت احساس قرار دیا جائے تو اس سے وحی متلو کے عقیدے کے خلاف ماننا پڑے گا جبکہ یہ پیغمبر اسلام کے وقوف مذہبی کا امتیازی نشان ہے۔ زمان کی بحث کے سلسلے میں مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ زمان اپنی ماہیت میں ’’تواترپیہم‘‘ (ترتیب مسلسل /تسلسل علی الاتصال) سے عبارت ہے۔ وہ نظریہ جو ساری مدت زمان کو خدا کے لیے ’’آن واحد‘‘ یا ’’حاضر مکانی‘‘ قرار دیتا ہے اس میں ماہیت زمان کا پہلا عنصر یعنی تواتر و تسلسل مفقود ہو گا اور جبکہ یہ خدا کے علیم و خبیر ہونے کے لیے ضروری بھی نہیں ہے۔ وہ اس کے بغیر بھی عالم الغیب و الشہادۃ ہو سکتا ہے جیسا کہ نفوس فانی پر قیاس کر کے کہا جا سکتا ہے۔ جدید مابعد الطبیعیات میں یہ نظریہ گویا یونانی تصور ابدیت کا عکس ہے۔ اسے ہم زمانیتِ لازماں یا ابدیتِ زمانی کہ سکتے ہیں۔ یہ ایک متناقص تصور ہے۔ مزید برآں ، زینو سے کینٹر اور رسل تک سائنٹفک مفکرین زمان کے تسلسل کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کا تصور ایک کمیت غیر مسلسل کے طور پر کرتے رہے ہیں جیسے عدد کا تصور۔ ان کی مشکلات فکر کا کوئی اثر ماضی ، حال اور مستقبل کے امتیازات یعنی وقت کے دوسرے جزو ترکیبی ، تواتر و تسلسل پر نہیں پڑتا۔ اپنے طلبہ سے مجھے یہ کہنا ہے کہ یہ محاضرات جلد ہی شائع ہو جائیں گے۔ ڈاکٹر اقبال کے افکار، بنیادی تصورات اور ان کی تفصیل و اطلاق ہر دو اعتبار سے، نئے اور اسی لیے عسیر الفہم ہیں لہٰذا ان کا نہایت احتیاط سے مطالعہ کیجیے۔ جو دشواریاں پیش آئیں، انہیں میرے پاس لایئے۔ مجھ سے جو ہو سکے گا آپ کے لیے کروں گا۔ اہل علم حاضرین کی اس ساری جماعت سے مجھے یہ کہنا ہے کہ حضرات گرامی یہ محاضرات صرف عظیم اصولوں کی شرح و بیان کے اعتبار سے ہی قابل قدر نہیں ہیں بلکہ ’’بار آور تجاویز‘‘ سے بھی لبریز ہیں۔ یہ بڑی کارآمدبات ہو گی کہ ہم ان تجاویز کو لے کر سچے اہل علم کی شان کے مطابق ان کا حل تلاش کریں۔ حضرات گرامی ،آپ کو روزانہ شام کو میں جو زحمت دیتا رہا ہوں، اس کے جواز کے طور پر عرض کرنا چاہتا ہوں کہ فلسفہ کوئی کار بے مصرف نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگوں کا گمان ہے۔ سچے انسانی تمدن میں اس کا ایک عظیم منصب ہے۔ حضرات ! فلسفیانہ تربیت ہی سے ہمارے محبوب و محترم اقبال جیسی شخصیات جنم لیتی ہیں۔ ڈاکٹر سرمحمد اقبال! انجمن فلسفہ کی طرف سے اور اپنی جانب سے میں آپ کا بہ صمیم قلب شکریہ ادا کرتا ہوں، یونیورسٹی کی طرف سے بھی اور ان سب کی طرف سے جو ان محاضرات میں شریک ہوئے، ہم شکر گزار ہیں کہ آپ نے زحمت اٹھائی، ہمارے ہاں تشریف لائے اور یہ نہایت قابل قدر محاضرات عطا کئے ہیں۔ سچ پوچھئے تو کنواں چل کر پیاسے کے پاس آ گیا۔ جناب والا،آپ نے اسلام میں فلسفہ دین کی تشکیل نو کی بنیاد رکھ دی۔ مسلمانوں کی موجودہ اور آئندہ نسلیں اس کے لیے آپ کی ممنون احسان ہیں۔ آپ کے الفاظ مستعار لے کر کہوں گا کہ عالم اسلام کو ’’آپ کے کام پر‘‘ اور آپ پر فخر ہونا چاہیے۔ میری دعا ہے کہ آپ تادیر سلامت رہیں اور اس کام کی تکمیل آپ ہی کے ہاتھوں ہو اور آپ کی فکر افزا مثال اور لوگوں کی بھی ہمت بندھائے گی۔ مجھے امید ہے کہ آپ ہمارے وائس چانسلر کی درخواست قبول فرمائیں گے اور اسلامی تعلیم و تعلم کے اس مرکز میں تشریف لا کر سکونت اختیار کریں گے۔ حضرات ! میں اپنے محترم اور معزز مہمان گرامی ڈاکٹر سر محمد اقبال کی آمد پر دلی اظہار تشکر کرتا ہوں اور یہ چاہتا ہوں کہ آپ میرے ہم آواز ہو کر ان سے درخواست کریں کہ وہ ہمارے ہاں اکثر تشریف لایا کریں اور ہمیں فلسفیانہ فکر اور عالمانہ تحقیق کی وہ زندگی زیادہ سے زیادہ عطا کریں جو ان کی ذات میں مجسم ہو گئی ہے۔ ضمیمہ ۔۲ ’’مدعا مختلف ہے‘‘ ڈاکٹر ظفر الحسن صاحب کے شاگرد اور علی گڑھ یونیورسٹی ہی میں ان کے بعد صدر شعبہ فلسفہ کا منصب پانے والے فلسفی ڈاکٹر عشرت حسن انور صاحب کا ایک مقالہ مجلہ اقبال میں"Testing Iqbal's Philosophical Test of the Revelations of the Religious Experience" کے عنوان سے چھپا ہے۔ مقالے کے مرعوب کن عنوان اور مقالہ نگار کی سابقہ شہرت کو مد نظر رکھتے ہوئے خوش گمانی یہ تھی کہ صاحب مقالہ نے اپنے استاد گرامی کے رشتۂ فکر کو تھام کر انہی خطوط پر اپنے تجزیے کی بنا رکھی ہو گی اور تشکیل جدید کے منہاج علمی کے داخلی اور خلقی تقاضوں کے سیاق و سباق میں اور علامہ کے طریق تطبیق کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے اشکالات پیش کئے ہوں گے۔ اس کے برعکس ہوا کیا؟ موصوف نے اپنے تجزیے میں تشکیل جدید کی نہاد میں موجود اس اصول تطبیق اور اس کے فکری لوازم کو تو سرے سے نظر انداز کر دیا اور ایک رجزیہ آہنگ سے مقالے کا آغاز کر نے کے بعد دوسرے پیراگراف ہی میں وہ طرز استدلال اپنا لیا ہے جو تشکیل جدید کے بنیادی منہاج فکر اور اصول تطبیق ہی کے خلاف پڑتا ہے۔ وہ مخاطب جس کو اس کے مسلمات فکر کے حوالے سے وحی کے امکان پر اور ذرائع علم میں سے ہونے پر قائل کیا جا رہا ہو، اس کے سامنے یہ دلیل کیسے مؤثر ہو سکتی ہے کہ قرآن مجید میں فلاں سورہ میں آیت نمبر فلاں پر یوں آیا ہے کہ……۔ یہ مخاطب وحی کے وجود یا اس کے ممکن ہونے کے بارے ہی میں متشکک ہے اور ان مقولات فکر ہی کو تسلیم نہیں کرتا جو وحی کا جواز ثابت کرنے کے لیے ضروری ہیں اور علامہ اس کو ان بنیادی مقدمات کا قائل کرنے کے لیے کوشاں ہیں جن کو مان کر وحی خداوندی اور تنزیلات ربانی کا رشتہ و پیوند انسانی فکر و عمل سے جوڑا جا سکتا ہے تو ایسی صورتحال میں اسی وحی سے دلیل دینا کہاں تک مناسب ہو گا جس کے امکان و امتناع پر ابھی اتفاق رائے نہ ہو؟۲؎ تشکیل جدید کی فکری منہاج سے یہ اغماض اور علامہ اقبال کے بعض نکات فکر کو پورے تناظر اور بسا اوقات سیاق و سباق سے الگ کر کے ان کے سہارے اپنے بعض نظریات کو اجاگر کرنے کی یہ روش سارے مقالے میں موجود ہے۔ اس کا تجزیہ کرنے سے پہلے ذرا یہ دیکھ لیں کہ علامہ کے استدلال ، طرز تفلسف اور علمی منہاج پر عشرت حسن انور صاحب کے اعتراضات کا لب لباب کیا ہے۔ مقالہ نگار کو علامہ پر دوبنیادی اعتراضات ہیں۔ پہلا یہ کہ علامہ نے تشکیل جدید میں نوع انسانی کے مذہبی تجربے یا وقوف مذہبی و سرّی ۳؎ کا دفاع صرف اسلام کے نقطۂ نظر سے کیا اور اس محدود نقطۂ نظر کی وجہ سے دیگر ادیان اس دفاعی اور ثبوتی عمل کے فوائد سے محروم رہ گئے اور یہ اس وجہ سے ہوا کہ علامہ نے اپنے طرز استدلال میں وحدت ادیان کے تصور پر زور نہیں دیا اور مختلف ادیان کے مشترکہ عناصر کو نمایاں نہیں کیا۔۴؎ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ تاریخ انسانی میں وحی کے مافوق الطبیعی مظہر کے عمل دخل کو ثابت کرنے کے جو تین ممکنہ دلائل ہو سکتے ہیں ان میں سے علامہ نے صرف ایک استعمال کیا ہے جبکہ دوسرے بھی اس کے دفاع اور ثبوت کے لیے مؤثر دلیل فراہم کر سکتے تھے۔ ۵؎ پہلا طریقہ یہ ہے کہ علوم طبیعی کے انکشافات سے مذہبی تجربے کی مطابقت دکھائی جائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ علم الاذہان ۶؎ کے اعتبار سے یہ معلوم کیا جائے کہ اس تجربے کی تائید ہوتی ہے یا تردید۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ فکر دینی کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے اور وقوف سرّی و مذہبی یا بالفاظ دگر، وحی کو اس ساری تاریخ میں زمان و مکان کے اختلاف کے باوجود ایک مشترکہ عنصر کے طور پر دیکھا جائے اور اس اشتراک کو بطور دلیل برتا جائے۔۷؎ ہم نے اپنی تحریر کے پہلے حصے میں جو مقدمات قائم کئے تھے اور جن کی بنیاد ہم نے ڈاکٹر ظفر حسن صاحب کے اشارات پر رکھی تھی ان کے حوالے سے عشرت حسن انور صاحب کے مذکورہ دونوں اعتراضات کا جواب کم و بیش ایک ہی ہے۔ انور صاحب نے چونکہ اپنے استاد کے برعکس علامہ اقبال کے اس منہاج فکر اور اس طرز استدلال کے تقاضے ملحوظ رکھنے کی زحمت نہیں کی جو تشکیل جدید میں برتا گیا ہے اس لیے انہیں ان اشکالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہم نے اس منہاج کلام کو اصول تطبیق کا عنوان دیا تھا۔ اصول تطبیق کے مطابق غور کیجیے تو یہ واضح ہے کہ اگر نفس دین اور خود وحی کے وسیلے کا امکان اور عدم امکان زیر بحث ہو تو ایک دین یا مجموعۂ ادیان کے دفاع میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ جب دین کی اساس ہی معرض خطر میں ہو تو مختلف ادیان کو شامل بحث کرنے سے صرف اتنا فرق پڑے گا کہ متاثرین کی صف میں ایک کی جگہ پانچ یادس کشتگان فلسفہ و سائنس کا اضافہ ہو جائے گا۔ دوسرا اعتراض بھی اسی وجہ سے علامہ کی منہاج پر وارد نہیں کیا جا سکتا کہ موخر الذکر دونوں دستۂ دلائل اصول تطبیق کے دائرے میں نہیں آتے لہٰذا ا نہیں اس طرز استدلال میں موثر طور پر برتا نہیں جا سکتا۔ اگر مخاطب حسیت پرست ہو تو اسے یہ کہنا کیا معنی رکھتا ہے کہ یوگا کی ذہنی مشق کے نتائج سے وحی کا ثبوت ملتا ہے۔ ۸؎ وہ تو ایسے تمام مظاہر کو اختلال حواس سے تعبیر کر رہا ہے۔ اسی طرح نوع انسانی کے مشترکہ روحانی تجربے کو بطور دلیل پیش کرنا بھی اگرچہ ممکن ہے اور علامہ نے خود اس کی طرف اشارے بھی کئے ہیں ۹؎ لیکن اصول تطبیق کے لحاظ سے یہ بھی موثر طرز استدلال نہیں ہے کیونکہ یہ اس مخاطب کے لیے تو دلیل بنے گی جو اس مظہر خداوندی کا امکان تسلیم کرتا ہو اور پھر اس کی کثرت وقوع کو بطور اضافی دلیل قبول کر سکے۔ وہ مخاطب جو وحی کو نفسیاتی مرض، ذہنی مغالطہ یا خود فریبی قرار دیتا ہو اس کے لیے یہ دلیل غیر موثر اور بے محل ہو گی کہ اس کا ذہنی سانچہ اسے قبول کرنے سے عاری ہے اس کے لیے یہ دلیل مع الفارق ہے۔ علامہ نے اس کی رعایت تشکیل جدید کے ہر مرحلے پر رکھی ہے۔ عشرت حسن انور صاحب نے اس بنیادی امتیازی خصوصیت پر نظر نہیں کی اور اپنی بات کی دھن میں چل دیئے۔ اس میں امتحان نظری کو بھی لپیٹ لیا اور مآل تحریر وہاں پہنچے جس کا تذکرہ سطور ماقبل میں ہو چکا ہے۔ اپنے مقالے کے عنوان میں عشرت صاحب نے علامہ کے خطبے کے عنوان میں وارد ہونے والے انگریزی لفظ Revelations کو صحیح نقل کیا ہے ۱۰؎ لیکن اس کے بعد سارے مقالے میں اس لفظ کو صیغۂ واحد میں استعمال کیا ہے۔ اس تغیر سے معانی کے رنگ جس طرح تبدیل ہوتے ہیں وہ انگریزی خواں قارئین سے مخفی نہیں رہے ہوں گے۔ علامہ کا مدلول اور مشارالیہ اس لفظ سے وہ معلومات ، اطلاعات یا انکشافات ہیں جو وحی کے وسیلے سے حاصل ہوتی ہیں یا دوسرے الفاظ میں علم بالوحی۔ عشرت حسن انور صاحب نے ازاول تاآخر۱۱؎ اسے صیغۂ واحد میں استعمال کرتے ہوئے اس سے عمل انکشاف مراد لیا ہے یعنی عمل وحی کی ماہیت اس کی فعلیت اور اس عمل کے مالہ و ما علیہ۔ اسی بنیاد پر تنقید کرتے چلے گئے۔ ان کے دوسرے اعتراض کی طرح یہ بھی اپنے ہدف سے اسی لیے ہٹ گیا ہے۔ علامہ کے مفہوم کو گرفت میں لانے کے لیے جو لازمی محنت درکار تھی وہ انجام نہیں دی گئی۔ ہم عرض کر چکے ہیں کہ علم بالوحی کے وسیلے کو جس طرح علامہ نے ثابت کیا اس تطبیقی طریقے کو اختیار کرنے میں کچھ مسائل پیدا ہوتے تھے اور وحی کا تجربہ بھی عام انسانی تجربات کے زمرے میں آ جاتا تھا لہٰذا اس دشواری کے حل کے لیے علامہ نے یہ تجویز کیا کہ دو آزمائشیں ہو سکتی ہیں جو اس تجربے کو عام انسانی تجربے سے ممتاز کرتی ہیں۔ اولاًیہ کہ اس وسیلۂ علم کے حاصلات اور معلومات سے جو تعبیر کائنات اور تصور حقائق ابھرتا ہے اسے معاصر فلسفہ و سائنس کے نظریات سے ملا کر دیکھا جائے اور ان میں توافق و ہم آہنگی کو مخاطب کے لیے بطور دلیل استعمال کیا جائے۔ عشرت حسن انور صاحب نے یہ بات تو نظر انداز کر دی اور اعتراض کر دیا کہ ’’مذہبی تجربے اور اس کے عمل انکشاف میں موزوں تعلق قائم نہیں کیا گیا،،۱۲ ؎ اور بنابریں علامہ اقبال ان کے خیال میں اس کائناتی اور ہمہ گیر تناظر سے محروم ۱۳؎ ہو گئے جو وحدت ادیان کی طرف ان کی رہنمائی کر سکتی تھی۔ ۱۴؎ یہ کہ کر انہوں نے بات کا رخ اس طرف موڑ دیا ہے کہ اگرچہ علامہ نے وقوف سری اور وقوف مذہبی کے مابین امتیاز کیا ہے ۱۵؎ اور ہم سرد ست اسے تسلیم کیے لیتے ہیں تاہم یہ وقوف مذہبی تمام ممالک اور تمام معاشروں میں پایا جاتا رہا ہے اور قرآن نے صراحتاً اس کا بیان کیا ہے۔ یہ کہ کر عشرت صاحب نے قرآنی آیات درج کر دی ہیں اور پھر قاری کو ان نتائج کی طرف متوجہ کیا ہے جو ان کی دانست ۱۶؎ میں ان آیات سے مستنبط ہوتے ہیں۔ ہماری گزارش یہ ہے کہ ان کی آراء سے اب بحث کا موضوع یہ ہو گیا کہ کیا اسلام کے علاوہ بھی دیگر ادیان منزل من اللہ ہیں؟ یہ علامہ کے موضوع سخن سے الگ بحث ہے اور یہاں بے محل ہے۔ جو مخاطب اقلیم ربانی کا وجود نہ مانے اور تنزیل کی کسی نوع کا قائل نہ ہو، اسے ایک سے زائد تنزیلات کی خبر دینا اور اس پر آخری تنزیل سے دلیل قائم کرنا مہمل بات ہے۔ دوسری طرف یہ دیکھیے کہ علامہ سے یہ منسوب کیا ہے کہ وہ و قوف سرّی و مذہبی میں امتیاز کرتے ہیں۔ یہ بات کو الٹ دینے کے مترادف ہے۔امتحان عملی اور امتحان نظری کی ضرورت ہی اس لیے پیدا ہوئی تھی کہ علامہ نے اصول تطبیق کے تحت مخاطب کی ذہنی سطح اور مسلمات فکری کی رعایت کرتے ہوئے وقوف مذہبی اور وقوف سرّی کو نوعیت میں ایک اور شدت یا نتائج میں مختلف بتایا تھا اور اس سے جو حد فاصل منہدم ہوتی تھی اسے دوبارہ قائم کرنے کی غرض سے دو آزمائشیں تجویز کی تھیں۔ اس کی طرف ہم اپنے تمہیدی صفحات میں اشارہ کر چکے ہیں۔ انہی آزمائشوں کے ذکر میں عشرت حسن انور صاحب نے اس کے بعد پہلے خطبہ کے آخری پیراگراف کی عبارت نقل کی ہے ۱۷؎ اور یہاں بھی اس عبارت کو علامہ کے دیگر بیانات۱۸؎ سے ملائے بغیر اور بعض کلیدی الفاظ و مصطلحات کا واضح مفہوم متعین کئے بغیر علامہ پر تضاد فی البیان اور قیاس منفصل کے اعتراضات عائد کر دیئے ہیں اور بحث کا رخ اس بات کی طرف موڑ دیا ہے کہ وحی کے تجربے کا ابلاغ فی نفسہ ممکن ہے یا نہیں۔ اس اقتباس کا سب سے اہم کلیدی لفظ فیلنگ(Feeling) ہے۔ اس کے ترجمے کو متعین کرنے میں قارئین اور مترجمین تشکیل جدید کو عموماًدشواری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ۱۹؎ عشرت حسن انور صاحب نے اس لفظ کو انگریزی کے عام مستعمل معنی یعنی جذبات و تاثرات کے مترادف کے طور پر لے لیا ہے اور اسی بنا پر اعتراضات بھی وارد کئے ہیں۔ اس کے مدلول کو واضح کرنے کے لیے اولاً تو یہ دیکھنا چاہیے کہ علامہ نے یہاں Feeling کا لفظ اس معنی میں برتا ہے جس میں مولانا روم نے اسے استعمال کیا ہے ۲۰؎ ہمارے اس قیاس کا قرینہ یہ ہے کہ اسی خطبے میں اسی مفہوم کے لیے ایک اور جگہ مولانا روم کا حوالہ دیا ہے۔ متعلقہ اشعار مندرجہ ذیل ہیں: آفتاب معرفت را نقل نیست مشرق او غیر جان و عقل نیست خاصہ خورشید کمالی کان سریست روز و شب کردار او روشن گریست مطلع شمس آی اگر اسکندری بعد از آن ہر جا روی نیکو فری بعد از آن جا روی مشرق شود شرقہا بر مغربت عاشق شود حس خفاشت سوی مغرب دوان حس درپاشت سوی مشرق روان راہ حس راہ خرانست اے سوار اے خران را تو مزاحم شرم دار پنج حسی ہست جز این پنج حس آن چو زر سرخ وین حسہا چو مس اندر آن بازار کایشان ماہرند حس مس را چون حس زرگی خرند حس ابدان قوت ظلمت می خورد حس جان از آفتابی می چرد ای ببردہ رخت حسہا سوی غیب دست چون موسیٰ برون آور زجیب اے صفاتت آفتاب معرفت و آفتاب چرخ بند یک صفت ظ گر بدیدے حس حیوان شاہ را پس بدیدی گائو و خر اللہ را گر نبودے حس دیگر مر ترا جز حس حیوان زبیرون ہوا پس بنی آدم مکرم کی بدی کی بحس مشترک محرم شدی ظ آینہ دل چون شود صافی و پاک نقشہا بینی برون از آب و خاک ہم ببینی نقش و ہم نقاش را فرش دولت را و ہم فراش را ظ گفتم آخر آینہ از بہر چیست تابداند ہر کسی کو چیست و کیست آئینہ آہن برای پوستہاست آئینہ سیمای جان سنگی بہاست آینہء جان نیست الا روی یار روی آن یاری کہ باشد زآن دیار گفتم اے دل آئینہ کلی بجو رو بدریا کار برناید بجو ظ مولاناروم نے ’’حس درپاش‘‘، ’’حس جان‘‘ اور ’’حس دیگر‘‘ کی تراکیب سے جس مفہوم کی طرف اشارہ کیا ہے اس کا ترجمہ علامہ نے feeling کے لفظ سے کیا ہے۔ یہ اصطلاح اگرچہ پوری طرح ابلاغ مفہوم نہیں کر سکتی، تاہم جس طرح مماثلت مقلوب کے اصول کے تحت مولانا روم نے حس کے لفظ کو جو ایک نچلے مرتبۂ وجود کی چیز ہے، اٹھا کر دوسرے مرتبۂ وجود کے حقائق کے بیان کے لیے استعمال کیا ہے اس کے تحت علامہ کے اس استعمال کی گنجائش بھی پیدا کی جا سکتی ہے۔ پرانے علوم اور مابعد الطبیعیات کے وسائل بیان کا یہ ایک عام اصول تھا اور اس میں موجود اشتراک لفظی کی وجہ سے اس کے مدلول حقیقی کے بارے میں اشتباہ نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن انور صاحب کے اعتراضات سے لگتا ہے کہ انہوں نے صرف اس کے چلتے ہوئے سامنے کے معنی ہی ملحوظ رکھے ہیں اور علامہ کے دیگر بیانات کی روشنی میں اس کے اصطلاحی اور مرادی معنی متعین کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اسی وقوف سرّی و مذہبی کو علامہ نے کئی جگہ ’’حس‘‘ یا ’’احساس‘‘ کے لفظ کے بجائے دوسرے الفاظ میں بھی بیان کیا ہے: The Total reality, which enters our awareness and appears on interpretation as an empirical fact has other ways of invading our conciousenss: 22 ......... We are not yet in possession of a really effective scientific method to analyse the contents of non-rational modes of conciousness 23 طوالت سے بچنے کے لیے انہی دو اقتباسات پر اکتفا کرتے ہوئے ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ماقبل مذکورہ اقتباسات میں ’’احساس،، کا لفظ مجازاً استعمال ہوا ہے۔ اس کی تائید اور کئی بیانات سے بھی ہوتی ہے۔ علی گڑھ کے انگریز استاد سے علامہ کا معروف مکالمہ بھی اس پردال ہے جس میں انہوں نے وحی لفظی اور وحی متلو کا ثبوت اپنے شعری تجربے کے حوالے سے دیا تھا۔ تشکیل جدید میں بھی کہا ہے کہ: There is a sense in which the word is also revealed 24 علامہ نے ’’مرتبۂ احساس‘‘ state of feeling کے الفاظ سے یہ مراد لیا ہے کہ حواس، عقل جزئی/ خرد اور عقل کلی کے تین درجات ،حصول و ارتسام کے اعتبار سے مختلف ہیں ان کی فعلیت اور عمل دخل کی اقالیم بھی مختلف ہیں۔ اور انداز ادراک و ارتسام بھی جداگانہ ہے۔ حواس اپنی اقلیم محسوس سے براہ راست ارتسامات قبول کرتے ہیں۔ عقل جزئی ، جو عقل کلی اور حواس کے درمیان ایک اقلیم دو رو ہے ،یا تو حواس کے مدرکات حاصل کرتی ہے یا عقل کلی (قلب، وحی) کے حاصلات کو ابلاغ کے سانچوں میں منتقل کرتی ہے۔ یہ اپنے آپ سے اور آزادانہ سرگرمی پر قادر نہیں ہے۔ علامہ نے خرد یا عقل جزئی سے ماوراء non-rationnal اسالیب ادراک کے عمل کو حواس کے براہ راست اور مباشر عمل کی مماثلت پر سمجھانے کے لیے ’’حس‘‘ اور ’’احساس‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے ۲۵؎ شیخ اکبر کے مقولے ’’الحق محسوس و الخلق معقول‘‘ کا حوالہ دے کر بھی علامہ نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا تھا ۲۶۔ پہلے خطبے میں اس کی وضاحت مندرجہ ذیل الفاظ میں کی گئی: One indirect way of establishing connexions with the reality that confronts us is reflective observation and control of its symbols as they reveal themselves to sense-perception, the other way is direct association with that reality....... In the interests of securing a complete vision of Reality, therefore, sense-perception must be supplemented by the perception of what the Qur'an describes as Fu'ad or Qalb i.e. heart.27 دیکھیے کہ یہاں انگریزی میں بھی ایک ہی لفظ perception دو مختلف اقالیم سے حصول علم کا تعلق پیدا کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ اعلیٰ اور ادنیٰ کی تعریف مشترک ہوتی ہے۔ ادنیٰ میں یعنی ادراک بالحواس میں تدریج نہیں ہے۔ اعلیٰ میں وسیلہ بھی ہے اور وسیلہ نہیں بھی ہے۔ عشرت حسن انور صاحب نے مماثلت مقلوب کے اس استعمال کو نظر میں رکھے بغیر تنہا اس اقتباس کی بنیاد پر اعتراض کر دیا اور بات کا رخ تجربے کے ابلاغ کی طرف موڑ دیا۔ ’’احساس‘‘ کے لفظ سے علامہ کی اس اقتباس میں کیا مراد ہے ہم نے اس کے بارے میں جو تصور قائم کیا، اس کے بعد اگرچہ انور صاحب کا اعتراض باقی نہیں رہتا، تاہم ان کے اٹھائے ہوئے نکات کا ایک اور پہلو سے جائزہ لینا ضروری ہے۔ مذہبی تجربہ بحیثیت تجربہ ناقابل ابلاغ کہا گیا ہے۔ بالفاظ دیگر یہ ابلاغ بلا مقدمات ہے جبکہ حصول مع مقدمات ہے۔ یعنی صاحب وحی عمل وحی میں دوسروں کو شریک نہیں کر سکتا، اس عمل وحی کے حاصلات /معلومات/ انکشافات کو زبان کے مشترک وسیلے سے دوسروں تک البتہ قابل ابلاغ بنایا جاتا ہے۔ہم دیکھ چکے ہیں کہ علامہ کے خیال میں وحی کے الفاظ بھی منزل من اللہ ہیں اور اس طرح مدر کات کو لفظ و خیال میں ڈھال کر ابلاغ کے عمل سے گزارنے کا اعتراض ساقط ہو جاتا ہے۔ انور صاحب کو اس نکتے پر اعتراض یہ تھا کہ علامہ یہاں قیاس منفصل کے مرتکب ہوئے ہیں۔ پہلے ایک اصول قائم کیا ہے کہ مذہبی تجربہ فی نفسہ ناقابل ابلاغ ہے پھر اس عموم اور اس اصول میں استثناء بیان کیا ہے ’’الابہ شکل قضایا حکمیہ یا قضایا مرکبہ،، ۔ اس طرح انور صاحب کے خیال میں علامہ کی فکر میں تضاد ابھرتا ہے اور اصطلاحاً وہ قیاس منفصل میں پھنس گئے ہیں۔ مراتب وجود کا لحاظ نہ رکھنے سے اس طرح کے مغالطے پیدا ہونا عجب نہیں ہے جیسا کہ انور صاحب کو یہاں پیدا ہوا ہے۔ غور فرمایئے کہ علامہ نے ابلاغ کا انکار اس تجربے کے ایک مرتبے کے لیے کیا ہے اور اس کی ایک خاص صورت میں ابلاغ کا اثبات ایک دوسری سطح کے لیے کیا ہے۔ وحی کی ایک سطح مخیل ہے اور ایک سطح ثبوت یا انکار۔ وحی کا تجربہ فی نفسہ سطح مخیل میں ہے۔ یہاں اس میں دوسرا کوئی شریک نہیں ہے۔ بصورت قضایا مرکبہ اور بلا مقدمات اس کا ابلاغ سطح ثبوت و انکار میں ہے اور وہاں اس کو قابل ابلاغ قرار دینے سے قیاس منفصل نہیں ہو گا۔ اسے جامعیت یا عمل تالیف کہیں گے۔ آگے چلیے تو انور صاحب نے ساتویں خطبے کی ابتدائی صفحے کی عبارت نقل کی ہے جس میں علامہ نے مذہبی زندگی کو تین ادوار میں تقسیم کر کے ان کے خواص بیان کئے ہیں۔۲۸؎ ا نور صاحب کو اس پر دواعتراضات ہیں۔ اولاًیہ کہ امتحان نظری اور مذہبی زندگی میں تطبیق دینا ایک کار عبث ہے اور اسے بروئے کار لانا صرف ایک فکری حربہ ہے۔ اس اعتراض پر یہاں گفتگو کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہماری اب تک کی معروضات اس امتحان نظری کی احتیاج اور اصول تطبیق کے اطلاق سے اس کی ضرورت کے بارے میں وضاحت کر دیتی ہیں۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر تین ادوار مانے جائیں تو اس امتحان نظری کا اطلاق صرف ثانی الذکر دور یعنی تفہیم عقلی کے دور پر کیا جا سکتا ہے اور اس طرح باقی دو ادوار اس امتحان نظری کے ذریعے جانچے نہیں جا سکتے۔ غور کیجئے تو یہاں پھر وہی مغالطہ کار فرما ہے جو revelations کو صیغہ واحد میں سمجھنے سے پیدا ہوا ہے۔ علامہ ان تینوں ادوار میں نفوس انسانیہ کی داخلی کیفیت سے بحث کر رہے ہیں جبکہ تینوں ادوار میں وحی کے حاصلات /معلومات یکساں ہیں۔ ان کے اثبات اور تفہیم کے عمل میں تدریج کی طرف علامہ نے اشارہ کیا ہے۔ اس اقتباس سے کچھ اور طرح کے اشکالات البتہ جنم لیتے ہیں جو اپنے منطقی نتائج میں شعور مذہبی کے مسلمات سے ٹکرا جاتے ہیںا ور جن کے لیے بعض تاویلات کا سہارا ضروری ہو جاتا ہے۔ لیکن انور صاحب کی نگاہ ان اہم نکات کی طرف نہیں گئی۔ ان اشکالات پر ہم الگ سے اپنی معروضات پیش کریں گے۔ سردست یہ دیکھئے کہ عشرت حسن انور صاحب کا اگلا اعتراض کیا ہے۔ یہاں آکر انہوں نے پہلے خطبے کا آخری پیراگراف دوبارہ نقل کیا ہے اور امتحان نظری و عملی کے حوالے سے یہ سوال اٹھایا ہے کہ ان آزمائشوں کا اطلاق کرنے والے کون ہیں؟ ان کے خیال میں امتحان عملی خود صاحب وحی یا صاحب تجربہ نبی کرتا ہے اور امتحان نظری اس کے بعد آنے والے اہل فکر اور اگر مذہبی تجربہ اس طرح کے دوگانہ امتحان کے معیار پر اپنی حقانیت ثابت کرنے کا محتاج ہے تو ایک طرف تو یہ تجربہ خود نبی کے لیے معروضی صداقت اور حتمی و یقینی ثبوت نہیں ہو گا اور دوسری طرف اس کے ماننے والوں کے لیے بھی ایک مفروضے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھے گا۔ یہاں ہمیں یہ ماننا چاہیے کہ نبی کے لیے وحی کی عملی آزمائش کا نکتہ بعض اہم اور پیچیدہ اشکالات کو جنم دیتا ہے اور اقبالیات کے ماہرین کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ ہم نے اس نکتے پر اور اس کے منطقی مضمرات پر اپنی کتاب کے متن میں کئی جگہ بحث کی ہے اور ایک الگ مقالے میں اس نکتے کا تجزیہ علامہ کے مجموعی موقف اور عمومی تناظر کے حوالے سے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اس جگہ ہمیں صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ سابقہ اعتراض کی طرح یہاں بھی انور صاحب نے مسئلے کے بعض اہم تر پہلوئوں کی طرف توجہ ہی نہیں کی اور فرض کر لیا کہ نبی خود اپنے تجربے کی آزمائش معاشرے میں تبدیلی کے عمل سے کرتا ہے اور اس کے بغیر اسے اپنے تجربے کی صداقت پر یقین نہیں ہوتا۔ یہ امتحان نبی خود نہیں کرتا۔ علامہ کے مخاطبین آج صدیوں کے صحرا کے اس پار سے اپنے ایمان کے دھندلکے میں اس آزمائش کو فرض کر کے اس سے اپنے لیے تقویت ایمان کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس ذہنی ضرورت کو ماضی میں لاگو کرنا ایک تاریخی مغالطے سے کم نہ ہو گا۔ اس سے آگے چلیے تو امتحان نظری کا تذکرہ دوبارہ شروع ہوتا ہے لیکن اس مرتبہ اس امتحان پر اعتراضات کا نقطۂ نظر وحدت ادیان کا مبحث ہے جو اگلے تین صفحات پر مختلف انداز میں پھیلا ہوا ہے۔ ان نکات کا مرکزی خیال بھی وہی ہے کہ تمام ادیان کو اس فلسفیانہ امتحان کی کسوٹی پر پورا اترنے والا کیوں نہیں قرار دیا؟ ہم باردگر ان اعتراضات کی بنیادی غلطی کی طرف اشارہ نہیں کرنا چاہتے ۲۹؎ جو علامہ کے طرز استدلال اور اصول تطبیق کے اطلاق، اس کے مضمرات اور اس سے پیدا ہونے والی مصالحت جوئی کے عمل سے اغماض برتنے سے پیدا ہوتی ہے۔ ہم صرف اس نقطۂ استعجاب پر اختتام کلام کرنا چاہتے ہیں کہ عشرت حسن انور صاحب جیسے صاحب علم اور فلسفی مزاج مصنف پر غالباً ان کے حالات کے تقاضوں ۳۰؎ کی وجہ سے وحدت ادیان کا مبحث اتنا غالب آ گیا کہ نہ صرف انہوں نے تشکیل جدید کے بنیادی طرز استدلال کی نوعیت پر غور نہیں کیا بلکہ ’’ فلسفیانہ آزمائش کی آزمائش‘‘ کا نام لینے کے باوجود بحث کو اس کے صحیح تناظر سے ہٹا کر ایک ایسے رخ پر ڈال دیا جو اسے اس کے اصل مدعا و مقصود سے دور کر کے وہاں لے گئی جہاں آ کر ہمیں مجبوراً یہ کہنا پڑا کہ: اب کے بالکل نئے رنگ سے لکھ رہے ہیں سخن ور ’’مقالے‘‘ حرف تو سب کے سب ہیں رجز کے مگر مدعا مختلف ہے! ۳۱؎ ضمیمہ ۔۲ حواشی ۱) اقبال ، سہ ماہی مجلہ بزم اقبال ، لاہور، جلد ۴۱، شمارہ ۳، (جولائی ۱۹۹۴ئ) ص، ۱تا۱۷۔ ۲) جو امر ابھی محتاج ثبوت ہو، اس کے وجود سے استدلال کرنا فلسفیانہ تضاد کے مترادف ہے۔ جو چیز اپنے آپ پر منتج ہوتی ہو، اسے اصطلاحاً ’’دور‘‘ کہا جاتا ہے۔ عشرت حسن انور صاحب کی دلیل میں بھی یہاں یہی خامی ہے کہ اس سے ’’دور،، لازم آتا ہے۔ ۳) یہ اصطلاحات بالترتیب نذیر نیازی صاحب اور ڈاکٹر برہان احمد فاروقی صاحب نے استعمال کی ہیں (مذہبی مشاہدہ، واردات مذہبی، واردات باطنی، وقوف سرّی، وقوف مذہبی) اور ان سب کا مدلول وہی ہے جو پرانی اصطلاح میں وحی یا علم بالوحی کے الفاظ سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ نیز Religious Eexperience کا ترجمہ علم بالوحی کے الفاظ سے کرنے کی تجویز خود علامہ اقبال کی تھی (دیکھئے نذیر نیازی تشکیل جدید (اردو) متن۔ ص ۱، نیز مقدمہ)۔ اس سے واضح ہوا کہ یہاں جو امر زیر بحث ہے اور جسے ثابت کرنا مقصود ہے وہ وحی خداوندی کا مافوق الطبیعی مظہر ہے جسے ان کے مخاطب ، نفسیات جدیدہ کے اثرات کے تحت، اختلال حواس یا ذہنی مرض سے تعبیر کر رہے تھے۔ ۴) ر۔ ک : عشرت حسن انور، محولہ ماقبل، ص، ۱۳۔ ’’اقبال کا ، مذہبی تجربے کے انکشافات کی نظری آزمائش ، ایک دفاعی نظام ہے جس سے وہ ان تمام کاوشوں کو روک دینا چاہیتے ہیں جن سے تمام ادیان کی اساسی وحدت (کے شعور) کو فروغ ملتا ہے‘‘…… مزید دیکھیے ص ، ۱ سطر۸،۱۷،۲۶،۔ ص ۸ سطر ۲۵، ۳۲، ۳۸،۔ ص، ۹ سطر ۱۲، ۲۵، ۳۱۔ ص ،۱۲ آخری پیراگراف ۔ ص، ۱۴ سطر ۵۔ ۵) ر۔ ک : عشرت حسن انور، محولہ ماقبل ، ص ،۱۴ سطر۱۔۱۳۔ ۶) انور صاحب نے اس جگہ Mental Science کا لفظ برتا ہے اور اس کی مثال کے طور پر یوگ کا نام لیا ہے۔ اس پر گفتگو اپنے مقام پر ہو گی۔ ۷) دیکھئے نوٹ نمبر۵۔ ۸) یہ عشرت حسن انور صاحب کا موقف ہے۔ ۹) مثلاً دیکھیے تشکیل جدید (انگریزی)محولہ ماقبل، ص، ۱۳، ۱۴۶ و دیگر۔ اسی طرح شعور کے مراتب اور عقل جزئی کے علاوہ اسالیب شعور کا ذکر بھی تشکیل جدید میں بارہا آیا ہے لیکن ان دونوں نکات کو باقاعدہ مفصل اور مدلل انداز میں استعمال نہ کیا جانا اس بات کا ثبوت نہیں کہ علامہ ان سے بے خبر تھے۔ وہ اپنے اختیار کردہ اصول تطبیق کے تقاضے ملحوظ رکھتے ہوئے مخاطب کی عقل کی رعایت سے کلام کر رہے تھے اور یہ نکتہ ڈاکٹر عشرت حسن انور صاحب نے نظر انداز کر دیا۔ انور صاحب کی بات اس حد تک البتہ درست ہے کہ اگر کوئی تجربہ نسل انسانی کا اس کی ساری معلومہ تاریخ میں مشترکہ ورثہ اور مشترکہ تجربہ رہا ہے تو اس تاریخی اشتراک کو اس کے وجود ، صداقت و حجیت کے لیے بطور دلیل پیش کیا جا سکتا ہے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر اولاد آدم ساری تاریخ میں عہد حاضر سے پہلے فریب کا شکار تھی اور اپنی نفسیاتی خود فریبی (جنسی داعیات کا ترفع ، لاشعور کے سائے وغیرہ وغیرہ) کو مذہب کا رنگ دیتی رہی تھی یا مختلف سماجی ، جغرافیائی اور اس نوع کی دیگر ضروریات کی وجہ سے مذہب کے اختراع و اختیار کا عمل کرتی رہی تھی تو آج انسان بدل نہیں گیا۔ اگر کل تک کی ساری معلومہ تاریخ میں وہ ایک اجتماعی مغالطے کا شکار تھا تو اب آئندہ بھی اس کے لیے اس سے نکلنے کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی۔ ۱۰) ر۔ ک: عشرت حسن انور، محولہ ماقبل، ص، ۱۔ ۱۱) حوالہ بالا ص ، ۱، ۲، ۶ ، ۸۔ ۱۲) حوالہ بالا، ص ،۱۔ ۱۳) یہاں انور صاحب نے انگریزی کی ترکیب Narrow escape استعمال کی ہے جو اس معنی میں صحیح معلوم نہیں ہوتی بلکہ صریحاً خلاف محاورہ ہے۔ ۱۴) عشرت حسن انور، محولہ بالا، ص ،۱ سطر۸۔۹۔ ۱۵) ایضاً ۔سطر ۱۲ ۱۶) ’’ان کی دانست میں‘‘ کے الفاظ سے ہمارا اشارہ اس نزاکت کی طرف ہے جو اس مبحث میں پائی جاتی ہے۔ دیگر ادیان کی حیثیت ، حقانیت اور ظہور اسلام کے بعد حجیت کا مسئلہ اس طرح کی پیش پا افتادہ باتوں سے حل نہیں کیا جا سکتا جو انور صاحب نے ان سطور میں پیش کی ہیں۔ ۱۷) تشکیل جدید (انگریزی) محولہ ماقبل ، ص ،۲۱۔۲۲۔ ۱۸) ہمارا اشارہ ان خطوط ، مکالمات اور اشعار کی طرف ہے جن میں علامہ نے وحی لفظی کا اثبات کیا ہے اور یہاں ہم ان کی تفصیلات پیش نہیں کر سکتے۔ ۱۹) یہ لفظ اس اقتباس ہی میں نہیں کئی اور مقامات پر بھی اسی حقیقت یا اسی عمل کو ظاہر کرنے کے لیے برتا گیا ہے۔ دیکھیے تشکیل جدید (انگریزی) محولہ ماقبل ، ص، ۱۶، ۱۷، ۱۸، ۔ ان سب مقامات پر اس لفظ سے ایک اشتباہ پیدا ہوتا ہے جسے علامہ کے مجموعی موقف اور پورے تناظر کے حوالے سے حل کرنا ضروری ہے۔ ۲۰) نذیر نیازی صاحب نے اس پر مفصل نوٹ لکھنے اور متعدد امکانات کا تذکرہ کرنے کے بعد (ص ۳۵۷) اس کا ترجمہ کیفیت احساس، کی ترکیب سے کیا ہے: جبکہ علامہ کے دیگر اقتباسات کی روشنی میں اس کا ترجمہ ’’مرتبۂ انفعال‘‘ یا ’’مرتبۂ احساس‘‘ بھی ہو سکتا تھا۔ ۲۱) نصراللہ پور جوادی /نکلسن ’مثنوی مولانا روم، تہران ۱۳۶۳۔ دفتر دوم ، اشعار ۴۳۔ ۵۲،۶۵ ۔ ۶۷، ۷۲۔ ۷۳، ۹۴، ۹۷ ۲۲) تشکیل جدید (انگریزی) محولہ ماقبل ، ص، ۱۳، اسی عبارت میں آگے چل کر علامہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’دیگر درجات شعور‘‘ کوئی مبہم ، مخفی اور جذباتی چیز نہیں ہیں۔ اس سے بھی واضح اشارہ ملتا ہے کہ feeling کے لفظ سے ان کی مراد کیا ہو سکتی ہے۔ ۲۳) تشکیل جدید (انگریزی) ص، ۱۴۔ ۲۴) ایضاً ۔ص ،۱۸۔ ۲۵) صوفیاء کی اصطلاح میں اسی مفہوم کو ذوق (چکھنا) کے لفظ سے سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے کیونکہ اس عمل کی مماثلت حواس کے براہ راست عمل سے زیادہ اور خرد یا عقل جزئی کے بالواسطہ اور محتاج غیر وسیلے سے کم ہے۔ ۲۶) تشکیل جدید (انگریزی) محولہ ماقبل ، ص، ۱۴۴۔ ۲۷) حوالہ بالا، ص، ۱۲۔ یہ سب سے گہری اور چند خاص انسانوں تک محدود سطح شعور (فلاسفہ کی اصطلاح میں اسی کو شاید عقل مستفاد کہا جاتا ہے) عمل وحی کے لیے آلٰہ حصول کی حیثیت رکھتی ہے جیسا کہ قرآن مجید کی متعلقہ آیات سے پتہ چلتا ہے۔ ۲۸) حوالہ بالا ، ص، ۱۴۳۔ اگر نقل، عقل اور کشف کے تین ادوار کو زمانی تسلیم کیا جائے اور ان کا ظہور بالترتیب مانا جائے تو اس اقتباس میں کچھ مسائل جنم لیتے ہیں جن کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں۔ ۲۹) دو ذیلی نکات کی تنقیح البتہ مناسب ہو گی۔ مقالے کے آخری پیراگراف میں انور صاحب نے تشکیل جدید (ص ۱۴۳) سے علامہ کے اس فقرے کا حوالہ دیا ہے جو اصل میں ان کے والد کا قول تھا لیکن اسے ’’ایک صوفی کا قول‘‘ کہا گیا تھا۔ اس فقرے کو انور صاحب نے اس معنی میں لیا ہے کہ اس کیفیت مقصودہ سے علامہ کا اشارہ یوگا کی طرح کی ذہنی مشقوں یا ارتکاز توجہ کے عمل کی طرف ہے جبکہ اس سے متعلق متون دیکھنے اور اسے علوم دینی کے حوالے سے جانچنے سے یہ کہنا زیادہ قرین حقیقت ہو گا کہ یہاں علامہ یہ بتا رہے ہیں کہ قرآن کی ایک جہت محسوس ہے اور ایک جہت معقول۔ اس کا فہم پیدا کرنا بھی مطلوب ہے اور اسے محسوس کرنا بھی مقصود ہے۔ ان دونوں جہات میں رسول کی ذات امر زائد نہیں ہے۔ قرآن کو سمجھنے اور محسوس کرنے کے تمام سانچے، اپنی تاریخی سند کے ساتھ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دے دیئے۔ ان میں مشارکت کرنا ان دونوں جہات عمل کی سطح بلند کرنا ان کو معتبربنانے کے مترادف ہے۔ مقام تعجب بلکہ مقام افسوس ہے کہ انور صاحب نے اس سلسلے میں ہندو یوگ کے تصور سے بھی انصاف نہیں کیا۔ پہلے تو اس کے بیان کے لیے رادھا کرشنن کی سند لے آئے جو مغربی فلسفے کے سانچوں اور معیارات کے مطابق ہندومت کے روایتی تصورات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی پاداش میں ناقابل اعتبار ہو چکے ہیں۔ پھر یوگ کا مقصد یہ بتایا کہ ’’اس سے عام انسانی تجربے کی حدود سے باہر نکلنا ممکن ہو جاتا ہے۔‘‘! ۳۰) یہ تقاضے کئی طرح کے ہو سکتے ہیں مثلاً ہندو معاشرے کا سماجی دبائو، یونیورسٹی کی نوکری کے مسائل، سیاسی مصلحت یا محض اپنی بقا کی قیمت۔ ۳۱) یہ شعر افتخار عارف کا ہے جو ان کی اجازت سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ضمیمہ۔ ۳ سزا یا نا سزا شبلی، شاہ ولی اللہ اور اقبال کے حوالے سے اسلامی سزائوں کے مبحث پر چند ملاحظات (یہ ضمیمہ مجلہ اقبالیات جلد ۳۶ شمارہ ۴ جنوری ۱۹۹۶ء میں بصورت مقالہ چھپ چکا ہے۔ اپنے مبحث کی اہمیت کی وجہ سے اسے یہاں شامل کیا جا رہا ہے) چند برس ادہر کی بات ہے کہ ایم فل (اقبالیات) کے تکمیلی مقالے کی تیاری کے لیے تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ ۱؎ کا از سر نو مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔ کتاب کے چھٹے خطبے ’’اسلام میں اصول حرکت‘‘۲؎ کے متن کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک نئی چیز سامنے آئی۔ اس خطبے میں مرکزی موضوع یعنی ’اجتہاد‘ سے بحث کرتے ہوئے علامہ اقبال نے ذیلی مبحث کے طور پر فقہ اسلامی کے چار ماخذکاتذکرہ کیا ہے۔ پھر ان کے ضمن میں اپنے دور کے حالات کے پیدا کردہ مسائل کے حوالے سے تبصرہ کیا ہے۔ یہاں آ کر علامہ نے ایک نکتہ اٹھایا ہے اور وہ ہے احکام شرعی کے تعین میں اِلف و عادت اور عرف و رواج کی رعایت رکھنے کا معاملہ۔ اس نکتے کی وضاحت کے لیے علامہ نے شاہ ولی اللہ صاحب کی تصنیف حجتہ اللہ البالغہ سے ایک حوالہ دیا ہے اور اس میں بیان کردہ فکری مقدمے پر اپنے استدلال کی بنیاد رکھی ہے۔ تشکیل جدید کے متداول انگریزی ایڈیشن کی تصحیح متن اور تعلیقات نویسی جناب شیخ محمد سعید صاحب نے انجام دی تھی ۔ ان کے تعلیقات کے وسیلے ۳؎ سے شاہ ولی اللہ کی اصل عبارت کی جستجو کی گئی تو یہ بات پہلی مرتبہ سامنے آئی کہ حجتہ اللہ البالغہ کے مذکورہ صفحے پر اس مضمون کی کوئی متعلقہ عبارت موجود نہیں ہے۔ اس تعلیقہ میں عربی عبارت بھی دی گئی تھی اور الکلام میں اس کے اقتباس کا ذکر بھی تھا۔ الکلام کا متعلقہ صفحہ دیکھا گیا تو یہ کھلا کہ اقتباس کردہ عبارت اور تعلیقے کی عبارت میں فرق ہے۔ مزید پرچول کی تو شاہ صاحب کی اصل عبارت بھی مل گئی۔ ۵؎ الکلام میں دی گئی عبارت کو اصل عربی عبارت سے ملا کر دیکھا تو واضح ہوا کہ شبلی نے جو عبارت الکلام میں درج کی اور جسے علامہ نے اپنے استدلال کے لیے شبلی کے بھروسے پر بنیاد بنایا ۶؎ اس میں اور شاہ ولی اللہ کی اصل عبارت میں اختلاف ہے۔ شبلی نے اپنے مخصوص انداز تالیف میں پہلے تو عبارت کے درمیان سے چھ سطریں حذف کر دیں پھر آخر کی دو سطریں اڑا دیں اور اس کے بعد نہ صرف اس امر کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا کہ عربی عبارت مسلسل نقل نہیں ہوئی بلکہ آخر میں استنباط نتائج کے طور پر اردو میں جو خلاصہ یا مقصود کلام دیا ہے وہ بھی اس طرح درج ہوا ہے کہ بظاہر شاہ صاحب ہی کا مدعا قرار پاتا ہے۔ شاہ صاحب کی تصنیف کے اصل مبحث کو دیکھتے ہوئے ہمارے لیے یہ قبول کرنا دشوار تھا کہ شبلی نے اس مقام پر شاہ صاحب کے استدلال کی صحیح ترجمانی کی ہے۔ اس دشواری کا پہلا سبب تو یہ تھا کہ شاہ صاحب نے حجتہ اللہ البالغہ ہی کی دوسری جلد میں ’’الحدود‘‘ کے عنوان کے تحت حدود و تعزیرات کے بارے میں مفصل بحث کی ہے۔۷؎ اس بحث کو پڑھنے سے یہی سمجھ آتا ہے کہ شاہ صاحب ان سزائوںکو شریعت بالجملہ میں شمار کرتے ہیں اور ان کی اصطلاح میں ’’شریعت بالجملہ‘‘ وہ عناصر دین ہیںجو دائمی ہیں اور ہر دور اور ہر قوم کے لیے واجب ہیں۔۸؎ یہ مفہوم صراحتاً وہ نہیں ہے جو شبلی کی عبارت سے متبادر ہوتا ہے۔ دوسری دشواری یہ تھی کہ اگر شبلی کا بیان کردہ خلاصۂ افکار تسلیم کر لیا جائے تو شاہ صاحب کے مبحث کا تناظر ہی بدل جاتا ہے جو ’’شریعت بالجملہ‘‘ اور ’’شریعت بالاطلاق‘‘ کی دو اصطلاحات کی شرح اور ان کے باہمی تعلق کے بیان پر مبنی ہے۔ اس تغییر کی طرف سید سلیمان ندوی نے علامہ اقبال سے مکاتبت کرتے ہوئے اشارہ بھی کیا تھا۔ ۹؎ اس تغییر معانی کا شاخسانہ یہ ہوا کہ بعض حلقوں میں اس سے استدلال کیا جانے لگا کہ کچھ اجزائے اسلام شریعت نہیں ہیں صرف وقتی حیثیت کی چیزیں ہیں۔ جب ان اجزاء کو متعین کرنے کی نوبت آئی تو ان میں وہ چیزیں بھی شامل کر دی گئیں جو دائرہ اصول و نصوص سے تعلق رکھتی تھیں۔ اس کی ایک مثال حدود و تعزیرات کو وقتی اور عرب کے جاہلی معاشرے تک محدود قرار دینے والے بیانات میں دیکھی جا سکتی ہے۔ جب یہ پس منظر ہم پر کھلا تو ایک روز ہم نے یہ مسئلہ ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کے سامنے رکھا۔ شاہ ولی اللہ اور شبلی نعمانی کی اصل عبارتیں بھی پیش کیں۔ اس سارے مواد کا جائزہ لے کر انہوں نے جو تبصرہ کیا وہ یہ تھا کہ شاہ صاحب کہنا تو یہی چاہتے تھے مگر ان کی عبارت سے یہ نکتہ کھل کر سامنے نہیں آ سکا۔ شبلی نے ان کے مقصود کلام کی جو ترجمانی کی ہے وہ درست ہے اور اس سے شاہ صاحب کی عبارت کا مدعا و مطلب کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ اقبال نے اگر شبلی کی تعبیر کو اختیار کیا ہے تو ٹھیک ہی کیا ہے۔ یہ اس مسئلے کا ایک رخ تھا۔ قارئین قیاس کر سکتے ہیں کہ اس طرز استدلال کے مضمرات کیا ہیں۔ یہ صرف ایک نظری یا قانونی مسئلہ نہیں تھا۔ اس کا براہ راست تعلق اس بحث سے پیدا ہو چکا تھا جو ہمارے ہاں شرعی احکام /اجزائے شریعت کے دائمی /غیر دائمی ہونے کے عنوان سے کچھ عرصے سے جاری تھی۔ اگر شبلی کا بیان کردہ مفہوم قبول کرلیا جائے اور اسے شاہ صاحب کے اصول کی مستند ترجمانی قرار دیا جائے تو اس کے کچھ ناگزیر منطقی نتائج اور مضمرات ہوں گے جنہیں قبول کرنا ہو گا۔ دوسری جانب بعض اہل قلم کی رائے اس سے مختلف بھی تھی۔ شاہ صاحب کی عبارتوں کے صحیح مدلول کو متعین کرنے کی غرض سے ہم نے پہلے تو ڈاکٹر محمد الغزالی صاحب سے رجوع کیا۔۱۰؎ ان کی رائے میں شاہ صاحب کی مکمل عبارت اور عمومی فکری تناظر کو سامنے رکھتے ہوئے یہ تسلیم کرنا دشوار ہے کہ شبلی کا بیان شاہ صاحب کی صحیح ترجمانی کر رہا ہے۔ جاوید احمد غامدی صاحب ۱۱؎ کا تبصرہ یہ تھا کہ شبلی کا نقطۂ نظر نہ تو شاہ صاحب کے عمومی فکری اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے نہ اس خاص مسئلے پر ان کے موقف کی صحیح ترجمانی کرتا ہے کہ شرعی احکام کے نفاذ و اطلاق میں زمان و مکان کے بُعد کی کیا رعایت متصور ہو گی؟ اس ضمن میں انہوں نے دو نکات کی طرف توجہ دلائی۔ اولاً یہ کہ احکام شرعی کے تعین میں اِلف و عادت اور عرف و رواج کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ اس کو بنیاد بنا کر شاہ صاحب نے امور شرعی کی دو اقسام بیان کی ہیں ’’شریعت بالجملہ‘‘ اور ’’شریعت بالاطلاق‘‘ اول الذکر دائمی اور ہر دور اور ہر قوم کے لیے واجب ہے جبکہ موخر الذکر میں زمانے اور نفوس انسانیہ کی رعایت ہوتی ہے اور وہ مابعد کے لوگوں کے لیے واجب نہیں ہوتی۔ خلط مبحث وہاں پیدا ہوا جب اول الذکر کے مدلولات کو موخر الذکر کی تغیرپذیر اقلیم سے متعلق کر کے انہیں بھی قابل ترمیم و تنسیخ قرار دے دیا گیا، مثلاً شرعی سزائیں ، جبکہ شاہ صاحب کی تحریروں کی داخلی شہادت یہ بتاتی ہے کہ وہ ان اجزائے شریعت کو ’بالجملہ‘ کی قبیل میں رکھتے ہیں۔ دوسرا نکتہ یہ تھاکہ اگر علامہ کی اس بحث کا بغور جائزہ لیا جائے جو فقہ کے ماخذ کے تحت انہوں نے کی ہے تو اس سے ان کی محتاط رائے کا اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے۔ اجماع کو ناسخ قرآن کی حیثیت نہ دینے کے بعد علامہ نے صحابہ کے اجماعی فیصلوں کی شرعی حیثیت پر کلام کیا ہے۔ ان کا تجزیہ اس مسئلے کو چار دائروں میں تقسیم کر دیتا ہے، قرآن ، سنت ثابتہ، احادیث اور اطلاق بر فروع۔ علامہ کی رائے بالکل واضح ہے کہ قرآن اور سنت ثابتہ تو احکام شرعی کے قطعی ماخذ ہیں۔ احادیث کی حیثیت دو رخی ہے۔ یا تو وہ اصل و نصوص کی شرح وتبیین کر رہی ہیں۔ اگر یہ صورت ہو تو احادیث خود ہی تبعاً متعلق بہ اصول و نصوص ہو جائیں گی۔ دوسری صورت میں یہ احادیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان اطلاقی فیصلوں کی خبر دے رہی ہیں جو اصل و نصوص کے تحت آپ نے پیش آمدہ مسائل اور مخصوص حالات کے بارے میں صادر کئے۔ یہ اطلاقی فیصلے وہ دائرہ اطلاق تشکیل دیتے ہیں جہاں تغیر کو دخل ہے، زمانے کے تقاضے، عرف و رواج اور دیگر کئی مصالح کا لحاظ کرنا جائز ہے۔ اس دائرے میں تبدیلی اور اجتہاد کی کھلی اجازت ہے۔ عین یہی منشا علامہ کی ان عبارتوں کا ہے جو اجماع صحابہ کے ضمن میں پیش ہوئیں۔ اسے حدود و تعزیرات کے مسئلے سے ملا کر دیکھئے تو خلط مبحث یہ نظر آتا ہے کہ حدود و تعزیرات کی دو حیثیات میں امتیاز ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ شرعی سزائیں بحیثیت حکم شرعی کے شریعت کا دائمی حصہ ہیں اور بحیثیت اطلاقی فیصلے کے ان کا طریقۂ نفاذ دائرہ اطلاق کی چیز ہے اور اسے حسب ضرورت تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر محمد امین صاحب سے ان نکات پر گفتگو ہوئی تو ان کی رائے بھی شبلی کی پیش کردہ تعبیر کے خلاف تھی۔ اپنی اسی رائے کا تحریری اظہار انہوں نے اپنے مقالے ’’شاہ ولی اللہ اور اسلامی حدود‘‘۱۲؎ میں کیا۔ مسئلے کی وضاحت کے لیے ضروری تھا کہ متعلقہ عبارتیں ترتیب زمانی کے مطابق پیش کر دی جاتیں تاہم ڈاکٹر امین صاحب نے یہ ضرورت نظر انداز کر دی اور کچھ ذیلی مسائل الگ سے چھیڑ دیئے جس سے بحث کا رخ دوسری جانب مڑ گیا۔ ڈاکٹر محمد خالد مسعود صاحب نے ڈاکٹرامین صاحب کے استدلال کا تعاقب کیا اور اس کی تصحیح / ترمیم میں بہت تفصیل سے کلام کیا۔ ا ن کا مفصل مقالہ ’’اسلامی احکام اور عادات‘‘ کے عنوان سے فکر و نظر ۱۳؎ میں طبع ہوا۔ ان کی رائے میں شبلی اور علامہ اقبال نے شاہ صاحب کی عبارت کو صحیح سمجھا اور اس کا درست مفہوم متعین کیا۔ پس منظر کی اس تمہیدی وضاحت کے بعد سطور ذیل میں ہم اس معاملے پر چند معروضات پیش کرنا چاہتے ہیں۔ شاہ صاحب کی متعلقہ عبارت حجتہ اللہ البالغہ جلد اول کے مبحث سادس کے باب ۶۹ ’’الحاجتہ الی دین ینسخ الادیان‘‘ میں واقع ہوئی ہے ۱۴؎۔ سطور ذیل میں اس کا عکس پیش کیا جا رہا ہے۔ اقتباس اول شبلی نعمانی نے یہی عبارت الکلام میں پیش کی ہے عبارت کا خلاصہ اقتباس سے پہلے مندرجہ ذیل الفاظ میں دیا گیا ہے۔ ۱۵؎ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ پیغمبر جس قوم میں مبعوث ہوتا ہے، اس کی شریعت میں اس قوم کے عادات اور خصوصیات کا خاص طریقہ پر لحاظ ہوتا ہے، لیکن جو پیغمبر تمام عالم کے لیے مبعوث ہو، اس کے طریقہ تعلیم میں یہ اصول چل نہیں سکتا کیونکہ نہ وہ تمام دنیا کی قوموں کے لیے الگ الگ شریعتیں بنا سکتا ہے نہ تمام قوموں کی عادات اور خصوصیتیں باہم متفق ہو سکتی ہیں۔ اس لیے وہ پہلے اپنی قوم کی تعلیم و تلقین شروع کرتا ہے اور ان کو محاسن اخلاق کا نمونہ بناتا ہے، یہ قوم اس کے اعضا اور جوارح کا کام دیتی ہے اور اسی نمونہ پر وہ اپنی تلقین کا دائرہ وسیع کرتا جاتا ہے، اس کی شریعت میں اگرچہ زیادہ تر وہ قواعد کلیہ اور اصول عام ہوتے ہیں جو قریباً تمام دنیا کی قوموں میں مشترک ہوتے ہیں۔ تاہم خاص اس کی قوم کی عادات اور خصوصیات کا لحاظ زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن جو احکام ان عادات اور حالات کی بنا پر قائم ہوتے ہیں ان کی پابندی مقصود بالذات نہیں ہوتی اور نہ ان پر چنداں زور دیا جاتا ہے۔ شاہ ولی اللہ کی تحریر سے شبلی نعمانی نے جس طرح اقتباس دیا اس کا انداز ذیل میں دیئے گیے عکس میں دیکھا جا سکتا ہے۔۱۶؎ اقتباس دوم پہلے آیئے متن میں تغییر کے مسئلے پر۔ شاہ صاحب کی اصل عبارت سطور ماقبل میں پیش کی جا چکی۔ اس کے ذیل میں علامہ شبلی کی تحریر اور اقتباس بھی پیش کر دیا گیا۔ دونوں متون کے تقابل سے پہلا انکشاف یہ ہوتا ہے کہ شبلی نے شاہ صاحب کی عبارت میں سے کئی جگہ فقرے حذف کئے ہیں۔ ’’اقتباس اوّل‘‘ صفحہ ۲ کی دوسری سطر کا نصف آخر اور تیسری چوتھی سطریں ’’اقتباس دوم‘‘ میں نہیں ہیں۔ آگے چلئے تو ’’اقتباس اوّل‘‘ ص ۲ کی دسویں سطر صحیح نقل کرنے کے بعد پھر ’’اقتباس اوّل‘‘ کی آخری ساڑھے تین سطریں ’’اقتباس دوم‘‘ میں سے اڑا دی گئی ہیں۔ بایں ہمہ ’’اقتباس دوم‘‘ کی عبارت مسلسل عبارت کی طرح لکھی گئی ہے اور سیاق و سباق میں عبارت کے اندراج میں یا ترجمے و تمہید میں کہیں یہ اشارہ نہیں کیا کہ ’’اقتباس دوم‘‘ کی عبارت مسلسل نہیں ہے بلکہ اسے ’’اقتباس اوّل‘‘ کی حسب ضرورت ’’کتربیونت‘‘ کر کے مسلسل عبارت کی شکل دی گئی ہے۔ آگے چلنے سے پہلے یہ بھی دیکھ لیجئے کہ جتنا حصہ نقل ہو کر ’’اقتباس دوم‘‘ میں بار پا سکا ہے اس میں بھی چھ مقامات پر سہوکتابت موجود ہے۔۱۷؎ اب آیئے تغییر معانی کی جانب ۔ یہ بحث ذرا نازک ہے اور اپنے دامن میں فقہ و قانون اسلامی کے پیچیدہ مباحث سمیٹے ہوئے ہے۔ اس لیے ہم ترجیح اس بات کو دیں گے کہ بحث کا دائرہ ہمارے ’’وطن مالوف‘‘ یعنی اقبالیات کی حدود سے تجاوز نہ کرے اور فقہ و قانون کی سخن گسترانہ باتوں کی نوبت نہ آنے پائے۔ ویسے بھی اس وضاحتی تحریر میں ہمارا مقصود صرف اتنا ہے کہ علامہ اقبال کی تحریر کے حوالے سے جو بحث اقبال شناسوں میں چل رہی ہے اور جس میں شاہ ولی اللہ کو بطور سند پیش کیا جاتا ہے اس کے دلائل کو صحت و سقم کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھ لیا جائے اور یہ طے کر لیا جائے کہ جس بات کو شاہ صاحب کا موقف قرار دیا جا رہا ہے وہ ان سے منسوب کیا جا سکتا ہے یا نہیں! علامہ شبلی نے تین جگہ عبارت میں قطع و برید کی ہے۔ ان میں سے پہلے دو مقامات پر عبارت کے کچھ الفاظ حذف کرنے سے استدلال اور تسلسل کلام پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔ لیکن تیسرے مقام پر حذف شدہ فقرے اتنے اہم ہیں کہ ان کے ہونے یا نہ ہونے سے استدلال کا سارا تناظر بدل جاتا ہے۔ لہٰذا متعلقہ عبارت دوبارہ درج کی جاتی ہے۔ شاہ صاحب کا کہنا یہ ہے کہ۱۸؎ چنانچہ اس سے بہتر اور آسان تر کوئی بات نہیں کہ شعائر، حدود اور ارتفاقات میں اسی قوم کی عادات کا اعتبار کیا جائے جس میں وہ مبعوث ہوا ہے اور بعد میں آنے والے دوسرے لوگوں کے لیے بالکل ہی تنگی نہ کر دی جائے۔ ان کے لیے ان (شعائر، حدود اور ارتفاقات) کو فی الجملہ باقی رکھا جائے۔ پہلے لوگوں کے لیے اس شریعت کو اختیار کرنا اس لیے آسان ہوا کہ ان کے دل اور ان کی عادات اس کے شاہد تھے۔ پچھلوں کے لیے اس کو اختیار کرنے میں آسانی اس لیے ہو گئی کہ ان کے لیے آئمہ ملت اور خلفاء کی سیرت کا اتباع مرغوب چیز تھا۔ پس یہ شریعت ہر قوم کے لیے اور قدیم و جدید ہر زمانے میں امر طبیعی کی طرح ہے۔ ۱۹؎ اگر شبلی اپنے قارئین کو یہ بتا دیتے کہ شاہ صاحب کا بیان اصل میں یہ ہے کہ… … وہ نبی جس کی لائی ہوئی شریعت کا مادہ عرب و عجم کی ساری اقالیم صالحہ کے لیے مذہب طبعی کی طرح تھا اور اس نے اپنی قوم کے الف و عادت کا لحاظ رکھتے ہوئے اس مادہ شریعت کے تحت جو شعائر حدود اور ارتفاقات مقرر کئے وہ بحیثیت مجموعی بعد والوں کے لیے بھی واجب العمل ہیں۔ ان پر عمل کرنا بعد والوں کے لیے بھی اتنا ہی آسان ہے جتنا پہلے والوں کے لیے تھا البتہ اس آسانی کے اسباب دونوں کے لیے مختلف ہیں اور یہ تینوں اجزائے شریعت (یعنی شعائر، حدود اور ارتفاقات) ہر عہد اور ہر قوم کے لیے ایک امر طبیعی کی طرح ہیں…… اگر یہ بات شبلی کے تیار کردہ ’’اقتباس دوم،، میں آ جاتی تو کیا ان کے پاس ایسے فقرے لکھنے کی گنجائش رہ جاتی جو انہوں نے تمہید، خلاصہ کلام اور استنباط نتائج کی ذیل میں بہ اطمینان نذر قارئین کر دیئے ہیں۔ مثلاً یہ کہ جو احکام ان عادات و حالات کی بنا پر قائم ہوتے ہیں ان کی پابندی مقصود بالذات نہیں ہوتی اور نہ ان پر چنداں زور دیا جاتاہے ۲۰؎ آنے والی نسلوں پر ان احکام کے متعلق چنداں سخت گیری نہ کی جائے اس اصول سے یہ بات ظاہر ہو گی کہ شریعت اسلامی میں چوری، قتل، زنا وغیرہ کی جو سزائیں مقرر کی گئی ہیں ان میں کہاں تک عرب کی رسم و رواج کا لحاظ رکھا گیا ہے اور یہ کہ ان سزائوں کا بعینہا اور بخصوصہا پابند رہنا کہاں تک ضروری ہے؟ ۲۲؎ آخری فقرے میں ’’بعینہا‘‘ اور ’’بخصوصہا‘‘ کے الفاظ سے ایک غلط فہمی نے جنم لیا جو علامہ اقبال کے ہاں منتقل ہوئی کیونکہ انہوں نے شبلی کے ’’اقتباس،، پر بھروسہ کر لیا تھا۔ علامہ اقبال کی عبارت نقل کرنے سے پہلے یہ دیکھ لیا جائے تو مناسب ہو گا کہ شبلی نے اسماء و ضمائر کے ان دوبھاری بھرکم مرکبات سے لیس ہو کر قارئین کے سامنے جو ایک مرعوب کن سوال رکھا ہے اس کا جواب کیا ہے۔ ہمیں یہ تو مستحضر نہیں ہے کہ فقہ اسلامی کے صدیوں پر محیط ذخیرئہ افکار میں اس سوال کا کیا کیا جواب دیا گیا ہے تاہم بحث کو اپنی حدود میں رکھنے کے لیے شاہ ولی اللہ کی حجتہ اللہ البالغہ میں سے جواب تلاش کرنے کی کوشش کیے لیتے ہیں۔عربی الفاظ و ضمائر کا گھونگھٹ اٹھا دیجئے، تو سوال اپنی سادہ شکل میں یہ رہ جاتا ہے کہ شریعت اسلامی میں چوری، زنا اور قتل و غیرہ کی جو سزائیں نبی علیہ السلام کے زمانے میں مقرر تھیں کیا آج بھی وہی سزائیں باقی رہیں گی اور اسی طرح رہیں گی؟ شاہ صاحب نے اس معاملے پر کئی جگہ کلام کیا ہے تاہم ہمارے مطلوبہ سوال کے دونوں اجزاء کا جواب حجتہ اللہ البالغہ جلد دوم کے ’’باب حدود‘‘ سے بقدر کفایت مل جاتا ہے۔ یوں تو شاہ صاحب نے شرعی سزائوں کی ضرورت مصلحت اور مصالح شرعیہ سے ان کے ربط کے سلسلے میں بھی اہم نکات بیان کئے ہیں تاہم ہمارے فوری مسئلے کے نقطہ نظر سے اس باب کے دوسرے مندرجات اہم تر ہیں۔ پہلے شرعی سزائوں کے بارے میں ان کی اجمالی رائے ملاحظہ کیجئے۔۲۳؎ یہ سزائیں شرائع سماویہ میں متوارث چلی آتی تھیں اور تمام انبیاء اور ان کی امتیں اس پر متفق تھیں تو ضروری ہوا کہ ان کو خوب مضبوطی سے پکڑنا چاہیے اور کبھی ان کو ترک نہ کرنا چاہیے۔ سزائوں ہی کے بارے میں آگے چل کر لکھتے ہیں: ۲۴؎ شرائع لازمی جن کو خدا تعالے نے بمنزلہ خلقی امور کے مقرر کیا ہے ان کی شان سے یہ بات ہے کہ وہ مؤثر بالخاصیت کی طرح سمجھی جائیں اور لوگ نہایت مضبوطی سے اس کو مانیں اور نیز جس چیز میں تھوڑی سی تکلیف اور آسانی ہے اس کے چھوڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سزائیں کونسی ہیں جنہیں مضبوطی سے پکڑنا چاہیے اور کبھی ترک نہ کرنا چاہیے؟ شاہ صاحب کا جواب مندرجہ ذیل ہے۔ ۲۵؎ زنا………سنگسار کرنا ۔ کوڑے لگانا سرقہ ……… قطع ید رہزنی………قطع اعضاء ، تصلیب ، جلاوطنی ، قتل شرب خمر……… چالیس درے قذف……… اسی درے قتل…………قصاص یا دیت اس مجمل فہرست سے ہمارے سوال کے پہلے جزو کا جواب تو سامنے آ گیا۔ یہ جواب اثبات میں ہے۔ یہ سزائیں وہی ہیں (بعینہا) جو نبی علیہ السلام کے زمانہ مبارکہ میں تھیں۔ گویا شاہ صاحب کا موقف یہ ٹھہرا کہ ان جرائم کی جو شرعی سزائیں صدر اول میں معین کی گئی تھیں وہی آج بھی باقی ہیں۔ (یبقی علیھم بالجملہ)، واجب العمل ہیں، خلقی امر کی طرح ہیں اور جزو شریعت ہیں۔ ان کی اس حیثیت پر اس امر سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان سزائوں کے مقرر کرنے میں بنی اسماعیل کے عرف و عادت کا لحاظ کیا گیا تھا کیونکہ یہ لحاظ اس لیے رکھا گیا تھا کہ یہ عرف و عادت بنو اسماعیل کا خود ساختہ نہ تھا بلکہ متوارث تھا اور اپنے مبداء و آغاز میں سابقہ تنزیلات ربانی کا مرہون منت تھا۔ عناصر زوال و انحراف نے اس عرف و رواج میں جو تغیرات کر دیئے تھے اسے صاحب وحی نے ہدایت خداوندی کی مدد سے دور کر دیا۔ یوں یہ ضابطہ اخلاق و احکام منقح ہو کر دوبارہ نافذ العمل ہو گیا۔ یہاں یہ نکتہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ ترمیم و تنسیخ کے اس عمل کے دونوں فریق اپنی حیثیت میں منفرد اور یکتا ہیں۔ نہ تو نبی علیہ السلام کے بعد کسی کو دوبارہ وحی ربانی سے مشرف ہو کر قانون سازی کی حیثیت نصیب ہوئی نہ کسی دوسرے ضابطہ احکام کو اس مادہ شریعت کی حیثیت ملی جس میں ترمیم، تغییر اور تنسیخ کے سہ پہلو عمل کے ذریعے شریعت اسلامیہ کی صورت گری ہوئی تھی۔ لہٰذا شاہ صاحب کے پورے فکری تناظر میں یہ سوال تو اٹھایا ہی نہیں جا سکتا کہ آج اتنی صدیاں گزرنے کے بعد اور اقوام و ملل کی رنگارنگی اور تنوع کے روبرو اسلام کی شرعی سزائوں کو باقی رکھا جائے یا تبدیل کر دیا جائے؟ یہ سوال ہمارے اقبال شناسی کے حلقوں کا ہو تو ہو شاہ صاحب کا نہیں ہے۔ واضح رہے کہ یہاں گفتگو نفس احکام کے بارے میں ہو رہی ہے۔ درجۂ نفاذ کا معاملہ ذرا بعد میں آئے گا۔ نفس احکام کے بارے میں ان کا دو ٹوک جواب ہم دیکھ چکے ہیں۔ اس کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ شبلی نے اس نکتے پر شاہ صاحب کی غلط ترجمانی کی ہے اور قارئین کو یہ تاثر دینے میں غلطی کی ہے کہ شاہ صاحب کی رائے میں زمان نبوت سے بعید زمانوں اور مختلف اقوام کے لیے شرعی سزائیں اس کے علاوہ کچھ اور بھی ہو سکتی ہیں جو فقہ اسلامی میں مذکور ہیں۔ ہمارے اس دعویٰ کو ایک دلیل سے بھی تقویت ملتی ہے۔ یہ دلیل خود شبلی کی مذکورہ بالا عبارت میں موجود ایک داخلی تضاد سے فراہم ہوتی ہے۔ شبلی نے لکھا ہے کہ ’’اس کی شریعت میں اگرچہ زیاد تر وہ قواعد کلیہ اور اصول عام ہوتے ہیں جو تقریباً تمام دنیا کی قوموں میں مشترک ہوتے ہیں تاہم خاص اس کی قوم کی عادات اور خصوصیات کا لحاظ زیادہ ہوتا ہے لیکن جو احکام ان عادات اور حالات کی بنا پر قائم ہوتے ہیں ان کی پابندی مقصود بالذات نہیں ہوتی……… ‘‘(دیکھئے حاشیہ نمبر۱۵) ۔ گویا شبلی نے خود اس عبارت میں جداگانہ نوعیت کے دو امور کو تسلیم کیا ہے:۔ ایک وہ قواعد کلیہ اور اصول عام جو تقریباً تمام دنیا کی قوموں میں مشترک ہوتے ہیں اور دوسرے کسی خاص قوم کی عادات اور حالات کی بنا پر قائم ہونے والے احکام۔ یہ نکتہ شاہ صاحب کے حوالے سے بھی درست ہے۔ دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ شاہ صاحب نے اسلامی سزائوں کو ان دو میں سے کس کے تحت شمار کیا ہے؟ شاہ صاحب کی جو عبارتیں ہم نے نقل کیں ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ سزائوں کو ’’قواعد کلیہ‘‘ اور ’’اصول عام‘‘ کی قبیل سے جانتے ہیں جبکہ شبلی کی تشریح، جس کا حوالہ ماسبق میں آ چکا ہے، یہ بتاتی ہے کہ شرعی سزائیں قواعد کلیہ اور اصول عام نہیں بلکہ ’’عادات اور حالات کی بنا پر قائم ہونے‘‘ والی ایک غیر مقصود بالذات چیز ہیں۔ اسی تشریح کو آگے چل کر جب شبلی نے ، شاہ صاحب کی عبارت کا ’’مرادی‘‘ ترجمہ کرنے کے بعد ، دہرایا ہے تو تضاد کھل کر سامنے آ گیا ہے اور شاہ صاحب کے اصول کے تحت جو چیز ’’تقریباً ساری دنیا کی قوموں میں مشترک،، ہونے کی وجہ سے قواعد کلیہ اور اصول عام کے درجے کی مستحق تھی اس کی ’’بعینہا‘‘ و ’’بخصوصہا‘‘ پابندی کا سوال پوچھنے کی نوبت آ گئی!۔ یہاں تک کی معروضات سے ’’بعینہا‘‘ کی گرہ کشائی تو ہو چکی، اب لیجیے ’’بخصوصہا‘‘ کے مسئلے کو۔ اگر ’’خصوص‘‘ کے لفظ سے شبلی کی مراد وہی ہے جو ’’عین‘‘ کے لفظ سے تھی اور اسے مترادف کے طور پر برتا گیا ہے تو پھر تو اس کا معاملہ سطور سابقہ میں طے ہو چکا۔ اگر اس کے علاوہ معنی مراد ہیں تو پہلے اس لفظ کے مدلول کو طے کرنا ہو گا۔ یہ لفظ منطق، کلام اور فلسفے میں اصطلاحاً استعمال ہوتا ہے۔ اصول فقہ میں بھی اس کا فنی استعمال موجود ہے۔ قرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ شبلی نے یہاں اس لفظ کو ان اصطلاحی معنی میں نہیں برتا۔ عام بول چال اور محاورے کے مطابق استعمال کیا ہے۔ اس صورت میں اس سے مراد ہو گا ان سزائوں کے خاص اجزائے ترکیبی اور مخصوص ہیتیں یا پھر ان کا طرز نفاذ۔ ایک امکان یہ بھی ہے کہ خصوص سے اشارہ ان سزائوں کے اطلاق میں شدت برتنے یا تخفیف کرنے کی طرف ہو۔ اس امکان کی طرف ذہن یوں منتقل ہوتا ہے کہ علامہ اقبال نے ۲۶؎ اور حال ہی میں ڈاکٹر خالد مسعود صاحب ۲۷؎ نے شبلی کے حوالے سے اسی مفہوم کی طرف اشارہ کیا ہے۔ بہرکیف ’’بخصوصہا،، کے اس مرکب اضافی کے تین ممکنہ مفاہیم ہو سکتے ہیں۔ ۱۔ سزائوں کے خاص اجزائے ترکیبی اور مخصوص ہیتیں ۲۸؎ ۲۔ سزائوں کا طرز نفاذ ۲۹؎ ۳۔ سزائوں کے اطلاق میں تخفیف / شدت اول الذکر دونوں مفاہیم کو اگر شبلی کا مراد قرار دیا جائے تو ان کا جواب شاہ صاحب کی تصانیف کی روشنی میں معلوم کرنا مشکل نہیں۔ شاہ صاحب کے ہاں ان دونوں نکات پر کوئی ابہام نہیں ہے۔ ہیت بدلنے کا ان کے ہاں ذکر نہیں۔ رہا طرز نفاذ تو اس کے وسائل کے اعتبار سے ساتویں صدی عیسوی اور اٹھارویں صدی عیسوی میں کوئی بڑا فرق نہیں تھا۔ سوبطور ایک فقہی اجتہاد کے یہ بھی شاہ صاحب کا مسئلہ نہیں بنتا۔ گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ دونوں مسائل شاہ صاحب کے فکری تناظر میں اور ان کے عہد کے مسائل کے حوالے سے کسی ترمیم یا تبدیلی کے لیے موضوع بحث نہیں بنتے اور ان کو شاہ صاحب کی تحریروں میں تلاش کرنا ایک طرح سے اپنے افکار کا عکس شاہ صاحب کے ہاں دیکھنے کے مترادف ہے۔ سزائوں کے اطلاق میں تخفیف برتنے یا سزائوں کی انتہائی حد نافذ کرنے کے معاملے پر البتہ شاہ صاحب نے ’’الحدود‘‘ والے باب میں مفصل بحث کی ہے۔ سابقہ سطور میں ہم نے ان کا ایک فقرہ نقل کیا تھا کہ’’……ان کو خوب مضبوطی سے پکڑنا چاہیے اور کبھی ان کو ترک نہ کرنا چاہیے‘‘۔۳۰؎ اس سے متصل ان کا فقرہ ہے: مگر شریعت مصطفویہ نے اس میں ایک اور قسم کا تصرف کیا ہے اور ہر ایک کی سزا کی دو قسمیں کی ہیں ایک تو بڑی بھاری سزا ہے کہ اس سے زیادہ اور متصور نہیں اور یہ سزا وہاں دینی چاہیے جہاں گناہ بھی بڑا بھاری ہو اور دوسری وہ ہے جو پہلی سے کم ہے اور یہ وہاں ہو گی جہاں معصیت بھی پہلی معصیت سے کم ہو…… ہمارے ہاں دونوں شرائع کا لحاظ کیا گیا،شرائع سماویہ و ابتدائیہ کا اور اس میں ہمارے لیے نہایت رحمت ہے اور سرقہ میں عذاب دینا اور اس سے دو چند تاوان لینا چاہیے جیساکہ حدیث میں آتا ہے اور نیز اس شریعت میں ظلم کے چند اقسام کو مثل قذف اور شرب خمر کو اضافہ کیا اور ان کے لیے بھی حد مقرر کی کیونکہ یہ بھی بمنزلہ انہی معاصی کے ہیں اور رہزنی کی سزا زیادہ مقرر کی……۳۱؎ اگر ’’بخصوصہا‘‘ سے شبلی کی مراد سزائوں کی مذکورہ بالا درجہ بندی کو قرار دیا جائے تو تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ شبلی کا اشارہ درست ہے۔ شبلی کے بھروسے پر علامہ اقبال نے جو لکھا اس کی گنجائش بھی نکل آتی ہے نیز ڈاکٹر خالد مسعود صاحب کا بیان بھی درست ٹھہرتا ہے کہ ’’شاہ صاحب واقعی اسلامی سزائوں میں اصول تخفیف اور درجہ بندی کے قائل تھے‘‘۔ لیکن ہمیں بوجوہ اس تاویل کو قبول کرنے میں تامل ہے اور ہمارا کہنا یہ ہے کہ تخفیف اور درجہ بندی کے ضمن میں شاہ صاحب کی ساری گفتگو اس بحث ہی سے غیر متعلق ہے جو شبلی، علامہ اقبال اور ڈاکٹر خالد مسعود صاحب کے ہاں ملتی ہے۔ یہاں ایک لطیف ساخلط مبحث واقع ہو رہا ہے اور اس کے سہارے شاہ صاحب کے بیان کو اس مبحث سے متعلق کر دیا گیا جس سے اس کا استدلالی یا موضوعاتی ربط موجود نہیں۔ ہمارے اس نکتے کو سمجھنے کے لیے قارئین غور فرمائیں کہ یہ تینوں حضرات کہہ رہے ہیں کہ شاہ صاحب تخفیف اور درجہ بندی کے قائل اس لیے ہیں کہ حدود و تعزیرات عہد نبوی اور عربوں کے عرف و عادت پر مبنی ہیں اور مابعد کی نسلوں کو بعد زمانی کی وجہ سے اور اس پرانے عرف و عادت کا حامل نہ ہونے کی وجہ سے تخفیف اور تیسیر کا مستحق جاننا چاہیے۔ ’’الحدود‘‘ کے باب کا تجزیہ کیجیے تو یہ بات ثابت نہیں ہوتی۔ جو سبب ان حضرات نے درجہ بندی اور تخفیف کی علت کے طور پر شاہ صاحب سے منسوب کیا ہے وہ ان کی تحریر میں موجود نہیں ہے۔ وہ سزائوں میں درجہ بندی کے قائل ضرور ہیں مگر اس کے لیے ’’الحدود‘‘ کے باب میں جتنی علتیں بیان کی ہیں ان میں سے کوئی بھی ان دو اسباب (بُعد زمانی +عرف و عادت سے اجنبیت) پر مبنی نہیں ہے۔ شاہ صاحب نے درجہ بندی اور تخفیف کو جس اصول پر مبنی قرار دیا ہے وہ صدر اول سے لے کر آج تک یکساں ہے نیز انہوں نے جتنی مثالیں دی ہیں ان کی علتیں اور اسباب تخفیف اسی زمانے میں متعین ہو چکے تھے۔ ان کے ہاں بُعد زمانی یا عرف و عادت سے اجنبیت اس درجہ بندی کی علت سرے سے ہے ہی نہیں۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس درجہ بندی میں شاہ صاحب منفرد کب ہیں۔ یہ توفقہ اسلامی کا عام مبحث ہے اور فقہ کی کتب میں بھی اس درجہ بندی کی علت بعد زمانی کو یا عرف و عادت کے فرق کو قرار نہیں دیا گیا۔ بنابریں ہم یہ عرض کریں گے کہ اگر ’’بخصوصہا‘‘ سے سزا نافذ کرنے میں تخفیف اور شدت کی جانب اشارہ بھی مراد لیا جائے تو بھی اسے اس معنی میں اور ان اسباب کی بنا پر شاہ صاحب سے منسوب کرنا درست نہیں جو ہمارے محترم مصنفین نے باور کیا اور قارئین کو کروایا۔ شاہ صاحب کے ہاں درجہ بندی کا تصور تو موجود ہے مگر اس کا جواز وجود اور علت غائی ان مزعومہ مصلحتوں سے بالکل الگ ہیں جو اقبالیات کے بحثوں میں بیان ہوتا چلا آ رہا ہے۔ اقبالیات کے میدان میں جو نکتہ مورد بحث ہے وہ فی الحقیقت درجہ بندی، اعتدال، تیسیر یا تخفیف کا ہے ہی نہیں۔ وہاں تو یہ بحث ہو رہی ہے اور بر سرجلسہ دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ اقبال کے خیال میں یہ سزائیں قابل ترمیم و تنسیخ ہیں اور اقبال کی اس رائے کی بنیاد اور سند شاہ ولی اللہ ہیں جو اسی بات کے قائل ہیں۔ ۳۲؎ یہ سزائیں قابل ترمیم و تنسیخ ہیں یا نہیں یا نصوص میں ترمیم و تنسیخ جائز ہے یا نہیں اس نکتے کو طے کرنے کا نہ موقع ہے نہ استعداد۔ ہمیں صرف اتنا دیکھنا تھا کہ شاہ صاحب سے اس رائے کا انتساب درست ہے یا نہیں اور معروضات ماقبل کی روشنی میں ہم یہی کہنے پر مجبور ہیں کہ شاہ صاحب کے موقف کی صحیح ترجمانی نہ تو شبلی کی عبارت آرائی بلکہ عبارت سازی سے ہوتی ہے نہ اس کی بنیاد پر استوار ہونے والے اس استدلال سے جسے علامہ اقبال نے اختیار کیا۔ علامہ اقبال کا وہ خطبہ جس میں یہ عبارت وارد ہوتی ہے اپنی اولین شکل میں ۱۹۲۴ء کے لگ بھگ تصنیف ہوا۔۳۳؎ موجودہ شکل میں ۱۹۲۸میں تیار کیا گیا۔ علامہ کی حیات نے اس خطبے کے ترجمے کی نظرثانی یا اصل متن کی نظرثانی شدہ اشاعت مکرر تک وفا نہ کی۔ سو آج ہمارے پاس جو متن ہے وہ ۱۹۲۸ء تک کی فکر کا آئینہ دار ہے۔ علامہ کی عبارت کا متن ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔۳۴؎ اقتباس سوم For our present purposes, however, we must distingulish traditions of a purely legal import from those which are of a non-legal character. With regard to the former, there arises a very important question as to how far they embody the pre-Islamic usages of Arabia which were in some cases left intact, and in others modified by the Prophet. It is difficult to make this discovery, for our early writers do not always refer to pre-Islamic usages. Nor is it possible to discover that usages, left intact by express or tacit approval of the Prophet, were intended to be universal in their application. Shah Wali Allah has a very illuminating discussion on the point. I reproduce here the substance of his view. The prophetic method of teaching, according to Shah Wali Allah, is that, generally speaking, the law revealed by a prophet takes especial notice of the habits, ways, and peculiarties of the people to whom he is specifically sent. The prophet who aims at all-embracing principles, however, can neither reveal different principles for different peoples nor leaves them to work out their own rules of conduct. His method is to train one particular people, and to use them as a nucleus for the building up of a universal Shari'ah. In doing so he accentuates the principles underlying the social life of all mankind, and applies them to concrete cases in the light of the specific habits of the people immediately before him. The Shari'ah values (Ahkam) resulting from this application (e.g.rules relating to penalties for crimes) are in a sense specific to that people; and since their observance is not an end in itself they cannot be strictly enforced in the case of future generations. اقتباس کا آخری فقرہ، جو اسلامی سزائوں سے متعلق ہے، اس کا موازنہ شاہ ولی اللہ کی عبارت (اقتباس اوّل) سے اور پھر شبلی کی تحریر (اقتباس دوم) سے کیجیے تو صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ علامہ اقبال نے اپنی تحریر میں ’’اقتباس دوم،، ہی کے متن پر انحصار کیا ہے۔ یہ اقتباس ’’الذین یا تون بعد‘‘ کے فقرے پر ختم ہو جاتا ہے۔ علامہ کا ملخص انگریزی ترجمہ بھی اسی فقرے تک جاتا ہے۔ پھر یہ کہ انگریزی الفاظ کا انتخاب شہادت دے رہا ہے کہ یہاں مفہوم متعین کرنے میں شبلی کے الفاظ ’’پابندی مقصود بالذات نہیں ہوتی‘‘ اور ’’چنداں سخت گیری نہ کی جائے‘‘ ہی کا اثر کار فرما ہے اور انہی کی ترجمانی کی گونج انگریزی عبارت میں بھی سنائی دے رہی ہے۔علامہ نے اگر شبلی کی پیش کردہ تعبیر کو قبول نہ کیا ہوتا یا حجتہ اللہ البالغہ کی اصل عبارت کی پڑتال کر لی ہوتی تو شاید وہ اپنی تحریر کسی اور طرح رقم کرتے کیونکہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ اقتباس دوم سے متبادر ہونے والا موقف شبلی کا تو ہو سکتا ہے شاہ ولی اللہ کا نہیں۔ آخری بات یہ کہ شاہ صاحب کی عبارت (اقتباس اول) کے آخری فقرے، جو شبلی کے ہاں محذوف ہیں، اس استدلال کے خلاف پڑتے ہیں، جو علامہ نے مذکورہ بالا اقتباس سوم میں قائم کیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا علامہ کے تحریری آثار میں اس مبحث پر تشکیل جدید کی تصنیف یعنی ۱۹۲۸ء کے بعد کچھ اور مواد میسر آتا ہے جسے اس موضوع پر ناسخ یا ترمیم کنندہ کی حیثیت دی جا سکے؟ سید سلیمان ندوی سے اقبال کی مکاتبت کا جو حصہ محفوظ ہے اس میں موضوع زیر بحث سے متعلق دو طرح کی تحریریں ملتی ہیں۔ ایک تو وہ جو اجتہاد پر علامہ کی پہلی تحریر ۳۵؎ کے زمانہ تصنیف سے لے کر سفر جنوبی ہند تک کے زمانے کی ہیں۔ ان میں حجیت حدیث، حدیث و قرآن کے ربط اور بالخصوص احادیث کی تشریعی حیثیت کے بارے میں عمومی استفسارات ہیں۔ دوسری تحریریں وہ ہیں جو حیدر آباد دکن میں خطبات پیش کرنے کے بعد کی ہیں اور ان میں تخصیص کے ساتھ شبلی کی تحریر اور شاہ ولی اللہ صاحب کے اقتباسات کے بارے میں استفسارات ہیں۔ اول الذکر مکاتیب میں جو سوالات اٹھائے گئے ہیں ان کے انداز اور ان کے موضوعات پر ایک نظریہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ علامہ کو اس مبحث کی نزاکت، پیچیدگی، تہ در تہ مسائل اور مصالح ملیہ سے ان کے ربط کا بخوبی اندازہ تھا۔ ۳۶؎ ان کا اسلوب تحریر خطوط میں بھی احتیاط کا مظہر ہے اور لیکچر میں بھی۔ یہاں تک کہ لیکچر تیار ہونے کے بعد بھی علامہ نے اسے چھپوانے سے گریز کیا۔ اس موضوع پر اپنے نتائج فکر سے بے اطمینانی ان کے خطوط سے واضح ہے۔ سید سلیمان ندوی ہی کو لکھتے ہیں:۔ میں نے ایک رسالہ اجتہاد پر لکھا تھا، مگر چونکہ میرا دل بعض امور کے متعلق خود مطمئن نہیں اس واسطے اس کو اب تک شائع نہیں کیا، آپ کو یاد ہو گا میں نے آپ سے بھی کئی امور کے متعلق استفسار کیا تھا۔ ۳۷؎ ابھی تک میرا دل اپنی تحقیقات سے مطمئن نہیں ہوا اس واسطے وہ مضمون شائع نہیں کیا گیا۔۳۸؎ بہر کیف ۱۹۲۸ء تک کی تحقیقات اور مجموعۂ معلومات کی بنیاد پر جو نتائج فکر مرتب ہوئے انہیں علامہ نے لکھ دیا اور دیگر خطبات کے ہمراہ یہ خطبہ بھی حیدر آباد اور بعدازاں علی گڑھ میں پیش کیا گیا۔ پھر یہ خطبات طباعت کے مرحلے سے بھی گذر گئے۔ انہی ایام میں علامہ کے خطوط سے ہمیں خاص اس مسئلے کے بارے میں استفسارات کا سراغ ملنے لگتا ہے جو ہماری تحریر میں زیر بحث ہے۔ ان خطوط کو دیکھیے تو یوں لگتا ہے کہ ابتداء میں علامہ کی بے اطمینانی عمومی نوعیت کی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ اور مزید تحقیق کے نتیجے میں علامہ کی بے اطمینانی خاص ان اقتباسات پر مرکوز ہوتی نظر آتی ہے جو شبلی نعمانی نے ان سوالات کے ایک ممکنہ جواب کے طور پر شاہ صاحب کی تحریر سے پیش کیے تھے جو اس زمانے میں علامہ کا ہدف تحقیق تھے۔ ۲ستمبر ۱۹۲۹ء کو سید سلیمان ندوی کے نام لکھتے ہیں:۳۹؎ جس باب میں مولانا شبلی نے ایک فقرہ شعائر وار تفاقات کے متعلق نقل کیا ہے اسی باب میں ایک اور فقرہ نظر سے گذرا جو پہلے نظر سے نہ گذرا تھا۔ وشعائر الدین امر ظاہر تخصیص بہ و یمتاز صاحبہ بہ فی سائر الادیان کالختان و تعظیم المساجد والاذان والجمعۃ والجماعات یہ شاہ صاحب کی اپنی تشریح ہے، جناب کا ارشاد اس بارے میں کیا ہے؟ علیٰ ہٰذا القیاس ارتفاقات میں شاہ صاحب کی تشریح کے مطابق تمام تدابیر جو سوشل اعتبار سے نافع ہوں داخل ہیں۔ مثلاً نکاح و طلاق کے احکام وغیرہ ، اگر شاہ صاحب کی عبارت کی یہ تشریح صحیح ہے تو حیرت انگیز ہے۔ اگر ان معاملات میں تھوڑی سی ڈھیل بھی دی جائے تو سوسائٹی کا کوئی نظام نہ رہے گا۔ ہر ایک ملک کے مسلمان اپنے اپنے دستور و مراسم کی پابندی کریں گے۔ اس مکتوب کے آخری دوفقروں پر غور کیجیے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ علامہ کو اس تشریح کے بارے میں تحیر ہے جو شبلی نے پیش کی اور اس کے وہ مضمرات ان کے سامنے عیاں ہیں جو اسے قبول کرنے سے ظاہر ہو سکتے تھے اور اقبالیات کے عصری مباحث اس کی شہادت دے رہے ہیں کہ اسی نہج پر یہ نکات ابھرے اور انہی منطقی نتائج تک پہنچے جن کا خدشہ علامہ نے ظاہر کیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ علامہ کی تحریر صرف حیرت ہی ظاہر نہیں کرتی۔ اس کا اسلوب شاہد ہے کہ وہ اس تعبیر کو قبول بھی نہیں کر سکے تھے۔ اس تحریر کے ۲۰ دن بعد سلیمان ندوی صاحب کے نام خط میں دوبارہ اسی مبحث کو اٹھایا گیا ہے۔۴۰؎ اس مرتبہ الکلام کا وہی اقتباس زیر بحث ہے جو تشکیل جدید میں نقل ہوا اور جسے آج تک شاہ ولی اللہ کا موقف قرار دیا جاتارہا ہے۔ اقتباس درج ذیل ہے:۔ الکلام (یعنی علم کلام جدید) کے صفحہ ۱۱۴۔ ۱۱۳ پر مولانا شبلی رحمتہ اللہ علیہ نے حجتہ اللہ البالغہ (صفحہ ۱۲۳) کا ایک فقرہ عربی میں نقل کیا ہے، جس کے مفہوم کا خلاصہ انہوں نے اپنے الفاظ میں بھی دیا ہے۔ اس عربی فقرہ کے آخری حصہ کا ترجمہ یہ ہے۔ ’’اس بنا پر اس سے بہتر اور آسان طریقہ کوئی نہیں کہ شعار تعزیرات اور انتظامات میں خاص اس قوم کے عادات کا لحاظ کیا جائے، جن میں یہ امام پیدا ہوا ہے، اس کے ساتھ آنے والی نسلوں پر ان احکام کے متعلق چنداں سخت گیری نہ کی جائے‘‘ مہربانی کر کے یہ فرمایئے کہ مندرجہ بالا فقرہ میں لفظ شعار سے کیا مراد ہے اور اس کے تحت میں کون کون سے مراسم یا دستور آتے ہیں۔ اس لفظ کی مفصل تشریح مطلوب ہے۔ سید سلیمان ندوی صاحب نے علامہ کے اس خط کا جواب دیا ہو گا جواب ہمارے سامنے نہیں ہے۔ اس میں شعائر کے میں ضمن شاہ صاحب کے موقف کی شرح کی گئی تھی اور گمان ہے کہ اس تعبیر کی تردید بھی کی گئی ہو گی جو شبلی نے شاہ صاحب سے منسوب کی۔ علامہ نے اس خط کے جواب میں ۲۸ ستمبر ۱۹۲۹ء کو جو مکتوب روانہ کیا اس سے مندرجہ بالا نکات کی تائید ہوتی ہے۔ خط کی عبارت یوں ہے:۔ ۴۱؎ مخدومی ، والا نامہ ملا جس کے لیے بہت شکر گذار ہوں۔ لفظ شعار کے معنی کے متعلق پورا اطمینان آپ کی تحریر سے نہیں ہوا۔ کیا کسی جگہ حضرت شاہ ولی اللہ نے حجتہ اللہ البالغہ میں شعائر کی یہ تشریح کی ہے جو آپ نے کی ہے؟ دیگر عرض یہ ہے کہ شاہ صاحب نے اسی فقرہ میں لفظ ارتفاقات استعمال کیا ہے، مولانا شبلی نے ایک جگہ اس کا ترجمہ انتظامات اور دوسری جگہ مسلمات کیا ہے، اردو ترجمہ سے یہ نہیں کھلتا کہ اصل مقصود کیا ہے کل سیالکوٹ میں حجتہ اللہ البالغہ مطالعہ سے گذری، اس سے معلوم ہوا کہ شاہ صاحب نے ارتفاقات کی چار قسمیں لکھی ہیں، ان چار قسموں میں تمدنی امور مثلاً نکاح طلاق وغیرہ کے مسائل بھی آ جاتے ہیں، کیا شاہ صاحب کے خیال میں ان معاملات میں بھی سخت گیری نہیں کی جاتی؟ میرا مقصد محض شاہ صاحب کا مطلب سمجھنا ہے، مہربانی کر کے اسے واضح فرمایئے۔ علامہ کے موقف کے بارے میں ان دو خطوط کی بنیاد پر کوئی حتمی یاہمہ گیر رائے قائم کرنا مشکل ہے۔ تاہم دور کی کوڑی لائے بغیر یہ کہا جا سکتا ہے کہ:۔ ۱۹۲۹ء کے اواخر تک علامہ کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ شاید شبلی نے شاہ صاحب کے مقصود کی صحیح ترجمانی نہیں کی اور اس لیے شاہ صاحب کے اصل موقف کے تعین کی کوشش کی جا رہی تھی۔ شبلی کے کئے ہوئے اردو ترجمے کی نارسائی کی جانب اشارہ اور ’’شاہ صاحب کا مطلب سمجھنے،، کی سعی اسی احساس کی شہادت دیتے ہیں۔ ہماری تحریر میں اٹھائے گئے بنیادی مسئلے کا جواب تو یہاں پہنچ کر ہمیں مل جاتا ہے۔ سوال یہ تھا کہ علامہ اقبال نے تشکیل جدید میں شبلی کے بھروسے پر جو موقف شاہ صاحب سے منسوب کیا تھا کیا اسے شاہ صاحب کا مقصود قرار دیا جا سکتا ہے؟ ہماری تلاش کا حاصل یہ ہے کہ خود اقبال کو بعد میں اس انتساب کی صحت کے بارے میں شبہ پیدا ہو گیا تھا۔۴۲؎ اب ہمارے سامنے ایک اہم سوال ہے:۔ اگر اس مسئلے پر اقبال کی رائے تبدیل ہو گئی تھی تو تشکیل جدید کی دوسری اشاعت ۱۹۳۳ء ۴۳؎ میں علامہ نے اس مقام پر عبارت میں ترمیم کیوں نہیں کی؟ اس کا حتمی جواب دینا ممکن نہیں۔ چند امکانات کی جانب اشارہ البتہ کیا جا سکتا ہے۔ پہلا امکان یہ ہے کہ شاید پروف پڑھتے وقت، عجلت میں یا سہواً ، اس مقام پر مطلوبہ ترمیم ہونے سے رہ گئی ہو۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ ۱۹۳۳ء تک (پروف پڑھنے کے زمانے تک)ابھی علامہ نے اس معاملے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی تھی لہٰذا ترمیم قبل از وقت قرار پائی۔ تیسرا امکان یہ ہے کہ تشکیل جدید کے بڑے حصے کی حیثیت حتمی جوابات یا حل المشکلات کی نہیں ہے۔ اسے دعوت فکر اور تعین مسائل سمجھنا چاہیے یا تلاش و تفحص کے عمل سے تعبیر کرنا چاہیے۔ یہ مقام بھی اگر اسی نوعیت کی تحریر پر مبنی ہے تو اس میں ترمیم کی ضرورت ایسی لازمی نہیں ٹھہرتی۔ اگر ۱۹۳۳ء تک علامہ نے ترمیم نہیں کی تھی تو کیا اس کے بعد اس رائے میں کوئی تبدیلی نظر آتی ہے؟۔ ۱۹۳۴ء کے ایک خط سے کسی حد تک قیاس کیا جا سکتا ہے۔ یہ خط بھی سید سلیمان ندوی صاحب کے نام ہے اور ۲۴ جنوری ۱۹۳۴ء کو لکھا گیا ہے۔۴۴؎ میں نے آپ کا پہلا خط پھر دیکھا ہے، آپ نے جو کچھ لکھا ہے درست ہے۔ مگر میں ان معاملات کی ایک فہرست چاہتا ہوں جن کے متعلق رائے قائم کرنا ’امام‘ کے سپرد ہے۔ جرائم میں ایسے جرم ہیں جن کی تعزیر غالباً قرآن شریف میں مقرر ہے، ان کے متعلق امام کیوں کر رائے دے سکتا ہے؟ وہ جرائم جن کی تعزیر قرآن شریف میں مقرر ہے اور جن کے بارے میں امام رائے نہیں دے سکتا، وہی تو ہیں جن کے لیے شاہ صاحب نے فرمایا تھا کہ:۔ ان کے لیے ان (حدود، شعائر وار تفاقات) کوفی الجملہ باقی رکھا جائے…کیونکہ’’ یہ ہر قوم کے لیے اور قدیم و جدید ہر زمانے میں امر طبیعی کی طرح ہے‘‘ نیز یہ کہ ’’ان کو خوب مضبوطی سے پکڑنا چاہیے اور کبھی ان کو ترک نہ کرنا چاہیے۔‘‘ ۴۵؎ اس میں اور علامہ کی ۱۹۳۴ء کی مذکورہ بالا رائے میں انداز بیان سے قطع نظر کیا فرق ہے؟ ہمارے سوالات کا جواب شاید اسی استفسار میں مضمر ہے! ضمیمہ ۔ ۳ حواشی ۱) تشکیل جدید الہیات اسلامیہ، (انگریزی)تدوین و تعلیقات از محمد سعیدشیخ، مطبوعہ اقبال اکادمی پاکستان و ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، ۱۹۸۹ئ۔ ۲) محولہ بالا، ص ،۱۱۶تا ۱۴۲۔ ۳) ایضاً ۔ ص ،۱۹۶۔ ۴) شبلی نعمانی الکلام مشمولہ علم الکلام اور الکلام ، مسعود پبلشنگ ہائوس، کراچی، طبع اوّل، ۱۹۶۴ء ص۔ ۲۳۷۔۲۳۹ ۔ گمان یہ گذرتاہے کہ شاید اس وقت تک علامہ نے حجتہ اللہ البالغہ کی اصل عبارت ملاحظہ نہیں کی تھی ورنہ شبلی کے فراہم کردہ اقتباس پر انحصار کرنے اور اس کے خلاصۂ افکار کو قبول کرنے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ ۵) شاہ ولی اللہ دہلوی، حجتہ اللہ البالغہ ، تحقیق و مراجعت از السید سابق، دارالکتب الحدیثہ، قاہرہ، ت۔ ن ، طبع مکررعکسی، سانگلہ ہل، پاکستان جلد اول، ص۔ ۲۴۷۔۲۴۸۔ ۶) دیکھئے تشکیل جدید (انگریزی) ، محولہ ماقبل ، ص ۔۱۳۶۔ ۷) شاہ ولی اللہ حجتہ اللہ البالغہ (عربی)محولہ ماقبل ، جلد دوم ، صفحات ۷۵۶ تا ۷۷۷، نیز حجتہ اللہ البالغہ، اردو ترجمہ ، آیات اللہ الکاملہ، از مولوی خلیل احمد صاحب ، کتب خانہ اسلامی پنجاب، لاہور، ۱۸۹۷ء طبع مکرر عکسی، ادبیات، لاہور، ت۔ ن ،صفحات، ۵۳۷ تا ۵۴۸۔ اس مبحث کا مفصل اقتباس آگے چل کر دیا جائے گا۔ ۸) یہاں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ ہماری معلومات کی حد تک حدود و تعزیرات کو کبھی کسی فقیہ نے عارضی، مقیدبہ زمان نبی اور آپؐ کے معاشرے تک محدود نہیں جانا۔ ان کا طریقہ نفاذ البتہ اطلاق کے دائرے کی چیز ہے اور اسے حسب ضرورت تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ۹) سید سلیمان ندوی صاحب نے اگرچہ شبلی کے طرز اقتباس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن اس مفہوم اور اس ترجمانی کی تردید کی ہے جو شبلی کی عبارت پڑھ کر اخذ کیا جا سکتا ہے۔ ان کی تحریر کے لیے دیکھیے علامہ کے مکاتیب ، شیخ عطا اللہ، اقبالنامہ ، لاہور، ۱۹۵۱ء جلد اول، ص، ۱۶۰۔۱۶۳ ۔۲ ستمبر ، ۲۲ ستمبر، ۲۸ ستمبر کے مکاتیب میں علامہ نے شاہ ولی اللہ کا ذکر کیا ہے۔ تینوں مکاتیب میں موضوع استفسار شاہ صاحب کی وہی عبارتیں ہیں جو شبلی نے الکلام میں نقل کیںاور ان کی اس تشریح پر اظہار حیرت ہے جو شبلی نے پیش کی۔ سید سلیمان ندوی کا تبصرہ یہ تھا کہ ’’مولانا شبلی مرحوم نے شاہ صاحب کے الفاظ کے جو وسیع معنی قرار دیئے ہیں وہ صحیح نہیں‘‘ (پاور قی، ص ،۱۶۱) واضح رہے کہ اس وقت تک علامہ اپنے خطبات لکھ کر پیش کر چکے تھے اور یہ ا ستفسارات تحریر کے بعد کئے گئے تھے۔ ’’الاجتہاد‘‘ والا خطبہ تو ۱۹۲۴ء کے لگ بھگ تیار ہو چکا تھا۔ ندوی صاحب کے نام ۲۸ ستمبر ۱۹۲۹ء کے مکتوب سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حجتہ اللہ البالغہ کا اصل متن ۲۷ ستمبر ۱۹۲۹ء کو پہلی مرتبہ علامہ کی نظر سے گذرا (کل سیالکوٹ میں حجتہ اللہ البالغہ مطالعہ سے گذری‘‘) ۱۰) ایسوسی ایٹ پروفیسر و نگران شعبہ سماجی علوم، ادارہ تحقیقات اسلامی ، اسلام آباد۔ ڈاکٹر غزالی صاحب شاہ ولی اللہ کے افکار و تعلیمات کے متخصص ہیں لہٰذا متنازعہ امور میں ہم انہی سے رجوع کرتے ہیں۔ ۱۱) جاوید احمد غامدی صاحب ہمارے معاصرین میں علوم عربیہ و اسلامیہ، زبان و ادب اور فقہ اسلامی کی تفہیم میں منفرد مقام کے حامل ہیں۔ جدید علوم اور عصر حاضر کے مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ مشکل مسائل میں ہم ان سے اکثر رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ ۱۲) دیکھئے سہ ماہی فکر و نظر، ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد، جلد ۳۲ شمارہ ۲۔ اکتوبر ۱۹۹۴ء ص۔ ۵۹۔۷۴۔ ۱۳) دیکھئے فکر و نظر محولہ بالا، جلد ۳۲۔ ص۔ ۶۳۔۸۰۔ ۱۴) شاہ ولی اللہ ، حجتہ اللہ البالغہ (عربی) محولہ ماقبل ، ص۔ ۲۴۸۔ ۲۴۷ عبارت کا ترجمہ شامل ذیل ہے۔ عکس خلیل احمد صاحب کے اردو ترجمے آیات اللہ الکاملہ، محولہ ماقبل سے لیا گیا ہے ص۔ ۳۔ ۱۸۲۔ ۱۵) شبلی نعمانی، الکلام ، محولہ ماقبل ، ص۔ ۷۔۲۳۶۔ ۱۶) ایضاً ، ص۔ ۸۔۲۳۷۔ ۱۷) مقامات سہوکتابت درج ذیل ہیں: تکون مادہ= یکون مادہ شریعتہ = شریعیتہ المذہب = المذاہب الطبیعی = الطبعی لایضیّق = لایضیق التضییق = النضیق ۱۸) یہاں ترجمہ ہمارا اپنا ہے کیونکہ ابھی تک حجتہ اللہ البالغہ کا کاملاً فصیح اور صحیح ترجمہ ہماری نظر سے نہیں گذرا۔ اپنے ترجمے کے بارے میں دعویٰ فصاحت تو ہمیں بھی نہیں ہے۔ صحت ترجمہ کی ذمہ داری البتہ قبول کی جا سکتی ہے۔ ۱۹) شاہ ولی اللہ حجتہ اللہ البالغہ محولہ ماقبل، ص۔ ۲۴۸۔ ۲۰) الکلام ، محولہ ماقبل ، ص۔ ۲۳۷۔ ۲۱) ایضاً ص ۔۲۳۸۔ ۲۲) ایضاً ۲۳) شاہ ولی اللہ، حجتہ اللہ البالغہ ، محولہ ماقبل، جلد دوم، ص۔ ۷۵۶ ۔ اردو ترجمہ خلیل احمد صاحب کا دیا گیا ہے، دیکھیے آیات اللہ الکاملہ ، محولہ ماقبل ص۔ ۵۳۸۔ ۲۴) آیات اللہ الکاملہ ، محولہ بالا ص۔ ۵۴۱۔ ۲۵) حوالہ بالا، ص۔ ۵۳۷۔۵۴۸۔ یہ فہرست شاہ صاحب کے ’’باب الحدود‘‘ میں سے تیار کی گئی ہے۔ ۲۶) تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ، محولہ ماقبل ، ص، ۱۳۶۔ ۲۷) ’’ہمارے خیال میں علامہ شبلی اور علامہ اقبال دونوں نے شاہ ولی اللہ کی عبارت کو صحیح سمجھا ہے اور شاہ صاحب واقعی اسلامی سزائوں میں تخفیف اور درجہ بندی کے قائل تھے‘‘، ’’اسلامی احکام اور عادات ‘‘ محولہ ماقبل ، ص۔ ۶۴۔ ۲۸) مثلاً ہاتھ کاٹنے کی سزا کی ہیت یعنی بدن سے ہاتھ کو کاٹ کر جدا کرنے کے بجائے ہاتھ مفلوج کر دینا، کسی ترکیب سے اسے عضو معطل کر دینا اس طرح ہاتھ اپنا طبعی وظیفہ تو انجام نہیں دے سکے گا جو قطع ید کی صورت میں بھی انجام نہیں دیا جا سکتا تاہم اس نتیجے تک پہنچنے کا وسیلہ یعنی اس عمل کی ہیت بدل جائے گی یا کوڑوں کی سزا کی قید بامشقت سے بدل دینا و علیٰ ہٰذا القیاس۔ ۲۹) مثلاً تلوار سے کاٹ کر تیل سے داغ دینے یا کلہاڑا چلا کر بدن سے جدا کرنے کی بجائے دوا سے سن کر کے عمل جراحی سے بدن سے الگ کرنا۔ یا دیت کے مقدار کو اونٹوں کے ذریعے طے کرنے کے بجائے اپنے معاشرے کے عرف کے مطابق یا کسی اور پیمانے سے مقرر کرنا۔ ۳۰) دیکھئے حاشیہ نمبر۲۳۔ ۳۱) آیات اللہ الکاملہ، محولہ ماقبل، ص ۔۵۳۸۔ ۳۲) اس اعلان کی تازہ ترین مثال ۹ نومبر ۱۹۹۴ء کا جلسہ یوم اقبال ہے جہاںمقررین میں سے کچھ حضرات نے تقریر کرتے ہوئے اس رائے کا اظہار کیا تھا۔ نجی حلقوں میں اس نہج کی گفتگو تو اکثر دیکھنے میں آتی ہی ہے۔ اس ضمن میں ایک قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ ۳۳۔۱۹۳۰ء کے لگ بھگ ہندوستان کے علمی حلقوں میں حدیث و قرآن کے باہمی ربط اور احادیث کی تشریعی حیثیت کے بارے میں جو بحثیں چلی تھیں کیا ان کو علامہ کی تحریر اور اس کے اثرات کے پس منظر میں دیکھنا چاہیے؟ اس زمانے کی عمومی ذہنی فضا سے تشکیل جدید میں اٹھائے گئے سوالوں کا کیا تعلق بنتا ہے اور عمل اور رد عمل کی اس زنجیر کا تجزیہ کرنے سے برصغیر کی فکری تاریخ کے کونسے اہم پہلو سامنے آتے ہیں؟ ان موضوعات پر تحقیق مزید سے اہم نتائج حاصل ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ موضوع زیر غور سے متعلق مباحثوں کا ایک عکس اور ذائقہ اسلم جیرا جپوری، غلام احمد پرویز، مولانا ابولاعلیٰ مودودی اور ان کی معاصر تحریروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ مشتے نمونہ کے طور پر دیکھئے ابوالاعلیٰ مودودی ۔ حدیث اور قرآن، مکتبہ چراغ راہ، کراچی ، ۱۹۵۷ئ۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی خالی از معنی نہ ہو گا کہ ۱۹۲۳ء ، ۱۹۲۴ء اور اس کے بعد کے سالوں میں علامہ جن سوالات سے نبرد آزما تھے اور سید سلیمان ندوی سے حدیث کی تشریعی حیثیت کے بارے میں اپنے خطوط میں جو استفسارات کر رہے تھے کم و بیش وہی مسائل روپ بدل کر یا اسی لباس میں ان مباحث میں جلوہ گر نظر آتے ہیں جو مولانا مودودی اور پرویز یادیگر حضرات کے درمیان ۱۹۳۳ء کے زمانے میں چھڑے ہوئے تھے۔ ۳۳) تفصیلات اور پس منظر کے مباحث کے لیے ر۔ ک ، ڈاکٹر محمد خالد مسعود، علامہ اقبال اور تصور اجتہاد کی تشکیل نو، (انگریزی) ، اقبال اکادمی، لاہور، ۱۹۹۵ء باب چہارم، ص۔ ۸۰۔ نیز دیکھئے رفیع الدین ہاشمی ، تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۸۲ء ص۔ ۳۱۳۔ ۳۴) تشکیل جدید (انگریزی) محولہ ماقبل، ص ۔۱۳۶۔ سید نذیر نیازی صاحب نے عبارت کا ترجمہ یوں کیا ہے۔ شاہ ولی اللہ نے اس مسئلے میں بڑی سبق آموز بحث اٹھائی ہے۔ ہم اس کا مفاد ذیل میں پیش کریں گے۔ شاہ ولی اللہ کہتے ہیں انبیاء کا عام طریق تعلیم تو یہی ہے کہ وہ جس قوم میں مبعوث ہوتے ہیں ان پر اسی قوم کے رسم و رواج اور عادات و خصائص کے مطابق شریعت نازل کی جاتی ہے۔ لیکن جس نبی کے سامنے ہمہ گیر اصول ہیں، اس پر نہ تو مختلف قوموں کے لیے مختلف اصول نازل کیے جائیں گے، نہ یہ ممکن ہے کہ وہ ہر قوم کو اپنی اپنی ضروریات کے لیے الگ الگ اصول عمل متعین کرنے کی اجازت دے۔ وہ کسی ایک قوم کی تربیت کرتا اور پھر ایک عالمگیر شریعت کی تشکیل میں اس سے تمہید کا کام لیتا ہے(۱۵۸)۔ لیکن ایسا کرنے میں وہ اگرچہ انہیں اصولوں کو حرکت دیتا ہے جو ساری نوع انسانی کی حیات اجتماعیہ میں کار فرما ہیں، پھر بھی ہر معاملے اور ہر موقع پر عملاً ان کا اطلاق اپنی قوم کی مخصوص عادات کے مطابق ہی کرتا ہے۔ لہٰذا اس طرح جو احکام وضع ہوتے ہیں (مثلاً تعزیرات) ایک لحاظ سے اسی قوم کے لیے مخصوص ہوں گے۔ پھر چونکہ احکام مقصود بالذات نہیں، اس لیے یہ بھی ضروری نہیں کہ ان کو آئندہ نسلوں کے لیے بھی واجب ٹھہرایا جائے۔ ۱۵۸۔ یہاں شاہ صاحب کی عبارت سے ایک غلط فہمی کا اندیشہ ہے، لہٰذا اس امر کی صراحت ناگزیر ہو جاتی ہے کہ قرآن پاک میں تو یہی ’عالمگیر شریعت، نازل ہوئی جس کی طرف شاہ صاحب اشارہ فرما رہے ہیں۔ رہا اس کے اطلاق میں قوموں کے احوال اور خصائص کا مسئلہ سو یہ قانون کا مسئلہ ہے، شریعت کا نہیں۔ قرآن پاک کا صاف و صریح ارشاد ہے شرع لکم من الدین ماوصی بہ نوحا والذی اوحینا الیک و ما وصینا بہ ابراہیم و موسیٰ و عیسیٰ ان اقیمو الدین ولاتتفر قوافیہ (۴۷:۱۳)مترجم تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ (اردو) بزم اقبال ، لاہور، ۱۹۸۳ء ص۔ ۲۶۵۔۲۶۶) مترجم کے حاشیہ سے یہ تو اندازاہ کیا جا سکتا ہے کہ انہیں اصل عبارت میں کچھ کھٹک رہا تھا لیکن ان کی تحریر اس اشکال کی طرف رہنمائی نہیں کر سکی جو علامہ کے آخری فقروں سے پیدا ہو سکتا تھا۔ مزید براں نذیر نیازی صاحب نے ’’آئندہ نسلوں کے لیے بھی واجب ٹھہرایا جائے،، کے فقرے میں ترجمہ کرتے ہوئے انگریزی متن پر توجہ نہیں کی۔ انگریزی میں وجوب اور عدم وجوب کا تو ذکر ہی نہیں۔ وہاں نفاذ میں شدت یا سختی کا تذکرہ ہے۔ اس عبارت کا ایک اور ترجمہ خورشید احمد صاحب نے بھی کیا تھا موازنے کے لیے اقتباس درج ذیل ہے۔ شاہ ولی اللہ نے اس نکتہ پر نہایت بصیرت افروز بحث کی ہے۔میں یہاں ان کے خیالات کا خلاصہ پیش کرتا ہوں۔ شاہ ولی اللہ کے نزدیک پیغمبرانہ اسلوب تعلیم عمومی لحاظ سے یہ ہے کہ کسی رسول پر نازل شدہ شریعت میں ان لوگوں کے عادات و اطوار اور خصوصیات کو خاص طور پر ملحوظ رکھا جاتا ہے جن کی طرف وہ خصوصاً مامور کئے گئے ہوں۔ لیکن وہ پیغمبر جس کا مطمح نظر ہمہ گیر اصول ہوں نہ تو مختلف اقوام کے لیے مختلف احکام دے سکتا ہے اور نہ انہیں اپنی روش کے اصول خود وضع کرنے کی کھلی چھٹی دے سکتا ہے۔ اس کا اسلوب یہ ہے کہ ایک خاص قوم کو تربیت دے کر اسے عالمگیر شریعت کی بناء تشکیل میں مرکز کی حیثیت سے استعمال کرتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ ان اصولوں پر زور دیتا ہے جو ساری نسل انسانی کی معاشرتی زندگی میں کار فرما ہیں، اور ان کو پیش نظر قوم کے واقعات پر اس قوم کی مخصوص عادات کی روشنی میں منطبق کرتا ہے۔ اس اطلاق سے پیدا شدہ شرعی احکام ایک لحاظ سے خاص اسی قوم سے متعلق ہوتے ہیں (مثلاً سزائے جرم سے متعلقہ قانون) اور چونکہ ان کی تعمیل و پابندی بجائے خود ایک مقصد نہیں ہے۔ اس لیے آنے والی نسلوں پر سختی کے ساتھ اس کا نفاذ نہیں ہو سکتا۔ چراغ راہ، جلد ۱۲، نمبر۷، کراچی، ۱۹۵۸ء ص۔ ۸۲) ۳۵) دیکھئے مکتوب بنام سعید الدین جعفری (۱۳۔ اگست، ۱۹۲۴ئ) اوراق گم گشتہ، مرتبہ رحیم بخش شاہین، اسلامک پبلی کیشنز ، لاہور، ۱۹۷۵ء ص- ۱۱۸۔، میں ایک مفصل مضمون انگریزی میں لکھ رہا ہوں۔ "The Idea of Ijtihad in the law of Islam" یہ مقالہ دسمبر ۱۹۲۴ء میں حبیبیہ ہال لاہور میں منعقدہ ایک اجلاس میں پڑھا گیا۔ ۳۶) مندرجہ ذیل اقتباسات سے ان کی نوعیت معلوم کی جا سکتی ہے۔ تمام اقتباسات اقبال نامہ، جلداول سے لئے گئے ہیں۔ صفحات کا حوالہ ہر اقتباس کے آخر میں دیا گیا ہے۔ نقطہ دار لکیر سے پہلے علامہ کی تحریر ہے۔ اس کے بعد سلیمان ندوی صاحب کے حواشی دیے گئے ہیں۔ اقتباس کے اختتام پر خط مسلسل کی علامت ہے۔ اس کتاب میں لکھا ہے کہ اجماع امت نص قرآنی کو منسوخ کر سکتا ہے…… آپ سے یہ امر دریافت طلب ہے کہ آیا مسلمانوں کے فقہی لٹریچر میں کوئی ایسا حوالہ موجود ہے؟ ۱ مردیگر یہ ہے کہ آپ کی ذاتی رائے اس بارے میں کیا ہے؟ ………………………………… ۱۔ اجماع سے نص قرآنی کے منسوخ ہونے کا کوئی قائل نہیں۔ امریکی مصنف نے غلط لکھا ہے۔ آمدی الاحکام میں لکھتے ہیں مذہب الجمہوران الاجماع لاینسخ بہ خلافا بعض المعتزلہ ، ج ۳ ،ص ۔۲۲۹ بعض معتزلہ ایسا کہتے تھے مگر ان کی رائے مقبول نہیں ہو سکی،آمدی نے حصہ شرعی کے ایک خاص مسئلہ کے باب میں ایک حوالہ نقل کیا ہے۔ پھر اس کا جواب دے دیا ہے اس امریکی مصنف کا استدلال غلط محض ہے۔ (مورخہ ۱۸ اگست ۱۹۲۴ء ص۔ ۱۳۲) _________________________________ ۱۔ آپ نے ارشاد فرمایا ہے کہ فقہانے اجماع سے نص کی تخصیص جائز سمجھی ہے۔ ایسی تخصیص یا تعمیم کی مثال اگر کوئی ہو تو اس سے آگاہ فرمایئے۔ اس کے علاوہ یہ بھی معلوم کرنا ضروری ہے کہ ایسی تخصیص یا تعمیم صرف اجماع صحابہ ہی کر سکتا ہے یا علماء و مجتہدین امت بھی کر سکتے ہیں۔ اگر مسلمانوں کی تاریخ میں صحابہ کے بعد کوئی ایسی مثال ہو تو اس سے بھی آگاہ فرمایئے ، یعنی یہ کہ کس مسئلہ میں صحابہ نے یا علمائے امت نے نص کے حکم کی تخصیص و تعمیم کر دی۔ میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ تخصیص یا تعمیم حکم سے آپ کی کیا مراد ہے۔ ۲۔ دیگر آپ کا ارشاد ہے کہ اگر صحابہ کا کوئی حکم نص کے خلاف ہے تو اس کو اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ کوئی ناسخ حکم ان کے علم میں ہو گا۔ جو ہم تک روایتاً نہیں پہنچا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ کوئی حکم ایسا بھی ہے جو صحابہ نے نص قران کے خلاف نافذ کیا ہو اور وہ کون سا حکم ہے۔ یہ بات کہ کوئی ناسخ حکم ان کے علم میں ہو گا محض حسن ظن پر مبنی ہے۔ یا آج کل کی قانونی اصطلاح میں ’’لیگل فکشن‘‘ ہے۔ علامہ آمدی کے قول سے تو بظاہر امریکن مصنف کی تائید ہوتی ہے گو صرف کسی حد تک کہ اجماع صحابہ نص قرآنی کے خلاف کر سکتا تھا، بعد کے علماء ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے علم میں کوئی ناسخ حکم نہیں ہو سکتا۔ ۳۔ اگر صحابہ کے اجماع نے کوئی حکم نص قرآنی کے خلاف نافذ کیا تو علامہ آمدی کے خیال کے مطابق ایسا کسی ناسخ حکم کی بنا پر ہوا ہے۔ وہ ناسخ حکم سوائے حدیث نبوی کے اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حدیث ناسخ قرآن ہو سکتی ہے جس سے کم از کم مجھے تو انکار ہے اور غالباً آپ کو بھی ہو گا، مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کو دوبارہ زحمت دینے پر مجبور ہوا۔ ………………………………… ۱۔ ایسا کوئی حکم نہیں اور نہ نص قرآنی کے خلاف کوئی حکم صحابہ نے دیا ہے۔ (مورخہ ۱۹۲۴/۸/۲۷۔ ص ۱۳۳۔۱۳۵) _________________________________ آپ نے کسی گذشتہ خط میں مجھے لکھا تھا کہ حضور سرور کائنات سے جب کوئی مسئلہ دریافت کیا جاتا تو آپ بعض دفعہ وحی کا انتظار فرماتے اگر وحی نازل ہوتی تو ا س کے مطابق مسائل کا جواب دیتے اور اگر وحی کا نزول نہ ہوتا تو قرآن شریف کی کسی آیت سے استدلال فرماتے اور جواب کے ساتھ وہ آیت بھی پڑھ دیتے۔ اس کاحوالہ کونسی کتاب میں ملے گا؟ کیا یہ قاضی شوکانی کی کتاب ارشاد الفحول سے آپ نے لیا ہے۔ دوسرا امر جو اس کے متعلق دریافت طلب ہے یہ ہے کہ جو جواب وحی کی بنا پر دیا گیا وہ تمام امت پر حجت ہے (اور وہ وحی بھی قرآن شریف میں داخل ہو گئی) لیکن جو جواب محض استدلال کی بنا پر دیا گیا جس میں وحی کو دخل نہیں کیا وہ بھی تمام امت پر حجت ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہو تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ حضور کے تمام استدلالات بھی وحی میں داخل ہیں یا بالفاظ دیگر یہ کہ قرآن وحدیث میں کوئی فرق نہیں۔ (مورخہ ۱۹۲۴/۱۰/۱۶۔ ص۔ ۱۴۱۔۱۴۲) ________________________________ دیگر امر دریافت طلب یہ ہے کہ آیہ توریت میں حصص بھی ازلی ابدی ہیں یا قاعدہ توریث میں جو اصول مضمر ہے صرف وہی ناقابل تبدیل ہے اور حصص میں حالات کے مطابق تبدیلی ہو سکتی ہے۲؟ آیہ وصیت پر بھی جو ارشادات ہیں میری سمجھ میں نہیں آئے، اس زحمت کے لیے معافی چاہتا ہوں۔ جب فرصت ملے جزئیات سے بھی آگاہ فرمایئے۔ اس احسان کے لیے ہمیشہ شکر گذار رہوں گا۔ (مورخہ ۱۸ مارچ ۱۹۲۶ء ۔ ص۔ ۱۴۵) …………………………………… ۱۔بیشک ۲۔کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی __________________________________ آپ کے بعض خطوط میرے پاس محفوظ ہیں اور یہ آخری خط بھی جو نہایت معنی خیز ہے اور جس کے مضمون سے مجھے بحیثیت مجموعی پورا اتفاق ہے محفوظ رہے گا۔ عبادات کے متعلق کوئی ترمیم و تنسیخ میرے پیش نظر نہیں ہے، بلکہ میں نے اپنے مضمون اجتہاد میں ان کی ازلیت و ابدیت پر دلائل قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہاں معاملات کے متعلق بعض سوالات دل میں پیدا ہوتے ہیں اس ضمن میں چونکہ شرعیت احادیث (یعنی وہ احادیث جن کا تعلق معاملات سے ہے) کا مشکل سوال پیدا ہو جاتا ہے۔ قاعدہ میراث کے حصص کے متعلق میں نے مضمون اجتہاد میں یہی طریق اختیار کیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ لڑکی کو لڑکے سے آدھا حصہ ملنا عین انصاف ہے۔ مساوی حصہ ملنے سے انصاف قائم نہیں رہتا ہے، بحث کا محرک ترکی شاعر ضیابک کی بعض تحریریں تھیں جن میں وہ اسلامی طلاق اور میراث کا ذکر کرتا ہے میں نے جو حصص کے متعلق آپ سے دریافت کیا تھا اس کا مقصد یہ نہ تھا کہ میں حصص میں ترمیم چاہتا ہوں، بلکہ خیال یہ تھا کہ شایدان حصص کی ازلیت و ابدیت پر آپ کوئی روشنی ڈالیں گے۔ آپ کے خط کے آخری حصے سے ایک اور سوال میرے دل میں پیدا ہوا ہے، اور وہ یہ ہے کہ امام کو اختیار ہے کہ قرآن کی کسی مقرر کردہ حد (مثلاً سرقہ کی حد) کو ترک کر دے اور اس کی جگہ کوئی اور مقرر کر دے اور اس اختیار کی بنا کون سی آیت قرانی ہے؟ حضرت عمر نے طلاق کے متعلق جو مجلس ۲؎ قائم کی ہے۔ اس کا اختیار ان کو شرعاً حاصل تھا ۳؎ میں اس اختیار کی اساس معلوم کرنا چاہتا ہوں، زمانہ حال کی زبان سے یوں کہیئے کہ آیا اسلامی کانسٹی ٹیوشن ان کو ایسا اختیار دیتی تھی؟ ’امام‘ ایک شخص واحد ہے یا جماعت بھی ’امام‘ کے قائم مقام ہو سکتی ہے،۔ (۷۔ اپریل ۱۹۲۶ء ص۔ ۱۴۶۔۱۴۹) ……………………………… ۱۔ ترک کر دے کا لفظ صحیح نہیں، ملتوی کر دے صحیح ہے۔ جیسے میدان جنگ میں جب اسلامی فوج دارالحرب سے قریب ہو حدود بمصالح ملتوی کر دیئے جاتے ہیں۔ ۲۔ میری عبارت کے سمجھنے میں یا اقبال نے خود اپنے مطلب کی تعبیر میں غلطی کی ہے حضرت عمر سے پہلے ایک مجلس یعنی ایک ہی نشست میں تین طلاقوں کو ایک قرار دیا جاتا تھا حضرت عمر نے اس کو تین قرار دیا۔ بات یہ تھی۔ ۳۔ حنفیہ کا قول ہے کہ حضرت عمر کو آنحضرت صلعم کا کوئی حکم معلوم ہوا جس کی اشاعت عہد اول میں نہیں ہو سکی تھی اور حضرت عمر نے اپنے عہد میں کی ۔حافظ ابن قیم کہتے ہیں کہ حضرت عمر نے تعزیراً ایسا کیا تھا اور امام کو تعزیراً ایسا کرنے کا اختیار ہے۔ _____________________________ شرعیت احادیث کے متعلق جو کھٹک میرے دل میں ۱؎ ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ احادیث سرے سے بیکار ہیں، ان میں ایسے بیش بہا اصول ہیں کہ سوسائٹی باوجود اپنی ترقی و تعالیِ کے اب تک ان کی بلندیوں تک نہیں پہنچی۔ مثلاً ملکیت شاملات دہ کے متعلق المرعی للہ و رسولہ (بخاری) اس حدیث کا ذکر میں نے مضمون اجتہاد میں بھی کیا ہے، بہر حال چند امور اور دریافت طلب ہیں، اگرچہ آپ اس وقت سفر حجاز کی تیاریوں میں مصروف ہوں گے، تاہم مجھے یقین ہے کہ آپ از راہ عنایت میرے سوالات پر کسی قدر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالیں گے ۲؎ آپ فرماتے ہیں کہ نبی کریم کی دو حیثیتیں ہیں، نبوت اور امامت۔ نبوت میں احکام قرآنی اور آیات قرآنی سے حضور کے استنباط داخل ہیں، اجتہاد کی بنا محض عقل بشری اور تجربہ و مشاہدہ ہے یا یہ بھی وحی میں داخل ہے۔ اگر وحی میں داخل ہے تو اس پر آپ کیا دلیل قائم کرتے ہیں۳؎ ؟ میں خود اس کے لیے دلیل رکھتا ہوں مگر میں اس پر اعتماد نہیں کرتا اور آپ کا خیال معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ وحی غیر متلو کی تعریف نفسیاتی اعتبار سے کیا ہے؟ کیا وحی متلو اور غیر متلو کے امتیاز کا پتہ رسول اللہ صلعم کے عہد مبارک میں چلتا ہے یا یہ اصطلاحات بعد میں وضع کی گئیں۴؎ ؟ حضور نے اذان کے متعلق صحابہ سے مشورہ کیا، کیا یہ مشورہ نبوت کے تحت میں آئے گا یا امامت کے تحت میں۵؎ ؟ فقہا کے نزدیک خاوند کو جو حق اپنی بیوی کو طلاق دینے کا ہے وہ بیوی کو یا اس کے کسی خویش یا کسی اور آدمی کے حوالے کیا جا سکتا ہے، اس مسئلہ کی بنا کوئی آیت قرآنی ہے یا حدیث ۶؎ ؟ امام ابو حنیفہ کے نزدیک طلاق یا خاوند کی موت کے دو سال بعد بھی اگربچہ پیدا ہو تو قیاس اس بچہ کے ولد الحرام ہونے پر نہیں کیا جا سکتا، اس مسئلہ کی اساس کیا ہے؟ ۷؎ کیا یہ اصول محض ایک قاعدہ شہادت ہے یا جزو قانون ہے۔ (مورخہ ۲۴۔ اپریل ۱۹۲۶ء ص۔ ۴۔۱۵۲) ……………………………… ۱۔ میں نے ان کو اس کا تسلی بخش جواب لکھ کر بھیجا تھا۔ ۲۔ ان تمام امور کے جواب سیرت النبی جلد چہارم کے مقدمہ میں مذکور ہیں۔ مختصراً جواب یہاں بھی حوالہ قلم ہیں۔ ۳۔ اجتہاد نبوی کی بنیاد عقل بشری اور تجربہ و مشاہدہ پر نہیں، بلکہ عقل نبوی کا نتیجہ ہے جو عقل بشری سے مافوق ہے اور جس میں عقل بشری و تجربہ و مشاہدہ کو دخل نہیں، اور نبی کی ہر غلطی کی اصلاح کا اللہ تعالیٰ ذمہ دار ہے۔ پس اجتہاد نبوی کے نتائج بھی اگر غلط ہوتے تو اللہ تعالیٰ اصلاح فرماتا جیسا کہ چار پانچ مقام پر اصلاح فرما دی ہے۔ پس جب بقیہ اجتہادات نبوی کی اصلاح نہیں فرمائی تو تقریراً وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صحیح قرار دیئے گئے اور اس لیے وہ واجب القبول ہیں۔ ۴۔ اصطلاح بعد میں پیدا ہوتی ہے۔ ۵۔ آنحضرت کو بعض روایات کے رو سے خود بھی اللہ تعالیٰ نے اس طریقہ کی تعلیم دی تھی اور دوسرے صحابہ نے بھی خواب میں دیکھا تھا، البتہ اس باب میں صحابہ سے مشورہ کرنا باب امامت سے تھا نہ کہ نبوت سے کہ احکام نبوت میں مشورہ نہیں۔ ۶۔ تصریح تو احادیث میں ہے مگر قرآن پاک سے استنباط ممکن ہے۔ ۷۔ اس کی اساس ایک تو حضرت عائشہ کا قول ہے جو دار قطنی میں ہے۔ دوسرے طبیعی تجربہ ہے۔ امام شافعی کے نزدیک اکثر مدت حمل چار برس ہے۔ (ہدایہ) ______________________________ ۳۷) ر۔ ک اقبالنامہ ، محولہ ماقبل، ص، ۱۴۳۔ ۳۸) حوالہ بالا ص، ۱۴۷۔ ۳۹) ایضاً ۔ ص ،۱۶۰۔ ۴۰) ایضاً ۔ص ،۲۔۱۶۱۔ ۴۱) ایضاً ۔ص ،۳۔۱۶۲۔ ۴۲) جبکہ ہمارا ذاتی میلان اس رائے کی طرف ہے کہ شاہ صاحب کا موقف اس ضمن میں شبلی کی بیان کردہ اور علامہ کی اختیار کردہ تشریح سے مختلف ہے۔ ۴۳) دوسرا ایڈیشن آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے ۱۹۳۴ء میں شائع کیا۔ اس کے پروف علامہ نے خود پڑھے تھے۔ (دیکھئے ہاشمی، تصانیف اقبال… محولہ ماقبل، ص، ۳۲۰) ۴۴) اقبالنامہ ، محولہ ماقبل، ص، ۱۸۴ ۔ خط کی باقی عبارت بھی قابل توجہ ہے۔ ’’آپ فرماتے ہیں کہ تواتر عمل کی ایک مثال نماز ہے۔ مالکیوں اور حنفیوں اور شیعوں میں جو اختلاف صورت نماز میں ہے وہ کیوں کر ہوا؟ ۳۔ ایک اور سوال پوچھنے کی جرات کرتا ہوں:۔ (۱) احکام منصوصہ میں توسیع اختیارات امام کے اصول کیا ہیں؟ (۲) اگر امام توسیع کر سکتا ہے تو کیا ان کے عمل کو محدود بھی کر سکتا ہے، اس کی کوئی تاریخی مثال ہو تو واضح فرمایئے۔ (۳) زمین کا مالک قرآن کے نزدیک کون ہے؟ اسلامی فقہا کا مذہب اس بارے میں کیا ہے؟ قاضی مبارک میں شاید اس کے متعلق کوئی فتویٰ ہے۔ وہ فتویٰ کیا ہے؟ (۴) اگر کوئی اسلامی ملک (روس کی طرح) زمین کو حکومت کی ملکیت قرار دے تو کیا یہ بات شرع اسلامی کے موافق ہو گی یا مخالف ؟ اس مسئلہ کا سیاست اور اجتماع معاشرت سے گہرا تعلق ہے، کیا یہ بات بھی امام کی رائے کے سپرد ہو گی؟ (۵) صدقات کی کتنی قسمیں اسلام میں ہیں؟ صدقہ اور خیرات میں کیا فرق ہے؟ تکلیف تو آپ کو ان سوالات کے جواب میں ہو گی، مگر مجھے امید ہے کہ آپ مجھے اس زحمت کے لیے معاف فرمائیں گے۔ ۴۵) دیکھئے حاشیہ نمبر۱۹ نیز ۲۳