درِ آئینہ باز ہے اقبالیات کی روایت اور توسیعی مباحث محمد سہیل عمر اقبال اکادمی پاکستان جملہ حقوق محفوظ ناشر ڈائریکٹر اقبال اکادمی پاکستان (حکومتِ پاکستان، وزارت ثقافت ) چھٹی منزل ، ایوان اقبال ، لاہور Tel: [+92-42] 6314-510 [+92-42] 9203-573 Fax: [+92-42] 631-4496 Email: director@iap.gov.pk Website: www.allamaiqbal.com ISBN 969-416-- طبع اوّل : ۲۰۰۸ء تعداد : ؟؟؟ قیمت : ۔؍ روپے مطبع : لاہور محل فروخت : ۱۱۶ میکلوڈ روڈ ، لاہور، فون نمبر ۷۳۵۷۲۱۴ مندرجات عرض مصنف ۳ پس منظر (۹ -۴۸) علامہ اقبال -زندگی کا ایک دن ۱۱ اقبال کی شخصیت پر اعتراضات کا جائزہ ۱۷ اسلام اور اقبال- ایک گفتگو ۲۵ اقبال اور پاکستان ۳۷ تجزیے: تشکیل جدید سے متعلقہ چند مباحث (۴۹ -۲۳۶) خطبۂ صدارت: تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ۵۱ خطبات اقبال- چند بنیادی سوالات ۵۷ اصول تطبیق- تشکیل جدید کی علمی منہاج ۶۹ ’’مدعا مختلف ہے‘‘ ۹۹ سزا یا ناسزا ۱۱۵ اقبال اور حدیث نبویؐ ۱۴۹ صحت احادیث ۱۵۷ … زنجیر پڑی دروازے میں!… ۱۷۳ عشق ہے صبہائے خام عشق ہے کاس الکرام ۲۲۷ عرض مصنف یہ کتاب دنیائے علم کے ایک مسافر کی ذہنی سوانح نوعمری سے زیادہ کچھ اور بھی ہے۔ اس کے صفحات سفرِ زیست کی کچھ فکری منزلوں اور چند اوگھٹ گھاٹیوں کی روداد ہیں جو تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ (The Reconstruction of Religious Thought in Islam)کی رفاقت میں طے کی گئیں۔ یہ اس طویل مکالمے کے اہم مراحل کا بیان بھی ہے جو لگ بھگ ربع صدی سے تشکیل جدید کے جلو میں جاری ہے۔ اس کے ابواب میں سوال و جواب، مباحث و تحلیلِ مباحث، مسائل اور ردِ مسائل، اشکال اور حلِ اشکال کا وہ رزمیہ بھی پھیلا ہوا ہے جو تشکیل جدید کی چھائوں میں برپا ہوا اور اسی کے روزنِ اوراق سے ان ذیلی مضامین اور متعلقہ موضوعات کا منظرنامہ بھی دیکھا جاسکتا ہے جو مصنف کی ذہنی فضا میں گاہے گاہے داخل ہوتے رہے اور علم کے دیگر میدانوں کی طرف رہنمائی کرتے رہے۔ تشکیل جدید سے میرا پہلا تعارف فلسفے کی باقاعدہ تحصیل کے دوران ہوا تھا۔ ایک عرصے تک یہ کتاب میری خلوت و جلوت کی رفیق رہی۔اس کی اہمیت اس لیے بھی تھی کہ یہ میرے علامہ کی کتاب تھی۔ ایک وقت تھا کہ یہ میرے زندہ مسائل کے لیے ایک جیتا جاگتا حوالہ تھا۔ دوسرا دور اس سے مختلف تھا۔اس فرق کا بڑا سبب یہ ہوا کہ اپنے ذہنی سفر اور فکری مسائل کی تحلیل و تنقیح کے عمل نے مجھے کچھ ایسے مفکرین اور کتابوں سے دوچار کر دیا تھا جو تعبیر کائنات کی ایک الگ لیکن بھرپور جہت سے مجھے روشناس کروا رہے تھے اور مغرب جدید کی تہذیب، اس کی فکری اساس، اس کا مادی تسلط، نظریاتی استیلا اور کائناتی تاریخ میں اس کے مرتبے اور کردار سے متعلق میرے ذہنی مسائل ایک حد تک حل ہوچکے تھے۔ ان دنوں میرے لیے اقبال اس لیے اہم نہیں تھے کہ انھوں نے تشکیل جدید لکھی تھی بلکہ تشکیل جدید اس لیے قابلِ اعتنا تھی کہ علامہ نے لکھی تھی۔وقت پھر بدلا۔ مغربی فلسفے کے ’’متاثرین‘‘ میں شامل ہونے کے کارن تشکیل جدید نے میرے لیے ایک اور معنویت اختیار کی۔ایم فل(اقبالیات) کے لیے میں نے تشکیل جدید کے مفصل مطالعے اور تجزیے کی ایک طالب علمانہ کوشش کی جو اولاً مقالۂ ایم فل اور بعدازاں میری تالیف خطبات اقبال۔نئے تناظر میںکی صورت میں سامنے آیا۔ تشکیل کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ عہدِ جدیدکے لیے اس کے معاصر اُسلوب میں اسلام کی طرف سے حقائقِ دین کی قریب الفہم انداز میں تعبیرِ نوکی جائے اور ایک نئے علم کلام کی بنا رکھتے ہوئے یہ ثابت کیا جائے کہ علومِ جدیدہ بالخصوص سائنس اور فلسفے کے حاصلات اُصولِ دین سے متصادم نہیں ہیں۔علامہ کے متعدد بیانات سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ ایک نمائندہ اقتباس دیکھیے: ان لیکچروں کے مخاطب زیادہ تر وہ مسلمان ہیں جو مغربی فلسفے سے متاثر ہیں، اور اس بات کے خواہش مند ہیں کہ فلسفہ اسلام کا فلسفہ جدید کے الفاظ میں بیان کیا جائے، اور اگر پرانے تخیلات میں خامیاں ہیں، تو ان کو رفع کیا جائے۔ میرا کام زیادہ تر تعمیری ہے، اور اس تعمیر میں مَیں نے فلسفہ اسلام کی بہترین روایات کو ملحوظِ خاطر رکھا ہے ۔ فکر کی کشتی رواں رہی۔ فہم کو کچھ گہرائی نصیب ہوئی، معلومات میں اضافہ ہوا، ادراک مسائل میں ترقی ہوئی تو علامہ کے نثر و نظم کو ایک وسیع تر تناظر میں دیکھنے کا دریچہ کھل گیا۔ اس زاویے سے دیکھا تو یوں لگا کہ اس وقت اسلامی دنیا فکر و عمل کی کم و بیش ہر سطح پر ایک ہلچل اور اضطراب کی گرفت میں ہے جو اگر ایک طرف ملتِ اسلامیہ کی روحِ اجتماعی کے کروٹ لینے سے عبارت ہے تو دوسری جانب ایک نئے شعور کی طلوعِ سحر کی نوید بھی ہے۔ وہ شعور جو تاریخ کے تسلسل میں اپنے مقام کی آگہی اور عہدِ حاضر کے مسائل سے روبرو ہونے کے نتیجے میں بیدار ہو رہا ہے۔شعور کے اس جھٹپٹے کے پس منظر میں تین بڑے فکری دھارے عالمِ اسلام کو درپیش مسائل سے نبرد آزما دکھائی دیتے ہیں جنھیں ہم سہولت کے لیے روایتی اسلام ،جدیدیت اور بنیاد پرستی کے نام دیتے ہیں۔ مؤخر الذکر اصطلاح عیسوی الٰہیات سے مستعار ہے اور اس کا اطلاق ان تمام نظریات، تحریکات اور نظام ہائے افکار پر کیا جاتا ہے جو کسی نہ کسی رنگ میں رجوع الی الاصل اور اصلاح سے متعلق ہیں اور معاشرے کو صدرِ اسلام کے معیار تک لوٹانے کے لیے کوشاں ہیں ۔ تاریخ میں ماضی کی طرف الٹی زقند لگاتے ہوئے اس فکری روّیے کے نمائندوں کا عمومی رجحان یہ رہا ہے کہ وہ شجرِاسلام کے بیخ و بن تک لوٹنے کے جوش میں اس شجرِ سایہ دار کے برگ و بار کو یا تو نظر انداز کر دیتے ہیں یا اس کی نفی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وحی اسلام کے بطن سے پھوٹنے والے اور صدیوں کے سفر میں نموپانے والے یہ برگ و بار اسلامی تہذیب کے وہ مظاہر ہیں جن میں اس کے فکری، جمالیاتی اور عرفانی پہلو متشکل ہوئے ہیں اور جن سے اغماض ، اعراض یا تردید کا ہر روّیہ بالآخر ایک بنجر ، جمال کش اور اتھلے نظامِ فکر و عمل پر منتج ہوتا ہے۔ بنیاد پرستی کے تحت بہت سے ایسے مکاتب فکر بھی آ جاتے ہیں جو پوری طرح اس سے اشتراک یا اتفاق نہیں رکھتے۔ ان کو بنیاد پرستی اور جدیدیت یا بنیاد پرستی اور روایتی اسلام کے نیمے دروں نیمے بروں ساتھی قرار دیا جا سکتاہے۔ جدیدیت میں اسلام کی وہ تمام تعبیرات شامل ہیں جو زمانے کے تقاضوں ، وقتی مصلحتوں اور ضروریات ، مغرب کی نقالی، فکری شکست خوردگی، علمی مرعوبیت یا پہلے سے طے شدہ اہداف و مقاصد کے مطابق اسلام کی تفسیر کرنے سے برآمد ہوتی ہیں اور جن کو ہر مکتبِ فکر اپنی ذاتی ترجیحات اور پسند و نا پسند کا رنگ دے کر پیش کرتا ہے۔ ان کے مقابل روایتی اسلام ہے جس کی نمائندگی معاصر علمی دنیا میں گو کم رہی ہے مگر درحقیقت یہی وہ روح ہے جس کا رس شجرِ اسلام کی جڑ سے لے کر پھننگ تک جاری و ساری ہے، جس نے زمانِ وحی سے لے کر آج تک ہر سطح پر کروڑوں نفوس انسانیہ کی آبیاری کی اور جو صرف ماضی کی عقلی اور جمالیاتی تحریکوں ہی میں موجود نہیں بلکہ آج بھی نبی علیہ السلام کے متبع علما و اولیا کی زندگیوں میں ظاہر ہے، قرآن کے فیضان کا ابلاغ کرنے والی سمعی و بصری ہیئیتوں کے خالق فنکاروں و ہنرمندوں کے شاہکاروں میں کارفرما ہے اور عام مسلمانوں کی کثیر تعداد کے اذہان و قلوب کو اسلام کی روایتی تعلیمات کے ارتعاش سے معمور کیے ہوئے ہے۔ پیش آمدہ مسائل کا سامنا کرتے ہوئے ماضی میں ان تینوں رویوں کا کردار تقریباً انفعالی ہی رہا ہے۔ یعنی مسائل کا تعین باہر سے ہوتا تھا اور ان مسائل سے آنکھیں چار کرنے پر مجبور ہو کر یہ مکاتبِ فکر کسی نص یا کسی قول سے رجوع کرنے کے بعد کوئی حل تلاش کرتے تھے۔ اپنے مسائل کی شناخت کرنا، اپنے مسائل کا خودتعین کرنا اور آگے بڑھ کر معاملات کو گرفت میں لینا بوجوہ ان کا چلن نہیں رہا۔ جدیدیت سے تو خیر اس کا شکوہ ہونا بھی نہیں چاہیے کہ وہ خود ہی انفعالیت کی پیداوار ہے اور از روئے فطرت تشکیل و تخلیق کے لیے ضروری قوت فاعلہ سے محروم ہے۔ روایتی اسلام اور بنیاد پرستی ، دونوں ہی اپنی فاعلی بلکہ فعال نوعیت کی بنا پر اس چیز کے اہل تھے۔ روایتی اسلام کو سیاسی مصالح اور جدیدیت کے شکار ذرائع ابلاغ نے پس منظر میں دھکیل دیا اور بنیاد پرستی کو اس کے فکری اتھلے پن سے جنم لینے والی نارسائی کھا گئی جس نے اسے حقیقتِ اشیا تک پہنچنے سے محروم رکھا۔ نئے شعور کی اہم اور امید افزا بات یہ ہے کہ اس میں اپنی فاعلی حیثیت کے امکانات کا احساس ہویدا ہے۔ ملایشیا سے سوڈان تک عوامی، تہذیبی سطح پر نموپذیر مظاہر اس پر شاہد ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ نیا شعور علمی دنیا میں بھی اپنے آپ کو اجاگر کر رہا ہے۔ عالمِ اسلام کے علمی، تحقیقی اور دانش جُو حلقے رفتہ رفتہ اس عمومی انفعالیت سے پیچھا چھڑا رہے ہیں جو مختلف اثرات کے باعث ان پر طاری رہی ہے اور اپنے مسائل و معاملات اغیار سے مستعار لے کر حتیٰ المقدور اس کے جارحانہ یا معذرت خواہانہ جواب تلاش کرنے کے بجائے خود اپنی علمی اقدار اور مسائل کا تعین کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ یہی امنگ ہے جو لمحۂ حاضر اور مسائل موجود کو آدرش سے ملا دیتی ہے۔ علمی اور تہذیبی دائروں میں جو شعور ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ابھر رہا ہے ، اسی کا پرتو اقبالیات کے عالم صغیر پر بھی پڑ رہا ہے۔ اب اقبالیات بھی مستعار اقدار اور مانگے تانگے کے مسائل سامنے رکھ کر فکرِ اقبال میں سے ان کا معذرت خواہانہ جواب ڈھونڈنے یانیم فخر یہ تقابل کرنے کے انفعالی رویے سے باہر نکلتی نظر آتی ہے۔ دوسرے شعبہ ہائے علم کی طرح اس میں بھی اپنی راہ خود نکالنے اور اپنے مسائل خود متعین کرنے کی آرزو جنم لے رہی ہے اور ماضی میں اس کے فکری رویوں پر نظر کرتے ہوئے یہ تبدیلی نہایت خوش آئند اور مستقبل میں روشن امکانات کی امین کہی جا سکتی ہے۔ فکر اسلامی کے وسیع تر تناظر میں دیکھئے تو صحیح اندازہ ہوتا ہے کہ اسلامِ کے تصور خدا، تصور کائنات اور تصور انسان کو عہد جدید میں، اعلیٰ ترین فکری اور ادبی سطح پر، جو ایک نہایت بامعنی اور پرتاثیر بیان میں ڈھال کر پیش کیا گیا ہے وہ علامہ اقبال کی شاعری اور فلسفیانہ تحریروں میں نظر آتا ہے۔ ان کی بلند مقام شخصیت کے تین پہلو ہیں جو ہمارے لیے اور فکر انسانی کے لیے غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں۔ خ عہد جدید کی فکر کے مقابل ان کا تخلیقی رویہ جو ان کی انگریزی کی فلسفیانہ تحریروں میں ظاہر ہوتا ہے۔ خ انسان کے بنیادی سوالات اور اسلام کے تصور خدا، کائنات اور انسان کا اردو اور فارسی شاعری کے وسیلے سے بیان جو حسن اظہار اور ہنرمندی کی بلند ترین سطحوں کو چھو لیتا ہے۔ خ بطور ایک سماجی اور سیاسی مصلح کے اپنی قوم کی رہنمائی اور مسائل کے حل کے لیے تجاویز۔ تشکیل جدید، عہد حاضر کی فکر سے ایک مکالمہ ہے۔ جدیدیت اور کسی حد تک مابعد جدیدیت کے تناظر سے گفتگو ہے جو اس کے نارسائیوں کی طرف اشارہ بھی کرتی ہے، اس کی کوتاہ فکری کو آئینہ بھی دکھاتی ہے اور اس کی دلدل سے نکلنے کے راستوں کی نشان دہی بھی کرتی ہے۔ در آئینہ باز ہے میں اس کے صرف چند پہلوئوں کا بیان آ سکا ہے۔ اس کی علمی عظمت کا ادراک میرے اندر روز افزوں رہا ہے اور عصری مسائل کے لیے اس کی معنویت کی دریافت کا عمل شخصی سطح پر جاری ہے۔ رگِ تاک میں بہت کچھ باقی ہے۔ کارِ مغاں ابھی ختم نہیں ہوا! ئ…ئ…ء پس منظر m علامہ اقبال -زندگی کا ایک دن m اقبال کی شخصیت پر اعتراضات کا جائزہ m اسلام اور اقبال -ایک گفتگو m اقبال اور پاکستان علامہ اقبال -زندگی کا ایک دن سطور ذیل میں ہم ایک ایسا بیان آپ کے گوش گذار کر رہے ہیں جو علامہ اقبال کے یومیہ معمولات ، زندگی کرنے کے طور اور ان کی شخصیت کا نقشہ نگا ہوں کے سامنے لے آتا ہے۔ اس کی اہمیت یہ ہے کہ یہ ایک ایسے شخص کا بیان ہے جس کا علامہ سے سالہا سال تک شب و روز خدمت کا ساتھ رہا ۔ علی بخش لگ بھگ دس سال کا تھا کہ علامہ کی خدمت میں آیا اور علامہ کی رحلت تک دن رات ان کے انداز زیست کا شاہد رہا ۔ علی بخش سے یہ سوالات ممتاز حسن صاحب نے ایک انٹرویو کے دوران کیے اور ڈاکٹر جاوید اقبال کی موجودگی میں اس کی یاد داشتیں درج کرتے گئے ۔ انٹرویو ۲۲ ستمبر ۱۹۵۷ء کو لیا گیا۔ (محمد سہیل عمر) --------- س اقبال صبح کو عموماً کب بیدار ہوتے تھے ؟ ج بہت سویرے ۔سچی بات یہ ہے کہ وہ بہت کم خواب تھے ۔ نماز فجر کی بہت پابندی کرتے اور نماز کے بعد قرآن کی تلاوت کرتے تھے ۔ س وہ قرآن کس انداز میں پڑھتے تھے ؟ ج جب تک ان کی آواز بیماری سے متاثر نہیں ہوئی تھی وہ قرآن کی تلاوت بلند آہنگ میں خوش الحانی سے کرتے تھے ۔ آواز بیٹھ گئی تو بھی قرآن پڑھتے ضرور تھے مگر بلند آواز سے نہیں۔ س نماز اور تلاوت سے فارغ ہو کر کیا کرتے تھے ؟ ج آرام کرسی پر دراز ہو جاتے ۔ میں حقہ تیار کر کے لے آتا ۔ حقے سے شغل کرتے ہوئے اس روز کے عدالتی کیسوں کے خلاصوں پر بھی نظر ڈالتے رہتے ۔ اس دوران میں گاہ گاہ شعر کی آمد بھی ہونے لگتی ۔ س آپ کیسے پہچانتے تھے کہ علامہ پر شعر گوئی کی کیفیت طاری ہو رہی ہے؟ ج وہ مجھے پکارتے یا تالی بجاتے اور کہتے ’’ میری بیاض اور قلمدان لائو‘‘ میں یہ چیزیں لے آتا تو وہ اشعار لکھ لیتے ۔ اطمینان نہ ہوتا تو بہت بے چین ہو جاتے- شعر گوئی کے دوران میں اکثر قرآن مجید لانے کو کہتے ۔ شعر گوئی کے علاوہ بھی دن میں کئی بار مجھے بلا کر قرآن مجید لانے کی ہدایت کرتے ۔ س عدالت جانے کا وقت عموماً کیا ہوتا تھا ؟ ج عدالتی اوقات سے دس پندرہ منٹ قبل روانہ ہوتے تھے ۔ پہلے بگھی میں،اور آخری زمانے میں گاڑی خرید لی تھی ۔ س وکالت کا کیا عالم تھا، بہت کام کرتے یا تھوڑا ؟ ج وکالت میں ایک حد سے زیادہ اپنے آپ کو مصروف نہیں ہونے دیتے تھے ۔ عام طور پر یوں ہوتا تھا کہ ۵۰۰ روپے کے برابر فیس کے کیس آ جاتے تو مزید کیس نہیں لیتے تھے۔دیگر سائلین کو اگلے ماہ آنے کا کَہ دیتے ۔اگر مہینے کے پہلے تین چار دنوں میں چار پانچ سو روپے کا کام مل جاتا تو باقی سارا مہینہ مزید کوئی کیس نہیں لیتے تھے ۔ س یہ پانچ سو روپے کی حد کیوں لگائی گئی تھی ؟ ج ان کا تخمینہ تھا کہ انھیں ماہانہ اخراجات کے لیے اس سے زیادہ پیسوں کی ضرورت نہیں پڑے گی- اس زمانے میں اس رقم میں گھر کا کرایہ ، نوکروں کی تنخواہیں ، منشی کی تنخواہ اور گھر کے عمومی اخراجات سب شامل تھے ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے ، جب علامہ صاحب انار کلی اور میکلوڈ روڈ پر رہا کرتے تھے ۔ س علامہ صاحب نے کتنے عرصے تک وکالت کی ؟ ج جب تک انھیں گلے کی بیماری لاحق نہیں ہوئی تھی ، وکالت کرتے رہے ۔یہ اندازاً ۳۳-۱۹۳۲ء کا زمانہ تھا ۔ س گلے کی بیماری کیسے شروع ہوئی تھی ؟ ج وہ عید کی نماز پڑھنے گئے ۔ سردی کا موسم تھا گھر واپس آ کر سویوں پر دہی ڈال کر کھایا جو انھیں بہت مرغوب تھا ۔ اگلے ہی روز گلے کی تکلیف شروع ہو گئی۔اس رات کے دو اڑھائی بجے تک کھانستے رہے۔ اگلے دن ان کی آواز بیٹھ گئی اور وفات تک آواز کی یہی کیفیت رہی۔ س اب ذرا ان کے روز مرہ کے معمول پر دوبارہ بات ہو جائے - عدالت سے لوٹ کر آتے تو کیا کیاکرتے تھے ؟ ج سب سے پہلے تو مجھے کہتے کہ میرا لباس تبدیل کرو ائو ، رسمی دفتری لباس انھیں کبھی پسند نہ تھا ۔ عدالت جانے کے لیے مجبوراً پہن لیتے اور گھر آتے ہی سب سے پہلے اس سے چھٹکارا حاصل کرتے ۔ س لباس بدل کر کیا کیا کرتے تھے ؟ ج اگر شعر کہنا ہوتے تو اس کے لیے حسب معمول بیاض ، قلمدان اور قرآن مجید لانے کو کہتے؟ س کیا وہ اپنی وکالت پر سنجیدگی سے توجہ دیتے تھے ؟ ج اگر اگلے دن عدالت میں کوئی مقدمہ ہوتا تو اس مقدمے کی مسل دیکھ لیتے تھے ۔ورنہ مقدمے کے کام میں اپنے آپ کو نہ الجھاتے ۔ س کیا وہ گھر پر عدالت کا کام کیا کرتے تھے ؟ ج اگلے روز کے مقدمات سے متعلق کاغذات پر نظر ڈالنے کے سوا اور کچھ نہیں ۔ س سہ پہر میں سونے کی عادت تھی ؟ ج معمول تو نہیں تھا ، کبھی سو بھی جاتے ۔ س ان کی نیند کیسی تھی ؟ ج نیند کچی تھی ، ذرا سی آواز سے چونک جاتے تھے ۔ س جسمانی تکلیف اور بے آرامی برداشت کرنے میں کیسے تھے ؟ ج بہت نرم دل تھے ۔ تکلیف کی برداشت بہت کم تھی ۔ کسی اور کو بھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے ۔ خون بہتا دیکھنے کی بالکل تاب نہ تھی ۔ایک مرتبہ پائوں پر بھڑنے کاٹ لیا ، اس سے وہ ایسے لاچار ہوئے کہ حرکت کرنے کے لیے بھی میرے سہارے کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ ایک مرتبہ جاوید کو بچپن میں ابرو کے قریب چوٹ لگ گئی جس سے تھوڑا سا خون بہ نکلا ۔ خون دیکھ کر علامہ کو غش آ گیا ۔ س کھانا کس وقت کھاتے تھے ؟ ج بارہ ایک بجے کے درمیان ایک ہی مرتبہ کھانا کھاتے ۔ رات کے کھانے کا معمول نہ تھا۔ س کھانے میں کیا پسند تھا ؟ ج پلائو ، ماش کی دال ، قیمہ بھرے کریلے ، اور خشکہ ۔ س کھانے پر کئی طرح کی غذائیں ہوتی تھیں کیا ؟ ج جی نہیں ایک وقت میں زیادہ کھاتے نہ تھے ، خوراک خاصی کم تھی ۔ س کسی خاص کھانے کو ناپسند کرتے تھے ؟ ج جی ہاں ۔ سری پائے اور ٹنڈے گوشت۔ س ورزش کیا کرتے تھے ؟ ج ابتدا میں تو ورزش کرتے تھے - مگدر گھماتے اور ڈنڑ پیلتے تھے ۔ انارکلی کے قیام تک یہ معمول رہا۔اس کے بعد ورزش چھوٹ گئی ۔ س کھیلوں سے دلچسپی تھی ؟ ج کشتیوں کے دنگل شوق سے دیکھتے تھے ۔ س دیگر دلچسپیاں کیا تھیں ؟ ج شروع کے دنوں میں کبوتر پالنے کا شوق رہا ، کبھی کبھار تاش بھی کھیل لیتے۔ س شام کو کبھی کہیں باہر جایا کرتا تھے ؟ ج شام کو کہیں باہر نکلنا ان کے لیے تقریباً ناممکن تھا ۔ جس زمانے میں قیام بھاٹی دروازے کے اندر تھا تو بسا اوقات حکیم شہباز الدین کے گھر کے باہر کے چبوترے تک ٹہل لیتے تھے۔کبھی کبھار سر ذوالفقار علی اپنی موٹر لے کر آ جاتے اور انھیں باہر گھمانے لے جاتے ۔ س رات کو سوتے کس وقت تھے ؟ ج شام کو احباب کی محفل جمتی تھی ۔ چوہدری محمد حسین ہمیشہ سب سے آخر میں رخصت ہوتے تھے ۔ مجلس عموماً دس بجے برخاست ہو جاتی اور اس کے بعد علامہ چوہدری محمد حسین کے ساتھ بیٹھ کر انھیں اس روز کے تازہ اشعار سنایا کرتے تھے۔ س چوہدری صاحب عموماً کتنی دیر ٹھہرتے تھے ؟ ج رات کے بارہ ایک بجے تک ، اس کے بعد ڈاکٹر صاحب سونے کے لیے لیٹ جاتے۔ لیکن بمشکل دو تین گھنٹے سو کر تہجد کے لیے بیدار ہو جاتے ۔ س طیش میں آتے تھے یا نہیں ؟ ج بہت نرم دل اور طبیعت کے مہربان تھے ، شاز و نادر ہی غصے میں آتے۔ لیکن اگر اشتعال میں آ جاتے تو اپنے اوپر قابو پانا مشکل ہو جاتا۔ مجھے ان کی نرم دلی کا ایک واقعہ یاد ہے: ’’ایک مرتبہ گھر میں ایک چور گھس آیا ۔ہم میں سے کسی نے پکڑ کر اس کی پٹائی کر دی۔ علامہ اقبال نے اس کا ہاتھ روک دیا اور کہا کہ چور کو مت پیٹو۔ یہی نہیں بلکہ اسے کھانا کھلایا اور آزاد کر دیا ‘‘۔ س تہجد پابندی سے پڑھتے تھے کیا ؟ ج جی ہاں پابندی سے پڑھتے تھے ۔ س تہجد کے بعد کیا معمول تھا ؟ ج اس کے بعد ذرا دیر کو لیٹ رہتے، تاوقتیکہ فجر کا وقت آن لیتا اور وہ نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ۔ س کیا شعر کی آمد رات کو بھی ہوتی تھی ؟ ج جی ہاں ۔ راتوں کو بھی شعر گوئی کرتے ۔ عموماً یہ کیفیت ان پر رات کے دو اور اڑھائی کے درمیان طاری ہوتی تھی۔جب بھی ایسا ہوتا مجھے آواز دے کر بیاض اور قلمدان طلب کرتے۔ اقبال کی شخصیت پر اعتراضات کا جائزہ ٭ انسان اپنی اجتماعی بلکہ نوعی ساخت میں ایک شخصیت کی طرح ہے جس کی تشکیل انھی عناصر سے ہوتی ہے جو فرد کی تعمیر میں کارفرما ہوتے ہیں۔ وہ روایت جو انسانیت کی حقیقت کا تعین کر کے اسے شعور ، ارادے اور طبیعت میں راسخ کرتی ہے، اپنے اظہار کی غیر پیغمبرانہ سطحوں پر بھی افراد ہی کو مظہر بناتی ہے۔ ان میں سے بعض افراد اپنی ذات کے ہر جز میں اس مظہریت کی ذمہ داری نبھاتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں جو اس روایت کے ترجمان بن کر اسے تغیر وتبدیلی پر اساس رکھنے والی انسانی صورت حال میں نہ صرف یہ کہ اوجھل نہیں ہونے دیتے بلکہ زندگی کے سب سے بنیادی اور حقیقی اصول کے طور پر اس کو نفسِ انسانی کی سطح پر قائم اور محفوظ رکھتے ہیں۔ پہلی قسم میں وہ حضرات آتے ہیں جو اپنی ذات میں بھی انسانیت کا معیار ہوتے ہیں، یعنی ائمہ و اولیا ، وغیرہ ۔ جبکہ دوسری قبیل ان لوگوں کی ہے جن کا قول ہی اتنا زندہ ، بامعنی اور پرُ اثر ہوتا ہے کہ ان کے احوال و اعمال میں موجود جزوی نقائص سرے سے غیر اہم اور ناقابلِ اِلتفات ہو کررہ جاتے ہیں۔ انسانی تکمیل کا مجموعی عمل گو کہ اپنی روح میں حال سے عبارت ہوتاہے، تاہم اس کے بعض مطالبات قال کے بغیر پورے نہیں ہو سکتے ۔ انسان کی باطنی اور خارجی پیش رفت جب اجتماعی اسلوب اختیار کرتی ہے تو اس کے بنیادی محرکات اور حتمی مقاصد کو مستحضر رہنے کے لیے لفظ کا وسیلہ درکار ہوتا ہے جو فکر و تخیل اور جذبہ و احساس کی تشکیل میں ایک فیصلہ کُن کردار رکھتا ہے۔ لفظ ، آدمی کی سب سے بڑی قوت ہے۔ شاعروں اور مفکروں کے ہاں یہ قوت اتنی بڑھی ہوئی ہوتی ہے کہ عام طور سے ان کی شخصیت، خصوصاً کردار کے اعتبار سے ، اس کا پورا مصداق بننے سے قاصر رہتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ ایک کمی ہے ، لیکن دیانت داری سے دیکھا جائے تو بعض شعرا اور مفکرین میں یہ کمی شخصیت کی کسی منافقانہ یا مریضانہ دولختی پر دلالت نہیں کرتی بلکہ انسان کی کچھ مجبوریوں کا ایک لائق فہم اور قابل قبول مظہر ہے۔ اس تمہید کا مقصد یہ تھا کہ اس طرف اشارہ کر دیا جائے کہ بعض شخصیتیں اپنی قوم کے لیے معیار بن جاتی ہیں۔ یہ معیار ذاتی کردار کی بنیاد پر بھی ہو سکتا ہے اور خیال و فکر کی وجہ سے بھی۔ قومی زندگی کی بقا اور کمال کے لیے دونوں طرح کے معیارات کا موجود اور محفوظ رہنا ضروری ہے۔ ہم اپنی صورت حال پر نظر کریں تو ہمارے موجودہ تصور زندگی اور مروجہ اقدار حیات میں قائد اعظم کی شخصیت اور علامہ اقبال کے پیغام کی حیثیت مرکزی ہے۔ ہماری قومی زندگی کی صورت گری میں کردار و گفتار کی بیشتر ضروریات انھی دو ہستیوں کو نمونہ بنا کر پوری ہوئی ہیں۔ فرد کی طرح قوم بھی ذہن ، مزاج اور ارادے کا مجموعہ ہوتی ہے جن میں یکجائی اور یکسوئی کے حصول کے لیے نظریے اور عمل کے قطبین میں توازن پیدا کر کے دکھانا پڑتا ہے۔ اگر نظریاتی ساخت کو مستحکم کرنے والا عنصر بالفرض عملی مطالبات کی تکمیل نہ کر سکتا ہو تو قومی زندگی میں اسے ایک اساسی قدر کا مرتبہ حاصل ہوتا ہے۔ اس کی اس ناگزیر حیثیت کو مجروح کرنے کی ہر کوشش اپنی بنیاد منہدم کرنے کے مترادف ہے۔ اس بات پر شبہ کرنے کے لیے دانش و بینش سے مکمل محرومی درکار ہے کہ جنوبی ایشیا کے اکثر مسلمانوں کا نظریاتی جوش اور فکری اطمینان جن نبیادوں پر استوار ہے اور استوار رہ سکتا ہے، ان میں ایک بڑی بنیاد اقبال کے خطبات اور شاعری نے مہیا کی ہے۔ کم از کم مسلمانان برصغیر نے اب تک وہ دفاعی نظام ایجاد نہیں کیا جو ان کے دین ، تہذیب اور نفسیات کو محفوظ رکھنے میں کلام اقبال سے زیادہ نہ سہی ، اُس کے برابر ہی مؤثر اور قابل اعتماد ہو۔ علامہ کی اس منفرد حیثیت کو ان کی شخصیت پر کئے گئے منفی تجزیوں کی بھینٹ نہیں چڑھایا جا سکتا ۔ ان کا یہ مقام ان کے کلام کی وجہ سے ان کی شخصیت سے ماورا ہے۔ نظریے اور عمل کا جو توازن قوم کا مدارِہست و بُود ہے، ہم نے اسے اقبال کی فکر اور شاعری سے اخذ کیا ہے، ان کی شخصیت سے نہیں ۔ ان کا مردِ کامل ہمارے لیے مثالی نمونہ ہے مگر ہمارے اندر اس خیال نے کبھی سر نہیں اٹھایا کہ خود اقبال اپنے ’’مردِ کامل‘‘ کا مصداق ہیں یا انھیں ہونا چاہیے ۔ علامہ سے محبت اور ان کا احترام ہمیں اس طرف نہیں لے جاتا کہ انھیں اس نظر سے دیکھنا شروع کر دیں جس نظر سے دینی اور روحانی کمالات کے حاملین کو دیکھا جاتا ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ان کی ذات سے وہ گراوٹ اور گھٹیا پن منسوب کر دیا جائے جو عام سے عام آدمی کے لیے بھی باعثِ شرم ہو۔ ولی اللہ نہ ہونے کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ آدمی کو عیب جوئی کا ہدف بنالیا جائے ۔ دین داری اور اتباع سُنّت کے بعض اعلیٰ معیاروں پر پورا نہ اتر سکنے کے باوجود عین ممکن ہے کہ ایک شخص ایسے اوصاف اور ایسی صلاحیتیوں کا مالک ہو جو اربابِ صلاح اور اصحابِ تقویٰ کے لیے بھی لائق رشک ہوں۔ اس امکان کی صحت کا سب سے بڑا ثبوت خود اقبال ہیں۔ ملّت اسلامیہ کے جسد مردہ میں روح پھونکنے کا جو کام انہوں نے کیا ہے، وہ کسی بھی مجدّد اور مصلح کے لیے سرمایۂ افتخار ہو سکتا ہے اور پھر یہ کارنامہ وقت کے کسی خاص حصے تک محدود نہیں ہے۔ انسانوں کے قلوب میں یقین پیدا کرنے کے جتنے اسباب ممکن ہیں ، ان سب کو بروئے کار لا کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل بعید میں بھی اُمّتِ مُسلِمَہ میں بیداری کی جولہریں اٹھیں گی ، ان میں سے اکثر اقبال کے سرچشمۂ فکر ہی سے نکلی ہوں گی ۔ اقبال کی یہ مسلمہ حیثیت ہی ان کی شخصیت کا سب سے بڑا بلکہ واحد عنوان ہے۔ اس سے واقف ہو جانے کے بعد کسی شخص کو ، بشرطیکہ وہ آدمیت سے بالکل ہی محروم نہ ہو ، یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اقبال کی چھوٹی موٹی کمزوریاں تلاش اور مزے لے لے کر بیان کرنے بیٹھ جائے۔ اس طرح کا نفسیاتی مطالعہ نا کام و نامراد لوگوں کو سمجھنے کے لیے تو مفید ہو سکتا ہے لیکن اقبال ایسی شخصیت پر اس کا اطلاق ایسے ہے، جیسے کوئی مستری ہمالہ کی ساخت کے نقائص ڈھونڈنے میں لگ جائے۔ سامنے کی بات ہے کہ نفسِ انسانی کو جمال و جلال اور خیر و کمال کے اصلی اور قدرتی سانچے میں ڈھالنے کی قوت رکھنے والی کوئی ہستی اتنی گئی گزری نہیں ہو سکتی کہ کوڑا کرکٹ چننے اور گندگی کرید نے والی مخلوق اس پر حرف زنی کر سکے۔ اقبا ل کی شخصیت میں یقینا کئی کوتاہیاں اور کمزوریاں ہوں گی۔ ان کی نوعیت ذاتی بھی ہو سکتی ہے اور علمی و فکری بھی ۔ لیکن وہ معائب و نقائص ان کے کمالات کے آگے گویا معدوم ہیں۔اُنھیں حاضر و موجود کرنے کی جو بھی کوشش کی جائے گی ، وہ بجائے خود ایک پست، گھٹیا اور مسخ نفسیات کی آئینہ دار ہو گی۔ اقبال کی شخصیت پر اعتراضات کا جائزہکی شہرت اس کی اشاعت سے ایک قدم آگے رہی ہے۔ کتاب کا مسودہ مجھے بھی بعد میں پہنچا اور اس پر رائے زنی اور سنی سنائی باتوں کا فشردہ پہلے وارد ہوا ۔ کتاب دیکھنے سے قبل اندیشہ یہ تھا کہ پروفیسر ایوب صابر کا یہ کام کہیں اقبال دشمنی کے رجحان کو مزید حوالہ جات فراہم کر کے اس کی تقویت کا سبب نہ بن جائے۔ لیکن جب کتاب کا مسودہ ہاتھ میں آیا اور میں نے اس کا مطالعہ کیا تو وہ اندیشہ رفع ہو گیا ۔ پروفیسر صاحب کا یہ کام بلاشبہ بہت سے فوری اوربہت سے دور رس فوائد رکھتا ہے ۔ اقبال کو جن معاندانہ اعتراضات ، الزامات اور اتہامات کا نشانہ بنایا گیا ہے ،عوام و خواص کی ایک اچھی خاصی تعداد انھیں درست یا تقریباً درست سمجھتی ہے اور اس سلسلے میں خاموش رہتی ہے ۔ اس طبقے میں اکثریت یقینا ایسے لوگوں کی ہے جو شراب نوشی وغیرہ کو علامہ کا ذاتی فعل کہ کر نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ لیکن ان کی یہ مہربانی ہمیں اقبال کا وہ حق ادا کرنے سے نہیں روک سکتی، جو ہم پر واجب ہے۔یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے محسن کی کردار کشی اور اہانت کی ہر مہم کا مقابلہ کریں تاکہ اقبال سے ہمیں جو نسبت ہے ، وہ ہر لحاظ سے بے داغ ، بے غُبار اور محکم رہے۔ یہ ہماری ذاتی ضرورت اور قومی تقاضا ہے۔ پروفیسر ایوب صابر اقبال دشمنی کی پوری روایت کو، اس کی تمام صورتوں کی پردہ کشائی، اس کی نارسائیوں کا آئینہ دکھا نے اور اس کی کج فہمی ، کج بینی اور کج نویسی کی تردید و اصلاح پر کمر بستہ ہیں۔ ان کا یہ منصوبہ کئی حصوں پر مشتمل ہے۔ زیر نظر کتاب کا موضوع ہے: ’’اقبال کی شخصیت پر کیے جانے والے اعتراضات کا تحقیقی جواب ‘‘ یہاں اعتراضات کا تار و پود جس طرح بکھیرا گیا ہے ، وہ اپنی جگہ ایک چشم کشا مطالعہ ہے۔ اعتراضات کی ایک نوع تو ایسی ہے کہ اس کی تردید کے لیے صرف اسے نقل کرنا کافی ہے۔ یہ اعتراضات داخلی تضادات سے بھرپو ر، واشگاف غلطیوں کا مرقع اور حکایت بافی کا نمونہ ہیں۔ ان کی تردید میں کچھ لکھنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی کہ یہ کام ان کی عبارت خود ہی بخوبی انجام دے رہی ہے ۔ ان کے معاملے میں گِلِ کُوزہ سے لے کر کوزہ شکنی کے جملہ مراحل کا سامان ان کی اپنی تعمیر میں مضمر ہے۔ کچھ اعتراضات افسانہ اور حقیقت ، فکشن اور سچی واردات کا ملغوبہ ہیں۔ بافندگان حرف و حکایت نے کہانی کا تانا بانا بنتے بنتے اپنی طرف سے بھی بہت کچھ ملا کر اس کا رنگ، رخ اور ’’ذائقہ ‘‘ بدل دیا ہے۔ پھر ان اقبال شناسانِ خام کار کے خامۂ ہذیان رقم اور خود بین و خود آرانے ایسی مطلق العنانی اور بسا اوقات مطلق الانانیت دکھائی ہے کہ کہانی کہتے کہتے خود کہنے والے کو کچھ ہو گیا ہے اور وہ اپنے زور تخیل سے اقبال کا ماضی اور اپنا مستقبل آپ بنانے نکل کھڑا ہوا ہے۔ بعض اعتراضات میں تو ’’اجتماعی کاوشوں‘‘ کی عجب رنگارنگی نظر آتی ہے۔ ایک کہانی کار داستان کا ست رنگا تانا بانا بنتا ہے، دوسرا اس پر زرد وزی کام کے بیل بوٹے بناتا ہے، تیسرا کلی پُھندنے ٹانکتا ہے ۔ پھر سب مل کر غیبت بافی کا شاہکار جھول جسدِ اقبالیات پر ڈال دیتے ہیں۔ یہ ماضی وہ نہیں ہوتا جو واقعتا تھا ، بلکہ وہ جو داستان طرازوں نے اپنی خواہش اور پسند کے مطابق از سر نو گھڑکر آراستہ پیراستہ کیا ہوتا ہے ۔ اقبال اور اقبالیات کا ’’ماضی تمنائی ‘‘ ۔اس پاستان طرازی کے پس منظر میں ان اقبال شناسوں کی مجروح انا کا طائوسی رقص دیدنی ہوتا ہے کیونکہ پھر یہ اعتراضات صرف نقد ادب و شعر یا سوانحی تجزیہ نہیں رہ جاتے بلکہ ہمارے رویوں کا آئینہ بن جاتے ہیں۔ اس آئینے میں کیسے کیسے عکس ابھرتے ہیں۔ شکست خوردہ انا اپنے لیے کہاں کہاں اور کیسی کیسی پناہیں تراشتی ہے ، یہ لکھنے والے کے ذوق ، تاب ہزیمت اور طاقت فرار یا خوئے انتقام پر منحصر ہے۔ جن لوگوں کا تصور شعر اور مقیاس الشعرا، مضافاتی یا قصباتی نوعیت کا ہے، وہ اقبال کی شاعری کو اسلامی تہذیب کے جمال و زیبائی کا نمونہ جاننے کی بجائے اسے اپنے اسی دہقانی پیمانے پر ناپتے رہے ہیں۔ ان کی نارسائیوں کا عکس آپ کو کتاب میں جا بجا ملے گا ۔ ان بزرگوں کا کارنامہ بھی نظر آئے گا جو اپنے کسی عیب کا جواز اقبال کی زندگی کے مفروضہ مخفی گوشوں میں تلاش کرتے پائے جائیں گے ۔ وہ ذہن بھی منعکس ہوگا جو گھٹیا الزامات اور عیب جوئی سے لذت کشید کرتا ہے اور بڑے آدمی کی ، بزعم خویش ، تذلیل کر کے مسرت حاصل کرتا ہے۔ مسلک کا اختلاف کیوں کر عظمت کے اعتراف میں حائل ہوتا ہے، یہ منظر بھی بار بار سامنے آئے گا۔ اعتراضات کا ایک بڑا حصہ وہ ہے جس کا خمیر غلطی یا ناکافی معلومات سے اٹھا ہے۔کتاب کی سب سے بڑی افادیت اسی نوع کے اعتراضات کی تصحیح ، ترمیم اور تردید میں مضمر ہے ورنہ اہل عناد کا مرض تو درد لا دوا ہی پایا گیا ہے۔ وہ قارئین ، جن کی قِلّتِ معلومات اور عقیدت کے مابین ایک کشاکش رہتی ہے، اُنھیں اس کتاب کی صورت میں ایک مضبوط سہارا میسر آ جائے گا ۔ صرف اتنا ہی نہیں، کتنے ہی اعتراضات ایسے ہیں جن کا شافی جواب خود ہمیں بھی ڈاکٹر ایوب صابر کے توسط سے حاصل ہوا اور صُورتِ مسئلہ پوری طرح واضح ہو گئی ۔ اس خارستانِ جرح و نقد میں ہم ایسے اور بھی بہت سے قارئین ہوں گے جن کے لیے اس کتاب سے استفادہ گونا گوں فوائد رکھتا ہو گا ۔ مطالعہ شرط ہے۔ الغرض ، علامہ کی شخصیت پر اب تک جتنے اعتراضات اور الزامات عائد کیے گئے ہیں ، پروفیسر ایوب صابر نے ان سب کاسامنا کیا ہے، دیکھا پرکھا ہے اور ایک ایک کا جواب دیا ہے۔ اکثر جوابات اور توضیحات محکم ، مدلل ، مسکت اور برمحل ہیں ۔ البتہ کہیں کہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابھی مزید تشفّی درکار ہے۔ اسی طرح ایک آدھ جگہ پر کسی اختلافی نکتے کو بھی معاندانہ اعتراض فرض کر لیا گیا ہے ۔ خلیفہ عبدالحکیم کی یہ شکایت کہ اقبال، مغرب دشمنی میں حد سے گزر جاتے ہیں اور سلیم احمد کی یہ دریافت کہ ان کی شاعری کا مرکزی مسئلہ ’موت‘ ہے ، اقبال دشمنی کا مظہر نہیں ہے۔ ان پر گفتگو کی سطح اور اَسلُوب بالکل مختلف ہونا چاہیے ۔ یہ خاصے سنجیدہ مباحث ہیں۔ تاہم کچھ کھانچوں کے باوجود اقبال کی شخصیت کا ایسا ٹھوس اور متوازن دفاع اقبالیات کی روایت میں اپنی کوئی نظیر نہیں رکھتا ۔ پروفیسر ایوب صابر کے اخلاص ، جذبے اور اہلیت کو دیکھتے ہوئے ان سے یہ درخواست کرنے کو جی چاہتا ہے کہ وہ اقبال دشمنی کے اس پوشیدہ روّیے کا بھی محاکمہ کریں جو علامہ کے چند نادان دوستوں کے ہاں صاف نظر آتا ہے۔ اقبال مجدّدِ مُطلَق ہیں، اقبال تاریخ انسانی کے عظیم ترین شاعر ہیں ، اقبال دنیا کے سب سے بڑے اور آخری مفکر ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ مبالغہ آرائیاں ان تہمتوں سے زیادہ مضر اور خطر ناک ہیں جو منشی امین زبیری ایسے لوگوں نے اقبال پر لگائی ہیں ۔ یہ غیر تربیت یافتہ اور نا پختہ ذہن کو اقبال سے بدظن کر سکتی ہیں۔ یہ کتاب پڑھ کر جہاں ایک فوری فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اقبال کی شخصی بڑائی بھی بالکل واقعاتی سطح پر سامنے آ جاتی ہے، وہیں دنیائے شعر و ادب میں کارفرما بعض انسانی رویے اور ان کے محرکات و مقاصد بھی بے نقاب ہو جاتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی ذہن اس طرف بھی جاتا ہے کہ اقبال دشمنی جو کہیں نظریاتی مخاصمت ہے، کہیں فکر و اندیشہ کی تنگ دامانی اور کہیں ذاتی حسد و عناد ، اپنی اصل حقیقت میں ایک ایسا رویّہ ہے جو انسان ہونے کی بعض بنیادی شرائط کے منافی ہے۔ اس کا غیر اخلاقی پن تو ظاہر و باہر ہے، سب سے تشویشناک پہلو وہ غیر انسانی پن ہے جس سے اس کا خمیر اٹھا ہے۔ اقبال سے کلی یا جُزوی اختلاف اپنی شدید ترین حالت میں بھی ایک سنجیدہ اور مخلصانہ ذہنی سرگرمی کے طور پر قابلِ غور ہو سکتا ہے لیکن انھیں غلاظت میں ملوث اور آلودہ کرنے کی سازشیں پوری قوت سے رد کر دیے جانے کے لائق ہیں۔ پروفیسر ایوب صابر نے ان سازشوں کو بے نقاب کر کے اقبالیات کا ’’فرض کفایہ‘‘ ادا کیا ہے۔ ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ ئ…ئ…ء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭ ڈاکٹرایوب صابرکی کتاب اقبال کی شخصیت پر اعتراضات کا جائزہ کے دیباچے کے طورپرلکھاگیا۔ اسلام اور اقبال -ایک گفتگو اسلام اور اقبال کا تعلق بہت پہلو دار، گہرا اور فکر اقبال کی تمام سطحوں تک پھیلا ہوا ہے اور ان کے لفظ۔ومعنی کے پورے نظام اور علامات و مفاہیم کی ساری جہات پر محیط ہے۔ یہ نری لفظیات کا معاملہ بھی نہیں ہے جیسا کہ ہمیں ان کے معاصر یا بعد کے اکثر شعرا کے ہاں نظر آتا ہے جو اپنے الفاظ و علامات تو اسلامی روایت سے مستعار لیتے ہیں مگر مفہوم و معانی کی سطح پر ان میں من مانی تبدیلی کردیتے ہیں۔ اقبال کے ہاں سارے بنیادی تصورات کا خمیر اسلام سے اُٹھا ہے اور ان کے ہر تصور کی آبیاری اسی سے ہوتی ہے۔ وہ ہر پہلو سے ایک دینی مفکر اور اسلامی شاعر ہیں۔ اسلام اور اقبال کو موضوع بنانا ایسا ہی ہے جیسا کسی نظام کی روح پر گفتگو کی جائے، اس کی بنیاد اور پس منظر کا جائزہ لیا جائے اور اس کے سارے اجزا کی معنویت پر تبصرہ کیا جائے۔ ان مختصر گزارشات میں ہم اسلام کے حوالے سے علامہ کے بنیادی تصورات کی طرف اشارہ کرنے کے ساتھ وہ اصول قدرے تفصیل سے بیان کریں گے جن سے اقبال کا تصور اسلام تشکیل پاتا ہے اور یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ اسلام نے علامہ کے پورے فکری تناظر کی صورت گری کیوں کر کی ہے۔ ۱۹۳۰ء میں علامہ نے اپنے بارے میں یوں کہا تھا:۱؎ I have given 12 best part of my life to a careful study of Islam, its law and polity, its culture, its history and its literature. This constant contact with the spirit of Islam, as it unfolds itself in time, has, I think, given me a kind of insight into its significance as a world fact. طویل عرصۂ تحقیق و مطالعہ سے جنم لینے والی اس نظر (insight) کو جانچنے کا ایک مستند طریقہ یہ ہے کہ علامہ کے مجموعی کام کو تین حصوں میں بانٹ کر دیکھا جائے: ان کا تصورِ انسان کیا ہے، تصورِ کائنات کیا ہے اور تصورِ خدا کیا ہے؟ اس طرح ہم علامہ کی فکر اور تخیل کے مرکز تک پہنچ سکتے ہیں اور اس کی روشنی میں وہ اندرونی عمل (psychodynamics) بھی گرفت میں آجاتا ہے جو فکر میں وحدت اور کلیت پیدا کرتا ہے۔ تلاش کے اس زاویے کی طرف رہنمائی بھی اقبال نے خود ہی کی ہے۔ دیگر بہت سے مقامات کے علاوہ تشکیل جدید کے آغاز ہی میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:۲؎؎ What is the character and general structure of the universe in which we live? Is there a permanent element in the constitution of this universe? How are we related to it? What place do we occupy in it, and what is the kind of conduct that befits the place we occupy? These questions are common to religion, philosophy, and higher poetry. اس عبارت میں اقبال نے اپنی کائنات فکر کا خاکہ پیش کر دیا ہے۔ وہ کائنات جس کا کچھ حصہ نثر میں ہے اور باقی نظم میں۔ انسان کیا ہے کائنات کیا ہے، خدا سے ان کا کیا تعلق ہے؟ چیست عالم، چیست آدم، چیست حق؟۳؎؎ یہی وہ سوالات ہیں جن کا علامہ اقبال اپنی نظم و نثر میں جواب دیتے نظر آتے ہیں کہ بڑی شاعری انسان کے انھی بنیادی سوالات سے سروکار رکھتی ہے۔ علامہ ان سوالات کا جواب دین سے اخذ کرتے ہیں، فلسفے کی روشنی میں اس کی تعبیر کرتے ہیں اور شعری اسلوب میں بیان کرتے ہیں۔ یوں کہیے کہ تعبیر حقائق اور بیانِ حقائق کو حسنِ اظہار کی اعلیٰ ترین سطح سے ادا کرتے ہیں۔ یہ وہ سطح شعور ہے جہاں آکر شاعری اور حکمت و دانش گھل مل جاتے ہیں اور شاعر یہ کہ۔َ۔ سکتا ہے کہ ’’بہ جبریل امین ہمداستانم‘‘۴؎؎ یا ’’شاعری ہم وارث پیغمبری است‘‘۔۵؎؎ اُردو اور فارسی میں علامہ اقبال اس بلند ترین سطحِ شعور اور حکیمانہ شاعری کی روایت کے امین اور شعر حکمت کا آخری بڑا اظہار نظر آتے ہیں۔ جب وہ کہتے ہیں کہ: ہے ذوق تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں غافل تو نرا صاحب ادراک نہیں ہے۶؎ یا وجود حضرت انسان نہ روح ہے نہ بدن۷؎؎ یا عرش معلی سے کم سینۂ آدم نہیں گرچہ کفِ خاک کی حد ہے سپہر کبود۸؎؎ یا نقطہ نوری کہ نام او خودی است زیر خاک ما شرار زندگی است۹؎؎ یا عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے۱۰؎ یا خاکی و نوری نہاد بندۂ مولا صفات۱۱؎ یا خودی را از وجود حق وجودے خودی را از نمود حق نمودے نمی دانم کہ این تابندہ گوہر کجا بودی اگر دریا نبودے۱۲؎ تو وہ اسلام کے تصورِ انسان کا بیان کررہے ہیں۔ اسی کو تشکیل جدید میں سمیٹ کر یوں کہتے ہیں کہ:۱۳؎ The ultimate spiritual basis of all life, as conceived by Islam, is Man, therefore, in whom egohood has reached its relative perfection, occupies a genuine place in the heart of Divine creative energy, and thus possesses a much higher degree of reality than things around him. Of all the creations of God he alone is capable of consciously participating in the creative life of his Maker. بالِ جبریلکی پہلی غزل نہ صرف اس بلند آہنگ تصورِ انسان کو ایک کائناتی سیاق و سباق میں کھولتی ہے بلکہ اقبال کے تصورِ کائنات اور تصورِ خدا کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔ تصورِ کائنات اور تصورِ الٰہ کے سلسلے میں جب وہ ظہور کائنات اور فطرت الٰہیہ میں داعیۂ تخلیق کے بارے میں کہتے ہیں کہ: نگہ پیدا کر اے غافل تجلی عین فطرت ہے کہ اپنی موج سے بیگانہ رہ سکتا نہیں دریا۴؎۱ یا بلند زور دروں سے ہوا ہے فوارہ۱۵؎ یا سلسلۂ روز و شب ساز ازل کی فغاں جس سے دکھاتی ہے ذات زیر و بم ممکنات۱۶؎؎ یا تو شاخ سے کیوں پھوٹا میں شاخ سے کیوں ٹوٹا اک جذبۂ پیدائی اک لذت یکتائی۱۷؎ یا یہ ہے خلاصہ علم قلندری کہ حیات خدنگ جستہ ہے لیکن کماں سے دور نہیں۱۸؎؎ تو یہاں اسلام ہی کے بنیادی تصورات بیان ہورہے ہیں۔ دوسری طرف تشکیل جدیدمیں تصورِ خدا، خدا اور کائنات کے تعلق کے پھیلے ہوئے مباحث دیکھیے۔ یہ سب اسلام کے تصورِ خدا اور تصورِ کائنات کا بیان ہیں۔ اقبال کا تصورِ کائنات ان کے تصورِ انسان ہی کا ایک حصہ ہے۔ کائنات، انسان کے سفر تکمیل کا پہلا مرحلہ ہے۔ جیسا کہ ’’ساقی نامہ‘‘ کے آخری بند میں فرماتے ہیں: یہ عالم، یہ ہنگامۂ رنگ و صوت یہ عالم کہ ہے زیر فرمان موت یہ عالم، یہ بت خانہ چشم و گوش جہاں زندگی ہے فقط خورد و نوش خودی کی یہ ہے منزل اوّلیں مسافر! یہ تیرا نشیمن نہیں تری آگ اس خاک داں سے نہیں جہاں تجھ سے ہے، تو جہاں سے نہیں بڑھے جا یہ کوہ گراں توڑ کر طلسم زمان و مکاں توڑ کر خودی شیر مولا، جہاں اس کا صید زمیں اس کی صید، آسماں اس کا صید جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود کہ خالی نہیں ہے ضمیر وجود ہر اک منتظر تیری یلغار کا تری شوخیِ فکر و کردار کا یہ ہے مقصد گردش روزگار کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار۱۹؎ اقبال کے لیے کائنات کا بنیادی مصرف یہ ہے کہ انسان کی تکمیل میں صرف ہوجائے۔ اس کے موجود ہونے کی تمام بنیادیں انسان کی اُس صلاحیت سے وابستہ بلکہ مشروط ہیں جو انسان کو اپنی تکمیل کے لیے ودیعت کی گئی ہیں۔ آدمی سے غیر متعلق ہو کر کائنات کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ حق بات کو لیکن میں چھپا کر نہیں رکھتا تو ہے، تجھے جو کچھ نظر آتا ہے، نہیں ہے۲۰؎ علامہ کی نظم و نثر سے اس بات کی تائید کے لیے اقتباسات کا ایک انبار لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا تصورِ انسان ہو یا تصورِ کائنات معاصرانہ مباحث سے پوری طرح متعلق ہونے کے باوجود ان کا کوئی ایک جز بھی ایسا نہیں ہے جس کی سند اسلام کے بنیادی متون سے نہ پیش کی جاسکے۔ قرآن کا مطلوبہ انسان اور مطلوبہ کائنات گویا انسانوں کے بدلے ہوئے ماحول میں اقبال کی زبان سے ایک نئی ترجمانی کے عمل سے گذرتی ہے۔ انسان اور کائنات کے بارے میں سوچتے ہوئے ذہن کا دینی حدود میں رہنا ایک مشکل کام ہے۔ اقبال نے جب اس مشکل کام کو انجام دے لیا تو ظاہر ہے کہ خدا کی نسبت سے بھی ان کے تصورات لازماً اسلامی ہی ہوں گے، البتہ یہ بات ضرور سامنے رہنا چاہیے کہ علامہ کے ہاں خدا کا تصور ایک سخت گیر حاکم کا سا نہیں ہے بلکہ وہ خدا کو انسانی تمنائوں اور اُمیدوں کا منتہا سمجھتے ہیںاور اس جہت کو الوہیت کے ماننے سے پیدا ہونے والی دوسری جہت پر ترجیح دیتے ہیں۔ مختصر یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ان کا تصورِ خدا اللہ کے ساتھ تعلق کی بنیاد پر زیادہ استوار ہے وہ جہاں بھی خدا کے بارے میں کلام کرتے ہیں وہاں تعلق کا پہلو دیگر پہلوئوں پر غالب ہوتا ہے۔ کرا جوئی چرا در پیچ و تابی کہ او پیدا ست تو زیر نقابی تلاش او کنی جز خود نبینی تلاش خود کنی جز او نیابی۲۱؎ اس مشہور قطعے کو بعض حضرات نے کسی اور معنی میں لیا ہے۔ وہ معانی بھی درست ہوسکتے ہیں لیکن اس کامرکزی خیال انسان اور خدا کے تعلق کی اس حقیقت پر مشتمل ہے جس کی بنیاد پر انسان کا غیر حقیقی نہ ہونا آخری درجے میں ثابت ہوتا ہے۔ یہ بات بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ اقبال نے اسلام کو ہر اس تناظر سے دیکھا جو کسی حقیقت کو تسلیم کرنے کے عمل میں کوئی کردار ادا کرسکتا ہے۔ مثلاً فلسفیانہ تناظر، مابعد الطبیعی تناظر، اخلاقی تناظر، سائنسی تناظر، تہذیبی تناظر وغیرہ۔ دین خصوصاً ایمانیات کے معاملے میں اقبال تطبیقی روّیہ رکھتے ہیں۔ یعنی متداول اور مروّج علمی تحقیقات کو ملا کر انھیں مذہب کی تائید میں استعمال کرنے کا روّیہ۔ اس سے مسائل بھی پیدا ہوئے مگر جدید ذہن کو دین سے لاتعلق نہ ہونے دینے کے لیے یہ طریقہ مؤثر ثابت ہوا۔ نئی ترجمانی (restatement) اسلام اور اقبال کے تعلق کا ایک نہایت ہی اہم پہلو ہے۔ اسلام کے حوالے سے علامہ نے جو ایک اہم کارنامہ انجام دیا وہ جدید ذہن، آج کے خوگر محسوس انسان کے لیے اسلام کے تصورِ دین، انسان، کائنات اور تصورِ الٰہ کی تعبیر نو کا کام ہے یعنی ( restatement) ع خود جلیں دیدۂ اغیار کو بینا کردیں۲۲؎ وہ لوگ جو اپنی تعلیمی اور فکری پس منظر کی وجہ سے اسلام کی دینی اور فکری اکائی سے کٹ گئے ہوں ان تک اسلام کے تصورِ حقیقت کا ابلاغ اور بنیادی تصورات کا اس طرح بیان جو ان کے لیے سمجھنا ممکن ہو اور آسان تر ہو۔ یہ ہے وہ کام جو علامہ نے ہمارے زمانے میں سب سے نمایاں اور منفرد انداز میں کرکے دکھایا۔ زبان، اندازِ بیان اور طرزِ کلام بھی وہ برتا ہے وہ جدید ذہن کے لیے مانوس ہے اور مخاطب کی معلومات اور مسلمات فکر کی رعایت بھی رکھی گئی ہے، نیز اس عمل کے دوران ان شبہات اور اعتراضات کا جواب بھی فراہم کردیا گیا ہے جو جدید ذہن کی طرف سے اسلام پر کیے تھے۔ ان کے خطبات اس کاوش کا بہترین نمونہ ہیں اور اسلام کی بہترین فکری روایات اور اس کا روشن چہرہ ہمارے سامنے لے آتے ہیں۔ اب اگر ساری بحث کا خلاصہ کیجیے تو کچھ یوں ہوگا کہ: ۱- علامہ کے پورے نظامِ فکر اور لفظ و معنی کے سارے سلسلے کی صورت گری اسلام سے ہوئی ہے۔ ۲- وہ اپنے شعری اور نثری افکار میں اسلام کے تصورِ کائنات، تصورِ انسان اور تصورِ خدا کو ایک اعلیٰ علمی سطح اور دلنشین انداز بیان کے ذریعے ہم تک منتقل کرتے ہیں اور ۳- جدید آدمی کو ان تصورات کے فہم میں جو دشواریاں ہوتی ہیں ان کو اپنی تحریروں سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ --------- سوال، جواب س :۱ آپ نے فرمایا کہ اقبال کے تمام خیالات و تصورات کا سرچشمہ اسلام یعنی قرآن و سنت ہے۔ الفاظ تو یہ نہیں تھے مگر مفہوم یہی تھا۔ یہاں میں اپنی ایک مشکل پیش کرنا چاہتا ہوں اقبال نے خطبات میں بھی اور شاعری میں بھی، متعدد مقامات پر آدمی کو اللہ کاہم کار قرار دیا ہے۔ کیا یہ خیال اسلامی ہے؟ ج:۱ بہت اچھا سوال ہے۔ آپ نے بے شمار لوگوں کی ترجمانی فرما دی ہے۔ جواب یہ ہے کہ انسانی کمالات کے اصول الوہی ہیں۔ یعنی انسان کا ہر کمال جس نسبت کی بنیاد پر کمال ہے، وہ نسبت ربانی ہے۔ اقبال نے اسی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے آدمی کو خدا کا ہم کار کہا ہے۔ دوسرے یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ انسان کا بڑا مقصد یہی ہے کہ وہ اللہ کے مقاصد تخلیق کی تکمیل کا ذریعہ بنے۔ علامہ نے انسان کی اس حیثیت کو بھی اس طرح کے پرشکوہ بیانات میں ظاہر کیا ہے۔ ان دو باتوں کے علاوہ قانونی انداز اختیار کرکے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ خدا کے رنگ میں رنگ جانے اور اللہ کے اخلاق میں ڈھل جانے کی ذمہ داری کہاں سے ثابت ہوتی ہے؟ ظاہر ہے کہ قرآن و سنت سے۔ ان مطالبات سے جو مفہوم اور جو نتیجہ برآمد ہوتا ہے، علامہ اسی کو خدا کی ہم کاری کَہ رہے ہیں۔ س:۲ علامہ اقبال نے وحدت اُمت پر بہت زور دیا ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ یہ وحدت سیاسی ہے یا اس کی بنیاد کسی اور اصول پر ہے؟ اور کیا وہ اصول وحدت، مسلمان ملکوں میں سیاسی اتحاد نہ ہونے کی صورت میں بھی مؤثر رہتا ہے؟ ج:۲ یہ وحدت اپنی اصل میں سیاسی نہیں ہے بلکہ دینی اور ایمانی ہے۔ سیاسی اتحاد اس وحدت کو مضبوط تو کرسکتا ہے، اس کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمان ملکوں میں سیاسی اتحاد قائم نہ ہوسکے تو بھی اُمت کی وحدت اپنی اصل کے ساتھ برقرار رہتی ہے۔ س:۳ اقبال کے تصورِ اسلام میں وہ کیا خاص بات ہے جو انھیں دوسرے اسلامی مفکرین سے ممتاز بناتی ہے؟ ج:۳ ان کا تصورِ انسان اور نظریہ خودی اس پہلو سے اقبال مسلمانوں کی فکری روایت میں ایک امتیازی اور انفرادی حیثیت رکھتے ہیں اور اگر دین کی تعبیر کے پہلو سے دیکھیے تو ان کی امتیازی حیثیت یہ ہوگی کہ دوسرے مفکرین کے مقابلے میں ان کے فکری وسائل وسیع تر اور کامل تر تھے، مغربی تہذیب سے براہِ راست شناسائی میسر تھی اور مغربی فکر و فلسفہ پر ایک گیرائی اور گہرائی کے ساتھ دسترس میسر تھی۔ س:۴ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اقبال کا مردِ مومن، جرمن فلسفی نٹشے کے سپرمین کا چربہ ہے۔ آپ کچھ روشنی ڈالیے کہ یہ الزام صحیح ہے یا غلط؟ ج:۴ یہ بڑی کم نظری کی بات ہے۔ اس کی تردید میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ سردست اتنی بات سمجھ لیجیے کہ نٹشے کا سپرمین اخلاقیات کا دشمن ہے جب کہ مردِ مومن اخلاقیات کا معمار ہے۔ یہی فرق اتنا بڑا ہے کہ اس الزام کی لغویت ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ نیز اقبال نے خود بھی اپنے خطوط میں اور بعض ناقدین کے جواب میں اس بات کی وضاحت سے تردید کی ہے۔ س:۵ ہماری صورت حال، اقبال کے زمانے سے بہت مختلف ہے۔ آپ فرمائیں کہ اس بدلی ہوئی صورت حال میں اقبال کا تصورِ اسلام خصوصاً تصور اُمت ہمیں کس طرح کی رہنمائی فراہم کرسکتا ہے؟ ج:۵ مختصراً یوں سمجھ لیجیے کہ اقبال کا تصورِ اُمت، قوم پرستی اور علاقائیت کی تردید پر کھڑا ہے۔ یہ دونوں امراض آج بھی ہمیں اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔ ہم ان کا علاج اقبال کی مدد سے کرسکتے ہیں۔ س:۶ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اقبال کی شاعری جارحانہ جذبات پیدا کرتی ہے۔ یہی جارحانہ جذبات دہشت گردی کا سبب ہیں۔ آپ اس پر کیا فرمائیں گے؟ ج:۶ یہ ایک بے سروپا بات ہے۔ اقبال کی شاعری جارحانہ جذبات نہیں بلکہ احساس عظمت پیدا کرتی ہے۔ آپ خود سوچیے کہ جو شخص ساری عمر یہ کہتا رہا کہ: آدمیت، احترامِ آدمی باخبر شو از مقام آدمی۱۳؎ کیا وہ جارحانہ جذبات کو ہوا دے گا؟ اور جس کا حتمی پیغام یہ رہا ہو کہ حرف بد برلب آوردن خطاست کافر و مومن ہمہ خلق خداست بندہ عشق از خدا گیرد طریق می شود بر کافر و مومن شفیق۲۴؎ کیا وہ تشدد کی ترغیب دے گا؟ یوں تو علامہ اقبال کی پوری شخصیت مذہبی رواداری تحمل اور افہام و تفہیم کی روشن مثال ہے اور ان کے احباب میں ہندو، عیسائی، سکھ اور پارسی بھی شامل تھے اور ان کے کلام نظم و نثر میں اس پر بہت واضح رویہ۔ّ۔ نظر آتا ہے جو دیگر ادیان کو ان کا جائز حق دینے اور ان کو معاشرے میں عزت واحترام اور بقائے باہمی کی حیثیت دینے سے عبارت ہے لیکن میں ان کا ایک اقتباس آپ کو سنا دیتا ہوں جو خطبہ الٰہ آباد سے ہے:۲۵؎ A community which is inspired by feelings of ill-will towards other communities is low and ignoble. I entertain the highest respect for the customs, laws, religous and social institutions of other communities. Nay, it is my duty, according to the teachings of the Quran, even to defend their places of worship, if need be. Yet, I love the communal group which is the source of my life and behavior, and which has formed me what I am by giving me its religion, its literature, its thought, its culture, and thereby recreating its whole past as a living operative factor, in my present consciousness. ئ…ئ…ء حواشی 1- Latif A. Sherwani (Ed), Speeches, Writings and Statements of Iqbal, Iqbal Academy Pakistan, Lahore, 1995, p. 3. 2- Muhammad Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam, Iqbal Academy Pakistan, Lahore, 1986, p.1. ۳- اقبال، ’’زبورِ عجم‘‘، کلیات اقبال(فارسی)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۹۴ئ، ص،۵۱۰۔ ۴- ایضاً، ص،۴۳۰۔ ۵- ایضاً، ص،۵۱۷۔ ۶- اقبال،’’بال جبریل‘‘،کلیات اقبال(اُردو)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۹۴ئ، ص،۳۶۹۔ ۷- ایضاً،’’ضرب کلیم‘‘، ص،۵۷۰۔ ۸- ایضاً،’’بال جبریل‘‘، ص،۴۲۲۔ ۹- اقبال، ’’اسرار خودی‘‘،کلیات اقبال(فارسی)، ص،۳۷۔ ۱۰- اقبال، ’’بانگِ درا‘‘،کلیات اقبال(اُردو)، ص،۳۰۵۔ ۱۱- ایضاً،’’بال جبریل‘‘، ص،۴۲۴۔ ۱۲- اقبال، ’’پس چہ باید کرد‘‘کلیات اقبال(فارسی)، ص،۸۵۰۔ ۱۳- اقبال، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، محولہ بالا (نوٹ:۲) ص،۵۸؛ نیز دیکھے ص ،۶۴۔ ۱۴- اقبال، ’’بال جبریل‘‘، کلیات اقبال(اُردو)، ص،۳۵۹۔ ۱۵- اقبال، ’’ضرب کلیم‘‘، کلیات اقبال(اُردو)، ص،۶۳۸۔ ۱۶- اقبال، ’’بال جبریل‘‘،کلیات اقبال(اُردو)، ص،۴۱۹۔ ۱۷- ایضاً، ص،۴۴۹۔ ۱۸- ایضاً، ص،۳۸۰۔ ۱۹- ایضاً، ص ،۴۵۶-۴۵۷۔ ۲۰- اقبال ،’’ضرب کلیم‘‘، ،کلیات اقبال(اُردو)، ص،۵۵۰۔ ۲۱- اقبال، ،’’پیام مشرق‘‘، کلیات اقبال(فارسی)، ص،۲۲۳۔ ۲۲- اقبال، ،’’بانگ درا‘‘، کلیات اقبال(اُردو)، ص،۱۴۲۔ ۲۳- اقبال، ،’’جاوید نامہ‘‘، کلیات اقبال(فارسی)، ص،۶۷۳۔ ۲۴- ایضاً، ص،۶۷۳۔ ۲۵- شیروانی، محولہ بالا، (نوٹ:۱)، ص،۹۔ ئ…ئ…ء اقبال اور پاکستان جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اکثر اوقات کسی چیز کی تکرار اسے بے معنی بنا دیتی ہے، اقبال اور پاکستان کے حوالے سے عالم طور پر جو باتیں بار بار دہرائی جاتی ہیں، ان میںسے بیشتر کا یہی حال ہے۔ وہ ساری باتیں صحیح ہیں، مبنی بر صداقت ہیں، ناقابل انکار واقعیت رکھتی ہیں، مگر اس کا کیا کیا جائے کہ ان میں وہ تاثیر یا تو ماند پڑ گئی ہے یا سرے سے مفقود ہے جو مخاطب کے اندر ایک شدید لپک پیدا کر دیتی ہے، اسے روشن اور متحرک کر دیتی ہے۔ اس بے تاثیری کے یقینا اسباب ہوں گے، تاہم سردست ہمیں جس سبب کی نشان دہی کرنی ہے، اس کی نوعیت نیم نفسیاتی اور نیم عمرانی ہے۔ ہمارے لیے تاریخ، زندگی کی معنوی اور مجموعی پیشرفت کے مسلسل اظہار کا نام نہیں رہی۔ ہم اسے چند منجمد واقعات کا بیان سمجھنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ ماضی کا تسلسل قومی زندگی میں تاریخی استناد اور معنوی تحرک پیدا کرتا ہے اور حال کو انسانی مقاصد کے تابع رکھتا ہے۔ ویسے بھی حال اگر ماضی کی سمائی نہیں رکھتا تو اس کا تعلق انسانی زمانے سے نہیں ہو سکتا۔ ہم اس تسلسل کے آگے دیواریں کھڑی کرتے جا رہے ہیں۔ ہم نے لمحہ موجود کے پھیلائو کواتنا سکیڑ دیا ہے کہ سانس لینا بھی مشکل ہو گیا ہے: ایسی تنہائی ہے حُسنِ تام یاد آتا نہیں ایسا سناٹا کہ اپنا نام یاد آتا نہیں تاہم اس گفتگو سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہ ہو گا کہ حال ، ماضی کا محض ایک چربہ ہے، ہر گز نہیں۔ میں جو کہنا چاہتا ہوں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ماضی سے کٹ کر قومی زندگی کی ترقی اور بقا کے اسباب معدوم ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ماضی سے تعلق میںایسی غیر حقیقی شدت داخل کر دی جائے کہ آدمی کی ضروری آزادی سلب ہو جائے اور وہ تخلیقی گہرائی جو زندگی میں برپا ہونے والے تغیرات کا انکار کیے بغیر انھیں شعور اور ارادے کی گرفت سے باہر نہیں جانے دیتی، ایک بے لچک سطحیت میں بدل جائے۔ ماضی ، تاریخ کے بہائو میں قدم جمائے رکھنے کی جگہ فراہم کرتا ہے اور ہمیں وہ اصول منتقل کرتا ہے جن کی مدد سے ہم ہر طرح کے عملی تنوع کو ان نظریاتی حدود میں رکھ سکتے ہیں جنھیں نظر انداز کر کے کوئی قوم اپنے تشخص کی حفاظت نہیں کر سکتی۔ تنقیدی سطح پر ہی سہی ، مگر گزرے ہوئے کل سے مربوط رہنے کا عمل آنے والے کل کو ساز گار بناتا ہے۔ مستقبل ہمیشہ ماضی کے سورج سے روشن ہوتا ہے۔ ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ تاریخ کو اجتماعی تجربے کے طور پر محفوظ نہ رکھ سکنے کی وجہ سے ہماری فکر اور طرز احساس میںلمحاتی پن در آیا ہے۔ ہمارے تصورات و محسوسات اُتھلے اور اکہرے ہو گئے ہیں۔ ہم کسی خیال اور کسی احساس کی دور تک اور دیر تک نگہداشت نہیں کر سکتے تاوقتیکہ اس میں) (profanity نہ پائی جائے۔ یہ ایسی صورت حال ہے جو آدمی کو اس کے ہر سیاق و سباق سے منقطع کر سکتی ہے۔ یہی وہ تنہائی ہے جس میں حسنِ تام ، یعنی آدرش اور آئیڈیل فراموش ہو جاتا ہے اور یہی وہ سناٹا ہے جس میں نام یعنی اپنی شناخت یاد نہیں رہتی۔ اقبال نے اور کیا کیا تھا، ہمیں حسنِ تام اور ہمارا نام ہی تو یاد دلایا تھا۔ تمہید میں اتنا لمبا رونا اس لیے رویا ہے کہ اقبال ایسی ہستی بھی ہمارے زندہ تعلق کے دائرے سے تقریباً خارج ہو چکی ہے۔ ہمارے تمام بنیادی رویے، خواہ ان کا سوتا ذہن سے پھوٹتا ہو یا طبیعت سے، ایک ایسی بناوٹ اختیار کرتے جا رہے ہیں کہ جسے مکمل ہونے سے نہ روکا گیا تو یہ بات بالکل یقینی ہے کہ ہمارا داخلی و خارجی(set-up)کچھ اس طرح منقلب ہو جائے گا جس میں بہت سے چیزیں غیر متعلق اور نامطلوب ہو کر رہ جائیں گی۔ خود اقبال بھی۔ اقبال کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے ہمارے طرز احساس اور طریق فکر کو ان اقدار و مقاصد سے ہم آہنگ کیا جن سے صرف نظر کر کے ہم صحیح معنوں میں موجود ہونے کے اہل نہیں ہو سکتے۔ انھوں نے تاریخ کے ایک ایسے اصول کی بازیافت کی جسے اور تو اور شپنگلر بھی نہیں سمجھ سکا تھا اور وہ اصول یہ ہے کہ تاریخ اپنی روح میں جس حرکت سے عبارت ہے، وہ حرکت دراصل منتقلی کے اس عمل کی اساس ہے جس کے ذریعے زندگی اپنی بنیادی ہئیتوںکو ایک دائمی تواتر کے ساتھ محفوظ رکھتی ہے۔ گویا تاریخ ، وقت پر انسان کی فتح کا نام ہے۔ مگر افسوس یہ تلوار ہمارے ہاتھ میں آ کر کند ہو چکی ہے۔ ایک زمانے میں ہمارا اجتماعی شعور چیزوں کو محض ایک سیاسی تناظر میں دیکھنے کا عادی ہو چکا ہے جسے ہم نے ان قوموں سے اخذ کیا ہے جو ہماری نظر میں ترقی یافتہ ہیں۔ تاہم ، لطف کی بات یہ ہے کہ جن اقوام سے یہ بیماری ہمیں لگی تھی، وہ کب کی شفایاب ہو چکی ہیں۔ ۱۹۷۰ء کے بعد سے یورپ اور امریکہ میں اس (politicism)کا قریب قریب خاتمہ ہو چکا ہے جو ایک ادھوری، تنگ اور اُتھلی حالت میں اب تک ہم پر مسلط ہے۔ زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح سیاست میں بھی ہم ارادہ وشعور کی نصب العینی کلیت اور عملی معاملات کو کسی بڑے وژن اور مقصد سے ہم آہنگ رکھنے کی صلاحیت سے بڑی حد تک محروم ہو چکے ہیں۔ جس عالمی صورت حال کا ہم ایک حصہ ہیں یا بننے والے ہیں، اس کے ادراک کے لیے صرف اخبار پڑھ لینا اور بی بی سی سن لینا کافی نہیں ۔ اس طرح کچھ واقعات کی اطلاع تو مل جاتی ہے لیکن ان کے پیچھے ہر آن متغیر محرکات کی جو تیز رو چل رہی ہے وہ گرفت میں نہیں آتی۔ بلکہ آ بھی نہیں سکتی، کیونکہ جو ’’لا تاریخی ‘‘ ، ’’لا انسانی‘‘ انتشار اس کا منبع ہے، اسے سمجھنے یا سمجھ سکنے کا انسانیت کو کوئی تجربہ نہیں۔ اقبال کے زمانے تک بلکہ قیام پاکستان کے بہت بعد تک حالات ایک عملی منطق پر چل رہے تھے۔ بنائو کی صورتیں بھی واضح تھیں اور بگاڑ کی بھی۔ چیزیں اگر اپنی جگہ سے ہٹتی بھی تھیں تو کم از کم اس جگہ کی نشاندہی آسان تھی۔ گر کے اٹھنا ابھی ممکن تھا اور موثراتِ حیات ہماری گرفت سے باہر نہیں ہوئے تھے۔ اقبال سے ذرا پیچھے جا کر دیکھیں تو سر سید کے دور میں مسلمان جس صورت حال سے دوچار تھے، اس میں ان کی اپنی انا کا مسئلہ بہت شدت کے ساتھ موجود نہیں تھا۔ عالم اسلام میں اپنے دین کے ساتھ وابستگی کا وہ پھیلائو، مضبوطی اور گرم جوشی شاذ تھی جو برصغیر کے مسلمانوں کا خاصہ تھا۔ پھر یہ فخر بھی انھی کے حصے میں آیا کہ ایک لمبے عرصہ غلامی میں اسلام سے دست کشی تو کجا، الٹا اس کے پھیلائو میں اضافہ کرتے رہے۔ ورنہ ’’ترکمان سخت کوش‘‘ اور ’’مجاہد ترکی‘‘ کا جو حشر ہوا، اسے دیکھنے کے لیے نئی آنکھیں بنوانے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں نہایت باریک بینی کے ساتھ اپنے اجداد کی اس حکمت عملی کا جائزہ لینا چاہیے جس کی وجہ سے ہندوستان ، مسلمانوں کے ایک بڑے حصے کے لیے وسطِ ایشیا بننے سے محفوظ رہا۔ وہ حکمتِ علمی جس کا ایک حصہ قیام پاکستان کی صورت میں ظاہر ہوا: اپنے کچھ فکری اور کرداری نمونوں کی روشنی میں خود بخود سمجھ میں آ جاتی ہے۔ مثلاً مثلامجدد الف ثانی، اورنگ زیب، شاہ ولی اللہ، سید احمد شہید، شاہ اسمعٰیل شہید، سر سید، اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح۔یہ مسلمانان برصغیر کے وہ تاریخی ماڈل ہیں جنھوں نے ہند میں اسلامی تہذیب کی فکری، معاشرتی ،سیاسی اور نفسیاتی جہات کو نہ صرف یہ کہ قوت اور تحفظ فراہم کیا، بلکہ روح عصر سے ہم آہنگ بھی رکھا۔ ان میں سے ہر شخص اپنی جگہ بانی پاکستان ہے۔ قائد اعظم اور اقبال کو ایک سہولت یہ حاصل تھی کہ ان دونوں کی پشت پر وہ تکمیل یافتہ روایت تھی جس نے مسلمانوں کی قومی بقا کے تقریبا سبھی اسباب اور امکانات کی نشان دہی کر دی تھی۔ اقبال نے ان اسباب و امکانات کو ایک ٹھوس تصور میں ڈھال کر مسلم سائیکی کے لیے قوت محرکہ بنا دیا، جبکہ قائد اعظم نے اس زندہ تصور کو تاریخ میں مجسم کر کے گویا اس کی تصدیق مہیا کر دی۔ خدا وہ وقت بھی لائے کہ جب ہم بلند ترین فلسفیانہ معیار پر قائد اعظم کی بصیرت کا تجزیہ کرنے کے قابل ہو سکیں۔ فی الحال تو ان پر سیاسی مورخوں کا ہی اجارہ ہے۔ خیر یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا، مجھے اس گفتگو کو یہاں پہنچانا تھا کہ اقبال نے اپنے پیشروئوں کے کام کو اس طرح مکمل کیا کہ تبدیل شدہ صورت حال ،جو داخلی بھی تھی اور خارجی بھی ، کا احاطہ ہو گیا اور مسلمانوں کے تشخص کی ہر سطح ایک نسبتہً وسیع اور پیچیدہ بین الاقوامی تناظر میںنئے سرے سے اجاگر ہو گئی۔ اپنے تشخص کو برقرار رکھنے کی لگن ہی حصول آزادی کا سب سے بڑا محرک تھا اور ہم میں یہ لگن اقبال نے پھونکی تھی اور پھر اس آزادی کامطلب محض اتنا سا نہیں تھا کہ دنیا کے نقشے میں دو ڈھائی انچ جگہ گھیر کر بیٹھ رہا جائے۔ نظریے کو عمل بنانے کاغیر مشروط اختیار حاصل کیے بغیر آزادی کے کوئی معنی نہیں۔ جن لوگوں نے علامہ کے خطبات کا مطالعہ کیا ہے وہ اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ اسلام کی بنیادی ترکیب میں تاریخیت ایک اہم عنصر ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے ماضی ہمیشہ زندہ بلکہ حال اور مستقبل پر غالب حقیقت کی حیثیت سے موجود رہا ہے۔ اس لیے زمان ، مکان اور عروج و زوال کے بارے میں ان کے تصورات کو کسی بیرونی حوالے سے نہیں سمجھا جا سکتا۔ ان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے یا تھا کہ اسلام من حیث الکل کے تاریخی تواتر کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ آنے دی جائے۔ وہ رکاوٹ چھوٹی ہو کہ بڑی ،مقامی ہویا کائناتی۔ یہی وہ روح ہے جو انھیں زمانے کی ہر لہر میں بہ جانے سے روکتی ہے ، خواہ ان کو پورا یقین ہو کہ یہ لہر ہمیں خوشحالی اور آسودگی کے ساحلوں تک لے جائے گی۔ اقبال کی شاعری میں بھی یہ اصول کئی طرح سے بیان ہوا ہے: اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے جائے تو احکام حق سے نہ کر بے وفائی یہ کافری تو نہیں، کافری سے کم بھی نہیں کہ مردِ حق ہو گرفتار حاضر و موجود یہ بندگی خدائی، وہ بندگی گدائی یا بندئہ خدا بن، یا بندئہ زمانہ یاد عہدِ رفتہ میری خاک کو اکسیر ہے میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے سامنے رکھتا ہوں اس دورِ نشاط افزا کو میں دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میں پھر سیاست چھوڑ کر داخل حصار دین میں ہو ملک و دولت ہے فقط حفظِ حرم کا اک ثمر دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا یوں تو تحریک حریت ہندوئوں نے بھی چلائی تھی اور شائد مسلمانوں سے بڑھ کر چلائی تھی، مگر ان کا مقصد ہندو اقتدار کا قیام اور ہندوستان کی جغرافیائی وحدت کا تحفظ تھا۔ مسلمانوں کے پیش نظر بالکل مختلف چیز تھی،اپنی نظریاتی بقا اور غلبہ اسلام ۔۔۔ دراصل ہندوستان میں مختلف مذاہب، خصوصاً اسلام کی طاقتور موجودگی سے ہندو مت اپنے اندر ایک لامحدود لچک پیدا کرنے پر مجبور ہو گیا جس کی وجہ سے اس میں قانون کی جہت کمزور ہوتے ہوتے بالکل ہی غائب ہو گئی۔ ظاہر ہے کہ قانون اور تاریخ کو خارج کرکے مابعد الطبیعیات کی تشکیل تو ہو سکتی ہے، دین کی نہیں۔ دوسرے قانون یعنی شریعت کسی دین کے مابعد الطبیعی ڈھانچے کو متوازن رکھتی ہے اور اس میں شدت سے راسخ تعمیم اور بے قیدی کو ایک حد سے آگے بڑھنے نہیں دیتی۔ ہندو مابعد الطبیعیات میں بعض بنیادی ناہمواریاں اسی وجہ سے پیدا ہو ئیں کہ اس میں ایسا توازن باقی نہیں رہا۔ تنز یہی بلندی ہے تو ایسی کہ سانس اکھڑ جائے اور تشبیہی پستی ہے تو ایسی کہ گھن آنے لگے۔ اسی پستی نے ہندوئوں میں دھرتی پوجا کا (cult) پیدا کیا جس کا ظہور ان کی تحریک آزادی میں ہوا۔ یہ بھی ایک مابعد الطبیعی اصول کی بگڑی ہوئی صورت ہے جس کی رو سے مکان حقیقی ہے اور زمان دھوکہ ، ثبات سچ ہے اور تغیر جھوٹ ، تقدیر اٹل ہے اور تاریخ فریب۔ مسلمانوں کو آزادی اس لیے درکار تھی کہ غلامی اور اسلام ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ زندگی اور اس کے تمام پہلوئوں کو اپنے تحت رکھنے کے لیے موانع کی احتمالی بالا دستی بھی اسلام کے لیے ناقابلِ قبول ہے، جبکہ غلامی ، ہلکی یا سخت، جائز و ناجائز کے ایک الگ نظام کی پابندی کا نام ہے۔ اگر وہ نظام، اسلام کے کسی محدود اور مشروط نفاذ کی اجازت دے دیتا تو بھی مسلمان کی غلامی کی نوعیت نہیں بدلے گی۔ کیونکہ اسلام رعایت نہیں ، مطلق حکومت چاہتا ہے۔ ملک بھی اللہ کا اور حکم بھی اللہ کا۔ غلامی و آزادی کی ہر تعریف اسی قول فیصل سے متعین ہوگی۔ یہ ہے تو ہم آزاد ہیں ، ورنہ غلام۔ اسی اصول سے مسلمانوں کے شعور میں ایک ایسی چیز سرایت کر گئی ہے جو پوری زندگی کوارضیت اور اس کے مظاہر سے بلند کر دیتی ہے۔ جہاں میں لذت پرواز حق نہیں اس کا وجود جس کا نہیں جذبِ خاک سے آزاد اسی عالم رنگ و بو میں نہ کھو جا چمن اور بھی، آشیاں اور بھی ہیں دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو عجب چیز ہے لذتِ آشنائی یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند بہار ہو کہ خزاں، لا الہٰ الا اللہ خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زناری نہ ہے زماں نہ مکاں لا الہٰ الا اللہ تحریک پاکستان میں اقبال کے کردار کا تفصیلی بیان میرا موضوع نہیں ہے۔ میں تو یہ عرض کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ آزادی کے جس تصور اور طلب نے پاکستان کی تخلیق کی، اسے اقبال نے بیان میں ڈھالا، اس کی تعبیر پیش کی۔ ’’خطبہ الہ آباد‘‘ میں تقسیم ہند کا مطالبہ محض سیاسی وجوہ سے نہیں کیا گیا تھا، بلکہ اس کے پیچھے اقبال کا پورا تصور انسان کار فرما تھا۔ ان کی نظر میں سیاست ، آدمی کی تمام جہات کا احاطہ نہیں کر سکتی اور آزادی کی کئی سطحیں ایسی ہیں جہاں اس کا گزر نہیں۔ سیاست کامثالی کردار یہ ہے کہ تغیرات میں کسی اٹل نظریے کی بنیاد پر ایک تنظیم پیدا کرکے انھیں انسان کی اس انتظامی صلاحیت کے تابع رکھا جائے جو دنیا وی زندگی میں تحفظ، آزادی اور راحت و آسائش کے ممکنہ اسباب فراہم کرنے کی ذمے دار ہے۔ اپنے ایک مضمون ’’فلسفہ سخت کوشی‘‘ میں اقبال لکھتے ہیں: میرے نزدیک بقا، انسان کی بلند ترین آرزو اور ایسی متاع گراں مایہ ہے جس کے حصول پر انسان اپنی تمام قوتیں مرکوز کر دیتا ہے۔ حصول بقا کے لیے دو باتیں لازمی ہیں مراتب ہستی کے حقیقی شعور کے ساتھ اپنے سے بلند درجات کے سامنے انفعال و مغلوبیت اختیار کرنا اور نیچے کی سطحوں پر غالب آنا۔ انسان کی تمام سرگرمیوں کی طرح سیاست کو بھی اسی محور پر گھومنا چاہیے ورنہ اس کا اور اس کے تمام اداروں کا کوئی جواز نہیں۔ اقبال کے تصور سیاست کو معیار بنا کر اپنا تجزیہ کیا جائے تو فرط ندامت سے سر جھک جاتا ہے۔ قومی زندگی کی ہر سطح پر ہم ایک ہولناک دنیا پرستی میں مبتلا ہیں۔ ذہن کی تمام صلاحیتوں اور ارادے کی ساری قوتوں کا بس ایک ہدف رہ گیا ہے، دنیا ۔ باقی سب چیزیں اگر اس مقصد کے حصول میں معاونت کرتی ہیں تو فبھا، ورنہ ان کا ہماری زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ زندگی کا وہ پھیلائو جس میں دنیا بہت تھوڑی جگہ گھیرتی تھی اب سمٹتے سمٹتے بالآخر غائب ہو چلا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس صورت حال کی ذمہ داری تنہا سیاست پر ہے، البتہ اجتماعی نفسیات میں بنیادی تبدیلیاں لانے والے جن اسباب کا نتیجہ یہ صورت حال ہے ، ان کا بڑا اظہار سیاست ہی میں ہوا۔ ایک نارمل قوم کے لیے سیاست، آزادی کی سائنس ہے۔ مثبت، منظم اور نظریاتی آزادی۔ نارمل قوم سے کوئی آئیڈیل قوم نہیں ، بلکہ ایک ایسی قوم مراد ہے جس میں بنائو اور صحت کے عناصر ، بگاڑ اور مرض کی تمام صورتوں پر حاوی ہوں۔ اس کی کلی ساخت کسی غیر متغیر اصول اور ایسے مستقل مگر متنوع معیارات پر مرتب ہوئی ہو جو کسی بھی تاریخی یا تمدنی صورت حال میں اجنبی ہو کر نہیں رہ جائے۔ یہ نہیں کہ ایسی قوم میں خرابی نہیں پیدا ہو سکتی۔ ضرور ہو سکتی ہے، بلکہ ہوتی رہتی ہے، لیکن اس کی نوعیت عارضی ، جزوی اور سطحی ہوتی ہے، اور اس کے ازالے کی قوت کبھی کمزور نہیں پڑتی ۔ سیاست ،ایک اجتماع و انتظامی سطح پرجو داخلی بھی ہو سکتی ہے اور بین الاقوامی بھی، اسی قوت کا ظہور ہے۔ ایک نظریاتی معاشرے میں جہاں نظریہ،عمل سے نہیں بلکہ علم، نظریے سے پیدا ہوتا ہے، کسی سیاسی نظام اور اس کی کارکردگی کا تجزیہ جن معیارات کی روشنی میں کیا جانا چاہیے ،وہ اپنی غایت کے اعتبار سے دنیا مرکز نہیں ہوتے۔ ایسے معاشروں کا مقصود آدم سازی ہوتا ہے اور ایک موثر معاشرتی قوت کی حیثیت سے سیاست کا کام یہ ہے کہ اس مقصود کے حصول کا وہ راستہ جو دنیاوی زندگی سے ہو کر گزرتا ہے، اسے ہموار رکھے۔ اقبال نے اس اصول کو بھی متعدد پہلوئوں سے بیان کیا ہے: اگر ہندوستان میں مسلمانوں کا مقصد سیاسیات سے، محض آزادی اور اقتصادی بہبودی ہے اور حفاظتِ اسلام اس مقصد کا عنصر نہیں ہے تو مسلمان اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوںگے۔اور اس آزادی سے ہمارا مطلب یہی نہیں کہ ہم آزاد ہو جائیں۔ بلکہ ہمارا اول مقصد یہ ہے کہ اسلام قائم رہے اور مسلمان طاقتور بن جائیں۔ کھویا نہ جا صنم کدئہ کائنات میں محفل گداز! گرمیِ محفل نہ کر قبول جس طرح تاریخ اپنی روح میں وقت اور ’’ابدیت‘‘ کے فاصلے کو کم سے کم کرنے کی کوشش کا نام ہے، اسی طرح معاشرہ بھی دنیا اور آدمی کے درمیان حقیقی طور پر موجود تصادم میں آدمی کو غالب رکھنے کی سعی سے وجود میں آتا ہے۔ کسی معاشرے کا نقص و کمال جانچنے کے لیے یہ دیکھنا لازمی ہے اس کا رخ آدمی کی طرف ہے یا دنیا کی طرف۔ اس کے مجموعی حدود میں آدمی، دنیا پر غالب ہے یا دنیا، آدمی پر! معاشی خوشحالی، فوجی طاقت ، سیاسی ترقی، حتیٰ کہ آزادی یا غلامی۔۔ سب چیزیں ثانوی ہیں۔۔ اپنے ایک خط میں اقبال نے یہی کہا ہے: سلطنت ہو، امارت ہو ۔۔۔ کچھ ہو، بجائے خود کوئی مقصد نہیں، بلکہ یہ ذرائع ہیں اعلیٰ ترین مقاصد کے ۔ جو شخص ان کو بجائے خود مقصد جانتا ہے، وہ ’’رضوابالحیٰوۃ الدنیا‘‘ میں داخل ہے۔ محض یاد دہانی کے طور پر ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اقبال کے تصور پاکستان کی بنیاد اسی دو قومی نظریے پر ہے جو، مثال کے طور پر حضرت مجدد الف ثانی کا تھا۔ مجدد صاحب کی نظر میں یہ نظریہ آزادی اور ریاست کے قیام کے لیے ضروری تھا، جبکہ اقبال اسے آزادی اور ریاست کے حصول کے لیے لازمی سمجھتے تھے۔ کون نہیں جانتا کہ سیاسی فکر قومیت کی کسی ایسی تعریف کر سکتی جس سے جغرافیائی وحدت متاثر ہوتی ہو۔ اقبال نے اس نظریے کو ایک سیاسی قوت بنا دیا ہے جسے نظر اندازکرنے کی سیاسیات متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔ ان کا یہ کارنامہ اس علم میں ایک نئے باب کا اضافہ کرتا ہے۔ تاہم اگر ہم یہیں رک گئے، یعنی اگر ہم نے اسی پر اکتفا کر لیا کہ اقبال کا تصور پاکستان صرف ایک کامیاب اور نتیجہ خیز سیاسی تصور تھا، تو ہم مفکر پاکستان کے ساتھ سخت نا انصافی کا ارتکاب کریں گے۔ اسی ’’خطبہ الہ آباد‘‘ میںجس میں پاکستان کا پہلا دو ٹوک مطالبہ ہے، تقسیم ہند کی جو بنیادی وجوہات بیان کی گئی ہیں، ان میں اکثر اپنی نوعیت کے امتیاز سے غیر سیاسی یاو رائے سیاسیات ہیں۔ اس خطبے کی تمہید ہی میں اقبال واضح طورپر کہتے ہیں: میں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اسلام اور اسلامی فقہ و سیاست ، تہذیب و تمدن اور ادبیات کے مطالعے میں صرف کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس مسلسل اور متواتر رابطے کی بدولت جو مجھے تعلیمات اسلامی کی روح سے ۔۔۔ جیسا کہ مختلف زمانوں میں اس کا اظہار ہوا ہے۔۔۔ رہا ہے ، میں نے اس امر کے متعلق ایک خاص بصیرت پیدا کر لی ہے کہ ایک عالمگیر حقیقت کے اعتبار سے اسلام کی حیثیت کیا ہے۔ لہٰذا یہ فرض کرتے ہوئے کہ مسلمانانِ ہند و ستان بہرحال اپنی اسلامی روح کو برقرار رکھنے پر مصر ہیں، میں کوشش کروں گا کہ آپ (یعنی سیاست دانوں) کے فیصلوں کی رہنمائی کی بجائے اسی بصیرت کی روشنی میں، خواہ اس کی قدر و قیمت کچھ بھی ہو، آپ کے دل میں اس بنیادی اصول کا احساس پیدا کردوں جس پر میری رائے میںہمارے تمام فیصلوں کا عام انحصار ہونا چاہیے۔ ’’اسلامی روح کو برقرار رکھنا‘‘ مسلمانوں کا تہذیبی داعیہ ہے۔ ان کے لیے تہذیب کے معنی کبھی وہ نہیں رہے جو دوسری جگہوں پر مروج چلے آرہے ہیں۔ ہم اسلامی تہذیب کہتے ہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے : توحید ، رسالت اور آخرت پر ایمان رکھنے والوں کا مشترکہ رویہ، طرزِ احساس، طریق فکر و عمل، تصور کائنات ۔۔۔ اور ان کا ایسا امتزاجی تنوع جو افراد و اقوام کی انفرادیت کا اثبات کرتا ہے، مگر انھیں آپس میںٹکرانے نہیں دیتا۔ یا یوں کہ لیں کہ دین اپنی پوری تفصیل کے ساتھ ہمارا مجموعی اور مرکزی تجربہ بن کر ہماری تمام باطنی ، ظاہری نسبتوں کو ، معنی و صورت دونوں میں، ایک اصولی سطح پر متعین کر دے تو اس کا اجتماعی و انفرادی ، جو بھی اظہار ہو گا، اسلامی تہذیب کہلائے گا۔ بقول علامہ: دوسرے ممالک کی طرح ہندوستان میں بھی مسلمانوں کی جمعیت کی ترکیب صرف اسلام ہی کی رہین منت ہے، کیونکہ اسلامی تمدن کے اندر ایک مخصوص اخلاقی روح کار فرما ہے۔ اقبال، اسلامی تمدن کے اندر جس مخصوص اخلاقی روح کو کار فرما بتا رہے ہیں، وہ قانون ہے، جس کی بنیاد پر حیات اجتماعی ایک نظام کے تحت آ جاتی ہے۔ یہی قانون ارادے کو غایت سے اور ایک معاشرتی سطح پر شعور کو حقیقت سے انحراف یا تجاوز کرنے سے روکتا ہے اور ایک ایسا ضابطہ سازگاری فراہم کرتاہے جس میں روسو کی اصطلاح کے مطابق ’’ارادے اور اشیا کی عمومیت‘‘ متحد ہو جاتی ہے۔ اسی پر کسی قوم کی تاریخی بقا کا دارو مدار ہوتاہے۔ اقبال کی نگاہ میں آزادی کا وہی مفہوم حقیقی ہے جو تہذیب کے نظریاتی مرکزسے اخذ کیا جاتا ہے۔ سیاسی خود مختاری، معاشی خوشحالی وغیرہ مسلم تہذیب کی آزادانہ نشو و نما کے لیے بلاشبہ ناگزیر ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ مسلمانوں کی مطلوبہ آزادی کے تمام مقاصد کا احاطہ نہیں کرتیں۔ ’’ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ میں اقبال فرماتے ہیں: ہماری قومی سرگرمیوں کی محرک اقتصادی اغراض ہی نہیں ہونی چاہئیں۔ قوم کی وحدت کی بقا اور اس کی زندگی کا تسلسل ، قومی آرزوئوں کا ایک نصب العین ہے جو فوری اغراض کی تکمیل کے مقابلے میں بہت زیادہ اشرف و اعلیٰ ہے۔ اقبال کے لیے پاکستان، مسلمانوں کی دینی زندگی اور اس کے تہذیبی تسلسل کو برقرار رکھنے کی واحد صورت تھا۔ مسلم اکثریتی علاقوں کی مکمل آزادی کے مطالبے میں یہی نکتہ کار فرما تھا کہ ان علاقوں میں اکثریت رکھنے کی وجہ سے اسلامی طرز حیات کا پھیلائو نسبتاً آسان تھا، قومی زندگی کی نشو و نما کے لیے ایک سازگار فضا موجود تھی اور وہ قوت بھی ابھی باقی تھی جس کے بغیر فطرت کے مقاصد کی نگہبانی نہیں کی جا سکتی۔ پاکستان ، اقبال کی اس سکیم کا ایک حصہ تھا جو مسلم امہ کے عالمی کردار اور بین الاقوامی تشخص کو ایک تاریخی واقعیت دینے کے لیے تیار کی گئی تھی۔ یہ اس سفر کا پہلا پڑائو تھا جس کی منزل ابھی نہیں آئی۔ اور وہ ہے ملتِ اسلامیہ کی عالمگیر وحدت ۔ہماری آزادی ان کے تصور کی پہلی واقعی صورت پذیری ہے جس سے یہ باور کرنا ممکن ہو گیا ہے کہ مسلم تہذیب آج بھی اس عالم افتراق و کثرت میں وحدتِ انسانی کے اسلامی مقصد کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، بشرطیکہ اس کے اصول اور اس کے امتیازات کی سختی سے نگہداری کی جائے اور تمدنی مغلوبیت کا ہر دروازہ بند رکھا جائے۔ اقبال اس معاملے میں کوئی سمجھوتا کرنے پر تیار نہیں۔ یہاں ان کا موقف بالکل اٹل ہے۔فرماتے ہیں: اسلامی تہذیب کے بغیر وہ (یعنی دورِ اقبال کا مسلمان نوجوان) صرف نیم مسلمان، بلکہ اس سے بھی کچھ کم ہے اور وہ بھی اس صورت میں کہ اس کی خالص دنیوی تعلیم نے اس کے مذہبی عقائد کو متزلزل نہ کیا ہو۔ اس نے اپنی قومی زندگی کے ستون کو اسلامی مرکز ثقل سے بہت پرے ہٹا دیا ہے۔۔ عقلی و ادراکی لحاظ سے وہ مغربی دنیا کا غلام ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کی روح اس صحیح القوام خود داری کے عنصر سے خالی ہے جو اپنی قومی تاریخ اورقومی لٹریچر کے مطالعے سے پیدا ہوتی ہے۔ ہم نے اپنی تعلیمی جدو جہد میں اس حقیقت پر جس کا اعتراف تجربہ آج ہم سے کرا رہا ہے ، نظر نہیں ڈالی کہ اغیار کے تمدن کو بلا شرکت غیرے اپنا ہر وقت کا رفیق بنائے رکھنا گویا اپنے تئیں اس تمدن کا حلقہ بگوش بنا لینا ہے۔ یہ وہ حلقہ بگوشی ہے جس کے نتائج کسی دوسرے مذہب کے دائرے میں داخل ہونے سے بڑھ کر خطرناک ہیں۔ میں اس گفتگو کے آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اقبال کامصور پاکستان، مفکر پاکستان اور مبشر پاکستان ہونا تاریخی مسلمات میں سے ہے لیکن ہمیں اس مسلمہ حقیقت کو محض ایک گھسے پٹے نعرے کی طرح برتنے کے بجائے تاریخ کے ان امکانات کو مسلسل روبہ عمل رکھنے کی انقلابی کوشش میں لگے رہنا چاہیے جو ہمارے قومی ضمیر کی انتہائی گہرائیوں میں آج بھی منعکس ہوتے رہتے ہیں۔ ہم اقبال کے بغیر آزادی تو حاصل کر سکتے تھے، مگر اسے برقرار نہیںرکھ سکتے! ئ…ئ…ء تجزیے تشکیل جدید سے متعلقہ چند مباحث m خطبۂ صدارت-تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ m خطبات اقبال :چند بنیادی سوالات m اصول تطبیق:تشکیل جدید کی علمی منہاج m ’’مدعا مختلف ہے‘‘ علم بالوحی:علامہ کے استدلال پر اعتراضات کاجائزہ m سزا یا نا سزا شبلی، شاہ ولی اللہ اور اقبال کے حوالے سے اسلامی سزاوں کے مبحث پر چند ملاحظات m اقبال اور حدیث نبوی ؐ m صحت احادیث:جوزف شاخت کی ’’دلیل سکوت‘‘ کا تنقیدی جائزہ m ’’زنجیر پڑی دروازے میں‘‘ باب اجتہاد بند ہونے کے بارے میں اختلافی آرا کا ایک جائزہ m عشق ہے صبہائے خام عشق ہے کاس الکرام خطبۂ صدارت تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ علامہ اقبال کے خطبات تشکیل جدید الہیات اسلامیہ کی علی گڑھ (نومبر ۱۹۲۹ئ) میں پیش کش کے موقع پر صدر شعبۂ فلسفہ، علی گڑھ یونیورسٹی کے خطبۂ صدارت کا اردو ترجمہ۔ آج شام ڈاکٹر سرمحمد اقبال کے خطبے کی سماعت ضیافت علمی سے کم نہ تھی۔ گزشتہ چھ دنوں میں ہمیں ہر شام ایسی ہی علمی ضیافت نصیب ہوتی رہی ہے۔ ہمارے لیے تو یہ پورا ہفتہ ہی ایک علمی جشن کا سماں لیے ہوئے تھا۔ اس سے حیات فکر کو جلا ملی اور یونیورسٹی کی سطح علمی بلند تر ہو گئی۔ حضرات! آپ کو توقع ہو گی کہ اب میں اپنا تبصرہ پیش کروں گا۔ شاید آپ کو توقع ہو گی کہ میں آپ کو یہ بتائوں کہ بحیثیت فلسفی میں نے ان محاضرات کا مدعا و مقصود کیا سمجھا ہے جو ڈاکٹر سرمحمد اقبال نے بہ کمال عنایت یہاں پیش کیے ہیں۔ لیکن ایک فلسفی کا بیان ان باتوں کو مزید مشکل بنا دے گا۔ مزید برآں اگر میں اپنے غیر شاعرانہ انداز میں ایسی کوشش کروں بھی تو ڈر یہ ہے کہ اس سے ہمارے عظیم فلسفی شاعر کی فکر اور طرز ادا کا شاعرانہ حسن تباہ ہو کر رہ جائے گا اور اقبال بھی وہی کہنے پر مجبور ہو جائیں گے جو صائب ایک ملا کو اپنے اشعار کی شرح شاگردوں کے سامنے بیان کرتے دیکھ کر دل شکستہ ہو کر کہ اٹھا تھا کہ۔ شعر مرابہ مدرسہ کہ برد! مگر صاحب فرض تو فرض ہوتا ہے۔ صائب کے ملا کا فرض منصبی رہا ہو گا کہ وہ شعر کے کندن کو نثر کے مسِ خام میں تبدیل کرتا رہے۔ فرض ادا ہونا چاہیے! حضرات ! اس عظیم ادارے کا بانی ایک عالی دماغ اور دور اندیش شخص تھا۔ اسے عظیم تصورات سوجھتے تھے ۔وہ ان کے لیے محنت کرتا تھا اور ان کو مستحکم طور پر رواج دیتا تھا۔ اس طرح اس نے اسلامی ہند کی آنے والی نسلوں کے لیے بالخصوص اور عالم اسلام کے لیے بالعموم کچھ اہداف عمل تجویز کیے۔ ڈاکٹر سر محمد اقبال ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئے اور پروان چڑھے جو سرسید احمد خان کا معتقد تھا۔ آج وہ ایسے ہی اہداف عمل میں سے ایک کو بے مثال کامیابی سے پایۂ تکمیل تک پہنچا کر ہمارے ہاں تشریف لائے ہیں۔ یہ کام مہتم بالشان حیثیت کا حامل ہے۔ اسلام میں فلسفۂ دین کی تشکیل نویا، بالفاظ دیگر، ایک نئے علم کلام کی تخلیق۔ اقبال وہ کام کرکے علی گڑھ لائے ہیں جو اس ادارے کے عظیم بانی کی دلی خواہش تھی۔ سرسید کے مزار پر اس سے بہتر نذرانۂ عقیدت اور کیا پیش کیا جا سکتا ہے۔ علم کلام کا کام یہ واضح کرنا ہے کہ حقائق دینی اور فلسفہ و سائنس میں کوئی عدم مطابقت نہیں ہے نیز بنابریں مذہب پر پختہ یقین رکھتے ہوئے اور اس سے کسب ہدایت کرتے ہوئے فلسفہ و سائنس کی تعلیمات سے کوئی ٹکرا ئوپیدا نہیں ہوتا۔ اپنے اصول تفسیر اور دیگر تحریروں میں سرسید نے کہا ہے کہ یہ مقصد دو طرح سے حاصل کیا جا سکتا ہے: (ا)۔ یا تو یہ ’’ثابت‘‘ کیا جائے کہ مذہب جو کہتا ہے، وہ حقیقت ہے اور فلسفہ و سائنس اصل میں اس سے متفق ہیں۔ جن مقامات پر اختلاف و تناقض پیدا ہو، وہاں فلسفہ و سائنس کی تردید کی جائے۔ (ب)۔ یا یہ ’’دکھایا‘‘ جائے کہ مذہب کی اقلیم فلسفہ و سائنس کے میدان سے مختلف ہے۔ جہاں جہاں مذہب ان امور پر کلام کرتا ہے جو فلسفہ و سائنس کا موضوع ہیں تو مذہب کا مقصود بیان وہ نہیں ہوتا جو فلسفہ و سائنس کا ہے یعنی وہ فلسفہ و سائنس کی طرح ہمیں یہ نہیں بتانا چاہتا کہ ان کی اشیا کی ماہیت کیا ہے۔ اس کا مقصود اخلاقی یا مذہبی نتائج ہیں یا وہ ہدایت جو ان سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ پہلا خطبہ سنتے ہوئے استدلال کا رخ دیکھ کر چندے میرا یہ خیال تھا کہ ڈاکٹر سر محمد اقبال دوسرا طریقہ اپنائیں گے لیکن جلد ہی میں نے بھانپ لیا کہ ایسا نہیں ہے۔ ڈاکٹر اقبال کو اسلام اور جدید فلسفہ و سائنس کے اصولوں کی جو گہری بصیرت حاصل ہے ان کے مالہ و ماعلیہ کے بارے میں انھیں جیسی تازہ ترین اور وسیع معلومات حاصل ہیں، ایک جدید نظام فکر تعمیر کرنے کی جیسی مہارت اور استعداد ا نہیں میسر ہے ،بالفاظ دیگر فلسفے اور اسلام کو ہم آہنگ کرنے اور تطبیق دینے کو جیسی بے مثل لیاقت ان میں پائی جاتی ہے اس نے ان کو آمادہ کیا کہ وہ اس کام کو دوبارہ انجام دیں جو صدیوں پہلے یونانی فلسفہ و سائنس کے روبرو ہمارے عظیم علما مثلاً نظّام اور (ابوالحسن) اشعری نے اپنے لیے منتخب کیا تھا۔ اپنے ان خطبات میں انھوں نے ہمارے لیے ایک جدید علم کلام کی نیو رکھ دی ہے۔ حضرات ! یہ کام صرف وہی انجام دے سکتے تھے۔ حضرات! مجھے ان سے اصولی طور پر اس درجے کا اتفاق ہے کہ میں نہیں سمجھتا کہ ان کے بیان کردہ اصولوں پر تبصرہ کرنے کے لیے میں واقعی کوئی موزوں شخص ہوں۔ آپ نے یہ محاضرات پورے کے پورے خود ان کی زبان سے سنے۔ میں اپنے آپ کو ان محاضرات کے مرکزی خیال تک محدود رکھوں گا اور اس کو اپنے انداز میں آپ کے سامنے پیش کروں گا۔ اگر یہاں وہاں میں ان سے اختلاف رائے ظاہر کروں تو اسے اختلاف نہ جانیے گا۔ اس کی حیثیت ان مشکلات کی ہو گی جو ایک شاگرد اپنے مربی استاد کے سامنے حل کرنے کے لیے پیش کرتا ہے۔ افلاطون کے لیے محسوس اور متغیر حقیقی نہیں تھا۔ الحق کو غیر متغیر اور غیر فانی و قدیم ہونا چاہیے۔ مادی اور محسوس توفانی اور بے ثبات ہے۔ صرف کلی اور مجرد ہی باقی رہنے والا ہے۔ حقائق کلیہ یا اعیان ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ یہی فی الاصل حقیقی ہیں۔ یہ مبدء حقیقی یعنی یہ اعیان کا نامیاتی کل ہی حقیقی ہے۔ یہ خدا ہے ۔ اب یہ دیکھیے کہ اعیان یا کلیات اس طرح مستقل اور قائم نہیں ہیں جس طرح مسلسل اور ہمیشہ کے لیے قائم فی الزمان کوئی چیز۔ یہ لازمانی ہیں وقت کی اقلیم سے باہر ہیں۔ یہ اس معنی میں ابدی و قدیم ہیں کہ انھیں زمان و توقیت سے سروکار ہی نہیں۔ بنابریں حقیقت کا مشاہدہ صرف عقل کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ محسوسات کی قبیل کی ہر شے غیر حقیقی ہے۔ تغیر اور زمانے کو خدا کی ذات میں کوئی گزر نہیں۔ یہ محض التباس ہیں۔ اس تصور کے مطابق ظاہر ہے کہ خدا میں حرکت و تغیر کا گزر نہیں۔ اسے ہمیشہ سے کامل ہونا چاہیے۔ یہ یونانی عقلیت پرستی کا نظریہ ہے۔ اس کے نزدیک صرف کلی ہی حقیقی اور واقعی ہے۔ اس میں مادی ، جزئی اور زمانی کا کوئی دخل نہیں۔ لہٰذا سوالوں کا سوال یہ ہے کہ حادث کا تعلق قدیم سے کیوں کر متصور ہو، وہ قدیم جو لازمانی ہے۔ اس طرح مابعد الطبیعیات میں مسئلہ زمان کو سب سے بڑے مسئلے کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس عہد حاضر کی طرح اسلام کی روح بھی اختباری ہے۔ یہ زمان اور زمانی امور کو حقیقی سمجھتی ہے۔ لہٰذا اس کے تصور حقیقت، تصور کائنات اور تصور خدا میں زمان اور زمانیات کی جگہ ہونا ضروری ہے۔ ڈاکٹر اقبال نے ہمیں ایسا ہی تصور دیا ہے۔ ان کی نظر میں حقیقت ایک ’’حیات لا محدود‘‘ہے۔ یہ ایک بامقصد اور ذی شعور توانائی کا نام ہے جو مسلسل عمل پیرا ہے۔ اس کا ہر فعل بذاتہ ایک ’’زندگی‘‘ ہے جو ایک بامقصد توانائی ہے۔ خارج سے نظر کیجیے تو یہ افعال اشیائے زمانی اور حوادث زمانی سے عبارت ہیں۔ ان افعال میں سے بعض، اس عمل ظہور کے دوران ذی شعور ہو جاتے ہیں یا شعور ذات حاصل کر لیتے ہیں۔ یہ ہم اور آپ ہیں۔ ڈاکٹر اقبال نے یہ انکشاف کیا ہے کہ تجربی امور¾یعنی تجرباتی شواہد کا سائنس اور جدید فلسفے کے اصولوں پر تفصیلی محاکمہ¾ ایسے ہی تصور کائنات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ امر برگساں کے افکار میں بالخصوص نمایاں ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ مذہبی تجربہ جس پر اسلام کی بنیاد ہے وہ بھی اسی تصور حقیقت کی تائید کرتا ہے۔ تخلیق خیرو شر، شعور کی وحدت ، خدا سے باطنی وصال، حیات بعد الموت ، جنت ، دوزخ اور اسلام کے نظام میں اصول حرکت یعنی اجتہاد جیسے مشکل ترین تصورات پر ان کی ذہن کو جلابخشنے والی توضیحات سب اسی سے صادر ہوتی ہیں۔ تاہم وقوف مذہبی کو اگر وقوف حسی کے برابر لا کر یکساں سطح پر رکھا جائے تو اس فرق کی اہمیت ختم ہو جائے گی جو ان دونوں تجربات کے درمیان پایا جاتا ہے کیونکہ ایک تجربہ تو سب کو حاصل ہے، عمومی ہے جبکہ دوسرا تجربہ نادر الوقوع ہے، نہایت ہی نادر الوقوع اور نایاب ۔ نیز وقوف مذہبی کی دوسری خصوصیت یعنی اس کی کلیت سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس میں موضوع و معروض یا عالم و معلوم کی تمیز اٹھ جائے۔مزید برآں اگر اسے ایک کیفیتِ احساس قرار دیا جائے تو اس سے وحی متلو کے عقیدے کے خلاف ماننا پڑے گا جبکہ یہ پیغمبر اسلام کے وقوف مذہبی کا امتیازی نشان ہے۔ زمان کی بحث کے سلسلے میں مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ زمان اپنی ماہیت میں ’’تواترپیہم‘‘ (ترتیب مسلسل؍تسلسل علی الاتصال) سے عبارت ہے۔ وہ نظریہ جو ساری مدتِ زمان کو خدا کے لیے ’’آن واحد‘‘ یا ’’حاضر مکانی‘‘ قرار دیتا ہے اس میں ماہیت زمان کا پہلا عنصر یعنی تواتر و تسلسل مفقود ہو گا اور جبکہ یہ خدا کے علیم و خبیر ہونے کے لیے ضروری بھی نہیں ہے۔ وہ اس کے بغیر بھی عالم الغیب و الشہادۃ ہو سکتا ہے جیسا کہ نفوس فانی پر قیاس کر کے کہا جا سکتا ہے۔ جدید مابعد الطبیعیات میں یہ نظریہ گویا یونانی تصور ابدیت کا عکس ہے۔ اسے ہم زمانیتِ لازماں یا ابدیتِ زمانی کہ سکتے ہیں۔ یہ ایک متناقص تصور ہے۔ مزید برآں ، زینو سے کینٹر اور رسل تک سائنٹفک مفکرین زمان کے تسلسل کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کا تصور ایک کمیت غیر مسلسل کے طور پر کرتے رہے ہیں جیسے عدد کا تصور۔ ان کی مشکلات فکر کا کوئی اثر ماضی، حال اور مستقبل کے امتیازات یعنی وقت کے دوسرے جزو ترکیبی ، تواتر و تسلسل پر نہیں پڑتا۔ اپنے طلبہ سے مجھے یہ کہنا ہے کہ یہ محاضرات جلد ہی شائع ہو جائیں گے۔ ڈاکٹر اقبال کے افکار، بنیادی تصورات اور ان کی تفصیل و اطلاق ہر دو اعتبار سے، نئے اور اسی لیے عسیر الفہم ہیں لہٰذا ان کا نہایت احتیاط سے مطالعہ کیجیے۔ جو دشواریاں پیش آئیں، انھیں میرے پاس لایئے۔ مجھ سے جو ہو سکے گا آپ کے لیے کروں گا۔ اہل علم حاضرین کی اس ساری جماعت سے مجھے یہ کہنا ہے کہ حضرات گرامی یہ محاضرات صرف عظیم اصولوں کی شرح و بیان کے اعتبار سے ہی قابل قدر نہیں ہیں بلکہ ’’بار آور تجاویز‘‘ سے بھی لبریز ہیں۔ یہ بڑی کارآمدبات ہو گی کہ ہم ان تجاویز کو لے کر سچے اہل علم کی شان کے مطابق ان کا حل تلاش کریں۔ حضرات گرامی ،آپ کو روزانہ شام کو میں جو زحمت دیتا رہا ہوں، اس کے جواز کے طور پر عرض کرنا چاہتا ہوں کہ فلسفہ کوئی کار بے مصرف نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگوں کا گمان ہے۔ سچے انسانی تمدن میں اس کا ایک عظیم منصب ہے۔ حضرات ! فلسفیانہ تربیت ہی سے ہمارے محبوب و محترم اقبال جیسی شخصیات جنم لیتی ہیں۔ ڈاکٹر سرمحمد اقبال! انجمن فلسفہ کی طرف سے اور اپنی جانب سے میں آپ کا بہ صمیم قلب شکریہ ادا کرتا ہوں، یونیورسٹی کی طرف سے بھی اور ان سب کی طرف سے جو ان محاضرات میں شریک ہوئے، ہم شکر گزار ہیں کہ آپ نے زحمت اٹھائی، ہمارے ہاں تشریف لائے اور یہ نہایت قابل قدر محاضرات عطا کیے ہیں۔ سچ پوچھیے تو کنواں چل کر پیاسے کے پاس آ گیا۔ جناب والا،آپ نے اسلام میں فلسفہ دین کی تشکیل نو کی بنیاد رکھ دی۔ مسلمانوں کی موجودہ اور آئندہ نسلیں اس کے لیے آپ کی ممنون احسان ہیں۔ آپ کے الفاظ مستعار لے کر کہوں گا کہ عالم اسلام کو ’’آپ کے کام پر‘‘ اور آپ پر فخر ہونا چاہیے۔ میری دعا ہے کہ آپ تادیر سلامت رہیں اور اس کام کی تکمیل آپ ہی کے ہاتھوں ہو اور آپ کی فکر افزا مثال اور لوگوں کی بھی ہمت بندھائے گی۔ مجھے امید ہے کہ آپ ہمارے وائس چانسلر کی درخواست قبول فرمائیں گے اور اسلامی تعلیم و تعلم کے اس مرکز میں تشریف لا کر سکونت اختیار کریں گے۔ حضرات ! میں اپنے محترم اور معزز مہمان گرامی ڈاکٹر سر محمد اقبال کی آمد پر دلی اظہار تشکر کرتا ہوں اور یہ چاہتا ہوں کہ آپ میرے ہم آواز ہو کر ان سے درخواست کریں کہ وہ ہمارے ہاں اکثر تشریف لایا کریں اور ہمیں فلسفیانہ فکر اور عالمانہ تحقیق کی وہ زندگی زیادہ سے زیادہ عطا کریں جو ان کی ذات میں مجسم ہو گئی ہے۔ ئ…ئ…ء خطبات ِاقبال: چند بنیادی سوالات اس وقت اسلامی دنیا فکر و عمل کی کم و بیش ہر سطح پر ایک ہلچل اور اضطراب کی گرفت میں ہے جو اگر ایک طرف ملتِ اسلامیہ کی روح اجتماعی کے کروٹ لینے سے عبارت ہے تو دوسری جانب ایک نئے شعور کی طلوع سحر کی نوید بھی ہے۔ وہ شعور جو تاریخ کے تسلسل میں اپنے مقام کی آگہی اور عہد حاضر کے مسائل سے روبرو ہونے کے نتیجے میں بیدار ہو رہا ہے۔شعور کے اس جھٹپٹے کے پس منظر میں تین بڑے فکری دھارے عالمِ اسلام کو درپیش مسائل سے نبرد آزما دکھائی دیتے ہیں جنھیں ہم سہولت کے لیے روایتی اسلام ،جدیدیت اور بنیاد پرستی کے نام دیتے ہیں۔ مؤخر الذکر اصطلاح عیسوی الٰہیات سے مستعار ہے اور اس کا اطلاق ان تمام نظریات ، تحریکات اور نظام ہائے افکار پر کیا جاتا ہے جو کسی نہ کسی رنگ میں رجوع الی الاصل اور اصلاح سے متعلق ہیں اور معاشرے کو صدرِ اسلام کے معیار تک لوٹانے کے لیے کوشاں ہیں ۔ تاریخ میں ماضی کی طرف الٹی زقند لگاتے ہوئے اس فکری روّیے کے نمائندوں کا عمومی رجحان یہ رہا ہے کہ وہ شجرِاسلام کے بیخ و بن تک لوٹنے کے جوش میں اس شجر سایہ دار کے برگ و بار کو یا تو نظر انداز کر دیتے ہیں یا اس کی نفی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وحی اسلام کے بطن سے پھوٹنے والے اور صدیوں کے سفر میں نموپانے والے یہ برگ و بار اسلامی تہذیب کے وہ مظاہر ہیں جن میں اس کے فکری، جمالیاتی اور عرفانی پہلو متشکل ہوئے ہیں اور جن سے اغماض ، اعراض یا تردید کا ہر روّیہ بالآخر ایک بنجر ، جمال کش اور اتھلے نظامِ فکر و عمل پر منتج ہوتا ہے۔ بنیاد پرستی کے تحت بہت سے ایسے مکاتب فکر بھی آ جاتے ہیں جو پوری طرح اس سے اشتراک یا اتفاق نہیں رکھتے۔ ان کو بنیاد پرستی اور جدیدیت یا بنیاد پرستی اور روایتی اسلام کے نیمے دروں نیمے بروں ساتھی قرار دیا جا سکتاہے۔ جدیدیت میں اسلام کی وہ تمام تعبیرات شامل ہیں جو زمانے کے تقاضوں ، وقتی مصلحتوں اور ضروریات ، مغرب کی نقالی، فکری شکست خوردگی، علمی مرعوبیت یا پہلے سے طے شدہ اہداف و مقاصد کے مطابق اسلام کی تفسیر کرنے سے برآمد ہوتی ہیں اور جن کو ہر مکتبِ فکر اپنی ذاتی ترجیحات اور پسند و نا پسند کا رنگ دے کر پیش کرتا ہے۔ ان کے مقابل روایتی اسلام ہے جس کی نمائندگی معاصر علمی دنیا میں گو کم رہی ہے مگر درحقیقت یہی وہ روح ہے جس کا رس شجر اسلام کی جڑ سے لے کر پھننگ تک جاری و ساری ہے، جس نے زمانِ وحی سے لے کر آج تک ہر سطح پر کروڑوں نفوس انسانیہ کی آبیاری کی اور جو صرف ماضی کی عقلی اور جمالیاتی تحریکوں ہی میں موجود نہیں بلکہ آج بھی نبی علیہ السلام کے متبع علما و اولیا کی زندگیوں میں ظاہر ہے، قرآن کے فیضان کا ابلاغ کرنے والی سمعی و بصری ہیئیتوں کے خالق فنکاروں و ہنرمندوں کے شاہکاروں میں کارفرما ہے اور عام مسلمانوں کی کثیر تعداد کے اذہان و قلوب کو اسلام کی روایتی تعلیمات کے ارتعاش سے معمور کیے ہوئے ہے۔ پیش آمدہ مسائل کا سامنا کرتے ہوئے ماضی میں ان تینوں رویوں کا کردار تقریباً انفعالی ہی رہا ہے۔ یعنی مسائل کا تعین باہر سے ہوتا تھا اور ان مسائل سے آنکھیں چار کرنے پر مجبور ہو کر یہ مکاتبِ فکر کسی نص یا کسی قول سے رجوع کرنے کے بعد کوئی حل تلاش کرتے تھے۔ اپنے مسائل کی شناخت کرنا، اپنے مسائل کا خودتعین کرنا اور آگے بڑھ کر معاملات کو گرفت میں لینا بوجوہ ان کا چلن نہیں رہا۔ جدیدیت سے تو خیر اس کا شکوہ ہونا بھی نہیں چاہیے کہ وہ خود ہی انفعالیت کی پیداوار ہے اور از روئے فطرت تشکیل و تخلیق کے لیے ضروری قوت فاعلہ سے محروم ہے۔ روایتی اسلام اور بنیاد پرستی ، دونوں ہی اپنی فاعلی بلکہ فعال نوعیت کی بنا پر اس چیز کے اہل تھے۔ روایتی اسلام کو سیاسی مصالح اور جدیدیت کے شکار ذرائع ابلاغ نے پس منظر میں دھکیل دیا اور بنیاد پرستی کو اس کے فکری اتھلے پن سے جنم لینے والی نارسائی کھا گئی جس نے اسے حقیقتِ اشیا تک پہنچنے سے محروم رکھا۔ نئے شعور کی اہم اور امید افزا بات یہ ہے کہ اس میں اپنی فاعلی حیثیت کے امکانات کا احساس ہویدا ہے۔ ملایشیا سے سوڈان تک عوامی، تہذیبی سطح پر نموپذیر مظاہر اس پر شاہد ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ نیا شعور علمی دنیا میں بھی اپنے آپ کو اجاگر کر رہا ہے۔ عالمِ اسلام کے علمی، تحقیقی اور دانش جُو حلقے رفتہ رفتہ اس عمومی انفعالیت سے پیچھا چھڑا رہے ہیں جو مختلف اثرات کے باعث ان پر طاری رہی ہے اور اپنے مسائل و معاملات اغیار سے مستعار لے کر حتیٰ المقدور اس کے جارحانہ یا معذرت خواہانہ جواب تلاش کرنے کے بجائے خود اپنی علمی اقدار اور مسائل کا تعین کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ یہی امنگ ہے جو لمحۂ حاضر اور مسائل موجود کو آدرش سے ملا دیتی ہے۔ علمی اور تہذیبی دائروں میں جو شعور ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ابھر رہا ہے ، اسی کا پرتو اقبالیات کے عالم صغیر پر بھی پڑ رہا ہے۔ اب اقبالیات بھی مستعار اقدار اور مانگے تانگے کے مسائل سامنے رکھ کر فکرِ اقبال میں سے ان کا معذرت خواہانہ جواب ڈھونڈنے یانیم فخر یہ تقابل کرنے کے انفعالی رویے سے باہر نکلتی نظر آتی ہے۔ دوسرے شعبہ ہائے علم کی طرح اس میں بھی اپنی راہ خود نکالنے اور اپنے مسائل خود متعین کرنے کی آرزو جنم لے رہی ہے اور ماضی میں اس کے فکری رویوں پر نظر کرتے ہوئے یہ تبدیلی نہایت خوش آئند اور مستقبل میں روشن امکانات کی امین کہی جا سکتی ہے۔ --------- تشکیل جدیدکا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ عہد جدید کے لیے اس کے معاصر اسلوب میں اسلام کی طرف سے حقائق دین کی قریب الفہم انداز میں تعبیر نو کی جائے اور ایک نئے علم کلام کی بنا رکھتے ہوئے یہ ثابت کیا جائے کہ علوم جدیدہ بالخضوص سائنس اور فلسفے کے حاصلات اصول دین سے متصادم نہیں ہیں۔ تشکیل جدید کابنیادی مقدمۂ فکر ایک مفکرنے درج ذیل انداز میں متعین کیا ہے: اقبال کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ مغربی تہذیب کی آمد سے جو مخصوص صورتحال پیدا ہوئی ہے اسے پیش نظر رکھ کر اسلام اور اسلامی تہذیب میں اصول حرکت کو بیان کیا جائے۔ اب اقبال یہ بھی جانتے تھے کہ مغرب کی مسیحی تہذیب خود ایک سکونی تہذیب تھی اور مغربی تہذیب اس سکون پرستی سے آزاد ہوئی ہے تو علم جدیدہ یا سائنس کی بدولت، دوسرے لفظوں میں عقل استقرائی اور عمل اختیاری کے آزادانہ ارتقا کے باعث۔ چنانچہ اقبال کا حقیقی مسئلہ یہ تھا کہ (۱)حرکت (۲)عقل استقرائی اور (۳) عقل اختباری کی روشنی میں اسلامی تہذیب اور اسلام کی حقیقت کو از سر نو متعین کیا جائے۔ اقبال نے اس صورت حال کا جو تجزیہ کیا ہے اور اس کی روشنی میں اسلام اور اسلامی تہذیب کی جو حقیقت بیان کی ہے آپ اس سے اختلاف کریں یا اتفاق لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ کہ سرسید، حالی، شبلی، اکبر اور دوسرے مسلمان اہل فکر نے اس صورتحال کو اس طرح نہیں سمجھا تھا جس طرح اقبال نے سمجھا۔ اقبال سے پہلے ان بزرگوں کے یہاں نئی صورتحال صرف چند تمدنی اوضاع اور معاشرتی مسائل کے تغیرو تبدل کا مسئلہ ہے جب کہ خود اقبال نے بہت وضاحت سے محسوس کر لیا کہ صورت حال کی ایسی سطحی تعبیرات سے کام نہیں چلے گا اور ہمیں زیادہ گہرائی میں اتر کر یہ دیکھنا پڑے گاکہ آیا اسلام اور اسلامی تہذیب اپنی روح کے اعتبار سے مغربی تہذیب کو قبول کر سکتے ہیں یا نہیں، اور قبول کر سکتے ہیں تو کس طرح؟ دوسرے لفظوں میں اقبال نے یہ بات سمجھ لی تھی کہ مغربی تہذیب ہمارے اندر جو تبدیلیاں لا رہی ہے اس کا تقاضا صرف اتنا نہیں ہے کہ کوٹ پتلون، چھری کانٹے یا کیک اور کوکا کولا کا جواز پیدا کر لیا جائے بلکہ اس کا تقاضا یہ ہے کہ حیات و کائنات، زمان و مکان، افعال اور فطرت، روح اور مادہ کے ان تصورات پر جو روایتی مذہبی تہذیب میں موجود تھے ان پر نظرثانی کی جائے اور ان کو از سر نو اس طرح متعین کیا جائے کہ وہ مغربی تہذیب کی حقیقی ترقی کو اپنے اندر جذب کر سکیں۔ مختصر لفظوں میں اقبال کے نزدیک مغربی تہذیب کا چیلنج ایک نئی الہیات کی تشکیل کا مطالبہ کر رہا تھا۔ اقبال نے تشکیل جدید میں جس نئی الہیات کی بنیاد رکھی ہے اس کے پیچھے اقبال کے دو بنیادی تصورات کام کر رہے ہیں (۱) اقبال یہ جانتے ہیں کہ نیا انسان ’’محسوس‘‘ کاخوگر انسان ہے جسے ’’اس قسم کے فکر کی عادت ہو گئی ہے جس کا تعلق اشیا اور حوادث کی دنیا سے ہے‘‘۔ جس سے اقبال یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس انسان سے تعلق پیدا کرنے کے لیے ایک ایسے منہاج کی ضرورت ہے جو نفسیاتی اعتبار سے اس ذہن کے قریب تر ہو جو گویا محسوس کا خوگر ہو چکا ہے تاکہ وہ آسانی سے اسے قبول کر لے، اقبال کے نزدیک یہ کام اس قسم کے لوگ بالکل نہیں کر سکتے جو عصر حاضر کے ذہن سے بالکل بے خبر ہیں، اور اس لیے موجودہ دنیا کے افکار اور تجربات سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے(۲) پرانا طریق کار اس لیے بیکار ہے کہ الٰہیات کے وہ تصورات جن کو اب ایک ایسی مابعد الطبیعیات کے الفاظ و اصطلاحات میں پیش کیا جاتا ہے جو مدت ہوئی عملاً مردہ ہو چکی ہے ان لوگوں کی نظر میں بیکار ہیں جن کا ذہنی پس منظر یکسر مختلف ہے۔ چنانچہ ان دونوں حقیقتوں کے پیش نظر اقبال کہتے ہیں’ ’ہم مسلمانوں کو ایک یہ بڑا کام درپیش ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ماضی سے اپنا رشتہ منقطع کیے بغیر اسلام پر بحیثیت ایک نظام فکر از سر نو غور کریں‘‘ اب چونکہ عصر حاضر کے انسان سے وہ انسان مراد ہے جو مغربی تہذیب سے پیدا ہوا ہے اس لیے اقبال کی نئی الہیات کی تشکیل کی کوشش کا حقیقی مقصد مغربی اور اسلامی تہذیب کے درمیان مشترکہ عناصر کی جستجو ہے اور وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام اور اسلامی تہذیب میں کوئی ایسی بات نہیں ہے’’ جو محسوس کے خوگر‘‘ انسان کے ذہن کے مطابق نہ ہو… اگر ہمیں مغربی تہذیب کو قبول کرنا ہے یا اپنے اندر جذب کر کے اس سے فائدہ اٹھانا ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں اقبال ہی کے ساتھ چل کر مغربی اور اسلامی تہذیب کی روح میں اتر کر ان کی ہم آہنگی کو الہیاتی بنیادوں پر ثابت کرنا پڑے گا۔ تشکیل جدید ان ہی معنوں میں ایک ایسا زبردست کارنامہ ہے جسے جدید اسلام کی بائبل کہنا چاہیے۔۱؎ یہ بائبل کس کے لیے لکھی جا رہی تھی،اس کے مخاطب کون تھے؟ علامہ کے متعدد بیانات سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ ایک نمائندہ اقتباس : ان لیکچروں کے مخاطب زیادہ تر وہ مسلمان ہیں جو مغربی فلسفے سے متاثر ہیں، اور اس بات کے خواہش مند ہیں کہ فلسفہ اسلام کو فلسفہ جدید کے الفاظ میں بیان کیا جائے، اور اگر پرانے تخیلات میں خامیاں ہیں، تو ان کو رفع کیا جائے۔ میرا کام زیادہ تر تعمیری ہے، اور اس تعمیر میں، میں نے فلسفۂ اسلام کی بہترین روایات کو ملحوظ خاطر رکھا ہے، مگر میں خیال کرتا ہوں کہ اردو خواں دنیا کو شاید ان سے فائدہ نہ پہنچے، کیونکہ بہت سی باتوں کا علم، میں نے فرض کر لیا ہے کہ پڑھنے والے یا سننے والے کو پہلے سے حاصل ہے، اس کے بغیر چارہ نہ تھا۔۲؎ یہ فلسفہ جو اس زمانے میں ہندوستان میں پڑھایا جاتا تھا کیا تھا! برطانوی افادیت پرستوں اور حسیت پرستوں کے افکار۔ یہ فلسفیانہ افکار اس وقت جدید تھے، سائنس کے نظریات نئے تھے۔ ہمارے زمانے تک آتے آتے یہ فلسفہ کہن سال ہو گیا، سائنسی نظریات متروک ہو گئے اور دونوں کے بڑے حصے کو علمی دنیا نے اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا۔مخاطبین کے ذہنی پس منظر اور استعدادکی اس رعایت اور موضوع کے دیگر تقاضوں نے تشکیل جدید کا علامہ کی دیگر فکری کاوشوں سے ایک بُعد پیدا کر دیا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے خطبات پر تبصرہ کرتے ہوئے زندہ رود میں جو لکھا وہ اس تاثر کی بالواسطہ حمایت کرتا ہے۔ مناسب ہو گا کہ اسے یہاں نقل کر دیا جائے۔ تشکیل جدید الہیات اسلامیہ ایک مشکل کتاب ہے، کیونکہ اس میں مشرق و مغرب کے ڈیڑھ سو سے زائد قدیم جدید فلسفیوں، سائنس دانوں، عالموں اور فقیہوں کے اقوال و نظریات کے حوالے دیئے گئے ہیں اور اقبال قاری سے توقع رکھتے ہیں کہ خطبات کے مطالعہ سے پیشتر وہ ان سب شخصیات کے زمانے، ماحول اور افکار سے شناسا ہو گا۔ ان شخصیات میں بعض تو معروف ہیں اور بعض غیر معروف۔ علاوہ اس کے خطبات کا انداز تحریر نہایت پیچیدہ ہے۔ بسا اوقات کسی مقام پر ایک ہی بحث میں کئی مسائل کا ذکر چھڑ جاتا ہے اور اس پر اظہار خیال کی تکمیل کے بعد پھر چھوڑے ہوئے مسئلہ کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ بعض نظریات کی وضاحت کی خاطر نئی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں اور ان میں الفاظ کی ترتیب مطالب کے فہم و تفہیم کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہے۔ کئی مقامات پر انگریزی زبان میں استدلال ناقابل فہم ہے اور اس کے بار بار تعاقب کرنے سے بھی معانی صاف نہیں ہوتے۔۳؎ یہاںایک مسئلہ سامنے آتا ہے جس پر غور کرنا ضروری ہے۔ علامہ کی شاعری کا بیشتر حصہ آج بھی پہلے کی طرح قابل قدر، فکر انگیز اور پر تاثیر ہے جبکہخطبات کاکچھ حصہ اب صرف تاریخی اہمیت کا حامل معلوم ہوتا ہے۔ اقبالیات کے ذخیرے میں تشکیل جدیدسے متعلق مباحث پر نظر ڈالیے توسطحی مطالعے، جزوی اقتباسات پر مبنی قیاسات، غیر مدلل مداحی اور خوش؍غلط فہمیوں کا ایک طویل سلسلہ تو مل جاتا ہے لیکن حقیقی مطالعات، گہری اور دور رس جرح و نقد اور ضروری توضیحات کی حیرت ناک کمی نظر آتی ہے۔ جو کچھ ہوا بھی ہے، اس کا بیشتر حصہ اسی رویے کے ذیل میں آتا ہے جسے ہم نے تشکیل جدید کا سطحی مطالعہ قرار دیا۔ ہمارے لیے اس مختصر تحریر میں یہ ممکن نہیں کہ اس موضوع پر مفصل محاکمہ یا جائزہ پیش کر سکیں، تاہم ان بنیادی سوالات کی طرف اشارے کرنے کی کوشش کی جائے گی جن کا جواب تلاش کیے بغیر علامہ کے فکر وفن کے مکمل تناظر میں نہ تو خطبات کی حیثیت اور مقام کا تعین ہو سکتا ہے نہ شاعری سے ان کے ربط و تعلق کی کلید میسر آ سکتی ہے اور نہ ان سے بامعنی اور مفید رہنمائی حاصل ہو سکتی ہے۔پہلا سوال جو اقبالیات کو اپنے آپ سے پوچھنا ہے، یہ ہو گا کہ اصل چیز اقبال کا شعر ہے یا خطبات! شاعری کو اولیت حاصل ہے یا خطبات کو؟کیا خطبات ہمارے ادبی اور فکری سرمایے میں اسی جگہ کے مستحق ہیں جو شاعری کو حاصل ہے؟ اس بڑے سوال کے ساتھ ضمنی سوالات کی پخ بھی لگی ہوئی ہے کہخطبات کے مخاطب کون تھے؟ اس کے موضوعات چونکہ متعین اور تحریر فرمائشی تھی نیز وسائل مطالعہ و تحقیق ۱۹۲۰۔۱۹۲۸ تک محدود تھے، لہٰذا شاعری کے آزاد ،پائدار اور تخلیقی وسیلے کے مقابلے میں خطبا ت زمانے کے فکری اور سیاسی تقاضوں، معاشرتی عوامل، رحجانات، نفسیاتی رد عمل اور دیگر محرکات کے زیادہ اسیر ہیں! شاعری اور خطبات کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ موارد اختلاف میں شاعری یا تو خطباتکی تابع ہو گی یا تکمیلی حیثیت رکھے گی یا متوازی چلے گی یا خطبات کے بعد کی شاعری خطبات کی ناسخ قرار پائے گی! یہ وہ سوال ہے جس سے بہت کم تعرض کیا گیا ہے اور اس کے پیچھے رجال اقبالیات کی وہ ثنویت کار فرما ہے جس کے تحت شاعری سے شغف اور اشتغال رکھنے والے عموماًخطباتسے اعتنا نہیں کرتے، اورخطبات کو موضوع تحقیق بنانے والے شاعری سے سروکار نہیں رکھتے۔ اس میں سخن گسترانہ بات یہ ہے کہ جو محققین خطبات کو اپنا موضوع بناتے ہیں، ان کی اکثریت شاعری پڑھنے اور سمجھنے سے طبعاًیا فنی اسباب کی بنا پر معذور ہے، اور اس معذوری پر پردہ ڈالنے کے لیے شاعری کو مختلف حیلوں اور دلائل سے ثانوی قرار دینے کے لیے کوشاں نظر آتی ہے۔ ان کی عام دلیل یہ ہے کہخطبات سوچے سمجھے، جچے تلے اور غیر جذباتی نثری اظہار کا نمونہ ہیں اور شاعری اس کے برعکس یا بہر حال اس سے کم تر۔ یہ لوگ وہ ہیں جو سوچ سمجھ کر صرف مقالہ نگاری کر سکتے ہیں اور جن کے نزدیک دیگر ہر عقلی و ذہنی سرگرمی بے سوچے سمجھے کی چیز ہے۔ ان میں سے جن کو فلسفہ بگھارنے کا زیادہ شوق ہے وہ شاعری کو لاشعوری محرکات، اجتماعی لاشعور کی برکات، آر کی ٹائپ کا اظہار اور ایسی ہی دیگر انٹ شنٹ چیزوں سے عبارت جانتے ہیں۔ اس طبقے کا رویہ اجمالاًیہ ہے کہ شاعری کی حیثیت نہ تو حکم کی ہے نہ تابع کی اور نہ ہی ناسخ خطبات کی، بلکہ اسے ایک متوازی حیثیت حاصل ہے۔ متوازی خطوط آپس میں ملا نہیں کرتے، لہٰذا اس رویے کا حتمی نتیجہ شعر فراموشی ہی ہو سکتا ہے، اور یہی ہوا بھی ہے۔ یہاں ایک ضمنی سوال سراٹھاتا ہے کہ اگر اقبال صرف شاعری کرتے اور خطبات نہ لکھتے تو ان کا مقام کیا ہوتا؟ مندرجہ بالا فکری رویے میں پوشیدہ منطق اس کا سامنا کرتے ہی سکڑنے لگتی ہے اور معاملہ ابہام کا شکار ہو جاتا ہے مگر اس سے شاعری اور خطبات کے تعلق کا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ خطبات کے بعد علامہ لگ بھگ دس برس زندہ رہے اور مابعد کی شاعری اور دیگر نثری تحریروں میں انھی موضوعات پر اظہار خیال کرتے رہے جو خطبات سے متعلق تھے، لہٰذا خطوط اور مابعدخطبات کی شاعری کا تعلق خطبات سے طے کیے بغیر ہم علامہ کے پورے فکری تناظر میں خطبات کی حیثیت کا تعین نہیں کر سکتے۔ اسی بات پر ایک اور پہلو سے غور کرنے کی ضرورت ہے، علامہ کا فکری ارتقا یا مختلف مسائل کے مقابل ان کا موقف کہاں ظاہر ہوا ہے، شاعری میں یا خطبات میں؟ بالفاظ دیگر ان کی شخصیت اور فکر کا ارتقایاب میڈیم کونسا ہے؟ کیا وہی زیادہ قابل اعتبار نہ ہو گا؟ علامہ کی نثر اور شاعری کو صرف تاریخی ترتیب سے بھی دیکھیے تو یوں لگتا ہے جیسے ان میںباہم سوال و جواب کے ادوار کا تعلق ہے۔ نثر میں سوال قائم ہوتے ہیں، تجزیہ ہوتا ہے اور شاعری جواب دیتی ہے۔ کیا خطبات اور مابعد کی شاعری میں ایسا ہی تعلق ہے؟ یہاں پہنچ کر ہم ایک اور اہم اور بنیادی سوال سے دوچار ہوتے ہیں۔ خطبات علامہ کے حتمی نتائج فکر ہیں یا ان سوالات اور فکری مسائل کا منظر نامہ جو اس وقت عالم اسلام کو درپیش تھے؟ اگر یہ سوالات تھے تو ہمارا مندرجہ بالا مقدمہ درست ٹھہرتا ہے، اور اگر یہ حتمی جوابات تھے تو کیا آج بھی یہ جوابات وہی استناد رکھتے ہیں جو اس وقت انھیں حاصل تھا یا مابعد کے ارتقائے فکر کی روشنی میں ان کی حتمی حیثیت برقرار نہیں رہی؟ اقبال نے خود ہمیں اس کی کلید خطبات کی ابتدا میں یہ کہ کر فراہم کر دی ہے کہ فلسفیانہ فکر میں ختامی چیز کوئی نہیں ہوا کرتی۔ اس سے شخصی افکار مراد لیے جائیں یا فلسفے کے عمومی منہاج کی جانب اشارہ سمجھا جائے، دونوں اقالیم میں حتمیت کی نفی ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہخطبات کی تحریر کے وقت مسائل واقعی صورت حال سے پیدا ہو رہے تھے، اور جوابات قیاسی تھے۔ بعد کے زمانے میں مسائل کے حل کے لیے جو نیا مواد سامنے آیا، جو تازہ وسائل تحقیق میسر آئے اور علم و فلسفہ میں جتنی پیش رفت ہوئی، اس نے بہت سے قیاسات میں تبدیلی پیدا کر دی جیسے آزاد مسلم مملکت اس وقت ایک خیال تھا، آج امر واقعہ ہے۔ اسی ایک فرق سے خطبات میں پیش کردہ ان تجاویز اور افکار کی حیثیت میں تغیرواقع ہونا بدیہی ہے۔ بقول شخصے اگر کلام اقبال میں ’’نیاشوالہ‘‘ موجود ہے تو کیا خطبات اقبال میں بھی ’’نئے شوالے‘‘ موجود نہیں ہیں؟ اگلا سوال یہ ہے کہ اگرخطبات اور شاعری میں نقطۂ نظر کا کوئی فرق ہے تو یہ دولخت شخصیت کا شاخسانہ نہیں ہو سکتا کیونکہ اس سے بڑی شاعری تو کجا شاعری ہی پایہء اعتبار سے ساقط ہو جاتی ہے۔ تو پھر کیا یہ فرق شخصیت کی دو سطحوں اور وجود کے قطبین کا نمائندہ ہے جن میں سے ایک فاعلی اور موثر ہے اور دوسرا انفعالی اور تاثر پذیر؟ ایک افقی ہے، اسیر تاریخ ہے، اس سے متاثر ہوتا ہے اور سوال کرتا ہے، دوسرا عمودی ہے، تاریخ سے ورا دیکھتا ہے، جواب دیتا ہے اور آرزو کے سہارے آدرش تک رسائی چاہتا ہے۔ شاعری فاعلی جہت کا ظہور ہے اور خطبات انفعالی سطح کی تجسیم! خطبات میں بعض مسائل کے ضمن میں علامہ نے مغربی تہذب یا فکر مغرب کو اسلامی تہذیب اور افکار سے ہم آہنگ دکھانے کی بات کی ہے مثلاً فرضیۂ ارتقا ،حرکت کا تصور اور جدید سائنس (جواب متروک اور کہنہ سائنس ہو چکی ہے) وغیرہ تو اس میں کیا مصلحت تھی؟ ایک طرف ہندو اکثریت تھی جو سیاسی غلبہ حاصل کرنے پر تلی ہوئی تھی اور دوسری جانب انگریز تھے جو جدید سائنسی ترقی اور ٹیکنالوجی کے سہارے مادی غلبہ حاصل کیے ہوئے تھے کیا اقبال خطبات میں ایسے خطوط عمل واضح کرنا چاہتے تھے جن کے سہارے ان دونوں کو کسی ایسی جگہ لے آیا جائے جہاں وہ اسلام کی فکری روایت کے مخاطب بن سکیں اور ان کی فلسفیانہ مقاومت سے مسلمانوں کی شکست خوردہ کیفیت کا مداوا ہو سکے! آخری بات! خطبات اقبال اصول دین کی تشکیل نو سے عبارت ہیں یا انھیں عقل جزوی سے پھوٹنے والی اس ثانوی فکری سرگرمی کے ذیل میںرکھا جانا چاہیے جو مرور زمان اور انسان کے متغیر ذہنی تقاضوں کے جواب میں ابھرتی ہے؟ اشیا کی مابعد الطبیعیاتی حقیقت اور حقائق دین غیر متغیر چیزیں ہیں اور نفسوس انسانیہ اور زمانے کی رو امور متغیرہ۔ پس دین کے ابدی اور غیر متغیر حقائق کے زمانی اطلاق اور زمانے کی رو میں بہتے ہوئے، بدلتی کیفیات کے اسیر نفوسِ انسانیہ تک ان کے ابلاغ کے لیے ایک پل یا واسطہ فراہم کرنا اس فکری سرگرمی کا فریضہ ہے۔ یہ حقیقت اشیا ہی کا ایک پہلو ہے اور اس اعتبار سے اپنا جواز رکھتی ہے۔ مگر پل ڈالنے کا یہ عمل زمانی و مکانی ہے، وقت کے تقاضوں کا اسیر ہے، وسائل کا محتاج ہے اور اپنے عناصر ترکیبی سے تاثر پذیر ہوتا ہے، لہذا آج اگر ایک پل تعمیر ہوتا ہے تو کل بہتروسائل، مختلف تقاضے یا زمان و مکان کے نئے سانچے پیدا ہونے سے لازماً اس پل کی شکل بھی بدل جائے گی اور اس فکری سرگرمی کے نتائج اپنی غرض و غایت میں یکساں ہوتے ہوئے بھی اپنے اسلوب اظہار، طریق کار اور اہداف میں باہم مختلف ہوں گے۔ اس مقدمے کا ایک اطلاق تو خود علامہ کے اپنی فکری ارتقا اور مابعد خطبات کی شاعری میں اس کے اظہار پر ہوتا ہے۔ اس سے الگ ہو کر بھی دیکھیے تو علامہ کی زندگی میں اور ان کے بعد سے اب تک عالم اسلام اور مغرب میں تاریخی، عملی اور فکری تغیرات کا ایک سلسلہ نظر آتا ہے جو مسائل کو منہدم بھی کرتا ہے اور ان کے نئے حل بھی پیش کرتاہے۔ گزرے ہوئے ساٹھ سال کے تناظر میں خطبات پر اس پیش رفت کا کیا اثر تسلیم کیا جانا چاہیے؟۔۴؎ کم و بیش یہی بات استاد گرامی پروفیسر مرزا محمد منور صاحب نے اجمالاً اپنے ایک مقالے میں کہی جسے مسئلہ زیر غور پر بہت بلیغ تبصرہ کہا جا سکتا ہے۔ مرزا صاحب کا قول ہے کہ: ہمیں تشکیل جدید کی روشنی میں دور مابعد کے مکتوبات، بیانات، خطبات اور تصریحات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ علامہ کی سوچ ۱۹۲۹ء تک پہنچ کے رک نہ گئی تھی۔’’ فکر اقبال تشکیل جدید کے بعد‘‘ ایک مستقل کتاب کا تقاضا کرنے والا عنوان ہے۔۵؎ ئ…ئ…ء حواشی ۱- سلیم احمد،’’ اقبال اور ہند اسلامی تہذیب‘‘ نیا دور، شمارہ۱۶۵۔۱۶۶، کراچی، ص ،۶۔۲۲۴۔ ۲- شیخ عطاء اللہ، اقبالنامہ ، جلد اول شیخ اشرف لاہور، ص ،۱۱۔۲۱؛ نیز دیکھیے تشکیل جدید اردو ترجمہ، از سید نذیر نیازی مقدمہ؛ پس منظر کی مزید تفصیلات کے لیے دیکھیے، جاوید اقبال، زندہ رود، جلدسوم، شیخ غلام علی، لاہور، ۱۹۸۴ء ، ص ،۳۶۷ نیز مکتوبات اقبال، مرتبہ سیدنذیر نیازی، ص،۲۴، ۲۵، ۴۲،۴۳،۶۔۴۵؛ رفیع الدین ہاشمی، تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، اقبال اکادمی، لاہور ، ۱۹۸۲ئ،ص ،۳۱۳۔ ۳- جاوید اقبال ، زندہ رود، محولہ بالا، ص، ۳۷۰۔ ۴- ان آرا کی ابتدائی شکل کے لیے دیکھیے ،محمد سہیل عمر، ’’خطبات اقبال۔ چند بنیادی سوالات‘‘ اقبالیات، جلد ۲۸، ش۲، جولائی ۱۹۸۷ء ، اقبال اکادمی، لاہور، ص، ۴۳ (بہ ترمیم و اضافہ) ۵- مرزا محمد منور، ’’علامہ اقبال اور اصول حرکت‘‘ طبع نو، اقبال اکادمی پاکستان، ت۔ ن۔ ئ…ئ…ء اصول تطبیق: تشکیل جدید کی علمی منہاج آٹھویں صدی ہجری کے مشہور فلسفی متکلم عضدالدین ایجی نے علم کلام کی تعریف مندرجہ ذیل الفاظ میں کی تھی: علمِ کلام وہ علم ہے جو عقائد دینی کو مستحکم طور پر ثابت کرنے کے لیے دلائل دینے اور شبہات کا ازالہ کرنے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے۔ ۱؎ دلائل کا انحصار بڑی حد تک ہر عہد کے فکری وسائل پر رہا ہے اور شبہات بھی ہر عہد کے مخصوص فکری مسائل سے جنم لیتے رہے ہیں۔ اس طرح علم کلام کے عنوان کے تحت عمل فرما ثانوی عقلی سرگرمی اور اس کے حاصلات میں ہر عہد کے تقاضے بھی منعکس ہوتے رہے ہیں اور ان کا رد عمل بھی۔ اس کے صدیوں پر پھیلے ہوئے فکری سفر کے دوران میں اسے اسلام کے دیگر مکاتب فکر یعنی اسلامی فلسفہ اور فقہ و تصوف سے بھی تاثیر و تاثر اور عمل اور رد عمل کی منزل سے گزرنا پڑا جس کے نتیجے میں طرفین کے ذخیرئہ مباحث میں اضافہ ہوا، نتائج افکار میں تغیر آیا اور نقطۂ نظر میں وسعت اور رنگا رنگی پیدا ہوئی۔ ۲؎ حقائق دین کے اثبات کی غرض سے وجود میں آنے والی یہ عقلی سرگرمی عہد بہ عہد تغیرات سے گزرتے ہوئے جب ہمارے زمانے اور برصغیرکی فکری فضا میں ظہور کرتی ہے تو اس کے قائلین میں یہاں کے حالات کے مطابق اہل علم کے دونوں طبقوں یعنی جدید تعلیم یافتہ اہل قلم اور قدیم نظام تعلیم کے فارغ التحصیل علما شریک نظر آتے ہیں۔ دونوں اپنے دائرہ کار میں اور اپنے اپنے فکری وسائل کے سہارے اپنے عہد کے سوالوں کا سامنا کرتے ہیں اور ان کا جواب فراہم کرتے ہیں۔ ۳؎؎ جدید تعلیم یافتہ مفکرین میں عہد حاضر کی سب سے بڑی اور موثر آواز علامہ اقبال کی ہے لیکن علامہ کی فکری حیثیت محض جدید کلام کے ایک نمائندے سے کہیں بلند تر ہے۔ ان کا کثیر الجہات شعری اور نثری کارنامہ اپنے حدو وسعت کے اعتبار سے تنگنائے کلام کا اسیر نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم جدید علم کلام کی تشکیل کو ان کے پورے فکری تناظر کا ایک اہم جزو ضرور کہا جا سکتا ہے۔ علامہ کے خطبات یعنی تشکیل جدیدالہیات اسلامیہ ۴؎ کو تقریبا سبھی ماہرین اقبالیات نے عہد حاضر میں حقائق دین کی سب سے کامیاب اور ہمہ گیر تعبیر نو قرار دیا ہے۔ علامہ اقبال کے زمانے تک آتے آتے، مغرب جدید کی تہذیب سے فکری تصادم کے نتیجے میں، ان کے عہد کے سوالات ایک مخصوص شکل اختیار کر چکے تھے جو بڑی حد تک ان سے پہلے کے ادوار سے مختلف تھی۔ دوسری طرف علامہ اقبال کے فکری و سائل بھی ان سے پہلے دور کے مفکرین کے مقابلے میں وسیع تر اور مکمل تر تھے۔ مغربی تہذیب سے جیسا براہ راست تعارف انھیں حاصل تھا اور مغربی فکر و فلسفہ پر جتنی گہرائی اور گیرائی سے ان کو دسترس حاصل تھی اس سے ان کے پیشر و بہرہ مند نہیں تھے۔ علامہ کے عہد کے فکری مسائل کی مخصوص نوعیت ان کے مخاطبین کے مخصوص ذہنی تقاضے اور علامہ کا فکری تناظر، یہ سب عناصر مل کر تشکیل جدید کو اس طرح کی دیگر کاوشوں سے ایک الگ اور ممتاز حیثیت میں لے آتے ہیں۔ اس انفرادی حیثیت کے بارے میں یوں تو اس طرح کے بیان بھی ملتے ہیں کہ ’’علامہ اقبال کے خطبات عصر حاضر کا جدید علم کلام ہیں جس کی ضرورت ارباب فکر و بصیرت عرصہ سے محسوس کر رہے تھے، اس سے انکار ممکن نہیں ہے کہ یہ علم الکلام ہمارے قدیم علم الکلام سے بدر جہا فائق، مستحکم اور ایمان و بصیرت کو جلا بخشنے والا ہے۔‘‘۵؎ لیکن ایسے بیانات سے قارئین کو یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ تشکیل جدید کی علمی منہاج میں وہ کون سے عناصر ہیں جن کی وجہ سے اس کو ایک امتیازی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر ظفر الحسن صاحب کا بیان زیادہ رہنما ہے۔ ۶؎ ڈاکٹر صاحب نے اپنے خطبہ صدارت میں تشکیل جدید کے خطبات پر تبصرہ کرتے ہوئے اولاً تو علامہ اقبال کی اس فکری کاوش کو سرسید احمد خان کے مکتب فکر کے تسلسل میں ایک اہم ضرورت یعنی ’’ایک جدید علم کلام کی تخلیق‘‘کی کامیاب تکمیل قرار دیا اور پھر سرسید کے اصول تفسیر اور دیگر تحریروں کے حوالے سے یہ بتایا کہ ان کے نزدیک علم کلام کا مقصد یہ تھا کہ دینی حقائق اور فلسفہ و سائنس میں عدم مطابقت نہیں ہے۔ ۷؎ اس مقصد کو حاصل کرنے کے سرسید نے دو طریقے بتائے تھے۔ ڈاکٹر ظفرالحسن نے اگرچہ انھیں عنوان نہیں دیا تھا تاہم سہولت کی خاطر ہم ان کے لیے اصول تطبیق اور اصول تفریق کے عنوانات قائم کر سکتے ہیں۔ اصول تطبیق یہ ہے کہ ’’یہ ثابت کیا جائے کہ مذہب جو کہتا ہے وہ حقیقت ہے اور فلسفہ و سائنس اصل میں اس سے متفق ہیں۔ جن مقامات پر اختلاف و تناقض پیدا ہو، وہاں فلسفہ و سائنس کی تردید کی جائے۔‘‘ ۸؎ اصول تفریق یہ ہے کہ ’’یہ دکھایا جائے کہ مذہب کی اقلیم فلسفہ و سائنس سے مختلف ہے۔ جہاں جہاں مذہب ان امور پر کلام کرتا ہے جو فلسفہ و سائنس کا موضوع ہیں تو مذہب کا مقصود بیان وہ نہیں ہوتا جو فلسفہ و سائنس کا ہے یعنی وہ فلسفہ و سائنس کی طرح ہمیں یہ نہیں بتانا چاہتا کہ ان اشیا کی ماہیت کیا ہے؟ اس کا مقصود اخلاقی یا مذہبی نتائج ہیں یا وہ ہدایت جو ان سے حاصل کی جا سکتی ہے۔‘‘۹؎ اس کے بعد ڈاکٹر ظفر الحسن صاحب نے اپنا اولین تاثر یوں درج کیا ہے۔ ابتدا میں چندے میرا خیال یہ رہا کہ ڈاکٹر سرمحمد اقبال دوسرا طریقہ اپنائیںگے لیکن جلد ہی یہ بات کھل گئی کہ ایسا نہیں ہے…اسلام اور فلسفے کو تطبیق دینے اور ہم آہنگ کرنے کی جو غیر معمولی لیاقت ان کو حاصل ہے اس نے ان کو آمادہ کیا کہ وہ اس کام کو دوبارہ انجام دیں جو صدیوں پہلے یونانی فلسفہ و سائنس کے روبرو ہمارے عظیم علما مثلاً نظام اور (ابوالحسن) اشعری نے اپنے لیے منتخب کیا تھا۔ اپنے ان خطبات میں انھوں نے ہمارے لیے ایک جدید علم الکلام کی نیورکھ دی ہے۔ ۱۰؎ ڈاکٹر ظفر الحسن صاحب کے تبصرے سے یہ واضح ہوا کہ علامہ کا اختیار کردہ منہاج علم اصول تطبیق سے عبارت ہے۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس اصول کا اطلاق کرتے ہوئے علامہ نے استدلال کی جو عمارت اٹھائی اس کے دروبام سے یہ اصول کیسے منعکس ہوا ہے، نیز جدید علم الکلام کی نیو رکھتے ہوئے علامہ نے اس نیو میں کیا کچھ رکھا تھا۔ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ علامہ کے مخاطبین کے ذہنی مسائل سابقہ نسلوں سے مختلف تھے۔ دوسری طرف علامہ کے علمی وسائل گہرائی اور گیرائی کے اعتبار سے اپنے پیشرو مصنفین سے مختلف بھی تھے اور متنوع بھی۔ مخاطبین کے بارے میں علامہ کا اپنا بیان کچھ یوں ہے: ان لکچروں کے مخاطب زیادہ تر وہ مسلمان ہیں جو مغربی فلسفے سے متاثر ہیں اور اس بات کے خواہشمند ہیںکہ فلسفہ اسلام کو فلسفہ جدید کے الفاظ میں بیان کیا جائے اور اگر پرانے تخیلات میں خامیاں ہیں تو ان کو رفع کیا جائے۔ میرا کام زیادہ تر تعمیری ہے اور اس تعمیر میں میں نے فلسفہ اسلام کی بہترین روایات کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ مگر میں خیال کرتا ہوں کہ اردو خوان دنیا کو شاید ان سے فائدہ نہ پہنچے کیونکہ بہت سی باتوں کا علم میں نے فرض کر لیا ہے کہ پڑھنے والے یا سننے (والے) کو پہلے سے حاصل ہے۔ اس کے بغیر چارہ نہ تھا۔ ۱۱؎ یہ فلسفہ جو اس زمانے کے ہندوستان میں پڑھایا جاتا تھا، کیا تھا؟ مغربی افادیت پرستوں اور حسیت پرستوں کے افکار۔اس سے جو ذہن تیار ہوتا ہے اس کی طرف بھی علامہ نے خطبات کے آغاز ہی میں اشارہ کر دیا ہے کہ ’’اسے محسوس یعنی اس قسم کی فکر کی عادت ہو گئی ہے جس کا تعلق اشیا اور حوادث کی دنیا سے ہے۔‘‘ ۱۲؎ …لہٰذا اب ہمیں تشکیل نو کے کام کے لیے ’’کسی ایسے منہاج کی ضرورت ہو گی جو…نفسیاتی اعتبار سے اس ذہن کے قریب تر ہو جو گویا محسوس کا خوگر ہو چکا ہے تا کہ وہ اسے بہ آسانی قبول کرے۔‘‘۱۳؎ اب علامہ کا ایک بیان خود اپنی افتاد طبع کے بارے میں بھی دیکھ لیجئے۔ ستمبر ۱۹۲۵ء میں صوفی غلام مصطفی تبسم کے نام خط میں لکھتے ہیں: میری مذہبی معلومات کا دائرہ نہایت محدود ہے البتہ فرصت کے اوقات میں میں اس بات کی کوشش کیا کرتا ہوں کہ ان معلومات میں اضافہ ہو۔ بات زیادہ تر ذاتی اطمینان کے لیے ہے، نہ تعلیم و تعلم کی غرض سے… اس کے علاوہ ایک اور بات (یہ) بھی ہے کہ میری عمر زیادہ تر مغربی فلسفے کے مطالعہ میں گزری ہے اور یہ نقطۂ خیال ایک حد تک طبیعت ثانیہ بن گیا ہے۔ دانستہ یا نادانستہ میں اسی نقطۂ نگاہ سے حقائق اسلام کا مطالعہ کرتا ہوں…۱۴؎ ان عبارتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم مسئلہ زیر بحث یعنی علامہ کے منہاج علمی کے بارے میں یہ عرض کریں گے کہ علامہ کے مخاطبین دو گونہ مشکلات کا شکارتھے۔ایک طرف وہ صرف انھی مقولات (categories)کے آشنایا انھی مقولات کے قائل تھے جو حسیت پرستی (empiricism ) کے علمی پس منظر نے انھیں فراہم کیے تھے۔ دوسری طرف وہ ان اشکالات اور فکری الجھنوں میں مبتلا تھے جو حسیات پرستی کے مقولات کو ان کے جائز دائرہ کار سے باہر وارد کرنے سے پیدا ہوئی تھیں۔ ۱۵؎ علامہ نے مصلحت وقت اور اپنے علمی رجحان کا تقاضا یہ جانا کہ ان کے مقولات کا انکار کرنے کے بجائے یا ان کے علاوہ دوسرے مقولات کو تسلیم کرنے کی جانب ان کو مائل کرنے کے بجائے انھی مقولات کے اندر اور انھی مقولات کی مثال اور مشابہت کے ذریعے ان کو حقائق دین کی تفسیر کر کے دکھائی جائے اور ان کے شعور پر یہ واضح کر دیا جائے کہ خود تمہارے مسلمات کے مطابق اسلام اور علوم جدیدہ میں تضاد نہیں ہے بلکہ یہ ایک دوسرے سے مثبت طور پر ہم آہنگ ہیں۔ یہ راستہ دشوار تر ہے۔ دو اقالیم کے مقولات کا امتیاز قائم کرنا اور اس امتیاز کی بنیاد پر ان کے مد لولات کو الگ کرنا آسان ہے لیکن ایک اقلیم کے مقولات و مسلمات کے سہارے اور ان کی مثال کے ذریعے، ایک الگ اور ماورا اقلیم کے حقائق کی تعبیر، خوگر محسوس اذہان تک منتقل کرنا، ایک مشکل کام ہے۔ اس مجرد بحث کو ہم چند مثالوں سے سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ کانٹ کے اپنے زمانے سے لے کر ہماری معاصر فکری تحریک ’’پس جدیدیت‘‘ تک جو بنیادی تصور روپ بدل بدل کر کم و بیش ہر مکتب فکر میں ظاہر ہوتا رہا ہے وہ کانٹ کے مرکزی اعتراض پر استوار ہے۔ مابعد الطبیعیات یا وجود خداوندی کے سلسلے میں کانٹ کا نظریہ مختصراً یہ تھا کہ: علم ایسے قضیہ مرکبہ وہبیہ کا نام ہے جس کے متوازی خارج میں حقیقت موجود ہو، جس کا خام مواد حواس نے مہیا کیا ہواور عقل کے بنیادی (خلقی) مقولات ؍مسلمات ۱۶؎ کی بنا پر قضیہ علمیہ میں کلیت پیدا ہوئی ہو۔ یوں حواس اور عقل مل کر ایک ذریعہ علم ہیں لہٰذا ہمارا علم یقینی حواس کے دائرے تک محدود ہے اور ورائے محسوسات کا علم یقینی ممکن ہی نہیں۔ بالفاظ دیگر چونکہ محسوس کے سوا کسی اور شے اور اس سے مختلف کسی اور اقلیم وجود کی تجربی تصدیق ممکن نہیں لہٰذا محسوس کے سوا کسی اور حقیقت کا یقینی علم بھی ممکن نہیں۔ اس بات کو آگے بڑھایئے تو یہ نتیجہ نکلے گا کہ مابعد الطبیعیات (ذات الٰہی، ملائکہ، مقامات معاد، وحی…) کا علم ناممکن ہے کہ ہم یہ فرض نہیں کر سکتے کہ حقیقت اولیٰ کی ماہیت یوں ہے یا یوں ہے تا وقتیکہ یہ ہمارا تجربہ نہ ہو اور نوع انسانی کا تجربہ یہ اس لیے نہیں کہ انسانوں کا تجربہ دائرہ حواس تک محدود ہے۔ چونکہ حقیقت اولیٰ ہمارے تجربے سے باہر ہے، بنا بریں ہمارے علم سے بھی باہر ہے۔ کانٹ کے اس مرکزی خیال کا سامنا کرنے کے دو طریقے ہو سکتے تھے۔ وہی دو طریقے جو ہم نے اصول تطبیق اور اصول تفریق کے عنوانات کے تحت بیان کیے۔ کانٹ دو چیزوں کا قائل ہے۔ حسی ادراک اور اس میں تنظیم و معنویت پیدا کرنے والے خلقی مقولات فکر۔ اصول تفریق کی راہ اختیار کریں تو جواب یہ ہو گا کہ جن خلقی مقولات ۱۷؎ کا کانٹ کو اقرار ہے ان کے علاوہ ، ان سے اعلیٰ اور اہم تر، مقولات اس کی فکر کی رسائی سے باہر رہ گئے۔ یعنی ہم مخاطب کو کچھ اور مقولات کے وجود کی طرف متوجہ کروائیں گے جن سے ان مظاہر کی توجیہ و تعلیل ہو سکتی ہے جن کی تردید کانٹ کے سلسلۂ فکر کے نتیجے میں لازمی ہو جاتی ہے۔ یعنی اس راہ استدلال میں کانٹ کے مجوزہ مقولات میں اضافہ کرنا مطلوب ہو گا۔ اس کے برعکس اگر اصول تطبیق کی راہ اختیار کی جائے تو ہم یہ مان کر چلیں گے کہ ایک طرف تو مسلمات و مقولات فکر ہیں اور دوسری طرف حسی تجربہ۔ ہمارے مخاطبین صرف انھی دو کے قائل ہیں۔ اول الذکر صورت میں تطبیق دینے والے کی دلیل یہ ہو گی کہ اگر تجربے کا دائرہ وسیع تر کر دیا جائے اور محسوسات کے علاوہ تجربے کے کسی اور ڈھب کا اثبات کیا جائے تو امکان علم سے یہ انکار بھی اثبات میں بدل سکتا ہے۔ علامہ نے مصلحت کلام اور قریب الفہم ہونے کی رعایت سے یہی بات کہی کہ انسان کا ایک اور تجربہ بھی ہے، داخلی یا سرّی تجربہ۔ اسے وقوف مذہبی یا وقوف سرّی کہا جا سکتا ہے اور یہ نہ صرف ایک طرح سے ہمارے عمومی طبعی تجربے سے مشابہ ہے بلکہ شاید اسی تجربے کے زمرے میں شامل ہے۔۱۸؎ غور کیجیے کہ یہاں کیا دلیل کار فرما ہے۔ علامہ اپنے مخاطب کو اسی کے مسلمات کے حوالے سے اور اسی کے تسلیم کردہ مقولات سے مشابہت کی طرف توجہ دلا کر اسے حقائق دینی میں سے ایک بنیادی چیز یعنی وحی خداوندی کا قائل کر رہے ہیں۔ تقریب فہم کے لیے وہ گویا مخالف کے میدان فکر میں خود چل کر جاتے ہیں اور اسی کے اصولوں کے مطابق بیان کرتے ہیں کہ دیکھو، حسی تجربات کے علاوہ فلاں قسم کے تجربات اور بھی ہیں جو حواس کے دائرے سے باہر ہیں اور ان کا انکار بھی نہیں ہو سکتاکیونکہ ان کو خارج میں وقوع پذیر ہوتے دیکھا جاتا ہے لہذا اگر حواس کے مدرکات کے علاوہ اور بھی کچھ ہو رہا ہے تو اس پر قیاس کرکے حقیقت کے علم کے ایک اور ذریعے کے امکان کو تسلیم کرنا پڑے گا۔۱۹؎ مثال کے طور پر علامہ نے ابن صیاد کا واقعہ پیش کیا ہے۔ ۲۰؎ اور ولیم جیمز کا حوالہ دیا ہے۔۲۱؎ ابن صیاد کے واقعہ کی تفصیلات پر غور کیجئے تو واضح نظر آتا ہے کہ سارا معاملہ کشف خواطر سے زائد کا نہیں ہے اور دوسرے ذہن کے خیالات بوجھ لینے کی افقی صلاحیت سے متعلق ہے، خالصتاً اقلیم رُوانی (psychic domain) میں پیش آیا اور اس میں حقائق الامور یا عالم غیب کے علم سے متعلق کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ شعور مذہبی نے وحی کے مابعد الطبیعی، معروضی مظہر میں اور اس قبیل کے نفسی تجربات کے مابین ہمیشہ ایک نوعی فرق مانا ہے۔ لیکن علامہ جس اصول تطبیق کو استعمال کر رہے تھے او رجن لوگوں کو خطاب کر رہے تھے ان دونوں کا تقاضا تھا کہ ان تک صرف اسی قبیل کے تجربے کا ابلاغ کیا جائے لہٰذا علامہ نے اپنے خطبے میں ابن صیاد کی استعدادِ کشفِ خواطر اور وحی میں فرق بیان نہیںکیا اور اس نوع کے تجربے کو بھی ذرائع علم میں شمار کیا ہے۔ مخاطب کے ذہنی مسائل کی رعایت سے اسے اسی کے مسلمات کے سہارے دین کے حقائق سمجھانے کی اس تطبیقی کوشش کی مثالیں تمام خطبات میں اور ان کے سبھی مباحث میں ملتی ہیں۔ ہم سردست ان کے تفصیلی مطالعے سے گریز کرتے ہوئے ایک اور اہم معاملے کی طرف قارئین کی توجہ دلانا چاہتے ہیں جو مذکورہ بالا اصول تطبیق کے اطلاق کے سلبی پہلو سے متعلق ہے۔ وقوف سرّی کی ابن صیاد والی مثال دے کر اور اسے ذریعۂ علم قرار دے کر علامہ نے اپنے مخاطبین کو قائل کیا کہ حسی تجربے کے علاوہ وقوف سرّی یا اس قبیل کا انسانی تجربہ بھی ممکن ہے جو اگرچہ دائرہ حواس سے باہر ہے تاہم ناقابل تردید طور پر تجربے میں آیا ہے۔ چونکہ وحی بھی بہ اعتبار نوعیت ایک وقوف سرّی ہے لہٰذا اس کا امکان بھی تسلیم کرنا ہو گا۔‘‘ وقوف سرّی (سرّی تجربہ) جوبہ اعتبار نوعیت نبی کے تجربے سے مختلف نہیں ہے انسانی زندگی میں اب بھی بطور ایک امکان کے موجود ہے ۲۲؎ … ’’وقوف سرّی خواہ کتنا ہی غیر معمولی اور مافوق العادت کیوں نہ ہو، مسلمان کو چاہیے کہ اسے ایک کاملاً طبعی تجربہ شمار کریں جسے انسانی تجربے کے دوسرے پہلوئوں کی طرح تنقیدی تجزیے کا موضوع بنایا جا سکتا ہے۔ یہ امر آنحضرت اکے اس رویے سے عیاں ہے جو آپؐ نے ابن صیاد کے نفسی تجربات (احوال) کے بارے میں اختیار کیا۔‘‘ ۲۳؎ یہاں آ کر استدلال کے منطقی رخ کے تحت اس اصول تطبیق کا سلبی پہلو ظاہر ہونے لگتا ہے۔ اولاًیوں کہ اگر وقوف سرّی جو ’’بہ اعتبار نوعیت نبی کے تجربے سے مختلف نہیں ہے‘‘احتمال خطا سے بری نہیں ہے تو وحی محمدی (یا کوئی اور وحی خداوندی) بھی احتمال خطا سے بری نہیں ہو گی۔ دوسری طرف یہ دیکھیے کہ اگر دونوں تجربے یا دونوں واردات نوعیت اور کیفیت میں یکساں و ہم جنس ہیں تو تنقیدی نظر سے جائزے کا اطلاق واردات نبوی پر بھی ہو جائے گا۔ اصول تفریق کے تحت اس کا حل یہ تھا کہ انبیا کی وحی اور وقوف سرّی کے تمام مظاہر کے درمیان ایک نوعی فرق مانا جائے تا کہ ان کے مراتب الگ کر کے ان کی شرائط اور تقاضے بھی الگ کئے جا سکیں نیز یہ بات بھی پیش نظر رکھی جائے کہ خرق عادت یا غیر معمولی اور مافوق الطبیعی تجربات گو ایک ممکن چیز ہیں مگر ان کے امکان یا ان کے وقوع سے صرف اسی درجۂ وجود کے مظاہر کا ثبوت فراہم ہو سکتا ہے یعنی (psychic) اور (occult) کے وجود کا ۔اس سے اقلیم روحانی سے تعلق کی ضمانت میسر نہیں آتی نہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس نوع کے تجربات کا حامل انبیا کی طرح وحی خداوندی سے سرفراز ہو رہا ہے اور خدا سے ہم کلام ہے۔ اگر یہ فرق نہ مانا جائے تو عام آدمی کے لیے وحی پر عقیدہ رکھنے کی ضرورت ساقط ہو جائے گی اور شریعت محمدیہ بھی انسانی تجربات کی ذیل میں ایک تجربہ بن جائے گی جس کے رد وقبول کا حق عقل استقرائی کو حاصل ہو گا، اور ماورا الطبیعی جہت سے کٹ کر نبوت محمدیہ اور ختم نبوت ہر دو صرف عقلی قدرو قیمت کی کمزور بنیاد پر تسلیم کے لیے پیش ہوں گے۔ پہلے اشکال کو رد کرنے کے لیے علامہ نے قرآن سے استدلال کیا ہے۔۲۴؎ اس استدلال کا منطقی قضیہ یہ ہے کہ واردات باطنی میں احتمال خطا کے باوجود اسے بطور ایک ذریعۂ علم کے رد نہیں کرنا چاہیے کیونکہ خود وحی نبوی میںیہ احتمال پایا جاتا ہے۔ اس استدلال میں جو سقم ہے اس سے ہم یہاں تعرض نہیں کر رہے۔۲۵؎ ہمیں اپنے پیش کردہ نکتے کی فکری توسیع کے طور پر عرض کرنا ہے کہ علامہ کو اپنے طریق استدلال کے منطقی نتیجے کے طور پر پیدا ہونے والے بعض اشکالات کا بخوبی اندازہ تھا۔ انھیں معلوم تھا کہ جب وقوف سرّی کو اور وقوف مذہبی کو عام انسانی تجربے کے زمرے میں شمار کیا جائے گا تو اس سے اگرچہ حسیت پرستی میں گرفتار مخاطبین کو وحی کے ممکن ہونے پر دلائل سے قائل تو کر لیا جائے گا مگر ساتھ ہی وہ اساسی امتیازات بھی منہدم ہو جائیں گے جو عام انسان کے معمول بہ ،حسیاتی، رُوانی اور اختباری تجربات اور تنزیلات ربانی کے وصول کرنے والے خاص انسانوں کے تجربے کے درمیان شعور مذہبی کی طرف سے پیش نظر رکھے جاتے ہیں۔ وحی خداوندی کی حجیت اور صداقت پروارد ہونے والے اس اشکال کو سامنے رکھتے ہوئے اور صاحب وحی کے تجربے کا عام انسانی تجربے سے امتیاز از سر نو قائم کرنے کے لیے علامہ نے خطبہ اول کے آخر میں اور دیگر مقامات پر بھی اس ممکنہ حل کی طرف اشارہ کیا ہے: Religious experience, I have tried to maintain, is essentially a state of feeling with a cognitive aspect, the content of which cannot be communicated to others, except in the form of a judgement. Now when a judgement which claims to be the interpretation of a certain region of human experience, not accessible to me, is placed before me for my assent, I am entitled to ask, what is the guarantee of its truth? Are we in possession of a test which would reveal its validity? If personal experience had been the only ground for acceptance of a judgement of this kind, religion would have been the possession of a few individuals only. Happily we are in possession of tests which do not differ from those applicable to other forms of knowledge. These I call the intellectual test and the pragmatic test. By the intellectual test I mean critical interpretation, without any presuppositions of human experience, generally with a view to discover whether our interpretation leads us ultimately to a reality of the same character as is revealed by religious experience. The pragmatic test judges it by its fruits. The former is applied by the philosopher, the latter by the prophet. In the lecture that follows, I will apply the intellectual test 26 ہم برابر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ مذہبی واردات کی حیثیت در اصل ایک کیفیت احساس کی ہے جس میں دوسروں کے سامنے بطور تصدیقات ہی کے پیش کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر کسی تصدیق کے متعلق جو یوں تو ہماری دسترس سے باہر ہے ، یہ دعویٰ کیا جائے کہ اس سے ہمارے محسوسات و مدرکات کے ایک خاص عالم کی ترجمانی ہوتی ہے تو ہمیں یہ پوچھنے کا حق پہنچتا ہے کہ اس کی صحت کا ثبوت کیا ہے یعنی کیا ہمارے پاس کوئی ایسی آزمائش موجود ہے جس سے اس کے حق و باطل کا امتحان کیا جا سکے؟ یا اگر فرض کیجیے ان تصدیقات کی صحت کا دار و مدار کسی شخص کے ذاتی مشاہدات پر ہوتا تو اس صورت میں مذہب کا حلقہ بھی صرف چند افراد تک محدود رہ جاتا ۔ لیکن خوش قسمتی سے ہمارے پاس بعض ایسی آزمائشیں موجود ہیں جو ان آزمائشوں سے مختلف نہیں جن کا اطلاق علم کی دوسری اصناف پر ہوتا ہے اور جن کو ہم عقلی اور عملی معیارات سے تعبیر کریں گے ۔ عقلی معیار تو عبارت ہے اس ناقدانہ تعبیر سے جس میں ہم اپنے محسوسات و مدرکات کی تحقیق کسی پہلے سے قائم شدہ مفروضے کے ماتحت نہیں کرتے بلکہ جس سے بالعموم یہ دیکھنا مقصود ہوتا ہے کہ اس تعبیر کی انتہا کیا فی الواقعہ اسی حقیقت پر ہوتی ہے جس کے انکشاف میں مذہبی مشاہدات ہماری رہنمائی کرتے ہیں ، لیکن عملی معیار باعتبار نتائج ان پر حکم لگاتا ہے ۔ اوّل الذکر سے فلسفی کام لیتے ہیں، مؤخرالذکر سے انبیا آئندہ خطبے میں ہم عقلی معیار ہی سے کام لیں گے۔۲۷؎ علامہ نے اس مشکل کا حل پیش کرتے ہوئے بھی اپنے اختیار کردہ اصول تطبیق کو ترک نہیں کیا بلکہ اسی کے تقاضے کے مطابق وہ معیار اور وہ آزمائشیں بطور حدود امتیاز تجویز کیے ہیں جو مخاطب کے مقولات و مسلمات فکر یا اس کے ذہنی تناظر paradigm) (سے باہر نہیں ہیں۔ ’’ہمارے پاس بعض ایسی آزمائشیں موجود ہیں جو ان آزمائشوں سے مختلف نہیں ہیں جن کا اطلاق علم کی دوسری اصناف پر ہوتا ہے۔‘‘۲۸؎ ان الفاظ سے علامہ اسی مشترکہ بنیاد کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ ان کی تجویز کردہ آزمائش عملی اور آزمائش نظری دونوں کا تعلق مخالف کی اقلیم فکر کے مسلمات سے ہے۔ اوّل الذکر عملی افادیت(pragmatism) پر مبنی ہے اور موخر الذکر کا تار و پود تجربیت empiricism) (اور حیات پرستی) (vitalismسے تیار ہوا ہے اور اس کے لیے دلائل فراہم کرتے ہوئے علامہ نے اپنے معاصر فلسفیوں کے افکار سے تفصیلی استفادہ کیا ہے اور ان کے نظریات سے مشابہت و ہم آہنگی کی بنیاد پر اپنے استدلال کو تعمیر کیا ہے۔۲۹؎ ہماری دانست میں یہ ہیں وہ عناصر ترکیبی جن پر تشکیل جدید کی منہاج علمی استوار کی گئی۔ ان کی طرف اولین اشارہ ڈاکٹر سید ظفر الحسن صاحب نے کیا تھا اور ان کے مختصر اشارات کی مدد سے تشکیل جدید کے مباحث کا تجزیہ کرتے ہوئے ہم ان نتائج تک پہنچے ہیں جن کا ایک ادھورا سا اظہار سطورِ ماقبل میں ہم نے کیا ہے۔ آئیے اب یہ دیکھ لیا جائے کہ الٰہیات اسلامیہ کی’’ تشکیل جدید‘‘ کی ضرورت کیوں تھی؟ علامہ کے اپنے الفاظ میںا س کا جواب یہ ہے:۔ The most remarkable phenomenon of modern history however, is the enormous rapidity with which the world of Islam is spiritually moving towards the West. There is nothing wrong in this movement, for European culture, on its intellectual side, is only a further development of some of the most important phases of the culture of Islam.30 تاریخ حاضرہ کاسب سے زیادہ توجہ طلب مظہر یہ ہے کہ ذہنی اعتبار سے عالم اسلام نہایت تیزی کے ساتھ مغرب کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس تحریک میں بجائے خود کوئی خرابی نہیں کیونکہ جہاں تک علم و حکمت کا تعلق ہے مغربی تہذیب دراصل اسلامی تہذیب ہی کے بعض پہلوئوں کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے۔ لیکن اندیشہ یہ ہے کہ اس تہذیب کی ظاہری آب و تاب کہیں اس تحریک میں حارج نہ ہو جائے اور ہم اس کے حقیقی جوہر، ضمیر اور باطن تک پہنچنے سے قاصر رہیں۔۳۱؎ The theory of Einstein has brought a new vision of the universe and suggests new ways of looking at the problems common to both religion and philosophy.No wonder then that the younger generation of Islam in Asia and Africa demand a fresh orientation of their faith.With the reawakening of Islam, therefore, it is necessary to examine, in an independent spirit, what Europe has thought and how far the conclusions reached by her can help us in the revision and, if necessary, reconstruction, of theological thought in Islam.32 آئین اسٹائین کے نظریے نے کائنات کو ایک نئے روپ میں پیش کر دیا ہے اور ہم محسوس کر رہے ہیں کہ اس طرح ان مسائل پر بھی جو فلسفہ اور مذہب میں مشترک ہیں نئے نئے زاویوں کے تحت غور کرنا ممکن ہو گیا ہے لہٰذا اگر اسلامی ایشیا اور افریقہ کی نئی پود کا مطالبہ ہے کہ ہم اپنے دین کی تعلیمات پھر سے اجاگر کریں تو یہ کوئی عجیب بات نہیں۔ لیکن مسلمانوں کی اس تازہ بیداری کے ساتھ اس امر کی آزادانہ تحقیق نہایت ضروری ہے کہ مغربی فلسفہ ہے کیا۔ علی ہذا یہ کہ الٰہیات اسلامیہ کی نظرثانی بلکہ ممکن ہو تو تشکیل جدید میں ان نتائج سے کہاں تک مدد مل سکتی ہے جو اس سے مترتب ہوئے۔۳۳؎ I propose to undertake a philosophical discussion of some of the basic ideas of Islam, in the hope that this may, at least, be helpful towards a proper understanding of the meaning of Islam as a message to humanity.34 ان خطبات میں بھی میرا یہی ارادہ ہے کہ اسلام کے بعض اساسی افکار کی بحث فلسفیانہ نقطہ نظر سے کروں تا کہ اور نہیں تو بہت ممکن ہے ہم اس حقیقت ہی کو آسانی سے سمجھ سکیں کہ بحیثیت ایک ایسے پیام کے جس کا خطاب ساری نوع انسانی سے ہے، اسلام کے معنی کیا ہیں۔۳۵؎ ساتھ ہی علامہ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ: ....a false reverence for past history and its artificial resurrection constitute no remedy for a people's decay.36 اگر قوم کے زوال و انحطاط کو روکنا ہے تو اس کا یہ طریقہ نہیں کہ ہم اپنی گزشتہ تاریخ کو بے جا احترام کی نظر سے دیکھنے لگیں ، یا اس کا احیا خود ساختہ ذرائع سے کریں۔۳۷؎ The only effective power, therefore, that counteracts the forces of decay in a people is the rearing of self-concentrated individuals. Such individuals alone reveal the depth of life. They disclose new standards in the light of which we begin to see that our environment is not wholly inviolable and requires revision.38 لہٰذا قوائے انحطاط کے سدباب کا اگر کوئی ذریعہ فی الواقع مؤثر ہے تو یہ کہ معاشرے میں اس قسم کے افراد کی پرورش ہوتی رہے جو اپنی ذات اور خودی میں ڈوب جائیں، کیونکہ ایسے ہی افراد ہیں جن پر زندگی کی گہرائیوں کا انکشاف ہوتا ہے اور ایسے ہی افراد وہ نئے نئے معیار پیش کرتے ہیں جن کی بدولت اس امر کا اندازہ ہونے لگتا ہے کہ ہمارا ماحول سرے سے ناقابل تغیر و تبدل نہیں اس میں اصلاح اور نظرثانی کی گنجائش ہے۔۳۹؎ علامہ کو اپنی شخصیت کی عبقریت اور صلاحیتوں کا شعور ہے۔ وہ اپنی قوم کو ایک نیا تحرک اور قوت عمل عطا کرنے کے لیے اسلام کی فکر دینی کی اس طرح تعبیر نوکرنا چاہتے ہیں کہ وہ ایک نئی مابعد الطبیعیات ، نئے علم کلام کی صورت اختیار کر لے اور مندرجہ ذیل آیت قرآنی کے ایک زندہ تجربے کا امکان پیدا ہو جائے۔ ’’ماخلقکم ولا بعثکم الاکنفس واحدۃ‘‘۴۰؎ اس کا سبب یہ ہے کہ علامہ یہ شدت سے محسوس کر رہے ہیں کہ: .... the modern man has ceased to live soulfully, i.e. from within. In the domain of thought he is living in open conflict with others. He finds himself unable to control his ruthless egoism and his infinite gold-hunger which is gradually killing all higher striving in him and bringing him nothing but life- weariness. Absorbed in the 'fact', that is to say, the optically present source of sensation, he is entirely cut off from the unplumbed depths of his own being. 41 انسان کی روح مردہ ہو چکی ہے، یعنی وہ اپنے ضمیر اور باطن سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ خیالات اور تصورات کی جہت سے دیکھیے تو اس کا وجود خود اپنی ذات سے متصادم ہے۔ سیاسی اعتبار سے نظر ڈالیے تو افراد افراد سے۔ اس میں اتنی سکت ہی نہیں کہ اپنی بے رحم انانیت اور ناقابل تسکین جوع زرپرقابو حاصل کر سکے۔ یہ باتیں ہیں جن کے زیر اثر زندگی کے اعلیٰ مراتب کے لیے اس کی جدوجہد بتدریج ختم ہو رہی ہے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ وہ درحقیقت زندگی ہی سے اکتا چکا ہے۔ اس کی نظر حقائق پر ہے یعنی حواس کے اس سرچشمے پر جو اس کی آنکھوں کے سامنے ہے، لہٰذا اس کا تعلق اپنے اعماق وجود سے منقطع ہو چکا ہے۔۴۲؎ The technique of medieval mysticism by which religious life, in its higher manifestations, developed itself both in the East and West has now practically failed.43 سلوک و عرفان کے جو صوفیانہ طریق از منہ متوسطمیں وضع کیے گئے تھے اور ان کی بدولت مشرق و مغرب میں کبھی مذہبی زندگی کا اظہار بڑی اعلیٰ اور ارفع شکل میں ہوا تھا اب عملاً بے کار ہو چکے ہیں۔۴۴؎ Far from reintegrating the forces of the average man's inner life, and thus preparing him for participation in the march of history, it has taught him a false renunciation and made him perfectly contented with his ignorance and spiritual thraldom. No wonder then that the modern Muslim in Turkey, Egypt, and Persia is led to seek fresh sources of energy in the creation of new loyalties, such as partriotism and nationalism......Disappointed of a purely religious method of spiritual renewal which alone brings us into touch with the everlasting fountain of life and power by expanding our thought and emotion, the modern Muslim fondly hopes to unlock fresh sources of energy by narrowing down his thought and emotion.Modern atheistic socialism,which possesses all the fervour of a new religion, rises in revolt against the very soruce which could have given it strength and Purpose. Both nationalism and atheistic socialism, at least in the present state of human adjustments, must draw upon the psychological forces of hate, suspicion, and resentment which tend to impoverish the soul of man and close up his hidden sources of spiritual energy. Neither the technique of medieval mysticism,nor nationalism, nor atheistic socialism can cure the ills of a despairing humanity. Surely the present moment is one of great crisis in the history of modern culture. The modern world stands in need of biological renewal. And religion, which in its higher manifestaions is neither dogma, nor priesthood, nor ritual, can alone ethically prepare the modern man for the burden of the great responsibility which the advancement of modern science necessarily involves, and restore to him that attitude of faith which makes him capable of winning a personality here and retaining it hereafter.45 بجائے اس کے کہ یہ طور طریق ان قویٰ کی شیرازہ بندی کریں جن کا تعلق انسان کی اندرونی زندگی سے ہے تا کہ یوں اس میں یہ صلاحیت پیدا ہو کہ تاریخ کی مسلسل حرکت میں عملاً حصہ لے سکے، اس کی تعلیم یہ ہے کہ ہمیں دنیا ہی سے منہ موڑ لینا چاہیے۔ لہٰذا یہ قدرتی بات تھی کہ ہم اپنی جہالت اور غلامی پر قناعت کر لیتے۔ اندریں صورت اگر ترک اور مصری، یا ایرانی اب نئی نئی وفاداریوں کا سہارا لے رہے ہیں تا کہ یوں انھیں قوت اور طاقت کا کوئی نیا سرچشمہ مل جائے، مثلاً حب الوطنی یا وطنیت… دور حاضر کا مسلمان قطعاً مایوس ہو چکا ہے وہ سمجھتا ہے اس کی روحانی زندگی کا احیا اب مذہب کے ذریعے ناممکن ہے۔ حالانکہ مذہب ہی وہ ذریعہ ہے جس سے افکار و خیالات کی دنیا میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور جس کے سہارے ہم زندگی، قوت اور طاقت کے دائمی سرچشمے تک پہنچتے ہیں۔ اس کا خیال ہے وہ از سر نو زندگی اور طاقت حاصل کرے گا تواس طرح کہ اپنے افکار اور خیالات اور جذبات و احساسات کی دنیا تنگ کرتا چلا جائے۔ عصر حاضر کی لادین اشتراکیت کا مطمح نظر بیشک نسبتاً زیادہ وسیع ہے اور اس کے جوش و سرگرمی کا بھی وہی عالم جو کسی نئے مذہب کا…وہ اس چیز ہی سے برسرپیکار ہے جوزندگی اور طاقت کا سرچشمہ بن سکتی تھی۔ بہر حال یہ وطنیت ہو، یا لادین اشتراکیت دونوں مجبور ہیں کہ بحالت موجودہ انسانی روابط کی دنیا میں تطابق و توافق کی جو صورت ہے اس کے پیش نظر ہر کسی کو نفرت، بدگمانی اور غم و غصے پر اکسائیں۔ حالانکہ اس طرح انسان کاباطن اور ضمیر مردہ ہو جاتا ہے اور وہ اس قابل نہیں رہتا کہ اپنی روحانی طاقت اور قوت کے مخفی سرچشمے تک پہنچ سکے۔ لہٰذا یہ از منہ متوسط کا تصوف ہے ، نہ وطنیت اور لادین اشتراکیت جو اس مایوسی اور دل گرفتگی کا مداوا بنے گی جس میں آج کل کی دنیا گرفتار ہے اور جس کے زیر اثر تہذیب انسانی کو ایک زبردست خطرہ درپیش ہے معلوم ہوتا ہے اس وقت دنیا کو حیاتیاتی اعتبار سے زندہ ہونے کی ضرورت ہے۔ گویا عصر حاضر کا انسان اگر پھر سے وہ اخلاقی ذمہ داری اٹھا سکے گا جو علوم جدیدہ کے نشوونما نے اس پر ڈال رکھی ہے تو صرف مذہب کی بدولت، یونہی اس کے اندر ایمان و یقین کی اس کیفیت کا احیا ہو گاجس کی بدولت وہ اس زندگی میں ایک شخصیت پیدا کرتے ہوئے آگے چل کر بھی اسے محفوظ اور برقرار رکھ سکے گا۔ اس لیے کہ مذہب ، یعنی جہاں تک مذہب کے مدارج عالیہ کا تعلق ہے، نہ تو محض عقیدہ ہے، نہ کلیسا، نہ رسوم و ظواہر۔۴۶؎ علامہ اپنے خطبات میں الٰہیات اسلامیہ کی تشکیل جدید کے ذریعے مذہب کا ایسا ہی تصور پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے جو منہاج انھوں نے اختیار کی وہ اسلام اور علوم جدیدہ (مابعدالطبیعیات اور سائنس) کے درمیان تطبیق کے عمل سے عبارت ہے کیونکہ مذہب اور علم دونوں انسانی اقدار ہیں اور ان میں اگر تطبیق نہ ہو تو دونوں کو پہلو بہ پہلو قبول کرنا ممکن نہ ہو گا۔ ان میں بظاہر تضادات نظر آتے ہیں، مثلاً انسانی اختیار و آزادیٔ ارادہ، حیات بعد الممات، وجود خداوندی جیسے تصورات پر مذہب کی بنیاد ہے۔ حسیت پرست مابعدالطبیعیات ان تصورات کو صرف افادی حیثیت کا حامل سمجھتی ہے۔ وحی مذہب کی اساس ہے۔ نفسیات اسے خود فریبی یا نظری مغالطہ قرار دیتی ہے اور اس کے وصول کرنے والے کو دماغی مریض بتاتی ہے۔ تخلیق از عدم مذہب کی بنیادی بات ہے۔ علم حیاتیات اسے رد کر کے اس کی جگہ فرضیہ ارتقا پیش کر دیتا ہے۔ عبادت اور دعا کی تاثیر کو کلاسیکی طبیعیات اس لیے ناقابل قبول کہتی ہے کہ یہ میکانیکی تعلیل کی کسوٹی پر پوری نہیں اترتی۔ علامہ اس بات کو لے کر آغاز استدلال کرتے ہیں کہ کلاسیکی طبیعیات نے اپنی بنیاد ہی پر تنقید شروع کر دی ہے اور اس تنقید کے نتیجے کے طور پر وہ مادیت پرستی جو اس طبیعیات سے لازم و ملزوم سمجھی جاتی تھی، اٹھتی جا رہی ہے اور وہ وہ دن دور نہیں ہے جب ’’مذہب اور سائنس میں ایسی ایسی ہم آہنگیوں کا انکشاف ہو گا جن کا ہمیں گمان ہی نہیں‘‘ ۴۷؎ یہیں سے مذہب اور علم جدید میں تطبیق کے امکان کا جواز پیدا ہوتا ہے۔ علامہ نے جب اپنے پہلے چھ خطبات علی گڑھ میں پیش کیے تو خطبۂ صدارت میں ڈاکٹر سید ظفر الحسن صاحب نے ان پر تبصرہ کرتے ہوئے اس تطبیق و توافق کے دو ممکنہ راستوں کی نشاندہی کی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کی گفتگو درج ذیل ہے۔۴۸؎ this purpose can be fufilled in two ways: I. Either by proving that what Religion says is the truth, and Science and Philosophy really agree with Religion; and by refuting Science and Philosophy where they disagree with it. II. Or by showing that the domain of Religion is different from that of Science and Philosophy; and where religion speaks of things with which Science and Philosophy deal its purpose in speaking of them is not the same as that of Science or Philosophy; i.e., it does not aim at telling us, like Science or Philosophy, what the nature of such objects exactly is; it only aims at the moral or religious conclusions the guidance that can be drawn from them. علامہ نے اوّل الذکر راہ اپنائی۔ اس راہ عمل کا مضمر مقدمہ یہ تھا کہ مذہب اور علم جدید (فلسفیانہ اور سائنسی علم) کا مسئلہ، مسئلے کا حل اور ہدف و مقصد ایک ہی ہیں۔ جہاں ان میں تناقضات یا اختلافات ہوں وہاں ان کو تطبیق دینا چاہیے۔ اب ہمیں مختصراً یہ دیکھنا چاہیے کہ موارد اختلاف و تضاد کیا ہیںا ور کیوں پیدا ہوتے ہیں۔ سائنسی شعور حقیقت کا جزوا ً جزواً علم حاصل کرتا ہے۔ حقیقت کے مختلف اجزا یا حقیقت کے پہلوئوں کا سامنا کرتے ہوئے اس کے کچھ مقولات (categories) ہوتی ہیں جو اصول توجیہ کا کام کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر طبیعیات کے مقولات میں مادہ بحیثیت جو ہر، علت، معلول، کمیت، عدد وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے ذریعے حقیقت کی غیر نامیاتی اقلیم کے متنوع عناصر کی تنظیم کی جاتی ہے لیکن اگر کسی ایک شعبہ علم سے متعلق مقولات کو جو حقیقت کے صرف اسی گوشے کی توجیہ کے لیے کارآمد ہوں، پھیلا کر اور بہ اصرار وسعت دے کر، ایک بالاتر اصول بنایا جائے اور کلی صداقت کے مترادف قرار دیا جائے یا بہ الفاظ دیگر سائنس کو مابعد الطبیعیات کے رتبے پر فائز کر دیا جائے تو پیچیدگیاں اور تضادات ابھرتے ہیں اور یہ عموماً اس لیے ہوتا ہے کہ چونکہ کسی ایک اصول نے حقیقت کے کسی ایک جزو یا ایک پہلو کی کامیابی سے توجیہ کر دی ہوتی ہے لہٰذا کامیابی کے اس جوش میںا سی اصول کو اس کی جائز اور قابل عمل حدود و ثغور سے باہر وارد کرنے کی کوشش شروع ہو جاتی ہے۔ ہر مقولہ اپنی جگہ نامکمل ہوتاہے اور کلیت فکر کے تقاضے پورے نہیں کر سکتا چنانچہ جب ان مقولات کو جو جزوی صداقت ہیں، حتمی صداقت اور اصول توجیہ بنایا جائے اور ان دائروں یا اقالیم پر ان کا اطلاق کیا جائے جہاں ان مقولات سے نہیں بلکہ دوسرے مقولات سے توجیہ ممکن ہے تو پھر خلط مبحث اور فساد فکر کاآغاز ہو جاتاہے۔ یہ طبیعیات، حیاتیات، نفسیات، اخلاقیات، جمالیات، منطق اور الٰہیات سب علوم کا رجحان ہے۔ ہر شعبہ علم اپنے اپنے مقولات کی بنیاد پر ایک مابعدالطبیعیات کی تشکیل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ان بنیادی امتیازات کو مسمار کرنے لگتا ہے جو ان مقولات کے ذریعے توجیہ پذیر نہیں ہوسکتے، مثلاً ایک ماہر طبیعیات اپنے فکری مقولات کے جوش اطلاق میں یہ سوچنے لگتا ہے کہ ان کا دائرہ اطلاق حقیقت من حیث الکل پر محیط ہے، طبیعیات کی اقلیم سے باہر بھی ان کے اطلاق کا جواز ہے اور اس طرح مادیت پرستی کے نظریے پر آ پہنچتا ہے۔ مادیت پرستی از خود حرکات کو میکانیکی حرکات تک محدود کر دیتی ہے اور نامیاتی اور روانی (نفسیاتی) مظاہر کے اساسی اور جوہری خصائص کا انکار کر دیتی ہے۔ اس طرح حیاتیاتی فکر کے مقولات کے اطلاق میں غلو کرتے ہوئے کسی شخص کو ایسی مابعدالطبیعیات تشکیل دینے کا خیال آتا ہے جسے (vitalism)یا ارتقائیت (evolutonism)کہا جا سکتا ہے اور جو غیر نامیاتی حقیقت کے وجود سے منکر ہو اور جو شعور غیر نامیاتی اور شعور ذاتی سب کو مظاہر نامیاتی ہی قرار دے اور بایں سبب آزادی، خدا، تخلیق وغیرہ سب کی توجیہ کر کے صرف حیات کو بنیاد مانے اور (elan vital)کو حقیقت کی اساس اور جوہر قرار دے۔ اسی مثال پر نفسیات کا بھی قیاس کیا جا سکتا ہے جو نامیاتی اور غیر نامیاتی مظاہر کی توجیہ صرف نفسیاتی تصورات کے سہارے کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ علامہ کے مخاطبین دونوں مشکلات کا شکار تھے۔ ایک طرف وہ صرف انھی مقولات کے آشنا یا انھی مقولات کے قائل تھے جو حسیت پرستی (empiricism) کے علمی پس منظرنے انھیں فراہم کیے تھے۔ دوسری طرف وہ ان اشکالات اور فکری الجھنوں میں مبتلا تھے جو حسیت پرستی کے مقولات کو ان کے جائز دائرہ کار سے باہرو ارد کرنے سے پیدا ہوئی تھیں۔ علامہ نے تقریب فہم اور مصلحت کلام کاتقاضا یہ جانا کہ ان کے مقولات کے اطلاق کا انکار کرنے کے بجائے یا ان کے علاوہ دوسرے مقولات کی جانب ان کو مائل کرنے کے بجائے انھی مقولات کے اندر اور انھی مقولات کی مثال اور مشابہت کے ذریعے ان کو حقائق دین کی تفسیر کر کے دکھائی جائے اور ان کے شعور پر یہ واضح کر دیا جائے کہ خود تمہارے مقولات کے مطابق اسلام اور علوم جدیدہ میں تضاد نہیں ہے بلکہ یہ ایک دوسرے سے مثبت طور پر ہم آہنگ ہیں۔ علامہ کا اختیار کردہ راستہ پر خطر بھی تھا اور دشوار بھی۔ دو اقالیم کے مقولات کا امتیاز قائم کرنا اور اس امتیاز کی بنیاد پر ان کے مدلولات کو الگ کرنا آسان ہے لیکن ایک اقلیم کے مقولات و مسلمات کے سہارے اور ان کی مثال کے ذریعے ایک دوسری الگ اور ماورا اقلیم کے حقائق کی تعبیر خوگر محسوس اذہان تک منتقل کرنا ایک مشکل کام تھا۔ علامہ نے یہ کام اصول تطبیق کو مطمح نظر بنا کر اور مقولات مسلمہ کو بنیاد بنا کر انجام دیا۔ یہاں ایک آخری نکتہ واضح کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے ۔ علامہ نے، اور موضوع کے اتباع میں ہم نے، فلسفیانہ افکار کے ارتقا کے جس مرحلے تک کے افکار اور ان کے مقولات کو موضوع بحث بنایا ہے وہ پیش نظر رہنا چاہئے۔ یہ مراحل عقلیت پرستی، حسیت پرستی، ارتیابیت اور بالآخر تنقید عقل محض (جو کانٹ سے مخصوص ہے) سے عبارت ہیں۔ علامہ نے کانٹ کی فکری بنیاد میں اصلاح کر کے اس سے آگے بڑھنے کی تجویز کی ہے۔ ہماری بحث کے لیے بھی کانٹ کے دور یا مذکورہ بالا مکاتب فلسفہ کے بعد کے تغیرات سے صرف نظر کیا گیا ہے۔ مثلاً ہم نے کانٹ کے بعد Reductionism,) Existentialism, (Relativism, اور(Psychologism) سے تعرض نہیں کیا۔ --------- ہم نے تمام خطبات میں الگ الگ یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ہر خطبے کے مرکزی نکات اور اہداف و مقاصد کیا تھے؟ ان کی تعبیر نو کے اسالیب میں کیا مسائل درپیش تھے اور مخاطبین کی رعایت اور تقریب فہم کی مصلحت سے علامہ نے ان کو کس طرح پیش کیا۔ اور نتیجۂ بحث سمیٹ کر کچھ یوں پیش کیاجا سکتا ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر ظفرالحسن صاحب نے اپنے صدارتی خطبے میں وضاحت کی تھی علامہ نے علم الکلام کے پرانے اسالیب سے ہٹ کر ایک تیسرا اسلوب استدلال اختیار کیا ہے جو اساساً اس نکتے پر مشتمل ہے کہ فلسفہ مذہب اور شعر عالی میں بنیادی طور پر کوئی تفاوت نہیں کیونکہ ان کا ہدف مشترک ہے اور یہ ہدف ہے علم مابعد الطبیعیات۔ اس مابعد الطبیعیات کی تشکیل کے لیے علامہ نے کہا کہ یہ امر ممتنع ہوتا اگر ہم ایک نئے تجربے، ایک الگ واردات (وجدان) کے حامل نہ ہوتے۔ یہ وجدان ان کے ہاں کبھی عقل جزوی کی بالاتر شکل قرار پاتی ہے اور کبھی ایک داخلی تجربے یا باطنی مشاہدے کے مترادف۔ ساتھ ہی یہ مسئلہ بھی دوسرے خطبے میں ابھرتا ہے کہ اس خطبے کے استدلال کے مطابق یہ وجدان، ایک قضیۂ زائد از ضرورت بن جاتا ہے۔ اولاًاس لیے کہ علامہ یہ کہتے ہیں کہ عام تجربہ حقیقت کے اسی تصور تک رہنمائی کرتا ہے جہاں تک وجدان پہنچتا ہے۔ ثانیاًیہ کہ جان کیرڈ کے دلائل کی بنیاد پر وہ یہ کہتے ہیں کہ وجود خداوندی کے فلسفیانہ دلائل اطمینان بخش ہو سکتے ہیں اگر فکر اور وجود یا معقول و موجود کی وحدت متصور ہو جائے اور پھر پورا زور استدلال، فکر اور وجود کی وحدت ثابت کرنے پر صرف کرتے ہیں۔ ’وجدان‘ کا جواز وجود تلاش کرنے کی احتیاج کانٹ کے اس نتیجہ فکر کو رد کرنے سے پیدا ہوئی تھی کہ ’’مابعد الطبیعیات کا علم ناممکن ہے کیونکہ ہم یہ فرض نہیں کر سکتے کہ حقیقت اولیٰ کی ماہیت یوں ہے یا یوں ہے تاوقتیکہ کہ یہ ہمارا تجربہ نہ ہو۔ اس لیے کہ فرد انسانی حواس کی مدد کے بغیر حقیقت محسوس کو گرفت میں نہیں لا سکتا اور حقیقت اولیٰ کا تجربہ ہمیں حاصل نہیں، بنابریں حقیقت اولیٰ کا علم بھی ناممکن ہے‘‘۔ مادیت پرستوں نے طبیعیات کے مقولات کی بنیاد پر ایک مابعد الطبیعیات کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی۔ ان کی غلطی یہ تھی کہ وہ ان مقولات سے حقیقت اولیٰ کی توجیہ و تعلیل کر رہے تھے جن سے صرف غیر نامیاتی مظاہر کی توجیہ ٹھیک سے ہو سکتی تھی۔ اس تنگنائے میں علم مابعد الطبیعیات سما نہیں سکتا تھا کیونکہ حقیقت کی نامیاتی اور شعوری جہات کی توجیہ ان مقولات سے ہو نہیں سکتی تھی اور نہ مذہب، اخلاقیات اور آرٹ کے تقاضوں کی۔ علامہ نے ان حضرات کے رد کے لیے دوسرے نکتۂ استدلال کو آگے بڑھایا اور مابعد الطبیعیات کی بنا حرکت، نمو، تفرید، شعور، انا (خودی) مقصدیت ، از خود حرکت جیسے مقولات پر رکھی اور غیر نامیاتی موجودات کو بھی ’’غیر ترقی یافتہ انیتوں‘‘ (خودیوں)(colony of undeveloped egoes) کی حیثیت دی۔ ان مقولات کی بنیاد پر مابعد الطبیعیات کی تعمیر سے کچھ تقاضے پیدا ہوئے اور کچھ آسانیاں میسر ہوئیں۔ بات سمجھانے کی سہولت پیدا ہوئی اور مذہب اور اخلاقیات کے معاملات پر حیاتیاتی اور نفسیاتی فکر کے مقولات کے اطلاق سے چند مسائل نے جنم لیا، مثلا: شعور مذہبی کے مضمرات میں سے ذات باری کا منشائے کمال ہونا بھی ہے اسے جب (ego's infinite possibility of unfolding itself) یعنی ظہور ذات کے لامحدود امکانات کے مترادف قرار دیا جائے تو اس سے ایک مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ نئی اصطلاح میں کمال خداوندی ایک مسلسل دمیدگی کے ہم معنی ہو جاتا ہے اور اس کا صریح مطلب یہ نکلتا ہے کہ خدا بھی عمل شدن(process of becoming) کے دائرے میں اسیر ہو گیا۔ اس استدلال سے علامہ نے ثابت یہ کیا تھا کہ انسانی معاشرے میں خوب سے خوب تر کی جانب سفر ممکن ہے مگر استدلال کے منطقی انجام پر یہ معلوم ہوا کہ ذات خداوندی کے لیے بھی تغیر بہ جانب خوبی متصور ہو سکتا ہے۔ شعور مذہبی کے نزدیک کمال خداوندی کا تقاضا آزاد تصرف و تخلیق سے متصف ہونا بھی تھا۔ مذکورہ بالا استدلال کے مضمرات میں ایک دوسری بات ظاہر ہوئی کہ ذات باری ، ظہور ذات یا خود دمیدگی کے عمل میں ہے اور چونکہ ظہور کائنات بھی اسی ظہور ذات کے عمل کا حصہ ہے لہٰذا جو بھی چیزیں وجود میں آ رہی ہیں وہ خلقی طور پر اس ذات (ego)کی ماہیت کے مطابق اسیرو مجبور ہیں اور، بنابریں، آزاد تصرف و تاثیر کی گنجائش ختم ہوتی نظر آتی ہے۔ آزادی و اختیار کو از خود حرکت کے مترادف کہا گیا۔ از خود حرکت تمام موجودات کی صفت قرار دی گئی کیونکہ غیر نامیاتی مادہ بھی(colony of egoes)ہے۔ بنابریں آزادی واختیار صرف ذات باری کی صفت نہیں بلکہ حیوانات اور ایک محدود معنی میں نباتات اور جماد، کو بھی حاصل ہوئی۔ یہ آزادی صرف ان موجودات کو تعلیل خارجی سے آزاد کرتی ہے اور جبرداخلی سے رستگاری نہیں دیتی۔ اسی معنی میں مذہبی شعور اس سے مطمئن نہیں ہوتا۔ ذات خداوندی کے بیان میں اس کی تعبیر حیاتیاتی تصور انفرادیت سے کی گئی۔ وہ انفرادیت یکتا جس کا ’’غیر‘‘ اس کے مقابل نہ ہو اور جس کا کوئی جزو اس سے الگ وجود نہ رکھتا ہو۔ تنزیہ کا تصور مذہبی شعور کے بنیادی مطالبات میں سے ہے۔ جب ہم ظہور کائنات کو ذات باری کے عمل ظہور ذات کے برابر قرار دیں گے تو تنزیہ صرف یہ ہو گی کہ خودی کا وہ حصہ جو ہنوز ظہور یا خود دمیدگی کے عمل سے منزہ ہو یا جو وجود پذیر نہ ہوا ہو۔ اسی طرح تخلیق کے تصور کی طرف آیئے۔ جب اس کو نئی اصطلاح میں حیاتیاتی تصورات کی مثال پر ’’نمو‘‘ یا ’’خود دمیدگی‘‘ کے الفاظ سے بیان کیا جائے گا اور ان تصورات کو اصول تعلیل قرار دیا جائے گا تو اس کا وہ مذہبی سیاق و سباق مجروح ہو گا جس کے حوالے سے افادیت دعا اور امور دنیا میں تصرف خداوندی متصور ہوتے ہیں۔ وحی یا تنزیل الٰہی بھی اسی طرح شعور مذہبی کے مضمرات میں سے ہے۔ اسے جب ایک معروضی حقیقت کے بجائے کائناتی صفت حیات کی اصطلاح سے بیان کیا جائے گا تو کچھ مسائل جنم لیں گے۔ علامہ نے فلسفے اور مذہب کے مشترک ہدف کو آغازِ استدلال بلکہ اساسِ استدلال کے طور پر استعمال کیا تھا۔ اس عمل میں فلسفے کے نمائندوں کے افکار لامحالہ حوالے کے نکتے کے طور پر برتے گیے تھے اور ان سے عمومی آشنائی کو دیگر حقائق سے (بربنائے مشابہت) تعارف کے لیے وسیلہ بنایا گیا تھا۔ اس کام کے لیے اہل فلسفہ کو بہت سی جگہ چھوٹ دینا اور فلسفہ و مذہب کے امتیاز کو نظر انداز کرنا پڑا۔ یہ ایک بڑے کام کا لمحۂ آغاز تھا۔ دور جدید اور فکر معاصر کے سامنے، مغرب کی یلغار کے جلو میں، اسلام کی فکر تعبیر نو۔ ایسی تعبیر جو ایک طرف اپنی اصل کی وفادار ہو اور دوسری جانب تقاضائے وقت، احتیاج مخاطبین اور علمی مسائل سے بخوبی عہدہ برا ہو سکے۔ علامہ نے اس کام کی دور جدید میں سب سے زیادہ کامیابی سے بنا رکھی۔ انھیں اپنی راہ خود نکالنا تھی اور آنے والوں کو راستہ دکھانا تھا۔ ان کی مثال کی پیروی میں اب یہ ہمارا اور آنے والوں کا فرض ہو گا کہ ان کے پیش کردہ سوالوں پر مزید تحقیق کریں ، نامکمل کو مکمل کریںاور بات کو آگے بڑھائیں۔ ابتدائی کوشش میں جو کسر رہ جاتی ہے اسے دور کریں تا کہ اسلام کی تعبیر نو کا اہم اور ضروری فریضہ اپنے لازمی تقاضوں کی رعایت کے ساتھ انجام دیا جا سکے۔ تشکیل جدیدکی علمی منہاج اور تطبیقی طرز استدلال پر عمومی تبصرہ کرتے ہوئے علامہ اقبال نے ۱۹۳۲ء میں ایک بہت معنی خیز بیان دیا تھا۔۴۹؎ اسی پر بحث اپنے اتمام کو پہنچتی ہے۔ میں نے اپنی زندگی کے گذشتہ ۳۵ سال اسلام اور موجودہ تہذیب و تمدن کی تطبیق کی تدابیر کے غورو فکر میں بسر کر دیئے ہیں اور اس عرصے میں یہی میری زندگی کا مقصد وحید رہا ہے۔ میرے حال کے سفر نے مجھے کسی حد تک اس نتیجہ پر پہنچا دیا ہے کہ ایسے مسئلے کو اس شکل میں پیش نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس کا مطلب بجز اس کے کچھ نہیں کہ اسلام موجودہ تمدن کے مقابلے میں ایک کمزور طاقت ہے ۔ میری رائے میں اس کو یوں پیش کرنا چاہیے کہ موجودہ تمدن کو کس طرح اسلام کے قریب تر لایا جائے ۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱۔ متاخرین علمائے علم کلام کے معروف نمائندے عضدالدین ایجی (م ۷۵۶ھ) نے یہ تعریف اپنی کتاب مواقف میں بیان کی ہے، بحوالہ جدید انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن (نیو یارک میکملن ۱۹۸۷ئ۔ ۲۳۱:۸) یہ علم کلام کی فنی تعریف ہے۔ شرعی نقطہ ء نظر سے اہل فقہ و فتویٰ نے علم کلام کی تعریف ’’بدعت واجبہ‘‘ کی اصطلاح سے کی ہے، دیکھیے ابوزکریا محی الدین بن شرف نووی (م۶۷۶ھ) تہذیب الاسماء و اللغات ، جلد ۱ ص ۲۲۔۲۳دارالکتب العلمیہ ، بیروت ، بحوالہ نور احمد شاہتاز، ’’الاصل فی الاشیاء الاباحتہ‘‘ درحکمت قرآن، شمارہ اگست ۱۹۹۴ء ، لاہور، ص ۱۱۔نذیر نیازی صاحب مترجم تشکیل جدید نے بھی علم کلام کی تعریف نقل کی ہے ر۔ ک ص ۳۲۷۔ نیز دیکھیے محمد اعلیٰ تھانوی ، کشاف اصطلاحات الفنون، سہیل اکیڈمی، لاہور، ۱۹۹۳ء جلدد وم، ص ۱۲۷۲ ، جس کے مطابق ’’ھوعلم من العلوم الشرعیۃ المدوّنہ‘‘ نیز جلد اول، ص ۲۲ پر اس کی تعریف یوں ہے:’’ ھو علم یقتدر معہ علی اثبات العقائد الدینیہ علی الغیر بایرادالجج و رفع الشبہ‘‘ ;منٹگمری واٹ، اسلامی فلسفہ و کلام (انگریزی) ایڈنبرگ، ۱۹۷۹ء ;ولفسن ، فلسفۂ کلام، کیمبرج، ہارورڈ یونیورسٹی پریس، ۱۹۷۶ئ۔ ابونصر فارابی کا تبصرہ اگرچہ پرانا ہو چکا تاہم ہماری بحث کے ایک نکتے کو واضح کرنے کے لیے بہت موزوں ہے۔ پہلے تو یہ دیکھیے کہ فارابی نے علم کلام کی جو تعریف کی تھی وہی آج تک مابعد کی تعریفوں میں گونج رہی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ علم کلام کا بڑا حصہ تو معذرت خواہی سے عبارت ہے نیز علم کلام وہ علم ہے جو کسی بھی مذہبی روایت میں تاریخ کے اس مرحلے پر نمودار ہوتا ہے جب اس مذہب پر ہونے والے مختلف حملے اس بات کی ضرورت پیدا کر دیتے ہیں کہ عقائد دینی کے دفاع کا ایک منظم طریقہ اختیار کیا جائے۔ اس کے بعد فارابی علم کلام کے ماہرین یا متکلمین کو پانچ قسموں میں بانٹ دیتا ہے۔ یہ تقسیم ان دلائل کے لحاظ سے ہے جو متکلمین کی پانچوں اقسام بالترتیب استعمال کرتی رہی ہیں۔ متکلمین کا پہلا گروہ مذہب کا دفاع اس نکتے پر زور دے کر کرتا ہے کہ وحی کے ذریعے حاصل ہونے والا علم بہترین انسانی دماغوں کے اکتسابی علم سے برتر ہے۔ دوسرا گروہ مذہب کی حقانیت اس بنیاد پر ثابت کرتا ہے کہ سائنسی علم اور نصوص دینی میں مطابقت پائی جاتی ہے۔ دیکھئے فارابی، احصاء العلوم، دارالفکرالعربی، قاہرہ، ۱۹۴۹ء ص ۱۰۹۔۱۱۳ ۔ نیز دیکھیے محسن مہدی اور آر۔ لرنر (مرتبین) قرون وسطیٰ کا سیاسی فلسفہ چند مآخذ، ٹورانٹو،کینیڈا، ۱۹۶۳ء ، ص ۸۳۔ ۹۴ ؛ عثمان بکر، اسلام میں تقسیم علوم، کوالالمپور، ملائیشیا ، ۱۹۹۲ئ۔ سہیل اکیڈمی ،لاہور ، ۲۰۰۰، ص ۱۴۶۔ فارابی کی تقسیم میں پہلے دو گروہ وہی طریقے برت رہے ہیں جن کو ہم نے ڈاکٹر ظفر الحسن صاحب کے حوالے سے طریق تفریق اور طریق تطبیق کا عنوان دیا ہے۔ تشکیل جدیدمیں علامہ اقبال کا منہاج علمی، موخرالذکر طریقے سے قریب تر اور بنا بریں تطبیقی انداز کا حامل ہے۔ ۲۔ فلسفہ ء اسلام اور علم کلام کے مابین اس دوہرے عمل کی معنویت اور اثرات کے لیے دیکھیے سید حسین نصر فلسفہ، علم کلام اور تصوف (انگریزی) مشمولہ اسلام کے روحانی پہلو۔ مظاہر، کراس روڈ، نیویارک، ۱۹۹۱ء جلد بیستم ، ص ۳۹۳۔۴۴۶؛ ’’حکمت الٰہیہ اور کلام‘‘(انگریزی) سٹوڈیا اسلامیکا، ۳۴(۱۹۷۱ئ)، ص ۱۳۹۔۱۴۹ ؛’’اسلام میں فلسفے کی حیثیت اور معنویت‘‘(انگریزی) سٹوڈیا اسلامیکا ۳۶ (۱۹۷۳ئ) ص ۵۷۔۸۰۔ نیز دیکھیے شبلی نعمانی، علم الکلام و الکلام ، نفیس اکادمی کراچی، ۱۹۸۷ء ۔ تصوف اور علم الکلام کے باہمی روابط اور تاثیر و تاثر کے عمل کا تاریخی مطالعہ ابھی اس پیمانے پر نہیں کیا گیا جیسا کہ اس موضوع کی اہمیت کا تقاضا ہے۔ ۳۔ رسالہ حمیدیہ کے مصنف سے لے کر قاسم نانوتوی، اشرف علی تھانوی، شبلی نعمانی اور ایوب دھلوی وغیرہ کے نام علما کے چند نمائندوں کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔ جدید حضرات کی طرف سے سرسید اور سید امیر علی کے بعد اگلی نسل میں سب سے بڑا نام علامہ اقبال کا ہے۔ 4- M. Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam, Iqbal Academy Pakistan, Lahore, 1989, edited and annotated by Shaikh Muhammad Saeed. اردو ترجمہ از سید نذیر نیازی، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ، بزم اقبال، لاہور، ۱۹۸۳ئ۔ ۵۔ ر۔ک: سعید احمد اکبر آبادی ، خطبات اقبال پر ایک نظر، اقبال اکادمی پاکستان لاہور، طبع ثانی، ۱۹۸۷ئ، ص ۱۱۔ یہ دعویٰ کرنے کے بعد سعید احمد صاحب نے اس فوقیت کے جو اسباب گنوائے ہیں انھیں پڑھ کر یوں لگتا ہے کہ مصنف نے علم الکلام کی تاریخ کے بارے میں چند چلتے ہوئے خیالات بیان کر دیے ہیں۔ نہ ان کے سامنے فلسفے، کلام اور تصوف کے روابط کا واضح نقشہ ہے نہ ان کے عہدبہ عہد تغیرات کا۔ دوسری طرف تشکیل جدید کی منہاج فکر کے بارے میں بھی صرف ’’مدلل مداحی‘‘ پر اکتفا کیا گیا ہے۔ بعض مفید توضیحات پیش کرنے کے باوجود ان کی تحریر سے علامہ کے اس طریق کار کی وضاحت نہیں ہوئی جو انھوں نیتشکیل جدید میں برتا اور جس کے استعمال سے تشکیل جدید میں وہ اختصاصی شان پیدا ہوئی ہے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے۔ ۶۔ سفر جنوبی ہند سے واپسی پر علامہ نے اس وقت تک کے تحریر کردہ خطبات علی گڑھ میں بھی پیش کیے تھے۔ جلسے کے صدر ڈاکٹر سید ظفر الحسن صاحب ان دنوں شعبہ فلسفہ کے صدر تھے۔ ڈاکٹر صاحب کا خطبۂ صدارت ان کے شاگرد رشید اور ان کے فکری ورثے کے امین، ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کی وساطت سے ۵۵ سال بعد المعارف میں شائع ہوا۔ ر۔ ک: المعارف خصوصی شمارہ ۳، ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، ۱۹۸۵ء ص ۳۱۷۔ اردو ترجمے کے لیے دیکھیے :محمد رفیق افضل، گفتار اقبال، ادارہ تحقیقات پاکستان، دانشگاہ پنجاب، لاہور،طبع اول، جنوری ۱۹۶۹ئ، ص،۱۶۸ ۔ ۷۔ حوالہ بالا، ص ۳۱۸۔ سرسید کی مقرر کردہ تعریف کا موازنہ عضد الدین ایجی کی تعریف سے کیجئے تو یہ امرعیاں ہو جاتا ہے کہ ایجی کے برعکس سرسید کلام کو بہت محدود اور وقتی ہنگامی ضرورت کے معنی میں برت رہے ہیں۔ مغربی سائنس اور فلسفے کو بیان واقعہ تسلیم کرنے کے فکری مقدمے کو اس تعریف میں کار فرما آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ سرسید کے مقدمات فکر کی اسی کمزوری کی طرف مولانا قاسم نانوتوی اور بعدازاں اشرف علی تھانوی صاحب نے اشارہ کیا تھا۔ ر۔ ک: قاسم نانوتوی ، تصفیہ العقائد ، ادارہ اسلامیات ، لاہور ؛ اشرف علی تھانوی، اسلام اور عقلیات ، ادارہ اسلامیات، لاہور۔ انگریزی ترجمہ Answer to Modernism ، دارالعلوم ،کراچی۔ یہ مباحث عزیز احمد اور سی۔ ڈبلیو۔ ٹرول نے بھی اپنی کتب میں پیش کیے ہیں۔ ۸۔ حوالہ بالا ۹۔ ایضاً ۱۰۔ ایضاً۔ دونوں اقتباسات کا اردو ترجمہ میرا کیا ہوا ہے۔ اس خطبۂ صدارت کے آخری حصے (ص ۳۱۹) میں ڈاکٹر ظفر الحسن صاحب نے اپنے طلبہ کو ترغیب دلائی تھی کہ وہ ان خطبات کی اشاعت کے بعد ان کا مطالعہ کریں۔ ’’چونکہ علامہ کے افکار، بنیادی تصورات اور ان کی تفصیل و اطلاق ہر دو اعتبار سے نئے اور اسی لیے عسیرالفہم ہیں، ان کا نہایت احتیاط سے مطالعہ کیجیے۔ جو دشواریاں پیش آئیں، انھیں میرے پاس لایئے۔ مجھ سے جو ہو سکے گا، آپ کی مدد کے لیے کروں گا‘‘۔ (ص ۳۱۹) ہماری معلومات کی حد تک ان کے دو شاگردوں نے خطبات پر اعلیٰ درجے کا تحقیقی کام کیا ہے۔ ڈاکٹر عشرت حسن انور صاحب نے تشکیل جدیدکو بنیاد بنا کر علامہ اقبال کے مابعد الطبیعیاتی افکار کا جائزہ لیا۔ ان کے مقالے کا عنوان اقبال کی مابعد الطبیعیات (انگریزی) تھا۔یہ کتابی شکل میں چھپ چکا ہے۔ ڈاکٹر برہان احمد فاروقی صاحب نے تشکیل جدید کے ہر خطبے کا تجزیہ ڈاکٹر ظفر الحسن صاحب کی آرا، تبصروں اور تحقیقی رہنمائی کی مدد سے کیا اور یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ مذکورہ طریق تطبیق کے اطلاق سے جو منہاج علمی بنتی ہے۔ اسے اختیار کرنے سے کتاب کے استدلال اور مباحث میں کیا کمزوری واقع ہوئی ہے اور اس عمل میں کس طرح کی مصالحت کرنا ایک ضرورت بن جاتا ہے۔ فاروقی صاحب کا مقالہ ابھی غیر مطبوعہ ہے۔ ۱۱۔ شیخ عطاء اللہ ، اقبالنامہ، جلد اول، ص، ۱۱۔۲۱۰ ۱۲۔ سیدنذیر نیازی (مترجم) تشکیل جدید الہیات اسلامیہ بزم اقبال ، لاہور، ۱۹۸۳ء ص ،۳۹۔ ۱۳۔ حوالہ بالا ۔ ص، ۴۰۔ ۱۴۔ اقبال نامہ، محولہ ماقبل ، ص ،۴۶۔ ۱۵۔ طبیعیات ، حیاتیات اور نفسیات کا موضوع بالترتیب مادہ، حیات اور شعور کے مظاہر ہیں۔ طبیعیات مادی مظاہر کی ، حیاتیات نامیاتی مظاہر کی اور نفسیات شعوری مظاہر کی توجیہ و تعلیل کرتی ہے۔ ہر شعبئہ علم کے چند مسلمہ مقولات یا اصول ہائے تعلیل ہوتے ہیں جن سے ان مظاہر کی توجیہ کی جاتی ہے۔ ان کو تسلیم کر کے یہ علوم آگے بڑھتے ہیں۔ طبیعیات کے مقولات یہ ہیں: مادہ، علت، معلول، کمیت، کیفیت، حرکت و قوت، مکان و زمان ، عدد۔ حیاتیات کے مقولات ہیں: انجذاب، نمو، جزو سے کل اور کل سے جزوکی پیدائش، انفرادیت اور از خود حرکت۔ نفسیات میں مقولات ہیں: شعور، نفس ، جذبہ، ارادہ، ادراک وغیرہ۔ ان میں سے ہر ایک کا ایک مفروضہ ہے جس سے اس کے مدلولات کی توجیہ ہوتی ہے۔ طبیعیات کا مفروضہ میکانکی علیت، حیاتیات کا مفروضہ ارتقا اور نفسیات کا مفروضہ علیت غائی کہا جا سکتا ہے۔ اپنے اپنے شعبہ علم کے مقولات اور مفروضات کی بنیاد پر اور ان بنیادی تصورات کے سہارے ہر شعبہ اپنا تصور کائنات قائم کرتا ہے اور ا س کے دوران اپنے مقولات کا تمام حدود و قیود سے آزاد اطلاق کرنے کا میلان رکھتا ہے۔ مثلا طبیعیات کا تصور حقیقت مادہ، علت و معلول اور میکانکی تعلیل وغیرہ کے مقولات سے مرکب ہے۔ اگر انھی مقولات کے سہارے حیات و شعور دونوں کو مادے سے نموپذیر ہوتے دکھایا جائے تو یہ طبیعیات کے مقولات کا جائز حدود سے باہر اطلاق کرنا قرار پائے گا۔ اسی طرح اگر حیاتیات اپنے فکری مقولات کو جوش اطلاق میں ان اقالیم پر وارد کرنے کی کوشش کرے جہاں ان کے ذریعے توجیہ ممکن نہیں تو بھی ایک فساد فکر اور خلط مبحث کا آغاز ہو جائے گا۔ ۱۶۔ کانٹ کے اس مرکزی خیال اور اس کے مقدمات و مضمرات میں موجود فکری جھول کی تنقید کے لیے ر۔ ک: شیخ عیسیٰ نورالدین (فرتھجوف شواں) (Logic and Transcendence)منطق اور متعالی (انگریزی) لندن، ۱۹۷۵ء ص ۳۳۔۵۵ (بالخصوص صفحہ ۳۶)؛ طبع مکرر، سہیل اکیڈمی، لاہور، ۲۰۰۶ ۱۷۔ ارسطو کے زیر اثر کانٹ نے مقولات کو تسلیم کیا اور ان کو چار گروہوں میں تقسیم کیا، یعنی کمیت ، کیفیت، نسبت اور وضع (modality ) ۔ارسطو کے ہاں چوتھا مقولہ) (position یا مکان کا تھا۔ یہاں یہ پیش نظر رہے کہ کانٹ نے ارسطو کے تصور مقولات کو ایک موضوعی چیز بنا دیا ہے۔ ۱۸۔ ر۔ ک: تشکیل … (انگریزی) محولہ ماقبل، ص ،۱۶۔ نیز دیکھیے صفحہ ۱۴،۱۴۴۔ ۱۹۔ علم، وسائل علم اور قوائے حصول علم کے ضمن میں علامہ کے مرکزی استدلال کا ایک عمدہ بیان اور تجزیہ مستنصر میر صاحب نے اپنی حالیہ کتاب (Iqbal)(اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۶۰۰۲) میں پیش کیاہے۔اس فکر انگیز تجزیے کے لیے ’’دیکھیے صفحات ۸۶۔۸۰، نیز ۹۸۔۹۵۔ ۲۰۔ ر۔ ک: بخاری ،الصحیح، ’’جنائز‘‘ ۷۹ شہادہ ۳۔ ’’جہاد‘‘ ۱۶۰، ۱۷۸: مسلم، الصحیح، باب فتن۔بحوالہ تشکیل … (انگریزی) محولہ ماقبل ، حواشی وتعلیقات از شیخ محمد سعید ، ص ،۱۶۰۔ ۲۱۔ ر۔ ک: تشکیل … (انگریزی)صفحات ۱۴، ۱۵، ۷۱، ۷۲، ۸۱،۸۲، ۸۹، ۹۰۔ واضح رہے کہ ولیم جیمز نے جو یہ سارے واقعات اکٹھے کیے ہیں، ان کا شمار صرف اقلیم روانی کے مظاہر ہی میں ہو سکتا ہے اور اس کو پرانی اصطلاح کے مطابق صرف خرق عادت قرار دیا جا سکتا ہے۔ مثلاً طویل فاصلے سے کسی واقعے کی آگاہی ، کسی واسطے کے بغیر ابلاغ فکر، ہونے والے واقعے کا قبل از وقوع علم، کسی شخص کے خیال یا نفسی کیفیت کا علم (کشف خواطر) وغیرہ اس طرح کے مظاہر کا تعلق صرف افقی جہت سے ہے اور یہ اقلیم روانی، (psychic domain) کے اندر عمل پذیر ہوتے ہیں۔ ان کے وقوع او ران کی تصدیق سے یہ لازم نہیں آتا کہ ذات باری کے ضمن میں بھی وجدانی تجربے یا وقوف مذہبی کا جواز پیدا ہو جائے۔ علامہ کے مخاطبین ادراک بالحواس کے اسیر ہیں۔ علامہ نے اس نازک فرق کو ان کے لیے مناسب حال نہ سمجھتے ہوئے بیان نہیں کیا اور صرف عمومی تصور منتقل کیا ہے۔ ۲۲۔ تشکیل … (انگریزی) محولہ ماقبل ، ص ۱۰۱ ۲۳۔ ایضاً ۔ نیز دیکھیے صفحات ۱۳۔ ۱۹، ص ۱۰۰ ۲۴۔ قرآن: سورہ ۲۲۔ آیت ۵۲ ۔ علامہ کی دلیل کے لیے دیکھیے تشکیل … (انگریزی) ص،۱۹۔ ۲۵۔ اس کی طرف مختصر اشارات کے لیے دیکھیے سید نذیر نیازی (مترجم) تشکیل جدید الہیات اسلامیہ (اردو) محولہ ماقبل، ص ۳۵ نیز حاشیہ ۱۱۲۔ آیت کے تراجم کے لیے ر۔ ک اشرف علی تھانوی، بیان القرآن ، تاج کمپنی، ص ۸۔۴۰۷: پیر محمد کرم شاہ، ضیاء القران ، لاہور، ۱۳۹۹ھ، جلد چہارم، ۲۲۷۔ قدیم مفسرین نے بھی وہی مفاہیم دیئے ہیں جن کا نمونہ مذکورہ بالا دو مفسرین کی تفسیروں میں ملتا ہے۔ علامہ کا بیان کردہ ترجمہ اور مدلول آیات ان سب سے مختلف ہے۔ ۲۶۔ تشکیل … (انگریزی) محولہ ماقبل، ص ،۲۲۔۲۱۔ ۲۷ ۔ تشکیل جدید (اردو) محولہ بالا ، ص ،۴۰۔۳۹ ۔ ۲۸۔ ایضاً ۲۹۔ ڈاکٹر فضل الرحمان نے اسی چیز کو محسوس کرتے ہوئے تبصرہ کیا تھا کہ علامہ نے تشکیل جدید میں اپنے معاصر سائنسی اور فلسفیانہ نظریات کو کچھ زیادہ ہی سنجیدگی سے قبول کر لیا ہے۔ دیکھیے، اسلام اینڈ موڈرنٹی، شکاگو، ۱۹۸۳ء ص، ۱۳۲۔ نیز ص ۴۔۱۵۳۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ امر البتہ نظر انداز کر دیا کہ ان مغربی معاصرین کے افکار کو نہایت سنجیدگی سے برتنے اور ان کو اہمیت دینے کا تقاضا اس طریق کار کی تعمیر میں مضمر ہے جس کو علامہ نے تشکیل جدیدمیں اختیار کیا تھااور جو ان کی نظر میں مصلحت وقت اور مخاطبین کی استعداد و افتاد فکر کے لیے مناسب ترین تھا۔ ۳۰۔ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ۔ مقالے میں ہر جگہ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ (تشکیل) انگریزی کے حوالوں کے لیے ادارہ ثقافت اسلامیہ اور اقبال اکادمی کا شائع کردہ ایڈیشن، لاہور ۱۹۸۹ئ، استعمال کیا گیا ہے۔ ۳۱۔ تشکیل جدید الہیات اسلامیہ۔ مقالے میں ہر جگہ تشکیل جدید الہیات اسلامیہ (تشکیل جدید) کے اردو ترجمے کے لیے بزم اقبال کا شائع کردہ ترجمہ از سید نذیر نیازی ، لاہور، ۱۹۸۳ء استعمال کیا گیا ہے۔ ۳۲۔ تشکیل … (انگریزی) محولہ بالاسبق، ص، ۶۔ ۳۳۔ تشکیل جدید … (اردو) محولہ بالا، ص ،۱۱۲۔ ۳۴۔ تشکیل … (انگریزی) محولہ بالا، ص ،۷۔ ۳۵۔ تشکیل جدید … (اردو) محولہ بالا ص، ۱۳۔ ۳۶۔ تشکیل … (انگریزی) محولہ بالا ص ،۱۲۰۔ ۳۷۔ تشکیل جدید … (اردو) محولہ بالا ص، ۲۳۳۔ ۳۸۔ تشکیل … (انگریزی) محولہ بالا ۱۲۰۔ ۳۹۔ تشکیل جدید … (اردو) محولہ بالا ص، ۲۳۳۔ ۴۰۔ قرآن مجید : ۲۸۔۳۱۔ ۴۱۔ تشکیل … (انگریزی) محولہ بالا ص، ۱۴۸۔ ۴۲۔ تشکیل جدید … (اردو) محولہ بالا ص ،۹۰۔۲۸۹۔ ۴۳۔ تشکیل … (انگریزی) محولہ بالاص ،۱۴۸۔ ۴۴۔ تشکیل جدید … (اردو) محولہ بالا ص، ۲۹۰۔ ۴۵۔ تشکیل … (انگریزی) محولہ بالا ص ،۹۰۔۱۴۸۔ ۴۶۔ تشکیل جدید … (اردو) محولہ بالا ، ص ،۲۔۲۹۰۔ ۴۷۔ ایضاً ۔ ص، ۴۰، نیز تشکیل … (انگریزی) محولہ بالا ، ص ،رومن ۲۲۔ ۴۸۔ ر۔ ک ’’نوادر‘‘ مشمولہ المعارف، خصوصی شمارہ نمبر۳ ، جولائی اگست،۱۹۸۵ئ، ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، ص ،۳۱۷۔ ۴۹۔ اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی جانب سے یکم مارچ ۱۹۳۳ء کو ٹائون ہال لاہور کے باہر باغ میں علامہ سر محمد اقبال کے اعزاز میں ایک شاندار دعوت چائے دی گئی جس میں معززین شہر نے شرکت کی۔ مولانا عبدالمجید سالک نے انسٹیٹیوٹ کی طرف سے علامہ اقبال کا ایک مختصر سی تقریر میں شکریہ ادا کیا ۔ روز نامہ انقلاب ، ۴ مارچ ، ۱۹۳۳ء ۔ ئ…ئ…ء ’’مدعا مختلف ہے‘‘ علم بالوحی: علامہ کے استدلال پر اعتراضات کا جائزہ ڈاکٹر ظفر الحسن صاحب کے شاگرد اور علی گڑھ یونیورسٹی ہی میں ان کے بعد صدر شعبہ فلسفہ کا منصب پانے والے فلسفی ڈاکٹر عشرت حسن انور صاحب کا ایک مقالہ مجلہ اقبال میں (Testing Iqbal's Philosophical Test of the Revelations of the Religious Experience (کے عنوان سے چھپا ہے۔ مقالے کے مرعوب کن عنوان اور مقالہ نگار کی سابقہ شہرت کو مد نظر رکھتے ہوئے خوش گمانی یہ تھی کہ صاحب مقالہ نے اپنے استاد گرامی کے رشتۂ فکر کو تھام کر انھی خطوط پر اپنے تجزیے کی بنا رکھی ہو گی اور تشکیل جدید کے منہاج علمی کے داخلی اور خلقی تقاضوں کے سیاق و سباق میں اور علامہ کے طریق تطبیق کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے اشکالات پیش کیے ہوں گے۔ اس کے برعکس ہوا کیا؟ موصوف نے اپنے تجزیے میں تشکیل جدیدکی نہاد میں موجود اس اصول تطبیق اور اس کے فکری لوازم کو تو سرے سے نظر انداز کر دیا اور ایک رجزیہ آہنگ سے مقالے کا آغاز کر نے کے بعد دوسرے پیراگراف ہی میں وہ طرز استدلال اپنا لیا ہے جو تشکیل جدید کے بنیادی منہاج فکر اور اصول تطبیق ہی کے خلاف پڑتا ہے۔ وہ مخاطب جس کو اس کے مسلمات فکر کے حوالے سے وحی کے امکان پر اور ذرائع علم میں سے ہونے پر قائل کیا جا رہا ہو، اس کے سامنے یہ دلیل کیسے مؤثر ہو سکتی ہے کہ قرآن مجید میں فلاں سورہ میں آیت نمبر فلاں پر یوں آیا ہے کہ… یہ مخاطب وحی کے وجود یا اس کے ممکن ہونے کے بارے ہی میں متشکک ہے اور ان مقولات فکر ہی کو تسلیم نہیں کرتا جو وحی کا جواز ثابت کرنے کے لیے ضروری ہیں اور علامہ اس کو ان بنیادی مقدمات کا قائل کرنے کے لیے کوشاں ہیں جن کو مان کر وحی خداوندی اور تنزیلات ربانی کا رشتہ و پیوند انسانی فکر و عمل سے جوڑا جا سکتا ہے تو ایسی صورتحال میں اسی وحی سے دلیل دینا کہاں تک مناسب ہو گا جس کے امکان و امتناع پر ابھی اتفاق رائے نہ ہو؟۲؎ تشکیل جدیدکی فکری منہاج سے یہ اغماض اور علامہ اقبال کے بعض نکات فکر کو پورے تناظر اور بسا اوقات سیاق و سباق سے الگ کر کے ان کے سہارے اپنے بعض نظریات کو اجاگر کرنے کی یہ روش سارے مقالے میں موجود ہے۔ اس کا تجزیہ کرنے سے پہلے ذرا یہ دیکھ لیں کہ علامہ کے استدلال ، طرز تفلسف اور علمی منہاج پر عشرت حسن انور صاحب کے اعتراضات کا لب لباب کیا ہے۔ مقالہ نگار کو علامہ پر دوبنیادی اعتراضات ہیں۔ پہلا یہ کہ علامہ نے تشکیل جدید میں نوع انسانی کے مذہبی تجربے یا وقوف مذہبی و سرّی ۳؎ کا دفاع صرف اسلام کے نقطۂ نظر سے کیا اور اس محدود نقطۂ نظر کی وجہ سے دیگر ادیان اس دفاعی اور استدلالی عمل کے فوائد سے محروم رہ گئے اور یہ اس وجہ سے ہوا کہ علامہ نے اپنے طرز استدلال میں وحدت ادیان کے تصور پر زور نہیں دیا اور مختلف ادیان کے مشترکہ عناصر کو نمایاں نہیں کیا۔۴؎ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ تاریخ انسانی میں وحی کے مافوق الطبیعی مظہر کے عمل دخل کو ثابت کرنے کے جو تین ممکنہ دلائل ہو سکتے ہیں ان میں سے علامہ نے صرف ایک استعمال کیا ہے جبکہ دوسرے بھی اس کے دفاع اور ثبوت کے لیے مؤثر دلیل فراہم کر سکتے تھے۔۵؎ پہلا طریقہ یہ ہے کہ علوم طبیعی کے انکشافات سے مذہبی تجربے کی مطابقت دکھائی جائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ علم الاذہان ۶؎ کے اعتبار سے یہ معلوم کیا جائے کہ اس تجربے کی تائید ہوتی ہے یا تردید۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ فکر دینی کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے اور وقوف سرّی و مذہبی یا بالفاظ دگر، وحی کو اس ساری تاریخ میں زمان و مکان کے اختلاف کے باوجود ایک مشترکہ عنصر کے طور پر دیکھا جائے اور اس اشتراک کو بطور دلیل برتا جائے۔۷؎ ہم نے اپنی تحریر کے پہلے حصے میں جو مقدمات قائم کیے تھے اور جن کی بنیاد ہم نے ڈاکٹر ظفر حسن صاحب کے اشارات پر رکھی تھی ان کے حوالے سے عشرت حسن انور صاحب کے مذکورہ دونوں اعتراضات کا جواب کم و بیش ایک ہی ہے۔ انور صاحب نے چونکہ اپنے استاد کے برعکس علامہ اقبال کے اس منہاج فکر اور اس طرز استدلال کے تقاضے ملحوظ رکھنے کی زحمت نہیں کی جو تشکیل جدیدمیں برتا گیا ہے اس لیے انھیں ان اشکالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہم نے اس منہاج کلام کو اصول تطبیق کا عنوان دیا تھا۔ اصول تطبیق کے مطابق غور کیجیے تو یہ واضح ہے کہ اگر نفس دین اور خود وحی کے وسیلے کا امکان اور عدم امکان زیر بحث ہو تو ایک دین یا مجموعۂ ادیان کے دفاع میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ جب دین کی اساس ہی معرض خطر میں ہو تو مختلف ادیان کو شامل بحث کرنے سے صرف اتنا فرق پڑے گا کہ متاثرین کی صف میں ایک کی جگہ پانچ یادس کشتگان فلسفہ و سائنس کا اضافہ ہو جائے گا۔ دوسرا اعتراض بھی اسی وجہ سے علامہ کی منہاج پر وارد نہیں کیا جا سکتا کہ موخر الذکر دونوں دستۂ دلائل اصول تطبیق کے دائرے میں نہیں آتے لہٰذا ا نہیں اس طرز استدلال میں موثر طور پر برتا نہیں جا سکتا۔ اگر مخاطب حسیت پرست ہو تو اسے یہ کہنا کیا معنی رکھتا ہے کہ یوگا کی ذہنی مشق کے نتائج سے وحی کا ثبوت ملتا ہے۔۸؎ وہ تو ایسے تمام مظاہر کو اختلال حواس سے تعبیر کر رہا ہے۔ اسی طرح نوع انسانی کے مشترکہ روحانی تجربے کو بطور دلیل پیش کرنا بھی اگرچہ ممکن ہے اور علامہ نے خود اس کی طرف اشارے بھی کیے ہیں ۹؎ لیکن اصول تطبیق کے لحاظ سے یہ بھی موثر طرز استدلال نہیں ہے کیونکہ یہ اس مخاطب کے لیے تو دلیل بنے گی جو اس مظہر خداوندی کا امکان تسلیم کرتا ہو اور پھر اس کی کثرت وقوع کو بطور اضافی دلیل قبول کر سکے۔ وہ مخاطب جو وحی کو نفسیاتی مرض، ذہنی مغالطہ یا خود فریبی قرار دیتا ہو اس کے لیے یہ دلیل غیر موثر اور بے محل ہو گی کہ اس کا ذہنی سانچہ اسے قبول کرنے سے عاری ہے۔ اس کے لیے یہ دلیل مع الفارق ہے۔ علامہ نے اس کی رعایت تشکیل جدید کے ہر مرحلے پر رکھی ہے۔ عشرت حسن انور صاحب نے اس بنیادی امتیازی خصوصیت پر نظر نہیں کی اور اپنی بات کی دھن میں چل دیے۔ اس میں امتحان نظری کو بھی لپیٹ لیا اور مآل تحریر وہاں پہنچے جس کا تذکرہ سطور ماقبل میں ہو چکا ہے۔ اپنے مقالے کے عنوان میں عشرت صاحب نے علامہ کے خطبے کے عنوان میں وارد ہونے والے انگریزی لفظ (revelations)کو صحیح نقل کیا ہے۱۰؎ لیکن اس کے بعد سارے مقالے میں اس لفظ کو صیغۂ واحد میں استعمال کیا ہے۔ اس تغیر سے معانی کے رنگ جس طرح تبدیل ہوتے ہیں وہ انگریزی خواں قارئین سے مخفی نہیں رہے ہوں گے۔ علامہ کا مدلول اور مشارالیہ اس لفظ سے وہ معلومات ، اطلاعات یا انکشافات ہیں جو وحی کے وسیلے سے حاصل ہوتی ہیں یا دوسرے الفاظ میں علم بالوحی۔ عشرت حسن انور صاحب نے ازاول تاآخر۱۱؎ اسے صیغۂ واحد میں استعمال کرتے ہوئے اس سے عمل انکشاف مراد لیا ہے یعنی عمل وحی کی ماہیت اس کی فعلیت اور اس عمل کے مالہ و ما علیہ۔ اسی بنیاد پر تنقید کرتے چلے گئے۔ ان کے دوسرے اعتراض کی طرح یہ بھی اپنے ہدف سے اسی لیے ہٹ گیا ہے۔ علامہ کے مفہوم کو گرفت میں لانے کے لیے جو لازمی محنت درکار تھی وہ انجام نہیں دی گئی۔ ہم عرض کر چکے ہیں کہ علم بالوحی کے وسیلے کو جس طرح علامہ نے ثابت کیا اس تطبیقی طریقے کو اختیار کرنے میں کچھ مسائل پیدا ہوتے تھے اور وحی کا تجربہ بھی عام انسانی تجربات کے زمرے میں آ جاتا تھا لہٰذا اس دشواری کے حل کے لیے علامہ نے یہ تجویز کیا کہ دو آزمائشیں ہو سکتی ہیں جو اس تجربے کو عام انسانی تجربے سے ممتاز کرتی ہیں۔ اولاًیہ کہ اس وسیلۂ علم کے حاصلات اور معلومات سے جو تعبیر کائنات اور تصور حقائق ابھرتا ہے اسے معاصر فلسفہ و سائنس کے نظریات سے ملا کر دیکھا جائے اور ان میں توافق و ہم آہنگی کو مخاطب کے لیے بطور دلیل استعمال کیا جائے۔ عشرت حسن انور صاحب نے یہ بات تو نظر انداز کر دی اور اعتراض کر دیا کہ ’’مذہبی تجربے اور اس کے عمل انکشاف میں موزوں تعلق قائم نہیں کیا گیا،،۱۲؎ اور بنابریں علامہ اقبال ان کے خیال میں اس کائناتی اور ہمہ گیر تناظر سے محروم ۱۳؎ ہو گئے جو وحدت ادیان کی طرف ان کی رہنمائی کر سکتی تھی۔ ۱۴؎ یہ کَہ کر انھوں نے بات کا رخ اس طرف موڑ دیا ہے کہ اگرچہ علامہ نے وقوف سری اور وقوف مذہبی کے مابین امتیاز کیا ہے ۱۵؎ اور ہم سرد ست اسے تسلیم کیے لیتے ہیں تاہم یہ وقوف مذہبی تمام ممالک اور تمام معاشروں میں پایا جاتا رہا ہے اور قرآن نے صراحتاً اس کا بیان کیا ہے۔ عشرت صاحب نے قرآنی آیات درج کر دی ہیں اور پھر قاری کو ان نتائج کی طرف متوجہ کیا ہے جو ان کی دانست ۱۶؎ میں ان آیات سے مستنبط ہوتے ہیں۔ ہماری گزارش یہ ہے کہ ان کی آرا سے اب بحث کا موضوع یہ ہو گیا کہ کیا اسلام کے علاوہ بھی دیگر ادیان منزل من اللہ ہیں؟ یہ علامہ کے موضوع سخن سے الگ بحث ہے اور یہاں بے محل ہے۔ جو مخاطب اقلیم ربانی کا وجود نہ مانے اور تنزیل کی کسی نوع کا قائل نہ ہو، اسے ایک سے زائد تنزیلات کی خبر دینا اور اس پر آخری تنزیل سے دلیل قائم کرنا مہمل بات ہے۔ دوسری طرف یہ دیکھیے کہ علامہ سے یہ منسوب کیا ہے کہ وہ و قوف سرّی و مذہبی میں امتیاز کرتے ہیں۔ یہ بات کو الٹ دینے کے مترادف ہے۔امتحان عملی اور امتحان نظری کی ضرورت ہی اس لیے پیدا ہوئی تھی کہ علامہ نے اصول تطبیق کے تحت مخاطب کی ذہنی سطح اور مسلمات فکری کی رعایت کرتے ہوئے وقوف مذہبی اور وقوف سرّی کو نوعیت میں ایک اور شدت یا نتائج میں مختلف بتایا تھا اور اس سے جو حد فاصل منہدم ہوتی تھی اسے دوبارہ قائم کرنے کی غرض سے دو آزمائشیں تجویز کی تھیں۔ اس کی طرف ہم اپنے پچھلے باب میں اشارہ کر چکے ہیں۔ انھی آزمائشوں کے ذکر میں عشرت حسن انور صاحب نے اس کے بعد پہلے خطبہ کے آخری پیراگراف کی عبارت نقل کی ہے ۱۷؎ اور یہاں بھی اس عبارت کو علامہ کے دیگر بیانات۱۸؎ سے ملائے بغیر اور بعض کلیدی الفاظ و مصطلحات کا واضح مفہوم متعین کیے بغیر علامہ پر تضاد بیانی اور قیاس منفصل کے اعتراضات عائد کر دیے ہیں اور بحث کا رخ اس بات کی طرف موڑ دیا ہے کہ وحی کے تجربے کا ابلاغ فی نفسہ ممکن ہے یا نہیں۔ اس اقتباس کا سب سے اہم کلیدی لفظ فیلنگ(feeling) ہے۔ اس کے ترجمے کو متعین کرنے میں قارئین اور مترجمین تشکیل جدیدکو عموماًدشواری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔۱۹؎ عشرت حسن انور صاحب نے اس لفظ کو انگریزی کے عام مستعمل معنی یعنی جذبات و تاثرات کے مترادف کے طور پر لے لیا ہے اور اسی بنا پر اعتراضات بھی وارد کیے ہیں۔ اس کے مدلول کو واضح کرنے کے لیے اولاً تو یہ دیکھنا چاہیے کہ علامہ نے یہاں (feeling) کا لفظ اس معنی میں برتا ہے جس میں مولانا روم نے اسے استعمال کیا ہے ۲۰؎ ہمارے اس قیاس کا قرینہ یہ ہے کہ اسی خطبے میں اسی مفہوم کے لیے ایک اور جگہ مولانا روم کا حوالہ دیا ہے۔ متعلقہ اشعار مندرجہ ذیل ہیں: آفتاب معرفت را نقل نیست مشرق او غیر جان و عقل نیست خاصہ خورشید کمالی کان سریست روز و شب کردار او روشن گریست مطلع شمس آی اگر اسکندری بعد از آن ہر جا روی نیکو فری بعد از آن جا روی مشرق شود شرقہا بر مغربت عاشق شود حس خفاشت سوی مغرب دوان حس درپاشت سوی مشرق روان راہ حس راہ خرانست اے سوار اے خران را تو مزاحم شرم دار پنج حسی ہست جز این پنج حس آن چو زر سرخ وین حسہا چو مس اندر آن بازار کایشان ماہرند حس مس را چون حس زرگی خرند حس ابدان قوت ظلمت می خورد حس جان از آفتابی می چرد ای ببردہ رخت حسہا سوی غیب دست چون موسیٰ برون آور زجیب اے صفاتت آفتاب معرفت و آفتاب چرخ بند یک صفت ظ گر بدیدے حس حیوان شاہ را پس بدیدی گائو و خر اللہ را گر نبودے حس دیگر مر ترا جز حس حیوان زبیرون ہوا پس بنی آدم مکرم کی بدی کی بحس مشترک محرم شدی ظ آینہ دل چون شود صافی و پاک نقشہا بینی برون از آب و خاک ہم ببینی نقش و ہم نقاش را فرش دولت را و ہم فراش را ظ گفتم آخر آینہ از بہر چیست تابداند ہر کسی کو چیست و کیست آئینہ آہن برای پوستہاست آئینہ سیمای جان سنگی بہاست آینہء جان نیست الا روی یار روی آن یاری کہ باشد زآن دیار گفتم اے دل آئینہ کلی بجو رو بدریا کار برناید بجو ظ مولاناروم نے ’’حس درپاش‘‘، ’’حس جان‘‘ اور ’’حس دیگر‘‘ کی تراکیب سے جس مفہوم کی طرف اشارہ کیا ہے اس کا ترجمہ علامہ نے (feeling) کے لفظ سے کیا ہے۔ یہ اصطلاح اگرچہ پوری طرح ابلاغ مفہوم نہیں کر سکتی، تاہم جس طرح مماثلت مقلوب کے اصول کے تحت مولانا روم نے حس کے لفظ کو جو ایک نچلے مرتبۂ وجود کی چیز ہے، اٹھا کر دوسرے مرتبۂ وجود کے حقائق کے بیان کے لیے استعمال کیا ہے اس کے تحت علامہ کے اس استعمال کی گنجائش بھی پیدا کی جا سکتی ہے۔ پرانے علوم اور مابعد الطبیعیات کے وسائل بیان کا یہ ایک عام اصول تھا اور اس میں موجود اشتراک لفظی کی وجہ سے اس کے مدلول حقیقی کے بارے میں اشتباہ نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن انور صاحب کے اعتراضات سے لگتا ہے کہ انھوں نے صرف اس کے چلتے ہوئے سامنے کے معنی ہی ملحوظ رکھے ہیں اور علامہ کے دیگر بیانات کی روشنی میں اس کے اصطلاحی اور مرادی معنی متعین کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اسی وقوف سرّی و مذہبی کو علامہ نے کئی جگہ ’’حس‘‘ یا ’’احساس‘‘ کے لفظ کے بجائے دوسرے الفاظ میں بھی بیان کیا ہے: The Total reality, which enters our awareness and appears on interpretation as an empirical fact has other ways of invading our consciousness: 22 ......... We are not yet in possession of a really effective scientific method to analyse the contents of non-rational modes of consciousness 23 طوالت سے بچنے کے لیے انھی دو اقتباسات پر اکتفا کرتے ہوئے ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ماقبل مذکورہ اقتباسات میں ’’احساس،، کا لفظ مجازاً استعمال ہوا ہے۔ اس کی تائید اور کئی بیانات سے بھی ہوتی ہے۔ علی گڑھ کے انگریز استاد سے علامہ کا معروف مکالمہ بھی اس پردال ہے جس میں انھوں نے وحی لفظی اور وحی متلو کا ثبوت اپنے شعری تجربے کے حوالے سے دیا تھا۔ تشکیل جدید میں بھی کہا ہے کہ: There is a sense in which the word is also revealed 24 علامہ نے ’’مرتبۂ احساس‘‘ state of feeling) (کے الفاظ سے یہ مراد لیا ہے کہ حواس، عقل جزئی؍ خرد اور عقل کلی کے تین درجات ،حصول و ارتسام کے اعتبار سے مختلف ہیں ان کی فعلیت اور عمل دخل کی اقالیم بھی مختلف ہیںاور اندازِ ادراک و ارتسام بھی جداگانہ ہے۔ حواس اپنی اقلیم محسوس سے براہ راست ارتسامات قبول کرتے ہیں۔ عقل جزئی ، جو عقل کلی اور حواس کے درمیان ایک اقلیم دو رو ہے ،یا تو حواس کے مدرکات حاصل کرتی ہے یا عقل کلی (قلب، وحی) کے حاصلات کو ابلاغ کے سانچوں میں منتقل کرتی ہے۔ یہ اپنے آپ سے اور آزادانہ سرگرمی پر قادر نہیں ہے۔ علامہ نے خرد یا عقل جزئی سے ماورا non-rational) (اسالیبِ ادراک کے عمل کو حواس کے براہ راست اور مباشر عمل کی مماثلت پر سمجھانے کے لیے ’’حس‘‘ اور ’’احساس‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔۲۵؎ شیخ اکبر کے مقولے ’’الحق محسوس و الخلق معقول‘‘ کا حوالہ دے کر بھی علامہ نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا تھا۔۲۶؎ پہلے خطبے میں اس کی وضاحت مندرجہ ذیل الفاظ میں کی گئی: One indirect way of establishing connexions with the reality that confronts us is reflective observation and control of its symbols as they reveal themselves to sense-perception, the other way is direct association with that reality....... In the interests of securing a complete vision of Reality, therefore, sense-perception must be supplemented by the perception of what the Qur'an describes as Fu'ad or Qalb i.e. heart.27 دیکھیے کہ یہاں انگریزی میں بھی ایک ہی لفظ (perception) دو مختلف اقالیم سے حصول علم کا تعلق پیدا کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ اعلیٰ اور ادنیٰ کی تعریف مشترک ہوتی ہے۔ ادنیٰ میں یعنی ادراک بالحواس میں تدریج نہیں ہے۔ اعلیٰ میں وسیلہ بھی ہے اور وسیلہ نہیں بھی ہے۔ عشرت حسن انور صاحب نے مماثلت مقلوب کے اس استعمال کو نظر میں رکھے بغیر تنہا اس اقتباس کی بنیاد پر اعتراض کر دیا اور بات کا رخ تجربے کے ابلاغ کی طرف موڑ دیا۔ ’’احساس‘‘ کے لفظ سے علامہ کی اس اقتباس میں کیا مراد ہے ہم نے اس کے بارے میں جو تصور قائم کیا، اس کے بعد اگرچہ انور صاحب کا اعتراض باقی نہیں رہتا، تاہم ان کے اٹھائے ہوئے نکات کا ایک اور پہلو سے جائزہ لینا ضروری ہے۔ مذہبی تجربہ بحیثیت تجربہ ناقابل ابلاغ کہا گیا ہے۔ بالفاظ دیگر یہ ابلاغ بلا مقدمات ہے جبکہ حصول مع مقدمات ہے۔ یعنی صاحب وحی عمل وحی میں دوسروں کو شریک نہیں کر سکتا، اس عمل وحی کے حاصلات؍معلومات؍ انکشافات کو زبان کے مشترک وسیلے سے دوسروں تک البتہ قابل ابلاغ بنایا جاتا ہے۔ہم دیکھ چکے ہیں کہ علامہ کے خیال میں وحی کے الفاظ بھی منزل من اللہ ہیں اور اس طرح مدر کات کو لفظ و خیال میں ڈھال کر ابلاغ کے عمل سے گزارنے کا اعتراض ساقط ہو جاتا ہے۔ انور صاحب کو اس نکتے پر اعتراض یہ تھا کہ علامہ یہاں قیاس منفصل کے مرتکب ہوئے ہیں۔ پہلے ایک اصول قائم کیا ہے کہ مذہبی تجربہ فی نفسہ ناقابل ابلاغ ہے پھر اس عموم اور اس اصول میں استثنا بیان کیا ہے ’’الابہ شکل قضایا حکمیہ یا قضایا مرکبہ‘‘ ۔ اس طرح انور صاحب کے خیال میں علامہ کی فکر میں تضاد ابھرتا ہے اور اصطلاحاً وہ قیاس منفصل میں پھنس گئے ہیں۔ مراتب وجود کا لحاظ نہ رکھنے سے اس طرح کے مغالطے پیدا ہونا عجب نہیں ہے جیسا کہ انور صاحب کو یہاں پیدا ہوا ہے۔ غور فرمایئے کہ علامہ نے ابلاغ کا انکار اس تجربے کے ایک مرتبے کے لیے کیا ہے اور اس کی ایک خاص صورت میں ابلاغ کا اثبات ایک دوسری سطح کے لیے کیا ہے۔ وحی کی ایک سطح مخیل ہے اور ایک سطح ثبوت یا انکار۔ وحی کا تجربہ فی نفسہ سطح مخیل میں ہے۔ یہاں اس میں دوسرا کوئی شریک نہیں ہے۔ بصورت قضایا مرکبہ اور بلا مقدمات اس کا ابلاغ سطح ثبوت و انکار میں ہے اور وہاں اس کو قابل ابلاغ قرار دینے سے قیاس منفصل نہیں ہو گا۔ اسے جامعیت یا عمل تالیف کہیں گے۔ آگے چلیے تو انور صاحب نے ساتویں خطبے کی ابتدائی صفحے کی عبارت نقل کی ہے جس میں علامہ نے مذہبی زندگی کو تین ادوار میں تقسیم کر کے ان کے خواص بیان کیے ہیں۔۲۸؎ ا نور صاحب کو اس پر دواعتراضات ہیں۔ اولاًیہ کہ امتحان نظری اور مذہبی زندگی میں تطبیق دینا ایک کار عبث ہے اور اسے بروئے کار لانا صرف ایک فکری حربہ ہے۔ اس اعتراض پر یہاں گفتگو کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہماری اب تک کی معروضات اس امتحان نظری کی احتیاج اور اصول تطبیق کے اطلاق سے اس کی ضرورت کے بارے میں وضاحت کر دیتی ہیں۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر تین ادوار مانے جائیں تو اس امتحان نظری کا اطلاق صرف ثانی الذکر دور یعنی تفہیم عقلی کے دور پر کیا جا سکتا ہے اور اس طرح باقی دو ادوار اس امتحان نظری کے ذریعے جانچے نہیں جا سکتے۔ غور کیجیے تو یہاں پھر وہی مغالطہ کار فرما ہے جو (revelations)کو صیغہ واحد میں سمجھنے سے پیدا ہوا ہے۔ علامہ ان تینوں ادوار میں نفوس انسانیہ کی داخلی کیفیت سے بحث کر رہے ہیں جبکہ تینوں ادوار میں وحی کے حاصلات /معلومات یکساں ہیں۔ ان کے اثبات اور تفہیم کے عمل میں تدریج کی طرف علامہ نے اشارہ کیا ہے۔ اس اقتباس سے کچھ اور طرح کے اشکالات البتہ جنم لیتے ہیں جو اپنے منطقی نتائج میں شعور مذہبی کے مسلمات سے ٹکرا جاتے ہیںا ور جن کے لیے بعض تاویلات کا سہارا ضروری ہو جاتا ہے۔ لیکن انور صاحب کی نگاہ ان اہم نکات کی طرف نہیں گئی۔ ان اشکالات پر ہم الگ سے اپنی معروضات پیش کریں گے۔ سردست یہ دیکھیے کہ عشرت حسن انور صاحب کا اگلا اعتراض کیا ہے۔ یہاں آکر انھوں نے پہلے خطبے کا آخری پیراگراف دوبارہ نقل کیا ہے اور امتحان نظری و عملی کے حوالے سے یہ سوال اٹھایا ہے کہ ان آزمائشوں کا اطلاق کرنے والے کون ہیں؟ ان کے خیال میں امتحان عملی خود صاحب وحی یا صاحب تجربہ نبی کرتا ہے اور امتحان نظری اس کے بعد آنے والے اہل فکر اور اگر مذہبی تجربہ اس طرح کے دوگانہ امتحان کے معیار پر اپنی حقانیت ثابت کرنے کا محتاج ہے تو ایک طرف تو یہ تجربہ خود نبی کے لیے معروضی صداقت اور حتمی و یقینی ثبوت نہیں ہو گا اور دوسری طرف اس کے ماننے والوں کے لیے بھی ایک مفروضے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھے گا۔ یہاں ہمیں یہ ماننا چاہیے کہ نبی کے لیے وحی کی عملی آزمائش کا نکتہ بعض اہم اور پیچیدہ اشکالات کو جنم دیتا ہے اور اقبالیات کے ماہرین کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ ہم نے اس نکتے پر اور اس کے منطقی مضمرات پر اپنی کتاب۲۹؎؎ کے متن میں کئی جگہ بحث کی ہے اور ایک الگ مقالے میں اس نکتے کا تجزیہ علامہ کے مجموعی موقف اور عمومی تناظر کے حوالے سے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اس جگہ ہمیں صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ سابقہ اعتراض کی طرح یہاں بھی انورصاحب نے مسئلے کے بعض اہم تر پہلوئوں کی طرف توجہ ہی نہیں کی اور فرض کر لیا کہ نبی خود اپنے تجربے کی آزمائش معاشرے میں تبدیلی کے عمل سے کرتا ہے اور اس کے بغیر اسے اپنے تجربے کی صداقت پر یقین نہیں ہوتا۔ یہ امتحان نبی خود نہیں کرتا۔ علامہ کے مخاطبین آج صدیوں کے صحرا کے اس پار سے اپنے ایمان کے دھندلکے میں اس آزمائش کو فرض کر کے اس سے اپنے لیے تقویت ایمان کا سامان کر رہے ہیں۔ اس ذہنی ضرورت کو ماضی میں لاگو کرنا ایک تاریخی مغالطے سے کم نہ ہو گا۔ اس سے آگے چلیے تو امتحان نظری کا تذکرہ دوبارہ شروع ہوتا ہے لیکن اس مرتبہ اس امتحان پر اعتراضات کا نقطۂ نظر وحدت ادیان کا مبحث ہے جو اگلے تین صفحات پر مختلف انداز میں پھیلا ہوا ہے۔ ان نکات کا مرکزی خیال بھی وہی ہے کہ تمام ادیان کو اس فلسفیانہ امتحان کی کسوٹی پر پورا اترنے والا کیوں نہیں قرار دیا؟ ہم باردگر ان اعتراضات کی بنیادی غلطی کی طرف اشارہ نہیں کرنا چاہتے ۳۰؎ جو علامہ کے طرز استدلال اور اصول تطبیق کے اطلاق، اس کے مضمرات اور اس سے پیدا ہونے والی مصالحت جوئی کے عمل سے اغماض برتنے سے پیدا ہوتی ہے۔ ہم صرف اس نقطۂ استعجاب پر اختتام کلام کرنا چاہتے ہیں کہ عشرت حسن انور صاحب جیسے صاحب علم اور فلسفی مزاج مصنف پر غالباً ان کے حالات کے تقاضوں ۳۱؎ کی وجہ سے وحدت ادیان کا مبحث اتنا غالب آ گیا کہ نہ صرف انھوں نے تشکیل جدید کے بنیادی طرز استدلال کی نوعیت پر غور نہیں کیا بلکہ ’’ فلسفیانہ آزمائش کی آزمائش‘‘ کا نام لینے کے باوجود بحث کو اس کے صحیح تناظر سے ہٹا کر ایک ایسے رخ پر ڈال دیا جو اسے اس کے اصل مدعا و مقصود سے دور کر کے وہاں لے گئی جہاں آ کر ہمیں مجبوراً یہ کہنا پڑا کہ: اب کے بالکل نئے رنگ سے لکھ رہے ہیں سخن ور ’’مقالے‘‘ حرف تو سب کے سب ہیں رجز کے مگر مدعا مختلف ہے!۲۳؎ ئ…ئ…ء حواشی ۱- اقبال ، سہ ماہی مجلہ بزم اقبال ، لاہور، جلد ۴۱، شمارہ ۳، (جولائی ۱۹۹۴ئ) ص، ۱تا۱۷۔ ۲- جو امر ابھی محتاج ثبوت ہو، اس کے وجود سے استدلال کرنا فلسفیانہ تضاد کے مترادف ہے۔ جو چیز اپنے آپ پر منتج ہوتی ہو، اسے اصطلاحاً ’’دور‘‘ کہا جاتا ہے۔ عشرت حسن انور صاحب کی دلیل میں بھی یہاں یہی خامی ہے کہ اس سے ’’دور‘‘ لازم آتا ہے۔ ۳- یہ اصطلاحات بالترتیب نذیر نیازی صاحب اور ڈاکٹر برہان احمد فاروقی صاحب نے استعمال کی ہیں (مذہبی مشاہدہ، واردات مذہبی، واردات باطنی، وقوف سرّی، وقوف مذہبی) اور ان سب کا مدلول وہی ہے جو پرانی اصطلاح میں وحی یا علم بالوحی کے الفاظ سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ نیز (religious experience) کا ترجمہ علم بالوحی کے الفاظ سے کرنے کی تجویز خود علامہ اقبال کی تھی (دیکھئے نذیر نیازی تشکیل جدید (اردو) متن۔ ص ۱، نیز مقدمہ)۔ اس سے واضح ہوا کہ یہاں جو امر زیر بحث ہے اور جسے ثابت کرنا مقصود ہے وہ وحی خداوندی کا مافوق الطبیعی مظہر ہے جسے ان کے مخاطب ، نفسیات جدیدہ کے اثرات کے تحت، اختلال حواس یا ذہنی مرض سے تعبیر کر رہے تھے۔ ۴- ر۔ ک : عشرت حسن انور، محولہ ماقبل، ص، ۱۳۔ ’’اقبال کا ، مذہبی تجربے کے انکشافات کی نظری آزمائش ، ایک دفاعی نظام ہے جس سے وہ ان تمام کاوشوں کو روک دینا چاہتے ہیں جن سے تمام ادیان کی اساسی وحدت(کے شعور) کو فروغ ملتا ہے‘‘… مزید دیکھیے ص ، ۱ سطر۸،۱۷،۲۶،۔ ص، ۸ سطر ۲۵، ۳۲، ۳۸،۔ ص، ۹ سطر ۱۲، ۲۵، ۳۱۔ ص ،۱۲ آخری پیراگراف ۔ ص، ۱۴ سطر ۵۔ ۵- ر۔ ک : عشرت حسن انور، محولہ ماقبل ، ص ،۱۴ سطر۱۔۱۳۔ ۶- انور صاحب نے اس جگہ (mental science) کا لفظ برتا ہے اور اس کی مثال کے طور پر یوگ کا نام لیا ہے۔ اس پر گفتگو اپنے مقام پر ہو گی۔ ۷- دیکھیے نوٹ نمبر۵۔ ۸- یہ عشرت حسن انور صاحب کا موقف ہے۔ ۹- مثلاً دیکھیے تشکیل جدید (انگریزی)محولہ ماقبل، ص، ۱۳، ۱۴۶ و دیگر۔ اسی طرح شعور کے مراتب اور عقل جزئی کے علاوہ اسالیب شعور کا ذکر بھی تشکیل جدیدمیں بارہا آیا ہے لیکن ان دونوں نکات کو باقاعدہ مفصل اور مدلل انداز میں استعمال نہ کیا جانا اس بات کا ثبوت نہیں کہ علامہ ان سے بے خبر تھے۔ وہ اپنے اختیار کردہ اصول تطبیق کے تقاضے ملحوظ رکھتے ہوئے مخاطب کی عقل کی رعایت سے کلام کر رہے تھے اور یہ نکتہ ڈاکٹر عشرت حسن انور صاحب نے نظر انداز کر دیا۔ انور صاحب کی بات اس حد تک البتہ درست ہے کہ اگر کوئی تجربہ نسل انسانی کا اس کی ساری معلومہ تاریخ میں مشترکہ ورثہ اور مشترکہ تجربہ رہا ہے تو اس تاریخی اشتراک کو اس کے وجود ، صداقت و حجیت کے لیے بطور دلیل پیش کیا جا سکتا ہے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر اولاد آدم ساری تاریخ میں عہد حاضر سے پہلے فریب کا شکار تھی اور اپنی نفسیاتی خود فریبی (جنسی داعیات کا ترفع ، لاشعور کے سائے وغیرہ وغیرہ) کو مذہب کا رنگ دیتی رہی تھی یا مختلف سماجی ، جغرافیائی اور اس نوع کی دیگر ضروریات کی وجہ سے مذہب کے اختراع و اختیار کا عمل کرتی رہی تھی تو آج انسان بدل نہیں گیا۔ اگر کل تک کی ساری معلومہ تاریخ میں وہ ایک اجتماعی [مغالطے کا شکار تھا تو اب آئندہ بھی اس کے لیے اس سے نکلنے کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی۔ ۱۰- ر۔ ک: عشرت حسن انور، محولہ ماقبل، ص، ۱۔ ۱۱- حوالہ بالا ص ، ۱، ۲، ۶ ، ۸۔ ۱۲- حوالہ بالا، ص ،۱۔ ۱۳- یہاں انور صاحب نے انگریزی کی ترکیب (narrow escape) استعمال کی ہے جو اس معنی میں صحیح معلوم نہیں ہوتی بلکہ صریحاً خلاف محاورہ ہے۔ ۱۴- عشرت حسن انور، محولہ بالا، ص ،۱ سطر۸۔۹۔ ۱۵- ایضاً ۔سطر ۱۲ ۱۶- ’’ان کی دانست میں‘‘ کے الفاظ سے ہمارا اشارہ اس نزاکت کی طرف ہے جو اس مبحث میں پائی جاتی ہے۔ دیگر ادیان کی حیثیت ، حقانیت اور ظہور اسلام کے بعد حجیت کا مسئلہ اس طرح کی پیش پا افتادہ باتوں سے حل نہیں کیا جا سکتا جو انور صاحب نے ان سطور میں پیش کی ہیں۔ ۱۷- تشکیل جدید (انگریزی) محولہ ماقبل ، ص ،۲۱۔۲۲۔ ۱۸- ہمارا اشارہ ان خطوط ، مکالمات اور اشعار کی طرف ہے جن میں علامہ نے وحی لفظی کا اثبات کیا ہے اور یہاں ہم ان کی تفصیلات پیش نہیں کر سکتے۔ ۱۹- یہ لفظ اس اقتباس ہی میں نہیں کئی اور مقامات پر بھی اسی حقیقت یا اسی عمل کو ظاہر کرنے کے لیے برتا گیا ہے۔ دیکھیے تشکیل جدید (انگریزی) محولہ ماقبل ، ص، ۱۶، ۱۷، ۱۸، ۔ ان سب مقامات پر اس لفظ سے ایک اشتباہ پیدا ہوتا ہے جسے علامہ کے مجموعی موقف اور پورے تناظر کے حوالے سے حل کرنا ضروری ہے۔ ۲۰- نذیر نیازی صاحب نے اس پر مفصل نوٹ لکھنے اور متعدد امکانات کا تذکرہ کرنے کے بعد (ص ۳۵۷) اس کا ترجمہ کیفیت احساس، کی ترکیب سے کیا ہے: جبکہ علامہ کے دیگر اقتباسات کی روشنی میں اس کا ترجمہ ’’مرتبۂ انفعال‘‘ یا ’’مرتبۂ احساس‘‘ بھی ہو سکتا تھا۔ ۲۱- نصراللہ پور جوادی؍نکلسن مثنوی مولانا روم، تہران ۱۳۶۳۔ دفتر دوم ، اشعار ۴۳۔ ۵۲،۶۵ ۔ ۶۷، ۷۲۔ ۷۳، ۹۴، ۹۷ ۲۲- تشکیل جدید(انگریزی) محولہ ماقبل ، ص، ۱۳، اسی عبارت میں آگے چل کر علامہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’دیگر درجات شعور‘‘ کوئی مبہم ، مخفی اور جذباتی چیز نہیں ہیں۔ اس سے بھی واضح اشارہ ملتا ہے کہ (feeling) کے لفظ سے ان کی مراد کیا ہو سکتی ہے۔ ۲۳- تشکیل جدید (انگریزی) ص، ۱۴۔ ۲۴- ایضاً ۔ص ،۱۸۔ ۲۵- صوفیا کی اصطلاح میں اسی مفہوم کو ذوق (چکھنا) کے لفظ سے سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے کیونکہ اس عمل کی مماثلت حواس کے براہ راست عمل سے زیادہ اور خرد یا عقل جزئی کے بالواسطہ اور محتاج غیر وسیلے سے کم ہے۔ ۲۶- تشکیل جدید(انگریزی) محولہ ماقبل ، ص، ۱۴۴۔ ۲۷- حوالہ بالا، ص، ۱۲۔ یہ سب سے گہری اور چند خاص انسانوں تک محدود سطح شعور (فلاسفہ کی اصطلاح میں اسی کو شاید عقل مستفاد کہا جاتا ہے) عمل وحی کے لیے آلٰہ حصول کی حیثیت رکھتی ہے جیسا کہ قرآن مجید کی متعلقہ آیات سے پتہ چلتا ہے۔ ۲۸- حوالہ بالا ، ص، ۱۴۳۔ اگر نقل، عقل اور کشف کے تین ادوار کو زمانی تسلیم کیا جائے اور ان کا ظہور بالترتیب مانا جائے تو اس اقتباس میں کچھ مسائل جنم لیتے ہیں جن کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں۔ ۲۹ - دیکھیے محمد سہیل عمر،خطبات اقبال نئے تناظر میں،اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۲،ص ۱۸۳ ۳۰- دو ذیلی نکات کی تنقیح البتہ مناسب ہو گی۔ مقالے کے آخری پیراگراف میں انور صاحب نے تشکیل جدید (ص ۱۴۳) سے علامہ کے اس فقرے کا حوالہ دیا ہے جو اصل میں ان کے والد کا قول تھا لیکن اسے ’’ایک صوفی کا قول‘‘ کہا گیا تھا۔ اس فقرے کو انور صاحب نے اس معنی میں لیا ہے کہ اس کیفیت مقصودہ سے علامہ کا اشارہ یوگا کی طرح کی ذہنی مشقوں یا ارتکاز توجہ کے عمل کی طرف ہے جبکہ اس سے متعلق متون دیکھنے اور اسے علوم دینی کے حوالے سے جانچنے سے یہ کہنا زیادہ قرین حقیقت ہو گا کہ یہاں علامہ یہ بتا رہے ہیں کہ قرآن کی ایک جہت محسوس ہے اور ایک جہت معقول۔ اس کا فہم پیدا کرنا بھی مطلوب ہے اور اسے محسوس کرنا بھی مقصود ہے۔ ان دونوں جہات میں رسول کی ذات امر زائد نہیں ہے۔ قرآن کو سمجھنے اور محسوس کرنے کے تمام سانچے، اپنی تاریخی سند کے ساتھ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دے دیے۔ ان میں مشارکت کرنا ان دونوں جہات عمل کی سطح بلند کرنا ان کو معتبربنانے کے مترادف ہے۔ مقام تعجب بلکہ مقام افسوس ہے کہ انور صاحب نے اس سلسلے میں ہندو یوگ کے تصور سے بھی انصاف نہیں کیا۔ پہلے تو اس کے بیان کے لیے رادھا کرشنن کی سند لے آئے جو مغربی فلسفے کے سانچوں اور معیارات کے مطابق ہندومت کے روایتی تصورات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی پاداش میں ناقابل اعتبار ہو چکے ہیں۔ پھر یوگ کا مقصد یہ بتایا کہ ’’اس سے عام انسانی تجربے کی حدود سے باہر نکلنا ممکن ہو جاتا ہے۔‘‘! ۳۱- یہ تقاضے کئی طرح کے ہو سکتے ہیں مثلاً ہندو معاشرے کا سماجی دبائو، یونیورسٹی کی نوکری کے مسائل، سیاسی مصلحت یا محض اپنی بقا کی قیمت۔ ۳۲- یہ شعر افتخار عارف کا ہے جو ان کی اجازت سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ئ…ئ…ء سزا یا نا سزا شبلی، شاہ ولی اللہ اور اقبال کے حوالے سے اسلامی سزائوں کے مبحث پر چند ملاحظات چند برس کی بات ہے کہ ایم فل (اقبالیات) کے تکمیلی مقالے کی تیاری کے لیے تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ ۱؎ کا از سر نو مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔ کتاب کے چھٹے خطبے ’’اسلام میں اصول حرکت‘‘۲؎ کے متن کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک نئی چیز سامنے آئی۔ اس خطبے میں مرکزی موضوع یعنی ’اجتہاد‘ سے بحث کرتے ہوئے علامہ اقبال نے ذیلی مبحث کے طور پر فقہ اسلامی کے چار مآخذکاتذکرہ کیا ہے۔ پھر ان کے ضمن میں اپنے دور کے حالات کے پیدا کردہ مسائل کے حوالے سے تبصرہ کیا ہے۔ یہاں آ کر علامہ نے ایک نکتہ اٹھایا ہے اور وہ ہے احکام شرعی کے تعین میں اِلف و عادت اور عرف و رواج کی رعایت رکھنے کا معاملہ۔ اس نکتے کی وضاحت کے لیے علامہ نے شاہ ولی اللہ صاحب کی تصنیف حجۃ اللّٰہ البالغۃ سے ایک حوالہ دیا ہے اور اس میں بیان کردہ فکری مقدمے پر اپنے استدلال کی بنیاد رکھی ہے۔ تشکیل جدید کے متداول انگریزی ایڈیشن کی تصحیح متن اور تعلیقات نویسی جناب شیخ محمد سعید نے انجام دی تھی۔ ان کے تعلیقات کے وسیلے ۳؎ سے شاہ ولی اللہ کی اصل عبارت کی جستجو کی گئی تو یہ بات پہلی مرتبہ سامنے آئی کہ حجۃ اللّٰہ البالغۃ کے مذکورہ صفحے پر اس مضمون کی کوئی متعلقہ عبارت موجود نہیں ہے۔ اس تعلیقہ میں عربی عبارت بھی دی گئی تھی اور الکلام میں اس کے اقتباس کا ذکر بھی تھا۔ الکلام کا متعلقہ صفحہ دیکھا گیا تو یہ کھلا کہ اقتباس کردہ عبارت اور تعلیقے کی عبارت میں فرق ہے۔ ۴؎ مزید پرچول کی تو شاہ صاحب کی اصل عبارت بھی مل گئی۔ ۵؎ الکلام میں دی گئی عبارت کو اصل عربی عبارت سے ملا کر دیکھا تو واضح ہوا کہ شبلی نے جو عبارت الکلام میں درج کی اور جسے علامہ نے اپنے استدلال کے لیے شبلی کے بھروسے پر بنیاد بنایا ۶؎ اس میں اور شاہ ولی اللہ کی اصل عبارت میں اختلاف ہے۔ شبلی نے اپنے مخصوص انداز تالیف میں پہلے تو عبارت کے درمیان سے چھ سطریں حذف کر دیں پھر آخر کی دو سطریں اڑا دیں اور اس کے بعد نہ صرف اس امر کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا کہ عربی عبارت مسلسل نقل نہیں ہوئی بلکہ آخر میں استنباط نتائج کے طور پر اردو میں جو خلاصہ یا مقصود کلام دیا ہے وہ بھی اس طرح درج ہوا ہے کہ بظاہر شاہ صاحب ہی کا مدعا قرار پاتا ہے۔ شاہ صاحب کی تصنیف کے اصل مبحث کو دیکھتے ہوئے ہمارے لیے یہ قبول کرنا دشوار تھا کہ شبلی نے اس مقام پر شاہ صاحب کے استدلال کی صحیح ترجمانی کی ہے۔ اس دشواری کا پہلا سبب تو یہ تھا کہ شاہ صاحب نے حجۃ اللّٰہ البالغۃ ہی کی دوسری جلد میں ’’الحدود‘‘ کے عنوان کے تحت حدود و تعزیرات کے بارے میں مفصل بحث کی ہے۔۷؎ اس بحث کو پڑھنے سے یہی سمجھ آتا ہے کہ شاہ صاحب ان سزائوںکو شریعت بالجملہ میں شمار کرتے ہیں اور ان کی اصطلاح میں ’’شریعت بالجملہ‘‘ وہ عناصر دین ہیںجو دائمی ہیں اور ہر دور اور ہر قوم کے لیے واجب ہیں۔۸؎ یہ مفہوم صراحتاً وہ نہیں ہے جو شبلی کی عبارت سے متبادر ہوتا ہے۔ دوسری دشواری یہ تھی کہ اگر شبلی کا بیان کردہ خلاصۂ افکار تسلیم کر لیا جائے تو شاہ صاحب کے مبحث کا تناظر ہی بدل جاتا ہے جو ’’شریعت بالجملہ‘‘ اور ’’شریعت بالاطلاق‘‘ کی دو اصطلاحات کی شرح اور ان کے باہمی تعلق کے بیان پر مبنی ہے۔ اس تغییر کی طرف سید سلیمان ندوی نے علامہ اقبال سے مکاتبت کرتے ہوئے اشارہ بھی کیا تھا۔۹؎ اس تغییر معانی کا شاخسانہ یہ ہوا کہ بعض حلقوں میں اس سے استدلال کیا جانے لگا کہ کچھ اجزائے اسلام شریعت نہیں ہیں صرف وقتی حیثیت کی چیزیں ہیں۔ جب ان اجزا کو متعین کرنے کی نوبت آئی تو ان میں وہ چیزیں بھی شامل کر دی گئیں جو دائرہ اصول و نصوص سے تعلق رکھتی تھیں۔ اس کی ایک مثال حدود و تعزیرات کو وقتی اور عرب کے جاہلی معاشرے تک محدود قرار دینے والے بیانات میں دیکھی جا سکتی ہے۔ جب یہ پس منظر ہم پر کھلا تو ایک روز ہم نے یہ مسئلہ ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کے سامنے رکھا۔ شاہ ولی اللہ اور شبلی نعمانی کی اصل عبارتیں بھی پیش کیں۔ اس سارے مواد کا جائزہ لے کر انھوں نے جو تبصرہ کیا وہ یہ تھا کہ شاہ صاحب کہنا تو یہی چاہتے تھے مگر ان کی عبارت سے یہ نکتہ کھل کر سامنے نہیں آ سکا۔ شبلی نے ان کے مقصود کلام کی جو ترجمانی کی ہے وہ درست ہے اور اس سے شاہ صاحب کی عبارت کا مدعا و مطلب کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ اقبال نے اگر شبلی کی تعبیر کو اختیار کیا ہے تو ٹھیک ہی کیا ہے۔ یہ اس مسئلے کا ایک رخ تھا۔ قارئین قیاس کر سکتے ہیں کہ اس طرز استدلال کے مضمرات کیا ہیں۔ یہ صرف ایک نظری یا قانونی مسئلہ نہیں تھا۔ اس کا براہ راست تعلق اس بحث سے پیدا ہو چکا تھا جو ہمارے ہاں شرعی احکام؍اجزائے شریعت کے دائمی؍غیر دائمی ہونے کے عنوان سے کچھ عرصے سے جاری تھی۔ اگر شبلی کا بیان کردہ مفہوم قبول کرلیا جائے اور اسے شاہ صاحب کے اصول کی مستند ترجمانی قرار دیا جائے تو اس کے کچھ ناگزیر منطقی نتائج اور مضمرات ہوں گے جنہیں قبول کرنا ہو گا۔ دوسری جانب بعض اہل قلم کی رائے اس سے مختلف بھی تھی۔ شاہ صاحب کی عبارتوں کے صحیح مدلول کو متعین کرنے کی غرض سے ہم نے پہلے تو ڈاکٹر محمد الغزالی صاحب سے رجوع کیا۔۱۰؎ ان کی رائے میں شاہ صاحب کی مکمل عبارت اور عمومی فکری تناظر کو سامنے رکھتے ہوئے یہ تسلیم کرنا دشوار ہے کہ شبلی کا بیان شاہ صاحب کی صحیح ترجمانی کر رہا ہے۔ جاوید احمد غامدی صاحب ۱۱؎ کا تبصرہ یہ تھا کہ شبلی کا نقطۂ نظر نہ تو شاہ صاحب کے عمومی فکری اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے نہ اس خاص مسئلے پر ان کے موقف کی صحیح ترجمانی کرتا ہے کہ شرعی احکام کے نفاذ و اطلاق میں زمان و مکان کے بُعد کی کیا رعایت متصور ہو گی؟ اس ضمن میں انھوں نے دو نکات کی طرف توجہ دلائی۔ اولاً یہ کہ احکام شرعی کے تعین میں اِلف و عادت اور عرف و رواج کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ اس کو بنیاد بنا کر شاہ صاحب نے امور شرعی کی دو اقسام بیان کی ہیں ’’شریعت بالجملہ‘‘ اور ’’شریعت بالاطلاق‘‘ اول الذکر دائمی اور ہر دور اور ہر قوم کے لیے واجب ہے جبکہ موخر الذکر میں زمانے اور نفوس انسانیہ کی رعایت ہوتی ہے اور وہ مابعد کے لوگوں کے لیے واجب نہیں ہوتی۔ خلط مبحث وہاں پیدا ہوا جب اول الذکر کے مدلولات کو موخر الذکر کی تغیرپذیر اقلیم سے متعلق کر کے انھیں بھی قابل ترمیم و تنسیخ قرار دے دیا گیا، مثلاً شرعی سزائیں ، جبکہ شاہ صاحب کی تحریروں کی داخلی شہادت یہ بتاتی ہے کہ وہ ان اجزائے شریعت کو ’بالجملہ‘ کی قبیل میں رکھتے ہیں۔ دوسرا نکتہ یہ تھاکہ اگر علامہ کی اس بحث کا بغور جائزہ لیا جائے جو فقہ کے ماخذ کے تحت انھوں نے کی ہے تو اس سے ان کی محتاط رائے کا اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے۔ اجماع کو ناسخ قرآن کی حیثیت نہ دینے کے بعد علامہ نے صحابہ کے اجماعی فیصلوں کی شرعی حیثیت پر کلام کیا ہے۔ ان کا تجزیہ اس مسئلے کو چار دائروں میں تقسیم کر دیتا ہے، قرآن ، سنت ثابتہ، احادیث اور اطلاق بر فروع۔ علامہ کی رائے بالکل واضح ہے کہ قرآن اور سنت ثابتہ تو احکام شرعی کے قطعی ماخذ ہیں۔ احادیث کی حیثیت دو رخی ہے۔ یا تو وہ اصل و نصوص کی شرح وتبیین کر رہی ہیں۔ اگر یہ صورت ہو تو احادیث خود ہی تبعاً متعلق بہ اصول و نصوص ہو جائیں گی۔ دوسری صورت میں یہ احادیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان اطلاقی فیصلوں کی خبر دے رہی ہیں جو اصل و نصوص کے تحت آپ نے پیش آمدہ مسائل اور مخصوص حالات کے بارے میں صادر کیے۔ یہ اطلاقی فیصلے وہ دائرہ اطلاق تشکیل دیتے ہیں جہاں تغیر کو دخل ہے، زمانے کے تقاضے، عرف و رواج اور دیگر کئی مصالح کا لحاظ کرنا جائز ہے۔ اس دائرے میں تبدیلی اور اجتہاد کی کھلی اجازت ہے۔ عین یہی منشا علامہ کی ان عبارتوں کا ہے جو اجماع صحابہ کے ضمن میں پیش ہوئیں۔ اسے حدود و تعزیرات کے مسئلے سے ملا کر دیکھیے تو خلط مبحث یہ نظر آتا ہے کہ حدود و تعزیرات کی دو حیثیات میں امتیاز ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ شرعی سزائیں بحیثیت حکم شرعی کے شریعت کا دائمی حصہ ہیں اور بحیثیت اطلاقی فیصلے کے ان کا طریقۂ نفاذ دائرہ اطلاق کی چیز ہے اور اسے حسب ضرورت تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر محمد امین صاحب سے ان نکات پر گفتگو ہوئی تو ان کی رائے بھی شبلی کی پیش کردہ تعبیر کے خلاف تھی۔ اپنی اسی رائے کا تحریری اظہار انھوں نے اپنے مقالے ’’شاہ ولی اللہ اور اسلامی حدود‘‘۱۲؎ میں کیا۔ مسئلے کی وضاحت کے لیے ضروری تھا کہ متعلقہ عبارتیں ترتیب زمانی کے مطابق پیش کر دی جاتیں تاہم ڈاکٹر امین صاحب نے یہ ضرورت نظر انداز کر دی اور کچھ ذیلی مسائل الگ سے چھیڑ دیے جس سے بحث کا رخ دوسری جانب مڑ گیا۔ ڈاکٹر محمد خالد مسعود صاحب نے ڈاکٹرامین صاحب کے استدلال کا تعاقب کیا اور اس کی تصحیح / ترمیم میں بہت تفصیل سے کلام کیا۔ ا ن کا مفصل مقالہ ’’اسلامی احکام اور عادات‘‘ کے عنوان سے فکر و نظر ۱۳؎ میں طبع ہوا۔ ان کی رائے میں شبلی اور علامہ اقبال نے شاہ صاحب کی عبارت کو صحیح سمجھا اور اس کا درست مفہوم متعین کیا۔ پس منظر کی اس تمہیدی وضاحت کے بعد سطور ذیل میں ہم اس معاملے پر چند معروضات پیش کرنا چاہتے ہیں۔ شاہ صاحب کی متعلقہ عبارت حجۃ اللّٰہ البالغۃ جلد اول کے مبحث سادس کے باب ۶۹ ’’الحاجۃ الی دین ینسخ الادیان‘‘ میں واقع ہوئی ہے۔ ۱۴؎ سطور ذیل میں اس کا عکس پیش کیا جا رہا ہے۔ اقتباس اول شبلی نعمانی نے یہی عبارت الکلام میں پیش کی ہے عبارت کا خلاصہ اقتباس سے پہلے مندرجہ ذیل الفاظ میں دیا گیا ہے۔ ۱۵؎ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ پیغمبر جس قوم میں مبعوث ہوتا ہے، اس کی شریعت میں اس قوم کے عادات اور خصوصیات کا خاص طریقہ پر لحاظ ہوتا ہے، لیکن جو پیغمبر تمام عالم کے لیے مبعوث ہو، اس کے طریقہ تعلیم میں یہ اصول چل نہیں سکتا کیونکہ نہ وہ تمام دنیا کی قوموں کے لیے الگ الگ شریعتیں بنا سکتا ہے نہ تمام قوموں کی عادات اور خصوصیتیں باہم متفق ہو سکتی ہیں۔ اس لیے وہ پہلے ا پنی قوم کی تعلیم و تلقین شروع کرتا ہے اور ان کو محاسن اخلاق کا نمونہ بناتا ہے، یہ قوم اس کے اعضا اور جوارح کا کام دیتی ہے اور اسی نمونہ پر وہ اپنی تلقین کا دائرہ وسیع کرتا جاتا ہے، اس کی شریعت میں اگرچہ زیادہ تر وہ قواعد کلیہ اور اصول عام ہوتے ہیں جو قریباً تمام دنیا کی قوموں میں مشترک ہوتے ہیں۔ تاہم خاص اس کی قوم کی عادات اور خصوصیات کا لحاظ زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن جو احکام ان عادات اور حالات کی بنا پر قائم ہوتے ہیں ان کی پابندی مقصود بالذات نہیں ہوتی اور نہ ان پر چنداں زور دیا جاتا ہے۔ شاہ ولی اللہ کی تحریر سے شبلی نعمانی نے جس طرح اقتباس دیا اس کا انداز ذیل میں دیے گئے عکس میں دیکھا جا سکتا ہے۔۱۶؎ اقتباس دوم پہلے آیئے متن میں تغییر کے مسئلے پر۔ شاہ صاحب کی اصل عبارت سطور ماقبل میں پیش کی جا چکی۔ اس کے ذیل میں علامہ شبلی کی تحریر اور اقتباس بھی پیش کر دیا گیا۔ دونوں متون کے تقابل سے پہلا انکشاف یہ ہوتا ہے کہ شبلی نے شاہ صاحب کی عبارت میں سے کئی جگہ فقرے حذف کیے ہیں۔ ’’اقتباس اوّل‘‘ صفحہ ۲ کی دوسری سطر کا نصف آخر اور تیسری چوتھی سطریں ’’اقتباس دوم‘‘ میں نہیں ہیں۔ آگے چلیے تو ’’اقتباس اوّل‘‘ ص ۲ کی دسویں سطر صحیح نقل کرنے کے بعد پھر ’’اقتباس اوّل‘‘ کی آخری ساڑھے تین سطریں ’’اقتباس دوم‘‘ میں سے اڑا دی گئی ہیں۔ بایں ہمہ ’’اقتباس دوم‘‘ کی عبارت مسلسل عبارت کی طرح لکھی گئی ہے اور سیاق و سباق میں عبارت کے اندراج میں یا ترجمے و تمہید میں کہیں یہ اشارہ نہیں کیا کہ ’’اقتباس دوم‘‘ کی عبارت مسلسل نہیں ہے بلکہ اسے ’’اقتباس اوّل‘‘ کی حسب ضرورت ’’کتربیونت‘‘ کر کے مسلسل عبارت کی شکل دی گئی ہے۔ آگے چلنے سے پہلے یہ بھی دیکھ لیجیے کہ جتنا حصہ نقل ہو کر ’’اقتباس دوم‘‘ میں بار پا سکا ہے اس میں بھی چھ مقامات پر سہوکتابت موجود ہے۔۱۷؎ اب آیئے تغییر معانی کی جانب ۔ یہ بحث ذرا نازک ہے اور اپنے دامن میں فقہ و قانون اسلامی کے پیچیدہ مباحث سمیٹے ہوئے ہے۔ اس لیے ہم ترجیح اس بات کو دیں گے کہ بحث کا دائرہ ہمارے ’’وطن مالوف‘‘ یعنی اقبالیات کی حدود سے تجاوز نہ کرے اور فقہ و قانون کی سخن گسترانہ باتوں کی نوبت نہ آنے پائے۔ ویسے بھی اس وضاحتی تحریر میں ہمارا مقصود صرف اتنا ہے کہ علامہ اقبال کی تحریر کے حوالے سے جو بحث اقبال شناسوں میں چل رہی ہے اور جس میں شاہ ولی اللہ کو بطور سند پیش کیا جاتا ہے اس کے دلائل کو صحت و سقم کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھ لیا جائے اور یہ طے کر لیا جائے کہ جس بات کو شاہ صاحب کا موقف قرار دیا جا رہا ہے وہ ان سے منسوب کیا جا سکتا ہے یا نہیں! علامہ شبلی نے تین جگہ عبارت میں قطع و برید کی ہے۔ ان میں سے پہلے دو مقامات پر عبارت کے کچھ الفاظ حذف کرنے سے استدلال اور تسلسل کلام پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔ لیکن تیسرے مقام پر حذف شدہ فقرے اتنے اہم ہیں کہ ان کے ہونے یا نہ ہونے سے استدلال کا سارا تناظر بدل جاتا ہے۔ لہٰذا متعلقہ عبارت دوبارہ درج کی جاتی ہے۔ شاہ صاحب کا کہنا یہ ہے کہ:۱۸؎ چنانچہ اس سے بہتر اور آسان تر کوئی بات نہیں کہ شعائر، حدود اور ارتفاقات میں اسی قوم کی عادات کا اعتبار کیا جائے جس میں وہ مبعوث ہوا ہے اور بعد میں آنے والے دوسرے لوگوں کے لیے بالکل ہی تنگی نہ کر دی جائے۔ ان کے لیے ان (شعائر، حدود اور ارتفاقات) کو فی الجملہ باقی رکھا جائے۔ پہلے لوگوں کے لیے اس شریعت کو اختیار کرنا اس لیے آسان ہوا کہ ان کے دل اور ان کی عادات اس کے شاہد تھے۔ پچھلوں کے لیے اس کو اختیار کرنے میں آسانی اس لیے ہو گئی کہ ان کے لیے آئمہ ملت اور خلفا کی سیرت کا اتباع مرغوب چیز تھا۔ پس یہ شریعت ہر قوم کے لیے اور قدیم و جدید ہر زمانے میں امر طبیعی کی طرح ہے۔ ۱۹؎ اگر شبلی اپنے قارئین کو یہ بتا دیتے کہ شاہ صاحب کا بیان اصل میں یہ ہے کہ… وہ نبی جس کی لائی ہوئی شریعت کا مادہ عرب و عجم کی ساری اقالیم صالحہ کے لیے مذہب طبعی کی طرح تھا اور اس نے اپنی قوم کے الف و عادت کا لحاظ رکھتے ہوئے اس مادہ شریعت کے تحت جو شعائر حدود اور ارتفاقات مقرر کیے وہ بحیثیت مجموعی بعد والوں کے لیے بھی واجب العمل ہیں۔ ان پر عمل کرنا بعد والوں کے لیے بھی اتنا ہی آسان ہے جتنا پہلے والوں کے لیے تھا البتہ اس آسانی کے اسباب دونوں کے لیے مختلف ہیں اور یہ تینوں اجزائے شریعت (یعنی شعائر، حدود اور ارتفاقات) ہر عہد اور ہر قوم کے لیے ایک امر طبیعی کی طرح ہیں… اگر یہ بات شبلی کے تیار کردہ ’’اقتباس دوم،، میں آ جاتی تو کیا ان کے پاس ایسے فقرے لکھنے کی گنجائش رہ جاتی جو انھوں نے تمہید، خلاصہ کلام اور استنباط نتائج کی ذیل میں بہ اطمینان نذر قارئین کر دیے ہیں۔ مثلاً یہ کہ: جو احکام ان عادات و حالات کی بنا پر قائم ہوتے ہیں ان کی پابندی مقصود بالذات نہیں ہوتی اور نہ ان پر چنداں زور دیا جاتاہے۔ ۲۰؎ آنے والی نسلوں پر ان احکام کے متعلق چنداں سخت گیری نہ کی جائے۔ ۲۱؎ اس اصول سے یہ بات ظاہر ہو گی کہ شریعت اسلامی میں چوری، قتل، زنا وغیرہ کی جو سزائیں مقرر کی گئی ہیں ان میں کہاں تک عرب کی رسم و رواج کا لحاظ رکھا گیا ہے اور یہ کہ ان سزائوں کا بعینہا اور بخصوصہا پابند رہنا کہاں تک ضروری ہے؟ ۲۲؎ آخری فقرے میں ’’بعینہا‘‘ اور ’’بخصوصہا‘‘ کے الفاظ سے ایک غلط فہمی نے جنم لیا جو علامہ اقبال کے ہاں منتقل ہوئی کیونکہ انھوں نے شبلی کے ’’اقتباس‘‘ پر بھروسہ کر لیا تھا۔ علامہ اقبال کی عبارت نقل کرنے سے پہلے یہ دیکھ لیا جائے تو مناسب ہو گا کہ شبلی نے اسما و ضمائر کے ان دوبھاری بھرکم مرکبات سے لیس ہو کر قارئین کے سامنے جو ایک مرعوب کن سوال رکھا ہے اس کا جواب کیا ہے۔ ہمیں یہ تو مستحضر نہیں ہے کہ فقہ اسلامی کے صدیوں پر محیط ذخیرئہ افکار میں اس سوال کا کیا کیا جواب دیا گیا ہے تاہم بحث کو اپنی حدود میں رکھنے کے لیے شاہ ولی اللہ کی حجۃ اللّٰہ البالغۃ میں سے جواب تلاش کرنے کی کوشش کیے لیتے ہیں۔عربی الفاظ و ضمائر کا گھونگھٹ اٹھا دیجیے، توسوال اپنی سادہ شکل میں یہ رہ جاتا ہے کہ شریعت اسلامی میں چوری، زنا اور قتل و غیرہ کی جو سزائیں نبی علیہ السلام کے زمانے میں مقرر تھیں کیا آج بھی وہی سزائیں باقی رہیں گی اور اسی طرح رہیں گی؟ شاہ صاحب نے اس معاملے پر کئی جگہ کلام کیا ہے تاہم ہمارے مطلوبہ سوال کے دونوں اجزا کا جواب حجۃ اللّٰہ البالغۃ جلد دوم کے ’’باب حدود‘‘ سے بقدر کفایت مل جاتا ہے۔ یوں تو شاہ صاحب نے شرعی سزائوں کی ضرورت مصلحت اور مصالح شرعیہ سے ان کے ربط کے سلسلے میں بھی اہم نکات بیان کیے ہیں تاہم ہمارے فوری مسئلے کے نقطہ نظر سے اس باب کے دوسرے مندرجات اہم تر ہیں۔ پہلے شرعی سزائوں کے بارے میں ان کی اجمالی رائے ملاحظہ کیجیے۔۲۳؎ یہ سزائیں شرائع سماویہ میں متوارث چلی آتی تھیں اور تمام انبیا اور ان کی امتیں اس پر متفق تھیں تو ضروری ہوا کہ ان کو خوب مضبوطی سے پکڑنا چاہیے اور کبھی ان کو ترک نہ کرنا چاہیے۔ سزائوں ہی کے بارے میں آگے چل کر لکھتے ہیں: ۲۴؎ شرائع لازمی جن کو خدا تعالے نے بمنزلہ خلقی امور کے مقرر کیا ہے ان کی شان سے یہ بات ہے کہ وہ مؤثر بالخاصیت کی طرح سمجھی جائیں اور لوگ نہایت مضبوطی سے اس کو مانیں اور نیز جس چیز میں تھوڑی سی تکلیف اور آسانی ہے اس کے چھوڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سزائیں کونسی ہیں جنہیں مضبوطی سے پکڑنا چاہیے اور کبھی ترک نہ کرنا چاہیے؟ شاہ صاحب کا جواب مندرجہ ذیل ہے۔ ۲۵؎ زنا………سنگسار کرنا ۔ کوڑے لگانا سرقہ ……… قطع ید رہزنی………قطع اعضا ، تصلیب ، جلاوطنی ، قتل شرب خمر……… چالیس درے قذف……… اسی درے قتل…………قصاص یا دیت اس مجمل فہرست سے ہمارے سوال کے پہلے جزو کا جواب تو سامنے آ گیا۔ یہ جواب اثبات میں ہے۔ یہ سزائیں وہی ہیں (بعینہا) جو نبی علیہ السلام کے زمانۂ مبارکہ میں تھیں۔ گویا شاہ صاحب کا موقف یہ ٹھہرا کہ ان جرائم کی جو شرعی سزائیں صدر اول میں معین کی گئی تھیں وہی آج بھی باقی ہیں۔ (یبقی علیھم بالجملہ)، واجب العمل ہیں، خلقی امر کی طرح ہیں اور جزو شریعت ہیں۔ ان کی اس حیثیت پر اس امر سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان سزائوں کے مقرر کرنے میں بنی اسماعیل کے عرف و عادت کا لحاظ کیا گیا تھا کیونکہ یہ لحاظ اس لیے رکھا گیا تھا کہ یہ عرف و عادت بنو اسماعیل کا خود ساختہ نہ تھا بلکہ متوارث تھا اور اپنے مبدا و آغاز میں سابقہ تنزیلات ربانی کا مرہون منت تھا۔ عناصر زوال و انحراف نے اس عرف و رواج میں جو تغیرات کر دیے تھے اسے صاحب وحی نے ہدایت خداوندی کی مدد سے دور کر دیا۔ یوں یہ ضابطہ اخلاق و احکام منقح ہو کر دوبارہ نافذ العمل ہو گیا۔ یہاں یہ نکتہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ ترمیم و تنسیخ کے اس عمل کے دونوں فریق اپنی حیثیت میں منفرد اور یکتا ہیں۔ نہ تو نبی علیہ السلام کے بعد کسی کو دوبارہ وحی ربانی سے مشرف ہو کر قانون سازی کی حیثیت نصیب ہوئی نہ کسی دوسرے ضابطہ احکام کو اس مادہ شریعت کی حیثیت ملی جس میں ترمیم، تغییر اور تنسیخ کے سہ پہلو عمل کے ذریعے شریعت اسلامیہ کی صورت گری ہوئی تھی۔ لہٰذا شاہ صاحب کے پورے فکری تناظر میں یہ سوال تو اٹھایا ہی نہیں جا سکتا کہ آج اتنی صدیاں گزرنے کے بعد اور اقوام و ملل کی رنگارنگی اور تنوع کے روبرو اسلام کی شرعی سزائوں کو باقی رکھا جائے یا تبدیل کر دیا جائے؟ یہ سوال ہمارے اقبال شناسی کے حلقوں کا ہو تو ہو شاہ صاحب کا نہیں ہے۔ واضح رہے کہ یہاں گفتگو نفسِ احکام کے بارے میں ہو رہی ہے۔ درجۂ نفاذ کا معاملہ ذرا بعد میں آئے گا۔ نفس احکام کے بارے میں ان کا دو ٹوک جواب ہم دیکھ چکے ہیں۔ اس کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ شبلی نے اس نکتے پر شاہ صاحب کی غلط ترجمانی کی ہے اور قارئین کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ شاہ صاحب کی رائے میں زمان نبوت سے بعید زمانوں اور مختلف اقوام کے لیے شرعی سزائیں اس کے علاوہ کچھ اور بھی ہو سکتی ہیں جو فقہ اسلامی میں مذکور ہیں۔ ہمارے اس دعویٰ کو ایک دلیل سے بھی تقویت ملتی ہے۔ یہ دلیل خود شبلی کی مذکورہ بالا عبارت میں موجود ایک داخلی تضاد سے فراہم ہوتی ہے۔ شبلی نے لکھا ہے کہ ’’اس کی شریعت میں اگرچہ زیاد تر وہ قواعد کلیہ اور اصول عام ہوتے ہیں جو تقریباً تمام دنیا کی قوموں میں مشترک ہوتے ہیں تاہم خاص اس کی قوم کی عادات اور خصوصیات کا لحاظ زیادہ ہوتا ہے لیکن جو احکام ان عادات اور حالات کی بنا پر قائم ہوتے ہیں ان کی پابندی مقصود بالذات نہیں ہوتی…‘‘ (دیکھیے حاشیہ نمبر۱۵) ۔ گویا شبلی نے خود اس عبارت میں جداگانہ نوعیت کے دو امور کو تسلیم کیا ہے:۔ ایک وہ قواعد کلیہ اور اصول عام جو تقریباً تمام دنیا کی قوموں میں مشترک ہوتے ہیں اور دوسرے کسی خاص قوم کی عادات اور حالات کی بنا پر قائم ہونے والے احکام۔ یہ نکتہ شاہ صاحب کے حوالے سے بھی درست ہے۔ دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ شاہ صاحب نے اسلامی سزائوں کو ان دو میں سے کس کے تحت شمار کیا ہے؟ شاہ صاحب کی جو عبارتیں ہم نے نقل کیں ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ سزائوں کو ’’قواعد کلیہ‘‘ اور ’’اصول عام‘‘ کی قبیل سے جانتے ہیں جبکہ شبلی کی تشریح، جس کا حوالہ ماسبق میں آ چکا ہے، یہ بتاتی ہے کہ شرعی سزائیں قواعد کلیہ اور اصول عام نہیں بلکہ ’’عادات اور حالات کی بنا پر قائم ہونے‘‘ والی ایک غیر مقصود بالذات چیز ہیں۔ اسی تشریح کو آگے چل کر جب شبلی نے ، شاہ صاحب کی عبارت کا ’’مرادی‘‘ ترجمہ کرنے کے بعد ، دہرایا ہے تو تضاد کھل کر سامنے آ گیا ہے اور شاہ صاحب کے اصول کے تحت جو چیز ’’تقریباً ساری دنیا کی قوموں میں مشترک،، ہونے کی وجہ سے قواعد کلیہ اور اصول عام کے درجے کی مستحق تھی اس کی ’’بعینہا‘‘ و ’’بخصوصہا‘‘ پابندی کا سوال پوچھنے کی نوبت آ گئی!۔ یہاں تک کی معروضات سے ’’بعینہا‘‘ کی گرہ کشائی تو ہو چکی، اب لیجیے ’’بخصوصہا‘‘ کے مسئلے کو۔ اگر ’’خصوص‘‘ کے لفظ سے شبلی کی مراد وہی ہے جو ’’عین‘‘ کے لفظ سے تھی اور اسے مترادف کے طور پر برتا گیا ہے تو پھر تو اس کا معاملہ سطور سابقہ میں طے ہو چکا۔ اگر اس کے علاوہ معنی مراد ہیں تو پہلے اس لفظ کے مدلول کو طے کرنا ہو گا۔ یہ لفظ منطق، کلام اور فلسفے میں اصطلاحاً استعمال ہوتا ہے۔ اصول فقہ میں بھی اس کا فنی استعمال موجود ہے۔ قرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ شبلی نے یہاں اس لفظ کو ان اصطلاحی معنی میں نہیں برتا۔ عام بول چال اور محاورے کے مطابق استعمال کیا ہے۔ اس صورت میں اس سے مراد ہو گا ان سزائوں کے خاص اجزائے ترکیبی اور مخصوص ہیتیں یا پھر ان کا طرز نفاذ۔ ایک امکان یہ بھی ہے کہ خصوص سے اشارہ ان سزائوں کے اطلاق میں شدت برتنے یا تخفیف کرنے کی طرف ہو۔ اس امکان کی طرف ذہن یوں منتقل ہوتا ہے کہ علامہ اقبال نے ۲۶؎ اور حال ہی میں ڈاکٹر خالد مسعود صاحب ۲۷؎ نے شبلی کے حوالے سے اسی مفہوم کی طرف اشارہ کیا ہے۔ بہرکیف ’’بخصوصہا،، کے اس مرکب اضافی کے تین ممکنہ مفاہیم ہو سکتے ہیں۔ ۱۔ سزائوں کے خاص اجزائے ترکیبی اور مخصوص ہیتیں ۲۸؎ ۲۔ سزائوں کا طرز نفاذ ۲۹؎ ۳۔ سزائوں کے اطلاق میں تخفیف؍ شدت اول الذکر دونوں مفاہیم کو اگر شبلی کا مراد قرار دیا جائے تو ان کا جواب شاہ صاحب کی تصانیف کی روشنی میں معلوم کرنا مشکل نہیں۔ شاہ صاحب کے ہاں ان دونوں نکات پر کوئی ابہام نہیں ہے۔ ہیت بدلنے کا ان کے ہاں ذکر نہیں۔ رہا طرز نفاذ تو اس کے وسائل کے اعتبار سے ساتویں صدی عیسوی اور اٹھارویں صدی عیسوی میں کوئی بڑا فرق نہیں تھا۔ سوبطور ایک فقہی اجتہاد کے یہ بھی شاہ صاحب کا مسئلہ نہیں بنتا۔ گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ دونوں مسائل شاہ صاحب کے فکری تناظر میں اور ان کے عہد کے مسائل کے حوالے سے کسی ترمیم یا تبدیلی کے لیے موضوع بحث نہیں بنتے اور ان کو شاہ صاحب کی تحریروں میں تلاش کرنا ایک طرح سے اپنے افکار کا عکس شاہ صاحب کے ہاں دیکھنے کے مترادف ہے۔ سزائوں کے اطلاق میں تخفیف برتنے یا سزائوں کی انتہائی حد نافذ کرنے کے معاملے پر البتہ شاہ صاحب نے ’’الحدود‘‘ والے باب میں مفصل بحث کی ہے۔ سابقہ سطور میں ہم نے ان کا ایک فقرہ نقل کیا تھا کہ’’…ان کو خوب مضبوطی سے پکڑنا چاہیے اور کبھی ان کو ترک نہ کرنا چاہیے‘‘۔۳۰؎ اس سے متصل ان کا فقرہ ہے: مگر شریعت مصطفویہ نے اس میں ایک اور قسم کا تصرف کیا ہے اور ہر ایک کی سزا کی دو قسمیں کی ہیں ایک تو بڑی بھاری سزا ہے کہ اس سے زیادہ اور متصور نہیں اور یہ سزا وہاں دینی چاہیے جہاں گناہ بھی بڑا بھاری ہو اور دوسری وہ ہے جو پہلی سے کم ہے اور یہ وہاں ہو گی جہاں معصیت بھی پہلی معصیت سے کم ہو… ہمارے ہاں دونوں شرائع کا لحاظ کیا گیا،شرائع سماویہ و ابتدائیہ کا اور اس میں ہمارے لیے نہایت رحمت ہے اور سرقہ میں عذاب دینا اور اس سے دو چند تاوان لینا چاہیے جیساکہ حدیث میں آتا ہے اور نیز اس شریعت میں ظلم کے چند اقسام کو مثل قذف اور شرب خمر کو اضافہ کیا اور ان کے لیے بھی حد مقرر کی کیونکہ یہ بھی بمنزلہ انھی معاصی کے ہیں اور رہزنی کی سزا زیادہ مقرر کی…۳۱؎ اگر ’’بخصوصہا‘‘ سے شبلی کی مراد سزائوں کی مذکورہ بالا درجہ بندی کو قرار دیا جائے تو تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ شبلی کا اشارہ درست ہے۔ شبلی کے بھروسے پر علامہ اقبال نے جو لکھا اس کی گنجائش بھی نکل آتی ہے نیز ڈاکٹر خالد مسعود صاحب کا بیان بھی درست ٹھہرتا ہے کہ ’’شاہ صاحب واقعی اسلامی سزائوں میں اصول تخفیف اور درجہ بندی کے قائل تھے‘‘۔ لیکن ہمیں بوجوہ اس تاویل کو قبول کرنے میں تامل ہے اور ہمارا کہنا یہ ہے کہ تخفیف اور درجہ بندی کے ضمن میں شاہ صاحب کی ساری گفتگو اس بحث ہی سے غیر متعلق ہے جو شبلی، علامہ اقبال اور ڈاکٹر خالد مسعود صاحب کے ہاں ملتی ہے۔ یہاں ایک لطیف ساخلط مبحث واقع ہو رہا ہے اور اس کے سہارے شاہ صاحب کے بیان کو اس مبحث سے متعلق کر دیا گیا جس سے اس کا استدلالی یا موضوعاتی ربط موجود نہیں۔ ہمارے اس نکتے کو سمجھنے کے لیے قارئین غور فرمائیں کہ یہ تینوں حضرات کہہ رہے ہیں کہ شاہ صاحب تخفیف اور درجہ بندی کے قائل اس لیے ہیں کہ حدود و تعزیرات عہد نبوی اور عربوں کے عرف و عادت پر مبنی ہیں اور مابعد کی نسلوں کو بعد زمانی کی وجہ سے اور اس پرانے عرف و عادت کا حامل نہ ہونے کی وجہ سے تخفیف اور تیسیر کا مستحق جاننا چاہیے۔ ’’الحدود‘‘ کے باب کا تجزیہ کیجیے تو یہ بات ثابت نہیں ہوتی۔ جو سبب ان حضرات نے درجہ بندی اور تخفیف کی علت کے طور پر شاہ صاحب سے منسوب کیا ہے وہ ان کی تحریر میں موجود نہیں ہے۔ وہ سزائوں میں درجہ بندی کے قائل ضرور ہیں مگر اس کے لیے ’’الحدود‘‘ کے باب میں جتنی علتیں بیان کی ہیں ان میں سے کوئی بھی ان دو اسباب (بُعد زمانی +عرف و عادت سے اجنبیت) پر مبنی نہیں ہے۔ شاہ صاحب نے درجہ بندی اور تخفیف کو جس اصول پر مبنی قرار دیا ہے وہ صدر اول سے لے کر آج تک یکساں ہے نیز انھوں نے جتنی مثالیں دی ہیں ان کی علتیں اور اسباب تخفیف اسی زمانے میں متعین ہو چکے تھے۔ ان کے ہاں بُعد زمانی یا عرف و عادت سے اجنبیت اس درجہ بندی کی علت سرے سے ہے ہی نہیں۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس درجہ بندی میں شاہ صاحب منفرد کب ہیں۔ یہ توفقہ اسلامی کا عام مبحث ہے اور فقہ کی کتب میں بھی اس درجہ بندی کی علت بعد زمانی کو یا عرف و عادت کے فرق کو قرار نہیں دیا گیا۔ بنابریں ہم یہ عرض کریں گے کہ اگر ’’بخصوصہا‘‘ سے سزا نافذ کرنے میں تخفیف اور شدت کی جانب اشارہ بھی مراد لیا جائے تو بھی اسے اس معنی میں اور ان اسباب کی بنا پر شاہ صاحب سے منسوب کرنا درست نہیں جو ہمارے محترم مصنفین نے باور کیا اور قارئین کو کروایا۔ شاہ صاحب کے ہاں درجہ بندی کا تصور تو موجود ہے مگر اس کا جواز وجود اور علت غائی ان مزعومہ مصلحتوں سے بالکل الگ ہیں جو اقبالیات کے بحثوں میں بیان ہوتا چلا آ رہا ہے۔ اقبالیات کے میدان میں جو نکتہ مورد بحث ہے وہ فی الحقیقت درجہ بندی، اعتدال، تیسیر یا تخفیف کا ہے ہی نہیں۔ وہاں تو یہ بحث ہو رہی ہے اور بر سرجلسہ دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ اقبال کے خیال میں یہ سزائیں قابل ترمیم و تنسیخ ہیں اور اقبال کی اس رائے کی بنیاد اور سند شاہ ولی اللہ ہیں جو اسی بات کے قائل ہیں۔ ۳۲؎ یہ سزائیں قابل ترمیم و تنسیخ ہیں یا نہیں یا نصوص میں ترمیم و تنسیخ جائز ہے یا نہیں اس نکتے کو طے کرنے کا نہ موقع ہے نہ استعداد۔ ہمیں صرف اتنا دیکھنا تھا کہ شاہ صاحب سے اس رائے کا انتساب درست ہے یا نہیں اور معروضات ماقبل کی روشنی میں ہم یہی کہنے پر مجبور ہیں کہ شاہ صاحب کے موقف کی صحیح ترجمانی نہ تو شبلی کی عبارت آرائی بلکہ عبارت سازی سے ہوتی ہے نہ اس کی بنیاد پر استوار ہونے والے اس استدلال سے جسے علامہ اقبال نے اختیار کیا۔ علامہ اقبال کا وہ خطبہ جس میں یہ عبارت وارد ہوتی ہے اپنی اولین شکل میں ۱۹۲۴ء کے لگ بھگ تصنیف ہوا۔۳۳؎ موجودہ شکل میں ۱۹۲۸میں تیار کیا گیا۔ علامہ کی حیات نے اس خطبے کے ترجمے کی نظرثانی یا اصل متن کی نظرثانی شدہ اشاعت مکرر تک وفا نہ کی۔ سو آج ہمارے پاس جو متن ہے وہ ۱۹۲۸ء تک کی فکر کا آئینہ دار ہے۔ علامہ کی عبارت کا متن ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔۳۴؎ اقتباس سوم For our present purposes, however, we must distinguish traditions of a purely legal import from those which are of a non-legal character. With regard to the former, there arises a very important question as to how far they embody the pre-Islamic usages of Arabia which were in some cases left intact, and in others modified by the Prophet. It is difficult to make this discovery, for our early writers do not always refer to pre-Islamic usages. Nor is it possible to discover that usages, left intact by express or tacit approval of the Prophet, were intended to be universal in their application. Shah Wali Allah has a very illuminating discussion on the point. I reproduce here the substance of his view. The prophetic method of teaching, according to Shah Wali Allah, is that, generally speaking, the law revealed by a prophet takes especial notice of the habits, ways, and peculiarities of the people to whom he is specifically sent. The prophet who aims at all-embracing principles, however, can neither reveal different principles for different peoples nor leaves them to work out their own rules of conduct. His method is to train one particular people, and to use them as a nucleus for the building up of a universal Shari'ah. In doing so he accentuates the principles underlying the social life of all mankind, and applies them to concrete cases in the light of the specific habits of the people immediately before him. The Shari'ah values (Ahkam) resulting from this application (e.g.rules relating to penalties for crimes) are in a sense specific to that people; and since their observance is not an end in itself they cannot be strictly enforced in the case of future generations. اقتباس کا آخری فقرہ، جو اسلامی سزائوں سے متعلق ہے، اس کا موازنہ شاہ ولی اللہ کی عبارت (اقتباس اوّل) سے اور پھر شبلی کی تحریر (اقتباس دوم) سے کیجیے تو صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ علامہ اقبال نے اپنی تحریر میں ’’اقتباس دوم،، ہی کے متن پر انحصار کیا ہے۔ یہ اقتباس ’’الذین یاتون بعد‘‘ کے فقرے پر ختم ہو جاتا ہے۔ علامہ کا ملخص انگریزی ترجمہ بھی اسی فقرے تک جاتا ہے۔ پھر یہ کہ انگریزی الفاظ کا انتخاب شہادت دے رہا ہے کہ یہاں مفہوم متعین کرنے میں شبلی کے الفاظ ’’پابندی مقصود بالذات نہیں ہوتی‘‘ اور ’’چنداں سخت گیری نہ کی جائے‘‘ ہی کا اثر کار فرما ہے اور انھی کی ترجمانی کی گونج انگریزی عبارت میں بھی سنائی دے رہی ہے۔علامہ نے اگر شبلی کی پیش کردہ تعبیر کو قبول نہ کیا ہوتا یا حجۃ اللّٰہ البالغۃ کی اصل عبارت کی پڑتال کر لی ہوتی تو شاید وہ اپنی تحریر کسی اور طرح رقم کرتے کیونکہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ اقتباس دوم سے متبادر ہونے والا موقف شبلی کا تو ہو سکتا ہے شاہ ولی اللہ کا نہیں۔ آخری بات یہ کہ شاہ صاحب کی عبارت (اقتباس اول) کے آخری فقرے، جو شبلی کے ہاں محذوف ہیں، اس استدلال کے خلاف پڑتے ہیں، جو علامہ نے مذکورہ بالا اقتباس سوم میں قائم کیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا علامہ کے تحریری آثار میں اس مبحث پرتشکیل جدیدکی تصنیف یعنی ۱۹۲۸ء کے بعد کچھ اور مواد میسر آتا ہے جسے اس موضوع پر ناسخ یا ترمیم کنندہ کی حیثیت دی جا سکے؟ سید سلیمان ندوی سے اقبال کی مکاتبت کا جو حصہ محفوظ ہے اس میں موضوع زیر بحث سے متعلق دو طرح کی تحریریں ملتی ہیں۔ ایک تو وہ جو اجتہاد پر علامہ کی پہلی تحریر۳۵؎ کے زمانہ تصنیف سے لے کر سفر جنوبی ہند تک کے زمانے کی ہیں۔ ان میں حجیت حدیث، حدیث و قرآن کے ربط اور بالخصوص احادیث کی تشریعی حیثیت کے بارے میں عمومی استفسارات ہیں۔ دوسری تحریریں وہ ہیں جو حیدر آباد دکن میں خطبات پیش کرنے کے بعد کی ہیں اور ان میں تخصیص کے ساتھ شبلی کی تحریر اور شاہ ولی اللہ صاحب کے اقتباسات کے بارے میں استفسارات ہیں۔ اول الذکر مکاتیب میں جو سوالات اٹھائے گئے ہیں ان کے انداز اور ان کے موضوعات پر ایک نظریہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ علامہ کو اس مبحث کی نزاکت، پیچیدگی، تہ در تہ مسائل اور مصالح ملیہ سے ان کے ربط کا بخوبی اندازہ تھا۔۳۶؎ ان کا اسلوب تحریر خطوط میں بھی احتیاط کا مظہر ہے اور لیکچر میں بھی۔ یہاں تک کہ لیکچر تیار ہونے کے بعد بھی علامہ نے اسے چھپوانے سے گریز کیا۔ اس موضوع پر اپنے نتائج فکر سے بے اطمینانی ان کے خطوط سے واضح ہے۔ سید سلیمان ندوی ہی کو لکھتے ہیں:۔ میں نے ایک رسالہ اجتہاد پر لکھا تھا، مگر چونکہ میرا دل بعض امور کے متعلق خود مطمئن نہیں اس واسطے اس کو اب تک شائع نہیں کیا، آپ کو یاد ہو گا میں نے آپ سے بھی کئی امور کے متعلق استفسار کیا تھا۔۳۷؎ ابھی تک میرا دل اپنی تحقیقات سے مطمئن نہیں ہوا اس واسطے وہ مضمون شائع نہیں کیا گیا۔۳۸؎ بہر کیف ۱۹۲۸ء تک کی تحقیقات اور مجموعۂ معلومات کی بنیاد پر جو نتائج فکر مرتب ہوئے انھیں علامہ نے لکھ دیا اور دیگر خطبات کے ہمراہ یہ خطبہ بھی حیدر آباد اور بعدازاں علی گڑھ میں پیش کیا گیا۔ پھر یہ خطبات طباعت کے مرحلے سے بھی گذر گئے۔ انھی ایام میں علامہ کے خطوط سے ہمیں خاص اس مسئلے کے بارے میں استفسارات کا سراغ ملنے لگتا ہے جو ہماری تحریر میں زیر بحث ہے۔ ان خطوط کو دیکھیے تو یوں لگتا ہے کہ ابتدا میں علامہ کی بے اطمینانی عمومی نوعیت کی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ اور مزید تحقیق کے نتیجے میں علامہ کی بے اطمینانی خاص ان اقتباسات پر مرکوز ہوتی نظر آتی ہے جو شبلی نعمانی نے ان سوالات کے ایک ممکنہ جواب کے طور پر شاہ صاحب کی تحریر سے پیش کیے تھے جو اس زمانے میں علامہ کا ہدف تحقیق تھے۔ ۲ستمبر ۱۹۲۹ء کو سید سلیمان ندوی کے نام لکھتے ہیں:۳۹؎ جس باب میں مولانا شبلی نے ایک فقرہ شعائر وار تفاقات کے متعلق نقل کیا ہے اسی باب میں ایک اور فقرہ نظر سے گذرا جو پہلے نظر سے نہ گذرا تھا۔ وشعائر الدین امر ظاہر تخصیص بہ و یمتاز صاحبہ بہ فی سائر الادیان کالختان و تعظیم المساجد والاذان والجمعۃ والجماعات۔ یہ شاہ صاحب کی اپنی تشریح ہے، جناب کا ارشاد اس بارے میں کیا ہے؟ علیٰ ہٰذا القیاس ارتفاقات میں شاہ صاحب کی تشریح کے مطابق تمام تدابیر جو سوشل اعتبار سے نافع ہوں داخل ہیں۔ مثلاً نکاح و طلاق کے احکام وغیرہ ، اگر شاہ صاحب کی عبارت کی یہ تشریح صحیح ہے تو حیرت انگیز ہے۔ اگر ان معاملات میں تھوڑی سی ڈھیل بھی دی جائے تو سوسائٹی کا کوئی نظام نہ رہے گا۔ ہر ایک ملک کے مسلمان اپنے اپنے دستور و مراسم کی پابندی کریں گے۔ اس مکتوب کے آخری دوفقروں پر غور کیجیے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ علامہ کو اس تشریح کے بارے میں تحیر ہے جو شبلی نے پیش کی اور اس کے وہ مضمرات ان کے سامنے عیاں ہیں جو اسے قبول کرنے سے ظاہر ہو سکتے تھے اور اقبالیات کے عصری مباحث اس کی شہادت دے رہے ہیں کہ اسی نہج پر یہ نکات ابھرے اور انھی منطقی نتائج تک پہنچے جن کا خدشہ علامہ نے ظاہر کیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ علامہ کی تحریر صرف حیرت ہی ظاہر نہیں کرتی۔ اس کا اسلوب شاہد ہے کہ وہ اس تعبیر کو قبول بھی نہیں کر سکے تھے۔ اس تحریر کے ۲۰ دن بعد سلیمان ندوی صاحب کے نام خط میں دوبارہ اسی مبحث کو اٹھایا گیا ہے۔۴۰؎ اس مرتبہ الکلام کا وہی اقتباس زیر بحث ہے جو تشکیل جدید میں نقل ہوا اور جسے آج تک شاہ ولی اللہ کا موقف قرار دیا جاتارہا ہے۔ اقتباس درج ذیل ہے:۔ الکلام (یعنی علم کلام جدید) کے صفحہ ۱۱۴۔ ۱۱۳ پر مولانا شبلی رحمتہ اللہ علیہ نے حجۃ اللّٰہ البالغۃ (صفحہ ۱۲۳) کا ایک فقرہ عربی میں نقل کیا ہے، جس کے مفہوم کا خلاصہ انھوں نے اپنے الفاظ میں بھی دیا ہے۔ اس عربی فقرہ کے آخری حصہ کا ترجمہ یہ ہے۔ اس بنا پر اس سے بہتر اور آسان طریقہ کوئی نہیں کہ شعار تعزیرات اور انتظامات میں خاص اس قوم کے عادات کا لحاظ کیا جائے، جن میں یہ امام پیدا ہوا ہے، اس کے ساتھ آنے والی نسلوں پر ان احکام کے متعلق چنداں سخت گیری نہ کی جائے۔ مہربانی کر کے یہ فرمایئے کہ مندرجہ بالا فقرہ میں لفظ شعار سے کیا مراد ہے اور اس کے تحت میں کون کون سے مراسم یا دستور آتے ہیں۔ اس لفظ کی مفصل تشریح مطلوب ہے۔ سید سلیمان ندوی صاحب نے علامہ کے اس خط کا جواب دیا ہو گا جواب ہمارے سامنے نہیں ہے۔ اس میں شعائر کے میں ضمن شاہ صاحب کے موقف کی شرح کی گئی تھی اور گمان ہے کہ اس تعبیر کی تردید بھی کی گئی ہو گی جو شبلی نے شاہ صاحب سے منسوب کی۔ علامہ نے اس خط کے جواب میں ۲۸ ستمبر ۱۹۲۹ء کو جو مکتوب روانہ کیا اس سے مندرجہ بالا نکات کی تائید ہوتی ہے۔ خط کی عبارت یوں ہے:۔ ۴۱؎ مخدومی ، والا نامہ ملا جس کے لیے بہت شکر گذار ہوں۔ لفظ شعار کے معنی کے متعلق پورا اطمینان آپ کی تحریر سے نہیں ہوا۔ کیا کسی جگہ حضرت شاہ ولی اللہ نے حجۃ اللّٰہ البالغۃ میں شعائر کی یہ تشریح کی ہے جو آپ نے کی ہے؟ دیگر عرض یہ ہے کہ شاہ صاحب نے اسی فقرہ میں لفظ ارتفاقات استعمال کیا ہے، مولانا شبلی نے ایک جگہ اس کا ترجمہ انتظامات اور دوسری جگہ مسلمات کیا ہے، اردو ترجمہ سے یہ نہیں کھلتا کہ اصل مقصود کیا ہے کل سیالکوٹ میں حجۃ اللّٰہ البالغۃ مطالعہ سے گذری، اس سے معلوم ہوا کہ شاہ صاحب نے ارتفاقات کی چار قسمیں لکھی ہیں، ان چار قسموں میں تمدنی امور مثلاً نکاح طلاق وغیرہ کے مسائل بھی آ جاتے ہیں، کیا شاہ صاحب کے خیال میں ان معاملات میں بھی سخت گیری نہیں کی جاتی؟ میرا مقصد محض شاہ صاحب کا مطلب سمجھنا ہے، مہربانی کر کے اسے واضح فرمایئے۔ علامہ کے موقف کے بارے میں ان دو خطوط کی بنیاد پر کوئی حتمی یاہمہ گیر رائے قائم کرنا مشکل ہے۔ تاہم دور کی کوڑی لائے بغیر یہ کہا جا سکتا ہے کہ:۔ ۱۹۲۹ء کے اواخر تک علامہ کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ شاید شبلی نے شاہ صاحب کے مقصود کی صحیح ترجمانی نہیں کی اور اس لیے شاہ صاحب کے اصل موقف کے تعین کی کوشش کی جا رہی تھی۔ شبلی کے کیے ہوئے اردو ترجمے کی نارسائی کی جانب اشارہ اور ’’شاہ صاحب کا مطلب سمجھنے کی سعی اسی احساس کی شہادت دیتے ہیں۔ ہماری تحریر میں اٹھائے گئے بنیادی مسئلے کا جواب تو یہاں پہنچ کر ہمیں مل جاتا ہے۔ سوال یہ تھا کہ علامہ اقبال نے تشکیل جدید میں شبلی کے بھروسے پر جو موقف شاہ صاحب سے منسوب کیا تھا کیا اسے شاہ صاحب کا مقصود قرار دیا جا سکتا ہے؟ ہماری تلاش کا حاصل یہ ہے کہ خود اقبال کو بعد میں اس انتساب کی صحت کے بارے میں شبہ پیدا ہو گیا تھا۔۴۲؎ اب ہمارے سامنے ایک اہم سوال ہے:۔ اگر اس مسئلے پر اقبال کی رائے تبدیل ہو گئی تھی تو تشکیل جدیدکی دوسری اشاعت۱۹۳۳ئ۴۳؎ میں علامہ نے اس مقام پر عبارت میں ترمیم کیوں نہیں کی؟ اس کا حتمی جواب دینا ممکن نہیں۔ چند امکانات کی جانب اشارہ البتہ کیا جا سکتا ہے۔ پہلا امکان یہ ہے کہ شاید پروف پڑھتے وقت، عجلت میں یا سہواً ، اس مقام پر مطلوبہ ترمیم ہونے سے رہ گئی ہو۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ ۱۹۳۳ء تک (پروف پڑھنے کے زمانے تک)ابھی علامہ نے اس معاملے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی تھی لہٰذا ترمیم قبل از وقت قرار پائی۔ تیسرا امکان یہ ہے کہ تشکیل جدید کے بڑے حصے کی حیثیت حتمی جوابات یا حل المشکلات کی نہیں ہے۔ اسے دعوت فکر اور تعین مسائل سمجھنا چاہیے یا تلاش و تفحص کے عمل سے تعبیر کرنا چاہیے۔ یہ مقام بھی اگر اسی نوعیت کی تحریر پر مبنی ہے تو اس میں ترمیم کی ضرورت ایسی لازمی نہیں ٹھہرتی۔ اگر ۱۹۳۳ء تک علامہ نے ترمیم نہیں کی تھی تو کیا اس کے بعد اس رائے میں کوئی تبدیلی نظر آتی ہے؟۔ ۱۹۳۴ء کے ایک خط سے کسی حد تک قیاس کیا جا سکتا ہے۔ یہ خط بھی سید سلیمان ندوی صاحب کے نام ہے اور ۲۴ جنوری ۱۹۳۴ء کو لکھا گیا ہے۔۴۴؎ میں نے آپ کا پہلا خط پھر دیکھا ہے، آپ نے جو کچھ لکھا ہے درست ہے۔ مگر میں ان معاملات کی ایک فہرست چاہتا ہوں جن کے متعلق رائے قائم کرنا ’امام‘ کے سپرد ہے۔ جرائم میں ایسے جرم ہیں جن کی تعزیر غالباً قرآن شریف میں مقرر ہے، ان کے متعلق امام کیوں کر رائے دے سکتا ہے؟ وہ جرائم جن کی تعزیر قرآن شریف میں مقرر ہے اور جن کے بارے میں امام رائے نہیں دے سکتا، وہی تو ہیں جن کے لیے شاہ صاحب نے فرمایا تھا کہ:۔ ان کے لیے ان (حدود، شعائر وار تفاقات) کوفی الجملہ باقی رکھا جائے…کیونکہ’’ یہ ہر قوم کے لیے اور قدیم و جدید ہر زمانے میں امر طبیعی کی طرح ہے‘‘ نیز یہ کہ ’’ان کو خوب مضبوطی سے پکڑنا چاہیے اور کبھی ان کو ترک نہ کرنا چاہیے۔‘‘ ۴۵؎ اس میں اور علامہ کی ۱۹۳۴ء کی مذکورہ بالا رائے میں انداز بیان سے قطع نظر کیا فرق ہے؟ ہمارے سوالات کا جواب شاید اسی استفسار میں مضمر ہے! ئ…ئ…ء حواشی ۱- تشکیل جدید الہیات اسلامیہ، (انگریزی)تدوین و تعلیقات از محمد سعیدشیخ، مطبوعہ اقبال اکادمی پاکستان و ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، ۱۹۸۹ئ۔ ۲- محولہ بالا، ص، ۱۱۶۔ ۱۴۲۔ ۳- ایضاً ۔ ص، ۱۹۶۔ ۴- شبلی نعمانی الکلام مشمولہعلم الکلام اور الکلام ، مسعود پبلشنگ ہائوس، کراچی، طبع اوّل، ۱۹۶۴ء ص،۲۳۷۔۲۳۹ ۔ گمان یہ گذرتاہے کہ شاید اس وقت تک علامہ نے حجۃ اللّٰہ البالغۃ کی اصل عبارت ملاحظہ نہیں کی تھی ورنہ شبلی کے فراہم کردہ اقتباس پر انحصار کرنے اور اس کے خلاصۂ افکار کو قبول کرنے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ ۵- شاہ ولی اللہ دہلوی، حجۃ اللّٰہ البالغۃ ، تحقیق و مراجعت از السید سابق، دارالکتب الحدیثہ، قاہرہ، ت۔ ن ، طبع مکررعکسی، سانگلہ ہل، پاکستان جلد اول، ص، ۲۴۷۔۲۴۸۔ ۶- دیکھیے تشکیل جدید (انگریزی) ، محولہ ماقبل ، ص، ۱۳۶۔ ۷- شاہ ولی اللہ حجۃ اللّٰہ البالغۃ (عربی)محولہ ماقبل ، جلد دوم ، صفحات ۷۵۶ تا ۷۷۷، نیز حجۃ اللّٰہ البالغۃ، اردو ترجمہ ، آیات اللّٰہ الکاملۃ، از مولوی خلیل احمد صاحب ، کتب خانہ اسلامی پنجاب، لاہور، ۱۸۹۷ء طبع مکرر عکسی، ادبیات، لاہور، ت۔ ن ،صفحات، ۵۳۷ تا ۵۴۸۔ اس مبحث کا مفصل اقتباس آگے چل کر دیا جائے گا۔ ۸- یہاں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ ہماری معلومات کی حد تک حدود و تعزیرات کو کبھی کسی فقیہ نے عارضی، مقیدبہ زمانِ نبی اور آپؐ کے معاشرے تک محدود نہیں جانا۔ ان کا طریقہ نفاذ البتہ اطلاق کے دائرے کی چیز ہے اور اسے حسب ضرورت تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ۹- سید سلیمان ندوی صاحب نے اگرچہ شبلی کے طرز اقتباس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن اس مفہوم اور اس ترجمانی کی تردید کی ہے جو شبلی کی عبارت پڑھ کر اخذ کیا جا سکتا ہے۔ ان کی تحریر کے لیے دیکھیے علامہ کے مکاتیب ، شیخ عطا اللہ، اقبال نامہ ، لاہور، ۱۹۵۱ء جلد اول، ص، ۱۶۰۔۱۶۳ ۔۲ ستمبر ، ۲۲ ستمبر، ۲۸ ستمبر کے مکاتیب میں علامہ نے شاہ ولی اللہ کا ذکر کیا ہے۔ تینوں مکاتیب میں موضوع استفسار شاہ صاحب کی وہی عبارتیں ہیں جو شبلی نے الکلام میں نقل کیںاور ان کی اس تشریح پر اظہار حیرت ہے جو شبلی نے پیش کی۔ سید سلیمان ندوی کا تبصرہ یہ تھا کہ ’’مولانا شبلی مرحوم نے شاہ صاحب کے الفاظ کے جو وسیع معنی قرار دیے ہیں وہ صحیح نہیں‘‘ (پاور قی، ص۱۶۱) واضح رہے کہ اس وقت تک علامہ اپنے خطبات لکھ کر پیش کر چکے تھے اور یہ ا ستفسارات تحریر کے بعد کیے گئے تھے۔ ’’الاجتہاد‘‘ والا خطبہ تو ۱۹۲۴ء کے لگ بھگ تیار ہو چکا تھا۔ ندوی صاحب کے نام ۲۸ ستمبر ۱۹۲۹ء کے مکتوب سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حجۃ اللّٰہ البالغۃکا اصل متن ۲۷ ستمبر ۱۹۲۹ء کو پہلی مرتبہ علامہ کی نظر سے گذرا (کل سیالکوٹ میں حجۃ اللّٰہ البالغۃ مطالعہ سے گذری‘‘) ۱۰- ایسوسی ایٹ پروفیسر و نگران شعبہ سماجی علوم، ادارہ تحقیقات اسلامی ، اسلام آباد۔ ڈاکٹر غزالی صاحب شاہ ولی اللہ کے افکار و تعلیمات کے متخصص ہیں لہٰذا متنازعہ امور میں ہم انھی سے رجوع کرتے ہیں۔ ۱۱- جاوید احمد غامدی صاحب ہمارے معاصرین میں علوم عربیہ و اسلامیہ، زبان و ادب اور فقہ اسلامی کی تفہیم میں منفرد مقام کے حامل ہیں۔ جدید علوم اور عصر حاضر کے مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ مشکل مسائل میں ہم ان سے اکثر رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ ۱۲- دیکھیے سہ ماہی فکر و نظر، ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد، جلد ۳۲ شمارہ ۲۔ اکتوبر ۱۹۹۴ء ص،۵۹۔۷۴۔ ۱۳- دیکھیے فکر و نظر محولہ بالا، جلد ۳۲۔ ص،۶۳۔۸۰۔ ۱۴- شاہ ولی اللہ ، حجۃ اللّٰہ البالغۃ (عربی) محولہ ماقبل ، ص۲۴۸۔ ۲۴۷ عبارت کا ترجمہ شامل ذیل ہے۔ عکس خلیل احمد صاحب کے اردو ترجمے آیات اللّٰہ الکاملۃ، محولہ ماقبل سے لیا گیا ہے ص،۳۔ ۱۸۲۔ ۱۵- شبلی نعمانی، الکلام ، محولہ ماقبل ، ص،۷۔۲۳۶۔ ۱۶- ایضاً ، ص،۸۔۲۳۷۔ ۱۷- مقامات سہوکتابت درج ذیل ہیں: تکون مادہ= یکون مادہ شریعتہ = شریعیتہ المذہب = المذاہب الطبیعی = الطبعی لایضیّق = لایضیق التضییق = النضیق ۱۸- یہاں ترجمہ ہمارا اپنا ہے کیونکہ ابھی تک حجۃ اللّٰہ البالغۃ کا کاملاً فصیح اور صحیح ترجمہ ہماری نظر سے نہیں گذرا۔ اپنے ترجمے کے بارے میں دعویٰ فصاحت تو ہمیں بھی نہیں ہے۔ صحت ترجمہ کی ذمہ داری البتہ قبول کی جا سکتی ہے۔ ۱۹- شاہ ولی اللہ حجۃ اللّٰہ البالغۃ محولہ ماقبل، ص،۲۴۸۔ ۲۰- الکلام ، محولہ ماقبل ، ص،۲۳۷۔ ۲۱- ایضاً ص،۲۳۸۔ ۲۲- ایضاً ۲۳- شاہ ولی اللہ، حجۃ اللّٰہ البالغۃ ، محولہ ماقبل، جلد دوم، ص، ۷۵۶ ۔ اردو ترجمہ خلیل احمد صاحب کا دیا گیا ہے، دیکھیے آیات اللّٰہ الکاملۃ ، محولہ ماقبل ص،۵۳۸۔ ۲۴- آیات اللہ الکاملۃ ، محولہ بالا، ص،۵۴۱۔ ۲۵- حوالہ بالا، ص،۵۳۷۔۵۴۸۔ یہ فہرست شاہ صاحب کے ’’باب الحدود‘‘ میں سے تیار کی گئی ہے۔ ۲۶- تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ، محولہ ماقبل ، ص،۱۳۶۔ ۲۷- ’’ہمارے خیال میں علامہ شبلی اور علامہ اقبال دونوں نے شاہ ولی اللہ کی عبارت کو صحیح سمجھا ہے اور شاہ صاحب واقعی اسلامی سزائوں میں تخفیف اور درجہ بندی کے قائل تھے‘‘، ’’اسلامی احکام اور عادات ‘‘ محولہ ماقبل ، ص،۶۴۔ ۲۸- مثلاً ہاتھ کاٹنے کی سزا کی ہیت یعنی بدن سے ہاتھ کو کاٹ کر جدا کرنے کے بجائے ہاتھ مفلوج کر دینا، کسی ترکیب سے اسے عضو معطل کر دینا اس طرح ہاتھ اپنا طبعی وظیفہ تو انجام نہیں دے سکے گا جو قطع ید کی صورت میں بھی انجام نہیں دیا جا سکتا تاہم اس نتیجے تک پہنچنے کا وسیلہ یعنی اس عمل کی ہیت بدل جائے گی یا کوڑوں کی سزا کی قید بامشقت سے بدل دینا و علیٰ ہٰذا القیاس۔ ۲۹- مثلاً تلوار سے کاٹ کر تیل سے داغ دینے یا کلہاڑا چلا کر بدن سے جدا کرنے کی بجائے دوا سے سن کر کے عمل جراحی سے بدن سے الگ کرنا۔ یا دیت کے مقدار کو اونٹوں کے ذریعے طے کرنے کے بجائے اپنے معاشرے کے عرف کے مطابق یا کسی اور پیمانے سے مقرر کرنا۔ ۳۰- دیکھیے حاشیہ نمبر۲۳۔ ۳۱- آیات اللّٰہ الکاملۃ، محولہ ماقبل، ص، ۵۳۸۔ ۳۲- اس اعلان کی تازہ ترین مثال ۹ نومبر ۱۹۹۴ء کا جلسہ یوم اقبال ہے جہاںمقررین میں سے کچھ حضرات نے تقریر کرتے ہوئے اس رائے کا اظہار کیا تھا۔ نجی حلقوں میں اس نہج کی گفتگو تو اکثر دیکھنے میں آتی ہی ہے۔ اس ضمن میں ایک قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ ۳۳۔۱۹۳۰ء کے لگ بھگ ہندوستان کے علمی حلقوں میں حدیث و قرآن کے باہمی ربط اور احادیث کی تشریعی حیثیت کے بارے میں جو بحثیں چلی تھیں کیا ان کو علامہ کی تحریر اور اس کے اثرات کے پس منظر میں دیکھنا چاہیے؟ اس زمانے کی عمومی ذہنی فضا سے تشکیل جدید میں اٹھائے گئے سوالوں کا کیا تعلق بنتا ہے اور عمل اور رد عمل کی اس زنجیر کا تجزیہ کرنے سے برصغیر کی فکری تاریخ کے کون سے اہم پہلو سامنے آتے ہیں؟ ان موضوعات پر تحقیق مزید سے اہم نتائج حاصل ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ موضوع زیر غور سے متعلق مباحثوں کا ایک عکس اور ذائقہ اسلم جیرا جپوری، غلام احمد پرویز، مولانا ابولاعلیٰ مودودی اور ان کی معاصر تحریروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ مشتے نمونہ کے طور پر دیکھیے ابوالاعلیٰ مودودی ۔ حدیث اور قرآن، مکتبہ چراغ راہ، کراچی ، ۱۹۵۷ئ۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی خالی از معنی نہ ہو گا کہ ۱۹۲۳ء ، ۱۹۲۴ء اور اس کے بعد کے سالوں میں علامہ جن سوالات سے نبرد آزما تھے اور سید سلیمان ندوی سے حدیث کی تشریعی حیثیت کے بارے میں اپنے خطوط میں جو استفسارات کر رہے تھے کم و بیش وہی مسائل روپ بدل کر یا اسی لباس میں ان مباحث میں جلوہ گر نظر آتے ہیں جو مولانا مودودی اور پرویز یادیگر حضرات کے درمیان ۱۹۳۳ء کے زمانے میں چھڑے ہوئے تھے۔ ۳۳- تفصیلات اور پس منظر کے مباحث کے لیے ر۔ ک ، ڈاکٹر محمد خالد مسعود، علامہ اقبال اور تصور اجتہاد کی تشکیل نو، (انگریزی) ، اقبال اکادمی، لاہور، ۱۹۹۵ء باب چہارم، ص،۸۰۔ نیز دیکھیے رفیع الدین ہاشمی ، تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۸۲ء ص،۳۱۳۔ ۳۴- تشکیل جدید (انگریزی) محولہ ماقبل، ص، ۱۳۶۔ سید نذیر نیازی صاحب نے عبارت کا ترجمہ یوں کیا ہے: شاہ ولی اللہ نے اس مسئلے میں بڑی سبق آموز بحث اٹھائی ہے۔ ہم اس کا مفاد ذیل میں پیش کریں گے۔ شاہ ولی اللہ کہتے ہیں انبیا کا عام طریق تعلیم تو یہی ہے کہ وہ جس قوم میں مبعوث ہوتے ہیں ان پر اسی قوم کے رسم و رواج اور عادات و خصائص کے مطابق شریعت نازل کی جاتی ہے۔ لیکن جس نبی کے سامنے ہمہ گیر اصول ہیں، اس پر نہ تو مختلف قوموں کے لیے مختلف اصول نازل کیے جائیں گے، نہ یہ ممکن ہے کہ وہ ہر قوم کو اپنی اپنی ضروریات کے لیے الگ الگ اصول عمل متعین کرنے کی اجازت دے۔ وہ کسی ایک قوم کی تربیت کرتا اور پھر ایک عالمگیر شریعت کی تشکیل میں اس سے تمہید کا کام لیتا ہے(۱۵۸)۔ لیکن ایسا کرنے میں وہ اگرچہ انھیں اصولوں کو حرکت دیتا ہے جو ساری نوع انسانی کی حیات اجتماعیہ میں کار فرما ہیں، پھر بھی ہر معاملے اور ہر موقع پر عملاً ان کا اطلاق اپنی قوم کی مخصوص عادات کے مطابق ہی کرتا ہے۔ لہٰذا اس طرح جو احکام وضع ہوتے ہیں (مثلاً تعزیرات) ایک لحاظ سے اسی قوم کے لیے مخصوص ہوں گے۔ پھر چونکہ احکام مقصود بالذات نہیں، اس لیے یہ بھی ضروری نہیں کہ ان کو آئندہ نسلوں کے لیے بھی واجب ٹھہرایا جائے۔ ۱۵۸۔ یہاں شاہ صاحب کی عبارت سے ایک غلط فہمی کا اندیشہ ہے، لہٰذا اس امر کی صراحت ناگزیر ہو جاتی ہے کہ قرآن پاک میں تو یہی ’عالمگیر شریعت، نازل ہوئی جس کی طرف شاہ صاحب اشارہ فرما رہے ہیں۔ رہا اس کے اطلاق میں قوموں کے احوال اور خصائص کا مسئلہ سو یہ قانون کا مسئلہ ہے، شریعت کا نہیں۔ قرآن پاک کا صاف و صریح ارشاد ہے شرع لکم من الدین ماوصی بہ نوحا والذی اوحینا الیک و ما وصینا بہ ابراہیم و موسیٰ و عیسیٰ ان اقیمو الدین ولاتتفر قوافیہ (۴۷:۱۳)مترجم تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ(اردو) بزم اقبال ، لاہور، ۱۹۸۳ء ص،۲۶۵۔۲۶۶) مترجم کے حاشیہ سے یہ تو اندازاہ کیا جا سکتا ہے کہ انھیں اصل عبارت میں کچھ کھٹک رہا تھا لیکن ان کی تحریر اس اشکال کی طرف رہنمائی نہیں کر سکی جو علامہ کے آخری فقروں سے پیدا ہو سکتا تھا۔ مزید براں نذیر نیازی صاحب نے ’’آئندہ نسلوں کے لیے بھی واجب ٹھہرایا جائے،، کے فقرے میں ترجمہ کرتے ہوئے انگریزی متن پر توجہ نہیں کی۔ انگریزی میں وجوب اور عدم وجوب کا تو ذکر ہی نہیں۔ وہاں نفاذ میں شدت یا سختی کا تذکرہ ہے۔ اس عبارت کا ایک اور ترجمہ خورشید احمد صاحب نے بھی کیا تھا موازنے کے لیے اقتباس درج ذیل ہے۔ شاہ ولی اللہ نے اس نکتہ پر نہایت بصیرت افروز بحث کی ہے۔میں یہاں ان کے خیالات کا خلاصہ پیش کرتا ہوں۔ شاہ ولی اللہ کے نزدیک پیغمبرانہ اسلوب تعلیم عمومی لحاظ سے یہ ہے کہ کسی رسول پر نازل شدہ شریعت میں ان لوگوں کے عادات و اطوار اور خصوصیات کو خاص طور پر ملحوظ رکھا جاتا ہے جن کی طرف وہ خصوصاً مامور کیے گئے ہوں۔ لیکن وہ پیغمبر جس کا مطمح نظر ہمہ گیر اصول ہوں نہ تو مختلف اقوام کے لیے مختلف احکام دے سکتا ہے اور نہ انھیں اپنی روش کے اصول خود وضع کرنے کی کھلی چھٹی دے سکتا ہے۔ اس کا اسلوب یہ ہے کہ ایک خاص قوم کو تربیت دے کر اسے عالمگیر شریعت کی بنا تشکیل میں مرکز کی حیثیت سے استعمال کرتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ ان اصولوں پر زور دیتا ہے جو ساری نسل انسانی کی معاشرتی زندگی میں کار فرما ہیں، اور ان کو پیش نظر قوم کے واقعات پر اس قوم کی مخصوص عادات کی روشنی میں منطبق کرتا ہے۔ اس اطلاق سے پیدا شدہ شرعی احکام ایک لحاظ سے خاص اسی قوم سے متعلق ہوتے ہیں (مثلاً سزائے جرم سے متعلقہ قانون) اور چونکہ ان کی تعمیل و پابندی بجائے خود ایک مقصد نہیں ہے۔ اس لیے آنے والی نسلوں پر سختی کے ساتھ اس کا نفاذ نہیں ہو سکتا۔ چراغ راہ، جلد ۱۲، نمبر۷، کراچی، ۱۹۵۸ء ص،۸۲)۔ ۳۵- دیکھیے مکتوب بنام سعید الدین جعفری (۱۳۔ اگست، ۱۹۲۴ئ) اوراق گم گشتہ، مرتبہ رحیم بخش شاہین، اسلامک پبلی کیشنز ، لاہور، ۱۹۷۵ء ص، ۱۱۸۔’’ میں ایک مفصل مضمون انگریزی میں لکھ رہا ہوں۔"The Idea of Ijtihad in the law of Islam" یہ مقالہ دسمبر ۱۹۲۴ء میں حبیبیہ ہال لاہور میں منعقدہ ایک اجلاس میں پڑھا گیا۔ ۳۶- مندرجہ ذیل اقتباسات سے ان کی نوعیت معلوم کی جا سکتی ہے۔ تمام اقتباسات اقبال نامہ، جلداول سے لیے گئے ہیں۔ صفحات کا حوالہ ہر اقتباس کے آخر میں دیا گیا ہے۔ نقطہ دار لکیر سے پہلے علامہ کی تحریر ہے۔ اس کے بعد سلیمان ندوی صاحب کے حواشی دیے گئے ہیں۔ اقتباس کے اختتام پر خط مسلسل کی علامت ہے۔ اس کتاب میں لکھا ہے کہ اجماع امت نص قرآنی کو منسوخ کر سکتا ہے… آپ سے یہ امر دریافت طلب ہے کہ آیا مسلمانوں کے فقہی لٹریچر میں کوئی ایسا حوالہ موجود ہے؟ ۱ مردیگر یہ ہے کہ آپ کی ذاتی رائے اس بارے میں کیا ہے؟ _______________________ ۱۔ اجماع سے نص قرآنی کے منسوخ ہونے کا کوئی قائل نہیں۔ امریکی مصنف نے غلط لکھا ہے۔ آمدی الاحکام میں لکھتے ہیں مذہب الجمہوران الاجماع لاینسخ بہ خلافا بعض المعتزلہ ، ج ۳ ،ص ،۲۲۹ بعض معتزلہ ایسا کہتے تھے مگر ان کی رائے مقبول نہیں ہو سکی،آمدی نے حصہ شرعی کے ایک خاص مسئلہ کے باب میں ایک حوالہ نقل کیا ہے۔ پھر اس کا جواب دے دیا ہے اس امریکی مصنف کا استدلال غلط محض ہے۔ (مورخہ ۱۸ اگست ۱۹۲۴ء ص، ۱۳۲)۔ _______________________ ۱۔ آپ نے ارشاد فرمایا ہے کہ فقہانے اجماع سے نص کی تخصیص جائز سمجھی ہے۔ ایسی تخصیص یا تعمیم کی مثال اگر کوئی ہو تو اس سے آگاہ فرمایئے۔ اس کے علاوہ یہ بھی معلوم کرنا ضروری ہے کہ ایسی تخصیص یا تعمیم صرف اجماع صحابہ ہی کر سکتا ہے یا علما و مجتہدین امت بھی کر سکتے ہیں۔ اگر مسلمانوں کی تاریخ میں صحابہ کے بعد کوئی ایسی مثال ہو تو اس سے بھی آگاہ فرمایئے ، یعنی یہ کہ کس مسئلہ میں صحابہ نے یا علمائے امت نے نص کے حکم کی تخصیص و تعمیم کر دی۔ میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ تخصیص یا تعمیم حکم سے آپ کی کیا مراد ہے۔ ۲۔ دیگر آپ کا ارشاد ہے کہ اگر صحابہ کا کوئی حکم نص کے خلاف ہے تو اس کو اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ کوئی ناسخ حکم ان کے علم میں ہو گا۔ جو ہم تک روایتاً نہیں پہنچا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ کوئی حکم ایسا بھی ہے جو صحابہ نے نص قران کے خلاف نافذ کیا ہو اور وہ کون سا حکم ہے۔ یہ بات کہ کوئی ناسخ حکم ان کے علم میں ہو گا محض حسن ظن پر مبنی ہے۔ یا آج کل کی قانونی اصطلاح میں ’’لیگل فکشن‘‘ ہے۔ علامہ آمدی کے قول سے تو بظاہر امریکن مصنف کی تائید ہوتی ہے گو صرف کسی حد تک کہ اجماع صحابہ نص قرآنی کے خلاف کر سکتا تھا، بعد کے علما ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے علم میں کوئی ناسخ حکم نہیں ہو سکتا۔ ۳۔ اگر صحابہ کے اجماع نے کوئی حکم نص قرآنی کے خلاف نافذ کیا تو علامہ آمدی کے خیال کے مطابق ایسا کسی ناسخ حکم کی بنا پر ہوا ہے۔ وہ ناسخ حکم سوائے حدیث نبوی کے اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حدیث ناسخ قرآن ہو سکتی ہے جس سے کم از کم مجھے تو انکار ہے اور غالباً آپ کو بھی ہو گا، مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کو دوبارہ زحمت دینے پر مجبور ہوا۔ _______________________ ۱۔ ایسا کوئی حکم نہیں اور نہ نص قرآنی کے خلاف کوئی حکم صحابہ نے دیا ہے۔ (مورخہ ۱۹۲۴/۸/۲۷۔ ص، ۱۳۳۔۱۳۵)۔ _______________________ آپ نے کسی گذشتہ خط میں مجھے لکھا تھا کہ حضور سرور کائنات سے جب کوئی مسئلہ دریافت کیا جاتا تو آپ بعض دفعہ وحی کا انتظار فرماتے اگر وحی نازل ہوتی تو ا س کے مطابق مسائل کا جواب دیتے اور اگر وحی کا نزول نہ ہوتا تو قرآن شریف کی کسی آیت سے استدلال فرماتے اور جواب کے ساتھ وہ آیت بھی پڑھ دیتے۔ اس کاحوالہ کونسی کتاب میں ملے گا؟ کیا یہ قاضی شوکانی کی کتاب ارشاد الفحول سے آپ نے لیا ہے۔ دوسرا امر جو اس کے متعلق دریافت طلب ہے یہ ہے کہ جو جواب وحی کی بنا پر دیا گیا وہ تمام امت پر حجت ہے (اور وہ وحی بھی قرآن شریف میں داخل ہو گئی) لیکن جو جواب محض استدلال کی بنا پر دیا گیا جس میں وحی کو دخل نہیں کیا وہ بھی تمام امت پر حجت ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہو تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ حضور کے تمام استدلالات بھی وحی میں داخل ہیں یا بالفاظ دیگر یہ کہ قرآن وحدیث میں کوئی فرق نہیں۔ (مورخہ ۱۹۲۴/۱۰/۱۶۔ ص، ۱۴۱۔۱۴۲) _______________________ دیگر امر دریافت طلب یہ ہے کہ آیہ توریت میں حصص بھی ازلی ابدی ہیں یا قاعدہ توریث میں جو اصول مضمر ہے صرف وہی ناقابل تبدیل ہے اور حصص میں حالات کے مطابق تبدیلی ہو سکتی ہے۲؟ آیہ وصیت پر بھی جو ارشادات ہیں میری سمجھ میں نہیں آئے، اس زحمت کے لیے معافی چاہتا ہوں۔ جب فرصت ملے جزئیات سے بھی آگاہ فرمایئے۔ اس احسان کے لیے ہمیشہ شکر گذار رہوں گا۔(مورخہ ۱۸ مارچ ۱۹۲۶ء ۔ ص، ۱۴۵)۔ _______________________ ۱۔بیشک ۔ ۲۔کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ _______________________ آپ کے بعض خطوط میرے پاس محفوظ ہیں اور یہ آخری خط بھی جو نہایت معنی خیز ہے اور جس کے مضمون سے مجھے بحیثیت مجموعی پورا اتفاق ہے محفوظ رہے گا۔ عبادات کے متعلق کوئی ترمیم و تنسیخ میرے پیش نظر نہیں ہے، بلکہ میں نے اپنے مضمون اجتہاد میں ان کی ازلیت و ابدیت پر دلائل قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہاں معاملات کے متعلق بعض سوالات دل میں پیدا ہوتے ہیں اس ضمن میں چونکہ شرعیت احادیث (یعنی وہ احادیث جن کا تعلق معاملات سے ہے) کا مشکل سوال پیدا ہو جاتا ہے۔ قاعدہ میراث کے حصص کے متعلق میں نے مضمون اجتہاد میں یہی طریق اختیار کیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ لڑکی کو لڑکے سے آدھا حصہ ملنا عین انصاف ہے۔ مساوی حصہ ملنے سے انصاف قائم نہیں رہتا ہے، بحث کا محرک ترکی شاعر ضیابک کی بعض تحریریں تھیں جن میں وہ اسلامی طلاق اور میراث کا ذکر کرتا ہے میں نے جو حصص کے متعلق آپ سے دریافت کیا تھا اس کا مقصد یہ نہ تھا کہ میں حصص میں ترمیم چاہتا ہوں، بلکہ خیال یہ تھا کہ شایدان حصص کی ازلیت و ابدیت پر آپ کوئی روشنی ڈالیں گے۔ آپ کے خط کے آخری حصے سے ایک اور سوال میرے دل میں پیدا ہوا ہے، اور وہ یہ ہے کہ امام کو اختیار ہے کہ قرآن کی کسی مقرر کردہ حد (مثلاً سرقہ کی حد) کو ترک کر دے اور اس کی جگہ کوئی اور مقرر کر دے اور اس اختیار کی بنا کون سی آیت قرانی ہے؟ حضرت عمر نے طلاق کے متعلق جو مجلس ۲؎ قائم کی ہے۔ اس کا اختیار ان کو شرعاً حاصل تھا ۳؎ میں اس اختیار کی اساس معلوم کرنا چاہتا ہوں، زمانہ حال کی زبان سے یوں کہیے کہ آیا اسلامی کانسٹی ٹیوشن ان کو ایسا اختیار دیتی تھی؟ ’امام‘ ایک شخص واحد ہے یا جماعت بھی ’امام‘ کے قائم مقام ہو سکتی ہے۔(۷۔ اپریل ۱۹۲۶ء ص، ۱۴۶۔۱۴۹)۔ _______________________ ۱۔ ترک کر دے کا لفظ صحیح نہیں، ملتوی کر دے صحیح ہے۔ جیسے میدان جنگ میں جب اسلامی فوج دارالحرب سے قریب ہو حدود بمصالح ملتوی کر دیے جاتے ہیں۔ ۲۔ میری عبارت کے سمجھنے میں یا اقبال نے خود اپنے مطلب کی تعبیر میں غلطی کی ہے حضرت عمر سے پہلے ایک مجلس یعنی ایک ہی نشست میں تین طلاقوں کو ایک قرار دیا جاتا تھا حضرت عمر نے اس کو تین قرار دیا۔ بات یہ تھی۔ ۳۔ حنفیہ کا قول ہے کہ حضرت عمرؓ کو آنحضرت ا کا کوئی حکم معلوم ہوا جس کی اشاعت عہد اول میں نہیں ہو سکی تھی اور حضرت عمر نے اپنے عہد میں کی ۔حافظ ابن قیمؒ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے تعزیراً ایسا کیا تھا اور امام کو تعزیراً ایسا کرنے کا اختیار ہے۔ _______________________ شرعیت احادیث کے متعلق جو کھٹک میرے دل میں۱؎ ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ احادیث سرے سے بیکار ہیں، ان میں ایسے بیش بہا اصول ہیں کہ سوسائٹی باوجود اپنی ترقی و تعالیِ کے اب تک ان کی بلندیوں تک نہیں پہنچی۔ مثلاً ملکیت شاملات دہ کے متعلق المرعی للہ و رسولہ (بخاری) اس حدیث کا ذکر میں نے مضمون اجتہاد میں بھی کیا ہے، بہر حال چند امور اور دریافت طلب ہیں، اگرچہ آپ اس وقت سفر حجاز کی تیاریوں میں مصروف ہوں گے، تاہم مجھے یقین ہے کہ آپ از راہ عنایت میرے سوالات پر کسی قدر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالیں گے۔ ۲؎ آپ فرماتے ہیں کہ نبی کریم کی دو حیثیتیں ہیں، نبوت اور امامت۔ نبوت میں احکام قرآنی اور آیات قرآنی سے حضور کے استنباط داخل ہیں، اجتہاد کی بنا محض عقل بشری اور تجربہ و مشاہدہ ہے یا یہ بھی وحی میں داخل ہے۔ اگر وحی میں داخل ہے تو اس پر آپ کیا دلیل قائم کرتے ہیں۳؎ ؟ میں خود اس کے لیے دلیل رکھتا ہوں مگر میں اس پر اعتماد نہیں کرتا اور آپ کا خیال معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ وحی غیر متلو کی تعریف نفسیاتی اعتبار سے کیا ہے؟ کیا وحی متلو اور غیر متلو کے امتیاز کا پتہ رسول اللہ صلعم کے عہد مبارک میں چلتا ہے یا یہ اصطلاحات بعد میں وضع کی گئیں۴؎ ؟ حضور نے اذان کے متعلق صحابہ سے مشورہ کیا، کیا یہ مشورہ نبوت کے تحت میں آئے گا یا امامت کے تحت میں۵؎ _______________________ فقہا کے نزدیک خاوند کو جو حق اپنی بیوی کو طلاق دینے کا ہے وہ بیوی کو یا اس کے کسی خویش یا کسی اور آدمی کے حوالے کیا جا سکتا ہے، اس مسئلہ کی بنا کوئی آیت قرآنی ہے یا حدیث ۶؎ ؟ امام ابو حنیفہ کے نزدیک طلاق یا خاوند کی موت کے دو سال بعد بھی اگربچہ پیدا ہو تو قیاس اس بچہ کے ولد الحرام ہونے پر نہیں کیا جا سکتا، اس مسئلہ کی اساس کیا ہے؟ ۷؎ کیا یہ اصول محض ایک قاعدہ شہادت ہے یا جزو قانون ہے۔ (مورخہ ۲۴۔ اپریل ۱۹۲۶ء ص، ۴۔۱۵۲)۔ _______________________ ۱۔ میں نے ان کو اس کا تسلی بخش جواب لکھ کر بھیجا تھا۔ ۲۔ ان تمام امور کے جواب سیرت النبی جلد چہارم کے مقدمہ میں مذکور ہیں۔ مختصراً جواب یہاں بھی حوالہ قلم ہیں۔ ۳۔ اجتہاد نبوی کی بنیاد عقل بشری اور تجربہ و مشاہدہ پر نہیں، بلکہ عقل نبوی کا نتیجہ ہے جو عقل بشری سے مافوق ہے اور جس میں عقل بشری و تجربہ و مشاہدہ کو دخل نہیں، اور نبی کی ہر غلطی کی اصلاح کا اللہ تعالیٰ ذمہ دار ہے۔ پس اجتہاد نبوی کے نتائج بھی اگر غلط ہوتے تو اللہ تعالیٰ اصلاح فرماتا جیسا کہ چار پانچ مقام پر اصلاح فرما دی ہے۔ پس جب بقیہ اجتہادات نبوی کی اصلاح نہیں فرمائی تو تقریراً وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صحیح قرار دیے گئے اور اس لیے وہ واجب القبول ہیں۔ ۴۔ اصطلاح بعد میں پیدا ہوتی ہے۔ ۵۔ آنحضرت کو بعض روایات کے رو سے خود بھی اللہ تعالیٰ نے اس طریقہ کی تعلیم دی تھی اور دوسرے صحابہ نے بھی خواب میں دیکھا تھا، البتہ اس باب میں صحابہ سے مشورہ کرنا باب امامت سے تھا نہ کہ نبوت سے کہ احکام نبوت میں مشورہ نہیں۔ ۶۔ تصریح تو احادیث میں ہے مگر قرآن پاک سے استنباط ممکن ہے۔ ۷۔ اس کی اساس ایک تو حضرت عائشہ ؓکا قول ہے جو دار قطنی میں ہے۔ دوسرے طبیعی تجربہ ہے۔ امام شافعی کے نزدیک اکثر مدت حمل چار برس ہے۔ (ہدایہ) _______________________ ۳۷- ر۔ ک اقبال نامہ ، محولہ ماقبل، ص، ۱۴۳۔ ۳۸- حوالہ بالا ص ،۱۴۷۔ ۳۹- ایضاً ۔ ص،۱۶۰۔ ۴۰- ایضاً ۔ص،۲۔۱۶۱۔ ۴۱- ایضاً ۔ص، ۳۔۱۶۲۔ ۴۲- جبکہ ہمارا ذاتی میلان اس رائے کی طرف ہے کہ شاہ صاحب کا موقف اس ضمن میں شبلی کی بیان کردہ اور علامہ کی اختیار کردہ تشریح سے مختلف ہے۔ ۴۳- دوسرا ایڈیشن آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے ۱۹۳۴ء میں شائع کیا۔ اس کے پروف علامہ نے خود پڑھے تھے۔ (دیکھیے ہاشمی، تصانیف اقبال… محولہ ماقبل، ص، ۳۲۰)۔ ۴۴- اقبال نامہ ، محولہ ماقبل، ص ۱۸۴ ۔ خط کی باقی عبارت بھی قابل توجہ ہے۔ ’’آپ فرماتے ہیں کہ تواتر عمل کی ایک مثال نماز ہے۔ مالکیوں اور حنفیوں اور شیعوں میں جو اختلاف صورت نماز میں ہے وہ کیوں کر ہوا؟ ۳۔ ایک اور سوال پوچھنے کی جرات کرتا ہوں:۔ (۱) احکام منصوصہ میں توسیع اختیارات امام کے اصول کیا ہیں؟ (۲) اگر امام توسیع کر سکتا ہے تو کیا ان کے عمل کو محدود بھی کر سکتا ہے، اس کی کوئی تاریخی مثال ہو تو واضح فرمایئے۔ (۳) زمین کا مالک قرآن کے نزدیک کون ہے؟ اسلامی فقہا کا مذہب اس بارے میں کیا ہے؟ قاضی مبارک میں شاید اس کے متعلق کوئی فتویٰ ہے۔ وہ فتویٰ کیا ہے؟ (۴) اگر کوئی اسلامی ملک (روس کی طرح) زمین کو حکومت کی ملکیت قرار دے تو کیا یہ بات شرع اسلامی کے موافق ہو گی یا مخالف ؟ اس مسئلہ کا سیاست اور اجتماع معاشرت سے گہرا تعلق ہے، کیا یہ بات بھی امام کی رائے کے سپرد ہو گی؟ (۵) صدقات کی کتنی قسمیں اسلام میں ہیں؟ صدقہ اور خیرات میں کیا فرق ہے؟ تکلیف تو آپ کو ان سوالات کے جواب میں ہو گی، مگر مجھے امید ہے کہ آپ مجھے اس زحمت کے لیے معاف فرمائیں گے۔ ۴۵- دیکھیے حاشیہ نمبر۱۹ نیز ۲۳۔ ئ…ئ…ء اقبال اور حدیث نبوی ؐ علامہ اقبال اور حدیث نبویؐ کا موضوع کئی اعتبار سے اہم ہے ۔ افکار اقبال کی تفہیم، اشعار میں عیاں و پنہاں تلمیحات کی شرح اور عمومی فکری رجحانات کے تجزیہ و تحلیل کے لیے احادیث نبوی کے مطالعہ اور تخریج کی ضرورت تو سامنے کی بات ہے۔اس ضمن میں بہت سا کام ہوا بھی ہے۔۱؎ ان تحریروں کو معیار اور تعداد دونوں اعتبار سے قابل اطمینان قرار دیا جا سکتا ہے ۔ تاہم احادیث نبوی کی تشریعی حیثیت ، صحت و استناد حدیث اور حجیت و حفاظت حدیث کا پہلو ایسا ہے جس کے حوالے سے اقبالیات میں تحقیقی کام نسبتاً کم نظر آتا ہے ۔ حدیث کی اس حیثیت کے بارے میں علامہ کی رائے کا تعین کرنے کے لیے جن مصنفین نے قلم اٹھایا ہے انھیں ہم دو دستہ قرار دے سکتے ہیں ۔ ایک طرف وہ اہل قلم ہیں جنہوں نے صرف اتنا بتانا کافی سمجھا ہے کہ اگر علامہ اقبال کے اشعار میں احادیث رسول ؐ کے بکثرت حوالے اور تلمیحات پائی جاتی ہیں تو یہ فی نفسہ اس امر کا ثبوت ہے کہ علامہ احادیث رسولؐ کو قانون سازی کے عمل میں قرآن کے بعد مأخذ قانون کا درجہ دیتے تھے۔۲؎ دوسری طرف ماہرین اقبالیات کا وہ گروہ ہے جس نے علامہ کی نثری تحریروں، خطوط اور مقالات کے حوالے سے علامہ کی شعری تخلیقات اور نثر میں ظاہر کی گئی آرا کے درمیان ایک امتیاز قائم کیا ہے ۔ ان حضرات کی تحریروں میں عموماً یہ بات سامنے آتی ہے کہ علامہ کا رویہ اس ضمن میں دولخت ہے۔۳؎ شعر میں وہ احادیث سے استناد و استشہاد کرتے ہیں اور ضعیف روایات بھی منظوم کر لیتے ہیں جبکہ نثری تحریروں بالخصوص تشکیل جدیدمیں حدیث کے بارے میں ان کا رویہ احتیاط و گریز کا ہے۔ اس کے بارے میں مختلف لوگوں نے اپنے وسعت و قلت علم کے مطابق اور اپنے حسب فہم گمان قائم کیا ہے۔ بعض ماہرین نے اس احتیاط و گریز میں سے ایک اصول فقہ دریافت کرنے کی سعی کی جس کے تحت قانون سازی کے عمل میں حدیث کو ماخذ قانون نہ بنانا علامہ کی منشا قرار پائی۔۴؎ کچھ اور حضرات نے اس میں ایک فلسفہ تشکیک اور ’’ تاریخی تنقید ‘‘ کی جھلک دیکھی اور اسے علامہ کی رائے قرار دیا۔ اس وقت ہمیں ان آرا سے بحث نہیں ہے کیونکہ ہم ایک نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ یہ نکتہ بھی علامہ کی اس تطبیقی منہاج علم کے ناگزیر نتائج میں سے ہے جو تشکیل جدید میں ختیار کی گئی۔۵؎ اس میں سے اصول فقہ اور فلسفہ تشکیک برامد کرنا شوق فضول و جرأت رندانہ کے زمرے میں شمار ہونا چاہیے ۔ سردست قارئین کی توجہ ایک اور مسئلے کی طرف دلانا مقصود ہے جو علامہ کے احتیاط پسند رویے کو سمجھنے کی کلید بھی ہے اور تاریخ و تدوین حدیث کی ایک الجھن کو حل کرنے میں ہماری مدد بھی کرتا ہے ۔ اس بات کے پس منظر کو واضح کرنے کے لیے مندرجہ ذیل نکات سامنے رکھنا مناسب ہو گا۔ علم مغرب کے ظلمات طلسم میںکے حجرئہ ہائے چند بلا میں سے یوں تو بہت سے بلائیں نکلی ہیں لیکن ان میں ’’تاریخی تنقید‘‘historical criticism کا عفریت ایسا ہے جس نے عیسوی دینیات کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔مطالعہ انجیل کو تو گویا اس نے سارا نگل رکھا ہے۔ مستشرقین اسی معاشرے کے نمائندے اور اسی ذہنی فضا کے پروردہ تھے سو ان کی تحریروں میں یہ بلا اسلام پر بھی حملہ آور ہوئی۔ مطالعات قرآن کے ضمن میں تو اس کی کامیابی سرے سے قابل اعتنا نہ ہو سکی لیکن حدیث نبوی پر مغربی محققین اور مستشرقین کی تاریخی تنقید نے عالم اسلام کے بہت سے جدید تعلیم یافتہ لوگوں کو متاثر کیا ۔ کچھ حصہ اس میں مرعوبیت کا بھی تھا ۔ جدید مسلمان مفکرین پر مغربی مورخین اور مستشرقین کی دیانت و وسعت علمی اور تحقیق کے اسالیب و وسائل کے نتیجہ خیزی کی دھاک جو بیٹھی ہوئی تھی ۔ علامہ اقبال تک آتے آتے صحت و استناد حدیث کے بارے میں مغربی اہل علم کی ایک خاص رائے قائم ہو چکی تھی اور اس کو ہمارے مفکرین میں سے کئی لوگوں نے قبول کر لیا تھا ۔ اس رائے کے قائم ہونے کا ایک پس منظر ہے ۔ احادیث نبوی کی صحت و استناد کو معرض تشکیک میں ڈالنے کا عمل برسوں پہلے اسپرنگر کی جرمن تحریروں سے شروع ہو چکا تھا۔۶؎ ان کا انگریزی ترجمہ بھی ہندوستان میں اسی دور (۱۸۵۶ئ) میں چھپ گیا تھا۔۷؎ اس کے چار برس بعد نولد یکے کا کام سامنے آیا۔۸؎ ۷۷۔ ۱۸۷۵ء میں الفرڈ وان کریمر کی تصنیف دو جلدوں میں منظر عام پر آئی۔۹؎ ان سب کے ہاں ذخیرہ احادیث کے بارے میں وہی رویہ کارفرما تھا جسے بعدازاں تاریخی تنقید کے نام سے شہرت ملی ۔ گولٹ تسیھر تک آتے آتے یہ رجحان ایک مکمل فلسفہ تشکیک اور مدلل تنقید و تردید صحت احادیث میں ڈھل چکا تھا جو اس کی کتاب Muhammedanische Studien میں پوری شدت اور تفصیل سے ظاہر ہوا ۔ بیسویں صدی کے اوائل تک مستشرقین کے حلقوں اور ان کی تصانیف کا مطالعہ کرنے والوں میں یہ بات مسلمات میں داخل ہو چکی تھی کہ احادیث کا ذخیرہ تاریخی اعتبار سے قابل اعتبار نہیں ہے ۔ یہی وہ رائے ہے جو تشکیل جدید میں علامہ نے نقل کی اور علامہ اقبال اور حدیث نبوی کے موضوع پر قلم اٹھانے والے مصنفین نے اسی عبارت کا بار بار حوالہ دیا ہے ۔ یہ تشکیل جدید۱۰؎ کا وہ اقتباس ہے جو حدیث کے مأخذ قانون ہونے کی بحث کا آغاز کرتے ہوئے علامہ نے درج کیا ہے ۔ عبارت کا تعلق ہے گولٹ تسیھر کی اس رائے سے جو اس نے اپنی کتاب کی جلد دوم میں نقد حدیث کے ضمن میں پیش کی تھی۔۱۱؎ تشکیل کی انگریزی عبارت درج ذیل ہے ۔ The Hadith. The second great source of Muhammadan Law is the traditions of the Holy prophet. These have been the subject of great discussion both in ancient and modern times. Among their modern critics Professor Goldziher has subjected them to a searching examination in the light of modern canons of historical criticism, and arrives at the conclusion that they are, on the whole, untrustworthy. بعد کے سالوں میں اس صورتحال میں خاصی تبدیلی آئی لیکن علامہ کے زمانے کو پیش نظر رکھیے تو تین ہی امکانات سامنے آتے ہیں ۔ m مخاطب کے مسلمات فکر کی رعایت کرتے ہوئے انھی کے حوالے سے تعبیر دین یا تعبیر حقائق کی جائے ۔ m مخاطب کے مسلمات کی ترمیم؍ تردید؍ تغلیط کی جائے اور اسے اپنے مسلمات فکر اور قضایا تک لا کر آغاز کلام کیا جائے ۔ m اساسی مفاہیم اور مبادی فکر پر اتفاق رائے نہ پا کر مکالمے کے امکانات کو رد کرتے ہوئے خود کلامی پر اکتفا کیا جائے ۔ علامہ نے اول الذکر منہاج تطبیق اپنائی اور تشکیل جدیدکے دیگر بہت سے مباحث کی طرح یہاں بھی مخاطب کو رعایت دیتے ہوئے اسی کی بات کے سہارے اسے اپنانقطۂ نظر سمجھانے کی سعی کی ۔ اس کے علاوہ اس مسئلے کا ایک پہلو بھی تھا ۔ مذکورہ بالا مصنفین کے علاوہ مغرب میں جو دیگر انصاف پسند اہل قلم ہوئے ہیں ان کا کام ابھی سامنے نہیں آیا تھا۔ مسلمان اہل علم نے تاریخ حدیث ، تدوین حدیث اور صحت و استناد و حدیث پر مذکورہ مغربی اعتراضات کا جوابی کام ابھی پیش نہیں کیا تھا۔ مغربی تعلیم یافتہ مسلمانوں میں علوم حدیث پر فنی گرفت بھی مفقود تھی اور مغرب کی تنقید کا رعب بھی طاری تھا۔ ہر دو اسباب نے ان میں علمی جواب دینے کی اہلیت باقی نہ چھوڑی تھی۔ علمائے وقت مغربی اہل قلم کی جرح و تنقید سے نہ تو واقف تھے نہ اس کے نئے ڈھنگ کے اعتراضات کو سمجھ پائے تھے۔ ایسے حالات میں انگریزی میں مغربی تعلیم یافتہ اور مغرب زدہ مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے علامہ اقبال یہی راستہ اختیار کر سکتے تھے جو انھوں نے کیا۔ ان کا محتاط رویہ اور گریز اسی مجبوری کا نتیجہ اور اسی منہاج کا تقاضا تھا۔۱۲؎ علامہ کے زمانے کے بعد صورتحال رفتہ رفتہ بدلتی چلی گئی۔ ایک طرف تو مغرب میں کچھ لوگوں نے معروضیت اور انصاف پسندی سے کام لیتے ہوئے ذخیرہ حدیث اور تاریخ حدیث کا مطالعہ کیا اور مذکورہ بالا مستشرقین کی آرا کی کمزوری واضح کی اور دوسری طرف مسلمانوں کے جدید تعلیم یافتہ طبقے میں سے ایسے اہل علم ابھرے جو علوم حدیث پر اور علوم اسلامیہ پر عبور رکھنے کے ساتھ ساتھ مغربی منہاج علم اور مستشرقین کی تحقیقات سے بخوبی آشنا تھے۔۱۳؎ ان کی اس جامعیت نے حدیث اور مطالعات حدیث میں ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ ان کی تحریروں سے مستشرقین کی غلط آرا کا طلسم بھی ٹوٹا اور مسلمانوں کے جدید تعلیم یافتہ طبقات میں پائی جانے والی بے بنیاد مرعوبیت کا بھی کسی حد تک ازالہ ہوا۔ ان لوگوں میں ڈاکٹر محمد حمید اللہ، فواد سیزگین، ڈاکٹر محمد مصطفی الاعظمی اور ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری صاحب کے نام سر فہرست ہیں۔۱۴؎ گولڈ تسیھر اور ان کے ہم خیال حضرات کی میراث فکر بھی معددم نہیں ہوئی ۔ ان کی آرا پر حاشیہ چڑھانے والے اور اسی روش تحقیق کو آگے بڑھانے والے لوگ بھی سامنے آئے۔ ان میں سب سے نمایاں نام جوزف شاخت کا ہے۔ شاخت کو صحیح معنوں میں گولڈ تسیھر کا فکری جانشین کہا جا سکتا ہے بلکہ یہ کہنا بھی درست ہو گا کہ گولڈ تسیھر کی تنقید حدیث شاخت تک آتے آتے دو آتشہ ہو کر کہیں زیادہ شدید اور جارحانہ ہو گئی۔ ہم نے جن مسلمان محققین کا ذکر سطور بالا میں کیا ہے ان میں سے مصطفی اعظمی صاحب اور طفر اسحاق انصاری صاحب نے شاخت کی تحریروں کو خصوصیت سے اپنا موضوع نقد بنایا ہے اور اس کے منہاج علم، تحقیق اور نتائج پر ایسے موثر علمی انداز میں تنقید کی ہے کہ اس کے اعتراضات کا بودا پن تو خیر واضح ہو ہی جاتا ہے اس کے استدلال کی کمزوری بھی کچھ اس طرح آشکار ہوتی ہے کہ شاخت کی دیانت ہی نہیں ذہانت بھی مشکوک معلوم ہونے لگتی ہے۔ ان حضرات کے علمی کام کی گہرائی ، گیرائی اور قوت کا نتیجہ ہے کہ آج مغرب کی علمی دنیا میں بھی گولڈ تسیھر وغیرہ کی آرا کو پہلے سا قبول عام حاصل نہیں رہا اور سنجیدہ اہل علم ان تحریروں کو’’ مستند ہے ان کا فرمایا ہوا ‘‘ کے طور پر پیش کرنے سے کترانے لگے ہیں۔ ان حضرات کی محنت ، علمی لیاقت اور دلائل کی مضبوطی نے اپنا لوہا عہد جدید کے مغربی محققین سے بھی منوا لیا ہے۔ ویل بی حلاق اس وقت فقہ اسلامی کی تاریخ اور ارتقا پر مغرب میں سند سمجھے جاتے ہیں۔ ان حضرات کی تحریروں نے جو اثر مغرب میں چھوڑا ہے اس کا عکس ہمیں حلاق کی تازہ کتاب میں نظر آتا ہے۔۱۵؎ حلاق نے ان تحریروں کے سامنے پسپائی اختیار کرتے ہوئے مجبوراً اعتراف کیا ہے کہ : However, mounting recent research, concerned with the historical origins of individual prophetic reports, suggests that Goldziher, Schacht and Juynboll have been excessively skeptical and that a number of reports can be dated earlier than previously thought, even as early as the Prophet. These findings, coupled with other important studies critical of Schacht's thesis, go to show that while a great bulk of prophetic reports may have originated many decades after the Hijra, there exists a body of material that can be dated to the prophet's time. Therefore, I shall not a priori preclude the entirety of prophetic reports as an unauthentic body of material, nor shall I accept their majority though many may have been admitted as authentic (sahih) by the Muslim "science" of hadith criticism. صفحات آئندہ میں ہم ظفر اسحاق انصاری صاحب کے ایک اہم مقالے کا اردو ترجمہ پیش کر رہے ہیں۔ شاخت نے حدیث پر تنقید کرتے ہوئے ایک قاعدہ استعمال کیا ہے جسے اس نے ’’دلیل سکوت‘‘ کا نام دیا ہے۔انصاری صاحب نے اس قاعدے کے صحت و سقم کا جائزہ لے کر دکھایا ہے شاخت کی تنقید حدیث میں کیا خامی ہے اور اس کے نتائج فکر کس درجہ پایۂ استناد سے ساقط شمار ہونا چاہیں ۔ مقالہ اپنی علمی اور تحقیقی جہت سے اتنا اہم اور موثر ہے کہ ہم یہ کہنے میں کوئی مبالغہ تصور نہیں کرتے کہ اگر یہ مقالہ ۱۹۲۰ء میں چھپ گیا ہوتا تو تشکیل جدید کے پانچویں خطبے کی مذکورہ صدر عبارت قطعاً مختلف ہوتی ۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱- مثال کے طور پر دیکھیے:اکبر حسین قریشی، مطالعہ تلمیحات و اشارات اقبال، اقبال اکادمی پاکستان،۱۹۸۶ باب:تلمیحات حدیث، ص ۱۰۵ ؛ محمد حنیف شاہد ، ’’احادیث نبوی ، کلام اقبال میں‘‘، اقبال ، بزم اقبال لاہور ۱۹۹۱ء جلد ۳۸ ، شمارہ ۱ ۔ ۲ ، صفحات ۱۳ ۔ ۵۰ ؛ حافظ منیر خان ’’ اقبال اور حدیث (اسرار خودی کے حوالے سے)‘‘، اقبال، بزم اقبال ، لاہور ، جلد ۴۷، شمارہ ۳،۲،۱، جنوری ۔ جولائی ۲۰۰۰ء ، ص ۱۳۹ ۔ ۱۵۸۔ ۲ - مثال کے طور پر دیکھیے ، محمد فرمان، اقبال اور منکرین حدیث،گجرات، ۱۹۶۳ء ص ،ا تا۶۰ ۔ ۳ - عمران نذر حسین،’’اقبال اور زمان آخر‘‘،(انگریزی) تیسری علامہ اقبال کانفرنس پنجاب یونیورسٹی ، لاہور ، ۱۹۹۸ئ۔ ۴- الطاف حسین آہنگر،’’اقبال اور حدیث۔قانونی تناظر‘‘،( انگریزی) اقبال ریویو،اقبال اکادمی پاکستان،جلد ۳۷،شمارہ ۳،اکتوبر۱۹۹۶ء ص ،۸۹۔ ۱۱۰ (خصوصاً ص ۱۰۲ ، ۱۰۵) ۔ ۵ - تفصیلی بحث کے لیے دیکھیے محمد سہیل عمر ، خطبات اقبال نئے تناظر میں، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور، ۱۹۹۶ئ۔ 6- A Sprenger; "Ueber das Traditionswesen beiden Arabern", Zeitschift des Dcentschen Mondentandische gesellschaft (ZDMG) Vol.10, 11856), pp 1-17. 7- A Sprenger; "On the origin and Progress of writing down Historical Facts among the Musulmans" Journal of the Asiatic Society of Bengal, 25 (1856), pp,303-329, 375-381. 8- M.Noldeke: Geschichte des Korans.1860 . 9- Alfred von Kremer: Kulturgeschichte des Orlients unter den Chalifen, 2 vols., 1875 - 1877. ۱۰- مکمل اقتباس یوں ہے : The Hadith. The second great source of Muhammadan Law is the traditions of the Holy prophet. These have been the subject of great discussion both in ancient and modern times. Among their modern critics Professor Goldziher has subjected them to a searching examination in the light of modern canons of historical criticism, and arrives at the conclusion that they are, on the whole, untrustworthy. Another European writer, after examining the Muslim methods of determining the genuineness of a tradition, and pointing out the theoretical possibilities of error, arrives at the following conclusion: 'It must be said in conclusion that the preceding considerations represent only theoretical possibilites and that the question whether and how far these possibilities have become actualities is largely a matter of how far the actual circumstances offered inducements for making use of the possibilities. Doubtless, the latter, relatively speaking, were few and affected only a small proportion of the entire sunnah. It may therefore be said that ... for the most part the collections of sunnah considered by the Moslems as canonical are genuine records of the rise and early growth of Islam' (Mohammedan Theories of Finance). For our present purposes, however, we must distinguish traditions of a purely legal import from those which are of a non-legal character. With regard to the former, there arises a very important question as to how far they embody the pre-Islamic usages of Arabia which were in some cases left intact, and in others modified by the Prophet. It is difficult to make this discovery, for our early writers do not always refer to pre-Islamic usages. Nor is it possible to discover that usages, left intact by express or tacit approval of the Prophet, were intended to be universal in their application. ( The Reconstruction of Religious Thought in Islam, Allama Muhammad Iqbal, Iqbal Academy Pakistan, Lahore,1989,pp. 135) ۱۱ - گولٹ تسیھر کی کتابMuhammedanische Studienدو مجلدات پر مشتمل تھی ۔ دونوں جلدیں جرمنی سےHalleکے مقام سے بالترتیب ۱۸۸۹ء اور ۱۸۹۰ء میں طبع ہوئیں۔ نقد حدیث کا موضوع دوسری جلد میں آیا ہے۔ انگریزی زبان میں اس کے ترجمے کے لیے دیکھیے ، سی ۔ آر ۔ باربر نیز ۔ ایس۔ ایم ۔ سٹرن،مسلم سٹڈیز (انگریزی) دو جلد ، ایلن ان، لندن ، ۱۹۶۷ئ۔ متعلقہ اقتباس کے ترجمے کے لیے دیکھیے جلد دوم ، ص ،۱۸۔ ۱۲- ورنہ ان کی اصل رائے اس ضمن میں کچھ اور تھی ۔ اس کا اندازہ ہمیں ان کے اس غیر مطبوعہ خط سے ہوتا ہے جو ادھر چند سال پہلے دریافت ہوا ہے ۔ محمد عبداللہ العمادی کے نام ۱۹۱۸ء میں لکھتے ہیں: مولوی صدرالدین ، پروفیسر عربی گورنمنٹ کالج ، لاہور کو میں نے اس بات پر آمادہ کیا ہے کہ گولزیر نے جو تنقید احادیث کی کی ہے اسے اردو میں ترجمہ کر ڈالیں اگر آپ یہاں ہوتے تو گولزیر کی تنقید کی تردید میں آپ سے گراں بہا مدد ملتی ہے ۔ تاہم جو کچھ مجھے معلوم ہے مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر کر دیا جائے گا ۔ (کلیات مکاتیب اقبال ، جلد اول ، مظفر حسین برنی (مرتب) ، اردو اکادمی دہلی ، ۱۹۹۳ء ص؍ ۱۶۱۷) اس عبارت کی روشنی میں تشکیل جدید کا متعلقہ حصہ دوبارہ دیکھیے تو یہ کہنا کسی طرح ممکن نہیں رہتا کہ علامہ نے گولٹ تسیھر کی رائے قبول کر لی تھی ۔ 13- For a useful summary of the views about the origins of prophetic Sunna, see David S.Powers,Studies in Quran and Hadith: The Formation of the Law of Inheritance (Berkeley University of California Press, 1986), 2 ff. See also Harald Motzki, " The Musannaf of 'Add al-Razzaq al-Sanani as a Source of Authentic Ahadith of the First Century A . H," Journal of Near Eastern Studies,50 (1991): l f. 14- Notable of these studies are those by M . M.Azami, Studies in Early Hadith Literature (Beirut: al-Maktab al-Islami,1968); M . M .Azmi, On Schacht's Origins of Muhammadan Jurisprudence (New York: John Wiley,1985); Nabia Abbott, Studies in Arabic Literary Papyri, ii (Chicago: University of Chicago press,1967), 5-83; Fuat Sezgin, Geschichen Schrifttums,I (Leiden: E.J.Brill, 1967). p. 53-84 and generally. 15- Wael B. Hallaq, A History of Islamic Legal Theories. An Introduction to Sunni Usul al-Fiqh, Cambridge University Press, 1997, pp. 2-3. ئ…ئ…ء صحت احادیث جوزف شاخت کی ’’ دلیل سکوت ‘‘ کا تنقیدی جائزہ اسلام کے ابتدائی دور کو موضوع تحقیق بنانے والے مغربی اہل علم میں جس مفروضے کو مسلمہ حقیقت کی حیثیت سے قبول عام حاصل ہو چکا ہے یہ ہے کہ بحیثیت مجموعی احادیث نبوی یا اقوال صحابہ کا کوئی تعلق نہ تو عہد نبوی سے ہے اور نہ عہد صحابہ سے ، بلکہ روایات کا یہ سارا ذخیرہ بعد کے دور کی پیداوار ہے ۔ ان کے خیال کے مطابق احادیث اقوال صحابہ کا آغاز افراد کی ذاتی آرا کی حیثیت سے ہوا جن کو مضبوط بنیاد فراہم کرنے کی غرض سے اسناد کا ایک پورا سلسلہ ایجاد کر لیا گیا ۔ پھر ان اسناد میں عہد بہ عہد ترقی ہوتی رہی یہاں تک کہ آخر کار ان کو خود آںحضرتؐ سے منسوب کر دیا گیا ۔ ظاہر ہے کہ مختلف افراد یا مکاتب فکر کے لیے اس عمل کا محرک صرف ایک ہی ہو سکتا تھا اور وہ یہ کہ آں حضرتؐ یا صحابہ کرامؓ سے منسوب ہونے کی وجہ سے ان آرا کو قبول و اعتبار حاصل ہو جائے۔سیدھے لفظوں میں کہا جائے تو ان اہل علم کے دعویٰ کا ماحصل یہ ہے کہ آنحضرت ا اور آپ کے صحابہؓ سے منسوب یہ سارا ذخیرہ وسیع پیمانے پر کیے جانے والے ایک سلسلۂ وضع و افترا کی پیداوار ہے جسے حسن نیت سے خدمت دین سمجھ کر انجام دیا گیا ۔ مغربی اہل علم میں احادیث کے بارے میں منفی انداز کے سوال اٹھانا بلکہ ان کی صحت کا انکار کرنا کوئی آج کی بات نہیں ہے۔ یوں تو انیسویں صدی کے وسط ہی سے ولیم میور ، الوئے سپرنگر، الفرڈ وان کریمر اور تھیور ڈور نویلدیکی ۱؎ جیسے معروف مغربی اہل علم کی تحریروں میں یہ رجحان کھل کر سامنے آ چکا تھا تاہم انیسویں صدی کے آخر تک آتے آتے اگناز گولڈ تسیھر کی تحریروں میں یہ رجحان اپنی پوری شدت اور قطعیت کے ساتھ ایک بھر پور انداز میں ظاہر ہوا۔ گولڈ تسیھرنے اپنی اہم ترین تصنیفMuhammedanische Studienکی دوسری جلد کو حدیث ہی کے تنقیدی مطالعے کے لیے مخصوص کر دیا تھا۔ گولڈ تسیھر کی تحقیق کا حاصل یہ تھا کہ احادیث اور آثار کی اصل اہمیت یہ ہے کہ انھیں اگرچہ دوسری اور تیسری صدی ہجری کے مسلم معاشرے میں لوگوں کے فکری رجحانات اور ان کی فقہی آرا کے معلوم کرنے کا ایک اچھا ذریعہ قراردیا جا سکتا ہے لیکن ان کا اسلام کی پہلی صدی سے کوئی تعلق نہیں جس سے ان کو منسوب کیا جاتا ہے۔ مغربی اہل علم میں اس مفروضے کو جلد ہی وسیع پیمانے پر قبول عام حاصل ہو گیا اور موجودہ دور تک پہنچتے پہنچتے صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ اس مفروضے سے اختلاف کرنے والے مغربی اہل علم خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ ۲؎ گولڈ تسیھر کے بعد بھی متعدد مغربی اہل علم نے تاریخ اسلام کی ابتدائی صدیوں کے مطالعہ کے سلسلے میں احادیث سے بکثرت رجوع کیا ہے۔ان میں دو نام بہت نمایاں ہیں؛ اے جے ونسنک اور جوزف شاخت۔ ونسنک نے احادیث کی روشنی میں اسلامی عقائد کے ارتقا کا مطالعہ کیا ۔ ونسنک نے بھی کم و بیش وہی انداز تحقیق اختیار کیا ہے جو اس سے قبل گولڈ تسیھر اختیار کر چکا تھا۔۳؎ دوسری طرف شاخت کی اصل دلچسپی فقہ اسلامی کے آغاز کی تحقیق سے تھی۔(ملاحظہ ہو ان کی تصنیف کا عنوان: The Origins of Muhammadan Jurisprudence وہ احادیث کی طرف اس لیے متوجہ ہوئے کہ فقہ کے اصول اور فروع کی تشکیل میں احادیث کا کردار متعین کر سکیں۔ شاخت نے صرف گولڈ تسیھر کے قائم کردہ بنیادی مفروضے کی تصدیق پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس سے بڑھ کر یہ دعویٰ بھی کیا کہ عام خیال کے برخلاف مسلمانوں میں احادیث کو رسول اللہ ا سے منسوب کرنے کا رواج بہت بعد میں شروع ہوا ۔ انھوں نے اس بات کا بھی دعویٰ کیا کہ قانونی مسائل کے بارے میں رسول اکرم اسے مروی احادیث کی ایک بڑی تعداد کو سنہ ۱۵۰ ہجری کے لگ بھگ (وضع کر کے) لوگوں میں پھیلایا گیا ۔ شاخت کے خیال میں یہ وہی دور ہے جس میں ’’تحریری‘‘ شکل میں احادیث کی روایت کا سلسلہ شروع ہوا۔ جس کسی نے بھی شاخت کا مطالعہ کیا ہے وہ اس بات سے اتفاق کرے گا کہ اس کی تشکیک گولڈ تسیھر سے بھی زیادہ شدید اور جارحانہ ہے۔ اگر شاخت کے اس ’’منہاجی قاعدے‘‘ کو سامنے رکھیں جو انھوں نے صراحتاً بیان کیا ہے تو یہ بات اور بھی واضح ہو جاتی ہے ۔ شاخت کے قول کے مطابق یہ منہاجی قاعدہ (ضابطہ جرح و تعدیل)گولڈ تسیھر ہی کے نتائج تحقیق سے ماخوذ ہے ۔ ان کے اپنے الفاظ میں یہ قاعدہ مندرجہ ذیل ہے ۔ قانونی امور کے بارے میں نبیؐ سے مروی کسی حدیث کو ۔۔۔ جب تک اس کے برعکس ثابت نہ ہو جائے ۔۔۔ نبی ؐ یا صحابہؓ کے دور کے لیے معتبر ، یا بنیادی طور پر معتبر گو کسی قدر مبہم ، بیان کے طور پر درست تسلیم نہیں کیا جائے گا ، بلکہ اسے بعد کے دور میں تشکیل پانے والے نظریہ کا ایک جعلی اظہار قرار دیا جائے گا۔ ۴؎ شاخت نے اپنا یہ نقطہ نگاہ ۱۹۵۰ء میں اپنی کتاب The Origins of Muhammadan Jurisprudence میں پیش کیا تھا ۔ چودہ سال بعد ۱۹۶۴ء میں اس کی دوسری کتاب An Introduction to Islamic Law منظر عام پر آئی۔ایسا محسوس ہوتاہے کہ مؤخر الذکر کتاب کی تصنیف تک حدیث کے بارے میں شاخت کی تشکیک میں کچھ مزید شدت پیدا ہو چکی تھی ۔ اس کا مندرجہ ذیل بیان ملاحظہ فرمائیے: جہاں تک مذہبی قانون (فقہ) کا تعلق ہے،اس کے بارے میں شاید ہی کسی حدیث کو قابل اعتماد قرار دیا جا سکے۔۵؎ شاخت نے اپنی تحریروں میں اس نقطۂ نظر کو ثابت کرنے کے لیے اکثر مقامات پر ’’ دلیل سکوت‘‘ argument e silentio کا استعمال کیاہے اور اس کے سہارے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں ان روایات کا سرے سے وجود ہی نہ تھا جو بعد کے دور میںہمیں احادیث رسولؐ یا آثار صحابہؓ کی شکل میں ملتی ہیں۔ یہ دلیل یعنی ’’دلیل سکوت‘‘ شاخت کے اپنے الفاظ میں کچھ یوں ہے: کسی معین دور میں ایک حدیث کی عدم موجودگی کا بہترین ثبوت یہ ہے کہ آپ یہ دکھا دیجیے کہ کسی ایسے قانونی بحث و تمحیص کے دوران جس میں اس حدیث کا بطور دلیل پیش کیا جانا ضروری تھا اسے پیش نہیں کیا گیا۔ اس صورت میں ہم یہ نتیجہ نکالنے میں اس وجہ سے بھی حق بجانب ہیں کہ خود امام محمد بن الحسن شیبانی نے فقہا اہل مدینہ کے بارے میں یہ الفاظ کہے تھے : ’’یہ ہے اس معاملے کا صحیح رخ الا یہ کہ اہل مدینہ (اس کے برعکس) اپنی رائے کے حق میں کوئی روایت پیش کر دیں۔ لیکن ان کے پاس اس کے حق میں پیش کرنے کے لیے کوئی روایت موجود نہیں ہے۔ اس لیے کہ اگر ان کے پاس کوئی روایت ہوتی تو وہ اسے ضرور پیش کر چکے ہوتے‘‘۔ بنا بریں ہم اطمینان کے ساتھ یہ فرض کر سکتے ہیں کہ فقہی احکام سے تعلق رکھنے والی وہ روایات جن سے ہم یہاں تعرض کر رہے ہیں ان کو رواج دینے کے فوراً بعد ہی وہ لوگ ان روایات کو ضرور پیش کر دیتے جن کی آرا کی تائید ان روایات (کے وضع کرنے) کا مقصود تھا۔۶؎ جہاں تک اس دلیل کے عملی اطلاق کا تعلق ہے تو شاخت اپنی ہی عائد کردہ مندرجہ ذیل شرط کو بسا اوقات فراموش کر دیتا ہے : ’’ہر اس حدیث کو اس زمانے میں معدوم سمجھا جائے گا جس میں اس حدیث کو کسی ایسی بحث میں بطور دلیل استعمال نہ کیا گیا ہو جہاں اس کا پیش کیا جانا ضروری تھا‘‘۔۷؎ شاخت نے اپنی پیش کردہ دلیل کو جس بے ہنگم شدت کے ساتھ استعمال کیا ہے اس پر اگر نظر ڈالیں تو یہ فرض کرنا پڑے گا کہ دوسری اور تیسری صدی ہجری کے مسلمان علما ہمہ وقت فقہی بحث و مباحثہ ہی میں مشغول رہتے تھے اور یہ ایک ایسا مفروضہ ہے جسے عقل سلیم کے لیے قبول کرنا محال ہے ۔ سطور ذیل میں ہم جو کچھ پیش کر رہے ہیں اس کا اصل مقصد احادیث کی صحت کے حق میں دلائل فراہم کرنا نہیں ہے اور نہ ہم یہاں صحت احادیث کے بارے میں شاخت کی مجموعی رائے سے ہی تعرض کرنا چاہتے ہیں۔ان موضوعات پر راقم الحروف بھی کچھ لکھ چکا ہے اور بعض دوسرے اہل علم بھی بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ اس مقالہ میںہماری گذارشات شاخت کی پیش کردہ ’’ دلیل سکوت‘‘ کے تنقیدی جائزہ تک ہی محدود رہیں گی اس لیے کہ اسی دلیل کو شاخت نے احادیث کی صحت کو مشتبہ بنانے ، بلکہ ان کو ساقط الاعتبار قرار دینے کے لیے بنیاد کے طور پر استعمال کیا ہے ۔ (۲) شاخت کی کتاب Origins کے سر سری مطالعے ہی سے یہ بات پوری طرح سامنے آجاتی ہے کہ اس کا قائم کردہ ’’ منہاجی قاعدہ ‘‘ اور اس کا طریق استدلال دونوں میں مبالغہ کا رنگ غالب ہے ۔ اگر آپ شاخت کی دلیل پر غور کریں تو یہ بات بالکل واضح ہو جائے گی کہ اس کی دلیل صرف اس صورت میں درست اور قابل قبول ہو سکتی ہے اگر ہم مندرجہ ذیل چند مفروضات کو درست تسلیم کر لیں ۔ ۱ - یہ کہ پہلی اور دوسری صدی ہجری میں جب بھی کوئی فقہی رائے کہیں بھی زیر تحریر آتی تھی تو اس کے تائیدی دلائل ، بالخصوص وہ احادیث جو ان کی تائید کرتی ہوں ، ان کو بھی لازماً درج کر دیا جاتا تھا۔ ۲ - یہ کہ وہ احادیث جو ایک فقیہ (یا محدث) کے دائرہ علم میں ہوتی تھیں وہ لازماً اس زمانے کے دوسرے فقہا (اور محدثین) کے دائرہ علم میں لازماً شامل تھیں۔ ۳ - یہ کہ کسی خاص دور میں جو بھی احادیث ’’رائج ‘‘ تھیں ان سب کو مناسب انداز میں وسیع پیمانے پر متعارف کرا دیا گیا تھا اور انھیں محفوظ کرلیا گیا تھا ۔ لہٰذا اگر کسی معروف عالم کی تحریروں میں کوئی ایسی حدیث نہ پائی جائے جس کا تعلق کسی ایسے موضوع سے ہو جس پر اس نے کچھ کہا ہے ، تو اسے اس بات کا ثبوت سمجھا جائے گا کہ اس دور میں وہ حدیث نہ صرف اس مصنف کے علاقے میں بلکہ باقی عالم اسلام میںبھی موجود نہ تھی ۔ ان مفروضات کو قبول کرنا ممکن نہیں اس لیے کہ ان میں سے کسی ایک مفروضے کی بھی تاریخی شواہد سے تصدیق نہیں کی جا سکتی ۔ بلکہ اس کے برعکس یہ بات ثابت کی جا سکتی ہے کہ یہ مفروضات اس دور کے ثابت شدہ حقائق کی خلاف ہیں ۔ احادیث کی وہ قدیم ترین کتب جو آج ہماری دسترس میں ہیں ، ان کا تعلق دوسری صدی ہجری کے وسط اور اس کے بعد زمانے سے ہے۔۸؎ ان کتابوں کی تالیف میں متعدد محرکات کار فرما تھے ۔ ان کی تالیف کا ایک مقصد اسلاف کی آرا کا جمع کرنا تھا ، بالخصوص ان آرا کا جن کو کسی مؤلف کے علاقے یا مکتب فکر میں عمومی قبولیت حاصل ہو ۔ بنا بریں اس زمانے میں بسا اوقات ایک مؤلف اپنے مکتب فکر کی فقہی آرا کو یکجا تو کر دیتا تھا لیکن ان احادیث یا اقوال صحابہؓ کے اندراج کا التزام نہیں کرتا تھا جن سے ان آرا کی تائید ہوتی تھی ۔ کبھی اہل علم اپنی کتابوں میں اپنی ذاتی یا اپنے مکتب فکر کی فقہی آرا کے ذکر پر ہی اکتفا کرتے تھے ، اور کبھی کبھی ان آرا کے متعلق احادیث اور آثار صحابہؓ کو بھی درج کر دیا جاتا تھا ۔ بہرکیف اس امر کو ضروری خیال نہیں کیا جاتا تھا۔۹؎ یہ بات کسے نہیں معلوم کہ اس دور کی تصانیف میں اور ما بعد کی تصانیف میں بھی اس امر کی بے شمار مثالیں ہیں کہ بسا اوقات قرآن مجید سے مستنبط احکام کو تو بیان کر دیا جاتا تھا لیکن اس بات کا اہتمام نہیں کیا جاتا کہ ان آیات قرآنی کا بھی ذکر کر دیا جائے جن سے وہ احکام مستنبط کیے گئے تھے یا کیے جا سکتے تھے۔۱۰؎ اس بات کی بہت سی شہادتیں پیش کی جا سکتی ہیں کہ یہی صورت حال احادیث کے سلسلے میں بھی تھی ۔ بہت سی ایسی مثالیں بھی ہیں کہ ایک فقیہ نے کسی فقہی مسئلے پر اپنے مکتب فکر کی آرا کو مدون کیا لیکن اس حدیث کا حوالہ دینے کی طرف کوئی توجہ نہ کی جو مسئلہ زیر بحث سے متعلق تھی یا جس سے خود اس کی اپنی رائے کی تائید ہوتی تھی ۔ یہ ان حالات میں بھی ہوا جب متعلقہ حدیث کا وجود اور اس حدیث کا اس فقیہ کے علم میںہونا پوری طرح ثابت ہے۔۱۱؎ یہ خود اپنی جگہ ایک دلچسپ مطالعہ ہو گا اگران احادیث کو جمع کر دیا جائے جو ہماری قدیم ترین کتب میں موجود ہیں اور جو بعد کے زمانہ کی تصانیف میں نظر نہیں آتیں۔ گویا کہ اگر ہم شاخت کی مذکورہ دلیل کو الٹ کر اس کا اطلاق کریں تو گمان غالب ہے کہ اس سے حیران کن نتائج برآمد ہوں گے۔ ہم نے اس کلیہ کا ایک محدود پیمانے پر اطلاق کر کے دیکھا ہے اور اس سے بعض عجیب و غریب نتائج سامنے آئے ہیں۔ اس طریق کار کے اطلاق سے دو باتیں خاص طور پر سامنے آتی ہیں :اوّل یہ کہ احادیث کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو قدیم تصانیف میں موجود تھی لیکن دوسری معاصر کتب کا تو ذکر ہی کیا دور مابعد کی کتب میں بھی ان کا سراغ نہیں ملتا۔ ثانیاً یہ کہ مذکورہ عہد کے فقہا اپنے آپ کو ہرگز اس بات کا پابند نہیں سمجھتے تھے کہ ان تک جو احادیث پہنچی ہوں وہ ان سب کا حوالہ ضرور دیں ، خواہ وہ احادیث ان کی اپنی آرا کی تائید ہی کیوں نہ کرتی ہوں۔ اگر یہ دونوں باتیں پوری طرح ثابت ہو جائیں۔ اور ہمارے نزدیک یہ دونوں باتیں قطعیت کے ساتھ ثابت کی جا سکتی ہیں۔ تو شاخت کی بنیادی دلیل بری طرح مجروح ہو جاتی ہے اور اس کے استدلال کی پوری عمارت آپ سے آپ منہدم ہو جاتی ہے۔ صفحات ذیل میں ہم دوسری صدی ہجری کے بعض فقہا کے قانونی مباحث میں سے چند آرا کا تقابلی مطالعہ پیش کر رہے ہیں تاکہ شاخت کے مفروضوں کا جائزہ لیا جا سکے ۔ اس مطالعے کے آغاز کے لیے ہم نے موطا کے دو نسخے منتخب کیے ہیں یعنی موطا امام مالکؒ اور موطا امام محمد الحسن الشیبانی ؒ ۔ موطا امام مالکؒ کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ یہ فقہائے مدینہ کی قانونی آرا کا ذخیرہ بھی ہے اور اس کا شمار حدیث کے ابتدائی مجموعوں میں بھی ہوتا ہے۔امام مالک (ولادت: ۹۵ھ) مالکی فقہ کے بانی ہیں۔ ان کا زمانہ امام محمد الحسن الشیبانی ؒسے خاصا پہلے کا ہے ۔ امام شیبانی ؒ کی ولادت ۱۳۲ھ کی ہے اور ان کا تعلق امام ابو حنیفہؒ (م ۱۵۰ھ) کے فقہی مذہب سے ہے۔ امام محمد بن الحسن الشیبانی ؒ نے امام مالکؒ کی موطا کا ایک نسخہ تیار کیا تھا۔ اس نسخے میں انھوں نے امام مالکؒ کی روایت کردہ احادیث اور ان کی فقہی آرا کے علاوہ ان آرا کو بھی درج کیا ہے جو امام شیبانی ؒ کے اپنے فقہی مسلک کے مطابق اور امام مالکؒ کے مسلک سے متعارض ہیں ۔ کبھی کبھی امام محمدؒ نے اپنے مذہب کی آرا کا ذکر کرنے کے بعد ان کی تائید کرنے والی احادیث کو بھی درج کیا ہے ۔ ان تمہیدی باتوں کے بعد آئیے اب موطا امام مالکؒ اور موطا امام محمد بن الحسن شیبانیکا تقابلی مطالعہ کریں ۔ اس مطالعہ کے نتیجے میں یہ بات کھل کر سامنے آ جائے گی کہ امام مالکؒ کی موطا میں احادیث کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو ہمیں امام شیبانی ؒ کی موطا میں نظر نہیں آتی اگرچہ امام شیبانی ؒ کا زمانہ امام مالکؒ کے بعد کا ہے۔۱۲؎ اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ بسا اوقات وہ احادیث جو خود امام شیبانی ؒ کے مسلک اور ان کی آرا کو موید ہیں، وہ ہمیں موطا امام مالکؒ میں ملتی ہیں لیکن خود امام شیبانی کی موطا میں نہیں ملتیں۔ ذیل کی مثالوں سے یہ بات واضح ہو جائے گی۔ ٭ موطا امام مالکؒ میں اوقات نماز کے بارے میں ۱۳ روایات ہیں ۔ (ملاحظہ ہو موطا مالک ص ۳ و مابعد) جبکہ موطا امام شیبانی میں ان میں سے صرف تین روایات مذکور ہیں ۔ (ملاحظہ ہو صفحہ ۴۲ و مابعد)۔ ٭ نماز فجر کے افضل وقت کے بارے میں اہل کوفہ اور اہل مدینہ کا اختلاف معروف ہے ۔ اہل مدینہ نماز فجر غلس یعنی قدرے اندھیرے میں پڑھنے کے قائل تھے اور اہل کوفہ اسفار یعنی قدرے روشنی میں نماز فجر کے پڑھنے کو ترجیح دیتے تھے ۔ موطا شیبانی (ص ۴۲) میں اہل کوفہ کی اس رائے کا ذکر ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ امام شیبانی نے اپنے موطا میں اس حدیث نبوی کا کوئی حوالہ نہیں دیا جو موطا امام مالکؒ (ص ۴ و مابعد) میں موجود ہے اور جس سے خود امام شیبانی کے اپنے مذہب کی رائے کی تائید ہوتی ہے۔۱۳؎ ٭ مس ذکر سے نقض وضو کے بارے میں موطا مالک (ص ۴۲) میں چھ روایات ہیں ۔ ان میں سے صرف دو روایات موطا امام شیبانی میں ملتی ہیں (ملاحظہ ہو ص ۵۰)۔ ان غیر موجود روایات میں سے ایک روایت کی نسبت رسول اللہ ا سے ہے اور دوسری کی حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ سے ۔ ٭ غسل جنابت کے مسئلے پر موطا امام مالکؒ میں چار روایات ہیں (ملاحظہ ہو ص ۴۴)۔ ان میں سے صرف ایک روایت موطا امام شیبانی ؒمیں شامل ہے (ملاحظہ ہو ص ۷۷)۔ موطا امام مالکؒ کی ان چار میں سے دو روایات آنحضورا سے مروی ہیں ۔ ٭ موطا امام مالکؒ میں ’’غسل المراۃ اذا رأت فی المنام‘‘ کے عنوان کے تحت دو روایات ہیں (ملاحظہ ہو ص ۵۵) جبکہ موطا امام شیبانیؒ میں صرف ایک روایت پائی جاتی ہے (ملاحظہ ہو ص ۷۹) ۔ موخرالذکر مجموعے میں جو روایت شامل نہیں کی ہے وہ حدیث نبوی ہے اور اس کی اسناد یہ ہیں : مالک ۔ ام سلمی۔ ام سلیم۔نبی ا ۔ ٭ ’’ الوضو ء من القبلۃ‘‘ کا باب موطا امام مالکؒ میں تو موجود ہے (ملاحظہ ہو ص ۴۳) مگر موطا امام شیبانی میں یہ باب موجود نہیں۔ ٭ ’’ الطہور فی المائ‘‘ کا باب موطا امام مالکؒ میں موجود ہے (ملاحظہ ہو ص ۲۲) مگر موطا امام شیبانیؒ میں موجود نہیں ۔ ٭ اسی طرح ’’ البول قائما ‘‘ اور ’’ السواک‘‘ کے ابواب بھی موطا امام مالکؒ میں موجود ہیں (ملاحظہ ہو ص ۶۶ و ما بعد) لیکن یہ ابواب امام شیبانی کی موطا میں موجود نہیں ۔ ٭ موطا امام مالکؒ کے ابواب النداء فی الصلوۃ (ملاحظہ ہو ص ۶۷ و مابعد) کا اگر امام شیبانی کی موطا سے مقابلہ کریں (ملاحظہ ہو ص ۸۲) تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ موطا امام مالکؒ کی متعدد روایات (مثلاً نمبر ۱ ، ۳ ، ۶ ، ۷ ، ۹) موطا امام شیبانیؒ میں موجود نہیں ہیں ۔ ٭ موطا امام مالکؒ میں ’’کفن المیت‘‘ کا حصہ (ملاحظہ ہو ص ۲۲۳) تین روایات پر مشتمل ہے۔ ان میں موطا امام شیبانیؒ میں صرف ایک روایت موجود ہے (یعنی روایت نمبر ۷۔ ملاحظہ ہو ص ۱۶۲)۔ یہ روایت حضرت عبداللہ بن عمرو ابن العاص ؓ سے مروی ہے۔ جو دو احادیث موجود نہیں ہیں ان میں سے ایک میں آنحضرت ا کی تکفین کا بیان ہے ۔ ٭ موطا امام شیبانی ؒ میں ’’زکوۃ الفطر‘‘ (ملاحظہ ہو ص ۱۷۶) کے تحت حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ کی وہ روایت موجود نہیں ہے جوموطا امام مالکؒ کے ص ۲۸۳ پر ہمیں نظر آتی ہے۔ ٭ موطا امام مالک کی وہ روایتیں جو ’’من لا تجب علیہ زکوۃ الفطر‘‘ کے عنوان کے تحت مندرج ہیں (ملاحظہ ہو ص ۲۸۵) اور جو ’’مکیلۃ زکوۃ الفطر‘‘ (ملاحظہ ہو ص ۲۸۳) کے تحت آتی ہیں۔ ان میں کوئی روایت موطا امام شیبانیؒ میں موجود نہیں ۔ ٭ ’’ استیذان البکر والایم‘‘ کے باب موطا امام مالکؒ میں ۳ روایات ہیں (ملاحظہ ہو ص، ۵۲۴) جبکہ امام شیبانی کے ہاں ایک روایت ملتی ہے (ملاحظہ ہو ص ۲۳۹)۔ جو دو روایات موخرالذکر کتاب میں مفقود ہیں ان میں سے ایک حدیث رسول ا ہے۱۴؎۔ ٭ موطا امام شیبانیؒ کا ’’لعان‘‘ کا حصہ (ملاحظہ ہو ص ۲۶۲) کئی ایسی روایات سے تہی ہے جو موطا امام مالکؒ کے حصہ ’’ لعان ‘‘ (ملاحظہ ہو ص ۵۶۶) میں موجود ہیں ۔ ٭ بیع تمور کی ممنوعہ صورتوں کا بیان موطا امام شیبانیؒ میں (ملاحظہ ہو ص ۳۳۰) صرف ایک روایت پر مشتمل ہے جبکہ موطا امام مالکؒ میں اسی مسئلے پر تین روایات پائی جاتی ہیں اور تینوں کی سند آں حضرت ا تک جاتی ہے ۔ (ملاحظہ ہو ص ۶۲۳ و ما بعد) ۔ یہی صورت حال اس وقت بھی سامنے آتی ہے جب ہم اسی نقطہ نظر سے امام ابو یوسف اور امام محمد بن الحسن الشیبانی کی تصانیف ، بالخصوص آثار ابو یوسف ؒ اور آثار امام شیبانیؒ کا موازنہ کرتے ہیں ۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ امام ابو یوسف کا انتقال ۱۸۴ھ میں ہوا اور امام شیبانی ؒ کا ۱۸۹ھ میں ۔ اگر امام ابو یوسف ؒ اور امام شیبانی ؒ کے سن پیدائش کو پیش نظر رکھا جائے (جو بالترتیب ۱۱۳ھ اور۱۳۲ھ ہیں) تو یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ امام ابو یوسف ؒ امام محمد ؒ سے عمر میں خاصے بڑے تھے ۔ لہٰذا یہ بات قرین قیاس ہے کہ امام محمدؒ کی تصانیف کا زمانہ امام ابو یوسف ؒ کے آخری عمر کا زمانہ ہو ۔ یہ اس بات کے علاوہ ہے کہ امام محمد ؒ کی متعدد تصانیف امام ابو یوسفؒ کی تصانیف پر مبنی بلکہ ان سے مأخوذ ہیں ۔ ان باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل حقائق پر توجہ فرمائیے ۔ آثار ابو یوسفؒ میں شامل روایات کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو آثار امام شیبانیؒ میں موجود نہیں ہے جبکہ موخر الذکر کے مولف یعنی امام شیبانی ؒ کا زمانہ امام یوسفؒ سے قدرے بعد کا ہے۔۱۵؎ ٭ آثار ابو یوسف، روایت نمبر ۸۴۵، حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ایک روایت ہے جس کا تعلق مضاربہ سے ہے۔ یہ روایت آثار امام شیبانی میں موجود نہیں۔ ٭ آثار ابو یوسف، روایت نمبر ۸۳۰ ،نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک حدیث ہے جس کا تعلق بائع اور مشتری کے درمیان قیمت پر اختلاف سے ہے۔یہ حدیث آثار امام شیبانی میں موجود نہیں ہے ۔ ٭ آثار ابو یوسف، روایت نمبر ۶۶۶ ، حضرت عمرؓ سے مروی ایک روایت ہے جس کا تعلق طلاق اور عدت سے ہے۔ یہ روایت آثار امام شیبانیمیں موجود نہیں ہے ۔ ٭ ’’نفقہ‘‘ اور ’’سکنی‘‘کے مسئلے پر آثار ابو یوسف میں متعدد روایات ہیں۔ ملاحظہ ہوں روایات نمبر ۵۹۲، ۶۰۸ ، ۷۲۶ اور ۷۲۸ ۔ ان میں سے کوئی بھی روایت آثار امام شیبانیمیں موجود نہیں ۔ ٭ آثار ابو یوسف ، روایات نمبر ۷۰۴ ، ۷۰۷ ، ۷۰۹’’ لعان ‘‘ سے تعلق رکھتی ہیں ، یہ روایات آثار امام شیبانی میں موجود نہیں ۔ ٭ ’’ ظہار ‘‘ سے متعلق کئی روایات آثار ابو یوسفمیں موجود ہیں ۔ یہ روایات آثار امام شیبانیکا جزو نہیں ہیں ۔ ٭ ’’ مزارعۃ ‘‘ کے متعلق سالم ؓ کی روایت آثار ابو یوسف میں نمبر ۸۵۷ پر ہے جبکہ وہ آثار امام شیبانی میں موجود نہیں۔ ٭ ’’ فرائض ‘‘ سے متعلق آثار ابو یوسف کی روایات (۷۸۰ ، ۷۷۹) آثار امام شیبانی میں موجود نہیں ۔ ٭ آثار ابو یوسفکی روایات (۳۹۹ ، ۴۰۱، ۵۹۷ ، ۶۰۷ وغیرہ ) جو متفرق موضوعات سے متعلق ہیں آثار امام شیبانیمیں موجود نہیں ہیں۱۶؎ ۔ اس موازنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگرچہ اس بات کے باور کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ امام ابو یوسفؒ کی کتاب الآثار کی روایات امام شیبانی کے علم میں نہیں تھی وہ روایات ان کی تالیف میں شامل نہیں ہیں ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے شاخت کے اختیار کردہ منہاج تحقیق کے اس بنیادی مفروضے کی بنیادیں ہل جاتی ہیں جس کے سہارے انھوں نے’’احادیث کی افزائش‘‘ کے کلیہ کو بڑے زور شور سے پیش کیا ہے۔ اس سلسلے میں شاخت نے مندرجہ ذیل تین امکانات کو سرے سے نظر انداز کر دیا ہے جبکہ صورت حال یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک کا احتمال موجود ہے ۔ ۱- ممکن ہے کہ کسی شخص تک ایک روایت پہنچی ہو اور بعد میں وہ اس کے حافظہ سے محو ہو گئی ہو۔۱۷؎ ۲۔ ممکن ہے کہ اس شخص تک وہ روایت پہنچی ہو مگر اس کی نظر میں اس کی صحت مشکوک ہو لہٰذا اس نے اس کا ذکر یا اندراج نہ کیا ہو ۔ ۳ - ممکن ہے کہ اس کے علم میں وہ روایت ہو مگر آج جو تالیفات ہماری دسترس میں ہیں ان میں اس روایت کا سراغ نہیں ملتا کیونکہ فقہ وحدیث کا پورا ذخیرہ ہم تک منتقل نہیں ہو سکا بلکہ گردش لیل و نہار بے شمار کتابوں کے ضیاع کا سبب ہو گئی ۔ یہ بات خاص طور پر ان علما اور فقہا کے بارے میں درست ہے جن کا تعلق اسلام کے ابتدائی دور سے ہے ۔ لہٰذا اس بات کے باور کرنے کے قوی اسباب ہیں کہ بہت سی روایات بعض محدثین یا فقہا کے زمانے میں موجود تھیں لیکن مرور ایام کے ساتھ وہ تلف ہو گئیں اور آج وہ موجود نہیں ہیں ۔ ان تمام باتوں کو در خور اعتنا نہ تسلیم کرنا اور اپنے قائم کردہ مفروضے کے خلاف پائے جانے والے تمام شواہد کو بلا کسی معقول سبب کے مسترد کر کے اپنی مبالغہ آمیز تشکیک پر اڑا رہنا کسی طرح بھی پختہ کار اور محتاط اہل علم کو زیب نہیں دیتا ۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱ - دیکھیے ظفر اسحاق انصاری ’’ کوفہ میں اسلامی فقہ کی ابتدائی نشو و ارتقا ، بحوالہ تصانیف ابو یوسف و شیبانی‘‘ مقالہ برائے پی ایچ ڈی ، ادارہ مطالعات اسلامی ، میکگل یونیورسٹی، مونٹریال ۱۹۶۶ء ، صفحہ ۱۹۳ و مابعد اور متعلقہ حواشی۔ گولڈ تسیھر کی کتابMuhmmedanische Studienکی دو جلدوں کی اشاعتHalleمیں بالترتیب ۱۸۸۹ء اور ۱۸۹۰ء میں ہوئی ۔ کتاب کا انگریزی ترجمہ ۱۹۶۷ء میں لندن سے شائع ہو چکا ہے۔ عہد حاضر کے مسلمانوں میں حدیث کے بارے میں تشکیک کے اس رویے کا جائزہ لینا ہو تو دیکھیے جی ایچ اے جوین بول، مجموعہ احادیث کا صحت و استناد : جدید مصر کے مباحث ، لائیڈن ، ۱۹۶۹ء ۲- اس معاملے میں بعض اہل علم کو مستثنیٰ قرار دینا ضروری ہے ۔ ان میں سب سے نمایاں نام نابیہ ایبٹ کا ہے ۔ اس موضوع پر ان کی کتاب ہے Studies in Arabic Literary Papyri,ii:Qur'anic Commentary and Tradition, Chicago,1967 اس کتاب میں نابیہ ایبٹ نے حدیث کے ابتدائی دور کے بارے میں اتنی وافر اور قیمتی معلومات فراہم کر دی ہیں کہ ان کو سامنے رکھتے ہوئے یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ مستشرقین کا قائم کردہ مفروضہ نہ صرف مبالغہ پر مبنی ہے بلکہ مضبوط بنیادوں سے یکسر خالی ہے ۔ بعض اور مصنفین نے بھی اپنی تصانیف میں مختلف پہلوئوں سے اس مفروضے کی تردید کی ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو فواد سیز گن کی کتاب:Geschichte des Arabischen Schrifttums, Vol.1. Leiden 1967. ان دو مصنّفین کی تحریروں کی اہمیت کے بارے میں دیکھیے سی۔جے۔ ایڈمز، ’’اسلامک ریلیجس ٹریڈیشن ‘‘ شمولہ لیو نارڈ بائینڈر (مرتب) ، دی سٹڈی آف دی مڈل ایسٹ،نیو یارک ۱۹۷۶ء ص ۶۶ تا ۶۹ ۔ گولڈ تسیھر اور شاخت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اور انھی رویوں پر مبنی ایک اور کتاب بھی شائع ہو چکی ہے ۔ دیکھیے: G. H. A Juynboll, Muslim Tradition in Chronology, Provenance and Authorship in Early Islam, Cambridge, London, New York, 1983. ۳- اسلامی عقائد کی ابتدائی تاریخ اور اس موضوع کے سلسلے میں احادیث کے کردار کے بارے میں اور بھی تحریریں سامنے آئی ہیں ۔ مثال کے طور دیکھیے : Josef van Ess, Zwischen Hadit und Theologie:Studien Zum Entstehten Pradistinationischer uder Lieferung, Berlin and New York, 1975. اس سلسلے میں مزید ملاحظہ ہو ۔ Michael Cook, Early Muslim Dogma:A Source Critical Study, Cambridge and New York: Cambridge University Press,1981. ایک حدیث ہی کیا ابتدائی اسلامی مصادر کے بارے میں مائیکل کک تشکیک کے معاملہ میں شاخت سے بھی آگے ہیں ۔ ۴ - جوزف شاخت،The Origins of Muhammadan Jurisprudence(فقہ اسلامی کا آغاز) تیسری اشاعت آکسفورڈ ، ۱۹۵۹ء صفحہ ۱۴۹ ۔ آئندہ سطور میں اس کتاب کا حوالہ ’’ آغاز فقہ ‘‘ کے طور پر دیا جائے گا ۔ ۵ - جوزف شاخت ،An Introduction to Islamic Law(فقہ اسلامی کا تعارف) ، لندن ۱۹۶۴ئ، صفحہ ۳۴ ۔ آئندہ سطور میں اس کا حوالہ ’’ تعارف اسلامی قانون‘‘ کے طور پر دیا جائے گا ۔ ۶ - آغاز فقہ،صفحہ ۱۴۰ بہ بعد۔محولہ بالا کتاب کے صفحہ ۱۴۲ پر شاخت نے ایک عنوان قائم کیا ہے : ’’ادزاعی اور مالک کے درمیانی عہد میں ظاہر ہونے والی احادیث ‘‘۔ یہاں شاخت کی اپنی پیش کردہ مثال سے اس کے اپنے ہی قائم کردہ مفروضوں میں سے ایک مفروضہ کی تردید ہوتی ہے ۔ جس پر شاخت نے اپنے استدلال کی بنیاد رکھی ہے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس موقع پر خود شاخت نے اس ضرورت کا احساس کیا ہے کہ ’’ دلیل سکوت کے استعمال میں احتیاط برتنے کی ضرورت ہے ‘‘ یہ الگ بات ہے کہ وہ خود اس ضمن میں بعض اوقات اپنے ہی بیان کردہ قاعدوں کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پہلی اور دوسری صدی ہجری کی آرا کے مطالعے کے سلسلے میں بعض اوقات شاخت نے وہ ماخذ استعمال کیے ہیں ، جو پہلی صدی کے کہیں بعد کے زمانے کے ہیں ۔ یہ اس کے اپنے ہی قائم کردہ منہاجی قاعدہ (حوالہ بالا صفحہ ۱۴۰) کی کھلی خلاف ورزی کے مترادف ہے ۔ اس سلسلہ میں چند مثالوں کا تذکرہ نا مناسب نہ ہو گا ۔ شاخت نے امام شیبانی کی بیان کردہ ایک دلیل کا حوالہ دیا ہے جو انھوں نے اپنے فقہی مذہب کی رائے کی تائید میں پیش کی تھی ۔ شاخت نے یہ حوالہ پانچویں صدی ہجری کے اواخر کی ایک تالیف یعنی المبسوط سرخسی (م ۴۸۳ھ) سے اخذ کیا ہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے شاخت لکھتے ہیں :’’ شیبانی نے اس دلیل کو ماہرانہ انداز میں آگے بڑھایا ہے اور یہاں ایک قانونی امتیاز قائم کیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ وہ دلیل ہے جو فی الواقع شیبانی نے دی تھی ‘‘ (آغاز فقہ صفحہ ۲۷۱) ایک دوسری مثال ملاحظہ فرمائیے۔ دوسری صدی ہجری کے ابتدائی دور سے منسوب ایک رائے کا حوالہ دینے کے لیے شاخت نے قاضی عیاض (م۵۴۴ھ) کو بنیاد بنایا ہے ۔اور یہ حوالہ زرقانی کی شرح موطا سے لیا گیا ہے (دیکھیے شاخت کی محولہ بالا کتاب صفحہ ۱۰۷) ۔ ایسی ہی بعض دوسری مثالوں کے لیے ملاحظہ ہو شاخت کی محولہ بالا کتاب کے صفحات ۲۷۳ اور ۳۰۳ وغیرہ ) ۔ ۷ - آغاز فقہ ،صفحہ ۲۷۱۔ ۸ - شاخت کے بیان کے مطابق فقہ اسلامی کی تاریخ کا تدوینی یا تحریری دور سن ۱۵۰ ہجری کے لگ بھگ شروع ہوتا ہے (دیکھیے اس کا مقالہ ’’ فقہ اسلامی کی نشو و نما ابتدائی دور اور ظہور اسلام سے قبل اس کا پس منظر ‘‘ ، مشمولہ ،مشرق وسطی میں قانون(انگریزی) مرتبہ ،ماجد خدوری اور جے۔ لیبسنی، واشنگٹن ڈی سی ، ۱۹۵۹ء ،جلد اول ، ص ۵ ۔ مارگولیوتھ کی رائے بھی بنیادی طور پر یہی ہے۔ (ڈی ۔ ایس ۔ مارگولیوتھ، محمدیت کی ابتدائی نشو ونما (انگریزی) لندن ، ۱۹۱۴ء صفحات ۳۹ و مابعد)۔ہماری رائے میں اگرچہ تدوین کتب کا کام اس دور سے کچھ پہلے شروع ہو چکا تھا تاہم اس زمانے کی کچھ ہی تصانیف دستبرد زمانہ سے بچ سکی ہیں ۔ مزید برآں بالکل ابتدائی مجموعے اور کتابیں بالعموم مختصر ہوتی تھیں اور ان میں وہ ترتیب اور تنظیم بھی نہ تھی جو بعد کی کتابوں میں پائی جاتی ہے ۔ جیسے جیسے زیادہ جامع تالیفات سامنے آتی گئیں یہ ابتدائی کتب زائد از ضرورت ہوتی گئیں اور ان میں سے بہت سی کتب رفتہ رفتہ منصہ شہود سے غائب ہو گئیں ۔ احادیث کے ابتدائی عہد کے لیے دیکھیے فواد سیزگین، محولہ ما قبل ، نیز دیکھیے محمد مصطفی الاعظمی، حدیث کے اولین عہد کے مطالعات ، (انگریزی) بیروت ، ۱۹۶۸ء ۔ ۹ - دیکھیے انصاری ’’کوفہ میں فقہ اسلامی کے ابتدائی نشو و نما کا ارتقا ‘‘ص ۶۲و مابعد، ص ۲۱۸ و بعد اور ۲۲۵ و مابعد ۔ ۱۰ - ایضاً ، ص ۱۹۲ اور باب ۴ نوٹ ۵۱۔ ۱۱ - مثال کے طور پر دیکھیے امام ابو یوسف، کتاب الآثار (قاہرہ ، ۱۳۵۵) حدیث نمبر ۱۰۴۸، اور اس کا مقابلہ کیجیے امام شیبانی کی کتاب الآثار (کراچی۔ ۱۹۶۰ئ) کی حدیث نمبر ۸۷۸۔(ان دونوں کتب کے حوالہ میں ہم نے صفحات کا نہیں ، بلکہ حدیث کے نمبروں کا حوالہ دیا ہے ) امام ابو یوسف نے ایک بات کی نبیؐ کے ایک قول کے طور پر درج کیا ہے جس کے راوی ابراہیم النخعی ہیں ۔ اسی قول کا اندراج امام شیبانی نے اپنی کتاب الآثار میں کیا ہے اور صرف ابراہیم نخعی کے قول کے طور پر کیا ہے اور اس ضمن میں رسول اکرم ؐ کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ اسی طرح ام ابو یوسف نے اپنی تالیف اختلاف ابی حنیفہ و ابن ابی لیلی،(قاہرہ، ۱۳۵۸) میں رسول اکرم ا کی ایک حدیث درج کی ہے (ملاحظہ ہو ص ۷۸۔۷۹)۔ ابو یوسف،نے جو امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد ہیں اپنی ایک دوسری کتاب، کتاب الآثار (حدیث نمبر ۷۳۸) میں اسی قول کو صرف امام ابو حنیفہ کے قول کے طور پر درج کیا ہے ۔ ۱۲ - یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ موطا امام مالک اور موطا امام شیبانی کے مابین یہ موازنہ اور اس سے اخذ کردہ نتائج بلا جواز ہیں اس لیے کہ موطا امام مالک تو دراصل وہ نسخہ ہے جو یحییٰ اللیثی (م۲۳۴ھ) نے مرتب کیا تھا ۔ بنابریں موطا امام مالک کو موطا امام محمد سے موخر قرار دینا دیا جانا چاہیے ۔ اس اعتراض کے بارے میں دو باتیں کہی جا سکتی ہیں ۔ اول تو یہ کہ خود شاخت نے موطا امام محمد کو موطا امام مالک سے موخر قرار دیا ہے اور اسی بنیاد پر کچھ نتائج اخذ کیے ہیں ۔ (دیکھیے آغاز فقہ ، ص ۱۴۳)۔ دوسرے یہ کہ اگر ہم موطا امام مالک کو موطا امام محمد سے موخر تسلیم کر لیں اور اس بنیاد پر اس کی روایات کا موطا امام محمدکی روایات سے موازنہ کریں تو جو نتائج برآمد ہوں گے ان سے شاخت کا وضع کردہ منہاج تحقیق کہیں زیادہ سنگین اعتراضات کی زد میں آ جائے گا ۔ ۱۳ - ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ امام محمد نے اپنی کتاب الحج(لکھنؤ ۱۸۸۰ء ، ص ۱ و مابعد)میں اپنے فقہی مذہب کی آرا کی تائید میںجہاں بہت سی دوسری روایات کی سند پیش کی ہے وہاں موطا امام مالک کی مذکورہ بالا روایت کا حوالہ بھی دیا ہے ۔ ۱۴ - اس روایت کا حوالہ نہ دینا اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ امام شیبانی اس روایت سے واقف نہیں تھے۔ اس لیے کہ خود انھوں نے اپنی کتاب الحج کے صفحہ ۲۸۹ پر یہ روایت عین اسی اسناد سے نقل کی ہے جو ہمیں موطا امام مالکمیں ملتی ہے اور پھر خود اپنی رائے کی بنیاد بھی اس روایت کو بنایا ہے۔ ہمارا دعویٰ بعینہ یہی ہے کہ یہ مفروضہ قطعاً بلا جواز ہے کہ ہر عالم ہر موقع پر ہر اس روایت کا حوالہ دینا ضروری خیال کرتا تھا جو اس کے علم میں تھی ۔ اسی طرح یہ فرض کرنے کی بھی کوئی بنیاد نہیں ہے کہ کسی عالم کی تحریر میں کسی روایت کا نہ ملنا اس بات کو مستلزم ہے کہ وہ روایت سرے سے موجود ہی نہ تھی ۔ ۱۵ - امام محمد بن الحسن شیبانی ، امام ابو یوسف سے کم عمر تھے اور امام ابو یوسف ان کے استاد بھی تھے۔ مزیدبراں امام محمد نے امام ابو یوسف کی تالیفات کی تدوین بھی کی اور خود انھی موضوعات پر یا امام ابو یوسف کی تالیفات پر مبنی کتابیں بھی تحریر کیں ۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امام ابو یوسف کی بیان کردہ روایات کی اچھی خاصی تعداد ایسی ہے جو ہمیں ان کی بعض تصانیف میں ملتی ہیں لیکن امام شیبانی کی اسی عنوان کی تصانیف میں موجود نہیں ۔ اس سے ان مفروضات کی صحت و صداقت کی کوئی بنیاد نہیں رہ جاتی جن کا ذکر ہم نے آغاز میں کیا ہے ۔ اب اگر یہ مفروضات ہی پایہ ثبوت کو نہ پہنچ سکیں تو شاخت کی ’’ دلیل سکوت‘‘ سرے سے بے بنیاد اور ناقابل اعتبار ہو جاتی ہے ۔ ۱۶ - ملاحظہ فرمائیے انصاری ، ’’ ابتدائی نشو و نما ‘‘ باب چہارم ، حاشیہ نمبر ۱۱۵، ۱۱۶ اور ۱۲۰ ۔ ۱۷- احادیث یا احادیث کے اسناد بھول جانے یا ان احادیث پر مشتمل کتب کے تلف ہو جانے ، یا اپنے علم میں موجود سبھی روایات کے حوالہ نہ دینے کا تذکرہ اگر صراحت سے دیکھنا ہو تو ملاحظہ ہو کتاب الخراج (ص ۵۷) اور امام شافعی کا الرسالہ(مرتبہ احمد محمد شاکر ، قاہرہ ، ۱۹۴۰ء ص ۴۳۱)۔ اس ضمن میں امام شافعی کے مندرجہ ذیل باتیں قابل غور ہیں ۔ امام شافعیؒ کا کہنا ہے کہ : الف- اپنی کتاب میں انھوں نے کتنی ہی احادیث کو مقطوع یا غیر متصل کے طور پر درج کیا ہے جبکہ ان تک وہ متصل اور مشہور کی حیثیت سے پہنچی تھیں ۔ انھوں نے بہتر یہ جانا کہ پوری طرح یاد نہ رہنے کی وجہ سے ان کو غیر متصل روایات کے طور پر ہی درج کر دیں ۔ ب- ان کی متعدد تالیفات ضائع ہو گئیں لہٰذا ان میں درج جو احادیث ان کو یاد رہ گئیں ان کی تصدیق دیگر علما سے کروائی گئی ۔ ج - بہت سی روایات اس خوف سے حذف کر دی گئیں کہ کتاب کی ضخامت بہت بڑھ جائے گی۔ امام شافعی کے بقول بس اتنا ہی درج کیا گیا جو ضروری تھا اور ساری معلومہ احادیث کا حوالہ دینے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ ملاحظہ ہو امام شافعی کی کتاب الام (۷ مجلدات) بولاق، ۱۳۲۱، جلد ششم ، ص ۳ ۔ و ص ۱۷۲ نیز جلد ہفتم ، ص ۴۱ ۔۵۶ ئ…ئ…ء ’’…زنجیر پڑی دروازے میں!…‘‘ باب اجتہاد بند ہونے کے بارے میں اختلافی آرا کا ایک جائزہ اسلام کے بارے میں اہلِ مغرب کی تحقیق و تصنیف میں شروع سے ایک رجحان بہت عام تھا۔ بابِ اجتہاد کے بند ہونے کے حوالے سے بہت باتیں کی جاتی تھیں اور ان میں نیت یہ رہتی تھی کہ اس نکتے کو اسلامی قانون کے جامد ہونے کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جائے اور یہ باور کروا یا جائے کہ اسلام کی وجہ سے قانونی اور فقہی سوچ بے کار اور بے اثر ہو گئی۔ مغربی اہلِ علم اپنی تحریروں میں یہ جتانے کی عموماً کوشش کرتے رہے ہیں کہ ان جیسے جدید انسان تو نہایت فعال، متحرک اور زیرک ہوتے ہیں جب کہ گزرے ہوئے وقتوں کے لوگ کچھ دوںنظر، کم فہم اور تیزیِ ادراک سے محروم ہوتے تھے۔ آج کل کے لکھنے والے اس طرح نہیں سوچتے۔ انھیں احساس ہو چلا ہے کہ ان پرانی تحریروں میں سے بہت سی آرا دُون کی لینے اور اپنی داد آپ دینے کے عملِ خودستائی کاشاخسانہ ہیں۔ غیر مغربی معاشروں کے بارے میں صادر کیے گئے یہ فیصلے درمدحِ خود کی ذیل میں آتے ہیں۔ چنانچہ بنیادی مآخذ کی دوبارہ پرکھ پڑتال آج کے اہلِ علم کا شیوہ ہونا چاہیے۔ نتیجہ یہ کہ اسلام کی قانونی اور فقہی فکر کے بارے میں اب یہ کہا جانے لگا ہے کہ اس کے کئی شعبوں میں بہت فعالیت اور فکری سرگرمی جاری رہی ہے بالخصوص جن معاملات میںنئے نئے سوالات اور تغیر پذیر حالات سے سابقہ پڑتا رہا ہے۔ تاریخ کے اتار چڑھائو اور عمل تغیر سے حالات میں تبدیلی واقع ہونا ایک فطری چیز ہے۔۱؎ خود ہمارے ہاں بھی اس سلسلے میں رویوں کی تبدیلی کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ زیر نظر تحریر میں علامہ اقبال کے حوالے سے اس بدلتے فکری منظر نامے کے ایک گوشے پر کچھ عرض کرنا مقصود ہے۔یہ نکتہ اب اقبالیات کی ’’معلومات عامہ‘‘ کا حصہ بن چکا ہے کہ علامہ اقبا ل کے خطبات تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کی تحریر کی تحریک گو جنوب ہند سے آنے والی فرمائش سے ہوئی تھی۲؎ ۔ مگر اس کا نقطۂ آغاز فقہِ اسلامی یا اسلامی قانون کے بارے میں ابھرنے والے ایسے ہی ایک سنگین سوال کو قرار دیا جاتا ہے۔ سوال یہ تھا کہ کیا اسلامی قانون اپنے اصول و قواعد کے اعتبار سے ہی بے لچک اور تغیر و تبدل اور نشو و نما کے امکانات سے عاری ہے اور اس کی ساخت میں کوئی اصولِ حرکت موجود ہی نہیں یا پھر مرورِ وقت نے اس کے بارے میں یہ رویہ اور طرزِ عمل پیدا کر دیا ہے جب کہ اصلاً اس میں لچک، ہمہ گیری اور بدلتے ہوئے حالات اور نئے سوالات کے مقابل نمو اور ترقی کی استعداد موجود ہے۔۳؎ علامہ کا جواب بھی معروف ہے: اصولِ حرکت موجود ہے اور اصطلاحی الفاظ میں اسے ’’اجتہاد‘‘ کہا جاتا ہے۔ علامہ کے تصورِ اجتہاد کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے،۴؎ اس کا تجزیہ ہمارے پیش نظر نہیں۔ علامہ نے اجتہادکے مسئلے پر تشکیل جدید میں جو بحث کی ہے اس سے قارئین کو روشناس کروانا بھی سردست مقصود نہیں۔ ہم اس مقالے میں ایک خاص نکتے کے بارے میں تلاش اور تحقیق کے چند نتائج آپ کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔ اسلامی قانون کے اصولِ حرکت یعنی ’’اجتہاد‘‘ پر بحث کرتے ہوئے علامہ نے ایک فقرہ لکھا تھا:۵؎۔ "The closing of the door of Ijtihad is pure fiction ....." (باب اجتہاد کے بند ہونے کی بات نرا افسانہ ہے) علامہ کے ناقدین اور مداحوں نے حسبِ درجاتِ عداوت و عقیدت اس بیان کو، بالترتیب ، ہدفِ تنقید اور موردِ تحسین قرار دے لیا۔ معترضین نے اسے صحتِ فکر سے دور ، مسلّماتِ فقہِ اسلامی سے انحراف اور ’’اکابر‘‘ کے نقطۂ نظر کے خلاف بتایا۔ اقبال شناسوں کی اکثریت نے، حسب معمول ، مسئلے کے علمی پس منظر اور تاریخ سے خالی الذہن ہو کر اسے ایک انوکھے خیال کے طور پر قبول کیا جو ان کی دانست میں علامہ نے پہلی مرتبہ پیش کیا تھا! دونوں فریق جادۂ اعتدال سے ہٹ گئے۔ اوّل الذکر کی کم نگاہی نے اسے اپنے ہی خزینۂ علم و دانش میں اس موقف کی موجودگی کا ادراک نہ ہونے دیا اور وہ اہل علم کی تحریروں میں اس کی عہد بہ عہد بازگشت کو بھی شاید شناخت نہ کر پائے۔ مؤخرالذکر کے جوشِ عقیدت نے اسے اتنا مخلّٰی بالطبع لیکن محلّٰی بالسخن کر دیا کہ وہ علامہ کا شرفِ اولیت بیان کرنے کی سرشاری میں یہ دیکھنا بھول گئے کہ دیگر اور بہت سے معاملات کی طرح ۶؎ یہاں بھی علامہ کوئی طبع زاد اور اچھوتا خیال نہیں پیش کر رہے۔یہ بیان علامہ کی وسعتِ مطالعہ اور بالغ نظری کی دلیل تو ضرور ہے مگر فقہِ اسلامی میں اسے ہر گز کوئی انوکھی رائے قرار نہیںدیا جا سکتا۔ اس شعبۂ علم کے جیّد علما میں بہت سے اصحاب کی رائے یہی رہی ہے اور آج بھی اس رائے کے حامل اربابِ فقہ بڑی تعدادمیں موجودہیں۔ ہندوستان کی علمی فضا میں بعض اسباب کی بنا پر چونکہ ایک دوسری رائے کا غلبہ ہو گیا تھا لہٰذا علامہ نے اس عدم توازن کو دور کرنے کے لیے یاد آوری کا فریضہ انجام دیا اور بروقت انجام دیا۔ فقہ اسلامی کے جادئہ علم پر اس رائے کے نقش پا دیکھنے سے پہلے یہ دیکھنا مناسب ہوگا کہ علامہ اقبال نے یہ موقف کس سیاق و سباق میں بیان کیا؟ ذیل میں تشکیل جدید کا متعلقہ مبحث ایک ترتیب سے درج کیا جا رہا ہے۔۷؎ ۔ ترجمے کے لیے مقالے کے حواشی و تعلیقات سے رجوع کیجیے۔ The ultimate spiritual basis of all life, as conceived by Islam, is eternal and reveals itself in variety and change. A society based on such a conception of Reality must reconcile, in its life, the categories of permanence and change. It must possess eternal principles to regulate its collective life, for the eternal gives us a foothold in the world of perpetual chance. But eternal principles when they are understood to exclude all possibilities of change which, according to the Qur'an, is one of the greatest 'signs' of God, tend to immobilize what is essentially mobile in its nature. The failure of the Europe in political and social sciences illustrates the former principle, the immobility of Islam during the last five hundred years illustrates the latter. What then is the principle of movement in the structure of Islam? This is known as Ijtihad.7:1(p.117)....... ......with the political expansion of Islam systematic legal thought became an absolute necessity, and our early doctors of law, both of Arabian and non-Arabian descent, worked ceaselessly until all the accumulated wealth of legal thought found a final expression in our recognized schools of Law. These schools of Law recognize three degrees of Ijtihad: (1)complete authority in legislation which is practically confined to the founders of the schools, (2)relative authority which is to be exercised within the limits of a particular school, and (3)special authority which relates to the determining of the law applicable to a particular case left undetermined by the founders. In this paper I am concerned with the first degree of Ijtihad only, i.e. complete authority in legislation. The theoretical possibility of this degree of Ijtihad is admitted by the Sunnis, but in practice it has always been denied ever since the establishment of the schools, in as much as the idea of complete Ijtihad is hedged round by conditions which are wellnigh impossible of realization in a single individual.7:2 Such an attitude seems exceedingly strange in a system of law based mainly on the ground work provided by the Qur'an which embodies an essentially dynamic outlook on life. It is, therefore, necessary, before we proceed further, to discover the causes of this intellectual attitude which has reduced the Law of Islam practically to a state of immobility.(p.118)......... For fear of further disintegration, which is only natural in such a period of political decay, the conservative thinkers of Islam focused all their efforts on the one point of preserving a uniform social life for the people by a jealous exclusion of all innovations in the law of Shari'a as expounded by the early doctors of Islam(p.120)......... But they did not see, and our modern Ulema do not see, that the ultimate fate of a people does not depend so much on organization as on the worth and power of individual men(p.120)........ Thus a false reverence for past history and its artificial resurrection constitute no remedy for a people's decay7:3(p. 120)....... The only effective power, therefore, that counteracts the forces of decay in a people is the rearing of self-concentrated individuals. Such individuals alone reveal the depth of life. They disclose new standards in the light of which we begin to see that our environment is not wholly inviolable and requires revision (p.120)........ Passing on to Turkey, we find that the idea of Ijtihad, reinforced and broadened by modern philosophical ideas, has long been working in the religious and political thought of the Turkish nation.(p.121)....... Muslim Countries today.... are mechanically repeating old values, whereas the Turk is on the way to creating new values. He has passed through great experiences which have revealed his deeper self to him. In him life has begun to move, change, and amplify, giving birth to new desires, bringing new difficulties and suggesting new interpretations. The question which confronts him today, and which is likely to confront other Muslim countries in the near future is whether the Law of Islam is capable of evolution-a question which will require great intellectual effort, and is sure to be answered in the affirmative..............the appearance of liberal ideas in Islam constitutes also the most critical moment in the history of Islam. Liberalism has a tendency to act as a force of disintegration, and the race-idea which appears to be working in modern Islam with greater force than ever may ultimately wipe off the broad human outlook which Muslim people have imbibed from their religion. Further, our religious and political reformers in their zeal for liberalism may overstep the proper limits of reform in the absence of check on their youthful fervour.(p.129)......... I now proceed to see whether the history and structure of the Law of Islam indicate the possibility of any fresh interpretation of its principles. In other words, the question that I want to raise is---Is the Law of Islam capable of evolution? (p.130). I have no doubt that a deeper study of the enormous legal literature of Islam is sure to rid the modern critic of the superficial opinion that the Law of Islam is stationary and incapable of development. Unfortunately, the conservative Muslim public of this country is not yet quite ready for a critical discussion of Fiqh, which, if undertaken, is likely to displease most people, and raise sectarian controversies; yet I venture to offer a few remarks on the point before us....... Secondly, it is worthy of note that from about the middle of the first century up to the beginning of the fourth not less than nineteen schools of law and legal opinion appeared in Islam. This fact alone is sufficient to show how incessantly our early doctors of law worked in order to meet the necessities of a growing civilization. With the expansion of conquest and the consequent widening of the outlook of Islam these early legists had to take a wider view of things, and to study local conditions of life and habits of new peoples that came within the fold of Islam.7:4A careful study of the various schools of legal opinion, in the light of contemporary social and political history, reveals that they gradually passed from the deductive to the inductive attitude in their efforts at interpretation......... Thirdly, when we study the four accepted sources of Muhammadan Law and the controversies which they invoked, the supposed rigidity of our recognized schools evaporates and the possibility of a further evolution becomes perfectly clear.(p.131).. It think, favourable to the interest of the Umayyad and the Abbaside Caliphs to leave the power of Ijtihad to individual Mujtahids rather than encourage the formation of permanent assembly which might become too powerful for them. It is, however, extremely satisfactory to note that the pressure of new world-forces and the political experience of European nations are impressing on the mind of modern Islam the value and possibilities of the idea of Ijma. The growth of republican spirit and the gradual formation of legislative assemblies in Muslim lands constitute a great step in advance. The transfer of the power of Ijtihad from individual representatives of schools to a Muslim legislative assembly which, in view of the growth of opposing sects, is the only possible form Ijma' can take in modern times, will secure contributions to legal discussion from laymen who happen to possess a keen insight into affairs7:5. In this way alone can we stir into activity the dormant spirit of life in our legal system, and give it an evolutionary outlook. (p.138)............ Thus the school of Abu Hanifa which fully assimilated the results of this controversy is absolutely free in its essential principle and possesses much greater power of creative adaptation than any other school of Muhammadan Law. But, contrary to the spirit of his own school, the modern Hanafi legist has eternalized the interpretations of the founder or his immediate followers much in the same way as the early critics of Abu Hanifah eternalized the decisions given on concrete cases. Properly understood and applied, the essential principle of this school, i.e. Qiyas, as Shafi,i rightly says, is only another name for Ijtihad which, within the limits of the revealed texts, is absolutely free; and its importance as a principle can be seen from the fact that, according to most of the doctors, as Qadi Shaukani tells us, it was permitted even in the lifetime of the Holy Prophet. The closing of the door of Ijtihad is pure fiction suggested partly by the crystallization of legal thought in Islam, and partly by that intellectual laziness which, especially in the period of spiritual decay, turns great thinkers into idols. If some of the later doctors have upheld this fiction,7:6 modern Islam is not bound by this voluntary surrender of intellectual independence. Zarkashi writing in the eighth century of the Hijrah rightly observes: If the upholders of this fiction mean that the previous writers had more facilities, while the later writers had more difficulties, in their way, it is, nonsense; for it does not require much understanding to see that ijtihad for later doctors is easier than for the earlier doctors. Indeed the commentaries on the Koran and sunnah have been complied and multiplied to such an extent that the mujtahid of today has more material for interpretation than he needs. This brief discussion, I hope, will make it clear to you that neither in the foundational principles nor in the structure of our systems, as we find them today, is there anything to justify the present attitude. Equipped with penetrative thought and fresh experience the world of Islam should courageously proceed to the work of reconstruction before them.7:7 (p.141-142). مذہب اسلام میں مسئلہ ’’قانون سازی‘‘ کی بنیاد شریعت کے تصریحی احکام کے بعد تمام تر اتحادواتفاق و آراے جمہور ملت کے بنیادی اصول پر قائم ہے۔۸:۷؎ ان میںسے کوئی رائے بھی انوکھی نہیں، کوئی موقف طبع زاد اور اچھوتا نہیں۔ علامہ نے بس دو آرا میں سے ایک کو مصلحتِ وقت ، امت کے مجموعی مفاد اور دنیاوی بہبود اور دینی فلاح کے لیے بہتر گردانا، اس کی وکالت کی اور اسے مسلمانوں کے لیے مفید تر قراردیا ہے اور اس کی افادیت پر نظری اور عملی دلائل قائم کر کے اسے ایک قابل فہم اور معاصر علمی اسلوب میں بیان کیا ہے۔ ان کے موقف کو علما کی تائید حاصل ہے اور ان کی رائے جیّد فقہا کے دلائل کی قوت پر استوار کی گئی ہے۔ اس اجمال کی تفصیل کے لیے ضرورت ہے کہ اسلامی قانون کے ماضی و حال کے بارے میں کچھ نکات پر از سر نو ایک نظر ڈالی جائے اور تاریخ فقہِ اسلامی کے کچھ اہم مراحل کے بارے میں بعض امور کو وضاحت سے سامنے لایا جائے۔ فقہِ اسلامی اور قانونی فکر کا نقطۂ کمال اور حتمی مراحل عام طور پر یہ بات تسلیم کر لی گئی ہے کہ ابتدائی تین سو سال میں فقہِ اسلامی نے اپنی نشو و نما اور عروج کے سارے مراحل طے کر لیے تھے ۔ اس دور کے آخر تک آتے آتے اسے اپنی حتمی حیثیت مل چکی تھی، اسلامی قانون کو جو بننا تھا وہ بن چکا تھا۔ یہ ایک مزعومہ بات ہے اور تاریخی حقائق کی کسوٹی پر پوری نہیں اترتی۔ لہٰذا بہت سے قارئین کے لیے باعث تعجب ہو گا اگر یہ کہا جائے کہ فقہ اور اصولِ فقہ کے فنی مباحث اور اسلامی قانون کی تدوین کو جو وسعت، گہرائی اور گیرائی ان صدیوں کے بعد بالخصوص پانچویں، چھٹی؍ گیارہویں، بارہویں صدی میں جا کر میسر آئی وہ اس سے پہلے اسے حاصل نہ تھی۔ اس دور کے بعد قانون سے متعلق مباحث، تنقیح، توضیح اور ترقی کے عمل سے گذر کر جتنے پُرکار اور فنی مہارت سے مملو ہو جاتے ہیں وہ پہلے ہرگز نہ تھے، مثال کے طور پر فقہِ حنبلی کو لیجیے۔ تیسری صدی ہجری کے اختتام ؍دسویں صدی عیسوی کے آغاز سے قبل فقہِ حنبلی کی تفصیل اور تدوینِ فروع اور ترتیبِ اصولِ فقہ کا آغاز ہی ممکن نہ ہو سکا اور جہاں تک اس کی حتمی حیثیت قائم ہونے اور فنی باریکیاں مرتب کرنے کا تعلق ہے تو اس کی نوبت تو کہیں ساتویں؍تیرہویں صدی میں جا کر آئی جب ابن قدامہ کی نو جلدوں پر مشتمل کتاب المغنی منظر عام پر آئی۔۸؎یہی نہیںبلکہ حنابلہ سے قدیم تر مکتبِ فکر ، مثلاً حنفی مکتب فقہ میں بھی پانچویں؍ گیارہویں اور چھٹی ؍بارہویں صدیوں کے دوران تدوینِ فروع اور اصولِ فقہ کی ترتیب و تنقیح کا کام اتنے وسیع پیمانے پر سامنے آیا جو اس سے قبل موجود نہیں تھا۔۹؎ یہاں اتنا اشارہ کافی ہوگا کہ علاء الدین سمرقندی (م۔۵۳۹ھ ؍۱۱۴۴ئ)اور کاسانی(م۔ ۵۸۷ھ ؍۱۱۹۱ئ)کی تالیفات تو رہیں ایک طرف، قدوری(م۔۴۲۸ھ؍ ۱۰۳۶ئ) سرخسی(م۔۴۹۰ ھ ؍۱۰۹۶ئ) کی مدوّن کردہ ’’کتبِ فروع‘‘ جیسی ثانوی مؤلفات کو بھی حنفی فقہ کی سابقہ کتب کے مقابلے میں ایک بڑی پیشرفت قرار دیا جا سکتاہے۔۱۰؎ بنابریںکہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں یہ جو مستشرقین کی چلتی ہوئی آرا بے احتیاطی سے دہرا دی جاتی ہیں وہ علمی دیانت کے منافی اور بے تحقیق بات ہے۔ مثلاًکولسن نے اڑا دیا کہ۱۱؎ ’’دسویں صدی (یعنی چوتھی صدی ہجری) کے بعد سے فقہا کا کام بس یہ رہ گیا تھا کہ وہ گزرے ہوئے علما اور اپنے ائمۂ فقہ کی کتابوں کی شرح در شرح کرتے رہا کریں ‘‘یا یہ کہ قدوری، سرخسی ، علاء الدین سمرقندی اور کاسانی جیسے شارحینِ فقہ کی تحریریں ’’ایک غلامانہ تقلید کی غماز ہیں، نہ صرف سابقہ کتبِ فقہ کے موضوع اور مواد کی بلکہ ان میں مندرج اصولِ فقہ کی ہیئت اور داخلی تنظیم کی بھی۔‘‘۱۲؎ یہ ایک غیر معقول بات ہے۔ نہ تاریخی شہادتوں سے پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے نہ تنقید کی میزان پر پوری اترتی ہے، پھر بھی بلا سوچے سمجھے دہرا دی جاتی ہے۔ اہل علم کی تحقیق اس رائے کے ساقط الاعتبار ہونے پر وافر دلائل فراہم کر چکی ہے۔۱۳؎ اسی بات پر ایک اور پہلو سے بھی غور کر لیجیے اور چاہیں تو اسے بطورِ دلیل بھی سامنے رکھ لیں۔ دینی مدارس کی نصابی کتب ہوں یا معاصر اور گذرے ہوئے علما کی تحریریں، آخر کیا وجہ ہے کہ ان دونوں میں کہیں پرانی کتبِ فقہ اور اصولِ فقہ کا حوالہ نظر نہیں آتا۔ کسی خاص دور میں تدوینِ فقہ یا فقہی مباحث کی نشوو نما پر تحقیق کے ضمن میں تو اہلِ علم ان کتب سے بغرضِ استشہاد رجوع کرتے ہیں لیکن نہ ان کو تدریس میں استعمال کیا جاتا ہے نہ اس موضوع پر علمی تحریروں میں ان کے حوالے نظر آتے ہیں! حنفی ہوں یا شافعی، حنبلی ہوں یا مالکی، جعفری ہوں یا ظاہری؍سلفی سبھی مکاتبِ فکر کے لوگ درسِ نظامی اور اس کے متبادل دیگر نظام ہائے تدریس میںمتاخرین کی کتابیں ہی استعمال کرتے ہیں۔ تدریس مقصود ہو تو فقہِ حنفی کے دائرے میں قدوری کی المختصر یا مرغینانی کی الھدایہ تجویز کی جاتی ہے اور تصنیف ، تالیف اور فقہی مباحث پر تحقیق پیش نظر ہو تو سرخسی کی المبسوط کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ یہی کیفیت دیگر مکاتبِ فقہ کی بھی ہے۔ یہ نام ہم نے صرف نمایندہ متون کے طور پر پیش کیے ہیں، علاقے اور زمانے کے لحاظ سے ان میں بہت تنوع ملے گا تاہم ان کے انتخاب کی تَہ میں جو اصولی بات مشترک ہے اور جسے ہم بطور دلیل یہاں آپ کے سامنے لا رہے ہیں، وہ یہی ہے کہ چونکہ اسلامی قانون ، اصولِ فقہ اور تدوینِ فروع کے میدانوں میں نشوونما اور ترقی کا عمل عہد بہ عہد جاری رہا تھا لہٰذا متاخرین کی تالیفات زیادہ جامع، فنی طور پر زیادہ سلجھی ہوئی، منظم اور موضوع کا گہرائی اور گیرائی سے احاطہ کرنے میں زیادہ مؤثر تھیں لہٰذا انھی کو زیادہ استعمال کیا جاتا رہا اور آج بھی کیا جا رہا ہے۔ یہ صرف اسلوبِ تحریر اور پیشکش کی بہتر صورت کا معاملہ نہیں، محض سہل الحصول اور استعمال میں آسان ہونے کی بات نہیں، اس کا سبب کچھ اور ہے اور وہ سبب یہی ہے کہ متاخرین کی کتابیں زیادہ پختگیِ فکر رکھتی ہیں اور فقہِ اسلامی کے ارتقا کے حتمی مراحل کی نمایندہ ہیں۔ بنابریں یہ امر ثابت ہو چکا ہے کہ علمی اور عملی دونوں سطحوں پر اجتہاد کا عمل اس سارے دور میں پورے تسلسل سے جاری رہا اور اس میں کوئی انقطاع واقع نہیں ہوا۔ مزید برآں ہر دور میںعلمائے مجتہدین موجود رہے ہیں اور یہ ایک ایسی چیز ہے جس کے وافر داخلی شواہد ہر دور کے فقہی ذخیرۂ کتب میں بہ آسانی دستیاب ہو جاتے ہیں۔ سو اگر چوتھی؍ دسویں اور پانچویں ؍ گیارہویں صدی کے علمی مآخذ اور فقہی مصادر کھنگالنے کے باوجود (بہ استشنائے کتاب الفنون از ابن عقیل۱۴؎۔)’’انسداد باب الاجتہاد‘‘ (باب اجتہاد بند ہوا)کا فقرہ کہیں نظر نہ آئے تو اس پر تعجب کیسا یا اگر عملِ اجتہاد کے رک جانے کا کہیں ذکر نہ ملے تو اس پر حیرت کیوں؟۱۵؎۔ نیز اگر علامہ اقبال یہی بات تشکیل جدید میں ہمارے گوش گذار کریں تو انھیں مورد طعن و تعریض کیوں بنایا جائے؟ بابِ اجتہاد بند ہونے کا تصور ---- آغاز اور اختلاف سطورِ بالا میں اہل علم کی تحقیق کا ایک نتیجہ قارئین کے سامنے رکھا گیا تھا، کہ اسلامی تاریخ کی پہلی پانچ صدیوں میں عملِ اجتہاد پوری سرگرمی اور تسلسل کے ساتھ علمی اورعملی دونوں سطحوں پر بلا انقطاع جاری رہا اور بابِ اجتہاد بند ہونے کا تصور بھی اس زمانے تک ابھی مسلم دنیا کے آنگن میں وارد نہیں ہوا تھا۔ آئیے اب ذرا آگے بڑھ کر یہ دیکھیں کہ تاریخِ اجتہاد کے بعد کے ادوار میں یہ خیال مسلمانوں کے فکری افق پر کب نمودار ہوا اور جب پانچویں ؍گیارہویں صدی کے آخر (بلکہ زیادہ امکان ہے کہ چھٹی؍ بارہویں صدی کے آغاز) میں یہ رائے ایک حلقے کی طرف سے پہلی مرتبہ ظاہر کی گئی تو اس پر کیساکیسا اختلافی رویہ سامنے آیا۔ جب پہلی مرتبہ یہ کہا گیا کہ بابِ اجتہاد بند ہو چکا ہے اور مجتہد اب موجود نہیں رہے تو اس وقت یہ رائے مسلم ذہن کے لیے اتنی اجنبی تھی کہ علما کی اکثریت نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ یہی نہیںبلکہ اس اختلافی رد عمل کے دائرہ در دائرہ پھیلتے ہوئے اثرات نے اس نکتے پر مسلم فکر کو آج تک کسی اجتماعی رائے پر قائم نہیں ہونے دیا۔ اسی سے ضمناً یہ بات بھی وضاحت سے سامنے آئے گی کہ اجتہادی عمل عہد جدید کے آغاز تک تسلسل سے جاری رہا ہے اور حقِ اجتہاد کا دعویٰ اور تقلید پر اجتہاد کی فوقیت کی بحث بھی مسلم فکریات خصوصاً فقہی حلقوں میںہمیشہ اٹھائی جاتی رہی ہے۔ قانونی مباحث اور فقہی تحریروں میں ’’باب‘‘ کا لفظ اصطلاحی طور پر عموماً ’’راستہ‘‘ طرز عمل اور طریقے‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لہٰذا ’’سد باب الطلاق‘‘ کے الفاظ کا مطلب ہوگا‘‘،’’طلاق کا راستہ بند کرنا‘‘یا ’’طلاق کور وک دینا۔‘‘۱۶؎ اسی طرح ’’انسد باب القیاس‘‘ کا ترجمہ ہوگا’’قیاس کا راستہ مسدود ہو چکا۔‘‘عربی مصدر ’’سد‘‘ کے بابِ انفعال یعنی ساتویں اشتقاق ’’انسداد ‘‘ اور اس کی فعلی صورت ’’انسد‘‘ میں فاعل متعین نہیں ہوتا۔ اس پہلو سے دیکھیے تو ’’انسد باب الاجتہاد‘‘ (بابِ اجتہاد بند ہو چکا) کا فقرہ یہ نہیں بتاتا کہ اجتہاد کا دروازہ اصل میں بند کس نے کیا ہے! دوسری طرف یہ دیکھیے کہ ہمارے فقہی ذخیرے میں یہ بات سرے سے ناپید ہے کہ کبھی کسی نے اجتہاد روکنے یا عملِ اجتہاد موقوف کرنے کا مطالبہ کیا ہو۔۱۷؎ وہاںبحث یہ چلتی رہی کہ اہلِ علم فقہا کے اٹھ جانے یا صاحبِ نظر فقیہوں کے فقدان سے اجتہاد کا عمل رک سکتا ہے تو کیا اس بات کا امکان ہے کہ کسی زمانے میں امت میں مجتہدین کا وجود نہ رہے اور اجتہاد کا فرض کفایہ انجام دینے کے لیے کوئی عالم میسر نہ آئے؟ اصولِ فقہ کی کتابوں میں جو سوال اکثر اٹھایا جا تا رہا ہے وہ یہ تھا کہ کیا عقلی طور پر یا شرعی طور پر یہ ممکن ہے کہ کوئی ایسا زمانہ آن لگے جب مجتہدین ہی مفقود ہو جائیں؟۔۱:۱۷؎ ’’بابِ اجتہاد کے بند ہونے‘‘ کے تصور کا تو کوئی بالواسطہ حوالہ بھی نہیں ملتا۔ غالباً اس کی وجہ یہ رہی ہو گی کہ علمائے اصولِ فقہ بطور پاسبانِ قانونِ اسلامی اپنایہ فریضہ سمجھتے تھے کہ عملِ اجتہاد جاری رہے۔ ان کے لیے ’’بابِ اجتہاد بند ہونے ‘‘ کا تصور ہی اصولِ فقہ کے سراسر منافی تھا کیونکہ اصولِ فقہ وہ منہاجِ فکر اور طریقِ عمل ہے جس کے استعمال سے احکاماتِ شریعت معلوم کیے جاتے ہیں اور قانون کے مآخذ پر غور و فکر کر کے منشائے خداوندی کو معین کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ یہ محض ایک نظری بحث بھی نہیں تھی۔ اس کا ایک بہت اہم عملی پہلو بھی نگاہ میں رہنا چاہیے جس کی طرف ہر مکتب فکر کے علما ہر زمانے میں اشارہ کرتے رہے ہیں ۔ وہ پہلو یہ ہے کہ اگر کسی زمانے میں کوئی مجتہد باقی نہ رہے تو کم تر درجے کے علما کی رہنمائی کون کرے گا، فتویٰ کون دے گا اور نئے اٹھنے والے سوالات کا حل کون تلاش کرے گا۔ اسی وجہ سے ابن عقیل نے تاکیداً لکھا تھا کہ ہر زمانے میں کم از کم ایک مجتہد کا وجود ہونا لازمی ہے تا کہ مسلم امت کے مصالح کی نگرانی ہو سکے، اس کی علمی ضرورتیں پوری ہو سکیں اور ان مسائل کا شرعی؍ قانونی جواب دیا جا سکے جو نئے حالات اور تغیراتِ وقت کے ساتھ پیدا ہوتے رہتے ہیں۔۱۸؎ یہی اصولی موقف اس مباحثے ؍مناظرے میں صاف نظر آتا ہے جو ابن عقیل اور بغداد کے ایک حنفی فقیہ کے مابین برپا ہوااور جس میں (ہماری معلومات کی حد تک) پہلی مرتبہ ’’بابِ اجتہاد کے بند ہونے‘‘ کا حوالہ ملتا ہے۔ چونکہ ہمارے پیش نظر موضوع کے لیے یہ بحث خاصی اہمیت رکھتی ہے لہٰذا ہم قدرے طویل اقتباس یہاں نقل کر رہے ہیں:۱۹؎ حنفی فقیہ کا قول ہے ’’مجتہد رہے کہاں ہیں؟ ‘‘ سو اب مسئلہ یہ ہے کہ باب قضا (بمعنی اجتہاد) بند ہو چکا۔‘‘ حنبلی فقیہ (ابن عقیل) نے فوری طور پر دو مسکت جوابات پیش کیے۔ اس کی پہلی دلیل یہ تھی کہ ’’اگر بابِ قضا اس لیے بند ہو چکا کہ قاضی کے لیے مجتہد ہونا لازم ہے تو پھر بابِ قضا اس لیے بھی بند متصور ہوگا کہ آپ کے دعوے کے مطابق غیر مجتہد قاضی کا فتویٰ ؍ حکم اس وقت تک جائز نہ ہوگاتاآنکہ کوئی مجتہد اس کی توثیق نہ کر دے۔ اگر آپ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اب مجتہد باقی نہیں رہے اور قاضیوں کی رہنمائی مجتہد کے وجود کا تقاضا کرتی ہے اور اس کے ساتھ آپ آج جو فتوے؍احکامات دیے جا رہے ہیں ان کو ناجائز بھی نہیں قرار دیتے ---- تو پھر وہ مجتہد جو غیر مجتہد کے فتوے کی توثیق کرے گا آپ کے دعوے کا ابطال کردے گا کہ مجتہدوں کا وجود اَب باقی نہیں رہا ----‘‘ حنفی فقیہ کا دعویٰ ایک اور وجہ سے بھی باطل ہے۔ اگر آپ سے پوچھا جائے کہ کیا اجماع کسی زمانے میں معطل ہو سکتا ہے تو آپ کا کیا جواب ہوگا؟ اگر آپ یہ کہیں کہ ہاں یہ ممکن ہے تو آپ نے یکے از مآخذِ شریعت کو معطل کر دیا اور آپ پر یہ ماننا لازم ٹھہرا کہ اللہ تعالیٰ نے مصادرِ شریعت میںسے ایک ناقابل خطا مأخذ کواس دنیا سے اٹھا لیا---- دوسری طرف اگر آپ یہ کہیں کہ اجماع ہمیشہ ہوتا رہے گا تو آپ سے سوال کیا جائے گا کہ : کیا مجتہدین کا اجماع ایک ایسے زمانے میں وقوع پذیر ہو سکتا ہے جسں میںمجتہدوں کا وجود ہی باقی نہ رہا ہو؟ آپ کا دعویٰ، بنابریں، غلط اور باطل ہے۔ ایک اور تحریر میں ابن عقیل نے یہ بھی کہا کہ ’’کوئی زمانہ ایسا ہو نہیں سکتا جو کسی مجتہد سے خالی ہو۔ یہ بات ان محدثین کے دعوے کے برعکس ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ ہمارے عہد میںکوئی مجتہد باقی نہیں رہا۔۲۰؎ یہاںیہ نکتہ بھی نظر میں رہنا چاہیے کہ ابن عقیل اپنے مخالف کے جواب میں کوئی شرعی دلیل پیش نہیں کر رہے۔ ان کا استدلال سراسر عقلی اور انسانی حالات و ظروف پر مبنی ہے۔ بہر کیف یہ تھا وہ نقطۂ آغاز جہاں سے اس بحث نے جنم لیا اور آگے چل کر اصولِ فقہ کی ایک ایسی مسلّمہ بحث کی حیثیت اختیار کرلی کہ اصولِ فقہ کی کوئی اہم کتاب آپ کو اس سے خالی نہیں ملے گی۔۲۱؎۔ اس زمانے کے علما کے لیے البتہ اس بحث کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی جیسا کہ مباحثے کی تیور سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ تماشائے نیرنگِ صورت ’قیامت‘---- اصطلاحات کا اشتراکِ لفظی و افتراقِ معنوی عملِ اجتہاد کے تعطل اور مجتہدین کے بود و نبود کی بحث فقہی متون اور اصولِ فقہ کی کتابوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ یہاں اس کی تفصیلات عرض کرنے کا تو موقع نہیں ہے لیکن ایک نکتے کی طرف توجہ دلانا ضروری محسوس ہوتا ہے۔ اس مسئلے پر جتنا اختلافِ رائے آج تک سامنے آیا ہے اس کی ایک بنیادی وجہ ہے جس کے کارن فقہا کی آرا میں اتنا گہرا اور شدید اختلاف پیدا ہوا اور جو اسے آج بھی باقی رکھے ہوئے ہے۔ اس مباحثے کو جنم دینے اور باقی رکھنے کے اسباب میں سب سے اہم عنصر تھا اصطلاحات یا اصطلاحی الفاظ کا غلط استعمال یا ان کے معنی متعین کرنے میں بھول چوک ---- اور اس کا سبب یہ تھا کہ اصطلاحی الفاظ کی کوئی متفق علیہ لغت تو تھی نہیں جس کو تمام فقہا نظر میں رکھتے اور اس کے مطابق اصطلاحات کا استعمال کیا کرتے۔ ’اجتہاد‘ اور ’مجتہد‘ کے لفظوں کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ بعض فقہا نے اگرچہ اپنے طور پر یہ کوشش کی تھی کہ اصطلاحات کی تعریفات صراحت سے متعین کر دی جائیں تاہم فقہا کی اکثریت اس ضمن میں کچھ ژولیدگی اور انتشارِ فکر کا شکار رہی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ فقہی ذخیرئہ کتب کی اس اصطلاحی بد نظمی میں ایک تسلسل سے اضافہ ہوتا رہا۔ مثال کے طور پر ’’مجتہدِ مطلق‘‘ کی اصطلاح کا جو مفہوم امام غزالی کے زمانے میں تھا وہ مابعد کی صدیوں میں اس کی اصطلاحی تعریف سے بہت مختلف ہوگیا۔ امام غزالی کے یہاں ’’مجتہدِ مطلق‘‘ وہ فقیہ ہے جو کسی ایک مکتب فقہ کی حدود میں رہتے ہوئے تمام فروع فقہ یا سب فقہی مسائل میں اجتہاد کرنے کی اہلیت رکھتا ہو لیکن وہ اس فقہی مذہب کا بانی نہیں ہوگا۔۲۲؎ بلاشبہ امام غزالی اس بات کے قائل تھے کہ محنت ، مطالعہ، عقلی کاوش اور علما کے مرتب کردہ ذخیرۂ قانون اور مناظرات پر عبور حاصل کر کے اجتہاد کی صلاحیت حاصل کی جا سکتی ہے۔۲۳؎۔ وہ یہ تو مانتے ہیں کہ مذاہبِ فقہ کے بانی ائمہ کی سطح کے مجتہد فقہا اب نہیں رہے جو ایک نئے مکتبِ فقہ کی بنیاد گذاری کے اہل ہوں، تاہم احیاء علوم الدین اور المنقذ من الضلال نیز دیگر تصانیف سے وضاحتاً معلوم ہوتا ہے کہ ان کی رائے میں ایسے فقہا ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے جو امت کی رہنمائی کریں گے اور ضرورت پڑنے پر شریعت کی ترجمانی کا فریضہ انجام دیں گے۔۲۴؎۔ لہٰذا بعض فقہائے متاخرین کے ہاںامام غزالی سے منسوب جو رائے نظر آتی ہے کہ وہ اختتامِ مجتہدین کے قائل تھے، یہ بات کسی طرح درست نہیںکہی جا سکتی ہے۔۲۵؎۔ ان کی تصانیف کے مطالعے سے نہ صرف اس رائے کو ان سے نسبت دینے کا کوئی جواز نہیں ملتا بلکہ اس کے برعکس یہ پتا چلتا ہے کہ یہ خیال ان کی بہت سی آرا سے صریحاً متصادم ہے جو ان کی تالیفات میں جابجا بکھری ہوئی ہیں۔ ذکر تھا التباس فی الاصطلاح کا ---امام غزالی کے ہاں اس کا جو مفہوم ہے وہ ہم نے عرض کر دیا۔ ابن تیمیہ ان کے لگ بھگ سو برس بعد آتے ہیں۔ ابن تیمیہ (م۔۶۵۲ھ؍۱۲۵۴ئ) اور ابن صلاح (م۔۶۴۳ھ ؍۱۲۴۵ئ) کی تحریروں میں ’’مجتہدِ مطلق‘‘ اور مجتہدِ مستقل‘‘ مترادف اصطلاحات کے طور پر استعمال ہوئی ہیں۔ لیکن سو برس کے عرصے میں ان کے اصطلاحی مفہوم میں ایک بڑی تبدیلی آ چکی ہے۔ امام غزالی کے برعکس یہ دونوں علما ان اصطلاحات کو فقہی مذاہب کے بانیوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے ہاں ’’ مجتہدِ مطلق یا مستقل‘‘ کے عنوان کے مستحق صرف امام مالک،ابوحنیفہ، شافعی اور احمد بن حنبل ہیں جب کہ امام غزالی اسی اصطلاح کو برت کر اس سے ایک کمتر درجے کا فقیہ مراد لیتے ہیں! جس مرتبہ علم و تفقہ کی طرف امام غزالی ’’مطلق‘‘ کا لفظ بول کر اشارہ کرتے ہیں اس کے لیے ان دو حضرات کے ہاں’’مجتہد منتسب‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔۲۶؎۔ ان سے ربع صدی بعد تک شرف الدین نووی (م۔۶۷۶ھ؍ ۱۲۷۷ئ) کے ہاں یہی درجہ بندی ملتی ہے جو ابن تیمیہ اور ابن صلاح نے قائم کر دی تھی۔۲۷؎ لیکن دسویںصدی ہجری تک آتے آتے معاملہ کچھ اور ہو جاتا ہے۔ سیوطی (م۔۹۱۱ھ؍۱۵۰۵ئ)’’مجتہدِ مطلق‘‘ کی اصطلاح کو امام مالک اور امام شافعی جیسے ائمہ کے لیے استعمال کرتے ہیں اور ’’مجتہدِ مستقل‘‘ کو ’’مجتہد فی المذہب‘‘کے معنی میں برتتے ہیں جیسے ابن سُریج اور خود سیوطی۔ گویا ان کے ہاں مطلق اور مستقل میں ایک درجے کا فرق واقع ہو گیا ہے۔۲۸؎۔یہ قدم اٹھاتے ہی سیوطی ، ابن تیمیہ اور ابن صلاح کے طے کردہ اصطلاحی مفہوم سے ہٹ جاتے ہیں، ایسے ہی جیسے ان دو حضرات کی تحریروں میں لفظ(مطلق) تو وہی رہتا ہے لیکن اس کا مدلول بدل جاتا ہے۔ یعنی اشتراکِ لفظی باقی ہے، اختلافِ معنوی واقع ہوگیا۔ اشتراکِ لفظی کی معیت میں اس افتراقِ معنوی کی مثالیں ساری تاریخِ فقہ میں بکھری ہوئی ہیں۔ بکری الصدیقی کے تحقیقی مقالے میں اس کے بہت سے شواہد یکجا کر دیے گئے ہیں۔۲۹؎۔ آگے چلیے تو کئی فقہا کے ہاں ایک اور تبدیلی نظر آئے گی۔ اب ’’مجتہدِ منتسب‘‘ کو ’’مجتہدِ مطلق‘‘ سے ایک درجہ بالاتر قرار دیا جانے لگا ہے۔۳۰؎۔چودہویں صدی میں دیکھیے تو عبدالحی لکھنوی (۱۳۰۴ھ؍ ۱۸۸۶ئ) ان دونوں اصطلاحات کو جوڑ کر ایک مرکب اصطلاح قائم کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے ہاں ’’مجتہدِ مطلق منتسب‘‘ سے مراد وہ فقیہ ہے جو ایک فقہی مکتبِ فکر کی حدود کے اندر اجتہاد کر سکے۔۳۱؎۔ اسی طرح کی بہت سی دیگر اصطلاحی درجہ بندیاں آپ کو عہد بہ عہد نظر آئیں گی جن کا مفصل شماریاتی بیان اس مقالے کی حدود میں رہتے ہوئے ممکن نہیں ۔ عرض صرف یہ کرنا ہے کہ اصطلاحات میں ایسا اشتراک و اختلاف ہے تو کیا عجب ہے اگر اجتہاد اور مجتہدین کے اس مسئلے پر اتنا نزاع ہوتا رہا اور ہنوز ہو رہا ہے۔ فریقِ مخالف کی بات کو غلط سمجھنے اور سوء تفاہم کی مضبوط بنیادیں تو فراہم ہو ہی چکی ہیں!۳۲؎۔ قائل کی مراد کچھ اور ہے، سامع اس سے کچھ اور سمجھ رہا ہے ۔ لہٰذا لازم ٹھہرا کہ بات اجتہاد کی ہوتو سب سے پہلے مصنف کے استعمال کردہ اصطلاحی مفہوم کا تعین کر نا ہوگا۔ سو یہاں رک کر یہ دیکھ لیا جائے کہ تشکیل جدید میں اس مبحث پر کلام کرتے ہوئے کونسی درجہ بندی علامہ اقبال کے پیش نظر تھی؟ ہمیں معلوم ہے کہ امریکی مصنف ن۔ پ اغنیدیس کی کتاب Muhammedan Theories of Finance۳۳؎۔ نے اجتہاد کے ضمن میں علامہ کے ذہن میں کچھ سوالات کو جنم دیا تھا۔ اغنیدیس نے حوالے کے لیے متأخرین فقہا کی اصطلاحی ترتیب استعمال کی تھی جس میں مذکورہ بالا مراتبِ اجتہاد کو ۱۔’’اجتہاد فی الشرع‘‘ (یعنی ابن تیمیہ کی اصطلاح میں ’’مجتہد مطلق‘‘)۲۔ ’’اجتہاد فی المذہب‘‘ (یعنی ابن تیمیہ کی اصطلاح میں ’’مجتہد منتسب‘‘ اور امام غزالی کے لیے ’’مجتہدِ مطلق‘‘ اور ۳۔ ’’اجتہاد فی المسائل‘‘ کے نام دیے گئے تھے۔۳۴؎۔ اس پس منظر میں علامہ کی عبارت دیکھیے:۳۵؎۔ In this paper I am concerned with the first degree of Ijtihad only, i.e. complete authority in legislation. یہاں تو علامہ نے اپنا مدعا بالکل واضح کر دیا ہے کہ ان کی گفتگو ’’اجتہاد فی الشرع‘‘ یا پرانی اصطلاح میں ’’اجتہادِ مطلق‘‘ کے بارے میں ہے لیکن جب ص ۱۴۱ پر ان کی بات اپنے اختتام کو پہنچتی ہے تو ہمارے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ قاضی شوکانی اور زرکشی کے حوالے دینے کے بعد علامہ جس درجۂ اجتہاد کی وکالت کر رہے ہیں اور جس ’’باب اجتہاد بند ہونے‘‘ کی رائے کو ’’نرا افسانہ‘‘ کَہ کر رد کر رہے ہیں اس سے ان کی مراد کونسا درجۂ اجتہاد ہے؟ ایک اور سوال بھی اس سے جڑا ہوا ہے، وہ یہ کہ شوکانی اور زرکشی کی آرا جو علامہ نے نقل کی ہیں ان میں ’’اجتہاد‘‘ کا لفظ کس درجے کے اجتہاد پر دلالت کر رہا ہے؟ کیا یہاں بھی ہمیں اسی اشتراکِ لفظی اور افتراقِ معنوی کا سامنا ہے جس کی مثالیں ہم تاریخ میں دیکھتے آئے ہیں؟ اس نکتے کی طرف ہم مقالے کے آخر میں لوٹ کر آئیں گے۔ فی الحال اس مسئلے کی طرف رجوع کرتے ہیں جو ’’بابِ اجتہاد بند ہونے ؍کھلا ہونے‘‘ کے عنوان سے زیر بحث تھا۔ --------- ’’مجتہدین کا وجود ممکن ہے یا نہیں؟‘‘ اور ’’بابِ اجتہاد بند ہو چکا‘‘ یہ دو مسئلے توأم ہیں۔ تاریخِ فقہ اسلامی کے چند پہلوئوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہم صفحاتِ ماقبل میں یہ عرض کر چکے ہیں کہ ’’بابِ اجتہاد‘‘ کا سوال امکانِ مجتہدین کی بحث کی ذیل میں ضمناً پیدا ہوا۔صدیوں بعد پیدا ہوا اور ایک محدود حلقے ہی میں اس کی پذیرائی ہو سکی۔ اب یہ دیکھنا درکار ہے کہ امت کی سطح پر، فکر اسلامی کے بڑے دائرے میں اور تاریخِ قانون و تشریع کے تناظر میں کیا اس رائے کو اجماع کا سہارا میسر آیا اور کیا اسے اہل علم کی اکثریت نے قبول کیا۔ یہاں یہ نکتہ نظر میں رہنا چاہیے کہ گو نظری طور پر اجماع کی تعریف کے مطابق کسی مسئلے میں وہ رائے اجماعی رائے تسلیم کی جاتی ہے جس پر کسی عہد کے تمام مجتہدین براہِ راست یا بالواسطہ متفق ہو جائیں۔ عملاً ہوتا یہ ہے کہ اجماع تب واقع ہوتا ہے جب مسلمان فقہا لوٹ کر ماضی پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ فلاں مسئلے میں ان سے پہلے کی صدیوں میں سب اہل علم نے کسی خیال یا رائے کو متفقہ طور پر قبول کر لیا تھا۔ اس قبولیت کا پیمانہ کیا ہوتا ہے؟ اگر اس رائے کے برعکس اہل علم کے حلقوں سے کوئی اختلافی آواز نہ اٹھی ہو تو اسے اجماعی رائے قرار دیا جائے گا۔ اب اگر کسی عقیدے ، خیال، فقہی رائے کے بارے میں علما میںاختلاف پایا جائے، بالخصوص جب اختلاف رائے کرنے والوں میں اکابر اہل علم شامل ہوں تو ایسی رائے اقلیمِ ’’اجماع‘‘ سے خارج سمجھی جائے گی۔ اس کی جگہ اب ’’ارضِ اختلاف‘‘ میں تو ہو سکتی ہے سرزمینِ اجماع میں نہیں! اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس نوع کی آرا ان فقہی متون اور کتابوں میں دستیاب ہوںگی جن کو ’’متونِ اختلاف‘‘ یا ’’کتبِ خلاف ‘‘ کہا جاتا ہے۔یہاں ایک اور باریک سا فرق ہے ۔ کسی مسئلے پر ایک رائے ’’اختلافی‘‘ رائے تب بنتی ہے جب اسے ایک اور نوع کا عملی ’’اجماع‘‘ حاصل ہو جاتا ہے۔ بصورت دیگراسے ان امور کی ذیل میں شمار کیا جاتا ہے جن کی قانونی؍تشریعی حیثیت غیر متعین ہوتی ہے۔۳۶؎۔ اس حوالے سے اگر پانچویں ؍گیارہویں صدی (جب باب اجتہاد بند ہونے کا خیال ایک شاذ رائے کے طور پر سامنے آیا) سے لے کر آٹھویں؍چودہویں صدی تک کے فقہی ذخیرئہ کتب اور قانونی مباحث پر نظر ڈالیے اور ہر زمانے کے اکابر اہل علم اور علمائے مجتہدین کی آرا کاجائزہ لیجیے ۳۷؎۔ تو ایک بات پوری وضاحت سے سامنے آ جاتی ہے کہ: باب اجتہاد بند ہونے کا خیال اگرچہ بعض حلقوں کی طرف سے پیش کیا جا چکا تھا۳۸؎۔ لیکن اس پر کوئی اتفاق رائے نہیں تھا۔ فقہ کی اصطلاح میں یہ ایک ’’امر خلافی ‘‘ تھا،نیز اس میں وہ چیز بھی اکثر اوقات کارِ فرما نظر آتی ہے جسے ہم نے ’’اشتراکِ لفظی ؍ افتراق معنوی‘‘ کے عنوان سے بیان کیا ہے۔ وہ لوگ جو بابِ اجتہاد بند ہونے کے قائل تھے ان کا اشارہ اس لفظ سے مکاتبِ فقہ کے بانیوں کے درجۂ اجتہاد کی طرف تھا۔ جو لوگ اس رائے کے مخالف تھے وہ اجتہاد کَہ کر وہ عملی سرگرمی مراد لیتے تھے جو اصطلاحاً ’’اجتہاد فی المذہب‘‘ یا ’’اجتہاد فی المسائل‘‘ کی ذیل میں آتی ہے اور جو ہمیشہ جاری رہتی ہے۔ بنابریں مجموعی صورتِ حال کو سمیٹ کر ابن عبدالسلام کے مندرجہ ذیل قول سے ظاہر کیا جا سکتا ہے کہ:۳۹؎۔ (مسلمان) بابِ اجتہاد کے بند ہونے کے مسئلے پر بٹے ہوئے ہیں ۔ ان میں انسدادِ بابِ اجتہاد کے حق میں بھی مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔۔۔ مگر ایسی تمام آرا باطل ہیں کیونکہ اگر کوئی نیا مسئلہ سامنے آئے اور قرآن میں اس کا حل نہ مل سکے، یا معاملہ ایسا ہو جس پر ہمارے پچھلے لوگوں کے زمانے ہی سے اختلاف رائے پایا جاتا ہو تو اس صورت میں مسئلے پر حکم لگانے کے لیے اجتہاد ناگزیر ٹھہرے گا۔ مسئلے پر ایک اور اعتبار سے بھی نظر ڈال لینا مناسب ہو گاکہ ’’ بابِ اجتہاد بند ہونے‘‘کی تائید میں جتنی آرا سامنے آئیں ان کی بڑی اکثریت یہ کہنے کی ہمت نہ کر سکی کہ مجتہدین ناپید ہونے کے معاملے پر اجماع واقع ہو چکا ہے۔ مقلدین اور حامیانِ تقلید کے ہاں اس سیاق و سباق میںجو فقرہ استعمال ہوتا ہے وہ کچھ یوں ہے ’’الناس کالمُجمعین؍کالمتفقین علٰی أنہ لا مجتہد الیوم‘‘ (مسلمان گویا اس بات پر متفق ہیں کہ اب مجتہد نہیں رہے) ان عبارتوں میں اجماع یا اتفاق کا فعل شاذ و نادر ہی ’’ک‘‘ کے لاحقے کے بغیر استعمال ہوا ہے۔ یہ سب بیانات اس بات پر دال ہیں کہ اتفاق غیر یقینی تھا۔۴۰؎ یہ طرزِ بیان بھی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ وہ تمام معاملات جو اجماعی ہوں ان پر تو سوال اٹھتا ہی نہیں سو اگر فقدانِ مجتہدین پر یقینی اجماع واقع ہو چکا ہوتا تو فقہا یہ احتیاط ضرور کرتے کہ ’’مجمعون‘‘ کے اسم فاعل سے پہلے ’’ک ‘‘ نہ لگایا جائے۔ یہ فقہا مجتہدین کے ناپید ہونے پر متفق الخیال کیوں نہیں تھے، اس معاملے پر اجماع کیوں نہیں تھا؟ اس کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ ان میں سے بڑی تعداد تو خود فقہائے مجتہدین کی تھی جو بلا خوفِ تنقید اجتہاد ی سرگرمی کو جاری رکھے ہوئے تھے۔ فہرست اسما کے لیے دیکھیے حواشی۔۴۱؎۔ جہاں تک ہم دیکھ سکے ہیں، آٹھویں ؍ چودہویں صدی کے اواخر تک کوئی آوازئہ تنقید ایسا نہیں اٹھا جس میں مجتہدین کے دعواے اجتہاد کو ہدفِ ملامت بنایا گیا ہو۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا فقہا کے طبقے میں تقلید کے حامیوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ڈیرھ صدی کا عرصہ گذرنے پر حامیانِ تقلید کی جمعیت اتنی ہو چکی تھی کہ ان کی رائے ایک طاقتور تحریک کی صورت میںکھل کر سامنے آ گئی۔ جلال الدین سیوطی (۸۴۹ھ؍ ۱۴۴۵ء - ۹۱۱ھ؍۱۵۰۵ئ) نے جب مجتہد ہونے کا دعویٰ کیا۴۲؎۔ تو بعض حلقوں کی جانب سے اس کی مخالفت کی گئی تھی۔اس مخالفت کو بھی حمایتِ تقلید کے بڑھتے ہوئے رویے کے پس منظر میں دیکھناچاہیے ۔ نیز یہاں بھی وہی التباسِ فکر دوبارہ کا رِفرما نظر آتا ہے جس کی طرف ہم نے ’’اصطلاحی بد نظمی‘‘ کَہ کر اشارہ کیا تھا۔۴۳؎۔ سیوطی کی اصطلاح میںیہ ’’مجتہد مطلق‘‘ کا درجہ تھا۴۴؎۔ جو دوسری اصطلاح میں ’’اجتہاد فی المذہب‘‘ کے مترادف تھا۔ مخالفین اسے اعلیٰ ترین درجۂ اجتہاد کے معنی میں لے کر اس کی مزاحمت کر رہے تھے اور وہ درجۂ اجتہاد سیوطی کی اصطلاح میں’’مجتہدمستقل‘‘ کا درجہ تھا جس کے ختم ہو جانے میں انھیں بھی کوئی شبہ نہیں تھا۔۴۵؎۔سیوطی کی مخالفت میں اور بھی کئی عوامل کار فرما تھے۔ اس مخالفت کا یہ مطلب ہرگز نہیں لینا چاہیے کہ نویں ؍پندرہویں صدی میں مسلمان معاشرہ بحیثیت مجموعی اور متفقہ طور پر اجتہاد مخالف ہو گیا تھا یا اس کے تئیں مجتہد ناپید ہو چکے تھے۔ مخالفت کی اس رو کو تقویت دینے میں سیوطی کے خلاف شخصی رد عمل بھی شامل تھا اور مخالفت کی بڑی وجہ یہی تھی۔ ان کے مزاج میں جو ضرورت سے زیادہ خود پسندی اور خوئے دل نوازی کے استعمال میں کفایت شعاری کا رجحان تھا اس نے انھیں طبقۂ علما میں غیر مقبول کر دیا تھا۔۴۶؎۔ سیوطی کو مجتہد کے درجے پر فائز ہونے کی خواہش کیوں تھی ، یہ ایک الگ مبحث ہے جس سے سردست تعرض نہیں کیا جا سکتا۴۷؎۔ کیونکہ اس کے ڈانڈے کارِ تجدید اور تصورِ مجددیت سے جا کر مل جاتے ہیں اور ہمارا مقالہ اس کی تفصیلات کا تحمل نہیں کر سکتا۔۴۸؎۔ اس سے یہ نکتہ واضح ہو جاتا ہے کہ مسلم معاشرے میںمجدد کا تصور وہ اعلیٰ ترین مرتبہ سمجھا جاتا تھا جس تک آپ اجتہاد کے مسلسل اور غیر منقطع عمل کے توسط سے رسائی حاصل کر سکتے تھے۔ دسویں ؍ سولہویں صدی کے اواخر تک آتے آتے ایسے فقہا کی تعداد مزید کم ہو جاتی ہے جن کی طرف سے دعواے اجتہاد سامنے آیا ہو۔ اسی کا عکس ہمیں مجتہدین کی درجہ بندی میں نظر آتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ’’طبقاتِ فقہا‘‘ یا ’’طبقاتِ اجتہاد‘‘ کی مختلف تقسیمات سے بات سلجھنے کی بجائے مزید الجھ جاتی رہی تاہم اس کا شیوع خود اس بات کا غماز ہے کہ متاخرین فقہا و علما کے ہاں تعدّد مجتہدین کے ضمن میں کیا رویہ پنپ رہا تھا! پانچویں ؍گیارہویں صدی سے پہلے ہمیں ایسی کسی کوشش کے آثار نہیں ملتے کہ کسی نے اجتہاد کی درجہ بندی کی ہو یا مجتہدین کو بالا وپست کے پیمانے سے تقسیم کر کے ’’طبقات‘‘ مرتب کیے ہوں۔ ایسا نہیں ہے کہ ’’طبقات‘‘ کا تصور ابھی سامنے نہیں آیا تھا۔ ہوا صرف یہ کہ اجتہاد اور مجتہدین کے مسئلے پر اس کا باقاعدہ منظم طور پر اطلاق ابھی نہیں ہوا تھا۔ یہ چیز پانچویں صدی میں پہلی مرتبہ سامنے آئی۔۴۹؎ یسا کہ پہلے عرض کیا گیا، امام غزالی نے ’’مجتہد مطلق‘‘اور ’’مجتہد مقید‘‘ کے درمیان ایک امتیاز قائم کیا تھا۔ اس کو اگر پانچویں صدی کے علما کی ایک نمایندہ فکر قرار دیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اس زمانے میں فقہا کے تین طبقات تسلیم کیے جاتے تھے جن میں سے پہلا طبقہ ، ان کی اپنی صراحت کے مطابق، نابود ہو چکا تھا۔ دوسرا درجہ اجتہاد فی المذہب کا تھا اور تیسرے درجہ پر مقلدین آتے تھے۔۵۰؎۔ دو صدی بعد یہ ’’طبقات‘‘ تعداد میں پانچ ہو گئے جس میں سے اولین مرتبہ اجتہاد کے حاملین کے بارے میں یہ طے کر لیا گیا تھا کہ ان جیسے مزید مجتہد اب نہیں ہوں گے۔ دوسرے اور تیسرے درجے کے مجتہدین وہ لوگ تھے جو دو مختلف سطحوں پر اجتہاد کے اہل تھے اور ان میں تیسرا درجہ محدود تر مانا جاتاتھا۔۵۱؎۔ چوتھے درجے میں وہ فقہا شامل تھے جو اپنے فقہی مذہب کے اصول و قواعد اور ان کے مفصل دلائل پر عبور رکھتے تھے تاہم ان میں اجتہاد کی مکمل اہلیت نہیں پائی جاتی تھی۔ پانچویں طبقے میں مختلف النوع مقلدین شامل تھے۔ دسویں ؍ سولہویں صدی میں ہمیں سات ’’طبقاتِ فقہا‘‘ نظر آتے ہیں۔ ان کی تفصیلات یہاں حذف کی جا رہی ہیں۔۵۲؎۔ آگے چل کر انھی سات درجات میں سے ہر ایک کا اطلاق ایک طبقۂ فقہا پر کیا جانے لگا۔ پہلا درجہ وہ تھا جو چار فقہی مذاہب کے بانیوں کے لیے خاص تھا (گو اس میں سے امام شیبانی اور امام ابویوسف کو الگ کر دیا گیا تھا خواہ وہ حنفی مکتب فقہ کے اصل بانی ہی کیوں نہ رہے ہوں ، دوسری طرف ابن حنبل فقیہ نہ ہوتے ہوئے بھی اس درجے میں شمار کیے جاتے تھے)۔۵۳؎۔شیبانی ، خسّاف، مزنی اور ان کے ہم پلہ فقہا دوسرے درجے کے تحت آتے تھے۔ کرخی، طحاوی اور شمس الدین سرخسی کا تعلق تیسرے درجے کے مجتہدین سے تھا۔۵۴؎۔ چوتھے اور پانچویں درجے پر غیر مجتہد آتے تھے جیسے مرغینانی اور رازی۵۵؎۔ جب کہ چھٹا اور ساتواں درجہ خالص مقلدین کے لیے مخصوص سمجھا جاتا تھا۔ چھٹی ؍بارہویں صدی کے اواخر سے لے کر بعد کے ادوار میں آنے والے فقہا کو آخری دو درجات سے متعلق سمجھا جانے لگا۔ رفتہ رفتہ ایک اور رائے کو غلبہ حاصل ہو رہا تھا۔ مندرجہ بالا تقسیمِ اجتہاد اور مجتہدین کی درجہ بندی کو تقلید کے حامیوں نے بہت ترویج دی جن کے خیال میں مجتہد بہ ہر معنی ناپید ہو چکے تھے۔ خود یہ ہفت گانہ تقسیمِ درجات اسی رویے کی عکاسی کرتی ہے۔ بہرکیف ، یہ رائے، ساری امت کی، تمام علما کی رائے نہیں تھی۔ ایک طرف یہ لوگ تھے جن کی تحریروں میں ’’طبقاتِ فقہا‘‘ کی یہ تقسیم رائج ہو رہی تھی اور اس کا اطلاق متعین ناموں پر کیا جا رہا تھا تو دوسری جانب وہ علما تھے جن کی رائے اس سے بنیادی طور پر مختلف تھی اور وہ ہر عہد میں مجتہدین کے وجود کو امت کی اور فقہ اسلامی کی ناگزیر ضرورت قرار دیتے تھے۔ اوّل الذکر جماعت میں زیادہ تر حنفی علما تھے جنھیں چند شافعی اور مالکی حضرات کی کم و بیش تائید بھی حاصل تھی۔ مؤخر الذکر کی اکثریت حنابلہ اور شوافع پر مشتمل تھی۔ بنابریں یہ امر چندیں باعث تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ فقہا کی فنی درجہ بندی کے کام سے زیادہ تر احناف ہی کو اشتغال رہا ہے، بالخصوص بعد کے زمانوں میں۔ یہی وجہ ہے کہ ’’طبقاتِ فقہا‘‘ کا سب سے مفصل اور مکمل تذکرہ (سوانحی نہیں بلکہ فنی ؍ اصطلاحی معنی میں) ہمیں احناف کی کتابوں ہی میں دستیاب ہوتا ہے۔ اب آئیے عملی صورت حال کی جانب۔ ---۔ ایک مرتبہ اپنے آپ کو یہ یقین دلانے کے بعد کہ مجتہدین ناپید ہو چکے،فقہائے احناف اور ان کے مؤید حضرات نے نہ صرف تمام علمائے متاخرین کا حقِ اجتہاد سلب کر لیا بلکہ جو اجتہادی سرگرمی عملاً جاری تھی اسے بھی نظر انداز کرنا شروع کر دیا۔۵۶؎۔ تذکرے اور سوانح کی نوعیت کی تحریروں میں اس کا مظاہرہ بہت واضح نظر آتا ہے۔ ایک عالم، فقیہ یا مفکر کی علمی استعداد ، حافظہ ، ذہانت ، وسعت مطالعہ، تقوی، علمی کارنامے ، تالیفات سبھی کچھ بیان کیا جا رہا ہے، اسے ماضی کے علما کا ہم پلہ قرار دیا جا رہا ہے، اس کی علمی آرا اور جلالتِ شان کی توصیف ہو رہی ہے لیکن اس سارے بیان میں اجتہاد کے لفظ کو غایتِ احتیاط سے حذف کر دیا گیا ہے۔ صاف پتا چلتا ہے کہ ایک عالم کئی مسائل میں اجتہادی سوچ رکھتا ہے، یا نئے مسائل ابھرے ہیں اور وہ ان پر بذریعہ اجتہاد و قیاس فتوی دے رہا ہے جو پہلے کہیںموجود نہیں ہے، بایں ہمہ اسے عملِ اجتہاد سے موسوم کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے!۵۷؎۔ گویا عملی صورت حال یہ تھی (اور آج بھی ہے) کہ اجتہاد جاری ہے لیکن اسے اجتہاد کا نام نہیں دیا جا رہا۔ یہ ہے وہ رویہ جس کی جانب علامہ اقبال نے اپنے تبصرے میں ’’نرا افسانہ‘‘ کَہ کر اشارہ کیا ہے۔ ہم نے عرض کیا تھا کہ علامہ کی رائے کو ہمارے فہم کے مطابق بہت سے جید علما کی تائید حاصل ہے۔۵۸؎۔ علامہ نے ترکی کو حوالہ بنا یا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک طرف حنفی علما بابِ اجتہاد بند ہونے کی بات کر رہے تھے تو دوسری طرف زندگی ایسے مسائل سامنے لا رہی تھی جن کا حل بجز اجتہاد ممکن ہی نہ تھا۔ علامہ نے تو جدید ترکی کی مثال پر اکتفا کیا ہے لیکن سلطنت عثمانیہ میں اٹھنے والے سوالات کے ضمن میں اس تضادِ فکر کو پہلے کی تحریروں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ کاتب چلپی کی تالیف اس کا اچھا اشاریہ فراہم کرتی ہے۔۵۹؎ ۔ ’’وقفِ نقود‘‘ کا مسئلہ ان گھمبیر مگر بالکل جدید مسائل میں سے ایک تھا۔۶۰؎ اسی طرح روایتی؍کلاسیکی فقہی تصور میں کسی اسلامی ریاست میں غیر مسلم کو منصب قضا پر مقرر کرنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ لیکن’’اس ضمن میں فقہی ذخیرے کے نظری مباحث اور امت مسلمہ کے تاریخی طرز عمل کے مابین بہت سے معاملات میں جو تباین پایا جاتا ہے، اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار اور بالخصوص خلافت عثمانیہ اور مغل سلطنت کے دور میں امور مملکت اور سماجی اداروں کے انتظام و انصرام میں غیر مسلموں کی شرکت اور بعض اوقات نہایت اہم مناصب پر ان کے تقرر کی مثالیں موجود ہیں۔۶۱؎ یہ تمام مثالیں ہمارے خیال میں ایک ایسے معاملے میں جس میں کوئی منصوص ممانعت موجود نہیں، بذات خود عملی فقہی نظائر کی حیثیت رکھتی ہیں، بلکہ خلافت عثمانیہ کے آخری دور میں عدالتی و قانونی ضوابط کے حوالے سے مرتب کیے جانے والیمجلۃ الاحکام العدلیہ میں قاضی کے مطلوبہ اوصاف کے ضمن میں، کلاسیکی فقہی موقف کے برعکس، اس کے مسلمان ہونے کی شرط کا سرے سے کوئی ذکر نہیں کیا گیا۶۲؎ اور اسی بنیاد پر بہت سے مسلم ممالک میں غیر مسلموں کو منصب قضا پر فائز کرنے کا طریقہ اختیار کر لیا گیا ہے۔۶۳؎ خود ہمارے ہاں دستوری طور پر صدر اور وزیر اعظم کے لیے تو مسلمان ہونے کی شرط موجود ہے، لیکن کسی دوسرے منصب کے لیے ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ غیر مسلم ججوں کا اعلیٰ ترین مناصب پرتقرر عملاً بھی قبول کیا گیا ہے اور کم از کم ایک قانونی ایشو کے طور پر یہ مسئلہ کبھی نہیں اٹھایا گیا۔‘‘۶۴؎ مسلم امت کی سطح پر اس اجتہادی سرگرمی اور قانونی فکری فعالیت کی مثالیں دیکھنا ہوں تو اس وسیع ذخیرۂ فتاوی میں مل جائیں گی جو اسلامی دنیا کے سارے علمی مراکز میں ان صدیوں میں مرتب ہوئے۔ فتاوی کا مطالعہ اور ان کے منہاجِ تحقیق اور طریقِ اجتہاد کا تجزیہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ چاہے معاشرہ کتنا ہی سست رفتار کیوں نہ ہو اس میں نت نئے مسائل ابھرتے ہی رہتے ہیں اور موجود ذخیرۂ قانون کے علاوہ اجتہاد ہی وہ واحد ذریعہ اور طریقِ کار ہے جس سے ان کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ حاصل یہ ہوا کہ اجتہاد کا عمل ہر دور میں جاری رہا گو اکثر اوقات اسے اس کے نام سے شناخت نہیں کیا گیا۔ اس رویے کے خلاف اور ایسی آر۶۵؎۔ کے مقابلے میں اجتہاد کے حامیوں کی طرف سے بارہویں؍اٹھارہویں اور تیرہویں ؍ انیسویں صدی میں بہت سی تحریریں سامنے آئیں جن کے مرکزی موضوعات تھے: تقلید ، تقلید کی خرابیاں اور نقصانات اور اجتہاد بطور ایک شرعی ذمہ داری جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں پر عائد کی گئی ہے۔ تقلید مخالف علما کی تحریروں میں ان لوگوں کی آرا پر شدید تنقید کی گئی جو اس بات کے قائل تھے کہ مجتہد ناپید ہو چکے اور بابِ اجتہاد بند ہو چکا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان تحریروں میں اکثر نفسِ تقلید کو بھی ہدف تنقید بنایا جاتا تھا جب کہ اٹھارہویں صدی تک آتے آتے فقہی تقلید اور مقلدانہ ذہنیت عوام میں (بلکہ اہل علم کی بڑی تعداد میں بھی) مضبوطی سے جڑ پکڑ چکی تھی۔ اس طبقۂ علما میں شاہ ولی اللہ (۱۱۷۶ھ؍۱۶۶۲ئ)، صنعانی (۱۱۸۲ھ؍۱۷۶۸ئ)، محمد بن عبدالوہاب (۱۲۰۲ھ؍۱۷۸۷ئ)، ابن معمر (۱۲۲۵ھ ؍۱۸۱۰ئ)، شوکانی (۱۲۵۵ھ؍۱۸۳۹ئ) اور ابن علی السنوسی (۱۳۱۳ھ؍۱۸۹۵ئ) کے نام شامل ہیں۔ ان میں سے چار حضرات کا علامہ نے ذکر کیا ہے، دو کا حوالہ دیا ہے اور شوکانی کی دلیل اور اقتباس کو اپنے موقف کی تائید میں پیش کیا ہے۔۶۶؎۔ علامہ کی بالغ نظری کی داد دینا چاہیے کہ انھوں نے اس شخصیت کو اپنے موقف کی وکالت کے لیے منتخب کیا جس کی تحریریں نہ صرف حمایتِ اجتہاد کے بارے میں اہل سنت کے کلاسیکی رویے کی نمایندگی کرتی تھیں بلکہ ان میں اجتہاد و تقلید کے مسئلے پر حامیانِ تقلید اور مؤیدین اجتہاد کے مابین جاری نزاع کو اس کی اعلیٰ ترین علمی سطح پر دیکھا جا سکتا تھا۔ شوکانی کا جو اقتباس علامہ نے ’’بابِ اجتہاد‘ ‘کے ضمن میں پیش کیا ہے اس پر غور کرنے سے پہلے اور اس ساری بحث سے اٹھنے والے سوالات کا تجزیہ کرنے سے قبل شوکانی کے افکار پر ایک نظر ڈالنا مناسب ہوگا۔ قاضی شوکانی اس نوع کی تقلید پر معترض نہیں ہیں جو اصولِ فقہ میں عوام کے لیے تجویز کی گئی ہے۔شوکانی مخالف ہیں علما کی تقلید کے جس سے ان کی مراد یہ ہے کہ گذرے ہوئے اہلِ علم کی ہر رائے کی غیر مسئول پیروی اور غلاما نہ و کورانہ تقلید جس میں یہ نہیں پوچھا جاتا کہ حکم کی علت کیا تھی اور دلائل و شواہد کیا ہیں؟ ان کے خیال میں جو فقیہ بھی کسی دوسرے فقیہ اور عالم کی رائے یا حکم معلوم کر رہا ہے خواہ وہ خود مجتہد ہے یا نہیں، اسے لازم ہے کہ وہ یہ دریافت کرے کہ حکم کی اصل کن نصوص اور ادلہ پر مبنی ہے۔۶۷؎۔ شوکانی اس بات سے سخت نالاں ہیں کہ تقلیدی رویہ اور فقہی تقلید اتنی عام ہو چکی ہے کہ اب اسے اصول قرار دے لیا گیا ہے، یہ توخود ایک معیار بن گئی ہے اور اس کی خلاف ورزی جرم سمجھی جاتی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اجتہاد کرنے کی ہر کوشش ، اس کے ہر دعوے کی لازماً مزاحمت کی جاتی ہے، اس کی مذمت ہوتی ہے، اسے خواری اٹھانی پڑتی ہے اور بسا اوقات تو تذلیلِ عام کی نوبت آ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بقول ان کے یوں لگتا ہے کہ مجتہدین ناپید ہو گئے ہیں؛ ان کی اگر آج کوئی آواز سنائی نہیں دیتی تو اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ وہ واقعی ناپید ہو گئے ہیں۔ اس کی لم یہ ہے کہ وہ اپنے لیے حقِ اجتہاد طلب کرنے پر اصرار کریں گے تو ان کا وجود سنگین خطرے میں پڑ جائے گا۔۶۸؎۔ شوکانی کہتے ہیں کہ بابِ اجتہاد کا مزعومہ ’’انسداد و اغلاق‘‘ اس بات کی علامت ہے کہ کورانہ تقلید کے حامی کور نگاہی اور بے دانشی کی کس سطح پر اتر آئے ہیں ورنہ یہ دعوی نہ کرتے کہ چھٹی ؍ بارہویں اور ساتویں ؍تیرہویں صدی کے بعد اربابِ اجتہاد پیدا ہونے بند ہو گئے۔۶۹؎۔ اس غرض سے شوکانی نے دو جلدوں میں ایک سوانحی تذکرہ بعنوان البدر الطالع بالمحاسن مَن بعد القرن السابع تالیف کیا تاکہ ارباب تقلیدکے دعاوی کی تردید کے لیے یہ دکھایا جائے کہ ساتویں صدی ہجری کے بعد بھی مجتہد پیدا ہوتے رہے ہیں۔ قاضی شوکانی کی ایک دلیل اور تھی جسے علامہ اقبال نے اپنی بحث کے اختتام پر استعمال کیا ہے۔۷۰؎ ۔ شوکانی کا کہنا ہے کہ بعد کے زمانوں میں تو اجتہاد سہل تر ہو جاتا ہے کیونکہ اب فقہا کے پاس پہلی صدیوں کے فقہا کے مقابلے میں کہیں زیادہ وافر علمی وسائل فراہم ہو چکے ہیں۔ گویامقلدین کے خلاف یہ ان کی الزامی دلیل تھی جو اپنی تقلید کا جواز اس بات میں ڈھونڈتے تھے کہ اجتہاد کرنا بہت مشکل کا م ہے۔ یہ ایک نہایت پیچیدہ عمل ہے کیونکہ اس میں بڑی وسعتِ مطالعہ ، تجزیۂ متون کی محنت، اصولِ فقہ سے تفصیلی واقفیت اور اس کے منہاجِ استدلال کے اطلاق وغیرہ کی ضرورت پڑتی ہے۔۷۱؎۔ شوکانی نے مقلدین کے ایک اور فکری تضاد کی طرف بھی درست اشارہ کیا ہے۔ ’’بابِ اجتہاد کے انسداد اور مجتہدین کے ناپید ہو جانے کے بارے میں مقلدین کا دعوی ہے کہ اس رائے پر اجماع واقع ہو چکا ہے۔ شوکانی اس کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اجماع میں تو فقط درجۂ اجتہاد رکھنے والے فقہا کی رائے کا اعتبار ہوتا ہے اور ادھر کیفیت یہ ہے کہ جو لوگ بابِ اجتہاد بند ہونے کا دعوی رکھتے ہیں وہ خود کو مقلد گردانتے ہیں۔ سو یہ کہنا سراسر ایک بے معنی دعوی ہو گا کہ ’’مجتہدین ‘‘ کا اس بات پر اجماع ہے کہ’’مجتہدین‘‘ ناپید ہو چکے! علامہ اقبال نے قاضی شوکانی کی اس رائے کو دلیل بنایا ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا اور کئی آرا کی طرح اس کی جانب بھی انھیں اغنیدیس کی کتاب نے متوجہ کیا تھا۔ اغنیدیس نے یہ رائے آٹھویں صدی کے شافعی فقیہ بدر الدین زرکشی (م۔ ۷۹۴ھ؍۱۳۹۲ئ) کے حوالے سے نقل کی تھی۔۲ ۷؎۔ علامہ نے بھی یہ اقتباس یونہی دیا ہے۔قاضی شوکانی نے ارشاد الفحول میں جہاں اس مبحث کو اٹھایا ہے اس کے مطالعے سے اندازہ ہو جاتاہے کہ یہاں بھی زرکشی کے خیالات کا عکس موجود ہے۔ شوکانی کی عبارت درج ذیل ہے:۷۳؎۔ قال قول ھٰؤلآء القائلین بخلو العصر عن المجتھد ممّا یقضی منہ العجب ۔ فانّہم ان قالوا ذٰلِک باعتبار المعاصرین لھم فقد عاصر القفّال و الغزالی والرّازی والرّافعی من الائمّۃ القائمین بعلوم الاجتہاد علی الوفاء الکمال جماعۃ منہم۔ ومن کان لہ المام بعلم التّاریخ والاطلاع علٰٓی أحوال علمآء الاسلام فی کل عصر لا یخفی علیہ مثل ھٰذا بل قد جآء بعدھم من اھل العلم من جمع اللّٰہ لہٗ من العلوم فوق ما اعتدہ أھل العلم فی الاجتہاد ۔ وان قالوا ذلک لا بھٰذا الاعتبار بل باعتبار انّ اللّٰہ عزوجل رفع ما تفضل بہٖ علٰی من قبل ھٰٓؤلآء من ھٰذہ الأئمۃ من کمال الفھم و قوّۃ الادراک والاستعداد للمعارف فھٰذہ دعوی من أبطل الباطلات بل ھی جہالۃ من الجہالات ۔ وان کان ذٰلک باعتبار تیسّر العلم لمن قبل ھٰؤلاء المنکرین و صعوبتہ علیھم وعلٰی عصورھم فھٰذہ ایضاً دعوٰی باطلۃُٗ فانہٗ لا یخفی علٰی من لہٗ ادنٰی فھم أنّ الاجتہاد قد یسّرہ اللّٰہ للمتاخرین تیسیراً لم یکن للسّابقین لانّ التّفاسیر للکتاب العزیز قد دونت وصارت فی الکثرۃ الٰی حدٍ لّا یمکن حصرہٗ والسّنّۃ المطھّرۃ قد دونت و تکلّم الأمّۃ علی التفسیر و التخریج و التصحیح والترجیح بما ھو زیادۃ علٰی ما یحتاج الیہ المجتہد۔ یہاں سے ہم اس سوال کی طرف واپس لوٹتے ہیں جو مراتبِ اجتہاد کے ضمن میں مذکور ہوا تھا۔ ہم نے عرض کیا تھا کہ: علامہ اقبال’’نرا افسانہ‘‘ کَہ کر جس اجتہاد کو رد کر رہے ہیں اس سے ان کی مراد کونسا درجۂ اجتہاد ہے؟ اس سے ایک اور سوال بھی جڑا ہوا ہے۔ شوکانی اور زرکشی کی آرا جو علامہ نے نقل کی ہیں ان میں ’’اجتہاد‘‘ کا لفظ کس درجے کے اجتہاد پر دلالت کر رہا ہے؟ کیا یہاں بھی ہمیں اسی اشتراکِ لفظی اور افتراقِ معنوی کا سامنا ہے جس کی مثالیں ہم تاریخ میں دیکھتے آئے ہیں؟ اس نکتے کی طرح ہم مقالے کے آخر میں لوٹ کر آئیں گے۔ فی الحال اس مسئلے کی طرف رجوع کرتے ہیں جو ’’باب اجتہاد بند ہونے؍کھلا ہونے‘‘ کے عنوان سے زیر بحث تھا۔ اس ضمن میں پاکستان کے معاصر علمی منظر نامے کی اہم آواز بھی سن لیجیے ۔ جاوید احمد غامدی صاحب کی رائے ہے کہ:۷۴؎۔ دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ امت میں اجتہاد کا دروازہ گزشتہ کئی صدیوں سے بند ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امت مسلمہ کی چودہ سو سالہ تاریخ میں شاید ایک دن بھی ایسا نہیں آیا جب اجتہاد کا دروازہ بند ہوا ہو۔ یہ عمل پیغمبر اور صحابہ کے زمانے میں بھی جاری تھا، بعد کے ادوار میں بھی پورے تسلسل سے قائم رہا اور آج بھی بغیر کسی انقطاع کے جاری ہے۔ اجتہاد اس وقت بھی ہوتا رہا جب اقوام عالم کی قیادت و سیادت مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھی اور اس وقت بھی ہو رہا ہے جب وہ محکومی کے دور سے گزر رہے ہیں۔ اجتہاد کے بارے میں یہ تصور ہمارے علما کے تقلیدِ جامد پر اصرار کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ سوال وہی ہے: ان حضرات کے ہاں کونسا درجۂ اجتہاد مراد ہے؟ مقالے کے وسط میں عثمانی دور میں ہونے والے اجتہادات کے بارے میں مختصر اشارے کیے گئے تھے۔ ان سے یہ تو اندازہ ہوتا تھا کہ اجتہاد فی المسائل سے لے کر اجتہاد فی الشرع کی سطح تک کے اجتہاد کی مثالیں موجود تھیں۔ آئیے برصغیر کی تاریخ فقہ میں اس کا کھوج لگانے کی کوشش کریں تاکہ معلوم ہو سکے کہ اگر اجتہاد کا دروازہ بند نہیں ہوا تھا اور اگر اجتہادی سرگرمی بلا انقطاع جاری تھی تو اس سرگرمی کے عملی مظاہر کس نوعیت کے تھے؟ این گناہیست کہ در شہر شما نیز کنند! اس امر سے تو غالباً مقلدین کو بھی کوئی اختلاف نہیں تھا اور آج بھی نہ ہوگا کہ اجتہاد فی المسائل اور کسی حد تک اجتہاد فی المذہب کی سطح ؍ درجے کا اجتہاد تو ہمیشہ جاری رہا ہے۔ فتاوی کے ہزاروں صفحات پر پھیلے ہوئے ذخیرے کی موجودگی میںاس سے انکار کرنا ایک لایعنی بات ہوگی۔ اختلاف اعلیٰ ترین درجۂ اجتہاد کے بارے میں ہے۔ علامہ کا اشارہ اجتہادِ مطلق کی طرف تھا۔ قاضی شوکانی کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ بھی اسی کے قائل تھے۔ زرکشی کی رائے بھی اسی کی آئینہ دار ہے۔ شاہ ولی اللہ اگرچہ اصطلاح نئی استعمال کر رہے ہیں لیکن موقف ان کا بھی ان حضرات کی موافقت میں ہے۔۷۵؎۔ ان نظری افکار کے ساتھ عملی صورتحال کس بات کی شہادت دیتی ہے؟ اس کے لیے ہم نے معاصر تاریخ سے دو مثالیں منتخب کی ہیں: مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا مودودی، ایک اپنے زمانے کے جید ترین حنفی عالم ہیں اور دوسرے جدید علما کے نمایندے ۔ علامہ نے اجتہاد کے سلسلے میں فقط نظری مباحث پر اکتفا نہیں کیا تھا۔ اس کا عملی اطلاق بھی ان کے پیش نظر تھا۔ قانون کی رسمی تعلیم، عملی تربیت اور وکالت کے تجربے سے حاصل ہونے والی معلومات کی روشنی میں علامہ کے مشاہدے میں یہ بات آتی رہی تھی کہ حقوق نسواں کے ضمن میں اینگلو محمڈن قانون اور فقہ حنفی میں کچھ ایسی کمزوریاں ہیں جن کی وجہ سے ہندوستانی عدالتیں خواتین کے بنیادی حقوق کا تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو جاتی ہیں اور ایسے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں جن میں قانونی ؍ فقہی راستہ مسدود پا کر خواتین اپنے مسائل کے حل کے لیے ارتداد کا سہارا لینے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔۷۶؎ تشکیل جدید میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۷۷؎ In the Punjab, as everybody knows, there have been cases in which Muslim women wishing to get rid of undesirable husbands have been driven to apostasy. Nothing could be more distant from the aims of a missionary religion. The Law of Islam, says the great Spanish jurist Imam Shatibi in his Al-Muwafaqat, aims at protecting five things--- Din, Nafs, Aql, Mal, and Nasl. Applying this test I venture to ask: Dose the working of the rule relating to apostasy, as laid down in the Hidaya, tend to protect the interests of the Faith in this country? اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے علامہ نے مسلمان علما سے بڑی دلسوزی سے اپیل کی کہ وہ شریعت کی روشنی میں اس کا حل تلاش کرنے کے لیے اجتہاد کریں۔ یہ واقعی ایک سنگین مسئلہ تھا۔ مسئلے کے حل کے لیے علامہ نے عملی تجاویز بھی پیش کیں اور ایک قابلِ عمل منہاجِ تحقیق کی طرف اشارہ کیا۔ ہمارے مبحث کے لیے اس سلسلے میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ اس مسئلے پر علامہ نے اجتہاد فی المسائل اور اجتہاد فی المذہب (یعنی مقید اجتہاد) سے اوپر اٹھ کر اجتہاد فی الشرع (یعنی مطلق اجتہاد) کا وسیلہ اختیار کرنے کی ضرورت کا احساس دلایا ہے۔ قانونی نظائرپیش نہیں کیے، سابقہ آرا کا حوالہ نہیں دیا، تعبیر نصوص میں کوئی نئی بات نہیں سمجھائی، قیاس کی بنیاد پر کوئی نتیجہ مرتب نہیں کیا۔ بلکہ ان کی گفتگو کا محور ہے مقاصدِ شریعت، قانونی قالب بہ مقابلہ روحِ قانون۔ مقاصدِ شریعت میں سے اہم ترین یعنی ’’حفظِ دین‘‘ کو اگر قانون کی پشتیبانی میسر نہ رہے تو لوگ دین سے بیزار نیز مفرور ہونے لگتے ہیں۔لہٰذا اس صورت حال کا ازالہ ہونا چاہیے اور اجتہاد مطلق سے ہونا چاہیے۔ دوسرا اہم نکتہ اس سلسلے میں یہ ہے کہ ضیا گو کلپ کی جذباتی نعرے بازی اور آدرشی گفتگو کے برعکس اقبال نے خواتین کے ان حقیقی مسائل اور مصائب کی طرف توجہ دلائی جو ہندوستان میں اکثر مسلمانوں کے علم میں تھے۔ یہی سبب تھا کہ حنفی قانون میں ترمیم و اصلاح کی اس دعوت کو علمائے احناف نے ’’شریعت پر حملہ‘‘ کَہ کر نظر انداز نہیں کیابلکہ اس پر سنجیدگی سے غور کیا جانے لگا۔ علامہ کے خطبات ۱۹۳۰ء میں چھپے تو ہندوستانی علما میں سے سب سے پہلے مولانا اشرف علی تھانوی نے اس پر توجہ کی اور ان کی تصنیف الحیلۃ الناجزہ للحلیلۃ العاجزہ ۱۹۳۱ء میں منظر عام پر آگئی۔۷۸؎۔ اس کتاب کے مندرجات، طرز استدلال، فقہی مشمولات اور دلائل کا بہت اچھا خلاصہ ڈاکٹر محمد خالد مسعود صاحب نے اپنی کتاب Iqbal's Reconstruction of Ijtihad میںپیش کر دیا ہے۔۷۹؎ اس کتاب سے مسلمان وکلا میں ایک بڑے مباحثے کا آغاز ہوتا ہے۔ جمعیت علمائے ہند کی ورکنگ کمیٹی کے رکن قاضی محمد احمد کاظمی کی طرف سے مرکزی قانون ساز اسمبلی میں ۱۷؍اپریل ۱۹۳۶ء کو ایک بل پیش کیا گیا۔۸۰؎ کاظمی صاحب الٰہ آباد ہائی کورٹ کے وکیل بھی تھے۔ تین سال بل پر غور ہوا، اسمبلی کی کمیٹی بنی ،اس کی رپورٹ فروری ۱۹۳۹ء میں آئی اور رسمی بحث کا آغاز ہوا۔ کئی مراحل سے گذر کر آخر کار ایکٹ پاس ہو گیا۸۱؎ فقہ حنفی میں ایک بڑی ترمیم علما کے اجتہاد سے اور ایک قانونی تحریک کے ذریعے متفقہ طور پر عمل میں آ گئی۔ اور وہ فقہی قدغن دور ہو گئی جس نے خواتین کو عاجز کر رکھا تھا اور جس کی وجہ سے ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ مشکل ہوتا جا رہا تھا! مولانا تھانوی نے علامہ کی تجاویز پر غور کرنے کے بعد اجتہاد کیا تھا یا نہیں ؟ اگر کیا تھا (اور تاریخ شاہد ہے کہ کیا تھا) تو یہ اجتہاد کس طرح کا اجتہاد تھا ؟ان کی تصنیف دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ حنفی فقہ میں کوئی قابل عمل حل نہ پا کر مولانا نے فقہ مالکی کے میدان میں قدم رکھا، اس کے اصولِ فقہ پر عمل کیا اور اس کی پیروی کی۔ فقہ حنفی سے نکل کر فقہ مالکی تک کا یہ سفر کیا اجتہاد فی المذہب کی اقلیم سے باہر آ کر اجتہاد فی الشرع سے مختلف کوئی چیز ہے؟ آج کی اصطلاح میں، ایک فقہی پیرا ڈائم سے نکل کر دوسرے فقہی پیراڈائم میں داخل ہونا اجتہادِ مطلق سے کس طرح کم تر کہا جا سکتا ہے؟ تقلید کے حامی اس سوال کا جواب دینے سے گھبراتے ہیں کیونکہ یہ ان کے ایک اندرونی تضاد کی کہانی سنا رہا ہے۔ مطلب یہ کہ دوسرے مکاتبِ فقہ اور دیگر طبقاتِ علما تو اجتہاد کے بارے میں مختلف رائے رکھتے ہی ہیں خود احناف کی عملی صورت حال بھی یہ ہے کہ وہ ہر درجے کے اجتہاد میں ’’مبتلا‘‘ رہے ہیں: اجتہاد فی المسائل وہ کثرت سے کر رہے ہیں اور کرتے آئے ہیں۔۸۲؎ ۔ اجتہاد فی المذہب قدر ے کم ہو رہا ہے اور پہلے بھی اس کا وقوع نسبتاً کم تھا کیونکہ اس کی ضرورت اجتہاد فی المسائل کی نسبت کم ہوتی ہے۔ اجتہادِ مطلق کی ضرورت سب سے کم پڑتی ہے مگر جب مشکل آن پڑے تو حنفی علما کے لیے اس گھر کا دروازہ بھی بند نہیں ہے۔ مولانا تھانوی کا عمل اور مسلم تنسیخ نکاح کا ترمیمی قانون اس کی بیّن مثالیں ہیں۔ یہ بات بھی نظر میں رکھنے کی ہے کہ عہدحاضر میں اس اجتہادی عمل کی ضرورت پر زور دینے اور اس پر توجہ دلانے کاکام علامہ اقبال سے شروع ہوتا ہے۔ نیز یہ عمل صرف قانون سازی اس واقعے پر رک نہیں جاتا جو مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم کی جرات اور جلالت علمی سے ممکن ہوسکا۔ مابعد کی تاریخ میں اور مثالیں بھی ملتی ہیں جہاں پاکستان کے علما نے حسب ضرورت ایسے اجتہادی فیصلے کیے جن کی کوئی نظیر پہلے موجود نہ تھی۔ ان میں جو اجتہادات انفرادی طور پر کیے گئے تھے ان کی تفصیل یہاں ممکن نہیں۔ ہم صرف اجتماعی اجتہاد کے سلسلے میں ہونے والی پیش رفت کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے ہم نے علما ہی کے ایک معتبر نمایندے کی تحریر کا سہارا لیا ہے۔ مولانا زاہد الراشدی فرماتے ہیں:۸۳؎ اس مرحلے میں اس تاریخی حقیقت کو پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جب علماے کرام کو نئی ریاست کی دستوری حیثیت کا تعین کرنے کے لیے فیصلہ کرنے کا موقع ملا تو انھوں نے ماضی کی روایات سے بے لچک طور پر بندھے رہنے کے بجائے وقت کے تقاضوں اور علامہ اقبال کی فکر کا ساتھ دیا، جس کی واضح مثال قرارداد مقاصد اور تمام مکاتب فکر کے ۲۲سرکردہ علماے کرام کے ۳۱متفقہ دستوری نکات میں خلافت عثمانیہ کے خاندانی اور موروثی نظام کی بحالی پر زور دینے کے بجائے عوام کی رائے اور مرضی کو حکومت کی تشکیل کی بنیاد تسلیم کرنے کی صورت میں موجود ہے۔ اسی طرح عقیدۂ ختم نبوت کے منکر قادیانیوں کو مرتد کا درجہ دے کر فقہی احکام کے مطابق گردن زدنی قرار دینے کے بجائے علامہ اقبال کی تجویز کی روشنی میں غیرمسلم اقلیت کی حیثیت دے کر ان کے جان و مال کے تحفظ کے حق کو تسلیم کرنا بھی ملک کے علما کا ایک ایسا اجتہادی فیصلہ ہے، جس کے پیچھے علامہ محمد اقبال کی فکر کار فرما دکھائی دیتی ہے، جب کہ ۱۹۷۳ء کے دستور میں پارلیمنٹ کو قرآن و سنت کے اصولوں کی پابندی کی شرط پر قانون سازی کی حتمی اتھارٹی تسلیم کیے جانے کو بھی اسی تسلسل کا حصہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ علامہ کی رائے بالکل درست تھی کہ ’’باب اجتہاد بند ہونے کی بات نرا افسانہ ہے‘‘۔سو اب سوال یہ ہوا کہ اگر سبھی مکاتبِ فکر اجتہاد کرتے آ رہے ہیں کیونکہ یہ ایک ناگزیر ضرورت ہے، علما کا معمول ہے، قانون کا لازمی تقاضا ہے تو پھر اس کو اجتہاد کَہ کر انجام دینے میں گھبرانے کی کیا بات ہے؟ جس فریضے کو ادا کرنے کا آپ کے ہاں عملاً استمرار ہے اس سے قولاً انکار کیوں ہے؟ حقیقت موجود ہے تو عنوان مفقود کیوں ہے؟بالفعل اجتہاد اگر جاری ہے تو باللفظ اس کو اجتہاد کہنے میں ناگواری کیوں ہے؟ مولانا مودودی نے ’’مسح علی الخفین‘‘ کے مسئلے پر فتویٰ دیا کہ جرابوں پر مسح ہو سکتا ہے۔ مفتی محمد شفیع ؍ مولانا تقی عثمانی نے ان پر اعتراض کیا کہ مولانا اس فتوے سے آپ حنفیت سے نکل گئے۔ مولانا نے پلٹ کر یہی جواب دیا تھا کہ الحیلۃ الناجزۃ کے قصے میں آپ حضرات نے کیا کیا تھا!کیا وہ اصل حنفیت سے خروج نہیں تھا؟ ’’این گنا ہیست کہ در شہر شما نیز کنند!‘‘۔ خلاصۂ بحث m فقہ اسلامی اور اسلامی اصولِ تشریع میں اجتہاد ایک لازمی عنصر تھا کیونکہ اسی سے مسلمان کسی عمل کے بارے میں یہ فیصلہ کرتے تھے کہ اس میں منشائے خداوندی کیا ہے۔ m اجتہاد کے لیے بقدر کفایت علمِ فقہ درکار تھا اور ہر مجتہد جو اللہ کے کلام کا مدعا جاننے کے لیے سعی وکاوش کرکے حکم متعین کرتا تھا، اس کے لیے اجر کا وعدہ تھا۔ صائب الرائے کے لیے دوہرا اور خطا کرنے والے کے لیے آدھا ۔ m بابِ اجتہاد کے بند ہونے کا خیال اسلامی تاریخ پہلی پانچ صدیوں میں کہیں نظر نہیں آتا۔ اس کے بعد بھی یہ امکان ؍ عدم امکان مجتہدین کی بحث میں ضمناً سامنے آیا۔ اس وقت بھی یہ اتنا اجنبی تصور تھا کہ اسے ایک شاذ رائے سے زیادہ کوئی حیثیت نہ ملی۔ m ان صدیوں میں عملی اور علمی دونوں سطحوں پر مسلم معاشرے میں اجتہاد کا عام چلن تھا۔ یہ امر اس کی اہمیت اور ضرورت پر دال تھا۔ اجتہاد اور مجتہدین فقہ کے میدان میں بھی سرگرم عمل تھے اور حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر بھی ان کی ضرورت رہی تھی۔ m اجتہاد کے کئی درجات تھے ۔ اس بات میں علما و فقہا مختلف الرائے تھے کہ صرف محدود و مقید اجتہاد جاری ہے یا ہر نوع ؍ درجے کا اجتہاد ممکن ہے۔ m بابِ اجتہاد بند ہونے کا خیال اپنی ابتدائی شکل میں چھٹی صدی ہجری میں ظاہر ہوا۔ m مابعد کے سارے زمانے میں یہ ایک اختلافی مسئلہ رہا۔ فقہی اصطلاحات میں ایک ژولیدگی اور فقہا کے اختلافِ رائے کی وجہ سے ’’انسداد باب الاجتہاد‘‘ اور ’’عدم مجتہدین‘‘ کے مسئلے پر کبھی اجماع نہیں ہو سکا۔ m اجماع نہ ہونے کے تین اور بھی بنیادی اسباب تھے: سب سے اہم یہ(کہ دسویں صدی) تک مشہور اربابِ اجتہاد موجود تھے۔ اس دور کے بعد اگرچہ مجتہدین کی تعداد کم ہوتی چلی گئی لیکن اجتہاد فی المسائل اور اجتہاد فی المذہب زیادہ یا کم ہمیشہ جاری رہا اور عہد جدید سے پہلے مصلحین امت نے شدّو مدسے اس کی وکالت بھی کی۔ دوسرا سبب یہ تھا کہ مسلمان ہر صدی میں مجدد منتخب کرنے کے قائل تھے اور مجدد کا مجتہد ہونا ضروری ہے۔ تیسرا عنصر یہ کہ حنبلی مکتبِ فکر اس رائے کا سرے سے قائل نہیں رہا اور انھیں بہت با اثر شافعی علما کی حمایت بھی حاصل تھی۔ ان کی تائید نے نہ صرف حنابلہ کے اس دعوے کو تقویت دی کہ مجتہد ہر زمانے میں موجود ہوتے ہیں بلکہ احناف اور مالکیہ کے اتحاد کو بھی ضعف پہنچایا۔ m حنفی علما میں عموماً اور ہندوستان کی علمی فضا میں خصوصاً ، بعد کے زمانوں میں، رفتہ رفتہ ، ایک دوسری رائے کو غلبہ حاصل ہو گیا جو راہِ اجتہاد کو مسدود اور تقلید کو لازم قرار دیتی تھی۔ m اس کے باوجود عملی صورت حال اس کے برعکس تھی۔ کسی نہ کسی درجے کا اجتہاد ہمیشہ جاری رہا، سلطنتِ عثمانیہ میں بھی اور ہندوستان میں بھی۔ مسلمانوںکا ذخیرۂ فتاوی اس کا بیّن ثبوت ہے۔ m علامہ اقبال نے ان دو آرا میں سے ایک یعنی، فوقیتِ اجتہاد کو مسلمانوں کے لیے مفید تر قرار دے کر علما کو اس کی طرف متوجہ کیا اس مسئلے میں ان کی رائے کو جیّد فقہا کی تائید حاصل تھی۔ m ہندوستان کے حنفی علما نے علامہ کی تجویز کے مطابق بعض سنگین عملی مسائل حل کرنے کے لیے اجتہاد کیا اور اس کے نتیجے میں بڑی قانونی ترامیم وقوع پذیر ہوئیں۔ m حقیقت یہ ہے کہ بعض طبقات کے اختلاف و گریز کے باوجود امت کی سطح پر اجتہاد ایک تسلسل سے جاری رہا ہے۔ حنفی علما بھی اس سے کنارہ کش نہیں رہے گو ان کے ہاں اس کے عنوان سے ایک گونہ اجتناب نظر آتا ہے۔ لیکن عملی طور پر ان میں بھی اجتہاد فی المسائل ، اجتہاد فی المذہب اور (حسب ضرورت) اجتہاد فی الشرع سبھی درجات کا اجتہاد ہوتا رہاہے۔ علامہ کی رائے درست تھی کہ باب اجتہاد بند کرنے کی بات نری افسانہ طرازی ہے: ؎ راہ مضمون تازہ بند نہیں تا قیامت کھلا ہے باب ’سخن‘ (ولی) ئ…ئ…ء حواشی - ’’باب اجتہاد کے بند ہونے کی رائے اگر کسی حد تک درست کہی جاسکتی ہے تو وہ دین کے پانچ ارکان کے بارے میں ہوسکتی ہے۔ یعنی وہ پانچ بنیادی اور اساسی عمل جو سنت نبوی نے متعین انداز میں طے کر دیے ہیں‘‘۔ شمس الدین چیٹک، اسلام اصول و مظاہرمیں، اردو ترجمہ محمد سہیل عمر، اقبال اکادمی پاکستان/ ادارہ تحقیقاتِ اسلامی لاہور، ۲۰۰۸ئ، ص،۱۰۱-۱۰۳۔ ۲- جاوید اقبال، زندہ رود، اقبال اکادمی پاکستان (۱۱پ)، لاہور، ۲۰۰۰ئ، صفحات۵۶۰-۶۲۱، نیز دیکھیے محمد عبداللہ چغتائی، ’’علامہ اقبال کا جنوبی ہند کا سفر‘‘ مشمولہ متعلقات خطبات اقبال، مرتبہ سید عبداللہ (۱۱پ) لاہور، ص،۱۷-۴۵۔ 3- Muhammad Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam, IAP, Lahore, 1989, pp. 131-134, 141-142. اُردو تراجم کے لیے دیکھیے کتابیات۔ ۴- ایک نمایندہ کتابیات کے لیے دیکھیے مقالے کے آخر میں کتابیات۔ 5- The Reconstruction, op. cit., p. 141. اقتباس کے اردو ترجمے کے لیے دیکھیے سید نذیر نیازی (مترجم) تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ (تشکیل)، بزمِ اقبال، لاہور، ص،۲۵۳۔ ۶- مثلاً دیکھیے ناسخ و منسوخ کی الجھی ہوئی بحث کے بارے میں علامہ کی توضیح، تشکیل (انگریزی)، محولہ بالا، ص،۱۳۸-۱۳۹۔ ۷- ر-ک، تشکیل (انگریزی)، محولہ بالا، اصول و مبادی ص ص،۱۱۷-۱۱۸، اسباب مخالفت اجتہاد ص ص، ۱۱۹-۱۲۰، رویے، تحریکیں،ص ص،۱۲۹-۱۳۱، اجتماعی اجتہاد، پارلیمنٹ، ۱۳۸، اجتہاد- ضرورت، تعامل،جواز ص، ۱۴۱-۱۴۲۔ ترجمے کے لیے دیکھیے تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ (مترجم سید نذیر نیازی) کی ذیل کی عبارات: اسلام کے نزدیک حیات کی یہ روحانی اساس ایک قائم و دائم وجود ہے جسے ہم اختلاف اور تغیر میں جلوہ گر دیکھتے ہیں۔ اب اگر کوئی معاشرہ حقیقت مطلقہ کے اس تصور پر مبنی ہے تو پھر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ثبات اور تغیر دونوں خصوصیات کا لحاظ رکھے۔ اس کے پاس کچھ تو اس قسم کے دوامی اصول ہونا چاہییں جو حیات اجتماعیہ میں نظم و انضباط قائم رکھیں، کیونکہ مسلسل تغیر کی اس بدلتی ہوئی دنیا میں ہم اپنا قدم مضبوطی سے جما سکتے ہیں تو دوامی ہی کی بدولت۔ لیکن دوامی اصولوں کا یہ مطلب تو ہے نہیں کہ اس سے تغیر اور تبدیلی کے جملہ امکانات کی نفی ہوجائے، اس لیے کہ تغیر وہ حقیقت ہے جسے قرآن پاک نے اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی آیت ٹھہرایا ہے۔ اس صورت میں تو ہم اس شے کو جس کی فطرت ہی حرکت ہے، حرکت سے عاری کردیں گے۔ اصول اول کی تائید تو سیاسی اور اجتماعی علوم میں یورپ کی ناکامیوں سے ہوجاتی ہے۔ اصول ثانی کی عالم اسلام کے پچھلے پانچ سو برس کے جمود سے، جو اگر ٹھیک ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کی ہیئت ترکیبی میں وہ کون سا عنصر ہے جو اس کے اندر حرکت اور تغیر قائم رکھتا ہے؟ اس کا جواب ہے اجتہاد! (ص،۲۲۱-۲۲۲)…… فتوحات میں اضافے کے ساتھ ساتھ قانون میں باقاعدہ غوروفکر ناگزیر ہوگیا تھا۔ فقہائے متقدمین نے خواہ وہ عرب ہوں یا عجم، اس سلسلے میں جس محنت اور عرق ریزی سے کام لیا اس کے نتائج بالآخر ہمارے مشہور مذاہب فقہ کی تدوین میں ظاہر ہوئے۔ ان مذاہب کے نزدیک اجتہاد کے تین درجے ہیں: (۱)تشریح یا قانون سازی میں مکمل آزادی، لیکن جس سے عملاً صرف مؤسسین مذاہب ہی نے فائدہ اٹھایا (ب)محدود آزادی جو کسی مخصوص مذہب فقہ کی حدود کے اندر ہی استعمال کی جاسکتی ہے اور (ج) وہ مخصوص آزادی جس کا تعلق کسی ایسے مسئلے میں جسے مؤسسین مذاہب نے جوں کا توں چھوڑ دیا ہو، قانون کے اطلاق سے ہے۔ مگر ہم اس خطبے میں اپنا دائرہ بحث اجتہاد کی شق اول تک ہی محدود رکھیں گے، یعنی قانون سازی میں کامل آزادی تک۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نظری طور پر اہل سنت و الجماعت نے اجتہاد کی ضرورت سے کبھی انکار نہیں کیا، گو جب سے مذاہب اربعہ قائم ہوچکے ہیں عملاً اس کی کبھی اجازت بھی نہیں دی، کیونکہ انھوں نے اس پر کچھ شرطیں لگا دی ہیں جن کا پورا کرنا ناممکن تو کیا سرے سے محال ہے۔ پھر جب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ روش اس نظام قانون نے اختیار کی جس کی بنیادیں قرآن مجید پر استوار ہوئیں جو زندگی کو متحرک اور متغیر قرار دیتا ہے تو اور بھی تعجب ہوتا ہے۔ لہٰذا اس سے پیشتر کہ ہم اپنی بحث میں آگے بڑھیں، یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ اس ذہنی روش کے اسباب کیا تھے جس نے قانونِ اسلام کو عملاً سرتاسر جامد بنا رکھا ہے۔ (ص،۲۲۲-۲۲۳)…… لہٰذا یہ ایک طبعی امر تھا کہ سیاسی زوال و انحطاط کے اس دور میں قدامت پسند مفکر اپنی ساری کوششیں اس بات پر مرتکز کردیتے کہ مسلمانوں کی حیات ملی ایک یک رنگ اور یکساں صورت اختیار کرلے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس طرح ان میں مزید انتشار پیدا نہیں ہوگا۔ انھوں نے اس کا تدارک اس طرح کیا کہ فقہائے متقدمین نے قوانین شریعت کی تعبیر جس طرح کی تھی اس کو جوں کا توں برقرار اور ہر قسم کی بدعات سے پاک رکھا۔ (ص،۲۲۵)…… لیکن وہ نہیں سمجھے اور ہمارے زمانے کے علما نہیں سمجھتے تو یہ کہ قوموں کی تقدیر اور ہستی کا دارومدار اس امر پر نہیں کہ ان کا وجود کہاں تک منظم ہے، بلکہ اس بات پر [ہے] کہ افراد کی ذاتی خوبیاں کیا ہیں، قدرت اور صلاحیت کیا۔ (ایضاً) اندریں صورت اگر قوم کے زوال و انحطاط کو روکنا ہے تو اس کا یہ طریق نہیں کہ ہم اپنی گذشتہ تاریخ کو بے جا احترام کی نظر سے دیکھنے لگیں، یا اس کا احیا خود ساختہ ذرائع سے کریں۔ (ایضاً)…… لہٰذا قواے انحطاط کے سدباب کا اگر کوئی ذریعہ فی الواقع مؤثر ہے تو یہ کہ معاشرے میں اس قسم کے افراد کی پرورش ہوتی رہے جو اپنی ذات اور خودی میں ڈوب جائیں، کیونکہ ایسے ہی افراد ہیں جن پر زندگی کی گہرائیوں کا انکشاف ہوتا ہے اور ایسے ہی افراد وہ نئے نئے معیار پیش کرتے ہیں جن کی بدولت اس امر کا اندازہ ہونے لگتا ہے کہ ہمارا ماحول سرے سے ناقابل تغیروتبدل نہیں۔ اس میں اصلاح اور نظرثانی کی گنجایش ہے۔ (ایضاً)…… جہاں تک ترکی کا تعلق ہے، ترکوں کے سیاسی اور مذہبی افکار میں اجتہاد کا جو تصور کام کررہا تھا اسے عہدحاضر کے فلسفیانہ خیالات سے اور زیادہ تقویت پہنچی اور جس سے اس میں مزید وسعت پیدا ہوتی چلی گئی۔ (ص،۲۲۷)…… چنانچہ بلادِ اسلامیہ کی اکثریت کو دیکھیے تو ان میں پرانی قدروں ہی کا تکرار جاری ہے، بعینہٖ جیسے کوئی کل ایک ہی انداز پر چل رہی ہو۔ ترک البتہ نئی نئی قدریں پیدا کرہے ہیں۔ ان کا گزر بڑے بڑے اہم تجربات سے ہورہا ہے، اور یہی تجربات ہیں جن سے ان کا اندرونِ ذات ان پر منکشف ہورہا ہے۔ ان کی زندگی میں حرکت پیدا ہوگئی ہے، وہ بدل رہی اور وسعت حاصل کررہی ہے۔ اس کا نتیجہ ہے نئی نئی آرزوئیں اور نئی نئی مشکلات، مگر پھر اس کے ساتھ ساتھ وہ ان کے نئے نئے حل بھی سمجھا رہی ہے۔ لہٰذا آج جو مسئلہ ترکوں کو درپیش ہے کل دوسرے بلادِ اسلامیہ کو پیش آنے والا ہے اور اس لیے سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی قانون میں کیا فی۔الواقع مزید نشوونما اور ارتقا کی گنجایش ہے۔ لیکن اس سوال کے جواب میں ہمیں بڑی زبردست کاوش اور محنت سے کام لینا پڑے گا۔ (ص،۲۳۷)…… آزاد خیالی کی تحریک اسلام کا نازک ترین لمحہ بھی ہے۔ آزاد خیالی کا رجحان بالعموم تفرقہ اور انتشار کی طرف ہوتا ہے۔ لہٰذا نسلیت اور قومیت کے یہی تصورات جو اس وقت دنیاے اسلام میں کارفرما ہیں اس وسیع مطمح نظر کی نفی بھی کرسکتے ہیں جس کی اسلام نے مسلمانوں کو تلقین کی ہے۔ پھر اس کے علاوہ یہ بھی خطرہ ہے کہ ہمارے مذہبی اور سیاسی رہنما حریّت اور آزادی کے جوش میں، بشرطیکہ اس پر کوئی روک عائد نہ کی گئی، اصطلاح کی جائز حدود سے تجاوز کرجائیں۔ (ص،۲۳۷-۲۳۸)…… اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اسلامی قانون کی عمارت جس طرح اٹھائی گئی اور تاریخی اعتبار سے اس نے جو صورت اختیار کی اس کے پیش نظر کیا اس امر کا فی۔الواقع امکان ہے کہ ہم اس کے اصولوں کی ازسرنو تعبیر کرسکیں۔ بالفاظ دیگر کیا اسلامی قانون سچ مچ ارتقا کا اہل ہے؟(ص،۲۳۸) جب ہم اسلامی قانون کے نشوونما کا مطالعہ بہ نگاہِ تاریخ کرتے ہیں تو جہاں یہ دیکھتے ہیں کہ فقہاے اسلام ذرا ذرا سے اختلافات میں ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہراتے، بلکہ انھیں ملحد قرار دیتے تھے، وہاں یہی حضرات اپنے پیش روئوں کے اختلافات کو اس لیے سلجھانے کی کوشش کرتے کہ ان میں زیادہ سے زیادہ اتحاد اور یک جہتی پیدا ہوسکے۔‘‘ دورِ حاضر کے مغربی ناقدین نے بھی اسلام کے بارے میں جو نظریات قائم کیے ہیں ان سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے جیسے مسلمانوں کی زندگی کو تقویت پہنچے گی اسلام کی عالمگیر روح فقہا کی قدامت پسندی کے باوجود اپنا کام کرکے رہے گی۔ مجھے اس امر کا بھی یقین ہے کہ جوں ہی فقہ اسلام کا مطالعہ غائر نگاہوں سے کیا گیا اس کے موجودہ ناقدین کی یہ رائے بدل جائے گی کہ اسلامی قانون جامد یا مزید نشوونما کے ناقابل ہے۔ بدقسمتی سے اس ملک کے قدامت پسند مسلم عوام کو ابھی یہ گوارا نہیں کہ فقہ اسلامی کی بحث میں کوئی تنقیدی نقطۂ نظر اختیار کیا جائے۔ وہ بات بات پر خفا ہوجاتے اور ذرا سی تحریک پر بھی فرقہ وارانہ نزاعات کا دروازہ کھول دیتے ہیں۔ بایں ہمہ ہم اس بحث میں چند معروضات پیش کریں گے: دوسرے یہ کہ قرن اول کے تقریباً وسط سے لے کر قرنِ چہارم کے آغاز تک عالم اسلام میں فقہ اور قانون کے کم۔ازکم انیس مذاہب کا ظہور ہوچکا تھا جس سے پتا چلتا ہے کہ فقہاے متقدمین نے ایک بڑھتے ہوئے تمدن کی ضروریات کے پیش نظر کس سعی اور جدوجہد سے کام لیا۔ بات یہ ہے کہ فتوحات میں توسیع اور اضافے کے ساتھ ساتھ جب عالم اسلام کے مطمح نظر میں بھی وسعت پیدا ہوئی تو اس سے فقہاے متقدمین کو بھی ہر معاملے میں وسعت نظر سے کام لینا پڑا۔ وہ مجبور ہوگئے کہ جو قومیں اسلام قبول کررہی ہیں ان کے عادات و خصائل اور مقامی حالات کا مطالعہ کریں۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس وقت کی سیاسی اور ملی تاریخ کی روشنی میں ہم ان مذاہبِ فقہ پر نظر ڈالتے ہیں تو اس حقیقت کا انکشاف ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے سلسلۂ تعبیروتاویل میں استخراج کی بجائے رفتہ رفتہ استقرائی منہاج اختیار کرتے چلے گئے۔ تیسرے یہ کہ اسلامی قانون کے متفق فیہ مأخذ، علیٰ ھذا اس سلسلے میں جو نزاعات قائم ہوئے ان کا لحاظ رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو مذاہبِ فقہ کے مفروضہ جمود کی کوئی حقیقت باقی نہیں رہتی، بلکہ صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ اسلامی قانون میں مزید ارتقا اور نشوونما کا پورا پورا امکان ہے۔ (ص،۲۳۹-۲۴۰)…… اموی اور عباسی خلفا کا فائدہ اسی میں تھا کہ اجتہاد کا حق بحیثیت افراد مجتہدین ہی کے ہاتھ میں رہے، اس کی بجائے کہ اس کے لیے ایک مستقل مجلس قائم ہو جو بہت ممکن ہے انجام کار ان سے بھی زیادہ طاقت حاصل کرلیتی۔ بہرحال یہ دیکھ کر اطمینان ہوتا ہے کہ اس وقت دنیا میں جو نئی نئی قوتیں ابھر رہی ہیں، کچھ ان کے اور کچھ مغربی اقوام کے سیاسی تجربات کے پیش نظر مسلمانوں کے ذہن میں بھی اجماع کی قدروقیمت اور اس کے مخفی امکانات کا شعور پیدا ہورہا ہے۔ بلادِ اسلامیہ میں جمہوری روح کا نشوونما اور قانون ساز مجالس کا بہ تدریج قیام ایک بڑا ترقی زا قدم ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مذاہب اربعہ کے نمایندے جو سردست فرداً فرداً اجتہاد کا حق رکھتے ہیں، اپنا یہ حق مجالس تشریعی کو منتقل کردیں گے۔ یوں بھی مسلمان چونکہ متعدد فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اس لیے ممکن بھی ہے تو اس وقت اجماع کی یہی شکل۔ مزید برآں غیرعلما بھی جو ان امور میں بڑی گہری نظر رکھتے ہیں، اس میں حصہ لے سکیں گے۔ میرے نزدیک یہی ایک طریقہ ہے جس سے کام لے کر ہم زندگی کی اس روح کو جو ہمارے نظاماتِ فقہ میں خوابیدہ ہے ازسرنو بیدار کرسکتے ہیں۔ یونہی اس کے اندر ایک ارتقائی مطمح نظر پیدا ہوگا۔ (ص،۲۴۸- ۲۴۹)…… لہٰذا آگے چل کر مذہب حنفی میں وہ سب نتائج جو ان نزاعات سے مترتب ہوئے جذب ہوتے چلے گئے۔ لہٰذا یہ مذہب اپنی بنیاد اور اساسات میں کاملاً آزاد ہے اور یہی وجہ ہے کہ بمقابلہ دوسرے مذاہبِ فقہ اس میں کہیں زیادہ صلاحیت پائی جاتی ہے کہ جیسے جیسے حالات ہوں اپنی قوت تخلیق سے کام لیتے ہوئے ان سے مطابقت پیدا کرے۔ یہ دوسری بات ہے کہ بحالتِ موجودہ حنفی فقہا نے اس مذہب کی روح کے خلاف امام ابوحنیفہ اور ان کے شاگردوں کی تعبیرات کو کچھ ویسی ہی دوامی حیثیت دے رکھی ہے جیسے شروع شروع میں امام موصوف کے ناقدین نے ان فیصلوں کو دی جو انھوں نے واقعات کو دیکھتے ہوئے کیے تھے۔ بہرحال اگر مذہبِ حنفی کے اس بنیادی اصولِ قانون، یعنی قیاس کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر کام میں لایا جائے تو جیسا کہ امام شافعی کا ارشاد ہے وہ اجتہاد ہی کا دوسرا نام ہے اور اس لیے نصوصِ قرآنی کی حدود کے اندر ہمیں اس کے استعمال کی پوری پوری آزادی ہونی چاہیے۔ پھر بحیثیت ایک اصولِ قانون اس کی اہمیت کا اندازہ صرف اس بات سے ہوجاتا ہے کہ بہ قول قاضی شوکانی زیادہ تر فقہا اس امر کے قائل تھے کہ حضور رسالت مآب ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں بھی قیاس سے کام لینے کی اجازت تھی۔ لہٰذا یہ کہنا کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہوچکا ہے محض ایک افسانہ ہے جس کا خیال کچھ تو اس لیے پیدا ہوا کہ اسلامی افکارِ فقہ ایک معین صورت اختیار کرتے چلے گئے اور کچھ اس ذہنی تساہل کے باعث کہ روحانی زوال کی حالت میں لوگ اپنے اکابر مفکرین کو بتوں کی طرح پوجنا شروع کردیتے ہیں۔ لہٰذا اگر فقہائے متاخرین میں سے بھی بعض نے اس افسانے کی حمایت کی ہے تو کیا مضائقہ ہے۔ عہدحاضر کے مسلمان کبھی یہ گوارا نہیں کریں گے کہ اپنی آزادیِ ذہن کو خود اپنے ہاتھوں قربان کردیں۔ چنانچہ دسویں صدی ہجری میں سرخسی نے اس موضوع پر قلم اٹھاتے ہوئے نہایت ٹھیک لکھا ہے کہ ’’اس افسانے کے حامی اگر یہ سمجھتے ہیں کہ متقدمین کو اس امر میں زیادہ آسانیاں حاصل تھیں، برعکس اس کے متاخرین کا راستہ مشکلات سے پُر ہے تو یہ بڑی ہی غیرمعقول بات ہوگی۔ یہ اس لیے کہ فقہائے متاخرین کو اجتہاد کے لیے زیادہ آسانیاں حاصل ہیں۔ قرآن مجید اور سنت رسول ﷺ میں تفاسیر و شروح کا ذخیرہ اس حد تک وسیع ہوچکا ہے کہ آج کل کے مجتہدین کے پاس بہ نسبت سابق تعبیر وترجمانی کا کہیں زیادہ سامان موجود ہے۔ میرا خیال ہے اجتہاد کی اس مختصر سی بحث سے آپ بخوبی سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ ہمارے اصولِ فقہ ہوں، یا نظاماتِ فقہ ان میں آج بھی کوئی بات ایسی نہیں جس کے پیش نظر ہم اپنے موجودہ طرزِ عمل کو حق بجانب ٹھہرائیں۔ برعکس اس کے اگر ہمارے افکار میں وسعت اور دقتِ نظر موجود ہے اور ہم نئے نئے احوال اور تجربات سے فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں تو ہمیں چاہیے فقہ اسلامی کی تشکیل نو میں جرأت سے کام لیں۔(ص،۲۵۲-۲۵۳)۔ ۱:۷- مسئلہ اجتہاد پر علامہ اقبال کی آرا ان کے معاصرین کے لیے بھی رہنما تھیں اور مابعد کے مفکرین اور علما و فقہا کے لیے بھی فکر انگیز ثابت ہوئیں۔علامہ اقبال کی آرا کی روشنی میں آج جو کام انجام دیا جا رہا ہے اس کی ایک نمایندہ آواز جاوید احمد غامدی صاحب کی ہے۔ خطبۂ اجتہاد کی عبارتوں کے متوازی آج کی فکری سرگرمی پر ایک نظر ڈالنا بھی ہمارے مبحث کے لیے مفید رہے گا۔ اس غرض سے علامہ کے اٹھائے ہوئے نکات کے حوالے سے غامدی صاحب کی تحریر و’’اجتہاد‘‘ سے اقتباسات درج کیے جا رہے ہیں: ’’بیشتر معاملات میں شریعت اصول وضع کرتی ہے اور جزئی تفصیلات کو بیان نہیں کرتی۔اس شریعت کو جب ہم اپنے انفرادی یا اجتماعی وجود پر قانون کی صورت میں نافذ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اس موقع پر دو طرح کے اُمور ہمارے سامنے آتے ہیں۔ایک وہ اُمور جن میں شریعت کی طرف سے قانون سازی موجود ہے اور دوسرے وہ اُمور جن میں شریعت خاموش ہے۔ پہلی نوعیت کے اُمور میں ہم شریعت پر غوروتدبر کرکے اس کے مدعا اور منشا کو متعین کرتے ہیں۔ دوسری نوعیت کے اُمور میں ہم شریعت کے منشا تک پہنچنے کے لیے ’’اجتہاد‘‘ کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔اجتہاد سے مراد اپنی عقل و بصیرت سے ان اُمور کے بارے میں رائے قائم کرنا ہے جن میں قرآن و سنت خاموش ہیں یا اُنھوں نے کوئی متعین ضابطہ بیان نہیں کیا۔(ماہنامہ اشراق ، لاہور ، جون ۲۰۰۱ء ، ص، ۲۷،۲۸۔) ۲:۷- اجتہاد کی اقسام: ہمارے فقہا نے اجتہاد کی مختلف اقسام بیان کی ہیں۔ ان میں سے دو اقسام نمایاں ہیں۔ ایک اجتہادِ مطلق ہے اور دوسری اجتہادِ مقید ہے۔ اجتہادِ مطلق سے ان کی مراد وہ امور ہیں جو بالکل نئے ہوں اور جن کے بارے میں اجتہاد کی مثال تاریخ میں موجود نہ ہو۔ اجتہادِ مقید ان مسائل سے متعلق ہوتا ہے جو ماضی میں بھی پیش آئے ہوں اور جن پر اجتہادی کام کے نظائر بھی تاریخ میں موجود ہوں۔ ہمارے نزدیک، اجتہادی کام کی اس طرح کی تقسیم تفہیمِ مدعا کے لیے تو مفید ہوسکتی ہے، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے اجتہاد کی ایک ہی نوعیت ہے اور وہ ان معاملات میں رائے قائم کرنا ہے جن میں شریعت نے کوئی رہنمائی نہ کی ہو۔ اجتہاد کی شرائط: ہمارے روایتی علمِ فقہ میں مجتہد کے لیے کچھ ناگزیر شرائط کا تعین کیا جاتا ہے۔ ان میں سے نمایاں شرائط یہ ہیں: ۱- مجتہد مآخذِ دین کی زبان یعنی عربی سے کماحقہ واقف ہو۔ ۲- قرآن مجید کا جید عالم ہو۔ ۳- سنت، حدیث اور عملِ صحابہ سے پوری واقفیت رکھتا ہو۔ ۴- ماضی کے اجتہادی اور فقہی کام پر گہری نظر رکھتا ہو۔ ۵- صاحب تقویٰ ہو۔ یہ سب شرائط قابلِ لحاظ ہیں اور ان میں زمانے کی ضروریات کے پیشِ نظر بعض اضافے بھی کیے جاسکتے ہیں، مگر ہمارے نزدیک اجتہاد کے معاملے میں اس نوعیت کی شرائط کو لازم ٹھہرانا اور ان کے بغیر کسی اجتہاد کو ناقابلِ قبول قرار دینا، حسبِ ذیل پہلوئوں سے نامناسب ہے: ایک یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتہاد کی ہدایت فرماتے ہوئے یا کسی دوسرے موقع پر، اس نوعیت کی شرائط کو متعین نہیں فرمایا۔ چنانچہ دین کے جس معاملے میں آپ نے تحدید نہیں فرمائی، اس میں بغیر کسی ضرورت کے ہمیں کوئی حدبندی نہیں کرنی چاہیے۔ دوسرے یہ کہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے شرائط کی بحث بالکل بے معنی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی اجتہادی رائے کی صحت یا عدمِ صحت کا فیصلہ علم وتقویٰ کی بنیاد پر نہیں، بلکہ دلیل و استدلال کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ دلیل اگر قوی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ بعض مفروضہ شرائط کے پورا نہ ہونے کی بنا پر کسی اجتہاد کو رد کردیا جائے اور اگر دلیل کمزور ہے تو اجتہاد خواہ کیسی ہی جامع الشرائط شخصیت نے کیا ہو، اسے بہرحال ناقابلِ قبول قرار پانا چاہیے۔ تیسرے یہ کہ یہ عین ممکن ہے کہ کسی معاملے میں متعلقہ شعبے کے ماہر کی رائے مذکورہ شرائط پر پورا اُترنے والے کی رائے سے زیادہ وقیع ہو۔ مثال کے طور پر یہ ہوسکتا ہے کہ طب کے کسی معاملے میں ایک ڈاکٹر کا اجتہاد عربی زبان و ادب کے کسی فاضل کے اجتہاد کے مقابلے میں زیادہ قرینِ حقیقت ہو۔ اسی طرح شریعت میں سود کی تعریف متعین ہوجانے کے بعد اس کے اطلاق کے معاملے میں کسی ماہرِ معیشت کی رائے کسی عالمِ دین کی رائے سے زیادہ صائب ہوسکتی ہے۔ اس بنا پر ہم یہ کہ۔َ۔ سکتے ہیں کہ اجتہاد کے لیے کسی طرح کی کوئی قدغن نہیں ہے۔ یہ دروازہ ہر مسلمان کے لیے اس کی انفرادی یا اجتماعی حیثیت میں پوری طرح کھلا ہے۔(ماہنامہ اشراق ، لاہور، جون ۲۰۰۱ء ، ص، ۳۰۔۳۱) ۳:۷- ماضی کے اجتہادی کام کی حیثیت: قانون و شریعت کے دائرے میں ہمارے جلیل القدر ائمہ نے بہت وقیع کام کیا ہے۔ انھوں نے اپنے فہم کے مطابق، شریعت کے مفہوم و مدعا کی تعیین، اس کی شرح و وضاحت اور مختلف معاملات پر اس کے اطلاق کا کام بھی کیا ہے اور فقہی معاملات میں اپنے حالات کے تقاضوں کے لحاظ سے اجتہادات بھی کیے ہیں۔ موجودہ زمانے میں اگر کوئی شخص اجتہادی کام کرنا چاہے تو وہ ان کے کام سے صرفِ نظر نہیں کرسکتا۔ لیکن، بہرحال یہ انسانی کام ہے۔ انسانی کام، ظاہر ہے کہ غلطی کے امکان اور اختلاف رائے سے مبرّا نہیں ہوسکتا۔ لہذا ان کی آرا سے اتفاق بھی ہوسکتا ہے اور اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے۔ اسلامی تاریخ ان علمی اختلافات سے بھری پڑی ہے جو بعد میں آنے والوں نے ان کی آرا کے بارے میں کیے ہیں۔ ہمارے جید علما نے دین و شریعت کے معاملے میں بھی اور فقہ و اجتہاد کے معاملے میں بھی اس علمی کام میں کوئی انقطاع نہیں آنے دیا۔(ماہنامہ اشراق ، لاہور، جون ۲۰۰۱ء ، ص ،۳۲) ۴:۷- تیسری غلط فہمی یہ ہے کہ فقہ شریعت ہی کا ایک حصہ ہے۔ فقہ، در حقیقت وہ قانون سازی ہے جو ہمارے فقہا نے شریعت کی روشنی میں کی ہے۔ یہ الہامی نہیں، بلکہ انسانی کام ہے۔ یہ قوانین ہمارے فقہا نے اپنے فہم دین کے مطابق، اپنے تمدن کے تقاضوں کے پیشِنظر اور اپنے سیاسی و معاشرتی حالات کو ملحوظ رکھتے ہوئے وضع کیے ہیں۔ یہ ہمارے لیے واجب الاطاعت نہیں ہیں۔ ہم ان کی آرا سے اختلاف کرسکتے ہیں اور شریعت کی روشنی میں اپنے حالات کے لحاظ سے، جب چاہیں نئی فقہ مرتب کرسکتے ہیں۔ (ماہنامہ اشراق ، لاہور، جون ۲۰۰۱ء ، ص ۳۳) ۵:۷- اجتہاد کے ردوقبول یا ترجیح و اختیار کی ضرورت دو موقعوں پر پیش آتی ہے: ایک اس موقع پر جب افراد کو ذاتی معاملات میں کوئی رائے قائم کرنا ہوتی ہے اور دوسرے اس وقت جب کسی اجتماعی معاملے میں قانون سازی کی ضرورت سامنے آتی ہے۔ ذاتی معاملات میں کسی رائے کو اختیار کرنے کا فیصلہ فرد کرتا ہے۔ مثال کے طور پر انتقالِ خون کا تقاضا سامنے آنے پر وہ اس کے جواز اور عدمِ جواز کے حوالے سے رائے قائم کرکے، عطیہ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرسکتا ہے۔ جہاں تک اجتماعی سطح پر کسی اجتہادی رائے کو قانون کی شکل دینے کا تعلق ہے تو اس کا اختیار، سرتاسر مسلمانوں کے اربابِ حل وعقد کو حاصل ہے۔ وہ خود بھی اجتہاد کرسکتے ہیں، کسی ماہرِ فن کی رائے کو بھی قانون کی شکل دے سکتے ہیں اور کسی عالمِ دین کا نقطۂ نظر بھی قبول کرسکتے ہیں۔ فیصلہ، بہرحال انھی کو کرنا ہے۔ ان کی اکثریت جس اجتہاد کو قبول کرلے گی، وہی قانون کی حیثیت سے نافذ العمل قرار پائے گا۔ مسلمانوں میں سے کسی شخص کے لیے اس کی خلاف ورزی جائز نہ ہوگی۔ اس سے اختلاف کا حق، البتہ ہر شخص کو حاصل رہے گا۔ ممکن ہے کہ اربابِ حل وعقد کسی کی اختلافی رائے سے متاثر ہوکر، بعد ازاں قانون میں تبدیلی کا فیصلہ کرلیں۔ چنانچہ قرآن و سنت کی تعبیر کا مسئلہ ہویا کسی ایسے معاملے میں اجتہاد کا جس میں شریعت خاموش ہے، یہ مسلمانوں کے منتخب نمایندے ہی ہیں جن کے فیصلے سے کوئی رائے اسلامی ریاست میں قانون کا درجہ حاصل کرسکتی ہے۔(ماہنامہ اشراق ، لاہور، جون ۲۰۰۱ء ، ص ،۳۱۔۳۲) ۶:۷- دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ امت میں اجتہاد کا د روازہ گذشتہ کئی صدیوں سے بند ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کی چودہ سوسالہ تاریخ میں شاید ایک دن بھی ایسا نہیں آیا جب اجتہاد کا دروازہ بند ہوا ہو۔ یہ عمل پیغمبر اور صحابہ کے زمانے میں بھی جاری تھا، بعد کے ادوار میں بھی پورے تسلسل سے قائم رہا اور آج بھی بغیر کسی انقطاع کے جاری ہے۔ اجتہاد اس وقت بھی ہوتا رہا جب اقوامِ عالم کی قیادت و سیادت مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھی اور اس وقت بھی ہورہا ہے جب وہ محکومی کے دور سے گزر رہے ہیں۔ اجتہاد کے بارے میں یہ تصور ہمارے علما کے تقلیدِ جامد پر اصرار کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔(ماہنامہ اشراق ، لاہور، جون ۲۰۰۱ء ، ص ،۳۳) ۷:۷- اجتہاد کا طریقِ کار اگر کسی معاملے میں شریعت نے قانون سازی نہیں کی تو اس معاملے میں اجتہاد کے لیے پہلے یہ دیکھا جائے گا کہ اس سے ملتے جلتے کسی دوسرے معاملے میں کوئی قانون موجود ہے۔ اگر کوئی قانون موجود ہے تو اس پر قیاس کرکے قانون و ضع کرلیا جائے گا۔ اگر کسی مشابہ معاملے میں قانون موجود نہیں ہے تو پھر یہ معلوم کیا جائے گا کہ شریعت میں کیا کوئی ایسا اصول موجود ہے جس سے اس معاملے کے ضمن میں رہنمائی مل سکے۔ اگر کوئی اصولی ہدایت موجود ہے تو اس سے استنباط کرکے قانون بنالیا جائے گا۔ اگر کوئی مشابہ معاملہ بھی موجود نہ ہو اور نہ اصولی ہدایت میسر ہو تو اپنی عقل سے کوئی رائے قائم کرکے اس کے مطابق قانون سازی کرلی جائے گی، مگر اس موقع پر اس بات کا ہرحال میں لحاظ رکھا جائے گا کہ کوئی بات شریعت کے منشا کے خلاف یا اس کے حدود سے متجاوز نہ ہو۔ اجتہاد کا دائرہ کار اجتہاد کے دائرہ کار کو حسبِ ذیل نکات کی صورت میں متعین کیا جاسکتا ہے: ۱- اجتہاد کا تعلق انھی معاملات سے ہے جو کسی نہ کسی پہلو سے دین و شریعت سے متعلق ہیں۔ ۲- انسانوں کو انفرادی یا اجتماعی حوالے سے جب بھی قانون سازی کی ضرورت پیش آئے تو انھیں چاہیے کہ وہ سب سے پہلے قرآن وسنت سے رجوع کریں۔ ۳- جن معاملات میں قرآن و سنت کی رہنمائی موجود ہے، ان میں قرآن وسنت کی پیروی لازم ہے۔ ۴- جن معاملات میں قرآن و سنت خاموش ہیں، ان میں انسانوں کو چاہیے کہ اپنی عقل وبصیرت کو استعمال کرتے ہوئے آرا قائم کریں۔ ان نکات کی بنا پر یہ بات بطورِ اصول بیان کی جاسکتی ہے کہ شریعت محلِ۔ّ۔ اجتہاد نہیں ہے، بلکہ محلِ۔ّ۔ اتباع ہے۔ محلِ۔ّ۔ اجتہاد صرف وہی اُمور ہیں جن کے بارے میں شریعت خاموش ہے۔ چنانچہ اجتہادی قانون سازی کرتے ہوئے، مثال کے طور پر عبادات کے باب میں، یہ قانون نہیں بنایا جاسکتا کہ تمدن کی تبدیلی کی وجہ سے اب نمازِ فجر طلوع آفتاب کے بعد پڑھی جائے گی، معیشت کے دائرے میں یہ طے نہیں کیا جاسکتا کہ اب زکوٰۃ ڈھائی فی صد سے زیادہ ہوگی، سزائوں کے ضمن میں یہ فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کہ قتل کے بدلے میں قتل کے بجائے عمرقید کی سزا دی جائے گی۔ گویا شریعت کے دائرے میں علما اور محققین کا کام صرف اور صرف یہی ہے کہ احکام کے مفہوم و مدعا کو اپنے علم و استدلال کے ذریعے سے متعین کرنے کی کوشش کریں۔ اس میں ان کے لیے کسی تغیر وتبدل کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ البتہ، جس دائرے میں شریعت خاموش ہے، اس میں وہ دین ومذہب، تہذیب و تمدن اور عرف و رواج کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر طرح کی قانون سازی کرسکتے ہیں۔‘‘ ( ماہنامہ اشراق، لاہور،جون۲۰۰۱ئ، ص۲۹۔۳۰)۔ ۸:۷ عبدالواحد معینی، مقالاتِ اقبال، آئینہ ادب لاہور، ۱۹۸۸ئ، ص،۱۲۷۔ ۸- ابن قدامہ، المغنی،۹ جلد، قاہرہ، ۱۹۶۸ئ۔ ۹- اس ضمن میں دو مطالعات قابل ذکر ہیں جن کی تحقیقی حیثیت غیر معمولی ہے، دونوں کے نتائج تحقیق ایک دوسرے کی تائید کرتے ہیں۔ Chafik Chehata, Etudes de droit Musulman, Paris, 1971.Y. Meron, "The Development of Legal Thought in Hanafi Texts", Studia Islamica, 30 (1969). ان دونوں مطالعات کی بنیاد جن حنفی کتب فقہ کے تجزیے پر ہے ان کا تذکرہ اگلے حاشیے میں آرہا ہے۔ ۱۰- ابوالحسن القدوری، المختصر، مع اللباب فی شرح الکتاب (غنیمی)، قاہرہ، ۶۳-۱۹۶۱ئ،؛شمس الدین سرخسی، المبسوط، ۳۰ جلد، بیروت، ۱۹۷۰ئ؛ علاء الدین سمرقندی، تحفۃ الفقہائ، ۳جلد، دمشق ۱۹۶۴ئ؛ ابو بکر الکاسانی، بدائع الصنائع،۷جلد، بیروت، ۱۹۷۴ء ؛ محمد بن حسن الشیبانی، الامل،۴جلد، حیدرآباد دکن، ۷۳-۱۹۶۶ئ؛ احمد بن محمد الطحاوی، المختصر،قاہرہ، ۱۹۵۴ئ؛ ابواللیث السمرقندی، خزانۃ الفقہ، بغداد، ۱۹۶۵ئ۔ 11- N. J. Coulson, A History of Islamic Law, Edinburgh, 1964. کولسن کو ہم نے صرف نمایندہ مثال کے طور پر پیش کیا ہے ورنہ مغربی مصنّفین کی تصانیف سے اس نوع کی متعدد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ علامہ کے ذہن میں بھی اسلامی فقہ اور قانونی جمود کے بارے میں کیے جانے والے یہی اعتراضات رہے ہوں گے جن کی طرف انھوں نے تشکیل (انگریزی) کے صفحات۱۱۹ -۱۲۰ میں اشارہ کیا ہے۔ گولٹ تسیھر کا عمومی رویہ بھی یہی ہے۔ ۱۲- کولسن، محولہ بالا، صفحات۸۱، ۸۴۔ ۱۳- دیکھیے حاشیہ ۹۔ W. B. Hallaq کی تصانیف ذیل بھی قابل قدر مواد فراہم کرتی ہیں: Wael B. Hallaq, A History of Islamic Legal Theories, Cambridge University Press, London, 1997;Wael B. Hallaq, The Origins and evolution of Islamic Law, Cambridge University Press, London, 2005; Wael B. Hallaq, "Was the Gate of Ijtihad Closed", International Journal of Middle East Studies, Vol.6, No.1, March 1984, pp. 3-41. ۱۴- اس پر الگ سے گفتگو آگے چل کر کی جائے گی۔ 15- George Maqdisi, The Rise of Colleges, Edinburg, 1981. پروفیسر جارج مقدیسی کا ایک تبصرہ (ص۲۹۰) توجہ طلب ہے کہ انھیں ’’عہد وسطیٰ کے مسلم مآخذ میں کوئی بیان نہیں مل سکا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہو کہ باب اجتہاد بند ہوچکا۔‘‘ اگر مقدیسی کا اشارہ پانچویں صدی ہجری کے اواخر کے زمانے کی طرف ہے تو اس سے ہمارے مذکورہ موقف اور نتائج تحقیق کی تائید ہوتی ہے۔ Nicholas Heer کی دریافت بھی یہی ہے کہ کلاسیکی متونِ فقہ میں اس رائے کی کوئی شہادت نہیں ملتی۔ ۱۶- اس اسلوب بیان کے استعمال کی مثال کے لیے دیکھیے محی الدین نووی، المجموع- شرح المذھَّب ، ۱۸جلد، قاہرہ، ۷۱-۱۹۶۶ئ، جلد اوّل، ص۷۶۔ غزالی کے ہاں اس کا استعمال، مستصفی، II، ۳۱۵-۳۱۶؛ سبکی، طبقات، III، ۲۷۷-۲۷۶، ابن عقیل، کتاب الفنون، I، ۹۲۔ ۱۷- اس تاریخی جائزے کے لیے دیکھیے، محمد بکری الصدیقی، الاقتصاد فی بیان مراتب الاجتھاد (مسودہ)، پرنسٹن، ذخیرۂ گیرٹ، یہودا سیکشن، ۲۵۳، فولیو۹۸ بی۔ ۱:۱۷- اس سلسلے میں حلاق کی رائے بھی قابل غور ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اصولِ فقہ کی اس بحث کا ایک گہرا تعلق عقائد اور الٰہیات سے بھی ہے۔ دیکھیے: Wael B. Hallaq, On the Origins of the Controversy about the Exsitance of Mujtahids and the Gate of Ijtihad", Studia Islamicas, 1974, pp. 129-141. ۱۸- مثلاً دیکھیے، مجد الدین، شہاب الدین اور تقی الدین ابن تیمیہ، المسودۃ فی اصول الفقہ، قاہرہ، ۱۹۶۴ئ، ص،۴۷۲،۵۴۵۔ ۱۹- دیکھیے ابوالوفا ابن عقیل، کتاب الفنون، مرتبہ جارج مقدیسی، ۲جلد، بیروت، ۷۱-۱۹۷۰ئ۔ محولہ عبارت کے لیے جلد اوّل، ص۹۲-۹۳۔ ایسی ہی رائے ابن رشد نے بھی ظاہر کی تھی، دیکھیے فصل المقال، مرتبہ ج-ف- حورانی، لیڈن، ۱۹۵۹ئ، ص،۸۔ ۲۰- دیکھیے ابن تیمیہ، مسودہ…، محولہ ماقبل۔ ۲۱- آمدی اصول فقہ کے غالباً پہلے عالم ہیں جس نے وجودِ مجتہدین کی بحث کو الگ سے کیا ہے۔ یوں تو رازی کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ ان کے ہاں بھی یہ بحث ملتی ہے مگر تفصیلات میسر نہیں۔ دیکھیے شوکانی، ارشاد الفحول، ص۲۳۵۔ آمدی نے گویا اس ساری بحث اور اختلافی آرا کو سمیٹ دیا ہے جو ابن عقیل کے دعوے سے شروع ہوئی اور اس میں حنفی اور مالکی علما کی اکثریت کی اور بعض شافعی فقہا کے جوابی رویے سب کی جھلک نظر آتی ہے (دیکھیے آمدی، احکام…، جلد III،۲۵۳-۲۵۴۔ اس بحث کے دیگر حوالوں کے لیے دیکھیے، ابن حاجب، مختصر المنتہی، قاہرہ، ۱۹۰۸ئ، ص۴-۲۲۳، تاج الدین سبکی، جمع الجوامع، بمبئی، جلدII،۱۹۷۰ئ، ۳۹۸-۳۹۹؛ اسنوی، نھایۃ السول فی شرح مناھج الوصول، قاہرہ، ۱۸۹۹ئ، جلدIII،۳۳۱، ۳۴۹؛ تفتازانی، حاشیۃ، جلدII، ۳۰۷، ابن العامر الحاج، تقریر…، جلدIII، ۳۳۹-۳۴۰ ، قفال، شاشی اور امام غزالی بھی وجودِ مجتہدین کے قائل تھے، دیکھیے غزالی، احیاء العلوم، جلدI، ۶۳، انصاری اور ابن عبدالشکور شرح مسلم الثبوت فی اصول الفقہ، قاہرہ، ۱۹۰۷ئ، ۳۹۹-۴۰۰۔ 22- Henry Laust, La politique de Gazali, Paris, 1970, p.77. ۲۳- غزالی، المستصفی من علم الاصول، قاہرہ، ۱۹۰۷ئ، جلدII، ص۳۷۲۔ ۲۴- غزالی، احیاء علوم الدین، جلدI، ۶۳؛ نیز المنقذ من الضلال، عبدالحلیم محمود اڈیشن، قاہرہ، ۱۹۶۵ئ، ص۲،۱۴۔ ۲۵- ان آرا کے لیے دیکھیے شوکانی، ارشاد الفحول، محولہ ماقبل، ص،۲۳۵۔ ۲۶- ابن تیمیہ، مسودۃ…، ص،۵۴۶۔ ۲۷- نووی، مجموع…، محولہ بالا، جلدI، ص،۷۱۔ 28- E. M. Sartain, Jalal al-Din al-Suyuti, Cambridge, 1975, p.65. ۲۹- بکری الصدیقی، محولہ ماقبل، فولیو، ۹۷ب۔ ۳۰- ایضاً ۳۱- عبدالحئی لکھنوی، الفوائد البھیۃ فی تراجم الحنفیۃ، بنارس، ۱۹۶۷ئ، ص،۸۹۔ ۳۲- اس نزاعِ لفظی اور سوء ِتفاہم کی ایک مثال درج ذیل حکایت میں دیکھیے جو ابن عبدالسلام کے زمانے کا ہے۔ ابن عبدالسلام نے حق اجتہاد کا دعویٰ کیا تو سلطان موسیٰ بن ایوب نے انھیں لکھا کہ ’’اگر آپ کو مجتہد ہونے کا دعویٰ ہے تو اسے ثابت کیجیے اور ہمیں قائل کیجیے کہ آپ اس دعوے کے لائق ہیں کیونکہ یہ ایک بڑا دعویٰ ہے اور پانچویں فقہی مذہب کے بانی ہی کو زیب دیتا ہے۔‘‘ ابن عبدالسلام نے جواب دیا کہ ’’رہی بات پانچویں فقہی مذہب کی بنیاد رکھنے کی تو میرا کہنا یہ ہے کہ اصولِ دین موردِ اختلاف نہیں ہیں (مراد یہ کہ پانچویں مذہب کی کوئی گنجایش نہیں)… اختلافات تو صرف فروعی معاملات میں ہوا کرتے ہیں۔‘‘ دیکھیے سبکی، طبقات…، محولہ ماقبل، جلدV، ۹۳،۹۵۔ 33- N. P. Aghnides, Mohammedan Theories of Finance, New York, 1916, rep. 1969, p.91. ۳۴- دیکھیے حوالہ بالا، ص،۲۲-۱۲۱۔ مزید دیکھیے شیخ محمد سعید (مدون)، Reconstruction...،محولہ ماقبل، ص۱۸۹ نیز حاشیہ ۴۸ (ص،۱۹۸)۔ ۳۵- تشکیل جدید (انگریزی)، محولہ ماقبل، ص،۱۱۸۔ ۳۶- ابن حبیب الماوردی، ادب القاضی، مرتبہ ایم-سرحان، جلدI، بغداد، ۱۹۷۱ئ، ص،۴۶۳۔ ۳۷- ابن العامر، تقریر، جلدIII، ۳۴۰، سبکی، طبقات، محولہ ماقبل، جلدV،ص ۱۲۰ نیز جلدI، ص۱۰۶؛ ابن کثیر، البدایۃ والنھایۃ، قاہرہ، ۱۹۳۲ئ، جلد XIII، ص۲۵۰؛ ابن عبدالشکور، شرح، جلدII، ص۳۹۹؛ سیوطی، حسن المحاضرۃ فی اخبار مصر والقاھرہ، جلدI، ۱۴۱-۱۴۷؛ اس ضمن میں زرقا کا مقالہ دور الاجتھاد و مجال التشریع فی الاسلام، بھی مفید معلومات فراہم کرتا ہے۔ دیکھیے انٹرنیشنل اسلامک کلوکیم پیپرز، (انگریزی)، لندن، ۱۹۶۰ئ۔ ۳۸- اور ان میں احناف و شوافع و مالکیہ سبھی فقہی مذاہب کے علما شامل تھے۔ ۳۹- بحوالہ زرقا، محولہ ماقبل، ص،۱۰۷۔ ۴۰- مثلاً دیکھیے عبداللہ السمھودی، العقد الفرید فی احکام التقلید، مخطوطہ پرنسٹن، ذخیرۂ گیرٹ، یہودا سیکشن ۵۱۸۳، فولیو A-۱۷۷، B-۱۷۷ (بحولہ حلّاق)؛ نیز ابن عامر، تقریر، جلدIII، ص۳۴۰؛ شوکانی، ارشاد الفحول، ص،۲۳۵-۲۳۶۔ ۴۱- سبکی کی رائے میں ابن دقیق السعید مجتہد مطلق بھی تھے اور مجدد بھی۔ (سبکی، طبقات…، جلدVI، ۲، ۳، ۶)۔ ابن الرفاعۃ بھی سبکی کی طرح اس بات کے قائل ہیں کہ ابن دقیق العید اور ابن عبدالسلام کے درجۂ اجتہاد پر فائز ہونے کے بارے میں اجماع ہے (صدیقی، اقتصاد…، فولیو A-۹۹)۔ یعموری کی رائے بھی یہی ہے۔ ذہبی اور نوباتہ قاضی زملکانی کو مجتہد قرار دیتے ہیں (سبکی، طبقات، جلدV، ص،۲-۲۵۱؛ سیوطی، حسن…،جلدI، ص۱۴۵)، سبکی ہی کا قول ہے کہ امام رازی کو ان کے بعد آنے والوں نے چھٹی؍ بارہویں صدی کا مجتہد اور مجدد مانا ہے (طبقات، جلدI، ص۱۰۶)۔ ابو شامہ مالکی مکتب فقہ کے مجتہد مانے جاتے تھے (سبکی، طبقات…، جلدV، ص۶۱؛ ابن کثیر، بدایۃ …، جلدXIII، ص۲۵۰)۔ ابن تیمیہ کا رسمی تعلق اگرچہ حنابلہ سے تھا مگر وہ حنبلی اصول فقہ کے کلیتاً پابند نہیں تھے۔ وہ خود کو مجتہد فی المذہب قرار دیتے تھے۔ بہت سے مسائل میں (جن میں سے تقریباً چالیس ہمارے علم میں ہیں) ابن تیمیہ نے چاروں ائمہ فقہ سے اختلاف کیا ہے اوران میں ابن حنبل بھی شامل ہیں۔ (دیکھیے ابن تیمیہ، الفتاویٰ الکبریٰ، قاہرہ، ۱۹۶۹ئ، جلدIII، ص،۹۶-۹۵؛ ابن قیم الجوزیۃ، اعلام الموقعین عن رب العالمین، جلدII، ص۲۳۱)۔ تقی الدین سبکی (تاج الدین سبکی مصنف طبقات کے والد) سبھی کی نظر میں مجتہد تھے۔ تاج الدین جو ان کو ’’خیر المجہتدین‘‘ کہتے ہیں، کا بیان ہے کہ درجنوں مسائل میں ان کے والد نے امام شافعی کے بالکل برعکس رائے قائم کی یا ایسی آرا کو منتخب کیا جو بالعموم شافعی مکتب فقہ میں رد کردی جاتی تھیں (دیکھیے سبکی، طبقات، جلدVI، ص۱۹۶-۱۸۲، ۱۴۷، ۱۱۳)۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ ۴۲- سیوطی، التحدث بنعمۃ اللّٰہ، مرتبہ E. Sartain، کیمبرج، ۱۹۷۵ئ، جلدI، ص۶۳۔ ۴۳- درجات اجتہاد اور مجتہدین اور اس ضمن میں کارفرما التباس فکر نے بہت سے جدید محققین کو بھی الجھن میں ڈالے رکھا ہے۔ مثال کے طور پر دیکھیے: Snouck Hurgronje, Selected Works, ed. C. Bonsquet and J. Schacht, Leiden, 1957, p.282. ہرگونجی نے سیوطی کے دعواے اجتہاد سے یہ سمجھا کہ وہ اجتہاد مطلق کے دعوے دار ہیں اور یوں بانیانِ مکاتب فقہ کی برابری پر اُتر آئے ہیں۔ ۴۴- سیوطی، التحدث، محولہ ماقبل، ص،۲۰۵۔ ۴۵- Sartain،محولہ ماقبل، جلدI، ۶۱، ۶۴-۶۵؛ نیز دیکھیے گولٹ تسیہر "On al-Suyuti", Muslim World, 68,2, April, 1978, p.98. سیوطی، التحدث، ص ،۱۹۳، ۲۰۳۔ ۴۶- دیکھیے Sartain اور گولٹ تسیہر، محولہ بالا۔ ۴۷- دیکھیے التحدث کا وہ باب جو سیوطی نے اس مبحث پر رقم کیا ہے، ص،۲۱۵-۲۲۷۔ ۴۸- تصور تجدید و مجدد کی احادیث کے لیے دیکھیے ابن کثیر، النھایۃ…، جلدI، ص۳۰، اسی حدیث کی ایک اور روایت کے لیے گولٹ تسیہر، محولہ ماقبل، ص۸۱؛ سبکی، طبقات، جلدI، ص۱۰۴؛ حضرت عمر ابن عبدالعزیز اور امام شافعی کو بالترتیب دوسری اور تیسری صدی ہجری کا مجدد مانا جاتا ہے۔ بعد کی صدیوں کے سلسلے میں اختلاف ہے مگر ہر صدی کے لیے کوئی نہ کوئی شخصیت نامزد ہوتی رہی ہے۔ اشعری اور ابن سریج چوتھی صدی کے مجدد کہے جاتے ہیں۔ سیوطی کی ترجیح ابن سریج کے لیے ہے جب کہ ابن عساکر ابوالحسن اشعری کو مجدد قرار دیتے ہیں (دیکھیے عبداللہ خولی، المجددون فی الاسلام، جلدI، قاہرہ، ۱۹۶۵ئ، ص۱۳)۔ پانچویں صدی کے نامزدگان میں ابو حامد الاسفرائینی اور ابو سہل السعلکی شامل ہیں (سبکی، طبقات، جلدI، ص۱۰۵؛ سیوطی، التحدث، ص۲۲۲)۔ امام غزالی چھٹی صدی کے اور امام رازی ساتویں صدی کے مجدد کہے جاتے ہیں گو بعض فقہا نے رازی کی جگہ رافعی کا نام تجویز کیا ہے (گولٹ تسیہر نے جو مآخذ استعمال کیے ہیں ان کے مطابق حنابلہ میں المقدسی (م۶۰۰ھ/ ۱۲۰۳ئ) اور شوافع میں النووی (م۶۷۶ھ/ ۱۲۷۷ئ) کے نام بطور مجدد پیش کیے جاتے ہیں۔ دیکھیے گولٹ تسیہر محولہ ماقبل، ص۸۳-۸۴۔ سبکی رافعی کوامام رازی پر ترجیح دیتے ہیں، دیکھیے طبقات، جلدI، ص۱۰۶)۔ آٹھویں صدی ہجری کے مجدد متفقہ طور پر ابن دقیق العید ہیں۔ نویں صدی کے مجدد کے لیے سراج الدین بلقینی اور ناصر الدین الشاذلی میں مقابلہ ہے (سیوطی، التحدث، ص۲۰۷، ۲۲۵، گولٹ تسیہر، ص۸۴)۔ اگلی صدی میں سیوطی ہیں جن کو اکثر مصنّفین نے یہی حیثیت دی ہے (شوکانی ارشاد الفحول، ص۲۳۶؛ گولٹ تسیہر، ص۸۲)۔ ان کے بعد شیخ احمد سرہندی آتے ہیں جن کو مجدد الف ثانی کا لقب دیا گیا کیونکہ وہ ہزارۂ دوم کے آغاز میں ہو گذرے تھے (دیکھیے EI، دوسری اشاعت، مقالہ ’’احمد سرہندی‘‘؛ نیز بجنوری، دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، فارسی مرکز دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، تہران، ۱۳۷۷ شمسی، جلد۷، ص۴۸)۔ شیخ احمد سرہندی کے بعد انتخابِ مجددین کا عمل پہلے ایسا اہم تو نہیں رہا تاہم گذشتہ اسلامی صدی تک اس کے آثار موجود رہے ہیں کہ گذشتہ صدی کے لیے المراغی الجرجاوی کا نام منتخب کیا گیا تھا (دیکھیے خولی، المجددین، محولہ ماقبل، ص۱۔ مجددین کی تفصیلات کے لیے، ص۱۲-۲۹)۔ پانچویں/ گیارہویں صدی تک کے مجدد تمام شافعی علما تھے (دیکھیے سبکی، طبقات، ص۱۰۴-۱۰۶؛ گولٹ تسیہر، محولہ ماقبل، ص۸۲-۸۳۔ اس میں ابوالحسن اشعری ایک استثنیٰ ہے کیونکہ شافعی اور حنفی دونوں ہی ان کو اپنا کہتے رہے ہیں۔) چھٹی/ بارہویں صدی کے بعد کے مجدد اکثر شافعی تھے، حنابلہ میں سے بھی چند مجدد اُٹھے تاہم ہماری معلومات کے مطابق احناف اور مالکیہ میں سے منصب تجدید کا کوئی دعوے دار نہیں رہا۔ ۴۹- پانچویں/ گیارہویں صدی کی کتبِ طبقات وہ اولین مآخذ ہیں جو سبکی نے اپنی تالیف میں سوانحی مواد کے طور پر استعمال کیے ہیں۔ (دیکھیے، طبقات…، جلدI، ص۱۴۔ نیز دیکھیے I. Hafsi, "Recherches sur le genre 'Tabaqat' dans la litterature Arabe", Arabica, 23, 3, 1976, p.8-12, 17-18, 24. 50- H. Laust, "La pedagogie d'al-Ghazali dans le Mustasfa" Revue des Etudes Islamique, 44, 1976, p.77. 51- Mirza Kazim Beg, "Notice sur la march et les progre's de la jurisprudence, Journal Asiatique, 15, Ser, 4, Jan. 1850, pp. 181-192, 204-214. ۵۲- تفصیلات کے لیے دیکھیے ابن عابدین، حاشیہ رد المختار، قاہرہ، ۱۹۶۶ئ، جلدI، ص۷۷۔ ایضاً، رسائل، جلدI، ص۱۱-۱۳۔ لکھنوی، فوائد، محولہ ماقبل، ص۸۹-۹۰، کاظم بیگ، محولہ ماقبل، ص۲۰۶-۲۱۴، نووی، مجموع…، محولہ ماقبل، جلدI، ص۷۳-۷۴؛ ابن تیمیہ، مسودۃ، محولہ ماقبل، ص،۵۴۹۔ ابن کمال الوزیر (م۹۴۰ھ) نے فقہا کو سات طبقوں میں تقسیم کیا ہے: (ا) مجتہد فی الشرع- وہ مجتہد جو مآخذ شریعت کی بنیاد پر اجتہاد کرے۔ (۲) مجتہد فی المذہب- وہ مجتہد جو ایک مخصوص فقہی مذہب کے دائرے میں اجتہاد کرے۔ (۳)مجتہد فی المسائل- وہ مجتہد جو مخصوص فقہی مذہب کے چند مسائل میں اجتہاد کرے۔ (۴)اصحاب تخریج- وہ فقہا جو کسی مسئلہ میں اپنے فقہی مذہب سے سند پیش کرسکیں۔ (۵)اصحاب ترجیح- وہ فقہا جو دو یازیادہ مختلف روایات میں اپنے فقہی مذہب کے مطابق ایک دوسرے پر ترجیح دینے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ (۶) اصحاب تمیز- وہ فقہا جو اپنے مذہب کی قوی اور ضعیف اور مخفی یا ظاہر اور نادر روایات میں تمیز کرسکیں۔ (۷)مقلدین- وہ فقہا جو محض دوسرے فقہا کے اقوال نقل کرتے ہوں۔ ابن حجر نے مجتہدین کے تین طبقات بتائے ہیں: مجتہد مستقل، مجتہد منتسب اور مجتہد فی المذہب۔ مجتہد مستقل یا مجتہد مطلق یا مجتہد فی الشرع ایک ہی طبقہ ہے۔ اسی طرح مجتہد منتسب اور مجتہد فی المذہب بھی ایک ہی طبقہ ہے۔ البتہ ابن حجر کے نزدیک مسائل، تخریج اور ترجیح کے طبقات بھی مجتہد فی المذہب میں شامل ہیں۔ باقی سب مقلدین ہیں۔ یاد رہے ابن الکمال کا تعلق حنفی مذہب سے اور ابن حجر کا شافعی مذہب سے تھا۔ ۵۳- ابن عابدین، رسائل، محولہ ماقبل، جلدI، ص،۱۱۔ 54- M. Suhrawardy, "The Waqf of Moveables", Asiatic Society of Bengal, 7n.s, 1994, pp.330-331. ۵۵- ابن عابدین، رسائل، محولہ ماقبل، جلدI، ص،۱۲۔ ۵۶- اس رویے کی ایک نمایاں مثال کے لیے دیکھیے ابن خلدون کے المقدمۃ، (ص۴۴-۸۹، روزنتھال کے انگریزی ترجمے میں جلدIII، ۸-۹، ۱۲-۱۳) جو وجود و عدم وجود مجتہدین کے مسئلے پر مقلدین کے عمومی طرزِ فکر کی نمایندگی کرتا ہے۔ ابن خلدون کے سامنے تھا کہ بانیانِ مذاہب فقہ اور ان کے درجے کے فقہا ختم ہوچکے، لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی دیکھ رہا تھا کہ شرح و تعبیر فقہ کا سلسلہ پوری سرگرمی سے جاری ہے۔ اس کی الجھن یہ تھی کہ ان دو حقائق کو مجتہدین ناپید ہونے کے اس خیال سے کیوں کر تطبیق دی جائے جو اب روز افزوں مقبولیت حاصل کررہا تھا۔ اس کے لیے یہی کہنا سود مند بھی تھا اور آسان بھی کہ معاصر فقہا اجتہاد کے قابل نہیں رہے جس کا مطلب یہ ہوتا کہ مجتہد ناپید ہوگئے ہیں اور اس کے زمانے کے فقہا جو کر رہے ہیں اس کا اجتہادی عمل سے کوئی تعلق نہیں خواہ اس فقہی سرگرمی کا دار و مدار قیاس اور فقہی شرح وتعبیر کی دیگر انواع پر ہی کیوں نہ ہو۔ ۵۷- عبدالرحمن الجبوتی، عجائب الاخبار فی التراجم والاخبار، قاہرہ، ۶۷-۱۹۵۸ئ، جلدIII، ۴۱-۴۲۔ ۵۸- دیکھیے شوکانی، القول المفید فی ادلۃ الاجتہاد والتقلید، قاہرہ، ۱۹۷۴ئ، محمد بن اسمٰعیل الصنعانی، ارشاد النقاد الی تیسیر الاجتہاد، بیروت، ۱۹۷۰ئ؛ شاہ ولی اللہ، العقد الجید، قاہرہ، ۱۹۶۵ئ؛ابن عابدین، رسائل، محولہ ماقبل، جلدI، ص،۴۸۔ 59- G. L. Lewis (tr.) Katib Chelebi, The Balance of Truth, London, 1957. 60- J. Schacht, "Early Doctrine on Waqf", in Melange Fuad Kopriilii, Istambul, 1953; J.E. Mandaville, "usurious Piety: The Cash of Waqf controversy in the Ottoman Empire", International Journal of Middle East Studies, 10, 1979, p.295-304, Also see Chelebi, Op.cit, p.129. ۶۱۔ ٹی ڈبلیو آرنلڈ ، دعوت اسلام، ترجمہ : محمد عنایت اللہ ۸۱،۸۲۔ شبلی نعمانی،الفاروق ۲؍۲۶۲۔ المامون۱۵۸،۱۶۱۔ سید صباح الدین عبدالرحمن ، اسلام میں مذہبی روداری ۱۰۵، ۱۲۸، ۱۶۸،۱۸۰، ۲۵۴۔ ۶۲۔ مجلہ الاحکام العدلیہ، مادۃ ۱۷۹۲۔۱۷۹۴۔ ۶۳۔ وہبہ الزحیلی ، الفقہ الاسلامی وادلتہ ۶؍۷۴۴۔ ۶۴۔ محمد عمار خان ناصر، حدود و تعزیرات: اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کا جائزہ، اسلامی نظریاتی کونسل حکومت پاکستان، اسلام آباد، ۲۰۰۷ئ، ص ،۱۳۸-۱۳۹۔ ۶۵- مثلاً دیکھیے ابن عابدین، رسائل، محولہ ماقبل، جلدI، ۲۸؛ ابن عبدالشکور، شرح…، محولہ ماقبل، جلدII، ص،۳۹۹؛ صنعانی، ارشاد…، محولہ ماقبل، ص۲، ۱۱-۱۲، سمہودی، العقد الفرید، فولیو، B-۱۷۷۔ ۶۶- دیکھیے محمد اقبال، تشکیل جدید، (انگریزی)، محولہ ماقبل، ص،۱۳۹، ۱۴۱۔ ۶۷- دیکھیے شوکانی، القول…، محولہ ماقبل، ص،۷۔ ۶۸- حوالہ بالا، ص،۲۱-۲۴، ۳۱۔ ۶۹- شوکانی، البدر، جلدI، ص،۲۔ ۷۰- محمد اقبال، تشکیل جدید(انگریزی)، محولہ ماقبل، ص،۱۴۱۔ ۷۱- شوکانی، ارشاد الفحول، محولہ ماقبل، ص۲۳۶؛ نیز البدر، جلدI، ص،۳۔ ۷۲- دیکھیے تشکیل جدید(انگریزی) محولہ ماقبل، حواشی شیخ محمد سعید، حاشیہ۵۷، ص،۱۹۸۔ ۷۳- ایضاً، ص۱۹۹-۲۰۰۔ نیز ارشاد الفحول، محولہ ماقبل، ص۲۵۳-۲۵۴۔عبارت کا اردو ترجمہ درج ذیل ہے: جو لوگ اس عہد میں مجتہد کے ناپید ہونے کی بات کرتے ہیں اس پر بڑی حیرت ہوتی ہے۔ اگر انھوں نے یہ بات اپنے ہم عصر (علما) کے لحاظ سے کہی ہے تو یہ بات واضح ہے کہ اس عہد میں قفال، غزالی، رازی اور رافعی جیسے علما کی ایک ایسی جماعت موجود تھی جو علوم اجتہاد کی پوری پوری وفاداری کررہے تھے۔ ہر دور کے علماے اسلام کے حالات کی تاریخ کا علم رکھنے والے شخص کی نظر سے اس طرح کی مثالیں اوجھل نہیں، بلکہ ان لوگوں کے بعد تو ایسے اہل علم آئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر اتنے علوم جمع کردیے جو اجتہاد کا علم رکھنے والے علما سے کہیں زیادہ تھے۔ اور اگر انھوں نے یہ بات اس لحاظ سے نہیں کہی بلکہ اس لحاظ سے کہی کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے پہلے اُمت کے اہل علم کو علوم و معارف کا جو کمالِ فہم اور قوتِ ادراک و استعداد عطا کیا تھا اُسے اب اُٹھالیا ہے ،تو یہ انتہائی باطل دعووں میں سے ایک دعویٰ ہے بلکہ جہالتوں میں سے ایک جہالت ہے۔ اور اگریہ بات ان منکرینِ وجود مجتہد سے قبل کے لوگوں کو علم میسر آنے اور اس کے سلسلے میں اپنے آپ کو اس دور کو پیش آنے والی مشکلات کے اعتبار سے کہی ہے تو یہ بھی ایک باطل دعویٰ ہے۔ کسی ادنیٰ فہم رکھنے والے شخص سے بھی یہ بات مخفی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے متاخرین کے لیے اجتہاد کو جس قدر آسان بنا دیا ہے سابقین کے لیے اس قدر آسان نہیں تھا۔ کیونکہ کتابِ عزیز کی تفاسیر اس کثرت سے مدون کی گئیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں اور سنتِ مطہرہ بھی مدون ہوگئی اور ایک بہت بڑی تعداد نے تفسیر، تخریج، تصحیح اور ترجیح پر اس قدر کلام کیا ہے کہ وہ ایک مجتہد کی ضرورت سے بھی زیادہ ہے۔ ۷۴- جاوید احمد غامدی، ’’اجتہاد‘‘ مشمولہ ماہنامہ اشراق، دارالاشراق، لاہور، جون ۲۰۰۱ئ، ص،۳۳۔ ۷۵- شاہ ولی اللہ، العقد الجید…، محولہ ماقبل۔ 76- Dr. M. Khalid Masud, Iqbal's Reconstruction of Ijtihad, IAP, 2003, pp.155-160, 175-176. ۷۷- محمد اقبال، تشکیل جدید(انگریزی)، محولہ ماقبل، ص،۱۳۴۔ ۷۸- مولانا اشرف علی تھانوی، الحیلۃ الناجزۃ…، دیوبند، ۱۹۳۱ئ، نظر ثانی شدہ اڈیشن از محمد تقی عثمانی، حیلۂ ناجزہ یعنی عورتوں کا حق تنسیخِ نکاح، دارالاشاعت کراچی، ۱۹۸۷ئ۔ ۷۹- ڈاکٹر محمد خالد مسعود، محولہ بالا (نوٹ۷۲)، ص،۱۶۶-۱۷۰۔ ۸۰- ایضاً، ص،۱۷۰۔ ۸۱- تفصیلات کے لیے ڈاکٹر محمد خالد مسعود، محولہ ماقبل، ۱۷۰-۱۷۳ نیز ص،۱۷۸۔ ۸۲- فتاویٰ کے ہزارہا صفحات پر پھیلے ہوئے مجموعوں پر ایک نظر اس کے ثبوت کے لیے کافی ہے۔ ۸۳- دیکھیے ابو عمار زاہد الراشدی، ’’علامہ اقبال کا تصورِ اجتہاد اور دورِ جدید‘‘ مشمولہ مجلہ اجتہاد، اسلامی نظریاتی کونسل، اسلام آباد، شمارہ۱، جون۲۰۰۷ئ، ص،۳۸۔ اجتماعی اجتہاد کے سلسلے میں ایک اور مفید مجموعۂ مقالات منظرعام پر آیا ہے۔ دیکھیے محمد طاہر منصوری (مرتب) اجتماعی اجتہاد: تصور، ارتقا اورعملی صورتیں، ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد، ۲۰۰۷ئ۔ ئ…ئ…ء ’’عشق ہے صہبائے خام عشق ہے کاس الکرام ‘‘ (’’کاس الکرام‘‘کے بارے میں چند نکات) علامہ اقبال نے یہ مصرع ’’مسجد قرطبہ‘‘ کے دوسرے بند میں شامل کیا ہے۔۱؎آج سے تقریباً تیس سال قبل بزرگ دانشور اور استاد گرامی پروفیسر محمد منور نے ’’مسجد قرطبہ‘‘کے عمومی آہنگ ، بے ردیف قافیوں کے عربی انداز، ذہنی ماحول، تشبیہات و استعارات اور مفاہیم کے حوالے سے اسے علامہ کے اشعار میں کار فرما عربی ادب کے اثرات کا غماز قرار دیا تھا۔ ۲؎ مصرعہ مذکور کے آخر میں وارد ہونے والی ترکیب ’’کاس الکرام‘‘ اس ضمن میں مزید شہادت فراہم کرتی ہے کیونکہ پروفیسر خورشید رضوی صاحب کے بقول اس ترکیب کا استعمال اردو میں ’’قریب قریب ناپید‘‘ ۳؎ رہا ہے۔اردو میں یہ ترکیب قلیل الورود اور غریب الاستعمال ضرور رہی ہو گی تاہم فارسی اور عربی کے بڑے شعرا کے کلام میں اس کا استعمال کئی طرح ملتا ہے۔ سطور ذیل میں اس کی چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں۔ اس ترکیب کے امکانی ماخذ کے بارے میں بھی قیاساً کچھ آرا پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ علامہ سے پہلے اسلام کی شعری روایت میں یہ ترکیب بہت سے شعرا نے استعمال کی ہے۔ فارسی ادب میں تو یہ ترکیب خاص طور پر مقبول رہی ہے۔ اس بات کا تعین البتہ دشوار ہے کہ علامہ نے یہ ترکیب کہاں سے اخذ کی، کسی شاعر کے ہاں سے مستعار ہے یا نثرنگار کا عطیہ؟ تاہم قیاس کیا جا سکتا ہے کہ دیگر بہت سے الفاظ و تراکیب کی طرح یہ بھی ان کے ’’ممدوح‘‘ اور متبوع ، حافظ شیرازی کی عطا رہی ہو گی یا مولانا روم کی مثنوی کے مطالعے کا ثمر! حافظ کے دیوان میں یہ ترکیب قطعات میں وارد ہوئی ہے۔۴؎ خاکیاں بے بہرہ اند از جرعہ کاس الکرام ایں تطاول بیں کہ باعشاق مسکیں کردہ اند یہی مفہوم دوسرے الفاظ میںبھی بیان ہوا ہے۔ ذیل کے اشعار دیکھیے: اگر شراب خوری جرعہ فشاں بر خاک از آں گناہ کہ نفعی رسد بہ غیر چہ باک۵؎ جرعہ جام بریں تخت رواں افشانم غلغل چنگ در ایں گنبد مینا فکنم۶؎ بر خاکیاں عشق فشاں جرعہ لبش تا خاک لعل گوں شود و مشکبار ہم۷؎ خواجہ حافظ اس ترکیب کے استعمال میں نہ تو منفرد ہیں نہ انھیں اس سلسلے میں شرف اولیت حاصل ہے۔ ان سے پہلے مولانا روم کہ چکے تھے۸؎: ایں دل سرگشتہ را تدبیر بخش ویں کمانہای دو تورا تیر بخش جرعۂ بر ریختی ز آں خفیہ جام بر زمین خاک من کاس الکرام ہست بر زلف و رخ از جرعہ ش نشان خاک را شاہاں ہمی نیسند از آں جرعہ حسنست اندر خاک گش کہ بصد دل روز و شب می بوسیش جرعۂ خاک آمیز چوں مجنوں کند مر ترا تا صاف او خود چوں کند ہر کسی پیش کلوخی جامہ چاک کاں کلوخ از حسن آمد جرعہ ناک جرعۂ بر ماہ و خورشید و حمل جرعۂ بر عرش و کرسی و زحل جرعہ گوییش اے عجب یا کیمیا کہ ز آسیبش بود چندیں بہا جد طلب آسیب او ای ذو فنوں لا یمس ذاک الا المطھرون جرعۂ بر زر و بر لعل و درر جرعۂ بر خمر و بر نقل و ثمر جرعۂ بر روی خوبان لطاف تا چگونہ باشد آں راواق صاف چوں ہمی مالی زباں را اندریں چوں شوی چوں بینی آنرا بی زطیس چونک وقت مرگ آں جرعہ صفا زیں کلوخ تن بمرون شد جدا آنچ می ماند کنی رفنش تو زود این چنیں زشتی بد آں چوں گشتہ بود مولانا روم نے اسی مفہوم کو تضمین کرتے ہوئے اس طرح بھی باندھا ہے۔۹؎ من کاسک للثری نصیب والارض بذاک صار اخضر مثنوی معنوی ہی اس ترکیب کا تلمیحاتی ترجمہ یوں رقم کیا ہے۔۱۰؎ یک قدح می نوش بر یاد من گرہمی خواہی کہ بدہی داد من یا بہ یاد ایں فتاوہ خاک بیز چونکہ خوردی، جرعہ ای برخاک ریز منوچہری کے ہاں اسی ترکیب کا ترجمہ اور اس مفہوم کی تلمیح کچھ یوں بیان ہوئی ہے۔۱۱؎ جرعہ بر خاک ہمی ریزم از جام شراب جرعہ برخاک ہمی ریزند مرواں ادیب ناجوانمردی بسیار بود، گر نبود خاک را از قدح مرد جوانمرد نصیب خاقانی نے اس مفہوم کو ذیل کے اشعار میں نظم کیا ہے۔۱۲؎ این حریفان جملہ مستان مے اند مست عشقی زاں میاں آخر کجاست؟ از زکواہ جرعہ مستان وقت یک زمین سیراب جان آخر کجاست؟ خاک تشنہ است و کریمان زیر خاک یاد گار جرعہ شاں آخر کجاست؟ فارسی گو شعرا کے ہاں یہ ترکیب یا تو عربی شاعری کے توسط سے آئی ہو گی یا ایران باستان کی رسوم کہنہ کا ورثہ ہو گی۔ اس کے بارے میں ایرانی محققین کی آرا مختلف ہیں۔۱۳؎ کچھ حضرات نے خاک پر بادہ فشانی کی اس رسم کو جس سے ’’کاس الکرام‘‘ کی ترکیب نے جنم لیا، یہودیوں ، آسوریوں، فونیقیوں اور عربوں کی ایک قدیم رسم قرار دیا ہے اور اس مصرع کا تعلق اسی پرانی ریت سے جوڑا ہے۔۱۴؎ ڈاکٹر محمد معین صاحب نے اپنے مقالے ’’یک رسم باستانی‘‘ میں اس رسم کو ایک آریائی رسم بنایا ہے اور یونانیوں کے مراسم پرستش سے اسے مربوط کرکے دیکھا ہے۱۵؎۔ اس طرز استدلال میں ایک سقم یہ ہے کہ اگر یہ تصور کسی قدیم ایرانی رسم کی پیداوار ہے اور اسی کے توسط سے فارسی ادبیات میں وارد ہوا ہے تو اس کے کچھ آثار و شواہد پرانے پہلوی متون میں اور آمد اسلام کے بعد لکھی جانے والی کتب میںملنے چاہیں۔ اسی صورت میں اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ادبیات فارسی میںیہ ترکیب اور یہ تصور کیسے داخل ہوا؟ خود ڈاکٹر محمد معین نے اس مشکل کی طرف اشارہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:۱۶؎ جہاں تک میں پہلوی زبان کے رسائل میں تلاش کر سکا ہوں میری دریافت کے مطابق ان کتابوں میںاس پرانی رسم کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اسلام کے بعد کے زمانے کی تاریخی اور ادبی فارسی کتابوں میں بھی اس آئین بادہ نوشی کا کوئی ذکر نہیں۔ اس ضمن میں قابوس نامہ (باب یازدہم) اور سیاست نامہ (فصل ۳۰) اور نو روز نامہ (گفتار اندر منفعت شراب) کا نام لیا جا سکتا ہے۔ آنینھا و رسمھای ایران باستانکے مصنف علی قلی اعتماد مقدم نے بھی ’’آئین میگساری‘‘ کے باب میں اس عادت کاتذکرہ نہیں کیا۔۱۷؎ حتی کہ شاہنامہ فردوسی میں بھی ، دکتر حسینی کے قول کے مطابق ، اس رسم بادہ افشانی کا تذکرہ نظر نہیں آتا۔۱۸؎ ان نکات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے اگر پہلوی زبان کے قدیم متون اس رسم کے تذکرے سے خالی ہیں اور اگر فارسی کی اہم اور معتبر کتابیں اس سلسلے میں خاموش ہیںجبکہ ان میں سے ہر ایک میں مے نوشی اورمجالس میگساری کے آداب پر جداگانہ باب باندھے گئے ہیں تو پھر دوسری متبادل رائے قبول کرنا مناسب ہوگا۔ اس رائے کے مطابق چونکہ فارسی زبان کے اکابر شعرا عربی زبان و ادب سے بخوبی واقف تھے۱۹؎ لہٰذا ان کے ہاں یہ تصور اور اس ترکیب کا استعمال عربی ماخذ ہی کے وسیلے سے رواج پذیر ہوا۔ نیز اس کا حوالہ ذیل کا شعر ہی بنا ہوگا جس کے بارے میں ہم ابھی مزید کچھ معلومات پیش کریں گے۔ شربنا و اہرقنا علی الارض جرعہ وللارض من کاس الکرام نصیب اسی شعر کے ٹکڑے فارسی گو شعرا اپنے اشعار میں تضمین کرتے رہے، اس کا ترجمہ (جزواً یا کلی طور پر) نظم کرتے رہے اور اسی کی تلمیح ان کے اشعار میں جابجا نظر آتی رہی ہے۔ علامہ قزوینی نے اس شعر کے دوسرے مصرع کو ضرب المثل کے طور پر بیان کیا ہے۔ ان کے کہنے کے مطابق مختصر المعانی۲۰؎ میں خطیب قزوینی نے اس مصرع کو پہلے مصرع سے ملا کر مکمل شعر کے طور پر نقل کیا ہے۲۱؎ اسی طرح شرح شواہد مطول کے مولف نے اس مصرع کو مثل مشہور قرار دیا ہے لیکن اس کے لکھنے والے کی نشاندہی نہیں کی۔پہلا مصرع یہاں بھی اسی صورت میں ہے۔۲۲؎ علامہ دھخدا نے بھی اس مصرع کو بلا انتساب اپنی کتاب امثال و حکم میں محمد بن نظام الدین الیزدی (۷۳۳ھ) کی تصنیف العراضہ کے حوالے سے نقل کیا ہے۔۲۳؎ عربی زبان و ادب کے پرانے متون اور شعرائے قدیم کے دیوان اس مثل کے تلاش میں جن محققین نے کھٹگالے ہیں ان کا بیان ہے کہ سب سے پرانا ماخذ جس میں یہ ضرب المثل نظر آتی ہے ابوہلال عسکری (۳۹۵ھ) کی کتاب جمھرہ امثال العرب۲۴؎ ہے۔البتہ اس کے ہاں ’’کاس ‘‘ کے لفظ کے بجائے ’’سور‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ابوہلال عسکری کے ایک کم عمر معاصر عبدالملک بن محمد تعالبی (۳۵۹۔۴۲۰ھ) نے بھی یہی مصرع اپنی کتاب الثمثیل والمحاضرہ میں ’’النبیذیون‘‘کے عنوان کے تحت درج کیا ہے۔۲۵؎ امام ابو حامد محمدالغزالی نے یہ مثل پورے قطعے کی صورت میں درج کی ہے۔ احیاء العلوم الدین میں یہ قطعہ اس طرح ملتا ہے۔۲۶؎ شربنا شراباً طیباً عند طیب کذالک شراب الطیبین یطیب شربنا و اھر قنا علی الارض فضلہ وللارض من کاس الکرام نصیب ان تینوں کتب میں البتہ اس شعر؍ دو بیتی کے کہنے والے کا نام کہیں مذکور نہیں ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ جس نے بھی یہ اشعار کہے ہوں گے وہ عیسی ابن قدامہ المعروف بہ الاسدی کی شاعری سے متاثر ہوا ہوگا۔ الاسدی کے بارے میں ابوالفرج اصفہانی (۲۸۴۔۳۵۶ھ) لکھتے ہیں کہ اس کے موضوعات شعری میں مے نوشی، مجالس مے خواری اور ان کے آداب و مراسم کے موضوعات شامل ہیں۔ اصفہانی نے یہ بیان کرنے کے بعد اس کے اشعار اور قصے نقل بھی کیے ہیں۔۲۷؎ اسی طرح مرزوقی اصفہانی (۴۲۱ے)اور خطیب تبریزی (۴۲۱۔۵۰۲ ھ) نے بھی حماسہ کی شرح کرتے ہوئے اپنی تحریر میں اسدی کے وہ شعر اور قصے نقل کیے ہیںجو مے نوشی اور محفل ناے و نوش کے ندیموں کے بارے میں ہیں۔۲۸؎ اسی تصنیف کے اسی صفحے کے حاشیہ پر ابوعبید بکری (۴۸۷ھ)کے ہاں بھی اسی موضوع کا ذکر ملتا ہے۔۲۹؎ ایسا ہی تذکرہ یا قوت حموی (۵۷۴۔۶۲۶ھ) کی معجم البلدان میں بھی کیا گیا ہے۔۳۰؎ اسدی کے چار اشعار درج ذیل کیے جاتے ہیں۔۳۱؎ خلیلی ھبا طال ما قد رقدتما اجد کما لا تقضیان کراکما الم تعلما مالی براوند کلھا و لا یغزاق من صدیق سواکما اقیم علی قبریکما لست بارحا طوال اللیالی او یجیب صداکما اصب علی قبریکما من مدامہ فان لم تذوقاھا اہل ثراکما اس اشعار کا زمانہ تصنیف عمد جاہلیت کے آخر اور پہلی صدی ہجری کے نصف دوم کے درمیان کا بتایا جاتا ہے یعنی قس بن ساعدہ سے لے کر حجاج بن یوسف کے زمانے تک۔ قیاساً کہا جا سکتا ہے چونکہ عربی شاعری میںاس مفہوم کے یہ قدیم ترین اشعار ہیںلہٰذا ’’کاس الکرام‘‘ والی دو بیتی اسی کے زیر اثر کہی گئی ہو گی۔ واضح رہے کہ اب تک کی گفتگو اس مثل کے شعری قالب سے متعلق تھی۔ اس کے معانی و مفاہیم کی تاریخ اس سے کہیں قدیم تر اور عہد کہن میں پیوست ہے جیسا کہ پروفیسر خورشید رضوی نے اپنے محولہ بالا مقالے کے آغاز کلام میں اشارہ کیا ہے۔۳۲؎ ذاتی طور پر مجھے اس کی وہ توجیہ خاصی کمزور اورسطحی معلوم ہوتی ہے جو قدیم اساطیر کے حوالے سے اس تصور کی تحلیل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ فارسی ادبیات کے ضمن میں ہم تذکرہ کر چکے ہیں کہ بادہ افشانی کی اس رسم کا سراغ قدیم متون اور رسومات کہن میں نہیں ملتا۔ عربی کامعاملہ بھی اس اعتبار سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ ماہرین علوم عربیہ کا کہنا ہے کہ یہ اشعار اور ان سے متعلق واقعات (مثلاً جذیمہ الابرش کا طرز مے نوشی) قدیم یونان و روم کے اساطیر اور رسوم و رواج سے مستفاد اس لیے قرار نہیں دیے جا سکتے کہ ان کا زمانہ وہ ہے جب اہل عرب ابھی ان اساطیر سے آشنا ہی نہیں تھے۔۳۳؎ بایں ہمہ اس تمثیل کے رموز و علائم الگ مطالعے اور تجزیے کا تقاضا کرتے ہیں اور یہ ہماری موجودہ تحریر کی حدود سے تجاوز کے مترادف ہوگا۔ علامہ اقبال اورمولانا روم نے اس ترکیب کو جس گہرے عرفانی پس منظر اور جس مابعد الطبیعی سیاق و سباق میں استعمال کیا ہے اس سے بھی ہمارے نقطہ نظر کو تقویت ملتی ہے۔ یہاں یہ عرض کرنا بھی مناسب نہ ہوگا کہ علامہ نے کاس الکرام کی ترکیب کاجس طرح استعمال کیا ہے وہ ان کے پیشرو شعرا میںمولانا روم کے استعمال سے سب سے زیادہ قریب المعنی ہے۔ رہا یہ سوال کہ عشق ’’صہبائے خام‘‘ کیوں ہے اور علامہ کے ہاں عشق کو ’’کاس الکرام‘‘ کیوں کہا گیا ہے تو اس سوال کے جواب کے لیے علامہ کے تصور عشق کو ان کے نظم و نثر کے حوالے سے متعین کرنا ناگزیر ہے۔ یہی نہیں، اس تصور عشق کو ادبیات عرب کے عمومی پس منظر اور احمدغزالی سے شروع ہونے والی فارسی کی عرفانی روایت شعر؍ عشق کے خصوصی تناظر میں رکھ کر دیکھنا ہوگا۔ بصورت دیگر علامہ کے تصور عشق کی تفہیم ادھوری اور یک رخی ہو گی۔ اقبالیات کے ذخیرہ کا اگر اس نظر سے جائزہ لیجیے تو یہ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی رگ تاگ میں میں بہت کچھ باقی ہے اور تاوقتیکہ اس کار مغاں کی تکمیل نہ ہو جائے، موضوع زیر بحث پر قلم اٹھانا قبل از وقت ہو گا۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱- محمد اقبال ، کلیات اقبال (اردو) اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۹۴ئ، ص، ۴۲۱۔ ۲- مرزا محمد منور میزان اقبال، طبع سوم، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۹۲ء ، ص ،۲۸۔۳۰۔ ۳- خورشید رضوی’’ اقبال، عربی اور دنیائے عرب‘‘ اقبال ریویو، جلد ۳۴ شمارہ ۴، جنوری مارچ، ۱۹۹۴ئ، ص ۲۶۔ فاضل مقالہ نگار دوست نے مضمون کے حاشیہ نمبر ۱۔۲ میں ریحانہ خاتون کے مقالے ’’دیوان حافظ میں مذکورہ ایک باستانی رسم‘‘ (مطبوعہ کاوش ، گورنمنٹ کالج لاہور، شمارہ ۲۰ سال ۱۹۹۲ئ) کا حوالہ دیا ہے۔ہمیں مقالہ دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تاہم رضوی صاحب کے اقتباس سے اندازہ ہوتاہے کہ مقالہ نگار خاتون نے اس تلمیح کے اساطیری معانی کی تحقیق پر زیادہ زور دیا ہے۔ ہمارا مقصد قدرے مختلف ہے۔ ہم اس کے امکانی ماخذ کی طرف چند اشارے کرنا چاہتے ہیں۔ اس ترکیب کے مفاہیم کا معاملہ بہت سے سخن گسترانہ پہلو رکھتا ہے اور اسے عربی اور فارسی ادبیات کی عرفانی اور فلسفیانہ جہات سے مربوط کیے بغیر حل کرنا ممکن نظر نہیں آتا اور مقالہ زیر نظر میں یہ ہمارے دائرہ کار سے باہر ہے۔ ۴- ر ۔ ک دیوان حافظ شیرازی انتشارات انجمن خوشنویسان ایران، تہران ۱۳۶۲، ص، ۴۰۱۔ یہ شعر دیوان حافظ کے نسخہ قزوینی و قاسم غنی (طہران ۱۳۲۰ھ ش) اور نسخہ خانلری (تہران، ۱۳۵۹) میں بھی اسی طرح مندرج ہے۔ ۵- حوالہ بالا، ص ،۲۳۱۔ ۶- ایضاً ص ،۲۷۱۔ ۷- ایضاً ص، ۲۸۱۔ ۸- مولانا جلال الدین رومی، مثنوی معنوی ، نکلسن؍ پور جوادی ایڈیسن، تہران، ۱۳۶۳، جلد سوم، دفتر پنجم ، ششم ، ادبیات ۳۷۱۔۳۸۴ ص ، ۲۵۔۲۶۔ ۹- مولانا جلال الدین رومی ، دیوان شمس ، بہ تصحیح بدیع الزمان فروز انفر، امیر کبیر ، چاپ سوم ، تہران، ۱۳۶۳، ۳؍۶۰۔ ۱۰- مثنوی معنوی ، نکلسن ایڈیشن، لیڈن، ۱۹۲۵ء تا ۱۹۳۳ء ، دفتر اول،اشعار ۱۵۶۱۔۱۵۶۲۔ ۱۱- منوچہری، دیوان ، تصحیح دبیر سیاقی ، چاپ چہارم ، تہران ، ۱۳۳۸، ص ،۷۔ ۱۲- خاقانی شروانی ، دیوان ، کتاب فروشی زوار، تہران ، ۱۳۳۸۔ ص ،۴۹۲۔ ۱۳- ان آرا کا مختصر تذکرہ دکتر سید محمد حسینی نے اپنے مقالے ’’حافظ و ادب عربی‘‘ میں کیا ہے۔ ر ۔ ک سخن اہل دل ،کنگرہ بین المللی بزرگداشت حافظ ، کمپسوں ملی یونیسکو در ایران، تہران ، ۱۳۷۱، ص ،۳۲۸۔ ۱۴- دکتر غلام حسین صدیقی، مجلہ یاد گار، سال اول ، شمارہ ۸، ص ۴۸۔۵۱ بحوالہ مقالہ سید محمد حسینی (دیکھیے نوٹ نمبر ۱۳)۔ ۱۵- دکتر محمدمعین، مجلہ یاد گار ، حوالہ بالا، ص ۵۱۔۵۸ یہی بات روم و یونان کے اساطیر پر لکھنے والے دیگر ایرانی حضرات نے بھی کہی ہے۔ ۱۶- دکتر معین، حوالہ ماقبل ۔ ص ،۵۶۔ ۱۷- علی قلی اعتماد مقدم، آنینھاد رسمھای ایران باستان، انتشارات وزارت فرہنگ و ہنر ، تہران، ۲۵۳۵، ج ۱؍۲۴۵۔ ۱۸- سید محمد حسینی، محولہ ماقبل، ص ،۳۵۲۔ ۱۹- حافظ شیرازی کے بارے میں تو معروف ہے کہ عربی زبان و ادب کی کتب سے اشتغال اس قدر تھا کہ اپنے اشعار جمع کرنے کا دماغ نہ رہا تھا۔ مولانا روم کو عربی زبان و ادب پر جو قدرت حاصل تھی وہ بھی سب کومعلوم ہے۔ منوچہری تک اپنے قصیدے’’لغز شمع‘‘ میں عربی کے نامور شعرا کے کلام کے بہت سے عناصر کی تعریف کرتا ہے(دیکھیے دیوان منوچہری، محولہ ماقبل، ص، ۷۳۔۷۴) اسی نے دوسری جگہ(ص۔۸۱) کہا کہ: من بسے دیوان شعر تازیاں دارم زبر تو ندانی خواجہ ’’الاھبی بصحنک فاصبحین‘‘ دوسرا مصرع تضمین ہے عمرو بن کلثوم تغلبی کے معلقہ کے مندرجہ ذیل مطلع کی: الا ھبی بصحنک فاصبحینا ولا تبقی خمور الاندرنیا حوالے کے لیے دیکھیے، ذوالفقار علی دیوبندی، التعلیقات علی السبع المعلقات، مطبعہ مجتبائیہ، دہلی ۱۳۲۲ھ، ص ۷۹۔ طہ حسین نے اس معلقہ کے ابتدائی اشعار کو قیاساً اور درمیان میں آنے والے چند دیگر اشعار کو یقینا عمرو بن عدی سے منسوب کیا ہے(عبدالصمد صارم ، تنقیدات طہ حسین، مجلس ترقی ادب، لاہور، ۱۹۶۱ء ، ص ۱۱۷۔۱۱۸) یہ عمر بن عدی بھانجا ہے جذیمہ الابرش کا اور جذیمہ الابرس وہ قدیم عرب بادشاہ ہے جس کے آداب شراب نوشی اور زمین پر پیالہ لنڈھانے کے عادت کا تذکرہ پروفیسر خورشید رضوی نے اپنے مقالے میں الدینوری کی الاخبار الطوال کے حوالے سے کیا ہے۔(دیکھیے حاشیہ نمبر۳)۔ ۲۰- یہ تقتازانی کی تصنیف کردہ تلخیص المفتاح کی شرح ہے۔ ۲۱- علامہ قزوینی ، مجلہ یادگار ، عباس اقبال آشتیانی، سال اول، ص ،۶۹۔ ۲۲- حسین بن شہاب الدین شامی، شواہد شرح المطول ، ص ۸ ، بحوالہ سید محمد حسینی ، محولہ ماقبل، ص ۳۵۲۔ ۲۳- علی اکبر دھخدا ، امثال و حکم دھخدا، امیر کبیر ، تہران ، ۱۳۵۲، طبع سوم ، ۴؍۱۸۹۵؛ نیز دیکھیے مجلہ یادگار محولہ ماقبل، ص ،۷۰۔ ۲۴- ابوھلال عسکری ، جمھرہ اقبال العرب، الموسسہ العربیہ الحدیثہ، قاہرہ ، ۱۹۶۴ء ،۲؍۱۹۰۔ ۲۵- محمد تعالبی، التمثیل والمحاضرہ ، دار احیاء الکتب العربیہ، قاہرہ ، ۱۹۶۱ء ، ص ،۲۰۳۔ ۲۶- ابو حامد محمد الغزالی ، احیاء علوم الدین، دار المعرفہ للطباعتہ والنشر، بیروت ، (ت ۔ ن) جلد چہارم، ص ۹۷؛ نیز دیکھیے حواشی و تعلیقات بدیع الزمان فروز انفربر کتاب فیہ ما فیہ ، مولانا روم، تہران ۱۳۴۸، ص ،۲۸۷۔ ۲۷- ابوالفرج اصفہانی، کتاب الاغانی، دارالکتاب المصریہ ، قاہرہ ، ۱۹۵۹ء ، جلد ۱۵ ، ص ۲۴۸۔۲۵۰ ابوالفرج نے گیارہ اشعار نقل کیے ہیں۔ ۲۸- ابو علی احمد بن محمد الحسن المرزوقی شرح دیوان الحماسہ ، احمد امین۔ عبدالسلام ہارون، لجنہ التالیف و الترجمہ، قاہرہ، ۱۳۷۱؍۱۹۵۱ء ، جلد ۲؍۸۷۵۔ اس صفحہ پر پاورتی میں خطیب تبریزی کی روایت تصحیح متن کرنے والے محققین کی طرف سے نقل ہوئی ہے نیز خزانہ الادب (۱:۲۶۔ ۲۶۸) کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔خطیب تبریزی کی تصنیف کے لیے ر۔ ک ابو زکریا یحییٰ بن علی معروف بہ ’’خطیب تبریزی‘‘، شرح القصائد العشر و مکتبہ محمد علی صبیح ، طبع دوم ، مصر ۱۹۶۴ئ۔ ۲۹- ابوعبید بکری، معجم ما استعجم ، بحوالہ مرزوقی محولہ ماقبل۔ ۳۰- یاقوت بن عبداللہ الحموی، معجم البلدان ،مکتبہ الاسدی ، تہران ۱۹۶۵ء ، جلد دوم ، ص ،۷۴۱۔ ۳۱- مرزوقی ، محولہ بالا، ص، ۸۷۵۔۸۷۷؛ ابوالفرج اصفہانی، محولہ بالا، ص، ۲۴۸۔ ۲۵۰۔ پہلے دواشعار قس بن ساعدہ سے بھی منسوب کیے جاتے ہیں۔ اشعار کا ترجمہ کچھ یوں ہوگا۔ شاعر اپنے دو یاران عزیز سے محروم ہو چکا ہے اور ان کی تربت پر بیٹھا اندوہناک اور غم آلود اشعار پڑھ رہا ہے اور یاران رفتہ سے یوں خطاب کر رہا ہے۔ ’’اے مرے دوستو! اب میرے سر اٹھائو زمانہ دراز سے محو خواب ہو۔ کیا واقعی تم اس خواب سے بھی سر نہ اٹھائو گے؟ کیا تم نہیں جانتے کہ راوند و خزاق کے سارے علاقے میںمیرا تمھارے سوا اور کوئی دوست نہیں؟ میں تمھاری قبر پر اس وقت تک رات رات بھر بیٹھا رہوں گا جب تک میرے جواب میں تمھاری صدا نہ آ جائے۔ شراب کا کچھ حصہ میں تمھارے مرقد پر چھڑک رہا ہوں کہ خواہ تم خود اسے نہ چکھ سکو لیکن تمھاری قبر کی مٹی تو اس سے تر رہے گی۔ ۳۲- ر۔ ک خورشید رضوی ’’اقبال، عربی اور دنیائے عرب‘‘ محولہ ماقبل۔ ۳۳- اس نکتے کی طرف توجہ دلانے کے لیے ہم اپنے فاضل دوست اور علوم عربیہ کے ماہر جناب علامہ جاوید احمد غامدی کے ممنون ہیں۔ ئ…ئ…ء