فلسفۂ ایران اقبال کی نظر میں پروفیسر محمد شریف بقا اقبال اکادمی پاکستان جملہ حقوق محفوظ ناشر محمدسہیل عمر ناظم اقبال اکادمی پاکستان (حکومتِ پاکستان، وزارت ثقافت ) چھٹی منزل ، ایوان اقبال ، لاہور Tel: [+92-42] 6314-510 Fax: [+92-42] 631-4496 Email: director@iap.gov.pk Website: www.allamaiqbal.com ISBN طبع اوّل : ۲۰۰۸ء تعداد : قیمت : مطبع : شرکت پرنٹنگ پریس، لاہور محل فروخت : ۱۱۶ میکلوڈ روڈ ، لاہور، فون نمبر ۷۳۵۷۲۱۴ عنوانات پیش لفظ از مؤلف کتاب کا انتساب از علامہ اقبالؒ دیباچہ ایضاً مباحث پہلا باب: ایرانی ثنویت دوسرا باب: ایران کے نوافلاطونی متبعین ارسطو تیسرا باب: اسلام میں عقل پرستی کا عروج و زوال چوتھا باب: تصوریت اور حقیقت پرستی کی بحث پانچواں باب: تصوّف چھٹا باب: دورِ آخر کا ایرانی فلسفہ خاتمہ ابوب وغیرہ کو کو طاق صفحات سے شروع کرنا ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ پیش لفظ ایران زمانہ قدیم ہی سے مخصوص فکری روایات، تہذیبی اقدار اور تمدنی تغیرات کا عظیم اور شاندار گہوارہ رہاہے۔ سرزمینِ ایران نے ہر شعبہ فکر و فن سے تعلق رکھنے والی ممتاز اور شہرۂ آفاق شخصیات کو جنم دیا ہے جنھو ںنے جریدۂ عالم کے صفحات پر درخشاں اور پائیدار نقوشِ عظمت چھوڑے ہیں۔ زندگی کاوہ کون سا شعبہ ہے جس میں ایرانی شعرا، ادبا، حکما، صوفیا اور مدبرین نے نمایاں ترین خدمات سرانجام نہیں دی ہیں؟ ظہورِ اسلام سے قبل دنیا میں دو طاقت ور حکومتوں، کسرٰی و قیصر، کا طوطی بول رہاتھا۔ جب آفتاب اسلام جزیرۃ العرب کی حدود سے نکل کر دنیا کے باقی علاقوں میں اپنی نشانیاں دکھانے لگا تو اس وقت ایرانی سلطنت کا ستارہ غروب ہو رہا تھا۔ مسلمانوں نے اس زمانے میں دو بڑی عالمی طاقتوں، رومی سلطنت اور ایرانی سلطنت، کی قدیم شان و شوکت کو اپنے پائوں میں روند کر اسلامی سطوت کے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔ جس طرح سورج کی روشنی نمودار ہو کر رات کی ظلمت کو گریز پا بنا دیتی ہے اسی طرح اسلام کے خورشید جہاں۔تاب کی حقانی شعاعوں نے باطل کی تاریکی کو کافور کیا اور ہر مفتوحہ علاقے کے لوگوں کے سینوں کو نور ایمان سے منور کرکے چھوڑا۔ یہ ایک قدرتی قانون ہے کہ ہر مفتوح قوم اپنے فاتحین کے اطوار و عادات اور تصورات حیات کو کافی حد تک اپنانے کی چار و ناچار کوشش کیا کرتی ہے۔ جب ایران پر اسلام کا غلبہ ہوا تو وہاں بھی ایرانی لوگوں نے عربوںکے مذہبی خیالات، فکری روایات، تہذیبی اقدار اور تمدنی اطوار کو اختیار کرلیا۔ چند دانشوروں اور اسلامی انقلاب کے خفیہ مخالفین نے ظاہراً تو اسلام قبول کرلیا لیکن انھوں نے درپردہ اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے غیراسلامی فلسفیانہ اور متصوفانہ افکار کو آہستہ آہستہ پھیلانا شروع کردیا تھا۔ علامہ اقبال اسے عجمی سازش قرار دیتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنی اس اوّلیں فلسفیانہ کتاب ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا (The Development of Metaphysics in Persia) میں فلسفۂ ایران اور اس کے مختلف اہم پہلوئوں کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے ظہورِ اسلام سے پہلے اور اس کے بعد کے ایرانی مفکرین اور مصلحین کے افکار و نظریات کا تاریخی پس منظر ہی بیان نہیں کیا بلکہ انھوں نے اپنی تنقیدی رائے بھی دی ہے۔ اس لحاظ سے ان کی یہ ابتدائی فلسفیانہ نثری تصنیف دراصل فلسفۂ ایران کے مختلف ادوار پر ایک دقیع جائزہ اور اس کے منطقی تسلسل کی داستان ہے۔ اس کتاب کو انھوں نے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ حصہ اول میں اسلام سے ماقبل فلسفۂ ایران کو موضوع بحث بنایا گیا ہے جس میں قدیم ایران کے تین مشہور مفکرین یعنی زرتشت، مانی اور مزدک کے تصورات ثنویت (Dualism) کاتذکرہ ہے۔ جب کہ حصہ دوم کے پانچ ابواب میں نوافلاطونیت، عقلیت، ثنویت، مادیت، تصوریت (Idealism) اور صوفیانہ مابعد الطبیعیات کے اہم گوشوں کے چہرے پر سے نقاب کشائی کی گئی ہے۔ ان مکاتب فکر کے بانیوں اور ان کے مقلدین کے افکار کی وضاحت کے ضمن میں یونانی فلسفہ، عیسائیت، بدھ مت، ہندو دھرم، اسلام اور فلسفہ مغرب کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے زیادہ تر مذہب، اخلاقیات، فلسفہ اور تصوف کے موضوعات کی بحث چھیڑی ہے۔ اسلامی تصوف کے چند عناصر ترکیبی اور عام تصوف کے معاشرتی اور تاریخی عوامل کوانھوں نے بڑے مدلل اور دل نشیں انداز میں بیان کیا ہے۔ اس کتاب کے مواد کی ترتیب و تدوین میں انھوں نے زیادہ تر برلن کی رائل لائبریری اور برطانیہ کے کتب خانوں (انڈیا آفس لائبریری، برٹش میوزم لائبریری، کیمبرج یونیورسٹی لائبریری اور ٹرینٹی کالج لائبریری) سے استفادہ کیا تھا۔ یہ کتاب لکھنے پر میونخ کی یونیورسٹی نے انھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری دی تھی جسے حاصل کرنے کے بعد وہ شیخ محمد اقبال سے ڈاکٹر شیخ محمد اقبال بن گئے۔ انھوں نے اس کتاب کو اپنے عزیز استاد پروفیسر آرنلڈ کی نذر کیا ہے جس سے ان کی عظمتِ کردار کا پتا چلتا ہے۔ علامہ اقبال کی کتاب ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا کو خیالات کی پختگی کے لحاظ سے وہ مرتبہ حاصل نہیں جو ان کی دوسری کتاب تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ (The Reconstruction of Religious Thought in Islam) کو دیا جاتا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اول الذکر کتاب اُن کی اوّلین فلسفیانہ کتاب ہے جب کہ مؤخر الذکر کتاب ان کے وسیع تر مطالعہ مشرق و غرب، وسعت مضامین، فکری معراج، عمق نگاہ اور پختگی افکار کی حامل ہے۔ یہ دوسری کتاب ان کے سابقہ تجربات و مشاہدات کا بہترین خلاصہ ہے۔ اس کے باوجود ان کی پہلی کتاب ابھی تک فلسفۂ ایران کے تاریخی ارتقا، منطقی تسلسل اور تصوف کی سائنسی توجیہ کے لحاظ سے اہم علمی دستاویز کا درجہ رکھتی ہے۔ فلسفۂ ایران کے تاریخی اور اسلامی پس منظر کو جاننے کے خواہش مند طلبا اور محققین کے لیے اس کا مطالعہ ناگزیر اور مفید ہے۔ میں نے اپنی زیرِ نظر کتاب فلسفہ ایران، اقبال کی نظر میں میں علامہ اقبال مرحوم و مغفور کی مذکورہ بالا تصنیف کے اکثر حصّے کا نہ صرف انگریزی سے اردومیں ترجمہ کیا ہے بلکہ اس کے مندرجات اور مباحث کی آسان زبان میں حتی المقدور تشریح بھی کی ہے۔ تشریح کو زیادہ عام فہم بنانے کی غرض سے میں نے ہر باب کے آغاز میں اس کا خلاصہ بھی آسان زبان میں بیان کردیا ہے تاکہ پڑھنے والوں پر اس باب کے اہم موضوعات بخوبی واضح ہو جائیں۔ چونکہ علامہ اقبال نے فلسفیانہ مسائل کو نثر کی زبان میں بیان کیا ہے اس لیے فلسفیانہ اصطلاحات کا استعمال قدرتی امر تھا۔ اس دقت کے باوجود میں نے انھیں آسان الفاظ میں ڈھالنے کی پوری پوری کوشش کی ہے۔ کتاب کو زیادہ دل چسپ بنانے کے لیے میں نے ہر باب میں اہم اقتباسات بھی شامل کردیے ہیں۔ بہرحال فلسفہ آخر فلسفہ ہے۔ شاعری میں توخیال آرائی اور مبالغہ آمیزی کے علاوہ رنگینی بیان اور حسنِ اظہار کا بھی عنصر ہوتا ہے اس لیے قارئین شعر کے مفہوم سے آگاہ ہونے کے لیے قدم قدم پر نہیں رکتے۔ اس کے برعکس فلسفیانہ تحریر کو بخوبی سمجھنے کی خاطر دل کو نہیں بلکہ دماغ کو اپنا راہ نما بنانا پڑتا ہے اس لیے عقلی پیچیدگیوں سے دامن چھڑانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ میری مخلصانہ کوشش یہ تھی کہ میں علامہ اقبال کی اس کتاب کے موضوعات کو زیادہ سے زیادہ دل چسپ اور عام فہم بنا سکوں۔ خدا کرے میری یہ کوشش بار آور ہو۔ آمین! محمد شریف بقا بار اوّل: ۳۰؍ اپریل ۱۹۹۵ء بار دوم: ۹ ؍مارچ ۲۰۰۷ء کتاب کا انتساب (از علامہ اقبال) علامہ اقبال کی مقبولیت، عظمت اور شہرتِ عام کی ایک وجہ ان کی علمی وسعت اور مشرق و مغرب کے علوم کی آگہی بھی ہے۔ وہ اپنی مادری زبان پنجابی، کے علاوہ اردو، فارسی، عربی، انگریزی کے ماہر اور کسی قدر جرمن زبان سے بھی آگاہ تھے۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ جس قدر انھیں اردو، انگریزی، فارسی اور عربی میں مہارت حاصل تھی اس قدر وہ جرمن زبان کے ماہر نہیں تھے۔ مغربی فلسفہ کی تعلیم انھوں نے اپنے شہرۂ آفاق اور وسیع النظر استاد، پروفیسر ٹی-ڈبلیو-آرنلڈ سے پہلے لاہور کے گورنمنٹ کالج میں اور بعدازاں کیمبرج میں حاصل کی تھی۔ پروفیسر آرنلڈ نے ان کے اندر مزید تعلیم کا اس قدر شوق پیدا کردیا تھا کہ علامہ اقبال ایم۔اے کا امتحان پاس کرچکنے کے بعداعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے یورپ چلے آئے تھے۔ جب پروفیسر آرنلڈ ہندوستان کوچھوڑ کر اپنے وطن یعنی انگلستان واپس آگئے تو مشرق کے اس نامور اور ادب شناس شاگرد نے ان کی جدائی میں ایک نظم لکھی جس کے چند اشعار ہدیہ قارئین کیے جاتے ہیں۔ مشرق کا یہ عظم المرتبت شاعر اپنے محترم، شفیق اور درویش صفت انگریز استاد کی شان بیان کرتے ہوئے یہ کہتا ہے: جا بسا مغرب میں آخر اے مکاں تیرا مکیں! آہ! مشرق کی پسند آئی نہ اس کو سرزمیں تو کہاں ہے اے کلیمِ ذروۂ سینائے علم تھی تری موج نفس بادِ نشاط افزائے علم اب کہاں وہ شوقِ رہ پیمائی صحرائے علم تیرے دم سے تھا ہمارے سر میں بھی سودائے علم کھول دے گا دست و حشت عقدۂ تقدیر کو توڑ کر پہنچوں گا میں پنجاب کی زنجیر کو دیکھتا ہے دیدۂ حیراں تری تصویر کو کیا تسلی ہو مگر گرویدۂ تقریر کو؟ نالہ فراق (آرنلڈ کی یاد میں) [کلیات اقبال، ص ۷۸-۷۷] پروفیسر آرنلڈ نے اسلامی تعلیمات کے مختلف اہم گوشوں کے بارے میں ایک بے حد مفید اور تحقیقی کتاب (The Preaching of Islam) لکھی تھی۔ علامہ اقبال نے یورپ میں اپنے زمانہ طالب علمی کے دوران میں اپنی اس اولین فلسفیانہ کتاب ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا (The Development of Metaphysics in Persia) کو اپنے اس جلیل القدر استاد کے نام سے معنون کیا ہے۔ جس طرح پروفیسر ٹی۔ڈبلیو۔ آرنلڈ نے اسلام کے ساتھ اپنی رواداری اور عالی ظرفی کا مظاہرہ کیا تھا اسی طرح اسلام کے اس مایہ ناز مفکر اور مشرق کے عظیم شاعر نے بھی بے مثال رواداری کا ثبوت دیتے ہوئے اس غیر مسلم استاد کی نذر یہ کتاب کی ہے۔ بہرحال اس کتاب کا انتساب انسانی محبت، احترام آدمیت اور استاد و شاگرد کے مقدس رشتے کا زندہ ثبوت ہے۔ علامہ اقبال اپنے استاد پروفیسر آرنلڈ کے نام یہ کتاب معنون کرتے ہوئے بڑے اختصار سے لکھتے ہیں: یہ چھوٹی سی کتاب اس ادبی اور فلسفیانہ تربیت کا اولین ثمر ہے جو میں گزشتہ دس سالوں سے آپ سے حاصل کرتا رہا ہوں۔ اظہار تشکر کے طور پر میں اسے ادب کے ساتھ آپ کے نام نامی اوراسم گرامی سے معنون کرتا ہوں۔ آپ نے ہمیشہ مجھے کشادہ نظری کے ساتھ پرکھا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ ان صفحات کو بھی اسی فراخ دلی کے ساتھ جانچیں گے۔ آپ کا شاگرد عزیز محمد اقبال مذکورہ بالا مختصر مگر جامع انتساب سے یہ حقیقت منکشف ہو جاتی ہے کہ علامہ اقبال کئی سالوں تک اپنے اس جید اور فراخ دل استاد سے ادبی اور فلسفیانہ تربیت حاصل کرتے رہے۔ کسی کے احسان کو فراموش کرنا انسانیت کی توہین ہے۔ رسول کریمؐ کا ارشاد ہے: من لم یشکر الناس لم یشکر اللّہ ’’جو انسانوں کاشکر گزار نہیں وہ خدا کا بھی شکر گزار نہیں ہوتا۔‘‘ اسی طرح اسلام کے خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کا قول ہے: ’’من تعلم حرفہ فہو مولا‘‘ ’’جس نے کسی کوکوئی حرف سکھایا پس وہ اس کا مولاہے۔‘‘ اگر محسن غیر مسلم بھی ہو تب بھی اس کا شکریہ ادا کرنا نہ صرف اسلامی بلکہ اخلاقی فریضہ بھی ہے۔ علامہ اقبال اسلامی تعلیمات کے اس پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے استاد کاشکریہ ادا کرنا لازمی امر خیال کرتے تھے۔ یہ ایک تاریخی اور مسلمہ حقیقت ہے کہ اسلام کے فروغ میں تلوار سے زیادہ اعلیٰ اخلاق اور انسانی اقدار نے کردار ادا کیا تھا۔ اس انتساب سے پروفیسر آرنلڈ کی کشادہ نظری اور فراخ دلی کا بھی پتا چلتا ہے۔ علامہ اقبال کے کردار کی ایک نمایاں ترین خوبی حق گوئی تھی۔ وہ دوسروں کی مدح و ذم سے بے نیاز ہو کر حق بات کہنے کے عادی تھے جیساکہ وہ خود کہتے ہیں: اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوش میں زہرہلاہل کو کبھی کَہ نہ سکا قند [کلیات اقبال، ص ۳۱۳] ظاہر ہے انھوں نے اپنے استاد کے کردار کی ایک اعلیٰ صفت یعنی فراخ دلی کو بھی بنظر عمق دیکھا ہوگا۔ وہ خواہ مخواہ کسی کی خوشامد کرنے کے تو عادی نہیں تھے۔ اقبال کوصحیح معنوں میں اقبال مند بنانے میں پروفیسر آرنلڈ کا بھی حصہ ہے۔ اس لحاظ سے ہم بھی ان کے ممنون ہیں۔ پروفیسر آرنلڈ کا ہم پر ایک اور بڑا احسان یہ ہے کہ انھوں نے علامہ اقبال کے قیام یورپ کے دوران انھیں شعر گوئی ترک نہ کرنے کا بلاتعصب مشورہ دیا تھا۔ اس کی تفصیل شیخ عبد القادر مرحوم نے ’’بانگ درا‘‘ کے دیباچہ میں یوں بیان کی ہے: ایک دِن شیخ محمد اقبال نے مجھ سے کہا کہ ان کا ارادہ مصمم ہوگیا ہے کہ وہ شاعری کو ترک کردیں اور قسم کھالیں کہ شعر نہیں کہیں گے… یہ قرار پایا کہ آرنلڈ صاحب کی رائے پر آخری فیصلہ چھوڑ دیا جائے… میں سمجھتا ہوں کہ علمی دنیا کی خوش قسمتی تھی کہ آرنلڈ صاحب نے مجھ سے اتفاق کیا اور فیصلہ یہی ہوا کہ اقبال کے لیے شاعری کو چھوڑنا جائز نہیں اور جو وقت وہ اس شغل کی نذر کرتے ہیں وہ ان کے لیے بھی مفید ہے اور ان کے ملک و قوم کے لیے بھی مفید ہے۔ کیا ایسے فراخ دل اورہمدرد انسان استاد کا انتساب لائق تحسین اور قابل فخر نہیں؟ حقیقی باپ تو انسان کی جسمانی تربیت کا سامان بہم پہنچاتا ہے لیکن علمی اور روحانی باپ انسان کی علمی اور اخلاقی تعلیم کا ذمہ دار ہوتا ہے اس لیے اس کا مرتبہ بھی تو عظیم ہونا چاہیے۔ /…//…/ دیباچہ مفکرِ اسلام اور ترجمانِ ملتِ اسلامیہ علامہ اقبال کی تصنیف ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا کواچھی طرح سمجھنے اور اس کے نمایاں ترین پہلوئوں سے بخوبی آگاہی حاصل کرنے کے لیے اس کے دیباچہ کا گہرا مطالعہ بے حد ضروری ہے۔ اس مفصل دیباچہ میں ظہور اسلام سے قبل کے ایرانی فلسفیانہ نظام اور ایران پر غلبہ اسلام کے بعد رونما ہونے والے فکری واقعات کوبیان کیا گیا ہے۔ ایران کے قدیم فلسفیانہ افکار اور بعدازاں تشکیل پانے والے فکری نظام خصوصاً فلسفہ و مذہب کی آمیزش، ایرانی مفکرین پر یونانی مفکرین کے اثرات اور اسلامی تعلیمات میں عجمی عقائد کی پیوند کاری کے پس منظر کو جاننے کے لیے بھی یہ دیباچہ کافی اہمیت و افادیت کا حامل ہے۔ علامہ اقبال نے اس میں جن اہم اور اساسی تصورات کا تذکرہ کیا ہے وہ درج ذیل ہیں: (۱) ایرانی فلاسفہ اور مفکرین کے نظام ہائے فکر کے مطالعہ سے پتا چلتاہے کہ وہ کسی ضابطۂ فکر کو جامعیت کے ساتھ پیش کرنے سے قاصر ہیں یہی وجہ ہے وہ اشیائے کائنات کے اجمالی مطالعہ کو تفصیلی مشاہدات پر ترجیح دیتے ہیں۔ (۲) اہل ایران کے کردار کا نمایاں ترین پہلو ان کی فلسفیانہ خیال آرائی ہے۔ وہ غیر مادی اور نادیدنی حقائق سے شدید محبت رکھتے ہیں۔ (۳) ایرانی ذہن کا بھرپور اظہار مجمل خیالات اور متشر افکار کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس لیے غیرمربوط اشعار یعنی غزل اس کے لیے بہترین ذریعہ اظہار ہے۔ (۴) ایرانی ذہن کے برعکس ہندو ذہن اپنے تجربات و مشاہدات کوبڑی تفصیل اور اطمینان کے ساتھ بیان کرنے کا عادی ہے۔ اس طریق کار کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہندو فلاسفہ اور مفکرین جامع اور ہمہ گیر فلسفیانہ نظام کے مالک ہیں۔ (۴) اشیائے کائنات میںمخفی وحدۃ الوجود (خالق عالم کے وجود کی وحدت) میں ایرانی مفکرین کئی طرح ہندو مفکرین بھی گہری دل چسپی رکھتے تھے لیکن دونوں کے طریق کار اور انداز فکر مختلف ہیں۔ ہندو فلاسفہ اور مفکرین کا تجزیاتی طریقہ ایرانی مفکرین کے اجمالی مشاہدہ سے زیادہ مفصل اور جامع ہے۔ (۶) اندلس کے مسلمان وجودی مفکر محی الدین ابن عربی کی تصانیف میں نظریہ وحدۃ الوجود کی ہمیں جامع و مانع وضاحت ملتی ہے۔ (۷) ہندوستان، ایران اور یورپ قدیم آریائی خاندان کے افراد کے مساکن تھے۔ آریائی نسل کی ایک نمایاں خوبی مشالیت پسندی (عینیت پسندی یا تصوریت) رہی ہے۔ اس آریائی عادت نے ہندوستان میں گوتم بدھ، ایران میں بہاء اللہ اور یورپ میں مشہور قنوطیت پرست مفکر شوپنہار (Svhopenhauer) کے یکساں فکری نظام کی تخلیق کی ہے۔ (۸) شاید سامی اثرات کی بدولت ایران میں مذہب اورفلسفہ کے درمیان نہ ٹوٹنے والا رشتہ موجود رہا ہے۔ اسی لیے وہاں نئے نئے فلسفیانہ نظاموں نے کئی نئی مذہبی تحریکوں کو جنم دیا ہے۔ (۹) اگرچہ فلسفہ یونان سرزمین ایران میں پیدا نہیں ہوا تھا تاہم یہ آخرکار ایرانی نظام فکر کالازمی جزو بن گیا تھا۔ مسلم مفکرین نے فلسفہ یونان کے زیر اثر یونانی مفکرین خصوصاً افلاطون اور ارسطو کی فلسفیانہ اصطلاحات کو اپنے عقائد و افکار کی حمایت اور مخالفین کی مخالفت میں استعمال کرناشروع کردیا تھا۔ اس طرح فلسفہ یونان کی فلسفیانہ زبان مسلم تصوف، شریعت اور فلسفہ سے ہم آہنگ ہوگئی۔ (۱۰) ظہور اسلام کے بعد پروان چڑھنے والے ایرانی افکار و نظریات کا صحیح تجزیہ کرنے کے لیے اس بات کو ذہن نشین کرنااشد ضروری ہے کہ یونانی فلسفہ نے فلسفۂ ایران کو خاصا متاثر کردیا تھا۔ (۱۱) علامہ اقبال کی یہ کتاب دراصل فلسفۂ ایران کی آیندہ تاریخ کے لیے بنیاد کادرجہ رکھتی ہے اس میں انھوں نے دو نئی باتوں کا اضافہ کیا ہے۔ (ا) علامہ اقبال دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے فلسفۂ ایران کے منطقی تسلسل کا کھوج لگا کر اسے عصر حاضر کی فلسفیانہ زبان میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ (ب) ان کا مزید کہنا ہے کہ انھوں نے تصوف کے موضوع کو سائنسی انداز میں بیان کرنے کے علاوہ اس کے فکری اور اخلاقی پس منظر پر بھی اظہار خیال کیا ہے۔ (۱۲) علامہ اقبال نے اپنی اس کتاب کی تیاری کے لیے بہت سے اصل عربی اور فارسی مسودات کا مطالعہ کیا تھا۔ (۱۳) انھوں نے اپنی اس تصنیف کے انیس اہم منابع کی فہرست درج کی ہے۔ یہ اہم مسودات جرمنی اوربرطانیہ کے کتب خانوں میں موجود ہیں۔ یہ مسودات مسلمان مفکرین، فلاسفہ، صوفیا اور علمائے شریعت کی ذہنی کاوش کے غماز ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنی اولین فلسفیانہ کتاب ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا کے دیباچہ میں مندرجہ بالا نکات میں بہت سے فلسفیانہ امور پر روشنی ڈالی ہے۔ اگر ان بنیادی نکات کو مدنظر رکھا جائے تو پھر اس کتاب کے کافی مباحث باآسانی سمجھے جاسکیں گے۔ علامہ اقبال نے اپنی اس کتاب کے دیباچہ میں ایرانی فلاسفہ اور مفکرین کی مابعد الطبیعیاتی مسائل میں گہری دل چسپی اور ان کے نامکمل نظام فکر کے بارے میں اپنے خیالات کابڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ وہ ایرانی لوگوں کی نازک خیالی اور دروں بینی کے تو قائل ہیں لیکن وہ ان کے افکار کو صحیح طور پر منظم اور مربوط خیال نہیں کرتے۔ اس کے برعکس وہ ہندو فلاسفہ اور مفکرین کے مشاہدات و تجربات کی کلیت کی تعریف کرتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ اس کتاب کے دیباچہ کے آغاز میں یوں رقم طراز ہیں: ایرانی لوگوں کے کردار کا نمایاں ترین پہلو مابعد الطبیعیاتی تفکر سے محبت ہے۔ تاہم جویائے حقیقت ایران کے معدوم لٹریچر کا مطالعہ کرکے کپلا (Kapila) اور کانٹ (Kant) کے جامع نظام ہائے فکر کی طرح کوئی مربوط فکری نظام تلاش کرنے کی امید رکھے تو اسے مایوسی کے سوا کچھ بھی نہیں ملے گا یہ الگ بات ہے کہ وہ ایرانی ادب میں پنہاں حیرت انگیز ذہنی ذکاوت سے بہت زیادہ متاثر ہو۔ میری رائے میں ایرانی ذہن تفصیلات کا متحمل نہیں ہوتا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اس تنظیمی صلاحیت سے محروم ہے جو مشاہدہ کے عام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے بنیادی اُصولوں کی تشریح کے ذریعے بتدریج خیالات کا ایک نظام تشکیل دیتی ہے۔ اس اقتباس سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ زیرک برہمن اشیائے کائنات کی باطنی وحدت کو دیکھ لیتا ہے۔ ایرانی مفکر کا بھی یہی حال ہے لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ برہمن مفکر اس وحدت اشیا کو انسانی تجربات کے تمام پہلوئوں میں منکشف کرنے اور ٹھوس حقائق میں اس کی پوشیدہ موجودگی کو مختلف طریقوں سے واضح کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے برعکس ایرانی مفکر اشیا کی اس وحدت کی محض آفاقیت سے مطمئن ہوکر اس کے مخفی مواد کی وسعت کی تصدیق و تحقیق کی سعی نہیں کرتا۔ علامہ اقبال ایرانی تخیل کو اس تتلی کی مانند قرار دیتے ہیں جو باغ کو مجموعی طور پر دیکھنے سے قاصر ہو کر ایک پھول سے دوسرے تک ان کے رس سے نیم سیراب ہوکر اڑتی ہے۔ ان کی نگاہ میںایرانی ذہن چیزوں کی مجموعی اور مفصل وحدت کو دیکھنے کی بجائے اسے مختلف حصوں میں دیکھنے کا عادی ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ منتشر اشعار یعنی غزل میں ایرانی افکار کا بہترین اظہار ہوتا ہے۔ اس بارے میں موجودہ عالم اسلام کے یہ نامور ترجمان یوں اظہار خیال کرتے ہیں۔ ’’اس بنا پر ایرانی مفکر کے عمیق ترین خیالات اور احساسات غیر مربوط اشعار یعنی غزل میں زیادہ تر بیان کیے جاتے ہیں جن سے اس کی فنکارانہ روح کی باریک بینی کا پتا چلتا ہے۔‘‘ مابعد الطبیعیات فلسفے کی وہ شاخ ہے جو مادی اور دیدنی چیزوں کی بجائے نظر نہ آنے والے غیرمادی حقائق کو معلوم کرنے کی کوشش کیا کرتی ہے۔ طبیعی عالم کے پس پردہ جو حقائق موجود ہوتے ہیں وہ غیر طبیعی یا مابعد الطبیعیاتی حقائق کہلاتے ہیں۔ یہ غیر طبیعی حقیقتیں شروع ہی سے انسان کی جستجو اور غیرمعمولی دل چسپی کا سبب رہی ہیں۔ دنیا کے دیگر فلاسفہ اور مفکرین کی طرح ایرانی اور ہندو مفکرین بھی اپنے اپنے نقطہ نظر سے ان پوشیدہ امور کو جاننے اور انھیں بیان کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ مختلف قومی خصائص، ثقافتی اطوار، سماجی حالات، معاشی نظریات اور مذہبی رجحانات کی وجہ سے مختلف نظام ہائے فکر معرض وجود میں آتے ہیں۔ ایرانیوں اور ہندوئوں کے مختلف فلسفیانہ خیالات اور فکری اعتقادات بھی اس حقیقت کے غماز دکھائی دیتے ہیں چنانچہ علامہ اقبال ان دونوں قوموں کے مابعد الطبیعیاتی نقطہ ہائے نگاہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ایرانی ذہن کی طرح ہندو ذہن بھی علم کے بلند تر سرچشمے کی ضرورت کو تسلیم کرتا ہے تاہم وہ بڑے صبر و تحمل کے ساتھ ایک تجربے سے دوسرے تجربے تک پہنچتا ہے۔ وہ اپنے ان تجربات کا بڑی بے رحمی کے ساتھ تجزیہ کرکے انھیں اپنے اندر چھپی ہوئی آفاقیت کو ظاہر کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ دراصل ایرانی مفکر ضابطہ افکار کے طور پر مابعد الطبیعیات سے صرف نیم آگاہ ہے۔ اس کے برعکس اس کا برہمن بھائی اپنے نظریے کو ایک مکمل عقلی نظام کی شکل میں پیش کرنے کی ضرورت سے کلیتاً واقف ہے۔ ان دونوں قوموں کے ذہنی اختلاف کا نتیجہ ظاہر ہے۔ ایک طرف تو ہمیں صرف جزوی طور پر پیش کردہ نظام فکر ملتا ہے اور دوسری طرف ہمیں حقیقت طلب دیدانت کی حیرت افزا عظمت کا احساس ہوتا ہے۔ وحدۃ الوجود نظریے کی مکمل توضیح و تشریح کے لیے اندلس کے شہرہ آفاق صوفی مفکر محی الدین ابن عربی کی تصانیف کا مطالعہ بے حد ضروری ہے۔ محی الدین ابن عربی کو اگر وجودیوں کا امام کہا جائے تو اس میں ہرگز کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ ان کے بعد آنے والے وجودیوں نے زیادہ تر ان کے افکار و تشریحات ہی کا سہارا لے کر نظریہ وحدۃ الوجود کی تبلیغ و اشاعت کی ہے۔ علامہ اقبال وحدۃ الوجود کے اُصول اور محی الدین ابن عربی اندلسی کے بارے میں اپنی رائے کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: اسلامی تصوف کاوہ طالب علم جو اُصول وحدۃ الوجود کی ہمہ گیر وضاحت کو جاننے کے لیے مضطرب ہے اسے اندلس کے رہنے والے ابن العربی کی ضخیم کتابوں کا مطالعہ کرناچاہیے جس کی گہری تعلیمات اس کے اہل وطن کے خشک اسلام سے مختلف دکھائی دیتی ہیں۔ ایرانی اور ہندو فلسفیوں اور مفکروں کے تحقیقی طریق کار، تجزیاتی نوعیت مخصوص قومی انداز فکر اور وجودی تعبیرات کی بحث کو ختم کرنے سے پہلے ایک اور پہلو کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا۔ مورخین کی رائے میں آریائی نسل سے تعلق رکھنے والے لوگ ہندوستان سے نکل کر دنیا کے دوسرے علاقوں میں جاکر سکونت پذیر ہوگئے تھے۔ زبان، رنگ اور رہایش کے اختلافات کے باوجود ان میں بعض موروثی اثرات باقی رہے۔ اس عظیم اور قدیم خاندان کی مختلف شاخوں کی ذہنی سرگرمیوں کے بعض نتائج یکساں نظر آتے ہیں ان کی آبائی فلسفیانہ خیال آرائی اور عینیّت (Idealism) نے مختلف ملکوں میں ایک ہی طرز کی بعض فکری تحریکوں کو جنم دیا تھا۔ علامہ اقبال ایران اور ہندوستان میں خصوصاً اور یورپ میں عموماً اس حیرت انگیز فکری یکسانیت کی کرشمہ سازی کو بیان کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں: عظیم آریائی خاندان کی مختلف شاخوں کی ذہنی سرگرمی کے نتائج حیرت انگیز طور پر یکساں ہیں۔ تمام عینیت پرستانہ افکار کا نتیجہ ہندوستان میں گوتم بدھ کا وجود، ایران میں بہاء اللہ کا ظہور اور مغرب میں شوپنہار کی نمود ہے۔ ہیگل کی زبان میں شوپنہار کا فلسفہ آزاد مشرقی آفاقیت اور مغربی محدودیت کا امتزاج ہے۔ ایران کی تاریخ فلسفہ کا گہرا مطالعہ کرنے سے ہم پر یہ امر بھی عیاں ہوجاتا ہے کہ وہاں مذہب اور فلسفہ کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ وہاں نئے نئے فلسفیانہ افکار و نظریات نئی نئی مذہبی تحریکوں کو جنم دیتے رہے ہیں اور بعض مسلمان فلاسفہ اور مفکرین فلسفہ یونان کے زیر اثر اپنے مذہبی اعتقادات اور مخصوص مزعومات کو فلسفیانہ زبان میں بیان کرنے کے عادی ہوگئے تھے۔ ایران میںظہور اسلام کے بعد اگرچہ عارضی طور پر مذہب اور فلسفہ کی راہیں جدا ہوگئیں مگر بعدازاں آہستہ آہستہ فلسفہ یونان فسلفہ ایران کالازمی جزو بن گیا تھا۔ شاعرِ مشرق اور حکیم الامت علامہ اقبال فلسفۂ ایران کی تاریخ کے اس پہلو کی نقاب کشائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ایران میں شاید سامی اثرات کی بنا پر فلسفیانہ تفکر نے اپنے آپ کو مذہب کے ساتھ اس حد تک پیوست کرلیا تھا کہ ان کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس لیے فلسفیانہ افکار کو نئے خطوط پر تشکیل دینے والے مفکرین ہمیشہ نئی مذہبی تحریکوں کے بانی رہے ہیں۔ ایران پر غلبہ اسلام کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ افلاطون اور ارسطو کے نئے مسلمان مقلدین نے خالص فلسفے کو مذہب سے جدا کردیا تھا مگر یہ جدائی صرف عارضی واقعہ ثابت ہوئی۔ اگرچہ یونانی فلسفہ سرزمین ایران میں ایک اجنبی (بدیشی) پودا تھا تاہم انجام کار یہ فلسفۂ ایران کا جزو لاینفک بن گیا تھا۔ اس اقتباس سے یہ اہم حقیقت نکھر کر ہمارے سامنے آجاتی ہے کہ یونانی فلسفیوں اور مفکروں نے ایرانی فلسفیانہ نظام کو کافی حد تک اپنا غلام بنالیا تھا۔ ایران پر اسلامی فتوحات کی وجہ سے اہل ایران اگرچہ کافی حد تک اور کافی تعداد میں اسلامی تعلیمات کے حامل بن گئے تھے لیکن بعض تبلیغی کوتاہیوں اور سیاسی مصلحتوں سے فائدہ اٹھا کر بعض ایرانی ذہن اپنے بعض قدیم غیر اسلامی عقائد و نظریات سے چھٹکارا نہ پاسکے چنانچہ وہ در پردہ اسلام کی بیخ کنی کے درپے رہے۔ بعض لوگ جہالت کی بنا پر اور بعض افراد دیدہ ودانستہ اسلام کے صاف و شفاف دریا کو گدلا بنانے میں مصروف رہے۔ غیر اسلامی نظریات اور عقائد صرف کوچۂ فلسفہ ہی میں داخل نہ ہوئے بلکہ رفتہ رفتہ وہ ہمارے تصوف، شریعت، روایات سلف اور قرآنی تفاسیر کا بھی جزو بنتے گئے۔ اسی غلامانہ ذہنیت اور یونانی مرعوبیت کے زیر اثر ہمارے بعض تصوف پسند مفکرین اور علمائے شریعت نے اسلامی تعلیمات اور قرآنی اصطلاحات کی بجائے زیادہ تر یونانی افکار اور فلسفہ یونان کی مخصوص زبان پر تکیہ کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عامۃ المسلمین انتشار فکر و نظر کا شکار ہو کر سعی و عمل سے محروم ہوتے گئے۔ نباض ملت ہونے کی حیثیت سے علامہ اقبال ایرانی اہل فکر کی اس یونانی محکومیت اور ذہنی غلامی کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: حکمت یونانی کے حامی نقاد اور مفکرین ارسطو اور افلاطون کی فلسفیانہ زبان میں گفتگو کرنے لگے اور وہ زیادہ تر قدیم مذہبی مفروضات سے متاثر ہوئے۔ ایران میں ظہورِ اسلام کے بعد پروان چڑھنے والے ایرانی فلسفے کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے اس حقیقت کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ علامہ اقبال ہندوستانی اور ایرانی مفکرین کے طریق مطالعہ کائنات اور انداز مشاہدات اور فلسفۂ ایران پر حکمت یونان کے اثرات کوبیان کرنے کے بعد اپنی کتاب ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا کی تاریخی اہمیت اور فلسفیانہ افادیت کے بعض پہلوئوں پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ اپنی تحقیق پسندی کے ثمرات اور طرز بیان کی جدت کو انھوں نے ابڑے مختصر طور پر تحریر کیا ہے۔ ان کی یہ تحقیقی کتاب شاعرانہ تَعلّی اور علمی غرور کی بجائے واقعہ نگاری، حقیقت پسندی اور ذاتی انکسار کی منہ بولتی تصویر ہے۔ وہ اس کتاب کے چند اہم گوشوں سے ہمیں روشناس کرتے ہوئے کہتے ہیں: اس علمی تحقیق کا مقصد، جیسا کہ واضح ہوگا، ایرانی مابعد الطبیعیات (فلسفۂ ایران) کی آیندہ تاریخ کے لیے بنیادی کام مہیا کرنا ہے۔ اگرچہ خالصتاً تاریخی نوعیت کے علمی جائزے میں جدت خیال کی توقع نہیں کی جاسکتی تاہم میں مندرجہ ذیل دو نکات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانے کی جسارت کرتا ہوں: (الف) میں نے فلسفۂ ایران کے منطقی تسلسل کا سراغ لگانے کی کوشش کرکے اسے جدید فلسفے کی زبان میں بیان کرنے کی سعی کی ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے اس سے بیشتر یہ کام نہیں ہوگا۔ (ب) میں نے تصوف کے موضوع پر زیادہ سائنٹیفک انداز میں بحث کرکے اسے بروئے کار لانے والے ذہنی کوائف کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ عام مروجہ تصور کے برعکس میں نے یہ بتانے کی سعی کی ہے کہ تصوف ان مختلف فکری اور اخلاقی قوتوں کی پیداوار ہے جو لازمی طور پر خوابیدہ روح میں زندگی کا بلند تر نصب العین بیدار کیا کرتی ہے۔‘‘ اپنی اس فلسفیانہ اور صوفیانہ کتاب کے دیباچہ کے آخر میں علامہ اقبال نے ان تمام عربی اور فارسی، مخطوطات، مسودات اور مطبوعات کی طویل فہرست دی ہے جن کا مطالعہ کرنے کے بعد انھوں نے اپنی کتاب ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا ہے۔ یہ مسودات اور مطبوعات بلند پایہ حکما، صوفیا، فلاسفہ، علما اور مفکرین کی ذہنی کاوش کانتیجہ ہیں۔ ’’علم کے وہ موتی‘‘ یعنی کتابیں اپنے آبا کی غیروں کے کتب خانوںکی زینت کا باعث بن چکی ہیں۔ چنانچہ اپنی کتاب کی تیاری اور ضروری مواد کی تحقیق کے لیے علامہ اقبال کو ان سب نایاب مسودات اوربعض اہم مطبوعات کے مطالعہ کے لیے یورپ کی مختلف لائبریریوں کا رخ کرنا پڑا۔ ان کتابوں اور مسودوں کا زیادہ تر تعلق رائل لائبریری آف برلن، انڈیا آفس لائبریری لندن، برٹش میوزیم لائبریری کیمبرج یونیورسٹی لائبریری اور ٹرینٹی کالج لائبریری سے ہے جیسا کہ علامہ اقبال کی تحریر کردہ فہرست کتب سے عیاں ہوتا ہے۔ علامہ موصوف اپنی علمی تحقیق کے ان اہم منابع کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ژند زبان سے ناواقفیت کی وجہ سے زرتشت کے بارے میں میری معلومات براہ راست نہیں ہیں۔ جہاں تک میری کتاب کے دوسرے حصے کا تعلق ہے میں اپنی اس علمی تحقیق سے متعلق فارسی اور عربی کے اصلی مسودات کے علاوہ بہت سی مطبوعہ کتابوں کو دیکھ سکا ہوں۔ میں ذیل میں ان عربی اور فارسی مسودات کا نام درج کرتا ہوں جن سے میں نے اپنی کتاب کی تیاری کے لیے زیادہ تر مواد حاصل کیا ہے… علامہ اقبال نے جن کتابوں اور مسودات کا مطالعہ کیا تھا ان کے نام یہاں درج کیے جاتے ہیں تاکہ قارئین کرام کو معلوم ہو کہ انھوں نے اپنے علمی مقصد کے حصول کے لیے کتنی جانفشانی، انتھک کوشش اور لگن سے کام لیا تھا۔ ان مخطوطات اور مسودات کی فہرست ملاحظہ ہو: (۱) تاریخ الحکماء از البہیقی رائل لائبریری آف برلن(جرمنی) (۲) شرح انواریہ(اصلی متن کے ساتھ) از محمد شریف ہراتی ایضاً (۳) حِکمۃُ العین از الکاتبی ایضاً (۴) شرح حکمۃ العین از محمد ابن مبارک البخاری انڈیا آفس لائبریری (لندن) (۵) عوارف المعارف از شہاب الدین ایضاً (۶) شرح حکمۃ العین از حسینی ایضاً (۷) مشکواۃ الانوار از الغزالی ایضاً (۸) کشف المحجوب از علی ہجویری ایضاً (۹) رسالہ نفس (ارسطو کی کتاب کا ترجمہ) از افضل کاشی ایضاً (۱۰) رسالہ میر سید شریف ایضاً ایضاً (۱۱) خاتمہ از سید محمد گیسو دراز ایضاً (۱۲) منازل السائرین از عبد اللہ اسماعیل ہراتی ایضاً (۱۳) جاوادں نامہ از افضل کاشی ایضاً (۱۴) تاریخ الحکماء از شاہ حضوری برٹش میوزیم لائبریری (لندن) (۱۵) بو علی سینا کامجموعہ تصانیف ازبو علی سینا ایضاً (۱۶) رسالہ فی الوجود از میر جرجانی برٹش میوزم لائبریری (لندن) (۱۷) جاودان کبیر کیمبرج یونیورسٹی لائبریری (برطانیہ) (۱۸) جام جہاں نما ایضاً (۱۹) مجموعہ فارسی (رسالہ نمبر۱، رسالہ نمبر۲) از اُنسفِیَ ٹرنیٹی کالج لائبریری (برطانیہ) علامہ اقبال نے اپنی کتاب کے حصہ اول میں ایران کے ایک قدیم اور مشہور فلسفی زرتشت کے فلسفیانہ نظام پر بڑی تفصیل سے بحث کی ہے کیوں کہ فلسفۂ ایران کو سمجھنے اور زرتشت کے مسلمان مقلدین کے بعض خیالات کے اصل مأخذ کو جاننے کے لیے زرتشت کے نظریات کا مفصل اور گہرا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ فارسی زبان کی ایک پرانی شکل یعنی ژند میں زرتشت کے خیالات بیان کیے گئے تھے۔ علامہ اقبال چونکہ اس پرانی زبان سے واقف نہیں اس لیے انھوں نے زرتشت کے خیالات کو اصلی مسودہ سے جاننے کی بجائے اس کے تراجم کاسہارا لیا تھا۔ باقی ایرانی مفکرین کے افکار و خیالات سے بخوبی آگاہی حاصل کرنے کے لیے انھوں نے فارسی اور عربی کے اصل مخطوطات کو پڑھا تھا۔ انھوں نے صرف دو کتابوں کے مصنفین کا نام تحریر نہیں کیا البتہ باقی تحریر کنندگان کے نام فہرست مسودات میں دیئے گئے ہیں۔ اوپر دی گئی فہرست سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ انھوں نے زیادہ تر لندن سے اپنا تحقیقی مواد حاصل کیا تھا۔ مسودات کی فہرست کے آخر میں انھوں نے اپنانام شیخ محمد اقبال لکھنے کی بجائے صرف ایس۔ ایم۔ اقبال تحریر کیا تھا۔ /…//…/ باب اوّل ایرانی ثنویت (Dualism) اس باب میں علامہ اقبال نے مندرجہ ذیل نکات کو مختصر طور پر بیان کیا ہے: ۱- زرتشت ایران کا ایک قدیم، اہم اور عظیم مفکر تھا جس نے خیر و شر کی ازلی چپقلش کو ظلمت و نور اور اہرمن ویزدان کی شکل میں پیش کیا تھا۔ ۲- زرتشت کسی دیو مالائی (Mythical) شخصیت کا نام نہیں بلکہ اس کی تاریخی حیثیت اب مسلم ہوگئی ہے۔ ۳- زرتشت نے اپنے نظام خیر و شر کی اساس فطرت میں موجود ترتیب و انتشار اور قانون و تصادم کے اُصول پر رکھی تھی۔ ۴- زرتشت کے نظریہ ثنویت (Dualism) نے نہ صرف ایران کے قدیم فلسفے اور عیسائیت کے اولین دور کو متاثر کیا بلکہ جدید مفکرین اور فلاسفہ خصوصاً ہیگل، کارل مارکس اور شوپنہار بھی اثر پذیر ہوئے۔ ۵- زرتشت کے تصور روح کی رو سے روح انسانی خدا کا جزو نہیں بلکہ یہ خدا کی تخلیق ہے۔ روح کو بدی یا نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لیے آزادی عمل دی گئی ہے۔ ۶- زرتشت نے فلسفیانہ ثنویت اورمذہبی وحدت کا نظریہ پیش کیا تھا جس نے اس کے پیروکاروں کو دو مخالف گروہوں میں تقسیم کردیا تھا۔ ۷- زرتشت کے برعکس ایک اور قدیم ایرانی مفکر، مانی (Mani) نیکی اور بدی کو دو آزاد طاقتیں خیال کرتا تھا۔ ۸- مانی دنیا کو بنیادی طور پر شر قرار دیتا تھا۔ اس تصور نے ترک دنیا اور عیسائی نظریہ نجات کو تقویت دی ہے۔ ۹- مانی کائنات کی ہماہمی کو شیطانی سرگرمیوں کا لازمی نتیجہ تصور کرتا تھا۔ ۱۰- ایران کے ایک اور قدیم مفکر، مزدک (Mazdak)کی رائے میں نور اور ظلمت (خیر و شر) کی دو آزاد طاقتوں نے اشیائے کائنات کی کثرت کو جنم دیا تھا۔ ۱۱- مزدک نے ایران میں سب سے پہلے انسانوں کی مساوات اور سوشلزم کا پرچار کیا تھا۔ اس لحاظ سے اسے کارل مارکس کا پیش رو خیال کرنا چاہیے۔ اس باب میں علامہ اقبال نے ایران کے ایک قدیم اور شہرہ آفاق مفکر اور معلم اخلاق فلسفی یعنی زرتشت کے فلسفیانہ افکار، اخلاقی ضوابط اور اس کے نظریات کے دور رس اثرات کو موضوع بحث بنایا ہے۔ اس ضمن میں اقبال کے تصور زرتشت کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے۔ یہاں اس امر کا تذکرہ بیجا نہ ہوگا کہ زرتشت کے نظریہ نور و ظلمت نے دنیا کے عظیم نظام ہائے فکر اوربلند پایہ فلاسفہ اور مفکرین پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔ نور و ظلمت کی آویزش اور اہرمن و یزدان کی باہمی چپقلش کا ذکر دنیا کے بیشتر مذہبی، ادبی، سماجی اور اخلاقی اُصولوں کے لیے محور کا کام دیتا ہے۔ آیئے ہم یہاں زرتشت کے فلسفیانہ نظام کی اس اساس کے مختلف پہلوئوں کا مختصر جائزہ لیں۔ زرتشت زرتشت کو ایرانی آریائیوں کی تاریخ فلسفہ میں پہلا مقام دینا چاہیے۔ اسے صحیح معنوں میں ایران کا قدیم حکیم یعنی فلسفی کہا جاسکتا ہے کیوں کہ جب آریائی نسل سے تعلق رکھنے والے ایرانی مسلسل صحرانوردی اور دشت گردی سے اکتا کر زراعتی زندگی اختیار کرچکے تو ایران کے اس قدیم اور مایہ ناز مفکر نے اپنے فکری نظام کی تشکیل شروع کردی تھی اس لحاظ سے اسے ایران کی فکری تاریخ میں اولین اور نمایاں ترین حیثیت دی جاتی ہے۔ یہ وہ دور تھا جب کہ وسطی ایشیا کے میدانوں میں وید کے بھجن ترتیب پارہے تھے۔ ان آباد کاروں کے نئے طریق زندگی اور ان کی جائیداد کے مستحکم قوانین کو ان دیگر آریائی قبائل نے بنظر حقارت دیکھنا شروع کردیا جو ابھی تک اپنی پرانی بدوی عادات سے وابستہ اور اپنے سے زیادہ مہذب عزیز و اقارب کو گاہے گاہے اپنی لوٹ مار کا نشانہ بنایا کرتے تھے۔ اس طرح آریائی نسل کے ان دو مختلف گروہوں کے درمیان چپقلش کا آغاز ہوگیا۔ دو مختلف طرز حیات رکھنے کی بنا پر انھوں نے ایک دوسرے کے دیوتائوں کو ہدف ملامت بنایا۔ ان دیوتائوں کی باہمی مذمت میں ہمیں ان دو گروہوں کی محاذ آرائی کاآہستہ آہستہ آریائی نژاد ایرانیوں کو دوسرے آریائی قبائل سے جدا کرکے آخرکار زرتشت کے مذہبی تصورات کی شکل اختیار کرلی تھی۔ علامہ اقبال زرتشت کے دو اہم یونانی معاصرین اور زرتشت کے افکار کی بنیاد کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں: ایران کا یہ عظیم پیغمبر سولن (Solon) اور تھیلز (Thales) کا ہم عصر اور معلم اخلاق تھا۔ جدید مشرقی تحقیقات کی مدھم روشنی میں ہم قدیم ایرانیوں کو دو گروہوں میں منقسم پاتے ہیں۔ ایک گروہ نیکی کی قوتوں کا حامی تھا جب کہ دوسرا گروہ بدی کی طاقتوں کا طرفدار تھا۔ اس وقت اس عظیم حکیم نے ان کے پرجوش مناظرے میں شریک ہوکر اپنے اخلاقی ولولے کے ساتھ بھوت پریت کی پوجااور مجوسی پاپائیت کی ناقابلِ برداشت رسومات و عبادات کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قلع قمع کردیا۔‘‘ ایران کے نامور مفکر زرتشت کی تاریخی حیثیت کے بارے میں تذکرہ نگاروں اور مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض اس کے حقیقی وجود کو تسلیم کرتے ہیں اوربعض حضرات اسے ایک دیومالائی شخصیت قرار دیتے ہیں۔ علامہ اقبال اس مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں جو زرتشت کوفرضی شخصیت کی بجائے ایک تاریخی شخصیت قرار دینے پر مصرہے۔ مندرجہ بالا اقتباس سے یہ امر بالکل واضح ہو جاتا ہے۔ کہ وہ زرتشت کو سولن اور تھیلز کا معاصر خیال کرتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ مزید فرماتے ہیں: بعض یورپی فضلا نے زرتشت کو ایک دیومالائی شخصیت سے زیادہ کچھ بھی خیال نہیں کیا لیکن پروفیسر جیکسن (Jackson) کی قابل تعریف تصنیف حیات زرتشت کے بعد سے میری رائے میں یہ ایرانی پیغمبر انجام کار جدید تنقید کی آزمایش سے بچ گیا ہے۔ علامہ اقبال زرتشت کے مذہبی نظام کے آغاز و ارتقاکونظر انداز کرتے ہوئے اس کے الہام کے مابعد الطبیعیاتی پہلو یعنی فلسفہ کی مقدس تثلیت (خدا، انسان اور کائنات) کو اپنی توجہ کا مرکز بناتے ہیں۔ ان کی رائے میں گیگر (Geiger) نے اپنی کتاب از منہ قدیم میں مشرقی ایرانیوں کی تہذیب میں یہ بات واضح کی ہے کہ زرتشت نے اپنے آریائی آبا و اجداد سے ورثے میں دو بنیادی اُصول پائے تھے: ۱- فطرت میں قانون پایا جاتا ہے۔ ۲- فطرت میں تصادم موجودہے۔ کائنات کی اشیا میں قانون و تصادم کے اس ہمہ گیر منظر کو دیکھ کر زرتشت نے اسے اپنے فلسفیانہ نظام کی بنیاد بنایا تھا۔ زرتشت کو اب یہ مسئلہ درپیش تھا کہ وہ کس طرح شر کے وجود اور خدا کی ازلی خیر کو آپس میں ہم آہنگ کرے۔ اس کے پیش رو نیکی کی بہت سی قوتوں کے پجاری تھے۔ اس نے نیکی کی ان سب قوتوں کو وحدت کی لڑی میں پرو کر اہور مزدا ۱؎ کانام دیا۔ اسکے برعکس اس نے بدی کی تمام طاقتوں کو ایک ایک کرکے انھیں رج اہرمن ۲؎کہا، اس طریق اتحاد کے باعث وہ دو بنیادی اُصولوں تک پہنچا جنھیں اس نے دو الگ آزاد فعال قوتوں کی بجائے ذات قدیم کے دو حصے یا دو پہلو خیال کیا۔ ڈاکٹر ہاگ (Haug) کی رائے میں ایران قدیم کا یہ پیغمبر مذہبی طور پر تو توحید پرست تھا مگر فلسفیانہ لحاظ سے وہ ثنویت کا پجاری تھا۔ مفکر اسلام اور ترجمانِ حقیقت علامہ اقبال ڈاکٹر ہاگ کے تصور زرتشت کے بارے میں اپنی تنقیدی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں: حقیقت اور غیر حقیقت کے دو خالقوں کی حیثیت سے دو ’’ہمزاد طاقتوں‘‘ کو ماننا اور اسی وقت انھیں ہستی اعظم میںمتحد خیال کرنا یہ کہنے کے مترادف ہے کہ شر کا اُصول خدا تعالیٰ کی ذات کا لازمی جزو ہے اور بدی اور نیکی کی چپقلش خدا کی اپنی ذات کے خلاف جدوجہد کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس لیے مذہبی توحید پرستی اور فلسفیانہ ثنویت کوباہم مربوط کرنے کی کوشش میں خامی پنہاں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ زرتشت کے پیروکاروں میں تفرقہ پیدا ہوگیا۔ ڈاکٹر ہاگ زندیقیوں کو ملحد قرار دیتا ہے۔ علامہ اقبال کی نظرمیں یہ زندیق اپنے مخالفین کی نسبت زیادہ مربوط افکار کے حامل تھے کیوں کہ وہ ہمیشہ بنیادی طور پر دو آزاد قوتوں میں یقین رکھتے تھے جب کہ مجوسی ان دو قوتوں کوایک ہی تصور کرتے تھے۔ خیر و شر کی متحد طاقت کے حامیوں نے مختلف طریقوں اور مختلف اسالیب کے ذریعے زندیقیوں کے اعتراضات دور کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ان ’’اولین ہمزاد قوتوں‘‘ کی وحدت کے بیان میں کامیاب نہ ہوئے اورنہ ہی وہ خود اپنی فلسفیانہ تشریحات سے مطمئن ہوسکے۔ اس طرح ان کے مخالفین کی فکری حیثیت مستحکم ہی رہی۔ شرستانی نے مجوسی مفکرین کی مختلف وضاحتوں کوبڑے اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے۔ زروانی نور اور ظلمت کو لامحدود وقت کے دوبیٹے سمجھتے ہیں کیومردیہ کی رائے میں اصلی قوت تو نور ہے جومخالف طاقت سے خائف تھی۔ مخالف کے خیال اور خوف نے ظلمت کو جنم دیا تھا۔ زروانی فلاسفہ کی ایک اور شاخ کا خیال ہے کہ اصلی قوت نے کسی چیز کے متعلق شک کیا اور بعدازاں اس شک کی بنا پر اہرمن معرض وجود میں آگیا۔ ابن حزم نے اپنی تصانیف میں ایک اور فرقے کا ذکر کیا ہے جس نے اُصول ظلمت کی اس طرح وضاحت کی ہے کہ ظلمت بذات خود نور کی اساسی طاقت کا ایک تاریک حصہ ہے۔ زرتشت کے فلسفیانہ نظام نے یونان کے فلسفہ قدیم اوربعض عیسائی عقائد کو کافی متاثر کیا ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ زرتشت کی فلسفیانہ ثنویت کو اس کی توحید پرستی سے ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے یا نہیں مگر اس امر کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مابعد الطبیعیاتی نقطہ نگاہ سے اس نے حقیقت مطلقہ کی آخری کنہ کے بارے میں ہمیں گہری سوچ عطا کی ہے۔ اس ضمن میں علامہ اقبال زرتشت کے دور رس فلسفیانہ اثرات پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں: معلوم ہوتا ہے کہ زرتشت کے اس تصور نے نہ صرف قدیم فلسفہ یونان اور عیسائیت کے اولین دور کے باطنی فکر کو متاثر کیا ہے بلکہ عیسائیت کے اس اثر کے تحت اس نے جدید فلسفہ مغرب کے بعض پہلوئوں پر بھی اثر ڈالا ہے۔ مفکر کے طور پر زرتشت بہت زیادہ عزت و احترام کے لائق ہے۔ نہ صرف اس کی وجہ سے کہ اس نے خارجی کثرت کے مسئلے کو فلسفیانہ انداز میں پیش کیا ہے بلکہ اس لیے بھی کہ مابعد الطبیعیاتی ثنویت تک پہنچ کر اس نے اپنی اولین ثنویت کو برتر وحدت میں ڈھالنے کی سعی کی تھی۔ اس نے جرمنی کے کفش ساز صوفی سے کافی عرصہ قبل اس بات کوپالیا تھا کہ اشیائے کائنات کی کثرت کو نفی اور خدا کی ذات کی غیریت کے اُصول کو وضع کیے بغیر بیان نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم اس کے فوری جانشین اپنے پیر و مرشد کے افکار کے گہرے مفہوم کو نہ سمجھ سکے۔ ایران کے اس قدیم ترین فلسفی کے نظریہ ظلمت و نور (تصور خیر و شر) نے دنیا کے بیشتر مذہبی، سیاسی اور معاشرتی نظریات کو متاثر کیا ہے۔ افلاطون کا نظریہ عدم و وجود، ہیگل کا جدلیاتی نظام، کارل مارکس کا طبقاتی تصّور، شوپنہار کے علاوہ دیگر مفکرین کے افکار کسی نہ کسی طرح اس زرتشی اثر کے عکاس ہیں۔ علامہ اقبال کی رائے میں اس کے اس تصور نے دور آخر کے فلسفۂ ایران کے بعض پہلوئوں کو زیادہ روحانی انداز بیان عطا کیا ہے۔ وہ اس باب میں اس بحث کونہیں چھیڑتے۔ وہ زرتشت کے نظریہ ظلمت و نور پر قدرے روشنی ڈالنے کے بعد اس کے تصور کائنات کو موضوع بحث بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کی ثنویت نے تمام کائنات کو ہستی کے دو شعبوں میں تقسیم کردیا ہے۔ ایک شعبے کا نام حقیقت اور دوسرے کا نام عدم حقیقت ہے۔ حقیقت سے اس کی مراد وہ تمام نیک مخلوقات ہیں جن کو افادہ بخش قوت کی تخلیقی سرگرمی جنم دیتی ہے اور عدم حقیقت کا مطلب ہے وہ تمام بری مخلوقات جو ضرر رساں قوت کی کوکھ سے پید اہوتی ہیں۔ ان دو قوتوں کی اصلی جنگ کائنات کی مخالف طاقتوں کے روپ میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ اس طرح مختلف مظاہر فطرت نیکی اور بدی کی طاقتوں کے درمیان مستقل محاذ آرائی کے آئینہ دار ہیں۔ یہاں اس امر کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ان طاقتوں اور ان کی اپنی مخلوقات کے درمیان کوئی چیز بھی حائل نہیں ہوتی۔ چیزیں اپنی ذات میںنہ اچھی ہوتی ہیں اور نہ بری بلکہ وہ اپنے تخلیقی سرچشموں سے پیدا ہو کر خیر اور شر کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ افلاطون کے نظریہ عدم و وجود اور زرتشت کے نظریہ حقیقت و غیر حقیقت میں خط امتیاز کھینچتے ہوئے علامہ اقبال رقم طراز ہیں: زرتشت کا تصور تخلیق بنیادی طور پر افلاطون اور شوپنہار کے نظریہ تخلیق سے مماثل نہیں۔ افلاطون اور شوپنہار کی نگاہ میں تجرباتی حقیقت کے حلقہ ہائے عمل ان زمانی اور غیر زمانی خیالات کا عکس ہیں جو حقیقت اور نمود کی راہ میں حائل ہوتے ہیں۔ زرتشت کی رائے میں حیات کے صرف دو مدارج ہیں اور تاریخ کائنات انھی دو طبقوں کے زیر اثر آنے والی قوتوں کے ارتقا پذیر نزاع کے سوا کچھ بھی نہیں۔ دوسری چیزوں کی مانند ہم انسان بھی اس جنگ میں شریک ہیں۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم نور کے حامی بن جائیں تاکہ وہ آخرکار غالب آکر ظلمت کی طاقت کو مکمل طور پر نیست و نابود کردے… زرتشت کے نظریہ غیر حقیقت اور افلاطون کے تصور عدم میں کوئی مطابقت نہیں ہے۔ زرتشت کے خیال میں ظلمت کی قوت کے تخلیقی عمل کے نتیجہ میں معرض وجودمیں آنے والی تمام صورتیں غیر حقیقی ہیں کیوں کہ نور کی طاقت کی آخری فتح کے پیش نظر ان کا وجود محض عارضی ہے۔ زرتشت کے نظریہ نور و ظلم اور تصور حقیقت و غیر حقیقت کو اپنے مخصوص فلسفیانہ انداز میں بیان کرچکنے کے بعد علامہ اقبال زرتشت کے نظریہ روح کو کسی قدر اختصار کے ساتھ موضوع سخن بناتے ہیں۔ جس طرح کائنات کی پیدایش کے بارے میں سائنس دانوں، فلسفیوں، ارباب تصوف و شریعت اور دیگر صاحبان بصیرت نے اپنے اپنے مختلف اور گونا گوں خیالات پیش کیے ہیں اسی طرح روح کا مسئلہ بھی عرصہ قدیم سے نزاع کا باعث بنا ہوا ہے۔ ہر ایک مکتبِ فکر اپنے اپنے دلائل کی روشنی میں روح کی حقیقت کو بیان کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا نادیدہ خواب ہے جس کی سب اہل دانش تعبیر کرنے پر تلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ہاتھی کو دیکھنے والے اندھوں کی طرح یہ فلاسفہ اور حکما روح کی نوعیت کے بارے میں بڑے ہی مضحکہ خیز اورمتضاد خیالات پیش کرچکے ہیں۔ اس ضمن میں اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ ع خواب ندیدہ را ہمہ تعبیر می کنند ع شد پریشاں خواب من از کثرت تعبیر ہا الہام و وحی کی حامل پاکیزہ شخصیات ہی آسمانی ہدایت کی روشنی میں اس امر کی حقیقت سے باخبر ہیں۔ عقل محدود کو رہبر حیات بنانے والے شاذ و نادر ہی حقیقت کی منزل تک پہنچا کرتے ہیں۔ بقول حافظ شیرازی: کہ کس نکشود و نکشاید بہ حِکمت ایں معما را بہرحال زرتشت کے نظریہ روح کا خلاصہ یہ ہے کہ روح خدا کا جزو نہیں بلکہ یہ اس کی تخلیق ہے۔ یاد رہے کہ متھرا (Mithra) کے پرستار روح کو خدا کا حصہ قرار دیتے تھے۔ متھرا ازم (Mithraism) دراصل زرتشی افکار کا وہ مرحلہ ہے جو دوسری صدی عیسوی میں رومی سلطنت پر چھا گیا تھا۔ متھرا کے پرستار سورج کو نور کی ایک عظیم علامت خیال کرکے اس کی پرستش کیا کرتے تھے۔ وہ انسان کی روح کو خدا کاجزو سمجھتے ہوئے بڑی پراسرار رسومات و عبادات کے ذریعے اس کاخدا کے ساتھ وصل چاہتے تھے۔ ان کی نگاہ میں انسانی روح کو خدا سے ملانے کے لیے جسم کو اذیتیں دینا ضروری ہے تاکہ وہ کرہ فضائی سے گزرنے کے بعد خالص آگ کی شکل اختیار کرکے عالم بالا کی طرف جاسکے۔ اقبال بال اس تصورے نظریات میں ج کرسکے۔ اقبال وف کے بعض مکاتب فکر کے نظریات میں جزوی مشابہت پاتے ہیں۔ روح انسانی اور روح ایزدی کا یہ وصال تصوف و معرفت کے علاوہ ہمارے ذخیرہ شعر و ادب کا بھی ایک محبوب موضوع بن گیا ہے۔ شاعروں نے اس ملاپ کو مختلف تشبیہات و استعارات کے پردے میں بیان کیا ہے۔ کہیں اس وصل کو قطرہ و بحر اور نے ونیستان کے الفاظ میں ڈھالا گیا ہے اور کہیں طائر و گلشن قدس سے تعبیر کیا گیا ہے۔ موضوع ایک ہی ہے مگر اسے متعدد اسالیب میں ظاہر کیا گیا ہے۔ زرتشت کا کہنا ہے کہ روح کا آغاز وقت میں تو ہوا ہے مگر یہ دنیا میں شر کی طاقتوں سے معرکہ آرا ہو کر حیاتِ جاوداں حاصل کرسکتی ہے۔ نیکی او ربدی کے صرف دو راستوں میں سے یہ کوئی بھی راستہ اختیار کرنے کی آزادی انتخاب رکھتی ہے۔ ہماری روح اپنے زمینی قیام و سفر میں چاہے نیکی کا راستہ اختیار کرے چاہے بدی کی راہ پر چل پڑے۔ دونوں صورتوں میں اسے آزادی عمل دی گئی ہے۔ نور کی طاقت نے آزادی انتخاب کے علاوہ اسے مندرجہ ذیل صلاحیتوں سے بھی نوازا ہے: (۱) ضمیر (۲) قوت حیات (۳) نفس (۴)عقل (سپرٹ) (۵)فراوشی (یہ ایک قسم کی محافظ طاقت ہے جو سَیر اِلَی اللہ میں انسان کی نگرانی کرتی ہے۔) علامہ اقبال زرتشت کے اس تصور روح پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں زرتشت کے مطابق آخری تین صلاحیتیں یعنی نفس، عقل اور فراوشی موت کے بعد آپس میں متحد ہوکر ناقابل تحلیل کل کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ نیک روح اپنے گوشت پوست کے گھر (جسم) کو چھوڑنے کے بعد بلند تر مقامات کی طرف چلی جاتی ہے۔ مقام بالا تک پہنچنے کے لیے اسے درج ذیل مدارج حیات میں سے گزرنا پڑتا ہے: (۱) نیک خیالات کا مقام (۲) نیک الفاظ کا مقام (۳)نیک اعمال کا مقام (۴)ابدی شان و شوکت کا مقام۔ (ابدی شان و شوکت کے مقام میں پہنچ کر انسانی روح اپنی شخصیت کو گم کیے بغیر اصل نور سے واصل ہو جاتی ہے۔) زرتشت کے تصور روح کی بحث کے دوران علامہ اقبال مشرق و مغرب کے چندارباب حکمت و دانش اور حاملان تصوف کے اہم خیالات کومدنظر رکھتے ہوئے اپنی تنقیدی رائے بھی بیان کرتے ہیں۔ اس انداز تنقید سے پتا چلتا ہے کہ وہ دوسروں کے افکار ونظریات کوبلاچون و چرا قبول نہیں کرتے۔ وہ اپنی تحقیق پسندی اور منفرد اسلوب نگاری کا ثبوت دیتے ہوئے افلاطون کے نظرہی اعیان ثابتہ پر یوں اظہار رائے کرتے ہیں: افلاطون کے تصورات ابدی، غیر زمانی اور غیر مکانی ہیں۔ نور کی قوت کی ہر مخلوق شے کے لیے ایک ماتحت نگران قوت ہوتی ہے۔ یہ خیال اس نظریے سے خارجی مشابہت رکھتا ہے جس نظریے کے مطابق ہر روح ایک کامل اور حواس سے بالاتر نمونے کے مطابق تخلیق کی جاتی ہے۔ جس طرح زرتشت موت کے بعد تین انسانی ملکات کے اتحاد کا قائل تھا اسی طرح علامہ اقبال کی رائے میں صوفیانہ تصور روح بھی تین انسانی ملکات کے اتحاد کا قائل ہے۔ اس طرح علامہ اقبال کی رائے میں صوفیانہ تصور روح بھی تین پہلو رکھتا ہے۔ اس ضمن میں ان کے یہ الفاظ لائق مطالعہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں: صوفیا کے نزدیک روح نفس، دل اور سپرٹ کا مجموعہ ہے۔ ان کی نگاہ میں ’’دل‘‘ مادی بھی ہے اور غیر مادی بھی یا زیادہ مناسب انداز میں وہ نہ یہ ہے اور نہ وہ ہے بلکہ یہ نفس اور روح کے درمیان کھڑا ہو کر’’اعلیٰ علم‘‘ کے حصول کا ذریعہ ہے۔ زرتشت نے عالمِ بالا کی طرف روح کے سفر کے لیے مختلف مراحل کا تذکرہ کیا تھا۔ صوفیا بھی انسانی روح اور روح مطلقہ کے وصال کے قائل اور روحانی معراج کے کئی مدارج میں پختہ یقین رکھتے ہیں۔ ان کی رائے میں انسانی روح اس مادی دنیا کی آلایشوں اور گناہوں کا شکار ہو کر جب غیر پاکیزہ بن جاتی ہے تو وہ خدا سے اس وقت تک متصل نہیںہوسکتی جب تک کہ وہ پاک، صاف، پرنور اور لطیف نہ بن جائے۔ یہ روح یک لخت عالم مادی سے عالم روحانی کی جانب نہیں چلی جاتی بلکہ اپنے آخری مقام قرب خداوندی تک پہنچنے سے پہلے اسے کئی مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ فرق مراتب معراج روح کے لیے اشد ضروری ہے جیسا کہ مولانا رومی نے کہا ہے: ماز فلک برتریم، وز ملک افزوں تریم زیں دو چرا نگزریم، منزل ما کبریاست علامہ اقبال گیگر کی کتاب از منہ قدیم میں مشرقی ایرانیوں کی تہذیب کے حوالے سے صوفیانہ نظریہ کائنات کے بارے میں ان خیالات کو ظاہر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:صوفیا تصور کائنات بھی زندگی کے ان مختلف مراحل کو بیان کرتا ہے۔ جن میں سے گزر کر روح کو اپنے آسمانی سفر پر جانا پڑتا ہے۔ اگرچہ صوفیا مندرجہ ذیل پانچ مدارج کا ذکر کرتے ہیں تاہم ہر ایک مرحلہ کی نوعیت کے متعلق ان کی تعریف کسی قدر مختلف ہے: ’’(۱) عالمِ جسم (ناسوت)۔ (۲) خالص ذہانت کی دنیا (ملکوت) (۳) عالم قدرت (جبروت) (۴) عالم نیستی (لاہوت) (۵) عالمِ سکوتِ مطلق (ہاہوت)۔‘‘ اینی بیسنٹ (Annie Besant) نے اپنی کتاب تجسیم نو (Reincarnation) میں کہا ہے کہ صوفیا نے ان مدارج کا تصور ہندوستانی یوگیوں سے اخذ کیا تھا۔ چنانچہ علامہ اقبال نے اس کی رائے کو نقل کرتے ہوئے کہا ہے: ’’صوفیوں نے اغلباً‘‘ یہ خیال ہندوستان کے ان یوگیوں سے ادھار لیا ہے جو مندرجہ ذیل سات مراحل کو تسلیم کرتے ہیں: (۱) عالم اجسام۔ (۲) جسم نوری کا علم۔ (۳) عالم قوت۔ (۴) جذباتی فطرت کا عالم۔ (۵)عام خیال۔ (۶)روح روحانی (عقل) کا علم۔ (۷)روح خالص کا عالم‘‘۔ اس سے پہلے باب میں علامہ اقبال نے زرتشت کے فلسفہ خیر و شر کو نور و ظلمت کی باہمی آویزش کے پردے میں بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ زرتشت کے فلسفیانہ افکار نے متاخرین پر جواثر ڈالا ہے، اسے انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں واضح کرنے کی سعی کی ہے۔ اس باب میں مانی اور مزدک کے فلسفیانہ نظام پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ مانی (Mani) جہاں تک مانی کے فلسفہ اَور مختصر سوانح حیات کا تعلق ہے وہ قارئین کے لیے یقینا باعث دل چسپی ہوں گے۔ اس ضمن میں علامہ اقبال نے اس کی زندگی کا ایک اجمالی خاکہ پیش کیا ہے جس کی روح سے مانی کا ایرانی باپ ترک وطن کرکے ہمدان سے بابل چلا گیا۔ وہاں ۲۱۵ یا ۲۱۶ء میں مانی پیدا ہوا۔ یہ وہ دور تھاجب بدھ مت کے مبلغین زرتشت کے ملک میں نروان کی تعلیم دے رہے تھے۔ اس لحاظ سے مانی کو نصف ایرانی نژاد خیال کیا جاتا ہے۔ بعدازاں عیسائی مصنفین اسے ’’بے خدا جماعت کا بانی‘‘ قرار دیتے تھے۔ کائنات میں ہر طرف جاری و ساری کثرت دیکھ کر ایران کے مشہور ومعروف قدیم ترین فلسفی زرتشت نے مذہبی وحدت اور فلسفیانہ ثنویت کانظریہ پیش کرکے اپنے پیروکاروں کو دو گروہوں میں تقسیم کردیا تھا۔ ایک گروہ تو اشیا کی کثرت کاایک ہی اصلی منبع خیال کرکے انھیں وحدت کی لڑی میں پرونے کاحامی تھا۔ اس کے برعکس دوسرا زرتشتی مکتب فکر بدی اورنیکی کی قوتوں کو الگ سمجھتا تھا۔ اشیائے کائنات کی کثرت کے مسئلے کو مانی بالکل مادہ پرستانہ انداز میں حل کرتا ہے۔ وہ زرتشت کے ان پیروکاروں سے متفق ہے جو خیر و شر اور اہرمن ویزداں کی باہمی آویزش کے اُصول کی ظاہری حالت کے قائل تھے۔ اس طرح مانی بھی ان دونوں طاقتوں کوایک دوسرے سے بالکل آزاد خیال کرکے اس مشکل مسئلے کو مکمل طور پر مادی نقطہ نگاہ سے دیکھتا ہے۔ وہ دنیا کو بنیادی طور پر شر قرار دیتا ہے اس لیے وہ ترک دنیا اور عیسائی تصور نجات کو تقویت بخشتا ہے۔ مانی کے مذہبی نظام اور مادیت کی منطقی مطابقت نے نہ صرف مشرق و مغرب کے عیسائی نظریات پر اثر ڈالا ہے بلکہ اس نے ایرانی مابعد الطبیعیاتی تفکر کے ارتقا پر بھی مدھم نقوش چھوڑے ہیں۔ اے۔اے۔بیون (A.A.Bevan) نے لکھا ہے کہ مانی ایک شامی گیانی کا شاگرد تھا۔ الفہرست کا فاضل مصنف چند کتابوں کاتذکرہ کرتا ہے جو مانی نے اپنے اس پیرو مرشد کے خلاف تحریر کی تھیں۔ ابن حزم اپنی تصنیف کتاب الملل و النحل میں کہتا ہے ہ مانی اور اس کا استاد بہت سے امور میں متحد الخیال تھے مگر وہ ایک امر میں اختلاف رکھتے تھے۔ ابن حزم کی رائے میں مانی تاریکی کو ایک زندہ اُصول سمجھتا تھا مگر اس کا شامی استاد دوسری رائے کامالک تھا۔ علامہ اقبال مانی کے خلاصہ افکار کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: مانی ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ کثرت اشیا نور اور ظلمت کے دو ابدی اُصولوں کے امتزاج سے جنم لیتی ہے۔ یہ دونوں اُصول ایک دوسرے سے جدا اور آزاد ہیں… مانی زمین اور مکان کی بقا کو تسلیم کرتا ہے ا سکی رائے میں ظلمت میں بدی کے عناصر مخفی تھے جو مرور زمان کے ساتھ ساتھ آپس میں مل جل کر مہیب شیطان کی پیدایش میں منتج ہوئے۔ تاریکی کے آتشیں رحم کے اس اولین بچے نے بادشاہ نور کی مملکت پر حملہ کردیا جس نے اس کے عناد آمیز حملے کو روکنے کی خاطر اولین انسان کو پیدا کیا۔ شیطان اور انسان کے درمیان سخت لڑائی شروع ہوگئی جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ انسان کا صفایا ہوگیا۔ تب شیطان ظلمت کے پانچ عناصر اور نور کے پانچ عناصر کو آپس میں ملانے میں کامیاب ہوگیا۔ بعدازاں نور کی مملکت کے حکمران نے اپنے چند فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ نور کے ذرات کو قید سے رہائی دلانے کے لیے ان مخلوط عناصر سے کائنات بنائیں۔ مانی کے خیال میں چونکہ نور بذاتِ خود خیر ہے اس لیے وہ شر کے عناصر کی آمیزش کو اپنے لیے نقصان رساں سمجھتے ہوئے تاریکی پر حملہ آور نہ ہوا۔ خیر و شر کے درمیان رزم آرائی کا سلسلہ جاری ہے۔ دنیا کے گرد ایک اتھاہ کھائی میں موجود تاریکی کی قید سے نور کے ذرات کو مسلسل نجات دلائی جاتی ہے۔ یہ آزاد روشنی سورج اور چاند تک پہنچتی ہے اور بعدازاں اسے فرشتے بادشاہ جنت یعنی ’’پدر بزرگی‘‘ کے ابدی نورانی گھر میں لے جاتے ہیں۔ یہ ہے مانی کے تصورِ کائنات کا لب لباب۔ معروضی وجود کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے اسے زرتشت کا یہ نظریہ قبول نہیں کہ اشیا بذات خود نہ اچھی ہوتی ہیں اور نہ بری بلکہ خیر و شر کے تخلیقی عوامل ان کو خیر و شر کا ظاہری وجود عطا کردیتے ہیں۔ مانی اس ضمن میں مکمل طور پر مادی تصور کا حامل ہونے کی حیثیت سے عالم مظاہر کی پیدایش کو دو آزاد اور ابدی اُصولوں کے امتزاج کا مرہون منت قرار دیتا ہے۔ یہ دو اُصول نور اور ظلمت ہیں۔ تاریکی نہ صرف کائنات کا ایک اہم حصہ ہے بلکہ یہ ایک سرچشمہ عمل ہے جس میں ہماری قوت کارکردگی خوابیدہ رہتی ہے۔ جب اسے سازگار حالات میسر آتے ہیں تو یہ خوابیدہ عمل فوراً معرض وجود میں آجاتا ہے۔ علامہ اقبال یہاں پہنچ کر مانی کے کائناتی تصور کا ہندو، چینی اور مغربی فلسفہ تخلیقِ کائنات سے موازنہ و مقابلہ کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ ان کا یہ تقابلی مطالعہ دل چسپی سے خالی نہیں۔ وہ کہتے ہیں: مانی کے نظریہ کائنات اور چینی تصور تخلیق کا مقابلہ کرنا کافی دل چسپ ہے۔ چینی مفکرین کی رائے میں تمام مخلوقات ین (Yin) اور ینگ (Yang) کے ملاپ سے معرض وجود میں آتی ہیں۔ انھوں نے ان دو اُصولوں کو تائی کیتھ (Tai Keith) کی اعلیٰ وحدت میں پیش کردیا ہے مگر مانی اس قسم کی وحدت کے امکان میں یقین نہیں رکھتا۔ مانی کے خیال میں متضاد نوعیت کی چیز ایک ہی منبع سے ظہور میں نہیں آتی… مانی کے فلسفہ کائنات کا ایک لازمی جزو ایک عظیم ہندو مفکر کپلا (Kapila) کے تصور تخلیق سے عجیب و غریب مماثلت رکھتا ہے۔ کپلا تخلیق کائنات کو تین گنوں یعنی مستوا (نیکی)، تمس (تاریکی) اور رجس (حرکت یا جذبہ) پر مبنی سمجھتا ہے۔ جب اصلی اور قدیم ترین مادے (پر اکرتی) کا توازن بگڑ جاتا ہے تو اس وقت یہ تینوں گن آپس میں مل کر فطرت کی تشکیل کرتے ہیں۔ کائنات میں ہر طرف نظر آنے والی کثرت کے مسئلہ کے بارے میں مختلف فلاسفہ اور لاتعداد مفکرین نے اپنے اپنے زمانے میں کئی نظریات پیش کیے ہیں۔ ویدانت پرست کہلانے ’’مایا‘‘ کی پراسرار طاقت کا نظریہ پیش کیا اور کافی عرصہ بعد ایک مغربی فلسفی لِبنز (Leibniz) نے اپنے تصور ’’غیر ممیّز اشیا کی مطابقت‘‘ کے ذریعے اس کثرت اشیا کی وضاحت کی۔ فلسفیانہ افکار کے تاریخی ارتقا میں اگرچہ مانی کا تصور کائنات طفلانہ نظر آتا ہے۔ تاہم اسے بھی ضرور کوئی مقام دینا چاہیے۔ اس کے تصور کی فلسفیانہ قدر و قیمت شاید کم ہو لیکن ایک امر بالکل بدیہی ہے کہ اس نے کائنات کی ساری سرگرمی اور ہماہمی کو شیطان کی عمل پرستی کا لازمی نتیجہ قرار دیا ہے۔ چونکہ وہ ترک دنیا کادرس دیتا ہے اس لیے وجود کائنات کوشَر سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ جب کوئی انسان رہبانیت کا مبلغ بن جائے تو پھر وہ دنیا اور دینوی زندگی کو شر قرار نہ دے تو اور کیا کرے؟ دنیا کو براخیال کرنے کے بعد ہی انسان تارکِ دنیا بنتا ہے۔ جرمنی کا ایک مشہور قنوطیت پرست فلسفی شوپنہار (Schopenhauer) بھی اس کائنات کو انسانی دکھوں، مصیبتوں اور لاتعداد پریشانیوں کا اصل قرار دیتا تھا۔ مانی اور شوپنہار کے نتائج فکری یکساں ہیں مگر انھوں نے قدرے مختلف اسالیب اور طریقے استعمال کیے۔ علامہ اقبال مانی کے افکار کی بحث کو ختم کرتے ہوئے یہ فرماتے ہیں: مانی پہلا مفکر تھاجس نے یہ نظریہ پیش کرنے کی جسارت کی کہ کائنات کا وجود شیطانی سرگرمی کی وجہ سے ہے اس لیے یہ بنیادی طور پر شر ہے۔ جو نظام ترک دنیا کو زندگی کا راہ نما اُصول قرار دے اُس کا منطقی جواز مجھے یہی نظر آتا ہے۔ ہمارے اپنے دور میں شوپنہار بھی اِسی نتیجہ پر پہنچا ہے۔ اگرچہ وہ مانی کے برعکس مشیت ازلی کی فطرت میں اُصول خارجیت یا اُصول فردیت کو کار فرما کہتا ہے۔اس اُصول سے مراد عزم للحیات کا ’’معصیت آلود رجحان‘‘ ہے۔ مانی کے نظام فکر کا مندرجہ بالا تعارف مختصر ہونے کے باوجود کافی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے فلسفیانہ نظریات کو سمجھنے کے لیے اس کے ایرانی پیش رو زرتشت اورمتاخرین خصوصاً کپلا اور شوپنہار کے افکار کا مطالعہ بے حد ضروری ہے۔ مانی کے نظریہ شر اور عیسائی تصور نجات کاآپس میں گہرا تعلق دکھائی دیتا ہے۔ اس نے ابلیس کی سرگرمی اورکائنات کی ہماہمی میں جو باہمی ربط ظاہر کیا ہے اس کی ترجمانی ہمیں کافی حد تک ملٹن (Milton) کے تصور ابلیس میں ملتی ہے۔ مزدک (Mazdak) مانی کے نظام فکر پر اظہار خیال کرنے کے بعد علامہ اقبال ایران کے ایک اور ممتاز ایرانی مفکر مزدک کی زندگی کے چند پہلوئوں اور اس کے فلسفیانہ خیالات کا مختصر ترین تعارف کرواتے ہیں۔ ایران کے ایک شہرہ آفاق انصاف پسند بادشاہ نوشیرواں کے عہدِ حکومت میں مزدک نے اپنے فلسفیانہ اور اشتراکی نظریات کا پرچار کیا تھا۔ نوشیرواں عادل (از ۵۳۱ء تا ۵۷۸ئ) کے زریں دور میں ایرانی رعایا بڑے اطمینان کی زندگی گزار رہی تھی۔ مزدک نے انسانوں کی مساوات کے اُصول کا پرچار شروع کردیا۔ زرتشت کے فلسفیانہ نظام کے حامیوں کے لیے یہ انقلابی نعرہ کافی چونکا دینے والا تھا۔ علاوہ ازیں حکومت وقت مزدک کے خلاف ہوگئی چنانچہ مزدک کے کئی پیروکاروں کو موت کے گھاٹ اتار کر اس اشتراکی تحریک کو دبا دیا گیا تھا۔ علامہ اقبال نے ارمغان حجاز کی ایک طویل نظم ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ میں مزدکیت کو جدید اشتراکیت کی اوّلین شکل قرار دیتے ہوئے کارل مارکس کو رُوحِ مزدک کا بروز کہا ہے۔ ان کی نگاہ میں مزدک ایران قدیم کا حیرت انگیز سوشلسٹ اور کمیونزم کا قدیم پیغمبر ہے۔ پانچویں صدی عیسوی میں ایران میں زرتشت کے فلسفہ کائنات کی ایک شاخ سے متعلق زروانی اُصول بے حد مقبول و مروج تھا۔ مزدک نے اس مروجہ زروانی تصور کے خلاف ثنویت پرستانہ رد ِعمل کا سلسلہ جاری کردیا۔ مزدک کے اس ردِ عمل کا تانا بانا دراصل مانی کے نظریہ نور و ظلمت ہی سے تیار ہوا تھا۔ علامہ اقبال کی رائے میں مزدک کے فلسفیانہ عقائد و نظریات کی تلخیص یہ ہے۔ وہ کہتے ہیں: مانی کی طرح مزدک نے بھی یہ بتایا کہ شید (نور) اور تار (ظلمت) کے دو آزاد اور ازلی اُصولوں کی آمیزش نے اشیا کی کثرت کو جنم دیا ہے مگر وہ اپنے اس پیش رو سے اختلاف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ان کی آمیزش اور جدائی انتخاب عمل کا نتیجہ نہیں بلکہ وہ بالکل حادثاتی نوعیت کی ہیں… چیزوں اور انسانوں کا یہ تنوع ان دوبنیادی عناصر کی مختلف ترکیبات کی بنا پر ہے۔ مزدک کے اس نظریے کی رو سے اشیا کی آمیزش اور علیحدگی یا وصل و فراق کسی خاص مقصد کے حامل نہیں بلکہ یہ سب کچھ ایک اتفاقی امر ہے۔ خدائے تعالیٰ کے بارے میں بھی مختلف ادوار اور مختلف اقوام میں متعدد نظریات کا سراغ ملتا ہے۔ کوئی کائنات کی روحانی اساس کا قائل ہے تو کوئی اسے مادہ پر مبنی قرار دیتا ہے۔ مزدک نے بھی خدا سے متعلق اپنا نظریہ پیش کیا ہے جس کی رو سے خدا تعالیٰ کی ازلی ذات چار بنیادی قوتوں… قوت تمیز، یادداشت، ادراک اور برکت… کی مالک ہے۔ ان چار قوتوں کے چار ذاتی مظاہر ہیں جو دیگر چار اشخاص کی معاونت سے کائنات کے نظم و نسق کی نگرانی کرتے ہیں۔ یہ ہے مزدک کامختصر تصور خدا۔ مزدک کی تعلیمات کا نمایاں ترین پہلو اس کا اشتراکی عقیدہ ہے۔ کمیونزم کا نظریہ درحقیقت اس کے فلسفیانہ نظام کا لازمی نتیجہ ہے۔ وہ انسانوں کی مساوات کے اُصول کاقدیم عَلم۔بردار ہے۔ مزدک سے پہلے ہمیں یونانی تاریخ فلسفہ میں افلاطون کے مکالمات میں اشتراکیت کے بنیادی پہلو دکھائی دیتے ہیں۔ جدید دور میں یہودی النسل سیاسی مفکر کارل مارکس نے اُصول اشتراک اور اُصول مساوات کو زیادہ ترقی یافتہ اور تاریخی انداز میں بیان کیا ہے۔ علامہ اقبال مزدک کے اشتراکی نظریے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں: مزدک کا قول تھا کہ تمام انسان آپس میں برابر ہیں۔ اس کی رائے میں ذاتی ملکیت کا تصور ان مخاصم شیاطین کا پیدا کردہ ہے جن کا مقصد خدا کی کائنات کونہ ختم ہونے والی غربت و مصیبت کے منظر میں تبدیل کرنا ہے۔ مزدک کی تعلیمات کا یہ حصہ بہت سے پیروان زرتشت کے لیے تشویش ناک ثابت ہوا۔ اس تعلیم کی وجہ سے مزدک کے بہت سے حامی تباہ و برباد کردیے گئے۔ دنیا کی تاریخ ایسے بے شمار واقعات کی شاہد ہے کہ جب کبھی مروجہ اور مسلمہ اقدار کو چیلنج کیا جاتا ہے تو عام لوگ سماجی ریفارمروں اور مذہبی مصلحین کے جانی دشمن بن جاتے ہیں۔ مزدک کے عقیدت مندوں کو بھی اس طرح کی قربانی کا امتحان دینا پڑا۔ مزدک کے بارے میں وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ اپنی معجزنمائی کی بدولت مقدس آگ کو قوت گویائی دے کر اپنے مقصد کی صداقت کا گواہ بناتا ہے۔ گزشتہ امور کا جائزہ علامہ اقبال نے اپنی اس کتاب کے پہلے باب میں زیادہ تر ایران کے تین نامور اور عظیم مفکرین زرتشت، مانی اور مزدک کے نظام ہائے فکر کے چیدہ چیدہ عناصر ترکیبی پر بحث کی ہے۔ اب وہ اس باب کے آخر میں اپنی گزشتہ بحث کا مختصر جائزہ اور خلاصہ کلام پیش کرکے اپنی مزید تنقیدی رائے کااظہار کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کے خلاصہ کلام کے اہم پہلو یہ ہیں: (i) افراد اور اقوام کی فکری تاریخ کسی نصب العین پر مبنی ہوتی ہے۔ (ii) ایران کی قدیم فکری تاریخی کانصب العین ثنویت تھا۔ (iii) زرتشت کے پیروکاروں نے غیر شعوری طور پر کائنات کے توحیدی تصور کی تحریک جاری کردی تھی۔ (iv) ایرانی بادشاہ نوشیروانِ عادل نے یونانی اور سنسکرت کتابوں کے تراجم کروائے۔ (v) اسلام کے عقیدہ توحید نے ایران میں زبردست فکری انقلاب پیدا کردیا تھا۔ علامہ اقبال اس بات کے حامی ہیں کہ اقوام اور افراد اپنی فکری تاریخ کا آغاز کسی نہ کسی نصب العین سے کرتے ہیں۔ یہ نصب العین ان کے فلسفیانہ افکار و نظریات کے لیے اساس کا کام دیتا ہے۔ اس بنیادی مقصد پر وہ اپنی ساری فکری عمارت استوار کیا کرتے ہیں۔ جہاں تک زرتشت کے اخلاقی جوش و خروش کا تعلق ہے اس نے چیزوں کے نظریہ آغاز کوروحانی رنگ میں پیش تو کیا ہے مگر اس دور کے ایرانی فلسفے کا ماحصل مادہ پرستانہ ثنویت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ایران میں فکری ارتقا کے اس مرحلہ میں تمام موجودات کی فلسفیانہ بنیاد کے طور پر اُصول توحید کا دھندلا سا احساس پایا جاتا ہے۔ اس سے پہلے یہ بیان کیا جاچکا ہے کہ زرتشت کی وفات کے بعد اس کے حامی دو گروہوں میں بٹ گئے تھے۔ ایک گروہ نور و ظلمت کی وحدت کا قائل تھا جب کہ دوسرا مکتب خیال ان دونوں کی جداگانہ حیثیت میں یقین رکھتا تھا۔ اس گروہی تقسیم اور زرتشت کے پیروکاروں کی علمی بحثوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کائنات کے توحیدی تصور کی تحریک کی ابتدا ہوگئی تھی لیکن علامہ اقبال کی رائے میں زمانہ ماقبل اسلام کے فلسفۂ ایران میں وحدت الوجود کے رجحانات سے متعلق ہم حتمی طور پر کچھ نہیں کَہ سکتے۔ ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ چھٹی صدی عیسوی میں دیوجانس کلبی سمپلیکس (Simplicius) اور دوسرے نو افلاطونی مفکرین ایک عیسائی حکمران جسیین (Justinian) کے ظلم و ستم سے تنگ آکر ایران چلے گئے اور انھوں نے نوشیرواں عادل کے دربار میں پناہ لی۔ نوشیرواں عادل نے عدل و انصاف کے علاوہ علمی اشاعت کے میدان میں بھی نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ مفکر اسلام علامہ اقبال ایران کے اس مشہور بادشاہ کی علم پروری کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: اس عظیم الشان بادشاہ نے اپنے لیے سنسکرت اور یونانی زبانوں کی کئی کتابوں کاترجمہ کروایا تھا۔ اس کے باوجود ہمارے پاس کوئی ایسا تاریخی ثبوت نہیں جس سے پتا چلے کہ ان واقعات نے کسی حد تک صحیح طور پر فلسفۂ ایران کو متاثر کیا تھا۔ اس علمی جائزہ کے اختتام پر علامہ اقبال ایران میں ظہور اسلام کے فلسفیانہ اثرات خصوصاً عقیدہ توحید کی ہمہ گیر اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اسلام کے عقیدہ توحید نے فلسفہ عجم پر بہت گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ اس سے پہلے وہاں خدا اور مادہ کی یونانی دوئی اور خدا و ابلیس کی خالصتاً ایرانی ثنویت کا بول بالا تھا۔ وہ اس بارے میں یہ فرماتے ہیں: آیئے اب ہم ایران میں ظہور اسلام کا تذکرہ کریںجس نے مکمل طور پر وہاں کے قدیم نظام کی کایا پلٹ کر رکھ دی تھی۔ اسلام نے ایران کے ارباب دانش و حکمت کو خدا و مادہ کی یونانی سویت اور خدا و ابلیس کی خالص دوئی پسندی کی نوعیت کے علاوہ غیر مصالحانہ توحید پرستی کے نئے تصور سے روشناس کرایا تھا۔ مندرجہ بالا امور سے یہ امر بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ علامہ موصوف نے پہلے باب میں زیادہ تر ایرانی ثنویت کو موضوع بحث بناکرمتعلقہ نظریات کا تحقیقی جائزہ لیا ہے۔ انھوں نے بجا کہا ہے کہ اسلام دوئی کی بجائے توحید اور حق پرستی کا داعی ہے: باطل دوئی پسند ہے حق لاشریک ہے شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول [کلیات اقبال، ص ۵۳۵] /…//…/ باب دوم ایران کے نو افلاطونی متبعینِ ارسطو علامہ اقبال نے اس باب میں جن اہم موضوعات پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ ان کا خلاصہ یہ ہے: ۱- ایران میں ظہور اسلام سے بہت سے تغیرات رونما ہوئے۔ عربوں نے ایرانیوں پر سیاسی اور عسکری غلبہ توپالیا مگر وہ ایرانیوں کی فلسفہ طرازیوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ ۲- عربوں اور ایرانیوں کی تہذیبیں دراصل سامی اور آریائی نظریات کی آئینہ دار تھیں۔ ایران میں آکر عربوں کی عمل پرستی میں کمی واقع ہوگئی تھی۔ ۳- ایرانیوں کے ساتھ میل جول نے عربوں کے اندر عجمی عادات اور یونانی نظریات میں گہری دل چسپی کو فروغ دیا۔ ۴- افلاطون اور ارسطو کی تعلیمات کے زیر اثر ایرانیوں اور عربوں میں بھی مختلف فکری، متصوفانہ اورمذہبی تحریکوں نے جنم لیا۔ ۵- فلسلفہ یونان کے چند ممتاز پیروکاروں مثلاً ابن مسکویہ، الفارابی، ابن رشد اور بوعلی سینا کے افکار و نظریات کے بنیادی پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ۶- فلسفہ یونان نے بعض مسلمان فلاسفہ کو اس حد تک متاثر کیا تھا کہ وہ یونانی نظریات کی روشنی میں قرآنی تعلیمات اور اسلامی عقائد کو دیکھنے کے عادی ہوگئے تھے۔ ۷- فلسفہ یونان نے مسلمانوں کے اندر جسم و روح، مادہ و حقیقت مطلقہ کے وجود، ہستی و نیستی، کثرت و وحدت، جبر و قدر، خدا کی ذات و صفات اور دیگر نزاعی مسائل کا بازار گرم کردیا تھا۔ اس باب کے شروع میں علامہ اقبال نے ایران میں اسلام کے ظہور کے بعد پیدا ہونے والے مختلف حالات و اثرات کا تذکرہ کیا ہے اسلامی عقیدہ تعلیم نے جس طرح ایرانی افکار پر اثر ڈالا ہے وہ طریق بھی بیان کیا گیا ہے۔ بعدازاں فلسفۂ ایران یعنی عجمی افکار و تصورات نے اسلامی تعلیمات میں بھی کافی غیراسلامی عناصر شامل کیے تھے۔ اس دو طرفہ طریق تبدیلی کے مختلف عوامل و اسباب تھے۔ جب عرب مسلمانوں نے ایرانیوں پر فتح پالی تو ایران میں متعدد سیاسی، تمدنی، ثقافتی، مذہبی، سماجی اور علمی تغیرات رونما ہوئے۔ ایسا ہونا ایک قدرتی امر تھا کیوں کہ مفتوح قوم ہمیشہ فاتح قوم کے فلسفہ حیات کو قبول کرلیا کرتی ہے۔ ایران میں بھی اسلامی فتوحات کے بعد اس قسم کے ہمہ گیراثرات رونما ہوگئے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عرب مسلمانوں نے اہل ایران کو سیاسی اور عسکری طور پر اپنا مطیع بنالیا تھا مگر وہ ایرانی فکری عظمت کا مقابلہ نہ کرسکے۔ انھوں نے فوجی اور سیاسی لحاظ سے ایرانیوں کو اپنا محکوم بنایا لیکن میدان فلسفہ میں وہ ایرانیوں کی ذہنی ذکاوت اور فلسفیانہ موشگافیوں سے متاثر ہوگئے۔ اس فکری اثر نے اسلامی تعلیمات میں عجمی تصورات اوریونانی خیالات کو بڑے لطیف اور غیرمرئی انداز میں داخل کرکے مسلمانوں کے جذبہ عمل کو کمزور بنا دیا۔ عرب کے سوز دروں اور عجم کے حسن طبیعت نے مل کر عجیب گلکاریاں پیدا کیں۔ اس ضمن میں علامہ اقبال کے یہ خیالات ملاحظہ ہوں: جب اہلِ عرب ایران پر فتح حاصل کرچکے تو فلسفۂ ایران کی تاریخ کا نیا دور شروع ہوا۔ ریگ زار عرب کے جنگجو فرزندوں کی شمشیر زنی نہاوند میں آکر ختم ہوگئی اور اس قدیم قوم کی سیاسی آزادی بمشکل ہی حلقہ بگوشِ اسلام ہونے والے پیروان زرتشت کی ذہنی آزادی کا مقابلہ کرسکتی تھی۔ اس طرح کی کایا پلٹ کے واقعات سے تاریخ عالم کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ جب رومی حکمرانوں نے عیسائیوں پر اپنا سیاسی تسلط جما لیا تو وہ عیسائیت کی تعلیمات سے مرعوب ہوکر اس کے خود عَلم۔بردار بن گئے تھے۔ اسی طرح جب منگولیا کے فوجیوں نے ہلاکو خاں کی قیادت میں اسلامی ممالک خصوصاً عروس البلاد یعنی بغداد کوبرباد کردیا تو بعدازاں وہی خاندان مسلمان ہوکر اسلام کا خادم بن گیا تھا جس کی طرف شاعر مشرق نے خود اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا: پاسباںمل گئے کعبے کو صنم خانے سے [کلیات اقبال، ص ۲۰۶] ایران جب عرب فاتحین کی عسکری فتوحات سے آزاد ہوا تو اس نے اپنی قدیم فکری روایات، اقدار شاندار تمدنی اقدار کے ذریعے عرب فاتحین کو اپنا مسحور بنالیا۔ ریگستان کی گرم آب و ہوا اور وہاں کی صحرائی زندگی کی جفا کشی سے دور رہ کر ایران میں مقیم عرب ایرانی مناظر فطرت اور ہاں کی دلفریب تمدنی آسایشات کے گرویدہ ہو کر عجمی نظریات کا شکار ہوگئے۔ عرب سامی اقدار کے حامل لیکن ایرانی لوگ آریائی عادات کے مالک تھے۔ عربوں کی علم پرستی اور اہل ایران کی بلند خیالی کی آمیزش سے نیا تمدنی دور شروع ہوگیا۔ اگرچہ اہل ایران اسلام کی دولت سے مالا مال ہوگئے تاہم سب لوگ اپنے چند قدیم آبائی عقائد کو فوراً ہی خیرباد نہ کَہ سکے۔ دو قوموں کے ملاپ نے ایک دوسرے کو خاصا متاثر کیا۔ یہ وہی دور تھا جب اسلام میں عجمی نظریات داخل ہوگئے تھے جیسا کہ علامہ اقبال نے کہا ہے: تمدن ، تصوف ، شریعت ، کلام بتان عجم کے پجاری تمام حقیقت خرافات میں کھو گئی یہ اُمّت روایات میں کھو گئی بجھی عشق کی آگ ، اندھیر ہے مسلماں نہیں ، راکھ کا ڈھیر ہے (کلیاتِ اقبال صفحہ نمبر۴۱۶) اس باہمی ردعمل پر روشنی ڈالتے ہوئے وہ اس باب میں یوں لکھتے ہیں: ایران پر عرب تسخیر کی بدولت جو سیاسی انقلاب رونما ہوا اس نے آریائیوں اور سامیوں کے درمیان باہمی ردعمل کا آغاز کردیا تھا۔ اس وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ ایرانی اپنی ظاہری زندگی کو زیادہ تر سامی انداز میں رنگ لیتا ہے۔ لیکن وہ بڑی خاموشی کے ساتھ اسلام کو اپنی آریائی فکری عادات کے مطابق تبدیل کردیتا ہے۔ مغرب میں یونانیت ۱؎(Hellenic) پرست سنجیدہ عقل نے ایک اور سامی مذہب یعنی عیسائیت کو اپنے رنگ میں پیش کیا تھا۔ ان دونوں حالتوں میں تشریح و تعبیر کے نتائج حیرت انگیز طور پر یکساں دکھائی دیتے ہیں۔ ہر ایک حالت میں تعبیری عقل کا مقصد یہ تھا کہ فرد پر خارج سے نافذ کیے جانے والے مطلق قانون کے انتہا پسندانہ جمود کی سختی کو نرم کردیا جائے۔ مختصر طور پر ہم یہ کَہ سکتے ہیں کہ یہ ظاہر کوباطنی رنگ دینے کی ایک کوشش ہے۔ عرب زیادہ تر جفا کشی اورعمل پرستی کے پیکر تھے اورایرانی عموماً نازک مزاج، عقل کے زناری اور عیش کوشی کے عادی تھے۔ عرب اسلامی شریعت پر آسانی سے عمل پیرا ہو جاتے تھے۔ اس کے برعکس ایرانی ذہن شرعی قیود و حدود کی سختی کا عادی نہیں تھا۔ بنابریں ایرانی لوگ شریعت کے سخت احکام کو عقلی دلائل اور حیلہ جوئی کے ذریعہ ذرا نرم انداز میں بیان کرنے کے خواہاں تھے۔ اس انداز فکر نے شریعت میں عقلی حیلہ جوئی کا عنصر شامل کردیا۔ اس فکری تبدیلی کا ایک سبب فلسفہ یونان کا مطالعہ بھی تھا۔ فلسفۂ ایران اور فلسفہ یونان کے مطالعہ نے اس طرح عرب مسلمانوں کے اندر ذہنی تبدیلی پیدا کردی۔ یونانی فلسفیانہ نظریات نے اگرچہ مقامی تفکر کی نشوونما کو کسی قدر روک دیا تھا تاہم انھوں نے زمانہ ماقبل اسلام کے ایرانی افکار کے خالصتاً معروضی اور خارجی رویے کو بعد میں آنے والے مفکرین کے داخلی رویے میں بدل دیا۔ علامہ اقبال کے خیال میں بیرونی فلسفہ کے زیر اثر جب ایران کے قدیم موحدانہ رحجان نے آٹھویں صدی کے آخر میں دوبارہ ظہور کیا تو اس نے بہت زیادہ روحانی پہلو اختیار کرلیا اور اس نے بعدازاں ترقی پاکر نور اور ظلمت کی پرانی ایرانی ثنویت کو زندہ کیا اور اسے روحانیت کارنگ دے دیا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ یونانی افکار و نظریات نے نازک ایرانی ذہن کو نہ صرف حیاتِ نو عطا کی بلکہ اس کی ترقی میں بھی حصہ لیا۔ بعد میں یونانی نظریات ایران میں رونما ہونے والے عام ذہنی انقلاب میں جذب ہو کر رہ گئے۔ اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ فلسفۂ ایران کی طرح فلسفہ یونان نے بھی مسلمان مفکروں اور فلسفیوں کو خاصا متاثر کیا تھا۔ جب دو تہذیبوں کا ملاپ ہوتا ہے تو افکار و اقدار کا باہمی تبادلہ لازمی ہوا کرتا ہے۔ یہی معاملہ اسلامی افکار اور یونانی فلسفہ کے ملاپ کے وقت پیش آیا۔ مسلمان مفکرین خاص طور پر افلاطون اور ارسطو کے اثرات قبول کرکے ان کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کاجائزہ لیتے رہے۔ علامہ اقبال عام طور پر افلاطون کے افکار کے ناقد رہے ہیں۔ بہرحال وہ فلسفہ یونان کے اثرات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ حکمت یونانی کی جوئے رواں حران اور شام کی راہ سے گزر کر مسلمانان مشرق تک پہنچی تھی۔ شامیوں نے جدید ترین فلسفہ یونانی یعنی نو افلاطونیت (اشراقیت) کو اختیار کرکے اپنے خیال کے مطابق ارسطو کے اصل فلسفہ کو مسلمانوں تک منتقل کیا۔ یہ بات حیرت انگیز ہے کہ عرب اور ایرانی مسلمان فلاسفہ افلاطون اور ارسطو کی مزعومہ حقیقی تعلیمات کے بارے میں عرصہ دراز تک بحث و نزاع کا شکار رہے اور انھیں کبھی یہ خیال نہ آیا کہ ان دونوں فلسفیوں کے افکار کے مکمل ادراک کے لیے یونانی زبان کو جاننا کس قدر ضروری ہے۔ ان کی لاعلمی اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ وہ پلوٹینس فلاطینوس (Plotinus) کی ایک کتاب اینڈز (Enneads) کے ملخض ترجمہ کو ’’ارسطو کی دیینات‘‘ سمجھتے رہے۔ فلسفہ یونان کے ان دو عظیم ماہرین کو واضح طور پر سمجھنے کے لیے انھیں صدیاں ہوگئیں۔ اس میں پھر بھی شک ہے کہ انھوں نے انھیں کلیتاً سمجھتا ہو۔ علامہ اقبال نے اپنی اس اولین فلسفیانہ تصنیف ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ امر حتمی نہیں کہ ایرانی اور عرب مفکرین نے افلاطون اور ارسطو کے نظریات کو صحیح سمجھا تھا اپنی ایک اور فلسفیانہ کتاب تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ (The Reconstruction of Religious Thought In Islam) میں انھوں نے فلسفہ یونان کے ان عربی اور عجمی فلسفیوں پر کافی تنقید کی ہے جنھوں نے قرآنی حکمت کی بجائے افلاطون، سقراط اور ارسطو کے خیالات کی اندھا دھند تقلید کی تھی۔ وہاں انھوں نے یہ بات نہیں کہی کہ یہ عربی اور عجمی فلاسفہ فلسفہ یونان سے بالکل ناآشنا رہے تھے۔ بہرحال اس کتاب میں انھوں نے ہمدردانہ رویہ اختیار کیا ہے۔ اصل میں ان دو یونانی مفکرین کی کتابوں کا ترجمہ کرنے والوں نے بڑی لاپروائی سے ترجمہ کرکے ایرانی اور عربی فلاسفہ کے لیے بہت سی ذہنی دشواریاں پیدا کردی تھیں۔ علامہ اقبال بعدازاں حکمت یونان کے چند ممتاز دلدادہ مسلمان فلاسفہ کاذکر چھیڑتے ہوئے کہتے ہیں کہ الفارابی اور ابن مسکویہ کی نسبت بو علی سینا زیادہ واضح اورجدت طراز واقع ہوا ہے۔ اندلس کا رہنے والا ابن رشد اگرچہ اپنے پیش روئوں کی نسبت ارسطو سے زیادہ قریب ہے تاہم اسے بھی ارسطو کے فلسفے پر مکمل دسترس حاصل نہیں تھی۔ ان حالات کے پیش نظر ان پر غلامانہ نقالی کا الزام دھرنا انصاف پر مبنی نہیں ہوگا کیوں کہ ان کی تاریخ تفکر حماقتوں کے مایوس کن مواد میں چھان بین کی ایک مسلسل سعی ہے جسے فلسفہ یونان کے لاپروا مترجمین نے پیدا کردیا تھا۔ اندریں حالات انھیں افلاطون اور ارسطو کے افکار کے بارے میں زیادہ تر دوبارہ غور و فکر کرنا پڑا تھا۔ اصل میں ان مسلمان فلاسفہ کی تشریحات و وضاحت کی بجائے انکشاف حقیقت کی کوشش معلوم ہوتی ہے۔ مزیدبرآں ان کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ آزادی کے ساتھ نیانظام فکر پیش کرتے۔ ایسی صورت میں بدقسمتی سے ان کا ذہن رسا مزاحمت پیدا کرنے والی ان حماقتوں کے اندر مقید ہو کر رہ گیا جنھیں بتدریج مسلسل محنت ہی ختم کرکے باطل سے حق کو باہر لاسکتی تھی۔ فلسفہ یونان کے ایرانی طلبا ۱- ابن مسکویہ (Ibn Maskawaih) ابن مسکویہ کو تاریخِ فلسفۂ اسلام میں بلند مقام حاصل ہے۔ اس کی پیدایش دسویں صدی عیسوی میں ہوئی اور اس کی وفات کا سن ۱۰۳۰ء ہے۔ ابن مسکویہ نے یونانی افکار کا بڑی گہری نظر سے مطالعہ کرکے اپنے نظریات کو بیان کیا ہے۔ ذات باری کے وجود، علم، وحدت و کثرت اور روح سے متعلق اس کے تصورات علامہ اقبال کی توجہ کا مرکز بنے ہیں۔ انھیں اس بات کا شکوہ ہے کہ ڈاکٹر بوئر (Dr. Boer) نے اپنی مشہور کتاب فلسفہ اسلام (The Philosophy of Islam) میں الفارابی اور بو علی سینا پر تو مفصل بحث کی ہے لیکن اس نے ابن مسکویہ کے فلسفے کو صرف اس کی اخلاقی تعلیمات تک محدود رکھا تھا۔ علامہ موصوف کی رائے میں ابن مسکویہ کے مابعد الطبیعیاتی نظریات بلاشبہ الفارابی کے تصورات سے زیادہ باضابطہ ہیں۔ فلسفۂ عجم کو ترقی پذیر بنانے میں ابن مسکویہ نے جو نمایاں کردار ادا کیا ہے اسے وہ موضوع بحث بناتے ہیں۔ اس بحث کو چھیڑنے سے قبل وہ حکیم رازی (وفات ۹۳۲ئ) کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’اپنی عجمی عاداتِ فکر کے عین مطابق رازی نور کو پہلی خلق شدہ چیز خیال کرتا تھا۔ علاوہ ازیں وہ مکان، زمان اور مادے کے دوام کابھی قائل تھا۔‘‘ اس کے فوراً بعد ہی وہ ابن مسکویہ کا مختصر تعارف ان الفاظ میں کرواتے ہیں۔ ’’ابن مسکویہ کا پورا نام ابو علی محمد ابن محمد ابن یعقوب تھا مگر وہ ابن مسکویہ کے نام سے معروف ہے۔ وہ سلطان عضد الدولہ کا خزانچی اور ایران کے مشہور ترین خدا پرست مفکرین، اطبا، معلمینِ اخلاق اور مورخین میں سے تھا۔ میں اس کی مشہور تصنیف الفوز الاصغر (مطبوعہ بیروت) میں سے اس کے نظام فکر کا ذیل میں مختصر سا حال بیان کرتا ہوں۔‘‘ وہ مندرجہ ذیل عنوانات کے تحت اس مشہور فلسفی کے افکار کا خلاصہ پیش کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنی رائے بھی ظاہر کرتے چلے جاتے ہیں۔ وہ متعلقہ عنوانات یہ ہیں: ۱- حقیقتِ مطلقہ کا وجود اس سے بیشتر یہ بتایا جاچکا ہے کہ خدا تعالیٰ اصل کائنات اور سب غایتوں کی غایت اولیٰ ہے۔ اشیائے کائنات کے وجود کا اصلی سرچشمہ اس کے سوا کوئی اور نہیں ہے۔ وہ عام معبود (الہ) نہیں بلکہ معبودِ خاص (اللہ) ہے۔ دنیا کی تمام دیدنی اور نادیدنی مخلوقات کا اصلی خالق اور مالک وہی ہے۔ اشیائے دو جہاں کی تخلیق کی بحث آخرِکار اس پر جاکر ختم ہوجاتی ہے اس لیے وہ خدائے لم یزل کہلاتا ہے۔ قرآنِ حکیم کے الفاظ میں و الی ربک المنتھی (اور تیرے پروردگار تک ہر چیز کی انتہا ہے) وہی ذات بابرکات مخلوق کی ابتدا اور انتہا ہے ھو الاول و ھو الاخر وہی حقیقت مطلقہ ظاہر اور باطن میں جلوہ گر ہے۔ ھو الظاہر و ھو الباطن۔ کائنات کی اس آخری حقیقت کے بارے میں مسلم اور غیرمسلم مفکرین نے اپنے اپنے قیاس کی روشنی میں اس کے وجود حقیقی کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے۔ ابن مسکویہ بھی اس اہم موضوع پر اظہار رائے کیے بغیر نہ رہ سکا چنانچہ اس ضمن میں اس کے تصور خدا کا خلاصہ ہدیہ قارئین کیا جاتا ہے۔ ابن مسکویہ ارسطو کے نظریہ حرکت کو سامنے رکھ کر خدا کے وجود کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ ارسطو کے تتبع میں طبعی حرکت کی حقیقت پر مبنی دلیل کا اعادہ کرتا ہے کہ تمام اجسام تبدیلی کی تمام شکلوں پر محیط حرکت کی خاصیت کا جزو لاینفک ہیں۔ اس حرکت کا اجسام کی فطرت سے ظہور نہیں ہوتا اس لیے حرکت اولین محرک کے خارجی منبع کی متقاضی ہوا کرتی ہے۔ عالم اسلام کے یہ مایہ ناز فلسفی اور مشرق کے عظیم شاعر ارسطو اور ابن مسکویہ کے اس طرز استدلال کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں ہمارا تجربہ اس مفروضے کی تائید نہیں کرتا کہ حرکت اجسام کی ذات میں داخل ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر انسان آزادانہ حرکت کی استعداد رکھتا ہے لیکن مندرجہ بالا اُصول کی بنا پر اس کے جسم کے مختلف حصوں کو ایک دوسرے سے جدا ہونے کے بعد بھی حرکت کا عمل جاری رکھنا چاہیے۔ اس لیے حرکت پذیر عامل کے سلسلے کو ایک ایسی غیر منقولہ علت پر جاکر رک جانا چاہیے جو دُوسری چیزوں کو حرکت میں لاتی ہو۔ ابتدائی علت کی حرکت کا فقدان ضروری ہے کیو نہ علتِ غائی کی حرکت کے مفروضے کی رو سے غیر محدود رجعت قہقری لازم ہوگی جو بالکل لغو بات ہے۔ اصلی غیر حرکت پذیر محرک ایک ہی ہوتا ہے۔ بہت سے بنیادی محرکین کی فطرت میں ضرور کوئی چیز مشترک ہونی چاہیے تاکہ ان کو ایک ہی خانے میں لایا جاسکے۔ اس کامطلب یہ بھی ہے کہ ان کو ایک دوسر ے سے ممیّز کرنے کے لیے ان میں کوئی تو فرق ہونا چاہیے۔ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ جزوی مطابقت اور اختلاف ان کے اپنے اپنے جوہر میں ترکیب کے لزوم کی دلالت کرتا ہے۔ اس سے بیشتر یہ بات بتائی جاچکی ہے کہ ترکیب درحقیقت حرکت ہی کی ایک شکل ہے۔ اس لحاظ سے حرکت کی ابتدائی علت میں ترکیب موجود نہیں ہوسکتی۔ علامہ اقبال مادی اور فانی اشیا میں حرکت اور تبدیلی کے قائل ہیں۔ ان کی رائے میں خدا تعالیٰ چونکہ غیر مادی اور غیر فانی ہے اس لیے اس کی ذات میں حرکت و تغیر موجود نہیں۔ دوسرے لفظوں میں خدا ہی تمام مخلوقات کا منبعِ وجود ہے۔ اس سے قبل کسی اور ہستی کے وجود کو تسلیم کرنا گویا خدا کی ذات سے پہلے کسی اورمحرک کو ماننے کے مترادف ہے۔ وہ اس بحث کو ختم کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’اولین محرک لازوال اور غیر مادی ہوتا ہے۔ چونکہ نیستی سے ہستی کی تبدیلی اسی قسم کی حرکت ہے اور مادہ ہمیشہ کسی نہ کسی طرح کی حرکت کے تابع ہوتا ہے۔ اس لیے نتیجہ یہ نکلا کہ فانی اور مادی شے کو حرکت میں رہنا چاہیے۔‘‘ ۲- حقیقتِ مطلقہ کا علم ابن مسکویہ خدا کے وجود کی بحث کے علاوہ خدا تعالیٰ کے عرفان کی بحث بھی کرتا ہے۔ جس عظیم ہستی نے اس عظیم الشان کائنات اور مختلف النوع مخلوقات کو پیدا کیا ہے اس کی کنہ کے ادراک کا ذوق بھی انسانی ذہن میں انگڑائی لینے لگتا ہے۔ کائنات کی جملہ چیزیں دراصل خدا تعالیٰ کی قدرت کی ظاہری نشانیاں ہیں۔ حیرت انگیز صفت کو دیکھ کر بعض اذہان میں اس کے صانع کو جاننے کی زبردست خواہش پائی جاتی ہے۔ عام انسان تو اندھوں کی طرح ان حسین آیات کے پاس سے گزر جاتے ہیں۔ قرآن حکیم کی تعلیمات کی رو سے خالق کائنات کی نشانیاں آفاق کے علاوہ انفس میں بھی پائی جاتی ہیں۔ اس لحاظ سے مظاہر فطرت اور قلبی واردات دونوں ہی حکمت خداوندی پر دال ہیں۔ اس بارے میں خدا کے علم اور معرفت کی آرزو کی شدت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ علامہ اقبال ابن مسکویہ کے نظریہ علم پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر قسم کے ذاتی علم کی ابتدا محسوسات سے ہوتی ہے جو بتدریج مدرکات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ تعقل کے ابتدائی مراحل مکمل طور پر خارجی حقیقت کی موجودگی کے تابع ہوتے ہیں۔ علمی ترقی کا مطلب یہ ہے کہ مادے کی غلامی کے بغیر سوچنے کی صلاحیت پیدا کی ہے۔ اگرچہ خیال کا مادے سے آغاز ہوتا ہے تاہم اس کا مقصد درجہ بدرجہ اپنے امکان کی بنیادی شرط (مادہ) سے رہائی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے تخیل اس کے اعلیٰ مرحلے کا نام ہے۔ تخیل دراصل کسی چیز کی خارجی معروضیت کے حوالے کے بغیر اس چیز کی نقل یا شکل کو نہاں خانۂ دماغ میں محفوظ رکھنے اور اسے دوبارہ پیدا کرنے کی طاقت کا دوسرا نام ہے۔ تصورات کی تشکیل کی بدولت خیال مادیت سے رہائی پاکر ایک اور بلند تر مرحلے پر پہنچ جاتا ہے۔ مدرکات کے مقابلے اور انجذاب کے نتیجے میں رونما ہونے کی حیثیت سے تصور کو مکمل طور پر محسوسات کی کثیف علت سے آزاد قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تصور کو ادراک پر مبنی جان کر ہمیں اس عظیم اختلاف کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ جو تصور اور ادراک کی فطرت میں پایا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ انفرادی شعور مسلسل تبدیلیوں کی وجہ سے مدرکات پر مبنی علم کے کردار کو متاثر کردیتا ہے اس لیے افراد کا علم ثبات کے عنصر سے محروم ہوتا ہے۔ اس کے برعکس آفاقی شعور قانون تغیر سے اثر پذیر نہیں ہوتا۔ افراد تبدیل ہوتے رہتے ہیں مگر آفاق گیر وجود اپنی حالت پر قائم رہتا ہے۔ علامہ اقبال اس بحث کو ختم کرتے ہوئے مادے اور خدا کے درمیان امتیاز پر مزید روشنی یوں ڈالتے ہیں۔ مادے کا خاصہ یہ ہے کہ وہ قانون تغیر کے ماتحت ہوتا ہے۔ ایک چیز جس قدر مادے سے زیادہ آزاد ہوتی جائے گی اس قدر وہ تغیر سے کم اثر قبول کرتی جائے گی۔ خدا چونکہ مادے سے بالکل آزاد ہے اس لیے وہ کلیتاً بے تغیر و تبدل ہے۔ مادے سے خدا تعالیٰ کی مکمل آزادی ہمارے لیے یہ بات مشکل یا ناممکن بنا دیتی ہے کہ ہم اس کی ذات کے بارے میں کوئی صحیح تصور قائم کرسکیں۔ جو چیز خود مادی اشیا سے ترکیب پاکر بنے وہ خدا کا درجہ کیسے حاصل کرسکتی ہے؟ جوخود اپنی ذات کے لیے دوسروں کا محتاج ہو وہ کیوں کر الوہیت کی شان کا حامل قرار دیا جاسکتا ہے؟ خدا تعالیٰ وہ ازلی اور ابدی ہستیِ مطلق ہے جو ہر چیز کی صانع تو ہے مگر وہ خود مصنوع نہیں۔ بہرحال تمام فلسفیانہ تربیت کا مقصد ہی خالص تصورات پر مبنی ’’تشکیلِ تصور‘‘ یا گہرے غور و فکر کی صلاحیت کو ترقی یافتہ بنانا ہے تاکہ مسلسل مشق بالکل غیر مادی ہستی کے تصور کو ممکن بنادے۔ یہ ہے ابن مسکویہ کے نظریۂ علم کا نچوڑ۔ ۳- وحدت سے کثرت کی طرح پیدا ہوتی ہے؟ فلاسفہ اور مفکرین کائنات میں بکھری ہوئی کثرت اشیا کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے مضطرب نظر آتے ہیں۔ وہ مختلف مخلوقات اور گونا گوں چیزوں کو دیکھ کر ان کے خالق کی صفتِ تخلیق سے حیران و پریشان ہوتے ہیں۔ وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ انھیں ایک ہستی نے پیدا کیا ہے یا یہاں ایک سے زیادہ خالق ہیں۔ اگر خدا ہی ان سب کا خالق ہے تو پھر اس نے وحدت سے کثرت کیسے پیدا کی؟ وحدت و کثرت کا یہ مسئلہ نہ صرف فلسفیوں، مفکروں اور ارباب تصوف و شریعت کے لیے دل چسپی کا باعث ہے بلکہ سائنس دان بھی اسے سائنسی انداز میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جہاں تک ابن مسکویہ کے نظریۂ وحدت و کثرت کا تعلق ہے اسے یہاں بڑے ہی مختصر طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ علامہ اقبال وضاحت کی خاطر اس ضمن میں ابن مسکویہ کی علمی تحقیقات کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: (ا) آخری عالم یا علتِ غائی نے کائنات کو نیست سے ہست کیا ہے ابن مسکویہ کہتا ہے کہ مادہ پرست مادے کی بقا میں یقین رکھتے ہیں اور اس کی ظاہری ہیئت کو خدا کی سرگرمی سے منسوب کرتے ہیں۔ تاہم یہ امر مسلمہ ہے کہ جب مادہ ایک شکل سے دوسری شکل میں جاتا ہے تو اس کی سابقہ شکل مکمل طور پر معدوم ہو جاتی ہے ۔ اگر یہ مکمل طور پر معدوم نہ ہو تو پھر لازماً اسے یا تو کسی دوسرے جسم میں داخل ہونا چاہیے یا اسی پرانے جسم میں اپنی ہستی کو قائم رکھنا چاہیے۔ پہلی حالت کی روزمرہ کے تجربے سے تردید ہوتی ہے۔ مثلاً اگر ہم موم کی گیند کو ایک ٹھوس مربع کی شکل میں تبدیل کردیں تو گیند کی گولائی کسی دوسرے جسم میں داخل نہیں ہوتی۔ دوسرامتبادل طریقہ بھی ناممکن ہے کیوں کہ اس سے یہ لازمی نتیجہ نکلے گا کہ دو متضاد شکلیں یعنی گولائی اور لمبائی ایک ہی چیز میں موجود ہوسکتی ہیں۔ بنابریں یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ جب کوئی نئی شکل معرض وجود میں آتی ہے تو اس کی ابتدائی شکل کلیتاً نیست و نابود ہو جاتی ہے۔ اس دلیل سے یہ بات نتیجہ خیز طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ صفات مثلاً شکل اور رنگ وغیرہ عدم محض سے معرض وجود میں آجاتی ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے کہ صفت کی طرح جوہر بھی فانی ہے ہمیں مندرجہ ذیل مفروضات کی حقیقت تک رسائی حاصل کرنی چاہیے: ۱- مادے کا تجزیہ مختلف عناصر کی تقسیم پر منتج ہوتا ہے جس کی کثرت کو کم کرکے ایک سادہ عنصر میں پیش کیا جاتا ہے۔ ۲- شکل اور مادے کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ مادے میں کسی قسم کی تبدیلی اس شکل کو نیست و نابود نہیں کرسکتی۔ ان دو مفروضات (قضایا) کو مدنظر رکھ کر ابن مسکویہ یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ جوہر کی ابتدا وقت میں ہوئی تھی۔ شکل کی طرح مادے کے وجود کا بھی تو آغاز ہونا چاہیے تھا کیوں کہ مادے کی بقا شکل کے دوام کے لیے بھی لازمی ہے۔ اس سے قبل ہم دیکھ چکے ہیں کہ شکل کو غیرفانی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس دلیل سے ابن مسکویہ یہ ثابت کرنے کی سعی کررہے ہیں کہ شکل اور مادہ آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ مادے کو اپنے خارجی وجود کے لیے شکل کی ضرورت ہوتی ہے اور اسی طرح مادے کے بغیر شکل کا وجود ممکن نہیں۔ اس باہمی ربط کو بیان کرچکنے کے بعد وہ یہ بات بھی ثابت کرتے ہیں کہ شکل عدم سے وجود میں لائی جاتی ہے۔ جب شکل کا یہ معاملہ ہے تو لازمی طور پر مادہ بھی عدم محض سے وجود میں آیا ہوگا۔ دوسرے لفطوں میں شکل کی طرح مادہ بھی فانی ہے اور وہ ازلی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جو چیز ازلی اور غیر فانی نہ ہو وہ کس طرح دوسری چیزوں کی خالق ہوسکتی ہے؟ خدا تعالیٰ کی ذاتِ ہمہ صفات چونکہ ازلی اور ہمیشہ رہنے والی ہے اس لیے وہی ہستی بے شمار مخلوقات و اشیا کی خالق قرار دی جاسکتی ہے۔ اس دلیل کے سہارے ابن مسکویہ خدا کو غیرفانی خالق اور مادے (Matter) کو فانی شے ثابت کرتے ہیں۔ (ب) تخلیق کا طریق کار وحدت و کثرت کے موضوع پر بحث کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے فاضل مصنف کہتا ہے کہ ہمیں ہر طرف چیزوں کی بے پایاں کثرت دکھائی دیتی ہے۔ اس بے پایاں کثرت کا سبب کیا ہے؟ وحدت سے کثرت کیسے پیدا ہوسکتی تھی؟ ابن مسکویہ کہتا ہے کہ جب ایک علت لاتعداد مختلف معلولات (اثرات) پیدا کرتی ہے تو اس کی کثرت مندرجہ ذیل اسباب میں سے کسی ایک پر منحصر ہوسکتی ہے: ۱-علت مختلف قوتوں کی مالک ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور پر انسان مختلف عناصر اور قوتوں کا حامل ہونے کی حیثیت سے مختلف اعمال کا سبب بن سکتا ہے۔ ۲-مختلف قسم کے اثرات پیدا کرنے کے لیے ایک ہی علت مختلف ذرائع استعمال کرسکتی ہے۔ ۳-ایک ہی علت مختلف قسم کے مواد پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔ ان مفروضوں میں سے کوئی بھی مفروضہ کائنات کی علت نمائی یعنی خدا کی نوعیت کے بارے میں درست نہیں ہوسکتا۔ چونکہ اس کی ذات کسی قسم کی آمیزش سے پاک ہے اس لیے یہ مفروضہ کہ وہ ایک دوسرے سے ممیّز مختلف قوتوں کامالک ہے، بدیہی طور پر بیہودہ ہے۔ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ اس نے کثرت پیدا کرنے کے لیے گوناں گوں ذرائع استعمال کیے ہیں تو پھر ان ذرائع کا خالق کون ہے؟ اگر علت غائی کے علاوہ کسی اور علت کے تخلیقی عمل نے ان ذرائع کو جنم دیا ہے تو علت غائی کی کثرت کو ماننا پڑے گا۔ اس کے برعکس اگراس علت غائی نے بذات خود یہ ذرائع تخلیق کیے ہیں تو اس نے ان ذرائع کو پیدا کرنے کے لیے دیگر ذرائع کو جنم دیا ہوگا۔ تخلیقی عمل کے طور پر یہ تیسرا مفروضہ بھی ناقابلِ قبول ہے۔ ایک عامل کے اتفاقیہ عمل سے بہت سی اشیا ظہور پذیر نہیں ہوسکتیں۔ نتیجہ کے طور پر ہمارے لیے اس مشکل کا حل یہ ہے کہ ہم اس بات کو مان لیں کہ علت غائی نے شروع میں صرف ایک چیز کو پیدا کیا جس نے بعدازاں دوسری چیزوں کو جنم دیا۔ اپنا یہ نظریہ تخلیق کائنات بیان کرنے کے دوران میں ابن مسکویہ ان عام نو افلاطونی مظاہر کو بیان کرتا ہے جو درجہ بدرجہ کثیف ہوتے گئے حتیٰ کہ ہم ابتدائی عناصر تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہ بنیادی عناصر باربار ترتیب پاتے ہیں اور ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے زندگی کی اعلیٰ شکلیں اختیار کرلیتے ہیں۔ ابن مسکویہ کے تصور ارتقا کا خلاصہ پاک و ہند کی ایک جید علمی شخصیت مولانا شبلی نعمانی نے اپنی بلند پایہ تصنیف علم الکلام میں بیان کیا ہے، علامہ اقبال ابن مسکویہ کے نظریہ ارتقائے کائنات کی جامع و مانع توضیح کے لیے مولانا شبلی کا درج ذیل اقتباس پیش کیے بغیر نہ رہ سکے۔ مولانا شبلی کے اردو الفاظ کو وہ انگریزی زبان کا جامہ پہناتے ہیں جس کا ترجمہ یہ ہے: بنیادی جواہر (اشیا) کی ترتیب و ترکیب نے زندگی کی پست ترین شکل یعنی عالم جمادات کو جنم دیا۔ ارتقا کا بلند تر مرحلہ عالم نباتات تک پہنچ جاتا ہے۔ عالم نباتات میں سب سے پہلے خود رو گھاس نمودار ہوتی ہے۔ بعد میں پودے اور مختلف النوع درخت ظاہر ہوتے ہیں۔ ان میں بعض حیوانی خصوصیات کے حامل ہونے کی وجہ سے عالم حیوانات کی سرحد کو چھونے لگتے ہیں۔ عالم نباتات اور عالم حیوانات کے درمیان زندگی کی ایک خاص شکل ہوتی ہے جو نہ تو حیوانی ہوتی ہے اور نہ ہی نباتاتی بلکہ اس میں دونوں کی خصوصیات شامل ہوتی ہیں مثلاً مرجان (مونگا)۔ زندگی کی اس درمیانی منزل سے پرے پہلا قدم قوت حرکت کی ترقی اور زمین پر رینگنے والے چھوٹے چھوٹے کیڑوں میں چھونے کا احساس ہے۔ طریق اختلاف کے سبب احساس لمس اور دوسرے حواس کو اجاگر کرتا ہے یہاں تک کہ ہم بلند تر حیوانات کے مرحلے تک جاپہنچتے ہیں جن میں اعلیٰ درجے کی ذہانت ظاہر ہوتی ہے۔ بوزنہ (بندر) انسانیت کی سرحد کو چھونے لگتا ہے جو مزید تدریجی ترقی کے ذریعے سیدھی قامت اور انسانوں جیسی قوت ادراک کا حامل ہو جاتا ہے۔ یہاں پہنچ کر حیوانیت ختم ہو جاتی ہے اور اس سے آگے انسانیت کی سرحد شروع ہوتی ہے۔ مولانا شبلی نعمانی سے قبل ایک مسلمان مفکر نظامی عروضی سمرقندی نے اپنی کتاب چہار مقالہ میں ارتقا کے موضوع پر اپنے خیالات کااظہار کیا تھا۔ علاوہ ازیں مولانا روم نے بھی اپنے اشعار میں مختلف انداز سے اس کی تشریح کرتے ہوئے کہا تھا: آمدہ اول بہ اقلیم جماد دز جمادی در نباتی اوفتاد ڈارون نے موجودہ دور میں اس کی سائنسی اور مادی لحاظ سے تعبیر پیش کی ہے۔ اردو زبان کے ایک معروف شاعر اکبر الہ آبادی نے اسے طنز و مزاح کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا: ع ڈارون بولا بوزنہ ہوں میں بہرحال نظریہ ارتقائے کائنات کئی مسلم مفکرین اور شعرا کا محبوب موضوعِ سخن رہا ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی اس کتاب میں ابن مسکویہ کے تصور تخلیق کائنات اور نظریہ ارتقا کا تذکرہ ضروری خیال کرتے ہوئے کسی قدر اپنا نقطہ نگاہ بھی بیان کردیا ہے۔ ۴- روح انسانی روح کی نوعیت اور اصلیت کے بارے میں بھی مختلف فلسفیانہ تعبیرات اور صوفیانہ توضیحات سے کام لیا گیا ہے۔ روح اور مادہ، روح اور جسم، روح اور خدا کے باہمی ربط پر لاتعداد اربابِ حکمت اور اصحاب تصوف و معرفت نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ابن مسکویہ کے فلسفیانہ نظام میں اس قسم کی روحانی بحث کا تذکرہ بھی پایا جاتا ہے چنانچہ علامہ اقبال ابن مسکویہ کے تصور روح کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ روح کی آزاد زندگی کا ادراک کرنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں انسانی علم کی نوعیت کی جانچ پڑتال کرنی چاہیے۔ ہم اس امر سے واقف ہیں کہ مادے کی یہ لازمی خاصیت ہے کہ یہ بیک وقت دو مختلف شکلیں اختیار نہیں کرسکتا۔ مثال کے طور پر چاندی کے ایک چمچے کو چاندی کے گلاس میں تبدیل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ چمچے کی موجودہ شکل برقرار نہ رہے۔ یہ خاصیت تمام اجسام میں پائی جاتی ہے۔ وہ جسم جو اس خاصیت کا حامل نہیں اسے جسم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اب جب ہم ادراک کی نوعیت کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ انسان میں ایک ایسا اُصول پایا جاتا ہے جو بیک وقت ایک سے زیادہ چیزوں کا علم حاصل کرکے ایک ہی وقت میں مختلف شکلیں اختیار کرسکتا ہے۔ یہ اُصول مادی نہیں ہوسکتا کیوں کہ اس میں مادے کی بنیادی خاصیت کا فقدان ہوتا ہے۔ روح کا لب لباب (جوہر) یکساں وقت پر کئی اشیا کا ادراک کرنے کی طاقت پر مشتمل ہوتا ہے لیکن یہاں یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ یہ اُصولِ روح اپنی اصلیت (جوہر) کے اعتبار سے یا تو مادی ہوسکتا ہے یا مادے کا فعل۔ مندرجہ ذیل وجوہات کے پیش نظر روح مادے کا فعل نہیں ہوسکتی: (الف) مختلف اشکال اور مختلف احوال اختیار کرنے والی چیز بذاتِ خود ان اشکال و احوال کا حصّہ نہیں ہوسکتی۔ مختلف رنگوں کو حاصل کرنے والے جسم کو اپنی فطرت کی رو سے بے رنگ ہونا چاہیے۔ اگرچہ روح خارجی اشیا کے ادراک میں مختلف شکلیں اور حالتیں اختیار کرلیتی ہے تاہم اسے ان شکلوں کا حصہ نہیں کہا جاسکتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ابن مسکویہ نے عصری نفسیاتِ استعداد کی حمایت نہیں کی۔ اس کی رائے میں مختلف ذہنی کیفیات بذات خود روح کے گوناگوں تغیرات ہیں۔ (ب) صفات مستقل طور پر تغیر پذیر رہتی ہیں۔ عالم تغیرات سے ماورا کوئی مستقل زیریں تہ تو ضرور ہونی چاہیے جو ہمارے ذاتی تشخص کی بنیاد بنے۔ علامہ اقبال اس نامور مسلمان فلسفی کے نظریہ روح کی تلخیص کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: یہ ظاہر کرچکنے کے بعد کہ روح کومادے کافعل قرار نہیں دیا جاسکتا ابن مسکویہ یہ ثابت کرتا ہے کہ روح اپنی اصل کے اعتبار سے غیر مادی ہوتی ہے۔ اس کے پیش کردہ چند دلائل ملاحظہ ہوں… ۱- ایک ہیجان (زبردست جذبہ) کو محسوس کرنے کے بعد حواس خاص وقت تک کمزور تر ہیجان کا ادراک نہیں کرسکتے تاہم علم کے ذہنی عمل کا معاملہ ہی کچھ اور ہے۔ ۲- جب ہم کسی دقیق موضوع پر غور و فکر کرتے ہیں توہم کوشش کرتے ہیں کہ ہم اپنے گرد و پیش کی ان تمام چیزوں سے مکمل طور پر اپنی آنکھیں بند کرلیں جو ہماری روحانی سرگرمی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ اگر روح بنیادی طور پر مادی ہو تو اسے کسی رکاوٹ کے بغیر اپنی سرگرمی جاری رکھنے کے لیے عالم مادیات سے گریز اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ۳- کسی شدید جذبے کا ادراک ہماری حس کو کمزور اور بعض اوقات مجروح کردیتا ہے۔ اس کے برعکس عام تصورات اور خیالات کے علم سے عقل کو تقویت ملتی ہے۔ ۴- بڑھاپے کی وجہ سے ہماری جسمانی کمزوری ہماری دماغی طاقت کو متاثر نہیں کرتی۔ ۵- روح ان خاص منصوبوں کے بارے میں سوچ سکتی ہے جن کا ہماری حسی معلومات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر حواس یہ نہیں سمجھ سکتے کہ دو متضاد چیزیں اکٹھی کیوں نہیں رہ سکتیں۔ ۶- ہمارے اندر ایک خاص طاقت موجود ہے جو جسمانی اعضا پر اپنا تسلط قائم رکھتی ہے، حسی غلطیوں کی اصلاح کرتی ہے اور تمام معلومات کو یکجا کردیتی ہے۔ وحدت پیدا کرنے والا یہ اُصول جو حواس کے ذریعے حاصل ہونے والے مواد کے متعلق غور و فکر کرتا ہے وہ ہر ایک حس کے ثبوت کا جائزہ لینے کے بعد متضاد بیانات کی نوعیت کافیصلہ کرتا ہے۔ اس اُصول کو بذاتِ خود عالمِ مادہ کی سطح سے بلند ہونا چاہیے۔ روح کی بحث کے آخر میں علامہ اقبال ابن مسکویہ کے قول کی روشنی میں کہتے ہیں: ابن مسکویہ کے قول کے مطابق یہ تمام مضبوط دلائل اس مسئلے کی حقیقت کو قطعی طور پر ثابت کردیتے ہیںکہ روح اپنی اصل کے لحاظ سے غیرمادی ہے۔ روح کی غیرمادیت کا مطلب اس کی بقا ہے کیوں کہ فنا تو مادی چیزوں کا خاصہ ہے۔ II۔ بو علی سینا (متوفی ۱۰۳۷ئ) حکیم بو علی سینا بلاشبہ عالم اسلام کی ایک بلند پایہ علمی شخصیت تھا۔ اس نے نہ صرف دنیائے فلسفہ میں اعلیٰ مقام حاصل کیا ہے بلکہ طب کی دنیا میں بھی اسے عالم گیر شہرت و عظمت ملی ہے۔ طب سے متعلق اس کی تصانیف عرصۂ دراز تک مغربی دنیا کی طبی تحقیق کا موضوع رہی ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنی کئی کتابوں میں اس کا ذکر کیا ہے۔ وہ ایک جگہ مغلیہ دور کے ایک مشہور فارسی شاعر عرفی کی بلندیِ خیال کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں: محل ایسا کیا تعمیر عرفی کے تخیل نے فدا ہو جس پہ حیرت خانۂ سینا و فارابی [کلیات اقبال، ص ۲۳۸] وہ اپنی کتاب میں مولانا روم کے مسلک عشق کو بو علی سینا کی فلسفہ طرازی پر ترجیح دیتے ہوئے فرماتے ہیں: بو علی اندر غبارِ ناقہ گُم دستِ رومی پردۂ محمل گرفت [کلیات اقبال، ص ۲۷۶] اپنی اس فلسفیانہ تصنیف میں انھوں نے بو علی سینا کے فلسفیانہ نظام کے چند اہم گوشوں سے نقاب کشائی کی ہے۔ وہ سب سے پہلے بو علی سینا کی جودت طبع اور علمی کمال کا اعتراف کرتے ہیں اور بعدازاں اس کے نظریات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ اس بارے میں علامہ اقبال کے تصورات کا خلاصہ یہ ہے کہ قدیم ایرانی فلسفیوں میں سے صرف بو علی سینا نے اپنے ہی نظام افکار کو تشکیل دینے کی کوشش کی تھی۔ اس کی کتاب حکمۃ الاشراق ابھی تک موجود ہے۔ ہم تک اس کی ایک نامکمل کتاب کا حصہ بھی پہنچا ہے جس میں اس عظیم المرتبت فلسفی نے کائنات میں قوت عشق کی آفاقی تاثیر کے بارے میں اپنے خیالات ظاہر کیے ہیں۔ عشق و محبت کے موضوع پر اس کی یہ ناتمام کتاب برٹش میوزیم لائبریری میں اس کے مجموعہ تصانیف میں محفوظ ہے جسے این۔ اے۔ایف مہران نے ترتیب دیا تھا۔ ذیل میں بو علی سینا کے تصور حسن و عشق کی تلخیص کو پیش کیا جاتا ہے تاکہ ہم کسی حد تک اس موضوع کی اہمیت سے آگاہ ہوسکیں۔ وہ خدا تعالیٰ کو حقیقتِ مطلقہ اور حسنِ لازوال خیال کرتے ہوئے اسے ہماری تمام جدوجہد اور نصب العین کا منشائے کمال بنانے کا خواہش مند ہے۔ اس کی رائے میں انسان جس قدر اس حسنِ لافانی کو قریب ہوتا جائے گا وہ اسی قدر مرتبہ کمال تک پہنچتا جائے گا۔ انسان اور خدا کے حسن لازوال کے قریب تر لانے والی خواہش کا نام حرکتِ عشق ہے۔ اس لحاظ سے وہ عشق کی ہمہ گیر قوت و سرایت کا زبردست قائل ہے۔ علامہ اقبال بو علی سینا کے ان تصورات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ بو علی سینا کی رائے میں حسنِ لازوال کی تحسین کا نام ’’عشق و محبت‘‘ ہے۔ عشق کی اس تعریف کے نقطہ نگاہ سے وہ ہستی کے تین مدارج کی یوں وضاحت کرتا ہے: ۱-وہ اشیا جو تکمیل کے نقطہ عروج پر ہیں۔ ۲-وہ چیزیں جو تکمیل کے اسفل نقطہ پر ہیں۔ ۳-وہ اشیا جو کمال کے دونوں ڈانڈوں کے درمیان ہیں۔ یہ تیسرا درجہ حقیقی زندگی نہیں رکھتا کیوں کہ کچھ چیزیں پہلے ہی پایہ تکمیل تک پہنچ چکی ہیں اور کچھ دوسری چیزیں ابھی تک کمال کی طرف رواں دواں ہیں۔ علامہ اقبال اس کی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: نصب العین کے لیے یہ جدوجہد حسن کی جانب عشق کی حرکت ہے۔ بو علی سینا کی رائے میں حسن اور کمال ایک دوسرے کے مماثل ہیں۔ صور (اشکال) کے دیدنی ارتقا کے نیچے عشق کی قوت کارفرما ہے جو ہر طرح کی جدوجہد، حرکت اور ترقی کو حقیقت سے ہمکنار کرتی ہے۔ عدم سے نفرت چیزوں کی سرشت میں داخل ہے اور وہ ارادہ اور بذات خود بے جان مادہ عشق کی اندرونی طاقت کے باعث مختلف شکلیں اختیار کرکے حسن کی اعلیٰ سے اعلیٰ میزان تک جاپہنچتا ہے۔ بو علی سینا قوت عشق کی آفاقیت کا قائل تھا اس لیے وہ ہر ذرہ کائنات کی تخلیق کو عشق الٰہی کی کرشمہ سازی اور عشق کی ہمہ گیر تاثیر کا نتیجہ خیال کرتا تھا۔ وہ قوت عشق کو اس مادی دنیا کی اساس اور حصول کمالات کابہترین اور موثر زینہ سمجھ کر اس کی تعریف کرنے میں بے باک تھا۔ اس کے نقطۂ نظر سے طبعی دنیا میں عشق کی ہمہ گیر تاثیر کو مختصراً یوں بیان کیا جاسکتا ہے: ۱- بے جان اشیا شکل، مادہ اور خاصیت کامجموعہ ہوتی ہیں۔ عشق کی پراسرار طاقت کی کارفرمائی کی بدولت خاصیت اپنے مواد اور جوہر کے ساتھ چمٹ جاتی ہے اور صورت غیر معین مادے سے ہمکنار ہو جاتی ہے۔ مادہ عشق کی زبردست طاقت سے حرکت پاکر ایک شکل سے دوسری شکل میں چلا جاتا ہے۔ ۲- قوت عشق اپنی ذات میں مرکزیت پیدا کرنے کا رجحان رکھتی ہے۔ عالم نباتات میں یہ مرکزیت یا وحدت کے اعلیٰ درجے کو پالیتی ہے۔ اگرچہ روح اس وحدت عمل سے محروم ہوتی ہے تاہم وہ بعدازاں اسے حاصل کرلیتی ہے۔ نباتاتی روح کے طریقہ ہائے کار یہ ہوتے ہیں: (الف)انجذاب و انہضام۔ (ب)بالیدگی (نشوونما) (ج)تولید نو۔ یہ طریقے دراصل عشق و محبت کے بہت سے مظاہر ہیں۔ انجذاب (جذب پذیری) سے کشش اور ظاہری چیزوں کی ہیئت کو باطن میں تبدیل کرنے کا اظہار ہوتا ہے۔ بالیدگی سے مراد مختلف اجزا کے درمیان زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی حاصل کرنے کی محبت ہے۔ تولید نو کا مطلب جنس (نوع) کا دوام ہے جو صرف عشق و محبت کے ایک اور مرحلے کا نام ہے۔ ۳- عالمِ حیوانات میں قوتِ عشق کی مختلف کارفرمائیاں مزید وحدت کی حامل ہوتی ہیں۔ یہ چیز مختلف سمتوں میں کام کرنے والی نباتاتی جبلت کا تحفظ کرتی ہے لیکن اس میں مزاج کی ترقی بھی ہے جو مزید متحدہ سرگرمی کی طرف ایک قدم ہے۔ انسان میں یہ وحدت نما رجحان شعور ذات کامظہر بن جاتا ہے۔ ’’قدرتی یا اساسی عشق‘‘ کی یہی طاقت انسان سے بلند تر مخلوقات میں بھی کارفرما ہے۔ بو علی سینا کی رائے میں جو چیز حسن لازوال کے زیادہ نزدیک ہوگی اس کی قدر و منزلت بھی زیادہ ہوگی اس کے برعکس اس سرچشمہ حسن و کمال کی دوری چیزوں کی کم قدری یا بے قدری کا سبب بن جاتی ہے۔ علامہ اقبال بو علی سینا کے اس نقطہ نظر کی وکالت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: تمام اشیا محبوب اولین یعنی حسن لازوال کی جانب رواں دواں ہیں۔ کسی چیز کی کی قدر و قیمت کا اندازہ اس حقیقتِ مطلقہ سے نزدیکی یا دوری کے لحاظ سے لگایا جاتا ہے۔ علامہ اقبال بو علی سینا کے تصور عشق پر روشنی ڈالنے کے بعد اس کے نظریہ روح کو موضوع بحث بناتے ہیں۔ جب روح کی بحث چل نکلے گی تو خدااور جسم کے ساتھ اس کے گہرے تعلق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مفکر اسلام اور شاعر مشرق کی زبانی بو علی سینا کے تصور روح کا خلاصہ یہ ہے کہ طبیب ہونے کی حیثیت سے بو علی سینا روح کی نوعیت میں خاص طور پر دل چسپی رکھتا ہے۔ مزید برآں اس کے زمانے میں تناسخ ارواح (آواگون) کانظریہ زیادہ سے زیادہ مقبول ہوتا جارہا تھا۔ اس لیے اس تصور کا ابطال کرنے کے لیے وہ روح کی نوعیت کو زیر بحث لاتا ہے۔ اس کا قول ہے کہ روح کی تعریف کرنامشکل ہے کیوں کہ یہ ہستی کے مختلف مدارج میں مختلف قویٰ اور رجحانات کااظہار کرتی ہے۔ روح کی مختلف طاقتوں کے بارے میں اس کے خیال کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے: I- غیر شعوری سرگرمی کی حیثیت سے اظہار (الف) مختلف سمتوں میں کام کرنا (نباتاتی روح) ۱- انجذاب و انہضام ۲- بالیدگی ۳- تولیدِ نو (ب) ایک سمت میں کام کرنا اور اتحاد عمل حاصل کرنا… مزاج کی نشو و نما۔ II- باشعور سرگرمی کی حیثیت سے ظہور (الف) ایک سے زیادہ اشیا کی طرف متوجہ ہونا: حیوانی روح انسان کم تر حیوانات (۱) محسوس کرنے والی طاقتیں (پانچ ظاہری حواس اور پانچ باطنی حواس) (۱) محسوس کرنے والی طاقتیں (۲) پانچ باطنی حواس (تصورات کی برقراری۔ تصور۔ تخیل۔ حافظہ۔ پردۂ حس) (۲) محرک طاقتیں (خوشی کی خواہش اور تکلیف سے گریز) ۲- پانچ باطنی حواس پردۂ حس (تصورات کی برقراری) تصور۔ تخیل۔ حافظہ۔ یہ تمام اس روح کے پانچ باطنی حواس کے عناصر ترکیبی ہیں جو انسان میں ترقی یافتہ عقل کے طور پر ظاہر ہوتی ہے اور انسان عقل سے ترقی پاکر ملکوتی عقل اور پیغمبرانہ عقل کا حامل بن جاتا ہے۔ (ب) ایک ہی شے کی طرف متوجہ ہونا (یکساں حرکت جاری رکھنے والے کرّوں کی روح) بو علی سینا جسم اور روح کو ایک دوسرے سے جدا تصور کرتے تھے ان کی رائے میں تناسخ ارواح یا آواگون کا نظریہ درست نہیں کیوں کہ روح ہمیشہ جسم کی محتاج نہیں ہوتی۔ علامہ اقبال نظریہ روح کی اس بحث کے دوران یہ کہتے ہیں: نفس (روح) کے متعلق بو علی سینا نے جو نامکمل کتاب تحریر کی تھی وہ اس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ روح کے لیے مادی سواری لازمی نہیں۔ جسم یا جسم کی کسی طاقت کے وسیلے سے روح خیالی پیکر حاصل نہیں کرتی کیوں کہ دوسری چیزوں کا ادراک کرنے کی خاطر اگر روح کو کسی جسمانی ذریعے کی ضرورت ہو تو اسے اپنے ساتھ پیوستہ جسم کو متصور کرنے کے لیے کسی اور مختلف جسم کی ضرورت حاجت ہونی چاہیے۔ مزید برآں روح اپنی ذات کے ذریعے اپنے شعور کی حامل ہوتی ہے۔ یہ حقیقت کہ روح بذاتِ خود فوراً شعور ذات حاصل کرلیتی ہے ایک واضح ثبوت ہے کہ اپنے جوہر کے لحاظ سے وہ کسی جسمانی رفاقت سے بالکل آزاد ہے۔ تناسخ ارواح کے اُصول کا مطلب انفرادی وجود قدیم بھی ہے۔ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ روح جسم سے پہلے موجود تھی تو اس صورت میں یہ یا تو واحد تھی یا کثیر۔ کثرت اجسام مادی اشکال کی کثرت کی بنا پر ہے اس لیے یہ ارواح کی کثرت کی مظہر نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس اگر روح واحد تھی توپھر ایک شخص کی جہالت اور علم کامطلب دوسرے شخص کی بھی جہالت اور علم ہے کیوں کہ ان دونوں میں ایک ہی روح فرض کی گئی تھی۔ اس لیے ان چیزوں کو روح سے منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ جب روح کی یہ حقیقت ہے تو یہ جسم کی پابندیوں سے آزاد وجو درکھتی ہے۔ بو علی سینا نے جسم اور روح کے بارے میں جو کچھ کہا ہے علامہ اقبال اس کی تلخیص ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: بو علی سینا کہتا ہے کہ سچ تو یہ ہے کہ جسم اور روح ایک دوسرے سے متصل تو ہیں مگر وہ اپنے اپنے جوہر میں بالکل ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ جسم کے عناصر ترکیبی کے انتشار سے روح کی فنا لازم نہیں آتی۔ انتشار اور زوال مادی اجزا کے مرکب کی خصوصیت ہے۔ اس کا سادہ، ناقابل تقسیم او رمثالی جواہر سے کوئی تعلق نہیں۔ اس بات کو بیان کرچکنے کے بعد بو علی سینا نے بدن کے وجود قدیم کا منکر ہو کر موت کے بعد بے بدن شعوری زندگی کے امکان کو ثابت کرنے کی سعی کرتا ہے۔ بو علی سینا اس تصور روح کے مطابق موجودہ بدن سے پہلے منفرد روح اور موت کے بعد اس کی جسم کے بغیر بقا کا زبردست قائل تھا۔ اس باب میں علامہ اقبال نے بوعلی سینا کی جدت خیال اور حریتِ فکر کی کافی تعریف کی ہے۔ ان کی رائے میں قدیم ایرانی نوافلاطونی مفکرین اور فلاسفہ میں صرف بو علی سینا نے اپنے فکر کی روشنی میں اپنی راہ حیات کو فروزاں کرنا سیکھا تھا۔ و ہ فرماتے ہیں: ایران کے نو افلاطونی متقدمین کے مطالعہ سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی ہے کہ ان میں سے صرف بو علی سینا نے اپنے لیے خود غور و فکر کرنا سیکھا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بو علی سینا کے نظریات نے متاخرین پر بہت اثر ڈالا تھا۔ اس کی عظیم المرتبت شخصیت اتنی سحر آفرین بن گئی تھی کہ اس کی موت کے بعد اس کے افکار میں حک و اضافہ کوناقابلِ معافی جرم خیال کیا جاتا تھا۔ ایران میں نو افلاطونیت کی ترقی میں ظلمت و نور کی ثنویت کا قدیم ایرانی تصور زبردست عامل ثابت نہیں ہوا۔ اگرچہ نوافلاطونیت کو وہاں کچھ عرصہ کے لیے آزادانہ وجود مل گیا تھا لیکن آخرکار یہ تحریک مروجہ ایرانی نظام فکر میں مدغم ہوگئی۔ جس حد تک یہ نوافلاطونی افکار و نظریات زرتشت کے قدیم مکتب خیال کے وحدت الوجودی رجحان کی توسیع و توانائی کے لیے موثر ثابت ہوئے وہ اس حد تک ایرانی فلسفے کے ساتھ مربوط رہے۔ مسلمان علما کی مذہبی بحثوں نے کچھ عرصہ کے لیے ان نوافلاطونی افکار کی ترقی کوروکا مگربعدازاں انھوں نے پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ سراٹھا کر ایران کے قدیم فکری کارناموں کوا پنی مضبوط گرفت میں لے لیا۔ بو علی سینا نے اپنے بعد میں آنے والے مفکرین کو خاصا متاثر کیا تھا۔ اس کے چند پیروکاروں مثلاً بہمن یار، ابو المامون اصفہانی، معصومی، ابو العباس اور ابن طاہر نے اپنے اس پیرو مرشد کے فلسفیانہ خیالات کو آگے بڑھانے میں نمایاں حصہ لیا تھا۔ اپنے خلوصِ فکراور سعی کے باوجود وہ بو علی سینا کی فکری عظمت کے مالک نہ ہوسکے۔ بہرحال بو علی سینا اور اس کے متبعین کی فکری کاوش نوافلاطونیت (Neoplatonism) پر پوری طرح غالب نہ آئی۔ /…//…/ باب سوم اسلام میں عقل پرستی کا عروج و زوال I-عقلیت کی مابعدالطبیعیات مفکراسلام علامہ اقبال نے اس طویل باب میں بہت سے اہم امور پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کے مطالعہ کے ذہنی نتائج درج ذیل ہیں: ۱- ایران میں جب اسلام کا ظہور ہوا تو اس کا وہاں ابتدائی دور ان فلسفیانہ موشگافیوں اور نکتہ طرازیوں سے خالی تھا جنھوں نے بعدازاں اسلام کے چشمۂ صافی کو گدلا کردیا تھا۔ ۲- اسلام کے زیر اثر ایرانیوں نے داخلیت (دنیائے باطن) کو وقتی طور پر چھوڑا اور انھوں نے خارجی حالات میں دل چسپی لی۔ بعد میں آہستہ آہستہ انھوں نے اپنے طبعی رجحانات سے مجبور ہو کر دروں بینی اختیار کرلی اور وہ عقلیت (Rationalism) میں گم ہوگئے۔ ۳- عقل پرستی کانتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی تعلیمات اور عقائد کے بارے میں ایمان کمزور ہوتا گیا۔ عقل پرستی نے تشکیک پرستی کو جنم دیا اور اس نے تصوف اور الحاد کی راہیں پیدا کیں۔ کچھ عقل پرست کوچہ تصوف میں آنکلے اور انھیں قلبی سکون مل گیا۔ جن کو یہ پناہ نصیب نہ ہوئی وہ الحاد کی وادیوں میں بھٹکتے رہے۔ ۴- جب مذہبی امور فلسفیانہ زبان میں بیان ہونے لگے تو متکلمین کا گروہ پیدا ہوگیا۔ اشاعرہ اور معتزلہ مکاتب فکر کی عقلی بحثوں سے کون واقف نہیں ہے۔ اس طرح جبریہ اور قدریہ مسالک بھی دینی حقائق کو عقل کی ترازو میں تولنے لگے۔ ۵- فکر آزاد کی عَلم۔بردار اسماعیلی تحریک عجمی افکار و نظریات کی پیداوار تھی۔ اس تحریک نے اسلامی تعلیمات میں عجیب و غریب تبدیلیاں پیدا کی تھیں۔ ۶- معتزلی مفکرین کے برعکس اشاعرہ نے اسلام کو غیر اسلامی عناصر سے پاک کرنے کی سعی کی تھی۔ ۷- امام غزالی عالم اسلام کی ایک نابغہ شخصیت تھے۔ ان کے نظریات کا پرتو ہمیں مسلم اور غیر مسلم فلاسفہ کی تحریروں میں نمایاں طورپر دکھائی دیتا ہے۔ اس باب کے شروع میں علامہ اقبال نے مسلمان مفکرین اور فلاسفہ کی عقل پرستانہ مابعدالطبیعیات خصوصاً فلسفیہ یونان کے زیر اثر ان کی فلسفیانہ موشگافیوں کے لازمی نتائج مثلاً عقل پرستی، تشکیک پرستی، تصوف اور ملحدانہ افکار کا تذکرہ کیا ہے۔ ان کی عقل پرستانہ سرگرمیاں دراصل ان کی خارجیت و داخلیت کی کشمکش کا رد عمل تھیں۔ اسلامی تعلیمات دین و دنیا اور فکر و عمل کے باہمی ملاپ کی مظہر ہیں اس لیے نظام حیات میں انسان کی داخلی اور خارجی ضروریات کی تکمیل پر زور دیا گیا ہے۔ علامہ اقبال اپنی اس کتاب کے آغاز میں یہ امر واضح کرچکے ہیں کہ ایرانی قوم زیادہ تر فکر آرائی اور خیال پیمائی کی عادی ہے اس لیے اس قوم کی ذہنی سرگرمیاں ہی اس کا طرۂ امتیاز ہیں۔ جب ایران میں اسلام کا ظہور ہوا تو اسلامی تعلیمات کے زیر اثر اہل ایران دنیائے باطن سے باہر آکر زندگی کے خارجی احوال اور مظاہر فطرت کے مطالعہ و مشاہدہ میں بھی نمایاں دل چسپی لینے لگے تھے۔ جب اسلامی فتوحات کا غلغلہ ذرا کم ہوا تو انھوں نے اسلام کے عقائد و نظریات میں بتدریج ایرانی نظریات سمونے شروع کردیے۔ بعدازاں وہ جب اپنی فطری عادت کے مطابق آفاق سے منہ موڑ کر انفس کی طرف متوجہ ہوئے تو ان کی داخلیت خارجیت پر حاوی ہوگئی۔ وہ ظاہری دنیا کی ہماہمی اور علمی کشاکش سے بھاگ کر عقل کی دنیا میں عزلت گزین ہوگئے تھے۔ خارج سے باطن کی طرف یہ گریز عقل پرستی کے جنم کا سبب بن گیا۔ عقل و فکر کی دنیا میں پناہ ڈھونڈنے کے بعد انھوں نے اپنے گزشتہ خارجی احوال اور عصری مسائل کا جائزہ لینے کے لیے عقل کو اپنا راہبر بنالیا۔ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ جب کوئی انسان عمل کی بجائے عقل ہی کو ہر بات میں اپنا راہ نما تسلیم کرلے تو پھر وہ نادیدنی حقائق اور الہامی صداقتوں کو بھی عقلی معیار پر پرکھنے لگتا ہے۔ عالم مادی سے ماورا امور (مابعدالطبیعیات) بھی عقل وحی کے مسلمہ اُصولوں اور بنیادی عقائد کو بھی شک و شبہ کی نظر سے دیکھنے لگ جاتی ہے اس طرح دل و دماغ میں زبردست کشمکش کا آغاز ہو جاتا ہے۔ یہ کشمکش فی الحقیقت ہماری تشکیک پرستی کی پیداوار ہوتی ہے اور ہماری تشکیک پرستی کو عقل پرستی جنم دیا کرتی ہے۔ بعض انسان عقل کی بھول بھلیوں سے نکل کر تصوف کی دنیا میں آجاتے ہیں اور بعض ان میں گم ہو کر الحاد کی منزل کی جانب چل پڑتے ہیں۔ عقل کا زناری عموماً حق و صداقت کے خارجی معیارات کو مسترد کردینے کا حامی بن جاتا ہے۔ دل و دماغ اور فکر و عمل کی اس دل چسپ چپقلش کا خلاصہ علامہ اقبال ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: نئے سیاسی ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کے بعد ایرانی ذہن فوراً اپنی فطرتی آزادی کو دوبارہ برقرار رکھ کر باطن کی جانب لوٹ جاتا ہے… فلسفہ یونان کے مطالعہ سے پہلے آفاق میں گم ہونے والا دماغ غور و فکر شروع کردیتا ہے۔ علاوہ ازیں وہ اب اپنے آپ کو حق و صداقت کا ثالث تصور کرتا ہے۔ اس طرح داخلیت غلبہ پاکر ہر طرح کی خارجی حاکمیت کو اکھاڑنے کی کوشش کرتی ہے۔ کسی قوم کی فکری تاریخ میں اس طرح کا زمانہ اصل میں عقل پرستی، تشکیک پرستی، تصوف اور الحاد کا دور ہوا کرتا ہے۔ ایسے حالات میں انسانی دماغ داخلیت کی بڑھتی ہوئی قوت سے مغلوب ہو کر سچائی کے تمام خارجی معیاررد کردیتا ہے۔ اس اقتباس سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ ظاہر و باطن کی یہ رزم آرائی عموماً انتہا پسندی پر منتج ہوجاتی ہے۔ انسان یا تو عالم خارجی میں منہمک ہو کر مادہ پرست بن جاتا ہے یا وہ دنیائے باطن میں مقیم ہو کر محض روحانیت پرست ہو جاتا ہے۔ قرآن اور اسوہ رسولؐ اس یک طرفہ طریق زندگی کے مخالف ہیں۔ قرآن تو ہمیں دنیوی ترقی کے ساتھ روحانی ترفع، عقل و عشق، انفس و آفاق اور فکر و عمل کے صحیح امتزاج کی تلقین کرتا ہے۔ ہمارے ہادی اعظم حضرت محمدؐ نے اپنے عمل سے زبردست اور بے مثال معاشرتی اور اخلاقی انقلاب لاکر ثابت کردیا ہے کہ دین میں دنیوی معاملات اور معاشرتی فلاح کا عنصر بھی شامل ہے۔ داخلیت و خارجیت کے موضوع پر گفتگو کرنے کے بعد علامہ اقبال نے اموی دور حکومت اور عہد عباسیہ میں عقلیت کے فروغ خصوصاً معتزلہ عقائد پر روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے معتزلہ تصور خدا اور نظریہ مادہ کو یہاں کافی تفصیل سے بیان کرکے ہمیں اس کے تاریخی پس منظر اور آیندہ اثرات سے روشناس کرایا ہے۔ ان کی رائے میں ایران میں جب اسلام کا ظہور ہوا تو وہ فلسفیانہ، عجمی، عیسائی، مانی، یونانی اور بدھ مت اثرات سے خالی تھا۔ بعدازاں اس میں ان مذاہب اور مکاتب فکر کے کافی تصورات شامل کردیے گئے۔ اس آمیزش کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب اسلام خالص اسلام نہ رہا اور اس کے عقائد کو فلسفیانہ انداز میں پیش کرنے کی طرف زیادہ توجہ مبذول کی گئی۔ بنو امیہ کے دور حکومت میںنئے نئے مسائل اور غیر متوقع تغیرات نے مسلمانوں کو مجبو رکردیا کہ وہ ان نئے حالات اور اسلامی تعلیمات میں مطابقت پیدا کریں۔ چنانچہ یہ دور دراصل اسلام اور حالات نو کے درمیان مطابقت اور ہم آہنگی پیدا کرنے کا زمانہ تھا۔ اس مطابقت کے باوجود اسلام کافی حد تک اپنی اصلیت اور پاکیزگی کو برقرار رکھ سکا لیکن جوں ہی عباسیہ دور میں فلسفۂ یونان کو فروغ حاصل ہوا ایرانیوں کی دبی ہوئی ذہنی فکر لاوے کی مانند اچانک پھوٹ پڑی۔ اس ذہنی تبدیلی نے اعمال اور خیالات کے مختلف شعبہ جات میں حیرت انگیز گل کھلائے۔ فلسفہ یونان کے گہرے مطالعہ اور ذوق نے ایرانی مفکرین کے اندر اسلامی توحید پرستی کا تنقیدی رجحان پیدا کردیا۔ مذہب اور فلسفہ کی اس آمیزش نے مسلمان فلسفیوں اور اہل مذہب کو اس بات پر آمادہ کردیا کہ وہ اسلامی تعلیمات و نظریات کو فلسفیانہ اصطلاحات کے رنگ میں بیان کریں۔ جب تمام مذہبی امور کو زبان فلسفہ میں بیان کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ علم کلام کا روپ دھار کر انسان کو عمل سے بے نیاز کردیا کرتے ہیں۔ آٹھویں صدی عیسوی میں معتزلہ تحریک نے ایران کے بہترین دماغوں کو عقلیت کا پرستار بنا کر ایسے ہی حالات پیش کردیے تھے۔ معتزلہ تحریک کا بانی واصل ابن عطا ایرانی نژاد عقل پرست مفکر تھا۔ واصل ابن عطا ایک مشہور صوفی منش عالم حسن بصری کا شاگرد تھا۔ اس نے ایک عقل پرستانہ تحریک شروع کی جسے معتزلیت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ بڑے بڑے مذہبی علما اور ذہین مسلمان اس تحریک سے متاثر ہوکر مذہبی مباحثوں مابعدالطبیعیاتی مناظروں میں حصہ لے کر اپنی توانائیوں کو ضائع کرنے لگے۔ بصرہ اور بغداد کے مکاتب فکر کی رزم آرائیاں اس سلسلہ کی اہم کڑیاں ہیں۔ علامہ اقبال اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں: اپنی تجارتی حیثیت کے سبب بصرہ کا مشہور شہر مختلف طاقتوں کی آماج گاہ بن گیا تھا۔ فلسفہ یونان، تشکیک پرستی، عیسائیت، بدھ مت کے نظریات اور مانی کے تصورات نے اس زمانے کے متجس ذہنوں کے لیے کافی روحانی غذا مہیا کرکے عقل پرست مسلمانوں کی خاطر ذہنی ماحول پیدا کردیا تھا۔ عہد قدیم میں عراق کا مشہور شہر بصرہ مختلف قوموں کی تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا تھا اس لیے وہاں ہر قوم کے لوگ میل جول کے ذریعے ایک دوسرے کے خیالات و عقائد سے متاثر ہوتے تھے۔ ایران، یونان، ہندوستان اور عرب ممالک کے لوگوں کے ساتھ اہل عراق کے تجارتی روابط نے ان کے خیالات میں تنوع اور وسعت پیدا کی جس کا لازمی نتیجہ آزادی افکار تھا۔ میکڈونلڈ کی کتاب اسلامی الہیات (Muslim Theology) علامہ اقبال کے استاد پرفیسر ٹی،ڈبلیو آرنلڈ کی تصنیف المعتزلہ (Al-Mutazila) ایک اور علمی کتاب فہرست (Fihrist) میں مذکورہ بالا مذہبی مباحثوں اور غیر اسلامی نظریات کے نفوذ کا تذکرہ ملتا ہے۔ علامہ اقبال اس خیال کے حامی ہیں کہ تاریخ اسلام کا شامی دور ان مابعدالطبیعیاتی نازک خیالیوں سے مبرا تھا جو ہمیں اس کے ایرانی دور میں نظر آتی ہیں۔ فلسفہ یونان کے مسلم مقلدوں نے یونانی افکار کی روشنی میں اپنے مذہب پر غور و فکر شروع کیا جسے معتزلی مفکرین نے مابعدالطبیعیات کی حدود میں داخل کردیا تھا۔ کیا معتزلہ تحریک عجمی ذہن کی پیداوار تھی یا اس میں ایرانی علما کے علاوہ غیر عجمی مفکرین بھی شامل تھے؟ علامہ اقبال نے اس ضمن میں چند حکمائے مغرب کی تصانیف کو مدنظر رکھ کر ذاتی رائے کا اظہار کیا ہے۔ وہ پروفیسر ای۔جی۔ برائون کی بلند پایہ کتاب تاریخ ادبیات ایران (Literary History of Persia) کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ معتزلہ مفکرین مختلف قوموں اور ملکوں سے تعلق رکھتے تھے۔ اگرچہ ان میں سے بیشتر نسل یا سکونت کی وجہ سے ایرانی تھے۔ فرقہ معتزلہ کا بانی واصل ابن عطا ایرانی تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور مغربی عالم وان کریمر (Von Kremer) معتزلیوں کی اصل اموی دور کے مذہبی مباحثوں میں تلاش کرتا ہے۔ پروفیسر ٹی، ڈبلیو، آرنلڈ کی غالب رائے میں معتزلہ تحریک کے بڑے بڑے نمایندے زیادہ تر شیعہ حضرات تھے۔ پروفیسر ای، جی، برائون (E.G.Brown) بھی اس بارے میں ان سے اتفاق کرتے ہیں۔ شیعی حضرات معتزلہ عقائد کے سب سے بڑے دشمن اور اشاعرہ کے سرخیل یعنی حسن الاشعری کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ اشاعرہ اور معتزلہ کی بحث میں علامہ اقبال کانقطہ نظر درج ذیل ہے: معتزلہ تحریک بنیادی طور پر ایرانی تحریک نہیں تھی لیکن بقول پروفیسر برائون درحقیقت اکثر اوقات شیعی اور قادری تصورات ہم آہنگ تھے اور ایران کا مروجہ اُصول کئی پہلوئوں سے معتزلا نہ ہی ہے … یہ مزید کہا جاسکتا ہے کہ معتزلہ مکتب خیال کے بڑے بڑے عَلم۔بردار شیعہ مذہب کے حامل تھے مثلاً ابو الہذیل۔ اس کے برعکس الاشعری کے بہت سے پیروکار ایرانی تھے (دیکھیے ابن عساکرکے اقتباسات مرتبہ از مہران) اس لیے اشعری افکار کو خالصتاً سامی تحریک قرار دینا قطعاً جائز نہیں۔ معتزلہ اور اشاعرہ کی تحریکوں کا مختصر حال بیان کرنے کے علاوہ علامہ اقبال اسلام کے بارے میں معتزلہ عقائد کی مابعدالطبیعیاتی گتھیوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ وہ یہاں عقلیت کے دو خاص پہلوئوں… تصور خدا اورنظریۂ مادہ… کو موضوع بحث بناتے ہیں۔ معتزلی فلسفی بڑے پر پیچ جدلیاتی طور سے خدا کی وحدت کے تصور تک پہنچتا ہے۔ یہ تصور عام راسخ العقیدہ مسلمانوں کے تصور خدا سے بنیادی حیثیت سے مختلف ہے۔ معتزلہ کی رائے میں خدا کی ذات اور اس کی صفات جدا نہیں ہیں بلکہ وہ ذات خداوندی کا خلاصہ ہیں۔ ایک معتزلی مفکر ابو الہٰذیل کہتا ہے۔ ’’خدا علیم، قدیر اور حیّ ہے۔ خدا کا علم، اس کی قدرت اور حیات اس کی ذات میں شامل ہیں۔‘‘ خداتعالیٰ کی وحدت خاص کی تشریح کے لیے یوسف البصیر مندرجہ ذیل پانچ اُصول وضع کرتا ہے: ۱- جوہر ذرہ اور حادثے کا مفروضہ۔ ۲- خالق کا لازمی مفروضہ۔ ۳- خدا کے احوال کا لابدی مفروضہ۔ ۴- خدا کے بارے میں نامناسب صفات کا رد۔ ۵- صفات خداوندی کی کثرت کے باوجود خدا کی وحدت کا تصور۔ خدا کی وحدت کے تصور میں کافی تبدیلیاں رونما ہوئیں یہاں تک کہ معمر اور ابو ہاشم کے ہاتھوں میں آکر یہ ایک مجرد امکان بن گیا جس کے بارے میں آسانی سے علم حاصل نہیں کیا جاسکتا تھا۔ معتزلی کہتے ہیں کہ ہم خدا کے بارے میں علم حاصل نہیں کرسکتے کیوں کہ علم خدا کی ذات سے الگ نہیں۔ اگر ہم خدا اور علم کو ایک ہی خیال کریں تو ہمیں فاعل اور مفعول میں مطابقت کو تسلیم کرنا ہوگا۔ اس کے برعکس اگر ہم انھیں الگ الگ سمجھیں تو پھر ہمیں خدا کی ذات میں دوئی (ثنویت) کو ماننا پڑے گا۔ یہ دونوں باتیں درست نہیں۔ نظام کے دو پیروکار احمد اور فضل خدا کی ذاتی دوئی کے قائل تھے۔ یہ دونوں دو حقیقی خالقوں (اُصول ازلی یعنی خدا اور اُصول متصل یعنی کلمۃ اللہ عیسیٰؑ) کے وجود میں یقین رکھتے تھے۔ دور آخر کے ایرانی صوفیا نے کلمۃ اللہ کو مزید وسعت دی تھی۔ علامہ اقبال معتزلی نظریہ خدا کے ضمن میں اپنی ذاتی رائے کا ان الفاظ میں اظہار کرتے ہیں: بنابریں یہ بدیہی ہے کہ بعض عقل پرستوں نے غیر شعوری طور پر بعد کے دور کے مسئلہ ہمہ اوست کی بیرونی حد کو چھو لیا تھا۔ اس لحاظ سے انھوں نے اپنے اس تصور خدا اور اپنی مشترکہ سعی کی بدولت آئین مطلق کی سخت خارجیت کو باطنی بنانے کے لیے راہ ہموار کردی تھی۔ معتزلہ کے تصور وحدت و کثرت پر اظہار خیال کرنے کے بعد علامہ اقبال ان کے نظریہ کائنات کو بیان کرتے ہیں۔ مادہ اور جوہر کی بحث اہل فلسفہ کی بہت زیادہ دل چسپی کا سبب بنی ہوئی ہے۔ مفکرین کا ایک گروہ مادے کی ازلی حیثیت کا قائل ہو کر اس کی بے پایاں تقسیم پذیری کو اس کی بقا قرار دیتا ہے۔ بعض انتہا پسند تو روح کو بھی مادے کی لطیف شکل سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس اہل فکر و دانش کا دوسرا طبقہ مادے کو ازلی اور باقی خیال نہیں کرتا۔ بہرحال ہر ایک مکتب خیال اپنی اپنی رائے کے مطابق اس مشکل ترین مسئلے کو الفاظ و بیان کا جامہ پہنانے کی کوشش کرتا ہے۔ جہاں تک اعتزال پرست فلسفیوں کا تعلق ہے وہ مادے کی قدامت و بقا کے عَلم۔بردار ہیں۔ مابعدالطبیعیاتی افکار کے میدان میں عقلیت کے حامیوں کا سب سے بڑا کارنامہ ان کا نظریہ مادہ ہے۔ (Nazzam) نظام اور (Al-Jahiz) الجاحظ چونکہ مادہ کی تقسیم پذیری میں پختہ یقین رکھتے تھے اس لیے وہ کائنات میں صرف خدا کی مشیت کو کارفرما نہیں دیکھتے بلکہ وہ خدا کے بنائے ہوئے مخصوص قوانین کو بھی غیر متبدل انداز میں جاری و ساری تصور کرتے ہیں۔ مفکر اسلام علامہ اقبال معتزلی مفکرین خصوصاً نظام اور الجاحظ کے نظریات مادہ و کائنات کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں: عقل پرستوں کا سب سے عظیم کام ان کا وہ تصور مادہ ہے جسے ان کے مخالفین یعنی اشاعرہ نے کسی قدر تبدیل کردیا تاکہ اسے ان کے مخصوص نظریاتِ ذاتِ خدا کے مطابق بنایا جاسکے۔ نظام کی زیادہ تر دل چسپی یہ تھی کہ وہ فطرت کے منظم طریق سے ہر طرح کی بے اُصولی کو خارج کردے۔ اسی فطرت پرستی سے مجبور ہو کر الجاحظ نے مشیت ایزدی کی منفی انداز میں تعریف کی۔ اگرچہ عقل پرست مفکرین خدا کی ذاتی مشیت کے تصور کو خیرباد کہنے کے خواہش مند نہیں تھے تاہم انھوں نے مظاہر قدرت کی انفرادی آزادی کے لیے ٹھوس بنیاد کا سراغ لگانے کی کوشش کی۔ یہ بنیاد انھیں مادے کی ذات میں مل گئی تھی۔نظام نے اسی بنا پر مادے کی غیر محدود تقسیم پذیری کی تعلیم دے کر اصل اور حادثے کے فرق کو مٹا دیا۔ وجود کو ایک ایسی خاصیت قرار دیا گیا جسے خدا نے پہلے سے موجود مادی ذرات پرٹھونس دیا ہو۔ اس خاصیت کے بغیر ان ازلی مادی ذرات کا وجود ناقابل ادراک رہتا۔ معتزلی فلاسفہ اس بات کے بھی حامی تھے کہ اپنی قدیم حالت میں مادہ موجود تو تھا مگر وہ چند ظاہری صفات کے بغیر معرض تخلیق میں نہیں آسکتا تھا۔ اس لحاظ سے وہ مادے کے وجود کو قدیم سمجھتے تھے۔ اگر ان کی یہ بات تسلیم کرلی جائے تو پھر مادہ بھی خدا کی مانند ازلی بن جاتا ہے۔ یہ تصور مادہ ہی مادہ پرستی کے جنم کا سبب بنا ہے۔ یہ مادہ پرست فلسفی مادے کے ظاہری روپ کو اس کی اصل نہیں سمجھتے بلکہ وہ اسے اپنی موجودہ خارجی حالت سے پہلے بھی موجود قرار دیتے ہیں۔ (Ibn Hazm) ابنِ حزم نے ایک معتزلی شیخ محمد ابن عثمان کے تصور مادہ کو موضوع بحث بناتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مادے کو موجودہ ظاہری حالت سے پہلے بھی موجود اور مجسّم خیال کرکے اسے اپنی قدیم شکل میں غیر متحرک اور غیر مخلوق مانتا تھا۔ اس طرح وجود، ذائقہ، خوشبو اور رنگ کی ان صفات کا مجموعہ بن جاتا ہے جو بذات خود مادی امکانات کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔ علاوہ ازیں روح ایک قسم کا لطیف مادہ اور علمی طریقے محض ذہنی تحریکات ہو جاتے ہیں۔ اس مادی تصور کے مطابق تخلیق ظاہری حالت سے پہلے موجود امکانات کا خارجی ظہور (طُفرہ) قرار پاتی ہے۔ خارجی اور قابل ادراک اشیا کا مجموعہ جسے ہم کائنات کہتے ہیں وہ مادی نقطہ نگاہ سے کسی ادراک کے بغیر آزادانہ وجود کا حامل تصور ہوتا ہے۔ علامہ اقبال اس معتزلی تصور خدا پر اپنی رائے کا یوں اظہار کرتے ہیں۔ ان مابعدالطبیعیاتی نازک خیالیوں کا مقصد خالصتاً مذہبی ہے۔ عقل پرستوں کے نزدیک خدا ایک ایسی مطلق وحدت ہے جو کسی طرح کی کثرت کی قائل نہیں۔ اس طرح خدا محسوس کثرت یعنی کائنات کے بغیر موجود رہ سکتا ہے۔ خدا کی فعالیت صرف یہ ہے کہ وہ ذرۂ مادی کو محسوس شکل عطا کردیتا ہے۔ یہ مادہ پرست اور عقل کو معیار کل قرار دینے والے فلسفی اورمفکر مادی ذرات کی چند باطنی اور ذاتی صفات میں پختہ یقین رکھتے ہوئے خدا کی خلاقی صفت کو ان کی خارجی حالت کا سبب سمجھتے تھے۔ العطار بصری اور بشر ابن موتمر رنگ، طول، عرض، ذائقہ اور شامہ کو بذات خود اجسام کی سرگرمیاں تصور کرتے تھے۔ ان کی رائے میں خدا ان صفات کا خالق نہیں کیوں کہ وہ اجسام کی ذاتی خصوصیات ہیں۔ اس بارے میں وہ یہ مثال دیتے تھے کہ اگر ایک پتھر کواوپر پھینکا جائے تو وہ اپنی ذاتی پوشیدہ خصوصیت کے باعث خودبخود نیچے آجاتا ہے۔ اس نقطۂ نظر سے ذرہ مادی کے یہ خواص طبعی ہوتے ہیں۔ بشر ابن الموتمر نے اپنے عقیدے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے اجسام کی ایک اور خصوصیت ’’تولد‘‘ یعنی اجسام کے باہمی رد عمل کا بھی ذکر کیا ہے اس کی رائے میں خدا کواشیائے کائنات کی تعداد کا بھی کچھ علم نہیں۔ جب انسانی عقل وحی خداوندی کی جائز پابندیوں اور حدود شریعت سے بالکل آزاد ہو جائے توراہِ راست سے بھٹک کر ذہنی ژولیدگی اور فکری گمراہی کا باعث بن جاتی ہے بقول اقبال: ؎؎ گو فکرِ خداداد سے روشن ہے زمانہ آزادیِ افکار ہے ابلیس کی ایجاد مولانا روم بھی عقل پرستی کی یوں مذمت کرتے ہیں: ع زیر کی ز ابلیس و عشق از آدم است علامہ اقبال ان عقل پرست معتزلہ کے بارے میں اپنی حتمی رائے ظاہر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یہ امر بالکل ظاہر ہے کہ یہ عقل پرست مفکرین فلسفیانہ لحاظ سے مادہ پرست اور مذہبی طور پر دین فطرت کے معتقد تھے۔ مندرجہ بالا بحث سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ معتزلہ مفکرین کی رائے میں ذرہ مادی اور وجود آپس میں یکساں ہیں کیوں کہ یہ حضرات جوہر کو مکانیت کا حامل ہونے کے علاوہ خاص سمت، طاقت اور زندگی کو اس کی حقیقی ذات کے عناصر ترکیبی تصور کرتے ہیں۔ یہ اس کی شکل کو مربع نما کہتے ہیں کیوں کہ اگر اسے گول سمجھا جائے تو پھر مختلف مادی ذرات (جواہر) کی ترکیب ناممکن ہوجائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جوہریت کے شارحین جوہر کی نوعیت کے بارے میں کافی اختلاف رکھتے ہیں۔ ان میں سے بعض جواہر کو ایک جیسا خیال کرتے ہیں جب کہ دوسرا مکتب فکر ان کو یکساں اور مختلف بھی قرار دیتا ہے۔ علامہ اقبال اس ضمن میں ایک بلند پایہ معتزلی فلسفی ابو القاسم بلخی کے نظریہ جوہر و ماہیت کی تلخیص ان الفاظ میںبیان کرتے ہیں: ابوالقاسم بلخی ناقابل تقسیم مادی ذرات کو آپس میں یکساں اور غیر یکساں تصور کرتا ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ دو چیزیں آپس میں ملتی جلتی ہیں تو ہمارا لازماً یہ مفہوم نہیں ہوتا کہ وہ اپنی تمام خصوصیات میں یکساں ہیں۔ ابوالقاسم ذرہ مادی کی بقا کی وکالت کرتے ہوئے نظام (Nazzam) سے مزید اختلاف کرتا ہے۔ وہ یہ تو مانتا ہے کہ ایٹم کا وقت میں آغاز ہوا تھا مگر وہ اس کی مکمل نیستی کا قائل نہیں۔ ابوالقاسم کہتا ہے صفت بقا (مسلسل زندگی) اسے زندگی کے علاوہ کوئی نئی خوبی عطا نہیں کرتی اس لیے تسلسل حیات قطعاً اضافی صفت نہیں۔ خدائی سرگرمی نے ذرہ مادی اور اس کی مسلسل زندگی دونوں کو پیدا کیا ہے۔ ابو القاسم تاہم اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ بعض مادی ذرات کو شاید حیات مسلسل کے لیے تخلیق نہیں کیا گیا ہے۔ وہ مختلف ذرات کے درمیان حائل ہونے والے مکان کے وجود کا منکر ہے۔ وہ دوسرے معتزلی مفکرین کے برخلاف اس امر کا حامی ہے کہ جوہر یا ایٹم نیستی کی حالت میں جوہر نہیں رہ سکتا تھا۔ ابو القاسم بلخی عام معتزلہ کے اس عقیدے کو مبنی برتضاد خیال کرتا ہے کہ نیستی کی حالت میں ماہیت ماہیت رہ سکتی تھی حالانکہ ماہیت زندگی کی صفت کے سبب ظاہر ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کی ماہیت ہستی اور نیستی دونوں میں موجود تسلیم نہیں کی جاسکتی۔ اگر مادے کو ہست ہونے سے قبل نیستی کے عالم میں بھی موجود خیال کیا جائے تو یہ کھلا تضاد نہیں تو اور کیا ہے۔ علامہ اقبال کی رائے میں ابوالقاسم کا یہ نظریہ اشاعرہ کے تصور علم سے جا ملتا ہے جنھوںنے عقل پرستانہ نظریہ مادہ پر ضرب کاری لگائی ہے۔ علامہ اقبال کی وسیع النظری ملاحظہ ہو کہ وہ اپنے نظریہ جوہریت کے لیے آرتھربرام (Arthur Biram) کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مسلمان عقل پرستوں کی جوہریت کو بیان کرنے کے لیے میں نے آرتھر برام کی تصنیف کتاب المسائل فی الخلاف مبین البَصَرِین (اہل بصرہ اور اہل بغداد کے درمیان اختلافی مسائل کی کتاب) سے استفادہ کیا ہے۔ اس کے لیے میں اس کا ممنون ہوں۔ ۲-فکر کی عصری تحریکیں معتزلہ تحریک نے عقل پرستی کی بنیاد رکھ کر مسلمان حکما کے اندر آزادی خیال کا جذبہ بیدار کردیا تھا۔ اس آزادی فکر کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ بہت سے مسلمان مفکرین اپنے قدیم مذہبی اعتقادات کا عقلی جائزہ لینے لگے۔ اس طرح بہت سے نئے مذہبی اور فلسفیانہ رجحانات کو فروغ حاصل ہوا۔ اسلام میں فکری جمود کو توڑنے کے لیے معتزلیت نے نمایاں حصہ لیا تھا۔ معتزلہ تحریک کے سبب مندرجہ ذیل اہم فکری مکاتب معرض وجود میں آگئے تھے۔ اس عقل پرستانہ تحریک کی کوکھ سے جنم لینے والے درج ذیل مسالک کی اہم خصوصیات کاتذکرہ بے حد دل چسپ اور معلومات افزا ثابت ہوگا۔ (ا) تشکیک پرستی جب تمام مذہبی مسلمات اور مقبولِ عام عقائد کو منطق و فلسفہ کی ترازو میں تولنے کی کوشش کی جاتی ہے تو انسانی عقل ہمارے ان عقائد کو عموماً متزلزل کرکے ہمیں شک و شبہ میں مبتلا کردیتی ہے اسلام عقل و ایمان کا مجموعہ ہے۔ اس میں شہود کے علاوہ غیب پر بھی ایمان لانا پڑتا ہے۔ قرآن حکیم جابجا مناظر فطرت کے عمیق مطالعہ و مشاہدہ کی تلقین کرنے کے علاوہ بعض نادیدنی حقائق کو بھی تسلیم کرنے پر کافی زور دیتا ہے۔ غیب و شہود کا یہ امتزاج اسے انتہا پسندانہ مذاہب سے ممیّز کردیتا ہے۔ خارجی حقائق اور غیبی امور دونوں ہی ہمارے ایمان کے ضروری اجزا ہیں۔ ظاہری امور کے علاوہ اگر عقل کی دسترس سے باہر رہنے والے معاملات کو بھی عقل کا غلام بنانے کی سعی کی جائے تو اس کا نتیجہ عدمِ یقین اور قلبی اضطراب کی شکل میں رونما ہوگا۔ عقل اور دل کی یہ چپقلش کسی طرح بھی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے نکھار کا باعث نہیں ہوسکتی۔ اگر یہ دونوں اپنے اپنے حلقہ اثر میں کام کرتے رہیں تو ذہنی کشمکش پیدا نہیں ہوگی۔ علامہ اقبال شک پرستانہ مکتب خیال کے بارے میں اپنے خیالات ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں: عقل پرستی کے خاص منطقی طریق کا قدرتی نتیجہ شک آمیز رجحان تھا۔ اگرچہ ابن اشرص (Ashras) اور الجاحظ ظاہراً عقل پرستوں کے گروہ سے تعلق رکھتے تھے مگر حقیقتاً وہ تشکیک پرست تھے۔ الجاحظ کا فطرت پرستانہ موقف اپنے عصر کے ایک مہذب انسان کا نقطہ نظر تھا نہ کہ ایک پیشہ ور مذہبی عالم کا مطمحِ خیال۔ اس میں اپنے پیش روئوں کی مابعدالطبیعیاتی موشگافیوں کے خلاف رد عمل اور ایمانیات پر غور و فکر کرنے سے عاری ان پڑھ لوگوں کے لیے مذہبی علم کے دائرے کو وسیع کرنے کی آرزوئیں جلوہ گر ہیں۔ عقل پرستی اور شک پرستی کے درمیان پائی جانے والی یگانگت کو بڑے اجمالی طور پر بیان کرنے کے بعد علامہ اقبال معتزلہ تحریک کی دوسری پیداوار یعنی تصوف کے بارے میں اپنے خیالات کو ظاہر کرتے ہیں۔ (ب) تصوف اس باب میں علامہ اقبال تصوف کے مختلف پہلوئوں پر کوئی بحث نہیں کرتے کیوں کہ اس موضوع پر تفصیلی بحث انھوں نے اس کتاب کے پانچویں باب میں کی ہے۔ یہاں وہ صرف یہ کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ ذوالنون مصری نے تصوف کو حصول علم کا اعلیٰ سرچشمہ قرار دیا اور بعدازاں یہ اہل شریعت کی روش اور اشاعرہ کی عقل پرستی کامخالف بن گیا تھا۔ عقل پرست خدا کی معرفت کے لیے عقل استدلالی کے غلام بن کر فکر و خیال کی تاریک وادیوں میں سرگرداں ہوگئے لیکن اہل عشق عشق ذوفنون کی بدولت منزل جاناں تک جاپہنچے۔ تاریخ اسلام میں اہل تصوف اور ارباب شریعت کے علمی مناظرے اور نزاعی مباحثے خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ شریعت و طریقت کی غلط تفریق اب بھی نمایاں نظر آتی ہے۔ عقل کے زناری عقل کو حصول علم کا بہترین ذریعہ خیال کرتے ہیں ہیں اس کے برعکس عشق کے پرستار دل کو یہ مقام دیتے ہیں۔ علامہ اقبال یہاں تصوف کے اس پہلو پر یوں روشنی ڈالتے ہیں۔ تصوف علم کے ایک برتر منبع کی جانب توجہ کا نام ہے جسے سب سے پہلے ذوالنون نے باقاعدہ شکل دی تھی۔ تصوف اشاعرہ کی خشک عقلیت کے مقابلے میں علمائے شریعت کی روش کے خلاف آہستہ آہستہ زیادہ عمیق ہوتا گیا۔، تصوف کے اس مختصر تذکرے کے بعد برصغیر پاک و ہند کا یہ شہرہ آفاق مفکر اسلام اسماعیلی تحریک کے برگ و بار پر تفصیلی نگاہ ڈالتا ہے۔ (ج) سند و اختیار کا احیا اسماعیلی تحریک اسلامی تاریخ کا ایک قدیم اور اہم موضوع ہے۔ عام طور پر اسے شیعی مسلک کی شاخ تصور کیا جاتا ہے۔ اسماعیلی فرقہ کے پیروکار ہندوستان، پاکستان، ایران اور عرب ممالک کے علاوہ افریقہ اور دیگر علاقوںمیں بھی آباد ہیں۔ اسماعیلی عقائد و نظریات ارباب دانش و فکرکے مطالعہ و مشاہدہ کا دل چسپ موضوع رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے علامہ اقبال نے اس پر یہاں سیر حاصل تبصرہ کیا ہے۔ تشکیک پرستی اور عقل پرستی کی مانند اسماعیلیت اور عقلیت میں بھی گہرا باہمی ربط ہے۔ علامہ اقبال اس تحریک کے پس منظر اور فکری اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں: اسماعیلی تحریک خالصتاً ایک عجمی تحریک ہے جو فکر آزاد کی تردید کرنے کی بجائے اس کے ساتھ مفاہمت اختیار کرتی ہے۔ اگرچہ اس تحریک کا اپنے زمانے کے مذہبی مناظروں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تاہم آزادی افکار کے ساتھ اس کا بنیادی ربط ہے۔ اسماعیلی مبلغین اور تنظیم اخوان الصفا (پاکیزگی کے برادران) کے حامیوں کے طریقِ کار کی یکسانیت ان دونوں تحریکوں کے مابین ایک طرح کے خفیہ تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔ اس تحریک کے بانیوں کا مقصد کچھ بھی کیوں نہ ہو اس کے فلسفیانہ ظہور کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں یہ امریاد رکھنا چاہیے کہ تفکر خیز سرگرمی کا لازمی نتیجہ عموماً مذہبی اور فلسفیانہ نظریات کی کثرت ہوا کرتا ہے۔ عقل کی کارفرمائیوں کی بدولت لوگوں کے دل و دماغ میں آزادی فکر جنم لے کر گوناگوں مذہبی اور فکری مکاتب کے فروغ کا سبب ہو جاتی ہے۔ اسی قسم کی صورت حالات ایران میں بھی پیدا ہوگئی تھی۔ عقل کو اپنا خضر راہ اور دمساز بناکر مسلمان حکما بھی کئی فلسفیانہ اور مذہبی تحریکوں کے عَلم۔بردار بن گئے تھے۔ جب ایسے خطرناک حالات پیدا ہو جائیں تو اس کثرت نظریات کے خلاف شدید رد عمل کے طور پر بعض قوتیں رونما ہو جاتی ہیں۔ جو اس انتشار پرور کثرت کو روکنے کے لیے برسرپیکار ہوتی ہیں۔ جب ہم اٹھارہویں صدی کے فلسفہ یورپ کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم کو پتا چلتا ہے کہ فشٹے (Fichte) نے مادے کی نوعیت کے بارے میں شک آمیز تحقیقات کا آغاز کیا مگر اس کا انجام عقیدۂ ہمہ اوست کی صورت میں رونما ہوا۔ شامائر ماخر عقل کی بجائے ہمیں ایمان کا سہارا ڈھونڈنے کی تلقین کرتا ہے۔ جیکبی (Jacobi) ہمیں بتاتا ہے کہ عقل سے بڑھ کربھی ایک سرچشمۂ علم ہوتا ہے۔ ایک اور یورپی مفکر کامٹے ہر قسم کی مابعدالطبیعیاتی تحقیق کو ترک کرکے تمام علوم کو حسی ادراک تک محدود کردیتا ہے۔ اسی طرح ڈی میسٹر اور شلیگل مکمل طور پر معصوم (گناہ سے پاک) پوپ کے اختیار و سند میں پناہ لیتے ہیں۔ عقلی تحقیقات کافی حد تک شک و شبہ پر منحصر ہوتی ہیں کیوں کہ عقل اُصول اور ہر چیز کے بارے میں کیا، کیوں، کب اورکہاں وغیرہ الفاظ استعمال کرکے انسانی ذہن میں شکوک و شبہات پیدا کردیتی ہے۔ ایسا استدلالی طریقہ اطمینان قلب عطا کرنے کی بجائے دلی اضطراب اور فکری انتشار کو جنم دے کر ہمیں قوت عمل سے بے نیاز کرنے لگتا ہے۔ عمل سے بیگانہ ہو کر حیات انسانی کے مختلف شعبہ جات میں آثار انحطاط ظہور پذیر ہو جاتے ہیں۔ یہ چیز انجام کار فرد اور قوم کی رسوائی، غلامی اور کمزوری کا باعث بن جاتی ہے۔ علامہ اقبال ڈی میٹر کے تصورات اور اسماعیلیت میں اشتراک و اختلاف کے دو پہلوئوں کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’اُصول امامت کے حامی ڈی میٹر کی مانند یکساں انداز میں سوچتے ہیں مگر یہ بڑی عجیب بات ہے کہ اسماعیلی حضرات نے امامت کے تصور کو اپنے مسلک کی اساس بنانے کے باوجود ہر طرح کے خیالات کی کھلی چھٹی دے دی تھی۔‘‘ جس طرح عیسائیوں کا ایک فرقہ پیر کلیسا یعنی پوپ کے بارے میں یہ خیال رکھتا ہے کہ وہ کوئی گناہ نہیں کرتا اسی طرح مسلمانوں کا یہ فرقہ اپنے امام کی معصومیت کا قائل ہے۔ پیر کنشت کی عصمت اَور امام زمان کی معصومیت دونوں فرقوں میں مشترک بات ہے مگر بقول اقبال اسماعیلی بزرگوں نے امام کی تقلید کے ساتھ ساتھ فکر کو بھی آزاد کر دیا تھا۔ اس آزادیِ فکر کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام کی اصلی تعلیمات کو تبدیل کرنے کا عقلی مشغلہ بھی جاری رہا۔ بعض مورخین کی رائے میں ایران کے بہت سے ملحدانہ فرقے اسلام کی حقیقی اور سادہ تعلیمات میں عجمی افکار و نظریات کی آمیزش کے ذمہ دار ہیں۔ یہ عجمی افکار دراصل غیر اسلامی نظریات ہیں جنھوں نے حقیقت کو خرافات میں تبدیل کرکے اسلام کی قوت و آفاقیت کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ قرطبہ کے ایک فاضل مورخ ابن حزم (Ibn Hazm)نے اپنی کتاب کتاب الملل میں ایران کے زندیقی اور الحاد پرست فرقوں کے وجود کو عرب اقتدار کے خلاف مسلسل جنگ قرار دیا تھا۔ اس کے خیال میں مکار ایرانیوں نے عربوں کے سیاسی تفوق کو ختم کرنے کے لیے فرقہ پرستی کی شکل میں یہ پرامن فکری حربے استعمال کیے تھے تاکہ وہ اسلام کی اصل صورت کو مسخ کرکے مسلمانوں کو قوت عمل سے محروم کرتے جائیں۔ ایک مغربی مصنف وان کریمر (Van Kremer) نے اپنی تصنیف میں جابجا ابن حزم کی مندرجہ بالا کتاب کے اقتباسات دے کر اس عجمی سازش کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے۔ علامہ اقبال اس ضمن میں ان دونوں مورخوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کہتے ہیں: ابن حزم اپنی تصنیف کتاب الملل میں ایران کے الحاد پرست فرقوں کو عربوں کے اقتدار کے خلاف ایک لگاتار جدوجہد تصور کرتا ہے جس کی بنا پر پرفریب ایرانیوں نے پرامن ذرائع سے اسے متزلزل کرنے کی کوشش کی۔ اس نقطہ نگاہ سے اسماعیلی تحریک اسلام کے مذہبی اور سیاسی نصب العین کے خلاف آزاد خیال ایرانیوں کی مسلسل جنگ کا ایک پہلو دکھائی دیتی ہے۔ اسماعیلی فرقہ بنیادی طور پر (ہمیشہ حلول کرنے والی آفاقی عقل) خدا کا اوتار بن کر اپنے زمانے کی عقلی ترقی کے مطابق بتدریج اپنے ماننے والوں کو اسماعیلی تحریک کے مختلف پہلوئوں سے روشناس کراتا رہتا ہے۔ انسانی عقل وحی خداوندی کی راہ نمائی سے محروم ہو کر لاتعداد فکری صلاحیتوں اور عملی گمراہیوں کا باعث بن جایا کرتی ہے۔ عقل بڑی عیار اور زمانہ ساز ہوتی ہے۔ یہ اپنی مطلب برآری اور مقبولیت کے لیے کئی بھیس بنالیتی ہے۔ اس کے برعکس جذبہ خلوص و عشق جرأت و ہمت کا مظہر ہوتا ہے بقولِ شاعرِ مشرق: عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے عشق بیچارہ نہ زاہد ہے، نہ ملا، نہ حکیم [کلیات اقبال، ص ۳۵۲] اسماعیلی تحریک کے بارے میں اس سے بیشتر ابن حزم اور وان کریمر کا حوالہ دیا جاچکا ہے۔ ایک مغربی عالم میکڈونلڈ (Mcdonald) ان دونوں کے نظریات سے اتفاق کرتے ہوئے اسماعیلیت کو عربوں کے سیاسی غلبہ کے خلاف ایک سازش اور قاتلوں کی تنظیم قرار دیتا ہے۔ اس کی رائے میں یہ ایران کی ایک ہنگامی تحریک تھی جس کا اولین مقصد مذہب و تصوف کے پردے میں عربوں کو حکومت سے محروم کرکے خود سیاسی غلبہ حاصل کرنا تھا۔ علامہ اقبال کو میکڈونلڈ کی اس انتہا پسندانہ رائے سے اختلاف ہے۔ وہ اپنی متوازن رائے کا اظہار کرتے ہوئے اسے مقامی اور ہنگامی تحریک کی بجائے ایک دور رس اور آفاقی تنظیم تصور کرتے ہیں۔ اگر یہ تحریک مقامی ہوتی تو آج اس کے پیروکار ایران سے باہر بھی موجود نہ ہوتے۔ علاوہ ازیں اگر اسے ہنگامی تحریک خیال کیا جائے تو موجودہ دور میں اس کی وسعت و مقبولیت کا کیا جواز پیش کیا جائے گا؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہر دور کے معیارات خیر و شر یکساں نہیں ہوتے؟ عہد گزشتہ میں مذہب سے انحراف کرنے والوں اور اس کے دشمنوں کے قتل کو نہ صرف ناقابل اعتراض بلکہ جائز تصور کیا جاتا تھا مگر موجودہ دور میں اس کی وہ نوعیت نہیں رہی۔ کیا تاریخ عیسائیت میں ایسی مثالیں موجود نہیں جب کہ رومن کیتھولک کے مخالفوں کو بے دریغ ظلم و قتل کا نشانہ بنا دیا گیا تھا؟ کیا پاپائے روم نے سینٹ بار تھولومیو (Saint Bartholomew) کے قتل کو درست قرار نہیں دیا تھا؟ علامہ اقبال کبھی اپنے ہاتھ سے اعتدال کادامن نہیں چھوڑتے۔ وہ اس تحریک کے بارے میں لکھتے ہیں: اسماعیلی تحریک اصل میں شیعی مسلک کی ایک شاخ ہے جسے عبد اللہ ابن میمون نے عالم گیر حیثیت دے دی تھی۔ عبد اللہ ابن میمون مصر کے فاطمی خلفا کا غالباً مورث اعلیٰ اور پیش رو تھا جو اس وقت متوفی ہوا جب کہ آزادی فکر کا سب سے بڑا مخالف یعنی اشعری پیدا ہوا تھا۔ عبد اللہ ابن میمون بہت چالاک شخص تھا۔ اس نے بڑی چابکدستی سے مختلف مذاہب و افکار سے اپنے فکری نظام کو ترتیب دیا تھا تاکہ اسرار پسند ایرانی ذہن کو مسحور کیا جائے۔ اس معجون مرکب کو خوش ذائقہ بنانے کے لیے اس نے عیسائیت، مانی نظریات، فلسفہ یونان، عقلیت، تصوف اور الحاد پرست فرقوں سے مواد حاصل کیا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ اس کی تعلیمات میں خدا کے اوتار اور حلول کا عقیدہ بھی شامل ہوگیا۔ جب فکر کو ہر بند سے آزاد کیا جائے تو ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب یہ اپنے اساسی تصورات کے لیے خطرۂ عظیم بن جاتا ہے۔ اسماعیلیت میں آزادی فکر کے ساتھ ساتھ امام زمان کی حاکمیت کوبھی مضبوط بنیاد کی حیثیت سے اختیار کیا جاتا ہے۔ ایک طرف تو آزادی فکر کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور دوسری طرف ایک متضاد بات یعنی تقلید پرستی کو بھی روا خیال کرتے ہیں۔ فکر آزاد اور امامت کا نظریہ ایک بنیادی تضاد کی علامت ہے۔ علامہ اقبال اسماعیلی تحریک اور عبد اللہ ابن میمون کی فکری سرگرمیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: اس عجیب و غریب شخص نے ایک ایسا وسیع منصوبہ بنایا جس میں اس نے مختلف رنگوں کے بے شمار دھاگوں کو یکجا کرکے بڑی ہوشیاری سے لفظی ہیر پھیر کا فکری نظام متشکل کردیا۔ یہ فلسفیانہ نظام اپنی پراسرار نوعیت اور فیثاغورث (Pyhthagoras) کے مبہم فلسفے کی بنا پر ایرانیوں کے لیے باعث کشش بن گیا۔ اخوان الصفا تنظیم کی نقل کرتے ہوئے اس نے اُصول امامت (سند و اختیار) کے مقدس لبادے میں اپنے عہد کے تمام مقبول و غالب تصورات کو آپس میں ملانے کی کوشش کی تھی۔ فلسفہ یونان، عیسائیت، عقل پرستی، تصوف، مانی کے افکار اور ایرانی ملحدانہ خیالات اور عقیدۂ حلول نے اسماعیلیت کے بے باکانہ نظریات کو فروغ دینے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ’’امام‘‘ کے جن پہلوئوں سے علامہ موصوف کو اختلاف ہے وہ انھیں بلاجھجک بیان کردیتے ہیں لیکن جہاں اس کی کچھ خوبیاں نظر آتی ہیں وہ ان کا بھی بڑی فراخ دلی سے اعتراف کرتے ہیں۔ کسی کی مخالفت میں اندھا ہو کر اس کے اوصاف کو بیان نہ کرنا بھی بے انصافی اَور تنگ نظری کی دلیل ہے۔ علامہ اقبال آنکھیں بند کرکے مغربی حکما کی ہر تنقید کو قبول کرنے کے حق میں نہیں یہی وجہ ہے انھوں نے اسماعیلی تحریک کے بارے میں اپنے متوازن خیالات کو ظاہر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: اس تحریک کا اپنے دور کی سیاست سے تعلق بدقسمتی ہے۔ اس سیاسی تعلق کی بنا پر بہت سے علما اور فضلا کو غلط فہمیاں ہوگئی ہیں۔ میکڈونلڈ کی طرح وہ علما اسماعیلی تحریک کو ایران میں عربوں کے سیاسی اقتدار کے خاتمہ کے خلاف ایک طاقت ور سازش کے سوا کچھ بھی نہیں سمجھتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں بہت سے ذہن اور مخلص ترین مسلمان بھی شامل تھے۔ اس کے باوجود اس تحریک کے مخالفین نے اس کی مذمت کرکے اسے تاریک دل قاتلوں کا ایک ایسا ٹولہ کہا ہے جو ہمیشہ دوسروں کو قتل کرنے کے درپے رہتا تھا۔ اسماعیلی لوگوں کے کردار کا جائزہ لیتے وقت ہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ بے حد وحشیانہ مظالم اور مذہبی جنون کا نشانہ بننے کے بعد یہ لوگ ترکی بہ ترکی جواب دینے پر مجبور ہوئے تھے۔ تمام سامی النسل لوگ مذہبی مقاصد کے لیے قتل و غارت کو نہ صرف ناقابل اعتراض بلکہ شاید جائز تصور کرتے تھے۔ سولہویں صدی کے نصف آخر میں سینٹ بارتھولومیو کے خوفناک قتل عام کو روم کے پوپ نے بھی منظور کیاتھا۔ علامہ اقبال مزید کہتے ہیں کہ موجودہ دور میں مذہبی جوش کے تحت کیے جانے والے قتل کو جرم قرار دیا جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں گزشتہ نسلوں کے معیار حق و باطل کو جدید پیمانوں سے نہیں ناپنا چاہیے۔ ان کے خیال میں جس عظیم مذہبی تحریک نے ایک وسیع و عریض سلطنت کی بنیاد ہلاکر رکھ دی اور وہ ظلم و الزام کے مختلف مراحل سے کامیاب ہو کر نکلی وہ سیاسی سازش اور ہنگامی عارضی بنیاد پر ہرگز استوار نہیں ہوسکتی تھی۔ علاوہ ازیں وہ اس تحریک کو صدیوں تک سائنس اور فلسفہ کی حامی قرار دیتے ہوئے اس کے علمی کارناموں کا اعتراف کرتے ہیں۔ آج بھی ہندوستان، پاکستان، ایران، وسطی ایشیا، شام اور افریقہ میں اسماعیلیت کے اخلاقی نصب العین کے عَلم۔بردار بہت بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ وہ اس تحریک کے بطن سے جنم لینے والی ایک جدید تحریک، بابیت کے بارے میں کہتے ہیں: فلسفۂ ایران کا آخری اظہار یعنی بابی مسلک بنیادی طور پر اسماعیلی نوعیت کا حامل ہے۔ فرقہ اسماعیلیہ کے فلسفیانہ تصورات خصوصاً اس کا نظریۂ خدا اور عقیدۂ وحدت و کثرت یہاں بحث کے موضوعات بنتے ہیں۔ علامہ اقبال نے بڑے اجمالی انداز میں اس دقیق اور مشکل مسئلے کو چھیڑ کر اس کے تاریخی پس منظر کو بھی کسی قدر بیان کیا ہے۔ اسماعیلی نظریہ خدا کی رو سے خدا کی ذات اور اس کی گوناگوں صفات میں کوئی جدائی نہیں پائی جاتی۔ چونکہ خداتعالیٰ واحد ہے اس لیے اس کی ذات کو مختلف صفات میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ علاوہ ازیں خدا کی ذات ہمہ صفات سے تمام تضادات کا صدور ہوتا ہے اور بعدازاں تمام متضاد چیزیں اس کی ذات میں جاکر ختم ہوجاتی ہیں۔ اس کتاب کے شروع میں ایران کے ایک قدیم شہرہ آفاق فلسفی زرتشت کے تصور خیر و شر کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ وہ نور اور ظلمت کو نیکی اور بدی کا سرچشمہ خیال کرتے ہوئے اہرمن ویزدان کو ثنویت کا قائل تھا۔ وہ نیکی اور بدی کی طاقتوں کو الگ الگ سمجھتا تھا مگر اسماعیلی مفکرین توحید پرست ہونے کے لحاظ سے دو جداگانہ طاقتوں کو تسلیم نہیں کرسکتے تھے۔ وہ کائنات کی مختلف طاقتوں اور متضاد صفات کا مبدا و منتہا خدا کو خیال کرتے ہوئے زرتشت کی طرح ذہنی الجھن کا شکار نہیں ہوئے۔ علامہ اقبال اسماعیلی نظریہ خدا کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: انھوں نے اپنا تصور خدا بعد میں آنے والے عقل پرستوں سے اخذ کیا تھا۔ ان کی تعلیم یہ ہے کہ خدا (زندگی کا اولین اُصول) کوئی صفات نہیں رکھتا۔ خدا کی فطرت کوئی نسبت قبول نہیں کرتی۔ جب ہم اس کی ذات سے طاقت کو منسوب کرتے ہیں تو ہمارا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ خدا طاقت عطا کرنے والا ہے۔ اس طرح جب ہم اس سے بقا منسوب کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد قرآنی ’’امر‘‘ (کلام اللہ) ہے جو اس سے متصل ’’خلق‘‘ (خدا کی تخلیقی سرگرمی) سے ممیّز ہے۔ خدا کی ذات میں تمام تضادات تحلیل ہو جاتے ہیں اور اس سے تمام تضادات خارج ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ تو ذات واحد ہے پھر کائنات میں کثرت کیسے پیدا ہوگئی ہے؟ کیا اس کثرت کا خالق خدا کے سوا کوئی اور بھی ہے؟ اسماعیلی فلاسفہ اس سوال کا یہ جواب دیتے ہیں کہ وحدت سے صرف وحدت ہی پیدا ہوتی ہے۔ جسے ہم کثرت کہتے ہیں وہ دراصل وحدت ہی کا ظہو رہے۔ وحدت ازلی نے اپنے آپ کو کثرت میں تبدیل کرکے عقل اول (آفاقی عقل) اور بعدازاں آفاقی روح کو پیدا کیا تھا۔ اس روح کائنات نے اپنے آپ کو اپنے اصل منبع سے ہم آہنگ کرنے کے لیے حرکت اور قوت حرکت کے حامل جسم کی ضرورت کو محسوس کیا۔ اس وصال کے لیے روح نے اپنی ہدایت کے مطابق دوری حرکت کرنے والے آسمانوں کو تخلیق کیا۔ اس روح نے عناصر کو بھی پیدا کیا جنھوں نے مل کر ظاہری کائنات کی تشکیل کی۔ اسماعیلی مفکرین اس مادی اور نظر آنے والی کائنات کو جلوہ گاہِ کثرت خیال کرتے ہیں جس میں سے گزر کر روح اپنے اولین منبع کی جانب رجوع کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ انفرادی روح کو اس تمام کائنات کا خلاصہ تصور کرتے ہیں جو روح کی درجہ بدرجہ تعلیم کے لیے معرض وجود میں آئی ہے۔ آفاقی روح وقتاً فوقتاً اپنے آپ کو ’’امام‘‘ کی شخصیت میں ڈھال لیتی ہے۔ یہ امام روح کو اس کے تجربے اور ادراک کے تناسب سے منور کرتا ہے اور اسے بتدریج مظاہر کثرت سے گزار کر ابدی وحدت کی دنیا تک راہ نمائی کرتا ہے۔ جب آفاقی روح اپنی منزل یا اپنی عمیق ہستی کی طرف آتی ہے تو الگ تھلگ ہونے کا عمل جاری ہو جاتا ہے۔ کائنات کی تشکیل کرنے والے ذرات ایک دوسرے سے جدا ہوجاتے ہیں۔ نیکی کے ذرات حقیقت (خدا) یعنی مظہر وحدت کی طرف چلے جاتے ہیں اور بدی کے ذرات غیر حقیقت (شیطان) یعنی مظہر کثرت کی جانب واپس ہو جاتے ہیں۔ یہ ہے اسماعیلی فلسفے کا لب لباب۔ شہرستانی اسے فلسفیانہ اور مانی کے تصورات کا ملغوبہ قرار دیتا ہے جن کے ذریعے اسماعیلی پیروکاروں کو روحانی آزادی کے اس مقام پر لایا جاتا ہے جہاں پہنچ کر مذہب کے ظواہر ختم ہو جاتے ہیں اور قیود کا پابند مذہب مفید اور باضابطہ دروغ گوئی کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ علامہ اقبال اس بحث پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں: یہ اسماعیلی نظریہ اپنے دور کے فلسفہ اور کائنات کے بارے میں ایرانی تصور کو ملانے اور اسلام کو قرآن کی تمثیلی تفسیر کے ذریعے بیان کرنے کی پہلی کوشش ہے۔ اس تمثیلی طریق کار کو بعدازاں صوفیا نے اختیار کرلیا تھا۔ اس کی نگاہ میں زرتشتی اہرمن (شیطان) اشیائے بد کا بدخواہ خالق نہیں بلکہ یہ ایک اُصول ہے جو ازلی وحدت کو توڑ کر اسے نظر آنے والی کثرت میں تقسیم کردیتا ہے۔ یہ نظریہ کہ ہستی مطلق کی ذات میں کوئی اُصولی اختلاف ضرور فرض کرنا چاہیے تاکہ ظاہری کثرت کا جواز پیش کیا جائے، مزید تغیرات کا حامل بن گیا تھا۔ یہ نظریہ اس حد تک تبدیل ہوگیا کہ اسماعیلی مسلک کی ایک ذیلی شاخ حروفی فرقے نے چودھویں صدی عیسوی میں ایک طرف اس دور کے تصوف کو چھولیا اور دوسری طرف عیسائی تثلیث کو۔ حروفی فرقہ کے ماننے والوں کی رائے میں ’’کن‘‘ خدا کا ازلی اور غیر مخلوق لفظ ہے جو مزید تخلیق کا باعث بن کر ظاہری روپ دھار لیتا ہے۔ ان کا عقیدہ ہے اگر لفظ ’’کن‘‘ نہ ہوتا تو ذات الٰہی کا عرفان ناممکن ہو جاتا کیوں کہ خدا حواس و ادراک کی پہنچ سے باہر ہے۔ ’’اس لیے یہ لفظ مریم کے رحم میں آکر گوشت بنا، تاکہ آسمانی باپ کا ظہور ہوسکے۔ علامہ اقبال نے فرقہ حروفی کی مزید وضاحت کے لیے اہم کتاب جادوان کبیر کے چند مختصر اقتباسات کی روشنی میں اظہار خیال کیا ہے۔ حروفیوں کے خیال میں یہ ساری کائنات خدا کے لفظ ’’کن‘‘ کی جلوہ گری ہے اس لیے خدا اس میں نہاں ہے۔ وہ ہر ذرہ حیا ت کو بقائے دوام کا نغمہ خواں اور ہر آواز کو خدا میں پنہاں تصور کرتے ہیں۔ جو طالبان حقیقت اشیائے کائنات کی کنہ کو پانے کے خواہاں ہیں انھیں ’’اسم کے ذریعے مسمی‘‘ کو تلاش کرنا چاہیے کیوں کہ خدا کی ذات ظاہر بھی ہے اور باطن بھی۔ قرآن حکیم میں خدا تعالیٰ کے طریق تخلیق کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اِذَآ اَرَادَ اللّٰہ شَیْئاً اَنْ یَّقُوْلَ لَہُ کُنْ فَیَکُوْنُ۔ [یسٓ:۸۲]’’جب اللہ کسی چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اس سے کہتا ہے ہو جا پس وہ معرض وجود میں آجاتی ہے۔‘‘ بعض لوگ اس دنیا کو خدا تعالیٰ کے اسمائے حسنہ کا خارجی روپ خیال کرتے ہیں اس لیے وہ ان اسما کے ذریعے خدا کی معرفت کے قائل ہیں۔ اسماعیلی مسلک کی یہ شاخ (حروفی فرقہ) بھی اسی تصور کی حامی ہے۔ ۳- عقلیت کے خلاف رد عمل… اشاعرہ اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ زیادہ تر خلفائے عباسیہ نے تحریک عقلیت کو مسلم ممالک کے بیشتر علمی حلقوں میں پروان چڑھانے میں کافی مدد دی تھی۔ دور عباسیہ کے آغاز میں مختلف علوم و فنون اور فلسفہ یونان کے تراجم نے عقل پرستی کی کافی حوصلہ افزائی کی تھی۔ ہر کمانے را زوال کے مصداق نویں صدی عیسوی کے نصف اول میں ایک بلند پایہ مفکر ابوالحسن الاشعری (پیدایش ۸۷۳ سنہ) نے اس کے خلاف زبردست ردعمل کو جنم دیا۔ ابوالحسن الاشعری نے عقل پرست اساتذہ کے زیرِ نگرانی تعلیم حاصل کرکے ان کے منطقی ہتھیاروں سے کام لے کر ان پر ہی تنقیدی حملے شروع کردیے۔ عقل پرست فلاسفر نے اپنے افکار کی جس عمارت کو بڑی محنت سے فلک بوس بنایا تھا اس کو ابوالحسن الاشعری نے پیونہ زمین کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ معتزلیت کے ایک چھوٹے سے مکتبِ خیال کے نمایندے الجبائی بصری کے سامنے الاشعری نے زانوئے تلمذطے کیے تھے۔ بعدازاں الاشعری نے اپنے استاد سے کئی امور میں اختلاف رائے کرتے ہوئے علمی مباحثے کیے۔ جب ان علمی مباحثوں نے طول پکڑا تو ابوالحسن الاشعری اور الجبرئی کے دوستانہ تعلقات منقطع ہوگئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ الاشعری نے معتزلہ فلاسفہ کو خیرباد کَہ دیا۔ الاشعری کا دور دراصل مذہبی اور فکری طور پربے حد دل چسپ تھا۔ اس نے اپنے دور کے تمام مروجہ مذہبی اور فلسفیانہ رجحانات کا اثر قبول کرکے اپنے آپ کو ایک اہم مفکر بنا دیا تھا۔ وہ بچپن میں راسخ العقیدہ لیکن جوانی میںمعتزلی نظریات کا حامل تھا۔ علامہ اقبال الاشعری کے مقام رفیع پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں: معتزلہ کے افکار (مثلاً الجاحظ کے نظریات) میں مکمل طور پر آزاد ہونے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ بعض حالات میں تو وہ محض منفی خیالات کے جنم کا باعث بن گئے تھے۔ الاشعری کی جاری کردہ تحریک نہ صرف اسلام کو ان غیر اسلامی عناصر سے پاک کرنے کی ایک سعی تھی جو اسلام میں بڑی خاموشی سے داخل ہوئے تھے بلکہ یہ مذہبی شعور اور اسلام کے مذہبی خیالات کو بھی ہم آہنگ کرنے کی کوشش تھی۔ عقلیت (Rationalism) دراصل حقائق کو صرف عقلی پیمانوں سے ناپنے کی تحریک تھی۔ عقل پرستی نے مذہبی عقائد و حقائق کو فکر خالص کی اصطلاحات یعنی فلسفیانہ تصورات میں بیان کرنے کی کوشش کی تھی مگر اس نے زیادہ تر انسانی فطرت کے حقائق کو نظر انداز کردیا تھا۔ علاوہ ازیں اس فکر آزاد نے تنقید و شک پرستی کی فضا پیدا کرکے مذہب اسلام کے استحکام کو نقصان پہنچانا شروع کردیا اس لیے عقل پرستی کے خلاف شدید ردعمل پیدا ہوگیا۔ ابوالحسن الاشعری اس زبردست ردعمل کا محرک تھا۔ عقل پرست تو عقل کو مذہبی تنقید کے لیے استعمال کرتے تھے لیکن اشاعرہ عقل کے ذریعے مذہبی احکام اور اسلامی نظریات کی برتری کو ثابت کیاکرتے تھے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اشاعرہ کا رد عمل وحی و الہام کی صداقتوں کی برتری ثابت کرنے کے لیے فلسفہ و منطق کے طریق کار کی تبدیلی پر مبنی تھا۔ معتزلہ کی عقل پرستی اور اشاعرہ کی دین پرستی کے درمیان پائی جانے والی اس چپقلش کی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے علامہ اقبال صفات ایزدی اور جبر و قدر کے مسئلے پر اظہار خیال کرتے ہیں کہ عقل پرستوں کے برعکس اشاعرہ خدا کی صفات کے حامی تھے۔ جہاں تک نظریہ قدر کا تعلق ہے انھوں نے قدما کی انتہا پسندانہ تقدیر پرستی اور عقل کے پرستاروں کی انتہا پسندانہ آزادی کے مابین راستہ اختیار کیا۔ مشہور مفسر قرآن امام فخر الدین رازی نے اپنی تفسیر قرآن میں کھلم کھلا نظریہ جبر اختیار کرکے فلسفے پر زبردست تنقید کی ہے۔ وہ آزادی انتخاب اور اکتساب عمل کے حق میں نہیں تھے۔ طوسی اور قطب الدین نے امام فخر الدین رازی کے تصور جبر کی شدید مخالفت کی تھی۔ علامہ اقبال اشاعرہ کے نظریہ جبر و قدر پرستی پر روشنی ڈالتے ہوئے رقم طراز ہیں: اشاعرہ کی تعلیم یہ ہے کہ انتخاب کی طاقت اور تمام انسانی اعمال کا خالق خدا ہے۔ خدا تعالیٰ نے انسان کو مختلف طریقہ ہائے کار کو اختیار کرنے کی طاقت عطا کی ہے… الاشعری کے برخلاف منصور ماتریدی کی تعلیم یہ ہے کہ انسان کو اپنی سرگرمی پر مکمل اختیار ہے اور اس کا یہ اختیار اس کے اعمال کی نوعیت کو متاثر کرتا ہے۔ منصور ماتریدی سمرقند کے نواح میں ایک علاقہ ماترید کا باشندہ تھا۔ اس نے عقل پرستوں کے خلاف ایک مذہبی مکتبِ فکر کی بنیاد ڈالی تھی جسے ماتریدیہ کہا جاتا ہے۔ منصور ماتریدی تھا تو عقل پرستوں کا مخالف مگر مسئلہ جبر و قدر میں وہ ان کا ہم نوا تھا۔ بعض حضرات اس بات کے حامی ہیں کہ انسان بالکل مجبور اور بے بس ہے اس لیے وہ کوئی کام بھی خدا کی مرضی اور علم کے بغیر نہیں کرسکتا۔ یہ حضرات عموماً قرآن حکیم کی یہ آیت پیش کیا کرتے ہیں: ان اللّٰہ علی کل شیٔ قدیر۔’’بے شک اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز پر قادر ہے۔‘‘ ان کا استدلال یہ ہے کہ جب خدا ہر چیز کی قدرت رکھتا ہے تو ہمیں اختیار کہاں سے ملا۔ ان کے برعکس فلاسفہ کا دوسرا گروہ اس امر کی وکالت کرتا ہے کہ خدا نے انسان کو کلی اختیارات دیے ہیں۔ وہ جو چاہے کرسکتا ہے۔ مفکرین کا تیسرا طبقہ اعتدال کی راہ پر چلتے ہوئے انسان کو مجبور اور مختار تسلیم کرتا ہے۔ بہرحال معتزلہ انسانی اختیار کے قائل تھے اور اشاعرہ جبر و قدر دونوں کے حامی تھے۔ معرکہ عقل و دین اور مناظرہ جبر و قدر سے قطع نظر کرکے مفکر اسلام علامہ اقبال اشاعرہ کے نظام فکر کے ایک اور اہم پہلو کو موضوع بحث بناتے ہیں۔اس موضوع کا تعلق اشاعرہ کے تصور علم سے ہے۔ اگرچہ اشاعرہ کا نصب العین خالصتاً مذہبی نوعیت کا تھا تاہم حقیقت مطلقہ کا حوالہ دیے بغیر ان کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ عقل و الہام کو آپس میں ہم آہنگ کرسکیں۔ اس لیے باقلانی نے اس بارے میں چند مابعدالطبیعی مفروضات کو اپنی مذہبی تحقیقات میں بیان کرکے اشعری مکتب فکر کے لیے مابعدالطبیعیاتی بنیاد مہیا کی ہے۔ اپنے ہم عصر فلاسفہ اور مفکرین کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کے لیے بھی لازمی تھا کہ وہ چار و ناچار فلسفہ طرازی سے کام لے کر اپنا مخصوص نظریہ علم وضع کریں۔ اشاعرہ کے تصور علم کو بیان کرنے سے بیشتر ان کے چند مذہبی عقائد اور مابعدالطبیعی مفروضات پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالنا بے محل نہ ہوگا۔ باقلانی نے درج ذیل مابعدالطبیعی مفروضات بیان کیے ہیں: (الف) جوہر ایک منفرد وحدت ہے۔ (ب) خاصیت، خاصیت میں موجود نہیں ہوسکتی۔ (ج) مکمل خلا ممکن ہے۔ اشاعرہ نے اس راسخ عقائد کا دفاع کیا تھا: (i) قرآن غیر مخلوق ہے۔ (ii) خدا کا دیدار یہاں ممکن ہے۔ اشاعرہ کے تصور علم کا ان کے تصور خدا کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اشاعرہ کی رائے میں خدا تعالیٰ وہ آخری لازمی وجود ہے جس کی ’’صفات اس کی ذات میں پنہاں ہیں‘‘ اور جس کا وجود اور ماہیت یکساں ہیں۔ اشاعرہ خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے مندرجہ ذیل دلائل کا سہارا لیتے ہیں: ۱- اپنے وجود کے ظاہری لحاظ سے تمام اجسام ایک ہیں مگر اس وحدت کے باوجود ان کی صفات ایک دوسرے سے مختلف بلکہ متضاد ہیں۔ اس اختلاف کی لازمی طور پر کوئی علت غائی ہونی چاہیے۔ ۲- ہر منحصر ہستی کو اپنے وجود کے لیے کسی علت کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ اس کائنات کا وجود ذاتی نہیں ہے اس لیے اس کے وجود کی بھی کوئی علت لازمی ہے۔ یہ علت خدا ہے۔ وہ کائنات کے وجود کو خدا کا عطا کردہ عطیہ قرار دیتے ہوئے جوہر اور خاصیت کے باہمی ربط کی اہمیت کے قائل ہیں۔ ان کے خیال میں جوہر کے بغیر خاصیت اور خاصیت کے بغیر جوہر کا وجود ممکن نہیں ہے۔ خاصیت کو وہ محض ایک حادثہ سمجھتے ہیں۔ مولانا شبلی نعمانی نے اپنی بلندپایہ تصنیف علم الکلام اور پروفیسر میکڈونلڈ نے اپنی کتاب الٰہیات اسلامیہ (Muslim Theology) میںاشاعرہ کے ان تصورات پر سیر حاصل تبصرہ کیا ہے انھوں نے جوہر یا ایٹم کے خارجی وجود کو بڑے مبہم انداز میں بیان کیا ہے اور خدائی تخلیق کے تصور کی حمایت کرتے ہوئے کائنات کو معروضیت کا ایک منظم تماشا بنا دیا ہے۔ ان کی مقدس خواہش یہ تھی کہ وہ کائنات کی پیدایش کو مشیت ایزدی کا معجزہ قرار دیں۔ علامہ اقبال کے قول کے مطابق انسانی علم کا جائزہ لیتے ہوئے جرمنی کے شہرہ آفاقی فلسفی کانٹ نے علم کو طریق کار کی بجائے پیداوار تو قرار دیا مگر وہ اس خیال (Dingan Sich) پر آکر رک گیا۔ اس کے برعکس اشاعرہ نے زیادہ گہرائی میں جاکر یہ تصور دیا کہ اشیا میں چھپی ہوئی ماہیت کا وجود جاننے والے کے تعلق پر منحصر ہے۔ وہ اشاعرہ لوزے (Lotze) اور برکلے (Berkeley) کے نظریات پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں: اشاعرہ کا نظریۂ جواہر (جواہریت) (Atomism) لوزے کے تصور تک جاپہنچتا ہے۔ خارجی حقیقت کو بچانے کی خواہش کے باوجود لَوزے نے کائنات کو مکمل طور پر تصوریت بنا کر رکھ دیا۔ لوزے کی طرح اشاعرہ اپنے جواہر کو لامحدود ہستی قدیم کا باطنی فعل نہ مان سکے کیوں کہ خالص واحدانیت میں ان کی دل چسپی بہت محکم تھی۔ مادے کے تجزیے کا لازمی نتیجہ برکلے کی طرح ان کی کلی عینیت ہے۔ شاید ان کی فطرتی حقیقت پرستی اور ان کی جوہری روایت کے زور کا امتزاج ان کو لفظ ’’جوہر‘‘ (ایٹم) استعمال کرنے پر مجبور کرتا ہے جس کی وساطت سے وہ اپنی تصوریت کو حقیقت پسندانہ رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اشاعرہ دراصل بہت زیادہ مذہب پرست تھے۔ بنابریں انھوں نے خالص فلسفیانہ خیالات کو ہدف تنقید بناکر اپنا مخصوص فلسفہ اور مابعدالطبیعیاتی نظام وضع کیا تھا۔ اشاعرہ کے نظریہ علم کی اس مختصر سی بحث کو ختم کرنے سے پہلے علامہ اقبال نے لوزے کے تصور جوہریت پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے جوہر پرست تو مانا ہے لیکن وہ اس کی جوہریت کو مادی نہیں کہتے۔ تمام حسّی خصوصیت کی طرح جواہر باہمی عمل کے ذریعے وسعت پذیر ہوتے ہیں۔ اس طرح لَوزے جواہر کو غیر محدود ہستی قدیم کا باطنی فعل سمجھتا تھا۔ علامہ اقبال اشاعرہ کے تصورات علم و خدا کو بیان کرنے کے بعد ان کے نظریہ معجزات پر بھی اظہار خیال کرتے ہیں۔ ان کی اس رائے کا خلاصہ یہ ہے کہ اشاعرہ کے مابعدالطبیعی افکار کا زیادہ اہم اور زیادہ معنی خیز پہلو ان کا قانون علت و معلول کے بارے میں رویہ ہے۔ عقل پرستوں کے علی الرغم انھوں نے بصریات کے تمام اُصولوں کو رد کردیا تھا تاکہ وہ یہ ثابت کرسکیں کہ خدا کی وسعت ناپذیری کے باوجود اس کا دیدار کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح معجزات کے امکان کی مدافعت کرتے ہوئے انھوں نے مکمل طور پر علت و معلول کے نظریے کے تصور کی تردید کردی تھی۔ تقلید پرست مسلمان معجزات میں بھی یقین رکھتے تھے اور علت و معلول کے عالم گیر قانون میں بھی۔ ان کٹر مسلمانوں کی رائے یہ تھی کہ ظہور معجزہ کے وقت خدا اس قانون کے اثر و نفوذ کو معطل کردیا کرتاتھا۔ اشاعرہ کو ان راسخ العقیدہ مسلمانوں کی اس رائے سے اتفاق نہیں تھا۔ وہ کہتے تھے کہ علت و معلول کو ہمیشہ ایک جیسا ہونا چاہیے۔ ان کی تعلیم یہ تھی کہ اگر خدا کو قانون علت و معلول کا سختی سے پابند تصور کیا جائے تو پھر معجزات ممکن نہیں ہوسکتے۔ اس طرح توخدا کی طاقت کا نظریہ بے معنی بن جاتا ہے کیوں کہ مظاہر فطرت کا نظام خدا کے لگے بندھے اُصولوں کا پابند ہو جاتا ہے۔ اگرچہ عام مسلمان اب بھی معجزات میں پختہ ایمان رکھتے ہیں تاہم ایک گروہ ان کا منکر ہے۔ یہ گروہِ مسلمین عقل پرستوں اور فطرت پرستوں پر مشتمل ہے۔ اس تصور حیات کے حامی کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اس کائنات کو چلانے کے لیے کچھ خاص عالم گیر قوانین بنائے ہیں جو ہر دور اور ہر ملک میں ہمیشہ یکساں نتائج پیدا کیا کرتے ہیں۔ وہ قرآن کی متعدد آیات اپنے نقطہ نگاہ کی تائید میں پیش کرتے ہیں۔ ایک قرآنی آیت ملاحظہ ہو۔ لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ[الروم: ۳۰]۔ ’’خدا کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں‘‘۔ اگر ان کی یہ دلیل تسلیم کرلی جائے تو پھر قرآن میں بیان کردہ چند معجزات کا جواز کیا ہوگا؟ حضرت آدم کا طریق پیدایش، حضرت ابراہیم کے لیے آگ کا ٹھنڈا ہو جانا، حضرت موسیٰؑ کے یدبیضا، عصا کا سانپ بن جانا اور حضرت عیسیٰؑ کی پیدایش اور ان کے چند معجزات اور رسول کریمؐ کا واقعہ معراج وغیرہ قانون علت و معلول کے پابند نظر نہیں آتے۔ اشعری مابعدالطبیعیات کا تذکرہ کرتے ہوئے علامہ اقبال عالم اسلام کی ایک ممتاز ترین علمی شخصیت امام غزالی کو نظر انداز نہیں کرتے۔ وہ امام غزالی کی بلند و بالا ہستی کے نمایاں کارناموں کا مختصر تعارف کراتے ہوئے انھیں بہت زیادہ خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ انھوں نے نثر کے علاوہ اپنی شاعری میں بھی ان کا جابجا ذکر کرکے ان کی فکری عظمت اور اسلامی خدمت کو سراہا ہے۔ وہ انھیں چند ممتاز مسلمان حکما مثلاً ’’شہرستانی، رازی اور اشراقی کا پیش رو سمجھتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ فرماتے ہیں: اگرچہ بہت سے تقلید پسند مذہبی علما نے الغزالی (متوفی ۱۱۱۱ئ) کوغلط سمجھا ہے تاہم انھیں ہمیشہ اسلام کی عظیم ترین شخصیات میں شمار کیا جائے گا۔ زبردست ذہنی استعداد رکھنے والا یہ تشکیک پرست اپنے فلسفیانہ طریق کار کی بدولت ڈیکارٹ کا پیش رو بنا اور ’’ہیوم سے سات سو سال بیشتر اس نے اپنی منطق کی دھار سے علت و معلول کے بندھن کو کاٹ کر رکھ دیا تھا۔‘‘ وہ پہلا شخص تھا جس نے فلسفہ کا باقاعدہ ابطال کرکے کٹر مسلمانوں کے لیے عقل پرستی کے ہوا کا خاتمہ کردیا۔ یہ صرف اس کا اثر تھا کہ لوگوں نے مذہبی عقائد اور مابعدالطبیعیات کا ایک ساتھ مطالعہ شروع کردیا۔ آخرکار اس کے نظام تعلیم نے شہرستانی، الرازی اور الاشراقی جیسے انسان پیدا کیے۔ ایک مغربی مصنف لیوس (Lewes) نے اپنی کتاب تاریخ فلسفہ میں عالم اسلام کی اس نابغہ اور مایہ ناز شخصیت یعنی امام غزالی کو خراج عقیدت پیش کرتے اور اعتراف حقیقت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر غزالی کی کتاب احیائے علوم الدین اور ڈیکارٹ کی ایک تصنیف کو سامنے رکھا جائے تو دونوں میں حیرت انگیز مطابقت نظر آتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر امام غزالی کی کتاب کا ڈیکارٹ کے زمانے میں انگریزی ترجمہ کیا جاتا تو پھر ہر شخص ڈیکارٹ پر عملی سرقہ کا فتویٰ صادر کردیتا۔ امام غزالی کے فکری طریق کار سے متعلق علامہ اقبال نے ان کی کتاب المتقذ سے ایک اقتباس دیا ہے جس کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ امام غزالی مخصوص موضوعات و مسائل سے متعلق کس طرح اپنی رائے قائم کیا کرتے تھے۔ انھوں نے بچپن ہی سے موروثی عقائد، آبائی نظریات، مقبول عام مذہبی تصورات اور معاشرتی اقدار کا تنقیدی جائزہ لیناشروع کردیا تھا تاکہ وہ بذات خود ان کی اصلیت سے عقلی طور پر آگاہ ہوسکیں۔ عوام الناس تو دید کی بجائے شنید پر عمل کیا کرتے ہیں لیکن طالبان حقیقت سنی سنائی باتوں اور مسلمہ نظریات و عقائد کے قائل نہیں ہوتے۔ وہ علم، غور و فکر اور مطالعہ و مشاہدہ کی بنا پر اپنی رائے قائم کرتے ہیں۔ امام غزالی کی داستان فکر خود ان کے الفاظ میں یہ ہے : بچپن سے میں اس بات پر مائل تھا کہ چیزوں کے بارے میں، میں خود غور و فکر کروں۔ اس غور و فکر کے طریق کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ میں نے سند و اختیار کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا اور عہد طفولیت سے میرے دماغ میں جو عقائد راسخ ہوگئے تھے اب وہ تمام میرے لیے بنیادی طور پر بے اہمیت ہوگئے۔ میں نے یہ خیال کیا کہ سند و اختیار پر مبنی ایسے اعتقادات تو یکساں طور پر یہودیوں، عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں میں بھی موجود ہیں۔ میری رائے یہ ہے کہ حقیقی علم سے تمام شکوک و شبہات کا استیصال ہو جانا چاہیے۔ مثال کے طور پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دس کا ہندسہ تین سے بڑا ہوتا ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص چھڑی کو سانپ کی شکل میں بدلنے کی طاقت کا حامل ہونے کی بنا پر تین کے ہندسے کو دس سے بڑا ظاہر کرنے کی کوشش کرے تو اسے یقین کا درجہ حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ اس کا یہ طریق عمل حیرت انگیز دکھائی دے گا۔ اس اقتباس سے امام غزالی کی فکری عظمت اور تحقیق پسندی کا پتا چلتا ہے۔ وہ طلسم، شعبدہ بازی اور کرامات کو حیرت انگیز تو قرار دیتے ہیں مگر وہ انھیں بطور سند تسلیم کرنے کے حق میں نہیں کیوں کہ اس طرح قانون قدرت کی خلاف ورزی ظاہر ہوتی ہے۔ وہ اس دنیا کو عالم اسباب سمجھتے ہوئے اسے خدا کے مقرر کردہ قوانین کے مطابق رواں دواں کہتے ہیں۔ جو یقین ذاتی مشاہدے سے حاصل ہوتا ہے وہ سنی سنائی باتوں اور طلسم و کرامت سے نہیں مل سکتا۔ بہرحال علامہ اقبال کی رائے میں بعدازاں امام غزالی نے تمام طالبان صداقت اور جویان حقیقت کے دعویٰ کی جانچ پڑتال کے بعد تصوف کی دنیا میں یقین کی دولت پائی۔ وہ امام غزالی کی زندگی کے ابتدائی دور کی ناقدانہ عادت اور ان کے آخری دور حیات کی تصوف پسندی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: بعدازاں امام غزالی نے ’’علم الیقین‘‘ کے مختلف دعویداروں کی آرا کا بغور جائزہ لیا اور انجام کار یقین کو تصوف میں پالیا۔ روح کی حقیقت کا مسئلہ مسلم منکرین کی بھی علمی موشگافیوں کا باعث بنارہا ہے۔ آج تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوا کہ روح کیا ہے اور اس کا خدا تعالیٰ کی ذات کے ساتھ تعلق کیا ہے۔ قرآنِ حکیم نے روح کے بارے میں سوالات کرنے والوں کو صرف یہ جواب دے کر خاموش کردیا ہے کہ یہ ’’امر ربی‘‘ ہے۔ احادیث میں بھی اس کی کنہ معلوم کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی کیوں کہ اس کی اصلیت انسانی فہم و ادراک سے ماورا ہے۔ علامہ اقبال امام غزالی اور اشاعرہ کے تصورات روح پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ اشاعرہ سخت قسم کے توحید پرست ہو کر جوہرکی نوعیت کے بارے میں میں جو نظریہ رکھتے تھے اس کے پیش نظر وہ انسانی روح کی نوعیت سے متعلق کوئی حتمی بحث نہ کرسکے۔ صرف امام غزالی نے بڑی سنجیدگی سے اس امر پر بحث کی تھی۔ اس کے باوجود ہم صحیح طور پر خدا کی نوعیت کے بارے میں اس کے تصور کو آسانی سے بیان نہیں کرسکتے۔ جرمنی کے دو مفکرین بورگر اور سولگر (Borger and Solger) کی مانند غزالی کے خیال میں صوفیانہ وحدۃ الوجود اور اشعری اُصول ذات آپس میں ہم آہنگ دکھائی دیتے ہیں۔ اس امتزاج کی رو سے یہ کہنا مشکل ہوگیا ہے کہ امام غزالی وحدۃ الوجودی تھے یا وہ لوزے (Lotze) کی طرح وحدۃ الوجودی تھے۔ مفکر اسلام علامہ اقبال غزالی کے نظریۂ روح کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: غزالی کی رائے میں انسانی روح اشیا کا ادراک کرتی ہے مگر ادراک کی یہ خاصیت تمام جسمانی صفات سے مکمل طور پر آزاد ہوکر صرف جوہر یا ماہیت میں موجود ہوسکتی ہے۔ انھوں نے اپنی تصنیف المدنون میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ رسول کریمؐ نے روح کی نوعیت کا انکشاف کرنے سے کیوں منع کردیا تھا۔ اس کتاب میں وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں دو قسم کے انسان ہوتے ہیں… معمولی انسان اور مفکرین۔ اول الذکر قسم کے انسان چونکہ مادہ کو لازمہ حیات سمجھتے ہیں اس لیے وہ کسی غیرمادی جوہر کا تصور ہی نہیں کرسکتے۔ موخر الذکر انسانوں کا منطقی تصور روح، خدا اور انفرادی روح کے درمیان پائے جانے والے تمام اختلافات کو ختم کردیتا ہے۔ الغزالی نے اپنی تحقیقات کے وحدۃ الوجودی رجحان کا احساس کرتے ہوئے روح کی آخری نوعیت کے بارے میں خاموش رہنے کو ترجیح دی ہے۔ امام غزالی کے اس نظریہ روح پر متحدہ ہندوستان کی ایک نامور علمی شخصیت سرسید احمد خاں نے اپنی ایک کتاب النظر فی بعض مسائل الامام ابو حامد الغزالی میں تنقید کی ہے۔ ایسے علمی مسائل میں اختلاف رائے کا ہونا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ ہر مفکر اپنے مخصوص تصور زندگی کے مطابق اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا عادی ہوتا ہے۔ جہاں تک عوام الناس کا تعلق ہے وہ تو بُزِ اَخفش کی مانند شنید پر عمل کیا کرتے ہیں۔ عارفین تو حقیقت کی دید کے خواہش مند ہوتے ہیں لیکن عام لوگ شنید کے راستے پر گامزن ہوتے ہیں۔ اگرچہ عام طور پر عالم اسلام کی اس جید شخصیت یعنی امام غزالی کو اشاعرہ کے مکتب فکر کا نمایندہ تصور کیا جاتا ہے لیکن علامہ اقبال انھیں کٹر اشعری نہیں سمجھتے۔ وہ اشاعرہ کے افکار و نظریات سے ہمدردی رکھنے کے باوجود ان کے اندھا دھند مقلد نہیں تھے۔ ان کی یہ روش شک و شبہ کا باعث بن گئی ہے۔ بعض مسلم حکما کو ان کے نظریات سے اس قدر سخت اختلاف تھا کہ وہ اُنہیں ’’گمراہ‘‘ قرار دینے کے علاوہ ان کی کتابوں کو نذر آتش کرنے کے بھی حق میں تھے۔ اس بارے میں علامہ اقبال کی یہ رائے لائق مطالعہ ہے۔ وہ کہتے ہیں: اگرچہ غزالی نے یہ تسلیم کیا تھا اشعری طریق فکر عوام الناس کے لیے بہت عمدہ ہے تاہم انھیں صحیح معنوں میں اشاعرہ کا متبع قرار نہیں دیا جاسکتا۔ شبلی نے کہا (علم الکلام صفحہ ۶۶) ’’مذہب کے راز کو منکشف نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس لیے غزالی نے اشعری الٰہیات کی توضیح و تشریح کی حوصلہ افزائی کی مگر ساتھ ہی اس نے یہ احتیاط کی کہ بعد میں آنے والے اپنے مقلدوں کو اس کے ذاتی افکار کے نتائج شائع کرنے سے منع کردیا۔اشعری الٰہیات کے بارے میں ایسے رویے اور فلسفیانہ زبان کے مستقل استعمال کے اختلاط نے شکوک و شبہات کو جنم دیا۔ ابن جوزی، قاضی عیاض اور دوسرے مشہور کٹر مذہبی علما نے علی الاعلان اسے گمراہ قرار دے کر ہدف ملامت بنایا۔ قاضی عیاض تو اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ اس نے اسپین میں غزالی کی موجود فلسفیانہ اور مذہبی تصانیف کو تباہ و برباد کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ اس بحث سے علامہ اقبال یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اس معرکہ عقل ودیں نے انتہا پسندی کی صورت اختیار کرلی تھی۔ عقل پرستوں نے اپنی عقلی بحثوں کی بدولت ذات خداوندی کے صحیح تصور کو دھندلا دیا اور ان کے مخالفین نے مذہب کی حمایت میں کائنات کی خارجی حقیقت کو نظر انداز کردیا تھا۔ ایک گروہ باطن کو چھوڑ کر خارج کا فریفتہ ہوگیا جب کہ دوسرا طبقہ ظاہر سے منہ موڑ کرباطنی دنیا میں چلا گیا۔ ایک گروہ خارجی فطرت کو بچانے کے جنون میں مذہب کے اصل نظریہ خدا سے دور ہوگیا مگر دوسرے گروہ مفکرین نے خدا کے تصور کو بچانے کے لیے فطرت کو قربان کردیا۔ اس کے بعد علامہ اقبال عقل پرستوں کے نظریہ جواہر کو آزادانہ اور معروضی سمجھتے ہیں لیکن وہ اشاعرہ کے تصور کو مشیت ایزدی کا لمحہ گریزاں تصور کرتے ہیں۔ علامہ اقبال اس دقیق بحث کے بارے میں اپنے نتائج فکری کو ان الفاظ کا جامہ پہناتے ہوئے رقم طراز ہیں: عقلیت کی منطق نے ذاتِ ایزدی کے تصّور کو ختم کرکے اسے محض ناقابلِ بیان آفاقیت میں بدل دیا تھا۔ عقل پرستی کی مخالف تحریک نے ذاتِ خداوندی کے نظریے کو تو محفوظ رکھا مگر اس نے فطرت کی خارجی اصلیت کو برباد کردیا۔ نظام (Nazzam) کے نظریہ ’’تجسیم جوہری‘‘ کے باوجود عقل پرستوں کی رائے میں جوہر ایک آزاد اور معروضی حقیقت کا حامل ہے جب کہ اشاعرہ کے خیال میں جوہر خدائی مشیت کا ایک لمحہ گزراں ہے۔ ان مسلم مفکرین کا ایک طبقہ مذہب کے بیان کردہ خدا کو چھوڑ کر فطرت کو بچاتا ہے لیکن ان کا دوسرا گروہ خدا کے مروجہ قدیم نظریے کو بچانے کی خاطر فطرت کو قربان کردیتا ہے۔ یہاں اس با ت کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا کہ ابن حزم (Ibn Hazm) نے نظام کے مندرجہ بالا تصور کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ فلاسفہ اور مفکرین کی ان بحثوں اور مناظروں سے دور رہ کر صوفیا نے باطن اور ظاہر دونوں کو روحانی رنگ عطا کرکے کائنات کو جلوہ خداوندی کا مظہر قرار دیا۔ امام غزالی کے حالات زندگی پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ وہ عرصہ دراز تک عقل وہ خرد کی وادیوں اور صحرائوں میں گھومنے کے بعد آخرکار تصوف کے گرویدہ بن گئے تھے۔ ان کی مضطرب روح اور بے چین عقل کو آخرکار تصوف کی دنیا میں سکون نصیب ہوا اس لیے وہ تصوف کو علم کا برتر سرچشمہ خیال کرنے لگے تھے۔ علامہ اقبال نے اپنی ایک اور بلندپایہ کتاب تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ (The Reconstruction of Religious Throught in Islam) میں امام غزالی اور جرمنی کے معروف فلسفی کانٹ سے موازنہ و مقابلہ کرتے ہوئے تصوف کو امام غزالی کی آخری پناہ گاہ قلب و نظر کہا ہے۔ کانٹ تو عقل و خرد کی محدودیت کا پردہ چاک کرنے کے بعد وہیں رک گیا لیکن غزالی کوچہ تصوف میں آکر تسکین قلب کی دولت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ عقل و خرد کی پرستش کا ایک لازمی نتیجہ شک پرستی ہے اس لیے جب تک امام غزالی عقل و دانش کی قیادت میں چلتے رہے وہ تشکیک پرست رہے۔ جوں ہی انھوں نے عقل پرستی کو چھوڑ کر تصوف کا راستہ اختیار کیا وہ اس ذہنی بیماری سے نجات پاگئے۔ امام غزالی کے اس روحانی سفر کا تذکرہ علامہ اقبال ہی کے ان قابل یادگار الفاظ میں پڑھیے۔ وہ فرماتے ہیں: الغزالی کی بے چین روح نے خشک عقلیت (Rationalism) کے سنسان ریگستان میں طویل اور مایوس کن صحرانوردیوں کے بعد انسانی جذبے کے پرسکون بحر میں اپنا آخری مقام پایا۔ بعدازاں اس کی شک پرستی کا رخ اسلامی الٰہیات کے اُصولوں کے دفاع کے علاوہ علم کے ایک عظیم ترمنبع کی ضرورت کو ثابت کرنے کی طرف مڑگیا۔ اس لیے تصوف اس دور کے تمام مخالف فکر ی رجحانات پر خاموش فتح حاصل کرلیتا ہے۔ غالباً علامہ اقبال کے اندر خود جب اسی قسم کی ذہنی پریشانی پیدا ہوئی تو وہ بے اختیار پکار اُٹھے: تو اے مولائے یثربؐ! آپ میری چارہ سازی کر مری دانش ہے افرنگی، مرا ایماں ہے زناری وہ اسلامی تصوف کی اہمیت و افادیت کے زبردست قائل تھے کیوں کہ ان کی رائے میں کائنات کی اساس مادی نہیں بلکہ روحانی ہے۔ انھوں نے اپنے خطبات میں بھی اسی طرح کے خیالات ظاہر کیے ہیں۔ علامہ اقبال نے تصوف کے ایک افادی پہلو کو یوں بیان کیا ہے۔ وہ امام غزالی کی تصوف پرستی کے ضمن میں اپنی اس کتاب ایران میں ارتقائے مابعدالطبیعیات (The Development of Metaphyics in Persia) میں کہتے ہیں: خدا مست صوفی جو اپنے عہد کے مذہبی مناظروں سے دور کھڑا ہوتا ہے وہ حیات کے دونوں پہلوئوں کو بچاتا ہے اور انھیں روحانی رنگ میں رنگ دیتا ہے۔ وہ تمام کائنات کو خدا تعالیٰ کی نمود ذات کا عکاس خیال کرتے ہوئے اپنے پیش روئوں کی مخالف حدود کو آپس میں ملا دیتا ہے۔ اس لحاظ سے تصوف ایک اعلیٰ نظریہ ہے۔ ایک صوفی کے قول کے مطابق لکڑی کی ٹانگیں رکھنے والی عقل پرستی کا آخری اظہار شک پرست غزالی میں نظر آتا ہے۔ علامہ اقبال نے یہاں جس صوفی کے قول کی طرف اشارہ کیا ہے۔ وہ مولانا رومی ہیں جنھوں نے عقل پرستوں کے بارے میں یہ بلند شعر کہا تھا: پائے استدلالیاں چوبیں بوَد پائے چوبیں سخت بے تمکیں بوَد ]استدلال سے کام لینے والوں کے پائوں چوبی ہوتے ہیں جو بے حد کمزور ثابت ہوتے ہیں۔[ امام غزالی کی جلیل القدر شخصیت نے فلسفہ اسلام کو نئی راہوں سے آشنا کرکے مسلمانوں کے دلوں میں عرفان کی شمع روشن کرنے کی ہر ممکن سعی کی تھی۔ انھوں نے اپنی ایک مختصر مگر بے حد اہم کتاب مشکوۃ الانوار میںنور کے گوناگوں پہلوئوں کو بڑے حکیمانہ انداز میں بیان کرکے فلسفہ اشراق میں کافی وسعت پیدا کی۔ قرآن حکیم نے خداتعالیٰ کو آسمانوں اور زمین کا نور قرار دیتے ہوئے اسے منبع حیات اور سرچشمۂ تخلیق کا رتبہ دیا ہے۔ اس نور ایزدی نے اپنی حقیقت کو کئی پردوں میں مستور رکھنے کے باوجود اشیائے کائنات کو اپنی تجلیات کا مظہر بنایا ہے۔ اگرچہ ایرانی افکار میں ظلمت و نور کا تذکرہ اس سے پہلے بھی تھا مگر عالم اسلام کی اس نابغہ شخصیت نے اسے اپنے مخصوص انداز میں بیان کرکے زیادہ دل چسپ اور مفصل بنا دیا ہے۔ علامہ اقبال ان کے اس فکری پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں: اپنے ملک کے فلسفہ کے میدان میں الغزالی کا مثبت حصہ اس کی چھوٹی سی کتاب مشکوۃ الانوار میں پایا جاتا ہے۔ جس کا آغاز وہ اس قرآنی آیت سے کرتا ہے: اللّٰہ نور السِّمٰوٰاتِ وَ الْارَضِ۔ ’’اور بعدازاں جبلی طور پر اس ایرانی تصور کی طرف واپس آجاتا ہے جس کا زبردست شارح الاشراقی بن گیا تھا۔ اس کتاب میں وہ یہ بتاتا ہے کہ نور ہی اصلی وجود ہے اور عدم سے بڑھ کوئی اور تاریکی بڑی نہیں ہوتی۔ اس کی نظر میں نور کا خاصہ ظہور ہے۔‘‘ اپنے اس نظریے کی حمایت میں امام غزالی ایک حدیث رسولؐ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ شروع شروع میںہر جگہ تاریکی ہی تاریکی تھی۔ خدا تعالیٰ نے اس ظلمت پر اپنا نور بکھیر کر کائنات کو تاریکی سے نکال کر پیدا فرمایا تھا۔ کائنات کے مختلف حصے بنائے اور جو حصہ ایزدی نور کے زیادہ قریب رہا وہ زیادہ منور ہوگیا اور جو حصہ اس کائنات نور اولین سے دور رہا اسے کو کم تابانی نصیب ہوئی۔ جس طرح جسموں میں تفاوت پایا جاتاہے اسی طرح انسانوں کے بھی مختلف مراتب ہیں۔ بعض انسان نور ایزدی سے بالکل دور رہتے ہیں اور بعض اس کے قریب۔ جو انسان جس قدر خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرے گا وہ اسی قدر ضوگیر بن جائے گا۔ یہ ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ جو چیز تاریکی میں رہے وہ روشنی سے محروم رہتی ہے اور جو چیز روشنی میں آجائے وہ تاریک نہیں رہتی۔ قرآن حکیم نے چونکہ خدا تعالیٰ کو آسمانوں اور زمین کا نور کہا ہے اس لیے اس نور کی قربت روشنی کا باعث ہوگی اور اس سے دوری تاریکی کا موجب بن جائے گی۔ علاوہ ازیں بعض خوش نصیب اور نیک لوگ اس نور ایزدی سے بدرجہ کمال فیض یاب ہو کر دوسرے انسانوں کو بھی منور کرنے لگتے ہیں۔ ان کا فیض نور دوسرے انسانوں کے دل و دماغ میں بھی اس روشنی کو عام کردیتا ہے۔ امام غزالی اس عارفانہ حقیقت کو ان الفاظ میں صراحت کرتے ہیں: جس طرح تاریک، مبہم، منور اور نور افشاں ہونے کی حیثیت سے اجسام ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اسی طرح انسان بھی ایک دوسرے سے ممیّز ہیں۔ کچھ انسان ایسے ہوتے ہیں جو دوسرے انسانوں کو روشنی عطا کرتے ہیں۔ اسی بنا پر قرآن میں رسول کریمؐ کو ’’سراجاًمنیرا‘‘ کہا گیا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ روشن چراغ سے کئی اور چراغ روشن کیے جاسکتے ہیں؟ کیا دوسروں کو روشن کرنے کے بعد اصل چراغ کی روشنی کم ہوجاتی ہے؟ ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب نفی میں دیا جائے گا۔ رسولِ کریمؐ کو قرآنِ مجید نے ’’روشن چراغ‘‘ کہا ہے۔ ان کے وجود مسعود کی روشنی نے کروڑوں انسانوں کو نور ایمان عطا کردیا ہے۔ ان کا یہ فیضان ابد الاباد تک قائم و دائم رہے گا کیوں کہ وہ رحمۃ اللعالمین ہیں۔ ان کی رحمت کی روشنی صرف انسانوں کی دنیا تک ہی محدود نہیں ہے۔ سعدی شیرازی نے کیا خوب کہا ہے: بلغ العلی بکما لہ کشف الدجی بجمالِہٖ حسنت جمیع خصالہٖ صلوا علیہ وآلہٖ مشکوۃ الانوار میں امام غزالی نے دیدہ ظاہر اوردیدہ باطن کے موضوع پر بھی بڑی فکر انگیز بحث کی ہے۔ جس طرح خارجی اور مادی حقائق کو دیکھنے کے لیے ظاہری آنکھ کی اشد ضرورت ہوتی ہے اسی طرح نادیدنی اور مابعدالطبیعی صداقتوں کو دیکھنے کے لیے باطنی آنکھ لازم ہوا کرتی ہے۔ ہماری ظاہری آنکھ صرف ان چیزوں کو دیکھ سکتی ہے۔ جو ہمیں محسوس ہوتی ہیں۔ نادیدنی حقائق تک اس کی رسائی ناممکن ہے۔ صوفیانہ فلسفہ و ادب میں دیدہ باطن یا چشم بصیرت کی اہمیت کے متعلق بہت کچھ کہا گیا ہے۔ یہ باطنی آنکھ مظاہر خارج کے حجابات کے پیچھے چھپی ہوئی حقیقتوں کو پالیتی ہے۔ قرآن حکیم نے چشم بصیرت سے کام نہ لینے والوں کو اندھا قرار دیا ہے حالانکہ وہ ظاہری آنکھ کے مالک ہوتے ہیں۔ امام غزالی نے اس باطنی آنکھ کی اہمیت کے متعلق جو کچھ کہا ہے علامہ اقبال اس کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: جسمانی آنکھ نور مطلق یا نور حقیقی کے صرف خارجی ظہور کو دیکھتی ہے۔ انسان کے دل میں ایک باطنی آنکھ ہے جو اشیا کو دیکھنے والی جسمانی آنکھ کے برعکس محدود چیزوں سے آگے بڑھ کر مظاہر کا پردہ چاک کردیتی ہے۔ غزالی کے یہ خیالات صرف بیج کا درجہ رکھتے ہیں جو بعدازاں نشو و نما پاکر الاشراقی کی حکمۃ الاشراق میں بارآور ہوتے تھے۔ الاشراقی نے اپنی ایک بلند پایہ تصنیف حکمۃ الاشراق میں امام غزالی کے اس نظریۂ نور کو بڑی جامعیت سے بیان کرکے فلسفۂ ایران کا ایک لازمی جزو بنا دیا تھا۔ اس باب کے آخر میں علامہ اقبال فلسفہ اشاعرہ کا لب لباب بیان کرتے ہوئے اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ اشعری مفکرین کے رد عمل کا ایک الٰہیاتی نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے اسلامی سالمیت کو پارہ پارہ کرنے والے فکر آزاد کا انسداد کردیا۔ اشاعرہ کے فلسفیانہ افکار کے دو ذہنی نتائج یہ تھے: ۱- فلسفہ اشاعرہ نے فلسفہ یونان کی آزادانہ تنقید کی راہ پیدا کردی۔ ۲- دسویں صدی کے آغاز میں اشاعرہ نے عقلیت کے قلعے کو مکمل طور پر مسمار کردیا تھا۔ اس دورمیں ایرانی ثبویت (Positivism) کے میلان کا سراغ ملتا ہے۔ اشعری مفکرین اور فلاسفہ کا یہ فکری کارنامہ قابل یادگار ہے کہ انھوںنے مسلمان فلاسفہ کو یونانی نظریات کی اندھا دھند تقلید سے آزاد کرانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس سے قبل مسلمان مفکرین فلسفہ یونان سے اس حد تک مرعوب ہوچکے تھے کہ وہ اسلامی تعلیمات اور قرآنی عقائد کوبھی یونانی افکار کی کسوٹی پر پرکھتے تھے۔ انھوں نے قرآن کو معیار حق و باطل بنانے کی بجائے فلسفہ یونان کو میزان خیروشر بنالیا تھا۔ جہاں تک ایرانی فلسفہ اثبات یا ثبوتیت کا تعلق ہے اس میں صرف ان اشیاکو حقیقی سمجھا جاتا ہے جو قابلِ مشاہدہ ہوں۔ دوسرے لفظوں میں قابلِ تجربہ اور لائقِ مشاہدہ اشیا کے وجود کو درست تسلیم کیا جاتا ہے۔ البیرونی (متوفی ۱۰۴۸ئ) اور ابن ہثیم (متوفی ۱۰۳۸ئ) نے عالم محسوسات سے ماوریٰ اشیا اور امور کی کنہ دریافت کرنے کا رویہ ترک کرکے مذہبی معاملات کے بارے میں خاموشی اختیار کرلی تھی۔ انھوں نے صرف ان چیزوں کو اپنی تحقیقات کا محور بنایا جن کا عالم محسوسات سے تعلق تھا۔ اس لحاظ سے انھیں جدید تجرباتی نفسیات کا پیش رو کہا جاسکتا ہے۔ بور (Boer) نے اپنی کتاب فلسفہ اسلام (Philosophy in Islam) میں البیرونی اور ابن ہیثم کے اثباتی نظریات پر روشنی ڈالی ہے۔ چونکہ یہ دونوں مفکر حسّی حرکات کے وجود ہی کو ثبوتِ زندگی قرار دیتے تھے اس لیے وہ محسوسات کے وجود اور سورج کی روشنی کے درمیان گہرے ربط کے قائل تھے۔ وہی چیز محسوس ہوگی جو روشنی میں ہو۔جو چیز ظلمت کے پردوں میں مستور ہے اسے کیسے محسوس کیا جاسکتا ہے؟ اس استدلال کے سہارے وہ نور اور محسوسات کے درمیان گہرے تعلق میں پختہ یقین رکھتے تھے۔ /…//…/ باب چہارم تصوریت اور حقیقت پرستی کی بحث اس باب کے بنیادی نکات درج ذیل ہیں: ۱- اشیائے کائنات کی اصلی ماہیت اور وجود کے بارے میں دو مشہور مکاتب فکر ہیں: تصوریت یا عینیت (Idealism) کے عَلم۔بردار اور حقیقت پرستی (Realism) کے حامی۔ ۲- اشیا کے اصلی وجود کو ذہنی یا داخلی خیال کرنے والے تصور پرست کہلائے اور چیزوں کے خارجی اور حقیقی وجود کو ماننے والے حقیقت پرست مشہور ہوئے۔ معتزلہ اور اشاعرہ کی بحثیں ان دو مختلف مکاتب خیال کی عکاس تھیں۔ ۳- عین پرستی اور حقیقت پرستی دراصل افلاطون اور اس کے شاگرد ارسطو کے نظریات کے اختلافِ وجودِ شے پر مبنی مکاتب فکر تھے۔ ۴- افلاطون کے پیروکاروں کی رائے میں اشیا کا وجود کسی خارجی اور مادی علت کا نتیجہ نہیں۔ اس کے برعکس ارسطو کے پیروکار اس نظریے کے حامی تھے کہ کائنات کی چیزوں کا وجود خارجی علت کے تابع ہوتا ہے۔ ۵- علامہ اقبال نے معتزلہ اور اشاعرہ کے تصور علم کی بحث پر روشنی ڈالی ہے۔ ۶- معتزلہ اور اشاعرہ کے نظریہ وجود و عدم (ہستی و نیستی) کی بحث کے دوران خیر و شر کے مسئلہ پر بھی اظہار خیال کیا گیا ہے۔ اشیائے کائنات کی حقیقتِ ظاہری اور حقیقتِ باطنی کے بارے میں دنیا کے تمام عظیم فلسفیانہ نظاموں میں مدت سے بحث جاری ہے۔ ہندو فلسفہ ہو یا فلسفۂ یونان و مغرب یا اسلامی فلسفۂ۔ ان سب میں اشیا کی ماہیت اور وجود کو زیربحث لایا گیا ہے۔ فلسفیوں اور مفکرّوں کا ایک گروہ اس بات کا حامی ہے کہ دنیا کی چیزیں صرف باطنی طور پرموجود ہوتی ہیں اس لیے ان کاظاہری وجود چنداں اہمیت نہیں رکھتا۔ یہ لوگ اس عقیدے پر زور دیتے ہیں کہ اشیا کا اصل وجود ہمارے تصورات پر مبنی ہے۔ اس گروہِ فلاسفہ کو تصوریت کے عَلم۔بردار یا عینیت پرست (Idealists) کہا جاتا ہے۔ اس کے برعکس مفکرین اور فلاسفہ کا دوسرا گروہ اس عقیدے کا زبردست حامی ہے کہ کائنات کی چیزوں کا وجود محض تصور یا ذہن میں نہیں بلکہ وہ خارجی طور پر موجود ہوتی ہیں۔ یہ خارجیت پسند لوگ حقیقت پرست یا واقعیت پرست (Realists) کہلاتے ہیں۔ اس نقطہ نگاہ سے ایک گروہ چیزوں کے داخلی اور ذہنی وجود کا پرچار کرتا ہے اور دوسرا طبقہ ان کے خارجی وجود کی نشر و اشاعت کو اپنا فریضہ قرار دیتا ہے۔ اسلام جب جزیرہ عرب سے نکل کر دوسرے ملکوں میں گیا تو وہاں کے لوگوں کے میل ملاپ کے سبب مسلمانوں کے افکار و نظریات میں بھی تبدیلیاں رونما ہوگئیں۔ علاوہ ازیں یونان کے بعض مشہور فلاسفہ خصوصاً افلاطون اور اس کے شاگرد ارسطو کی کتابوں کا جب عربی زبان میں ترجمہ ہوا تو یونانی افکار نے مسلمانوں کے ذہن پر کافی اثر ڈالا تھا۔ اس طرح مسلمانوں میںبھی قدیم فلسفیانہ بحثوں کا دروازہ کھل گیا۔ اشاعرہ اور معتزلہ کی عقلی بحثوں اور فلسفیانہ موشگافیوں نے مسلمان فلسفیوں اور مفکروں کو دو بڑے گروہوں میں تقسیم کردیا تھا۔ علامہ اقبال نے اس باب میں زیادہ تر تصور پرستوں (Idealists) اور حقیقت پرستوں (Realists) کے ان نظریات پر روشنی ڈالی ہے جن کا اشیا کی ماہیت اور وجود سے بڑا گہرا ربط ہے۔ وہ اس فلسفیانہ نزاع کے بارے میں اپنے خیالات کو ان الفاظ کا جامہ پہناتے ہیں: ارسطو کے نظریہ جوہر مادی کے افکار زمان و مکان اور علت و معلول کی نوعیت کے بارے میں اشاعرہ کے تصورات نے اس بحث کی نہ دبنے والی سپرٹ کو دوبارہ بیدار کردیا جس نے صدیوں تک مسلمان مفکرین کی جماعت کو تقسیم کرکے آخرکار فکری مکاتب کی محض لفظی نزاکتوں میں اپنی قوت کو ختم کردیا تھا۔ اس کے بعد وہ نجم الدین الکاتبی کی اہم تصنیف حکمۃ العین (فلسفۂ اعیان) کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس نے عقلی نزاع کو تیز تر کرکے بہت سے اشاعرہ اور دوسرے تصور پرست مفکرین کو شدید تنقید کرنے کی دعوت دی۔ نجم الدین الکاتبی ارسطو کا مقلد تھا۔ اس لیے اس نے ارسطو کے دلائل کو بنیاد بنا کر اس بحث کو چھیڑا تھا۔ تقلید پرست مسلمان مذہبی علما سے ممتاز کرنے کے لیے ارسطو کے پیروکار مسلمان مفکرین کو فلاسفہ کا نام دیا گیا تھا۔ (۱) ماہیت کی نوعیت اس سے پہلے ہم دیکھ چکے ہیں کہ اشاعرہ کے تصور علم نے انھیں یہ عقیدہ دیا تھا کہ مختلف چیزوں کی انفرادی ماہیتیں ایک دوسری سے بالکل مختلف ہیں اور ان کی ذات کا تعین علت غائی یعنی خدا سے ہوتا ہے۔ وہ تمام اشیا میں ایک ہی ہمیشہ تغیر پذیر ہونے والی اصلی مادہ کے وجود کے منکر تھے۔ عقل پرستوں (Rationalists) کے برعکس ان کا نظریہ تھا کہ وجود ماہیت (Essence) کے تار و پود کی تشکیل کرتا ہے۔ اس لیے ان کی ر ائے میں وجود اور ماہیت ایک دوسرے کے مماثل ہیں۔ اس ضمن میں وہ ایک مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں ’’آدمی جانور ہے۔‘‘ ان کی دلیل یہ ہے کہ مبتدا اور خبر کے بنیادی فرق کی بنا پر آدمی کو جانور قرار دینا ممکن ہے کیوں کہ ان کی مماثلت اس فیصلے کو بے کار بنا دے گی اور ان کا کامل اختلاف اس خبر کوباطل کردے گا۔ اس لیے ہستی اور وجود کی مختلف اشکال کا تعین کرنے کے لیے ایک خارجی علت کا اُصول وضع کرنا لازمی ہوگا۔ علامہ اقبال کی رائے میں اشاعرہ کے مخالفین یعنی معتزلہ اور عقل پرست وجود کے تعین اور محدودیت کو تو تسلیم کرتے ہیں مگر وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وجود (Existence) کی مختلف اشکال میں ماہیت کے ہوتے ہوئے وہ آپس میں مماثل ہیں… یعنی یہ سب مختلف اشکال ایک ہی اولین اصل کی حدود ہیں۔ ارسطو کے مبتعین کہتے ہیں ’’آدمی جانور ہے‘‘ کی رو سے آدمی کو جانور قرار دینا درست ہے کیوں کہ آدمی کا جوہر حیوانیت اور انسانیت کے خواص کا حامل ہے۔ اشاعرہ اس کے جواب میں یہ کہتے ہیں کہ یہ دعویٰ بلا تنقید نہیں ہوسکتا۔ اشاعرہ کی دلیل یہ ہے کہ اگر انسان اور حیوان کی ماہیت ایک ہی قرار دی جائے تو پھر دوسرے لفظوں میں یہ کل اور جزو کی اصل کو مترادف قرار دینا ہے۔ یہ مفروضہ بالکل لغو ہے کیوں کہ مرکب اور اس کے عناصر ترکیبی کی یکساں ماہیت کی رو سے مرکب کو دو ماہیتوں اور دو ہستیوں کا حامل خیال کیا جائے گا۔ ماہیت اور وجود کی اس مشکل بحث کے بارے میں علامہ اقبال اپنے نقطہ نگاہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اس سے ظاہر ہے کہ ساری بحث اس سوال کے گرد گھومتی ہے کہ کیا وجود صرف ایک تصور ہے یا خارجی طور پر کوئی حقیقی شے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ کوئی خاص چیز موجود ہے تو کیا اس کے وجود کا مطلب یہ ہے کہ یہ ہماری نسبت سے موجود ہے۔ (اشاعرہ کا نظریہ) یا ہم سے بالکل آزاد کوئی موجود ماہیت ہے۔ (حقیقت پرستوں کا نظریہ) حقیقت پسندوں کے دلائل اب علامہ اقبال حقیقت پسندوں اور واقعیت پرستوں کے نظریۂ وجود پر روشنی ڈالنے کے لیے ان کے دلائل کا یہاں خلاصہ پیش کرتے ہیں۔ سب سے پہلے وہ ان کا مطمحِ نظر بیان کرتے ہیں۔ ۱- جہاں تک حقیقت پرستوں کی پہلی دلیل کا تعلق ہے اس کا لب لباب یہ ہے کہ میرے وجود کا تصور ایک فوری یا وجدانی شے ہے۔ ’’میں موجود ہوں‘‘ کا خیال اصل میںایک تصور ہے اور میرا جسم اس تصور کا عنصر ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ میرا جسم وجدانی طور پر معلوم ہونے کی حیثیت سے کوئی حقیقی چیز ہے۔ اگر کسی موجود شے کا علم فوری نہ ہو تو اس کے احساس کی حقیقت ایک غیر موجود طریق خیال کی متقاضی ہوگی۔ اشاعرہ کے نظریات کا حامی الرازی یہ تو مانتا ہے کہ وجود کا تصور فوری ملتا ہے لیکن وہ ’’وجود کا تصور فوری ہوتا ہے‘‘ کے بیان کو صرف ایک اکتسابی بات قرار دیتا ہے۔ اس کے برعکس محمد ابن مبارک بخاری کی رائے میں حقیقت پرست کی ساری دلیل کی اساس یہ مفروضہ ہے کہ میرے وجود کا تصور فوری ہوتا ہے۔ وہ اس بات کو قابل بحث سمجھتے ہوئے یہ کہتاہے کہ اگر ہم اپنے وجود کے تصور کو فوری مان لیں تو پھر مجرد وجود کو ہم اس تصور کاعنصر ترکیبی نہیںکَہ سکتے اور اگر حقیقت پرست یہ دعویٰ کرتا ہے کہ کسی خاص چیز کا احساس فوری ہوتا ہے تو ہم اس کے قول کی صداقت کو تسلیم کرتے ہیں لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس کا اشیا میں پوشیدہ وجود فوراً ہی خارجی طور پر حقیقی ہوتا ہے۔ علامہ اقبال حقیقت پرستوں کی دلیل پر یوں اظہار خیال کرتے ہیں: مزید برآں واقعیت پسندوں کی اس دلیل کا تقاضا یہ ہے کہ دماغ کو اشیا کی خصوصیات کی تصدیق کے تصور کے قابل نہیں ہونا چاہیے۔ ’’برف سفید ہے‘‘ کے جملے کا ہم تصور نہیں کرسکتے کیوں کہ اس فوری بیان کا جزو ہونے کی حیثیت سے محمول کسی اثبات کے بغیر فوراً معلوم ہونا چاہیے۔ ملا محمد ہاشم حسینی کی رائے میں یہ استدلال غلط ہے وہ کہتا ہے برف ہے کہ برف کی سفیدی کی اطلاع دینے کے عمل کے وقت ہمارا دماغ ایک خالصتاً ذہنی وجود یعنی سفیدی کی خاصیت کو مدنظر رکھتا ہے نہ کہ خارجی طور پر اصلی ماہیت کو جس کے مختلف پہلو یہ خواص ہیں۔ علامہ اقبال ملا محمد ہاشم حسینی کے اس قول کو ہملٹن (Hamilton) کے نظریات کا پیش رو خیال کرکے کہتے ہیں کہ حسینی اس بارے میں دیگر حقیقت پسندوں سے اختلاف رائے رکھتا ہے۔ حسینی کا خیال ہے کہ کسی چیز کی نام نہاد ناقابل معلوم ماہیت بھی اس کے تصور کے ساتھ ہی فوراً ہمارے علم میں آجاتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہمیں چیز کا فوراً ہی وحدانی ادراک حاصل ہوتا ہے۔ اس طرح ہم اپنے مدرکات کے مختلف پہلوئوں کا یکے بعد دیگرے احساس نہیں کرتے۔ ۲- حقیقت پرستوںنے اپنے نظریہ وجود کی وضاحت کے لیے دوسری دلیل کو تصوریت کی تنقید کی شکل میں پیش کیا ہے۔ یہاں ان کی دوسری دلیل کا خلاصہ ہدیہ قارئین کیا جاتا ہے۔ حقیقت پرست فلسفی تصور پرست فلاسفہ پر تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تصور پرست اشیا کے خواص کو صرف اپنے داخلی اور موضوعی تعلقات کے تابع کردیتا ہے۔ تصوریت کے عَلم۔بردار فلسفی کا استدلال اسے اشیا میں پوشیدہ ماہیت کا منکر بنا کر اشیا کو کلیتاً صفات کے مختلف مجموعوں کے روپ میں دیکھنے پرمجبور کرتا ہے۔ اس طرح اس کی نظر میں ان مختلف چیزوں کی ماہیت محض ان کے ادراک کی ظاہری حقیقت پر مشتمل ہوتی ہے۔ وہ اشیا کے مکمل جنسی اختلاف میں یقین رکھنے کے باوجود وہ ان سب چیزوں کے لیے وجود کا لفظ استعمال کرتا ہے یہ ایک قسم کا خاموش اعتراف ہے کہ موجودات کی تمام مختلف اشکال میں ایک ہی قسم کی ماہیت پائی جاتی ہے۔ حقیقت پرست فلسفیوں کی اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے مشہور تصور پرست ابوالحسن الاشعری یہ کہتا ہے کہ تمام اشیا کے لیے لفظ ’’وجود کا یہ استعمال صرف ایک لفظی سہولت ہے اور یہ چیزوں کے نام نہاد باطنی اختلافِ جنس کا مظہر نہیں۔ علامہ اقبال اس بحث کو آگے بڑھانے سے پہلے ان دونوں مکاتبِ خیال کی باہمی چپقلش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: لیکن جب تصور پرست لفظِ وجود کا ہمہ گیر استعمال کرتے ہیں تو حقیقت پرستوں کی رائے میں اس کا مطلب یہ ہونا چاہیے کہ کسی چیز کا وجود یا تو اس شے کی ماہیت بناتا ہے یا اس شے کے اندر چھپی ہوئی ماہیت پر اوپر سے کچھ اضافہ کیا گیا ہے۔ یہاں پہلا مفروضہ اصل میں اشیا کی یکسانیت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے کیوں کہ ہم یہ نہیں کَہ سکتے کہ ایک شے کا وجودِ خاص دوسری شے کے خصوصی وجود سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ اس طرح دوسرا مفروضہ کہ وجود کسی چیز کی ماہیت میں خارجی اضافہ ہوتا ہے، حماقت آمیز ہے کیوں کہ ایسی حالت میں ماہیت کو وجود سے بالکل مختلف تصور کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ اشاعرہ کی رائے میںماہیت کا انکار عدم اور وجود کے امتیاز کو ختم کردے گا۔ ماہیت (Essence) اور وجود (Existence) کی اس بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے علامہ اقبال اب یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ شے کے خارجی وجود سے قبل اس کی ماہیت کیا ہوتی ہے۔ ان کی نظر میں ہمیں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ حقیقتاً معرض وجود میں آنے سے بیشتر ماہیتِ شے وجود کو حاصل کرنے کے لیے بالکل تیار تھی۔ اگر ہم ایسا کہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ شے کی ماہیت معرضِ وجود میں آنے سے قبل پردہ عدم میں تھی۔ بقیہ یہ قول کہ ماہیت عدم کی خصوصیت کو حاصل کرنے کی طاقت رکھتی ہے، شے کے حقیقی وجود سے قبل اس کی ماہیت عدم اور نیستی پر دلالت کرتا ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر ہمیں وجود کو کسی چیز کا جزو ترکیبی خیال کرنا چاہیے۔ اس نقطہ نگاہ سے ماہیت کو مرکب سمجھنا ہوگا۔ اس کے برعکس اگر وجود ماہیت سے خارج ہو تو پھر دوسری شے کا محتاج ہونے کی بنا پر اسے اس پر مبنی خیال کیا جانا چاہیے۔ اب اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ہر مبنی معلول کی ضرورت کوئی علت (Cause) ہونی چاہیے۔ اگر ماہیت کو ہی وجود کی علت قرار دیا جائے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ماہیت اپنے وجود سے پہلے موجود تھی۔ علت اپنے معلول (Effect) سے پہلے ہی آنی چاہیے۔ اگر ماہیت کو چھوڑ کر وجود کی کوئی اور علت قرار دی جائے تو پھر اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خدا کے وجود کی تعبیر کے لیے ہمیں ذات خداوندی کے علاوہ کوئی اور علت تلاش کرنی پڑے گی۔ یہ ایک ایسا احمقانہ نتیجہ ہے جو لازم الوجود کو محتاجِ وجود بنا دیتا ہے۔ حقیقت پرستوں کی یہ دلیل تصور پرستوں کے نقطۂ نظر کی مکمل غلط فہمی پر مبنی ہے۔ حقیقت پرست اس بات سے لاعلم ہے کہ تصور پرست نے کبھی بھی کسی چیز کی حقیقتِ وجود کو اس کی ماہیت کا خارجی اضافہ خیال نہیں کیا بلکہ اس نے ہمیشہ ہی وجود اور ماہیت کو یک رنگ سمجھا ہے۔ علامہ اقبال ابن مبارک کے نظریۂ ماہیت و وجود پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں: ابن مبارک کا قول ہے کہ تاریخی تسلسل کے تقدم کے بغیر ماہیت وجود کی علت ہے۔ ماہیت کی زندگی وجود کے تار و پود کی تشکیل کرتی ہے۔ اس لیے وہ اس کے لیے کسی دوسری چیز کی محتاج نہیں۔ اصلیت یہ ہے کہ حقیقت پرست اور تصور پرست صحیح نظریۂ علم سے بہت دور ہیں۔ شکوک و شبہات کے شکار حقیقت پرست کا خیال ہے کہ کسی چیز کی ظاہری خصوصیات کے پس پردہ ایک ایسا جوہر (Esscence) ہے جواس کی علت کے طور پر کارفرما ہوتا ہے۔ اس پر ایک بدیہی تضاد کا الزام لگایا جاسکتا ہے کیوں کہ اس کی رائے میں اشیا کے پردے میں ایک ناقابل فہم جوہر یا زیریں تَہ کی موجودگی کا ہمیں پتا چلتا ہے۔ اس کے برعکس تصور پرست اشاعرہ علم کے طریق کار کو غلط سمجھتا ہے کیوں کہ وہ حصول علم کے عمل سے وابستہ ذہنی سرگرمی کو نظر انداز کردیتا ہے اور وہ مدرکات کو محض خدا کے متعین کردہ مظاہر خیال کرتا ہے۔ اگر مظاہر کی ترتیب کو کسی علت کی ضرورت ہی ہے تو لاک (Locke) کے خیال کے مطابق اسے مادے کی اصلی ترکیب میںکیوں نہ تلاش کیا جائے؟ مزید برآں پیش آنے والی شے کا غیر متحرک احساس یا اشعور کانظریۂ علم چند ناقابل تسلیم نتائج کو جنم دیتا ہے۔ جن کے بارے میں اشاعرہ نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ علامہ اقبال اشاعرہ کے نظریہ علم کو ہدف تنقید بناتے ہوئے اس کی مندرجہ ذیل تین اہم خامیوں کی یوں نشاندہی کرتے ہیں: (الف) اشاعرہ کی نگاہوں سے یہ بات اوجھل رہی کہ ان کی خالصتاً داخلی اور موضوعی (Subjective) تصور علم نے غلطی کے تمام امکانات کو ختم کردیا ہے۔اگر کسی چیز کا وجود محض حقیقتِ نمود ہے تو پھر اسے اپنی اصلیت سے مختلف شناخت کی کوئی وجہ نہیں۔ (ب) اشاعرہ اس امر سے بے خبر رہے کہ ان کے نظریۂ علم کی بنا پر طبعی نظام کے دیگر عناصر کی مانند بنی نوع انسان ہمارے شعور کی محض حالتوں سے زیادہ اعلیٰ تر اصلیت کے مالک نہیں ہوسکیں گے۔ (ج) اگر علم امثال (Presentations) کے محض حصول کا نام ہے تو پھر امثال کی علت یعنی ہمارے علم کے عمل کی نسبت سے فعّال خدا کو ہمارے امثال سے لاعلم ہونا چاہیے۔ اشاعرہ کے نقطہ نگاہ سے یہ نتیجہ ان کی ساری پوزیشن کے لیے خطرناک بن جاتا ہے۔ وہ یہ نہیں کَہ سکتے کہ میری ختم ہونے والی امثال خدا کے شعور کے لیے جاری و ساری رہیں گی۔ علامہ اقبال کی اشیا کی ماہیت اور وجود کی بحث کے بارے میں حقیقت پرستوں اور تصوریت کے حامیوں کے ایک اور اختلافی امر پر روشنی ڈالتے ہیں۔ یونانی فلسفی افلاطون کے پیروکار اس نقطہ نگاہ کی وکالت کرتے ہیں کہ اشیا کا وجود کسی خارجی علت کا نتیجہ نہیں بلکہ وہ چیزیں بذات خود موجود ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس ارسطو کے تابعین کے مخالفین یعنی اشاعرہ اس بات میں ایمان رکھتے ہیں کہ کائنات کی چیزوں کا وجود خارجی علت کے تابع ہوتا ہے۔ ارسطو کے پیروکاروں کو ان کے مخالفین عام طور پر فلاسفہ کہا کرتے تھے۔ دوسرے لفظوں میں ارسطو کے فلسفیانہ نظام کے پیروکار اشیائے کائنات کی حقیقت رسی کے لیے عقل و خرد کے استعمال کو ایک موثر ترین ذریعہ خیال کرتے ہیں۔ علامہ اقبال اس ضمن میں ابنِ مبارک کی شرح کو پیش نظر رکھتے ہوئے ارسطو کے مکتب خیال کے حامیوںکا یہ نظریہ بیان کرتے ہیں: ارسطو کا پیروکار فلسفی یہ کہتا ہے کہ شے کی ماہیت پر کوئی بیرونی عامل اثر انداز نہیں ہوسکتا ہے۔ اس مکتب خیال کے مخالفین اس رائے سے ہرگز متفق نہیں۔ اُن کے خیال میں کسی شے کا وجود بھی بذاتِ خود قائم نہیں بلکہ یہ کسی بیرونی علت پر منحصر ہوا کرتا ہے۔ کیا یہ مسلمہ حقیقت نہیں کہ دنیا کی کوئی چیز بذاتِ خود موجود نہیں ہوتی؟ کائنات کی تمام اشیا خدا تعالیٰ کی خلاقی صفت اور جذبہ خود نمائی کی مرہون منت ہیں جیسا کہ علامہ اقبال اپنے ایک شعر میں خدا سے کہتے ہیں: بہ ضمیرت آرمیدم، تو بجوشِ خودنمائی بکنارہ برفگندی دُرّ آبدارِ خود را [کلیات اقبال، ص ۴۴۵] ہر ایک مخلوق کسی خالق اور ہر ایک صفت کسی صانعِ کے وجود کے تابع ہوتی ہے۔ مخلوقاتِ جہاں کے بے سبب اور ذاتی وجود کا عقیدہ کھلی ہوئی مادہ پرستی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ تمام مظاہرِ فطرت کی تخلیق احسن الخالقین کی کرشمہ سازی اور جلوہ گری نہیں تو اور کیا ہے؟ الکاتبی پیروانِ ارسطو کے اس تصور ماہیت کی حمایت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر ہم خلاصہ انسانیت کی مثال کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے کسی خارجی سرگرمی کے اثر کا نتیجہ قرار دیں تو پھر ہم کو انسانیت کی ماہیت کی اصلیت کے بارے میں شک و شبہ کا احتمال ہو جائے گا۔ فی الحقیقت اس بارے میں ہمیں کوئی شک نہیں ہوتا اس لیے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ماہیت بذات خود کسی خارجی علت کی سرگرمی کی بنا پر نہیں ہے۔ حضرت علامہ عینیت پسندوں کے مطمح نگاہ کو پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں: عینیت پرست مفکر اپنی دلیل کا آغاز حقیقت پرستوں کی طرح ماہیت اور وجود کی تفریق سے کرتے ہوئے کہتا ہے کہ حقیقت پرستوں کی یہ دلیل کہ انسان غیر معلول ہے، ایک احمقانہ تجویز پر منتج ہوگی۔ کیوں کہ عینیت پرست مفکر کی رائے میں حقیقت پرست فلاسفہ انسان کو دو بلاعلت (غیر معلول) جواہر… وجود اور انسانیت… کا مرکب سمجھتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ خداتعالیٰ کی ذات پاک کے علاوہ کوئی معلول بھی کسی علت کے بغیر معرض وجود میں نہیں آسکتا۔ (ب)علم کی نوعیت علامہ اقبال اشیائے کائنات کی ماہیت کے بارے میں مختلف نظریات بیان کرنے کے بعد علم کی نوعیت کے مسئلے پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ اس مشکل مسئلے کی وضاحت کے لیے وہ حقیقت پرستوں اور عینیت کے حامیوں کے متضاد تصورات کو بڑے مختصر انداز میں پیش کرتے ہیں۔ ان دونوں مکاتب ِفکر کے دلائل کا خلاصہ یہاں بیان کیا جاتا ہے۔ ارسطو کے پیروکار فلسفی چیزوں کی ماہیت کی آزادانہ اور معروضی (Objective) اصلیت میں پختہ اعتقاد رکھنے کی بنا پر علم کو بھی اس معیار پر پرکھتے ہیں۔ ان کی رائے میں علم دراصل خارجی اشیا کے تصورات اور خیالی پیکروں کو حاصل کرنے کا دوسرا نام ہے۔ ابنِ مبارک نے ان کے نظریۂ علم کو مختصر الفاظ میں یوں ڈھالا ہے۔ ’’علم خارجی چیزوں کے تصورات کا حصول ہے۔‘‘ اس مکتب خیال کے عَلم۔برداروں کی رائے میں خارجی طور پر کسی غیر حقیقی شے کا تصور کرنا اور اسے دوسری خصوصیات سے منسوب کرنا عین ممکن ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب ہم اسے وجود کی صفت کا حامل قرار دیتے ہیں تو اس وقت حقیقی وجود مستلزم ہوجاتا ہے کیوں کہ کسی شے کی صفت کا اثبات اس سے شے کے وجود کے اثبات کا حصہ ہوتا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر وجود کی خبر کسی چیز کے اصل او رخارجی وجود کا لازمی سبب نہیں بنتی تو پھر ہم کلیتاً خارجیت کا انکار کرنے اور اس شے کو محض ایک خیالی پیکر قرار دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ابن مبارک کا قول ہے: کسی شے کا اثبات اس کے وجود اور ہستی کی تشکیل کیا کرتا ہے۔ اس استدلال سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ کسی شے کو محض خیالی وجود خیال کرنا درست نہیں۔ خیالی پیکر کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی اصلی ہستی کو ظاہر کرنے کی خاطر خارجیت کے لباس میں بھی جلوہ گر ہو۔ کسی باطنی تصور اور خیالی پیکر کو حقیقت کا جامہ پہنانے کے لیے خارجیت کے بغیر کوئی چارہ کار ہی نہیں۔ مصور کے ذہن میں کسی تصویر کا صرف خیال ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ وہ اسے اپنے موقلم اور رنگوں کے ذریعے خارجی شکل بھی دیا کرتا ہے جسے دیکھ کر ہم اس کے بارے میں علم حاصل کرسکتے ہیں۔ علامہ اقبال محض انفس کے علم کے مداح ہی نہیں تھے بلکہ وہ آفاق کے عمیق مطالعہ اور مشاہداتی علم کے بھی زبردست حامی تھے جیسا کہ درج ذیل اشعار سے معلوم ہوتا ہے۔ وہ ’’نظر‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’خبر‘‘ اور باطن و ظاہر کے حسین امتزاج کو حصول علم کا موثر ذریعہ قرار دینے پر ہمیشہ زور دیا کرتے تھے۔ وہ حصول علم اور خارجی اشیا کے گہرے ربط پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں: کوہ و صحرا، دشت و دریا، بحر و بر تختۂ تعلیمِ اربابِ نظر علم، تسخیرِ، تغیرِ جہانِ رنگ و بُو دیدہ و دل پرورش گیرد ازو [جاوید نامہ] فلسفہ ارسطو کے شیدائیوں کے تصور علم کو مجملاً بیان کرنے کے بعد علامہ اقبال مرحوم و مغفور ان کے ناقدین اور اشاعرہ کے نظریہ علم پر بھی اظہار خیال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حقیقت پرستوں کی طرح عینیت پرست مفکرین اشیا کے وجود اور اثبات میں تفریق نہیں کرتے۔ حقیقت پرست فلسفیوں کی طرح اشاعرہ بھی اس بات کے حامی ہیں کہ خارجیت کا انکار کرنے ہی سے کسی شے کی خیالی ہستی اور تصوراتی وجود لازم آتا ہے۔ اشاعرہ کی نظر میں علم کی تعریف یہ ہے کہ یہ جاننے والے اور خارجی طور پر جانی گئی شے کے درمیان ایک باہمی تعلق ہے۔ دوسرے الفاظ میں اشاعرہ بھی جاننے والے اور اشیا کے خارجی وجود کے باہمی ربط کے قائل ہیں۔ اگر کوئی چیز خارج میں موجود نہ ہو تو علم کا جویا تشنہ علم ہی رہے گا۔ الکاتبی نے یہ بھی کہا تھا کہ کوئی شے خارجی وجود کی حامل نہ ہونے کے باوجود بھی خیالی اور ذہنی وجود کی مالک قرار دینی چاہیے۔ مفکر اسلام علامہ اقبال الکاتبی کی اس رائے کو متضاد بیان خیال کرتے ہوئے اس پر تنقید کرتے ہیں۔ ایک طرف تو الکاتبی ارسطو کی ہم نوائی کرتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ اشیا کے حقیقی وجود کو ثابت کرنے کے لیے تصور کے علاوہ خارجیت کا عنصر بھی ضروری ہے اور دوسری طرف وہ اس امر کی بھی وکالت کرتا ہے کہ خارجیت کے بغیر بھی اشیا وجود کی حامل ہوسکتی ہیں۔ (ج)عدم کی نوعیت معتزلہ اور اشاعرہ کے نظریہ ہائے علم کا خلاصہ بیان کرنے اور الکاتبی کی تضاد بیانی کو ہدف تنقید بنانے کے بعد علامہ اقبال ان کے تصورات ہستی ونیستی کا ذکر چھیڑ دیتے ہیں تاکہ اس بارے میں بھی ہمیں ان کے فلسفیانہ اختلافات کا مزید کچھ پتا چل سکے۔ وہ اس دل چسپ مگر مشکل بحث کا آغاز اس امر سے کرتے ہیں کہ الکاتبی اشیا کے عدم وجود کے متعلق کیا رائے رکھتا تھا اور اس نے اپنے ہم عصر فلاسفہ سے اختلاف کرتے ہوئے انھیں کیوں اپنی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ الکاتبی کے معاصرین عموماً اس نظریے کے حامی تھے کہ ہر موجود شے اچھی ہوتی ہے اور ہر معدوم چیز شر کی حامل ہے۔ ابن مبارک کے الفاظ میں الکاتبی کے ہمعصر فلسفیوں کا یہ نظریہ تھا کہ ’’ہر موجود خیر ہے اور ہر غیر موجود شر ہے۔‘‘ الکاتبی اپنے اس تصور کو واضح کرنے کے لیے قتل کی مثال دے کر کہتا ہے کہ قتل کا فعل قاتل کی قوت قتل یاآلہ قتل کی طاقت انقلاع یا مقتول کی گردن کی صلاحیت انفعال کے سبب شر نہیں ہے بلکہ یہ اس وجہ سے برا فعل ہے کہ یہ زندگی کی نفی کا مظہر ہے۔ نفی حیات اصل میں وہ حالت ہے جو کسی موجود شے کو معدوم بنا دیتی ہے۔ برائی کو عدم کے مترادف قرار دینے سے بیشتر ہمیں استقرائی تحقیق سے کام لیتے ہوئے برائی کی تمام حالتوں کا بغور جائزہ لینا چاہیے۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ شر کی اصلیت کو جاننے کے لیے مکمل استقرا ممکن ہے اور ایک نامکمل استقرا ہمارے اس نقطہ نظر کو ثابت نہیں کرسکتا۔ اس کے باوجود ہمیں جزئیات سے کل نتیجہ اخذ کرنے میں استقرائی طریق عمل اختیار کرنا چاہیے۔ اس بنا پر الکاتبی اس مفروضے کی تردید کرتے ہوئے یہ کہتا ہے۔ ’’عدم یا نابود مکمل نیستی کا دوسرا نام ہے۔‘‘ الکاتبی کے خیال میں جواہر صفتِ حیات حاصل کرنے کے انتظار میں مکانیت میں پہلے سے جامد نہیں ہیں۔ اگر ہم ایسا سوچیں تو ہمیں جمود مکانی کو وجود کی صفت سے عاری قرار دینا پڑے گا۔ الکاتبی کے ناقدین کی رائے میں اس کا یہ نظریہ صرف اس مفروضے کے مطابق درست ہے کہ جمود مکانی اور ہستی آپس میں توام ہیں۔ جمود مکانی اور ہستی کی بحث کے ضمن میں ابن مبارک کے یہ الفاظ بھی قابل غور ہیں۔ اس نے کہا ہے: خارجیت میں جمود کا تصور ہستی کے تصور سے زیادہ وسیع ہے۔ ہر ہست شے خارجی ہے لیکن ہر خارجی شے لازمی طور پر ہست نہیں۔ ہستی، جمود مکانی اور خارجیت کی دقیق مکانی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے علامہ اقبال اشاعرہ کے عقیدہ حشر اوربعث بعد الممات کے تصور کومورد تنقید قرار دیتے ہیں کیوں کہ ان کے خیال میں اشاعرہ کا یہ نظریہ معقولیت کی راہ سے ہٹا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ حیات بعد الممات کا عقیدہ اسلامی تعلیمات کا ایک اہم جزو ہے۔ اس عقیدے کی رو سے ہمیں موت کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے گا تاکہ ہم خدا تعالیٰ کے حضور پہنچ کر اپنے اچھے اور برے اعمال کے نتائج کے مطابق جزا اور سزا کے مستحق ہوسکیں۔ اس عقیدے میں اشاعرہ کو خاص دل چسپی پیدا ہوگئی تھی کیوں کہ یہ عقیدہ غیر موجود کے دوبارہ ظہور حیات کے امکان کا حامل تھا۔ موت کے بعد کی زندگی کے اس عقیدے نے اشاعرہ کے دل و دماغ میں یہ احمقانہ مفروضہ جاگزیں کردیا تھا کہ ہر نیست شے یا عدم کچھ شے ہے۔ اشاعرہ کا یہ قول ملاحظہ ہو: ’’عدم یا نیستی وجود سے مکمل طور پر عاری نہیں ہے۔‘‘علامہ اقبال اشاعرہ کے اس استدلال کو حماقت آمیز اور مضحکہ خیز قرار دیتے ہیں۔ اشاعرہ کا کہنا یہ تھا چونکہ ہم غیر موجود کے بارے میں فیصلہ جات کرتے ہیں اس لیے یہ معلوم ہے۔ وہ صفت زندگی سے محروم شے کی قبولیت علم کو مظہر وجود سمجھتے ہوئے یہ کہا کرتے تھے: نیست مکمل طور پر نیست نہیں ہے۔ کیوں کہ ہر قابل علم شے اثبات کی حالت کی آئینہ دار ہے۔ چونکہ غیر موجود کے بارے میں ہم ہر علم رکھ سکتے ہیں اس لیے وہ بھی ہستی پر دلالت کرتا ہے۔ الکاتبی اشاعرہ کے اس استدلال کے کبریٰ کا انکار کرتے ہوئے یہ کہتا ہے: ’’تمام ممکن اشیا معلوم ہونے کے باوجود بھی خارجی طور پر موجود نہیں ہوا کرتیں۔‘‘ الرازی الکاتبی کی اس دلیل پر نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے اس حقیقت سے ناواقف قرار دیتا ہے کہ ماہیت دماغ میں موجود ہونے کے علاوہ خارجی طور پر بھی معلوم ہوتی ہے۔ علامہ اقبال الکاتبی کے نظریہ علم وجود کو بڑے اختصار کے ساتھ یوں بیان کرتے ہیں کہ الکاتبی کی رائے میں کسی شے کا علم اس کی آزادانہ معروضی حقیقت کے وجود کا لازمہ بن جاتا ہے۔ علامہ اقبال ہمیں اس امر کی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ اشاعرہ ایک طرف تو مثبت اور موجود میں اور دوسری طرف وہ غیر موجود اور منفی میں تمیز کرتے ہیں۔ ان کا قول ہے کہ ہر موجود شے مثبت ہوتی ہے اور ہر غیر موجود شے اثبات کی حامل نہیں ہوتی۔ شاعر مشرق اور مفکر اسلام حضرت علامہ اشاعرہ کے اس قول سے پوری طرح متفق نہیں ہیں۔ وہ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ موجود اور غیر موجود کے درمیان یقینا باہمی تعلق ہوتا ہے مگر وہ مثبت اور منفی کے باہمی ربط کے قائل نہیں ہیں۔ علامہ اقبال بعدازاں الکاتبی کے نظام فکر کے ایک اہم پہلو پر ناقدانہ نظر ڈالتے ہوئے یہ کہتے ہیں: ہم الکاتبی کی طرح یہ نہیں کہتے کہ ہر ناممکن غیر موجود ہوتا ہے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہر ناممکن شے صرف منفی ہوتی ہے۔ ہستی کی صفت کے حامل جواہر کسی حد تک مثبت ہوتے ہیں۔ جہاں تک صفت کا تعلق ہے اس کے وجود کو جوہر سے جدا خیال نہیں کیا جاسکتا۔ یہ صفت نہ ہی ہست اور نہ ہی نیست ہوتی ہے بلکہ اسے ہستی اورنیستی کے درمیان سمجھنا چاہیے۔ بود و نابود (وجود و عدم) اور اثبات و نفی کی اس مشکل بحث کو ختم کرنے سے قبل علامہ اقبال اس بات کو ضروری خیال کرتے ہیں کہ اس بارے میں اشاعرہ کے افکار و نظریات کی تلخیص پیش کی جائے۔ انھوں نے اشعری مکتب خیال کے حامیوں کے تصور ہست و نیست کو ابن مبارک کی شرح کے الفاظ میں ہمارے سامنے رکھا ہے۔ ابن مبارک البخاری نے مشہور معتزلی فلسفی الکاتبی کی بلند پایہ تصنیف حکمۃ العین کے مباحث کی وضاحت کے لیے ایک شرح لکھی تھی جسے علامہ اقبال نے متعدد مواقع پر بطور حوالہ پیش کرتے ہوئے معتزلہ اور اشاعرہ کے نمایاں ترین فلسفیانہ امور پر روشنی ڈالی ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی طالب علمی کے قیام کے دوران اپنی اس اولین فلسفیانہ کتاب The Development of Metaphysics In Persiaکی تیاری کے لیے اس کتاب کا بھی مطالعہ کیا تھا۔ یہ کتاب لندن کی انڈیا آفس لائبریری میں موجود ہے۔ ابن مبارک نے اپنی کتاب شرح حکمۃ العین میں اشاعرہ کے نظریہ وجود و عدم کا خلاصہ ان الفاظ میں تحریر کیا تھا: ہر شے اپنی ہستی کا ثبوت رکھتی ہے یا نہیں رکھتی۔ یا اگر اس کی ہستی کا ثبوت نہ ملے تو اسے منفی کہا جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر اس کا وجود ثابت ہو جائے تو یا تو یہ جوہرہوگی یا صفت۔ اگر یہ جوہر ہے تو پھر یہ ہستی یا نیستی کی صفت کی حامل ہوگی۔ (یعنی یہ یا تو محسوس ہوگی یا غیر محسوس ہوگی)۔ اپنی اس صفت کے مطابق یہ یا تو موجود متصور ہوگی یا غیر موجود خیال کی جائے گی۔ اگر یہ شے صرف صفت ہے تو یہ نہ تو موجود ہے اور نہ ہی معدوم ہے۔ ابن مبارک کے اس قولِ فیصل کے بعد اس مشکل اور دل چسپ بحث کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ /…//…/ باب پنجم تصوف (۱)تصوف کی اصل اور اس کا قرآنی جواز دور حاضر کے مستشرقین کا یہ وطیرہ بن چکا ہے کہ وہ کسی حقیقت کا سراغ لگانے کے لیے اثرات و علل کی سلسلہ جبانی کرنے لگ جاتے ہیں۔ وہ اس بات کے درپے ہو جاتے ہیں کہ موضوعِ زیربحث کی اصل کیاہے اور اس کے اسباب و علل کیا تھے۔ اس لیے وہ حقیقت میں اس کی خاطر علت و معلول کی کڑیاں ملانے کے عادی ہوچکے ہیں۔ علامہ اقبال کی رائے میں یہ طریق تحقیق بلاشبہ عظیم تاریخی قدر و قیمت کا حامل ہوتا ہے بشرطیکہ یہ ہماری نگاہوں سے اس حقیقت کو نظر انداز نہ کردے کہ انسانی ذہن آزاد انفرادیت اور ابتدائے کار کی صلاحیت کا حامل ہونے کی حیثیت سے آہستہ آہستہ اپنے اندر سے ان حقائق کو باہر پھیلا سکتا ہے جن کے بارے میں صدیوں بیشتر دوسرے اذہان نے پیش بینی کی ہوگی۔ بیرونی اثرات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن انھیں کسی قوم کے عروج و زوال کی اصل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بیرونی اثرات البتہ عروج و زوال کے دیگر قومی عوامل کو تقویت ضرور پہنچا سکتے ہیں۔ کسی قوم کے افراد کے اذہان و قلوب کے اندر حقیقی جاذبیت اور شدت پیدا کرنے والے عوامل اس قوم کی اپنی کوکھ سے جنم لیا کرتے ہیں۔ اس ضمن میں علامہ اقبال کے یہ الفاظ کس قدر حقیقت کشا اور حکمت بر مبنی ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: کوئی نظریہ کسی قوم کی روح پر اس وقت تک غالب نہیں آسکتا تاوقتیکہ وہ کسی حد تک اس قوم کا اپنا نظریہ نہ ہو۔ بیرونی اثرات اس تصور کو گہرے اور لاشعوری خواب سے بیدار تو کرسکتے ہیں مگر وہ حقیقی معنوں میں اسے عدم سے وجود میں نہیں لاسکتے ہیں۔ مسئلہ تصوف کا بھی یہی حال ہے۔ اسے محض بیرونی اثرات کا نتیجہ قرار دینے سے ہم اس کے اصلی منبع کودریافت نہیں کرسکتے۔ جہاں تک ایرانی تصوف کی اصل کا تعلق ہے اس کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ تقریباً سب حالتوں میں تحقیق کے اس دل چسپ ترین میدان کی سیاحی کرنے والے تصوف کے ان تمام اساسی تصورات کے مختلف ذرائع کا انکشاف کرنے میں اپنی طباعی کو بروئے کار لائے ہیں جو ایک مقام سے دوسرے مقام تک سفر کرتے رہے ہیں۔ ہم اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ انسانوں کی طرح خیالات اور نظریات بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ تک محو حرکت رہا کرتے ہیں۔ وہ مختلف شکلوں اور مختلف ذرائع سے دوسری تہذیبوں اور ثقافتوں کو متاثر کیا کرتے ہیں۔ نظریات کی اس رفتار مکانی کا اثر ثقافتی تنوع اور تہذیبی ثروت کی صورت میں رونما ہوتا ہے۔ اسی طرح ہمیشہ ایک تہذیب کے چراغ سے دوسری تہذیب کا چراغ جلتا رہا ہے۔ علامہ اقبال اس بات کے قائل ہیں کہ کسی قوم کے ذہنی ارتقا اور ثقافتی پس منظر کوبخوبی سمجھنے کے لیے یہ اشد ضروری ہے کہ ہم ان سیاسی ، ذہنی اور سماجی حالات کو بھی نظر انداز نہ کریں جو اس قوم کے ذہنی ارتقا سے پہلے موجود تھے اور جنھوں نے اسے بعدازاں پروان چڑھایا تھا۔ حضرت علامہ کے یہ الفاظ کسی قدر مبنی پر حقیقت دکھائی دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: کسی قوم کے ذہنی ارتقا کے واقعہ کی اہمیت کا کامل ادراک صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب کہ ہم اسے جنم دینے والے ان فکری، سیاسی اور سماجی حالات کو جانیں جو اس سے بیشتر وہاں موجود تھے۔ اس ضمن میں وہ چند ممتاز مستشرقین مثلاً وان کریمر (Von Kremer)، ڈوزی (Dozy)، مرکس (Merx)، پروفیسر بروائون (Browne)، پروفیسر نکلسن کے ان نتائج فکر کا تذکرہ کرتے ہیں جن کا ایرانی تصوف کے منبع کے ساتھ تعلق جوڑا گیا ہے۔ وان کریمر اور ڈوزی کا نظریہ یہ ہے کہ ایرانی تصوف ہندی ویدانت سے ماخوذ ہے۔ اس کے برعکس مرکس اور پروفیسر نکلسن کے خیال میں یہ نو افلاطونیت کی پیداوار ہے جب کہ پروفیسر ای۔جی برائون نے عجمی تصوف کو غیر جذباتی سامی مذہب کے خلاف آریائی رد عمل قرار دیا تھا۔ علامہ اقبال کو ان مستشرقین کے ان نظریات سے کامل اتفاق نہیں کیوں کہ ان کے خیال میں ان تصورات کو علت و معلول کے اس اُصول کے تحت پیش کیا گیا ہے جو بنیادی طور پر غلط ہے۔ اپنی اس بات کی صراحت کے لیے وہ ایک مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک متعینہ مقدار (الف) کو دوسری متعینہ مقدار (ب) کی علت یا پیداوار قرار دینے کامفروضہ سائنسی مقاصد کے لیے تو مفید ہوسکتا ہے لیکن یہ تحقیق کے لیے نقصان دہ ہے۔ اگر یہ مفروضہ کسی امر واقعہ کے پس منظر کی تشکیل کرنے والے لاتعداد حالات کو مکمل طور پر نظر انداز کرنے کا باعث ہو تو یہ تحقیقی لحاظ سے سودمند نہیں ہوسکتا۔ مفکر اسلام حضرت علامہ مستشرقین کے ان نظریات سے دوبارہ اپنے اختلاف کو بیان کرتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں: مثال کے طور پر یہ کہنا ایک تاریخی غلطی ہوگی کہ رومی سلطنت کا شیرازہ بکھرنے کا سبب بیرونی وحشیانہ حملے تھے۔ یہ بیان مختلف نوعیت کی ان دوسری طاقتوں کو کلیتاً نظر انداز کردیتا ہے جنھوں نے سلطنت روما کی سیاسی وحدت کو پارہ پارہ کردیا تھا۔ اس لحاظ سے بیرونی وحشیانہ حملوں کے ظہور کو رومی سلطنت کے زوال کا سب سے بڑا سبب گرداننا ایک ایسا طریقہ کار ہے جسے کسی منطق کی رو سے بھی جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ بیرونی حملے روم کی قدیم عظیم الشان سلطنت کے انحطاط کا ایک سبب تو تھے لیکن اس کے ہمہ گیر انحطاط کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ قوم پہلے ہی اندرونی طور پر حیات بخش اور استحکام پذیر طاقتوں اور اُصولوں سے محروم ہوگئی تھی۔ ایرانی تصوف کی اصل کے بارے میں چند مشہور مستشرقین (Orientalists) کے غلط طریق تحقیق کو ہدف تنقید بنانے کے بعد علامہ اقبال صحیح قسم کے نظریہ علت و معلول کی روشنی میں اسلامی زندگی کے متعلق ان اہم اور اصلی سیاسی، سماجی اور فکری حالات کا تذکرہ کرتے ہیں جو آٹھویں صدی کے اواخر اور نویں صدی کے نصف اول میں ایران میں موجود تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ زندگی کا حقیقی صوفیانہ نصب العین معرض وجود میں آیا تھا۔ بعد میں بہت جلد ہی اس صوفیانہ نصب العین کا فلسفیانہ جواز بھی پیش کردیا گیا۔ علامہ اقبال کی رائے میں ایرانی تصوف کی پیداوار اور فروغ کے مندرجہ ذیل عوامل خاص اہمیت کے حامل ہیں وہ ان اسباب کو ایرانی تصوف کی ابتدا اور ترقی کی اساس قرار دیتے ہیں۔ ان اسباب و علل کا اجمالی خاکہ یہ ہے: ۱-سیاسی اور معاشرتی بے چینی جب ہم اس دور کی تاریخ کا گہری نظر سے مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ وہ کم و بیش سیاسی بے چینی کا دور تھا۔ آٹھویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں ایران میں ایک ایسا سیاسی انقلاب رونما ہوا جس نے بنی امیہ کے اقتدار کا تختہ الٹ کر رکھ دیا تھا۔ یہ واقعہ ۷۴۹ء میں پیش آیا تھا۔ علاوہ ازیں اس دور میں زندیقیوں پر ظلم و ستم ڈھائے گئے اور ایرانی ملحدوں نے کئی بغاوتیں برپا کیں۔ان ملاحدہ نے عوام الناس کی ضعیف الاعتقادی سے فائدہ اٹھا کر مذہبی نظریات کے پردے میں اپنے مخصوص سیاسی مقاصد کو بالکل اسی طرح چھپا رکھا تھا جس طرح کہ ہمارے اپنے زمانے میں لیمانائس (Lamennais) نے کیا ہے۔ اپنے مذموم سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے ان بے دینی افراد نے شورشیں برپا کرکے معاشرتی اور ملکی سکون کو برباد کردیا تھا۔ یاد رہے کہ سند باح نے ۶-۷۵۵ھ میں استاذیوں نے ۸-۷۶۶ میں اور خراسان کے محجوب پیغمبر نے ۸۰-۷۷۷ء میں علم بغاوت بلند کیا تھا۔ بعدازاں نویں صدی کے شروع میں ہم ہارون الرشید کے دو بیٹوں (مامون اور امین) کو سیاسی برتری کی خوفناک چپقلش میں بری طرح الجھا ہوا پاتے ہیں۔ اس کے کچھ عرصہ بعد مزد کی عقائد کے حامی بابک (۸۱۶ھ -۸۳۸ئ) کی مسلسل بغاوتوں نے اسلامی ادبیات کے زریں عہد کی فضا کو بری طرح متاثر کردیا تھا۔ مامون الرشید کے عہد حکومت کے ابتدائی سال ہمیں ایک ایسے سماجی واقعہ سے روشناس کراتے ہیں جو بہت زیادہ سیاسی اہمیت کا حامل تھا۔ یہ واقعہ (شعوبیہ نزاع) اگرچہ ۸۱۵ء میں ظہور پذیر ہوا تاہم یہ خود مختار ایرانی خاندانوں … طاہریہ (۸۲۰ئ)، صفاریہ (۸۶۸ئ)، سامانیہ (۸۷۴ئ) کے قیام اور عروج کے ساتھ ترقی کرتا گیا۔ اس لیے ان اور اسی نوعیت کے دیگر حالات نے مل جل کر مذہبی عقیدت اور جوش و خروش رکھنے والے انسانوں کو اس امر پرمجبور کردیا کہ وہ مسلسل معاشرتی اور سیاسی اضطراب کے منظر کو چھوڑ کر زیادہ سے زیادہ مراقبہ کی زندگی کے مسرت خیز سکون کی تلاش میں خلوت کدوں میں چلے جائیں۔ یہ ایک فطری امر ہے کہ جب انسان کو خارجی دنیا میں سکون نصیب نہ ہو تو وہ اس کی تلاش میں باطنی دنیا میں جاکر آباد ہو جاتا ہے۔ ایران کے سیاسی انتشار، ملکی عدم استحکام کی فضا، اقتدار پسندوں کی رزم آرائی اور باغیوں کی ہنگامہ خیزی نے مذہب پسندوں کو مجبور کردیا کہ وہ دنیا کے پریشان کن حالات سے منہ موڑ کر خلوت گاہوں میں جاکر سکون دل کو پانے کی کوشش کریں۔ دینوی مسائل سے یہ بے اعتنائی بھی ایرانی تصوف کے آغاز کا سبب بنی تھی۔ تَن کی دنیا سے یہ بے زاری من کی دنیا کی آبادی کا باعث بنی اور اس طرح لوگوں کی توجہ تصوف کی طرف مڑگئی۔ علامہ اقبال اس سبب کی طرف مزید اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: پیروان محمدؐ کے ان قدیم زاہدوں اور عابدوں کے سامی طرز زندگی اور خیالات پر آہستہ آہستہ کم و بیش کشادہ دلی پر مبنی وحدت الوجود پر آریائی چھاپ گہری ہوتی گئی۔ آریائی اثر کی شدت حقیقت میں ایران کی روز افزوں سیاسی آزادی کے متوازی چلتی گئی۔ عربوں کے سادہ اور عمل پرستانہ طرز حیات پر بتدریج عجمی اثرات بڑھتے گئے اور تصوف کی قدیم اسلامی روایات میں بھی غیر اسلامی عناصر شامل ہونے لگے۔ (۲)عقل پرستی اور عدم یقین تصوف کی ابتدا کادوسرا سبب یہ تھا کہ مسلم عقل پرست حکما نے بعض اسلامی عقائد و نظریات کو شک و شبہ کی نگاہوں سے دیکھنا شروع کردیا تھا۔ عقل پرستوں کے ان تشکیک آمیز رجحانات کا اولین اظہار ہمیں ایک قدیم ایرانی شاعر بشّار ابنِ بُرد کی نظموں میں ملتا ہے۔ یہ تشکیک پرست نابینا شاعر آگ کو خدائی درجہ دینے کے علاوہ ہر قسم کے غیر ایرانی طرز فکر کو ہدف تضحیک و تنقید بنایا کرتا تھا۔ عقل پرستی میں پنہاں شک و شبہ کے عناصر کا نتیجہ یہ نکلا کہ عقل و خرد سے بالاتر ایک ایسے ذریعۂ علم کی کشش کی ضرورت محسوس ہوئی جس نے القشیری کی کتاب رسالہ (سن تصنیف ۱۹۸۶ئ) میں اپنے دعویٰ کا حق جتلایا۔ ہمارے اپنے زمانے میں جرمن فلسفی کانٹ (Kant) کی کتاب عقل خالص کی تنقید کے منفی نتائج جیکبی (Jacobi) اور شامائر ماخر کو اس امر پر مجبور کردیا کہ وہ اپنے مذہبی اعتقادات کے ایک مثالی تصور کی حقیقت کے جذبے پر بنیاد رکھیں۔ اس طرح فکر و نظر، عقل و عشق اور دین و دانش کے درمیان اختلافات کی وسیع تر خلیج حائل ہوتی گئی۔ عقل پرستی کا خاصہ انسان کے دل و دماغ میں ظن و تخمین کے بیج بوکر اسے مایوسی کا شکار کرنا ہوتا ہے۔ ایسے پریشان کن حالات میں متلاشیان حق او رجویان صداقت عقل و خرد کی بھول بھلیوں سے نجات پانے کے لیے دین و تصوف کی راہ پر گامزن ہونے کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں۔ اس بات کو بیان کرنے کے بعد علامہ اقبال انیسویں صدی کے مشہور و معروف رومانیت پسند برطانوی شاعر ولیم ورڈز ورتھ (William Wordsworth) کی صوفیانہ شاعری کو بطور مثال پیش کرتے ہیں۔ انیسویں صدی کے اس نامور تشکیک پرست شاعر نے دماغ کی اس پراسرار کیفیت کی نقاب کشائی کی ’’جس میں ہم سراپا روح بن کر اشیا کی زندگی کو دیکھ لیتے ہیں۔‘‘ عقل چونکہ منزل مقصود نہیں بلکہ محض ایک ’’چراغ راہ‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے اس لیے یہ ہمیں تمام حقائق حیات سے باخبر نہیں کرسکتی۔ تصوف و معرفت کے ذریعے بقول اقبال ہم من کی دنیا میں ڈوب کر ’’سراغ زندگی‘‘ پانے کے لائق ہوجاتے ہیں۔ (۳)خشک فقہی اور عقلی بحثیں تصوف و معرفت کے فروغ کاایک سبب یہ تھا کہ مختلف فقہی مسالک کی خشک اور غیر ضروری بحثوں نے عمل پر ابھارنے والے جذبات کی قدر و قیمت او رافادیت کو کم کردیا تھا۔ فقہائے کرام کے غیر جذباتی مسائل او رمخفی فقہی خیالات نے لوگوں کے دلوں سے عمل خیزی کے جذبات کو اس قدر سرد کردیا تھا کہ وہ ذوق و شوق کی تلاش میں کوچہ تصوف میں آنے لگے۔ علامہ اقبال کا کہنا ہے کہ مامون الرشید کی وفات کے بعد لوگوں کے دلوں پر مسلم فقہا کے مختلف مکاتب فکر کے غیر جذباتی تقویٰ کی حکمرانی قائم ہوگئی تھی مگران خشک و عقلی بحثوں کی جاذبیت زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی او رلوگ تصوف کی طر ف مائل ہوتے گئے۔ آئمہ اربعہ یعنی امام ابو حنیفہ (متوفی ۷۶۷ئ)، امام شافعی (متوفی۸۲۰ئ)، امام مالک (متوفی ۷۹۵ئ) او رامام احمد بن حنبل (متوفی ۸۵۵ئ) نے اسلامی آئین کی وسعت پذیری اور ارتقا کے لیے نمایاں خدمات سرانجام دی تھیں مگران کے تقلید پرست پیروکاروں نے اسے عقلی بحثوں اور فکری نزاعات کا ذریعہ بنا دیا تھا۔ علامہ اقبال کی رائے میں امام احمد بن حنبل ’’آزاد خیالی کے بدترین دشمن‘‘ تھے۔ (۴)مذہبی مناظرے مامون الرشید نے مختلف فرقوں او رمختلف عقائد و نظریات رکھنے والے نمایندہ اشخاص کے مابین مذہبی بحثوں او رمناظروں کی حوصلہ افزائی کی۔ علاوہ ازیں اشاعرہ اور عقلیت کے حامیوں کے درمیان بھی سخت مذہبی اور فلسفیانہ مجادلات کا بازار گرم ہوگیا تھا۔ اس مناظرہ بازی کا ایک اثر تو یہ ہوا کہ مذہب ان فلسفیانہ مکاتب کی تنگ حدود کے اندر مقید ہو کر رہ گیا۔ اس کا دوسرا اثر یہ بھی ہوا کہ ان فکری اور مذہبی بحث و تمحیص نے لوگوں کے اندر آزاد خیالی کی رو ح پیدا کرکے انھیں تمام معمولی فرقہ پرستانہ جھگڑوں سے بلند ہونے کا احساس دلایا۔ اس نقطہ نظر نے بھی لوگوں کوتصوف کی طرف مائل کردیا تھا۔ (۵)آزاد خیالی اور مذہب سے لاپروائی عباسی حکمرانوں کے ابتدائی دور حکومت میں عقل پرستانہ رجحانات کی بنا پر لوگوں کے دلوں میں مذہبی جوش و خروش آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا تھا۔ اس کے علاوہ دولت کی فوری کثرت نے مسلمانوں کے اعلیٰ طبقوں میں اخلاقی بے التفاقی اورمذہب سے غفلت شعاری کے جذبات و خیالات پیدا کردیے تھے۔ علامہ اقبال کے خیال میں عقل پرستی نے لوگوں کے اندر آزادی خیالی کو جنم دے کر مذہبی شیفتگی کو کم کردیا تھا۔ جب مسلمانوں کی حکومت دور دراز ملکوں تک پھیل گئی تو ان کے ہاں دولت کی ریل پیل ہونے لگی تھی۔ کثرت دولت نے ان کے اندر عیش کوشی اور مذہب سے لاپروائی کی فضا پیدا کردی۔ اسی طرح اسلام کے حقیقی چاہنے والے اس صورت حالات سے خوش نہ تھے۔ عقل پرستی اور کثرت دولت کے غلط نتائج دیکھ کر کچھ لوگ ترک دنیا، ترک لذات اور خلوت گزینی کی طرف راغب ہوتے گئے۔ (۶)عیسائی رہبانیت کا اثر عیسائیت کے وجود نے بعض مسلمانوں کے اندر یہ جذبہ پیدا کردیا کہ یہ مذہب زندگی کا پرکشش نصب العین ہے۔ علامہ اقبال اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عیسائی راہبوں کے مذہبی خیالات کی بجائے ان کی حقیقی زندگی نے دور اول کے نیک طینت اور خدا پرست مسلمانوں کے دل و دماغ کوبہت زیادہ متاثر کیا تھا۔ راہبوں نے دنیا پر آخرت اور مادہ پرستانہ نظریہ حیات پر روحانی تصور زندگی کو ترجیح دے کر اپنی زندگیوں کو اپنے مذہب کے لیے وقف کردیا تھا۔ مسلمان زاہد اور عابدان کے اس طرز عمل سے بے حد متاثر ہوئے تھے۔ ان زاہدوں اور عابدوں کا عقیدہ آخرت اگرچہ بڑا جاذب تھا تاہم ان کی مکمل رہبانیت کو علامہ اقبال اسلامی تعلیمات کی روح کے خلاف سمجھتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں: آخرت پرستی اگرچہ اپنی ذات میں بے حد پرکشش نظر آتی ہے تاہم میرے خیال میں یہ اسلام کی روح کے بالکل خلاف ہے۔ ایرانی تصوف کے آغاز اور ارتقا کے بارے میں مندرجہ بالا چھے اسباب کو بیان کرنے کے بعد علامہ اقبال اس امر پر مزید زور دیتے ہیں کہ اس قسم کا صوفیانہ ماحول اور یہ چھے اسباب ہی ایرانی تصوف کے فروغ کا اصلی سرچشمہ تھے۔ ان کی رائے میں ان حالات ہی سے ہمیں صوفیانہ تصورات کا سراغ مل سکتا ہے۔ ایسے حالات میں ایرانی ذہن کا فطری میلان وحدت الوجود اور ہمہ اوست کے نظریات کی طرف ہوگیا تھا۔ اگر ہم ایسے صوفیانہ ماحول، ایرانی ذہن کی ہمہ اوست کی طرف ذہنی جھکائو اور مندرجہ بالا امور کومدنظر رکھیں تو ہم بآسانی ایران میں تصوف کی ابتدا اور ترقی کا سراغ لگانے کے قابل ہو جائیں گے۔ ایرانی تصوف کے حقیقی اسباب پر روشنی ڈالنے کے بعد علامہ اقبال عیسائی تصوف کی ابتدا اور ارتقا کے تاریخی، معاشرتی، ثقافتی اور سیاسی عوامل کو بھی زیر بحث لاتے ہیں۔ وہ مسلم اور عیسائی تصوف کے یکساں پس منظر کو بطورموازنہ پیش کرکے یہ نتیجہ نکالنے کی سعی کرتے ہیں کہ یہ دونوں تصوف کافی حد تک ایک جیسے حالات کی پیداوار ہیں۔ اس ضمن میں ان کی فکری تحقیقات کا خلاصہ یہاں بیان کیا جاتا ہے تاکہ قارئین اس دل چسپ موضوع کے تاریخی پس منظر سے بھی کسی قدر آگاہ ہوسکیں۔ /…//…/ عیسائی تصوف کا پس منظر عیسائی دنیا میں نوافلاطونیت (Neo-Platonism) کے آغاز اور فروغ سے قبل کے اصلی حالات کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ وہاں بھی ایرانی تصوف جیسے حالات نے ویسے ہی نتائج پیدا کیے تھے۔ عیسائی دنیا پر وحشیانہ حملوں نے بادشاہوں کو مجبور کردیا تھا کہ وہ اپنے محلات کو چھوڑ کر خیمہ گاہوں میں آجائیں اور اس طرح غیر مہذب حملہ آوروں کا مقابلہ کرسکیں۔ ان حملوں نے تیسری صدی عیسوی کے نصف کے قریب زیادہ نازک صورت اختیار کرلی تھی۔ فلاطینوس (Plotinus) بذات خود (Flaccus) کے نام اپنے ایک خط میں اپنے دور کے سیاسی اضطراب کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کرتا ہے: ’’ہمیں یہ خبر ملی ہے کہ ولیرین (Valerian) شکست کھا کر سپور (Sapor) کے ہاتھوں میں ہے۔ ہمارے زوال پذیر روم کے لیے فرانک المانی اور گاتھ قوموں اور ایرانیوں کی دھمکیاں یکساں طور پر خوفناک ہیں۔‘‘ (واگن کی کتاب صوفیوں کے ساتھ نصف گھنٹے صفحہ ۶۳) جب فلاطینوس نے اپنے مولد یعنی اسکندریہ کے اردگرد نظر دوڑائی تو اس نے ہر طرف رواداری اور مذہبی زندگی سے لاپروائی کے بڑھتے ہوئے آثار پائے۔ بعدازاں اس نے روم میں بھی زندگی کے بارے میں غیرسنجیدگی اور سوسائٹی کے اعلیٰ طبقات میں بھی کردار سے بے اعتنائی کو ملاحظہ کیا۔ روم اس زمانے میں مختلف قوموں کے لیے دیوتائوں کی پرستش گاہ کا درجہ حاصل کرچکا تھا۔ جب ایسے مقدس اور مشہور مرکز میں لوگوں کے کردار کا یہ حال تھا تو دیگر علاقوں کا تو ذکر ہی کیا۔ مزید برآں علم و فضل کے مراکز میں فلسفہ کو لٹریچر کی ایک شاخ کے طور پر مطالعہ کیا جاتا تھا حالانکہ اس کا مقصد کچھ اور تھا۔ علامہ اقبال رومی سلطنت میں سیاسی، اخلاقی اور مذہبی حالات کی سنگینی کوبیان کرنے کے بعد وہاں کی فکری فضا کا بھی تنقیدی جائزہ لیتے ہیں۔ ان کی رائے میں تشکیک پرستی (Scepticism) اور رواقیت (Stoicism) کے مایوس کن فلسفیانہ افکار نے بھی لوگوں کے اندر عیسائی تصوف میں دل چسپی پیدا کردی تھی۔ چنانچہ ایسے حالات میں فلاطینوس نے روم میں مادہ پرستانہ تصور حیات کے خلاف نوافلاطونی مکتب فکر کی بنیاد رکھی جو اشراقیت (نوافلاطونیت) کا عظیم ترین عَلم۔بردار تھا۔ یہ نئی فکری تحریک دراصل افلاطون کے خیالات اور مشرقی روحانیت کے امتزاج کی مظہر تھی۔ یونانی فلسفی پرہو (Pyrrho) نے حضرت عیسیٰؑ کی آمد سے تین صدیاں بیشتر تشکیک پرستی کی بنیاد ڈالی تھی۔ بعد میں جب اینٹیاکس (Antiochus) نے اس میں رواقیت کی آمیزش کی تو سیکٹس ایمپریکس (Sextus Empiricus) نے برافروختہ ہو کر پرہو کی اصل تشکیک پرستی کا پرچار شروع کردیا تھا۔ ان تمام حالات سے برگشتہ ہو کر فلاطینوس مجبوراً فلسفہ سے بالاتر الہامی ذریعہ علم میں صداقت کو تلاش کرنا شروع کردیا تھا۔ علامہ اقبال فلاطینوس کی اس جستجوئے حق کو یوں بیان کرتے ہیں: ’’ذہنی ناامیدی نے فلاطینوس کو فلسفہ سے بالاتر وحی میں حقیقت کو پانے پر مجبور کردیا۔‘‘ عیسائی تصوف میں دل چسپی کی ایک وجہ رواقی فلسفہ اخلاق کی سخت غیر جذباتی نوعیت او رپیروان عیسیٰؑ کی محبت خیز پرہیزگاری بھی تھی۔ حضرت عیسیٰؑ کے یہ فدائی طویل اور خوفناک ظلم و ستم سے بے خوف ہوکر تمام رومی سلطنت میں امن اور محبت کے پیغام کی کی تبلیغ کررہے تھے۔ اس بات نے کافرانہ خیالات کو ایسے انداز میں بیان کرنا لازم بنادیا جو زندگی کے قدیم مثالی نصب العین کی تجدید کرکے اسے لوگوں کے نئے روحانی تقاضوں کے مطابق ڈھال سکے۔ یاد رہے کہ عیسائیت کی اخلاقی قوت نوافلاطونیت سے بڑھ کر لوگوں کو متاثر کررہی تھی۔ اس لحاظ سے نوافلاطونی تصورات عیسائیت کے سادہ، عام فہم اور زیادہ جاذب اخلاقی اُصولوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے۔ عیسائی مذہب کی تعلیمات کی عوامی مقبولیت کا سبب یہ تھا کہ نوافلاطونیت اپنی مابعدالطبیعیاتی نوعیت کے باعث زیادہ تر لوگوں کے لیے کوئی خاص پیغام نہیں رکھتی تھی۔ علاوہ ازیں یہ غیر مہذب اور وحشی لوگوں کی رسائی سے باہر تھی۔ اس کے برعکس وحشی لوگ اورحاکم ستم رسیدہ عیسائیوں کی حقیقی زندگی اور خوبیوں سے متاثر ہو کر حلقہ بگوش عیسائیت ہوگئے اور وہ قدیم نظام کے کھنڈرات کی کوکھ سے نئی سلطنتوں کی تعمیر کے درپے ہوگئے۔ فلسفہ و مذہب اور عقل و عشق کا فرق واضح کرنے کے لیے علامہ اقبال یہاں یہ بجا کہتے ہیں: وجد و مستی کا وہ عنصر جو چند ذہنوں کو متاثر کرسکتا تھا اسے بعدمیں آنے والے مبلغینِ نوافلاطونیت نے پس منظر میں دھکیل دیا تھا نتیجہ یہ نکلا کہ نوافلاطونیت ایک ایسا فلسفیانہ نظام بن کر رہ گئی جس میں انسانی دل چسپی مفقود ہوگئی۔‘‘ اپنے اس نقطہ نگاہ کے ثبوت میں وہ وہٹاکر (Whittaker) کی کتاب سے مندرجہ ذیل اقتباس پیش کرتے ہیں۔ یہ مصنف نوافلاطونیت پر صوفیانہ جذب و مستی کو ترجیح دیتے ہوئے لکھتا ہے: صوفیانہ وجد کا حصول اس مکتب فکر کے آیندہ معلمین کے لیے دشوار تر ہوتا گیا اور ان کے اندر یہ رجحان زورپکڑتا گیا کہ اسے زمین پر حاصل کرنا ناممکن ہے۔‘‘ (وہٹاکر، نوافلاطونیت، صفحہ ۱۰۱) عیسائی تصوف کے تاریخی پس منظر پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالنے کے فوراً بعد علامہ اقبال ایرانی تصوف سے اس کا موازنہ اور مقابلہ شروع کردیتے ہیں تاکہ ہم ان دونوں نظریہ ہائے حیات کے مشترک اور غیر مشترک امور سے کسی حد تک واقف ہوسکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران میں مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کے باہمی ملاپ اور خیالات کی باہمی بارآوری کے اثر نے خاص مسلمانوں کے ذہنوں میں ایک مبہم آرزو پیدا کردی کہ وہ عیسائیوں کی طرح اسلامی افکار و تعلیمات کو اسی انداز میں بیان کریں جیسا کہ ان سے قبل انھوں نے کیا تھا۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے انھوں نے بتدریج عیسائی تصورات اور عیسائی لاادری (Gnostic) افکار یعنی عیسائی باطینت کے عناصر کو اسلامی تعلیمات میں جذب کردیا اور قرآن میں اس کے جواز کے لیے ایک مضبوط بنیاد بھی تلاش کرلی۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ نوافلاطونیت کے فلسفیانہ افکار و نظریات رومی حکمرانوں کو اپنا گرویدہ اور حلقہ بگوش نہ بناسکے۔ اس کے علاوہ علی الرغم عیسائی اخلاقیات نے انھیں اپنے مذہب میں شامل ہونے پر مجبور کردیا تھا۔ اس لحاظ سے فلسفہ یونان عیسائیت کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عربوں نے اپنی عسکری طاقت کے بل بوتے پر ایرانیوں کو مغلوب کرلیا تھا مگر بعض ایرانی ذہن باطن میں چند ایرانی اقدار و افکار کے حامی ہی رہے۔ عیسائیت نے تو فلسفہ یونان کے گلہائے تازہ کو پژمردہ بنا دیا مگر اسلام ایران میں آکر عجمیت کے سانچے میں ڈھل گیا۔ اس کی گوناگوں وجوہات کی تفصیل یہاں بیان نہیں کی جاسکتیں تاہم اس امر واقعی کی ثقافتی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ امام ابن تیمیہ نے اسلامی عقائد و افکار کی تطہیر کے لیے قابلِ قدر خدمات سرانجام دی تھیں مگر ان کی تقریر و تحریر کا تندو تیز لہجہ عجمیت کی شیریں گفتاری کو رام نہ کرسکا۔ علامہ اقبال عرب و عجم کی اس چپقلش اور فلسفہ یونان و عیسائیت کی اس تاریخی آویزش کو اپنے مخصوص فکر انگیز انداز میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: فلسفۂ یونان کا پھول عیسائیت کی ہوا کے سامنے مرجھا گیا لیکن ابن تیمیہ کی طعن آمیز تحریر کی باد سموم ایرانی گلاب کے پھول کی تازگی کامقابلہ نہ کرسکی۔ وحشیانہ حملوں کے طوفان نے ایک کو مکمل طور پر مٹا دیا مگر دوسرا تاتاری انقلاب سے غیر متاثر ہو کر اب تک اپنی جگہ پر قائم ہے۔ اسلامی تعلیمات کی صوفیانہ تعبیر کی غیر معمولی طاقتِ حیات اس وقت واضح ہوتی ہے۔ جب ہم تصوف کی ہمہ گیر ساخت پر غور و خوض کرتے ہیں۔ نجات کے سامی فارمولے کو ان مختصر الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے: ’’تم اپنے ارادے میں تبدیلی پیدا کرلو۔‘‘ اس مقولے سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ سامی (Semitic) انسان ارادے کوانسانی روح کا جوہر تصور کرتا ہے۔ اس کے برعکس ویدانت کا پرستار انڈین ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہماری تمام تکالیف کائنات کے بارے میں ہمارے غلط انداز فکر کا نتیجہ ہوا کرتی ہیں۔ اس لیے وہ ہمیں یہ حکم دیتا ہے کہ ہم اپنے فہم و ادراک کوبدل ڈالیں۔ اس سے اس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ انسان کی اصل فطرت عمل یا ارادہ کی بجائے فکر پر مشتمل ہے۔ فکر اَور ارادہ پر احساس اور جذبے کو علامہ اقبال ترجیح دیتے ہوئے صوفیانہ تصور زندگی پر یوں روشنی ڈالتے ہیں: لیکن صوفی کی رائے یہ ہوتی ہے کہ صرف ارادے یا ادراک کی تبدیلی ہمیں سکون قلب نہیں دے گی اس لیے وہ کہتا ہے کہ ہمیں اپنے احساس میں کامل انقلاب پیدا کرکے ان دونوں کی کایا پلٹنی چاہیے۔ ارادہ اور ادراک تو احساس کی محض خالص صورتیں ہیں۔ اس کے بعد وہ صوفی کے پیغام محبت اور درس دل جوئی کے بارے میں اظہار خیال کرکے کہتے ہیں کہ انسان کے نام صوفیا کا پیغام یہ ہوتا ہے۔ تم سب سے محبت کرو اور دوسروں کے ساتھ نیکی کرتے ہوئے اپنی انفرادیت کوبھول جائو۔ رومی کہتا ہے: ’’دوسرے انسانوں کے دلوں کو موہ لینا حج اکبر ہے۔ ایک دل کی تسخیر ہزاروں کعبوں سے بڑھ کر ہے کیوں کہ کعبہ تو محض ابراہیمؑ کی جھونپڑی ہے اور دل خدا کا حقیقی گھر ہے۔‘‘ علامہ اقبال نے غلطی سے اس قول کو مولانا روم سے منسوب کیا ہے حالانکہ شیخ سعدی نے ایسا کہا تھا۔ شیخ سعدی کے جن دو اشعار کو علامہ اقبال نے نثر کا جامہ پہنا کر پیش کیا ہے، وہ یہ ہیں: دل بدست آور کہ حج اکبر است از ہزاراں کعبہ یک دل بہتر است کعبہ بنگاہِ خلیلِ آذر است دل گزر گاہِ جلیلِ اکبر است ممکن ہے طباعت کی غلطی کی وجہ سے سعدی کی بجائے رومی کا نام کتاب میں آگیا ہے۔ بہرحال صوفیا انسانی دل کی تسخیر اور عظمت کے بے حد قدر دان ہوتے ہیں۔ علامہ اقبال جذبے کو فکر و عمل پر ترجیح دینے کے بعد صوفیانہ نظریہ حیات کی فکری تعبیر و توضیح کی ضرورت کے بھی قائل دکھائی دیتے ہیں اسی لیے وہ فرماتے ہیں کہ یہ صوفیانہ اُصول عقلی تشفی اور عمل کے ضابطہ ہدایت کے اعلیٰ نصب العین کے مابعدالطبیعیاتی جواز کے لیے کیوں او رکیسے کا متقاضی ہے۔ وہ اس امر کے قائل ہیں کہ تصوف ان دونوں سوالوں کا جواب مہیا کرتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ انسانی افکار و اعمال کو احساسات و جذبات کے تحت سمجھتے ہیں اور تصوف میں اسلامی تعلیمات اور ہندومت کے بعض نظریات کی آمیزش کا بھی اعتراف کرتے ہیں جیسا کہ ان کے درج ذیل الفاظ سے صاف ظاہر ہے۔ وہ ایرانی تصوف میں اسلامی اور ہندوانہ آمیزش پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں: سامی مذہب عمل کے لیے سخت اُصولوں کا مجموعہ ہے۔ اس کے برعکس ہندی ویدانت جذبات سے عاری نظامِ افکار ہے۔ تصوف ان دونوں کی نامکمل نفسیات سے اپنا دامن چھڑاتے ہوئے عشق و محبت کے برتر درجے میں سامی اور آریائی دونوں اُصولوں کو آپس میں جوڑ دیتا ہے۔ ایک طرف تو یہ نروان (فنا۔نیستی) کے بدھ تصور کو اپنے اندر جذب کرکے اس نظریے کی روشنی میں اپنے مابعدالطبیعیاتی نظام کی تعمیر کی کوشش کرتا ہے اور دوسری طرف یہ اپنے آپ کو اسلام سے جدا نہ کرتے ہوئے اپنے تصور کائنات کا جواز قرآن حکیم میں پاتا ہے۔ یہ اپنے گھر کی جغرافیائی حیثیت کی طرح سامی اور آرین نظاموں کے درمیان واقع ہو کر دونوں اطراف کے تصورات کو اپنے اندر سمو لیتا ہے اور ان پر اپنی انفرادیت کی مہر لگا دیتا ہے۔ تصوف کی یہ چھاپ مجموعی طور پر سامی سے زیادہ آریائی نوعیت کی ہے۔ اس اقتباس سے حضرت علامہ کے نظریہ تصوف کی ایک جھلک کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ وہ ایرانی تصوف کو فکر و عمل کے علاوہ جذبۂ عشق پر بھی مبنی خیال کرکے اس کی قوت حیات کا راز انسانی فطرت کے کامل تصور میں نہاں پاتے ہیں۔ چونکہ صوفیانہ تصور مکمل طور پر انسانی فطرت کی جاذبیت اور تاثیر کا حامل ہے اس لیے یہ سخت قسم کے مذہبی لوگوں کی ستم رانیوں اور سیاسی انقلابیوں کے باوجود بھی زندہ رہا ہے۔ یہ بات اس حقیقت پر شاہد ہے کہ اگر اس میں اتنی طاقت اور ہمہ گیر اپیل نہ ہوتی تو یہ کبھی بھی آج تک قائم و دائم نہ رہتا۔ مفکر اسلام علامہ اقبال سامی اور آریائی تصورات زندگی کے اختلاف کی اس بحث کو سمیٹتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ فنائے ذات کو زیادہ تر اپنی دل چسپی کا مرکز توجہ بنانے کے علاوہ تصوف فکر آمیز اور فلسفہ طراز میلانات کو بھی آزاد چھوڑ دیتا ہے۔ /…//…/ اسلامی تصوف کی قرآنی بنیاد علامہ اقبال تصوف کے بارے میں اب اس کی قرآنی اساس پر بھی روشنی ڈالتے ہیں تاکہ اسے محض عجمی، عیسائی، یونانی اور ہندی اثرات و اسباب ہی کا مجموعہ خیال نہ کیا جائے۔ وہ یہاں بڑے اختصار کے ساتھ ان قرآنی آیات کا حوالہ بھی دیتے ہیں جو صوفی مصنّفین اپنے متصوفانہ نظریات کے جواز میں پیش کرچکے ہیں۔ حضرت علامہ کا ذاتی خیال یہ ہے کہ اس مفروضے کی تائید میں ہمیں کوئی تاریخی ثبوت نہیں ملتا کہ پیغمبر عربؐ نے واقعی حضرت علیؓ یا حضرت ابوبکر صدیقؓکو خاص مخفی اُصول بتائے تھے۔ اس تاریخی عدم ثبوت کے باوجود صوفی اس بات پر جھگڑتا ہے کہ رسول کریمؐ مخفی علم یعنی ’’حکمت‘‘ کے مالک تھے اور یہ ’’حکمت‘‘ قرآن حکیم میں بیان کردہ تعلیم سے ممیّز ہے۔ وہ اپنی اس بات کی تائید میں قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت پیش کرتا ہے۔ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلاً مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا وَیُزِکِّیْکُمْ وَ یُعَلِّمُکُم الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَِۃَ و یُعَلِّمُکُمْ مَّالَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ۔ ہم نے تم میں سے تمھاری طرف ایک رسول بھیجا ہے جو تمھیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے، تمھیں پاکیزہ بناتا ہے اور تمھیں قرآن کی تعلیم حکمت دینے کے علاوہ تمھیں وہ کچھ سکھاتا ہے جس سے تم پہلے واقف نہیں تھے۔ (البقرۃ،۲:۱۴۶) صوفی اس امر پر بحث کرتا ہے کہ اس آیت میں مذکورہ ’’حکمت‘‘ قرآن حکیم کی تعلیم میں شامل نہیں ہے اور رسول کریمؐ نے بار بار اعلان کیا ہے کہ ان سے بیشتر کئی انبیا کو ایسی حکمت عطا کی گئی تھی۔ صوفی مزید کہتا ہے کہ اگر ’’حکمت‘‘ کو قرآن میں شامل خیال کیا جائے تو پھر لفظ ’’حکمت‘‘ اس آیت میں حشو و زوائد سمجھا جائے گا۔ صوفیا کے نظریہ علم مخفی اور تصور حکمت کی بحث کے دوران میں علامہ اقبال تصوف کی اسلامی بنیاد میں پختہ یقین رکھتے ہوئے یہ فرماتے ہیں: میرے خیال میں اس امر کو آسانی سے ظاہر کیا جاسکتا ہے قرآن حکیم اور مستند احادیث میں صوفیانہ اُصول کے ایسے بیج موجود ہیں جو عربوں کی کلیتاً عملی ذہانت کے باعث عرب میں نشو و نما پاکر بارآور نہ ہوسکے لیکن دیار غیر کے سازگار حالات میں ایک واضح اُصول کی شکل اختیار کرگئے۔ اس کے بعد حضرت علامہ کہتے ہیں کہ قرآن مسلمانوں کی تعریف یوں بیان کرتا ہے: ’’متقی لوگ وہ ہیں جو غیب میں ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور ہمارے دیے ہوئے مال میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘ (دوسری سورت، آیت نمبر۲) وہ قرآنی آیت یہ ہے: وَالَّذِیْنَ یُؤمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ غیب کیا اور کہاں ہے؟ قرآن اس سوال کا جواب دیتا ہے کہ یہ غیب تمھاری اپنی روح میں ہے۔ یہ جواب ان قرآنی آیات سے ماخوذ ہے: ایمان لانے والوں کے لیے زمین میں اور تمھارے نفوس میں نشانیاں پائی جاتی ہیں۔ کیا تم ان نشانیوں کو نہیں دیکھتے ہو۔ وَ فِیْٓ الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِلّمُؤمِنِیْنَ وَ فِیْ اَنْفُسِکُمْ۔ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ۔[الذاریات: ۲۰-۲۱] قرآن مزید کہتا ہے: ’’ہم اس (انسان) کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔‘‘ (ق:۱۶) نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْد۔ اس طرح اللہ کی یہ پاک کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ غیب کی اصل نوعیت پاکیزہ روشنی ہے۔ حکم خداوندی ہے: اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یعنی: ’’اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔‘‘ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے یہ نور اولین (Primal Light) ذاتی ہے یا نہیں تو قرآن حکیم ذات خداوندی کے مفہوم کو ظاہر کرنے والے کئی بیانات کے باوجود چند الفاظ میں یہ ارشاد فرماتا ہے: ’’اللہ کی مانند کوئی شے بھی نہیں ہے۔‘‘ (الشوریٰ: ۱۱) اس قرآنی آیت کی عربی عبارت یہ ہے: لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ قرآن حکیم اور چند غیر مذکورہ احادیث کی روشنی میں علامہ اقبال متصوفانہ نظریات کا جواز پیش کرنے کے بعد صوفی شارحین کے مزید دل چسپ خیالات کا خلاصہ ہدیہ قارئین کرتے ہیں۔ ان کی رائے میں مندرجہ بالا آیات قرآن کی ان آیات میں سے ہیں جنھیں سامنے رکھ کر مختلف صوفی شارحین کائنات سے متعلق وحدۃ الوجودی نظریات کو پروان چڑھاتے ہیں۔ صوفیا روحانی تربیت کے چار اہم مدارج بیان کرتے ہیں جن میں سے گزر کر روح انسانی عام انسانوں کی سطح سے بلند ہوتی ہے اور آخرکار تمام اشیائے کائنات کے آخری منبع (خدا) کا وصال اور قرب حاصل کرلیتی ہے۔ روح یعنی نور اولین کے امریا عقل کی نوعیت پر قرآن ان الفاظ میں روشنی ڈالتا ہے: ’’اے رسولؐ! آپ کَہ دیجیے کہ روح اللہ کا امر یا عقل ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل: ۸۵) قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ۔قرآن میں لفظ امر تو استعمال ہوا ہے مگر اسے یہاں عقل (Reason) نہیں کہا گیا۔ معلوم نہیں علامہ اقبال نے اس کا ترجمہ ’’امر‘‘ کے علاوہ ’’عقل‘‘ کیوں کیا ہے۔ روحانی تربیت کے چار اہم صوفیانہ اُصول یہ ہیں: غیب میں ایمان (ایمان بالغیب)۔ غیب کی جستجو۔ غیب کا علم۔ حصول مقصد غیب۔ علامہ اقبال صوفیانہ نظریہ غیب کی وضاحت میں کچھ نہیں کہتے مگر وہ دوسرے نظریہ جستجوئے غیب یعنی خدا تعالیٰ کی تلاش کے تصور کی توضیح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مختلف حیرت انگیز مظاہر فطرت کا مطالعہ و مشاہدہ کرکے تحقیقات کی روح اپنی گہری نیند سے بیدار ہو جاتی ہے۔ مشاہدہ نہ کرنے سے علمی تحقیقات میں کوئی ترقی نہیں ہوتی کیوں کہ ذہنی جمود اور روحانی جمود خواب گراں کے مترادف ہیں جن میں انسان نہ صرف اردگرد کی دنیا و مافیہا سے بے خبر رہتا ہے بلکہ وہ اپنی بیداری اور شعور ذات سے بھی آگاہ نہیں ہوسکتا۔ قرآن حکیم میںمشاہدہ کائنات اور مطالعہ فطرت پر بار بار زور دیا گیا ہے تاکہ ہم خدا تعالیٰ کی تخلیقی صلاحیت اور شان ربوبیت کے تعجب خیز واقعات اور بصیرت افروز معجزات دنیائے رنگ و بو میں دیکھ کر اس کی کبریائی اور کاریگری کے معترف ہوں اور اس کی اطاعت اختیار کرلیں۔ قرآن حکیم کی یہ آیت یہاں بطور مثال پیش کی جاتی ہے۔ ’’اونٹ کی تخلیق پر غور کرو، یہ بھی دیکھو کہ آسمانوں کو کیسے بلند بنایا گیا ہے اور پہاڑوں کو کس طرح مضبوطی سے گاڑ دیا گیا ہے۔‘‘ (الغاشیہ: ۱۷-۱۹) اس آیت محکم کی عربی عبارت بھی ملاحظہ ہو۔ اَفَلاَ یَنْظِرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقْتْ وَ اِلَی السَّمَآئِ کَیْفَ رُفِعَتْ وَ اِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ۔ مطالعہ آفاق کو علامہ اقبال نے صوفیوں کی نظر میں جستجوئے غیب، کا نام دیا ہے۔ غیب کی یہ جستجو در حقیقت دکھائی نہ دینے والے خلاق کائنات کی ہستی کے سراغ کا دوسرا نام ہے۔ وہ صوفیانہ تصور غیب کے تیسرے اُصول یعنی علم الغیب کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے اسے مطالعہ نفس کے مترادف قرار دیتے ہیں۔ خدا کو ہم اپنی عاجز ظاہری آنکھوں سے دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے تاہم ہم اس کے حسن اور کاریگری کے نادرخارجی مظاہر کو دیکھ سکتے ہیں۔ اس مطالعہ آفاق کے علاوہ مطالعہ انفس بھی ہمیں خدا کی قدرت کاملہ اور ہستی کا احساس دلاتا ہے۔جب ہم اپنے باطن کی دنیا میں جھانکتے ہیں تو ہمیں اس غیبی ہستی (خدا) کا سراغ مل جاتا ہے۔ اسے علامہ اقبال کے اپنے الفاظ میں یوں بیان کیا گیا ہے: اپنی روح کی گہرائیوں میں دیکھنے سے ہمیں غیب کا علم حاصل ہو جاتا ہے۔ روحانی تربیت کا آخری مرحلہ یہ ہے کہ انسان اپنے اصل مقصد کو حاصل کرلیتا ہے۔ اعلیٰ درجے کی صوفیا کی رائے میں عدل اور احسان کا لگاتار مشق سے یہ نتیجہ برآمد ہوا کرتا ہے۔ اس ضمن میں وہ قرآن کی اس آیت سے استدلال کرتے ہیں جس میں عدل،نیکی اور اقربانوازی کا حکم دے کر گناہ، برائی اور ظلم سے روکا گیا ہے۔ وہ قرآنی آیت یہ ہے: ’’بلاشبہ خداتعالیٰ تمھیں عدل اور نیکی کا حکم دیتا ہے اور تمھیں اقربا کا حق دینے اور معصیت، بدی اور ظلم سے رکنے کا بھی حکم دیتا ہے۔‘‘ (النحل: ۹۰) اِنَ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وِ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبیٰ وَ یَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَ الْمُنْکَرِ وَ الْبَغِْی یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ۔ خدا کی جستجو اور وصال کے ان چار اہم روحانی مراتب تربیت کو بیان کرنے کے بعد ترجمان حقیقت علامہ اقبال قرب ایزدی کے حصول کے لیے تصوف میں غیر اسلامی افکار کی آمیزش کو پسند نہیں کرتے۔ اس بارے میں وہ فرماتے ہیں کہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بعد میں آنے والی صوفی برادریوں (مثلاً نقشبندی مکتب فکر) نے قرب الٰہی کو پانے کے لیے یا تو دوسرے ذرائع استعمال کیے یا انھوں نے ہندی دیدانت کے خیالات مستعار لیے۔ انھوں نے کندلینی (Kundalini) کے ہندوانہ نظریے کی نقل کرتے ہوئے یہ تعلیم دی کہ انسانی جسم میں مختلف رنگو ںکے چھ بڑے نورانی مراکز ہیں۔ ان کے خیال میں صوفی کا مقصد ان رنگوں کو مراقبہ کے خاص طریقوں کے ذریعے حرکت میں لانا یا ان کی فنی اصلاح میں ’’لہر‘‘ پیدا کرنا ہے اور آخرکار رنگوں کی واضح کثرت کے درمیان اس بنیادی بے رنگ نور کو حاصل کرنا ہے جو بذات خود نادیدنی ہونے کے باوجود ہر ایک چیز کو دیدنی بنا دیتا ہے۔ جسم میں سے روشنی کے ان مراکز کی لگاتار حرکت اور خدا کے مختلف اسما اور پراسرار اذکار کی آہستہ آہستہ تکرار سے جسم کے جواہر (Atoms) حرکت کے خاص راستوں پر آکر آخر کار اپنی کامل یکسانیت کے حامل بن جاتے ہیں۔ اس طرح ان نورانی مراکز اور ان کی مطابقت کے آخری حصول کی وجہ سے صوفی کا سارا جسم منور ہو جاتا ہے اور خارجی دنیا میں اسی روشنی کا احساس مکمل طور پر ’’غیریت‘‘ (دوئی) کا احساس مٹا دیتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ہندوانہ طریقے ایرانی صوفیا کو معلوم تھے مگر مشہور مستشرق وان کریمر کو جو تصوف کے سارے انوکھے واقعہ کو ویدانتی اثرات پرمبنی خیال کرتا تھا۔ یہ غلط فہمی ہوگئی کہ گیان دھان کے ایسے طریقے بالکل غیر اسلامی نوعیت رکھتے ہیں۔ یہاں اس امر کی وضاحت لازمی ہے کہ اعلیٰ درجے کے صوفیا مراقبے کے ان طریقوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے ہیں۔ تاہم تصوف میں ہندی ویدانت کے مستعار خیالات کے بارے میں علامہ اقبال ویبر (Weber) کا مندرجہ ذیل قول پیش کرتے ہیں جو فی الحقیقت لیسن (Lassen)کی سند پر مبنی ہے۔ ویبر کہتا ہے: ’’البیرونی نے گیارھویں صدی کے آغاز میں پتن جلی (Patanjali) کی کتاب کا عربی ترجمہ کیا تھا… ‘‘ (ویبر، انڈین لٹریچر کی تاریخ، صفحہ ۲۳۹) علامہ اقبال بذات خود ایرانی تصوف میں ہندی اور دیگر غیر اسلامی افکار و نظریات کی آمیزش کے تو قائل ہیں مگر وہ تصوف کو سراسر ہندی ویدانت کا چربہ خیال کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ (۲)صوفیانہ مابعدالطبیعیات کے پہلو مسلم اور غیر مسلم تصوف کی اصل کے تاریخی عوامل اور دیگر متعلقہ امور کا اس موضوع کے پہلے حصے میں تفصیلی جائزہ لیا گیا تھا۔ اب مفکر اسلام علامہ اقبال ایرانی تصوف کے مابعدالطبیعیاتی مکاتب فکر اور فلسفیانہ پہلوئوں کا تین پہلوئوں سے جائزہ لینے کے لیے کافی تفصیل سے کام لیتے ہیں۔ ان کی رائے میں صوفیانہ لٹریچر کی بغور تحقیق کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تصوف نے حقیقت مطلقہ (Ultimate Reality) یعنی خدائے لم یزل کو جن تین پہلوئوں سے دیکھا ہے وہ فی الاصل ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل و تائید کرتے ہیں۔ خدا کے بارے میں صوفیا کے ان تین اہم پہلوئوں کو صوفیانہ ادبیات میں نمایاں ترین مقام حاصل ہے۔ اگر ان کو تصوف کے تین ستون قرار دیا جائے تو اس میں ہرگز کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔ بعض صوفیا اس حقیقت غائی (خدا) کو شور ذات کی حامل مشیت (Self-Conscious Will) خیال کرتے ہیں، دوسرے صوفیا اسے حسن کامل قرار دیتے ہیں جب کہ صوفیا کے تیسرے گروہ کی رائے میں یہ حقیقت کاملہ بنیادی طور پر خیال، نور یا علم کی حامل ہے۔ اس لحاظ سے خدا کے بارے میں صوفیانہ نظریات کے تین پہلو یا مکاتب فکرپائے جاتے ہیں۔ اب ذیل میں ان تین پہلوئوں پرکسی قدر روشنی ڈالی جائے گی۔ شعور ذات پر مبنی مشیت کی حامل حقیقت اس مکتب خیال کے حامیوں میں تاریخی ترتیب سے جو حضرات سرفہرست آتے ہیں ان کے اسمائے گرامی شفیق بلخی، ابراہیم ادہم اور رابعہ بصری ہیں۔ یہ مکتب فکر حقیقت مطلقہ (خدا) کو مشیت (Will) اور کائنات کو اس مشیت ایزدی کی محدود فعالیت (سرگرمی) سمجھتا ہے۔ اس کا یہ تصور خدا اور یہ نظریہ کائنات اساسی طور پر توحید پرستانہ (Monotheistic) ہے اور اس توحید پرستی کے سبب یہ اپنی نوعیت میںزیادہ تر سامی ہے۔ اس گروہ کے عَلم۔بردار صوفیا کا نصب العین حصول علم کی شدید خواہش نہیں بلکہ ان کی زندگی کی حقیقی خصوصیات تقویٰ، آخرت اور اپنے احساسِ معصیت کی بنا پر خدا کی شدید ترین آرزو ہے۔ دور اول کے ان ممتاز ترین صوفیاکی عملی زندگیاں خوف خدا، عشق الٰہی، فکر عقبیٰ، پرہیزگاری، سادگی، زہد و ریاضت اور خدا طلبی کی آئینہ دار تھیں۔ ان کا صوفیانہ مسلک زہد و عبادت کا عکاس تھا اور اس میں فلسفیانہ بحثوں کو کوئی دخل نہ تھا۔ علامہ اقبال نے اسی لیے اس کی نوعیت کو سامی (Semitic) قرار دیا ہے۔ ان بزرگوں کا مقصد فلسفہ طرازی اور نکتہ آفرینی کی بجائے زندگی کا ایک خاص عملی اور مثالی نصب العین تراشنا تھا۔ چونکہ ان کا صوفیانہ نظام فکری بحثوں اور فلسفیانہ افکار کی آمیزش سے عاری ہے اس لیے حضرت علامہ مابعدالطبیعیاتی نقطہ نگاہ سے اسے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ حقیقت بطور حسن نویں صدی عیسوی کے آغاز میں معروف کرخی نے تصوف (Sufism) کی تعریف کرتے ہوئے اسے ’’ایزدی حقائق کا ادراک‘‘ قرار دیا تھا۔ تصوف کی اس تعریف نے صوفیانہ تحریک کا رخ ایمان سے علم کی طرف موڑ دیا تھا۔ تصوف کی اس تعریف نے صوفیانہ تحریک کا رخ ایمان سے علم کی طرف موڑ دیا تھا۔ ابتدائی دور کے صوفیا تصوف کو ایمان کی مضبوطی کے لیے اختیار کرتے تھے مگر بعد میں آنے والے صوفیوں نے اسے خدائی حقائق و معارف کو سمجھنے کا ذریعہ بنالیا۔ اس طرح متقدمین اور متاخرین کے نظریہ تصوف میں بھی تبدیلی رونما ہوگئی۔ حقیقت مطلقہ کو علم کے ذریعے جاننے کے طریق کو صحیح طور پر دسویں صدی عیسوی کے آخر میں القشیری نے بیان کیا تھا۔ اس تصور کے مبلغین نے درمیان میں حائل ہونے والے ذرائع کی بنا پر تخلیق کے نو افلاطونی اور اشراقی نظریے کو اختیار کرلیا تھا۔ اگرچہ یہ نظریہ کافی مدت تک صوفی مصنفین کے اذہان میں موجود رہا تاہم ان کے نظریہ ہمہ اوست (Panthcism) نے انھیں ان کے پرانے نظریہ ظہور (Emanation Theory) کوچھوڑنے پر مجبورکردیا تھا۔ بو علی سینا کی مانند وہ حقیقت مطلقہ کو ’’حسن ازلی‘‘ خیال کرتے تھے جس کی ذات اپنے ’’چہرے‘‘ کو آئینہ کائنات میں منعکس دیکھنے کی خوگر ہے۔ اس لیے ان کی رائے میں یہ کائنات ’’حسن ازلی‘‘ کا پرتو بن گئی۔ اب وہ نوافلاطونیت اور اشراقیت کے حامیوں کی طرح اسے خدا کے حسن و جمال کا ظہور تصور نہیںکرتے تھے۔ میر سید شریف کا قول ہے کہ تخلیقِ کائنات کا سبب حسن مطلق کا ظہور ہے اور سب سے پہلے جس شے کو پیدا کیا گیا وہ عشق تھا۔ اس حسن ازل کو عالم گیر عشق و محبت کے ذریعے پایا جاتا ہے۔ عشق و محبت کو ایرانی صوفی نے اپنی فطرتی زرتشتی جبلت کی بنا پر ’’خدا کے سوا ہر چیز کو جلا دینے والی مقدس آگ‘‘ قرار دیا۔ مولانا رومی فرماتے ہیں: اے عشق! تو ایک خوشگوار دیوانہ پن ہے۔ توہماری جملہ بیماریوں کا طبیب ہے۔ اے عشق! تو ہمارے غرور و نخوت کو صحت یاب کرنے والا ہے۔ تو ہماری ارواح کا افلاطون اور جالینوس ہے۔ (مثنوی جلال الدین رومی مع شرح بحر العلوم،لکھنؤ ،انڈیا،۱۸۷۷ئ، صفحہ۹۔) علامہ اقبال نے عجمی صوفیا کے نظریہ عشق و محبت کو بیان کرتے ہوئے ان کے ایک ایسے مشہور قول کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں انھوں نے عشق کو آگ سے شبیہ دی تھی۔ ان کا وہ مقولہ یہ ہے: العشق نار یحرق ما سو اللّٰہ’’یعنی عشق ایک ایسی آگ ہے جو ماسوا اللہ کو جلا دیا کرتی ہے۔‘‘ انھوں نے مولانا روم کے نظریہ عشق کے اظہار میں صرف ان کے دو مشہور اشعار کا ترجمہ اس کتاب میں دیا ہے اور وہ اشعار درج نہیں کیے۔ قارئین کرام کی آگاہی کے لیے مولانا رومی کے وہ دو اشعار یہاں پیش کیے جاتے ہیں۔ وہ عشق و محبت کی ہمہ گیر افادیت و عظمت کی یوں مدح سرائی کرتے ہیں: شاد باش اے عشقِ خود سودائے ما اے طبیبِ جملہ علت ہائے ما یا دوائے نخوت و ناموس ما یا تُو افلاطون و جالینوس ما (رومی) علامہ اقبال صوفیوں کے تصور حسن پر مزید بحث کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کائنات کے اس قسم کے نظریے کا براہ راست نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں پہلی بار بایزید بسطامی میں غیر ذاتی جذب و انہماک کانظریہ ملتا ہے جس نے بعدازاں اس مکتب فکر کی ترقی کے نمایاں خدوخال کی تشکیل کی تھی۔ ممکن ہے کہ اس تصور کی نشو و نما پر ان ہندو یاتریوں نے اثر ڈالا ہو جو باکو میں ابھی تک واقع بدھ مندر تک پہنچنے کے لیے اپنے سفر کے دوران میں ایران سے ہو کر گزرا کرتے تھے۔ اپنے اس قول کی تائید میں علامہ اقبال گیگر (Geiger) کی کتاب مشرقی ایرانیوں کی تہذیب سے مندرجہ ذیل اقتباس پیش کرتے ہیں۔ گیگر بدھ مت کی ترقی اور ایران میں اس کے اثر و نفوذ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتا ہے: ہمیں یہ امر معلوم ہے کہ سکندر اعظم کے بعد والے دور میں بدھ مت مشرقی ایران میںکافی طاقت۔ور تھا۔ اس مذہب کے ماننے والے طبرستان جیسے دور دراز علاقے تک بھی پھیلے ہوئے تھے۔ یہ بات خاص طور پر یقینی ہے کہ بدھ مت کے بہت سے پروہت باختر میں پائے جاتے تھے۔ یہ صورت حالات غالباً ایک صدی قبل از مسیح سے شروع ہو کر ساتویں صدی بعد از وفات مسیح تک قائم رہی۔ اس کے بعد مذہب اسلام کے ظہور نے کابل اور باختر میں بدھ مت کی ترقی کی رفتار مدھم کردی۔ یہ وہی دور ہے جس میں ہمیں دقیقی (Daqiqi) کی پیش کردہ زرتشتی روایات کے فروغ کا سراغ ملتا ہے۔ (مشرقی ایرانیوں کی تہذیب، جلد دوم، صفحہ ۱۷۰) یہ مکتب فکر حسین منصور حلاج کے ہاتھوں وحدۃ الوجود پرستانہ نظریات کا آئینہ دار تھا۔ حسین منصور حلاج نے ہندی ویدانت کی حقیقی روح کے مطابق یہ نعرہ بلند کیا۔ ’’انا الحق‘‘ یعنی میں خدا ہوں… ہندی ویدانت میں یہ کہا جاتا ہے۔ ’’اہم برہما اسمی‘‘۔ اس مکتب خیال کے صوفیوں کی رائے میں حقیقت مطلقہ یا حسن ازلی اس مفہوم میں غیر محدود ہے کہ ’’یہ کلیتاً ابتدا، انتہا، یمین، یسار، بالا اور پست کی قیود سے آزاد ہے۔‘‘ مقصدِ اقصی از نسفی نسفی اس کتاب میں مزید لکھتا ہے:’’جوہر اور خاصیت اصل میں ایک جیسی ہیں۔‘‘ یہ اس لحاظ سے ذات و صفات کے امتیاز کو خدائے لامحدود میں موجود خیال نہیں کیا جاتا۔ اس سے قبل یہ یہ واضح کیا جاچکا ہے کہ یہ کائنات (Absolute Existence) کے لیے بمنزلہ آئینہ ہے۔ جس طرح کہ آئینے میں اپنی شکل دیکھنے کے عادی ہیں اس طرح خدا تعالیٰ اپنی ذات کا اپنی صفات میں عکس دیکھتے ہیں۔ بنابریں یہ کائنات خداتعالیٰ کے لیے آئینے کی حیثیت رکھتی ہے۔ نسفی (Nasafi) اپنی مذکورہ بالا کتاب میں آئینے کی دو قسموں کو بیان کرتا ہے: (الف) ایک آئینہ وہ ہے جو صرف شکلِ معکوس کو ظاہر کتا ہے۔ یہ خارجی فطرت ہے۔ (ب) دوسرا آئینہ وہ ہے جو اصلی جوہر کا مظہر ہوتا ہے۔ یہ انسان ہے جو ذات مطلق (خدا) کی حد بندی ہے اور جو غلطی سے اپنے آپ کو آزاد ہستی خیال کرتا ہے۔ نسفی انسانوں کی محدود اور خدا کی غیر محدود زندگیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مقصدِ اقصیمیں کہتا ہے۔ ’’اے درویش! کیا تو یہ سمجھتا ہے کہ تیری ہستی خدا سے الگ تھلگ ہے؟ یہ تیری بہت بڑی غلطی ہے۔‘‘ نسفی اس نظریے کو ایک خوبصورت تمثیل کے ذریعے بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ایک دفعہ ایک خاص تالاب کی مچھلیوں نے محسوس کیا کہ وہ پانی میں زندگی گزارتی اور حرکت کرتی ہیں لیکن انھوں نے یہ بھی احساس کیا کہ وہ اپنی زندگی کے اصل منبع سے بالکل ناواقف ہیں۔ اس بارے میں انھوں نے ایک بڑے دریا کی ایک زیادہ عقل مند مچھلی کی طرف رجوع کیاتو اس فلسفی مچھلی نے انھیں ان الفاظ میں مخاطب کیا۔ ’’اے زندگی کی گرہ کو کھولنے کی سعی کرنے والی مچھلیوں! اگرچہ تم وحدت میں پیدا ہوتی ہو تاہم تم غیر حقیقی جدائی کے خیال میں مرجاتی ہو۔ تم ساحل سمندر پر پیاسی ہو! خزانے کی مالک ہونے کے باوجود تم کنگال ہو کر مررہی ہو!۔‘‘ علامہ اقبال مندرجہ بالا گروہ صوفیا کے وجودی تصورات کی بحث کے ضمن میں ہجرو وصال اور مولانا روم کے نوافلاطونی نظریئے کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں۔ ’’فراق کا سارا احساس جہالت ہے اور تمام ’’غیریت‘‘ محض ایک نمودِ خواب اور سایہ ہے۔ ’’غیریت‘‘ کا فرق خدائے مطلق کے عرفانِ ذات کے اصل تعلق سے پیدا ہوتا ہے۔ اس مکتبِ فکر کا عظیم مبلغ مولانا رُوم ہے جسے ہیگل ’’رفیع الشان‘‘ رومی کہتا ہے۔ اس نے ہستی کے مختلف مدارج کے ذریعے کام کرنے والی آفاقی روح کے نوافلاطونی نظریے کو اپنایا اور اسے اتنے جدید انداز میں بیان کیا کہ کلوڈ (Clodd) نے اسے اپنی کتاب داستان تخلیق میں شامل کیا ہے۔‘‘ رومی کے کلام کے اس حصے کو علامہ اقبال جدید تصور ارتقا کا پیش رو خیال کرتے ہیں۔ ان کی رائے میں کلام رومی کا یہ حصہ اس کی مثالیت یا عینیّت (Ideolism) کا حقیقت پسندانہ پہلو ہے۔ وہ اس کا انگریزی ترجمہ کرکے اپنی اس کتاب میں بڑے فخر کے ساتھ اسے شامل کرتے ہیں۔ رومی کے اس کلام کا مطلب درج ذیل ہے: سب سے پہلے انسان بے جان اشیا کے درجے میں ظاہر ہوا۔ اس کے بعد وہ اس درجے سے گزر کر نباتات کے درجے میں داخل ہوا۔ کئی سالوں تک اس نے پودوں کی حیثیت سے زندگی گزاری اور اسے اپنی سابقہ حالتِ جمادات کے بارے میں کچھ بھی یاد نہ رہا۔ اسی طرح جب وہ نباتاتی حالت سے حیوانی حالت میں آیا تو اسے اپنی گزشتہ نباتاتی حالت کے بارے میں اس کے علاوہ کچھ اور یاد نہ رہا کہ اس کو اب بھی عالم نباتات سے خصوصاً بہار اور عطر بیز پھلوں کے وقت ایسی ہی رغبت محسوس ہوتی ہے جیسی کہ بچوں کو اپنی مائوں سے ہوا کرتی ہے اور جو یہ نہیں جانتے کہ ان کو سینۂ مادر سے کیوں اتنی رغبت ہے۔ بعدازاں جیسا کہ تمھیں معلوم ہے خالق اکبر نے انسان کو مرتبہ حیوانیت سے نکال کر مرتبہ انسانیت میں پہنچایا۔ اس طرح انسان فطرت کے مختلف مدارج طے کرتا ہوا موجودہ دانائی، علم اور طاقت کا مالک بن گیا۔ اسے اپنی پہلی روح یاد نہیں رہی اور وہ دوبارہ اپنی موجودہ روح سے بدل کر کچھ اور ہو جائے گا۔‘‘ علامہ اقبال نے اپنی اس کتاب میں مولانا روم کے اشعار کا صرف ترجمہ ہی پیش کیا ہے اور متعلقہ اشعار نہیں دیے۔ قارئین کی آگاہی اور دل چسپی کے لیے میں وہ متعلقہ اشعار یہاں درج کیے دیتا ہوں تاکہ ہمیں حکمت آموز اور ارتقائی خیالات کا کچھ اندازہ ہوسکے۔ مولانا روم انسانی تخلیق کے مختلف مدارج کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: آمدہ آول بہ اقلیم جماد از جمادی در نباتی او فتاد سال۔ہا اندر نباتی عمر کرد نامدش حالِ نباتی ہیچ یاد جز ہماں میلے کے دارد سوئے آں خاصہ در وقتِ بہار و ضیمراں ہم چنیں اقلیم تا اقلیم رفت ہم ازیں عقلش تحول کرد نیست عقل ہائے اوّل اُورا یاد نیست ہم ازیں عقلش تحول کرد نیست تا رہد زیں عقلِ پر حرص و طلب صد ہزاراں عقل بیند بو العجب (مثنوی، جلد چہارم از رومی) رومی کے نظریہ ارتقا اور تصوف و نوافلاطونیت کے موضوع کی روشنی میں علامہ اقبال صوفیانہ نظریہ خدا اور نوافلاطونی تصور خدا کے تقابلی مطالعہ کے اس پہلو کو دل چسپ اور تعلیم آموز قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ نوافلاطونیت کا پیش کردہ خدا تمام کائنات پر محیط (Immanent) بھی ہے اور کائنات سے ماورا (Transcendant) بھی۔ اس ضمن میں وہ ویٹاکر (Whitta Ker) کی کتاب نوافلاطونیت سے بطور دلیل یہ اقتباس پیش کرتے ہیں: تمام اشیا کی علت ہونے کی حیثیت سے یہ ہستی ہر جگہ موجود ہے لیکن غیر شے ہونے کے باعث کہیں بھی نہیں ہے۔ اگر یہ ’’ہرجگہ‘‘ ہے اور ’’کہیں اورنہیں‘‘ تو لامحالہ یہ ہر شے میں ہے۔ (ویٹاکر، نوافلاطونیت، صفحہ ۵۸) تاہم صوفی مختصر مگر جامع انداز میں یہ کہتا ہے کہ خدا ہر شے میں موجود ہے۔ نوافلاطونیت پرست مادے کے خاص دوام اور جمود کا قائل ہے لیکن اس مکتب فکر کے حامی صوفیا تمام خارجی تجربات کو خواب و خیال قرار دیتے ہیں۔ ان کا قول ہے کہ محدودیت کی زندگی خوابیدہ ہے اور اس کے برعکس موت بیداری کا دوسرا نام ہے۔ تاہم غیر شخصی بقا کا اُصول جو صحیح طور پر مشرقی روح پر مبنی ہے، اس صوفیانہ دبستان خیال کو نوافلاطونیت سے ممیّز کرتا ہے۔ اس بارے میں ویٹاکر کی یہ رائے ملاحظہ ہو: عام انسان عقل کی غیر شخصی بقا کے بارے میں فلسفہ عرب کے اس واضح اُصول کا جب ارسطو کے فلسفیانہ نظام اور نوافلاطونیت کے ساتھ مقابلہ کیا جاتا ہے تو ہمیں یہ عربی نظریہ بنیادی طور پر جدت خیال کا حامل دکھائی دیتاہے۔ (ویٹاکر، نوافلاطونیت، صفحہ۵۷) مندرجہ بالا مختصر صراحت سے پتا چل جاتا ہے کہ اس انداز فکر کے تین بنیادی تصورات یہ ہیں کہ: (الف) حقیقت مطلقہ کو ہم شعور کی نفسانیت سے پاک حالت کے ذریعے جان سکتے ہیں۔ (ب) حقیقت مطلقہ غیر شخصی ہے۔ (ج) حقیقت مطلقہ واحد ہے۔ ان تین تصورات کے عین مطابق یہ نظریات بھی ملتے ہیں: (الف) بارھویں صدی عیسوی کے شاعر عمر خیام کا بیان کردہ لاادریت (Agnosticism) پر مبنی ردعمل۔ عمر خیام جس نے اپنی ذہنی مایوسی سے مجبور ہو کر یہ کہا تھا: نشاط طلب انسان جو بلا کے بادہ نوش ہیں اور مسجد میں شب بیداری کی زحمت اٹھانے والے نیک لوگ یہ سب یکساں طور پر سمندر میں غرق ہیںاور انھیںکوئی کنارہ نہیں ملتا۔ صرف خدا کی ذاتِ واحد بیدار ہے اورباقی سب محوِ خواب ہیں۔ علامہ اقبال نے عمر خیام کی جس رباعی کا یہاں محض ترجمہ پیش کیا ہے وہ رباعی یہ ہے: آں ہانکہ محیطِ فضل و آداب شدند در کشفِ علوم شمعِ اصحاب شدند رہ زیں شبِ تاریک بزدند بروں گفتند فسانہ و در خواب شدند (رباعیات) (ب) تیرھویں صدی عیسوی میں ابن تیمیہ اور اس کے مقلدین کا توحید پرستانہ رد عمل۔ (ج) تیرھویں صدی عیسوی میں واحد محمود کا کثرت الوجود (Pluralism) پر مبنی ردعمل۔ (دبستان باب، نمبر۸) خالصتاً فلسفیانہ نقطۂ نگاہ سے واحد محمود کی تحریک اپنے اندر بہت زیادہ دل چسپی کا سامان رکھتی ہے۔ تاریخِ فلسفہ اس امر کو واضح کرتی ہے کہ ترقی کے چند عام قوانین مختلف لوگوں کی ذہنی اور فکری تاریخ کے بارے میں بھی درست ثابت ہوتے ہیں۔ اس تصور کی تائید میں علامہ اقبال کے یہ الفاظ بھی قابل غور ہیں۔ جرمن توحید پرستانہ نظام ہائے فکر نے ہربرٹ (Herbart) کی کثرت پرستی کو مدد کے لیے بلایا جب کہ سپینوزا (Spinoza) کے ہمہ اوست نے لائبنز (Leibniz) کی وحدت جواہر کے فلسفہ سے مدد چاہی۔ اسی اُصول کے عمل کے تحت واحد محمود نے اپنے دور کی وحدت وجود کی صداقت کا انکار کرتے ہوئے کہا کہ حقیقتِ مطلقہ وحدت کی بجائے کثرت کی حامل ہے۔ لائبنز سے کافی عرصہ بیشتر اس نے کہا تھا کہ کائنات افراد یعنی ان بنیادی اکائیوں یا سادہ غیر تقسیم پذیر مادی ذرات کا مجموعہ ہے جو ازل سے موجود اور عطیہ حیات کے مالک ہیں۔ حضرت علامہ واحد محمود کے نظریہ تخلیق کائنات کی دل چسپ بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے مزید فرماتے ہیں کہ واحد محمود کی رائے میں قانون کائنات پست سے اعلیٰ حالتوں کی طرف مسلسل سفر کرنے والے بنیادی مادے کی ارتقائی تکمیل پر مشتمل ہے۔ بنیادی اکائیاں جس قسم کی خوراک کو جذب کرتی ہیں اسی طرح کی حالتیں معرض وجود میں آتی ہیں۔ اس کے نظریہ تخلیق کا ہر دور آٹھ ہزار سالوں پر مشتمل ہے اور ایسے آٹھ ادوار کے بعددنیا کی ترکیب کی اکائیاں الگ ہو کر نئی دنیا کی تشکیل کے لیے دوبارہ آپس میں متحد ہو جاتی ہیں۔ اپنے ان فلسفیانہ خیالات کی بنا پر واحد محمود ایک ایسا فرقہ بنانے میں کامیاب ہوگیا جسے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا اور انجام کار شاہ عباس نے اس کا وجود ہی ختم کردیا۔ یہ کہا جاتا ہے کہ مشہور ایرانی شاعر حافظ شیرازی اس فرقے کے نظریات میں اعتقاد رکھتا تھا۔ حقیقت نور اور فکر کی حیثیت سے حقیقت مطلقہ کی نوعیت سے متعلق صوفیا نے زیادہ تر تین بنیادی نظریات بیان کیے ہیں جنھیں علامہ اقبال اس باب کا اہم موضوع تصور کرتے ہیں۔ اس سے قبل وہ خدا تعالیٰ کے بارے میں صوفیا کے دو اساسی تصورات… باشعور مشیت اور حسن ازلی… کو بیان کرچکے ہیں۔ اب وہ اس کے تیسرے بنیادی تصور… نور یا فکر… پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ تصوف کا یہ تیسرا عظیم دبستان حقیقت کاملہ (خدا) کو نور یا فکر سمجھتا ہے۔ اس نقطہ نگاہ سے ذات خداوندی اپنے وجود اور گوناگوں صفات کے اظہار کے لیے فکر و نور کی متقاضی ہے۔ تصوف کے پہلے دومدرسہ ہائے فکر نے نوافلاطونیت کو چھوڑ دیا تھا جب کہ اس آخری مکتب خیال نے تو افلاطونیت کو نئے فکری نظاموں میں تبدیل کردیا تھا۔ تاہم اس صوفیانہ مکتبِ خیال کی مابعدالطبیعیات کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو تو صحیح طور پر ایرانی سپرٹ کا حامل ہے اور اس کا دوسرا پہلو زیادہ تر عیسائی انداز فکر سے متاثر ہے دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ تجرباتی کثرت حقیقتِ مطلقہ کی نوعیت میں اُصول مغائرت کو لازم بنا دیتی ہے۔ /…//…/ حقیقتِ نور کی حیثیت… الاشراقی ایرانی ثنویت کی طرف رجعت اَلْاَشْعَرِی کے آغاز کردہ تنقیدی جائزے کی روح پر مشتمل اسلامی الہیات میں یونان کے فلسفہ جدلیات کا عمل دخل ہوا۔ اس یونانی جدلیات کا مکمل اظہار الغزالی کی تشکیک پرستی میں پایا گیا۔ عقل پرستوں کے گروہ میں چند ایسے تنقیدی اذہان مثلاً نظام وغیرہ تھے جن کا فلسفہ یونان کے ساتھ رویہ غلامانہ اطاعت پذیری کی بجائے آزادانہ تنقید کا حامل تھا۔ اُصول مذہب کے حامیوں … الغزالی، الرازی، ابوالبرکات اور العمیری نے فلسفہ یونان کی ساری ساخت پر پے در پے حملے کیے جب کہ ابو سعید صیرافی، قاضی عبد الجبار، ابوالمعالی، ابوالقاسم اور آخرکار زیرک ابن تیمیہ اسی قسم کے الہیاتی مقاصد کے تحت یونانی منطق کی ساخت میں مخفی کمزوری کا پردہ چاک کرتے رہے۔ فلسفہ یونان سے متعلق ان مسلم حکما کی تنقید کو چند فاضل صوفیا مثلاً شہاب الدین سہروردی کی تائید و نصرت بھی ملی۔ شہاب الدین سہروردی نے اپنی کتاب یونانی حماقتوں کی پردہ کشائی میں یونانی افکار کی تردید کرکے عقل خالص کی بے چارگی کو ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۔ علامہ اقبال عقلیت کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے خلاف اشاعرہ کی فکری سرگرمیوں اور آزاد تنقید کی افادیت کے بارے میں یہ فرماتے ہیں: عقلیت کے خلاف اشاعرہ کے رد عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ مابعدالطبیعیات کا ایک ایسا ترقی یافتہ نظام بن گیا جو اپنے چند پہلوئوں میں نہ صرف جدید ترین تھا بلکہ اسی نے ذہنی غلامی کی پرانی زنجیروں کو بھی مکمل طور پر توڑ کر رکھ دیا۔ اپنی کتاب کی پہلی جلد (صفحہ ۳۶۷) میں اردمان (Erdmann) کی یہ رائے معلوم ہوتی ہے کہ مسلمانوں کی فلسفہ طراز روح الفارابی اور بو علی سینا کے ساتھ ہی ختم ہوگئی اور ان کے بعد فلسفہ تشکیک پرستی اور تصوف (Mysticism) کا روپ دھار کر دیوانہ پن کا شکار ہوگیا تھا۔ یہ صاف ظاہر ہے کہ وہ فلسفہ یونان پر مسلمانوں کی اس تنقید کو نظر انداز کرتا ہے جس نے ایک طرف تو اشاعرہ کی عینیت (Idealism) کو جنم دیا اور دوسری طرف ایرانی فلسفے کی صحیح انداز میں تشکیل جدید کا کام دیا تھا۔ علامہ اقبال کا خیال ہے کہ شروع شروع میں مسلمانوں کے ذہنوں پر یونانی فلسفے کی عظمت اس قدر مرتسم ہوگئی تھی کہ وہ اُصول دین اور مذہبی اعتقادات کوبھی اسی ترازو میں تولنے لگے تھے۔ اگر کوئی عقیدہ فلسفہ یونان کے معیار پر پورا نہ اترتا تو وہ یا تو اسے رد کردیتے یا اس کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتے تھے۔ بعدازاں جب فلسفہ یونان کی مرعوبیت کم ہونے لگی اور مسلمان مفکرین نے اس کی خامیوں کو بے نقاب کردیا تو مسلمانوں میں آزاد تنقید کو فروغ حاصل ہوا یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ جب تک بیرونی افکار و نظریات کی غلامی سے نجات نہ پائی جائے اس وقت تک ملکی نظریات اور فلسفے کی جدید تشکیک ممکن نہیں ہوتی۔ اس لیے حضرت علامہ بجا فرماتے ہیں کہ مکمل طور پر ایرانی نوعیت کے فلسفیانہ نظام کی از سر نو تعمیر کے لیے یہ بے حد ضروری تھا کہ پہلے یا تو غیرملکی افکار کو ختم کیا جائے یا ذہن پر اس کی گرفت کو کمزور بنایا جائے۔ ان کے خیال میں اشاعرہ اور اسلامی اُصول و عقائد کے دیگر محافظوں نے فلسفہ یونان کی بربادی کو مکمل کردیا تھا۔ اس کے بعد وہ اس نئے آزاد ماحول میں آنکھیں کھولنے والے ایک بلند پایہ مسلمان فلسفی الاشراقی (Al-Ishraqi) کی فکری عظمت کا ان الفاظ میں تذکرہ کرتے ہیں: حریت کی آغوش میں پلنے والا الاشراقی فلسفے کی نئی عمارت کو بنانے کے لیے آگے بڑھا۔ اگرچہ تشکیل جدید کے دوران میں اس نے پرانے مواد کو مکمل طور پر ردنہیں کیا تھا تاہم اس کا حقیقی ایرانی ذہن تنگ نظرمستند شخصیات کی دھمکیوں سے بے خوف ہو کر آزاد خیالی کے حق کا اثبات کرتا ہے۔ مفکر اسلام علامہ اقبال الاشراقی کے فلسفیانہ نظام پر مزید رائے زنی کرتے ہیں کہ الاشراقی کے نظریات کلیتاً قدیم ایرانی روایات کے آئینہ دار ہیں۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ حکیم الرازی اور الغزالی کی تصانیف اور فرقہ اسماعیلیہ میںبھی ایرانی روایت کا اظہار ہوا ہے مگر ان کا یہ اظہار جزوی ہے۔ اس کے برعکس الاشراقی اپنے پیش رو مفکرین کے فلسفے اور اسلامی الہیات سے آخری تفہیم کی کوشش کرتا ہے۔ شیخ شہاب الدین سہروردی ان عظیم المرتبت اور عدیم النظیر مفکرین اور فلاسفہ میں سے ہیں جنھوں نے اپنی گراں قدر علمی اور فکری سرگرمیوں کی بنا پر اسلامی الٰہیات اور فلسفہ اسلام کے میدان میں قابل ستایش خدمات سرانجام دی ہیں۔ عالم اسلام کی یہ نابغہ شخصیت فلسفہ یونان کی زبردست ناقد اور اسلامی تعلیمات و افکار کی مسلمہ مداح تھی۔ شیخ شہاب الدین سہروردی تقلید کو رانہ کے زبردست مخالف تھے اس لیے ان کے آزاد نظریات اس دور کے تقلید پرست اور فکر دشمن نام نہاد علمائے دین کو پسند نہ آئے۔ چنانچہ انھوں نے اس کے خلاف کفر کا فتویٰ عائد کرکے اسے بادشاہ وقت کے ہاتھوں قتل کروا دیا۔ علامہ اقبال اس ذہین و فطین مسلمان مفکر کے بے حد مداح ہیں۔ اس لیے انھوں نے اس کی فکری عظمت کے مختلف گوشوں پر سیر حاصل تبصرہ کیا ہے۔ سب سے پہلے وہ اُس کے مختصر ترین سوانح حیات اور فلسفہ یونان کے دو اہم نمایندوں یعنی افلاطون اور ارسطو پر اس کی تنقیدی آرا کا ذکر کرنے کے بعد وہ اس کے فلسفیانہ نظام کے چیدہ چیدہ پہلوئوں پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ اس کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے علامہ اقبال ہمیں بتاتے ہیں کہ شیخ شہاب الدین سہروردی المعروف شیخ الاشراق مقتول بارھویں صدی عیسوی کے وسط کے لگ بھگ پیدا ہوئے انھوں نے مشہور مفسر قرآن الرازی کے استاد مجد جیلی سے فلسفے کا علم حاصل کیا اور جوانی کے دور ہی میں انھیں تمام عالم اسلام میں بے مثال مفکر خیال کیا جاتا تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کابیٹا الملک الظاہر اس کا بہت بڑا مداح تھا۔ الملک الظاہر نے شیخ شہاب الدین سہروردی کو حلب آنے کی دعوت دی جہاں اس نوجوان فلسفی نے اپنی آزاد آرا اورنظریات کو ایسے انداز میں بیان کیا جس نے ان کے ہم عصر مذہبی علما کے دلوں میں حسد کے شدید جذبات پیدا کردیے تھے۔ یہ تنگ نظر اور حاسد علما شیخ مقتول کے شاہانہ قرب اور عوامی مقبولیت سے خائف ہوگئے۔ چنانچہ انھوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاں شکایت کرکے انھیں مروا ڈالا۔ علامہ اقبال ان تقلید پرست، حاسد، تنگ نظر اور نام نہاد علمائے دین کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہتے ہیں: مذہبی اجارہ داری نے اپنی حمایت اور اپنی پوشیدہ خامیوں کوچھپانے کے لیے ہمیشہ ہی اپنے پس پشت وحشی اور ظالم قوت کا انتظام کیا ہے۔ اس خون آشام مذہبی دعویداری کے ان زر خرید غلاموں نے سلطان صلاح الدین کو لکھا کہ شیخ شہاب الدین سہروردی کی تعلیمات سے اسلام کو خطرہ لاحق ہے اس لیے مذہب کے مفاد میں اس برائی کو ابھی ختم کردینا ضروری ہے۔ سلطان اس بات پر رضامند ہوگیا تھا۔ چنانچہ ۳۶ سال کی عمر میں اس نوجوان ایرانی مفکر کو قتل کردیا گیا۔ اس قتل نے اسے شہید صداقت بناکر اس کے نام کو حیات جاوداں عطا کردی۔ علامہ اقبال اس بے وقت موت پر تبصرہ کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں کہ شیخ شہاب الدین سہروردی کے قاتلین بھی وفات پاچکے ہیں اور ان کا نام باقی نہیں رہا مگر شیخ الاشراق مقتول کا وہ فلسفہ جس کی قیمت خون کی شکل میں ادا کی گئی ہے، ابھی تک زندہ ہے اور بہت سے متلاشیان حق اور طالبان صداقت کی کشش کا باعث ہے۔ اشراقی فلسفے کی تاریخ میں شیخ شہاب الدین سہروردی کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ ان کی فلسفیانہ عظمت کے مختلف پہلوئوں سے نقاب کشائی کرتے ہوئے علامہ اقبال فرماتے ہیں: فلسفہ اشراق کے اس بانی کی بنیادی خصوصیات اس کی ذہنی آزادی، اپنے افکار کو ایک جامع نظام میں پیش کرنے کی مہارت اور سب سے بڑھ کر اپنے ملک کی فلسفیانہ روایات کے ساتھ وفاداری ہے۔ بہت سے بنیادی امور میں وہ افلاطون سے متفق نہیں اور وہ بڑی آزادی کے ساتھ ارسطو کو بھی ہدف تنقید بناتا ہے۔ وہ فلسفہ ارسطو کو اپنے نظام افکار کی صرف تیاری کے لیے استعمال کرتاہے۔ اس کی تنقید کی زد سے کوئی چیز بھی نہیں بچتی۔ وہ تو ارسطو کی منطق کا بھی سخت ناقدانہ جائزہ لیتے ہوئے اس کے چند اُصولوں کے کھوکھلے پن کو ظاہر کردیتا ہے۔ اس کے بعد وہ شیخ شہاب الدین سہروردی اور ارسطو کے نظریات ’’تعریف‘‘ کے اختلافی پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ ارسطو کے نزدیک ’’تعریف‘‘ (Definition) کا مطلب کسی شے کی جنس اور اختلاف کا اجتماع ہے لیکن شیخ الاشراق اس کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تعریف کردہ شے کی واضح خصوصیت کسی اور چیز میں معلوم نہیں ہوتی۔ اس لیے یہ ہمیں اس چیز کے بارے میں کوئی بھی علم نہیں دے گی۔ وہ ’’گھوڑے‘‘ کی مثال دیتے ہوئے اسے ہنہنانے و الا جانور قرار دیتے ہیں۔ اب ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ حیوانیت کیا ہے کیوں کہ بہت سے جانوروں میں یہ صفت پائی جاتی ہے مگر ’’ہنہنانے‘‘ کی صفت کو سمجھنا ممکن نہیں کیوں کہ تعریف شدہ شے کے علاوہ اور کہیں نہیں پائی جاتی۔ جس آدمی نے کبھی گھوڑا دیکھا ہی نہیں اس کے لیے گھوڑے کی یہ عام تعریف بے معنی ہوگی۔ اس نقطہ نگاہ سے سائنسی اُصول کے تحت ارسطو کی یہ تعریف بالکل بے کار ہے۔ علامہ اقبال کی رائے میں ارسطو پر شیخ شہاب الدین کی یہ تنقید اسے وہی موقف اختیار کرنے پر مائل کرتی ہے جو موقف بوزنکے (Bosanquet) نے تعریف (Definition) کے بیان میں اختیار کرتے ہوئے اسے ’’مجموعہ صفات‘‘ کہا تھا۔ شیخ شہاب الدین کے خیال میں کسی چیز کی صحیح تعریف میںاس شے کی ان تمام بنیادی صفات کو جمع کیا جائے گا جو تعریف شدہ چیز میں پائی جائیں اگرچہ وہ دوسری چیزوں میں فرداً فرداً بھی شامل ہوں۔ شیخ شہاب الدین سہروردی کے مابعدالطبیعی افکار و نظریات کی قدر و قیمت پر روشنی ڈالتے ہوئے علامہ اقبال اس کا یہ قول پیش کرتے ہیں کہ ماورائی فلسفہ (Transcendental Philosophy) کے خالصتاً فکری پہلو کے کامل ادراک کے لیے ہمیں فلسفہ ارسطو، منطق، ریاضیات اور تصوف سے پوری طرح واقف ہونا چاہیے اور ہمارا دماغ کلیتاً تعصب اور گناہ کے داغ سے پاک ہونا چاہیے تاکہ ہم اس باطنی احساس کو بتدریج ترقی یافتہ بناسکیں جو عقلی نظریات کی تصدیق و تصحیح کیا کرتا ہے۔ اس کے بعد علامہ اقبال عقل کے ساتھ ساتھ عشق کی افادیت و عظمت کے بارے میں یہ کہتے ہیں: عقل کی ہمیشہ ’’ذوق‘‘ سے مدد ہونی چاہیے کیوں کہ اس کی تائید سے محروم عقل ناقابل اعتبار ہوتی ہے۔ ’’ذوق‘‘ اصل میں اشیا کے جوہر کے اس پراسرار احساس کا نام ہے جو بے چین روح کو علم اور سکون عطا کرتا ہے اور ہمیشہ کے لیے تشکیک پرستی کو غیرمسلح بنا دیتا ہے۔ ہمارا زیادہ تر تعلق اس روحانی تجربے کے خالص فکر انگیز اور فلسفہ طراز پہلو سے تعلق ہے۔ یہ روحانی تجربہ باطنی احساس کے ان نتائج پر مشتمل ہوتا ہے جنھیں عقل استدلالی ترتیب دے کر خاص نظام افکار کی شکل میں پیش کیا کرتی ہے۔ اس کے بعد فلسفہ اشراق کے مختلف پہلوئوں مثلاً علم حقیقتِ اشیا نظریۂ کائنات اور نفسیات کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے اس طرح علامہ اقبال ہمیں شیخ شہاب الدین سہروردی کے فلسفیانہ نظام کے ان چند اہم گوشوں سے باخبر کرتے ہیں۔ علم حقیقت اشیا اور شیخ الاشراق کائنات کی چیزوں کی ماہیت اور وجود کے بارے میںشیخ شہاب الدین سہروردی نے جو کچھ کہا ہے علامہ اقبال یہاں اس کا خلاصہ پیش کرتے ہیں تاکہ ہمیں شیخ مقتول کے نظریہ حقیقت اشیا کا اجمالی اندازہ ہوسکے۔ اشیائے کائنات اور جملہ مخلوقات کی آفرینش و ابتدا سے متعلق مختلف ادوار میں مختلف فلاسفہ، حکما، اہل دانش و دین نے متعدد نظریات بیان کیے ہیں۔ جہاں تک شیخ شہاب الدین سہروردی کے تصور وجود کا تعلق ہے اس کی اساس نور ایزدی پراستوار ہوتی ہے۔ ان کی رائے میں ہر قسم کی زندگی کا آخری اور اصلی سرچشمہ نور ایزدی ہے جسے وہ ’’نور قاہر‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ اس اولین یا ازلی نور مطلق (Primal Absolute Light) کی اصلی نوعیت مستقل تجلیات پرمشتمل ہے۔ الاشراقی کی کتاب حکمۃ الاشراق کی شرح کرتے ہوئے الہروی (Al-Harawi) اپنی تصنیف شرح انواریہ میں لکھتا ہے: نور سے زیادہ اور کوئی چیز زیادہ دیدنی نہیں ہے اور دید کی طاقت کو کسی اور تعریف کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس لیے روشنی کا تقاضا ظہور ہے کیوں کہ اگر ظہور کو روشنی کی متضاد صفت خیال کیا جائے تو پھر نتیجہ یہ نکلے گا کہ روشنی اپنی ذات میں دید کی قوت کی حامل نہیں اور یہ کسی اور چیز کی وساطت سے دیدنی بن جاتی ہے۔ اس بات سے احمقانہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ روشنی کی بجائے کوئی اور چیز زیادہ قابلِ دید ہے۔ اس استدلال سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیخ شہاب الدین سہروردی خداتعالیٰ کو نور ایزدی اور نور مطلق سمجھتے ہوئے تمام اشیائے کائنات کو اس اولین سرچشمہ حیات اور منبع نور سے فیض یاب قرار دیتے ہیں۔ ان کے اشراقی فلسفے کا خلاصہ یہ ہے: نور اولین اپنی ذات سے ماورا اپنے وجود کے لیے کوئی علت نہیں رکھتا۔ حقیقی اُصول حیات کے علاوہ سب کچھ اس پر منحصر، متصل اور ممکن ہے۔ عدم نور (ظلمت) کوئی ایسی چیز نہیں جو کسی اور خود مختار منبع سے نکلی ہو۔ مجوسی مذہب کے عَلم۔برداروں کی یہ غلطی ہے کہ وہ نور اور ظلمت کو دو مختلف حقیقتیں خیال کرتے ہیں جنھیں دو مختلف تخلیقی عوامل نے پیدا کیا ہو۔ زرتشت کے پیروکاروں اور پروہتوں نے روشنی اور تاریکی کو دو خودمختار سرچشموں کا سبب گردانا کیوں کہ ان کے اُصول کے مطابق ذات واحد ایک سے زیادہ کی مظہر نہیں ہوسکتی۔ یاد رہے کہ ایران کے قدیم فلسفی زرتشت پرستوں کی مانند ثنویت پرست نہیںتھے۔ نور اور ظلمت کا تعلق تخالف کی بجائے ہستی اور نیستی پر مبنی ہے۔ نور کا اثبات لازمی طور پر اپنے اندر اپنی نفی… ظلمت… کو پوشیدہ رکھتا ہے جسے منور کرنا اس کی اپنی ذات میں شامل ہے۔ اس نور ایزدی کے بارے میں یہ الفاظ قابلِ غور ہیں: یہ نور اولین ہرحرکت کا سرچشمہ ہے لیکن یہ حرکت مکان کی تبدیلی نہیں ہے۔ یہ حرکت اس نور افشانی کی وجہ سے ہے جو اس کی ذات کا خاصہ ہے۔ یہ نور اولین تمام اشیائے کائنات کی حرکت اور زندگی کا باعث ہے کیوں کہ یہ ان پر اپنی شعائیں ڈال کر انھیں معرض وجود میں لاتا ہے۔ اس نور ربانی سے خارج ہونے والی تجلّیات کا کوئی شمار ہی نہیں۔ زیادہ روشنی کی حامل تجلّیات دوسری تجلیات کا منبع بن جاتی ہیں اور اس طرح ضوفشانی درجہ بدرجہ اس قدر کم ہو جاتی ہے کہ وہ دیگر تجلیات کو جنم نہیں دے سکتی۔ یہ تمام تجلیات درمیانی ذرائع یا مذہبی اصطلاح میں فرشتے ہیں جن کے سبب زندگی کی غیرمحدود انواع نور اولین سے زندگی اور استحکام پاتی ہیں۔ ارسطو کے متبعین نے غلطی سے اصلی عقول کی تعداد کو دس تک محدود کردیا تھا۔ اسی طرح انھوںنے خیال کے مدارج کے شمار میں ٹھوکریں کھائی تھیں۔ اس نور اولین کے بارے میں یہ الفاظ کس قدر حقیقت کشا اور بصیرت افروز ہیں: نور اولین کے امکانات لامحدود ہیں اور یہ تنوع پسند کائنات اس لامحدودیت اور ابدیت کا صرف ایک جزوی اظہار ہے۔ اس لحاظ سے ارسطو کے بیان کردہ مدارج صرف کسی قدر درست ہیں۔ محدود انسانی عقل ان تمام غیرمحدود اور مختلف تصورات کو سمجھنے سے قاصر ہے جن کے مطابق نور اولین تاریک اشیا کو ضوگیر بناتا ہے۔ اس تمام بحث سے یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ شیخ شہاب الدین سہروردی اس کائنات کی تمام اشیا اور مخلوقات کی زندگی کو خداتعالیٰ کے نور ایزدی سے فیض یاب خیال کرتے ہیں۔ قرآنِ حکیم نے خالقِ کائنات کو آسمانوں اور زمین کا ۔نور اللّہ نور السمٰوات و الارض کہا ہے۔ اس نور اولین سے لاتعداد انوار کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ جس چیز پر اس نور ایزدی کا عکس پڑتا ہے وہ پردہ عدم سے منصۂ شہود پر آجاتی ہے۔ اس فلسفہ اشراقی کے ضمن میں نور اولین کی دو گونہ تجلیات کا تذکرہ دل چسپی سے خالی نہ ہوگا۔ ایک روشنی کو شیخ شہاب الدین سہروردی نے ’’مجرد روشنی‘‘ اور دوسری قسم کو ’’حادثاتی روشنی‘‘ کہا ہے۔ سب سے پہلے مجرد روشنی (Abstract Light) پر اظہار خیال کیا جاتا ہے۔ شیخ الاشراق اس مجرد روشنی کو انفرادی اور آفاقی عقل کا نام بھی دیتے ہیں۔ ان کی رائے میں اس کی کوئی شکل و صورت نہیں اور یہ اپنی ماہیت (Substance) کے سوا کسی اور چیز کی صفت نہیں بنا کرتی۔ اس مجرد روشنی سے قدرے باشعور، شعوری اور شعور ذات کی حامل روشنی کی مختلف اشکال خارج ہوتی ہیں جو اپنی ہستی کے آخری منبع سے قرب و بعد کے مطابق ایک دوسری سے چمک دمک کی مقدار میں مختلف ہوتی ہیں۔ انفرادی عقل یا روح سے متعلق شیخ شہاب الدین سہروردی کی رائے یہ ہے: انفرادی عقل یا روح تو صرف ایک مدھم سی نقل ہے یا یہ نور اولین کا ایک بعید عکس ہے۔ نور مجرد اپنی ذات کے ذریعے اپنا عرفان حاصل کرتا ہے اور اسے اپنے آپ تک اپنی ہستی کے اظہار کے لیے کسی غیر خودی (Non-ego) کی حاجت نہیں ہوتی۔ بنابریں شعور یا عرفان ذات مجرد روشنی کا جوہر ہے جو روشنی کی نفی (تاریکی) سے ممیّز ہوتا ہے۔ نور اولین کی دوسری قسم ناگہانی اور حادثاتی نوعیت کی ہوتی ہے۔ یہ ایسی روشنی ہوتی ہے جو شکل رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے سوا کسی اور چیز کی صفت بننے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے مثلاً ستاروں کی روشنی یا دیگر اجسام کی دید۔ یہ حادثاتی روشنی یا دوسرے موزوں تر الفاظ میں قابل حس روشنی مجرد نور کا ایک ایسا بعید پرتو ہے جو دوری کے سبب اپنی شدت یا اپنے منبع کی اصلی نوعیت سے محروم ہوچکا ہے۔ مسلسل عکس کا طریق فی الحقیقت نرم ہونے کا طریقہ ہے۔ بعد میں آنے والی ضوفشانیاں آہستہ آہستہ اپنے نور کی شدت سے محروم ہوتی جاتی ہیں یہاں تک کہ انعکاس کا یہ سلسلہ ہمیں ان تابانیوں تک پہنچا دیتا ہے جومکمل طور پر اپنی آزاد نوعیت کو کھودیتی ہیں اور وہ کسی اور چیز سے الگ رہ کر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی ہیں۔ یہ درخشانیاں حادثاتی روشنی کی تشکیل کرتی ہیں جو ایک غیر خودمختار ہستی کی صفت ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے شیخ شہاب الدین سہروردی اس حادثاتی روشنی کو صفت بھی کہتے ہیں۔ مجرد نور اور حادثاتی نور کے باہمی ربط پر وہ یوں روشنی ڈالتے ہیں: حادثاتی نور اور مجرد نور کا باہمی تعلق علت و معلول کا ہے۔ تاہم معلول اپنی علت سے بالکل مختلف بھی نہیں۔ یہ بذاتِ خودایک تبدیلی یا مفروضہ علت کی کمزور ترشکل ہے۔ اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ مجرد نور کے علاوہ کوئی اور چیز (مثلاً روشن ہونے والے جسم کی نوعیت) حادثاتی روشنی کی علت نہیں ہوسکتی کیوں کہ اس کی اپنی روشنی کسی وقت بھی چھینی جاسکتی ہے۔ شرح انواریہ کے مصنف کے قول کے مطابق ہم کسی غیر مؤثر علت کا تصور ہی نہیں کرسکتے۔ مجرد نور اور حادثاتی نور کی بحث کے اختتام پر علامہ اقبال اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مندرجہ بالا بحث سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ شیخ الاشراق یعنی شیخ شہاب الدین سہروردی اشعری مفکرین سے متفق الرائے ہے کہ ارسطو کے بیان کردہ ایک اُصول مادہ اولین (Prima Materia) کی کوئی حقیقت نہیں۔ تاہم وہ روشن ہونے والی شے یعنی نور کی لازمی نفی (ظلمت) کے وجود کو تسلیم کرتا ہے۔ شیخ شہاب الدین سہروردی اشاعرہ سے ماہیت (Substance) اور کیفیت (Quality) کے علاوہ دیگر تمام مدارج کی اضافیت کے تصور سے بھی اتفاق کرتا ہے لیکن انسانی علم میں ایک فعال عنصر کے وجود کو تسلیم کرکے وہ اشاعرہ کے نظریہ علم کی تصحیح کرتا ہے۔ اس ضمن میں علامہ اقبال اپنی ذاتی رائے کا بھی ان الفاظ میں اظہار کرتے ہیں: ہم اور ہماری معلوم شے کا باہمی تعلق صرف غیر فعال ربط نہیں بلکہ ہماری انفرادی روح بذات خود تجلی ہونے کی حیثیت سے حصول علم کے دوران اس شے کو بھی منور کردیتی ہے۔ اس (شیخ شہاب الدین سہروردی) کے نزدیک کائنات فعال تجلی کا ایک عظیم طریق ہے مگر خالصتاً فکری نقطہ نگاہ سے کائنات کی یہ تابانی نور اولین کی لامحدودیت کا صرف جزوی اظہار ہے۔ یہ ازلی نور اشیا کو قوانین کے تحت بھی ضوگیر بناسکتا ہے جوہمارے احاطہ علم سے باہر ہیں۔ خیال کے مدارج غیر محدود ہیںاور ہماری عقل تو محض چند مدارج خیال پر منحصر ہے۔ اس لیے عقل استدلالی کے زاویہ نظر سے شیخ (شہاب الدین سہروردی) جدید مسلک انسانیت سے دور نہیں ہے۔ علم کائنات علامہ اقبال شیخ شہاب الدین سہروردی کے اشراقی تصور کائنات کی بحث کے دوران ارسطو کے نظریہ افادیت، اشاعرہ کے نظریہ جواہر، مادہ و روح، نور و ظلمت اور دیگر متعلقہ امور پر روشنی ڈالتے ہیں تاکہ شیخ الاشراق کی فکری عظمت اور علمی کارناموں سے آگاہ ہوسکیں۔ وہ شیخ شہاب الدین سہروردی کے تصور کائنات کی بحث چھیڑتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر ’’عدمِ نور‘‘ (Non-Light) اشراقی مفکرین کے الفاظ میں ’’مقدار مطلق‘‘ (Absolute Quantity) یا ’’مطلق مادہ‘‘ (Absolute Matter) ہے۔ ارسطو کے مقلدین کی رائے میں یہ خودمختار اُصول ہے لیکن اشراقی مفکرین کے خیال میں یہ تو صرف روشنی کے اثبات کا ایک اور پہلو ہے۔ ابتدائی عناصر کی ایک دوسرے میں کایا پلٹ کی تجرباتی حقیقت بنیادی مطلق مادے کی نشان دہی کرتی ہے جو اپنی کثافت کے مختلف مدارج کے سبب حیات مادی کے مختلف شعبوں کی تشکیل کرتا ہے۔ تمام اشیائے کائنات کی مطلق اساس کو دو قسموں میں پیش کیا جاتا ہے: (۱) مکان سے ماورا شے جسے ہم مخفی ماہیت (Substance) یا غیر تقسیم پذیر مادی ذرات کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ ان تقسیم نہ ہونے والے مادی ذرات کو اشاعرہ جواہر کہتے ہیں۔ (۲) مکان میں لازمی طور پر موجود شے مثلاً تاریکی کی تمام اشکال جیسے وزن، شامہ اور ذائقہ وغیرہ۔ ان مکانی اور غیر مکانی اشیا کی ترکیب مطلق مادے کی تخصیص کرتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مادی جسم کی نوعیت کیا ہے؟ اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے: ’’مادی جسم تاریکی کی شکل اور مخفی ماہیت کا ایسا مجموعہ ہے جسے مجردنور دیدنی یا درخشاں بنادیتا ہے۔ تاریکی کی مختلف اشکال کا سبب کیا ہے؟ روشنی کی اشکال کی طرح یہ تاریک شکلیں بھی اپنے وجود کے لیے مجرد نور کی محتاج ہیں جس کی مختلف تابانیاں ہستی کے مختلف شعبوں میں اختلاف اور تنوع کا باعث بنتی ہیں۔‘‘ اجسام کو ایک دوسرے سے مختلف بنانے والی صورتیں مطلق مادے کی فطرت میں موجود نہیں ہوتیں۔ یہ امر قابل توجہ ہے کہ مطلق مقدار (کمیت) اور مطلق مادہ آپس میں مطابقت رکھتے ہیں۔ اب اگر ان صورتوں کو مطلق مادے کی اصل میں موجود سمجھا جائے تو پھر تمام اجسام تاریکی کی شکلوں کی نسبت سے ایک جیسے ہوں گے۔ ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ اس بات کی تردید کرتا ہے۔ اس لیے یہ ماننا پڑ ے گا کہ تاریکی کی صورتوں کی علت مطلق مادہ نہیں ہے۔ چونکہ اشیا کی صورتوں کے اختلاف کی کوئی اور وجہ نہیں ہوسکتی لامحالہ یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ وہ مجرد نور کی مختلف تجلیات کے باعث مختلف ہیں۔ شیخ شہاب الدین سہروردی کے نظریہ اشراق کی رو سے کائنات کی تمام چیزیں نور خداوندی کی تجلیات سے فیض یاب ہو کرنیست سے ہست ہوتی رہتی ہیں۔ تمام منور اور تاریک اشیا اپنے وجود کے لیے مجرد نور (Abstract Light) کی محتاج ہیں۔ جسم مادی کا تیسرا اہم عنصر یعنی غیر تقسیم پذیر اور تاریک مادی ذرہ یا جوہر (Scence) اثبات نور کے لازمی پہلو کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ بنابریں مجموعی طور پر جسم کلیتاً نور اولین (Primal Light) کا محتاج ہے۔ درحقیقت تمام کائنات نور اصلی پر منحصر زندگی کے تمام مراکز کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ جو چیزیں اس منبع نور کے زیادہ نزدیک ہیں وہ زیادہ روشنی پاتی ہیں اور جو اشیا اس سے دور ہیں وہ کم روشنی حاصل کرتی ہیں۔ یہ سارے حلقے اور ہر حلقے میں زندگی کی انواع ان لاتعداد درمیانی تجلیات کی وساطت سے درخشاں ہوتی ہیں جو باشعور روشنی (انسان، حیوان اور پودے کی حالت) کی مدد سے زندگی کی چند صورتوں کوبرقرار رکھتیں اور وہ بعض صورتوں کو ان کے بغیر محفوظ رکھتی ہیں۔ اس بارے میں معدنیات اور ابتدائی عناصر کی مثال دی جاسکتی ہے۔ شیخ شہاب الدین سہروردی کے اس تصور کوبیان کرنے کے بعد علامہ اقبال اپنی بھی رائے کا یوں اظہار کرتے ہیں: اختلاف اور تنوع کا یہ عظیم الشان منظر جسے ہم کائنات کا نام دیتے ہیں، نور اولین کی لاتعداد اور مختلف بلاواسطہ اوربالواسطہ، شدید تجلیوں اور شعاعوں کا ایک وسیع پرتو ہے۔ کہنے کامطلب یہ ہے کہ تمام چیزیں اپنی اپنی تجلیات کا مسلسل طواف کرکے نشوونما پاتی ہیں۔ وہ اپنے اصلی چشمہ نور سے زیادہ سے زیادہ سیرابی حاصل کرنے کے لیے ایک عاشق کے جذبے کے ساتھ اس کے گرد حرکت کرتی رہتی ہیں۔ اس لحاظ سے دنیا عشق و محبت کا ایک ازلی ڈرامہ ہے۔ کائنات کی ہستی، رونق اور حرکت کو جذبہ عشق الٰہی کی نمود کاایک حیرت انگیز نظارہ قرار دینے کے بعد علامہ اقبال زندگی کے مختلف مدارج کو ذیل میں یوں تقسیم کرتے ہیں: (الف) نور اولین کا مقام (۱) مقام عقول جو آسمانوں کی تخلیق کا منبع ہے۔ (۲) ارواح کا مقام (۳) اشکال کا مقام (ب) (۱) مثالی اشکال کا مقام۔ (۲) مادی اشکال کا مقام۔ (ج) مقام افلاک۔ (د) مقام عناصر (سادہ عناصر اور مرکبات: عام جمادات، عالم نباتات اور عالم حیوانات) حضرت علامہ نے ہستی کے مختلف مقامات و مدارج کی تقسیم کے موضوع پر مزید کچھ نہیں کہا۔ قارئین کی سہولت کے لیے انھیں عالم بالا اور عالم پست کانام بھی دیا جاسکتا ہے۔ عالم بالا میں لاہوت، جبروت اور ملکوت کے ساتھ ساتھ تمام افلاکی مخلوقات، ارواح اور مثالی صورتوں کے مقامات بھی شامل ہیں۔ عالم پست (ناسوت) اصل میں زیادہ تر مادی اشیا پر دلالت کرتا ہے۔ ہستی کے مختلف مدارج کا اجمالی ذکر کرنے کے بعد علامہ اقبال تخلیق کائنات کا مفصل جائزہ لیتے ہوئے عدم نور (Not-Light) کو مندرجہ ذیل دو حصوںمیں تقسیم کردیتے ہیں: (۱)ازلی حصہ مثلاً عقول، فلکی اشیا کی ارواح، افلاک، سادہ عناصر، وقت اور حرکت۔ (۲)منحصر اور متصل حصہ جیسے مختلف عناصر کے مرکبات۔ مرکب عناصر کے بارے میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ آسمانوں کی گردش دائمی ہے اور وہ کائنات کے مختلف ادوار کی تشکیل کرتی ہے۔ یہ گردش افلاک فی الاصل تمام انوار کے سرچشمے سے تجلی حاصل کرنے کے لیے روح فلکی کی شدید آرزو کے باعث ہے۔ آسمانوں کی بناوٹ میں کام آنے والا مادہ ان کیمیائی طریقہ ہائے کار کے دائرہ اثر سے ملکی طور پر آزاد ہے جو تاریکی کی کثیف شکلوں کے لیے ضروری ہے۔ ہر فلک اپنے اپنے لیے خاص مادہ رکھتا ہے۔ اس طرح تمام آسمان اپنی گردش کی سمت میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اس فرق کی حقیقت کی وضاحت یہ ہے کہ محبوب اور قرار بخشنے والی تجلی ہر حالت میں مختلف ہوتی ہے۔ شیخ شہاب الدین سہروردی کی کتاب حکمۃ الاشراق کے مشہور شارح الہروی نے اپنی کتاب شرح انواریہ میں شیخ الاشراق شہاب الدین سہروردی کے تصورِ کائنات کی تشریح کے دوران حرکت اور وقت کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے یہ کہا ہے: حرکت زمان کا صرف ایک پہلو ہے۔ یہ عناصر زمانی کے مجموعہ کا نام ہے۔ حرکت اصل میں وقت کی خارجی شکل ہے۔ ماضی، حال اور مستقبل کا امتیاز تو محض سہولت افہام کے لیے ہے اور یہ وقت کی نوعیت میں موجود نہیں ہوتا۔ ہم آغاز وقت کا تصور نہیں کرسکتے کیوں کہ یہ مفروضہ بذات خود وقت کانقطہ بن جائے گا۔ اس لیے وقت اور حرکت دونوں ازلی ہیں۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ پانی، مٹی اور ہوا تین اصلی اور قدیم ترین عناصر ہیں۔ اشراقی مفکرین کے نزدیک آگ تو صرف جلنے والی ہوا کا دوسرا نام ہے۔ مختلف آسمانی اثرات کے تحت ان عناصر کی ترکیبات سیال، ٹھوس اور گیس رکھنے والی مختلف شکلیں اختیار کرلیتی ہیں۔ ان ابتدائی عناصر کی تبدیلی ہیئت ’’تعمیر و تخریب‘‘ کے اس طریق کو جنم دیتی ہے جو غیر نور (Non-Light) کے سارے کرے پر حاوی ہو جاتا ہے۔ یہ طریق کار ہستی کی مختلف صورتوں کو بلند سے بلند تر بناکر انھیں روشنی دینے والی طاقتوں کے زیادہ ترنزدیک لے آتا ہے۔ تمام مظاہر فطرت مثلاً بارش، بادل گرج اور شہاب ثاقب حرکت کے اس جاری و ساری اُصول کے مختلف اثرات اور اشیا پر نور ازلی (Primal Light) کے بلاواسطہ اور بالواسطہ نفوذ کا نتیجہ ہیں۔ تجلیات کو کم و بیش حاصل کرنے کی صلاحیت کے مطابق یہ چیزیں ایک دوسری سے مختلف ہو جاتی ہے۔ علامہ اقبال کائنات کی طلب نور کو ان جامع الفاظ میں پیش کرکے کہتے ہیں: مختصر طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ کائنات ایک متحجر (پتھرائی ہوئی) خواہش اور نور کے حصول کی ایک شفاف آرزو ہے۔ کائنات کے دوام اور عدم دوام کی بحث کے ضمن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے، کیا یہ بھی نور ازلی کی طرح دائمی ہے یا نہیں؟ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ کائنات نور ازلی کی ضو بخش فطرت اور طاقت کاظہور ہے۔ اس نقطۂ نگاہ سے یہ کائنات محض وجود مستعار کی حامل ہے اس لیے یہ ابدی نہیں۔ مگر دوسرے مفہوم میں یہ بھی ابدیت کی شان رکھتی ہے۔ اس امر کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ ہستی کے مختلف شعبہ جات نور لم یزل کی جب کہ شعاعوںاور تابالیوں کے باعث موجود ہیں۔ کچھ تجلّیات کسی واسطہ کے بغیر دائمی ہیں جب کہ دوسری تجلّیات ان سے قدرے مدّہم ہیں کیوں کہ ان کی خود دوسری تجلّیات اور شعاعوں کے اجتماع پر منحصر ہوتی ہے۔ اس لیے ان ذیلی تجلیات کا وجود اس طرح ازلی و ابدی نہیں ہے جس طرح کہ ان کو جنم دینے والی تجلیات کا ہے۔ اس کو ایک مثال کے ذریعہ سمجھایا جاسکتا ہے۔ رنگ کا وجود اس شعاع کے تقابل پر دارومدار رکھتا ہے جو روشن جسم کے سامنے لائی جانے والی کالی چیز کے رنگ کی مظہر ہوتی ہے۔ اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ کائنات اگرچہ اپنے ظہور اور نمود کے لیے کسی اور کی محتاج ہے تاہم یہ اپنے منبع کی ازلی اور ابدی حالت کی بدولت شان ابدیت کی حامل بن جاتی ہے۔ کائنات کے عدم دوام کے نظریئے کے عَلم۔بردار مکمل استقراکے امکان کو مفروضہ بناکر مندرجہ ذیل انداز میں اپنی دلیل پیش کرتے ہیں: (۱) حبشہ کے باشندوں میں سے ہر ایک کالا ہے اس لیے تمام اہل حبشہ سیاہ فام ہیں۔ (۲) ہر حرکت ایک معینہ لمحہ پر شروع ہوئی تھی اس لیے ہر حرکت کا اس طرح آغاز ہونا چاہیے۔ علامہ اقبال کی رائے میں استدلال مذموم ہے۔ اس دلیل کے کبریٰ کا بیان بالکل ناممکن ہے کیوں کہ ہم وقت کے ایک خاص لمحہ پر ماضی، حال اور مستقبل کے تمام اہل حبش کو یکجا نہیں کرسکتے۔ ایسی حالت میں عالم گیر فیصلہ اور استدلال ممکن نہیں۔ اپنے تجربے کے تحت اہل حبشہ کی انفرادی جانچ پڑتال یا حرکت کی خاص مثالوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام حبشیوں کو کالا اور تمام حرکات کو زمانی آغاز پر منحصر قرار دینا ایک عاجلانہ نتیجہ ہوگا۔ شیخ شہاب الدین سہروردی اور نفسیات شیخ شہاب الدین سہروردی نے فلسفیانہ نظام میں نفس انسانی سے متعلق چند اہم گوشوں کو بھی بے نقاب کرنے کی کوشش کی تھی۔ روح و بدن کا مسئلہ اس کے فلسفہ اشراق میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ علامہ اقبال اس کے تصور روح و بدن کی بحث کی تلخیص پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ پست درجے کے اجسام میں حرکت اور روشنی لازم ملزوم نہیں ہوا کرتیں۔ مثال کے طور پر پتھر کا ایک روشن اور دیدنی ٹکڑا خود آغاز کردہ حرکت کی صفت کا حامل نہیں ہوتا۔ جب ہم زندگی کے میزان میں بلند ہوتے ہیں تو ہمیں اعلیٰ اجسام یا اجسام نامیہ ملتے ہیں جن میں حرکت اور روشنی ایک ساتھ شامل ہوتی ہیں۔ مجرد تجلی کا بہترین مسکن انسان میں موجود ہے لیکن سوال اٹھتا ہے کہ انفرادی مجرد تجلی جسے ہم روح انسانی کہتے ہیں اپنی طبعی اور جسمانی رفاقت سے قبل موجود تھی یا نہیں؟ حضرت علامہ فرماتے ہیں کہ فلسفہ اشراق کا بانی اس بارے میں بوعلی سینا کی تقلید میں اس کے بیان کردہ دلائل کے ذریعے یہ ظاہر کرتا ہے کہ انفرادی مجرد تجلیات کو روشنی کی بہت سی اکائیوں کی حیثیت سے حیات ماقبل کا حامل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایک یا ایک سے زیادہ مادی مدارج کو مجرد تجلی کا مثیل نہیں ٹھہرایا جاسکتا جو اپنی اصل کے اعتبار سے نہ ہی وحدت اور نہ ہی کثرت کی حامل ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ مجرد تجلی اپنے مادی روابط میں ضوگیری کے مختلف مدارج کے سبب کثرت کی حامل نظر آتی ہے۔ علامہ اقبال اشراقی تصور روح و بدن کے موضوع کی وضاحت کے ضمن میں کہتے ہیں: مجرد تجلی یعنی روح اور بدن کا تعلق علت و ملول پر مبنی نہیں۔ عشق ان دونوں کے درمیان رشتہ وحدت کا کام دیتا ہے۔ تجلی کا خواہش مند جسم اسے روح کی وساطت سے حاصل کرتا ہے کیوں کہ جسم کی نوعیت اسے اپنے اور منبع نور کے درمیان براہ راست ابلاغ کی اجازت نہیں دیتی۔ روح براہ راست حاصل شدہ روشنی کو تاریک اور ٹھوس جسم تک منتقل نہیں کرسکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جسم اپنی صفات کے سبب ہستی کی مخالف سمت میں واقع ہوتا ہے۔ باہمی تعلق کے لیے امین ایک ایسے درمیانی واسطہ کی ضرورت ہوتی ہے جو روشنی اور تاریکی کے درمیان واقع ہو۔ یہ درمیانی واسطہ حیوانی روح یعنی ایک گرم، لطیف اور شفاف بخار ہے۔ جو دل کے بائیں خلا میں اپنا مقام رکھنے کے باوجود جسم کے تمام حصوں میں گردش کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ اشراقی نقطۂ نگاہ سے اس کی مزید وضاحت کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ روشنی کے ساتھ حیوانی روح کی جزوی مطابقت کی وجہ سے تاریک راتوں میں خشکی پر رہنے والے جانور جلتی ہوئی آگ کی طرف دوڑتے ہیں جب کہ بحری جانور چاند کے حسین منظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے اپنے آبی اور بحری مساکن سے باہر آجاتے ہیں۔ اس لیے انسان کانصب العین ترازوئے حیات میں بلند تر مقامات کی طرف جاکر زیادہ سے زیادہ تجلی کو حاصل کرنا ہے جو بتدریج اسے عالم صور سے مکمل آزادی دلاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس نصب العین کو کیسے حاصل کیا جائے؟ شیخ شہاب الدین سہروردی کا کہنا ہے کہ ہم علم اور عمل کے ذریعے اس اعلیٰ مقصد حیات کو پاسکتے ہیں۔ عقل، ارادہ اور فکر و عمل کے امتزاج میں انقلاب لاکر انسان کا یہ اعلیٰ نصب العین بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ اس امر سے انکار محال ہے کہ جب کائنات کے بارے میں ہمارے تصورات بدل جاتے ہیں اور ہم تبدیلی کے مطابق اپنے نئے لائحہ عمل کو بھی اختیار کرتے ہیں تو ہم اپنے اعلیٰ مقاصد حیات کو پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح مادیت کی دلدل سے نجات حاصل کرنے کے لیے روحانی بلندیاں اور ایزدی تجلیات کا قرب بھی لازم ہیں۔ شیخ شہاب الدین سہروردی ہمیں بتاتے ہیں کہ روحانی بلندیوں تک پہنچنے اور ایزدی تجلیات سے فیض یاب ہونے کے لیے ہمیں مندرجہ ذیل ذرائع کو اختیار کرنا ہوگا: (الف) علم جب مجرد تجلی اپنے آپ کو بلند تر جسم نامیہ (Organism) سے مربوط کرلیتی ہے تو وہ خاص صلاحیتوں… روشنی کی طاقتوں اور تاریکی کی قوتوں… کے زیر اثر اپنی نشوونما کا سامان پیدا کرتی ہے۔ روشنی کی طاقتیں پانچ بیرونی حواس اور پانچ اندرونی حواس (پردۂ حس، تصور، تخیل، ادراک اور حافظہ) پر مشتمل ہیں جب کہ تاریکی کی قوتیں، قوت نشو و نما اور قوت انہضام وغیرہ پر مبنی ہے۔ سہولت کی خاطر ان قوتوں کومنقسم کیا گیا ہے۔ شرح انواریہ میں کہا گیا ہے: ’’ایک قوت سارے عمل کا منبع بن سکتی ہے۔‘‘ دماغ کے وسط میں ایک ہی طاقت ہوتی ہے اگرچہ مختلف مقامات توقف کے مطابق اسے مختلف نام دیے جاتے ہیں۔ درحقیقت دماغ ایک ایسی وحدت ہے جسے سہولت کی خاطر کثرت سمجھا جاتا ہے۔ انسان کے اصلی جوہر کی تشکیل کرنے والی مجرد تجلی کو دماغ کے وسط میں رہنے والی قوت سے ممیّز کرنا چاہیے۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں شیخ شہاب الدین سہروردی اگرچہ فعال دماغ اور غیر فعال روح کو الگ الگ خیال کرتا ہے تاہم وہ دماغی اور روحانی طاقتوں کے اتحاد کا بھی قائل ہے۔ علامہ اقبال کی یہ رائے ملاحظہ ہو۔ وہ کہتے ہیں: ’’معلوم ہوتا ہے کہ خلقی اشراق فعال ذہن اور بنیادی طور پر غیر فعال روح کے درمیان خط امتیاز کھینچتا ہے تاہم وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ کسی پراسرار طریق پر یہ تمام مختلف قوتیں روح کے ساتھ مربوط رہتی ہیں۔‘‘ اشیا کی دِید (Vision) کے بارے میں شیخ شہاب الدین سہروردی نے جو نظریہ پیش کیا ہے، علامہ اقبال اسے اس کے فلسفہ تعقل کا جدت کوش پہلو قرار دیتے ہیں۔ شیخ الاشراق کے نظریہ دید کے مطابق آنکھ سے باہر آنے والی روشنی کی شعاع یا تو جوہر (Substance) ہوگی یا وہ صفت (Quality) ہوگی۔ اگر ہم اسے صفت کہیں تو پھر اسے ایک جوہر (آنکھ) سے دوسرے جوہر (دیدنی جسم) تک منتقل نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے برعکس اگر یہ جوہر ہے تو اس کی حرکت شعوری ہے یا اس کی پوشیدہ فطرت کی مجبوری کے تحت ہے۔ اگر اسے شعوری حرکت خیال کیا جائے تو یہ اسے دیگر اشیا کا احساس کرنے والا جانور بنادے گی۔ اس صورت میں احساس کنندہ شعاع ہوگی نہ کہ انسان۔ اگر شعاع کی حرکت اس کی طبیعت کا خاصہ ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ اس کی حرکت تمام اطراف کی بجائے صرف ایک ہی سمت سے مخصوص ہو کر رہ جائے۔ اس لیے روشنی کی شعاع کے بارے میں یہ خیال درست نہیں ہوگا کہ یہ آنکھ سے خارج ہوتی ہے۔ ارسطو کے پیروکاروں کی رائے میں دیکھنے کے عمل کے دوران میں آنکھ پر اشیا کی تصاویر ابھر آتی ہیں۔ یہ نظریہ بھی غلط ہے کیوں کہ بڑی چیزوں کی تصویریں تھوڑی سی جگہ پر نمایاں نہیں ہوسکتیں۔ اس ضمن میں علامہ اقبال کے یہ الفاظ لائق مطالعہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں: سچ تو یہ ہے کہ جب کوئی چیز آنکھ کے سامنے آتی ہے تو ایک روشنی واقع ہو جاتی ہے اور ذہن اس روشنی کے ذریعے اس شے کو دیکھ لیتا ہے۔ جب شے اور عام بصارت کے درمیان کوئی حجاب نہ ہو اور ذہن اس کا احساس کرنے کے لیے آمادہ ہو تو اس وقت دیکھنے کا عمل وقوع پذیر ہونا چاہیے کیوں کہ یہی قانون اشیا ہے۔ برکلے (Berkeley) نے خدا کو تمام تصورات کا منتہی ثابت کرنے اور ہمارے احساسات دید کی اضافیت کو واضح کرنے کے لیے یہ کہا تھا۔ ’’ہر دید ایک تجلی ہے اور ہم باخدا بن کر تمام چیزوں کو دیکھ لیتے ہیں۔‘‘ اشراقی فلسفی کا بھی یہی مقصد ہے اگرچہ اس کا نظریہ دید حقیقت دید کے جدید انداز نظر کی طرح طریق بصارت کی زیادہ وضاحت نہیں کرتا۔ علامہ اقبال ’’ذوق‘‘ اور عشق کو بھی حصول علم کا ایک لازمی ذریعہ خیال کرتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں کائنات کی خارجی اشیا کا مطالعہ و مشاہدہ اور تاریخ ہی ذرائع نہیں بلکہ باطنی احساس اور جذبہ عشق بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ شیخ شہاب الدین سہروردی کے نظریۂ دیدِ اشیا کے ضمن میں وہ اپنے تاثرات ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: ’’فہم و ادراک کے سوا علم کا ایک اور ذریعہ ہے جسے ’’ذوق‘‘ کہا جاتا ہے۔ ’’ذوق‘‘ ایک ایسا باطنی احساس ہے جو ہستی کے غیرزمانی اور غیرمکانی پہلوئوں کا انکشاف کرتا ہے۔ فلسفہ یا خالص تصورات پر غور و فکر کرنے کی عادت کا مطالعہ نیکی کے کام کے ساتھ مل کر اس پراسرار احساس کی تربیت میں مدد دیتا ہے۔ یہ پوشیدہ احساس عقل کے نتائج کی تصدیق اور تصحیح کیا کرتا ہے۔‘‘ ان الفاظ سے یہ حقیقت بالکل نکھر کر ہمارے سامنے آجاتی ہے کہ عشق و ذوق ایک ایسا باطنی احساس ہے جو عقلی نتائج اور فکری دعاوی کے لیے معیار ثابت ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس طرح یہ بھی حصول علم کا ایک اہم، مفید اورمؤثر ذریعہ بن جاتا ہے۔ اس نقطۂ نگاہ سے تصور کی اہمیت بھی واضح ہو جاتی ہے۔ (ب)عمل فعال ہستی ہونے کی حیثیت سے انسان درج ذیل محرک قوتوں کا مالک ہے۔ ان قوتوں کے نام یہ ہیں: (۱) عقل یا روحِ ملکوتی: عقل یا روح ملکوتی ذہانت، تمیز اور علم کی محبت کا ذریعہ ہے۔ (۲) وحشی روح: یہ غصہ، جرأت، غلبہ اور حُبِ جاہ کا منبع ہے۔ (۳) روح حیوانی: روح حیوانی شہوت، بھوک اور جنسی جذبے کا سرچشمہ ہے۔ شیخ شہاب الدین سہروردی نے انسانی عمل کو عموماً ان تین چیزوں پر مبنی قرار دیا ہے۔ اس کی رائے میں عقل یا روح ملکوتی (Angelic-soul) کا حامل بن کر ہم کو حکمت و دانائی کی نعمت مل جاتی ہے۔ اگر ہماری عقل وحشی روح (Beast-soul) اور روح حیوانی (Animal-soul) پر غلبہ پالے تو پھر ہمیں علی الترتیب بہادری اور عفت کی صفات حاصل ہو جاتی ہیں۔ جب یہ تینوں طاقتیں آپس میں ہم آہنگ ہو جاتی ہیں تو وہ عدل و انصاف کی صفت کو جنم دیا کرتی ہیں۔ نیکی کے ذریعے روحانی ترقی کے امکان سے یہ پتا چلتا ہے کہ یہ دنیا بہترین امکانات کی حامل ہے۔ موجود اشیا اپنی ذات میں نہ اچھی ہیں اور نہ ہی بری ہیں بلکہ ان کا غلط استعمال یا محدود نقطۂ نگاہ انھیں ایسا بنا دیتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں دنیا میں شر کا وجود ہے مگر یہ نیکی کے مقابلہ میں بہت کم ہے۔ اس کے باوجود بدی کی حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ شیخ شہاب الدین سہروردی مزید کہتے ہیں کہ شرتاریکی کی دنیا کے حصے سے مخصوص ہے جب کہ کائنات کے دوسرے حصے برائی کے داغ سے بالکل پاک ہیں۔ اس بحث کے دوران وہ انسانی عمل اور خدائی عمل کے تفاوت اور شر کے بارے میں یہ کہتے ہیں: خدا کے تخلیقی فعل کو شر کے وجود سے منسوب کرنے والا تشکیک پرست پہلے سے انسانی اور خدائی عمل کے درمیان مشابہت کو فرض کرلیتا ہے اور وہ اس بات کو نہیں دیکھتا کہ کوئی موجود شے بھی اس مفہوم میں آزاد نہیں ہے۔ جس طرح ہم انسانی فعل کی بعض صورتوں کو شر خیال کرتے ہیں ہم اسی مفہوم میں خدائی فعل کو بدی کا خالق نہیں سمجھ سکتے۔ اس امر کو ضرور ملحوظ رکھنا چاہیے کہ علم اور نیکی کے ملاپ سے روح انسانی اپنے آپ کو عالم ظلمات سے آزاد کروالیتی ہے۔ جوں جوں اشیا کی نوعیت کے بارے میں ہمارا علم بڑھتا جاتا ہے توں توں ہمیں عالم نور کے زیادہ قریب کردیا جاتا ہے اور اس دنیا کی محبت زیادہ سے زیادہ شدید ہوتی جاتی ہے۔ شیخ شہاب الدین سہروردی عشق اور روحانی ترقی کے مختلف مدارج و مراحل کے قائل تھے۔ خدا کے ساتھ انسانی عشق اور شوق کے جذبات و مدارج لاانتہا ہیں اس لیے روحانی ترقی کے مدارج بھی اسی نسبت سے لامحدود ہیں ان کی رائے میں روحانی ترقی کے بڑے بڑے مدارج مندرجہ ذیل ہیں: (۱)’’مَیں‘‘ کا مقام اس درجہ ’’انا‘‘ میں احساس شخصیت بہت زیادہ غالب ہوتا ہے بنابریں اس درجے پر پہنچ کر انسانی عمل عام طور پر خودغرضی کا آئینہ دار بن جاتا ہے۔ (۲)’’تُو نہیں ہے‘‘ کا مقام اس مقام پر پہنچ کر انسان اپنے نفس یا من میں اس حد تک مستغرق ہوجاتا ہے کہ وہ باہر کی ہرچیز کو مکمل طور پر بھلا دیتا ہے۔ (۳)’’مَیں نہیں ہوں‘‘ کا مقام یہ مرحلہ پہلے مرحلے کا لازمی نتیجہ ہے۔ جب انسان اپنے من میں بہت زیادہ ڈوب جاتا ہے تو اسے باہر کی دنیا کی کچھ بھی خبر نہیں رہتی۔ ایسی حالت میں اسے اپنی ہستی کی نفی کا بھی احساس ہوجاتا ہے۔ اس لیے وہ پکار اٹھتا ہے۔ ’’میں نہیں ہوں۔‘‘ (۴)’’تُو ہے‘‘ کا مقام یہ ’’میں‘‘ کی مکمل نفی اور ’’تو‘‘ کے اثبات کا مرحلہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ خدا کی مرضی کے سامنے مکمل طور پر سرتسلیم خم کرنے کے مترادف ہے۔ اس مرحلے پر انسان کو اپنی ذات کی نفی اور خدا کی ذات کے اثبات کا احساس ہوتا ہے اس لیے وہ خدا کو کہتا ہے کہ میں تو موجود نہیں ہوں مگر تو ضرور موجود ہے۔ (۵)’’مَیں نہیں ہوں‘‘ اور ’’تُو نہیں ہے‘‘ کا مقام یہ دونوں فکری اصطلاحات کی مکمل نفی کا مرحلہ ہے۔ اس طرح یہ کائناتی شعور کی حالت ہے۔ ایسی حالت میں انسان کو ’’من و تو‘‘ کی بجائے خدا کی ہمہ گیریت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ شیخ شہاب الدین سہروردی روحانی ترقی کے ان مراحل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر مقام پر کم و بیش شدید تجلیات کا ظہور ہوتا ہے جن کے بعد چند ناقابل بیان آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ بعدازاں وہ روحانی تربیت سے فیض یافتہ روح کی بقا کے بارے میں فرماتے ہیں: موت روح کی ترقی کا خاتمہ نہیں کرتی۔ موت کے بعدانفرادی ارواح ایک ہی روح کے ساتھ متحد نہیں ہو جاتیں بلکہ وہ ایک دوسری سے اپنے فرق کو جاری رکھتی ہیں۔ روحانی اختلاف کا یہ تسلسل اس روحانی تجلی کے تناسب سے ہوتا ہے جسے انھوں نے جسمانی رفاقت کے دوران حاصل کیا ہوتا ہے۔ شیخ الاشراق یعنی شیخ شہاب الدین سہروردی کے ان الفاظ سے صاف عیاں ہے کہ وہ روحوں کی مکمل یگانگت کے قائل نہیں تھے۔ ان کے بعد ایک مغربی مفکر لائبنز (Leibniz) نے ’’غیرممیّز اشیا کی مطابقت‘‘ (Identity of Indiscernibles) کا اُصول پیش کیا تھا۔ علامہ اقبال لائبنز اور شہاب الدین سہروردی کا موازنہ کرتے ہوئے شیخ الاشراق کواس کا پیش رو خیال کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: فلسفیِ اشراق نے لائبنز کے اُصولِ مطابقتِ غیر ممیّز کی پیش بینی کی ہے اور اس کی رائے میں کوئی سی بھی دو روحیں آپس میں مکمل طور پر یکساں نہیں ہوسکتی ہیں۔ علامہ اقبال نے یہ نظریہ بیان کرتے وقت شرح انواریہ کو مدنظر رکھا تھا۔ وہ شیخ شہاب الدین سہروردی کو کبھی ’’شیخ الاشراق‘‘ کہتے ہیں اور کبھی ’’فلسفیِ اشراق۔‘‘ فلاسفہ اور صوفیا نے فلسفہ و تصوف میں جسم و روح کی بحث کے دوران اس امر پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ مرنے کے وقت جسم اور روح کا سابقہ تعلق کیسا تھا اور آیندہ کیسا ہوگا۔ بعض حضرات کی رائے میں مرنے کے بعد روح سابقہ جسم میں دوبارہ داخل ہوگی جب کہ ان کے مخالفین کہتے ہیں کہ موت کے بعد روح کو نیا جسم ملے گا۔ شیخ شہاب الدین سہروردی نے اس مشکل مسئلے پر جن خیالات کا اظہار کیا ہے، ان کا خلاصہ یہ ہے: روح بتدریج تجلی کو حاصل کرنے کی غرض سے جسم مادی کو اختیار کرتی ہے۔ اپنے اس روحانی سفر کے دوران جب وہ اس مادی مشینری کو بالکل ختم پاتی ہے تو وہ اپنا سفر ختم نہیں کرتی بلکہ اسے جاری رکھنے کے لیے ایک اور جسم کو سواری کے طور پر استعمال کرنے لگتی ہے۔ اس لیے جسم کو اختیار کرتے وقت وہ اپنی گزشتہ زندگی کے تجربات کو ضرور مدنظر رکھتی ہے۔ اس کے بعد وہ ہستی کے مختلف مراحل میں بلند سے بلند تر ہوتی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ وہ ان مراحل کے مطابق خاص صورتیں اپناتی رہتی ہے یہاں تک کہ وہ اپنی آخری منزل مقصود یعنی مکمل نیستی اور نفی کی حالت تک پہنچ جاتی ہے۔ اپنی کمی کو پورا کرنے کے لیے غالباً بعض ارواح اس دنیا میں واپس آجاتی ہیں۔ (شرح انواریہ)۔ اُصول تناسخ کو نہ تو ثابت کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی خالصتاً منطقی نقطہ نظر سے اس کی تردید کی جاسکتی ہے۔ تاہم روح کی آیندہ تقدیر کے لیے اسے ایک ممکن مفروضہ سمجھا جاسکتا ہے۔ اس طرح تمام ارواح اپنے اس مشترک منبع کی طرف مسلسل سفر کررہی ہیں جو اس سفر کے اختتام پر تمام کائنات کو اپنی طرف بلالے گا اور وہ تمام سابقہ ادوار کی تاریخ کو دہرانے کے لیے زندگی کا ایک اور دور شروع کردے گا۔ شیخ شہاب الدین سہروردی کے نظریہ روح کی یہ تلخیص دل چسپ بھی ہے اور متنازعہ بھی۔ شیخ شہاب الدین سہروردی کے فلسفیانہ اور صوفیانہ خیالات کی بحث کو ختم کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ علامہ اقبال نے اس تمام بحث سے کیا نتائج حاصل کیے ہیں اور ان کے ذاتی افکار کی نہج کیا ہے۔شیخ شہاب الدین سہروردی کی علمی خدمات کے بارے میں علامہ اقبال کے نظریات کا ماحصل یہ ہے کہ شیخ الاشراق کا فلسفہ کئی جہات سے خاصا اہم اور انقلاب خیز ہے۔ وہ انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں: اس عظیم ایرانی شہید کا خلاصۂ فلسفہ ابھی بیان کیا گیا ہے۔ صحیح طور پر وہ پہلا ایرانی فلسفی ہے جو ایرانی افکار کے تمام پہلوئوں میں صداقت کے عناصر کو تسلیم کرکے انھیں اپنے فکری نظام میں بڑی مہارت کے ساتھ یکجا کردیتا ہے۔ وہ اپنے تصورِ خدا کے سبب ہمہ اوستی ہے کیوں کہ وہ خدا کو تمام حسی اور مثالی وجود کا مجموعہ قرار دیتا ہے۔ وہ اپنے بعض پیش رو صوفیا کے برعکس اس دنیا کو حقیقی اور انسانی روح کو واضح انفرادیت کا حامل سمجھتا ہے۔ راسخُ العقیدہ علمائے دین سے متفق ہو کر وہ نور مطلق کو تمام مظاہر کی علت غائی مانتا ہے جو نور مطلق اپنی تجلی کے ذریعے کائنات کے ہرایک جوہر کی تشکیل کرتا ہے۔ علامہ اقبال اس کے بعد شیخ شہاب الدین سہروردی پربو علی سینا، ارسطو اور افلاطون کے فکری اثرات کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگرچہ شیخ شہاب الدین سہروردی نفسیات کے میدان میں بو علی سینا کی پیروی کرتا ہے تاہم اس نے بو علی سینا کی نسبت اسے زیادہ منظم اور تجرباتی طور پر بیان کیا ہے۔ ایک اخلاق پرست فلسفی کی حیثیت سے وہ ارسطو کا مقلد ہے جس کے اُصول اعتدال کو وہ بڑی شرح و بسط کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ سب سے بڑھ کر وہ روایتی نوافلاطونیت میں تبدیلیاں پیدا کرکے اسے ایک ایسے مکمل ایرانی نظام فکر میں پیش کرتا ہے جو نہ صرف فلسفہ افلاطون کی حدود کو چھوتا ہے بلکہ وہ قدیم ایرانی ثنویت (Persian Dualism) کو روحانیت میں رنگ دیتا ہے۔ شیخ شہاب الدین سہروردی سے بڑھ کر کوئی اور دوسرا ایرانی مفکر اپنے اساسی اُصولوں کے حوالے سے معروضی وجود (Objective Existence) کے تمام پہلوئوں کی وضاحت کی ضرورت سے زیادہ آگاہ نہیں ہے۔ علامہ اقبال اس کے فلسفیانہ نظام کی معروضیت پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ شیخ الاشراق مسلسل خارجی تجربات کو مرکز توجہ بناکر اپنے نظریۂ اشراق (Throry of Illumination) کی روشنی میں مظاہر فطرت اور طبعی حوادث کی تشریح کی سعی کرتا ہے۔ اس سے قبل انتہا پسندانہ ہمہ اوست کی موضوعی (Subjective) نوعیت کی شدت نے خارجیت (Objectivity) کو پوری طرح ہڑپ کرلیا تھا مگر شیخ شہاب الدین سہروردی کے فلسفیانہ نظام میں مفصل جانچ پڑتال کے بعد اسے جائز اور جامع مقام مل گیا ہے۔ علامہ اقبال اس کو مزید سراہتے ہوئے یہ فرماتے ہیں: اس میں کوئی تعجب نہیں کہ یہ ذہین و فطین مفکر فکر اور احساس کومکمل طور پر ہم آہنگ اور متحد کرکے ایک ایسے فلسفیانہ نظام کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوگیا ہے جس نے اذہان کوبہت زیادہ مسحور بنا دیا ہے۔ اس کے تنگ نظر معاصرین نے اسے ’’مقتول‘‘ (یعنی قتل کردہ) کا خطاب دیا جس سے ان کی مراد یہ تھی کہ اسے ’’شہید‘‘ خیال نہ کیا جائے۔ لیکن صوفیوں اور فلسفیوں کی بعد میں آنے والی نسلوں نے اسے ہمیشہ ہی بہت ادب و احترام دیا ہے۔ علامہ اقبال آخر میں نَسَفی کی کتاب مقصدِ اقصی کا حوالہ دیتے ہوئے کمتر روحانی نوعیت کی حامل اشراقی زاویہ فکر کا ذکر کرتے ہیں۔ نَسَفی کے حوالے سے وہ فرماتے ہیں: نسفی صوفیانہ افکار کے اس مرحلے کوبیان کرتا ہے جس میں مانی کی قدیم مادہ پرستانہ ثنویت کو دوبارہ اختیار کیا گیا تھا۔ اس مکتب فکر کے حامیوں کی نظر میں روشنی اور تاریکی کا وجود ایک دوسرے کے لیے لازمی ہے۔ درحقیقت تاریکی اور روشنی ان دو دریائوں کی مانند ہیں جو تیل اور دودھ کی طرح آپس میں مل جاتے ہیں اور جن کے باہمی اختلاط سے اشیا کی کثرت اور اختلاف جنم لیتے ہیں۔ انسانی عمل کا نصب العین تاریکی کے داغ سے چھٹکارا پانا ہے۔ تاریکی سے روشنی کی آزادی کا مطلب روشنی کی حیثیت سے روشنی کا شعور ذات ہے۔ اسی اقتباس کے ساتھ شیخ شہاب الدین سہروردی شہید کے نظام فکر کے اہم پہلوئوں کی بحث ختم ہوجاتی ہے۔ حقیقت فکر و خیال کی حیثیت سے… الجیلی (Al-Jili) الجیلی کے تصور انسان کامل کو دنیائے فلسفہ و تصوف میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ اس نے اپنی شہرہ آفاق کتاب انسان کامل میں انسان کامل کی گوناگوں صفات اور کمالات کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ علامہ اقبال نے اس کے نظریہ حقیقت مطلقہ کو تو بالتفصیل بیان کیا ہے مگر اس کے حالات زندگی پر زیادہ روشنی نہیں ڈالی۔ بہرحال انھوں نے الجیلی کے مختصر ترین سوانح حیات اور اس کے افکار پر مشہور صوفی مصنف شیخ محی الدین ابن عربی (Muhy-al-Din Ibn Arabi) کے اثرات کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ الجیلی ۷۶۷ھ میں متولد ہوا اور اس نے ۸۱۱ھ میں وفات پائی تھی۔ الجیلی نے اپنے ایک شعر میں خود اپنی تاریخ پیدایش ۷۶۷ ہجری بتائی ہے۔ اگرچہ وہ شیخ محی الدین ابن عربی کی مانند زیادہ تصانیف کا مالک نہیں تھا تاہم ابن عربی کے انداز فکر نے اس کی تعلیمات پر بہت گہرا اثر ڈالا تھا۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ اس کی ذات شاعرانہ تخیل اور فلسفیانہ ذہانت کا مجموعہ تھی اس کے باوجود اس نے شعر و سخن کو صرف اپنے صوفیانہ اور مابعدالطبیعی اُصولوں کو بیان کرنے کا ذریعہ بنایا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کی طرح اس نے بھی شاعری کو اپنے مخصوص نظریات کے لیے ذریعہ ابلاغ بنانے پر اکتفا کیا تھا۔ اس کی تصانیف میں شیخ محی الدین ابن عربی کی مشہور کتاب الفتوحات المکیہ کی شرح اور اس کی دوسری تصنیف انسان الکامل کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ شیخ محی الدین ابن عربی نے بسم اللہ کی تشریح کرنے کے لیے الفتوحات المکیہ لکھی تھی جسے اس کے صوفیانہ اور فلسفیانہ نظریات کے ابلاغ کا آج بھی شاہکار خیال کیا جاتا ہے۔ الجیلی نے اپنے مخصوص نظریہ حیات کی روشنی میں اس کی شرح کی تھی۔ الجیلی کے مندرجہ بالا مختصر سوانحی اور فکری پس منظر کا تذکرہ کرنے کے بعد علامہ اقبال اس کے فلسفیانہ نظام کے ایک اہم موضوع… نظریہ ہست و نیست پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بقول الجیلی خالص اور سادہ جوہر (Essence) وہ شے ہے جس سے اسما و صفات کو منسوب کیا جاتا ہے خواہ وہ چیز حقیقی یا مثالی طور پر موجود ہو۔ الجیلی کی رائے میں موجود اور ہست کی دو قسمیں ہیں: (۱) وجود مطلق یا وجود خالص جسے ہم ہستی خالص یا خدا بھی کَہ سکتے ہیں۔ (۲) نیستی سے ملی ہوئی ہستی جسے ہم تخلیق یا نیچر کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ الجیلی نے اپنی کتاب انسان الکامل (جلد نمبر، صفحہ۱۰) میں وجود و عدم (ہستی و نیستی) کے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایزدی جوہر (The Essence of God) یا فکرِخالص (Pure Thought) کو سمجھا نہیں جاسکتا اور نہ ہی اسے الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے کیوں کہ یہ تمام نسبتوں سے ماورا ہے۔ علم بھی چونکہ اشیا کی باہمی نسبت پر منحصر ہوتا ہے اس لیے خدا علم کی حد سے بھی پرے ہے۔ عقل خالی اور اتھاہ فضا میں سے پرواز کرتی ہوئی اور اسما و صفات کے پردے کو چاک کرنے کے بعد وسیع کرہ زمان کو عبور کرتی ہے۔ اس کے بعد وہ غیر موجود کی حدود میں داخل ہو کر فکر خالص کے جوہر کو ہستی اور نیستی (Non-Existence) کا حامل پاتی ہے۔ اس لحاظ سے فکر خالص کا جوہر تضادات کا مجموعہ بن جاتا ہے کیوں کہ اس میں بیک وقت ہستی اور نیستی کی صفات ہوتی ہیں۔ یہ دو حوادث پر مشتمل ہے… گزرے ہوئے وقت میں حیات لازوال اور آنے والے زمانے میں زندگی جاوداں۔ اس کی دو صفات ہیں یعنی خدا اور تخلیق۔ اس کی دو تعریفات ہیں یعنی تخلیقی صلاحیت سے محرومی اور خلاقی صفت۔ اس کے دو نام ہیں… خدا اور انسان۔ اس کے دو رخ ہیں… مظہر (یہ مادی دنیا) اور غیر مظہر (عالم آخرت)۔ اس کے دو اثرات ہیں… احتیاج اور امکان۔ اس کے دو نقطہ ہائے نظر ہیں… ایک نقطہ نگاہ سے تو یہ اپنی ذات کے لیے غیر موجود (Non-Existent) ہے لیکن غیر ذات کے لیے یہ موجود ہے۔ دوسرے نقطہ نظر سے یہ اپنی ذات کے لیے تو موجود ہے مگر غیر ذات کے لیے غیر موجود ہے۔ اس عبارت سے یہ امر بالکل واضح ہے کہ الجیلی فکر خالص کے جوہر کو دو متضاد صفات کا حامل تصور کرتا ہے۔ علامہ اقبال الجیلی کے فلسفہ اسم و مسمی کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ الجیلی کے قول کے مطابق کسی چیز کا اسم (نام) مسمی کو ہمارے ادراک میں نصب کرتا ہے اور ہمارے دماغ میں اس کی تصویر بنا دیتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ نام دی گئی شے (مسمّٰی) کوہمارے تخیل میں پیش کرکے اسے ہمارے حافظہ میں محفوظ کردیتا ہے۔ اس طرح نام کسی بیان کردہ چیز کا بیرونی حصہ یا اس کا چھلکا ہوتا ہے جب کہ وہ چیز اس کا باطنی حصہ یا گودا ہوتی ہے۔ الجیلی کا کہنا ہے کہ بعض نام فی الحقیقت موجود نہیں ہوتے مگر ان کا نام ضرور موجود ہوتا ہے جیسے عنقا جوایک فرضی پرندہ ہے۔ عنقا پرندے کا نام تو ہے لیکن وہ حقیقت میںکوئی وجود نہیں رکھتا۔ عنقا کلیتاً غیر موجود ہے۔ اس کے برعکس خدا مطلقاً موجود ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اسے چھوااور دیکھا نہیں جاسکتا۔ عنقا تو صرف ہمارے خیال میں موجود ہوتا ہے جب کہ خدا کا نام اپنے مسمی یعنی خدا کے حقیقی وجود پر دلالت کرتا ہے جسے اس کے اسمائے حسنہ اور صفات کاملہ کے ذریعے جانا جاسکتا ہے۔ الغرض الجیلی کی رائے میں خدا کا نام ہستی مطلق (Absolute Being) کے تمام اسرار و رموز کے انکشاف کا آئینہ ہے۔ اس لحاظ سے نام ایک ایسی روشنی ہے جس کی وساطت سے خدا اپنا دیدار کرتا ہے۔ علامہ اقبال الجیلی کے اس نظریۂ خدااور اسماعیلی تصور خدا میں مشابہت پاتے ہوئے یہ کہتے ہیں: الجیلی کا یہ نظریہ اسماعیلی تصور سے ملتا جلتا ہے جس کی رو سے ہمیں مسمّٰی کو اسم کے ذریعے تلاش کرنا چاہیے۔ اسم اور مسمّٰی کی بحث سے زیادہ آگاہی حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ہستی خالص یا ہستی مطلق (خدا) کے تین اہم مدارج کو بھی مدّنظر رکھیں۔ الجیلی کہتا ہے کہ وجود مطلق یا ہستی خالص (Absolute Existence or Pure Being) جب اپنی مطلقیت کو چھوڑتی ہے تو وہ تین مراحل اختیار کرتی ہے… (۱)مقام احدیت (One-ness)۔ (۲)مقام ہو (He-ness)۔ (۳)مقام انانیت (I-ness) اگرچہ مرحلہ اول میں صفات اور تعلقات کا فقدان ہوتا ہے تاہم اسے واحد ہی سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے توحید مطلقیت سے ایک قدم دور ہوتی ہے۔ مرحلہ دوم میں ہستی خالص تمام ظہور و نمود سے آزاد ہوتی ہے۔ جب کہ مرحلہ سوم یعنی انانیت کا مقام مقام ھو کا خارجی ظہور ہے جسے ہیگل (Hegel) کے الفاظ میں انفصال ذات باری کہا جائے گا۔ یہ تیسرا مرحلہ خدا کے نام کا مقام ہے جہاں ہستی خالص کی ظلمت میں تنویرجنم لیتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں فطرت آگے نمایاں ہو جاتی ہے اور ہستیِ مطلق یہاں پہنچ کر باشعور ہوگئی ہے۔ الجیلی مزید کہتا ہے کہ اللہ کا نام الوہیت (Divinity) کے مختلف مدارج کے تمام کمالات کا منبع ہے اور ہستی خالص کی ترقی کے دوسرے مرحلہ میں خدائی انفصال (برائی) کی نتیجہ خیزی کو اس نام کی زبردست گرفت میں مضبوطی سے شامل کیا گیا تھا۔ اس ترقی کے تیسرے مرحلہ میں یہ نام خود معروضیت کی شکل میں ڈھل کر ایک ایسا آئینہ بن گیا جس میں خدا نے اپنا عکس ڈالا تھا۔ اس طرح خدا نے اپنی جلوہ گری سے ہستی مطلق کی تمام تاریکی کافور کردی تھی۔ ہستی مطلق کے ان سہ گونہ مدارج و مقامات سے ظاہر ہے کہ الجیلی نے خدا اور کائنات کے باہمی ربط کو اپنے مخصوص فلسفیانہ نظریات کی روشنی میں بیان کرنے کی کوشش ہے۔ وہ کائنات کو خدائی صفات و تجلیات کا آئینہ دار قرار دیتا ہے۔ علامہ اقبال نے اس کے اس نظریے پر اپنی طرف سے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ ہستی مطلق کے تین مراحل و مراتب کا تذکرہ کرنے کے بعد علامہ اقبال نے مرد کامل (Perfect Man) کی روحانی تربیت کے بھی تین مراحل ہی کو بیان کیا ہے۔ جس طرح ہستی مطلق کی ترقی کے تین مراحل ہیں اسی طرح انسان کامل کی ترقی کے بھی اتنے ہی مدارج ہیں لیکن ان دونوں کی ترقی کا طریق ایک دوسرے کے طریق سے مختلف اور برعکس ہے۔ انسان کی ترقی پستی سے بلندی کی طرف ہوتی ہے۔ جب کہ ہستی مطلق (Absolute Being) نے بنیادی طور پر بلندی سے پستی کی طرف جانے والا طریق اختیارکیا تھا۔ الجیلی کے خیال کے مطابق انسان کامل اپنی روحانی ترقی کے مرحلہ میں اول خدا کے نام پر غور و فکر کرکے فطرت کا مطالعہ کرتا ہے جس پر اس کے نام کی مہر لگی ہوئی ہے۔ اپنی روحانی ترقی کے مرحلہ دوم میں پہنچ کر وہ خدائی صفات کے میدان میں قدم رکھتا ہے اور مرحلہ سوم میں آکر وہ خلاصہ کائنات (Essence) کی حد میں داخل ہو جاتا ہے۔ انسان کامل کے ان تین روحانی مراحل ترقی کا ذکر کرنے کے بعد الجیلی انسان کامل (Perfect Man) کے افعال کو خدائی افعال کا مترادف اور عکاس قرار دیتے ہوئے اس کے مقام رفیع کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے: روحانی ترقی کے تیسرے مرحلے میں پہنچ کر آدمی انسان کامل بن جاتا ہے۔ اس کی آنکھ خدا کی آنکھ، اس کی بات خدا کی بات اور اس کی زندگی خدا کی زندگی کا روپ دھار لیتی ہیں۔ یہ انسان کامل فطرت (Nature) کی عام زندگی میں شریک ہو کر اشیائے کائنات کی زندگی کا راز پالیتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کا مسئلہ فلسفہ و تصوف اور دین و دانش کے اہم اور دقیق موضوعات میں سے ہے الجیلی نے اپنے فلسفیانہ نظام میں اس مسئلے پر بھی اظہار خیال کیا ہے۔ بعض مفکرین اور حکما کائنات کو حقیقت مطلقہ کا خارجی پہلو تو تسلیم کرتے ہیں مگر وہ اس کے حقیقی وجود کے قائل نہیں چنانچہ وہ اس دل چسپ عالم رنگ و بو کو سراب، وہم اور مایا قرار دیتے ہیں۔ الجیلی کو اس نقطہ نگاہ سے سخت اختلاف ہے۔ علامہ اقبال انسان کامل کے تین روحانی مراتب ترقی کے ذکر کے فوراً بعد الجیلی کے نظریہ ذات و صفات کو موضوع بحث بناتے ہیں۔ ان کی رائے میں اس مشہور مسلمان فلسفی کے نظریات اس بارے میں بے حد دل چسپ اور اہم ہیں۔ اس کا یہ تصور ہندو عینیت یا مثالیت (Idealism) سے اساسی طور پر مختلف ہے۔ انسان الکامل(جلد اول، صفحہ ۲۲) کی روشنی میں وہ اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں: وہ (الجیلی) صفت کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ ایک ایسا ذریعہ ہے جو ہمیں اشیا کی حالت سے متعلق علم دیتا ہے۔ وہ ایک اورمقام پرکہتا ہے کہ پسِ پردہ چھپی ہوئی حقیقت سے یہ اختلاف صفت صرف میدان مظاہر میں درست ہے۔ کیوں کہ ہر صفت، حقیقت کے غیر میں مخفی خیال کی جاتی ہے۔ یہ غیریت مظاہر کے میدان میں اشیا کی ترتیب و انتشار کے سبب ہوتی ہے لیکن عالم غیب کے لیے یہ امتیاز درست نہیں کیوں کہ وہاں اشیا کی ترکیب اور انتشار کا وجود نہیں ہوتا۔ علامہ اقبال الجیلی کے نظریہ کائنات اور ہندو عینیت پرستوں کے تصور کائنات میں زمین و آسمان کا فرق پاتے ہیں۔ دنیا کو دھوکا، سراب اور غیرحقیقی قرار دینے والوں سے الجیلی کو شدید اختلاف ہے کیوں کہ وہ حقیقت مطلقہ کے اس خارجی پہلو کو حقیقت پر مبنی تصور کرتا ہے۔ علامہ اقبال ’’مایا‘‘ کے تصور اور الجیلی کے کائناتی نظریات کے فرق کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یہ دیکھنا چاہیے کہ الجیلی ’’مایا‘‘ کے اُصول کے حامیوں سے کتنا بڑا اختلاف رکھتا ہے۔ اس کا عقیدہ ہے کہ مادی دنیا حقیقی وجود کی حامل ہے۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ یہ مادی دنیا حقیقی ہستی کا بیرونی چھلکا ہے لیکن یہ خارجی چھلکا بھی کچھ کم حقیقی نہیں ہے۔ علامہ اقبال کے خیال میں الجیلی اس عالم مظاہر کے سبب کو مجموعہ صفات کے پس پردہ اصل وجود کی بجائے ذہن کا تراشا ہوا تصور سمجھتا ہے تاکہ اس مادی دنیا کے ادراک میں کوئی دشواری نہ رہے۔ یہاں تک تو برکلے (Berkeley) اور فشٹے (Fichte) الجیلی سے اس بارے میں متفق ہیں لیکن پھر اس کا یہ نظریہ ہمیں ہیگل (Hegel) کے نمایاں ترین اُصول یعنی خیال و وجود کی مطابقت تک لے جاتا ہے۔ بعدازاں حضرت علامہ الجیلی کی تصنیف انسان الکامل (جلد دوم، صفحہ ۲۶) کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فرماتے ہیں: انسان الکامل کی دوسری جلد کے سینتیسویں باب میں الجیلی واضح طور پر کہتا ہے کہ یہ کائنات خیال کی پیداوار ہے اس لیے فکر، خیال اور تصور اس کی ساخت کا مواد مہیا کرتے ہیں۔ وہ اس نظریے پرزور دیتے ہوئے یہ سوال پوچھتا ہے ’’کیا تو اپنے عقیدے کی حقیقت پر غور نہیں کرتا؟۔ وہ حقیقت کہاں ہے جس میں یہ نام نہاد خدائی صفات پوشیدہ ہیں؟۔ یہ سب خیال کے سو اکچھ بھی نہیں۔‘‘ اس لحاظ سے کائنات صاف و شفاف خیال کے ماسوا کچھ نہیں۔ علامہ اقبال الجیلی کے تصور کائنات کی بحث کے دوران جرمنی کے ایک مشہور و معروف فلسفی کانٹ (Kant) کی ایک اہم تصنیف… تنقید عقل محض (Critique of Pure Reason) کا تذکرہ بھی چھیڑ دیتے ہیں تاکہ ان دونوں مفکروں کے نظریات کا کسی قدر موازنہ و مقابلہ بھی کیا جائے۔ حضرت علامہ کی رائے میں الجیلی کانٹ کی اس کتاب کے فکری نتائج کو تو قبول کرتا ہے مگر وہ کانٹ کے برعکس اپنے اس خیال کو کائنات کا جوہر بنا دیتا ہے کانٹ کا ’’شے بذات خود‘‘ (Ding an Sich) اس کے نزدیک عدم محض ہے کیوں کہ وہ مجموعہ صفات کے پیچھے کچھ بھی موجود نہیں پاتا۔ وہ صفات کو اصل اشیا تصور کرتا ہے۔ اس کی رائے میں مادی دنیا وجود مطلق (Absolute Being) کی معروضی اورخارجی شکل ہے۔ وجود مطلق کی اپنی ذات میں اُصول اختلاف پر اس غیر کا وجود منحصر ہے اس لحاظ سے نیچر خدا کا خیال ہے۔ یہ ایک ایسا خیال ہے جس کی بدولت خدا کو اپنی ذات کا علم حاصل ہوتا ہے۔ علامہ اقبال ہیگل اور الجیلی کا دوبارہ تقابل کرتے ہوئے کہتے ہیں: ہیگل اپنے نظریے کو وجود اور خیال کی یکسانیت کہتا ہے جب کہ الجیلی اسے حقیقت و صفت کی یک رنگی قرار دیتا ہے۔ الجیلی نے اس دنیا کو عالم صفات کہا ہے۔ علامہ اقبال ہمیں بتاتے ہیں کہ مادی دنیا سے متعلق الجیلی کے ان الفاظ کا استعمال کسی حد تک گمراہ کن ہے۔ ان الفاظ سے اس کا اصل مطلب یہ ہے کہ صفت کی حامل حقیقت کا یہ امتیاز مختص ظاہری ہے اور اشیا کی نوعیت میں وہ کہیں بھیموجود نہیں۔ یہ حقیقی تو نہیں البتہ ہمارے اردگرد کی دنیا کے آسان فہم کے لیے یہ مفید ضرور ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ الجیلی تجرباتی عینیت (Empirical Idealism) کی صداقت کو محض نظریے کے طور پر مانتا ہے اور وہ اس فرق کی مطلقیت کا قائل نہیں۔ شاعر مشرق اور حکیم الامت علامہ اقبال ایک غلط فہمی کا یوں ازالہ کرتے ہیں: ان الفاظ سے ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ الجیلی کسی شے کی بذات خود معروضی حقیقت میں یقین نہیں رکھتا۔ وہ اس میں ضرور اعتقاد رکھتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کی وحدت کی وکالت کرتے ہوئے وہ مادی دنیا کو اس شے کا ’’غیر‘‘ اور خارجی اظہار قرار دیتا ہے۔ ہیگل کا تصور ’’شے بذات خود‘‘ (Ding an Sich) اور اس کا خارجی اظہار یا اس کی پیداوار دراصل آپس میں ہم آہنگ اور یکساں ہیں اگرچہ کائنات کو آسان انداز میں سمجھنے کے لیے ہم ان کے درمیان تمیز کرتے ہیں۔ الجیلی کہتا ہے کہ اگر ان میں کامل مطابقت نہیں تو پھر ایک شے دوسری شے کی مظہر کیسے ہوسکتی ہے۔ علامہ اقبال الجیلی کے اس تصور کی تلخیص اپنے ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: قصہ مختصر۔ ہیگل کے الفاظ Ding an Sich (شے بذات خود) کا مطلب الجیلی کی رائے میں خالص اور مطلق ہستی ہے جسے وہ اس کی نمود یا خارجی اظہار کے ذریعے تلاش کرتا ہے۔ الجیلی کا قول ہے کہ جب تک ہم حقیقت و صفت کی یکسانیت کو محسوس نہیں کرتے اس وقت تک مادی دنیا یا دنیائے صفات حجاب دکھائی دیتی ہے۔ لیکن جب ہم اس اُصول کو جان لیتے ہیں تو یہ پردہ دور ہو جاتا ہے اور ہم جوہر کو ہر جگہ دیکھ لیتے ہیں۔ اس وقت ہمیں پتا چلتا ہے کہ صفات اصل میں ہم ہیں اور فطرت اپنے اصلی رنگ میںنمایاں ہوجاتی ہے، تمام غیریت دور ہوجاتی ہے اور ہم فطرت کے ساتھ متحد ہو جاتے ہیں۔ بقول الجیلی جب غیریت کے تمام پردے دورہوجاتے ہیں تو اس وقت ہمارے ذوق تجسّس کا چبھتا ہوا کانٹا دور ہو جاتا ہے اور ہمیں ذہنی سکون حاصل ہوجاتا ہے۔ ذہنی سکون کے حصول کے بعد ہمارا فلسفیانہ جذبہ استفسار بھی سرد پڑجاتا ہے۔ جس شخص کو اس یک رنگی کا حساس ہوجاتا ہے اس کے لیے سائنسی اکتشافات و ایجادات نئی اطلاعات کی آئینہ دار نہیں ہوتیں کیوں کہ وہ اس سے بیشتر ہی اشیائے کائنات کی تہ میں پوشیدہ وحدت اور فطرتی حقائق سے بے خبر ہو چکاہوتا ہے۔ اس طرح مذہب اپنے مافوق الفطرت اختیار کے باوجود اس ضمن میں کچھ نہیںکہتا۔ اسے ہم روحانی آزادی سے تعبیر کرتے ہیں۔ آیئے اب ہم اس امر کا جائزہ لیں کہ الجیلی ان مختلف ایزدی اسما و صفات کی کس طرح درجہ بندی کرتا ہے جن کا فطرت یا صاف و شفاف الوہیت (Divinity) میں اظہار ہوتا ہے۔ اس کی یہ تقسیم درج ذیل ہے: (۱) خدا کے ذاتی اسما اور صفات مثلاً اللہ، احد، فرد، نور، حق، سبحان اور حی۔ (۲) خدا کے وہ نام اور صفات جو ہر قسم کی شان کا سرچشمہ ہیں مثلاً اکبر، متعال اور قادر۔ (۳) خدا کے وہ اسما و صفات جو تمام کمالات پر دلالت کرتے ہیں جیسے خالق، رحمن، اول اور آخر۔ (۴) حسن و جمال کے مظہر اسما و صفات مثال کے طور پرناقابل خلق، مصور، رحیم اور مبدا کل۔ الجیلی نے خدا کے مختلف اسما اور صفات کی جو تقسیم کی ہے اس کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے علامہ اقبال یہ کہتے ہیں: خدا کے یہ اسما و صفات خاص خاص تاثیر کے حامل ہیں۔ ہر ایک کا ذاتی اثر مرد کامل کی روح اور فطرت کو منور کرتا ہے۔ الجیلی نے اس بات کی تشریح نہیں کی کہ یہ ایزدی تجلیات کیسے وقوع پذیر ہوتی ہیں اور وہ کس طرح روح تک پہنچتی ہیں۔ ان دونوں امور کے بارے میں اس کی خاموشی اس کے نظریات کے صوفیانہ پہلو سے متعلق طمانیت بخشتی ہے اور وہ روحانی انتظام کی ضرورت پر دال ہے۔ خدا کے مخصوص ناموں اور صفات کے بارے میں الجیلی کے تصورات پر غور کرنے سے قبل ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ مندرجہ بالا درجہ بندی کی رو سے اس کا نظریہ خدا جرمن فلسفی شامائر ماخر (Schleier Macher) کے نظریہ خدا سے ملتا جلتا ہے۔ جرمنی کا یہ ماہر الہیات تمام ایزدی صفات کا خلاصہ صفت طاقت قرار دیتا ہے جب کہ الجیلی خدا کو تمام صفات سے عاری سمجھنے میں خطرہ محسوس کرنے کے باوجود شامائر ماخر سے متفق ہے کہ خدا اپنی ذات میں غیر تغیر پذیر وحدت ہے اور اس کی مختلف صفات انسانی نظریات کی عکاس ہیں۔ خدا کے تصور سے متعلق اس جرمن مذہبی فلسفی کے یہ الفاظ قابل غور ہیں: خدا کی صفات خدا کے بارے میں مختلف انسانی مواقف اور نظریات سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ خدا کی غیر تغیر پذیر ذات واحد ہماری محدود عقل کے سامنے مختلف مظاہر پیش کرتی ہے۔ دراصل یہ وہ مظاہر ہوتے ہیں جنھیں ہم روحانی منظر کی مختلف سمتوں سے دیکھتے ہیں۔ (Matheson's Aids to the Study of German Philosophy 43.) الجیلی کے نقطہ نظر سے خدا اپنے مطلق وجود میں اسما و صفات کی حدود سے بالاتر ہے لیکن جب وہ اپنے آپ کو خارجی طور پر ظاہر کرتا ہے اور اپنی مطلقیت کو خیرباد کہتا ہے یا جب نیچر معرض وجود میں آتی ہے تو اس وقت نام اور صفات فطرت کی ساخت پر مرتسم دکھائی دیتے ہیں۔ اب ہم اس امر پر غور کریں گے کہ الجیلی ہمیں ایزدی اسما و صفات کی ضمن میںکیا بتاتا ہے۔ خدا کا سب سے اہم اوربنیادی نام اللہ (الوہیت) ہے جس کا مطلب ہے وجود اور زندگی کے تمام حقائق کا مجموعہ اپنے اپنے مخصوص نظام کے ساتھ۔ دوسرے لفظوں میں حیات کے تمام حقائق کا مجموعہ اس کے وجود کا آئینہ دار ہے۔ یہ تمام حقائق اپنے اپنے مخصوص نظام کے حامل ہیں۔ اس لحاظ سے خدا کا اسم اعظم ’’اللہ‘‘ حیات و کائنات کی تمام حقیقتوں کے مجموعی نظام کا مظہر ہے۔ خدا کے ساتھ اس نام کی نسبت خدا کی لازمی اورواحد ذات کی غماز ہے۔ الوہیت (Divinity) ہستی خالص (Pure Being) کا اعلیٰ ظہور ہے۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ ہستی خالص کو تو ہم آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں مگر اس کا ’’این‘‘ (کہاں) ناقابل دید ہے۔ اس کے برعکس الوہیت کے آثار تو دیدنی ہیں مگر الوہیت خود نظر نہیں آتی۔ نیچر اور الوہیت سے متعلق الجیلی کے تصورات کا خلاصہ ان الفاظ میں یہاں درج کیا جاتا ہے۔ حضرت علامہ کا قول ہے: اگرچہ فطرت صاف و شفاف الوہیت کا درجہ رکھتی ہے تاہم وہ اصلی الوہیت نہیں ہے۔ بنابریں الوہیت خود تو قابل دید نہیں مگر نیچر کی شکل میں اس کے نشانات آنکھوں سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ الجیلی اس بات کی توضیح کرتے ہوئے الوہیت کو پانی سے اور نیچر کو آئینے کی مانند شفاف اورمنجمد پانی یا برف سے تشبیہ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ برف پانی نہیں ہے اگرچہ یہ پانی پر مبنی ہوتی ہے۔ علامہ اقبال الجیلی کے اس تصور پر روشنی ڈالتے ہوئے مزید فرماتے ہیں کہ الجیلی کی رائے میں جوہر (Essence) کی صفات کا ہمیں علم تو نہیں ہوتا تاہم وہ ہماری آنکھوں کے لیے قابل دید ہیں۔ یہ چیز الجیلی کی نیچرل عینیّت (Natural Idealism) یا مطلق عینیت (Absolute Idealism) کا ثبوت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی صفات کی نوعیت سے ہم آگاہ نہیں ہوتے مگر ہم ان کے اظلال یا آثار کا علم حاصل کرسکتے ہیں مثال کے طور پر خیرات بذات خود غیرمعلوم ہوتی ہے صرف اس کا اثر یا غربا کو خیرات دینے کی حقیقت سے ہم باہر ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے کہ صفات جوہر (Essence) کی اپنی فطرت میں شامل ہوتی ہیں۔ اگر صفات کا اظہار اپنی اصلی فطرت میں ممکن ہوتا تو جوہر سے اس کی جدائی بھی ممکن ہوتی۔ خدا تعالیٰ کے چند اوربنیادی اسما بھی ہیں مثلاً مطلق احدیت (Absolute One ness) اور سادہ احدیت (Simple One ness)۔ جہاں تک کہ مطلق احدیت کا تعلق ہے وہ (ویدانت کی باطنی یا اصلی مایا) تاریکی سے فکر خالص (Pure Thought) کے نمود کی روشنی کی طرف پہلا قدم ہے۔ اگرچہ اس حرکت اور تبدیلی کے سبب خارجی مظاہر جنم نہیں لیتے تاہم یہ حرکت ان سب کو کھوکھلی آفاقیت کے تحت جمع کردیتی ہے۔ الجیلی اسے دیوار کی مثال سے واضح کرتا ہے علامہ اقبال اس تصویرپر یوں روشنی ڈالتے ہیں: مصنف (الجیلی) کہتا ہے کہ تم دیوار پر نظر ڈالو۔ تم ساری دیوار کو تو دیکھ سکتے ہو مگر اس کی تعمیر میں استعمال ہونے والے مواد کے ٹکڑوں کو الگ الگ نہیں دیکھ سکتے۔ اس لحاظ سے دیوار ایک ایسی وحدت ہے جو کثرت کو بھی اپنے اندر شامل رکھتی ہے۔ پس ہستی خالص ایک ایسی وحدت ہے جو کثرت کی روح ہے۔ ہستی مطلق کی تیسری حرکت سادہ احدیت ہے۔ یہ ایک ایسا اقدام ہے جس میں خارجی نمود شامل ہوتی ہے۔ مطلق احدیت تمام خاص اسما اور صفات سے آزاد ہے۔ اس کے علی الرغم سادہ احدیت اسما و صفات کو اختیار کرلیتی ہے لیکن ان صفات کے درمیان کوئی فرق نہیں کیوں کہ ہر ایک صفت دوسری صفت کا جوہر ہوتی ہے۔ الوہیت سادہ احدیت کی مانند ہے لیکن اس کے اسما وصفات ایک دوسرے سے مختلف بلکہ متضاد بھی ہیں جیسے لفظ فیاض لفظ ’’انتقام گیر‘‘ کی ضد ہے۔ علامہ اقبال الجیلی کے اس تصور اور ہندو دھرم کے متعلقہ تصور کے بارے میں اپنی ذاتی رائے کا یوں اظہار کرتے ہیں: الجیلی کا یہ نظریہ ویدانت کے مظاہری براہما کے نظریے کی مانند دکھائی دے گا۔ ذاتی خالق یا ویدانت کا پراجی پتی (Praji Pati) ہستی مطلق یا غیر مظاہری براہما کا تیسرا اقدام ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ الجیلی براہما کی دو قسموں کو مانتا ہے۔ سمکرا (Samkara) اور بدرایانہ (Badarayana) کی طرح صفات کے ساتھ یا صفات کے بغیر۔ اس کے نزدیک طریق تخلیق بنیادی طور پر فکر مطلق کا نزول ہے۔ مطلق ہونے کی حیثیت سے یہ اَسَت (Asat) ہے مگر ظہور پذیر اور محدود نہ ہونے کے سبب یہ سَتْ (Sat) ہے۔ اس مطلق وحدت جوہر کے باوجود وہ راما نوجا (Rama Nuja) کے تصور کی طرف مائل ہے۔ انفرادی روح کی حقیقت کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ وہ سَمْکرا کے برعکس اس بات کو ماننے کی جانب میلان رکھتا ہے کہ ایشور اور اس کی عبادت اعلیٰ علم کے حصول کے بعد بھی ضروری ہیں۔ یہ تیسرا مرحلہ اور اقدام ہیگل کے الفاظ میں ’’سفر ہستی‘‘ ایک اور صفت (رحم) کا حامل ہے۔ اس کے بعد الجیلی کہتا ہے کہ خدا کا پہلا رحم و کرم اس کی ذات سے کائنات کا ارتقا اور اس کے انفصال ذات کے نتیجہ میں ہر ذرے میں اس کی ذات کا ظہور ہے۔ الجیلی اپنے نظریہ خدا اور نظریہ کائنات کو واضح کرنے کے لیے پانی اور برف کی مثال دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ نیچر (فطرت) منجمد پانی ہے اور خدا پانی کی مانند ہے۔ نیچر کا اصل نام خدا (اللہ) ہے اوربرف یا منجمد پانی تو صرف ایک مستعار نام ہے۔ وہ اپنی کتاب میں کسی اور جگہ پانی کو علم، عقل، ادراک، فکر اور خیال کی اصل قرار دیتا ہے۔ علامہ اقبال کی رائے میںالجیلی کی یہ مثال اسے اس غلطی سے محفوظ رکھتی ہے کہ خدا نیچر پر محیط کل ہے یا وہ حیات مادی کے میدان میں سرایت کیے ہوئے ہے۔ بقول الجیلی سرایت کا مطلب وجود کے اختلاف پر دلالت کرتاہے۔ دوسرے لفظوں میں اگر ہم یہ کہیں کہ خدا کائنات کے ذرے ذرے میں جاری و ساری ہے تو اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ حیات مادی اور خدا دونوں کا الگ الگ وجود ہے۔ الجیلی تو خدا کو ہی حیات حقیقی کا مالک قرار دیتے ہوئے مزید کہتا ہے: خدا تعالیٰ ہر جگہ جاری و ساری نہیں کیوں کہ وہ تو خود حیات ہے۔ خارجی زندگی خدا تعالیٰ کی ذات کا دوسرا پہلو ہے۔ کائنات کے ظہور کے ذریعے وہ اپنی ذات کا دیدار کرتا ہے۔ جس طرح کسی نظریے کا موجد اس میں موجود ہوتا ہے اس طرح خدا بھی نیچر میں موجود ہے۔ ہم کَہ سکتے ہیں کہ خدا اور انسان میں فرق یہ ہے کہ خدا کے نظریات خودبخود عملی شکل اختیار کرلیتے ہیں جب کہ ہمارے نظریات اس خوبی سے عاری ہیں۔ الجیلی کے ان خیالات پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ اقبال اس کے اور جرمن فلسفی ہیگل کے استدلال میںمشابہت پاتے ہیں۔ ان کی رائے میں ہیگل بھی وحدۃ الوجود کے الزام سے نجات پانے کے لیے اس قسم کی دلیل سے کام لیتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی صفت رحم اور صفت ربوبیت (The Attribute of Providence) کے باہمی گہرے تعلق کی تعریف کرتے ہوئے الجیلی کہتا ہے کہ ربوبیت اور رزاقی سے خدا کی وہ صفت مراد ہے جو تمام موجودات اور مخلوقات کی ضروریات زندگی کی بطریق احسن کفالت کرتی ہے۔ اپنی اس بات کو مزید وضاحت کے لیے وہ پودوں کی مثال دیتا ہے جو اس خدائی صفت کی بدولت پانی جیسی نعمت عظمیٰ سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ علامہ اقبال الجیلی کے اس نظریے کی تائید کرتے ہیں۔ ان کی رائے میں ایک فطرت پرست فلسفی اس بات کو مختلف انداز میں بیان کرتے ہوئے اسے فطرت کی کسی خاص طاقت کی سرگرمی کا نتیجہ قرار دے گا۔ الجیلی اسے خدائی ربوبیت کی نمود کہے گا اور فطرت پرست فلسفی کے برعکس اس رزاق طاقت کو معلوم تصور کرے گا۔ فطرت پرست فلسفی اس طاقت کے علم سے معذوری کا اظہار کرے گا جب کہ الجیلی اس کے وجود کا معترف ہوگا۔ الجیلی کے خیال میں فطرت کے پس پردہ کوئی اور طاقت نہیں بلکہ یہ خود ہستی مطلق ہے۔ علامہ اقبال الجیلی کے نظریہ اسما و صفات ایزدی کی بحث کے بعد اب ایک اور اہم مشکل فلسفیانہ اور صوفیانہ موضوع یعنی تخلیق اشیا سے ماقبل کی نوعیت کے بارے میں الجیلی کے تصورات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ مذہب، فلسفہ، سائنس اور تصوف نے اپنے اپنے انداز میں اس امر کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ کائنات کی آفرینش سے پہلے کیا تھا اور اس وقت مادے (Matter)، وقت، زمان و مکان اور خدا کی کیا حالت تھی۔ اس بارے میں الجیلی کا نظریہ یہ ہے کہ تخلیق کائنات سے بیشتر خدا ’’اعمیٰ‘‘ (ازلی تاریکی اور موجودہ اصطلاح حالتِ لاشعور) میں تھا۔ اپنی اس بات کی تائید میں وہ ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ تخلیق کائنات سے پہلے خدا کی حالت کے بارے میں جب رسول عربیؐ سے سوال کیا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ ارض وسما کی پیدایش سے قبل خدا ’’اعمیٰ‘‘ (اندھا پن یعنی لاشعوری حالت) میں تھا۔ علامہ اقبال اس اعمیٰ یا ازلی ظلمت کی نوعیت کا جائزہ دل چسپ انداز میں لیتے ہیں۔ ان کی رائے میں اس لفظ اعمیٰ کو ہم جدید اسلوب بیان میں ادا کرتے ہوئے ’’لاشعوری حالت‘‘ (Unconsciousness) کہیں گے۔ وہ الجیلی کی دور اندیشی کی داد دیتے ہیں کہ اس نے جدید جرمنی کے مابعدالطبیعیاتی اُصولوں کی طرف کافی عرصہ پہلے بلیغ اشارہ کردیا تھا۔ وہ الجیلی کے اس تصور کا لب لباب یہ پیش کرتے ہیں: الجیلی کہتا ہے کہ لاشعور تمام حقیقتوں کی حقیقت ہے۔ یہ کسی نزولی حرکت کے بغیر ہستی خالص ہے۔ یہ ہستی خالص خدائی صفات اور عمل تخلیق سے آزاد ہونے کی حیثیت سے کسی نام یا صفت کی محتاج نہیں کیوں کہ یہ عالم تعلقات سے ماورا ہے۔ یہ مطلق احدیت سے ممیّز ہے کیوں کہ مطلق احدیت وہ نام ہے جو ہستی خالص کو اس وقت دیا جاتا ہے جب وہ اپنی نمود کے لیے بلندی سے نیچے آتی ہے۔ اس کے بعد حضرت علامہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ جب ہم خدا کے تقدم اور تخلیق کے تاخر کی بات کرتے ہیں تو ہمارے الفاظ سے زمان کا مفہوم مترشح نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ خدا اور اس کے عمل تخلیق کے دوران میں مرور زمان اور جدائی کا وجود نہیں ہوسکتا۔ وہ زمان و مکان کی حقیقت کو ان الفاظ کا جامہ پہناتے ہوئے فرماتے ہیں: زمان کا تسلسل اور مکان بذات خود مخلوق ہیں۔ ایک ذرۂ تخلیق خدا اور اس کے تخلیقی علم کے درمیان کیسے رکاوٹ بن سکتا ہے؟ اس لیے ہمارے ان الفاظ… قبل، بعد، کہاں وغیرہ ہرگز زمان و مکان مراد نہیں ہونی چاہیے۔ خدا کے عمل تخلیق کی حقیقت انسانی تصورات کی گرفت سے باہر ہے یہی وجہ ہے کہ حیات مادی کا کوئی درجہ بھی اس پر منطبق نہیں کیا جاسکتا۔ کانٹ کے الفاظ میں اس عالم شہود کے قوانین کو عالم غیب کے بارے میں استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ زمان و مکان کے الفاظ انسانی ذہن کے پید اکردہ سانچے اورمعیار ہیں اس لیے خدا کی ذات پر ان کا اطلاق کسی طرح بھی درست نہ ہوگا۔ اس سے قبل علامہ اقبال خدا اور انسان کے تین اہم مدارج کا تذکرہ کرچکے ہیں اب وہ دوبارہ اس موضوع کو زیر بحث لاتے ہوئے کہتے ہیں کہ کمال اور ترقی کی طرف جاتے ہوئے انسان کو تین مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ پہلے مرحلہ میں انسان خدا کے نام پر غور و فکر کرتا ہے جسے الجیلی تجلی اسما قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے: جب خدا کسی خاص انسان کو اپنے ناموں کی روشنی سے منور کرتا ہے تو وہ انسان اس خدائی نام کی خیرہ کرنے والی تجلی کے نیچے آکر مٹ جاتا ہے۔ الجیلی کہتا ہے کہ : ایسی حالت میں تو اگر خدا کو پکارے تو وہ تیری پکار کا جواب دے گا۔ بقول الجیلی خدائی تجلی کے زیر اثر آکر وہ انسان اس وقت خدائی رنگ اختیارکرلیتا ہے۔ علامہ اقبال کے خیال میں بقول شوپنہار (Schopenhauer) اس خدائی تابانی کا اثر فرد کی مرضی کی بربادی ہوگا وہ ہمیں متنبہ کرتے ہیں کہ فرد کی اس مرضی کو طبعی موت کے مترادف خیال کرنا غلط ہوگا کیوں کہ کپلا (Kapila) کے الفاظ میں پراکرتی (Prakriti) سے متحد ہو کر بھی فرد زندہ ہوتا ہے اور وہ چرخے کی مانند حرکت کرتا رہتا ہے۔ یہی وہ مقام اتحاد ہے جہاں فرد وحدۃ الوجود کی حالت میں پکار اٹھتا ہے: محبوبہ اور میں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح متحدہ ہوگئے تھے کہ کوئی ہمیں جدا کرنے والا نہ تھا۔ (انسان الکامل، جلد اول صفحہ۴۰) مرد کامل کی روحانی ترتیب کے دوسرے مرحلہ کو الجیلی تجلی صفت کا نام دیتا ہے۔ یہ تجلی ایزدی انسان کامل کو اس قابل بنا دیتی ہے کہ وہ خدائی صفات کو ان کی اصلی نوعیت میں اپنی استعداد قبولیت کے مطابق حاصل کرلیتا ہے۔ اس خدائی تجلی کی مقدار اور حصول کے مطابق انسان کی روحانی ترقی کا تعین ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے بعض انسان زندگی کی خدائی صفت سے ضوگیر ہو کر روح کائنات کے حصہ دار بن جاتے ہیں۔ یہاں پہنچ کر علامہ اقبال الجیلی کے انسان کامل کی چند کرامات کا ذکر کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں: اس خدائی تجلی کا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان کامل ہوا میں اڑتا ہے، وہ پانی پر چلتا ہے اور اشیا کی جسامت و ضخامت کو تبدیل کردیتا ہے (جیسا کہ حضرت عیسیٰؑ اکثر کیا کرتے تھے۔) اس طرح انسان کامل تمام خدائی صفات کی تجلی سے فیض یاب ہو کر اور اسم و صفت کی حد کو عبور کرتے ہوئے عالم جوہر یعنی حیات مطلق کی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے۔ انسان کامل کی روحانی تربیت و ترقی کے تین مراحل کو بیان کرنے کے بعد علامہ اقبال حیات مطلق کا دوبارہ ذکر کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ جب ہستی مطلق اپنی مطلقیت کو چھوڑتی ہے تو وہ تین نزولی سفر اختیار کرتی ہے۔ یاد رہے کہ مرد کامل کی ترقی کاسفر نیچے سے اوپر کی طرف مگر ہستی مطلق کا سفر اوپر سے نیچے کی جانب ہوتا ہے۔ ہستی مطلق یا حیات مطلق کا ہر ایک نزولی سفر دراصل جوہر مطلق (Absolute Essence) کی آفاقیت محض یا عمومیت کو خصوصیت کا حامل بنا دیتا ہے۔ اس کی ہر ایک حرکت ایک ایسے نئے لازمی اسم (Essential Name) کے تحت نمودار ہوتی ہے جو انسانی روح پر خاص نورانی اثر ڈالتی ہے۔ حضرت علامہ فرماتے ہیں کہ یہاں پہنچ کر الجیلی کی روحانی اخلاقیات کی بحث کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ اس آخری روحانی منزل پر جاکر انسان کامل بن گیا ہے اور وہ ہستی مطلق میں مدغم ہوگیا ہے۔ ہیگل کی زبان میں ہم کَہ سکتے ہیں۔ کہ اس مقام پر پہنچ کر انسان کامل نے فلسفہ مطلق (The Absolute Philosophy) سیکھ لیا ہے۔ الجیلی مرد کامل کے اس مقام رفیع کو یوں بیان کرتا ہے: انسان کامل روحانی ترقی کے آخری مقام پر جاکر مجموعہ کمالات بن جاتا ہے۔ وہ معبود اور کائنات کامحافظ بھی ہو جاتا ہے۔ (انسان الکامل، جلد اول صفحہ۴۸) الجیلی کے قول کے مطابق انسان کامل ایک ایسا نقطہ ہے جہاں انسانیت (عبدیت) اور خدائی (معبودیت) مل جاتی ہیں اور اس کا نتیجہ مرد خدا (God-Man) کی پیدایش کی شکل میں نکلتا ہے۔ انسان کامل کو الجیلی نے بہت سے کمالات، کرامات اور خدائی صفات کا حامل اور مکمل نمونہ تو قرار دے دیا ہے لیکن بقول اقبال اس نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ یہ مرد کامل کس طرح روحانی ارتقا کا کمال حاصل کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ روحانی ترقی کے تمام مراحل کو خاص تجربات سے مملو پاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ روحانی ارتقا کے ہر مرحلے پر مرد کامل کو ایک ایسا خاص تجربہ ہوتا ہے جو اس کے دل و دماغ میں کسی قسم کا شک اور اضطراب باقی رہنے نہیں دیتا۔ روحانی تجربات کے اس ذریعے کو الجیلی قلب (دل) کا نام دیتا ہے۔ علامہ اقبال کی رائے میں قلب کا لفظ آسانی سے شرمندہ معنی نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود وہ الجیلی کی افادیت قلب کے تصور سے متفق ہیں۔ قلب (دل) کی اہمیت و افادیت کو واضح کرنے کے لیے الجیلی نے اپنی کتاب انسان الکامل میں ایک صوفیانہ نقشہ بھی دیا ہے جس کی رو سے وہ دل کو ایک ایسی باطنی آنکھ قرار دیتا ہے جو بتدریج خدائی ناموں، خدائی صفات اور ہستی مطلق کو دیکھ لیتی ہے۔ یہ چشم باطن اپنے وجود کے لیے روح اور دماغ کی پراسرار ترکیب کی محتاج ہے اور بعدازاں اپنی فطرت کے مطابق یہ زندگی کی اعلیٰ حقیقتوں کی معرفت کا آلہ بن جاتی ہے۔ علامہ اقبال یہاں دل اور عقل کا موازنہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جو کچھ دل (ویدانت کے مطابق اعلیٰ علم کے حصول کا سرچشمہ) منکشف کرتا ہے فرد اسے اپنی ذات سے کوئی الگ یا مخالف چیز نہیں سمجھتا کیوں کہ یہ دلی انکشاف تو اس کی اپنی اصلیت اور اس کی گہری زندگی کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ قلبی ذریعے کی یہ خصوصیت اسے عقل سے ممیّز کرتی ہے۔ عقل کا مقصد اسے استعمال کرنے والے انسان کی ذات سے ہمیشہ مختلف اور جداگانہ نوعیت کا ہوتا ہے۔ عقل پر دل کو ترجیح دینے کے باوجود علامہ اقبال صوفیا کے اس مدرسہ فکر کا تذکرہ کرتے ہیں جو روحانی تجربے کے دوام اور روحانی بصیرت اور قلبی دید کے لمحات کو انسانی اختیار کا نتیجہ خیال نہیں کرتے۔ اس ضمن میں انھوں نے ایک مشہور برطانوی شاعر اور نقاد میتھیو آرنلڈ (Matthew Arnold) کے درج ذیل شعر کا حوالہ بھی دیا ہے۔ میتھیو آرنلڈ نے کہا تھا: We cannot Kindle,when we will the fire which in hearts resides. ہم اپنی مرضی اور ارادے کے مطابق اس آگ کو روشن نہیں کرسکتے جو دلوں میں جاگزین ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے علامہ اقبال روحانی تجربے کی اہمیت کے تو قائل ہیں مگر وہ اسے ایک اختیار اور دائمی عمل تصور نہیں کرتے۔ ان کی رائے میں اگر یہ روحانی تجربہ دائمی ہو جاتا تو اس سے عظیم اخلاقی قوت کا ضیاع واقع ہوتا اور معاشرتی نظام تہ و بالا ہو جاتا۔ مستقل طور پر من کی دنیا میں ڈوبے رہنا اور زندگی کے معاشرتی مسائل اور انسانی روابط کو نظر انداز کردینا کسی طرح بھی مفید نہیں ہوسکتا۔ اس لیے علامہ اقبال نے اس یک طرفہ عمل کے دوام پر تنقید کی ہے۔ اس کے بعد وہ مزید کہتے ہیں: بندۂ خدا وہ ہے جس نے اپنی زندگی کے راز کو جانا ہے اور اپنے آپ کو خدا کا بندہ محسوس کیا ہے۔ لیکن جب وہ خاص روحانی احساس ختم ہو جاتا ہے تو انسان (عبد) انسان رہتا ہے اور خدا (معبود) خدا باقی رہتا ہے۔ خدا اپنے اعلیٰ مدارج سے نیچے آنے کے باوجود خدا ہی رہنا چاہیے اور اسی طرح انسان روحانی مراحل طے کرنے کے بعد بھی انسان ہی خیال کرنا چاہیے۔ الجیلی نے انسان کامل کی روحانی تربیت کے تین مراحل اور اسی طرح اس نے خدا کے بھی تین مدارج بیان کیے ہیں۔ الجیلی کے اس نظریے کو اُصول تثلیث یا نظریہ ثلاثہ یا اُصول سہ گونہ (Doctrine of the Trinity) کہا جاتا ہے۔ علامہ اقبال اس سے بیشتر حیات مطلق کی تین حرکات یا ہستی خالص کے اولین تین مدارج کو بیان کرچکے ہیں۔ وہ الجیلی کے تصور مرد کامل پر مزید اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خدا کی تیسری حرکت خارجی ظہور کی معیت میں وقوع پذیر ہوتی ہے۔ یہ خدائی تجلی دراصل خدا اور انسان میں جوہر کی ذات کا اِنفصال ہے۔ اس جدائی کے خلا کو انسان کامل پر کرتا ہے جو انسانی اور خدائی صفات کا حامل ہوتا ہے۔ الجیلی کے اس نظریے کی توضیح کرتے ہوئے علامہ اقبال کہتے ہیں: انسان کامل خدائی اور انسانی صفات میں شریک ہوتا ہے۔ الجیلی کی رائے میں انسان کامل کائنات کا محافظ ہے اس لیے اس کی نگاہ میں انسان کامل کا ظہور فطرت کے تسلسل کے لیے لازمی شرط ہے۔ اس موضوع پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے وہ فرماتے ہیں کہ اس بات کو سمجھنا دشوار نہیں کہ ہستی مطلق جب اپنی مطلقیت کو چھوڑتی ہے تو وہ اس بندۂ خدا (God-Man) میں عود کرآتی ہے۔ اگر بندہ خدا نہ ہوتا تو وہ ایسا نہ کرسکتی تھی اور ایسی حالت میں نیچر نہ ہوتی اور نہ ہی نتیجہ کے طور پر کوئی روشنی ہوتی جس کے ذریعے خدا اپنی ذات کا خود دیدار کرتا۔ جس نور کی وساطت سے خدا اپنی ذات کا دیدار کرتا ہے وہ ہستی مطلق کی فطرت میں اُصول اختلاف کے سبب ہے۔ الجیلی اس اُصول اختلاف کو اپنے مندرجہ ذیل اشعار میں بیان کرتا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے: اگر تم یہ کہو کہ خدا واحد ہے تو تم درست کہتے ہو لیکن اگر تم اسے دو کہو تو یہ بھی درست ہے۔ اگر تم اسے تین قرار دو تو یہ بھی ٹھیک ہوگا کیوں کہ یہ انسان کی اصل فطرت ہے۔ (انسان الکامل،جلد اول صفحہ ۸) اس نقطہ نظر سے الجیلی انسان کامل کو رشتہ اتحاد یا ایک سے زیادہ کو آپس میں ملانے والی کڑی خیال کرتا ہے کیوں کہ ایک طرف تو وہ خدا کے تمام اصلی ناموں سے تجلی حاصل کرتا ہے اور دوسری طرف تمام خدائی صفات اس کی شخصیت میں دوبارہ ظاہر ہوتی ہیں۔ انسان کامل کی چند خدائی صفات کا ذکر کرتے ہوئے الجیلی ان کی یوں تقسیم کرتا ہے: (۱) آزاد زندگی یا وجود۔ (۲) علم جو زندگی ہی کی ایک شکل ہے۔ الجیلی ایک آیہ قرآنی کا حوالہ دیتے ہوئے اسے ثابت کرتا ہے۔ (۳) مشیّت… اُصول تخصیص یا ظہو رہستی (The Manifestation of Being)۔ الجیلی اس کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مشیّت یا ارادہ (Will) جوہرکے تقاضوں کے مطابق خدا کے علم کی تجلی ہے۔ اس لیے یہ علم کی خاص صورت ہے۔ یہ نو تجلیات کی حامل ہے جو سب عشق و محبت کے مختلف نام ہیں۔ اس کی آخری شکل محبت ہے جس میں محب و محبوب (عاشق و معشوق) اور عالم و معلوم آپس میں اس طرح مدغم ہو جاتے ہیں کہ ان میں مکمل یکسانیت پیدا ہو جاتی ہے۔ الجیلی عشق و محبت کی اس شکل کو جوہر مطلق (Absolute Essence) کہتا ہے جیسا کہ عیسائیت خدا کو محبت قرار دیتی ہے۔ الجیلی کے اس تصور عشق و محبت پر تبصرہ کرتے ہوئے حضرت علامہ یہ کہتے ہیں: الجیلی ہمیں مشیّت و ارادہ کے انفرادی عمل کو غیر معلول سمجھنے کی غلطی سے بچاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ آفاقی مشیّت کا عمل ہی کسی علت کے بغیر عمل پذیر ہوا کرتا ہے۔ اس نقطہ نگاہ سے وہ ہیگل کے اُصول آزادی پر دلالت کرتا ہے اور یہ رائے پیش کرتا ہے کہ انسانی اعمال میں جبر و اختیار دونوں شامل ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں تمام انسانی اعمال علت و معلول کی زنجیر میں جکڑے ہوئے ہیں صرف خدائی عمل ہی اس پابندی سے بے نیاز ہوتا ہے۔ ہمارے کام کبھی ہماری ذاتی مرضی کی پیداوار ہوتے ہیں اور کبھی وہ جبریت (Determinism) پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس خدائی اعمال خدائی مشیّت کے اختیار کی دلیل ہوتے ہیں۔ (۴)اپنی تخلیق کی مظہر طاقت الجیلی شیخ محی الدین ابن عربی کی اس رائے کو درست نہیں مانتا کہ کائنات اپنی تخلیق سے قبل خدا کے علم میں موجود تھی۔ اسے ابن عربیؐ کے اس نظریے سے اتفاق نہیںکیوں کہ اس کا مطلب تو یہ ہوگا کہ خدا نے کائنات کو نیستی سے ہست نہیں کیا تھا۔ الجیلی کا ذاتی خیال یہ ہے کہ کائنات اپنی آفرینش سے بیشتر ذات خداوندی میں ایک تصور کی حیثیت سے موجود تھی۔ (۵)کلام یا نور ایزدی کا عکس الجیلی خدا کے کلام کو امکان خیال کرتا ہے۔ اس لیے وہ نیچر (کائنات) کو کلام اللہ کی عملی اور خارجی شکل قرار دیتا ہے۔ خدا کے اس خارجی پہلو کے مختلف نام ہیں۔ مثلاً ٹھوس دنیا، انسانی حقائق کا مجموعہ، نظام الوہیت، وحدت کی کثرت، غیر معلوم ہستی (خدا) کا اظہار، مراتب حسن، خدا کے اسما و صفات کا نشان اور خدائی علم کا مدعا۔ (۶)ناشنیدنی چیزوں کو سننے کی طاقت (۷)نادیدنی اشیا کو دیکھنے کی قوت (۸)حسن کائنات میں جو چیزیں کم حسین نظر آتی ہیں وہ اپنے اصلی وجود میں حسین و جمیل ہیں۔ حسن کائنات اگرچہ خدا کے حسن و جمال کا عکس ہے تاہم یہ حقیقی بھی ہے اور حسین بھی۔ الجیلی کا تصور حسن او رنظریہ خیر (نیکی) آپس میں مربوط ہیں۔ الجیلی کی رائے میں شر ایک اضافی چیز ہے اس لیے اس کا اپنا آزادانہ وجود نہیں۔ اسی طرح وہ گناہ کو بھی ایک اضافی بدصورتی اور قباحت قرار دیتا ہے۔ علامہ اقبال اس کے اس تصور کی ایک جھلک ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں۔ الجیلی کہتا ہے: ’’شر صرف ایک اضافی امرہے۔ اس کا کوئی حقیقی وجود نہیں۔ اسی طرح معصیت محض ایک اضافی بدصورتی کے مترادف ہے۔‘‘ جس چیز کو ایک شخص برا خیال کرے لازم نہیں کہ دوسرا شخص بھی اسے برائی سمجھے۔ (۹) شدید قسم کی شوکت اَور خوبصورتی (۱۰) کمال کمال خدا کا نہ معلوم ہونے والا جوہر ہے اس لیے یہ غیر محدود اور لاانتہا ہے۔ /…//…/ باب ششم دورِ آخر کا ایرانی فلسفہ اس باب میں علامہ اقبال مرحوم و مغفور نے فلسفۂ ایران کے آخری لیکن اہم دور کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اس دور کے ممتاز ترین مسلم حکما مثلاً ملا صدر شیرازی، ملا ہادی سبزواری، فرقہ شیخیہ کے بانی شیخ احمد، حاجی کاظم، بابی تحریک کے موسس علی محمد باب اور بہائی فرقہ کے بانی بہاء اللہ کے افکار و نظریات کا جائزہ لیا ہے۔ ملا ہادی سبزواری کے خیالات کی فلسفیانہ اہمیت کے پیش نظر انھوں نے ملا ہادی سبزواری کے نظام فکر کے مختلف اہم پہلوئوں پر بڑی تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ ان مسلم فلاسفہ کے افکار کو مورد بحث قرار دیتے ہوئے انھوں نے ضمنی طور پر یونان کے دو مشہور ترین فلسفیوں یعنی افلاطون اور ارسطو کے فلسفہ کو بھی کسی قدر بیان کیا ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے تقابلی مطالعہ کے لیے سرسری طور پر جرمنی کے شہرہ آفاق فلسفی ہیگل اور شوپنہار کے فلسفہ کے ایک دو پہلوئوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ علامہ اقبال نے اس باب میں جن اہم موضوعات کو بیان کیا ہے وہ درج ذیل ہیں: (۱) ایران پر تاتاری حملہ آوروں کے عہد میں فلسفہ اور شریعت اسلامیہ کو تو فروغ حاصل نہ ہوسکا لیکن تصوف کا ارتقائی عمل جاری رہا۔ (۲) سترھویں صدی عیسوی میں ملا صدرا شیرازی کی عظیم شخصیت نے اپنی پوری منطقی طاقت کے سہارے اپنے فلسفیانہ نظام کو برقرار رکھا۔ (۳) اٹھارہویں صدی عیسوی میں ملا ہادی سبزواری کے فلسفیانہ نظام کا طوطی بولتا رہا۔ اس کی کتاب اسرار الحکم کا تذکرہ دل چسپی سے خالی نہیں۔ (۴) بابی تحریک اور بہائی مذہب میں ہمیں شیعی عقائد کے علاوہ شیخ احمد اور ملا صدرا کے افکار و نظریات کی کہیں کہیں صدائے بازگشت بھی سنائی دیتی ہے۔ (۵) گوتم بدھ کا تصور نجات ترک خواہشات پر مبنی ہے لیکن بہاء اللہ اسے شعوری ذرات میں مخفی جوہر محبت پر مبنی قرار دیتا ہے۔ (۶) بہاء اللہ کا تصور محبت شوپنہار کے نظریہ مشیّت سے برتر معلوم ہوتا ہے۔ فلسفۂ ایران کے آخری دور کے بارے میں مفکر اسلام اور شاعر مشرق علامہ اقبال نے جن اہم خیالات کو موضوع بحث بنایا ہے اب انھیں ذرا تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے تاکہ ناظرین اس دل چسپ موضوع کے گوناگوں پہلوئوں سے بخوبی آگاہ ہوسکیں۔ یہ ایک تسلیم شدہ امر ہے کہ جب کسی ملک میں سیاسی حالات دگرگوں ہو جاتے ہیں تو اس ملک کی معاشرتی، اقتصادی، فکری، مذہبی، ثقافتی، تعلیمی اور اخلاقی زندگی میں کئی تغیرات رونما ہوتے ہیں۔ فلسفۂ ایران کو بھی کئی بار ایسے سیاسی حالات سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ مشہور یونانی بادشاہ، سکندر اعظم کی فوجی یلغار، دین اسلام کی اشاعت و فروغ اور ہلاکو و چنگیز کی تاخت و تاراج نے ایران کی متعدد سیاسی، ثقافتی، تہذیبی اور سماجی قدروں کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ ایران پر تاتاری حملو ںکے بعدنہ صرف وہاں کی معاشرت تبدیل ہوئی بلکہ ان سے تصوف، شریعت اسلامیہ اور فلسفہ بھی متاثر ہوئے۔ اس ضمن میں علامہ اقبال کہتے ہیں: اجڈ اور غیر مہذب تاتاری حملہ آوروں کو فلسفہ کی آزادانہ روایات سے کوئی ہمدردی نہیں ہوسکتی تھی اس لیے ان کے عہد میں فلسفہ ترقی کی راہ پر گامزن نہ ہوسکا۔ اس کے برعکس مذہب سے مربوط ہونے کی بنا پر تصوف اپنے قدیم نظریات کو باضابطہ بنانے اور نئے خیالات کو نشو و نما دینے میں لگاتار مصروف رہا۔ اس دور میں اسلامی شریعت کی ترقی بھی رک گئی۔ چونکہ تاتاریوں کی رائے میں حنفی فقہ انسانی عقل کی معراج تھی اس لیے فقہی تشریح کی مزید نازک خیالیاں ان کے دماغ کو ناگوار گزرتی تھیں۔ ان پر آشوب اور ناسازگار حالات میں فلسفہ کے قدیم مکاتب اور مسالک عدم استحکام کا شکار ہوگئے اور نتیجہ کے طور پر بہت سے ایرانی فلاسفہ اور مفکرین نے ہندوستان میں آکر پناہ لی۔ اس وقت مغلیہ خاندان کا ایک مشہور و معروف دشمنِ اسلام بادشاہ یعنی اکبر ہندوستان پر حکومت کررہا تھا۔ اس نے سیاسی مصلحت اور ہندو نوازی کے جذبے کے تحت ایک نئے مذہب ’’دین الٰہی‘‘ کی بنیاد ڈالی تھی۔ اس نے ذاتی مفاد کے علاوہ ہندوئوں او راپنے بیشتر ایرانی درباریوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ’’دین الٰہی‘‘ کا شوشہ چھوڑا۔ اقبال کی رائے میں ’’دین الٰہی‘‘ میں زرتشتی افکار و عقائد بھی شامل ہیں۔ علامہ اقبال اس بارے میں یوں رقم طراز ہیں: سولہویں صدی میں ہم ارسطو کے ایرانی متبعین مثلاً دستور اصفہانی، ہیربد، منیر اور کامران کو سفر ہندوستان میں مصروف پاتے ہیں جہاں شہنشاہ اکبر اپنے لیے اور اپنے بیشتر ایرانی درباریوں کے لیے نئے دین کی تشکیل میں زرتشت مذہب سے اثر لے رہا تھا۔ ایران پر یورش تاتار سے پیدا ہونے والے فلسفیانہ تغیرات اور ہندوستان میں اکبر کے ’’دین الٰہی‘‘ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے بعد علامہ اقبال ہمیں سترہویں صدی عیسوی کی ایک مشہور ایرانی شخصیت، ملا صدرا شیرازی، کے فلسفیانہ افکار کے چند نمایاں ترین پہلوئوں سے متعارف کراتے ہیں۔ ان کی رائے میں ملا صدرا کا تصور حقیقت کبریٰ دراصل مکمل وحدت الوجود کی طرف آخری قدم ہونے کے علاوہ محمد علی باب کے پیش کردہ مذہب کی اولین مابعدالطبیعیات کا ذریعہ بھی ہے۔ وہ ملا صدرا شیرازی کے فلسفیانہ نظام کے ماحصل کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: صاحب فراست ملا صدرا شیرازی نے اپنی پوری منطقی قوت کے ساتھ اپنے فلسفیانہ نظام کو برقرار رکھا۔ ملا صدرا کی رائے میں حقیقت مطلقہ تمام اشیا میں موجود ہونے کے باوجود ان میں سے نہیں۔ علاوہ ازیں وہ صحیح علم کو فاعل اور مفعول کی مطابقت پر منحصر خیال کرتا ہے۔ ڈی گوبی نیو De Gobineau ملا صدرا کے فلسفے کو بو علی سینا کے نظریات کا صرف احیا تصور کر تاہے۔ تاہم وہ اس حقیقت کو نظر انداز کردیتا ہے کہ فاعل اور مفعول کی مطابقت سے متعلق ملا صدرا کا تصور وہ آخری قدم ہے جو دانش ایرانی نے مکمل وحدۃ الوجود کی جانب اٹھایا تھا۔ مزید برآں ملا صدرا کا فلسفہ بابی تحریک کے اولین دور کے مابعدالطبیعیات کا سرچشمہ ہے۔ فلسفۂ ایران کے دور آخر سے تعلق رکھنے والے ایرانی مفکرین اور فلاسفہ میں سے ملا ہادی سبزواری کو نمایاں ترین مقام حاصل ہے۔ اٹھارھویں صدی عیسوی کی یہ عظیم شخصیت افلاطونیت کی جانب حرکت کی بہترین مثال ہے۔ اس کے ابنائے وطن اسے ’’ایران جدید کا عظیم ترین مفکر‘‘ خیال کرتے ہیں۔ علامہ اقبال اس کی تصنیف اسرار الحکم میں بیان کردہ تصورات کو بے حد اہم خیال کرتے ہوئے ان پر بڑی شرح و بسط سے روشنی ڈالتے ہیں۔ انھوں نے ملا ہادی سبزواری کے نظام افکار کے مختلف گوشوں کو اپنے مخصوص انداز میں بے نقاب کیا ہے۔ اس سلسلے میں علامہ مرحوم و مغفور کے تنقیدی خیالات کا خلاصہ درج ذیل کیا جاتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں: ملا ہادی سبزواری کی فلسفیانہ تعلیمات پر نگاہ ڈالنے سے ان تین بنیادی تصورات کا انکشاف ہوتا ہے جو زمانہ مابعد اسلام کے فلسفۂ ایران کا جزو لاینفک ہیں: ۱-خدا کی وحدت مطلقہ کا نظریہ جسے ’’نور‘‘ کہا جاتا ہے۔ ۲-وہ نظریہ ارتقا جس کی دھندلی سی جھلک ہمیں انسانی روح کی تقدیر سے متعلق زرتشت کے اُصول میں دکھائی دیتی ہے جسے افلاطون کے جدید ایرانی پیروکاروں اور صوفی مفکرین نے مزید وسعت دے کر باضابطہ بنا دیا تھا۔ ۳-حقیقت مطلقہ (خدا) اور غیر حقیقی مخلوق کے درمیان واسطے کا نظریہ۔ علامہ اقبال کی رائے میں نوافلاطونی فلسفہ کو بتدریج رد کرتے ہوئے ایرانی مفکرین افلاطون کے صحیح نظریات تک پہنچے اور اسی نو افلاطونیت کے ذریعے سپین کے عرب مسلمانوں کو ارسطو کے اصلی افکار تک رسائی حاصل ہوئی۔ انھیں لیوئس کی اس بات سے اتفاق نہیں کہ عربوں تک افلاطون کا فلسفہ نہیں پہنچا تھا اس لیے انھوں نے ارسطو کے فلسفہ میں گہری دل چسپی لی تھی۔ علامہ اقبال اس کی بنیادی وجہ ایرانی اور عرب مفکرین کا اختلاف مزاج خیال کرتے ہیں۔ یہ دونوں قومیں مختلف مزاج کی بنا پر افلاطون اور ارسطو کے نظام ہائے فکر کی گرویدہ بن گئی تھیں۔ عرب باعمل قوم تھے لیکن اس کے برعکس ایرانی خیال پرست تھے۔ عمل پرستی کے سبب عرب فلاسفہ نے ارسطو کے نظریات کو اپنایا اور ایرانی مفکرین نے ذاتی خیال آرائی کی وجہ سے افلاطون کو اپنا پیشوا بنالیا۔ علامہ اقبال اپنے ان تحقیقی نتائج پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں: یہ امر بے حد دل چسپ ہے کہ ایرانی ذہن آہستہ آہستہ نوافلاطونی نظریہ ظہور سے نجات پاکر فلسفہ افلاطون کے خالص تر تصور تک پہنچ گیا۔ ہسپانیہ کے عرب مسلم مفکرین نے اسی طریق اور اسی ذریعے (نوافلاطونیت) سے فلسفہ ارسطو کے صحیح تر تصور کو پالیا تھا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ان دونوں قوموں کے طبعی مزاج کو واضح کردیتی ہے۔ لیوئس اپنی کتاب سوانحی تاریخ فلسفہ میں لکھتا ہے کہ عربوں نے بڑے ذوق و شوق کے ساتھ ارسطو کا مطالعہ کیا اس کی صرف وجہ یہ تھی کہ انھیں افلاطون کا فلسفہ پیش نہیں کیا گیا تھا۔ تاہم میرے خیال میں عرب مزاج مکمل طو رپر عمل پرستانہ تھا اس لیے انھیں فلسفہ پیش نہیں کیا گیا تھا۔ اس لیے اگر انھیں فلسفہ افلاطون صحیح طور پر پیش بھی کیا جاتا تو یہ ان کے لیے بے مزہ ہوتا۔ میں یقین کرتا ہوں کہ فلسفہ یونان کے نظاموں میں سے نوافلاطونیت ہی ایسا فلسفہ تھا جسے مکمل طور پر دنیائے اسلام کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ بردباری پر مبنی تنقیدی تحقیق کی بنا پر عرب مفکرین فلاطینوس سے گزر کر ارسطو تک پہنچے اور ایرانی مفکرین اس سے گزر کر افلاطون تک پہنچے۔ اس کی انوکھی مثال ملا ہادی کا فلسفہ ہے جو ظہور و صدور کے نظریات کو چھوڑ کر خدا کے بارے میں افلاطونی تصور کو اختیار کرتا ہے۔ علامہ اقبال کی نظر میں طبعی سائنس کے فقدان اور اس کے مطالعہ سے اغماض کی وجہ سے فلسفہ عموماً مذہب میں جذب ہوجایا کرتا ہے۔ فلسفۂ ایران کو بھی ایسی ہی صورت حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ ملا ہادی کے فلسفہ کو یہاں بطور مثال پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں: ملا ہادی سبزواری کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ کس طرح ایران میں فلسفیانہ تفکر آخر کار مذہب میں جذب ہو کر رہ گیا۔ ایران کی طرح دیگر تمام ممالک میں جہاں طبعی سائنس کا فقدان ہو یا جہاں اس کے مطالعہ کو نظر انداز کردیا جائے، مذہب فلسفے کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے… شاید یہی عمیق تر وجہ ہے کہ ایرانی نظام ہائے فلسفہ ہمیشہ مذہب پر جاکر منتج ہوئے ہیں۔ مذہب و فلسفہ کے اس امتزاج کی بحث کے بعد مفکر اسلام اور شاعر مشرق ملا ہادی کے دیگر فلسفیانہ عقائد و افکار پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ ملا ہادی سبزواری کے فلسفے میں کافی وسعت پائی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے بھی اس کے نظام فکر کو کافی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ علامہ موصوف کی رائے میں ملا ہادی ہمیں عقل کے دو پہلوئوں (نظری اور عملی) سے روشناس کراتا ہے۔ عقل کا نظری پہلو فلسفہ اور ریاضیات کو اپنا مقصود قرار دیتا ہے جب کہ اس کا عملی پہلو گھریلو معیشت اور سیاسیات وغیرہ کو اپنا موضوع بناتا ہے۔ اقبال فلسفہ کی غرض و غایت اور مذہب کے ساتھ اس کے امتزاج کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں: صحیح فلسفہ اشیا کے آغاز و انجام اور نفس کے علم پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ خدائی قوانین کے علم پر بھی منحصر ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے فلسفہ مذہب کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ چیزوں کی اصل کو جاننے کے لیے ہمیں کائنات کے گوناگوں مظاہر کا تحقیقی جائزہ لینا چاہیے۔ اس طرح کا تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ تین اولین اُصول ہیں: ۱-ذات حقیقی (خدا) یعنی نور۔ ۲-ظل (سایہ)۔ ۳-باطل یعنی ظلمت۔ خدا (حقیقی ذات) مطلق اور ضروری ہے۔ یہ ’’ظل‘‘ (سایہ) سے مختلف ہے کیوں کہ ’’سایہ‘‘ اضافی اور کسی دوسری ذات پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ ذاتِ حقیقی اپنی فطرت میں سراپا خیر ہے۔ یہ دعویٰ خیر خود واضح ہے۔ فلسفہ اور مذہب میں خدا کے تصور کے بارے میں کافی بحثیں پائی جاتی ہیں۔ بعض حکما کائنات کی تخلیق کا سرچشمہ مادہ خیال کرتے ہیں جب کہ حکما کا دوسرا گروہ اس نقطہ نظر کا زبردست مخالف ہے۔ اشیائے کائنات کے وجود کے بارے میں بھی مختلف آرا موجود ہیں۔ بعض فلاسفہ اشیائے وجود کو عدم محض اور بعض مفکرین اسے ہستی کا کرشمہ قرار دیتے ہیں۔ ہستی اور نیستی کے نظریات فلسفہ و مذہب کا اہم موضوع بحث و تمحیص ہیں۔ ممکن الوجود کی تمام اشکال حقیقت کا جامہ پہننے سے قبل یا ہست ہوتی ہیں یا نیست۔ اسی طرح ان کے عدم و وجود کے امکانات بھی یکساں ہوتے ہیں۔ علامہ اقبال ملا ہادی سبزواری کے نظریہ خدا اور تصورِ تخلیق کائنات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: اس لیے مندرجہ بالا امر سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خدا جو ممکن الوجود کو لباس حقیقت عطا کرتا ہے بذات خود نیست نہیں کیوں کہ ایک نیست دوسرے نیست پر اثر ڈالتے ہوئے ہست کو جنم نہیں دے سکتا۔ ملا ہادی خدا کو مؤثر عامل سمجھتے ہوئے افلاطون کے جامد تصور کائنات کو بدل دیتا ہے۔ وہ ارسطو کی پیروی کرتے ہوئے خدا کو تمام حرکات کا غیر حرکت پذیر منبع اور مقصود خیال کرتا ہے۔ ملا ہادی کا یہ حرکی نظریۂ کائنات افلاطون کے جامد تصور کائنات سے کسی قدر مختلف اور بہتر دکھائی دیتا ہے۔ اس ضمن میں ملا ہادی کے یہ الفاظ ملاحظہ ہوں: کائنات کی تمام چیزیں تکمیل کی محبت سے سرشار ہو کر اپنے آخری مقاصد کی جانب رواں دواں ہیں۔ معدنیات نباتات کی طرف، نباتات حیوانات کی طرف اور حیوانات انسان کی جانب محو حرکت ہیں اور غور کرو کہ کس طرح انسان رحم مادر میں ان تمام مراحل سے ہو کر گزرتا ہے۔ علامہ اقبال ملا ہادی کے حرکی نظریہ کائنات پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں: محرک یا تو حرکت کا سرچشمہ ہوتا ہے یا اس کا مقصود یا وہ دونوں حیثیتوں کا حامل ہوتا ہے۔وہ دونوں حالتوں میں محرک یا تو حرکت پذیر ہوتا ہے یا ساکن۔ یہ دعویٰ کہ تمام محرکین کو اپنی ذات میں ضرور حرکت پذیر ہونا چاہیے بے انتہا رجعت قہقری کو جنم دیتا ہے یہ رجعت قہقری تمام حرکات کے سرچشمہ اور آخری مقصود یعنی غیر حرکت پذیر اولین محرک پر جاکر ضرور ختم ہوجانی چاہیے۔ آسان الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کائنات کی تمام چیزوں کی ابتدا اور تخلیق کا منبع اولین خدا کی ذات بابرکات ہے۔ اگر ہم یہ کہیںکہ خدا تعالیٰ سے پہلے کون تھا اور اس سے پہلے کون تو یہ لامتناہی سلسلہ کبھی بھی ختم نہ ہوگا۔ لازمی طور پر ہمیں ایک ازلی اور عظیم ترین خالقِ کائنات کو خدا ماننا پڑے گاٍ اشیائے کائنات کی حرکت اولین ایک ازلی اور ابدی محرک یعنی خدا تعالیٰ کی مرہون منت ہے۔ قرآن حکیم کی زبان میں خدا ہی ھُوَ الاَّول ہے اور وہی ہر چیز کی انتہا بھی ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: و الی ربک المنتھی(اور تیرے پروردگار کی طرف ہر چیز کی انتہا ہے۔) خدا تعالیٰ کے تصور کو بیان کرتے وقت وحدت و کثرت کی بحث کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ حکما اور عرفا کا ایک طبقہ وحدت الوجود کا قائل ہے اور دوسرا طبقہ کثرت الوجود کا حامی ہے۔ ملا ہادی سبزواری کے تصور خدا اور نظریہ کائنات کے ضمن میں بھی وحدت و کثرت کے متنازع موضوع سے پیچھا نہیں چھڑایا جاسکتا۔ علامہ اقبال اس قدیم اور پرپیچ مسئلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں: مزید برآں خدا خالص توحید ہے کیوں کہ اگر متعدد خدا ہوتے تو وہ ایک دوسرے کو محدود کردیتے۔ خالق ہونے کی حیثیت سے خدا تعالیٰ کو ایک سے زیادہ قیاس نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ خالقین کی کثرت کئی جہانوں کی کثرت پر دلالت کرتی… اس لیے جوہر خیال کرتے ہوئے خدا ایک ہے لیکن ایک مختلف نقطہ نظر سے وہ کثرت بھی ہے۔ وہ زندگی، قوت اور محبت ہے۔ اگرچہ ہم یہ نہیں کَہ سکتے کہ یہ صفات اس کی ذات میں مخفی ہیں تاہم یہ صفات او رذات ایک ہی ہیں۔ توحید کا مطلب وحدت نہیں بلکہ یہ تمام اضافات کو ختم کردینے پرمشتمل ہے صوفیا اور بہت سے مفکرین کے برعکس ملا ہادی اس نظریے کا حامی ہے کہ عقیدہ کثرت اور عقیدہ وحدت ایک دوسرے سے متناقض نہیں کیوں کہ نظر آنے والی کثرت خدا کے اسما و صفات کی جلوہ گری کے سوا کچھ نہیں۔ یہ صفات خدا کے علم ذاتی کی مختلف شکلیں ہیں۔ خدا کی صفات مختلفہ کا ذکر محض لفظی سہولت کے لیے ہے۔ خدا تعالیٰ کی تعریف کرنا دراصل اس کی ذات کو اعداد و شمار میں محدود کرنے کے مترادف ہے۔ یہ ایک ایسا نامعقول طریق کار ہے جو غیرمحدود اور غیر اضافی ہستی مطلق یعنی خدا کو حدود و اضافات کی دنیا میں لانے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنے تمام تنوع کے ساتھ کائنات نور مطلق یا حقیقتِ مطلقہ (خدا) کے اسما اور صفات کا سایہ ہے۔ کائنات حقیقت مطلقہ کی نقاب کشائی ’’کن‘‘ یا لفظ نور ہے۔ یہاں نظر آنے والی کثرت ظلمت میں جلوہ فشانی یا نیستی کو ہست بنانے کا نام ہے۔ ہمیں چیزیں مختلف دکھائی دیتی ہیں کیوں کہ ہم مختلف رنگوں کے شیشوں (خیالات) سے انھیں دیکھتے ہیں۔ علامہ اقبال کائنات کی وحدت و کثرت اور انسانی خیالات کی نیرنگی کا ذکر کرنے کے بعد ملا ہادی اور فارسی زبان کے مشہور و معروف نعت گو شاعر مولانا جامی کے مخصوص شعروں کو افلاطون کے نظریہ اعیان کی خوبصورت شاعرانہ عکاسی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: اس ضمن میں ملاہادی جامی کے ان اشعار کا بخوشی حوالہ دیتا ہے جن میں جامی نے افلاطون کے نظریہ اعیان کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے ان اشعار کا یوں ترجمہ کیا جاسکتا ہے۔ خیالات مختلف رنگوں کے ایسے شیشے ہیں جن میں آفتاب حقیقت (خدا) اپنا عکس ڈالتا ہے اور ان سرخ، زرد اور نیلے شیشوں میں سے اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘ ملاہادی کے تصور نفسیات سے بحث کرتے ہوئے علامہ اقبال اگرچہ اسے زیادہ تر بو علی سینا کا مقلد قرار دیتے ہیں تاہم وہ ملا ہادی کے تصور نفسیات کو بو علی سینا کے نفسیاتی نظریات سے مکمل اور باضابطہ خیال کرتے ہیں۔ ملا ہادی نے روح کے مختلف مدارج یہ بیان کیے ہیں: (۱) آسمانی رُوح۔ (۲) زمینی روح۔ روح کی تین قسمیں یہ ہیں: (الف) انسانی روح۔ (ب) حیوانی روح اور (ج) نمو پذیر قوتیں۔ نمو پذیر قوتوں کی تین اقسام ملاحظہ ہیں: ۱- فرد کا تحفظ ۲- فرد کی تکمیل ۳- بقائے نوع ملا ہادی نے حیوانی روح کے بھی تین مدارج بیان کیے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں: ۱- بیرونی حواس بیرونی اور اندرونی احساسات کی تخلیق کرتے ہیں۔ ۲- اندرونی حواس۔ ۳- قوت حرکت جو بالارادہ اوربلا ارادہ ہوتی ہے۔ (ایک حرکت وہ ہوتی ہے جو ہمارے ارادہ و اختیارات کے ماتحت ہوتی ہے لیکن دوسری قسم کی حرکت ہمارے ارادہ و اختیار سے باہر ہوتی ہے۔) ہمارے بیرونی حواس ذائقہ،لامسہ، شامہ، سامعہ اور باصرہ ہیں۔ جہاں تک ہماری قوت سماعت (سامعہ) کا تعلق ہے بعض فلاسفہ اور مفکرین کی رائے ہے کہ آواز ہمارے کان کے اندر سے جنم لیتی ہے اس لیے کان سے باہر اس کا کوئی وجود نہیں۔ ان کی یہ رائے درست نہیں کیوں کہ اگر آواز ہمارے کان کے باہر موجود نہ ہو تو پھر آواز کے فاصلے اور اس کی سمت کو معلوم کرنا ممکن نہیں۔ قوت سماعت اور قوت دید دیگر حواس پر برتری رکھتی ہیں اور نظر سماعت سے بہتر ہے اس کی وجوہات درج ذیل ہیں: (الف) آنکھ دور دراز کی چیزوں کا احساس کرسکتی ہے۔ (ب) یہ روشنی کو محسوس کرتی ہے جو بہترین خوبی ہے۔ (ج) آنکھ کی بناوٹ کان کی ساخت سے زیادہ پیچیدہ اور نازک ہے۔ (د) نظر کی محسوس اشیا واقعی موجود ہوتی ہیں جب کہ سماعت کی محسوس چیزیں عدم سے مشابہ ہوتی ہیں۔ ملا ہادی بیرونی حواس کی درج ذیل انداز میں تقسیم کرتا ہے: (۱) عام سوجھ بوجھ جو دماغ کے لیے تختی کا کام دیتی ہے۔ عام سوجھ بوجھ دماغ کا وزیر اعظم ہے جو بیرونی دنیا سے خبریں لانے کے لیے پانچ جاسوس (بیرونی حواس) روانہ کرتا ہے۔ (۲) عام سوجھ بوجھ کے احساسات یعنی خیالی تصاویر کو محفوظ کرنے والی قوت۔ یادداشت خیالات کو محفوظ رکھتی ہے گویا کہ یہ قوت خیالی پیکروں کی محافظ ہوتی ہے۔ (۳) انفرادی خیالات کا احساس کرنے والی طاقت۔ بھیڑ بھیڑیے کی دشمنی کا خیال کرکے بھاگ جاتی ہے مگر پروانہ شمع کے گرد طواف کرتا ہے حالانکہ شمع اس کی موت کا سبب بن جاتی ہے۔ (۴) یادداشت… خیالات کی محافظ ہوتی ہے۔ (۵) خیالات اور خیالی تصاویر کو اکٹھا کرنے والی قوت۔ جب یہ قوت انفرادی خیالات کو محسوس کرنے والی استعداد کے زیر ہدایت کام کرتی ہے تو اسے قوت متخیلہ کہا جاتا ہے اور جب یہ عقل کے ماتحت ہو کر کام کرتی ہے تو اسے تصور کہتے ہیں۔ یہ صرف روح ہی ہے جو انسان اور حیوانات میں تمیز پیدا کرتی ہے۔ انسانیت کا یہ جوہر وحدت ہے اور یکسانیت نہیں۔ یہ خود بخود عالم گیر حقیقت اور کسی مخصوص چیز کو ظاہری اور باطنی حواس کے ذریعے محسوس کرتی ہے۔ ملاّ ہادی کے تصور روح کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ اقبال کہتے ہیں: روح نور مطلق (خدا) کا سایہ ہے اور اس نور مطلق کی مانند یہ مختلف طریقوں میں اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہے یہ وحدت میں کثرت کا ادراک کرلیتی ہے۔ جسم اور روح کی بحث نہ صرف الہیات بلکہ نفسیات و فلسفہ کے اہم مسائل میں سے ہے۔ بعض مفکرین جسم کو روح پر ترجیح دیتے ہیں لیکن بیشتر فلاسفہ اور مصلحین روح کو جسم سے افضل خیال کرتے ہیں۔ ملا ہادی کے تصور جسم و روح سے متعلق اپنے افکار کااظہار کرتے ہوئے علامہ اقبال یہ لکھتے ہیں: روح اَور جسم کے درمیان کوئی لازمی رابطہ نہیں۔ روح غیرمادی اور غیر مکانی ہونے کے لحاظ سے تغیر و تبدل سے آزاد ہوتی ہے۔ مزید برآں یہ نظر آنے والی کثرت کا فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ نیندکے عالم میں ہماری روح ’’مثالی جسم‘‘ کو استعمال کرتی ہے جو طبعی جسم کی طرح کام کرتا ہے۔ جب ہم بیداری کی حالت میں ہوتے ہیں تو ہماری روح عام طبعی جسم کو استعمال کرتی ہے اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ روح کو نہ ہمارے طبعی جسم اور نہ ہی ’’مثالی جسم‘‘ کی کچھ ضرورت ہے بلکہ وہ دونوں کو اپنی مرضی کے مطابق بروئے کار لاتی ہے۔ ملا ہادی اپنے نظریہ تناسخ میں افلاطون کی تقلید نہیں کرتا۔ اس کی مختلف صورتوں کی وہ تفصیل سے ترید کرتا ہے۔ ملا ہادی کی رائے میں روح غیر فانی ہے اور یہ اپنی قوتوں کی تدریجی تکمیل کے ذریعے اپنے اصلی گھر یعنی نور مطلق (خدا) تک پہنچ جاتی ہے۔ عقل کے بارے میں بھی ملاہادی نے اپنے فلسفہ روح کے ضمن میں اپنے عمیق مطالعہ و مشاہدہ کے نتائج کو بیان کیا ہے۔ اس کی رائے میں عقل کی دو بڑی قسمیں اور پھر ان دو بڑی اقسام کی مزید چھوٹی چھوٹی قسمیں گنوائی ہیں اس کے نظریہ عقل کا خلاصہ یہ ہے: عقل کی دو بڑی اقسام (۱) نظریاتی عقل یا عقل خالص (۲) عملی عقل نظریاتی عقل یا عقل خالص کی تقسیم مدارج درج ذیل ہے: (الف) درجہ اول کی نظریاتی عقل کو امکان پذیر عقل کہا جاسکتا ہے۔ (ب) بذات خود واضح امور کا ادراک و احساس کرنے والی عقل۔ (ج) عقل حقیقی۔ (د) آفاقی تصورات کا ادراک کرنے والی عقل۔ اس طرح عملی عقل کے بھی مندرجہ ذیل مدارج ہوتے ہیں: ۱- ظاہری پاکیزگی ۲- باطنی پاکیزگی ۳- مختلف عادات کی تشکیل ۴- خدا کے ساتھ وصل روح ترقی اور ہستی کے مختلف مراحل سے گزر کر بلند تر ہوتی جاتی ہے اور آخرکار وہ نور مطلق (خدا) کی ہمہ گیری میں اپنے آپ کو گم کرکے اس کی بقا میں شریک ہو جاتی ہے۔ ملا ہادی روح کے ان دو پہلوئوں پر یوں روشنی ڈالتا ہے:’’یہ اپنی ذات میں تو معدوم ہے لیکن وہ اپنے غیرفانی دوست کے قرب کی بنا پر موجود ہوجاتی ہے۔‘‘ انسانی نفسیات اور مسئلہ روح کی بحث کے دوران انسانی جبر و اختیار اور خیر و شر کے امور لازمی طور پر ابھر کر ہمارے سامنے آجاتے ہیں۔ حکما اور مصلحین کا ایک گروہ انسان کو نیکی اور بدی کرنے کے بارے میں خودمختار خیال کرتا ہے لیکن دوسرا گروہ انسان کو بالکل مجبور قرار دیتا ہے فلاسفہ اور صوفیا کا تیسرا طبقہ انسان کو بعض امور میں مختار اور بعض میں مجبور سمجھتا ہے۔ ہر ایک مفکر اور مصلح نے اپنے اپنے انداز فکر و نظر کے مطابق اس موضوع بحث پر اظہار خیال کیا ہے۔ علامہ اقبال ملاّہادی کے متعلقہ نظریات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں: ملاہادی عقل پرستوں پر اس لیے تنقید کرتا ہے کہ وہ انسان کو بدی کا خودمختار خالق قرار دیتے ہیں۔ وہ انھیں ’’محجوب ثنویت‘‘ کا ملزم گردانتا ہے۔ ملا ہادی کی رائے میں ہر چیز کے دو پہلو ہوا کرتے ہیں۔ ’’روشن‘‘ پہلو اور ’’تاریک‘‘ پہلو۔ چیزیں نور اور ظلمت کا مجموعہ ہوتی ہیں۔ نور ہر قسم کی نیکی کو جنم دیتا ہے جب کہ ظلمت کی کوکھ سے برائی پیدا ہوا کرتی ہے۔ اس لیے انسان مجبور بھی ہے اور مختار بھی۔ فلسفۂ ایران کے آخری دور اور ایران جدید کی دو مذہبی تحریکیں… بابی تحریک اوربہائی تحریک… ملا صدرا سبزواری کے فلسفیانہ نظریات سے کافی متاثر نظر آتے ہیں۔ راسخ العقیدہ مسلمانوں کی شدید مخالفت اوربڑھتی ہوئی ایذا رسانیوں کے باوجود یہ دونوں مذہبی فرقے ختم نہ ہوسکے۔ علامہ اقبال نے ملا صدرا کے نظام فکر کا جائزہ لیتے ہوئے ان دونوں کا بھی تذکرہ ضروری سمجھا۔ ان کی رائے میں فلسفۂ ایران کے تمام مختلف راستے ایک بار پھر جدید ایران کی ایک عظیم مذہبی تحریک (بابی اور بہائی مسلک) میں آکر مل جاتے ہیں۔ مرزا علی محمد باب (ولادت ۱۸۲۰ئ) شیرازی نے ایک شیعہ فرقہ کے طور پر اس مذہبی تحریک کا آغاز کیا تھا جو بعدازاں کٹر مذہبی لوگوں کے بڑھتے ہوئے مظالم کے ساتھ ساتھ زیادہ تر غیراسلامی نوعیت کی حامل بنتی گئی۔ اس عجیب و غریب فرقہ کی بنیاد شیخین کے ایک شیعہ فرقہ میں تلاش کرنی چاہیے جس کا بانی شیخ احمد ملا صدرا کے فلسفے کا پرجوش طالب علم تھا۔ شیخ احمد نے ملا صدرا کے فلسفیانہ افکار کے بارے میں کئی شرحیں قلمبند کی تھیں۔ عام شیعہ حضرات کا عقیدہ ہے کہ امام غائب کادنیا میں دوبارہ ظہور ہوگا۔ اس لیے وہ اپنے بارہویں امام کے ظہور کا بڑی بے چینی سے انتظار کررہے ہیں۔ امام غائب کے ظہور کا عقیدہ شیعہ مذہب کا بنیادی اُصول ہے۔ مذکورہ بالا فرقہ کے پیروکار عام شیعہ حضرات سے اختلاف کرتے ہوئے امام غائب کے ظہور سے قبل ایک دائمی وسیلہ اور واسطہ کے قائل ہیں۔ شیخ احمد خود اس واسطے کا مدعی بن بیٹھا او رجب دوسرے شیخی وسیلہ یعنی حاجی کاظم کی موت واقع ہوئی تو فرقہ شیخیہ کے پیروکار نئے وسیلہ کا بڑی بے تابی سے انتظارکرنے لگے۔ مرزا علی محمد باب جس نے کربلا میں حاجی کاظم کے کئی لیکچروں میں شرکت کی تھی اس نے اپنے آپ کو وہ متوقع وسیلہ قرار دے دیا۔ فرقہ شیخیہ کے بہت سے پیروکاروں نے مرزا علی محمد باب کے اس دعویٰ کو قبول کر لیا تھا۔ علامہ اقبال مرزا علی محمد باب کے فلسفیانہ عقائد و تصورات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں: یہ دور رس ایرانی نوجوان حقیقت مطلقہ (خدا) کو جوہر خیال کرتے ہوئے ذات اور صفات کے فرق کو برداشت نہیں کرتا۔ علی محمد باب کہتا ہے کہ جوہر کلی (خدا) کا اولین عطیہ یا توسیع ذات وجود ہے۔ وجود ’’معلوم‘‘ ہے، ’’معلوم‘‘ علم کا خلاصہ، ’’علم‘‘ مشیّت ہے اور ’’مشیّت‘‘ محبت و عشق‘‘ ہے۔ اس طرح ملا صدرا کی مطابقت عالم و معلوم سے گزر کر وہ حقیقت مطلقہ کے تصور مشیّت و عشق تک پہنچ جاتا ہے۔ حقیقت مطلقہ کے جوہر یعنی اولین محبت کو وہ کائنات کے ظہور کا سبب خیال کرتا ہے۔ اس کی نگاہ میں کائنات کی نمود خدا کی توسیع ذات کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس کی رائے میں لفظ تخلیق کا مطلب نیستی سے ہستی نہیں کیوں کہ شیخین کے عقیدے کے مطابق خالق کا لفظ صرف خدا کے لیے خصوصاً استعمال نہیں ہوتا۔ قرآن حکیم کی ایک آیت ہے: احسن الخالقین (خدا سب خالقوں سے بڑھ کر ہے)۔ اس آیت سے یہ مطلب اخذ ہوتا ہے کہ خدا کی طرح دیگر ہستیاں بھی اپنی ذات کا اظہار کرنے والی ہیں۔ بابی تحریک کے بانی مرزا علی محمد باب کو جب پھانسی دی گئی تو اس کے بعد اس کے ایک پیروکار بہاء اللہ نے علی محمد باب کے مشن کو اختیار کیا اور اپنے آپ کو ایک نئے فرقے کامؤجد قرار دیا۔ بہاء اللہ نے اس امام غائب کا دعویٰ کیا جس کے ظہور کی علی محمد باب نے پیش گوئی کی تھی۔ بہاء اللہ نے اپنے پیرو مرشد کے اُصول کو لفظی تصوف سے آزاد کیا اور اسے زیادہ مکمل اور زیادہ باضابطہ شکل میں پیش کیا۔ علامہ اقبال بہائی تحریک کے موجد کے چند اہم نظریات کو مورد بحث قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: بہاء اللہ کی رائے میں حقیقت مطلقہ (خدا) ذات نہیں بلکہ یہ ایک لازوال جوہر حیات ہے جس سے ہم حقیقت اور محبت و عشق کی صفات منسوب کرتے ہیں کیوں کہ ہماری معلومات کے مطابق یہ بلند ترین تصورات ہیں۔ یہ جوہر حیات کائنات کے ذریعے اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے تاکہ یہ اپنے اندر جوہریت کے عناصر یا شعور کے مراکز کی تخلیق کرسکے جنھیں ڈاکٹر میک ٹیگرٹ (Mctaggart) کے الفاظ میں ہیگل کی مزید جبریت کہیں گے۔ شعور کے ان سادہ اور غیر ممیّز مراکز میں نور مطلق (خدا) کی شعاع مخفی ہوتی ہے۔ روح کی تکمیل اس امرپر منحصر ہوتی ہے کہ انفرادیت عطا کرنے والے مادہ کے ساتھ رابطہ قائم کرکے اس کے جذباتی اور ذہنی ممکنات کو بتدریج بروئے کار لایا جاسکے اور اس طرح اس کی عمیق ہستی کو دریافت کیا جائے۔ ہستی کا یہ گہرا انکشاف دراصل لازوال محبت کی وہ شعاع ہے جو شعور کے ساتھ مل کر پردہ اخفا میں رہتی ہے۔ اس لیے انسان کا جوہر اصلی عقل یا شعور نہیں بلکہ عشق و محبت کی یہ شعاع ہے جو انسان کی اصل یعنی نیک اوربے لوث عمل پیدا کرنے والے تمام جذبات کا سرچشمہ ہے۔ مفکر اسلام علامہ اقبال کی نگاہ میں بہاء اللہ کے مذکورہ بالا تصور میں ملا صدرا کے اس نظریے کا اثر ہویدا ہے جو تخیل کے غیر مجسم ہونے سے متعلق ہے۔ ملاصدرا کی رائے میں عقل اگرچہ ارتقائی لحاظ سے تخیّل سے بلند تر ہے تاہم اسے بقا کی لازمی شرط قرا رنہیں دیا جاسکتا۔ زندگی کی تمام صورتوں میں ایک غیر فانی روحانی جزو یعنی لازوال محبت کی شعاع موجود ہوتی ہے جس کا شعور یا عقل کے ساتھ کوئی لازمی ربط نہیں ہوتا اور وہ جسم کی موت کے بعد بھی باقی رہتی ہے۔ بہاء اللہ بھی علامہ اقبال کی طرح عقل پر عشق و محبت کو ترجیح دیتے ہوئے اس کی بے حد اہمیت و افادیت کا قائل دکھائی دیتا ہے۔ وہ بھی روح کو مادہ اور جسم سے اعلیٰ خیال کرتا ہے۔ بہاء اللہ کے اس نظریہ عشق و محبت پر روشنی ڈالنے کے بعد علامہ اقبال اس کے نظریہ نجات اور تناسخ ارواح کے اُصول کی بحث کے دوران گوتم بدھ کے تصور نجات کو بھی بیان کرتے ہیں اگرچہ وہ گوتم بدھ کے تصور ترک خواہش اور آواگون کے مسئلے پر یہاں بالتفصیل گفتگو نہیں کرتے تاہم انھوں نے روح کی شانتی اور اس کی مکتی کے بارے میں گوتم بدھ کی تعلیمات کے نچوڑ کی طرح بڑا بلیغ اشارہ کیا ہے بہاء اللہ اور گوتم بدھ کے ان نظریات کا موازنہ و مقابلہ کرتے ہوئے وہ اپنے خیالات کا یوں اظہار کرتے ہیں: گوتم بدھ کی رائے میں نجات ترک خواہش اور دماغی ذرات کی فاقہ کشی پر منحصر ہوتی ہے لیکن بہاء اللہ کی نظر میںنجات کا دارومدار اس جوہر عشق کی دریافت پر ہے جو شعور کے ذرات میں پنہاں ہوتا ہے۔ تاہم گوتم بدھ او ربہاء اللہ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ موت کے بعد انسانوں کا کردار اور خیالات باقی رہتے ہیں … اور وہ عشق و محبت کے انکشاف کے طریق عمل (بہاء اللہ کا تصور) اور خواہشات کی فنا کے طرز فعل (گوتم بدھ کا نظریہ) کو جاری رکھنے کے لیے مناسب جسمانی رفاقت کے ایک اور موقع کے منتظر رہتے ہیں۔ بہائی تحریک کے موجد بہاء اللہ کے فلسفیانہ خیالات کی بحث کو ختم کرنے سے پہلے وہ بہاء اللہ کے نظریہ عشق و محبت اور جرمنی کے مشہور قنوطیت پرست فلسفی شوپنہار کے تصور ارادہ کا موازنہ و مقابلہ پیش کرتے ہیں۔ شوپنہار کو تمام کائنات میں جبر، غم اور مایوسی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ اس کے برعکس بہاء اللہ کائنات کی رنگینی او رونق کو جذبہ عشق و محبت کی کارفرمائی کا نتیجہ سمجھتا ہے۔ اس ضمن میں علامہ اقبال کے یہ خیالات ملاحظہ ہوں۔ وہ کہتے ہیں: بہاء اللہ کی رائے میں عشق و محبت کا تصور نظریہ ارادہ و مشیّت سے زیادہ ارفع و اعلیٰ ہے۔ شوپنہار نے حقیقت کاادارک بطور مشیّت کیا جس نے اپنی فطرت میں دائمی طور پر معصیت آلود رحجان پاکر مجبوراً معروضیت (خارجیت) کی شکل اختیار کرلی۔ بہاء اللہ او رشوپنہار دونوں کے خیال میں ہر ایک ذرہ حیات میں عشق یا ارادہ موجود ہے۔ بہاء اللہ کی نظر میں عشق کے وجود کا سبب توسیع ذات کی خوشی کا اظہار ہے لیکن اس کے برعکس شوپنہار کی نگاہ میں ارادہ و مشیّت کے وجود کی وجہ ناقابل تشریح میلان ہے۔ شوپنہار مشیّت ازلی (خدا) کی خارجی شکل کی توجیہ کے لیے خاص زمانی خیالات کا اُصول پیش کرتا ہے لیکن جہاں تک مجھے معلوم ہے بہاء اللہ اس اُصول کی وضاحت نہیں کرتا جس کی رو سے عشقِ ازلی (خدا) کائنات میں اپنی جلوہ گری کرتا ہے۔ /…//…/ خاتمہ علامہ اقبال نے اپنی اس اہم تصنیف کے آخر میں بیان کردہ گوناگوں مسائل کا خلاصہ تحریر کردیا ہے۔ اس تلخیص میں انھوں نے فلسفۂ ایران کے مختلف ادوار کے اہم امور کو بیان کیا ہے۔ ان کی تحقیقات کے علمی نتائج یہ ہیں: (۱) ایرانی فلسفیوں اور مفکروں کو دو طرح کی ثنویت (دوئی) کے خلاف جدوجہد کرنا پڑی تھی۔ ظہور اسلام سے پہلے ایران میں مجوسی ثنویت کا رواج تھا اور فتح ایران کے بعد وہاں یونانی ثنویت کو فروغ حاصل ہوا۔ (۲) ایران میں اسلام کی آمد سے پہلے ایرانی مفکرین اشیائے کائنات کی اصلیت سے آگاہ ہونے کے لیے خارجی (معروضی) نقطہ نگاہ کے حامی تھے اس لیے باطن کی دنیا میں گم ہونے کی بجائے ظاہری دنیا میں زیادہ دل چسپی لے کر مادہ پرست بن گئے تھے۔ وہ کائنات کے بارے میں حرکی تصور کو زیادہ پسند کرتے تھے۔ (۳) زرتشت کے فلسفے کا خلاصہ یہ ہے کہ کائنات میں دو بنیادی طاقتوں، اہرمن اور یزدان کے درمیان ہمیشہ جنگ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ وہ یزداں کو نیکی اور اہرمن کو بدی کی قوت سمجھتا تھا۔ اس کی رائے میں یہ دونوں قوتیں ہمیشہ برسرپیکار اور فعال رہتی ہیں۔ (۴) ایران کا ایک اور مفکر، مانی کائنات میں دو طاقتوں یعنی نور اور ظلمت کی باہمی جنگ اور حکمرانی کا قائل تھا۔ علامہ اقبال کی رائے میں مانی نے نور کی طاقت کو کمزور اور ظلمت کی طاقت کو جارحیت پرست ظاہر کیاہے۔ نور کی طاقت نیکی کی علامت ہے جب کہ ظلمت کی طاقت بدی کی ترجمان ہے۔ (۵) قدیم ایرانی فلسفے میں دو نمایاں خامیاں نظر آتی ہیں۔ ایک تو بالکل ظاہر ثنویت (اہرمن و یزدان، مادہ و روح اور نور و ظلمت کی دو قوتیں) ہے اور دوسری خامی تجزیاتی فقدان ہے۔ پہلی خامی یعنی ثنویت کا علاج اسلام نے یوں پیش کیا کہ ثنویت کی بجائے توحید کی تعلیم دی۔ دوسری خامی کو ایران میںفلسفہ یونان کی ابتدا نے دور کردیا۔ اسلام نے دو کائناتی قوتوں کی بجائے واحد کی حاکمیت کا تصور دیا اور یونانی فلسفے کے مطالعہ نے ان کے افکار اور خیالات کے تجزیہ کے لیے صحیح معیار پیش کیا۔ (۶) اسلام اور یونانی فلسفے نے ایرانی مفکرین کا رخ خارج (دنیا اور مادہ) سے باطن (روح) کی طرف موڑ دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بعض صوفی مکاتب خیال وحدۃ الوجود اور ہمہ اوست کے نظریات کے زبردست حامی بن گئے۔ (۷) ایک مشہور ایرانی مفکر الفارابی نے خدا اور مادہ کی ثنویت اور باہمی چپقلش کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے مادہ کا ایک غیر واضح تصور بنا دیا۔ اشاعرہ نے تو مادہ کا مکمل انکار کرتے ہوئے عینیت یا تصوریت کو اختیا رکرلیا یعنی انھوں نے تصور کو ہی حقیقت سمجھا۔ اس کے برعکس ارسطو کے حامی مادہ کی اہمیت کو برابر تسلیم کرتے رہے۔ صوفیا نے کائنات کو فریب نظر یا سراب قرار دے دیا۔ (۸) شیخ شہاب الدین سہروردی نے زرتشت کی قدیم ثنویت کو فلسفہ اور روحانیت کا رنگ دے کر دوبارہ بیان کیا۔ (۹) واحد محمود کا نظریہ کثرت الوجود مروجہ ایرانی وحدۃ الوجود کے اثر کو زائل نہ کرسکا۔ (۱۰) بابی تحریک نے بے عمل تصوف اور فلسفیانہ خیال آرائی کی بجائے ٹھوس خارجی حقائق کا شعور بیدار کیا تھا۔ مندرجہ بالا امور کو اب یہاں کسی قدر وضاحت کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے علامہ اقبال مرحوم و مغفور نے اپنی تحقیقات کے نتائج کا جائزہ لیا ہے کہ کس طرح ایرانی فلاسفہ اور مفکرین اسلامی نظریات اور یونانی فلسفہ سے متاثر ہوئے تھے۔ اس سلسلے میں انھوں نے فلسفۂ ایران کی روحانی اور مادی چپقلش کے علاوہ اس کے موضوعی اور معروضی پہلوئوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ وہ اپنے نتائج فکری کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ہم نے گزشتہ ابواب میں دیکھا ہے کہ ایرانی ذہن کو دو قسم کی ثنویت کے خلاف جدوجہد کرنا پڑی تھی۔ ایک تو زمانہ ماقبل اسلام کی مجوسی ثنویت تھی اور دوسری ظہور اسلام کے بعد کی ایرانی ثنویت تھی۔ ایرانی ذہن کی اس جدوجہد کے باوجود کثرت اشیا کا بنیادی مسئلہ جوں کا توں رہتا ہے۔ اسلام کے منصہ شہود پر آنے سے پہلے زمانے کے ایرانی مفکرین کا طرز فکر مکمل طور پر معروضی (خارجی) ہے اس لیے ان کی ذہنی کوششوں کے نتائج کم و بیش مادہ پرستانہ ہیں۔ ان مفکرین نے واضح طور پر یہ بات بھانپ لی تھی کہ تخلیق کے پہلے اُصول کا ضرور حرکی ادراک ہونا چاہیے۔ زرتشت کے نظام فکر میں دونوں ابتدائی قوتیں فعال ہیں جب کہ مانی کے فلسفہ میں اُصول روشنی غیر متحرک اور اُصول ظلمت جارحانہ ہے۔ امید ہے ناظرین اس بات سے بخوبی آگاہ ہوں گے کہ ایران کے ایک مشہور قدیمی مفکر زرتشت کے فلسفہ کی بنیاد نیکی اور بدی کی قوتوں یعنی یزدان اور اہرمن پر رکھی گئی تھی۔ ایران کے ایک اور مفکر مانی نے نور کو نیکی کی علامت اور ظلمت کو بدی کی علامت کے طور پر استعمال کیا تھا۔ اس اقتباس میں مفکر اسلام اور شاعر مشرق علامہ اقبال نے ان دونوں کے فلسفہ کے ان دو اساسی تصورات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ زرتشت اور مانی نے کائنات کے مختلف عناصر ترکیبی کا جو تجزیہ کیا تھا اقبال اسے مضحکہ خیز طور پر بہت معمولی قرار دیتا ہے۔ اس کی رائے میں ان کا تصور کائنات حرکی لحاظ سے بے حد ناقص ہے۔ اقبال کہتا ہے: حرکی پہلو کے طور پر ایرانی مفکرین کا نظریہ کائنات بہت زیادہ نقائص کا حامل ہے۔ ان کے نظام افکار کے دو کمزور نکات یہ ہیں۔ (۱)بالکل واضح ثنویت۔ (۲)فقدان تجزیہ۔ اسلام نے ان کے پہلے نقص یعنی کھلم کھلا ثنویت کا علاج کردیا اور یونانی فلسفہ کے رواج نے ان کے دوسرے نقص یعنی تجزیے کے فقدان کو دور کردیا تھا۔ ایران میں آغاز اسلام اور یونانی فلسفے کے مطالعہ نے وحدۃ الوجود کے فلسفے کی طرف ان کے طبعی رحجان کو روک دیا تھا لیکن ان دونوں طاقتوں نے ایران کے ابتدائی مفکرین کے امتیازی خارجی طریق خیال کو بدلنے میں کافی حصہ لیا۔ ان کی اس خوابیدہ موضوعیت (داخلیت) کو بیدار کیا جو آخرکار بعض صوفی مکاتب فکر کے انتہا پسندانہ ہمہ اوستی تصور کی معراج کو پہنچ گئی تھی۔ ایرانی فلسفہ میں ہمیں اہرمن ویزداں، نور و ظلمت، مادہ و روح اور وحدت و کثرت کے اہم مگر دقیق مسائل کا تذکرہ جابجا ملتا ہے۔ وہاں مذہب اور فلسفہ کی آمیزش نے بھی کئی فلسفیانہ اور صوفیانہ مسالک و مکاتب کو جنم دیا ہے۔ ان مسائل سے متعلق کائنات، خدا، داخلیت و خارجیت، موضوعیت و معروضیت کے دیگر مباحث بھی لائق مطالعہ ہیں۔ ایرانی فلسفہ نہیں رہا بلکہ اس میں تہذیبوں اور ممالک کے اثرات بھی نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ بعض ایرانی مفکرین ارسطو کے شیدائی ہیں اور بعض فلسفہ افلاطون کے خوشہ چین ہیں۔ علامہ اقبال فلسفۂ ایران کے ان مختلف پہلوئوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: الفارابی نے خدا اور مادہ کی ثنویت سے نجات پانے کی کوشش میں مادہ کو روح کا ایک غیر واضح ادراک بنا کر رکھ دیا ہے۔ اشاعرہ نے مادہ کی قدر و قیمت سے مکمل طور پر انکار کرکے سراپا تصوریت کو برقرار رکھا۔ ارسطو کے پیروکاروں نے اپنے پیر و مرشد کے مادہ اولین کے ساتھ گہرا ربط نہ چھوڑا۔ صوفیا نے مادی کائنات کو محض فریب یا خدا کی ذاتی معرفت کے لیے لازمی ’’غیر اللہ‘‘ خیال کیا۔ اس بات کوبڑے وثوق کے ساتھ بیان کیا جاسکتا ہے کہ اشاعرہ کی تصوریت کے ذریعے ایرانی ذہن نے خدا اور مادہ کی بیرونی ثنویت پر قابو پالیا اور نئے نئے افکار کو چھوڑ کر نور و ظلمت کی قدیم ثنویت کی جانب رجوع کیا۔ شیخ الاشراق یعنی شیخ شہاب الدین سہروردی مقتول اپنے فلسفہ اشراق کی بنا پر کافی شہرت کے مالک ہیں۔ انھوں نے ایران کے قدیم اور اپنے قریبی پیش رو ایرانی مفکرین اور فلسفہ کے بعض ضروری اُصولوں کو اپنے فلسفے میں شامل کرکے اسے زیادہ وسیع اور متنوع بنا دیا تھا۔ علامہ اقبال نے اس سے بیشتر اس کتاب میں ان کے فلسفہ اشراق کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اب وہ اس کتاب کے آخری حصے میں بھی اس کا ذکر ضروری خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں: شیخ الاشراق زمانہ ماقبل اسلام کے ایرانی مفکرین کے معروضی طریق اور اپنے قریبی پیش رو مفکرین ایران کے موضوعی طرز کو آپس میں ملاتا ہے اور وہ زرتشت کی ثنویت کو دوبارہ زیادہ فلسفیانہ اور روحانی انداز میں پیش کرتا ہے۔ اس کا نظام فلسفہ معروضیت (خارجیت) اور موضوعیت (داخلیت) دونوں کے دعاوی کو تسلیم کرتا ہے۔ لیکن یہ تمام وحدۃ الوجودی نظام ہائے فکر واحد محمود کے عقیدہ کثرۃ الوجود میں آکر ایک ہو جاتے ہیں۔ واحد محمود کی تعلیم یہ ہے کہ حقیقت ایک نہیں بلکہ کثرت پر مبنی ہے۔ واحد محمود کے نظریہ کثرت وجود کی رو سے ابتدائی زندہ اکائیاں مختلف طریقوں سے آپس میں مخلوط ہو کر درجہ بدرجہ پایہ تکمیل تک پہنچ جاتی ہیں۔ تکمیل کی آخری منزل تک پہنچنے سے پہلے وہ مختلف شکلوں کے ارتقائی مراحل سے گزرتی ہیں۔ تاہم وحدۃ الوجودی فلسفہ کے خلاف واحد محمود کا ردعمل زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہ سکا۔ بعد میں آنے والے صوفیوں اور فلسفیوں نے آہستہ آہستہ نوافلاطونی نظریہ ظہور کو یا تو تبدیل کردیا یا بالکل چھوڑ دیا تھا۔ بعدازاں ہم ایرانی مفکروں کو نوافلاطونیت سے حقیقی افلاطونیت کی جانب رواں پاتے ہیں۔۔۔ علامہ اقبال اپنی اس اولین فلسفیانہ نثری تصنیف کے آخری باب کو ختم کرنے سے پہلے دوبارہ جدید ایران کی ایک مذہبی تحریک بابیت (Babism) کا تذکرہ کرتے ہیں۔ اس تحریک نے خالص فلسفہ اور تصوف کو متاثر کرکے لوگوں کے اندر ٹھوس حقائق کا شعور پیدا کیا تھا۔ علامہ اقبال کی رائے میں ایران جدید کی سیاسی اصطلاحات کا ایک سبب یہ بابی تحریک بھی تھی۔ اس ضمن میں ان کے یہ خیالات ہدیہ ناظرین کیے جاتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: بابی تحریک خالص تفکر اور عمل سے عاری تصوف کے راستے میں زبردست مزاحمت پیدا کرتی ہے۔ یہ تحریک ظلم و ستم کی پروا نہ کرتے ہوئے تمام موروثی فلسفیانہ اور مذہبی رجحانات کو آپس میں ہم آہنگ کرکے روح کے اندر اشیا کی ٹھوس حقیقت کا شعور بیدار کرتی ہے۔ اگرچہ یہ شدید قسم کی وسیع المشربی کی حامل اور غیروطن پرستانہ نوعیت کی ہے تاہم اس نے ایرانی ذہن کو خاصا متاثر کیا ہے۔ میرے خیال میں بابی تحریک کی غیر صوفیانہ اور عمل پرستانہ خاصیت ایران کی حالیہ سیاسی اصلاحات کی پیش رفت کی ایک خفیف وجہ ہوسکتی ہے۔ /…//…/