اقبال اورمحبت رسول ﷺ ڈاکٹر محمد طاہر فاروقی اقبال اکادمی پاکستان جملہ حقوق محفوظ ناشر محمدسہیل عمر ناظم اقبال اکادمی پاکستان (حکومتِ پاکستان، وزارت ثقافت ) چھٹی منزل ، ایوان اقبال ، لاہور Tel: [+92-42] 6314-510 [+92-42] 9203-573 Fax: [+92-42] 631-4496 Email: director@iap.gov.pk Website: www.allamaiqbal.com ISBN 969-416-- طبع اوّل:۱۹۹۰ئ طبع دوم:۱۹۹۴ئ طبع سوم:۱۹۹۵ء طبع چہارم:۱۹۹۷ئ طبع پنجم : ۲۰۰۹ء تعداد : ۵۰۰ قیمت : ۔؍روپے مطبع : میسرز ، لاہور محل فروخت : ۱۱۶ میکلوڈ روڈ ، لاہور، فون نمبر ۷۳۵۷۲۱۴ مندرجات تمہید ۱۔عشق ۲۔عشق رسولؐ ۳ اطاعت رسولؐ ۴۔سیرت رسول ؐ (۱) سیرت طیبہ (۲) اسوہ حسنہ (۳)مکارم اخلاق ۴ انسان کامل ۵۔قرآن حکیم ۶ ار مغان عقیدت ۷۔نغمات شوق ۸۔کتابیات ۹ اشاریہ وضاحت اس کتاب میں شعری مجمو عوںکے حوالے ا ن نسخوں سے لیے گئے ہیںجو کلیات اقبال، اردو اقبال اکادمی پاکستان ایڈیش۲۰۰۰ ئ، کلیات اقبال فارسی، شیخ غلام علی، ایڈیشن۱۹۹۰ میں شامل ہیں۔ {ناشر} تمہید علامہ اقبا ل سر کار دو عالم کی سیرت پاک کا غائر مطالعہ کر نے، اور مطالب قرآنی پرعبور حاصل کر نے کے بعد، اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ آنحضرت ا کی ذات با برکات جامع ہے تمام کمالات ِظاہر و باطن کی، اور سر چشمہ ہے تمام حقیقت ومجاز کا۔ اقبال کا کلام شاہد ہے کہ وہ جگہ جگہ اس پیغام کاببانگِ د ہل تاکیدی الفاظ میں اعلان کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو مصطفیا تک پہنچاؤ۔کیونکہ آپ ہی کی ذات گرا می سارا دین ہے۔ اگر تم وہاں تک رسائی حاصل نہ کر سکوتو سمجھ لو کہ تم اسلام سے دور ہو اور بو لہبی میںگر فتار ہو : بمصطفٰیؐبر ساں خویش را کہ دیں ہمہ او ست اگر بہ او نہ رسیدی تمام بو لہبی است۱؎ علامہ اقبال کی طبیعت میں اس قدر سوز وگدا ز تھا اور آپ حب رسولؐ میںاس قدر سر شار تھے کہ جب کبھی حضور علیہ السلام کا ذکر خیرہوتابے تاب ہوجاتے اور دیر تک روتے رہتے ۔اگر کسی وقت آ پ سرکار دوعالمؐ کی سیر ت پاک کے کسی عنوان پر گفتگو فر مانے لگتے تو ایسی عام فہم، سیر حاصل اور شگفتہ بحث کر تے کہ ہر موافق و مخالف گرویدہ ہوجاتا تھا ۔اگر آپ کے سامنے کوئی مسلمان محمدؐ صاحب کہتا، تو آپ کو بہت تکلیف ہوتی تھی۔ ایک بار کسی نے سرورِ دو عالم ا کی شان میںکچھ گستاخانہ الفاظ استعمال کیے تو آپ بے حد بر ہم ہوئے اور فوراً اس کو محفل سے نکلوادیا۔ حضرت علامہ اقبال کے نزدیک عشق رسولؐ سرّ دین ہے ا و رو سیلۂ دنیابھی۔ اس کے بغیر انسان نہ دین کا نہ دنیا کا۔فرماتے ہیں: ہر کہ از سرِّ نبیؐ گیرد نصیب ہم بہ جبریل امیں گردد قریب ٭٭٭ درِ دل مسلم مقام مصطفیٰ ست آبرو ما ز نام مصطفیٰ ست (اسرار و رموز، ص، ۱۹) ٭٭٭ زندۂ تا سوز او، در جان تست این نگہ دارند ایمان تست (پس چہ باید کرد، ص، ۲۸) جناب فقیر سیّد وحید ا لدین، صاحب روز گار فقیرمیں لکھتے ہیں: ڈاکٹر محمد اقبال مر حوم کی سیرت اور زندگی کا سب سے زیادہ ممتاز، محبوب اور قابل قدر جذبہ عشق رسولؐ ہے۔ذات رسالت مآبؐ کے ساتھ انھیں جو والہانہ عقیدت تھی اس کا اظہار ان کی چشم نمناک اور دیدۂ تر سے ہوتا تھاکہ جہاں کسی نے ان کے سامنے حضورؐ کا نام لیا ان پرجذبات کی شدت اور رقت طاری ہو گئی اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو گئے۔رسول اللہ ا کا نام آتے ہی اور ان کا ذکر چھڑتے ہی اقبال بے قابو ہوجاتے تھے۔۔۔ اقبال کی شاعری کا خلاصہ، جوہر اور لب لباب عشق رسولؐاور اطاعت رسولؐ ہے۔میں نے ڈاکٹر صاحب کی صحبتوں میں عشق رسولؐ کے جو مناظر دیکھے ہیں ان کالفظوں میں اظہار بہت مشکل ہے۔۲؎ فقیر صاحب ہی لکھتے ہیںکہ : ڈاکٹر صاحب کا دل عشق رسو لؐ نے گداز کر رکھا تھا۔ زندگی کے آخری زمانے میںتو یہ کیفیت اس انتہاکو پہنچ گئی تھی کہ ہچکی بندھ جاتی تھی، آواز بھرا جاتی تھی اور وہ کئی، کئی منٹ سکوت اختیار کر لیتے تھے۔ تا کہ اپنے جذبات پر قابو پا سکیں اور گفتگو جاری رکھ سکیں۔ جب ڈاکٹر صاحب راؤنڈٹیبل کانفرنس سے واپس آئے تووالد صاحب مر حوم ان سے ملنے گئے۔بڑی مدت کے بعد ایک دوسرے سے ملا قات ہو ئی تھی اس لیے بڑے تپاک سے ملے اور ڈاکٹر صاحب سے ان کے سفر کے تجربات کے متعلق گفتگو ہو نے لگی۔ والد مر حوم نے اثنائے گفتگوکہا اقبال تم یورپ ہو آئے، مصر اور فلسطین کی بھی سیرکی، کیا اچھا ہو تا کہ واپسی پر روضہ اطہر کی زیارت سے بھی آنکھیں نورانی کر لیتے۔یہ سنتے ہی ڈاکٹر صاحب کی حالت دگر گوں ہو گئی۔ یعنی چہرے پر زردی چھا گئی اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔چند لمحے تک یہی کیفیت رہی۔پھر کہنے لگے، فقیر میں کس منہ سے روضہ اطہر پر حاضرہوتا۔ ۳؎ فقیر سیّد وحید الدین صاحب نے عبد القیوم شہید کا واقعہ پوری تفصیل سے درج کیا ہے۔نتھو رام نے ایک کتاب تاریخ اسلام انگریزی زبان میں شائع کی تھی، اور اس میں حضورؐ کی شان اقدس میں انتہائی گستاخیاں کی تھیں۔مسلمانوں نے اس شاتم رسولؐ پر مقدمہ دائر کیا، مگر کچھ نہ بنا۔ہزارہ کا ایک نوجوا ن عبد القیوم نامی کراچی میں وکٹوریہ چلاتا تھا۔ اس نے یہ سنا تو اس کے غم وغصے کی کوئی انتہا نہ رہی۔ ایک دن عین مقدمہ کی سماعت کے دوران وہ اپنا تیز دھار چاقو لے کرنتھو رام پر حملہ آور ہوا، اور اس کی گردن پر پیہم وار کیے۔جس سے نتھو رام اسی وقت واصل جہنم ہوا۔ مسلمانوں نے عبدالقیوم شہید کے مقدمہ کی ہائی کورٹ تک پیروی کی ،مگر سزائے موت ہر جگہ سے بحال رہی۔فقیر سیّد وحید الدین لکھتے ہیں کہ : فروری ۱۹۳۵ میںکراچی کے مسلمانوں کا ایک وفدحکیم الاُمت علامہ اقبال کی خدمت میں لاہور پہنچا اور میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہو کر اس مقدمہ کی ساری روداد تفصیل سے سنائی۔ اس کے بعد عرض کیاگیا کہ آپ وائسرائے سے ملاقات کریں اور اپنے اثر و رسوخ کو کام میں لائیں اور انھیں اس بات پر آمادہ کر یں کہ غازی عبد ا لقیوم کی سزائے موت عمر قید سے بدل دی جائے۔ علامہ وفد کی یہ گفتگو سن کر دس، بارہ منٹ تک بالکل خاموش رہے، اور گہری سوچ میں ڈوب گئے۔وفد کے ارکان منتظر اور مضطرب تھے۔ کہ دیکھیے علامہ کیا فرماتے ہیں۔توقع یہی تھی کہ جواب اثبات میں ملے گاکہ ایک عاشق رسولؐ کا معاملہ دوسرے عاشق رسولؐ کے سامنے پیش ہے۔ اس سکوت کو علامہ اقبال ہی کی آواز نے توڑا ،اُنھوں نے فرمایا : کیا عبد القیوم کمزور پڑ گیا ہے ؟ ارکان وفد نے کہا، نہیں اس نے تو ہر عدالت میںاپنے اقدام کا اقبال اور اعتراف کیا ہے۔ اس نے نہ تو بیان تبدیل کیا اور نہ لاگ لپیٹ اور ایچ پیچ کی کوئی بات کہی۔وہ توکھلے خزانے کہتا ہے کہ میں نے شہادت خریدی ہے مجھے بچانے کی کوشش مت کرو۔ وفد کی اس گفتگو کو سن کر علامہ کا چہرہ تمتما گیا اُنھوں نے برہمی کے لہجہ میں فرمایا: جب وہ کہہ رہا ہے کہ میں نے شہادت خریدی ہے تو میں اس کے ا جر و ثواب کی راہ میں کیسے حائل ہو سکتاہوں؟ کیاتم یہ چاہتے ہو کہ میںایسے مسلمان کے لیے وائسرائے کی خوشامد کروں، جو زندہ رہا تو غازی ہے اور مر گیا تو شہید ہے۔ علامہ کے لہجے میں اس قدر تیزی اور سختی تھی کہ و فد کے ارکان اس سلسلے میں پھر کچھ اور کہنے کی جرأت نہ کر سکے۔۴؎ راج پال اس سے قبل لاہور میں رسولؐ پاک کی شان میں گستاخیاں کر چکا تھا اور انگریز کی نام نہاد عدالت نے ا س کو بھی قید و بند کا مستحق نہیں گردانا تھا آ خر غازی علم الدین کے جوش ایمان نے اسے کیفر کردار کو پہنچایا اور ان کو انگریزی عدالت سے سزائے موت دی گئی۔ غازی علم الدین شہید اور غاز ی عبد القیوم شہیدکی محبت رسولؐ میںشہادت اور سر فروشی کے واقعات سے علامہ اقبال بہت متاثر ہوئے ۔آپ نے لاہور اور کراچی کے عنوان سے ایک قطعہ کہاجس میں خاص طور پر غازی عبد القیوم کے اس واقعہ کی طرف بلیغ اشارہ پایاجاتا ہے۔فرماتے ہیں: نظر اللہ پہ رکھتاہے مسلمان غیور موت کیا شے ہے؟ فقط عالم معنی کا سفر ان شہیدوں کی دیت اہلِ کلیسا سے نہ مانگ قدر و قیمت میں ہے خون جن کا حرم سے بڑھ کر آہ! اے مرد مسلمان تجھے کیا یاد نہیں؟ حرفِ لا تدع مع اللہ الھاً آخر۵؎ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی ہی والہانہ شیفتگی اور سر فروشانہ عقیدت ایمان کی بنیاد اور اساس ہے۔صحیح حدیث ہے کہ لا یومن احد کم حتی اکون احب الیہ من والدہِ و ولدہ والناس اجمعین (متفق علیہ)۔حضورؐنے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایمان میںاس وقت تک پختہ نہیں ہوتا۔ جب تک کہ میری محبت اس کے دل میںاس کے باپ، بیٹے اور تمام انسانوں سے بڑھ کر راسخ نہ ہو جائے)عشق و محبت کا یہ مر تبہ ایمان کا خاصہ اور لا زمہ ہے۔ اتباع رسولؐ کے بغیر محبت رسولؐ تصور میں نہیں آسکتی۔ حضورؐ کے نقش قدم پر چلنا، سنت رسو ل اور اُسوہ حسنہ کاکامل اتباع محبت رسولؐ کے لیے لازم ہے۔ حضورؐؐ کی ذات گرامی ر حمۃ للعالمین تھی اس لیے مومن کوبھی رحمت و شفقت کا آئینہ ہونا چاہیے۔ آپؐ مکارم اخلاق سے متصف تھے مرد مومن کو بھی اپنے اندراوصافِ ستودہ، اور اخلاق پسندیدہ پیدا کر نے چاہئیں۔جو کوئی مقام نبویؐ سے دور رہے اور اُسوہ حسنۂ رسولؐ کا اتباع نہ کرے وہ اسلامی معاشرے سے خارج ہوجاتا ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ مسلمان کی سر شت ایک موتی کی مانند ہے جسے آب وتاب بحر رسولؐ سے حاصل ہوتی ہے۔ تو آب نیساں ہے آغوش بحر میں سما جا ۔اور پھر اس سمندر سے موتی بن کر بر آمد ہو۔ دنیامیں خورشیدسے زیاد ہ روشن وتا بندہ بن، اور دوامی و ابد ی تابانی ودرخشانی حاصل کر۔ اقبال کے اشعار پڑھیے۔ فطرتِ مسلم سراپا شفقت است در جہاںدست و زبانش رحمت است آنکہ مہتاب ازسر انگشتش دو نیم رحمتِ او عا م و اخلاقش عظیم از مقامِ او اگر دور ایستی از میان معشر ما نیستی ٭٭٭ طینت پاکِ مسلماں گوہر است آب وتابش از یم پیغمبرؐ است آبِ نیسانی بہ آغوشش درآ و ز میانِ قلزمش گوہر بر آ در جہان روشن تر از خورشید شو صاحبِ تابانیِ جاوید شو۶؎ اللہ اور اس کے رسولؐ سے ایسی محبت جو دنیاکے ہر تعلق، ہر رشتے اور ہرشے سے ہزاردرجہ بڑھ چڑھ کر ہو۔خود قرآن حکیم میںواضح الفاظ میں موجود ہے۔ سورہٗ توبہ میں ہے۔ قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نَاقْتَرَفْتُمُوْھَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ ط وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ [۲۴:۷] (سورۃ توبہ ا ٓیت ۷) اے پیغمبر مسلمانوکو سمجھادو کہ اگرتمھارے باپ اور تمھارے بیٹے، اور تمھارے بھائی، اور تمھاری بیبیاں، اور تمھارے اعزہ اقارب، اور مال جو تم نے کمائے ہیں اور سوداگری جس کے مندا پڑ جانے کاتم کو اندیشہ ہو اور مکانات جو تم کو بہت پسند ہوں اگر یہ سب چیزیںتم کو اللہ اور اس کے رسولؐاور اللہ کے راستے میں جہاد کر نے سے زیادہ عزیز اور پیاری ہوںتو ذرا صبر کرو،یہاں تک کہ جو کچھ خدا کا حکم آنا ہو آجائے اور اللہ ان لو گوں کو جو اس کے حکم سے سر تابی کریںہدایت نہیں دیاکرتا۔ مثنوی ’’مسافر‘‘ میںاقبال رموز دین مصطفوی بتاتے ہیںکہ اپنی خودی کو آشکار کر نا سلطانی و شہنشاہی ہے۔سوال کرتے ہیں کہ دین کیاہے۔خود ہی جواب دیتے ہیں کہ اپنی ذات کے اسرار و رموز کا جاننا دین کا مقتضا ہے۔ جو مسلمان خود شناس بن جاتا ہے وہ خود کو دنیا بھرسے ممتاز بنا لیتاہے۔وہ ضمیر عالم سے بھی باخبر ہوتا ہے اور وہی لا موجود الااللہ کی تلوار بھی ہو تا ہے۔بندۂ حق پیغمبروں کا وارث ہے اس لیے وہ دوسروں کی قائم کی ہوئی دنیا میں رہنا پسند نہیں کرتا۔ وہ ایک نئی دنیا تخلیق کر تاہے اور اس مقصد کے لیے جہان کہنہ کو زیر و زبر کر ڈالتا ہے۔ اس کی فطرت دنیا میں ہوتے ہوئے بھی جہات سے ماورا ہوتی ہے اس کی ذات حرم ہے جس کا طواف ساری کائنات کرتی ہے۔ آفتاب اس کی گرد راہ کاایک ذرہ ہے۔ اس کے عروج کی شہادت کتاب اللہ (قرآن) نے دی ہے۔ اس کی فطرت اُمت ِمسلمہ سے کشایش حاصل کر تی ہے اور ملت سے اس کی آنکھوں میں نور بڑھتا ہے ۔اے نادان! تو ذرا قرآن اور حدیث کا مطالعہ کر اور ان کے معنی اور مطالب پر عبور حاصل کر۔ پھر اپنی خودی کے اندر جھانک اور اپنی حقیقت کو پہچان۔ تو وحدت (اتحاد) سے عاری ہے۔حالانکہ یہ کائنات اور یہ عالم صرف وحدت سے ہی زندگی پاتے ہیں۔ اسی طرح اپنے دل میں نئی آرزو ٔں کو جنم د ے۔ زندگی کی بنیاد آرزو پر ہے۔ آنکھ، کان عقل سب آرزو سے تیز ہوتے ہیں۔ آرزو ہی کی بدولت مٹی سے لالہ جیسے پھول اگتے ہیں۔جس کے دل میں آرزو جنم نہیں لیتی وہ سنگ وخشت کی طر ح دوسروں کی ٹھوکروں سے پائمال ہوجاتا ہے۔ آرزو سلطان اور امیرسب کاسر مایہ ہے اور آرزو ہی فقیر کا وہ جام ہے جو اسے جہاں بینی کی صفت بخشتی ہے۔ اقبال کے اشعار سے لطف اُٹھائیے۔وہ فرماتے ہیں؎ رمز دینِ مصطفیٰؐ دانی کہ چیست؟ فاش دیدن خویش را شاہنشی ست چیست دین ؟ دریافتن اسرار خویش زندگی مرگ است بے دیدار خویش آں مسلمانے کہ بیند خویش را از جہانے برگزیند خویش را از ضمیر کائنات آگاہ او است تیغ لا موجود الا اللہ اوست بندۂ حق وارثِ پیغمبراں او نگنجد در جہانِ دیگراں تا جہانے دیگرے پیدا کنند ایں جہان کہنہ را برہم زند فطرت او بے جہات اندر جہات او حریم و در طوافش کائنات ذرۂ از گرد راہش آفتاب شاہد آمد بر عروج او کتاب فطرتِ او را کشاد از ملت است چشم او روشن سواد از ملت است برگ و ساز کائنات از وحدت است اندریں عالم حیات از وحدت است ایں کہن ساماں نیرزد باد، و جو نقشبند آرزوئے تازہ شو زندگی بر آرزو دارد اساس خویش را از آرزوئے خود شناس چشم و گوش و ہوش تیز از آرزو مشت خاکے لالہ خیز از آرزو ہر کہ تخم آرزو در دل نہ کشت پایمال دیگراں چوں سنگ و خشت آرزو سرمایہ سلطان و میر آرزو جام جہاں بین فقیر۸؎ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ اگر تمھیں ترقی کی آرزو ہے تو اس کی ایک ہی سبیل ہے۔سعی و جستجو کو اپنا شعاربناؤ، خدا سے لو لگاؤ اور محمد مصطفیؐ کے بتائے ہوئے راستے پر گامزن ہوجاؤ۔پھر تمھیں اس دنیا میں وہ فروغ حاصل ہو گا جس کاتصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ آپ کے اشعار یہ ہیں: بہ منزل کوش مانند مہ نو دریں نیلی فضا ہر دم فزوں شو مقام خویش اگر خواہی دریں دیر بحق دل بند و راہ مصطفیؐرو۹؎ جاوید نامہ میں اور بھی بصیرت افروز اور دلچسپ نکتہ بیان کرتے ہیں۔فرماتے ہیںکہ دنیامیں جہاں کہیں بھی رنگ و بو کا ظہور ہے اور جہاں بھی آرزو پروان چڑھتی نظر آتی ہے۔سمجھ لو کہ یاتو اسے نور مصطفویؐ کا فیض حاصل ہے یا ابھی وہ تلاش مصطفویؐ میں سر گرم ہے اور منزل کی تلاش میں سر گر داں ہے۔ اشعار دیکھیے فرماتے ہیں: بر کجا بینی جہان رنگ و بو آں کہ از خاکش بروید آرزو با ز نور مصطفی آں را بہا است یا ہنوز اندر تلاش مصطفیؐ است۱۰؎ بلاشبہ اسلام کی تمام تعلیمات کا سر چشمہ قرآن حکیم ہے۔ اقبال اپنے اشعار میں اس پر بہت زور دیتے ہیں اور تاکیدکرتے ہیں۔ فرماتے ہیں:ہمارے لیے کتاب و سنت ہی سب کچھ ہے۔ہمارا ساز وبرگ سب یہی ہیں۔یہی دو قوتیں ہیں جن سے ملت اسلامیہ کو عزت و اکرام سب کچھ حاصل ہو تا ہے۔دنیائے ذوق و شوق ہو یا دنیا ئے آب و گل۔ پست ہو یا بلند ان سب کی فتح و کشاد سب انعا م الٰہی ہے۔ مومن کے لیے یہ سب شان جمالی اور شان جلالی کے ظہور ہیں۔ اقبال کے اشعار کا مطالعہ کیجیے: برگ و سازِ ما کتاب و حکمت است ایں دو قوت اعتبار ملت است، آں فتوحاتِ جہانِ ذوق و شوق ایں فتوحاتِ جہانِ تحت و فوق ہر دو انعام خدائے لا یزال مومناں را آں جمال است ایں جلال۱۱؎ اور زیادہ وضاحت فرماتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اگر تم کوثبات و دوام حاصل کر نے کی آرزو ہے تو قرآن سے سبق حاصل کرو۔میں نے قرآن کے ضمیرمیں آب حیات پوشیدہ پایا ہے۔ قرآن ہمیں لا تخف(کسی غیر اللہ سے مت ڈر) کا پیغام سناتا ہے اور پھر لا تخف (مت ڈر) کے مقام پر پہنچا دیتا ہے۔ سلطان اور امیرسب کو لاالہ سے قوت نصیب ہوتی ہے۔ فقیر کو بھی ہیبت، لاالہ سے حاصل ہو تی ہے۔جب ہمارے پاس لا اور الا کی دو تلواریں تھیں۔(ہمیں کلمہ توحید کے نفی اور اثبات پر یقین کامل حاصل تھا)۔ہم نے غیر اللہ کو نیست ونابود کر دیا تھا: بر خور از قرآں اگر خواہی ثبات در ضمیرش دیدہ ام آبِ حیات می دھد ما را پیام لا تخف می رساند بر مقام لا تخف قوت سلطان و میر از لا الہ ہیبت مرد فقیر از لا الہ تا دو تیغ لا و الا داشتیم ما سوا اللہ را نشان نگزاشتیم۱۲؎ حضرت رسولؐ مقبول ا کے دیدار سے مشرف ہونے کی علامہ اقبال نے نہایت عمدہ تفسیر و توجیہ کی ہے۔فرماتے ہیں کہ اتباع رسولؐ اور تقلید نبوی میں ڈوب جا نے کانام دیدار رسولؐ ہے۔دنیامیں زندگی ایسے بسر کرو جیسے رسولؐ پاک کا اُسوہ حسنہ تم کوتلقین کر تاہے اگر تم ایسا کرو گے توتم کو جن وانس سب میں قبولیت حا صل ہو جائے گی۔ آپؐ کی سنت کی پیروی میں ڈوب کرخود شناسی حاصل کرو، یہی آپؐ کا دیدار ہے۔ یاد رکھو کہ آپؐ کا اُسوہ حسنہ اور آپؐ کی سنت آپؐ کے اسرار میں سے ہے۔ جاوید نامہ میں فرماتے ہیں: معنی دیدار آں آخر زماںؐ حکم او بر خویشتن کردن رواں در جہاں زی چوں رسولؐ انس و جاں تا چو او باشی قبول انس و جاں باز خود را بیں ہمیں دیدار او ست سنت او سرّے از اسرار اوست۱۳؎ حضرت اما م ربانی مجدد الف ثانی قدس سرّہ ا لعزیز فرماتے ہیں:سیّد المر سلین علیہ و آلہ، الصلوات والتسلیمات ،اللہ تعالیٰ نے ہم بے سر وسامان مفلسوں کو سیّداوّلین و آخرین ا کے اتباع کی دولت سے مشرف فرمایا، آپ کی محبو یت ہی کے صدقے میں اس نے اپنے اسماء صفات کو عالم ظہور میں ظاہر کیاہے۔ اس نے آپؐ کو مخلوق میں سب سے اعلیٰ و بہتر خلق فرمایاہے۔ اللہ آپؐکو بہترین و افضل ترین صلوٰۃ و سلام سے مشرف کرے اور ہمیں آپؐ کے اتباع سے سر فرازی بخشے اور اس پر قائم رہنے کی توفیق عطا کرے۔ اس لیے کہ آپؐ کی اتباع کا ایک شمہّ اور ایک ذرہ بھی تمام دنیاوی لذتوں اور آخروی انعامات سے بہت بہتر ہے۔ آپؐ کی روشن سنت کی پیروی ہی میں ساری فضیلت پوشیدہ ہے اور آپ کی شریعت کوجاری کرنے میںساری بڑائی مضمر ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص آپؐ کی سنت کے اتباع میںدو پہر کو سوتا ہے تو اس کا یہ عمل ہزاروں شب بیداریوں سے جو از راہ متابعت رسولؐ نہ ہو ںبہتر اور بڑھ کر ہے۔ اسی طرح شارع علیہ السلام کے حکم کے مطابق ایک جیتل (چھوٹا سکہ)مصرف خیرمیں دینا اس پہاُڑ برابر سونے کے خرچ کر نے سے بہتر ہے جو آدمی خود اپنی طرف سے خرچ کر تاہے۔۔۔اس میں بھیدیہ ہے کہ شریعت کے مطابق کوئی عمل کرنا حق کی مر ضی پر چلنا ہے اور شریعت کے خلاف کوئی عمل کرنا حق کی مرضی کے خلاف چلنا ہے۔تو خدا کے سامنے نا پسندیدہ کام میںثواب کاکیامحل؟۔بلکہ اس پر توعذاب کی توقع ہو نی چاہیے۔خود اس دنیامیں اس کو سمجھنے کے لیے شواہد موجود ہیں۔ذرا سی تو جہ سے آدمی سمجھ سکتاہے۔ تو (یاد رکھو کہ) تمام سعادتوں کا سرمایہ اور مرکز اتباع سنت ر سولؐ ہے اور تمام فسادات کا باعث شریعت کی مخالفت۔ حضرت مجدد صاحب ؒ کے الفاظ یہ ہیں: در تحریض بر متابعت سیّد المرسلین علیہ و علیہم و آلہِ الصلٰوۃ و التسلیمات۔حق سبحانہ و تعالی ٰما مفلسان بے سر وبرگ را بدولت اتباع سیّد اولین و آخرینؐ، کہ بطفیل دوستی او کمالات اسمائی و صفاتی خود ر ا در عرصہ ظہور آورد، او را بہترین جمیع کائنات خلق کرد۔علیہ من الصلوات افضلہا، و من تسلیمات اکملہا مشرف گر داند۔و بر آں استقامت بخشد؟ کہ ذرہ ایں متابعت مر ضیہ از جمیع تلذذاتِ دنیاوی و تنعمات اخروی بمراتب بہتر است۔فضیلت منوط بمتابعت سنت سنیہ اوست۔ و مزیت مر بو ط بہ اتیان شریعت او، علیہ و علی آلہِ الصلواۃ والسلام والتحیتہ۔مثلاً خواب نیم روزے کہ از روئے ایں متابعت واقع شود از کرور، کرور، احیائے لیالی کہ نہ از متباعت است، اولیٰ و افضل است۔ و ہم چنیںاعطائے جیتلے بامر شارع ا ز انفاق کوہ زر کہ از نزد خود باشد فاضل تر ست۔سرّ آنست۔ عمل کہ بموافقت شریعت واقع می شود، مرضی حق است، سبحانہ۔و خلاف آں نا مرضی او تعالیٰ۔ پس در نا مرضی چہ جائے ثواب، بلکہ متوقع عقاب است۔ ایں معنی را در عالم مجاز شاہد واضح است۔باندک التفات بظہور می آید۔پس سر مایاجمیع سعادات متا بعت سنت است، و ہیولائے جمیع فسادات خلاف شریعت است۔(۱۴) علا مہ اقبال نے نبوت و رسالت پراپنے خطبات میں تفصیلی بحث کی ہے، مگر طویل اقتباس کی بجائے میں حضرت علامہ کی وہ مختصر توضیح نقل کرتاہو ںجو آپ نے سیّدنذیرنیازی صاحب کے استفسار پر ان کو بھیجی تھی۔یہ تحریر نیازی صاحب نے اپنے رسالہ طلوع اسلام میںچھاپی تھی جو وہ اس وقت دہلی سے شائع کر تے تھے۔نیز اپنے نام کے خطوط مکتوباتِ اقبال میں درج کی ہے اور ان سے حاصل کر کے انوار اقبال میں بھی شائع ہو چکی ہے۔ علامہ نے لکھاتھا: نبوت کے دو اجزا ہیں۔(ا) خاص حالات و واردا ت جن کے ا عتبار سے نبوت روحانیت کا ایک مقام خاص تصور کی جاتی ہے۔ (۲)ایکSocio political institution ۱۵؎ (معاشرتی سیاسی ادارہ)قائم کرنے کا عمل یااس کا قیام اس انسٹی ٹیوشن ۱۶؎کا قیام گویا ایک نئی اخلاقی فضا کی تخلیق ہے،جس میں پرور ش پا کر فرد اپنے کمالات تک پہنچتاہے اور جو فرد اس نظام کا ممبر نہ ہو، یا اس سے انکار کرے وہ ان کمالات سے محروم ہو جاتاہے۔ اس محرومی کومذہبی اصطلاح میں کفر کہتے ہیں۔گویا اس دوسرے جزو کے اعتبار سے نبیؐ کا منکرکافر ہے۔ دونوں اجز اموجود ہو ں تو نبوت ہے۔صرف پہلا جزو ہو تو تصوف، اسلام میں اس کو نبوت نہیں کہتے اس کا نام ولایت ہے۔ختم نبوت کے معنے یہ ہیںکہ کوئی شخص بعد اسلام یہ دعویٰ کرے کہ مجھ میں ہر دو اجزا نبوت کے موجود ہیں۔یعنی یہ کہ مجھے الہام وغیرہ ہوتا ہے، اور میری جماعت میں داخل نہ ہو نے والا کافر ہے۔تو وہ شخص کاذب ہے۔۔۔ ایک کامل الہام و وحی کی غلامی قبول کر لینے کے بعدکسی اور الہام و وحی کی غلامی حرام ہے۔بڑا اچھا سودا ہے کہ ایک کی غلامی سے باقی سب کی غلامیوں سے نجات ہو جائے اور لطف یہ کہ نبی آخر الزمان ا کی غلامی غلامی نہیں بلکہ آزادی ہے۔ کیونکہ ان کی نبوت کے احکا م دین فطرت ہیں۔ ۱۷؎ یعنی فطرت صحیحہ ان کوخود بخود قبول کرتی ہے۔فطرت صحیحہ کا ان کوخود بخود قبول کر نا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ احکام زندگی کی گہرائیوں سے پیدا ہوتے ہیں اسی واسطے عین فطرت ہیں۔ ایسے احکام نہیں جن کو ایک مطلق العنان حکومت نے ہم پر عاید کر دیاہو اور جن پر ہم محض خوف سے عمل کر نے پر مجبور ہوں اسلام کو دین فطرت کے طور پر Realise۱۸؎ کرنے کانام تصوف ہے اور ایک اخلاص مند مسلمان کا یہ فرض ہے کہ و ہ اس کیفیت کو اپنے اندر پیدا کرے اس کیفیت کو میں نے Emancipation)) ۱۹؎سے تعبیر کیاہے۔۲۰؎ عشق نبویؐ، اتباع مصطفوی، اُسوہ حسنہ، انسان کامل، قرآنِ حکیم، اور دیگر متعلق مسائل و مباحث پر آیندہ صفحات میں روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا۔یہاں اس تمہید کو اس قطعہ پر ختم کرتاہو ں۔جس میں حضرت علامہ اقبال کے عشق مصطفی کے ایک شعر کوتضمین کیاہے۔ ملاحظہ کیجیے : آں حکیم اُمت آں دانائے راز می دہد اسلامیان را سوز و ساز می سراید ہمچو مولانائے روم در نوائے پارس نغمات حجاز شعر او تفسیرِ قرآن حکیم قول او مرد مومناں را برگ و ساز می کشاید پردہ از اسرار جاں تا عیاں گردد حقیقت از مجاز شوکتِ شاہیں دہد عصفور را می کند افتادگاں را سرفراز رومی و غزالی و سعدی ست او در ظلامِ عصر نو روشن چو گاز تا ز اسرار حیات آگہ کند شعر او دارد بتو ناز و نیاز دل ستاں و دل رباؤ دل پذیر دل گداز و دل کشا و دل نواز عصر نو دارد بسے مکر و فسوں حرز جان کن گفتۂ دانائے راز ہاں شنو لا ریب درہا سفتہ است قول او ہم جاں فزا، ہم جاں نواز گفت، می باشد شہ دنیا و دینؐ دست گیر بندہ ء بے برگ و ساز۲۱؎ ہر کہ عشق مصطفیؐ سامانِ اوست بحر و بر در گوشۂ دامانِ اوست کس قدر صحیح کہاگیاہے: محمدؐ عربی کابروے ہر دو سرا ست کسے کہ خاک درش نیست خاک بر سر او /…/…/ حواشی ۱-ارمغان حجاز،اُردو، ص۶۲ ۲-فقیر سیّد وحید الدین، روزگار فقیر، ص ۹۴۔۹۵۔ ۳-ایضاً، ص ۳۶۔ ۳۷ ۴- ایضاً۔جلد دوئم، ص ۳۶۔ ۳۸ ۵- اللہ کے ساتھ کسی اور کو اعانت کے لیے مت پکارو ، ضرب کلیم، ص ۶۸۔ ۶-کلیاتِ اقبال(فارسی) اسرار و رموز، ص ۱۳۲، ۱۳۳۔ ۷-سورہ توبہ، آیت ۲۴۔ ۸-کلیاتِ اقبال(فارسی)،مثنوی مسافر، ص ۵۸، ۵۹۔ ۹- ارمغان حجاز، ص ۶۵۔ ۱۰-کلیاتِ اقبال(فارسی)، جاوید نامہ، ص، ۱۲۸۔ ۱۱-مثنوی مسافر، ص ۸۴، ۸۵۔ ۱۲- ایضاً، ص ۸۸۔ ۱۳-جاوید نامہ، ص ۱۳۰۔ ۱۴-مکتوبات دفتر اول، مکتوب، ۱۱۴۔ ص ۱۳۱۔ ص ۱۳۲۔ ۱۵-بمعنی معاشرتی سیاسی ادارہ۔ ۱۶- بمعنی ادارہ۔ ۱۷- اقبال کے اس شعر سے بصیرت حاصل کیجیے: وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات (ضرب کلیم،ص۵۰) ۱۸- ادراک ۱۹- استخلاص ۲۰- انوار اقبال، ص ۴۵، ۴۷۔ ۲۱- اقبال کے مصرع میں تصرف کیاہے، ان کاپورا شعر ہے : چیست قرآن؟ خواجہ را پیغامِ مرگ دستگیر بندہ بے ساز و برگ ۲۲- کلیاتِ اقبال(فارسی)،جاوید نامہ، ص ۱۱۹۔ ۲۳- کلیاتِ اقبال(فارسی)،پیام مشرق، ص ۱۹۰۔ مکتوبات دفتر اول، مکتوب ۴۴، ص، ۱۵۔ /…/…/ عشق سب سے پہلے یہ بات علم میں آنی مناسب ہے کہ قرآن مجید اور حدیث شریف میںعشق کی اصطلاح کہیںاستعمال نہیں ہوئی۔یہ لفظ علم النفس، تصوف، ادبیات وغیرہ کے علما و شائقین نے اختیار کیا اور عرب و عجم سب نے عربی، فارسی، ترکی، اُردو، اور دوسری اسلامی زبانوں میں بے تکلف اور بکثرت استعمال کیا۔ قرآن مجیداور حدیث شریف میںعشق کے بجائے جہاں کہیں استعمال ہو اہے،حب یامحبت کا لفظ استعمال ہوا ہے۔مثلاً بخاری شریف کی حدیث میں آیاہے کہ، المر ء مع من احب، یاقرآن مجیدمیں آتا ہے قل ان کنتم تحبون اللّٰہ(الآ یۃ)۔ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ عربی اصل کی رو سے عشق کے معنوں میں ذرا کراہت پائی جاتی ہے۔ قامو س میں عشق کو جنون کا ایک حصہ بتایاگیا ہے۔مگر یہ بھی واضح ہونا ضروری ہے کہ تصوف یاادبیات میںیہیںسے عشق کے مفہوم میں وسعت جامعیت، اورشدت کا پہلوپید اہوتا ہے اور اس طرح اسے علمی اور ادبی اصطلاح کاکثیر المعانی اوروسیع المقاصد لفظ قرار دیاگیا۔ ان معانی میں جب عشق کو اصطلاح کا مرتبہ حاصل ہوگیاتو اس کے عام اور خاص استعمال میں کوئی مضائقہ نہ رہا۔ مگر محتاط مصنفین پھر بھی اکثر عشق و محبت دونوںلفظ یک جا استعمال کرتے رہے تاکہ کوئی پہلو اس بحث سے خارج نہ ہونے پائے۔ اس دور کے ایک معرو ف عالم شریعت اور عظیم صاحب طریقت بزرگ والاحضرت سیّد محمد ذوق شاہ صاحب قدس سرّ ہ العزیز اپنی بے مثل کتاب سرّدلبراں میں تحریر فرماتے ہیں: محبت ایک کشش مقناطیسی ہے جو کسی کو کسی کی جانب کھینچتی ہے۔کسی میں حسن و خوبی کی ایک جھلک دیکھ لینا، اور اس کی جانب دل کا مائل ہو جانا، دل میں اس کی رغبت، اس کا شوق، اس کی طلب و تمنا اور اس کے لیے بے چینی کا پیدا ہو نا، اسی کے خیال میں شب وروز رہنا، اسی کی طلب میں تن من دھن سے منہمک ہو جا نا، اس کے فراق سے ایذا پانا، اس کے وصال سے سیر نہ ہونا، اس کے خیال میں اپنا خیال، اس کی رضا میں اپنی رضا، اس کی ہستی میں اپنی ہستی گم کر دینا۔یہ سب عشق و محبت کے کرشمے ہیں: عاشقی چیست؟ بگو بندۂ جاناں بودن دل بدست دگرے دادن و حیران بودن اس کی حکومت عالم گیر ہے۔ ساری کائنات محبت کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ حب ظہور سے کائنات کا آغاز ہوا اور اسی حب کی آخر تک فر ماںروائی رہے گی۔ذرہ، ذرہ میں محبت کے آثاراور محبت کے اثرات نمایاں ہو رہے ہیں۔جمادات و معدنیات اور وہ اشیا تک جنہیںعام طور پر غیر ذی روح قیاس کیا جاتا ہے،محبت کی ہمہ گیری سے محفوظ نہیں۔ ظہور حیات کے اختلاف مدارج کی نسبت سے ظہور محبت کے مراتب میں بھی اختلاف واقع ہوتا ہے اور یہی محبت مختلف مدارج میںمختلف ناموں سے پکاری جاتی ہے۔غیر ذی روح مادی ذرات میں اسی کشش کے نام سے منسوب کیاجاتا ہے۔ذی روح ہستیوں میں اسی کشش کا نام محبت ہو جاتا ہے ارفع و اعلیٰ ہستیوں میںجب محبت بھی اپنی ارفع و اعلیٰ شان میں نمایاں ہوتی ہے تواسے عشق کہتے ہیں۔محبت کے انتہائی مر تبے کا نام عشق ہے۔۱؎ آگے چل کر فاضل مصنف فرماتے ہیں: محبت ایک فطری اور طبعی جذبہ ہے ،جس کا ظہورمختلف صورتوںاور مختلف حالات میںمختلف کیفیات کے ساتھ ہو تا ہے۔ بعض محبتیں طبعی اوربعض ارادی و اکتسابی ہوتی ہیں۔وہ بے لوث اور غیر مخلوط محبت جو ایک معصوم بچے کو اپنی ماں یا ماں کو اپنے بچے سے ہوتی ہے بالکل طبعی ہوتی ہے۔ اس میں خود غرضی کو مطلق دخل نہیں۔ اگر کسی ماں کو کسی طور پر یقین ہو جائے کہ اس کا پیارا بچہ چھ ماہ بعد مر جائے گا تو باوجود اس تیقن کے کہ وہ بچہ ماں کے بڑھاپے کا سہارا کسی طرح نہیں ہو سکتا، وہ ماں اس چھ مہینے کے عرصے میںایک لمحہ کے لیے بھی بچے کی مفارقت گوارا نہیں کرے گی اور بچے کی پرورش اور خدمت میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہونے دے گی۔ استاد اور شاگرد کے درمیان جو محبت ہوتی ہے وہ ارادی و اکتسابی ہوتی ہے۔ محسن و منعم کے احسانات و انعامات بھی محبت کو بر انگیختہ کرتے ہیں۔بعض موقعوں پر مصلحتاًمحبت پیدا کی جاتی ہے اور کوشش سے اسے بڑھایا جاتاہے۔کیونکہ کوشش سے محبت بڑھتی بھی ہے اور گھٹتی بھی ہے۔۔ ہم جنسی کی بنا پر جو محبت پیدا ہوتی ہے اس کی مثال وہ محبت بھی ہے۔جو کسی فن کے جاننے والے کو اس فن میں کمال رکھنے والوں کے ساتھ پیدا ہو جا تی ہے۔۲؎ اخلاق، علم النفس، اور تصوف کے علما ء میںعشق و محبت کے مدارج کی تقسیم اور ارتقامیں اصطلاحی طور پر بڑا اختلاف پایا جاتا ہے۔مثلاًبعض ماہرین نے اس دلی لگاؤ کے مدارج یہ قرار دیے ہیں: (۱)ہوایٰ(۲)علاقہ (۳) کلف (۴)عشق (۵)شعف (۶)شغف (۷)جوی (۸)تیم (۹)تد لیہ (۱۰)ہیوم۔ (جسے وہ آخری اور اعلیٰ درجہ قرار دیتے ہیں) اعلیٰ حضرت سیّد محمد ذوق شاہ صا حبؒاپنی کتاب سرِ دلبراں میںجس کا کچھ اقتباس پہلے آچکا ہے۔ تحریر فرماتے ہیں: غواصان رموز بحر عشق و معرفت نے بڑی باریک بینی سے ان مسائل پر مو شگافیاں فرمائی ہیں۔چنانچہ امیرکبیر میر سیّد علی ہمدانی ؒنے مراتب محبت کو مندرجہ ذیل مراتب میں تقسیم فرمایا ہے: (۱) لحظہ (۲) رمقہ (۳)ہوا (۴) ودّ (۵) خلت (۶) حُب (۷)عشق میں نے تشریحات محذوف کر دی ہیں۔ مجمع السلوک میں شرح رسالہ مکیہّ میں محبت کے حسب ذیل مدارج بیان کیے گیے ہیں: (۱) موافقت (۲) میل و موانست (۳)مودت (۴)ہوا (۵)خلت (۶) حُب (۷) شغف (۸)تیم (۹)ولہ (۱۰)عشق۔ [یہاں بھی تشریحا ت بخوف طوالت محذوف کر دی ہیں]۔ شیخ عبد العزیز ؒ رسالہ عشقیہ میںمحبت کے دس مراتب اور ہر مرتبے کے تحت پانچ، پانچ مدارج تحریر فرماتے ہیں: (۱) اُلفت (۲) صداقت (۳) مودت (۴)ہوا (۵)شغف (۶)خُلت (۷)محبت (۸)عشق (۹)تیم (۱۰)ولہ۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی ؒ مندرجہ ذیل مراتب محبت بیان فرماتے ہیں: (۱) میل (۲)رغبت (۳)طلب (۴)ولع (۵)صبابہ (۶)ہوا (۷) شغف (۸)اعزام (۹) حُب مطلق یا عشق اور فرماتے ہیں کہ حب اور ود مشترک ہیں درمیان محب اور محبوب کے۔ قاضی حمید الدین ناگوری ؒ تحریر فرماتے ہیںکہ مراتب طریق حسب ذیل ہیں: (۱)علم (۲) عمل (۳)نیت (۴) صدق (۵)عشق۔۳؎ جناب قا ضی محمد سلیمان سلمان منصور پور ی رحمتہ للعالمین میں حدیث شریف: و الحب اسا سی کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اللہ تعالیٰ سے محبت کے بیان کے لیے ا یک لفظ عبو دیت کفایت کرتا ہے۔ اس لیے کہ محبت ہی سے انا بت الی اللہ کی صفت پیدا ہوتی ہے۔ صبر۔ زُہد۔ حیا۔فقر سب محبت کے بغیر بے معنی ہیں۔ محبت ہی قوت قلب ہے۔محبت ہی غذائے روح ہے۔محبت ہی قرۃ العین ہے۔محبت ہی حیات الابدان۔ دل کی زندگی، زندگی کی کامیابی۔ کامیابی کودوام و بقا بخشنے والی۔غرض محبت ہی سب کچھ ہے۔ محبت سے علاقہ پیدا ہوتا ہے، یعنی دل کسی کی جانب مائل ہوتا ہے اس تعلق کو ارادہ قوی بناتا ہے۔اب کشش اور جذب پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بعد سوزش اور ہر وقتی جلن، اس کے بعد پیار پیدا ہوتا ہے اوو داد سے دل آشنا ہوتا ہے۔ اس میں ترقی ہوتی ہے تو شغف کا تسلط ہو تا ہے اور محبت کا اثر قلب تک پہنچتا ہے۔ مصائب کی برداشت آجاتی ہے اور موانع سبک نظر آتے ہیں۔ قرب کی تدبیر کی لگن ہوتی ہے۔ محبوب کے علاوہ سب تفکرا ت و تصورات ختم۔محبوب کی محبت دل پر حکمران۔ اس سے اگلی حالت عشق ہے اس سے بھی آگے تیم کا درجہ ہے۔جس میں عاشق اپنے خیالات کا غلام بن جاتا ہے جس سے رہائی ناممکن ہو جاتی ہے۔ اعلیٰ ترین درجہ کا نام عبودیت ہے۔ جب کہ محب ہر دعوے سے دست بردار ہو جاتا ہے۔ اس کا جسم، روح، دل، تمنا، آرزو، مراد، سب کو بخوشی چھوڑ کرمعبود کی عبودیت پرقانع و شاکر ہوتا ہے۔عبد کہلایا جانااس کی واحد آرزو ہو جا تی ہے۔ اس سے بھی بالا تر در جہ خُلت کا ہے۔ جب کہ جذبات اور تمنیات کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔دل، دماغ، طبع، روح، کامل طاقت و وحدت کے ساتھ محبوب ہی کومقصود و مطلوب بنا لیتے ہیں۔ اس مرتبہ پر صرف حضرت ابراہیم ؑاور حضورؐ پہنچے۔عقل انسانی اس کا احاطہ نہیں کر سکتی۔رضوانِ محبوب، مقصود و مطلوب حقیقی ہو تا ہے، محب خود کچھ نہیں سب کچھ محبوب۔ ۴؎ اسی لیے صوفیائے کرام کا مشہور قول ہے: العشق نار تحرق ما سوی المحبوبِ ۔ (عشق ایسی آگ ہے جو محبوب کے علاوہ ہر چیز کو جو غیر ہو جلا ڈالتی ہے۔) فارسی اور اُردو شاعری میںعشق کی تعبیر و تفسیر کے ہزاروں شعر پائے جاتے ہیں۔غور کیجیے تو گذشتہ صفحات میںمحبت کے جو مدارج و مراتب بیان ہوئے شاعری میںانھی میں سے ایک یادوسری کیفیت، حالت اور جذبے کو بیان کیاگیا ہے۔مگر سب کا ماحصل وہی ہے جو عراقی کہہ گئے ہیں: بہ عالم ہر کجا درد دلے بود بہم کردند و عشقش نام کردند حضرت ذوقی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: انسان سب سے اعلیٰ و ارفع مخلوق ہے، بعد از خدا بزرگ توئی، انسان کامل ہی کی شان ہے اس لیے محبت کا انتہائی مرتبہ یعنی عشق بھی انسان ہی کے حصے میں آیا۔کوئی انسان اس حکمرانی سے آزاد نہیں۔کوئی شخص نہیں جسے یہ بے بہاجوہر عطا نہ ہوا ہو۔وہ اس کا صحیح استعمال کرے، خواہ غلط۔۔۔ محبت ایک نسبت ہے درمیان محب و محبوب کے۔محبت کوئی چیز نہ ہوتی اگر اس کے یہ دو پہلو نہ ہوتے، محبی و محبوبی کی نسبت لوازم وعوارض، ذات محبت سے ہیں۔لیکن حقیقت محبت اپنی ذات میں تقید ا ور تنزہ سے مبر ا و منزہ ہے اور اس کے فیض کا سریان جملہ محبان ومحبوبان میں جاری و ساری ہے۔ محبت معرفت کی محتاج ہے اور معرفت محبت کی، محبت معرفت کا نتیجہ ہے ا ور معرفت محبت کا، یعنی بلا معرفت کے محبت پیدا نہیں ہوتی اور بغیر محبت کے معرفت میں ترقی نہیں ہوتی۔مگر محبت سے قبل صرف اجمالی معرفت کی ضرورت ہوتی ہے اور بعد محبت کے حق تعالیٰ کی جانب سے ا نعام کے طور پرتفصیلی معرفت عطا فرمائی جاتی ہے۔۵؎ اس لیے عشق کی برکت سے عاشق کو بے پناہ قوت حاصل ہو جاتی ہے۔ وہ ابو الوقت اور ابوالحال بن جاتا ہے ۔انفس و آفاق اس کے زیر نگین ہوتے ہیں اور وہ جن و ملائکہ کو اپنے صید زبوں سمجھنے لگتا ہے۔علامہ اقبالؒ کہتے ہیں: عشق کی ایک جست نے طے کر دیا قصہ تمام اس زمین و آسمان کو بے کراں سمجھا تھا میں کار زار حیات میںعشق ہی نقش سلیمانی کا قائم مقام ہے۔ فرماتے ہیں: صدق خلیل ؑ بھی ہے عشق، صبر حسینؑ بھی ہے عشق معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق عشق انسانی کار ناموں کو حیات دوام بخشتا ہے۔ جیسے مسجد قر طبہ (اسپین)اور تاج محل (آگرہ)۔عشق کی ان وسیع اور ہمہ گیرقوتوں کا اندازہ اس قطعہ سے کیجیے۔جو اقبال کی مشہور نظم مسجدقرطبہ کا ایک بند ہے: مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ عشق ہے اصل حیات، موت ہے اس پر حرام تند و سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو عشق خود اک سیل ہے، سیل کو لیتا ہے تھام عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام عشق دم جبرئیل، عشق دل مصطفیؐ عشق خدا کا رسولؐ، عشق خدا کا کلام عشق کی مستی سے ہے پیکر گل تابناک عشق ہے صہبائے خام، عشق ہے کاس الکرام عشق فقیہ حرم، عشق امیر جنود عشق ہے ا بن ا لسبیل، اس کے ہزاروں مقام عشق کے مضراب سے نغمہ تار حیات عشق سے نور حیات عشق سے نار حیات۶؎ علامہ ا قبال نے جس شد و مد سے عشق کی مد ح وستایش کی اور عقل کی مذمت کی ہے اس سے عام طور پر یہ دھوکا ہوا ہے کہ وہ عقل کے یکسر مخالف ہیں۔ حالانکہ ایسا سمجھنا بالکل غلط ہے۔حضرت علامہ صرف یہ کہتے ہیں کہ عقل یقین سے بے بہر ہ، اور ظن و تخمین میں ڈوبی ہوتی ہے۔ اس لیے اگر، مگر، ہچر، مچر، تامل و تذبذب کاشکار رہتی ہے۔ اس کے برعکس عشق انجام کا اندیشہ کیے بغیر، محبوب کے فرمان کے مطابق، سبک گام عمل ہوتا ہے۔ اس لیے منزل پر پہنچ جاتا ہے، اور عقل و ہم و شک کے گرداب میں غوطے کھاتی رہ جاتی ہے۔مثلاًفرماتے ہیں: بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی عشق فرمودۂ قاصد سے سبک گام عمل عقل سمجھتی ہی نہیں معنی پیغام ابھی۷؎ اس معاملے میں عقل وعشق اپنی خاصیت کے اعتبار سے مدح و ذم سے ماورا ہے۔عقل اگر مصلحت کوشی ا ور عافیت اندیشی سے عاری ہو، تو وہ پختہ نہیںخام کہی جائے گی۔ اس کے بر عکس اگر عشق مصلحت کوش اور عاقبت اندیش ہوتو وہ پختگی سے دور سمجھا جائے گا۔فرماتے ہیں: پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی یہی فرق علامہ نے بڑی وضاحت سے مثنو ی رموز بے خود ی میں بیان کیاہے۔ فرماتے ہیں۔کہ مومن کا خمیر عشق سے بنتا ہے اس لیے اس کے واسطے ہر نا ممکن شے بھی ممکن ہو جاتی ہے۔عقل ہر بات کا سبب اور علت تلاش کرنے میںسر گرداں رہتی ہے اور عشق بے تکلف عمل کے میدان میں کود پڑتا ہے۔عقل شکار کر نے کے لیے کوئی حیلہ تلاش کر تی ہے اور جال پھیلا تی ہے اور عشق اپنے قوت بازو سے شکار کو قابو میں لاتا ہے۔عقل ہر معاملے میں اگر مگر میںپھنسی رہتی ہے اور عشق کو وہ مضبوط ا رادہ اور یقین محکم حاصل ہوتاہے کہ اسے کسی طرح کا خوف دامن گیرنہیں ہوتا۔ اقبال کے الفاظ میں سنیے: مومن از عشق است و عشق از مومن است عشق را ناممکن، ما ممکن است عقل سفاک است و او سفّاک تر است پاک تر، چالاک تر، بے باک تر عقل در پیچاک اسباب و علل عشق چوگان باز، میدان عمل عشق صید از زور بازو افگند عقل مکار است و دامے می زند عقل را سرمایہ از بیم و شک است عشق را عزم و یقین لا ینفک است۸؎ حضرت علامہ عقل کے مخالف نہیں۔مگر اس کے حدود و عجز سے با خبر ہیں اور اسی طرح وہ عشق کی لامحدود اور بے پناہ قوت سے واقف ہیں۔ اسی لیے ان کامشور ہ یہ ہے کہ عقل اور عشق دونوں سے کام لیا جائے۔تاکہ معرکہ ء وجوداور کار زار حیات میںحسب دل خوا ہ کامیابی حاصل ہو اور تسخیر انفس و آفاق جو انسان کا فطری حق ہے میسر آئے۔ جاوید نامہ میں فرماتے ہیں، کہ مغرب عقل کو ساز حیات سمجھتا ہے اور مشرق عشق کو راز کائنات جانتا ہے۔لیکن سچی بات یہ ہے کہ ا گر عقل کو عشق کی رہنمائی حاصل ہو تو جبھی وہ یقین کی نعمت سے سر فراز ہو تی ہے اور حق شناس بنتی ہے، اسی طرح اگر عشق کوعقل کا تعاو ن میسر آئے تو اس کی بنیاد پائیدارہو جاتی ہے۔عشق اور عقل ایک دوسرے کے معاون بن جائیںتو ایک نئی دنیا آباد کر سکتے ہیں اور نیا عالم وجود میں لا سکتے ہیں اس لیے اقبال مشورہ دیتے ہیںکہ عشق کو عقل کا ساتھی بناؤ اور ایک نئے عالم کا ڈول ڈالو۔ اقبال کے الفاظ میں پڑھیے۔ فرماتے ہیں: غربیاں را زیرکی ساز حیات شرقیاں را عشق راز کائنات زیرکی از عشق گردد حق شناس کار عشق از زیرکی محکم اساس عشق چوں با زیرکی ہمبر شود نقشبندِ عالم دیگر شود خیز و نقش عالم دیگر بنہ عشق را با زیرکی آمیز دہ۹؎ علم ایک وسیع لفظ ہے جس کی ہزاروں شاخیں ہیں۔علم اگر حقائق کی تہہ تک پہنچتا ہے اور اسرار سربستہ کو کھولتا ہے تو اقبال اسے پسندیدہ قرار دیتے ہیں اور اگر وہ محض پوست سے تعلق رکھتا اور مغز تک نہیں پہنچ سکتا، تو مردود ہے۔ یہاں بھی علم پر ان کی رائے میں عشق کو برتری حاصل ہے۔جس کا سبب عشق کی جرا ت رندانہ ہے جو زمین و آسمان کو مسخر کر کے بھی چین سے نہیں بیٹھنے دیتی۔فرماتے ہیں: خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل اگر ہو عشق سے محکم تو صور اسرافیل (بال جبریل، ص۶۷) فقر عشق ہی کا ایک روپ ہے، اور اس لیے ان تمام قوتوں کا حامل ا ور مرکز جو عشق سے حاصل ہوتی ہیں۔ ایک غزل میں اقبال فقراور علم کا موازنہ کرتے ہیں، اور فرماتے ہیں فقر سب سے بڑاامیر اور سب سے بڑاتاجدار ہے۔علم عقل وخرد کو روشن کرتا ہے۔ مگر فقر کا مقصود ہے قلب و نگاہ کی پاکی و پاکیزگی۔علم بڑا عالم اور فلسفی بناتا ہے مگر فقر مسیح و کلیم جیسے بلند مناصب پر فائز کر تا ہے۔علم راہ کی تلاش میں ہے اور بلا شبہ علم کامل ہوتو راہ پا لیتا ہے۔ لیکن فقر واقف راہ اور دانائے سبل ہے۔ علم معلومات کی مدد سے نتائج اخذ کر تاہے اور با خبر ہوتا ہے۔مگر فقر کے سامنے تمام احوال و مقاما ت آئینہ ہوتے ہیں۔علم کے حصول میںکسی بھی درجہ پر از خودرفتہ ہو جانانقصان دہ ہے۔ اس کے بر عکس فقر اپنے حال میںگم ہو کر مدار ج ترقی پر گامزن ہوتا ہے۔علم اور فقروجود و موجود کی تحقیق میںجن نتائج تک پہنچتے ہیںوہ یکسر ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ہاں تو وہ غزل یہ ہے۔ فقر کے ہیں معجزات تاج و سریر و سپاہ فقر ہے میروں کا میر، فقر ہے شاہوں کا شاہ علم کا مقصود ہے، پاکی عقل و خرد فقر کا مقصود ہے عفتِ قلب و نگاہ علم فقیہ و حکیم، فقر مسیح و کلیم علم ہے جو یائے راہ، فقر ہے دانائے راہ فقر مقام نظر، علم مقام خبر فقر میں مستی ثواب، علم میں مستیِ گناہ علم کا موجود اور، فقر کا موجود اور اشھد ان لا الہ، اشھدان لا الہ چڑھتی ہے جب فقر کی سان پہ تیغ خودی ایک سپاہی کی ضرب کرتی ہے کار سپاہ دل اگر اس خاک میں زندہ و بیدار ہو تیری نگاہ توڑ دے آئینہ مہر و ماہ(۱۰) علم اگر کامل ہو، ظاہر و باطن سب کا احاطہ کرتاہو، تو البتہ اس کامرتبہ بہت بلند ہے۔ یہاں مجھے وہ مشہور واقعہ یاد آتا ہے جو حضرت سلطان ابوسعید ابو الخیر، ؒاور شیخ الرئیس بو علی سیناؒکی ملاقات سے متعلق کتابوں میں پایا جاتا ہے۔ اوّ ل ا لذکراگر علوم روحانی میں کامل تھے تو آخر الذکرعلوم عقل میںرشک ارسطو وافلا طون تھا۔ملاقات کے بعد جب حضرت ابو سعید ابو الخیر ؒ سے دریافت کیاگیا کہ آپ نے بو علی سینا کو کیسا پایا۔تو آپ نے کیا خوب فرمایاتھا آنچہ من می بینم او می داند۔یہاںحضوری کے شرف نے مشاہدہ اور نظر بخشی تھی، تو وہاں علم کے کمال نے یقین کے مدارج طے کرادیے تھے۔مگر یہ بھی ظاہر ہے کہ شنیدہ کے بود مانند دیدہ؟، بس یہی فرق ہے علم اور عشق کے مدارج و مراتب میں۔ حضرت علامہ نے یہی بات ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے، فقر مقام نظر، علم مقام خبر، دربار دوست میں حضوری نہ عقل کے ذریعے میسر آسکتی ہے نہ علم کے واسطے سے۔ اسی لیے علامہ فرماتے ہیں: عقل گو آستاں سے دور نہیں اس کی تقدیر میں حضور نہیں دل بینا بھی کر خدا سے طلب آنکھ کا نور دل کا نور نہیں علم میں بھی سرور ہے لیکن یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں بے حضوری ہے تیری موت کا راز زندہ ہے تو، تو بے حضور نہیں۱۱؎ زبور عجم میںعشق اور عقل کی قوتوں کا فرق بہت واضح مثال سے ظاہر کیا ہے۔فرماتے ہیں: ہر دو بمنزلے رواں، ہر دو امیر کارواں عقل بحیلہ می برد، عشق برد کشاں، کشاں۱۲؎ عقل اور عشق دونوں سالار قافلہ ہیں اور رہنمائی کا فرض انجام دیتے ہیں۔مگر فرق یہ ہے کہ عقل حیلے حوالے سے ا س راہ کو رک، رک کر طے کراتی ہے اور عشق کھینچتاہوا دوڑاتا ہوا منزل تک پہنچا دیتا ہے۔ عقل کو کس طرح عشق سے مدد اور قوت حاصل ہوتی ہے اس کی وضاحت کرتے ہیں کہ عشق عقل پر صیقل اور جلا کر دیتا ہے۔گویا پتھر کو چمکا، جگمگا کے آئینے کی خاصیت عطا کرتاہے۔عشق وہ قوت ہے جو طور سینا کے باطن کا نور بخشتا ہے۔ مگر اس کے لیے اہل دل کا قلب ہونا چاہیے۔ اہل ہنر کو عشق ید بیضاجیسی معجز نماقوت اور صلاحیت عطاکرتا ہے۔عشق کی قوتوں کے سامنے ہر ممکن اور موجود شکست کھا جاتی ہے۔یوں سمجھو کہ ساری کائنات تلخ ہے اور شیریں ہے تو فقط عشق۔ہمارے تخیلات و افکار میںگرمی عشق کی آگ سے ہی بھڑکتی ہے اس لیے کہ تخلیق کرنا اور جان ڈالناسب عشق ہی کے کرشمے ہیں۔عشق حیوان اور انسان سب کے لیے کافی اور مکتفی ہے۔ سچ پوچھو تو دونوں عالم کے لیے عشق ہی سب کچھ ہے ۔اشعار کا مطالعہ کیجیے۔ عشق صیقل می زند فرہنگ را جوہر آئینہ بخشد سنگ را اہل دل را سینۂ سینا دہد با ہنر را منداں ید بیضا دہد پیش او ہر ممکن و موجود مات جملہ عالم تلخ و او شاخ نبات گرمیِ افکار ما از نار اوست آفریدن جاں دمیدن کار اوست عشق مور و مرغ و آدم را بس است عشق تنہا ہر دو عالم ر ا بس است۱۳؎ /…/…/ حواشی ۱-محمدذوقی شاہ ، سرِدلبراں، ص ۳۷۹۔ ۲- ایضاً، ص ۲۸۱، ۲۸۲۔ ۳- ایضاً، ص ۲۹۰، ۲۹۳۔ ۴-قاضی محمد سلیمان منصور پوری رحمتہ للعالمین، جلد ۳۔ص۔۲۴۰۔۲۴۱ ۵-سیّد محمد ذوقی شاہ، کتاب مذکور، ص، ۲۸۰۔۲۸۴۔ ۶-کلیاتِ اقبال (اُردو)،بال جبریل، ص ۹۶۔۹۷ ۷-بانگ درا، ص ۲۹۴۔۲۹۵ ۸- کلیاتِ اقبال (اُردو)،اسرار رموز، ص۔۱۰۹ ۹-کلیاتِ اقبال (اُردو)،جاوید نامہ، ص۔۶۵ ۱۰-کلیاتِ اقبال (اُردو)،بال جبریل، ص ۷۷،۷۸۔ ۱۱-ایضاً، ۵۱۔۵۲ ۱۲-کلیاتِ اقبال (فارسی)،زبور عجم، ص۔۲۰۔ ۱۳-ایضاً، ص۱۹۰، ۱۹۱۔ /…/…/ عشق رسولؐ وہ عشق و مستی جس کو اقبال نے ا نسان کے ارتقا کے لیے لازمی گردانا ہے۔کیوں کر حاصل ہوتی ہے؟۔ صرف عشق رسولؐ کے توسل اور اس کے صدقے میں۔فرماتے ہیں کہ یہ سر شاری و سرمستی آفتاب مصطفویؐکے انوار وتجلیات کی ایک کرن ہے۔ یہ نصیب میں آگئی تو سب کچھ مل گیا۔جب تک اس کا سوز انسان میں ہے ا سی وقت تک اسے حقیقی زندگی میسر ہے۔یہی قوت ہے جس سے یقین و ایمان میں پختگی آتی ہے اور ان کا تحفظ ہوتا ہے اسی لیے نصیحت فرماتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفیؐ ایک بحرِذخار کی مانند ہیں۔جس کی موجیں آسمان کو چھوتی ہیں۔تم بھی اس سندر سے سیرابی حاصل کرو۔تاکہ تمھیں حیات نو نصیب ہو اور تمھاری وہ بھولی بسری کیفیات جنھیں مادی دنیا نے چھین لیا ہے از سر نو تم کو میسر آجائیں۔ علامہ اقبال کے اشعار میں یہ مضمون ملا حظہ کیجیے؛ می ندانی عشق و مستی از کجا است ایں شعا ع ا ٓفتاب مصطفیؐ ست زندہء تا سوزِ او در جان تست این نگہ دارند ہ ٗ ایمان تست مصطفیؐبحر است و موج او بلند خیز و ایں دریا بجوے خویش بند یک زمان خود را بہ دریا در فگن تا رواںِ رفتہ باز آید بہ تن اسرار خودی میں اس مضمون کواور زیادہ شرح و بسط سے بیان فرماتے ہیںکہ ہماری آبرو آپؐ ہی کے نام نامی کی بدولت ہے۔ مسلمان کے دل میںحضورؐ کی محبت جا گزین ہو تی ہے، وہ ذات گرامیؐ جس نے خود بوریے پر لیٹ کرزندگی گزاری مگر اپنی اُمت کو وہ فروغ بخشاکہ تاج کسر یٰ ان کے قدموں تلے روندا گیا، اُنھوں نے غار حرا میں تنہائی میں راتیں بسر کیں اور اس طرح ایک قوم، ایک آئین، ایک حکومت عا لم کے سامنے پیش کیں آپؐ کی راتیں شب بیداری میں گزریں۔ تا کہ آپؐ کی اُمت تخت خسروی پر متمکن ہو۔میدان جنگ ہو توآپؐ کی تلوار لوہے کے ٹکڑے کر دے مگر خود نماز میں کھڑے ہو کر اپنے معبود کے سامنے اشک ریز ہیں۔ آپؐ کی تلوار فتح و نصرت جلو میں لیے رہتی تھی اور ملو کیت کے تخم کی بیخ کنی کرتی تھی۔ آ پؐ نے دنیا میں ایک نئے آئین اور ایک نئے نظام کو روا ج د یا اور تمام پرانی قوموں کی بساط اُلٹ دی آپؐ نے بتایاکہ دین کی کنجی سے دنیا کا دروازہ کھولو۔تو راہ راست پاؤ گے۔سچ یہ ہے کہ آپؐ کی ذات گرامی جیسا دوسرا کوئی فرزندمادر گیتی کے پیٹ سے پیدا نہیں ہوا۔ آپؐ کی نظر میں پست و بلندسب برابر تھے آپؐ اپنے غلام کے ساتھ ایک دستر خوان پر بیٹھ کر ما حضر تناول فرماتے تھے: در دل مسلم مقام مصطفیؐ است آبروئے ما ز نامِ مصطفی است طور موجے از غبار خانہ اش کعبہ را بیت الحرم کا شانہ اش بوریا ممنونِ خواب را حتش تاج کسریٰ زیر پائے اُمتش در شبستان حرا خلوت گزید قوم و آئین و حکومت آفرید ماند شب ہا چشم او محرومِ نوم تا بہ تخت خسرو ی خوابید قوم وقت ہیجا تیغ او آہن گداز دیدہٗ او اشکبار اندر نماز در دُعائے نصرت آمین تیغ او قاطع نسل سلاطین تیغ او در جہاں ائین نو آغاز کرد مسند اقوام پیشیں در نورد از کلید دین در دنیا کشاد ہمچو او بطن ام گیتی نزاد در نگاہ او یکے بالا و پست با غلام خویش بر یک خواں نشست(۲) چنانچہ علامہ کہتے ہیںکہ مسلمانوں کی مثال گل صد برگ جیسی ہے۔ کہ ہیں تو اس میں سو پنکھڑیاں، مگر سب ایک اصل سے وابستہ ہیں اسی طرح ہماری نظام حیات کی روح رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے اور ظاہر ہے کہ آپؐایک واحد ذات ہیں۔لہذا اس نظام کے تمام افرا د بھی فرد واحد کی طرح ہیں۔ آپؐ کی محبت کا بحر ذخار میرے اندر موجیں مارہا ہے اور سینکڑوں نغمے میری آغوش سے اُبلے پڑتے ہیں۔میں تمھیں کیا بتاؤں کہ آپؐ کی محبت کیا چیز ہے۔ یہ محبت وہ ہے جو بے جان چیزوں کو بھی آپؐ کے لیے بے قرار رکھتی ہے۔ چنانچہ منبر کی خشک لکڑی آپؐ کی جدائی میں ایسے زار و قطار اور بلند آواز سے روئی تھی کہ سننے والے ششدر رہ گئے تھے۔ مسلمانوں کا وجود آپؐ ہی کے جلوؤں سے روشن ہے آپؐ کے قدموں کی خاک ا یسی مقدس اور بلند رتبہ ہے کہ اس سے طور جنم لیتے ہیں۔میرا جسمانی وجود آپؐکے پر تو سے ظہور میںآیا۔ آپؐ کے نورانی اور مقدس سینے سے میری صبحیں روشن ودرخشاں رہتی ہیں۔ہر لمحہ آپؐ کے فراق میں تڑپنا میرے لیے باعث را حت ہے۔ میری شام فراق صبح محشر سے زیادہ گرم ہے۔ وہ بہار کا بادل ہیں تو میں اس بادل سے شاداب کیا ہوا باغ ہوں۔میں کہ میرا وجودانگور کی بیل کی مانندہے۔ انھی کے باران کرم سے سیراب ہوں۔میں نے ان کی محبت کی کھیتی بوئی اوراپنی آنکھوں کو ان نظاروں سے فیض یاب کیا جو بیان میں نہیں آسکتے۔سبحان اللہ خاک یثرب! یہاں کی خاک دونوں عالم سے بہتر اور بڑھ کر ہے۔کیا پیارا اور مبارک شہر ہے۔ وہ شہر جہاں ہمارے محبوب آسودہ خواب ہیں: چوں گل صد برگ ما را بو یکی است اوست جانِ ایں نظام و او یکی ست شور عشقش در نے خاموش من می تپد صد نغمہ در آ غوش من من چہ گویم از تو لا یش کہ چیست خشک چوبے در فراق او گریست ہستی مسلم تجلی گاہِ او طور ہا با لدزد گرد راہ او پیکرم را آفرید ہ آئینہ اش صبح من از آفتاب سینہ اش درتپید دمبدم آرام من گرم تر از صبح محشر شام من ابرآذار است و من بستان او تاکِ من نمناک از باران او چشم در کشت محبت کاشتم از تماشا حا صلے بر داشتم خاک یثرب از دو عالم خوش تر است اے خنک شہرے کہ آنجا دلبر است(۳) عشق اس وقت بے معنی ہے جب تک محبوب کا اتباع نہ کیاجائے۔محبوب کے عادات و شمائل، افعال، اقوال، رفتار و گفتار، عادات و اطوار، اخلاق و خصائل، پسند و نا پسند، کو اپنے لیے نمونہ بنانا اور تقلید واتباع کااہتمام کرنا از بس لازم ہے۔محبوب کی ہر ادا، ہر انداز، ہر شیوہ، ہر بات، ہر حرکت، ہر اقدا م کو اپنے لیے مشعل راہ بنا کرخود کو اسی طرز پر ڈ ھا لناعشق صادق کا تقا ضا ہے۔ اس لیے عاشق پر لازم ہے کہ ہر امر میں محبوب کے نقش قدم پر چلے اتباع کامل کے بغیرعشق پر دعویٰ بے معنی ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیںکہ شراب عشق پی کر کیف ہی کیف حاصل ہوتا ہے مگر خیال رہے کہ تقلید و اتباع عشق کے ناموں میں سے ہی ایک نام ہے۔حضرت با یزید بسطامیؒکی مثال یاد کرو آپؒ اتباع رسولؐ میں اس قدر سرگرم تھے اور تقلید نبویؐ پر ایسے کار بند تھے کہ آ پؒ نے ساری عمر خربوزہ اس لیے نہیں کھا یا کہ آپؒ کو یہ معلوم نہ ہو سکاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پھل کس طرح کھا یا تھا اسی کامل تقلید کا نام عشق ہے تو اگر تم عشق کے دعویدار ہو تو یار کی تقلید میں پختہ ہو جاؤ پھر تمھاری کمند میںوہ گرفت آجائے گی کہ وہ یزداں شکار بن جائے۔ ذرا تم اپنے دل کے غار میں خلوت نشینی اختیار کرو۔ اپنی ہوائے نفس کو ترک کرو اور حق کی جانب ہجرت کروپھرتم کو حق کی طرف سے مضبوطی اور استحکام حاصل ہو گا کہ تم معرفت نفس کے مدارج طے کر سکو، اس طرح تم ہوا و ہوس کے لات و غزیٰ (بت)توڑ ڈالو۔بار گاہ عشق سے تم کو وہ لشکر حاصل ہو گاکہ تم عشق کے فاران کی چوٹی پر جا بیٹھو گے۔ ایسا کرو گے تو تم پررب کعبہ کی نوازشیں نازل ہو نگی اور وہ تمھیں انی جاعل فی الارض خلیفۃ(میں دنیامیں اپنا نائب مقرر کر نے والا ہوں) کے منصب پر فائز فرمائے گا: کیفیت ہاخیزداز صہبائے عشق ہست ہم تقلید از اسمائے عشق کامل بسطامؒ در تقلید فرد اجتناب از خوردن خر بوزہ کرد عاشقی؟محکم شو از تقلید یار تا کمند تو شود یزداں شکار اند کے اندر حرائے دل نشیں ترک خود کن سوئے حق ہجرت گزیں محکم از حق شوسوئے خود گامزن لات و غزائے ہوس را سر شکن لشکرے پیدا کن ازسلطان عشق جلوہ گر شو بر سر فاران عشق تا خدائے کعبہ بنوازد ترا شرح انی جاعل سازد ترا(۴) حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ العزیزمکتوبات میں فرماتے ہیں۔کہ اتباع کے معنی یہ ہیں کہ ہر چیز جومحبوب کے اخلاق و عادات اطوار وگفتار سے علم میں آئے اسے تقلیدکی دھن میں محبوب سمجھا جائے۔یہی رمز اس آیت شریف کے مضمون میں ہے۔ کہ رب تعالیٰ فرماتا ہے۔ فاتبعونی یحببکم اللہ(اگر تم خدا سے محبت کے د عوے دار ہو توتم میرا اتباع کرو، ایسی صورت میں خود خدا تم کو اپنا محبوب بنا لے گا) اس سے معلوم ہوا کہ ر سولِ کریم علیہ ا لصلوۃ، و ا لتسلیم کی متابعت کا اجر عظیم یہ ہے کہ انسان خدا کی محبوبیت کے مقام پر فائز ہو جاتا ہے۔ حضرت مجدد صاحب ؒکے الفاظ یہ ہیں۔ تحریر فرماتے ہیں: در ہر چیز کہ از اخلاق و شمائل محبوب یافتہ می شود آ ں چیز نیز بہ تبعیت محبوب می گردد۔و بیان ایں رمز است، در آیہ ء کریمہ فا تبعونی یحببکم اللہ۔پس در متابعت اوعلیہ الصلواۃ والسلام کوشیدن منجر بمقام محبوبیت آمد۔(۵) نیز ارشاد فرماتے ہیںکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کر نے والے خیر الامم ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ کا ارشادہے۔ کنتم خیر اُمتہ، اخرجت للناس(تم تمام اُمتوں میں سب سے بہترہوجن کو عالم بشریت کے لیے بھیجاگیاہے۔)اور حضورؐ کی تکذیب کرنے والے بنی آدم میں سب سے بُری مخلوق ہیں ارشاد الٰہی ہے، الاعراب اشد کفرا ونفاقا(آپ کی تکذیب کر نے والے اہل عرب کفر اور نفاق میںسب سے زیادہ شدید ہیں۔)جو بھی خوش بختی ا ور اقبال مندی کی دولت سے مالا مال ہو، اسے حضور نبی کریمؐ کی در خشاں و روشن سنت کی پیروی کی تو فیق عطا ہوتی ہے اور اسے شریعت حقہ کی متابعت کی عزت ملتی ہے۔ آج وہ زمانہ آگیاہے کہ حضورعلیہ الصلواۃ والسلا م کے دین متین کی صداقت کی تصدیق سے متعلق تھوڑا سا عمل بھی عمل کثیر کے برابرثواب کا مستحق قرار دیاجاتا ہے۔ حضرت مجدد صاحبؒ کے الفاظ یہ ہیں، تحریر فرماتے ہیں: پس ناچار مصدقان ا یںچنیں پیغمبرعلیہ الصلوۃ والسلام، خیر الامم باشند۔کنتم خیراُمتہ اخرجت للناس، نقد وقت ایشاں است، و مکذبان او علیہ الصلوۃ والسلا م بد ترین بنی آدم، الاعراب اشد کفرا ونفاقا نشان حا صل ایشاں است، تا کدام صاحبِ دولت را بہ اتباع سنت سینہ او بنوازند، و بمتابعت شر یعت رضیہ او سر فراز سازند۔ امروز عمل قلیل را کہ مقرون بہ تصدیق حقیقت دین اوست علیہ الصلواۃ والسلام، بعمل کثیربر می دارند۔(۶) اسی مکتوب شریف میںچار سطر بعد تحریرفرماتے ہیں: چوں آں سرور محبوب رب العالمین ا ست، متابعان او بواسطہ ء متا بعت بہ مرتبہ ء محبوبیت برسند۔چہ محب در ہر کہ از شمائل و اخلاق محبو ب خود می بیندآں کس ر امحبوب خود می دارد۔و مخالفان را ازیں جا قیاس باید کرد: محمدؐ عربی کابروے ہر دوسرا ست۔ کسے کہ خاک دوش نیست خاک بر سر او (۷) حضرت مجدد صاحب ؒنے ا ن سطروں میںاسی آیہ کریمہ کی مختصر تفسیرفرمائی ہے، جو اوپر مکتوب۴۱ کے اقتباس میںنقل ہوئی۔ فرماتے ہیںکہ چونکہ سر و ر دو عالم صلی ا للہ علیہ و سلم، رب العالمین کے محبوب ہیں اس لیے آپؐ کی پیروی کر نے والے آپؐ کے اتباع کے صدقے میںمحبوبیت الٰہی کے بلند مقام تک پہنچ جاتے ہیں اس لیے کہ محب جن افراد میںاپنے محبوب کے اخلاق و عادات ملاحظہ فرماتا ہے ان کو بھی اپنا محبوب بنا لیتاہے اسی پر محبوب کے مخالفوں اور دشمنوں کی حالت کا قیاس کر لینا چاہیے۔ کہ اللہ تعالی محبوب(رسول کریمؐ)کے مخالفوں کو سخت نا پسندیدہ قرار دیتا ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے ایک اور مکتوب شریف میںامیر المومنین حضرت عمر فارو ق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کاایک واقع نقل کیا ہے۔کہ نماز فجر کے بعدحضرت عمرفاروق ؓنے صحابہ کرامؓ پر ایک نظر ڈالی تو ایک صاحب کو موجود نہ پایا، ان کے نہ ہونے کا سبب دریافت کیا، تو صحابہ نے عرض کیا کہ وہ شب زندہ دار شخص ہیں۔ساری رات کی عبادت کے بعد شاید ان کی آنکھ لگ گئی ہو۔ جو جماعت سے رہ گئے۔حضرت عمرؓ نے یہ سن کر افسوس فرمایااور کہا کہ اگر وہ تمام رات سوتے رہتے مگر فجر کی نماز جماعت سے ادا کرتے تو بہتر ہوتا۔ حضرت مجدد صاحب کے الفاظ یہ ہیں، فرماتے ہیں۔: امیر المومنین عمر رضی اللہ تعا لیٰ عنہ روزے نماز بامدادرا بجماعت ا دا کردہ۔در اصحاب نگاہ کرد۔یک کسے را حاضر نیافت۔پرسیّد اصحابؓعرض کر دند، کہ آن کس تمام شب را زندہ می دارد، و شاٰید دریں وقت خوابش بردہ امیر المومنین فرمودکہ اگر اوتمام شب خواب می کرد ے و نماز بامداد را بجماعت گزار دے، بہتربودے۔(۸) حضرت مجدد صاحب قدس سرہ ا لعزیزاس واقعہ کو نقل کر کے فرماتے ہیں۔ پس سرمایۂ جمیع سعادات متابعت سنت است۔و ہیولائے جمیع فسادات خلاف شریعت است۔(یعنی تمام نیک بختی اور اقبال مندی کا سر مایہ سنت رسولؐ کی پیروی میں مضمر ہے) اور جملہ خرابیوں کی جڑ شریعت حقہ کے خلاف اقدامات ہیں۔ صحابہ ؓ کرام کی محبت رسولؐ: صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو حضورا کا فیض صحبت حاصل تھا، وہ آپؐ کے ہر فعل اور ہر عمل کوغور سے دیکھتے اور اس کی تقلید کر تے تھے اسی طرح آپؐ کے اقوال مبارکہ پر عمل کرنا لازم جانتے تھے۔ ذر اسا تا مل کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو خوداللہ تعالیٰ کا فرمان واجب الاذعان ہے۔ صاف ارشاد ہوا ہے۔ وماینطق عن الھوی، ان ھو الاّوحی یو حی ط۔(وہ اپنے دل سے گھڑ کے بات نہیں کرتے ان کی تمام باتیں وحی الٰہی کے مطابق ہوا کرتی ہیں) اسی طرح ارشاد فرمایا۔قل ان اتبع الا ما یوحی الی(کہہ دیجیے کہ میں جو کچھ بھی کرتا ہوںوہ وحی الٰہی کے مطابق ہوتاہے)اس صورت میں صحابہ کرام ؓ جن کے سامنے یہ آیات کریمہ نازل ہوئیںاور جن کو رسول مقبول ا کے اُسوہ حسنہ کے مشاہدے کی خوش بختی حاصل ہوئی تھی۔کیونکرحضورؐ کی کامل تقلید اورمکمل پیروی کوحرز جان نہ بناتے۔: سیرت النبیؐاور اُسوہ صحابہؓ کے دفتروں کا مطالعہ کیجیے۔تو ہزاروں ایمان پروراور بصیرت افروز واقعات سامنے آتے ہیں۔چند ملاحظہ کیجیے: حضرت عبداللہ ابن عمر حج کو جاتے تو بلا کسی ظاہری سبب کے جا بجا رکتے یا اٹھتے بیٹھتے جاتے تھے۔کسی نے در یافت کیاتوآپؓ نے جواب دیا کہ میں نے حضورؐکو سفر حج میں راستے میں جس جگہ، جو کچھ، جس طرح ا ور جس طریقے سے کرتے ہوئے دیکھاتھا۔میں چاہتا ہو ںکہ اس سنت مبارک پر جوں کا توں عمل کروں۔ (۲)حضرت عمرو بن العا صؓ جلیل القدر صحابی ہیں۔فرماتے تھے کہ مجھے حضورؐ سے بڑھ کر کوئی عزیز نہ تھا۔ مگر میرے دل میں حضورؐ کا ایسارعب تھا کہ میں آپؐ کے چہرہ انور کو آنکھ بھرکر نہیں دیکھ سکتا تھا۔ (۳) حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ حضورؐ صحابہ کرامؓکے مجمع میںتشریف لاتے توکوئی بھی (رعب و جلال کی وجہ سے نگاہ بلند نہ کرتا) البتہ ابو بکر ؓ اور عمر ؓ نظر اُٹھا کے دیکھ لیتے تھے اور حضورؐ بھی ان کی جانب زیادہ دیکھاکرتے تھے۔حضورؐ انھیں دیکھ کرتبسم فرماتے اور وہ بھی متبسم ہوتے تھے۔ ۴۔حضرت زید ابن وثنہؓ کو کفار مکہ نے گرفتار کر لیا تھا۔جب پھانسی دینے لگے تو ابو سفیان نے (جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے)کہا زید تجھے قسم ہے۔بتا کیا تجھے یہ پسند نہیںکہ تیری جگہ محمدؐکو پھانسی دی جاتی اور تو آرام سے گھر میںسوتا۔حضرت زید نے فرمایا۔خدا کی قسم میں تو یہ بھی چاہتاکہ میری رہائی کے کے بدلے حضورؐکے پائے مبارک میںکانٹا بھی چبھ جائے۔ ۵۔ صلح حدیبیہ میںحضرت عثمان ؓ سفیر بن کر مکہ گئے تھے۔وہاں قریش نے آپؓ سے کہا کہ اب تم بیت الحرام میں آگئے ہو تو طواف بھی کر لو آپؓ نے پسند نہ کیا اور جواب دیا کہ نبی کریمؐ سے پہلے میںہر گز طواف نہیں کروں گا۔ (۶)حضرت ہند ؓ (زوجہ حضر ت عمرو ابن الجموح انصاری ؓ)کا بیٹا، بھائی، شوہر، سب غزوہ احد میں شہید ہو گئے تھے اس وقت دشمنوں نے حضورؐ کی ذات گرامی کی بابت بھی بات کا بتنگڑ بنا کرشہرت دے دی تھی۔ حضرت ہند ؓ مدینہ سے نکل کر میدان جنگ کی طرف روانہ ہوئیں۔تھوڑی تھوڑی دور پر کوئی ملتاجو انھیںبیٹے، یا بھائی، یا شوہر کی شہادت کی خبر سناتا۔وہ سب کے جواب میں صرف یہ پوچھتیںکہ بتاؤ رسول کریمؐ کیسے ہیں؟ آخر جب وہ حضورؐ کی زیارت سے مشرف ہو لیں اور اُنھوںنے دیکھ لیا کہ آپ بفضلہ تعالیٰ بخیریت ہیںتو کہا : کل مصیبۃ بعدک جلل(ہر مصیبت آپ کے ہوتے ہوئے ہیچ ہے)۔ (۷)حضرت علی ؓ سے کسی نے پو چھاکہ نبی کریمؐ کے ساتھ تمھاری محبت کیسی ہوتی تھی۔ آپ نے جواب دیا، بخدا! نبی کریمؐ ہم کو مال و اولاد، فرزند، مادر سے زیادہ محبوب تھے۔جیسے ٹھنڈا پانی پیاسے کو پیارا ہوتا ہے۔ (۸)حضرت علی ؓ فرماتے ہیں۔کہ جب حضورؐ پر کسی کی یکایک نظر پڑتی تو وہ(رعب و جلال)سے دہل جاتا۔مگر جو تھوڑی دیر پاس بیٹھ جاتا۔ و ہ آپؐ سے شدید محبت کرنے لگتا۔ (۹)عروہ بن مسعود ثقفی صلح حدیبیہ میں قر یش کی طرف سے سفیر بن کر آیا تھا۔ اس نے حضورؐکا کردار مبارک، اور صحابہ کرام کا رویہ دیکھا، تو بے حد مرعوب ہوا اور واپس جا کر بتایا کہ!لوگوں میں نے کسریٰ کا دربار بھی دیکھا ہے اور قیصر کا بھی، نجاشی کا دربار بھی۔مگر اصحاب محمدؐ جوتعظیم محمدؐ کی کرتے ہیںوہ تو کسی بادشاہ کو بھی اپنے دربار اور ملک میں حا صل نہیں۔ عروہؓ نے جو دیکھا تھا وہ تفصیل سے بتایا اور کہا کہ حضورؐوضو فرماتے ہیںتو صحابہ اس طرح وضو کے پانی پر گرتے ہیں۔ کہ ایک قطرہ بھی نہیں گرنے دیتے، وہ اس پانی کو ہاتھوں، ہاتھ لیتے اور اپنے منہ پر مل لیتے ہیں۔ حضورؐ کوئی حکم دیتے ہیں تو سب تعمیل کے لیے دوڑ پڑتے ہیں۔حضورؐ گفتگو فر مانے لگتے ہیں۔تو سب ایسے خاموش ہو جاتے ہیں، گویا بولنا ہی نہیں جانتے۔تعظیم ایسی کرتے ہیںکہ آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔ (۱۰)جب امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓنے اپنے دور خلافت میں سب کے روزینے مقرر کیے۔تو اپنے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن عمر کاوظیفہ تین ہزار سالانہ مقرر کیا۔حضرت عبداللہ معترض ہوئے اور کہا کہ غزوات میں شرکت کے لحاظ سے مجھے اسامہؓ پر برتری حاصل ہے۔جواب ملا کہ اس کا باپ تیرے باپ سے، اور خود وہ تجھ سے زیادہ حضورؐ کو پیارے تھے اس لیے میں نے اسے تجھ پر ترجیح دی ہے۔ (۱۱)حضرت عمر فاروق اعظم ؓ اپنے دور خلافت میں رات کو گشت کے لیے نکلے تو ایک عورت روئی دُھن رہی تھی اور خمسہ کا یہ بند گاتی جارہی تھی۔ علیٰ محمدؐ صلواۃ الابرار صلی علیہ الطیبون الاخیار قد کان قواماً بکیٰ بالا سحار یا لیت شعری و المنایا اطوار ھل تجمعنی و حبیبی الدار محمد اپر ابرار کے درود، طیبین اور اخیار کے درود۔وہ راتوں کو جاگنے والے اور صبح کو گریہ فر مانے والے تھے۔موت توبہت طرح آتی ہے مگر کاش مجھے یقین ہو جائے کہ مرنے کے بعد مجھے حضورؐ کی زیارت نصیب ہو گی۔ یہ اشعار سن کر حضرت عمر ؓایسے بے قابو اور بے تاب ہوئے کہ وہیںزمین پر بیٹھ گئے اور دیر تک سنتے اور روتے رہے اور عشق رسولؐ نے آپ ؓکو کئی دن تک صاحب فراش رکھا۔(۹) علامہ اقبال فرماتے ہیں۔ علم حق غیر از شریعت ہیچ نیست اصل سنت جز محبت ہیچ نیست(۱۰) اسی لیے کہتے ہیں۔ غنچہ از شاخسار مصطفیٰ گل شو از باد بہار مصطفی از بہارش رنگ و بو باید گرفت بہرہء از خلق او باید گرفت مر شد رومی چہ خوش فر مودہ است آنکہ یم در قطرہ اش آسودہ است مگسل از ختم الر سلؐ ایام خویش تکیہ کم کن بر فن و بر کام خویش (۱۱) شریعت کے علم کے علاوہ اللہ تک رسائی کسی اور طرح نہیں ہو سکتی اسی طرح سنت رسولؐ پر عمل کرنا ہے توپہلے محبت رسولؐ سے دل میں گرمی پیدا کرو اور تبیعت رسول سے اپنے دل کو اپنا شعار بناؤ۔پھر دنیا اور آخرت سب تمھارے ہیں تم ریاض مصطفویؐ کی ایک کلی ہو۔بہار مصطفوی کی ہواؤں سے بڑھ کر پھول بن جاؤ۔ یاد رکھو کہ یہی وہ بہار ہے۔ جس سے رنگ اور بو حاصل کر نا چاہیے اسی طرح حضورؐ کے اخلاق کریمانہ اور مناقب جلیلہ کا پر تو اپنے اندر پیدا کرو۔حضرت مولانا روم نے کیاخوب فرمایا ہے۔ حضرت خاتم المرسلین ا سے اپنا رابطہ مت توڑو۔ اپنے ہنر اور عمل پر بھروسہ مت کرو۔بلکہ اُسوہ حسنہ کی پیروی کرو۔کہ یہی راہ نجات ہے۔ حضرت انس ؓ بن مالک کہتے ہیں، کہ مجھ سے رسول اللہ ا نے فرمایا کہ اے فرزند ! اگر تم صبح شام اس حالت میں کر سکو کہ تمھارے دل میں کسی کی طرف سے میل نہ ہوتو ایسا کرو۔پھر فرمایا اے فرزند میری ایک سنت ہے۔ جس نے میری سنت کو زندہ کیا اس نے خود مجھے زندہ کیا اور جس نے مجھے زندہ کیاوہ میرے ساتھ جنت میں ہو گا۔ (۱۲) /…/…/ حواشی ۱-مسافر، ص، ۶۸۔۶۹۔ ۲ - اسرار و رموز، ص، ۱۹۔ ۳ - اسرار رموز، ص، ۲۱۔ ۴ - اسرارو رموز، ص، ۳۱۔ ۵-مکتو بات، دفتر اول، مکتوب۴۴، ص، ۱۵۔ ۶ - ایضاً، دفتر اول، مکتوب ۴۴، ص، ۱۵۔ ۷ - ایضاً ۸ - ایضاً، دفتر اول، مکتوب، ۱۱۴، ص، ۱۳۱، ۱۳۲۔ ۹-ماخوذ از، رحمۃللعالمین، جلد دوم، ص، ۳۴۵۔۳۶۷۔ ۱۰ - اسرار رموز، ص، ۱۲۶۔ ۱۱-کلیات اقبال فارسی۔ص، ۱۳۱۔۱۳۲ ۱۲-پرو فیسر سیّد عبدالرشید فاضل، علامہ اقبال ا ور تصوف، ص۱۰۔ /…/…/ اطاعتِ رسولؐ پرو فیسرسیّد عبد الرشید فاضل تحریر فرماتے ہیں: عشق کی آخری منزل، طلب خدا ہے۔ جو اطاعت اور بندگی سے شروع ہوتی ہے اورا تخلقو با خلاق اللہ(اللہ تعالیٰ کے اخلاق و صفا ت ا پنے اندر پیدا کرو)پر عمل پیرا ہو کرصفات الٰہیہ کو اپنے اندر جذ ب کر نے سے د رجہء کمال کو پہنچتی ہے۔ در دشت جنون من جبریل زبوں صیدے یزداں بہ کمند آور اے ہمت مردانہ۔ (پیام مشرق ۱۶۶) مگر ایسا عشق کسی کامل کے فیضان صحبت اور اتباع سنت کے ذریعے ارتقائی منزل طے کرتاہے۔ نفسی اعتبار سے جہاں تقلید سنت اپنے کمال کو پہنچتی ہے۔ عشق کا منتہائے کمال بھی وہی ہے اور آفاقی نقطہ نظر سے جو لاُمتناہی امکانات خودی میں پوشیدہ ہیں۔خودی کو استوار اور مسخر موجودات بنانے کے لیے، ان کو قوت سے فعل میں لانا ضروری ہے۔جو لوگ اپنے ممکنات فطرت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور ان کو محبوب رکھتے ہیں۔وہ ممکنات کو اپنی کوشش کے ذریعے بے نقاب کر کے ان کے حسن و جمال سے دنیا کو محو حیرت کر دیتے ہیں اور محبوبیت کا مقام حٓاصل کر کے دنیا کی تو جہات کا مر کز بن جاتے ہیں۔۱؎ فر مان خدا وندی کی رو سے اطاعت رسولؐ فرض ہے۔ بیشتر مقامات وہ ہیں۔جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کے ساتھ رسولؐ کی اطاعت کو بھی مساوی درجے کے طور پر بیان فرمایا ہے اور بشارت دی ہے کہ جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے گا۔ وہ عظیم فلاح اور بڑی کامرانی حاصل کرے گا۔ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا۱؎ پھر یہ بھی واضح حکم دیا گیاہے کہ اگر تم میں باہم اختلاف پیدا ہو جائے تو نبی کریم ا کو اپنا حکم بناؤ اور ان کے فیصلے کو بغیر چوں و چر اکے تسلیم کرو۔کیسی سخت وعید فرمائی ہے کہ جو لوگ آپؐ کے فیصلے کو صدق دل سے قبول نہ کریں، اور اس پر پوری طرح عمل پیرا نہ ہوں ان کا ایمان سا لم نہیں رہتا۔ فَلَاوَرَبِّکَ لَایُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۲) ایک دوسری آیت میںیہی فر مان کچھ اور وضاحت سے ارشاد فرمایاگیاہے اس آیت کا مطلب یوں ہے کہ کسی مومن یامومنہ کے لیے رو انھیں کہ جب اللہ اور اس کا رسولؐ کسی معاملے میںحکم صادر کر دیں تو وہ اس میں اپنی ر ائے کو دخل دیں۔(بے چوں و چرا اس فرمان کی تعمیل ان پر فرض ہے۔)اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافر مانی کرے گا۔ تو بے شک وہ شدید گمراہی میں مبتلا ہو گا آیت شریف یہ ہے۔ وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ۔ وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا(۳) غرض قرآن مجید میںاطاعت رسولؐ کی فر ضیت، اُسوہ حسنہ کے اتباع ا ور سنت رسولؐ کی پیروی کا حکم جا بجا طرح، طرح سے ذہن نشین کر دیا گیا ہے اور اس کی زور دار الفاظ میں تاکید فرمائی گئی ہے۔مثلاًسورہء نور میں حکم دیا گیا ہے کہ جب مسلمانوں کو یہ کہہ کر بلایا جائے کہ آؤ خدا کا رسولؐ تمھارے معاملات کا فیصلہ فرمائے گا تو ان پر لازم ہے کہ سمعنا، و اطعنا(ہم فرمان عالی سن کر اس پر پوری طرح عمل پیرا ہوںگے۔)کہہ کر حاضر ہوجائیں۔یہی لوگ فلاح پانے والے ہوںگے۔ آیت شر یف ہے۔سورہ نور آیت نمبر۵۱ اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۔ وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۴) اسی طرح یہ بھی واضح کر دیا گیا کہ قول رسولؐ فرمان الہٰی کے عین مطابق ہوا کرتا ہے۔ اس لیے اسی کو حرف آخر کا مرتبہ حاصل ہے۔صاف، صاف الفاظ میں ارشاد فرمایاکہ رسولؐ تم کوجو کچھ حکم دیتے ہیں اس پر عمل پیرا ہونا لازم جانو اور وہ جس چیز کو منع فرماتے ہیں اس سے کامل احترا زکرو۔خدا سے ڈرو۔(کہ اس کے ا س واضح حکم کی سر تابی تمھیں سر زنش اور مواخذے کامستحق بنا دے گی۔یاد رکھو کہ اللہ کا عذاب بہت سخت ہوتا ہے آیت شریف ہے۔ وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا وَاتَّقُوااللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ(۵) اللہ تعالیٰ کے فرما ن کی یہ قطعیت ا س لیے ہے کہ عام دستور یہ بتایا گیا ہے کہ ہم نے جس رسولؐ کو بھی بھیجا اس لیے بھیجا ہے کہ خدا کے حکم کے مطابق اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کی جائے۔ وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ (۶) اس قاعدہ کلیہ کے مطابق خاص طور پر نبی آخر الزمان ا کی اطاعت اور اتباع کی فرضیت اور اہمیت ذہن نشین کرنے کے لیے زیادہ تاکیدی انداز میں ارشاد کیا گیا ہے کہ جو کوئی رسولؐ مقبول کی اطاعت کرتاہے۔ وہ بے شک اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے۔ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اﷲ (۷) اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان، رحمۃ للعالمین ا کی بعثت کوعالم بشریت کے لیے احسان عظیم قرار دیا ہے۔ ارشاد ہے ’’اللہ نے مسلمانوںپر بڑا احسان کیاکہ ان کے پاس انھی میں سے ر سولؐبھیجاجو ان کو آیات الٰہی سناتا ہے ان کا تزکیہ فرماتا ہے اور ان کو کتاب (قرآن) اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ورنہ اس سے پہلے یہ سب لوگ صریح گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔‘‘ لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْامِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۸) اسی طرح فرمایا۔وہ ذات اقدس وہ ہے۔ جس نے ایک امی قوم میں انھی میں سے ا یک رسول مبعوث کیا۔جو انھیں آیات الٰہی پڑھ کر سناتاہے ان کا تز کیہ فر ماتا ہے اور ان کو کتاب (قرآن)اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ورنہ اس سے پہلے یہ لوگ صریح گمراہی میں پڑے ہوئے تھے اور یہ احسان انھی پر نہیں، بلکہ آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی ہے۔جو ابھی پیش نظر نہیں ہیں۔بے شک اللہ ہی بڑی قوت والا اور حکمت والا ہے۔‘‘ ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۰) وَّاٰخِرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ۔وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (۹) ڈاکٹرشیخ مصطفی ٰحسنی سباعی موجودہ دور کے عظیم عالم، مفکر اور محقق کے ہیں آپ لکھتے ہیں : ’’حکمت سے (جمہور علمائے محققین کے نزدیک)مراد قرآن کی منشا، اور دین کے نظام اور شریعت کے مقاصدکا وہ فہم ہے۔جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کو نوازا تھا۔یہی فہم جب آپؐکے قول و فعل میں ظاہر ہوا توسنت کہلایا۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ ا للہ نے جس کتاب کا ذکر کیا ہے وہ قرآن ہے اور جس حکمت کا ذکر کیا ہے، اس کے بارے میں میں نے اپنے دیار کے اہل علم سے یہی سنا ہے کہ وہ سنت ہے۔ حکمت کا ذکر جگہ، جگہ کتاب کے ذکر کے بعد آیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر اپنے اس احسان کو بیان فرمایا ہے کہ انھیںرسولؐ کے ذریعے کتاب و حکمت سکھائی جارہی ہے۔یہاں حکمت سے سنت رسولؐ کے علاوہ کچھ اور مراد لینا ممکن نہیںہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ نے منصب نبوی میںتعلیم کتاب کے ساتھ تعلیم حکمت کو بھی جمع کیا ہے اور دوسری طرف نبیؐ کی اطاعت اور اس کے اتباع امر کو فرض قرار دیا ہے اب کتاب اللہ کے علاوہ جو شے فرضیت کا مقام حا صل کر سکتی ہے۔وہ صرف سنت رسولؐ ہے اور یہی دوسرے لفظوں میں الحکمہ ہے۔‘‘(۱۰) اپنی اس کتاب میںاس مسلے کی اور زیادہ وضاحت کے لیے جناب مصنف آگے لکھتے ہیں: ’’پس یہ ثابت اور متعین ہو گیا کہ حکمت سے مرادوہ احکام اور اقوال ہیںجو نبی ا کی ذات سے بحیثیت شارع صدور میں آئے اور آپؐ کو قرآن کے علاوہ ایک شے مزید بھی ایسی دی گئی ہے۔جس کااتباع واجب ہے۔ چنانچہ االلہ تعالیٰ آپؐ کے منصب کی تشریح میں فرماتا ہے۔ یا مر ھم بالمعروف و ینھاھم عن المنکر و یحل لھم الطیبات و یحرم علیھم الخبائث و یضع عنھم اصر ھم والا غلال التی کانت علیھم (رسولؐ ان کو معروف پر عامل ہونے کا حکم دیتے ہیں اور منکر سے ان کونہی فرماتے ہیں اور اچھی چیزوں کو ان کے لیے حلال فرماتے ہیں اور بری چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور ان پر سے وہ بوجھ اور وہ زنجیریں دور کرتے ہیں، جن میں وہ پھنسے ہوئے تھے۔) اس آیت کے الفاظ بالکل عام ہیں اور ان سے مراد حلتّ اور حرمت کے وہ احکام بھی ہیں۔جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں اور وہ احکام بھی جو نبی ا نے دیے ہیں ابو داؤد ؒ نے مقدام ابن معدی کرب ؓ سے روایت کی ہے۔کہ رسول اللہ ا نے فرمایا کہ دیکھو۔ ’’مجھے کتاب اور اس کے ساتھ اس جیسی ایک اور شے دی گئی ہے ‘‘ اس کے علاوہ متعدد مقامات پر قرآن میں آنحضورؐ کو مصدر احکام قرار دیا گیا ہے اور آپؐ کے امر و نہی کی پابندی کا حکم دیا گیاہے۔ وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا سورہ حشر آیت۔۷ (رسولؐ جو کچھ تم کو دیں اس کو لے لو، اور وہ جس سے تم کو منع کریں، اس سے دور رہو اور احتراز کرو۔ وَ اَطِیْعَوا اللّہَ وَ الرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْ حَمُوْنَ (اور خدا اور رسولؐ کی اطاعت کرو۔ہو سکتا ہے کہ اس کے عوض تم پر رحمت الٰہی نازل ہو۔ سورہ انفعال آیت۔ ۲۴۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَادَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ (اے مسلمانوں! جب خدا اور رسولؐ تمھیں دعوت دیں کہ ان کی یہ دعوت تمھارے لیے پیغام حیات ہے۔تو تم اس پکار کو قبول کرو، اور انھی کی بتائی ہوئی راہ پر چلو۔ بلکہ اطاعت رسولؐ کو اطاعت اللہ کا ہم معنی و مترادف اور محبت الٰہی کا مدار قرار دیاہے۔ سورہ نسا آیت ۸۰۔ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہ (جو رسولؐ کی اطاعت کرتاہے وہ بلا شبہ ا للہ کی اطاعت کرتاہے)۔ سورہ آل عمران آیت۔ ۳۱ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ (ط (فر ما دیجیے کہ اے لوگوں اگر تم اللہ سے محبت ر کھتے ہو، تومیر ااتباع کرو۔(ایسی صورت میں) خدا تم سے محبت فرمانے لگے گا اور تمھارے سارے گناہ بخش دے گا۔ اسی طر ح رسولؐ کی عد م ا طاعت اور مخالفت امر پر عزاب الیم کی دھمکی دی گئی ہے اور اسے کفر سے تعبیر کیا گیاہے۔ (سورہ نور آیت، ۶۳) فَلْیَحْذَرِالَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِیْبَہُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیْبَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۶۳) جو لوگ آپ کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہیے۔ کہ اس حکم عدولی کی بدولت وہ کسی فتنے میں مبتلا ہو جائیں گے۔یا ان پر درد ناک عذاب نازل ہو جائے گا۔(سورہ آل عمران، آیت ۳۲) قُلْ اَطِیْعُوااللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ(۳۲) فرما دیجیے کہ اے لوگوں خدا کی اطاعت کرو، اور رسولؐ کی اطاعت کرو۔پھر اگر یہ لوگ پلٹ جائیں اور اطاعت نہ کریں۔تو سن لیں کہ اللہ تعالیٰ نا فر مانوں اور کافروں کو پسند نہیںفر ماتا۔ اس کے بعد سورہ احزاب اورسورہ نور کی وہ آیات تحریر کی ہیں۔جو پہلے بیان ہو چکی ہیں۔(۱۱) ڈاکٹر شیخ مصطفی حسنی سباعی آگے چل کر لکھتے ہیں: (صرف ا طاعت اور عدم اطاعت (رسولؐ)کو مدار ایمان نہیں ٹھہرایا گیا۔بلکہ اس امر کو بھی لوازم ایمان میں سے قرار دیا گیاہے۔کہ مومنین کسی اجتماعی کام میںرسولؐ کے ساتھ شریک ہو ں۔تو بلا اجازت وہاں سے رخصت نہ ہوں۔ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاِذَا کَانُوْا مَعَہٗ عَلٰٓی اَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ یَذْھَبُوْا حَتّٰی یَسْتَاْذِنُوْہُ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَاْذِنُوْنَکَ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ فَاِذَا اسْتَاْذَنُوْکَ لِبَعْضِ شَاْنِہِمْ فَاْذَنْ لِّمَنْ شِئْتَ مِنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْلَھُمُ اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۶۲) (سورہ نور آیت، ۶۲) (وہ مسلمان جو خدا اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے ہیں اور جب وہ کسی اجتماعی کام کے لیے جمع ہوتے ہیں۔تو اس اجتماع سے اس وقت تک نہیں جاتے۔جب تک رسولؐ سے اجازت نہ لے لیں۔جو لوگ آپؐ سے(اس طرح)اجازت طلب کرتے ہیں۔در اصل وہی اللہ اور اس کے رسولؐ پر سچا ایمان لائے ہیں تو اگر یہ لوگ ا پنی کسی ضرورت پر جانے کی اجازت طلب کریں۔تو آپؐ ان میں سے جسے چاہیں اجازت دیجیے اور ان کی بخشش کے لیے اللہ سے دُعا مانگیے۔بے شک اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ ابن قیم نے اعلام الموقعین جلد، ۱، ص، ۵۸ میں فرمایا ہے کہ جب رسولؐ کے پاس جانے کے لیے استیذان کو (از روئے حکم قرآنی)لازمہ ایمان قرار دیا گیاتو، پھر زندگی کے دوسرے اقوال و افعال میں تو بدرجہ اولیٰ استیذان ایک مومن کے لیے ضروری اورناگزیر ہو گیا۔ آج یہ استیذان اس سنت سے ہو گا۔ جو ہمارے پاس موجود ہے۔ انھی تعلیمات کا نتیجہ تھاکہ صحابہ ؓ کرام احکام قرآنیہ کی تفسیر، مشکلات کے حل اور متنازع فیہ مسائل کے فیصلے کے لیے رسول اللہ ا کی طرف رجوع کر تے تھے آپؐ کے اوامر و نواہی کی پابندی کا التزام کرتے تھے اور عبادات و معاملات میںآپؐ کی سنت کا اتباع کرتے تھے۔ (۱۲) صحابہ ؓ کرام ان فرامین ا لٰہی پر کس شد و مد سے عمل کر تے تھے اس کا کچھ مختصر حال اسی کتاب سے ڈاکٹر سباعی کے الفاظ میں سنیے، طبقات ابن سعد جلد، ۲، ص، ۷ میں مروی ہے کہ آپؐ نے نماز ظہر کی دو رکعتیںقبلہ اول بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھی تھیں۔کہ اسی اثنا میں تحویل قبلہ کا حکم نازل ہو گیا اور آپؐ نے مسجد حرام کی طرف منہ پھیر لیا۔ چنانچہ تمام صحابہ بھی جو نما زمیں شریک تھے۔ فوراً قبلہ رو ہو گئے اُمتثال امر کی یہ کیفیت اس درجہ صحابہ ؓ میں موجود تھی کہ بظاہر نہایت معمولی اورغیر اہم امور میں بھی صحابہ ؓ فوراً تعمیل کرتے تھے۔ ابو داؤد ؒ اور ابن عبدالبر ؒ نے روایت کی ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ ایک مرتبہ جمعہ کے لیے مسجد میں آئے توحضورؐ خطبہ دے رہے تھے۔ یکایک ان کے کان میں حضورؐ کی آواز آئی کہ بیٹھ جاؤ۔ حضرت ابن مسعود اس وقت مسجد کے دروازے میں تھے، سنتے ہی بیٹھ گئے۔ نبی کریم ا نے جب آپؓ کو بیٹھے دیکھا، تو فرمایا، اے ابن مسعودآگے آجاؤ ان چند مثالوں سے واضح ہو جا تا ہے۔کہ صحابہ ؓ نبی کریم اکے قول و فعل او ر تقریرکوحکم شرعی سمجھتے تھے اس امر پر اجماع تھا اور کسی ایک کواس بارے میں اختلاف نہ تھا، (۱۳) اس مختصر بیان سے سنت رسولؐ کے اتباع اور فرامین نبوی کی پیروی کی اہمیت واضح ہو گئی۔خود جناب رسول مقبول ا نے اپنی سنت پر عمل کرنے کی جیسی تا کید فرمائی ہے اس کا کچھ بیان ڈاکٹر مصطفیٰ سباعی کے الفاظ میں پڑھیے۔لکھتے ہیں: ’’آپؐ نے مسلمانوں کو حیات طیبہ کے بعدسنت پر عمل کرنے کے لیے ابھارا اور اس کی تاکید فرمائی ہے۔ اس ضمن میں بکثرت احا دیث مروی ہیںجو حد تواتر کو پہنچتی ہیںمثلاً حاکم اور ابن عبد البر نے جامع بیان العلم، جلد، ۲، ص، ۸۰ میں عبداللہ ابن عمر ؓ اور ابن عوف ؓسے روایت کی ہے کہ آنحضرت ا نے فرمایا کہ میںتمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑ چلا ہوں۔جب تک تم انھیں تھامے رہو گے، گمراہ نہ ہو گے۔کتاب اللہ اور میری سنت۔یہی حدیث بیہقی نے بھی حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت کی ہے۔ امام مسلم نے حضرت ابن عباس کے واسطے سے یہ فرمان نبوی نقل کیا ہے کہ جب تمھارے سامنے کتاب اللہ سے کچھ رکھا جائے تو وہ واجب التعمیل ہے۔ اس کے ترک میں کسی کے لیے کوئی عذر جائز نہیں۔ اگر کوئی چیز کتاب اللہ سے نہ ہو لیکن نبی ؑ کی سنت ماضیہ سے ہو تو وہ بھی ویسی ہی واجب ا لتعمیل ہے، اب ظاہر ہے کہ آپ کی سنت، سنت ماضیہ کا درجہ انھی لوگوں کے لیے اختیار کرتی ہے جو آپؐ کی حیات کے بعد اسلام کے رستے پر چلنے والے ہوں۔ کچھ آگے چل کر تحریر فرماتے ہیں۔ ابو داؤد، احمد، ابو نعیم اور ابن ماجہ نے عرباض ابن ساریہ ؓ سے آ نحضور ؑ کی ایک تقریر نقل کی ہے جو آپؐ نے ایک روز نماز صبح کے بعد فرمائی تھی اس میں آپؐ نے فرمایا، جو میرے بعد زندہ رہے گا، وہ بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا۔پس تم میری سنت اور میرے راست رو ہدایت یافتہ خلفا کی سنت پر جمے رہنا۔ اسے دانتوں سے پکڑے رہنااور خبر دار محدثات ا ور بد عات سے بچناکیونکہ ہربدعت گمراہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ ؓ نے نہ صرف خودسنت سے غایت درجہ اعتنا کیا۔بلکہ اسے امانت رسول ؑ کے طور پراپنے بعد کی نسلوں کی طرف بھی منتقل کیا۔ اس تبلیغ علم کی رغبت رسول اللہ ا نے خود اپنے اس ارشاد کے ذریعے سے دلائی تھی۔کہ اللہ اس آدمی کو آسودہ رکھے۔جس نے میری بات کو سنا اور پھر اسے جیسا سنا تھا، آگے پہنچا دیا۔ بسااوقات سننے والے سے بڑھ کر محافظ اور خدا شناس، وہ شخص ہوتا ہے۔جس تک سننے والا پہنچاتا ہے۔جامع بیان العلم، جلد، ۱، صفحہ ۳۹، ابن جبان، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، بہیقی۔(۱۴) یہی سب مطالب اپنی تمام گہرائیوں کے ساتھ علامہ ا قبالؒ کے پیش نظر ہیں اس لیے وہ نصیحت فرماتے ہیں کہ فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی مت کرو تاکہ تمھیں بہترین صلہ ملے اے غافل، اطاعت میں سر گرم رہ اس جبر ہی سے تو اختیار کارتبہ حاصل ہوتا ہے۔ اتباع اور فرما ن بردای کی برکت سے نا اہل بھی اہل بن جاتا ہے۔ آگ بھی ہوتو اس کے شعلے بجھ جاتے ہیں۔جو کوئی ماہ و پرویں کی تسخیر کا ارادہ کرتاہے اس کے لیے لازم ہے کہ خود کو آئین، ایک ضابطے کاپابند بنائے۔تبھی اسے ایسی طاقت حاصل ہو سکے گی! دیکھو ہوا کلی میں بند رہتی ہے۔تو اس کی خوشبو ہر طرف پھیل جاتی ہے۔ اسی طرح مشک نافہ میںپابند ہو جاتی ہے تو کیسی خوشبودار بن جاتی ہے، ستارے منزل کی طرف قدم بڑھائے چلے جا رہے ہیں۔مگر ایک آئین کے سامنے وہ بھی سر تسلیم خم کیے ہوئے ہیں۔سبزہ نشو و نما کے قانون کاپابند ہو تو اسے روئیدگی حاصل ہوئی اور اس نے یہ آئین چھوڑ دیا تو پامال ہو گیا۔ہمیشہ آگ میں دہکنا لالہ کا قانون ہے اسی لیے اس کی رگوں میں سے خون جوش مارتا رہتا ہے۔وصل کا آئین قطروں نے سیکھا تو سمندر بن گئے۔یہی قانون ذروں نے اپنایا تو صحرا بن گئے۔ہر چیز کو ایک قانون، ایک آئین قوت بخشتا ہے۔تو کیوں اس متاع سے غفلت برتتا ہے۔تو جو اس قدیم دستور سے آج آزاد ہو گیا ہے اپنے پاؤں میں وہی روپہلی زنجیر پھر پہن لے۔ (اس لیے کہ اطاعت اور اتباع کے بغیر تجھے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔)اس آئین(دین اسلام)کی پابندیوں کی سختی کی شکایت مت کر۔(اگر تجھے دین و دنیا کی فلاح مطلوب ہے اور تومادی و روحانی ترقی چاہتا ہے تو)حضرت محمد ا کے معین کیے ہوئے راستوں سے ذ را سا بھی تجاوز مت کر۔ حضرت علامہ فرماتے ہیں: تو ہم از بار فرا ئض سر متاب بر خودی از عندہ، حسن الماب در اطاعت کوش اے غفلت شعار می شود از جبر پیدا اختیار ناکس ازفرماں پذیری کس شود آتش ار باشد ز طغیاں خس شود ہر کہ تسخیر مہ و پرویں کند خویش را زنجیری، آئین کند باد را زندان گل خوشبو کند قید بو را، نافہ آہو کند می زند اختر سوئے منزل قدم پیش آئینے سر تسلیم خم سبزہ بر دین نمو روئیدہ است پایمال از ترک آں گر دیدہ است لالہ پیہم سوختن قانون او بر جہد اندر رگ او خون او قطرہا دریاست از آئین وصل ذرہا صحرا ست از آئین وصل باطنِ ہر شے ز آئینے قوی تو چرا غافل ز، ایںساماں روی باز اے، آزاد دستور قدیم زینت پا کن ھماں زنجیرسیم شکوہ سنجِ سختی آئین مشو از حدود مصطفیٰ ؑ بیروں مرو(۱۵) ترقی و ارتقاکے لیے حضرت علامہ ایک آئین کی پیروی لازم گردانتے ہیں اور یہاں وہ آئین ہے، اسلام اور دین اسلام:اسی طرح اطاعت اور فرما برداری پر زور دیتے اور تاکید کرتے ہیں اور جیسا کہ گذشتہ صفحات میںآپ نے مطالعہ کیا ہے۔ اقبال کے نزدیک اطاعت رسولؐ ہی واحد ذریعہ فلاح و نجات ہے۔صاف الفاظ میں فرماتے ہیں۔ بمصطفیٰؐ بر ساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر بہ او نرسیّدی تمام بو لہبی ست(۱۶) علامہ اقبال کا سارا پیغام ان کی اصطلاح خودی میں پوشیدہ ہے۔یہاں خودی کے تصور کی تفصیلات کا بیان مقصود نہیں۔مگر اتناکہنا پھر بھی ضروری ہے۔کہ حضرت علامہ اقبال خودی کی اصطلاح سے خود شناسی، عرفان نفس، خود آگہی، معرفت ذات مراد لیتے ہیں اور تکمیل خودی کوانسان کے روحانی ارتقا کے لیے لازمی قرار دیتے ہیں۔ خودی کی قوت ایسی ہمہ گیراور بے پناہ ہے۔ کہ بقول اقبال : ؎خودی ہے زندہ توسلطان جملہِ موجودات خودی شیر مولا جہاں اس کا صید زمین ا س کی صید آسماں ا س کا صید انسان کے روحانی ارتقا اوربلند سے بلند ترین منصب پر پہنچ کر درجہِ کمال حاصل کرنے کے لیے اقبال نے اسرار خودی میں تربیت خودی کے تین مر حلے قرار دیے ہیں۔:(۱) اطاعت (۲)ضبط نفس (۳)نیابت الہٰی۔ مر حلہِ اوّل(اطاعت)کی بابت ا قبال کے اشعار کا انتخاب ایک صفحہ قبل آپ کی نظر سے گزر چکاہے۔مر حلہِ دوم (ضبط نفس) میںآپ اسلام کے ارکانِ خمسہ(کلمہ ء توحید، نماز، روزہ، زکواۃ، حج) کی پابندی لازمی قرار دیتے ہیں۔ ا س مرحلے سے بھی کامیاب گزرے توانسان تیسرے مر حلے میں داخل ہوتا ہے۔ یعنی خلافت خدا وندی، اور نیابت الٰہی کے عظیم منصب کا استحقاق حاصل کر لیتا ہے۔ حضرت علامہ دوسرے مر حلے (ضبط نفس) کی بابت لکھتے ہیں کہ جب تک تمھارے ہاتھ میں لا الہ کا عصا ہے۔ تم ہر طرح کے خوف کے طلسم کو توڑ سکتے ہو۔جس کے جسم میں حق روح کی طرح سما جائے اس کی گردن کبھی بھی باطل کے سامنے نہیں جھک سکتی اس کے سینے میں کوئی خوف جگہ نہیں پا سکتا۔کسی بھی غیر اللہ سے اس کا دل مرغوب نہیں ہو سکتا۔جو کوئی لا کے ملک میں آباد ہوا ہو۔وہ بیوی بچوں تک کے خیال سے آزاد ہو گیا۔وہ ماسوا سے کامل طور پرقطع نظر کر لیتاہے۔یہان تک کہ حضرت ابراہیم علیہ صلواۃ والسلام کی طرح، فر مان الہی کی تکمیل میں، وہ اپنے بے حد چہیتے بیٹے کی گردن پر چھری پھیرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔لا الہ ایک سیپی ہے اور اس سیپی میں پیدا ہونے والا موتی نماز ہے۔ مسلمان کے دل کے تزکیہ وتصفیہ کے لیے اور قوت و استحکام کے لیے نمازحج اصغر کا درجہ رکھتی ہے۔مسلمان کے ہاتھ میں نماز ایک خنجر کی طرح ہے۔ کہ اس خنجر کے ذریعے وہ فحشا، منکر اور بغی (العنکبوت: ۴۵)تمام برائیوں، بے اعتدالیوںاور نافرمانیوں کا قلع قمع کرتا ہے۔ قرآن مجید کی آیت ہے: ان الصلواۃ تنھی عن الفحشاوالمنکروالبغی(بے شک نماز، تمام برائیوں، بے اعتدالیوں، اور نافر مانیوں سے روکتی ہے) روزہ بھوک اور پیاس پر شب خون مارتا ہے اور جسمانی خواہشات کے قلعے کو مسمار کر دیتاہے۔حج کا فریضہ مسلمانوں کی فطرت کو روشن و درخشاں کرتا ہے اور ان کو یہ سبق سکھاتا ہے۔ کہ زمین کے کسی خطے (وطن کی محبت کوئی معنی نہیں رکھتی)بلکہ وطن سے ہجرت کر کے فقط ایک خدا کا ہو جانامسلمان کے لیے لازم ہے۔ فریضہ حج کی ادئیگی مسلمانوں کو اجتماعیت کا سبق دیتی ہے اور ملت اسلامیہ کی کتاب کے منتشر اوراق کی شیرازہ بندی کرتی ہے۔زکواۃ کے فرض کی ادائیگی مال ودولت کی محبت دل سے نکال دیتی ہے۔ نیز زکواۃ مساوات کا سبق دیتی ہے۔حتیٰ تنفقوا کی کے حکم کی پیروی دل کو قوت اور استحکام بخشتی ہے۔ زکواۃ مال کی محبت توکم کرتی ہے۔ لیکن انسان کی دولت میں اضافہ کرتی ہے۔(قرآن حکیم میں ارشاد ہے کہ تم اس وقت تک ہر گز نیکی حاصل نہیں کر سکتے۔جب تک کہ تم اپنا وہ مال جو تمھیں بہت زیادہ عزیز ہے۔ خدا کی راہ میں خرچ نہ کرو۔چوتھے سیپارے کا آغاز اسی آیت سے ہوا ہے۔ لن تنالو ا لبرّحتی تنفقو مما تحبون ہ۔، یاد رکھو ان فرائض کی ا د ا ئیگی ہی تمھاری قوت و استحکام کا سبب ہے اگر تمھارا اسلام مضبوط ہے اور تم ارکان اسلام کی ادائیگی میں سر گرم ہو تو تمھیں پختگی اور قوت حاصل ہو گی۔ حضرت علامہ کے اشعار کا مطالعہ کیجیے۔فرماتے ہیں: تا عصائے لا الہ داری بدست ہر طلسم خوف ر اخواہی شکست ہر کہ حق باشد چوں جاں اندر تنش خم نگردد پیش باطل گردنش خوف را در سینہ او راہ نیست خاطرش مر غوب غیر اللہ نیست ہر کہ در اقلیم لا آباد شد فارغ از بند زن و اولاد شد می کند از ما سویٰ قطع نظر می نہد ساطور بر حلق پسر لا الہ باشد صدف گوہر نماز قلب مسلم را حج اصغر نماز در کف مسلم مثال خنجر است قاتلِ فحشا، بغی و منکر است روزہ بر جوع و عطش شبخون زند خبیر تن پروری را بشکند مومناں را فطرت افروز است حج ہجرت آموز و وطن سوز است حج طاعتے سرمایہ ء جمعیتے ربط اوراق کتاب ملتے حب دولت را فناہ سازد زکواۃ ہم مساوات آشنا سازد زکواۃ دل ز حتیٰ تنفقو محکم کند زر فزاید اُلفت زر کم کند ایں ہمہ اسباب استحکام تست پختہ ٗ محکم اگر اسلام تست (۱۷) /…/…/ حواشی ۱-پرو فیسر عبد الرشید فاضل، علامہ ا قبال اور تصوف، ص۶۵۔ ۲-سورہ نسا ئ، آیت ۶۵۔سورہ احزاب، آیت، ۳۶۔ ۴-سورہ نور آیت، ۵۱۔ ۵-سورہ حشر آیت، ۷۔ ۶-سورہ نسا، آیت ۶۴۔ ۷- ایضاً، آیت، ۸۰۔ ۸-سورہ آل عمران، آیت، ۱۶۴۔ ۹-سورہ جمعہ، آیات ۲، ۳۔ ۱۰-ڈاکٹر شیخ مصطفی حسنی سباعی، سنت رسول، مترجم ملک غلام علی۔ص، ۲۴، ۲۵۔ ۱۱- ایضاً، ص، ۲۹، ۳۰۔ ۱۲- ایضاً، ص، ۰ ۳۔ ۱۳- ایضاً، ص، ۳۲۔ ۱۴۔ ایضاً، ص، ۳۵، ۳۶۔ ۱۵- اسرار رموز، ص، ۴۱۔ ۱۶- ارمغان حجاز اُردو، ص، ۶۲۔ آل عمران، ۹۲ آیت العنکبوت:آیت۴۵۔ ۱۷ اسرار و رموز، ص، ۴۲، ۴۳۔ /…/…/ سیرتِ رسولؐ مطالعہ کی آسانی کے لیے اس باب کو تین حصوں میں تقسیم کر تا ہوں۔ (سیرت طیبہ) (۲)اُسوہ حسنہ(۳)مکارم اخلاق /…/…/ سیرت طیبہ چونکہ فرمان الٰہی کی روسے اطاعت رسولؐ لازم و واجب قرار دی گئی ہے اس لیے اس اُمت پر خدا کا یہ بڑا فضل ہے کہ رسول کریم ا کی سیرت پاک پوری تفصیل کے ساتھ آج تک محفوظ ہے اور ابد تک محفوظ رہے گی۔یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ کوئی فلسفہ، کوئی اُصول، کوئی قانون اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتاجب تک اس کے پس پشت ایک مثالی شخصیت اور عملی سیرت موجود نہ ہو۔ ایسی شخصیت اور سیرت ہی ہوتی ہے جودوسروں کی توجہ اپنی جانب کھینچتی ہے اور اس شخص کے حسن اخلاق اور خوش کرداری کا نمونہ دکھا کر اس راہ پر چلنے کی ترغیب دیتی ہے۔یہ بات ثابت کر تی ہے کہ پیغمبر کی سیرت اور عملی زندگی کے بغیر اس کا پیش کردہ مذہب و مسلک مفید نہیں ہوتا اور دنیا راہ ہدایت سے بے بہرہ رہ جاتی ہے۔ یوں تو سب پیغمبر اوصاف ستودہ سے آراستہ کر کے بھیجے گئے تھے۔مگر ان کی خصوصیات ا پنے ملک، قوم، اور زمانے کے لحاظ سے صرف ایک یاچند ہوتی تھیں۔ کسی میں ایک وصف نمایاں تھا تو کسی میں چند اوصاف۔مگر وہ انسان کامل جو افضل البشر اور خا تم المرسلین تھے۔تما م خصوصیات، نبوت و رسالت، اور او صاف بشریت و ولایت سے بیک وقت پوری طرح موصوف و متصف تھے۔سچ کہا گیاہے۔ حسن یوسفؐ، دم عیسیٰ، یدِ بیضا داری آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری کسی انسان کامل کے جو سوانح حیات بیان کیے جائیں ان کا تاریخ و روایت کی رو سے مستند ہو نا لازم ہے۔محض قصے، کہانیاں، صداقت کے لیے کفایت نہیںکرتیں۔ اس معیار پر پرکھئے تو مصلحین اور اکابر تو کیا، پیغمبروں کے سوانح حیات بھی تفصیل سے تودر کنار، اجمال کے ساتھ بھی معلوم نہیں ہیں۔پھر دائمی نمونہ عمل بننے کے لیے بھی ضروری ہے کہ اس فرد کی سیرت کے تمام پہلو، اور زندگی کے تمام گوشے ہمارے سامنے بے نقاب ہو کر آجائیں۔ تا کہ صاف، صاف نظر آجائے کہ ا س کی سیرت تمام عالم کے لیے کیونکر ایک مثالی نمونہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسی طرح سیرت کے عملی نمونہ بننے کے لیے لازم ہے کہ اس سیرت میں جامعیت پائی جائے۔تا کہ انسانی معاشرے کے تمام طبقات کے لیے اس کی زندگی میں صحیح نمونہ موجود ہو۔یا یوں کہیے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی جتنی شقیں اور جتنے پہلو ہیں ان سب میں اس کی زندگی رہنمائی کے لیے کافی ہو اسی طور پر یہ بھی واجب ہے کہ جو شخص ایک دین اور ایک مذہب کو پیش کر رہا ہے اس کی تعلیمات پر وہ خود پوری طرح عامل اور کار بند ہو۔تاکہ اس کا عمل اور اس کی عملی زندگی سارے عالم کے لیے مثالی نمونہ پیش کرے۔جس پر چل کر وہ کامیابی اور کامرانی سے ہمکنار ہوں ان تمام اُصولوں کی روشنی میں دیکھا جائے توپیغمبر اسلام ا کے علاوہ کوئی دوسری شخصیت نہیں جس کی سیرت طیبہ اور جس کا اُسوہ حسنہ ان معیارات پر پورا اتر سکے۔ علامہ سیّد سلیمان ندوی ؒ اپنے ایک خطبے میں ارشاد فرماتے ہیں۔: ہمارے محدثین کرام نے اپنے پیغمبر کے متعلق صحیح و غلط سارا مواد سب کے سامنے لا کر رکھ دیا ہے اور ان دونوں کے درمیان تفرقے بتا دیے ہیں اور اُصول مقرر کردیے ہیں۔تاکہ صحیح کو غلط سے ا ور سچ کو جھوٹ سے صاف کر کے کھوٹا اور کھرا پہچانا جاسکے۔یہ فن اسما ء الرجال ا ور نقد حد یث ایسا مکمل فن ہے کہ مغربی محققین بھی اس کی تکمیل کے معترف ہیں اور علمائے سلف کی تحقیق وتد قیق اور جرح وتعدیل کے مداح اور اس پر حیران ہیں)۔ اٹھنا، بیٹھنا، سونا، جاگنا، شادی بیاہ، بال بچے، دوست، احباب، نماز، روزہ، دن رات کی عبادت، صلح، جنگ، آمد ورفت، سفر و حضر، نہانا دھونا، کھانا پینا، ہنسنا، رونا، پہننا اوڑھنا، چلنا پھرنا، ہنسی مذاق، بولنا چالنا، خلوت جلوت، ملنا جلنا، طور طریق، رنگ و بو، خط و خال، قد و قاُمت، یہاں تک کہ میاں بیوی کے خانگی تعلقات ا ور ہم خوابی و طہارت کے واقعات۔ہر چیز پوری روشنی میںمذکور معلوم اور محفوظ ہے۔ میں آپ کو یہا ں پر شمائل نبوی کی صرف ایک قدیم ترین کتاب شمائل ترمذی کے ابواب پڑھ کر سناتا ہوں۔جس سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ ہمارے پیغمبر علیہ الصلواۃ والسلام کے جزئی سے جزئی واقعات بھی کس طرح قلم بند کیے گئے ہیں۔(یہاں ۵۲ مختلف بڑے عنوانا ت کے تحت سوانح پاک بیان کیے گئے ہیں ان کو مولانا نے تفصیل سے نقل کیاہے)۔ یہ آپ کے تمام ذاتی حالات ہیںان میں سے ہر عنوان کے متعلق کہیں چند، کہیں بکثرت واقعات ہیں اور ان میں سے ہر پہلو صاف اور روشن ہے آنحضرت کی زندگی کا کوئی لمحہ پردے میں نہ تھا۔ اندر آپ بیویوں اور بال بچوں کے مجمع میںہوتے تھے۔باہر معتقدوں اور دوستوں کی محفل میں۔ باسو ر تھ ا سمتھ ایک مستشرق ہے۔وہ کہتا ہے کہ یہ قول کہ کوئی شخص اپنے گھر کا ہیرو نہیں ہوسکتا۔ کم از کم یہ اُصول پیغمبر اسلام کے متعلق صحیح نہیں۔ گبن مشہور مورخ ہے لکھتا ہے کہ تمام پیغمبروں میں سے کسی نے اپنے پیروں کا اس قدر سخت اُمتحان نہیں لیا۔ جس قدر محمد (ا)اُنھوں نے دفعتاً اپنے آپ کو سب سے پہلے ان لوگوں کے سامنے بحیثیت پیغمبر کے پیش کیا۔جو ان کو بحیثیت انسان کے بہت اچھی طرح جانتے تھے اپنی بیوی، اپنے غلام، اپنے بھائی اپنے سب سے واقف کار دوست کے سامنے، اور سب نے بلا پس و پیش آپ کے دعوے کی صداقت کوتسلیم کر لیا۔ علامہ سیّد سلیمان ندوی اپنے ایک خطبے میں فرماتے ہیں۔ آنحضرت ا خواہ جلوت میں ہوں یا خلوت میں، مسجد میں ہوں یا میدان جہاد میں، نماز شبانہ میں مصروف ہوں، یا فوجوں کی درستی میں، منبر پر ہوں یا گوشہ تنہائی میں ہر وقت اور ہر شخص کو حکم تھا کہ جو کچھ میری حالت اور کیفیت ہو وہ سب منظر عام پر لائی جائے ازواج مطہرات ؓ آپؐ کے خلوت خانوں کے حالات سنانے اور بتانے میں مصروف رہیں۔مسجد نبوی میں ایک چبوترہ ان عقیدت مندوں کے لیے تھا۔جن کے رہنے کو گھر نہ تھے۔وہ باری باری سے دن کو جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتے اور اس سے روزی حاصل کرتے اور سارا وقت آپ کے ملفوظات سنتے۔ آپ کے حالات دیکھنے اور آپ کی معیت میں گزانے کے لیے صرف کرتے تھے۔ ان کی تعداد ستر کے قریب تھی انھی میں حضرت ابو ہر یرہ ؓ ہیں۔جن سے زیادہ کسی صحابی کی روایات نہیں۔یہ ستر ہستیاں معتقد جاسوسوں کی طرح شب و روز، ذوق وشوق کے ساتھ آپؐ کے حالات دیکھنے، اور دوسروں سے ان کوبیان کر نے میں مصروف رہتیں تھیں۔دن میں پانچ وقت مدینہ میں رہنے والی تمام آبادی، دس برس تک مستقل، آپ کی ایک، ایک حرکت و سکون، ایک، ایک جنبش کو دیکھتی رہیں، غزوات اور لڑائیوں کے موقع پر ہزار ہا صحابہ ؓ کو شب وروز آپ کو دیکھنے اور آپ کے حالات مبارکہ سے واقف ہونے کا موقع ملتا تھا۔غزوہ فتح مکہ میں دس ہزار، غزوہ تبوک میں تیس ہزار اور حجۃ الوداع میں تقریباً ایک لاکھ صحابہ کو آپ کی زیارت کے موقعے ملتے رہے اور خلوت و جلوت، گھر، بار، صفٖہ اور مسجد، حلقہ تعلیم اور میدان جنگ تک میں، جس نے جس حال میں آپ کو دیکھا، اس کی عام اشاعت کی۔ نہ صرف اس کی اجازت بلکہ حکم اور تاکید تھی اب آپ سمجھ سکتے ہیں۔ کہ آپ کی زندگی کا کون سا پہلو ہوگا۔ جو زیر پردہ رہا ہوگا اور اس پر بھی ایک شخص آج تک آپ پر خردہ گیری نہ کر سکا، تو اب ایسی زندگی کو معصوم اور بے گناہ کہنا زیبا ہے۔ یا ان زندگیوں کو جن کا بڑا حصہ ہماری نگاہوں سے اوجھل اور پوشیدہ ہے۔ غرض سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیہ ایک کامل و مکمل نمونہ ہے اور اسی لیے اس ’’ نمونہ کامل‘‘ کے تمام پہلو رہتی دنیا تک سب کے لیے سامان ہدایت فراہم کرتے رہیں گے۔۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ جو شخص خصور کے عشق میں ڈوب جائے اور حضورؐ کی اطاعت کو اپنا شعار بنالے اسے وہ بے پناہ قوتیں حاصل ہو جائیں گی۔ کہ وہ بحرو بر پر اپنا تسلط جمالے گا۔ بلکہ اس کو اس سے بھی بڑھ چڑھ کر طاقت حاصل ہوجائے گی۔ فرماتے ہیں:۔ ہر کہ عشق مصطفیؐ سامان اوست بحر و بر در گوشتہ دامان اوست پہلے میں نے اسرار خودی کے کچھ اشعار نقل کیے ہیں ان کو دہرایے ان کے آخر اقبال حضرت مولانا جامی ؒ کا شعر تضمین کرتے ہیں۔ کہ ’’ حضور کی ذات گرامی ہی سے دونوں عالم کو حسن وآراستگی حاصل ہے۔ مختصر تو یہ ہے کہ آپؐ ہی آقا ہیں اور سارا عالم آپ کا غلام۔ ‘‘ اشعار دیکھے:۔ خاک یثرب از دو عالم خوش تر است اے خنک شہرے کہ آنجادلبر است مولانا جامی ؒ کا شعر نقل کرتے ہیں کہ:۔ ’’نسخہ کونین را دبیاچہ اوست جملہ عالم بندگان و خواجہ اوست‘‘ جاوید نامہ میں حضرت رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دنیا میں تشریف آوری کس بلیغ اور پرمعنی انداز میں بیان کی ہے۔ خلق و تقدیر و ہدا یت ابتداست رحمۃ للعالمینی انتہا ست مشیت ایزدی نے جب چاہا جس کو چاہا اپنی تخلیق سے نوازا۔ موالید اسی طرح تدریحی طور پر ظہور پاتے رہے۔ تخلیق کے بعد دوسرا مرتبہ ان قوتوں کا ہے جو مخلوقات کوعطا کی گئیں۔ جمادات کے دور سے انسان کے دور تک اور خود انسان کے دور میں اس منصب تک جب کہ انسان کے تمام قوائے ظاہری و باطنی کو ان کا کمالی درجہ دیا گیا ارتقا کے ساتھ یہ قدرتیں انسان میں ودیعت رکھنے کے ساتھ ہی اللہ تعالٰی نے اس کو خیر و شر دونوں راستے بتا دیے۔ و ھَدَیْنَاہ‘ النجدین (البلد:۱۰) اور سمجھا دیا کہ کس راستے کو اختیار کرنے میں کیا خوبی اور کیا برائی ہے۔ جب عقل انسانی، ذہن بشری اور قوائے انسانی اپنے پورے کمال پر آگئے (جیسا کہ موجودہ سائنس بھی تسلیم کرتی ہے۔ تو رب العزت نے اپنے فضل وکرم سے اس برگزیدہ شخصیت کو معبوث فرمایا جو ابدالا باد تک سب کے لیے ہادی و رہنما ہے، اور جس کا وجود اپنے پرائے، دوست، دشمن، حال و مستقبل، اس عالم اور دوسرے تمام عوالم کے لیے رحمت ہی رحمت ہے۔ مولانا محمد علی جوہر مرحوم نے کیا خوب کہا ہے :۔ جب اپنی پوری جوانی پہ آ گئی دنیا تو زندگی کے لیے آخری نظام آیا چنانچہ جہاں بھی مخلوق پائی جاتی ہے، جہاں بھی دنیا ئے رنگ وبو آبا دہے۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ نور مصطفویؐ سے فیض حاصل کرتی رہے گی۔ ایسانہیں تو وہ ابھی مصطفیؐ کی تلاش میں ہے، تاکہ اس مقدس اور برگزیدہ ذات سے اکتساب فیض کرسکے۔ علامہ فرماتے ہیں:۔ ہر کجا بینی جہان رنگ وبو آنکہ از خاکش بروید آرزو یا ز نورِ مصطفیؐ او را بہاست یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفیؐ است (۲) اُسوہ حسنہ گزشتہ صفحات میں مختصر ًابیان کیا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مقدس مکمل طور پر ہمارے سامنے موجودو محفوظ ہے اور آپ کے کردار وگفتار، افعال و اطوار تمام و کمال ساری دنیا کے لیے آئینہ ہیں اسی لیے فرمان الٰہی کے مطابق حضورؐ کی سیرت مقدسہ اور اُسوہ حسنہ واحد مثالی نمونہ ہے۔ جسے پیش نظر رکھ کر اور جس کی تقلید واتباع کرکے دنیا فلاح و نجات حاصل کرسکتی ہے ارشاد الٰہی ہے لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃ (الاحزاب :۲۱) (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات اقدس میں تمھارے لیے اُسوہ حسنہ کا مثالی نمونہ پیش کردیا گیاہے۔) علامہ سید سلیمان ندویؒ سیرت البنیؐ کی جلد ششم کا خاتمہ ان سطور پر کرتے ہیں:۔ ’’ اسلام کی اخلاقی تعلیموں اور پیغمبر اسلام علیہ السلام کی اخلاقی ہدایتوں کا ایک ایک حرف آپ کی نظر کے سامنے آگیا۔ آپ نے دیکھا کہ اسلام کا فلسفہ اخلاق کتنا مکمل، اس کی تعلیم کتنی کامل، اس کے تہذیب بلند ہیں اور یہ سب کتنے اعلیٰ، اور اس کی اخلاقی تربیت کے نظریے کتنے بلند ہیں اور یہ سب کچھ ایک نبی امی علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان وحی ترجمان سے ادا ہوا اور اگر حضور علیہ السلام کی صداقت کی کوئی اور دلیل نہ بھی ہوتی تو یہی ایک چیز کافی تھی کہ جس بلندی تک حکمائے زمانہ، فلاسفہ روزگار اور قوموں کے معلم پہنچنے سے عاجز رہے، معلم امی صلی اللہ علیہ وسلم کسی انسانی تعلیم کے سہارے بغیر وہاں تک پہنچ گئے۔ ’’ اگرچہ یہ بات خود بھی اپنی جگہ پر بہت بڑی ہے لیکن اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ اس قوم کو جو تہذیب و تمدن سے نا آشنا، اخلاق عالیہ سے بیگانہ اور سلیقہ و شعور سے عاری تھی نہ صرف اخلاق و تمدن کے ایسے بلند حکیمانہ اُصول اور نظریے سکھائے۔ بلکہ اپنی تعلیم و تربیت کے صیقل سے ان میں ایسی جلا پیدا کردی کہ دنیا ان کے اخلاقی جلووں کو دیکھ کر ششدر رہ گئی اور حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ دُعا قبول ہوئی یا یہ کہیے کہ وہ پیشین گوئی پوری ہوئی جو اسماعیلی نسل کے خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے لیے کی گئی تھی۔ یعلمھم الکتاب و الحکمۃ ویزکیھم یعنی ’’ ایسا نبی جو ان امیوں کو احکام اور اخلاق و حکمت سکھائے اور ان کو اپنی تعلیم و تربیت سے پاک وصاف کرکے نکھار دے۔ ‘‘ یہ نکھارنے والا آیا، اور نکھار کر دنیا کو پر بہار بنا گیا۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کامعلم اخلاق اور کردار ساز ہونے کے اعتبار سے کتنا بلند مقام ہے اس کو سمجھنے کے لیے میں مولانا سید سلیمان ندوی کی طویل تحریر کو ملخص کرکے درج کرتا ہوں۔ مولانا لکھتے ہیں:۔ دنیا کے اس آخری معلم کی تعلیم میں حکم خداوندی اور عقلی دقیقہ رسی، فرمان الٰہی اور اخلاقی نکتہ وری، امر ربانی اور حکم فطرت، کتاب اور حکمت دونوں کی آمیزش ہے۔ انبیا اور حکما میںجو ا صلی فرق و اُمتیاز ہے وہ یہ ہے کہ انبیا کی اخلاقی تعلیمات کے ساتھ ساتھ ان کی معصو م زندگی، ان کے مقدس کارنامے، اور ان کے پاک اثرات ہوتے ہیںجن کا فیض ان کے ہر بن مو سے خیر و برکت کی سلسبیل بن کر نکلتا ہے اور پیاسوں کو سیراب کرتا ہے لیکن بلند سے بلند حکیم اور اخلاق کا دانائے رموز فلسفی جس کی اخلاقی سخن طراز ی اور نکتہ پروری سے دنیامحو حیرت ہے اور جس نے انسان کے ایک ایک اندرونی جذبے، باطنی قوت ا ور اخلاقی فطرت کا سراغ لگایاہے۔ عمل کے لحاظ سے دیکھو تواس کی زندگی ایک معمولی بازاری سے ایک انچ بلند نہ ہو گی۔ اس واقعے کا دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ چونکہ وہ محض زبان یا دماغ ہوتا ہے، دل و ہاتھ نہیں اس لیے اس کے منہ کی آواز کسی دل کی لوح پر کوئی نقش نہیں بناتی بلکہ ہوا کے تموج میں مل کر بے نشان ہو جاتی ہے اور انبیا علیھم السلام چونکہ جو کچھ کہتے ہیں وہ کرتے بھی ہیں۔جو ان کی تعلیم ہے وہی ان کا عمل ہے۔جو ان کے منہ پر ہے وہی دل میں ہے اسی لیے ان کی تعلیم اور صحبت کا فیضان خوشبو بن کر اُڑتا ہے اورہم نشینوں کو معطر کر دیتاہے۔ مگر اس وصف میں سارے انبیا علیھم السلام یکساں نہیں ہیںبلکہ ان کے مختلف مدارج ہیں، ان کی عملی حیثیت کامل ہونے کے ساتھ ضرورت یہ ہے کہ ان کے اس درجہ کمال کی ایک ایک ادا عمل کی صورت میں نمایاں ہو تا کہ ہر ذوق اور ہر رنگ کے فریق اور اہل صحبت اپنی اپنی استعداد کے مطابق ا ن کی عملی مثالوں سے متاثر ہوں اور پھر وہ روایتوں کے اوراق میں محفوظ رہیں تا کہ بعد کے آنے والے بھی اس نشان قدم پر چل کر مقصود کی منزل تک پہنچ سکیں الغرض ایک کامل اور مکمل و آخری معلم کے لیے حسب ذیل معیاروں پر پورا اترنا نہایت ضروری ہے۔ ۱۔ اس کی زندگی کا کوئی پہلو پردے میں نہ ہو۔ ۲۔ اس کی ہر زبانی تعلیم کے مطابق ا س کی عملی مثال بھی سامنے ہو۔ ۳۔ اس کی اخلاقی زندگی میں یہ جامعت ہو کہ وہ انسانوں کے ہر گروہ کے لیے اپنے اندر اتباع اور پیروی کا سامان رکھتی ہو۔ تنقید کے ان معیاروں پر اگر ہم سارے انبیااور مذہبوں کے بانیوں کی زندگیوں کو جانچیں تو معلوم ہو گا کہ ان میں سے کسی کی زندگی بھی پیغمبر اسلام علیہ السلام کی حیات پاک کے برابر جامع کمالات نہیں۔دنیا کو کوئی پیغمبر یا با نی مذہب ایسا نہیں ہے جس کی اخلاقی زندگی کا ہر پہلو ہمارے سامنے ا س طرح بے نقاب ہو کہ گویا وہ خود ہمارے سامنے موجود ہے۔ صرف اسلام ہی کے ایک معلم کی زندگی ایسی ہے جس کا حرف حرف دنیا میں محفوظ اور سب کو معلوم ہے اور باقول با سورتھ اسمتھ کے کہ یہاں(سیرت محمدیؐ)کی زندگی کا ہر پہلوروز روشن کی طرح نمایاں ہے۔ (بسورتھ اسمتھ کی کتاب سیرت محمدؐ، ص، ۱۰۸) اب دوسری حیثیت سے غور کیجیے ان مقدس ہستیوںکی تعلیم، اچھائی، اخلاقی احکام کی خوبی ا ور مواعظ ونصائح کی عمدگی میںکوئی شبہ نہیں۔لیکن کیا دنیاکو خود ان بزرگوں کے عملی اخلاق کا بھی تجربہ اور علم ہے۔ اسلام کے اخلاقی معلم کی شان اس حیثیت سے بھی بہت بلند ہے اس نے جو کچھ کہا، سب سے پہلے خود اس کو کر کے دکھایا۔ ایک شخص نے آکر ام ا لمومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے دریافت کیا کہ آنحضرت ا کے اخلاق کیا تھے۔؟فرمایا کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا؟ کان خلقہ القرآن۔جو قرآن میںالفاظ کی صورت میں ہے۔وہی حامل قرآ ن کی سیرت میں بصورت عمل تھا۔ آپ کی حیثیت ایک انسان، ایک باپ، ایک شوہر، ایک دوست، ایک خانہ دار، ایک کاروبار ی تاجر، ایک حاکم، ایک قا ضی، ایک سپہ سالار، ایک بادشاہ، ایک استاد، ایک واعظ، ایک مرشد، ایک عابد و زاہداور آخر ایک پیغمبر کی نظر آتی ہے۔یہ تمام انسانی طبقے آپ کے سامنے آ کر زانوئے ادب تہہ کرتے ہیں اور اپنے اپنے پیشہ و فن کے مطا بق ا ٓپ کی تعلیمات سے بہرہ اندوز ہوتے ہیں۔ مدینۃ النبی کی اس درس گاہ اعظم کو غور سے دیکھو، جس کی چھت کجھور کے پتوں سے اور ستون کجھور کے تنوں سے بنائے گئے تھے اس کے الگ الگ گوشوں میںان انسانی جماعتوں کے الگ الگ درجے کھلے ہوئے ہیں۔کہیںحضرات ابو بکرؓ و عمر ؓ، عثمانؓ و علی ؓ، جیسے فرماں روا زیرتعلیم ہیں۔کہیں حضرات طلحہ ؓ و زبیرؓ و معاویہؓ و سعد بن معاذؓ و سعید بن جبیر ؓ، جیسے ارباب رائے و تدبیرہیں۔کہیں حضرات خالد ؓ، ابو عبیدہ ؓ، سعد بن ابی وقاصؓ اور عمرو بن العاصؓجیسے سپہ سالار ہیں۔کہیں وہ ہیں جو بعد کو صوبوں کے حکمران، عدالتوں کا قاضی اور قانون کے مقنن بنے۔کہیں ان زہاد و عباد کا مجمع ہے۔جن کے دن روزوں میں اور راتیں نمازوں میں کٹتی تھیں ابو ذر ؓ، سلمان ؓ، و ابو دردا ؓ، جیسے وہ خرقہ پوش ہیں۔جو مسیح اسلام کہلاتے ہیں۔کہیں وہ صفہ والے طالب علم تھے جو جنگل سے لکڑیا ں کاٹ کر بیچتے اور گزارہ کرتے تھے اور د ن رات علم کی طلب میں مصروف رہتے تھے۔ کہیں حضرت علی، ؓحضرت عائشہ، ؓحضرت ابن عباس، ؓحضرت ابن مسعود، ؓحضرت زید بن ثابت، ؓجیسے فقیہ و محد ث تھے۔جن کاکام علم کی خدمت اور اشاعت تھا ایک جگہ غلاموں کی بھیڑ ہے تو دوسری جگہ آقاؤں کی محفل ہے۔کہیں غریبو ں کی نشست ہے اور کہیں دولت مندوں کی مجلس ہے۔ مگر ان میں ظاہری عزت اور دنیاوی اعزاز کی کوئی تفریق نہیں پائی جاتی تھی۔ سب مساوات کی ایک ہی سطح پراور صداقت کی ایک ہی شمع کے گرد پروانہ وار جمع ہیں۔ سب پر توحید کا یکساں نشہ چھایا، اور سینوں میںحق پرستی کا ایک ہی ولولہ موجیں لے رہا ہے اور سب اخلاق و اعمال کے ایک ہی آئینہ قدس کا عکس بننے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔(۸) جیساکہ پہلے ارشاد الہٰی میں نقل کیاگیا ہے۔ رب العزت نے حضورؐکی حیات طیبہ کو مثالی نمونہ ا و ر آ پ کے اُسوہ حسنہ کو واحد آئیڈیل کے طور پر بیان کیاہے اس لیے یہی بات ہے کہ آپ کا عمل اور کردارنیز آپ کے اخلاق اور تعلیمات کا مر کز اُمت کی صحیح تعلیم وتربیت تھا۔ آپ کا ارشاد گرامی ہے۔بعثت لا تمم مکارم الاخلاق(مجھے اس لیے مبعوث کیاگیاہے کہ میں بہترین اخلاق کو درجہ کمال تک پہنچاؤں)۔ چنانچہ آپؐ نے ا پنی بعثت کے ساتھ ہی اس فرض منصبی کو پوری تندہی اور حسن خوبی سے انجام دینا شروع کر دیا تھا۔ حضرت ابو ذر نے جب یہ سنا کہ مکہ میںایک شخص نے پیغمبری کا دعویٰ کیاہے تو اپنے بھائی کو دریافت احوال کے لیے بھیجا اُنھوں نے واپس جا کر جن الفاظ میںاپنے تاثر کا اظہار کیا۔ وہ مسلم شریف میں مناقب ابی ذر ؓکے باب میں منقول ہیں۔ اُنھوں نے کہا تھا، رایتہ‘ یَأمُرْ مر بمکارم اخلاق میں ان کو دیکھا کہ وہ اعلیٰ اخلاق اختیار کرنے کاحکم دیتے ہیں۔ جب مسلمانو ں کو ملک حبش (موجودہ ایتھوپیا) ہجرت کر جانے کی اجازت دی تو مسلمانوں کی ایک جماعت ہجرت کر گئی۔ قریش نے ان کے پیچھے پیچھے کچھ با اثر لوگ بھیجے۔تاکہ وہ شاہ حبش نجاشی کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکائیں اور مسلمان وہاں بھی سکون سے نہ بیٹھ سکیں۔نجاشی نے مسلمانوں کو درربار میں طلب کیا۔ حضرت جعفر بن ابو طالب ؓنے قائد وفد کی حیثیت سے دربار شاہی میں آپ نے جو تقریر کی اس کا کچھ حصہ یہ ہے: اے بادشاہ ہم لوگ ایک جاہل قوم تھے۔ بتوں کو پوجتے تھے۔ مردار کھاتے تھے۔ بدکاریاں کرتے تھے۔ ہمسایوں کو ستاتے تھے۔ بھائی بھائی پرظلم کرتاتھا۔ زبردست زیر دستوں کو کھاجاتے تھے۔ اس اثنا میں ہم میں ایک شخص پیدا ہوا، اس نے ہم کو سکھایا کہ ہم پتھروں کو پوجنا چھوڑ دیں، سچ بولیں خون ریزی سے باز آئیں، یتیموں کا مال نہ کھائیں، ہمسایوں کو آرام دیں، عفیف عورتوں پر بدنامی کا داغ نہ لگائیں۔ اسی طرح قیصر روم کے دربار میں ابو سفیان نے جو ابھی تک کافر تھے آنحضرت ا کا جو خاکہ کھینچااس میں باوجود (انتہائی مخالفت اور دشمنی کے) یہ تسلیم کیاکہ وہ خدا کی توحید اور عبادت کے ساتھ لوگوں کو یہ سکھاتے ہیںکہ وہ پاک دامنی اختیار کریں، سچ بولیں اور قرابت کا حق ادا کریں۔(۹) اسلام کی عمارت کے بنیادی ارکان جیسے کہ سب کو معلوم ہے پانچ ہیں۔ ایمان کے بعد نماز، روزہ، زکواۃاور حج چار اساسی ستون کی حیثیت ر کھنے والی عبادات ہیں ان عبادات سے جہاں روحانی تزکیہ اور باطنی ترقی حاصل ہوتی ہے۔وہیں اخلاق حسنہ کی تربیت اور تکمیل بھی ہوتی ہے۔ مثلا ً قرآن مجیدمیں نماز کا ایک فائدہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ بری باتوں سے روکتی ہے۔ روزہ تقویٰ سکھاتا ہے۔ زکواۃ انسانی ہمدردی، ایثار اور غم خواری کی تعلیم دیتی ہے اور حج بہت سے مختلف طریقو ں سے معاشرے اور ملت کی اصلاح ا ورتنظیم وغیرہ کا موثر ذریعہ ہیں۔ امام غزالی ؒ احیاء العلوم میں لکھتے ہیں: خدا فر ماتا ہے کہ نماز میری یاد کے لیے قائم کرو اور فرمایا کہ بھولنے والوں میں نہ ہو اور فرمایا کہ نشے کی حالت میں اس وقت تک نماز نہ پڑھو جب تک تم یہ نہ سمجھو کہ تم کیاکہہ رہے ہو۔ کتنے نمازی ہیں جنھوں نے گو شراب نہیں پی، مگر وہ نماز پڑھتے ہیں تو نہیں جانتے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ آپؐ نے فرمایاکہ جو شخص دو رکعت بھی نماز ایسی ادا کرے۔جس میں کسی دنیاوی چیز کا دھیان نہ آئے تو خدا اس کے گناہوں کو معاف کر دے گا۔پھر فرمایا کہ نماز عاجزی، فروتنی، زاری، دردمندی، اور شرمندگی کا نام ہے اور یہ کہ جس نے یہ بات نہیںپیدا کی اس کا نماز ناقص ہے اور اگلی کتابوں میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ہر ایک کی نماز قبول نہیں کرتا۔ میں صرف اس کی نماز قبول کرتاہوں جو میری بڑائی کے سامنے سر نگوں ہے۔ میرے بندوں پر اپنی بڑائی نہیں جتاتا اور جو بھوکے محتاج کو میرے لیے کھانا کھلاتا ہے اور آنحضرت ا نے فرمایاہے کہ نماز اسی لیے فرض کی گئی اورحج کے ارکان اسی لئے بنائے گیے تا کہ خدا کی یاد کی جائے۔ تو اگر دل میں یہ کیفیت پیدا نہ ہو جو مقصود ہے تو اس میں یاد الٰہی کی قدر وقیمت کیاہے؟ حدیث میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ جس کی نماز اس کو برائی اور بدی سے نہ روکے تو ایسی نماز اس کو خدا سے اور دور کر دیتی ہے۔ علامہ اقبال اُسوہ حسنہ کی تقلید کا سبق دیتے ہوئے کہتے ہیں۔کہ تم باغ مصطفویؐ کی ایک کلی ہو۔ بہار مصطفوی کی ہواؤں سے کھل کرایک پھول بن جاؤ۔ انھی کی بہار ایسی ہے کہ اس سے رنگ اور بو حاصل کرنی چاہیے، اس لیے حضورؐ کے مکارم اخلاق اوراُسوہ حسنہ کا پر تو اپنے اندر پیدا کرو۔مسلمان سر تا پا شفقت ہوتا ہے۔ دنیا میں اس کا ہاتھ ا ور زبان سب رحمت ہی ہوتے ہیں اس لیے کہ وہ نام لیوا ہے اس ذات گرامی کا جس کی انگلی کے ایک اشارے سے چاند دو ٹکڑے ہو گیا۔ جو خلق عظیم کے حامل ہیں اور جن کی رحمت سب کے لیے عام ہے۔تم اگر آنحضرت کی راہ سے دور ہو جاؤ گے توہمارے زمرے سے خارج شمار کیے جاؤ گے۔مسلمان کی طینت اور فطرت ایک موتی کی مانند ہے۔ جس کو آب و تاب پیغمبر ا کے سمندر سے حاصل ہوتی ہے۔ تو آب نیساں ہے اس سمندر کے آغوش میںآسودہ ہو جا اور پھر اس سمندر سے موتی بن کر باہر آ اشعار میں یہ مضمون ملاحظہ کیجیے۔ غنچۂ از شاخسارِ مصطفیؐ گل شو از باد بہار مصطفیؐ از بہارش رنگ و بو باید گرفت بہرہ از خُلق او باید گرفت فطرت مسلم سراپا شفقت است در جہاںدست و زبانش رحمت است آنکہ مہتاب از سر انگشتش دو نیم رحمت او عام و اخلاقش عظیم از مقام او اگر دور ایستی از میانِ معشر ما نیستی طینت پاک مسلمان گوہر است آب و تابش از یم پیغمبر است آبِ نیسانی بآغوشش در آ و زمیان قلزمش گوہر بر آ۱؎ اسلام نے اخلاق عالیہ کا بہت بڑا درجہ قرار دیا ہے۔یہاں تک کہ ایمان کی تکمیل کو بھی حسن اخلاق سے متعلق قرار دیا ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ، اکمل المومنین ایماناً احسنھم خلقاً(مسلمانوں میں سب سے زیاد ہ کامل ایمان والا وہ ہے۔ جو حسن اخلاق میں سب سے زیادہ ممتاز ہو۔ (ترمذی، ابو داؤد وغیرہ)بخاری شریف میں کتاب الادب میںحدیث آئی ہے کہ حضورؐ ارشاد فرماتے ہیں کہ خیارکم احسنکم اخلاقاً (تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اخلاق میں سب سے اچھا ہے) اسی طرح طبرانی کی ایک حدیث میں آیا ہے احب عباد اللہ الی للہ احسنھم اخلاقاً(بندگان خدا میںاس کی بار گاہ میں سب سے زیادہ پسندیدہ وہ ہے جو ان میں اخلاق کے لحاظ سے سب سے اچھا ہو)۔ علامہ سیّد سلیمان ندوی لکھتے ہیں۔ اسلام نے اخلاق حسنہ کا ایک اور بلند تخیل پیش کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اخلاق حسنہ در حقیقت صفات الٰہی کا سایہ اور ظل ہیں اور اسی کی صفات الٰہیہ کے ادنیٰ ترین مظاہر ہیں۔حدیث میں ہے کہ ا ٓپ نے فرمایا، حسن الخلق الاعظم(طبرانی)یعنی خوش خلقی اللہ تعالیٰ کا خلق عظیم ہے۔ ہم انھی اخلاق کو اچھا کہتے ہیں۔جو صفات ربانی کا عکس ہیں اور انھی کو برا کہتے ہیں جو خدا کی صفات کے منافی ہیں البتہ یہ ظاہر ہے کہ خدا کی بعض خاص صفتیں ایسی بھی ہیں۔ جو اسی کے ساتھ مخصوص ہیں اور جن کا تصور بھی دوسرے میں نہیں کیاجا سکتا۔ جیسے اس کا واحد ہونا، خالق ہونا، نیز ایسی پر جلال صفتیں بھی ہیں۔جو صرف خدا ہی کو زیبا ہیں۔جیسے اس کی کبریائی اور بڑائی وغیرہ۔ اس قسم کی صفات کا بندے میں کمال یہ ہے کہ ان کے مقابل کی صفتیں اس میں پیدا ہوں۔خدا کی کبریائی کے مقابلے میںبندے میں خاکساری اور تواضع ہو اور خدا کی بلندی کے مقابلے میںبندے میں پستی اور فروتنی ہو، الغرض اسلام نے انسان کی روحانی تکمیل کا ذریعہ اخلاق کو اسی لیے قرار دیا ہے کہ وہ صفات الٰہی کے کسب و فیض کا سبب ہے۔ ہم جس حد تک ا س کسب وفیض میں ترقی کریں گے۔، ہماری روحانی ترقی کا سلسلہ جاری رہے گا اور یہی ہماری روحانی زندگی کی سیر کی آخری منزل ہے۔ اخلاق کا اس سے بلند تر تخیل ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے واضع الفاظ میںآنحضرت ا کے حسن اخلاق کی بابت ارشاد فرمایا ہے۔ و انک لعلی خلق عظیم(اور آپ بے شک عظیم اخلاق کے حامل ہیں) اسی لیے آپؐ کی ذات گرامی خیر البشر اور افضل الرسل ہے اور اسی لیے آپ کے اوصاف ستودہ، کردار بلند، اخلاق عالیہ، اُسوہ حسنہ، وہ واحد آئیڈیل ہیںجس کا اتباع اور جس کی تقلید ہم پر لازم و واجب ہے۔ خود اللہ تعالیٰ کا فرمان بھی یہی ہے۔ (جو پہلے آچکا ہے کہ)و لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ(اور رسول اللہؐ کی ذات پاک میں تمھارے لیے اُسوہ حسنہ کا بہترین نمونہ موجود ہے) ۔ اسی لیے ہم پر عشق رسولؐ اور اتباع رسولؐ فرض و واجب ہے اسی تقلید و اتباع میںخدا کا عشق اور محبت الٰہی بھی مضمر ہے۔ یہ تقلید اپنے کمال پر پہنچ کر زور عشق میںانقلاب آفرین بن سکتی ہے اور بلا شبہ ایک شخص کو سب سے بلند مدار ج و مراتب تک پہنچا دیتی ہے۔ علامہ اقبال کے یہ شعر پہلے آ چکے ہیںمگر ایسے اہم ہیں کہ ان کے اعادے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ کیفیت ہا خیزد از صہبائے عشق ہست ہم تقلید از اسمائے عشق کامل بسطامؒ در تقلید فرد اجتناب از خوردن خربوزہ کرد عاشقی؟ محکم شو از تقلیدِ یار تا کمند تو شود یزداں شکار مکارم اخلاق آنحضرت ا کی حیات مبارکہ کا ہر واقعہ اور آپ ؑ کے روز مرہ کے معمولات تمام دنیا کے لیے ایک مثالی نمونہ ہیں۔حیات طیبہ سر تاپا معجزہ ہے۔ آپؐ مجموعہ کمالات انسانی و ملکوتی تھے۔ آپؐ کی ذات میںتمام اخلاقی اور روحانی اوصاف جمع تھے۔حدیث اور سیرت کی کتابوں میں یہ تمام حالات محفوظ ہیں اور ایسے معتبر کہ مخالفین کو بھی ان کی صداقت اور واقعیت تسلیم ہے۔ آپؐ کے علاوہ یہ خصوسیت کسی نبی یا رسول کو حاصل نہیں۔کسی کے حالات زندگی مفصل تو کیامختصر بھی دستیاب نہیں ہوئے۔ آپؐ امی تھے اور یہ شرف بھی آپ ہی کی ذات کے لیے مختص تھا۔لکھنا پڑھنا بالکل نہیں جانتے تھے۔ اسی طر ح شہسواری، تیر افگنی، نیزہ بازی، شمشیر زنی بھی کسی سے نہیں سیکھی تھی مگر جنگ احد اور جنگ حنین کی مثالیں موجود ہیںکہ جب دوسرے مسلمان میدان سے منہ موڑ گئے تھے تب بھی آپ اپنی جگہ قائم تھے۔تمدنی اور عمرانی مسائل، جہاں بانی اور جہاں داری کی صلاحیت، اجتماعیت اور اقتصادیت کے مسائل یہ سب انعامات الٰہی تھے۔جو نبی امی ّؐکو وحی الٰہی نے تعلیم کیے تھے اور اسی لیے آج تک ان کو حرف آخر کا درجہ حاصل ہے۔ آپؐ اپنے سارے کام خود انجام دیتے تھے۔ گھر کی صفائی، اونٹ کو باندھنا، بکری کو دوہنا، بازار سے سودا خریدنا، اور خود اسے اُٹھا کر لانا، غرض ہر کام خود کرتے تھے۔ جو ملتا اسے پہلے سلام کرتے اور سب کے ساتھ عزت سے پیش آتے تھے، رنگ، نسل، آقا، غلام کا کو ئی فرق روا نہ رکھتے۔عدل اور مساوات کی جو مثالیں آپ نے قائم کیں۔وہ تاریخ کا روشن باب ہے۔ انصاف کے معاملے میں اپنے پرائے سب آپ کی نظر میں برابر تھے۔ آپ اپنے پرائے سب کی مدد و اعانت فرماتے تھے۔ خاص طور پر غریبوں سے آپ کو بہت محبت تھی اور ان کی مدد میں خاص اہتمام فرماتے تھے۔جاہل اور گنوار ملنے آتے اور گستاخانہ پیش آتے۔ تو آپؐ صبر فرماتے۔رات اور دن کا، گھر اور باہر کا آپؐ کا لباس ایک ہی ہوتا تھا۔ فرش زمین پر بے تکلف بیٹھ جاتے۔ کبھی کسی سے ترش روئی سے پیش نہ آتے۔ سب کے ساتھ کشادہ دلی اور خندہ پیشانی سے پیش آتے۔ہر قسم کی بیہودہ باتوں سے اور لہو ولعب سے احترا ز فرماتے، آپؐ کا رعب و جلال ایسا تھا کہ جو سامنے آتا مرعوب ہو جاتا لیکن جو قریب آکر بیٹھتا اور آپؐ کے کلام معجز نظام سے فیض یاب ہوتاوہ آپؐ کی محبت دل میں لے کر جاتا تھا۔ عدل ومساوات کی طرح عفو در گزر آپؐ کا خاص شیوہ تھا۔ خود ہر طرح کی تکلیف برداشت فرماتے۔قریش مکہ نے آپؐ کی اہانت اور آپؐ کو جسمانی تکلیفیں پہنچانے میںکوئی کسر اُٹھا نہ رکھی تھی مگر آپؐ یہی فرماتے رہے (اے رب! میری قوم کو ہدایت دے یہ جانتے نہیں ہیں)جنگ اُ حد میں جب آپؐ زخمی ہو گئے اوربعض صحابہ ؓ نے عرض کیاکہ ان دشمنوں کے لیے بددُعا فرمائیے تب بھی آپؐ نے ان کے لیے یہی دُعا کی تھی رب اھد قومی فانھم لا یعلمون اسی طرح طائف میں ہوا جب آپؐ وہاں تبلیغ کے لیے تشریف لے گئے تو عمائدین شہر نے کچھ شریر لوگوں کو پیچھے لگا دیا جنھوں نے آپؐ پر اینٹ اور پتھر پھینکے، آپؐ کی توہین کی اور آپؐ کو زخمی کر دیا۔ واپسی پر آپؐ سے بددُعا کی درخواست کی گئی۔ مگر آپ نے دُعا فرمائی، خداوندا بنو ثقیف کو ہدایت دے اور ان کو میرے پاس لا۔قریش مکہ کے مظالم کی فہرست کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔کون سی ایذا رسانی تھی جو اُنھوں نے روا نہیں رکھی۔ فتح مکہ میں جب آپؐکو ان پر کامل غلبہ اور تسلط حاصل تھا تو آپؐ نے سب کو جمع کر کے فرمایا، تم سب کو معافی ہے۔ لا تثریب علیکم الیوم (آج تم سے کوئی مواخذہ نہ ہو گا۔) حضورؐ مریضوں کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے تھے، دیر تک مر یض کے پاس ٹھہرتے، اس کو تسلی دیتے، اور علاج کی طرف توجہ دلاتے۔عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کا خاص لحاظ فرماتے تھے۔بچوں سے شفقت اور پیار کرتے۔ عورتوں کی امداد اور اعانت کرتے اور بوڑھوں کی تعظیم اور مدد فرماتے، آپؐ کا ارشاد ہے من لم یر حم صغیرنا و لم یو قر کبیر نا فلیس منا (جو ہمارے بچوں پر رحم نہ کرے، اور بڑوں کی عزت نہ کرے وہ ہمارے زمرے میں نہیں)آپؐ مجلس میں پاؤں پھیلا کر نہ بیٹھتے۔ مصافحہ کے لیے پہلے خود ہاتھ بڑھاتے، صحابہؓ کو ان کے ناموں سے نہ پکارتے۔بلکہ عرب کے قاعدے کے مطابق ان کی کنیت پکار کر بلاتے۔ یہ سب اس لیے تھاکہ دوسروں میںعزت نفس اور خود اری کا جذبہ پیدا ہو۔ گفتگو میں آپؐ دوسروں کی بات کبھی نہ کاٹتے۔جب تک وہ کہتارہتا متوجہ رہتے۔بزرگوں اور فاضلوں کی عزت فرماتے۔مثلاً حضرت حسان بن ثابت ؓ کے لیے مسجد نبوی میں منبر رکھوا دیتے جس پر بیٹھ کر وہ اپنے اشعار سناتے، اسی طرح ایک دن آپؐ صحابہ ؓ کے مجمع میں تشریف فرما تھے۔کہ حضرت سعد بن معاذ ؓ تشریف لائے آپؐ نے انصار سے فرمایا اٹھ کر اپنے سردار کی پیشوائی کرو۔ حضورؐ نے کبھی کسی سائل کو خالی ہاتھ نہیں لوٹایا، پاس کچھ نہ ہوتاتو قرض اور مستعار لے کر دیتے۔حالانکہ اپنا یہ حال تھا۔کہ حضورؐ کے گھر اکثر فاقہ میں بسر ہوتی تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں، کہ بعض دفعہ مہینہ بھر تک صرف دودھ اور کجھور پر بسر ہوئی ہے۔ گو آپ نے دوسری غذائیں بھی تناول فرمائی ہیں۔مگر یہ کھانے عموماً ہدیہ کے طور پر خدمت ولا میں پیش ہوتے تھے۔ سرکہ، شہد، زیتون کا روغن، کدو، ککڑیاں، اور حلوہ آپ کو بہت پسند تھا۔مزاج مبارک میںحد درجہ نفاست اور لطافت رچی ہوئی تھی۔ کسی کو میلا کچیلا یا پر یشان دیکھتے تو ناپسند فرماتے۔ بو دار چیزوں سے سخت نفرت تھی۔ خوشبو پسند تھی اور خود بھی اکثر استعمال فرمایا کرتے تھے حکم دے دیا تھا، کہ کوئی شخص پیاز، لہسن اور مولی کھا کر مسجد نبوی میں نہ آئے، اس کی بد بو دوسروں کے لیے باعث زحمت ہوگی۔ آپ بے حد نرم مزاج اور شیریں بیان تھے اور آپؐ کی گفتگوسادہ، ملائم، میٹھی اور رسیلی ہوتی تھی آہستہ، آہستہ کلام فرماتے کہ سننے والے کو فوراً ہی آپؐ کے فرمودات یاد ہو جاتے تھے۔کبھی بے ضرورت گفتگو نہ فرماتے۔بہت کم ہنستے تھے۔ کسی نے آپؐ کو قہقہہ مار کر ہنستے نہیں دیکھا اچھی باتوں پر صرف تبسم فرماتے۔ آپؐ کا پسینہ خوشبودار ہو تا تھا اور جسم مبارک سے ایسی خو شبو مہکتی تھی جیسے مشک، مگر خوشگوار اور دھیمی، آپؐ کا لباس نہایت سادہ ہو تا تھا۔بعض دفعہ آپؐ نے(محض تھوڑی دیر کے لیے)قیمتی لباس بھی زیب تن فرمائے ہیں۔جو بطور ہدیہ خدمت والا میں پیش کیے گیے تھے۔ آپؐ کی عفت و عصمت کا یہ عالم تھا کہ کہ بچپن سے جاہلیت کی کسی بیہود ہ رسم اور کھیل کود میں آپؐ نے کبھی حصّہ نہیں لیا۔ یہ بات عالم آشکار ہے کہ بعثت سے قبل بھی آپ امانت و دیانت میں اتنے نیک نام تھے کہ سارا عرب آپؐ کو صادق اورامین کے لقب سے پکارتا تھا۔ آپؐ پر عوام کو اس قدر اعتماد تھا کہ نبوت کے بعدجب قریش آپؐ کے بدترین مخالف اور دشمن بن گئے تھے۔سب لوگ اپنی امانتیںآپؐ ہی کی تحویل میںرکھتے تھے۔ہجرت کی رات بھی آپؐ کے پاس بہت سی امانتیں جمع تھیں۔چنانچہ حضرت علی ؓ کو آپؐ نے اسی لیے پیچھے چھوڑا تھا کہ وہ سب لوگوں کو ان کا مال و متاع بحفاظت لو ٹانے کے بعد مدینہ کوہجرت کریں۔زہد کی یہ کیفیت تھی کہ مہینہ بھر تک گھرمیں آگ نہ جلتی تھی اور بسا اوقات صرف کجھور اور پانی پر گزارہ ہوتا تھا۔حد یہ ہے کہ مدینہ کے دس سالہ قیام میں جب کہ آپؐ کو ہر طرح کی ظاہری قوت و قدرت حاصل تھی آپؐ کو برابر تین دن تک ایک مرتبہ بھی روٹی کھانے کو نہیں نصیب ہوئی۔ غور کے قابل ہے یہ بات کہ جس رات آپؐ نے مولائے حقیقی کے وصال کے لیے رحلت فرمائی ہے اسی شب حضرت عائشہ ؓ نے پڑوسن سے تیل قر ض لے کر چراغ جلایاتھا۔ غرض آنحضرت ا کی ذات گرا می، رحمت، شفقت، رافت، تواضع، انکسار، شجاعت، رحم و کرم، عدل، سخا، جود، حیا، شرم، صبر، حلم، عفو، صدق، امانت، دیانت، عصمت، عفت اور تمام مکارم اخلاق کا مجموعہ اور مثالی نمونہ تھی۔یہی وہ اُسوہ حسنہ ہے جسے خود باری تعالیٰ نے خلق عظیم کے لقب سے نوازا ہے۔ و انک لعلی خلق عظیم(بے شک آپؐ خلق عظیم کے حامل ہیں۔)اور اسی لیے رب العز ت نے مسلمانوں کو اس آئیڈیل کوسامنے رکھ کر اپنی عملی زندگی کو اس پر ہموار اور استوار کر نے کا حکم دیاہے۔لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ(الاحزاب: ۷۱)تمھارے لیے رسول اللہؐ کی حیات طیبہ میںوہ مثالی نمونہ موجود ہے۔ جسے تم اپنی عملی زندگی میں اختیار کر کے مدارج اعلیٰ حاصل کر سکتے ہو۔ /…/…/ حواشی ۱-سیّدسلیمان ندوی، خطبات مدارس، ص، ۶۴، ۶۵۔ ۲- ایضاً، ص، ۶۷، ۷۲، ۷۳۔ ۳-پیام مشرق، ص، ۲۰۔ ۴- اسرار و رموز، ص، ۲۱۔ ۵-جاوید نامہ، ص، ۱۲۷۔ ۶-جاوید نامہ، ص، ۱۲۸۔ ۷-سیّدسلیمان ندوی، سیرت النبی، جلد ششم، ص ۶۶، ۶۷۔ ۸- ایضاً جلد ششم، ص، ۴۴، ۴۵۔ ۹- ایضاً، ص، ۱۵، ۱۶۔ ۱۰- اسرار و رموز، ص، ۱۳۲، ۱۳۳۔ ۱۱-سیّد سلیمان ندوی، سیرت النبی۔ جلد، ششم، ص ۳۴، ۳۵۔ ۱۲- اسرار و رموز، ص، ۲۱، ۲۲۔ /…/…/ انسان کامل علامہ اقبال کی اصطلاح کے مطابق شرف انسانی کی معراج ا ور ارتقائے خودی کی کامل ترین صورت انسان کامل ہے۔علامہ فرماتے ہیں اس میں زندگی کی متضاد قوتیں ہم آہنگ ہو جائیں گی اور اس میں قوت اور علم اپنے انتہائی مدارج کے ساتھ موجود ہو گا اسی کو اقبال مومن کامل کہتے ہیں اور اس کی شان یہ بیان کرتے ہیں۔ ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن گفتار میں کردار میں اﷲ کی برہان ہمسایۂ جبریل امین بندہ خاکی ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بد خشاں یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن قدرت کے مقاصد کا عیاں اس کے ارادے دنیا میں بھی میزان، قیامت میں بھی میزان جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان (۱۰) اسی مر تبے پر مومن کامل کی تفسیر یوں فرمائی ہے ْ۔ ’’ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں، کار کشا کار ساز‘‘۔ یہی بات مولانا روم ؒ اس انداز سے بیان کر تے ہیں۔ آدمی چوں نور گیرد از خدا ہست مسجود ملائک زاجتبا اور اس مقام پر رضائے بندہ اور مرضی مولا میںکوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ بقول مولاناروم ؒ گفتۂ اوگفتۂ اللہ بود گر چہ از حلقوم عبد اللہ بود علامہ اقبال بھی یہی کہتے ہیں: در رضایش مرضی حق گم شود این سخن کے باور مردم شود اسی لیے نصیحت فرماتے ہیں: خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے یہ لطیف نکتہ انسان اس لیے باور نہیں کر پاتا کہ اس کا ادراک حجابات کے پردوں میں ڈھکا رہتا ہے ورنہ خود خدائے تعالیٰ نے قر آن شریف میں رسول مقبول ا کے عمل کو اپنی جانب منسوب کیاہے۔ ارشاد ہے: وما رمیت اذ رمیت و لکن اللہ رمیٰ۔جب تم نے مٹھی بھر کر پھینکا تو وہ تم نے نہیں پھینکا۔ بلکہ وہ تو اللہ نے خود پھینکاتھا۔) بقول علامہ اقبال کہ اس مومن کامل اور انسان کامل میںیہ قوت اور قدرت ہوتی ہے کہ ا س کا عزم و ارادہ تقدیر الٰہی ہو جاتا ہے اور میدان جنگ میں اس کا تیر، تیر خداوندی ہو تا ہے۔ اقبال کا شعر ملا حظہ کیجیے: عزم او خلاق تقدیرحق است روز ہیجا تیر او تیر حق است اس نکتے کو سمجھنے کے لیے کچھ تفصیل مناسب ہے۔ اسلام کا اصل الاُصول، تو حید کا عقیدہ ہے۔ اسلامی توحید تمام مذاہب و ملل قدیمہ کے وحدانیت کے تصور سے مختلف ہے۔مجملاً یوں کہا جا سکتا ہے۔ کہ آنحضرت ا کی تعلیمات نے توحیدکی عمارت کے دو اہم ستون قرار دیے ہیں۔۱؎ خدائے قدوس کی حقیقی عظمت وجلال کی پہچان(۲)کائنات میں انسان کی اصل حیثیت اور اس کے مرتبے کی تعین۔ خدائے عز و جل ہر قسم کی صفات عالیہ، اوصاف کمالیہ، اور محامد جمیلہ سے متصف ہے اس کی مانند کوئی نہیں۔عرش سے فرش تک جو کچھ ہے وہ اس کا ہے اور اس پر صرف اسی کی حکمرانی ہے۔ کائنات کا کوئی ذرہ اس کے حکم سے باہر نہیں اس کے کارو بار میں کوئی دوسرا اس کا شریک نہیں۔سب فانی ہیں، صرف اسی ایک کو بقا ہے۔سب اس کے آگے سر بسجود ہیں۔وہ ہر عیب سے پاک، ہر برائی سے منزہ اور ہر الزام سے بری ہے۔ وہ تشبیہ و تمثیل سے بالا تر اور انسانی رشتے ناطے سے پاک ہے۔ خدا کی عظمت و جلالت و کبریائی کے ساتھ وحی محمدیؐ نے یہ نکتہ سمجھایا۔کہ انسان اس عالم خلق میں تمام مخلوقات سے اشرف ہے اور وہ اس دنیا میں خدا کی نیابت کا فرض انجام دینے آیا ہے انی جاعل فی الارض خلیفہ(سورہ بقرہ ۲/۳۰) (میں اس زمین پر ایک نائب اور خلیفہ بنانے والا ہو ں۔) اس کا منشور اس کی خلافت کا گواہ ہے۔ و لقد کر منا بنی آدم(اور ہم نے بنی آدم کو عزت و اکرام عطا کیا۔) سے انسان کے شرف و عظمت اور علم آدم الاسما ء کلھا(اس نے آدم کو تمام و کمال اسما و حقائق کا علم بخشا)سے اس کے علم کی وسعت ا ور قوت تسخیر کی شہادت بہم پہنچتی ہے۔ غرض محمدؐ رسول اللہ ا نے جس تو حید کی تلقین کی تھی۔ وہ انھی دو اُصولوں پر قائم ہے ایک یہ کہ انسان تمام مخلوقات میں اشرف ہے اس لیے کسی مخلوق کے سامنے اس کاسر نہیں جھکنا چاہیے اور دوسرا یہ کہ ہر قسم کی قوت، ہر طرح کی قدرت اور تمام اوصاف کمالیہ، صرف اسی ایک بزرگ و بر تر ہستی کے لیے ہیں انسان کی پیشانی کو ہر چو کھٹ سے اٹھ کر صرف اسی کے آستانے پر جھکنا چاہیے۔ : یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات انسان کامل ہی نائب خدا اور خلیفۃ اللہ ہے۔ وہ ان تمام اوصاف وکمالات سے متصف ہوتا ہے۔ جو مشیت ا لٰہی میں اس کے لیے امانت رکھے گیے ہیں اور جن کی بدولت انسان کواحسن ا لتقویم کے معزز لقب سے نوازا گیا ہے۔ آغاز آفرینش سے و جود نے جتنے ارتقائی مدارج طے کیے ہیں۔بلا شبہ ان میں انسا ن ارتقائی شاہکار کی حیثیت رکھتاہے۔ مگر اس کو خیر و شراور پست و بلند کاوہ مجموعہ بنایا گیا ہے کہ اگر ایک طرف وہ احسن التقویم کے خطاب کا سزا وار ہے تو دوسری جانب اسفل السافلین کا رتبہ بھی اسی کی جانب منسوب ہے۔ خیر وشر وپست و بلند کا یہ تصادم و پیکارہی انسان کو عظمت و شرف کی جانب لے جاتا ہے اسی لیے کہ وہ فطرت صالح، عقل سلیم اور قوت میمیزہ بخشی گئی ہے۔جو اسے غلط سے صحیح کی طرف، پست سے بلند کی جانب، اور شر سے خیر کی سمت صراط مستقیم پر گامزن کرتی ہے۔ اسی طر ح خدا نے انسان کو فطری طور پرجوصلاحیت عطا کی ہے وہ اسے خیر و سلاُمتی کی راہ پر قائم رکھتی ہے۔ موجودات عالم کے ذرے ذرے میں حق تعالیٰ کا ظہور ہے۔ اگر یہ ظہور نہ ہوتا تو موجودات صوری کا وجود ہی نہ ہوتا لیکن حق تعالیٰ کا ان ذروں میں ظہورہر ذرے کی استعداد کے مطابق ہے۔ ظہور اتم سوا انسان کے اور کسی چیز میں نہیں اس لیے ساری کائنات اسی کے لیے مسخر کی گئی ہے اور اسی لیے خدا نے اپنی نیابت و خلافت کے منصب و نقب سے اس کو سر فراز کیاہے۔ حضرت آدم (جو ابو البشر یا انسانیت کے اولین پیکر تھے)اپنے ظاہر کے لحاظ سے خلق کی صورت تھے تو اپنے باطن کے لحاظ سے حق کی صورت۔خدا وند عز و جل کا ارشاد ہے: فَاِذَا سَوَّیْتَہْ وَ نَفَخْتْ فِیہِ رُّوْحِیٰ(آیت، ۷۲ سورہ ص) یہاں تسویہ کا لفط استعمال فرمایا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے، کہ جب جسم آدم میں ہر قسم کی صلاحیت پیدا ہو گئی تب اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی روح پھونکی۔روح پھونکنے کے معنی صرف یہ نہیں کہ جسد آدم میں زندگی کی لہر دوڑ گئی بلکہ یہ بھی ہیں کہ حق تعالیٰ نے اپنی ذات اور صفات کا پر تو آدم پر ڈالا۔ چونکہ آدم کا تسویہ پورا ہو چکا تھا اُنھوں نے اس پر تو کو قبول کیا اور امانت الٰہی کے متحمل ہوگئے۔ اسی لیے ا نسان میںجملہ صفات الٰہی کا پر تو پایا جاتا ہے۔ وجو بِ ذاتی ا ور صفات تنزیہی کے ماسوا کہ وہ اسی پاک اور برتر ذات کے لیے مخصوص ہے۔فرق یہ ہے کہ وہ ان صفات کے لیے اللہ کا محتاج ہے اور اللہ کسی بات میں کسی کا محتاج نہیں انسان ظل عکسی اور اضافی طورپرصفات الٰہی کا حامل بنا۔جبھی تو اس کو مسجود ملائک کا اہم اور مقتدر رتبہ حاصل ہوا۔مسجود ملائک ہونا گویا علامیہ تھا کہ وجود کے ارتقا نے مکمل شکل اختیار کر لی۔ اللہ تعالیٰ کے اسماو صفا ت کا عقیدہ اسلام میںصرف نظری چیز نہیںبلکہ اسلامی اعتقاد میںاس کو عملی حیثیت بھی حاصل ہے یعنی خداکی یہ صفات ا خلاق انسانی کا معیار ہیں انسان کے حصول شرف و عظمت کی کسوٹی یہی صفات و اسما ہیں انسان کی عملی زندگی ان ہی صفات خدا وندی کے پر تو کے مطابق ڈھلنی چاہیے اگر انسان خدا سے نسبت پیدا کرنی چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ خدا کے ان اسما و صفات سے نسبت پیدا کرے تاکہ انسان کامل اور نیابت خدا وندی کے منصب جلیلہ تک اس کو رسائی میسر آسکے۔ حدیث شریف میں آیا ہے ان اللہ خلق آدم علی صورتہ(خدا نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا)ذات باری ہر قسم کی تجسیم وتشبیہ سے پاک ہے اس لیے ظاہر ہے کہ یہاں صورت سے مراد جسمانی شکل نہیں ہو سکتی۔بلکہ معنوی صورت و شکل مقصود ہے۔یعنی خداکی صفات کاملہ کا عکس موجودات میں سب سے زیادہ انسان ہی میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ اسی لیے حدیث شریف میں آیا ہے کہ حسن الخلق خلق اللہ الاعظم۔(حسن اخلاق صرف خدا تعالیٰ کا خلق عظیم ہے۔)ارباب معرفت نے اسی لیے یہ تعلیم دی ہے کہ اتخلقو باخلاق اللہ(خدا کے سے اخلاق اپنے اندر پیدا کرو۔) جو کوئی جس درجے تک اخلاق خدا وندی سے نسبت کاملہ پیدا کرے گا۔ وہ اسی قدر شرف انسانیت سے آراستہ اور احسن التقویم کی عظمت سے ہم کنار نظر آئے گا۔ وجود کے مراتب میں جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے، انسان اکمل ہے اور جملہ افراد انسانی میں محمد رسول اللہ ا سب سے ارفع و اکمل ہیں اور مظہر اتم میں حق تعالیٰ کے اس لیے صرف آپؐ ہی انسان کامل ہیں۔دوسروں کو یہ مرتبہ آپؐ ہی کی برکت اور آپؐ ہی کی پیروی ومتابعت اور آپ ہی کی محبت سے ظلی طور پر حاصل ہوتا ہے۔ قرآن مجیدمیں واضع طور پر انسان کو تسخیر کائنات ا ور تسخیر انفس و آفاق کا حکم دیا گیاہے۔جا بجا ارشاد ہے کہ یہ ساری کائنات، ہوا، پانی، زمین، آسمان، اور ان میں جو کچھ ہے، ہم نے تمھارے لیے مسخر کر دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ پھر انسان کافرض ہو جاتا ہے کہ و ہ ان سب کو تسخیر کرے۔جب تک نوامیس فطرت اورمظاہر قدرت کا کامل تسخیراور ان پر تصرف و غلبہ حاصل نہ ہو، انسان کو مرد مومن کے لقب سے سر فراز نہیں کیاجا سکتا۔یہ حکم اس لیے بھی ہے کہ مرد مومن پیرو، اور متبع ہے اس ذات اقدس کا جو مومن کامل اور انسان کامل ہے اور یہ کائنات اور اس میں جو کچھ ہے، سب کچھ آپ ہی کے صدقے میںوجود میں آ یا ہے ایک حدیث قدسی ہے، لو لاک لما خلقت الافلاک(اگر آپ کی ذات والاصفا ت وجود پانے والی نہ ہوتی تو میں یہ زمین و آسمان اور یہ کائنات کچھ بھی پیدا نہ کرتا، اقبال کے اشعار دیکھیے فرماتے ہیں: عالم ہے فقط مومن جاں باز کی میراث مومن نہیں جو صاحبِ لولاک نہیں ہے جہاں تمام ہے میراث مرد مومن کی مرے کلام پہ حجت ہے نکتۂ لولاک ولایت، پادشاہی، علم اشیا کی جہاں گیری یہ سب کیا ہیں؟فقط اک نکتہ ایمان کی تفسیریں اقبال کا مرد مومن جو معرفت خودی رکھتا ہے اور اتباع نبوی میں اُسوہ حسنہ پر اپنی زندگی کو ڈھالتا ہے انفس و آفاق کو مسخر کر لیتاہے۔ضمیرکائنات کے ا سرار ورموز اس پر منکشف ہو جاتے ہیں۔وہ ابن الوقت نہیں رہتا، بلکہ ا بو ا لوقت اور ابوالحال کے بلند مقام پر فائز ہو جاتا ہے۔ عشق تکمیل ذات کے لیے تسخیری عمل پر مستعد رکھتا ہے اس لیے تمام فطری اور عمرانی رکاوٹوں پر غالب آتا ہے۔ یہ عشق کا جذبہ حب خدا اور حب رسولؐ سے میسر آتا ہے۔ فر مان خداوندی ہے وَ الذِّیْنَ اٰمنوا اشد حْباًّ لِلّٰہ البقرہ ۲، آیت، ۱۶۵(جو مومن ہیں وہ خدا کی ذات سے زیادہ سے زیادہ محبت رکھتے ہیں۔) محبت خدا عشق رسولؐ کے بغیر میسر نہیں ہوسکتی۔ قرآن شریف میں واضح طور پر فرمایا ہے العمران ۳، آیت ۳۱، (اس آیت کی تفسیر یو ںکی گئی ہے، کہ فرمادیجیے اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو اول میری اتباع کرو۔ اس پیروی ا ور اتباع کی برکت سے تم کو میری محبت حاصل ہو گی اور محبت رسولؐ سے تم حب الٰہی تک پہنچ جاؤ گے جس کے صلے میں تم کوبار گاہ الٰہی سے یہ انعام عطا ہو گا کہ خو د خدا تم سے محبت فرمائے گا۔) اسی لیے علامہ نصیحت فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے وہ سوز طلب کرو، جو حضرت ابو بکر صدیق ؓاور حضر ت علی مرتضیٰ ؓ کو ملا تھا۔عشق نبیؐ کا تھوڑا ساحصہ حق سے طلب کرو۔کہ یہ مل جائے تو یہ بھی بہت ہے۔ سوز صدیق ؓو علی ؓ از حق طلب ذرۂِ عشق نبیؐ از حق طلب مرد مومن خدا کی صفات غفاری و قہاری کا حامل ہوتا ہے اس لیے باوجود غلبہ وسلطانی، قوت و شوکت اور جاہ و جلا ل کے معمولات زندگی کی ادائی میںاور یگانہ وبیگانہ سے معاملہ کرنے میں سر تا پا رحمت و شفقت ہوتا ہے۔قرآن پاک میں مومنین کی صفت یوںبیا ن فرمائی گئی ہے اشداء علی الکفار، رحماء بینھم(وہ کفار کے حق میں بہت سخت، لیکن آپس میں بے حد رحم د ل اور شفیق ہیں۔) مومن کو یہ صفت اتباع رسولؐ کے صدقے میں حاصل ہوتی ہے۔ کہ آپ رئوف، رحیم اور رحمۃ للعالمین ہیں نیزخدا کی صفت غفاری کے پر تو سے مومن میں یہ صفت پیدا ہوتی ہے۔ در اصل مومن کے سامنے ایک ہی مثالی پیکرآئیڈیل ہوتا ہے اور وہ ہے جناب رسول مقبول ا کی ذات مستجمع الصفات، جو انسان کامل کے بلند ترین مرتبے پر فائز ہیں۔ اور جن کا پاکیزہ کر دار، مکارم اخلاق، اور اُسوہ حسنہ مسلمانوں کی عملی زندگی کے لیے واحد نمونے کا درجہ رکھتا ہے اقبال کی مختصر نظم مردِ بزرگ ایک ایسے ہی صحیح قسم کے مرد مومن کی تعریف کرتی ہے۔ جو انسان کامل(آنحضرت ا)کے اتباع و تقلید کے شرف سے آراستہ ہے: اس کی نفرت بھی عمیق، اس کی محبت بھی عمیق قہر بھی اس کا ہے اللہ کے بندوں پہ شفیق پرورش پاتاہے تقلید کی تاریکی میں ہے مگر اس کی طبیعت کا تقاضا تخلیق انجمن میں بھی میسر رہی خلوت اس کو شمع محفل کی طرح سب سے جدا، سب کا رفیق مثل خورشید سحر فکر کی تابانی میں بات میں سادہ و آزادہ معنی میں دقیق اس کا انداز نظر اپنے زمانے سے جدا اس کے احوال سے محرم نہیں پیران طریق(۲) مرد مومن ایمان کی دولت سے مشرف ہوتا ہے تو خدا کے تمام احکام کے سامنے سر خم کر دیتا ہے۔ وہ رسول کریم اکے عشق ومحبت میں سر شار ہو کر اُسوہ نبویؐ کے اتباع کی بدولت مکارم اخلاق سے آراستہ ہو جاتاہے۔ غیر اللہ کی نفی اس کو پاکی باطن اور صفائے قلب عطا کر تی ہے اس کے اقوال واعمال احکام الٰہی کے نور سے منور ہوتے ہیں اور اس کا قلب بیدار مہبط تجلیات الٰہی بن جاتا ہے۔ دل بیدار فاروقیؓ دل بیدار کراریؓ مس آدم کے حق میں کیمیا ہے دل کی بیداری مرد مومن اس انسا ن کامل اکے عشق ا ور ان کے اتباع کی بدولت و ہ پاکی و پاکیزگی حاصل کرتا ہے جو کمال انسانیت کے لیے لازم ہے جس کے صدقے میںاس کو بے انداز ہ قوت و قدرت میسر آتی ہے۔ مومن کو عشق کی دولت کے توسل سے د ل زندہ اور قلب سلیم حاصل ہو جاتا ہے جو معرفت الٰہی کے نور سے روشن ہوتا ہے اس کی پاکی باطن، صفائے قلب، اور تنویر روحانی ا س کو وہ ملکوتی شان اور لاہوتی آن عطا کر تی ہے جس کا اندازہ کرنا بھی ممکن نہیں۔ انھی اوصاف و کمالات کا مجموعہ ہونے کے باعث مرد مومن نیابت خدا وندی اور خلافت الٰہی کاصحیح استحقاق رکھتا ہے۔ خلافت الٰہی ا ور نیابت خدا وندی کا تقا ضا یہ ہے کہ خلیفہ اور نائب میںاصل کے اوصاف وکمالات کا پر تو جتنا زیادہ نمایاں ہو گا اتنا ہی وہ اپنے اندراس منصب خلافت و نیابت کا زیادہ استحقاق ثابت کرے گا اور اسی وقت وہ نیابت کے فرائض زیادہ بہتر ادا کر سکے گا اصل کے اوصاف و کمالات کا یہ عکس کسی فرد میں اس کی اپنی صلاحیت اور پاکیزگی کے لحاظ سے کم و بیش پایا جاتا ہے۔ مدارج روحانی اور کمالات باطنی میں اس درجہ ترقی ممکن ہے کہ پھر بندہ مومن سر تا پا خدائی رنگ میں رنگ جائے۔ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے (البقرہ آیت ۳۸) (اللہ کا رنگ اور اس کے رنگ سے زیادہ اچھا اور چوکھا رنگ اور کون سا رنگ ہو سکتا ہے اور ہم اسی کے بندے ہیں) حضرت مولانا روم ؒ فرماتے ہیں کہ انسان اوصاف عالیہ کے لیے ا صطر لاب کی مانند ہے انسان کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ اس میں اوصاف خداوندی کا پر تو پایا جاتا ہے جو صفت بھی انسان میں پائی جاتی ہے وہ اسی کاعکس ہوتی ہے۔ بعینہ ا یسے جیسے کہ پانی میں چاند کا عکس نظر آتا ہے۔ خلق کو پاک اور صاف پانی کی مانند سمجھو جس میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا عکس نظر آتا ہے۔ مولانا کے اشعار یہ ہیں۔ آدم اصطرلاب اوصاف علو است وصف آدم مظہر آیات اوست ہر چہ در وے می نماید عکس اوست ہم چو عکس ماہ اندر آب جوست خلق را چوں آب داں صاف وزلال و ندور تاباں صفات ذوالجلال جب مرد مومن اپنی پاک باطنی، روشن ضمیری، تنویر روحانی اور صفات ستودہ کی بدولت، صفات خداوندی کا مظہر بن جاتا ہے تو اسے وہ کمال ارتقائے انسانیت حاصل ہو تا ہے۔ جو اسے مقام محمدی تک پہنچاتا ہے۔ حقیقت محمدیہؐ کو الفاظ میں بیان کرنا بے حد دشوار ہے۔ یوں سمجھیے کہ حقیقت انسانی کی اصل حقیقت محمدیؐ ہے حق تعالیٰ نے سب سے پہلا تنزل حقیقت محمدیؐ میں فرمایا کہ اول ما خلق ا للہ نوری (پہلی چیز جو اللہ تعالیٰ نے خلق کی وہ میرا نور تھا) نیز فرمایا۔کنت نبیا ً و آدم بین الما ء و طین (میں نبیؐ تھا جب کہ آدم پانی اور مٹی کے درمیان تھے) اور ابھی ان کو وجود حاصل نہیں ہوا تھا۔ آپؐ کل موجودات سے اسبق اور کل مخلوقات سے اکمل ہیں آپؐ اصل ہیں جملہ کائنات کی۔ حدیث قدسی ہے لو لاک لما خلقت الافلاک (اگر آپؐ کو پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو میں کائنات ہی کو پیدا نہ کرتا۔) آپؐ خلاصہ موجودات ہیں۔ جس طرح آدم پر تخلیق کائنات ختم ہوئی آپؐ پر تکمیل انسانیت ختم ہوئی۔ در اصل وہ قطب جس پر احکام عالم کا دارو مدار ہے اور جو ازل سے ابد تک دائرہ وجود کا مرکز ہے، حقیقتاً ایک ہی ہے اور وہ ہے حقیقت محمدیہ ا اور آپؐ ہی کی ذات واحدانسان کامل ہے۔ مرد مومن کے لیے واحد مثالی پیکریہی انسان کامل یعنی رسول اکرم ا کی ذات گرامی ہے۔ آپؐ تک رسائی جیسا کہ پہلے وضاحت کی گئی ہے، عشق کے بغیر حاصل نہیں ہوتی اور عشق کی تکمیل اُسوہ حسنہ کی پیروی کے بغیر ممکن نہیں۔ جس نے آپؐ کے اُسوہ طیبہ کا اتباع کی، جسے آپؐ کی محبت حاصل ہوئی اور جسے یہ سعادت نصیب ہو گئی اسے سب کچھ مل گیا۔ مختصر یہ کہ بندہ مومن جو توحید کا راز دار، متاع مصطفویؐ کا امین اور اُسوہ حسنہ کا متبع ہوتا ہے جو احکام الٰہی ا ور فرا مین مصطفویؐ کے اتباع کی بدو لت روحانی ارتقاع کے منازل طے کرتا ہے۔ عشق رسولؐ جس کا زاد راہ اور قرآن عظیم جس کا بر گ و ساز ہوتا ہے، اسے وہ شوکت و سطوت نصیب ہوتی ہے جو اسے ساری کائنات پر تصرف اور غلبہ بخشتی ہے اور اسے انفس و آفاق کی تسخیر اور ان پر کامل تصرف حاصل ہو جا تا ہے۔ اس کی ذات اوصاف خدا وندی کا پر تو اور جلال و جمال کا مظہر ہوتی ہے۔ صداقت اور حقانیت کے لیے وہ رحمت اور باطل و ظلمت کے لیے قہر ہوتا ہے۔ علمی اور عملی، تمدنی اور اخلاقی زندگی میں اس کی ذات انسانیت کے لیے رہنما ہوتی ہے اور سیاست واقتصادیات، تہذیب و اجتماعیات میں وہ دنیا کے لیے چرا غ راہ ہوتا ہے۔ سائنسی علوم اور پوشیدہ حقائق اس پر منکشف ہو جاتے ہیں اوروہ بطن گیتی اور سینہ افلاک کو چیر کر آسمان و زمین اور خلا و پاتال کے تمام اسرار سر بستہ کو حل کرنا اور بے پناہ قوت اورغلبہ حاصل کر لیتا ہے، اسی لیے وہ انسانیت کے شرف کا پیکر، عظمت و طاقت کا مظہر اور سلطان موجودات بن جاتا ہے۔ اب اس کا ایک قدم زمین پر ہوتا ہے اور دوسرا ماورائے افلاک آسمان و زمین اس کے فرمانبردار ہوتے ہیں تو تقدیر و تدبیر اس کے اشاروں پر عمل کرتی ہے چنانچہ وہ عبدیت کے درجہ کمال پر فائز ہو کربیک وقت صفات ملکوتی، نیابت الٰہی ا ور خلافت خدا وندی کے کمالات کا جامع بن جاتا ہے۔ علامہ اقبال مولانا گرامی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: مسلم تودہ خاک نہیں کہ خاک اسے جذب کرسکے۔ یہ ایک قوت نورانیہ ہے کہ جامع ہے جواہر موسویتؐ اور ابراہیمیتؐ کی آگ اسے چھو جائے تو برد و سلام بن جائے۔ پانی اسکی ہیبت سے خشک ہو جائے آسمان و زمین میں یہ نہیں سما سکتی کہ یہ دونوں ہستیاں اس میں سمائی ہوئی ہیں۔ پانی آگ کو جذب کر لیتا ہے۔ عدم بود کو کھا جاتا ہے۔ پستی بلندی میں سماجاتی ہے۔ مگر جو قوت جامع اضداد ہو، اور محلل تمام تناقضات کی ہو اسے کون جذب کرے۔ :مسلم کو موت نہیں چھو سکتی کہ اس کی قوت، حیات و موت کو اپنے اندر جذب کر کے حیات وموت کا تناقض مٹا چکی ہے۔ مسلم حنیف جذبات متنا قض یعنی قہر و محبت کو اپنے قلب کی گرمی سے تحلیل کرتا ہے۔ اور اس کا دائرہ اثر اخلاقی تناقضات تک ہی محدود نہیںبلکہ تمام طبعی تناقضات پر بھی حاوی ہے۔ پھر مسلم جو حامل ہے محمدیت کا، اور وارث ہے موسویتؐ اور ابراہیمیتؐ کا کیوں کر کسی شے میں جذب ہو سکتا ہے البتہ اس زمان و مکان کی اس مقید دنیا کے مرکزمیں ایک ریگستان ہے جو مسلم کو جذب کر سکتا ہے اور اس کی قوت جاذبہ بھی ذاتی اور فطری نہیںبلکہ مستعار ہے ایک کف پا سے، جس نے اس ریگستان کے چمکتے ہوئے ذروں کو کبھی پائمال کیاتھا۔(۳) اسی لیے حضر ت علامہ مو من کی صفت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مرد مومن کسی اور سے رنگ و بو حاصل نہیں کرتا۔ وہ صرف حق تعالیٰ سے ر نگ و بو حاصل کرتا ہے ہر وقت اس کے بدن میں ایک نئی روح جلوہ گر ہوتی رہتی ہے اور ہر ساعت حق تعالیٰ کی طرح، اس کی بھی ایک نئی شان ظہور کرتی ہے اشعار ملاحظہ کیجیے۔ مرد حق از کس نگیرد رنگ و بو مرد حق از حق پذیرد رنگ و بو ہر زماں اندر تنش جانے دیگر ہر زماں او را چو حق شانے دیگر اسی طرح فرماتے ہیں کہ مرد مومن خاک سے جنم لیتا ہے مگراطراف وجہات کی قیود توڑ کراس رب الاطراف والجہات کی بارگاہ کی طرف پرواز کر تا ہے اس کی راہ میں مرگ اور حشر سب ہیچ ہیں ان کا ساز وسامان صرف تب و تاب پیہم اور سوز دوام ہے۔ وہ اس نیلگوں آسمان اور اس جیسے سینکڑوں آسمانوںکی فضا میں پرواز کرکے اور غوطے کھا کر پھر اس فضا سے نکل آتا ہے اور ایک فضائے نور میں پرواز کرتا ہے جہاں اسے یہ قوت حاصل ہو جاتی ہے کہ وہ جبریل، فرشتوںاورحوروں سب کو اپنی گرفت میں لا سکتا ہے۔ اس وسعت نورانی اور فضائے نور میںاسے وہ ارتقا حاصل ہوتا ہے کہ وہ خیرالبشر اور انسان کامل کے مقام بلند پر پہنچ کردیدار الٰہی سے مشرف ہوتا ہے اور (سورہ النجم، آیت، ۱۷، ) ما زاغ البصرو ما طغیٰ(نہ نظر کج ہوئی نہ اس نے کم، یا زیادہ دیکھا)کے منصب سے بہرہ ور ہوتا ہے اور مقام محمدیؐ سے واقف ہو کر مقام عبدیت تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ : ہم چناں از خاک خیزد جان پاک سوئے بے سوئی گریزد جان پاک در رہ او مرگ و حشرو حشر و مرگ جز تب و تابے ندارد ساز و برگ در فضائے صد سپہر نیلگوں غوطہ پیہم خوردہ باز آیدبیروں می کندپرواز در پہنائے نور مخلبش گیرند ہ جبریل و حور تاز ما زاغ البصر گیرد نصیب بر مقام عبدہ ء گردد رقیب /…/…/ حواشی ۱- ضرب کلیم، ص، ۷۳۔ ۲- اسرار رموز، ص، ۶۲۔ ۳-جاوید نامہ، ص، ۱۲۲۔ ۴-ضرب کلیم، ص، ۵۰۔ ۵-بال جبریل، ص، ۱۴۵۔ ۶-بال جبریل، ص، ۴۵۔ ۷-ضرب کلیم، ص، ۱۴۱۔ ۸-جاویدنامہ، ص، ۸۷۔ مکا تیب اقبال بنام گرامی، ص، ۱۴۷، ۱۴۸۔ /…/…/ قرآن حکیم(۶) ام المومنین حضرت عائشہؓ کا یہ قول پہلے آچکا ہے کہ آپ ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ا کے اخلاق حسنہ عین قرآن کریم تھے۔کان خلقہ القرآن۔یعنی قرآن حکیم میں جو احکام و فرامین الفاظ کی صورت میں بیان ہوئے ہیںحضورؐ کی حیات طیبہ میں ان کی عملی تفسیرتھی اس لیے جب تک قرآن مجید کی خصوصیت پر ایک نظر نہ ڈالی جائے گویا سیرت طیبہ اور اُسوہ حسنہ کی صحیح جھلک نظر نہیں آ سکتی۔ قرآن مجید کی آیات دو قسم کی ہیں۔(۱)ایک انشائی جن میں کسی چیز کی امر یا نہی کی گئی ہے اور (۲)دوسری اخباری جن میںما ضی یا مستقبل کی خبریں دی گئی ہیں۔خواہ وہ افعال عباد سے ہو ں یا افعال رب العباد سے۔حضرت عائشہ صد یقہ نے حضورؐ کے اخلاق کریمانہ کو جن آیات قرآنی کی تفسیر بتایاہے وہ پہلی قسم کی آیتیں ہیں جن پر عمل فر ما کے آپؐ نے ابد تک کے لیے روشن مثال قائم کی۔ البتہ دوسری قسم کی آیات میں جہا ں باری تعالیٰ نے ایسے نتائج بیان فرمائے ہیں جن کا تعلق ہماری زندگی سے ہے ان پر عمل بھی پہلی شق کے ذیل میں آ جاتا ہے۔ قرآن حکیم کی تعلیمات ایسی جامع و کامل ہیں کہ ان کی تشریح و توضیع کے لیے دفتر بھی نا کافی ہے، مختصراً یوںکہاجا سکتا ہے۔ کہ لاَ رَطْبً وَّ لَاَ یَابِسً اِلاَّ فِیْ کِتٰبً مُّبِیْنً (الانعام۔ ۶ آیت، ۵۹) (نرم و گرم، خشک وتر، سبھی کچھ روشن کتاب میں موجود ہے) آیت قرآن مجیدعبادات کی تلقین، انسانیت کا شرف، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، حلال حرام، تعاون علی الخیر، عدم تعاون علی الشر، عدل و عفو، احسان و در گزر ہر ایک اپنے عمل کا ذمہ دار، قول بلا عمل بد ترین شے، اعضائے انسانی مسؤل ہوں گے۔خیرو شر کم ہو زیادہ سب کی پرسش ہو گی۔نا پسندیدہ طور طریق، بنی آدم اعضائے یک دیگرند، تمام مسلمان بھائی، بھائی ہیں۔ہر چہ بر خود مپسندی بر دیگراں ہم مپسند، عورتوں اور مردوں کے حقوق، شکر کرو گے تو انعامات میں زیادتی ہو گی انسان کا نفس برائی پر ا کساتا ہے۔ قسم کھانا بری عادت ہے۔ جھوٹ اور دیگر کبائر کی مذمت۔جمع و خرچ کے اُصول، اکتناز زر کی مذمت، اسراف و تبذیر کی برائی، بخل کی مذمت، خیرات و مبرات کا پسندیدہ ہونا اسی طرح اللہ تعالیٰ کے تمام اسما و صفات، تاکہ بندے اس کی صفات جمالی، کمالی، و جلالی کا احساس کر کے حق اختیار کریں۔وغیرہ وغیرہ، یہ چند عنوانات اور اشارے محض مثال کے طور پر ہیں ورنہ مطالب قرآن مجیدکا احاطہ ناممکن ہے۔ پھر تعلیمات قرآن گونا گوں خصوصیا ت اور عظمتوں کی حامل ہیں۔مثلاً (۱) یہ تعلیمات کل عالم اور تمام خلائق کے لیے ہیں اور ابد الا بادتک رہنما رہیں گی۔ (۲) یہ تعلیمات حیات انسانی اور کائنات کے تمام شعبوں پر حاوی اور جا مع ہیں۔ (۳) ان تعلیمات میںاخلاق و فضائل کی بہترین تعلیم وترغیب ہے۔ (۴) علوم عقلی، اورعلوم اخروی، پہلو بہ پہلو مو جود ہیں۔ (۵) عملی زندگی کی ہدایات اورعام مطالب سب کے لیے سہل الفہم ہیں۔ (۶) دین و دنیا کا بہترین ہدایت نامہ اور ملک وریاست کا بہترین قانون اس میں موجود ہیں۔ (۷) قرآنی احکام فطرت انسانی کے عین مطابق ہیں اور عقل بشری کے لیے قابل فہم اور لائق قبول۔ (۸) انفرادی اور اجتماعی طور پر تمام نوع بشر کے لیے یہ احکام قابل عمل ہیں۔ (۹) قرآن، رنگ، قوم، نسل، زبان، ملک وغیرہ کے اُمتیازات دور کرتا ہے۔ (۱۰) قرآن میں حقوق انسانی تفصیل سے قائم کیے گئے ہیں۔ (۱۱) قرآن نے عمرانی اور تمدنی حقوق اور فرائض متعین کیے ہیں۔ (۱۲) راعی و رعایا، حاکم و محکوم، خادم و آقا، کے اُمتیازات اور حقوق فراٗئض مقرر کیے گیے ہیں۔ (۱۳) مساوات، اُخوت، صداقت، عدل، امن، سلاُمتی کی تلقین و تعلیم دی گئی ہے۔ (۱۴) مزید یہ کہ حسن بیان، فصاحت، بلاغت، تہذیب و شائستگی، اثر وتاثیر، اعجاز بیانی اور معجز نمائی میںتمام کتب سماوی پر فائق ہے۔ مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم سور ہ فاتحہ کی تفسیر کا خلاصہ ان الفاظ میںبیان کر تے ہیں۔ نزول قرآن کے وقت د نیا کا مذہبی تخیل ا س سے زیادہ وسعت نہیں رکھتاتھا، کہ نسلوں، خاندانوں اور قبیلوں کی معاشرتی حد بندی کر لی گئی تھی۔ہر گروہ کا آدمی سمجھتا تھا دین کی سچائی صرف اسی کے حصے میں آئی ہے جو انسان اس کی مذہبی حد بندی میں داخل ہے، نجات یافتہ ہے جو داخل نہیں نجات سے محروم ہے۔ ہر گروہ کے نزدیک مذہب کی اصل وحقیقت محض اس کے ظاہری اعمال رسوم تھے جو نہی ایک انسان انھیں اختیار کر لیتا، یقین کیاجاتا کہ اسے نجات و سعاد ت حاصل ہو گئی ہے مثلاً عبادت کی شکل، قربانیوں کے رسوم، کسی خاص طعام کا کھانا یا نہ کھانا، کسی خاص وضع قطع کا اختیار کر نا یا نہ کرنا، چونکہ یہ اعمال و رسوم ہر مذہب میں الگ الگ تھے اور ہر گروہ کے اجتماعی مقتضیات یکساں نہیں ہو سکتے تھے اس لیے ہر مذہب کا پیرویقین کرتا تھا کہ دوسرا مذہب صداقت سے خالی ہے کیونکہ اس کے اعمال و رسوم ویسے نہیں ہیں جیسے خود اس نے اختیار کر رکھے ہیں۔ ہر مذہبی گروہ کا دعوٰ ی صرف یہی نہیں تھا کہ وہ سچا ہے بلکہ یہ بھی تھا کہ دوسراجھوٹا ہے۔نتیجہ یہ تھا کہ ہر گروہ اتنے ہی پر قانع نہیں رہتا تھا کہ اپنی سچائی کا اعلان کرے بلکہ یہ بھی ضروری سمجھتا تھا کہ دوسروں کے خلاف نفرت اور تعصب پھیلائے اس صورت حال نے بنی نوع انسان کو ایک دائمی جنگ جدل کی حالت میں مبتلا کر دیا تھا۔ مذہب اور خدا کے نام پر ہر گروہ دوسرے گروہ سے نفرت کرتا تھا اور اس کا خون بہانا جائز سمجھتا تھا لیکن قران نے نوع ا نسانی کے سامنے مذہب کی سچائی کا عالمگیر اُصول پیش کیا۔: (الف)اس نے صرف یہی نہیں بتایا کہ ہر مذہب میں سچائی ہے بلکہ صاف صاف کہہ دیا کہ تمام مذاہب سچے ہیں۔ دین خدا کی عام بخشش ہے اس لیے ممکن نہیں کہ کسی ایک جماعت کو دیا گیا ہو دوسروں کا اس میں کوئی حصہ نہ ہو۔ (ب)قرآن نے کہا کہ خدا کے تمام قوانین فطر ت کی طرح انسان کی روحانی سعادت کا قانون بھی ایک ہی ہے اور سب کے لیے ہے۔ پس پیروان مذہب کی سب سے بڑی گمراہی یہ ہے کہ اُنھوں نے دین کی وحدت کو فراموش کیالگ الگ، گروہ بندیاں کر لی ہیں اور ہر گروہ بندی دوسر ی گروہ بندی سے لڑ رہی ہے۔ (ج)اس نے بتایا کہ خدا کا دین ا س لیے تھا کہ نوع انسانی کاتفرقہ اور اختلاف دور ہو اس لیے نہیں تھا کہ تفرقہ و نزاع کی علت بن جائے۔ پس اس سے بڑھ کر گمراہی اور کیا ہوسکتی ہے کہ جو چیز تفرقہ دور کرنے آئی تھی ا سی کو تفرقہ کی بنیاد بنا لیا ہے۔ (د) اس نے بتایاکہ ایک چیز دین ہے اور ایک شرح و منہاج ہے۔ دین ایک ہی ہے اور ایک ہی طرح پر سب کو دیا گیا ہے البتہ شرح ومنہاج پر اختلاف ہوا اور یہ اختلاف ناگزیر تھا کیونکہ ہر عہداورہر قوم کی حالت یکساں نہ تھی اور ضروری تھاکہ جیسی جس کی حالت ہو۔ ویسے ہی احکام واعمال اس کے لیے اختیار کیے جائیں۔پس شرح و منہاج کے اختلاف سے اصل دین مختلف نہیں ہو سکتے۔ تم نے دین کی حقیقت تو فراموش کردی ہے۔ محض شرع و منہاج کے اختلاف پر ایک دوسرے کو جھٹلارہے ہو۔ (ہ) قرآن نے بتایا کہ تمھاری مذہبی گروہ بندیوں اور ان کے ظواہرو رسوم کو انسانی نجات وسعادت میں کوئی دخل نہیں۔یہ گروہ بندیاںتمھاری بنائی ہوئی ہیں۔ورنہ خداکا ٹھہرایا ہوا دین تو ایک ہی ہے۔ وہ دین حقیقی کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے کہ ایمان اور عمل صالح کا قانون۔ (و) اس نے صاف، صاف لفظوں میں اعلان کر دیا کہ ا س کی دعوت کا مقصد اسکے سوا اور کچھ نہیںہے کہ تمام مذاہب سچے ہیں لیکن پیروان مذہب سچائی سے منحرف ہو گئے ہیں اور اُنھوں نے اپنے اپنے دین کی صورت مسخ کر دی ہے اگر وہ اپنی فراموش کردہ سچائی از سر نو اختیار کر لیں۔تو میراکام پورا ہو گیا اور اُنھوں نے مجھے قبول کر لیا۔ تمام مذاہب کی یہی مشترک اور متفقہ سچائی ہے جسے وہ الدین اور الاسلام کے نام سے پکارتا ہے۔ (ز) وہ کہتا ہے خدا کا دین اس لیے نہیں ہے کہ ایک انسا ن دوسرے انسان سے نفرت کرے بلکہ اس لیے ہے کہ ہر انسان دوسرے سے محبت کرے اور سب ایک ہی پرور دگار سے رشتہ عبودیت میں بندھ کرایک ہوجائیں۔وہ کہتا ہے۔ جب سب کا پروردگار ایک ہے جب سب کا مقصود اسی کی اطاعت اور بندگی ہے جب ہر ایک انسان کے لیے وہی ہونا ہے جیسا کہ اس کا عمل ہے۔ تو پھر خدا اورمذہب کے نام پر یہ تمام جنگ و نزاع کیوں؟ قرآن کہتا ہے کہ خدا پرستی کا رشتہ ہی ایک ایسا رشتہ ہے جو انسانیت کا بچھڑا ہوا گھرانا پھر آباد کرسکتا ہے۔ یہ اعتقاد کہ ہم سب کا پرور دگار ایک ہی ہے اور ہم سب کے سرایک ہی چوکھٹ پر جھکے ہوئے ہیں۔یکجہتی اور یگانگت کا ایسا جذبہ پیدا کر دیتا ہے کہ ممکن نہیں انسا ن کے بنائے ہوئے تفرقے اس پر غالب آ سکیں۔ (۱۵) اسی لیے قرآن مجید میںصراط مستقیم پانے کی دُعاسکھائی گئی ہے۔جو ہم پانچ وقت روزانہ ہرنماز کی ہر رکعت میںخشوع وخضوع کے ساتھ مانگا کرتے ہیں اسی لیے حضورؐ رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجے گئے تھے۔تا کہ ساری نوع انسا نی آپ کے زیر سایہ صراط مستقیم پائے اور راہ نجات حاصل کرے۔ علامہ اقبال قرآن حکیم کووہ آئین اور ضابطہ حیات سمجھتے ہیں۔جو ہماری ا خروی زندگی ہی نہیں، دنیاوی زندگی کے بھی تمام شعبوںمیں مکمل طور پر رہنمائی کا ضامن ہے۔ در اصل کسی فرد اور کسی جماعت کے وجود اور استحکام کے لیے اساسی اور بنیادی ضابطے لازم ہیں جو ان کے فکر و تدبر اور اعمال و افعال کو صحیح خطوط پر چلائیں۔ مسلمانوں کے لیے ایسا آئین اورضابطہ قرآن حکیم ہے بلکہ مسلمانوں ہی کے لیے نہیںغیر مسلموں کے لیے بھی جو اس کی تعلیمات سے استفادہ کرنے کا ارادہ کر یں۔ جتنے اُصول، قوانین، ضابطے اور آئین انسان اپنی عقل و فہم سے بناتا ہے یا بنائے گا ان کا حشر ہم روز دیکھتے ہیں کہ وہ قطع وبرید کے محتاج ا ور ترمیم وتردید کے مستحق ہوتے ہیں۔وحی الٰہی ہی وہ چیز ہے، جو ایسا اٹل اور کبھی تبدیل نہ ہوسکنے والا اور ہر دور میں صادق آنے والا قانون و ضابطہ اور آئین عطاکرے جو بنی نوع انسان کیلیے ہر ملک، ہر دور، ہر زمانہ، ہر قوم میں اس کی زندگی کے تمام گوشوںاور سارے شعبوں میں رہنمائی کا ضامن ہو قرآن حکیم ایسا ہی ضابطہ حیات اور آئین زندگی ہے جو ابد الاباد تک جاری رہے گا۔ حضرت علامہ نے رموز بے خودی میں، صفحہ ۱۲۱ پر ایک مستقل عنوان قائم کیاہے کہ ’’در معنی ایں کہ نظام ملت غیر از آئین صور ت نہ بندد، وآئین ملت محمدیہ قرآن است‘‘ آگے صفحہ ۱۲۶ پر دوسرا عنوان ہے کہ ’’ در معنی ایں کہ پختگی ء سیرت ملیہ از اتباع آئین الٰہیہ است ‘‘جو مطالب اقبا ل نے یہاں یا دوسرے مقامات پر بیان کیے ہیں آئندہ صفحات میں ان کی تشر یح و تو ضیح آئے گی۔ یہاں یہ بتانا مقصود تھاکہ اقبال قرآن حکیم کو اس اعتبار سے کہ وہ آئین الٰہی ا ور ضابطہ حیات ہے کتنی زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ اقبال کہتے ہیں کہ ملت آئین خدا وندی سے ایک نظام حاصل کرتی ہے اور جو نظام اس بنیاد پر قائم ہو اسے دوام حاصل ہوتا ہے۔ شارع نیک وبد کی حقیقت سے بخوبی واقف ہے اس نے تیرے لیے یہ قدرتی اور فطری آئین مقرر کر دیاہے تو اس پر عمل کر کے لو ہے کی طرح سخت اور مضبوط بن جائے گا اور دنیا میں بلند مراتب حاصل کرے گا اگر تو کمزور ہے تو یہ تجھے قوی بنائے گا اور پہاُڑ کی طرح پختہ و مستحکم کر دے گا۔ یہ جان لے کہ دین مصطفویؐ دین حیات ہے اور آپؐ کی شریعت اس آئین حیات کی تفسیر ہے اگر توزمین کی طرح پا مال ہے تو یہ آئین تجھے آسمان کی طرح سر بلند کر دے گا بلکہ خدا تجھے اس سے بھی بڑھ کر جو چاہے گا بنادے گا۔ اس آئین کے مستقبل سے پتھر آئینے کی طرح روشن ہوجاتا ہے اور اس سے لوہے کے سارے زنگ دور ہو جاتے ہیں اشعار پڑھیے: ملت از آئین حق گیرد نظام از نظام محکمے خیزد دوام شارع آئین شناس خوب و زشت بہر تو ایں نسخہء قدرت نوشت از عمل آہن عصب می سازد جائے خوبے در جہاں اندازدت خستہ باشی استوارت می کند پختہ مثل کو ہسارت می کند ہست دین مصطفی دین حیات شرع اوتفسیر آئین حیات گر زمینی آسمان سازد آسرا آنچہ حق می خواہدآں سازد ترا صیقلش آئینہ سازد سنگ را از دل آہن رباید زنگ را(۱۶) اس آئین حیات بخش و حیات افزا کے اس مختصر تعارف کے بعد اقبال کہتے ہیں کہ جب سے ملت مسلمہ نے دین اسلام اور شعارِ نبویؐ کو چھوڑدیا وہ زوال پذیر ہو گئی۔ وہ مسلمان جو شیر کو ایک معمولی بکری کی طرح شکار کر لیتا تھا اب چیونٹی اس کے پاؤں میںآجائے تو وہ چیخ اٹھتاہے۔ جس کی تکبیرسے پتھر پانی ہوجاتے تھے اب وہ بلبل کے چہچہے پر تڑپ جاتا ہے۔ جس کا عزم وحوصلہ پہاُڑ کو تنکا جانتا تھا اس نے خود کوتوکل کے سپرد کر کے اپنے آپ کولاچار بنا رکھا ہے۔جس کی ایک ضرب سے دشمنوں کی گردنیںٹوٹ جاتی تھیں۔سینہ کوبی سے اب خود اس کا دل خستہ و رنجور ہے۔ جس کے اقدامات سے نئے، نئے ہنگامے جنم لیتے تھے۔وہ اب گوشہ عزلت میں پاؤں توڑ کر بیٹھ گیاہے۔جس کے حکم پر ساری دنیاچلتی تھی اور جس کے در پر سکندر و دارا بھکاری بن کرآتے تھے اب سعی و جستجو ترک کر کے قناعت کے نا م پر خود کشکول گدائی لیے بیٹھا ہے۔ (یہ سب نحوست و زوال کیوں ہے) ؟ صرف اس لیے کہ مسلمانوں نے شعار مصطفویؐ اور احکام نبویؐ سے منہ موڑ لیا ہے اشعار ملاحظہ کیجیے۔ تا شعار مصطفیؐ از دست رفت قوم را رمز بقا از دست رفت آنکہ کشتے شیر را چوں گو سفند گشت از پا مال مورے درد مند آنکہ از تکبیراو سنگ آب گشت از صفیربلبلے بے تاب گشت آنکہ عزمش کوہ را کاہے شمرد با توکل دست و پائے خود سپرد آنکہ ضربش گردن اعدا شکست قلب خویش از ضرب ہائے سینہ خست آنکہ گامش نقش صد ہنگامہ بیست پائے اندر گوشہ عزلت شکست آنکہ فر مائش جہاںرا نا گزیر بر د ر ش اسکندر و دارا فقیر کو شش او با قناعت ساز کرد تا بہ کشکول گدائی ناز کرد(۱۷) علامہ اقبال نے قرآن حکیم کا مطالعہ کامل غور وفکر اور تدبر و تعمق سے کیا تھا۔ فرماتے ہیں کہ میں نے قرآن مجیدکے غائر مطالعہ سے ا س سمندر کے موتی چن لیے ہیں۔ صبغتہ اللہ کسے کہتے ہیں؟اس رمز کو میں نے پور ے شرح و بسط سے بیان کر دیا ہے۔ میرے سوز و گداز اور تب و تاب سے تو بھی اپنا حصہ حاصل کر لے اس لیے کہ میرے بعد کوئی ایسا مرد فقیر تجھے نہیں ملے گاجو ان اسرار کو بیان کرے۔میں نے مسلمانوں کے دلوں کو سوز و غم سے آشنا کر دیا ہے اور اس پرانی بوسیّدہ شاخ کو پھر تری و تازگی بخشی ہے۔ میں نے صرف شوق سیکھا اوراس آگ میں سلگتا رہا اور پھر اس سے مسلمانوں کی بجھی ہوئی آگ کو از سر نو بھڑکا دیا۔ مجھے آہِ صبح گاہی کی نعمت حاصل ہوئی ایک تنکے کو پہاُڑ کی سطوت بخش دی گئی ہے۔گویا میرے سینے میں لا الہ کا نور روشن ہے اور میرے مشروب میں لا الہ کا سرور ملا ہوا ہے اسی کے فیض سے میرے فکر کی جولانی آسمانوں کو چھوتی ہے۔ تُو بھی میرے مشروب سے ایک دو جام بھرکے پی لے تا کہ تجھ کو بے نیام تلوار کی سی چمک دمک حاصل ہو جائے۔ اقبال کے اشعار کا لطف لیجیے : خاوراں از شعلہء من روشن است اے خنک مردے کہ در عصر من است از تب و تابم نصیب خود بگیر بعد ازیں ناید چو من مرد فقیر گوہرِ ِدریائے قرآن سفتہ ام شرح رمز صبغتۃ اللہ گفتہ ام با مسلماناںغمے بخشیدہ ام کہنہ شاخے را نمے بخشیدہ ام با من آہِ صبح گاہے د ادہ اند سطوت کوہے بکاہے دادہ اند دارم اندر سینہ نور لا ا ٰلہ در شراب من سرور لا ا لہٰ فکرمن گردوں یسر از فیض اوست جوئے ساحل ناپذیر از فیض او ست پس بگیر از بادہ ء من یک د وجام تا درخشی مثل تیغ بے نیام (۱۸) اقبال اپنے قرآنی مطالعہ کا نچوڑاور اپنے فکرو تد بر کا خلاصہ یوں بیاں کرتے ہیں۔ کہ ہمار ابرگ و ساز سب کتاب و حکمت ہے۔ یہی وہ دو قوتیں ہیں جن سے ملت کوعزت و آبرو حاصل ہو تی ہے۔ دنیائے ذوق و شوق کی فتوحات ہو ں یا عالم زیریں اور عالم بالا کی فتوحات سب خدا کے انعامات ہیںجو مومنوں کو عطا کیے جاتے ہیں۔یہی جمالی اور جلالی شان کی نمود ہے۔ جو مومن کی شان اُمتیاز ہے۔ اگر تجھے دوام وثبات مطلوب ہے تو قرآن سے خوشہ چینی کر۔میں نے دیکھا ہے کہ اس میں آب حیات موجود ہے۔ قرآن ہم کو لا تخف(دنیا کی کسی قوت سے خوف مت کھاؤ) کاپیغام سناتا ہے اور ہمیں اس مقام پر پہنچا دیتا ہے کہ ہم اس حالت اور کیفیت میںڈوب جائیں۔سلطان اور امیر سب کو لا الہ سے قوت حاصل ہو تی ہے۔ مردِ فقیر بھی لا الہ کا بم اپنے پاس رکھتاہے کہ اس کی ہیبت سے سب لرزتے ہیں۔ جب تک ہمارے پاس لا اور الا(نفی اور اثبات۔کلمہ طیبہ کے دونوں ٹکڑے) کی تلوار تھی ہم نے ماسوا اللہ کی ساری قوتوں کو زیر کر لیا تھا: برگ و ساز ما کتاب و حکمت است ایں دو قوت اعتبار ملت است آں فتوحات جہاں ذوق و شوق این فتوحات جہانِ تحت و فوق ہر دوانعامِ خدائے لا یزال مومناں را آں جمال است ایںجلال بر خور از قرآن اگر خواہی ثبات در ضمیرش دیدہ ام آبِ حیات می دہد ما را پیام لا تخف می رساند بر مقام لا تخف قوت سلطان و میر ازلا الہ ہیبت مرد فقیر از لا الہٰ تا دو تیغ لا و الا داشتم ماسوا اللہ را نشاں نگداشتیم رموز بے خودی میںاقبال افسوس کر تے ہیں کہ ملت اسلامیہ نے آئین الہیٰ کو چھوڑ دیا ہے اس لیے ٹکرے ٹکڑے ہو گئی ہے۔فرماتے ہیں کہ مسلمان کو زندہ رکھنے والی قو ت یہی آئین ہے۔ مثالیں دے کر اس بات کو ذہن نشین کراتے ہیں کہ دیکھو کونپل ایک آئین کی پابند ہوئی تو بڑھ کر پھول بن گئی اسی طرح پھول ایک قاعدے میں منسلک ہوئے تو گلدستہ وجود میں آگیا۔ آواز ایک نظم و ضبط حاصل کر تی ہے تو نغمہ بن جاتی ہے ورنہ یہی آواز محض ایک بے معنی شور ہے۔ ہو اکی موج ہمارے گلے میںپہنچ کر ایک ضابطہ کی پابند ہو جاتی ہے تو لے کی صدا بن کر خوش آیند نغمہ بن جاتی ہے اشعار پڑھیے: ملتے را رفت چوں آئین زدست مثل خاک ا جزائے او از ہم شکست ہستیٔ مسلم ز آئین است و بس باطن دین نبیؐ ایں است و بس برگ گل شد چوںز آئین بستہ شد گل ز آئین بستہ شد گلدستہ شد نغمہ از ضبطِ صدا پیداستے ضبط چوں رفت از صدائے غو غاستے۔ در گلوئے مانفس موج ہواست چوں ہوا پابندِ لے گردد نواست(۲۰) شمع و شاعر میںآئین کی پابندی سے راحت و عیش کی میسر آنے کے لیے ایک اور عمدہ مثال پیش کی ہے۔ ملاحظہ کیجیے، فرماتے ہیں: دہر میں عیش و دوام آئین کی پابندی سے ہے موج کو آزادیاں سامان شیون ہو گئیں(۲۱) علامہ بتاتے ہیں کہ مسلمان کا آئین، اس کے بقا و ثبات کا ضامن قرآن حکیم ہے۔ جس میں لا زوال ازلی و ابدی حکمتوں کے خزانے بھرے ہوئے ہیں، اس سے زندگی کو استحکام حاصل ہو تا ہے۔ نا پائیدار کو پائیدار ی نصیب ہو تی ہے اس میں ذرا سا سے بھی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے، اس کی آیات میں نہ تبدیلی ہو سکتی ہے نہ ان کی غلط تاویل ممکن ہے۔نوع انسانی کے لیے یہ خداوند حکیم کا آخری پیغام ہے۔ اور اس کے لانے وا لے سارے عالموں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔رحمتہ للعالمین ہیں۔ جو نا ارجمند ہو وہ قرآن کریم کے اتباع سے اقبال مند بن جاتا ہے۔ بندوں کا سر قرآن کے حکم سے معبود مطلق کے سامنے جھکتا ہے مگر اسی سے اس کو سربلندی حاصل ہو تی ہے۔ یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات رہزنوں نے قرآن حکیم سے اعتصام کیاتو وہ دنیابھرکے قائد اور رہنما بن گئے۔وہ صحرا نشین جاہل جوہدایت کے محتاج تھے اس چراغ سے روشنی پا کے علوم و فنون کا سر چشمہ بن گئے۔یہ وہ نسخہ ہے جو جہاں بانی کے اسرار سکھاتا ہے۔ مسند جمشید اس کے قدموں میںروندی جاتی ہے اگر تومسلمان بن کر زندہ رہنا چاہتا ہے تو یاد رکھ سوائے قرآن پر قائم رہنے کے اور کوئی طریق کار نہیں: تو ہمیں دانی کہ آئین تو چیست؟ زیر گردوں سر تمکین توچیست؟ آں کتاب زندہ قرآن حکیم حکمت او لا یزال است وقدیم نسخۂ اسرار تکوینِ حیات بے ثبات از قوتش گیرد ثبات حرف او را ریب نے تبدیل نے آیہ اش شرمندۂ تاویل نے نوع انساں را پیام آخریں حاملِ او رحمۃ للعالمین ارج می گیرد ازو نا ارجمند بندہ را از سجدہ سازد سر بلند رہزناں از حفظ او، رہبر شدند از کتابے صاحبِ دفتر شدند دشت پیمایاں زِ تاب یک چراغ صد تجلی از علوم اندر دماغ گر تومی خواہی مسلمان زیستن نیست ممکن جز بقرآں زیستن اقبال کہتے ہیں کہ اگر مسلمان بن کے زندہ رہنا چاہتے ہو تو قرآن کے مطالب پر غور کرو اور خود اپنے ضمیرمیں ڈوب کر دیکھو اس کلام الٰہی کی آیتوں میںسینکڑوں نئے عالم پو شیدہ ہیں اور اس کے اوقات وآنات میںبہت سے زمانے مضمر ہیں۔بندہ مومن خدا کی آیتوں میں سے ایک آیت ہے اور اس لیے اس کے جسم پر ہر عالم کا لباس ٹھیک بیٹھتاہے۔ جب اس کے جسم پر ایک لباس اور ایک جہان پرانا ہو جاتا ہے تو قرآن مجیدکی تعلیمات اس کے ایک جہاں نو عطا کر تی ہے جس کو نئی آب وتاب بخشتا ہے : چوں مسلماںاگر داری جگر در ضمیرخویش و در قرآں نگر صد جہان تازہ در آیات اوست عصر ہا پیچید ہ در آنات اوست بندئٔ مومن ز آیات خدا ست ہر جہاں اندر بر او چوں قباست چوںکہن گردد جہانے در برش می دہد قرآں جہانے دیگرش جاویدنامہ میں اقبال نے ارتقائے روحانی کا خاکہ کھینچا ہے اس میں فلک عطارد پر ان کی ملاقات جمال الدین افغانی اور سعید حلیم پاشا سے ہوتی ہے۔ اقبال ان کی روحوں سے سوالات کرتے ہیں اور یہ پاک ارواح جواب میں ظاہر و باطن کے عقدے حل کرتی ہیں اس میں حضرت جمال الدین افغانی ؒ کی زبان سے آپ ملت روس کو (بالفاظ دیگراشتراکیوںکو) پیغام دیتے ہیں کہ تم مسلمانوں کے موجودہ رسم ورواج کو دیکھ کر صحیح رائے پر نہیں پہنچے اسلام کا آئین قرآن حکیم ہے۔ منزل و مقصود قرآں وہ نہیں جو تمکو مسلمانوں میں نظر آتا ہے۔ مسلمان کے دل میں تو آج ایمان کی آگ نہیں بھڑکتی اس کے سینے میں محمد مصطفی ا کی محبت زندہ نہیں اس نے قران کی تعلیمات سے مطلق ثمر نہ پایا، اس کا ذرا سا بھی اثر آج اس میں نہیں پایا جاتا۔ مسلمان نے (قران کی بتائی ہوئی راہ پر چل کر) قیصرو کسریٰ کا طلسم توڑا تھا اور حیف کہ پھر وہ خود ہی بادشاہت اور ملوکیت کے تخت پر متمکن ہو بیٹھا اور سلطنت کے استحکام سے غلط راستے پر پڑ کراس نے ملوکیت کے نقش قدم پر چلنا شروع کر دیا۔ در آں حالیکہ ملوکیت سے انداز نظر ہی بدل جاتاہے یہی نہیں بلکہ عقل وہوش ا ور رسم وراہ سب اُلٹ پلٹ ہو جاتے ہیں : منزل ومقصود قرآں دیگر است رسم وآئین مسلمان دیگر است در دلِ او آتش سوزندہ نیست مصطفیٰؐدر سینہ او زندہ نیست بندہ مومن ز قرآن برنخورد در ایاغ او نہ مے دیدم نہ درد خود طلسم قیصر و کسری شکست خود سر تخت ملوکیت نشست تا نہال سلطنت قوت گرفت دین او نقش از ملوکیت گرفت از ملوکیت نگہ گردد دگر عقل و ہوش و رسم و رہ گردد دگر(۲۴) اس کے بعد جمال الدین افغانیؒ کی طرف سے ملت روس کو پیغام دیتے ہیں کہ تو نے سارے مجازی خداوندوں کے بت توڑ ڈالے۔ مگر یہ تخریب کافی نہیں ہے۔ اب اس نفی سے اثبات کی طرف، لا سے الا کی طرف آجا۔ تجھے حق کی تلاش ہے تو لا کے مقام سے آگ بڑھ، تاکہ اثبات کے مقام کو حاصل کر کے زندگی کو پالے۔ تو جو دنیا کے لیے ایک نظام قائم کرنا چاہتا ہے تو نے اس نظام کے لیے کوئی مضبوط اساس بھی تلاش کر لی ہے؟ یہ اساس میں تجھے بتاؤں۔ ام الکتاب (قرآن مجید) کا مطالعہ کر۔ اس سے اپنی عقل اور فکر کو منور کر۔ پھر تو صراط مستقیم پالے گا۔ ذرا سوچ! سیاہ فام جاہل وحشی لوگوں کو یدبیضا کا سا معجزہ کس نے دیا تھا؟ لاقیصر اور لاکسریٰ کا مژدہ کس نے سنایا تھا؟ قرآن کے بغیر جو قوت حاصل ہو وہ مکاری سکھاتی ہے۔ قرآن فقر کی تعلیم دیتا ہے یعنی ساز و سامان سے بے نیازی سکھاتا ہے۔ مگر یہی فقر اصل شہنشاہی ہے۔ فقر قرآن ذکر و فکر کے اختلاط سے حاصل ہوتا ہے۔ تجھے فکر کی لذت سے آشنائی ہے خواہ تو اس میں ابھی خام ہی ہو۔ اس لیے کہ ذکر کی آمیزش کے بغیر فکر محض زبانی ڈھکوسلوں کا نام نہیں، یہ تو روح کا عمل ہوتا ہے۔ ذکر ہی سے سینوں کو منور کر دینے والے شعلے بھڑکتے ہیں۔ تجھے ابھی ذکر کی ان قوتوں اور جلووں سے مطلق آگاہی نہیں۔تو فکر کی رعنائیوں پر شیدا ہے۔ تجھے تو ابھی فکر کی تجلیات سے بھی واقفیت نہیں۔ آ میں تجھے فکر کی تجلیات کی کچھ جھلکیاں دکھاؤں۔ اقبال کے اشعار سنیے۔ فرماتے ہیں:۔ کردۂ کار خداونداں تمام بگذار از لاجانب الا خرام در گداز از لا اگر جو یندۂ تارہِ اثبات گیری زندۂ اے کہ می خواہی نظامِ عالمے جستہء او را ساس محکمے؟ داستان کہنہ شستی باب، باب فکر را روشن کن از ام الکتاب با سیہ فاماں ید بیضا کہ داد؟ مژدہ لا قیصر و کسریٰ کہ داد؟ چیست روباہی تلاش ساز و برگ شیر مولا جوید آزادی و مرگ جز بقرآںضیغمی روباہی است فقر قرآںاصل شہنشاہی است فقر قرآںاختلاط ذکر و فکر فکر را کامل ندیدم جز بہ ذکر ذکر ؟ ذوق و شوق را دادن ادب کارِ جان است ایں نہ کار، کام و لب خیزد از وے شعلہ ہائے سینہ سوز با مزاج تونمی سازد ہنوز اے شہید شاہد رعنائے فکر با توگویم از تجلی ہائے فکر(۲۵) علامہ جمال الدین افغانی کی بات جاری رکھتے ہوئے آگے کہتے ہیں کہ اے اشتراکیوں ! تمھیں جن اُصولوں پر ناز ہے وہ اس سے بہتر اور زیادہ مکمل انداز میں تم سے بہت پہلے قرآن حکیم پیش کر چکا ہے۔ قرآن امیروں اور زرداروں کے لیے موت کا پیغام ہے۔ تو بندہ بے ساز و سامان کے لیے باعث قوت۔زر کش شخص سے کسی قسم کی بھلائی کی توقع مت رکھو اس لیے قرآن کا فتویٰ یہ ہے کہ تم اس وقت تک نیکی اور بھلائی نہیں پا سکتے جب تک اپنا وہ مال خرچ نہ کرو جو تم کو بہت عزیز ہے۔ اس اُصول کو قائم کر کے قرآن نے محتاجوں کی احتیاج دور کر نے کا اہتمام فرمایا ورنہ سود خور مہاجن ان کا خون پیتے تھے اس کے بر عکس قرآن نے ضرورت مندوں کو قرض دینے کی تلقین کی۔ ربا سے روح مر جاتی ہے۔دل اینٹ پتھر کی طرح سخت ہو جاتا ہے اور گو کہ اس کے درندوں جیسے دانت اور پنجے نہیں ہوتے، لیکن انسان عملاًبالکل ایک درندہ بن جاتا ہے۔ ملکیت زمین کامسئلہ بھی تم نے صحیح نہیںسمجھا۔زمین ملکیت خدا کی ہے اور بندہ امانت دار بن کر اس میں تصرف کرتا ہے اور اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔خدا مالک اور بندہ امین ہے۔سلاطین نہ حق دیکھتے ہیں اور نہ نا حق جو چاہتے ہیں کرتے ہیں چنانچہ کتنی ہی بستیاں ہیں جو بادشاہوں کی فتوحات میں بر باد ہو گئیں۔ قرآن کی تعلیم تویہ ہے کہ بنی آدم نفس واحد کی طرح ہیں اور ایک ہی دستر خوان سے سب کو روٹی اور پانی میسر آتا ہے اشعار ملاحظہ کیجیے: از ربا آخر چہ می زاید ؟ فتن کس نداند لذتِ قرض حسن از رباجاں تیرہ دل چوں خشت و سنگ آدمی درندہ بے دندان و چنگ رزق خود را از زمین بردن رواست ایں متاع بندہ و ملکِ خدا ست بندۂ مومن امیں، حق مالک است غیرحق ہر شے کہ بینی ہالک است رایتِ حق از ملوک ا ٓمد نگوں قریہ ہا از دخل شاں خوار وزبوں آب و نانِ ماست از یک مائدہ دودۂ آدم کنفس وا حدہ(۲۶) اس کے بعد اشتراکیوں سے کہتے ہیںکہ تم نے مذہب کی بیخ کنی کی اچھا نہ کیا، اس کی ضرورت بھی نہ تھی اس لیے کہ جب کہ قرآن نازل ہوا سب مذاہب منسوخ ہو گئے۔کاہن اور پاپا سب کے طریقے مٹا دیے گئے اگر میرے دل کی بات سنتے ہو تو سنو، قرآن محض ایک کتاب نہیں ہے یہ اس سے بڑھ کر اور بہت کچھ ہے جب یہ روح کے اندر سما جاتا ہے تو جان اور روح کچھ سے کچھ ہو جاتے ہیں اور جب جان بدل کر کچھ اور ہو گئی تو پھر دنیا ہی بدل جاتی ہے۔قرآن خدا کا کلام ہے اسی کی طرح پوشیدہ بھی ہے ا ور آشکار بھی، وہ حی و قیوم ہے یہ بھی زندہ پایندہ اور ناطق ہے اس میں مشرق اور مغرب سب کی تقدیر موجود ہے۔ اپنے خیال میں بجلی کی سی تیزی پیدا کر پھر تو حقیقت کو پاسکے گا۔ قرآن نے مسلمان کو حکم دیا ہے کہ ہر وقت جان ہتھیلی پر رکھے رہ اور تیرے پاس جو مال ضرورت سے زیادہ ہے، وہ خدا کی راہ میں دے دے۔ اے روس تو نے ایک نیا قانون اور نئی شریعت ایجاد کی ہے۔ اس کی ضرورت تھی نہ یہ کامل ہے۔ ذرا قرآن کے نور کی گہرائیوں میں ڈوب کر دیکھ تو پھر تو زندگی کے نشیب وفراز سے آگاہ ہو جائے گا یہی نہیں تجھے زندگی کی تقدیر پر آگاہی حاصل ہو جائے گی۔ اس ضمن میں علامہ کے اشعار یہ ہیں: نقش قرآں تا دریں عالم نشست نقش ہائے کاہن و پا پا شکست فاش گویم آنچہ در دل مضمر است ایں کتابے نیست چیزے دیگر است چوں بجان د ر رفت جان دیگر شود جان چو دیگر شدجہان دیگر شود مثل حق پنہاں وہم پیداست ایں زندہ وپائندہ وگویاست ایں اندر وتقدیر ہائے غرب وشرق سرعت اندیشہ پیدا کن چوں برق با مسلمان گفت جاںبت کف بنہہ ہر چہ از حاجت فزوں داری بدہ آفریدی شرع و آئینے دگر اندکے با نورِ قرآنش نگر از بم وزیر حیات آگہ شوی ہم زتقدیر حیات آگہ شوی(۲۷) قرآن حکیم کس طرح کی عملی زندگی کی تعلیم دیتا ہے اس کی ایک روشن مثا ل علامہ اقبال نے شرف الننساخانم کی زندگی میں پیش کی ہے۔شرف النسا شاہی زمانے میںنواب عبد الصمد خاں گورنر پنجاب کی دختر نیک اختر تھی۔ باوجود شہزادی ہونے کے دنیا کے ناز و نعمت سے اسے کوئی ر غبت نہ تھی۔قرآن کی محبت اس کے رگ و پے میں رچی ہوئی تھی اور قرآن مجیدکی تلاوت اس کا ہمہ وقتی وظیفہ تھا اس کی کمر میں دودھاری تلوار اور ہاتھ میں قرآن ہوتا تھا اور تن بدن ہوش و حواس سب اللہ کی یاد میں صرف کرتی تھی۔ خلوت، تلوار، قرآن اور نماز یہ اس کے شعار تھے۔ سبحان اللہ کیا با برکت عمر اس نے یاد خدا میں گزاری۔ جب اس کا آخری وقت آیا، تو اس نے ماں کو شوق بھری نگاہوں سے دیکھ کر کہا اماں اگر آپ میرے دل کا بھید جاننا چاہتی ہیںتواس تلواراوراس قرآن کو دیکھیے۔ یاد رکھیے کہ یہ دونوں قوتیںایک دوسرے کی محافظ ہیں اور کائنات زندگی کا دارو مدار بھی انھی پر ہے اس دنیا میں ہر شے ہر لمحے فنا ہوتی رہتی ہے، آپ کی بیٹی کی محرم وراز دار یہ دونوں چیزیں بنی رہیں اب جب کہ کوچ کا وقت آگیا ہے۔ میری آپ سے یہ درخواست ہے کہ تلوار اور قرآن کو مرنے کے بعد بھی مجھ سے جدا نہ کیجیے گا۔میں جو کچھ کہہ رہی ہوں اس کو غور سے سنیے۔مجھے اپنی قبر پر کسی گنبدا ور قندیل کی ضرورت نہیں۔مسلمانوں کے لیے تلوار اورقرآن کافی ہیں۔ہماری قبر کے لیے یہی سامان سب سے اچھا ہے۔ اقبال کے اشعار کا مطالعہ کیجیے:فرماتے ہیں: آں سراپا ذوق وشوق و درد، و داغ حاکم پنجاب را چشم و چراغ آن فر وغ دودہ ء عبد الصمد فقر او نقشے کہ ماند تا ابد تاز قرآن پا ک می سوزد وجود از تلاوت یک نفس فارغ نبود در کمر تیغ دو رو قرآن بدست تن بدن، و ہوش حواس اللہ، مست خلوت وشمشیر وقرآن  و نماز اے خوش آںعمرے کہ رفت اندر نیاز بر لب او چوں دم آخر رسیّد سوئے مادر دید و مشتاقانہ دید گفت اگر از راز من داری خبر سوئے ایں شمشیر و ایں قرآں نگر ایں دو قوت حاٖفظ یک دیگر اند کائنات زندگی را محور اند اندریں عالم کہ میرد ہر نفس دخترت را ایں دو محرم بود وبس وقت رخصت با تو دارم ایں سخن تیغ وقراں را جدا از من مکن دل بآں حرفے کہ می گویم بنہ قبر من بے گنبد وقندیل بہ مومناں را تیغ با قرآن بس است تربت ما را ہمیں ساماںبست است (۲۸) اقبال نے فقر کاجا بجا ذکر کیا ہے۔ یہاں اس فقر کا تعارف مقصود ہے جس کو اقبال فقر قرآن کہتے ہیں جو اُسوہ حسنہ ہے رسول مقبول ا کا، جس کی بابت آپؐ نے ارشاد فرمایا ہے الفقر فخری(فقر میرے لیے مو جب فخر ہے) مناسب ہے کہ اقبال ہی کے بیان کے مطابق اس فقر کی شان کو نمایاں کیا جائے اقبال کہتے ہیں۔ لوگوفقر کیا ہے؟یہ نہ سمجھو کہ فقر غربت ومحتاجی کے ہم معنی ہے۔فقر نام ہے ایسی نظر کا جو راہ شناس ہے، ایسے دل کا جو زندہ وپایندہ ہے، اپنے معاملات کو جانچنا پر کھنا(خود احتسابی)اور ساری کائنات کا احتساب فقر کی شان ہوتی ہے۔ وہ ہر وقت لا الہ میں ڈوبا رہتا ہے۔فقر کو جو کی روٹی میسر ہوتی ہے مگر اس سے بھی اس کو وہ بے پناہ قوت حاصل ہوتی ہے کہ وہ قلعہ خیبر کو فتح کر لیتاہے۔سلطان اور امیرسب اس کے فتراک میں بند ھے ہوئے ہیں۔ذوق وشوق اور تسلیم و رضا کا نام فقر ہے۔یہ ایسی قیمتی متاع ہے جسے محمد مصطفی ا سے نسبت ہے۔ ہم کو بھی یہ انھی کے صدقے میں میسر آتی ہے۔ فقر میں وہ قوت پوشیدہ ہوتی ہے کہ وہ فرشتوں پر یلغار کر سکتا ہے اور عالم کی تمام ظاہری و باطنی قوتیں اس کی زد میں ہوتی ہیں۔یہ فقر تجھے کسی ا ور ہی بلند مقام پر پہنچا دیتاہے اور تجھے شیشے جیسی نازک شے سے ہیرے جیسی سخت اور مضبوط شے میں تبدیل کر دیتا ہے اس فقر کابرگ و ساز قرآن عظیم سے حاصل ہوتا ہے اس لیے وہ مرد درویش جو فقر قرآنی سے آراستہ ہو، صرف ایک گڈری میں نہیں سما سکتا۔ علامہ کے اشعار کا لطف اُٹھائے۔لکھتے ہیں: چیست فقر؟ اے بندگان آب و گل یک نگاہِ راہ بیں، یک زندہ دل فقر کار خویش را سنجیدن است بر دو حر ف لاالہٰ پیچیدن است فقر خیبر گیر با نانِ شعیر بستہء فتراک او سلطان و میر فقر ذوق و شوق و تسلیم و رضاست ما امینیم، ایں متاع مصطفیؐ ست فقر بر کرو بیاںشبخوں زند بر نوامیسِ جہان شبخون زند بر مقام دیگر اندازد ترا از زجاج الماس می سازد ترا برگ و ساز او ز قرآن عظیم مرد درویشے نہ گنجند در گلیم(۲۹) جیسا کہ آخری شعر میں علامہ نے کہاہے۔ یہ فقر فقر قرآنی ہے۔یہ صرف خود احتسابی نہیں بلکہ ساری کائنات کا احتساب کرتا ہے۔ رباب، مستی، رقص، سرود، کا نام فقر نہیںہے۔فقر مومن کیاہے؟فقر مومن میں وہ خاصیت اور وہ قوت پیدا کرتا ہے۔ کہ وہ سارے عالم اور شش جہات کو تسخیر کر لیتاہے۔ ایک کمزور انسان اس فقر کی تاثیر سے مولا کی صفات سے مزین ہو جاتا ہے۔کافروں کا فقر یہ ہے کہ وہ جنگلوں اور آبادیوں سے خلوت گزینی اختیار کر یں۔مومن کا فقر یہ ہے کہ ا س سے بحر و بر کانپتے ہیں۔کافر کے لیے غاروں اور پہاُڑوں کی تنہایوں میںسکون کی زندگی ہوتی ہے۔ مسلمان کو شان دار موت سے ہم آغوش ہونے کی آرزو رہتی ہے اورا سی کو وہ زندگی سمجھتاہے۔ کافر کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ جسمانی آرام کو ترک کر کے خدا کی تلاش کرے۔مسلمان ا س کے برعکس اپنی خودی کو حق کی کسوٹی پر لگاتا ہے، اور اسطرح معرفت حاصل کرتا ہے۔ کافر خودی کو مار کر اور تہس نہس کر کے خدا تک پہنچنا چاہتا ہے۔ مسلمان اپنی خودی کو چراغ کی طرح روشن کر کے اسے دلیل راہ بناتا ہے۔ فقر مومن جب ا ٓسماں کے نیچے عریاں ہو جاتا ہے۔ تو ماہ و مہر اس کے ایک نعرے کی تاب نہیں لاسکتے۔فقر عریاں وہ قوت ہے۔جو بدر و حنین میں نظر آئی تھی۔فقر عریاں وہ قوت ہے جو حسین ؑ کی تکبیر سے جھلکی تھی۔فقر جب سے عر یاں و آشکارہ ہونے کی صفت سے رہ جائے۔ مسلمانوں کا سارا رعب ا و ر جلال ختم ہو گیا۔ اقبال کے اشعار ملاحظہ ہوں: فقر قراں ا حتسابِ ہست و بود نے رباب و مستی و رقص و سرود فقر مومن چیست ؟ تسخیر جہات بندہ از تاثیرِ او مولا صفات فقر کافر خلوتِ دشت ودر است فقر مومن لرزہ ء بہر و بر است زندگی آں را سکونِ غار و کوہ زندگی ایں را زمرگ با شکوہ آن خدا را جستن از ترکِ بدن ایں خودی را بر فسانِ حق زدن آں خودی را کشتن واسوختن ایں خودی را چوں چراغ ا فروختن فقر چوں عریاں شودزیر سپہر از نہیب او بہ لرزد ماہ ومہر فقر عریاں گرمئی بدر و حنین فقر عریاں بانگِ تکبیرحسین ؑ فقر را تاذوق عریانی نہ ماند آں جلال اندر مسلمانی نہ ماند (۳۰) یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں اپنی کتاب سیرت اقبال میں سے بعض اقتباسات وضاحت کے لیے پیش کروں: طریقت میں فقر کے معنی محتاجی و مفلسی کے نہیں ہیں۔صوفی فقیرجاہ، مال، عزت، منصب، سوال، ناداری، سب کو ٹھکرا دیتا ہے۔وہ ان سب اعتبارات سے مافوق ہوتا ہے، اس کی ہمت اب سب چیزوں سے بالا وبر تر ہوتی ہے۔وہ غیر کا احسان بر داشت نہیں کر سکتا۔مسلمانوں میں جب یہ دینوی فقر و احتیاج ا ور حب مال و جاہ آئی، اور اُنھوں نے فقر قرآنی کو پس پشت ڈال دیا، اسی وقت سے ان کا زوال شروع ہو گیا۔ مختصر یہ کہ وہ فقر جو توحیدکا راز داراور متاع مصطفویؐ کا امین ہو جس کا ساز و برگ قرآن عظیم ہو اور جس کے عناصرصدق، اخلاص، نیاز، سوز، درد، ذوق، شوق، تسلیم ورضا، دل زندہ اور نگاہ راہ بیں ہو، وہ فقر اسلام کا مقصود ہے۔جس پر آنحضرت ا نے بھی فخر فرمایا تھا۔جس کی قوت وشوکت کی تفصیل اوپر کے اشعار میں آئی ہے جو تمام عالم کی سلطنتوں کو چشم زدن میں تہہ و بالا کر سکتا ہے، اور جو بطن گیتی اور سینہ ء افلاک کے پوشیدہ اسرار رموز کو حل کرنا ایک کھیل جانتا ہے۔جب سے مسلمانوں نے یہ فقر کھو دیا، دین بھی ان کا نہ رہا اور دنیا نے بھی ان سے منہ موڑ لیا۔ کچھ اور چیز ہے شاید تیری مسلمانی تیری نگاہ میں ہے اک فقر و رہبانی سکوں پرستی راہب سے فقر ہے بیزار فقیر کا ہے سفینہ، ہمیشہ طوفانی پسند روح و بدن کی ہے وانمود اس کو کہ ہے نہایت مومن خودی کی عریانی وجود صیرفی کائنات ہے اس کا اسے خبر ہے کہ یہ باقی ہے اور وہ فانی اسی سے پوچھ کہ پیش نگاہ ہے جو کچھ جہان ہے یا کہ فقط رنگ و بو کی طغیانی یہ فقر مرد مسلمان نے کھو دیا جب سے رہی نہ دولتِ سلمانیؓ و سلیمانیؑ اسی لیے علامہ اسی د ولت فقر کی مسلمانوں کے حق میں دُعا کرتے ہیں۔ سوچا بھی ہے اے مرد مسلمان کبھی تو نے کیا چیز ہے فولاد کی شمشیرِ جگر دار اس بیت کا یہ مصرع اول ہے کہ جس میں پوشیدہ چلے آتے ہیں توحید کے اسرار ہے فکر مجھے مصرع ثانی کی زیادہ اللہ کرے تجھ کو عطا فقر کی تلوار قبضے میں یہ تلوار بھی آ جائے تو مومن یا خالدؓ جانباز ہے یا حیدر کرارؓ فقر دین اور فقر دنیا کا فرق اقبال نے خوب وضاحت سے ان ا شعار میں بیان کیاہے۔ فرماتے ہیں: اک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچری اک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہاں گیری اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری اک فقر سے مٹی میں خاصیت اکسیری اک فقر ہے شبیریؓ اس فقر میں ہے میری میراث مسلمانی سرمایہ شبیریؓ(۳۱) سیرت اقبال سے یہ اقتباس بھی مفیدمطلب ہو گا: اسلام کی تمام تعلیمات کا سر چشمہ قرآن حکیم ہے۔ اقبال نے اپنے پیام میں قرآن حکیم کو پڑھنے اور اس سے نور ہدایت حاصل کرنے پر بڑا زور دیا ہے۔ ایک خط میں اکبر الہ آبادی مرحوم کو لکھا تھا واعظ قرآن بننے کی اہلیت تومجھ میں نہیںہے ہاں اس کے مطالعے سے ا پنا اطمینان خاطر روز بروز ترقی کرتا جاتا ہے۔ (مکاتیب اقبال حصہ اول)(۳۲) اُسوہ ء حسنہ کے ذیل میں یہ اقتباس اور ملاحظہ کیجیے: سرکار دو عالم ا کی سیر ت ہمارے سامنے ہے۔ حضور نے مکارم اخلاق کی جو تعلیم دی ہے اسے دنیا کے بہترین مفکرین اور مصلحین نے معیاری درس اور اعلیٰ نمونہ مانا اور سمجھا ہے آنحضرت اکی سیرت کا مطالعہ اس لیے ہمارے واسطے اور ناگزیر ہوجاتا ہے کہ آج مسلمانوں کی پستی و نکبت کا بہت بڑا سبب یہی ہے کہ حضورؐ کے اُسوہ حسنہ کی تقلید تو در کنار، ہم کو ان امور سے واقفیت تک نہیں ہوتی جن کی تعلیم و تبلیغ میں سرکارؐ نے اپنی پوری زندگی صرف فرما دی۔ رونے اور ماتم کرنے کا مقام ہے کہ ہم دوسرے فلسفیوںاور مفکروں کے اقوال کو لائحہء زندگی بنا نا چاہتے ہیں حالانکہ آنحضرت اان تمام مسائل پر جن کے لیے ہم دوسرں کے سامنے کاسہء گدائی پھیلاتے ہیں ہماری رہنمائی فرما گئے ہیں اور آپؐ کے اعمال و اقوال ہماری تمام ظاہری و باطنی دینی و دینوی مشکلات کا صحیح حل پیش کرکے ہماری مشکل کشائی کے لیے تیار ہیں۔ بندۂ مومن، صاحب فقر اورعاشق صادق کے سامنے صرف ایک ہی دستور العمل ہوتا ہے اور وہ ہے آنحضرتؐ کا اُسوہ حسنہ، ایسا شخص اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ تمام ملت کے لیے موجب نجات ہوتا ہے۔ نغمہ مردے کہ دارد بوئے دوست ملتے را می تا کوئے دوست(۳۳) علامہ اقبال نے بیسویںصدی میں قرآن حکیم کی تعلیمات ا س اُسلوب پر پیش کیں کہ دور جدید ان کو سمجھ سکے اور قبول کر سکے اسی کے سا تھ آپ نے اُسوہ نبویؐ کے اتباع اور تقلیدکی طرف شد ومد سے متوجہ کیا۔ مثنوی مولانا روم کے بابت میں کہا گیاہے کہ وہ فارسی زبان میں قرآن حکیم ہی کا ایک روپ ہے۔ بلاشبہ یہی بات علامہ اقبال کی شاعری پر صادق آتی ہے کہ اُنھوں نے موجودہ دور میںتعلیمات قرآنی کو آج کی ضروریا ت کی روشنی میں ہاد ی و رہنما بنا کر پیش کیا۔تا کہ اُمت اس کی طرف متوجہ ہو اور قرآن کی عملی تفسیر یعنی سیرت محمدیؐ کا اتباع کر کے دین و دنیا میںفلاح و نجات پائے۔میں نے اس قطعہ میںعلامہ کے شعر کو تظمین کر کے یہی مضمون واضع کرنے کی کوشش کی ہے۔ ملاحظہ کیجیے: گفتہ اند ارے چہ در ہائے سفتہ اند حق ہمی زاید ازیں حرف سوی مثنوی، مولوی، معنوی ہست قرآن در زبان پہلوی عصر حاضر چوںز حق بیگانہ شد ملک و ملت خوار و رنجور غوی آں حکیم اُمت آں دانائے راز باز بنمودہ است راہِ مستوی شعر او تفسیر قرآن حکیم در زبان ا ردو وہم فارسی عقدہِ پیچیدہ را بر ما کشود بر ملاگفتہ است رازِ زندگی گفتۂ اقبال را محکم بگیر تاازیں عالم نصیب خود بری گر تومی خواہی مسلمان زیستن نیست ممکن جزبہ قرآں زیستن(اقبال) /…/…/ حواشی ۱۵-مولانا ابو الکلامآزاد، ام الکتاب، صفحات۔۳۸۱، ۳۸۶۔ ر موز بے خودی، ص، ۱۲۱، ۱۲۶۔ ۱۶ - اسرار و رموز، ص، ۱۲۶، ۱۲۷، ۱۲۸۔ ۱۷- ایضاً، ۱۲۸، ۱۲۹۔ ۱۸-مسافر، ص، ۸۵، ۸۶۔ ۱۹- ایضاً، ص، ۸۳، ۸۴، ۸۵۔ ۲۰- اسرار ورموز، ص، ۱۲۱، ۱۹۹۔ ۲۱-بانگ درا، ص، ۲۱۵۔ ۲۲- اسرار ورموز، ص، ۱۲۱، ۱۲۲۔ ۲۳-جاوید نامہ، ص، ۶۶۔ ۲۴ - ایضاً۔ص، ۷۸، ۷۹۔ ۲۵ - ایضاً۔ص، ۷۹، ۸۰۔ ۲۶ - ایضاً۔ص، ۷۹، ۸۰، ۸۱۔ ۲۷ -ایضاً، صفحات۸۰۔۸۱۔ ۲۸ - ایضاً، صفحات۱۵۶، ۱۵۷۔ ۲۹-پس چہ باید کرد اے اقوام، ص، ۲۰۔ ۳۰-ص، ایضاً، ص، ۲۲۔ضرب کلیم، ص، ۶۳، ۶۴، ۳۹۔ ۳۱-سیرت اقبال، ص، ۳۴۳، ۳۴۷، بال جبریل، ص، ۱۶۶۔ ۳۲ -ایضاً، ص، ۱۰۰۔ ۳۳ -ایضاً، ص، ۳۶۳، ۳۶۴، اسرار ورموز، ص، ۱۲۳۔ /…/…/ ارمغانِ عقیدت رسول کریم ا کے اُسوہ حسنہ، خلق عظیم، اعلیٰ کردار اور مثالی شخصیت کا نام پہلے آچکاہے۔ کون ہے جو آپ کی ذات مبارک اور صفات مقدس سے واقف ہو نے کے بعدآپؐ سے نسبت اور رابطہ ہی نہیں، کامل محبت، مودت اور عقیدت پیدانہ کرے گا۔حضورؐ کی ثنا اور صفت بیان کرنا دل کا عمل بھی ہے اور دماغ کا بھی، اس اظہار وبیان کا محرک یاتوعشق و محبت کا جذبہ ہو گا یا اوصاف نبوی اور شمائل رسولؐ سے متاثر ہونا۔دونوں سورتوں میں آپؐ کی ذات و صفات کی مدح وثنا اور توصیف و نعت ایک جان نثار اور عاشق رسولؐ کا ایک فطری عمل ہوتی ہے۔ حضورؐ کی ذات کی بلندی کا تصور کر نا شعور بشر سے باہر ہے اسی طرح آپ کے اوصاف وکمالات کی کما حقہ ثنا و صفت بیان کر نا حیطہ انسانی میں نہیں اسی لیے کہاگیاہے کہ یہاں ذرا سی لغزش بھی افراط یا تفریط کی مستلزم ہو تی ہے۔ عرفی نے نعتیہ قصیدہ میں کیاخوب بات کہی ہے۔کہ اے عرفی زور بیان میںتیزی مت دکھا۔کہیں تو حد ادب سے تجاوز نہ کر جائے۔یہ خیال رکھ کہ نعت کا راستہ ایک تیز دھار تلوار کی مانند ہے۔یہاںقلم کا واسطہ تلوار کی دھار سے ہے ذرا پھسلا اور گیا۔شعر ہے : عرفی مشتاب ا یں راہِ نعت است نہ صحرا ست آہستہ کہ راہ بردم تیغ است قلم را اسی لیے کہا گیا ہے کہ : ؎ با خدا دیوانہ باش و با محمدؐ ہوشیار یہ بار گاہ ایسی نازک ہے کہ عرش کی نزاکت بھی اس کے آگے کچھ نہیں اس ادبستان میں حضرت با یزید بسطامی ؒ اور حضرت جنید بغدادیؒ جیسے جلیل القدر اولیا اللہ بھی حاضر ہوتے ہیں تو رعب وجلال سے کانپتے لرزتے، حواس باختہ نظر آتے ہیں: ادب گاہیست زیر آسمان از عرش نازک تر نفس گم کردہ می آید جنیدؒ و بایزید ؒ ایں جا اسی لیے شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ تم اس دربار میں حاضری دو تو پورے ادب وآداب کے ساتھ آؤ۔یہ وہ در بار ہے جسے فرشتے، جنات، انسان، سب سجدہ گاہ سمجھتے ہیں۔ بے ادب پا منہ ایں جا کہ عجب درگاہ است سجدہ گاہِ ملک وجن وبشر ایں جا ہست (ناصر علی سر ہندی) یہاں ادب و آداب کا لحاظ سب سے زیادہ ضروری ہے کہ ذرا سی لغزش بھی نا قابل معافی ہے۔ نعت گو شعرا نے اسی ادب کو ملحوظ رکھ کے حضورؐ کی ثنا و صفت بیان کر نے میںپورا پورا زور بیان صرف کیاہے مگر سب کا لبِ لباب شیخ سعدی نے ان چار مصرعوںکے قطعے میں جمع کر دیاہے۔ فرماتے ہیں کہ آپؐ علو اور کمال کے بلند ترین مرتبے پر فائز ہیں آپؐ کے حسن عالم تاب نے تمام تا ریکیں دور کر کے ا طراف وجہات کو منور کر دیا آپؐ کے تمام اوصا ف و شمائل سب سے اعلیٰ اور مثالی ہیں۔ بس آپؐ کی ذات و صفا ت کا تصور کرو اور ہر وقت آپ پرؐ اور آپؐ کی آل پر درود پڑھتے رہا کرو: بلغ العلیٰ بکمالہٖ کشف الدجیٰ بجما لہٖ حسنت جمیع خصالہٖ صلوا علیہ وآلہٖ حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی ؒ نے تمام نعت کا نچوڑ ان چار مصرعوں میںاور خصوصاً آخری مصرعے میںجمع کر دیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ اے حسن وجمال کے مالک اور اے عالم بشریت کے سر دار آپ کے رخ مبارک کے نور ہی سے تومہتاب کو روشنی حاصل ہوتی ہے۔ کسی سے آپؐ کی توصیف و ثنا کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ بس یوں کہنا چاہیے کہ صفات خدا وندی کا کامل پر تو صرف آپ ہی کی ذات گرامی میں نظر آتا ہے اس لیے خدا کے بعدآپؐ ہی کی ذات ساری کائنات میں بزرگ اور ممتاز ہے: یا صاحب الجمال ویا سیّد البشرؐ من وجھک المنیرلقد نور القمر لا یمکن الثناء کما کان حقہ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر نعت گوئی اسلام کے چودہ سو سالہ دور میںشروع ہی سے نظر آتی ہے۔ حضرت حسان بن ثابت ؓمشہور صحابی مداحِ رسو ل کی حیثیت سے اُمتیاز رکھتے ہیں۔حضورؐ آپ کی عزت فرماتے تھے اور آپ نعت سناتے تومسجد نبوی میں منبر رکھوادیتے۔حضرت لبیدؓ عربی کے ان شعرا میں ہیں جن کا قصیدہ سبعہ معلقہ کے ممتاز قصیدوں میں شمار کیا جا تاہے ، آپ نے اسلام لانے کے بعد شاعری چھوڑ د ی تھی مگر آپؐ کے بعض نعتیہ اشعار کتا بوں میں نقل کیے گیے ہیں۔حضرت کعب بن زہیر ؓ صحابی ہیںآپ کا مشہورقصیدہ بانت سعاد ہے۔ جو آپؓ نے حضورؐ کے سامنے سنانے کی عزت حاصل کی تھی اور چادر مبارک صلہ میںپائی تھی اس لیے یہ قصیدہ بھی برُدہ کہا جاتا ہے۔ مگر قصیدہ برُدہ کے نام سے زیادہ مشہور وہ قصیدہ ہے جو امام شرف الدین محمد بن حسن البوصیریؒ نے لکھا تھا جس کا پہلا شعر یہ ہے۔ امن تذکر جیران ٍبذی سلم مزجت دمعاً جریٰ من مقلۃٍ بدم اس قصیدے کا پورا نام ہے۔الکواکب الدریہ فی مناقب خیر البریہؐ امام بو صیری کو فالج ہوگیا تھا اور آپ کا نصف بدن بالکل بے حس اور بے کار ہو چکا تھا۔معذوراور مایوس تھے اسی مایوسی کے عالم میںآپ نے یہ قصیدہ تحریر کیا اور ایک شب جمعہ اس کو پڑھ کر سو گئے۔خواب میں آنحضرت ا کی زیارت ہوئی آپؐ نے قصیدہ سماعت فر ما کر چادر مبارک انعام میں عطا کی اور امام بو صیری کے جسم پر اپنے ہاتھ پھیرے۔جب بوصیریؒ صبح کو بیدار ہوئے تو بالکل تندرست تھے۔ضرورت سے خود چل کر بازار گئے۔جس نے دیکھا تعجب کیا کہ اچانک یہ کیسے تندرست ہو گئے۔راستے میں ایک درویش ملے اُنھوں نے بو صیری سے در خواست کی کہ اپنا نعتیہ قصیدہ سناؤ اُنھوں نے جواب دیا کون سا قصیدہ۔میں نے نعت میں بہت سے قصیدے لکھے ہیں۔در ویش نے کہاکہ وہ قصیدہ کہ جو رات تم نے رسول کریم ا کو سنایا تھا اور جس کے صلہ میں تم انعام وکرام سے سر فراز کیے گیے۔ شیخ بو صیری کو بہت تعجب ہوا کہ نہ تو میں نے کسی کو ابھی یہ قصیدہ سنایا ہے اور نہ کسی سے اس خواب کا ذکر کیاہے۔درویش نے کہا میں اس وقت دربار رسالت میں موجود تھا جب تم یہ قصیدہ سنارہے تھے مگر اب میں حصول برکت کے لیے اسے دوبارہ سننا چاہتا ہوں۔ اسی دن سے یہ قصیدہ شفائے امراض کے لیے نہایت مبارک شمار کیاجاتا ہے۔ عربی کی طرح فارسی میں بھی بے شمارشعرا نے نعت گوئی کو اپنا شعار بنایا۔سعدی، خسرو، خاقانی، نظامی، سنائی، عطار، عرفی، نظیری، جامی، قدسی اور دوسرے شعرا نے جملہ اصناف سخن میںنعت گوئی کا حق ادا کر دیا ہے۔قدسی کی نعت کا یہ شعر ہر ایک کی زبان پر ہے۔ مر حبا سیّدِ مکی مدنی العربی دل و جان باد فدایت چہ عجب خوش لقبی مولانا جامی کے یہ اشعار بھی بہت مشہور ہیں۔ ز مہجور ی بر آمد جانِ عالم ترحّم یا نبی اللہ تر ّحم نہ آخر رحمتہ للعالمینی ز محروما ں چرا فارغ نشینی ناصر علی سر ہندی کی یہ رباعی کس قدر بلیغ اور معنی خیز ہے۔ پیش از ہمہ شاہان غیور آمدۂ ہر چند کہ آخربظہور آمدہ ٔ اے ختم رسل قرب تو معلومم شد دیر آمدہ زِ راہ دور آمدۂ اُردو شاعری کا آغازفارسی شاعری کی روایات کی روشنی میں ہوا تھا۔مثنوی، قصیدہ، غزل، فارسی کے عظیم اصناف تھے اُردو میں بھی ابتداً انھی سے زیادہ اعتنا کیا گیا۔ بعد میں جن اصناف کے اضافے ہوئے یا جن کو دور قدیم سے بڑھ چڑھ کرحیثیت دی گئی ان سے بحث مقصود نہیں۔مو ضوع کے لحاظ سے یہ کہنا ہے کہ روایتِ فارسی کے مطابق مثنویات کے آغاز میںحمد کے بعد بالالتزام نعت کو جگہ دی گئی خواہ اس کی حیثیت محض روایات کی ہو یا اس میں عقیدت کے جذبات بھی شامل ہوں۔نعتیہ قصائد بھی لکھے گئے اور نعتیہ غزلیں بھی۔ رفتار زمانہ کے ساتھ نعت گو شعرا کی تعداد اور ان کے کلام کے معیار میں بھی ترقی ہوتی گئی۔یہاں تک کہ اُردو شعرا کی فہرست میں بہت ممتاز نعت گو شا عر وں کے نام لیے جا سکتے ہیں۔دور حاضر میں نعتیہ مشاعروں کو ایک علیحدہ مقام ملا اسی طرح ریڈیو اور پھر ٹیلی ویثرن پر نعتیہ مشاعرے منعقد ہو نے لگے ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ موجودہ دور میں نعت گو شعرا کی تعداداور بھی المضاعف ہو گئی۔ ہمارے گزشتہ شعرا میںحضرت امیر مینائی، محسن کا کوروی، غلام امام شہید، حضرت مولانا احمد رضاخان، کراُمت علی شہیدی، بیدم شاہ، اکبر میر ٹھی، حافظ پیلی بھیتی، مولانا ضیا القادری، بہزاد لکھنوی، حمید صدیقی وغیرہ ممتاز نعت گو شعرا ہیں۔مولانا حالی کے مسدس حالی کے زمانے سے قومی وملی رنگ نعتیہ شاعری میں بھی چمکنے لگا اب نعت میںصرف عقیدت اور مدح وتوصیف کے مضامین نہ رہے بلکہ قومی جذبات ملی مسائل، اجتماعی فریاد بھی دربار رسولؐ میں پیش کی جانے لگی اسی طرح مضامین نعت میں بہت زیادہ وسعت پیدا ہو گئی اور حق یہ ہے کہ ایسے تمام مطالب و مسائل جن کا تعلق آنحضرت ا کی ذات گرامی، اوصافِ عالیہ، پیام عمل، اور درس حیات سے ہے وہ سب نعت میں جگہ پانے کے مستحق بھی ہیں۔ مولانا حالی کے بعد مولانا ظفر علی خاں، مولانا شبلی نعمانی، علامہ اقبال، حفیظ جالندھری کے نام اُمتیازی حیثیت رکھتے ہیں۔دوسرے اچھے اور ممتاز شعرا کی تعداد اتنی وافر ہے کہ محض نام ہی گنائے جائیں۔تو کئی صفحے کافی نہیں ہونگے البتہ عبد العزیز خالد کا نام خاص طور پر لینا ضروری ہے کہ اُنھوں نے اُردو ادب کو ایک نیاعلمی وقار اور لسانی بلند پائیگی بخشی ہے اور ان کا یہی ٹھوس علمی رنگ ان کی نعتوں میں نظر آتاہے۔ مذکورہ بالاشعرائے کرام کے کلام میںسے کچھ بطورنمونہ کے تبرکا ً درج کیاجاتا ہے۔ حضرت امیر مینائی فرماتے ہیں: مدینے جاؤں، پھر آؤں، مدینے پھر جاؤں تمام عمر اسی میں تمام ہو جائے ٭٭٭ یاد جب مجھ کو مدینے کی فضا آتی ہے سانس لیتا ہوں تو جنت کی ہوا آتی ہے اُمت کو عشق سرورِ عالی صفات کا طوفان حشر میں ہے سفینہ نجات کا ایک پوری نعتیہ غز ل ملا حظہ کیجیے۔ آئے تھے یوں ملائکہ حضرتؐ کے سامنے جیسے فقیر صاحبِ دولت کے سامنے جتنے جری تھے خندق بدر و حنین میں سب مردہ دل تھے آپؐ کی جرات کے سامنے چاہے جسے وہ دولت کونین بخش دے یہ بات کیاہے اس کی سخاوت کے سامنے ہو سامنا اجل کا تو یثرب میں یا خدا مرقد بنے تو شاہ کی تربت کے سامنے ممکن نہیں رکوں میں مدینے کی راہ میں ہر چند سینکڑوں ہوں قیامت کے سامنے اندھا کیا ہے شوق نے دریا ہو یا کنواں کچھ سوجھتا نہیں ہے محبت کے سامنے مشکل نہیں ہے خنکی باران تر امیر اس آفتابِ مہر و مروت کے سامنے جناب محسن کا کوری فرماتے ہیں: ارواح انبیا کو وہ نسبت ہے تیرے ساتھ جو نسبت آفتاب سے ہے ماہتاب کی تا حشر تیری مدح سے ہو میری آبرو اشراق اسی وضو سے ہو روزِ حساب کی مولا کی نوازش نہاں کھلتی ہے عزت میری پیش قدسیاں کھلتی ہے کہہ دو کہ ملک گوش بر آواز رہیں مداح پیمبر کی زبان کھلتی ہے آپ کی مثنویاںصبحِ تجلی، اور چراغ کعبہ ادب اُردو کے گل سر سبد ہیں ان کی فصاحت و بلاغت اور روانی و سلاست نے ان کی ادبیت اور علمیت کو چار چاند لگا دیے ہیں۔پوری مثنویاں پڑھ کر روح کو بالیدگی اور قلب کو آسودگی حاصل ہوتی ہے اسی طرح آپ کے مسدس اور قصائد نعت بے مثال ہیں۔بادل والا لامیہ قصیدہ ان میں اُمتیازی حیثیت کا حامل ہے۔ نعت کے اشعار بڑے شان و شکوہ اورکیف و عقیدت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔چند شعر ملاحظہ کیجیے : گل خوش رنگ رسولؐ مدنی عربی زیب دامان ابد، طرہ دستار ازل نہ کوئی اس کا مشابہ ہے نہ ہمسر نہ نظیر نہ کوئی اس کا مماثل نہ مقابل نہ بدل اوج رفعت کا قمر، نخل دو عالم کا ثمر بحر وحدت کا گہر، چشمہ کثرت کا کنول مہر توحید کی ضو، اوج شرف کا مہہ نو شمع ایجاد کی لو، بزم رسالت کا کنول مرجع روح امیں، زیب وہ عرش بریں حامی دین متیں، ناسخِ ادیان و ملل ہفت اقلیم ولایت میں شاہ عالی جاہ چار اطراف ہدایت میں نبیِ مرسل دور خورشید کی بھی حشر میں ہو جائے گی صبح تا ابد دور محمدؐ کا ہے از روز ازل شب اسری میں تجلی سے رخ انور کی پڑ گئی گردنِ رف رف میں سنہری ہیکل لطف سے تیرے ہوئی شوکت ایماں محکم قہر سے سلطنتِ کفر ہوئی مستاصل جس طرف ہاتھ بڑھیں، کفرکے ہٹ جائیں قدم جس جگہ پاؤں رکھیں سجدہ کریں لات و ہبل مولانا محسن کا کور و ی کی مثنوی صبح تجلی سے ولادت باسعادت کے اشعار پڑھ کر لطف اُٹھائیے۔لکھتے ہیں: ظلمت کا چراغ بے ضیا ہے انجم کا ستارہ ڈوبتا ہے مہتاب کی چاندنی ڈھلی ہے مریخ کی سست مشتری ہے روپوش دیبیر چراغ اخضر ظلمت کا سایہ کر کے ابتر اہل مد کہکشاں ہے مفرور پروانہ نویس، شمع کافور زہرہ کا سفید ہو گیا ہے رنگ نظم پروین کا ہے کافیہ تنگ سبزہ ہے کنارِ آب جو پر یاخضر ہے مستعد وضو پر اک شاخ رکوع میں رکی ہے اور دوسری سجدے میں جھکی ہے کیاری ہر اک اعتکاف میں ہے اور آب رواں طواف میںہے با شان و شکوہ جلوہ فرما شاہنشہِ تخت گاہ الا سامان ظہور کی ہے تمہید قدرت پہ ہو رہی ہے تاکید لو ہم نے حباب کو عطا کی آب حیواں کی میر بحری جان و دل مرسلین محمدؐ روح، روح الامیں محمدؐ پیدا ہوئے خاتم النبیین مہر عرفان عز و تمکین گنجینۂ اصطفائے محمد آئینہ حق نما محمدؐ نازل ہے زمیں پہ کبریائی بندے کے لباس میں خدائی اس وقت دیار میں عرب کے مطلع سے تجلیات رب کے برج شرف قریشیاں میں اور ہاشمیوں کے خانداں میں کعبہ کی زمین نامور سے اور عبدالمطلب کے گھر سے اسلام کا آفتاب چمکا بے پردہ و بے نقاب چمکا پیدا ہوئے سرورِ دو عالم پیدا ہوئے فخر نوحؐ و آدمؐ شاہنشہ اصفیا محمدؐ تاج سر انبیا محمدؐ مولانا اسماعیل میر ٹھی کے نعتیہ ترجیح بند کے دو بند پڑھ کر لطف حاصل کیجیے: خلیل حقؐ کی جو تھی اشارت اور ابن مریمؐ کی جو بشارت ظہور احمدؐ سے جو تھی عبارت سمجھ گئے صاحبِ بصارت کہ اب گری کفر کی عمارت گھٹے گی فارس کی اب حرارت مٹے گی روما کی اب شرارت لٹے گی اب مصر کی امارت خزانہ ہر قل کا ہو گا غارت بڑھے گا تقویٰ بھی اور طہارت ہے باغ اسلام کو نظارت نیا ہے سلطاں نئی وزارت صلواۃ اس پر سلام اس پر اور اس کی سب آلِ با صفا پر اور اس کے اصحاب با وفا پر اور اس کے احبابِ اتقیا پر وہ فخر آدم، امان عالم امین محکم، رسول اکرمؐ محیط اعظم، ز غیب ملہم بہ وحی محرم، شہ مسلم عرب کے اندر وہی معظّم عجم کے اندر وہی مکرّم لگا کے آدم سے تا بہ ایں دم ظہور اس کا ہے بعد آدم وجود اس کا مگر مقدم وہ نور حق تھا ولے مجسم صلواۃ اس پر سلام اس پر اور اس کی سب آلِ با صفا پر اور اس کے اصحاب با وفا پر اور اس کے احبابِ اتقیا پر جناب حافظ خلیل الدین حسن حافظ پیلی بھیتی کی ایک نعتیہ غزل ملاحظہ کیجیے : آنکھ میں پھرتی ہے وہ شوخی رفتار جدا تڑپے جاتا ہے جدائی میں دل زار جدا وہی اچھے رہے محشر میں جو رحمت برسی بے گناہوں سے کھڑے تھے جو گنہگار جدا دل و جاں لوٹتے ہیں عشق نبیؐ میںدن رات لذت درد جدا، لذت آزار جدا خاک پر لوٹتے ہیں، کوئے نبیؐ میں دونوں نور خورشید جدا، سایہ دیوار جدا آبلے پھوٹ کے روئیں گے رہ طیبہ میں میرے تلوں سے اگر کوئی ہوا خار جدا دیکھنے سننے کا وہ شوق کہ دیکھا نہ سنا ذوق دیدار جدا، لذت گفتار جدا چلتا پھرتا رہے دن رات مگر کیا ممکن ان کی دیوار سے ہو سایہء دیوار جدا اپنا اپنا تجھے سب کہتے ہیں اللہ اللہ شیخ و میخوار جدا، کافر و دیندار جدا دے گئی آپ کے بیمار جدائی کو جواب تاب رفتار جدا، طاقت گفتار جدا کون ہے در پے آزار دلِ زار نہ پوچھ قدّ آدم ہیں وہاں آئینے دیوار میں وصل میں یہاں آئینہ ساں پشت بدیوار جدا سر اگر تن سے جدا ہو تو ہو حافظ سر سے ہو گا نہ درِ احمد مختارؐ جدا حضرت ریاض خیر آبادی کی ایک نعتیہ غزل دیکھیے: نام کے نقش سے روشن یہ نگینہ ہو جائے کعبہِ دل میرے اللہ مدینہ ہو جائے وہ چمک درد کی ہو دل میں کہ بجلی چمکے دامن طور ذرا آج یہ سینہ ہو جائے تو جو چاہے ارے او مجھ کو بچانے والے موج طوفانِ بلا اٹھ کے سفینہ ہو جائے ظلمت کفر سے ہے بڑھ کے سیاہی دل کی دور کیوں کر دل اغیار سے کینہ ہوجائے آنکھ میں برق سر طور ہو گنبد کا کلس شرف اندوزِ زیارت یہ کمینہ ہو جائے دل رہے ہاتھ میں تیرے مرے پہلو کے عوض چاہتا ہوں مری خاتم کا نگینہ ہو جائے اس کی تقدیر جو پامال ہو تیرے در پر اس کی تقدیر کہ جو خاک مدینہ ہو جائے دفن ہوں ساتھ میرے تیرے گہر ہائے سخن خاک میں مل کے نمایاں یہ دفینہ ہو جائے جان کی طرح تمنا ہے یہ دل میں ریاض مروں کعبہ میں تومنہ سوئے مدینہ ہو جائے مولانا غلام امام شہید کا سلام بہت مقبول ہوا اس کے کچھ شعر دیکھیے: السلام اے آفتاب داد و دیں السلام اے انتخابِ اولین السلام اے دستگیرِ بے کساں السلام اے چارہِ درد نہاں السلام اے قبلہ گاہ اہلِ دیں السلام اے بادشاہ مرسلیں السلام اے بود آدم را سبب السلام اے خلقِ عالم را سبب السلام اے شاہ عظمت السلام السلام اے ماہِ رفعت السلام السلام اے پیشوائے انبیا السلام اے مقتدائے اولیا السلام اے شاہِ شاہاں السلام السلام اے جانِ جاناں السلام آپ کا ترجیع بند (معشر)بھی بہت مشہور ہے اس کا پہلا بند پڑھیے، جس میں سراپا نظم کیا ہے: قد رعنا کی ادا، جامہء زیبا کی پھبن سرمگیں آنکھ غضب، ناز بھری وہ چتون وہ عمامے کی سجاوٹ، وہ جبین روشن اور وہ مکھڑے کی تجلی، وہ بیاض گردن وہ عبائے عربی اور وہ نیچا دامن دل ربایانہ وہ رفتار، وہ بے ساختہ پن مردہ بھی دیکھے تو کر چاک گریبانِ کفن اٹھ چلے قبر سے بیتاب زبان پر یہ سخن مرحبا سیّدّ مکیّ مدنیّ العربی دل و جاں باد فدایت چہ عجب خوش لقبی حضرت مولانا احمد رضاخاں صاحب ؒکا مجموعہ نعت حدائق بخش کے نام سے چھپ چکا ہے۔ بڑے قادر الکلام اور معجز بیان نعت گو تھے۔تمام کلام عقیدت ونیازاور عشق و محبت کے جذبات سے لبریز ہے۔کچھ اشعارکا مطالعہ کیجیے: پوچھتے کیا ہو عرش پر یوں گئے مصطفیؐ کہ یوں کیف کے پر جہاں جلیں، کوئی بتائے کیاکہ یوں ٭٭٭٭ وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں ٭٭٭ ان کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دیے ہیں جس راہ چلے گئے ہیں، کوچے بسا دیے ہیں جب آ گئی ہیں جوش رحمت پہ ان کی آنکھیں جلتے بجھا دیے ہیں، روتے ہنسا دیے ہیں ان کے نثار کوئی کیسے ہی رنج میں ہو جب یاد آ گئے ہیں سب غم بھلا دیے ہیں ٭٭٭ْ حاجیوآؤ شہنشاہ کا روضہ دیکھو کعبہ تو دیکھ چکے، کعبہ کا کعبہ دیکھو ٭٭٭ سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبیؐ سب سے بالا و اعلیٰ ہمارا نبیؐ جس کو شایاں ہے عرش خدا پر جلوس ہے وہ سلطان والا ہمارا ہمارا نبیؐ ٭٭٭ پیش حق مژدہ شفاعت کا سناتے جائیں گے آپ روتے جائیں گے ہم کو ہنساتے جائیں گے حضرت مولانا کا قصیدہ نوریہ بڑا مقبول ہے، مطلع ہے : صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا صدقہ لینے نور کا آیاہے تارا نور کا آپ کا سلام بھی بے حد مشہور ہے۔ میلاد شریف کی محفلوں، مسجدوں اور جلسوں میںعام طور پر پڑھا جاتا ہے اس کے کل اشعار ایک سو ستر ہیں۔نمونے کے طور پر چند اشعار پڑھیے اور لطف اُٹھائیے: مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام شمعِ بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام مہر چرخ نبوت پہ لاکھوں درود گل باغ رسالت پہ لاکھوں درود فتح باب نبوت پہ بے حد درود ختم دور رسالت پہ لاکھوں سلام شہر یار ارم تاجدار حرم نو بہار شفاعت پہ لاکھوں سلام جس کے ماتھے پہ شفاعت کا سہرا رہا اس جبین سعادت پہ لاکھوں سلام جاں نثارانِ بدر و احد پر درود حق گزارانِ بیعت پہ لاکھوں سلام کاش محشر میں جب ان کی آمد ہو اور بھیجیں سب ان کی شوکت پہ لاکھوں سلام مجھ سے خدمت کے قدسی کہیں ہاں رضا! مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام! شہیدی کی نعت کا نمونہ ملا حظہ کیجیے : طلوع روشنی جیسے نشاں ہو شہ کی آمد کا ظہور حق کی صحبت ہے جہاں میں نور احمدؐ کا اُدھر اللہ سے واصل ادھر مخلوق میں شامل خواص اس برزخ کبریٰ میں ہے حرف مشدد کا تمنا ہے درختوں پر تیرے روضے کے جا بیٹھوں قفس جس وقت ٹوٹے طائر روح مقید کا خدا منہ چوم لیتاہے شہیدی کس محبت سے زبان پر میری جس دم نام آتا ہے محمدؐ کا حضرت بیدم شاہ وارثی کے کلام کا نمونہ یہ ہے۔پوری نعتیہ غزل ملاحظہ کیجیے : محشر میں محمدؐ کا عنوان اُمت کی شفاعت کا سامان تزئین شب اسریٰ دیکھی تو ملک بولے کیا آج خدا کے گھر مہمان نرالا ہے اقلیم محبت کی دنیا ہی نرالی ہے دربار انوکھا ہے سلطان نرالا ہے مستوں کے سوا تجھ کو سمجھا نہیں کوئی اے پیر مغان تیرا عرفان نرالا ہے وہ مصحف رخ دل میں آنکھوں میں تصور ہے البیلی تلاوت ہے قران نرالا ہے پھولوں میں مہکتا ہے، بلبل میں چہکتاہے جلوہ تیری صورت کا ہر آن نرالا ہے اس مصحف عارض کو قران سمجھتے ہیں ان اہل محبت کا ایمان نرالا ہے مضمون اچھوتے ہیں مفہوم انوکھے ہیں دیوانوں میں بیدم کا دیوان نرالاہے بیدم شاہ کی یہ نعت بہت مشہور و مقبول ہے ملا حظہ کیجیے : آئی نسیم کوئے محمدؐ، صلی اللہ و علیہ و سلم کھنچنے لگا دل سوئے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کعبہ ہمارا کوئے محمد صلی اللہ علیہ و سلم مصحف ایماں روئے محمد صلی اللہ علیہ و سلم لے کے مراد دل آئیں گے مر جائیں گے مٹ جائیں گے پہنچیں تو ہم تا کوئے محمد صلی اللہ علیہ و سلم طوبیٰ کی جانب تکنے والو، آنکھیں کھو لو ہوش سنبھالو دیکھو قد دل جوئے محمد، صلی اللہ علیہ و سلم نام اسی کا باب کرم ہے، دیکھ یہی محراب حرم ہے دیکھو خم آبروئے محمد صلی ا للہ علیہ و سلم بھینی، بھینی خوشبو مہکی، بیدم دل کی دنیا مہکی کھل گئے جب گیسوئے محمد، صلی اللہ علیہ وسلم خواجہ محمد اکبر میرٹھی بھی مشہور نعت گو تھے ان کی ایک غزل ہے: ثانی تیرا کونین کے کشور میں نہیں ہے بس حد ہے کہ سایہ بھی برابر میں نہیں ہے ہو جلوہء محبوب کے کیا ماہ مقابل اس چاند کے دھبہ رخ انور میں نہیںہے کل خوبیاں اللہ نے محمدؐ کو عطا کیں یہ بات کسی اور پیمبر میں نہیں ہے ہو کیوں نہ خدائی کو گدائی کی تمنا کیا چیز ہے جو ان کے بھرے گھر میں نہیں ہے اعمال برے ہیں میری امداد کو آؤ حامی کوئی جز آپ کے محشر میں نہیں ہے میں ہوں وہ گنہگار جسے کہتے ہیں نیکی یہ لفظ میر ے جرم کے دفتر میں نہیں ہے ہیں عیب ہزاروں تو جسے چاہے بنا دے اللہ! ہنر ایک بھی اکبر میں نہیں ہے ایک غزل اور ملاحظہ کیجیے: تیرے کرم کا رسالت مآب کیا کہنا ثواب ہو گئے سارے عذاب کیا کہنا تمام اگلے صحیفوں کو کر دیا منسوخ رسول پاکؐ تمھاری کتاب کیا کہنا ملے خدا سے تو ایسے ملے کہ مل ہی گئے تمھارے قرب کا عالی جناب کیا کہنا خدا بھی چاہے خدا کی خدائی بھی چاہے تمھاری چاہ کا رحمت مآب کیا کہنا شفیع حشر، رسولِ کریم، ختم رسلؐ حبیبِ پاک تمھارے خطاب کیاکہنا حسین ایسے کہ اللہ کے حبیب ہوئے تمھارا حسن ہے وہ انتخاب کیا کہنا گناہ گاروں نے جب رو کے یا غفور کہا برس پڑا ہے کرم کا سحاب کیا کہنا تکیں گے اور نبی ان کا منہ جو اُمت کو وہ بخشوائیں گے روز حساب کیا کہنا سنا کے نعتیں نکیرین کو کیا خاموش تمھارا اکبر حاضر جواب کیا کہنا جناب اکبر وارثی میرٹھی کا سلام اکثرمحفلوں میں پڑھا جاتا ہے اور مقبول عام ہے۔ چند بند دیکھیے : یا نبی سلام علیک یا رسول سلام علیک یا حبیب سلام علیک صلوات اللہ علیک فخر آدمؐ، فخر حواؐ فخر نوحؐ، و فخر یحییٰؐ فخر ابراہیمؐ و موسیٰؐ فخر اسماعیلؐ و عیسیٰؐ یا نبی سلام علیک یا رسول سلام علیک یا حبیب سلام علیک صلوات اللہ علیک رحمتوں کے تاج والے دو جہاں کے راج والے عرش کے معراج والے عاصیوں کے لاج والے یا نبی سلام علیک یا رسول سلام علیک یا حبیب سلام علیک صلوات اللہ علیک پوری یا رب یہ دُعا کر ہم در مولا پہ جا کر پہلے کچھ نعتیں سنا کر یہ پڑھیں سر کو جھکا کر یا نبی سلام علیک یا رسول سلام علیک یا حبیب سلام علیک صلوات اللہ علیک دور ہے غم کا کنارا سرور عالم خدا را دیجیے جلدی سہارا پار ہو بیڑا ہمارا یا نبی سلام علیک یا رسول سلام علیک یا حبیب سلام علیک صلوات اللہ علیک عقیدت ومحبت اور بندگی و نیاز مند ی کے اظہار کا یہی جذبہ مذکورہ بالا شعرا سے متصل کے بعدبعض دوسرے نعت گو شعرا میں بھی پایا جاتا ہے اس لیے ان کا ذکر یہیں مناسب ہے۔ مولانا ضیا القادری بڑے قادر الکلام شاعر و استاد اور صاحب طریقت بزرگ تھے نعت و منقبت لکھتے تھے۔فرماتے تھے : ظل جمال ذاتِ حق ، شاہد حق نما ہیں آپؐ نور مبیں ، حسین حق ، خاصہ کبریا ہیں آپؐ آئینہ دار حسن و عشق ، صورت آئینہ ہیں آپؐ صبح ازل سے تا ابد ، نور خدا نما ہیں آپؐ عرش سے مصحف جلیل ، آپؐ پہ لائے جبرئیل شرح صیحفہء خدا ، امی حق نما ہیں آپؐ نور ازل کی تابشیں ، جلوہ نما ہیں آپؐ میں آئینہ خدا نما، طلعت حق نما ہیں آپؐ باب عطا ہے آپؐ ، بابِ اجابت دُعا رنگ قبول رونما ، جس میں ہے ، وہ دُعا ہیں آپؐ رافت و رحمت و نجات ، آپ کی یا نبیؐہے ذات شافع اہل معصیت، دافع بہر بلا ہیں آپؐ روکش مصحف مبیں، آپ کے عارض و جبیں آپ ہیں شرح والقمر، معنی والضحیٰ ہیں آپؐ قلب ضیا کو ہو عطا، روشنی ازل نما بدر و احد، حنین کے نیرِ پُر ضیا ہیں آپؐ جناب بہزاد لکھنوی کے نعتیہ کلام کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں آپ کی نعت کا نمونہ دیکھیے: مدینے کے ماہِ کمال اللہ ، اللہ ہر اک شے میں عکس جمال اللہ اللہ مثال آپ کی دونوں عالم میںکیا ہو کہ ہر بات ہے بے مثال اللہ، اللہ نظر میں مدینہ ہے، دل میں مدینہ بڑے لطف کا ہے یہ حال اللہ ، اللہ مراد زمانہ جو تم بن کے آئے تمنائے کل ہے نہال ، اللہ اللہ غم عشق احمد کے قربان جاؤں میسر کسے یہ ملال، اللہ اللہ ہر اک شے مین پاتا ہوں رنگ محبت ہے طیبہ کا جب سے خیال، اللہ، اللہ طفیل محمدؐ جو مانگیں دُعائیں تو پورا ہوا ہر سوال اللہ اللہ درود و سلام اس شہ دوسراؐ پر جو ہے آپ اپنی مثال اللہ اللہ میں بہزاد ہوں مستِ یادِ محمد مقدر نے بخشایہ حال اللہ اللہ ایک نعتیہ غزل اور مطالعہ کیجیے : جب تصور میں مدینہ آ گیا غم کا ساحل پر سفینہ آ گیا جب سے بادشاہ دیں رہنے لگی مجھ کو جینے کا قرینہ آ گیا میرے آنسو پر گماں ہے خلق کو بامِ مژگاں پر نگینہ آ گیا باب رحمت کے قریں دل نے کہا رحمت حق کا خزینہ آ گیا میرے دامن میں کسی کے لطف سے علم و ایقاں کا خزینہ آ گیا آپ کے صدقے میں یا شاہ ہدیٰ بے قرینوں کو قرینہ آ گیا جب سے اے بہزاد وقف نعت ہوں زندگی کو ہر قرینہ آ گیا حمیدصدیقی لکھنوی کی نعت ملاحظہ کیجیے : کرو ہم صفیر و مدینے کی باتیں یہی ہے حقیقت میں جینے کی باتیں اسی طرح کچھ تشنگی کو بڑھائیں کر یں آبِ زم زم کے پینے کی باتیں تقاضا غلامی کا یہ کہہ رہا ہے کہ دن رات ہو ں بس مدینے کی باتیں مبارک جنون محبت مبارک یہ دیوانگی اور قرینے کی باتیں مدینے میں تھے جس زمانے میں حاضر یہ ہیں اس مبارک مہینے کی باتیں جو چاہو کہ تازہ رہے دین و ایمان تو کرتے رہو تم مدینے کی باتیں رہے پاس آداب اے دل ہمیشہ ہوں دیوانگی میں قرینیے کی باتیں سنا دے خدا را کوئی پھر سنادے وہی بابِ رحمت کے زینے کی باتیں کھلے گا نہ اشعار سے راز دل خدا کو ہے معلوم سینے کی باتیں حمید اپنے دل کا یہی مدعا ہے کہ ہوتی رہیں کچھ مدینے کی باتیں حمیدصاحب کی ایک نعت اور پڑھیے : یہ کس کا تصور ہے کہ ہم جھوم رہے ہیں ہم ہی نہیں خود دیر و حرم جھوم رہے ہیں شمع و گل و پروانہ و بلبل، مہ و انجم، پُرکیف نگاہوں کی قسم جھوم رہے ہیں چھایا ہوا اک عالم مستی ہے فضا میں ہر سمت غزالان حرم جھوم رہے ہیں ہے عکس فگن کس کی نگاہ چمن آرا گل جتنے ہیں با دیدہ نم جھوم رہے ہیں آنے کو ہے اک سرو خرامان کی سواری مرغانِ چمن مل کے باہم جھوم رہے ہیں ہر چیز درخشاں ہے ہر اک ذرہ ہے رقصاں کیاخود ہی و ہ سر تابقدم جھوم رہے ہیں اس محفل عشرت میں حمیدآج بصد شوق ہم بھی لیے گل بانگ حرم جھوم رہے ہیں مولانا حالی کی ذا ت ما قبل اور ما بعدزمانوں میں حدِفاصل شمار کیاجاتا ہے۔ جس طرح آپ نے جدید شاعری میںاصلاح کی، اسی طرح آپ نے قومی شاعری کی بنیاد ڈالی اور اسی طرح نعت گوئی کو ایک بالکل نیا، اور اچھوتا اُسلوب بخشا۔۱۸۵۷ کی جنگ آزادی میں نا کام رہنے کے بعد مسلمانوں کی حالت اور زیادہ ابتر ہو گئی تھی، قومی زوال اور نکبت ان پر پہلے سے سایہ کیے ہوئے تھے۔حاکم قوم انگریز نے بالکل کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔مگر اس کے رد عمل کے طور پر خدا نے سر سیّد کو توفیق بخشی کہ وہ میدان عمل میں گامزن ہوئے اور اُنھون نے اپنی تمام زندگی ملت کی خدمت اور فروغ تعلیم اور نشاۃ ثانیہ کے لیے وقف کر دی انسان ہمت کرے تو خدا بھی اعانت فرماتا ہے چنانچہ سر سیّدکو وہ رفقائے کار میسر آئے جن کی مساعی حمیدہ کی بدولت مسلمانوں نے سنبھلنا شروع کر دیا اور بتدریج ان کی حالت اصلاح پذیر ہو نے لگی۔ مو لا نا حالی نے ا پنی نظم اور نثر سے یکساں ملت کی خدمت کی۔ مولانا حالی کی مسدس جس کا نام مسدس مدو جزر اسلام ہے قومی اور ملی شاعری میںہمیشہ مہر عالم تاب کی حیثیت سے روشن رہے گا، تفصیلات سے قطع نظر، مسدس میں مولانا حالی نے نعت بھی بالکل نئے، اچھوتے، انوکھے اور دل پذیر انداز سے پیش کی ہے آج تک جلسوںاور محفلوں میںان اشعار سے لوگ لطف اندوز ہوتے اور سر دھنتے ہیں۔ بعثت نبوی اور محامد خاتم ا لنبیینؐان دو تین بندوں میں کس جامعیت کے ساتھ بیان کیے ہیں: وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا مرادیں غریبوں کی بر لانے والا مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا فقیروں کا ملجا، ضعیفوںکا ماوا یتیموں کا والی، غلاموں کا مولا خطا کار سے درگزر کرنے والا بداندیش کے دل میں گھر کرنے والا مفاسد کا زیر و زبر کرنے والا قبائل کو شیر و شکر کرنے والا اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا مس خام کو جس نے کندن بنایا کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا رہا ڈر نہ بیڑے کو موج بلا کا ادھر سے اُدھر پھر گیا رخ ہوا کا رسول پاک ا کی پہلی تبلیغ کا نقشہ کیسے پر اثراور زور دار الفاظ میں کھینچا ہے۔ دیکھیے: وہ فخر عرب زیر محراب و منبر تمام اہل مکہ کو ہمراہ لے کر گیا ایک دن حسب فرمان داور سوئے دشت اور چڑ ھ کے کوہ صفا پر یہ فرمایا سب سے کہ اے آل غالب سمجھتے ہو تم مجھ کو صادق کہ کاذب؟ کہا سب نے قول آج تک کوئی تیرا کبھی ہم نے جھوٹا سنا اور نہ دیکھا کہا گر سمجھتے ہو تم مجھ کو ایسا تو باور کرو گے، اگر میں کہوں گا کہ فوج گراں پشت کوہ صفا پر پڑی ہے کہ لوٹے تمھیں گھات پا کر؟ کہا، تیری ہر بات کا یاں یقیں ہے کہ بچپن سے صادق ہے تو اور امیں ہے کہا گر میری بات یہ دل نشین ہے تو سن لو خلاف اس میں اصلا نہیں کہ سب قافلہ یاں سے ہے جانے والا ڈرو اس سے جو وقت ہے آنے والا وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوت ہادی عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی نئی اک لگن، دل میں سب کے جگا دی اک آواز میں سوتی بستی جگا دی پڑا ہر طرف غل یہ پیغام حق سے کہ گونج اٹھے، دشت و جبل نامِ حق سے مولانا حالی نے مسدس کے ضمیمہ کے طور پر ایک مناجات بھی لکھی ہے۔ عرض حال بجناب سرور کائنات علیہ افضل الصلوات و اکمل التحیات اس نظم کے ۶۳ شعر ہیں۔چند شعر ملاحظہ کیجیے: اے خاصۂ خاصانِ رسل وقت دُعا ہے اُمت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے جس دین کے مدعو تھے کبھی قیصر و کسریٰ خود آج وہ مہمان سرائے فقرا ہے وہ دین ہوئی بزم جہاں جس سے چراغاں اب اس کی مجالس میں نہ بتی نہ دیا ہے جس دین نے تھے غیروں کے دل آ کے ملائے اس دین میں خود بھائی سے اب بھائی جدا ہے ہے دین تیرا اب بھی وہی چشمہ صافی دیں داروں میں پر آب ہے باقی نہ صفا ہے گو قوم میں تیری نہیں اب کوئی بڑائی پر نام تیری قوم کا یاں اب بھی بڑا ہے ڈر ہے کہیں یہ نام بھی مٹ جائے نہ آخر مدت سے اسے دور زماں مٹا رہا ہے دیکھے ہیں یہ دن اپنی ہی غفلت کی بدولت سچ ہے کہ برے کام کا انجام برا ہے فریاد ہے اے کشتی اُمت کے نگہبان بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے اے چشمہ رحمت !بابی انت و امی دنیا پہ تیرا لطف سدا عام رہا ہے کر حق سے دُعا اُمت مر حوم کے حق میں خطروں میں بہت جس کا جہاز آ کے گھرا ہے تدبیر سنبھلنے کی ہمارے نہیں کوئی ہاں ایک دُعا تیری کہ مقبول خدا ہے مولانا شبلی نے حضور کی ہجرت اور مدینہ منورہ میں تشریف آوری نظم کی ہے۔ملاحظہ کیجیے: جب کہ آمادہء خوں ہو گئے کفارِ قریش لا جرم سرور عالمؐ نے کیا عزمِ سفر کوئی نوکر تھا نہ خادم نہ برادر نہ عزیز گھر سے نکلے تو اسی شان سے نکلے سرورؐ اک فقط ابوبکر تھے ہمراہ رکاب کہ کہیں دیکھ نہ پائے کوئی آمادہ شر چونکہ سو اونٹوں کا انعام تھا قاتل کے لیے آپؐ کے قتل کو نکلے تھے بہت طالب زر انھی لوگوں میں سراقہ تھے خلف جعشم کے جن کو فاروق نے کسریٰ کے پہنائے تھے گہر تین دن رات رہے ثور کے غاروں میں پنہاں تھا جہاں عقرب وافعی کی حکومت کا اثر بیم جاں، خوف عدو، ترک غذا، سختی راہ ان مصائب میں ہوئی اب شب ہجرت کی سحر یاں مدینے میں ہوا غل کہ رسولؐ آتے ہیں راہ میں آنکھیں بچھانے لگے ارباب نظر لڑکیاں گانے لگیں شوق میں آ کر اشعار نغمہ ہائے طلع البدر سے گونج اٹھے گھر ماں کی آغوش میں بچے بھی مچل جانے لگے نازنیناںِ حرم بھی نکل آئیں باہر دفعتاً مرکبہء شاہ رسلؐ آ پہنچا غل ہوا صلِ علیٰ خیر سے تا جن و بشر جلوہء طلعت اقدس جو ہوا جلوہ فگن دفعتاً تار شعاعی تھا ہر اک تار بصر طور پہ حضرت موسیٰؑ کی صدا آتی تھی آج اک اور جھلک سی مجھے آتی ہے نظر سب کو یہ فکر کہ دیکھیں یہ شرف کس کو ملے مہماں ہوتے ہیں کس اوج نشیں کے سرورؐ سینے کہتے تھے کہ خلوت گہہ دل حاضر ہے آنکھیں کہتی تھیں کہ دو اور بھی تیار ہیں گھر یاں مبارک کریں اے خاکِ حریم نبویؐ آج تو بھی ہوئی خاکِ حرم کے ہمسر صلِ یا رب علیٰ خیرِ نبی و رسول صل یا رب علیٰ افضل ہر جن و بشر حالی کے زمانے میںجس طرح قومی اور ملی شاعری کو فروغ حاصل ہوا اسی طرح نعتیہ شاعری نے بھی نیااُسلوب اور نئے مضامین اختیار کیے چنانچہ بعد کے شعرا میںیہ رنگ کسی نہ کسی روپ میں ضرور جھلکتاہے۔ مولانا حالی کے بعد سب سے ممتاز نعت گو شاعر مولانا ظفر علی خان ہیں ان کی شاعری میں عام طور پر جو زور اور جوش، سوز اور گداز ہے وہی ان کی نعتوں میں بھی پایا جاتا ہے اور اسی نے ان کی نعتیہ نظموں اور غزلوں کو قبولِ عام بخش دیا ہے۔ چند ملاحظہ ہوں:منتخب اشعاردرج کرتا ہوں: دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمھی تو ہو ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمھی تو ہو جلتے ہیں جبرئیل کے پر جس مقام پر اس کی حقیقتوں کے شناسا تمھی تو ہو سب کچھ تمھارے واسطے پیدا کیا گیا سب غایتوں کے غایت اولیٰ تمھی تو ہو دنیامیں رحمت دو جہاں اور کون ہے اے تاجدار یثرب و بطحا تمھی تو ہو ٭٭٭ وہ شمع اجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں اک روز چمکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں گر ارض و سما کی محفل میںلو لاک لما کا شور نہ ہو یہ رنگ نہ ہو گلزاروں میںیہ نور نہ ہو سیاروں میں جو فلسفیوں سے کھل نہ سکا اور نکتہ وروں سے حل نہ ہوا وہ راز اک کملی والے نے بتلا دیا چند اشاروں میں بوبکرؓ و عمرؓ عثمانؓ حیدرؓ ہیں کر نیں ایک ہی مشعل کی ہم مرتبہ ہیں یارانِ نبی کچھ فرق نہیں ان چاروں میں وہ جنس نہیں ایمان جسے لے آئیں دکان فلسفہ سے ڈھونڈے سے ملے گی عقل کو یہ قراں کے سیپاروں میں ٭٭٭ محمد مصطفیؐ گنج سعادت کے امیں تم ہو شفیع المذنبیں ہو رحمتہ للعالمیں تم ہو ہوئی تکمیل دیں تم پر کہ ختم المرسلیں تم ہو رسالت ہے اگر انگشتری اس کے نگیں تم ہو اگر پروردگار انس و جاں کو ہم نے پہچانا بلا شبہ و بلا شک اس کی وجہِ اولیں تم ہو تمھاری یاد ہو جس دل میں ایسے دل کا کیا کہنا مکاں ہو گا عجب ہی شان کا جس کے مکیں تم ہو ہوئی کافور ظلمت کفر کی جس کی شعاعوں سے زمانے پر یہ روشن ہے کہ وہ ماہ مبیں تم ہو ہوا اسلام کا شرمندۂ احساں جہاں سارا ہر اک اقلیم پر برسا گئے دُر ثمیں تم ہو لقب خیر الامم جس کو دیا تاریخ عالم نے اس اُمت کے نگہبان اس زمانے میں تمھیں تو ہو محمدؐ کے تصدق میں تمھاری مغفرت ہو گی اگر وابستۂ دامانِ ختم المرسلیںؐ تم ہو مولانا محمد علی جوہر کا نام عظیم المرتبت رہنما اور قائد کی حیثیت سے سب جانتے ہیں مگر وہ ایک بلند پایہ غزل گو اور نعت گو شاعر بھی تھے ۔ آپ سر تا پا حبِ نبویؐ میں ڈوبے ہوئے تھے اس لیے آپ کے نعتیہ اشعار میںسوز وگداز کے ساتھ شیرینی اور گھلاوٹ بھی پائی جاتی ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔کہتے ہیں: تنہائی کے سب دن ہیں تنہائی کی سب راتیں اب ہو نے لگیں ان سے خلوت کی ملاقاتیں ہر آن تسلی ہے ہر لحظہ تشفی ہے ہر وقت ہے دل جوئی ہر دم ہے مداراتیں کوثر کے تقاضے ہیں، تسنیم کے وعدے ہیں ہر روز یہی چرچے ہر روز یہی باتیں معراج کی سی حاصل سجدوں میں ہے کیفیت اک فاسق و فاجر میں اور ایسی کراماتیں بے مایہ سہی شاید وہ بلا بھیجیں بھیجی ہیں درودوں کی کچھ ہم نے بھی سوغاتیں شیطان کی چالوں سے اب ہو گئے سب واقف اب ہوں گی الم نشرح ملعون کی سب گھاتیں بیٹھا ہوا توبہ کی تو خیر منایا کر ٹلتی نہیں یوں جوہر اس دیس کی برساتیں ٭٭٭ تشنہ لب ہوں مدتوں سے دیکھیے کب درِ میخانۂ کوثر کھلے رونمائی کے لیے لایا ہوں جاں اب تو شاید چہرہ انور کھلے ٭٭٭ تم یوںہی سمجھنا کہ فنا میرے لیے ہے پر غیب سے سامان بقا میرے لیے ہے کیوں ایسے نبیؐ پر نہ فدا ہو ں کہ جو فر مائے اچھے تو سبھی کے ہیں برا میرے لیے ہے اے شافع محشر جو کرے تو نہ شفاعت پھر کون وہاں تیرے سوا میرے لیے ہے مدینہ منورہ کی حاضری کے شوق میں اثنائے راہ میں بارہ اشعار کی ایک غزل لکھی ہے اس کے چند اشعار دیکھیے: سب سمجھتے ہیں کہ تو شاد ہے مسرور ہے آج کون کہتا ہے دلا تو دلِ رنجور ہے آج کلفتِ قطع منازل ہوئی کافور ہے آج اپنے پلے کوئی سوغات نہیں اس کے سوا نقد جان نذر کرے اے دل یہی دستور ہے آج سنگ در تک تو بہر کیف رسائی بخشی دیکھوں کیا کیا میرے سرکار کو منظور ہے آج آرزو ہائے دو عالم تھیںاور اک دل کل تک فقط اک تیری تمنا سے وہ معمور ہے آج رقص بسمل کی ذرا دیر اجازت دیجیے حسن مسؤل نہیں عشق بھی مجبور ہے آج جس سے چہرے دمک اٹھے تھے کبھی یثرب کے دیکھو جوہر کی بھی آنکھوں میں وہی نورہے آج حضرت ا صغر گو نڈو ی کی نعت کا انداز یہ ہے: دل نثار مصطفیؐ جاں پایمال مصطفیؐ یہ اویسؒ مصطفیؐ ہے وہ بلالؓ مصطفیؐ دونوں عالم تھے مرے حرف دُعا میں غرق و محو میں خدا سے کر رہا تھا جب سوال مصطفیؐ سب سمجھتے ہیں اسے شمع شبستان حرا نور ہے کونین کا لیکن جمالِ مصطفیؐ عالم ناسوت میں اور عالم لاہوت میں کوندتی ہے ہر طرف برق جمال مصطفیؐ عظمت تنزیہ دیکھی، شوکت تشبیہ بھی ایک حال مصطفیؐ ہے، ایک قال مصطفیؐ دیکھیے کیا حال کر ڈالے شب یلدائے غم ہاں نظر آئے ذرا صبح جمالِ مصطفیؐ ذرہ، ذرہ عالم ہستی کا روشن ہو گیا اللہ، اللہ شوکت و شان جمالِ مصطفیؐ اب غزل کے دو مستند اسا تذہ کی نعت ملاحظہ کیجیے۔ سب جانتے ہیں کہ حسرت اور جگر عشقیہ غزل میں ر ئیس ا لمتغزلین ہو نے کے ساتھ محبت رسولؐکے کیف و عقیدت سے بھی سر شار تھے۔دربار نبویؐ سے ان کے عشق و محبت کے جذبات یوں ادا ہوتے ہیں۔حسرت فرماتے ہیں: پھر آنے لگیں شہر محبت کی ہوائیں پھر پیش نظر ہو گئیں جنت کی فضائیں اے قافلے والو! کہیں وہ گنبد خضرا پھر آئے نظر ہم کو کہ تم کو بھی دکھائیں ہاتھ آئے کبھی خاک ترے نقش قدم کی سر پر کبھی رکھیں کبھی آنکھوں سے لگائیں نظارہ فروزی کی عجب شان ہے پیدا یہ شکل و شمائل، یہ عبائیں یہ قبائیں کرتے ہیں عزیز ان مدینہ کی جو خدمت حسرت انہیں دیتے ہیں وہ سب سے دل سے دُعائیں حضرت جگر مراد آبادی کی یہ نعمت بہت مقبول ہے : اک رند ہے اور مدحت سلطانِ مدینہؐ ہاں کوئی نظر رحمت سلطان مدینہؐ تو صبح ازل، آئینہ حسن ازل بھی اے صل علیٰ صورت سلطان مدینہؐ اے خاک مدینہ! تری گلیوں کے تصدق تو خلد ہے تو جنت سلطان مدینہؐ ظاہر میں غریب الغربا پھر بھی یہ عالم شاہوں سے سوا سطوت سلطان مدینہؐ اس طرح ہے کہ ہر سانس ہو مصروف عبادت دیکھوں میں درِ دولت سلطان مدینہؐ کونین کاغم یاد خدا، دردِ شفاعت دولت ہے یہی دولت سلطان مدینہؐ اس اُمت عاصی سے نہ منہ پھیر خدایا نازک ہے بہت غیرت سلطان مدینہؐ اے جاں بلب آمدہ، ہشیار خبردار وہ سامنے ہیں حضرت سلطان مدینہؐ کچھ اور نہیں کام جگر مجھ کو کسی سے کافی ہے بس اک نسبت سلطان مدینہؐ دور حاضر میں ابو الاثر حفیظ جا لند ھری نے چار جلدوں میں شاہنامہ اسلام لکھ کر بقائے دوام حاصل کر لی ہے۔ اُنھوں نے حضرت ختم المرسلین ا کی ولادت با سعادت کا حال بہت عمدہ تمثیلوں، استعاروں اور اشاروں میںبلیغ انداز میں بیان کیا ہے اس کے بعد سلام درج کیاہے جو بے حد مقبول ہوا اور میلاد کی محفلوںاور اسلامی اجتماعوں میں اکثر پڑھاجاتا ہے آپ بھی لطف اُٹھائیے فرماتے ہیں: سلام اے آمنہ کے لال!اے محبوب سبحانی! سلام اے فخر موجودات فخر نوع انسانی سلام اے ظل رحمانی! سلام اے نور یزدانی ترا نقش قدم ہے زندگی کی لوح پیشانی سلام اے سرّ وحدت! اے سراج بزم امکانی زہے یہ عزت افزائی زہے تشریف ارزا نی ترے آنے سے رونق آ گئی گلزار ہستی میں شریک حال قسمت ہو گیا پھر فضل ربانی سلام اے صاحب خلق عظیم انسان کو سکھلا دے یہی اعمال پاکیزہ یہی اشغال روحانی تری صورت تری سیرت ترا نقشہ ترا جلوہ تبسم گفتگو، بندہ نوازی، خندہ پیشانی اگر چہ فخر فقری رتبہ ہے تیری قناعت کا مگر قدموں تلے فرّ کسرائی و خاقانی زمانہ منتظر ہے اب نئی شیرازہ بندی کا بہت کچھ ہو چکی اجزائے ہستی کی پریشانی زمیں کا گوشہ، گوشہ نور سے معمور ہو جائے ترے پر توسے مل جائے ہر اک ذرے کو تابانی حفیظ بے نوا بھی ہے گدائے کوچہء اُلفت عقیدت کی جبیں تری مروت سے ہے نورانی ترا در ہو میرا سر ہو مرا دل ہو ترا گھرہو تمنا مختصر سی ہے مگر تمہید طولانی سلام اے آتشیں زنجیر باطل توڑنے والے سلام اے خاک کے ٹوٹے ہوئے دل جوڑنے والے مولانا ماہر القادری نے بھی اسی زمین میں ایک اور بہت طویل سلام لکھا ہے اور حق یہ ہے کہ نعت اور سلام کا حق ادا کر دیا ہے۔موجودہ دورمیںجیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا۔ نعتیہ مشاعروں، ریڈیو اور ٹیلی ویژن، کے نعتیہ پروگراموں کی وجہ سے نیزصحافت کی بدولت نعت گو شعرا کا شمار آسان نہ رہا۔جن میں بلا شبہ صف اول کے حضرات بھی ہیں۔مگر حالی کے بعد نعت گوئی میں جو نیارنگ ابھرا تھا اس کی جھلک سب شعرا کے یہاں کم وبیش ضرور پائی جاتی ہے۔ مولانا حالی کے بعدجس شاعر نے ہماری قومی اور ملی شاعری کو سب سے زیادہ متاثر کیاہے۔وہ بلا شبہ علامہ اقبال کی ذات ہے اس میں بھی شک نہیںکہ ملی شاعری کی طرح نعتیہ شاعری کو بھی اقبال نے ا ور زیادہ، وسیع با معنی، وقیع، با عظمت، مفید، سبق آموز، اور حیات آفروز بنا دیا اور پوری طرح اس میں اسلام اور پیغمبر اسلام ا کے پیغام نجات فر جامِ حیات انجام کی ترجمانی کی اورا س طرح دوسرے شعرا کے لیے مثالی نمونہ فراہم کیا۔چنانچہ آج کی نعتیہ شاعری نصف صدی پہلے کی نعت گوئی سے مختلف نظر آتی ہے۔ جس میں دوسرے شعرا نے ندرتِ خیال اور جودتِ فکر سے مزید وسعتیں اور رعنایاں پیدا کی ہیں۔ /…/…/ نغمات شوق تحقیق ہے کہ علامہ اقبال کے والدین متقی، دین دار اورصالح افراد تھے۔ گھر کا ماحول مذہبیت اور دین داری کا تھا، اس ماحول میں آپ نے آنکھیں کھولیں، اللہ رسول کی باتیں سنیں اور راہ راست سے متعارف ہوئے پھر آغاز زمانہ تعلیم میں آپ کو مولوی میر حسن صاحب کی شاگردی کی عزت حاصل ہوئی مولوی میر حسن پرانی وضع کے عالم، پابند شرع اور بااُصول بزرگ اور عالم باعمل تھے۔ اقبال پر خا ص شفقت کرتے تھے اقبال نے بھی ایک ہو نہار اور اقبال مند شاگرد کی حیثیت سے آپ سے پورا استفادہ کیا اور فیض حاصل کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سرسیّد کی تحریک اپنا اثر قائم کر چکی تھی۔ سرسیّد اور ان کے رفقاء کی تحریروں سے تعلیم یافتہ طبقے میں ایک ذہنی انقلاب رونما ہو رہاتھا اسی کے بعد مولانا حالی کی قومی اور ملی شاعری اور ان کے مسدس کا دور آتا ہے۔ یقین سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ان سب باتو ں نے مل جل کر اقبال کو ذہنی طور پر بہت زیادہ متاثر کیا ہو گا۔ علامہ اقبال کے قیام لاہور کے حالات کچھ اور زیادہ روشنی میں آچکے ہیں۔ ملفو ظات اقبال، روزگار فقیر، مکاتیب اقبال اور اس طرح کی دوسری کتابوں اور مضامین سے اہل قلم نے اپنے ذاتی علم اور مشاہدے کی بنا پر ہماری معلوما ت میں بہت کچھ اضافہ کیا ہے۔ ملفوظات اقبال میں مرزا جلال الدین بیرسٹر لکھتے ہیں : خواجہ حالی مرحوم کے مسدس کے تو عاشق تھے، میرے پاس ریاست ٹونک کا ایک شائستہ مذاق ملازم تھا اسے ستا ر بجانے میں خاص دسترس تھی اور وہ مسدس حالی ستا رپر ایک طرز کے ساتھ سنایا کر تا تھا ڈاکٹر صاحب التزام کے ساتھ ہر دوسرے روز اس سے مسدس سننے کی خواہش کرتے۔ حضور سرور کا ئنات کی تعریف میں وہ بند جو، وہ نبیوں میں رحمت لقب پا نے والا، سے بڑے مرغوب تھے ان کو سنتے ہی ا ن کا دل بھر آتا اور وہ اکثر بے اختیار رو پڑتے ا سی طرح اگر کوئی عمدہ نعت سنائی جاتی تو ان کی آنکھیں ضرور پر نم ہو جاتیں۔ حضرت علامہ کی طبیعت کا یہ سوز وگداز عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا اور عشق رسو ل میں ان کی سر شاری اور استغراق کمال کے درجہ پر جا پہنچا آخر میں تو یہ حال ہو گیا تھا کہ ذرا حضور کا نام کسی کی زبان پر آیا اور آپ کی آنکھیں پر نم ہو گیئں اسی طرح آپ کو فریضہ حج کی ادائیگی اور روضئہ مبارک کی زیارت کی شدید آرزوتھی اور ضعف کی وجہ سے چلناپھرنا مشکل ہو گیا تھا مگر اس وقت بھی یہی لگن تھی کہ شائد طاقت عود کر آئے اور مجھے یہ مقدس سفر نصیب ہو جائے۔ پروفیسر سیّد عبد الر شید لکھتے ہیں : مو لانا غلام رسول مہر لکھتے ہیں :میں۸؍اپریل کی شام کو حاضر ہوا تو ایک صاحب حضرت مرحوم کے پاس بیٹھے تھے۔ میرے پہنچنے پر ان صاحب نے حضرت کی خدمت میںعرض کیا کہ ابھی تو آپ کو حجاز جانا ہے۔ حضرت فرمانے لگے کہ سہارن پور سے ایک صاحب نے لکھا ہے کہ میں نے حرم پاک کا طواف کرتے ہوئے بارگاہ ایزدی میں دُعا کی تھی کہ آپ کو بھی حرم پاک پہنچنا نصیب ہو۔ مجھے یقین ہے کہ یہ دُعا قبول ہو گئی ہے پھر فرمانے لگے اب بظاہر حجاز پہنچے کی کوئی صورت نہیں۔ لیکن دیکھیے خدا کو کیا منظور ہے۔ میر غلام بھیک نیرنگ تحریر فرماتے ہیں : ۱۹۳۷ء کے موسم سرما میں ایک روز جاوید منزل میں ان سے ملاقات ہوئی۔ دیر تک صحبت رہی۔وہ اس وقت بہت کمزور تھے سفر مدینہ کا بھی ذکر رہا، کہنے لگے کہ جس قدر تھوڑی طاقت مجھ میں رہ گئی ہے میں اس کو مدینہ کے لیے بچا بچا کے رکھ رہا ہوں افسوس کہ ان کی یہ تمنا پوری نہ ہوئی اور وہ دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اقبال کا قلبی تعلق حضور سرور کائنات کی ذات قدسی صفات سے اس قدر نازک تھا کہ حضور اکا ذکر آتے ہی ان کی حالت دگرگوں ہو جاتی تھی اگرچہ وہ فوراً ضبط کر لیتے تھے چونکہ میں بارہا ان کی یہ کیفیت دیکھ چکا تھا اس لیے میںنے ان کے سامنے تو نہیں کہا مگر خاص لوگوں سے بطور راز ضرور کہا کہ یہ اگر حضور کے مرقد پاک پر حاضر ہوں گے تو زندہ واپس نہیں آئیںگے۔ وہیں جاں بحق ہوجائیں گے۔ میرا اندازہ یہی تھا اللہ بہتر جانتا ہے (اقبال اکتوبر۱۹۵۷ئ، ص۳۰( ۔ دسمبر۱۹۳۷ء کے ایک خط میں حضرت علامہ، مخدوم الملک سیّد غلا م میراں شاہ صاحب کو لکھتے ہیں: الحمداللہ کہ آپ خیریت سے ہیں اور حج کی تیاریوںمیں مصروف ہیں خدا تعالیٰ آپ کو یہ سفر مبارک کرے اور اس کے فرشتوں کی رحمتیں آپ کے شریک حال ہوں۔ کاش کہ میں بھی آ کے ساتھ چل سکتا، اور آ پ کی صحبت کی برکت سے مستفیض ہو تا لیکن افسوس ہے کہ جدا ئی کے ایام ابھی باقی معلو م ہو تے ہیں، میں تو اس قابل نہیں ہو ں کہ حضو ر کے روضئہ مبارک پر یاد بھی کیا جاؤں تاہم حضو ر کے اس ارشاد سے جرا ت ہو تی ہے کہ فرمایا الطالحون لی (گہنگا رمیرے لیے ہیں) امید ہے کہ آپ اس دربار میں پہنچ کر مجھے فراموش نہیں کریں گے۔ ان شہادتوں سے علامہ اقبال کی محبت رسول اور حرمین الشریفین کی زیارت کے ذوق وشوق کی شدت کا اندازہ ہو سکتا ہے اسی طرح سیرت مقدسہ کی روشنی آپ کے دل ودماغ کو منور کیے رہتی تھی۔ جناب مولانا مودودی نے ایک عجیب بصیرت افروز واقعہ بیان کیا ہے۔ پنجاب کے ایک دولت مند رئیس نے ایک قانونی مشورے کے لیے اقبا ل اور سر فضل حسین اور ایک دو اور مشہور قانون دان اصحاب کو اپنے ہا ںبلا یا اور اپنی شان دار کوٹھی میں ان کے قیا م کا ا نتظام کیا۔ رات کو جس وقت اقبال اپنے کمرے میں آرام کے لیے گئے تو ہر طرف عیش وتنعم کے سامان دیکھ کر اور اپنے نیچے نہایت نرم اور قیمتی بستر پا کر معاً ان کے دل میں یہ خیال آ یا کہ جس رسول پاک کی جو تیوں کے صدقے میں ہم کو یہ مرتبے حاصل ہوئے ہیں اس نے بوریے پر سو کر زندگی گزار دی تھی یہ خیال آنا تھا کہ آنسوؤں کی جھڑی بندھ گئی اس بستر پر لیٹنا ان کے لیے ناممکن ہو گیا اٹھے اور برابر کے غسل خانے میں جا کر ایک کرسی پر بیٹھ گیے اور مسلسل رونا شروع کر دیا جب ذ را دل کو قرار آیا تو اپنے ملازم کو بلوا کر اپنا بستر کھلوایا اور ایک چارپائی اسی غسل خانے میں بچھوائی اور جب تک وہا ں مقیم رہے، غسل خانے ہی میں سوتے رہے۔ یہ وفات سے کئی برس پہلے کا واقعہ ہے حضرت علامہ نے کیا خوب فرمایا ہے : در دل مقام مصطفیٰ است آبروئے ما ز نام مصطفیٰ است اقبال کی اس والہانہ عقیدت، جذباتی لگاؤ قلبی شیفتگی اور ذوق و شوق نے آپ کے ان اشعار میں جو حضور کے ذکر مبارک سے مزین ہیں، عجیب کیف، محبت، عقیدت، شیفتگی، درد تاثیر اور سوزو گداز بھر دیا ہے آپ کی نعتیہ شاعری کے ابتدائی دور میں البتہ آپ کے اشعار میں روایتی نعت گوئی کا اثر زیادہ نمایاں ہے ایک پوری غزل کا مطالعہ کیجیے : نگاہ عاشق کی دیکھ لیتی ہے پردئہ میم کو ہٹا کر وہ بز م یثرب میں آ کے بیٹھیں ہزار منہ کو چھپ چھپا کر جو تیرے کوچے کے ساکنوں کا فضائے جنت میں دل نہ بہلے تسلیاں دے رہی ہیں حوریں خوشامدوں سے منامناکر بہار جنت سے کھینچتا تھا ہمیں مدینے سے آج رضواں ہزار مشکل سے اس کو ٹالا بڑے بہانے بنا بنا کر لحد میں سوتے ہیں تیرے شیدا تو حور جنت کو اس میں کیا ہے کہ شور محشر کو بھیجتی ہے خبر نہیں کیا کیا سکھا کر تیری جدائی میں خاک ہونا اثر دیکھاتا ہے کیمیا کا دیار یثرب میں آ ہی پہنچے صبا کی موجوں میں مل ملا کر شہید عشق نبی کے مرنے میں بانکپن بھی ہیں سو طرح کے اجل بھی کہتی ہے زندہ باشی ہمارے مرنے پہ زہر کھا کر رکھی ہوئی کام آ ہی جا تی ہے جنس عصیاں عجیب شے ہے کوئی اسے پوچھتا پھرے ہے زر شفاعت دیکھا دیکھا کر تیرے ثنا گو عروس رحمت سے چھیڑ کرتے ہیں روز محشر کہ اس کو پیچھے لگا لیا ہے گناہ اپنے دیکھا دیکھاکر بتائے دیتے ہیں اے صبا ہم یہ گلستان عرب کی بو ہے مگر نہ اب ہاتھ لا ادھر کو وہیں سے لائی ہے تو اُڑاکر تری جدائی میں مرنے والے فنا کے تیروں سے بے خبر ہیں اجل کی ہم نے ہنسی اُڑائی اسے بھی مارا تھکا تھکا کر ہنسی بھی کچھ کچھ نکل رہی تھی مجھے بھی محشر میں تاکتی تھی کہیں شفاعت نہ لے گئی ہو مری کتاب عمل اُٹھا کر یہ پردہ داری تو پردہ در ہے مگر شفاعت کا آسرا ہے دبک کے محشر میں بیٹھ جاتا ہوںدامن تر میں منہ چھپاکر شہید عشق نبی ہوں میری لحد پہ شمع قمر جلے گی اٹھا کے لا ئیں گے خود فرشتے چراغ خورشید سے جلا کر خیال راہ عدم سے اقبال تیرے در پہ ہوا ہے حاضر بغل میں زاد سفر نہیں ہے صلہ میری نعت کا ادا کر ۱۹۰۵ء میں علامہ اقبال اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ گئے تھے یورپ کے تین سالہ قیام نے آپ پر بہت گہرے اثرات مرتسم کیے آپ نے اپنے تحقیقی مقالے کے سلسلے میں مفکرین اسلام کے تخیلا ت اور نظریات کا گہری نظر سے مطالعہ کیا تھا۔ دوسری طرف مغرب کے تہذیب و تمدن کو آپ نے قریب سے دیکھا اور سمجھا تو فرمایا: دیار مغرب کے رہنے والو: خدا کی بستی دکاں نہیں ہے کھرا جیسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب ذرا کم عیار ہو گا تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہو گا نیز صاف الفاظ میں کہہ دیا : نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے اس لیے آپ نے اپنے لیے اور اپنی ملت کے لیے وہی شراب کہنہ طلب کی، جو میخانہ یثرب میں ڈھالی گئی تھی۔ فرماتے ہیں پیر مغاں! فرنگ کی مے کا نشاط ہے اثر اس میں وہ کیف غم نہیں مجھ کو تو خانہ ساز دے تجھ کو خبر نہیں ہے کیا، بزم کہن بدل گئی ہے اب تو خدا کے واسطے ان کو مئے حجاز دے یہی وہ زمانہ ہے جب آپ نے سمجھ لیا کہ رازحیات اور رمز ارتقا حرکت مسلسل، جنبش پیہم اور سعی وعمل میں پو شیدہ ہے چنانچہ اس وقت سے آپ کے کلام میں سوز دوام اور گردش مدام کے مضامین کی تکرار پائی جاتی ہے مثلاً راز حیات پوچھ لے خضر خجستہ گام سے زندہ ہر اک چیز ہے کوشش ناتمام سے عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے ٌچلنے والے نکل گئے ہیں جو ٹھہرے ذرا، کچل گئے ہیں یورپ سے واپسی پر آپ کے تاثرات نے بلاد اسلامیہ مشہور نظم میں ظہور کیا آپ اسلامی شان وشکوہ، دولت واقبال، عظمت وشوکت کے ان روشن اور تابناک مرکزی مقامات کو یاد کرتے اور حسرت وافسوس سے مسلمانوں کی عظمت وجلال گزشتہ کا ذکر کرتے ہیں۔ جن کا ظہور دہلی، بغداد، قر طبہ، قسطنطیہ (استا نبول) جیسے عظیم مرکزوں سے صدیوں تک ہوتا رہا اور جو سارے عالم کے لیے علوم وفنون اور تہذیب وتمدن کا خزانہ اور سرچشمہ بنے رہے مگر یہ تمام عظمت وشوکت کے مینار، خواب گاہ مصطفیٰ کے تقدس اور جلال پر قربان ہیں، جس کی مثال عالم میں نہیں مل سکتی۔کیوں؟اس لیے کہ اس سر زمین مقدس کے آغوش میں وہ، شہنشاہ معظم، آسودئہ خواب راحت ہے، جس کے زیر سایہ تمام دنیا نے پناہ حاصل کی جس نے تمام اقوام عالم کو امن کا پیغام سنایا جو مسلمانوں کا ماوا وملجا ہے اور جس سے مسلمانوں کی حیات اور تقدیر وابستہ ہے اس نظم کا آخری بند ملاحظہ کیجیے : وہ زمیں ہے تو، مگر اے خواب گاہ مصطفی دید ہے کعبہ کو تیری حج اکبر کے سوا خاتم ہستی میں تو تاباں ہے مانند نگیں اپنی عظمت کی ولادت گاہ تھی تیری زمیں تجھ میں راحت اس شہنشاہ معظم کو ملی جس کے دامن میں اماں اقوام عالم کو ملی نام لیوا جس کے ، شاہنشاہ عالم کے ہوئے جانشین قیصر کے ، وارث مستند جم کے ہوئے ہے۱ ہے اگر قومیت اسلام پابند مقام ہند ہی بنیاد ہے اس کی نہ فارس نہ شام آہ یثرب! دیس ہے مسلم کا تو ، ماوا ہے تو نقطۂ جاذب تاثر کی شعاعوں کا ہے تو جب تلک باقی ہے تو دنیا میں باقی ہم بھی ہیں صبح ہے تو اس چمن میں گوہر شبنم بھی ہیں اسی زمانے سے اقبال کی اسلامی شاعری اور پیامی شاعری کا آغاز ہوتا ہے۔ اقبال کے دل میں مذہب کی عظمت ومحبت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عقیدت و مودت پہلے سے جاگزیں تھی اب اس میں اور پختگی آجا تی ہے اور عمر، علم اور تجربہ کے ساتھ اس میں ترقی ہو جاتی ہے ان کی زبا ن سے اب ترانہ ہندی کی بجائے ترانہ ملی نکلتا ہے۔ قوم کو بیدار کرنے اور ان میں غیرت وحمیت کا احساس جگانے کا شوق بڑھتا ہے۔ تہذیب جدید اور مغربی مادیت کی تباہ کاریوں سے متنبہ کرتے اور گردش ایام کو پیچھے کی طرف لوٹانے پر کمر بستہ ہو جاتے اسلام کی عظمت، قرآن کریم کی صداقت، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کی جانب رجعت، اسوئہ حسنہ نبوی کا اتباع اور تقلید، تعلیمات نبوی پر عمل پیرا ہو نے کی تلقین اب ان کی شاعری کے بنیادی مضامین ہو جاتے ہیں ان کی شاعری کا یہ میلان روایتی انداز کا نہ تھا ان کے دماغ اور دل نے جو صحیح جا نا اور سمجھا وہی ملت کے لیے ان کا پیغام بن کر ان کے اشعار میں ظاہر ہوا۔ یہیں سے ان کی نعتیہ شاعری نے بھی ایک نیا اُسلوب، نیا لہجہ، نیا آہنگ اختیار کیا مضامین بھی نئے طرز ادا بھی نیا، اُسلوب بیاں بھی نیا اور سچ یہ ہے کہ یہی وہ شاعری ہے جیسے’’جزویست از پیغمبری ‘‘ کہا گیا ہے۔ اقبال کی قومی اور ملی شاعری میں بھی ابھی جو رنگ چمکنے لگا اس کی مثال ان کی اس نظم میں ملتی ہے جو بانگ درا میں ’’خطاب بجوانان اسلام ‘‘کے عنوان سے صفحہ ۱۹۱ پر درج ہے۔ ملاحظہ کیجیے : کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے وہ کیا گردوں تھا ، تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا؟ تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سردارا تمدن آفریں ، خلاق آئین جہاں داری وہ صحرائے عرب یعنی شتربانوں کا گہوارا سماں الفقر فخری کا رہا شان امارت میں ’’بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را‘‘ گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے جہاں گیر و جہاں دار جہاں بان و جہاں آرا اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارہ تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی کہ تو گفتار وہ کردار تو ثابت وہ سیارہ گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی نہیں دنیا کے آئین مسلم سے کوئی چارا مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ ’’غنی روز سیاہ پیر کنعاں را تماشا کن کہ نور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را‘‘ اقبال کو ان کے غائر اور تفصیلی مطالعہ اور مشاہد ہ نے بتادیا کہ اسلام ہی سچا دین اور مذہب ہے۔ اسوئہ رسولؐ ہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر انسان راہ نجات پا سکتا ہے اور تعلیمات نبوی ہی وہ واحد صراط مستقیم جو بھٹکے ہوئے مسلمانوں کو پستی و ذلت سے نکال کر ترقی و بلندی پر پہنچا سکتاہے۔ سیرت پاک کا مطالعہ اور قرآن حکیم کے مطالب میں غور و خوض نے ان کو کا مل یقین بخش دیا تھا کہ اسلامی تعلیمات ہماری دینوی زندگی کے ہر شعبے میں ہماری رہنمائی کی ضامن ہیں اخلاق کی پاکیزگی اور کردار کی سر بلندی صرف اسی طریق میں مضمر ہے جو قرآن مجید اور اسوئہ حسنہ نے ہم کو سکھایا اور بتایا ہے اس لیے اب اقبال کی تمام تر شاعری انھی مطالب اور انھی موضوعات میں مرتکز ہو کر رہ گئی اور خاص طور پر پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اور سیرت مقدسہ ان کی شاعری کا سب سے اہم اور سب سے مرکزی موضوع قرار پائی۔ اقبال ایک پیامی شاعر تھے اس لیے ان کی غزلوں یا نظموں کا علیحدہ علیحدہ مطالعہ مفید مطلب نہیں ہو سکتا ان کی کتابوں کو مجموعی طور پر پڑھ کر ان کا مقصود اور مافی الضمیر سمجھا جا سکتا ہے کوئی شخص بھی جو غائر نظر سے اقبال کا تفصیلی مطالعہ کرے اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ ان کا مقصود شاعری قرآن حکیم کی عظمت اور صداقت بیان کرنے اور اس کی تعلیمات اور پیغام پر زور دینے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مقدسہ اور اسوئہ حسنہ کے مثالی نمونے کو ملت اسلامی کے سامنے پیش کیا جائے اور ان کے ذہن نشین کیا جائے کہ صرف قرآن اور سنت کی تقلید اور اتباع میں ترقی اور فلاح کا راز پوشیدہ ہے اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ ان کے کلام میں مقصد رسالت، عظمت رسولؐ، تعلیمات نبویؐ، پیغام رسولؐ، اسوئہ حسنہ، مکارم اخلاق کی تفصیلات کثرت سے موجود ہیں اور آپ تا کیدی طور پر بتاتے ہیں کہ یہی ایک راستہ ہے جو صراط مستقیم کہا جا سکتا ہے۔ جو درس حیات بھی ہے اور پیغام عمل بھی، راہ نجات بھی ہے اور معراج ارتقاء بھی۔ اقبال کی حب رسول کا کچھ بیان پہلے آچکا ہے آپ سر تا پا محبت نبی سے سرشار تھے اس لیے عقیدت ومحبت، نذر ونیاز، شوق یثرب، دُعا و منا جات اور ذوق وشوق کے مضا مین کثرت سے جا بجا نظر آتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس موجب تخلیق کائنات بھی ہے اور فریاد رس عالم بھی اس لیے ہم دیکھتے ہیں اور انھی سے د ستگیری اور چارہ گری کی درخواست کرتے ہیں اس مختصر بیان کے بعد اشعار کی کچھ مثالیں ملاحظہ کیجیے۔ پہلے ایسے اشعار بکثرت نقل کیے جا چکے ہیں میں کوشش کروں گا کہ بے جا تکرار سے گریز کروں الا ماشاء اللہ۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اقبال کو حجاز مقدس اور روضئہ اطہر کی زیارت کا بڑا اشتیاق تھا ان کے یہ شعر ان کی اس دلی کیفیت کے ترجمان ہیں اور آپ کی عقیدت ومحبت کی سچی شرح کرتے ہیں ترانہ ء ملی میں کہتے ہیں : سالار کارواں ہے میر حجاز اپنا اس نام سے ہے باقی آرام جاں ہمارا۵ ہوا ہو ایسی کہ ہندوستان سے اے اقبال اُڑا کے مجھ کو غبار رہ حجاز کرے۶ شفاخانۂ حجاز کی تعمیر کا حال سن کر ایک قطعہ کہا ہے اس میں کہتے ہیں : اوروں کو دیں حضور یہ پیغام زندگی میں موت ڈھونڈتا ہوں غبار حجاز میں۷ خاک یثرب از دو عالم خوش تر است اے خنک شہرے کہ آنجا دلبر است۸ ارمغان حجاز‘‘ آپ کی آخری تصنیف ہے، جو آپ کی وفا ت کے بعد نو مبر ۱۹۳۸ء میں شائع ہوئی تھی اس میں صفحات۲۳ سے ۶۲تک جو رباعیات اور قطعات درج ہیں ان کا عنوان ہے ’’حضور رسالت ‘‘ ان میں سے کچھ کے مطالعے سے لطف حاصل کیجیے اقبال کے زیارت مدینہ کے شوق کا ذکر کیا جا چکا ہے ایک قطعہ میں کہتے ہیںکہ اس بڑھاپے اور ضعف کے عالم میں میں نے یثرب کا سفر اختیار کیا ہے۔ عاشقانہ نغمے گاتا ہوا گرم رفتار ہوں۔ میری مثال اس پرندے کی سی ہے جو شام کے وقت صحرا میں اپنے گھونسلے پر اترنے کے لیے پر کھولتا ہے : بایں پیری رہ یثرب گرفتم نوا خواں از سرور عا شقا نہ چوں آں مرغے کہ در صحرا سر شام کشاید پر بہ فکر آشیانہ کیا پو چھتے ہو کہ میرے نغموں اور نالوں کا کیا مقام ہے لو گ یہ بھی نہیں سمجھتے کہ میرا اصل مرکز کیا ہے اس صحرا میں اس لیے میں نے ڈیرا جمایا ہے کہ میں یہاں خلوت میں بیٹھ کر اکیلا نغمہ سرائی کیا کروں۔ چہ پر سی از مقا مات نوایم ندیماں کم شناسند از کجایم کشادم رخت خو د را اندریں دشت کہ اندر خلوتش تنہا سرا یم کیسا پیارا صحرا ہے۔ جہاں قافلے گرم رفتار ہیں۔ محمل رواں ہیں اور درود پڑھتے جا رہے ہیں، اس صحرا کی گرم گرم ریت پر سجدے کرو اتنے سجدے کہ تمھاری پیشانی پر داغ نمایا ں ہو جائے : چہ خوش صحرا کہ دور کارواں ہا دور دے خواند ومحمل براند بہ ریگ گرم او آور سجود ے جبیں را سوز تا داغے بماند !! کیسا پیا را صحرا ہے جس کی شام صبح کو شرماتی ہے اس کی رات چھو ٹی اور دن لمبا ہو تا ہے اے مسافر! آہستہ آہستہ قدم رکھ اس لیے کہ یہا ں کا ایک ایک ذرہ ہماری طرح درد محبت میں ڈوبا ہوا ہے چہ خوش صحرا کہ شامش صبح خنداست شبش کو تاہ و روز او بلند است قدم اے راہرو آہستہ ترنہ چوما ہر ذرئہ اور درد مند است اے سالار کارواں یہ عجمی کو ن ہے ؟ اس کا لہجہ اور آہنگ عرب جیسا نہیں۔ یہ عجمی ایسے تروتازہ اور شاداب نغمے الاپ رہا ہے کہ ایک ویران بیا بان میں ان نغموں سے دل کو طراوت حاصل ہوتی ہے : امیر کا رواں ! آں عجمی کیست ؟ سرود او باہنگ عرب نیست زند آ ں نغمہ کز سیرابی او خنک دل در بیا بانے تواں زیست میں کبھی عراقی کے عاشقانہ اشعار پڑ ھتا ہوں کبھی جامی کے اشعار میرے دل میں محبت کی آگ بھڑکاتے ہیں اگرچہ میں عرب کے لہجے اور آہنگ سے واقف نہیں ہوں۔ مگر پھر بھی سار بان کے پر شوق نغموں میں شر یک ہوں : گہے شعر عراقی را بخوانم گہے جامی زند آتش بجانم ندانم گرچہ آہنگ عرب را شریک نغمہ ہائے ساربانم مسافر کے دل میں جو سوز غم ہے اس میں اور زیادہ خوشی اور نشاط بھر دے اس کے نالہ وفغاں کو اور زیادہ جنو ں میں ترقی کا سبب بنا اے سارباں اور لمبے راستے سے ہو کر چل میرے جدائی کے سوز کو اور زیادہ بھڑ کا : غم راہی نشاط آمیز تر کن فغانش را جنوں انگیز تر کن بگیر اے سار باں راہ دراز ے مرا سوز جدائی تیز تر کن اے ساتھی آ! ہم دونوں مل کر نالہ وزاری کریں۔ میں اور تو دونوں کسی کے جمال جہاں آرا کے شہید ہیں آ دل کے مطابق کچھ باتیں کہیں اور آقا ومو لا کے قدموں سے اپنی آنکھیں رگڑ کر دل کی بھڑاس نکالیں : بیا اے ہم نفس !باہم بنالیم من و تو کشتۂ شان جمالیم دو حرفے بر مراد دل بگوئیم بپائے خواجہ چشماں را بمالیم حکیموں اور دانشمندوں کی یہاں کوئی حیثیت نہیں اور ایک نادان کے حصہ میں جلوئہ مستانہ آگیا۔ کیسی خوش قسمتی اور کیسا مبارک زمانہ ہے کہ ایک فقیر بے نوا کو شہنشاہ کے آستا نے پر حاضری میسر آئی حکیماں را بہا کمتر نہا دند بنا داں جلوۂ مستانہ دادند چہ خوش بختے، چہ خرم روز گار ے در سلطاں بہ درویشے کشادند مسلمان وہ جو فقیر ہے مگر اب بھی اس میں کج کلاہی کی آن باقی ہے اس کے سینے سے اب بھی محبت کی آ ہ نکلتی ہے اس کا دل رو رہا ہے کیوں روتا ہے ؟ اسے مطلق معلوم نہیں اے رسول اللہ !اس پر لطف وکرم کی نگاہ ڈالیے کہ اس کے دل کی گرہ کھل جائے مسلماں آں فقیر کج کلا ہے رمید از سینہ ء او سوز آہے دلش نالد! چرانالد؟ نداند نگا ہے یا رسول اللہ نگا ہے دل میں جو گرمی اور بے تابی ہے سب آپ کے غم کی بدولت ہے۔ میرے نالے بھی آپ ہی کی توجہ کا فیضان ہیں میں اس پر ماتم کنا ں ہوں کہ ملک ہندوستان میں ایک بھی تو شخص مجھے ایسا نظر نہیں آیا جو آپ کے اسرار کا محرم ہو : تب و تاب دل از سوز غم تست نوائے من ز تا ثیر دم تست بنالم زانکہ اندر کشور ہند ندیدم بندۂ کو محرم تست ہندوستان کے غلام مسلمانوں کی رات ختم ہو کر صبح کے طلوع ہونے کے آثار نظر نہیں آتے اس سر زمین پر سورج کا بھی گزر نہیں معلوم ہوتا۔ ہمارے حال زار پر ذرا نگاہ کرم کیجیے۔ کیو نکہ مشرق کی مسلم اقوام میں ہم ہندی مسلمانوں سے زیادہ بے بس اور بے چارہ دوسری کوئی قوم نہیں۔ شب ہندی غلاماں را سحر نیست بایں خاک آ فتابے راگذر نیست بماکن گوشئہ چشمے کہ در شرق مسلمانے زمابے چارہ تر نیست ابھی تک یہ فلک کج رفتا ر ہم سے مخالفت پر اُڑا ہو اہے ابھی تک یہ قافلہ اپنی منزل سے دور ہے میں اس کار وان ملت کی ابتری اور بد نظمی کا کیا حال بیان کروں آپ کو تو خود معلوم ہے کہ اس قوم کا کوئی قائد اور رہنما نہیں : ہنوز ایں چرخ نیلی کج خرام است ہنوز ایں کا رواں دور از مقام است زکار بے نظام او چہ گویم تو می دانی کہ ملت بے امام است مسلمانوں کے خون میں وہ حرارت اور جوش باقی نہیں رہا اب تو اس ویرانے میں گل لالہ بھی نہیں اگتا اس کی جیب کی طرح اس کی تلوار کا میان بھی خالی ہے۔ یعنی مفلس بھی ہے اور بے عمل بھی اس کے ویران گھر میں اس کی کتاب (قرآن مجید)بھی صرف زینت طاق بنی رہتی ہے : نماند آں تاب و تب در خون نا بش نر وید لالہ از کشت خرابش نیام او تہی چوں کیسۂ او بطاق خانہء ویراں کتابش ساری دنیا میں لا دینی پھیلی ہوئی ہے۔ حد یہ ہے کہ دنیا والے روح کو بھی جسم کے آثار میں شمار کرنے لگے ہیں جو فقر آپ نے حضرت صدیق اکبر ؓ رضی اللہ عنہ کوبخشا تھا اس سے ہماری بے حس روحوں میں سوز وحرارت پیدا فرما دیجیے : دگرگوں کرد لادینی جہاں را زآثار بدن گفتند جاں را ازاں فقر ے کہ باصدیق ؓ دادی پشورے آور ایں آسودہ جاں میں مسلمان ہوں۔ ہر ملک میں میرا حال پر دیسی سا ہے اس لیے کہ مجھے دنیا سے کوئی سرو کار نہیں۔ باوجود ساری بے طاقتی کے میں اس پیچ و تاب میں مبتلا رہتا ہوں کہ میںپھر ما سوا کے چکر میں پھنس گیا۔ کیسے اس سے چھٹکارا حا صل کروں : مسلمانم غریب ہر دیارم کہ با ایں خاکداں کار ے ندارم بایں بے طاقتی در پیچ و تا بم کہ من دیگر بغیر اللہ دچارم آپ نے جو بازو مجھے عطا فر مائے تھے ان ہی کے ذریعے میں نے پر واز کی اپنے پر سوز نغموں میں خود ہی تڑپتا رہا ایسا مسلمان کہ موت بھی اس سے مقابل ہو تو لرز جائے ؛ میں نے ساری دنیا دیکھ ڈالی مگر اسے نہ پایا : بآں بالے کہ بخشیدی پریدم بسوز نغمہ ہائے خود تپیدم مسلمانے کہ مرگ ازوے بلر زد جہاں گردیدم واور ا ندیدم ایک رات میں مناجات میں بارگاہ الہٰی میں زاروقطار رویا، اور سوال کیا کہ مسلمان اتنے زارو نزار اور عاجز وخوار کیوں ہو رہے ہیں ندا آئی کہ تو جانتا نہیں ہے ان لو گو ں کے پاس دل تو ہے مگر اس دل میں بسنے والا کوئی محبوب نہیں ہے شبے پیش خدا بگریسم زار مسلماناں چرا زارند و خوارند ندا آمد، نمی دانی کہ ایں قوم دلے دارند ومحبوبے ندا رند میں کبھی گر پڑتا ہوں کبھی مستانہ اٹھ کھڑا ہو تا ہوں تا کہ تلوار سے خوں ریزی کروں (اہل زمانہ کے خلاف جہاد کروں) ۔ خدا کے واسطے ایک نظر لطف سے نوازیے اور دستگیری فرمایئے۔ کیونکہ میں اپنے زمانے کیخلاف بر سر پیکار ہوں اس میں کامیابی میسر ہو: گہے افتم گہے مستانہ خیزم چہ خوں بے تیغ و شمشیر بریزم نگاہ التفاتے بر سر بام کہ من با عصر خود اندر ستیزم مجھے خلوت چاہیے اور آہ وفغاں ہی میرے لیے مناسب ہے۔ یثرب کی طرف بغیر کسی کارواں کے ہی سفر کرنا خوب ہے۔ کہاں مکتب اور کہاں میکدئہ شوق آپ خود ہی فرما دیجیے کہ میرے لیے ان دونوں میں سے کون سی چیز بہتر ہے مدرسہ یا میخانہ محبت !: مرا تنہائی وآہ و فغاںبہ سوئے یثرب سفر بے کار واں بہ کجا مکتب، کجا میخانۂ شوق تو خود فرما مرا ایں بہ کہ آں بہ جو اسرار میں نے قوم کے سامنے واشگاف الفاظ میں بیان کیے کسی نے نہ سمجھے۔ میرے کجھور کے درخت سے کسی نے بھی تو اس کا میٹھا پھل نہ کھایا اے بادشاہ کو نین ا !میں آپ ہی سے انصاف چاہتا ہوں ذرا دیکھیے تو یاورں نے مجھے بھی ایک عام غزل گو شاعر سمجھ رکھا ہے : بآں رازے کہ گفتم، پے نبردند زشاخ نخل من خرما نخورند من اے میر اْمم داد از تو خواہم مرا یاراں غزل خوانے شمر دند ہمارے دلوں میں آہ کے دھوئیں کے علاوہ کچھ نہیں آپ کے سوا کسی دوسرے تک رسائی نہیں جوہماری دستگیری کرے میں افسانہ ء غم کہوں تو اور کس سے کہوں ہمارے سینوں میں آپ کے علاوہ اور کوئی بستا ہی نہیں درون مابجز دود نفس نیست بجز دست تو مارا دسترس نیست دگر افسانہ ء غم با کہ گویم کہ اندر سینہ ہا غیر از توکس نیست ایک غریب اور درد مند نالے کر رہا ہے اپنے پر سوز نغموں سے وہ خود ہی گھلا جا رہا ہے آپ تو جانتے ہیں کہ وہ کس تلاش میں ہے اور کیا چاہتا ہے اسے بس ایک دل مطلوب ہے جو ہر دو عالم سے بے نیاز ہو : غریبے درد مندے نے نوازے زسوز نغمہ ء خود در گدازے تو می دانی چہ می جوید چہ خواہد دلے از ہر دو عالم بے نیازے مجھے کسی اور ہوا سے شادابی اور رنگ روپ نہیں چاہیے میں تو بس آپ کے آفتاب درخشاں کے فیض سے نشو نما پاتا ہوں میری نظر ماہ و پرویں سے بھی آگے اور ان سے بھی بلند تر ہے میں کسی کی خوشنودی اور خوشامد کی بات نہیں کرتا۔ میں تو جو حق بات ہے وہی زبان پر لاتا ہوں : نم ورنگ از دم بادے نجویم ز فیض آفتاب تو بر ویم نگا ہم از مہ و پرویں بلند است سخن را مزاج َ کس نگویم اس سمندر میں جس کا اور نہ چھور۔ عاشقوں کی رہنمائی فقط ایک دل کرتا ہے اور بس آپ نے فرمایا تو ہم نے مکہ معظمہ کی زیارت کا قصد کیا۔ ورنہ ہماری منزل تو سوا آپ کے آستانۂ اقدس کے دوسری کوئی نہیں۔ درآں دریا کہ او را ساحلے نیست دلیل عا شقاں غیر از دلے نیست تو فر مودی رہ بطحا گرفتم وگرنہ جز تو مارا منزلے نیست ہم حاضری کے مشتاق ہیں۔ ہمیں آستانہ سے نہ دھتکاریئے آپ نے جو درد محبت عطا فرمایا ہے اس کی وجہ سے ہم بے صبر اور بے قرار ہیں۔ صبر کے علاوہ آپ جو چاہیں حکم صادر فرمایئے ہم تعمیل کریں گے۔ مگر ہم میں اور صبر میں تو دو سو کوس کی دوری ہے : مراں از در کہ مشتاق حضوریم ازاں درد ے کہ دادی نا صبوریم بفرما ہر چہ می خواہی بجز صبر کہ ما از وے دو صدی فرہنگ دوریم میں فقیر اور محتا ج ہوں جو کچھ مانگتا ہوں آپ ہی سے مانگتا ہوں۔ میں گھاس کا ایک تنکا ہوں اس کی ایک پتی سے جہاز جیسا سنگین اور مستحکم دل تراش دیجیے دانش مندوں اور فلسفیوں کی کتابوں سے مجھے درد سر اور پریشان خیالی کے سوا کچھ حا صل نہ ہوا، اس لیے کہ میری تر بیت کسی کی نظر سے فیض یافتہ ہے : فقیرم از تو خواہم ہر چہ خواہم دل کو ہے خراش از برگ کا ہم مرا درس حکیماں درد سر داد کہ من پروردہء فیض نگاہم میں نہ ملا کی محفل میں بیٹھتا ہوں نہ صوفی کی خانقاہ میں آپ جانتے ہیں کہ میں نہ اس طبقے سے علاقہ رکھتا ہوں اور نہ اس سے آپ ہی میرے دل کی تختی پر اسم اللہ نقش فرما دیجیے۔ تا کہ میں اس کے فیض سے اس کو اور اپنی خودی کو صاف صاف پہچان لوں۔ نہ با ملا نہ با صوفی نشینم تو میدانی کہ من آنم نہ اینم نویس اللہ بر لوح دل من کہ ہم خود را ہم او را فاش بینم میں نے اپنا دل کسی اور کے ہاتھ میں نہیں دیا۔ بلکہ اپنی مشکلات کا حل خود ہی پیدا کیا۔ غیر اللہ پر میں نے ایک دفعہ بھروسہ کیا تھا تو نتیجہ یہ ہوا کہ دو سو دفعہ اپنے مقام سے نیچے آگرا: دل خود را بدست کس ندادم گرہ از روئے کار خود کشادم بہ غیر اللہ کردم تکیہ یکبار دو صد بار از مقام خود فتادم ابھی اس آگ میں چنگاری چھپی ہوئی ہے ابھی اس سینے میں آہ سحر پو شیدہ ہے آپ میری آنکھوں پر اپنی تجلی آشکار کیجیے تو آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ باوجود اس ضعف اور عالم پیری کے میرے اندر ابھی تاب نظارہ موجود ہے : ہنوز ایں خاک دارائے شرر ہست ہنوز این سینہ را آہ سحر ہست تجلی ریز بر چشم کہ بینی بایں پیری مرا تاب نظر ہست میری نظر جو کچھ بھی دیکھتی ہے اس سے بے نیاز انہ گزر جاتی ہے میرے دل کو تو بس سوز دردوں کی آگ پگھلائے دے رہی ہے۔ میرا واسطہ اس زمانے سے ہے جس میں نہ اخلاص ہے نہ سوز آپ ہی مجھے بتا دیجیے کہ آخر یہ بھید کیا ہے : نگاہم زانچہ بینم بے نیاز است دل از سوز درونم در گداز است من وایں عصر بے اخلاص وبے سوز بگو با من کہ آخر ایں چہ راز است؟ میری آنکھوں کو یہ نگاہ آپ ہی کی عطا کی ہوئی ہے ان میں لا الہ کی روشنی بھی آپ ہی کی دی ہوئی ہے۔ مجھے’’ من رآنی ‘‘کی صبح سے فیض یاب فر ما یئے اس لیے کہ میری رات کی تاریکی کو دور کرنے والے چاند کی چاندنی آپ ہی کی آوردہ ہے۔ [اشارہ ہے حدیث شریف کے مضمون کی جانب۔ حضور نے ارشاد فرمایا ہے من رآنی فقد راء ی اللہ(جس نے مجھے دیکھا اس نے خدا کا دیدار کیا) ۔ بچشم من نگہ آوردہء تست فروغ لالہ آوردہء تست دو چارم کن بہ صبح من رآنی شبم را تاب مہ آوردہ ء تست جب میں نے اپنی خودی میں ڈوب کر اپنی معرفت حاصل کی، تو آپ کے نور مقدس کی برکت سے اپنے مقام کو پا لیا۔ دنیا کے اس دیر میں نوائے صبح گاہی کی برکتوں سے میں نے عشق ومستی کی ایک نئی دنیا بسائی : چو خود را در کنار خود کشیدم بہ نور تو مقام خویش دیدم دریں دیر از نوائے صبح گاہی جہان عشق و مستی آفریدم دنیا عشق کی دولت سے قائم ہے اور عشق کی دولت آپ کے سینہء مبارک سے حاصل ہو تی ہے اس عشق میں سرور اس شراب کہن سے پیدا ہو تا ہے جو آپ نے کشید فرمائی اور پلائی۔ مجھے جبریل کی بابت بھی صرف اتنا ہی معلوم ہے کہ جبریل بھی آئینہ رسالت کے ایک جو ہر کا نام ہے : جہاں از عشق وعشق از سینہء تست سرورش از مئے دیرینہء تست جز ایں چیزے نمی دانم ز جبریل کہ او یک جو ہر از آیئنہ تست مجھے جو سوز عطا ہو اہے یہ آپ ہی کا فیضان ہے۔ میرے انگوروں کی بیل میں جو شراب ابل رہی ہے وہ آپ ہی کے زم زم سے نکلتی ہے۔ میری درویشی سے مملکت کسریٰ و جمشید بھی شرماتی ہے۔ کیو نکہ میرے سینے میں جو دل ہے وہ آپ ہی کے اسرار کا محرم ہے مرا ایں سوز از فیض دم تست بتا کم موج مے از زمزم تست خجل ملک جم از درویشی من کہ دل در سینہء من محرم تست میں ملت بیضا کے حضور میں تڑپتا رہا اور میں نے ایک دل گداز ، نغمہ اور صدا تخلیق کی ادب کا تقاضا یہ ہے کہ بات مختصر سے مختصر کی جائے۔ تو یوں کہیے کہ میں تڑپا، میں نے تخلیق کیا اور میں چل بسا: حضور ملت بیضا تپیدم نوائے دل گداز آفریدم ادب گوید سخن را مختصر گوے تپیدم، آفریدم، آرمیدم میں نے بھی مولانا روم کی طرح حرم میں بانگ اذان بلند کی انھی سے تو میں نے جان و روح کے بھید سیکھے ہیں۔ دور قدیم کے فتنوں میں ان کی ذات نے جو کام انجام دیا تھا، عصر جدید کے فتنوں میں وہی کام میںکر رہا ہوں : چو رومی در حرم دادم اذاں من از و آموختم سرار جان من بہ دور فتنہ ء عصر کہن او بہ دور فتنہ ء عصر روان من میری مٹی سے ایک سر سبز لہلاتا ہو اباغ پیدا کیجیے۔ میرے آنسو لالہ کے خون میں ملا دیجیے اگر میں حضرت علی ؓ کی تلوار بننے کے قابل نہیں ہوں تو مجھے وہ نظر عطا فرمائیے جو حضرت علیؓ کی طرح تیز ہو گلستانے ز خاک من بر انگیز نم چشمم بخون لالہ آمیز اگر شایاں نسیم تیغ علیؓ را نگا ہے دہ چو شمشیر علیؓ تیز آپ کے نور مقدس سے میں اپنی نگاہ کو منور کرتا ہوں، تاکہ میں مہر وماہ کے سینے چیر کر اندر دیکھ سکوں جب میںیہ کہتا ہوں کہ میں مسلمان ہون تو کانپ اٹھتا ہوں اس لیے کہ مجھے لاالہ کی مشکلات معلوم ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ مسلمان کے فرائض کیا ہیں اور ان کی انجام دہی کیسی دشوار ہے ! بنور تو بر افروزم نگہ را کہ بینم اندرون مہر و مہ را چو می گویم مسلمانم، بہ لرزم کہ دانم مشکلات لاالہ را آپ کے کوچہ میں دل، پر سوز وگداز کی ایک ہی صدا کافی ہے۔ میرے لیے یہی ابتدا ہے اور یہی انتہا۔ یہ میسر ہو جائے تو سب کچھ ہے میں اس رند پاک باز کی جرات پر آفریں کرتا ہوں اور حیرت زدہ ہوتا ہوں کہ وہ کیسے بڑے مقام پر تھا جو اس نے خدا سے برملا کہ دیا تھا کہ ’’ہمارے لیے مصطفیٰ کافی ہیں ‘‘۔ہمیں اور کچھ نہیں چاہیے : بگوئے تو گداز یک نوا بس مرا این ابتدا ایں انتہا بس خراب جرات آں رند پا کم خدارا گفت ’’مارا مصطفیٰ بس‘‘ ’’ حضور رسالت ‘‘ کے بعد ارمغان حجاز میں اگلا عنوان ہے ’’حضور ملت ‘‘ اس کی پہلی رباعی پیغام کا درجہ رکھتی ہے اور یہاں شامل کرنے کے لائق ہے۔ فرماتے ہیں ’’ماہ نو کی طرح منزل کی طرف قدم بڑھائے چلا جا اس فضائے کائنات میں ہر دم ترقی کی راہ پر چلتا رہ اگر تجھے اس دنیا میں اپنے مقام کی خواہش ہے تو بس خدا سے لو لگا اور حضرت محمد مصطفی کی بتائی ہوئی صراط مستقیم پر گام زن رہ ‘‘ : بمنزل کوش مانند مہ نو دریں نیلی فضا ہر دم فزوں شو مقام خویش اگر خواہی دریں دیر بحق دل بند و راہ مصطفیٰ رو مجھے احساس ہے کہ ترجمہ میں اصل کا لطف برقرار نہیں رہتا۔ مگر میں نے آزاد ترجمہ کیا ہے تا کہ اُردو ترجمہ کی روانی میں فتور نہ آئے ارمغان حجاز کے ان قطعات ورباعیات کے مطالعہ سے حضرت علامہ کے سوز وگداز، عشق نبوی، درد دل، حضور کی ثنا وصفت اور عظمت وجلال سبھی کا اک گونہ اندازہ ہو جاتا ہے اس لیے میں ان اقتباسات کی طوالت پر معذرت ضروری نہیں جانتا۔ آنخضرت ا کی نعت میں اقبال کے یہ دو شعر ایسے، بلیغ، جامع اور شاندار ہیں کہ طویل نعتوں میں جو مضامین بیان کیے جائیں، وہ سب یہاں مختصر الفاظ میں سمو دئے گئے ہیں۔ فرماتے ہیں وہ دانائے سبل ختم رسل مولائے کل جس نے غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا نگاہ عشق ومستی میں وہی اول وہی آخر وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰٓسیں وہی طٰہٰ اقبال کا سارا پیغام ایک لفظ خودی میں مضمر ہے دیکھیے خودی کی خلوت وجلوت کو کیسے جامع الفاظ میں بیان کرتے ہیں : خودی کی جلوتوں میں مصطفائی خودی کی خلوتوں میں کبریائی زمین وآسمان وکرسی وعرش خودی کی زد میں ہے ساری خدائی ملاحظہ کیجیے عقل وعشق کا ایک تمثیل میں موازنہ کرتے ہوئے عشق کی عظمت کا کن خوبصورت اور بامعنی الفاظ میں ذکر کرتے ہیں۔ تازہ مرے ضمیر میں معرکہ ء کہن ہوا عشق تمام مصطفیٰ، عقل تمام بولہب ارمغان حجاز میں سب سے پہلے جو رباعیاں اور قطعات ہیں ان کا عنوان ہے ’’حضور حق ‘‘ان میں دو رباعیاں آنحضرت ا سے جس عقیدت کا اظہار کرتی ہیں وہ بے مثال ہے ایک رباعی میں فرماتے ہیں۔ ’’جب یہ عالم اختتام کو پہنچے، اور ہر پو شیدہ چیز آشکار ہو جائے اور اعمال کی باز پرس ہونے لگے تو اے رب العزت ! ہم گہنگاروں کو سر کار دو عالم کے حضور میں ذلیل و خوار نہ کیجیے ہمارے اعمال بد کی پر سش آپ کی نظروں سے چھپا کر کیجیے تاکہ آپ کے دل میں یہ ملال نہ آے کہ میری اُمت میں ایسے سیہ کار اور خطا کار بھی ہیں ایسے میں ہم عاصیوں کو کیسی کچھ شرم نہ آئے گی کہ ہم آقائے دو جہاں کے ملال کا سبب بنے ‘‘۔ بہ پایاں چو ں رسد ایں عالم پیر شود بے پر دہ ہر پو شیدہ تقدیر مکن رسوا حضور خواجہ مارا حساب من زچشم او نہاں گیر اسی طرح اس سے اگلی رباعی میں عجب ذوق وشوق اور بے تابی و بے قراری کا اظہار کر تے ہیں۔ ’’حضور حق‘‘ میںکہتے ہیں کہ جسم تو یہاں مکہ میں پڑا ہے اور روح بے تاب و بے قرار ہے اس شہر کی آرزو کہ بطحا میں (مکہ)بھی جس کی راہ میں ایک منزل ہے۔ تو اے خدا ! یہیں بے شک مکے میں رہ (کہ تیرا گھر یہاں ہے)اور اپنے دوستوں کو قرب کی نعمت نواز۔ مگر مجھے تو منزل دوست (مدینے)پہنچنے کی آرزو ہے مجھ سے یہاں اور زیادہ توقف ممکن نہیں : بدن وا ماند و جانم در تگ و پوست سوے شہر ے کہ بطحا در رہ اوست تو باش ایں جا و خاصا ں بیا میز کہ من دارم ہواے منزل دوست معراج نبوی کی عظمت واہمیت معجزات رسولؐ میں جیسی ممتاز ہیں ایسے ہی وہ انسانی ارتقا کی بلند ترین منزل کا نشان ہیں ایسا کہ جس پر جن وملک، مہر وماہ، انجم وافلاک سب محو حیرت ہیں عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے اس سے زیادہ واضح الفاظ میں کہتے ہیں سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں اسی طرح معجزہ معراج سے عمل وہمت کا سبق مسلمانوں کو سیکھاتے ہیں : اختر شام کی آتی ہے فلک سے آواز سجدہ کرتی ہے سحر جس کو وہ ہے آج کی رات رہ یک گام ہے ہمت کے لیے عرش بریں کہہ رہی ہے یہ مسلمان سے معراج کی رات جاوید نامہ کے آغاز میں اقبال مولانا روم سے ملاقات کرتے ہیں اور مولانا روم آپ کو اسرار معراج سمجھاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ زندگی نام ہے اپنی خودی کو آراستہ کر نے کا اور اپنے وجود پر شہادت طلب کر نے کا تو شاہد اول تو یہ ہے خود اپنی ذات کا شعور دوسرا شاہد ہے دوسرے کا شعور تاکہ ان دونوں طرح کے شعور کے ذریعے اپنی ذات کی معرفت حاصل کر سکے اور شاہد ثالث ہے شعور ذات حق۔ نور ذات حق کے ذریعے اپنی ذات کو پہچاننا اور دیکھنا جب تو ان تینوں شہادتوں کو جمع کرے تو سمجھ جا کہ اب تجھ میں صفات الٰہی پیدا ہو گئیں۔ اس کے بعد اسرار معراج بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ’’زندگی نام ہے اس کا کہ آدمی اپنے حقیقی مقام تک پہنچ جائے اور یہاں ذات کا بے پردہ مشاہدہ کرے جو مرد مومن ہے وہ صفات کے احوال و شئوں میں الجھ کر نہیں رہ جاتا حضرت محمد مصطفیٰ ا کی مثال تیرے سامنے ہے کہ آپ اپنی ذات کے علاوہ کسی شے پر راضی نہ ہوئے۔ معراج کیا ہے؟شاہد کی آرزو کر نا اور شاہد کی نظروں کے سامنے اُمتحان میں پورا اترنا ایسا شاہد کہ اس کی تصدیق کے بغیر ہما ری زندگی ہی غیر معتبر ہے اس کے حضور میں کو ئی قائم نہیں رہ سکتا اور جو قائم رہ جا ئے وہی کھرا سونا ہے اپنی آب وتاب کوترقی دینا ہی صحیح بات ہے آفتاب کے سامنے اپنے آپ کو آزمانا ہی درست ہے ‘‘ اشعار کا مطالعہ کیجیے : بر مقام خود رسیّد ن زندگی است ذات را بے پر دہ دیدن زندگی است مرد مومن در نسازد با صفات مصطفیٰ راضی نشد الا بذات چیست معرا ج ؟ آرزوئے شاہدے اُمتحانے رو بروئے شاہدے شاہد عادل کہ بے تصدیق او زندگی ما را چہ گل را رنگ وبو در حضورش کس نماند استوار ور بماند ہست او کامل عیار تاب خود را بر فز ودن خوش تر است پیش خورشید آزمودن خوش تر است حب رسول میں ڈوب جا نے کی کچھ مثالیں اقبال نے بعض واقعات سے پیش ہیں غزوئہ تبوک ایسے وقت پیش آیا کہ مسلمانوں کے پاس نہ سازو ساما ن تھا نہ ہتھیا ر۔ دور دراز سفر، روم جیسی قوت سے ٹکر، شوق جہاد میں ہزاروں صحابہ ؓ حضورؐ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے جمع ہو گئے اور جس کے پاس جو کچھ میسر تھا اس نے جہاد کے سامان اور تیاری کے لیے پیش کر دیا۔ حضرت عثمانؓ جن کی دولت مسلمانوں کی مقصد بر آری کے لیے ہر وقت آمادہ ٔ خدمت ہو تی تھی اُنھوں نے اس وقت بیش قرار مددکی ایک ہزار اونٹ ستر گھوڑے مع سازوسامان اور ایک ہزار دینار نقد پیش کیے۔ حضرت عمرؓ کو نئی سوداگری میں خاصا نفع ہوا تھا آپؓ نے اپنے مال و دولت کا نصف اہل و عیال کے لیے چھوڑا اور نصف راہ خدامیں رسول کریم ا کی خدمت والا میں پیش کر دیا اس کے بعد خضرت ابو بکر صدیق ؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حاضر خدمت ہوئے۔ یہ تفصیل اقبال کے اشعار میں دیکھیے : اتنے میں وہ رفیق نبوت بھی آ گیا جس سے بنائے عشق و محبت ہے استوار لے آیا اپنے ساتھ وہ مرد وفا سرشت ہر چیز جس سے چشم جہاں میں ہو اعتبار ملک یمین و درہم و دینار ورخت و جنس اسپ قمر سم و شتر و قاطر و حمار بولے حضور چاہیے فکر عیال بھی کہنے لگا وہ عشق و محبت کا راز دار اے تجھ سے دیدہ مہ و انجم فروغ گیر! اے تیری ذات باعث تکوین روز گار! پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس صدیقؓ کے لیے ہے خدا کا رسول بس حضرت بلال کی مثال پیش کر تے ہیں کہ ملک حبش کا غیر معروف شخص، مکہ میں غلام بن کر آیا مگر عشق رسولؐ کی برکت سے اسے وہ مقام بلند حاصل ہوا کہ مؤ ذن رسول بنا۔ تما م صحابہ ؓ اس کو عزت و ا کرام کی نظر سے دیکھتے تھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی اس کو سیّد نا بلال کہا کرتے تھے۔ یہ سب عزت و عظمت محبت رسولؐ اور عشق نبیؐ کے صدقے میں ان کو حاصل ہوئی ہے۔ اقبال کی ایک نظم پڑھیئے : چمک اُٹھا جو ستارہ تیرے مقدر کا حبش سے تجھ کو اُٹھا کر حجاز میں لایا ہوئی اسی سے ترے غم کدے کی آبادی تری غلامی کے صدقے ہزار آزادی وہ آستاں نہ چھٹا تجھ سے ایک دم کے لیے کسی کے شوق میں تو نے مزے ستم کے لیے جفا جو عشق میں ہو تی ہے وہ جفا ہی نہیں ستم نہ ہو تو محبت میں کچھ مزا ہی نہیں نظر تھی صورت سلماںؓ ادا شناس تری شرابِ دید سے بڑھتی تھی اور پیاس تری تجھے نظارے کا مثل کلیم سودا تھا اویسؓ طاقت دیدار کو ترستا تھا مدینہ تیری نگاہوں کا نور تھا گویا ترے لیے تو یہ صحرا ہی طور گویا تری نظر کو رہی دید میں بھی حسرت دید خنک دلے کہ تپید و دمے نیاسائید گری وہ برق تری جان ناشکیبا پر کہ خندہ زن تری ظلمت تھی دست موسیٰ پر تپش ز شعلہ گرفتند و بر دل تو زدند چہ برق جلوہ بخاشاک حاصل تو زدند ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بنی نماز اس کے نظارے کا اک بہانہ بنی خوشا کہ وقت کہ یثرب مقام تھا اس کا خوشا وہ دور کہ دیدار عام تھا اس کا ایک اور نظم میں حضرت بلال ؓ کا مقابلہ وموازنہ سکندر اعظم سے کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت بلال کو عشق نبوی کی بدولت عمر ابد حاصل ہوئی۔ دنیا بھر میں روزانہ پانچوں وقت اذان کی آواز بلند ہوتی ہے تو حضرت بلال ؓ کی یاد تازہ کرتی ہے۔ محبت رسول کا صدقہ ہے یہ حیات دوام اشعار پڑھیے : لکھا ہے ایک مغربی حق شناس نے اہل قلم میں جس کا بہت احترام تھا جولاں گہ سکندر رومی تھا ایشیا گردوں سے بلند تر اس کا مقام تھا تاریخ کہہ رہی ہے کہ رومی کے سامنے دعویٰ کیا جو پورس و دارا نے خام تھا دنیا کے اس شہنشہ انجم سپاہ کو حیرت سے دیکھتا فلک نیل فام تھا آج ایشیا میں اس کو کوئی جانتا نہیں تاریخ دان بھی اسے پہچانتا نہیں لیکن بلال ؓ وہ حبشی زادۂ حقیر فطرت تھی جس کی نور نبوت سے مستنیر جس کا امیں ازل سے ہوا سینۂ بلال محکوم اس صدا کے ہیں شہنشہ و فقیر ہوتا ہے جس سے اسود و احمر میں اختلاط کرتی ہے جو غریب کو ہم پہلوئے امیر ہے تازہ آج تک وہ نوائے جگر گداز صدیوں سے سن رہا ہے جیسے گوش چرخ پیر اقبال کس کے عشق کا یہ فیض عام ہے رومی فنا ہوا حبشی کو دوام ہے افریقہ، یورپ اور ایشیا کے اسلامی ممالک وسعت وعظمت دشمنان اسلام کے سینوں میں عداوت کی آگ بھڑکاتی رہتی تھی۔ انیسویں صدی اس لحاظ سے بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ عیسا ئی طاقتوں کی سازشوں، فتنہ طرازیوں اور ریشہ دوانیوں کی بدولت ایک ایک کر کے مسلمان ممالک کسی ایک یا دوسری عیسائی حکومت کے غلبہ اور اقتدار میں آتے چلے گیاور مسلمانوں کے لیے یہ وسیع دنیا تنگ ہو کر رہ گئی۔ بیسویں صدی میں وہ وقت آیا کہ مسلمانوں نے ایک نئی کر وٹ لی اور دوبارہ آزادی حاصل کرنے کے در پے ہو گئے۔ انگلستان، فرانس، اٹلی، یونان وغیرہ سب کی انفرادی اور اجتماعی طاقتوں سے ان کو سخت ٹکر لینی پڑی مگر خدا کے فضل سے مسلمانوں کی سر فروشیاں اور قربانیاں کام آئیں اور آخر کار رفتہ رفتہ بیشتر مسلم ممالک آزاد ی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ بقول اقبال کے : عام حریت کا جو دیکھا تھا خواب اسلام نے اے مسلماں آج تو اس خواب کی تعبیر دیکھ غرض آزادی کی ان لا تعداد جنگوں میں سے ایک وہ بھی تھی جو طرابلس (لیبیا)کے مسلمانو ں نے اٹلی کے خلاف لڑ ی تھی اور ان لڑائیوں میں ہزاروں سر فروشان اسلام نے اپنی جانیں قربان کی تھیں۔ اقبال ایسے تمام انقلابی واقعات سے فطری طور پر متاثر ہوئے ایک نظم حضور رسالت مٓا بؐ میں مطالعہ کیجیے : گراں جو مجھ پہ یہ ہنگامۂ زمانہ ہوا جہاں سے باندھ کے رخت سفر روانہ ہوا قیود شام و سحر میں بسر تو کی لیکن نظام کہنۂ عالم سے آشنا نہ ہوا فرشتے بزم رسالت میں لے گئے مجھ کو حضور آیۂ رحمت میں لے گئے مجھ کو کہا حضور نے۔ ’’اے عندلیب باغ حجاز کلی کلی ہے تری گرمیٔ نوا سے گداز ہمیشہ سر خوش جام ولا ہے دل تیرا فتادگی ہے تری غیرت سجود ونیاز اُڑا جو پستیٔ دنیا سے تو سوئے گردوں سکھائی تجھ کو ملائک نے رفعت پرواز نکل کے باغ جہان سے برنگ بو آیا ہمارے واسطے کیا تحفہ لے کے تو آیا حضور! دہر میں آسودگی نہیں ملتی تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاض ہستی میں وفا کی جس میں ہو بو وہ کلی نہیں ملتی مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں جو چیز اس میں ہے جنت میں بھی نہیں ملتی جھلکتی ہے تری اُمت کی آبرو اس میں طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں اقبا ل نے حب رسول کا ایک عجیب واقعہ نظم کیا ہے امین الاُمت حضرت ابو عبیدہ ابن الجر ح ؓ کی قیادت میں رومیوں سے یر موک میں لڑائی ہوئی تھی۔ تعداد اور سازوسامان کے لحاظ سے اسلامی لشکر اور رومی فوج کی نسبت ایک اور دس سے ایک اور پچیس تک تاریخ کی کتابوں میں بیان کی گئی ہے حق اور باطل کا عجیب معرکہ در پیش تھا ایسے میں ایک نو جوان مجاہد کا شوق شہادت اور رسول پاک اکی زیارت کے لیے بے تابی اور دوسری تفصیلات علامہ اقبال کی نظم ــ’’جنگ یرموک کا ایک واقعہ ‘‘میں ملاحظہ کیجیے : صف بستہ تھے عرب کے جوانان تیغ بند تھی منتظر حنا کی عروس زمین شام اک نوجوان صورت سیماب مضطرب آ کر ہوا امیر عساکر سے ہم کلام اے بوعبیدہ رخصت پیکار دے مجھے لبریز ہو گیا میرے صبر و سکوں کا جام بے تاب ہو رہا ہوں فراق رسول میں اک دم کی زندگی بھی محبت میں ہے حرام جاتا ہوں میں رسول رسالت پناہ میں لے جاؤں گا خوشی سے اگر ہو کوئی پیام یہ ذوق و شوق دیکھ کے پرنم ہوئی وہ آنکھ جس کی نگاہ تھی صفت تیغ بے نیام بولا امیر فوج کہ ’’وہ نوجواںہے تو پیروں پہ تیرے عشق کا واجب ہے احترام پوری کرے خدائے محمد تری مراد کتنا بلند تیری محبت کا ہے مقام پہنچے جو بارگاہ رسول امیں میں تو کرنا یہ میری طرف سے پس از سلام ہم پر کرم کیا ہے خدائے غیور نے پورے کیے جو وعدے کیے تھے حضور نے اب تو سعدی حکومت کی وجہ سے حجاز میں مکمل امن وامان ہے، موٹریں بسیں، اونٹ سب امن وامان سے دن رات سفر کرتے ہیں ورنہ عرصہ دراز تک تمام راستے سخت خطرات سے بھرے ہوئے تھے رہزنوں اور ڈاکوؤں کے خوف سے بغیر قافلوں کے سفر ناممکن تھا اور قافلوں کی حفاظت بھی کچھ یقینی نہ تھی وہ بھی اکثر قتل وغارت کا نشانہ بن جاتے تھے۔ مصر سے خانہ کعبہ کا غلاف مبارک بڑے جلوس کے ساتھ اور فوجی دستہ کی حفاظت میں جاتا تھا۔ بہت سے لوگ اس ’’محمل شامی ‘‘کی رفاقت میں سفر کرنے میں عافیت اور حفاظت جانتے تھے۔ مگر ایسے جا ں بازاور جانباز عاشق بھی ہوتے تھے جنھیں سفر یثرب میں کسی حفاظت کی آرزونہ تھی اس مبارک سفر اور مقدس راہ میں اگر وہ قر بان بھی ہو جائیں تو یہ بھی بڑی سعادت ہے ایسی ایک نظم دیکھیے۔ عنوان ہے: ’’ایک حاجی مدینے کے راستے میں ‘‘۔ قافلہ لوٹا گیا صحرا میں اور منزل ہے دور اس بیاباں یعنی بحر خشک کا ساحل ہے دور ہم سفر میرے شکار دشنہء رہزن ہوئے بچ گئے جو، ہو کے بیدل سوئے بیت اللہ پھرے اس بخاری نوجواں نے کس خوشی سے جان دی موت کے زہراب میں پائی ہے اس نے زندگی خنجر رہزن اسے گویا ہلال عید تھا ’’ہائے یثرب‘‘ دل میں، لب پر نعرہء توحید تھا خوف کہتا ہے کہ ’’یثرب کی طرف تنہا نہ چل‘‘ شوق کہتا ہے کہ’’ تو مسلم ہے بیباکانہ چل‘‘ ’’بے زیارت سوئے بیت اللہ پھر جاؤں گا کیا! عاشقوں کو روز محشر منہ نہ دکھلاؤں گا کیا!‘‘ خوف جاں رکھتا نہیں کچھ دشت پیمائے حجاز ہجرت مدفون یثرب میں یہی مخفی ہے راز گو سلاُمت محمل شامی کی ہمراہی میں ہے عشق کی لذت مگر خطروں کی جاں کاہی میں ہے آہ یہ عقل زیاں اندیش کیا چالاک ہے! اور تاثر آدمی کا کس قدر بیباک ہے! جیسا کہ گزشتہ تحریرسے ظاہر ہو ا علامہ اقبال صرف رسول اللہ ا کی ذات مقدس سے دستگیری اور فریاد رسی کے لیے رجوع کرتے ہیں اور آپ ہی کو اپنا مشکل کشا جانتے ہیں۔ مثلاً کرم اے شہ عرب و عجم کہ کھڑے ہیں منتظر کرم وہ گدا کہ تو نے عطا کیا ہے جنھیں دماغ سکندری ٭٭٭ اے باد صبا کملی والے سے جا کہیو پیغام میرا قبضے سے اُمت بیچاری کے دیں بھی گیا دنیا بھی گئی ٭٭٭ تو اے مولائے یثرب! آپ میری چارہ سازی کر مری دانش ہے افرنگی مرا ایمان زناری جناب سر ور کائنات سے فریاد کرتے ہیں۔ ’’اے روح محمد‘‘ اس قطعہ کا عنوان ہے : شیرازہ ہوا ملت مرحوم کا ابتر اب تو ہی بتا تیرا مسلمان کدھر جائے! وہ لذت آشوب نہیں بحر عرب میں پوشیدہ جو ہے مجھ میں وہ طوفاں کدھر جائے! ہر چند ہے بے قافلہ راحلہ و زاد اس کوہ و بیاباں سے حدی خواں کدھر جائے! اس راز کو اب فاش کر اے روح محمد! آیات الٰہی کا نگہبان کدھر جائے! اقبال بجا طور پر ملت کے زوال اور انتشار پر آزردہ ہیں۔ مسلمانوں کی بے عملی اور کفر سامانی پر ان کا دل دکھتا ہے۔ جابجا طرح طرح سے اس جذبے کا اظہار کیا ہے۔ ایک جگہ ابو طالب کلیم کے شعر کی تضمین کر کے قطعہ لکھا ہے۔ مسلمان سے خطاب ہے : خوب ہے تجھ کو شعار صاحب یثربؐ کا پاس کہہ رہی ہے زندگی تیری کہ تو مسلم نہیں جس سے تیرے حلقہء خاتم میں گردوں تھا اسیر اے سلیماں! تیری غفلت نے گنوایا وہ نگیں وہ نشان سجدہ جو روشن تھا کوکب کی طرح ہو گئی ہے اس سے اب نا آشنا تیری جبیں دیکھ تو اپنا عمل ، تجھ کو نظر آتی ہے کیا وہ صداقت جس کی بیباکی تھی حیرت آفریں تیرے آبا کی نگہ بجلی تھی جس کے واسطے ہے وہی باطل تیرے کاشانہء دل میں مکیں غافل اپنے آشیاں کو آ کے پھر آباد کر نغمہ زن ہے طور معنی پر کلیم نکتہ بیں ’’سرکشی باہر کہ کردی رام او باید شدن شعلہ ساں از ہر کجا بر خاستی آنجا نشیں‘‘ (جس سے تم نے سر کشی کی ہے پھر اسی کے مطیع و فرماں بردار بن جاؤ۔ جہاں سے تم شعلے کی طرح ابھرے تھے، پھر اسی جگہ کو اپنا مسکن و ماوا بنا لو۔) ’’عبدالقادر کے نام ‘‘کی نظم میں اپنے ایک رفیق کار سے نہیں بلکہ سارے ہم خیال اور ہم مشرب مسلمانوں سے کہتے ہیں، اور ان کو دعوت عمل دیتے ہیں : دیکھ یثرب میں ہوا ناقہ لیلیٰ بے کار قیس کو آرزوئے نو سے شناسا کر دیں مگر اقبال مسلمانو ں کے مستقبل سے مایوس نہیں ہیں۔ کہتے ہیں : سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پھر استوار ہو گا نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا سنا ہے قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا علامہ اقبال ملت کی زبوں حالی پر بہت افسردہ رہتے تھے ایک خط میں علا مہ سیّد سلیمان ندوی کو لکھتے ہیں : میں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ میرے دل میں ممالک اسلامیہ کیموجود حالات دیکھ کر بے انتہا اضطراب پیدا ہو رہا ہے۔یہ بے چینی اورا ضطراب محض اس وجہ سے کہ مسلمانوں کی موجود نسل گھبرا کر کوئی اور راہ اختیا ر نہ کر لے۔ حال ہی میں ایک تعلیم یافتہ عرب سے ملنے کا اتفاق ہوا فرانسیسی خوب بولتا تھا۔ مگر اسلام سے قطعاً بے خبر تھا۔ اس قسم کے واقعات مشاہدے میں آتے ہیں تو سخت تکلیف ہو تی ہے : ملفوظات اقبالمیں سیّد الطاف حسین صاحب بیان کرتے ہیںکہ: ایک عرصے کے بعد پھر ان سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ میرے علاوہ ایک اور پرو فیسر صاحب بھی تشریف فرما تھے۔ سلسلۂ کلام شروع ہوا تھا جب میں وہا ں پہنچا تو پرو فیسر صاحب کہہ رہے تھے کہ ’’ہمارے نو جوان اگر آج بھی اپنے اخلاق درست کر لیں تو میں امید کر تا ہوں کہ ان کا مستقبل خوش گوار ہو گا ‘‘۔ دوران گفتگو میں پرو فیسر صاحب نے کہا۔ ’’ڈاکٹر صاحب !آج تک کوئی قوم یا کسی قوم کی تہذیب مرنے کے بعد پھر زندہ نہیں ہوئی ‘‘۔ کہنے لگے ’’یہ خیال صحیح نہیں مختار قومیں عام طور پر اپنے محکوموں کے دل ودماغ پر یہ خیال اس لیے مسلط کر دیتی ہیں کہ ان میں پھر سے اپنی کھوئی ہوئی طاقت حا صل کرنے کا جذبہ پیدا ہی نہ ہو سکے۔ اسلام اس خیال کا قطعی مخالف ہے آپ محض ایک قوم کے متعلق فرماتے ہیں کہ مر کر زندہ نہیں ہو سکتی۔ مگر خیال فرمائیے قرآن تو قیاُمت کا قائل ہے وہ تو کہتا ہے ایک قوم کیا ساری دنیا مر کر ایک بار پھر زندہ ہوجائے گی۔ یہی امید افزا جذبہ اقبال نے اپنے اس شعر میں واضح الفا ظ میں بیان کر دیا ہے نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی ’’طلبہ ء علی گڑھ کالج کے نام ‘‘ کے قطعہ میں یہی بات ان الفاظ میں دہراتے ہیں اور اسلامی تعلیمات، حمیت، شعائر، غیرت اور روایات کو اسی قدیم راہ پر ڈھالنے کی جانب اشارہ کرتے ہیں جذب حرم سے ہے فروغ انجمن حجاز کا اس کا مقام اور ہے، اس کا نظام اور ہے شکوہ کے جواب میں ندائے غیب سے جو پیغام ملا وہ طویل نظم ’’جواب شکوہ ‘‘میں موجود ہے اس میں واضح تلقین فرمائی گئی ہے کہ عروج رفتہ کو حاصل کرنے اور دنیا میں نیا انقلاب بر پا کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ تو اسلام کی بتائی ہوئی صراط مستقیم اختیا ر کرے اور آنحضرت اکے دین ومنہاج پر سر گرم عمل ہو۔ پھر تجھ میں وہ قوت آجا ئے گی کہ تو ایک بار پھر ساری دنیا پر چھا جائے گا : قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے دہر میں اسم محمدؐ سے اجالا کر دے صاف الفاظ میںوعدہ ہے کہ : کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں مسلمان صاحب لو لاک لما کا پیرو ہے اور ان کی سنت کو اپنے لیے مشعل راہ جانتا ہے اس لیے وہ وارث ہے متاع مصطفوی کا اور انعا ما ت ربانی کا۔ واضح الفاظ میں کہتے ہیں : عالم ہے فقط مومن جاں باز کی میراث مومن نہیں جو صاحب لولاک نہیں ہے ٭٭٭ جہاں تمام ہے میراث مرد مومن کی مرے کلام پہ حجت ہے نکتۂ لولاک مسلمانوں پر تہذیب جدید کی چھاپ زیادہ سے زیادہ گہری ہوتی جا تی ہے اقبال آزردہ تو ہیں مگر مایوس نہیں اس لیے کہ وہ اس اُصول سے بھی واقف ہیں کہ ابولہب کے شعلے جب زیادہ بھڑکنے لگیں تو ان کو بجھانے کے لیے مصطفیٰ کا ظہور قریب ہو جاتا ہے۔ خود فرمایا ہے: نہالِ ترک ز برق فرنگ بار آورد ظہورِ مصطفی را بہانہ بولہبی است اسی طرح اس سے پہلے کہہ چکے تھے: ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے بس شرط یہ ہے کہ : آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایماں پیدا آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا اہل مصر کو ابو الہول کی مثال پیش کر کے قوت کا پیغام دیتے ہیں۔ یہی پیغام ساری ملت کے لیے ہے کیو نکہ شمشیر مصطفوی تمام عالم کو زیر نگیں کر نے کے لیے مامور کی گئی ہے فرمایا : خود ابو الہول نے یہ نکتہ سکھایا مجھ کو وہ ابو الہول کہ ہے صاحب اسرار قدیم دفعتاً جس سے بدل جاتی ہے تقدیر امم ہے وہ قوت کہ حریف اس کی نہیں عقل حکیم ہر زمانے میں ہے دگرگوں طبیعت اس کی کبھی شمشیر محمد ہے کبھی چوب کلیم حق وباطل کی یہ رزم آرائی اور خیر وشر کی یہ جنگ ہمیشہ سے ہو تی چلی آئی ہے مگر حق اور خیر کو باطل اور شر سے کسی خوف کی ضرورت نہیں آخر فتح حق اور صداقت ہی کو حاصل ہو تی ہے : ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تاامروز چراغ مصطفوی سے شرار بو لہبی جا وید نا مہ میں زروان جو روح زمان ومکان ہے، زندہ رود (اقبال) کو عالم بالا کی سیاحت کے لیے لے جاتا ہے۔ مرزد رومی ان کے ہمراہ ہیں وادیٔ یر غمید میں پہنچتے ہیں، جس کو ملائکہ وادیء طواسین کے نا م سے یاد کرتے ہیں۔ طاسین محمد میں روح ابو جہل نو حہ کر تی ہو ئی نظر آتی ہے ابو جہل کا یہ نو حہ ملاُمت اور ماتم کے انداز میں ہو نا ہی تھا، مگر سچ پو چھیے تو اسی میں تعلیما ت نبوی کا سارا عطر کھنچ آیا ہے۔ روح ابو جہل کہتی ہے : محمد کے باعث ہمارے سینے چھلنی ہو گئے ہیں اس کی بدولت کعبہ کا چراغ ہی بجھ گیا۔ وہ قیصر و کسری کی ہلاکت کی باتیں کیا کرتا تھا۔ جن کو سن کر ہمارے نوجوان ہمارے ہاتھ سے نکل گئے۔ وہ تو جادوگر ہے، اور اس کے کلام میں بھی سحر بھرا ہواہے۔ لاالہ کے یہ دو لفظ بھی کفر ہی تو ہیں اس نے باپ دادا کے مذہب کوتلپٹ کر دیا اور ہمارے معبودوں کو تہس نہس کرڈالا۔ لات ومنات اس کی ایک ضرب بھی نہ سہار سکے اور پاش پاش ہوگئے اے کائنات تو ہی اس سے بدلہ لے۔ اس نے حاضر وموجود کا منتر تو ڑ کے نظروں سے غائب معبود سے دل لگایا۔ !بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی جو نظر نہ آئے اس سے دل کا لگانا کیا ہو ا اور سنو اس کا مذہب ملک اور نسب کو بھی کوئی مرتبہ نہیں دیتا خود وہ قریش میں سے ہے مگر عربوں کی بڑائی اور بزرگی کا قائل نہیں اس کی نظروں میں پست اور بلند سب برابر ہیں۔ وہ ہی تو ایک ہی دستر خوان پر اپنے غلام کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھ جاتا ہے اس طرح کی مساوات اورمؤاخا ت خالص بدیشی (عجمی) چیز ہے میں جانتا ہوں کہ سلیمان مزدکی ہے اور اسی نے یہ سب کچھ سکھایا ہے اے سنگ اسود !محمد کے ہاتھوں ہم پر جو افتاد پڑی ہے، تو ہی اس کا حال پھر سے سنادے ! اے وہ کہ تو ہم غریبو ں کی فریاد رسی کر تا ہے !اپنے گھر کو ان بے دینوں سے واپس چھین لے ان کی جماعت پر بھیڑیے چھوڑ دے ان کے درختوں کو پھلوں (کھجوروں) سے محروم رکھ اے منات !اے لات !تم کعبہ چھوڑ کر مت جاؤ اگر اس گھر کو چھوڑ تے ہو تو ہمارے دل کو تو مت چھوڑو۔ اقبال کے اشعار کا لطف اُٹھایئے۔ طوالت سے بچنے کے لیے کچھ اشعار حذف کر دیے گئے ہیں : سینۂ ما از محمد داغ داغ از دم او کعبہ را گل شد چراغ از ہلاک قیصر و کسریٰ سرود نوجوانان را ز دست ما ربود ساحر و اندر کلامش ساحری ست ایں دو حرف لاالہ خود کافری ست تا بساط دین آبا در نورد با خداونداں ما کرد آنچہ کرد پاش پاش از ضربتش لات ومنات انتقام از وئے بگیر اے کائنات دل بہ غائب بست واز حاضر گست نقش حاضر را افسون او شکست دیدہء بر غائب فروبستن خطاست آنچہ اندردیدہ می ناید کجاست مذہب او قاطع ملک ونسب از قریش و منکر از فضل عرب در نگاہ او یکے بالا وپست با غلام خویش بریک خواں نشست ایں مساوات ایں مؤاخات اعجمی است خوب می دانم کہ مسلماں مزدکی است بازگو، اے سنگ اسود باز گو آنچہ دیدم از محمد باز گو اے ہبل اے بندہ را پوزش پذیر! خانہ ء خود راز بے کیشاں بگیر گلہ ء شاں را بہ گرگاں کن سبیل تلخ کن خرمائے شاں را بر نخیل اے منات اے لات !ازیں منزل مرو گز منزل می روی از دل مرو ارمغان حجازکی ایک دلچسپ اور انوکھی نظم ہے ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ ‘‘ ابلیس اپنے کارناموں کی ڈینگیں مارتا ہے تو اس کے مشیر جمہوریت، فسطائیت، اشتراکیت وغیرہ کے خطرات پیش کر کے خاص طور پر اشتراکیت کو کار ابلیسی میں خلل انداز ہو تا ہو ا بتاتے ہیں مگر ابلیس تفصیل سے ان خطرات کو رد کرتا ہے اشتراکیت کو فساد ابلیسی میں خلل انداز نہیں سمجھتا اور کہتا ہے کہ : کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد یہ پریشاں روزگار، آشفتہ مغز اور صاف کہہ دیتا ہے کہ: ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس اُمت سے ہے جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرار آرزو خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ کرتے ہیں اشک سحر گاہی سے جو ظالم وضو جانتا ہے جس پہ روشن باطن ایام ہے مزدکیت فتنۂ فردا نہیں اسلام ہے کا ر ابلیسی میں خلل پیدا کرنے والی قوت اشتراکیت نہیں اسلام ہے۔ اس کے بعد چند اشعار میں اسلام کے انقلابی پیغام کا ذکر کرتا ہے یہ شریعت وہ ہے جو انسان پیدا کر تی ہے، آدمی کو قوت بخشتی ہے، عورت کی حفاظت کرتی ہے ، آئین پیغمبرؐ سے میری تو بہ ! ہر طرح کی غلامی کے لیے یہاں موت لکھی ہوئی ہے، یہاں سلاطین اور فقراء میں کوئی فرق نہیں، مال ودولت کو ہر طرح کی آلودگی سے پاک وصاف کر تا ہے امیرو ں کو بتاتا ہے کہ دولت تمھاری ملک نہیں تمھارے پاس خدا کی اما نت ہے جسے اس کے معین کردہ حدود کے مطابق خرچ کرنا لازم ہے فکر وعمل کا اس سے بڑا اور کیا انقلاب ہو سکتا ہے کہ اسلام کہتا ہے، زمین بادشاہوں کی ملکیت نہیں بلکہ خدا کی ملکیت ہے ان چند بنیادی تصورات کاذکر کر کے ابلیس اپنے مشیروں سے کہتا ہے کہ بہتر یہ ہے کہ تم مسلمان کو عمل وکر دار سے بیگانہ رکھو۔ یہ جاگ اُٹھا اور اس نے خدا کی رسی سے پکڑ لیا تو میرے کاروبار کے لیے یہ سب خطرات پیدا ہو جائیں گے۔ اقبال کے وہ اشعار جو اس نظم میں اسلام کے متعلق ہیں ملاحظہ کیجیے ابلیس اپنی بات یوں بیان کر تا ہے: جانتا ہوں میں یہ اُمت حامل قرآں نہیں ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دیں جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں بے ید بیضا ہے پیران حرم کی آستیں عصر حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں الحذر آئین پیغمبر سے سو باز الحذر حافظ ناموس زن، مرد آزما، مرد آفریں موت کا پیغام ہر نوع غلامی کے لیے نے کوئی فغفور و خاقاں، نے فقیر رہ نشیں کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک وصاف منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب بادشاہوں کی نہیں، اللہ کی ہے یہ زمیں چشم عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئیں تو خوب یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محروم یقیں ہے یہی بہتر الٰہیات میں الجھا رہے یہ کتاب اللہ کہ تاویلات میں الجھا رہے رموز بے خودی میں علامہ نے اپنے لڑکپن کا ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک سائل دروازے پر آیا اور چپک کر رہ گیا اس پر مجھے سخت غصہ آیا، اور می؎ں نے اسے ماراجس سے اس کے سر میں ضرب آئی، اور کشکول دور جا پڑا اور جو کچھ اس میں تھا وہ بھی گر گیا میرے والد کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو وہ سخت بر ہم ہوئے ان کے چہرے کارنگ بدل گیا، دل تڑپنے لگا سینے سے آہ نکلی اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے میں والد کا یہ حال دیکھ کر بہت گھبرا یااُنھوں نے گلو گیر آواز میں کہا ’’کل قیامت کے دن ساری اُمت رسول اکرم اکے حضور میں پیش ہو گی ان میں غازیان ملت بھی ہو ں گے حافظان قرآن و حدیث بھی ہوں گے۔ وہ بھی ہوں گے جو دین متین کی راہ میں قر بان ہو کر سرخ رو ہوئے اور مطلع اُمت پر انجن درخشاں کی طرح روشن ہوئے زاہد بھی ہوں گے اور عاشقان رسول بھی، عالم بھی ہوں گے اور وہ گہنگاربھی جو شرم سے ڈوبے ہوے نظر آئیں گے اس عظیم اجتماع میں یہ درد مند فقیر فریاد کرے گاتو بتاؤ اس وقت میں کیا جواب دے سکوں گاجب نبی کریم امجھ سے استفسار فرمائیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک نو جوان مسلمان کو تیرے سپرد کیا تھا لیکن اس نے میرے اخلاق و آداب کا کوئی سبق ذرا سا بھی نہ سیکھا تجھ سے اتنا سا کام بھی نہ ہوا کہ ایک نو جوان کو آدمی بنا دیتا گو والد مر حوم بڑی نرمی سے گفتگو کر رہے تھے مگر میں شرم سے پانی پانی ہو ا جارہا تھا۔ والد صاحب نے سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا بیٹا!حضور کی اُمت کے اس اجتماع عظیم کا تصور کرو۔ میری اس سفید داُڑھی کو دیکھو۔ میرے اس وقت کے خوف وامید سے لرز اٹھنے کا خیال کرو۔ باپ پر ایسا ظلم مت کرو اس آقائے دو عالم کے حضور میں اس غلام کو ذلیل و خوار کر نے کا سبب مت بنو۔تم تو باغ مصطفی کی ایک کلی ہو۔ بہار مصطفوی کی ہواؤں سے کھل کے گل شگفتہ بن جاؤ۔ ‘‘ علامہ کے اشعار مطالعہ کیجیے۔ لکھتے ہیں : سائلے مثل قضائے مبر مے بر در ما زد صدائے پیہمے از غضب چو بے شکم بر سرش حاصل در یو زہ افتاد از برش عقل در آغاز ایام شباب می نیندیشد صواب ونا صواب از مزاج من پدر آزردہ گشت لالہ زار چہرہ اش افسر دہ گشت بر لبش آہے جگر تابے رسیّد درمیان سینۂ او دل تپید کو کبے در چشم او گردید و ریخت بر سر مژگاں دمے تابید وریخت ہمچوآںمرغے کہ در فصل خزاں لرزد از باد سحر در آشیاں در تنم لرزہ جان غافلم رفت لیلائے شکیب از محملم گفت فردہ اُمت خیرالرسلؐ جمع گردد پیش آں مولائے کلؐ غازیان ملت بیضائے او حافظان حکمت رعنائے او ہم شہیدانے کہ دیں را حجت اند مثل انجم در فضائے ملت اند زاہدان وعاشقان دل فگار عالمان وعاصیان شرمسار درمیان انجمن گردد بلند نالہ ہائے ایں گدائے درد مند اے صراطت مشکل از بے مر کبی من چہ گویم چو ں مرا پرسد نبیؐ ’’حق جوانے مسلمے باتو سپرد کو نصیبے ازدبستانم نبرد از تو ایں یک کار آساں ہم نشد یعنی آں انبار گل آدم نشد در ملاُمت نرم گفتارآں کریم من رہین خجلت وامید وبیم اند کے اندیش ویاد آراے پسر اجتماع اُمت خیرالبشرؐ باز ایں ریش سفید من نگر لرزۂ بیم وامید من نگر بر پدر ایں جور نا زیبا مکن پیش مولا بندہ را رسوا مکن غنچۂ از شاخسا ر مصطفیؐ گل شواز باد بہار مصطفیؐ اقبال کے کلام میں تعلیمات اسلام کے بہت سے مظاہر و منظر اور چند در چند واقعات مثال اور شواہد کے طور پر بیان ہوئے ہیں۔ حضورؐ کی شفقت ورحمت اور حسن سلوک ومساوات کا ایک واقعہ سنیے ایک جنگ میں حاتم طائی کی لڑکی قید ہو کر حضورؐکے سامنے آئی اس حال میں کہ وہ بے پردہ تھی اس کے پاؤں میں بیڑیاں تھیں اور اس کی گردن شرم وحیا سے جھکی ہوئی تھی۔ نبی رحمت ا اس کا حال زار دیکھ کر متاثر ہوئے آپؐ نے اس کی رہائی کا حکم دیا اور اپنی چادر مبارک اسے اوڑھنے کے لیے عطا فرمائی۔ یہ واقعہ بیان کر کے اقبال کہتے ہیں کہ ہم آپ کے اُمتی قبیلۂ طے کی اس بی بی سے بھی زیادہ ننگے ہیں اور ساری دنیا کے مقابلے میں چادر اور بے ساز وسامان کے ہیں۔ محشر میں جس طرح آنحضرت ا ہمارا سہارا ہوں گے، اسی طرح اس دنیا میں بھی وہی ہماری پردہ داری کریں گے اور آبرو رکھیں گے ان کا لطف وقہر سب رحمت ہی رحمت ہے۔ لطف دوستوں کے لیے اور قہر دوشمنوں کے لیے۔ مگر دونوں صورتوں میں رحمت دیکھو آپ بجائے اہل مکہ سے انتقام لینے کے ان سے فرمادیا کہ تمھارے لیے عفوعام کی نوید ہے اشعار کا مطالعہ کیجیے : در مصا فے پیش آں گردوں سر یر دختر سردار طے آمد اسیر پائے در زنجیر وہم بے پردہ بود گردن از شرم وحیا خم کر دہ بود دختر ک را چوں نبی بے پردہ دید چادر خود پیش روئے او کشید ما ازاں خاتو ن طے عریاں تر یم پیش اقوام جہاں بے چادریم روز محشر اعتبار ما است او در جہاں ہم پر دہ دارمااست او لطف و قہر او سراپا رحمتے آں بیاراں ایں با عدارحمتے آںکہ بر عدا در رحمت کشاد مکہ را پیغام لا تثریب داد وطنیت وقومیت کا مسئلہ عہد حاضر کا سب سے بڑا ابلیسی جال ہے۔ مسلمان کو اسلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ ’’اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفویؐ ہے‘‘ لیکن مغربی حکمراں اور سیاست دانوں نے اس کے بالکل برعکس دوسرا راستہ وطنیت کا سجھایاہے اقبال نے ابتدا سے اس تصور کی مخالفت کی ہے۔ مناسب ہے کہ اس پر ذرا تفصیل سے بحث کی جائے اور اقبال کی نظم ونثر سے وافر شہادتیں جمع کر دی جائیں۔ وطنیت کے مغربی سیاسی نظریہ کی تر دید کرتے ہوئے اس صدی کے آغاز میں اُنھوں نے اپنی ایک غزل میں کہا تھا : نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا بنا ہمارے حصار ملت کی اتحاد وطن نہیں ہے اور اس کی وضاحت یوں کی تھی : اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؐ ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی اس طرح اقبال نے واضح کر دیا تھا کہ ملت اسلامیہ کی اسا س دین اسلام ہے۔ رنگ، نسل، نسب، وطن، جغرافیائی حدود، یہ سب اتحاد ملی کا حقیقی سبب نہیں ہیں اس لیے دینی بھائیو !تم مغربی نظریات پر اپنی ملت کا قیاس کر کے راستے سے مت بھٹکو۔ ملت محمدیہؐکی اساس وطن نہیں دین ہے۔ اپنی مختصر نظم (مسدس) میں ’’وطینت ‘‘کے عنوان سے اس کی مزید وضاحت فرمائی ہے۔ذیلی عنوان ’’یعنی وطن بحیثیت ایک سیاسی تصور کے‘‘ خود ان کی وضاحت کے خطوط معین کرتا ہے۔ صاف کہہ دیتے ہیں کہ گفتار سیاست میں وطن کا مفہوم جدا گانہ ہے اور ارشاد نبویؐ میں اس کا منشا کچھ اور ہے۔ مغرب کے تصور کا ہی یہ نتیجہ ہے اقوام یو رپ کی وحدت پارہ پارہ ہو گئی اور اسلام کے مقصد وحدت بنی آدم کے لیے تو یہ تصور سر تا سر تخریب و انتشار کا باعث ہے، حضورؐ نے مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کو ہجرت کی اور فتح مکہ کے بعد بھی اپنے اس پرانے وطن میں سکونت اختیار نہیں فرمائی اس سے بڑا اس بات کا ثبوت اور کیا ہو گا کہ وطن اور خاک وطن سے سے محبت کے وہ معنے ہرگز نہیں ہیں جو مغرب نے اس دور میں ایجاد کیے ہیں۔ پوری نظم قابل مطالعہ ہے۔ دیکھیئے، فرماتے ہیں : اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے جم اور ساقی نے بنا کی روش لطف و ستم اور مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور تہذیب کے آذر نے ترشوائے صنم اور ان تازہ خداؤں میںبڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے یہ بت کی تراشیدۂ تہذیب نوی ہے غارت گر کاشانۂ دین نبویؐ ہے بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے اسلام تیرا دیس تو مصطفویؐ ہے نظارۂ دیرینہ زمانے کو دیکھا دے اے مصطفویؐ! خاک میں اس بت کو ملا دے ہو قید مقامی تو نتیجہ ہے تباہی رہ بحر میں آزاد وطن صورت ماہی ہے ترک وطن سنت محبوب الٰہی دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے غرض یہ پیغام صداقت ترجمان اقبال نے بار بار اور طرح طرح دہرایا تاکہ ملت اسلامیہ مغرب کے اس سنہرے جال کے فریب سے محفوظ رہ سکے۔ مثلاً فرمایا : نسل اگر مسلم کے مذہب پر مقدم ہو گئی اُڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہ گزر اسی طرح فیصلہ کن الفاظ میں نصیحت کی: ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو اُخوت کا بیاں ہو جا ، محبت کی زباں ہو جا یہ ہندی وہ خراسانی یہ افغانی وہ تورانی تو اے شرمندۂ ساحل اچھل کر بے کراں ہو جا غبار آلودۂ رنگ و نسل ہیں بال و پر تیرے تو اے مرغ حرم اُڑنے سے پہلے پر فشاں ہو جا رموز بے خودی میں حضرت علامہ نے ایک مستقل عنوان قائم کیاہے۔’’در معنی ایںکہ وطن اساس ملت نیست‘‘ اس میں صاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ وطن کو اساس قومیت بنانے کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ اُخوت انسانی کے پاؤں پر ضرب کاری لگادی گئی اور نوع انسانی کو قبیلوں میں تقسیم کر دیا گیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا کی جنت سے ساری رو نق جاتی رہی، اور یہاں جدال وقتال کی بہاریں آنے لگیں۔ چنانچہ انسانیت تو مطلق جاتی رہی اور دنیا میں مختلف قو میں باقی رہ گیئں آدمی سے آدمی بچھڑ گیا اس کے بعد اس تصور کے آغاز واسبا ب پر نظر ڈالتے اور کہتے ہیں کہ مذہب کی مسند پر مغریبوں نے سیاست کو لا بٹھایا۔ عیسائیوں نے گرجا کی رہنمائی سے رشتہ تو ڑا تو ان میں دہریت آگئی اس دہریت میں ابلیس نے اپنا ایک چیلا ان پر مسلط کر دیا۔ فلورنس کا مشہور مفکر میکیا ولی ایک باطل اور غلط تصور لے کر آیا۔ اس نے یہ سر مہ سب کی آنکھوں میں لگا کر سب کو اندھا کر دیا اور دنیا میں فتنہ ء وفساد کے بیج بو دیے اس کے زور بیان نے حق کو دبا دیا اور دنیا میں ایک نئے آئین کو جنم دیا اس نے ملک اور وطن کو معبود کا در جہ دیا یعنی ایک حقیر شے کو بلند ترین حقیقت پر پہنچا دیا اسی کی تعلیم و تلقین کا ثمر ہے کہ باطل ہر طرف پھیل گیا اور مکاری اور حیلہ گری نے ایک فن کی حیثیت اختیا ر کر لی اس کم بخت نے ساری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اُلٹی پٹی پڑھا ئی کہ اب مکرو فریب کا نام مصلحت اور دور اندیشی سمجھا جانے لگا۔ حضرت علامہ کے اشعار یہ ہیں آںچناں قطع اُخوت کردہ اند بر وطن تعمیر ملت کردہ اند تا وطن را شمع محفل ساختند نوع انساں را قبائل سا ختند ایں شجر جنت زعالم بردہ است تلخی بیکار بار آوردہ است مرد می اندر جہاں افسانہ شد آدمی از آدمی بیگانہ شد روح از تن رفت و ہفت اندام ماند آدمیت گم شد و اقوام ماند تا سیاست مسند مذہب گرفت ایں شجر در گلشن مغرب گرفت دہریت چوں جامہ مذہب درید مرسلے از حضرت شیطاں رسیّد آں فلار نساوی باطل پرست سر مۂ او دیدہء مردم شکست نسخۂ بہر شہنشاہاں نوشت در گل ما دانہ پیکار کشت فطرت او سوئے ظلمت بردہ رخت حق ز تیغ خامہء او لخت لخت بست گری مانند آذر پیشہ اش بست نقش تازہ اندیشہ اش مملکت را دین او معبود ساخت فکر او مذمو م را محمود ساخت باطل از تعلیم او بالیدہ است حیلہ اندازہ فنے گردیدہ است طرح تدبیر زبوں فرجام ریخت ایں خسک در جادۂ ایام ریخت شب بچشم اہل عالم چیدہ است مصلحت تزویر را نامیدہ است اس لیے مسلانوں سے اقبال نے بار بار صاف الفاظ میں کہا ہے کہ ہم جغرافیائی حدود میں بٹی ہوئی ملت نہیں ہیں۔ ہم تو ایک ہی باغ کے مختلف پو دے اور ان پودوں کی مختلف شاخیں ہیں رنگ اوربو کا فرق کرنا ہمارے مذہب میں حرام ہے۔ ہمارا دین یہ ہے کہ ’’سب مسلمان بھائی بھائی ہیں ‘‘(فرمان الٰہی) اس لیے کہ ہم ایک ہی بہار سے فیض پائے ہوئے اور اسی سے تر بیت حاصل کیے ہوئے ہیں۔ شعار دیکھیے: نہ افغانیم و نے ترک و تتاریم چمن زادیم و از یک شاخساریم تمیز رنگ وبو بر ما حرام است کہ ما پر وردہء یک نو بہاریم با ل جبریل میں دین وسیاست کے عنوان سے ایک قطعہ ہے اس میں اقبال نے یہی با ت دوسری طرح مقابلہ وموازنہ کر کے سمجھائی ہے۔ فرماتے ہیں کہ دین عیسوی نے ترک دنیا کی تعلیم دی اس لیے ان کے ہاں خانقا ہیت اور رہبانیت کو ترجیح ہے اس صورت میں سلطنت اور حکومت کا عیسویت سے کیا جوڑبیٹھتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کلیسا اور حکومت میں سخت مخاصمت پیدا ہوگئی اور اس فساد کا یہ نتیجہ نکلا کہ حکومت وسیاست نے ملکی معاملات میں کلیسا کی مخالفت بند کر دی۔ جب دین سے دنیا اس طرح کٹ گئی تو ہر طرف ہواو ہوس کا غلبہ نظر آنے لگا۔ دین ودنیا کی یہ دوئی (افتراق وعلیحدگی)تہذیب کی نا عاقیت ا ندیشی ا ور ملک و مذہب دونوں کے لیے ناکامی کا ذریعہ ہے۔ یہ تو ایک صحرا نشین اُمتی پیغمبرا کا معجزہ ہے کہ آپؐ نے ایسا آئین پیش کیا اوردنیا کو ایسے ضابطے پیش کیے جن کی روشنی میں بنی نوع انسان راہ نجات پر گامزن ہوسکتی ہے آپؐ کے آئین ونظام میں ایک طبقے اور دوسرے طبقے کے لیے حدود وقیودمعین ہیں جن پر قائم رہنے والوں کے لیے بشارتیں ہیںاور جن سے تجاوز کر نے والوں کے لیے ڈراو ے ہیں آپؐ نے اپنے پیغام میں صاف اعلان فر ما دیا کہ بادشاہ اور فقیر، سلطان اور درویش ایک ہی سطح پراور مساوی درجے پر ہیں اور یہی بات انسانیت کی حفاظت و بقا کی ضامن ہے۔ حضرت علامہ کے اشعار کا لطف لیجیے : کلیسا کی بنیاد رہبانیت تھی سماتی کہاں اس فقیری میں میری خصومت تھی سلطانی و راہبی میں کہ وہ سر بلند ہے یہ سر بزیری سیاست نے مذہب سے پیچھا چھڑایا چلی کچھ نہ پیر کلیسا کی پیری ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی ہوس کی امیری ، ہوس کی وزیری دوئی ملک و دیں کے لیے نامرادی دوئی چشم تہذیب کی نا بصیری یہ اعجاز ہے ایک صحرا نشیںؐ کا بشیری ہے آئینہ دار نذیری اس میں حفاظت ہے انسانیت کی کہ ہوں ایک جنیدی و ارد شیری ضرب کلیم میں بہت واضح الفا ظ میں کہاہے امرائے ممالک عربیہ سے خطاب ہے: یہ نکتہ پہلے سکھایا گیا کس اُمت کو وصال مصطفویؐ، افتراق بولہبی نہیں وجود حدود و ثغور سے اس کا محمدؐ عربی سے ہے عالم عربی پہلی جنگ عظیم (۱۹۱۴ء تا ۱۹۱۸ء )کے بعد مغربی سیاست کی مصلحت نے لیگ آف نیشنز قائم کی تھی۔ جس پر بجا طور پر اقبال نے طنز کیا تھاکہ ’’کچھ کفن چوروں نے قبریں آپس میں تقسیم کرنے کے لیے ایک انجمن بنائی ہے۔ ‘‘یہ تو طنزیہ چوٹ تھی مگر پیامی بات یہ تھی کہ آپ نے ’’مکہ اور جنیوا‘‘کے عنوان سے ایک مختصر قطعہ کہا تھا جس میں یہ بات سمجھائی تھی کہ تمھیں عالم انسانیت کی وحدت کا یا تو تصور ہی نہیں ہے یا تم سخت قسم کی مکاری و عیاری سے کام لیتے ہو مغرب کی حکمت و دانش کا تقاضا صرف یہ ہے کہ انسانیت کو قوموں میں بانٹتے رہیں اس کے بر عکس اسلام کا یہ پیغام ہے کہ بنی نوع انسان ایک ہے۔ اسلام انسانیت کو ایک ملت دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ جو تم ’’جمعیت اقوام‘‘بناتے ہو یہ تو وہی انسانیت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کا جذبہ ہوا۔’’جمعیت آدم‘‘کیوں نہیں قا ئم کرتے جو تقاضائے فطرت اور قانون الٰہی کے مطابق ہو۔ اقبال کے اشعار پڑھیے۔ ما قل و دل کی کیسے بلیغ مثال ہیں : اس دور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدت آدم! تفریق ملل، حکمت فرنگ کا مقصود اسلام کا مقصود، فقط ملت آدم! مکے نے دیا خاک جنیوا کا یہ پیغام جمعیت اقوام کہ جمعیت آدم؟ تحریک پاکستان کے زمانے میں کچھ وطن پرست تصور کے ہم نواقائدین نے وطنیت کے بارے میں مضامین لکھے اور اس نظریے کی تائید کی تھی۔ علامہ اقبال اس زمانے میں بہت بیمار تھے اور چندہفتوں کے بعد ہی آپ نے انتقال فرمایا مگر موضوع کی اہمیت اور موقع کی نزاکت کے لحاظ سے آپ ایک طویل مضمون لکھوایاتھا، جو مارچ ۱۹۳۸ء کے آغاز میں انقلابلاہور اور دوسرے اخبارات سے شائع کیا تھا اس میں آپ نے فرمایا تھا : اگر عالم بشریت کا مقصد اقوام انسانی کا امن، سلامتی اور ان کی مو جودہ اجتماعی ہئیتوں کو بدل کر ایک واحد اجتماعی نظام بنانا قرار دیا جا ئے تو سوائے نظام اسلام کے کوئی اور اجتماعی نظام ذہن میں نہیں آسکتا۔ کیونکہ جو کچھ قرآن مجید سے میری سمجھ میں آیا ہے، اس کی رو سے اسلام محض انسان کی اخلاقی اصلاح ہی کا داعی نہیں بلکہ عالم بشریت کی اجتماعی زندگی میں ایک تدریجی مگر اساسی انقلاب بھی چاہتا ہے جو اس کے قومی اور نسلی نقطہء نگاہ کو یکسر بدل کر اس میںخالص انسانی ضمیر کی تخلیق کرے۔ تاریخ ادیان اس بات کی شاہد عادل ہے کہ قدیم زمانے میں ’دین ‘قو می تھا۔ جیسے مصریوں، یو نانیوں اور ہندیوںکا۔ بعد میں نسلی قرار پایا جیسے یہودیوں کا مسیحیت نے یہ تعلیم دی کہ دین انفرادی اور پرائیویٹ ہے۔ جس سے بد بخت یورپ میں یہ بحث پیدا ہوئی کہ دین چونکہ پرائیویٹ عقائدکا نام ہے، اس لیے انسانوں کی اجتماعی زندگی کی ضامن صرف ’اسٹیٹ‘ ہے۔ ’’یہ اسلام ہی تھا جس نے بنی نوع انسان کو سب سے پہلے یہ پیغام دیا کہ دین نہ تو قومی ہے نہ نسلی ہے نہ انفرادی اور پرائیویٹ بلکہ خالصتہً انسانی ہے اور اس کا مقصد باوجود تمام فطری اُمتیازات کے عالم بشریت کو متحد اور منظم کرنا ہے ایسا دستور العمل قوم اور نسل پر بنا نہیں کیا جاسکتا نہ اس کو پرائیویٹ کہہ سکتے ہیں بلکہ اس کو معتقدات پر ہی مبنی کیا جاسکتا ہے۔صرف یہی ایک طریق ہے جس سے عالم انسانی کی جذباتی زندگی اور اس کے افکار میں یک جہتی اور ہم آہنگی پیدا ہو سکتی ہے۔ جو ایک ’اُمت ‘کی تشکیل اور اس کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ ’’اُمت مسلمہ، جس دین فطرت کی حامل ہے اس کا نام ’دین قیم۔‘ دین قیم کے الفاظ میں ایک عجیب و غریب لطیفہ ء قرآنی مخفی ہے اور وہ یہ ہے کہ صرف دین ہی مقوم ہے اس گروہ کے امور معا شی اور معادی کا جو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی اس نظا م کے سپرد کر دے بالفاظ دیگر یہ کہ قرآن کی رو سے حقیقی تمدنی زندگی یا سیاسی معنوں میں ’قوم ‘ دین اسلام ہی ’تقویم‘پاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن صاف صاف اس حقیقت کا اعلان کر تا ہے کہ کوئی دستور العمل جو غیر اسلامی ہونا مقبول ہے اور مر دود ہے۔ ’’ایک اور لطیف نقطہ بھی مسلمانوں کے لیے قابل غور ہے کہ اگر ’وطنیت‘ کا جذبہ ایسا ہی اہم اور قا بل قدر تھا تو رسول اکے بعض اقارب اور ہم نسلوں اور ہم قومو ں کو آپؐسے پر خاش کیوں ہوئی؟ کیوں نہ رسول کریم انے اسلام کو محض ایک ہمہ گیر معمو لی ملت سمجھ کر با لحاظ قوم یا قو میت ابوجہل اور ابو لہب کو اپنا رکھااور کیوں نہ ان کی دل جوئی کر تے رہے بلکہ کیوں نہ عرب کے سیاسی امور میں ان کے ساتھ ’’قومیت وطنی‘‘قائم رکھی؟اگر اسلام سے مطلق آزاد ی مراد تھی تو آزادی کا نصب العین تو قریش مکہ کا بھی تھا مگر افسوس کہ آپ اس نکتہ پر غور نہیں فرماتے کہ پیغمبر خدا ا کے نزدیک اسلام ’دین قیم ‘ اُمت مسلمہ کی آزادی مقصود تھی ا ن کو چھوڑ کریا ان کو کسی دوسری ہیئت اجتماعیہ کے تابع رکھ کرکوئی اور آزادی چاہنا بے معنی تھا۔ ابو جہل اور ابو لہب اُمت مسلمہ کو آزادی سے پھو لتا پھلتا نہیں دیکھ سکتے تھے کہ بطور مدافعت ان سے نزاع در پیش آئی۔ محمد (فداہ ابی وامی)کی قوم آپ کی بعثت سے پہلے قوم تھی اور آزاد تھی لیکن جب محمد مصطفیٰ ا کی اُمت بننے لگی تو اب قوم کی حیثیت ثانوی رہ گئی جو لوگ رسولا کی متابعت میں آگئے وہ خواہ ان کی قوم میں سے تھے یا دیگر اقوام سے وہ سب ’اُمت مسلمہ ‘یا ملت محمدیہ بن گئے۔ پہلے وہ ملک ونسب کے گرفتار تھے اب ملک و نسب ان کا گرفتا رہو گیا : کسی کو زد ملک نسب را نداند نکہ دین عرب را اگر قوم از وطن بودے محمدؐ ندادے دعوت دیں بو لہب را حضور رسالت مآب اکے لیے یہ راہ بہت آسان تھی کہ آپ ابو لہب یا ابو جہل یا کفار مکہ سے فرماتے کہ ’تم اپنی بت پرستی پر قائم رہو ہم اپنی خدا پرستی پر قائم رہتے ہیں مگر اس نسلی اور وطنی اشتراک کی بنا پر جو ہمارے اور تمھارے درمیان موجود ہے، ایک ’وحدت عربیہ ‘ قائم کی جا سکتی ہے، اگر حضورؐ (نعوذ باللہ) یہ راہ اختیا ر کرتے تو اس میں شک نہیں کہ یہ ایک وطن دوست کی راہ ہوتی۔ لیکن نبی آخرالز ماںؐ کی راہ نہ ہوتی۔ ’’نبوت محمدیہ کی غایت الغایات یہ ہے کہ ایک ہیئت اجتماعیہ انسانیہ قائم کی جائے جس کی تشکیل اس قانون الہٰی کے تابع ہو جو نبو ت محمدیہ کو بار گاہ الہٰی سے عطا ہو ا تھا یا بالفاظ دیگر یو ں کہیے کہ بنی نوع انسان کی قوم کو باوجود شعوب وقبائل اور الوان والسنہ کے اختلافات کو تسلیم کر لینے کے ان کو تمام آلودگیوں سے منزہ کیا جائے جو زمان، مکان، وطن، قوم، نسل، نسب، ملک وغیرہ کے ناموں سے مو سوم کی جاتی ہیں اور اس طرح اس پیکر خاکی کو وہ ملکوتی تخیل عطا کیا جائے، جو اپنے وقت کے ہر لحظہ میں ’ابدیت‘سے ہمکنار رہتا ہے۔ یہ ہے ’ مقام محمدیؐ ‘۔یہ ہے’ نصب العین اسلامیہ ‘ کا اس کی بلندیوں پر پہنچنے تک معلوم نہیں حضرت انسان کو کتنی صدیا ں لگیں مگر اس میں بھی شک نہیں کہ اقوام عالم کی با ہمی مغایرت دور کر نے میں اور با وجود شعوبی، قبائلی، نسلی، لو نی اور لسانی امتیازات کے ان کو یک رنگ کرنے میں جو کام اسلام نے تیرہ سو سال میں کیا ہے، وہ دیگر ادیان سے تین ہزار سال میں بھی نہیں ہو سکا۔ وطن کا لفظ جو اس قول میں مستعمل ہو اہے۔ محض ایک جغرافیا ئی اصطلاح ہے اور اس حیثیت سے اسلام سے متصادم نہیں ہوتا اس لیے حدود آج کچھ ہیں اور کل کچھ۔ کل تک اہل برما ہند وستانی تھے اور آج برمی ہیں ان معنوں میں ہر انسان فطری طور پر اپنے جنم بھوم سے محبت رکھتا ہے اور بقدر اپنی بساط کے اس کے لیے قر بانی کو تیا ر رہتا ہے۔ بعض نادان لوگ اس کی تائید میں حب الوطن من الایمان کا مقولہ حدیث سمجھ کر پیش کرتے ہیں حا لا نکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں کیو نکہ وطن کی محبت انسان کا ایک فطری جذبہ ہے جس کی پروررش کے لیے اثرات کی کچھ ضرورت نہیں مگر زمانہ حال کے سیاسی لٹریچر میں ’وطن ‘کا مفہوم محض جغرافیائی نہیں بلکہ ’وطن ‘ایک اُصول ہے’ہیت اجتماعیہ انسانیہ ‘کا ایک قانون ہے اس لیے جب لفظ وطن کو ایک سیا سی تصور کے طور پر استعمال کیا جائے تو وہ اسلام سے متصادم ہو تا ہے۔ ’’ یورپ کا تجربہ دنیا کے سامنے ہے۔ جب یو رپ کی دینی وحدت پارہ پارہ ہو گئی اور یو رپ کی اقوام علیحدہ علیحدہ ہوگئیں تو ان کو اس بات کی فکر ہوئی کہ قومی زندگی کی اسا س ’وطن‘ کے تصور میں تلاش کی جائے۔ کیا انجام ہوا اور ہو رہا ہے ان کے اس انتخاب کا ؟ لو تھر کی اصلاح غیر سلیم عقلیت کا دور، اُصول دین کا اسٹیٹ کے اُصولوں سے افتراق بلکہ جنگ یہ تمام قوتیں یورپ کو دھکیل کر کس طرف لے گئیں ؟ لا دینی، دہریت اور اقتصادی جنگوں کی طرف۔ زمانۂ حال نے اس اساس کو ضروری سمجھا ہے مگر صاف ظاہر ہے کہ یہ کافی نہیں بلکہ بہت سے اور قوتیں بھی ہیں جو اس قسم کی ’قوم ‘ کی تشکیل کے لیے ضروری ہیں مثلاً دین کی طرف سے بے پروائی، سیا سی روز مزہ مسائل میں انہماک اور علیٰ ہذا القیاس اور دیگر موثرات جن کو مدبرین اپنے ذہن سے پیدا کریں تاکہ ان ذریعے سے اس قوم میں یک جہتی اور ہم آہنگی پیدا ہو سکے اگر ایسی’ قوم‘ میں ادیا ن و ملل ہوں بھی تورفتہ رفتہ وہ تمام ملتیں مٹ جاتی ہیں اور صرف’ لا دینی ‘اس قوم کے فراد میں وجہ اشتراک رہ جاتی ہے افسوس ہے کہ سادہ لوح مسلمانوں کو اس نظریہء وطن کے لوازم وعواقب کی پوری حقیقت معلوم نہیں اگر بعض مسلمان اس فریب میں مبتلا ہیں کہ ’دین ‘اور وطن‘بحیثیت ایک سیاسی تصور کے یک جا رہ سکتے ہیں تو میں مسلمانوں کو ہر وقت انتباہ کر تا ہوں کہ اس راہ کا آخری مرحلہ اول تو ’لا دینی ‘ہو گی اور اگر لا دینی نہیں تو اسلام کو محض ایک اخلاقی نظریہ سمجھ کر اس کے اجتما عی نظام سے بے پروائی۔ علامہ کے اس مضمون کے محرک جو اسباب تھے انھی کے تاثر نے وہ قطعہ کہلوایا تھا جو ارمغان حجاز (اُردو) میں صفحہ ۶۲ پر درج ہے جس میں افسوس کا اظہار کیا تھا کہ ہمارے دینی رہنما بھی پیام محمدیؐسے تغافل برتنے لگے حالانکہ ہمارے تمام انفرادی اور اجتما عی مسائل کا حل اسلامی آئین اور قوانین میں پو شیدہ ہے۔ فرامین الہٰی پر کار بند ہونے اور احکام مصطفویؐ کا اتباع کر نے ہی سے ہم راہ راست پا سکتے ہیں خواہ وہ کسی قسم کا بھی سیاسی، معاشی، اور اقتصادی مسئلہ کیوں نہ ہو اس قطعہ کے دو شعر ہیں : سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است چہ بے خبر ز مقام محمدؐ عربی است بمصطفیٰؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر باو نرسیّدی تمام بولہبی است علامہ اقبال کہتے ہیں کہ اس حیلہ بازاور مکار مغربی نے دین داروں کو وطن کے نظریہ کی تعلیم دی۔وہ خود تو کسی مرکز کا متلاشی ہے اورتو اس کے برعکس افتراق و نفاق میں گرفتار ہے۔ خود کو مختلف ملکوں اور نسلوں کے چکر سے نکال اگر تو نیک و بد کی تمیز کر سکتا ہے تو سمجھ لے کہ اینٹ پتھر سے دل لگانا بے معنی ہوتاہے۔ دین کے کیا معنی ہیں؟ یہ کہ آدمی پستی سے بلندی پر آئے تاکہ اس کو خود شناسی اور معرفت حاصل ہو۔ جس نے اﷲ ھو کہا، پھر وہ اس عالم کے چار اطراف اور چار حدود سے ماورا اور مافوق ہوگیا، ان کے اشعار ہیں: لُرد مغرب، آں سراپا مکر و فن اہل دیں را داد تعلیم وطن او بفکر مرکز و تو در نفاق بگذر از شام و فلسطین و عراق تو اگر داری تمیز خوب و زشت دل نہ بندی با کلوخ و سنگ و خشت چیست دیں؟ برخاستن از روے خاک تاز خود آگاہ گردد جانِ پاک می نگنجد آں کہ گفت اﷲ ھو در حدودِ ایں نظامِ چار سو چند اشعار کے بعد اور وضاحت کرتے ہیں کہ یہ مٹھی بھر خاک جس کا نام تم نے وطن رکھا ہے۔ یہ جو تم خودکو مصر، ایران، یمن سے منسوب کرتے ہو۔ یاد رکھو کہ وطن سے اہل وطن کو ایک نسبت ضرور ہوتی ہے اس لیے کہ ایک ملت خاک ہی سے ابھر کر افق عالم پر طلوع کرتی ہے لیکن تم اس نسبت اور علاقہ پر غور کرو گے تو تم کو بال سے زیادہ باریک ایک نکتہ نظر آئے گا۔ سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے اس کی بے حجابی اور تجلی سب مشرق سے طلوع ہونے ہی پر منحصر ہے مگر سورج اپنی اندرونی تپش سے ہروقت بے تاب رہتا ہے کہ مشرق و مغرب کی قید سے باہر نکل آئے۔ سورج اپنے مشرق سے چمکتا دمکتا طلوع ہوتا ہے تاکہ تمام آفاق کو تسخیر کرلے اس لیے کہ سورج کی فطرت مشرق اورمغرب سے بالا تر ہے۔ گو ہم اسے خاوری اور مشرقی کہتے ہیں مگر وہ مشرق کا پابند نہیں۔ یہی حال ملت مسلمہ کا ہے کہ وہ اپنی آفاقیت کی وجہ سے کسی ایک مقام کی پابند نہیں ہوسکتی اشعار کا مطالعہ کیجیے۔ فرماتے ہیں :۔ آن کف خاکے کہ نامیدی وطن ایں کہ گوئی مصر وایران و یمن با وطن اہل وطن را نسبتے است زانکہ از خاکش طلوع ملتے است اندریں نسبت اگر داری نظر نکتۂ بینی ز مو باریک تر گرچہ از مشرق برآید آفتاب باتجلی ہائے شوخ و بے حجاب در تب و تاب است از سوز دروں تاز قید شرق و غرب آیدبرون بردمد از مشرق خود جلوہ مست تاہمہ آفاق را آرد بدست فطر تش از مشرق ومغرب بری است گرچہ او از روے نسبت خاوری است۹۶ ملت محمدیہؐکے وجود کی کیا خوب توجیہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں خود اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے۔ کہ ملۃ ابیکم ابراہیم (تم اپنے مورث اعلیٰ حضرت ابراہیم ؑ کی ملت ہو)۔ تو ہم تو حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد اور ان کی ملت ہیں۔ وہ قومیں اورہوتی ہیں جو اپنی تقدیر اور تعمیر کو وطن یا نسب پر مبنی سمجھتی ہیں۔ ملت کی بنیاد وطن پر سمجھنا اور مٹی اورپانی کاپرستار بننا کیا معنے رکھتا ہے ؟ نسب پرناز کرنا نادانی ہے۔ نسب کا حکم تو فقط جسم پر چلتا ہے اور جسم فنا ہوجانے والی چیز ہے۔ ہماری ملت کی بنیاد اور اساس کچھ اور ہے۔ یہ اساس ہمارے دل کے اندر ہے ہم یہاں موجود ہیں۔مگر ہم نے ایک نظروں سے غائب ہستی سے دل لگایا ہے اور اس تعلق کے بعد ہم دوسرے تمام رشتوں سے آزاد و برتر ہوگئے ہیں۔ اس قوم مسلمان کارشتہ ستاروں کے ربط ونظام کی طرح ہے جیسے نگاہ ہماری اپنی نظروں سے اوجھل ہوتی ہے اسی طرح ہمارا مرکز وحدت بھی ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہے۔ ہم ایک ہی ترکش سے نکلے ہوئے تیر ہیں۔ ہم ایک نظر آتے ہیں ایک سا دیکھتے ہیں ایک ہی انداز فکر ہوتا ہے۔ ہمارا مقصد اور انجام سب ایک ہے۔ ہمارے اُسلوب اور انداز خیال سب ایک ہے۔ ہم جو اس کے انعامات سے مالامال ہوکر بھائی بھائی ہوئے تو ہم یک زبان، یک دل اور یک جان ہوگئے اورہمیشہ ایسے ہی رہیں گے۔ اقبال کے اشعار پڑھیے۔ مامسلمانیم و اولاد خلیلؑ از ابیکم گیر اگر خواہی دلیل باوطن وابستہ تقدیر امم برنسب بنیاد تعمیر امم اصل ملت در وطن دیدن کہ چہ؟ باد و آب وگل پرستیدن کہ چہ؟ برنسب نازاں شدن نادانی است حکم او اندرتن و تن فانی است ملت ما را اساس دیگر است ایں اساس اندر دل مامضمر است حاضریم و دل ز بغائب بستہ ایم پس ز بند این و آن وارستہ ایم رشتۂ ایں قوم مثل انجم است چوں نگہ ہم از نگاہ ماگم است تیر خوش پیکان یک کیشیم ما یک نما، یک بیں، یک اندیشیم ما مدعائے ما مآل مایکیست طرز و اندازِ خیال ما یکسیت ما ز نعمت ہاے او اخواں شدیم یک زبان و یک دل ویک جاں شدیم ۹۷ نیز فرماتے ہیں۔ کہ ہم جو ایک ملت قرارپائے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت پیدا کرلینے کی وجہ سے آپؐ کی ذات رحمۃ للعالمین ہے لہذا ہم بھی دنیا کے لیے پیغام رحمت ہیں۔ہم اسی سمندر سے برآمد ہوئے ہیں اورجس طرح ایک موج دوسری موج سے علیحدہ نہیں ہوتی اسی طرح ہم بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں۔ ہمارے جاے پناہ حصار حرم ہے اسی لیے ہم بیشۂ عالم میںشیروں کی مدنند نعرہ زن ہیں اگر تو میری بات پر غور کرے اور حضرت صدیق اکبر ؓ کی رمز شناس آنکھوں سے دیکھے تو حضرت نبی کریمؐتیرے لیے دل وجگر کی قوت بن جائیں اوران کی ذات گرامی خدا سے بھی زیادہ محبوب قرار پائے گی۔ مسلمان کے قلب کے لیے اس کی کتاب (قرآن) قوت ہے اور اس کی حکمت (سنت) ملت مسلمہ کے لیے شہ رگ کادرجہ رکھتی ہے۔ ہر کثرت ایک وحدت میںمنضم ہوجانے سے حیات پاتی ہے۔ مسلمان کی وحدت دین فطرت سے حاصل ہوتی ہے۔ ہم نے یہ دین فطرت نبی کریمؐ سے سیکھا اور آپ ہی کی تلقین کے توسط سے حق کے راستے میںمشعل روشن کی۔ جب تک یہ وحدت ہمارے ہاتھوں میںرہے گی ہماری ہستی ابد تک قائم رہے گی تو خدانے شریعت ہم پر ختم کردی اسی طرح جیسے ہمارے رسولؐ پر رسالت کا اتمام کیا۔ ہم سے محفل ایام کی زینت ہے۔ حضور کی ذات گرامی رسولوں کی خاتم ہے اور ہم اقوام وامم کے خاتم ہیں اب ساقی گری کی خدمت خدا نے ہمارے سپرد کی ہے۔ اپنا آخری جام اس نے ہمیں کو عطا فرما دیا ہے۔ یہ خدا کا بڑا احسان ہے کہ اس نے اپنے رسولؐ کی زبانی کہلوا دیا کہ اب میرے بعد کو ئی نبی نہیں آئے گا۔ یہ قول حق دین مصطفیٰؐ کی عزت وآبرو ہے قوم کو اسی سے سرمایہ ء قوت حاصل ہو تا ہے اور وحدت ملی کا بھید بھی اسی میں پو شیدہ ہے اللہ تعالیٰ نے آیندہ کے لیے ہر دعوے کو باطل کر دیا اور ابد تک کے لیے اسلام کی شیرازہ بندی کر کے اس کو استحکام بخشا اس لیے مسلمان غیر اللہ سے کو ئی واسطہ نہیں رکھتا اور لا قوم بعدی (میرے بعد اور کوئی قوم نہیں)کا نعرہ بلند کرتا ہے اقبال کے اشعار پڑھیے : ما ز حکم نسبت او ملتیم اہل عالم را پیام رحمتیم از میان بحر او خیزیم ما مثل موج از ھم نمی ابریم ما اُمتش در حرز دیوار حرم نعرہ زن مانند شیراں در اجم معنی حرفم کنی تحقیق اگر بنگری با دیدہء صدیقؓ اگر قوت قلب و جگر گردد نبیؐ از خدا محبوب تر گردد نبیؐ قلب مومن را کتابش قوت است حکمتش حبل الورید ملت است زندہ ہر کثرت زبند وحدت است وحدت مسلم ز دینِ فطرت است دین فطرت از نبیؐ آمو ختیم در رہ حق مشعلے افروختیم تا نہ ایں وحدت زدست ما رود ہستی ما با ابد ہمدم شود پس خدا برما شریعت ختم کرد بر رسولؐ ما رسالت ختم کرد رونق از ما محفل ایام را او رسل را ختم و ما اقوام را خدمت ساقی گری با ما گذاشت داد ما را آخریں جامے کہ داشت لا نبی بعدی ز احسان خداست پردہ نا موس دین مصطفیٰؐ است قوم را سرمایہء قوت ازو حفظ سر وحدت ملت ازو حق تعالیٰ نقش ہر دعویٰ شکست تا ابد اسلام را شیرازہ بست دل ز غیر اللہ مسلماں بر کند نعرہء لا قوم بعدی می زند مزید وضاحت کر تے ہیں کہ یہ اُمت مسلمہ سوا اللہ سے یکسر بیگانہ ہے۔ یہ تو صرف چراغ مصطفویؐ پر پر وانہ وار قر بان ہو تی ہے اور آپؐ کے اتباع میں ہمہ وقت لگی رہتی ہے۔ یہ وہ اُمت ہے کہ گرمی حب الٰہی سے اس کا سینہ رو شن رہتا ہے اس کا ایک ایک زرہ حرم آفتاب کو منور کرنے والی شمع کا نو ر ہے تما م انبیاء و مرسلین اس کے مورث اعلیٰ ہیں اس کا بزرگی کا میعار یہ ہے کہ ’’تم میں جو سب سے زیادہ متقی ہے وہ با رگاہ خدا وندی میں سب سے زیادہ معزز وممتاز ہے۔ ‘‘آیت ہے، (ان اکرمکم عنداللہ اتقٰکم الحجرات:۱۳) اس کے دل میں کل مومن ٍ اخوۃً(حدیث شریف) (مسلمان بھائی بھائی ہیں)کا اُصول راسخ ہے۔ حریت اور آزادی اس کے ضمیر میں سمائی ہو ئی ہے اس کے مذہب میں سارے اُمتیا زات با طل ہیں اس کی تو سرشت میں مسا وات داخل ہے۔ اقبال کے اشعار ملاحظہ کیجیے : اُمتے از ما سوا بیگانۂ بر چراغ مصطفیؐ پروانۂ اُمتے از گر میء حق سینہ تاب ذرہ اش شمع حریم آفتاب مرسلان و انبیا آبائے او اکرم او نزد حق اتقائے او کل مومن اخوۃ اندر دلش حریت سر مایہء آب وگلش نا شکیب اُمتیازات آمدہ در نہاد او مساوات آمدہ حب الوطن من الایمان (وطن کی محبت ایمان میں داخل ہے)اس قسم کے اقوال و روایات سن سنا کر لو گو ں کو گمراہی کا راستہ دکھایا جاتا ہے اس بارے میں اقبال کی تحریر پہلے نقل ہو چکی ہے بانگ دراکی نظم (وطنیت) میںہجرت کے استدلال کی جانب اشارہ بھی آپ کی نظر سے گزر چکا ہے۔ رموز بے خودی میں یہ استد لال اور زیادہ وضاحت سے بیان ہو اہے اسی کا مطالعہ بصیرت افروز اور ایمان افزا ہو گا۔ فرماتے ہیں : آنحضور ا نے مسلمانوں کی قومیت کا عقدہ بخوبی حل فر ما دیا تھا کہ آپ نے اپنے وطن (مکہ)سے (مدینہ کو) ہجرت فرمائی اس کی مصلحت اور غایت غور و تدبر چاہتی ہے آپ کی حکمت (سنت) ایک ایسی ملت کا قیام ہے جو سارے عالم کو محیط ہو گی اس کی بنیاد آپؐ نے کلمہ ء طیبہ پر قائم کی اور آپ ہی کے احسانات اور انعامات میں سے یہ ہے کہ ہمارے لیے روئے زمین مسجد بنا دی گئی اب ذرا دیکھو اور سوچو کہ وہ ذات گرامی جن کی خدا نے قرآن میں تعریف وتوصیف کی ہے۔جن کی جان کی حفاظت کی خدا نے خود ضمانت دی ہے (اور فرما دیا ہے کہ واللہ یعصمک من الناس اور اللہ تعالیٰ آپ کی جان کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔) دشمن جن کی ہمیت سے بے بس و مجبور ہوجاتے تھے۔ جن کے رعب سے ان کے جسموں پر لرزہ طاری ہوجاتا تھا تو کیوں آپ اپنے باپ دادا کے وطن کو چھوڑ کر چلے گئے ؟ کیا تمھارا یہ خیال ہے کہ آپؐ دشمنوں کے ڈر سے بھاگ گئے تھے ؟ (نعوذ باللہ)یہ تو راویوں نے سچی بات ہماری نظر سے چھپا دی ہے اُنھوں نے ہجرت کا مفہوم خود ہی صحیح نہ سمجھا۔ ہجرت تو مسلمان کی زندگی کا ایک نبیادی اُصول ہے۔ ہجرت تومسلمان کے بقا وثبات کے اسباب میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے اس کے تو معنے ہیں کم سمائی سے وسعت کی طرف جانا۔ شبنم کو چھوڑنا تا کہ سمندر کو مسخر کیا جائے۔ (اس کے بعد بہت سی شاعرانہ مثالیں فطرت سے پیش کر تے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ)جو کوئی قید اطراف و جہات سے آزاد ہو گیا۔ وہ فلک کی طرح (چار جہت ہی پر نہیں) شش جہت پر چھا گیا اپنے زمانے کے مکرو فریب سے ہو شیار ہو جا اے راہ رو !یہ ڈاکو تیری بٹ ماری پر آمادہ ہے ہو شیار رہ۔ اقبال کے اشعار کا مطالعہ کیجیے : عقدۂ قومیت مسلم کشود از وطن آقائے ما ہجرت نمود حکمتش یک ملت گیتی نورد بر اساس کلمۂ تعمیر کرد تاز بخشش ہا ئے آں سلطان دیں مسجد ما شد ہمہ روئے زمیں آں کہ در قرآں خدا او را ستود آں کہ حفظ جان او موعود بود دشمناں بے دست و پا از ہیبتش لرزہ برتن از شکوہ فطرتش پس چرا از مسکن آبا گریخت؟ تو گمان داری کہ از اعدا گریخت؟ قصہ گویاں حق زما پو شیدہ اند معنیٔ ہجرت غلط فہمیدہ اند ہجرت آئین حیات مسلم است ایں ز اسباب ثبات مسلم است معنیء او از تنک آبی رم است ترک شبنم بہر تسخیر یم است ہر کہ از قید جہات آزاد شد چوں فلک در شش جہت آباد شد از فریب عصر نو ہشیار باش رہ فتند اے راہ رو ہشیار باش رموز بے خودی کے آخر میں سورئہ اخلاص کی تفسیر بیان کر تے ہوئے لم یلد و لم یو لد کی تشریح کر تے ہیں اور لکھتے ہیں کہ تیری قوم رنگ اور خون سب سے بالا تر ہے۔ یہاں کے ایک کالے کی قدر وقیمت سو سرخ وسفیدافراد سے بڑھ کر ہے اگر تو مسلمان ہو نے کا مدعی ہے تو باپ، ماں، چچا، جیسے رشتوں سے خود کو بلند وبرتر سمجھ، اور حضرت سلمان فارسیؓ کے مانند خود کو اسلام کا فرزند شمار کر (حضرت سلمان فارسی ؓ سے جب لو گو ں نے ان کا شجرہ نسب دریافت کیا، تو باوجود اس کے کہ آپ کا خاندان عجم میں اچھی حیثیت کا تھا، آپ نے جواب دیا تھا۔ سلمان ابن اسلام)اگر تو نے نسب کو ملت اسلامیہ کا ایک جز گردان لیا، تو تونے اُخوت (بھائی چارہ) کے اسلامی حکم میں بڑا رخنہ پیدا کر دیا۔ گو یا تیری جڑ ہماری زمین میں ابھی جمی نہیں۔ اور تیرے تصورات ابھی تک غیر اسلامی ہیں ہمارا رشتہ نہ روم سے ہے نہ عرب سے۔ہماری نسبت نسب کی پابند نہیں ہے۔ ہم نے تو محبوب حجازیؐ ا سے دل لگایا ہے اس رشتے کی بدولت ہم سب ایک دوسرے سے باہم جڑے ہوئے ہیں۔ ہمارا رشتہ بس ایک رشتہ ء محبت(توّلائے نبیؐ)سے ہے ہمارے لیے اسی ایک شراب کانشہ کافی و وافی ہے۔ نسب کا تعلق تو فقط جسم سے ہو تا ہے اور یہ عشق و محبت جان اور روح میں سمائی ہوئی ہے اس لیے عشق کا رشتہ نسب سے زیادہ مضبوط ہے۔ اگر تجھے رسول کریمؐ اسے عشق و محبت ہے تو نسب کا خیال چھوڑنا ہو گا یہی نہیں ایران اور عرب کی طرح کے ملکی اور وطنی تصورات سے بھی کنارہ کشی اختیار کر نی ہو گی جس طرح رسول اللہ ا خود خدا کا نور ہیں اسی طرح ان کی اُمت بھی نور خدا ہے۔ ہماری ہستی صرف اسی کی ذات سے متعلق ہے۔ اقبال کے اشعار دیکھیے: قوم تو از رنگ و خوں بالا تر است قیمت یک اسودش صد احمراست فارغ از باب وام واعمام باش ہم چو سلماںؓ زادہء اسلام باش گر نسب را جزوِ ملت کردۂ رخنہ در کار اُخوت کردۂ در زمین ما بگیرد ریشہ ات ہست نا مسلم ہنوز اندیشہ ات نیست از روم وعرب پیوند ما نسبیت پابندِ نسب پیوند ما دل بہ محبوب حجازیؐ بستہ ایم زیں جہت بایک دگر پیوستہ ایم رشتہء مایک تولایش بس است چشم مارا کیف صہبایش بس است عشق در جان ونسب در پیکر است رشتہء عشق از نسب محکم تر است عشق ورزی از نسب باید گزشت ہم زایران و عرب باید گزشت اُمت او مثل او نور حق است ہستیء ما از وجودش مشتق است پیام مشرق۱۹۳۳ء میں مشہور جرمن فلسفی اور شاعر ’’گوئٹے ‘‘کے’’ مغربی د یوان‘‘کے جواب میں علامہ اقبال نے شائع کی تھی، اس کو آپ نے امیر امان اللہ خاں سے منسوب کیا تھا جو اس وقت مملکت افغانستا ن کے امیر یا بادشاہ تھے۔ ابتدا میں ’’پیشکش‘‘کے عنوان سے ایک طویل نظم میں امیر امان اللہ سے خطاب کیا ہے اور ان کو جہاں بینی اور جہاں بانی کے گر سکھائے ہیں، آخر میں نصیحت فرماتے ہیں کہ : سرداری ہمارے دینی اصولوں کے مطابق خدمت خلق کا نام ہے۔ (عربی کا مشہور قول ہے سیّد القوم خاد مھم۔ قوم کا سر دار ان کا خادم ہوتا ہے فارسی کی کہاوت ہے۔ ’’ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد‘‘) نیز حضرت عمر فاروق ؓ جیسا عدل اور حضرت علیؓ جیسا فقر اختیا ر کرنا شیوہء سروری ہے۔ ملک اور دین کے کاموں کے ہجوم میں تھوڑی دیر کے لیے خلوت میں وقت نکال کر خود احتسابی کیا کرو جو کوئی تھوڑی دیر کے لیے خود احتسابی میں بیٹھ جاتا ہے پھر اس کی کمند سے کوئی بھی شکار بچ کے نہیں جا سکتا۔ قبائے خسر وی پہن کر درویشانہ زندگی بسر کرو اپنی آنکھیں کھلی رکھو اور خدا سے لو لگائے رکھو۔ سلطنت عثمانیہ کا شہنشا ہ مراد جو قائد ملت کا منصب رکھتا تھا اور جس کی تلوار کے سامنے بجلی اور طوفان سب ہیچ تھے۔ وہ بڑی شان و شوکت والا بادشاہ تھا مگر ساتھ ہی فقر کی دولت سے بھی مالا مال تھا باہر سے ارد شیر تھا تو اندر سے ابو ذر ؓ۔وہ مسلمان جنھوں نے بادشاہت کی ہے تو در اصل بادشاہی میں اُنھوں نے فقیری کے جلوے دکھائے ہیں۔ سلطان مراد بھی ایسا ہی بادشاہ تھا اس کے پاس کو ئی دینوی سا زو سامان نہ تھا۔ بس اس کے پاس جو سامان تھا وہ تھا تلوار اور قرآن تو یاد رکھو جس شخص کو عشق مصطفیؐ کا سامان میسر آ گیا، بحرو بر اس کے گو شہء دامن میں سما گئے اس لیے تم خدا سے حضرت ابو بکر صدیق ؓ اور حضرت علی مرتضیٰ ؓ کا سوز دل مانگو اور خدا سے مانگو تو بس عشق نبیؐ کا ایک ذرہ طلب کرو اس لیے کہ اُمتِ مسلمہ کی حیات کا اساس عشق رسولؐہیاور بس بلکہ ساری کائنات کا سارا سازو سامان ہے تو بس عشق رسول ا۔ ‘‘ حضرت علامہ کے اشعار کا لطف حا صل کیجیے : سروری در دین ما خدمت گری است عدل فاروقیؓ وفقر حیدریؓ است در ہجوم کارہائے ملک و دیں بادل خود یک نفس خلوت گزیں ہر کہ یک دم در کمین خود نشست ہیچ نخچیر از کمند او نجست در قبائے خسروی درویش زی دیدۂ بیدار وخدا اندیش زی قائد ملت شہنشاہ مراد تیغ او را برق وتندر خانہ زاد ہم فقیرے ہم شہ گر دوں فرے اردشیرے با روان بوذرےؓ آں مسلماناں کہ میری کردہ اند در شہنشاہی فقیری کردہ اند حکمرانے بود و سامانے نداشت دست او جز تیغ و قرآنے نداشت ہر کہ عشق مصطفیٰؐ سامان اوست بحر و بر در گوشہء دامان اوست سوز صدیقؓ وعلیؓ از حق طلب ذرہ عشق نبیؐ از حق طلب زانکہ ملت را حیات از عشق اوست برگ وساز کائنات از عشق اوست جاوید نامہ میں اقبال (زندہ رود) حضرت مو لانا جلال الدین رومیؒکی رہبری میں عالم بالا کی سیر کر تے ہیں۔ فلک عطارد پر ان کی ملاقات ہو تی ہے حضرت جمال الدین افغانی ؒ اور حضرت سعید حلیم پاشا ؒ سے۔ یہ دونوں اسرار سیاست اور رموز مملکت بتاتے ہیں۔ سعید حلیم پاشا کہتے ہیں کہ مصطفی کمال نے تجدید واصلاح کا دعویٰ کیا۔ مگر اسے بصیرت حا صل نہ تھی اس لیے اس نے اصلاح کے معنے یہ سمجھے کہ مغرب کے فرسودہ خیالات اور روایات کو اپنا لے اس کے دل میں کسی کے عالم کے آباد کر نے کا جذبہ مو جود نہ تھا اس لیے اس نے کو رانہ تقلید کی راہ اختیار کی اگر کسی کو دل زندہ میسر ہو تا ہے تو وہ تو خود نئے زمانے اور نئے عالم پیدا کرتا ہے اس کو کورانہ تقلید کی ضرورت نہیں ہوتی ایسا دل زندہ پانے کا گر میں تمھیں بتاتا ہوں اگر تم میں مسلمانوں کا سا حوصلہ ہے تو خود احتسابی اختیار کرو اور قرآن کے مطالب میں ڈوب جاؤ قرآن کی آیتوں میں سینکڑوں نئے عالم چھپے ہوئے ہیں اور اس کی ایک ایک آن میں بہت سے زمانے لپٹے ہوئے ہیں۔ عصر حاضر بھی قرآن کے بہت سے زمانوں میں سے ایک زمانہ ہے اگر تمھارے دل میں نکتہ شناسی اور باریک بینی کا جذبہ ہے تو میری بات کی تہہ تک پہنچو۔نبدہء مومن خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ ہر عالم اس کے جسم پر ایک قبا کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب ایک عالم (قبا)اس کے جسم پر پرانا ہو جاتا ہے تو قرآن اسے نئے عالم اور نئی قبا عطا فرما دیتا ہے: زندہ دل خلاق اعصارودہور جانش از تقلید گردد بے حضور چوں مسلماناں اگر داری جگر در ضمیر خویش و در قرآں نگر صد جہان تازہ در آیات اوست عصر ہا پیچیدہ در آیات اوست یک جہانش عہد حاضر را بس است گیر اگر در سینہ دل معنی رس است بندہء مومن ز آیات خداست ہر جہاں اندر بر او چوں قباست چوں کہن گردد جہانے در برش می دہد قرآں جہانے دیگرش مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوام شرق کے نام ہی سے اس کے موضوع کی طرف اشارہ مل جاتا ہے اس مثنوی کے آخر میں ’’در حضور رسالت مآبؐ‘‘ کے عنوان سے باسٹھ شعروں کی طویل مناجات اور عرض داشت ہے اس کا کچھ حصہ ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں : آپؐ ہی کی ذات گرامی ہمارا ماوا وملجا ہے۔ اس مسلمان قو م کو مو ت کے خوف سے رہائی عطا کیجیے۔ آپؐ کا ذکر ذوق اور سرور کا سر مایہ ہے جو قوم کو فقرکی حالت میں غیرت کا جذبہ بخشتا ہے، اے کہ آپؐ کی ذات ہر سالک کا مقام اور منزل ہے۔ آپؐ کا جذبہ اور کشش ہر سالک کے دل میں مو جود ہوتی ہے۔میں نے عرب اور عجم سب میں گھوم کے دیکھ لیا ہے۔ ہر جگہ ابو لہب تو ملتا ہے، مصطفیؐکا جلوہ کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ یہ بندہ جو نسبی طور پر مسلمان اور ہوش مند ہے اس کے تا ریک ضمیر میں کو ئی چراغ بھی روشن نہیں۔ جدید تعلیم نے اس سے دین کا جذبہ چھین لیا ہے۔ میں تو خیال کر تا ہو ں کہ جس کا نام مسلمان ہے وہ کبھی ہو ا کر تا تھا اب تو اس کا فقط نام باقی رہ گیا، گھریلو چڑیوں کی طرح ادھر ادھر دانا چگتا پھرتا ہے۔ فضائے آسمانی کی وسعت اور اس کی حقیقت سے کہ یہ سب اسی کی تسخیر کے لیے بنائی گئی ہے مطلق نا آشنا ہے۔ جدید تعلیم کے بقراط خود ہی تنگ نظر اور کوتاہ عقل ہیں اس لیے اس کو بھی اس کے مقام سے آگاہ نہ کر سکے۔ افسوس !مو من ہو تے ہوئے وہ موت کے راز سے واقف نہیں اس بد نصیب کے دل میں لا غالب الااللہ (خدا کے علاوہ کو ئی بھی غلبہ اور سلطانی نہیں رکھتا) موجود نہیں۔ جب اس کے سینے میں دل ہی مر گیا تو اب اس کا یہ حال ہو ہی جا نا تھا کہ وہ کھانے اور سونے کے سوا کسی اور بات کو سوچتا ہی نہیں۔ آپ قم با ذنی (میرے حکم سے اٹھ کھڑا ہو) فر ما کے اس کو زندگی بخش دیجیے، اور اس کے دل میں اللہ ھو پھر سے زندہ کردیجیے۔ اے آقا!اے مولا ! اپنے تیز رفتار گھوڑے کی باگ ایک لمحے کو روکیے۔ میری بات میری زبان سے آسانی سے ادا نہیں ہو پاتی۔ دل میں جو بات ہے وہ ہونٹوں تک لاؤں یا نہ لاؤں ؟ شوق تو ادب کا محکوم ہو نا نہیں جانتا۔ آپ کے گرد ساری کائنات طواف کرتی ہے۔ میں حضور سے ایک نگاہ التفات کا آرزو مند ہوں میرا ذکر، فکر، علم، عرفان سب کچھ آپؐہی ہیں۔ میرے لیے کشتی، سمندر، طوفان سب کچھ آپؐ ہی ہیں آپؐ کی گلی کا حرم میرے لیے جائے پناہ ہے میں بڑی امید لے کر آپؐ کی بارگاہ میں حاضر ہو ا ہوں۔ علامہ بوصیر یؒ نے جس طرح اپنی بیماری میں آپؐ سے رجوع کیا تھا، اسی طرح میں بھی آپؐ ہی سے عرض کر تا ہوں تا کہ میری گزشتہ صحت پھر مجھے واپس مل جائے۔ آپ کی شفقت گہنگاروں پر تو اور بھی زیادہ ہے، اور ان کی خطائیں معاف کرنے میں آپؐ ماں جیسی محبت و شفقت رکھتے ہیں۔ اے وہ کہ آپؐ کا وجود سا ری دنیا کے لیے ایک بہار تازہ ہے اپنے سا ئے سے مجھے محروم نہ کیجیے مجھے غیر اللہ سے کسی طر ح کی کو ئی آرزو نہیں۔ بس آپؐ ہی مجھے یا تو تلوار بنا دیجیے یا کلید۔ میری فکر تو دین کے مطالب سمجھنے میں تیز اور طرار ہے مگر مجھ سے کسی قسم کا کو ئی نیک عمل سر زد نہیں ہو ا ہے آپ میرے تیشے کو اور زیادہ تیز کر دیجیے اس لیے کہ مجھے کو ہ کن سے بھی زیادہ مشکلات اور رکاوٹیں در پیش ہیں۔ میں مو من ہو ں اپنی خودی اور حقیقت کا منکر نہیں ہوں آپؐ مجھے کسوٹی پر کس دیجیے۔پھر دیکھیے کہ یہ اچھی ذات کا لو ہا کیسی کچھ کاٹ دکھاتا ہے۔ ‘‘ اقبال کے اشعار کا مطالعہ کیجیے : اے تو ما بے چارگاں را سازو برگ! وار ہان این قوم را از ترس مرگ ذکر تو سرمایہء ذوق وسرور قوم را دارد بہ فکر اندر غیور اے مقام و منزل ہر راہ رو جذب تو اندر دل ہر راہ رو در عجم گردیدم وہم درعرب مصطفیؐ نایاب وارزان بولہب ایں مسلماں زادہء روشن دماغ ظلمت آباد ضمیرش بے چراغ مکتب از وئے جذبہ دیں در ربود از وجودش ایں قدر دانم کہ نظر شیخ مکتب کم سواد و کم نظر از مقام او نداد او را خبر مومن و از رمز مرگ آگاہ نیست دردلش لا غالب الااللہ نیست تا دل او درمیان سینہ مرد می نیندیشد مگر از خواب وخورد قم باذنی گوی واو را زندہ کن دلش اللہ ھو را زندہ کن شہسوارا!یک نفس در کش عناں حرف من آساں نیاید بر زباں آرزو آید تابہ لب؟ می نہ گردد شوق محکوم ادب گرد توگردد حریم کائنات از تو خواہم یک نگاہ التفات ذکر وفکر وعلم و عر فانم توئی کشتی و دریا و طوفانم توئی اے پناہ من حریم کوئے تو! من با میدے رمیدم سوئے تو چوں بصیری از تومی خواہم کشود تابمن باز آید آں روزے کہ بود مہر تو بر عاصیاں افزوں تر است در خطا بخشی چو مہر ما دراست اے وجود تو جہاں را نوبہار! پر تو خود را دریغ از من مدار تا ز غیر اللہ ندارم ہیچ امید یا مرا شمشیر گرداں یا کلید فکر من در مہم دیں چالاک وچست تخم کردارے ز خاک من نہ رست تیشہ ام تیز تر گرداں کہ من محنتے دارم فزوں از کو ہکن مومنم، از خویشتن کافر نیم برفسانم زن کہ بد گوہر نیم اقبال نے ملت کی زبوں حالی اور پستی و خواری کا حا ل شکوہء کے انداز میں باری تعالیٰ کے در بار میں پیش کیا تھا اس کے چند سال بعد اس شکایت کا جواب دربار الٰہی سے جواب شکوہ میں ان کے زبان وقلم سے ادا ہوا۔ گلہ شکایت کا منہ تو ڑ جواب اور مسلمانو ں کو ان کے غلط رویوں اور بد کا ریوں پر انتباہ کر نے کے بعد مستقبل کے لیے ہدایت فرمائی جاتی ہے کہ تم صراط مستقیم پر گام زن رہو اور اگر تم محبت رسولؐ اور اطاعت رسولؐ کو اپنا شعار بناؤ تو اب بھی تمھارا ساتھ دیں گے، اور امداد آسمانی اور تا ئید ربانی پھر تمھاری دستگیری کر ے گی۔ جواب شکوہ کے یہ آخری بند یہی پیغام سناتے ہیں۔ ملا حظہ کیجیے : مثل بو قید ہے غنچے میںپریشان ہو جا رخت پر دوش ہوائے چمنستان ہو جا ہے تنک مایہ تو ذرے سے بیاباں ہو جا نغمۂ موج سے ہنگامہء طوفاں ہو جا قوتٔ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے دہر میں اسم محمدؐ سے اجالا کر دے ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو خم بھی نہ ہو بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو تم بھی نہ ہو خیمہ افلاک کا استاد اسی نام سے ہے نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے دشت میں، دامن کہسار میں، میدان میںہے بحر میں، موج کی آغوش میں، طوفان میں ہے چین کے شہر، مراکش کے بیا بان میں ہے اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے رفعت شان رفعنا لک ذکرک دیکھے مردم چشم زمیں۔ یعنی وہ کالی دنیا وہ تمھارے شہدا پالنے والی دنیا گرمی مہر کی پروردہ، ہلالی دنیا عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح غوطہ زن نور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح عقل ہے تیری سپر، عشق ہے شمشیر تیری میرے درویش خلافت ہے جہاںگیر تری ما سوی اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں رموز بیخودی کے آخر میں اقبال نے۲۵ شعروں میں ’’عرض حال مصنف بحضور رحمتہ للعا لمینؐ‘‘کے عنوان سے بہت معنی خیز اور بلیغ عرض داشت پیش کی ہے مو ضوع کی مناسبت سے اس کتاب کا اختتام بھی اسی پر بھلا معلوم ہو تا ہے۔ صرف منتخب اشعار پیش کر تا ہوں فرماتے ہیں : حضور !آپؐکی ذات گرامی حیات کے لیے شباب کا در جہ رکھتی ہے آپؐ کا اس عالم میں تشریف لانا زندگی کے خواب کی تعبیر تھا۔ زمین کو آپؐ کا مسکن بننے کی بدولت بے پناہ بلندی اور برکت حاصل ہوئی۔ آسمان نے آپؐکے آستانے پر بو سہ دیا تو اسے سر بلند ی میسر آئی۔ دل میں جو غم پو شیدہ ہے اسے زبان پر نہ لا نا بہت مشکل ہے۔ بالکل ایسے جیسے شراب بوتل میں ہو تو کہاں چھپ سکتی ہے مسلمان اسرار نبو ت سے با لکل بیگانہ ہو گیا ہے، یہ کعبہ پھر بتوں کا گھر بنا جا رہا ہے۔ مسلمان کا فر کی طرح مو ت سے ڈرنے لگ گیا ہے اس کے سینے میں دل زندہ ہے ہی نہیں۔ مسلمان مردہ نظر آیا تو میں نے اسے آب حیات بتایا اور اسے قرآن حکیم کے اسرارو رموز میں سے کچھ تعلیم کیے۔ آپؐ کہ آپؐ نے شیخ بو صیریؒ کو چادر کا عطیہ بخشا اور مجھے سلمیٰ کا بربط(شاعری کا ملکہ)عطا کیا اس مسلمان کو جو صحیح کو بھی غلط سمجھتا ہے حق کا ذوق عطا فرمادیجیے۔یہ تو اپنے ملک اور متاع کو بھی نہیں پہچانتا آپؐ کی رحمت سارے عالم کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ میری یہ آرزو ہے کہ مجھے حجاز میں موت آئے۔ وہ مسلمان جو ما سوا سے بیگانہ ہے، کب تک بت خانے میں قید رہے گا۔ سبحان اللہ، ما شا ء اللہ !کیا مبارک شہر ہے وہ جہاں آپؐہیں اور کیسی اچھی اور پاک ہے وہ خاک جس میں آپؐ آسودہ ہیں۔، جو میرے یار کا مسکن اور میرے بادشاہ کا شہر ہے وہی میرے لیے سب کچھ ہے۔ عاشقوں کی نظر میںحب الو طن من الایمان (وطن کی محبت دین میں داخل ہے) کے یہی معنے ہیں، میرے ستارے کو بلندی بخشیے، اور اپنی مقدس دیوار کے سائے میں مجھے مر قد عطا کیجیے۔ تاکہ اس مقدس سر زمین میں پہنچ کر میرے بے تاب دل کو چین نصیب ہو جا ئے اور مجھے جو پارے جیسی بے تابی و بے قراری ہے اسے آسودگی اور قرار میسر آجائے پھر میں بھی آسمان سے اکڑ کر کہہ سکوں کہ دیکھ میرے چین اور آرام کو دیکھ !تو نے میرا آغاز دیکھا تھا، اب میرا یہ انجام بھی دیکھ !میری یہ بلندی اقبالی اور خوش بختی بھی دیکھ۔ حضرت علامہ کے اشعار کا لطف حاصل کیجیے : اے ظہور تو شباب زندگی جلوہ ات تعبیر خواب زندگی اے زمیں از بار گاہت ارجمند آسماں از بوسہء بامت بلند از غم پنہاں نہ گفتن مشکل است بادہ در مینا نہفتن مشکل است مسلم از سر نبیؐ بیگانہ شد باز ایں بیت الحرم بت خانہ شد ہم چو کافر از اجل تر سندۂ سینہ اش فارغ ز قلب زندۂ مردہ بود از آب حیواں گفتمش سرے از اسرار قرآں گفتنمش اے بصیری را ردا بخشندۂ! بربط سلما مرا بخشندۂ ذوق حق دہ ایں خطا اندیش را ایں کہ نشناسد متاع خویش را ہست شان رحمتت گیتی نواز آرزو دارم کہ میرم در حجاز مسلمے از ما سوا بیگانۂ تا کجا زناری بت خانۂ فرخا شہرے کہ تو بودی دراں! اے خنک خاکے کہ آسودی دراں! مسکن یار است وشہر شاہ من پیش عاشق ایں بود حب الوطن کو کبم را دیدۂ بیدار بخش مرقدے در سایۂ دیوار بخش تابیا ساید دل بے تاب من بستگی پیدا کند سیماب من با فلک گویم کہ آرامم نگر دیدۂ آغازم، انجامم نگر /…/…/ کتابیات ابوالحسن :مولانا ابوالحسن علی ندوی، نقوش اقبال، مجلس نشریات اسلام، کراچی، ۱۹۷۳۔ آزاد : مولانا ابوالکلام آزاد، ام الکتاب، بساط ادب، لاہور، ۱۹۶۹۔ اقبال : کلیات اقبال (فارسی) شیخ غلام علی اینڈسنز، لاہور ۱۹۹۰ ۔ کلیات اقبال (اُردو) اقبال اکادمی پاکستان،لاہور، ۲۰۰۰ء ۔ تشکیل جدید الہیات اسلامیہ (ترجمہ خطبات اقبال از سیّد نذیر نیازی)بزم، اقبال لاہور، تاج : تصدق حسین تاج، مضامین اقبال، احمدیہ پریس، حیدر آباد دکن، ۱۳۶۲ھ ۔ جعفری : رئیس احمد جعفری، اقبال اور عشق رسولؐ، شیخ غلام علی، لاہور، ۱۹۵۶۔ حسنین : محمد حسنین سیّد، جوہر اقبال، مکتبہ ٔ جامعہ، دہلی، ۱۹۳۸۔ ڈار : بشیر احمد ڈار، انوار اقبال، اقبال اکادمی، کراچی، ۱۹۶۰۔ ذوقی : حضرت سیّد محمد ذوق شاہ، سرّ دلبراں، مکتبۂ ذوقیہ، کراچی، ۱۹۵۴۔ رشید : مولانا غلام دستگیر رشید، آثار اقبال، سیّدعبدالرزاق، حیدر آباد دکن، ۱۹۴۶۔ سباعی : ڈاکٹر مصطفیٰ حسنی سباعی، سنت رسول (اُردو ترجمہ از ملک غلام علی)، مکتبۂ چراغ راہ،لاہور، ۱۳۷۳ھ (۱۹۵۴)۔ سلیمان : قاضی سلیمان منصور پوری، رحمۃالعالمین :جلد دوم و سوم، شیخ غلام علی، لاہور، ۱۹۶۸۔ سلیمان : علامہ سیّد سیلمان ندوی، خطبات مدراس ، ادارہ اسلامیات، انار کلی، لاہور، ۱۹۸۳۔ سیرت النبیؐ، قمر جلد چہارم، قمرسعید پبلشرز ، لاہور، ۱۹۷۵۔ سیرت النبیؐ، جلد پنجم، دارالمنصفین، اعظم گڑھ، ۱۹۶۱۔ سیرت النبیؐ، جلد ششم، قمر سعیدپبلشرز، لاہور، اعظم گڑھ، ۱۹۷۵۔ سیو ہاروی: مولانا حفظ الرحمان، اخلاق و فلسفۂٔ اخلاق، ندوۃ المصنفین، دہلی، ۱۹۵۰۔ صدیقی :ڈاکٹر رضی الدین صدیقی، اقبال کا تصور زمان و مکان، مجلس ترقی ادب، لاہور، ۱۹۷۳۔ عبدالواحد : سیّد عبدالواحد معینی، مقالات اقبال، شیخ محمد اشرف، لاہور، ۱۹۶۳۔ عطاء اﷲ : شیخ عطا اﷲ، اقبال نامہ، حصہ اول و دوم، شیخ محمد اشرف، لاہور، ۱۹۵۱۔ علوی : خالد علوی، اقبال اور احیائے دین، المکتبہ العلمیہ، لاہور، ۱۹۷۱۔ فاروقی : محمد طاہر فاروقی، سیرت اقبال، قومی کتب خانہ، لاہور، ۱۹۶۶۔ فاضل : سیّد عبدالرشید فاضل، علامہ اقبال اور تصوف، ادارۂ تنویرات علم و ادب، کراچی، ۱۹۶۷۔ فرمان : ڈاکٹر فرمان فتح پوری، اُردو کی نعتیہ شاعری، آئینۂ ادب، لاہور، ۱۹۷۴۔ گرامی : مولانا گرامی، مکاتیب اقبال، اقبال اکادمی، کراچی، ۱۹۶۹۔ مجدد : امام ربانی حضرت مجدد الف ثانیؒ، مکتوبات شریف، دفتر اول و دوم، نور کمپنی ، لاہور، ۱۹۶۴۔ مودودی : مولانا ابوالاعلی مودودی، خلافت وملوکیت، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور،۱۹۶۹۔ ندوی : مولانا عبدالسلام ندوی، اقبال کامل، دارالمنصفین، اعظم گڑھ، ۱۹۶۸۔ نور الدین: ڈاکٹر ابو سعید نور الدین، اسلامی تصوف اور اقبال، اقبال اکادمی، کراچی، ۱۹۵۹۔ نیاز : نیاز الدین خاں، مکاتیب اقبال، بزم اقبال، لاہور، ۱۹۵۴۔ نیازی : سیّد نذیر نیازی، مکتوبات اقبال، اقبال اکادمی، کراچی، ۱۹۵۷۔ وحید : فقیر سیّد وحید الدین، روزگار فقیر، جلد اول سپننگ ملز، کراچی، ۱۹۶۴۔ وحید : فقیر سیّد وحید الدین، روزگار فقیر، جلد دوم۔ لائن آرٹ پریس، کراچی، ۱۹۶۵۔ وقار : پروفیسر سیّد وقار عظیم، اقبال … شاعر اور فلسفی، تصنیفات، لاہور، ۱۹۶۸۔ یوسف :ڈاکٹر یوسف حسین، روح اقبال، اعظم اسٹیم پریس، حیدر آباد دکن، ۱۹۴۱۔ /…/…/