درس اول: شعری اصلاحات درونِ لالہ گذر چون صبا توانی کرد بہ یک نفس گرہ غنچہ وا توانی کرد حیات چیست جہان را اسیر جان کردن تو خود اسیرِ جہانی کجا توانی کرد؟! مقدر است کہ مسجودِ مہر و مہ باشی ولی ھنوز ندانی چہا توانی کرد اگر ز میکدۂ من پیالہ ای گیری ز مشتِ خاک جہانی بہ پا توانی کرد چسان بہ سینہ چراغی فروختن اقبال بہ خویش آنچہ توانی بہ ماتوانی کرد مصراع اور بیت (شعر): کلاسیکل فارسی شعر ی اصناف کی مختصر ترین صورت بیت (شعر) ہے اور ھر شعر دو مُصرَّعوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔ وزن: کوئی بھی مصراع پڑھنے کے بعد ایک خاص آھنگ اور موسیقی کا احساس پیدا ہوتا ہے ، جو نثری تحریر پڑھنے سے محسوس نہیں ہوتا ، دراصل یہی احساس ’’شعر کا وزن ‘‘ ہے ۔ کلاسیکی فارسی شاعری میں ’’وزنِ شعر‘‘ علم عروض کا تابع ہے ۔ ردیف: پہلے شعر کے دونوں مُصرَّعوں اور پھر ھر شعر کے دوسرے مُصرَّعے کے آخری الفاظ کو غور سے دیکھیے ، آپ کو ’’توانی کرد‘‘ کی تکرار دکھائی دے گی ، جسے شعری اصطلاح میں ردیف کہتے ہیں ، ردیف ایک لفظ ، چند الفاظ یا ایک جملے پر مشتمل ہو سکتی ہے ۔ ردیف کے حامل اشعار ’’مردّف‘‘ کہلاتے ہیں ۔ قافیہ: ردیف سے پہلے آنے والے کلمات پر غور کیجیے ، آپ کو ’’آ ‘‘ کی تکرار دکھائی دے گی ، جو دراصل ’’قافیہ‘‘ ہے اور ’’صبا، وا ، کجا ، چہا ، بپا اور بما ‘‘ ’’کلمات قافیہ ‘‘ ہیں ۔ قافیہ کلاسیکی فارسی شاعری میں بے پناہ اہمیت کا حامل ہے اور کوئی بھی شعر قافیہ کے بغیر تشکیل نہیں پاتا ۔ فارسی شعر کی تمام اصناف سخن قافیہ ہی سے متعین ہوتی ہیں ۔ مُصرَّع: ایسا شعر جس کے دونوں مُصرَّع ہم قافیہ ہوں مُصرَّع کہلاتا ہے ۔ مطلع: منظومے کا پہلا شعر جو بالعموم مُصرَّع ہوتا ہے ۔ مطلع کہلاتا ہے ۔ مقطع: منظومے کا آخری شعر جو بالعموم مُصرَّع نہیں ہوتا ، مقطع کہلاتا ہے ۔ تَخَلُّص: اس سبق کے آغاز میں مندرج غزل کے آخری شعر میں شاعر نے اپنا قلمی نام استعمال کیا ہے ۔ جسے تَخَلُّص کہتے ہیں ۔ یاد رہے کہ تَخَلُّص آخری شعر سے پہلے بھی ذکر ہو سکتا ہے ۔ مشق: صورت نپرستم من بتخانہ شکستم من آن سیل سبک سیرم ھر بند گسستم من در بود و نبودِ من اندیشہ گمانہا داشت از عشق ھویدا شد این نکتہ کہ ھستم من در دیر نیاز من در کعبہ نماز من زنّار بدوشم من تسبیح بدستم من سرمایۂ درد تو غارت نتوان کردن اشکی کہ ز دل خیزد در دیدہ شکستم من فرزانہ بہ گفتارم دیوانہ بہ کردارم از بادۂ شوق تو ھشیارم و مستم من مندرجہ بالا اشعار میں ۱ ۔ ردیف کا تعین کیجیے ۲۔ قافیے کی نشاندہی کیجیے ۳۔ کلمات قافیہ کو الگ کیجیے ۴۔ ’’مطلع ‘‘ کے بارے میں بتائیے ۵۔ شاعر نے تَخَلُّص استعمال کیا ہے یانہیں ۶۔ ’’زبور عجم‘‘ میں سے کچھ ایسے اشعار کا انتخاب کیجیے جن میں ردیف ، قافیہ ، کلمات قافیہ ، مطلع ، مقطع ،تَخَلُّص کی نشاندہی ممکن ہو ۔ فرھنگ: اسیر: گرفتار افروختن : روشن کرنا بادہ : شراب بہ پا کردن: کھڑا کر دینا دیر : بتکدہ زنار : مقدس دھاگا جسے ھندو اپنی کلائی پر باندھتے ہیں۔۔ سبک سیر: تیز رفتار سیل :سیلاب صبا:ہوا غارت کردن: لوٹ لینا غنچہ : کلی مسجود: جسے سجدہ کیاجائے نَفَس :سانس وا کردن : کھولنا ھنوز :اب تک ھویدا شدن: ظاھر ہونا درس دوم: تشبیہ دلم درسینہ می لرزدچو برگی کہ بر وی قطرہ شبنم نشیند مندرجہ بالا شعرپر غور کیجیے ، اقبال نے اپنے سینے میں دھڑکتے ہوئے دل کو کسی درخت کی شاخ پر لرزتے ہوئے پتے کے مماثل قرار دیا ہے ۔ دراصل شاعر نے اپنے قلبی احساسات کو واضح اور آشکار انداز میں بیان کرنے کے لیے تشبیہ کا سہارا لیا ہے ۔ تشبیہ: مشترک صفت یا صفات کی بنا پر دو یا چند چیزوں کوایک دوسرے کی مانند قرار دینا تشبیہ کہلاتا ہے ۔ ارکان تشبیہ : تشبیہ چار ارکان پر مشتمل ہوتی ہے ۔ ۱ ۔ مشبہ: جس چیز کو کسی دوسری چیز کی مانند قرار دیا جائے ، اسے مشبہ کہتے ہیں ۔ مندرجہ بالا مثال میںچونکہ دل کو پتے کے مماثل قرار دیا گیا ہے ، اس لیے اس مثال میں دل ’’ مشبہ‘‘ ہے۔ ۲۔ مشبہ بہ:جس چیز سے کسی دوسری چیز کو تشبیہ دی جائے اسے مشبہ بہ کہتے ہیں ۔ مندرجہ بالا مثال میں برگ یعنی پتا’’ مشبہ بہ‘‘ ہے ۔ ۳۔ ادات تشبیہ:وہ الفاظ و کلمات جن کی مدد سے ایک چیز کو کسی دوسری چیز سے تشبیہ دی جائے ، ادات تشبیہ کہلاتے ہیں ۔ مذکورہ بالا مثال میں کلمہ ’’چو‘‘ ادات تشبیہ ہے ۔ چو ، چون ، مثل ، مانند … مشہور ادات تشبیہ ہیں ۔ ۴۔ وجہ تشبیہ: وہ مشترکہ خوبی یا صفت جس کی بنا پر ایک چیز کو کسی دوسری چیز کی مانند قرار دیا جائے وجہ تشبیہ کہلاتی ہے ۔ مثلاً مذکورہ بالا مثال میں لرزنا وجہ شبہ ہے۔ طرفین تشبیہ: شاعر اپنی بات میں گہرائی اور حسن پیدا کرنے کے لیے بعض اوقات وجہ شبہ یا ادات تشبیہ یا ان دونوں کو حذف کرسکتاہے ۔ لیکن کسی بھی تشبیہ کے لیے ’’مشبہ‘‘ اور ’’مشبہ بہ ‘‘ کا ہونا لازمی ہے ۔ جنہیں ارکان تشبیہ کا نام دیا جاتا ہے ۔ تشبیہ کی اقسام: تشبیہ کی یوں تو بہت سی اقسام میںسے اہم ترین تشبیہ مطلق اور تشبیہ بلیغ ہیں ۔ تشبیہ مطلق: ایسی تشبیہ جس میںسبھی ارکان تشبیہ یعنی مشبہ ، مشبہ بہ ، وجہ تشبیہ اور ادات تشبیہ مذکور ہوں تشبیہ مطلق کہلاتی ہے جو فارسی شاعری میں تشبیہ کی رائج ترین قسم ہے ۔ تشبیہ بلیغ: ایسی تشبیہ جس میں وجہ شبہ اور ادات تشبیہ دونوں کو حذف کر دیاجائے اور محض طرفین تشبیہ یعنی مشبہ اور مشبہ بہ مذکور ہوں ، تشبیہ بلیغ کہلاتی ہے ۔ اقبال کے ہاں تشبیہ بلیغ کی نہایت خوبصورت مثالیں ملتی ہیں ۔ ناقدین سخن نے تشبیہ بلیغ کو تشبیہ کی معراج اور استعارے کے قریب قرار دیا ہے ۔ مشق: درج ذیل اشعار میں تشبیہ کی نشاندہی کیجیے : خوشا کسی کہ فرو رفت در ضمیر وجود سخن مثال گہر بر کشید و آسان گفت نکتہ ای می گویمت روشن چو دُر تا شناسی امتیاز عبد و حُر عشق ازین گنبد در بستہ برون تاختن است شیشہ ماہ ز طاق فلک انداختن است ھیچکس رازی کہ من گویم نگفت ھمچو فکر من دُرِ معنی نسفت عشق ناپید و خرد می گزدش صورت مار گرچہ در کاسۂ زر لعل روانی دارد مخور نادان غم از تاریکی شبھا کہ می آید چو انجم می درخشد داغ سیمایی کہ من دارم چہ کنم کہ فطرت من بہ مقام در نسازد دل ناصبور دارم چو صبا بہ لالہ زاری مثال لالہ فتادم بہ گوشۂ چمنی مرا ز تیر نگاھی نشانہ بر جگر است خوش آنکہ رخت خرد را بہ شعلۂ می سوخت مثال لالہ متاعی ز آتشی اندوخت بیار بادہ کہ گردون بہ کام ما گردید مثال غنچہ نواھا ز شاخسار دمید فرھنگ: انجم : ستارہ برگ : پتا حُر : آزاد خرد : عقل در : موتی سفتن : پرونا عبد : بندہ ، غلام فرو ریختن : گر جانا فلک: آسمان کاسہ : پیالہ گردون : آسمان گزیدن : ڈسنا، ڈنک مارنا گہر : موتی متاع : مال و دولت ناصبور : بے قرار نوا : آواز درس سوم: استعارہ بہر نفس کہ بر آری جہان دگرگون کن درین رباط کہن صورت زمانہ گذر رباط کہن (پرانی سرائے ) یہاں دنیا کے لیے استعارہ ہے۔ استعارہ کے لغوی معنی ادھار مانگنے کے ہیں اور ادبی اصطلاح میں کسی لفظ کا شباہت کی وجہ سے غیر حقیقی معنوں میں استعمال استعارہ کہلاتاہے ۔ جس لفظ کو استعاراتی مفہوم میں استعمال کیاجائے اسے مستعار منہ کہتے ہیں اور جس لفظ کے لیے استعمال کیاجائے ،اسے مستعارلہ کہتے ہیں ۔ گویا مندرنہ بالا مثال میں رباط کہن مستعار منہ اور دنیا مستعارلہ ہے۔ استعارہ کی کئی اقسام ہیں جن میں سے زیادہ مشہور درج ذیل ہیں : استعارہ سادہ: استعارہ کی اس قسم میں صرف مستعار منہ (مشبہ بہ) کا ذکر ہوتا ہے جبکہ شاعر کی مراد مستعارلہ (مشبہ ) ہوتا ہے ۔ استعارہ کنائی: جب صرف مستعار لہ کا ذکر کیاجائے اور مستعار منہ کے اجزائے میں سے کسی ایک کو قرینے کے طور پر لایا جائے اسے استعارۂ کنائی کہتے ہیں ۔ مندرجہ ذیل اشعار میں استعارہ کی نشاندہی کیجیے : ای غنچۂ خوابیدہ چونرگس نگران خیز کاشانۂ ما رفت بہ تاراج غمان خیز حسرت جلوۂ آن ماہ تمامی دارم دست بر سینہ نظر بر لب بامی دارم بہ ضمیرت آرمیدم تو بجوش خود نمایی بہ کنارہ بر فکندی دُر آبدار خود را سینۂ آزادۂ چابک نفس طایر ایام را گردد قفس عشق بر ناقۂ ایام کشد محمل خویش عاشقی؟ راحلہ از شام و سحر باید کرد چشم ھستی را مثال مردم است غیر را بینندہ و از خود گم است می تپد از سوز من ، خون رگ کائنات من بہ دو صرصرم ، من بہ غو تندرم فرھنگ: بام : چھت دُرِ آبدار : چمکتا ہوا موتی طایر : پرندہ غنچۂ خوابیدہ : سوئی ہوئی کلی قفس : پنجرہ کاشانہ : گھر؍ ٹھکانہ ماہ تمام : چودھویں کا چاند ؍ بدر محمل : کجاوہ ناقہ : اونٹنی درس چہارم: تشخیص خلوت اندر تن گزیند زندگی انجمن ھا آفریند زندگی اس شعر میںشاعر زندگی کو انسان تصور کرتے ہوئے تنہائی اختیار کرنا اور بزم آرائی جیسے انسانی افعال کو اس سے منسوب کر رہا ہے ۔ تشخیص: بے جان اشیاء یا مظاھر فطرت سے انسانی صفات منسوب کرناتشخیص کہلاتا ہے ۔ مشق: مندرجہ ذیل اشعار میںتشخیص کی نشاندہی کیجیے۔ راہ شب چون مہر عالمتاب زد گریۂ من بر رخ گل آب زد عشق صیقل می زند فرھنگ را جوھر آئینہ بخشد سنگ را من ندیدم چہرۂ معنی ھنوز آتشی داری اگر ما را بسوز اگرچہ عقل فسون پیشہ لشکری انگیخت تو دل گرفتہ نباشی کہ عشق تنہا نیست کم سخن غنچہ کہ در پردۂ دل رازی داشت در ھجوم گل و ریحان غم دم سازی داشت خیال من بہ تماشای آسمان بود است بدوش ماہ و بہ آغوش کہکشان بود است بیا کہ بلبل شوریدہ نغمہ پرداز است عروس لالہ سراپا کرشمہ و ناز است فرھنگ: انجمن : محفل خلوت : تنہائی رُخِ گل : پھول کا چہرہ سنگ : پتھر شوریدہ : بے قرار ؍ بے چین عالمتاب : دنیا کو روشن کرنے والا عروس : دلہن فرھنگ : ثقافت فسون : جادو، فسون پیشہ : جادوگر کم سخن : کم بولنے والا گُزیدن : اختیار ؍ انتخاب کرنا مہر : سورج درس پنجم: مجاز عصر من دانندۂ اسرار نیست یوسف من بہر این بازار نیست اس شعر کو غور سے پڑھیے عصر یعنی زمانہ تو جاننے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔ لہذا یہاں عصرمن سے مراد شاعر کے ہم عصر لوگ ہیں ۔ مجاز: کسی لفظ کا اپنے غیر حقیقی معنوں میں استعمال جب کہ حقیقی اور غیر حقیقی معنوں میں تشبیہ کے علاوہ کوئی اور تعلق پایا جائے ۔ یہ تعلق ادبی اصطلاح میں ’علاقہ‘ کہلاتا ہے جس کی رو سے مجاز کی کئی اقسام ہیں ۔ مثلاً علاقۂ جز و وکل، علاقۂ خاص و عام ، علاقۂ لازم و ملزوم، علاقۂ سبب و مسبب وغیرہ۔ مشق: مندرجہ ذیل اشعار میں مجاز کی نشاندہی کیجیے : ای کہ گفتی نکتہ ھای دلنواز مشرق از گفتار تودانای راز ملوکیت سراپا شیشہ بازی است ازو ایمن نہ رومی نہ حجازی است برھمنی بہ غزنوی گفت کرامتم نگر تو کہ صنم شکستہ ئی بندہ شدی ایاز را با دل ما چہا کنی توکہ ببادہ ی حیات مستی شوق می دھی آب و گل پیالہ را بہ فغان نہ لب گشودم کہ فغان اثر ندارد غم دل نگفتہ بہتر ھمہ کس جگر ندارد کس ازین نگین شناسان نگذشت برنگینم بہ تو می سپارم او را کہ جھان نظر ندارد فرھنگ: آب و گل : پانی اور مٹی بادہ : شراب حیات : زندگی دانایِ راز : بھید جاننے والا صنم : بت عصر : زمانہ فغان : فریاد ملوکیت : بادشاہت نگین شناس : جوھر شناس درس ششم: تلمیح نا امیداستم ز یاران قدیم طور من سوزد کہ می آید کلیم یہ شعر پڑھ کر حضرت موسیٰ کلیم اﷲ کا معجزۂ طور ذہن میں تازہ ہو جاتا ہے ۔ ادبی اصطلاح میں یوں کسی تاریخی واقعے کی طرف اشارہ کرنا ’’تلیمح‘‘ کہلاتا ہے ۔ تلمیح: لغت میں آنکھ سے اشارہ کرنے اور فن بدیع کی اصطلاح میں کسی معروف تاریخی واقعے ، داستان ، آیت ، حدیث یا قول کی طرف اشارہ کرنے کو تلمیح کہتے ہیں ۔ مشق: مندرجہ ذیل اشعار میں تلمیح کی نشاندہی کیجیے۔ بہر نرخی کہ این کالا بگیری سودمند افتد بہ زور بازوی حیدر بدہ ادراک رازی را ھمچو سرو آزاد فرزندان او پختہ از قالو بلیٰ پیمان او دگر از شنکر و منصور کم گوی خدا راھم بہ راہ خویشتن جوی گفت قاضی فی القصاص آمد حیات زندگی گیرد بہ این قانون ثبات چون درفش کاویانی چاک شد آتش اولاد ساسان خاک شد آنکہ بر اعدا در رحمت کشاد مکہ را پیغام لا تثریب داد فرھنگ: ادراک : شعور ؍ سمجھ بوجھ اعدا : عدو کی جمع ؍ دشمن درفش : جھنڈا ؍ پرچم قالو بلیٰ : انہوں نے کہا کہ کیوں نہیں ؟روز ازل روحوں سے جو عہد و پیمان ہوا ۔ اس طرف اشارہ ہے ۔ اﷲ تعالیٰ نے روحوں کو مخاطب کر کے فرمایا : الست بربکم ، کیا میںتمہارا پالنے والا نہیں ہوں ۔ جواب میں روحوں نے کہا ۔ کہ کیوں نہیں ، توہی ہمارا رب ہے ۔ کالا : ساز و سامان لا تثریب : نہیں کوئی سرزنش تم پر ۔فتح مکہ کے موقع پر آنحضرتؐ نے تمام اھل مکہ کے لیے عام معافی کا اعلان فرمایا ۔ درس ہفتم: اقبال کے ہاں فارسی شاعری کی اصناف کلاسیکل فارسی شاعری میں’’قافیہ‘‘ بے پناہ اہمیت کا حامل ہے جو دراصل اشعار کی صنف کا تعین کرتا ہے ، کلاسیکل فارسی شاعری کی اہم ترین اصناف میں قصیدہ ، غزل ، مثنوی ، رباعی ، دو بیتی اور قطعہ شامل ہیں ۔ قصیدہ: فارسی شاعری کے زمانۂ آغاز یعنی تیسری صدی ھجری کے وسط ہی سے قصیدہ ، مقبول اور رائج صنف سخن رہا ہے ؛ جو عربی شاعری کے اثرات کی نشاندہی کرتا ہے ۔ قصیدہ تیسری صدی ہجری سے گیارھویں صدی ہجری تک کہا جاتا رہا ، لیکن جدید دور میں اس کا رواج تقریباً ختم ہو چکا ہے ، تیسری سے چھٹی صدی ہجری تک کا زمانہ قصیدے کاسنہری دور ہے ۔ اقبال کی فارسی شاعری میں اس صنف سخن کا کوئی سراغ نہیں ملتا ۔ قصیدے میں پہلا شعر مُصرَّع ہوتا ہے اور پھر ہر دوسرے مُصرَّع میں قافیہ دکھائی دیتا ہے ۔ بالعموم پندرہ یا زائد اشعار ہی قصیدہ کہلاتے ہیں ۔ پہلے شعر کو مطلع اور آخری شعر کو مقطع کہتے ہیں ۔ قصیدہ مندرجہ ذیل چار بنیادی اجزا پر مشتمل ہوتا ہے : الف۔ تشبیب: قصیدے کا ابتدائی حصہ جس میں بالعموم عاشقانہ مضامین اور بعض اوقات مناظر فطرت یا موسم کی تعریف بیان کی جاتی ہے اسے تغزّل بھی کہتے ہیں ۔ ب۔ گریز : تمہید اور مدح کے درمیان آنے والے ایک یا دو شعر جو ان دو حصوں میں ربط اور ھم آھنگی پیدا کرتے ہیں ۔ ج۔ مدعا: شاعر کا اصلی ھدف اور قصیدے کا بنیادی حصہ ، جو حقیقی موضوع کا پتا دیتا ہے ۔ فارسی شاعری میں مدح ، سوگ ، عرفان و تصوف ، پندو نصائح ، عشق و مستی اور مناظر فطرت کی تعریف میں قصائد ملتے ہیں ۔ د۔ شریطہ و دعا: قصیدے کا آخری حصہ جس میں شاعر ممدوح یامحبوب کے لیے دعائیہ کلمات ادا کرتا ہے ۔ رودکی سمرقندی ، فرخی سیستانی، منوچہری دامغانی ، ناصر خسرو قبادیانی ، مسعود سعد سلمان، انوری ، خاقانی شروانی ، سعدی شیرازی ، قاآنی شیرازی ، ملک الشعرا علامہ محمد تقی بہار فارسی کے عظیم قصیدہ گو شعرا میں شمار ہوتے ہیں ۔ مشق : {درود بہ پاکستان} قصیدۂ ملک الشعرا بہار ھمیشہ لطف خدا باد یار پاکستان بہ کین مباد فلک با دیار پاکستان سزد کراچی و لاھور قبۃ الاسلام کہ ھست یاری اسلام کار پاکستان مدام تشنۂ صلح است ملتّش ھر چند کہ نیست کم ز کسی اقتدارِ پاکستان تپد چو طفل ز مادر جدا دل کشمیر کہ سر ز شوق نہد در کنار پاکستان ز سویِ مردم ایران ھزار گونہ درود بہ ساکنان سعادت مدارِ پاکستان ز ما درود بر آن روح پر فتوح بزرگ جناح رھبر والا تبارِ پاکستان درود باد بہ روح مطہر اقبال کہ بود حکمتش آموزگار پاکستان ھزار بادۂ ناخوردہ وعدہ داد کہ ھست ازان یکیش می بی خمار پاکستان گمان مبر کہ بود بیشتر از ایرانی کسی بہ رویِ زمین دوستدار پاکستان بہ یادگار بہار این قصیدہ گفت و نوشت ھمیشہ لطف خداباد یار پاکستان فرھنگ: آموزگار : استاد ؍ سکھانے والا تپیدن : تڑپنا تشنۂ صلح : صلح کا پیاسا حکمت : دانائی خمار : مستی درود : سلام ؍ سلامتی دوستدار : محبت کرنے والا رھبر : راھنما ؍ قائد فلک : آسمان کنار : آغوش کین : دشمنی لطف خدا : خداکی مہربانی ؍ لطف و کرم مباد : ایسا نہ ہو مطہر : پاکیزہ درس ہشتم: غزل غزل اور قصیدے کی ظاھری ساخت میں کوئی فرق نہیں ، بلکہ قصیدے کے ابتدائی اشعار یعنی تشبیب یا تغزل ہی غزل کی بنیاد بنے ۔ لیکن اس صنف سخن میں اشعار کی تعداد نسبتاً کم ہوتی ہے ۔ ناقدین ایک مکمل غزل کے لیے کم از کم پانچ اشعار کی شرط عائد کرتے ہیں ۔ شاعر سات ، نو یا گیارہ اشعار پر مشتمل غزل بھی کہہ سکتا ہے ۔ مولانا روم نے غیر معمولی طویل غزلیات بھی کہی ہیں ۔ حسن و عشق اور عرفان و تصوف کے ساتھ ساتھ سماجی مسائل بھی فارسی غزل کا اھم موضوع رہے ہیں ، غزل کے عروج کا زمانہ چھٹی صدی ہجری کے بعد کا عہد ہے اور آج تک اسے مقبول ترین صنف سخن کا درجہ حاصل ہے ۔ مولانا روم ، سعدی شیرازی ، امیر خسرو ، حافظ شیرازی ، نظیری نیشاپوری اور صائب تبریزی کو غزلگوئی میں نمایاں مقام حاصل ہے ۔ اقبال کے فارسی کلام میں فنی اعتبار سے عمدہ اور فکری اعتبار سے بے مثال غزلیات ملتی ہیں ۔ مجموعی طور پر اقبال کو فارسی غزل کے اہم ترین شعراکی صف میں شامل کیا جا سکتاہے ۔ اقبال کی غزلیات میں بعض دیگر عظیم شعرا کی جھلک دکھائی دیتی ہے ۔ جس کا جائزہ آئندہ اسباق میں پیش کیا جارہا ہے ۔ مشق: من بندۂ آزادم عشق است امام من عشق است امام من عقل است غلام من ھنگامۂ این محفل از گردشِ جام من این کوکب شام من این ماہ تمام من جان در عدم آسودہ بی ذوق تمنا بود مستانہ نواھا زد در حلقۂ دام من ای عالم رنگ و بو این صحبت ما تا چند مرگ است دوامِ تو ، عشق است دوام من پیدا بہ ضمیرم او پنہان بہ ضمیرم او این است مقام او دریاب مقام من مندرجہ بالااشعار ۱: فارسی شاعری کی کون سی صنف سخن ہیں ؟ ۲: مطلع ، مقطع ، ردیف ، قافیہ اور کلماتِ قافیہ کی نشاندہی کریں ۔ ۳: ادبی اصطلاحات کو الگ کریں ۔ فرھنگ: پنہان : پوشیدہ ؍ چھپا ہوا تمنا : آرزو جام : پیالہ دام : جال دریافتن:پالینا دوام : ھمیشگی صحبت: گفتگو عالمِ رنگ و بو: رنگ و خوشبو کی دنیا کوکب : ستارہ ماہ : چاند درس نہم: اقبال کی غزل گوئی اقبال نے غزل گوئی میں فارسی کے بعض عظیم شعرا کی پیروی کی ہے ، جن میں مولانا روم ، سعدی شیرازی ،امیر خسرو ، حافظ شیرازی ، فغانی شیرازی ، نظیری نیشاپوری ، صائب تبریزی اور غالب دھلوی بے حد نمایاں ہیں ۔ یاد رہے کہ اقبال نے اگرچہ فنی اعتبار سے ان شعرا کے اثرات قبول کیے لیکن فکری سطح پر اقبال کا انداز اور اسلوب منفرد اور بے مثال ہے ۔ ذیل میں اقبال اور دیگر شعرا کی غزلیات کا تطبیقی مطالعہ پیش کیا جاتا ہے ۔ جس سے اس عظیم فلسفی شاعر کے فکری اور فنی اسلوب کو سمجھنے میں مدد ملے گی ۔ اقبال اور مولانا روم (۱) مولانا جلال الدین محمد ، ۶۰۴ ھ ق میں موجودہ افغانستان کے شہر بلخ میں ، اس عہد کے معروف مفتی و فقیہ بہاء الدین ولد کے ہاں پیدا ہوئے ۔ ان کے لڑکپن ہی میں یہ خاندان ھجرت کر کے موجودہ ترکی کے شہر قونیہ میں آباد ہو گیا ۔ ۶۲۸ھ میں والد کی وفات کے بعد مسند وعظ و ارشاد سنبھالی ۔ لیکن ۶۴۲ھ میں ایک مجذوب درویش شمس تبریزی سے ملاقات نے انہیں ایک عارف وارستہ ، عاشق شیفتہ اور شاعر باکمال کے روپ میں ڈھال دیا ۔ شمس سے وصال اور ھجر و فراق کی کیفیات کا پرتو کلیات شمس کی صورت میں ہمارے سامنے ہے ۔ ان کے ایک مرید حسام الدین چلپی نے انہیں سنائی غزنوی کی حدیقۃ الحقیقۃ اور عطار نیشاپوری کی منطق الطیر کی پیروی میں مثنوی لکھنے پر آمادہ کیا ، اور یوں فارسی ادب کا لافانی شاھکار وجود میں آیا ۔ مولانا نے ۶۷۲ھ میں قونیہ میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے ۔ اقبال کی شاعری پر مولانا روم کے اثرات کسی بھی دوسرے شاعر ، مفکر یا فلسفی سے کہیں زیادہ ہیں بلکہ وہ انہیں اپنا مرشد معنوی قرار دیتے ہوئے پیر رومی کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ مشق: غزل مولانا بنمای رخ کہ باغ و گلستانم آرزوست بگشای لب کہ قند فراوانم آرزوست زین ھمرھان سست عناصر دلم گرفت شیر خدا و رستم دستانم آرزوست دی شیخ با چراغ ھمی گشت گردِ شہر کز دیو و دد ملولم و انسانم آرزوست گفتند یافت می نشود جستہ ایم ما گفت آنک یافت می نشود آنم آرزوست باقی این غزل را ای مطربِ ظریف زین سان ھمی شمار کہ زین سانم آرزوست غزل اقبال تیر و سنان و خنجر و شمشیرم آرزوست با من میا کہ مسلک شبیرم آرزوست از بہرِ آشیانہ خس اندوزیم نگر باز این نگر کہ شعلۂ در گیرم آرزوست گفتند لب ببند و ز اسرارِ ما مگو گفتم کہ خیر نعرۂ تکبیرم آرزوست گفتند ھر چہ در دلت آید ز ما بخواہ گفتم کہ بی حجابیِ تقدیرم آرزوست کو آن نگاہِ ناز کہ اول دلم ربود عمرت دراز باد ھمان تیرم آرزوست مشق: ان غزلیات میں سے ادبی اصطلاحات اور مشترکات کی نشاندہی کریں ۔ فرھنگ: بی حجاب : بے پردہ خس : تنکا خیر : نہیں دی : دیشب : گذشتہ رات رخ ۔ چہرہ گشودن ۔ کھولنا مسلک : راستہ مطرب : موسیقار ؍ ساز بجانے والا نمودن ۔ دکھانا کُو : کہاں ربودن : چرا لینا اقبال اور مولانا رومؒ: غزل مولانا جانا نظری فرما چون جانِ نظرھایی چون گویم و دل بردی چون عینِ دل مایی ای یار بکش دستم آنجا کہ تو آنجایی ای روح چہ می ترسی روحی نہ تن و نفسی تن معدنِ ترس آمد تو عیش و تماشایی صبحا نفسی داری سرمایۂ بیداری برخفتہ دلان بردم انفاسِ مسیحایی شمس الحق تبریزی خورشید چو استارہ در نور تو گم گردد چون شرق بر آرایی غزل اقبال این گنبدمینائی این پستی و بالایی در شد بہ دلِ عاشق با این ھمہ پہنایی اسرارِ ازل جویی؟برخود نظری وا کن یکتایی و بسیاری ، پہنایی و پیدایی بر خیز کہ فروردین افروخت چراغِ گل برخیز و دمی بنشین بالالۂ صحرایی عشق است و ھزار افسون حسن است ھزارآئین نی من بہ شمار آیم نی تو بہ شمار آیی ھم با خود و ھم بااوھجران کہ وصال است این؟ ای عقل چہ می گویی ای عشق چہ می فرمایی مشق: مندرجہ بالا غزلیات میں سے ادبی اصطلاحات کی نشاندھی اورمشترکات کو بیان کیجئے ۔ فرھنگ: افسون : جادو افشاندن : چھڑکنا انفاس : نفس کی جمع ، سانس آسودن : آرام کرنا پا کوفتن : پاؤں مارنا ؍ دھمال ڈالنا؍ رقص کرنا پہنائی : وسعت ترسیدن : ڈرنا جستن : ڈھونڈنا خاییدن:چبانا شعبدہ : جادو ؍ کرتب فروردین : ایرانی تقویم کا پہلا مہینہ(۲۱ مارچ سے ۲۰ اپریل تک) ، موسم بہار کا آغاز کشیدن : کھینچنا لحظہ : لمحہ معدن : کان درس د ھم : اقبال و سعدی شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی (۶۰۶ھ ۔ ۶۹۱ھ) کا شمار فارسی شعر و ادب کی تاریخ کے ممتاز ترین ناموں میں ہوتا ہے ، جن کے عظیم منشور و منظوم آثار گذشتہ سات صدیوں سے اپنی اہمیت و افادیت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں ۔ سعدی شیراز کے مردم خیز شہر میں پیدا ہوئے ۔ بچپن ہی میں والد کے سایۂ شفقت سے محروم ہو گئے ۔ بعدازاں بغداد کے مدرسہ نظامیہ میں بھی زیر تعلیم رہے ۔ سعدی نے زندگی کے تقریباً پچاس برس سیرو سیاحت میں بسر کیے جس کے گہرے اثرات ان کی تحریروں میں بھی نمایاں ہیں ۔ بعد ازاں شیراز میں مستقل سکونت اختیار کی اور اتابکان فارس میں سے ایک ابوبکر سعدالدین زنگی کے حوالے سے سعدی تَخَلُّص اختیار کیا ۔ ۶۵۵ھ میں اخلاقی مثنوی ’’بوستان‘‘ اور ۶۵۶ھ میں عظیم نثری شاھکار ’’گلستان‘‘ کو تحریر کیا ۔ اسی سال بغداد کی عباسی سلطنت ھلاکو خان کے ھاتھوں اختتام کو پہنچی ، اس موقع پر سعدی نے سقوطِ بغداد پر زور دار مرثیہ بھی کہا ۔ سعدی ایک قادر الکلام شاعر ہیں ۔ تمام ناقدین انہیں فارسی زبان کا مسلم الثبوت استاد اور فصیح ترین شاعر و ادیب تسلیم کرتے ہیں ۔ انہیں اخلاقی شاعری کے حوالے سے بھی بے حد اھم مقام حاصل ہے۔ عاشقانہ غزل کہنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ۔ جبکہ قطعہ نگاری کو بھی انہوںنے نقطۂ کمال تک پہنچا دیا ۔ اگرچہ اقبال اور سعدی کی غزلیات میں فکری اعتبار سے مماثلت نہیں پائی جاتی لیکن فنی مشترکات ضرور ملتے ہیں ۔ غزل سعدی دلی کہ عاشق و صابر بود مگر سنگ است ز عشق تا بہ صبوری ھزار فرسنگ است برادرانِ طریقت نصیحتم مکنید کہ توبہ در رہِ عشق آبگینہ بر سنگ است چہ تربیت شنوم یا چہ مصلحت بینم؟ مرا کہ چشم بہ ساقی و گوش بر چنگ است بہ خشم رفتۂ ما را کہ می برد پیغام؟ بیا کہ ما سپر انداختیم اگر جنگ است ملامت از دلِ سعدی فرونشوید عشق سیاھی از حبشی چون رود کہ خود رنگ است غزل اقبال بیاکہ ساقی گلچہرہ دست بر چنگ است چمن ز بادِ بہاران جواب ارژنگ است نگاہ می رسد از نغمۂ دل افروزی بہ معنی ای کہ برو جامۂ سخن تنگ است ز عشق درس عمل گیر و ھرچہ خواھی کن کہ عشق جوھر ھوش است و جانِ فرھنگ است ز خود گذشتہ ای ،ای قطرۂ محال اندیش شدن بہ بحر و گہر برنخاستن ننگ است تو قدرِ خویش ندانی بہا ز تو گیرد وگرنہ لعل درخشندہ پارۂ سنگ است مشق: مذکورہ غزلیات میں ادبی اصطلاحات اور مشترکات کا جائزہ لیں ۔ فرھنگ: ارژنگ : ساسانی دور کے عظیم مصور مانی کی تصویری کتاب کا نام ۔ جسے وہ دعویٰ پیغمبری کے ثبوت کے طور پر پیش کرتا تھا ۔ باعث ننگ: باعث شرم بحر : سمندر بی مشاھدہ : بغیر دیکھے پارہ : ٹکڑا چنگ : رباب ، آلۂ موسیقی خشم : غصہ درخشندہ : چمکتا ہوا سپر : ڈھال سنگ : پتھر صبور: صبر فراخنای : وسعت فرھنگ : ثقافت گلچہرہ : پھول سے چہرے والا نیرنگ : جادو ہوش : ذہانت درس یازدھم: اقبال و عراقی فخر الدین عراقی ساتویں صدی ھجری کے نامور غزل گو شاعر ہیں ۔ جذبۂ عشق ان کی غزلیات کا اھم ترین موضوع ہے ۔ اگرچہ ان کا تعلق ھمدان سے تھا لیکن عشق کی کشش کے زیر اثر ملتان آ پہنچے اور تصوف میں وہ مقام و مرتبہ حاصل کیا کہ سہروردی سلسلے کے عظیم صوفی حضرت بہاء الدین زکریاملتانیؒ سے خرقۂ خلافت پایا ۔ مرشد کے وصال کے بعد شام کا سفر اختیار کیا اور ۶۸۸ھ میں دمشق میں انتقال فرمایا اور محی الدین ابن عربی کے پہلو میں دفن ہوئے ۔ ان کے کلام میں سادگی اور سلاست نمایاں ہے وہ سوز درون اور باطنی کیفیات کے اظہار پر قادر دکھائی دیتے ہیں ۔ اقبال نے بھی انہی کیفیات کے ابلاغ کے لیے عراقی کے اثرات قبول کیے ہیں ۔ غزل عراقی نخستین بادہ کاندر جام کردند ز چشم مستِ ساقی وام کردند بہ گیتی ھر کجا دردِ دلی بود بہم کردند و عشقش نام کردند جمالِ خویشتن را جلوہ دادند بہ یک جلوہ دو عالم رام کردند نہان بامحرمی رازی بگفتند جہانی را از آن اعلام کردند چوخود کردند راز خویشتن فاش عراقی را چرا بدنام کردند؟ غزل اقبال فنا را بادۂ ھر جام کردند چہ بیدردانہ او را عام کردند تماشا گاہ مرگ ناگہان را جہان ماہ و انجم نام کردند اگر یک ذرہ اش خوی رم آموخت بہ افسون نگاھی رام کردند قرار از ما چہ می جویی کہ مارا اسیرِگردش ایام کردند خودی در سینۂ چاکی نگہدار ازاین کوکب چراغِ شام کردند مشق: مندرجہ بالا غزلیات میں ادبی اصطلاحات اور مشترکات کی نشاندھی کریں ۔ فرھنگ: اعلام کردن: اعلان کرنا افسون : جادو انجم : ستارہ بادہ : شراب بہم کردن : اکٹھا کرنا خوی رم : عادت گریز پائی کوکب : ستارہ گیتی : دنیا ماہ : چاند محرم : راز دار ناگہان : اچانک نخستین : سب سے پہلا وام کردن: ادھار لینا درس دوازدھم : اقبال اور خسرو یمین الدولہ ابوالحسن امیر خسرو دھلوی (۶۵۱ھ ۔ ۷۲۵ ھ) برصغیر کے فارسی شعرا میں ممتاز ترین مقام کے حامل ہیں ۔ انہیں جو شہرت و مقبولیت میسر آئی وہ بالخصوص برصغیر کے کسی دوسرے شاعر کو نصیب نہ ہوئی ۔ امیر خسرو نے اپنے فصیح و بلیغ کلام سے ثابت کر دیا کہ فارسی شاعری صرف اھل زبان ہی کا خاصہ نہیں ۔ بقول شبلی نعمانی امیر خسرو کی غزل خمخانۂ سعدی ہی کی شراب ہے جو دو آتشہ ہو گئی ہے ۔ سعدی نے فارسی غزل کو جذبے کی سچائی ، زبان کی سادگی ، سوز و گداز اور بے تکلف اندازِ بیان عطا کیا ، یہ تمام محاسن خسرو کے ھاں بھی موجود ہیں اور مستزاد یہ کہ چھوٹی بحروں میں نہایت اختصار اور بے ساختگی کے ساتھ جذبات و احساسات کی ترجمانی خسرو ہی کا خاصہ ہے ۔ اقبال کے ہاں خسرو کی پیروی میں متعدد غزلیات ملتی ہیں جو بیشتر صوفیانہ اور عارفانہ مفاھیم کی حامل ہیں ۔ غزل خسرو ھمہ شب فرو نیاید بہ دلم کرشمہ سازی ز شب است اینکہ دارم غم و نالۂ درازی بہ جفا کلاہِ کج نہ چو شناختی حدِ خود کہ میان شاھسواران چو تونیست شاھبازی ھمہ شب چو شمع باشم بہ چنین خیال پختن کہ طفیل شمع پیشت بودم شبی گدازی چو ندارم این سعادت کہ بہ گریہ پات شویم ز پی رہِ تو شستن من و گریہ نیازی ھمہ خونست اشک خسرو ، ھمہ این بود ضرورت پسر سبکتگین را چو بہ دل بود ایازی غزل اقبال بہ ملازمان سلطان خبری دھم زرازی کہ جہان توان گرفتن بہ نوای دلگدازی بہ متاعِ خود چہ نازی کہ بہ شہر درد مندان دل غزنوی نیرزد بہ تبسم ایازی ھمہ ناز بی نیازی ھم ساز بی نوایی دل شاہ لرزہ گیرد ز گدای بی نیازی ز مقام من چہ پرسی بہ طلسم دل اسیرم نہ نشیب من نشیبی نہ فرازِ من فرازی رہ عاقلی رھا کن کہ بہ او توان رسیدن بہ دل نیاز مندی بہ نگاہ پاکبازی مشق: مندرجہ بالا غزلیات میں ادبی اصطلاحات اور مشترکات کی نشاندھی کریں ۔ فرھنگ: فرود آمدن : نیچے آنا اشک : آنسو پسر سبکتگین : مراد سلطان محمود غزنوی تبسم : مسکراہٹ تغافل : غفلت چپ و راست: بایاں اور دایاں ستیز : لڑائی سعادت: خوش بختی شستن : دھونا طلسم دل : دل کا جادو فراز: بلندی کج : ٹیڑھا کلاہ : پگڑی گنجیدن: سمانا متاع : دولت نشیب: پستی نوای دلگداز : دل کو پگھلا دینے والی آواز درس سیزدھم: اقبال و حافظ فارسی شاعری کی تاریخ کے عظیم ترین غزلگو خواجہ شمس الدین حافظ شیرازی ، آٹھویں صدی ھجری کے تیسرے عشرے کے اواخر میں شیراز میں پیدا ہوئے اور اسی صدی کی آخری دہائی میں داعی اجل کو لبیک کہا اور شیراز ھی میں ان کی آخری آرامگا ہ ہے ۔ ناقدین سخن اور اھل علم و ادب متفقہ طور پر حافظ کی غزلیات کو فارسی شاعری کی معراج قرار دیتے ہیں ۔ ان کی شعر گوئی کے بارے میں افسانوی روایات مشہور ہیں ۔ انہیں غیر معمولی شہرت و مقبولیت کی بنا پر لسان الغیب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ چنگیز اور ھلاکو کے ہاتھوں عالم اسلام بالخصوص ایران کی تباہی و بربادی اور دگرگون سماجی و معاشرتی حالات کی بنا پر حافظ کے ہاں فلسفہ جبر کے رجحانات ملتے ہیں ، جو اقبال کی متحرک اور انقلابی سوچ سے متصادم ہیں ، غالباً اسی بنا پر اقبال نے ’’الحذر از حافظ صہباگسار‘‘ کہہ کر اپنے عہد کے مسلمانوں کو کلام حافظ پر حاوی یاسیت سے دور رہنے کا مشورہ دیا لیکن انہیں فارسی شاعری میں حافظ کے بلند مقام کو تسلیم کرنے میں کوئی باک نہیں ، یہاں تک کہ اقبال پکار اٹھتے ہیں کہ غزل کہتے ہوئے گویا حافظ کی روح میرے اندر حلول کر جاتی ہے ۔ جس سے اقبال کی شاعری پر حافظ کے گہرے اثرات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ غزل حافظ زاھدِ ظاھر پرست از حالِ ما آگاہ نیست در حق ما ھر چہ گوید جای اکراہ نیست در طریقت ھر چہ پیش ِ سالک آید خیر اوست در صراطِ مستقیم ، ای دل ، کسی گمراہ نیست چیست این سقفِ بلندِ سادۂ بسیار نقش زین معما ھیچ دانا در جہان آگاہ نیست بر درِ میخانہ رفتن کار یک رنگان بود خود فروشان را بہ کوی می فروشان راہ نیست حافظ ار بر صدر نشیند ز عالی مشربی است عاشق دردی کش اندر بندِ مال و جاہ نیست غزل اقبال از نوا برمن قیامت رفت و کس آگاہ نیست پیش محفل جز بم و زیر و مقام و راہ نیست لب فروبند از فغان در ساز با دردِ فراق عشق تا آھی کشد از جذب خویش آگاہ نیست شعلہ ای می باش و خاشاکی کہ پیش آید بسوز خاکیان را در حریم زندگانی راہ نیست جرۂ شاھین بہ مرغان سرا صحبت مگیر خیز و بال و پر گشا پروازِ تو کوتاہ نیست در غزل اقبال احوال خودی را فاش گفت زانکہ این نو کافر از آئین دیر آگاہ نیست مشق : مندرجہ بالا غزلیات میں ادبی اصطلاحات اور مشترکات کی نشاندھی کریں ۔ فرھنگ: اکراہ : کراھت ؍ اجتناب اندام : بدن آمیختن : ملانا آئین : اصول بند : بندھن بندہ : غلام جرّۂ شاھین : عقاب کا بچہ خود فروش : خود کو بیچنے والا دائم : ہمیشہ دیر : بتکدہ دُرد : تلچھٹ زیروبم : اتار چڑھاؤ سقف : اندرونی چھت۔ شبتاب: جگنو شبستان : رات بسر کرنے کی جگہ فراق : جدائی ؍ ھجر فروبستن : بند کر دینا فغان : نالہ و فریاد کبر: بڑائی ؍ بزرگی مجال : حوصلہ مستقیم: سیدھا معما: پہیلی می فروش : شراب بیچنے والا نا تمام : نا مکمل درس چہار دھم: اقبال و جامی نور الدین ابوالبرکات عبدالرحمٰن جامی (۸۱۷ھ ۔ ۸۹۸ھ) نویں صدی ھجری کے عظیم صوفی شاعر ہیں ۔ بعض ناقدین سخن نے انہیں حافظ کے بعد کے دور کا سب سے بڑا شاعر قرار دیا ہے ، اور کچھ اھل نقد و تحقیق انہیں خاتم الشعرا بھی گردانتے ہیں۔ ان کی غزلیات میں عاشقانہ مضامین بھی ہیں اور عارفانہ و حکیمانہ مطالب بھی ۔ رسول اکرمؐ کی شان میں کہی گئی غزلیہ نعتیں بلاشبہ اپنی مثال آپ ہیں ۔ اقبال نے اسرار و رموز میں جامی کے بارے میں یوں اظہار خیال کیا ہے : کشتۂ انداز ملا جامی ام نظم و نثر او علاج خامی ام شعر لبریز معانی گفتہ است در ثنایِ خواجہ گوھر سفتہ است ’’نسخۂ کونین را دیباچہ اوست جملہ عالم بندگان و خواجہ اوست‘‘ سبک عراقی جامی پر ختم ہو جاتا ہے اور اس کے بعد سبک ھندی کا آغاز ہوتا ہے ۔ البتہ قابل ذکر ہے کہ خیال بندی کا اسلوب جو سبک ہندی کی خصوصیت اور پہچان ہے ، جامی کے کلام میں بھی پایا جاتا ہے ۔ جامی نے غزلگوئی میں سعدی شیرازی ، امیر خسرو ، حسن دھلوی اور کمال خجندی کی پیروی کی ہے ۔ اقبال کے ہاں جامی کے رنگ میں متعدد غزلیات ملتی ہیں ۔ غزل جامی بام بر آ و جلوہ دہ ماہِ تمام خویش را مطلع آفتاب کن گوشۂ بام خویش را با ھمہ می رسد غمت قسمت بندہ ھم بدہ خاص بہ دیگران مکن رحمت عام خویش را برد متاع ھستی اش زود بہ کشور عدم ھر کہ بہ دستِ عشق تو داد زمام خویش را بر من خستہ دل مزن طعنہ بہ مہر نیکوان صید کس دگر مخوان آھویِ دام خویش را جامی تشنہ لب کہ شد خاک ز شوقِ لعل تو بادہ خور و بر او فشان جرعۂ جام خویش را غزل اقبال بر سرِ کفر و دین فشان رحمت عام خویش را بند نقاب بر گشا ماہِ تمام خویش را زمزمۂ کہن سرای گردش بادہ تیز کن باز بہ بزم ما نگر آتش جام خویش را دام ز گیسوان بدوش زحمت گلستان بری صید چرا نمی کنی طایر بام خویش را دوش بہ راھبر زند راہ یگانہ طی کند می ندھد بہ دست کس عشق زمام خویش را قافلۂ بہار را طایرِ پیش رس نگر آنکہ بہ خلوت قفس گفت پیام خویش را مشق: مندرجہ بالا غزلیات میں ادبی اصطلاحات و خصائص اور دونوں شاعروں کے ہاں پائی جانے والی مشترکہ خوبیوں کا جائزہ لیں ۔ فرھنگ: آھو : ہرن بام : چھت جرعہ : گھونٹ خلوت : تنہائی دام : جال زمام : لگام ؍ باگ دوڑ زمزمۂ کہن : پرانا نغمہ صید : شکار طایر پیش رس : پہلے پہنچنے والا پرندہ قسمت : حصہ قفس : پنجرہ گیسو : زلفیں ماہ تمام : پورا چاند ؍ بدر مہر : محبت درس پانزدھم: اقبال اور فغانی بابا فغانی نویں صدی ھجری کے اواخر اور دسویں صدی ھجری کے اوائل کے مشہور شاعر بلکہ اپنے عہد کا عظیم ترین غزلگو ہیں ۔ پہلے ’’سکاکی‘‘ پھر’’ فغانی ‘‘ تَخَلُّص اختیار کیا ۔ فغانی نے حافظ کے اسلوب اور انداز میں اور معارف و حقائق کو عشق کی زبان میں بیان کیا ہے ، اس بنا پر محققین نے انہیں ’’حافظ کوچک‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ فغانی نے غزل کا ایک نیا اسلوب ایجاد کیا جسے ’’طرز فغانی‘‘ کہتے ہیں ۔ محتشم کاشانی ، نظیری نیشاپوری ، عرفی شیرازی اور وحشی بافقی جیسے عظیم شعرا نے فغانی کی پیروی میں شعر کہے ہیں ۔ دراصل فغانی کی شاعری سبک ھندی کا آغاز ہے ۔ اس کے ہاں نازک خیالی اور وقوع گوئی عام ہیں جو سبک ہندی کے بنیادی عناصر ہیں ۔ اقبال نے غزل گوئی میںفغانی سے بھی اثرات قبول کیے ہیں ۔ غزل فغانی نہ خوی نازکت از غیر دیگرگون شود روزی نہ این رشک از دل پر خون من بیرون شود روزی بہ بزمت داشتم جامی بہ صد شادی ندانستم کہ از چشم بدم این بادہ در دل خون شود روزی بہ چشم کم مبین ای عیب جو اشکِ نیازِ من کہ اندک اندک آب تنک جیحون شود روزی بہ مردن ھم ندارد رستگاری عاشقِ مسکین دلا این نکتہ ات معلوم از مجنون شود روزی ز بیم یار نفرینِ رقیبم بر زبان آمد فغانی این دعا شاید کہ بر گردون شود روزی غزل اقبال فروغ خاکیان از نوریان افزون شود روزی زمین از کوکب تقدیر ما گردون شود روزی خیال ما کہ او را پرورش دادند طوفانہا ز گردابِ سپہر نیلگون بیرون شود روزی یکی در معنی آدم نگر از من چہ می پرسی ھنوز اندر طبیعت می خلد موزون شود روزی چنان موزون شود این پیش پا افتادہ مضمونی کہ یزدان را دل از تأثیر او پُر خون شود روزی مشق: مذکورہ غزلیات میں ادبی خصائص کی نشاندہی کیجیے، نیز دونوںشعرا کے مشترکات کا جائزہ لیجئے ۔ فرھنگ: اندک : تھوڑا سا بیم : خوف خاکی : مراد انسان خلیدن : کھٹکنا دیگر گون شدن : درھم برھم ہو جانا رستگاری : نجات سپہر : آسمان شادی : خوشی عیب جو : عیب ڈھونڈنے والا کوکب تقدیر : تقدیر کا ستارہ گرداب : بھنور گردون : آسمان گلگون : پھول جیسا محب : محبت کرنے والا نوری : مراد فرشتہ یزدان : خدا درس شانزدھم : اقبال و عرفی جمال الدین عرفی شیرازی (۹۶۳۔ ۹۹۹ ھ ق) دسویں ھجری کا بے مثال شاعر ہے ۔ اگرچہ عرفی کی اصل وجہ شہرت قصیدہ گوئی ہے لیکن اس کی غزلیات بے حد لنشیں اور دلپذیر ہیں ۔ وہ خود بھی اپنے آپ کو ایک سچا غزل گو قرار دیتا ہے ۔ قصیدہ کہنے سے تو محض تن کی دنیا آباد ہوتی ہے جبکہ غزل گوئی سے دل کی دنیا پر بہار آتی ہے : قصیدہ کار ھوس پیشگان بود عرفی تو از قبیلۂ عشقی وظیفہ ات غزل است عرفی نے شیراز کے ایک عالی رتبہ خاندان میں جنم لیا ، پھر برصغیر کی راہ لی ، اس نے حکیم ابوالفتح گیلانی ، عبدالرحیم خانخانان ، شہنشاہ اکبر اور شہزادہ سلیم کی شان میں قصائد کہے ہیں ۔ عرفی ایک انا پسند اور خود پرست شاعر تھا جس کی واضح مثالیں اس کی شاعری میں جابجا ملتی ہیں ۔ عرفی نے عالم جوانی ہی میں لاھور میں داعی اجل کو لبیک کہا اور مشہورروایت کی رُو سے اپنی ایک پیش گوئی کے مطابق ایک درویش اس کی ھڈیوں کو سمیٹ کر نجف اشرف لے گیا ۔ بانگ درا میں ’’عرفی‘‘ کے عنوان سے ایک نظم موجود ہے ، جس کا مطلع کچھ یوں ہے : محل ایسا کیا تعمیر عرفی کے تخیل نے تصدق جس پہ حیرت خانۂ سینا و فارابی اقبال کے اردو و فارسی کلام پر عرفی کے اثرات خاصے نمایاں ہیں ۔ غزل عرفی خیز و بہ جلوہ آب دہ سرو چمن طراز را آب و ھوا زیاد کن باغچہ نیاز را صورت حال چون شود بر تو عیان کہ می برد ناز تو جنبش از قلم چہرہ گشای راز را تا حرم فرشتگان از دل و دین تہی شود رخصت جلوہ ای بدہ حجلہ نشین راز را ای کہ گشودہ چشم جان در طلب حقیقتی طرف نقاب بر فکن پردگی مجاز را شربت ناز را کند تلخ بہ کام دلبران عرفی اگر بیان کند چاشنی نیاز را غزل اقبال خیز و نقاب بر گشا پردگیان ساز را نغمہ تازہ یاد دہ مرغ نوا طراز را دیدۂ خوابناکِ او گریہ چمن گشودہ ای رخصتِ یک نظر بدہ نرگس نیم باز را حرف نگفتۂ شما بر لب کودکان رسید از من بی زبان بگو خلوتیان راز را گرچہ متاع عشق را عقل بہای کم نہد من ندھم بہ تخت جمِ آہ جگر گداز را برھمنی بہ غزنوی گفت کرامتم نگر تو کہ صنم شکستہ ای بندہ شدی ایاز را مشق : مذکورہ غزلیات میں سے ادبی اصطلاحات اور مشترکات کا بغور جائزہ لیجیے۔ فرھنگ: بہا : قیمت تہی : خالی حجلہ نشین : پردہ نشیں دیدۂ خوابناک : خواب آلود آنکھیں رخصت : اجازت عیان : آشکار کودکان : بچے متاع عشق : عشق کی دولت نیم باز : آدھی کھلی ہوئی درس ھفدھم: اقبال اور نظیری میرزا محمد حسین نیشاپوری (وفات : ۱۰۲۱ھ) دسویں اور گیارھویں صدی ھجری کے عظیم ترین شعرا میں سے ایک ہیں۔ بالخصوص غزلگوئی میں ان کا مقام بہت بلند ہے ۔ ان کی غزلیات میں عارفانہ سوچ بھی ملتی ہے اور فلسفیانہ افکار بھی ، واردات و کیفیات قلبی کا برملا اظہار بھی دکھائی دیتا ہے اور عشق و محبت کے اسرار و رموز بھی ۔ زبان صاف و سادہ ہے اور اندازِ بیان تیکھا ۔ وہ خود کوحافظ کا مقلد بھی کہتے ہیں ۔ اقبال نے نظیری سے گہرے اثرات قبول کیے ہیں ۔ بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اقبال کی بہترین غزلیات نظیری کی پیروی ہی میں کہی گئی ہیں اور بالخصوص انہی غزلیات میں اقبال ایک عظیم غزل گو شاعر کے روپ میں دکھائی دیتے ہے ۔ غزل نظیری گریزد از صفِ ما ھر کہ مردِ غوغا نیست کسی کہ کشتہ نشد از قبیلۂ ما نیست ز پای تا بہ سرش ناز و غمزہ در اعراض ھزار معرکہ و رخصتِ تماشا نیست بہ حکم عقل عمل در طریق عشق مکن کہ راہ دور کند رھبری کہ دانا نیست فلک سراسر بازارِ دھر غم چیدست نشاط نیست کہ یک جامی ھست یک جا نیست نظیری است بہ حالی ز غمزہ خونین تر بہ شکوہ تا دلت آزردہ است گویا نیست غزل اقبال ز خاک خویش طلب آتشی کہ پیدا نیست تجلی دگری درخور تقاضانیست بہ ملک جم ندھم مُصرَّعِ نظیری را کسی کہ کشتہ نشد از قبیلۂ ما نیست مرید ھمت آن رھروم کہ پا نگذاشت بہ جادہ ای کہ در و کوہ و دشت و دریانیست شریک حلقۂ رندانِ بادہ پیما باش حذر ز بیعت پیری کہ مرد غوغا نیست برھنہ حرف نگفتن کمال گویایی است حدیثِ خلوتیان جز بہ رمز و ایمانیست مشق : مذکورہ غزلیات میں ادبی اصطلاحات اور مشترکات کا جائزہ لیں ۔ فرھنگ: ایما : اشارہ آزردہ : غمگین بربط : ساز تجلّی : جلوہ جمال : خوبصورتی درخور بودن : شایان ِ شان ہونا دریا : سمندر دشت : جنگل ؍ صحرا دھر : دنیا رخصت : اجازت رمز : راز شکوہ : شکایت عذر : معذرت فرصت : وقت ؍ موقع کیش : دین ؍ مذہب مردِ غوغا: فریاد کرنے ولا شخص نشاط: خوشی ھوای وصل : ملاپ کی خواہش درس ھیجدھم: اقبال اور وحشی شمس الدین محمد وحشی بافقی دسویں صدی ھجری کے عظیم شاعر ہیں ۔ انہوں نے ترجیع بند ، ترکیب بند اور قصیدہ گوئی میں کمال پایا ۔ نظامی گنجوی کے ’’خمسہ ‘‘ کی تقلید میں مثنویاں بھی لکھیں جبکہ غزل گوئی میں بھی ان کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے ۔ ان کی غزلیات میں طرز فغانی اور سبک ہندی کے گہرے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں ۔ اقبال نے وحشی کی پیروی میں بھی چند غزلیں کہی ہیں جو فکری وفنی ھر دو اعتبار سے بے حد اھم ہیں ۔ غزل وحشی خیز و بناز جلوہ دہ قامت دلنواز را چون قد خود بلند کن پایۂ قدر ناز را عشوہ پرست من بیا، می زدہ مست و کف زنان حسنِ تو پردہ گو بدر پردگیان راز را عرض فروغ چون دھد مشعلۂ جمال تو قصہ بہ کوتہی کشد شمع زبان دراز را نیمکش تغافلم کارِ تمام ناشدہ نیم نظر اجازہ دہ نرگسِ نیم باز را وحشیم و حریدہ رو کعبۂ عشق مقصدم بدرقہ اشک و آہِ من قافلۂ نیاز را غزل اقبال خیزو نقاب برگشا پردگیان ساز را نغمۂ تازہ یاد دہ مرغِ نواطراز را دیدۂ خوابناک او گر بہ چمن گشودہ ای رخصتِ یک نظر بدہ ، نرگسِ نیم باز را سجدۂ تو بر آورد از دلِ کافران خروش ای کہ دراز تر کنی پیش کسان نماز را گرچہ متاع عشق را عقل بہای کم نہد من ندھم بہ تخت جم آہ جگر گداز را برھمن بہ غزنوی گفت کرامتم نگر تو کہ صنم شکستہ ای بندہ شدی ایاز را مشق : مذکورہ غزلیات میں ادبی اصطلاحات اور مشترکات کی الگ الگ نشاندہی کریں ۔ فرھنگ: دلنواز : دل کو بھانے والا عشوہ : ناز و ادا کف زدن : تالی بجانا پردگیان : فرشتے مژہ : پلکیں صومعہ : بتکدہ دیدۂ خوابناک : خواب آلود آنکھیں بہا : قیمت درس نوزدھم: اقبال اور بیدل میرزا عبدالقادر بیدل ، گیارھویںصدی ھجری کے عظیم ترین فارسی شاعر ہیں ۔ سبھی تذکرہ نگاروں اور نقادانِ سخن نے انہیں متفقہ طور پر فارسی شاعری کی ھزار سالہ تاریخ کے اہم ترین شعرا میں شمار کیا ہے ۔مرزا غالب نے انہیں ’’بحر بے کراں‘‘ اور ’’محیط بے ساحل‘‘ کے القاب سے یاد کیا اور اپنا معنوی استاد قرار دیا ہے ۔غالب نے ریختہ یعنی اردو شعر گوئی میں طرز بیدل کی پیروی بھی کی ہے ۔ بیدل کا اصل نام عبدالقادر اور کنیت ابوالمعانی تھی ۔ دیباچہ گلستان میں درج یہ مُصرَّع نظر سے گذرا : ’’بیدل از بی نشان چہ گوید باز‘‘ تو اس قدر متاثر ہوئے کہ اپنا تَخَلُّص بیدل رکھ لیا ۔ بیدل کے معنی عاشق کے بھی ہیں اور تصوف کے حوالے سے اس کا مفہوم یوں بھی ہے کہ قلب سالک دنیاوی خواھشات سے پاک ہو ۔ فکری اور فنی ھر دو اعتبار سے فارسی شاعری میں بیدل منفرد حیثیت کے حامل ہیں ۔ان کے ہاں زندگی کے حقائق اور سماجی مسائل کا گہرا شعور ملتا ہے ۔ ان کا کلام عظمت انسانی اور خود شناسی کے مضامین سے پُر ہے ۔ علامہ اقبال ، بیدل کی عظمت فکر و فن کے معترف تھے اور ان کی شاعری میں بیدل کے اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ غزل بیدل چو محوِ عشق شدی رھنما چہ می جویی بہ بحر غوطہ زدی ناخدا چہ می جویی عصا ز دست تو انگشت رھنما دارد تو گر نہ کور دلی از عصا چہ می جویی جز این کہ خورد کند حرص استخوان تو را دگر ز سایۂ بال ھما چہ می جویی صفای دل نپسندد غبار آرایش بہ دست آینہ رنگ حنا چہ می جویی بجز ندارد تپیدن نفست ز تار سوختہ بیدل وفا چہ می جویی غزل اقبال بہ آدمی نرسیدی خدا چہ می جویی ز خود گریختہ ای آشنا چہ می جویی دگر بہ شاخِ گل آویز و آب و تم درکش پریدہ رنگ ز بادِ صبا چہ می جویی عیار فقر ز سلطانی و جہانگیری است سریرِ جم بطلب بوریا چہ می جویی سراغِ او ز خیابان لالہ می گیرند نوای خون شدۂ ما ز ما چہ می جویی قلندریم و کراماتِ ما جہانبینی است ز ما نگاہ طلب کیمیا چہ می جویی مشق: مندرجہ بالا غزلیات میں ادبی اصطلاحات کا جائزہ لیں، نیز دونوں کی غزلیات کی مشترکہ خوبیوں کا بھی ذکر کریں : فرھنگ: استخوان : ھڈی انگشت : انگلی بال : پر بحر : سمندر حنا : مہندی سریر : تخت عصا : چھڑی غبار :د ھول غوطہ زدن : غوطہ لگانا کور : نابینا گریختن : فرار ہونا ؍ گریزاں ہونا محو شدن : نابود ہو جانا نگاہ : نظر نوا : آواز درس بیستم: اقبال و غالب اسد اﷲ خان غالب (۱۲۱۲ ھ ۔ ۱۲۸۵ ھ) فارسی غزل گوئی کی قدیم روایت کے آخری عظیم شاعر ہیں ۔ نظیری نیشاپوری ، عرفی شیرازی ، ظہوری ترشیزی ، حزین لاھیجی اور بیدل کے شعری اسالیب کی جھلک غالب کی غزل گوئی میں نمایاں ہے ، لیکن ان عظیم شعرا کے گہرے اثرات کے باوجود غالب کو صاحبِ اسلوب شاعر کہا جا سکتا ہے ۔ ان کے ہاں نظیری کی نزاکت ، عرفی کی خودی اور انا، ظہوری کی پختگی اور بیدل کی سلاست وجزالت یکجا دکھائی دیتی ہے ۔ جبکہ مطالب و مضامین کے اعتبار سے غالب کے ہاں ابتکار اور جدّت دکھائی دیتی ہے ۔ اقبال نے کلاسیکی فارسی شاعری کے روایت کے اس عظیم شاعر سے گہرے اثرات قبول کیے ہیں ۔ غزل غالب اختری خوشترازنیم بہ جہان می بایست خرد پیر مرا بخت جوان می بایست بہ زمینی کہ بہ آھنگ غزل بنشینم خاک گلبوی و ھوا مشک فشان می بایست بر نتابم بہ سبو بادہ ز دور آوردن خانۂ من بہ سرِِ کویِ مغان می بایست تا تنک مایہ بہ دریوزہ خود آرا نشود نرخ پیرایۂ گفتار گران می بایست قدر انفاس گرم در نظرستی غالب در غم دھر دریغم بہ فغان می بایست غزل اقبال بازاین عالم دیرینہ جوان می بایست برگِ کاھش صفتِ کوہ گران می بایست کف خاکی کہ نگاہ ھمہ بین پیدا کرد در ضمیرش جگر آلودہ فغان می بایست این مہ و مہر کہن راہ بہ جایی نبرند انجم تازہ بہ تعمیر جہان می بایست ھرنگاری کہ مرا پیش نظر می آید خوش نگاری است ولی خوشتر از آن می بایست گفت یزدان کہ چنین است و دگر ھیچ مگو گفت آدم کہ چنین است و چنان می بایست مشق : مندرجہ بالا غزلیات کا بغور مطالعہ کریں اور ادبی اصطلاحات و مشترکات کا جائزہ لیں ۔ فرھنگ: اختر : ستارہ انجم : ستارہ آھنگ : ارادہ برگ : پتّا پیر : بوڑھا ؍ بڑھیا چنان : ویسا چنین : ایسا خرد : عقل خلد برین : جنت اعلیٰ درخور بودن : شایان شان ہونا دریوزہ کردن : بھیک مانگنا سبو : مٹکا ؍ صراحی عالم : دنیا غمِ دھر : دنیا کا غم فغان : نالہ و فریاد کاہ : تنکا کف : ہتھیلی کوہ گران : بھاری پہاڑ گران : مہنگا مہ و مہر : چاند اور سورج نرخ : قیمت نگار : محبوب یزدان : خدا درس بیست و یکم: اقبال کی مثنوی سرائی شاعری زین مثنوی مقصود نیست بت پرستی بت گری مقصود نیست ھندی ام از پارسی بیگانہ ام ماہ نو باشم تہی پیمانہ ام حسن انداز بیان از من مجو خوانسار و اصفہان ازمن مجو گرچہ ہندی در عذو بت شکر است طرزگفتار دری شیرینتر است پارسی از رفعتِ اندیشہ ام درخورد با فطرتِ اندیشہ ام مندرجہ بالا اشعار اقبال کی مشہور شعری تصنیف ’’اسرار خودی‘‘ سے لیے گئے ہیں ۔ ان اشعار کو غور سے دیکھیے ۔ کیا یہ ہم قافیہ ہیں ؟ دراصل ہر شعر کا قافیہ الگ ہے ۔ ہر شعر مُصرَّع ہے یعنی دونوں مُصرَّعے ہم قافیہ ہیں ۔ ایسے اشعار کو ’’مثنوی‘‘ کا نام دیا جاتا ہے ۔ یہ قالب طویل داستان یا مفاھیم و مطالب کے بیان کے لیے بے حد مناسب ہے ۔ چونکہ شاعر نہ صرف ھر شعر میں قافیہ تبدیل بلکہ بوقت ضرورت دھرایا بھی جا سکتا ہے ۔ ’’مثنوی ‘‘ فارسی شاعری کی قدیمترین اور رایج ترین اصناف سخن میں سے ایک ہے ۔ یہ شعری قالب فارسی شعرا کی ایجاد ہے ۔ رودکی سمرقندی کی ’’کلیلہ و دمنہ‘‘ اور ابو شکور بلخی کی ’’آفرین نامہ‘‘ فارسی کی ابتدائی مثنویاں ہیں ۔ مثنوی کے موضوعات: موضوع و مطالب کے اعتبار سے فارسی مثنویوں کو درج ذیل چار حصوں میں تقسیم کیاجا سکتا ہے ۔ ۱۔ حماسی و تاریخی: شاہنامۂ فردوسی ، اسکندر نامۂ نظامی ۲۔ اخلاقی و تعلیمی : بوستانِ سعدی ۳۔ عاشقانہ : خسرو و شیرین نظامی ، ویس ورامینِ فخر الدین اسعدگرگانی ۴۔ عارفانہ: حدیقتہ الحقیقۂ سنائی ، منطق الطیرعطار اور مثنوی معنوی مولانا روم فردوسی طوسی ، اسدی طوسی ، نظامی گنجوی ، سنائی غزنوی ، سعدی شیرازی ، مولانا روم ، امیر خسرو اور جامی نامور ترین مثنوی گو شاعر ہیں ۔ مثنوی معنوی مولوی بشنو ازنی چون حکایت می کند از جدائیھا شکایت می کند کز نیستان تا مرا ببریدہ اند از نفیرم مرد و زن نالیدہ اند سینہ خواھم شرحہ شرحہ از فراق تا بگویم شرحِ دردِ اشتیاق ھر کسی کو دور ماند ازاصل خویش بازجوید روزگار وصل خویش من بہ ھر جمعیتی نالان شدم جفت بد حالان و خوشحالان شدم ھر کس از ظن خود شد یار من از درونِ من نجست اسرار من سرّ من از نالۂ من دور نیست لیک چشم و گوش را آن نور نیست تن ز جان ، جان ز تن مستور نیست لیک کس را دید جان دستور نیست آتش است این بانگِ نای و نیست باد ھر کہ این آتاش ندارد نیست باد آتش عشق است کاندر نی فتاد جوشش عشق است کاندر می فتاد مثنوی اقبال ’’اسرار و رموز‘‘ نقطۂ نوری کہ نام او خودی است زیرِ خاک ما شرار زندگی است از محبت می شود پایندہ تر زندہ تر سوزندہ تر تابندہ تر فطرت او آتش اندوزد ز عشق عالم افروزی بیاموزد ز عشق عشق را از تیغ و خنجر باک نیست اصل عشق از آب و باد و خاک نیست در جہان ھم صلح و ھم پیکار عشق آب حیوان تیغ جوھر دار عشق عاشقی آموزو محبوبی طلب چشم نوحی ، قلب ایوبی طلب کیمیا پیدا کن از مشتِ گلی بوسہ زن بر آستانِ کاملی شمع خود را ھمچو رومی برفروز روم را در آتش تبریز سوز ھست معشوقی نہان اندر دلت چشم اگر داری ، بیا ، بنمایمت دل ز عشق او توانا می شود خاک ھمدوش ثریّا می شود مثنوی اقبال ’’جاوید نامہ‘‘ صد کتاب آموزی از اھل ھنر خوشتر آن درسی کہ گیری از نظر کم خور و کم خواب و کم گفتار باش گِردِ خود گردندہ چون پرکار باش منکر حق نزد مُلاّ کافر است منکر خود نزدِ من کافر تر است عدل در قہر و رضا از کف مدہ قصد در فقر و غنا از کف مدہ حفظ جانہا ذکر و فکر بی حساب حفظ تنھا ضبط نفس اندر شباب حاکمی در عالم بالا و پست جز بہ حفظ جان و تن ناید بہ دست پیر رومی را رفیق راہ ساز تا خدا بخشد تو را سوز و گداز شرح او کردند و او را کس ندید معنی او چون غزال از ما رمید رقص تن از حرف او آموختند چشم را از رقص جان بر دوختند رقص جان آموختن کاری بود غیر حق را سوختن کاری بود فرھنگ: اسرار: سِرّ کی جمع ،راز اندیشہ : سوچ آموختن : سیکھنا بت پرستی: بتوں کی پوجا بت گری : بت بنانا پیکار : جنگ ثریّا: کہکشاں جان : روح جُستن : ڈھونڈنا درس : سبق دستور : طریقہ ؍ روش رقصِ تن : بدن کا رقص رقصِ جان : روح کا رقص روزگار : زمانہ سوختن : جلانا شباب : جوانی شرار : چنگاری ظن : گمان عذوبت : مٹھاس غزال : ہرن کم خواب : کم سونے والا کم خور : کم کھانے والا کم گفتار : کم بولنے والا گردندہ : گھومنے والا ماہ نو : نیا چاند مستور : چھپا ہوا مقصود : ھدف نای : بانسری نفیر : آواز (بانسری کی درد ناک آواز) نی : بانسری ؍ بانس نیستان : بانسوں کا جھنڈ وصل : ملاپ ھمدوش: ھم پلہ درس بیست و دوم: اقبال کی قطعہ نگاری الملک ﷲ طارق چو بر کنار اندلس سفنیہ سوخت گفتند کار تو بہ نگاہِ خرد خطاست دوریم از سواد وطن باز چون رسیم ترک سبب ز روی شریعت کجا رواست خندید و دست بہ شمشیر برد و گفت ھر ملک ملک ماست کہ ملک خدای ماست مندرجہ بالا اشعار میں قافیہ پر توجہ دیجیے ، یہ اشعار قالب کے اعتبار سے غزل سے کس طرح مختلف ہیں ؟ پہلا شعر جسے مطلع کہتے ہیں ، غزل کی طرح مصرّع نہیں ہے ، جبکہ ھر دوسرے مُصرَّع میں قافیہ اپنی جگہ پر موجود ہے ۔ ایسی صنف سخن ’’قطعہ ‘‘ کہلاتی ہے ۔ قطعہ میں اشعار کی کم از کم تعداد دو ہے ۔ قطعات میں بالعموم اخلاقی ، معاشرتی ، سماجی اور پند و نصائح کے موضوعات بیان ہوتے ہیں ۔ ’’قطعہ ‘‘ تقریباً ھر دور میں رائج صنف سخن رہا ہے ۔ انوری ، سعدی ، ابن یمین اور پروین اعتصامی قطعہ نگاری میں ممتاز مقام رکھتے ہیں ۔ اقبال کے قطعات موضوع کی انفرادیت اور فنی مہارت کے سبب اہمیت کے حامل ہیں ۔ اقبال کے چند مشہور قطعات ملاحظہ کیجیے ۔ حیات جاوید گمن مبر کہ بہ پایان رسید کار مغان ھزار بادۂ ناخوردہ در رگ تاک است چمن خوشست و لیکن چوغنچہ نتوان زیست قبایِ زندگیش از دمِ صبا چاک است اگر ز رمزِ حیات آگہی ، مجوی و مگیر دلی کہ از خلشِ آرزو پاک است بخود خزیدہ و محکم چو کوہساران زی چو خس مزی کہ ھوا تیز و شعلہ بیباک است کرم کتابی شنیدم شبی در کتب خانۂ من بہ پروانہ می گفت کرمِ کتابی بہ اوراق سینا نشیمن گرفتم بسی دیدم از نسخۂ فاریابی نفہمیدہ ام حکمتِ زندگی را ھمان تیرہ روزم ز بی آفتابی نکوگفت پروانۂ نیم سوزی کہ این نکتہ را در کتابی نیابی تپش می کند زندہ تر زندگی را تپش می دھد بال و پر زندگی را حقیقت عقاب دوربین جویینہ را گفت نگاھم آنچہ می بیند سراب است جوابش داد آن مرغِ حق اندیش تو می بینی و من دانم کہ آب است صدای ما ھی آمد از تہ بحر کہ چیزی ھست و ھم در پیچ وتاب است کرمک شب تاب شنیدم کرمک شب تاب می گفت نہ آن مورم کہ کس نالد ز نیشم توان بی منت بیگانگان سوخت نپندای کہ من پروانہ کیشم اگر شب تیرہ تر از چشم آھوست خود افروزم چراغِ راہ خویشم مشق: اس سبق میں درج قطعات میں سے ادبی اصطلاحات کی نشاندہی کریں ۔ فرھنگ: ایاغ : پیالہ آھو : ھرن پنداشتن : گمان کرنا پولاد : فولاد تاک : انگور کی بیل تبر: کلہاڑی تپش : تڑپ تفنگ : بندوق تیرہ : تاریک جویینہ : ندی خرد : عقل خزیدن : رینگنا خس : گھاس کے تنکے خطا : غلطی خیابان : سڑک راغ : صحرا روا : جائز زیستن : جینا ؍ زندگی بسر کرنا سفال :مٹی سفینہ : کشتی سواد : سر زمین شب تاب : جگنو شمشیر : تلوار طایر : پرندہ قبا: لباس ؍ لبادہ قفس : پنجرہ کرم : کیڑا کرمک : کیڑا کنار: ساحل گلزار : باغ گِل : مٹی ماھی : مچھلی محکم : مستحکم ؍ استوار منت : احسان مور : چیونٹی نشیمن گرفتن : ٹھکانا بنانا نوشینہ : مشروب نہال : پودا نیش : ڈنک درس بیست و سوم: اقبال اور بابا طاھر بابا طاھر ھمدانی پانچویں صدی ھجری کے عظیم عرفا و شعرا میں شمار ہوتے ہیں ۔ وہ سلجوق حکمران طغرل کے ہم عصر تھے ۔ چوتھی صدی ھجری کے اواخر میں ھمدان میں پیدا ہوئے اور پانچویںصدی ھجری کے وسط میں اسی شہر میں وفات پائی جہاں ان کی آخری آرامگاہ آج بھی مرجع خلائق ہے ۔ بابا طاھر نے فارسی کے ایک مقامی لہجے ’’ لری‘‘ میں دو بیتیاں کہی ہیں ۔ جو عروض اوزان کے اعتبار سے رباعی سے مختلف صنفِ سخن ہے ۔ جذبات و احساسات کا برملا اور بے ساختہ اظہار بابا طاھر کی خاص خوبی ہے ۔ عشق حقیقی کے لافانی جذبے سے سرشار ان کی دو بیتیاں فارسی شاعری کا لازوال حسن ہیں ۔ اقبال کی آخری شعری تصنیف ارمغان حجاز میں درج دو بیتیاں بابا طاھر کے زیر اثر دکھائی دیتی ہیں ۔ بابا طاھر کی دو بیتیاں تہ دوری از برم دل در برم نیست ھوای دیگری اندر سرم نیست بہ جان دلبرم کز ھر دو عالم تمنای دگرجزدلبرم نیست ٭ خداوندا مو بیزارم ازین دل شو و روزان در آزارم ازین دل ز بس نالیدم از نالیدنم تنگ ز موبستان کہ بیزارم ازین دل ٭ چرا آزردہ حالی ای دل ای دل مدام اندر خیالی ای دل ای دل برو کنجی نشین شکر خدا کن کہ شاید کام یابی ای دل ای دل ٭ مگر شیر و پلنگی ای دل ای دل بہ و دایم بہ جنگی ای دل ای دل اگر دستم رسد خونت بریجم بو نیم تا چہ رنگی ای دل ای دل ٭ بہ روی دلبری گر مایلستم مکُن منعم گرفتار دلستم خدا را ساربان آہستہ می ران کہ مو واماندۂ این قافلستم اقبال کی دو بیتیاں بہ کویش رہ سپاری ای دل ای دل مرا تنہا گزاری ای دل ای دل دمادم آرزوھا آفرینی مگر کاری نداری ای دل ای دل ٭ چہ پرسی از مقام نوایم ندیمان عجم شناسند از کجایم گشادم رختِ خود را اندرین دشت کہ اندر خلوتش تنھا سرایم ٭ گہی شعر عراقی را بخوانم گہی جامی زندآتش بہ جانم ندانم گرچہ آھنگِ عرب را شریک نغمہ ھایِ ساربانم ٭ چورومی در حرم دادم اذان من ازو آموختم اسرارِ جان من بہ دور فتنۂ عصرِ کہن او بہ دور فتنۂ عصرِ روان من ٭ سرود رفتہ باز آید کہ ناید نسیمی از حجاز آید کہ ناید سرآمد روزگارِ این فقیری دگر دانای راز آید کہ ناید ٭ مشق: اس سبق میں درج دوبیتیوں کا بغور مطالعہ کیجیے اور فنی خصائص کی نشاندہی کیجیے ۔ فرھنگ: تہ ؍ تو : تم بر : پہلو ؍ آغوش ھوا : ھوس ؍ خواہش مو ؍ من : میں شو ؍ شب : رات مدام : ہمیشہ کنج : گوشہ پلنگ : چیتا بریجم ؍ بریزم : میں بہا دوں بونیم ؍ ببنیم : میں دیکھوں ندیم : دوست ؍ ساتھی رخت : ساز وسامان دشت : صحرا ؍ جنگل آھنگ : نغمہ ؍ ساز سرآمدن : مکمل ہو جانا روزگار : زمانہ دانایِ راز : بھید جاننے والا