عروجِ اقبال پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی اقبال اکادمی پاکستان جملہ حقوق محفوظ ناشر محمدسہیل عمر ناظم اقبال اکادمی پاکستان (حکومتِ پاکستان، وزارت بین الصوبائی رابطہ) چھٹی منزل ، ایوانِ اقبال ، لاہور Tel: [+92-42] 36314-510 [+92-42] 99203-573 Fax: [+92-42] 3631-4496 Email: info@iap.gov.pk Website: www.allamaiqbal.com ISBN ----------------- طبع اوّل : ۲۰۱۱ء تعداد : ۵۰۰ قیمت : ۔؍۲۵۰روپے ٹائٹل ڈیزائن : خالد فیصل khalidfaisal@gmail.com مطبع : شرکت پرنٹنگ پریس، لاہور محلِ فروخت : ۱۱۶ میکلوڈ روڈ ، لاہور، فون نمبر ۳۷۳۵۷۲۱۴ انتساب جواں مرگ اکلوتے بیٹے عرفان احمد صدیقی مرحوم کے نام [عرفان مرحوم، ۲۴ جون ۱۹۸۴ء کی صبح کو میرے چیک لے کر حبیب بنک (پنجاب یونی ورسٹی) گئے اور وہاں سے اپنی والدہ کی دوا کے لیے ہمدرد دواخانہ (فین روڈ) پہنچے۔ دوا خانے کے احاطے میں ان کی موٹر سائیکل گھنٹوں مشتبہ حالت میں پڑی رہی۔ چند روز بعد، ٹھوکر نیاز بیگ (ملتان روڈ) کے قریب، نہر سے اُن کی لاش برآمد ہوئی۔ کرائمز برانچ کے ماہرین بھی قاتل کا سراغ نہیں لگا سکے۔] اُمرت لٹا کے زہرِ غمِ زیست پی گیا تھوڑی سی زندگی میں بہت دن وہ جی گیا مُدغم، غمِ پسر میں اِک انساں کا غم بھی ہے دل کا غنی، وہ مہر و وفا کا دھنی گیا اُس کی اُمنگ اَور، زمانے کا رنگ اور وہ اس فضائے دہر میں تھا اجنبی، گیا صد حیف، بے نمود رہا جوہرِ خودی اِس عمر میں وہ مستِ مئے بے خودی، گیا طرح چمن طرازیٔ فن ڈال دی، مگر ہر نقش ناتمام رہا، مُنتی گیا اب ہم ہیں اور ’’ماتمِ یک شہرِ آرزو‘‘ اس کو ہر ابتلا سے رہائی ملی، گیا اُس کی حیات ’’عاش حمیداً‘‘ کی اک مثال موت اُس کی شرحِ ’’مات شہیداً‘‘ ہوئی، گیا سوگوار افتخار احمد صدیقی فہرست m پیش لفظ ۹ پہلا باب: شخصیت وسیرت کی بنیادی تشکیل ۱۷ فصل اوّل: تعلیم و تربیت کے ابتدائی و ثانوی مدارج ۱۸ نسلی اثرات، آبائی میلانات ۱۸ والدین کی شخصیت اور تربیت کے نقوش ۲۵ فصل دوم: گورنمنٹ کالج کی طالب علمی کا زمانہ ۶۱ (۱)کالج اور اس کا ماحول ۶۱ (۲) معلم ثانی ۶۵ (۳) ہوسٹل کی زندگی اور غیر درسی مشاغل ۷۲ فصل سوم: مشقِ سخن و اکتسابِ فن کے ابتدائی دور ۸۲ پہلا دور: (۱۸۹۱ء - ۱۸۹۵ئ) ۸۲ مشقِ سخن و اکتسابِ فن کا دوسرا دور:(۱۸۹۵ء -۱۸۹۵ئ) ۸۹ کتابیات ۱۰۳ حوالہ جات ۱۰۶ دوسرا باب: متنوع رجحانات میں شخصیت کی اکائی ۱۱۷ فصل اوّل: (۱)ذہنی پس منظر(علمی و ادبی ماحول، مشاغل، رجحانات، شخصیت) ۱۱۸ (۲)میکلوڈ عربک ریڈر شپ اور تدریسی و تحقیقی مشاغل ۱۱۸ (۳)علمی و تدریسی خدمات کا جائزہ ۱۳۶ (۴)رنگا رنگ بزم آرائیاں ۱۳۹ (۵)اقبال اور انجمن حمایت اسلام ۱۴۸ (۶) شخصیت کے چند نمایاں پہلو ۱۵۲ فصل دوم: فکری رجحانات کا جائزہ ۱۵۹ تمہیدی نکات ۱۵۹ ابتدائی قومی شاعری و ملّی رجحان(علی گڑھ تحریک کے پس منظر میں) ۱۶۳ مذہبی شعور: ۱۷۹ (۱) عشقَ رسولؐ کا نظریاتی پہلو: ۱۷۹ (۲) عشق رسولؐ کا جمالی پہلو: ۱۸۲ مفکرانہ و متصوفانہ رجحان ۱۸۸ (۳) رومانی رجحان ۱۹۹ (۴) وطنیت کا رجحان ۲۱۰ (۵)معاشی اور سماجی شعور ۲۲۵ فصل سوم: فنی ارتقا کا جائزہ ۲۳۳ (۱)طویل قومی نظموں کا فنی تجزیہ ۲۳۳ (۲) مختصر متروک نظموں کا فنی جائزہ ۲۳۳ (۳) متروکات (بانگِ درا) کی نوعیت اور ارتقائی و زمانی نسبت ۲۶۳ (۴) مختصر نظموں کا فنی جائزہ ۲۷۱ (۵) مترجمہ اور ماخوذ نظمیں ۳۱۲ (۶) بچوں کے لیے درسی نظموں کا سلسلہ ۳۱۷ (۵)غزلیات کا فنی و ارتقائی جائزہ ۳۲۷ کتابیات ۳۴۲ حوالہ جات ۳۴۶ تیسرا باب: ذہنی انقلاب ۳۶۳ فصل اوّل: سوانح، مشاغل، شخصیت ۳۶۴ (۱) سفرِ انگلستان ۳۶۴ عزمِ سفر ۳۶۴ رودادِ سفر : ۳۶۶ (۲)لندن اور کیمبرج میں مصروفیات و مشاغل ۳۷۳ (۳) جرمنی میں قیام ۳۸۱ (۴) لندن میں آخری ایام ۳۸۷ (۵)شخصیت، تجربات، تاثرات ۳۸۸ (۶) اقبال اور ’’جستجوئے گل‘‘ ۳۹۸ فصل دوم: فکری جائزہ ۴۲۴ (۱) اقبال کا تحقیقی کام ۴۲۴ (۲) ’’سودیشی تحریک‘‘پر حقیقت پسندانہ تبصرہ ۴۳۱ (۳) مغربی تہذیب اور اس کے تاریخی عوامل کا ناقدانہ جائزہ ۴۳۴ تہذیبِ مغرب کا تاریخی پس منظر: ۴۳۵ ازمنۂ مظلمہ میں کلیسا کا کردار: ۴۳۷ ہسپانوی عربوں کے زیرِاثر تحریک احیائے علوم کا آغاز: ۴۳۹ معرکۂ مذہب و سائنس: ۴۴۲ مادیت اور الحاد کی تحریک: ۴۴۴ صنعتی انقلاب اور سرمایہ دارانہ نظام کے اخلاقی مفاسد: ۴۴۵ (۴) نظریۂ وطنیت اور لادین سیاست کا آغاز و انجام ۴۴۶ (۵) ذہنی انقلاب کے فکری عوامل کا مجموعی جائزہ ۴۵۰ اقبال کے جدید نصب العین کا بنیادی محرک: ۴۵۱ علامہ افغانی اور حکمائے مغرب کے اثرات: ۴۵۴ فصل سوم: (۱)اس دور کی شاعری کا فکری وفنی جائزہ ۴۵۷ تمہید ۴۵۷ اس دور کے جمالیاتی تصورات ۴۵۸ (۲)رومانی نظموں کے فنی محاسن ۴۶۸ (۳) ملّی رجحان کے ابتدائی نقوش ۴۸۱ (الف) طلبۂ علی گڑھ کالج کے نام: ۴۸۱ (ب) پیامِ عشق ۴۸۶ (ج) عبدالقادر کے نام: ۴۹۱ (د) صقلیہ: ۴۹۴ (۴) غزلیات ۴۹۸ کتابیات ۵۰۷ حوالہ جات ۵۰۹ عروجِ اقبال پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی اقبال اکادمی پاکستان جملہ حقوق محفوظ ناشر محمدسہیل عمر ناظم اقبال اکادمی پاکستان (حکومتِ پاکستان، وزارت بین الصوبائی رابطہ) چھٹی منزل ، ایوانِ اقبال ، لاہور Tel: [+92-42] 36314-510 [+92-42] 99203-573 Fax: [+92-42] 3631-4496 Email: info@iap.gov.pk Website: www.allamaiqbal.com ISBN ----------------- طبع اوّل : ۲۰۱۱ء تعداد : ۵۰۰ قیمت : ۔؍۲۵۰روپے ٹائٹل ڈیزائن : خالد فیصل khalidfaisal@gmail.com مطبع : شرکت پرنٹنگ پریس، لاہور محلِ فروخت : ۱۱۶ میکلوڈ روڈ ، لاہور، فون نمبر ۳۷۳۵۷۲۱۴ انتساب جواں مرگ اکلوتے بیٹے عرفان احمد صدیقی مرحوم کے نام [عرفان مرحوم، ۲۴ جون ۱۹۸۴ء کی صبح کو میرے چیک لے کر حبیب بنک (پنجاب یونی ورسٹی) گئے اور وہاں سے اپنی والدہ کی دوا کے لیے ہمدرد دواخانہ (فین روڈ) پہنچے۔ دوا خانے کے احاطے میں ان کی موٹر سائیکل گھنٹوں مشتبہ حالت میں پڑی رہی۔ چند روز بعد، ٹھوکر نیاز بیگ (ملتان روڈ) کے قریب، نہر سے اُن کی لاش برآمد ہوئی۔ کرائمز برانچ کے ماہرین بھی قاتل کا سراغ نہیں لگا سکے۔] اُمرت لٹا کے زہرِ غمِ زیست پی گیا تھوڑی سی زندگی میں بہت دن وہ جی گیا مُدغم، غمِ پسر میں اِک انساں کا غم بھی ہے دل کا غنی، وہ مہر و وفا کا دھنی گیا اُس کی اُمنگ اَور، زمانے کا رنگ اور وہ اس فضائے دہر میں تھا اجنبی، گیا صد حیف، بے نمود رہا جوہرِ خودی اِس عمر میں وہ مستِ مئے بے خودی، گیا طرح چمن طرازیٔ فن ڈال دی، مگر ہر نقش ناتمام رہا، مُنتی گیا اب ہم ہیں اور ’’ماتمِ یک شہرِ آرزو‘‘ اس کو ہر ابتلا سے رہائی ملی، گیا اُس کی حیات ’’عاش حمیداً‘‘ کی اک مثال موت اُس کی شرحِ ’’مات شہیداً‘‘ ہوئی، گیا سوگوار افتخار احمد صدیقی فہرست m پیش لفظ ۹ پہلا باب: شخصیت وسیرت کی بنیادی تشکیل ۱۷ فصل اوّل: تعلیم و تربیت کے ابتدائی و ثانوی مدارج ۱۸ نسلی اثرات، آبائی میلانات ۱۸ والدین کی شخصیت اور تربیت کے نقوش ۲۵ فصل دوم: گورنمنٹ کالج کی طالب علمی کا زمانہ ۶۱ (۱)کالج اور اس کا ماحول ۶۱ (۲) معلم ثانی ۶۵ (۳) ہوسٹل کی زندگی اور غیر درسی مشاغل ۷۲ فصل سوم: مشقِ سخن و اکتسابِ فن کے ابتدائی دور ۸۲ پہلا دور: (۱۸۹۱ء - ۱۸۹۵ئ) ۸۲ مشقِ سخن و اکتسابِ فن کا دوسرا دور:(۱۸۹۵ء -۱۸۹۵ئ) ۸۹ کتابیات ۱۰۳ حوالہ جات ۱۰۶ دوسرا باب: متنوع رجحانات میں شخصیت کی اکائی ۱۱۷ فصل اوّل: (۱)ذہنی پس منظر(علمی و ادبی ماحول، مشاغل، رجحانات، شخصیت) ۱۱۸ (۲)میکلوڈ عربک ریڈر شپ اور تدریسی و تحقیقی مشاغل ۱۱۸ (۳)علمی و تدریسی خدمات کا جائزہ ۱۳۶ (۴)رنگا رنگ بزم آرائیاں ۱۳۹ (۵)اقبال اور انجمن حمایت اسلام ۱۴۸ (۶) شخصیت کے چند نمایاں پہلو ۱۵۲ فصل دوم: فکری رجحانات کا جائزہ ۱۵۹ تمہیدی نکات ۱۵۹ ابتدائی قومی شاعری و ملّی رجحان(علی گڑھ تحریک کے پس منظر میں) ۱۶۳ مذہبی شعور: ۱۷۹ (۱) عشقَ رسولؐ کا نظریاتی پہلو: ۱۷۹ (۲) عشق رسولؐ کا جمالی پہلو: ۱۸۲ مفکرانہ و متصوفانہ رجحان ۱۸۸ (۳) رومانی رجحان ۱۹۹ (۴) وطنیت کا رجحان ۲۱۰ (۵)معاشی اور سماجی شعور ۲۲۵ فصل سوم: فنی ارتقا کا جائزہ ۲۳۳ (۱)طویل قومی نظموں کا فنی تجزیہ ۲۳۳ (۲) مختصر متروک نظموں کا فنی جائزہ ۲۳۳ (۳) متروکات (بانگِ درا) کی نوعیت اور ارتقائی و زمانی نسبت ۲۶۳ (۴) مختصر نظموں کا فنی جائزہ ۲۷۱ (۵) مترجمہ اور ماخوذ نظمیں ۳۱۲ (۶) بچوں کے لیے درسی نظموں کا سلسلہ ۳۱۷ (۵)غزلیات کا فنی و ارتقائی جائزہ ۳۲۷ کتابیات ۳۴۲ حوالہ جات ۳۴۶ تیسرا باب: ذہنی انقلاب ۳۶۳ فصل اوّل: سوانح، مشاغل، شخصیت ۳۶۴ (۱) سفرِ انگلستان ۳۶۴ عزمِ سفر ۳۶۴ رودادِ سفر : ۳۶۶ (۲)لندن اور کیمبرج میں مصروفیات و مشاغل ۳۷۳ (۳) جرمنی میں قیام ۳۸۱ (۴) لندن میں آخری ایام ۳۸۷ (۵)شخصیت، تجربات، تاثرات ۳۸۸ (۶) اقبال اور ’’جستجوئے گل‘‘ ۳۹۸ فصل دوم: فکری جائزہ ۴۲۴ (۱) اقبال کا تحقیقی کام ۴۲۴ (۲) ’’سودیشی تحریک‘‘پر حقیقت پسندانہ تبصرہ ۴۳۱ (۳) مغربی تہذیب اور اس کے تاریخی عوامل کا ناقدانہ جائزہ ۴۳۴ تہذیبِ مغرب کا تاریخی پس منظر: ۴۳۵ ازمنۂ مظلمہ میں کلیسا کا کردار: ۴۳۷ ہسپانوی عربوں کے زیرِاثر تحریک احیائے علوم کا آغاز: ۴۳۹ معرکۂ مذہب و سائنس: ۴۴۲ مادیت اور الحاد کی تحریک: ۴۴۴ صنعتی انقلاب اور سرمایہ دارانہ نظام کے اخلاقی مفاسد: ۴۴۵ (۴) نظریۂ وطنیت اور لادین سیاست کا آغاز و انجام ۴۴۶ (۵) ذہنی انقلاب کے فکری عوامل کا مجموعی جائزہ ۴۵۰ اقبال کے جدید نصب العین کا بنیادی محرک: ۴۵۱ علامہ افغانی اور حکمائے مغرب کے اثرات: ۴۵۴ فصل سوم: (۱)اس دور کی شاعری کا فکری وفنی جائزہ ۴۵۷ تمہید ۴۵۷ اس دور کے جمالیاتی تصورات ۴۵۸ (۲)رومانی نظموں کے فنی محاسن ۴۶۸ (۳) ملّی رجحان کے ابتدائی نقوش ۴۸۱ (الف) طلبۂ علی گڑھ کالج کے نام: ۴۸۱ (ب) پیامِ عشق ۴۸۶ (ج) عبدالقادر کے نام: ۴۹۱ (د) صقلیہ: ۴۹۴ (۴) غزلیات ۴۹۸ کتابیات ۵۰۷ حوالہ جات ۵۰۹ باب اوّل شخصیت وسیرت کی بنیادی تشکیل ززز فصل اوّل تعلیم و تربیت کے ابتدائی و ثانوی مدارج (۱۸۷۷ء - ۱۸۹۵ئ) نسلی اثرات، آبائی میلانات: کشمیر جنت نظیر سے اقبال کے وجودِ معنوی کو کچھ ایسا گہرا ربط ہے کہ اگر ہم اقبال کی شخصیت اور شاعری کو علامتی صورت میں دیکھنا چاہیں تو تخیل میں وادیِ کشمیر کے جلیل و جمیل نقوش اُبھر آتے ہیں۔ اس کے برف پوش پُر جلال کوہسار، اقبال کے فکر روشن کی تاب ناک رفعتوں کے عکاس ہیں اور اس کی گل بدامن و پُر بہار وادیاں ، کلامِ اقبال کی شعری و فنی رنگینیوں کی آئینہ دار۔ اقبال کی مفکرانہ شخصیت ہمیں ان مہاتمائوں کی یاد دلاتی ہے جو ہمالیہ کے دامن میں دھونی رمائے، آسن جمائے، جپ تپ، گیان دھیان میں محو رہتے تھے اور اس کی شاعرانہ فطرت کو وادی کے باسیوں کے ذوقِ جمال، حُسن آفرینی و ہنر مندی سے ایک نسبتِ خاص ہے۔ اور کیوں نہ ہو کہ اقبال خود بھی تو اُسی گلشن کا گلِ سرسبد ہے: ’’تنم گلے ز خیابانِ جنتِ کشمیر‘‘۱؎ فرد کی شخصیت ایک بیج کی مانند اُگتی، بڑھتی، پھولتی اور پھلتی ہے۔ خانگی و معاشرتی ماحول وہ زمین ہے جس کا رس چوس کر شخصیت کا بنیادی جوہر بیج کے اکھوے کی صورت میں نمودار ہوتا ہے۔ تعلیم و تربیت کی آب و ہوا اور عصری حالات و تحریکات کی کھلی فضا میں شخصیت کا پودا رفتہ رفتہ پروان چڑھتا اور برگ و بار لاتا ہے۔ جس طرح بیج میں پورے درخت کا وجود جوہری صورت میں مرتکز ہوتا ہے، اُسی طرح ہر فرد کی خلقت میں کچھ بنیادی عناصر ہوتے ہیں جن میں سے بعض اسے اپنے اجداد سے وراثتاً ملتے ہیں۔ لہٰذا جب ہم کسی شاعر، ادیب، مفکر یا فن کار کے ذہنی ارتقا کا مطالعہ کرتے ہیں تو ماحول، تعلیم و تربیت کے مختلف مراحل اور دیگر خارجی عوامل و محرکات سے پہلے اس کے نسلی و خاندانی اثرات کا جائزہ لیتے ہیں۔اقبال نے جابجا اپنی برہمن زادگی کا اعلان کیا ہے: مرا بنگر کہ در ہندوستاں دیگر نمی بینی برہمن زادۂ رمز آشنائے روم و تبریز است۲؎ میر و مرزا بہ سیاست دل و دیں باختہ اند جز برہمن پسرے محرمِ اسرار کجاست۳؎ اِس قسم کے اشعار میں جہاں اپنی والا نسبی اور نسلی تفاخر کے احساس کی خفیف سی جھلک ہے، وہاں نسلی اثرات کی اہمیت کا اعتراف بھی موجود ہے۔ اقبال کے اجداد کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ وہ کشمیری نژاد سپرو برہمن تھے۔ ماقبل تاریخی دور سے کشمیر کی سرزمین برہمن خاندانوں کا مسکن بنی ہوئی ہے۔ سندھ اور پنجاب کے علاقوں میں مسلمانوں کی آمد کے بعد بھی صدیوںتک یہ خطہ اسلام کی روشنی سے محروم رہا۔ صوفیائے کرام کی تبلیغی کوششیں آٹھویں صدی ہجری (چودھویں صدی عیسوی) کے اوائل میں بارآور ہوئیں جب حضرت سید عبدالرحمن ’’بلبل شاہ‘‘ کے دستِ مبارک پر کشمیر کا بدھ راجا رینچن (Rinchan) مشرف بہ اسلام ہوا (۷۶۰ھ؍۱۳۲۰ئ) ۴؎ اور اس کے اثر سے ہزاروں غیر مسلم بھی دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے۔ نومسلم راجا نے سلطان صدرالدین کے نام سے صرف تین سال تک حکومت کی۔ اس کی وفات کے بعد کئی سال تک کشمیر میں خانہ جنگی کا دور دورہ رہا۔ ۱۳۳۹ء میں شاہ میر نے سلطان شمس الدین کے لقب سے دوبارہ ایک مستقل اسلامی حکومت قائم کی۔۵؎ شاہ میری سلاطین کے عہدمیں فارسی زبان اور اسلامی علوم و ثقافت کو فروغ حاصل ہوا۔ برہمن قوم کی نسلی و مذہبی عصبیت مشہور ہے۔ چنانچہ برہمنوں نے حکمران قوم اور اُن کی زبان و ثقافت سے روایتی چھوت چھات کا برتائو کیا۔ لیکن شاہ میری سلاطین (خصوصاً بڈشاہ) کی رعیت پروری اور حوصلہ افزائی سے متاثر ہو کر برہمنوں کے ایک طبقے نے ’’عدمِ تعاون‘‘ کا مسلک چھوڑا اور کاروبارِ سلطنت میں حصہ لینے کے لیے فارسی زبان سیکھی۔ برہمنوں کا یہ ترقی پسند و روشن خیال طبقہ بعد میں ’’سپرو‘‘ کہلایا۔ مؤرخِ کشمیر، منشی محمد الدین فوق کے استفسار پر ۱۶؍جنوری ۱۹۳۴ء کے ایک خط میں اقبال نے اپنے والد ماجد کے حوالے سے ’’سپرو‘‘ فرقے کی جو وجہِ تسمیہ بیان کی ہے، اب تک تحقیق کا قدم اس سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ اقبال لکھتے ہیں: جب مسلمانوں کا کشمیر میں دور دورہ ہوا تو براہمۂ کشمیر، مسلمانوں کے علوم و زبان کی طرف قدامت پرستی یا کسی اور وجہ کے باعث توجہ نہ کرتے تھے۔ اس لیے جس گروہ نے سب سے پہلے فارسی زبان وغیرہ کی طرف توجہ کی اور اس میں امتیاز حاصل کرکے حکومتِ اسلامیہ کا اعتماد حاصل کیا، وہ ’’سپرو‘‘ کہلایا۔ اس لفظ کے معنی ہیں وہ شخص جو سب سے پہلے پڑھنا شروع کرے۔ ’’س‘‘ تقدیم کے لیے کئی زبانوں میں آتا ہے اور ’’پر‘‘ کا روٹ وہی ہے ہندی مصدر ’’پڑھنا‘‘ کا ہے۔ والد مرحوم کہتے تھے کہ یہ نام کشمیر کے برہمنوں نے اپنے اُن بھائی بندوں کو از راہِ تعریض و تحقیر دیا تھا جنھوں نے قدیم رسوم و تعصباتِ قومی و مذہبی کو چھوڑ کر سب سے پہلے اسلامی زبان و علوم کو سیکھنا شروع کیا تھا، جو رفتہ رفتہ ایک مستقل گوت ہو کر مشہور ہو گیا۔۶؎ اقبال کے اجداد براہمۂ کشمیر کے اُسی ’’سپرو‘‘ فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ اقبال کے نو مسلم جدِ اعلیٰ کون تھے اور وہ کب مسلمان ہوئے؟ اس نومسلم خاندان کے سلسلۂ نسب کی جو کڑیاں دریافت ہوئی ہیں، ان میں ایک صوفی بزرگ ’’بابا لول حج‘‘ کو اوّلیت حاصل ہے اور اس دریافت کا سہرا بھی اقبال کے سر ہے۔ وہ اپنے والد ماجد سے ’’بابا لول حج‘‘کا ذکر سن چکے تھے۔ اتفاقاً اُن کے حالات کا سراغ بھی انھیں مل گیا۔ اس انکشاف کا ذکر انھوں نے اپنے برادرِ بزرگ شیخ عطا محمد کے نام ۵؍اکتوبر ۱۹۲۵ء کے ایک خط میں کیا ہے۔ اصل خط شیخ اعجاز احمد کے پاس محفوظ ہے جس کا عکس ڈاکٹر محمد باقر نے اپنے ایک مقالے (اقبال کے اجداد کا سلسلۂ عالیہ) کے ضمن میں مجلہ صحیفہ کے اقبال نمبر (جلد اوّل، اکتوبر ۱۹۷۳ئ) میں شائع کیا ہے۔ اس خط کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو: … آپ اور آپ کے والد مکرم یہ سن کر خوش ہوں گے کہ مدت کی جدوجہد کے بعد آج اپنے بزرگوں کا سراغ مل گیا ہے۔ حضرت بابا لول حج کشمیر کے مشہور مشائخ میں سے تھے۔ ان کا ذکر خواجہ اعظم کی تاریخ کشمیر میں مل گیا ہے۔ والد مکرم نے جو کچھ اپنے بزرگوں سے سنا تھا وہ بحیثیت مجموعی درست ہے۔ اُن کا اصل گائوں لوچر نہ تھا، بلکہ موضع چکو پر گنہ آدئون تھا۔ وہ بارہ سال کشمیر سے باہر رہے اور ممالک کی سیر میں مصروف رہے۔ بیوی کے ساتھ اُن کے تعلقات اچھے نہ تھے، اس واسطے ترکِ دنیا کرکے کشمیر سے نکل گئے۔ واپس آنے پر اشارئہ غیبی پا کر حضرت بابا نصرالدین کے مرید ہوگئے جو حضرت نور الدین ولی کے مرید تھے۔ بقیہ عمر انھوں نے بابا نصرالدین کی صحبت میں گزاری اور اپنے مرشد کے جوار میں مدفون ہیں… ۷؎ فوق نے بابا لول حج کو سپرو خاندان کا پہلا نو مسلم قرار دیا ہے۔ وہ اپنی تالیف تاریخِ اقوامِ کشمیر (حصہ دوم) میں لکھتے ہیں: ان کا اصل نام معلوم نہیں ہو سکا۔ لول حج یا لولی حاجی کے نام سے انھوں نے شہرت پائی۔ انھوں نے کئی حج پاپیادہ کیے تھے۔ لول یا لال کشمیر میں احترام اور عزت کا لفظ ہے… قبولِ اسلام سے قبل ذات کے برہمن تھے، گوت سپرو تھی ۔ پیشہ اُن کا زراعت کاری اور زمین داری تھا۔ لیکن جب فقر اختیار کیاتو سب باتوں سے کنارہ کش ہو گئے۔ آپ کی قبر چرار شریف میں احاطہ مزار شیخ نور الدین ولی کے اندر ہے جہاں اُن کے مرشد بابا نصر الدین بھی مدفون ہیں۔ چنانچہ صاحبِ تاریخ اعظمی لکھتے ہیں ’’وقتِ رحلت در آستانۂ چرار در جوار پیر بزرگوار آسود‘‘۔۸؎ ڈاکٹر محمد باقر نے بھی اپنے مقالے میں یہ ثابت کیا ہے کہ بابا لول حج کے بارے میں اقبال کا بیان تاریخ کشمیر اعظمی کے عین مطابق ہے۔ مسکین کے مشہور تذکرے (تحایف الابرار فی ذکر الاولیاء الاخیار) میں بھی قدرے اختلاف کے ساتھ یہی تفصیلات درج ہیں۔ مقالہ نگار نے مختلف تذکروں کے حوالے سے حضرت شیخ نور الدین ولی ریشی اور اُن کے مرید و خلیفہ حضرت شیخ بابا نصر الدین ریشی کے حالات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ نیز بابا لول حج کے چند مریدوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ تذکرۂ مسکین کے مطابق حضرت شیخ نور الدین ولی کی تاریخٖ وفات ۲۶؍رمضان ۸۴۲ھ (۱۳؍اپریل ۱۴۳۹ئ) اور حضرت بابا نصرالدین کا سنہ وفات ۸۵۵ھ؍ ۱۴۵۱ء ہے۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ بابا لول حج کا تعلق سلطان زین العابدین بڈ شاہ کے عہدِ حکومت (۱۴۲۰-۱۴۷۰ئ) سے تھا۔ لیکن تعجب ہے کہ اقبال کے سوانح نگاروں کے درمیان یہ مسئلہ اب تک مابہ الاختلاف رہا ہے کہ ان کے جدِ اعلیٰ کس زمانے میں مسلمان ہوئے تھے۔ اس بارے میں قیاس آرائیوں کے سلسلے کا آغاز خود جناب فوق کے بیانات سے ہوا۔ انھوں نے کشمیری میگزین (اپریل ۱۹۰۹ئ) میں اقبال کے حالاتِ زندگی پر جو مضمون شائع کیا تھا، اس کی ابتدائی سطور میں وہ لکھتے ہیں: ’’شیخ صاحب کے جدِ اعلیٰ تقریباً دو سو سال ہوئے کہ مسلمان ہوئے تھے۔۹؎ ربع صدی بعد جب انھوں نے تاریخِ اقوامِ کشمیر کی پہلی جلد مرتّب کی، اُس وقت تک غالباً وہ بابا لول حج کی شخصیت سے نا آشنا تھے چنانچہ سپرو گوت کے بارے میں اقبال کے محولہ بالا خط کی عبارت نقل کرنے کے بعد اپنی سابقہ قیاسی رائے کے مطابق لکھتے ہیں: آپ کے جدِ اعلیٰ تقریباً سوا دو سو سال ہوئے (عالمگیر کے زمانے میں)مسلمان ہو گئے تھے۔‘‘۱۰؎ پھر ربع صدی بعد، مصنف ذکرِ اقبال نے فوق کے اس بیان پر اعتماد کرتے ہوئے تفاوتِ زمانی کے لحاظ سے ’’کوئی ڈھائی سو سال پیشتر‘‘ کے الفاظ لکھ دیے۔۱۱؎وہ بھی بابالول حج کے حالات سے بے خبر تھے، (ذکرِ اقبال میں اُن کا نام تک مذکور نہیں) لہٰذا مزید تحقیق کی ضرورت نہیں سمجھی اور اب، حال کی ایک تصنیف سرگذشت اقبال میں یہ جدید انکشاف ہوا ہے کہ ’’اس خاندان نے اٹھارویں صدی کے آغاز میں اسلام قبول کیا۔۱۲؎ بابا لول حج کے حالاتِ زندگی سے جہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ اقبال کے جدِ اعلیٰ پندرھویں صدی عیسوی کے نصف اوّل میں مشرف بہ اسلام ہو چکے تھے، وہاں یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ ابتدا ہی سے اس خاندان میں تصوف اور فقر و درویشی کی روایت کا آغاز ہوا۔ بابا لول حج کے اخلاف میں (چند پشتوں کے بعد) ایک صوفی بزرگ، شیخِ اکبر، کا ذکر ہمیں ملتا ہے۔ تاریخِ کشمیر کی دوسری جلد میں فوق لکھتے ہیں: بابا لول حج کی اولاد میں ایک بزرگ شیخ اکبر کے نام سے ہوئے ہیں۔ باعمل صوفی اور بزرگوں کی صحبت میں بیٹھنے والے تھے۔ ان کے تقدس و اتقا اور ان کی خاندانی نجابت کی وجہ سے ان کی شادی ان کے مرشد نے، جو سید تھے، اپنی صاحبزادی سے کر دی تھی۔ مرشد کی وفات پر ان کے فرز… نابالغ تھے، اس لیے وہی اپنے مرشد کے جانشین قرار پائے۔ شیخ اکبر سیلانی طبع تھے۔ کئی دفعہ انھوں نے پنجاب کا سفر کیا۔۱۳؎ شیخ اکبر کے بار ے میں مصنفِ اقبال کے حضور نے حضرتِ علامہ کی زبانی یہ روایت نقل کی ہے: ہمارے والد کے دادا یا پڑدادا پیر تھے، ان کا نام شیخ اکبر تھا۔ انھیں پیری اس طرح ملی کہ سن کھترا (ضلع سیالکوٹ میں ایک گائوں۔ راقم) میں ایک خاندان تھا جسے لوگ سیّد نہیں مانتے تھے اور اس لیے ان پر ہمیشہ طعن و تشنیع ہوا کرتی تھی۔ اسی خاندان کے سربراہ کو ایک روز جو غصہ آیا تو ایک سبز کپڑا اوڑھ کر آگ میں بیٹھ گئے، جس کے متعلق روایت تھی کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی یاد گار ہے۔ اس کی برکت سے آگ نے ان پر کوئی اثر نہ کیا۔ مخالفوں نے یہ دیکھا تو انھیں یقین ہو گیا کہ وہ فی الواقعہ سیّد ہیں۔ ان کا انتقال ہوا تو شیخ اکبر نے ان کے مریدوں کو سنبھالا اور خاندان کی خدمت کرنے لگے۔ ۱۴؎ فوق کے مندرجہ بالا بیان اور اقبال کی اس روایت میں یک گونہ مطابقت پائی جاتی ہے۔غالباً سن کھترا کے یہ سیّد بزرگ ہی شیخ اکبر کے مرشد اور خسر تھے۔ چونکہ (بقولِ فوق) سیّد صاحب کی وفات پر ان کے فرزند نابالغ تھے لہٰذا وہ اپنے مرشد کے جانشین قرار پائے اور اس حیثیت سے (بروایتِ اقبال) ان کے مریدوں کو بھی سنبھالا اور خاندان کو بھی۔ اقبال کے والد کے دادا کا نام شیخ جمال الدین۱۵؎ بتایا جاتا ہے۔ شیخ اکبر دادا نہیں بلکہ پڑدادا ہوں گے۔ فوق صاحب کا بیان ہے کہ شیخ اکبر کی چوتھی پشت میں چار بھائی تھے جو ترکِ وطن کرکے پنجاب آ گئے۔/ ان میںسے دو بھائی، شیخ محمد رمضان اور شیخ محمد رفیق سیالکوٹ میں متوطن ہوئے۔ تیسرے بھائی شیخ عبداللہ، ضلع سیالکوٹ کے موضع جیٹھے کی میں اور چوتھے بھائی (عبدالرحمن) نے لاہور میں سکونت اختیار کی۔ اقبال کے دادا شیخ محمد رفیق کے بڑے بھائی شیخ محمد رمضان کے بارے میں وہ لکھتے ہیں : ’’… صوفی منش بزرگ تھے۔ انھوں نے تصوف پر فارسی زبان میں چند ایک کتابیں بھی لکھی ہیں۔‘‘ ۱۶؎ شیخ محمد رفیق کے بڑے صاحبزادے،شیخ نور محمد کے بارے میں دیگر شواہد کے علاوہ خود اقبال کے بیانات سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ وہ ایک خدا رسیدہ صوفی بزرگ تھے۔ ان حقائق کے پیش نظر، اقبال کی شخصیت پر نسلی اثرات کا جائزہ لیتے وقت سب سے پہلے ہمیں جس پہلو پر غور کرنا ہے، وہ ان کی ’’برہمن زادگی‘‘ہے۔ اگرچہ اقبال کے برہمن اجداد صدیوں پہلے مسلمان ہو چکے تھے، اور اسلامی برادری میں شامل ہونے کے بعد نسلی عصبیتوں کے ساتھ نسلی اثرات بھی رفتہ رفتہ مٹ جاتے ہیں لیکن یہ امرِ واقعہ ہے کہ اقوامِ ہند، بالخصوص اعلیٰ نسل کے ہندوئوں مثلاً برہمنوں اور راجپوتوں نے مسلمان ہونے کے بعد بھی اپنے قومی و نسلی تشخص کو برقرار رکھا اور اپنے ناموں کے ساتھ اپنے گوت اور فرقے کا بھی فخریہ اعلان و اظہار کرتے رہے۔ اقبال کے اجداد، تصوف اور دینی تعلیمات کے زیر اثر نسلی امتیازات سے بالا تھے، تاہم اس خانوادے کے افراد بھی شادی بیاہ کے معاملے میں ’’سپرو‘‘ خاندان اور کشمیری برادری کے رشتوں کو ہمیشہ ترجیح دیتے رہے۔ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی نے ’’علامہ اقبال کی خدمت میں چند لمحے‘‘ کے عنوان سے اپنے مضمون میں ایک واقعہ بیان کیا ہے جس سے یہ ظاہر / زمانۂ ہجرت کے بارے میں سوانح نگاروں کے بیانات مختلف ہیں۔ صاحبِ ذکرِ اقبال (ص۸) اور دیگر سوانح نگاروں نے ۱۸۵۷ء کے ہنگاموں کے بعد کا زمانہ بتایا ہے جو قرین قیاس نہیں۔فقیر سید وحید الدین کی یہ رائے زیادہ درست ہے کہ اٹھارویں صدی کے اواخر یا انیسویں صدی کے اوائل میں یہ ہجرت ہوئی۔ (روزگار فقیر، جلد دوم، ص ۱۱۵)۔ جاوید اقبال نے بھی اوائلِ انیسویں صدی میں ہجرت کا امکان ظاہر کیا ہے۔ (زندہ رود، ص۱۸) ہوتا ہے کہ خود حضرت علامہ بھی، اپنے ملّی جذبات اور آفاقی تصورات کے باوجود، ازدواجی رشتوں کی حد تک،اس خاندانی رسم کے قائل تھے۔ واقعہ یوں ہے کہ ایک روز محفل جمی ہوئی تھی۔ ایک نوجوان نے جو کسی مقامی کالج میں ایم ۔ اے کا طالب علم تھا، کہا: ’’ڈاکٹر صاحب! آپ ہمیشہ کہا کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو ذات پات کی تمیز مٹا دینی چاہیے کیونکہ ہماری ذات صرف اسلام ہے … میں نے سنا ہے کہ خواجہ… صاحب کاٹھیاوار کے کسی خاندان میں شادی کرنا چاہتے تھے لیکن آپ نے منع کر دیا اور کہا کہ پنجاب کی کشمیری برادری سے باہر شادی نہ کریں‘‘۔ ڈاکٹر صاحب بے اختیار ہنسے۔ کہنے لگے: ’’یہ بالکل صحیح ہے۔ آپ جانتے ہیں، خواجہ… صاحب وہاں شادی کر لیں تو ان کی اولاد بھی کالی کلوٹی ہو گی اور اس طرح اس خاندان سے وہ صباحت رخصت ہو جائے گی جو پشتوں سے اس کی خصوصیت چلی آ رہی ہے۔میں تو چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کے بچے نہایت خوش رو اور سرخ و سفید ہوں تا کہ ہم لوگ صحیح معنی میں ملتِ بیضا بن جائیں‘‘۔ ۱۷؎ برہمن قوم کی ذہانت اور فلسفہ دانی مسلّم ہے۔ ہزاروں برس سے برہمن، ویدانتی علوم اور فلسفہ وحکمت کے خزانوں کے بلا شرکتِ غیرے امین و محافظ بن کر ہندوئوں کی فکری قیادت و سیادت کا فریضہ انجام دیتے رہے ہیں۔سپرو گوت کے برہمنوں کی وسیع النظری کی بدولت ان کے ذہنی و فکری دائرے میں مزید کشادگی پیدا ہو گئی اور وہ علم و فضل میں اوروں پر سبقت لے گئے۔ اگرچہ اقبال کے سپرو اجداد کئی صدی قبل مسلمان ہو چکے تھے لیکن برادری کی پاسداری اور حد بندی کی وجہ سے ، صباحت اور ذہانت کے اوصاف نسلاً بعد نسلٍ منتقل ہوتے رہے اور بقول ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم: ’’از روئے قانونِ توراث، اقبال کو اس میں سے اچھا خاصا حصہ ملا‘‘۔ ۱۸؎ اقبال کے اشعارمیں’’برہمن زادگی‘‘ کی جانب جو اشارات ہیں، انھیں خلیفہ صاحب نے نسلی تفاخر پر محمول فرمایا ہے، لیکن غالباً اس کی بنیاد صرف یہ احساس ہے کہ ان کا فکری رجحان، برہمن اجداد کا فیضان ہے۔ چنانچہ اپنی نظم ’’ایک فلسفہ زدہ سید زادہ کے نام‘‘ میں انھوں نے واضح طور پر کہا ہے : میں اصل کا خاص سومناتی آبا مرے لاتی و مناتی تو سیّدِ ہاشمی کی اولاد میری کفِ خاک برہمن زاد ہے فلسفہ میرے آب و گِل میں پوشیدہ ہے ریشہ ہائے دل میں۱۹؎ پروفیسر خواجہ عبدالحمید کا بیان ہے کہ کسی صحبت میں ایک جرمن یا آسٹرین سیاح، ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا جس نے اپنی بیاض میں ڈاکٹر صاحب سے کچھ لکھنے کی درخواست کی۔ انھوں نے فارسی کا ایک قطعہ لکھ کر دستخط کر دیے۔ اس نے پوچھا ’’آپ کس چیز کی تعلیم دیتے ہیں؟‘‘ جواب میں فرمایا: ’’میرے آبا و اجداد برہمن تھے۔ انھوں نے اپنی عمریں اسی سوچ میں گزار دیں کہ خدا کیا ہے۔ میں اپنی عمر اس سوچ میں گزار رہا ہوں کہ انسان کیا ہے؟‘‘۔۲۰؎ اقبال کی فکر کے زاویے اپنے اسلاف سے مختلف ضرور تھے لیکن تفکر ان کی شخصیت کا ایسا نمایاں عنصر تھا جو ان کے کلام، ان کی تحریر و تقریر اور عام گفتگو میں ہر جگہ نمایاں ہے۔ بقول پروفیسر حمید احمد خان مرحوم: ’’خاموشی اور گفتگو، سکون اور اشتعال، ہررنگ میں ان کی اصل حیثیت ایک مفکر کی تھی۔ یہ ناممکن تھا کہ کوئی شخص تھوڑی دیر ان کے پاس بیٹھے اور یہ محسوس نہ کرے کہ اقبال کی پوری ہستی کی بنیاد غور و فکر پر قائم ہے‘‘۔۲۱؎ نسلی و خاندانی اثرات کے ضمن میں دوسرا قابلِ توجہ پہلو یہ ہے کہ اقبال کے گھرانے میں پہلے نو مسلم شیخ بابا لول حج سے لے کر اقبال کے والدِ ماجد ، شیخ نور محمد تک صوفیانہ مذاق مسلسل ایک روایت کی صورت میں ملتا ہے۔ اقبال نے جس ماحول میں آنکھیں کھولیں وہ صوفیانہ ذکر و فکر کی کیفیات میں ڈوبا ہوا تھا۔ وہ ’’جاوید سے خطاب‘‘ کرتے ہوئے کہتے ہیں: غارت گرِ دیں ہے یہ زمانہ ہے اس کی نہاد کافرانہ جس گھر کا مگر چراغ ہے تو ہے اس کا مذاق عارفانہ۲۲؎ اقبال نے ایک خط میں اس امر کی وضاحت کی ہے کہ ان کا فطری اور آبائی میلان تصوف کی طرف ہے۔ لیکن قرآن میں تدبر کرنے اور تاریخِ اسلام کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد جب اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انھیں اپنے فطری اور آبائی رجحانات کے خلاف ایک ’’دماغی اور قلبی جہاد‘‘ کرنا پڑا۔۲۳؎ بہرحال یہ جہاد عجمی تصوف کے فلسفیانہ نظریات کے خلاف تھا۔ در حقیقت وہ اپنے قلندرانہ مزاج کی سادگی و بے ریائی، جذب و مستی، فقر و استغنا، نیز اپنے طرزِ فکر و احساس کے اعتبار سے عمر بھر صوفی ہی رہے۔ والدین کی شخصیت اور تربیت کے نقوش سیالکوٹ کا تاریخی شہر، مہا بھارت کے زمانے سے قدیم آریائی تہذیب اور مذہبی روایات کا مرکز تھا۔ مسلم تاریخ کے مختلف ادوار میں بھی یہ شہر بڑے بڑے سیاسی معرکوں کا میدان، علوم و فنون کا گہوارہ اور علما، حکما و صوفیا کا مسکن رہا ہے۔ مغل سلاطین کے عہد میں یہاں کی دینی درسگاہیں ملک گیر شہرت کی حامل تھیں۔ سکھوں اور انگریزوں کے دورِ حکومت میں یہ شہر اپنی قدیم تہذیبی عظمت و مرکزیت سے محروم ہو گیا۔ تاہم حوادث و انقلابات کی تند و تیز آندھیوں میں بھی یہاں علم و عرفان کی شمعیں فروزاں ہی رہیں۔ ایک صدی قبل، ۳؍ذیقعدہ ۱۲۹۴ھ؍ ۹؍نومبر۱۸۷۷ئ/ کو اسی تاریخی شہرکے ایک متوسط مسلم گھرانے میں وہ اقبال مند بچہ پیدا ہوا جو / اقبال کی تاریخِ ولادت کا مسئلہ ایک طویل عرصے تک بحث و نزاع کا موضوع بنا رہا۔ بالآخر بہ تقریبِ جشنِ صد سالہ (اقبال صدی)، سرکاری طور پر اقبال کی تاریخ ولادت ۹؍نومبر ۱۸۷۷ء تسلیم کر لی گئی، جس کے حق میں سب سے اہم دلیل یہ ہے کہ علامہ اقبال نے پی ایچ۔ڈی کے مقالے کے لیے خود نوشت تعارفی نوٹ میں سنہ ہجری کی جو تاریخ (۳؍ذیقعد ۱۲۹۴ھ) درج کی تھی یہ اس کے مطابق ہے۔ لیکن بعض محققین کی رائے میں، خالد نظیر صوفی، مصنف اقبال درونِ خانہ کے دلائل زیادہ وزن رکھتے ہیں۔ موصوف نے میونسپل کمیٹی سیالکوٹ کے رجسٹر پیدائش کے اندراجات کے بارے میں بعض غلط فہمیوں کو رفع کیا ہے اور ان اندراجات نیز مختلف خاندانی شہادتوں کی بنا پر یہ ثابت کیا کہ اقبال کی صحیح تاریخ ولادت ۲۹؍ دسمبر ۱۸۷۳ء ہے (اقبال درون خانہ، صفحات ۱۵۴تا ۱۶۳)۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی تصنیف زندہ رود کے تیسرے باب میں اس مسئلے کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اور خالد نظیر صوفی، نیز ان کی حمایت میں دیگر متعلقہ دلائل کی تردید کرتے ہوئے اقبال کے تحقیقی مقالے سے متعلق سوانحی نوٹ کے اندراج کے حق میں مختلف شواہد پیش کیے ہیں۔ بالآخر اس طویل بحث کو اس جملے پر ختم کیا ہے: ’’ان شواہد کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اقبال کی تاریخِ ولادت ۳؍ذیعقد ۱۲۹۴ھ ہے جو ۹؍نومبر ۱۸۷۷ء کے برابر ہوتی ہے‘‘ (زندہ رود، ص ۴۹)۔ تاہم بحث کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔ اس ضمن میں سعید اختر درانی نے ٹرینٹی کالج کے رجسٹر داخلہ کے حوالے سے یہ انکشاف کیا ہے کہ اس میں ’’بدستِ خود انھوں نے اپنی تاریخِ پیدائش محرم ۱۸۷۶ء لکھی ہے‘‘ (اقبال یورپ میں، ص ۶) ۔اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے پہلے یہ دلیل دی ہے کہ مصدقہ معلومات کی بنا پر اقبال نے مختلف موقعوں پر اپنی پیدائش کا سنہ عیسوی ہمیشہ ۱۸۷۶ء ہی درج کیا ہے (ایضاً ص ۱۳) لہٰذا اسی پر انحصار کرتے ہوئے انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ’’وہ محرم ۱۲۹۳ھ یعنی جنوری۔ فروری ۱۸۷۶ء میں پیدا ہوئے تھے‘‘(ایضاً، ص ۱۵)۔ لیکن میونخ یونی ورسٹی والے پی ایچ ۔ ڈی کے مقالے کے اندراج کو بآسانی رد نہیں کیا جا سکتا۔ چونکہ وہاں واضح طور پر ہجری تاریخ و سنہ درج ہے اور اس سے اختلاف کی کوئی مثال موجود نہیں، لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ٹرینٹی کالج کیمبرج کے رجسٹر داخلہ میں سہواً ’’محرم‘‘ لکھا گیا۔ بعد ازاں بزرگوں سے دریافت کرکے صحیح تاریخ (۳؍ذی قعد۱۲۹۴ھ) لکھی گئی۔ شعر و حکمت کے آسمان پر آفتاب بن کر چمکا۔بچے کی ولادت سے پہلے، روشن ضمیر باپ، شیخ نور محمد نے ایک خواب دیکھا تھا جسے خلیفہ عبدالحکیم نے انھی کی زبانی یوں بیان کیا ہے: ’’میں نے دیکھا کہ ایک بڑے میدان میں بہت سے لوگ کھڑے ہیں۔ اوپر فضا میں ایک خوبصورت رنگا رنگ پروں والا پرندہ اڑ رہا ہے… لوگ دیوانہ وار اپنے بازو اٹھا اٹھا کر اس پرندے کو حاصل کرنے کی جد و جہد کر رہے ہیں۔ آخر وہ سراپا جمال پرندہ ایک دم فضا سے اترا اور میری گود میں آن گرا‘‘۔۲۴؎ شیخ نور محمد نے اس خواب کی تعبیر خود ہی بیان کی کہ میرے یہاں کوئی بچہ پیدا ہو گا جو خدمتِ اسلام میں ناموری حاصل کرے گا، اور اس اشارۂ غیبی کے مطابق اپنے فرزند بلند اقبال کا نام محمد اقبال رکھا۔ شیخ نور محمد، جو اپنے خاندان میں ’’میاں جی‘‘ اور عرفِ عام میں ’’نتھو‘‘/ کہلاتے تھے، ایک صاحبِ دل درویش اور صوفی مشرب انسان تھے۔ لیکن پیری مریدی یا اپنے کمالاتِ باطنی کے اظہار سے محترز رہتے ہوئے، ’’دل بیار و دست بکار‘‘ پر عمل پیرا رہے اور دُھسّوں کی تجارت یا بالعموم کلاہ سازی کے معمولی کاروبار کو کسبِ معاش کا ذریعہ بنایا۔ ابتدا میں ان کی مالی حالت اچھی نہیں تھی ،پھر رفتہ رفتہ خوش حالی کا دور آیا۔ ایک صحبت میں حضرتِ علامہ یہ فرما رہے تھے کہ اعمالِ حسنہ کبھی ضائع نہیں جاتے۔ اس ضمن میں آپ نے اپنے والد محترم کا یہ واقعہ بیان کیا : ’’ایک روز شیخ نور محمد رومال میں تھوڑی سی مٹھائی لیے گھر آ رہے تھے۔ راہ میں ایک کتے کو بھوک پیاس کے مارے دم توڑتے دیکھا۔ مٹھائی اس کے آگے ڈال دی اور کہیں سے پانی لا کر پلایا۔ رات کو ایک ایسا خواب دیکھا جس سے انھیں یقین آ گیا کہ اب ان کے دن پھرنے والے ہیں۔ اس واقعے کے بعد سنکھترہ کے خاندانِ سادات (جس کا ذکر شیخِ اکبر کے حوالے سے آ چکا ہے) کا ایک فرد شیخ نور محمد کے پاس آیا اور اس نے دُھسّوں کی تجارت کا مشورہ دیا۔ شیخ صاحب نے دو چار سو دُھسّے تیار کیے جو اچھے داموں پر بک گئے۔ یہ ابتدا تھی دن پھرنے کی۔ پھر ان کے بڑے بیٹے شیخ عطا محمد بھی ملازم ہو گئے۔۲۵؎ شیخ نور محمد اپنی ذاتی وجاہت ، متانت اور پاکیزگیِ سیرت کی بنا پر شہر میں بڑی عزت کی نگاہ / وجہِ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ان کے والدین کے دس لڑکے ولادت کے بعد فوت ہو چکے تھے لہٰذا شیخ نور محمد کی پیدائش پر منتیں مانی گئیں اور ٹوٹکے کے طور پر ناک چھدوا کر نتھ پہنا دی گئی، اسی لیے نتھو کہلائے۔ (روزگار فقیر، جلد اوّل، ص ۹۶-۱۹۵) سے دیکھے جاتے تھے۔ علم و عرفان کا ذوق اور دینی جذبہ انھیں علما و صلحا کی مجالس میں کشاں کشاں لے جاتا تھا اور وہ ان صحبتوں سے برابر استفادہ کیا کرتے تھے۔ کبھی کبھی اہلِ علم کی یہ مجلسیں ان کے مکان یا دوکان پر بھی آراستہ ہوتی تھیں۔ ان کی گفتگو حکیمانہ خیالات و عارفانہ کیفیات کی آئینہ دار ہوتی تھی۔ چنانچہ علامہ میر حسن انھیں ’’ان پڑھ فلسفی‘‘ کے لقب سے پکارتے تھے۔ علامہ موصوف نے ان کی علمی لیاقت کے مقابلے میں، ان کے فلسفیانہ تفکر کو اتنا غیر معمولی اور غیرمتوقع پایا کہ ’’اَن پڑھ فلسفی‘‘ کہہ دیا۔ لیکن اس سے یہ سمجھنا درست نہ ہو گا کہ وہ بالکل جاہل یا مصنف ِ ذکرِ اقبال کے الفاظ میں ’’پڑھے لکھے نہ تھے‘‘۔۲۶؎ متواتر روایتوں میں ذکر آیا ہے کہ اقبال کے کلام، خصوصاً مثنوی اسرار و رموز کے مطالعے سے وہ اتنا متاثر ہوتے کہ ان پر رقّت طاری ہو جاتی تھی۔ اقبال اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ ابنِ عربی کی مشہور تصانیف فتوحاتِ مکّیہ اور فصوص الحکم سے شیخ صاحب کو ’’کمال توغّل رہا ہے‘‘ اور برسوں تک ان کتابوں کا درس ان کے گھر میں ہوتا رہا ۔۲۷؎ جو شخص تصوف کی ان دقیق کتابوں سے شغف رکھتا ہو، اور جس سے بقول سید زکی شاہ، لوگ تصوف کی مشکل کتابوں کے مطالب کی تشریح پوچھا کرتے تھے۲۸؎ اسے جاہل یا ان پڑھ نہیں کہا جا سکتا ۔شیخ نور محمد، ذوقِ شعر سے بہرہ مند ہونے کے ساتھ شعر گوئی پر قدرت بھی رکھتے تھے۔ چنانچہ اپنی رفیقۂ حیات کی وفات کے بعد انھوں نے اپنے احساسِ تنہائی کا اظہار جن شعروں میں کیا تھا ، ان میں سے ایک شعر شیخ اعجاز احمد نے نقل کیا ہے: یہ تنہا زندگی پیری میں نصف الموت ہوتی ہے نہ کوئی ہم سخن اپنا، نہ کوئی رازداں اپنا۲۹؎ شیخ نور محمد کے سوزو گداز اور رقتِ قلب کی کیفیت کا اندازہ اس واقعے سے ہو گا جسے اقبال نے اکبر الہ آبادی کے نام ایک خط ( مورخہ ۱۳؍اگست ۱۹۱۸ئ) میں یوں بیان کیا ہے: پرسوں شام کھانا کھا رہے تھے اور کسی عزیز کا ذکر کر رہے تھے جس کا حال ہی میں انتقال ہو گیا تھا۔ دوران گفتگو میں کہنے لگے ’’معلوم نہیں بندہ اپنے رب سے کب کا بچھڑا ہوا ہے۔‘‘اس خیال سے اس قدر متاثر ہوئے کہ قریباًبے ہوش ہو گئے اور رات دس گیارہ بجے تک یہی کیفیت رہی۔ یہ خاموش لیکچر ہیں جو پیرانِ مشرقی سے ہی مل سکتے ہیں۔ یورپ کی درس گاہوں میں ان کا نشان نہیں۔۳۰؎ شیخ عبدالقادر نے اپنے ایک مضمون ’’کیفِ غم‘‘ میں اقبال کی دل گداختگی اور سوز غم کی کیفیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے انجمن کے اس سالانہ جلسے (منعقدہ اپریل ۱۹۱۱ئ)کا ذکر کیا ہے جس میں اقبال نے اپنی مشہور نظم ’’شکوہ‘‘ پڑھی تھی اور سامعین میں اقبال کے معمرّ باپ بھی موجود تھے۔ شیخ صاحب لکھتے ہیں: ’’باپ کی آنکھوں میں بیٹے کی کامیابی دیکھ کر خوشی کے آنسو تھے مگر لبوں پر تاثیر کلام سے وہی علاماتِ غم تھیں، جو بیٹے کے چہرے پر تھیں۔ درحقیقت یہ خصوصیت بیٹے نے باپ سے ورثے میں پائی تھی۔‘‘۳۱؎ حضرت علامہ کبھی کبھی اپنے والد کے کشف و کرامات بھی بیان کیا کرتے تھے۔خلیفہ عبدالحکیم ان کی زبانی یہ روایت نقل کرتے ہیں: ’’میں نے والدہ کی زبانی سنا ہے کہ ایک آدھ مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ والد کی موجودگی میں بے چراغ کمرے کے اندر، تاریک رات میں عجیب و غریب قسم کا نور ظاہر ہوا اور ایسا معلوم ہوا کہ سورج نکل آیا ہے۔‘‘۳۲؎ (اسی قسم کے ایک واقعے کا مفصل ذکر آگے آئے گا۔) خالد نظیر صوفی بعض خاندانی واقعات کے ضمن میں لکھتے ہیں: ’’میاں جی… جو بات کہہ دیتے پوری ہو کر رہتی۔‘‘۳۳؎ اقبال کی تحریروںمیں بھی روز مرہ زندگی کے ایسے کئی واقعات کا ذکر آیا ہے۔ مثلاً اکبر کے نام ۱۴؍ستمبر ۱۹۱۸ء کے خط میں کلکتہ کے فسادات اور مسلم رہنمائوں کی طرف سے کسی جلسے کی تیاریوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’مجھے بھی کلکتہ سے بلاوا آیا تھا اور میں جانے کو قریباً تیار بھی تھا مگر جب مطبوعہ خط کا مضمون والدِ مکرّم کو سنایا تو انھوں نے فرمایا کہ حکام غالباً یہ جلسہ بند کر دیں گے۔ بعد میں ایسا ہی ہوا۔‘‘۳۴؎ شیخ نور محمد، سلسلۂ قادریہ میں ایک بزرگ سے بیعت تھے اور اقبال بھی کم عمری میں سلسلۂ قادریہ سے وابستہ ہو چکے تھے۔ پیر جماعت علی شاہ علی پوری کا بیان ہے کہ ’’اقبال نے راز داری کے طور پر مجھے کہا تھا کہ میں اپنے والدِ مرحوم سے بیعت ہوں‘‘۔۳۵؎ اگرچہ اقبال نے کسی مصلحت سے اس حقیقت کا علانیہ اعتراف نہیں کیا لیکن اپنے والد کے روحانی فیوض کا بارہا ذکر کیا ہے۔ شیخ اعجاز احمد (برادر زادۂ اقبال) کی اس روایت سے ’’پدر و مرشد‘‘ کی خاص ہدایات کا بھی سراغ ملتا ہے۔ ایک مرتبہ اعجاز صاحب نے اپنے دادا سے ’’اسمِ اعظم‘‘ کے بارے میں استفسار کیا تو فرمایا: مجھے جادو منتر، ٹونے ٹوٹکے جیسا کوئی اسمِ اعظم معلوم نہیں ہے کہ اس کے پڑھتے ہی کچھ سے کچھ ہو جائے۔ ہاں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے سے مشکلیں حل ہو جاتی ہیں، اس لیے دعا ہی اسمِ اعظم ہے ---- قبولیتِ دعا کا ایک نسخہ یاد رکھنے کے قابل ہے اور وہ یہ کہ ہر دعا سے قبل اور بعد حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر درود بھیجیں کیونکہ درود سے بڑھ کر اور کوئی اسمِ اعظم نہیں۔ تمھارے چچا (اقبال) کو میں نے اسی اسمِ اعظم کی تلقین کی ہے ---- اسمائے الٰہی میں ’’یا حیّٰ یا قیوم‘‘ کا ورد بکثرت کرنا چاہیے۔ اقبال کو بھی میں نے اس کی تاکید کی ہے۔‘‘۳۶؎ متعدد معتبر روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال ہمیشہ ان ہدایات پر عمل پیرا رہے۔ رشد وہدایت کا یہ سلسلہ شیخ نور محمد کی وفات (۱۷؍اگست۱۹۳۰ئ) تک جاری رہا۔یہاں بعض ایسے واقعات کا ذکر ضروری ہے جن کا تعلق اقبال کے اس ابتدائی دورِ حیات، اور صاحبِ بصیرت باپ کے اندازِ تربیت سے ہے۔ شیخ نور محمد اُن صوفیوں سے بالکل مختلف تھے جو وجد و حال کی لذتوں میں کھو کر قرآن سے بے تعلق ہو جاتے ہیں۔ انھیں مطالعۂ قرآن کا خاص ذوق تھا اور اس ضمن میں انھوں نے اقبال کو جو تلقین کی تھی اس کا ذکر یوں تو کئی جگہ آیا ہے لیکن سید نذیر نیازی نے بڑی تفصیل سے اس کی وضاحت کی ہے۔اپنی تصنیف اقبال کے حضور میں وہ لکھتے ہیں: حضرتِ علامہ نے پھر فرمایا: میںنے کہا تھا قرآن مجید دل کے راستے بھی شعور میںداخل ہوتا ہے۔ یہ حقیقت یوںسمجھ میں آئے گی کہ کالج میں میری تعلیم کا ابتدائی زمانہ تھا۔ میرا معمول تھا ہر روز نما فجر کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کرتا۔ اس دوران میںوالدِ ماجد بھی مسجد سے تشریف لے آتے اور مجھے تلاوت کرتا دیکھ کر اپنے کمرے میں چلے جاتے… ایک روز کا ذکر ہے والدِ ماجد حسب معمول مسجد سے واپس آئے۔ میں تلاوت میں مصروف تھا، مگر وہ جیسے کسی خیال سے میرے پاس بیٹھ گئے۔ میں تلاوت کرتے کرتے رک گیا اور منتظر تھا کہ مجھ سے کیا ارشاد فرماتے ہیں۔ کہنے لگے تم کیا پڑھا کرتے ہو؟ مجھے اُن کے اس سوال پر بہت تعجب ہوا… بہرحال میں نے مؤدبانہ عرض کیا، قرآن پاک۔ کہنے لگے تم جو کچھ پڑھتے ہو، سمجھتے بھی ہو؟ میں نے کہا کیوں نہیں، تھوڑی بہت عربی جانتا ہوں، کچھ نہ کچھ سمجھ لیتا ہوں۔ انھوں نے میرا جواب خاموشی سے سنا اور اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔ میں حیران تھا کہ آخر اس سوال سے ان کا مطلب کیا ہے؟ کچھ دن گزر گئے اور یہ بات آئی گئی ہو گئی۔ لیکن اس واقعے کو چھٹا روز تھا کہ صبح سویرے میں حسبِ معمول قرآن پاک کی تلاوت کر رہا تھا۔ والدِ ماجد مسجد سے واپس آئے اور میں نے تلاوت ختم کی تو انھوں نے مجھے بلایا اور پاس بٹھا کر بڑی نرمی سے کہنے لگے، بیٹا! قرآن مجید وہی شخص سمجھ سکتا ہے جس پر اس کا نزول ہو… کیوں نہ تم اس کی تلاوت اس طرح کرو جیسے یہ تم پر نازل ہو رہا ہے۔ ایسا کرو گے تو یہ تمھاری رگ و پے میں سرایت کر جائے گا۔۳۷؎ دنیائے اسلام کے مشہور عالم، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، جنھوں نے قرآن کے سمجھنے اور سمجھانے میں عمر کا ایک بڑا حصہ صرف کیا، فہم قرآن کے لیے مطا لعۂ قرآن کے اسی طریقے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ’’مطا لعۂ قرآن کی سرگذشت‘‘ بیان کرتے ہوئے، بہترین تفاسیر کا ذکر کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں: ان علمی تجربات میں اب اتنا اضافہ کرتا ہوں کہ قرآن کریم کے فہم کا اصل دروازہ جب کھلتا ہے جب آدمی بغیر کسی حجاب کے اس کلام کے ذریعے صاحبِ کلام سے ہم کلام ہو۔ اس کا راستہ قرآن مجید کی بکثرت تلاوت ہے۔ ضرورت اس کی ہے کہ پڑھنے والا اس کتاب سے براہ ِ راست تعارف و اُنس حاصل کرے اور اس کو ایسا محسوس ہو کہ وہ براہِ راست مخاطب ہے۔۳۸؎ غالباً باپ کی اسی حکیمانہ نصیحت کا نتیجہ تھا کہ اقبال کو عمر بھر قرآن کے مطالعے سے والہانہ شغف رہا اور اسی شغف کی بدولت حکمتِ قرآنی میں انھیں گہری بصیرت حاصل ہوئی اور قرآن اُن کے تمام افکار کا سر چشمہ بن گیا۔ اقبال کا یہ شعر اسی ذاتی واردات کا ترجمان ہے: ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشّاف۳۹؎ شیخ نور محمد کے حسنِ تربیت کی مثال اقبال کے لڑکپن کے اس واقعے میں ملتی ہے،جسے انھوں نے رموز بے خودی کے ایک باب :(در معنیِ ایں کہ حسنِ سیرتِ ملّیہ از تأدّب بآدابِ محمدیہ است) میں بیان کیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک روز ایک گدائے مبرم نے دروازے پر پیہم صدائیں دیں۔ اُس کے گستاخانہ رویے سے بر افروختہ ہو کر اقبال نے اُسے ایک ڈنڈا رسید کیا۔ پدرِ بزرگوار نے یہ ماجرا دیکھا تو بیٹے کی بدمزاجی پر شدتِ غم سے چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔ سر پکڑ کر اپنے کمرے میں بیٹھ گئے اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ نکلے۔ تھوڑی دیر بعد بیٹے کو بلایا اور نہایت نرم لہجے میں فرمانے لگے: ’’بیٹے! جب قیامت کے دن اُمت کے علمائ، صلحا اور شہدا سرور کائناتؐ کے گرد جمع ہوں گے اور جب اس محفل میں اس فقیر کی فریاد پر آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مجھ سے پوچھیں گے تو میں کیا جواب دوں گا، کہ اللہ نے ایک مسلم نوجوان تیرے سپرد کیا تھا لیکن تو نے اسے میرے دبستان کا کوئی سبق نہ سکھایا؛ تجھ سے یہ بھی نہ ہو سکا کہ اس مٹی کے تودے کو انسان کے روپ میں ڈھال دیتا؟ بیٹے! اپنے باپ پر اتنا ظلم تو روا نہ رکھ کہ اُسے اپنے آقا کے سامنے رسوا ہونا پڑے۔ ع من چہ گویم چوں مرا پرسد نبیؐ: حق جوانے مسلمے با تو سپرد کُو نصیبے از دبستانم نبرد از تو ایں یک کار آساں ہم نہ شد یعنی آں انبارِ گل آدم نہ شد بر پدر ایں جورِ نازیبا مکن پیشِ مولا بندہ را رسوا مکن غنچہ ای از شاخسارِ مصطفیؐ گل شو از بادِ بہارِ مصطفیؐ از بہارش رنگ و بو باید گرفت بہرئہ از خُلقِ او باید گرفت فطرتِ مسلم سراپا شفقت است در جہاں دست و زبانش رحمت است از مقامِ او اگر دور ایستی از میانِ معشرِ ما نیستی۴۰؎ باپ کی اس درد انگیز گفتگو نے سعادت مند بیٹے کے حساس دل پر احترامِ آدمیت اور عشقِ رسولؐ کا ایسا نقش جمایا جو عمر کے ساتھ ساتھ اور گہرا ہوتا چلا گیا۔ سفرِ کابل سے واپسی پر سید سلیمان ندوی کو اقبال نے یہ واقعہ بھی سنایا تھا کہ ایک دن ان کے والدِ ماجد نے بیٹے سے یہ کہا کہ میں نے تمھارے پڑھانے لکھانے میں جو محنت کی ہے، میں تم سے اس کا معاوضہ چاہتا ہوں۔ لائق بیٹے نے بڑے اشتیاق سے پوچھا کہ وہ کیا ہے؟ باپ نے کہا کہ پھر کسی موقعہ سے بتائوں گا۔ آخر ایک روز وہ کہنے لگے کہ بیٹے ! میری محنت کا معاوضہ یہ ہے کہ تم اسلام کی خدمت کرنا۔ ’’دنیا جانتی ہے کہ سعادت مند بیٹے نے باپ سے جو عہد کیا تھا، اسے کس حسن و خو بی سے پورا کیا۔‘‘۴۱؎ اسلامی معاشرے میں والدین کی اطاعت اور تکریم کو جو اہمیت حاصل ہے، محتاجِ بیان نہیں۔لیکن مغرب زدہ طبقے سے قطع نظر ہمارے معاشرے کے دین دار گھرانوں میں بھی ایسی مثالیں شاذ و نادر ہیں کہ کوئی شخص علم و فضل اور عزت و شہرت کے بلند ترین مدارج پر فائز ہونے کے بعد بھی اپنے بوڑھے، نیم خواندہ باپ کے مشوروں کو خاص اہمیت دے اور اس کے احکام پر بے چون و چرا عمل بھی کرے۔ اقبال کی زندگی ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ چھوٹے بڑے تمام معاملات و مسائل میں وہ اپنی رائے، اپنے ارادے، اپنی مرضی اور مفاد کو اپنے والدِ ماجد کی رضا و ایما پر قربان کرتے رہے۔ یہاں صرف دو اہم واقعات درج کیے جاتے ہیں؛ اقبال کی پہلی شادی کم عمری میں ہوئی۔ اُن کی مرضی کے خلاف رشتہ طے ہو گیا۔ وہ شادی کے لیے آمادہ نہ تھے لیکن باپ کے حکم پر سرِ تسلیم خم کر دیا۔ یہ عنفوانِ شباب کا واقعہ ہے۔اب زندگی کے آخری دور کا یہ واقعہ ملاحظہ ہو؛ جس دن حضرتِ علامہ اپنے نو تعمیر مکان ’’جاوید منزل‘‘ میں منتقل ہوئے تھے، اُسی دن پروفیسر مولوی ظفر اقبال اُن کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ وہ صوفے پر بیٹھے کچھ لکھ رہے تھے۔ مولوی صاحب نے عرض کیا کہ آپ مسودہ دیکھ کر کچھ لکھ رہے ہیں؛ اگر اجازت ہو تو میں مسودہ پڑھوں اور آپ مبیضہ کرتے جائیں۔ اس طرح آپ کو کم زحمت ہو گی۔ حضرت علامہ نے فرمایا: میرے والد نے مجھے نصیحت کی تھی کہ میں اپنی زندگی میں کسی غیر منقولہ جائداد کا مالک نہ بنوں۔ سیالکوٹ والا مکان میں نے اپنے بڑے بھائی کے حوالے کر دیا ہے اور یہ مکان جاوید کے نام منتقل کر رہا ہوں۔ اب کرایہ دار کی حیثیت سے یہاں رہوں گا۔ اس عدالتی فارم پر میں کرایہ نامہ لکھ رہا ہوں۔۴۲؎ اقبال کی والدہ، محترمہ امام بی بی ، یوں تو مطلق ان پڑھ، لیکن نہایت سلیقہ مند اور منتظم کار خاتون تھیں۔اُن کے حسنِ سلوک کے باعث خاندان کے چھوٹے بڑے سب اُن کے گرویدہ تھے۔ وہ پیکرِ ایثار و محبت ، برادری اور محلے کی بیوائوں اوریتیموں کی اس طرح امداد کرتیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔ اُن کے ’’گُپت دان‘‘ کے لیے، بیٹے اُنھیں الگ کچھ روپے دیا کرتے تھے۔ بعض بے سہارا بچیوں کو انھوں نے اپنے دامنِ شفقت میں پناہ دی اور جوان ہونے پر شادی کرکے بیٹیوں کی طرح رخصت کیا۔۴۳؎ماں کی یہ درد مندی، بیٹے کی طبیعت میں اس طرح منتقل ہوئی کہ اس کی شخصیت و سیرت کا ایک نمایاں جوہر بن گئی۔ محترمہ امام بی بی کے تعارف میں ’’دین دار و پرہیز گار‘‘ کے رسمی الفاظ کافی نہیں۔ اُن کے زُھد و تقویٰ اور کردار کی عظمت کا آئینہ دار وہ مشہور واقعہ ہے جو کئی کتابوں اور مقالوں میں مذکور ہے۔ علامہ اقبال کے نیاز مند اور مشہور صحافی، میاں محمد شفیع صاحب نے اپنے ہفت روزہ اقدام کے اقبال نمبر (۱۹۵۲ئ) میں اقبال کی چھوٹی ہمشیرہ کا جو انٹرویو شائع کیا تھا ، اُس میں اس واقعے کا ذکر ہے۔ اُسی زمانے میں راجہ حسن اختر صاحب نے یومِ اقبال (منعقدہ لاہور، ۱۲؍اپریل ۱۹۵۲ئ) کے جلسے میں ’’مسلکِ وفا‘‘ کے عنوان سے ایک مقالہ پیش کیا تھا، جس میں اس واقعے کو یوں نقل کیا ہے: اقبال کی یہ خوش بختی تھی کہ اس نے آنکھ آغوشِ وفا میں کھولی۔ اس کی تربیت کس پاکیزہ طریقے سے ہوئی، اس کا اندازہ اقبال کے بچپن کے ایک واقعے سے ہوتا ہے۔ اُن کے والد سرکار انگریزی میں ایک معمولی ملازم تھے،/ اور تنخواہ کے علاوہ اُن کی آمدنی کا کچھ حصہ ایسا بھی تھا جو / تحقیق سے یہ بات ثابت نہیں ہوئی کہ شیخ نور محمد نے کبھی سرکار انگریزی کی ملازمت کی ہو۔ مولانا سالک کا یہ بیان ہے کہ ُاس زمانے میں ڈپٹی وزیرعلی بلگرامی نے شیخ صاحب کو ’’پارچہ دوزی پر ملازم رکھا تھا‘‘ ۔۔۔ اور ’’والدئہ اقبال کے نزدیک ڈپٹی صاحب کی آمدنی کا غالب حصہ شرعاً ناجائز تھا۔‘‘ (ذکر اقبال، ص ۹)۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے مولانا سالک کے اس بیان کی تردید کی ہے اور ترکِ ملازمت کی یہ توجیہ فرمائی ہے کہ ڈپٹی صاحب کے یہاں کام تو برائے نام ہوتا، زیادہ وقت مصاحبت میں صرف ہوتا تھا، لہٰذا شیخ نور محمد کے دل میں خلش رہتی کہ ’’جو تنخواہ پارچہ دوزی کے لیے اُنھیں ملتی ہے، اس کا بیشتر حصہ رزقِ حلال نہیں ہے۔(زندہ رود ، ص ۵۱) کسبِ حلال کے اسلامی تصور میں نہیں آتاتھا۔ اقبال کی والدہ نے ایک بکری خریدی جسے وہ روزانہ درختوں کے پتّے کھلاتیں۔ انھوں نے اس بکری کا دودھ اپنے بچے کو پلانا شروع کیا۔ ایک دن اقبال کے والد کی توجہ اس طرف گئی تو انھوں نے بیوی سے پوچھا کہ وہ بچے کو اپنا دودھ کیوں نہیں پلاتیں۔ روشن ضمیر بیوی نے جواب دیا کہ آپ کی آمدنی کا ایک حصہ مشکوک ہے اور اس مشکوک آمدنی سے ہی میری پرورش ہوتی ہے۔ اس لیے میں اپنا دودھ بچے کو دینا پسند نہیں کرتی۔ یہ بات سن کر اقبال کے درویش باپ کی کائناتِ ضمیر میں زلزلہ آ گیا۔ سرکاری ملازمت ترک کر دی اور ایک معمولی سی تجارت کو کسبِ معاش کا ذریعہ بنایا۔ اقبال نے اپنی والدہ اور والد صاحب کا یہ احسان کبھی فراموش نہیں کیا۔۴۴؎ ہمشیرئہ اقبال نے اسی ضمن میں یہ بھی کہا تھا کہ ماں کی وفات کے بعد میرے بھائی (اقبال) ماں کے قدموں سے لپٹ کر روتے تھے اور باربار یہی کہتے تھے کہ ’’ماں! میں تیرا یہ احسان کبھی نہ بھولوں گا‘‘۔ اگرچہ اسلامی تعلیمات میں کسبِ معاش کے جائز و ناجائز وسائل کی پوری وضاحت موجود ہے اور اکلِ حلال پر اسی لیے زور دیا گیا ہے کہ اس کے بغیر ایک پاکیزہ اور صالح معاشرے کی تعمیر ممکن نہیں لیکن آج کل بہت کم مسلمان گھرانے ایسے ہوں گے جہاں حلال و حرام کی تمیز عملاً باقی رہ گئی ہو۔ اسی لیے موجودہ نسلیں اُن اقدار کو کوئی اہمیت نہیں دیتیں۔اقبال کی والدئہ ماجدہ نے روزِ اول سے تقویٰ کا یہ عملی نمونہ پیش کرکے اقبال کی فطرتِ سلیمہ کو گمراہی کے امکانات سے بچا لیا۔ اسی تربیت کا نتیجہ تھا کہ اقبال نے اکلِ حلال کو خودی کی حفاظت اور اس کی تعمیر و تشکیل میں بنیادی حیثیت دی ہے: خودی کے نگہباں کو ہے زہر ناب وہ ناں جس سے جاتی رہے اس کی آب وہی ناں ہے اُس کے لیے ارجمند رہے جس سے دنیا میں گردن بلند۴۵؎ اقبال کی اپنی عظیم ماں سے کس درجے عقیدت تھی اور ماں کے احسانات کا اُنھیں کتنا شدید احساس تھا، اس کا اندازہ ہمیں اس نظم سے ہوتا ہے جو اُن کی وفات کے بعد بہ عنوان ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ لکھی تھی۔ خصوصاً یہ اشعار اُن کے احساسِ ممنونیت کی صحیح ترجمانی کرتے ہیں: تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا گھر مرے اجداد کا سرمایۂ عزت ہوا دفترِ ہستی میں تھی زرّیں ورق تیری حیات تھی سراپا دین و دنیا کا سبق تیری حیات۴۶؎ زندگی کے آخری دور میں بھی وہ اپنی عظیم ماں کو یوں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں: مرا داد ایں خرد پرور جنونے نگاہِ مادرِ پاک اندرونے۴۷؎ مختصر یہ کہ اقبال کی سیرت کی تشکیل انسانی شرافت کے جن عناصر سے ہوئی، ان کا سراغ ہمیں ان کے والدین کی شخصیت و سیرت میں ملتا ہے۔ انسانی ہمدردی کا جذبہ، سچی دین داری کا چلن، عشقِ رسولؐ کی تڑپ، اکلِ حلال، صدقِ مقال، فقر و درویشی، غرض اقبال کے کردار کے تمام پہلوئوں میں ہمیں ان کے بزرگ والدین کی سیرت کا پرتو دکھائی دیتا ہے۔حضرت اکبر الہ آبادی نے والدئہ اقبال کی وفات پر جو نظم کہی تھی، اس میں اسی حقیقت کا اعتراف کیا گیا ہے۔ چند اشعار درج ذیل ہیں: حضرت اقبال میں جو خوبیاں پیدا ہوئیں قوم کی نظریں جو ان کے طرز پر شیدا ہوئیں یہ حق آگاہی، یہ خوش گوئی، یہ ذوقِ معرفت یہ طریقِ دوستی، خودداریِ باتمکنت اس کے شاہد ہیں کہ ان کے والدین ابرار تھے باخدا تھے، اہلِ دل تھے، صاحبِ اسرار تھے جلوہ گر ان میں انھی کا ہے یہ فیضِ تربیت ہے ثمر اس باغ کا یہ طبعِ عالی منزلت نظم کے آخری شعر میں ’’رحلتِ مخدومہ‘‘ کے الفاظ سے سالِ وفات کے اعداد (۱۳۳۳ھ) نکلتے ہیں: واقعی مخدومۂ ملّت تھیں وہ نیکو صفات ’’رحلتِ مخدومہ‘‘ سے پیدا ہے تاریخِ وفات۴۸؎ ابتدائی و ثانوی تعلیم مولانا ابو عبداللہ غلام حسن، محلہ شوالہ کی مسجد کے امام و خطیب تھے۔ انھوں نے مسجد میں ایک مکتب قائم کیا تھا جہاں وہ علومِ عربیہ و دینیات کا درس دیتے تھے۔یہ مکتب سیالکوٹ کی چند مشہور درس گاہوں میں سے تھا۔۴۹؎ اقبال کو سب سے پہلے اسی مکتب میں قرآن ناظرہ پڑھنے کے لیے بٹھایا گیا۔ مولانا غلام حسن، صاحبِ فضل و کمال اور ایک جیّد اہلِ حدیث عالم تھے۔ علمِ حدیث میں تکمیل کے بعد انھوں نے بھوپال کے نواب مولوی صدیق حسن خاں قنوجی سے بھی سندِ حدیث حاصل کی تھی۔۵۰؎ اہلِ باطن اور صاحبِ ذکر بھی تھے۔ ان کی پاکیِ باطن اور زھد و تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ وہ کسی کی غیبت نہیں سن سکتے تھے۔ اگر کوئی ان کے سامنے کسی کی غیبت کرتا تو ان کے چہرے کا رنگ متغیر ہو جاتا تھا۔۵۱؎ مولوی سید میر حسن اور شیخ نور محمد، دونوں ان کے خاص ہم نشینوں اور نیاز مندوں میں سے تھے۔ بروایتِ مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی، یہ دونوں دینی علوم میں استفادے کے لیے مولانا غلام حسن کے درسِ خاص میں شریک ہوا کرتے تھے۔۵۲؎ مختلف سوانح نگاروں نے سید زکی شاہ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک روز مولوی میر حسن مکتب میں تشریف لائے تو اپنی خداداد فراست سے اس اقبال مند بچے کے جوہرِ قابل کو پرکھ لیا اور چند روز بعد اپنے دوست شیخ نور محمد سے کہاکہ یہ بچہ مکتب میں پڑھنے کے لیے نہیں، اسے میرے پاس بھیجا کرو، میں اسے پڑھائوں گا۔ چنانچہ اقبال مکتب چھوڑ کر مولوی صاحب کے یہاں آنے لگے۔۵۳؎ یہ روایت محلِ نظر ہے۔ قرآن ناظرہ کی تعلیم کو نامکمل چھوڑ کر مکتب سے اٹھا لینا، اور اُس معلّم کی تعلیم و تربیت سے محروم کر دینا، جس سے ایک زمانے میں خود مولوی میر حسن اور شیخ نور محمد کسبِ فیض کر چکے تھے، قرینِ قیاس بات نہیں۔ اس بارے میںمولوی صاحب کے بڑے صاحبزادے اور اقبال کے بچپن کے رفیق و ہم جماعت، سید تقی شاہ کی روایت زیادہ معتبر ہے۔ موصوف نے ایک انٹرویو کے دوران میں جو کچھ بیان کیا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب اقبال نے مولوی غلام حسن کے مکتب میں قرآن ناظرہ کی تعلیم مکمل کرلی تو ختم قرآن کی تقریب منعقد ہوئی جس میں مولوی میر حسن بھی شریک تھے۔ مولوی صاحب کو معلوم ہوا کہ شیخ نور محمد اپنے بیٹے کی تعلیم ختم کرکے اسے اپنی دکان پر بٹھانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے اس تجویز کی مخالفت کی اور مشورہ دیا کہ اس ہونہار بچے کی تعلیم جاری رکھی جائے بلکہ تاکید کی کہ اسے کل ہی سے میرے پاس بھیجاکرو۔ دوسرے دن سے اقبال نے مولوی صاحب کے یہاں آنا شروع کیا اور ان سے اردو کے علاوہ عربی اور فارسی پڑھنے لگے۔ مولوی صاحب کے دوست سردار سندر سنگھ نے ریاضی پڑھانے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ تقی شاہ کا بیان ہے کہ ’’میں اور اقبال، عربی ، فارسی پڑھنے کی بعدماسٹر سندرسنگھ کے پاس حساب پڑھنے کے لیے مہینوں باقاعدہ جاتے رہے‘‘۔۵۴؎ سید تقی شاہ کے بیان کا یہ جزو مشکوک ہے کہ شیخ نور محمد اپنے بیٹے کی تعلیم ختم کرنے اور اسے دوکان پر بٹھانے کا فیصلہ کر چکے تھے۔حضرت علامہ خود اپنے ایک خط میں بڑی حسرت سے باپ کی اس خواہش کا ذکر کرتے ہیں: …جب مجھے یاد آتا ہے کہ والد مکرم مجھے علومِ دین ہی پڑھانا چاہتے تھے تو مجھے اور قلق ہوتا ہے کہ باوجود اس کے کہ صحیح راہ معلوم بھی تھی تو بھی وقت کے حالات نے اس راہ پر چلنے نہ دیا…۵۵؎ کچھ عرصہ بعد وہ مشن سکول سیالکوٹ میں داخل ہو گئے۔ سکول کی ابتدائی جماعتوں سے لے کر ایف۔ اے تک (یعنی قریباً دس سال) اقبال کی تعلیم مولوی میر حسن کی سرپرستی و نگرانی میں ہوتی رہی اور اس طویل عرصے میں سکول اور کالج کے علاوہ مولوی صاحب کے گھر پر بھی درسیات کا سلسلہ جاری رہا۔ مولوی میر حسن کی دہ سالہ تربیت کے اثرات کی تفصیل تو آگے آئے گی، لیکن اگر ’’مؤرخِ کشمیر‘‘ جناب فوق صاحب کا یہ بیان درست ہے کہ پرائمری (۱۸۸۸ئ)، مڈل (۱۸۹۱ئ) اور میٹرک (۱۸۹۳ئ) کے امتحانات میں اقبال سرکاری وظیفہ لے کر کامیاب ہوئے،۵۶؎ تو یہ بھی مولوی صاحب کی مستقل نگرانی و رہنمائی کا نتیجہ ہے، ورنہ اقبال جیسے فطری شاعر و فلسفی کی ذہات و ذکاوت ، درسیات وامتحانات کے میدان میں کچھ زیادہ جولانی نہ دکھاتی۔ سکاچ مشن سکول سیالکوٹ کی عمارت اُس زمانے میں کنک منڈی میں تھی۔ ۱۸۸۹ء میں جب مشن سکول کو کالج کا درجہ حاصل ہوا تو ایف ۔ اے کی جماعتیں بھی سکول کی عمارت میں قائم ہوئیں۔/ پرانی عمارت میں ایف۔ اے کی جماعتوں کے لیے دو کمروں کا اضافہ ۱۹۰۱ء میں ہوا۔ کالج کی موجودہ عمارت۱۹۰۹ء میں تعمیر ہوئی۔ چونکہ مرے نامی فوجی افسر نے اپنی ساری / بعض مقالوں میں کالج کا سنہ تاسیس ۱۸۸۸ء درج ہے اور یہ بیان کیا گیا ہے کہ ’’اقبال کی تعلیم کے زمانے میں یہ کالج گورنمنٹ سکول کی عمارت میں واقع تھا‘‘۵۶؎ لیکن کالج کی تاسیس (۱۸۸۹ئ) کے پچاس سال بعد (۱۹۳۹ ء میں) جشن پنجاہ سالہ کی تقریب پر مرے کالج میگزین کے جوبلی نمبر میں جو مضمون "A Brife History of the Murray College" کے عنوان سے شائع ہوا تھا،اس میں کالج کا سنہ تاسیس ۱۸۸۹ء کے علاوہ واضح طور پر یہ بھی لکھا گیا ہے کہ کم و بیش بیس سال تک ہائی سکول اور انٹرکالج کی جماعتیں ایک ہی عمارت میں جاری رہیں۔ (مرے کالج میگزین، جوبلی نمبر، جلد۲۵شمارہ نمبر۱، جنوری ۱۹۳۹ئ، ص۳) یہی باتیں ضمیمہ جوبلی نمبر ، مارچ ۱۹۳۹ء (ص۴۶) میں دہرائی گئی ہیں۔۱۹۶۰ء میں مرے کالج میگزین کا ڈائمنڈ جوبلی نمبر شائع ہوا تو کالج کے پرنسپل ڈی۔ ایل۔ سکاٹ نے اپنے مضمون بہ عنوان "Murray College Since 1889" میں انھی حقائق کا اعادہ کیا ہے (ڈائمنڈ جوبلی نمبر ، مارچ ۱۹۶۰ء ، ص ۲۱) جائداد کالج کی تعمیر کے لیے وقف کی تھی، لہٰذا اس عمارت میں منتقل ہونے کے بعد سکاج مشن کالج،مرے کالج سیالکوٹ کے نام سے موسوم ہوا۔ ۱۹۱۳ء میں بی۔ اے کی جماعتیں کھل گئیں اور مرے کالج کو ڈگری کالج کا مرتبہ حاصل ہوا۔۵۷؎ مولوی میر حسن سکاچ مشن کالج میں ایف۔۔اے کی جماعتوں کو عربی و فارسی دونوں مضامین پڑھاتے تھے لیکن جب کالج میں ڈگری کلاسیں کھل گئیں تو ایف۔۔اے اور بی۔۔اے کی جماعتوں کو صرف عربی پڑھانے لگے اور آخر وقت تک تدریس کا یہ نظام قائم رہا۔ مرے کالج کی رپورٹوں اور تواریخ میں کہیں یہ مذکور نہیں کہ مولوی میر حسن صاحب نے کس سال اس ادارے کی ملازمت اختیار کی۔ مرے کالج میگزین کے جوبلی نمبر (جنوری ۱۹۳۹ئ) میں کالج کی تاریخ پر جو طویل مقالہ انگریزی میں شائع ہوا ہے، اس میں ان کی مدتِ ملازمت ۷۰ سال بیان کی گئی ہے۔ مقالے کا خاتمہ مولوی صاحب کی عظیم شخصیت ، علمی فضیلت اور شاندار خدمات کے بیان پر ہوا ہے۔ آخری سطروں کا ترجمہ درج ذیل ہے: مشن سکول اور کالج میں ان کی ہفتاد سالہ ملازمت کا ریکارڈ، تمام اساتذہ کے لیے پُرخلوص، ان تھک محنت اور بے لوث خدمت کا ایک قابلِ تقلید نمونہ ہے۔۵۸؎ کالج کے مجلہ مشعل راہ (جنوری ۶۸ئ) میں ’’کالج کی تاریخ‘‘ (History of the College) کے عنوان سے جو مضمون شامل ہے،اس میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ مولوی صاحب ۱۸۶۸ء سے قبل مشن سکول کی ملازمت سے منسلک ہوئے تھے۔۵۹؎ ان کا تاریخی نام ’’رونق بخش‘‘ تھا جس سے سنہ پیدائش ۱۲۵۸ھ (مطابق ۱۸۴۲ئ) برآمد ہوتا ہے۔۶۰؎ مصنفِ روزگار فقیر کا یہ بیان کہ ’’مشن سکول میں تیرہ چودہ سال کی عمر کا استاد دیکھنے والوں کے لیے ایک عجوبہ تھا‘‘۶۱؎ چاہے مبالغہ آمیز سمجھا جائے، تاہم متواتر روایتوں میں ذکر آیا ہے کہ عنفوانِ شباب ہی میں وہ مشن سکول میں معلمی کی خدمات پر مامور ہو گئے تھے۔ خود مولوی صاحب کا قول ہے کہ میں اُس وقت ’’نو آموز‘‘ تھا۔ لہٰذا یہ قیاس کرنا بے جا نہ ہوگا کہ کہ وہ قریباً ۱۸ سال کی عمر میں یعنی ۱۸۶۰ء کے لگ بھگ مشن سکول کے تدریسی عملے میں شامل ہو گئے تھے۔ گویا ۱۹۲۸ء تک (جبکہ ضعفِ بصارت کی وجہ سے انھیں مستعفی ہونا پڑا) ان کی ملازمت کے کم و بیش۶۸ سال اور عمر کے ۸۶ سال پورے ہو چکے تھے۔ مولوی میر حسن کی صحتِ جسمانی آخری عمر تک اتنی اچھی رہی کہ اس طویل ترین مدتِ ملازمت میں شاید ہی کبھی انھیں رخصت لینے کی ضرورت پیش آئی ہو۔ ان کے آخری ادوار کے تلامذہ اور کالج کے اساتذہ سے جب کبھی پوچھا گیا تو یہی جواب ملا کہ انھیں کوئی دن یاد نہیں جب مولوی صاحب نے رخصت لی ہو۔ مولوی صاحب کی پابندیٔ وقت بھی روایتی حیثیت رکھتی ہے۔ مولوی نذیر احمد دہلوی کی طرح ان کے بارے میں بھی مشہور ہے کہ لوگ انھیں دیکھ کر اپنی گھڑیاں ملاتے تھے اور کالج کے چپراسی ان کی آمد پر پہلی گھنٹی بجاتے تھے۔ یہ لطیفہ بھی جا بجا نقل کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ اتفاقاً کالج سٹاف کے کسی اجلاس میں مولوی صاحب دو منٹ دیر سے پہنچے۔ یہ واقعہ اس قدر خلافِ معمول تھا کہ ہر شخص کو تعجب ہوا۔ جب وہ کمرے میں داخل ہوئے تو پرنسپل نے گھڑی پر نظر ڈالی اور لفظ ’’دو منٹ‘‘ پر زور دیتے ہوئے مزاحاً کہا: دیکھیے مولانا! آپ نے ہمیں پورے دو منٹ انتظار کرایا ‘‘۔ مولوی صاحب نے برجستہ جواب دیا ’’بھئی، ایسی بھی کیا بات ہے؛ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے اس دنیا میں تمھارا تیس برس انتظار کیا۔‘‘ (مولوی صاحب، پرنسپل سے کوئی تیس سال بڑے تھے)۔۶۲؎ عمر کے آخری زمانے میں جب بوجہِ ضعفِ پیری، مولوی صاحب عصا کے سہارے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے مکان سے کالج تک قریباً دو میل کا فاصلہ کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے میں طے کرتے تھے، تب بھی پابندیِ وقت کا یہ عالم تھا کہ کالج میں وقت مقررہ سے کبھی ایک منٹ پہلے یا بعد نہیں پہنچے۔ ایک دن پرنسپل صاحب نے ان سے کہا کہ مولوی صاحب آپ تانگے پر آیا کیجیے، کالج آپ کو لائونس دے گا۔ فرمایا: ’’بھائی کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ٹانگوں میں جو رہی سہی سکت ہے، وہ بھی کھو دوں۔۶۳؎ ان کے ایک شاگرد جناب اے۔ ڈی۔ اظہر صاحب لکھتے ہیں: ایک دفعہ جب وہ کوئی ۸۲ سال کے ہوں گے، راقم الحروف نے نہایت ادب و احترام سے پوچھا کہ اب آپ آرام کیوں نہیں فرماتے۔ خندہ لبی سے فرمایا، اس لیے کہ میں کچھ اور جینا چاہتا ہوں۔ ریٹائر ہوا تو گیا… اتنی عمر تک اِس طرح سرگرمِ عمل رہنا میں نے دنیا کے کسی اور شخص میں نہیں دیکھا۔ ان کا جسم ضعیف ہو چکا تھا لیکن دل و دماغ کی ضیا باریاں آخر دم تک اسی شباب پر رہیں جس پر ان کی جوانی میں رہی ہوں گی۔ جس کی خزاں یہ ہو، اس کی بہار کیا ہوگی۔۶۴؎ کالج کی ملازمت کے دوران میں کئی اداروںکی جانب سے انھیں بہتر مشاہرے کی پیش کش ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ انھیں اسلامیہ کالج پشاور میں صاحبزادہ عبدالقیوم صاحب نے بلانا چاہا۔۶۵؎ اسی طرح گورنمنٹ کالج لاہور میں مولانا محمد حسین آزاد کی سبک دوشی کے بعد، ان کی جانشینی کے لیے مولوی صاحب کا نام تجویز ہوا۔۶۶؎ ایک دفعہ علی گڑھ کالج کی پروفیسری پیش کی گئی۶۷؎ لیکن ان کی مروّت اور استغنا نے گوارا نہ کیا کہ محض مالی منفعت کے لیے وہ اس ادارے کو خیر باد کہہ جائیں، جس نے اُس زمانے میں ان کی پرورش کی جبکہ وہ ’’نو آموز‘‘ استاد تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ادارے نے بھی ان کی شخصیت کے احترام اور ان کی خدمات کی قدر شناسی میں تا دمِ آخر کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ پرنسپل اور اساتذہ ان کا بزرگوں کی طرح ادب و احترام کرتے۔ سٹاف رجسٹر میں ان کا اسمِ گرامی سر فہرست (پرنسپل کے نام سے بھی پہلے) درج ہوتا تھا۔۶۸؎ ان کی معاملہ فہمی اور نکتہ شناسی کی وجہ سے ’’پرنسپل، کالج کے تمام معاملات میں سب سے پہلے ان سے استصواب رائے کرتے‘‘۔۶۹؎ جب ضعفِ بصارت سے معذور ہو کر خانہ نشین ہوئے تو کالج کی طرف سے پوری تنخواہ ملتی رہی۔۷۰؎ مرے کالج کے ہال کا نام بھی بطور اعزاز ’’میر حسن ہال‘‘ رکھا گیا۔ مولوی صاحب کی علمی فضیلت اور پُروقار شخصیت سے طلبہ کے علاوہ کالج کے اساتذہ بھی مرعوب تھے لیکن وہ اپنی شفقت بزرگانہ اور اخلاقِ کریمانہ کی وجہ سے ہر حلقے میں یکساں محبوب و محترم بھی تھے۔ اقبال کی طالب علمی کا زمانہ بیشتر ریورنڈ جارج واخ (Rev. George Waugh) کی پرنسپلی کے دور(۱۸۹۱ء تا ۱۹۰۴ئ) میںگزرا/ پرنسپل گیرٹ کا بیان ہے کہ کالج کی تاریخ میں پرنسپل واخ، اپنی حق پسندی، حق گوئی، دیانت داری اور فرض شناسی کے لیے مثالی حیثیت رکھتے ہیں۔۷۱؎ پرنسپل موصوف اور ان کے رفقائے کار نے ایثار و خدمت کی ایسی روایت قائم کی اور / بعض مقالہ نگاروں کا بیان ہے کہ اقبال کی طالب علمی کے زمانے میں ’’جارج واخ پرنسپل نہیں تھے بلکہ یہ ینگ سن کا دور ہے‘‘۔۷۳؎ لیکن کالج کے سنہ تاسیس کے بارے میں مرے کالج کی مختصر تاریخ کے موضوع پر جس انگریزی مقالے کا پہلے حوالہ دیا جا چکا ہے اس میں پرنسپل ینگ سن کا دور ۱۸۸۹ء تا ۱۸۹۱ء اور پرنسپل واخ کا عہد ۱۸۹۱ء تا ۱۹۱۴ء ، متعین کیا گیا ہے۔ (مرے کالج میگزین، جوبلی نمبر۱۹۳۹ئ، ص ۷-۸) اسی طرح ضمیمہ جوبلی نمبر میں پرنسپل گیرٹ کا جو خطبہ بہ عنوان "Jubilee Assembly" درج ہے، اس میں وہ فرماتے ہیں: ’’قیام کالج (۱۸۸۹ئ) کے دو سال بعد بانی پرنسپل ڈاکٹر ینگ سن کی جگہ مسٹر واخ پرنسپل ہوئے‘‘ (مرے کالج میگزین ، ضمیمہ جوبلی نمبر، مارچ ۱۹۳۹ء ، ص ۱۴)۔کالج میگزین کے ڈائمنڈ جوبلی نمبر ، مارچ ۱۹۵۰ء میں پرنسپل سکاٹ کا جو مضمون (Murray College Since 1889) شائع ہوا، اس میں وہ لکھتے ہیں: ’’کالج کے قیام (۱۸۸۹ئ) سے ۱۹۱۳ء تک صرف دو پرنسپل ہوئے:بانی پرنسپل ینگ سن اور دو سال بعد مسٹر واخ۔ ۱۹۱۴ء میں میرے والد (ڈاکٹر ولیم سکاٹ) تیسرے پرنسپل ہوئے اور ۱۹۲۳ء تک پرنسپل رہے۔ (ص۲۲)۔ ان کی مذہبی رواداری سے کالج میں آزادیِ فکر، اخوّت و یگانگت کی ایسی فضا پیدا ہو گئی کہ ہندو مسلم، سکھ عیسائی طلبہ ایک گھرانے کے افراد کی طرح گھل مل کر رہتے تھے۔ پروفیسر جی ۔ایل۔ گپتا، اپنے مقالے میں لکھتے ہیں کہ مولانامیر حسن کے ذاتی اثرات نے کالج کی ان روایات کو سب سے زیادہ استحکام بخشا۔ ’’مرحوم کی شخصیت کے نہایت صحت مند اثرات سے صرف طلبہ ہی نہیں بلکہ اساتذہ بھی ہمیشہ متاثر ہوتے رہے ۔ وہ اپنی عالمانہ عظمت، باطنی پاکیزگی اور فطرت انسانی کی گہری بصیرت کی بنا پر ہر شخص کی عقیدت و احترام کا مرکز تھے‘‘۔۷۲؎ کالج کے اساتذہ اپنے منصب کے فرائض کا احساس رکھتے اور تعلیم کے ساتھ طلبہ کی تربیت کی طرف بھی توجہ دیتے تھے۔ چونکہ وہ خود صاحبِ کردار تھے لہٰذا ان کی پر خلوص کوششیں طلبہ کی سیرت و شخصیت پر گہرے اثرات ڈالتی تھیں۔ پرنسپل ڈی ۔ ایل۔ سکاٹ نے اپنے ایک مقالے میں مسٹر واخ کے اخلاص و دیانت کی تعریف کرتے ہوئے پرنسپل گیرٹ کے حوالے سے یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ جب پرنسپل واخ کو روشنائی کی بوتل ملتی تھی (جس کی قیمت ان دنوں صرف ایک آنہ تھی) تو وہ کالج کے حساب میں صرف نصف آنہ (دو پیسے) درج کرتے تھے، بقیہ نصف آنہ اپنے حساب میں شامل کرتے تھے کیونکہ دفتری کاموں کے علاوہ اس روشنائی کو کبھی کبھی اپنی نجی مراسلت میں بھی استعمال کر لیتے تھے۔۷۴؎ پرنسپل سکاٹ نے اسی قسم کا ایک واقعہ مولوی میر حسن کے بارے میں بھی تحریر فرمایا ہے: مجھے مولوی میر حسن صاحب سے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا، کیونکہ وہ میرے کالج میں آنے سے ایک سال پیشتر وفات پا چکے تھے۔ پرنسپل گیرٹ نے ان سے متعلق ایک واقعہ مجھے سنایا جسے شاید اور لوگ بھی جانتے ہوں۔ مولوی صاحب کو کسی گواہی کے سلسلے میں مقامی عدالت میں طلب کیا گیا اور وہ کالج کے وقت میں رخصت لے کر عدالت میں حاضر ہوئے۔ جب واپس آئے تو سیدھے پرنسپل گیرٹ کے دفتر میں گئے اور کچھ رقم ان کے سامنے میز پر یہ کہتے ہوئے رکھ دی کہ یہ کالج کا مال ہے کیونکہ کالج کے وقت میں انھیں یہ رقم گواہی دینے کے صلے میں ملی تھی۔ اس واقعہ سے مولانا کی اعلیٰ اخلاقی اقدار اور ان کے خیالات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔۷۵؎ امتحانات میں ممتحنی کے فرائض پوری دیانت داری سے انجام دینا مولانا میر حسن جیسی بلند کردار شخصیت کے لیے نہایت معمولی بات ہے۔ لیکن آج کل جبکہ سفارش کی وبائے عام نے ممتحن اساتذہ کے دلوں سے اپنے منصب کی ذمہ داریوں کا احساس بالکل مٹا دیا ہے اور وہ سفارش کی بنا پر نااہلوں کو کامیاب کرکے خود اپنے کردار کے امتحان میں ناکام رہ جاتے ہیں، یہ واقعہ ایک درسِ عبرت رکھتا ہے: ایک مرتبہ مولوی صاحب یونی ورسٹی کے ایک پرچے کے ممتحن تھے۔ کسی خاص شخصیت نے ان کے تلمیذِ رشید، پروفیسر ظفر اقبال صاحب کی زبانی سفارش بہم پہنچائی کہ فلاں امید وار کو اچھے نمبر دیے جائیں۔ یہ پیغام سنتے ہی فرمایا کہ یہ لوگ دین اور دنیا کو الگ الگ رکھتے ہیں۔ ان سے کہہ دیجیے کہ میں پرچے بغور دیکھوں گا اور حسبِ گنجائش نمبر دوں گا۔ ’’یونی ورسٹی سے ہمارا جو معاہدہ ہے اس کی پابندی نہ ہو تو جو کچھ ملتا ہے وہ حلال نہ رہے، حرام ہو جائے‘‘۔۷۶؎ شمس العلماء مولانا سید میر حسن کی حیات و سیرت پر سیر حاصل تبصرے کی یہاں گنجائش نہیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال کے محبوب و محترم ’’شاہ جی ‘‘ نے نہ صرف ادبیات و السنۂ شرقیہ کے معلم کی حیثیت سے ان کی تربیت کی بلکہ ایک وسیع النظر، روشن خیال عالم اور ایک عظیم انسان کی حیثیت سے بھی انھیں متاثر کیا۔ لہٰذا گزشتہ تعارفی و تمہیدی مباحث کے بعد اب ہم ان تین زاویوں سے شاہ جی کی شخصیت اور اثرات کا جائزہ لیں گے۔ بحیثیتِ استاد، شاہ جی کے تبحّرِ علمی اور وسعتِ مطالعہ کے سبھی مداح و معترف ہیں۔ان کے علمی شغف اور ذوقِ مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ جہاں کہیں کوئی نادر و نایاب کتاب دیکھ لیتے، اس سے استفادے کی کوئی صورت نکال لیتے۔ بقول مولوی ابراہیم میر ’’یا تو خود نقل کر لیتے یا کسی سے نقل کروا لیتے‘‘۔۷۷؎ منشی سراج الدین نے مرے کالج میگزین کے میر حسن نمبر میں ۱۸۹۷ء کا ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ منشی صاحب کو ’’نجوم الفرقان‘‘ کا ایک نسخہ (مطبوعہ جرمنی) کسی دوست سے مستعار ملا تھا جس کی قیمت قریباًتیس روپے تھی۔ شاہ جی نے کتاب کا سرسری جائزہ کیا تو جرمن مستشرق کی فاضلانہ تحقیق و تدوین سے بے حد متاثر ہوئے۔ کتاب صرف ایک روز کے لیے منشی صاحب سے مانگ لی۔ منشی سراج الدین لکھتے ہیں: یہ موسم شدتِ گرما کا تھا۔ دوسرے دن دوپہر کو حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضرت اپنے مکان کے زیریں حصے میں، جو بالکل تنگ و تاریک ہونے کی وجہ سے قدرے خنک تھا، مٹی کا چراغ جلائے ایک بوریے پر تشریف رکھتے ہیں۔ میں نے سلام عرض کیا تو فرمانے لگے: بہت مشکور ہوں، کتاب لے جائو۔ میں نے عرض کیا، حضور دن کو چراغ جلائے بیٹھے ہیں، کیا ماجرا ہے ؟ فرمانے لگے، کچھ نہیں، ابھی ابھی فارغ ہوا ہوں۔ کل جس وقت تم کتاب دے گئے تھے، میں اُسی وقت بازار سے کاغذ لے آیا تھا۔ اُس وقت سے متواتریہاں بیٹھا ہوں۔ چنانچہ بحمد اللہ ساری کتاب تمام و کمال، جدول بجدول نقل کرکے ابھی فارغ ہوا ہوں۔ کل سے کھانا بھی نہیں کھایا۔۷۸؎ ادبیات کے استاد کے لیے، وسعتِ مطالعہ کے علاوہ ادبی ذوق اور مذاقِ سخن سے بہرہ مند ہونا بھی ضروری ہے۔ شعر و ادب سے شاہ جی کے فطری لگائو اور ان کی بلند مذاقی کا اولین ثبوت ہمیں ان کی نوجوانی کے اس واقعے سے ملتا ہے کہ غالب اور کلامِ غالب کی قدر شناسی کا جذبہ انھیں ۱۸۶۳ء میں کشاں کشاں دلی لے گیا۔ اُس زمانے میں جب سفر کی موجودہ سہولتیں حاصل نہیں تھیں، انھوں نے سیالکوٹ سے انبالے تک گھوڑے پر سفر کیا۔ کہیں کہیں پیدل بھی چلناپڑا۔ یہ تمام صعوبتیں جھیل کر وہ اس شاعرِ اعظم کی خدمت میں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے حاضر ہوئے جو عمر بھر ناقدریِ ابنائے زماں کا شکوہ سنج رہا۔ پروفیسر سلیم چشتی نے دسمبر ۱۹۶۸ء میں اس سفر کی روداد خود شاہ جی کی زبانی سنی تھی۔۷۹؎ عالمانہ وقار و تمکنت کے باوجود ان کی طبیعت میں یبوست نام کو نہ تھی۔ حاضر جوابی اور بذلہ سنجی میں تو ان کا کوئی جواب ہی نہ تھا۔ بڑی سے بڑی شخصیت کے سامنے بھی ان کی ذہانت کی چمک ماند نہیں پڑی۔ سر سید کا وہ بہت احترام کرتے تھے۔ جب آخری مرتبہ ۱۸۹۴ء میں وہ پنجاب آئے، گرمی کا موسم شروع ہو چکا تھا اور خلافِ معمول کچھ زیادہ گرمی پڑ رہی تھی۔ سرسید نے شاہ جی سے مخاطب ہو کر طنزاً کہا کہ کیا یہی وہ پنجاب ہے جسے انتخابِ ہفت کشورکہتے ہیں؟ شاہ جی برجستہ بولے ’’جی ہاں، ہندوستان جنّت نشان ہے تو پنجاب ضرور انتخابِ ہفت کشور ہے۔۸۰؎ عام صحبتوں میں بھی ان کی باتیں حکیمانہ بصیرت اور ادبی حسن و لطافت سے لبریز ہوتی تھیں۔بعض اوقات ان کی زبان سے نکلا ہوا ایک مختصر سا فقرہ، بلیغ شعر کی سی معنویت و اشاریت رکھتا تھا۔ طلبہ کی جماعتوں میں درس دیتے وقت وہ بر محل اشعار کے علاوہ حکمت آموز نکتہ سنجی، اور ادبی لطائف سے ذہنوں کو جلا بخشتے تھے۔ اے۔ ڈی۔ اظہر صاحب کی یہ رباعیاں، شاہ جی کے شاگردوں کے عام تاثرات کی صحیح ترجمانی کرتی ہیں: ذہنوں کو جلا دینے میں استادِ زمن رونق بخشِ مجالسِ اہلِ سخن علم و فن میں ہمیشہ سورج کی کرن شمس العلما، مولوی میر حسن کتنی خوش بخت اپنی وہ گھڑیاں تھیں ہر سمت جواہرات کی لڑیاں تھیں چہرے انھیں سن کے جگمگا اٹھتے تھے ان کی باتیں نہیں تھیں پھلجھڑیاں تھیں۸۱؎ اِسی گل افشانیِ گفتار کی تعریف میں ایک بار اقبال نے کہا تھا: شاہ جی کا کیا کہنا، شاہ جی کی ہر بات شعر ہوتی ہے۔۸۲؎ مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی نے سیالکوٹ کی چار مشہور درسگاہوں میں مولوی میر حسن صاحب کی درس گاہ کو بھی شمار کیا ہے جو بقول ان کے ’’عربی، فارسی زباں دانی کی درس گاہ تھی‘‘۸۳؎ دیگر سوانح نگاروں کے بیانات بھی اسی روایت پر مبنی ہیں۔ لیکن مختلف مساجد کے مکتبوں میں اور مولوی میر حسن کے خانگی حلقۂ درس میں جو فرق تھا، اسے واضح نہیں کیا گیا۔ مولوی صاحب کے گھر پر کوئی باقاعدہ مکتب یا درس گاہ قائم نہیں تھی۔ ان کے یہاں چند مبتدیوں کے علاوہ ، انھی کے سکول اور کالج کے طلبہ کی ایک منتخب جماعت، یا باہر کے منتہی طلبہ اور فارغ التحصیل حضرات میں سے بعض اربابِ ذوق و طلب، کسبِ فیض کے لیے حاضر ہوتے تھے۔ بقول مولوی عبدالعزیز، اُس زمانے کی مکتبی درسیات میں فارسی کی یہ کتابیں رائج تھیں: ’’گلستان، بوستان، سکندر نامہ (نظامی)، یوسف زلیخا (جامی)، انوار سہیلی۔‘‘۸۴؎ مکتبوں کا رسمی اندازِ تدریس محض لفظی ترجمے تک محدود تھا جس سے طلبہ کے ذوق کی تربیت ممکن نہ تھی۔لیکن یہاں اندازِ تدریس اور درسیات کی ترتیب بھی مختلف تھی۔ شاہ جی فارسی اور عربی اس طرح پڑھاتے کہ زبان و ادب کا صحیح مذاق پیدا ہو۔ ان کی جوہر شناس نگاہیں جس طالب علم میں ادبی صلاحیتیں دیکھتیں، اس کی تربیت کی طرف وہ خاص توجہ رکھتے تھے۔ ان صاحبِ جوہر اور خوش نصیب طلبہ میں اقبال کو، بوجہِ مراسمِ خاندانی و قربِ مکانی،شاہ جی کی صحبت و تربیت سے فیض یاب ہونے کا سب سے زیادہ موقعہ ملا۔ وہ اپنے بیشتر فارغ اوقات شاہ جی کے یہاں گزارتے تھے۔ چنانچہ وہ اسی زمانے میں نہ صرف کلاسیکی ادب کی فنی نزاکتوں اور لطافتوں سے آشنا ہو گئے بلکہ علم عروض اور علم بیان و بلاغت کا مطالعہ بھی دقّت نظر سے کیا اور اس طرح فنونِ شعر پر انھیں عبور حاصل ہو گیا جس کے شواہد ہمیں ان کے ابتدائی کلام میں بھی ملتے ہیں۔ اگرچہ شاہ جی خود شعر نہیں کہتے تھے لیکن نو مشق شعرا کی حوصلہ افزائی فرماتے اور ان کے کلام پر اصلاح بھی دیتے تھے۔ سید زکی شاہ کا یہ بیان قرینِ قیاس ہے کہ ’’ڈاکٹر اقبال نے اپنی ابتدائی مشق میں غزلوں کی اصلاح میں میرے والد سے فیض حاصل کیا، جس کا ذکر وہ اکثر کیا کرتے تھے۔‘‘۸۵؎ موصوف نے شاہ جی کے طرزِ اصلاح کی صرف ایک مثال پیش کی ہے۔ اقبال کی ایک نظم ’’اسلامیہ کالج کا خطاب… ‘‘(۱۹۰۲ئ) کے دوسرے بند کا ایک شعر یوں ہے: قصّۂ مطلب طویل و دفترِ تقریر تنگ خود بخود کوئی سمجھ جائے کہ کیا کہنے کو ہیں (باقیات، ص ۱۱۶) شاہ جی نے یہ شعر سنا تو ’’دفترِ تقریر‘‘ کی جگہ ’’عرصۂ تقریر‘‘ تجویز کیا۔۸۶؎ اس اصلاح سے ظاہر ہے کہ وہ زبان و فن کی باریکیوں پر کتنی گہری نظر رکھتے تھے۔ زمانۂ طالب علمی کے بعد بھی استاد شاگرد کے درمیان افادے اور استفادے کا سلسلہ جاری رہا۔ مولانا سالک لکھتے ہیں: ’’اقبال جب کبھی موقعہ پاتے سیالکوٹ آ کر شاہ صاحب سے اپنے شکوک رفع کراتے… اور غومضِ علوم پر اپنے استاد کی ہدایت و رہنمائی سے غور و فکر کرتے۔‘‘۸۷؎ اپنے فارسی کلام کے سلسلے میں جن دیدہ وروں کے مشورے اور تنقید سے اقبال سب سے زیادہ مستفید ہوئے، ان میں مولانا گرامی کے بعد شاہ جی ہی کا نام آتا ہے۔ چنانچہ رموز بے خودی کے دیباچے میں اقبال لکھتے ہیں: استاذی حضرت قبلہ مولانا مولوی سید میر حسن صاحب دام فیضہم … اور مولانا شیخ غلام قادر صاحب گرامی… میرے شکریے کے خاص طور پر مستحق ہیں کہ ان دونوں بزرگوں سے بعض اشعار کی زبان اور طرز بیان کے متعلق قابل قدر مشورہ ملا۔۸۸؎ مولاناگرامی کی تو بات ہی اور ہے کہ وہ فارسی کے نغز گفتار اور مسلّم الثبوت استادِ فن تھے لیکن شاہ جی سے مشورہ طلبی ، ان کے ذوقِ سخن اور کمالِ زباندانی پر اقبال کے کامل اعتماد کی دلیل ہے۔ شاہ جی کسی معروف دینی درسگاہ کے فارغ التحصیل، سکہ بند عالم تو نہ تھے لیکن اپنے ذاتی مطالعے کی بدولت دینی علوم میں انھیں گہری بصیرت حاصل تھی۔ فروعی اختلافات میں الجھے رہنے اور فقہی موشگافیوں کو حاصلِ دین سمجھنے والے تنگ خیال علمائے وقت کے برخلاف، وہ اسلام کی حقیقی روح سے آشنا ، ایک وسیع النظر ، زمانہ شناس اور روشن خیال بزرگ تھے۔ علی گڑھ تحریک کو قوم کی بیداری کے لیے مفید سمجھتے ہوئے ابتدا ہی سے وہ اس کے تعلیمی و اصلاحی مقاصد سے دلی وابستگی رکھتے تھے۔ ۱۸۷۳ء میں سر سید کے پہلے دورئہ پنجاب کے موقعہ پر لاہور میں وہ سرسید سے متعارف و متاثر ہوئے۔ پھر جنوری ۱۸۷۷ء میں علی گڑھ جا کر ، کالج کے جلسۂ تاسیس میں شریک ہوئے۔۸۹؎ مختلف روایتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ قریباً ہر سال طویل مسافت طے کرکے مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ اجتماعات میں شریک ہوا کرتے تھے۔ سر سید بھی شاہ جی کے قدر شناس تھے۔ سر سید کے کسی دورۂ پنجاب کا ایک واقعہ پروفیسر مولوی ظفر اقبال صاحب نے یوں بیان کیا ہے: ایک دفعہ مولوی سید میر حسن، سکاچ مشن کالج کے چند شاگردوں کے ساتھ سر سید مرحوم سے ملنے گئے ۔ سر سید نے مولوی صاحب کے شاگردوں سے پوچھا کہ آپ کہاں تعلیم حاصل کرتے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا : ’’سکاچ مشن کالج سیالکوٹ میں‘‘ اس پر سر سید نے کہا ’’یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ تم مسلمان ہو کر عیسائیوں کے کالج میں پڑھتے ہو۔ تمھیں اپنے مذہب کے حقائق کا علم نہیں۔ تم پادریوں کے زیر اثر آ جائو گے۔‘‘ مولوی صاحب جو اب تک چپ بیٹھے تھے، بولے ’’یہ قصور میرا ہے۔ مجھ سے پڑھنے کے لیے یہ طلبہ وہاں داخل ہوئے۔‘‘ سر سید نے یہ سنا تو کہا ’’ اگر ایسا ہے تو پھر کوئی ہرج نہیں۔ پھر تو سب مسلمان بچوں کو سکاچ مشن کالج میں داخل ہونا چاہیے۔‘‘۹۰؎ سر سید سے شاہ جی کے گہرے دوستانہ روابط کا ثبوت ہمیں اُن متعدد خطوط سے بھی ملتا ہے جو مکتوبات سر سید میں ’’بنام مولانا سید میر حسن‘‘ کے عنوان سے شامل ہیں۔ ان میں پہلے خط کی تاریخ یکم نومبر ۱۸۷۷ء اور آخری خط کی تاریخ ۱۱؍مارچ ۱۸۹۸ء ہے۔۹۱؎ ان خطوط کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ سر سید کی تصانیف، انسٹی ٹیوٹ گزٹ اور تہذیب الاخلاق کے پرچے ان کے زیر مطالعہ رہتے تھے۔ سر سید کی تفسیر القرآن سے دلچسپی، اس کی مختلف جلدوں کی اشاعت کا انتظار و اشتیاق اور اس سلسلے میں پیہم تقاضے، ان کے اجتہادی میلان کی دلیل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے خیالات پر سر سید کے علمِ کلام کا بھی کچھ اثر تھا، مثلاً جنت و دوزخ کے بارے میں ان کا نظریہ وہی تھا جو سر سید کا تھا۔ چنانچہ مقامی علما کے حلقوں میں وہ آزاد خیال مشہور تھے۔ اے ۔ ڈی۔ اظہر صاحب نے بھی اپنے مقالے میں ان کی آزاد خیالی کا ذکر کیا ہے،تاہم اس کے ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ ’’ان کی آزاد خیالی پر ہم جیسوں کا ہزار تقویٰ نثار۔‘‘۹۲؎ دراصل بات یہ ہے کہ اگرچہ شاہ جی عملاً حنفی مسلک کے پیرو تھے لیکن مذہبی معاملات میں بڑی روا داری اور فراخ دلی برتتے تھے۔ بقول مولوی عبدالعزیز صاحب ’’ہر مذہب ، ہر مکتبۂ فکر اور ہر عقیدے کے لوگوں سے ملتے تھے اور کسی پر نکتہ چینی نہیں کرتے تھے۔‘‘۹۳؎ شیخ نیاز صاحب،مؤلف تاریخِ سیالکوٹ، نیز مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی کا بیان ہے کہ سرسید کے علاوہ ان کے رفقا مثلاً محسن الملک ، مولوی نذیر احمد ، حالی اور شبلی وغیرہ سے بھی انھیں خاص لگائو تھا۔ ان کے ذخیرئہ کتب میں ان سب کی تصانیف ، نیز تہذیب الاخلاق اور دیگر رسائل کی مکمل فائلیں محفوظ تھیں۔۹۴؎ اقبال جیسے ذہین اور مقربِ خاص شاگرد کا اپنے استادِ محترم کے ان رجحانات و افکار سے متاثر ہونا ایک یقینی امر ہے۔ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ سیالکوٹ کی طالب علمی کے زمانے ہی میں ان کے اندر قومی شعور بیدار ہو چکا تھا، نیز وہ سر سید کی قومی خدمات اور ان کے علمی و ادبی کارناموں سے متعارف ہو چکے تھے۔ شاہ جی کے گونا گوں علمی فیوض کے علاوہ ، اقبال پر ان کی جامع صفات اور متوازن شخصیت کے اثرات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ شاہ جی کے نیاز مندوں نے ان کی سیرت کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے، لیکن عموماً ان کی غیر معمولی ذہانت، حاضر جوابی اور نکتہ سنجی کی مثالیں دہرائی گئی ہیں اور یقینا یہ ان کی شخصیت کانہایت پُرکشش اور تابناک پہلو تھا۔ یہاں مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کے تحریری بیان کا ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے جو اختصار کے باوجود ہمہ گیر ہے: وہ سادہ مزاج اور خود دار انسان تھے۔ گھر پر جو طلبہ پڑھنے آتے ان کی خدمت خود کرتے تھے۔ کسی سے کوئی معاوضہ نہ لیتے تھے۔ ہندو ، سکھ ، عیسائی سب ان سے کمال عزت سے پیش آتے تھے۔ بازار سے سودا سلف خود لاتے تھے۔ طبیعت ظریفانہ پائی تھی، زبان سلجھی ہوئی تھی۔ مہذّب ظرافت اور نکتہ سنجی میں بے نظیر تھے۔ بولنے میں آواز متوسط تھی۔ مروّت، سادگی، تواضع اور احسان مندی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اخلاق کے مجسّمہ اور ذہین و فطین انسان تھے۔ حافظہ بلا کا پایا تھا۔ وعدے کے پابند تھے۔ اپنی بہن سے وعدہ کیا تھا کہ تاحینِ حیات ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے حاضر ہوا کریں گے۔ چنانچہ جب تک چلنے پھرنے کی طاقت رہی، روزانہ قبرستان جایا کرتے تھے، حالانکہ فاصلہ کافی تھا۹۵؎ (کم و بیش پچاس برس تک پابندی سے اس عہد کو نبھاتے رہے۔)۹۶؎ شاہ جی کے معاصرین میں علما و صوفیہ، اہلِ قال اور اہلِ حال کے جدا جدا گروہ موجود تھے لیکن ایسی ہستیاں کم یاب تھیں جو علم و عمل اور شریعت و طریقت کی جامع ہوں۔ علما کے حلقے کا یہ ’’منور الفکر‘‘ اور ’’مجمع البحرین‘‘ استاد، سائیں کیسر شاہ جیسے درویشوں اور صوفیوں کا بھی ارادت مند تھا بلکہ خود اس کی زندگی، فقر و استغنا، قلندری اور درویشی کا ایک قابلِ تقلید نمونہ تھی۔شاہ جی اُن ’’اہلِ صفا‘‘ بزرگوں میں سے تھے جن کی ہم نشینی ’’نور و حضور و سرور‘‘ کا باعث تھی۔ مولوی ابراہیم میر لکھتے ہیں: ’’ ان کی صحبت میں دل جمعی اور طمانیتِ قلب حاصل ہوتی تھی اور فکر مندی دور ہو جاتی تھی۔‘‘۹۷؎ انھیں ’’آزادخیال‘‘ کہا جاتا ہے لیکن ان کے زہد و تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ پایانِ عمر میں بھی شدید گرمیوں کے روزے کبھی قضا نہیں ہوئے۔ تہجّد کی نماز میں روزانہ ایک پارہ پڑھنے، نمازِ فجر کے بعد قبرستان آتے جاتے ایک منزل ختم کرنے اور سنن و نوافل بھی کھڑے کھڑے ادا کرنے کا معمول اُس زمانے میںبھی جاری رہا جب ان کی عمر اسّی برس سے متجاوز ہو چکی تھی۔۹۸؎ ان کی کوہ وقارشخصیت، عزم و استقامت اور حرکت و عمل کا پیکر تھی۔ ان کے شب و روز کے بیشتر اوقات علمی فیض گستری میں صرف ہوتے تھے اور کیفیت یہ تھی کہ کالج اور گھر کے علاوہ راہ چلتے بھی درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہتا تھا لیکن کسی شاگرد کو ادنیٰ سی خدمت گزاری کا موقعہ نہ ملتا۔ وہ اپنے سارے کام خود اپنے ہاتھوں سے کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ان کے شاگرد رشید مولوی ظفر اقبال صاحب نے مسجد میں نماز سے فارغ ہو کر استاد کا جوتا اٹھا لیا اور لے کر چلے کہ مسجد کے باہر ان کو پہنادیں گے۔ لیکن شاہ جی نے آگے بڑھ کر ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور جوتا اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے فرمایا: ’’ یہ جوتا میرا ہے!‘‘شاہ جی کے اس معنی خیز جملے سے یہ کشمکش ایک لطیف و پُر مزاح صورتِ حال میں بدل گئی۔‘‘۹۹؎ ان کی خود داری کا یہ عالم تھا کہ مرتے دم تک اپنے بیٹوں کا احسان لینا بھی گوارا نہ کیا، حتیٰ کہ وفات سے پہلے تجہیز و تکفین کا سارا خرچ بیٹوں کے حوالے کر گئے۔۱۰۰؎ شاگردوں کے ساتھ ان کی پدرانہ شفقت، مذہب و ملّت کے امتیازات سے بالاتر تھی۔ ان کی اس بے لوث محبت و شفقت سے متاثر ہو کر مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی طلبہ سبھی ان پر جان چھڑ کتے تھے۔ اپنی محدود مالی استطاعت اور عیال داری کے باوجود وہ غریب گھرانوں کے ہونہار بچوں کی تعلیم و تربیت میں ذاتی توجہ کے علاوہ مالی ایثار سے بھی دریغ نہ کرتے۔ ’’ذکرِ اقبال‘‘ میں اس قسم کے متعدد واقعات درج ہیں۔۱۰۱؎ دیگر روایتوںسے بھی ان کی غریب پروری، درد مندی و دل سوزی کا ثبوت ملتا ہے۔ مختصر یہ کہ شاہ جی کی شخصیت میں اقبال نے سب سے پہلے اسلامی زندگی کا صحیح نقشہ اور ایک مردِ مومن کے کردار کا جیتا جاگتا مرقع دیکھا۔ اس میں شک نہیں کہ مبداء فیاض نے اقبال کو دل و دماغ کی بہترین صلاحیتوں سے نوازا تھا لیکن ان کی شخصیت کا ناتراشیدہ ہیرا کسی ہنرمند صناع کی تراش خراش کا محتاج تھا۔اقبال کو ہمیشہ اس امر کا احساس رہا کہ ان کے جوہرِ فطری کی نمود اور ان کے ذہن و ذوق کا نکھار، شاہ جی کے فیضِ تربیت کا رہینِ منت ہے۔ چنانچہ وہ نجی صحبتوں میں اکثر بڑے ادب و احترام سے اپنے استادِ گرامی کا ذکر کیا کرتے تھے۔ ۱۹۲۲ء میں شمس العلماء کے خطاب کے سلسلے میں شاہ جی کے نام کی تجویز پر جب گورنر پنجاب نے پوچھا کہ ان کی کون کون سی تصانیف ہیں؟ تو اقبال نے جواب دیا تھا کہ ’’میں ان کی زندہ تصنیف آپ کے سامنے موجود ہوں۔‘‘۱۰۲؎ شاہ جی کی عظمت کا نقش اقبال کے دل پر اتنا گہرا تھا کہ اُس زمانے میں بھی جب اکابر قوم سے ’’ترجمانِ حقیقت‘‘ کا لقب وہ حاصل کر چکے تھے، اپنے استاد کے سامنے احتراماً ان کی زبان نہیں کھلتی تھی۔ چنانچہ ۱۹۱۳ء کی ایک صحبت میں وہ فرمانے لگے کہ یورپ کے بڑے بڑے علما و حکما سے مختلف موضوعات پر بے تکلف باتیں کیں ’’لیکن نہ جانے کیا بات ہے، شاہ جی سے بات کرتے ہوئے میری قوتِ گویائی جواب دے دیتی ہے۔‘‘۱۰۳؎ اس بے پایاں عقیدت کا سبب یہی تھاکہ شاہ جی آلِ رسولؐ بھی تھے اور آئینہ دارِ جمالِ رسول ؐ بھی۔اقبال نے یقینا اسی آئینے میں آفتابِ رسالتؐ کے جلال و جمال کا پرتو جلوہ فگن دیکھا۔ اقبال کہا کرتے تھے کہ ’’اسوئہ رسولؐ پر صحیح معنوں میں اگر کسی شخص کا عمل ہے تو وہ مولوی سید میر حسن سیالکوٹی ہیں۔‘‘۱۰۴؎ اسے شاہ جی کی صحبت ہی کا فیضان سمجھنا چاہیے کہ نوجوانی میں اقبال حُبِ اہلِ بیت اطہار کے جذبے سے سرشار تھے اور ان کے ابتدائی کلام میں اس کا اظہار بھی اس تکرار و تواتر سے ہوا ہے کہ لوگوںمیں ان کی ’’تشیّع کا چرچا پھیل گیا۔ (ع: ’’ہے اس کی طبیعت میں تشیع بھی ذرا سا‘‘)۱۰۵؎ اپنے اشعار میں شاہ جی کے ذکر کے ساتھ ہی، اقبال اس برگزیدہ گھرانے کا ذکر ضرور کرتے ہیں جس کے وہ چشم و چراغ تھے۔ گویا شاہ جی کی محبت اور اہلِ بیت کی محبت لازم و ملزوم تھی: مجھے اقبال اس سیّد کے گھر سے فیض پہنچا ہے پلے جو اس کے دامن میں وہی کچھ بن کے نکلے ہیں۱۰۶؎ وہ شمعِ بارگہِ خاندانِ مرتضوی رہے گا مثلِ حرم جس کا آستاں مجھ کو نَفَس سے جس کے کھلی میری آرزو کی کلی بنایا جس کی مروّت نے نکتہ داں مجھ کو دعا یہ کر کہ خداوندِ آسمان و زمیں کرے پھر اس کی زیارت سے شادماں مجھ کو۱۰۷؎ مشاغل - رجحانات -شخصیت شہرِ اقبال میں موجودہ ’’اقبال منزل‘‘ اس باز ارکی سڑک پر واقع ہے جو پہلے ’’بازار چوڑی گراں‘‘ ، پھر ’’صدر بازار‘‘ اور اب ’’اقبال سٹریٹ‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ اسی سڑک کی ایک گلی (کوچہ میر حسام الدین) میں مولوی میر حسن کا مکان تھا۔۱۰۸؎ اقبال منزل کا عقبی حصۂ عمارت جو گلی کی طرف ہے، اقبال کے دادا شیخ محمد رفیق نے فروری ۱۸۶۱ء میں خریدا تھا۔ اُس زمانے میں یہ مکان پرانے طرز کا یک منزلہ، کچھ پختہ اور کچھ خام تھا، جس میں گلی کی طرف ایک ڈیوڑھی، دو کوٹھریاں، ان کے ساتھ ایک دالان اور اس کے آگے ایک چھوٹا سا صحن تھا۔ دسمبر ۱۸۹۲ء کے بعد اس مکان میں بڑی توسیع ہوئی اور شیخ نور محمد نے ملحقہ مکانات خرید کر پرانے مکان میں شامل کر لیے۔۱۰۹؎ اقبال کے بچپن، لڑکپن اور نوجوانی کا زمانہ اسی پرانے مکان میں گزرا۔ اقبال کے والدین کے علاوہ یہ گھرانا، ان کے ایک بڑے بھائی (شیخ عطا محمد) ،دو بڑی بہنوں(محترمہ فاطمہ بی بی اور محترمہ طالع بی بی ) اور دو چھوٹی بہنوں (محترمہ کریم بی بی اور محترمہ زینب بی بی ) پر مشتمل تھا۔ شیخ عطا محمد، اقبال سے عمر میں قریباً پندرہ سال بڑے تھے۔۱۱۰؎ اقبال تین چار سال کے تھے کہ شیخ عطا محمد کی شادی ہو گئی۔ شادی کے بعد شیخ صاحب اپنے سسرالی اعزّہ کے توسّل سے پہلے رسالے میں بھرتی ہوئے، پھر رڑکی میں انجینئرنگ کا امتحان پاس کر کے بسلسلۂ ملازمت (ملٹری انجینئرنگ سروس) باہر رہنے لگے۔۱۱۱؎ چند سال بعد پہلی بیوی کو طلاق دے کر جب انھوں نے دوسری شادی کی تو ان کی بیگم (محترمہ مہتاب بی بی) سے اس گھر کی رونق بڑھ گئی۔ اقبال کی ’’بھابی جی ‘‘، ’’بڑی وسیع القلب اور سیدھی سادی طبیعت کی مالک تھیں۔‘‘۱۱۲؎ گھر کے دیگر افراد کی طرح اقبال بھی ان کی دلنواز شخصیت اور مادرانہ شفقت کے گرویدہ تھے۔معاشرتی حیثیت سے یہ ایسا متوسط گھرانا تھا جس میںنہ امارت کے ناز و نعم تھے اور نہ افلاس و جہالت کی ناگوار سختیاں۔ اس مختصر کنبے میں ایک ذہین و متین، خوش رُو و خوش خُوبچے کو جو پیار بھرا ماحول میسر آیا ہوگا، اس کا اندازہ بآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ بچپن کے حالات و واقعات میں پہلا افسوس ناک واقعہ یہ ہے کہ دو سال کی عمر میں اقبال کی داہنی آنکھ بصارت سے محروم ہو گئی۔ ان کے اپنے بیان سے پتا چلتا ہے کہ کسی بیماری کے سلسلے میں ان کی داہنی کنپٹی پر جو نکیں لگوائی گئی تھیں۔ غالباً زیادہ مقدار میں خون ضائع ہوا جس کا اثر داہنی آنکھ پر یہ پڑا کہ اس کی بینائی جاتی رہی۔ تاہم بائیں آنکھ کی بصارت اتنی تیز تھی کہ انھوں نے داہنی آنکھ کی خرابی کبھی محسوس نہیں کی۔فرماتے ہیں: ’’ایک آنکھ سے دن کو تارے دیکھ لیا کرتا تھا۔‘‘۱۱۳؎ ذہین بچے عموماً شریر ہوتے ہیںاور ان کی شرارتوں کے قصے خاندانی روایات کا ایک دلچسپ باب بن جاتے ہیں۔ لیکن اقبال کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بچپن میں بھی وہ پاکیزہ اطوار اور سنجیدہ مزاج تھے۔ البتہ ان کی چھوٹی بہن، محترمہ کریم بی بی نے ایک عجیب و غریب شرارت کا ذکر کیا ہے؛ وہ یہ کہ اقبال کو بچپن میں ان کی گڑیوں سے خدا واسطے کا بیر تھا۔ وہ ہر وقت ان کی تاک میں رہتے اور جب دائو چلتا ناک کاٹ دیتے یا ٹانگوں سے پکڑ کر ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے۔وہ اپنی گڑیوں کی یہ دُرگت دیکھ کر روتی دھوتی والدین سے شکایت کر تیں ۔ اقبال کو سخت تنبیہ کی جاتی، لیکن وہ کبھی اس حرکت سے باز نہ آتے اورجب گڑیوں پر ان کی نظر پڑتی، بت شکنی کی سنّتِ ابراہیمی ادا کیے بغیر نہ مانتے۔۱۱۴؎ لڑکپن میں کھیل کود اور طفلانہ آوارہ گردی کا شوق تعلیمی مشاغل سے گریز و فرار پر آمادہ کرتا ہے۔ شعرا تو عموماً بھگوڑے طالب علم ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن یہ کم سن طالب علم جو احساس و شعور کے بہترین شاعرانہ اوصاف سے متّصف تھا، بچپن ہی سے شمع علم کا پروانہ رہا۔اعزّہ اور ہم جماعتوں کے بیانات نیز امتحانوں کے اعلیٰ نتائج سے ان کے علمی شغف و انہماک کا ثبوت ملتا ہے۔ بیگم شیخ عطا محمد کا بیان ہے کہ وہ رات کو نیند میں اٹھ اٹھ کر پڑھتے رہتے۔جب ماں انھیں سو جانے کو کہتیں تو جواب دیتے ’’بے جی! سویا ہُوا تو ہوں۔‘‘وہ انھیںاٹھا کر سلا دیتیں۔ ماں کی توجہ سے رفتہ رفتہ یہ عادت چھوٹ گئی۔ ’’حیران کن بات یہ تھی کہ ریاضی کے جو سوالات وہ نیند میں حل کرتے وہ بالکل درست ہوتے۔‘‘۱۱۵؎ طالب علمی کے زمانے میں سکول اور کالج کے کھیلوں میں بھی اقبال نے کوئی حصہ نہیں لیا۔ لیکن اُن دنوں کبوتر بازی سے انھیں خاص دلچسپی تھی۔ سیالکوٹ کے محلہ کشمیریاں میں کبوتر بازی کا عام رواج تھا۔۱۱۶؎ بچوں کو یوں بھی پرندوں اور جانوروں کے پالنے کا شوق ہوتا ہے۔ ابتدا میں اقبال نے اپنے دوست اور ہم جماعت سید تقی شاہ کے تعاون سے ایک مشترک دوست کے یہاں کبوتر بازی کا سلسلہ شروع کیا۔۱۱۷؎ اقبال کے والدنے ان کا شوق دیکھ کر انھیں اپنے گھر ہی میں کبوتر پالنے کی اجازت دے دی تھی۔۱۱۸؎ سید تقی شاہ اور زکی شاہ (فرزندانِ مولانا میر حسن)کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ فضائے نیلگوں میں خوب صورت سفید کبوتروں کی بلند پروازی کا منظر اقبال کے شاعرانہ تخیل کے لیے بڑی کشش رکھتا تھا اور وہ محویت کے عالم میں دیر تک ٹکٹکی باندھے یہ نظارہ دیکھتے رہتے تھے۔ سید تقی شاہ تو ان کے ہم مشرب تھے لیکن اقبال کے ایک دوست ’’چاچا خوشیا‘‘ جب اقبال کی کبوتر بازی پر معترض ہوتے تو وہ مسکرا کر جواب دیتے ’’خوشیا! کبوتروںکو نیلگوں فضا میں اڑتے دیکھ کر میںمحسوس کرتا ہوں جیسے میں خود بھی آسمان کی رفعتوں میں محوِ پرواز ہوں۔ میرے سینے میں عجیب سا جوش اور ولولہ پیداہوتا ہے۔۱۱۹؎ اقبال کے بچپن کے دوستوں اور ان کے اہلِ خاندان کی روایتوں میں بٹیر بازی کا کہیں ذکر نہیں آیا۔ صرف پروفیسر محمد دین بھٹی کے طویل بیان (مشمولہ ’’روایاتِ اقبال‘‘) میں یہ جملہ ملتا ہے: ’’ڈاکٹر صاحب کو بٹیروں کا بڑا شوق تھا‘‘۱۲۰؎ لیکن صاف ظاہر ہے کہ ’’کبوتروں‘‘کی جگہ سہواً ’’بٹیروں‘‘ کا لفظ ان کی زبان سے نکل گیا (کیونکہ کبوتروں کا انھوں نے کہیں اور ذکر نہیں کیا)۔ بٹیر بازی سے متعلق مولانا سالک کی خود ساختہ حکایت،۱۲۱؎ اقبال کی خوش مذاقی پر محض ایک بے جا تہمت ہے۔ نوجوانی میں اقبال کو ورزش اور کشتی کا بھی شوق تھا۔ان کے بچپن کے ایک دوست لالو پہلوان انھیں اکھاڑے لے جاتے تھے اور ان کے ساتھ اقبال بھی لنگر لنگوٹ کس کر اکھاڑے میں اترتے تھے۔۱۲۲؎ چاچا خوشیا کی روایت ہے کہ اقبال ان کے مکان کے تھڑے پر بیٹھ کر شطرنج کھیلا کرتے تھے۱۲۳؎ لیکن غالباً یہ مشغلہ عارضی اور چاچا خوشیا کی صحبت تک محدود رہا کیونکہ کسی اور روایت سے اس امر کا ثبوت نہیں ملتا کہ اقبال کے تفریحی مشاغل میں شطرنج بازی بھی شامل ہے۔ انھی ’’چا چا خوشیا‘‘ نے ایک انٹرویو میں اپنے دوست ’’بالے‘‘ (اقبال) کے بارے میں ایک ایسا واقعہ سنایا جو کم سن اقبال کی درد مندی کی صحیح عکاسی کرتا ہے۔ انھوں نے فرمایا: ’’بالے سے میری لڑائی زندگی میں صرف ایک بار ہوئی۔ ہم دونوں نے دوسرے دوستوں سے چھپ کر امام صاحب کا میلہ دیکھنے کا پروگرام بنایا۔دو آنے بالے نے گھر سے لیے اور میں نے والد اور والدہ سے لڑ جھگڑ کر اٹھنی حاصل کی۔ میلے میں داخل ہونے سے پہلے میں نے اٹھنی بھی بالے کو دے دی کیونکہ وہ پیسوں کو بڑی احتیاط سے رکھا کرتا تھا۔ میلے میں ادھر اُدھر گھومنے کے بعد میں نے اس سے کہا ’’یار! کچھ کھانا پینا چاہیے۔‘‘بالے نے مسکرا کر جواب دیا: ’’لیکن میری جیب میں تو پھوٹی کوڑی نہیں ہے…میں نے تمام پیسے اس اندھے فقیر کو دے دیے ہیں جو رورو کر میلہ دیکھنے والوں کو امداد کے لیے پکار رہا تھا۔‘‘ مجھے غصہ آ گیا اور میں نے درشت لہجے میں کہا ’’اپنا پیٹ کاٹ کر دوسروں کی جھولی میں ڈال دینا کہاں کی شرافت ہے۔ تمھیں یہ حق نہیں پہنچتا تھا کہ تم میری اجازت لیے بغیر میری اٹھنّی اس اندھے فقیرکو دیتے۔ تم نے میرے ساتھ بددیانتی کی ہے۔‘‘ بالے نے میرے یہ فقرے سنے اور کوئی بات کہے بغیر بھیڑ میں گم ہو گیا۔ اس کے بعد پورے دو ماہ ہم ایک دوسرے سے نہ بولے… ایک روز شام کے وقت میں گھر پہنچا تو میری والدہ نے مجھے بتایا کہ بالا آیا تھا اور تمھارے لیے ایک اٹھنی دے گیا ہے۔ مجھے یہ سن کر بڑی شرمندگی ہوئی۔ میں اسی وقت مولوی میر حسن کے یہاں پہنچا۔ بالا مجھے دیکھتے ہی کمرے سے باہر آیا اور تپاک سے ملا۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی بات کرتا، اس نے مسکرا کر کہا: ’’تمھاری اٹھنی تمھیں واپس مل گئی ہے۔ اب ہم ایک دوسرے کے دوست ہیں۔‘‘ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے اس نے مجھے زندگی کا ایک بہت بڑا گُر بتا دیا ہے۔ ‘‘۱۲۴؎ بظاہر یہ معمولی سا واقعہ کہ نو عمر اقبال نے لڑکپن کی معصوم خوشیوں اور تفریحوں کو قربان کرکے، بلکہ اپنی حد سے تجاوز کرتے ہوئے وہ ساری پونجی جو امانتہً ان کے پاس تھی، چپ چاپ ایک معذور فقیر کے حوالے کر دی، اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے کہ معاشرے کے مظلوم و محروم طبقے سے ہمدردی و دلسوزی کا جذبہ اقبال کی فطرت میں ایک بنیادی عنصر کی حیثیت سے کس غلبہ و قوت سے رچا ہوا تھا۔ اسی قسم کا ایک واقعہ، جسے سید زکی شاہ نے بیان کیا ہے، اُس دور میں اقبال کے انقلابی طرزفکر کی نشان دہی کرتا ہے۔ سید صاحب نے فرمایا ایک مرتبہ وہ اور اقبال اپنے چند دوستوں کے ہمراہ گھومتے پھرتے شہر سے باہر نکل گئے۔ سڑک کے کنارے ایک بوڑھا کسان، پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس، ہل چلا رہا تھا۔ پاس ہی ایک کھیت میں گندم کے سنہری خوشوں کی مشعلیں روشن تھیں۔ اقبال نے کسان سے پوچھا’’بابا! گندم کے یہ کھیت کس کے ہیں؟‘‘ بوڑھا کسان بولا: ’’یہ کھیت تو میرے ہیں لیکن ان کے سینے پر لہلہانے والی گندم نہ جانے کس کی ہے۔‘‘ اس جواب پر اقبال نے تجسّس و تأسّف کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’اگر صرف زمین کے یہ ٹکڑے ہی تمھارے ہیں، اور ان میں اگنے والی کوئی چیز تمھاری نہیں، تو تم اس قدر محنت کیوں کر رہے ہو؟‘‘۱۲۵؎ اقبال کے متحرک و متجسّس ذہن میں ضرور یہ خلش پیدا ہوئی ہو گی کہ جب سرمایہ دار کے لیے محنت کے بغیر اپنے سرمایے سے منافع حاصل کرنا حرام ہے تو پھر زمیندار کے لیے کس طرح یہ جائز ہو سکتا ہے کہ ہاتھ پائوں ہلائے بغیر ، گھر بیٹھے ، وہ کسان کی سال بھر کی محنت کی کمائی میں شریکِ غالب بن جائے؟! غالباً اُسی وقت سے ان کے دل میں اس نظامِ معیشت کے خلاف ایک چنگاری سی سلگ رہی ہو گی جو بعد میں شعلہ بن کر یوں بھڑکی: جس کھیت سے دہقاں کو میّسر نہیں روزی اُس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو۱۲۶؎ تصّوف کی طرف اقبال کے آبائی میلان اور دوریش صفت باپ کی تربیت کے اثرات کی وضاحت ہو چکی ہے۔ غالباًانھوں نے اسی زمانے میں تصوف کے ذوق کے تقاضے سے اسلامی فلسفے اور تصوف کا مطالعہ شروع کر دیا تھا۔ اس کا ثبوت ہمیں اقبال کے اس خط سے ملتا ہے جس میں انھوں نے اپنے گھر میں محی الدین ابنِ عربی کی تصانیف کے درس کا ذکر کیا ہے۔ اس ضمن میںوہ لکھتے ہیں: گو بچپن کے دنوں میں مجھے ان مسائل کی سمجھ نہ تھی تاہم محفلِ درس میں ہر روز شریک ہوتا۔ بعد میں جب عربی سیکھی تو کچھ کچھ خود پڑھنے لگا اور جوں جوں علم اور تجربہ بڑھتا گیا میرا شوق اور واقفیت زیادہ ہوتی گئی۔‘‘۱۲۷؎ لیکن اس درس اور مطالعے کے علاوہ جن باتوں نے اقبال کے قلب و ذہن پر روحانیت کے گہرے نقوش ثبت کیے، وہ لڑکپن اور نوجوانی کے بعض مشاہدات اور تجربات تھے۔ مثلاً اندھیری رات میں، مکان کے صحن میں ایک پُراسرار روشنی کا منظر (جس کا ذکر آچکا ہے)۔ اقبال نے ایک مرتبہ اور اِسی قسم کی روشنی دیکھی تھی۔ اقبال کے صوفیانہ مزاج کی توضیح کے لیے عطیہ بیگم نے اقبال کے بچپن کا یہ واقعہ بیان کیا ہے جسے انھوں عطیہ بیگم سے تعارف و ملاقات کے تھوڑے ہی دن بعد سنایا تھا۔ مولانا سالک مرحوم لکھتے ہیں کہ انھوں نے بھی اقبال کی زبان سے ہو بہو یہی واقعہ سنا تھا: اقبال نے بتایا کہ جب میری عمر کوئی گیارہ سال تھی، ایک رات میں اپنے گھر میں کسی آہٹ کے باعث سوتے سے بیدار ہو گیا۔ میںنے دیکھا کہ میری والدہ کمرے کی سیڑھیوں سے نیچے اُتر رہی ہیں۔ میں فوراً بستر سے اٹھا اور اپنی والدہ کے پیچھے پیچھے چلتے چلتے سامنے دروازے کے پاس پہنچا جو اَدھ کھلا تھا اور اس میں سے روشنی اندر آ رہی تھی ۔والدہ اس دروازے میں سے باہر جھانک رہی تھیں۔ میں نے آگے بڑھ کر دیکھا کہ والد کھلے صحن میں بیٹھے ہیں اور ایک نور کا حلقہ ان کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ میں نے والد کے پاس جانا چاہا لیکن والدہ نے مجھے روکا اور مجھے سمجھا بجھا کر پھر سلا دیا۔ صبح ہوئی تو میں سب سے پہلے والد کے پاس پہنچا تا کہ ان سے رات کا ماجرا دریافت کروں۔ والدہ پہلے ہی موجود تھیں اور والد انھیں اپنا ایک رئویا سنا رہے تھے جو رات انھوں نے بہ حالتِ بیداری دیکھا تھا۔ والد نے بتایا کہ کابل سے ایک قافلہ آیا ہے جو مجبوراً ہمارے شہر سے کوئی پچیس میل کے فاصلے پر مقیم ہوا ہے۔ اس قافلے میں ایک شخص بے حد بیمار ہے اور اس کی نازک حالت ہی کی وجہ سے قافلہ ٹھہر گیا ہے۔ لہٰذا مجھے ان لوگوں کی مدد کے لیے فوراً پہنچنا چاہیے۔ والد نے کچھ ضروری چیزیں فراہم کرکے تانگا منگایا، مجھے بھی ساتھ بٹھا لیا اور چل دیے۔ چند گھنٹوں میں تانگا اُس مقام پر پہنچ گیا جہاں کاروان کا ڈیرا تھا۔ ہم نے دیکھا کہ وہ قافلہ ایک دولت مند اور ذی اثر خاندان پر مشتمل ہے جس کے افراد اپنے ایک فرد کا علاج کرانے کے لیے پنجاب آئے ہیں۔ والد نے تانگے سے اترتے ہی دریافت کیا کہ اس قافلے کا سالار کون ہے؟ جب وہ صاحب آئے تو والد نے کہا ’’مجھے فوراً مریض کے پاس لے چلو۔‘‘ سالار بے حد متعجب ہوا کہ یہ کون شخص ہے جو ہمارے مریض کی بیماری سے مطلع ہے اور فوراً اس کے پاس بھی پہنچنا چاہتا ہے، لیکن مرعوبیت کے عالم میں والد کو اپنے ساتھ لے گیا۔ جب والد مریض کے بستر کے پاس پہنچے تو کیا دیکھا کہ مریض کی حالت بے حد خراب ہے۔ اُس کے بعض اعضا اس مرض کی وجہ سے ہولناک طور پر متاثر ہو چکے ہیں۔ والد نے ایک چیز نکالی جو بظاہر راکھ نظر آتی تھی۔ و ہ راکھ مریض کے گلے سڑے اعضا پر مل دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مریض کو شفا حاصل ہو گی۔ اُس وقت نہ تو مجھے یقین آیا، نہ مریض کے لواحقین ہی نے اس پیش گوئی کو اہمیت دی۔ لیکن چوبیس ہی گھنٹے گزرے تھے کہ مریض کو نمایاں افاقہ ہو گیا اور لواحقین کو یقین ہونے لگا کہ مریض صحت یاب ہو جائے گا۔ ان لوگوں نے والد کی خدمت میں ایک اچھی خاصی رقم فیس کے طور پر پیش کی جس کو والد نے قبول نہ کیا اور ہم لوگ واپس سیالکوٹ پہنچ گئے ۔ چند روز بعد وہ قافلہ سیالکوٹ وارد ہو گیا اور معلوم ہوا کہ وہ مایوس العلاج مریض شفایاب ہو چکا ہے۔۱۲۸؎ خالد نظیر صوفی نے اقبال کے ایک ہم جماعت کی یہ روایت نقل کی ہے کہ اقبال جن دنوں مشن سکول کی چوتھی یا پانچویں جماعت میں تھے، ایک روز ان کی جماعت میں ایک مرد قلندر ، دراز قامت اور سرخ و سپید، اپنے حال میں مست، آن وارد ہوئے۔ بڑی شفقت سے ان کے سر پر ہاتھ رکھا، پیشانی پر بوسہ دیا اور بغیر کچھ کہے سنے واپس چلے گئے۔ بعد میں تحقیق کرنے سے معلوم ہوا کہ اُس مردِ درویش نے کسی سے بھی ان کے متعلق دریافت نہیں کیا اور خود ہی سیدھے ان کے پاس پہنچے تھے۔ اس کے بعد بھی وہ مرد قلندر کبھی کبھار اقبال سے ملنے آتے رہتے تھے۔۱۲۹؎ اُس زمانے میں ایک اور درویش، سائیں کیسر شاہ، کے کشف و کرامات کا بھی اس علاقے میں بڑا چرچا تھا۔ متواتر روایات سے واضح ہوتا ہے کہ سیالکوٹ کے معززین میں، خود اقبال کے والد ماجد اور مولوی میر حسن بھی سائیں جی کے عقیدت مند تھے۔۱۳۰؎ سائیں کیسر شاہ کے مریدِ خاص ، شیخ اللہ داد، مولوی صاحب کے نہایت عزیز دوست تھے۔ وہ اپنے مرشد سے ملنے کے لیے موضع وائیں جاتے تو کبھی کبھی اپنے ان احباب کو بھی ساتھ لے جاتے تھے جہاں عجیب و غریب باتیں دیکھنے میں آتیں۔۱۳۱؎ سائیں جی کی یاد اقبال کے ذہن میں ہمیشہ تازہ رہی۔ اپنے ایک مضمون ’’قومی زندگی‘‘ (مخزن ، اکتوبر ۱۹۰۴ئ)میں مسلمانوں کے قومی امراض کے ضمن میں بے جا نام و نمود کی خواہش کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے سائیں کیسر شاہ کا ایک معنی خیز لطیفہ بیان کیا ہے۔ واقعہ طویل ہے، یہاں صرف اقبال کے تعارفی کلمات ملاحظہ ہوں: ہمارے سیالکوٹ کے قریب تحصیل وزیر آباد میں ایک بزرگ سائیں کیسر شاہ نام کے رہا کرتے تھے۔ رندانہ طریق کے ایک صاحبِ کرامات درویش تھے اور مراقبہ وحدت الوجود سے انھیں خصوصیت تھی۔ قرب و جوار کے تمام معززین، ہندو اور مسلمان ان کے حلقۂ مریدین میں شامل تھے۔۱۳۲؎ ظاہر ہے کہ ایسے پُراسرار حالات، مکاشفات و مشاہدات نے روحانی حقایق اور اہل اللہ کے باطنی کمالات پر نوعمر اقبال کے دل میں ایک غیر متزلزل ایمان پیدا کر دیا ہو گا۔ اپنے فلسفیانہ ذہن اور صوفیانہ میلان کے باوجود اقبال اوائلِ عمر ہی میں حسِ مزاح سے بہرۂ وافر رکھتے تھے۔ مولانا میر حسن کی صحبت میں ان کی ذہانت اور طباعی کا جوہر چمک اٹھا اور ان کی حاضر جوابی و نکتہ سنجی میں استاد کا رنگ جھلکنے لگا۔ ابتدائی تعلیم کے زمانے کا یہ واقعہ بہت مشہور ہے کہ وہ ایک مرتبہ جب دیر سے جماعت میں پہنچے اور استاد نے پوچھا کہ اقبال تم دیر سے کیوں آئے ہو؟ تو انھوں نے برجستہ جواب دیا ’’اقبال ہمیشہ دیر سے آتا ہے!‘‘بے تکلف احباب کی صحبتوں میں اقبال کی ذہانت اور زندہ دلی طنز و مزاح کے نت نئے شگوفے کھلاتی تھی۔ سیالکوٹ کے ایک طویل القامت دوست (اور غالباً ہم جماعت) ’’جھنڈے خاں‘‘ ان کے طنز وتمسخر اور پھبتیوں کا اسی طرح نشانہ بنتے تھے جیسے لاہور میں اقبال کے سیہ فام دوست چودھری شہاب الدین۔ کبھی کبھی نو عمر اقبال کی شوخی و طراری بزرگوں کی محفل میں بھی قیامت ڈھاتی تھی۔ جھنڈے خاں کے بارے میں ان کی شوخ پھبتیوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے یہاں ایک واقعہ نقل کیا جاتا ہے جسے خود اقبال نے ۲۴؍جون۱۹۳۰ء کی ایک صحبت میں بیان کیا تھا۔ ’’سیالکوٹ کی ایک مسجد میں مرزا صاحب ، دعویِ مسیحیت کے ابتدائی ایام میں صبح صبح اپنے عقیدت مندوں کے حلقے میں تازہ الہامات سنایا کرتے تھے۔ ایک روز مجھے جو دل لگی سوجھی تو میں بھی وہاں جا پہنچا اور کہا کہ مجھے بھی الہامات ہوئے ہیں، سنیے۔ میں نے عربی کے چند جملے، جن میں احمدیوں اور ان کے مذہب کی بابت مزاحیہ رنگ میں نوک جھوک تھی ، سنائے، جس سے وہ طائفہ سخت برہم ہوا اور مجھے بھاگنا پڑا۔‘‘۱۳۳؎ اگرچہ شاہ جی کے سامنے ان کی زبان نہیں کھلتی تھی لیکن ایک موقع پر استاد محترم نے ایک طنزیہ فقرہ چست کیا(جو اتفاقاً مصرعے کی صورت میں تھا)۔ اس کے جواب میں اقبال نے برجستہ ایک مصرع کہا جو ان کی بدیہہ گوئی، حاضر جوابی اور نکتہ آفرینی کی مثال کے طور پر ہمیشہ یاد گار رہے گا۔ واقعہ یوں ہے کہ ایک روز شاہ جی اپنے خورد سال بھانجے ’’احسان‘‘کو لے کر بازار سے گزر رہے تھے۔ اقبال بھی ساتھ تھے۔ ننھا بچہ چلتے چلتے تھک گیا۔ اقبال نے اُسے گود میں اٹھا لیا لیکن وہ خوب تندرست و توانا تھا۔ تھوڑی دور چل کر اقبال نے سستانے یا پہلو بدلنے کے لیے اسے گود سے اتار دیا۔ شاہ جی نے پیچھے مڑ کر یہ منظر دیکھا تو اقبال کو مخاطب کرکے بولے ’’اس کی برداشت بھی دشواری ہے! ‘‘ اقبال نے فی البدیہہ یہ معنی خیز مصرع کہا: ’’تیرا احسان بہت بھاری ہے!‘‘۱۳۴؎ اقبال کے جمالیاتی میلان کے اظہارکی ایک صورت تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بچپن میں اقبال نیلی نیلی فضا میں سفید کبوتروں کی بلند پروازی کے نظارے میں گھنٹوں محو رہا کرتے تھے۔ بچپن ہی میں اس میلان کا اظہار شعر و نغمہ کے فطری ذوق کی صورت میں بھی ہونے لگا۔ بیگم شیخ عطا محمد، اقبال کی خوش الحانی اور ان کی پُرسوز آواز کی تعریف کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ بچپن میں وہ ہمیں پنجابی کے منظوم قصے بڑے پیارے لحن میں سنایا کرتے تھے۔ بسا اوقات قصہ پڑھتے پڑھتے اپنی طرف سے بھی کو ئی مصرع اس میں جڑ دیتے اور ان کا مصرع ایسا پرُ اثر اور خوبصورت ہوتا کہ ہم سب انھیں بے ساختہ داد دیا کرتے۔ اُس وقت ان کی عمر بمشکل دس بارہ برس تھی۔۱۳۵؎ ان کے لڑکپن کی شاعری کے بارے میں کئی روایتیں مشہور ہیں لیکن یہاں جمالیاتی ذوق کے اعتبار سے موسیقی سے ان کا لگائو خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ جمالیاتی ذوق کا تعلق ’’جنت نگاہ‘‘ سے بھی ہے اور ’’فردوس گوش‘‘ سے بھی۔ شعر و موسیقی میں جو ازلی رشتہ ہے، اس بنا پر شعرا عموماً موسیقی کے دلدادہ ہوتے ہیں لیکن بہت کم شعرا اس فن سے اتنا گہرا لگائو رکھتے ہیں کہ اسے سیکھنے کی کوشش کریں۔ اقبال نے کسی خارجی تحریک یا ترغیب کے بغیر ، محض اپنے فطری ذوق کے تقاضے سے فنِ موسیقی کی مبادیات سے آشنا ہونا ضروری سمجھا۔ سیالکوٹ کے آبائی مکان میں اقبال کے زمانۂ طالب علمی کی جو کتابیں محفوظ ہیں، ان میں جماعت نہم کی ایک کتاب Readings in Poetry کے ایک صفحے پر انھوں نے راگ کے بول یوں تحریر کیے ہیں: ۱ ۲ ۳ ۴ ۵ ۶ ۷ ۸ سا رے گا ما پا دھا نی سا خرج رکھب گندھار مدھم پنچم دھیوت نکھاد اسی کتاب پر ایک دوسری جگہ راگ کے بول یوں درج ہیں: ۲ دھا خرج (خاص) ری گا دھا (خاص) یا (خاص) گا ری سا گا۱۳۶؎ کہا جاتا ہے کہ اقبال ستار بہت اچھا بجاتے تھے۔ ممکن ہے سیالکوٹ ہی میں یہ فن سیکھا ہو۔ اس دور میں اقبال کی سلیم الطبعی اور ذہنی توازن کی ایک واضح دلیل یہ ہے کہ ان تمام رجحانات و مشاغل میں سے کوئی رجحان اور کوئی مشغلہ ان کے تعلیمی انہماک اور شغفِ مطالعہ پر غالب نہ آ سکا۔ حتیٰ کہ شعر گوئی کا ذوق بھی حدِ اعتدال کے اندر، مشقِ سخن اور اکتسابِ فن کا ایک وسیلہ تھا۔ وہ اپنے عہد کے اُن نوجوان شعرا سے بہت مختلف تھے جو مشاعرہ بازی کی دھن اور داد طلبی کی ہوس میں مبتلا ہو کر ، تعلیم ہی نہیں، زندگی کے تمام معاملات و مسائل سے بے نیاز ہو جاتے تھے۔ شعر گوئی سے زیادہ وہ کلاسیکی ادب، خصوصاً فارسی اساتذۂ سخن کے مطالعے میں انہماک رکھتے تھے۔ ایسامعلوم ہوتا ہے کہ شاہ جی کی صحبت و تربیت نے ان کے دل میں حصولِ علم اور کسبِ کمال کی ایسی لگن پیدا کر دی تھی کہ مطالعہ و استفادہ سے ان کی حریص طبیعت کی سیری ہی نہ ہوتی۔ ان کے شوقِ فراواں کا یہ عالم تھاکہ مولوی میر حسن کے ہوتے ہوئے وہ فارسی زبان کی تحصیل میں دیگر اساتذہ سے بھی کسبِ فیض کرتے رہے۔ اسد ملتانی مرحوم اپنی پہلی ملاقات کی روداد میں بیان کرتے ہیں کہ اقبال اپنے ایک ہم وطن اورہم جماعت دوست کے ساتھ طالب علمی کے زمانے کے واقعات کی یاد تازہ کر رہے تھے کہ وہ سیالکوٹ میں کس طرح مدرسے کے اوقات کے بعد مساجد و مکاتب میں مختلف مولوی صاحبان کی خدمت میں حاضر ہو کر فارسی پڑھا کرتے تھے۔ پھر فرمانے لگے: …لوگوں کو تعجب ہوتا ہے کہ اقبال کو فارسی کیوں کر آ گئی جبکہ اس نے سکول یا کالج میں یہ زبان نہیں پڑھی۔انھیں یہ معلوم نہیں کہ میں نے فارسی زبان کی تحصیل کے لیے اسکول ہی کے زمانے میں کس قدر محنت اٹھائی اور کتنے اساتذہ سے استفادہ کیا…۱۳۷؎ ابتدائی جماعتوں کے بعد جوں جوں وہ آگے بڑھتے گئے، ان کے مطالعے کا دائرہ بھی وسیع تر ہوتا گیا ۔شاہ جی کا قیمتی ذخیرئہ کتب تو اُن کے استفادے کے لیے وقف تھاہی، وہ ادھر اُدھر سے بھی کتابیں لا لا کر پڑھا کرتے تھے۔۱۳۸؎ خارجی مطالعے کے علاوہ ، وہ درسیات کے مطالعے کی طرف بھی بقدر ضرورت توجہ رکھتے تھے اور امتحانات میں عموماً امتیازی نمبر حاصل کرتے تھے۔ بقول حضرت فوق، پرائمری، مڈل اور انٹرنس (میٹرک) کے امتحانات میں وظیفہ حاصل کیا۔۱۳۹؎ اُن دنوں چونکہ سیالکوٹ میں امتحانات کا سینٹر نہیں تھا، اس لیے اقبال کو گجرات سینٹر سے میٹرک کا امتحان دینا پڑا۔ وہاں کے سول سرجن خان بہادر ڈاکٹر عطا محمد نے انھیں دیکھا تو بہت پسند کیا اور اپنی بڑی بیٹی (محترمہ کریم بی بی ) کے رشتے کے لیے سلسلہ جنبانی شروع کی۔۱۴۰؎ خان بہادر صاحب، اپنے بلند منصب کے علاوہ، ایک معزز کشمیری خاندان کے فرد، حافظِ قرآن اور ایک نہایت متقی و دین دار مسلمان تھے۔ دس برس تک وائس برٹش کونسل کی حیثیت سے سرزمین حجاز میں مقیم رہے۔محترمہ کریم بی بی کا بچپن وہیں گزرا اور وہ بے تکلف عربی بولتی تھیں۔۱۴۱؎ یہ رشتہ بہ ظاہرمناسب تھا/ لیکن اقبال شادی کے لیے رضا مند نہیں تھے،غالباًاس اندیشے سے کہ مبادا حصولِ علم کی راہ میں شادی سے کوئی رکاوٹ پیدا ہو، لیکن والدین کے اصرار سے مجبور ہو گئے۔ اتفاق سے عین شادی کے دن میٹرک کے امتحان میں کامیابی کا تار آیا۔ ۱۴۲؎ وثوق سے تو نہیں کہا جا سکتا لیکن مختلف روایات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ میٹرک میں انھیں شاندار کامیابی حاصل ہوئی۔// قرائن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ابتدائی زمانے میں پہلی بیوی سے ان کے تعلقات ناخوش گوار نہیں تھے۔ سسرال (گجرات) میں بھی ان کی آمد و رفت رہتی تھی۔ سسرالی اعزہ میں درویش صفت خسر صاحب کی محترم شخصیت سے انھیں ضرور عقیدت رہی ہو گی۔ گجرات کے بعض مشاعروں میں بھی ان کی شرکت کا ثبوت ملتا ہے۔ مشن کالج کی زندگی کے بارے میں سوانحی روایات کا ذخیرہ نہایت محدود ہے۔ اس زمانے میں جن لوگوں نے اقبال کو دیکھا تھا، ان کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہم عصر طلبہ میںنہایت ممتاز اور جاذبِ توجہ شخصیت کے مالک تھے اور ’’جو شخص ان سے ملتا تھا وہ غیر معمولی طور پر ان کی طرف کھنچ جاتا تھا۔‘‘۱۴۳؎ اقبال کے ایک نیاز مند،شیخ امین حزیں(محمد مسیح پال سیالکوٹی) اس زمانے میں آٹھویں جماعت کے طالب تھے۔ وہ فرماتے ہیں: ’’ڈاکٹر صاحب نے ایک دفعہ کالج سے سکول میں تشریف لا کر اپنے کچھ اشعار / ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں: ’’شادی کے وقت اقبال کی عمر سولہ برس اور کریم بی بی کی انیس برس تھی۔ ‘‘(زندہ رود، ص ۸۱)۔ // جاوید اقبال لکھتے ہیں: ’’اقبال نے ۱۸۹۳ء میں میٹرک کے امتحان میں فسٹ ڈویژن لے کر کامیابی حاصل کی اور تمغہ و وظیفہ بھی پائے۔‘‘ (زندہ رود، ص ۶۹)۔ سنائے تھے۔‘‘۱۴۴؎ اقبال نے ۱۸۹۵ء میں ایف۔ اے کا امتحان سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیا۔ میکلوڈ عربک ریڈر شپ کے سلسلے میں پنجاب یونی ورسٹی کی رو داد (مورخہ ۲۳؍جون ۱۸۹۹ئ) سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ اقبال ایف۔ اے عربی کے امتحان میں یونی ورسٹی بھر میں اوّل آئے تھے۔۱۴۵؎ /// فصل دوم گورنمنٹ کالج کی طالب علمی کا زمانہ (۱۸۹۵ء - ۱۸۹۹ئ) (۱)کالج اور اس کا ماحول ۱۸۹۵ء میں سکاچ مشن کالج سیالکوٹ سے ایف۔ اے امتحان پاس کرنے کے بعد اقبال لاہور آ گئے اور گورنمنٹ کالج میں بی۔ اے میں داخل ہو گئے۔ اُنیسویں صدی کے عشرئہ آخر میں پونے دو لاکھ آبادی کا یہ قدیم مرکزی شہر لاہور موجودہ دور کے ہنگاموںاور تہذیب و ترقی کی جدید برکات و حرکات سے بڑی حد تک محروم تھا۔ اگرچہ اُس وقت یہ پرانا شہر اپنی فصیلوں اور دروازوں سے باہر، انارکلی بازار کے گرد و نواح میں بتدریج پھیل رہا تھا؛ سول لائنز کے علاقے میں اور مال روڈ کے آس پاس امارت اور حکومت کے کچھ جدید آثار ، بنگلوں اور دفتروں کی عالی شان عمارتوں کی صورت میں نمودار ہو چلے تھے،۱۴۶؎ لیکن شہر میں ہنوزبجلی کی روشنی ناپید اور مشینی سواریاں نایاب تھیں۔نہ تو اس طرح جگمگاتی ہوئی سڑکوں پر بسوں اورکاروں کے کارواںرواں دواں رہتے تھے، نہ زرق برق دکانیں، سینما گھر، کافی ہائوس اور ریستوران تھے۔ نو ساختہ مال روڈ کا گرد آلود چہرہ بھی جدید رنگ و روغن اور آب و تاب سے عاری تھا۔۱۴۷؎ اس خاموش و پرسکون ماحول میں گورنمنٹ کالج کی گرجا نما عمارت اپنی مرتفع پائے گاہ پر اسی طرح سر بلند تھی لیکن عمارت کے چاروں طرف سپاٹ اور بے آب و گیاہ میدانوں میں دھول اڑا کرتی تھی۔ البتہ شمالی جانب ایک بوڑھا بڑ کا درخت سایہ فگن تھا جس کے تنے کے گردا گرد چھوٹا سا چبوترہ، گروہ در گروہ طلبہ کے لیے چوپال کا کام دیتا تھا۔۱۴۸؎ کالج کی عمارت کے سامنے کچہری روڈ سے متصل، اب جو خوشنما بیضوی میدان (The Oval) ہے، اس میں سنترے اور لیمو کے چند درخت یا جا بجا خود رو پودوںکی جھاڑیاں تھیں۔۱۴۹؎ گورنمنٹ کالج اور (نیلا گنبد کے قریب) ایف ۔سی کالج کے علاوہ دو نئے کالج کھل گئے تھے: اسلامیہ کالج ، جہاں ابھی ایف۔ اے تک تعلیم ہوتی تھی اور ڈی۔ اے۔ وی کالج جہاں بی ۔ اے کی جماعتیں بھی قائم ہو گئی تھیں۔۱۵۰؎ لیکن پنجاب یونی ورسٹی کا پیش رو، گورنمنٹ کالج، اب بھی اپنی شانِ یکتائی پر نازاں تھا۔ یہاں نہ صرف ایف۔ اے سے ایم ۔ اے تک تمام جماعتیں اور علوم و فنون (سائنس اور آرٹس) کے قریباً تمام شعبے تھے بلکہ طلبہ کی روز افزوں تعداد بھی اب (۹۶-۱۸۹۵ء میں) ۲۶۴ تک پہنچ گئی تھی۔۱۵۱؎ کالج کی عمارت کو یہ مرکزیت بھی حاصل تھی کہ اس کی آغوش میں تین مستقل درس گاہیںبیک وقت پھل پھول رہی تھیں۔ عمارت کے نصف مشرقی حصے اور شمالی بازو کی بالائی منزل پر اورینٹل کالج کا قبضہ تھا اور پرنسپل کے کمرے کے بازو میں، سرے کا کمرہ لاء سکول کے لیے مخصوص تھا۔۱۵۲؎ جس سال اقبال گورنمنٹ کالج میں داخل ہوئے، اسی تعلیمی سال (۹۶-۱۸۹۵ئ) کے دوران میں کئی انتظامی تبدیلیاں ہوئیں۔ کالج کے پرنسپل اور انگریزی کے پروفیسر مسٹر ڈبلیو۔ بیل طویل رخصت پر چلے گئے اور ان کی جگہ مسٹر ڈالنجر(P.G.Dallinger) پرنسپل مقرر ہوئے۔۱۵۳؎ نئے پرنسپل کے عہد میں اسی سال سپورٹس کلب کو، جو اب تک یونین کلب کے ایک جزو کی حیثیت سے ٹینس، کرکٹ اور فٹ بال کے کھیلوں کا اہتمام کرتا تھا، یونین سے علیحدہ کرکے ایک مستقل حیثیت دی گئی۔۱۵۴؎ اسی سال کالج لائبریری کا ایک حصہ طلبہ کے نام سے مخصوص کیا گیا اور اس میں طلبہ کے مطالعے کے لیے مختلف سہولتیں پیدا کی گئیں۔۱۵۵؎ اسی سال صدر شعبۂ فلسفہ پروفیسر اُشر (Ussher) کی کوشش سے فلاسفیکل سوسائٹی قائم ہو ئی۔سوسائٹی کے اجلاسوں میں سنجیدہ علمی وفلسفیانہ موضوعات پر مقالے پڑھے جاتے تھے۔۱۵۶؎ اقبال کو کھیلوں سے تو کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن باقی دو تبدیلیاں، ان کے علمی ذوق کے لیے زیادہ سازگار ثابت ہوئیں۔ اُس زمانے میں کالج کے طلبہ سیاسی مسائل میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔۱۵۷؎ اس دور کی واحد سیاسی جماعت، انڈین نیشنل کانگرس کا حلقۂ اثر بھی لاہور جیسے مرکزی اہمیت کے شہر میں، صرف کچھ و کیلوں اور دانشوروں کی ایک مخصوص جماعت تک محدود تھا۔ لیکن بعض واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ طلبہ کے اندر قومی وقار کا احساس اتنا بیدار ہو چکا تھا کہ انگریز اساتذہ کے توہین آمیز برتائو کے خلاف پوری جماعت احتجاجاً اٹھ کھڑی ہوتی تھی۔۱۵۸؎ کالجوں میںنظم و ضبط کی پابندیاں زیادہ نہیں تھیں۔ مثلاً یونی ورسٹی امتحانات کے لیے حاضریوں کا حساب و شمار نہیں ہوتا تھا اور نہ جماعتوں سے غیر حاضری پر جرمانے ہوتے تھے۔ کالج میں داخلے کے لیے بھی کوئی آخری حد مقرر نہیں تھی۔۱۵۹؎ بعض طلبہ خانگی طور پر نصاب تیار کرتے اور امتحان سے دو ایک ماہ پہلے کالج میں داخل ہو جاتے تھے۔ ایک کالج سے دوسرے مقامی کالج میں منتقل ہونے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔۱۶۰؎ ایف ۔ اے ، بی ۔اے اور ایم ۔ اے کی فیس علی الترتیب۔؍۷، ۔؍۸ اور ۔؍۱۰ روپے ماہانہ تھی۔۱۶۱؎ لیکن اس کی ادائیگی کے لیے بھی کوئی تاریخ یا کوئی وقت مقرر نہیں تھا۔۱۶۲؎ جماعت میں طلبہ کی خاموشی سے نظم و ضبط کے تمام مطالبے پورے ہو جاتے تھے۔۱۶۳؎ یونی ورسٹی میں ایم ۔ اے کے دو سالہ نصاب کی پابندی ۱۹۱۴ء میں عاید ہوئی۔۱۶۴؎ اس سے پہلے ایم۔ اے کا امتحان ایک سال میں دیا جا سکتا تھا۔ طلبہ ایم ۔ اے کے نصاب کی تیاری میں سہل انگاری سے کام لیتے جس کی وجہ سے نتائج عموماًخراب رہتے تھے اور اچھے خاصے ذہین طلبہ بمشکل دوسرے درجے (ڈویژن) میں، ورنہ اکثر تیسرے درجے میں،کامیاب ہوتے تھے۔۱۶۵؎ لاہور آ کر اقبال ’’نصابی‘‘ طالب علم نہیں رہ گئے تھے اور غیر درسی مطالعہ و ادبی مشاغل میںان کا انہماک بڑھ گیا تھا، تاہم بی ۔ اے کے امتحان ۱۸۹۷ء میں انھوں نے درجۂ دوم میں کامیابی حاصل کی اور عربی میں اوّل آنے پر ایک تمغا (P/S, Jamal-ud-Din Medal) نیز عربی کے ساتھ انگریزی میں اوّل آنے پر ایک اور تمغا (Khalifa Muhammad Hussin Aitchison Medal) حاصل کیا۔۱۶۶؎ جب انھوں نے ایم ۔ اے فلسفہ میں داخلہ لیا تو معمول کے مطابق دو سال بعد ایم ۔ اے کاامتحان دینے کے بجائے دسمبر ۱۸۹۸ء میں قانون کے ابتدائی امتحان (پی۔ای۔ایل) میں شریک ہوئے، لیکن پہلے پرچے (اصول قانون) میں فیل ہو گئے۔ دوسرے سال یعنی مارچ ۱۸۹۹ء میں ایم ۔ اے فلسفہ کا امتحان دیا تو وہ اس مضمون کے واحد امیدوار تھے۔ اگرچہ اقبال تیسرے درجے میں پاس ہوئے تھے لیکن واحد طالب علم ہونے کی وجہ سے وہ ’’خان بہادر نواب بخش میڈل‘‘ کے مستحق قرار پائے۔۱۶۷؎ ہم مکانی کے رشتے کے علاوہ، اورینٹل کالج اور گورنمنٹ کالج کے مابین بعض مضامین کی تدریس کے بارے میں باہمی تعاون کے اصول پر عمل ہوتا تھا اور ۱۹۱۳ء میں جب اورینٹل کالج اپنی موجودہ عمارت سے متصل کونونٹ (Convent) کی عمارت میں منتقل ہوا، اس وقت تک اشتراکِ عمل کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ چنانچہ اقبال ۱۸۹۵ء تک بی ۔ اے میں انگریزی اور فلسفہ کے مضامین گورنمنٹ کالج کے اساتذہ سے اور عربی، اورینٹل کالج میں پڑھتے رہے۔۱۶۸؎ انگریزی کے استاد پروفیسر ڈالنجر (پرنسپل)اور فلسفہ کے استاد پروفیسر اشر (G. B. Ussher) اور لالہ جیارام (اسسٹنٹ پروفیسر ) تھے۔ لالہ جیارام نہایت سادہ مزاج اور شریف النفس انسان تھے۔ گورنمنٹ کالج کی تاریخ میں انھیں ’’میمنے‘‘ کی طرح حلیم اور ہرن کی طرح ’’نرم دل‘‘ بیان کیا گیا ہے۔۱۶۹؎ اپنی روایتی متانت کے باوجود ان کا دل لطیف احساسات و جذبات کے سوز و ساز سے لبریز تھا۔ بعض جماعتوں کو انگریزی ادب کی تدریس کے دوران میں یہ سنجیدہ فلسفی، وفورِ جذبات سے اکثر چھلک پڑتا تھا۔۱۷۰؎ اقبال ان کے نیاز مندوں میں تھے۔ چنانچہ علم الاقتصاد کے دیباچے میں ان کی ذاتی کتابوں اور مفید مشوروں پر اظہار تشکر کرتے ہوئے ان کا نام فرطِ عقیدت سے یوں لکھا ہے: ’’اُستاذی جناب قبلہ لالہ جیارام صاحب ۔‘‘۱۷۱؎ ڈاکٹر وحید قریشی نے اورینٹل کالج کی شماریاتی روداد (Statistical Report) کے حوالے سے مولوی محمد الدین (ایم ۔ او۔ ایل)کو بی ۔ اے عربی کی جماعتوں میں اقبال کا استاد بیان کیا ہے۔۱۷۲؎ مولانا محمد الدین فوق کشمیری نژاد عالم تھے اور عربی و فارسی میں شعر کہتے تھے۔ انھوں نے کشمیر کے علماء و مشائخ کے حالات اور ’’تاریخِ کشمیر‘‘ کے علاوہ تفسیر ، فقہ، سیرت النبی، عربی ادب، منطق و فلسفہ وغیرہ مختلف علوم پر فارسی و عربی میں متعدد کتابیں تصنیف کیں۔تاریخِ اورینٹل کالج میںمولانا محمد الدین فوق کی بعض تصانیف مثلاً رفیقی نامہ، روضۃ الابرار(کشمیری علماء و مشائخ کے تذکرے) اور مختصر تاریخِ کشمیر ان کے جانشین استاد، مولوی محمد الدین مختار سے منسوب کیا گیا ہے۔۱۷۳؎ غالباً ہم نامی کی وجہ سے یہ تسامح ہوا۔خود رفیقی نامہ کے سرورق پر مصنف (مولانا محمد الدین فوق) کے نام کے ساتھ ان کی ایک درجن کتابوں کے نام درج ہیں۔ مولانا نے ۲۶؍جون ۱۸۹۸ء کو بہ عمر ۴۷ سال انتقال فرمایا۔مرحوم کے علمی ورثے کا بیشتر حصہ اب نایاب ہے۔۱۷۴؎ گورنمنٹ کالج کی تاریخ میں، اُس دور کے ایک معاصر طالب علم نے اساتذہ کے تعارف کے سلسلے میں اورینٹل کالج کے صرف ایک استاد مولانا ابوسعید محمد شعیب کا ذکر کیا ہے۔۱۷۵؎ اس روداد میںیہ مذکور نہیں کہ وہ کس جماعت کو عربی یا فارسی پڑھاتے تھے۔ چونکہ وہ ایک ہردل عزیز استاد تھے، شاید اسی لیے روداد نگار کو صرف انھی کا نام یاد رہ گیا۔ مولانا محمد شعیب سے اقبال کے خصوصی روابط کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ جب ۱۸۹۶ء میں ان کی ایک کتاب مختصر العروض شائع ہوئی تو اس میں اقبال کا اولین قطعۂ تاریخ (۱۱، اشعار) بھی شامل تھا۔ اس قطعے میں (جس کے بعض اشعار نمونۃً آئندہ فصل میں درج کیے گئے ہیں) تصنیف و مصنف کی مبالغہ آمیز مدح سرائی کی گئی ہے۔ اورینٹل کالج کے پرنسپل، ڈاکٹر سٹراٹن نے مولوی شعیب صاحب سے اردو سیکھی تھی اور اپنے خطوط میں جا بجا ان کا ذکر کیا ہے۔ ان کے بقول مولوی صاحب ایک عظیم الشان انسان (A Splendid fellow) تھے۔۱۷۶؎ وہ اپنی خوش مذاقی اور وسیع المشربی کی وجہ سے ہندو مسلم طلبہ و اساتذہ کے حلقوں میں بہت مقبول تھے۔۱۷۷؎ لیکن ’’معلمِ اوّل‘‘ حضرت علامہ میر حسن کے بعد اقبال جیسے صاحب ِ جوہر نوجوان کو اپنے ذہنی ارتقا کے سفر میں جس رہبرِ کامل کی تلاش تھی، وہ اسے اپنی تعلیمی زندگی کے آخری مرحلے میں میسر آیا۔ فروری ۱۸۹۸ء میں گورنمنٹ کالج میں دو اہم تبدیلیاں ہوئیں۔ اوّل یہ کہ پرنسپل ڈالنجر کے مستعفی ہونے کے بعد ڈھاکہ کالج کے سابق پرنسپل مسٹر رابسن نے ان کی جگہ لی اور آئندہ پندرہ سال تک اس منصب پر فائز رہے۔ دوم یہ کہ شعبۂ فلسفہ کے استاد، پروفیسر اُشر بھی مستعفی ہو گئے اور علی گڑھ کالج کے پروفیسر آرنلڈ ان کے جانشین بنے۔۱۷۸؎ (۲) معلّمِ ثانی گورنمنٹ کالج میں اقبال کی چہار سالہ تعلیمی زندگی کا سب سے اہم واقعہ پروفیسر آرنلڈ (Prof. Thomas Walker Arnold) جیسے شفیق و کردار ساز استاد کی شاگردی کا شرف ہے، جس کا آغاز اُس وقت ہوا جب ۱۱؍فروری ۱۸۹۸ء کو انھوں نے گورنمنٹ کالج میں صدر شعبۂ فلسفہ کے منصب کا جائزہ لیا۔۱۷۹؎ یوں تو بہ ظاہر،ایم۔ اے فلسفہ کی جماعت میں آرنلڈ کی باقاعدہ شاگردی کی مدت صرف ایک سال ہے لیکن ایم ۔ اے کے بعد بھی، علم و تحقیق کے میدان میں، لاہور سے لندن تک پروفیسر آرنلڈ کی پر خلوص رفاقت و رہنمائی اقبال پر سایہ فگن رہی۔ اقبال اپنے فاضل استاد کی شخصیت سے غائبانہ طور پر پہلے ہی متعارف ہوں گے کیونکہ پروفیسر آرنلڈ نہ صرف علی گڑھ کالج کے استاد تھے بلکہ ایک انصاف پسند مستشرق اور مسلم دوست عالم و محقق کی حیثیت سے علی گڑھ تحریک کے معاون اور سر سید کے حلقۂ خاص کے ایک رکن تھے۔ رفقائے سرسید سے عموماً اور شبلی و حالی سے خصوصاً ان کے بڑے گہرے دوستانہ روابط تھے۔ علامہ شبلی اور پروفیسر آرنلڈ کے درمیان علمی افادہ و استفادہ کا تعلق بھی تھا۔ علی گڑھ میں آرنلڈ نے شبلی کو فرانسیسی زبان سکھائی اور بہ قول شیخ عبدالقادر ان کے ’’مذاقِ علمی کو پختہ کرنے میں کامیابی حاصل کی۔۱۸۰؎ شبلی سے وہ فارسی و عربی ادبیات کے مطالعے میں مستفیض ہوئے ۔ یہ دونوں اساتذہ طالب علمانہ جذبۂ صادق کے ساتھ عمر بھر تحصیلِ علم و تبلیغ علم میں مصروف رہے، لیکن ایک موقعہ پر پروفیسر آرنلڈ کے علمی شغف نے علامہ شبلی کو شرمندہ کر دیا۔ شبلی نے اپنے سفرنامۂ مصرو روم و شام میں یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ اوائل مئی ۱۸۹۲ء میں جب وہ آرنلڈ کے ساتھ بحری جہاز میں سفر کر رہے تھے تو راستے میں جہاز کے انجن میں کچھ ایسی خرابی پیدا ہوئی کہ اس کی رفتار بہت دھیمی ہو گئی۔ شبلی عجب اضطراب و پریشانی کے عالم میں ادھر اُدھر بھاگنے لگے۔ یکایک ان کی نظر آرنلڈ پر پڑی جو اطمینان سے بیٹھے ہوئے ایک کتاب کے مطالعے میں محو تھے۔ شبلی نے انھیں اس خطرناک صورتِ حال سے خبردار کیا۔ آرنلڈ نے اسی سکون و اطمینان سے جواب دیا کہ اگر بالفرض ہماری زندگی اور اس جہاز کی سلامتی خطرے میں ہے تب بھی بہتر یہی ہے کہ ہم زندگی کے یہ آخری لمحات حصولِ علم میں گزار دیں۔۱۸۱؎ یقینا ایسا استاد، جس نے شبلی جیسے ’’استاد الکل‘‘ کے ذہن میں تاریخِ اسلام کے ان علمائے سلف کی یاد تازہ کر دی جو ارشادِ نبوی کے مطابق مہد سے لحد تک طلبِ علم میں منہمک رہتے تھے، اقبال جیسے لب تشنگانِ علم کے حق میں، بقول ان کے ’’ابرِ رحمت‘‘(’’نالۂ فراق‘‘) ثابت ہوا ہو گا۔سر سید کی زندگی ہی میں آرنلڈ کا علی گڑھ سے لاہور آ جانا ایک معنی خیز و ’’خدا ساز‘‘ بات ہے ۔ کنواں خود پیاسے کے پاس آ گیا۔ اقبال ’’شاہ جی‘‘ اور آرنلڈ دونوں کے مرید بھی تھے اور مراد بھی۔ پروفیسر آرنلڈ کی زندگی، طالب علمی کے مراحل سے لے کر عمر کے آخری لمحے تک مطالعے اور تحقیق میں گزری لیکن خاص بات یہ ہے کہ ان کی علمی و تحقیقی سر گرمیوں کے وسیع دائرے کا محور اسلام، تاریخِ اسلام و اسلامی ثقافت رہا ہے۔ ۱۸۸۳ء میں وہ بعمر ۱۹ سال کیمبرج یونی ورسٹی کے میگڈالین کالج میں داخل ہوئے تو وہاں پروفیسر رابرٹسن سمتھ نے ان کے اندر عربی و فارسی السنہ و ادبیات کے مطالعے کا ذوق پیدا کر دیا۔۱۸۲؎ اگرچہ اپنی طالب علمی کے زمانے میں کئی مغربی زبانیں سیکھیں لیکن فارسی، عربی اور سنسکرت کی تحصیل کے لیے وہ ڈگری حاصل کرنے کے بعد بھی کچھ عرصے تک کیمبرج یونی ورسٹی سے وابستہ رہے۔ ۱۸۸۸ء میں وہ ایم ۔ اے۔ او۔ کالج علی گڑھ میں پروفیسر مقرر ہوئے اور یہاں کے ماحول سے جلد مانوس ہو گئے۔۱۸۳؎ آرنلڈ پہلے انگریز استاد تھے جو مسلم علما کا لباس (عبا اور عمامہ) پہن کر کالج کے مولویوں کی صحبت میں بیٹھتے اور طلبہ کی مجالس میں شریک ہوا کرتے تھے۔۱۸۴؎ یہاں انھیںاسلامی السنہ و علوم اور مسلم تہذیب و ثقافت کے مطالعے کا بڑا اچھا موقع مل گیا،چنانچہ انھوں نے اپنی محققانہ تصنیف Preaching of Islam کی تیاری شروع کی جو ۱۸۹۶ء میں شائع ہوئی۱۸۵؎ اور سر سید نے عنایت اللہ دہلوی (فرزندِ منشی ذکاء اللہ دہلوی) سے اس کا ترجمہ کروا کے ’’دعوتِ اسلام‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ ۱۸۹۸ء سے ۱۹۰۴ء تک گورنمنٹ کالج میں تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد جب لندن واپس گئے تو کچھ عرصے تک انڈیا آفس لائبریری میں اسسٹنٹ لائبریرین کے منصب کی ذمہ داریاں سنبھالیں لیکن جلد ہی یونی ورسٹی کالج لندن میں شعبۂ عربی کی صدارت پر فائز ہو گئے۔۱۸۶؎ ۱۹۰۹ء سے ۱۹۲۰ء تک لندن میں ہندوستانی طلبہ کے مشیر کی حیثیت سے کام کیا۔۱۸۷؎ بعدازاں لندن یونی ورسٹی میں جب سکول آف اورینٹل سٹڈیز قائم ہوا تو اس میں شعبۂ عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔۱۸۸؎ ۱۹۲۰ء میںاپنی علمی خدمات کی بدولت حکومت کی طرف سے ’’سر‘‘ کے خطاب سے نوازے گئے۔۱۸۹؎ انسائیکلوپیڈیا آف اسلام کی تدوین میں ایک مدیر کی حیثیت سے حصہ لیا۔ انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایتھکس (Hasting Encyclopaedia of Religion and Ethics) میں اسلام سے متعلق متعدد مقالات لکھے۔میراثِ اسلام (The Legacy of Islam) اور اس کے علاوہ کئی قدیم و جدید کتابوں کی تدوین و ترتیب میں حصہ لیا۔ غرض اپنی وفات (۹َجون ۱۹۳۰ئ) تک برابر ان کی علمی تحقیقات کا سلسلہ جاری رہا۱۹۰؎ اور اس تمام عرصے میں انھوں نے اسلام، تاریخِ اسلام، اسلامی ثقافت اور مسلم آرٹ خصوصاً نقاشی اور مصوری پر دو درجن کے قریب گراں قدر مقالے اور کتابیں لکھیں۔ لیکن ان کی معرکہ آرا تصنیف Preaching of Islam ان کی تحقیقی کاوش کا شاہکار اور ان کی اسلام دوستی کی ایک زندۂ جاوید یادگار ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے صوفیائے کرام کی دینی و تبلیغی خدمات اور دلوں کو مسخر کرنے والے اخلاقی اثرات کو بیان کرکے عیسائی مبلغوں اور متعصب علماے مستشرقین کے اس اتہام کا کہ ’’اسلام تلوار سے پھیلا ہے‘‘ ایسا مدلل و مسکت جواب دیا کہ معترضین کی زبانیں بند ہو گئیں۔ ۱۹۰۴ء میں لندن جانے سے پہلے آرنلڈ جب اپنے احباب سے رخصت ہونے کے لیے علی گڑھ گئے تو ان کے اعزاز میں ۲۵؍فروری ۱۹۰۴ء کو اسٹریچی ہال میں ایک تقریب منعقد ہوئی۔ اس موقع پر مولانا حالی نے پانچ بند پر مشتمل ایک طویل الوداعی نظم پیش کی تھی۔ اس نظم میں جہاں انھوں نے اپنے پیارے دوست ’’آرنل‘‘ کی دوستداری، غم گساری، مروّت و محبت اور ان کی تعلیمی خدمات کا ذکر کیا ہے (مثلاً دوسرے بند کے یہ اشعار): آج ہم اس دوست سے افسوس ہوتے ہیں جدا دوستی پر جس کی ہم کو فخر کرنا ہے بجا جس قدر یاں پیش آئیں ہم کو قومی مشکلات حاضر و غائب ہمارا ان میں ساتھ اس نے دیا قصہ کوتہ ہم سے اب چھٹتا ہے پیارا آرنل فخر سے ہم جس کو کہتے تھے ’’ہمارا آرنل‘‘۱۹۱؎ وہاں مسلسل دو بند میں ان کی مورخانہ و محققانہ تلاش و جستجو کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہوئے، آرنلڈ کے اس علمی کارنامے (دعوتِ اسلام کی تصنیف) کو مذہب اور تاریخ دونوں پر ایک احسانِ عظیم قرار دیا ہے: کارنامہ اس کا ہے جو دعوتِ اسلام پر اس کے علم و فضل پر برہان کافی ہے یہی مشرق و مغرب میں صدیوں تک رہے گی یادگار اس نے جو تاریخ پر ڈالی ہے آ کر روشنی اس نے جو لکھا اسے منوا دیا بے چون و چند مذہب و تاریخ دونوں اس کے ہیں احسان مند۱۹۲؎ سر سید سے آرنلڈ کو جو عقیدت تھی اور جس خلوص سے انھوں نے علی گڑھ تحریک کا ساتھ دیا، اس کا ذکر تو اکثر آتا ہے لیکن علی گڑھ کالج کے نونہالوں کی ذہنی تربیت میں ان کا جو زبر دست حصہ ہے، اس کا علم بہت کم لوگوں کو ہو گا۔ انگریز اساتذہ میں وہ نہ صرف اپنی مشرقیت کے لحاظ سے نمایاں تھے بلکہ اپنی مسلمہ فضیلتِ علمی کے ساتھ انتہائی سادگی اور منکسر مزاجی کی بنا پر طلبہ کے حلقوں میں سب سے زیادہ محبوب و محترم استاد تھے۔ مولوی عبدالحق لکھتے ہیں: پروفیسر آرنلڈ کی حیثیت کالج میں خاص، بلکہ امتیازی تھی۔ وہ سچے علم کے طالب اور علم دوست تھے۔ میں نے کالج میں انھیں کبھی انگریزی لباس میں نہ دیکھا۔ وہ کالج میں عربی لباس میں آتے تھے ۔ سر پر عمامہ، بدن پر عبا و قبا اور پیروں میں سلیم شاہی جوتا اور ہاتھ میں موٹے دستے کی چھتری لیے جلدی جلدی قدم اٹھاتے ہوئے ٹھیک وقت پر آ جاتے۔ راستے میں کوئی دیکھے تو یہ معلوم ہوا، مُلاّ جی کسی مسجد میں درس دینے جا رہے ہیں۔ کبھی کبھی تیسرے پہر مغرب سے قبل میرے کمرے میں آ جاتے اور مجھے سیر کے لیے ساتھ لے جاتے۔ راستے میں پوچھتے کہ آج کل کیا کر رہے ہو؟ کیا کچھ لکھ رہے ہو؟ جب میں بتاتا کہ فلاں موضوع پر لکھ رہا ہوں تو اس کے متعلق مجھ سے بحث کرتے اور بعض کتابوں کی نشاندہی کرتے… پروفیسر آرنلڈ میں عالمانہ اور طالب علمانہ دونوں شانیں پائی جاتی تھیں۔۱۹۳؎ علی گڑھ میں ہر دل عزیز استاد اور بھی ہوں گے لیکن آرنلڈ نے اپنے ذاتی اثر و نفوذ سے جو تعمیری کام لیا اس کی کوئی اور مثال مشکل سے ملے گی۔ اوّل یہ کہ انھوں نے اپنے تلامذہ کے دلوں میں احیائے قوم و ملت کے اعلیٰ مقصد کے لیے اپنی زندگی وقف کر دینے کا جذبہ پیدا کیا، پھر یہ کہ بہ قول ماریسن، قومی خدمت کی عملی تربیت کے لیے ’’انجمن الفرض‘‘ (ڈیوٹی سوسائٹی) قائم کی، جس کے ہر رکن کے لیے لازم تھا کہ قومی زندگی کے کسی شعبے میں کوئی نہ کوئی تعمیری کام انجام دے، یا کم ازکم کالج کے غریب طلبہ کی امداد کے لیے فنڈ جمع کرنے کی مہم میں تعاون کرے۔۱۹۴؎ آرنلڈکی اس تحریک سے علی گڑھ کالج کے نوجوانوں میں ایثار پسند قومی کارکنوں کا ایک طبقہ پیدا ہو گیا جس کی خدمات، ابتدائی دور میں، اس قومی ادارے کی ترقی و استحکام کا باعث ہوئیں۔ اب پروفیسر آرنلڈ کے اندازِ تربیت کا ایک اور پہلو ملاحظہ ہو۔ اُس دور میں کالج کے پرنسپل، مسٹر تھیوڈربک کی پالیسی غالباً یہ تھی کہ علی گڑھ کے طلبہ کو سنجیدہ علمی مذاق سے دور رکھا جائے اور کھیل کود کا شوقین بنا دیا جائے۔ چنانچہ علمی ذوق سے عاری، کھلندڑے نوجوانوں کی وہ بڑی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ ان کے برخلاف پروفیسر آرنلڈ کالج کے ذہین طلبہ کو مطالعے اور مذاکرے کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ مختلف روایتوں کے علاوہ ایک معاصر علیگ کی روداد سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پروفیسر آرنلڈ نے طلبہ کی ذہنی تربیت کے لیے کالج میں ’’اخوان الصفا‘‘ کے نام سے ایک انجمن قائم کی تھی، جس کے جلسوں میں طلبہ کے علاوہ پروفیسر آرنلڈ کی خصوصی دعوت پر شبلی اور نذیر احمد جیسی شخصیتیں بھی شریک ہوا کرتی تھیں۔۱۹۵؎ مولوی نذیر احمد نے اپنے آخری ناول رؤیائے صادقہ (مصنفہ ۱۸۹۴ئ)میں علی گڑھ کی علمی و ذہنی فضا کی عکاسی کے لیے ’’انجمن اخوان الصفا‘‘ اور اس کے مباحثوں اور مذاکروں کو ایک مثالی نمونہ بنا کر پیش کیا ہے۔ پروفیسر آرنلڈ، طلبہ کو مطالعے کے لیے موضوع اور کتابیں تجویز کرتے اور ان سے مقالے لکھوا کر انجمن کے جلسوں میں پڑھواتے تھے۔ اسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ اس دور کے علی گڑھ میں محض کرکٹ کے کھلاڑی ہی نہیں چمکے، بلکہ عبدالحق، ظفر علی خاں، محمد علی جوہر، خواجہ غلام الثقلین، حسرت موہانی، خوشی محمد ناظر، سجاد حیدر یلدرم جیسے ادیب اور شاعر بھی پیدا ہوئے۔ ان میں سے ہر ایک پروفیسرآرنلڈ کی تربیت و رہنمائی کا معترف ہے۔ مولانا ظفر علی خاں، ’’ستارئہ صبح‘‘(یکم دسمبر، ۱۹۱۶ئ) کے ایک مخصوص کالم صلائے خاص ہے یاراںِنکتہ چیں کے لیے میں لکھتے ہیں: یادش بخیر پروفیسر آرنلڈ جس زمانے میں مدرسۃ العلوم کی ان شاندار روایات کو اپنی مسیحا نفسی سے ایک نئی زندگی بخش رہے تھے،جنھوں نے اس دارالعلوم کو مشرق کا سب سے زیادہ سربر آوردہ مرکز معارف بنا دیا ہے، تو آپ وقتاً فوقتاً اپنے شاگردوں کو ایسی قیمتی نصیحتیں فرماتے رہتے تھے جو آپ ہی کے وسیع تجربے اور صحیح ذوقِ علمی کا حصہ ہیں۔مثلاً ایک لطیف نکتہ ایک موقع پر آپ نے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ ہر طالب علم کو چاہیے کہ کسی موضوع پر کوئی سی ایک نئی کتاب بغرضِ مطالعہ، خواہ بطور تفننِ طبع، دیکھنا شروع کرے اور ایک ہفتہ میں اسے ختم کرکے برسبیلِ تبصرہ اس کے تمام مضامین کا ایک علمی صحبت میں آ کر اعادہ کر دیا کرے… اس طریقے سے ہر ہفتے کی علمی صحبت میں متعدد قابلِ دید کتب پیش نظر ہو جایا کریں۔ پروفیسر آرنلڈ کی گراں مایہ موعظت ان کے جن تلامذہ کا آویزئہ گوش ہوئی… جن اہل بصیرت نوجوانوں نے اس پر عمل کیا، وہ آگے چل کر ملک اور اپنی قوم کے لیے بہت مفید ثابت ہوئے۔۱۹۶؎ پروفیسر آرنلڈ کے یہی اوصاف اور احسانات تھے جنھوں نے علی گڑھ کی الوداعی تقریب میں شبلی سے اس قسم کے اشعار کہلوائے: آرنلڈ آں کہ دریں شہر و دیار آمد و رفت دلبرے بود کہ ما را بہ کنار آمد و رفت آمد آں گونہ بہ کالج کہ بہ گلزار نسیم رفت زاں ساں کہ تو گوئی کہ بہار آمد و رفت۱۹۷؎ یہ اقبال کی خوش نصیبی تھی کہ جس طرح تعلیم کے ابتدائی مراحل میں انھیں شاہ جی جیسا کردار ساز استاد ملا، جس نے انھیں مشرقی ادبیات کے صحیح ذوق اور اسلامی علوم و حکمت کی روح سے آشنا کیا، اسی طرح آخری دور میں آرنلڈ جیسا مجمع البحرین استاد بھی میسر آ گیا، جس نے ان کے اندر تحقیق و تنقید کا مذاق پیدا کیا اور نہ صرف مغربی ادب و فلسفہ کے مطالعے میں ان کی رہنمائی کی بلکہ ان کی شخصیت میں مشرقیت اور مغربیت کے امتزاج کی طرح ڈال دی۔پھر یہ حقیقت بھی ملحوظ رہے کہ شاہ جی کی طرح، اقبال کے اس ’’معلّمِ ثانی ‘‘ نے بھی کم و بیش دس سال تک انھیں فیض یاب کیا۔ چنانچہ ۱۹۰۸ء میں لندن سے جب ان کا تحقیقی مقالہ’’فلسفۂ عجم‘‘ (The Development of Metaphysics in Persia) شائع ہوا تو اقبال نے اسے نذرِ عقیدت کے طور پر پروفیسر آرنلڈ کے نام منسوب کرتے ہوئے لکھا کہ یہ آپ کی دہ سالہ تربیت کا ثمرِ پیش رس ہے۔ پروفیسر آرنلڈ سے اقبال کے تعلقِ خاطر کی اصل بنیاد ان کی پاکیزہ سیرت و شخصیت کی وہ کشش تھی جس نے حالی اور شبلی جیسے دیدہ وروں کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ لاہور آنے کے بعد ان کی شخصیت میں سادگی اور انکسار کے علاوہ فقر و درویشی کی شان نمایاں ہو گئی تھی۔ وہ گورنمنٹ کالج کے حلقۂ احباب میں ’’صوفی‘‘ (The Saint) کے لقب سے یاد کیے جاتے تھے۔۱۹۸؎ آرنلڈکی ذات کے بارے میں جو مختصر اشارات جا بجا ملتے ہیں، اگرچہ ان سے ان کی شخصیت کا کوئی واضح تصور ہمارے سامنے نہیں آتا، تاہم اقبال کی نظم ’’نالۂ فراق‘‘ میں جس جذبۂ عقیدت کا اظہار ہوا ہے اس سے ہمیں ان کی انسانی عظمت کو پہچاننے میں ضرور مدد ملتی ہے۔ رسالہ مخزن لاہور (بابت مئی ۱۹۰۴ئ)میں یہ نظم، شاعر کے ایک تمہیدی نوٹ کے ساتھ شائع ہوئی تھی۔ اس نوٹ میں نظم کا جو پس منظر بیان کیا گیا ہے، اس سے ان کے تاثرات کی شدت کا اندازہ ہوتا ہے: استاذی قبلہ مسٹر آرنلڈ کے ولایت تشریف لے جانے کے بعد ان کی جدائی نے اقبال کے دل پر کچھ اس قسم کا اثر کیا کہ کئی دنوں تک سکینتِ قلبی کا منہ دیکھنانصیب نہ ہوا۔ ایک روز، زورِ تخیل نے ان کے مکان کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا اور یہ چند اشعار بے اختیار زبان پر آ گئے… اگرچہ ان کی رخصت کے موقع پر بہت سے الوداعی جلسے کیے گئے اور ان میں بہت سی نظمیں پڑھی گئیں اور یہ نظم اس وقت لکھی بھی جا چکی تھی تاہم اس خیال سے کہ اس میں میرے ذاتی تاثرات کا ایک درد آمیز اظہار تھا، کسی عام جلسے میں اس کا پڑھنا مناسب نہ سمجھا گیا۔ تشریف بری کے بعد دلی تاثرات کی شدت اور بڑھ گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس نظم میں بہت سی تبدیلی ہو گئی۔ (اقبال)۔۱۹۹؎ پہلے یہ نظم آٹھ بند پر مشتمل تھی۔ نظر ثانی کے وقت تیسرا، چھٹا اور آٹھواں بند خارج کر دیا گیا۔ نظم کے متروک بندباقیاتِ اقبال میں (ص۳۲-۳۳۱) ملاحظہ ہوں۔اگرچہ اقبال زمانۂ طالب علمی میں بھی اس مرتبے کے شاگرد تھے جو بقول آرنلڈ ’’استاد کو محقق بنا دیتا ہے اور محقق کو محقق تر‘‘ اور ۱۹۰۴ء میں جب یہ نظم کہی گئی، اُس وقت تو وہ خود اساتذہ کے زمرے میں شامل ہو چکے تھے، تاہم اگر ہم آرنلڈ جیسے استاد کے فیوض و حسنات کو پیش نظر رکھیں تو ہمیں تعجب نہ ہو گا کہ جواں سال اقبال ایک طفلِ مکتب کی طرح اپنے استاد کی جدائی پر نالہ کناں ہے۔ اس نظم کا اسلوب، شبلی کے اشعار کی طرح کچھ زیادہ شاعرانہ بلکہ روایتی طور پر مبالغہ آمیز ہے لیکن اسی نظم کا ایک متروک شعر ملاحظہ ہو جس میں حالی کے اسلوب کی سادگی اور واقعیت پائی جاتی ہے۔ استاد اور شاگرد کے تعلق کی صحیح ترجمانی کے لیے صرف یہی ایک شعر کافی ہے: آہ وہ حاصل نہیں اَوروں کی مدحت میں مجھے لطف جو ملتا تھا کچھ تیری ملامت میں مجھے۲۰۰؎ (۳) ہوسٹل کی زندگی اور غیر درسی مشاغل اقبال کی طالب علمانہ زندگی کا وہ پہلو سب سے زیادہ جاذبِ توجہ ہے جس کا تعلق ہوسٹل کی نجی صحبتوں اور شہر کی ادبی و قومی انجمنوں سے ہے (اگرچہ اس کے بارے میں معلومات کے ذرائع نہایت محدود ہیں) گورنمنٹ کالج ہوسٹل کی نامکمل مربع عمارت (Quadrangle) کا اگلا یا شمالی بازو ۱۸۹۹ء تک تعمیر نہیں ہوا تھا۔ کمروں کی جنوبی قطار کے وسط میں ایک چھوٹا سا پھاٹک تھا۔ شمالی حصہ تعمیر ہونے اور پھاٹک لگ جانے سے پہلے، طلبہ کی آزادانہ آمد و رفت کی روک تھام مشکل تھی۔۲۰۱؎ ہندو ، سکھ اور مسلمان طلبہ کا یہ ایک مشترک ہوسٹل تھا، لہٰذا مکینوں کی کثرت اور کمروں کی قلت کے سبب سے بالکل بھرا ہوا تھا۔ جونیئر طلبہ یعنی ایف ۔ اے سال اوّل و دوم والوں کو ’’ڈارمیٹری‘‘ (بڑا، چھ نشستی کمرہ) میں جگہ ملتی تھی۔ ’’کیوبکل‘‘ (چھوٹا، یک نشستی کمرہ) سینئر طلبہ (بی ۔ اے اور ایم ۔ اے والوں) کے لیے مخصوص تھا۔ جنوبی قطار کے تمام کمرے کیوبکل تھے اور مشرقی و مغربی قطار کے دونوں سروں پر دو دو کیوبکل تھے۔ باقی تمام حصے میں ڈارمیٹری کی وضع کے کمرے تھے۔۲۰۲؎ اقبال کے دیرینہ رفیق، میر غلام بھیک نیرنگ کا بیان ہے کہ گورنمنٹ کالج میں داخل ہونے کے بعداقبال کچھ عرصے تک بھاٹی دروازے کے اندر اپنے ایک سیالکوٹی دوست، شیخ گلاب دین وکیل کے یہاں مقیم رہے۔۲۰۳؎ شیخ گلاب دین،مولوی میر حسن کے تربیت یافتہ تھے۔ اُنھی کی ہدایت کے مطابق لاہور آ کر مختاری کا امتحان پاس کیا اور وکالت کے پیشے میں بڑی کامیابی حاصل کی۔۲۰۴؎ اُس زمانے میں داخلے کی کوئی آخری تاریخ معین نہیں تھی۔ غالباً اقبال قدرے تاخیر سے پہنچے اور بورڈنگ ہائوس کے کیوبکل کمروں میں جگہ خالی نہ ہونے کی وجہ سے اُنھیں باہر رہنا پڑا۔میر نیرنگ کے بیان کے مطابق بورڈنگ ہائوس میں اقبال کے ساتھ اُن کی رفاقت کی مدت تین سال تھی۔ ’’جب میں بی۔اے پاس کر چکا اور اُدھر اقبال ایم ۔ اے پاس کر چکے تو دونوں نے گورنمنٹ کالج کا بورڈنگ ہائوس چھوڑ دیا۔‘‘۲۰۵؎ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگلا تعلیمی سال شروع ہونے کے بعد اقبال بورڈنگ ہائوس میں داخل ہوئے۔ اُن کو نیچے کی منزل میں مغربی قطار کے جنوبی سرے پر کیوبکل کمرہ ملا تھا۔۲۰۶؎ ع: ’’میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا۔‘‘۱۸۹۶ء میں اقبال کے داخلے کے بعد بورڈنگ ہائوس میں بزمِ سخن (Poetical Club) قائم ہوئی،جس کے بعض اجلاسوں کی خصوصیت یہ تھی کہ مختلف زبانوں میں برجستہ شعر گوئی کے مقابلے ہوتے تھے اور حاضرینِ محفل ، شعرا کی مزاحیہ تُک بندی اور بدیہہ گوئی سے بے حد محظوظ ہوتے تھے۔۲۰۷؎ بورڈنگ ہائوس کے نگران لالہ سرداری لال، بھدے جسم کے گول مٹول لیکن نہایت دلچسپ شخصیت کے مالک تھے۔ ’’وہ بیک وقت کالج کے دفتر کے انچارج، لائبریرین، بورڈنگ ہائوس کے سپرنٹنڈنٹ اور لاء سکول کے لیکچرر تھے۔‘‘۲۰۸؎ اپنے جملہ دفتری اور انتظامی اختیارات کے باوجود، نرم دل اور مرنجاں مرنج انسان تھے لہٰذا بورڈنگ ہائوس کے مکینوں کے ثقافتی مشاغل اور مجلسی ہنگاموں میں زیادہ مخل نہ ہوتے تھے۔۲۰۹؎ لیکن اقبال کے سمندِ شوق کی جولاں گاہیں بورڈنگ ہائوس کی حدود سے باہر تھیں۔ اُس زمانے میں لاہور ادبی و قومی تحریکوں، مطبعوں اور اشاعتی اداروں کا مرکز بن چکا تھا۔ مذہبی اور قومی جلسے، ادبی محفلیں اور مشاعرے، لاہور کی ثقافتی زندگی کا ایک اہم عنصر بن گئے تھے۔ گویا انیسویں صدی کے آخری عشرے تک، لاہور کی علمی و ادبی فضا، دہلی اور لکھنؤ کے خزاں رسیدہ باغوںکی تمام رعنائیاں اپنے اندر جذب کر چکی تھی۔ ابھی ذکر آ چکا ہے کہ لاہور آنے کے بعد اقبال، کئی ماہ تک اپنے دوست شیخ گلاب دین کے ساتھ، اندرون بھاٹی دروازہ میں مقیم رہے۔ اُسی محلے کے ’’بازارِ حکیماں‘‘ میں بعض شرفا کے دیوان خانے، ادبی کلب کی حیثیت رکھتے تھے، جہاں ہر شام اربابِ ذوق جمع ہوتے اور ہر ہفتے ، ’’انجمن اتحاد‘‘کے زیر اہتمام مشاعرے کی محفلیں برپا ہوتی تھیں۔ شیخ گلاب دین بھی (بقول حکیم احمد شجاع) ان اہلِ ذوق میں سے تھے جو اس ادبی مجلس کے روح و رواں تھے۔۲۱۰؎ ممکن ہے کہ اقبال بھی اپنے اس عارضی قیام کے زمانے ہی میں اپنے دوست کے توسط سے اس ادبی حلقے میں شامل ہو گئے ہوں۔ حکیم احمد شجاع کا بیان ہے کہ ان کے والد ماجد حکیم شجاع الدین محمد نے جو ایک ماہر طبیب ، سخن سنج اور صاحبِ دیوان شاعر تھے، ۱۸۹۰ء میں اس بزمِ سخن (انجمن اتحاد) کی بنیاد ڈالی تھی۔۲۱۱؎ مشاعرے کی محفلیں اُن کے برادر زادہ اور داماد، حکیم امین الدین بیرسٹر ایٹ لاء کے مکان میں اور بعدازاں حکیم شہباز دین کی بیٹھک میں منعقد ہوا کرتی تھیں اور اُن دونوں بھائیوں کی مہمان نوازی و سخن پروری نے اُن محفلوں کو عرصۂ دراز تک علم و ادب کے درخشاں ستاروں کا مرجع بنائے رکھا۔ مشاعرے میں جو غزلیں پڑھی جاتی تھیں وہ رسالہ شور محشر میں شائع ہوتی تھیں جس کے مدیر خان احمد حسین خاں تھے۔ ۲۱۲؎ مختلف روایتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ۱۸۹۶ء سے اقبال ان مشاعروں میں غزلیں سنانے لگے۔ باقیاتِ اقبال میں جو غزلیں بہ تعین سنہ تصنیف درج ہیں، ان میں اس مشاعرے کی ایک غزل دسمبر ۱۸۹۶ء کے شور محشر میں شائع ہوئی تھی۔۲۰ اشعار کی اس غزل کا مطلع و مقطع درج ذیل ہے: تصوّر بھی جو بندھتا ہے تو خالِ روئے جاناں کا بلندی پر ستارا ہے شبِ تاریکِ ہجراں کا نسیم و تشنہ ہی اقبال کچھ نازاں نہیں اس پر مجھے بھی فخر ہے شاگردیٔ داغِ سخن داں کا۲۱۳؎ اس مشاعرے میں فوق نے بھی اپنی طرحی غزل سنائی تھی، لیکن اُن کا بیان ہے کہ سب سے پہلے مشاعرے میں اقبال نے جو غزل سنائی اُس کا مقطع یہ ہے: اقبال! لکھنؤ سے نہ دلّی سے ہے غرض ہم تو اسیر ہیں خمِ زلفِ کمال کے۲۱۴؎ شیخ عبدالقادر صاحب نے بھی ابتدائی مشاعروں کی ایک غزل کا ذکر کیا ہے۔ شیخ صاحب کا بیان ہے کہ اقبال سے ان کی ملاقات حکیم امین الدین کے مکان پر ایک مشاعرے میں ہوئی تھی جس میں اقبال نے یہ غزل سنائی تھی: شعر کہنا نہیں اقبال کو آتا، لیکن آپ کہتے ہیں سخنور تو سخنور ہی سہی شیخ صاحب لکھتے ہیں کہ ’’اُس روز اقبال شلوار، قمیض، واسکٹ اور ترکی ٹوپی پہنے ہوئے تھے۔‘‘۲۱۵؎ غالباً بانگ درا کے دیباچے میں اسی غزل کی طرف اشارہ کیا ہے: ’’چھوٹی سی غزل تھی، سادہ سے الفاظ، زمین بھی مشکل نہ تھی، مگر کلام میں شوخی اور بے ساختہ پن موجود تھا، بہت پسند کی گئی۔‘‘۲۱۶؎ ۱۸۹۶ء کی مندرجہ بالا غزل کے بعد باقیات میں آٹھ اشعارکی ایک غزل درج ہے جس کا مطلع یہ ہے: لاکھ سرتاجِ سخن ناظمِ شرواں ہو گا پر مرے سامنے اک طفلِ دبستاں ہوگا۲۱۷؎ اس غزل پر یہ نوٹ دیا گیا ہے: ۱۸۹۷ء کے لگ بھگ عید رمضان کی تقریب میں حکیم امین الدین صاحب نے اپنے چند دوستوں کو کھانے پر مدعو کیا جن میں اقبال بھی تھے۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد شیخ عبدالقادر نے مومن کا یہ شعر پڑھ کر تجویز پیش کی کہ حضرت اقبال اور خان احمد حسین خاں اس پر فی البدیہہ غزل کہیں: وعدۂ وصل سے ہو دل کی تسلّی کیوں کر فکر یہ ہے کہ وہ وعدے سے پشیماں ہو گا اقبال نے بھی اس موقع پر ایک غزل کہی۔ انجمن اتحاد کے مشاعروں میں نوجوان مقامی شعرا کے علاوہ دو کہنہ مشق اساتذۂ فن یعنی ارشد گورگانی (جو فیروز پور کے سکول میں فارسی کے استاد تھے) اور ناظر حسین ناظم لکھنؤی بھی گاہے گاہے شریک ہوا کرتے تھے۔ مصنفِ خوں بہا لکھتے ہیں: مرزا ارشد گورگانی دلّی سکول کے پیرو تھے اور ناظر حسین ناظم لکھنؤ کی زبان کے دلدادہ۔ دونوں کی ٹولیاں جب اس بزمِ مشاعرہ میں اپنااپنا رنگ جمانے کے لیے مصروفِ غزل خوانی ہوتی تھیں تو لوگوں کی آنکھوں کے سامنے انیس و دبیر کی رقابت کا نقشہ کھنچ جاتا تھا۔ لطف یہ ہے کہ اس زمانے میں بھی میر و مرزا ایک دوسرے کے مقابل صف آرا تھے اور پنجاب کے شعرا میر و مرزاہی کے زیرِ قیادت میدانِ سخن طرازی میں ایک دوسرے سے مصروفِ پیکار رہتے تھے۔ بہرحال اس بزم کی رونق اسی ہنگامے پر موقوف تھی۔۲۱۹؎ ان محفلوں میں اقبال کی سخن سرائی نے نوجوان شعرا کے علاوہ اساتذۂ فن کو بھی اپنی طرف متوجہ کر لیا چنانچہ یہ واقعہ مشہور ہے کہ اقبال کے ایک شعر (موتی سمجھ کے…‘‘) پر مرزا ارشد گورگانی چونک کر بولے: ’’اقبال! اس عمر میں یہ شعر!‘‘۔ بازارِ حکیماں کی انھی محفلوں میں شیخ عبدالقادر، خان احمد حسین خاں احمد، مولوی احمد دین وکیل، خلیفہ نظام الدین، میاں شاہ دین ہمایوں بیرسٹر اور محمد الدین فوق وغیرہ سے اقبال کے دوستانہ مراسم کی ابتدا ہوئی اور یہ تعلقات عمر بھر قائم رہے۔ اس دور کے احباب میں منشی محمد الدین فوق خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں۔ ان کے اجداد بھی کشمیر سے ترکِ سکونت کرکے ضلع سیالکوٹ میں آباد ہو گئے تھے، اور یہ دونوں نوجوان شاعر نواب مرزا داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔ اقبال جب بی ۔ اے میں داخل ہوئے تو فوق بھی جنوری ۱۸۹۶ء میں بہ سلسلۂ تلاشِ روز گار لاہور آئے اور اسی سال انجمن اتحاد کے اس مشاعرے میں شریک ہوئے جس کے لیے یہ طرح رکھی گئی تھی ع: ’’مرا سینہ ہے مشرق آفتابِ داغِ ہجراں کا۔‘‘۲۲۰؎ فوق نے لاہور آتے ہی صحافت کے میدان میں قدم جمایا اور بعد میں صحافی، ادیب و مورخ کی حیثیت سے کشمیر و اہلِ کشمیر کی پیش بہا خدمات انجام دیں۔ اقبال اور فوق کی رفاقت کی ابتدا تو ان مشاعروں سے ہوئی لیکن ان کے مابین مستقل یگانگت کی بنیاد کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی ہمدردی و دلسوزی کے مشترک جذبے پر تھی۔ لاہور کی کشمیری برادری کے چند بزرگوں نے فروری ۱۸۹۶ء میں ’’انجمن کشمیری مسلمانان ‘‘ قائم کی جس کے اصلاحی و تعلیمی مقاصد سے فوق اور اقبال دونوں خاص ہمدردی و دلچسپی رکھتے تھے۔ چنانچہ اقبال نے اپنی پہلی قومی نظم ’’فلاحِ قوم‘‘ ۱۸۹۶ء میں انجمن کشمیری مسلماناں کے اجلاس میں سنائی جو ۲۷ اشعار پر مشتمل ہے۔ اس دور کے کلام اور بعض واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اقبال اس زمانے میں اہلِ بیت رضوان اللہ علیہم سے خاص عقیدت رکھتے تھے۔ اس رجحان، نیز اپنے ادبی ذوق کے تقاضے سے وہ اپنے دوست میر نیرنگ کے ساتھ، اُن مجالسِ عزا میں ضرور شریک ہوتے ہوں گے جو قزلباش خاندان کے ممتاز رئوسا، نواب فتح علی خاں اور نواب محمد علی خاں کے زیر اہتمام چوک متی میں منعقد ہوا کرتی تھیں اور جن کی رونق بڑھانے کے لیے لکھنؤ سے میر جلیل، میر بہادر حسین ارم نیز دیگر بلند پایہ ذاکرین اور مرثیہ گو شعرا ہر سال لاہور آیا کرتے تھے۔ میر ناظر حسین ناظم جو اپنی ظاہری وجاہت اور وضع داری کے لحاظ سے پرُ کشش و باوقار شخصیت کے مالک تھے اور جن کے بارے میں مولانا سالک مرحوم لکھتے ہیں کہ ’’مرثیہ بہت ٹھاٹھ سے کہتے اور ٹھاٹھ سے پڑھتے تھے۔ ‘‘۲۲۱؎ ضلع مظفر نگر(یو۔پی) سے لاہور آئے تو نواب محمد علی کی قدردانی سے یہیں کے ہو رہے۔ مقامی شعرا میں حکیم شجاع الدین محمد (بانی ’’انجمن اتحاد‘‘، بازار حکیماں) بھی کہنہ مشق مرثیہ گو تھے۔۲۲۲؎ غالباً انھی محفلوں سے متاثر ہو کر اقبال اس زمانے میں صنف مرثیہ گوئی کی طرف متوجہ ہوئے اور مرثیہ گوئی میں ایک نیا اسلوب اختیار کرنے کا منصوبہ باندھنے لگے۔بورڈنگ ہائوس کی زندگی کی روداد بیان کرتے ہوئے میر نیرنگ لکھتے ہیں: ہماری ان سہ سالہ صحبتوں میں اقبال اپنی ایک سکیم بار بار پیش کیا کرتے تھے۔ ملٹن کی مشہور نظم "Paradise Lost" اور "Paradise Regained" کا ذکر کرکے کہا کرتے تھے کہ واقعاتِ کربلا کو ایسے رنگ میں نظم کروں گا کہ ملٹن کی "Paradise Regained" کا جواب ہو جائے، مگر اس تجویز کی تکمیل کبھی نہیں ہو سکی۔۲۲۳؎ علی گڑھ تحریک سے اقبال کے ذہنی روابط سیالکوٹ ہی میں قائم ہو چکے تھے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ لاہور آنے کے بعد انجمن حمایتِ اسلام سے وہ کنارہ کش رہتے، جو دراصل علی گڑھ تحریک ہی کی ایک شاخ تھی۔ انجمن کے سالانہ جلسوں کو اُس زمانے میں قومی میلے کی حیثیت حاصل تھی۔ ان جلسوں میں نہ صرف لاہور اور پنجاب کے رہنما اور علماء بلکہ دور دور کی نامور شخصیتیں حتیٰ کہ علی گڑھ تحریک کے بعض اکابر بھی شریک ہوا کرتے اور اپنے بصیرت افروز خطبات اور دل نشیں کلام سے حاضرین کو مستفید فرمایا کرتے تھے۔ غرضیکہ انجمن کے یہ سالانہ جلسے اقبال جیسے باشعور نوجوان کے لیے بڑی کشش و جاذبیت کے حامل تھے۔ وہ حالی، شبلی، نذیر احمد اور محسن الملک کے نام اور ان کی ادبی و قومی خدمات سے بخوبی آشنا تھے۔ اب جو انجمن کے جلسوں میں ان سے براہ راست فیض یابی کی سعادت نصیب ہو رہی تھی تو وہ ان مواقع سے کیوں نہ فائدہ اٹھاتے۔ اتفاق سے اقبال کے احباب میں سے بیش تر ، مثلاً میاں نظام الدین ، شیخ عبدالقادر، مولوی احمد الدین اور میاں شاہ دین ہمایوں وغیرہ انجمن ِحمایت ِاسلام کے پُرجوش حامی اور کار کن تھے۔ یوں تو انجمن کے جلسے میں عملاًان کی شرکت کا ثبوت ۱۹۰۰ء میں ملتا ہے، لیکن گمان غالب ہے کہ انجمن حمایتِ اسلام سے ان کی دلچسپی لاہور آتے ہی قائم ہو گئی ہوگی اور زمانۂ طالب علمی میں اس قومی ادارے سے یہ وابستگی ان کی ذہنی تربیت پر خاصی حد تک اثر انداز ہوئی ہو گی۔ اگرچہ اقبال ایک زندہ دل، با ذوق و باشعور نوجوان کی حیثیت سے شہر کی ادبی و قومی سرگرمیوں میں خاطر خواہ حصہ لیتے تھے لیکن ان کا ذوقِ مطالعہ اور فکری رجحان انھیں تفریحی مشاغل میں وقت صرف کرنے سے باز رکھتا تھا۔ ممکن ہے کہ موسیقی کا فطری ذوق گاہے گاہے انھیں موسیقی اور قوالی کی محفلوں میں شرکت پر مجبور کرتا ہو مگر اُس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس دورِ حیات سے متعلق معتبر بیانات جو ہماری نظر سے گزرے ہیں، ان سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال کا بیشتر وقت ذاتی مطالعے یا احباب کے ساتھ مذاکروں اور مباحثوں میں گزرتا تھا۔ ان کے شغفِ مطالعہ کی یہ کیفیت تھی کہ اکثر شام کو جب ہوسٹل کے طلبہ گرائونڈ میں کھیلتے یا باہر سیر و تفریح کے لیے نکل جاتے، اس وقت بھی وہ اپنے کمرے میں محوِ مطالعہ ہوتے تھے۔ ڈاکٹر عبداللہ چغتائی صاحب نے حضرت علامہ کی زبانی یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک روز کالج کے پرنسپل صاحب ہوسٹل کا چکر لگاتے ہوئے اُن کے کمرے کی طرف آ نکلے اور انھیں پڑھتے دیکھ کر کہنے لگے کہ تمام لڑکے باہر کھیل کود اور ورزش میں مصروف ہیں اور تم یہاں پڑھ رہے ہو۔ اقبال نے جواب دیا: ’’جناب! یہ بھی توایک طرح کی ورزش ہے۔ ‘‘۲۲۴؎ اُن کی ذہانت ، خوش مذاقی اور خوش بیانی کے سبب سے ہم مشرب احباب کا ایک حلقہ ان کے گرد جمع ہو گیا تھا۔ ان احباب میں سے ابتداء ً دو نام قابلِ ذکر ہیں؛ ایک تو سیالکوٹ کے طالب علم چودھری جلال الدین جن کے ذوقِ سخن کی تربیت مولوی میر حسن کی صحبت میں ہوئی تھی۲۲۵؎ اور دوسرے میر غلام بھیک نیرنگ جو اُس زمانے میں موّاج تخلص کرتے تھے اور نہایت ذہین طالب علم اور ہونہار ادیب و شاعر تھے۔ وہ انٹرنس کے امتحان میں پنجاب یونی ورسٹی بھر میں اوّل آئے تھے،۲۲۶؎ اس لیے کالج میں داخل ہوتے ہی بہت سے قابل طلبہ سے اُن کی دوستی ہو گئی تھی۔ چودھری جلال الدین کی زبانی انھوں نے اقبال کی تعریف سنی تو اُن کے ساتھ بھاٹی دروازے پہنچے، جہاں اس ’’سادہ وضع، گورے چٹے، کشیدہ قامت، جوانِ رعنا‘‘سے ملاقات ہوئی۔ پھر چودھری جلال الدین کی وساطت سے دونوں کے درمیان کلام کے مبادلے ہوئے۔ اقبال نے جو غزل (برسرِ زینت جو شمعِ محفلِ جانانہ ہے)بھیجی تھی اس کا ذکر آگے آئے گا۔ نیرنگ کو اپنی غزل کا صرف یہ شعر یاد رہ گیا: حرم کو جانا جنابِ زاہد! یہ ساری ظاہر پرستیاں ہیں مَیں اُس کی رندی کو مانتا ہوں جو کام لے دَیر سے حرم کا۲۲۷؎ سالِ اوّل کی جماعت کے ایک نو مشق شاعر کا یہ شعر اُس کی غیر معمولی شعری صلاحیت کی دلیل ہے۔ ہم مذاقی اور ہم مشربی کے علاوہ، میر نیرنگ سے اقبال کے خصوصی تعلق کی ایک وجہ اوّل الذکر کا شرفِ سیادت ہے۔ اس بارے میں اقبال کے فکر و احساس کی نزاکت کا اندازہ اس واقعے سے ہو گا کہ وہ (بقولِ خود) سیالکوٹ کے بعض مخالفینِ اہل بیتِ رسولؐ کو جلانے کے لیے اپنے بیٹے آفتاب اقبال اور بھتیجے اعجاز احمد کو ’’آفتاب حسین‘‘ اور ’’اعجاز حسین‘‘کے نام سے پکارتے تھے۔۲۲۸؎ نیرنگ کہتے ہیں کہ کالج کے اوقاتِ درس کے سوا ہم دونوں کا وقت زیادہ تر ایک دوسرے کے ساتھ ہی گزرتا تھا۔۲۲۹؎ میر نیرنگ کے علاوہ چودھری شہاب الدین، میاں فضل حسین اور بورڈنگ ہائوس یا کالج کے دیگر ہم مذاق احباب جمع ہو جاتے تو ادبی مباحثے ہوتے، شعر خوانی اور کبھی کبھی برجستہ طبع آزمائی بھی ہونے لگتی۔ اردو شاعری کی اصلاح و ترقی کے منصوبے سوچے جاتے اور ’’ اس میں مغربی شاعری کا رنگ پیدا کرنے کا ذکر بار بار آیا کرتا تھا۔‘‘۲۳۰؎ شعر و شاعری کے ضمن میں ایک دلچسپ مشغلے کا سراغ ملتا ہے، یعنی یہ کہ اقبال نے دنیا بھر کے عظیم شعرا کی تصویروں کا ایک البم مرتب کرنا شروع کیا تھا۔ اُن کے پہلے مطبوعہ خط (بنام مولانا احسن مارہروی، از لاہور گورنمنٹ کالج بورڈنگ ہائوس، ۲۸؍فروری۱۸۹۹ئ) سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے انگریز، جرمن اور فرانسیسی شعرا کی تصاویر کے لیے کسی امریکی فرم سے مراسلت شروع کی تھی اور داغ و امیر کی تصاویر کی فراہمی کے سلسلے میں احسن مارہروی اور اُن کے توسط سے دیگر استاد بھائیوں سے استمداد کی۔۲۳۱؎ بورڈنگ ہائوس میں اقبال کی محفل کا جو نقشہ میر نیرنگ نے کھینچا ہے، اس میں اقبال کی سادگی و قلندری کا وہی رنگ جھلکتا ہے جو آخری ایام میں میکلوڈ روڈ کی کوٹھی یا جاوید منزل میں نظر آتا تھا۔ وہ لکھتے ہیں: اقبال کی طبیعت میں اُسی وقت سے یک گونہ قُطبیت تھی اور وہ ’’قُطب از جانمی جنبد‘‘ کا مصداق تھے۔ مَیں ، اور کالج کے بورڈنگ ہائوس میں جو جو اُن کے دوست تھے، سب اُنھی کے کمرے میں اُن کے پاس بیٹھتے تھے۔ وہ وہیں میرِ فرش بنے بیٹھے رہتے تھے۔ حُقہ جبھی سے اُن کا ہمدم و ہم نفس تھا۔ برہنہ سر، بنیان در بر،ٹخنے تک تہہ بند باندھے ہوئے اور اگر سردی کا موسم ہے تو کمبل اوڑھے ہوئے بیٹھے حُقہ پیتے رہتے تھے اور ہر قسم کی گپ اڑاتے رہتے تھے۔ طبیعت میں ظرافت بہت تھی۔ پھبتی زبر دست کہتے تھے…۲۳۲؎ ٭ میر نیرنگ نے اپنے مضمون میں ایک جگہ اور، اقبال کی گپ بازی کا ذکر چھیڑا ہے۔وہ لکھتے ہیں: ’’اقبال بارہا ایسے افسانے بھی گھڑ کر سنا دیا کرتے تھے جن کی اصلیت کچھ نہ ہوتی تھی۔۲۳۳؎ بات یہ ہے کہ نوجوانی کے زمانے میں اقبال کا شاعرانہ تخیل، لطیفہ گوئی کے علاوہ داستان سرائی سے بھی احباب کو محفوظ و مسحور کیا کرتا تھا۔ لندن اور ہائیڈل برگ کی بے تکلف صحبتوں میںبھی ان کی برجستہ افسانہ تراشی پر لوگوں کو واقعیت کا گمان ہوتا تھا۔ لیکن یہ بھی ان کی شوخی و ظرافت کا ایک انداز تھا۔ دیگر گپ بازوں کی طرح وہ نجی زندگی کے واقعات کے بیان میں یہ تخئیلی پیرایہ اختیار نہیں کرتے تھے۔ میر نیرنگ کو یہ بدگمانی ہوئی کہ غالباً ان کے بیٹے (آفتاب اقبال) کا کوئی حقیقی وجود نہیں، جس کے بارے میں وہ کہا کرتے تھے کہ ’’دشمنانِ اہل بیتِ رسول‘‘/ کو جلانے کے لیے میں اپنے بیٹے کو ’’آفتاب حسین‘‘ کہہ کر پکارا کرتا ہوں، یا شاید ’’جھنڈے خان‘‘ کا دلچسپ کردار بھی، ان کے تخیّل کی تخلیق ہے ۔ لیکن جب وہ اپنے دوست سے ملنے کے لیے سیالکوٹ گئے تو آفتاب کو دیکھا اور جھنڈے خان سے بھی ملے۔۲۳۴؎ اقبال کی شوخیِ طبع کبھی کبھی شرارت آمیز اداکاری کی صورت میں بھی جلوہ گر ہوتی تھی۔ میر نیرنگ نے اسی دورئہ سیالکوٹ کا یہ دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک دن اقبال اور میاں فضل حسین (میر نیرنگ کے دوست اور اقبال کے ہم جماعت) نے ’’ایک سرخ رنگ کا ایریئیٹڈ پانی گلاسوں میں ڈال کر کچھ ایسے انداز سے پینا شروع کیا اور مجھ کو دیا کہ میں نے اُس کو شراب سمجھا اور پینے سے انکار کیا۔ وہ دیر تک کہتے رہے کہ ایسی بھی کیا پارسائی ہے، پی لو۔ میں برابر انکار کرتا رہا۔ آخرمجھ کو خوب بنا چکے تب بتایا کہ یہ کیا ہے اور تب میں نے پیا۔‘‘۲۳۵؎ چودھری شہاب الدین کے بارے میں گورنمنٹ کالج ہوسٹل کا ایک مشہور واقعہ بھی اقبال کے فسوں ساز تخیل کی پر کاری کا مظہر ہے۔ جیسا کہ بعد کے ادوار میں ہم دیکھتے ہیں کہ چودھری صاحب کی سیہ فامی اور دیوقامتی ہمیشہ اقبال کی پھبتی بازی کا نشانہ بنی رہی، اسی طرح غالباً طالب علمی کے زمانے میں بھی چودھری صاحب ہی ان کا تختۂ مشق بنتے ہوں گے۔چنانچہ ایک دن ایسا ہوا کہ چودھری شہاب الدین غسل خانے میں نہا رہے تھے اور غسل خانے کی نالی سے / مناظروں میں بعض اصحاب (خصوصاً احمدی فرقے کے لوگ) حضرت علی مرتضیٰ ؓ کو ’’شیعوں کا علی ‘‘ کہہ کر گالیاں دیتے تھے۔ (انوار اقبال ، ص ۱۴۸) پانی بہتا ہوا باہر ایک پختہ حوض میں جمع ہو رہا تھا۔ اقبال کو شرارت جو سوجھی تو سیاہ روشنائی کی دوات اٹھا لائے اور ساری سیاہی حوض کے پانی میں گھول دی۔ پھر شور مچانے لگے: ’’یارو دیکھنا، شہابے کے بدن کا رنگ چھوٹ چھوٹ کر حوض کا سارا پانی کالا ہو گیا۔‘‘۲۳۶؎ اس شوخی و شرارت میں اقبال کی طفلانہ معصومیت کا جو رنگ ہے وہ بھی اقبال کی سادہ وپُر خلوص شخصیت کا ایک دلکش پہلو ہے، جس کے بعض مظاہر ہمیں حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ مثلاً اس تعلیمی دورِ زندگی کے آخری سال کے اس واقعے پر غور کیجیے؛ کسی مولوی صاحب کی علمیت اور شخصیت سے اقبال بہت متاثر تھے۔ ایک دن انھیں معلوم ہوا کہ مولوی صاحب نے کوئی جھوٹا بیان دیا ہے۔ کسی عالمِ دین کی دروغ بیانی اقبال کے لیے ایک ایسا حیران کن اور المناک سانحہ بن گئی کہ وہ کئی دن تک پریشان رہے۔ پروفیسر آرنلڈ نے انھیں پڑھاتے وقت کچھ کھویا کھویا سا دیکھا تو اُن کی اداسی اور بدحواسی کا سبب پوچھا۔اقبال نے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ پروفیسر آر نلڈ نے انھیں سمجھایا کہ ابھی تم نے دیکھا کیا ہے، زندگی میں ایسے بہت سے واقعات و تجربات سے دوچار ہونا پڑے گا۔۲۳۷؎ جس نوجوان کی اخلاقی حِس اتنی بیدار ہو اور جس کی معصومیت کا یہ عالم ہو، اس کے بارے میں جب ہم بعض بے بنیاد، من گھڑت روایتیں سنتے ہیں تو یہ سوچنے لگتے ہیں کہ اگر ان باتوں میں کچھ صداقت ہے تو اقبال کی بے ریا طبیعت کس طرح ان پر پردہ ڈالنے میں کامیاب ہو سکی کہ ان کے قریب ترین عزیزوں اور دوستوں کو بھی خبر نہ ہو سکی؟ اور پھر یہ کہ اسی دور میں وہ اپنے ایک بزرگ نکتہ چیں کے اس اعتراف کو ایک ادعائی شان کے ساتھ کس طرح دہرا سکے: بے داغ ہے مانندِ سحر اس کی جوانی!۲۳۸؎ /// فصل سوم مشقِ سخن و اکتسابِ فن کے ابتدائی دور پہلا دور (۱۸۹۱ء - ۱۸۹۵ئ) اقبال کی شعر گوئی کا آغاز کب اور کس عمر میں ہوا، اس امر کی تحقیق و تعیین تو بہت دشوار ہے، لیکن اس بارے میں جو مختلف روایتیں منقول ہیں، ان سے شیخ عبدالقادر صاحب کے اس بیان کی تائید ہوتی ہے کہ ’’ابھی سکول میں ہی پڑھتے تھے کہ کلامِ موزوں زبان سے نکلنے لگا۔‘‘۲۳۹؎ غالباً ایک خاندانی روایت (منقولہ فصل اوّل، جزو چہارم) کے مطابق لڑکپن میں کلامِ موزوں سب سے پہلے پنجابی زبان میں نکلا ہو گا، لیکن اس کے جو اولین نمونے ہمیں ملتے ہیں ، وہ اردو میں ہیں، مثلاً وہ اشعار جو انھوں نے سید تقی شاہ کے کبوتروں اور اپنے اس کبوتر باز دوست کی کیفیات کے بارے میں کہے تھے۔ تقی شاہ کو صرف چند الٹے سیدھے شعر یاد رہ گئے جن میں سے دو درج ذیل ہیں: دل میں آئی جو تقی کے تو کبوتر پالے … ان میں ایسے ہیں جو پہروں کے ہیں اڑنے والے اب یہ ہے حال کہ آنکھیں ہیں کہیں پائوں کہیں پائوں کے نیچے نہ معلوم زمیں ہے کہ نہیں۲۴۰؎ اقبال کی پہلی مطبوعہ غزل، جو اب تک دستیاب ہو سکی، ۱۸۹۳ء کی ہے۔ اس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ باقاعدہ غزل گوئی کی مشق انھوں نے دو ایک سال قبل یعنی لگ بھگ ۹۲- ۱۸۹۱ء میں شروع کی ہو گی جبکہ وہ آٹھویں، نویں جماعت کے طالب علم رہے ہوں گے۔ بقول سید زکی شاہ، اقبال نے ابتدا میں شاہ جی سے اصلاح لی،/ لیکن شاہ جی نے بہت جلد فیصلہ کر لیا ہو گا کہ اس جوہر قابل کو فنِ شعر کے کسی استادِ کامل کے حوالے کر دینا چاہیے۔ پنجاب کے قدیم علمی و ادبی مراکز میں سیالکوٹ کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ یہاں انقلاب ۵۷ء سے پہلے ہی اردو صحافت کا آغاز ہو چکا تھا اور ’’۱۸۸۸ء سے پہلے یہاں چودہ رسائل اور اخبارات (روزانہ، ماہنامہ، ہفتہ وار) وغیرہ نکلتے تھے۔‘‘۲۴۱؎ یہاں مشاعرے کی محفلیں بھی منعقد ہوتی تھیں۔ اقبال بھی کبھی کبھی ان محفلوں میں اپنی غزلیں سناتے تھے۔ ظاہر ہے کہ سیالکوٹ میں بعض کہنہ مشق شاعر بھی ہوں گے۔ لیکن (غالباً مولوی میر حسن کے مشورے کے مطابق) اقبال نے اردو غزل کے جگت استادحضرت داغ دہلوی سے شرفِ تلمّذ حاصل کیا۔ شیخ عبدالقادر صاحب نے بانگ درا کے دیباچے میں ان سب باتوں کا اجمالاًذکر کیا ہے لیکن ان کی تحریر سے یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ اقبال نے سیالکوٹ کی طالب علمی کے زمانے ہی میں داغ کی شاگردی اختیار کی تھی یا لاہور آنے کے بعد۔ دیگر سوانح نگاروں کے بیانات میں بھی ابہام پایا جاتا ہے۔ البتہ فوق نے ’’حالاتِ اقبال‘‘ کے عنوان سے جو مضمونکشمیری میگزین(اپریل ۱۹۰۹ئ) میں شائع کیا تھا، اس میں بصراحت یہ لکھا ہے کہ ’’ایف۔ اے کی طالب علمی کے دنوں ہی میں آپ نے… مرزا داغ مرحوم… سے اصلاح لینی شروع کی۔‘‘۲۴۲؎ نومبر۱۸۹۳ء میں اقبال کی پہلی مطبوعہ غزل (ع: ’’کیا مزا بلبل کو آیا شیوۂ بیداد کا‘‘) جب ’’زبان دہلی ‘‘ (ضمیمہ اخبار بے مثال پنچ، مرتبہ مولوی عبدالرحمن راسخ، جلدا، نمبر ۵) میں شائع ہوئی تو شاعر کا نام یوں درج کیا گیا تھا: ’’جناب شیخ محمد اقبال صاحب اقبال، تلمیذ بلبلِ ہند حضرت داغ دہلوی۔‘‘۲۴۳؎ گمان غالب ہے کہ مئی ۱۸۹۳ء میں انٹرنس کا امتحان پاس کرنے کے بعد یا کالج میں داخل ہوتے ہی وہ تلامذئہ داغ کے زمرے میں شامل ہو گئے تھے۔ لیکن اصلاحِ غزل کے لیے داغ سے رجوع کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ اقبال کی طبیعت کو داغ اور کلامِ داغ سے کوئی خاص مناسبت تھی۔ بلکہ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ اُس زمانے میں دلّی کی ٹکسالی زبان کے سب سے زیادہ مستند شاعر اور استاد بلاشبہ داغ ہی تھے۔ جن کی مادری زبان اردو نہیں تھی وہ بغرض اصلاح و استناد، داغ کو ترجیح دیتے تھے۔ دوسرا سبب یہ تھا کہ نظام دکن کے استاد کی حیثیت سے نواب مرزا داغ کو اتنی مالی استطاعت حاصل تھی کہ انھوں نے حیدر آباد دکن میں اپنے بعض تربیت یافتہ تلامذہ کی مدد سے باقاعدہ ایک دفترِ اصلاح ، یا شاعری کا ٹکسال کھول رکھا تھا۔ چنانچہ ملک کے گوشے گوشے سے نوآموز شعرا بذریعۂ ڈاک اپنی غزلیں بھیج کر گھر بیٹھے اصلاح لیا کرتے تھے۔ مولوی میر حسن صاحب ان حقائق سے آگاہ تھے، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے شاگردِ عزیز کو داغ سے استفادے کا مشورہ دیا۔ اُس زمانے کی صرف تین غزلیں باقیاتِ اقبال میں ملتی ہیں جن کے مطلعے، بحوالۂ اشاعت، درج ذیل ہیں: ۱۔ کیا مزا بلبل کو آیا شیوئہ بیداد کا ڈھونڈتی پھرتی ہے اڑ اڑ کر جو گھر صیّاد کا (زبان دہلی ، نومبر ۱۸۹۳ئ) ۲۔ جان دے کر تمھیں جینے کی دعا دیتے ہیں پھر بھی کہتے ہو کہ عاشق ہمیں کیا دیتے ہیں (زبان دہلی ، فروری۱۸۹۴ئ) ۳۔ آبِ تیغِ یار تھوڑا سا نہ لے کر رکھ دیا باغِ جنّت میں خدا نے آبِ کوثر رکھ دیا (زبان دہلی ، فروری۱۸۹۴ئ) یہ بات ہر گز قرینِ قیاس نہیں کہ اس دور میں اقبال نے صرف یہی تین غزلیں کہی ہوں گی۔ باقیاتِ اقبال کی بعض غزلوں اور روزگارِ فقیر (جلد دوم) میںشیخ اعجاز احمد کی بیاض سے جو غیر مدوّن غزلیں اور اشعار منقول ہیں، ان میں سے کچھ مکمل اور کئی نا مکمل غزلوں کے بارے میں احتمال ہوتا ہے کہ وہ اسی ابتدائی مشقِ سخن کے دور سے متعلق ہیں۔ مثلاً گیارہ اشعار کی اس غزل کو لیجیے جو روزگار فقیر میں ، اس نوٹ کے ساتھ درج ہے:’’یہ ابتدائی غزل غالباً گجرات کے مشاعرے کے لیے لکھی گئی۔‘‘ انوارِ اقبال، میں اس غزل کا صرف مقطع، ایک صاحب کی اس روایت کے ضمن میں درج ہے: ’’اقبال شادی کے بعد اکثر وہاں (گجرات) جایا کرتے تھے۔ ایک موقع پر اقبال نے مندرجہ ذیل شعر پڑھا۔ یہ شعر غالباً ۱۸۹۸ء کا ہے: ہو گیا اقبال قیدی محفلِ گجرات کا کام کرتے ہیں یہاںانسان بھی صیّاد کا۲۴۴؎ راوی کو صرف مقطع یاد رہا اور یہ بھی یاد نہ آیا کہ کسی موقع پر ایک شعر نہیں بلکہ مشاعرے میںپوری غزل سنائی گئی تھی۔ اس سے زیادہ سہو سنہ کے حوالے میںہوا۔ ۱۸۹۸ء تو بہت آگے کی بات ہے۔ یہ غزل ، جس کے ہر شعر میں بالالتزام صیاد کا قافیہ باندھا گیا ہے اور جس کے تمام اشعار میں نہایت بے لطف مضمون بندی اور قافیہ پیمائی کے سوا اور کچھ نہیں، یقینا سیالکوٹ کی ابتدائی غزلوں میں سے ہو گی، بلکہ اسی زمین میں ایک مطبوعہ غزل (زبان دہلی،نومبر ۱۸۹۳ئ) اس کے بعد کہی گئی ہوگی۔ لاہور کی محفلوں کا رنگ دیکھنے کے بعد اقبال سے ایسی بدمذاقی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ نمونۃً صرف مطلع اور آخری شعر ملاحظہ ہو: کام بلبل نے کیا ہے مانی و بہزاد کا برگِ گل پر اس نے فوٹو لے لیا صیّاد کا ہوں کبھی اس شاخ پر میں اور کبھی اُس شاخ پر ناک میں آخر کو دم آیا مرے صیّاد کا۲۴۵؎ یہ محض اتفاق ہے کہ محولہ بالا چاروں غزلیں طرحی مشاعروں کی ہیں۔ ’’زبان دہلی‘‘ میں جو غزلیں شائع ہوئیں، ان تینوں کے طرحی مصرعے بھی نوادر اقبال(مرتبہ عبدالغفار شکیل) میں درج ہیں۔ اس دور میں امیر اور داغ کا طوطی بول رہا تھا اور مشاعروں میں انھی دونوں کے رنگِ کلام کی تقلید کامیابی کی ضامن سمجھی جاتی تھی۔ پھر غزل جیسی روایتی صنفِ سخن میں کسی نو عمر و نو مشق شاعر کے لیے تقلید کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں۔ چنانچہ اقبال کی ان ابتدائی غزلوں میں جہاں فارسی کی کلاسیکی شاعری کے گہرے مطالعے کا سراغ ملتا ہے وہاں جابجا دبستانِ لکھنؤ اور دبستانِ دہلی کے مخصوص طرز و اسلوب کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ ذہین و طباع نوجوان بالعموم مضمون آفرینیٔ اور صناعی کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں۔ چنانچہ اقبال کی ان غزلوں میں بھی لکھنویت کے عناصر زیادہ نمایاں ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں: شرم آئی جب رگِ دل سے لہو نکلا نہ کچھ آب میں ہے غرق گویا نیشتر فصّاد کا کوچۂ یار میں ساتھ اپنے سلایا ان کو بختِ خفتہ کو مرے پائوں دعا دیتے ہیں آنکھ میں ہے جوشِ اشک اور سینے میں سوزاں ہے دل یاں سمندر رکھ دیا اور واں سمندر رکھ دیا کشتۂ رخسار کا ظاہر نشاں ہو، اس لیے قبر پر اس نے ہماری سنگِ مرمر رکھ دیا۲۴۶؎ کہیں کہیں ایک آدھ شعر میں رنگِ داغ کا ہلکا سا پرتو آ گیا ہے: بدگمانی کی بھی کچھ حد ہے کہ ہم قاصد سے قسمیں سَو لیتے ہیں تب ایک پتا دیتے ہیں ہنس کے پوچھا اُس صنم نے کون ہے تیرا رقیب میں نے اس کے سامنے آئینہ لے کر رکھ دیا۲۴۷؎ معلوم ہوتا ہے کہ اس ابتدائی دور میں اقبال دبستانی تعصبات سے بالاتر رہتے ہوئے داغ و امیر اور فارسی و اردو کے دیگر اساتذۂ سخن کے کلام سے یکساں استفادہ کرتے رہے۔ وسیع مطالعے اور ریاضت و اکتساب کی بدولت ان کی غزل بڑی تیزی سے ارتقائی مراحل طے کرکے اس معیار تک پہنچ گئی کہ اس دور کے خاتمے تک یعنی ۱۸۹۵ء ہی میں اقبال کے معاصر نوجوان شعرا ان کے کلام کو رشک کی نگاہوں سے دیکھنے لگے ۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں اقبال کے داخلے کے تھوڑے ہی عرصے بعد جب میر نیرنگ، اقبال سے متعارف ہوئے اور ان کا کلام دیکھنے کا اشتیاق ظاہر کیا، اس موقع پر چودھری جلال الدین کے توسط سے اقبال نے جو غزل بھیجی تھی، اس کے مندرجہ ذیل دو شعر میر نیرنگ نے اپنے دلچسپ مضمون ’’اقبال کے بعض حالات‘‘ میں نقل کیے ہیں: برسرِ زینت جو شمعِ محفلِ جانانہ ہے شانہ اس کی زلفِ پیچاں کا پرِ پروانہ ہے ہائے ساقی پر گرایا جب گرایا ہے مجھے چال سے خالی کہاں یہ لغزشِ مستانہ ہے۲۴۸؎ اس غزل کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے میر نیرنگ لکھتے ہیں: … جب میں نے یہ غزل دیکھی تو میری آنکھیں کھل گئیں۔ میں نے اس وقت تک اہلِ پنجاب کی اردو شاعری کے جو نمونے دیکھے تھے ، ان کو دیکھ کر میں اہل پنجاب کی اردو گوئی کا معتقد نہ تھا مگر اقبال کی اس غزل کو دیکھ کر میں نے اپنی رائے بدل لی اور مجھ کو معلوم ہو گیا کہ ذوقِ سخن کا اجارہ کسی خطۂ زمین کو نہیں دیا گیا۔ جب بندشوں کی ایسی چستی، کلام کی ایسی روانی اور مضامین کی یہ شوخی ایک طالب علم کے کلام میں ہے تو خدا جانے اسی پنجاب میں کتنے چھپے رستم پڑے ہوں جن کا حال ہم کو معلوم نہیں۔ خیر اَوروں کو چھوڑیے، اقبال کا تو میں قائل ہو ہی گیا۔۲۴۹؎ یہ غزل باقیاتِ اقبال میں شامل ہونے سے رہ گئی لیکن روزگار فقیر(جلد دوم)میں اس غزل کے اٹھارہ اشعار منقول ہیں۔ پوری غزل دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ میر نیرنگ کی یہ رائے بالکل درست ہے۔ بندشوں کی چستی اور کلام کی روانی، ایسی خوبیاں ہیں جو ہر شعر میں موجود ہیں۔ مضامین کی شوخی کا جو عالم ہے ، وہ ان اشعار سے ظاہر ہو گا: کچھ خبر پوچھیں اسیرِ زلفِ پیچاں کی مگر سُو زبانیں اس کی ہیں، کیا اعتبارِ شانہ ہے دیکھ مغرب کی طرف سے جھومتا آتا ہے کیا؟ ساقیا بادل نہیں، اڑتا ہوا مے خانہ ہے حضرتِ ناصح کو اس محفل میں لے جا کر کہا ہاں بتا، اب میں ہوں دیوانہ کہ تو دیوانہ ہے۲۴۵؎ لیکن غزل کے بعض شعروں میں فارسی تراکیب اور توالیِ اضافات سے اقبال کے دائرۂ اکتساب کی وسعت کا پتا چلتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسی زمانے میں کلامِ غالب سے کسبِ فیض کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ یہ دو شعر ملاحظہ ہوں: رنگ لائی ہیں عبادت کا مری مے خواریاں روکشِ سجدہ مری ہر لغزشِ مستانہ ہے ہو گیا میری جبیں سے بُت پرستی کا ظہور خطِّ پیشانی رگِ سنگِ درِ میخانہ ہے۲۴۶؎ غزل کے آخری دو شعر اقبال کے فطری میلانِ تصوف اور جذبۂ عشقِ رسول کے ترجمان ہیں: شورشِ قالو بلیٰ اٹھی جہاں صبحِ الست دل اسی میخانے کا ٹوٹا ہوا پیمانہ ہے اُڑ کے اے اقبال سوئے بزمِ یثرب جائے گا روح کا طائر عرب کی شمع کا پروانہ ہے ۱۸۹۵ء کی اس غزل سے اس نومشق غزل گو کے کلام کی پختگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ مشق سخن کے اس دور کی غزلوں میں، رسمی و تقلیدی انداز کے باوجود، یہ خصوصیت ہر جگہ موجود ہے کہ الفاظ کے دروبست اور تراکیب کی بندش میں کہیں جھول نظر نہیں آتا۔ مصرعوں کی یہ چستی اور کلام کی یہ روانی و خوش آہنگی، اقبال کے فطری ذوقِ نغمہ اور حسِ سماعت کی لطافت کی دلیل ہے۔ اس دور کی تمام غزلوں سے اس بات کا بھی ثبوت ملتا ہے کہ اقبال اس دور میں معانی و بیان و بدیع کے رموزسے باخبرتھے۔ لیکن پروفیسر عابد علی عابد مرحوم نے اپنے ایک مضمون میں یہ عجیب و غریب نکتہ پیش کیا ہے کہ لاہور آنے کے بعد اقبال نے ارشد گورگانی، مولانا فیض الحسن سیوہاروی اور حضرت ناظم لکھنوی کی صحبت میں’’علومِ شعری‘‘کا درس لیا۔ یہی نہیں بلکہ ارشد گورگانی سے باقاعدہ اصلاح بھی لیتے رہے۔ فرماتے ہیں: جب وہ (اقبال) بھاٹی دروازے کی محفلِ شعر و سخن میں شریک ہوا اور باقاعدہ ارشد گورگانی سے اصلاح لینی شروع کر دی تو وہ علما اور شعرا اور ادبا کے اس دائرے کا جزو ہو گیا جو اُن دنوں لاہور کی ادبی زندگی سے عبارت تھا۔۲۴۷؎ پھر ان بزرگوں کی سخن سنجی اور نغز گوئی، خصوصاً ناظم لکھنؤی کی فن کارانہ صناعی کی تعریف و تحسین کے بعد حاصلِ بحث کے طور پر لکھتے ہیں: کہنا مقصود یہ ہے کہ اتفاق سے اقبال کو آغاز کار ہی میں ایسے ایسے اساتذہ کی صحبت میسر آئی جو مشرق کے اسلوبِ انتقاد کے ماہر تھے اور علومِ شعری کے رازدار تھے، چنانچہ اُنھی کے فیضان سے اقبال کو بھی معانی و بیان اور بدیع کے تمام اسرار و رموز سے کامل آگاہی حاصل ہو گئی۔۲۴۸؎ بھاٹی دروازے کی محفلِ شعر و سخن اور ارشد و ناظم جیسے اساتذۂ فن کی صحبتوں سے یقینا اقبال کچھ نہ کچھ مستفید ہوئے ہوں گے لیکن فاضل نقاد کا یہ بیان کہ ’’اقبال کے پہلے استاد ارشد گورگانی تھے‘‘۲۴۹؎ یا علومِ شعری کی تحصیل کے لیے اقبال، میر ناظم اور مرزا ارشد کی تربیت کے محتاج تھے، تحقیق کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا۔ غالباً اس قیاس آرائی کی بنیاد لالہ سری رام کے تذکرۂ ہزار داستانش المعروف بہ خمخانۂ جاوید (جلد اوّل)کی یہ عبارت ہے:’’ابتدا میں آپ نے چند غزلیں مرزا ارشد گورگانی کو دکھائیں اور پھر… مرزا داغ سے بذریعۂ خط و کتابت تلمّذ اختیار کیا۔‘‘۲۵۰؎ اقبال کے حالات کے بارے میں اولین ماخذ کی حیثیت سے خمخانۂ جاوید کے اس بیان کو بعض محققوں نے بھی درست تسلیم کر لیا۔ چنانچہ محمد عبداللہ قریشی نے بھی اپنے ایک مقالے (لاہور کے مشاعرے اور اقبال) میں یہی بات دہرائی ہے: گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوتے ہی اقبال کی شاعری جو سیالکوٹ میں شروع ہو چکی تھی، منظر عام پر آئی ---- آپ نے چند روز مرزا ارشد گورگانی سے مشورہ لیا۔ پھر خط و کتابت کے ذریعے فصیح الملک نواب مرزا داغ کی شاگردی اختیار کرکے ان سے اصلاح لینی شروع کی۔۔۲۵۱؎ لیکن یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اقبال، لاہور آنے سے پہلے ہی داغ سے تلمذ اختیار کر چکے تھے اور ’’علومِ شعری ‘‘ میں اپنے استاد مولانا میر حسن سے پوری طرح فیض یاب ہو چکے تھے۔ (۲) مشقِ سخن و اکتسابِ فن کا دوسرا دور (۱۸۹۵ء - ۱۸۹۹ئ) گورنمنٹ کالج لاہور کی طالب علمی کا زمانہ (۱۸۹۵ء - ۱۸۹۹ئ) اقبال کی ابتدائی مشقِ سخن و اکتسابِ فن کا دوسرا دور ہے۔ اس زمانے میں وہ بازارِ حکیماں کے مشاعروں میں غزلیں سناتے تھے اور ملک کے گلدستوں میں بھی ان کی غزلوں کی مانگ رہتی تھی۔ لہٰذا ظاہر ہے کہ چار برس کے دوران میں اقبال نے درجنوں غزلیں کہی ہوں گی۔ لیکن چونکہ روزگار فقیر (جلد دوم) باقیاتِ اقبال اور دیگر مجموعوں میں بیشترمتروک غزلیں سنہ یا زمانۂ تصنیف کے حوالے کے بغیر درج ہیں، اس لیے اس دور کے کلام کی تحدیدو تعیین بہت دشوار ہے۔ باقیات میں اس دور کی صرف تین غزلوں کے بارے میں سنہ یا زمانۂ تصنیف کی صراحت کی گئی ہے: (۱) تصور بھی جو بندھتا ہے تو خالِ روئے جاناں کا بلندی پر ستارا ہے شبِ تاریکِ ہجراں کا (شورِ محشر، دسمبر ۶ ۱۸۹ئ) (۲) لاکھ سرتاجِ سخن ناظمِ شرواں ہوگا پر مرے سامنے اک طفلِ دبستاں ہوگا (۱۸۹۷ء کے لگ بھگ ایک خاص تقریب پر فی البدیہہ کہی گئی ) (۳) تم آزمائو ’’ہاں‘‘ کو زباں سے نکال کے یہ صدقے ہو گی میرے سوالِ وصال کے (۱۸۹۶ء میں اندرون بھاٹی گیٹ کے مشاعرے کی مشہور غزل) بعض شواہد کی بنا پر مزید چند غزلوں کی نشان دہی کی جا سکتی ہے۔ مثلاً: (۴) خارِ صحرا نہ سہی، دشت کے پتّھر ہی سہی میرا چھالا نہیں پھُوٹا تو مقدّر ہی سہی یہ غزل جو باقیاتِ اقبال (ص۳۲-۴۳۱) میں درج ہے، بھاٹی گیٹ کے مشاعروں کی ابتدائی غزلوں میں سے ہے۔ شیخ عبدالقادر کا بیان ہے کہ اقبال سے ان کی پہلی ملاقات حکیم امین الدین کے مکان پر ایک مشاعرے میں ہوئی تھی جس میں اقبال نے اپنی یہ غزل سنائی تھی: شعر کہنا نہیں اقبال کو آتا لیکن آپ کہتے ہیں سخنور تو سخنور ہی سہی (۵) باقیاتکی ایک غزل (ص۹۸-۳۹۷) کا مندرجہ ذیل مقطع بھی ظاہر کرتا ہے کہ یہ اسی زمانۂ طالب علمی کی غزل ہے۔ آٹھ اشعار کی اس غزل کے پانچ منتخب اشعار ، جنوری ۱۹۰۳ء کے شمارۂ مخزن میں مقطع کے بغیر شائع ہوئے تھے: اقبال شعر کے لیے فرصت ضرور ہے اس فکرِ امتحاں میں غزل کیا سنائیں ہم (۶) باقیات (ص ۹۶- ۳۹۵) کی یہ غزل جس کا مقطع درج ذیل ہے، اسی دور کی یاد گار ہے: جنابِ داغ کی اقبال یہ ساری کرامت ہے ترے جیسے کو کر ڈالا سخنداں بھی سخنور بھی (۷) روزگارِ فقیر کی یہ غزل (ص ۹۲ - ۲۹۱) جس کا مقطع درج ذیل ہے، بظاہر اسی زمانے کی معلوم ہوتی ہے: اقبال گر یہی ہیں حسد کی بناوٹیں جانے مشاعرے میں ہماری بلا لگی روزگارِ فقیر (جلد دوم) میں بیاضِ اعجاز سے بہت سی ایسی مکمل و نا مکمل غزلیں منقول ہیں جو اور کسی مجموعے میں شامل نہیں۔ ان میں سے ۱۴ غزلوں کے بارے میں مختلف قرائن سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ان کا تعلق طالب علمی کے اسی دور سے ہے۔ ان کے علاوہ باقیاتِ اقبال کی ایک غزل بھی بربنائے قیاس اسی زمرے میں شامل کی جا سکتی ہے۔ پانچویں اور چھٹے نمبر کی غزلیں باقیات اور روزگار میں مشترک ہیں۔نویں غزل کے صرف تین شعر باقیات میں ہیں لیکن روزگار میںپانچ شعر درج ہیں۔ ان غزلوں کے مصرع ہائے اوّل یا نامکمل غزلوں کے ابتدائی شعروں کے مصرع ہائے ثانی، بحوالۂ صفحہ و کتاب درج ذیل ہیں: ۱۔ تیری محفل میں باریابی ہے روزگار فقیر ص ۲۴۵ ۲۔ دل کو ذوقِ دید سے جس دم شناسائی ہوئی ’’ ’’ ’’ ۲۶۰ ۳۔ ضد سے قمری نے کہا تم کو گلِ تر کا جواب ’’ ’’ ’’ ۲۶۳ ۴۔ پر لگا کر جانب منزل اُڑا جاتا ہوں میں ’’ ’’ ’’ ۲۶۷ ۵۔ جس کو شہرت بھی ترستی ہے وہ رسوا اور ہے ’’ ’’ ’’ ۲۶۸؍۴۳۹(باقیات) ۶۔ جس میں پردے کی شان ہے گویا ’’ ’’ ’’ ۲۷۱؍۴۲۴(باقیات) ۷۔ انعام بٹ رہے ہیں تری جلوہ گاہ میں ’’ ’’ ’’ ۲۷۲ ۸۔ کس شعلہ رو کا میرے دل میں گزر ہوا ہے ’’ ’’ ’’ ۲۷۴ ۹۔ کتنے غافل جہان والے ہیں ’’ ’’ ’’ ۲۷۹ ۱۰۔ کبھی ہم نے خنجر کو سیدھا نہ دیکھا ’’ ’’ ’’ ۲۸۰ ۱۱۔ کس طرح ٹل گئی اللہ ہماری آئی ’’ ’’ ’’ ۲۸۱ ۱۲۔ دو گھڑی کے اُبال ہوتے ہیں ’’ ’’ ’’ ۲۸۲ ۱۳۔ لاکھوں طرح کے لطف ہیں اس اضطراب میں’’ ’’ ’’ ۲۸۵ ۱۴۔ میرے تپِ دروں کا بیاں قّصہ خواں نہ ہو ’’ ’’ ’’ ۲۸۸ ۱۵۔ بلا کشانِ محبت کی یاد گار ہوں میں باقیاتِ اقبال’’ ۴۳۷ اس طرح نہایت محتاط اندازے کے مطابق صرف مذکورہ بالا ۲۲ غزلوں کو اس دور سے متعلق کہا جا سکتا ہے۔ اس دور کی غزلیں بھی بیشتر رسمی و تقلیدی نوعیت کی ہیں۔ عموماً داغ کے رنگ میں معاملہ بندی یا امیر مینائی کی تقلید میں مضمون آفرینی کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن انھی خزف ریزوں میں وہ جواہر پارے بھی ہیں جو اس ہونہار شاعر کی انفرادی شخصیت اور تازگیِ فکر کی آب و تاب سے جگمگا رہے ہیں۔ مثلاً یہ چند اشعار ملاحظہ ہوں: ہے کشش پر مدار ہستی کا عشق جانِ جہان ہے گویا اقبال کی نہ پوچھ تلوّن مزاجیاں مے خانے میں کبھی ہے، کبھی خانقاہ میں میں مشتِ خاک ، مجھ میں گوہر نہاں ہے کیسا؟ حیرت ہے مجھ کو یا رب ظلمت میں نور کیوں ہے کہہ رہے ہیں ملک یہ اہلِ زمیں کتنی اونچی اُڑان والے ہیں۲۵۲؎ ان غزلوں میں جابجا نعتیہ اشعار بھی ملتے ہیں اور یہ خصوصیت ایسی ہے جو حضرت امیر مینائی کے سوا، عام معاصر شعرا یا اساتذہ کے کلام میں نظر نہیں آتی۔ علاوہ ازیں حضرت علی مرتضیٰ ؓ سے والہانہ عقیدت کا اظہار بھی بہ تکرار ہوا ہے: پوچھتے کیا ہو مذہبِ اقبال یہ گنہگار بوترابی ہے شوقِ گلزارِ مدینہ دل میں گھر کرنے لگا خواہشِ جنت چھپی پھرتی ہے شرمائی ہوئی چاک جب دستِ محبت نے کیا دامانِ میم حسنِ مخفی سے نگاہوں کو شناسائی ہوئی۲۵۳؎ اب اس دور کے عام اندازِ غزل گوئی کے جائزے کے لیے چند مثالیںپیش کی جاتی ہیں۔ سب سے پہلے وہ غزل قابلِ ذکر ہے جس کا ایک شعر حاصلِ مشاعرہ رہا اور ارشد گورگانی جیسے کہنہ مشق استاد بھی اس نوجوان شاعر کو خراجِ تحسین ادا کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اُس زمانے میں اندرون بھاٹی گیٹ کے مشاعرے بقول مولوی احمد الدین (مصنفِ ’’اقبال‘‘) ’’دلّی اور لکھنؤ کے اکھاڑے تھے‘‘۔۲۵۴؎ ان مشاعروں میں مرزا ارشد گورگانی دبستانِ دہلی اور ناظم لکھنؤی، دبستانِ لکھنؤ کی نمائندگی کرتے تھے۔ ان کے شاگردوں کی ٹولیاں حریفانہ مقابلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں لیکن اقبال، شاگردِ داغ ہونے کے باوجود اس دبستانی کشمکش سے بالاتر تھے۔ انھوں نے اپنی اس غزل کے مقطع میں دو ٹوک بات کہہ دی: اقبال لکھنؤ سے، نہ دلّی سے ہے غرض ہم تو اسیر ہیں خمِ زلفِ کمال کے۲۵۵؎ اس شعر سے ہمیں اس نو آموز شاعر کی فنی وسیع النظری اور اس کے ذہن و مزاج کے انتخابی میلان کا پتا چلتا ہے۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ اس دور کی بیش تر غزلیںدونوں دبستانوں کی خصوصیات کا آمیزہ ہیں۔ اسی غزل کو لیجیے۔ اس میں معاملے کے یہ دو شعرزبان و محاورہ اور لہجے کی شوخی و شگفتگی کے لحاظ سے رنگِ داغ کی غمازی کرتے ہیں: کم بخت اک ’نہیں‘ کی ہزاروں ہیں صورتیں ہوتے ہیں سَو جواب سوالِ وصال کے کہتے ہیں ہنس کے جائیے ہم سے نہ بولیے قربان جائوں طرزِ بیانِ ملال کے۲۵۶؎ لیکن مندرجہ ذیل اشعار میں سے ایک میں آنچل اور دوپٹہ کا ذکر ، اور دوسرے میں رعایت لفظی کا پہلو، دبستان لکھنؤ کی خصوصیات ہیں: چلتے ہوئے کسی کا جو آنچل سرک گیا بولی حیا، حضور دوپٹہ سنبھال کے! حسرت نہیں ، کسی کی تمنا نہیں ہوں میں مجھ کو نکالیے گا ذرا دیکھ بھال کے مندرجہ ذیل اشعار میں بھی نکتہ آفرینی کا انداز، امیر کے رنگِ کلام کا پر تو ہے: مارے ہیں آسماں نے مجھے تاک تاک کر کیا بے خطا ہیں تیر کمانِ ہلال کے کہتا ہے خضر دشتِ جنوں میں مجھے کہ چل آتا ہوں پائوں سے ابھی کانٹا نکال کے اب یہ بیت الغزل ملاحظہ ہو جس میں حضرت امیر مینائی کا فیضان بہت نمایاں ہے: موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے امیر کے یہاں یہ مضمون کئی دلکش صورتوں میں ادا ہوا ہے، جس کے تفصیل آگے آئے گئی۔ ۱۸۹۶ء کی ایک غزل کے مقطع میں ’’شاگردیِ داغِ سخندان‘‘ کا ذکر احساسِ تفاخر کے ساتھ کیا ہے، لیکن ۲۰ اشعار کی اس طویل غزل کے تمام تر اشعار میں شعرائے لکھنؤ کی سی پرتکلف مضمون آفرینی، مبالغہ آرائی اور صنعت گری (ناسخیت کی حد تک نمایاں) ہے۔ نمونۃً صرف چند شعر درج ذیل ہیں: تصور بھی جو بندھتا ہے تو خالِ روئے جاناں کا بلندی پر ستارہ ہے شبِ تاریکِ ہجراں کا اُڑا جب طائرِ رنگِ حنا لیلیٰ کے ہاتھوں سے وہیں پھندا بنایا قیس نے تار رگ جاں کا سمٹ کر تنگیٔ دل سے سویدا بن گیا آخر خیال آیا اگر دل میں تری زلفِ پریشاں کا ہماری شور بختی کا اثر اتنا تو ہو یارب نہ ہو زخمِ جگر محتاج قاتل کے نمکداں کا۲۵۷؎ اسی دور میں چند ابتدائی غزلوں کے بعد وہ بہت کچھ سنبھل گئے ہیں، لیکن لہجے کی شوخی اور زبان کی سادگی و برجستگی کے ساتھ خیال بندی اور صناعی کی مثالیں بھی جا بجا ملتی ہیں۔ مثلاً جس غزل کے مقطع میں اپنی سخنوری کو ’’جناب داغ کی کرامت‘‘ سے منسوب کیا ہے وہاں استاد کے رنگ میں یہ دو شعر ہیں: محبت میں دلِ مضطر جبھی کچھ لطف آتا ہے کہ ہو معشوق ظالم بھی، جفا جُو بھی، ستم گر بھی بجا ہے شیخ جی سب کچھ مگر میں کس طرح مانوں اجی حضرت! مرا دیکھا ہوا ہے آبِ کوثر بھی اسی غزل کامطلع شعرائے لکھنؤ کی ایہام گوئی کی یاد دلاتا ہے: برا ہوتا ہے عشقِ شعلہ رویانِ ستم گر بھی یہ وہ آتش ہے جس میں خاک ہو جائے سمندر بھی اور آتش لکھنؤی کے ایک مشہور شعر (ع: ’’ڈوبنے جائوں تو دریا ملے پایاب مجھے‘‘) کا مضمون یوں ادا ہوا ہے: وہ ناکامِ تمنّا ہوں اگر مَیں ڈوبنے جائوں تو اک پانی کے قطرے کے لیے ترسے سمندر بھی۲۵۸؎ اس دور کی ایک طرحی غزل کے مقطع میں شاعر نے اپنے ہم چشموں کی معاصرانہ چشمک کا ذکر کیا ہے۔ اس غزل کے مندرجہ ذیل شعر کا مصرع اولیٰ ، داغ کے ایک مشہور شعر (: روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں۔۔۔) کی یاد دلاتا ہے اور مصرع ثانی تو بالکل داغ کی ہم نوائی کا دم بھرتا ہے: کرتی ہے شمع اُس رخِ روشن کی ہم سری لو اس زباں دراز کو بھی اب ہوا لگی اسی غزل کا یہ شعر: زندہ کیا جو لب نے تو مارا نگاہ نے یعنی بقا کے ساتھ ہے قیدِ فنا لگی۲۵۹؎ حضرت امیر کے اس شعر سے مستفاد ہے: مارو بھی جلائو بھی ، آسان ہے سب تم کو آنکھوں میں ہلاہل ہے، ہونٹوں میں مسیحائی ابتدائی غزل کے اس مشہور شعر(موتی سمجھ کے… انفعال کے) کے بار ے میں عرض کیا جا چکا ہے کہ ’’یہاں امیر مینائی کا فیضان نمایاں ہے‘‘۔ اس سلسلے میں فیضانِ امیر کی کچھ اور مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ اس دور میںاقبال نے حضرت امیر کی زمین میں ایک غزل کہی تھی جس کے مندرجہ ذیل شعر میں یہی مضمون اس طرح ادا ہوا ہے: تڑپ کے شانِ کریمی نے لے لیا بوسہ کہا جو سر کو جھکا کے گناہ گار ہوں میں۲۶۰؎ اب اسی زمین میں امیر کا شعر ملاحظہ ہو: پھر اس کی شانِ کریمی کے حوصلے دیکھے گناہ گار یہ کہہ دے گناہ گار ہوں میں اگرچہ اقبال کا شعر زیادہ برجستہ و بلیغ ہے لیکن یہ تو ماننا پڑے گا کہ فکر و احساس کے اشتراک کی بنا پر اقبال، حضرت امیر کے اس رنگ کے اشعار سے اتنے متاثر ہوئے کہ انھوں نے اپنی متعدد غزلوں میں یہی مضمون باندھا ہے۔ مثلاً اگلے دور کی ایک غزل:ع ’’نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی‘‘ (مخزن، جون ۱۹۰۱ئ)کو اکثر ناقدین رنگِ داغ کی تقلید کی مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں، لیکن اگر غزل کے دس متروک اشعار بھی پیش نظر ہوں تو ہمیں معلوم ہو کہ اس غزل میں صنم خانۂ امیر کے نقوش تاثر بھی کچھ کم نہیں۔ یہاں صرف اسی مضمون کا ایک شعر نقل کیا جاتا ہے: لیا مغفرت نے تڑپ کر بغل میں کرامت تھی شرمِ گنہگار کیا تھی۲۶۱؎ ’’فریادِ امّت‘‘ کے کئی شعروں کی بنیاد اسی تخیل پر ہے۔ مثلاً یہ شعر ملاحظہ ہو: لیں شفاعت نے قیامت میں بلائیں کیا کیا عرقِ شرم میں دوبا جو گنہگار آیا۲۶۲؎ اگلے دور کی ایک غزل کا یہ مطلع بھی اسی رنگ میں ہے: کشادہ دستِ کرم جب وہ بے نیاز کرے گناہ گار نہ کیوں عاجزی پہ ناز کرے۲۶۳؎ حضرتِ امیر نے اس مضمون کی ادائیگی میں کئی نکات اور کئی پیرایے نکالے ہیں۔ یہاں صرف چند اشعار پیش کیے جاتے ہیں: چار آنسو جو ندامت کے بہے دُھل گیا نامۂ عصیاں میرا موقوف جرم ہی پہ کرم کا ظہور تھا بندے اگر قصور نہ کرتے قصور تھا شرمِ عصیاں سے جو گرا آنسو اس کی رحمت کو اک بہانہ ہوا بے گناہوں میں چلا زاہد جو اس کو ڈھونڈنے مغفرت بولی ادھر آ، مَیں گنہگاروں میں ہوں دل میں جو داغ ہیں ندامت کے پھول ہیں سب یہ باغِ جنّت کے گناہگاروں پہ محشر میں تاکہ راہ ملے گناہ گاروں میں چھپ چھپ کے بے گناہ ملے۲۶۴؎ اگر تلاش کیا جائے تو اقبال کے اس دور اور اگلے دور کے متروک کلام میں ہم مضمون اشعار کی طرح ہم طرح غزلوں کی تعداد بھی داغ کے مقابلے میں زیادہ نکلے گی۔ مارچ ۱۹۰۳ء کی اس غزل کے اشعار بھی تقلیدِ داغ کی مثال میں پیش کیے جاتے ہیں: لڑکپن کے ہیں دن، صورت کسی کی بھولی بھولی ہے زباں میٹھی ہے، لب ہنستے ہیں، پیاری پیاری بولی ہے۲۶۵؎ لیکن یہ غزل بھی امیر مینائی کی زمین میں اور انھی کے رنگ میں ہے۔ امیر کا مطلع اور ایک شعر یہاں درج کیا جاتا ہے: عجب عالم ہے اس کا وضع سادی شکل بھولی ہے کُھبی جاتی ہے دل میں کیا رسیلی نرم بولی ہے گھٹا کی سیر حجرے سے نکل کر دیکھ اے زاہد نہانے کو یہ چوٹی حور نے جنت میں کھولی ہے۲۶۶؎ امیر کے دوسرے شعر کی حسین تشبیہ سے اقبال نے اپنی ایک نظم ’’عشق اور موت‘‘ میں یوں مرقع آرائی کی ہے: اٹھی اوّل اوّل گھٹا کالی کالی کوئی حور چوٹی کو کھولے کھڑی تھی۲۶۷؎ مقطع کے اشعار میںامیر اور اقبال کی ہم آہنگی زیادہ نمایاں ہے: اقبال: گلِ مضموں سے اے اقبال یہ سہرا ہے ناصر کا غزل میری نہیں ہے یہ کسی گلچیں کی جھولی ہے۲۶۸؎ امیر: امیر ایسے شگفتہ ہیں مضامیں نازک و رنگیں غزل کیا ہے یہ پھولوں سے بھری گلچیں کی جھولی ہے۲۶۹؎ مندرجہ بالا مثالوں سے ظاہر ہو گا کہ مشقِ سخن و اکتسابِ فن کے اس دور میں اقبال دونوں دبستانوں سے فیض یاب ہوتے رہے۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگرچہ اصلاحِ زبان کے سلسلے میں وہ داغ سے مستفیض ضرور ہوئے لیکن داغ کی رندانہ شوخی، بے باکی و ہوسناکی کے مقابلے میں امیر کی جدّت طرازی، فن کارانہ صنعت گری، جذبہ و خیال کی پاکیزگی اور لہجے کی لطافت و متانت سے اقبال کے ذہن و ذوق کو زیادہ مناسبت تھی۔ ان اوصاف کے علاوہ، موضوعات و مضامین کی رنگارنگی بھی امیر کے یہاں نسبۃً بہت زیادہ ہے۔ یہاں امیر کے دیوان ’’صنم خانۂ عشق‘‘کی ردیف ’’ن‘‘ کی چند غزلوں کے صرف مطلعے نمونۃً درج ہیں: ہائے وہ دن کہ گزر جاتی تھی شب باتوں میں اب نہ باتوں میں مزا ہے نہ ملاقاتوں میں اِس شان سے ہم آئے تری جلوہ گاہ میں مشعل دکھائی برقِ تجلّی نے راہ میں الجھ پڑوں کسی دامن سے مَیں وہ خار نہیں وہ پھول ہوں کہ کسی کے گلے کا ہار نہیں لچک ہے شاخ میں جنبش ہوا سے پھولوں میں بہار جھول رہی ہے خوشی کے جھولوں میں کسی کی روح پہ صدمہ ہو، اشک بار ہوں میں کسی کے دل میں اٹھے درد ، بے قرار ہوں میں۲۷۰؎ جس زمانے میں اقبال ’’صنم خانۂ عشق‘‘ کی سیر میں محو تھے، یہ وہ دور تھا کہ داغ کا کلام اپنی پرانی کشش بھی کھو چکا تھا۔ اکبر الہ آبادی نے اگست ۱۸۹۸ء میں کلامِ داغ کے بارے میں جو رائے ظاہر کی تھی اس کی اصابت سے انکار مشکل ہے۔ فرماتے ہیں: حسنِ زبان اور حسنِ خیال دونوں کے امتزاج سے عمدہ شعر پیدا ہوتے ہیں۔ انھوں نے حسنِ زبان کی دھن میں حسنِ خیال سے بہت کچھ قطع نظر کی ہے اور حسنِ زبان کو اس قدر روندا ہے کہ غالباً زبان ہی رہ گئی ، حسن جاتا رہا۔۲۷۱؎ جو لوگ صرف زبان کے چٹخاروںپر جان دیتے تھے وہ تو بہرحال داغ ہی کا دم بھرتے رہے، لیکن ذوقِ سلیم کو امیر کی عظمت کا اعتراف کرنا ہی پڑا۔ چنانچہ اقبال نے اپنی نظم ’’سرگذشتِ آدم‘‘ (مخزن، ستمبر ۱۹۰۴ئ) کے ایک متروک شعر میں کلامِ امیر سے اپنی شیفتگی کا برملا اظہار کیا ہے: عجیب شے ہے صنم خانۂ امیر اقبال میں بت پرست ہوں، رکھ دی وہیں جبیں میں نے۲۷۲؎ حضرت امیر کی وفات (اکتوبر ۱۹۰۰ئ) کے بعد اقبال کا ارادہ تھا کہ انگریزی میں ایک مقالہ لکھ کر اہلِ مغرب کو مشرق کے اس عظیم شاعر کی شخصیت اور فنی عظمت سے روشناس کرایا جائے۔ اسی غرض سے انھوں نے ایک سوال نامہ مرتّب کرکے اپنے مراسلے کے ساتھ ہفت روزہ پنجۂ فولاد، لاہور (مورخہ ۲۸؍فروری ۱۹۰۳ئ) میں شائع کرایا۔ اس مراسلے میں وہ لکھتے ہیں: وہ صرف شاعر ہی نہیں تھے بلکہ ان کا درجہ شاعری سے بہت بڑھا ہوا تھا۔ ان کے کلام میں ایک خاص قسم کا درد اور ایک خاص قسم کی لے پائی جاتی ہے جو صاحب دلوں کو بے چین کر دیتی ہے اور وہ کلیجہ پکڑ کر رہ جاتے ہیں۔ آہ ایسے بے نظیر شخص کے حالات، جو اصلی معنوں میں تلمیذ الرحمن کہلانے کا مستحق ہو، ابھی تک گمنامی میں پڑے رہیں، اندھیر نہیں تو اور کیا ہے؟ اگر یہی شخص یورپ یا امریکہ میں ہوتا تو اس کی زندگی میں ہی اس کی کئی سوانح عمریاں نکل جاتیں۔۲۷۳؎ مختصر یہ کہ داغ کی شاگردی تو زبان دانی میں استناد کی حیثیت رکھتی ہے، ورنہ اکتسابِ زبان و فن کے تمام مرحلے صرف چند غزلوں پر اصلاح لینے سے طے نہیں ہو جاتے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کے مطالعے اور اکتساب کا دائرہ نہایت وسیع تھا۔ انھوں نے فارسی و اردو کے قدیم و جدید اساتذۂ فن میں سے ہر ایک سے کسبِ فیض کیا ہے۔ انھیں اس دور میں زبان و فن پر جو دسترس حاصل ہوئی وہ برسوں کے مسلسل مطالعے اور ریاضت کا نتیجہ ہے۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ بعض نقادوں نے ان تمام فنی اکتسابات کو نظر انداز کرکے اقبال کو صرف داغ کی شاگردی کا رہینِ منّت قرار دیا ہے۔ مثلاً سید عابد علی عابد مرحوم، فیضانِ داغ کے بیان کو داستان در داستان پھیلاتے چلے گئے ہیں اور کم و بیش پچاس صفحات کی اس لذید حکایت کا حاصل یہ ہے کہ ’’اقبال نے یورپ جانے سے پہلے… داغ سے اردو کی شعری روایات کے سارے رموز سیکھ لیے‘‘۔۲۷۴؎ یہ بات اس شاعر کے بارے میں کہی گئی ہے جس نے شاعری کے ابتدائی دور ہی میں یہ اعلان کر دیا تھا: اقبال لکھنؤ سے نہ دلّی سے ہے غرض ہم تو اسیر ہیں خمِ زلفِ کمال کے اور جو اپنی شاعری کے اگلے دور (۱۹۰۰ء تا ۱۹۰۵ئ) میں امیر و داغ سے گزر کر حافظ، نظیری اور غالب و بیدل کے فن کو اپنا مطمح نظر بنائے ہوئے تھا اور جس کی نگاہ گوئٹے اور ملٹن جیسے شعرائے مغرب کی فنی عظمتوں کی طرف اٹھ رہی تھی۔ مارچ ۱۹۰۳ء کے ایک خط میں اقبال اپنے دوست منشی سراج الدین کو لکھتے ہیں: ملٹن کی تقلید میں کچھ لکھنے کا ارادہ مدت سے ہے اور اب وہ وقت قریب معلوم ہوتا ہے،کیونکہ ان دنوں وقت کاکوئی لحظہ خالی نہیں جاتا جس میں اس کی فکر نہ ہو۔ پانچ چھ سال سے اس آرزو کو دل میں پرورش کر رہا ہوں مگر جتنی کاوش آج کل محسوس ہوتی ہے، اس قدر کبھی نہ ہوئی تھی۔۲۷۵؎ بعض حضرات اقبال کی شخصیت کے اُن پہلوئوں کو نظر انداز کرکے، جن کا اظہار اگلے دور کی مختلف نظموں کے علاوہ بعض غزلوں میں بھی ہوا ہے، نوجوان اقبال کو داغ کی طرح ایک حسن پرست شاعر سمجھتے ہیں۔ ان کی رائے ہے کہ ’’اگر اقبال نے صرف داغ ہی کے رنگ میں غزلیں کہی ہوتیں تو… وہ یقینا داغ سے بڑھ کر داغ ثابت ہوتا‘‘۲۷۶؎ اس دعوے کے ثبوت میں اقبال کی غزلوں کے جتنے اشعار پیش کیے گئے ہیں، ان میں محاورہ بندی اور لب و لہجہ کی شوخی کی حد تک کلامِ داغ کی پیروی ضرور کی گئی ہے لیکن اس رنگ کے اشعار میں وہ گرمی، وہ تڑپ ، جذبات کا وہ ہیجان نہیں جو داغ کے کلام کی جان ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اقبال اس دور میں بھی صوفیانہ مزاج اور ایک ایسا درد مند دل رکھتے تھے جو انسانیت کے لیے ایک پیغمبرانہ جذبے سے معمور تھا۔ ان کا اسلوبِ حیات، اندازِنظر، ماحول، مشاغل، مقاصد، رجحانات، داغ سے یکسر مختلف تھے۔ انھیں داغ کی رنگین دنیا کی سیر کی فرصت ہی کہاں تھی اور رندی و ہوسناکی کے وہ ساز و سامان بھی کہاں میسر تھے جن کی بدولت آخری دم تک داغ کو شعر گوئی کی تحریک ہوتی رہی۔ جمالیاتی ذوق، اقبال کی متنوع شخصیت کا صرف ایک پہلو ہے۔ وہ جمال پسند ضرور تھے لیکن داغ کی طرح ’’صورت پرست‘‘ نہیں بلکہ ’’معنی آشنا‘‘ بھی تھے۔ مثلاًاسی دور کی ایک غزل لیجیے، جس کے بعض اشعار اور خصوصاً یہ شعر تو نمایاں طور پر رنگ داغ کا غماز ہے: ہائے وہ مار ڈھیلے ہاتھوں کی کس مزے کے ملال ہوتے ہیں لیکن اسی غزل کے یہ دو شعر ملاحظہ ہوں: یہ جوانی کے ولولے اے دل دو گھڑی کے اُبال ہوتے ہیں جن کی سیرت بھی دل کو تڑپا دے وہ حسیں خال خال ہوتے ہیں۲۷۷؎ جو شاعر عنفوانِ شباب میں اتنا ہوش مند ہو کہ جوانی کے ولولوں کو ’’دو گھڑی کا اُبال‘‘ سمجھ کر انھیں کوئی خاص اہمیت نہ دے اور جس کا ذوقِ جمال حسنِ سیرت بھی تلاش کرے، وہ بہرحال داغ کا ہم نوا نہیں ہو سکتا۔ ٭ طالب علمی کے زمانے کی شعری تخلیقات میں غزلوں کے علاوہ دو ایک چیزیں اور قابلِ ذکر ہیں۔ ان میں زمانی اعتبار سے پہلی تخلیق، وہ قومی نظم ہے جو ’’فلاحِ قوم‘‘ کے عنوان سے فروری ۱۸۹۶ء میں انجمن کشمیری مسلمانان لاہور کے ایک جلسے میں پڑھی گئی۔ ۲۷ اشعار پر مشتمل یہ نظم ہیئت اور اسلوب کے لحاظ سے قصیدہ نما ہے۔ اس کے ابتدائی ۹ اشعار میں قوم کی حالت پر رنج و غم کا مبالغہ آمیز اظہار ہے: کیا تھا گردشِ ایّام نے مجھے محزوں بدن میں جان تھی جیسے قفس میں صیدِ زبوں چڑھائی فوجِ الم کی ہوئی تھی کچھ ایسی عَلم خوشی کا مرے دل میں ہو گیا تھا نگوں کیا تھا کوچ جو دل سے خوشی کی فوجوں نے لگائے خیمہ تھے واں رنج کے جنود و قشوں۲۷۸؎ پھر ۸ اشعار میںاس انجمن کے قیام پر اظہارِ مسرت اور شکرِ الٰہی کا مضمون بیان ہوا ہے: ہزار شکر کہ اک انجمن ہوئی قائم یقیں ہے راہ پہ آئے گا طالعِ واژوں مثالِ شانہ اگر میری سَو زبانیں ہوں نہ طے ہو زلف رہِ شکر ایزدِ بے چوں۲۷۹؎ آخری ۱۰؍اشعار دعائیہ ہیں اور دعاء کا جو پیرایہ اختیار کیا گیا ہے، اس میں انجمن کی اہمیت کے ساتھ بالواسطہ قوم کے لیے پیغام کا پہلو بھی موجود ہے: بڑھے یہ بزم ترقی کی دوڑ میں یارب کبھی نہ ہو قدمِ تیز آشنائے سکوں دکھائیں فہم و ذکا و ہنر یہ اَوروں کو زمانے بھر کے یہ حاصل کریں علوم و فنوں۲۸۰؎ نظم کے پُر تکلف اسلوب میں، قصیدہ نگار شعرا کی مبالغہ آرائی اور نکتہ آفرینی کا عنصر نمایاں ہے۔قوم کو اتحاد و اتفاق اور کسبِ علم و فن کا وہی پیغام دیا گیا ہے جسے مولانا حالی اور ان کے دیگر معاصرین مختلف قومی نظموں میں دہراتے رہے ہیں۔ اس نظم کے علاوہ، اقبال کے ایک قطعۂ تاریخ کا بھی سراغ ملتا ہے جو اورینٹل کالج لاہور کے استاد شعبۂ عربی مولانا ابوسعید محمد شعیب کی تصنیف مختصر العروض میں خان احمد حسین احمد اور سید غلام بھیک موّاج کے قطعاتِ تاریخ کے ساتھ شائع ہوا تھا۔۲۸۱؎ ۱۱ ، اشعار کا یہ قطعہ باقیات کے کسی مجموعے میں شامل نہیں لہٰذایہاں چند اشعار نمونۃً درج کیے جاتے ہیں: مصنّف جبکہ ایسا ہو رسالہ کیوں نہ ہو ایسا گُہر باری تقاضا ہے مزاجِ ابرِ نیساں کا یہ چھوٹا سا رسالہ کانِ معنی، جانِ معنی ہے نواسنجانِ گلشن کی زباں پر اس کا ہے چرچا تجلّی طور کی ہے روشنائی اس کے حرفوں کی بیاضِ صفحہ سے ظاہر ہے اعجازِ یدِ بیضا مصنف اس کا جب اسکندرِ ملکِ معانی ہو اسے کہیے جو آئینہ تو ہر صورت سے ہے زیبا آخری دو اشعار میں فن کارانہ تعمیہ کے ساتھ مادئہ تاریخ نظم کیا ہے: دکھا کر یہ کتابِ بے بہا دل چھین لیتا ہوں فصاحت کا، بلاغت کا، لیاقت کا، ذہانت کا ادب کے ساتھ سالِ طبع پھر یوں نظم کرتا ہوں جزاک اللہ! لکھّا ہے رسالہ مختصر کیسا۲۸۲؎ آخری مصرعے کے اعداد ۱۸۸۵ ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ’’ادب‘‘ کے اعداد (۷) شامل کیے جائیں نیز فصاحت ، بلاغت، لیاقت اور ذہانت کا ’’دل‘‘ یعنی چاروں الف کے ایک ایک عدد ملا دیے جائیں (۴+۷+۱۸۸۵) تو اس طرح عیسوی سنہ طباعت کے اعداد (=۱۸۹۶) نکلتے ہیں۔ اس قطعے کا اسلوب بھی قصیدے کے روایتی اسلوب سے مختلف نہیں۔ بہرحال ان نظموں سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ اقبال نے طالب علمی کے زمانے میں فارسی و اردو کی کلاسیکی شاعری کے مختلف اصناف و اسالیب کا دقتِ نظر سے مطالعہ کیا تھا۔ نیز اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ اکتسابِ فن کے سلسلے میں علمِ عروض، معانی و بیان کے علاوہ فنِ تاریخ گوئی پر بھی زمانۂ طالب علمی ہی میں اقبال کو عبور حاصل تھا۔ ۱۸۹۸ء میں جب وہ ایم۔ اے (فلسفہ) کے طالب علم تھے، انھوں نے سرسید کی وفات پر آیات قرآنی سے دو مادئہ تاریخ نکالے جو کئی لحاظ سے قابلِ داد ہیں۔ وہ سیالکوٹ میں تھے کہ سر سید کی وفات کی اطلاع پاتے ہی مولوی میر حسن نے اقبال کو تاریخِ وفات نکالنے کی ہدایت کی اور خود بھی فکر کرنے لگے۔ مولوی صاحب کا نتیجۂ فکر ’’غفرلہ‘‘۲۸۳؎ یقینا ان کی استادانہ مہارتِ فن کا بے مثال نمونہ ہے۔ لیکن اقبال نے مندرجۂ ذیل آیت سے جو تاریخ نکالی وہ بھی نہایت برمحل و معنی خیز اور مرحوم شخصیت سے ان کی دلی عقیدت کا بلیغ اظہار ہے: ’’انی متوفّیک و رافعک الیّ و مطہّرک‘‘ (بے شک میں نے تجھے موت دی اور تجھے اپنی طرف بلند کیا اور تجھے تمام تہمتوں سے پاک کیا)= ۱۳۱۵ھ ۔ ۲۸۴؎ بعض علماء کے اعتراض پر کہ یہ مادئہ تاریخ نامناسب ہے، کیونکہ جس آیت سے یہ عبارت ہے اس کا تعلق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ذاتِ اقدس سے ہے، اقبال نے دوسرا مادئہ تاریخ نکالا: ’’کانّہ مسیح فی کلّ مراض‘‘ (یعنی وہ تمام امراض کے لیے مثلِ مسیح تھے) = ۱۳۱۵ھ۔ ۲۸۵؎ یہ مادئہ تاریخ بھی اقبال کی رسائیِ فکر کا اعجاز ہے اور اس بات کا ثبوت بھی کہ یہ نوجوان شاعر، سر سید کی مصلحانہ خدمات کا صحیح قدر شناس تھا۔ /// کتابیات (الف) اقبال کی تصانیفِ نظم و نثر: ۱- اسرار و رموز: طبع ہشتم، لاہور، ۱۹۶۹ئ۔ ۲- اقبال نامہ (حصہ اوّل) : مرتّبہ شیخ اعطاء اللہ، لاہور، طبع اوّل۔ ۳- اقبال نامہ(حصہ دوم): مرتّبہ شیخ عطاء اللہ، لاہور،۱۹۵۱ئ۔ ۴- باقیاتِ اقبال: مرتّبہ سید عبدالواحد معینی، طبع دوم، لاہور، ۱۹۶۶ئ۔ ۵- بالِِ جبریل: طبع ہفتدہم، لاہور، ۱۹۷۰ئ۔ ۶- بانگِ درا: طبع بست و ہفتم، لاہور،۱۹۷۰ئ۔ ۷- پیامِ مشرق :طبع دواز دہم، لاہور، ۱۹۶۹ء ۔ ۸- زبورِ عجم : طبع نہم ، لاہور، ۱۹۷۰ئ۔ ۹- ضربِ کلیم : طبع پانز دہم، لاہور، ۱۹۷۰ء ۔ ۱۰- علم لاقتصاد : مطبوعہ اقبال اکادمی کراچی، (طبع دوم)، ۱۹۶۱ء ۔ ۱۱- مقالاتِ اقبال : مرتبہ سید عبدالواحد معینی، لاہور، ۱۹۶۳ء ۔ (ب) دیگر مآخذ : ۱۲- آثار اقبال : مرتبہ غلام دستگیر رشید، طبع دوم ، لاہور، ۱۹۶۴ء ۔ ۱۳- آئینۂ اقبال :از محمد عبداللہ قریشی، طبع اوّل ، لاہور۔ ۱۴- اقبال :از مولوی احمد دین، لاہور، ۱۹۶۳ئ۔ ۱۵- اقبال درونِ خانہ : از خالد نظیر صوفی، طبع اوّل، لاہور، ۱۹۷۱ئ۔ ۱۶- اقبال کا نفسیاتی مطالعہ : از سلیم اختر، لاہور، ۱۹۷۷ء ۔ ۱۷- اقبال کی شخصیت اور شاعری : ازپروفیسر حمید احمد خاں، لاہور، ۱۹۷۴ء ۔ ۱۸- اقبال کے حضور : از سید نذیر نیازی، اقبال اکادمی ، کراچی، ۱۹۶۱ئ۔ ۱۹- انوارِ اقبال: مرتبہ بشیر احمد ڈار، طبع اوّل، کراچی، ۱۹۶۷ء ۔ ۲۰- اوراقِ گم گشتہ : مرتبہ رحیم بخش شاہین، طبع اوّل، لاہور، ۱۹۷۵ء ۔ ۲۱- تاریخِِ اقوامِ کشمیر (حصہ اوّل): از محمد الدین فوق، لاہور، ۱۹۳۴ء ۔ ۲۲- تاریخِِ اقوامِ کشمیر (حصہ دوم): از محمد الدین فوق، لاہور، ۱۹۴۴ء ۔ ۲۳- تاریخِ سیالکوٹ: از رشید نیاز، مکتبۂ نیاز، سیالکوٹ، ۱۹۵۸ئ۔ ۲۴- تاریخِ یونی ورسٹی اورینٹل کالج، لاہور: از ڈاکٹر غلام حسین، لاہور، ۱۹۶۲ئ۔ ۲۵- تنقیدی مضامین : از سید عابد علی عابد ، لاہور، ۱۹۶۶ء ۔ ۲۶- خم خانۂ جاوید (جلد اوّل) : از لالہ سری رام ۔ ایم ۔ اے، دہلی، ۱۹۰۸ء ۔ ۲۷- خوں بہا : از حکیم احمد شجاع، طبع اوّل ، لاہور، ۱۹۴۳ء ۔ ۲۸- ذکرِ اقبال: از عبدالمجید سالک، مطبوعہ بزم اقبال، لاہور، طبع اوّل۔ ۲۹- ذکرِ عبدالحق: مرتبہ ڈاکٹر سید معین الرحمن، لاہور، ۱۹۷۵ئ۔ ۳۰- روایاتِ اقبال: مرتبہ ڈاکٹر محمد عبداللہ قریشی، طبع اوّل، لاہور، ۱۹۷۷ء ۔ ۳۱- روزگارِ فقیر (جلد اوّل) :از فقیر سید وحید الدین ، طبع چہارم ، لاہور، ۱۹۶۴ء ۔ ۳۲- ایضاً (جلد دوم) : از فقیر سید وحید الدین ، طبع اوّل، کراچی، ۱۹۶۴ء ۔ ۳۳- زندہ رود : از ڈاکٹر جاوید اقبال،شیخ غلام علی اینڈ سنز، طبع اوّل،لاہور، ۱۹۷۹ء ۔ ۳۴- سرگذشت: از مولانا عبدالمجید سالک، لاہور، ۱۹۵۵ء ۔ ۳۵- سرگذشتِ اقبال: از ڈاکٹر عبدالسلام خورشید، طبع اوّل، لاہور، ۱۹۷۷ء ۔ ۳۶- سفر نامۂ مصر و روم و شام : از علامہ شبلی نعمانی، طبع جدید، لاہور، ۱۹۶۱ء ۔ ۳۷- سیرتِ اقبال : از محمد طاہر فاروقی، طبع چہارم۔ ۳۸- شعرِ اقبال : از عابدعلی عابد،لاہور،۱۹۶۴ء ۔ ۳۹- صنم خانۂ عشق :مرتبہ شاہ حسن عطا، کراچی، ۱۹۶۴ء ۔ ۴۰- علامہ اقبال اور ان کی پہلی بیوی: مرتبہ سید حامد جلالی، کراچی، ۱۹۶۷ء ۔ ۴۱- کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ: از ڈاکٹر وحید قریشی، طبع اوّل ، لاہور، ۱۹۶۵ء ۔ ۴۲- کلیاتِ نظم حالی، جلد اوّل: مرتبہ ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی، لاہور، ۱۹۶۸ء ۔ ۴۳- مطالعۂ اقبال : مرتبہ گوہر نوشاہی، طبع اوّل، لاہور، ۱۹۷۱ئ۔ ۴۴- معاصرین اقبال کی نظر میں: مرتّبہ محمد عبداللہ قریشی، لاہور، ۱۹۷۷ء ۔ ۴۵- مقالاتِ یوم اقبال: (شائع کردہ مرکزیہ مجلس اقبال، لاہور) ، لاہور، ۱۹۵۵ء ۔ ۴۶- مکتوباتِ سر سید : (طبع اوّل) مرتبہ شیخ محمد اسماعیل پانی پتی، لاہور، ۱۹۵۹ء ۔ ۴۷- ملفوظاتِ اقبال : مرتبہ محمود نظامی، طبع ثانی، لاہور، ۱۹۶۹ء ۔ (ج) انگریزی کتب: ۴۸-The Ardent Pilgrim by Iqbal Singh, Calcutta, 1951. ۴۹-A History of Govt. College Lahore, Edited by H.L.O. Garret and Abdul Hamid, Lahore, 1964. ۵۰-Kashir (History of Kashmir) by G.M.D. Sufi, Vol. I, Lahore, 1948. ۵۱-Letters from India, by A.W. Stratton, Lahore. 1977. ۵۲-The Poet of the East, by A. Anwar Beg, Lahore, 1961. (د) رسائل و جرائد: ۵۳- ادبی دنیا : لاہور، کشمیر نمبر، ۱۹۶۶ئ۔ ۵۴- مجلہ اردو : (سہ ماہی) کراچی، جلد ۴۵، شمارہ ۳، ۱۹۶۹ء ۔ ۵۵- مجلہ اردو نامہ : کراچی، جولائی، ۱۹۷۳ء ۔ ۵۶- مجلہ اقبال: لاہور، جلد (۳) شمارہ (۲) ، اکتوبر، ۱۹۵۴ء ۔ ۵۷- مجلہ اقبال: لاہور، جلد (۳) (شمارہ انگریزی)جنوری،۱۹۶۸ء ۔ ۵۸- مجلہ جوہر : دہلی، شمارۂ خصوصی بیادِاقبال، ۳۹-۱۹۳۸ء ۔ ۵۹- ستارۂ صبح :جلد (۱) ، شمارہ (۲) یکم ستمبر، ۱۹۱۶ء ۔ ۶۰- سیارہ ڈائجسٹ :لاہور، قرآن نمبر (۲) ۔ ۶۱- ایضاً: قرآن نمبر (۳) ۔ ۶۲- صحیفہ : لاہور، اقبال نمبر، (حصہ اوّل)، اکتوبر، ۱۹۷۳ئ۔ ۶۳- ایضاً : اقبال نمبر، (حصہ اوّل)، جولائی۔اکتوبر، ۱۹۷۷ء ۔ ۶۴- مرے کالج میگزین : سیالکوٹ ،جوبلی نمبر، جنوری، ۱۹۳۹ء ۔ ۶۵- ایضاً : ضمیمہ جوبلی نمبر ، مارچ، ۱۹۳۹ء ۔ ۶۶- ایضاً: ڈائمنڈ جوبلی نمبر ، مارچ ، ۱۹۶۰ء ۔ ۶۷- مشعلِ راہ : سیالکوٹ ، مرے کالج نمبر ، جلد دوم ، جنوری ۱۹۶۸ء ۔ ۶۸- میثاق :لاہور،(اشاعتِ خصوصی) ، دسمبر، ۱۹۷۷ء ۔ ۶۹- نقوش :لاہور، جنوری ۱۹۷۶ء ۔ ۷۰- نیرنگِ خیال: لاہور، اقبال نمبر، ستمبر۔ اکتوبر، ۱۹۳۲ء ۔ ۷۱- ہمایوں : لاہور، اپریل، ۱۹۵۳ء ۔ حوالہ جات ۱- پیام مشرق، ص ۲۴۔ تنم گلے ز خیابانِ جنتِ کشمیر دل از حریمِ حجاز و نوا ز شیراز است ۲- زبورِ عجم ، ص ۱۷۔ ۳- باقیاتِ اقبال ، ص ۲۵۵۔ ۴- کشمیر (انگریزی)، ج ۱، ص ۱۲۴۔ ۵- ایضاً ، ص ۱۳۲۔ ۶- تاریخِ اقوامِ کشمیر، حصہ اوّل، ص ۴۳-۴۴۔ ۷- صحیفہ لاہور، اقبال نمبر ، (حصہ اوّل)، اکتوبر ۱۹۷۳ئ، ص ۳-۴۔ ۸- تاریخ اقوامِ کشمیر، حصہ اوّل، ص ۳۲۰۔ ۹- انوارِ اقبال ، ص ۷۹۔ ۱۰- تاریخِ اقوامِ کشمیر، حصہ اوّل، ص ۴۲۔ ۱۱- ذکرِ اقبال، ص ۷۔ ۱۲- سر گذشت اقبال، ص ۳۔ ۱۳- تاریخ اقوام کشمیر، حصہ دوم، ص ۳۲۰-۳۱۰۔ ۱۴- اقبال کے حضور، ص ۱۶۹-۱۷۰۔ ۱۵- روزگارِ فقیر، جلد دوم، ص ۱۵۔ ۱۶- تاریخِ اقوام کشمیر، حصہ دوم، ص ۳۲۱۔ ۱۷- آثارِ اقبال، ص ۳۶-۳۷۔ ۱۸- ایضاً، ص ۱۸۔ ۱۹- ضرب کلیم ، ص ۱۰۔ ۲۰- آثارِ اقبال، ص ۶۶۔ ۲۱- اقبال کی شخصیت اور شاعری، ص ۷-۸۔ ۲۲- ضربِ کلیم ، ص ۸۶۔ ۲۳- اوراقِ گم گشتہ، ص ۷۳۔ ۲۴- آثارِ اقبال،ص ۱۹۔ ۲۵- اقبال کے حضور، ۱۶۹-۱۷۰۔ ۲۶- ذکرِ اقبال، ص ۸۔ ۲۷- انوارِ اقبال ، ص ۱۷۸۔ ۲۸- روایات اقبال، ص ۱۳۔ ۲۹- روزگار فقیر، جلد دوم، ص ۱۲۶۔ ۳۰- اقبال نامہ،حصہ دوم، ص ۶۷۔ ۳۱- ملفوظاتِ اقبال، ص ۱۷۔ ۳۲- آثارِ اقبال، ۱۸۔ ۳۳- اقبال درون خانہ، ص ۳۵۔ ۳۴- اقبالنامہ، حصہ دوم، ص ۶۷۔ ۳۵- سیرت اقبال، ص ۱۰۳۔ ۳۶- روزگار فقیر، جلد دوم، ص ۱۲۷، ۱۲۸۔ ۳۷- اقبال کے حضور، ص ۶۰-۶۱۔ ۳۸- سیارہ ڈائجسٹ، قرآن نمبر (۳)، ص ۶۷۷۔ ۳۹- بال جبریل، ص ۱۱۲۔ ۴۰- اسرار و رموز، ص ۱۵۱-۱۵۲۔ ۴۱- رسالہ جوہر، اقبال نمبر، ص ۲۔ ۴۲- سیارہ ڈائجسٹ، قرآن نمبر(۲)، ص ۷۵۳۔ ۴۳- روزگارِ فقیر، جلد دوم، ص ۱۳۵۔ ۴۴- مقالات یومِ اقبال، ص ۶۔ ۴۵- بالِ جبریل، ص ۱۷۳۔ ۴۶- بانگِ درا، ص ۲۵۶۔ ۴۷- ارمغانِ حجاز، ص ۱۳۲۔ ۴۸- روزگارِ فقیر، جلد دوم، ص ۲۳-۲۴۔ ۴۹- روایاتِ اقبال،ص۱۹۶۔ ۵۰- ایضاً ، ص ۶۔ ۵۱- ایضاً ، ص ۱۹۲-۱۹۳۔ ۵۲- ایضاً، ص ۲۳، ذکر اقبال، ص ۱۱۔ ۵۳- ہمایوں، اپریل ۳۱۳-۳۱۴۔ ۵۴- روزگارِ فقیر، جلد دوم، ص ۱۸۸-۱۸۹۔ ۵۵- انوارِ اقبال، ص۷۹۔ ۵۶- کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ، ص ۳۱۰۔ ۵۷- مرے کالج میگزین، جنوری۱۹۳۹ئ، ص ۲، مجلہ مشعل راہ، جنوری ۱۹۶۸ئ، ص ۱۸۔ ۵۸- مرے کالج میگزین، جنوری ۱۹۳۹ئ، ص ۲۱۔ ۵۹- مجلہ مشعلِ راہ، جنوری ۱۹۶۸ء ، ص ۱۱۔ ۶۰- ایضاً، ۷۔ ۶۱- روزگارِ فقیر، جلد اوّل، ص ۲۰۶۔ ۶۲- ملفوظاتِ اقبال، ص ۲۱۸۔ ذکر اقبال، ص ۲۸۶۔ ۶۳- ملفوظاتِ اقبال، ص ۲۱۴۔ ۶۴- مشعل راہ ، جنوری ۱۹۶۸ء ، ص ۷-۸۔ ۶۵- تاریخِ سیالکوٹ، ص ۱۰۴۔ ۶۶- نیرنگِ خیال، اقبال نمبر، ۱۹۳۲ء ، ص۷۱۔ ۶۷- روزگارِ فقیر، جلد اوّل، ص ۵۷۔ ۶۸- ذکرِ اقبال،ص ۲۸۰۔ ۶۹- ملفوظاتِ اقبال، ص ۲۱۵۔ ۷۰- ذکرِ اقبال ، ص ۲۸۹، روایات اقبال، ص ۳۷۔ ۷۱- مرے کالج میگزین، مارچ ۱۹۳۹ء ، ص ۱۴۔ ۷۲- ایضاً ، جنوری ۱۹۳۹ئ، ص ۰۰۰۔ ۷۳- کلاسیکی ادب کا مطالعہ، ص ۳۱۱۔ ۷۴- مرے کالج میگزین، مارچ ۱۹۶۰ء ، ص ۲۷۔ ۷۵- ایضاً ، ۲۳-۲۴۔ ۷۶- روایاتِ اقبال، ص ۵۶-۵۷۔ ذکرِ اقبال، ص ۲۸۲۔ ۷۷- روایاتِ اقبال، ص ۱۹۷۔ ۷۸- نیرنگِ خیال، اقبال نمبر۱۹۳۲ئ، ص ۶۷-۶۸۔ ۷۹- ماہنامہ میثاق ،لاہور، دسمبر۱۹۷۷ء ، ص ۱۰۔ ۸۰- روایاتِ اقبال، ص ۱۸۔ ۸۱- مشعلِ راہ،جنوری ۱۹۶۸ئ، ص ۱۱۔ ۸۲- روزگارِفقیر، جلد اوّل،ص۲۰۹۔ ۸۳- روایاتِ اقبال، ص ۱۹۶۔ ۸۴- ایضاً، ص ۱-۲۔ ۸۵- ایضاً، ص ۱۳۔ ۸۶- ایضاً ، ص ۵۰۔ ۸۷- ذکرِ اقبال، ص ۲۷۵۔ ۸۸- مقالاتِ اقبال، ص ۱۹۲۔ ۸۹- روایاتِ اقبال، ص ۴۴۔ ۹۰- سیارہ ڈائجسٹ، قرآن نمبر(۲) ، ص ۷۵۲۔ ۹۱- مکتوباتِ سر سید، ۲۹۳ تا ۳۰۸۔ ۹۲- مشعلِ راہ، جنوری ۱۹۶۸ء ، ص ۱۰۔ ۹۳- روایاتِ اقبال، ص۵۔ ۹۴- تاریخِ سیالکوٹ، ص ۱۰۴۔ روایات اقبال، ص ۱۹۵۔ ۹۵- ایضاً ، ص ۱۹۶۔ ۹۶- ایضاً، ص ۱۱۔ ۹۷- ایضاً، ص ۱۹۵۔ ۹۸- ذکرِ اقبال، ص۲۷۹۔ ۹۹- روایاتِ اقبال، ص ۵۸۔ ۱۰۰- ایضاً، ص ۴۷۔ ۱۰۱- ذکرِ اقبال، ص ۲۸۰-۲۸۱۔ ۱۰۲- روزگارِ فقیر، جلد اوّل، ص ۴۳-۴۴۔ ۱۰۳- ایضاً،ص ۹-۲۔ ۱۰۴- ایضاً، ص ۵۷۔ ۱۰۵- بانگِ درا، ص ۵۱ (ہے اس کی طبیعت میں تشیّع بھی ذرا سا٭تفضیلِ علیؓ ہم نے سنی اس کی زبانی)۔ ۱۰۶- باقیاتِ اقبال، ص۴۲۹۔ ۱۰۷- بانگِ درا، ص ۹۷۔ ۱۰۸- روایاتِ اقبال، ص ۲۸۔ ۱۰۹- اقبال درونِ خانہ، ص ۱۱۱۔ ۱۱۰- ایضاً، ص ۴۹۔ ۱۱۱- ذکرِ اقبال، ص ۲۹۔ ۱۱۲- اقبال درونِ خانہ، ص ۱۸۔ ۱۱۳- اقبال کی شخصیت اور شاعری، ص ۵۰۔ ۱۱۴- اقبال درونِ خانہ، ص ۷۵-۷۶۔ ۱۱۵- ایضاً، ص ۸-۹۔ ۱۱۶- ایضاً ، ۱۰۔ ۱۱۷- ہمایوں،اپریل ۱۹۵۳ئ، ص ۳۱۴۔ ۱۱۸- اقبال درونِ خانہ، ص ۱۱۔ ۱۱۹- اوراقِ گم گشتہ، ص ۲۶۸۔ ۱۲۰- روایاتِ اقبال، ص ۶۵۔ ۱۲۱- ذکرِ اقبال، ص ۲۱۔ ۱۲۲- روایاتِ اقبال، ص ۱۹۹۔ ۱۲۳- اوراقِ گم گشتہ،ص ۲۶۸۔ ۱۲۴- ایضاً، ص ۲۶۸-۲۶۹۔ ۱۲۵- ایضاً، ص ۲۶۷-۲۶۸۔ ۱۲۶- بالِ جبریل ، ص۱۲۴۔ ۱۲۷- انوارِ اقبال، ص ۱۷۸۔ ۱۲۸- ذکرِ اقبال، ص ۱۲ تا۱۴۔ ۱۲۹- اقبال درونِ خانہ، ص ۹-۱۰۔ ۱۳۰- روایاتِ اقبال، ص ۱۲، ۱۹۵۔ ۱۳۱- ایضاً، ص ۱۲۔ ۱۳۲- مقالاتِ اقبال، ص ۵۹۔ ۱۳۳- ملفوظاتِ اقبال، ص ۲۹۷۔ ۱۳۴- روزگارِ فقیر ، جلد اوّل، ص ۵۷- ۵۸۔ ۱۳۵- اقبال درونِ خانہ، ص ۱۰۔ ۱۳۶- ایضاً، ص ۱۰۵۔ ۱۳۷- اقبال نامہ، حصہ اوّل، ص ۳۴۳۔ ۱۳۸- روایاتِ اقبال، ص ۲۶۔ ۱۳۹- انوارِ اقبال، ص ۷۹۔ ۱۴۰- روایاتِ اقبال، ص ۱۱۔ ۱۴۱- علامہ اقبال اور ان کی پہلی بیوی، ص۲۲-۲۳۔ ۱۴۲- ایضاً، ص ۳۲۔ روایاتِ اقبال، ص ۲۶۔ ۱۴۳- روایاتِ اقبال، ص ۱۶۸۔ ۱۴۴- ایضاً، ص ۱۸۹۔ ۱۴۵- مجلہ انجمن عربی و فارسی، دانشگاہ پنجاب، نومبر ۱۹۶۷ئ، ص ۲۔ ۱۴۶- دی آرڈنٹ پلگرم، ص ۱۴۔ ۱۴۷- اے ہسٹری آف گورنمنٹ کالج، ص ۱۰۵۔ ۱۴۸- ایضاً، ص ۱۰۵۔ ۱۴۶- ایضاً، ص ۹۳۔ ۱۵۰- ایضاً، ص ۸۶۔ ۱۵۱- ایضاً، ص ۸۸۔ ۱۵۲- ایضاً، ص۹۴۔ ۱۵۳- ایضاً، ص ۸۸۔ ۱۵۴- ایضاً، ص۸۹۔ ۵۵ا- ایضاً ، ص ۱۰۳۔ ۵۶ا- ایضاً، ص ۱۲۱-۱۲۲۔ ۱۵۷- ایضاً، ص ۱۲۲۔ ۱۵۸- ایضاً، ص ۱۲۲۔ ۱۵۹- ایضاً، ص ۸۲۔ ۱۶۰- ایضاً، ص ۸۶۔ ۱۶۱- کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ، ص ۳۱۵-۳۱۶۔ ۱۶۲- ایضاً، ص ۳۱۹-۳۲۰۔ ۱۶۳- مطالعۂ اقبال، ص ۴۸۔ ۱۶۴- اے ہسٹری آف گورنمنٹ کالج، ص۹۵-۹۶۔ ۱۶۵- علم الاقتصاد، ص ۲۶۔ ۱۶۶- کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ، ص ۳۱۴۔ ۱۶۷- تاریخ یونی ورسٹی اورینٹل کالج، لاہور، ص ۱۳۳۔ ۱۶۸- ادبی دنیا، کشمیر نمبر، ۱۹۶۶ء ، ص ۴۸۰- ۴۸۱۔ ۱۶۹- اے ہسٹری آف گورنمنٹ کالج، ص ۹۸۔ ۱۷۰- لٹرز فرام انڈیا، ص ۲۳۱۔ ۱۷۱- اے ہسٹری آف گورنمنٹ کالج، ص ۹۰-۹۱۔ ۱۷۲- ایضاً، ۱۱۰۔ ۱۷۳- بانگِ درا، (دیباچہ)، صفحہ ح۔ ۱۷۴- سفر نامۂ مصر و روم و شام، ص ۳۱-۳۲۔ ۱۷۵- مجلہ اقبال (شمارئہ انگریزی)، جنوری ۱۹۶۸ء ، ص ۵۹۔ ۱۷۶- ایضاً، ص ۶۰۔ ۱۷۷- ایضاً، ص ۶۱۔ ۱۷۸- ایضاً، ص ۶۳۔ ۱۷۹- ایضاً، ص ۶۴۔ ۱۸۰- کلیاتِ نظمِ حالی، حصہ اوّل ، ص ۳۰۸-۲۰۹۔ ۱۸۱- ایضاً، ص ۲۱۔۱۱۔ ۱۸۱ ب- ذکر عبدالحق، ص ۳۲-۳۳۔ ۱۸۲- مجلہ اَقبال (شمارئہ انگریزی) جنوری ۱۹۶۸ء ، ص ۶۱۔ ۱۸۳- نقوش، جنوری ۱۹۷۶ئ، ص ۳۰۔ ۱۸۴- ستارۂ صبح، یکم دسمبر ۱۹۱۶ء ، ص ۲۰۔ ۱۸۵- اقبال، جنوری ۱۹۶۸ئ، ص ۶۱-۶۲۔ ۱۸۶- ایضاً، ص ۶۲۔ ۱۸۶ب- مجلہ اردو، کراچی، شمارہ ۳، ۱۹۶۹ئ، ص ۴۳-۴۴۔ ۱۸۷- انوارِ اقبال،ص ۸۰۔ ۱۸۸- باقیاتِ اقبال، ص ۳۳۲۔ ۱۸۹- اے ہسٹری آف گورنمنٹ کالج، ص۱۰۸۔ ۱۹۰- مطالعۂ اقبال، ص ۲۲۔ ۱۹۱- روایاتِ اقبال، ص ۳۴-۳۵۔ ۱۹۲- مطالعۂ اقبال، ص ۱۳۔ ۱۹۳- ایضاً، ص ۲۲۔ ۱۹۴- اے ہسٹری آف گورنمنٹ کالج، ص ۱۰۳۔ ۱۹۵- ایضاً، ص ۱۰۰۔ ۱۹۶- خوں بہا، ص ۱۹۹۔ ۱۹۷- ایضاً،ص ۱۹۵۔ ۱۹۸- ایضاً، ص ۱۹۶-۱۹۸۔ ۱۹۹- باقیاتِ اقبال، ص ۳۸۲-۳۸۳۔ ۲۰۰- نیرنگِ خیال، اقبال نمبر، ۱۹۳۲ئ، ص۳۱۔ ۲۰۱- سیرتِ اقبال، ص ۱۴۶۔ ۲۰۲- بانگِ درا (دیباچہ)، صفحہ ط۔ ۲۰۳- باقیاتِ اقبال، ص ۳۸۷-۳۸۸۔ ۲۰۴- ایضاً،ص ۳۸۶۔ ۲۰۵- خوں بہا، ص ۱۹۷۔ ۲۰۶- آئینۂ اقبال، ص ۲۳۳۔ ۲۰۷- سرگذشت، ص ۹۵۔ ۲۰۸- خوں بہا، ص ۱۹۵۔ ۲۰۹- مطالعۂ اقبال، ص ۲۴۔ ۲۱۰- حیاتِ اقبال، ص ۸۰۔ ۲۱۱- مطالعۂ اقبال، ص ۱۹۔ ۲۱۲- ایضاً، ص ۲۱۔ ۲۱۳- ایضاً، ص ۲۵۔ ۲۱۴- ایضاً، ص۲۲۔ ۲۱۵- ایضاً، ص ۲۴۔ ۲۱۶- اقبال نامہ، حصہ اوّل،ص ۳-۴۔ ۲۱۷- مطالعۂ اقبال، ص۲۲-۲۳۔ ۲۱۸- ایضاً، ص ۲۵۔ ۲۱۹- ایضاً، ص ۲۶۔ ۲۲۰- مقالاتِ اقبال، ص ۱۶۱۔ ۲۲۱- دی پوئیٹ آف دی ایسٹ، ص ۸۔ ۲۲۲- بانگِ درا، ص ۵۱۔ لیکن یہ سنا اپنے مریدوں سے ہے میں نے بے داغ ہے مانندِ سحر اس کی جوانی ۲۲۳- ایضاً (دیباچہ)، صفحہ د۔ ۲۲۴- ہمایوں، اپریل ۱۹۰۳ء ص ۳۱۴۔ ۲۲۵- صحیفہ ، اقبال نمبر، (حصہ اوّل) ۱۹۷۷ء ، ص ۳۰۷۔ ۲۲۶- انوارِ اقبال، ص ۸۳۔ ۲۲۷- صحیفہ، اقبال نمبر،۱۹۷۷ء ، ص ۳۰۷۔ ۲۲۸- باقیاتِ اقبال، ص ۳۷۸ تا ۳۸۳۔ ۲۲۹- انوارِ اقبال، ص ۳۱۳۔ ۲۳۰- روزگارِ فقیر، جلد دوم، ص ۳۰۰-۳۰۱۔ ۲۳۱- باقیاتِ اقبال، ص ۳۷۹ تا ۳۸۲۔ ۲۳۲- مطالعۂ اقبال، ص ۲۱۔ ۲۳۳- روزگارِ فقیر، جلد دوم، ص ۲۵۰ تا ۲۵۳۔ ۲۳۴- تنقیدی مضامین، ص ۱۸۷۔ ۲۳۵- ایضاً، ص ۱۸۹۔ ۲۳۶- ایضاً، ص ۱۸۷۔ ۲۳۷- خم خانۂ جاوید، جلد اوّل، ص ۳۷۰۔ ۲۳۸- مجلہ اقبال، اکتوبر ۱۹۵۴ء ، ص ۳۳۔ ۲۳۹- باقیاتِ اقبال، ص ۳۸۳ تا ۳۹۱۔ ۲۴۰- روزگارِ فقیر، جلد دوم، ص ۲۷۱، ۲۷۳، ۲۷۵، ۲۷۹۔ ۲۴۱- ایضاً، ص ۲۴۶، ۲۶۰۔ ۲۴۲- اقبال، ص ۱۔ ۲۴۳- باقیاتِ اقبال، ص ۳۸۸ تا ۳۹۱۔ ۲۴۴- ایضاً، ص ۳۸۳ تا ۳۸۶۔ ۲۴۵- ایضاً، ص ۳۹۵- ۳۹۶۔ ۲۴۶- روزگارِ فقیر،جلد دوم، ص ۲۹۲-۲۹۳۔ ۲۴۷- باقیاتِ اقبال، ص ۴۳۸۔ ۲۴۸- ایضاً، ص ۲۴۲۔ ۲۴۹- ایضاً، ۱۵۰۔ ۲۵۰- بانگِ درا، ص ۲۴۲۔ ۲۵۱- صنم خانۂ عشق ، صفحات(علی ترتیب)، ص ۴۷،۵۲، ۵۵، ۱۲۲، ۱۹۱، ۲۱۸۔ ۲۵۲- باقیاتِ اقبال، ص ۴۰۳۔ ۲۵۳- صنم خانۂ عشق، ص ۲۰۸۔ ۲۵۴- بانگِ درا، ص ۴۸۔ ۲۵۵- باقیاتِ اقبال، ص، ۴۰۶۔ ۲۵۶- صنم خانۂ عشق، ص ۲۰۸۔ ۲۵۷- ایضاً، صفحات (علی ترتیب)،ص ۱۲۰، ۱۲۳، ۱۲۶، ۱۳۱، ۱۳۸۔ ۲۵۸- اودھ پنچ، نمبر ۳۲، اگست۱۸۹۸ء ،بحوالہ اردو نامہ، کراچی،جولائی ۱۹۷۳ئ، ص ۹۷۔ ۲۵۹- باقیاتِ اقبال، ص ۳۳۶۔ ۲۶۰- معاصرین، اقبال کی نظر میں، ص ۲۴۰۔ ۲۶۱- شعرِ اقبال، ص ۱۲۰۔ ۲۶۲- اقبال نامہ، حصہ اوّل، ص ۲۳۔ ۲۶۳- اقبال کا نفسیاتی مطالعہ، ص ۱۹۰۔ ۲۶۴- باقیاتِ اقبال ،ص۴۲۳-۲۲۴۔ ۲۶۵- ایضاً، ص ۲۷ تا ۳۱۔ ۲۶۶- مجلہ اردو ، شمارہ ۳، ۱۹۶۹ء ص ۳۹۔ ۲۶۷- روایاتِ اقبال، ص ۴۲، ذکرِ اقبال، ص ۱۹۔ ۲۶۸- باقیاتِ اقبال، ص ۴۷۹۔ /// باب دوم متنوّع رجحانات میں شخصیّت کی اکائی (جستجو و آرزو، تفکّر و تخلیق) (۱۸۹۹ء -۱۹۰۵ئ) ززز فصل اوّل ذہنی پس منظر (علمی و ادبی ماحول، مشاغل، رجحانات، شخصیت) میکلوڈ عربک ریڈر شپ اور تدریسی و تحقیقی مشاغل ۱۸۹۹ء میں اقبال گورنمنٹ کالج سے فارغ التحصیل ہو کر نکلے تو کچھ ایسے حالات پیش آئے کہ انھیں پروفیسر آرنلڈ کی رفاقت کی سعادت مزید پانچ سال کے لیے پھر میسر آگئی۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے : اورینٹل کالج کے پرنسپل، ڈاکٹر ایم۔ اے۔ سٹائن، ۲۸؍اپریل ۱۸۹۹ء کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہو کر مدرسۂ عالیہ کلکتہ میں بطور پرنسپل چلے گئے اور ان کی جگہ پروفیسر آرنلڈ، اپنے اصل منصب (پروفیسر شعبۂ فلسفہ، گورنمنٹ کالج) کے فرائض کے ساتھ ، قائم مقام پرنسپل مقرر ہوئے۔۱؎ انھی دنوں اورینٹل کالج میں میکلوڈ عربک ریڈر (ریسرچ فیلو شپ)کی ایک اسامی خالی ہوئی تھی جس کے لیے اقبال نے درخواست دی۔ اس فیلو شپ کے استحقاق کے لیے امیدوار کا بی۔اے کے امتحان میں عربی میں امتیاز حاصل کرنا کافی تھا۔ اقبال، ایم۔اے (فلسفہ) پاس کر چکے تھے اور نہ صرف بی۔اے میں بلکہ انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں بھی عربی کے مضمون میں یونی ورسٹی بھر میں اوّل آئے تھے۔ چنانچہ میکلوڈ عربک ریڈر کے فرائض کی نوعیت اور اقبال کی اہلیت کے پیش نظر، پنجاب یونی ورسٹی سنڈیکیٹ کی مقرر کردہ سب کمیٹی نے ۵؍مئی ۱۸۹۹ء کو متفقہ طور پر اقبال کے تقرر کی سفارش کی اور سنڈیکیٹ نے ۲۳؍ جون کے اجلاس میں اس تقرر کی منظوری دے دی۔ سنڈیکیٹ کی روداد میں اقبال کے استحقاق کے ثبوت میں ان تمام امور کی وضاحت کی گئی ہے۔ کالج کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، کمیٹی کی سفارش کی بنا پر ، اقبال کا تقرر ۱۳؍مئی ۱۸۹۹ء کو (مشروط طور پر) ہو چکا تھا۔ اگرچہ وہ اپنے تقرر کی تاریخ (۱۳؍مئی ۱۸۹۹ئ) سے ۳۱؍مارچ ۱۹۰۴ء تک میکلوڈ عربک ریڈر کی حیثیت سے اورینٹل کالج سے وابستہ رہے، لیکن چار سال دس ماہ اٹھارہ دن کے عرصے میں عملاً سوا دو یا ڈھائی سال تک انھوں نے اس منصب کے فرائض انجام دیے۔۲؎ اس دوران میں انھوں نے پہلی مرتبہ جنوری ۱۹۰۱ء میں بلاتنخواہ رخصت لی۔ کالج کی سالانہ رپورٹ اور سنڈیکیٹ کی روداد میں رخصت کی مدت اور مقصد متعین نہیں۔ لیکن قرائن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ ۴؍جنوری ۱۹۰۱ء سے اوائل مارچ ۱۹۰۲ء تک گورنمنٹ کالج میں قائم مقام اسسٹنٹ پروفیسر انگریزی کی حیثیت سے تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔۳؎ دوسری مرتبہ پھر رخصت بلا تنخواہ لے کر ۱۸؍اکتوبر ۱۹۰۲ء سے ۳۱؍مارچ ۱۹۰۳ء تک گورنمنٹ کالج میں انگریزی کے قائم مقام ایڈیشنل پروفیسر کی حیثیت سے کام کرتے رہے اور یکم اپریل ۱۹۰۳ء کو اورینٹل کالج واپس آ گئے۔۴؎ تیسری اور آخری مرتبہ وہ رخصت بلا تنخواہ لے کر ۳؍جون ۱۹۰۳ء کو گورنمنٹ کالج میں عارضی اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے آگئے۔ اگرچہ اس رخصت کے بہانے میکلوڈ عربک ریڈر کے منصب سے ان کا تعلق ۳۱؍مارچ ۱۹۰۴ء تک قائم رہا، لیکن وہ ۳۱؍مئی ۱۹۰۳ء کے بعد پھر اس منصب پر واپس نہیں آئے۔ گویا ۳؍جون ۱۹۰۳ء سے اپنی روانگیِ انگلستان (یکم اکتوبر ۱۹۰۵ئ) تک وہ گورنمنٹ کالج میں شعبۂ فلسفہ میں اسسٹنٹ پروفیسر کے منصب پر فائز رہے۔ میکلوڈ عربک ریڈر شپ کے زمانے میں اقبال نے اسلامیہ کالج لاہور میں بھی اپنے دوست شیخ عبدالقادر (ایڈیٹر آبزرور اور اعزازی پروفیسر انگریزی) کی عدم موجودگی میں تدریسی خدمات انجام دی تھیں۔ لیکن یہ مسئلہ متنازعہ فیہ ہے کہ وہ کب اور کتنے عرصے تک وہاں رہے۔ ڈاکٹر وحید قریشی نے اپنے مقالے’’علامہ اقبال اور اسلامیہ کالج‘‘ میں خلیفہ شجاع الدین مرحوم کی ایک تحریر کا اقتباس درج کیا ہے ، جس سے یہ پتہ چلتاہے کہ جن دنوں خلیفہ صاحب اسلامیہ کالج میں ایف۔ اے کے طالب علم تھے تو ایک مرتبہ شیخ عبدالقادر کو رخصت لینی پڑی اور ان کی جگہ اقبال پڑھانے آتے رہے۔۶؎ تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شیخ عبدالقادر کی مختصر رخصت کے زمانے میں اقبال کی تدریسی خدمات کی قلیل مدت دسمبر۱۹۰۲ء اور اوایل ۱۹۰۳ء کے درمیان کبھی ہو سکتی ہے۔۷؎ انجمن حمایت اسلام سے اقبال کے گہرے روابط کی بنا پر یہ امر بھی قرین قیاس ہے کہ انھوں نے اسلامیہ کالج میں اپنے دوست کی طرح اعزازی طور پر (بلا معاوضہ) یہ خدمت انجام دی ہو گی۔ اورینٹل کالج سے اقبال کی وابستگی کے دوران میں پروفیسر آرنلڈ دو مرتبہ اپنے اصل فرائض کے ساتھ، اس کالج کے عارضی پرنسپل مقرر ہوئے۔ پہلی مرتبہ۲۸؍اپریل ۱۸۹۹ء سے ۲۴؍نومبر ۱۸۹۹ء تک اور دوسری مرتبہ اورینٹل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر اے۔ڈبلیو۔سٹراٹن (۱۸۹۹ء - ۱۹۰۲ئ)کی ناگہانی وفات (۲۲؍اگست ۱۹۰۲ئ) کے بعد سے ۱۹؍اپریل ۱۹۰۳ء کو پروفیسر اے۔ سی۔ وولنر کے مستقل پرنسپل کی حیثیت سے آنے تک قائم مقام پرنسپل کے فرائض انجام دیے۔۸؎ جس طرح اورینٹل کالج میں اقبال کی ملازمت کا آغازپروفیسر آرنلڈ کی سرپرستی میں ہوا، اسی طرح گورنمنٹ کالج میں عارضی ملازمتوں پر ان کا تقرر بھی غالباً آرنلڈ ہی کی تجویز و تحریک کا نتیجہ تھا، تا کہ وہ ان مواقع سے فائدہ اٹھا کر آئندہ گورنمنٹ کالج میں مستقل ملازمت کے لیے اپنا تدریسی تجربہ اور استحقاق بڑھا سکیں۔ بالآخر پروفیسر آرنلڈ نے یہاں سے مستعفی ہو کر انگلستان جانے سے پہلے، انھیں شعبۂ فلسفہ میں مستقل طور پر بلا لیا۔ بہرحال اقبال کے بار بار ادھر سے اُدھر منتقل ہونے سے استاد اور شاگرد کی باہمی رفاقتوں اور علمی صحبتوںکے تسلسل میںکوئی فرق نہیں پڑتا تھا، کیونکہ گورنمنٹ کالج کی عمارت اُس زمانے میں مشرق و مغرب کے سنگم کا منظر پیش کر رہی تھی اور یہ دونوں کالج اسی عمارت کے مشرقی و مغربی حصوں میں موجود تھے۔ چنانچہ اقبال کے میکلوڈ عربک ریڈر منتخب ہونے کے بعد سے ان کی ذہنی تربیت کا جو نیا دور شروع ہوا تو لگ بھگ پانچ سال تک برابر جاری رہا۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس مخصوص ذہنی تربیت کے لیے آرنلڈ کی رہنمائی جتنی مفید ثابت ہوئی، اتنا ہی اورینٹل کالج کا مخصوص ماحول بھی سازگار رہا۔ اسی ماحول کے اثر سے ان کے اندر نئے علوم کے اکتساب اور تحقیق کا ذوق پیدا ہوا اور ان کا ذہن تمام امور میں تحقیق کا خوگر ہو گیا۔ زندگی کے ٹھوس مسائل جس ’’ترجمانِ حقیقت‘‘ شاعر کے فکر و تخیل کی جولان گاہ بننے والے تھے، اس کی طبعِ آزاد کا تحقیق کے شکنجے میں کساجانا ضروری تھا۔ بیسویں صدی کے اوائل میں اورینٹل کالج اس پورے برعظیم میں اپنی نوعیت کا واحد ادارہ تھا، جہاں علوم و السنۂ شرقیہ کی اعلیٰ ترین جماعتوں تک تدریس کے ساتھ ترجمہ و تالیف اور تدوین و تحقیق کا کام بھی اعلیٰ معیار کے مطابق ہوتا تھا۔ یہ ادارہ دراصل شمالی ہند میں مشرقی علوم کے احیاء اور ایک جدید طرز کی اورینٹل یونی ورسٹی کی تشکیل و تعمیر کی اس عظیم تحریک کی یاد گار تھا، جو کلکتہ یونی ورسٹی کے سطحی معیار اور لارڈ میکالے کے مجوزہ کلرک ساز نظامِ تعلیم کے خلاف، ڈاکٹر لائٹنر جیسے وسیع النظر مستشرق و صاحبِ بصیرت ماہر تعلیم کی قیادت میں، انجمن پنجاب کے قیام (۲۱؍جنوری ۱۸۶۵ئ) کے ساتھ شروع ہوئی تھی اور جسے پنجاب کے والیانِ ریاست نیز عوام و خواص کی پُر جوش تائید حاصل تھی۔ اگرچہ میکالے کے مریدوں کی سازش اور مرکزی حکومت کی مخالفت کی بنا پر ’’بیت العلوم‘‘(اورینٹل یونی ورسٹی) کے قیام کی تجویز تشنۂ تکمیل رہ گئی، لیکن انجمن پنجاب کی مساعی سے ، علوم و السنۂ مشرقیہ کا جو ابتدائی ادارہ (اورینٹل سکول) ۱۸۶۵ء میں قائم ہوا تھا، اسے ۱۸۷۲ء میں یونی ورسٹی اورینٹل کالج کے نام سے موسوم کیا گیا اور ڈاکٹر لائٹنر (جو گورنمنٹ کالج کے پہلے پرنسپل تھے اور بعد میں پنجاب یونی ورسٹی کے پہلے رجسٹرار بھی ہوئے) اس کالج کے پرنسپل مقررئے۔ ابتدائی دور میں یہاں السنۂ مشرقی کے علاوہ دیگر علوم و فنون (مثلاً طب یونانی، آیور ویدک، انجینئرنگ اور قانون وغیرہ) کی تعلیم بھی دیسی زبان میں دی جاتی تھی۔ ۱۸۸۲ء ِمیں جب پنجاب یونی ورسٹی کا قیام عمل میں آیا تو ’’اورینٹل کالج، نئی پنجاب یونی ورسٹی کا اپنا واحد تعلیمی ادارہ تھا جہاں ڈگری کے درجوں کی تعلیم کا بندوبست تھا۔ گویا یہ ادارہ یونی ورسٹی کی اساس و بنیاد تھا۔‘‘۱۰؎ لیکن ۱۸۸۶ء میں ڈاکٹر لائٹنر کے رخصت ہونے کے بعد کالج کے مخالفین کی سازشیں کامیاب ہو گئیں اور ۱۸۸۸ء کے بعد علوم و فنون کی جماعتیں بند ہو گئیں۔ بہرحال اب بھی اورینٹل کالج مشرقی السنہ کی تدریس و تحقیق کا ایسا مرکز تھا ’’جہاں دورِ جدید کے تقاضوں کی روشنی میں مشرقی و مغربی افکار کے عمومی مطالعے کے ساتھ ساتھ مشرقی زبانوں کے علمی ، ادبی، لسانی اور صوتی پہلوئوں کو زیادہ اہمیت‘‘۱۱؎ دی جاتی تھی۔ مشرقی السنہ و ادبیات کے مطالعے اور تدریس کے سلسلے میں ڈاکٹر لائٹنر نے مقامی اساتذہ پر لسانی تحقیق اور تاریخی و معاشرتی پس منظر کی اہمیت واضح کی اور اسی مقصد کے پیش نظر انھوں نے مولانا محمد حسین آزاد، مولوی کریم الدین اور مولوی فیض الحسن سیوہاروی کے تعاون سے دو جلدوں میں‘‘ سنین اسلام (۱۸۷۱ئ- ۱۸۷۶ئ) مرتّب کی۔۱۲؎ وہ کالج کے ریسرچ فیلو‘‘ اور اساتذہ کے تحقیقی و تصنیفی کاموں پر بھی کڑی نظر رکھتے تھے۔ مختصر یہ کہ اکثر لائٹنر کی رہنمائی اور مولوی فیض الحسن جیسے یگانۂ روزگار عالم و استاد کی علمی فیض گستری کی بدولت ابتدائی دور ہی میں یہاں نہ صرف درس و تدریس کا معیار بلند ہوا بلکہ تاریخی اور متنی تحقیق اور تدوین و تالیف کی بھی ایک ایسی مستحکم روایت قائم ہو گئی کہ آگے چل کر یعنی ۱۹۱۹ء کے بعد (چوتھے دور میں)اسی بنیاد پر کالج کے معلموں اور محققوں نے ایک عظیم عمارت تعمیر کر کے تمام علمی دنیا میں اس کا وقار بلند کیا۔ لیکن اس دور میںبھی تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رہا، بالخصوص مغربی مستشرقین کی قیادت میں سنسکرت کا شعبہ تحقیقی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ اقبال کے معاصر پرنسپل ڈاکٹر سٹراٹن کی توضیح و تفصیل کے مطابق اورینٹل کالج کے تدریسی نظام کے چار پہلو تھے:(۱) کالج میں سنسکرت، عربی اور فارسی زبانوں کے شش سالہ نصابِ تعلیم کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔ تینوں زبانوں میں دو سالہ کورس کے تین درجات تھے یعنی سنسکرت میں پراگنا، وشارد اور شاستری، عربی میں مولوی، مولوی عالم، مولوی فاضل اور فارسی میں منشی عالم، منشی فاضل۔ طلبہ کی اکثریت انھی جماعتوں سے متعلق تھی۔ یہ سلسلۂ اسناد و امتحانات ملک بھرمیں اتنا مقبول ہوا کہ مشرق میں بنارس اور جنوب میں حیدر آباد (دکن)تک ان امتحانات کے ۱۲؍مراکز قائم تھے۔ (۲) بی۔او۔ایل (Bachelor of Oriental Learning) کا ڈگری کورس جو آرٹس کے دیگر مضامین میں بی۔ اے کے مساوی تھا لیکن اس فرق کے ساتھ کہ بی۔او۔ایل میں سنسکرت، عربی ، فارسی کا نصاب وسیع تر اور انگریزی کا مضمون اختیاری تھا۔ نیز یہ کہ دیگر مضامین کی تعلیم اردو میں دی جاتی تھی۔ (۳) سنسکرت اور عربی میں ایم۔اے کی تعلیم (۴)گورنمنٹ کالج کے ایف۔اے اور بی۔اے کی جماعتوں کو عربی، فارسی اور سنسکرت کی تدریس۔۱۳؎ لیکن کالج کی سالانہ رپورٹ (بابت ۱۹۰۰ء - ۱۸۹۹ئ) میں مختلف جماعتوں کا جو نظام الاوقات درج ہے، اس میں مندرجہ بالا جماعتوں کے علاوہ ایم۔او۔ایل (عربی)، انٹرمیڈیٹ (سالِ اوّل و دوم) انٹرنس اردو (سالِ اوّل و دوم) پنجابی میں گیانی، وِدوان،دھیمن ( دو دو سال کا کورس) علاوہ بریں مختلف درجوں کی چھ انگریزی جماعتیں - اس طرح کل ۴۲ جماعتوں کی تدریس کا ذکر ہے۔۱۴؎ اورینٹل یونی ورسٹی کی تحریک کے سلسلے میں پنجاب کے رئوسا اور والیانِ ریاست نے جو فراخ دلانہ عطیات دیے تھے، ان سے اورینٹل کالج میں ریسرچ فیلو شپ کے مختلف وظائف جاری کیے گئے تھے؛ مثلاً میکلوڈ پنجاب عربک فیلوشپ، میکلوڈ کشمیر سنسکرت فیلو شپ، پٹیالہ ٹرانسلیٹر فیلو شپ، میکلوڈ کپور تھلہ فیلوشپ، میو پٹیالہ فیلوشپ وغیرہ۔ چنانچہ کالج میں نوجوان ریسرچ فیلوز (جنھیں پنجاب یونی ورسٹی کے قیام (۱۸۸۲ئ) کے بعد ریڈر کہا جاتا تھا)۱۵؎ کی ایک جماعت مختلف شعبوں میں ترجمہ، تالیف و تحقیق کے کام اور طباعت کے اہتمام کے علاوہ تدریس کے فرائض بھی انجام دیتی تھی۔ میکلوڈ پنجاب عربک ریڈر کی تنخواہ (یا وظیفہ) قریباً تہتر (۷۳) روپے ماہوار تھی جو اس زمانے کی ارزانی کے پیش نظر ایک لیکچرر کی موجودہ تنخواہ سے زیادہ قدر و قیمت رکھتی تھی۔ عربک ریڈر کی حیثیت سے اقبال کے فرائض یہ تھے: کالج کی عربی تالیفات کی طباعت کا اہتمام۔ (۲) علوم و فنون کی عربی یا انگریزی کتابوں کا ترجمہ۔ (۳) کالج کی تدریس میں حصہ لینا۔ اورینٹل کالج میں اقبال کے تدریسی کام کی نوعیت کا اندازہ اس نظام الاوقات سے ہو گا جو کالج کی شماریاتی رپورٹ (بابت تعلیمی سال ۱۹۰۰ء -۱۸۹۹ئ) کے مختلف مقالوں میں منقول ہے: جماعت ہفتہ وار پیریڈ مضمون نصاب (۱) بی۔ او۔ ایل ۶ تاریخ و اقتصادیات 1. Seeley's Expansion of England سالِ اوّل و دوم 2. Notes on English and Indian History 3. Faweett's Political Economy (۲) انٹرمیڈیٹ سال دوم ۶ (الف) نفسیات 1. Ladd's Primer of Paychology (ب) منطق 2. Ray's Deductive Logic (Revised) (۳) انٹرمیڈیٹ سال اوّل ۶ منطق 1. Ray's Deductive Logic (Pages 1-100 کالج کی سالانہ رودادوں کے حوالے سے اقبال کے تحقیقی و تصنیفی کام کی تفصیلات یوں بیان کی گئی ہیں: (۱) تحقیقی مقالہ: The Doctrine of the Absolute Unity as Expounded by Abdul Karim Al-Jili (یہ مقالہ سب سے پہلے indian Antiquary بمبئی، بابت ماہ ستمبر ۱۹۰۰ء میں اور دوبارہ سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور، مورخہ ۲۱ ؍اپریل۱۹۶۰ء میں شائع ہوا) (۲) ملخص ترجمہ : Stubb's Early Plantagenets (۳) ملخص ترجمہ: Walker's Political Economy (۴) تالیف : اقتصادیات کے موضوع پر ایک زیر ترتیب کتاب۔ (یہ کتاب علم الاقتصاد کے نام سے ۱۹۰۴ء میں بمقام لاہور اور دوبارہ اقبال اکیڈمی، کراچی کے زیر اہتمام ۱۹۶۲ء میں شائع ہوئی)۔ (۵) ’’سنڈیکیٹ کی رودادوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نے ۱۹۰۳ء میں Ladd کی درسی کتاب Primer of Psychology کے اردو ترجمے پر نظر ثانی کی۔ ۔۔ یہ کام اکتوبر ۱۹۰۳ء تک مکمل ہو گیا تھا۔‘‘۱۶؎ ویدانتی رجحان اور اس کا پس منظر میکلوڈ عربک ریڈر کی حیثیت سے اقبال کا تعلق شعبۂ عربی سے تھا لیکن اس دور میں بعض وجوہ سے شعبۂ سنسکرت کے عروج و ترقی کی رفتار، عر بی و فارسی کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی اور کالج کی جن شخصیتوں سے اقبال اس حد تک متاثر ہوئے کہ سنسکرت زبان سیکھی اور ہندو فلسفے کا مطالعہ کیا، وہ بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ اسی شعبے سے وابستہ تھیں۔ اس غیر متوقع صورتِ حال کی وضاحت کے لیے ہمیں ان شعبوں کا ایک عمومی جائزہ لینا پڑے گا۔ جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے، اورینٹل کالج کی تاریخ کے ابتدائی دور میں ڈاکٹر لائٹنر جیسے فاضل مستشرق کی رہنمائی میں تاریخی، لسانی اور ادبی تحقیق، نیز تدوین و تالیف کا جو معیار قائم ہوا تھا وہ مولانا فیض الحسن سیوہاروی اور مولانا محمد حسین آزاد کے جانشینوں کے دور میں باقی نہ رہا۔ اگرچہ ۱۹۰۳ء میں ان دونوں شعبوں (عربی و فارسی) کے صدر، شمس العلماء بن کر چمکے۔۱۷؎ (اور ایک ہی مطلعِ علم سے بیک وقت دوآفتابوں کا طلوع ہونا ضروری تھا، ورنہ دلوں کی کدورت اور باہمی رقابت کی تیرگی قیامت ڈھا دیتی) لیکن علمی تحقیق کے میدان میں شمس العلماہ مولانا عبدالحکیم کلانوری (صدر شعبۂ فارسی) اور شمس العلماء مفتی محمد عبداللہ ٹونکی اور ان کے رفقا کی بیش تر کاوشیں، درسیات یعنی شرحوں ، خلاصوں اور ترجموں تک محدود تھیں۔ غالباًاس کا سبب کچھ نظریاتی اور کچھ ذاتی اختلافات کا وہ غیر مختتم سلسلہ تھا جو بدقسمتی سے ابتدائی دور ہی میں شروع ہو چکا۔/ لیکن دوسرے دور میں عربی و فارسی / یہاں دیگر تفصیلات سے قطع نظر کرتے ہوئے اُس دور کے بزرگ ترین اُستادِ عربی، مولانافیض الحسن سہارن پوری (۱۸۱۵ء - ۱۸۸۷ئ) سے متعلق ایک واقعہ درج کیا جاتا ہے؛ مولانا کی علمی فضیلت اور بالخصوص معقولات و عربی ادبیات میں ان کی استادانہ عظمت و شہرت مسلّم ہے ، لیکن مختلف واقعات شاہد ہیں کہ ان کے مزاج میں تیزی و تندی بہت تھی۔ وہ محمد حسین آزاد کو ان کے زمانۂ طالب علمی (دہلی) سے جانتے تھے لیکن جب لاہور میں آزاد کی ادبی صلاحیتیںچمکیں تو ان سے حریفانہ چشمک کا آغاز ہوا۔ انجمن پنجاب کے مشاعروں میں ’’آزاد سے ان کی اکثر نوک جھونک رہتی تھی‘‘۔ (نقوش، نمبر۸۸، مئی ۱۹۶۱ئ)۔ ۱۸۸۴ء میں جب مولانا آزاد، بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر عربی، گورنمنٹ کالج سے اورینٹل کالج میں منتقل ہو گئے تو رقابت کی آگ بھڑک اٹھی۔ ایک مشہور و معتبر روایت کے مطابق، آزاد جب کبھی مولوی صاحب کے کمرے کے سامنے سے گزرتے تو مولوی صاحب ’’آخ تھو‘‘ کی صدا بلند کرتے۔ ایک دن مولانا آزاد ادھر سے گزرتے وقت لمحے بھر کے لیے ٹھہر گئے اور ’’آخ تھو‘‘ کے جواب میں بڑی آہستگی سے فرمایا: ’’ارے ، میں تھوکتا بھی نہیں‘‘۔ اس فقرے پر مولوی صاحب اتنے خفیف ہوئے کہ چھیڑ چھاڑ کا یہ سلسلہ بند ہو گیا۔ کے شعبے حریفانہ مجادلوں کا اکھاڑا بن گئے۔ کالج کے نئے پرنسپل ڈاکٹر سٹراٹن (۱۸۹۹ئ-۱۹۰۲ئ) کے لیے مولویوں اور منشیوں کی باہمی آویزشیں مستقل درد سر کا باعث تھیں، جس کی شکایت انھوں نے شدید احساسِ ناگواری کے ساتھ اپنے خطوط میں جابجا کی ہے۔ ایک خط میں اس کشمکش کی وضاحت بھی کی گئی ہے۔ ان کے بیان کے مطابق مسلم اساتذہ دو متحارب زمروں میں بٹے ہوئے تھے۔ قدامت پسند مولویوں کا زمرہ انڈین نیشنل کانگرس کی طرف مائل اور جدت پسندوں کا گروہ علی گڑھ تحریک کا حامی تھا۔ مولانا عبدالحکیم کلانوری (صدر شعبۂ فارسی) کا تعلق اوّل الذکر طبقے سے تھا اور مفتی محمد عبداللہ (صدر شعبۂ عربی) کا دوسری جماعت سے۔۱۸؎ یہ دونوں اپنی عرض داشتوں میں ایک دوسرے کے خلاف شکایتوں کے دفتر کھولتے تھے۔ مسلم اساتذہ کے طرز عمل پر ان کے ایک طویل تبصرے کے چند فقرے یہاں نقل کیے جاتے ہیں: ’’مسلم اساتذہ بالعموم بڑے سیاست باز ہیں… وہ ہر طرح کے حربے استعمال کرتے ہیں… ان کی ہر حرکت کی تہہ میں کوئی نہ کوئی ذاتی مقصد پوشیدہ ہوتا ہے… میں ان کے معاملات میں کسی قسم کی جانبداری روا نہیں رکھتا اور صرف یہ کوشش کرتا ہوں کہ ایک فریق دوسرے کے خلاف ناجائز فائدہ نہ اٹھا سکے‘‘۔۱۹؎ کالج کے مسلم طلبہ بھی فروعی مسائل میں الجھے رہتے تھے۔ کبھی کبھی جدل و پیکار تک نوبت پہنچتی اور پرنسپل کے سامنے مقدمہ پیش ہوتا۔ طلبہ و اساتذہ کے اس رویے پر ایک جگہ سٹراٹن طنزاً لکھتے ہیں: ’’جس شخص نے یہ بات کہی تھی کہ دیکھو یہ عیسائی ایک دوسرے سے کتنی محبت کرتے ہیں، اگر وہ اس کی جگہ ’’یہ مسلمان‘‘ کہتا تو طنز کی شدت دہ چند ہو جاتی۔‘‘۲۰؎ یہ تبصرے اس پرنسپل کے ہیں جس کی شرافت، خلوص و دیانت کے بارے میں معاصرین کی معتبر شہادتیں موجود ہیں۔ مسلموں کی ’’مسلم آزاری‘‘ اور فرقہ آرائی کا یہ منظر اقبال کے لیے یقینااذیت ناک رہا ہو گا، لہٰذا اگر وہ برہمن کی ’’پختہ زناری‘‘ اور’’ مسلم آئینی‘‘کی طرف متوجہ ہوئے تو معذور تھے۔ سنسکرت کے اساتذہ کی باہمی سازگاری اور یک جہتی کا بظاہر ایک سبب تو یہ ہے کہ ڈاکٹر لائٹنر کے بعد ۱۸۸۸ء سے۱۹۳۲ء تک اس شعبے کو ڈاکٹر ایم۔ آر۔سٹائن، ڈاکٹر سٹراٹن اور ڈاکٹر اے۔ سی۔ وولز کی رہنمائی حاصل رہی جو اس کالج کے پرنسپل، یونی ورسٹی کے رجسٹرار اور شعبۂ سنسکرت کے پروفیسر بھی تھے۔ ان فاضل مستشرقین سے براہ راست تعلق کی بدولت اس شعبے میں زیادہ نظم و ضبط اور اساتذہ میں باہم یک جہتی و یک رنگی برقرار رہی۔باوجود یکہ فارسی زبان کی ساکھ اس علاقے میں اب تک قائم تھی اور وہ مسلمانوں کے علاوہ ہندوئوں میں بھی مقبول تھی لیکن بقول ڈاکٹر سٹراٹن، سنسکرت کے شعبے میں داخلوں کا تناسب بڑھ رہا تھا۔۲۱؎ سنسکرت کی اس روز افزوں مقبولیت کا خاص سبب یہ تھا کہ لاہور اس زمانے میں آریہ سماجی سرگرمیوں کا اہم مرکز بنا ہوا تھا اور چونکہ آریہ سماج تحریک کا بنیادی مقصد قدیم آریائی تہذیب کا احیاء تھا لہٰذا سنسکرت زبان، ویدک علوم اور ویدانتی فلسفے کی نشر و اشاعت کی مہم زوروں سے جاری تھی۔ اس احیائی تحریک کے نتیجے میں، گورنمنٹ کالج ہوسٹل کی عمارت سے متصل ، ایک طویل و عریض سلسلۂ عمارات میں دیانند اینگلو ویدک کالج (ڈی۔اے۔وی کالج) بھی قائم ہو چکا تھا۔ لاہور میں آئے دن ویدوں کے ممتاز علماء کے لیکچرز ہوتے تھے۔ بعض اوقات مقامی آریہ سماجی رہنمائوں کے زیرِ اہتمام خاص اجتماعات بھی منعقد ہوتے۔ مثلاً دسمبر ۱۸۹۹ء میں ’’مہاردرایگیہ‘‘ کا عظیم الشان اجتماع ہوا جس میں تمام آریہ ورت کے ویدک علماء شریک ہوئے۔ آریہ سماجیوں اور مقامی پنڈتوں کے مذہبی جوشِ تبلیغ کے باوجود، تحقیق کے میدان میں مغربی مستشرقین ہی پیش پیش رہے۔ سنسکرت زبان و ادب اور اپنشدوں کے تحقیقی مطالعے کا سلسلہ ایک صدی قبل یورپ میں شروع ہو چکا تھا۔ ۱۸۰۱ء میں اپنشد کا لاطینی ترجمہ شائع ہوا جس سے مشہور جرمن فلسفی شوپنہار بے حد متاثر ہوا۔ وہ خود معترف ہے کہ اس کے فلسفے پر اپنشد کا گہرا اثر ہے۔۲۳؎ شوپنہار کے زیر اثر پہلے جرمنی میں اور بعد ازاں یورپ کے دیگر ممالک میں سنسکرت ادب اور بالخصوص اپنشدوں کے مطالعے سے دلچسپی بڑھتی گئی۔ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل تک فرانس اور انگلستان میں میکس ملر کی تحقیقی سرگرمیوں نے احیائے سنسکرت کی تحریک کو بڑی تقویت بہم پہنچائی۔ امریکہ کی بعض یونی ورسٹیوں میں بھی سنسکرت کے شعبے قائم تھے۔ سوامی وویکانند کے تبلیغی دورئہ امریکہ کے بعد، وہاں ہندو فلسفے کا آوازہ اور بلند ہوا۔ وہاں کے ممتاز محققوں میں پروفیسر بلوم فیلڈ، صدر شعبۂ سنسکرت و تقابلی لسانیات، جانز ہاپکنس یونی ورسٹی (بالٹی مور) کا نام خصوصیت سے قابلِ ذکر ہے۔ اورینٹل کالج کے ہر دل عزیز پرنسپل اور اقبال کے ممدوح، ڈاکٹر سٹراٹن اسی امریکی محقق کے تربیت یافتہ تھے۔ ڈاکٹر سٹراٹن نے سنسکرت کے ادبی شاہکاروں اور مذہبی صحیفوں کا وسیع مطالعہ کیا تھا، لیکن بقول مسٹر سٹراٹن، انھیں اُپنشدوں اور ویدانتی فلسفے سے خاص شغف تھا۔ چنانچہ لاہور آنے سے پہلے وہ اپنشدوں کی ایک جامع وضاحتی کتابیات (اشاریہ) مرتّب کرنے کے لیے تحقیقی کام میں مصروف تھے۔۲۴؎ پنجاب یونی ورسٹی کی ملازمت سے ڈاکٹرسٹائن کے مستعفی ہونے کے بعد، جب ان کے جانشین کے انتخاب کا مسئلہ در پیش ہوا تو ڈاکٹر سٹائن کے ایما اور پروفیسر بلوم فیلڈ کی تجویز کے مطابق ڈاکٹر سٹراٹن کو اورینٹل کالج کا پرنسپل اور پنجاب یونی ورسٹی کا رجسٹرار مقرر کیا گیا۔ وسط اکتوبر ۱۸۹۹ء میں سٹراٹن کو اپنے تقرر کی اطلاع سٹاف روم میں موصول ہوئی جہاں وہ اورینٹل کانگریس میں شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے۔۲۵؎ پروفیسر آرنلڈبھی پنجاب یونی ورسٹی کے نمائندے کی حیثیت سے وہاں موجود تھے۔ دونوں شریف النفس اور کشادہ ظرف فضلا متعارف ہوتے ہی ایک دوسرے کے گرویدہ ہو گئے۔ ’’دونوں کے مزاج اور عقائد میں بڑی ہم آہنگی تھی۔‘‘۲۶؎ آرنلڈ نے انھیںتنہا دیکھ کر اپنے مکان میں قیام کرنے کی دعوت دی۔ چنانچہ ڈاکٹر سٹراٹن اپنی آمدِ لاہور (۲۴؍نومبر ۱۸۹۹ئ) کے بعد سے اکتوبر ۱۹۰۰ء تک آرنلڈ کے یہاں (لیک روڈکے بنگلے میں) مقیم رہے۔ جب ان کی منسوبہ مس انابوتھ سمس (Anna Booth Simis) امریکہ سے ۴؍ نومبر۱۹۰۰ء کو بمبئی آ گئیں اور عقد نکاح کے بعد وہ دونوں لاہور آئے، تب انھوں نے ایبٹ روڈ پر ایک بنگلے میں اپنی اقامت کا مستقل انتظام کیا۔۲۷؎ ایک خط میں انھوں نے آرنلڈ کی شخصیت کا تعارف کراتے ہوئے ، ان کے قرب و رفاقت کو اپنی انتہائی خوش نصیبی قرار دیا ہے۔۲۸؎ یہ رفاقت و یکجائی ہی ڈاکٹر سٹراٹن سے اقبال کے قریبی روابط کا باعث ہوئی۔ یوں بھی سٹراٹن کی شخصی عظمتیں اور شرافتیں اقبال جیسے بلند نظر نوجوان کے لیے جاذبِ توجہ تھیں۔ ڈاکٹر سٹراٹن یہاں ایک تعلیمی ادارے کے سربراہ بن کر حاکمانہ شان سے نہیں آئے بلکہ سنسکرت کے مخلص سکالر کی حیثیت سے طالب علمانہ عجز و انکسار کے ساتھ بہت کچھ سیکھنے آئے تھے۔ ان کے دل میں اس سرزمین کی قدیم تاریخ و تہذیب سے عقیدت تھی، اہل ہند کی خدمت کا جذبہ اور اپنے دوگانہ منصب کی ذمہ داریوں کا شدید احساس تھا۔ لہٰذا انھوں نے ہندوستان آنے سے پہلے اٹلی ہی میں ہندوستانی (اردو) زبان سیکھنی شروع کی۔۲۹؎ لاہور پہنچنے کے بعد مولوی محمد شعیب صاحب (نائب مولوی شعبۂ عربی و فارسی، اورینٹل کالج) کی خدمات حاصل کیں اور گرمیوں کی تعطیلات میں بھی انھیں اپنے ساتھ کشمیر لے جاتے تاکہ اردو کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہے۔۳۰؎ چند ماہ میں وہ بے تکلفی سے اردو بولنے لگے۔ سنسکرت کی اعلیٰ ترین جماعت (شاستری) کا ذریعۂ تعلیم سنسکرت زبان تھی۔ چنانچہ انھوں نے مقامی پنڈتوں سے استفادہ کرکے سنسکرت بول چال میں اتنی مشق بہم پہنچائی کہ بہت جلد صحیح سنسکرت میں درس دینے لگے جو ایک غیر ملکی استاد کے لیے بڑی مشکل بات تھی۔۳۱؎ لیکن یہ ساری خوبیاں ان اخلاقی فضائل کے مقابلے میں ہیچ تھیں، جن کی بدولت وہ اپنے جاننے والوں کو گرویدہ بنا لیتے تھے۔ اس دور کے روایتی صاحب بہادروں کے برخلاف یہ معصوم مزاج،نرم دل اور شگفتہ رُو انسان اپنے ماتحتوں اور ادنیٰ ملازموں کے معاملے میں بھی محتاط رہتا تھا کہ اس کی کسی بات سے دوسروں کے جذبات مجروح نہ ہوں۔ یونی ورسٹی کے دفتری عملے کے ایک فعال رکن، سکندر خاں (ہیڈکلرک) کے بقول ’’دیگر حکام اپنے ماتحتوں پر سختی کرتے ہیں لیکن مسٹر سٹراٹن خود اپنی ذات کے لیے سخت تھے۔‘‘۳۲؎ طلبہ کے ذاتی مصائب و مشکلات سے ان کی ہمدردی کا یہ عالم تھا کہ بعض حاجت مندوں نے انھی کے سہارے اپنے تعلیمی مراحل طے کیے۔ ایک ایسے ہی شاگرد کا قول ہے کہ طلبہ انھیں ’’دیوتا‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔۳۳؎ مزید تفصیلات سے قطع نظر کرتے ہوئے، ان کی شخصیت کے بارے میں یہاں اُن کے ایک امریکی دوست کا قول نقل کر دینا کافی ہو گا: ’’روحانی پاکیزگی کا ایسا نورانی مظہر میں نے کبھی نہیں دیکھا!‘‘۳۴؎ ڈاکٹر سٹراٹن کی نازک جسمانی صحت کے لیے یہاں کی آب و ہوا ناسازگار ثابت ہوئی۔ گرمی کا موسم شروع ہوتے ہی وہ مختلف عوارض کا شکار ہو جاتے تھے۔ چنانچہ تعطیلات کا زمانہ وہ کشمیر میں گزارتے تھے، جہاں حسنِ فطرت کے اس شیدائی کو ذوقِ نظر کی تسکین کا سامان بھی میسر آتا اور مطالعہ و تحقیق کے مواقع بھی ملتے تھے۔ لیکن تیسرے سال (۱۹۰۲ئ) کی تعطیل سے پہلے کئی ماہ تک وہ معمول سے زیادہ مصروف رہے۔ گونا گوں فرائض سے عہدہ برآ ہونے کے لیے شب و روز کی ان تھک محنت ان کے حق میں مہلک ثابت ہوئی۔ اپریل سے ان کی طبیعت خراب رہنے لگی۔ جولائی کے وسط میں کشمیر روانہ ہونے سے پہلے وہ جسمانی طور پر بالکل ٹوٹ چکے تھے۔ گلمرگ پہنچتے ہی وہ ایک خاص قسم کے کوہستانی بخار میں مبتلا ہو گئے۔ بالآخر ۲۳؍اگست ۱۹۰۲ء کو علی الصباح وہ جاں بحق ہو گئے اور گلابوں کی وادی (گلمرگ) میں مدفون ہوئے۔ ان کے لوحِ مزار پر پروفیسر بلوم ہیڈ کا منتخب کردہ سنسکرت کا ایک نہایت موزوں شعر کندہ ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے : ’’ دوسروں کو اپنے سایے میں پناہ دینے والے درخت، خود کھڑے ہوئے دھوپ کی تپش جھیلا کرتے ہیں۔ دوسروںکے دامن کو پھلوں سے بھرتے ہیں اور خود تہی دست رہ جاتے ہیں!‘‘۳۵؎ یہ شعر اس جواں مرگ مستشرق کی زندگی اور شخصیت کی صحیح ترجمانی کرتا ہے۔ متعدد ایسے شواہد موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آنجہانی نے اپنے شناسائوں اور خصوصاً نوجوان طلبہ پر گہرا اثر ڈالا اور ان کی شخصیت عرصۂ دراز تک ان کے لیے ایک درخشاں مثال بنی رہی۔ اقبال نے ان کی وفات کے بعد مسز سٹراٹن کے نام تعزیتی خط میں اپنے تاثرات یوں بیان کیے ہیں: ہمارے ذہنوں پر ڈاکٹر سٹراٹن نے اتنے گہرے اثرات چھوڑے ہیں کہ ان کو بھلا دینا ممکن ہی نہیں۔ بلا مبالغہ یہ صرف انھی کی شخصیت کا اثر تھا جس نے ہمیں، اہلِ امریکہ اور ان کے شریفانہ و مخلصانہ کردار کی طرف مائل کیا۔ وہ کناڈا کے باشندے تھے، لیکن ہم انھیں امریکی سمجھتے رہے کیونکہ یہاں لوگ اس فرق کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر سٹراٹن کی شخصیت ہی سے متاثر ہو کر بعض لوگ امریکی یونی ورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ کر رہے ہیں اور ان میں سے ایک میں بھی ہوں۔۳۶؎ مسز سٹراٹن، اقبال کا خط نقل کرنے کے بعد لکھتی ہیں: ’’یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ محمد اقبال نے انگلستان جانے سے قبل امریکی یونی ورسٹیوں میںد اخلے کے شرائط کے بارے میں بذریعہ مراسلت بہت سی باتیں دریافت کیں۔‘‘۳۷؎ سنسکرت زبان اور ویدانتی فلسفے کے سلسلے میں اقبال نے پروفیسر آرنلڈ کی خانگی صحبتوں میں ڈاکٹر سٹراٹن سے جو کچھ بھی استفادہ کیا ہو، اس کے علاوہ بعض امریکی مشاہیرِادب خصوصاً جدید فلسفۂ ماورائیت کے بانی، مشرقیت پسند شاعر و مفکر، ایمرسن سے وہ انھی کی وساطت سے متعارف ہوئے۔ سٹراٹن کے خطوط سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایمرسن ان کا محبوب ترین امریکی مصنف تھا۔ ایمرسن کے حوالے یوں تو اقبال کے بعض مضامین میں بھی موجود ہیں، لیکن اس دور میں اقبال نے ایمرسن کی نظم Good bye کا آزاد ترجمہ : ’’رخصت اے بزمِ جہاں‘‘ کے عنوان سے کیا تھا۔ بچوں کے لیے ایک نظم ’’ایک پہاڑ اور گلہری‘‘ بھی ایمرسن سے ماخوذ ہے۔ غالباً ایمرسن کے مطالعے میں اقبال کے ساتھ ان کے دوست سوامی رام تیرتھ بھی شریک تھے۔ سوامی جی کی تحریروں میں بھی ایمرسن کے اقوال و افکار کے بکثرت حوالے ملتے ہیں۔ اورینٹل کالج سے اس سہ سالہ وابستگی کے زمانے کا ایک اہم اور معنی خیز واقعہ، اقبال اور سوامی رام تیرتھ کی ملاقات و رفاقت ہے۔ سوامی جی بقول ڈاکٹر سٹراٹن ’’نہایت ذہین اور ہر لحاظ سے پُر کشش انسان‘‘،۳۸؎ اقبال کے ہم عمر و ہم مشرب اور صاحبِ حال ویدانتی صوفی تھے۔اگرچہ اورینٹل کالج میں صرف ایک سال تک ان دونوں کا ساتھ رہا لیکن ذہن و مزاج کی ہم آہنگی کی بنا پر یہ مختصر رفاقت پائدار دوستی کی بنیاد بن گئی اور محبت و یگانگت کا یہ رشتہ اس ’’شعلۂ مستعجل‘‘کے بجھنے یا بالفاظِ اقبال، اس ’’قطرۂ بیتاب ‘‘ کے ہم آغوشِ دریا ہونے تک برابر استوار رہا۔ اقبال کی طرح ان کی شخصیت بھی شاعرانہ احساس و تخیّل اور فلسفیانہ بصیرت و تفکّر کی جامع تھی۔ شعر و ادب کے دائرے میں بھی دونوں کے ’’ذوقیات ‘‘میں بڑی یک رنگی پائی جاتی ہے۔ سوامی جی خود بھی شاعر تھے اور مغربی و مشرقی ادبیات پر وسیع نظر رکھتے تھے۔ فارسی زبان سے آشنا اور کلامِ حافظ کے دل دادہ تھے۔ اورینٹل کالج میں سوامی جی نے اقبال سے مثنوی معنوی کے مطالعے میں مدد لی اور اقبال نے ان سے سنسکرت زبان سیکھی۔۳۹؎ یہی نہیں بلکہ ویدوںاور ویدانتی فلسفے کے مطالعے میں بھی ان سے مستفید ہوئے۔ سوامی رام تیرتھ (۱۸۷۳ئ-۱۹۰۷ئ) ضلع گوجرانوالہ (موضع مرالی والا) کے ایک غریب لیکن عالی نسب گو سوامی برہمن گھرانے کے شیدائے علم نوجوان تھے۔ انھوں نے میٹرک سے لے کر ایم۔ اے (ریاضی) تک تمام امتحانات درجۂ اوّل میں امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس کیے۔ ان کی طالب علمی کا بیش تر زمانہ فقرو فاقہ میں بسر ہوا۔ لیکن ان کا علمی شغف جسمانی آسائشوں کے فقدان کو کبھی محسوس نہ ہونے دیتا۔ بعض اوقات وہ اپنے چراغ نیم شب کو روشن رکھنے کے لیے ایک وقت کا فاقہ بھی گوارا کر لیا کرتے تھے۔۴۰؎ انھیں حصول علم کے ساتھ تزکیۂ باطن اور تربیتِ نفس کی طرف بھی توجہ رہتی تھی۔ مصائب و آلام کی بھٹی میں تپ کر ان کی شخصیت خوب سے خوب تر سانچے میں ڈھلتی رہی۔ تعلیم کے آخری مدارج تک پہنچتے پہنچتے وہ سلوک و معرفت کے کئی مقامات طے کر چکے تھے۔ گورنمنٹ کالج، لاہور سے ریاضی میں ایم۔ اے کرنے کے بعد ۱۸۹۵ء میں وہ مشن ہائی سکول سیالکوٹ میں سیکنڈ ماسٹر ہو گئے۔۴۱؎ جنوری ۱۸۹۶ء میں فارمن کرسچین کالج لاہور میں ریاضی کے لیکچرر ہو کر آگئے۔۴۲؎ لیکن رفتہ رفتہ ان کے جذب و شوق کا عالم ہی کچھ اور ہو گیا۔ چنانچہ وہ گرمیوں کی تعطیلات کشمیر کی وادیوں اور ’’کیدار ناتھ ‘‘ کی تنہائیوں میں گزارنے لگے، جہاں ان کی مضمحل روح نئی توانائی اور پاکیزگی حاصل کرتی تھی۔ بالآخر ڈیڑھ دو سال بعد اس ملازمت سے سبک دوش ہو کر ، مہینوں مسلسل بے خودی و سرمستی کے عالم میں کوہ و بیابان نورد رہے۔ ۲۰؍جنوری ۱۸۹۹ء کو بحیثیت ’’الیگزنڈر فیلو‘‘ اورینٹل کالج سے وابستہ ہوئے۔۴۳؎ انھیں صرف ۷۵ روپے ماہوار وظیفہ ملتا تھا، لیکن یہاں یہ سہولت تھی کہ صرف دو گھنٹے روزانہ (ریاضی) پڑھانا پڑتا تھا اور انھیں ذکر و فکر، گیان دھیان کے مشاغل کے لیے کافی وقت مل جاتا تھا۔ تاہم یہ ملازمت بھی انھیں راس نہ آئی۔ اب وہ اس مقام پر پہنچ چکے تھے جہاں تمام مروجہ علوم ہیچ نظر آتے ہیں۔ انھوں نے ’’الف‘‘ کے عجیب و غریب نام سے اردو میں ایک رسالہ جاری کیا تھا، جس کا پہلا شمارہ جنوری ۱۹۰۰ء میں شائع ہوا۔ اس کے سرورق پر ’’ا کو الف ترے درکار‘‘ اور اس کے نیچے یہ شعر درج تھا: مذہبِ عشق از ہمہ ملت جداست عاشقاں را مذہب و ملت خداست۴۴؎ اس رسالے کے قریباً اٹھارا شمارے نکلے۔اس میں سوامی رام تیرتھ کے عارفانہ مضامین، فارسی کلام اور انھی کے قلم سے بھگوت گیتا اور اپنشدوں کے ترجمے مع حواشی شائع ہوتے تھے۔ اورینٹل کالج میں ڈیڑھ سال گزارنے کے بعد جولائی ۱۹۰۰ء میں انھوں نے استعفیٰ دے دیا۔ ۱۲؍جولائی کے ایک خط میں مسٹر سٹراٹن لکھتے ہیں: ’’آج وہ ترکِ دنیا کرکے اور حصولِ معاش کی تمام فکروں سے آزاد ہو کر اپنی اس دیرینہ آرزو کی تکمیل کے لیے رخصت ہو رہے ہیں کہ وہ اپنی ساری توجہ ذکر و فکر اور مذہبی تبلیغ میں صرف کریں گے … وہ ایک مکمل ویدانتی۴۵؎ ہیں۔ جیسا کہ ڈاکٹر سٹراٹن نے لکھا ہے، ان کا یہ اقدام ایک ’’دیرینہ آرزو‘‘ کی تکمیل کے لیے تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ دنیا کے سامنے ایک مبلغ کی حیثیت سے پیش ہونے سے پہلے، ویدانتی تعلیم کو اپنی شخصیت میں پوری طرح رچا بسا لیں۔ اسی مقصد سے وہ ہمالیہ کی پُراسرار وادیوں اور جنگلوں میں، معجزہ کار مہاتمائوں کے زیر تربیت جپ تپ، یوگ سنیاس کے مراحل سے گزرے اور کئی ماہ بعد جنوری ۱۹۰۱ء میں جوگیوں کا گیروا لباس پہنے ہوئے لاہور میں پھر نمودار ہوئے۔ اقبال سے ملاقاتوں میں اپنے مشاہدات و تاثرات بیان کیا کرتے تھے جن کی جھلک ’’ہمالیہ‘‘ کے متروک حصوں میں نمایاں ہے۔ اگست ۱۹۰۱ء میں وہ پھر کوہستانی سفر پر روانہ ہوئے۔۴۶؎ اسی سال انھوں نے متھرا میں منعقدہ مجلس مذاہبِ عالم کے دو اجلاسوں کی صدارت کی۔ ۱۹۰۲ء میں جاپان کا سفر کیا۔ وہاں سے امریکا گئے اور دو سال تک امریکا کے تبلیغی دورے کے بعد دسمبر ۱۹۰۴ء میں ہندوستان واپس آئے۔۴۷؎ ۱۹۰۶ء کے لگ بھگ سوامی جی ٹیہری (گڑھوال) سے چند میل دور ایک گپھا میں معتکف ہوئے۔ ۱۷؍اکتوبر ۱۹۰۷ء کو وہ غار سے نکل کر گنگامیں نہانے کے لیے اترے اور آناً فاناًغرق ہو گئے۔۴۸؎ اس سانحے کے بارے میں متضاد روایتیں ہیں۔اس سانحے سے متاثر ہو کر اقبال نے انگلستان میں جو نظم کہی تھی، اس کے دو شعر درج ذیل ہیں: ہم بغل دریا سے ہے اے قطرئہ بے تاب تُو پہلے گوہر تھا، بنا اب گوہرِ نایاب تُو نفیٔ ہستی اک کرشمہ ہے دلِ آگاہ کا ’لا‘ کے دریا میں نہاں موتی ہے ’الّا اللہ‘ کا اسی نظم کا ایک متروک شعر یہ ہے: کیا کہوں زندوں سے میں اس شاہدِ مستور کی دار کو سمجھے ہوئے ہیں جو سزا منصور کی۴۹؎ اس شعرسے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک زمانے میں اقبال کو ’’اس شاہدِ مستور‘‘ اور انا الحق کا دم بھرنے والے ’’منصور‘‘ سے کس حد تک تعلقِ خاطر تھا، جس کا خاص سبب یہ ہے کہ سوامی رام تیرتھ ایک وسیع المشرب صوفی اور ’’درویشِ خدامست‘‘ تھے۔ اُس زمانے میں آریہ سماجی رہنمائوںکی سرگرمیوں کا محرک ہندو سماج کا تخفظ اور آریائی ثقافت کا احیاء تھا۔ سوامی رام تیرتھ خالص ویدانتی مسلک کے حامی تھے اور سیاسی و فرقہ وارانہ اغراض و مقاصد سے بالاتر ہو کر دنیا کو انسانی وحدت کا پیغام سنانا چاہتے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ انھوں نے ہندو سماج کی اصلاح کی کوششیں کیں لیکن ان کا مقصد طبقاتی تقسیم ختم کرنااور ہندو عوام کو انسانی مساوات کا درس دینا تھا۔ ان کے ادبی ذوق اور شعری و نثری تخلیقات سے بھی ان کی کشادہ ظرفی اور وسیع المشربی کا ثبوت ملتا ہے۔ اگرچہ ان کی شاعری کے بہترین نمونے ہمیں انگریزی زبان میں ملتے ہیں لیکن انھوں نے فارسی ، ہندی، اردو اور پنجابی میں بھی شعر کہے ہیں۔ ان کی تحریروں میں مشرق و مغرب کے مفکروں اور شاعروں کے حوالے ملتے ہیں۔ ان کی معاشرتی زندگی بھی مذہبی ، ثقافتی لسانی عصبیت کے اثرات سے پاک تھی۔ کوئی اجنبی ان کی گفتگو سے ہندو یا مسلمان ہونے کا حکم نہیں لگا سکتا تھا۔ اس حقیقت کے عینی شاہد ڈاکٹر سید سلیم وارثی نے اپنے زمانۂ ادارت مخزن کے ایک مضمون بہ عنوان ’’اتفاق‘‘ (مطبوعہ مخزن ، لاہور ، اگست ۱۹۱۳ئ) میں سوامی جی سے اپنی اُن ملاقاتوں کا ذکر کیا ہے جب وہ گنگوتری کے پاس ’’اچھیانی‘‘ میں سنیاس کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ سید صاحب لکھتے ہیں: ’’اچھیانی، میرے مکان سے بہت قریب جگہ ہے … اکثر مجھے ان سے ملنے جلنے کا موقع ملتا تھا۔ سوامی جی کو حافظ اور شمس (یعنی رومی کے دیوان شمس تبریزی۔ راقم) کی غزلیں اکثر ورد زبان تھیں۔ لوگوں نے عرصے تک سوامی جی کو مسلمان جانا۔ وہ کبھی کبھی مسجد میں آ کر قرآن کی تلاوت بھی کرنے لگتے تھے اور اس کا مطلب لوگوں کو سمجھاتے تھے۔ کبھی وہ مندر میں چلے جاتے۔ جب ان سے کوئی پوچھتا کہ آپ ہندو ہیں یا مسلمان؟ تو یہ شعر پڑھ دیا کرتے تھے: نہ ہندو ام نہ مسلماں، نہ کافرم نہ یہود بہ حیرتم کہ سر انجام من چہ خواہد بود۵۰؎ اقبال نے سوامی رام تیرتھ کی صحبت میں شنکر اچاریہ کے ویدانتی فلسفے کا مطالعہ کیا۔ اسی زمانے میں اس موضوع پر میکس ملر کے خطبات کا ایک مجموعہ بھی ان کے زیر مطالعہ رہا۔ یہ خطبات جو مارچ ۱۸۹۴ء میں رائل انسٹی ٹیوشن میں دیے گئے تھے، اسی سال مندرجہ ذیل نام سے لندن میں شائع ہوئے: "Three Lectures on the Vedanta Philosophy". by F. Max Muler, K. M. (Member of the French Institute)/ لیکن حقیقت یہ ہے کہ خشک فلسفیانہ نظریات، جو صرف ذہن کو متاثر کرتے ہیں، جب سوامی جی کی زبان سے ادا ہوتے تو ان کے تجرباتی خلوص اور جذب و سوز کی بدولت دل نشیں ہو جاتے تھے۔ انھوں نے ویدانتی فلسفے کے بعض مثبت پہلوئوں پر اپنی تحریروں اور خطبوں میں بہت زور دیا ہے۔ مثلا ’’تسلیم و رضا‘‘ کے بعض واقعات کا ذکر پہلے آ چکا ہے۔ وہ اس باطنی کیفیت کے ساتھ احساسِ خودی کی تلقین بھی کرتے ہیں۔ یعنی انسانی خودی الوہیت کی حامل ہے لہٰذا خودی کی عظمت کا تقاضا ہے کہ انسان اپنے اندر ’’اللہ کی شانِ بے نیازی‘‘ پیدا کرے۔ وہ اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’ ویدانتی مذہب کی روح اس ایک اصول میں مضمر ہے : اپنے آپ کو کامل طور پر مسرور و مطمئن رکھو۔ علالت، موت، بھوک یا کسی مصیبت کی پروا نہ کرو۔اپنی الوہیت کے شعور و احساس سے ہمیشہ خوش اور پر سکون رہو۔ تمھاری خودی کے آگے دنیا کی ہر شے ہیچ ہے۔ یہ کبھی نہ بھولو کہ تمھاری خودی سب سے بلند اور تمام احتیاجات سے بالاتر ہے۔ اپنے کام میں لگے رہو لیکن شاہانہ تمکنت اور ادائے بے نیازی کے ساتھ ، محض برائے تفریح و تفنن۔ ہر گز ہر گز یہ محسوس نہ کرو کہ تمھیں کسی شے کی حاجت ہے۔ ‘‘۵۱؎ انسانی خودی کی عظمت کے بارے میں ان کی / کتاب کے سرورق پر اقبال نے اپنا نام اور اس کے نیچے ’’میکلوڈ عربک ریڈر، پنجاب یونی ورسٹی اورینٹل کالج، لاہور‘‘ لکھا ہے۔ یہ کتاب اقبال کی عطا کردہ دیگر کتب کے ساتھ اسلامیہ کالج (سو ل لائنز) لاہور کے کتب خانے میں موجود ہے۔ تحریروں سے یہ مختصر اقتباسات بھی ملاحظہ ہوں: ’’حقیقت کی روح یہ ہے کہ فرد کی عظمت اور بالاتری کو ساری دنیا، ساری کائنات کے مقابلے میں منوایا جائے۔‘‘۵۲؎ ’’انسان کے اندر ایک ایسی شے ہے جو فنا اور تغیّر سے نا آشنا ہے؛ وہ اس کی خودی ہے جو حقیقی ہے، ابدی ہے، لازوال ہے۔‘‘۵۳؎ ان کی شخصیت اور تعلیمات کا سب سے دلکش اور موثر پہلو ان کا انسان دوستی کا جذبہ اور انسانی وحدت کا تصور ہے۔ ان کا دل عالمگیر محبت کا ایک اتھاہ سمندر تھا جو ان کی تحریروں اور خطبوں میں ہر جگہ موج زن ہے۔ صرف دو اقتباسات ملاحظہ ہوں: ’’ساری دنیا میرا وطن ہے اور سب کی خدمت میرا مذہب ‘‘۔ ’’میں سراپا محبت ہوں۔ محبت روشنی کی طرح ہر شے کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے۔ میں محبت کی تجلّی کے سوا کچھ نہیں … میں سب سے یکساں پیار کرتا ہوں۔‘‘۵۴؎ اقبال بھی ان کی شخصیت اور ویدانتی تعلیمات کے انھی پہلوئوں سے متاثر ہوئے اور اُس دور کے کلام میں یہ تاثرات جا بجا نمایاں ہیں۔ خود ویدوں کے مطالعے کا حاصل بھی ان کے لیے وہی باتیں تھیں جو ان کے اپنے مزاج اور ذہنی پس منظر کے عین مطابق تھیں۔ انھی دنوں اقبال نے وید کے ایک اشلوک کا منظوم ترجمہ کیا تھا جو روزگار فقیر (جلد دوم)کے سوا غالباً اور کسی مجموعے میں شامل نہیں۔ اس اشلوک کا موضوع بھی اقبال کی وہی ’’شرابِ روح پرور‘‘ یعنی ’’نوع انسان کی محبت‘‘ ہے۔ تین اشعار پر مشتمل یہ ترجمہ درج ذیل ہے: خویشوں سے ہو اندیشہ، نہ غیروں سے خطر ہو احباب سے کھٹکا ہو، نہ اعدا سے حذر ہو روشن مرے سینے میں محبت کا شرر ہو دل خوف سے آزاد ہو، بے باک نظر ہو پہلو میں مرے دل ہو مے آشامِ محبت ہر شے ہو مرے واسطے پیغامِ محبت۵۵؎ سوامی رام تیرتھ بھی اقبال کی شخصیت اور شاعری کے ایسے شیدائی تھے کہ انھوں نے من و تو کا فرق مٹا کر اقبال کے کئی اشعار اپنے مجموعۂ کلام رام برشا میں شامل کر لیے۔ مثلاًان کی ایک نظم کا عنوان ہے: ’’ابر کوہسار میں گیانی کی حالت‘‘ جس کا پہلا بندپورا کا پورا اقبال کی نظم ’’ابر کوہسار‘‘ سے ماخوذ ہے (مصرع اوّل: بن کے گیسو رخِ ہستی پہ بکھرجاتا ہوں)نظم کے بقیہ کئی بندوں میں بھی اقبال کے کئی مصرعے اور شعر، کہیں خفیف ترمیم کے ساتھ کہیں تضمین کی صورت میں (بغیر واوین) ملتے ہیں۔ ان کی ایک اور نظم (گیانی ہمالہ میں) میں بھی اقبال کی نظم ’’ہمالہ‘‘ کے ساتھ یہی سلوک روا رکھا گیا ہے۔/ سوامی رام تیرتھ کی مسحور کن شخصیت سے اتنے گہرے روابط کے باوجود، اقبال نے اپنی فکری آزادی برقرار رکھی اور اسی دور میں ویدانتی تصوریت کی بعض کوتاہیوں پر عبدالکریم الجیلی سے متعلق اپنے مقالے میں تنقید بھی کی ہے۔ یورپ سے واپسی کے بعد جب انھوں نے حکمتِ قرآنی کی روشنی میں فلسفیانہ مسائل پر غور کرنا شروع کیا تو ان پر عجمی تصوف اور ویدانت کی رہبانی تعلیمات کی حقیقت پوری طرح واضح ہو گئی۔ مثلاًاسلام میں جسمانی خواہشات اور فطری تقاضوں کی تکمیل سے رو کا نہیں گیا، صرف ان کی حدیں مقرر کر دی گئی ہیں۔ لیکن ویدانت کی رو سے جسمانی وجود گناہ کا سرچشمہ ہے۔ جسمانی خواہشات کو کچلنا اور جسم کو ایذا دینا ہی ذریعۂ نجات ہے۔ ایک مرتبہ چند ہندو اصحاب، حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سوامی رام تیرتھ کی سیرت پر ایک نو تصنیف کتاب پیش کرتے ہوئے عرض کیا کہ سوامی جی کے دوست کی حیثیت سے اس پر نظر ثانی فرمائیے اور اپنی طرف سے مزید کچھ لکھ دیجیے۔ حضرت علامہ نے سر سری طور پر جائزہ لینے کے بعد فرمایا: آپ لوگوں نے سوامی جی کی زندگی سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا،اور نہ اس عبرت کا جو ان کی زندگی سے حاصل ہو سکتی ہے، اس کتاب میں ذکر ہے۔ انھوں نے پوچھا: ’’وہ کیا ‘‘؟ فرمایا: ’’آپ کو معلوم ہے کہ فلاں سال سوامی جی اپنی تعلیم ’’ہمہ اوست‘‘اور ’’برہم چاریہ‘‘ کے پرچار کے لیے امریکا تشریف لے گئے۔ وہاں بعض لوگ جن میں مرد اور عورتیں شامل تھیں، ان کے حلقۂ اثر میں آ گئے۔ ان میں ایک مریدنی ضرورت سے زیادہ فیض یاب ہوئی لیکن واپسی پر سوامی جی عورت اور بچہ دونوں کو امریکا ہی میں چھوڑ آئے۔ یہ واقعہ ایک نہایت اہم اور عبرت آموز سبق ہے جو سوامی جی کی زندگی سے حاصل ہوتا ہے کہ وہ خود ’’برہم چاریہ‘‘ کو نہ نبھا سکے اور / سوامی رام تیرتھ تو نشۂ وحدت میں سرشار تھے لیکن تعجب ہے کہ ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ نے اپنے پی ایچ۔ ڈی کے مقالے : ماڈرن اردو پوئٹری‘‘ (Some Characteristics and Tendencies of Modern Urdu Poetry) کے ضمیمے ’’منتخبات نظم اردو (۱۸۶۷ء - ۱۹۲۵ئ)‘‘ میں رام تیرتھ کی یہ دو نظمیں کسی وضاحتی نوٹ کے بغیر بجنسہ نقل کرلی ہیں۔(منتخباتِ نظمِ اردو، ص۴۲-۴۴) اپنے اس فعل سے انھوں نے اپنی تعلیم کو غلط ثابت کر دکھایا۔ لیکن بجائے اس کے کہ وہ اس غلط اصول کو چھوڑتے ، انھوں نے اپنی ناکامی کو چھپانا چاہا اور اس وجہ سے بچے اور اس کی ماں کو امریکا میں چھوڑ کر ایک اخلاقی گناہ کا ارتکاب کیا۔۵۶؎ پروفیسر خواجہ عبدالحمید صاحب اس روایت کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ڈاکٹر صاحب ، سوامی جی کے خلوص نیت اور روحانی سرشاری کے بہت معترف تھے اور اسی لیے سوامی جی کے برہم چاریہ کی ناکامی میں ان کی حیات کا اہم ترین سبق پاتے تھے۔ یعنی جو بات سوامی جی سے نبھ نہ سکی وہ ہے ہی غلط۔‘‘۵۷؎ (۳) علمی و تدریسی خدمات کا جائزہ پروفیسر آرنلڈ کو اپنے شاگرد عزیز سے جو تعلق خاطر تھا، اس بنا پر انھیں کب یہ گوارا ہوتا ہو گا کہ اقبال ویدانت کے اس رہبانی فلسفے سے مسحور ہو کر رہ جائیں، جس کا منتہائے مقصود یوگ اور سنیاس ہے۔ انھوں نے علی گڑھ میں اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ و تہذیب کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ ان کی مشہور تصنیف دعوتِ اسلام (The Preaching of Islam) سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اسلامی تصوف کی حرکیت اور صوفیائے کرام کی علمی و دینی خدمات سے باخبر تھے۔ ہندو فلسفے کے مطالعہ و تحقیق میں مستشرقین کے بغایت انہماک کی وجہ سے انھیں اس امر کا بھی احساس ہو گا کہ مسلم حکما و صوفیا کے فکری کارنامے اقبال کی توجہ کے زیادہ مستحق ہیں۔ لہٰذاانھوں نے اقبال کو مسلم فلسفہ کے مطالعے کی ترغیب دی۔ چنانچہ ایک معتبر روایت کے مطابق اقبال نے انھی دنوں فلسفے کی اہم ترین درسی کتاب شمسِ بازغہ، مفتی عبداللہ ٹونکی (صدر شعبۂ عربی)سے سبقاً سبقاً پڑھی تھی۔/ یہ قیاس کرنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ آرنلڈ ہی کے ایما سے اقبال نے عبدالکریم الجیلی کی الانسان الکاملکو اپنے تجزیاتی و تنقیدی مقالے کا موضوع بنایا۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سوامی رام تیرتھ کے رخصت ہونے کے ڈھائی ماہ بعد ستمبر ۱۹۰۰ء میں ان کا مقالہ بمبئی کے Indian Antiquary میں شائع ہوا۔ یہ مقالہ جس میں الجیلی کے نظریۂ توحیدِ مطلق اور نظریۂ / اس واقعے کے راوی، مولانا حافظ نور الحسن صاحب (سابق استاد شعبۂ عربی) کہتے ہیں کہ کسی نے مفتی صاحب سے پوچھا: ’’آپ نے اقبال کو بحیثیتِ طالب علم کیسا پایا؟‘‘ فرمایا: ’’اقبال نہایت ذہین و با صلاحیت نوجوان تھے۔ قرأتِ متن میں اعراب کی غلطیاں تو کرتے لیکن دقیق ترین عبارتوں کا ترجمہ و تشریح اس خوبی سے کیا کرتے کہ میں بھی اس سے بہتر نہ کر سکتا۔‘‘ انسانِ کامل کا جائزہ لیا گیا ہے، اقبال کا پہلا علمی کارنامہ اور حکمائے اسلام کے اس تحقیقی مطالعے کا نقطۂ آغاز ہے جس کی تکمیل یورپ میں ہوئی۔ پروفیسر آرنلڈ کو اقبال کی ذہنی پرداخت سے جو ذاتی دلچسپی تھی اس کے مؤثراظہار کا موقع انھیں اس لیے بھی ملا کہ وہ ان کے تقرر کے وقت قائم مقام پرنسپل ہونے کے علاوہ بعد میں بھی ڈین آف اورینٹل فیکلٹی رہے۔۵۷؎ اقبال کو میکلوڈ عرب ریڈر کی حیثیت سے عربی کی تدریس میں حصہ لینا تھا اور یونی ورسٹی کیلنڈر میں میکلوڈ عرب ریڈر سے متعلق جو قواعد ملازمت درج ہیں ان کے مطابق یہی مناسب تھا۔۵۸؎ لیکن اقبال کے نظامِ اوقات میں ان کے تدریسی مضامین (نفسیات و منطق، تاریخ اور اقتصادیات) پر نظر ڈالیے تو ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال کے تدریسی کام کی یہ نوعیت پروفیسر آرنلڈ نے کسی خاص مصلحت سے متعین کی تھی۔ غالباً اسی وقت سے ان کے پیش نظر یہ مقصد بھی ہو گا کہ بالآخر اقبال کو کسی مناسب موقع پر گورنمنٹ کالج کے شعبۂ فلسفہ میں لے جانا ہے۔لہٰذاانٹرمیڈیٹ کی جماعتوں کو فلسفہ (منطق اور نفسیات) کی تدریس کا کام انھیں سونپا گیا۔ تاریخ و معاشیات کی تدریس اور متعلقہ کتب یعنی Stubb کی Early Plantagenets (انگلستان کے ایک مخصوص دور کی تاریخ) اور Walkar کی Political Economy کے ترجمہ و تلخیص کا کام بھی آرنلڈ ہی کی مصلحت بینی کا نتیجہ ہے۔آرنلڈ کا ایک خاص انداز تربیت یہ تھا کہ وہ اپنے ہونہار شاگردوں کو نئی کتابوں سے متعارف کراتے اور ان کے ذہنوں پر نئے افکار و علوم کے دریچے کھولا کرتے تھے۔ ہمارے ملک میں اس وقت تک اس شعبۂ علم (معاشیات)کی اہمیت کو پوری طرح محسوس نہیں کیا گیا تھا۔ تعلیمی اداروں میں بھی معاشیات کو وہ مقبولیت حاصل نہ تھی جو اب ہے۔ پروفیسر آرنلڈ کی اس تجویز و تحریک کا مقصد یہ تھا کہ اقبال جیسے باشعور نوجوان کو ، جو اپنے ملک کی ترقی اور اپنی قوم کی مادی خوش حالی کا آرزومند ہے، معاشی مسائل اور اس علم کے اصول و مبادیات سے آشنا ہونا چاہیے۔ ان کی اس حکیمانہ تجویز کا خاطر خواہ اثر ہوا۔ اقبال نے اس خشک و ثقیل مضمون کی تحصیل میں بڑی دلچسپی لی اور پروفیسر آرنلڈ کے ایما پر وسیع و عمیق مطالعے کے بعد علم الاقتصاد مرتّب کی جو نہ صرف اردو میں، بلکہ اس برعظیم کی تمام دیسی زبانوں میں اس موضوع پر پہلی کتاب ہے۔جنوری ۱۹۰۳ء میں علامہ شبلی لاہور آئے اور انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں ’’اسلام‘‘ (مذہب اور انسانی فطرت، نیز دین و دنیا کے باہمی تعلق) کے موضوع پر ایک خطبہ دیا۔۵۹؎ غالباً اسی موقعے پر پروفیسر آرنلڈ نے اپنے دوست سے اس تصنیف اور مصنف کا تعارف کراتے ہوئے کتاب کو بہ نظر اصلاح دیکھنے کے لیے کہا ہو گا۔ چنانچہ دیباچے میں اقبال نے علامہ شبلی کی ’’قابلِ قدر اصلاح‘‘ کا شکریہ ادا کیا ہے۔۶۰؎ پروفیسر آرنلڈ کے فیضِ صحبت کی بدولت بعض دیگر علمی و قومی مسائل بھی اقبال کے غور و فکر اور مطالعہ و تحریر کا موضوع بنے۔ مثلاً جنوری ۱۹۰۲ء کے مخزن میں ’’بچوں کی تعلیم و تربیت‘‘کے عنوان سے اقبال کا ایک مقالہ شائع ہوا جس میں بچوں کی نفسیات کے پیش نظر ، تعلیم و تربیت کے جدید اصولوں کی وضاحت کی گئی ہے۔ بچوں کی تعلیم کا مسئلہ قومی زندگی کی تشکیل و تعمیر میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اقبال کو اس مسئلے کی اہمیت کا شدید احساس تھا۔ چنانچہ انھوں نے بچوں کی اخلاقی و ذہنی تربیت کے لیے متعدد دلچسپ و سبق آموز نظمیں بھی لکھیں۔ اس دور کی علمی کاوشوں میں اقبال کا وہ مقالہ بھی قابلِ ذکر ہے جو ’’قومی زندگی‘‘ کے عنوان سے رسالہ مخزن، لاہور کے دو شماروں (اکتوبر ۱۹۰۴ء اور مارچ ۱۹۰۵ئ) میں شائع ہواتھا۔ علم الاقتصاد کے علاوہ یہ پُرمغز مقالہ بھی آئندہ فصل میں زیر بحث آئے گا۔ اس شش سالہ (۱۸۹۹ء - ۱۹۰۵ئ) دورِ زندگی میں بہ حیثیتِ معلّم، اقبال کے تدریسی مضامین میں خاصا تنوّع رہا۔ اورینٹل کالج میں وہ تاریخ، منطق، نفسیات اور اقتصادیات کا درس دیتے رہے۔ اسلامیہ کالج اور گورنمنٹ کالج کی عارضی ملازمتوں کے دوران میں وہ ایف۔ اے کی جماعتوں کو انگریزی ادب پڑھایا کرتے تھے، اور آخر میں جب وہ شعبۂ فلسفہ میں اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے تو اُن دنوں بھی انگریزی کے چھ پیریڈ لیا کرتے تھے۔ یوں تو وہ اپنے ذاتی شوق سے ادبیات، فلسفہ، تاریخ اور مذہبیات کا مطالعہ کیا کرتے تھے لیکن اب تعلیم و تدریس کی ذمہ داریوں کے تقاضے سے ان کی دلچسپی کے موضوعات میں مزید وسعت و تنوع اور مطالعے کے محبوب مشغلے میں مزید انہماک کا اضافہ ہوتا گیا۔ اقبال کے دیرینہ خدمت گار بابا علی بخش ابتدائی ملازمت کے زمانے کے مشاہدات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے کمرے میں میز پر ڈھیروں کتابیں بے ترتیبی سے پڑی رہتی تھیں، اور علی بخش کو تاکید تھی کہ وہ کمرہ صاف کرتے وقت بکھری ہوئی کتابوں کو نہ چھیڑے، انھیں اپنی جگہ جوں کا توں پڑی رہنے دے۔۶۰؎ مطالعے میں ان کے استغراق اور محویت کا ایک واقعہ پروفیسر آرنلڈ اور شبلی نعمانی کے واقعے کی یاد دلاتا ہے۔ ۱۹۰۵ء کے اوائل میں کانگڑے کا مشہور زلزلہ آیا، جس کے جھٹکے لاہور میں بھی بڑی شدت سے محسوس کیے گئے۔ اس زمانے میں اقبال اندرون بھاٹی گیٹ، محلہ جلوٹیاں میں بازار کے سامنے ایک مکان کی بالائی منزل پر رہتے تھے۔ علی بخش گھبراہٹ کے مارے ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں بھاگا بھاگا پھر رہا تھا۔ اقبال پلنگ پر لیٹے ایک کتاب پڑھ رہے تھے۔ علی بخش کی بد حواسی دیکھ کر، کتاب سے نظر ہٹائے بغیر، پکار کر کہا ’’علی بخش ادھر اُدھر نہ بھاگو، زینے میں جا کر کھڑے ہو جائو‘‘ اور پھر کتاب کے مطالعے میں کھو گئے۔۶۰؎ اس وسعتِ مطالعہ کی بدولت کالج میں ان کے لیکچر نہایت عالمانہ ہوتے تھے۔ چناچہ اس ابتدائی دور کے شاگرد بھی ان کے علم و فضل کی تعریف میں رطب اللساں ہیں۔۱۹۰۱ء میں جب خلیفہ شجاع الدین مرحوم (صدر انجمن حمایت اسلام، سپیکر پنجاب اسمبلی)اسلامیہ کالج میں ایف۔ اے کے طالب علم تھے تو اقبال نے چند روز ان کی جماعت کو انگریزی پڑھائی تھی۔ ’’اقبال انجمن کے جلسوں میں‘‘ کے عنوان سے خلیفہ صاحب اپنے مقالے میں لکھتے ہیں: ’’اوّل الذکر جلسے (۱۸۹۹ئ) کے تھوڑے عرصے کے بعد ہی اقبال کے لیے انجمن سے وابستگی کا ایک اور موقع نکل آیا۔شیخ عبدالقادر ان دنوں اخبار آبزرور کے ایڈیٹر اور اسلامیہ کالج میں ادبیاتِ انگریزی کے پروفیسرتھے۔انھیں چند روز کی رخصت لینی پڑی تو ان کی جگہ اقبال مرحوم یہ فرائض انجام دیتے رہے۔ میں اُن دنوں ایف۔اے کا طالب علم تھا۔ نصاب میں "Seakers After God" یعنی متلاشیانِ حق کے نام سے ایک کتاب شامل تھی، جس میں زمانۂ قبل از مسیح کے تین حکماء کی سر گزشتیں درج تھیں۔ عیسائی مصنف نے ان متلاشیانِ حق کے بعض اقوال کا موازنہ انجیل کی آیات سے کیا۔ لیکن علامہ مرحوم نے کلام پاک کی ان آیات سے ان اقوال کی تشریح کی جو ان کے ساتھ مطابقت رکھتی تھیں۔ موازنے کے دوران میں آپ یہ بھی ثابت کرتے جاتے تھے کہ قرآن کی آیات ان اقوال سے بدرجہا افضل اور بہر نوع اکمل ہیں۔ اسلامیہ کالج کی چند روزہ پروفیسری نے ہی آپ کے تبحرِّ علمی کا سکّہ بٹھا دیا۔‘‘۶۱؎ اس میں شک نہیں کہ اگر اقبال مستقل طور پر معلمی کا پیشہ اختیار کرتے تو اپنے بزرگ اساتذہ، علامہ میر حسن اور ڈاکٹر آرنلڈ کے صحیح جانشین ثابت ہوتے لیکن ان کے لیے تو پوری ملّتِ اسلامیہ کی رشد و ہدایت کا فریضہ مقدر ہو چکا تھا ، لہٰذا ان مراحل سے آگے نکل گئے۔ (۴) رنگا رنگ بزم آرائیاں اگر اقبال کے علمی و تدریسی مشاغل کی اس روداد سے یہ نتیجہ اخذ کیا جائے کہ وہ اس دور میں ’’کِرمِ کتابی‘‘ بن کر رہ گئے تھے، تو حقیقت سے بعید ہو گا۔ یہ علمی مجاہدہ تو اقبال کی ہمہ جہت شخصیت کا صرف ایک پہلو تھا۔ اقبال کی روز مرہ زندگی زیادہ متحرک اور ہنگامہ خیز نہ سہی، تاہم زندہ دلی اور گرم جوشی سے بھرپور تھی۔ ملازم ہونے کے بعد انھوں نے اسی محلے میں کرائے کا مکان لے کر بود و باش اختیار کی جو بقول حکیم احمد شجاع، لاہور کا ’’چیلسی‘‘تھا۔ اندرونِ بھاٹی گیٹ ادب نواز حکما(حکیم امین الدین اور حکیم شہباز دین) کے علاوہ شہر کے بیشتر ذی علم و باذوق حضرات اپنے ذاتی یا کرائے کے مکانوں میں سکونت پذیر تھے۔ مثلاً اقبال کے ہم وطن دوست شیخ گلاب دین وکیل، شیخ عبدالقادر (مدیر آبزرور، اور بعد میں مدیر مخزن)مشن کالج کے پروفیسر فارسی مولوی محمد باقر، اور پروفیسر عربی مولوی محمد حسین، اورینٹل کالج کے صدر شعبۂ عربی ، شمس العلماء مفتی عبداللہ ٹونکی، اسلامیہ کالج کے پروفیسر، اور بعد میں پرنسپل، مولوی حاکم علی وغیرہ آس پاس کے مکانوں میں رہتے تھے۔۶۲؎ اسی محلے میں گمٹی بازارسے ذرا آگے،مولوی احمد بخش صاحب (مولانا صلاح الدین کے والد) کا مکان تھا، جن کے بڑے صاحب زادے مولوی ضیاء الدین اقبال کے دوست اور گورنمنٹ کالج میں ان کے ہم جماعت تھے۔ اقبال اور ضیاء الدین کے مشترک دوست میر نیرنگ، قانون کی تعلیم کے آخری سال انھی کے مکان میں رہتے تھے۔ مولوی ضیاء الدین اور میر نیرنگ کو کشتی اور ورزش کا بڑا شوق تھا۔ مکان کے ایک کمرے میں اکھاڑا بنا رکھا تھا، جہاں کشتی لڑتے تھے۔ اقبال بھی ان دنوں ورزش کیا کرتے تھے اور کبھی کبھی لنگوٹ باندھ کر اس اکھاڑے میں اترتے تھے۔۶۳؎ بازار حکیماں کے مشاعروں میں پہلی سی باقاعدگی نہیں رہ گئی تھی لیکن حکیم شہباز کے دیوان خانے کی محفلِ شبانہ کی رونقیں شباب پر تھیں۔ حکیم صاحب، سخن گو اور سخن سنج بھی تھے اور فراخ دل و کشادہ دست بھی۔ بقول مولوی احمد دین ’’ان کے فضائل حسنہ نے ان کے مکان کو ایک کلب گھر بنا دیا تھا… حکیم صاحب کی چاہ اور چائے اور اہلِ محفل کی نکتہ سنجیاں، قومی تحریکوں میں دلچسپی لینے والوں کو اس مکان پر کشاں کشاں لے آتی تھیں۔‘‘ اقبال اور ان کے جملہ یارانِ با صفا: نیرنگ، فوق ، مولوی احمد دین وکیل ، شیخ عبدالقادر، چودھری شہاب الدین، شیخ گلاب دین، خان احمد حسین خاں احمد وغیرہ کے علاوہ مفتی عبداللہ ٹونکی، مولوی محبوب عالم، خلیفہ نظام الدین اور فقیر افتخار الدین، ان محفلوں میں شریک ہوا کرتے تھے۔ کبھی کبھی چودھری خوشی محمد ناظر اور میاں محمد شاہ دین ہمایوں بھی اس محفل میں رونق افروز ہوتے۔ میاں شاہ دین ہمایوں نے اپنی ایک نظم ’’چمن کی سیر‘‘ (مطبوعہ مخزن، ماہ اکتوبر ۱۹۰۱ئ) میں ان احباب کا بڑے لطیف پیرائے میں ذکر کیا ہے: اعجاز دیکھ تو سہی یاں کیا سماں ہے آج نیرنگ آسمان و زمیں کا نیا ہے رنگ اقبال تیری سحر بیانی کہاں ہے آج ناظر کمانِ فکر سے مار ایک دو خدنگ از نغمہ ہائے دلکشِ ایں چار یارِ ما پنجاب خوش نواست ہمایوں دیارِ ما۶۴؎ اسی زمانے میں لاہور کے مشہور فقیر خاندان سے اقبال کے مراسم کی ابتدا، فقیر سید وحید الدین کے درویش صفت نانا، فقیر سید افتخار الدین کے واسطے سے ہوئی، جن سے اقبال کے نیاز مندانہ تعلقات تھے۔ اقبال کے عزیز دوست فقیر سید نجم الدین (فقیر وحید الدین کے والد) موسیقی کے رسیا بھی تھے اور اس فن کے ماہر بھی۔ اقبال کے مخصوص حلقۂ احباب میں موسیقی کی رونق فقیر صاحب ہی کے دم سے تھی۔۶۵؎ ان ہم مشرب و ہم مذاق احباب کے علاوہ، شہر کی اُن بزرگ ہستیوں سے بھی اقبال کے گہرے تعلقات استوار ہو گئے تھے جو اردو ادب و صحافت کے ممتاز خادم تھے، مثلاً مولوی محبوب عالم جو مشہور زمانہ پیسہ اخبار کے علاوہ نشر و اشاعت کے ایک بہت بڑے ادارے کے مالک تھے۔پیسہ اخبار کا دفتر نوجوان صحافیوں کی تربیت گاہ اور شہر کے ادیبوں اور دانشوروں کے اجتماع کا ایک مرکز تھا۔ مئی ۱۹۰۰ء میں جب مولوی محبوب عالم صاحب سفرِ یورپ کے لیے روانہ ہونے لگے تو ایک الوداعی جلسے میں اقبال نے ’’خدا حافظ‘‘ کے عنوان سے جو نظم سنائی تھی اس میں فراقیہ اشعار کے علاوہ لطیف چٹکیاں بھی لی ہیں: تاڑ جاتے ہیں تاڑنے والے کھینچ کر لے چلا ہے ذوقِ نظر سیرِ دریا میں ہیں ہزار مزے جس کو دکھلائے خالقِ اکبر۶۶؎ اقبال کے بزرگ و محترم احباب میں مولوی سید ممتاز علی صاحب خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں۔ مولوی صاحب موصوف، سر سید کے چہیتے نیاز مند، مولانا محمد حسین آزاد اور مولوی محمد قاسم نانوتوی کے شاگرد، ایک اجتہاد پسند و روشن خیال عالم، حقوقِ نسواں کے پُر جوش مبلغ، رسالہ تہذیب نسواں (تاریخ اجرا یکم جولائی ۱۸۹۸ئ) کے بانی اور ایک نامور صحافی وادیب تھے۔ سر سید کے وسیلے سے پروفیسر آرنلڈ بھی ان کے قدر شناس احباب میں شامل تھے۔ لاہور آنے کے بعد مولوی صاحب سے آرنلڈ کے روابط مزید بڑھ گئے۔ سجاد حیدر یلدرم کے نام ایک خط میں مولوی صاحب نے آرنلڈ سے متعلق (رات کو بہ تاخیر اپنے گھر واپس جانے کا) جوا واقعہ لکھا ہے، اس سے دونوں کے گہرے دوستانہ مراسم کا پتا چلتا ہے۔۶۷؎ اقبال کبھی کبھی اپنے استاد کے ہمراہ اور کبھی تنہا، مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ باہر کے احباب میں جن سے ہفتوں اور مہینوں صحبتیں رہتی تھی، مولانا شیخ غلام قادر گرامی کا ذکر ضروری ہے۔ گرامی اور اقبال کے باہمی تعلقات کا آغاز بھی اسی زمانے میں ہوا۔ مکاتیبِ اقبال بنام گرامی کے مطالعے سے ان دونوں کے تعلقات کی گہرائی و استواری اور ان کی صحبتوں کے ادبی اور شعری لطف و لطافت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس دور میں بھی ان کی باہمی شیفتگی کا یہ عالم تھاکہ مولانا گرامی جب کسی تقریب سے لاہور آتے تو ہفتوں اقبال کے یہاں مہمان رہتے۔ چنانچہ فروری ۱۹۰۳ء میں انجمن حمایت اسلام کے جس جلسے میں اقبال نے اپنی نظم ’’ابرِ گہر بار‘‘ سنائی تھی، اس میں گرامی بھی موجود تھے۔ پھر اقبال کے آخر مارچ تک کے خطوط میں گرامی کی صحبتوں کا ذکر ملتا ہے۔ مثلاً ۱۱؍مارچ ۱۹۰۳ء کو منشی سراج الدین نے نام اپنے خط میں اقبال نے ایک ایسی ہی صحبت کا ذکر بڑے مزے سے کیا ہے: ’’آج عید کا دن ہے اور بارش ہو رہی ہے۔ گرامی صاحب تشریف رکھتے ہیں اور شعر و سخن کی محفل گرم ہے۔ شیخ عبدالقادر ابھی اٹھ کر کسی کام سے گئے ہیں سید بشیر حیدر بیٹھے ہیں اور ابرِگہربار کی اصل علت کی آمد آمد ہے۔ یہ جملہ شاید آپ کو بے معنی معلوم ہوگا مگر کبھی بہ وقتِ ملاقات آپ پر اس کا مفہوم واضح ہو جائے گا۔‘‘۶۸؎ (اس کی وضاحت آئندہ مناسب موقع پر ہو گی‘‘۔ راقم) ایسے موقعوں پر جب ناظر و میر نیرنگ بھی لاہور آ نکلتے تو اقبال کی محفلِ شعر و سخن کا لطف دوبالا ہو جاتا تھا۔ مولانا حبیب الرحمن شروانی کے نام ایک خط میں، جو غالباً آخر مارچ میں لکھا گیا، اقبال نے بڑی حسرت سے ان صحبتوں کا ذکر کیا ہے جو انجمن کے محولہ بالا جلسے کے بعد برپا ہوتی تھیں: افسوس ہے کہ آپ تشریف نہ لا سکے۔ میر نیرنگ تشریف لائے تھے۔ چودھری خوشی محمد (ناظر) تھے۔ مولانا گرامی بھی تھے۔ غرضیکہ محفلِ احباب کے سب ارکانِ مشیدہ موجود تھے۔ اگر آپ ہوتے تو ایک آدھ رات خوب گزر ہوتی… مولانا گرامی میرے پاس ٹھہرے ہوئے ہیں…۶۹؎ مولانا گرامی فنا فی الشعر تھے، لہٰذا ان کی صحبت کا ہر لمحہ شعر و سخن ہی کے ذکر و فکر میں گزرتا تھا۔ اقبال نے اگرچہ طالب علمی کے زمانے سے اب تک برابر کلاسیکی شاعری کا مطالعہ جاری رکھا لیکن ایسے بزرگ شاعر و فن کار کی صحبت نے یقینا ان کے فارسی کے ذوق سخن کو جلا بخشی ہو گی جو بقول مولانا غلام رسول مہر ’’کلاسیکی فارسی شاعری کے کامل الفن ادا شناسوں میں سے تھا۔‘‘۷۰؎ اقبال کے یہاں احباب کی یہ محفلیں خاص موقعوں پر منعقد ہوتیں ورنہ عموماًیہ ہوتا کہ وہ شام کے وقت مٹر گشت کے لیے نکل جاتے اور چند گھنٹے بازار حکیماں کی ادبی مجلس یا دیگر احباب کی صحبت میں گزارتے تھے۔ اپنی ایک نظم (دین و دنیا) کے پہلے شعر میں وہ اپنی روزمرہ کی گشت کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: دہلی دروازے کی جانب ایک دن جاتا تھا میں شام کو گھر بیٹھے رہنا قابلِ الزام ہے۷۱؎ ان صحبتوں میں اقبال کی فقرہ بازی، بذلہ سنجی یا ان کی وجد آفرین و پُر سوز نغمہ سرائی جانِ محفل ہوا کرتی تھی۔ اس زمانے میں کسے یہ خبر تھی کہ یہ زندہ دل، سخن طراز نوجوان، شہرت و عظمت کی اُن بلندیوں تک پہنچ جائے گا کہ اس کے اذکار و آثار کی تلاش میں آئندہ نسلیں سرگرداں رہیں گی۔ چنانچہ اس دور کی باتیں بہت کم یاد رکھی گئیں۔ حتیٰ کہ ان کے عزیز دوست میر نیرنگ بھی عذر خواہ ہیں کہ ’’ہم کو اُس وقت اتنا شعور ہی نہ تھا کہ اُس زمانے کے اقبال میں زمانۂ مابعد کے اقبال کو دیکھ لیتے… اگر ہم اُس وقت یہ سمجھ سکتے تو ہم اُسی وقت سے اس کے حالات و ملفوظات کی یاد داشتیں رکھنے لگتے…۷۲؎ بہرحال اقبال کی بدیہہ گوئی کے چند واقعات ان صحبتوں کی یاد گار ہیں۔ اس زمانے میں اقبال کی طباعی اور قادر الکلامی کا یہ عالم تھا کہ احباب کی فرمائش پر ارتجالاً ایک ہی نشست میں کئی کئی شعر کی غزلیں اور نظمیں کہہ لیتے تھے۔ فروری، مارچ ۱۹۰۳ء میں گرامی کی جن صحبتوں کا ذکر اوپر آ چکا ہے، ان کا سلسلہ غالباً اپریل تک جاری رہا، کیوں کہ مئی ۱۹۰۳ء کے مخزن میں ’’اہلِ درد‘‘ کے عنوان سے جو طویل دو غزلہ (۱۴؍ اور ۱۷؍اشعار پر مشتمل) شائع ہوا ہے وہ ایک ایسی ہی صحبت میں ارتجالاً کہا گیا تھا۔ غزلوں سے پہلے، نوٹ میں یہ پس منظر بیانِ کیا گیا ہے: چند روز ہوئے اقبال، گرامی اور بسمل، تینوں حضرات ایک محفل میں تشریف رکھتے تھے۔ صاحبِ خانہ نے جو نوازش نام اور تخلص رکھتے تھے، ایک مصرع بہ ردیف ’’اہلِ درد‘‘ پڑھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اقبال نے بیان کیا تھا کہ انھیں دردِ قولنج کی شکایت ہے اور اس وقت اس کے آغاز کے آثار معلوم ہوتے تھے۔ اس پر غزل کی فرمائش ہوئی اور اقبال نے یہ حالتِ درد مندرجہ ذیل دو غزلیں اس زمین میں کہیں۔ مولوی عبداللہ بسمل، ایک فارسی قطعہ تمہیداً ان کے ساتھ لکھ کر انھیںبہ غرضِ اشاعت بھیجتے ہیں۔‘‘۷۳؎ ان غزلوں کے دو دو شعر (مطلع اور مقطع) درج ذیل ہیں: ۱) زندگی دنیا کی مرگِ ناگہانِ اہلِ درد موت پیغامِ حیاتِ جاودانِ اہلِ درد ارتجالاً ہم نے اے اقبال کہہ ڈالے یہ شعر تھی نوازش کو جو فکرِ امتحانِ اہلِ درد ۲) صبرِ ایوبِ وفا خُو، جزوِ جانِ اہلِ درد گریۂ آدم سرشتِ دودمانِ اہلِ درد کہہ دیا اقبال اک مصرع نوازش نے جو آج وہ بہانہ بن گیا بہرِ بیانِ اہلِ درد۷۴؎ یہ اہلِ درد کی محفل تھی لہٰذا یہ غزلیں بھی اپنے اسلوب و آہنگ کے اعتبار سے گویا ’’بیان اہلِ درد‘‘ ہیں۔ لیکن اس سے ایک ماہ پہلے اپریل ۱۹۰۳ء کے مخزن میں اقبال کی ایک مشہور غزل شائع ہوئی تھی، جو ایک جشنِ طرب کی تقریب میں ارتجالاً کہی گئی اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں ’’عاشقوں کی بولی ٹھولی‘‘ کا اندازنمایاں ہے۔ اس غزل کا پس منظر یہ ہے کہ سیالکوٹ کے رئیس اعظم آغا محمد باقر خان قزلباش کے فرزندِ ارجمند، محمد ناصر کے ختنہ کے غسلِ صحت کی خوشی میں ایک تقریب منعقد ہوئی تھی جس میں اقبال بھی مدعو تھے۔ کسی نے حضرت امیر مینائی کا شعر پڑھ کر اسی زمین میں غزل کہنے کی فرمائش کی۔ چنانچہ اقبال نے ۱۹ اشعار کی یہ غزل کہی اور اسے ’’اپنے دوست کے بیٹے کی اس تقریبِ سعید کا سہرا قرار دیا۔‘‘ غزل کا مطلع و مقطع درج ذیل ہے: لڑکپن کے ہیں دن، صورت کسی کی بھولی بھولی ہے زباں میٹھی ہے، لب ہنستے ہیں، پیاری پیاری بولی ہے گلِ مضموں سے اے اقبال یہ سہرا ہے ناصر کا غزل میری نہیں ہے، یہ کسی گلچیں کی جھولی ہے۷۵؎ اس قسم کی فرمائشی غزلوں کے علاوہ ایسی کئی نظمیں بھی ملتی ہیں جو کسی خاص موقعہ پر ارتجالاً کہی گئیں۔ مثلاً باقیاتِ اقبال میں ایک نظم ’’ہم نچوڑیں گے دامن‘‘درج ہے جو فوق صاحب کے کشمیری گزٹ (ستمبر ۱۹۰۲ئ) میں شائع ہوئی تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ کسی دوست نے ایک عجیب مصرع دیا: ’’صنم چھوڑ دے ہم نچوڑیں گے دامن‘‘ اور اس پر گرہ لگانے یا تضمین کرنے کی فرمائش کی۔ اقبال نے چند منٹ میں اپنے زورِ تخیّل سے ۹؍اشعار پر مشتمل یہ نظم کہہ ڈالی۔۷۶؎ اسی طرح ’’شکریۂ انگشتری‘‘کے عنوان سے ۲۹ مرصَع اشعار کی نظم بھی ’’قلم برداشتہ‘‘ لکھی گئی جس کے ہر شعر میں بندشِ الفاظ اور مضمون آفرینی کا کمال، غالب کی ’’چکنی ڈلی‘‘ کی یاد دلاتا ہے۔۷۷؎ انجمن حمایتِ اسلام کے سالانہ جلسوں میں ایک خاص نظم کے علاوہ، کبھی کبھی انھیں فرمائشی نظمیں بھی کہنی پڑتی تھیں جو عین وقت پر لکھوائی جاتیں۔ مثلاً ۱۹۰۲ء کے ایک جلسے میں لیفٹیننٹ گورنر صوبہ پنجاب کی آمد پر’’خیر مقدم‘‘ کے عنوان سے ۲۲ اشعار کی ایک نظم انھوں نے پڑھی تھی۔ اسی طرح کی فرمائشی نظموں میں ایک نظم ’’ترانۂ ہندی‘‘ملک بھر میں مشہور و مقبول ہوئی۔ ترانے کی تخلیق و اشاعت کا پس منظر یہ ہے کہ لاہور کے نوجوان طلبہ کے ایک ذہین و ہردل عزیز رہنما، لالہ ہردیال (طالب علم ایم۔ اے گورنمنٹ کالج، لاہور) نے وائی۔ ایم۔ سی۔ اے والوں کے اہانت آمیز رویے سے دل برداشتہ ہو کر ایک قومی کلب وائی۔ ایم۔ آئی۔ اے (ینگ مینز انڈین ایسوسی ایشن) کی طرح ڈالی اور شہر کے تمام طلبہ وطن پرستی اور قومی غیرت کے جذبے کے تحت متحد ہو گئے۔ لالہ ہردیال نے اس قومی کلب کے افتتاحی اجلاس کی صدارت کے لیے اقبال کو مدعو کیا۔ تین بجے سہ پہر کو قومی کلب کے جلسۂ افتتاح کے انعقاد کی تجویز منظور ہوئی اور اقبال کو مدعو کیا گیا۔ اسی دن چھ بجے جلسہ منعقد ہوا۔ اقبال نے خطبۂ صدارت کی جگہ اپنے خاص انداز میں ترانہ سنانا شروع کیا: ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘۔ لاہور کے مشہور ادبی ماہناموں، نیرنگ خیال و عالم گیر کے دور کے ایک ادیب اور اقبال کے نیازمند محمد عمر (معروف بہ ’’محمد عمر نور الٰہی‘‘) جو اُن دنوں ایف۔ سی کالج کے طالب علم تھے اور اس واقعے کے راوی ہیں، بیان فرماتے ہیں: ’’علامہ ترنم سے پڑھ رہے تھے اور لوگ جھوم رہے تھے۔ مگر ہم جو روزانہ بلا ناغہ شام کو حاضر خدمت ہوا کرتے تھے، حیران تھے کہ نظم کب کہی؟ وہ نظم پڑھتے گئے اور میں پنسل سے کاغذ پر اتارتا چلا گیا۔‘‘ محمد عمر صاحب نے بہ عجلت نقل کی ہوئی نظم کا مسودہ مولانا شرر کے رسالہ دلگداز میں اشاعت کے لیے بھیج دیا۔مسودہ ناقص تھا لہٰذا نظم چھپی تو اس میں بعض غلطیاں پائی گئیں۔ حریفوں اور نکتہ چینوں کو اچھا موقعہ ہاتھ آ گیا۔ ہمارے ادبی نقاد، لسانی و عروضی موشگافیوں میں الجھے رہتے تھے۔ مولانا حسرت موہانی نے تو اپنے رسالہ ’’اردوئے معلی‘‘ کے کئی مضامین میں مولانا حالی جیسے بزرگ شاعر کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ پھر وہ اپنے ایک نوجوان معاصر کو کیسے بخش دیتے۔/ اقبال دلآزارانہ تنقیدیں بھی صبر و تحمل سے برداشت کرنے کے عادی تھے۔لیکن اس ِمرتبہ ان کے غم و غصہ کا سبب نظم کے ناقل و فریسندہ کی غیر ذمہ دارانہ حرکت تھی، اگرچہ ایک مدت تک یہ راز نہ کھل سکا کہ ان کا وہ ’’نادان دوست‘‘ کون تھا؟۷۹؎ شیخ عبدالقادر نے بانگِ درا کے دیباچے میں اقبال کی ایک خصوصیت یہ بیان کی ہے کہ ’’بایں ہمہ موزونیٔ طبع حسبِ فرمائش شعر کہنے سے قاصر تھے۔‘‘۸۰؎ لیکن مندرجہ بالا واقعات سے شیخ صاحب کے اس بیان کی تردیدہوتی ہے۔ ممکن ہے یہ کیفیت بعد میں رونما ہوئی ہو۔ تاہم شیخ صاحب نے اُس دور میں اقبال کی کیفیتِ شعر گوئی کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ حرف بحرف صحیح ہے اور دیگر روایتوں سے بھی اس بیان کی تائید ہوتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’شیخ صاحب اس وقت طالب علمی سے فارغ ہو کر گورنمنٹ کالج میں پروفیسر ہو گئے تھے… طبیعت زوروں پر تھی۔ شعر کہنے کی طرف جس وقت مائل ہوتے تو غضب کی آمد ہوتی تھی۔ ایک ایک نشست میں بے شمار شعر / اس نظم کا مقطع دلگداز میں یوں شائع ہوا تھا: اقبال کوئی محرم اپنا نہیں جہاں میں معلوم ہے ہمیں کو راز نہاں ہمارا جس پر یہ اعتراض ہوا تھا کہ بلحاظ محاورہ ’’ہمارا‘‘ کے بجائے ’’اپنا‘‘ہونا چاہیے۔ اکتوبر ۱۹۰۴ء کے شمارئہ مخزن میں جب یہ نظم ’’ہمارا دیس‘‘ کے عنوان سے اصل متن کے مطابق شائع ہوئی تو مولانا حسرت موہانی نے ’’اردوئے معلی‘‘ علی گڑھ کی اشاعت نومبر ۱۹۰۴ء میں اقبال کو سراہا کہ وہ ’’نکتہ چینوں کی نکتہ چینی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں‘‘ لیکن اسی شمارے میں اقبال کے طویل مضمون ’’قومی زندگی ‘‘کی پہلی قسط شائع ہوئی تھی۔ مولانا کو نکتہ چینی کی حسرت نکالنے کا ایک اور موقع مل گیا اور وہ مضمون نگار کی زبان و محاورہ کی غلطیاں نکالنے بیٹھ گئے۔ چنانچہ لکھتے ہیں: ’’حضرت اقبال کی نظمیں روز بروز زبان کے لحاظ سے صاف ہوتی جاتی ہیں۔ کاش کہ جیسی توجہ اور احتیاط وہ اپنی نظم میں کرتے ہیں، ویسی ہی نثر میں بھی کرتے۔ کیونکہ ہم افسوس کے ساتھ دیکھتے ہیں کہ اس پرچے میں ان کے لیکچر موسوم بہ قومی زندگی میں بہت سے اغلاط موجود ہیں…‘‘(بحوالہ اقبال ریویو، کراچی، شمارہ جنوری ۱۹۶۳ء ، مقالہ( ’’چند نوادر‘‘ از اکبر علی خاں ، ص ۵۱-۵۲) ہو جاتے تھے۔ ان کے دوست اور بعض طالب علم جو پاس ہوتے، پنسل کاغذ لے کر لکھتے جاتے اور وہ اپنی دُھن میں کہتے جاتے تھے۔ میں نے اُس زمانے میں انھیں کبھی کاغذ قلم لے کر فکر سخن کرتے نہیں دیکھا۔ موزوں الفاظ کا ایک دریا بہتا یا ایک چشمہ ابلتا معلوم ہوتا تھا۔ ایک خاص کیفیت رقت کی عموماً ان پر طاری ہوتی تھی۔ اپنے اشعار سریلی آواز میں ترنم سے پڑھتے تھے۔ خود وجد کرتے اور دوسروں کو وجد میں لاتے تھے۔ یہ عجیب خصوصیت ہے کہ حافظہ ایسا پایا ہے کہ جتنے شعر اس طرح زبان سے نکلیں، اگر وہ ایک مسلسل نظم کے ہوں تو سب کے سب دوسرے وقت اور دوسرے دن اُسی ترتیب سے حافظے میں محفوظ ہوتے ہیں۔۸۱؎ اپنے عہد کے اُن نوجوان ادیبوں اور شاعروں کی طرح، جن کے ذہن و ذوق کو مغربی ادب کے گہرے مطالعے نے جلا بخشی تھی، اقبال بھی زمانۂ طالب علمی ہی میں اردو شاعری کو مغربی شاعری کی فنی بلندیوں تک پہنچانے کے خواب دیکھا کرتے تھے، اور بقول میر نیرنگ دوستوں کی محفل میں ’’اردو شاعری کی اصلاح و ترقی کا اور اس میں مغربی شاعری کارنگ پیدا کرنے کا ذکر بار بار آیا کرتا تھا۔‘‘ اقبال کے دوست ، شیخ عبدالقادر بھی نئے ادبی رجحانات کے حامل تھے۔ میاں شاہ دین ہمایوں، جو ۱۸۹۰ء میں ولایت سے بیرسٹری پاس کرنے کے بعد علی گڑھ تحریک سے وابستہ ہو کر مختلف ادبی و قومی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے تھے، نوجوانوں کے اس حلقے میں شامل ہو گئے۔۸۲؎ اُنیسویں صدی ختم ہوتے ہوتے ان ادیبوں اور شاعروں نے ایک ادبی انجمن قائم کرکے ’’انجمن پنجاب‘‘ کی ادبی روایات کو زندہ کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ چنانچہ اس انجمن میں ادبی مقالات اور جدید طرز کی نظمیں پڑھی جاتی تھیں۔ خان احمد حسین خاں کا بیان ہے کہ ’’میاں شاہ دین کی تحریک پر فیصلہ ہوا کہ مناظرِ قدرت پر نظمیںلکھی جایا کریں … نظموں کے عنوان میں پہلا عنوان ’’ہمالہ‘‘ تجویز کیا گیا۔میں نے اور ڈاکٹر صاحب نے اس مجلس میں ’’ہمالہ‘‘ پرنظمیں پڑھیں… میری نظم، میرے مجموعۂ منظومات ’’آب بقا‘‘ میں شامل ہے۔‘‘۸۳؎ اقبال کی نظم بے حد مقبول ہوئی۔جب اس نئی ادبی تحریک کو فروغ دینے کی غرض سے اپریل ۱۹۰۱ء میں رسالہ مخزن جاری ہواتو مدیر مخزن، شیخ عبدالقادر نے اقبال کی معذرت کے باوجود مخزن کے پہلے شمارے کے لیے ’’زبر دستی ان سے وہ نظم لے لی۔‘‘ شیخ صاحب لکھتے ہیںکہ ’’یہاں سے گویا اقبال کی اردو شاعری کا پبلک طور پر آغاز ہوا۔‘‘۸۴؎ یہ بات پورے طور پر صحیح نہیں۔اس سے پہلے وہ انجمن حمایتِ اسلام کے سالانہ اجتماعات میں اپنی دو طویل نظمیں پیش کرکے عوام و خواص کے ایک وسیع حلقے میں قومی شاعر کی حیثیت سے متعارف ہو چکے تھے۔ ملکہ وکٹوریہ کی وفات پر اشکِ خوں کے عنوان سے ان کا طویل مرثیہ، انگریزی ترجمے کے ساتھ فروری ۱۹۰۱ء میں بصورت کتابچہ شائع ہو کر اہلِ نقد و نظر کے سامنے آ چکا تھا۔ ان کی کئی غزلیں بھی مختلف رسائل میں چھپ چکی تھیں۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ جب مخزن کے ہر شمارے میں ماہ بہ ماہ، اقبال کی نظمیں اور غزلیں شائع ہونے لگیں تو اقبال کی شہرت و مقبولیت کا دائرہ ملک بھر کے ادبی حلقوں تک پھیل گیا اور بہت جلد وہ اس محفلِ ادب کے صدر نشین بن گئے جو مخزن کے صفحات میں،ملک بھر کے جواں فکر و جدت طراز ادیبوں اور شاعروں کے تعاون سے آراستہ ہوتی تھی۔ اقبال کی ہمہ گیر فطانت، علمی و ادبی مشاغل کے علاوہ قومی مسائل و تحریکات کا بھی گہری نظر سے جائزہ لے رہی تھی۔ زمانۂ طالب علمی میں انجمن کشمیریانِ لاہور کے اصلاحی مقاصد سے ان کی دلچسپی کا ذکر گزشتہ صفحات میں آ چکا ہے۔ اب وہ اس انجمن کے ایک فعال رکن بن چکے تھے۔ ۱۹۰۱ء میں، جب امرتسر میں پہلی کشمیر کانفرنس منعقد ہوئی، جس میںنواب سر سلیم اللہ خاں (ڈھاکہ) مہمان خصوصی تھے تو اس تاریخی اجتماع میں اقبال بھی شریک ہوئے۔۸۵؎ اسی سال جنوری میں ملکہ وکٹوریہ کی وفات پر پورے ملک میںسوگ منایا گیا۔ملکہ کی شخصیت عوام میں ہر دل عزیز تھی، خصوصاً مسلمان قوم ملکہ کے اس احسان کو کبھی فراموش نہ کر سکی کہ انقلاب ۵۷ء کے بعد اسی ’’مادرِ مہربان‘‘کے فرمانِ عفوِ عام نے برطانوی حکام کے جنونِ انتقام کی آگ بجھائی تھی۔ چنانچہ ملکہ کی وفات پر مسلمانوں کی جانب سے بھی جابجا ماتمی جلسے منعقد ہوئے۔ ۲۶؍جنوری کو مسلمانانِ سیالکوٹ کی جانب سے جو تعزیتی جلسہ ہوا، اس میں اقبال نے بھی تقریر کی۔ ۴؍فروری ۱۹۰۱ء کے سراج الاخبار (جہلم ) میں اس جلسے کی روداد اور اقبال کی تقریر کا خلاصہ شائع ہوا تھا۔۸۶؎ لاہور کے تعزیتی جلسے میں اقبال نے ’’اشکِ خوں‘‘ کے عنوان سے دس بند اور ایک سو دس اشعارپر مشتمل ایک ترکیب بند نظم پیش کی۔ یہ نظم اور اس کا انگریزی ترجمہ فروری ۱۹۰۱ء میں مطبع مفید عام لاہور سے شائع ہوا تھا۔۸۷؎ (۵)اقبال اور انجمن حمایت اسلام اقبال کے اس دور شاعری کا ایک اہم واقعہ انجمن حمایت اسلام سے ان کی مستقل وابستگی کی ابتدا ہے، جو انجمن کے پندرھویں سالانہ جلسے (منعقدہ ۲۴؍فروری ۱۹۰۰ئ) میں ان کی نظم ’’نالۂ یتیم‘‘سے ہوئی۔ یہ واقعہ اس عظیم قومی ادارے کی تاریخ میں بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ ایک علاقائی اور مقامی ادارہ ہونے کے باوجود اس انجمن نے اپنے کارکنوں کے خلوص نیت اور اپنی گونا گوں دینی ، تعلیمی اور رفاہی خدمات کی بدولت ایسی نیک نامی حاصل کی کہ ملک بھر کے قومی اکابر اس کے سالانہ جلسوں میں شرکت فرماتے رہے۔ لیکن ان مشاہیر و اکابر میں صرف دو شخصیتیں ایسی ہیں، جن کی مستقل وابستگی اور انجمن آرائی اس ادارے کے فروغ و استحکام کا باعث ہوئی۔ انجمن حمایت اسلام کے قیام (۱۸۸۴ئ) کے چند سال بعد جب اس ادارے کو سر سید کی انتہا پسندانہ تعلیمی پالیسی کے نتیجے میں مقامی و بیرونی مخالفتوں کے طوفان کا مقابلہ کرنا پڑا، اس بحرانی دور میں شمس العلماء مولوی نذیر احمد دہلوی کی باوقار شخصیت اور سحر طراز خطابت، مسلسل اٹھارہ سال تک انجمن کی پشت پناہی کرتی رہی۔۸۸؎ اُنیسویں صدی کے خاتمے پر جب نذیر احمد کی بلند آہنگ خطابت کی گھن گرج ذرا کچھ مدھم پڑنے لگی تو انجمن کے جلسوں میں اقبال کی نوائے پرسوز بلند ہونا شروع ہوئی، اور جلد ہی وہ وقت آیا کہ ساری قوم اُس کلام و پیغام پر گوش برآواز رہنے لگی،جو انجمن کے پلیٹ فارم سے سال بہ سال نشر ہوا کرتے تھے۔ ابتدا میں اقبال اپنا کلام تحت اللفظ سناتے تھے، لیکن جب ان کے احباب کی زبانی ان کی خوش الحانی کا چرچا پھیلا تو جلسوں میں ترنم سے پڑھنے کی فرمائشیں ہونے لگیں۔دس دس ہزار کے مجمع میں خواص و عوام سب کے سب ، شاعر کے دل گداز ترنم اور پرسوز آواز کی کیفیت میں ڈوب جاتے اور جب تک نظم پڑھی جاتی، لوگ دم بہ خود بیٹھے رہتے۔ نو مشق شعرا میں ان کے طرز شعر خوانی کے کئی مقلد پیدا ہو گئے۔بقول شیخ عبدالقادر، طرز اقبال کے کامیاب ترین نقال خواجہ دل محمد دل تھے (جو بعد میں اسلامیہ کالج کے پروفیسر ریاضیات، وائس پرنسپل اور پرنسپل ہوئے) مرزا ارشد گورگانی انجمن کے جلسوں میں اپنی نظم تحت اللفظ پڑھتے تھے۔ ایک نظم میں انھوں نے اقبال اور ان کے مقلدوں پر یوں طنز کیا: ’’نظمِ اقبالی نے ہر اک کو گویا کر دیا۔‘‘۸۹؎ اقبال نے اپنی نظم ’’تصویر درد‘‘ کے اس شعر میں ایسے ہی نقالوں کی طرف اشارہ کیا ہے: اُڑا لی قمریوں نے، طوطیوں نے، عندلیبوں نے چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرزِ فغاں میری۹۰؎ اقبال کی طرز فغاں بہتوں نے اُڑائی،لیکن اس فغاں کا سوز و گداز کسی کے کلام میں پیدا نہ ہو سکا۔ انجمن کے جلسوں میں قومی شاعری کی روایت برسوں سے چلی آ رہی تھی اور اس کا تسلسل دور حاضر تک قائم رہا۔ اس صدی کے ابتدائی عشروں میں قومی شاعری کا اتنا زور بڑھا کہ ہزاروں کے مجمعے میں مرکز نگاہ بننے اور داد و تحسین حاصل کرنے کی خواہش، ہر موزوں طبع نوجوان کو قومی شاعر بننے پر اکساتی تھی۔ لیکن اقبال کی قومی شاعری ایک پیغمبرانہ جذبے کا نتیجہ تھی۔ بہرحال، اگرچہ ایک قومی و ملی شاعر اور بعد میں، انجمن کے جنرل سیکرٹری و صدر کی حیثیت سے ، اقبال نے انجمن کی بیش بہا خدمات انجام دیں لیکن ابتدائی دور میں انجمن نے بھی اقبال کی ذہنی نشو و نما میں ایک خاص کردار ادا کیا، جس کا اعتراف ضروری ہے۔ اُنیسویں صدی کے آخری عشرے کے آغاز ہی سے انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے، مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے جلسوں کی طرح قومی میلے سمجھے جاتے تھے، لیکن دونوں کے رنگ ڈھنگ جدا جدا تھے۔ کانفرنس کا دائرۂ عمل تعلیمی، تہذیبی اور اقتصادی مسائل تک محدود تھا۔ انجمن کی تعلیمی و رفاہی سر گرمیوں کے باوجود، اس کی کارروائیوں اور جلسوں میں مذہبی پہلو ہمیشہ نمایاں رہا۔ کانفرنس کا تعلق خواص سے تھا۔ اس کے جلسوں میں ہر علاقے کے مسلمانوں کے نمائندے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کثیر تعداد میں شریک ہوتے تھے۔ قومی مسائل پر سنجیدگی سے بحث ہوتی اور پُرمغز تقریریں کی جاتیں۔ انجمن کا رابطہ عوام سے زیادہ گہرا تھا اور عوام کے لیے سنجیدہ تقریروں سے زیادہ ، پرجوش مذہبی خطبے اور قومی و ملی نظمیں موثر ثابت ہوتیں۔ لہٰذا انجمن کے جلسوں میں قومی شاعری کی تحریک کو بڑا فروغ حاصل ہوا۔ یہاں سکول اور کالج کے نوآموز شاعروں سے لے کر ارشد گورگانی جیسے کہنہ مشق استاد تک، سبھی اپنی نظموں سے لوگوں کے قومی اور ملی جذبات کی آبیاری کرتے تھے۔ یہ نظمیں عموماً مسدس اور ترکیب بند کی صورت میں ہوتیں۔ نوجوان شعرا میں اقبال کے علاوہ چودھری خوشی محمد ناظر، میر غلام بھیک نیرنگ اور خان احمد حسین خاں کی نظموں کا ادبی معیار خاصا بلند ہوتا۔ یہاں بھی مشاعروں کی سی مقابلے و مسابقے کی فضا موجود تھی۔ انجمن کے جلسوں میں نظم خوانی کی لے اتنی بڑھی کہ بعض اخباروں میں نکتہ چینی ہوئی اور مولانا حالی کو، جو قومی مجالس میں نظم خوانی کی روایت کے بانی تھے، ان اعتراضات کے جواب میں یہ عذر پیش کرنا پڑا: ’’انجمن حمایت اسلام میں جو سالانہ جلسہ ہوتا ہے … اس جلسے میںتعلیم یافتہ لوگوں کے علاوہ کثرت سے ایسے لوگ جمع ہوتے ہیں جن کی دلچسپی کے لیے کم و بیش نظموں کا پڑھا جانا سر دست فائدے سے خالی نہیں معلوم ہوتا۔‘‘۹۱؎ اب اگر انجمن کے جلسہ گاہ پر نظر ڈالیے تو آپ کو یہاں بزرگانِ قوم، علمائے دین،شرفائ، وکلائ، شعرائ، اساتذہ، سکولوں اور کالجوں کے طلبہ اور ان سب سے کئی گنا زیادہ پرجوش عوام کا ایک جم غفیر نظر آئے گا۔ یہ عوام کا لانعام نہیں بلکہ قومی شعور سے بہرہ مند اور ملّی جذبے سے سرشار عوام تھے، جنھیں سر سید نے اپنے ابتدائی دورے میں ’’زندہ دلانِ پنجاب ‘‘ کے لقب سے مخاطب کیا تھا۔ غرض انجمن کا جلسہ اپنے عناصر ترکیبی اور مجموعی فضا و ماحول کے لحاظ سے قوم کی حالت کا صحیح نمائندہ تھا۔ جب اقبال اپنی نظمیں یہاں سناتے تو حاضرین کے والہانہ جوشِ عقیدت اور بے ساختہ داد و تحسین سے یہ محسوس کرتے تھے گویا وہ پوری قوم سے مخاطب ہیں اور ان کے دل کی دھڑکنیں، لاکھوں کروڑوں دلوں میںمنتقل ہو رہی ہیں۔ رفتہ رفتہ انجمن کا یہ جلسہ اقبال کے لیے قوم کی علامت بن گیا۔ چنانچہ بانگِ درا کی نظموں میں محفل، بزم اور سب سے زیادہ ’’انجمن‘‘ کا لفظ بطور استعارہ استعمال ہوا ہے۔ جس طرح اگلے وقتوں میں مشاعرے کے اہلِ ذوق سامعین کا تصور، غزل گو شعراء کے خیالات میں ترفّع اور فن میں بلندی پیدا کرتا تھا، اسی طرح انجمن کے جلسوں میں قوم سے براہِ راست تخاطب کا یہ تجربہ ، اقبال کے جذبۂ تخیّل کے لیے ایک زبر دست محرک ثابت ہوا اور غالباً ان کی قومی و ملّی نظمیں اس تجربے اور تحریک کے بغیر اتنی جان دار نہ ہوتیں۔ انجمن کے جلسوں کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ ملک کے گوشے گوشے سے اکابر علماء اس میں شریک ہوتے اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مسائلِ حاضرہ پر فکر انگیز تقریریں کرتے تھے۔ ان مشاہیر میں سے حضرت سلیمان شاہ پھلواروی، مولوی نذیر احمد دہلوی، علامہ شبلی نعمانی اور مولانا ثناہ اللہ امرتسری تو اکثر تشریف لایا کرتے تھے۔ فکر ارتقا کے اس دور میں اقبال ان اکابر قوم سے متاثر و مستفید بھی ہوئے اور انجمن ہی کی وساطت سے ان بزرگوں نیز خواجہ حسن نظامی، ابوالکلام آزاد، مولانا حبیب الرحمن شروانی وغیرہ نوجوان فضلا سے ان کے ذاتی تعارف اور دیرپا تعلقات کی ابتدا بھی ہوئی۔ انجمن کے انھی جلسوں نے، جہاں ہزاروں سامعین کا مجمع داد و تحسین کے پھول برساتا تھا اور جہاں نذیر احمد، حالی اور شبلی جیسے بزرگانِ ادب بھی حوصلہ افزا کلمات سے نوجوان شاعر کو نوازتے تھے، چند ہی سال کے قلیل عرصے میں اقبال کو لاہور کی ہر دلعزیز شخصیت بنا دیا۔ ان کی یہ نظمیں مقامی اخبارات و رسائل میں چھپ کر ملک بھر میں پھیل جاتی تھیں۔ ادھر مخزن اور دیگر ادبی رسائل کے ذریعے بھی اقبال کی شعری تخلیقات دور دور کے ادبی حلقوں میں مقبول ہو رہی تھیں۔وہ نہ صرف مقامی طور پر نئی نسل کے شاعروں اور ادیبوں کے ہیرو بن گئے بلکہ بقول میرنیرنگ ’’جدید شاعری کے روح و رواں‘‘۹۲؎ سمجھے جانے لگے۔جدید مذاق کے سخن وروں اور سخن سنجوں کی نگاہیں ملک کے ہر گوشے سے اقبال پر اٹھنے لگیں۔ ایسے ہی ایک موقع پر اقبال نے یہ غزل کہی تھی: پاس والوں کو تو آخر دیکھنا ہی تھا مجھے نادرِ کاکوروی نے دور سے دیکھا مجھے۹۳؎ (۶) شخصیت کے چند نمایاں پہلو شاعر اور وہ بھی نوجوان شاعر ’’نرگسیت‘‘ کی حد تک خود بیں ہوتا ہے۔ اگر اسے قبولیتِ عامہ حاصل ہو جائے تو پھر اس کی انانیت کا کوئی ٹھکانا نہیںرہتا۔ لیکن یہ اقبال ہی کا ظرف تھا کہ عقیدت مند نگاہوں کے ہجوم میں بھی ان کے ذہن و مزاج کا توازن برقرار رہا۔ نہ انھیں سخنوری کا دعویٰ تھا، نہ اپنے تبحّرِ علمی کاغرّہ۔ وہ برابر اساتذئہ سخن کے کلام کے مطالعے اور اربابِ فن کی صحبتوں سے کسبِ فیض کرتے رہے۔ نکتہ سنج احباب کو اپنے کلام پر تنقید کی دعوت دیتے اور ان کے صائب مشوروں کو شکریے کے ساتھ قبول کرتے تھے۔ مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی ان مخلص اور سخن شناس احباب میں تھے جن کی داد و تحسین اقبال کے لیے وجہِ طمانیت اور جن کی تنقید باعثِ ممنونیت ہوتی تھی۔ اقبال ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’نظرثانی کے وقت آپ کی تنقیدوں سے فائدہ اٹھائوں گا۔ اگر میری ہر نظم کے متعلق آپ اسی قسم کا خط لکھ دیا کریں تو میں آپ کا نہایت ہی ممنون ہوں گا۔‘‘۹۴؎ لیکن ایک ابھرتے ہوئے شاعر کے بعض تنگ دل معاصرین، تنقید کے نام پر اپنے جلے دل کے پھپھولے پھوڑنے لگتے ہیں۔ اقبال کے ساتھ بھی یہی ہوا اور ان کے نکتہ چینوں کی صف میں اس دور کے دو نوجوان شاعر (چکبست لکھنوی اور حسرت موہانی) پیش پیش نظر آتے ہیں۔ ان کے قدر شناس احباب ایسے حریفانہ حملوں کا ترکی بہ ترکی جواب دینا چاہتے لیکن اقبال عموماً یہ کہہ کر خاموش رہ جاتے: بُرا سمجھوں انھیں، مجھ سے تو ایسا ہو نہیں سکتا کہ میں خود بھی تو ہوں اقبال اپنے نکتہ چینوں میں۹۵؎ صرف ایک مرتبہ کسی نام نہاد ’’ہمدرد‘‘ کی بیدردانہ و جارحانہ تنقیص کے جواب میں اقبال نے ایک معقول و مدلل مضمون لکھا جوسالہ مخزن (اکتوبر ۱۹۰۲ئ) میں ’’اردو زبان پنجاب میں‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ اس مضمون کے فنی و لسانی مباحث کا جائزہ کسی مناسب مقام پر لیا جائے گا۔ یہاں محض اقبال کے شخصی مطالعے اور ذہنی رویے کے سلسلے میں چند نکات پیش کیے جاتے ہیں: ۱- پہلی بات یہ کہ اقبال کے اس مضمون کا مقصد ذاتی مدافعت یا مجروح انا کی تسکین نہیں بلکہ ادب و تنقیدِ ادب کی فضا کو فنی کج بحثی اور لسانی تنگ نظری کے گرد و غبار سے پاک کرنا ہے۔ چونکہ ’’تنقید ہمدرد‘‘ میں ناظر و اقبال کے علاوہ بالعموم اہلِ پنجاب کی اردو کو نشانہ تضحیک بنایا گیا تھا اور اردو کے ان نادان دوستوں کی لسانی عصبیت خود اردو زبان کے حق میں ایک خطرئہ عظیم تھی، لہٰذا ’’ہمدرد‘‘ کی سطحی تنقید کا تحقیقی جواب دینا ضروری سمجھا گیا۔ چنانچہ اقبال نے جوابی بحث کی تمہید میں اپنے مقصد کی وضاحت کر دی ہے: ’’میں نے یہ جواب اس وجہ سے نہیں لکھا کہ صاحبِ تنقید نے میرے یا میرے دوست حضرت ناظر کے کلام کو اپنی نکتہ چینی کا آماج گاہ بنایا ہے بلکہ میری غرض صرف یہی ہے کہ ایک منصف مزاج پنجابی کی حیثیت سے ان غلطیوں کا ازالہ کروں جو عدمِ تحقیق کی وجہ سے اہلِ پنجاب کی اردو کی طرف منسوب کی گئی ہیں‘‘۔۹۶؎ ۲- ’’تنقیدِ ہمدرد‘‘ میں دعویٔ ہمدردی کے باوجود سخت و درشت لہجہ اور اہانت آمیز الفاظ استعمال کیے گئے تھے،لیکن اقبال کا مضمون علمی و تحقیقی اندازِ بحث کا ایک معیاری نمونہ اور مضمون نگار کی منصفانہ طبیعت اور صحیح ناقدانہ رویے کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ اقبال لکھتے ہیں: ’’اگرچہ ’تنقیدِ ہمدرد‘ صاحب نے بالخصوص حضرت ناظر کی نسبت اور بعض بعض جگہ میری نسبت دلآزار الفاظ استعمال کیے ہیں، مگر میں باوجود حق اور قدرت کے اس بات سے احتراز کروں گا، کیونکہ فن تنقید کا پہلا اصول یہی ہے کہ اس کا ہر لفظ نفسانیت کے جوش سے مبّرا ہو۔ تنقید کی بنا ، دوستی ، محبت اور نیک نیتی پر ہونی چاہیے، نہ یہ کہ مضمون تو اپنے خیال میں از راہ دوستی لکھیں اور طرز بیان ایسا اختیار کریں کہ دوستی اور دشمنی میں تمیز نہ ہو سکے۔‘‘۹۷؎ ۳- اقبال نے جہاں فارسی و اردو اکابر شعراء کے کلام سے استناد کیا ہے، وہاں تخلص کے ساتھ احترامی کلمات بالالتزام استعمال کیے ہیں، مثلاً میر تقی علیہ الرحمۃ، شیخ ناسخ مغفور، خواجہ آتش مرحوم وغیرہ۔ اپنے استاد، حضرت داغ کو دام فیوضہ لکھا ہے لیکن معاصر اساتذہ لکھنؤ کا احترام بھی ہر جگہ ملحوظ رکھا ہے؛ مثلاً حضرت جلیل مدظلہ، حضرت امیر اللہ تسلیم دام فیوضہ وغیرہ۔ اپنے استاد کے حریف حضرت امیر مینائی کا ذکر ہر جگہ جس خصوصیت کے ساتھ کیا ہے، تلامذۂ داغ میں سے کوئی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ مثلاً ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’فخرالمتقدمین و المتاخرین حضرت امیر علیہ الغفران ایک مشہور غزل میں فرماتے ہیں‘‘ یا ’’حضرت امیر مرحوم روحی فداہ کا بھی ایک شعر یاد آ گیا۔‘‘۹۷؎ ان مثالوں سے اقبال کے اس دعوے کا ثبوت ملتا ہے: اقبال! لکھنؤ سے نہ دلّی سے ہے غرض ہم تو اسیر ہیں خمِ زلفِ کمال کے حقیقت یہ ہے کہ اقبال، لسانی و دبستانی تعصبات سے بالاتر رہتے ہوئے قدماہ و متاخرین میں سے ہر ایک صاحبِ کمال کا ادب و احترام کیا کرتے تھے۔ ۴- اقبال نے قریباً تمام اعتراضات کا مسکت جواب دے کر معترض کے دعویِ زباندانی کو باطل ثابت کر دیا لیکن ایک جائز اعتراض پر اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اس نظم میں اَور بھی پنجابی محاورات استعمال کیے گئے تھے۔معلوم نہیں آپ کی حرف گیری اسی محاورے تک کیوں محدود رہی۔ بہرحال میں اس لغزش کو تسلیم کرتا ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب میں یہ محاورہ زباں زدِ عام ہے اور شب و رو ز سنتے سنتے بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ بے احتیاطی میں زبانِ قلم سے نکل جاتا ہے۔‘‘۹۸؎ اپنے مضمون کے آخری حصے میں اقبال نے جس طالب علمانہ عجز و انکسار کا اظہار کیا ہے اور اس ناخوشگوار بحث کو جس خوش اسلوبی سے ختم کیا ہے وہ بھی ادبی معرکوں کو تاریخ میں فقید المثال ہے۔ یہ انکسار محض رسمی نہیں بلکہ اس شعور کا نتیجہ ہے کہ زبان کے معاملے میں کوئی شخص کمال کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ فنِ شعر سے نا آشنائی کا اظہار بھی رسمی نہیں بلکہ اس حقیقت کا غماز ہے کہ زبان و فن کے کاری گروں سے ایک سچے شاعر کی حیثیت کتنی مختلف ہوتی ہے۔ اب اقبال کے مضمون کا اختتامیہ ملاحظہ ہو: میں آپ کا مشکور ہوں کہ آپ کے مضمون سے میری طبیعت تحقیق کی طرف مائل ہوئی، اور کیا تعجب ہے کہ میرا جواب آپ کی طبیعت پر بھی یہی اثر کرے۔ آپ مطمئن رہیں، مجھے اساتذہ کی ہمسری کا دعویٰ نہیں ہے۔ اگر اہلِ پنجاب مجھ کو یا حضرتِ ناظر کو بہمہ وجوہ کامل خیال کرتے ہیں تو ان کی غلطی ہے۔ زبان کا معاملہ بڑا نازک ہوتا ہے، اور یہ ایک ایسی دشوار گذار وادی ہے کہ یہاں قدم قدم پر ٹھوکر کھانے کا اندیشہ ہے۔ قسم بخدائے لایزال، میں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ بسا اوقات میرے قلب کی کیفیت اس قسم کی ہوتی ہے کہ میں باوجود اپنی بے علمی اور کم مائیگی کے شعر کہنے پر مجبور ہو جاتا ہوں، ورنہ مجھے زبان دانی کا دعویٰ ہے نہ شاعری کا۔ راقم مشہدی میرے دل کی بات کہتے ہیں: نیم من در شمارِ بُلبلاں امّا بایں شادم کہ من ہم در گلستان قفس مشت پرے دارم۹۸؎ اس ادبی معرکے سے ہمارا ذہن ایک اور معرکے کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ جس طرح اس دور میں اقبال کی شاعری ، مدعیانِ زبان و فن کے حملوں کی زد میں آئی ، اسی طرح اقبال کے بعض افکار و اطوار بھی زاہدانِ خشک کے طعن و طنز کا نشانہ بنے رہے۔ ’’زہد و رندی‘‘کی یہ جھڑپ، اہل ظاہر اور اہلِ باطن کی دیرینہ کشمکش کی ایک صورت ہے۔ ہماری شاعری میں مولانا حالی کے دور سے اس کشمکش کا دائرہ زیادہ وسیع ہو گیا تھا، یعنی رندانِ بے ریا کے زمرے میں شعرا و صوفیہ کے علاوہ اہلِ علم کا وہ گروہ بھی فریق اوّل کے لعن طعن کا ہدف بن گیا جو اجتہادِ فکر کا علم بردار تھا۔ علما و فقہا کی تقلیدِ جامد نے اسلام کو محض عبادات و رسوم کا مجموعہ بنا رکھا تھا لیکن فریقِ ثانی اسے ایک جامع ، ترقی پسند اور ارتقا پذیر نظامِ حیات ثابت کرنے پر تلا ہوا تھا۔ اُدھر تشدد و تنگ نظری کا یہ عالم تھا کہ نہایت فروعی (فقہی و معاشرتی) اختلافات پر کفر کے فتوے صادر ہوتے تھے۔ ادھر یہ دعویٰ تھا کہ اسلام محض عقیدۂ توحید کی بنیاد پر ایک آفاقی برادری کا انقلابی تصور پیش کرتا ہے۔ اقبال بھی اس نئے دبستانِ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ انھیں ذاتی مطالعے اور تحقیق کی بنا پر معلوم ہوا کہ گیتا اور اپنشد کی رو سے بت پرستی کا کوئی جواز نہیں بلکہ ویدانت نے تو خدا کی وحدانیت کے تصور کو انتہا درجے تک پہنچا دیا ہے۔ لہٰذا انھوں نے ایک جگہ اپنی اس رائے کا اظہار کیا کہ ’’ہندو مذہب کو شرک کا مجرم گرداننامیرے نزدیک صحیح نہیں۔‘‘۹۹؎ ان کے احباب میں سوامی رام تیرتھ جیسے موحد بھی تھے جو شرک سے نفرت کرتے اور کفر پر لعنت بھیجتے تھے۔ اقبال اگر کافر نہیں سمجھتے تھے تو ایسے ہی ہندوئوں کو ، نہ کہ دیوی دیوتائوں کے پجاریوں اور عام بت پرستوں کو۔ یہ حقیقت ہے اس اعتراض کی جو حضرتِ زاہد کی طرف سے اس شعر میں وارد ہوا ہے: سنتا ہوں کہ کافر نہیں ہندو کو سمجھتا ہے ایسا عقیدہ اثرِ فلسفہ دانی۱۰۰؎ ابتدا ہی سے اقبال کو موسیقی سے فطری لگائو تھا۔ عام صوفیہ کے نزدیک موسیقی غذائے روحانی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس دور میں ان کے میلانِ تصوف نے موسیقی کے ذوق کو شغف کی حد تک پہنچا دیا تھا۔ اقبال کے ایک دوست فقیر سید نجم الدین، اچھے موسیقار اور باکمال طائوس نواز تھے۔ درباری، مالکوس اور ایمن ان کے پسندیدہ راگ تھے۔ اقبال کو بھی ستار نوازی کا شوق تھا۔۱۰۱؎ دونوں دوست گاہے گاہے نغمہ و طرب کی محفلیں منعقد کرتے تھے اور مجالسِ سماع میں بھی شریک ہوتے۔ اقبال اگرچہ فن موسیقی کے ماہر نہ تھے ’’مگر ان کے کان موسیقی کی اچھی شناخت رکھتے تھے اور کوئی گاتا ہو تو اس سے ایسا لطف اٹھاتے جیسے کوئی ماہر فن اٹھائے۔‘‘۱۰۲؎ ایک متروک غزل کے مندرجہ ذیل شعر سے ظاہر ہو گا کہ انھیںاس دور میں راگ راگنی سے کیسا والہانہ لگائو تھا: لوگ کہتے ہیں مجھے راگ کو چھوڑو اقبال راگ ہے دین مرا، راگ ہے ایماں میرا۱۰۳؎ لیکن بزمِ طرب ہو یا محفلِ سماع، سحر خیزی کے معمول میں فرق نہ آتا۔ نماز فجر کے بعد اسی ذوق و شوق اور لحن و ترتیل کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت بھی کرتے۔ حضرت زاہد ان کی دو رنگی پر سخت حیران ہیں: گانا ہے جو شب کو تو سحر کو ہے تلاوت اس رمز کے اب تک نہ کھلے ہم پہ معانی۱۰۴؎ اسی سلسلے میں ان کی جس بے راہ روی کی خبر ’’زاہد‘‘ کو بھی نہ ہو گی، اس کی مخبری خود شاعر نے کی ہے: کچھ عار اسے حسن فروشوں سے نہیں ہے عادت یہ ہمارے شعراء کی ہے پرانی۱۰۴؎/ / اقبال کے اس جرأت مندانہ اعتراف کے بعد، اس حقیقت کا انکشاف بھی ضروری ہے کہ ابتداء ً صرف موسیقی کا شوق انھیں اس ’’بازار‘‘ میں لے گیا تھا لیکن وہاں امیر نامی ایک غیرت ناہید کے پرسوز لحن اور منفرد و مہذب شخصیت سے وہ اتنے متاثر ہوئے کہ ’’صنم خانۂ امیر‘‘ کے پرستار بن گئے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں: ’’امیر بیگم اردو اور فارسی اساتذہ کے کلام سے شناسا ہونے کے علاوہ خود بھی شعر کہتی تھیں۔ نہایت فصیح و بلیغ اردو میں بات چیت کرتیں۔‘‘ (زندہ رود، باب ۹، ص ۱۷۶)۔ غالباً امیر بھی اقبال کی قدر شناس، بلکہ گرویدہ تھیں، اسی لیے جب وہ اپنی خاص صحبتوں میں امیر کو بلاتے تو وہ بے تامل حاضر ہو جاتیں۔ امیر کا ذکر اقبال کے ایک خط میں ملتا ہے جو انھوں نے شیخ عطا محمد کے مقدمے کے سلسلے میں فورٹ سنڈیمن جاتے ہوئے (مئی ۱۹۰۳ء میں) اپنے ایک دیرینہ رفیق سید محمد تقی کو بھیجا تھا۔ اقبال لکھتے ہیں: ’’امیر کہاں ہے؟ خدا کے لیے وہاں ضرور جایا کریں۔ مجھے بہت اضطراب ہے۔ خدا جانے اس میں کیا راز ہے۔ جتنا دور ہو رہا ہوں، اتنا ہی اس سے قریب ہو رہا (بقیہ حاشیہ اگلے صفحے پر) بہرحال حضرت زاہد کے مریدانِ باصفا، اس رند بے ریا کی پاکی قلب و نظر کے گواہ ہیں: لیکن یہ سنا اپنے مریدوں سے ہے میں نے بے داغ ہے مانندِ سحر اس کی جوانی۱۰۴؎ (گذشتہ صفحے کا بقیہ حاشیہ) ہوں۔‘‘ (خطوط اقبال، مرتبہ ہاشمی، ص ۶۲)۔اسی سال ۱۱؍مارچ ۱۹۰۳ء کو منشی سراج الدین کے نام اقبال نے جو خط لکھا تھا، اس کا حوالہ مولانا گرامی کی ایک صحبت کے ذکر میں پہلے آ چکا ہے۔ اس خط کی آخری سطریں یہاں دوبارہ نقل کی جا رہی ہیں: ’’… ابرِ گہر بار کی اصل علت کی آمد آمد ہے۔ یہ جملہ شاید آپ کو بے معنی معلوم ہو گا مگر کبھی بوقتِ ملاقات آپ پر اس کا مفہوم واضح ہو جائے گا۔‘‘ (اقبالنامہ، حصہ اوّل، ص ۲۰)۔یہاں ’’ابرِ گہربار کی اصل علت‘‘ سے اقبال کا اشارہ امیر کی جانب ہے جن کی آمد کے وہ منتظر تھے۔ اسی خط سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امیر کو بلانے کے لیے شیخ عبدالقادر صاحب کو بھیجا گیا تھا۔ اقبال نے اس سال انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں یہ نظم (ابرِ گہربار) سنائی تھی جس کے ابتدائی دو تین بند کے اشعار عشق مجازی کی والہانہ کیفیت اور سوز و مستی کے آئینہ دار ہیں۔ مثلاً یہ شعر: ضبط کی تاب، نہ یارائے خموشی مجھ کو ہائے اس دردِ محبت کو چھپائوں کیوں کر اسی قلبی واردات کے زیر اثر ۱۹۰۳ء اور ۱۹۰۴ء کی کئی غزلوں میں (جن میں سے بیشتر بانگِ درا میں شامل نہیں)تجرباتی خلوص کا جو رنگ ملتا ہے، اس کا ذکر فصل سوم کے آخری حصے (غزلیات کا فنی جائزہ) میں آئے گا۔ یہاں صرف بانگِ درا کی ایک غزل کا وہ متروک شعر نقل کیا جاتا ہے جو ڈاکٹر تاثیر کو بہت پسند تھا: سو سو امید بندھتی ہے اک اک نگاہ سے مجھ کو نہ ایسے پیار سے دیکھا کرے کوئی ایک صحبت میں ڈاکٹر تاثیر نے اقبال سے پوچھا کہ آپ نے وہ شعر بانگِ درا سے کیوں خارج کر دیا؟ تو اقبال نے جواب دیا کہ وہ شعر، نیز دو تین اور شعر، ایک خاص شخصیت سے متعلق تھے ’’وہ شخص نہیں رہا تو وہ شعر کاٹ دیے‘‘ (نثر تاثیر، ص ۱۷۰- ۱۷۱)۔امیر نے خاصی طویل عمر پائی۔ یہاں ’’وہ شخص نہیں رہا‘‘ سے غالباًمراد یہ ہے کہ وہ تعلق خاطر نہیں رہا، کیونکہ غالباً ۱۹۰۴ء ہی میں ایسی صورتِ حال پیش آئی کہ ملاقاتوں کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ اس ضمن میں شورش کاشمیری نے اپنی کتاب نورتن (مطبوعاتِ چٹان، لاہور، ۱۹۶۷ئ) میں مولانا عبدالمجید سالک کی زبانی جو روایت نقل کی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ مولانا گرامی لاہور آئے تو اقبال کو بہت پریشان حال دیکھ کر فکر مند ہوئے۔ معلوم ہوا کہ امیر کی ماں نے میل ملاقات بند کر دی ہے۔ گرامی اسی وقت علی بخش کو ساتھ لے کر امیر کے مکان پر پہنچے۔ والدئہ امیر سے منت سماجت کی اور ’’دو گھنٹے کی شخصی ضمانت پر‘‘ امیر کو ساتھ لے آئے۔ (ص ۵۲-۵۳)۔ لیکن بالآخر والدئہ امیر کے سخت قدغن کی وجہ سے امیر ہمیشہ کے لیے اقبال سے جدا ہو گئی۔ اسی طرح یہ شعر بھی ایک خاص رجحان کا آئینہ دار ہے: ہے اس کی طبیعت میں تشیّع بھی ذرا سا تفضیلِ علی مَیں نے سنی اس کی زبانی۱۰۴؎ ’’تفضیلِ علی‘‘ اور تشیّع‘‘ کی شکایت ’’مولوی صاحب ‘‘ نے کی ہو یا نہ کی ہو، لیکن اقبال کے بعض معاصرین کو ان سے یہ شکایت ضرور رہی ہو گی کیونکہ اس دور کے کلام میں جہاں بھی عشقِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ولائے شاہ ولایت رضی اللہ عنہ کا مضمون ادا ہوا ہے، وہاں اظہارِ عقیدت میں غلو کا رنگ بہت گہر ا ہے۔ اس پہلو کی وضاحت آئندہ کسی موقع پر ہو گی۔ یہاں صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ اگر اس دور میں اقبال کی کشتیِ فکر متضاد افکار و نظریات کے گرداب میں کچھ ہچکولے کھا کر آگے بڑھ گئی تو اس کا سبب ’’خاکِ مدینہ و نجف‘‘ سے یہی قلبی وابستگی تھی، یا پھر تلاشِ حقیقت اور حصولِ علم و معرفت کا وہ بے پناہ جذبہ جسے ’’مدینۃ العلم‘‘ اور ’’باب العلم‘‘ کے مقدس آستانوں کا فیضان سمجھنا چاہیے۔ اگر یہ جذبہ کار فرما نہ ہوتا تو غالباً وہ ویدانتی فلسفے کے گورکھ دھندے میں الجھ کر رہ جاتے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیںکہ اسی دور میں مزید مطالعہ و تحقیق کا سلسلہ جاری رہا اور بالآخر تلاشِ حق کی لگن اس سفر گریز، قطبیت مآب، فلسفی شاعر کو سات سمندر پار لے گئی۔ اقبال جب یکم دسمبر ۱۹۰۵ء کو لاہور سے روانہ ہو کر دہلی پہنچے تو خواجہ حسن نظامی اور دیگر احباب کے ساتھ آستانۂ حضرت محبوب الٰہی پر حاضر ہو کر ایک نظم پیش کی، جس کے منتخب اشعار ’’التجائے مسافر‘‘ کے عنوان سے بانگِ درا میں شامل ہیں۔ اس نظم کے مندرجہ ذیل اشعار ان کے اعلیٰ علمی مقاصداور بلند عزائم کے مظہر ہیں: چلی ہے لے کے وطن کے نگارخانے سے شرابِ علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو فلک نشیں صفتِ مہر ہوں زمانے میں تری دعا سے عطا ہو وہ نردباں مجھ کو مقام ہم سفروں سے ہو اس قدر آگے کہ سمجھے منزلِ مقصود کارواں مجھ کو۱۰۵؎ /// فصل دوم فکری رجحانات کا جائزہ تمہیدی نکات اقبال کے فکری ارتقا کا ابتدائی دور نہایت اہم ہے، کیونکہ اسی دور میں انھوں نے اپنی زندگی اور شاعری کے اعلیٰ نصب العین کا تعین کیا۔ آئندہ ان کے ذہنی سفرمیں کئی موڑ آئے،لیکن راہوں کے پیچ و خم میں بھی وہ نصب العین ہمیشہ ان کے پیش نظر رہا اور اسی منزل کی جانب وہ برابر آگے بڑھتے رہے۔ اس لحاظ سے اس دور کی تخلیقات گہرے مطالعے اور سنجیدہ فکر و نظر کی مستحق ہیں۔ اگرچہ اس دور میں نوجوان شاعر کی لبریزِ حیات شخصیت بظاہر متضاد رجحانات کے مختلف دھاروں میں اُبل پڑی ہے،تاہم بغور دیکھنے سے پتا چلتا ہے کہ ان سب دھاروں کے بہائو کا رخ اور ان کے تموّج و تحرک کا انداز یکساں ہے۔ یہ تموّج و تحرک مستقبل میں اقبال کے فکری ارتقا کے سلسلے سے اس طرح مربوط ہے کہ اس کی غایت اور جہت کو سمجھے بغیر، اقبال کے کلام و پیغام کی روح تک رسائی ممکن نہیں۔ لیکن اقبال کے ناقدین، آئندہ ادوار کی فلسفیانہ و پیغمبرانہ شاعری کے مقابلے میں اس دور کے کلام کو خارج از آہنگ قرار دے کر عموماً اسے نظر انداز کرتے رہے۔ اور اگر کسی نے توجہ بھی کی ہے تو تحقیقی کاوش سے دامن بچا کر محض سطحی مطالعے اور سرسری جائزے پر اکتفا کیا ہے۔ نتیجۃً شاعر کی شخصیت پارہ پارہ ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے۔ مفکر اقبال، صوفی اقبال، رومان پسند اقبال، فطرت پرست اقبال، وطن دوست اقبال- شخصیت اور شاعری کے ان مختلف پہلوئوں میں کسی رشتۂ وحدت کا سراغ نہیں ملتا۔ اس دور کے فکری ارتقا کے مکمل جائزے کے لیے اولاً گرد و پیش کے ماحول اور خارجی و داخلی محرکات کو مدِ نظر رکھنا اور پھر اس تناظر میں اقبال کی تمام تخلیقاتِ نظم و نثر کا جائزہ لینا پڑے گا۔ اب تک بحث و نظر کا دائرہ عموماً بانگِ درا (حصہ اوّل) کے مشمولات تک محدود رہا ہے۔ بانگِ درا کی ترتیب و اشاعت کے وقت اقبال نے بہت سی ابتدائی نظمیں اور غزلیں خارج کر دیں۔ باقی ماندہ کلام بھی بڑی چھان پھٹک اور ترمیم و تنسیخ کے بعد شائع کیا۔ اس طرح اس دور کی تمام شعری تخلیقات کے ایک تہائی حصے سے بھی کم (یعنی قریباً ۲۷۰۰ اشعار میں سے صرف ۸۸۴ اشعار) بانگِ درا میں شامل ہیں۔ بانگِ درا کے منظر عام پر آنے سے ایک سال قبل، حیدر آباد دکن میں کلیاتِ اقبال کے نام سے ایک جامع مجموعہ چھپ گیا تھا۔ مصنف کے اعتراض اور فہمائش پر اس کی اشاعت دکن تک محدود رہی۔ بہرحال تحقیقی مطالعے کے تقاضوں کے پیش نظر اقبال کے عقیدت مندوں نے متروکات و محذوفات کی از سرِ نو تلاش شروع کی اور ۱۹۵۰ء سے اب تک یکے بعد دیگرے غیر مدوّن کلام کے کئی مجموعے شائع ہوئے،جن میں باقیاتِ اقبال طبع دوم (معہ ترمیم و اضافہ) غالباً سب سے زیادہ مکمل ہے۔ عام قارئین کے نزدیک متروک کلام کی کوئی اہمیت نہیں، لیکن فکر و فن کے ارتقائی جائزے کے لیے باقیات کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ بقول قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی: ’’… ان کی شاعری کے ارتقائی مدارج دکھانے کے لیے ان کی ہر تحریر سے، خواہ وہ شعر ہو یا نظم ، استفادہ کرنا چاہیے۔ اس لحاظ سے ان کا رد کردہ کلام آثار قدیم یا تبرکات کی حیثیت رکھتا ہے، جس سے تاریخی استدلال میں کافی مدد ملتی ہے۔‘‘۱۰۶؎ جو نظمیں اور غزلیں بانگِ درا میں ترمیم شدہ صورت میں درج ہیں، اگر ان کے ابتدائی متون پیش نظر نہ ہوں تو بعض اوقات طرح طرح کی غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ مثلاً بانگِ درا کی ایک نظم ’’سیّد کی لوحِ تربت‘‘ اُن نظموں میں سے ہے کہ اصلاح و نظرثانی کے عمل سے جن کی کایا پلٹ گئی ہے۔ اس نظم کا یہ شعر بعد کا اضافہ ہے: بندئہ مومن کا دل بیم و ریا سے پاک ہے قوتِ فرماں روا کے سامنے بے باک ہے۱۰۷؎ کچھ عجب نہیں کہ بے خبری میں کوئی نقاد اس شعر سے استشہاد کرتے ہوئے یہ دعویٰ پیش کرے کہ ’’مردِ مومن‘‘ کا تصور پہلے ہی دور سے اقبال کے ذہن میں بجنسہ موجود تھا۔باقیات کے مجوعوں کے مطالعے میں بھی احتیاط درکار ہے۔ جہاں ابتدائی دور کے کلام کے ساتھ بعد کی چیزیںسنہ تصنیف یا زمانے کی صراحت کے بغیر درج کی گئی ہیں، وہاں ادوار کے تعین میں اندرونی شواہد اور فکر و فن کے ارتقائی مدارج کے فرق کو ملحوظ رکھنا ہو گا۔ باقیاتِ اقبال اور سرودِ رفتہ میں ابتدائی دور کے کلام میں کچھ ایسی غزلیں بھی شامل ہیں جن میں اقبال کے فلسفیانہ خیالات مبتدبانہ اسلوب میں ادا ہوئے ہیں۔ گمانِ غالب ہے کہ یہ غزلیں یاان کے بعض اشعار الحاقی ہیں۔ یہاں ان غزلوں کے صرف دو دو شعر نمونۃً درج ہیں: ۱- کوئی مردِ مومن جگا دے یہ بستی طریقے ہیں مشرق کے سب راہبانہ سکھائو اب اقبال کچھ قاہری بھی بہت کہہ چکے قصّۂ عاشقانہ۱۰۸؎ ۲- کر نہ تقدیر کے شکووں سے خودی کو رسوا بہرِ تدبیر عیاں عالمِ اسباب ہوا عقل کی فوج نے ہر جنگ میں منہ کی کھائی عشق میدان میں آیا تو ظفریاب ہوا۱۰۹؎ ۳- عام کی عقل نے یاں وہم و گماں کی ظلمت شمعِ ایمان کو سینوں میں فروزاں کر دے پردئہ جہل اٹھا اپنی خودی سے غافل اس کی پوشیدہ خدائی کو نمایاں کردے۱۱۰؎ ۴- نورِ توحید سے گر قوّت بیدار ہے تو اپنی قسمت کا یہاں آپ ہی مختار ہے تو ہو یقین مردہ تو ہے سنگ بھی تجھ سے بہتر ہو یقیں زندہ تو پھر حیدرِ کرّار ہے تو۱۱۰؎ باقیاتِ اقبال میں ایک غزل ( ع: ’’لاکھ سر تاجِ سخن ناظمِ شرواں ہو گا‘‘)اس نوٹ کے ساتھ درج ہے کہ ۱۸۹۷ء کے لگ بھگ عیدرمضان کی تقریب پر فی البدیہہ کہی گئی۔ لیکن اس غزل میں اس قسم کے اشعار بھی شامل ہیں: مردِ مومن کی نشانی کوئی مجھ سے پوچھے موت جب آئے گی اس کو تو وہ خنداں ہوگا جو وفا پیشہ سمجھتا ہے خودی کو ایماں جنّتی ہوگا، فرشتوں میں نمایاں ہوگا۱۱۱؎ سرودِ رفتہ کے مرتّب اس غزل پر تبصرہ فرماتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’یہ غزل اُنیسویں صدی کے اواخر یا بیسویں صدی کے اوائل کی ہے، لیکن غور فرمائیے کہ زندگی کے آخری دور میں بھی اقبال نے اس مضمون کو حقائقِ حیات کے نچوڑ کی شکل میں پیش کیا: نشانِ مردِ مومن با تو گویم چو مرگ آید تبسّم بر لبِ اوست چوتھے شعر میں خودی بھی موجود ہے اور چھٹے شعر میں خود داری کہ کسی کا احسان لینا گوارا نہیں۔‘‘۱۱۲؎ اگر بالفرض یہ اشعار ابتدائی مشقِ سخن کے دور سے متعلق ہوتے تواس سے متصل دور (۱۹۰۱ء تا ۱۹۰۵ئ) کی غزلوں اور نظموں میں بھی کہیں نہ کہیں ان خیالات و تصورات کا اظہار ضرور ہوتا۔ لہٰذا فکری عدمِ مناسبت اور غیر مستند حوالے کی بنا پر محقق کو ایسے کلام سے صرفِ نظر کرنا پڑے گا۔ اس دور کی شاعری میں مختلف رجحانات ملتے ہیں۔ ان رجحانات کے تجزیے کے علاوہ ان سب کی تہہ میں جو شخصیت پنہاں ہے، جو بنیادی فکر یا جذبہ کار فرما ہے ، اس کی شناخت اور اس کا انکشاف بھی ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے ہمیں شاعر کے گزشتہ و موجودہ ماحول و محرکات کے پس منظر میں کلام کا جائزہ لینا، نیز شخصی و خارجی (یا روایتی) عناصر میں امتیاز کرنا ہوگا۔ مثلاً اقبال نے اپنی ابتدائی قومی نظموں (فلاحِ قوم، نالۂ یتیم وغیرہ) کے بعض اشعار میں سعی و عمل اور اتحاد و یگانگت کا پیغام دیا ہے۔ یہ موضوعات حالی اور معاصرینِ حالی کے عام فرسودہ موضوعات ہیں۔ اگر ہم ایسے اشعار سے بقول ایک محقق، یہ نتیجہ اخذ کریں کہ ’’ابتدائی دور میں جس طرح خودی کے بنیادی تصورات موجود ہیں، اسی طرح بے خودی کا پرتو نظر آتا ہے‘‘۱۱۳؎ تو یہ بڑی زیادتی ہو گی۔ یا مثلاًانجمن حمایت اسلام کے ایک جلسے میں اقبال نے حکامِ صوبہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے جو سپاسیہ نظم پڑھی، اس میں دو ایک شعر اس قسم کے ہیں: مدد جہان میں کرتے ہیں آپ ہم اپنی غریب دل کے ہیں لیکن مزاج کے ہیں امیر۱۱۴؎ اگران اشعار پر ہم یوں تبصرہ کرنے بیٹھ جائیں: ’’بہ ظاہر یہ اشعار ۱۹۰۲ء کے ہیں مگر ان میں مردِ مومن کے تصورات کی آمیزش پائی جاتی ہیں۔ غریبی میں اندازِ خسروانہ کی یاد تازہ ہوتی ہے…‘‘۱۱۵؎ تو ظاہر ہے کہ اس دور کے اقبال کو مستقبل کے اقبال کے حوالے سے سمجھنے اور پرکھنے کی یہ کوشش ہمیں اپنے اصل مقصد سے بہت دور لے جائے گی۔ یوں تو اگر ہم حالی کی مسدس اور قومی نظموں میں مردِ مومن کا سراغ لگانے یا خودی و بے خودی کی بنیادیں تلاش کرنے لگیں تو اس سے زیادہ محکم دلیلیں فراہم کر سکتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اس دور میں اقبال کی پہلو دار شخصیت کے ہر رخ کو مکمل طور پر دیکھنا اور صحیح طور پر پرکھنا بہت دشوار ہے اور جب ہم اقبال کا یہ قول سنتے ہیں کہ ع: ’’اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے‘‘۱۱۶؎ ، تو اقبال شناسی کی ہر کوشش ناکام ہوتی نظر آتی ہے۔ لیکن اسی دور میں اقبال نے سطح بیںلوگوں کے یک رخے تبصروں کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے: ہوں وہ مضمون کہ مشکل ہے سمجھنا میرا کوئی مائل ہو سمجھنے پہ تو آساں ہوں میں۱۱۷؎ لہٰذا اگر ہم ان کے فکر و نظر کے مرکزی نقطے کو اور ان کے کلام کی روح کو پانے کی کوشش کریں اور ان مقامات پر نظر رکھیں جہاں بہ تکرار و تواتر ایک ہی نصب العین کی نشاندہی کی گئی ہے، تو شاید ہمیں وہ کلیدی حروف میسر آ جائیں جن سے ان کی شخصیت اور شاعری کا قفلِ ابجد کھولا جا سکتا ہے۔ ابتدائی قومی شاعری و ملّی رجحان(علی گڑھ تحریک کے پس منظر میں) گذشتہ باب میں ذکر آ چکا ہے کہ اقبال اپنے زمانۂ طالب علمی ہی میں مولانا میر حسن اور پروفیسر آرنلڈ کے دوہرے رشتوں سے سرسید کی شخصی عظمت اور علی گڑھ تحریک کے مقاصد سے روشناس ہو چکے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دور میں مسلم طلبہ کی ذہنی نشو ونما جس ماحول میں ہوئی، اس پر علی گڑھ تحریک کے گونا کوں اثرات چھائے ہوئے تھے، کیونکہ پورے پنجاب کے باشعور مسلمانوں پر اس تحریک کا فکری غلبہ تھا اور لاہور تو گویا دوسرا علی گڑھ بنا ہوا تھا۔ لہٰذا علی گڑھ تحریک کے پس منظر میں اقبال کے ابتدائی قومی و ملی رجحان پر تبصرہ کرنے سے پہلے پنجاب پر اس تحریک کے اثرات کا سرسری جائزہ لینا ضروری ہے۔ سر سید نے جب دسمبر ۱۸۷۳ء میں پنجاب کا دورہ کیا تو ہر جگہ ان کا جس جوش و خروش سے خیر مقدم کیا گیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ علی گڑھ تحریک کے لیے سر زمین پنجاب کی ذہنی فضا پہلے سے سازگار ہو چکی تھی۔ دراصل یہاں انجمن پنجاب کے قیام (جنوری ۱۸۶۵ئ) سے ذہنی بیداری اور علمی و عملی سرگرمی کا دور شروع ہو چکا تھا۔ گزشتہ فصل میں انجمن پنجاب کی تعلیمی خدمات کا کچھ ذکر آیا تھا۔ انجمن نے اورینٹل کالج کے قیام کے ساتھ جدید تعلیمی مقاصد کی تکمیل کے لیے مفید کتابوں کی تالیف و ترجمہ کی مہم شروع کی۔ انجمن کے ماہانہ رسالوں اور ہفتہ وار اخباروں نے عوام کی ذہنی تربیت اور نئے خیالات کی ترویج و اشاعت کے علاوہ، اپنے ادبی اسلوب اور مواد کے انتخاب و ترتیب کے لحاظ سے اردو صحافت میں ایک انقلاب برپا کیا۔ انجمن پنجاب کی یہ کامیابی دہلی کالج کے تربیت یافتہ ادیبوں اور دانش وروں (مثلاً مولوی کریم الدین، شیخ ضیاء الدین، پنڈت موتی لال بسمل، منشی پیارے لال آشوب اور سب سے بڑھ کر مولوی محمد حسین آزاد) کی خدمات، ڈاکٹر لائٹنر جیسے فاضل مستشرق کی فعال قیادت اور محکمۂ تعلیم کے حکام :(میجر فلر اور ان کے جانشین کرنل ہالرئڈ) کے پُرخلوص تعاون کی رہین منت ہے۔ لیکن درحقیقت یہ اہلِ پنجاب کی زندہ دلی اور عملی سرگرمی تھی جس نے ’’انجمنِ پنجاب ‘‘ کو علمی نشاۃ ثانیہ کی ایک عظیم تحریک بنایا اور صوبے بھر میں اس کے دائرۂ اثر کو پھیلا دیا۔ اقبال نے ایک خط میں مسلمانان پنجاب کی اس خصوصیت کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: ’’یہاں کے لوگوں میں اثر قبول کرنے کا مادہ زیادہ ہے۔ سادہ دل صحرائیوں کی طرح ان میں ہر قسم کی باتیں سننے اور ان سے متاثر ہو کر ان پر عمل کرنے کی صلاحیت اور مقامات سے بڑھ کر ہے۔ ۱۱۸؎ اس علاقے میں علی گڑھ تحریک کی مقبولیت کا ایک سیاسی سبب بھی تھا۔ ۱۸۴۵ء میں جب یہ علاقہ انگریزوں کی عمل داری میں آیا اور سکھوں کے دور کی بدنظمی اور جبر و تشّدد کا خاتمہ ہو گیا تو یہاں کے مسلمانوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ یہ نیا دور ان کے لیے یکسر رحمت نہ سہی تو کم تر لعنت ضرور تھا۔ یہاں انگریزی اقتدار کے تسلط اور جدید تعلیم کے خلاف دلوں میں وحشت و تنفر کی وہ کیفیت نہیں تھی جو مثلاًاودھ میں،اورانقلاب ۵۷ء کے عواقب و اثرات سے، دہلی اور نواحِ دہلی کے مسلمانوں میں پیدا ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانانِ پنجاب نے جدید دور کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے علی گڑھ تحریک کے مقاصد اور سر سید کی قیادت کو کھلے دل سے قبول کیا۔ چنانچہ سر سید کے پہلے دورے کے بعد ہر طرف بیداری کی ایک لہر دوڑ گئی اور جب انھوں نے ۱۸۸۴ء میں دوبارہ پنجاب کا دورہ کیا تو لاہور کی انجمن اسلامیہ کے علاوہ لدھیانہ، جالندھر، امرتسر، گجرات اور جہلم وغیرہ میں اسلامی انجمنیں قائم ہو چکی تھیں۔ اسی سال لاہور میں انجمن حمایت اسلام کی رفاہی، دینی اور تعلیمی خدمات کا آغاز ہوا۔ پنجاب کی سرزمین میں سر سید کی مساعیِ جمیلہ کے سب سے زیادہ بارآور ہونے کی توجیہ وتشریح کرتے ہوئے مولانا حالی لکھتے ہیں: پنجاب کے مسلمان، جنھوں نے برٹش گورنمنٹ کی بدولت ایک مدت بعد نئی زندگی حاصل کی تھی اور اس کے لیے انگریزی تعلیم اور انگریزی خیالات کو خیر مقدم کہنے کے لیے تیار بیٹھے تھے، سر سید کی منادی پر اس طرح دوڑے جیسے پیاسا پانی پر دوڑتا ہے۔ انھوں نے صرف یہی نہیں کہ مدرسۃ العلوم کو مالی مدد بہم پہنچائی، بلکہ سچ یہ ہے کہ سر سید اور ان کے کاموں کی کسی صوبے نے عام طور پر ایسی قدر نہیں کی جیسی پنجاب والوں نے کی … سر سید کی اصلاحیں انھوں نے سب سے زیادہ قبول کیں اور قوم کی بھلائی کے کاموں میں سب سے بڑھ کر انھوں نے سر سید کی تقلید اختیار کی… حق یہ ہے کہ قومی خدمات کی داد جو قوم کی طرف سے سر سید کی ملنی چاہیے تھی، اس کا حق پنجاب کے مسلمانوں کے برابر کسی صوبے سے ادا نہیں ہو سکا۔‘‘۱۱۹؎ پنجاب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ سرسید کے عقائد اور ان کے اجتہادی نظریات کے خلاف یہاں کے علماء نے محاذ آرائی اور فتوے بازی میں حصہ نہیں لیا۔ یوں تو سر سید کی مخالفت اُسی وقت سے شروع ہو گئی تھی جب علی گڑھ تحریک کا باقاعدہ آغاز نہیں ہوا تھا، بلکہ ابھی سر سید حاکم قوم کے خلاف بعض مذہبی تعصبات اور غلط فہمیوں کے ازالے کی غرض سیتبئین الکلام (تفسیرِ بائیبل) اور رسالہ احکامِ طعام اہلِ کتاب جیسی کتابیں لکھ رہے تھے۔ پھر جب وہ سفرِ انگلستان سے معاشرتی و مذہبی اصلاح و تجدید کا ایک جامع منصوبہ بنا کر واپس آئے اور دسمبر ۱۸۷۰ء میں تہذیب الاخلاق جاری کیا، جو ان کے ہمہ گیر مقاصد کا ترجمان تھا، تب تو ہر طرف سے مخالفت کا طوفان امڈ پڑا۔ بالآخر ۱۸۷۷ء میں مدرسۃ العلوم علی گڑھ کے قیام کے بعد انھوں نے تہذیب الاخلاق کو بند کرنے کا اعلان کر دیا، تاکہ علما کی مخالفت قومی تعمیر و ترقی کے بنیادی مقصد پر اثر انداز نہ ہو۔ لیکن وہ مذہبی فکر کی تشکیلِ نو اور ایک جدید علمِ کلام کی اہمیت و ضرورت سے بھی غافل نہ رہے۔ وہ اس خطرے کو شدّت سے محسوس کر رہے تھے کہ اگر مغربی سائنس اور عقلیت کے چیلنج کا مقابلہ نہ کیا گیا تو تعلیم یافتہ نوجوانوں کی آئندہ نسلیں دین سے منحرف ہو جائیں گی۔ اس خطرے کے سدّباب کے لیے انھوں نے قرآن کی تفسیر لکھنی شروع کی، اور یہ ثابت کیا کہ اسلامی احکام و عقائد عقل و فطرت کے عین مطابق ہیں: ’’الاسلام ھو الفطرت و الفطرت ھی الاسلام‘‘۔۱۸۸۰ء میں تفسیر القرآن کی پہلی جلد شائع ہوتے ہی سرسید کی ’’نیچریت‘‘ کے خلاف تکفیر سازی کی مہم دو بارہ شروع ہو گئی۔ لیکن پنجاب میں یہ مہم نہ چل سکی، بلکہ ۱۸۸۴ء میں جب سر سید دو بارہ پنجاب کے دورے پر آئے تو ہر شہر میں پہلے سے زیادہ حسنِ عقیدت اور جوش و خروش کے مظاہرے ہوئے۔ یکم فروری ۱۸۸۴ء کو لاہور میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کے اصرار پر سر سید نے جو معرکہ آرا تقریر ’’اسلام‘‘ کے موضوع پر کی، اس نے نیچریت و دہریت کے الزام کی قلعی کھول دی اور بقول پنجابی اخبار (لاہور) ہر ایک فرقے کے محقق گروہ پر ثابت کر دیا کہ وہ بے شبہ پکے مسلمان اور اسلام کے سچے خیرخواہ ہیں۔‘‘۱۲۰؎ مختصر یہ کہ بقول مولانا حالی ’’انھوں نے ہندوستان کے دیگر اور حصوں کی طرح سر سید کو مسلمانوں کی صرف دنیوی ترقی کا خواستگار مگر دین کا مخرب نہیں ٹھہرایا، بلکہ ان کو دنیا اور دین دونوں کا سچا خیرخواہ اور خیر اندیش سمجھا۔‘‘۱۲۱؎ ہم گزشتہ باب میں اقبال کی پہلی قومی نظم ’’فلاحِ قوم‘‘ (۱۸۹۶ئ) کا جائزہ لے چکے ہیں۔ اس نظم میں انھوں نے کشمیریانِ لاہور کو عزم و عمل، اجتماعی جدو جہد اور جدید علوم و فنون کے حصول کا پیغام دیا ہے۔ یہ وہی پیغام ہے جو سر سید ، حالی اور نذیر احمد جیسے بزرگانِ قوم اپنی تقریروں اور نظموں میں دیتے رہے ہیں۔ کشمیری برادری کی عام روایت کے مطابق اقبال نے بھی اپنی اس نظم میں کشمیریانِ لاہور کو ایک علیحدہ قوم قرار دیا ہے: دعا یہ مجھ سے ہے یا رب کہ تاقیامت ہو ہماری قوم کا ہر فرد قوم پر مفتوں کچھ اس میں شوق ترقی کا حد سے بڑھ جائے ہماری قوم پہ یارب وہ پھونک دے افسوں۱۲۲؎ اسی زمانے میں انھوں نے انجمن کشمیری مسلمانانِ لاہور کے ایک جلسے میں کچھ قطعات (جو ’’رباعیات‘‘ کے عنوان سے باقیاتِ اقبال، ص ۳۲-۳۳ پر درج ہیں)سنائے تھے۔ اس سلسلے کا پہلا قطعہ جس میں کشمیری برادری کو مخاطب کیا گیا ہے، یوں شروع اور ختم ہوا ہے: سو تدابیر کی اے قوم یہ ہے اک تدبیر مل کے دنیا میں رہو مثلِ حروفِ کشمیر لیکن آئندہ چند برسوں میں اقبال کے فکری ارتقا کی رفتار اتنی تیز رہی اور ان کے تصورِ قومیت میں اتنی وسعت پیدا ہو گئی کہ پوری نسلِ انسانی اس کے دائرے میں شامل ہو گئی(ع: ’’نسلِ انسان قوم ہو میری، وطن میرا جہاں‘‘)۔ فروری ۱۹۰۰ء میں جب وہ پہلے پہل انجمن حمایت اسلام کے پلیٹ فارم پر نمودار ہوئے اور ’’نالۂ یتیم‘‘ سے ’’فریادِ اُمّت‘‘ (۱۹۰۳ئ) تک ان کی ابتدائی قومی نظموں کا سلسلہ شروع ہوا، اسی زمانے میں وہ ایسی نظمیں بھی لکھتے رہے جو ان کے صوفیانہ میلانِ وحدت اور انسانیت کے آفاقی تصور کی ترجمان ہیں بہرحال علی گڑھ تحریک سے ان کے فکری رشتے اور انجمن حمایت اسلام سے ان کے تعلقِ خاطر کی کچھ بنیادیں موجود تھیں۔ علی گڑھ تحریک کے تعلیمی و اصلاحی مقاصد کے علاوہ، اقبال اس زمانے میں سر سید کی دینی خدمات سے بھی متاثر تھے۔ سر سید نے قرآن کو دین کا اصل ماخذ قرار دے کر تمام فروعی اختلافات کا سدباب کیا تھا۔ سرسید کی ان تحریروں سے متاثر ہو کر پنجاب کے جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ایک طبقے نے قرآن کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا اور رفتہ رفتہ قرآن کے مطالعے نے یہاں ایک مستقل تحریک کی صورت اختیار کی، جس سے آئندہ کئی نتائج برآمد ہوئے۔ سر سید کی تفسیر اور ان کا جدید علم کلام بھی کالج کے طلبہ کے ذہن و فکر کی ’’کشتیِ نازک ‘‘ کے لیے دہریت اور الحاد کے طوفانی سمندر میں ایک مضبوط لنگر ثابت ہوئیں۔ چنانچہ مولانا حالی نے ’’حیاتِ جاوید‘‘میں گورنمنٹ کالج لاہور کے ایک ذہین طالب علم/ کے ایک مضمون کا حوالہ دیا ہے جسے سر سید کی تحریروں نے فکری گمراہیوں سے بچایا تھا۔۱۲۳؎ جہاں تک اقبال کا تعلق ہے، غالباً وہ بھی استاد محترم مولوی میر حسن کی طرح سر سید کے تفسیری مضامین کا مطالعہ کر چکے تھے۔ چنانچہ اس دور کی بعض نظموں میں سر سید کے بعض اجتہادی نظریات کا سراغ ملتا ہے۔ مثلاً جنت دوزخ اور عرش و کرسی کے بارے میں سر سید کے / مولانا حالی نے اس طالب علم کا نام نہیں لکھا لیکن تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ واقعہ شمس العلماء مولوی ممتاز علی کے زمانۂ طالب علمی کا ہے۔ اس سے پہلے وہ خود ارتداد کی طرف مائل تھے اور قریب تھا کہ عیسائی ہو جاتے لیکن سر سید کی تحریروں سے ان کی ذہنی اصلاح ہو گئی۔ اس مضمون کی اشاعت کے بعد وہ ۱۸۷۹ء میں سر سید کے ایما پر کلکتہ پہنچ کر ان سے ملے اور پھر سر سید سے ان کی مراسلت اور ذاتی روابط کا مستقل دور شروع ہوا۔ خیالات کا پر تو مندرجہ ذیل اشعار میں ملاحظہ ہو: کہا کسی نے فسانہ جو عرش و کرسی کا وہ سادہ لوح ہوں میں کر لیا یقیں میںنے۱۲۴؎ باغ ہے فردوس یا اک منزلِ آرام ہے یا رخِ بے پردۂ حسنِ ازل کا نام ہے کیا جہنّم معصیت سوزی کی اک ترکیب ہے آگ کے شعلوں میں پنہاں مقصدِ تادیب ہے۱۲۵؎ سر سید نے ملائکہ، شیطان اور آدم کے سلسلے میں قرآنی آیات کی تفسیر تمثیلی انداز میں کی ہے اور قصّۂ آدم کی ساری جزئیات و تفصیلات ، اسی تمیثلی پیرایے میںبیان کی ہیں۔ مثلاً آدم کی بہشت کی زندگی سے مراد ارتقائے انسانیت کا وہ درجہ ہے جب انسان غیر مکلف اور تمام قیود سے آزاد تھا۔ شجرِ ممنوعہ کا پھل کھا کر جنت سے نکلنے سے مراد عقل و شعور کا ابھرنا اور اپنے اعمال کا ذمہ دار ہو کر زندگی کی جدو جہد شروع کرنا ہے۔۱۲۶؎ اقبال نے بھی ’’سر گذشتِ آدم‘‘ میں انسانی شعور کی بیداری کا ذکر کیا ہے: لگی نہ میری طبیعت ریاضِ جنّت میں پیا شعور کا جب جامِ آتشیں میں نے۱۲۷؎ اگرچہ اقبال کے صوفیانہ نظریات نے اس دور میں بھی سر سید کی غیر معتدل عقلیت کا شکار ہونے سے بچائے رکھا لیکن سر سید کا اجتہادی میلان، بہرحال ان کے ذہن میں بھی کارفرما تھا، چنانچہ بعض مسائل میں وہ سر سید سے بھی ایک قدم آگے بڑھ گئے۔ مثلاً سر سید نے قرآنی آیات سے استشہاد کرتے ہوئے رسالہ احکامِ طعامِ اھلِ کتاب اور اہلِ کتاب ہونے کے رشتے سے انگریزوں کے ساتھ معاشرتی تعلقات قائم کرنے پر زور دیا۔ بلکہ اپنے ایک لیکچر میں محض توحید کے عقیدے کو اسلام کی بنیاد قرار دیتے ہوئے یہ کہا کہ ’’جو شخص خدا کو برحق مانتا ہے اور اس کی توحید پر یقین رکھتا ہے وہ مسلم یا مسلمان ہے… اس کو کافر بمعنی مشرک کہنا یا موحد نہ کہنا اسلام کے اصول کی رو سے درست نہیں۔‘‘۱۲۸؎ اقبال نے سنسکرت زبان سیکھ کر اپنشد اور گیتا کا مطالعہ کیا تو ہندوئوں پر بھی اس اصول کا اطلاق کرنے لگے۔ انھوں نے ’’گائتری‘‘ کا ترجمہ ’’آفتاب‘‘ کے عنوان سے کیا ہے، جس کا ایک مصرع یہ ہے: ’’زائیدگان نور کے ہے تاجدار تو۔‘‘ اس مصرعے کے پہلے ٹکڑے ’’زائیدگانِ نور‘‘ پر یہ نوٹ ملاحظہ ہو: ’’یعنی دیوتا۔ سنسکرت میں لفظ دیوتا کے معنی زائیدئہ نور کے ہیں، یعنی ایسی ہستی جس کی پیدائش نور سے ہوئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم ہندو، دیوتائوں کو دیگر مخلوقات کی طرح، مخلوق تصور کرتے تھے، ازلی نہیں سمجھتے تھے… پس ہندو مذہب کو شرک کا مجرم گرداننا میرے نزدیک صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ ‘‘۱۲۹؎ یہاں تو اقبال نے محتاط علمی انداز میں ایک نکتے کی وضاحت کی ہے، لیکن درحقیقت ان کی صوفیانہ وسیع المشربی کسی فرقِ ’’من و تو‘‘ کو خاطر میں نہیں لاتی تھی۔ سر سید کے بارے میں ہر شخص جانتا ہے کہ وہ زندگی کے آخری دور میں اپنے ابتدائی مسلک اتحاد وطنی سے دست بردار ہو کر مسلمانوں کی جداگانہ قومیت پر اصرار کرتے تھے، یا یوں کہیے کہ ان کی سیاسی بصیرت اور مومنانہ فراست، متحدہ ہندی قومیت کے پُر فریب تصور کو ’’جنت الحمقا‘‘ قرار دے چکی تھی۔نقطۂ نظر کے اس فرق کے باوجود، اقبال کے قلب و ذہن پر سر سید کی شخصیت اور ان کے کردار کی عظمت کا نقش بہت گہرا تھا۔ اس جوش عقیدت اور تعلق خاطر کا خاص سبب، سر سید کا وہ بے پناہ جذبۂ خدمتِ خلق، وہ سوز دروں تھا جس کی ترجمانی مولانا حالی نے ’’مرثیۂ سر سید احمد خاں‘‘ کے ان اشعار میں کی ہے: چیست انسانی تپیدن از تپِ ہمسائیگاں از سمومِ نجد در باغِ عدن پژماں شدن خوار دیدن خویش را از خواریِ ابنائے جنس در شبستاں تنگ دل از محنتِ زنداں شدن زیستن در فکرِ قوم و مردن اندر بندِ قوم گر توانی، می توانی سید احمد خاں شدن۱۳۰؎ سر سید سے اقبال کے حسن عقیدت کا واضح ثبوت، اُس دور کی ایک نظم ’’سید کی لوحِ تربت‘‘ میں ملتا ہے۔ لیکن اگر متروک اشعار بھی پیشِ نظر رکھے جائیں تو اس نظم کے مطالعے سے سر سید کی جو تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے ، وہ ۸۷-۱۸۸۵ء سے پہلے کی ہے۔ شاعر کا ذہنی رشتہ اس مخلص و بے باک رہنما سے استوار ہے، جس نے ہنگامۂ ۵۷ء کے بعد اہلِ وطن کی وکالت کرتے ہوئے ’’اسبابِ بغاوتِ ہند‘‘ میں ’’سلطانِ جابر‘‘ کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی جرأت کی، جو بلا امتیازِ مذہب و ملّت سب کا خیر خواہ و درد مند تھا، جو ہندوستان کو ایک حسین دلھن، اور ہندو مسلم قوموں کو اس دلھن کی ’’دو رسیلی آنکھیں‘‘ سمجھتا تھا۔ انجمنِ حمایتِ اسلام کی دینی، تعلیمی اور رفاہی خدمات کی بدولت، اور اس کے ایثار پیشہ کارکنوں کے خلوصِ نیّت کی برکت سے، مسلم عوام میں اس کی مقبولیت روز بروز بڑھ رہی تھی۔ ۱۸۹۴ء کے سالانہ اجلاس میں سر سید کی جانب سے محسن الملک کی شرکت کے بعد، جب باہمی غلط فہمیاں رفع ہو گئیں اور مقامی مخالفت کا زور ٹوٹ گیا، تو مولوی نذیر احمد کے علاوہ دیگر اکابر قوم بھی ادھر ملتفت ہوئے اور انجمن کے جلسوں کی رونق میں اضافہ ہوا۔ اقبال کے حلقۂ خاص کے تمام ارکان، انجمن کی کارروائیوں میں دلچسپی لیتے تھے۔ اقبال اس خالص عوامی اور رفاہی ادارے سے کیوں بے نیاز رہتے؟ رسمی انداز کی نظم خوانی ان کے مزاج کے خلاف تھی اور ’’اصلاحِ قوم‘‘ جیسی روایتی پیغام گوئی کی منزل سے اب وہ بہت آگے نکل گئے تھے۔ انجمن کے مقاصد اور اس کے جلسوں کے مخصوص دینی ماحول کے مطابق ، انھوں نے اپنا ساز سخن اس انداز سے چھیڑا کہ ان کی اپنی آواز میں اس محفل کا مانوس آہنگ بھی شامل تھا۔ اس زمانے میں مسلمانوں کے یتیم و لاوارث بچے، عیسائی مشنریوں کے ہتھے چڑھ جاتے تھے۔ انجمن نے ان نونہالانِ قوم کی پرورش و تربیت کے لیے ایک یتیم خانہ کھولا تھا۔ فروری ۱۹۰۰ء کے سالانہ جلسے میں اقبال کے درد مند دل کے جذبات ’’نالۂ یتیم‘‘ بن کر ظاہر ہوئے۔ تمہید کے چند بندوں کے بعد ’’ظلِّ دامانِ پدر‘‘ کی یاد ’’نالۂ یتیم‘‘ کو اور پُرسوز بنا دیتی ہے۔ لیکن نفسیاتِ انسانی کا نباض شاعر اس ’’یتیمِ ہاشمی‘‘ کے آستانے پر یتیم کی فریاد لے کر پہنچتا ہے،جو تمام عالم کے لیے آیۂ رحمت بن کر آیا تھا اور جس کا دل دردِ انسانیت اور محبت و شفقت کا سر چشمہ تھا: درد انساں کا جو تھا وہ تیرے پہلو سے اٹھا قلزمِ جوشِ محبت تیرے آنسو سے اٹھا۱۳۱؎ نظم کے اس حصے میں جو دس بند پر مشتمل ہے، جذبۂ عشقِ رسولؐ کے والہانہ اظہار کے لیے جہاں مختلف پیرائے اختیار کیے گئے ہیں، وہاں ایک شعر میں اُس دور کے اقبال کا یہ مخصوص رنگِ عقیدت بھی نمایاں ہے: اس نے پہچانا نہ تیری ذاتِ پُر انوار کو جو نہ سمجھا احمدؐ بے میم کے اسرار کو۱۳۲؎ نظم کے آخری بند میں، یتیموں کی داد رسی کے لیے جناب رسالت مآبؐ کا ملت سے خطاب، جس کا خاتمہ اس مصرعے پر ہوا ہے: ’’آبرو میری یتیمی کی تمھارے ہاتھ ہے‘‘،۱۳۳؎ مسلمانوں کے جذبۂ غیرت و حمیت کے لیے تازیانہ بن جاتا ہے۔ اس نظم کی بے مثال کامیابی کے بعد، انجمن کی طرف سے ہر سال تقاضے ہونے لگے۔ ۱۹۰۱ء کے سالانہ اجلاس میں انھوں نے اسلوب بدل کر یہی موضوع اختیار کیا۔ ’’یتیم کا خطاب ہلالِ عید سے‘‘ گزشتہ نظم سے بھی طویل تر اور زبان و فن کے لحاظ سے بہتر ہے۔ اس میں نعت گوئی کی گنجائش نہ نکل سکی لیکن شاعر کا جذبۂ بے اختیار، بند سیزدہم کے چند اشعار میں ظاہر ہو ہی گیا۔ اس ضمن میں اس مرثیے کا ذکر بھی بے محل نہ ہو گا جو انھی دنوں ملکۂ وکٹوریہ کی وفات (۲۲؍جنوری ۱۹۰۱ئ) میں اقبال نے ’’اشکِ خوں‘‘ کے عنوان سے لاہور کے ایک تعزیتی جلسے میں سنایا تھا۔ مرثیے کے بند چہارم میں شاعر نے انسانی ہمدردی کا بلند نصب العین پیش کیا ہے۔ اس بند کے یہ اشعار، ملکہ کی شخصیت سے زیادہ شاعر کے اپنے دلِ درد مند کے ترجمان ہیں: شاہی یہ ہے کہ آنکھ میں آنسو ہوں اَور کے ِچلّائے کوئی، درد کسی کے جگر میں ہو بے تابیاں جو اَور کی ہوں اپنے دل میں ہوں جو درد اَور کا ہو وہ اپنے جگر میں ہو معمور ہو شرابِ محبت سے جامِ دل جو دل میں ہو نہاں وہ نمایاں نظر میں ہو۱۳۴؎ فروری ۱۹۰۲ء کے سہ روزہ اجلاسِ انجمن میں اقبال نے تین نظمیں مختلف اوقات میں سنائیں۔معلوم ہوتا ہے کہ انجمن کو گوش بر آواز دیکھ کر، اب وہ خود انجمن کے حلقہ بگوش ہو گئے۔ حتیٰ کہ اس ادارے کی خیر خواہی میں یا اربابِ انجمن کی فرمائش سے لیفٹیننٹ گورنر پنجاب کی آمد پر بطورِ ’’خیر مقدم‘‘نظم خوانی بھی گوارا کر لی۔ دوسری نیم سنجیدہ نیم مزاحیہ نظم ’’دین و دنیا‘‘ کے عنوان سے پڑھی جو موضوع اور اسلوب دونوں اعتبار سے مولوی نذیر احمد کے رنگ میں تھی۔ یہاں اقبال اور مولوی نذیر احمدکے شخصی و فکری روابط کے بارے میں اجمالاًچند باتیں عرض کی جاتی ہیں؛ اگرچہ سر سید کی وفات کے بعد ، مولوی نذیر احمد جلسوں میں شرکت سے گریز کرنے لگے تھے اور کچھ ضعفِ پیری کا بھی عذر تھا، لیکن اہلِ پنجاب کا اشتیاق اور اربابِ انجمن کا پُرخلوص اصرار، انھیں ہر سال لاہور کھینچ بلاتا تھا۔ اقبال کے رفیق عتیق، شیخ عبدالقادر اس زمانے میں انجمن کے جلسوں کے منتظمین میں شامل رہتے تھے۔ انھوں نے عینی شاہد کی حیثیت سے نذیر احمد کی شخصیت، اندازِ خطابت اور حاضرین جلسہ کے جوش و خروش کا جو نقشہ کھینچا ہے، اس سے اس بے پناہ مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے جو انھیں یہاں کے عوام و خواص میں حاصل تھی۔ ان کے بیانات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ علمیت و ذہانت اور قدامت و جدت کا یہ دلچسپ مجموعہ، اپنی وسعتِ نظر ، تازگیٔ خیال اور شگفتگیِ بیان سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے دل و دماغ کو کس درجے متاثر کرتا تھا۔۱۳۴؎ سر سید کے رفقامیں نذیر احمد کی امتیازی شان یہ ہے کہ ایک طرف وہ علی گڑھ تحریک کے بنیادی مقاصد بلکہ سر سید کے بیشتر اجتہادی افکار کے پرجوش مبلغ تھے، تو دوسری طرف ان کے انتہا پسندانہ مسلک کے بے لاگ نقاد بھی تھے۔ سر سید کی عقلیت اور مغربیت کے خلاف جو تحریک ان کی زندگی ہی میں رونما ہوئی اور بعد میں اقبال کے ہاتھوں تکمیل تک پہنچی، اس کے اولین قائدین میں نذیر احمد پیش پیش رہے۔ راقم الحروف نے اپنے ایک مقالے میں نذیر احمد اور اقبال کے افکار و نظریات کے مشترک پہلوئوں کا جائزہ لیتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ فکری ارتقا کے ابتدائی دور میں اقبال کے سامنے، اجتہادِ فکر کے ساتھ حقیقت پسندانہ اعتدال و توازن، ’’خذما صفا و دع ما کدر‘‘ کے اسلامی اصول اور انتخابی نگاہ کا جو عملی نمونہ نذیر احمد نے پیش کیا تھا، اس کے دیرپا اثرات مستقبل کے اقبال میں نظر آتے ہیں۔۱۳۵؎ لیکن یہاں اس بحث کو دہرانا بے محل ہوگا، کیونکہ مستقبل کے افکار کے حوالے سے اس دور کے اقبال کو سمجھنے کی کوشش گمراہ کن ثابت ہو گی۔ اقبال جب سیالکوٹ سے لاہور آئے تو اگرچہ اس زمانے میں نذیر احمد کی خطابت اپنے شباب پر،نیز انجمن اور اسلامیہ کالج کے زبر دست محسن و معاون کی حیثیت سے انجمن کے حلقوں میں ان کی قدر ومنزلت عروج پر تھی، لیکن عین اسی زمانے میں نذیر احمد اور پیرانِ طریقت کے درمیان معرکۂ کارزار گرم تھا۔ ۱۸۹۳ء اور ۱۸۹۴ء کے سالانہ جلسوں میں نذیر احمد نے ’’فطرۃ اللہ‘‘ اور ’’توحید‘‘ کے موضوع پر جو تقریریں کیں، ان میں علماء و مشائخ کی رہبانی تعلیمات اور اہلِ تصوف کے نظریۂ وحدت الوجود، پیر پرستی اور قبر پرستی پر سختی سے نکتہ چینی کی تھی، حتیٰ کہ مقدمہ بازی تک نوبت پہنچی۔ اقبال کے میلانِ تصوف کے پیش نظر گمان غالب ہے کہ اس مناقشے کی وجہ سے ابتداء ً ان پر نذیر احمد کا منفی اثر پڑا ہو گا۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ رکاوٹ دور ہوئی۔ ۱۹۰۰ء کے اجلاس میں اقبال نے اپنی پہلی نظم ، نذیر احمد کی صدارت میں پیش کی اور صدر نے اپنی اختتامی تقریر میں مبالغہ آمیز تحسین سے نوجوان شاعر کی حوصلہ افزائی کی۔۱۳۶؎ نذیر احمد اپنے متعدد خطبات میں اس نکتے کی وضاحت کر چکے تھے کہ دین و دنیا کی دوئی کا تصور اسلام جیسے جامع و متوازن نظام کے منافی ہے۔ یہ تصور در اصل علماء کی تنگ نظری و رسم پرستی اور صوفیا کے رہبانی خیالات کا نتیجہ ہے۔ انجمن کے سولھویں سالانہ اجلاس (منعقدہ ۲۲؍فروری ۱۹۰۱ئ) میں بھی نذیر احمد کے لیکچر کا یہی (دین و دنیا) موضوع تھا۔ یہ خطبہ نذیر احمد کے لیکچروں کے مجموعے میں شامل نہیں لیکن ماہ مئی ۱۹۰۱ء کے رسالہ ماہواری انجمن حمایت اسلام میں چھپ گیا تھا۔۱۳۷؎ اقبال نے دوسرے سال یعنی۱۹۰۲ء کے سالانہ اجلاس میں جو نظم سنائی وہ ۵۴؍اشعار پر مشتمل ایک نیم مزاحیہ قطعہ ہے،جس میں پہلے ایک مولوی صاحب کا طنزیہ ذکر ہے جو انگریزی تعلیم کی مخالفت میں وعظ فرما رہے تھے، اور آخر میں ایک ایسے شخص کی ملاقات کا استہزائیہ بیان ہے،جو علم دین کے شوق میں گداگری کر رہا تھا۔ شاعر اس سے مخاطب ہو کر کہتا ہے: خوار ہے تو جیسے اسٹیشن پہ ہو بلٹی کا مال تیری دیں داری کا یہ ذلّت ہی کیا انجام ہے۱۳۷؎ نظم کے یہ دونوں کردار نذیر احمد کے خطبوں اور تحریروں میں اکثر طنز و تعریض کا نشانہ بنے ہیں۔ اس نظم کے کئی متفرق اشعار میں نذیر احمد کے لیکچر (دین و دنیا) کی گونج سنائی دیتی ہے۔ مثلاً: صدقے جائوں فہم پر، دنیا نہیں دیں سے الگ یہ تو اک پابندیٔ احکامِ دیں کا نام ہے الغرض دیں ہو تو اس کے ساتھ کچھ دنیا بھی ہو ورنہ روزِ روشنِ اسلام کی پھر شام ہے۱۳۸؎ یہ محض اتفاق نہیں کہ اقبال کی اس نظم کی بحر اور قافیے وہی ہیں جو نذیر احمد نے اپنی ایک قومی نظم میں اختیار کیے تھے۔ نذیر احمد نے یہ نظم انجمن کے پندرھویں سالانہ اجلاس (فروری ۱۹۰۰ئ) میں اپنے ایک لیکچر سے پہلے سنائی تھی۔ اس نظم کے صرف دو شعر درجِ ذیل ہیں: ابتدا کے ساتھ کچھ نسبت نہیں انجام کو دیکھتے ہی دیکھتے کیا ہو گیا اسلام کو دین و دنیا انجمن نے جمع کر دکھلا دیے ہم نے اب سمجھا محلّ و موقعِ ادغام کو۱۳۹؎ نذیر احمد کی نظمیں، ان کے خطبات کی طرح پُر جوش نہ سہی، لیکن فکر انگیز ضرور ہیں۔ لہٰذا اگر اس ابتدائی دور میں اقبال، اس بزرگ ادیب و خطیب کی نظموں سے بھی متاثر نظر آتے ہیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ لیکن اس بہ ظاہر تقلیدی نظم میں بھی ایسے اشعار موجود ہیں، جو اقبال کی انفرادیت اور اُس دور میں ان کے نظامِ فکر کے مرکزی نقطے کی نشان دہی کرتے ہیں۔ مثلاً یہ دو شعر ملاحظہ ہوں: روح ہے جب تک بدن میں، عشق ہم جنسوں سے ہو عشق بھی اک مذہبِ اسلام ہی کا نام ہے ہے دماغوں کی لطافت کچھ اسی کا سوز و ساز عشق اس دنیا کی انگیٹھی میں عودِ خام ہے۱۴۰؎ اسلامیہ کالج کے قیام کے بعد، انجمن کے ہر سالانہ اجلاس میں کالج کے مخالفین کی تردید اور اس کے استحکام و ترقی کی تدبیر، نذیر احمد کی خطابت کا ہم موضوع بن گئی۔ اپنے سالانہ خطبات میں انھوں نے اہلِ پنجاب کی غیرت و حمیّت کو برانگیختہ کرنے اور کالج کی امداد کی ترغیب و تشویق کے لیے خطابت کے نو بہ نو پیرائے اختیار کیے۔ ممکن ہے انھی نے اقبال کو اس موضوع پر نظم لکھنے کے لیے اکسایا ہو۔ اس مرتبہ انجمن کے سالانہ اجلاس (۱۹۰۲ئ) کے لیے جو چیز خصوصیت سے انھوں نے تیار کی وہ ’’اسلامیہ کالج کا خطاب پنجاب کے مسلمانوں سے‘‘کے عنوان سے ۹ بند پر مشتمل ایک ترکیب بند نظم تھی، جس میں نذیر احمد کے پیغام کی صدائے بازگشت جا بجا سنائی دیتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اقبال کے حسنِ بیان سے یہ پیغام زیادہ ولولہ انگیز و دلآویز ہو گیا ہے۔ صرف ایک بند کے دو اشعار درج ذیل ہیں: مَیں صدف، تمِ ابرِ نیساں، مَیں گلستاں تم بہار مزرعِ نوخیز میں، تم ابرِ دریا بار ہو مَیںنتیجہ اک حدیثِ اُمّیِ یثربؐ کا ہوں تم اُسی اُمّیؐ کی امّت کے علم بردار ہو۱۴۱؎ طالب علم کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی معروف حدیث کی طرف اس شعر میں جو بلیغ اشارہ ہے، اس سے عاشقِ رسولؐ کو تسکین نہ ہوئی تو بندِ ہشتم کے آخری شعر میں پھر بصراحت کہا: اے کہ حرف ’’اطلبوا لوکان بالسیں‘‘ گفتہ ای گوہرِ حکمت بہ تارِ جانِ اُمّت سفتہ ای۱۴۲؎ بند نہم (آخری بند ) میں ’’فارسِ میدانِ شوق‘‘کا رہوارِ تخیّل اشارہ پاتے ہی اپنے اصل مرکز کی طرف گرم جولاں ہوا۔ اس نعتیہ بند کے صرف چند اشعار درج ذیل ہیں: اے کہ بر دلہا رموزِ عشق آساں کردہ ای سینہ ھا را از تجلی یوسفستاں کردہ ای اے کہ ذاتِ تو نہاں در پردئہ عینِ عرب روئے خود را در نقابِ میم پنہاں کردہ ای اے کہ بعد از تو نبوّت شد بہ ہر مفہوم شرک بزم را روشن ز نورِ شمعِ عرفاں کردہ ای اے کہ ہم نامِ خدا، بابِ دیارِ علم تو اُمیّے بودی و حکمت را نمایاں کردہ ای بے عمل را لطفِ تو ’’لا تقنطوا‘‘ آموز گشت بسکہ وا بر ہر کسے بابِ دبستاں کردہ ای۱۴۳؎ دوسرا اور چوتھا شعر ایک خاص رجحان کی نمائندگی کرتا ہے جس کا ذکر آگے آئے گا۔ بقیہ تین شعر بھی خاص توجہ کے لائق ہیں۔ پہلے شعر سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال کا مشرب و مسلک ’’عشق‘‘ ہے اور رموزِ عشق کا عرفان رسول کریمؐ کی ذاتِ اقدس کا فیضان ہے۔ تیسرے شعر سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ اسی دور میں’’ظلّی یا بروزی‘‘ نبوت کی حقیقت سے آگاہ ہو چکے تھے۔ پانچویں شعر سے معلوم ہوتا ہے کہ شاعر کو ’’رحمۃ للعٰلمین‘‘ کے لطف و کرمِ بے نہایت پر اتنا ہی اعتماد ہے جتنا کہ ’’ارحم الراحمین‘‘ کی شانِ رحمت پر۔اسے بارگاہ رسالتؐ سے بھی ’’لاتقنطوا‘‘ کی صدا سنائی دیتی ہے اور وہ اپنی بے عملی کے باوجود اسی کے دبستانِ عشق و معرفت سے وابستہ ہے۔ اس سلسلے کی پانچویں نظم ’’ابرِ گہربار‘‘ ۱۹۰۳ء کے سالانہ اجلاس میں پڑھی گئی۔ یہ نظم دراصل اس دور میں اقبال کا نعتیہ شاہکار ہے، جسے انجمن کے مفید مطلب چند باتوں کے اضافے سے ’’فریادِ امّت‘‘ کی شکل دی گئی ہے۔ ۱۲ بند اور ۱۳۹ اشعارپر مشتمل اس طویل نظم کے ابتدائی ۴ بند میں عاشقانہ یا متغزّلانہ تمہید ہے۔ درمیانی۴ بند خالص نعتیہ ہیں۔ اس طرح کل ۸ بند کے ۹۲ اشعار کے بعد آخری حصے (۴ بند، ۷۴ اشعار) میں ’’امّتِ مرحوم‘‘ کا حالِ زار بیان کیا گیا ہے۔ شاعر اس زمانے کے واعظوں اور عالموں سے سخت بیزار ہے لہٰذا بار گاہِ رسالت میں سب سے پہلے انھی کے خلاف بابِ شکایت وا کرتا ہے۔ یوں تو ان کی بہت سی خرابیاں گنائی گئی ہیں، مثلاً ان کا تکبّر کہ ’’اپنی ہر بات کو آوازِ خدا کہتے ہیں‘‘، وعظ میں دنیا داری کی مخالفت اور ’’اپنے ہر کام میں دنیا طلبی کا سودا‘‘، قوم کے درد مندوں کو گالیاں اور ’’بغض للہ کے پردے میں عداوتِ ذاتی‘‘ وغیرہ۔ لیکن علما کی تنگ نظری، تعصّب اور فرقہ بندی کا گلہ مسلسل کئی شعروں میں ہے۔ اہلِ بیت اطہارؓسے بغایت عقیدت کی بنا پر یک طرفہ شکایت کی گئی ہے کہ وہ شیعہ سنی خانہ جنگی کی آگ بھڑکاتے اور اختلافی مسائل میں حد سے گزر جاتے ہیں: مقصدِ لحمک لحمی پہ کھلی ان کی زباں یہ تو اک راہ سے تجھ کو بھی بُرا کہتے ہیں تیرے پیاروں کا جو یہ حال ہو اے شافع حشر میرے جیسوں کو تو کیا جانتے کیا کہتے ہیں۱۴۴؎ علما کے بعدایک بند میں امرا کی بے حسی اور بے دردی کی شکایت ہے جو بادئہ عیش میں ایسے سرمست ہیں کہ ’’یاد فرمان نہ تیرا، نہ خدا کا کہنا‘‘: دیکھتے ہیں یہ غریبوں کو تو برہم ہو کر فقر تھا فخر ترا شاہِ دو عالم ہو کر۱۴۵؎ آخری دو بند کا حاصل یہ ہے کہ اس دورِ ابتلا میں سرکارِ دو عالمؐ کا لطف و کرم ہی اُمت کا واحد سہارا ہے لیکن اس کے ابرِ رحمت کو گھیر کر لانے کے لیے مسلمانوں کو اخوّت کی اس ’’محفلِ رنگیں‘‘ (انجمنِ حمایتِ اسلام) کا وسیلہ اختیار کرنا چاہیے: تیرے قرباں کہ دکھا دی ہے یہ محفل تونے میں نے پوچھا جو اخوّت کی بنا کون سی ہے راہ اس ’’محفلِ رنگیں‘‘ کی دکھا دے سب کو اور اس بزم کا دیوانہ بنا دے سب کو۱۴۶؎ یہ نظم کا اجتماعی پہلو ہے۔ اس سے پہلے ۸ بند شاعر کے انفرادی جذبات و کیفیات سے متعلق ہیں اور ان کا تجزیہ دشوار ہے۔ تمہید کے ابتدائی چار بند گویا چار مختلف غزلیں ہیں جنھیں ٹیپ کے اشعار سے ترکیب بند کی صورت میں جوڑ دیا گیا ہے۔ ان غزلوں میں پریشاں گفتاری کے باوجود ایک مرکزی خیال باربار دہرایا گیا ہے: عشق سرمایۂ حیات ہے۔ اسی کی مضراب زنی سے سازِ ہستی سے صدہا نغمے نکل رہے ہیں۔ عشق ہی علم و معرفت ، شریعت و طریقت کا حاصل ہے۔ اسی کے نور سے کائنات فروغ گیر ہے: تجھ میں سَو نغمے ہیں اے تارِ ربابِ ہستی زخمۂ عشق سے تجھ کو نہ بجائوں کیوں کر ابر رحمت تھا کہ تھی عشق کی بجلی یا رب! جل گیا مزرعِ ہستی تو اُگا دانۂ دل ہے فروغِ دو جہاں داغِ محبت کی ضیا چاند یہ وہ ہے کہ گھٹتا نہیں کامل ہو کر۱۴۷؎ نظم کے درمیانی چار بند میں عشق رسولؐ کے والہانہ جذبے کا اظہار اور اس محبوب ہستی کی شانِ جمال و کمال کا ذکر خیر ہے۔ نظم کا یہ پہلو ایک مستقل عنوان کے تحت آگے زیر بحث آئے گا۔ ’’تصویر درد‘‘ فروری ۱۹۰۴ء کے سالانہ اجلاس انجمنِ حمایتِ اسلام میں پڑھی گئی۔ اس نظم میں اقبال نے اپنا موقف کھل کر بیان کیا ہے اور ان کے پیغام کا آہنگ واضح طور پر ان قومی نظموں کے روایتی رنگ و آہنگ سے اس قدر بدلا ہوا ہے کہ اسے اس سلسلے میں زیر بحث لانا مناسب نہیں۔ ۱۹۰۳ء تک ان مجلسی نظموں کے مطالعے سے اقبال کی وسیع المشربی اور عاشقانہ و صوفیانہ مسلک کے باوجودہمیں یہ محسوس نہیں ہوتا کہ وہ اپنے زمانے کے مسلّمہ قائدین سے یکسر منحرف ہو کر قوم کو کسی نئے جادہ و منزل کی طرف لے جانا چاہتے ہیںالبتہ اسی زمانے میں ایک نظم ’’سید کی لوح تربت‘‘ (مخزن، جنوری ۱۹۰۳ئ) کا ذکر یہاں بے جا نہ ہو گا۔ کیونکہ اس کے حوالے سے ہم علی گڑھ تحریک اور سر سید کی دبستانِ فکر سے اقبال کی صحیح نسبت کو متعین کر سکتے ہیں۔ لیکن اس دور کے اقبال کے موقف کو سمجھنے کے لیے نظم کا ابتدائی متن (مشمولہ باقیاتِ اقبال) ہمیں پیش نظر رکھنا ہو گا۔ ابتدائی متن میں نظم کے ۵ بند ( یاپارے) اور ۳۴ اشعار تھے۔ نظر ثانی کے بعد اب کل ۴ بند اور ۱۴ اشعار رہ گئے ہیں۔ تیسرے بند کا تیسرا شعر (بندئہ مومن کا دل…) اور آخری بند کا آخری شعر (’’سونے والوں کو جگا دے… ‘‘) بعد کے اضافے ہیں۔ اس نظم میں یوں تو کئی باتیں کہی گئی ہیں؛ مثلاً بحیثیتِ مدبّر، سیاسی امور میں دلیری اور بے باکی کے علاوہ حکومت کی اطاعت اور حقوق طلبی میں حدِ ادب ملحوظ رکھنے کی ہدایت، اور بحیثیتِ شاعر دلجوئی اور حق گوئی کی تلقین، وغیرہ۔ لیکن نظم کا مرکزی تصور یا اصل پیغام دو فارسی شعروں میں نہایت خوبی سے ادا ہوا ہے۔ پہلے شعر میں اسلام کے حوالے سے (یا بحیثیتِ مسلمان) یہ پیغام دیا گیا ہے کہ عالمگیر اخوّت و محبت ہی اسلام کا بنیادی نصب العین ہے۔ اسی نصب العین نے ملّتِ اسلامیہ کو وہ امتیازی حیثیت اور وہ بلند مقام عطا کیا کہ وہ ’’خیر الامم‘‘ بن گئی: چوں زِ مینائے محبت خوردہ بودم بادئہ تا ثریّا رفت ایں قومے بہ خاک افتادئہ۱۴۸؎ اسلام ہمیں باہمی اخوّت کے رشتے میں متحد کرتا ہے اور اقوامِ عالم کے ساتھ فراخ دلی اور رواداری کے برتائو کی تعلیم دیتا ہے۔ دیگر اقوام سے تعصّب برتنا، انھیں برا سمجھنا مسلمان کا شیوہ نہیں، دینِ اسلام کی خدمت نہیں۔ گالیاں دینا کسی کو دین کی خدمت نہیں یہ تعصّب کوئی مفتاحِ درِ جنّت نہیں۱۴۸؎ لیکن افسوس کہ ہم اپنے نصب العین کو فراموش کر چکے ہیں۔ خود مسلمانوں میں دینی رہنمائوں کی فرقہ بندی کی بدولت نفاق و افتراق پیدا ہو گیا ہے۔ اس زمانے میں ذاتی مفاد اور ادنیٰ مقاصد سے بلند رہتے ہوئے لوگوں کو محبت و اخوت کا پیغام دینا ہمارا اولین فرض ہے۔ دوسرا پیغام جو وطن اور اہلِ وطن سے متعلق، اس شعر میں ادا ہوا ہے: از شرابِ حُبِّ ہم جنسانِ خود مستانہ باش شعلۂ شمعِ وطن را صورتِ پروانہ باش۱۴۸؎ وطن کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم بے امتیازِ مذہب و ملت، اپنے تمام برادرانِ وطن کی خدمت و محبت میں اپنی جانیں کھپا دیں: کیا مزا رکھتی ہے ابنائے وطن کی فکر بھی اس میں کچھ ہوتی نہیں اپنے کفن کی فکر بھی۱۴۸؎ ان دو بنیادی تصورات میں سے پہلا تصور اقبال اور بزرگانِ قوم کے درمیان مشترک ہے۔ اور اسی حد تک اقبال اپنی ابتدائی قومی نظموں میں حالی، نذیر احمد اور سر سید سے ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔ دوسرا تصور ایسا ہے جس پر اب بزرگانِ قوم کا ایمان متزلزل ہو چکا ہے۔ تجربے نے انھیں بتایا کہ اپنے کفن ہی نہیں نشیمن کی بھی فکر ضروری ہے۔ لیکن ۳- ۱۹۰۲ء سے اقبال نے اسی تصور کو اپنے فکر و پیغام کا محور بنا لیا۔ مذہبی شعور: اقبال کی یہ ابتدائی قومی نظمیں، ان کے مذہبی رجحان کی ترجمانی بھی کرتی ہیں۔ اس دور میں اقبال کے مذہبی شعور کی تشکیل میں دو عوامل سب سے زیادہ نمایاں ہیں۔ اوّل تصوف کا آبائی و فطری میلان، دوم عشقِ رسول کا جذبہ۔ دیگر نظموں کے سلسلے میں اقبال کے متصّوفانہ افکار و نظریات علیحدہ زیر بحث آئیں گے۔ چونکہ ان نظموں میں جذبۂ عشقِ رسول کا اظہار کم و بیش ہر جگہ ہوا ہے، لہٰذا یہاں صرف اسی پہلو کا سرسری جائزہ لیا جائے گا۔ ہمیں ان نظموں کے نعتیہ اشعار میں عشقِ رسولؐ کی دو جہتیں ملتی ہیں(۱) صوفیانہ یا نظریاتی پہلو، (۲) جمالی پہلو۔ (۱) عشقِ رسولؐ کا نظریاتی پہلو: ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال نے وحدت الوجودی تصوف کے زیر اثر، خود آنحضرت صلعم کے ارشادِ گرامی: ’’انا بشر مثلکم‘‘ کو نظر انداز کرتے ہوئے جا بجا حضور کی شانِ جمال و کمال کو بشریت کی حد دسے بڑھا کر اُلوہیت تک پہنچا دیا ہے۔ یہ رجحان ابتدائی نظموں میں بھی ملتا ہے اور بتدریج بڑھتا ہوا ’’تصویر درد‘‘میں انتہا تک پہنچ جاتا ہے۔ پہلے ’’نالۂ یتیم‘‘کے یہ دو شعر ملاحظہ ہوں: اس نے پہچانا نہ تیری ذاتِ پُر انوار کو جو نہ سمجھا احمدِ بے میم کے اسرار کو تیرے نظّارے کا موسیٰ میں کہاں مقدور ہے تو ظہورِ لن ترانی گوئے اوجِ طور ہے۱۴۹؎ ’’اسلامیہ کالج کا خطاب…‘‘ کا پورا آخری بند نعتیہ ہے جس کے دو ایک شعر ہم نے آئندہ تبصرے کے لیے اٹھا رکھے تھے۔ یہاں صرف ایک شعر دوبارہ نقل کیا جاتا ہے: اے کہ ذاتِ تو نہاں در پردۂ عینِ عرب روئے خود را در نقابِ میم پنہاں کردہ ای ’’فریادِ امت‘‘ کے بہت سے حصے اس رنگ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہاں صرف تین شعر پیش کیے جاتے ہیں: خندئہ صبحِ تمنّائے براہیم استی چہرہ پرداز بہ حیرت کدئہ میم استی پیرہن عشق کا جب حسن ازل نے پہنا بن کے یثرب میں وہ آپ اپنا خریدار آیا ما عرفنا نے چھپا رکھی ہے عظمت تیری قاب قوسین سے کھلتی ہے حقیقت تیری۱۵۰؎ اس دور کی نعتوں اور غزلوں میں اس رنگ کے اشعار عام ہیں۔ چند مثالیں درج ذیل ہیں: پسند آئی نہ ان کو سیر نخلستانِ ایمن کی مگر صحرائے یثرب میں وہ کیا بن ٹھن کے نکلے ہیں۱۵۱؎ ہم جانتے ہی میم کے پردے میں کون ہے ہاں بھیدیوں سے منہ نہ چھپایا کرے کوئی۱۵۱؎ چاک جب دستِ محبت نے کیا دامانِ میم حسنِ مخفی سے نگاہوں کو شناسائی ہوئی۱۵۲؎ ’’تصویر درد‘‘ کے دوسرے بند کے مندرجہ ذیل متروک اشعار میں اس نظریاتی غلو کی بڑی حیرت انگیز مثال سامنے آتی ہے، ملاحظہ ہو: نجف میرا مدینہ ہے، مدینہ ہے مرا کعبہ میں بندہ اَور کا ہوں، اُمّتِ شاہِ ولایت ہوں جو سمجھوں اور کچھ خاکِ عرب میں سونے والے کو مجھے معذور رکھ، میں مستِ صہبائے محبت ہوں۱۵۳؎ یہ سب تصوفِ وجودی کی نیرنگیاں ہیں۔ شاعر حسن ازل کا جلوہ کائنات کی ہر شے میں دیکھتا ہے لیکن اس کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان حسنِ ازل کا بہترین مظہر ہے اور انسانوں میں حضرت خیر البشرؐ اس ذاتِ مطلق کے انوار و تجلّیات کا مہبطِ اعظم اور مظہرِ اتم ہیں۔ وہی نورِ احدیت ہے جو پیکرِ ’’احمد‘‘ میں مجسّم ہو گیا ہے۔ اس ایک میم کا پردہ درمیان میں حائل ہے۔ اپنی ایک غزل (مطبوعہ مخزن، اکتوبر ۱۹۰۲ئ) کے مقطع میں اقبال نے اپنے تفضیلی عقیدے کی توجیہ یوں کی ہے: بُغض اصحابِ ثلاثہ سے نہیں اقبال کو دق مگر اک خارجی سے آ کے مولائی ہوا۱۵۴؎ ’’خارجی‘‘ کی وضاحت اقبال ہی کے ایک خط سے ہوتی ہے: ’’بعض اسلامی فرقے (خاصۃً احمدی) مسیحؑ اور علی مرتضیٰ ؓ کو ’’نصاریٰ کا خدا‘‘ اور ’’شیعوں کا علی‘‘ کہہ کر گالیاں دے لیتے ہیں۔ خود مرزا صاحب مرحوم اور ان کے مرید مولوی عبدالکریم نے شیعوں کی تردیدمیں یہی افسوس ناک طریقہ اختیار کیا ہے۔‘‘۱۵۵؎ لیکن اقبال کی ’’بُو ترابیت‘‘ اور ’’مولائیت‘‘ کو محض کسی خارجی کے رویے کا رد عمل نہیں کہا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اُس دور میں متصوفانہ عقائد و روایات کے مطابق اقبال کا یہ بھی ایمان ہے کہ آنحضرتؐ کے دبستانِ عشق و معرفت سے جو سب سے زیادہ فیض یاب ہوا وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ذات اقدس ہے۔ چنانچہ اُس دور میںعشقِ رسولؐ کے بعد حب اہلِ بیت اور خصوصاً حبِ علیؓ کا مضمون بہ تکرار ادا ہوا ہے۔ان کی نظموں اور غزلوں کے چند اشعار یہاں نقل کیے جاتے ہیں: ہمیشہ وردِ زباں ہے علی کا نام اقبال کہ پیاس روح کی بجھتی ہے اس نگینے سے۱۵۶؎ پوچھتے کیا ہو مذہبِ اقبال یہ گنہگار بوترابی ہے۱۵۶؎ یہ ہے اقبال فیضِ یادِ نامِ مرتضیٰ جس سے نگاہِ فکر میں خلوت سرائے لا مکاں تک ہے۱۵۸؎ فیض، اقبال ہے اُسی در کا بندئہ شاہِ لافتیٰ ہوں میں۱۵۸؎ دل میں ہے مجھ بے عمل کے داغِ عشقِ اہل بیت ڈھونڈتا پھرتا ہے ظلِّ دامنِ حیدر مجھے۱۵۸؎ اُس دور کی ایک فارسی نظم ’’سپاسِ جنابِ امیر‘‘ (مطبوعہ مخزن، جنوری ۱۹۰۵ئ) سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال کو آستانۂ رسالت سے عشق و معرفت کی دولت جناب امیرؓ ہی کے توسط سے حاصل ہوئی ہے، لہٰذا نعت و منقبت کے مضامین ایک ہی سلسلۂ عقیدت میں منسلک ہیں۔ اس نظم کے چھ ابتدائی شعر درج ذیل ہیں: اے بابِ مدینہ محبت اے نوحِ سفینۂ محبت اے مذہبِ عشق را نمازے اے سینۂ تو امینِ رازے اے سرِّ نبوّتِ محمدؐ اے وصفِ تو مدحتِ محمدؐ بے تو نتواں بہ او رسیدن بے او نتواں بہ تو رسیدن از ہوش شدم مگر بہ ہوشم گوئی کہ نصیریِ خموشم خاکم بہ فرازِ عرش بردی زاں راز کہ با دلم سپردی۱۵۹؎ (۲) عشقِ رسولؐ کا جمالی پہلو: جمالی پہلو سے زلف و گیسو اور لب و رخسار کی تعریف ہرگز مراد نہیں، بلکہ وہ نعتیہ کلام جس میں آنحضور صلعم کے حسنِ سیرت اور رحمت و شفقت کا بیان ہے۔ نظریاتی سطح کے ساتھ جمالی سطح بھی، ابتدا ہی سے اقبال کے کلام میں موجود ہے۔ بغور دیکھا جائے تو طالب علمی کے ابتدائی زمانے ہی سے اقبال کے شعور میں یہ دونوں لہریں ساتھ ساتھ چلتی رہی ہیں۔ لڑکپن میں جہاں ابن عربی کی تعلیمات اور فصوص الحکم کے درس کی صدائیں ان کے کان میں پڑنے لگی تھیں، وہاں (جیسا کہ مثنوی رموزِ بے خودی میں بیان کردہ واقعے سے ظاہر ہوتا ہے) باپ کی درد مندانہ تلقین سے دین کی حقیقت اور رسول کریمؐ کے خلقِ عظیم کا ایک گہرا نقش بھی اقبال کے قلب و ذہن پر ثبت ہو چکا تھا، اور ان پر یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ اس رحمۃ للعلمین کی سنت کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان خلقِ محمدی کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگ لے: غنچہ ای از شاخسارِ مصطفیؐ گل شو از بادِ بہارِ مصطفیؐ از بہارش رنگ و بو باید گرفت بہرئہ از خُلقِ او باید گرفت فطرتِ مسلم سراپا شفقت است در جہاں دست و زبانش رحمت است۱۶۰؎ حقیقت یہ ہے کہ اپنی زندگی کے آئندہ ادوار میں بھی، جب وہ آنحضرت صلعم کی پیغمبرانہ اور بشری عظمت کی کامل معرفت حاصل کر چکے تھے، حضورؐ کی شخصیت کا یہ جمالی پہلو ان کے لیے سب سے زیادہ جذب و کشش کا باعث رہا اور اکثر اسی پہلو سے متعلق احادیث و روایات اقبال کے لیے سب سے زیادہ رقت آور ثابت ہوتی تھیں۔ انھوں نے اپنی مثنوی رموز بے خودی میںسنّتِ رسول کی روح ایک مصرعے میں یوں سمو دی دی ہے: ’’اصلِ سنّت جز محبت ہیچ نیست‘‘۱۶۰؎ ابتدائی نظموں میں سے ’’نالۂ یتیم‘‘ کا یہ شعر ملاحظہ ہو: درد انساں کا جو تھا وہ تیرے پہلو سے اٹھا قلزمِ جوشِ محبت تیرے آنسو سے اٹھا۱۶۱؎ ’’فریادِ امت‘‘ کے کئی شعروں میں عشق و محبت سے اقبال کی مراد دردِ انسانیت ہے اور یہ درد، عشقِ رسولؐ ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً یہ شعر ملاحظہ ہوں: تیری الفت کی اگر ہو نہ حرارت دل میں آدمی کو بھی میسّر نہیں انساں ہونا یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا۱۶۲؎ حق یہ ہے کہ ’’دردِ انسانیت‘‘سے زیادہ واضح تفسیر لفظ عشق کی اس دور کے کلام میں نہیں ملتی۔ اقبال نے اس دور میں اہل اللہ سے بھی اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے، اور اس کی بنیاد بھی اسی دردِ محبت یا دردِ انسانیت پر ہے: بیابانوں میں اے دل اہلِ دل کی جستجو کیسی کریں جو پیار انساں سے وہی اللہ والے ہیں۱۶۳؎ تمنا دردِ دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں۱۶۴؎ بلکہ سچ پوچھیے تو اسلام کی قدر و قیمت بھی ان کی نگاہ میں اسی لیے ہے کہ یہ دینِ انسانیت ہے: روح ہے جب تک بدن میں عشق ہم جنسوں سے ہو عشق بھی اک مذہبِ اسلام ہی کا نام ہے۱۶۵؎ اور جیسا کہ ہم ’’سیّد کی لوحِ تربت‘‘ کے ضمن میں دیکھ چکے ہیں، اقبال کے نزدیک ملتِ اسلامیہ کے شرف و امتیاز کا سبب بھی یہی جذبۂ محبت و اخوت ہے: چوں ز مینائے محبت خوردہ بودم بادۂ تا ثریّا رفت ایں قومے بہ خاک افتادۂ۱۶۶؎ مفکّرانہ و متصّوفانہ رجحان تفکّر ، اقبال کی شخصیت کا ایک بنیادی عنصر ہے اور اس کے آثار و شواہد اس دور کی شاعری میں بھی ابتدا ہی سے ملتے ہیں۔ اکثر یہ بحث چھڑتی ہے کہ اقبال فلسفی ہے یا شاعر؟ فلسفی شاعر یا شاعر فلسفی؟ یہاں اس ضمن میں صرف یہ کہہ دینا کافی ہے کہ اقبال فطری اور خلقی طور پر شاعر کا حساس دل بھی رکھتے تھے اور مفکّر یا فلسفی کا متجسّس ذہن بھی۔ چنانچہ ان کے ہر دور کے کلام میں جذبہ و احساس کی شدت کے ساتھ فکر کی گہرائی بھی موجود ہے۔ انھوں نے فلسفہ و حکمت کی فضا میں پرورش پائی تھی اور تصوف کے بعض نظریات ایک عقیدے کی طرح ان کے دل میں راسخ ہو گئے تھے۔ فلسفے کے طالب علم اور استاد کی حیثیت سے اس دور میں انھوں نے مشرق و مغرب کے بہت سے حکما کے افکار کا مطالعہ کیا اور ان کے بعض افکار و نظریات سے وہ متاثر بھی ہوئے ہوں گے، لیکن بحیثیتِ شاعر اپنے کلام میں انھی تصورات کی ترجمانی کی ہے جو دل کی گہرائیوں میں اُتر کر ان کے حقیقی واردات بن گئے۔ حقائقِ حیات کی جستجو میں مسلسل غور و فکر اور ایک مستقل ذہنی کاوش و خلش ، غالباً اس دور کی سب سے زیادہ نمایاں خصوصیت ہے، جس کا اظہار ان کی ایک ابتدائی نظم ’’گلِ رنگین‘‘ (مطبوعہ مخزن، مئی ۱۹۰۱ئ)کے اس مصرعے میں ہوا ہے۔ ۔ ع : ’’زخمیِ شمشیرِ ذوقِ جستجو رہتا ہوں میں‘‘ اس نظم سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ شاعر گرد و پیش کی ہر شے کو بڑی گہری فلسفیانہ نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اگرچہ وہ گلِ رنگیں سے مخاطب ہو کر کہتا ہے: کام مجھ کو دیدئہ حکمت کے اُلجھیڑوں سے کیا دیدئہ بلبل سے میں کرتا ہوں نظّارہ ترا۱۶۷؎ اور نظم کے ابتدائی متن کے دو ایک مصرعوں میں کچھ راز و نیاز کی باتیں بھی ہیں، مثلاً : بھا گئے انداز تیرے اے گلِ رعنا مجھے مار ڈالے گا خوشی سے جھومنا تیرا مجھے۱۶۸؎ مگر یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔ فلسفیانہ تفکر کا رنگ پوری نظم پر اس طرح چھایا ہوا ہے کہ ’’دیدئہ بلبل‘‘ کی جمالیاتی نگاہ گم ہو کر رہ گئی ہے۔ آخری بند میں شاعر نے اس مسلسل کاوشِ فکر اور خلش جستجو کو انسان کے لیے سرمایۂ قوت و حیات قرار دیا ہے۔ علامہ شبلی نے ایک جگہ حکیم اور شاعر کے نقطۂ نظر کا فرق واضح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک شاعر کی نگاہ کو حکیمانہ موشگافیوں سے کوئی غرض نہیں۔ وہ تو گل کو دیکھتے ہی بے ساختہ پکار اٹھتا ہے ع: ’’اے گل بتو خرسندم، تو بوئے کسے داری‘‘۔ لیکن اقبال کا اندازِ نظر ایک عام شاعر سے مختلف ہے۔ وہ (اسی دور کی ایک غزل میں) کہتے ہیں: تو نے سوچا ہے کبھی اے دیدئہ عبرت کہ گل ہو کے پیدا خاک سے رنگیں قبا کیوں کر ہوا؟۱۶۹؎ مصنف اقبال درون خانہ نے اقبال کی دو نظموں سے متعلق خانگی زندگی کے دو واقعات بیان کیے ہیں۔۱۷۰؎ ایسے واقعات روز مرہ ہماری آنکھوں کے سامنے گزرتے ہیں۔ لیکن ان معمولی معمولی باتوں سے متاثر ہو کر اقبال کا ذہن کن گہری حقیقتوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے، اس کا اندازہ ہمیں ’’بچہ اور شمع‘‘ اور ’’طفلِ شیرخوار‘‘ کے مطالعے سے ہو گا۔ ’’شمع و پروانہ‘‘ میں پروانے کی جاں نثاری کا عام منظر، شاعر کی رازجُو نگاہوں کے لیے تحیّرزا ثابت ہوتا ہے اور وہ اس معمولی واقعے کی گہری معنویت پر غور کرنے لگتا ہے: پروانہ اور ذوقِ تماشائے روشنی کیڑا ذرا سا اور تمنّائے روشنی!۱۷۱؎ دریا میں کشتی کی روانی کا منظر ہم بارہا دیکھتے ہیں۔ شام کے وقت شاعر دریائے راوی کے کنارے، موجوں کے تلاطم اور شفق کی گل فشانی کے نظارے سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ اتنے میں ایک تیز رفتار کشتی سامنے سے گزرتی ہے اور دریا کی موجوں میں بہتے بہتے نگاہوں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ اگرچہ اب وہ نظر نہیں آتی، لیکن اس کا سفر برابر جاری ہے۔ مفکر شاعر کے لیے یہ منظر، حیاتِ انسانی کے سفر کی علامت بن جاتا ہے اور وہ حیات و ممات کے مسئلے کو اس دل نشیں پیرائے میں واضح کرتا ہے: جہازِ زندگیِ آدمی رواں ہے یونہیں ابد کے بحر میں پیدا یونہیں نہاں ہے یونہیں شکست سے یہ کبھی آشنا نہیں ہوتا نظر سے چھپتا ہے، لیکن فنا نہیں ہوتا۱۷۲؎ مولانا سالک اس نظم کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’یہی وہ چیز ہے جو اقبال کو دورِ حاضر کے دوسرے شعرا سے ممتاز کرتی ہے۔ کوئی رومانی شاعر ہوتا تو راوی کے کنارے کھڑے ہو کر، اپنے سوزِ فراق اور شامِ غم کا رونا روتا لیکن اقبال اس منظر کو دیکھ کر انسان کی ابدیت کا قائل ہو جاتا ہے اور اس کو نہایت وثوق سے بیان کرتا ہے‘‘۱۷۳؎ فلسفیانہ تفکّر کے اس ابتدائی مرحلے میں اقبال نے اپنے ذوقِ تجسس کا اظہار بہ تکرارکیا ہے۔ اقبال کے نزدیک تلاش و جستجو کا یہ سوز و ساز انسان کا مقدر بھی ہے اور اس کا طرئہ امتیاز بھی۔ اس جستجو میں ایک خلش بھی ہے اور لذت بھی۔ ’’آفتابِ صبح‘‘ کو مخاطب کرکے شاعر کہتا ہے: آرزو نورِ حقیقت کی ہمارے دل میں ہے لیلیِٰ ذوقِ طلب کا گھر اسی محمل میں ہے کس قدر لذّت کشودِ عقدئہ مشکل میں ہے لطفِ صد حاصل ہماری سعیِ بے حاصل میں ہے دردِ استفہام سے واقف ترا پہلو نہیں جستجوئے رازِ قدرت کا شناسا تو نہیں۱۷۴؎ تجسّس و ذوقِ استفہام کا عنصر اس دور کے کلام میں اتنا نمایاںہے کہ تمام ناقدینِ اقبال نے اس پہلو پر خاص زور دیا ہے۔ غالباً سب سے پہلے ابو ظفر عبدالواحد صاحب نے اپنے مقالے ’’اقبال کا ذہنی ارتقائ‘‘ (اقبال نمبر، رسالہ اردو، ۱۹۳۸ئ) میں ابتدائی دورِ شاعری کی اس خصوصیت کا ذکر اس انداز سے کیا ہے کہ اقبال ایک طفلِ ناداں کی طرح سراپا استفسار نظر آتے ہیں۔ موصوف لکھتے ہیں: ’’… اس کے دل میں تذبذب اور شکوک کا ایک طوفان برپا ہے… زندگی اور حقائقِ زندگی کا وہ بھید پانا چاہتا ہے۔ چاروں طرف اس کی نگاہیں پڑتی ہیں مگر کسی طرف سے اس کی دل جمعی نہیں ہوتی…کہیںسے خاطرخواہ جواب نہیں پاتا۔ یہ سب جستجو محض اس لیے تھی کہ اقبال اپنے لیے ایک بڑا نصب العین اور مقصدِ حیات متعین کرنا چاہتے تھے…‘‘۱۷۵؎ ان باتوں میں صداقت ضرور ہے لیکن ادھوری۔ بعد میں بھی اقبال کے تذبذب اور تجسّس کا ذکر اسی انداز سے ہوتا رہا، گویا اس دور میں اقبال اندھیرے میں ٹامک ٹوئیے ہی مارتے رہے۔ حالانکہ ۲۴، ۲۵ سال کی عمر سے لے کر ۲۹،۳۰ سال کی عمر کا یہ کلام اُس شاعر کا ہے جواپنے ذہنی و فکری اکتسابات اور وسعتِ نظر کے لحاظ سے اپنے معاصرین میں کوئی مثال نہیں رکھتا، جو اپنے پیش رو شاعروں اور دانش وروں سے دلی عقیدت مندی کے باوجود خود اپنی نظر سے دیکھنے اور اپنے ذہن سے سوچنے کا عادی ہے، جس کے سامنے ایک واضح نصب العین ہے اور وہ بڑی جرأت کے ساتھ قومی اجتماعات میں اس نصب العین کی تبلیغ کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے بالغ نظر شاعر و مفکر کا استفہام و استفسار، کسی طفلِ مکتب کا استفہام و استفسار تو نہیں ہو سکتا۔ لیکن بعض مصنفین نے اس دور کے اقبال کو ایسا ہی طفلِ معصوم قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالحق (شعبۂ اردو ، دہلی یونی ورسٹی) نے اپنی تصنیف اقبال کے ابتدائی افکار میں ’’دور استفہام‘‘کے عنوان سے ایک مستقل باب میں اس رجحان کی وضاحت کی ہے۔ اس باب کے ابتدائی صفحات میں وہ لکھتے ہیں: …اقبال سر تا پا پیکر سوال بن کر حقیقت کی راز جوئی میں منہمک ہیں… اس سلسلے کی پہلی نظم ہمالہ ہے جس میں اقبال سائل کی حیثیت سے پوچھتے ہیں: اے ہمالہ داستاں اس وقت کی کوئی سنا… دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو۔‘‘ ابھی اقبال کو اس کا عرفان نہیں ہے کہ گردشِ ایام پیچھے کی طرف نہیں مڑتی، یہ اس کی فطرت اور نظامِ کائنات کے منافی ہے۔ اقبال اس عہدِ کہن کی داستاں سننے میں ایک لذت محسوس کرتے ہیں۔ کتنی سادگی سے ہمالہ سے دریافت کرتے ہیں، حالانکہ ہمالہ ان سوالات کا جواب دینے سے قاصر ہے… نظم ’’گلِ رنگیں‘‘ میں یہی انداز استفہام ملتا ہے۔ شاعر سراپا سوز و ساز بن کر چند اشکالات کا جواب چاہتا ہے… ’’عہدِطفل‘‘ میں تو یہ جذبہ کسی قسم کی پردہ داری کا محتاج نہیں رہا بلکہ صاف طور پر نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے۔۱۷۶؎ اس تبصرے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال اپنے ذوقِ استفہام میں عہدِ طفلی کے معیارِ شعور و آگہی سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ ’’ہمالہ‘‘ کے آخری بند میں شاعر کے اسلوبِ بیان کی لطافت کو اس کی طفلانہ سادگی و نادانی قرار دیا گیا ہے۔ ’’گلِ رنگیں‘‘ میں کیا ’’اشکالات‘‘ پیش کیے گئے ہیں، یہ تو فاضل محقق ہی جانتا ہوگا، بہرحال اس نے ہر نظم میں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر سوالیہ نشانات کے انبار لگا دیے ہیں۔ اقبال کی صرف ایک نظم ’’خفتگانِ خاک سے استفسار‘‘ میں (متروک اشعار کو شامل کرکے) کم و بیش تیس سوالات ہیں۔ لیکن اس استفہام و استفسار کی حقیقت کیا ہے؟ ان میں بعض صریحاً استفہامِ انکاری ہیں اور بعض اثباتی۔ مثلاًجنت و دوزخ کے بارے میں یہ دو مصرعے ملاحظہ ہوں : ’’باغ ہے فردوس یا اک منزلِ آرام ہے؟‘‘… ’’کیا جہنم معصیت سوزی کی اک ترکیب ہے ؟‘‘۱۷۷؎ … ان مصرعوںمیں استفہام کے پیرایے میں ایک نظریے کا اظہار ہے۔ لیکن اس قسم کے اشعار میں استفہام کی نوعیت انکاری ہے: ’’کیا وہاں بجلی بھی ہے دہقاں بھی ہے رہزن بھی ہے؟‘‘… ’’تنکے چنتے ہیں وہاں بھی آشیاں کے واسطے؟ ‘‘۱۷۷؎ … اسی طرح بیشتر نظموں میں استفہام محض ایک پیرایۂ بیان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اس دور میں بھی اقبال، ’’سوز و سازِ رومی‘‘ اور ’’ پیچ و تابِ رازی‘‘ جیسی نفسیاتی کشمکش میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ ان کی بعض نظمیں اسی کیفیت کی غماز ہیں۔ اس دور میں اقبال کا ذہن ایک طرف تو نو فلاطونی تصوف کے طلسم کا شکار ہے، دوسری طرف ان کی حقیقت پسندی، مادی زندگی کے مسائل و حقائق سے بھی چشم پوشی نہیں کر سکتی۔ عینیت اور حقیقت پسندی کا یہ تضاد و تصادم ہی اس دور میں اقبال کے اضطراب و استفہام کا اصل سر چشمہ ہے۔ مفکرانہ و متصّوفانہ رجحان در اصل اس دور میں تصوف اور متصوفانہ افکار و نظریات اقبال کے تمام ذہنی رجحانات میں اس طرح سرایت کیے ہوئے ہیںکہ ان کے مذہبی شعور، رومانی رجحان، فلسفیانہ تفکر اور ان کی وطنیت سے اسے علیحدہ کرنا دشوار ہے، لہٰذا یہاں ان کے افکار کے تجزیے اور ذہنی کشمکش کے جائزے کے لیے تصوف سے ان کے تعلق کی وضاحت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں تمہیداً اقبال کے خطوط سے دو اقتباسات یہاں درج کیے جاتے ہیں: ۱-میری نسبت بھی آپ کو معلوم ہے کہ میرا فطری اور آبائی میلان تصوف کی طرف ہے اور یورپ کا فلسفہ پڑھنے سے یہ میلان اور بھی تیز تر ہو گیا تھا کیونکہ یورپین فلسفہ بہ حیثیت مجموعی وحدت الوجود کی طرف رخ کرتا ہے مگرقرآن میں تدبرّ کرنے اور تاریخِ اسلام کا بغور مطالعہ کرنے سے مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا …۱۷۸؎ ۲- مجھے اس امر کا اعتراف کرنے میں شرم نہیں کہ میں ایک عرصے تک ایسے عقائد و مسائل کا قائل رہا جو بعض صوفیاء کے ساتھ خاص ہیں اور جو بعد میں قرآن شریف پر تدبّر کرنے سے قطعاً غیر اسلامی ثابت ہوئے۔ مثلاً شیخ محی الدین ابن عربی کا مسئلہ قدمِ ارواح، مسئلۂ وحدت الوجود ، یا مسئلۂ تنزّلاتِ ستہّ یا دیگر مسائل جن میں بعض کا ذکر عبدالکریم جیلی نے اپنی کتاب انسان کامل میں کیا ہے۔۱۷۹؎ ان اقتباسات میں اقبال نے اعتراف کیا ہے کہ وہ اپنی شاعری کے ابتدائی دور میں تصوف کی طرف فطری و آبائی میلان رکھتے تھے۔ اگرچہ اقبال نے بصراحت ، صرف شیخ محی الدین ابن عربی اور عبدالکریم الجیلی کی تصانیف سے متاثر ہونے کا ذکر کیا ہے، لیکن مختلف قرائن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دور میں وہ نوفلاطونی فلسفے سے بھی متاثر ہوئے اور سنسکرت زبان سیکھ کر فلسفۂ ویدانت اور خصوصاً شنکر اچاریہ کی تحریروں کا بھی مطالعہ کیا تھا۔ گزشتہ صفحات میں ذکر آ چکا ہے کہ اقبال (اور دیگر صوفی شعرا) کے جمالیاتی تصورات،فلاطونس کے نظریۂ ’’وحدتِ حسنِ وجود‘‘ پر مبنی تھے۔ فلاطونس نے تیسری صدی عیسوی میں افلاطون کے افکار و خیالات کی شرح و تفسیر میں جو فلسفہ مرتب کیا تھا وہ ’’نو فلاطونیت‘‘کہلاتا ہے۔ نو فلاطونیت کا بنیادی نظریہ ’’وحدت الوجود‘‘ ہے۔ اسلامی عقیدئہ توحید سے ظاہری مشابہت کی بنا پر یہ نظریہ مسلم صوفیہ میں بہت مقبول ہوا۔ شیخ محی الدین ابن عربی نے مختلف آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبوی سے استشہاد کرتے ہوئے اس مسئلے کو اسلامی تصوف کے رنگ میں پیش کیا اور اپنی تصانیف خصوصاً فصوص الحکم میں وحدت الوجودی تصورات شاعرانہ انداز میں بیان کیے ہیں۔اس سلسلے کے خاص نکات یہ ہیں: (۱) خدا کی ذات وجودِ واحد ہے اور جملہ موجودات کا سر چشمہ ہے۔ اس کے سوا کسی شے کا کوئی حقیقی وجود نہیں۔ عالم کا وجود محض برائے نام ، وہمی اور غیر حقیقی ہے۔ (۲) خدا اور کائنات میں ، خالق و مخلوق میں، دوئی نہیں بلکہ عینیت کی نسبت ہے۔ ’’عالم ہی خدا ہے۔ یہ اُسی ذاتِ واحد کی تجلّی ہے جس میں اس وحدت نے اپنے تئیں نمودار کیا۔‘‘۱۸۰؎ (۳)نظریۂ وحدت الوجود کی رو سے نفیِ خودی بھی لازم ہے، یعنی وصولِ حق اور معرفتِ خداوندی کے لیے اپنی خودی کو ذاتِ حق میں فنا کر دینا چاہیے۔ بعض علماء کا قول ہے کہ ابن عربی عینیت کے قائل نہیں تھے بلکہ ایسی عبارت جس سے عینیت کی بو آتی ہے، اسے وہ الحاقی قرار دیتے ہیں۔ حضرت پیر مہر علی گولڑوی فرماتے ہیں کہ اگر شیخ اکبر کو عینیت کا قائل بھی سمجھ لیا جائے تو ان کی عینیت کا مطلب یہ ہو گا کہ مطلق، مقید کے وجود کا سبب ہے اور اسی کے وجود سے اس کا قیام ہے۔۱۸۱؎ میکش اکبر آبادی نے نقد اقبال میں اس نکتے کی صراحت کی ہے کہ ابن عربی ، فنائے ذات کے نہیں بلکہ ’’وہمِ غیریت‘‘ کی فنا کے قائل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شیخ اکبر کی عام تحریروں اور بالخصوص فصوص الحکم کی زبان اور اسلوبِ بیان میں مجاز و استعارہ کا بڑا دخل ہے۔ ایک ہی لفظ سے کبھی حقیقی اور کبھی مجازی معنی مراد لینے کے علاوہ بسا اوقات وہ لفظ کو اس کے معروف اور اصطلاحی معنی سے ہٹا کر، غیر معروف اور خالص لغوی معنی میں استعمال کر جاتے ہیں۔ غالباً حضرت شیخ کو خود بھی اپنے اسلوب کی الجھنوں کا احساس ہو گیا تھا، اسی لیے انھوں نے فتوحاتِ مکّیہ جلد اوّل کی ابتدا میں اپنے عقائد کا واشگاف الفاظ میں اعلان کر دیا ہے۔ فصوص الحکم کے فاضل مترجم اور شیخ اکبر کے عقیدت مند شارح، مولانا محمد عبدالقدیرصدیقی (سابق صدر شعبۂ دینیات، کلیۂ عثمانیہ، حیدر آباد دکن) نے شیخ کے اقوال کی مناسب تاویل اور مبیّنہ عقائد سے تطبیق دینے پر بہت زور دیا ہے۔ مثلاً بعض جگہ شیخ نے ’’نبی‘‘ کا لفظ اس کے معروف اصطلاحی معنی (پیغمبر خدا) کے بجائے لغوی معنی (باخبر، واقف حال) میں استعمال کیا ہے، لیکن شیخ پر ختم نبوت کے عقیدے سے انحراف کا الزام عائد نہیں ہوتا، بلکہ بقول مترجم فصوص: ’’ اس قسم کے مقامات میں شیخ کے عقائدنامے سے رجوع کرنا چاہیے۔‘‘۱۸۴؎ یا مثلاً، اگر شیخ لکھتے ہیں کہ ’’خدا کے سوا کسی شے کا وجود نہیں‘‘ تو (ان کے مبینہ فلسفیانہ عقیدے کی رو سے) ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ’’موجود بالذات خدا کے سوا کوئی شے نہیں۔ ماسوا اللہ سب وجود بالعرض ہیں… اس کے یہ معنی نہیں کہ حقائقِ اشیاء باطل ہیں۔‘‘۱۸۴؎ لیکن شیخِ اکبر کے اکثر معتقدین جب فصول الحکم میں اس قسم کی باتیں پڑھتے ہیں کہ حق اور خلق کو جدا سمجھنے والا مشرک، اور عبد و رب کو عینِ یک دیگر جاننے والا ہی موحّد ہے،۱۸۵؎ تو ظاہر ہے کہ وہ کسی تاویل کے بغیر عینیت کے قائل ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ ابن عربی کی تعلیمات کے اثر سے عینیت اور فنائے ذات کے جو تصورات عام متصوفانہ ادب میں رائج و شائع ہوئے، ان میںان تاویلات کی مطلق گنجائش نہیں۔ دور جانے کی ضرورت نہیں، پنجاب کے صوفی شعرا کا کلام دیکھ لیجیے۔ ہر جگہ ’’ہمہ اوستی‘‘ رجحان اور عینیت کے تصور کا صریح اظہار ملتا ہے۔ مثلاً خواجہ غلام فرید کی کافیوں سے یہ اقتباسات ملاحظہ ہوں: بن دلبر شکل جہاں آیا ہر صورت عین عیاں آیا ہر صورت وچ آوے یار کرکے ناز ادا لکھ وار سوہنے یار پُنل دا ہر جا عین حضور۱۸۶؎ بلکہ خواجہ صاحب نے تو جوشِ عقیدت میں شیخ اکبر کے فرمودات کو دین و ایمان کا سرچشمہ قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں: بے شک ساڈا دین ایمان ابن العربی دا دستور۱۸۶؎ غرض بیدل و غالب ہوں یا بلھے شاہ اور خواجہ غلام فرید، سب اسی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ اور خواہ اقبال نے اب تک شیخ اکبر کی تصانیف کا عمیق مطالعہ نہ بھی کیا ہو تب بھی فارسی اور پنجابی شاعری کے زیر اثر، وہ اس دور میں انھی نظریات کے قائل نظر آتے ہیں۔ یہاں صرف دو شعر درج کیے جاتے ہیں: وہی اک حسن ہے لیکن نظر آتا ہے ہر شے میں یہ شیریں بھی ہے گویا بے ستوں بھی کوہ کن بھی ہے۱۸۷؎ مَیں جبھی تک تھا کہ تیری جلوہ پیرائی نہ تھی جو نمودِ حق سے مٹ جاتا ہے وہ باطل ہوں مَیں۱۸۷؎ اقبال کی ایک طویل نظم ’’شمع‘‘ ان کے متصّوفانہ نظریات کے مختلف پہلوئوں کی ترجمان ہے۔صوفیہ کے نزدیک تخلیقِ کائنات کا سبب عشق ہے، یعنی حسنِ مطلق نے اپنے جلوے کی نمود کے لیے کائنات کو پیدا کیا۔ کائنات کی ہر شے اپنے اصل سے جدا ہو کر نالاں ہے۔ جذبۂ عشق اتحاد و اتصال کے لیے مضطرب رکھتا ہے۔ انسانی روح جسم کی قید میں گرفتار اور حسنِ ازل کی جدائی میں بے قرار ہے۔ رومی نے فراق کا یہ مضمون بڑے سوز و گداز کے ساتھ اپنی مثنوی میں ’’نَے‘‘ اور ’’نَیستاں‘‘کی علامتوں کے ذریعے ادا کیا ہے: بشنو از نَے چوں حکایت می کند وز جدائی ھا شکایت می کند اقبال نے اس نظم کے پورے ایک بند میں فراق کا یہ مضمون باندھا ہے: وہ دن گئے کہ قید سے میں آشنا نہ تھا زیبِ درختِ طور مرا آشیانہ تھا قیدی ہوں اور قفس کو چمن جانتا ہوں میں غربت کے غم کدے کو وطن جانتا ہوں میں یادِ وطن فسردگیٔ بے سبب بنی شوقِ نظر کبھی، کبھی ذوقِ طلب بنی۱۸۸؎ اسی بند کے اس متروک شعر میں رومی کی ’’نَے‘‘ کا آہنگ موجود ہے: چوں نَے کمندِ نالۂ دل میں اسیر ہوں فرقت میں نیستاں کے سراپا نفیر ہوں/ لیکن وحدت الوجود یا ہمہ اوست کے نظریے میں ایک قباحت یہ ہے کہ اگر (عینیت کے تصور کے مطابق) کثرتِ وجود سے انکار کیا جائے تو عشق اور فراق بے معنی قرار پاتے ہیں۔ * ’’درد عشق‘‘ کے اس شعر میں بھی آواز ’’نے‘‘ کی گونج سنائی دیتی ہے: گویا زبانِ شاعرِ رنگیں بیاں نہ ہو آوازِ نے میں شکوئہ فرقت نہاں نہ ہو (بانگِ درا، ص ۵۰) ’’گِل پژ مردہ‘‘ کے آخری شعر میں رومی کا شعر یوں ضم ہوا ہے: ہمچو نَے از نیستانِ خود حکایت می کنم بشنواے گل از جدائی ھا شکایت می کنم (بانگِ درا، ص ۵۱) غالب نے اس اشکال کو یوں بیان کیا ہے: اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں البتہ ’’ہمہ از وست ‘‘ یا ہمہ با اوست‘‘ میں فراق اور عشق کی گنجائش ہے۔ اس دور میں اقبال بھی غالب کی طرح اس اشکال سے دو چار ہیں۔ دیگر اشعار کے علاوہ اس نظم (شمع)میں بھی انھوں نے اپنی اس الجھن کو بیان کیا ہے: مَیں حُسن ہوں کہ عشقِ سراپا گداز ہوں کھلتا نہیں کہ ناز ہوں مَیں یا نیاز ہوں۱۸۸؎ لیکن نظم کے ایک متروک شعر میں وہ خود ہی اپنی تسلی کے لیے یہ نکتہ پیش کرتے ہیں: محمود اپنے آپ کو سمجھا ایاز ہے کیا غفلت آفریں یہ مئے خانہ ساز ہے۱۸۹؎ اگلے چند اشعار سے اس امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ وہ ’’مئے خانہ ساز‘‘،جسے ’’غفلت آفریں‘‘ کہا گیا، انسان کا شعور و آگہی ہے جو اسے تعیّنات کے فریب میں مبتلا کرکے اپنی اصلیت سے بے خبر رکھتی ہے۔ یہاں اقبال، شنکر اچاریہ کے ہم نوا معلوم ہوتے ہیں۔ گزشتہ فصل میں سوامی رام تیرتھ کے حوالے سے اقبال اور شنکر اچاریہ کے فکری روابط کا ذکر آ چکا ہے۔ یہاں اجمالاً شنکر کے ویدانتی فلسفے کے اُن پہلوئوں کا جائزہ لینا ضروری ہے، جن کے اثرات ہمیں اس دور کے کلامِ اقبال میں کہیں کہیںنظر آتے ہیں۔ اُپنیشد یا ویدانت (وید۔انت) ویدوں کا وہ اختتامی حصہ ہے جس کا موضوع حقیقتِ مطلق یا برہما کی ماہیت و معرفت ہے۔ اُپنشدوں کی تعبیر و تشریح کے مختلف دبستان ہیں لیکن شنکر اچاریہ کی تشریح ایک منظم و مربوط فلسفے کی صورت میں ہے، لہٰذا شنکر کا نظامِ فلسفہ ہی بالعموم ویدانتی فلسفہ کہلاتا ہے۔۱۹۰؎ ویدانتی فلسفے کا بنیادی تصور، ادویت (نفیِ کثرت) ، وحدت الوجود اور عینیت سے عبارت ہے۔ ذاتِ احدیت (برہما) ہی اعلیٰ ترین صداقت اور حقیقت مطلق ہے۔ عالمِ کثرت کا کوئی وجود نہیں۔ اس کی نمود محض ’’مایا‘‘(فریبِ نظر یا التباس) ہے۔ مایاکا وجود ہمارے اگیان (جہل، لا علمی) پر مبنی ہے۔ جس طرح خواب میں نظر آنے والی صورتیں بیدار ہوتے ہی غائب ہو جاتی ہیں، اسی طرح حقیقتِ مطلق کا گیان پیدا ہوتے ہی مایا کا فریب، دُوئی کا تصور اور من و تو کا فرق مٹ جاتا ہے۔ ہمارے اگیان کا باعث یا آتما اور پرماتما میں دُوئی اور دوری و مہجوری کا اصل سبب ہمارا شعور، ہمارے حواس اور حسّی ادراکات ہیں۔ گویا شعور و آگہی ہی اس تمام فتنے کی جڑ ہے۔ صحیح دانائی (گیان) یہ ہے کہ انسان اپنے جسمانی وجود اور تمام حواسِ ظاہری کی نفی کرکے، اپنی آتما کو پرماتما سے واصل سمجھے۔۱۹۱؎ اقبال نے اس نظم (شمع) کے مندرجہ ذیل اشعار میں شنکر کے انھی خیالات کی ترجمانی کی ہے: یہ آگہی مری مجھے رکھتی ہے بے قرار خوابیدہ اس شرر میں ہیں آتش کدے ہزار بستان و بلبل و گل و بو ہے یہ آگہی اصلِ کشاکشِ من و تُو ہے یہ آگہی چشمِ غلط نگر کا یہ سارا قصور ہے عالم ظہورِ جلوئہ ذوقِ شعور ہے۱۹۲؎ شنکر کے نزدیک ویدوں کے دیگر حصص میں جو مذہبی احکام اور مختلف قسم کے رسوم و فرائض بیان کیے گئے ہیں، وہ ادنیٰ درجے کے دنیا دار لوگوں کے لیے ہیں، جو دنیوی ترقی و خوش حالی اور آسمانی برکات کے آرزو مند ہیں۔ گویا یہ ’’کرم مارگ‘‘ (راہِ فرائض یا شریعت) رسم پرست، ظاہر بیں عوام کے لیے ہے۔ اس کے برخلاف اُپنشد سے حقیقتِ مطلق کا عرفان حاصل ہوتا ہے۔ یہ ’’گیان مارگ‘‘ ( راہِ معرفت یا طریقت) اُن حواصلہ مند اور بلند مرتبہ افراد کے لیے ہے جو صرف حصولِ طمانیت اور نجاتِ کامل کے لیے واصل بالحق ہونا چاہتے ہیں۔ سالکِ راہ ِ معرفت کے لیے عبادت و ریاضت، رسوم و فرائض کی ادائیگی کی ضرورت نہیں بلکہ صرف ترک اور تیاگ درکار ہے۔ اسے تمام خواہشات و اغراض سے بالاتر، دنیوی لذتوں اور اُخروی نعمتوں سے بے نیاز ہونا چاہیے۔۱۹۳؎ غالباً اقبال نے ترک اور تیاگ کی اسی تعلیم سے متاثر ہو کر کہا ہے: واعظ کمالِ تَرک سے ملتی ہے یاں مراد دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے۱۹۴؎ ویدانتی فلسفے کی رُو سے گیان دھیان ہی سب کچھ ہے۔ یہی انسان کا اعلیٰ ترین نصب العین ہے، عمل کی کوئی ضرورت نہیں، انسانی حقوق و فرائض کی کوئی اہمیت نہیں۔ مذہبی احکام و اقدار سب بے کار ہیں۔ اس رہبانی فلسفے سے ہندوستان کے مسلم صوفیہ بھی متاثر ہوئے۔ طریقت ہی کو اصل دین سمجھا جانے لگا۔ شریعت کے استخفاف کا رجحان پیدا ہوا۔ اقبال کی بعض نظموں میں بھی اس رجحان کے شواہد ملتے ہیں، اور ظاہر ہے کہ یہ تصوف کا نہیں بلکہ براہ راست ویدانتی فلسفے کا اثر ہے۔ لیکن غنیمت یہ ہے کہ ویدانت کے منفی اثرات اقبال کے حقیقت پسند ذہن پر پوری طرح غالب نہ آ سکے۔ گزشتہ فصل میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے کہ سوامی رام تیرتھ کی شخصیت اور ان کی تعلیمات کے بعض مثبت پہلوئوں سے متاثر ہونے کے باوجود اقبال نے ویدانتی فلسفے کی بعض کوتاہیوں پر اسی زمانے میں تنقید کی ہے۔ دراصل سوامی جی کا یوگ بجائے خود ان کے بعض مثبت اور حیات افروز افکار کی عملی تردید ہے۔ سوامی رام تیرتھ نے ایک جگہ واضح طور پر یہ کہا ہے کہ، ’’ترک اور تیاگ (Renunciation) ہی سے بقائے دوام حاصل ہوتا ہے۔‘‘۱۹۵؎ ظاہر ہے کہ یہ رہبانی تصور، اسلام کی بنیادی تعلیم کے منافی تھا۔ اقبال یہ بھی جانتے تھے کہ مسلم صوفیہ کے کسی طبقے نے علانیہ رہبانیت کی تبلیغ نہیں کی۔ انھی دنوں اقبال نے عبدالکریم الجیلی کی مشہور تصنیف الانسان الکامل پر جو مقالہ لکھا تھا (مطبوعہ انڈین انٹی کیوری بمبئی، ستمبر ۱۹۰۱ئ) اس کی تمہید میں ہندو فلسفے کی عظمت کو تسلیم کرتے ہوئے، انھوں نے مستشرقین کے اس رویے کی شکایت کی ہے کہ سنسکرت ادب سے روشناس ہونے کے بعد وہ ہندو فلسفے کے تحقیقی مطالعے میں اس درجہ محو ہوئے کہ بس اُسی کے ہو کر رہ گئے۔ حالانکہ عرب و ایران کے مسلم حکما کو یکسر نظر انداز کر دینا اور انھیں محض افلاطون اور ارسطو کا مقلد قرار دینا صریح نا انصافی ہے۔ اسی مقالے میں وہ ایک جگہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ویدانتی فلسفے کے نظریہ’’مایا‘‘کے برخلاف، الجیلی اس مادی دنیا کے حقیقی وجود پر ایمان رکھتا ہے: ’’یہ دنیا بلاشبہ ہستیِ مطلق کا خارجی پوست ہے، لیکن یہ خارجی پوست بھی کچھ کم حقیقی نہیں۔۱۹۶؎ اگرچہ سوامی رام تیرتھ نے انسانی خودی کی عظمت کے گُن گائے ہیں لیکن چونکہ ان کا تصور ویدانتی فلسفے سے ماخوذ ہے ، لہٰذا انسانی خودی کی عظمت بھی محض الوہیت کے تصور و احساس (اور انسانیت کی نفی) پر مبنی ہے۔ اس کے برخلاف الجیلی کا انسانِ کامل، انسانیت اور الوہیت کے امتزاج سے بتدریج تشکیل پاتا ہے۔ الجیلی نے اپنی تصنیف الانسان الکامل کے تمہیدی باب میں اپنے تصورِ انسان کامل کا جو اجمالی خاکہ پیش کیا ہے، وہ کچھ یوں ہے:انسان کا جوہر علوی بلندی کی طرف اور اس کی فطرت حیوانی ہستی کی طرف مائل ہے۔ انسانِ کامل کی فطرت کا کمال ان دونوں کے بین بین ہے۔ یعنی اسے الوہی صفات اور انسانی صفات دونوں سے بہرہ مند ہونا چاہیے۔ گویا انسان کامل کی مختصر تعریف یہ ہے کہ وہ ’’بندئہ مولا صفات‘‘ ہے۔۱۹۷؎ پھر یہ کہ ویدانت کی تعلیم کے مطابق آتما اور پرماتما کے وصال کے لیے جسمانی وجود اور تمام حواس ظاہری کی نفی کر دینا ہی کافی ہے، لیکن الجیلی کا انسانِ کامل تین مراحل طے کرکے اس مقام تک پہنچتا ہے۔ پہلے مرحلے میں وہ اسمائے الٰہی پر (جو اس کے مظہر ہیں) غور کرتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں وہ دائرئہ صفات میں داخل ہوتا ہے۔ صفاتِ الٰہیہ سے متصف ہونے کے بعد وہ نورِ ذات کے دائرے میں قدم رکھتا ہے۔ اب وہ کمال کا وہ انتہائی مقام حاصل کر لیتا ہے جہاں اس کا عمل خدا کا عمل، اس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ، اس کے کان خدا کے کان اور اس کی آنکھیں خدا کی آنکھیں بن جاتی ہیں۔۱۹۸؎ اس میں شک نہیں کہ انسانِ کامل اور عظمتِ خودی کا یہ ارتقائی تصور، اپنے ابہام اور ماورائیت کے باوجود، ویدانتی تصور کے مقابلے میں زیادہ واضح اور مثبت تصور ہے۔ لہٰذا یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ الجیلی کا یہ تصور، اس دور میں اقبال کے مکمل ویدانتی اور وجودی بننے میں حائل رہا، اور بالآخر یہی تصور نطشے کے ’’فوق البشر‘‘ کے مادی پیکر میں مردِ مومن کی روح پھونکنے میں، اقبال کا معاون ثابت ہوا۔ مختصر یہ کہ شنکر اچاریہ کے ویدانت اور ابنِ عربی کے عجمی تصوف کے منفی پہلوئوں مثلاً نفیِ کائنات، نفیِ ذات، نفیِ شعور وغیرہ پر اقبال نے زیادہ زور نہیں دیا۔ اس دور میں بھی وہ تصوف کے اثباتی پہلو، یعنی عالمِ کثرت میں پوشیدہ وحدت کے تصور کو بار بار اپنے کلام میں پیش کرتے ہیں، اور اسی بنیادی وحدت کے حوالے سے انسانوں کے درمیان مذہب و ملت کے امتیازات و اختلافات کے خلاف شدید احتجاج کرتے ہیں۔ نظم ’’جگنو‘‘ کا آخری شعر ملاحظہ ہو: یہ اختلاف پھر کیوں ہنگاموں کا محل ہو؟ ہر شے میں جبکہ پنہاں خاموشیٔ ازل ہو۱۹۹؎ وہ اس صورتِ حال پر بار بار اظہارِ افسوس کرتے ہیں کہ ہم نے اپنے درمیان غیریت کی خودساختہ دیواریں کھڑی کر رکھی ہیں۔ تعصب و تنگ نظری نے ہمیں اپنی اصلیت سے بیگانہ کر دیا ہے۔اپنی نظم ’’خفتگانِ خاک سے استفسار‘‘ میں وہ کس حسرت سے پوچھتے ہیں: آہ وہ کشور بھی تاریکی سے کیا معمور ہے؟ یا محبت کی تجلّی سے سراپا نور ہے؟ واں بھی انساں اپنی اصلیت سے بیگانے ہیں کیا؟ اختلافِ مذہب و ملت کے دیوانے ہیں کیا؟۲۰۰؎ ’’شمع‘‘ میں بھی اس کی ’’یک بینی‘‘ کے مقابلے میں انسان کی کوتاہ نظری کا گلہ ہے: یک بیں تری نظر صفتِ عاشقانِ راز میری نگاہ مایۂ آشوبِ امتیاز کعبے میں بتکدے میں ہے یکساں تری ضیا مَیں امتیازِ دیر و حرم میں پھنسا ہوا۲۰۱؎ ’’آفتابِ صبح‘‘ میں وہ نورِ آفتاب کی طرح نشیب و فراز کے امتیاز سے بالاتر ہونے کی آرزو رکھتے ہیں: زیر و بالا ایک ہیں تیری نگاہوں کے لیے آرزو ہے کچھ اسی چشمِ تماشا کی مجھے آنکھ میری اور کے غم میں سرشک آباد ہو امتیازِ مذہب و ملت سے دل آزاد ہو۲۰۲؎ غرض اس دور میں اقبال کے متصّوفانہ عقائد و نظریات کا مرکز و محور، حیات و کائنات کی وحدت اور وحدتِ انسانی کا تصور ہے، جسے وہ بہ تکرار اپنی نظموں میں دہراتے ہیں۔ انھیں اس بات پر ناز ہے کہ وہ ’’رموزِ وحدت‘‘ سے آشنا ہیں اور اس حقیقت سے غفلت کو کفر کے برابر سمجھتے ہیں: میں نے مانا کہ بے عمل ہوں، مگر رمزِ وحدت سے آشنا ہوں میں ایک دانے پہ ہے نظر تیری اور خرمن کو دیکھتا ہوں میں بت پرستی تو ایک مذہب ہے کفر غفلت کو جانتا ہوں میں۲۰۳؎ تصوف کے دیگر منفی نظریات اقبال کے لیے فکری الجھن کا باعث ہیں اور اس الجھن کو سلجھانے کی کوشش بھی اسی دور میں شروع ہو گئی تھی۔ مثلاً انھوں نے اپنی نظم ’’شمع‘‘ میں شنکر اچاریہ کا ہم نوا ہو کر شعور و آگہی کو ایک حجاب قرار دیا ہے لیکن ان کا حقیقت پسند ذہن شعور و آگہی کی قدر و قیمت اور زندگی میں اس کی محدودفادیت کا معترف ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اسی کی بدولت انسان کو کائنات میں شرف و فضیلت کا اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے۔ چنانچہ ’’چاند‘‘ کو مخاطب کرکے شاعر کہتا ہے: گرچہ مَیں ظلمت سراپا ہوں، سراپا نور تُو سینکڑوں منزل ہے ذوقِ آگہی سے دور تُو جو مری ہستی کا مقصد ہے مجھے معلوم ہے یہ چمک وہ ہے جبیں جس سے تری محروم ہے۲۰۴؎ اسی ذوقِ آگہی کے تقاضے سے انسان کائنات اور فطرت کے رازہائے سربستہ کی جستجومیں پیہم لگا رہتا ہے اور یہی ’’تلاشِ مِتصل‘‘ ’’شمعِ جہاں افروز‘‘ بن کر انفس و آفاق کی حقیقتوں کو منکشف کرتی ہے۔ (’گلِ رنگیں‘ کا آخری شعر): یہ تلاشِ متصل شمعِ جہاں افروز ہے توسنِ ادراکِ انساں کو خرام آموز ہے۲۰۵؎ اسی نور آگہی نے انسان کو مسجودِ ملائک بنایا۔ جب وہ شعور کا جامِ آتشیں پی کر اس دنیا میں آیا اور حقیقت عالم کی جستجو میں سرگرمِ عمل ہوا، تو اس نے فطرت کی قوتوں کو مسخّر کرکے اس دنیا کو جنّت بنا دیا۔ ’’سرگزشتِ آدم‘‘ میں شاعر کہتا ہے: لگی نہ میری طبیعت ریاضِ جنّت میں پیا شعور کا جب جامِ آتشیں مَیں نے رہی حقیقتِ عالم کی جستجو مجھ کو دکھایا اوجِ خیالِ فلک نشیں مَیں نے کیا اسیر شعاعوں کو، برقِ مضطر کو بنا دی غیرتِ جنت یہ سر زمیں مَیں نے۲۰۶؎ نظم کے آخری اشعار میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اگرچہ عقل و شعور کی قوت سے انسان کائنات کو اپنے زیرِ نگیں بنا لیتا ہے، لیکن عقل کی رسائی صرف مظاہر تک محدود ہے۔ جب تک دل کی آنکھیں روشن نہ ہوں، باطنی حقائق (یا حقیقتِ مطلق) کا مشاہدہ ممکن نہیں: مگر خبر نہ ملی آہ! رازِ ہستی کی کیا خرد سے جہاں کو تہِ نگیں میں نے ہوئی جو چشمِ مظاہر پرست وا آخر تو پایا خانۂ دل میں اسے مکیں میں نے۲۰۶؎ یہاں یہ نکتہ خاص طور سے قابلِ توجہ ہے کہ اقبال نے اس دور میں بھی، صوفیا کے عام رجحان کے برخلاف، عقل و عشق کے نزاعی مسئلے میں ایک مثبت اور متوازن رویہ اختیار کیا ہے۔ انھوں نے اپنی نظم ’’عقل و دل‘‘ میں عقل و علم کی اہمیت تسلیم کرتے ہوئے عشق و وجدان کو فضیلت دی ہے اور اس طرح دونوں کا صحیح مرتبہ و مقام متعین کر دیا ہے۔ عقل کی لن ترانیوں کے بعد دل کا جواب ملاحظہ ہو: ہے تجھے واسطہ مظاہر سے اور باطن سے آشنا ہوں مَیں علم تجھ سے، تو معرفت مجھ سے تُو خدا جُو ، خدا نما ہوں مَیں شمع تُو محفلِ صداقت کی حسن کی بزم کا دیا ہوں مَیں۲۰۷؎ اس دور میں اقبال کے متصّوفانہ یا فلسفیانہ افکار کا سب سے اہم مثبت پہلو ، عظمتِ آدم کا تصور ہے۔ اگرچہ اس ضمن میں بعض نکات کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے، لیکن چونکہ یہی تصور مستقبل میں ان کے فلسفۂ خودی کی بنیاد بنا، لہٰذا اس دور کے کلام سے چند اور مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ اقبال نے جا بجا انسان کی جہالت یا اپنی حقیقت سے بے خبری پر اظہارِ تأسف کیا ہے۔ ان کے نزدیک انسان کی سیہ بختی اور سیہ کاری کا سبب یہ ہے کہ وہ اپنی اصل حقیقت سے بیگانہ اور زندگی کے بنیادی مقصد سے نامحرم ہے۔ لیکن وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ خود خالقِ کائنات بھی اس ’’ظلوماً جہولا‘‘ سے مایوس نہیں، لہٰذا اقبال بھی نہایت پر امید لہجے میں اور بڑے تیقن کے ساتھ کائنات میں انسان کے منصب و مقام کا ذکر کرتے ہیں۔ ’’تصویر درد‘‘ میں انسان کی محرومی و ناکامی پر آنسو بہانے کے بعد ان کا یہ رجائی آہنگ ملاحظہ ہو: یہ سب کچھ ہے مگر ہستی مری مقصد ہے قدرت کا سراپا نور ہو جس کی حقیقت، میں وہ ظلمت ہوں نہ صہبا ہوں، نہ ساقی ہوں، نہ مستی ہوں، نہ پیمانہ مَیں اس میخانۂ ہستی میں ہر شے کی حقیقت ہوں۲۰۸؎ اسی دور کی ایک غزل کا یہ شعر ملاحظہ ہو: بزم ہستی اپنی آرائش پہ تو نازاں نہ ہو تُو تو اک تصویر ہے محفل کی اور محفل ہوں میں۲۰۹؎ اس شعر میں ، بزم کائنات میں انسان کے مقام کی جانب نہایت بلاغت سے اشارہ کیا ہے۔ اس اجمال کی تفصیلی اقبال نے اپنی ایک نظم ’’انسان اور بزمِ قدرت‘‘ میں بیان کی ہے۔ اس نظم کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے میں انسان ’’بزمِ معمورئہ ہستی‘‘ کے حسن و بہار اور رنگ و نور کو رشک کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور بزمِ قدرت سے اپنی سیہ روزی و سیہ بختی کا سبب پوچھتا ہے: نور سے دور ہوں، ظلمت میں گرفتار ہوں میں کیوں سیہ روز و سیہ بخت و سیہ کار ہوں میں۲۱۰؎ دوسرے حصے میں ’’بزمِ قدرت‘‘ کی طرف سے یہ جواب ملتا ہے کہ اے نادان تو ہی میری محفل کو سنوارنے والا اور میرے گلشن کا باغباں ہے۔ میرا نور تو خورشید کا محتاج ہے لیکن تو خود اپنے نور سے روشن ہے۔ البتہ تیری کم نگہی اس نورِ ازل کو نہیں پہچانتی جو تیری ذات میں پوشیدہ ہے۔ تیری یہی بے خبری ، تیری سیہ بختی و محرومی کا اصل سبب ہے: ہے ترے نور سے وابستہ مری بود و نبود باغباں ہے تری ہستی پیٔ گلزار وجود انجمن حسن کی ہے تو، تری تصویر ہوں میں عشق کا تو ہے صحیفہ، تری تفسیر ہوں میں نورِ خورشید کی محتاج ہے ہستی میری اور بے منّتِ خورشید چمک ہے تیری ہائے غفلت! کہ تری آنکھ ہے پابندِ مجاز ناز زیبا تھا تجھے، تو ہے مگر گرمِ نیاز تو اگر اپنی حقیقت سے خبردار رہے نہ سیہ روز رہے پھر، نہ سیہ کار رہے۲۱۰؎ اس مختصر جائزے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تصوف اور ویدانتی فلسفے کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے کے باوجود ، اسی دور میں اقبال کا شعور بعض ابدی صداقتوں سے آشنا اور ان کی نگاہ اپنے حقیقی جادہ و منزل سے روشناس ہو چکی تھی۔ لہٰذا اقبال کے ناقدین کی یہ رائے ترمیم طلب ہے کہ ان کی شاعری کا یہ دور فکری اعتبار سے محض تذبذب و تجسس ، انتشار و اضطراب کا دور ہے۔ (۳) رومانی رجحان اپریل ۱۹۰۱ء سے ہم اقبال کو ان جواں سال و جواں فکر ادیبوں اور شاعروں کی صف اوّل میں پاتے ہیں، جن کے تعاون سے رسالہ مخزن نے بہت جلد ایک مستقل ادبی تحریک کی حیثیت اختیار کر لی۔ گزشتہ صدی کے آخری دو عشروں میں انگریزی ادب کے زیر اثر اردو نثر میں رومانی رجحان کے کچھ آثار ملتے ہیں۔ عبدالحلیم شرر نے والٹر سکاٹ کی تقلید میں تاریخی رومان لکھے۔ اُن کے رسالۂ دلگداز کے مضامین اور مختصر انشائیے بھی جمالیاتی ذوق کے اظہار اور لطافتِ احساس و تخیل کے لحاظ سے اردو میں رومانی نثر کے اولین نمونے ہیں۔ رسالہ مخزن کے اجرا (اپریل ۱۹۰۱ئ) سے نظم و نثر دونوں میں رومانی رجحان فروغ گیر ہوا۔ مخزن کو قطعی طور پر رومانیت کا علم بردار نہیں کہا جا سکتا لیکن اس میں شک نہیں کہ مخزن ہی کے زیر اثر نئی نسل کے شعرا میں انگریزی ادب کے تراجم اور بالخصوص رومانی شعرا کے فکر و فن سے استفادے کا میلان بڑھنے لگا۔ ادب کی تاریخ و تنقید میں رومانیت اور کلاسیکیت کی اصطلاحیں وسیع مفہوم اور بعض فکری و فنی خصوصیات کی نمائندگی کرتی ہیں۔ لیکن ابتدائی تعارف کے طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ کلاسیکیت، ادب کے مسلمہ اصول اور زندہ و صالح اقدار و روایات کی تقلید اور رومانیت، خوب سے خوب تر کی آرزو میں نئی نئی راہوں کی تلاش اور نئی روایات و اقدار کی تخلیق سے عبارت ہے۔ ادب اور زندگی کی صحت مندی اور توانائی کے لیے ان دونوں رجحانات میں توازن و اعتدال ضروری ہے۔ عموماً ہوتا یہ ہے کہ جب کاسیکیت کا تقلیدی رجحان، روایت پرستی کی حد تک پہنچ کر ادب اور زندگی کے ارتقا کے لیے مہلک ثابت ہوتا ہے اور تخلیق کے سرچشمے خشک ہو جاتے ہیں تو رومانیت کی انقلابی تحریک جذبہ و فکر کو تقلید کی بندش سے چھڑاتی اور ادب کے کارواں کو آگے بڑھاتی ہے۔ لیکن یہاں بھی انتہا پسندی ، تعمیر سے زیادہ تخریب ، صحت و ثبات کی جگہ انحطاط اور حیات افروزی کی جگہ حیات گریزی کا باعث بن جاتی ہے۔ جدت پسندی یا روایت شکنی کے علاوہ رومانی رجحان ، عقلیت کا بھی مخالف ہے۔ مغرب میں رومانی تحریک کے پیشوا روسو نے اٹھارویں صدی کے تعقّل پرست دانشوروں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا تھا۔ اس کی رائے میں عقلیت نے انسان کی تخلیقی قوتوں کو مفلوج کر رکھا ہے اور جذبہ و جبلّت پر عقل کا یہ غلبہ و تسلط سخت ناروا ہے۔ دیگر رومانی حکما میں نطشے نے عقل کے مقابلے میں عزم للقوت اور برگساں نے وجدان پر زور دیا۔ رومانی شعرا نے بھی عقل و خرد پر جذبہ آمیز تخیل کو ترجیح دی ، بلکہ تخیل اور وجدان ہی کو علم و دانش کا گہوارہ قرار دیا۔ روسو اور اُس کے ہمنوائوں نے مغربی تہذیب کو مخرب انسانیت ٹھہرایا اور تہذیبی تکلفات سے کنارہ کش ہو کر فطرت کے پر سکون آغوش میں سادہ و معصوم زندگی بسر کرنے کی دعوت دی۔ چنانچہ رومانی شاعری میں فطرت پرستی کا رجحان پیدا ہوا اور عہدِ ماضی کی سادہ و فطری زندگی کے گُن گائے جانے لگے۔ رومانیت کی ایک اہم خصوصیت انسان دوستی کا جذبہ ہے۔ روسونے ’’معاہدئہ عمرانی‘‘ میں انسان کی سیاسی و معاشرتی آزادی کے تصور کو بڑی شدت و قوت سے پیش کیا تھا، جس سے متاثر ہو کر انقلابی رومانیت نے حریت و مساوات کی قدروں کی تبلیغ کو اپنا نصب العین بنا لیا اور ادب میں بالعموم انفرادیت کے رجحان کو تقویت حاصل ہوئی۔ روسو کے ان افکار و نظریات نے اٹھارویں صدی کے ربع آخر اور اُنیسویں صدی کے نصف اوّل میں فرانس، جرمنی اور انگلستان کے شاعروں اور دانشوروں کو متاثر کیا اور اُن ملکوں میں افادہ پرستی، فکری جمود اور کلاسیکیت کی بے روح صناعیوں کے خلاف رومانی احیا (Romantic Revival) کی انقلابی تحریکیں برپا ہو گئیں۔ ہمارے یہاں انقلاب ۵۷ء کے بعد علی گڑھ تحریک کے علم برداروں نے مذہب و معاشرت کے دائرے میں تقلیدِ جامد اور رسم پرستی کے خلاف بغاوت کی۔ ان کی اجتہادی و اصلاحی کوششوں سے شعر و ادب کے موضوعات و اسالیب میں بھی ایک انقلابِ عظیم رونما ہوا۔ لیکن ان تمام انقلابی کارناموں کے باوجود اس تحریک کو رومانی تحریک قرار دینا مناسب نہ ہو گا، کیونکہ سر سید اور ان کے رفقا تعقل پسندی ، افادیت اور اصول پرستی کی تبلیغ کرتے رہے، اور یہ چیزیں رومانیت کی روح کے منافی ہیں۔ بہر حال اس تحریک نے اپنی کوکھ سے جنم لینے والی رومانی تحریک کے لیے مناسب فکری و ادبی فضا پیدا کر دی تھی۔ چنانچہ جب سر سید کی عقلیت اور مقصدیت کے خلاف ردِ عمل شروع ہوا، تو ادب میں بھی مقصدیت اور افادیت کی جگہ جمالیاتی اور رومانی رجحانات بڑی تیزی سے پروان چڑھنے لگے۔ اُس زمانے میں یونی ورسٹیوں اور کالجوں کے انگریزی نصاب میں، انگلستان کے رومانی دبستان کے شعرا (Poets of the Romantic Revival) کے کلام کو بڑی اہمیت حاصل تھی اور ورڈز ورتھ، کالرج، بائرن، شیلے، کیٹس اور ٹینی سن وغیرہ اُس دور کے انگریزی دانوں میں بہت مقبول تھے۔ ہمارے یہاں رومانی تحریک کے اثر و نفوذ کا ایک خاص سبب یہ بھی تھا کہ رومانی مزاج اور رومانی افکار کے بعض عناصر ، مشرقی ذہن و مزاج سے ہم آہنگ تھے۔ مغرب کے رومانی فن کار و مفکّر مادی اقدار کے بجائے روحانی اقدار پر زور دیتے ہیں، خارجی حقائق کی داخلی توجیہ کرتے ہیں اور عقل و شعور پر جذبہ و وجدان کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کا یہ رویہ مشرقی شعرا کی داخلیت سے بہت زیادہ قریب ہے۔ ہماری غزل تو گویا ازل سے عقلیت کی باغی اور جذب و جنون کی حامی رہی ہے۔ فطرت پرست رومانی شعرا، فطرت کو حصولِ بصیرت و معرفت کا ذریعہ اور حسنِ ازل کا مظہر قرار دیتے ہیں۔ ہمارے یہاں بھی اس قسم کے متصّوفانہ خیالات عام ہیں: برگِ درخشان سبز در نظرِ ہوشیار ہر ورقے دفتریست معرفتِ کردگار مخزن جاری ہوا تو اس کے پہلے ہی شمارے میں اقبال، میر نیرنگ، خوشی محمد ناظر اور ظفر علی خاں کی نظمیں شائع ہوئیں۔ پہلے تین نام ہمیں آئندہ بھی مخزن کے مستقل معاونین میں سرِفہرست نظر آتے ہیں۔ لیکن ظفر علی خاں جو ٹینی سن کی نظم (The brook) کے منظوم ترجمے (ندی کا راگ) کے ساتھ اس بزم سخن میں شریک ہیں، ابتدائی چند منظوم تراجم اور دو ایک نثری تراجم کے بعد بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔ مئی کے شمارے (مخزن کے دوسرے شمارے) میں جن نئے شعرا کا اضافہ ہوا، ان میں مدرسۃ العلوم علی گڑھ کے ایک طالب علم حسرت موہانی، خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ لیکن حسرت کی غزل نہیں بلکہ ’’بربطِ سلمیٰ‘‘ کے عنوان سے ایک رومانی نظم ملتی ہے۔ اسی سال (دسمبر ۱۹۰۱ء تک) حسرت کی تین اور نظمیں: ’’بہار کا آخری پھول‘‘، ٹامس مور کی ایک نظم کا ترجمہ اور ’’دردِ محبت‘‘ شائع ہوئیں۔ پھر اس کے بعد وہ غزل پر اُتر آئے۔ آئندہ دو چار ماہ میں جو شعرا شریک بزمِ مخزن ہوئے اور آئندہ بھی اس رومانی قافلے کے ساتھ رواں دواں رہے، ان میں پروفیسر شہباز، محمد شاہ دین ہمایوں، میر نذیر حسین، منشی احمد حسین خان احمد، سید فضل حق آزاد، ضامن کنتوری اور نادر کا کوروی خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں۔ سرور جہان آبادی، جو نادر کاکوروی کی طرح سراپا رومانی شاعر تھے، ۱۹۰۴ء سے پہلے بزم مخزن میںنظر نہیں آتے، البتہ اس کے بعد وہ برابر شریکِ محفلِ رومانیاں رہے۔ ان چند برسوں میں ٹینی سن کے تراجم بکثرت ہوئے۔ کیٹس، شیلے، گولڈ سمتھ اور ٹامس مورکی بھی کچھ چیزیں اردو نظم میں منتقل کی گئیں۔ تراجم کے علاوہ تخلیقی نظمیں بھی، کم از کم جمالیاتی موضوع اور طرزِ احساس کے اعتبار سے ، بیش تر روانی ہیں جیسا کہ بعض نظموں کے مندرجہ ذیل عنوانات سے ظاہر ہو گا: ’’خوابِ ناز، نشاطِ تصور، انجامِ محبت، تلاشِ محبت، راحت یاس، خیالِ یار، حسن و عشق، بھنورا، کوئل، چاند اور چکور، نیرنگِ عشق، چاندنی، کوہستان کا نظارہ، مُرجھایا ہوا پھوال اور تختۂ گلاب‘‘ وغیرہ۔ ہمیںان نظموں میں احساسِ جمال کی وارفتگی اور فطرت پرستی کی کیفیات کے ساتھ رومانی افسردگی، قنوطیت اور زندگی سے گریز و فرار کے رجحانات ملتے ہیں۔ اس دور کے مقبول و معروف رومانی شاعر، سرور جہان آبادی کی یاسیت کا یہ عالم ہے کہ ان کی ہر نظم میں ’’آہ‘‘ اور ’’ہائے‘‘ کے کلمات چند مرتبہ ضرور آتے ہیں۔ سرور کے دیگر معاصرین (حتیٰ کہ اقبال) کے یہاں بھی ان کلماتِ تأسف کے جا و بے جا استعمال کا رجحان ملتا ہے۔ رومان کو عموماً حسن و عشق کے مترادف سمجھا جاتا ہے حالانکہ اپنے اصل ماخذ کے اعتبار سے لفظ رومانس، ازمنۂ وسطیٰ کی اُن عشقیہ داستانوں کے لیے بولا جاتا تھا جن میں مظلوم انسانیت یا حق و خیر کی حمایت میں مجاہدانہ کارنامے اور سرفروشانہ مہمات کے عناصر شامل ہوتے تھے۔ لیکن رومانیت اپنے انقلابی جذبہ و فکر سے عاری ہو کر ، تصوف کی طرح’’واماندگیِ شوق‘‘ کی پناہ گاہ بن جاتی ہے۔ اس دور میں اقبال کے تصوف کی طرح ان کی رومانیت بھی، انسان دوستی کے جذبے سے مربوط اور منفی رجحانات سے مصئون و محفوظ ہے۔ وہ رومانی شعرا و حکماکی طرح اپنے ملک کے محکوم ومظلوم انسانوں کو آزاد و خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔ اُن کے دل میں بنی نوع انسان کے لیے محبت کا بے پناہ جذبہ موجود ہے، اور یہ پیغمبرانہ جذبہ انھیں ہمیشہ مضطرب و بے قرار رکھتا ہے۔ اقبال نے اپنے دیگر معاصرین کی طرح انگریزی کے رومانی شعرا کی تقلید، فیشن کے طور پر اختیار نہیں کی۔انھوں نے انگریزی نظموں کے تراجم بھی کیے لیکن اُن کے یہ تراجم بیشتر بچوں کے نصابِ تعلیم کی اصلاح و ترقی کے اس سلسلے کی ایک کڑی ہیں جو محکمۂ تعلیم کی رہنمائی میں انجمن پنجاب کے ابتدائی دور سے لے کر اب تک جاری تھا۔ چنانچہ اُسی زمانے میں مسٹر نولٹن (پرنسپل ٹریننگ کالج، لاہور) کے ایما سے مولانا حالی کی نگرانی میں کئی انگریزی نظموں کے منظوم تراجم ہوئے اور نظموں کا یہ مجموعہ ’’اطوارِ بازیچہ‘‘ کے نام سے ۱۹۰۸ء میں مرتب ہو کر شائع ہوا تھا۔ اقبال کی بہت سے نظمیں ایسی ہیں جن میں مختلف مظاہر فطرت کو موضوعِ سخن بنایا گیا ہے۔ مثلاً ہمالہ، گلِ رنگیں، ایک آرزو، ابر گوہسار، ماہِ نو، آفتابِ صبح، جگنو، صبح کا ستارا، چاند، کنارِ راوی، انسان اور بزمِ قدرت وغیرہ۔ ان نظموں کے حوالے سے کئی نقادوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اقبال اُس دور میں ایک ’’فطرت پرست‘‘ شاعر تھے۔ حالانکہ ان نظموں میں بسا اوقات عناصر فطرت سے تخاطب، محض اظہارِ خیال کا ایک وسیلہ یا ایک پیرایۂ بیان ہے۔ شاعر جابجا فطرت کے مقابلے میں انسانی عظمت و رفعت کے تصور کو اجاگر کرتا ہے۔ اقبال بلاشبہ احساسِ جمال اور ذوقِ نظر سے بہرہ مند تھے، چنانچہ مناظرِ فطرت کے حسن سے یقینا محظوظ و متاثر ہوتے رہے اور اس تاثر کا اظہار بھی کیا ہے۔ لیکن اقبال کی فطرت نگاری کو فطرت پرستی کے فراری رجحان سے کوئی تعلق نہیں۔ ان نظموں میں کہیں وہ کیفیت نہیں ملتی کہ شاعر، جمالِ فطرت کے مشاہدے میں محو ہو کر انسان اور انسانی زندگی کے مسائل کو بھول گیا ہو، یا مصافِ زندگی سے بھاگ کر فطرت کے دامن میں پناہ لینا چاہتا ہو۔ ہمارے ایک ہونہار شاعر و نقاد، انور سدید کو شاید اقبال کی ابتدائی شاعری اور اُس کے محرکات کے تحقیقی مطالعے کا موقع نہیں ملا، ورنہ وہ یہ بات نہ کہتے کہ ’’مخزن کی رومانی لطافت نے علامہ اقبال پر بڑا واضح اثر ڈالا۔چنانچہ اُن کی ابتدائی شاعری صرف آرزوئوں اور تمنائوں کی شاعری ہے۔ وہ ندی نالوں کے خروش میں لطافت محسوس کرتے، پہاڑوں کی بلندی انھیں زمین سے بلند ہو کر ستاروں سے ہم کلام ہونے کی دعوت دیتی… اور شام کے ملگجے دھندلکوں میں اُنھیں سکونِ ابدی نظر آتا …‘‘۔۲۱۲؎ اقبال کو یقینا آرزو اور تمنا تھی__ ایک حسین تر معاشرے اور ایک بہتر زندگی کی۔ اسی لیے ان کا تخیل بلند کوہساروں اور آسمان کے چاند ستاروں سے اکتساب رنگ و نور کرکے اپنی اندھیر نگری کی طرف حسرت و یاس سے پلٹ آتا تھا: آنکھ طائر کی نشیمن پر رہی پرواز میں اس ضمن میں اُن کی پہلی نظم ’’ہمالہ‘‘ کو لیجیے۔ سب سے پہلے تو یہ حقیقت ملحوظِ خاطر رہے کہ یہ نظم جس ادبی انجمن کے جلسے میں سنائی گئی تھی اُس کے سیکرٹری (خان احمد حسین خان احمد) کے بیان کے مطابق، شعرا کی طبع آزمائی کے لیے نظم کا عنوان ’’ہمالہ‘‘ تجویز کیا جا چکا تھا اور اقبال کے علاوہ احمد حسین خان نے بھی اس موضوع پر نظم لکھی تھی۔۲۱۳؎ پھر اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ ’’ہمالہ‘‘ میں مناظر کا بیان، شاعر کے عینی مشاہدے پر مبنی نہیں کیونکہ ۱۹۲۱ء سے قبل اقبال کو کشمیر جانے اور کوہستان ہمالہ کے مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔۲۱۴؎ کشمیر، اقبال کاآبائی وطن تھا اور اس رشتے سے انھیں ابتدا ہی سے کشمیر اور اہلِ کشمیر سے ایک خاص تعلقِ خاطر تھا۔ اس زمانے میں بھی وہاں ان کے کئی دوست تھے جن سے برابر خط و کتابت رہتی تھی۔ اقبال کے مخلص دوستوں میں چودھری خوشی محمد ناظر اور منشی سراج الدین وغیرہ کشمیر میں مقیم تھے اور وہ بھی انھیں مدعو کرتے رہتے تھے۔ لاہورکے بعض احباب تعطیل کے ایام میں کشمیر کی سیر کے لیے جاتے تو اقبال کی رفاقت کے خواہاں رہتے۔ چنانچہ محمد شاہ دین ہمایوں، اپنی ایک نظم میں بڑی حسرت سے کہتے ہیں: ناظر بڑا مزہ ہو جو اقبال ساتھ دے ہر سال ہم ہوں، شیخ ہو اور شالامار ہو۲۱۵؎ اگر وہ ’’شیدائے فطرت‘‘ ہوتے تو ذوقِ نظر کی تسکین کے لیے بارہا کشمیر جا چکے ہوتے، لیکن ان تمام تر غیبات کے باجود (جیسا کہ انھوں نے اپنے ایک خط میں ذکر کیا ہے)۲۱۶؎ وہ غالباً اس لیے کشمیر نہ جا سکے کہ اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے جانے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے اور ان کی شرافتِ نفس اپنے لیے اس جنتِ ارضی کی راحتوں اور نعمتوں کو حرام قرار دیتی تھی، جن سے ان کے اعزہ محروم رہ جائیں۔ حاصلِ کلام یہ کہ اس نظم کے محاکاتی ٹکڑوں کی رنگینی و تابناکی شاعر کے حسن آفریں تخیل کی رہینِ منت ہے۔ شاعر کے تخیل کا محرک، کوہ ہمالہ سے ایک طرح کا روحانی و جذباتی لگائو ہے، جس کا سبب حب الوطنی کا جذبہ اور وطن کی تہذیبی عظمت کا تاریخی شعور ہے۔ نظم کے پہلے بند میں کوہ ہمالہ کو ’’فصیلِ کشورِ ہندوستان ‘‘ کے لقب سے مخاطب کیا گیا ہے۔ پھر دوسرے بند میں ہمالہ کی اس اہمیت کا ذکر دوبارہ آیا ہے: ’’پاسباں اپنا ہے تو دیوار ہندوستاں ہے تو‘‘۔ ابتدائی متن کے دو متروک بندوں میں شاعر نے ہمالہ کے دامن کو روحانیت و معرفت کا قدیم گہوارہ قرار دیا ہے۔ اسے اس حقیقت کا احساس ہے کہ انھی وادیوں میں اس کے برہمن اجداد صدیوں ذکر و فکر میں محو رہے۔ ہزاروں برس پہلے ، یہیں سے مہاتما بدھ کی تعلیمات کا وہ پودا اُگا تھا: ’’بیخ جس کی ہند میں ہے، چین و جاپاں میں ثمر‘‘۔۲۱۷؎ نظم کے آخری بند میں شاعر پھر مغربی رومانیوں کی طرح کوہ و صحرا کے دامن میں فطری اور سادہ زندگی کو مثالی زندگی قرار دیتا ہے اور اس عہدِ ماضی کے حسین تصورات میں کھو جاتا ہے جب تہذیبِ انسانی موجودہ تکلفات سے داغدار نہیں ہوئی تھی: اے ہمالہ! داستاں اُس وقت کی کوئی سنا مسکنِ آبائے انساں جب بنا دامن ترا کچھ بتا اس سیدھی سادی زندگی کا ماجرا داغ جس پر غازۂ رنگِ تکلف کا نہ تھا ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو۲۱۸؎ مناظرِ فطرت کی عکاسی اور حسن آفریں تمثال کاری (امیجری)کے لحاظ سے اس دور کی نظم ’’ایک آرزو‘‘ (مطبوعہ مخزن، دسمبر ۱۹۰۲ئ)سب سے زیادہ قابل توجہ ہے، اگرچہ یہاں بھی تمام تر تخیل کی کارفرمائی ہے۔ نظم کی ابتدا کچھ اس انداز سے ہوتی ہے جیسے کوئی ’’مردم گزیدہ‘‘شاعر کسی ایسے گوشۂ عافیت کی تلاش میں ہے ’’جہاں کوئی نہ ہو‘‘ یا کوئی فریب خوردئہ رومان، کشمکش حیات سے گھبرا کر، فطرت کے دامن میں پناہ ڈھونڈنے نکلا ہے: (دنیا کی محفلوں سے اُکتا گیا ہوں یا رب …) لیکن در حقیقت شاعر کی اس ’’آرزو‘‘ کی تہہ میں انسانی ہمدردی کا وہ اتھاہ جذبہ کار فرما ہے جس کا اظہار نظم کے آخری حصے میں ہوا ہے۔ ابتدائی متن میں اس نظم کے دو بند اور تیس شعر ہیں۔ بانگِ درا میں صرف ایک بند کے منتخب اشعار درج ہیں، دوسرا بند پورا خارج کر دیا گیا۔ دوسرے بند میں اتحاد و محبت کا پیامی شاعر، اہلِ وطن کی باہمی منافرت و مناقشت پر خون کے آنسو بہاتا ہے۔ یہ پورا بند شاعر کے روحانی کرب و اضطراب کا ترجمان ہے۔ یہاں پہلے بند کا ایک متروک شعر اور دوسرے بند کے صرف دو شعر درج کیے جاتے ہیں: دل کھول کر بہائوں اپنے وطن پہ آنسو سر سبز جن کی نم سے بوٹا امید کا ہو شمشاد گل کا بیری، گل یاسمن کا دشمن ہو آشیاں کے قابل یہ وہ چمن نہیں ہے وہ مے نہیں کہ جس کی تاثیر تھی محبت ساقی نہیں وہ باقی، وہ انجمن نہیں ہے۲۱۹؎ بانگِ درا میں ایک نظم ’’ماہِ نو‘‘ سات اشعار پر مشتمل ہے۔ اس نظم کی کئی حسین تشبیہوں کے بعد یہ مبہم سا تصور سامنے آتا ہے کہ شاعر روشنی کی تلاش میں ماہِ نو کا ہم سفر بننا چاہتا ہے: ’’ساتھ اے سیارئہ ثابت نمالے چل مجھے‘‘ : ’’نور کا طالب ہوں گھبراتا ہوں اس بستی میں میں‘‘ لیکن مندرجہ ذیل متروک اشعار ملا کر پڑھیے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ شاعر اپنے وطن کے تیرہ و تار ماحول میں بڑی گھٹن محسوس کرتا ہے۔ وہ اپنے ماحول سے نفرت و بیگانگی کی تاریکیوں کو دور کرنا اور اپنے اہلِ وطن کے دلوں میں محبت کی روشنی بکھیرنا چاہتا ہے۔ ماہِ نو کو دیکھ کر اس کے دل میں یہ امید بندھتی ہے کہ رفتہ رفتہ ظلمت پر نور غالب آ کر رہے گا: سرمۂ گوہر مری آنکھوں کو تیری دید ہے اے مہِ نو تو ہلالِ مطلعِ امید ہے چاہیے میری نگاہوں کو انوکھی چاندنی لا کہیں سے ماہِ کامل بن کے ایسی چاندنی ظلمتِ بیگانگی میرے وطن سے دور ہو خاکِ ہندوستاں کا ہر ذرّہ سراپا نور ہو۲۲۰؎ اقبال کی نظم ’’صبح کا ستارہ‘‘ جو بانگِ درا میں قریباً مکمل شائع ہوئی ہے، اپنے اسلوب و تخیل کے لحاظ سے خالص رومانی نظم ہے، جس میں عناصرِ کائنات کے مقابلے میں انسانی عظمت کا تصور ایک انوکھے انداز سے پیش کیا گیا ہے۔ صبح کا ستارہ ہر روز کے مرنے جینے سے تنگ آ گیا ہے اور حیاتِ دوام کا آرزو مند ہے۔ وہ اپنی بلندی پر زمین والوں کی پستی کو ترجیح دیتا ہے، اور بالآخر بقائے دوام کی آرزو اس طرح پوری کرنا چاہتا ہے: اشک بن کر سرِ مژگاں سے اٹک جائوں میں کیوں نہ اُس بیوی کی آنکھوں سے ٹپک جائوں میں جس کا شوہر ہو رواں، ہوکے زرہ میں مستور سوئے میدانِ وغا، حُبِ وطن سے مجبور خاک میں مل کے حیاتِ ابدی پا جائوں عشق کا سوز زمانے کو دکھاتا جائوں۲۲۱؎ اس دور کی ایک نظم ’’گلِ پژمردہ‘‘ میں شاعر نے مرجھائے ہوئے پھول کے المناک انجام پر نہ صرف اظہارِ تأسف کیا ہے بلکہ نظم کے متروک اشعار کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر کے حساس دل میں دنیا کے ٹھکرائے ہوئے انسانوں کا کتنا درد ہے اور اسی درد مندی کے جذبے سے وہ مرجھائے ہوئے پھول کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگا لیتا ہے۔۲۲۲؎ ’’آفتابِ صبح‘‘ کے ابتدائی بندوں میں شاعر نے نورِ آفتاب میں کسی ’’حسنِ جہاں آرا کی جھلک‘‘دیکھ کر آفتاب کی قصیدہ خوانی کی ہے۔ پھر کسی نادیدہ جلوے کی تمنا کا اظہار اور خاص طور سے اُس جلوے کا تقاضا ہے، جس سے شاعر کی چشم باطن کھل جائے۔ لیکن یہ تو محض اندازِ بیاں ہے۔ شاعر کے دل کی آنکھیں پہلے ہی کھل چکی ہیں اور ’’من و تو‘‘ کے جھگڑے مٹ چکے ہیں۔ اُس کی چشمِ حقیقت نگر ہر جگہ اسی نورِ وحدت کا ظہور دیکھتی ہے اور اپنے پرائے سب کو یکساں سمجھتی ہے۔ یہ دونوں بند (جن کے ابتدائی دو شعر یہاں منقول ہیں) شاعر کے آفاقی نقطۂ نظر اور ہمہ گیر محبت کے ترجمان ہیں: (۱) بستۂ رنگِ خصوصیّت نہ ہو میری زباں نوعِ انساں قوم ہو میری، وطن میرا جہاں (۲) صدمہ آ جائے ہوا سے گل کی پتّی کو اگر اشک بن کر میری آنکھوں سے ٹپک جائے اثر۲۲۳؎ مختصر یہ کہ انسانیت کے لیے اقبال کے دلِ درد مند کی یہ تڑپ اور حسن و خیر و حق کے لیے ان کی مسلسل و لا متناہی آرزو مندی، ہمیں اُنیسویں صدی کے عظیم رومانی شاعر شیلی کی یاد دلاتی ہے۔ شیلی کی طرح، انگلستان میں رومانی تحریک کے پیشوا، ورڈز ورتھ، سے بھی اس دور کی نظموں میں مماثلت کا ایک پہلو ملتا ہے۔ شذراتِ فکرِ اقبال میں ایک جگہ اقبال نے ورڈز ورتھ سے اپنی عقیدت و ممنونیت کا اظہار یہ کہہ کر کیا ہے کہ ’’ورڈز ورتھ نے مجھے دہریت سے بچا لیا۔‘‘۲۲۴؎ / ورڈز ورتھ کا فیصان ان کی بعض نظموں میں صاف نمایاں ہے۔ فطرت سے اقبال کی دلچسپی کا خاص سبب یہ ہے کہ وہ بھی ورڈز ورتھ کی طرح مظاہر فطرت میں حسن ازل کی جھلک دیکھتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ ایک افلاطونی نظریہ ہے۔ سقراط نے ذات باری تعالیٰ کو ’’اگاتھوس‘‘ کہا تھا یعنی وہ مرکز حسن و خیر ہے۔۲۲۵؎ افلاطون نے بھی اپنی تصانیف ’’سمپوزیم‘‘ (Symposium) اور ’’فیدروس‘‘(Phaedrus) میں خدا کو حسن مطلق قرار دیا ہے۔ حسنِ مطلق کی کشش اور اس کے مشاہدے کی آرزو، قلبِ انسانی میں جذبۂ عشق کی محرک ہے۔ فلاطونس (Plotinus) نے اس تصور کو زیادہ آب و تاب دے کر پیش کیا۔ وہ مختلف پیرایوں میں بار بار دہراتا ہے کہ ’’خدا خود حسن و نور بھی ہے اور حسن و نور کا سرچشمہ بھی۔ حسن ہی مقصودِ زندگانی ہے اور یہ مقصود، حسن مطلق کے مشاہدے ہی سے حاصل ہوتا ہے اور اس مشاہدے کا ذریعہ قلب ہے لیکن صرف وہی قلب جو پاکیزہ اور حسین بھی ہے۔۲۲۷؎ اسی حسن مطلق کا پرتو ہمیں کائنات میں نظر آتا ہے، یعنی حسن حقیقی ہی حسنِ مجازی کا سر چشمہ ہے۔ حسن مجاز فریبِ نظر نہیں بلکہ ’’تخلیق بالحق‘‘ ہے اور حسن مطلق تک رسائی کا ذریعہ بھی۔ یعنی حسن مطلق کے مشاہدے کے لیے طالب حق کو حسن مجاز کے زینے طے کرنے پڑتے ہیں۔ روح انسانی کی معراج یہ ہے کہ وہ حسن مطلق کے انوار و تجلیات کی آئینہ دار بن جائے اور اس مقام کے حصول کا ذریعہ وجدان و عشق ہے۔۲۲۷؎ حسن و عشق کے / غالباً یہ اُسی دور کی واردات کا بیان ہے لیکن اقبال کی تحریروں میں کہیں اس کا سراغ نہیں ملتا۔ البتہ اس دور کی ایک نظم ’’نیا شوالہ‘‘ کے بعض متروک اشعار میں شاعر کا جذبۂ وطن پرستی، کفر و الحاد کی حد تک پہنچ گیا ہے۔ بارے میں ان نو فلاطونی تصورات کو مسلم صوفیہ میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی اور نظریۂ وحدت الوجود سے مربوط ہو کر یہ نظریہ بھی فارسی و اردو غزل کے روایتی موضوعات میں شامل ہو گیا۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی کے مغربی رومانیوں نے جب عقلیت کی مخالفت میں وجدان و تخیل کا علم بلند کیا تو وہاں بھی فلاطونی فلسفہ اور جمالیاتی تصورات کو فروغ حاصل ہوا۔ چونکہ حافظ شیرازی کا وجد آفریں کلام ان تصورات کا بہترین ترجمان ہے، لہٰذا جرمنی میں ’’مشرقی تحریک‘‘ کا آغاز ۱۸۱۲ء میں دیوان حافظ کے ترجمے سے ہوا۔۲۲۸؎ انگلستان کے رومانی شعرا بھی ’’نو فلاطونیت‘‘ سے متاثر ہوئے۔ خصوصاً فطرت سے متعلق یہاں کی شاعری پر نوفلاطونی جمالیات کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔ ورڈز ورتھ کے لیے مشاہدئہ فطرت ، معرفت حق کا ذریعہ ہے۔ فلاطونس کے اس نظریۂ جمال کو ماہرِ جمالیات ڈاکٹر نصیر احمد ناصر نے نظریۂ وحدت الوجود کی مناسبت سے ’’نظریۂ وحدتِ حسن وجود‘‘ کے نام سے موسوم کیا ہے۔ موصوف کی رائے میں: ’’فلاطونس کے بعد جمالیات میں اس عقیدے کا سب سے بڑا علم بردار اقبال ہی ہوا ہے۔‘‘۲۲۹؎ حقیقت یہ ہے کہ اقبال نے اپنی نظموں اور غزلوں میں جابجا اس نظریے کو مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے: چھپایا حسن کو اپنے کلیم اللہ سے جس نے وہی ناز آفریں ہے جلوہ فرما نازنینوں میں تارے میں وہ قمر میں وہ جلوہ گہِ سحر میں وہ چشمِ نظّارہ میں نہ تو سرمۂ امتیاز دے۲۳۰؎ ’’جگنو‘‘ نظم کے کئی اشعار میں اس خیال کا اظہار ہوا ہے کہ حسنِ قدیم کی جھلک ہر جگہ موجود ہے۔ ہرشے کا جوہرحسنِ ازل ہی کا مظہر ہے: حسنِ ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے انساں میں وہ سخن ہے، غنچے میں وہ چٹک ہے چونکہ اقبال اس دور میں مشرقی و مغربی شعری روایات سے یکساں طور پر فیضیاب ہوئے ہیں، لہٰذا بعض جگہ وہ رومانی شعرا بالخصوص ورڈز ورتھ کے ہم نوا معلوم ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کی نظم ’’بچہ اور شمع‘‘کی مثال پیش کی جا سکتی ہے۔ نظم کی ابتدا اس طرح ہوتی ہے کہ شاعر بچے کو شمع کے شعلے کی طرف بار بار لپکتے دیکھتا ہے تو اس کے تحیر و تجسس کی یہ تاویل کرتا ہے۔ اس نظارے سے ترا ننھا سا دل حیران ہے یہ کسی دیکھی ہوئی شے کی مگر پہچان ہے۲۳۱؎ یہاں ورڈذ ورتھ کی طرح اقبال کا اشارہ اُس افلاطونی تصور کی طرف ہے کہ دنیا میں آنے سے پہلے روح کو حسنِ ازل کا قرب اور حضوری کا شرف حاصل تھا۔ اس زندگی میں اسی گمشدہ جلوے کی تلاش اسے بے قرار رکھتی۔ معصوم بچہ نور شمع میں جو کشش محسوس کرتا ہے، شایداس لیے کہ روح کو کسی دیکھی ہوئی شے (نور ازل) کا پرتو اس میں نظر آتا ہے۔ دوسرے بند میں اس نکتے کی وضاحت کی گئی ہے کہ وہ نور تو خود ہمارے اندر موجود ہے لیکن ہمارے شعور و آگہی کی نقاب میں چھپ گیا ہے اور ہم عمر بھر اس پوشیدہ حقیقت سے بے خبر رہتے ہیں۔ تیسرے بند میں شاعر کے پسندیدہ موضوع یعنی عالم فطرت میں حسن مطلق کے ظہور کا بیان، مختلف پیرایوں میں ہوا ہے۔ لیکن ایک طرف تو حسنِ ازل کے جلووں کی فراوانی کا یہ عالم ہے کہ : محفلِ قدرت ہے اک دریائے بے پایانِ حسن آنکھ اگر دیکھے تو ہر قطرے میں ہے طوفانِ حسن چشمۂ کہسار میں، دریا کی آزادی میں حسن شہر میں، صحرا میں، ویرانے میں آبادی میں حسن۲۳۱؎ لیکن دوسری طرف روح شاعر کی تشنگی کی یہ کیفیت ہے: حسن کے اس عام جلوے میں بھی یہ بیتاب ہے زندگی اس کی مثالِ ماہیِ بے آب ہے۲۳۱؎ اس تضاد کے اسباب پر غور کرنے کے لیے ہمیں اقبال کے نظام فکر کے مختلف پہلوئوں کو مدنظر رکھنا ہو گا۔ یہاں تو صرف شاعر کے جمالیاتی اور رومانی تصورات زیر بحث ہیں۔ اور اب ہم بہ طور حاصل بحث اس دعوے کو دہرانے میں حق بجانب ہوں گے کہ اس دور میں اقبال کے تصوف کی طرح ان کی رومانیت بھی انسان دوستی کے جذبے سے مربوط ، اور منفی رجحانات سے مصؤن و محفوظ ہے۔ اردو کے معاصر رومانی شعرا میں یہ بلند مقام اقبال کے سوا اور کسی کو حاصل نہ ہو سکا۔ (۴) وطنیت کا رجحان گزشتہ صفحات میںہم دیکھ چکے ہیں کہ وحدتِ انسانی کا تصور اور انسانیت کی خدمت کا نصب العین، ابتدا ہی سے اقبال کی شخصیت اور شاعری میں ایک بنیادی محرک کی حیثیت رکھتا ہے۔ زندگی کے مختلف ادوار میں یہی جذبہ اور یہی نصب العین اپنے اظہار و تکمیل کے لیے مختلف صورتیںاختیار کرتا رہا۔ ابتدائی دور شاعری میں اس جذبے نے ماحول اور عصری حالات کے زیراثر ہندوستانی قومیت اور وطنیت کا روپ دھار لیا۔ بعد میں جب وہ وطنیت کے محدود اور مہلکِ انسانیت تصور سے بر گشتہ خاطر ہوئے تو اس جذبے نے اپنی تکمیل کے لیے اسلام کی آفاقیت کا سہارا لیا۔ فکر و نظر کا مرکز وہی رہا۔ دائرے وسیع تر ہوتے چلے گئے۔ اقبال کی وطنی شاعری کے تجزیے اور تبصرے سے پہلے، تمہیداً چند امور کی وضاحت ضروری ہے۔ سب سے پہلے ہمیں وطنی شاعری کی روایت کا اجمالاً جائزہ لینا ہے۔ وطن کی محبت ایک معصوم اور فطری جذبہ ہے۔ اسلام انسان کے تمام فطری میلانات کا احترام کرتا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کے ادب میں بھی اس جذبے کا اظہار مختلف پیرایوں میں ہوتا رہا۔ فارسی شاعری کا بابا آدم ، رودکی، اپنے شہر بخارا کی محبت بھری یاد میں کہتا ہے: بوئے جوئے مُولیاں آید ہمی یادِ یارِ مہرباں آید ہمی ریگ آموے و درشتی ہائے او زیرِ پایم پرنیاں آید ہمی ایک مشہور رباعی کا یہ مصرع ہمارے یہاں ضرب المثل بن گیا ہے: ’’حبِ وطن از ملک سلیماں خوش تر‘‘ لیکن مغربی شاعری کی طرح ہمارے یہاں ’’حب الوطن‘‘ کے جذبے نے کسی مستقل موضوعِ سخن کی حیثیت حاصل نہیں کی۔ وجہ ظاہر ہے؛ اسلام کی آفاقیت، نسل پرستی اور وطن پرستی کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی۔ مسلمان جہاں کہیں بھی ہو، اس کا تعلق اپنے روحانی، فکری و تہذیبی سر چشمے یعنی اسلام و مرکزِ اسلام سے ہمیشہ استوار رہتا ہے۔ مسلمان شجر و حجر کی سی زمیں پیوستگی کا قائل نہیں اور وہ خطۂ زمین بھی جہاں وہ زندگی بسر کرتا ہے ، اسلام اور غلبۂ اسلام ہی کی نسبت سے اسے عزیز ہوتا ہے۔ جہاں تک مقامی رنگ کا تعلق ہے ، وہ تو اردو شاعری میں کسی نہ کسی حد تک ابتدا ہی سے ملتا ہے، لیکن حب الوطنی کا موضوع ہمارے یہاں جدید نظم کی تحریک کے ساتھ نیچرل شاعری کے لوازم کے طور پر مغرب سے درآمد ہوا۔ حالی، آزاد اور مختلف شعرا نے اس موضوع پر نظمیں لکھیں۔ آزاد اور حالی دونوں نے اپنی اپنی نظموں میں اس پہلو پر زور دیا ہے کہ حب وطن دراصل اہل وطن کی محبت و خدمت کے جذبے سے عبارت ہے۔ دونوں نے وطن کی بنیاد پر ہندو مسلم اتحاد کا پیغام بھی دیا ہے۔ حالی لکھتے ہیں: تم اگر چاہتے ہو ملک کی خیر نہ کسی ہم وطن کو سمجھو غیر سب کو میٹھی نگاہ سے دیکھو سمجھو آنکھوں کی پتلیاں سب کو۲۳۲؎ اپنی طویل مثنوی کے آخری حصے میں اہلِ وطن کو مل جل کر ملک کی تعمیر و ترقی کے کاموں میں حصہ لینے کی تلقین کی ہے۔ اس دور میں اسماعیل میرٹھی نے بھی اس رنگ میں کئی نظمیں لکھیں۔ لیکن اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ حالی اور اسماعیل، اس زمانے میں اسلامی قومیت کے جذبے سے ناآشنا تھے۔ حالی کی مذکورہ بالا نظم ۱۸۷۴ء میں لکھی گئی۔ پہلے ۱۸۷۶ء کی ایک غزل کا یہ شعر ملاحظہ ہو: ہم کو نسبت پہ فخر ہے تیری تُو گئی بھول ہم کو خاکِ حجاز۲۳۳؎ اس غزل کے آخری پندرہ اشعار قطعہ بند ہیں۔ دیوان کے حاشیے میں حالی نے جو نوٹ دیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے اس قطعے میں، روس کی شہہ پر ریاست ہائے بلقان کی بغاوت، خلافت عثمانیہ کے مصائب اور سلطان عبدالعزیز کی خود کشی کے واقعات پر اپنے روحانی کرب و اضطراب کا اظہار کیا ہے۔ اور جب ۱۸۷۷ء میں خود روس سے ترکوں کی جنگ چھڑ گئی تو اسماعیل میرٹھی نے ۳۲ اشعار کی ایک نظم ’’جنگِ روم و روس‘‘ میں تُرک مجاہدوں کو دادِ شجاعت دیتے ہوئے ان کی فتح کی دعا مانگی ہے: عثمان، یا خدا! انھیں زیر و زبر کرے سیلابِ خونِ روس سے مٹی کو تر کرے۲۳۴؎ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانانِ ہند کے جذبہ و شعور کی یہ دو نیم کیفیت ہمیشہ رہی۔ یعنی ایک طرف وطن اور اہل وطن سے سازگاری اور دوسری طرف ملت اور مرکز ملت سے تعلق خاطر۔ اس دونیم کیفیت کے نتیجے میں بیک وقت قوم اور قومیت کے دوہرے تصور (ہندی قومیت اور اسلامی قومیت) تعلیم یافتہ مسلمانوں کے ذہن میں موجود تھے۔ مسلمانوں نے اپنے عہدِ اقتدار میں اسلامی عدل و مساوات کی قدروں کو ملحوظ رکھتے ہوئے مختلف فرقوں کے ساتھ مذہبی رواداری اور فراخ دلی کا ثبوت دیا۔ اسی طرح عہد غلامی میں بھی باہمی اتحاد و تعاون کی کوششیں جاری رکھیں، لیکن انگریزوں کی سیاسی حکمت عملی اور اکثریتی طبقے کے جارحانہ عزائم نے ان کی کوششوں کو ناکام بنا دیا۔ ۱۸۵۷ء کی ناکام جنگ آزادی میں دونوں قوموں کے عارضی مدد تعاون کا انجام یہ ہوا کہ ہندو گواہِ سرکاری بن گئے یا بقولِ سر سید’’گنگا نہا کر جیسے پوتر تھے ویسے ہی ہو گئے‘‘۲۳۵؎ اور مسلمان سزاوار عتاب و انتقام ٹھہرے۔ لیکن اس تلخ تجربے کے بعد سر سید احمد خاں نے ۱۸۵۷ء سے ۱۸۶۷ء تک تمام تعمیری واصلاحی کاموں میں دونوں فرقوں کی فلاح و بہبود کو پیش نظر رکھا۔ وہ فطرتاً عالی ظرف، وسیع النظر، محب انسانیت تھے۔ ۱۸۵۷ء میں اردو کے خلاف ہندوئوں کی متعصبانہ محاذ آرائی سے متاثر ہو کر ان کے دل میں پہلے پہل یہ خیال آیا کہ ’’اب ہندو مسلمانوں کو بطور ایک قوم کے ساتھ چلنا، اور دونوں کو ملا کر ترقی کے لیے ساتھ ساتھ کوشش کرنا محال ہے… اور آئندہ یہ افتراق بڑھتا جائے گا… ‘‘۲۳۶؎ اس کے خلاف ہندوئوں کی یہ تحریک، جو دراصل مشترک ہندو مسلم ثقافت سے نفرت اور خالص ہندو ثقافت کے احیا کی واضح علامت تھی، برابر جاری رہی۔ بہرحال جب سر سید نے مسلمانوں کی فلاح و تعلیم کے لیے منظم تحریک شروع کی، تب بھی وہ اپنی تقریروں اور تحریروں میں نہایت خلوص کے ساتھ دونوں قوموں کے اتحادِ فکر و عمل پر زور دیتے رہے۔ ۳۰؍دسمبر ۱۸۷۳ء کو لاہور میں انجمن پنجاب کے ایڈریس کی جوابی تقریر میں انھوں نے کہا: ’’میں نے اس وقت انجمن میں اپنی زبان سے کئی دفعہ قوم کا لفظ بیان کیا۔ اس سے میرا مطلب صرف مسلمانوں سے نہیں ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ تمام انسان بالکل شخصِ واحد ہیں… میری تمام آرزو یہ ہے کہ بلالحاظ قوم و مذہب کے تمام انسان آپس میں ایک دوسرے کی بھلائی پر متفق ہوں۔‘‘۲۳۷؎ اپنے دوسرے دورئہ پنجاب کے موقع پر ۳؍فروری ۱۸۸۴ء کو انڈین ایسوسی ایشن لاہور کے ایڈریس کے جواب میں انھوں نے اس بات پر خوشی ظاہر کی کہ ایسوسی ایشن میںتمام فرقوں اور قوموں کے لوگ شامل ہیں، کیونکہ اس قسم کا اتحادِ عمل ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ علی گڑھ تحریک کے بارے میں اس غلط فہمی کو دور کیا کہ یہ کالج ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان امتیاز کرنے کی غرض سے قائم کیا گیا ہے۔ اس کے قیام کا خاص سبب مسلمانوں کی اقتصادی بدحالی اور تعلیمی پس ماندگی ہے۔ اگر دو بھائیوں میں ایک تندرست اور دوسرا کمزور و بیمار ہو تو بیمار کی صحت کی تدبیر کرنا سب کا فرض ہے۔ اس کالج میں دونوں قوموں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جاتا ہے۔ ’’میں ہندوئوں اور مسلمانوں کو مثل اپنی دو آنکھوں کے سمجھتا ہوں… لفظ قوم سے میری مراد ہندو اور مسلمان دونوں سے ہے۔‘‘ ۲۳۸؎ لیکن ایک طرف تو اردو کے خلاف ہندوئوں کی تحریک برابر جاری رہی، دوسری طرف ہندوئوں کی احیائی تحریکوں نے برہمو سماج، آریا سماج، پرارتھنا سماج، راما کرشنا مشن وغیرہ کی مختلف صورتیں اختیار کیں۔ ہندوئوں کی ان سماجی اور مذہبی انجمنوں اور تحریکوں نے ہندوئوں میں مسلم آزاری کے رجحانات اور مذہبی و لسانی تعصبات کو شدید سے شدید تر بنا دیا۔ ۱۸۸۵ء میں انڈین نیشنل کانگرس کے نام سے ایک سیاسی تنظیم قائم ہوئی۔ سر سید نے مسلمانوں کو اس سیاسی جماعت سے علیحدہ رہنے کا مشورہ دیا، اور حتمی طور پر یہ فیصلہ کیا کہ صرف تعلیم جدید ہی مسلمانوں کی اصلاح و ترقی کا واحد ذریعہ ہے۔ ۱۸۸۶ء میں انھوں نے محمڈن ایجوکیشنل کانگریس کے نام سے مسلمانوں کی ایک جداگانہ تنظیم قائم کی۔ سر سید کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ اوّل تو مسلمان تعلیمی پس ماندگی کی وجہ سے سیاسی و آئینی جدو جہد کے اہل نہیں، دوم یہ کہ کانگریس کی قیادت بنگال کے تعلیم یافتہ ہندوئوں کے ہاتھ میں ہے۔ وہ مسلمانوں پر اپنا سیاسی و اقتصادی غلبہ قائم رکھنے کے لیے ایسے مطالبات پیش کر رہے ہیں جو مسلمانوں کے قومی مفاد کے خلاف ہیں۔ سر سید نے ایجوکیشنل کانگریس کے اجلاس لکھنؤ (دسمبر ۱۸۸۷ئ) اور اجلاس میرٹھ (مارچ ۱۸۸۸ئ) میں کانگریس کی پالیسی پر مفصل بحث کی۔ عام مسلمانوں کے نام ایک خط شائع کیا جس میں کانگریس کے خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’’اگر بفرض محال کانگریس کے مقاصد پورے ہو جائیں تو ہندوستان میں مسلمانوں کا حال یہودیوں سے بھی بہت زیادہ بدتر ہو جائے گا۔‘‘۲۳۹؎ سر سید کے اس بیان کے بعدنذیراحمد نے اپنے ایک لیکچر میں دو قومی نظریے کی یوں وضاحت کی ہے ’’تمام روئے زمین پر کوئی ایسا ملک نہیں کہ جس میں اس کثرت سے مختلف العقائد، مختلف المراسم، مختلف العادات اور مختلف الاغراض قومیں رہتی ہوں جیسی ہندوستان میں۔ پس ایسے اجزائے متضاد کو یکجا کرکے ایک معجونِ مرکب قرار دینا صریح مغالطہ دہی ہے… ہندو مسلمان کیوں کر ایک قوم میں شامل ہو کر انڈین نیشن کہلا سکتے ہیں۔ گنگا جمنا کا سنگم ہو سکتا ہے اور نہیں ہو سکتا تو ہندو اور مسلم کا، جب تک ہندو ہندو ہے اور مسلمان مسلمان۔‘‘ ۲۴۰؎ اب تک مسلمانوں کے رہنما اور شعرا قومیت کا ایک مبہم تصور رکھتے تھے۔ یعنی اپنی فراخ دلی اور خوش فہمی کی بنا پر انھوں نے اپنی اسلامی قومیت اور ہندی قومیت میں کسی قسم کا تضاد یا تصادم محسوس نہیں کیا تھا، لیکن اب ہندوئوں کی تنگ نظری اور ہندو سیاست نے کسی خوش فہمی کی گنجائش نہ چھوڑی۔ سر سید اور ان کے رفقا نے مسلمانوں پر یہ واضح کر دیا کہ انڈین نیشنل کانگریس کا نظریۂ متحدہ قومیت یا ’’انڈین نیشن‘‘ کا دعویٰ خلافِ حقیقت ہے۔ مولانا حالی نے اپنی نظم ’’حب الوطن‘‘ میں ہندو مسلمانوں کو ایک قوم کی حیثیت سے مخاطب کیا تھا لیکن اب ان پر قومیت کے اس بے بنیاد تصور کی حقیقت کھل گئی۔ چنانچہ ’’شکوئہ ہند‘‘(۱۸۸۸ئ) میں ان کا ملّی شعور، ہندی قومیت کے بالمقابل اتنا واضح ہے کہ وہ ہندی قومیت کو ملّی کردار کی بدترین افتاد قرار دیتے ہیں۔ ’’نیشن کی تعریف‘‘ کے عنوان سے اپنے ایک قطعے میں، قوم کے اس تصور پر جو ’’اجزائے متضاد‘‘ کا معجون مرکب تھا، بڑا گہرا طنز کیا ہے: وہ ’’نیشن‘‘ کہتے ہیں اس بھیڑ کو بھی کہ جس میں وحدتیں مفقود ہوں سب زباں اس کی نہ ہو مفہوم اس کو ہوں آدم تک جدا سب کے جد و اب جو واحد لاشریک اس کا خدا ہو تو لاکھوں اس کے ہوں معبود اور رب۲۴۱؎ مختصر یہ کہ جہاں تک قومیت کے تصور کا تعلق ہے، اس بارے میں مسلمانوں کی فکری الجھن دور ہو چکی تھی اور ان میں اپنی جداگانہ قومیت کا شعور پیدا ہو چکا تھا۔ مسلمانوں کی جداگانہ قومی تشکیل اگرچہ اکثریتی فرقے کے تعصبات کا ردِ عمل تھی لیکن بقول شیخ محمد اکرام، حالی کی نظموں اور سر سید کی پالیسی نے اسے بہت تقویت دی۔‘‘۲۴۲؎ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بیسویں صدی کے آغاز میں حریت پسند اور جمہوریت پرست مسلم نوجوانوں کی ایک جماعت، جوش اور اُمنگ کے ساتھ، متحدہ قومیت کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے بے قرار ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان، ان دونوں قوموں کی کشمکش کے پس منظر سے ناواقف اور اپنے بزرگوں کے تجربات سے بے خبر تو نہ ہوں گے، تاہم وہ حالات سے مایوس نہیں تھے۔ ان کے دل میں وطن کی محبت اور انسانیت کی خدمت کا وہی بے لوث اور معصوم جذبہ موجود تھا جو ابتداء ً سر سید کے دل میں موجزن تھا۔ پرانی اور نئی نسل کی ذہنیتوں میں اس فرق کے کئی اسباب تھے۔ ۱- سر سید اپنی زندگی میں مسلمانوں کو سیاسی تحریک سے دور رکھنے اور ’’اصلاح پسند ترقی پذیر‘‘ انگریزی حکومت پر ان کا اعتبار بحال کرنے میں کامیاب رہے۔ لیکن وفات سے چند روز پہلے علی گڑھ کالج کے انگریز پرنسپل ، مسٹر تھیوڈوربک کا اثر ان پر اتنا بڑھ گیا تھا کہ سرسید کے بعض ہوش مند رفقا بھی ان کے سیاسی مسلک کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگے تھے۔ سرسید کی رائے میں بین الملی تحریک اور اسلامی ممالک کے مصائب و مسائل سے مسلمانانِ ہند کا دلی لگائو، کوئی مثبت نتیجہ پیدا کرنے کے بجائے خود ان کے حق میں بڑے خطرے کا باعث تھا لہٰذا وہ بیرونی سیاست سے مسلمانوں کی توجہ ہٹانے کی مسلسل کوشش کرتے رہے۔ لیکن ۱۸۵۷ء جب کریٹ کے باغیوں کی حمایت میں یونان نے ترکی پر حملہ کر دیا اور یورپ کی دول عظمیٰ بالخصوص برطانیہ کی مزاحمت سے ترکوں کی فتح شکست میں بدل گئی۲۴۳؎ تو مسلمانوں کے دل میں فرنگی سیاست اور برطانوی اقتدار کے خلاف نفرت کے جذبات اُبھر آئے۔ علامہ شبلی نے، جو اپنے سفرِ ’’مصر و روم و شام‘‘ کے بعد خلافتِ عثمانیہ کے عقیدت مند اور بین الملّی تحریک کے حامی تھے، اس موقع پر ترکوں کی حمایت میں مضامین لکھے۔ الغرض عالم اسلام کے خلاف برطانیہ کی مسلسل سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے مسلمانانِ ہند اتنے بدظن ہوئے کہ انگریزی حکومت پر خود سر سید کے رفقا کا اعتماد بھی متزلزل ہو گیا۔ سر سید کی وفات کے بعد علی گڑھ کالج کے نوجوانوں میں انگریز پرنسپل اور برطانوی اقتدار کے خلاف نفرت و بغاوت کے جذبات پرورش پانے لگے۔ ۲- انیسویں صدی میں سر سید اور ان کے رفقا، برطانوی اقتدار کو ’’ابد قرار‘‘ سمجھ رہے تھے، لیکن بیسویں صدی کے آغاز ہی میں مختلف ممالک کی جمہوری تحریکوں کے آگے بڑے بڑے سامراجوں کی مضبوط بنیادیں متزلزل ہوتی نظر آنے لگیں۔ ہندوستان میں بھی انڈین نیشنل کانگریس کی سیاسی جدو جہد قوت و شدت اختیار کرنے لگی۔ کانگریس کے ہوش مند قائدین، وطن کی بنیاد پر متحدہ قومیت کے تصور پر زور دیتے تھے اور مسلم نوجوانوں کے جذبۂ وطن دوستی کو برانگیختہ کرتے تھے۔ بیسویں صدی کے اوائل تک تعلیم یافتہ طبقے میں مغرب کے سیاسی و جمہوری تصورات عام ہو چکے تھے۔ مغربی مصنفین کی کتابوں میں بلکہ مغربی ادبیات میں عموماً قوم پرستی کے جذبات اور وطنی قومیت کے تصورات اس طرح رچے بسے ہیں کہ انگریزی تعلیم یافتہ طبقے کا ان سے متاثر ہونا اور مغرب کے سیاسی نظریات کو برہان قاطع سمجھنا ناگزیر تھا۔ چونکہ سرسید کے بعد مسلمانوں میں کوئی فرد یا جماعت ایسی نہیں تھی جو نئے حالات میں نوجوانوں کے جذبۂ حریت اور انگریز دشمنی کے رجحان کو صحیح رخ پر ڈال سکتی، لہٰذا وہ تحریکِ آزادی میں حصہ لینے کے لیے کانگریس کی طرف لپکنے لگے۔ اگرچہ اقبال کی وطنی شاعری کا بنیادی محرک (جیسا کہ ابتدا میں عرض کیا گیا) ان کا جذبۂ انسان دوستی اور وحدت انسانی کا تصور ہے، لیکن ظاہر ہے کہ وہ مندرجہ بالا عصری تحریکات و عوامل سے بھی متاثر ہوئے ہوںگے۔ علم الاقتصاد کے مطالعے کے بعدانھوں نے اہل وطن کی عام بہبودی اور ملک کی اقتصادی خوش حالی کے لیے آزادی وطن کو ، اور حصولِ آزادی کے لیے ہندو مسلم اتحاد کو ناگزیر سمجھا ہو گا۔ اقبال کی وطنی نظموں میں جذبہ و فکر کی کئی سطحیں ملتی ہیں: ۱- سب سے پہلے ان نظموں کو لیجیے جن میں وطن کی سرزمین سے دلی عقیدت و محبت اور ہندوستان کے کوہ دریا، مناظر و مظاہرِ فطرت سے گہرے لگائو کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس زمرے میں کوہ ہمالہ، ابر کوہسار، ایک آرزو، رخصت اے بزمِ جہاں، وغیرہ شامل ہیں۔ بانگِ درا کی پہلی نظم ’’ہمالہ‘‘ اس جذبے کی بہترین مظہر ہے۔ شاعر کی نگاہ میں کوہ ہمالہ سرزمین ہند کی عظمت و رفعت کی علامت ہے۔ ہمالہ اسے اس لیے بھی عزیز ہے کہ اس کے وطن کا پاسبان ہے۔ ہمالہ کا دامن اس قدیم آریائی تہذیب کا اولین گہوارہ بنا جس کی حسرت بھری یاد، اس تہذیب سے شاعر کی روحانی وابستگی کی دلیل ہے۔ بہرحال جہاں تک منظر نگاری کا تعلق ہے، یہ رجحان اس دور کی اردو شاعری میں عام ہو چکا تھا۔ ۲- ’’ترانۂ ہندی‘‘ اور ’’ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘‘ میں وطن کی عظمت و محبت کا پر جوش اظہار ہوا ہے۔ اپنے وطن کو ’’سارے جہاں سے اچھا‘‘ سمجھنا حب الوطنی کا فطری تقاضا ہے۔ لیکن شاعر نے وطن کی تاریخی عظمت کا ذکر جس انداز سے کیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی وطنی عصبیت ، ملّی عصبیت پر غالب آ گئی ہے: یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا۲۴۴؎ اس شعر میں وہ اس تاریخی حیثیت کو نظر انداز کر دیتا ہے کہ اگر مسلمانوں کا قدم درمیان میں نہ ہوتا تو طبقاتی تقسیم کے ظالمانہ نظام اور معاشرتی نا انصافی و ناہمواری (نیز سیاسی انتشار و عدم مرکزیت)کے نتیجے میں ہندوستان کی قدیم جاں بلب تہذیب کا نام و نشان مٹ چکا ہوتا۔/ ’’قومی گیت‘‘ میں عظمتِ وطن کا ترانہ زیادہ اونچے سُروں میں گایا گیا ہے۔ لیکن نظم کے مندرجہ ذیل اشعار میں شاعر کے جذبۂ عقیدت کے غلونے تاریخی حقائق کو مسخ کر دیاہے: / اس حقیقت کا ادراک اقبال کو بعد میں ہوا کہ اگر دنیا میں کوئی قوم اور کوئی تہذیب ، ابدیت اور آفاقیت کی سزاوار ہے تو وہ ملّتِ اسلامیہ اور اسلامی تہذیب ہے۔‘‘ رموز بے خودی (ص ۱۳۸) میں مندرجہ بالا شعر کی تردید ملاحظہ ہو: رومیان را گرم بازاری نماند… تا : در جہاں بانگ ازاں بودست و ہست ملتِ اسلامیاں بودست و ہست بندے کلیم جس کے، پربت جہاں کے سینا نوحِ نبی کا آکر ٹھہرا جہاں سفینا وحدت کی لَے سنی تھی دنیا نے جس مکاں سے میرِ عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے۲۴۵؎ دوسرے شعر کا دوسرا مصرع ایک موضوعی حدیث یا ضعیف روایت پر مبنی ہے۔ اس سے قطع نظر، قدیم روایت اور جدید تاریخی تحقیق سے رو گردانی کرتے ہوئے شاعر نے ’’کوہ جودی‘‘ یا کوہ ارارات کے بجائے ہمالہ کو کشتیِ نوح کا ٹھکانا قرار دیا ہے۔ اس سے زیادہ بوالعجبی اور کیا ہوگی۔ ’’بندے کلیم جس کے…‘‘ اس قسم کا مبالغہ تو شاعری میں روا ہے لیکن دیوی دیوتائوں کی جس سرزمین میں مہاتما بدھ کی موحّدانہ اور انسانیت پرور تعلیمات بھی مسخ ہو کر رہ گئیں اور بالآخر برہمنیت نے بدھ مت کو ملک بدر کرکے ہی دم لیا، اس کے بارے میں اقبال کا یہ دعویٰ : ’’وحدت کی لے سنی تھی دنیا نے جس مکاں سے‘‘ موجب حیرت ہے۔ مندرجہ ذیل شعر کا مصرعِ ثانی بھی تاریخی اعتبار سے محلِ نظر ہے: گوتم کا جو وطن ہے جاپان کا حرم ہے عیسیٰ کے عاشقوں کا چھوٹا یروشلم ہے۲۴۶؎ مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وطنیت کے نشے نے شاعر کے تاریخی و ملّی شعور کو دھندلا دیا تھا۔ ۳- شاعر انسانیت کا پرستار اور امن و محبت کا پیغام بر ہوتا ہے۔ اقبال نے شاعر کو عضوِ قومی میں آنکھ سے تشبیہ دی ہے : مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ۲۴۷؎ یہ شعر خود اقبال کی درد آشنا فطرت کا ترجمان ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں ہندو قومیت کے متعصبانہ عزائم، فرقہ وارانہ کشمکش اور فسادات کی صورت میں ظاہر ہونے لگے۔ انسان دوست شاعر یہ منظر دیکھ کر تڑپ اٹھا کہ اس کے وطن میں انسانوں کے خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے نفرت اور عداوت کی اس زہر آلود فضا میں اس کا دم گھٹنے لگا۔ ۱۹۰۲ء کی ایک نظم صدائے درد‘‘ اس کے کرب و اضطراب کی مظہر ہے: جل رہا ہوں کل نہیں پڑتی کسی پہلو مجھے ہاں ڈبو دے اے محیطِ آبِ گنگا تُو مجھے۲۴۸؎ شاعر اس ماحول سے اتنا بیزار ہے کہ اسے یہاں سکونت بھی گوارا نہیں۔ نظم کے دو متروک شعر: اے ہمالہ! تو چھپا لے اپنے دامن میں مجھے ہے غضب کی بے کلی اپنے نشیمن میں مجھے آشیاں ایسے گلستاں میں بنائوں کس طرح؟ اپنے ہم جنسوں کی بربادی کو دیکھوں کس طرح؟۲۴۹؎ ان درد ناک حالات سے عاجز آ کر شاعر ترکِ وطن کا ارادہ کرتا ہے۔ ایک متروک پارے کے چھ اشعار میں یہ مضمون ادا کیا ہے کہ وہ اس ’’مولدِ گوتم و دیارِ بالمیک‘‘ کو الوداع کہہ کے اپنے مسلم اسلاف کے مرکزِ اعلیٰ ’’صحراے وسطِ ایشیا‘‘ کی طرف کوچ کرنا چاہتا ہے۔ اس سلسلے کے دو ابتدائی اور ایک آخری شعر ملاحظہ ہو: پھر بُلالے مجھ کو اے صحرائے وسطِ ایشیا آہ اس بستی میں اب میرا گزارا ہو چکا پار لے چل مجھ کو پھر اے کشتیِ موجِ اٹک اب نہیں بھاتی یہاں کے بوستانوں کی مہک الوداع اے سر زمینِ نانکِ شیریں بیاں رخصت اے آرام گاہِ چشتیٔ عیسیٰ نشاں۲۴۹؎ نظم کا یہ اسلوب مولانا حالی کی مشہور نظم ’’شکوۂ ہند‘‘ کی یاد دلاتا ہے۔ حالی، اپنی قوم کی جانب سے، جو اس ملک میں’’بدیسی مہمان‘‘ ہیں، ہندوستان کو الوداع کہتے ہیں: رخصت اے ہندوستاں اے بوستانِ بے خزاں رہ چکے تیرے بہت دن ہم بدیسی میہماں۲۵۰؎ حالی کیوں سمر قند و دمشق و اصفہان کا رخ کیے ہوئے ہیں؟ اس لیے اس سرزمینِ ہند نے، جو نہ جانے کتنی قوموں کو ہڑپ کر چکی ہے، قوم مسلم کو اس کی عزیز ترین متاع یعنی اس کے قومی کردار کے جوہر سے محروم کر دیا ہے۔ لہٰذا وہ اپنی قومی و ملی خودی کی حفاظت کے لیے خاکِ ہند سے دامن جھاڑ کر الگ ہونا چاہتے ہیں۔ مندرجہ ذیل دو شعروں میں اس شاہکار نظم کی روح کھنچ آئی ہے: چھین لی سب ہم سے یاں شانِ عرب آنِ عجم تونے اے غارت گرِ اقوام و اکّالِ امم ہم کو ہر جوہر سے یوں بالکل معرّا کر دیا تو نے اے آب و ہوائے ہند یہ کیا کر دیا!۲۵۰؎ لیکن یہ نوجوان شاعر اس لیے اپنے وطن کو خیرباد کہنا چاہتا ہے کہ اس کے اہلِ وطن رِمز الفت سے غافل اور اس حقیقت سے نا آشنا ہیں کہ کفر و اسلام کے ظاہری امتیازات بالکل بے کار ہیں۔ کافر و مومن سب کا تعلق اسی ایک حقیقت سے ہے: اپنی اصلیّت سے ناواقف ہیں ، کیا انساں ہیں یہ غیر اپنوں کو سمجھتے ہیں، عجب ناداں ہیں یہ امتیازِ قوم و ملّت پر مٹے جاتے ہیں یہ اور اس الجھی ہوئی گتھی کو الجھاتے ہیں یہ۲۵۱؎ حالی نے ۱۸۸۸ء کو اس نظم میں متاعِ کارواں کے لٹنے کا تم کیا ہے اور اپنے کارواں کو احساسِ زیاں دلایا ہے، لیکن ۱۹۰۲ء میں یہ نوجوان شاعر قوم کو صوفیانہ بے خودی کا پیغام دے رہا ہے: ’’ببیں تفاوتِ رہ از کجاست تا بکجا‘‘۔ اس دور کی کئی نظموں (مثلاً شمع، آفتابِ صبح وغیرہ) میں اقبال نے وحدت الوجودی نظریات کی رو سے ’’دیر و حرم ‘‘ اور ’’ملّت و آئین‘‘ کے امتیاز سے آزاد رہنے کی تلقین کی ہے۔ زیر بحث نظم کے مندرجہ ذیل متروک اشعار میں انھوں نے کھل کر اس پیغام کی وضاحت کی ہے: ہم نے یہ مانا کہ مذہب جان ہے انسان کی کچھ اسی کے دم سے قائم شان ہے انسان کی رنگِ قومیّت مگر اس سے بدل سکتا نہیں خون آبائی رگِ تن سے نکل سکتا نہیں وصلِ محبوبِ ازل کی ہیں یہ تدبیریں سبھی اک بیاضِ نظمِ ہستی کی ہیں تفسیریں سبھی ایک ہی مے سے اگر ہر چشمِ دل مخمور ہے یہ عداوت کیوں ہماری بزم کا دستور ہے۲۵۱؎ یہاں اقبال نے دو باتیں کہی ہیں؛ اولاً انھوں نے مذہب کا یہ تصور پیش کیا ہے کہ دین و مذہب کا حاصل محض ’’وصل محبوب ازل‘‘ یا عشق الٰہی ہے۔ تمام مذاہب کا اصل الاصول ایک ہے، لہٰذا ہندو مسلمان سب برابر ہیں۔ ثانیاً یہ کہ نسلاً بھی ہندو مسلم قوموں میں کوئی فرق نہیں۔ سب کی رگوں میں ہندی اجداد کا خون دوڑ رہا ہے۔ اس کبریٰ و صغریٰ سے نتیجہ یہ نکلا کہ ہندو مسلم، ایک ہندی قوم ہیں۔ اگلے سال اقبال نے ’’ترانۂ ہندی‘‘ کے ایک شعر میں اس پیغام کا خلاصہ، محتاط لفظوں میں یوں بیان کیا ہے: مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بَیر رکھنا ہندی ہیں ہم ، وطن ہے ہندوستاں ہمارا مذہب اسلام، یقینا غیر مذہب والوں سے بَیر رکھنا نہیں سکھاتا، وہ تو یکسر امن اور سلامتی کا داعی ہے اور اپنی انفرادیت کو قائم رکھتے ہوئے تمام مذاہب کے احترام کی تعلیم دیتا ہے۔ (یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے دور حکومت میں سیاسی اقتدار کے لیے جنگیں تو بہت ہوئیں لیکن مذہب کی بنیاد پر ہندو مسلم فسادات نہیں ہوئے) لیکن اقبال نے ’’صدائے درد‘‘کے مندرجہ بالا اشعار میں مذہب کا جو تصور پیش کیا ہے وہ اسلام کے ہمہ گیر تصور دین کے منافی ہے۔ اگرچہ مسلمان صوفیہ، طریقت کو دین و شریعت کی روح یا اس کا باطنی پہلو قرار دیتے تھے، تاہم خود ہندوستان کے اکابر صوفیا نے شریعت کا استخفاف یا شریعت سے جدا، کسی مستقل بالذات نظام طریقت کا وجود گوارا نہیں کیا۔ یہاں اس مسئلے کے تاریخی پہلو پر تفصیل سے بحث کا موقعہ نہیں، صرف اتنا عرض کرنا کافی ہو گا کہ وحدتِ ادیان کا نظریہ، مغلوں کے دور میں بھگتی تحریک کے زیرِ اثر مسلمان صوفیہ میں مقبول ہوا۔ سیاسی اقتدار کی جنگ میں پیہم شکست کھانے کے بعد ہندو سماج نے اپنی مدافعت کے لیے تصوف کو سیاسی حربے کے طور پر استعمال کیا۔ ہندو مہاپرشوں نے ویدانتی فلسفہ اور تصوف کے امتزاج سے وحدتِ ادیان کا روحانی تیزاب ایجاد کیا، جس سے مسلمانوں کی قومی خودی کو گلا کر اپنے سانچے میں ڈھالا جا سکے۔ لیکن مسلم قوم کی انفرادیت و سالمیت کو ختم کرکے ہندو سماج میں ضم کرنے کی اس سازش کو عہد جہانگیری میں حضرت مجدد الف ثانیؒ کی مجتہدانہ و مجاہدانہ کوششوں نے ناکام بنا دیا۔ بہر حال ہماری متصوفانہ شاعری میں عجمی تصوف کے جملہ نظریات کے ساتھ ، رندی و قلندری کے عناصر اس طرح پیوست ہو گئے تھے کہ اسلام سے اجتناب اور کفر سے ارتباط، کعبے سے انحراف اور دیر کے طواف کا سلسلہ جاری رہا: میر کے دین و مذہب کو کیا پوچھو ہو تم ، ان نے تو قشتہ کھینچا، دَیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا لیکن اب تک کسی شاعر نے اس نظریے کو قومی یا سیاسی نصب العین بنا کر پیش نہیں کیا تھا۔ ہندو مسلم کشمکش کے اصل محرکات سیاسی تھے۔ اقبال نے مذہب کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اس کشمکش کا حل وحدت الوجود اور وحدتِ ادیان کے فلسفے میں تلاش کیا۔ انھیں کیا خبر تھی کہ مغلیہ دور کی بھگتی تحریک کی طرح، سیاسی اقتدار کی اس جنگ میں بھی، یہ فلسفہ اغیار کے ہاتھوں میں ایک موثر سیاسی حربہ بن جائے گا۔ مختصر یہ کہ اقبال بڑی معصومیت اور انتہائی خلوص سے وحدت انسان اور وحدتِ ادیان کا پیغام دہراتے رہے۔ فروری ۱۹۰۳ء کے اجلاس انجمن کی معرکۃ الآرا نظم ’’تصویر ِدرد‘‘ میں انھوں نے اپنی عارفانہ وحدت شناسی و صوفیانہ وسیع المشربی، اپنے جذبۂ انسان دوستی و حب الوطنی کا پورا پورا حق ادا کر دیا ہے۔ یہاں دس بندوں کے ۱۲۸ اشعار (بلحاظ ابتدائی متن) کی اس نظم کا فکری تجزیہ یا شاعر کی نوائے عاشقانہ پر تبصرہ بے محل ہو گا۔ لہٰذا صرف چند اہم نکات پیش کیے جاتے ہیں: (۱) نظم کا مرکزی موضوع، وطنی قومیت کا تصور اور ہندو مسلم اتحاد کے رشتوں کا استحکام ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے شاعر نے عظمتِ آدم کا تصور پیش کیا ہے۔ اگرچہ انسان اپنی حقیقت سے غافل ہے اور اپنی غفلت و نادانی کی وجہ سے وہ ایک مشت غبار کی طرح پریشان ہے لیکن یہی افتادہ و درماندہ انسان، خالق کائنات کا عظیم ترین شاہکار اور تماشا گاہِ ہست و بود کا مرکزی کردار ہے: یہ سب کچھ ہے مگر ہستی مری مقصد ہے قدرت کا سراپا نور ہے جس کی حقیقت، میں وہ ظلمت ہوں۲۵۲؎ (۲) سرزمین ہند کی سب سے بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ اس ملک کے لوگ اپنے انجام سے بے خبر، مذہب و ملت کی آویزشوں میں مبتلا ہیں۔ اس خانہ جنگی سے اغیار کو اہل ملک کے استحصال کا موقع مل گیا ہے۔ شاعر اپنے اہل وطن کو متنبّہ کرتا ہے: نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے ہندوستاں والو تمھاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں۲۵۲؎ (۳) شاعر کے نزدیک اس خانہ جنگی کی اصل وجہ مذہبی تعصّب و تنگ نظری ہے۔ زبان سے توحید کا دعویٰ کرنے والے خود بین و خود پرست ہیں۔ اصل توحید یہ ہے کہ نور وحدت کا جلوہ ہر شے میں نظر آئے: زباں سے گر کیا توحید کا دعویٰ تو کیا حاصل بنایا ہے بتِ پندار کو اپنا خدا تونے۲۵۲؎ (۴) مذہبی تعصّب، فرقہ آرائی، من و تو کے جھگڑے ، ملّت و آئین کی تمیز، یہی ہمارے اصل امراض اور ملک و قوم کی تباہی کے بنیادی اسباب ہیں۔ ان امراض کا علاج یہ ہے کہ ہم ظاہری اختلافات کونظر انداز کرکے مذہب کی اصل روح (محبت) کو اپنائیں۔ محبت ہمیں ظواہر کی قید سے چھڑاتی ہے۔ اسی شرارے سے دل میں وحدت کی شمع روشن ہوتی ہے۔ یہی جذبہ ایک طرف خدا سے تو دوسری طرف انسان سے ہمارا رشتہ استوار کرتا ہے: محبت کے شرر سے دل سراپا نور ہوتا ہے ذرا سے بیج سے پیدا ریاضِ طور ہوتا ہے جو تو سمجھے تو آزادی ہے پوشیدہ محبت میں غلامی ہے اسیرِ امتیازِ ما و تو رہنا شرابِ روح پرور ہے محبت نوعِ انساں کی سکھایا اس نے مجھ کو مستِ بے جام و سبو ہونا۲۵۲؎ یہ آخری شعر اس دور کے اقبال کی شخصیت اور شاعری کو سمجھنے میں کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ اس ’’شرابِ روح پرور‘‘ کو وحدت الوجودی تصوف نے دو آتشہ بنا دیا ہے۔ تصوف اور فلسفے کا وجودی نظریہ، عینیت پرست نوجوانوں، روحانیت کے طلب گاروں، بے دینوں اور دہریوں کے لیے یکساں کشش رکھتا ہے۔ خود وحدت الوجود کے نظریے میں دہریت کا ایک پہلو موجود ہے۔ اگر خدا اور کائنات میں عینیت کی نسبت ہے یعنی خدا عینِ کائنات اور کائنات عینِ خدا ہے، تو اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ کائنات سے ماورا خدا کا وجود نہیں۔ یعنی جسے ہم خدا کی قدرت اور خدا کی مشیت کہتے ہیں، وہ در اصل کائنات اور فطرت کے ازلی اور اٹل اصول و قوانین کے سوا کچھ نہیں۔ اقبال نے کئی جگہ اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ اس دوران میں ان کے خیالات دہریت کی طرف مائل تھے۔ ایک مرتبہ انھوں نے اپنے نظریۂ وطنیت اور جذبۂ قومیت کی توجیہ یوں کی ہے: ’’میں سماجی اتحاد کے لیے وطن کو ایک بنیادسمجھتا تھا، اس لیے خاک وطن کا ہر ذرّہ مجھے دیوتا دکھائی دیتا تھا۔ اس وقت میرے خیالات بہت کچھ مادیت کی طرف مائل تھے۔ سوائے وطن کے مجھے انسانوں میں اتحاد کے لیے کوئی دوسرا ذریعہ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ ‘‘۲۵۳؎ چنانچہ اپنے اس قول کے مطابق ’تصویر درد‘‘ کے بعد اگلے سال انھوں نے وطنیت کا ’’نیاشوالہ‘‘ تعمیر کیا اور وطن کی دیوی کے چرنوں میں اپنا دین، دھرم سب کچھ قربان کر دیا۔ ہماری پوری شاعری میں وطن پرستی کے جذبۂ صادق کی ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ نظم مارچ ۱۹۰۵ء کے مخزن میں شائع ہوئی تھی۔بانگِ درا کے متن میں نظم کے پہلے بند کا ایک شعر اور دوسرے بند کے دو شعر شامل نہیں۔ متروک اشعار میں سے صرف تین درج ذیل ہیں: زنّار ہو گلے میں، تسبیح ہاتھ میں ہو یعنی صنم کدے میں شانِ حرم دکھادیں مندر میں ہو بلانا جس دم پجاریوں کو آوازۂ اذاں کو ناقوس میں ملا دیں اگنی ہے ایک نرگن کہتے ہیں پیت جس کو دھرموں کے سب بکھیڑے اس آگ میں جلا دیں۲۵۴؎ دراصل اس نظم میں بھی، بنیادی محرک، انسان دوستی کا جذبہ ہے۔ شاعر ہندو مسلمان کے درمیان سے غیریت کے پردے اٹھانا اور نقش دوئی مٹانا چاہتا ہے۔ اس کا ایمان ہے کہ باہمی محبت ہی انسان کے دکھ درد کا علاج اور انسانیت کے لیے واحد ذریعۂ نجات ہے: ’’دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے‘‘۲۵۵؎ محبت کے پرستار اقبال کے لیے وحدت الوجودی تصوف میں سب سے بڑی کشش یہ تھی کہ یہ نظریہ مذہب کے ظاہری اختلافات کو مٹا کر انسانی وحدت اور عالمگیر اخوت و محبت کا نصب العین پیش کرتا ہے۔ لیکن وجودی تصوف محض مذہبی ظواہر ہی کا منکر نہیں بلکہ نیکی بدی، خیر و شر اور حق و باطل کے امتیازات بھی ختم کر دیتا ہے۔ لہٰذا اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو ’’عالمگیر اخوت و محبت‘‘ کے یہ بلند آہنگ دعوے خواب و خیال سے زیادہ اور کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ ظاہر ہے کہ لفظ ’’محبت‘‘ میں کوئی طلسمی قوت نہیں ، جس کے اثر سے دنیا میں انسانوں پر انسانوں کا ظلم و ستم اور شر کی قوتوں کا فتنہ و فساد مٹ جائے۔ محبت کا نصب العین (یعنی عالمگیر امن و اخوت ، مساوات و حمیت) سعی و عمل، جہد و پیکار اور ایثار و خدمت کے ایک لامتناہی سلسلے سے وابستہ ہے۔ جب تک منظم طور پر کوشش نہ کی جائے، دنیا میں کوئی ایسا معاشرتی نظام قائم نہیں ہو سکتا، جہاں عدل و مساوات اور اخوت و محبت کی قدریں، انسانی خود غرض اور ہوس پرستی کے یلغار سے پامال نہ ہونے پائیں۔ انسانی وحدت کا تصور، اور عالمگیر اخوت و محبت کا نصب العین اسلام بھی پیش کرتاہے، لیکن اسلام اس نصب العین کے حصول کے لیے ایک دستور العمل اور ایک اجتماعی نظام تشکیل دیتا ہے۔ صوفیہ کے نزدیک اس اجتماعی نظام (ملّتِ اسلامیہ) اور اس دستور العمل (شریعت) کی کوئی اہمیت نہیں۔ تصوف کے وحدت الوجودی نظریے سے متاثر ہو کر صوفی شعرا جن منفی اقدار کی تبلیغ کرتے رہے، ان کا خلاصہ یہ ہے: ’’دنیا ہیچ است و کار دنیا ہمہ ہیچ‘‘۔ دنیا کے مادی حقائق اور زندگی کے سنگین مسائل کو پائے استحقار سے ٹھکرانے کے بعد کوئی مسئلہ ہی نہیں رہ جاتا جس کے لیے جہد و عمل کے کسی منظم سلسلے، کسی دستور العمل یا کسی اجتماعی نظام کی ضرورت باقی رہے۔ اپنے فکری ارتقا کے اس مرحلے میں اقبال، اپنے ذوق علم و معرفت اور مطالعے کی وسعت کے باوجود حق آگاہی کی منزل سے دور تھے۔ ’’وحدتِ ادیان‘‘ اور ’’وحدتِ انسان‘‘ کے حسین نعروں کا کھوکھلا پن چند سال بعد، اُس وقت محسوس ہوا جب عجمی تصوف کے دل فریب پردوں کو محقق کی دور رس نگاہوں نے چاک کر دیا اور انھیں اسلام کے اجتماعی نظام کے مطالعے کا موقع ملا۔ (۵)معاشی اور سماجی شعور اقبال کے فکری رجحانات کا یہ جائزہ، ان کی بعض نثری تحریروں، بالخصوص ان کی اولین تصنیف علم الاقتصاد (۱۹۰۳ئ) کے حوالے کے بغیر نا مکمل رہے گا۔اس تصنیف سے جہاں ان کے ذہن و فکر کے حقیقت پسندانہ رجحان کا ثبوت ملتا ہے، جس کی بنا پر معاشی مسائل سے ہمیشہ انھیںگہری دلچسپی رہی، وہاں معاشی مسائل میں ان کے انسانی نقطۂ نظر اور اجتہادی فکر کے مختلف پہلو، نیز ان کے فلسفے اور شاعری کے اولین محرکات بھی ہمارے سامنے آ جاتے ہیں۔ اقبال کی نظم ’’خضر راہ‘‘ (۱۹۲۲ئ) میں ان کے انقلابی پیغام کو عموماً روس کے اشتراکی انقلاب کی صدائے بازگشت سمجھا جاتا ہے، لیکن اگر اقبال کے فکری ارتقا کے تمام تدریجی مراحل ہمارے پیش نظر ہوں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اقبال کے قلب و ذہن میں اس انقلابی پیغام کے محرکات ابتدا ہی سے کار فرما رہے۔ مظلوم انسانوں کے معاشی حقوق کے لیے جذباتی نعرہ بازی تو بہت آسان ہے، لیکن کیا ہماری تاریخ ادب میں کوئی ایسی مثال موجود ہے کہ اقبال کے معاصرین میں ( یا ان کے بعدبھی) کسی نوجوان شاعر نے معاشیات جیسے خشک موضوع سے (جس کی ثقالت شاعر کی لطافتِ طبع پر یقینا گراں گزرے گی)کسی خارجی مجبوری کے بغیر، اتنی گہری دلچسپی کا ثبوت دیا ہو۔ علم الاقتصاد کے وسیع مطالعے کی ذہنی کاوش اور اس موضوع پر اردو میں اولین کتاب تصنیف کرنے کی تمام فنی و لسانی مشکلات سے عہدہ برآ ہونے کی کامیاب کوشش کسی زبر دست محرک جذبے کا پتا دیتی ہے یا نہیں؟ کتاب کے دیباچے کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ یہ نوجوان شاعر و مفکر، اپنے اہل وطن کے افلاس و غربت کا شدیدحساس رکھتا ہے اور وہ معاشی خوش حالی کو اہل وطن کی اخلاقی و تمدنی ترقی کی ناگزیر شرط قرار دیتا ہے۔ مصنف لکھتا ہے: ’’غریبی قوائے انسانی پر بہت برا اثر ڈالتی ہے بلکہ بسا اوقات انسانی روح کے مجلا آئینے کو اس قدر زنگ آلود کر دیتی ہے کہ اخلاقی اور تمدنی لحاظ سے اس کا وجود و عدم برابر ہو جاتا ہے… اپنی موجودہ اقتصادی حالت کو سنوارنا ہماری تمام بیماریوں کا آخری نسخہ ہے۔ اور اگر یہ نسخہ استعمال نہ کیا گیا تو ہماری بربادی یقینی ہے۔‘‘۲۵۶؎ علم الاقتصاد کی اسی اہمیت کے پیش نظر وہ اپنے اہلِ وطن کو معاشی مسائل پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ یہاں اس کتاب کی ترتیب اور اس کے مطالب و موضوعات کا مفصل جائزہ لینا مطلوب نہیں بلکہ صرف مصنف کی بعض فکری خصوصیات اور رجحانات کی وضاحت کے لیے جستہ جستہ مقامات کی نشان دہی کی جائے گی۔ علم الاقتصاد کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ اس مضمون کے وسیع مطالعے اور غور و فکر کی بدولت اقبال کو نہ صرف اپنے موضوع پر ماہرانہ گرفت حاصل تھی بلکہ انھوں نے اپنی فلسفیانہ و نفسیاتی بصیرت سے کام لیتے ہوئے، مروجہ معاشی نظریات پر تنقید بھی کی ہے۔ مثلاً ماہرینِ اقتصادیات کے فرائض بیان کرتے ہوئے وہ اس امر کی جانب توجہ دلاتے ہیں کہ علم الاقتصاد کی بنیاد انسانی فطرت کے صحیح اصولوں پر قائم ہونا ضروری ہے۔ بعض ماہرینِ اقتصادیات نے اس مفروضے پر اپنے استدلال کی بنیاد رکھی ہے کہ انسان فطرتاً خود غرض اور جذبۂ ایثار سے کلیتہً مبرا ہے۔ حالانکہ یہ ایک نیم صداقت ہے۔ چنانچہ اقبال متنبہ کرتے ہیں کہ اگر کسی قوم میں ایسے اصول مروّج ہو جائیں، جو اس قسم کے غلط مشاہدے پر مبنی ہوں تو دو ایک صدیوں میں اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ’’اس قوم کے ہر فعل میں بے جا خود غرضی اور زرپرستی کی بو آئے گی جو اس کو کسی نہ کسی دن حضیض پستی و ذلت میں گرا کر چھوڑے گی۔‘‘۲۵۷؎ اسی طرح ایک جگہ وہ اس ضمن میں کہ قلّبِ معیشت اور کثرتِ آبادی کا قدرتی علاج قحط اور وبا وغیرہ ہے، فلسفۂ جدید کے ’’قانون بقائے حیات‘‘ کا ذکر کرتے ہیں، یعنی عالمِ ہستی میں ہر جگہ ایک مسلسل پیکار جاری ہے جس میں قوی افراد فتح پاتے ہیں اور ضعیف افراد صفحۂ ہستی سے معدوم ہوتے جاتے ہیں۔ ایک مشہور عالمِ اقتصادیات واکر کا خیال ہے کہ یہ قانون صرف عالم حیوانات تک محدود ہے۔ انسان، نسلی اور قبائلی تعلقات اور باہمی تعاون کے سہارے اس قانون کی زد سے محفوظ رہتا ہے۔ اقبال نے واکر کے اس نظریے کی مدلل تردید کی ہے۔ ان کی رائے میں یہ جبھی ممکن ہے کہ تمام انسان حقیقی بھائیوں کی طرح زندگی بسر کریں۔ مگر عملاً ایسا نہیں۔ اس واسطے جو اجنبیت و غیریت حیوانوں میں موجود ہے، وہی مختلف قوموں کے درمیان بھی پائی جاتی ہے۔ چنانچہ حیوانات میں افراد کے درمیان اور انسانوں میں اقوام کے درمیان مسلسل کشمکش و پیکار جاری رہتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ افکار و نظریات، خیالات و مذاہب بھی اس قانون کی زد میں آتے ہیں۔’’جو خیال یا مذہب، انسان کے تمدنی حالات اور اس کی عقلی ترقی کے ساتھ ساتھ ترقی نہ کر سکے گا، ضرور ہے کہ وہ انسان کی جدید روحانی ضروریات کو پورا نہ کر سکنے کے باعث معدوم ہو جائے۔‘‘۲۵۸؎ آج سے پون صدی قبل علمائے اقتصادیات بالعموم، سرمایہ دارانہ نظام کی تائید میں حکومت کی مداخلت اور قانونی پابندیوں سے آزاد و بے قید معیشت کے حامی تھے۔ اقبال نے اس کی جابجا مخالفت کی ہے۔ ایک جگہ بے قید معیشت کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لیتے ہوئے ، نہایت بلیغ انداز میں یہ حکیمانہ نکتہ پیش کیا ہے: ’’یاد رکھنا چاہیے کہ حقیقی آزادی قیود کو دور کرنے سے حاصل نہیں ہوتی، بلکہ بعض قیود ایسے ہوتے ہیں جن سے آزادی کا دائرہ زیادہ وسیع ہو جاتا ہے۔‘‘۲۵۹؎ کتاب کے آخری باب میں ماہرینِ اقتصادیات کی اس کوتاہی کا ذکر کیا ہے کہ انھوں نے اب تک ’’صرفِ دولت‘‘ کے مسئلے کو سنجیدہ غور و فکر کا مستحق نہیں سمجھا۔ ان کے رائے میں اس علم کے محققین کو صرفِ دولت کے ان طریقوں کا جائزہ لینا چاہیے جن سے افراد قوم کی اخلاقی و جسمانی حالت ترقی کرتی ہے، اور بحیثیتِ مجموعی ِملک کے سیاسی اور اقتصادی نظام کے تمام اجزا ہم آہنگ ہو کر قوم کی بہبودی کا باعث ہوتے ہیں۔ اسی طرح صرفِ دولت کی ان صورتوں کی نشان دہی بھی ضروری ہے جو تمدنی اور اخلاقی لحاظ سے انسانی معاشرے پر برا اثر ڈالتی ہیں یا ملک کی اقتصادی تباہی کا باعث ہوتی ہیں۔ ’’موجودہ زمانے میں ایک ایسے فلسفی کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے جو مندرجہ بالاامور کی پوری تفتیش اور تحقیق کرکے علم الاقتصاد کے اس حصے کو پورا کرے۔‘‘۲۶۰؎ ان اصولی اور نظریاتی مباحث کے علاوہ اقبال نے مختلف معاشی مسائل میں اجتہاد فکر اور اصابتِ رائے کا ثبوت دیا ہے۔ مثلاً دستکاروں کی حالت پر ’’مقابلہ ٔ نامکمل‘‘ کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے کمیِ اجرت کی تلافی کے لیے قومی تعلیم کا نسخہ تجویز کیا ہے: ’’یہ وہ چیز ہے جس سے دستکار کا ہنر، اس کی محنت کی کار کردگی اور اس کی ذہانت ترقی کرتی ہے‘‘۲۶۱؎ معاشی ترقی کے سلسلے میں قومی تعلیم کی اہمیت اس سے پہلے ماہرین اقتصادیات کی نگاہوں سے اوجھل رہی۔ ڈاکٹر مرزا امجد علی بیگ لکھتے ہیں کہ’’ علم الاقتصاد میںقومی تعلیم کی جو اہمیت انھوں نے بتائی، اس پر اندازاً ۵۸ سال تک کسی نے توجہ نہ دی۔ ۱۹۶۱ء میں تھیوڈر شولز نے امریکن اکانامک ایسوسی ایشن کے سالانہ اجلاس میں اپنے خطبۂ صدارت میں قومی تعلیم کی اقتصادی اہمیت کو واضح کیا اور اس کے بعد اس موضوع پر مضامین کا ایک سیلاب امڈ آیا ہے۔‘‘۲۶۲؎ اقبال نے بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر، تحدیدِنسل اور خاندانی منصوبہ بندی کے مسئلے پر اس زمانے میں توجہ دی جبکہ یہ مسئلہ عرصۂ دراز تک ماہرین اقتصادیات کے تغافل کا شکار رہا۔ اُس سلسلے میں اقبال نے بچپن کی شادی اور تعددِ ازواج سے احتراز کرنے اور بالعموم ضبطِ نفس سے کام لینے کا مشورہ دیا ہے۔ اس مسئلے کی اہمیت آج کل روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔لیکن بقول ڈاکٹر ممتاز حسن مرحوم: ’’ اس حقیقت کا اعتراف لازم ہے کہ اس برصغیر میں اس کی قیادت کا سہرا اقبال کے سر ہے اور اوّلیت انھی کو حاصل ہے۔‘‘ ۲۶۳؎ اقبال کے فکری رجحان کے سلسلے میں علم الاقتصاد کے وہ حصے خاص طور سے ہماری توجہ کے مستحق ہیں، جہاں انھوں نے ذاتی ملکیت کی مخالفت اور محنت کش طبقے کے حقوق کی پُرجوش حمایت کی ہے۔ کتاب کے حصۂ چہارم (باب اوّل) ’’پیداوار دولت کے حصہ دار‘‘ کے موضوع پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے انھوں نے جس طرح تمہید اٹھائی ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس زمانے میں وہ ملکیت زمین کے بارے میں اشتراکی نظریے سے نہ صرف آشنا تھے بلکہ اپنے فکری میلان کی بنا پر اس سے خاص دلچسپی رکھتے تھے۔ تمہید کی ابتدائی سطروں میں انھوں نے اس دورِ تمدن کا ذکر کیا ہے جب قبائلی معاشروں میں شخصی ملکیت کا مطلق وجود نہ تھا۔ اس ابتدائی تمدن میں اشتراکِ عمل اور اشتراکِ ملکیت انسان کا اصولِ معاشرت تھی۔ ہمارے دیہاتوں میں اب بھی وہ اصولِ معاشرت کسی نہ کسی صورت میں رائج ہے۔ آگے چل کر وہ لکھتے ہیں: زمانۂ حال کے بعض فلسفی اس بات پر مصر ہیں کہ تمدن کی یہی صورت سب سے اعلیٰ اور افضل ہے۔ نظامِ قدرت میں نوع انسانی کے تمام افراد مساوی حقوق رکھتے ہیں… جائداد شخصی تمام برائیوں کا سر چشمہ ہے… اور کچھ نہیں تو کم از کم ملکیتِ زمین کی صورت میں ہی اس اصول پر عمل در آمد کیا جائے، کیونکہ یہ شے کسی خاص فرد یا قوم کی محنت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ قدرت کا ایک مشترکہ عطیہ ہے، جس پر قوم کے ہر فرد کو مساوی حقِ ملکیت حاصل ہے۔ حال کی بحثوں میں یہ بحث بڑی دلچسپ اور نتیجہ خیز ہے، لیکن ہم اس کا مفصل ذکر اس ابتدائی کتاب میں نہیں کرنا چاہتے۔۲۶۴؎ یہاں تو مصنف نے اس نظریے سے محض دلچسپی کا اظہار کیا ہے، لیکن اسی باب میں آگے چل کر اضافۂ آبادی کے سبب سے لگان میں اضافے کے عدمِ جواز پر بحث کرتے ہوئے، زمین کی شخصی ملکیت کے اصول کی مخالفت کی ہے۔ بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ افزائشِ آبادی کے نتیجے میں غیر مزروعہ زمینوں کو زیرِ کاشت لانا پڑتا ہے۔ ایسی صور ت میں زمیندار لگان میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ لیکن یہ زائد دولت جو اسے ملتی ہے، اس کی ذاتی کوششوں یا اس کی زمینوں کی پیداوار میں اضافے کا نتیجہ نہیں۔ لہٰذا اس کا یہ منافع اصولِ انصاف کے خلاف ہے۔ ’’یہ سب ناانصافی جائدادِ شخصی سے پیدا ہوتی ہے، جس کا وجود قومی بہبود کے لیے انتہا درجے کا مضرت رساں ہے۔ پس حکما کے اس فریق کے نزدیک زمین کسی خاص فرد کی ملکیت نہیں بلکہ قومی ملکیت ہونی چاہیے۔ یا بالفاظِ دیگر یوں کہو کہ لگان کی یہ زائد مقدار، جو آبادی کی زیادتی کے سبب سے پیدا ہوتی ہے، سرکار یا قوم کا حق ہے، نہ کہ زمینداروںکا۔‘‘۲۶۵؎ اسی طرح اقتصادیات کی کتابوں میں اُس وقت یہ نظریہ عموماً رائج تھا کہ چونکہ مزدوروں کی اُجرتیں کُل سرمایے کے اس مخصوص و متعیّن حصے سے ادا کی جاتی ہیں جو ’’سرمایۂ اجرت‘‘ کہلاتا ہے، لہٰذا اگر اجرتیں بڑھا دی جائیں تو یہ مخصوص سرمایہ کم ہو جائے گا جس سے بالآخر مزدوروں کا طبقہ متاثر ہو گا۔ اقبال نے اس نظریے کے خلاف امریکہ کے مشہور مصنف واکر کے دلائل پیش کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ ’’پیداوارِ محنت کی زیادتی، جو دستکاروں کی ذاتی ترقی سے پیدا ہوتی ہے ، خود دستکار کا حق ہے۔ زمینداروں، ساہوکاروں، کارخانہ داروں کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔‘‘۲۶۶؎ اقبال نے اس کتاب میں شروع سے آخر تک، حقائق علمی کی وضاحت کے لیے نہایت موزوں، متین اور سنجیدہ اسلوبِ تحریرختیار کیا ہے۔ لیکن علمی استدلال اور عقلی اندازِ بحث کی شعوری کوشش کے باوجود کہیں کہیں ان کے درد مند دل کے جذبات ضبط و احتیاط کا بند توڑ کر بہہ نکلے ہیں۔ کتاب کے دیباچے کی مندرجہ ذیل عبارت اس حقیقت پسند مفکّر اور انقلابی شاعر کے داخلی محرکات کی نشان دہی کرتی ہے: معلّمِ اوّل حکیم ارسطو سمجھتا تھا کہ غلامی ، تمدنِ انسانی کے قیام کے لیے ایک ضروری جزو ہے۔ مگر مذہب اور زمانۂ حال کی تعلیم نے انسان کی جبلّی آزادی پر زور دیا اور رفتہ رفتہ مہذب قومیں محسوس کرنے لگیں کہ یہ وحشیانہ تفاوتِ مدارج بجائے اس کے کہ قیامِ تمدن کے لیے ایک ضروری جزو ہو، اس کی تخربب کرتا ہے اور انسانی زندگی کے ہر پہلو پر نہایت مذموم اثر ڈالتا ہے۔ اسی طرح اس زمانے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا مفلسی بھی نظامِ عالم میں ایک ضروری جزو ہے؟ کیا ممکن نہیں کہ ہر فرد مفلسی کے دکھ سے آزاد ہو؟ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ گلی کوچوں میں چپکے چپکے کراہنے والوں کی دل خراش صدائیں ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جائیں اور ایک درد مند دل کو ہلا دینے والا افلاس کا درد ناک نظارہ، ہمیشہ کے لیے صفحۂ عالم سے حرفِ غلط کی طرح مٹ جائے۔۲۶۷؎ اقبال کے معاشی و معاشرتی شعور کے ضمن میں اُس مقالے کا حوالہ بھی ضروری ہے جو ’’قومی زندگی‘‘ کے عنوان سے دو قسطوں میں، اکتوبر ۱۹۰۴ء اور مارچ ۱۹۰۵ء کے شمارۂ مخزن، میں شائع ہوا تھا۔ پہلی قسط میں مقالہ نگار نے تمہیداً دورِ حاضر کے انقلابات کا ذکر کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ موجودہ علمی انکشافات اور سائنسی ترقی کی وجہ سے انسانی تہذیب و تمدن میں جو انقلاب رونما ہوا ہے، اس کا تقاضا یہ ہے کہ پس ماندہ قومیں اپنی بقا کے لیے نئے نئے سامان بہم پہنچائیں۔ بعد ازاں فلسفۂ ارتقا کے ایک اصول ’’تنازع للبقا‘‘ پر روشنی ڈالی ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ دیگر انواع مثلاً حیوانات و نباتات کی طرح انسان کی فنا و بقا کا انحصار محض قدرتی اسباب پر نہیں ہے۔ انسان کو ایسی قوتیں عطا کی گئی ہیں کہ وہ ہر انقلاب و تغیر کے لوازم پر غور کرکے بقائے حیات کے سامان بہم پہنچاتا ہے۔ اس نظری بحث کے بعد اقوامِ عالم میں سے دو قدیم اقوام کی بقا اور دو جدید اقوام کی ترقی کے اسباب بیان کیے ہیں۔ قدیم اقوام میں سے بنی اسرائیل اور پارسی قوم اپنے وطن سے بے وطن ہونے اور صدہا سال کے مصائب جھیلنے کے باوجود آج زندہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دو قوموں نے انقلابِ زمانہ کے تقاضوں کو سمجھا اور صنعت و تجارت کے وسائل اختیار کرکے حالات کا مقابلہ کیا۔ مقالے کی دوسری قسط میں دو جدید اقوام، یعنی ایشیا میں جاپانی اور یورپ میں انگریز قوم کی مثالیں پیش کی ہیں۔ صنعت و تجارت میں ترقی اور اصلاحِ تمدن نے ۳۶ سال کی مختصر مدت میں جاپان کی کایا پلٹ دی۔ لیکن ہندوستان اپنی تاریخی عظمت اور قدرتی وسائل کے باوجود ذرا ذرا سی بات میں اقوامِ غیر کا محتاج ہے۔ ہندوئوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی حالت زیادہ مخدوش ہے۔ یہ قوم ’’وقت کے تقاضوں سے غافل اور افلاس کی تیز تلوار سے مجروح ہو کر ایک بے معنی توکل کا عصا ٹیکے کھڑی ہے۔‘‘۲۶۸؎ اس ضمن میں مسلمانوں کے مختلف طبقات کے رویے، یعنی علما کی فرقہ آرائی ، امرا کی عیش پرستی ، اور عوام کی جاہلانہ رسم پرستی کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ پھر جاپان کی تاریخ کے حوالے سے مسلمانوں کو اجتماعی جدوجہد، ایثار و محنت کی تلقین کی ہے اور قومی تعمیر نو کے لیے اصلاحِ تمدن اور تعلیم عام کا لائحۂ عمل پیش کیا ہے۔ چونکہ اصلاحِ تمدن کا تعلق مذہب سے ہے لہٰذا مقالہ نگارنے نہایت محتاط لفظوں میں فقہِ اسلامی کی تدوینِ جدید کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ یہ مسئلہ زندگی کے آخری ادوار میں اقبال کے سنجیدہ غور و فکر کا موضوع بنا لیکن حیرت ہے کہ اس ابتدائی زمانے میں بھی وہ اس کی اہمیت کو پوری شدت سے محسوس کر چکے تھے۔ چنانچہ لکھتے ہیں: میرا منصب نہیںہے کہ مذہبی اعتبار سے گفتگوکروں، مگر اس قدر کہنے سے باز نہیں رہ سکتا کہ حالاتِ زندگی میں ایک عظیم الشان انقلاب آ جانے کی وجہ سے بعض ایسی تمدنی ضروریات پیدا ہو گئی ہیں کہ فقہا کے استدلالات جن کے مجموعے کو عام طور پر شریعتِ اسلامی کہا جاتا ہے، ایک نظرثانی کے محتاج ہیں … موجودہ حالاتِ زندگی پر غور کیا جائے تو جس طرح اس وقت ہمیںتائید اصول مذہب کے لیے ایک جدید علم کلام کی ضرورت ہے، اسی طرح قانونِ اسلامی کی جدید تفسیر کے لیے ایک بہت بڑے فقیہ کی ضرورت ہے، جس کے قوائے عقلیہ و متخیلہ کا پیمانہ اس قدر وسیع ہو کہ وہ مسلّمات کی بنا پر قانونِ اسلامی کو ایک جدید پیرایے میں مرتّب و منظم کر سکے، بلکہ تخیل کے زور سے اصول کو ایسی وسعت دے سکے جو حال کے تمدنی تقاضوں کی تمام ممکن صورتوں پر حاوی ہو… یہ کام شاید ایک سے زیادہ دماغوں کا ہے اور اس کی تکمیل کے لیے کم از کم ایک صدی کی ضرورت ہے… یہ بحث بڑی دلچسپ ہے مگر چونکہ قوم ابھی ٹھنڈے دل سے اس قسم کی باتیں سننے کی عادی نہیں ہے اس واسطے میں اُسے مجبوراً نظر انداز کرتا ہوں۔۲۶۹؎ اصلاحِ تمدن کے سلسلے میں حقوقِ نسواں، تعلیمِ نسواں اور اصلاحِ رسوم کے مسائل پر بھی اظہارِخیال کیا ہے۔ اصلاحِ تمدن کے بعد قومی تعلیم کے بارے میں، انیسویں صدی کے رہنمائوں کے مسلک کے برخلاف، ضروریاتِ زمانہ کے مطابق سائنس ، ٹکنالوجی اور صنعت و تجارت پر زور دیا ہے: وہ مصافِ زندگی جو آج کل اقوام عالم میں شروع ہے اور جس کے نتائج بعض اقوام کے لیے خطرناک ہوں گے، ایک ایسی جنگ ہے جس میں افواج کے بجائے دستکاروں کی ضرورت ہے۔ ہندوستانیوں اور خصوصاً مسلمانوں کو تعلیم کی تمام شاخوں سے زیادہ صنعت کی تعلیم پر زور دینا چاہیے۔ اگر میرے دل کی پوچھو تو میں سچ کہتا ہوں کہ محنت کشوں کے کھردرے ہاتھ، نرم ہاتھوں سے زیادہ خوبصورت ہیں۔ اس مضمون کے متعلق تاثرات کا جو ہجوم میرے دل میں ہے میں اسے الفاظ میں ظاہر نہیں کر سکتا اور یقینا ان ٹوٹی پھوٹی سطروں سے میرے مافی الضمیر کا پورا پورا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا: از اشک مپرسید کہ در دل چہ خروش است ایں قطرہ ز دریا چہ خبر داشتہ باشد‘‘۲۷۰؎ اس دور کی شاعری کے ساتھ ساتھ ، ان نثری تحریروں کو پیش نظر رکھنا اس لیے ضروری ہے تاکہ ہمیں کچھ اندازہ ہو سکے کہ وہ شاعر جو اپنی فلسفیانہ بلند نظری اور صوفیانہ وسیع المشربی کے زیراثر یہ کہتا ہے کہ ع : ’’نسلِ انساں قوم ہے میری، وطن میرا جہاں‘‘کسی موہوم خیالی دنیا یا Utopia کی باتیں نہیں کرتا، بلکہ حقیقی زندگی کے ٹھوس مسائل پر بھی گہری نظر رکھتا ہے۔ اس کا بلند پرواز تخیل فلک پیما ہے، لیکن اس کا قدم ’’زمین فرسا بھی ہے ‘‘: تھی حقیقت سے نہ غفلت فکر کی پرواز میں آنکھ طائر کی نشیمن پر رہی پرواز میں۲۷۱؎ /// فصل سوم فنی ارتقا کا جائزہ (۱) طویل قومی نظموں کا فنی تجزیہ فروری ۱۹۰۰ء میں ’’نالۂ یتیم‘‘ سے اقبال کی قومی شاعری کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو فروری ۱۹۰۴ء میں ’’تصویر درد‘‘ تک جاری رہا۔ اگرچہ ان نظموں میں سے صرف ’’تصویر درد‘‘ کے منتخب بند اور ’’ابرِ گہربار ‘‘ (فریادِ اُمت) کا ایک بند (بہ عنوان ’’دل‘‘) بانگِ درا میں شامل ہے،لیکن اس دور میں اقبال کے فکری اور فنی ارتقا کا جائزہ ان نظموں کے حوالے کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ اُس زمانے میں جس طرح داغ و امیر کے رنگِ کلام کی تقلید مشاعروں اور ادبی محفلوں میں قبولِ عام کی ضامن سمجھی جاتی تھی، اسی طرح قومی شاعری اور ’’نظم جدید ‘‘ کے میدان میں حالی کی ’’راست روی‘‘ شعرا کا عام شعار بن گئی تھی۔ اقبال نے غزل گوئی کے ابتدائی دور میں داغ و امیر کی تو پیروی کی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ دور کی ایک نظم ’’فلاحِ قوم‘‘ کے سوا اس دور کی نظموں پر حالی کی پر چھائیں بھی نہ پڑنے دی۔ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ حالی کی جدید شاعری اقبال کے مذاق سخن کے معیار پر پوری نہیں اتری۔ اگرچہ حالی نے اردو شاعری کو خیالی گورکھ دھندوں سے نکال کر زندگی کا ترجمان بنایا، لیکن وہ مقصدیت اور فن میں صحیح توازن قائم نہ رکھ سکے۔ انھوں نے سادگی اور اصلیت پر اتنا زور دیا کہ شعریت رفتہ رفتہ دم توڑ گئی۔ اکبر الہ آبادی ، جو اپنی اعلیٰ فنی صلاحیتوںکے علاوہ ادب اور زندگی کے ایک بالغ نظر مبصر بھی تھے، اپنے اس مضمون میں، جس کا حوالہ گزشتہ باب میں داغ کے سلسلے میں آ چکا ہے، مولانا حالی کی اس بے اعتدالی پر یوں تبصرہ فرماتے ہیں: ’’ہمارے مولانا حالی صاحب کسی زمانے میں اچھے شاعر تھے، لیکن حضرت نے اب حسنِ خیال کی دھن میں حسنِ زبان سے قطع نظر کی اور حسن خیال کو اس قدر روندا ہے کہ اب حسن جاتا رہا اور خیال ہی خیال رہ گیا ہے۔‘‘۲۷۲؎ حالی نے اپنا شعری نصب العین ایک مشہور قطعے میں پیش کیا ہے، جس کا پہلا شعر یہ ہے : اے شعر دل فریب نہ ہو تُو ، تو غم نہیں پر تجھ پہ حیف ہے جو نہ ہو دل گداز تو۲۷۳؎ لیکن حقیقت یہ ہے کہ’’دل گدازی‘‘ یا تاثیرِ کلام کے لیے شدتِ احساس اور خلوص کے ساتھ حسنِ بیان اور نغمہ گری کی صلاحیت بھی درکار ہے۔ خود حالی کے کلام کے وہی ٹکڑے جاندار ہیںجہاں معانی و الفاظ میں جسم و جان کا سا رشتہ استوار ہے۔ جب وہ فنی تقاضوں کو نظر انداز کرکے کسی جدید اور حسین خیال کو نظم کرنے لگے تو بقول اکبر ’’حسن جاتا رہا اور خیال ہی خیال رہ گیا۔‘‘حالی کی طرح اقبال کی طبیعت بھی درد مند تھی، لیکن اقبال کو فطرت نے ’’سوزِ دروں‘‘ کے ساتھ ’’عجم کا حسن طبیعت‘‘ بھی بخشا تھا۔ وہ موسیقی کا ذوق بھی رکھتے تھے۔ ان کے مذاقِ سخن اور تنقیدی شعور کی تربیت مشرقی ادب کے علاوہ مغربی ادب کے نقادوں اور فن کاروں کے زیرِ اثر ہوئی۔ لہٰذا انھوں نے حالی کے اجتہادی کارناموں میں شعریت و غنائیت کے فقدان کو محسوس کیا، اور اسی کے ساتھ اردو نظم کی اس خامی کو دور کر کے اس کے فنی معیار کو بلند کرنے کی کوشش بھی شروع کر دی۔ فن شعر کے بارے میں ان کا نصب العین حالی سے مختلف تھا۔ وہ جانتے تھے کہ شاعر اگر ’’دیدئہ بینائے قوم ہے‘‘ تو اسے ’’رنگیں نوا‘‘ بھی ہونا چاہیے (ع: شاعرِ رنگیں نوا ہے دیدئہ بینائے قوم)۔ شعر کی تخلیق میں سوز کے ساتھ ساز اور فکر کے ساتھ فن کا امتزاج ضروری ہے۔ انھوں نے اسی دور کی دو غزلوں میں اپنے شعری نصب العین کی یوں ترجمانی کی ہے: لطف کلام کیا جو نہ ہو دل میں درد عشق بسمل نہیں ہے تُو، تو تڑپنا بھی چھوڑ دے۲۷۴؎ لطف جب آتا ہے اقبال سخن گوئی کا شعر نکلے صدفِ دل سے گُہر کی صورت۲۷۵؎ چنانچہ غزلوں کی طرح اس دور کی نظموں میں بھی وہ بتدریج اپنے نصب العین سے قریب تر ہوتے رہے، حتیٰ کہ ۱۹۰۰ء میں جب ’’نالۂ یتیم‘‘ سے ان کی نظم گوئی کا مستقل سلسلہ شروع ہوا تو برس دو برس کے اندر ہم ان کے اسلوب میں اتنی زبردست تبدیلی محسوس کرتے ہیں کہ ان کے فنی ارتقا کی رفتار پر ہمیںحیرت ہوتی ہے۔ اقبال کے اندازِ شعر گوئی کے بارے میں یہ مسلمہ روایت ہے کہ جب وہ نظم کہنے بیٹھتے تو بلا کی آمد ہوتی تھی۔ اس دور میں بھی ان کی جولانیِ طبع کا یہی عالم تھا۔ لیکن ’’نالۂ یتیم‘‘ ’’آمد‘‘ کے بجائے ’’آورد‘‘ یعنی خاص اہتمام اور کاوشِ فکر کا نتیجہ ہے۔ یہ اہتمام اور کاوش کچھ تو اس لیے تھی کہ ۲۳ بنداور ۱۰۲؍اشعار کی ایک طویل نظم مرتب کرنے کا یہ اولین تجربہ تھا اور کچھ اس خیال سے کہ وہ پہلے پہل ایک ایسے قومی جلسے میں نظم سنانے جا رہے تھے، جہاں لاہور کے عوام و خواص کے علاوہ خاصی تعداد میںبیرونی مہمانانِ گرامی اور بزرگان قوم بھی شریک ہوتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے اپنی نظم میں زور بیان پیدا کرنے کے لیے مختلف شاعرانہ حربوں کے علاوہ، بلند آہنگ فارسی تراکیب سے بہت کام لیا۔اُس زمانے میں ان کی غزل بھی مطالعۂ غالب کے اثر سے ایک نئے سانچے میں ڈھل رہی تھی، اگرچہ اس کے عناصرِ ترکیبی میں داغ و امیر کی زبان و بیان کے اوصاف بھی شامل تھے۔ لیکن اس نظم میں تقلید غالب کی سعیٔ ناکام، تکلفِ بے جا بن کر رہ گئی۔ اردو شاعری میںایجاز و اختصار کی غرض سے فارسی اضافتوں اور ڈھلی ڈھلائی لفظی ترکیبوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ بسیط و عمیق مطالب کی ادائیگی کے لیے توالیِ اضافت کا عیب بھی گوارا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر معانی کا پلہ ہلکا رہ جائے تو اضافتوں کی بھرمار بے سود ہے۔ اگرچہ غالب کے یہاں بھی اس بد سلیقگی کی مثالیں ملتی ہیں لیکن غالب کا کمال فن بھی لفاظی میں نہیں، معنی آفرینی میں ہے۔ بے مصرف تراکیب اور بے محل اضافتوں کا استعمال اس نظم کا سب سے بڑا عیب ہے۔ مثلاًاگر ستاروں کی نحوست کا گلہ آسمان سے کیا جائے تو یہ کہنا کہ : ’’ہر ستارہ ہے ترا داغِ دل نیک اختری‘‘۲۷۶؎ ، الفاظ کا اسراف بے جا نہیں تو کیا ہے۔ ’’یتیمی‘‘ کا لفظ بجائے خود ایک ابتلا کا مظہر ہے، پھر اس لفاظی سے کیا فائدہ: ’’صیدِ شاہینِ یتیمی کا پھڑکنا اور ہے۔‘‘۲۷۷؎ اسی طرح مندرجہ ذیل شعروں میں لفظی طمطراق کا تماشا ملاحظہ ہو: خارِ حسرت غیرتِ نوکِ سناں ہونے لگا یوسفِ غم زینتِ بازارِ جاں ہونے لگا صبحِ عشرت بھی ہماری غیرتِ صد شام ہے ہستیٔ انساں غبارِ خاطرِ آلام ہے زیرِ گردوں شاہدِ آرام کی صورت نہیں غیرِحسرت غازئہ رخسارئہ راحت نہیں نظمِ عالم میں نہیں موجود سازِ بے کسی ہو گئی پھر کیوں یتیمی صیدِ بازِ بے کسی عجزِ گویائی ہے گویا حکمِ قیدِ خامشی مجرمِ اظہارِ غم کو یہ سزا ملنے لگی۲۷۷؎ ان تمام شعروں میں لفاظی کا عیب اور بلاغت و شعریت کا فقدان اتنا نمایاں ہے کہ کسی تبصرے کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح بہت سے اشعار حشو کے عیب سے داغدار ہیں۔ ایک بند میں گرے کی مشہور نظم Elegy کے ایک ٹکڑے کا چربہ اتارنے کی کوشش کی ہے لیکن اضافتوں کے ’’شوقِ فضول‘‘ نے جابجا روڑے اٹکائے ہیں: آمدِ بوئے نسیمِ گلشنِ رشکِ ارم ہو نہ مرہونِ سماعت جس کی آوازِ قدیم لذتِ رقصِ شعاعِ آفتابِ صبح دم یا صدائے نغمۂ مرغِ سحر کا زیر وبم رنگ کچھ شہرِ خموشاں میں جما سکتی نہیں خفتگانِ خاکِ مرقد کو جگا سکتی نہیں۲۷۸؎ اس بند کادوسرا مصرع ، اور باقی تینوں مصرعوں میں کئی الفاظ، حشو ہیں۔ نظم کے پہلے حصے (ابتدائی چودہ بند) میں یتیم کی حرماں نصیبی کا بیان اسی پُرتکلف اور مبالغہ آمیز پیرائے میں ہوا ہے، لیکن جب شاعر ’’یتیم ہاشمیؐ‘‘ کے آستانے پر پہنچتا ہے تو تکلفات کے پردے اٹھ جاتے ہیں۔ دوسرے حصے (آخری بیس بند) میں پر خلوص جذبات کی بدولت کلام کا زور بڑھ گیا ہے اور زبان و بیان میں صفائی و روانی پیدا ہو گئی ہے۔ سرکار رسالت مآب صلعم کی مدح و ثنا میں جہاں مرتبۂ رسالت کو مقام الوہیت تک پہنچا دیا ہے وہاں بھی بہرحال شاعرانہ صداقت موجود ہے۔ مثلاً: تیرے نظارے کا موسیٰ میں کہاں مقدور ہے تو ظہورِ لن ترانی گوئے اوجِ طور ہے۲۷۹؎ مصرعۂ ثانی میر انیس کے اس شعر کے مصرعۂ ثانی کی یاد دلاتا ہے: وہ صبح اور وہ چھائوں ستاروں کی اور وہ نور دیکھے تو غش کرے ارنی گوئے اوج طور لیکن اقبال کے ادنیٰ تصرف سے معنی منقلب ہو گئے ہیں۔ اسی بند کے ابتدائی دو مصرعوں میں بھی قدما کی مستعمل تراکیب میں تصرف کا عمل ہوا ہے: تیرا رتبہ جوہرِ آئینۂ لولاک ہے فیض سے تیرے رگِ تاکِ یقیں نمناک ہے تیرے سائے سے منور دیدئہ افلاک کیمیا کہتے ہیں جس کو تیرے در کی خاک ہے۲۸۰؎ نظم کی غیر معمولی کامیابی اور تاثیر کا راز اسی نکتے میں مضمر ہے کہ شاعر نے قوم کو یتیموں کے حال زار کی طرف متوجہ کرنے کے لیے ’’یتیم ہاشمی‘‘ صلعم کا واسطہ دیا۔ یہی نہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس نظریاتی حربے کو زیادہ موثر بنانے کے لیے نظم کے آخری دو بند میں خود سرکار رسالت مآب صلعم کا پیغام قوم کو سنایا گیا ہے۔ اس سلسلے کا آخری بند شاعر کے اعجاز بیان اور تاثیر کلام کا منتہیٰ ہے: تھی یتیمی کچھ ازل سے آشنا اسلام کی پہلے رکھی ہے یتیموں نے بنا اسلام کی کہہ رہی ہے اہلِ دل سے ابتدا اسلام کی ہے یتیموں پر عنایت انتہا اسلام کی تم اگر سمجھو تو یہ سو بات کی اک بات ہے آبرو میری یتیمی کی تمھارے ہات ہے۲۸۱؎ ۱۹۰۰ء کی تخلیقات میں ’’خدا حافظ‘‘ کے عنوان سے ایک الوداعی نظم باقیاتِ اقبال میں شامل ہے، جو منشی محبوب عالم (مالک پیسہ اخبار لاہور) کے سفرِ یورپ کے موقع پر ،ترکیب بند کی صورت میں کہی گئی تھی۔ ہلکے پھلکے مزاحیہ انداز کی اس نظم میں طنز کی شوخی اور صنعت گری کے سوا کوئی خاص بات قابل ذکر نہیں۔ ۱۹۰۱ء کے اوائل میں اقبال نے دو طویل نظمیں کہیں: انجمن کے سالانہ جلسے کے لیے ’’یتیم کا خطاب ہلالِ عید سے‘‘ اور ملکہ وکٹوریا کی وفات (۲۲؍جنوری ۱۹۰۱ئ) پر ’’اشکِ خون‘‘ کے عنوان سے ایک طویل مرثیہ۔یہ دونوں نظمیں ترکیب بند ہیئت میں ہیں۔ یوں تو ’’نالۂ یتیم‘‘ سے لے کر ’’طلوع اسلام‘‘ (۱۹۲۳ئ) تک اقبال نے جتنی نظمیں مختلف جلسوں میں سنائیں ، ایک آدھ کے سوا، سبھی طویل ہیں، لیکن اس دور کی نظمیں طوالت میں بڑھ چڑھ کر ہیں۔ مثلاً: ۱- نالۂ یتیم (۱۹۰۰ئ) مسدس ۳۴ بند ۱۰۲؍شعر ۲- یتیم کا خطاب ہلال عید سے (۱۹۰۱ئ) ترکیب بند ۱۵بند ۱۵۰؍شعر ۳- اشکِ خوں (۱۹۰۱ئ) ترکیب بند ۱۰ بند ۱۱۰ ؍شعر ۴- اسلامیہ کالج کا خطاب پنجاب کے مسلمانوں سے (۱۹۰۲ئ) ترکیب بند ۹ بند ۹۸؍شعر ۵- فریادِ امت (ابرِ گہربار) (۱۹۰۳ئ) ترکیب بند ۱۲ بند ۱۳۹ ؍شعر ۶- تصویرِ درد (۱۹۰۴ئ) ترکیب بند ۱۰ بند ۱۲۰؍شعر اس طوالت کا ایک سبب یہ ہو سکتا ہے کہ مولانا حالی کے زمانے ہی سے قومی جلسوں میں طویل نظمیں سنانے کی روایت چلی آ رہی تھی۔ حالی کی مسدس تو خیر چیز ہی اور ہے، اس کے علاوہ شکوئہ ہند، مدرسۃ العلوم، ننگ خدمت، قوم کا متوسط طبقہ، جشن قومی، گدایانِ قوم، فلسفۂ ترقی، انجمن حمایت اسلام، ترغیب امداد یتیماں، وغیرہ، ان میں سے بیشتر قومی نظموں کے اشعار کی تعداد سو سے اوپر ہی اوپر ہے۔ دیگر شعرا یعنی حالی اور اقبال کے معاصرین نے بھی اس روایت کی پیروی کی، اور اس طرح حاضرینِ جلسہ کے ذوقِ سماعت کی بھی تربیت ہوتی رہی۔ اقبال کے وجد آفریں ترنم نے سامعین کو اور زیادہ حریص بنا دیا، اور ان کے ذوق و شوق نے شاعر کو دل کھول کر کہنے کی ترغیب دی، چنانچہ ’’تصویرِ درد‘‘ کے تیسرے بند کی ٹیپ ملاحظہ ہو: برا ہوں یا بھلا ہوں میرا کہنا سب کو بھاتا ہے وہی کہتا ہوں جو کچھ سامنے آنکھوں کے آتا ہے۲۸۳؎ دوسرا سبب یہ تھا کہ شاعر کی جولانیِ طبع ایک سیلِ رواں کی طرح ’’قوت ممیزہ‘‘ کی روک تھام سے باہر تھی۔ بقولِ شیخ عبدالقادر ’’شعر کہنے کی طرف جس وقت مائل ہوتے تو غضب کی آمد ہوتی۔‘‘ ایک ایک نشست میں بے شمار شعر ہو جاتے تھے۔‘‘۲۸۳؎ اس دور میںاقبال کی برجستہ گوئی کے بعض واقعات کا ذکر پہلے آ چکا ہے۔ طویل نظموں کے بارے میں بھی مختلف شواہد سے شیخ صاحب کے اس قول کی تائید ہوتی ہے۔ ملکہ وکٹوریا کا طویل مرثیہ ’’اشکِ خوں‘‘ کے بارے میں مولانا غلام رسول مہر لکھتے ہیں: ’’ایک سو دس شعر کا یہ ترکیب بند مسلمانوں کے اس ماتمی جلسے میں پڑھا گیا جو ملکہ وکٹوریا کی وفات پر لاہور میں منعقد ہوا تھا۔ وکٹوریا ۲۲؍جنوری ۱۹۰۱ء کو فوت ہوئی تھی اور اس روز عید الفطر تھی۔ جلسہ غالباً ۲۳ یا ۲۴؍جنوری کو منعقد کیا گیا ہو گا۔ گویا اقبال نے یہ نظم بڑی حد تک ارتجالاً لکھی۔ ‘‘۲۸۴؎ فریاد امت، اس دور کی طویل ترین نظموں میں سے ہے۔ جن حالات میںیہ نظم کہی گئی، ان کی تفصیل خود شاعر کی زبان سے سنیے: اس سال مجھے امید نہ تھی کہ میںکوئی نظم پڑھ سکوں گا۔ مڈل کے پرچوں سے فراغت نہ ہوئی۔ طبیعت کو یکسوئی کس طرح نصیب ہوتی۔ یہ نظم جلسۂ سالانہ سے تین روز پہلے لکھی تھی اور ہفتے کی شام کو مطبع میں بھیجی گئی۔ رات کو کاتب نے لکھی اور جلدی میں بندوں کی ترتیب بھی غلط کر گیا۔ میں نے اس کا ایک مصرع بھی اپنے ہاتھوں سے نہیں لکھا بلکہ جلدی میں جو کچھ منہ میں آیا ڈکٹیٹ کراتا گیا۔ ان حالات کی وجہ سے بعض بعض اشعار میں کچھ نقص رہ گئے۔۲۸۵؎ طوالت کے سبب سے اس دور کی طویل نظموں میں بعض فنی خامیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ مثلاً جن نظموں کا موضوع محدود ہے (مثلاً ’’نالۂ یتیم‘‘ یا ’’یتیم کا خطاب ہلالِ عید سے‘‘) ان میں شاعر کا زور تخیل ایک ہی کیفیت یا خیال کے اظہار کے لیے نئے نئے پر تکلف پیرایہ ہائے بیان تراشنے میں صرف ہوا ہے۔ پھر چونکہ ’’نالۂ یتیم ‘‘ کے سوا تمام نظمیں ترکیب بند ہیئت میں ہیں اور ترکیب بند میں ٹیپ کے آخری شعر کے سوا تمام اشعار کی ترتیب بلحاظ ردیف و قافیہ، غزل نما ہوتی ہے، لہٰذا جا بجا ایسے شعر ملتے ہیں جن میں غزل کی سی بے ربطی پائی جاتی ہے، یعنی نظم کے موضوع یا مرکزی تاثر سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ اس بے ربطی سے نظم کی مجموعی ہیئت مجروح ہوئی ہے۔ ۱۹۰۱ء کی نظموں میں زمانی ترتیب کے لحاظ سے ’’اشکِ خوں‘‘ مقدم ہے اور ’’یتیم کا خطاب …‘‘ اس سے تقریباً ایک ماہ بعد انجمن کے جلسے میں سنائی گئی، لیکن باقیاتِ اقبال کی ترتیب میں اسے پہلے رکھا گیا ہے۔ فنی ارتقا کے اعتبار سے بھی پہلے اسی کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ’’نالۂ یتیم‘‘ کی طرح اس نظم کا مقصد بھی قوم کو یتیم خانۂ انجمن کی مالی امداد کی ترغیب دینا ہے۔ اس مقصد کے پیش نظر شاعر کے تخیل نے یہاں بھی نہایت مؤثر پیرایۂ بیان اختیار کیا ہے۔ ہلالِ عید کی نمود، مسلم عوام خصوصاً بچوں کے لیے ایک جشنِ مسرت کی نوید ہے لیکن یہی موقع ہے جب یتیم بچے کے دل میں اپنی حرماں نصیبی کا احساس بڑی شدت سے بیدار ہو جاتا ہے۔ یتیم کی زندگی کے المیے کو زیادہ المناک اور رقت خیز بنا کر پیش کرنے کے لیے اس سے بہتر پس منظر تصور میں نہیں آتا۔ پھر یہ کہ یتیم خود ہلالِ عید سے مخاطب ہو کر اپنے تاثرات بیان کرتا ہے۔ آپ بیتی کا یہ انداز اور زیادہ درد انگیز و رقت خیز ہو گیا ہے۔ شاعر نے موضوع کی مناسبت سے حالی کے ’’مرثیۂ غالب‘‘والی بحرِ خفیف (فاعلاتن مفاعلن فعلن)اختیار کی ہے جو فریاد کی سی لے رکھتی۔ نظم کے پندرہ بند میں ہر بند مردّف ہے اور تقریباً ہر بند میں قافیہ و ردیف کا انتخاب و ترتیب بھی ترنم آفریں ہے۔ یہ تمام باتیں شاعر کے غنائی رجحان اور فن کارانہ ہنر مندی کی دلیل ہیں۔ لیکن طوالت نگاری کے ہاتھوں نظم کا فنی حسن و اثر غارت ہو گیا ہے۔حالی نے مرثیۂ غالب میں دس دس شعر کے دس بند لکھے اور کہیں توازن نہ بگڑا۔ اقبال نے اس محدود موضوع پر دس دس شعر کے پندرہ بند ترتیب دیے لیکن بیشتر بند ایسے ہیں جن میں نصف سے زائد اشعار بھرتی کے ہیں۔ پر تکلف مضمون آفرینی اور بے محل و بے مصرف تراکیب لفظی کی مثالیں ہر جگہ ملتی ہیں۔ مثلاً یہ معمولی سی بات کہ شام کی آمد اہلِ دنیا کے لیے خواب کا پیغام ہے، یوں کہی گئی ہے: تو پیامِ وفاتِ بیداری محفلِ زندگی میں لاتی ہے۲۸۶؎ ’’وفاتِ بیداری‘‘ کی ترکیب پُر تکلف ہی نہیں، موقع و محل کے لحاظ سے نہایت بھونڈی ہے۔ اس قسم کی دیگر پر تکلف تراکیب کی چند مثالیں ملاحظہ ہیں: دیدئہ مہرِ عالم آرا میں سرمۂ عید کی کشید ہے کل کحلِ محرابِ بر جبینِ نیاز زینت افزائے عینِ عید ہے کل سوزش اشکِ غم ہے برقِ مژہ جل گیا سبزئہ لب جُو بھی نوکِ مژگاں ہے نشترِ رگِ اشک خوں فشاں ہو رہے ہیں آنسو بھی۲۸۷؎ فارسی و اردو کے قصیدہ گو شعراء نے ہلال کو ، بوجہِ خمیدگی و باریکی و روشنی، کبھی محبوب کے ناخن یا ابرو یا کان کی بالی سے،تو کبھی ممدوح کی کمان یا کمند یا اس کے گھوڑے کی نعل یا رکاب سے تشبیہ دی ہے۔ اقبال نے اس نظم کے بند اوّل و سوم میں ایسی نادر تشبیہیں ایجاد کی ہیں کہ قدما کے یہاں بھی نہیں ملتیں۔ مثلاًپہلے شعر میں ہلال کو مخاطب کرکے ’’حسن خورشید کا جواب ہے تو‘‘ کہا ہے، دوسرے میں ’’گریبانِ جامۂ شبِ عید‘‘ تیسرے میں ’’نشانِ رکوع سورئہ نور‘‘چوتھے میں ’’خوابِ خط جبین نیاز‘‘ پانچویں میں ’’حلقۂ پر طائوس‘‘ چھٹے میں ’’فوج اسلام کا نشان‘‘، آٹھویں شعر میں ’’طوف منزل گہِ زمین کے لیے، ہمہ تن پائے در رکاب‘‘ نویں میں ’’روشنی کا حباب‘‘ اور دسویں شعر میں ’’کمندِ غزالِ شاعری‘‘۔ پھر اسی طرح بند سوم میں ہلال کو ’’ساغر بادئہ ملال‘‘ ، ’’لب مقال‘‘ اور ’’کاسۂ سوال‘‘ قرار دیا ہے۔۲۸۸؎ ان تشبیہوں میں ندرت اور اچھوتا پن تو ہے لیکن یہ حسن و لطافت سے عاری، بے مصرف مضمون آفرینیاں، ذہنی کرتب کے سوا اور کچھ نہیں۔ بے لطف صنعت گری کی مثالیں بھی جابجا ملتی ہیں: تو کمندِ غزالِ شادی ہے لذت افزائے شورِ طفلی ہے اپنی بے مائگی پہ نازاں ہوں مفت جاتا ہوں کیا گراں ہوں میں۲۸۹؎ مجموعی طور پر ’’نالۂ یتیم‘‘ کے مقابلے میں اس نظم کی زبان زیادہ صاف ہے۔ اس لیے ہر بند میں دو ایک شعر ایسے ملتے ہیں جو نشتر کی طرح دل میں پیوست ہو جاتے ہیں۔ مثلاً بندِ ہشتم میں شاعر نے مضمون بندی کی کاوش چھوڑ کر سادہ زبان میں یتیم بچے کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ چند شعر ملاحظہ ہوں: سیر میں اب نہ دل لگائیں گے کس کی انگلی پکڑ کے جائیں گے کھیل میں آ گئی جو چوٹ کبھی کس کی آنکھوں سے اب چھپائیں گے سننے والے گزر گئے اے دل اپنے شکوے کسے سنائیں گے اٹھ گئے آہ قدر داں اپنے لکھ کے تختی کسے دکھائیں گے۲۹۰؎ اسی سال ملکۂ وکٹوریا کی وفات پر اقبال کا ترکیب بند مرثیہ ’’اشکِ خوں ‘‘ گیارہ گیارہ شعر کے دس بند پر مشتمل ہے۔ ملکہ کی شخصیت اپنے ذاتی اوصاف کی بنا پر اتنی مقبول تھی کہ وہ ’’مادرِ مہربان‘‘ کے لقب سے یاد کی جاتی تھیں۔ خصوصاً مسلمان قوم ملکہ کے اس احسان کو فراموش نہ کر سکی کہ انقلاب ۵۷ء کے بعد انھی کے فرمانِ عفوِ عام نے انگریز حکمرانوں کے جنونِ انتقام کی آگ بجھائی تھی۔ چنانچہ ملکہ کی وفات پر ملک بھر میں ماتمی جلسے منعقد ہوئے اور شعرا نے اپنے آنسوئوں کے نذرانے پُر درد مرثیوں کی صورت میں پیش کیے۔ لیکن فنی و رثائی اعتبار سے کوئی مرثیہ اقبال کے ’’اشکِ خوں ‘‘ کا ہم مرتبہ نہ ٹھہرا۔ مولانا حالی نے بھی گیارہ گیارہ شعر کے پانچ بند پر مشتمل ایک مرثیہ لکھا تھا۔ حالی نے ملکہ کی اقبال مندی، رعیت پروری اور ان کے عہد کی برکات و ترقیات کے بیان میں حسبِ معمول شاعرانہ نکتہ سنجی سے کام لیا ہے اور جابجا انجیل مقدس، خصوصاً پہاڑی کے وعظ(Sermon of the Mount) کی مختلف آیات کے حوالے دیے ہیں۲۹۱؎ لیکن اس مرثیے میں جذبے کی گرمی اور رثائی عنصر کا فقدان ہے۔ اس کے بر خلاف ’’اشکِ خوں‘‘ فی الحقیقت گلرنگ آنسوئوں کی ایک لڑی ہے۔ پُر خلوص جذبات ، زورِ تخیل سے شعر و نغمہ کے رنگین پیکر میںڈھل گئے ہیں، جیسا کہ بند ہفتم میں شاعر نے خود کہا ہے: لکھتا ہوں شعر دیدئہ خوں بار سے مگر کاغذ کو رشکِ صحنِ گلستاں کیے ہوئے۲۹۲؎ حالی کے مرثیے کی طرح، اقبال کے اس مرثیے کا محرک ملکہ وکٹوریا کی ذاتی نیکیاں اور خوبیاں تھیں۔ نظم میں جابجا شاعر نے ملکہ کی شخصی عظمت کے تاثر کو ابھارا ہے، مثلاً: اقلبمِ دل کی آہ! شہنشاہ چل بسی ماتم کدہ بنا ہے دلِ داغدار آج جس کا دلوں پہ راج ہو مرتا نہیں کبھی صدیاں ہزار گردشِ دوراں گزار دے وکٹوریا نہ مُرد کہ نامِ نکو گذاشت ہے زندگی یہی جسے پرورگار دے۲۹۳؎ نظم کے بند چہارم میں شاعر نے حکمرانی اور فرماں روائی کا ایک مثالی تصور پیش کیا ہے۔ یہ تصور اس کے جذبۂ انسان دوستی سے وابستہ ہے اور ملکہ آنجہانی کی ذات سے شاعر کی دلی عقیدت کا سبب بھی یہی ہے: شاہی یہ ہے کہ آنکھ میں آنسوں ہوں اور کے چلّائے کوئی، درد کسی کے جگر میں ہو فرمان ہو دلوں کی ولایت میں اس طرح جس طرح نور رشتۂ تارِ نظر میں ہو۲۹۴؎ گذشتہ نظموں کی طرح یہاں بھی شاعر کے بیانِ درد وغم میں مبالغہ آرائی کا زور ہے لیکن گوارا حد تک۔اس نظم میں تخیل کی بے اعتدالی اور زبان کی ناہمواری کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ فارسی تراکیب سلیقے سے استعمال کی گئی ہیں۔ غالب و بیدل کے کلام سے روز افزوں شغف کے اثرات جابجا نمایاں ہیں۔ توالیٔ اضافات اگر کہیں ہے تو بے مصرف نہیں۔ مثلاً بند ششم کی یہ ٹیپ ملاحظہ ہو: ہر آنکھ دل بہ ریزشِ طوفاں نہادہ ہے مژگانِ چشم کیا رگِ ابرِ کشادہ ہے۲۹۴؎ یہ ایک استثنائی صورت ہے ورنہ عموماً ٹیپ کے اشعار صاف، رواں اور پرزور ہیں۔ اس طویل نظم کا ہر بند مردّف ہے اور ہر جگہ شگفتہ زمینیں اختیار کی گئی ہیں۔ لفظوں کا موزوں انتخاب و ترتیب، بندش کی چستی، ایک ایک مصرعے کی روانی اور نغمگی، یہ تمام باتیں ابتدائی دور کی اس نظم میں، شاعر کی فطری صلاحیتِ نغمہ گری کی دلیل ہیں۔ زورِ تخیل نے شاعرانہ حسنِ بیان کے نئے نئے پیرائے اختیار کیے ہیں۔ نمونۃ ً دو بند کی دو دو شعر درج ذیل ہیں: ہاں اے ہلالِ عید، خدا کی قسم تجھے خواہانِ عیش کیا نظر آتے ہیں ہم تجھے ہاں اے شعاعِ ماہِ شبِ اوّل طرب دل جانتا ہے تیرِ کمانِ ستم تجھے خوںنابہ بار آج ہو اے تاج سلطنت واقف جو تیرے سارے قرینوں کی تھی، گئی اے سالِ قرنِ نو یہ ستم تو نے کیا کیا عزّت ذرا جو تیرے مہینوں کی تھی، گئی۲۹۶؎ اگرچہ مذکورہ بالا نظم میں نمایاں ترقی کے آثار نظر آتے ہیں لیکن انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسوں کی تیسری نظم جو بہ عنوان ’’اسلامیہ کالج کا خطاب پنجاب کے مسلمانوںسے‘‘ ۲۳؍فروری ۱۹۰۲ء کو سنائی گئی، نوجوان شاعر کی فنی پیش رفت کا بڑا واضح ثبوت ہے۔ انجمن کا قائم کیا ہوا اسلامیہ کالج، مالی مشکلات کی وجہ سے اب تک نہایت سقیم حالت میں تھا۔ مسلمانانِ پنجاب کو اپنے اس قومی ادارے کی ترقی و استحکام کے لیے معقول سرمایہ فراہم کرنے کی طرف متوجہ کرنا تھا۔ یہ موضوع کچھ مولوی نذیر احمد کی خطابت ہی کے لیے زیادہ موزوں تھا۔ مضمون شعر کی حیثیت سے اس میں جذبہ و تخیل کی رنگ آمیزی کی گنجائش کم تھی۔ اقبال نے خطابت اور وعظ گوئی کے غیر شاعرانہ اسلوب سے قطع نظر کرتے ہوئے ایک تخئیلی پیرایۂ بیان اختیار کیا ہے۔ چنانچہ نظم کاآغاز یوں ہوتا ہے: ہم سخن ہونے کو ہے معمار سے تعمیر آج آئنے کو ہے سکندر سے سرِ تقریر آج نقش نے نقّاش کو اپنے مخاطب کر لیا شوخیِ تحریر سے گویا ہوئی تصویر آج زینتِ محفل ہیں فرہادانِ شیرینِ عطا اس محل میں ہے رواں ہونے کو جوئے شیر آج۲۹۷؎ یوں تو ہر شعر میں معنی خیز لفظی مناسبتوں کے علاوہ تلمیحی اشارات موجود ہیں لیکن آخری شعر میں ’’فرہادانِ شیرینِ عطا‘‘کی صناعانہ ترکیب اور تلمیح کا فن کارانہ انداز قابلِ توجہ ہے۔ اس نظم میں مختلف لفظی و معنوی صنعتوں اور متعدد قرآنی، تاریخی اور روایتی تلمیحات کا بے تکلف و بر محل استعمال، حسنِ بیان کا زیور اور شاعر کی وسعتِ نظر کی دلیل ہے۔ یہاں صرف صنعتِ تلمیح کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ ترغیب و تشویق کے لیے یہ تلمیحات ایک مؤثر نفسیاتی حربے کی حیثیت رکھتی ہیں: میں نتیجہ اک حدیث امّی یثربؐ کا ہوں تم اسی امّیؐ کی امّت کے علم بردار ہو نام لیوا اک دیارِ علم و حکمت کا ہوں میں اور تم اگلے زمانے کے وہی انصار ہو آئیں اُڑ اُڑ کر پتنگے مصر و روم و شام سے شمع اک پنجاب میں ایسی جلا سکتا ہوںمیں ناز تھا جس پر کبھی غرناطہ و بغداد کو پھر وہی محفل زمانے کو دکھا سکتا ہوں میں۲۹۸؎ بند ششم میں بلند مقاصد کے حصول کے لیے عزم و ہمت اور سعی و عمل کا پیغام دیا گیا ہے لیکن شعریت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹا: باغباں کا ڈر کہیں، خطرہ کہیں صیاد کا مشکلیں ہوتی ہیں سو اک آشیاں کے واسطے زندگی وہ چاہیے دنیا کی زینت جس سے ہو شمعِ روشن بن کے رہ بزمِ جہاں کے واسطے۲۹۹؎ ہر بند کی ٹیپ فارسی میں ہے اور نظم کا آخری بند پورے کا پورا فارسی اشعار پر مشتمل ہے۔ ٹیپ کے اشعار بہت خوب ہیں لیکن اس لزوم کا کوئی جواز نہیں۔ البتہ آخری نعتیہ بند میں (جس کے چند اشعار گزشتہ فصل میں نقل کے جا چکے ہیں) معنوی حسن و بلاغت کے ساتھ جذباتِ عقیدت کا ایسا برجستہ اظہار ہوا ہے ، گویا یہ اشعار بے تکلف فارسی زبان میں وارد ہوئے ہیں۔ شیخ عبدالقادر نے بانگِ درا کے دیباچے میں قیامِ انگلستان کا ایک واقعہ بیان کیا ہے، جس سے متاثر ہو کر اقبال نے اسی رات فارسی میں دو غزلیں کہیں اور اس طرح ’’انھیں اپنی فارسی گوئی کی قوت کا حال معلوم ہوا۔‘‘۳۰۰؎ لیکن اس دور میں بھی اقبال کے یہ اشعار،نیز اور کئی نظموں کے متفرق اشعار، اور پھر ’’سپاس جناب امیر ‘‘ کے عنوان سے ایک مستقل نظم (باقیاتِ اقبال، ص ۱۹۲ تا ۱۹۵)اقبال کے فارسی کی طرف میلان اور فارسی گوئی کی قوت کا واضح ثبوت ہیں۔ بہرحال اس میلان کے باوجود اس نظم کے اشعار میں کہیں ثقالت محسوس نہیں ہوتی۔ فارسی تراکیب کے ساتھ اردو محاورہ و روزمرہ اور موزوں لب و لہجہ کا حسنِ امتزاج ہر جگہ نمایاں ہے: ہاں جسے چھونا ہو دامانِ ثریا کو کبھی ایک دو اینٹوں سے اٹھ سکتی ہے وہ دیوار کیا مجھ سے وابستہ نہیں کیا آبرو پنجاب کی تیر کی صورت نہیں ہیں طعنۂ اغیار کیا بزم میں شوقِ مئے حکمت ہوا پیدا مگر مے بھی بٹ جائے گی پہلے فکرِ پیمانہ تو ہو یہ نظامیۂ سلامت ہے تو پھر سعدی بہت پر ذرا ویسا منّور اپنا کاشانہ تو ہو۳۰۱؎ اس نظم کا بھی ہر بند مردّف ہے۔ روانی اور نغمگی تو گویا شاعر کے اسلوبِ فن کا ایک جزو لاینفک ہے، لیکن زبان و بیان میں اتنی پختگی اس سے پہلے اور کسی نظم میں نہیں ملتی۔ اس دور کی یہ غیر معروف سی نظم اقبال کے فنی ارتقا کے سفر میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ابتدائی دو تین برس میں نوجوان شاعر کے فن نے جس تیزی سے بلند تر مدارج طے کیے، اس کا ثبوت گزشتہ دو نظموں کے بعد ۱۹۰۳ء کی نظم ’’ابرِ گہربار‘‘ میںملتا ہے۔ ۱۲ بند اور ۱۳۹ شعر پر مشتمل یہ طویل نظم، اپنے موضوع کے لحاظ سے عاشقانہ فریاد ہے، جس کے ہر بند میں تغزل کا رنگ و آہنگ پوری طرح رچا بسا ہے۔ اس کے بیشتر اشعار، غزل کے اشعار کی طرح اپنی جگہ مکمل اور منفرد ہیں، بلکہ بعض شعر تو ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں: زاہدِ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہوں میں تو سمجھتا نہیں اے زاہدِ ناداں اس کو رشکِ صد سجدہ ہے اک لغزشِ مستانۂ دل یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا۳۰۲؎ نظم کے تین حصے ہیں۔ ابتدائی چار بند میں کچھ عارفانہ نکات اور بیشتر عاشقانہ سوز و مستی کی کیفیات، غزل و تغزل کے مخصوص انداز میں بیان ہوئی ہیں۔ قصیدے کی تشبیب کی طرح ، اس تمہیدی حصے کا بھی نظم کے موضوع سے بہ ظاہر کوئی تعلق نہیں۔ اگر اس تمہید کو ہم تشبیب کہیں تو یہ عرفی کے قصیدے کی سی تشبیب ہے، جس میں خود نگری کا پہلو بہت نمایاں ہے۔ دوسرے بند کی تو ردیف (’’ہوں میں‘‘) ہی انانیت کا دم بھر رہی ہے۔ اس بند کے آخری چھ شعروں میں مسلسل اپنی ذات کو موضوع سخن بنایا گیا ہے۔ اس سلسلے کا پہلا اور آخری شعر ملاحظہ ہو: ہوں وہ مضمون کہ مشکل ہے سمجھنا میرا کوئی مائل ہو سمجھنے پہ تو آساں ہوں میں دیکھ اے چشمِ عدو مجھ کو حقارت سے نہ دیکھ جس پہ خالق کو بھی ہے ناز وہ انساں ہوں میں۳۰۳؎ شاعر اگلے (تیسرے) بند میں اپنے حقیقت آشنا اور حق آگاہ دل کی شان بیان کرنا چاہتا ہے، جس کی بدولت اسے یہ مقام حاصل ہوا۔ چنانچہ دوسرے بند کی ٹیپ میں اس کے لیے یوں جواز پیدا کیا ہے: مزرعۂ سوختۂ عشق ہے حاصل میرا درد قربان ہو جس دل پہ وہ ہے دل میرا۳۰۳؎ یہ تیسرا بند وہی ہے جس کے ۹ منتخب اشعار ’’دل‘‘ کے عنوان سے بانگِ درا میں شامل ہیں۔ چوتھے بند کے آخری شعر سے گریز شروع ہوتا ہے: میٔ عرفاں سے مرا کاسۂ دل بھر جائے میں بھی نکلا ہوں تری راہ میں سائل ہو کر۳۰۳؎ حضرتِ قدسی کی مشہور نعت کے مطلعے نے (جو بہ ادنیٰ تصرف اس بند کی ٹیپ بنا ہے) شاعر کا رخ اصل موضوع کی طرف موڑ دیا: المدد سیّدِ مکّی مدنی العربیؐ دل و جاں باد فدایت چہ عجب خوش لقبی۳۰۳؎ اگلے چار بند (بند پنجم تا ہشتم) نعتیہ ہیں، لیکن یہاں اشعار میں معنوی ربط و تسلسل نہیں بلکہ غزل کا انداز ہے۔ نویں بند سے بارھویں بند تک، آخری چار بند میں اُمت کی طرف سے فریاد کی گئی ہے۔ تغزل کے رچائو، زبان کی صفائی و شستگی اور بیان کے زور و قوت کے لحاظ سے یہ نظم اس دور کی بہت سی نظموں سے بدرجہا بہتر ہے۔ البتہ نظم کی تعمیری وحدت و کلیّت، جذبات کی شدّت وحدّت سے تحلیل ہو کر مختلف غزلوں کی صورت میں ڈھل گئی ہے۔ غالباً اسی لیے یہ نظم ’’ابرِ گہر بار‘‘ کے مبہم عنوان سے پیش کی گئی۔ ترکیب بند ہیئت میں اگر شاعر ضبط و احتیاط سے کام نہ لے تو نظم کا تسلسل (یا کم از کم وحدتِ تاثر) قائم رکھنا دشوار ہو جاتا ہے۔ اور اگر ہر بند میں قوافی کے ساتھ ردیفوں کا بھی التزام رکھا جائے تو بہکنے کے امکانات اور بڑھ جاتے ہیں۔ مولانا حالی نے کئی طویل نظمیں ترکیب بند صورت میں لکھیں، لیکن انھوں نے غنائیت اور تغّزل سے زیادہ موضوعِ سخن کے تسلسل کی رعایت ملحوظ رکھی۔ اقبال اور ان کے بعض معاصرین (مثلاً نیرنگ و ناظر) نے ترکیب بند نظموں میں تغزل کی لے بڑھائی تو بسا اوقات سر رشتۂ موضوع ہاتھ سے جاتا رہا۔ انجمن کے جلسوں کی ترکیب بند قومی نظموں کا عموماً یہی رنگ ہے۔ اقبال اگرچہ اسی دور میں سنبھل گئے تھے، جیسا کہ ہم گزشتہ دور نظموں ’’اشکِ خوں‘‘ اور ’’اسلامیہ کالج کا خطاب …‘‘ میں دیکھ چکے ہیں، لیکن ’’فریاد امت‘‘ میں جذبات کا تلاطم انھیں بہا لے گیا۔ اس دور کی طویل نظموں میں، اقبال کے فنی ارتقا کا نقطۂ عروج ہمیں اگلے سال کے جلسۂ انجمن کی نظم ’’تصویر درد‘‘ (مطبوعہ مخزن، ماہ مارچ ۱۹۰۴ئ)میں ملتا ہے، جس میں وفورِ جذبات اور تلاطم خیالات کے باوجود ترکیب بند ہیئت پر شاعر کی گرفت زیادہ مضبوط ہو گئی ہے۔ حتیٰ کہ (ابتدائی متن کے لحاظ سے) دس بند اور ۱۲۸ شعر کی اس طویل نظم کے متروک حصے بھی کچھ ایسے خارج از آہنگ نہیں۔ اسلوب تغزل کے باوجود پوری نظم کے مختلف اجزا میں ایک داخلی ربط محسوس ہوتا ہے۔ ابتدائی متن کے تین بند (بانگِ درا کے ابتدائی دو بند)’’فریادِ امت ‘‘ کے ابتدائی بندوں کی طرح تشبیب نما ہوتے ہوئے بھی اصل موضوع سے ہم آہنگ ہیں۔ شاعر کو اس بات کا احساس ہے کہ وہ اپنی قوم کو ایک انقلابی نوعیت کا پیغام دے رہاہے، اور اس ضمن میں اسے عام ذہنی رجحانات اور روّیوں کے خلاف احتجاجاً تلخ نوائی سے کام لینا ہے۔ لیکن اسے اپنے پیغام کی صداقت پر اعتماد ہے اور جس حقیقت کو پوری شدت سے اپنے دل میں محسوس کر رہا ہے، اس کے اظہار پر وہ مجبور ہے۔ چونکہ وہ محض پیغام گو شاعر نہیں، بلکہ ایک ہنر مند فن کار بھی ہے، لہٰذا اپنی بات کہنے سے پہلے مناسب ذہنی فضا تیار کرتا ہے۔ پہلے بند میں وہ اپنے درد و غم کی داستان چھیڑ دیتا ہے ع: ’’سراپا درد ہوں، حسرت بھری ہے داستاں میری‘‘۳۰۴؎ لیکن یہ درد و غم محض انفرادی نہیں، اجتماعی بھی ہے: مرا رونا نہیں، رونا ہے یہ سارے گلستاں کا وہ گل ہوں میں خزاں ہر گل کی ہے گویا خزاں میری۳۰۴؎ یہ بند شاعر کے خلوص اور درد مندی کا آئینہ دار ہے۔ دوسرے بند میں جب وہ کہتا ہے: ’’میں حرفِ زیرِ لب شرمندئہ گوشِ سماعت ہوں‘‘۳۰۴؎ ، تو اہلِ محفل اس کی آواز پر سراپا گوش ہو جاتے ہیں۔ شاعر اس بند کے مسلسل تین اشعار میں انسانی عظمت کا تصور پیش کرتا ہے۔ زندگی کی صعوبتوں، محرومیوں اور ناکامیوں کی ظلمت میں گھرا ہوا انسان، اپنی حقیقت کے اعتبار سے سراپا نور ہے۔وہ اس کائنات میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ : ’’میں اس مے خانۂ ہستی میں ہر شے کی حقیقت ہوں۔‘‘۳۰۴؎ اس بند کے متروک اشعار میں اپنی گنہگاری کے اعتراف کے بعد خود شناسی کا یہ مقام آتا ہے۔ وضو کے واسطے کعبہ لیے آتا ہے زمزم کو الٰہی کون سی وادی میں مَیں محوِ عبادت ہوں۳۰۵؎ یہ مرتبہ اسے عشقِ رسولؐ کی بدولت حاصل ہوا ہے۔ یہی وہ مے ہے جس نے اس کی بستیوں کو بلندی میں تبدیل کر دیا ہے اور اسے محرمِ رازِ حیات بنایا ہے: یہی صہبا ہے جو رفعت بنا دیتی ہے پستی کو اسی صہبا سے آنکھیں دیکھتی ہیں رازِ ہستی کو۳۰۵؎ اب شاعر ایک دانائے راز کی حیثیت سے سامنے آتا ہے اور ابتدائی متن کے تیسرے بند میں (جو کلیۃً متروک ہے) سامعین کو یقین دلاتا ہے کہ اس کے کلام و پیغام کا محرک جذبۂ عشق رسولؐہے۔ وہ براہِ راست ’’مدینۃ العلم‘‘ سے درس اندوزِ معرفت ہوا ہے اور اسی سرچشمۂ ہدایت کا پیغام پیش کرتا ہے۔ اسی مے کی مستی نے اس کی آنکھ کو بینائی اور اس کی زبان کو گویائی عطا کی ہے: شرابِ عشق میں کیا جانے کیا تاثیر ہوتی ہے کہ مشتِ خاک جس سے روکشِ اکسیر ہوتی ہے زباں میری ہے لیکن کہنے والا اور ہے کوئی مری تقریر گویا اَور کی تقریر ہوتی ہے برا ہوں یا بھلا ہوں میرا کہنا سب کو بھاتا ہے وہی کہتا ہوں جو کچھ سامنے آنکھوں کے آتا ہے۳۰۶؎ لیکن بانگِ درا میں ، دوسرے بند کے دس شعر اور یہ پورا بند خارج کرکے تمہید کا حصہ مختصر کر دیا گیا ہے کیونکہ جو نازک صورتِ حال اس وقت درپیش تھی، وہ اب باقی نہیںرہی۔ تیسرے بند کی مندرجہ بالا ٹیپ، ترمیم کے بعد دوسرے بند سے پیوست ہو گئی۔ مصرعِ اوّل اب یوں ہے: ’’مجھے راز دو عالم دل کا آئینہ دکھاتا ہے۔‘‘ چوتھے بند (بانگِ درا کے تیسرے بند) سے موضوع سخن کا آغاز ہوتا ہے۔ شاعر کو بہت کچھ کہنا ہے لیکن وہ سب سے پہلے قوم کو اپنے پیغام کی طرف پوری طرح متوجہ کرنے کے لیے تمہید کے مضمون کو دو اشعار میں پھر دہراتا ہے: عطا ایسا بیاں مجھ کو ہوا رنگیں بیانوں میں کہ بامِ عرش کے طائر ہیں میرے ہم زبانوں میں اثر یہ بھی ہے اک میرے جنونِ فتنہ ساماں کا مرا آئینۂ دل ہے قضا کے راز دانوں میں۳۰۷؎ یہ شاعرانہ تعلّی نہیں بلکہ عشق و معرفت کے فیضان کا اعتراف و اظہار ہے۔ اس کے بعد وطن کی بدحالی و بربادی کا ذکر چھڑتا ہے۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کی اہمیت سے کوئی انکار نہیںکر سکتا۔ گلشنِ وطن، گل چینوں کی چیرہ دستی کا شکار ہے لیکن اس کے باغباں باہمی آویزشوں میں اس طرح الجھے ہوئے ہیں کہ انھیں اپنے گلشن کے لٹنے اور اجڑنے کی کوئی فکر نہیں۔ اس پورے بند میں (جس کے آٹھ شعر خارج ہوئے) شاعر نے وطن کی بربادی اور اہل وطن کی غفلت و بے نیازی پر خون کے آنسو بہائے ہیں۔ متروک اشعار میں سے صرف دو یہاں درج کیے جاتے ہیں: جہاں خوں ہو رہا ہے کارزارِ زندگانی سے مئے غفلت کے ساغر چل رہے ہیں نوجوانوں میں تغیّر اس طرح کا محفلِ ہستی میں آیا ہے کہ ہے چپ بیٹھ رہنا بھی تباہی کے نشانوں میں۳۰۷؎ یہ صورتِ حال بڑی مایوس کن ہے، لیکن شاعر کے دل میں ایک انقلابی جذبہ بیدار ہو چکا ہے۔ اگلے بند میں اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ وہ اہلِ وطن کے دلوں کو محبت کے رشتے میں منسلک کرکے رہے گا: پرونا ایک ہی تسبیح میں ان بکھرے دانوں کو جو مشکل ہے تو اس مشکل کو آساں کرکے چھوڑوں گا۳۰۹؎ متروک اشعار میں سے ایک شعر میں وطن کے اس زندانِ غلامی میں، خوابِ آزادی کی تعبیر کا مژدہ سنایا گیا ہے: شریکِ محنتِ زنداں ہوں گر یوسف صفت خود بھی مگر تعبیرِ خوابِ اہلِ زنداں کر کے چھوڑوں گا۳۱۰؎ انھی متروک شعروں میں واضح طور پر مذہبی تعصبات کے خلاف اعلانِ جہاد بھی کیا گیا ہے: تعصّب نے مری خاکِ وطن میں گھر بنایا ہے وہ طوفاں ہوں کہ میں اس گھر کو ویراں کرکے چھوڑوں گا اگر آپس میں لڑنا آج کل کی ہے مسلمانی مسلمانوں کو آخر نا مسلماں کرکے چھوڑوں گا۳۱۱؎ ابتدائی متن کے چھٹے (اور بانگِ درا کے پانچویں) بند میں اہل وطن کو ’’رمز وحدت‘‘ سے آشنا کیا گیا ہے۔ شاعر نے اپنے پیغامِ اتحاد کی بنیاد انسانی وحدت کے تصور پر رکھی ہے، لیکن دوئی کے فرق کو مٹانے کے لیے وحدت الوجود کے نظریے پر خاص زور دیا گیا ہے۔ شاعر کے نزدیک اصل توحید یہ ہے کہ ہر شے میں اسی نور کا جلوہ نظر آئے: تعصّب چھوڑ ناداں دہر کے آئینہ خانے میں یہ تصویریں ہیں تیری جن کو سمجھا ہے برا تو نے زباں سے گر کیا توحید کا دعویٰ تو کیا حاصل بنایا ہے بتِ پندار کو اپنا خدا تو نے۳۱۱؎ ساتواں بند کلیۃً متروک ہے۔ آخر کے تین بند (بانگِ درا کے چھٹے، ساتویں اور آٹھویں بند) میں مسلسل محبت کا پیغام جاری و ساری ہے۔ درمیان میں قوافی کی رعایت سے دیگر موضوعات پر شاعرانہ نکتہ سنجی کے مواقع آئے ہیں لیکن بیشتر اشعار میں یہی مضمون نت نئے انداز سے دہرایا گیا ہے۔ اس دور میں شاعر کے نزدیک محبت ہی حیات و کائنات کا مرکزِ ثقل اور خود شاعر کے تفکّر و تاثر کی شعاعوں کا ’’نقطۂ جاذب‘‘ ہے۔ چنانچہ ’’فریاد امت‘‘ کی طرح یہاں بھی ’’شہادت گہِ الفت‘‘ میںقدم رکھنے کو مسلمان ہونے کی شرطِ اوّل قرار دیا ہے۔ تمام مذہبی تعلیمات کا اصل مقصد صفائے قلب ہے، یعنی انسان کا دل نفرت اور تعصب کی کدورتوں سے پاک اور محبت کے نور سے روشن ہو جائے۔ درد محبت ہی زندگی کے ہر درد کا درمان اور تمام انفرادی و اجتماعی بیماریوں کا مداوا ہے۔ ان خیالات کو شاعر نے نہایت والہانہ جذبہ و جوش سے بیان کیا ہے۔ تینوں بند کے چند شعر درج کیے جاتے ہیں: محبت کے شرر سے دل سے سراپا نور ہوتا ہے ذرا سے بیج سے پیدا ریاضِ طور ہوتا ہے جو تو سمجھے تو آزادی ہے پوشیدہ محبت میں غلامی ہے اسیرِ امتیازِ ما و تُو رہنا محبت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے کیا ہے اپنے بخت خفتہ کو بیدار قوموں نے۳۱۱؎ محبت ہی وہ منزل ہے کہ منزل بھی ہے صحرا بھی جرس بھی کارواں بھی راہرو بھی راہزن بھی ہے جلانا دل کا ہے گویا سراپا نور ہو جانا یہ پروانہ جو سوزاں ہو تو شمع انجمن بھی ہے۳۱۲؎ شاعر پہلے ہی ایک بند میں کہہ چکا ہے: مگر غنچوں کی صورت ہوں دلِ درد آشنا پیدا چمن میں مشتِ خاک اپنی پریشاں کرکے چھوڑوں گا۳۱۳؎ اور فی الواقع نظم کے اس آخری حصے میں شاعر نے دردِ دل کے خزانے لٹائے ہیں اور خصوصاً ان اشعار میں جہاں اس نے ذاتی کیفیات بیان کی ہیں، گویا اپنا دل چیر کر رکھ دیا ہے: شرابِ بے خودی سے تا فلک پرواز ہے میری شکستِ رنگ سے سیکھا ہے میں نے بن کے بُو رہنا تھمے کیا دیدئہ گریاں وطن کی نوحہ خوانی میں عبادت چشمِ شاعر کی ہے ہر دم با وضو رہنا شرابِ روح پرور ہے محبت نوعِ انساں کی سکھایا اس نے مجھ کو مستِ بے جام و سبو رہنا۳۱۴؎ رومانی داخلیت اقبال کے اسلوبِ تغزل کی ایک خصوصیت ہے جو ان کی بیشتر تراکیب بند نظموں میں نمایاں طور پر ملتی ہے۔ اس دور کی طویل نظموں میں شاعر کی انا ، سب سے پہلے اور سب سے زیادہ ’’فریادِ امت‘‘ میں نمودار ہوئی اور اصل موضوع پر چھا گئی۔ حتیٰ کہ ان کے خالص نعتیہ پاروں میں بھی اس قسم کے اشعار جابجا ملتے ہیں: میں گیا حشر میں جس دم تو صدا یوں آئی دیکھنا دیکھنا! وہ کافرِ دیںدار آیا کوئی دیکھے تو ترے عاشق شیدا کا مزاج حور سے کہتا ہے چھیڑا نہ کرو تم مجھ کو۳۱۵؎ ’’تصویر درد‘‘ کے ابتدائی حصے میں بھی ہم ’’انا‘‘ کی جلوہ گری دیکھ چکے ہیں۔ نظم کے ان تمام ٹکڑوں میں جذبے کا خلوص اور زورِ بیان نمایاں ہے۔ فنی محاسن کے اعتبار سے یہ نظم اس دور کا بہترین شاہکار ہے۔ غزل کی فرسودہ علامتوں کے تخلیقی استعمال کی مثالیں اس سے پہلے کی طویل نظموں میں نہیں ملتیں۔ مثلاًپہلے بند کا تیسرا شعر ملاحظہ ہو: اٹھائے کچھ ورق لالے نے، کچھ نرگس نے، کچھ گل نے چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری۳۱۶؎ یہاں شاعر نے لالہ، نرگس اور گل کو اپنے جگرِ خوں گشتہ، چشمِ حیران ونگراں اور دلِ صد چاک کی علامت قرار دے کر اپنی داستانِ غم کے اوراق سارے چمن میں بکھیر دیے ہیں۔ اس سے اگلے شعر کا مضمون وہی ہے جو غالب کے اس شعر میں ادا ہوا ہے: میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں غالب کے شعر میں تعلّی و تمکنت کا پہلو ہے، لیکن اقبال نے اس خیالی مضمون کو ایسے برجستہ الفاظ و محاکاتی انداز میں ادا کیا ہے گویا شاعر خوش نوایانِ چمن کے ہاتھوں لٹ جانے پر بے ساختہ فریاد کر رہا ہے: اُڑا لی قمریوں نے، طوطیوں نے، عندلیبوں نے چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرزِ فغاں میری حالی نے غزل کی علامتوں کو عصری حالات اور نئے خیالات کی ترجمانی کے لیے استعمال کیا تھا۔ اگرچہ حالی کے دور میں سیاست ’’شجرِ ممنوعہ ‘‘ کی حیثیت رکھتی تھی اس کے باوجود کہیں کہیں بہار و خزاں کی علامتوں میں سیاسی اشارات ملتے ہیں۔ اقبال نے اس نظم میں علامتوں کے دائرے کو مزید وسعت دی ہے اور گل و گلشن کے علاوہ گلچین و باغباں، برق و آشیاں اور یوسف و زنداں کی علامتوں کو سیاسی رنگ میں استعمال کیا ہے۔ (آخری شعر متروکات میں سے ہے): نشانِ برگِ گل تک بھی نہ چھوڑ اس باغ میںگلچیں تری قسمت سے رزم آرائیاں ہیں باغبانوں میں چھپا کر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں۳۱۷؎ شریکِ محنتِ زنداں ہوں گو یوسف صفت خود بھی مگر تعبیرِ خوابِ اہلِ زنداں کرکے چھوڑوں گا۳۱۸؎ تشبیہات کی اتنی فراوانی اس سے پہلے کسی نظم میں نہیں ملتی۔ اضافتِ تشبیہی کی مختصر صورت میں جو تشبیہات جابجا بکھری ہوئی ہیں، وہ تو گویا ہماری شاعری میں روز مرہ و محاورہ کی حیثیت رکھتی ہیں، مثلاً شمع دل، آئینۂ دل، میخانۂ ہستی، کلکِ ازل، بتِ پندار، دہر کا آئینہ خانہ، محبت کا شرر، تیغِ آرزو، ریاضِ طور، بیابانِ محبت وغیرہ۔ مگر یہ عام ترکیبیں بھی اس شان سے آئی ہیں کہ کہیں فرسودگی کا احساس نہیں ہوتا۔ مثلاً ’’شمعِ دل‘‘ اس شعر میں کس حسن سے جگمگا رہی ہے: جلانا ہے مجھے ہر شمعِ دل کو سوزِ پنہاں سے تری تاریک راتوں میں چراغاں کرکے چھوڑوں گا۳۱۹؎ اسی طرح کلاسیکی ٹھپے کی بہت سی تشبیہات ، اقبال نے ایسے معنی خیز پیرائے سے استعمال کی ہیں کہ ان میں تازگی پیدا ہو گئی ہے۔ مثلاً قدما کے کلام میں ’’دانۂ اسپند‘‘ کی صدا بارہا سنی گئی ہے، پھر بھی اس شعر میں کتنی برجستہ و برمحل معلوم ہوتی ہے: سراپا نالۂ بیدادِ سوزِ زندگی ہو جا سپند آسا گرہ میں باندھ رکھّی ہے صدا تو نے۳۱۱؎ غالب نے اہلِ تدبیر کی واماندگیوں کے لیے بہت اچھی مثال دی: ع ’’آبلوں پر بھی حنا باندھتے ہیں‘‘ لیکن اس شعر میں لف و نشر کی صنعت کے ساتھ تشبیہِ تام کی کیفیت ملاحظہ ہو: صفائے دل کو کیا آرائشِ رنگِ تعلق سے کفِ آئینہ پر باندھی ہے او ناداں حنا تو نے۳۱۹؎ ’’پروازِ رنگ‘‘ اور شکستِ رنگ‘‘ کی ترکیب غالب اور بیدل کے یہاں بہت عام ہے۔ اس شعر میں رعایتِ لفظی کی صنعت کے ساتھ معنوی لطافت ملاحظہ ہو: شرابِ بے خودی سے تا فلک پرواز ہے میری شکستِ رنگ سے سیکھا ہے میں نے بن کے بُو رہنا۳۲۰؎ صنائع لفظی و معنوی کی مثالیںعلیحدہ پیش نہیں کی گئیں، کیونکہ اقبال کا فنی مرتبہ صنعت گری سے بالاتر ہے۔ اگرچہ مشقِ سخن کے ابتدائی دور میں اقبال کی غزلوں اور اس دور کی اولین نظموں میں صنائع و بدائع کے استعمال کی شعوری کوشش نمایاں ہے، لیکن ۱۹۰۳ء سے ان کے کلام میں صنعتیں اس بے تکلفی سے آنے لگیں کہ ان سے کلام کے حسن و تاثیر میں یقینا اضافہ ہوتا ہے، تاہم جب تک قارئین خاص توجہ نہ کریں، ان کے وجود کا احساس تک نہیں ہوتا۔ اس نظم میں جابجا ایسے اشعار ملتے ہیں جن میں اگرچہ تشبیہ، تمثیل یا تلمیح کی صورت نمایاں ہے، لیکن غور کیجیے تو دیگر محسناتِ شعر بھی پوشیدہ ہوں گے۔ مثلاً مندرجہ ذیل شعر میں ایک تمثیل پیش کی گئی ہے جو صنعتِ حسنِ تعلیل پر مبنی ہے: یہ استغنا ہے پی میں، نگوں رکھتا ہے ساغر کو بشر کو چاہیے مثلِ حبابِ آبجو رہنا۳۲۰؎ اس شعر میں تشبیہ کے علاوہ صنعتِ تلمیح نمایاں ہے: شجر ہے فرقہ آرائی، تعصب ہے ثمر اس کا یہ وہ پھل ہے کہ جنت سے نکلواتا ہے آدم کو۳۲۱؎ لیکن شجر اور ثمر میں رعایت لفظی، اور ثمر اور پھل میں صنعت ترجمۃ اللفظ بھی موجود ہے۔ اسی طرح مندرجہ ذیل شعر میں، صنعتِ تلمیح کے علاوہ جام اور جم کے الفاظ میں صنعتِ تجنیسِ ناقص و زائد ہے: اگر دیکھا بھی اس نے سارے عالم کو تو کیا دیکھا نظر آئی نہ کچھ اپنی حقیقت جام سے جم کو۳۲۱؎ مندرجہ ذیل اشعار میں تشبیہ در تشبیہ کی صورت بہت نمایاں ہے: بیابانِ محبت، دشتِ غربت بھی وطن بھی ہے یہ ویرانہ قفس بھی، آشیانہ بھی، چمن بھی ہے محبت ہی وہ منزل ہے کہ منزل بھی ہے صحرا بھی جرس بھی، کارواں بھی، راہبر بھی، راہزن بھی ہے۳۲۲؎ لیکن پہلے شعر میں مراعات النظیر (قفس، آشیانہ، چمن) کے علاوہ دونوں مصرعوں میں صنعت تضاد (غربت اور وطن، قفس اور آشیانہ) اور اسی طرح دوسرے شعر میں بھی مراعات النظیر(منزل، جرس، کارواں، راہبر اور رہزن) کے علاوہ راہبر اور رہزن میں تضاد کی صنعت موجود ہے۔ مراعات النظیر، رعایتِ لفظی اور تضاد کی متعدد مثالیں ہر بند میں مل جاتی ہیں۔ آخری دو شعروں میں مختلف اصوات و الفاظ کی تکرار، ہمیں اس نظم کے غنائی حسن کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ دیگر نظموں میں بھی روانی اور نغمگی کے اوصاف کم و بیش موجود ہیں لیکن ’’تصویر درد‘‘ اس اعتبار سے بھی اس دور کی نظموں میں ایک امتیازی شان کی حامل ہے۔ سب سے پہلے تو اس کی بحر (: مفاعیان، مفاعیلن، مفاعیلن، مفاعیلن)کو لیجیے جو عروض کی اصطلاح میں ’’بحرِ ہزج مثمن سالم‘‘ کہلاتی ہے۔ اس بحر کے سالم ارکان کی دھن اور ان ارکان کی متوازن تکرار، بے حد ترنم آفریں ہے۔ جس زمانے میں یہ نظم کہی گئی، انھی دنوں (۱۹۰۳ء اور ۱۹۰۴ء کے دوران میں) اقبال نے چھ سات غزلیں اسی بحر میں لکھی تھیں، جن میں سے صرف تین بانگِ درا میں شامل ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاعر کی رومانی کیفیات، اس بحر کے سُروں سے پوری طرح ہم آہنگ تھیں۔ اس بحر میں اتنی گنجائش ہے کہ شاعر متوازن الفاظ و تراکیب کی بندشیں اور ان کی نشست و ترتیب بدل بدل کر مختلف غنائی تاثرات پیدا کر سکے۔ اگر کسی جگہ ترتیبِ الفاظ ایسی ہے کہ پورا مصرع، ارکانِ بحر کے عین مطابق چار متوازن ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا ہے، مثلاً: ع: نہ صہبا ہوں، نہ ساقی ہوں، نہ مستی ہوں، نہ پیمانہ۳۲۳؎ تو دوسری جگہ بندشِ الفاظ کی یہ صورت ہے کہ مصرع دو لخت ہو گیا ہے: ع: حیاتِ جاوداں میری، نہ مرگِ ناگہاں میری۳۲۴؎ بعض مصرعوں میں دو سے زائد ہم آہنگ ٹکڑے ہیں لیکن ان میں سے کوئی ٹکڑا، علیحدہ علیحدہ ارکانِ بحر کا ہم وزن نہیں؛ مثلاً: ع: اٹھائے کچھ ورق لالے نے، کچھ نرگس نے، کچھ گل نے (یا) ع: اڑا لی قمریوں نے، طوطیوں نے، عندلیبوں نے۳۲۵؎ یہاں اشعار فارسی تراکیب سے گراں بار ضرور ہیں لیکن توالیِ اضافات کے باوجود روانی یا غنائیت کی کوئی کمی محسوس نہیں ہوتی ، مثلاً یہ مصرعے ملاحظہ ہوں: ع: نہیں منّت کشِ تابِ شنیدن داستاں میری۳۲۵؎ ع: ریاضِ دہر میں نا آشنائے بزمِ عشرت ہوں۳۲۶؎ ع : میں حرفِ زیرِ لب شرمندئہ گوشِ سماعت ہوں۳۲۶؎ اس کا سبب یہ ہے کہ اقبال ہمیشہ لفظوں کے انتخاب و ترتیب میں ان کے صوتی اثرات مدنظر رکھتے ہیں۔ اس نظم میں پہلی مرتبہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انھوں نے ش، س کی نرم و شیریں لفظیات اور نون منقوطہ و نون غنہ کے غنائی آہنگ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ اس نظم کا ہر بند مردف ہے۔ ردیف اور قوافی بھی عموماً نہایت خوش آہنگ ہیں۔ ان شگفتہ زمینوں میں اقبال کا اسلوبِ تغزل اور زیادہ نکھر گیا ہے اور نظم کی غنائی قدر و قیمت بڑھ گئی ہے۔ یہ بات بڑی معنی خیز ہے کہ تنگنانے غزل سے نکل کر اقبال نے اپنی نظموں میں، دیگر معاصر شعرا کی طرح ، ہیئت کی سہولتوں سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھایا۔ بلکہ عموماً قطعہ یا ترکیب بند کی پابند ہیئتوں کو ترجیح دی۔ مزید برآں قافیہ کے ساتھ ردیف کا التزام بھی گوارا کیا۔ غالباًیہ ان کے فطری ذوقِ موسیقی کا تقاضا تھا یا شاید ان کے جذبہ آمیز افکاراور والہانہ جذبات کے اظہار کے لیے ترنم آفریں، غزل نما سانچے ہی زیادہ موزوں تھے۔ بہرحال یہ حقیقت ہے کہ اقبال کے اسلوبِ تغزل کی بدولت اسی دور میں اردو نظم، غزل کی غنائیت اور شعری لطافت و نزاکت سے ہم کنار ہو گئی، اور نظم و غزل کے فاصلے بڑی حد تک کم ہو گئے۔ (۲) مختصر متروک نظموں کا فنی جائزہ (الف) متروک نظمیں: اس فصل کے جزو اوّل میں ان طویل (متروک) نظموں کا ذکر آچکا ہے جو انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس اور دیگر جلسوں میں سنائی گئی تھیں۔ ان کے علاوہ باقیاتِ اقبال (اضافہ شدہ ایڈیشن) میںاس دور کی ۱۴ مختصر نظمیں حسبِ تفصیلِ ذیل شامل ہیں: (۱) خدا حافظ (الوداعی نظم۔ مئی ۱۹۰۰ئ۔ باقیات، ص ۵۲ تا ۵۵)۔ (۲) ہم نچوڑیں گے دامن (فی البدیہہ فرمائشی تضمین۔ مطبوعہ کشمیری گزٹ۔ ستمبر ۱۹۰۱ئ۔ باقیات، ص ۹۳)۔ (۳)پنجۂ فولاد (فوق کے ہفتہ وار اخبار پنجۂ اولاد کے اجرا پر تعارفی نظم۔ ۱۹۰۱ئ۔ باقیات، ص ۶۴ تا ۶۶)۔ (۴) شکریۂ انگشتری (۱۹۰۲ء میں ایک دوست کے تحفے کا شکریہ۔ باقیات، ص ۱۳۱ تا ۱۳۳)۔ (۵) ماتمِ پسر (رثائی نظم، مخزن، جولائی ۱۹۰۲ئ۔ باقیات، ص ۱۶۷ تا ۱۶۸)۔(۶)برگِ گل (بر مزارِ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء دہلوی۔ مخزن، ستمبر ۱۹۰۳ئ۔ باقیات،ص ۱۶۹ تا ۱۷۷)۔ (۷) شیشۂ ساعت کی ریگ (ریگ صحرائے عرب پر تخئیلی نظم، خدنگ نظر، لکھنؤ، ستمبر ۱۹۰۳ئ۔ باقیات، ص ۱۷۸ تا ۱۸۰)۔ (۸) دربار بہاول پور۔ قصیدہ۔ مخزن، نومبر ۱۹۰۳ئ۔ باقیات، ص ۱۸۱ تا ۱۹۱)۔ (۹) سپاس جناب امیر رضی اللہ عنہ(مناجات بزبان فارسی۔ مخزن، جنوری ۱۹۰۵ئ۔ باقیات، ص ۱۹۲ تا ۱۹۵)۔ (۱۰) ترجمہ از ڈائک (۳، اشعار۔ مخزن، ۱۹۰۴ئ۔ باقیات، ص ۱۹۶)۔ (۱۱) ابر (بانگِ درا کی نظم ’’ابر‘‘ کا ایک حصہ۔ زمانہ، جون ۱۹۰۵ئ۔ باقیات، ص ۱۹۷)۔ باقیات میں ص ۱۹۸ سے ۲۷۲ تک جتنی نظمیں درج ہیں، ان میں سے مندرجہ ذیل تین نظموں کے سوا، بقیہ سب بعد کے ادوار سے متعلق ہیں: (۱) مزدور کا خواب (لانگ فیلو کی نظم Slave's Dream کا نامکمل ترجمہ، ص ۲۶۲-۲۶۳)۔ (۲) محنت (بچوں کے لیے۔ باقیات، ص ۲۶۰- ۲۶۱)۔ (۳) چاند اور شاعر (بچوں کے لیے۔ باقیات، ص ۲۶۴ ۲۶۸)۔ روزگارِ فقیر(جلد دوم) میں مندرجہ بالا تین نظموں کے علاوہ، بچوں کی چار غیر مدوّن و مکمل نظمیں اور بھی شامل ہیں جن کا ذکر تراجم کے سلسلے میں آئے گا۔ متروک نظموں میں ، بچوں کی نظموں اور بعض دیگر مسنثنیات کے سواء بیشتر ذاتی اور ہنگامی نوعیت کی ہیں۔ ان میں سے دو نظمیں کئی لحاظ سے قابلِ ذکر ہیں: (۱) برگِ گل اور (۲) دربارِ بہاول پور۔ (۱) ’برگِ گل‘ ۱۹۰۳ء کے ایک ایسے واقعے سے متعلق ہے جو اقبال اور ان کے اہلِ خاندان کے لیے شدید تشویش و اضطراب کا باعث ہوا۔ اس زمانے میں ان کے بڑے بھائی، شیخ عطا محمد صاحب بلوچستان ایجنسی میں سب ڈویژنل آفیسر ملٹری ورکس تھے۔ بقولِ اقبال، بعض مخالفین کی سازش سے ان کے خلاف ایک’’خوفناک فوجداری مقدمہ‘‘ قائم ہوا،۳۲۷؎ جس سے ان کی ملازمت اور خاندان بھر کی عزت و ناموس خطرے میں پڑ گئی۔ بلوچستان ایجنسی کے حکام بھی شیخ صاحب کے ساتھ نا انصافی پر آمادہ تھے۔ اقبال نہایت اضطراب و پریشانی کے عالم میں بلوچستان گئے۔ بالآخر انھوں نے ذاتی طور پر وائسراے ہند، لارڈ کرزن سے داد رسی کی اپیل کی۔ اس طرح یہ قضیہ ختم ہوا اور شیخ صاحب باعزت طور پر بری ہو گئے۔ ’’ابتلا کے اسی دور میں اقبال نے یہ نظم لکھ کر خواجہ حسن نظامی کے پاس بھیجی کہ حضرت محبوب الٰہی قدس سرہ کے مزار پر پڑھی جائے۔ اس کا ایک شعر: ہند کا داتا ہے تُو، تیرا بڑا دربار ہے کچھ ملے مجھ کو بھی اس دربار گوہربار سے علیحدہ لکھ کر مزار شریف کے دروازے پر لٹکایا گیا۔۳۲۸؎ اقبال کی ان نظموں کی طرح جن میں جذبے کا خلوص و شدت نمایاں ہے، یہ نظم بھی ترکیب بند ہیئت میں ہے۔ اس کا پہلا، دوسرا اور تیسرا (آخری) بند بالترتیب ۱۳، ۱۴ اور ۱۵ اشعار پر مشتمل ہے۔ اس دور میں اقبال کو حضرت محبوب الٰہی قدس سرہ سے جو دلی عقیدت تھی، اس کا پرخلوص اظہار یوں تو ’’التجائے مسافر‘‘(۱۹۰۵ئ) میں بھی ہوا لیکن اس نظم میں جوشِ عقیدت کے علاوہ شاعر کے تخیل نے متصّوفانہ نظریات کی زمین پر مبالغہ آرائی اور نکتہ آفرینی کی گل کاریاں بھی خوب کی ہیں۔ پہلے بند کے ابتدائی تین اشعار نمونۃً درج ذیل ہیں: کیوں نہ ہوں ارماں مرے دل میں کلیم اللہ کے طُور در آغوش ہیں ذرّے تری درگاہ کے میں تری درگاہ کی جانب جو نکلا، لے اڑا آسماں تارے بنا کر میری گردِ راہ کے ہے زیات کی تمنّا، المدد اے سوزِ عشق پھول لا دے مجھ کو گلزارِ خلیل اللہ کے۳۲۸؎ اسی بند کے ایک شعر میں متصوفانہ نکتہ سنجی کا یہ حسین انداز ملاحظہ ہو: چھپ کے ہے بیٹھا ہوا اثبات نفیٔ غیر میں ’لا‘ کے دریا میں نہاں موتی ہیں ’الّا اللہ‘ کے۳۲۸؎ ۱۹۰۶ء کی ایک نظم ’’سوامی رام تیرتھ‘‘ کے مندرجہ ذیل شعر میں یہی نکتہ دہرایا گیا ہے: نفیٔ ہستی اک کرشمہ ہے دلِ آگاہ کا ’لا‘ کے دریا میں نہاں موتی ہے ’الّا اللہ‘ کا دوسرے اور تیسرے بند کے متعدد اشعار میں اپنے ذاتی کرب و اضطراب کا اظہار کیا ہے۔ ان اشعار سے پتا چلتا ہے کہ انھیں اپنے محبوب بھائی کے مصائب و آلام کا شدید احساس تو تھا ہی، لیکن ان کی غیور طبیعت کو خاندان کی رسوائی اور دشمنوں کی طعنہ زنی کا خدشہ اس سے کہیں زیادہ تھا: کیا کروں اَوروں کا شکوہ اے امیرِ ملکِ فقر دشمنی میں بڑھ گئے اہلِ وطن، اغیار سے گھات میں صیّاد، مائل آشیاں سوزی پہ برق باغ بھی بگڑا ہوا ہے عندلیبِ زار سے سخت ہے میری مصیبت، سخت گھبرایا ہوں میں بن کے فریادی تری سرکار میں آیا ہوں میں۳۲۹؎ اقبال کو اولیائے کرام سے ہمیشہ عقیدت رہی۔ وہ بعد کے ادوار میں بھی بزرگوں کے مزار پر فاتحہ خوانی اور حصولِ فیوضِ روحانی کے لیے جایا کرتے تھے۔ لیکن اس دور میں عجمی تصوف سے ان کے دینی عقائد بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہے۔ اس نظم میں انھوں نے استمداد و استعانت بغیراللہ کے تمام مروجہ پیرایے اور وسیلے اختیار کیے ہیں: اس بڑی سرکار کے قابل مری فریاد ہے چل حضوری میں شہِ یثربؐ کی تو لے کر مجھے رونے والا ہوں شہیدِ کربلاؓ کے غم میں، میں کیا درِ مقصد نہ دیں گے ساقیٔ کوثر ؓ مجھے۳۲۹؎ ترکیب بند نظموں میں، جہاں فکر کے ساتھ جذبے کا بھی امتزاج ہو، اقبال کا رنگِ تغّزل خوب چمکتا ہے۔ اس نظم میں بھی متغّزلانہ نکتہ سنجی، صنّاعی اور خوش آہنگ الفاظ و تراکیب ، نیز مترنّم و مردّف زمینوں کی بدولت، غنائیت کے عناصر موجود ہیں۔ استعارہ، کنایہ، تلمیحات و مختصر تشبیہات (بصورتِ اضافتِ تشبیہی) کے موزوں استعمال سے بیشتر اشعار، غزل کی مخصوص ایمائیت کے آئینہ دار ہیں۔ لیکن غالباً اس نظم کی خالص ذاتی و شخصی نوعیت کے علاوہ ، فکری اعتبار سے بھی اسے خارج کرنا پڑا۔ (۲) دربارِ بہاول پور: نومبر ۱۹۰۳ء میں بہ تقریبِ جشنِ مسند نشینیِ نواب محمد بہاول خاں پنجم عباسی، اقبال کو مدعو کیا گیا اور قصیدہ کہنے کی فرمائش بھی کی گئی۔ظاہر ہے کہ اقبال کی خود دار طبیعت کو امرا کی مداحی اور قصیدہ خوانی سے کوئی مناسبت نہیں تھی، لیکن محض قومی مفاد کے پیش نظر انھوں نے یہ بھی گوارا کیا۔ انگریزوں کے عہدِحکومت میں مسلمانوں کی مفلسی و بے چارگی کا جو حال تھا، سب پر عیاں ہے۔ اُس زمانے میں قومی اداروں کو مسلم امرا اور والیانِ ریاست کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ پنجاب کے گرد و نواح کے دیسی رجواڑوں میں رئوساے بہاول پور کا دم غنیمت تھا، لہٰذا اقبال نے انجمن حمایت اسلام کے اراکین اور اپنے احباب کے اصرار پر قصیدہ تو لکھ ڈالا لیکن اس تقریب میں شرکت سے معذور رہے۔ قصیدہ مکمل ہوتے ہی شیخ عبدالقادر صاحب نے اسی ماہ (نومبر ۱۹۰۳ئ) کے مخزن میں گنجائش نکال کر ایک تمہیدی نوٹ کے ساتھ شائع کر دیا۔۳۳۰؎ یہ قصیدہ ذوالمطالع ہے۔ مطلع اوّل کے بعد تشبیب، اور مطلع ثانی کے بعد خطابیہ حصے ۲۴، ۲۴ اشعار پر مشتمل ہیں۔ پہلے حصے کی بہاریہ تشبیب میں مضمون آفرینی کا یہ رنگ ہے: لے کے پیغامِ طرب جاتی ہے سوئے آسماں اب نہ ٹھہرے گی کبھی اطلس کے شانوں پر زمیں چاندنی کے پھول پر ہے ماہِ کامل کا سماں دن کو ہے اوڑھے ہوئے مہتاب کی چادر زمیں آسماں کہتا ہے ظلمت کا جو ہو دامن میں داغ دھووے پانی چشمۂ خورشید سے لے کر زمیں۳۳۱؎ ۱۳؍اشعار کی تشبیب کے بعد گریز کا شعر آتا ہے۔ گریز کی خوبی یہ ہے کہ تشبیب سے مدح کی طرف، شاعر اس بے تکلفی اور برجستگی سے رجوع کرے کہ کوئی جھٹکا نہ لگے، کسی ذہنی بُعد کا احساس نہ ہو۔ اس مرحلے سے بطریقِ احسن گزر جانا کمالِ فن کی دلیل ہے۔ اب اقبال کی فنکارانہ گریز اور مدح کا بلیغ انداز ملاحظہ ہو: چومتی ہے ، دیکھنا جوشِ عقیدت کا کمال پائے تختِ یادگارِ عّمِ پیغمبر زمیں زینتِ مسند ہوا عباسیوں کا آفتاب ہو گئی آزادِ احسانِ شہِ خاور زمیں یعنی نوّابِ بہاول خاں، کرے جس پر فدا بحر موتی، آسماں انجم، زر و گوہر زمیں۳۳۲؎ خطابیہ حصے میں مدح کے علاوہ، حضرت سعدی شیرازی اور سعدیِ ہند مولانا حالی کے رنگ میں کچھ کام کی باتیں بھی ممدوح کے گوش گزار کی گئی ہیں، اور دراصل یہی حصہ شاعر کی تمام ذہنی کاوش کی غایتِ اولیٰ ہے۔ لیکن ہنر مند شاعر، ناصح ناداں بن کر سامنے نہیں آتا، بلکہ حکیم دانا کی طرح ایک موثر نفسیاتی حربہ استعمال کرتا ہے۔ اس نے گریز و مدح کے اشعار میں ممدوح کو اس کی نسبتِ عالی کی یاد دلائی ہے۔ آگے چل کر اسی نسبت کے حوالے سے ممدوح کو خلفائے عباسیہ کی معدلت گستری ، رعیت پروری اور ان کے عظیم علمی و تہذیبی کارناموں کی طرف توجہ دلاتا ہے، اور یہ توقع رکھتا ہے کہ عصر حاضر میں ممدوح اپنے اسلاف کی ان قابلِ فخر روایات کو ایک نئی زندگی و تابندگی بخشے گا۔ قصیدے کی اس مشکل زمین میں جو حکیمانہ نکات مؤثر پیرایے مِیں ادا کیے گئے ہیں ، معلمِ اخلاق سعدی اور مصلحِ قوم حالی بھی اس موقع پر اس سے زیادہ اور کیا کہہ سکتے تھے: مایۂ نازش ہے تُو اس خانداں کے واسطے اب تلک رکھتی ہے جس کی داستاں ازبر زمیں ہو ترا عہدِ مبارک صبحِ حکمت کی نمود وہ چمک پائے کہ ہو محسودِ ہر اختر زمیں سامنے آنکھوں کے پھر جائے سماں بغداد کا ہند میں پیدا ہو پھر عباسیوں کی سرزمیں بادشاہوں کی عبادت ہے رعیت پروری ہے اسی اخلاص کے سجدے سے قائم ہر زمیں حکمراں مستِ شرابِ عیش و عشرت ہو اگر آسماں کی طرح ہوتی ہے ستم پرور زمیں ہے گل و گلزار، محنت کے عرق سے سلطنت ہو نہ یہ پانی تو پھر سرسبز ہو کیوں کر زمیں۳۳۳؎ قصیدے کے فنی آداب کے مطابق آخری حصہ دعائیہ ہے جس کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے: لامکاں تک کیوں نہ جائے گی دعا اقبال کی عرش تک پہنچی ہے جس کے شعر کی اُڑ کر زمیں دعائیہ اشعار کے بعد عموماً چند شعر ’’حسنِ طلب‘‘کے ہوتے ہیں۔ لیکن اقبال ان ہوس پیشہ قصیدہ نگاروں میں سے نہیں جو صلہ و انعام کی لالچ میں مدح خوانی کرتے ہیں۔ لہٰذا دعا کے بعد مندرجہ ذیل دو شعروں پر قصیدہ ختم ہوتا ہے: پاک ہے گردِ غرض سے آئنہ اشعار کا جو فلک رفعت میں ہو لایا ہوں وہ چن کر زمیں تھی تو پتّھر ہی مگر مدحت سرا کے واسطے ہو گئی ہے گل کی پتی سے بھی نازک تر زمیں۳۳۴؎ آخری شعر میں تعلّی ہے مگر بے جا نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اتنی سنگلاخ زمین میں فنی رکھ رکھائو کے ساتھ اس ٹھاٹھ کا قصیدہ کہہ کر اقبال نے اس زمین کو آسمان بنا دیا۔ یہ قصیدہ مخزن میں ایک ادارتی نوٹ کے ساتھ شائع ہوا تھا جس میں شیخ عبدالقادر نے تقریباتِ جشن کی شان و شوکت کا ذکر کرتے ہوئے اس قصیدے پر نہایت مختصر و محتاط الفاظ میں یوں تبصرہ کیا تھا: ’’صاحبانِ فن دیکھیں گے کہ قصیدے کی زمین کس قدر مشکل تھی، مگر اس میں کیسے کیسے شعر، طبعِ خداداد کے زور سے شاعر نے نکالے ہیںاور پرانے اور نئے رنگ کو کس خوبی سے ملایا ہے۔‘‘۳۳۵؎ دیگر مقامی اخبارات و رسائل میں بھی شاعر کے اس فنی شاہکار کی نقلیں، تعریفی کلمات کے ساتھ شائع ہوئیں۔ قصیدے کی یہ مقبولیت، اقبال کے نکتہ چینوں کے لیے کشیدگیِ خاطر کا باعث ہوئی۔ جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے، اقبال کے معترضین میں دو ہونہار شاعر پیش پیش تھے، جن کی نکتہ چینی کا محرک معاصرانہ چشمک تھی۔ اس موقعے پر بھی ایک ہونہار نظم گو ، چکبست لکھنوی نے مضمون لکھا، جو اس دور کے ہونہار غزل گو، حسرت موہانی کے ماہنامے اردوئے معلّٰی (علی گڑھ، بابت ماہ اپریل ۱۹۰۴ئ)میں شائع ہوا۔ چکبست کا پہلا اعتراض، قصیدہ نگار کے اسلوب پر تھا: ’’قصیدے کی شان بحیثیتِ مجموعی قابلِ اعتراض ہے۔ اس کی تمہید اس امر کا اشارہ کرتی ہے کہ حضرت اقبال کا ممدوح دنیا کا کوئی عظیم الشان فرماں روا ہے… معمولی والی ریاست کی تمہید اس رنگ پر اٹھانا بالکل ناموزوں ہے…‘‘اس کے بعد قصیدے کے کئی اشعار میں زبان و محاورہ کی غلطیاں نکالی گئی تھیں۔ عابد رضا بیدار نے ’’اقبال پر چکبست کی ایک تنقید‘‘ کے عنوان سے اس مضمون کی نقل رسالہ جامعہ (نئی دہلی، بابت اپریل ۱۹۶۱ئ) میں شائع کی۔ جب جامعہ میںیہ مضمون، اردو کے بزرگ شاعر و نقادحضرت اثر لکھنوی مرحوم کی نگاہ سے گزرا تو انھوں نے اقبال کی مدافعت میں ایک مدلّل مقالہ لکھ کر جامعہ کے شمارہ بابت جون ۱۹۶۱ء میں شائع کیا۔۳۳۶؎ چکبست کے پہلے اعتراض کے جواب میں حضرت اثر لکھنوی لکھتے ہیں: ’’اقبال کی طرف سے میری عرض یہ ہے کہ عام شاعری میں تو مبالغہ جائز ہے، قصیدے کی جان ہے۔ بغیر اس کے قصیدہ ، قصیدہ نہیں ہوتا۔ اقبال کے قصیدے میں تو ایک خاص نکتہ ہے جس کا حوالہ ان دو شعروں میں ہے…‘‘۳۳۷؎ (یہاں گریز و مدح کے مذکورہ بالا دو شعر نقل کیے گئے ہیں)۔ اسی طرح زبان و بیان کے بارے میں بھی چکبست کے ایک ایک اعتراض کو دلائل سے رد کیا ہے۔ قصیدہ اور قصیدہ نگار کے بارے میں حضرت اثر کے یہ الفاظ خاص طور سے قابلِ توجہ ہیں: ’’یہ اقبال کا ایک اہم کارنامہ ہے جس کی جس قدر تعریف کی جائے زیبا ہے۔ اقبال کے جلیل القدر شاعر ہونے میںکوئی شبہ نہیں۔ میں اس کی شاعری کے متعلق پہلے بھی کئی مضمون لکھ چکا ہوں، مگر معلوم ہوتا ہے کہ کچھ نہیں لکھا۔‘‘۳۳۸؎ ہمارے نزدیک اقبال کے فنی ارتقا کے مطالعے میں اس قصیدے کی خاص اہمیت ہے، اور اسی لیے یہاں اس کے اشعار معمول سے کچھ زیادہ نقل کیے گئے ہیں۔ یہ بات بہ تکرار کہی گئی ہے کہ اقبال نے اپنی شاعری کے ابتدائی ادوار میں، فارسی و اردو کی کلاسیکی شاعری کے مطالعے سے برسوں کسبِ فن کیا تھا۔ دور حاضر کے تساہل پسند فن کار، صرف میر ، مصحفی، انیس اور غالب وغیرہ کا منتخب کلام جستہ جستہ دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ کلاسیکی ادب کے مطالعے کا حق ادا ہو گیا۔ لیکن اقبال کا مطالعہ کتنا وسیع و عمیق تھا کہ اپنے ذوق و تخیل کی لسانی و فنی تربیت کے لیے انھوں نے قصیدے جیسی ثقیل (اور موجودہ صدی کی مردود و مطرود) صنفِ سخن کے مجموعے بھی کھنگال ڈالے، اور اس فن پر اتنی قدرت حاصل کر لی کہ اس میدان میں بھی کوئی ہم عصر شاعر ان کے مدِ مقابل نہ ٹھہرا۔ (۳) متروکات (بانگِ درا) کی نوعیت اور ارتقائی و زمانی نسبت اقبال کی طویل قومی (یا ’’ انجمنی‘‘) نظموں کے سلسلے کا آغاز ۱۹۰۰ء میں ہوا تھا، اور انجمنِ حمایت اسلام کے جلسوں کی تقریب سے سال بہ سال جاری رہا۔ اپریل ۱۹۰۱ء میں اجرائے مخزن کے بعد ، کلامِ اقبال کی اشاعت کا سلسلہ ’’ہمالہ‘‘ (کوہستان ہمالہ) سے شروع ہوا اور مخزنی نظموں (اور غزلوں) کا تسلسل بھی مدیر مخزن کے پیہم تقاضوں اور قارئین مخزن کے اشتیاق و انتظار کی بدولت ماہ بہ ماہ جاری رہا۔ پہلے سال (۱۹۰۱ئ) میں جو نظمیں مخزن میں شائع ہوئیں، ان کی ترتیب یوں ہے: کوہستانِ ہمالہ (اپریل)۔ گلِ رنگیں (مئی)۔ عہدِ طفلی (جولائی)۔ مرزا غالب (ستمبر)۔ ابر کہسار (نومبر)۔ بانگِ درا (حصہ اوّل) میں بھی یہ پانچوں نظمیںاسی ترتیب سے درج ہیں۔ یوں تو عموماً بانگِ درا کے ہر حصے میں نظموں اور غزلوں کی زمانی ترتیب بحال رکھی گئی ہے لیکن کہیں کہیں، کسی خاص مصلحت سے یہ ترتیب قائم نہ رہ سکی۔ مثلاً مندرجہ بالا نظموں کے بعد، ’’ایک مکڑا اور مکھی‘‘ سے ’’پرندے کی فریاد ‘‘ تک سات نظمیں (بچوں کے لیے) یکے بعد دیگرے درج ہیں۔ ان میں سے بیشتر ۱۹۰۱ء اور ۱۹۰۲ء کے درمیان لکھی گئیں، لیکن پرندے کی فریاد، فروری ۱۹۰۷ء کے شمارہ مخزن میں شائع ہوئی تھی۔ تاہم موضوع کی مناسبت سے یہ ساتوں نظمیں یکجا کردی گئی ہیں۔ ۱۹۰۲ء سے اقبال کا کلام، مخزن کے علاوہ کبھی کبھی فوق صاحب کے ہفت روزہ پنجۂ فولاد یا خدنگِ نظر (لکھنؤ) میں بھی شائع ہونے لگا۔بچوں کی نظموں کے بعد، بانگِ درا کے مطابق، نظموں کی سنہ وار ترتیب بہ تفصیل ذیل ہے۔ قوسین میں بعض نظموں کا ماہِ اشاعت بھی درج ہے: ۱۹۰۲ء :۔ خفتگانِ خاک سے استفسار (فروری)۔ شمع و پروانہ (اپریل)۔ عقل و دل (’’خط منظوم‘‘) (مئی)صدائے درد۔ آفتاب۔ شمع (دسمبر)۔ ایک آرزو (دسمبر)۔ آفتابِ صبح (مئی)۔ ۱۹۰۳ء :۔ درد عشق (ستمبر)۔ گلِ بژمردہ۔ سید کی لوح تربت (جنوری)۔ ماہِ نو۔ انسان اور بزم قدرت (ستمبر)۔ پیام صبح۔ عشق اور موت (نومبر)۔ زہد اور رندی (دسمبر)۔ دل (’’ابرِ گہربار‘‘کاایک بند۔ مارچ)۔ موج دریا (نومبر)۔ ۱۹۰۴ء :۔ رخصت اے بزمِ جہاں (مارچ)۔ طفلِ شیرخوار (فروری)۔ تصویر درد (مارچ)۔ نالۂ فراق (مئی)۔ چاند (جولائی)۔ ہلال(ستمبر)۔ سرگزشتِ آدم (ستمبر)۔ ترانۂ ہندی ’’ہمارا دیس‘‘ (اکتوبر)۔ جگنو (دسمبر)۔ صبح کا ستارہ (دسمبر)۔ ۱۹۰۵ئ:۔ ہندوستانی بچوں کا قومی گیت (فروری)۔ نیا شوالہ (مارچ)۔ داغ (اپریل)۔ ابر۔ ایک پرندہ اور جگنو (جولائی)۔ بچہ اور شمع (ستمبر)۔ کنارِ راوی (نومبر)۔ التجائے مسافر (اکتوبر)۔ ان نظموں کے متنّوع موضوعات کے طرح ان کے اسالیب بھی رنگا رنگ ہیں۔ اگر ہم اس دور کی بہترین نظموں کا انتخاب کریں تو آخری دو سال (۱۹۰۴ء اور ۱۹۰۵ئ) کی نظموں میں سے ہلال ، سرگزشتِ آدم ، ترانۂ ہندی، جگنو، نیا شوالہ، داغ اور کنارِ راوی کے ساتھ ابتدائی تین سال کی نظموں میں سے ہمالہ، غالب، ابر کہسار، عقل و دل، ایک آرزو، درد عشق، انسان اور بزم قدرت، عشق اور موت ، شاعر، دل، وغیرہ بھی اس انتخاب میں شامل ہونے کی مستحق نظر آئیں گی۔ کیونکہ بوقتِ نظر ثانی، ترمیم و تنسیخ کے شدید احتسابی عمل نے فنی سطح کی پستی و بلندی کو کافی حد تک ہموار کر دیا ہے۔ لیکن اس دور کی نظموں کے ابتدائی متون بھی پیش نظر رہیں، تو ہم دیکھیں گے کہ ابتدائی نظموں میں متروکات (یعنی بھرتی کے اشعار یا اصلاح طلب اشعار) کی تعداد بہت زیادہ ہے، جو گھٹتے گھٹتے آخری نظموںمیں کہیں کہیں صفر تک پہنچ گئی ہے۔ گویا فن کی ارتقائی سطح ماہ بہ ماہ، سال بہ سال بلند تر ہوتی رہی ہے۔ اس ضمن میں پہلے ابتدائی نظموں میں سے شاعر کی فن کارانہ تراش خراش اور ترمیم و تنسیخ کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔ ’ہمالہ‘ کا ابتدائی متن ۱۲ بند (۳۶ اشعار) پر مشتمل تھا۔بانگِ درامیں کل ۸ بند درج ہیں۔ ابتدائی متن کے تین بند تو اس لیے خارج کر دیے گئے کہ ان میں خارجی ( دور ازکار) باتیں زیادہ تھیں اور انھیں حذف کر دینے سے نظم کی فنی ساخت بہترہو گئی۔ لیکن ان تین بندوں میں ایک شعر اس پائے کا تھا کہ اگر وہ بانگِ درا کے متن میں شامل نہ ہوتا تو ہم اس کی کمی محسوس کرتے۔ وہ ایک متروک بند کی ٹیپ کا شعر ہے جو اب پہلے بند کی ٹیپ ہے: ایک جلوہ تھا کلیمِ طورِ سینا کے لیے تو تجلّی ہے سراپا جشمِ بینا کے لیے ابتدائی متن میں پہلے بند کی ٹیپ یہ تھی: تیری ہستی پر نہیں بادِ تغیّر کا اثر خندہ زن ہے تیری شوکت گردشِ ایام پر۳۳۹؎ لیکن شاعر نے اس کا نعم البدل رکھ لیا اور ہم دیکھتے ہیں کہ اسی بندکا چوتھا مصرع (: ’’تو جواں ہے گردشِ شام و سحر کے درمیاں‘‘)’’بادِ تغیر‘‘ والی ٹیپ کی معنوی تلافی کر رہا ہے۔البتہ ایک متروک بند میں کچھ محاکاتی خوبیاں تھیں۔ مثلاً اس کے یہ مصرعے ملاحظہ ہوں: ’’وہ اچھالی پنجۂ قدرت نے گیند اک نور کی__ جھانکتا ہے وہ درختوں کے پرے خورشید بھی__ دل لگی کرتی ہے ہر پتی سے جس کی روشنی …‘‘۳۴۰؎ تیسرے مصرعے میں درختوں کے پتوں پر سورج کی کرنوں کے رقص کا منظر بہت خوب ہے۔لیکن ۱۹۰۴ء میں شاعر زبان کے معاملے میں اتنا محتاط تھا کہ ۱۹۰۱ء کی ’’دل لگی‘‘ اسے ایک آنکھ نہ بھائی اور پورا بند حذف کر دیا۔ ابتدائی متن میں ایک بند ایسا ملتا ہے جو شاعر کی ترمیم سے یکسر منقلب ہو کر اب موجودہ متن کا تیسرا بند بن گیا ہے۔ ابتدا میں اس کی صورت یہ تھی: سلسلہ تیرا ہے یا بحرِ بلندی موج زن رقص کرتی ہے مزے سے جس پہ سورج کی کرن تیری ہی چوٹی کا دامانِ فلک میں ہے وطن چشمۂ دامن میں رہتی ہے مگر پرتو فگن چشمۂ دامن ہے یا آئینۂ سیّال ہے دامنِ موج ہوا جس کے لیے رومال ہے۳۴۰؎ پہلے مصرعے میں ’’بحرِ بلندی ‘‘کی پرُ تکلف ترکیب، دوسرے مصرعے میں سورج کی کرن کے رقص کی معنوی تکرار، تیسرے مصرعے میں حشو (یعنی تیری چوٹی کی جگہ تیری ہی چوٹی) اور دامانِ فلک کی بے محل ترکیب ، پھر ایک ہی دامن مسلسل تین مصرعوں میں باندھنے کی بدمذاقی، یہ سارے عیب اصلاح طلب تھے۔ اب اس کی جگہ موجودہ بند کی صورت ملاحظہ ہو، جس کے ہر شعر، بلکہ ہر مصرعے میں ایک نرالی کیفیت، ایک نئی آن ہے: تیری عمرِ رفتہ کی اک آن ہے عہدِ کہن وادیوں میں ہیں تری کالی گھٹائیں خیمہ زن چوٹیاں تیری ثریّا سے ہیں سرگرمِ سخن تو زمیں پر اور پہنائے فلک تیرا وطن چشمۂ دامن ترا آئینۂ سیّال ہے دامنِ موج ہوا جس کے لیے رومال ہے۳۴۲؎ ’’گلِ رنگیں‘‘ کے ابتدائی متن میں۶ بند تھے۔ بانگِ درا میںکل ۴ بند رکھے گئے لیکن ان میں سے بھی تیسرا اور چوتھا بند نظرثانی کے بعد کچھ سے کچھ ہو گیا ہے۔ یہاں بطور مثال صرف چوتھے یا آخری بند کا ابتدائی متن اور موجودہ ترمیم شدہ صورت ملاحظہ ہو: ابتدائی متن (چھٹا یا آخری بند) یہ پریشانی مگر جمعیّتِ عرفاں نہ ہو یہ حنا بندِ کفِ محبوبۂ ایماں نہ ہو یہ خزاں اپنی بہارِ گلشنِ رضواں نہ ہو یہ جگر سوزی چراغِ خانۂ انساں نہ ہو ہے یہ تاریکی مگر اک شمعِ دل افروز ہے توسنِ ادراکِ انساں کو خرام آموز ہے۳۴۳؎ معنوی بلاغت سے عاری ہونے کی وجہ سے مندرجہ بالا مصرعوں کا صوتی حسن غارت ہو گیا ہے۔ مثلاً جس نکتے کی وضاحت یہاں مطلوب ہے، اس کے لیے ’’حنا بندِ کفِ محبوبۂ ایماں‘‘ اور ’’بہار گلشنِ رضوان‘‘ کی بظاہر حسین ترکیبیں، بے مصرف اور بے محل ہیں۔ اصلاح و ترمیم کے بعد موجودہ متن میں ترکیب کی معنوی مناسبت و بلاغت اور صنعتِ تضاد، نیز لفظی رعایت کی لطافت ملاحظہ ہو: یہ پریشانی مری سامانِ جمعیّت نہ ہو یہ جگر سوزی چراغِ خانۂ حکمت نہ ہو ناتوانی ہی مری سرمایۂ قوّت نہ ہو رشکِ جامِ جم مرا آئینۂ حیرت نہ ہو یہ تلاشِ متصل شمعِ جہاں افروز ہے توسنِ ادراک انساں کو خرام آموز ہے۳۴۴؎ ۱۹۰۱ء اور ۱۹۰۲ء کی بہترین نظموں میں متروکات کی کیفیت اس نقشے سے ظاہر ہو گی: عنوان نظم ابتدائی متن موجودہ متن بانگِ درا متروک اشعار عہد طفلی (مسدس) ۵ بند ۲ بند ۹ شعر (۳ بند) ابرِ کہسار (مسدس) ۱۰ بند ۴ بند ۱۸ شعر (۶ بند) خفتگانِ خاک سے استفسار ۴۵ شعر ۲۶ شعر ۱۹ شعر (مثنوی) عقل و دل (قطعہ) ۴۰ شعر ۱۳ شعر ۲۷ شعر (’’خط منظوم‘‘) صدائے درد (مثنوی) ۲۹ شعر ۹ شعر ۲۰ شعر شمع (مثنوی) ۴۰ شعر ۲۹ شعر ۲۱ شعر ایک آرزو (ترکیب بند) ۳۰ شعر ۲۰ شعر ۱۰ شعر متروکات کی نوعیت ہر جگہ یکساں نہیں۔ کہیں تو فنی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے قطع و برید کی گئی ہے اور کہیں فکری یا نظریاتی قباحت کی بنیاد پر بعض حصے خارج کیے گئے ہیں۔ ان نظموں میں سے ’’صدائے درد‘‘ کے متروکات میں یہ دونوں پہلو موجود ہیں۔ فنی اعتبار سے اس نظم کے اسلوب میں ایک جگہ حالی کے ’’شکوئہ ہند‘‘ کی تقلید جچتی نہیں۔ مولانا حالی نے اپنے ملّی تشخّص کی حفاظت کے لیے خاکِ ہند سے دامن جھاڑ کر اپنے اجداد کے مغربی مراکز کا رخ کیا تھا، لیکن مذہب و ملّت کا امتیاز مٹا کر ’’من تو شدم تو من شدی‘‘ کا ترانہ گانے والے شاعر کو کب یہ زیب دیتا ہے کہ وہ ’’مولدِ گوتم‘‘ اور ’’مدفنِ شنکر‘‘ سے منہ موڑلے اور حالی کی ہمنوائی میں یہ کہے: ’’پھر بلالے مجھ کو اے صحرائے وسطِ ایشیا‘‘۔ فکری اعتبار سے دیکھے تو ’’صدائے درد‘‘ میں جغرافیائی وطنیت کے علاوہ نسلی قومیت کا تصور بھی پیش کیا گیا ہے: ’’خونِ آبائی رگِ تن سے نکل سکتا نہیں‘‘۳۴۵؎۔ ۱۹۲۴ء کا اقبال نسل پرستی کے اس جاہلی تصور کی لغویت گوارا نہ کر سکا۔ اس کے تمام اشعار حذف کر دئیے گئے۔۱۹۰۴ء اور ۱۹۰۵ء کی وطنی نظموں کے وہ حصے بھی خارج کر دیے گئے ہیں جن سے ملّی یا اسلامی تصورات پر براہِ راست ضرب پڑتی تھی، مثلاً ’’نیا شوالہ‘‘ کے دوسرے بند کے وہ اشعار جن میں وحدتِ ادیان کے تصور نے بت پرستی کی قبیح صورت اختیار کر لی ہے: پھر اک انوپ ایسی سونے کی مورتی ہو اس ہردوارِ دل میں لا کر جسے بٹھا دیں سندر ہو اس کی صورت چھب اس کی موہنی ہو اس دیوتا سے مانگیں جو دل کی ہوں مرادیں زنّار ہو گلے میں، تسبیح ہاتھ میں ہو یعنی صنم کدے میں شانِ حرم دکھا دیں۳۴۶؎ اس نظم کے دو بند تھے۔ پہلے بند کا ایک شعر اور دوسرے بند کے نو شعر حذف کر دیے گئے۔ بیشتر متروکات فنی احتساب کا نتیجہ ہیں، جن میں سے بعض کا ذکر آگے آئے گا۔ بات یہ ہے کہ اس زمانے میں نوجوان شاعر کا تخلیقی جوش اور جولانیِ طبع، بسا اوقات فنی تشکیل کی طرف متوجہ ہونے سے باز رکھتی تھی۔ اگرچہ اس دور میں بھی اقبال خود احتسابی کی صلاحیت رکھتے تھے اور ان کا شعورِ فن، نظم کی اشاعت سے پہلے نظرثانی کا تقاضا کرتا ہوگا۔ ہم جانتے ہیں کہ انھیں نظم ’’کوہستانِ ہمالہ‘‘ کو نظر ثانی کے بغیر شائع کرنے میں تامل تھا، لیکن ان کے دوست شیخ عبدالقادر صاحب اسے مخزن کے پہلے شمارے کی زینت بنانے کے لیے چھین لے گئے۔اسی طرح وہ ہر وقت اس تاک میں رہتے تھے کہ اقبال کا تازہ کلام مخزن کے ہر شمارے میں چھپتا رہے۔ کسی فن پارے کی تخلیق کے بعد نظرثانی کے عمل کے لیے ایک مناسب وقفہ درکار ہے۔ لیکن شیخ صاحب کی دراز دستی، نظرثانی کی مہلت ہی نہ دیتی تھی۔ غرض یہ نظمیں بتواتر و تسلسل شائع ہوتی رہیں۔ انگلستان سے واپسی کے بعد ۱۹۱۱ء سے پھر تخلیق کا چشمہ اسی جوش و خروش سے اُبل پڑا اور تیسرے دور کی اکثر نظمیں اسی رفتار سے لکھی اور چھاپی جاتی رہیں۔ چنانچہ ان کی فنی تشکیل و ترتیب میں بھی جابجا ناہمواریاں پیدا ہوئیں، جو بانگِ درا کی تدوین و اشاعت کے وقت دور کی گئیں۔ مختصریہ کہ متروکات کا سلسلہ تو تادیر (کم از کم ۱۹۱۸ء بلکہ ۱۹۲۳ء تک) جاری رہا لیکن ابتدائی دو تین سال کی نظموں میں قطع و برید اور ترمیم و اضافہ کی جو فراوانی نظر آتی ہے، وہ بتدریج کم ہوتی رہی۔ متروکات کی نوعیت تو مختلف ہے لیکن بکثرت اشعار محض بے جا طوالت و عدمِ مناسبت کی بنا پر خارج کیے گئے ہیں۔ جیسا کہ اس دور کی طویل نظموں میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ ’’تصویر درد‘‘ کے متروک اشعار میں سے کوئی شعر ’’خارج از آہنگ‘‘ نہیں، تاہم ۱۲۸ شعر کی نظم میں سے ۵۹ شعر حذف کر دینے سے نظم کی مجموعی ہیئت بہتر ہو گئی ہے۔ اسی طرح ان مختصر نظموں میں بھی بعض جگہ ہم دیکھتے ہیں کہ جو ٹکڑے خارج کر دیئے گئے ، ان میں سے بعض (مثلاً ’’ابر کوہسار‘‘ کے دو بند اور ’’خفتگان خاک سے استفسار‘‘ کے کئی اشعار) کچھ ایسے کشتنی اور گردن زدنی نہ تھے، لیکن ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ابتدائی متن کے مقابلے میں موجودہ متن کی تشکیلی ہیئت یقینا بہتر ہے۔ ابتدائی دور کی ایک ’’بقامت کہتر و بقیمت بہتر‘‘ نظم ’’عقل و دل‘‘ کے بارے میں عام قارئین کو کیا خبر کہ یہ مختصر، بلیغ و متوازن نظم ۴۰؍اشعار کے ایک بے ہنگم ’’خطِ منظوم‘‘ میں سے کشید کی گئی ہے۔ اسی پائے کی ایک نظم ’’ایک آرزو‘‘ پہلے دو بند پر مشتمل ایک ترکیب بند کی صورت رکھتی تھی۔ دوسرا بند (جس میں اپنی آہ و زاری کی توجیہ و تشریح کی گئی ہے) یکسر خارج کر دیا گیا۔ صرف پہلا بند باقی رہا، اس کے بھی ۵ شعر متروک ٹھہرے۔ لیکن اگر قطع و برید کا یہ عمل نہ ہوتا تو یہ نظم اتنی حسین و دلکش بھی نہ ہوتی۔ ۱۹۰۴ء اور ۱۹۰۵ء کی نظموں میں بھی کچھ تراش خراش ہوئی ہے۔ یہاں صرف ان نظموں کی مثال پیش کی جاتی ہے جو اس دور کے شاہکاروں میں شمار کی جاسکتی ہیں: یعنی ’’سرگزشتِ آدم‘‘، ’’داغ‘‘ اور ’’التجائے مسافر‘‘۔ ’’سرگزشت آدم ‘‘ کا ابتدائی متن غزل و نظم کی معجون مرکب ہے۔/‘‘ پہلا شعر غزل کے مطلع کی صور ت میںتھا: نگاہ پائی ازل سے جو نکتہ بیں میں نے ہر ایک چیز میں دیکھا اسے مکیں میں نے۳۴۷؎ / مخزن (ستمبر ۱۹۰۴ئ) میں ایک طویل غزل شائع ہوئی تھی جس کے درمیان میں ’’قطعہ‘‘ کے عنوان سے اس نظم کے ۲۱ مسلسل اشعار درج تھے۔ (ص ۶۰۔۶۱) مندرجہ ذیل شعر کے بعد ۲۱ قطعہ بند اشعار ہیں: سوالِ دید میں لذت ہے اے کلیم ایسی ہزار بار سنی ہے وہی ’نہیں‘ میں نے۳۴۷؎ آخر میں پانچ شعر خالص غزل کے ہیں جن کا نظم کے موضوع سے کوئی تعلق نہیں۔ ان میں سے صرف مقطع کا شعر درج ذیل ہے: عجیب شے ہے صنم خانۂ امیر اقبال میں بت پرست ہوں رکھ دی وہیں جبیں میں نے۳۴۷؎ اگرچہ یہ سب اشعار اتنے صاف ستھرے، آب دار ہیں، گویا ’’صدفِ دل سے گُہر کی صورت‘‘ نکلے ہوں، لیکن اقبال نے دیکھا کہ مسلسل نظم کی لڑی میں یہ موتی پروئے نہیںجا سکتے، لہٰذا انھیں نکال پھینکا۔ قطعہ بند اشعار میں سے چند شعر جو نظم کے تسلسل میں حارج تھے، وہ بھی خارج کر دیے گئے۔ ’’داغ‘‘ کے ابتدائی متن میں یوں تو خفیف سی ترمیمیں اور بھی ہوئی ہیں لیکن چار شعر بالکل حذف کر دیے گئے۔ یہ وہ اشعار ہیں جن میں مرحوم استاد کی عقیدت کے جوش میںشاعر حد سے گزر گیا تھا۔ داغ اپنے رنگ میں بے مثل شاعر تھے، لیکن میر و غالب سے انھیں کیا نسبت؟ شاعر کے تخیل کی اُڑان ملاحظہ ہو کہ داغ کو میر و غالب کے اونچے سنگھاسن پر لا بیٹھایا: جوہرِ رنگیں نوائی پا چکا جس دم کمال پھر نہ ہو سکتی تھی ممکن میر و مرزا کی مثال کر دیا قدرت نے پیدا ایک، دونوں کا نظیر داغ، یعنی وصلِ فکرِ میرزا و دردِ میر۳۴۸؎ ’’التجائے مسافر‘‘ کے ابتدائی متن میں سے پہلے بند کی ۳ شعر اور دوسرے بند کے ۱۳ شعر خارج کر دیے گئے۔ ان ۱۶ اشعار میں صرف تین ایسے تھے جو پر تکلف اسلوب کی بنا پر بے محل ہیں: چڑھا کے پھول مرے رنگِ رفتہ کے سر قبر اڑائے پھرتی ہے حیرت کہاں کہاںمجھ کو بیاں کروں تپشِ شوق کو تو آتشِ دل شرار دے پئے تمہید داستاں مجھ کو تلاشِ مہر میں شبنم صفت اُڑا کے چمن ذرا سا دیتا ہے غنچے کا آشیاں مجھ کو۳۴۹؎ لیکن بقیہ اشعار میں کوئی خامی نہیں۔ موجودہ متن میں جو اشعار شامل ہیں، وہ بہر حال بہتر ہیں۔البتہ اگر انتخاب میںیہ شعر بھی شامل ہوتا تو غالباً ’’مسافر‘‘ کی دلی تمنا اور زندگی کے نصب العین کی زیادہ وضاحت ہو جاتی: رہوں میں خادمِ خلقِ خدا ، جیوں جب تک نہیں ہے آرزوئے عمرِ جاوداں مجھ کو۳۴۹؎ ابتدائی تین سال (۱۹۰۱ء تا ۱۹۰۳ء ) کی تخلیقات میں کوئی نظم ایسی نہیں جس کا ابتدائی متن مکمل طور پر محفوظ ہو، اگرچہ ’’انسان اور بزم قدرت‘‘ ، نیز ’’زہد اور رندی‘‘ میں بہت کم ترمیم و اضافہ ہوا ہے، لیکن بعد ازاں نہ صرف متروکات کی تعداد نسبتاً بہت کم ہے بلکہ ۱۹۰۴ء کی نظموں میں ’’ترانۂ ہندی‘‘ اور ۱۹۰۵ء کی نظموں میں ’’بچہ اور شمع‘‘ کے ابتدائی متن بالکل محفوظ ہیں۔ ’’جگنو‘‘(۱۹۰۴ئ) کا صرف ایک شعر اور ’’کنارِ راوی‘‘ (۱۹۰۵ئ) کے صرف دو شعر حذف کیے گئے ہیں۔ یہ اس چھ سالہ دور میں شاعر کے فنی ارتقا کا سطحی و شماریاتی ثبوت ہے۔ متروکات کا جائزہ لینے کے بعد ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال نے بانگِ درا کی تدوین کے موقعے پر اپنے کلام کا کتنی سختی سے احتساب کیا تھا۔ مجھے ایک بزرگ نقاد کے اس قول پر بڑی حیرت ہوئی کہ ’’اگر اقبال بھی غالب کے معیار سے اپنے کلام کا انتخاب کرتے تو ابتدائی نظموں میں سے بیشتر کو مجموعۂ کلام میں جگہ نصیب نہ ہوتی ‘‘۔۳۵۰؎ حالانکہ غالب کے یہاں متروکات کی بنیاد صرف لفظی و معنوی غرابت تھی، ورنہ ’’سیم تن کے پائوں، لگن کے پائوں‘‘ والی غزل اور اس قسم کے بہت سے اشعار ان کے منتخب دیوان میں بھی جگہ نہ پاتے۔ لیکن اقبال نے فکر و فن کے مختلف پہلوئوں کے پیش نظر بڑا کڑا انتخاب کیا اور اس کثیر تعداد میں اشعار اور پوری پوری نظمیں خارج کر دیں کہ ان کے متروکات کا مجموعہ بانگِ درا سے کہیں زیادہ ضخیم ہے۔ (۴) مختصر نظموں کا فنی جائزہ اس دور کی نظموں کے اسالیب میں تنوع اور تضاد کا احساس ہمیں ابتدا ہی میں ہونے لگتا ہے۔ مثلاً جب ہم ’’ہمالہ‘‘ کے اس آخری شعر پر پہنچتے ہیں: ہاں دکھادے اے تصّور پھر وہ صبح و شام تُو دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایّام تُو اور اس سادہ و پرکار شعر کے اچھوتے حسنِ ادا سے محظوظ ہوتے ہوئے ’’گلِ رنگیں‘‘ پر نظر ڈالتے ہیں تو اس کے پہلے ہی مصرعے میں ہمیں رنگینی کی جگہ سنگینی و ثقالت سے دو چار ہونا پڑتا ہے:’’تو شناسائے خراشِ عقدئہ مشکل نہیں‘‘۔ آخری بند تک پہنچتے پہنچتے یہ عقدئہ مشکل، مشکل تر ہو جاتا ہے: ’’توسنِ ادراکِ انساں کو خرام آموز ہے‘‘۔ دسمبر ۱۹۰۲ء کے شمارہ مخزن میں اقبال کی دو نظمیں شائع ہوئیں ’’شمع‘‘ اور ’’ایک آرزو‘‘۔ ان کے ساتھ شیخ عبدالقادر کا مندرجہ ذیل ادارتی نوٹ بھی تھا، جس میں انھوں نے شاعر کے اسلوب میں تضاد کی توجیہ فرمائی ہے: ’’کلامِ اقبال، اوراقِ مخزن میں ویسے تو مقبول ثابت ہو چکا ہے، اور لوگ اس سے ایسے آشنا ہو گئے ہیں کہ تمہید کی ضرورت باقی نہیں رہی، مگر اس دفعہ حسنِ اتفاق سے ہمیں ان کی دو ایسی نظمیں دستیاب ہوئیں جو الفاظ، طرزِ ادا اور بندش میں ایک دوسرے سے بالکل الگ ہیں۔ ایک تو فارسی الفاظ سے لدی ہوئی، توالیِ اضافت کا بوجھ سر پر اٹھانے، غالب مرحوم کے انداز کا نمونہ، آہستگی اور وقار سے چلتی نظر آتی ہے، اور دوسری سبک روی میں برق، سادہ الفاظ کا جامہ پہنے، اضافتوں کے زیور سے خالی ، اپنی سادگی پر ناز کرتی ہوئی، دل میں بیٹھی جاتی ہے۔ ایک کے خیالات پیچیدہ اور دقیق کے اخذ کرنے کے لیے ذہن کو فکر سے دست و گریباں ہونا پڑتا ہے اور معانی ذہن میں آ آ کر دامن چھڑائے جاتے ہیں اور پکا ر پکار کر کہہ رہے ہیں کہ ’’بیاورید گر ا یں جا بود زباں دانے۔ غریبِ شہر سخنہائے گفتنی دارد۔‘‘ اور دوسری سیدھی سادی آرزوئوں کی تصویریں ہیں کہ دل پر نقش ہوئی جاتی ہیں۔ ایک فلسفیت اور تصوف کے سمندر میں غوطہ زن ہے تو دوسری تصور کے پر لگائے، کوہ بیاباں، باغ و راغ کی سیرمیں مصروف ہے اور جو کچھ دیکھتی ہے اس پر مصوری کا افسوں پڑھ رہی ہے۔ ہم ان دونوں کو اس لیے یک جا چھاپتے ہیں کہ مصنف کے دونوں رنگ کا اندازہ ہو جائے۔ جب کئی لوگوں نے اقبال کی مشکل پسندی کی شکایت کی ، تو ہم نے اس اظہار رائے کو ان تک پہنچا دیا۔ جو جواب انھوں نے دیا وہ یہی تھا کہ جہاں خیالات دقیق اور مشکل ہوں گے وہاں زبان کا آسان ہونا دشوار بلکہ ناممکن ہے۔ اس بنا پر وہ مرزا غالب کی دشوار پسندی کو نہ صرف معذوری بلکہ ضرورت قرار دیتے ہیں، اور یہی برہان اپنے مرغوب انداز کے حق میں رکھتے ہیں۔ انھوں نے دوسری نظم میں یہ دکھایا ہے کہ آساں نویسی میں بھی بند نہیں۔ گو جن مسائل کا ہجوم ان کے دل کے گرد رہتا ہے وہ ہمیشہ آسان الفاظ کے لباس میں جلوہ گر نہیں ہو سکتے‘‘۔۳۵۱؎ ان نظموں کے اسالیب میں زبان کی سادگی اور دشواری کے علاوہ بنیادی فرق یہ ہے کہ ’ہمالہ‘ اور ’ایک آرزو‘ میں شاعر کا ذوقِ نظر کارفرما ہے۔ حسنِ فطرت کی تحسین و توصیف اور خارجی مناظر کے داخل تاثرات کے اظہارکے لیے شاعر نے مصّورانہ یا محاکاتی اسلوب اختیار کیا ہے۔ گلِ رنگیں کو ’’دیدئہ بلبل‘‘ سے ایک نظر دیکھنے کے بعد شاعر کا ذوقِ تجسس بیدار ہو جاتا ہے اور وہ ’’دیدئہ حکمت کے الجھیڑوں‘‘ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہاں اس کا اسلوب تفکّرانہ ہے۔ شمع، آفتاب، آفتاب صبح، چاند، خفتگانِ خاک سے استفسار، شمع و پروانہ وغیرہ، ان سب کے اسلوب میں تفکّرانہ رنگ غالب ہے۔ متعدد نظمیں ایسی ہیں جن کے تمہیدی اشعار میں شاعر حسن فطرت کی کشش سے مسحور نظر آتا ہے لیکن رفتہ رفتہ فطرت کے حسین پس منظر میں سے انسان یا حیات انسانی کا کوئی پہلو، یا کوئی حکیمانہ نکتہ ابھر کر سامنے آ جاتا ہے۔ ’’کنار راوی ‘‘ اس کی بہترین مثال ہے۔ ماہِ نو، انسان اور بزم قدرت، پیام صبح ، جگنو، صبح کا ستارہ ، ان سب نظموں میں مصورانہ اور تفکرانہ اسلوب کی خصوصیات یکجا ہیں۔ بعض طویل نظموں کے اسلوب میں تغزل کا رنگ نمایاں ہے لیکن مختصر نظموں میں صرف ’’دل‘‘ (ابرِ گہربار کا ایک بند) اس اسلوب کی صحیح نمائندگی کرتی ہے۔ صدائے درد، بادل، درد عشق اور التجائے مسافر میں بھی جذبے کی آمیزش سے تغزل کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دور کی بہترین نظمیں وہی ہیں جن میں حکیمانہ تفکر کے ساتھ شاعرانہ تخیل کی رنگینی یا تغزل کی رمزیت ، غنائیت اور نکتہ سنجی کے عناصر موجود ہیں، مثلاً مرزا غالب، داغ، جگنو، سرگزشت آدم، کنار راوی وغیرہ۔ فنی تجزیے کے لیے سب سے پہلے ہم ان نظموں کو لیتے ہیں جن کے بیشتر اشعار فطرت اور مظاہر فطرت سے متعلق ہیں۔ ایسی نظمیں کل چار ہیں:ہمالہ، ایک آرزو، ابر کوہسار اور ابر۔ زمانی ترتیب کے علاوہ فنی محاسن کے اعتبار سے بھی ہمالہ ان میں سر فہرست ہے۔ گزشتہ فصل میں رومانی رجحان کے تحت، ہمالہ کے بارے میں تفصیل سے اس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ یہ نظم شاعر کے عینی مشاہدات پر مبنی نہیں ہے۔ یہی حال ایک آرزو اور ابر کہسار کا ہے۔ صرف ’’ابر‘‘ سفرِ ایبٹ آباد (۱۹۰۵ئ) کی یاد گار ہے۔ وہاں انھیں معروف پہاڑ ’’سربن‘‘ کی سیر کا موقع ملا تھا۔ جہاں تک کوہستانی مناظر کا تعلق ہے، اس سے پہلے شاعر کا ذوقِ نظر صرف دور کے جلووں ہی سے بہرہ مند رہا۔ البتہ اس کا تخیل، انگریزی شاعری، خصوصاً رومانی شعرا کے کلام کے مطالعے کی بدولت، حسنِ فطرت کا پوری طرح ادا شناس تھا۔ جنوری ۱۹۰۱ء میں اقبال کے دوست، سوامی رام تیرتھ اپنے کوہستانی سفر سے لاہور واپس آ چکے تھے۔۳۵۲؎ سوامی جی بھی حسنِ فطرت کے شیدائی تھے۔ ان کے ہمالیائی مشاہدات اور صوفیانہ واردات کی دلچسپ روداد نے بھی شاعر کے تخیل کو متاثر کیا ہو گا۔ ’ہمالہ‘ اور ’ابر کوہسار‘ میں شاعر کے بیانات اور سوامی جی کے ذاتی تاثرات میں اتنی مطابقت تھی کہ انھوں نے اپنے مجموعۂ کلام ’’رام پرشا‘‘ کی دو نظموں میں، ان نظموں کے کئی اشعار شامل کر لیے ہیں۔۳۵۳؎ ’ہمالہ‘کے موجودہ متن میں عارفانہ اشارات کہیں کہیں موجود ہیں: ’’تو تجلّی ہے سراپا چشمِ بینا کے لیے‘‘ ،’’سوئے خلوت گاہِ دل دامن کشِ انساں ہے تو‘‘ وغیرہ۔ لیکن متروک حصوں میں شاعر نے عارفانہ کیفیات کی واضح ترجمانی کی ہے: دل کی تاریکی میں وہ خورشید جاں افروز ہے شمع ہستی جس کی کرنوں سے ضیا اندوز ہے شاہد مطلب ملے جس سے وہ ساماں ہے یہی درد دل جاتا رہے جس سے وہ درماں ہے یہی۳۵۴؎ شاعر نے ہمالہ کی وادیوں کو روحانیت و معرفت کا گہوارہ ، مہاتمائوں اور دیوتائوں کا قدیم مسکن قرار دیا ہے: تُو تو ہے مدت سے اپنی سرزمیں کا آشنا کچھ بتا ان رازدارانِ حقیقت کا پتا تیری خاموشی میں ہے عہد سلف کا ماجرا تیرے ہر ذرّے میں ہے کوہِ المپس کی فضا۳۵۴؎ یہ اردو کی پہلی نظم ہے جس میںہمالہ کو وطن کی تہذیبی قدامت و عظمت کی مقدس علامت قرار دے کر وطنیت کے جذبے کو ابھارا گیا تھا۔ عزیز احمد لکھتے ہیں: ’’یہ خطاب جو شاعر نے ہمالہ سے کیا ہے، کوہ ہمالہ کی قدامت اور اس کی منظری دلکشی کو پس منظر بنا کر دراصل جغرافی وطن پرستی اور وطن کی جغرافی محبت کے جذبے کو نمایاں کرتا ہے… منظری دلکشی کی قدریں محض وطن پرستی کی وجہ سے نمایاں ہیں… اس طرح ہمالہ کی قدامت کی ساری عظمت، ہندوستان کی پرانی تاریخ کی قدروں سے وابستہ ہے۔ ‘‘۳۵۵؎ بقول ڈاکٹر ملک راج آنند، ’’سچ تو یہ ہے کہ اس نظم نے ہندوستانی شاعری میں ایک نئے باب کا افتتاح کر دیا۔‘‘۳۵۶؎ شیخ عبدالقادر اس نظم کی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اس میں انگریزی خیالات تھے اور فارسی بندشیں۔ اس پر خوبی یہ کہ وطن پرستی کی چاشنی اس میں موجود تھی۔ مذاق زمانہ اور ضروریات وقت کے موافق ہونے کے سبب بہت مقبول ہوئی۔۳۵۷؎ ’’انگریزی خیالات‘‘اور ’’فارسی بندشیں‘‘ کے الفاظ مبہم ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اقبال نے مشرق کی کلاسیکی شاعری کے مطالعے سے اکتسابِ فن کے ساتھ مغربی شعرا کے اسلوبِ فکر و بیان سے بھی استفادہ کیا۔ انگریزی نظموں کے ترجمے کیے۔ ان کی بعض تخلیقی نظموں میں بھی انگریزی شعرا کے تخیّل کا پرتو کہیں کہیں جھلکتا ہے۔ لیکن ’ہمالہ‘ میں اس قسم کے توارد یا تصّرف کا سراغ نہیں ملتا۔ غالباً شیخ صاحب کی مرادیہ ہو گی کہ اقبال نے انگریزی شاعری کے فنی محاسن کو فارسی تراکیب اور متغّزلانہ اسلوب میں رچا کر ایک نیا رنگ پیدا کیا۔ دراصل یہی اقبال کی فنی ہنر مندی کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ مغربی شاعری سے متاثر و مستفید ہونے کے باوجود انھوں نے بھونڈی نقالی نہیں کی بلکہ ابتدائی دور کی انگریزی سے ماخوذ نظموں میں بھی اردو زبان کے لہجے اور شعری روایات کو ملحوظ رکھا ہے۔ وہ خود کہتے ہیں: بیدل اور غالب نے مجھے یہ سکھایا کہ مغربی شاعری کی اقدار اپنے اندر سمولینے کے باوجود، اپنے جذبے اور اظہار میں مشرقیت کی روح کیسے زندہ رکھوں۔۳۵۸؎ اقبال نے احتیاطاً بعض ایسے اجتہادی اقدامات سے بھی گریز کیا جو غالباً ہمارے شعری اسالیب میں اضافے کا باعث ہوتے۔ مثلاً انگریزی میں Transferred Epithet کی ترکیب لفظی بہت عام ہے۔ اس کی ایک مثال اقبال کی نظم ’’گلِ پژمردہ‘‘ کے مندرجہ ذیل متروک شعر میں ملتی ہے: اہ وہ تتلی، وہ اک معصومیت اڑتی ہوئی تھک کے اب پرواز سے تجھ پر نہ بیٹھے گی کبھی۳۵۹؎ لیکن اقبال نے سوچا کہ ہماری شاعری میں استعارے کی جو مختلف قسمیں اور گونا گوں اسالیب موجود ہیں، ان کے ہوتے ہوئے اس نامانوس ترکیب کی کوئی ضرورت نہیں۔ چنانچہ انھوں نے پھر کہیں یہ انداز اختیار نہیں کیا۔ اقبال نے انگریزی شعرا کے مصورانہ اسلوب کا جو اثر قبول کیا وہ ’’ہمالہ‘‘ اور اس دور کی اُن نظموں کی تمثالوں اور تشبیہوں میں نظر آتا ہے جہاں فطرت کسی نہ کسی روپ میں شاعر کے فکر و احساس کی حدود میں در آئی ہے۔ اگرچہ فارسی و اردو کے مثنوی نگاروں نے بھی کہیں کہیں تشبیہوں سے تصویر کاری کا کام لیا ہے، لیکن عموماً ہمارے یہاں تخئیلی تشبیہوں کا چلن زیادہ ہے جو زینتِ کلام کے لیے بہ تکلف، یا تو ضیح کلام کے لیے لائی جاتی ہیں۔ اقبال کی طویل نظموں کے سلسلے کی ایک ابتدائی نظم (یتیم کا خطاب ہلالِ عید سے) کے پہلے اور تیسرے بند میں شاعر نے بڑی کاوش سے ایک درجن انوکھی اور اچھوتی تشبیہیںاختراع کی ہیں جن کا ذکر پہلے آ چکا ہے۔ اس قسم کے ذہنی کرتب سے نظم کے حسن و تاثیر میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ بعد کی نظموں میں اگر کہیں ایسا شعر آ گیا ہے تو اسے خارج کر دیا گیا۔ مثلاً ’ایک آرزو‘ کا یہ شعر : یوں وادیوں میں ٹھہری آ کر شفق کی سرخی جیسے کسی گلی میں کوئی شکستہ پا ہو۳۶۰؎ یا ’’ماہِ نو‘‘ کا یہ متروک شعر: منشیِ قدرت مگر کھا کر کہیں ٹھوکر گرا جب سیاہی گر چکی قط زن سیاہی پر گرا۳۶۰؎ ’ہمالہ‘ میں شاعر نے پہلی بار، روایتی اور کتابی تشبیہوں و تلمیحوں کے علاوہ بعض فطری اور لطیف تشبیہات سے بھی تصویر کاری اور تمثال آفرینی کا کام لیا ہے۔ پہلے بند میں ’’فصیلِ کشور ہندوستاں‘‘ کی تشبیہہ نہایت معنی خیز ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہمالہ نے شمالی سرحدوں پر ایک مضبوط فصیل کی طرح بیرونی حملوں سے حفاظت کی ہے۔ ہمالہ کی عظمت و تقدیس کا تصور پیدا کرنے کے لیے ’’طورِ سینا‘‘ کی تلمیح سے تشبیہہ کاکام لیا گیا ہے، اس اضافے کے ساتھ کہ وہاں تو صرف ایک جلوہ تھا اور یہ عارف کی نگاہ میںسراپا تجلی ہے۔ دوسرے بند کی ٹیپ میںاس ’’تجلی زار‘‘ کی کیفیت کی مصوری کی گئی ہے، لیکن اس سے پہلے ہمالہ کو فطرت کی شاعری کا دیوان قرار دیا ہے۔ جس طرح دیوان کے اشعار گونا گوں کیفیات کے حامل ہوتے ہیں، یہ صحیفۂ فطرت بھی رنگا رنگ مناظر کا مرقع ہے۔ اس مرقع فطرت کا پہلا منظر، یا اس دیوان کا مطلع اول، خود آسمان ہے۔ مطلعِ غزل اور مطلعِ دیوان کا بلند پایہ اور جاذب توجہ ہونا، فنی روایت کے لحاظ سے نہایت مستحسن ہے۔ اس صحیفۂ فطرت کا مطلع اوّل انسان کو ’’خلوت گاہِ دل‘‘ کی طرف مائل کرتا ہے۔ دوسرے بند کی ٹیپ کے شعر میں (برف نے باندھی …کلاہِ مہر عالم تاب پر) اس تجلی زارِ فطرت کی جو درخشاں تصویر پیش کی گئی ہے، اس کے کئی رخ ہیں۔ ہمالہ کی چوٹی پر جو تہ در تہ برف جمی ہوئی ہے، اسے شاعر نے پیچ در پیچ دستار سے تشبیہہ دی ہے۔ جب اس سفید، براق دستار پر سورج کی کرن پڑتی ہے تو اس کا ایک ایک تار اس طرح لشکارے مارتا ہے کہ سورج کی تابانی ماند پڑ جاتی ہے کہ ہمالہ کی جگمگاتی ہوئی چوٹیاں اپنی دستارِ فضیلت پر نازاںہیں اور سورج کی کلاہ پر طنز سے مسکرا رہی ہیں۔ (دستار کی رعایت سے سورج کو کلاہ قرار دیا ہے)۔ اس شعر میں تشبیہہ (دستار) کی تہ داری اور استعارے (خندہ زن) کی تابداری قابل تحسین ہے۔ تیسرے بند میں ہمالہ کے دامن میں بہنے والے صاف شفاف چشمے کو ’’آئینۂ سیال‘‘ کہا ہے کہ مثل آئینہ مناظر کی عکاسی کرتا ہے۔ ہوا، سطحِ آب کو خس و خاشاک سے پاک صاف رکھتی ہے، لہٰذا دامن موج ہوا کو رومال قرار دیا ہے۔ لیکن اگلے بند کی مرکب تشبیہہ زیادہ قابل توجہ ہے۔ ہمالہ ایک بازی گاہِ فطرت ہے جس میں عناصرِ اربعہ، ابر و باد و برق و باراں کی صورت میں گرم جولاں ہیں۔ پہلے شعر میں عناصر کی باہمی آویزشوں کو یوں مجسم کر دکھایا ہے کہ ابر، رہوارِ ہوا پر سوار ہے اور برق کے تازیانے لگا کر اسے تیزی سے ہانک رہا ہے۔ ٹیپ کے شعر میں مست و متوالی گھٹائوں کے جھوم جھوم کر آنے اور تیزی سے گزر جانے کے لیے ’’فیلِ بے زنجیر‘‘ کی تشبیہہ، اگرچہ ذوق کے قصیدے کے ایک شعر سے ماخوذ ہے: ہوا پہ دوڑتا ہے اس طرح سے ابر سیاہ کہ جیسے جائے کوئی فیلِ مست بے زنجیر لیکن بقول عابد مرحوم، ہمالہ کی قدامت اور اس کے دامن میں بسنے والی قدیم اقوام کی رعایت سے اس تشبیہہ کی موزونیت و مناسبت ظاہر ہے۔۳۶۱؎ پانچویں اور چھٹے بند میں بھی نسیم صبح کے گہوارے میں شاخ گل کے جھولنے اور سنگ راہ سے ٹکراتی ہوئی جھوئے کہستاں کی نغمہ آفرینی کی سمعی و بصری تصویریں کھینچی گئی ہیں۔ لیکن ساتواں بند خاص طور سے قابل توجہ ہے، جس کے ابتدائی چار مصرعوں میں مناسب فضا بندی کے بعد شفق شام کے حسنِ گریزاں کی نہایت رنگین تصویر سامنے آتی ہے۔ شام کے وقت وادیٔ کہسار میں دور دور تک سائے پھیلتے جا رہے ہیں،گویا لیلیِٰ شب نے شام ہوتے ہی اپنی زلفیں بکھیر دی ہیں۔ فضا میں سناٹا چھا گیا ہے۔ دھیمے سروں میں آبشاروں کی گنگناہٹ نے اس خاموشی کو تکلم سے زیادہ معنی خیز بنا دیا ہے۔ درخت چپ چاپ سر جوڑے کھڑے ہیں، گویا کسی گہری سوچ میں ڈوبے ہیں۔ اس طلسمی فضا میں جب پہاڑ کی برف پوش چوٹیوں پر شفق کا عکس لرزاں رقص کرنے لگا تو ایسا معلوم ہوا کہ ہمالہ کے رخساروں پر کسی نے غازہ چھڑک کر اسے ایک آسمانی دیوی کی طرح سنوار دیا ہے: کانپتا پھرتا ہے کیا رنگِ شفق کہسار پر خوش نما لگتا ہے یہ غازہ ترے رخسار پر۳۶۲؎ مصّورانہ آرٹ کے علاوہ نظم کا غنائی آہنگ بھی حسبِ معمول نہایت دلکش ہے۔ حتیٰ کہ جہاں کئی کئی اضافتیں آئی ہیں وہاں بھی کوئی ثقالت یا گرانی محسوس نہیں ہوتی۔ مثلاً ’’سوئے خلوت گاہِ دل دامن کش انساں ہے تو‘‘ ، ’’جنبشِ موجِ نسیم صبح گہوارہ بنی‘‘؛ داغ جس پر غازئہ رنگِ تکلف کا نہ تھا‘‘ وغیرہ۔ اسی طرح شاعر کی اس ابتدائی نظم کے بعض شعر حسنِ بیان اور جدت ادا میں غالب جیسے فن کاروں کی یاد دلاتے ہیں۔ مثلاً پہاڑ کی بلندی کی تعریف میں عام پیرایۂ بیان یہ ہے کہ اس کی چوٹیاں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ ’’فلک بوس‘‘ کی ترکیب یہی مفہوم رکھتی ہے۔ لیکن یہاں شاعر نے عام انداز سے ہٹ کر یہ اچھوتا پیرایہ اختیار کیا ہے: ’’چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں‘‘۔ اسی طرح آخری شعر کے بظاہر برجستہ و بے ساختہ مصرعوں میں جو جدت و تازگی ہے وہ بھی حسنِ بیان کا شاہکار ہے (ہاں دکھادے اے تصور…)۔ ’’ابر کوہسار‘‘ (مخزن، نومبر ۱۹۰۱ئ) شیلی کی مشہورنظم The Cloud سے مثاثر ہو کر لکھی گئی ہے۔ شیلی کی یہ نظم اس کے رومانی تخیل کی سحر طرازی اور اس کے اسلوبِ نغمہ گری و تمثال آفرینی کا دلکش نمونہ ہے۔ عنوان کے علاوہ اقبال نے بھی شیلی کی طرح ’’ابر کوہسار‘‘ کے لیے واحد متکلم کا صیغہ استعمال کیا ہے۔ فنی مماثلت کا ایک اور پہلو جو پہلی نظر میں سامنے آ جاتا ہے، خوش آہنگ الفاظ کی سجاوٹ، مترنم قوافی کی جھنکار اور الفاظ و اصوات کی تکرار ہے۔ یہاں ’’ابر کوہسار‘‘ کا پہلا بند اور شیلی کے ابتدائی چار مصرعے درج ذیل ہیں: ہے بلندی سے فلک بوس نشیمن میرا ابر کوہسار ہوں، گل پاش ہے دامن میرا کبھی صحرا ، کبھی گلزار ہے مسکن میرا شہر و ویرانہ مرا ، بحر مرا ، بن میرا کسی وادی میں جو منظور ہو سونا مجھ کو سبزئہ کوہ ہے محفل کا بچھونا مجھ کو۳۶۳؎ The Cloud: I bring fresh showers, for the thirsty flowers From the sens and the streams I bear light shade, for the leaves when laid In their noonday dreams.364 شیلی کی پوری نظم میں طویل و مختصر مصرعوں کی یہی ترتیب اور طویل مصرعوں کے متوازن ٹکڑوں میں قوافی کا یہی انداز قائم ہے۔ اقبال نے بھی نظم کے ہر بند میں غنائیت کا خاص اہتمام ملحوظ رکھا ہے۔ یہ بات محض تقلید سے پیدا نہیں ہو سکتی۔ اقبال فطرتاًایک خوش نوا شاعر ہیں۔ بندشوں کی صفائی سے جو روانی ان کے ابتدائی کلام میں پائی جاتی ہے، اس کے علاوہ الفاظ کی صوتی خصوصیات پر وہ شروع ہی سے متوجہ رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی انھوں نے ’’ہمالہ‘‘ اور ’’گلِ رنگیں‘‘ میں ’’س‘‘، ’’ش ‘‘کی شیریں اصوات، ز ، ذ، ظ اور نون کی غنائیت سے توالیِ اضافت کی ثقالت دور کرنے کے کامیاب تجربے کیے ہیں۔ مثلاً یہ تراکیب ملاحظہ ہوں:فصیلِ کشورِ ہندوستاں، گردشِ شام و سحر کے درمیان، شناسائے خراش عقدئہ مشکل نہیں، شریکِ شورشِ محفل نہیں،زخمیِ شمشیرِ ذوقِ جستجو رہتا ہوں میں، نظارہ آموزِ نگاہِ نکتہ بیں، وغیرہ۔ لیکن مندرجہ بالا بند میں س، ش اور ر کے علاوہ م اور نون منقوطہ کی تکرار (نشیمن میرا، دامن میرا، مسکن میرا) اور ردیف کے ساتھ قوافی کے تال میل سے اقبال کے غنائی آہنگ میں جو نئی گونج، نئی دھن اور ایک وجد و رقص کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے، وہ اس سے پہلے نہیں ملتی۔ اس نظم کے ابتدائی متن میں دس بند تھے، جن میں سے صرف چار منتخب کیے گئے ہیں۔ متروکات میں سے آخری دو بند میں ابر کی نقاب اٹھا اٹھا کر چاند کی رونمائی، یا ہوا کی دست درازی سے ابر کا دامن چاک ہونے اور چاک دامن سے ستاروں کے جھانکنے کی جو تصویر کشی کی گئی ہے، اس میں شیلی کی نظم کے مماثل ٹکڑوں کا پرتو جھلکتا ہے، مگر شیلی کی معنوی تقلید سے اقبال کے شعروں میں وہ روانی اور صفائی نہیں رہی۔ موجودہ متن کے تیسرے بند میں شیلی کے مندرجہ ذیل مصرعوں کا مفہوم بڑے سلیقے سے ادا ہوا ہے: I am the daughter of the Earth and Water And the nursling of the Sky.365 ان دو مصرعوں کے مقابلے میں اقبال کا یہ بلیغ مصرع ملاحظہ ہو: ’’زادئہ بحر ہوں، پروردئہ خورشید ہوں میں‘‘۔ شیلی کے پہلے مصرعے میں Earth حشو ہے اور دوسرے مصرعے میں Sky مبہم۔ اقبال نے اس کی جگہ ’’خورشید‘‘ رکھ کر ، ابر کا صحیح شجرئہ نسب واضح کر دیا ہے۔ ابر کو اگر daughter کہا جائے تو بحر و خورشید ہی اس کے ماں باپ ہیں۔ عام استعارے اور تشبیہیں تو کئی ہیں لیکن دوسرے بند کی ٹیپ میں دو تشبیہیں اپنی معنوی مناسبت کے لحاظ سے نہایت برمحل ہیں۔ پھر یہاں ش اور س کی صوتی تکرار اور (رخ، گیسو، شانہ میں) رعایتِ لفظی کی صنعت بھی قابلِ توجہ ہے: بن کے گیسو رخِ ہستی پہ بکھر جاتا ہوں شانۂ موجۂ صرصر سے سنور جاتا ہوں۳۶۶؎ تیسرے بند کے اس شعر میں ایک اچھوتی تشبیہہ ملاحظہ ہو: سیر کرتا ہوا جس دم لبِ جُو آتا ہوں بالیاں نہر کو گرداب کی پہناتا ہوں۳۶۶؎ آخری بند کے تیسرے مصرعے میں ایک تلمیحی لفظ اس خوبی سے جڑا گیا ہے کہ صورتِ حال کی پوری تصویر سامنے آ جاتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ شدید گرمی کے موسم میں میدان کا سبزہ اس طرح جھلس جاتا ہے کہ گرد آلود خشک تنکوں کے سوا کہیں ہریالی کا نشان تک نہیں ملتا۔ لیکن ایک دو چھینٹے پڑتے ہی اچانک ہمیں جگہ جگہ سبزے کی جھلک نظر آنے لگتی ہے اور ابر کی یہ مسیحائی دیکھ کر بے ساختہ اقبال کا یہ مصرع ہماری زبان پر آ جاتا ہے: ’’سر پہ سبزے کے کھڑے ہو کے کہا قُم میں نے‘‘۔ اس بند کی ٹیپ میں شاعر کی نگاہ چاروں طرف سے گھوم پھر کر ، کسانوں کے جھونپڑوں پر آ کر ٹھہر جاتی ہے جو ابر کی فیض رسانی ہی سے آباد ہیں: فیض سے تیرے نمونے ہیں شبستانوں کے جھونپڑے دامنِ کہسار میں دہقانوں کے۳۶۶؎ نظم کے ایک متروک بند میں دخترِ دہقان کی تصویر سامنے آتی ہے جو دودھ کی ٹھلیا سر پر اٹھائے ہوئے پہاڑ کی چوٹی سے آہستہ آہستہ اتر رہی ہے۔ اس کی آہستہ خرامی کی ادا : ’’اور وہ تھم تھم کے اترتے ہوئے گاتے آنا‘‘۳۶۷؎ شاعر کے تخیل کے لیے جنت نظارہ و فردوس گوش تو ہے، لیکن دہقان ہو یا دخترِ دہقان، یہ سب اس کی نگاہ میں فطرت اور عناصرِ فطرت میں شامل ہیں، اور جہاں فطرت کا ذکر آئے ، وہ آغوش فطرت میں پروردہ انسانوں کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ چنانچہ ’ہمالہ‘ کے آخری بند میں بھی وہ ’’سیدھی سادی زندگی کا ماجرا‘‘ سننے کی تمنا رکھتا ہے، اور اس سلسلے کی آخری نظم ’’ابر‘‘ میںبھی کسان اور اس کے جھونپڑے اس کی توجہ کے مرکز بن جاتے ہیں۔ اس سلسلے کی تیسری نظم ’’ایک آرزو‘‘ بھی سیموئل راجرز (S. Rogers) کی ایک نظم "A Wish" سے متاثر ہو کر کہی گئی ہے لیکن عنوان میں یکسانیت کے علاوہ صرف دو ایک مصرعوں میں مطابقت پائی جاتی ہے۔ مثلاً اقبال کا یہ مصرع: ’’دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو‘‘ راجرز کے اس مصرعے کا ترجمہ ہے: "Mine be a cot beside the hill."368 اس کے علاوہ اقبال کے صرف ایک شعر میں راجرز کے خیال کا ہلکا سا پرتو ملتا ہے، اگرچہ دونوں کے مطالب جداگانہ ہیں: راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم امید ان کی میرا ٹوٹا ہوا دیا ہو راجرز کے مماثل مصرعے یہ ہیں: Oft shell the pilgrim lift the lateh. And share my meal, a welcome guest.368 راجرز کی نظم ’’ایک آرزو‘‘ کے مقابلے میں بہت مختصر ہے۔ اگر ہم ابتدائی متن کو سامنے رکھیں تو یہ فرق اور زیادہ نمایاں ہو جاتا ہے۔ ’’ایک آرزو‘‘ کا محرک جذبہ اور بنیادی تصور، راجرز کی نظم سے یکسر مختلف ہے۔ ’’ایک آرزو‘‘ میں محبت اور صلح و آشتی کا پرستار شاعر اپنے پُرفتن ماحول سے بیزار ہو کر، گوشۂ عزلت کا اس لیے خواہاں ہے کہ اہل وطن کی بیدردی اور نفاقِ باہمی پر آنسو بہائے، اور اپنے آہ و نالہ سے ان کے دلوں میں سوزِ محبت کی جوت جگائے۔ لیکن راجرز کے یہاں ایسی کسی آرزو کا سراغ نہیں ملتا۔ انگریزی نظم میں مناظر کی یہ رنگارنگی اور زبان و بیان کا لطف و لطافت بھی مفقود ہے۔ غرض ’’ایک آرزو‘‘ کے تخیل، اسلوب، تراکیب و تشبیہات میں کہیں انگریزی نظم کی گونج سنائی نہیں دیتی۔ لہٰذا ایک فاضل نقاد کے بقول اسے ’’انگریزی نظم کا آزاد ترجمہ ‘‘۳۶۹؎ کہنا ہر گز مناسب نہیں۔ اس تخئیلی نظم کے بعض اشعار میں مناظرِ فطرت کی مصوری ، سادہ بیانیہ پیرایے میں کی گئی ہے، لیکن تصویریں نہایت روشن اور واضح ہیں: صف باندھے دونوں جانب بُوٹے ہرے بھرے ہوں ندی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو آغوش میں زمیں کی سویا ہوا ہو سبزہ پھر پھر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو۳۷۰؎ یہاں روایتی ’’سبزئہ خوابیدہ‘‘ سچ مچ خوابیدہ نظر آتا ہے۔ ساکن تصویر کے مقابلے میں دوسرے مصرعے کی متحرک تصویر زیادہ نمایاں ہو گئی ہے۔ مندرجہ ذیل اشعار میں حسی تشبیہات کے حسن نے فطرت کے حسن کو اور بھی چمکا دیا ہے۔ خصوصاً دوسرے شعر میں عروسِ فطرت کی مشاطگی دیدنی ہے: پانی کو چھُو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو مہندی لگائے سورج جب شام کی دلھن کو سرخی لیے سنہری ہر پھول کی قبا ہو۳۷۰؎ حسنِ تعلیل کی صنعت میں عموماً پُر تکلف نکتہ آفرینی یا مبالغہ آمیز خیال بندی کا انداز ہوتا ہے لیکن مندرجہ ذیل شعر میں حسنِ تعلیل کو نہایت لطف و خوبی سے استعمال کیا گیا ہے: ہو دل فریب ایسا کہسار کا نظارہ پانی بھی موج بن کر اُٹھ اُٹھ کے دیکھتا ہو۳۷۰؎ الغرض زبان و اسلوب کی سادگی کے ساتھ ساتھ اس نظم میں فطرت کے مثالی حسن کو ایسے دلکش لفظی پیکروں میں ڈھالا گیا ہے کہ ہمارے تھکے ہوئے حواس کو تازگی اور شہری زندگی کے ہنگاموں سے اکتائی ہوئی روح کو سکون حاصل ہوتا ہے۔ انگریزی نظم میں تو مسافر شام کو پہنچتا ہے اور دسترخوان پر بیٹھ جاتا ہے لیکن ’’ایک آرزو‘‘ میںمسافر کی آمد کا سماں ملاحظہ ہو: راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم امید ان کی میرا ٹوٹا ہوا دیا ہو بجلی چمک کے ان کو کُٹیا مری دکھا دے جب آسماں پہ ہر سُو بادل گھرا ہوا ہو۳۷۱؎ ان سادہ اشعار میںجس پُراسرار منظر کی تصویر کشی کی گئی ہے، اس میں تخیل کے لیے رومانی سحر و افسوں کی ایک دنیا آباد ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اقبال کے یہی دو شعر راجرز کی پوری نظم پر بھاری ہیں۔ اس سلسلے کی آخری نظم ’’ابر‘‘ کا ابتدائی متن ۱۵ اشعار پر مشتمل تھا لیکن بانگِ درا میں صرف ۷ شعر درج ہیں۔ ۸؍ اشعار کا ٹکڑا جو ماہنامہ زمانہ (جون ۱۹۰۵ئ) میں شائع ہوا تھا اور باقیات میں ایک مستقل نظم کی حیثیت سے درج ہے، بانگِ درا کے متن میں شامل نہیںکیا گیا۔ موجودہ اشعار بندشِ الفاظ کے لحاظ سے یقینا بہتر ہیں؛ مثلاً داغ کی زبان اور لہجے میں یہ بولتا ہوا شعر سنیے: ہوا کے زور سے اُبھرا ، بڑھا، اُڑا بادل اٹھی وہ اور گھٹا، لو برس پڑا بادل۳۷۱؎ پھر یہاں داغ کے ’’نین سکھ‘‘ میں غالب کی بلیغ ترکیب کا ’’زربفتی پیوند‘‘ ملاحظہ ہو: گرج کا شور نہیں ہے، خموش ہے یہ گھٹا عجیب میکدئہ بے خروش ہے یہ گھٹا۳۷۱؎ غالب نے بزمِ خیال کو ’’میکدئہ بے خروش‘‘ کہا تھا۔ لیکن خاموش ، سیہ مست گھٹائوں کے لیے میکدئہ بے خروش کی تشبیہہ بھی نہایت برمحل ہے۔ متروک حصے کے چند ابتدائی اشعار درج ذیل ہیں: نمودِ ابر سے ہشیار ہو گیا سبزہ اسی کے ہجر میں گویا اداس تھا سبزہ ہوا کے نم سے ہوئی نرم سرو کی ٹہنی جو آ کے فاختہ بیٹھی تو جھک گئی ٹہنی ہلا رہی ہے سرِ شاخ کو جو موج ہوا بنا ہے باغ میں بلبل کے واسطے جھولا نشیمنوں سے نکل کر پرند گاتے ہیں ہوا میں کھیلتے پھرتے ہیں چہچہاتے ہیں۳۷۰؎ اور آخری دو شعروں میں شاعر کی نگاہ پھر کسان اور اس کے جھونپڑے پر آ کر ٹھہر جاتی ہے: کھڑے ہیں محفلِ قدرت کو دیکھنے والے کسان کھیتوں سے اٹھ اٹھ کے جھونپڑوں کو چلے جفاکشی کا خضر کہیے ان کسانوں کو یہ سبز کرتے ہیں کہسار کی چٹانوں کو۳۷۰؎ ان اشعار میں تشبیہہ و استعارہ کی رنگ آمیزی نہ سہی ، فطرت کا سادہ حسن تو ہے۔ لیکن اقبال کے بلند معیار فن پر یہ اشعار بھی پورے نہ اتر سکے۔ اب ہم اُن نظموں کا جائزہ لیں گے جن کے ابتدائی حصے میں فطرت، پس منظر کے طور پر اپنی جھلک دکھاتی ہے اور چند وصفیہ اشعار کے بعد شاعر اصل موضوع پر آ جاتا ہے۔ اس سلسلے کی پہلی نظم ’’ماہِ نو‘‘ کے بنیادی خیال کی وضاحت گزشتہ فصل کے دوسرے جزو (رومانی رجحان) میں متروک اشعار کے حوالے سے کی جا چکی ہے۔ نظم کے ابتدائی حصے کے کئی اشعار میں ’’ماہِ نو‘‘ کے لیے کلاسیکی، تخئیلی اسلوب میں متعدد پُر تکلف تشبیہات لائی گئی ہیں۔ ایسے اشعار خارج کر دیے گئے۔ موجودہ متن کے ابتدائی تین اشعار میں جو تشبیہات ہیں وہ اپنی ظاہری مناسبت کے لحاظ سے زیادہ موزوں، نادر، حسّی اور متحرک ہیں۔ پہلے شعر میں ماہِ نو کو خورشید کی کشتی کا ایک ٹکڑا قرار دیا ہے جو کشتی کے ڈوبنے کے بعد نیلگوں آسمان کے سمندر میں تیرتا پھر رہا ہے۔ دوسری تشبیہہ بھی مرکب ہے۔ ماہِ نو گویا فصّاد کا نشتر ہے جس سے آفتاب کی فصد کھولی گئی ہے اور اب شفق کا خون طشتِ گردوں میں ٹپک رہا ہے۔ تیسرے شعر میں دو حسین تشبیہیں ہیں۔ پہلے مصرعے میں ماہِنو کو عروسِ شام کی بالی سے اور دوسرے مصرعے میں خالص چاندی کی مچھلی سے تشبیہہ دی گئی ہیں: چرخ نے بالی چرا لی ہے عروسِ شام کی نیل کے پانی میں یا مچھلی ہے سیمِ خام کی۳۷۳؎ ’’انسان اور بزمِ قدرت‘‘ کا مرکزی خیال بھی گزشتہ فصل میں زیر بحث آ چکا ہے۔ نظم کے پہلے حصے میں انسان، بزمِ قدرت کی رعنائی و تابانی کو رشک کی نگاہ سے دیکھتا اور سراہتا ہے۔ یہاں حسنِ فطرت کی توصیف کے لیے کئی مختصر روایتی تشبیہیں استعمال کی گئی ہیں۔ مندرجہ ذیل شعر میں تشبیہہ کے ساتھ قرآنی تلمیح کو نہایت معنی خیز انداز میں بطور استعارہ استعمال کیا گیا ہے: گل و گلزار ترے خلد کی تصویریں ہیں یہ سبھی سورئہ والشمس کی تفسیریں ہیں۳۷۴؎ مناظرِ فطرت میں شفق کا حسن، اقبال کے جمالیاتی ذوق کے لیے غالباً سب سے زیادہ پُرکشش تھا۔ چنانچہ انھوں نے اپنی شاعری کے مختلف ادوار میں شفق کے لیے نہایت شوخ، رنگین اور اچھوتی تشبیہیں پیش کی ہیں۔ شفق کے لیے دو تشبیہوں کے ساتھ پھولوں کے لیے یہ تشبیہہ بھی ملاحظہ ہو: سرخ پوشاک ہے پھولوں کی، درختوںکی ہری تیری محفل میں کوئی سبز، کوئی لال پری ہے ترے خیمۂ گردوں کی طلائی جھالر بدلیاں لال سی آتی ہیں اُفق پر جو نظر کیا بھلی لگتی ہے آنکھوں کو شفق کی لالی مئے گلرنگ خُمِ شام میں تو نے ڈالی۳۷۴؎ فطرت کے مقابلے میں انسان کی عظمت کا تصور پیش کرنے کے لیے شاعر نے مکالمے کا جاذبِ توجہ اسلوب اختیار کیا ہے۔ اس نظم کے بیش تراشعار ابتدائی متن کے مطابق ہیں۔ صرف مندرجہ ذیل شعر کا مصرع اولیٰ ترمیم شدہ ہے: نورِ خورشید کی محتاج ہے ہستی میری اور بے منّتِ خورشید چمک ہے تیری۳۷۴؎ ابتدائی متن میں پہلا مصرع یوں تھا: ’’نور کے واسطے محتاج ہے ہستی میری‘‘۔ اس برمحل اصلاح سے لفظی و معنوی حیثیت سے شعر بہتر ہو گیا۔ پہلے اور دوسرے بند کا صرف ایک ایک شعر خارج کیا گیا ہے۔ موجودہ صورت میں دوسرا بند فلسفۂ خودی کی تمہید معلوم ہوتا ہے کیونکہ عظمتِ آدم کے تصور کے ساتھ یہاں بھی خود شناسی کا پیغام دیا گیا ہے: تو اگر اپنی حقیقت سے خبردار رہے نہ سیہ روز رہے اور نہ سیہ کار رہے۳۷۴؎ یہ نظم کا آخری شعر ہے۔ اس سے پہلے تیسرا شعر جو حذف ہوا، نظریۂ وحدت الوجود پر مبنی ہے: جو سمجھنے کی تھی وہ بات نہ سمجھی تو نے یعنی مے پی کے تمیزِ من و تو کی تونے۳۷۵؎ گویا اپنی حقیقت سے خبردار رہنے کا مطلب خود شناسی نہیں بلکہ شعور وحدت ہے، جس کا لازمی نتیجہ اپنی انفرادیت یا کم از کم قومی خودی کی نفی ہے۔ لہٰذا فلسفۂ خودی سے اس نظم کا رشتہ جوڑنے کے لیے یہ شعر خارج کر دیا گیا۔ اسی لیے گزشتہ فصل کے جزو دوم (متفکرانہ و صوفیانہ رجحان) میں اس نظم سے متعلق اشرف ڈار صاحب کی رائے سے صرف ایک حد تک اتفاق کا اظہار کیا گیا تھا۔ اس قسم کی نظموں میں جہاںپس منظر کی حیثیت سے فطرت اور مظاہر فطرت کو کوئی مقام حاصل ہے، ’’جگنو‘‘(مخزن دسمبر ۱۹۰۴ئ) اور ’’کنار راوی‘‘ (نومبر۱۹۰۵ئ) خاص توجہ کی مستحق ہیں۔ ’’جگنو‘‘ کو اپنی نغمگی، تشبیہات کی ندرت اور ایک انوکھے اسلوب میں ’’نظریۂ وحدتِ حسنِ وجود‘‘ کے موثر ابلاغ کی وجہ سے بڑی شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی۔ پروفیسر عزیز احمد مرحوم، اسی دور کی ایک نظم ’’نیا شوالہ‘‘ کی مختلف خوبیوں کو سراہتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اس کی موسیقیت صرف ’’جگنو‘‘ میں ذرا سی منتقل ہوئی ہے، اور کسی نظم میں نہیں‘‘۔۳۷۶؎ اس رائے سے پوری طرح اتفاق کیے بغیر، ہمیں یہ ماننے میں کوئی تامل نہیں کہ غنائیت کے لحاظ سے ’’نیا شوالہ‘‘ اور ’’جگنو‘‘اس دور کی چند بہترین نظموں میں سے ہیں۔ اتفاق سے ایک آرزو، پرندے کی فریاد، ترانۂ ہندی، ہندوستانی بچوں کا قومی گیت، نیا شوالہ اور جگنو کی ایک ہی بحر ہے اور یہ سب نظمیں زبان و بیان کی شیرینی و لطافت اور نغمگی کے اوصاف سے مملو ہیں۔ یہ بحر (مضارع مثمن اخرب : مفعول فاعلاتن، مفعول فاعلاتن)نرم رو ہے،لہٰذا جہاں یہ فطرت کے سکون کا تاثر پیدا کرنے کے لیے موزوں ہے، وہاں اس کا ٹھہرائو اور دھیماپن، حزن و یاس کی کیفیت کو بھی جھلکا سکتا ہے۔ ’’ابر کوہسار‘‘ بھی غنائیت میں مذکورہ بالا نظموں سے کم نہیں لیکن اس نظم میں ابر کی گرم جولانی اور تیز روی کو ملحوظ رکھتے ہوئے ، بحرِ رمل مثمن مخبون، مقصور، محذوف (فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن یا فعلات) اختیار کی ہے جس میں رجز کا پُر شور آہنگ، بہائو اور تیزی ہے۔ اس نظم کی ہیئت بھی مسدس ہے جس کے چاروں مصرعوں میں پے بہ پے چار قافیوں کی ترتیب سے تیزی کا تاثر بڑھ گیا ہے۔ اقبال کا فطری ذوقِ موسیقی ، موضوع اور موڈ کے لحاظ سے نظم کے لیے مناسب ترین بحر اور ہیئت کا انتخاب کرنے میںہمیشہ ان کی صحیح رہنمائی کرتا ہے۔ ’’جگنو‘‘ کی ترکیب بند ہیئت اور ہر بند میں مترنم قوافی کے ساتھ ردیف کے التزام نے اُس نظم کی غنائیت میں اضافہ کر دیا ہے۔ لیکن دراصل خوش آہنگ الفاظ و اصوات کی فن کارانہ ترتیب اس نظم کی غنائیت کا خاص سبب ہے۔ مثلاً پہلے بند کے ابتدائی اشعار ملاحظہ ہوں: جگنو کی روشنی ہے کاشانۂ چمن میں یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں آیا ہے آسماں سے اُڑ کر کوئی ستارہ یا جان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن میں یا شب کی سلطنت میں دن کا سفیر آیا غربت میں آ کے چمکا گمنام تھا وطن میں تُکمہ کوئی گرا ہے مہتاب کی قبا کا ذرّہ ہے یا نمایاں سورج کے پیرہن میں چھوٹے سے چاند میں ہے ظلمت بھی روشنی بھی نکلا کبھی گہن سے، آیا کبھی گہن میں۳۷۷؎ ان میں سے ہر شعر میں نون غنہ، نون منقوطہ اور م کی اصوات کی پیہم تکرار کے علاوہ پہلے شعر میں ش، دوسرے میں س، الف اور ک، تیسرے میں پھر ش، س، الف اور گ، چوتھے شعر میں الف، ر اور ک کی آوازیں کس طرح بار بار دہرائی گئی ہیں۔ آخری شعر میں نون منقوطہ اور ک کا جھنکار کے ساتھ لفظی تکرار (بھی، کبھی) اور دوسرے مصرعے کے متوازن ٹکڑوں میں اندرونی قافیے (نکلا، آیا) بھی توجہ طلب ہیں۔ اصوات کی تکرار اور ردیف و قافیہ کی خوش آہنگی سے ان اشعار کی غنائیت کس درجہ بڑھ گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ابتدائی دور ہی میں اقبال کا غنائی آرٹ ترقی کی کئی منزلیں طے کرکے اس مقام تک پہنچ چکا تھا جو اردو کے بہت کم شعرا کو حاصل ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ موسیقی کے فطری ذوق کے تقاضے سے اقبال نے فارسی میں حافظ و خسرو جیسے خوش نوا شعرا کے علاوہ انگریزی اور سنسکرت کے فن کاروں کے مطالعے سے بھی نغمہ سرائی کی تربیت حاصل کی۔ اگرچہ ہمارے یہاں بیشتر صنائع لفظی، خصوصاً صنعتِ تجنیس و اشتقاق کی غرض و غایت حروف کی تکرار سے ترنم پیدا کرنا ہے ، لیکن اصوات کی تکرار کی اچھی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ ترنم آفرینی کا ایک گُر لفظی تکرار بھی ہے اور خود اقبال کے استاد، حضرت داغ کے اسلوب میں تکرارِ لفظی کو ایک خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ انگریزی کے بعض خوش آہنگ شعراء خصوصاًٹینی سن کے یہاں اصوات کی تکرار سے ترنم آفرینی کے علاوہ شعر کی معنوی کیفیت کو اجاگر کرنے کا کام لیا گیا ہے۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کا ذوق نغمہ گری فارسی اور سنسکرت کے علاوہ ٹینی سن کے اس مخصوص اسلوب سے متاثر ہوا۔ انگریزی کے رومانی شعرا میں ورڈز ورتھ اور شیلی کی طرح ٹینی سن بھی اس دور میں اقبال کے پسندیدہ ترین شعرا میں سے تھا۔ مخزن میں اقبال کی نظم’’آفتاب‘‘ (ترجمۂ گایتری) سے پہلے جو ’’شذرۂ تمہیدی‘‘ درج تھا، اس میں سنسکرت متن کی موسیقیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: گایتری کے مصنف نے ملک الشعرا ٹینی سن کی طرح اپنے اشعار میں ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں جن میں حروفِ علت اور صحیح کی قدرتی ترتیب سے ایک ایسی لطیف موسیقیت پیدا ہو جاتی ہے جس کا غیر زبان میں منتقل کرنا، ناممکنات میں سے ہے۔۳۷۸؎ اقبال ہماری زبان کے سب سے بڑے غنائی شاعر صرف اس لیے نہیں کہ وہ موسیقی کے فطری ذوق سے بہرہ مند تھے، بلکہ اس لیے بھی کہ ایک فن کار کی حیثیت سے انھوں نے ابتدا ہی میں ترنم آفرینی کا فن، مشرق و مغرب کے بہترین نغمہ گروں کے گہرے مطالعے سے سیکھا۔ اگرچہ انھوں نے اپنی شاعری میںکبھی سطحی نغمہ سرائی پر اپنے فکر و تخیل کو قربان نہیں کیا، لیکن اکتساب فن کے ابتدائی ادوار میں کبھی کبھی صوت بندی اور ترنم آفرینی کی شعوری کوشش بھی کی ہے جس کی ایک مثال ہمیں روزگارِ فقیر ، جلد دوم میں ملتی ہے۔ شیخ اعجاز احمد کی بیاض سے منقول مندرجہ ذیل اشعار غالباً اسی دور سے تعلق رکھتے ہیں: دیکھ اے غافل یہ دنیا جائے آسائش نہیں اس ختن سے کر گیا ہے آہوئے آرام رم ہائے اپنا ہی نظر آیا نہ کچھ انجام اسے دیکھتا تھا جام میں ہر چیز کا انجام جم دم میں جب تک دم ہے گردوں تک رسائی ہے محال گلشنِ ہستی میں ہے سَو دام کا اک دام دَم۳۷۹؎ نظم ’’جگنو‘‘ کے پہلے بند کے مندرجہ بالا اشعار میںتشبیہیں بھی بیشتر اچھوتی ہیں۔ مانا کہ ان تخئیلی تشبیہوں میں تصویر کاری نہیں، لیکن تزئینِ کلام کا وصف تو ہے۔ پھر یہ بات بھی نہیں کہ جو تشبیہہ حقیقی مشاہدے پر مبنی نہ ہو بلکہ محض تخیل کی ایجاد ہو، وہ تمثال آفرینی کی صلاحیت سے عاری ہوتی ہے۔ اسی بند کے چوتھے شعر کے مصرعِ اولیٰ (تکمہ کوئی گرا ہے) میں جو تشبیہہ ہے وہ کئی خیالی مفروضوں اور استعاروں پر مبنی ہے، لیکن اس تشبیہہ سے مہتاب نے ایک زرتار پیراہن والی حسینہ کا روپ دھار لیا ہے۔ چھٹے شعر میں تشبیہہ نہیں بلکہ اس میں ایک عارفانہ رمز پوشیدہ ہے جس کی وضاحت نظم کے اگلے دو بند میں کی گئی ہے۔ یہ بلیغ شعر اس رمز وحدت کا ترجمان ہے: حسنِ قدیم کی یہ پوشیدہ اک جھلک تھی لے آئی جس کو قدرت خلوت سے انجمن میں پہلے بند کے آخری شعر (پروانہ اک پتنگا، جگنو بھی اک پتنگا… ) میںجگنو کو پروانے پر اس لیے فوقیت دی گئی ہے کہ پروانہ ’’روشنی کا طالب‘‘ ہے اور جگنو خود ’’روشنی سراپا‘‘۔ یہاں پروانے کی روایتی علامت کے مفہوم میں تبدیلی بھی کی گئی ہے اور ایک نئی علامت کا اضافہ بھی ہوا ہے۔ دوسرے بند میں ترنم آفرینی کا انداز قریباً وہی ہے لیکن ایک اضافے کے ساتھ۔ چوتھے شعر کا پہلا مصرع ملاحظہ ہو: رنگیں کیا سحر کو بانکی دلھن کی صورت پہنا کے لال جوڑا شبنم کی آرسی دی۳۸۰؎ اس مصرعے کا پہلا ٹکڑا اور پانچویں شعر کے مصرع اولیٰ کا پہلا ٹکڑا، متوازن بھی ہیں اور ہم قافیہ و ردیف بھی: سایہ دیا شجر کو ، پرواز دی ہوا کو پانی کو دی روانی، موجوں کو بے کلی دی۳۸۰؎ ان دونوں میں جو توازن ہے، اس کے علاوہ دوسرے مصرعے میں پانی اور روانی کے اندرونی قافیے بھی ترنم میں اضافہ کر رہے ہیں۔ ترنم آفرینی کے علاوہ دوسرے بند میں دو تشبیہوں سے حسن کاری بھی کی گئی ہے: نظّارئہ شفق کی خوبی زوال میں تھی چمکا کے اس پری کو تھوڑی سی زندگی دی رنگیں کیا سحر کو بانکی دلھن کی صورت پہنا کے لال جوڑا، شبنم کی آرسی دی۳۸۰؎ لیکن اس بند کی معنوی اہمیت زیادہ ہے۔ دراصل یہ بند اگلے بند کے عارفانہ نکات کی تمہید ہے۔ دنیا کی ہر چھوٹی بڑی شے کوئی نہ کوئی خوبی یا حسن اپنے اندر رکھتی ہے، لیکن تمام حسن و خوبی کا سرچشمہ ایک ہی ذات ہے، گو اس کے مظاہر مختلف ہیں۔ آخری بند میں تمام کائنات میں وحدت کے رشتے کو وحدت الوجودی منطق سے واضح کیا ہے۔ اس عالم کثرت میں ہر جگہ ایک ہی نور وحدت کا ظہور ہے۔ وہی حسنِ ازل کی تجلی ہے جو انسان میں سخن، غنچے میں چٹک، بلبل میں نغمہ، پھول میں مہک اور جگنو میں چمک بن کر ظاہر ہو رہی ہے۔ جب اس رشتۂ وحدت کی بنیاد پر ہر شے کی حقیقت ایک ہے تو ہمارے درمیان یہ اختلافات، یہ من و تو کے جھگڑے کیوں ہیں: یہ اختلاف پھر کیوں ہنگاموں کا محل ہو؟ ہر شے میں جبکہ پنہاں خاموشیِ ازل ہو۳۸۰؎ بات تو بظاہر وہی ہے جو غالب نے کہی ہے: جب کہ تجھ بِن کوئی نہیں موجود پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟ لیکن غالب کا استفہام محض ایک ذہنی الجھن کا اظہار ہے۔اقبال جب کہتے ہیں ’’کیوں ہو؟‘‘ تو استفہام ایک انتباہ بن جاتا ہے۔ یعنی یہ تمام اختلافات بے بنیاد ہیں، محض ہماری کج فہمی کا نتیجہ۔ غالب کا تخاطب خدا ہے اور اقبال کا روئے سخن براہ راست انسان کی طرف۔ اور یہ بہت بڑا فرق ہے۔ اس بند کے ایک اور شعر میں اقبال کا اندازِ بیان، غالب کے ایک شعر سے ملتا جلتا ہے۔ اقبال کا یہ اسلوب : ع ’’نغمہ ہے بوئے بلبل ، بو پھول کی چہک ہے‘‘، غالب کے اس شعر کی یاد دلایا ہے: نشہ ھا شاداب رنگ و سازھا مستِ طرب شیشۂ مے سروِ سبزِ جوئبارِ نغمہ ہے عابد صاحب، اقبال اور غالب کے شعروں کو ’’اختلالِ حواس‘‘ کی ایک مماثل کیفیت کا آئینہ دار سمجھتے ہیں۔ ممکن ہے نشے کی ترنگ میں غالب پر اختلالِ حواس کی یہ کیفیت گزری ہو، لیکن اقبال کا عرفانِ وحدت، اختلالِ حواس کے بجائے اس طبیعیاتی حقیقت پر مبنی ہے کہ رنگ و نور و صوت کا فرق محض ظاہری ہے۔ اگر تجزیہ کیا جائے تو تموّجِ نور اور تموّجِ صوت میں بڑی یکسانیت پائی جاتی ہے۔ یہاں عارف کے وجدان اور عالمِ طبیعیات کے تجرباتی مشاہدے میں وہی ہم آہنگی ہے جو ’’طلوعِ اسلام‘‘ کے مندرجہ ذیل شعر میں ظاہر ہوئی ہے: حقیقت ایک ہے ہر شے کی، خاکی ہو کہ نوری ہو لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرّے کا دل چیریں۳۸۱؎ اس سلسلے کی آخری قابلِ ذکر نظم ’’کنارِ راوی‘‘ مثنوی کی ہیئت میں بلحاظ موضوع و مضمون، تین پاروں پر مشتمل، ایک مختصر نظم ہے۔ موجودہ متن کے کل ۱۲ اشعار ابتدائی متن کے مطابق ہیں۔ صرف دوسرے بند کے دو شعر خارج ہوئے ہیں۔ پہلے اور دوسرے بند کے ۸؍اشعار پس منظر یا تمہید سے متعلق ہیں۔ آخری بند (۴ شعر) میں حیات انسانی کے ابدی تسلسل کو ایک تمثیل کے ذریعے واضح کیا گیا ہے۔ نظم کی قدر وقیمت کا انحصار اسی حکیمانہ نکتے اور اس کی شاعرانہ پیشکش پر ہے۔ پس منظر یا تمہید کے دو بندوں میں سے پہلے بند میں داخلی کیفیت کا اظہار اور دوسرے بند میں خارجی ماحول کا بیان ہے۔ اس نظم کی بحر (مجتث مخبون محذوف): مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن یا فعلات) بہت نرم اور شاعر کی ذہنی کیفیت کے لحاظ سے موزوں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ابتدا ہی سے نظم پر تفکّر اور معنویت کا سماں چھایا ہوا ہے۔ شاعر راوی کے کنارے دم بخود کھڑا ہے۔ شام کی خاموشی میں راوی کی موجوں کی ترنم ریزی نے اس پر عارفانہ بے خودی کی کیفیت طاری کر دی ہے اور اس کی روح حسنِ ازل کی حریم ناز میں سجدہ ریز ہے: پیام سجدے کا یہ زیر و بم ہوا مجھ کو جہاں تمام سوادِ حرم ہوا مجھ کو۳۸۲؎ دوسرے بند کے ابتدائی دو شعروں میں، شفقِ شام کی رنگینیوں سے متاثر ہو کر شاعر کے تخیل نے بڑی اچھوتی تشبیہیں پیش کی ہیں۔ پہلے شعر میں جو مرکب تشبیہہ آئی ہے، لفظی پیکر تراشی کا ایک نادر نمونہ ہے: شرابِ سرخ سے رنگیں ہوا ہے دامنِ شام لیے ہے پیرِ فلک دستِ رعشہ دار میں جام۳۸۲؎ اس تشبیہہ کی تہ داری ملاحظہ ہو۔ ڈوبتے ہوئے سورج کو ایسے جام سے تشبیہہ دی گئی ہے جو شرابِ سرخ سے لبریز ہو۔ پھر اسے پیرِ گردوں کے تھر تھراتے ہوئے ہاتھوں کا جام قرار دیا ہے۔ یہ جام بوجہ رعشہ چھلک پڑا ہے اور شام کا دامن شرابِ سرخ سے رنگین ہو گیا ہے۔ اس رنگین منظر کے لمحاتی نمود کے بعد شام کے دھندلکے میں ماحول پر گہری سنجیدگی طاری ہو جاتی ہے۔ یہاں سے کچھ دور، راوی کے دوسرے کنارے پر مقبرئہ جہانگیر کے بلند و بالا مینار، انقلابِ روزگار کی علامت بن کر ، اس نیم تاریک ماحول کی خاموشی اور سنجیدگی میں تاریخی عظمت و قدامت کا پُر اسرار رنگ بھر رہے ہیں۔ اس تاثر کو خیال افروز الفاظ و اصوات سے شاعر نے جس خوبی سے جھلکایا ہے، وہ اس کی فنکارانہ مہارت کی روشن مثال ہے۔ اگرچہ اس نظم کے مختلف اشعار میں شاعر نے بعض شیریں و خوش آہنگ حروف، مثلاً ش، س، ر، م ، نون غنہ، و منقوطہ کی تکرار سے غنائیت پیدا کی ہے جس کی مثالیں، پہلے شعر (سکوتِ شام میں محو سرود ہے راوی…)، دوسرے شعر (پیامِ سجدہ کا …) چوتھے شعر(شرابِ سرخ سے …) اور آٹھویں شعر میں نمایاں ہیں: مقام کیا ہے سرودِ خموش ہے گویا شجر ؟ یہ انجمنِ بے خروش ہے گویا۳۸۲؎ لیکن زیر نظر شعر میں اصوات و الفاظ و معانی کی ہم آہنگی کی جو نادر مثال (کم از کم اس دور میں) ملتی ہے، اس کی فنی لطافت، ایک اقبال شناس نقاد، ڈاکٹر سید عبداللہ کے اس بیان سے واضح ہو گی۔ فرماتے ہیں : ’’اقبال آوازوں کی Suggestive تاثیر سے اچھی طرح باخبر تھے اور بے ساختہ طور پر ان کے حروف کی شکلیں بھی مطابقِ مضمون ہو جاتی ہے۔مثلاًاس شعر میں جس میں مزار جہانگیر کے میناروں کی عظمت کے ساتھ مغل تہذیب کی گزشتہ عظمت اور ماضی کے دھندلکوں میں اس کے تاثر کا تصور (حرفِ الف کی قامت کے ذریعے) دلایا گیا ہے: کھڑے ہیں دور وہ عظمت فزائے تنہائی منارِ خواب گہِ شہسوارِ چغتائی آپ دوسرے مصرعے میں میناروں کی مناسبت سے الف کی تکرار اور اس کی شکل کی امامت اور اقامت پر غور فرمائیے اور پھر لفظ ’دور‘ کی وائو معروف پر بھی نظر رکھیے جس سے دوری کا تصور ابھرتا ہے۔ مگر یاد رہے کہ یہ اہتمام بے ساختہ ہے اور وہ دانستہ اور بالالتزام صنعت گری نہیں کرتے…‘‘۳۸۳؎ آخری بند میں شاعر ہمیں یہ منظر دکھاتا ہے کہ ایک تیز رفتار کشتی راوی کی موجوں سے کھیلتی ہوئی ہمارے سامنے سے گزرتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ پھر یہ اس عام مشاہدے کو ایک نکتۂ خاص کی تفہیم کے لیے تمثیلی استدلال بنا کر پیش کرتا ہے۔جس طرح حدِ نظر سے دور نکل جانے کے بعد بھی کشتی کا سفر برابر جاری رہتا ہے، اسی طرح حیاتِ انسانی کا سفینہ بھی اس عالمِ مادی کے منظرِ عام سے روپوش ہو جانے کے بعد بھی ابدیت کے بحرِ بے کنارمیں ہمیشہ رواں دواں رہتا ہے۔ یوں تو حیات بعد الممات کا تصور ایک عام عقیدے کی طرح ہر مسلمان کے دل میں موجود ہے لیکن اس محسوس تمثیل کے ذریعے اس تصور کو گویا عین الیقین کے درجے تک پہنچا دیا ہے۔ تمثیل سے یہاں مراد ایک طویل و مرکب تشبیہہ ہے۔ اس قسم کی حسی، واقعاتی اور مشاہدے پر مبنی تمثیلیں مغربی شعرا کے یہاں عام ہیں۔ ہماری شاعری میں تشبیہہ کی طرح تمثیل بھی بیشتر تخئیلی و عقلی ہوتی ہے۔ اقبال کے اسی دور کے کلام میں مشرقی انداز کی تمثیل، اُس مختصر فن پارے (شاعر) میں ملتی ہے جس میں قوم کو جسمِ انسانی سے اور اجتماعی زندگی کے مختلف طبقات کو اعضائے جسمانی سے تشبیہہ دے کر ’’شاعرِ رنگیں نوا‘‘ کو ’’دیدئہ بینائے قوم‘‘ کہا گیا ہے۔ کیونکہ جس طرح آنکھ سارے جسم کے دکھ درد میں شریک ہو کر آنسو بہاتی ہے، اسی طرح شاعر بھی پوری قوم کا ہمدرد ہوتا ہے اور اپنے کلام میں قومی احساسات و جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ یہ تخیل محسوس تشبیہات پر مبنی ہونے کے باوجود تعقلی ہے، اوّل الذکر کی طرح مشاہداتی اور تمثال آفریں نہیںہے۔ خالص تفکرانہ نظموں میں متعدد نظمیں ایسی ہیں جن میں خارجی مظاہر یا مختلف عناصرِ فطرت محض وسیلۂ اظہار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ شاعر جب گلِ رنگیں، آفتابِ صبح ، چاند، خفتگانِ خاک یا شمع سے خطاب کرتا ہے، تو ابتدا ہی میں ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ یہ طرزِ تخاطب کسی مفکر شاعر کا ہے۔ اگر تمہید میں چند توصیفی اشعار آ گئے ہیں تو نظم میں ان کی کوئی خاص حیثیت نہیں۔ ’’عقل و دل‘‘ اور ’’سرگزشتِ آدم‘‘میں کسی خارجی وسیلے کے بغیر، اصل موضوع پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ فکری سلسلے کی پہلی نظم ’’گلِ رنگیں‘‘ ہے۔ اس نظم کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایک متلاشیِ حقیقت، مفکّر شاعر کے ذہنی تجسّس سے ہمیں پہلے پہل متعارف کراتی ہے۔ فنی حیثیت سے یہ ابتدائی کوشش زیادہ کامیاب نہیں رہی۔ نظر ثانی کے بعد اس نظم میں اتنی تبدیلی ہو چکی ہے کہ اس کے فنی پہلو پر بحث کرنا بے سود ہے۔ لہٰذا زمانی ترتیب کے لحاظ سے ہم ’’خفتگانِ خاک سے استفسار‘‘کا جائزہ لیں گے۔ اس سلسلے کی تمام نظموں میں ’’خفتگانِ خاک سے استفسار‘‘ (مخزن، فروری ۱۹۰۲ئ) کی فکری اہمیت نمایاں ہے۔ اس نظم میں اقبال کے متجسّس ذہن کے تمام گوشے بے نقاب ہو گئے ہیں، بلکہ اقبال کی شخصیت کے بعض پہلوئوں کی جھلک بھی سب سے پہلے یہیں نظر آتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ نظم اس دور میں اقبال کے ذہنی افکار اور شخصی میلانات کی سب سے زیادہ نمائندگی کرتی ہے۔ یہ نظم بحرِ رمل مثمن محذوف یا مقصور (فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلات یا فاعلن) میں ہے جو اپنی روانی اور سہولت کے لحاظ سے اردو میں غالباً سب سے زیادہ مستعمل اور مقبول بحر ہے۔ اس دور کی متعدد نظمیں مثلاً ہمالہ، گلِ رنگیں، مرزا غالب، صدائے درد، آفتابِ صبح، گلِ پژمردہ، سیّد کی لوحِ تربت، ماہِ نو ، شاعر، رخصت اے بزمِ جہاں، طفلِ شیر خوار، نالۂ فراق، چاند ، داغ، بچہ اور شاعر، اگلے دور کی نظموں میں سوامی رام تیرتھ، وصال، عاشقِ ہرجائی اور صقلیہ، نیز بانگِ درا حصہ سوم کی طویل نظموں میں گورستانِ شاہی، فلسفۂ غم ، شمع و شاعر، والدہ مرحومہ کی یاد میں اور خضرِ راہ ، اسی بحر میں کہی گئی ہیں۔ گویا بانگِ درا کے مصنف کے ذہن و ذوق کا سفینہ اس بحر میں بڑی تیزی سے رواں دواں رہا۔ حتیٰ کہ ابتدائی دور میں خود شاعر بھی اس کے بہائو پر قابو نہ پا سکا۔ لہٰذا متروکات کی تعداد بھی سب سے زیادہ انھی نظموں میں ملتی ہے۔ چونکہ یہ نظم مثنوی کی نسبتاً آزاد ہیئت میں کہی گئی ہے، اس لیے شاعر کے خیالات کا سلسلہ اور بھی دراز ہو گیا ہے۔ بعد میں اس کے تینوں بند میں سے کئی اشعار خارج کرنے پڑے اور اب ۳۹ میں سے کل ۲۶ شعر رہ گئے ہیں۔ اس نظم کے تمہیدی بند کو لیجیے، جس میں ابتدائی متن کے دس اشعار میں سے ۵ کے اخراج اور ایک شعر کے اضافے کے بعد، اب صرف ۶ اشعار میں شام کی منظر کشی کی گئی ہے۔ یہ بند گرے کی مشہور نظم Elegy کے ابتدائی حصے سے بہت مشابہ ہے۔ شاعر نے عام اسلامی روایت کے برخلاف، گرے کی تقلید میں، بعدِ مغرب گورِ غریباں کا رخ کیا ہے۔گرے کی نظم کی طرح یہاں بھی شام کی سیہ پوشی اور اداسی کا سماں ہے(یہ سیہ پوشی کی تیاری کسی کے غم میں ہے): کھیتوں سے تھکے ماندے کسانوں کی واپسی کا ذکر ہے (ابتدائی متن کا چوتھا شعر: کھیت سے آتا ہے دہقاں …) اور ماحول کے پر اسرار سناٹے میں ’’ساحرِ شب‘‘ کا افسوں بھی پھونکا گیا ہے (کر رہا ہے آسماں جادو لبِ گفتار پر)۔ لیکن فرق یہ ہے کہ گرے کی فضا بندی، نظم کے موضوع و مطالب سے پوری طرح ہم آہنگ ہے اور گرے کی نظم میں تمہیدی اشعار کے بعد مرحومین کی حسرت بھری یادیں ہیں؛ ان کی معصومیت اور شرافت، اعلیٰ صلاحیتوں کے باوجود ان کے جوہر فطری کی پامالی کا ذکر ہے، حالات کی ناسازگاری سے ان کی محرومیوں اور ناکامیوں کا ماتم ہے۔ اس طرح یہ نظم پوری انسانیت کا المیہ ہے اور شامِ غریباں کے ماحول کی اداسی نظم کی پوری فضا پر چھائی ہوئی ہے۔ لیکن زیر بحث نظم میں، حُزنیہ تمہید کے بعد، ’’منظر حرماں نصیبی کا تماشائی ‘‘ شاعر تجاہلِ عارفانہ سے کام لیتے ہوئے دنیا بھر کے مسائل چھیڑ دیتا ہے اورآخر تک فلسفہ طرازی میں محو رہتا ہے۔ شاعر کا یہ اسلوب ’’محل شئیِ لغیرہٖ‘‘کا نمونہ اور بلاغتِ فن کے منافی ہے۔ دوسرے بند (ساتویں شعر) سے استفسار کا جو سلسلہ شروع ہوتا ہے، وہ تیسرے بند کے آخر (انیسویں شعر) تک بلا فصل جاری رہتا ہے۔ ابتدائی متن میں یہ سلسلہ دراز تر تھا۔ وہاں قریباً ۲۹، ۳۰ مسائل کا ذکر تھا۔ اب یہ تعداد گھٹ کر ۱۹ رہ گئی ہے۔ لیکن غور کیجیے تو اس موقع پر حیات بعد الممات کے بارے میں جو بنیادی سوالات فطری طور پر ذہن میں آ سکتے ہیں، وہ مندرجہ ذیل۴؍اشعار میں اٹھائے گئے ہیں: واں بھی انساں اپنی اصلیت سے بیگانے ہیں کیا؟ امتیازِ ملّت و آئیں کے دیوانے ہیں کیا؟ باغ ہے فردوس یا اک منزلِ آرام ہے؟ یا رخِ بے پردئہ حسنِ ازل کا نام ہے؟ کیا جہنّم معصیت سوزی کی اک ترکیب ہے؟ آگ کے شعلوں میں پنہاں مقصدِ تادیب ہے؟ دید سے تسکین پاتا ہے دلِ مہجور بھی؟ لن ترانی کہہ رہے ہیں یا وہاں کے طور بھی؟ تم بتا دو راز جو اس گنبدِ گرداں میں ہے موت اک چبھتا ہوا کانٹا دلِ انساں میں ہے۳۸۳؎ ان میں سے بھی، اسلامی عقائد کے مطابق، جنت و دوزخ کی حقیقت کے بارے میں خفتگانِ خاک سے استفسار بے جا ہے، کیونکہ روزِ جزا سے پہلے جنت یا دوزخ کی حقیقت ان پر منکشف نہ ہو گی۔ دراصل یہاں بھی شاعر نے استفسار کے پیرایے میں اپنے نظریات کا اظہار کیا ہے۔ دیگر اشعار میں جن معاشی و معاشرتی مسائل کا ذکر چھیڑا گیا مثلاً ع: ’’کیا وہاں بجلی بھی ہے، دہقاں بھی ہے، خرمن بھی ہے؟‘‘ع ’’ تنکے چنتے ہیں وہاں بھی آشیاں کے واسطے؟‘‘ ع ’’ واں بھی کیا فریادِ بلبل پر چمن روتا نہیں ؟‘‘ وغیرہ ، یہ سب بے محل اور دو راز کار باتیں ہیں۔ لیکن اگر ہم ان مسائل کی ایک فہرست مرتّب کرنا چاہیں، جو اُس دور میں اقبال کے غور و فکر کا موضوع بنے رہے تو ہمیں ان اشعار کے علاوہ ابتدائی متن سے بڑی مدد ملے گی۔ مثلاً فلسفیانہ مسائل میں حیات و ممات، وحدت و کثرت ، جبر و قدر، زمان و مکان (: ع ’’وہ بھی حیرت خانۂ امروز و فردا ہے کوئی ؟‘‘ یا ع:’’کیا عوض رفتار کے اس دیس میں پرواز ہے؟‘‘) جیسے اہم مسائل کے بارے میں اس نظم میں واضح اشارات ملتے ہیں۔ پھر معاشی مسائل بھی ہیں( جن کا ذکر اس دور کی نثر میں تو ہے، شعر میں کہیں نہیں) مثلاً کسبِ معاش کی دشواریاں (ع ’’اس جہاں میں اک معیشت اور سو افتاد ہے‘‘)، محنت کش طبقے کا معاشی استحصال (بجلی، دہقان، خرمن، اندیشۂ رہزن) وغیرہ۔ ابتدائی متن میں اقتصادی بدحالی کا درد ناک منظر بھی ہے: واں بھی آزارِ غریبی سے کبھی روتے ہیں کیا؟ اس ولایت میں بھی دل ٹوٹے ہوئے ہوتے ہیں کیا؟۳۸۵؎ اسی طرح اگر ہم اُس دور کے بعض معاشرتی و اخلاقی مسائل کے بارے میں شاعر کا ذہنی رویہ اور ردِ عمل معلوم کرنا چاہیں تو ابتدائی متن کے چند اشعارہی ہماری رہنمائی کر سکتے ہیں۔ مثلاً معاشرے میں اہل ثروت کی جھوٹی عزت اور ریا کارانہ خوشامد، تقویٰ اور کردار کے بجائے دولت و اقتدار کو معیارِ شرافت قرار دینا، اہلِ ہنر کی ذلت و خواری ، ان سب حالات سے شاعر کی بیزاری کا اظہار مندرجہ ذیل متروک اشعار میں ہوا ہے: یہ خوشامد اُس ولایت کا بھی کیا دستور ہے؟ واں بھی کیا سنگِ ریا سے شیشۂ دل چور ہے؟ واں کی عزت بھی، حکومت بھی، حباب آسا ہے کیا؟ واں بھی یہ دولت ہی پیمانہ شرافت کا ہے کیا؟ آہ اس کشور میں تو جوہر کی عزت کچھ نہیں واں کی نگری میں بھی اس موتی کی قیمت کچھ نہیں؟۳۸۶؎ مندرجہ ذیل شعر سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ اقبال موسیقی کی طرح، اچھے شعر سے بھی اتنے متاثر ہوتے تھے کہ تڑپ اٹھتے اور شدّت تاثر سے رقّت طاری ہو جاتی تھی: یاں تو اک مصرعے میں پہلو سے نکل جاتا ہے دل شعر کی گرمی سے کیا واں بھی پگھل جاتا ہے دل؟۳۸۶؎ مندرجہ ذیل شعر میں یوں تو ایک عام حقیقت کا بیان ہے، لیکن ممکن ہے کہ خانگی زندگی کی تلخیوں کے بارے میں ذاتی تجربے کا اظہار ہو: رشتہ و پیوند یاں کے جان کا آزار ہیں اُس گلستاں میں بھی کیا ایسے نکیلے خار ہیں؟۳۸۶؎ اُس دور کی نظموں میں یہ پہلی نظم ہے جس میں شاعر نے اپنے افکارِ نو کے اظہار کے لیے الفاظ و تراکیب کے نو بہ نو سانچے ڈھالنے کے کامیاب تجربے کیے ہیں۔ مثلاً اس نظام عالم کو ’’حیرت خانۂ امروز و فردا‘‘ اور ’’پیکار عناصر کا تماشا‘‘ کہا ہے۔ اوّل الذکر ترکیب برسوں بعد پیام مشرق‘‘ کی ایک مشہور غزل(در بیابان جنوں بردی و رسوا ساختی) کے ایک شعر میں یوں آئی ہے: نقش تازہ کن کہ ما جدّت پسند افتادہ ایم ایں چہ حیرت خانۂ امروز و فردا ساختی۳۸۷؎ حصول معاش کی جد و جہد میں انسان کو طرح طرح کی دشواریاں پیش آتی ہیں۔ اس مفہوم کے لیے ’’اک معیشت اور سو افتاد‘‘ کے الفاظ کتنے برجستہ و برمحل ہیں۔ شاید ’’معیشت‘‘ کا لفظ اپنے اصطلاحی معنی میں اس سے پہلے کبھی نظم نہ ہوا ہو گا۔ مندرجہ ذیل شعر میں شاعر کا نظریۂ دوزخ کس بلاغت سے ادا ہوا ہے: کیا جہنّم معصیت سوزی کی اک ترکیب ہے؟ آگ کے شعلوں میں پنہاں مقصدِ تادیب ہے؟ ’’معصیت سوزی‘‘ اور ’’مقصدِ تادیب‘‘ کی جدید تراکیب کے بغیر اس وسیع مفہوم کو دو مصرعوں میں سمونا محال تھا۔ اس سلسلے کی ایک مختصر نظم ’’عقل و دل‘‘ (مخزن، مئی ۱۹۰۲ئ) اُس دور کی ابتدائی نظموں میں اپنے فکری توازن اور فنی حسن و بلاغت کے لحاظ سے کامیاب ترین تخلیق ہے۔ عقل و عشق کا مسئلہ حکما میں ہمیشہ ایک نزاعی مسئلہ رہا ہے۔ لیکن اقبال نے اشراقی حکما اور معتزلہ کے انتہا پسند رویوں سے ہٹ کر، اس نظم میں عقل و عشق کے دائرئہ عمل کی تحدید و تعیین اس طرح کی ہے گویا دونوں متوازی اور معاون قوتیں ہیں، اگرچہ عشق کو ایک لحاظ سے فضیلت حاصل ہے۔ ابتدائی حصے میں پہلے عقل کے مراتب و کمالات کا بیان ہے۔ اسی کی بدولت خاک نشیں انسان کی افلاک تک رسائی ہے۔ یہاں یہ سادہ و بلیغ مصرع کس خوبی سے عقل کی بلند پروازی کا مفہوم ادا کر رہا ہے۔ ع: ’’ہوں زمیں پر گزر فلک پہ مرا‘‘۔ عالمِ مادی میں ترقی کی راہیں عقل ہی کی رہنمائی میں کشادہ ہوتی ہیں۔ یہاں عقل کی رہنمائی کے لیے ’’خضر خجستہ پا‘‘ کی تلمیحی تشبیہہ قابلِ توجہ ہے۔ کائنات کے مطالعے اور حقیقتِ اشیا کو سمجھنے میں اسی سے مدد ملتی ہے۔ شاعر نے عقل کو ’’کتابِ ہستی کی مفسّر‘‘ کہہ کر عقل کے استدلالی اور تجزیاتی طریقۂ کار کی طرف نہایت خوبی سے اشارہ کیا ہے۔ مشاہدئہ فطرت کے نتیجے میں خدا کی قدرت آشکار ہوتی ہے، لہٰذا عقل ’’مظہرِ شانِ کبریا‘‘ بھی ہے۔ نظم کے دوسرے حصے میں عقل کے ان دعاوی کی تردید نہیں کی گئی(: ع ’’دل نے سن کر کہا یہ سب سچ ہے‘‘) صرف عشق کی قدر اعلیٰ کی برتری واضح کی گئی ہے۔ عقلی کاوشوں کے نتیجے میں جو علم حاصل ہوتا ہے، وہ سطحی اور قیاسی ہے لیکن وجدان کے ذریعے انسان حقیقت کلی کا مشاہدہ کرتا ہے، اور اس طرح اسے عین الیقین حاصل ہوتا ہے۔ یہاں ’’خبر‘‘ اور ’’نظر‘‘کا فرق نہایت سادہ لفظوں میں کس بلاغت سے واضح کیا گیا ہے: رازِ ہستی کو تُو سمجھتی ہے اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں۳۸۸؎ عقل کی رسائی صرف محسوسات و مادیات تک ہے (ع ’’ ہے تجھے واسطہ مظاہر سے‘‘) جبکہ باطنی حقائق تک رسائی صرف وجدان و عشق کے ذریعے ہی ممکن ہے (ع ’’اور باطن سے آشنا ہوں میں‘‘) عقل و عشق کا فرق اگلے شعر میں اور واضح ہو جاتا ہے۔ عقل بھی حقیقت کی تلاش میں ہے، لیکن عقلی استدلال سے حقیقت مطلق کو پا نہیں سکتے، جبکہ اہلِ عرفان حسن ازل کے جلووں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ ’’خدا جُو‘‘ اور ’’خدا نما‘‘ کی مختصر اور برمحل ترکیبیں ان وسیع مطالب کا احاطہ کرتی ہیں۔ علم استدلالی سے کبھی اطمینانِ قلب حاصل نہیں ہوتا؛ انسان ہمیشہ تشکیک و تذبذب میں مبتلا رہتا ہے۔ قلب کے اضطراب و انتشار کا علاج صرف ایمان و یقین کامل ہے، جو عشق سے پیدا ہوتا ہے۔ عقل زمان و مکان کی زنجیروں میں مقیّد ہے۔ اس کی پرواز محدود ہے۔ عشق ان تمام حدود و قیود سے آزاد ہو کر ان بلندیوں تک پرواز کرتا ہے جہاں جبریل (طائر سدرہ آشنا) کے سوا کسی فرشتے کی بھی رسائی نہیں۔ یہاں صنعتِ تلمیح کے علاوہ رشتہ بپا، طائر، سدرہ، کے الفاظ میں رعایتِ لفظی کی خوبی بھی پیش نظر رہے۔ عقل و عشق کی کشمکش و تضاد، اقبال کا خاص موضوع ہے اور آئندہ ادوار میں انھوں نے ان مطالب کے لیے گونا گوں پیرایے اختیار کیے ہیں۔ بالآخر اس تضاد کو یوں ختم کیا ہے کہ عقل کو عشق کے زیر تربیت لا کر ، اسے وجدان کا مرتبہ عطا کیا۔ گویا وجدان دراصل عقل ہی کی تربیت یافتہ صورت ہے۔ لیکن ابتدائی دور کی یہ نظم اپنے اختصار، سادگی اور بلاغت کے لحاظ سے بے مثل ہے۔ ’’شمع‘‘ (مخزن، دسمبر ۱۹۰۲ئ) کے فکری پہلو پر گزشتہ فصل میں تفصیل سے بحث ہو چکی ہے۔ اس نظم میں جن صوفیانہ خیالات و کیفیات کا اظہار ہوا ہے، ان سے ہماری کلاسیکی غزل صدیوں سے آشنا ہے۔ لہٰذا فارسی تراکیب کی بہتات کے باوجود اس کے بیشتر اشعار میں تغزل کا مانوس رنگ و آہنگ موجود ہے۔ مثلاًچند متفرق اشعار ملاحظہ ہوں: ہے شان آہ کی ترے دودِ سیاہ میں پوشیدہ کوئی دل ہے تری جلوہ گاہ میں تھا یہ بھی کوئی ناز کسی بے نیاز کا احساس دے دیا مجھے اپنے گداز کا وہ دن گئے کہ قید سے میں آشنا نہ تھا زیبِ درختِ طُور مرا آشیانہ تھا ہاں آشنائے لب ہو نہ رازِ کہن کہیں پھر چھڑ نہ جائے قصۂ دار و رسن کہیں۳۸۹؎ اس نظم میں متغزلانہ نکتہ سنجی کی مثالیں بھی جابجا ملتی ہیں۔ کہیں شاعر نے اپنی ذات اور شمع کے درمیان توافق کا پہلو نکالا ہے، مثلاً: دی عشق نے حرارتِ سوزِ دروں تجھے اور گل فروشِ اشکِ شفق گوں کیا مجھے۳۸۹؎ کہیں تضاد کا پہلو ابھارا ہے۔ مثلاً: کعبے میں بت کدے میں ہے یکساں تری ضیا میں امتیازِ دیر و حرم میں پھنسا ہوا۳۸۹؎ مندرجہ ذیل قطعہ بند اشعار میںبھی تضاد کا پہلو نمایاں ہے: تُو جل رہی اور تجھے کچھ خبر نہیں بینا ہے اور سوزِ دروں پر نظر نہیں میں جوشِ اضطراب میں سیماب وار بھی آگاہِ اضطرابِ دلِ بے قرار بھی۳۸۹؎ اقبال نے اس نظم میںمعنی خیز تراکیب کے انبار لگا دیے ہیں۔ لیکن اگر بغور دیکھا جائے تو ان میںبہت کم بندشیں اور ترکیبیں ایسی ہیں جنھیں جدید کہا جا سکے۔ دراصل غالب اور غالب سے کہیں زیادہ بیدل کے کلام میں مختلف متصوفانہ نظریات اور وحدت و کثرت، مجازو حقیقت کے مضامین اتنے نو بہ نو اسالیب و بلیغ تراکیب میں ادا ہوئے ہیں کہ ان مضامین کے لیے کوئی طرح نو ایجاد کرنا مشکل ہے۔شمع کے آخری بند کا پہلا شعر بانگِ درا میںیوں ہے: اے شمع ! انتہائے فریبِ خیال دیکھ مسجودِ ساکنانِ فلک کا مآل دیکھ۳۸۹؎ ابتدائی متن میں مصرع اولیٰ کی یہ صورت تھی: ع ’’اے شمع حالِ قیدیِ دامِ خیال دیکھ‘‘۔ نظرثانی کے وقت اقبال نے اس مصرعے کو بدل دیا تا کہ غالب کے اس مشہور مصرعے کا ہم شکل نہ سمجھا جائے: ع ’’عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے‘‘۔ اس تبدیلی کے باوجود غالب کے اسی مصرعے اور نہ جانے کتنے مصرعوں کا عکس مندرجہ ذیل شعر میںاب بھی موجود ہے: چشمِ غلط نگر کا یہ سارا قصور ہے عالم ظہورِ جلوئہ ذوقِ شعور ہے۳۸۹؎ یہی حال ان بندشوں اور ترکیبوں کا ہے: ’’مسجودِ ساکنانِ فلک‘‘۔ ’’اسیرِ فریبِ نگاہ‘‘ ’’حلقۂ دام ستم‘‘، ’’طائرِ بامِ حرم‘‘وغیرہ۔ لیکن اسی بند کے ایک شعر میں زمان و مکان کا ذکر آ گیا ہے۔ یہ ایک نیا مضمون تھا اور اقبال نے اس خیال کے اظہار کے لیے جو حسین تشبیہہ اور جدید ترکیب اختراع کی ہے وہ بھی اس صورت میں قدماکے یہاں نہیں ملتی: یہ سلسلہ زمان و مکاں کا کمند ہے طوقِ گلوئے حسنِ تماشا پسند ہے۳۸۹؎ مجموعی طور پر اس نظم کا اسلوب متغزلانہ ہے اور اس کے مختلف اشعار میں غزل و تغزل کی اشاریت و غنائیت بھی پائی جاتی ہے۔ ’’آفتابِ صبح‘‘ شاعر کے مخصوص طرزِ فکر و احساس کی آئینہ دار ہے۔ وہ آفتاب سے اُس نور کا طلب گار ہے جس سے دل کی آنکھیں کھل جائیں اور شاعر کو ایک ہی نورِ وحدت کا جلوہ ہر شے میں نظر آئے: زیر و بالا ایک ہیں تیری نگاہوں کے لیے آرزو ہے کچھ اسی چشم تماشا کی مجھے۳۹۰؎ اس مسدس نظم کے کئی بند شاعر کے مسلکِ انسان دوستی، اس کے آفاقی تصورِ قومیت، اور عالمگیر جذبۂ محبت کی ترجمانی کرتے ہیں۔ صرف چار مصرعے بطور حوالہ یہاں نقل کیے جاتے ہیں: ۱- ’’امتیازِ ملت و آئیں سے دل آزاد ہو‘‘ ۲- ’’نوعِ انساں قوم ہو میری، وطن میرا جہاں‘‘ ۳- ’’حسنِ عشق انگیز ہر شے میں نظر آئے مجھے‘‘ ۴- ’’سر میں جز ہمدردیِ انساں کوئی سودا نہ ہو‘‘ لیکن نظم کا مرکزی خیال عظمتِ آدم کا تصور ہے۔ آخری دو بند میں شاعر کہتا ہے کہ انسان کا مرتبہ، اس کی خود شناسی ، حق جوئی اور ارتقا کوشی کی بدولت اتنا بلند ہے کہ آفتاب اس کے سامنے ذرّے کے برابر بھی نہیں: اپنے حسنِ عالم آرا سے جو تو محرم نہیں ہمسرِ یک ذرّئہ خاکِ درِ آدم نہیں۳۹۰؎ اس نظم کے ابتدائی تین بند زبان و بیان کے لحاظ سے نہایت پرتکلف تھے، جن میں سے دو بند حذف کر دیے گئے۔ نظم کے باقی آٹھ بند میں اظہار مطلب کے لیے فارسی بندشیں اور ترکیبیں بڑی حد تک گوارا ہیں۔ ’’چاند‘‘ (مخزن ، جولائی ۱۹۰۴ئ) میں بھی انسانی عظمت کا تصور مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن یہاں تخیل کی رنگ آمیزی اور شاعرانہ نکتہ آفرینی سے پیرایۂ بیان زیادہ دلکش اور متغزلانہ ہو گیا ہے۔ موجودہ متن میںتمہید کے صرف دو شعر ہیں۔ اگر تمہیدی حصے کے چاروں متروک اشعار بھی یہاں ہوتے تو اس فلسفیانہ نظم کا شعری حسن اور بڑھ جاتا۔ افسوس ہے کہ وہ اشعار حذف کر دیے گئے اور تعجب ہے کہ کیوں خارج ہوئے؟ایسی نظموں کی ابتدا ہر جگہ موزوں کلماتِ تخاطب سے ہوئی ہے لیکن بانگِ درا میںاس نظم کا آغاز ایک بے ربط شعر سے ہوتا ہے: میرے ویرانے سے کوسوں دور ہے تیرا وطن ہے مگر دریائے دل تیری کشش سے موج زن۳۹۰؎ موجودہ صورت میں جو بے ربطی ہے وہ پہلے نہ تھی، کیونکہ ابتدائی متن کے پہلے شعر میں چاند سے تخاطب بھی تھا اور ایک خاص کیفیت کا تخئیلی اظہاربھی۔ وہ شعر یہ ہے: اے قمر کیا خامشی افزا ہے تیری روشنی رات کے دامن میں ہے گویا سحر سوئی ہوئی اگرچہ یہی اسلوب ’’گورستانِ شاہی‘‘ کے مندرجہ ذیل شعر میں بھی ہے لیکن یہاں وہ برجستگی نہیں: چاندنی پھیکی ہے اس نظارۂ خاموش میں صبحِ صادق سو رہی ہے رات کے آغوش میں باقی متروک اشعار کی لطافت بھی اس خونِ ناحق کی گواہ ہے: حسنِ کامل تیری صورت کا نشاط انگیز ہے چاندنی میں تیری اک تسکین غم آمیز ہے گھر بنایا تو نے اس ہنگامۂ ہستی سے دور چاندنی تیری نہیں انسان کی بستی سے دور ہاں اتر آ دل میں میرے ساتھ لے کر چاندنی اس اندھیرے گھر میں بھی ہو جائے دم بھر چاندنی/۳۹۳؎ موجودہ متن کے ابتدائی شعر میں ایک سائنسی حقیقت کا شاعرانہ اظہار یقینا قابلِ داد ہے، لیکن متروک اشعار میں سے پہلے شعر(سحر سوئی ہوئی) میں بیان کی جدت ولطافت، دوسرے شعر میں ’’تسکینِ غم آمیز‘‘ کی بلیغ و حسین ترکیب اور آخری شعر میں تغزل کا رنگ کچھ کم جاذب توجہ نہیں۔ بعد کے کئی اشعار، چاند اور شاعر کے موازنے پر مشتمل ہیں اور شاعر کے نکتہ آفریں تخیل نے مطابقت و مشابہت کے کئی پہلو نکالے ہیں۔ پہلے شعر میں ایک سائنسی حقیقت کی شاعرانہ توجیہہ (حسنِ تعلیل) اور تیسرے شعر کے دونوں مصرعوں میں اندرونی قوافی اور نون غنہ کا صوتی حسن قابلِ توجہ ہے: آہ مَیں جلتا ہوں سوزِ اشتیاقِ دید سے تو سراپا سوز داغِ منّتِ خورشید سے ایک حلقے پر اگر قائم تری رفتار ہے میری گردش بھی مثالِ گردشِ پرکار ہے زندگی کی رہ میں سر گرداں ہے تو، حیراں ہوں میں تو فروزاں محفلِ ہستی میں ہے، سوزاں ہوں میں۳۹۳؎ مشابہت کے ان تمام پہلوئوں سے اختلاف کا یہ پہلو زیادہ اہم ہے کہ چاند کے مقابلے میں انسان، دردِ دل اور نورِ شعور کا حامل ہے اور اسی پر اس کے شرف و عظمت کا انحصار ہے: گرچہ مَیں ظلمت سراپا ہوں، سراپا نور تُو سیکڑوں منزل ہے ذوقِ آگہی سے دور تُو / اردوئے معلی (علی گڑھ) میں حسرت کی پیہم نکتہ چینیوں کے باوجود، علی گڑھ کالج کے اساتذہ و طلبہ میں اقبال کا کلام اتنا مقبول عا م تھا کہ اس ابتدائی دور کی نظموں کے بعض اشعار بھی ضرب المثل کی طرح زبانوں پر رائج تھے۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی کے بقول اس متروک شعر کا یہ مصرع (دم بھر چاندنی) حضرت مولانا شا ہ محمد سلیمان اشرف(صدر شعبۂ دینیات) نے ایک خاص موقعے پر اپنی کلاس میں پڑھا تھا۔ (گنج ہائے گراں مایہ، بارپنجم، لاہور ۱۹۶۴ء ، ص ۶۴) میری ہستی کا جو مقصد ہے مجھے معلوم ہے یہ چمک وہ ہے جبیں جس سے تری محروم ہے۳۹۳؎ فکری سلسلے کی سب سے اہم نظم ’’سرگزشت آدم‘‘ ہے، جس میں شاعر نے کسی مخصوص نظریے کا اظہار یا کسی فلسفیانہ نکتے کی وضاحت نہیں کی، بلکہ نسلِ انسانی کے ذہنی و روحانی ارتقا کی روداد بیان کی ہے۔ تمہید کے ابتدائی چند اشعار کے بعد مسلسل ۶ شعر، حقائقِ ہستی و خالقِ ہستی کی جستجو میں انسان کے روحانی سفر سے متعلق ہیں، اور بعد کے ۶ شعر تسخیرِ فطرت کی مہم میں انسان کی ذہنی فتوحات کے بارے میں ہیں۔ اس طرح انسانی ارتقا کی صدیوں کی تاریخ پر مبصرانہ نظر ڈالتے ہوئے ، شاعر نے اہم ترین حقائق ، غزل کی پابند ہیئت میں اس سلیقے سے بیان کیے ہیں کہ غنائیت کے اعتبار سے یہ نظم ’’ترانۂ آدم‘‘ کہلانے کی مستحق ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ شاعر نے موضوع کی دقّت و ثقالت کے پیش نظر، دانستہ طور پر نہایت شگفتہ زمین اختیار کی ہے۔ یہاں ردیف (میں نے) کے ساتھ قوافی (اولیں، زمیں، کہیں)کی ہم آہنگی نے نظم کی غنائیت کو بہت بڑھا دیا ہے۔ یہ زمین غزل کے لیے بڑی شگفتہ اور شاعر کے ذہن و تخیل کو تحریک دینے والی ہے، لیکن اس زمین میں مسلسل نظم کہنا اور سنجیدہ علمی مطالب و تاریخی حقائق کو اس صفائی و روانی سے ادا کرنا کہ کہیں ثقالت کا احساس یا تکلف و تصنع کا شائبہ تک نہ ہو، شاعر کی قادر الکلامی اور ہنر مندی کی دلیل ہے۔ اس نظم کے پہلے مصرعوں میں الفاظ کی ترتیب عموماً نثری ترتیب کے قریب پہنچ گئی ہے۔ ہم ان برجستہ مصرعوں کی سادگی و بے ساختگی سے محظوظ ہوتے ہیں، متعجب نہیں ہوتے۔ لیکن ہر شعر کے مصرع ہائے ثانی میں قافیہ و ردیف کی پابندی کے باوجود، روانی ، پرجستگی، غنائیت و بلاغت کی خوبیاں دیکھ کر یقینا ہم چونک سے پڑتے ہیں۔ آدم کی جہاں گردی کی داستان اس بے تکلف مصرعے سے شروع ہوتی ہے: ’’سنے کوئی مری غربت کی داستاں مجھ سے‘‘۔۳۹۵؎ دوسرے مصرعے میں (ع: بھلایا قصۂ پیمانِ اولیں میں نے) ’’پیمانِ اولیں‘‘ کی ترکیب قافیے کے تقاضے کو پورا کرنے کے باوجود، اقرارِ الست کا تلمیحی مفہوم کس بے تکلفی سے ادا کر رہی ہے۔ جنت میں شعورِ ذات کی بیداری، آدم کے ارتقا کا نقطۂ آغاز ہے۔ اس مفہوم کو شاعر نے ’’پیاشعور کا جب جامِ آتشیں میں نے‘‘۳۹۵؎ کہہ کر ادا کیا ہے۔’’جامِ آتشیں‘‘ میں جو صوتی حسن ہے اس کے علاوہ معنوی بلاغت پر غور کیجیے۔ یہ ترکیب اس تندی، تیزی اور سرکشی کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو مئے شعور میں پوشیدہ تھی اور جس نے آدم کی پُرسکوں زندگی میں حرکت و حرارت، بے چینی و بے قراری پیدا کر دی۔ مندرجہ ذیل اشعار میں سادگی و بے تکلفی کے ساتھ توازن و ہم آہنگی ملاحظہ ہو: ملا مزاج تغیّر پسند کچھ ایسا کیا قرار نہ زیرِ فلک کہیں میں نے نکالا کعبے سے پتّھر کی مورتوں کو کبھی کبھی بتوں کو بنایا حرم نشیں میں نے۳۹۳؎ روحانی ارتقا کے سلسلے میں معمارِکعبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد حضرت موسیٰ ’’کلیم اللہ‘‘ کا ذکر آتا ہے۔ ان کی طویل داستان کو ایک شعر میں ادا کرنے کے لیے شاعر کی نگاہِ انتخاب مرکزی واقعے پر پڑتی ہے: ’’کبھی میں ذوقِ تکلم میں طور پر پہنچا‘‘۔ اگلے مصرعے میں ’’یدِ بیضا‘‘ یا ’’عصا‘‘کے معجزوں کی صراحت ممکن نہ تھی، لیکن ’’چھپایا نورِ ازل زیر آستیں میں نے‘‘ کہہ کر شاعر نے بہت کچھ کہہ دیا ہے۔ ذرا اس مصرعے کو گنگنائیے۔ الفاظ کی رواں اور برجستہ ترتیب، نیز ن ، ر اور ز کی تکرار نے کتنی غنائیت پیدا کر دی ہے۔ اگلے شعر کے پہلے مصرعے میں حضرت عیسیٰ کے مصلوب ہونے کے ساتھ ’’اپنوں نے مجھ کو لٹکایا‘‘ کہہ کر ایک افسوس ناک حقیقت کا اظہار اور دوسرے مصرعے میں (کیا فلک کو سفر چھوڑ کر زمیں میں نے) قرآن مجید کے حوالے سے ایک غلط عقیدے کی تصحیح ہے۔ اس سے اگلا شعر حضرت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہے: کبھی میں غارِ حرا میں چھپا رہا برسوں دیا جہاں کو کبھی جامِ آخریں میں نے۳۹۵؎ یہاں ’’جامِ آخریں‘‘ کی ترکیب قافیے کے ساتھ معنی آفرینی کا حق ادا کر رہی ہے۔ اس شعر میں بعض اصوات (ا، ر ، م ، نون غنہ)اور ’’کبھی‘‘ کی تکرار سے جو آہنگ اور توازن پیدا ہوا ہے وہ بھی توجہ طلب ہے۔ اس سلسلے کے دو آخری شعر میں اپنے وطن کی دو مقدس ہستیوں کے روحانی فیوض کا ذکر ہے۔ ’’سرودِ ربانی‘‘ کی پُرجلال غنائیت، کرشن جی کی مُرلی کے نغموں کی طرف بھی اشارہ کر رہی ہے اور غالباًمقدس گیتا کے سریلے بول بھی مراد ہیں۔ دوسرے شعر میں مہاتما بدھ کی تعلیمات کا ہند سے نکل کر ’’خطۂ جاپان و ملکِ چیں‘‘تک اشاعت کا بیان ہے۔ ان دونوں شعروں میں نون منقوطہ اور نون غنہ کی نغمہ آفرینی قابلِ داد ہے۔ انسانی ذہن کی تحقیقی کاوشوں اور علمی کارناموں کی داستان، ڈھائی ہزار سال قبل، یونان کے حکیم دیمافریطس کے اس انقلابی نظریے سے شروع ہوتی ہے، جس میں حیات و کائنات کی مادی توجیہ کی گئی ہے اور اشیائے عالم کے وجود کو ذرات کی ترکیب یا ’’عناصر میں ظہورِ ترتیب‘‘ کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے۔ شاعر نے ’’خلافِ معنی تعلیم اہل دیں‘‘ کہہ کر مادیت اور روحانیت کے تضاد کا پہلو بھی نمایاں کر دیا ہے۔لیکن یونای حکما کی ماورائیت سے سائنسی تحقیق کے میدان میں زیادہ پیش رفت نہ ہو سکی۔ یورپ میں ازمنۂ مظلمہ کی کئی تاریک صدیوں کے بعد جب ہسپانوی عربوں کی علمی فیض گستری کی بدولت، دسویں صدی عیسوی سے تحریک احیائے علوم کا آغاز ہوا، تو اہلِ کلیسا کی مجہولیت اور ہٹ دھرمی سے مذہب اور سائنس کے تصادم و پیکار کا ایک طویل سلسلہ چھڑ گیا، اور کلیسائی احتساب کی قربان گاہ پر اہلِ علم و دانش کی بے شمار جانیں نچھاور ہوئیں۔ ازمنۂ وسطیٰ کی یہ داستانِ خونچکاں اور کلیسائی ظلم و تشدد کے علی الرغم، کاپرنیکس، کپلر اور گلیلیوں کی فلکیاتی تحقیقات، نیز جدید تر طبیعیاتی انکشافات کی روداد کس سادگی و پرکاری سے چند اشعار میں بیاں ہوتی ہے: لہو سے لال کیا سیکڑوں زمینوں کو جہاں میں چھیڑ کے پیکارِ عقل و دیں میں نے ڈرا سکیں نہ کلیسا کی مجھ کو تلواریں سکھایا مسئلۂ گردشِ زمیں میں نے کشش کا راز ہویدا کیا زمانے پر لگا کے آئنۂ عقلِ دوربیں میں نے کیا اسیر شعاعوں کو برقِ مضطر کو بنادی غیرتِ جنت یہ سرزمیں میںنے۳۹۵؎ تسخیرِ فطرت کی مہم میں ذہنِ انسانی کی تگ و دو دکھانے کے بعد حقیقت شناس شاعر کی نگاہ تجرباتی عقل کی نارسائی و نا کامی پر بھی پڑ رہی ہے: مگر خبر نہ ملی آہ رازِ ہستی کی کیا خِرد سے جہاں کو تہِ نگیں میں نے۳۹۵؎ جس حکیم دانا نے تیس بتیس برس بعد تعقّل پرست انسان کے فکرِ فلک پرواز کی تگ و تاز پر طنزاً یہ تبصرہ کیا تھا: جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا۳۹۶؎ اس نے ابتدائی دور کے ان اشعار میں بھی اپنی شناخت ظاہر کردی۔ مختصر یہ کہ اس نظم کا ایک ایک شعر صدیوں کی تہذیبی تاریخ کا نچوڑ ہے۔ اس میں جابجا معنی خیز تراکیب اور تغزل کی مخصوص اشاریت سے کام لیا گیا ہے۔ یہ ترکیبیں اور تلمیحیں، یہ استعارے اور کنایے، اساتذئہ فن کے یہاں عام ہیں، لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ ان سے علمی مطالب اور تاریخی حقائق کو شعر کے روپ میں ڈھالنے کا کام اقبال سے پہلے کس نے لیا تھا۔ موضوع و مافیہ کے لحاظ سے اس کا اچھوتا پن محتاجِ بیان نہیں۔ اگرچہ، جہاں انسان کے ذہنی کمالات اور علمی فتوحات کا ذکر ہے، وہاں سلسلۂ بیان میں بعض اہم کڑیاں چھوٹ گئی ہیں۔ لیکن یہ اعتراض تو کسی محقق یا مورخ پر وارد ہو سکتا تھا کہ اس نے ازمنۂ وسطیٰ میں ہسپانوی عربوں کی ان علمی خدمات کا ذکر کیوں نہیں کیا جو مغرب میں احیائے علوم اور نشاۃ ثانیہ کی تحریک کا سبب بنیں؟ شاعر نے معلوم حقائق کا جس وسیع النظری سے احاطہ کیا ہے اور اس مختصر جائزے میں جس گہری بصیرت کا ثبوت دیا ہے اس سے زیادہ اور کوئی توقع اس سے وابستہ کرنا عبث ہے۔ فن کے نقطۂ نظر سے دیکھیے تو اختصار و بلاعت، اشاریت اور غنائیت، نیز مجموعی تشکیل و ہیئت کے اعتبار سے، ابتدائی دور کی یہ نظم، اقبال کے فنی ارتقا میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اب آخر میں خالص فکری نظموں کا سلسلہ ’’بچہ اور شمع‘‘ کے مختصر جائزے پر ختم ہوتا ہے۔ یہ نظم جو ایک معمولی سے گھریلو واقعے سے متاثر ہو کر کہی گئی تھی، اقبال کے مفکّرانہ رجحان کی صحیح نمائندگی کرتی ہے۔ مصنّف اقبال درونِ خانہ کا بیان ہے کہ شیخ عطا محمد صاحب کے چھوٹے فرزند، شیخ مختار احمد، عالمِ شیر خوارگی میں ’’گھنٹوں چراغ کو ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہتے اور کبھی کبھی اچھل اچھل کر اسے پکڑنے کی کوشش کرتے تھے۔‘‘۳۹۷؎یہ منظر دیکھ کر، مفکر شاعر کا ذہن اس نکتے کی طرف متوجہ ہوا کہ روحِ انسانی اپنے اصل مرکز سے جدا ہو کر ، مادی پیکر میں آنے کے بعد بھی نورِ ازل کا پرتو اپنے اندر رکھتی ہے، لیکن یہ نور، حواسِ جسمانی یا غبارِ آگہی میں چھپ جاتا ہے۔ دوسرے بند میں شاعر کی عارفانہ نگاہ، فطرت کے گوشے میں حسنِ ازل کے جلووں کا مشاہدہ کرتی ہے۔ اس بند کے کچھ اشعار گزشتہ فصل (جزوِ اول: رومانی رجحان) میں ’’نظریۂ وحدتِ حسنِ وجود‘‘ کے ضمن میں نقل کیے گئے تھے۔ یہاں اس بند کے اشعار میں بیانِ حسن کے بجائے حسنِ بیان کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے۔ ہم دیکھتے آئے ہیں کہ اقبال نے اپنے فلسفیانہ افکار کے اظہار کے لیے جابجا نئی نئی لفظی تراکیب سے کام لیا ہے۔ لیکن وہ ترکیب سازی میں اختصار و بلاغت اور معنی آفرینی کے علاوہ ، حسن آفرینی کا پہلو بھی ہمیشہ مدِنظر رکھتے ہیں۔ بندش کی صفائی ، اس حسن آفرینی کی ایک عام صورت ہے۔ اقبال کی بندشیں اور سہ لفظی و چہار لفظی ترکیبیں نہ صرف ہموار بلکہ خوش آہنگ بھی ہوتی ہیں۔ اس بند کے ہر شعر میں معنی خیز تراکیب کا صوتی حسن خصوصیت سے توجہ طلب ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں: حُسن کوہستاں کی ہیبت ناک خاموشی میں ہے مِہر کی ضَو گستری، شب کی سیہ پوشی میں ہے عظمتِ دیرینہ کے مٹتے ہوئے آثار میں طفلکِ نا آشنا کی کوششِ گفتار میں ساکنانِ صحنِ گلشن کی ہم آوازی میں حسن ننھے ننھے طائروں کی آشیاں سازی میں حسن۳۹۸؎ ’’سرگزشتِ آدم‘‘ کے بعد وطنی سلسلے کی تین نظمیں ’’ترانۂ ہندی‘‘، ’’ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘‘ اور ’’نیا شوالہ‘‘ بھی قابل ذکر ہیں۔ ان نظموں کی شہرت و مقبولیت کا سبب، شیخ عبدالقادر کے الفاظ میں ’’مذاقِ زمانہ اور ضرورت ِ وقت‘‘ سے مطابقت ہے۔ ان میں جو سادگی، روانی ، حلاوت اور لطافت ہے وہ اس دور کی کئی دیگر نظموں میں بھی پائی جاتی ہے۔ ان نظموں کے غنائی آہنگ میں شاعر کی فن کاری کے علاوہ ، اس کے پُرخلوص جذبات کا بڑا دخل ہے۔ لیکن ’’نیا شوالہ‘‘ اپنی فنی تشکیل اور اسلوب کے لحاظ سے بھی خاص توجہ کی مستحق ہے۔ ہندو مسلم اتحاد کے موضوع پر اس سے زیادہ پُرخلوص اور دلکش نظم، اردو کی وطنی شاعری میں نہیں ملتی۔ موضوع کے لحاظ سے اس کی زبان میں ایک انوکھا پن پیدا ہو گیا ہے۔ چونکہ شاعر نے خصوصیت سے ’’برہمن‘‘ کو مخاطب کیا ہے، لہٰذا اصولِ بلاغت کے مطابق اس نظم میں ہندی کے متعدد نرم و شیریں الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ موجودہ متن میں بھی ایسے لفظوں کی خاصی تعداد ہے۔ مثلاً دیوتا، شوالہ، تیرتھ، کلس، منتر، پجاری، پیت اور (آخری شعر میں جو بعد کا اضافہ ہے) شکتی، شانتی،بھگت، دھرتی، باسی، مکتی۔ لیکن ابتدائی متن کے کئی اشعار میں ہندی الفاظ کی بھرمار ہے، تاہم حق یہ ہے کہ تمام الفاظ سیاق و سباق کے اعتبار سے نگینے کی طرح جڑے ہوئے ہیں۔ البتہ ایک مصرعے کی بندش زیادہ صاف نہیں ہے۔ ع ’’اگنی ہے جو وہ نرگن کہتے ہیں پیت اس کو‘‘۔۳۹۹؎ اس دور کی چند نظموں میں شاعر نے بعض محبوب شخصیتوں کے حضور نذرانۂ عقیدت پیش کیا ہے۔ اس سلسلے کی دو نظمیں یعنی حضرت محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین چشتیؒ کے بارے میں ’’برگِ گل‘‘ اور سر سید کی سیرت سے اخذ کردہ تعلیمات سے متعلق ’’سیّد کی لوحِ تربت‘‘ گزشتہ صفحات میں زیر بحث آ چکی ہیں۔ تاریخ اسلام کی جن برگزیدہ شخصیتوں کی عظمت کو اقبال نے اپنی نگاہِ بصیرت سے پہچانا اور جن کے روشن ناموں کو اپنے نورِ عقیدت سے روشن تر کر دیا، ان میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی یہ خصوصیت ہے کہ نسبتِ عشق کی بدولت، اقبال اسی ذاتِ گرامی کے ’’ہم قبیلہ‘‘ ہیں۔ اس تعلقِ خاص کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ اقبال نے اسی عنوان سے بانگِ درا (حصہ سوم، ص ۲۷۲) میں ایک اور نظم کہی جو فنی تشکیل اور حسنِ تخیل کے لحاظ سے بدر جہا بہتر ہے۔ لیکن ابتدائی دور کی یہ نظم بھی حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور خود اقبال کے جذبۂ عشقِ رسولؐ کی مظہرِ اتّم ہے۔ یوں تو اس نظم کے بعض اشعار بھی حسنِ بیان کا عمدہ نمونہ ہیں، خصوصاً آخری بند کے یہ ناقابلِ فراموش اشعار: ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بنی نماز اس کے نظارے کا اک بہانہ بنی۴۰۰؎ ان بلندپایہ شخصیات کے مقابلے میں داغ کا کوئی مقام نہیں لیکن ان کی وفات پر، سعادت مند شاگرد نے جو مرثیہ لکھا (’’داغ‘‘، مطبوعہ مخزن، اپریل۱۹۰۵ئ) اس کی فنی حیثیت بہت بلند ہے اور اُس میں شاعر کے اسلوب کے کم و بیش تمام اہم عناصر یکجا ہو گئے ہیں۔ جب یہ نظم کہی گئی ، اس وقت تک اردو میں معدودے چند قابلِ ذکر شخصی مرثیے تھے، اور ان میں سر فہرست حالی کا مرثیۂ غالب تھا۔ اس میں اور اقبال کے مرثیۂ داغ میں اشتراک و اختلاف کے کئی پہلو ہیں۔ اشتراک کا پہلو یہ ہے کہ دونوں فن کاروں کا موضوع ’’ماتمِ رحلتِ استاد‘‘ ہے۔ اختلاف کا پہلو یہ کہ حالی کا استاد، ایک عظیم فن کار ہی نہیں، عظیم انسان بھی تھا(:’’معنی لفظ آدمیّت تھا‘‘حالی) اور حالی کو اس سے شاگردانہ عقیدت ہی نہیں، والہانہ محبت بھی تھی۔ اسی شخصی تعلق کی بنا پر حالی کے مرثیے میں مدحیہ پہلو کے ساتھ، رثائی عنصر کا سوز و گداز بھی بھرپور طور پر موجود ہے۔ دراصل حالی نے اپنے خونِ جگر سے اس مرثیے کو معجزئہ فن کا نمونہ بنا دیا ہے۔ اقبال کو اپنے استاد سے عقیدت ضرور تھی مگر غائبانہ۔ شاگرد اور استاد کے درمیان شخصی روابط مفقود تھے۔ اقبال کے مرثیے میں خونِ جگر کی آمیزش کم، تخیل کی رنگ آمیزی زیادہ ہے۔ اس مرثیے کا شعری حسن، شاعر کی ہنرمندی کا رہین منت ہے۔ متروک اشعار کے سلسلے میں ہم نے دیکھا کہ شاعر کے تخیل نے ممدوح کا رتبہ بڑھانے کے لیے یہ نکتۂ غریب ایجاد کیا تھا: شاعری کے فن میںفکر کی بلندی کو مرزا نے اور سوز و اثر کو میر نے اس درجۂ کمال تک پہنچا دیا کہ اب ان کا کوئی مدمقابل ہو نہیں سکتا۔ لہٰذا قدرت نے فکرِ مرزا اور دردِ میر کو داغ کی شخصیت میں مجتمع کرکے دونوں کی نظیر پیدا کر دی: جوہر رنگیں نوائی پا چکا جس دم کمال پھر نہ ہو سکتی تھی ممکن میر و مرزا کی مثال کر دیا قدرت نے پیدا، ایک دونوں کا نظیر داغ، یعنی وصلِ فکرِ میرزا و دردِ میر/۴۰۱؎ یہ خیال آفرینی، حقیقت سے بہت بعید تھی لہٰذا یہ اشعار نکال دیے گئے۔ اب بھی نظم میں جابجا نکتہ سنجی کے نمونے ملتے ہیں لیکن یہاںحسنِ ادا یا حسنِ تعلیل سے کام لے کر امرِ واقعہ کی حسین تاویل پیش کی گئی ہے۔ اس قسم کی نکتہ سنجی غزل و تغزل کے اسلوب کا ایک اہم عنصر ہے، جس سے مضامینِ غزل میں ’’نکیلا پن‘‘ اور ایک چونکا دینے والی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ نظم کے پہلے بند میں داغ کی وفات کو ایک عظیم ادبی سانحہ قرار دیا گیا ہے، جس پر ملک بھر میں شور ماتم بپا ہوا۔ یہ بیان حقیقت پر مبنی ہے۔ داغ کی شاعری ، ان کے استاد، حضرت ذوق کی طرح عوامی یا پنچایتی شاعری تھی۔ بزمِ نشاط ہو یا محفلِ حال و قال، ہر جگہ ان کی غزلوں کی مانگ تھی۔ دلی کی بولی ٹھولی میں، داغ کی فقرے بازی اور شوخ بیانی نے کچھ ایسا چٹپٹا پن اور تیکھا پن پیدا کر دیا تھا کہ خواص کا ایک طبقہ بھی ان کے اشعار سے لطف اندوز ہوتا تھا۔ اس طرح انھیں قبولِ عام کی سند حاصل تھی۔ چنانچہ ’’بلبلِ ہند‘‘ کی وفات پر سارے چمن میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ اقبال نے اس سانحے کے بیان میں تغزل کی مخصوص علامتوں اور مراعات النظیر کی صنعت سے شعریت پیدا کی ہے۔ پورے بند میں ’’بلبلِ ہند‘‘ کی رعایت سے، گلشن، نشیمن، چمن، عنادل، نیز محفل، شمع، صہبا و مینا کے تلازمے پھیلے ہوئے ہیں۔ دوسرے بند کے پہلے شعر میں بھی حقیقت کا پہلو نمایاں ہے: اب کہاں وہ بانکپن، وہ شوخیٔ طرزِ بیاں آگ تھی کافور پیری میں جوانی کی نہاں۴۰۲؎ * پروفیسر حامد حسن قادری مرحوم نے اقبال کی مدح میںجو قطعہ لکھا تھا، اس کی بنیاد اسی نکتے پر ہے: تین شاعر مختلف اوقات میںپیدا ہوئے جن کے فیضِ طبع نے اردو کو گنجِ زر دیا اک اثر میں بڑھ گیا، اک رفعتِ تخئیل میں تیسرے کی ذات میں دونوں کو حق نے بھر دیا کائناتِ شاعری میں بس یہی دونوں کمال تیسرے میں اس لیے دونوں کو یکجا کر دیا یہ واقعہ ہے کہ آخری عمر میں بھی عیش و عشرت کے تمام سر و سامان انھیں میسر تھے اور ہوس کی چنگاریاں دل میں روشن تھیں، لہٰذا آخری دور کی غزلوں میں بھی چھیڑ چھاڑ، جلی گٹی اور معاملہ بندی کے مضامین، ذاتی تجربات پر مبنی ہیں۔ شاگرد کے حسن عقیدت نے اس سطحیت کوآفاقیت کا رنگ دے دیا ہے: ع ’’تھی زبانِ داغ پر جو آرزو ہر دل میں ہے‘‘ اس بند میں بھی گل و گلشن کا تلازمہ جاری ہے: اب صبا سے کون پوچھے گا سکوتِ دل کا راز کون سمجھے گا چمن میں نالۂ بلبل کا راز۴۰۲؎ اس بند کے آخری شعر میں ایک معنی خیز تشبیہہ کے ذریعے داغ کی جنسیت کو ارضیت قرار دیا ہے۔ تھی حقیقت سے نہ غفلت فکر کی پرواز میں آنکھ طائر کی نشیمن پر رہی پرواز میں۴۰۲؎ یہ تشبیہہ غالباً انگریزی کے مطالعے سے سوجھی۔ شیلی اور ورڈز ورتھ، دونوں نے "Skylark" پر نظمیں لکھی ہیں۔شیلی کا طائر اتنی بلندی پر پرواز کرتا ہے کہ صرف اس کے نغمے کی مدھم صدائیں آتی ہیں،اور وہ خود فضا میں گم ہو جاتا ہے۔ لیکن ورڈز ورتھ کا طائراڑان بھرتا ہوا پھر اپنے نشیمن کی طرف لوٹ آتا ہے۔ انگریزی نقادوں کے بقول، دونوں طائر اپنی اپنی جگہ ، ان شعرا کی ماورائیت اور ارضیت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اقبال نے اس تشبیہہ سے کئی جگہ معنی آفرینی کاکام لیا ہے۔ ’جوابِ شکوہ‘ کے ایک بند میں جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کی مغرب زدہ ترقی پسندی پر یوں طنز کرتے ہیں: شوقِ پرواز میں مہجورِ نشیمن بھی ہوئے بے عمل تھے ہی جواں،دین سے بدظن بھی ہوئے۴۰۳؎ شاعر نے مثنوی ہیئت کی اس نظم کو ، خیال کی ترتیب کے لحاظ سے مختلف چھوٹے بڑے پاروں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے بند میں ۵ شعر ہیں، دوسرے میں صرف ۴ لیکن تیسرا بند ۶ اشعار پر مشتمل ہے۔ اس بند میں شاعر کے جوشِ عقیدت اور حسنِ تاویل نے ایسا زور باندھا ہے کہ غالب کی فکری بلند پروازی، میر کی پرسوز نے نوازی اور حافظ کی شیریں نغمہ طرازی ، غرض فن کا ہر اعجاز اور سخنوری کے تمام کمالات داغ کی عشقیہ شاعری کے آگے ہیچ نظر آتے ہیں۔ لیکن داغ کی غزلوں میں لطیف و بلند عشقیہ شاعری ہے کہاں؟ داغ کا عشق، بقول فراق ’’محض جنسی خوش باشی اور خوش وقتی‘‘ سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جب داغ ان عامیانہ جذبات کا اظہار کرتے ہیں تو ان کے لہجے کی شوخی اور شگفتگی دلوں میں چٹکیاں لیتی ہے۔ اس بند کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔ یہاں بھی غزل کے مخصوص رموزو علامات میں بڑے سلیقے سے بات کہی گئی ہے: اس چمن میں ہوں گے پیدا بلبلِ شیراز بھی سینکڑوں ساحر بھی ہوں گے صاحبِ اعجاز بھی اٹھیّں گے آزر ہزاروں شعر کے بت خانے سے مے پلائیں گے نئے ساقی نئے پیمانے سے لکھّی جائیں گی کتابِ دل کی تفسیریں بہت ہوں گی اے خوابِ جوانی تیری تعبیریں بہت ہو بہو کھینچے گا لیکن عشق کی تصویرِ کون؟ اٹھ گیا ناوک فگن، مارے گا دل پر تیر کون؟۴۰۴؎ شاعری میں مبالغہ ہی نہیں، غلو اور اغراق بھی روا ہے۔ فارسی اور اردو کے عظیم ترین اساتذئہ فن بھی اپنے تخیّل کی شعبدہ بازی پرفخر کرتے ہیں۔ فردوسی کہتا ہے کہ رستم تو سیستان کا ایک معمول پہلوان تھا، میں نے اس کو رستمِ داستاں بنا دیا: منش کردہ ام رستمِ داستاں وگرنہ یلے بود در سیستاں میر انیس کا دعویٰ ہے کہ ’’قطرے کو جو دوں آب تو گوہر سے ملا دوں‘‘، ’’کانٹوں کو نزاکت میں گلِ تر سے ملا دوں۔‘‘پھر اگر اقبال نے اپنے مرحوم استاد کی مدح و ستائش میں مبالغہ کیا تو کیا عیب ہے۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ اقبال کے ہر مبالغے میں واقعیّت کا کوئی نہ کوئی عنصر موجود ہے۔ آخری دو بند رثائی ہیں۔ یہاں اقبال نے اشک فشانی کی ہے اور ان کے آنسوئوں میں خونِ جگر کا ہلکا سا پیازی رنگ جھلکتا ہے۔ پانچ اشعار کے چوتھے بند میں جدتِ ادا اور حسنِ بیان کی کئی مثالیں ملتی ہیں: اشک کے دانے زمینِ شعر میں بوتا ہوں میں تو بھی رو اے خاکِ دلّی داغ کو روتا ہوں میں وہ گلِ رنگیں ترا، رخصت مثالِ بُو ہوا آہ خالی داغ سے کاشانۂ اردو ہوا تھی نہ شاید کچھ کشش ایسی وطن کی خاک میں وہ مہِ کامل ہوا پنہاں دکن کی خاک میں۴۰۴؎ آخری بند میں موت کے نہایت المناک سانحے کو شام نے نہ صرف فطرت کا ایک اٹل اور عالمگیر قانون کہہ کر گوارا بنا دیا ہے، بلکہ اس کی حکیمانہ بصیرت اس المیے میں بھی خیر کا ایک پہلو دیکھتی ہے اور شیوئہ تسلیم و رضا کی تلقین کرتی ہے: کھل نہیں سکتی شکایت کے لیے لیکن زباں ہے خزاں کا رنگ بھی وجہِ قیامِ گلستاں ایک ہی قانون عالمگیر کے ہیں سب اثر بوئے گل کا باغ سے، گلچیںکا دنیا سے سفر۴۰۴؎ ہمارے ادب میں معیاری شخصی مرثیوں کی جو کمی ہے اس کے پیش نظر یہ نظم یقیناایک قابلِ قدر اضافے کی حیثیت رکھتی ہے۔ (۵) مترجمہ اور ماخوذ نظمیں اس دور میں (’’ایک آرزو‘‘ اور ’’ابرِ کوہسار‘‘ کے علاوہ) اقبال کی قریباً ایک درجن نظمیں یا تو انگریزی نظموں کے آزاد تراجم ہیں یا ان کا مرکزی خیال انگریزی سے ماخوذ ہے۔ ان میں سے چار انگریزی نظمیں انھوں نے اپنے ذوق و رجحان کے مطابق، اردو میں منتقل کیں اور بقیہ آٹھ نظمیں بچوں کی ذہنی و اخلاقی تربیت کے لیے ترجمہ کیں۔ پہلے ہم اوّل الذکر کا سرسری جائزہ لیں گے۔ بانگِ درا میں ان چاروں نظموں (: آفتاب ، پیام صبح، عشق اور موت، اور رخصت اے بزمِ جہاں) کے عنوانات کے ساتھ، ان کے مآخذ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ’’آفتاب‘‘ ایک مفصل تمہیدی نوٹ کے ساتھ مخزن (۱۹۰۲ئ) میں شائع ہوئی تھی۔ اقبال کے ’’شذرئہ تمہیدی‘‘ سے اس ترجمے کے بارے میںجو باتیں معلوم ہوتی ہیں وہ یہ ہیں: (۱) یہ نظم ’رگ وید‘ کی ایک مشہور دعا (گایتری منتر) کا ترجمہ ہے۔ یہی وہ منتر ہے جو چاروں ویدوں میں مشترک طور پر پایا جاتا ہے اور جسے برہمن اس قدر مقدس سمجھتا ہے کہ بے طہارت کسی کے سامنے اس کو پڑھنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ (۲) وید مقدس کی زبان کی بلاغت اور الفاظ کی موسیقیت کو کسی دوسری زبان میں منتقل کرنا ممکن نہیں، لہٰذا اقبال نے اس ترجمے میں گایتری منتر کی اس شرح سے مطابقت ملحوظ رکھی ہے جو سوریا نرائن اپنشد میں کی گئی ہے۔ (۳) سنسکرت متن میں آفتاب کے لیے لفظ ’’سوتر‘‘ استعمال کیا گیا ہے جس سے وہ غیر مرئی آفتاب مراد ہے جو اس مادی آفتاب کے لیے سرچشمۂ نور ہے۔ اس مفہوم کو ادا کرنے کے لیے اردو میں کوئی لفظ نہ ملا لہٰذا ’’آفتاب‘‘ ترجمہ کیا گیا۔ (۴) آخر میں اقبال اپنے ترجمے کی فنی حیثیت کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’مجھے اندیشہ ہے کہ سنسکرت دان اصحاب اس پر وہی رائے قائم کریں گے جو چیپ مین نے پوپ کا ترجمۂ ’ہومر‘ پڑھ کر قائم کی تھی، یعنی شعر تو خاصے ہیں لیکن یہ گایتری نہیں۔۴۰۵؎ ترجمے کی صحیح قدر و قیمت تو اصل متن سے موازنے کے بعد ہی متعین کی جا سکتی ہے، لیکن متن کے احترام اور پابندی کے باوجود بندشوں میں چستی و صفائی اور اشعار میں روانی بلکہ کہیں کہیں برجستگی کے اوصاف، حسبِ معمول یہاں بھی موجود ہیں۔ شاعر نے لفظوں کے انتخاب میں بڑی احتیاط برتی ہے۔ مثلاً مندرجہ ذیل شعر میں لفظ ’’یزداں‘‘ کی موزونیت ملاحظہ ہو: ہے محفلِ وجود کا ساماں طراز تُو یزدانِ ساکنانِ نشیب و فراز تُو یہاں شاعر نے خالق، پروردگار یا اسی قسم کے دیگر الفاظ کی جگہ ’’یزداں‘‘ کا لفظ اس مناسبت سے رکھا ہے کہ قدیم آریوں کی طرح قدیم ایرانی حکما بھی یزدان کو اصل نور یا مرکز نور تصور کرتے تھے۔ یزدان، ایزد کی جمع ہے جس کے معنی ہیں پرستش کرنا یا لائقِ پرستش۔ ہندو دیومالا میں آفتاب کو دیوتا مانا گیا ہے، اور قدیم ایرانی بھی آفتاب پرست تھے۔ بقولِ عابد مرحوم ’’اقبال نے آفتاب کو یزداں کہہ کر فنی بصیرت اور مطالعے کی وسعت کا ناقابلِ تردید ثبوت مہیا کیا ہے۔‘‘۴۰۶؎ اسی طرح مندرجہ ذیل شعر میں ایک ترکیبِ لفظی قابلِ توجہ ہے: ہر چیز کی حیات کا پروردگار تُو زائیدگانِ نور کا ہے تاجدار تُو یہاں دیوتا کے لیے ’’زائیدگانِ نور‘‘ کی ترکیب نہایت بر محل ہے۔ سنسکرت میں لفظ دیوتا کے معنی ہیں ’’ایسی ہستی جس کی پیدائش نور سے ہوئی ہو۔‘‘۴۰۷؎ (۲) ’’پیامِ صبح‘‘ لانگ فیلو کی نظم "Daybreak" سے ماخوذ ہے۔انگریزی نظم کے ابتدائی دو مصرعے اور اقبال کی نظم کا پہلا شعر درج ذیل ہے: A wind came up out of the sea, And said, "O mists make room for me408 اجالا جب ہوا رخصت جبین شب کی افشاں کا نسیمِ زندگی پیغام لائی صبح خنداں کا اقبال کے اس شعر اور اصل متن میں جو فرق ہے، وہی پوری نظم میں ہر جگہ موجود ہے۔ صرف لانگ فیلو کے اختتامی مصرعوں اور اس نظم کے آخری دو شعر میں کوئی معنوی ربط ملتا ہے: I crossed the churchyard with a sigh, And said,"Not yet, in quiet lie.408 اقبال نے اس مضمون کو دو شعر میں ادا کرکے ، اسے نظم میںبنیادی حیثیت دی ہے: سوئے گورِ غریباں جب گئی زندوں کی بستی سے تو یوں بولی نظارا دیکھ کر گورِ غریباں کا ابھی آرام سے لیٹے رہو، میں پھر بھی آئوں گی سلادوں گی جہاں کو، خواب سے تم کو جگائوں گی۴۰۹؎ اقبال نے صرف نظم کی تشکیل کا انداز لانگ فیلو سے لیا ہے، ورنہ پوری نظم مشرقی اسلوب اور مشرقی فضا کی آئینہ دار ہے۔ مثلاً یہ اشعار ملاحظہ ہوں: طلسمِ ظلمتِ شب سورئہ والنور سے توڑا اندھیرے میں اڑایا تاجِ زر شمعِ شبستاں کا پڑھا خوابیدگانِ دیر پر افسونِ بیداری برہمن کو دیا پیغام خورشیدِ درخشاں کا۴۰۹؎ مختصر یہ کہ اقبال کی یہ نظم تخلیق کی حیثیت رکھتی ہے اور بقول پروفیسر حمید احمد خاں ’’اگر وہ خود اسے ترجمہ تسلیم نہ کرتے تو ترجمے کو اصل سے نسبت دینے کا خیال شاید پیدا ہی نہ ہوتا۔‘‘۴۱۰؎ (۳) ’’عشق اور موت‘‘ ٹینی سن کی نظم "Love and Death" سے ماخوذ ہے۔ اس پر بھی ’’ترجمہ‘‘ کی تہمت لگائی جاتی ہے، لیکن ٹینی سن کے کسی مصرعے کا ہلکا سا نقش بھی اس نظم میں کہیں نظر نہیں آتا۔ اقبال نے خود اس قسم کی نظموں کے بارے میں ’’ماخوذ‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے لہٰذا انھیں ترجمہ قرار دینا زیادتی ہے۔ اگرچہ ٹینی سن بہت بڑا فن کار تھا لیکن اس نظم میں اس کے اسلوب کے محاسن ناپید اور بعض خامیاں اتنی نمایاں ہیں کہ پروفیسر حمیداحمد خاں کے الفاظ میں یہ ’’ناپختہ نظم‘‘ کسی ’’نوعمرکا کلام معلوم ہوتی ہے۔ ‘‘۴۱۰؎ اقبال کے لیے اس نظم میں صرف ایک بات وجہِ کشش ہو سکتی ہے اور وہ ’’بقائے عشق‘‘کا تصور ہے، جسے ٹینی سن کے رومانی، اساطیری تخیل نے عشق اور موت کی تجسیم اور ایک تمثیل کے ذریعے پیش کیا ہے۔ نظم کے ابتدائی مصرعے میں ٹینی سن نے روز آفرینش کا نقشہ کھینچا ہے اور دوسرے ہی مصرعے میں عشق کا فرشتہ نمودار ہو جاتا ہے: What time, the mighty Moon was gathering light Love paced the misty plots of Paradise.410 پہلے مصرعے میں"What time" کے الفاظ مبہم ہیں۔پھر تخلیقِ کائنات کے بیان میں آفتابوں اور ستاروں کو چھوڑ کر تنہا moon کا ذکر، اور اس کے لیے mighty کی صفت؟ خلافِ بلاغت ہے۔ اقبال نے اس تخئیلی مضمون کی رعایت سے نظم کے تمہیدی بند کے آٹھ شعروں میں مناسب فضا بندی کی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں: سہانی نمودِ جہاں کی گھڑی تھی تبسّم فشاں زندگی کی کلی تھی کہیں مِہر کو تاجِ زر مل رہا تھا عطا چاند کو چاندنی ہو رہی تھی فرشتے سکھاتے تھے شبنم کو رونا ہنسی گل کو پہلے پہل آ رہی تھی۴۱۱؎ اس حیات آفریں فضا کے پس منظرمیںپہلے دیگر فرشتے اور پھر عشق کا فرشتہ سامنے آتا ہے: فرشتہ کہ پُتلا تھا بے تابیوں کا مَلک کا مَلک اور پارے کا پارا پئے سیر، فردوس کو جا رہا تھا قضا سے ملا راہ میں وہ قضا را یہ پوچھا ترا نام کیا؟ کام کیا ہے نہیں آنکھ کو دید تیری گوارا۴۱۱؎ ٹینی سن کی نظم میںیہ دکھایا گیا ہے کہ موت کے فرشتے نے عشق کو حقارت سے مخاطب کرکے حکم دیا: "You must be gone" said Death, "These walks are mine"412 اور عشق کا فرشتہ روتا ہوا وہاں سے پرواز کر گیا، لیکن جاتے جاتے سایہ و شجر کے تمثیلی استدلال کے ذریعے اپنی ابدیت کا دعویٰ بھی کیا۔ ٹینی سن کے پیرایۂ بیان میں اوّل تو عشق کی تذلیل و توہین کا پہلو ہے، دوم یہ کہ موقعے کی مناسبت سے یہ طویل استدلال بے محل ہے۔ اقبال نے ان مطالب کو نہایت بلیغ پیرایے میں ادا کیا ہے۔ موت کی لن ترانیوں پر عشق کا فرشتہ جب طنزیہ انداز میں مسکراتا ہے تو اس کے تبسم کی بجلی موت کو فنا کر دیتی ہے۔ نظم کا اختتامیہ شاعر کے اعجازِ تخیّل اور حسنِ بیان کا شاہکار ہے: سنی عشق نے گفتگو جب قضا کی ہنسی اس کے لب پر ہوئی آشکارا گری اس تبسّم کی بجلی اجل پر اندھیرے کا ہو نور میں کیا گزارا بقا کو جو دیکھا فنا ہو گئی وہ قضا تھی شکارِ قضا ہو گئی وہ اس نظم میں لفظوں کی نشست و ترتیب اور رواں دواں مصرعوں کا آہنگ و توازن بھی ٹینی سن کی نظم کے مقابلے میں بدرجہا بہتر ہے۔ ٹینی سن کو ’’بقائے عشق‘‘ کا تصور پیش کرنے کے لیے ایک اچھوتا خیال سوجھا، لیکن اس خیال کی فنی صورت گری اقبال کے حصے میں آئی، اور یہ نظم پکار پکارکر کہہ رہی ہے: ع ’’دیکھو اس طرح سے کہتے ہیں سخنور سہرا‘‘۔ (۴) ’’رخصت اے بزم جہاں‘‘ امریکی شاعر و مفکر ایمرسن کی نظم "Good-bye" کا نہایت آزاد ترجمہ ہے۔ دونوں نظموں میں ظاہری مشابہت صرف چند مصرعوں تک محدود ہے۔ مثلاً اقبال کی نظم کا پہلا شعر یہ ہے: رخصت اے بزمِ جہاں ، سوئے وطن جاتا ہوں میں آہ اس آباد ویرانے میں گھبراتا ہوں میں۴۱۳؎ اب ایمرسن کے ابتدائی دو مصرعے ملاحظہ ہوں: "Good-bye, proud world, I' m going home; Thou art not my friend and I' m not thine."414 دونوں کے پہلے مصرعے تو قریباً ہم معنیٰ ہیں لیکن اقبال کے دوسرے مصرعے کا انداز (خصوصاً ’’آباد ویرانے‘‘ کی حسین و معنی خیز ترکیب) ایمرسن کے سادہ بیان سے مختلف ہے۔ نظم کے درمیان میں بھی ایک آدھ شعر پر ترجمے کا گمان گزر سکتا ہے: عاشقِ عزلت ہے دل، نازاں ہوں اپنے گھر پہ میں خندہ زن ہوں مسندِ دارا و اسکندر پہ میں اس شعر میں ایمرسن کے مندرجہ ذیل مصرعوں کا مفہوم ادا کیا گیا ہے: "O, when I am safe in my sylvan home, I tread the pride of Greece and Rome."414 اکتیس اشعار کی اس نظم میں ان تین چار مصرعوں کے علاوہ ہر جگہ لفظاً و معناً بڑا فرق ہے، البتہ ذہنی کیفیت کی یک رنگی اور مزاج کی ہم آہنگی دونوں نظموں میں پائی جاتی ہے۔ یوں بھی اس دور میں اقبال اپنے رجحانات کے اعتبار سے، ایمرسن سے بہت قریب نظر آتے ہیں۔ ایمرسن بھی، اقبال کی طرح مشرقی تصوف، افلاطونی تصوریت اور ورڈز ورتھ کی شاعری سے بہت متاثر تھا۔ اپنے مضامین میں بھی اس نے فطرت سے روحانی وابستگی کا اظہار کیا ہے۔ مثلاً ایک جگہ وہ لکھتا ہے: ’’فطرت کی یہ طلسم کاریاں بڑی صحت بخش ہیں۔ یہ ہماری بے اعتدالیوں اور وحشتوں کا علاج ہیں، ہمارے دکھوں کا مداوا ہیں۔ درحقیقت یہ تکلفات سے مبّرا خوشیاں ہیں جو ہمارے مزاج کو راس آتی ہیں اور ہماری ذات سے طبعی مناسبت رکھتی ہیں۔ فطرت کی ان سحر طرازیوں کی بدولت ہم اپنے آپ کو پا لیتے ہیں، اپنی اصلیت کو پہچان جاتے ہیں۔ ‘‘۴۱۵؎ اس نظم کے مندرجہ ذیل اشعار ایمرسن کی نظم یا نثر کا ترجمہ نہیں، مگر اقبال اور ایمرسن کے ذہنی قرب کے مظہر ضرور ہیں: ہم وطن شمشاد کا، قمری کا میں ہمراز ہوں اس چمن کی خامشی میں گوش بر آواز ہوں لیٹنا زیرِ شجر رکھتا ہے جادو کا اثر شام کے تارے پہ جب پڑتی ہے رہ رہ کر نظر علم کے حیرت کدے میں ہے کہاں اس کی نمود گل کی پتی میں نظر آتا ہے رازِ ہست و بود۴۱۶؎ اقبال اور ایمرسن کے مزاج میں فطری سادگی تھی اور وہ گاہے گاہے جدید تہذیب کی فریب کاری اور ملمع سازی سے متنفّر ہو کر فطرت کے سادہ ماحول میں پناہ لیتے تھے ، لیکن ان دونوں کو فطرت سے زیادہ انسان اور انسانی اقدار سے محبت تھی۔ انسانی دکھ درد کے مداواکی جستجو نے انھیں ورڈز ورتھ کی طرح فطرت پرستی کی مہلت ہی نہ دی۔ بہرحال ابتدائی نظموں سے کہیںزیادہ یہ نظم، فطرت سے اقبال کے تعلقِ خاطر کو ظاہر کرتی ہے۔ (۶) بچوں کے لیے درسی نظموں کا سلسلہ ۱۸۷۴ء میں حکومتِ پنجاب کے ایما، سررشتۂ تعلیم کی تحریک، انجمنِ پنجاب کے تعاون اور مولانا محمد حسین آزاد کی قائدانہ کوشش سے ’’مناظموں‘‘ کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، اس کا ایک اہم مقصد یہ تھا کہ درسی مقاصد کے لیے شعرا کو جدید طرز کی سادہ، دلچسپ و سبق آموز نظمیں لکھنے کی ترغیب دی جائے۔ محکمۂ تعلیم نے شمالی ہند کے مختلف علاقوں میں اس تحریک کی تخم ریزی کی۔ مولوی محمد اسماعیل میرٹھی نے ان مقاصد کو بڑے خلوص سے اپنایا اور بچوں کے ادب کی تخلیق میں آزاد کے بعد سب سے نمایاں حصہ لیا۔ پنجاب میں بھی محکمۂ تعلیم کی سرپرستی میں یہ تحریک ، وقفے وقفے سے جاری رہی۔ جیسا کہ گزشتہ فصل میں ذکر آ چکا ہے، بیسویں صدی کے اوائل میں مسٹر نولٹن (پرنسپل ٹریننگ کالج، لاہور)نے مولانا حالی کی وساطت سے کچھ انگریزی مضامین کے منظوم تراجم کرائے اور یہ مجموعہ ’’اطوارِ بازیچہ‘‘ کے نام سے ۱۹۰۸ء میں شائع ہوا۔ ممکن ہے درسی نظموں کی طرف اقبال کی توجہ محکمۂ تعلیم کی بالواسطہ تحریک یا پروفیسر آرنلڈ کی تشویق کا نتیجہ ہو۔/ اس موضوع سے اقبال کی دلچسپی کا اولین ثبوت ہمیں ان کی مقالے ’’بچوںکی تعلیم و تربیت‘‘ (مطبوعۂ مخزن ، جنوری ۱۹۰۲ئ) سے ملتا ہے۔ مقالے کے آخری حصے میں معلم کے فرائض کے بارے میں جو کچھ انھوں نے لکھا ہے،۴۱۷؎ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کی اہمیت کا شعور و احساس بھی ان کی اس شعری کاوش کا محرک ہوا۔ بانگِ درا میں بچوں کے لیے ’’ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘‘ کے علاوہ ۸؍منظوم تراجم (بہ شمول ’’ایک پرندہ اور جگنو‘‘) شامل ہیں۔ بچوں کی نظموں کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوجاتا بلکہ روزگارِ فقیر، جلد دوم میں ۶ مستقل نظمیں اور ایک نامکمل ترجمہ بھی منقول ہے۔ ان مدوّن و متروک نظموں کے معیار و مقدار کے پیشِ نظر، اس صنف میں بھی اقبال کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ روزگارِ فقیر کی ان متروک نظموں میں ’’محنت‘‘ (مثنوی، ۲۱؍اشعار) اور ’’بچوں کے لیے چند نصیحتیں‘‘ (قطعہ، ۲۰ اشعار) ابتدائی کوشش کا نتیجہ معلوم ہوتی ہیں۔ ان نظموں کے پیرایۂ بیان میں زبان کی سادگی اور روانی کے سوا کوئی خاص جاذبیت نہیں۔ مختلف اخلاقی نکات سیدھے سادے الفاظ میں بیان کیے گئے ہیں۔ تیسری نظم ’’شہد کی مکھی‘‘ (مثنوی۲۴ اشعار) میں شہد کی مکھی کی ان تھک جدوجہد اور جستجو کی مثال پیش کرکے بچوں کو طلبِ علم کی لگن پیدا کرنے اور علم کی شہد کے شفا بخش اثرات سے دوسروں کو فیض یاب کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ پیرایۂ بیان کے لحاظ سے یہ نسبتاً زیادہ جاذبِ توجہ ہے۔ ’’گھوڑوں کی مجلس‘‘ ۳۹؍اشعار پر مشتمل ایک / پروفیسر آرنلڈ کو جدیداردو شاعری کی تحریک سے دلچسپی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ علی گڑھ میں انھوں نے خوشی محمد ناظر کو نظمِ جدید اور پیرویِ حالی کی طرف توجہ دلائی تھی۔ (تاریخ ادبیات۔ اردو ادب ، جلد چہارم، ص ۲۹)۔ لاہور میں بھی جدید ادبی انجمن (لٹریری سوسائٹی) کی سرپرستی کے لیے آرنلڈ کا نام تجویز کیا گیا تھا۔ (’’لاہور کے مشاعرے‘‘ از محمد عبداللہ قریشی، مجلہ اقبال، لاہور، اکتوبر ۱۹۵۵ئ، ص ۷۵)۔ ترکیب بند ہے جس میں یہ حکایت بیان کی گئی ہے کہ انسان کے خلاف گھوڑوں کی قوم میں ایک باغیانہ تحریک برپا ہوئی، اور بالآخر ایک جلسۂ عام منعقد ہوا جس میں ایک پرجوش بچھیرا اپنی قوم کو انسان کی غلامی سے رہائی حاصل کرنے کے لیے غیرت دلاتا ہے۔ نظم کے دوسرے بند میں ایک سیانا گھوڑا، انسان کے احسانات اور آزادی کے خطرات بیان کرکے گھوڑوں کے جوشِ بغاوت کو ٹھنڈا کرتا ہے۔ یہ نظم بچوں کے لیے دلچسپ ضرور ہے ، لیکن اس میں سبق آموزی کا پہلو کمزور ہے۔ اس سلسلے کی باقی دو نظمیں ہرلحاظ سے بہتر ہیں۔ ’’جہاں تک ہو سکے نیکی کرو‘‘ کے غیردلچسپ عنوان سے ایک قدرے طویل نظم (۳۱ اشعار) روزگارفقیر میں سب سے پہلے درج ہے۔ نظم کے ابتدائی حصے میں ایک کسان کو سوگواری کے عالم میں بارش کے لیے منتظر ومضطرب دکھایا گیا ہے: ہر بار آسماں کی طرف دیکھتا تھا وہ بارش کے انتظار میں گھبرا رہا تھا وہ۴۱۸؎ کسان کی حالت پر ترس کھا کر ایک ننھی سی بوند نے کہا: ’’دل میں یہ آرزو ہے کہ اس کا بھلا کروں‘‘۔ اس کی سہیلیاں طعنہ زن ہوئیں : ’’تیری بساط کیا ہے کہ اس کو ہرا کرے‘‘۔ ’’اس بوند نے مگر یہ بگڑا کر دیا جواب‘‘: مانا کہ میرا نم کوئی دریا کا نم نہیں ہمّت تو میری بحر کی ہمّت سے کم نہیں قربان اپنی جان کروں گی کسان پر کیا لوں گی میں ٹھہر کے یہاں آسمان پر نیکی کے کام سے کبھی رکنا نہ چاہیے اس میں کسی کے ساتھ کی پروا نہ چاہیے۴۱۸؎ اس کی ہمت دیکھ کر سہیلیوں کو غیرت آئی۔ سب مل جل کر برس پڑیں اور کسان کی کھیتی سیراب ہو گئی۔ اس نظم کا مرکزی خیال، اسماعیل میرٹھی کی اس نظم سے ملتا جلتا ہے جس میںایک ننھے قطرے کی پیش قدمی سے بارش کا تانتا بندھ جاتا ہے، اور جس کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے: گھنگھور گھٹا تلی کھڑی تھی پر بوند ابھی نہیں پڑی تھی دراصل ان دونوں نظموں کا تخیل، سعدی کی اس منظوم حکایت سے ماخوذ ہے جس کا پہلا شعر یہ ہے: یکے قطرہ باراں ز ابرے چکید خجل شد چو پہنائے دریا بدید لیکن اقبال نے پہلے قطرے کے جرأتِ اقدام اور اس کے متّبعین کی اجتماعی کوشش کا رخ کسان کی خشک کھیتی کی طرف موڑ دیا ہے۔ نظم کی تشکیل میں یہ پہلو اس مقصد سے ابھارا گیا ہے کہ اس مظلوم طبقے کے لیے دلوں میں جذبۂ ہمدردی پیدا ہو۔ مقصدیت اور جاذبیت کے لحاظ سے یہ ایک کامیاب نظم ہے۔ ’’چاند اور شاعر‘‘ کے عنوان سے ۱۲،۱۲ اشعار کے دو حصوں پر مشتمل نظم ، اس مشہور مصرعے کی تضمین ہے: ’’کسبِ کمال کن کہ عزیزِ جہاںشوی‘‘۔ اس مضمون کو دل نشین انداز میں ادا کرنے کے لیے مکالمے کا پیرایہ اختیار کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں شاعر، چاند سے مخاطب ہو کر پوچھتا ہے: ’’یہ نور، یہ کمال کہاں سے ملا تجھے؟‘‘۔ دوسرے حصے میں چاند یہ درس دیتا ہے کہ جس طرح میںآفتاب سے کسبِ نور کرکے ہلال سے ماہِ کامل بننے کی فکر میں شب و روز گردش کرتا ہوں، اسی طرح تو بھی علم کے آفتاب سے فیض یاب ہو کر ، ایسا کمال حاصل کر سکتا ہے جسے کبھی زوال نہیں۔ زبان کی سادگی اور برجستگی کے ساتھ اس میں نغمگی کا بھی اہتمام کیا گیا ہے: اے چاند تجھ سے رات کی عزّت کی لاج ہے سورج کا راج دن کو، ترا شب کو راج ہے تو وہ دیا ہے جس سے زمانے میں نور ہے ہے تو فلک پہ، نور ترا دور دور ہے حاصل کروں کمال، بنوں چودھویں کا چاند تو ہے فلک کا چاند، بنوں میں زمیں کا چاند۴۱۹؎ غالباً اقبال اپنی ان ابتدائی کوششوں سے مطمئن نہیں تھے، لہٰذا انھوں نے انگریزی کی منتخب نظموں کے تراجم کا سلسلہ شروع کیا۔ بانگِ درا میں سات نظمیں مسلسل ہیں جن میں سے چار نظموں کے عنوان کے نیچے’’ماخوذ‘‘ اور دو جگہ ماخوذ کے ساتھ شاعر کا نام بھی درج ہے۔ ’’پرندے کی فریاد‘‘ کو ترجمہ یا ماخوذ تو نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ بھی ایک انگریزی نظم سے قدرے مشابہت رکھتی ہے۔ اس سلسلے سے علیحدہ ایک نظم ’’ایک پرندہ اور جگنو‘‘ واضح طور پرایک انگریزی نظم کا آزاد ترجمہ ہے۔سہواً بانگِ درا میں اس کے ترجمہ یا ماخوذ ہونے کی صراحت نہیں کی گئی۔/ اب ہم بانگِ درا کی ترتیب کے مطابق، انگریزی مآخذ کے حوالے سے ان نظموں کا جائزہ لیں گے۔ (۱) ’’ایک مکڑا اور مکھّی‘‘: یہ میری ہووٹ کی نظم The Spider and the Fly کا آزاد ترجمہ ہے۔۴۲۰؎ اصل متن کے ۴۴ مصرعوں کے مقابلے میں اقبال کی نظم ابتداً ۳۲؍اشعار پر مشتمل تھی۔ اس نظم کے آٹھ متروک اشعار روزگار فقیر جلد دوم (ص ۳۶۵- ۶۸) میں درج ہیں۔ دونوں نظموں میں ڈرامائی مکالمے کا موزوں اور دلچسپ اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ اقبال نے موقع و محل کے مطابق اردو روز مرہ و محاورہ کا خیال رکھا ہے، اور بحیثیتِ مجموعی اصل متن کو بڑی خوبی سے اردو میں منتقل کیا ہے۔ ابتدا کے دو شعر نمونۃً درج ذیل ہیں: اک دن کسی مکھّی سے یہ کہنے لگا مکڑا اس راہ سے ہوتا ہے گزر روز تمھارا لیکن مری کٹیا کی نہ جاگی کبھی قسمت بھولے سے کبھی تم نے یہاں پائوں نہ رکھّا۴۲۱؎ آخری شعر میں ہڑپ کر جانے کے معنی میں لفظ ’’اُڑایا‘‘ استعمال کرکے بڑی بے تکلفی سے صنعتِ ایہام کی خوبی پیدا کی ہے: بھوکا تھا کئی روز سے اب ہاتھ جو آئی آرام سے گھر بیٹھ کے مکھی کو اُڑایا۴۲۱؎ / اقبال کی جن نظموں کے انگریزی سے ماخوذ ہونے کا بانگِ درا میں حوالہ نہیں دیاگیا ان کے بارے میں پروفیسر حمید احمد خاں کی یہ توجیہ قابلِ غور ہے: ’’جب یہ نظمیں پہلی مرتبہ مخزن یا کسی دوسرے رسالے میں طبع ہوئیں تو اقبال نے انھیں بطور ترجمہ پیش کیا … بانگِ درا میں یہ تفصیل نظر نہیں آتی۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ جن عقیدت مند کارکنوں نے (بہ ایمائے اقبال)بانگِ درا کے اشعار کی ترتیب و انتخاب کا کام اپنے ہاتھ میں لیا، ان کے لیے تاثیر و تاثر کے جھگڑے قابلِ اعتنا نہ تھے۔‘‘ (اسی ضمن میں حاشیے کی عبارت) ’’یاد رہے کہ اس صدی کے ربع اوّل تک اردو کے اہلِ قلم، ترجمہ و اصل کے درمیان (بالخصوص افسانہ و شعر میں) پابندی سے امتیاز نہیں کرتے تھے۔ ‘‘ (اقبال کی شخصیت اور شاعری ، ص ۱۰۷)۔ (۲) ’’ایک پہاڑ اور گلہری‘‘۔ یہ ایمرسن کی نظم The Mountain and the Squirrel کا ترجمہ ہے۔ اس نظم کا ابتدائی متن ۲۴ اشعار پر مشتمل تھا۔ نظرثانی میں ۱۲ اشعار خارج ہو گئے (روزگار، ص ۳۵۸-۶۱)۔ ایمرسن کی نظم مختصر بھی ہے اور لفظوں کا انتخاب بھی بہت خوب ہے ، خصوصاً ابتدائی دو مصرعوں میں ’’قافیوں کی کھڑ کھڑاہٹ‘‘ سے تکرار اور جھگڑے کا تاثر بڑی خوبی س پیدا کیا ہے: The Mountain and the Squirrel Had a quarrel.422 لیکن موجودہ صورت میں اقبال کی نظم بھی اس سے کم تر نہیں۔ بعض جگہ ایمرسن کی نظم میں ضرورت سے زیادہ اختصار ہے۔ مثلاً بحث و تکرار کے سلسلے میں پہاڑ صرف دو لفظ کہتا ہے:Little prig جس کے جواب میں گلہری نظم کے باقی ۱۵ مصرعوں میں مسلسل چخ چخ مچائے رہتی ہے۔اقبال کی نظم کے ابتدائی ۵ شعر میں پہاڑ کا طنزیہ و فخریہ مکالمہ زیادہ برمحل ہے۔ کئی مصرعے اتنے برجستہ ہیں کہ بچوںکی زبان پر ضرب المثل کی طرح چڑھ جاتے ہیں۔ مثلاً ’’تجھے ہو شرم تو پانی میں جا کے ڈوب مرے‘‘- ’’خدا کی شان ہے نا چیز چیز بن بیٹھیں‘‘- ’’تری بساط ہے کیا میری شان کے آگے‘‘ وغیرہ۔ یا مثلاًایمرسن کا یہ مصرع اگرچہ بلیغ ہے: Talents differ, all is well and wisely put.422 لیکن اقبال کے مندرجہ ذیل شعر کی وضاحت بچوں کے لیے زیادہ مناسب ہے: ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے کوئی بڑا، کوئی چھوٹا یہ اس کی حکمت ہے اور نظم کے آخری شعر میں اس مفہوم کو دہرا کر ، یہ حکیمانہ نکتہ بچوں کے اچھی طرح ذہن نشین کیا گیا ہے: نہیں ہے چیز نکمّی کوئی زمانے میں کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں۴۲۳؎ (۳) ’’ایک گائے اور بکری‘‘: یہ جین ٹیلر کی نظم The Cow and the Ass سے ماخوذ ہے۔ بانگِ درا میں اس نظم کے ۲۹ شعر ہیں۔ ابتدائی متن کے ۱۲ شعر خارج کر دیے گئے۔ (روز گار، ص ۳۶۲ -۶۶) شاعر نے اس نظم میں مقامی رنگ بھرنے کی حتی الامکان کوشش کی ہے، اور نظم میں گدھے کی جگہ بکری کو لانے سے یہ کوشش نہایت کامیاب رہی۔ مکالموں میںبھی اردو کے روزمرہ و محاورہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے برجستگی پیدا کی ہے۔ مندرجہ ذیل اشعار میں زبان و بیان کی صفائی و بے ساختگی، ایجاز و اختصار ملاحظہ ہو۔ بکری جب گائے کے قریب پہنچتی ہے: پہلے جھک کر اسے سلام کیا پھر سلیقے سے یوں کلام کیا کیوں بڑی بی مزاج کیسے ہیں؟ گائے بولی کہ خیر، اچھّے ہیں! کٹ رہی ہے بری بھلی اپنی ہے مصیبت میں زندگی اپنی زور چلتا نہیں غریبوں کا پیش آیا لکھا نصیبوں کا آدمی سے کوئی بھلا نہ کرے اس سے پالا پڑے، خدا نہ کرے۴۲۴؎ جہاں انگریزی متن کی پیروی کی ہے، وہاں بھی مضمون کو بڑے سلیقے سے فصیح اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ مثلاً گدھے اور بکری کا فرق ملحوظ رکھتے ہوئے انگریزی نظم کے اختتامی مصرعے اور ان کا اردو روپ ملاحظہ ہو: "The Cow upon this, cast her eyes on the grass, Not pleased to be schooled in this way by the Ass "Yet" said to herself, "though he's not very bright, I really believe that fellow is right."425 گائے، سن کر یہ بات، شرمائی آدمی کے گلے سے پچتائی دل میں پر کھا بھلا برا اس نے اور کچھ سوچ کر کہا اس نے یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی دل کو لگتی ہے بات بکری کی۴۲۶؎ (۴) ’’بچے کی دعا‘‘: یہ نظم ایم۔ بی۔ ایڈورڈس کی نظم "A Child's Hymn" سے ماخوذ ہے جس کا پہلا بند درج ذیل ہے: God make my life a little light, Within the world to glow, A little flame that burneth bright, Wherever I may go.427 جس طرح اس بند میں ’’ایک ننھی روشنی‘‘ اور ’’ایک ننھے شعلے‘‘ کی مثالیں دی گئی ہیں، اسی طرح باقی چار بندوں میں بھی یہی اسلوب اختیار کیا گیا ہے (: ایک ننھا پھول جو سب کو مسرتیں بانٹے، ایک نغمہ جو غمگین دلوں کو تسکین دے، ایک عصا جو ناتوانوں کا سہارا بنے، ایک دعا جو خدا کا شکر اور اس کی رحمت پر ایمان سے لبریز ہو۔) اقبال نے دعا کا فطری اور بے ساختہ پیرایہ اختیار کیا ہے۔ ابتدائی متن کے ۱۰ اشعار میں انگریزی نظم کے ہر بند کا مفہوم ایک ایک ، دو دو شعر میں ادا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔بانگِ درا میں صرف ۶ شعر درج ہیں۔ موجودہ صورت میں بھی اصل کی روح موجود ہے۔ شاعر نے غالباً شعوری طور پر اس دعا کی تکمیل کے لیے آخری شعر میں سورئہ فاتحہ کے بہترین دعائیہ کلمات کا خلاصہ بھر دیا ہے۔ اس دعا میں جن تمنائوں کا اظہار کیا گیا ہے، وہ ساری تمنائیں اور آرزوئیںخود شاعر کے دل میں مچل رہی تھیں لہٰذا ان کے اظہار میں خلوص و اثر ہے۔ یہ نظم غنائیت سے بھرپور ہے۔ نہ صرف اس لیے کہ اس کی بحر مترنّم ہے اور اس کا ہر شعر مردّف ہے بلکہ اس لیے بھی کہ اس کا ہر ہر لفظ شاعر کے دل سے نکلا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نظم بچوں میں اب تک بہت مقبول ہے۔ (۵) ’’ہمدردی‘‘ : اس نظم کے عنوان کے نیچے ’’ماخوذ از ولیم کوپر‘‘ کی صراحت موجود ہے، لیکن اصل نظم کا سراغ اب تک نہ مل سکا۔ ڈاکٹر اکبر حسین قریشی اور ڈاکٹر محمد صادق نے اپنے مقالوں میں اس نظم کا ذکر نہیں کیا۔ پروفیسر حمید احمد خاں مرحوم لکھتے ہیں: ’’اس کی اصل، راقم الحروف کو Cowper's Poetical Works میں نہیںملی۔‘‘۴۲۸؎ اس نظم کا ابتدائی متن بھی ۱۶ اشعار پر مشتمل تھا۔ بانگِ درا میں صرف ۸ شعر شائع ہوئے ہیں۔ متروک اشعار کی طوالت سے عاری ہونے کے بعد بھی بیان کی روانی میں فرق نہیں آیا، بلکہ موجودہ صورت میں نظم کی تشکیلی ہیئت بہتر ہو گئی ہے۔ بلبل اور جگنو کی اس مختصر حکایت کے ذریعے جو درس دیا گیا ہے، غالباً وہی اس ترجمے کا جواز ہے: ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھّے آتے ہیں جو کام دوسروں کے۴۲۹؎ (۶) ’’ماں کا خواب‘‘: یہ نظم ولیم باراس کی تخلیق "The Mother's Dream" سے ماخوذ ہے۔۴۳۰؎ اس نظم کا ابتدائی متن ۲۴؍ اشعار پر مشتمل تھا اور اس میں غیر ضروری تفصیلات تھیں۔ بانگِ درا میں ۱۵ اشعار درج ہیں۔ موجودہ صورت میں بوجہ اختصار نظم کا مجموعی تاثر بڑھ گیا ہے۔ انگریزی نظم کے ابتدائی مصرعوں ہی میں خواب کی نوعیت اور بچے کی وفات کا ذکر ہے، لیکن اقبال کی نظم کا تجسّس انگیز ڈرامائی آغاز، اس نظم کی جاذبیت میں اضافے کا باعث ہے۔ علاوہ ازیں شاعر نے اصل کے مطالب پر جو اضافے کیے ہیں، اس سے نظم میں خارجی واقعیت اور مناسب جذباتی فضا پیدا ہو گئی ہے: یہ دیکھا کہ میں جا رہی ہوں کہیں اندھیرا ہے اور راہ ملتی نہیں لرزتا تھا ڈر سے مرا بال بال قدم کا تھا دہشت سے اٹھنا محال جو کچھ حوصلہ پا کے آگے بڑھی تو دیکھا قطار ایک لڑکوں کی تھی زمرد سی پوشاک پہنے ہوئے دیے سب کے ہاتھوں میں جلتے ہوئے وہ چپ چاپ تھے آگے پیچھے رواں خدا جانے جانا تھا ان کو کہاں۴۳۱؎ انگریزی نظم میں مندرجہ بالا اشعار کے صرف دو مصرعوں (دیے سب کے ہاتھوں میں … وہ چپ چاپ تھے…) کا مفہوم مشترک ہے۔ اس نظم کے لہجے میں بڑی معصومیت اور بے ساختگی ہے۔اس کا ہر شعر سادہ محاکاتی شاعری کا عمدہ نمونہ ہے۔ خواب کا حسین و معنی خیز علامتی تخیل ، ہمارے مذہبی عقائد سے قریب تر ہونے کی وجہ سے غم زدہ مائوں کے لیے تسکینِ قلب کا باعث ہے۔ یہ نظم بحرِ متقارب مقصور یا محذوف (فعولن فعولن فعولن فعول یا فعل) میں لکھی گئی ہے۔ اس بحر کے آہنگ میں تیزی، حرکت اور روانی ہے، لہٰذا عموماً رزمیہ مثنویوں کے لیے زیادہ موزوں سمجھی جاتی ہے۔ لیکن کچھ تو موضوع کی مناسبت اور کچھ الفاظ کی مخصوص بندش سے اس نظم میں ایک دھیما آہنگ پیدا ہو گیا ہے۔ صرف ایک شعر کے سوا (جس کے قافیے ’پر‘ اور ’نظر‘ ہیں) نظم کے تمام اشعار میں بحر کا آخری رکن ’’فعول‘‘ آتا ہے۔ ان اشعار کو دھیمے لہجے میں پڑھا جائے تو ان کے قافیوں کے کھنچے ہوئے حروفِ علّت اَور زیادہ کھنچ کر درد بھری فریاد کی لے پیدا کرتے ہیں۔ (۷) ’’پرندے کی فریاد‘‘ : بانگِ درا میں اس نظم کے عنوان کے ساتھ ’’ماخوذ‘‘ کا لفظ کسی وجہ سے رہ گیا لہٰذا یہ ایک تخلیقی نظم سمجھی جاتی رہی۔ اب پروفیسر حمید احمد خاں اور ڈاکٹر محمد صادق نے واضح طور پراس نظم کو ولیم کوپر کی ایک نظم سے ماخوذ قرار دیا ہے جس کا عنوان یہ ہے :On a Goldfinch Starved to Death in his Cage لیکن اوّل تو عنوان کا فرق ہی دونوں نظموں کے اختلاف کو ظاہر کرتا ہے۔ پھر اگر دونوں کا موازنہ کیا جائے تو اقبال کا صرف یہ ایک شعر کوپر کے ایک مصرعے سے معنوی مناسبت رکھتا ہے: آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی اپنی خوشی سے آنا، اپنی خوشی سے جانا۴۳۲؎ کوپر۴۳۳؎ :I perch'd at will on every Spray لیکن اس مصرعے میںکوئی خاص بات نہیں کہی گئی۔ ہر شاعر جو اس موضوع پر لکھتا، اس کیفیت کا ضرور اظہار کرتا۔ غرض ان تمام پہلوئوں کے پیش نظر صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ نظم کوپر سے متاثر ہوکر کہی گئی یاشاعر کے تحت الشعور میں کوپر کی نظم کا جو نقش تھا،وہ اس نظم کی تشکیل پر اثر انداز ہوا۔ اس کے بارے میں پروفیسر حمید احمد خاں کی یہ رائے زیادہ قرینِ صحت ہے: ’’ترجمہ اقبال نے معمول سے بھی زیادہ آزادانہ کیا ہے اور اردو نظم کی مستقل حیثیت بالکل بجا معلوم ہوتی ہے۔‘‘۴۳۴؎ اس ترکیب بند نظم کے ابتدائی متن میں ۲۰؍اشعار اور ۴ بند تھے۔ پہلا بند ۸؍اشعار اور باقی تین بند ۴، ۴ اشعار پر مشتمل تھے۔ بانگِ درا میں اس کے صرف ۱۱ شعر اور تین بند بڑی تراش خراش کے بعد شامل کیے گئے۔ مثلاً ابتدائی متن میں پہلا شعر یوں تھا: آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ وہ جھاڑیاں چمن کی وہ میرا آشیانہ۴۳۵؎ بانگِ درا میں مصرع ثانی کی یہ صورت ہے:’’وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا‘‘ مخزن میں شائع ہوتے ہی یہ نظم اتنی مقبول ہوئی کہ بچوں کی زبانی اس کے اشعار ملک کے گوشے گوشے میں گونجنے لگے۔ بانگِ درا کی اشاعت کے بعد بھی کئی برس تک درسی کتابوں میں یہ نظم اپنی ابتدائی صورت میں رائج رہی۔ جن لوگوں نے اس دور میںیہ نظم پڑھی اور گائی تھی، انھیں اس کی مانوس صورت ہی زیادہ مرغوب ہے۔ علاوہ ازیں نظم کے کئی متروک اشعار جزئیات نگاری کی بدولت بچوں کے تخیّل کے لیے زیادہ پُرکشش اور تصور زا ہیں۔مثلاً: پتّوں کا ٹہنیوں پر وہ جھومنا خوشی سے ٹھنڈی ہوا کے پیچھے وہ تالیاں بجانا وہ پیاری پیاری صورت، وہ کامنی سی مورت آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانا بیری کی شاخ پر ہو ویسا ہی پھر بسیرا اس اجڑے گھونسلے کو پھر جا کے میں بسائوں چُگتا پھروں چمن میں دانے ذرا ذرا سے ساتھی جو تھے پرانے ان سے ملوں ملائوں۴۳۵؎ اس مشہور و مقبول نظم کی شیرنی زبان اور حسنِ بیان کسی تبصرے کا محتاج نہیں۔ البتہ اس کا پُرسوز آہنگ جس داخلی کیفیت کی غمازی کرتا ہے، اس کی وضاحت ضروری ہے۔ بعض اصحاب اس نظم کی سیاسی تاویل کرتے ہیں، یعنی اسیرِ قفس پرندہ، قیدِ غلامی میں گرفتار قوم کی علامت ہے۔ ہمارے نزدیک یہ تاویل دور از کار ہے۔ اقبال اس زمانے میںبھی اتنا سیاسی شعور رکھتے تھے کہ آزادی، التجا و فریاد کرنے یا بھیک مانگنے سے نہیں ملتی۔ اس کے حصول کے لیے اپنے آپ کو مستحق بنانے اور قوت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ علی بخش نے ایک انٹرویو میں یہ کہا تھا کہ یہ نظم بلوچستان کے سفر کے دوران میں کہی گئی تھی۔/ اس سفر میں وہ بھی اقبال کے ہمراہ تھے۔۴۳۶؎ اُس زمانے میں اقبال کے برادرِ بزرگ، بعض بے درد مخالفین کی سازش کے جال میں بری طرح گرفتار تھے اور وہ اپنے بھائی کی رہائی کے لیے بے حد مضطرب تھے۔ ایک ہنر مند فن کار تخلیقِ فن کی نت نئی راہیں نکال کر اپنے جذبے کے بہائو کا رخ اس طرح بدل دیتا ہے کہ اس کی نوعیت پہچانی نہیں جاتی۔ فروری ۱۹۰۷ء کے مخزن میں اس نظم کی اشاعت کا مسئلہ ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ نظم اقبال کے فکر و فن کے اُس دور (زمانۂ قیام یورپ) کی تخلیق نہیں، بلکہ اسی دورِ ابتلا کی یاد گار ہے، اور کسی وجہ سے اس کی اشاعت میں غیر معمولی تاخیر ہو گئی۔ (۸) ’’ایک پرندہ اور جگنو‘‘: اگرچہ یہ نظم غالباً زمانی ترتیب کے لحاظ سے بانگِ درا میں اس سلسلۂ منظومات سے الگ ہو گئی ہے جو بچوں کے لیے مخصوص ہے، لیکن حکایت (Fable) کے پیرائے میں سبق آموزی کا اسلوب اسے اسی سلسلے سے منسلک کر دیتا ہے۔ بانگِ درا میں سہواً اس کا ماخوذ ہونا ظاہر نہیں کیا گیا۔ یہ نظم ولیم کوپر کی نظم The Nightingale and Glow-worm کا آزاد ترجمہ ہے۔ اور چونکہ اس دور کی آخری نظموں میں شاعر کا فن ارتقا کے ابتدائی مراحل سے گزر چکا ہے، لہٰذا اس کا متن بالکل محفوظ ہے۔فنی پختگی کا دوسرا ثبو ت یہ ہے کہ ابتدائی تراجم کے برخلاف اس نظم میں اتنے اختصار سے کام لیا گیا ہے کہ کوپر کی نظم کے ۳۸ مصرعوں کے مقابلے میں یہ نظم مختصر بحر میں کل ۱۲ اشعار پر مشتمل ہے۔ کوپر کی نظم کے تمہیدی حصے میں بے جا طوالت ہے اور اس حصے میں مزاج کا تیکھا پن بھی، اخلاقی موضوع کی سنجیدگی کے لحاظ سے، بے محل ہے۔ اقبال نے ان مطالب کو دو شعر میں ادا کرکے اُس حصے پر خاص توجہ صرف کی ہے جو جانِ سخن ہے۔ کوپرنے حکایت ختم کرکے خود واعظ بن کر، ربطِ باہمی اور ہم آہنگی کا درس دیا اور بہ تخصیص عیسائیوں کو مخاطب کیا ہے۔ اقبال / اقبال کے ایک خط سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نظم مارچ ۱۹۰۳ء میں لکھی جا چکی تھی (اقبالنامہ ، حصہ اوّل، ص ۲۱-۲۲)۔ غالباً بلوچستان کے سفر کے دوران (مئی ۱۹۰۳ئ) میں اقبال نے اس پر نظرثانی کی ہو گی۔ نے اس حکیمانہ نکتے کو جگنو کے مکالمے کا جزو بنا کر اس انداز سے پیش کیا ہے، گویا ہم آہنگی نظامِ کائنات کا ابدی اور اٹل اصول ہے۔ اس نظم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کا موضوع خاص یا مرکزی خیال کا عکس ہر شعر کے مصرعوں کے توازن اور ہم آہنگی میں جھلکتا ہے۔مختصر یہ کہ بقول پروفیسر حمید احمد خاں: ’’اقبال کے جگنو کی چمک دمک کوپر کے Glow-worm سے کچھ بڑھ گئی ہے۔‘‘۴۳۷؎ الفاظ کی ماہرانہ ترتیب و توازن اور بلاغتِ فن کا یہ نمونہ ملاحظہ ہو: تری منقار کو گانا سکھایا مجھے گلزار کی مشعل بنایا چمک بخشی مجھے، آواز تجھ کو دیا ہے سوز مجھ کو ، ساز تجھ کو مخالف ساز کا ہوتا نہیں سوز جہاں میں ساز کا ہے ہم نشیں سوز قیامِ بزمِ ہستی ہے اسی سے ظہورِ اوجِ و پستی ہے اسی سے۴۳۸؎ اس نظم میں فارسی کے چند مانوس الفاظ اور اضافتیں آ گئی ہیں، لیکن اس سلسلے کی نظموں کی عام خصوصیت زبان کی سادگی و شیرینی اور مکالموں کا برجستہ و بے تکلف انداز ہے۔ اقبال نے مدعیانِ زباندانی کو دکھا دیا کہ اگر تم میرے کلام میں روز مرہ و محاورہ کی خوبیاں تلاش کرتے ہو تو یہ کھلونے میں نے بچوں کے لیے، ان بیانیہ نظموں میں سجا رکھے ہیں کہ یہی ان کا صحیح مقام ہے۔ ان تراجم کی کامیابی کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ شاعر نے کہیں لفظی ترجمے یا محض ترجمانی کی کوشش نہیں کی، بلکہ انگریزی متن کی روح اور اس کے مجموعی تاثر کو اردو نظم میں منتقل کیا ہے، اور اس ضمن میںمقامی ماحول کی خصوصیات اور مشرقی اسلوب کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ شاعر نے ایسی نظمیں ترجمے کے لیے منتخب کی ہیںجن میںحکایات کا دلچسپ و موثر پیرایہ اختیار کرکے، بچوں کے معصوم دلوں پر انسانیت کی اعلیٰ اقدار کا نقش ثبت کیا گیا ہے۔ (۵)غزلیات کا فنی و ارتقائی جائزہ بانگِ درا (حصہ اوّل) میںجو ۱۳ منتخب غزلیں شامل ہیں، ان کا سلسلہ بھی (نظموں کی طرح) ۱۹۰۱ء سے شروع ہوتا ہے۔ نظم گوئی کے تخلیقی تجربے سے آشنا ہونے کے بعد گونا گوں خیالات و جذبات کا مچلتا ہوا طوفان انھیں ’’تنگنائے غزل‘‘ سے نکلنے کے لیے مجبور کر رہا تھا ، لہٰذا نظم گوئی کی طرف اقبال کا میلان روز بروز بڑھنے لگا۔ نومبر ۱۹۰۱ء کی ایک غزل کے مقطعے میںوہ کہتے ہیں: ترک کر دی تھی غزل گوئی مگر اقبال نے یہ غزل لکھی ہمایوں کو سنانے کے لیے بانگِ درا کی غزلوں کے علاوہ باقیاتِ اقبال میں بھی اسی زمانے کی ۱۲ غزلیںملتی ہیں۔ روزگار فقیر (جلد دوم) میں ۸،۹ اشعار کی دو نامکمل غزلیں بھی واضح طور پر اسی دور کی ہیں۔ اس طرح کل ۲۷ غزلیں اس دور سے متعلق قرار دی جا سکتی ہیں۔ بانگِ درا کی پہلی اور تیسری (مختصر و نامکمل) غزل کے سوا، مندرجہ ذیل نقشے میں متروک و مدوّن غزلوں کی زمانی ترتیب و دیگر تفصیلات درج ہیں: ماہ و سنہ اشاعت مصرع اول بانگِ درا تعداد متروک باقیات کا صفحہ اشعار اشعار کا صفحہ بانگِ درا مخزن ، جون ۱۹۰۱ئ نہ آتے ہمیں اس میں تکرارکیا تھی ۱۰۰ ۶ ۱۱ ۴۴۱ مخزن، جولائی ۱۹۰۱ئ محبت کو دولت بڑی جانتے ہیں × × ۱۰ ۳۹۴ مخزن، نومبر ۱۹۰۱ئ لائوں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے ۱۰۲ ۷ ۶ ۳۹۱ بہار گلشن (۲) ۱۹۰۱ئ تم نے آغازِ محبت میں یہ سوچا ہو گا × × ۸ ۴۲۲ مخزن، مارچ ۱۹۰۲ئ دل کی بستی عجیب بستی ہے × × ۹ ۳۹۲ مخزن، جون ۱۹۰۲ئ ہے کلیجہ فگار ہونے کو × × ۱۱ ۴۳۴ مخزن، اکتوبر ۱۹۰۲ئ عاشقِ دیدار محشر کا تمنّائی ہوا × × ۹ ۳۹۳ مخزن، جنوری ۱۹۰۳ئ چاہیں اگر تو اپنا کرشمہ دکھائیں ہم × × ۸ ۳۹۷ خدنگِ نظر، لکھنؤ، فروری کیا کہوں اپنے وطن سے میںجدا ۱۹۰۳ئ کیوں کر ہوا ۱۰۲ ۱۰ ۲ ۳۹۹ مخزن، اپریل ۱۹۰۳ئ ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی ۱۰۵ ۹ ۷ ۴۴۴ مخزن، اپریل۱۹۰۳ئ لڑکپن کے ہیں دن صورت کسی کی بھولی بھولی ہے × × ۱۹ ۴۰۳ مخزن، مئی ۱۹۰۳ئ زندگی دنیا کی مرگ ناگہانِ اہلِ × × ۱۴)=۳۱ ۴۰۷ درد (دو غزلہ) ۱۷) مخزن، مئی ۱۹۰۳ئ سیر اس باغ میں کر باد سحر کی × × ۹) صورت (دو غزلہ) +)=۱۷ ۴۱۴ ۸) مخزن، اگست ۱۹۰۳ئ عبادت میں زاہد کو مسرور رہنا × × ۱۳ ۴۲۱ خدنگ نظر، اگست پاس والوں کو تو آخر دیکھنا ہی ۱۹۰۳ء تھا مجھے × × ۲۱ ۴۱۷ مخزن، اکتوبر۱۹۰۳ئ کہوں کیا آرزوئے بے دلی مجھ کو کہاں تک ہے ۱۰۵ ۹ ۱۰ ۴۴۷ روزگار فقیر، زباں میری ہے اے اقبال بولی روز گارفقیر غالباً ۱۹۰۳ئ درد مندوں کی × × ۹ ص۲۹۴ روزگار فقیر، یہ کس الجھی ہوئی گتھی کے × × ۸ روز گار فقیر غالباً ۱۹۰۳ئ سلجھانے کی باتیں ہیں ص۲۹۵ مخزن، جنوری ۱۹۰۴ئ ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں ۱۰۹ ۶ ۱۰ ۴۳۶ دکن ریویو، انوکھی وضع ہے سارے زمانے اگست ۱۹۰۴ئ سے نرانے ہیں ۱۰۳ ۸ ۹ ۴۴۵ مخزن، جنوری ۱۹۰۴ئ جنھیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں ۱۰۶ ۱۸ ۳ ۴۴۳ الکاشف، سیالکوٹ جو مضموں زندگی میں حرف موزوں اکتوبر۱۹۰۴ئ بن کے نکلے ہیں × × ۲۰ ۴۲۶ مخزن، جون ۱۹۰۴ئ کشادہ دستِ کرم جب وہ بے نیاز کرے ۱۱۰ ۹ ۵ ۴۴۳ ؟ ۱۹۰۵ئ سختیاں کرتا ہوںدل پر غیر سے غافل ہوں میں ۱۱۱ ۶ ۸ ۴۵۲ مخزن، مئی ۱۹۰۵ئ مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے ۱۱۲ ۱۲ ۲ ۴۵۱ ۱۹۰۱ء سے پہلے اقبال کی غزل گوئی کے ابتدائی ادوار کی غزلیں، موضوعات و اسالیب کے اعتبار سے رسمی و تقلیدی ہیں۔ موجودہ دور میں اقبال کی غزل رفتہ رفتہ تخلیقی و ارتقائی مراحل طے کرتی نظر آتی ہے۔ لیکن نظموں کے مقابلے میں غزلوں کی تعداد اتنی کم ہے کہ نقادوں نے انھیں قابلِ اعتنا نہ سمجھا اور بالعموم رسمی و تقلیدی کہہ کر ٹال دیا۔ پروفیسر عابد علی عابد کی تصنیف شعرِ اقبال میں چار صفحات (۱۱۲ تا ۱۱۶)پر مشتمل جو مختصر تبصرہ ہے، اس میں چند غزلوں کے اشعار درج کرکے صرف یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ’’ وہ داغ کے اسلوبِ سخن گوئی ، طریقِ ابلاغ و اظہار یا انداز سے بہت متاثر ہیں۔‘‘پروفیسر وقار عظیم لکھتے ہیں: ’’اسی طرح اس دور کی غزلیں بھی فن کی عام پسند روایت اور اس کی بے کیف اور بے مزہ تقلید کی مظہر ہیں…‘‘ ۴۳۹؎ اقبال کی ان غزلوں کا صحیح مقام متعین کرنے کے لیے اس دور کے ادبی پس منظر، بالخصوص غزل گوئی کی عام روایت کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل تک اصلاحِ غزل کے سلسلے میں حالی کی اجتہادی کوششوں کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ مشاعروں اور ادبی محفلوں میںابھی تک داغ و امیر ہی کا سکہ رائج تھا (چشمِ محفل میں ہے اب تک کیف صہبائے امیر)۔ حتیٰ کہ ارشد گورگانی بھی صفِ اوّل کے غزل گو شعرا میں شمار کیے جاتے تھے۔ اپریل ۱۹۰۷ء کے شمارئہ مخزن میں شیخ عبدالقادر جیسا سخن شناس، اپنے مضمون ’’ارشد کی یاد‘‘ میں لکھتا ہے:’’میں انھیں غزل کے اعتبار سے زمانۂ حال کے شعرا کی صفِ اوّل میں اور دیگر اصنافِ سخن میں صفِ دوم میں جگہ پانے کا مستحق سمجھتا ہوں۔‘‘۴۴۰؎ اس دورکے متروک کلام میں بیشتر فرمائشی غزلیں، یا ایسی غزلیں جو احباب کی ہمنوائی وہم طرحی میں بطور مشقِ سخن کہی گئی تھیں اسی عام پسند رنگِ تغزّل کی آئینہ دار ہیں۔ گزشتہ دور کی غزلوں کی طرح ان غزلوں میںبھی کہیں کہیں داغ کی سی معاملہ بندی کے اشعار ملتے ہیں۔ جیسا کہ گزشتہ دور کی غزلوں کے بارے میں کہا جا چکا ہے، اس برائے نام ’’وقوع گوئی ‘‘ میں تجربے کے خلوص اور واقعیت کی جگہ تصنّع اور مضمون بندی کی کوشش نمایاں ہے۔ عابد صاحب فرماتے ہیں: ’’ان غزلوں کے مطالعے سے (جو اقبال نے بانگِ درا میں شامل نہیں کیں) یہ معلوم ہوگا کہ جہاں تک غزل سرائی کا تعلق ہے، اقبال معاملہ بندی اور وقوع گوئی کی ان تمام منزلوں سے گزرے ہیں جن کا سراغ داغ کے کلام میں ملتا ہے‘‘ لیکن فاضل نقاد کی یہ رائے محض خوش فہمی (یا سوئے ظن) پر مبنی ہے، حقائق سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اگر ہم گزشتہ دور کے کلام کا اس دور کی متروک غزلوں سے موازنہ کریں تو یہ فرق ضرور محسوس ہو گاکہ جہاں پہلے دل لگی ہی دل لگی تھی، وہاں اب کچھ دل کی لگی کا رنگ بھی آ چلا ہے۔ صرف ’’عاشقوں کی بولی ٹھولی‘‘ ہی نہیں ’’بیانِ اہلِ درد‘‘ بھی ہے۔ چند متروک غزلوں کے دو دو شعر ملاحظہ ہوں، جن میں جذبے کی پاکیزگی اور درد مندی کا سراغ ملتا ہے: دل کی بستی عجیب بستی ہے لوٹنے والے کو ترستی ہے تابِ اظہار، عشق نے لے لی گفتگو کو زباں ترستی ہے محبت کو دولت بڑی جانتے ہیں اسے مایۂ زندگی جانتے ہیں جو ہے گلشنِ طور اے دل تجھے ہم اسی باغ کی اک کلی جانتے ہیں بے خودی میں یہ پہنچ جاتے ہیںا پنے آپ تک عین بیداری نہ ہو خوابِ گران اہل درد درد ہی کے دم سے ہے ان دل جلوں کی زندگی درد سے پیدا ہوئی روح و روانِ اہل درد رہتے ہیں بیدرد میری چشمِ تر پر خندہ زن اے دلِ درد آشنا تو نے کیا رسوا مجھے دل کو ہے اندر ہی اندر جستجو تیری مگر کیا قیامت ہے کہ تو سمجھا ہے بے پروا مجھے تمھیں کیا بتائیں محبت ہے کیا شے یہ ہے دل کے ہاتھوں سے مجبور رہنا بناوٹ کی بے اعتنائی کے صدقے بڑے کام آیا مجھے دور رہنا۴۴۲؎ اقبال کی مخصوص وضع داری اور شیوئہ ضبط و احتیاط کے باوجود، کبھی کبھی یہ دل لگی محبت کے درجے تک پہنچ جاتی تھی۔۔ مثالی اور روایتی عشق نہیں، صرف محبت، جو گہری ہونے کے باوجود ایک عارضی کیفیت ہوتی تھی۔ لہٰذا اس دور کی غزلیں محبت کے تجرباتی خلوص سے یکسر عاری نہیں۔ یہاں بانگِ درا کی ایک غزل(ع: ’’ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی‘‘)کے چند اشعار پیش کیے جاتے ہیں، لیکن پہلے ڈاکٹر تاثیر مرحوم کی زبانی یہ روداد سن لیجیے: ’’بانگِ درا میں اس کے کوئی آٹھ شعر درج ہیں لیکن اصل غزل میں زیادہ اشعار تھے۔ ایک شعر مجھے بہت پسند تھا مگر بانگِ درا جو ستمبر ۱۹۲۴ء میں شائع ہوئی تو اس میں وہ، اور اس کے ساتھ دو تین شعر غائب تھے۔ میں ان دنوں کالج کا طالب علم تھا۔ یہ تیس سال پہلے کی بات ہے۔ حضرت علامہ کے ہاں باقاعدہ شرفِ حضوری حاصل تھا اور ان کی نوازشیں اور بے تکلف طبیعت، بے باکی کو جرأت دلاتی تھیں۔ میں نے کہا ’’قبلہ! صحیح غزل کا ایک ہی شعر تھا، وہ آپ نے کاٹ دیا۔‘‘ مسکرائے اور فرمایا کہ وہ آپ کے ڈھب کاشعر کون سا تھا۔ میں نے شعر پڑھا۔ سن کر ایک لمبی ’’ہوں!‘‘ کی اور خوب مسکرائے۔ کہنے لگے بھائی اس شعر کے ساتھ تین چار شعر اور تھے، وہ سب ایک شخص کے متعلق تھے۔ وہ شخص نہیں رہا، ہم نے شعر کاٹ دیے۔ میں نے کہا جو آپ پر بیتی تھی، وہ اب ہم پر بیت رہی ہے اور اور ہمارے بعد آنے والوں پر بیتے گی۔ آپ ہی کے کہنے کے مطابق : ’’تھی زبان داغ پر وہ بات جو ہر دل میں ہے‘‘(کذا)۔ یہ شعر اب آپ کے نہیں رہے۔ فرمانے لگے کہ دوسری ایڈیشن کے موقع پر یاد دلانا، ضرور درج کر دوں گا۔ کچھ میری کوتاہی، کچھ یہ وجہ کہ پائوں میں ایسا چکر آیا کہ وطن سے باہر نکل آیا۔ اور پھر یہ خیال کسے تھا کہ وہ ہم میں نہ رہیں گے۔ غرض وہ شعر درج ہونے سے رہ گیا۔‘‘۴۴۳؎ مندرجہ ذیل اشعار کی ترتیب میں پہلے دو متروک شعر، پھر بانگِ درا کے دو شعر درج ہیں۔ غالباً پہلا شعر تاثیر مرحوم کا پسندیدہ شعر ہو گا: سَو سَو امید بندھتی ہے اک اک نگاہ پر مجھ کو نہ ایسے پیار سے دیکھا کرے کوئی محفل میں شغلِ مے ہو، شبِ ماہتاب ہو اور میں کروں تو مجھ کو سنبھالا کرے کوئی۴۴۴؎ چھپتی نہیں ہے وہ نگہِ شوق ہم نشیں پھر اور کس طرح انھیں دیکھا کرے کوئی کھل جائیں کیا مزے ہیں تمنائے شوق میں دو چار دن جو میری تمنا کرے کوئی۴۴۵؎ یہ غزل اپریل ۱۹۰۳ء کے شمارئہ مخزن میں شائع ہوئی تھی۔ اس سے ایک ماہ پہلے فروری ۱۹۰۳ء میں جو غزل چھپی تھی، اس کا یہ شعر ملاحظہ ہو جو ایک خاص کیفیت کا حامل ہے: میرے مٹنے کا تماشا دیکھنے کی چیز تھی کیا بتائوں میرا ان کا سامنا کیوں کر ہوا۴۴۶؎ اسی سال بلوچستان کے سفر (مئی، جون ۱۹۰۳ئ) کے دوران میں ، اقبال نے ایک خط اپنے ایک ہمراز دوست سید تقی صاحب کے نام لکھا تھا جس میں ایک ’’شخص‘‘ (امیر) کا خصوصیت سے ذکر کیا ہے، جس کا انھیں ہر وقت خیال رہتا تھا۔۴۴۷؎ اپریل ۱۹۰۳ء کے مخزن میں مذکورہ بالاغزل کے ساتھ حضرت امیر مینائی کی زمین میں ان کی یہ غزل بھی شائع ہوئی تھی: ’’لڑکپن کے ہیں دن صورت کسی کی بھولی بھولی ہے‘‘۔ اقبال نے اپنی ایک تحریر میں امیر مینائی کے جس پرسوز آہنگ کی تعریف کی تھی وہ امیر کی اس غزل میں بھی موجود ہے۔پھر مئی ۱۹۰۳ء میں ’’اہلِ درد‘‘ کے عنوان سے ان کا دو غزلہ شائع ہوا: (ع: ’’درد سے پیدا ہوئی روح وروانِ اہلِ درد‘‘)مذکورہ بالا غزل : لڑکپن کے ہیں دن …‘‘ کی بحر اور امیر مینائی کی درد انگیز لے، ’’بیانِ درد‘‘کے لیے اتنی راس آئی کہ اقبال نے ان دنوں کئی غزلیں اسی بحر میں کہیں جن میں سے بعض متروک غزلیں باقیات اور روزگار فقیر میں اور کچھ غزلیں بانگِ درا میں موجود ہیں۔یہ محض اتفاقی امر نہیں بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان غزلوں میں سوز و مستی کی جو کیفیت عموماً ملتی ہے، اس کے اظہار کے لیے یہی بحر موزوں تھی۔ بحر سے قطع نظر ان غزلوں کی زبان اور لہجے میں بھی ایک خصوصیت ہے،جس کی طرف ایک متروک غزل کے مقطعے میں اشارہ کیا گیا ہے: نہ یہ دلّی کی اردو ہے نہ یہ یورپ کی بولی ہے زباں میری ہے اے اقبال بولی درد مندوں کی۴۴۸؎ بانگِ درا میں ۱۹۰۴ء کی دو غزلیں اسی بحر اور اسی رنگ میںملتی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ’’درد مندوں کی بولی‘‘ کا نکھار اور جذب و مستی کی کیفیت ان غزلوں میں بہت نمایاں ہے۔ پہلی غزل دکن ریویو (۱۸؍اگست۱۹۰۳ئ) میں شائع ہوئی تھی۔ مندرجہ ذیل چند اشعار میں سے چوتھا شعر، ان متروک اشعار میں سے ہے جو باقیات میں درج ہیں: انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں یہ عاشق کون سی بستی کے یا رب رہنے والے ہیں رلاتی ہے مجھے راتوں کو خاموشی ستاروں کی نرالا عشق ہے میرا، نرالے میرے نالے ہیں نہ پوچھو مجھ سے لذت خانماںبرباد رہنے کی نشیمن سیکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں بیابانوں میں اے دل، اہلِ دل کی جستجو کیسی کریں جو پیار انساں سے وہی اللہ والے ہیں۴۴۹؎ مرے اشعار اے اقبال کیوں پیارے نہ ہوں مجھ کو مرے ٹوٹے ہوئے دل کے یہ درد انگیز نالے ہیں۴۵۰؎ دوسری غزل ایک خاص کیفیت کے ماتحت کہی گئی تھی جس کا محرک فوق صاحب کی کتاب یاد ِ رفتگان ہے۔ اس کتاب کے مطالعے کے تاثرات بیان کرتے ہوئے ۷؍اکتوبر ۱۹۰۴ء کے ایک خط میں وہ فوق کو لکھتے ہیں: اہل اللہ کے حالات نے، جو آپ نے بنام ’’یادِ رفتگاں‘‘ تحریر فرمائے ہیں، مجھ پر بڑا اثر کیا اور بعض باتوں نے، جو اس چھوٹی سی کتاب میں درج کی ہیں، مجھے اتنا رلایا کہ میں بے خود ہو گیا۔۔ بھائی فوق! خود بھی اس گوہرِ نایاب کی تلاش میں رہو جو بادشاہوں کے خزانوں میں نہیںمل سکتا بلکہ کسی خرقہ پوش کے پائوں کی خاک میں اتفاقیہ مل جاتا ہے۔۴۵۱؎ ۱۸ اشعار کی اس غزل میں وحدتِ تاثر کی وہ کیفیت موجود ہے جو بالِ جبریل کی غزلوں میں عموماً پائی جاتی ہے۔ اس غزل کے صرف ۴ شعر یہاں درج کیے جاتے ہیں: جنھیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں، زمینوں میں وہ نکلے میرے ظلمت خانۂ دل کے مکینوں میں جلا سکتی ہے شمعِ کشتہ کو موجِ نفس ان کی الٰہی کیا چھپا ہوتا ہے اہلِ دل کے سینوں میں محبت کے لیے دل ڈھونڈ کوئی ٹوٹنے والا یہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہیں نازک آبگینوںمیں سراپا حسن بن جاتا ہے، جس کے حسن کا عاشق بھلا اے دل حسیں ایسا بھی ہے کوئی حسینوں میں۴۵۲؎ اس دور کی متعدد غزلوں میں نعتیہ اشعارملتے ہیں۔ بانگِ درا کی اس غزل میں بھی تین نعتیہ اشعار ہیں، اور تینوں بہت خوب ہیں۔ لیکن یہ آخری شعر اس دور کا بہترین نعتیہ شعر ہے، ورنہ عموماً اس دور میں اقبال کا جذبۂ عشق رسولؐ، اعتدال و احتیاط کی تمام حدوں کو پار کر جاتا ہے۔ بات محبت کی چھٹری تھی اور اس نعتیہ شعر کے حوالے سے عشقِ رسولؐ تک آ پہنچی۔ اقبال کی شخصیت اور شاعری میںمحبت کے ارتفاع کی سب سے اعلیٰ و ارفع صورت یہی ہے کہ یہاں عشقِ حقیقی کی حدیں بھی آ کر مل جاتی ہیں۔ یہ جو پہلے کہا گیا کہ اقبال کے یہاں محبت ایک عارضی کیفیت ہے، اس کی توجیہ یہ ہے کہ جس شخص کے وجدان میں حسن کامل کا یہ نقش موجود ہو اور جس کے قلب کو عشقِ رسولؐ سے ادنیٰ سی نسبت بھی ہو ، اسے کسی انسان سے ایسی محبت نہیں ہو سکتی جس میںوالہانہ پرستاری اور خود سپاری کی کیفیت پیدا ہو جائے۔ بقولِ غالب، ع: ’’خواہش کو احمقوں نے پرستش دیا قرار‘‘۔ لیکن جو لوگ اس پہلو کو مدِ نظر رکھتے ہیں وہ بھی اپنی نفسیات دانی کے زعم میں ’’خواہش‘‘ کی لطیف جمالیاتی کیفیت کو جنسی ہیجان تک پہنچا کر ایک’’گرم خون پنجابی نوجوان‘‘ کے ’’داغ سے بڑھ کر داغ‘‘ ہونے کے امکانات پر غور کرنے لگتے ہیں، اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر گرم خون نوجوان کی ذوقی اور وجدانی کیفیات یکساں نہیں ہوتیں۔ یوں تو سبھی انسانی رشتے جسمانی ہوتے ہیں، اور اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اقبال کے رومانی تجربات کی تہہ میں جنسی تشنگی کا احساس بھی کارفرما تھا ، لیکن یقینا وہ ان نوجوانوں سے مختلف تھے جو اپنی کام جوئی کی دھن میں مذہبی، اخلاقی اور معاشرتی حدود کو پار کرکے جلد از جلد منزل مراد تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ انھیں اپنے جذبات پر قابو حاصل تھا، حتیٰ کہ وہ اظہارِ محبت سے بھی گریز کرتے تھے۔ اپنے اس’’مسلکِ سکوت‘‘ کی وضاحت انھوں نے مہاراجہ کشن پرشاد کے نام ایک خط میں کی ہے اور اسی ابتدائی دور کا یہ شعر بھی نقل کیا ہے: بناوٹ کی بے اعتنائی کے صدقے بڑے کام آیا مجھے دور رہنا۴۵۳؎ اس ’’مسلکِ سکوت‘‘ اور ضبط و احتیاط کی بدولت جذبۂ محبت میں جو ارتفاع ہوا وہ کم از کم تخلیقِ فن میں بڑا کام آیا۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ یہ نوجوان شاعر، ان رفتنی و گزشتنی کیفیات میں ڈوب کر نہیں رہ گیا بلکہ ایک مسافر کی طرح راستے کے دلکش نظاروں سے لطف اندوز ہوتا ہوا کسی نادیدہ جلوے کی تلاش میں منزل بہ منزل آگے بڑھتا چلا گیا۔ غالب کے بارے میں اقبال کا یہ شعر خود ان پر زیادہ صادق آتا ہے: دید تیری آنکھ کو اُس حسن کی منظور ہے بن کے سوزِ زندگی ہر شے میں جو مستور ہے۴۵۴؎ نظموں کی طرح اس دور کی غزلوں میں بھی فکری عنصر بہت نمایاں ہے اور چونکہ تصوف سے غزل کا رشتہ بہت پرانا ہے لہٰذا صوفیانہ نظریات و واردات سے متعلق اشعار زیادہ ملتے ہیں۔ کلام کے اس حصے پر ’’رسمی و تقلیدی‘‘ کی مہر لگا دینا صریح زیادتی ہے۔ جہاں تک نظریات یا ’’مسائل تصوف‘‘ کا تعلق ہے، وہاں بھی فکر و احساس کا خلوص موجود ہے۔ لیکن یہاں صرف عارفانہ واردات سے متعلق چند متفرق شعر پیش کیے جاتے ہیں: کبھی اس راہ سے شاید سواری تیری گزری ہے کہ میرے دل میں نقش پا ترے تو سن کے نکلے ہیں۴۵۵؎ نہیں کچھ تذکرے دیدار کے مستوں میں اے واعظ کسی کے ذکر کو سن کر تڑپ جانے کی باتیں ہیں۴۵۶؎ رلاتی ہے مجھے راتوں کو خاموشی ستاروں کی نرالا عشق ہے میرا، نرالے میرے نالے ہیں مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں تُو میرا شوق دیکھ، مرا انتظار دیکھ یہ جنّت مبارک رہے زاہدوں کو کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں۴۵۷؎ تصوف کے علاوہ بھی ان غزلوں میں مختلف نو بہ نو افکار و مضامین ملتے ہیں، جن کے اسلوبِ اظہار میں امیر و داغ سے زیادہ غالب کے رنگ کی آمیزش ہے۔ اقبال کو اپنے فکری رجحانات کے لحاظ سے غالب اور کلامِ غالب سے جو مناسبتِ خاص تھی، اس کی بنا پر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اس دور میں اقبال کی شاعری نے (نظم ہو یا غزل) غالب ہی کی رہنمائی میں فنی ارتقا کے مراحل طے کیے۔ باقیات اور بانگِ درا کی جن غزلوں میں اقبال نے معنی آفرینی اور نکتہ سنجی کی پُرتکلف کوشش کی ہے، وہاں غالب کی فارسیت اور توالیِ اضافت کا اثر زیادہ ہے، اور غالب کی مخصوص تراکیب کی گونج بھی صاف سنائی دیتی ہے۔ مثلاً بانگِ درا کی ایک غزل کے یہ دو شعر ملاحظہ ہوں: وہ میکش ہوں فروغِ مے سے خود گلزار بن جائوں ہوائے گل فراقِ ساقیِ نامہرباں تک ہے سکونِ دل سے سامانِ کشودِ کار پیدا کر کہ عقدہ خاطرِ گرداب کا آبِ رواں تک ہے۴۵۸؎ لیکن غنیمت ہے کہ یہ رنگ صرف دو ایک غزلوںمیں پایا جاتا ہے۔ عموماً کسی تکلف کے بغیر وہ اپنی بات کہنے میں کامیاب نظر آتے ہیں، اور غزل جیسی پنچایتی صنف سخن میں یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ یہاں باقیات کی ایک غزل (مخزن، مئی ۱۹۰۳ئ) کے چند اشعار پیش کیے جاتے ہیں۔اس زمین میں داغ، امیر اور حالی جیسے اساتذہ کی غزلیںموجود ہیں۔ اقبال کی غزل کا رنگ سب سے جدا ہے: ہو شگفتہ ترے دم سے چمنِ دہر تمام سیر اس باغ کی کر بادِ سحر کی صورت جوش زن بحرِ محبت تھا مگر دل اپنا صاف نکلا نگہِ دیدئہ تر کی صورت دہر میں ذوقِ سکوں تجھ کو ہے پیغامِ فنا تازہ رکھ جوشِ سفر شمس و قمر کی صورت لطف جب آتا ہے اقبال سخن گوئی کا شعر نکلے صدفِ دل سے گُہر کی صورت۴۵۹؎ اگرچہ اس غزل میں فکری عنصر کے غلبے سے تغزّل کا رنگ پھیکا پڑ گیا ہے لیکن مقطع سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال، غزل کا آہنگ قائم رکھنے کے لیے صفائیِ بیان کا خاص خیال رکھتے تھے۔ اس غزل میں بھی معانیِ تازہ کے باوصف اور فارسی تراکیب کے باوجود بندش کی چستی و صفائی کے لحاظ سے ہر شعر سانچے میں ڈھلا ہوا ہے۔ اقبال کے معاصرین میں حسرت موہانی موجودہ صدی کے سب سے ہونہار غزل گو سمجھے جاتے تھے۔ اس دور میں ان کی غزل کا دائرہ عشقیہ واردات تک محدود تھا اور اس میں شک نہیں وہ اس محدود دائرے میں جدید دور کے کامیاب ترین شاعر تھے۔ اسی زمانے میں مخزن میں ان کی وہ مشہور غزل شائع ہوئی جس کا مطلع و مقطع درج ذیل ہے: بھلاتا لاکھ ہوں لیکن وہ اکثر یاد آتے ہیں الٰہی ترکِ الفت پر وہ کیوں کر یاد آتے ہیں اسی پر ناز تھا حسرت تجھے ترک محبت کا تجھے تو اب وہ پہلے سے بھی بڑھ کر یاد آتے ہیں مطلع و مقطع کے علاوہ یہ شعر بھی بہت خوب ہے: نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوںتک نہیں آتی مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں لیکن اسی غزل میں جہاں (غالباً اقبال کی ریس میں) معنی آفرینی کی کوشش کی گئی ہے، وہاں انھیں کوئی کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ مثلاً یہ اشعار ملاحظہ ہوں: سکونِ خاطرِ ناکام کی تکلیف کیا کہنے جنون و وحشت و فصاد و نشتر یاد آتے ہیں خیالِ یار کا دل سے خفا ہونا قیامت ہے کسی کے عشوہ ہائے ناز پرور یاد آتے ہیں۴۶۰؎ اگر فکر میں بلند پروازی کی قوت نہ ہو تو بندشِ الفاظ و تراکیب کے پر و بال کس کام آ سکتے ہیں؟ بانگِ درا کی غزلوں میں حسنِ بیان اور حسنِ خیال کے نمونے جابجا ملتے ہیں۔ مندرجہ ذیل اشعار میں غالب کی سی نکتہ آفرینی اور داغ و امیر کی سی لطافتِ زبان و بیان موجود ہے: گلزارِ ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ کھولی ہیں ذوقِ دید نے آنکھیں تری اگر ہر رہ گزر میں نقشِ کفِ پائے یار دیکھ ہم اپنی دردمندی کا فسانہ سنا کرتے ہیں اپنے رازداں سے بڑی باریک ہیں واعظ کی چالیں لرز جاتا ہے آوازِ اذاں سے لائوں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے بجلیاں بے تاب ہوں جن کو جلانے کے لیے اس چمن میں مرغ دل گائے نہ آزادی کے گیت آہ یہ گلشن نہیں ایسے ترانے کے لیے تونے دیکھا ہے کبھی اے دیدئہ عبرت کہ گل ہو کے پیدا خاک سے رنگیں قبا کیوں کر ہوا پرسشِ اعمال سے مقصد تھا رسوائی مری ورنہ ظاہر تھا سبھی کچھ ، کیا ہوا کیونکر ہوا بزمِ ہستی اپنی آرائش پہ تو نازاں نہ ہو تُو تو اک تصویر ہے محفل کی اور محفل ہوں مَیں ڈھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آپ کو آپ ہی اپنا مسافر، آپ ہی منزل ہوں مَیں سوداگری نہیں، یہ عبادت خدا کی ہے اے بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے۴۶۱؎ اقبال کی شاعری کا یہ دور اکتسابِ فن کا دور بھی ہے، نیز فکری طور پر اپنی منزل کی جستجو اور اپنی ذات کی تلاش کا دور بھی۔ اس دور کے آغاز ہی میں ان کے اندر یہ احساس پیدا ہو گیا تھا کہ اپنے آپ کو پانے کے لیے دوسروں کی تقلید سے منہ موڑ لینا چاہیے: نرالے ہیں انداز دنیا سے اپنے کہ تقلید کو خود کشی جانتے ہیں۴۶۲؎ اور اس دور کی آخری غزل کے مندرجہ ذیل اشعار میںانھوں نے رسمی و تقلیدی شاعر سے اپنی بیزاری کے علاوہ اس حقیقت کا اظہار بھی کیا ہے کہ تخلیقِ فن کا راز جذبے کے خلوص اور اپنی ذات کے انکشاف میں ہے: مانندِ خامہ تیری زباں پر ہے حرفِ غیر بیگانہ شے پہ نازشِ بے جا بھی چھوڑ دے لطفِ کلام کیا جو نہ ہو دل میں دردِ عشق بسمل نہیں ہے تُو تو تڑپتا بھی چھوڑ دے تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خود کشی رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے۴۶۳؎ چنانچہ غزل کی سنگ بستہ فنی روایات کے باوجود وہ اپنی ذات کے انکشاف میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ اگرچہ ان کی کامیابی کے واضح شواہد اس وقت نمایاں ہوئے جب خود ان کی ذات میں ایک انقلاب رونما ہوا، لیکن کم از کم اتنا تو اب بھی ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اسی دور کی آخری غزلوں میں امیر و داغ کے رنگِ کلام کے امتزاج اور کچھ غالب کے فیضان سے ایک ایسا اسلوب پیدا ہو گیا ہے جس میں تفکّر کے ساتھ تغزّل اور جدّتِ خیال کے ساتھ لطفِ زبان کے عناصر متوازن طور پر ملتے ہیں۔ اب آخر میں اس غزل کے چند اشعار پیش کیے جاتے ہیں جو اقبال کے اس امتزاجی اسلوب کی صحیح نمائندگی کرتی ہے، اور جسے اوائلِ بیسویں صدی میں اردو غزل کے جدید رنگِ تغزل کا معیاری نمونہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے: کشادہ دستِ کرم جب وہ بے نیاز کرے نیازمند نہ کیوں عاجزی پہ ناز کرے بٹھا کے عرش پہ رکھّا ہے تو نے اے واعظ خدا وہ کیا ہے جو بندوں سے احتراز کرے مری نگاہ میں وہ رند ہی نہیں ساقی جو ہوشیاری و مستی میں امتیاز کرے مدام گوش بہ دل رہ یہ ساز ہے ایسا جو ہو شکستہ تو پیدا نوائے راز کرے کوئی یہ پوچھے کہ واعظ کا کیا بگڑتا ہے جو بے عمل پہ بھی رحمت وہ بے نیاز کرے سخن میں سوز، الٰہی! کہاں سے آتا ہے یہ چیز وہ ہے کہ پتھر کو بھی گداز کرے۴۶۴؎ آخری شعر میں شاعر نے تجاہلِ عارفانہ سے کام لیتے ہوئے جو سوال کیا ہے، اس کا جواب اُس وقت بھی اس کے ذہن میں تھا، کیونکہ اس ابتدائی دور میں بھی کسب و اکتساب کی تمام ریاضتوں کے باوجود اس کے فن میں یہ رنگ و آہنگ ’’خون جگر‘‘ کی آمیزش ہی سے پیدا ہوا ہے: قطرئہ خونِ جگر سِل کو بناتا ہے دل خونِ جگر سے صدا سوز و سرور و سرود۴۶۵؎ /// کتابیات (حصہ اوّل) باب اوّل و دوم کے مشترکہ مآخذ تصانیفِ اقبال: ۱- اسرار و رموز ۲-اقبال نامہ (حصہ اوّل) ۳- اقبال نامہ (حصہ دوم) ۴-انوار اقبال ۵- باقیاتِ اقبال ۶-بال جبریل ۷- بانگِ درا ۷-پیامِ مشرق ۹- ضرب کلیم ۱۰-علم الاقتصاد ۱۱- مقالاتِ اقبال دیگر کتب و رسائل ۱۲- آثارِ اقبال ۱۳-آئینۂ اقبال ۱۴- اقبال (از مولوی احمد دین) ۱۵-اقبال درون خانہ ۱۶- اقبال کی شخصیت اور شاعری ۱۷-اوراق گم گشتہ ۱۸- تاریخ یونیورسٹی اورینٹل کالج ۱۹-روایاتِ اقبال ۲۰- روزگارِ فقیر (جلد اوّل) ۲۱-روز گارِ فقیر (جلد دوم) ۲۲- شعرِ اقبال ۲۳-کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ ۲۴- کلیاتِ نظمِ حالی(جلد اوّل) ۲۵-ملفوظاتِ اقبال ۲۶- Letters from India ۲۷-مجلہ اردونامہ، کراچی، جولائی ۱۹۷۲ء حصہ دوم: جدید مآخذ (الف) اقبال کی تصانیفِ نظم و نثر: (شعری تخلیقات و دیگر نگارشات کے مجموعے اور ترجمے) ۱- سرودِ رفتہ: مرتّبہ مولانا غلام رسول مہر، طبع اوّل، لاہور۔ ۲- شذراتِ فکرِ اقبال: مترجمہ ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی، لاہور، ۱۹۷۳ئ۔ ۳- خطوطِ قبال: مرتّبہ رفیع الدین ہاشمی، لاہور ،۱۹۷۷ئ۔ ۴- مقالاتِ اقبال: مرتبہ سید عبدالواحد معینی، طبع اوّل، لاہور، ۱۹۱۳ئ۔ ۵- مکاتیب اقبال بنام گرامی، مرتبہ محمد عبداللہ قریشی، طبع اوّل، کراچی۔ ۶- Thoughts and Reflections of Iqbal, Edited by S.A. Vahid, Lahore,1973. (ب) دیگر کتب: ۷- اسلامی تصوف اور اقبال، از ڈاکٹر ابو سعید نور الدین، کراچی، ۱۹۵۹ئ۔ ۸- اقبال کے ابتدائی افکار، از ڈاکٹر عبدالحق، دہلی، ۱۹۶۶ئ۔ ۹- اقبال، معاصرین کی نظر میں، مرتبہ سید وقار عظیم، لاہور، ۱۹۷۳ئ۔ ۱۰- اقبال نامہ، مرتبہ چراغ حسن حسرت، تاج کمپنی، لاہور، (سنہ ندارد)۔ ۱۱- اقبال، نئی تشکیل، از پروفیسر عزیز احمد، جدید ایڈیشن، لاہور، ۱۹۶۸ئ۔ ۱۲- اقبالیات کا تنقیدی جائزہ، از قاضی احمدمیاں اختر جونا گڑھی، لاہور، ۱۹۶۵ئ۔ ۱۳- تاریخِ ادبیات اردو ادب(چہارم) مطبوعہ پنجاب یونی ورسٹی، لاہور، ۱۹۷۲ئ۔ ۱۴- تاریخ جمالیات، جلد اوّل، از ڈاکٹر نصیر احمد ناصر، لاہور، ۱۹۶۲ئ۔ ۱۵- تاریخ ہندی فلسفہ، جلد اوّل، مترجمہ شیو موہن لعل ماتھر، جامعہ عثمانیہ، حیدر آباد، ۱۹۴۵ئ۔ ۱۶- تذکرۂ سر سید، از مولوی محمد امین زبیری، طبع اوّل، لاہور، ۱۹۶۴ئ۔ ۱۷- حیاتِ جاوید، از مولانا الطاف حسین حالی، اکادمی ایڈیشن، لاہور،۱۹۵۷ئ۔ ۱۸- دولت عثمانیہ، جلد دوم، از ڈاکٹر محمد عزیز، اعظم گڑھ، ۱۹۶۰ئ۔ ۱۹- سید احمد خاں کا سفر نامۂ پنجاب، ازمولوی سید اقبال علی، لاہور، ۱۹۷۳ئ۔ ۲۰- فصوص الحکم، مترجمہ مولانا محمد عبدالقدیر صدیقی، جامعہ عثمانیہ، حیدر آباد دکن، ۱۹۴۲ئ۔ ۲۱- فکر و خیال، از ڈاکٹر انور سدید، لاہور، ۱۹۷۱ئ۔ ۲۲- کلیاتِ اسماعیل میرٹھی، طبع اوّل، میرٹھ، ۱۹۱۰ئ۔ ۲۳- کلیاتِ نظمِ حالی، جلد دوم، مرتبہ ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی، لاہور، ۱۹۷۰ئ۔ ۲۴- گنج ہائے گراں مایہ، از پروفیسر رشید احمد صدیقی، طبع پنجم، لاہور، ۱۹۶۴ئ۔ ۲۵- لیکچروں کا مجموعہ (نذیر احمددہلوی)، جلد اوّل، مرتبہ بشیر الدین احمد، دہلی، ۱۹۱۸ئ۔ ۲۶- ایضاً، جلد دوم، دہلی، ۱۹۱۸ئ۔ ۲۷- مجموعہ لیکچرز سید احمد خان، مرتبہ منشی سراج الدین ، طبع اوّل، لاہور ، ۱۹۹۲ئ۔ ۲۸- محمد حسین آزاد، (حصہ اوّل)، از ڈاکٹر اسلم فرخی، کراچی، ۱۹۶۲ئ۔ ۲۹- مسائلِ اقبال، از ڈاکٹر سید محمد عبداللہ، (طبع اوّل)، لاہور، ۱۹۷۴ئ۔ ۳۰- مقالاتِ حالی، حصہ اوّل، علی گڑھ، ۱۹۵۷ئ۔ ۳۱- مولوی نذیر احمددہلوی (احوال و آثار)، از ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی، لاہور، ۱۹۷۱ئ۔ ۳۲- منتخباتِ نظم اردو (۱۸۶۷- ۱۹۶۵ئ)، مرتبہ ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ، لاہور، ۱۹۳۱ئ۔ ۳۳- موجِ کوثر، از شیخ محمد اکرام، لاہور، ۱۹۵۸ئ۔ ۳۴- نثرِ تاثیر، مرتبہ فیض احمدفیض، لاہور، ۱۹۶۳ئ۔ ۳۵- نقدِ اقبال، از میکش اکبر آبادی، طبع سوم، لاہور، ۱۹۷۰ئ۔ (ج) انگریزی کتب: 36- A Book of Verses. edited by Prof. Siraj-ul-din (The Ideal Book House) Lahore. 37- Complete Works of Swami Rama Tirtha, Vol. I, edited by L. Amir Chand, Delhi,1930. 38- Iqbal and The Post-Kantian Voluntarism, by Bashir Ahmad Dar, Lahore, 1956. 39- The New School of Urdu Literature, by Sh. Abdul Qadir, Lahore,1932. 40- Ramanand To Rama Tirath, Ist Edition, Madras 41- The Story of Swami Rama (The Poet-Monk of the Punjab) by Puran Singh, Madras, 1924. (د) رسائل و جرائد: ۴۲- مجلہ اردو (سہ ماہی) ،کراچی، جلد ۴۲،شمارہ جنوری، ۱۹۶۶ئ۔ ۴۳- اردو نامہ (سہ ماہی)، کراچی (شمارہ نمبر۵)، جولائی تا ستمبر، ۱۹۶۱ئ۔ ۴۴- اقبال نمبر رسالہ اردو ۱۹۳۸ئ، طبع جدید، دہلی، ۱۹۴۰ئ۔ ۴۵- اقبال ریویو، کراچی، جنوری، ۱۹۶۲ئ۔ ۴۶- ایضاً، جنوری ۱۹۶۳ئ۔ ۴۷- ایضاً، جنوری، ۱۹۷۴ئ۔ ۴۸- پنجۂ فولاد، لاہور، جلد ۳، شمارہ ۳۸، ۲۱ اکتوبر، ۱۹۰۵ئ۔ ۴۹- رسالہ ماہواری، انجمن حمایتِ اسلام، لاہور، مئی ۱۹۰۰ئ۔ ۵۰- ایضاً، مئی، ۱۹۰۱ئ۔ ۵۱- مجلہ صحیفہ، لاہور، شمارہ نمبر ۵۲، جولائی، ۱۹۷۰ئ۔ ۵۲- ایضاً، نمبر۵۴، جنوری، ۱۹۷۱ئ۔ ۵۳- ایضاً،نمبر۶۵، اقبال نمبر،حصۂ اوّل، اکتوبر، ۱۹۷۳ئ۔ ۵۴- ایضاً، ستمبر، اکتوبر ۱۹۷۸ئ۔ ۵۵- مجلہ، فنون،لاہور، جولائی، اگست، ۱۹۷۵ئ۔ ۵۶- مخزن، لاہور، اپریل، ۱۹۰۱ئ۔ ۵۷- ایضاً، مئی،۱۹۰۱ئ۔ ۵۸- ایضاً، اکتوبر، ۱۹۰۱ئ۔ ۵۹- ایضاً، دسمبر ۱۹۰۱ئ۔ ۶۰- ایضاً، جون ۱۹۰۳ئ۔ ۶۱- ایضاً، اپریل، ۱۹۰۷ئ۔ ۶۲- ایضاً، اگست۱۹۱۳ئ۔ ۶۳- نقوش، لاہور، شمارہ نمبر ۸۹، اگست ۱۹۶۱ئ۔ ۶۴- ایضاً، ۱۲۰،جنوری ۱۹۷۶ئ۔ ۶۵- ایضاً، (اقبال نمبر)، ۱۲۱،ستمبر۱۹۷۷ئ۔ ۶۶- نگارِ پاکستان، کراچی، سر سید نمبر، حصہ اوّل، ماہنامہ، ۱۹۷۰ئ۔ ۶۷- یونی ورسٹی اورینٹل کالج میگزین، لاہور، جشن نامہ، دسمبر۱۹۷۲ئ۔ ۶۷- Journal of Research Society of Pakistan (P. U.), October,1977. ۶۹- Ditto, January, 1978. حوالہ جات ۱- جرنل آف ریسرچ سوسائٹی، پنجاب یونی ورسٹی، جنوری ۱۹۷۸ئ، ص ۸۷۔ ۲- ایضاً، ص ۸۸۔ ۳- ایضاً، ص ۹۵-۹۶۔ ۴- ایضاً، ص ۹۶-۹۷۔ ۵- ایضا،ص ۹۹۔ ۶- کلاسیکی ادب کا مطالعہ، ص ۳۳۸۔ ۷- جرنل آف ریسرچ سوسائٹی، ص ۹۲ تا۹۴۔ ۸- ایضاً، ص ۱۰۱۔ ۹- تاریخ یونی ورسٹی اورینٹل کالج، ص ۲۱۔ ۱۰- ایضاً، ص ۴۱۔ ۱۱- ایضاً، ص۴۹۔ ۱۲- ایضاً، ص ۱۲۹۔ ۱۳- Latters from India, P.83 ۱۴- جرنل آف ریسرچ سوسائٹی، ص ۱۰۶۔ ۱۵- ایضاً، ص ۸۹۔ ۱۶- ایضاً، ص۱۰۵-۱۰۶۔ ۱۷- تاریخ یونی ورسٹی اورینٹل کالج، ص۱۳۱-۱۳۵۔ ۱۸- Latters from India, P. 166 ۱۹- Ditto, P.128,129 ۲۰- Ditto, P. 190 ۲۱- Ditto, P.139 ۲۲- Ditto, P.77,258 ۲۳- تاریخِ ہندی فلسفہ (جلد اوّل)، ص ۵۸۔ ۲۴- Latters from India, P.28 ۲۵- Ditto, P.54 ۲۶- Ditto, P.88 ۲۷- Ditto, P.233,334 ۲۸- Ditto, P.109 ۲۹- Ditto, P.54 ۳۰- Ditto, P.82 ۳۱- Ditto, P.105 ۳۲- Ditto, P.103 ۳۳- Ditto, P.362 ۳۴- Ditto, P.362 ۳۵- Ditto, P.361 ۳۶- Ditto, P.314 ۳۷- Ditto, P.314 ۳۸- Ditto, P.196 ۳۹- آثارِ اقبال، ص۶۵۔ ۴۰- دی کمپلیٹ ورکس آف سوامی رام تیرتھ ، جلد (۱) تمہید ص VII۔ ۴۱- دی سٹوری آف سوامی رام تیرتھ، ص ۱۷۷۔ ۴۲- Ditto, P.117 ۴۳- تاریخ یونی ورسٹی اورینٹل کالج، ص ۲۴۱- ۲۴۲۔ ۴۴- فنون ، لاہور، جولائی۔اگست ۱۹۷۵ء ،ص ۳۴۔ ۴۵- لیٹرز فرام انڈیا، ص ۱۹۶۔ ۴۶- Ditto, P.118 ۴۷- Ditto, P.119 ۴۸- فنون ، ص۳۷۔ ۴۹- باقیاتِ اقبال، ص ۳۱۰۔ ۵۰- مخزن، لاہور، اگست ۱۹۱۳ء ، ص ۲۰ تا ۲۲۔ ۵۱- The Story of Swami Rama Tirath, P.207 ۵۲- Ramanand to Rama Tirath, P125 ۵۳- The Story of Swami Ram Tirath, P.125. ۵۴- Ramanand to Rama Tirath, P. 250 ۵۵- روزگار فقیر، جلد دوم، ص ۳۱۸۔ ۵۶- آثارِ اقبال ، ۶۴،۶۵۔ ۵۷- جرنل آف ریسرچ سوسائٹی ،ص ۸۷۔ ۵۸- یونی ورسٹی کیلنڈر ۱۸۸۷ء ، بحوالہ جرنل آف ریسرچ سوسائٹی، ص ۸۷۔ ۵۹- صحیفہ، جولائی ۱۹۷۰ء (علامہ شبلی کی نادر تحریریں)، ص ۲۲ تا ۳۶۔ ۶۰- اقبال نامہ، از چراغ حسن حسرت، ص ۱۹۔ ۶۱- کلاسیکی ادب کا مطالعہ، ص ۳۳۸۔ ۶۲- صحیفہ، اقبال نمبر (حصہ اوّل) ۱۹۷۳ء (مقالہ از ڈاکٹر عبداللہ چغتائی)، ص ۸۴۔ ۶۳- اقبال از، مولوی احمد دین وکیل، ص ۸۵۔ ۶۴- مخزن، اکتوبر۱۹۰۱ئ، ص ۳۹۔ ۶۵- روزگار فقیر، (حصہ اوّل)، ص ۱۰۰۔ ۶۶- باقیاتِ اقبال، ص ۵۳۔ ۶۷- نقوش، جنوری ۱۹۷۶ء (کارِ جہاں دراز ہے، از قرۃ العین حیدر)، ص ۷۸۔ ۶۸- اقبال نامہ (حصہ اوّل)، ص ۲۰۔ ۶۹- ایضاً ، ص ۸، ۹۔ ۷۰- مکاتیبِ اقبال بنام گرامی (تمہید و تعارف از مولانا مہر)، ص ۳۔ ۷۱- باقیاتِ اقبال، ص ۱۰۳۔ ۷۲- مطالعۂ اقبال، ص ۲۳، ۲۴۔ ۷۳- باقیاتِ اقبال، ص ۴۰۷ (۷۴) ایضاً،ص ۴۰۷ تا ۴۱۲۔ ۷۵- ایضاً، ص ۴۰۳۔ ۷۶- ایضاً ،ص ۹۳۔ ۷۷- ایضاً ، ص ۱۳۱، ۱۳۲۔ ۷۸- ایضاً، ص ۹۷ تا ۱۰۲۔ ۷۹- اوراق گم گشتہ، ص ۳۱۷ تا ۳۲۱۔ ۸۰- بانگِ درا (دیباچہ)، صفحہ ک۔ ۸۱- ایضاً۔ ۸۲- ملفوظاتِ اقبال، ص ۸۲۔ ۸۳- روایاتِ اقبال، ص ۱۶۴۔ ۸۴- بانگِ درا (دیباچہ)،صفحہ ی۔ ۸۵- روزگار فقیر، جلد دوم، ص ۴۰۱۔ ۸۶- صحیفہ ، جنوری ۱۹۷۱ء (غیر مدوّن تحریریں، از فضل حق قریشی)، ص ۷۸۔ ۸۷- صحیفہ، اقبال نمبر، (حصہ اوّل) ۱۹۷۳ئ، ص ۲۱۰۔ ۸۸- مولوی نذیر احمد۔ احوال و آثار، ص ۱۸۲ تا ۱۹۱۔ ۸۹- ملفوظاتِ اقبال، ص ۱۶۔ ۹۰- بانگِ درا، ص ۶۲۔ ۹۱- مقالاتِ حالی، حصہ اوّل، ص ۲۷۸۔ ۹۲- باقیاتِ اقبال، ص ۳۴۳۔ ۹۳- ایضاً، ص ۴۱۷۔ ۹۴- اقبال نامہ (حصہ اوّل)، ص ۱۱۶۔ ۹۵- بانگِ درا، ص ۱۰۹۔ ۹۶- مقالاتِ اقبال، ص ۲۱۔ ۹۷- ایضاً، ص ۲۳، ۲۶۔ ۹۸- ایضاً، ص ۳۸۔ ۹۹- باقیاتِ اقبال(حاشیہ)، ص ۱۳۸۔ ۱۰۰- بانگِ درا، ص ۵۱۔ ۱۰۱- روزگار فقیر، جلد اوّل، ص ۱۰۰۔ ۱۰۲- ملفوظاتِ اقبال، ص ۱۵۔ ۱۰۳- باقیاتِ اقبال، ص ۵۰۴۔ ۱۰۴- بانگِ درا، ص ۵۱۔ ۱۰۵- ایضاً، ص ۹۸۔ ۱۰۶- اقبالیات کا تنقیدی جائزہ، ص ۸۸۔ ۱۰۷- بانگِ درا، ص ۴۳۔ ۱۰۸- باقیاتِ اقبال، ص ۴۳۶۔ ۱۰۹- ایضاً، ص ۴۳۰۔ ۱۱۰- سرودِ رفتہ، ص ۶۵۔ ۱۱۱- باقیاتِ اقبال، ص ۳۸۷۔ ۱۱۲- سرودِ رفتہ، ص ۱۴۷۔ ۱۱۳- اقبال کے ابتدائی افکار، ص ۱۴۲۔ ۱۱۴- باقیاتِ اقبال، ص ۱۰۰۔ ۱۱۵- اقبال کے ابتدائی افکار، ص ۱۵۰۔ ۱۱۶- بانگِ درا، ص ۵۲۔ ۱۱۷- باقیاتِ اقبال، ص ۱۴۲۔ ۱۱۸- اقبال نامہ (جلد دوم)، ص ۱۸۰۔ ۱۱۹- حیاتِ جاوید، ص ۵۶۷۔ ۱۲۰- سید احمد خاں کا سفر نامۂ پنجاب، ص ۳۰۷۔ نیز ۳۰۰، ۳۰۱۔ ۱۲۱- حیاتِ جاوید، ص ۵۶۷۔ ۱۲۲- باقیاتِ اقبال، ص ۳۱۔ ۱۲۳- حیاتِ جاوید، ص ۴۸۷۔ ۱۲۴- باقیاتِ اقبال، ص ۳۳۵۔ ۱۲۵- بانگِ درا، ص ۲۶۔ ۱۲۶- نگارِ پاکستان (کراچی)۔ سر سید احمد خاں نمبر (حصہ اوّل)۱۹۷۰ء ، ص۱۱۹،۱۲۰۔ ۱۲۷- بانگِ درا، ص ۸۰۔ ۱۲۸- سفر نامۂ پنجاب، ص ۲۸۰۔ ۱۲۹- باقیاتِ اقبال، ص ۱۳۸۔ ۱۳۰- کلیاتِ نظم حالی، جلد دوم، ص۳۹۹، ۴۰۰۔ ۱۳۱- باقیاتِ اقبال، ص ۴۳۔ ۱۳۲- ایضاً، ص ۵۱۔ ۱۳۳- ایضاً، ص ۷۸-۷۹۔ ۱۳۴- The New School of Urdu Literature, P. 50 ۱۳۵- یونی ورسٹی اورینٹل کالج میگزین، جشن نامہ، دسمبر ۱۹۷۲ء ، ص ۲۳۳ تا ۲۵۴۔ ۱۳۶- رسالہ ماہواری انجمن حمایت اسلام، بابت مئی، ۱۹۰۰ئ، ص ۳۶۔ ۱۳۷- رسالہ انجمن حمایت اسلام، مئی ۱۹۰۱ء (ضمیمہ نمبر ۹)، ص ۱۲۹ تا ۱۵۰۔ ۱۳۸- باقیاتِ اقبال، ص ۱۰۵-۱۱۱۔ ۱۳۹- لیکچروں کا مجموعہ (جلد دوم)، ص ؟۔ ۱۴۰- باقیاتِ اقبال، ص ۱۰۹۔ ۱۴۱- ایضاً ، ص ۱۱۷۔ ۱۴۲- ایضاً ، ص ۱۲۸۔ ۱۴۳- ایضاً، ص ۲۹، ۳۰۔ ۱۴۴- ایضاً، ص ۱۵۶۔ ۱۴۵- ایضاً، ص ۱۵۸۔ ۱۴۶- ایضاً، ص ۱۶۲۔ ۱۴۷- ایضاً، ص ۱۴۰، ۱۴۳۔ ۱۴۸- ایضاً، ص ۳۰۶ تا ۳۱۰۔ ۱۴۹- ایضاً، ص ۴۳،۴۴۔ ۱۵۰- ایضاً، ص ۱۴۹، ۱۵۱۔ ۱۵۱- ایضاً، ص ۴۲۹، ۴۴۴۔ ۱۵۲- روزگار فقیر (جلد دوم)، ص ۲۶۱۔ ۱۵۳- باقیاتِ اقبال، ص ۳۲۱۔ ۱۵۴- ایضاً، ص ۳۹۴۔ ۱۵۵- انوارِ اقبال، ص ۱۴۸۔ ۱۵۶- باقیاتِ اقبال، ص ۱۷۸۔ ۱۵۷- روزگار فقیر، جلد دوم، ص ۲۴۶۔ ۱۵۸- باقیاتِ اقبال، ص۱۶۶، ۱۷۷، ۴۴۸۔ ۱۵۹- ایضاً، ص ۱۹۳ تا ۱۹۵۔ ۱۶۰- مثنوی اسرار و رموز، ص ۱۴۶، ۱۵۲۔ ۱۶۱- باقیاتِ اقبال، ص ۴۳۔ ۱۶۲- ایضاً، ص ۱۴۸۔ ۱۶۳- ایضاً، ص ۴۴۵۔ ۱۶۴- بانگِ درا، ص ۱۰۸۔ ۱۶۵- باقیاتِ اقبال، ص ۱۰۹۔ ۱۶۶- ایضاً، ص ۳۰۹۔ ۱۶۷- بانگِ درا، ص ۷۔ ۱۶۸- باقیاتِ اقبال، ص ۲۷۸۔ ۱۶۹- بانگِ درا، ص۱۰۳۔ ۱۷۰- اقبال درون خانہ، ص ۸۲، ۸۳۔ ۱۷۱- بانگِ درا، ص ۲۷۔ ۱۷۲- ایضاً، ص ۹۷۔ ۱۷۳- ذکرِ اقبال،ص ۴۱۔ ۱۷۴- بانگِ درا، ص ۳۹۔ ۱۷۵- رسالہ اردو، اقبال نمبر ۱۹۳۸ئ، ص ۲۳۱- ۲۳۲۔ ۱۷۶- اقبال کے ابتدائی افکار، ص ۹۴-۹۵۔ ۱۷۷- بانگِ درا، ص ۲۵، ۲۶۔ ۱۷۸- اوراق گم گشتہ، ص ۷۳۔ ۱۷۹- ایضاً ۱۸۰- اسلامی تصوف اور اقبال، ص ۱۱۷-۱۱۸۔ ۱۸۱- اقبال ریویو، جنوری، ۱۹۷۴ء ، ص ۴۷۔ ۱۸۲- نقدِ اقبال، ص ۷۴۔ ۱۸۳- فصوص الحکم، مترجمہ مولانا محمد عبدالقدیر صدیقی، ص ۱۰۔ ۱۸۴- ایضاً، ص ۱۶۔ ۱۸۵- ایضاً ص ۵۶۔ ۱۸۶- صحیفہ، ستمبر ،اکتوبر ۱۹۷۸ء (مقالہ ’’خواجہ غلام فرید‘‘)، ص ۵، ۶۔ ۱۸۷- بانگِ درا، ص ۷۳، ۱۱۱۔ ۱۸۸- ایضاً، ص ۳۳-۳۴۔ ۱۸۹- باقیاتِ اقبال، ص ۲۹۸۔ ۱۹۰- تاریخ ہندی فلسفہ (جلد اوّل)، ص ۶۲۲ تا۶۲۴۔ ۱۹۱- ایضاً، ص ۲۳۵ تا ۶۴۲۔ ۱۹۲- بانگِ درا، ص ۳۳، ۳۴۔ ۱۹۳- تاریخ ہندی فلسفہ (جلد اوّل)، ص ۶۳۱۔ ۶۳۲۔ ۱۹۴- بانگِ درا، ص ۱۱۲ ۱۹۵- Ramanand to Rama Tirath, P. 255 ۱۹۶- Thoughts and Reflections of Iqbal, P. 10 ۱۹۷- Ditto. P. 6 ۱۹۸- Ditto. P. 9 ۱۹۹- بانگِ درا، ص ۸۴۔ ۲۰۰- ایضاً، ص ۲۶۔ ۲۰۱- ایضاً، ص ۳۲۔ ۲۰۲- ایضاً، ص ۳۷-۳۸۔ ۲۰۳- باقیاتِ اقبال، ص ۱۶۴۔ ۲۰۴- بانگِ درا، ص ۷۸۔ ۲۰۵- ایضاً ،ص ۷۔ ۲۰۶- ایضاً، ص ۸۰۔ ۲۰۷- ایضاً، ص ۲۸، ۲۹۔ ۲۰۸- ایضاً ، ص ۶۴۔ ۲۰۹- ایضاً ، ص ۱۱۱۔ ۲۱۰- ایضاً، ص ۴۶۔ ۲۱۱- Iqbal and the Post Kantian Voluntarisim, P.250 ۲۱۲- فکر و خیال، ص ۲۰۔ ۲۱۳- روایاتِ اقبال، ص ۱۶۴۔ ۲۱۴- آئینۂ اقبال، ص ۲۱۱۔ ۲۱۵- مخزن، جون ۱۹۰۳ئ۔ ۲۱۶- صحیفہ، اقبال نمبر (حصہ اوّل)۱۹۷۳ئ۔ ۲۱۷- باقیاتِ اقبال، ص ۲۷۶۔ ۲۱۸- بانگِ درا، ص ۶۔ ۲۱۹- باقیاتِ اقبال، ص ۳۰۰۔ ۲۲۰- ایضاً، ص ۳۱۲۔ ۲۲۱- بانگِ درا، ص ۸۶۔ ۲۲۲- باقیاتِ اقبال، ص ۳۰۳۔ ۲۲۳- بانگِ درا، ص۳۸۔ ۲۲۴- شذرات فکر اقبال، ص ۱۰۵۔ ۲۲۵- تاریخِ جمالیات (جلد اوّل، ص ۶۵)۔ ۲۲۶- ایضاً، ص ۷۱۔ ۲۲۷- ایضاً، ص ۱۹۵ تا ۱۹۹۔ ۲۲۸- پیامِ مشرق (دیباچہ)، صفحہ د۔ ۲۲۹- اقبال ریویو، جنوری ۱۹۶۲ئ، ص ۷۷۔ ۲۳۰- بانگِ درا، صفحات علی الترتیب ۹، ۷۳،۱۰۱، ۱۰۷، ۱۱۷۔ ۲۳۱- ایضاً ۹۴، ۹۵۔ ۲۳۲- کلیات نظم حالی(جلد اوّل)، ص ۴۰۱۔ ۲۳۳- ایضاً، ص۱۲۲۔ ۲۳۴- کلیات اسماعیل میرٹھی، ص ۷۱۔ ۲۳۵- تذکرۂ سر سید،ص۱۷۸۔ ۲۳۶- حیاتِ جاوید، ص ۶۸۳۔ ۲۳۷- مجموعۂ لیکچرز سر سید احمد خاں، ص ۱۰۷۔ ۲۳۸- سید احمد خاں کا سفر نامۂ پنجاب، ص ۲۳۱ تا ۲۳۴۔ ۲۳۹- تذکرۂ سر سید، ص ۱۷۸۔ ۲۴۰- لیکچروں کا مجموعہ (جلد اوّل)، ص ۲۳۔ ۲۴۱- کلیاتِ نظم حالی (جلد اوّل)، ص ۱۸۱۔ ۲۴۲- موجِ کوثر، ص۱۴۱۔ ۲۴۳- دولت عثمانیہ (جلد دوم)، ص۱۸۸-۱۸۹۔ ۲۴۴- بانگِ درا، ص ۸۲۔ ۲۴۵- ایضاً ، ص ۸۷۔ ۲۴۶- باقیاتِ اقبال، ص ۳۳۸۔ ۲۴۷- بانگِ درا، ص ۵۳۔ ۲۴۸- ایضاً، ص ۲۹۔ ۲۴۹- باقیاتِ اقبال، ص ۲۹۳ تا۲۹۶۔ ۲۵۰- کلیاتِ نظم حالی (جلد دوم)، ص ۱۸۲ تا ۱۹۵۔ ۲۵۱- باقیاتِ اقبال، ۲۹۵-۲۹۶۔ ۲۵۲- بانگِ درا، ص ۶۲ تا ۷۳۔ ۲۵۳- اقبال نمبر رسالہ اردو ۱۹۳۸ئ، ص ۱۹۸۔ ۲۵۴- باقیاتِ اقبال، ص ۳۳۹-۳۴۰۔ ۲۵۵- بانگِ درا، ص ۸۹۔ ۲۵۶- علم الاقتصاد (دیباچہ)، ص ۲۳، ۲۴۔ ۲۵۷- ایضاً، ۱۷۔ ۲۵۸- ایضاً، ص۲۰۰۔ ۲۵۹- ایضاً، ص ۱۸۴۔ ۲۶۰- ایضاً، ص۲۱۱۔ ۲۶۱- ایضاً، ص۱۸۵۔ ۲۶۲- نقوش، اقبال نمبر، ستمبر ۱۹۷۷ئ، ص ۳۲۶۴۔ ۲۶۳- علم الاقتصاد (پیش لفظ)، ص ۴۔ ۲۶۴- ایضاً، ۱۴۷،۱۴۸۔ ۲۶۵- ایضاً، ص ۱۵۳۔ ۲۶۶- ایضاً؛ ص ۱۷۸۔ ۲۶۷- ایضاً (دیباچہ)، ص ۲۳، ۲۴۔ ۲۶۸- مقالاتِ اقبال، ص ۵۱۔ ۲۶۹- ایضاً، ص ۵۴-۵۵۔ ۲۷۰- ایضاً، ص۶۱، ۶۲۔ ۲۷۱- بانگِ درا، ص ۹۰۔ ۲۷۲- اردونامہ، کراچی، جولائی ۱۹۷۳ئ، ص ۹۷۔ ۲۷۳- کلیاتِ نظم حالی (جلد ا وّل)، ص ۱۷۳۔ ۲۷۴- بانگِ درا، ص ۱۱۲۔ ۲۷۵- باقیاتِ اقبال، ص ۳۱۵۔ ۲۷۶- ایضاً، ص۳۷۔ ۲۷۷- ایضاً، ص ۵۰۔ ۲۷۸- ایضاً ؛ صفحات علی الترتیب: ۳۵، ۳۶، ۳۷، ۳۹۔ ۲۷۹- ایضاً، ص ۴۱۔ ۲۸۰- ایضاً، ص ۴۴۔ ۲۸۱- ایضاً، ص ۵۱۔ ۲۸۲- ایضاً، ص ۳۲۳۔ ۲۸۳- بانگِ درا، (دیباچہ)، صفحہ ی۔ ۲۸۴- سرودِ رفتہ، ص ۱۸۱۔ ۲۸۵- اقبال نامہ (حصہ اوّل)، ص ۸۔ ۲۸۶- باقیاتِ اقبال، ص ۶۲۔ ۲۸۷- ایضاً، صفحات علی الترتیب: ۵۷، ۶۵، ۶۶، ۶۷۔ ۲۸۸- ایضاً ، ص ۵۶ تا ۵۹۔ ۲۸۹- ایضاً صفحات علی الترتیب: ۵۷، ۵۹۔ ۲۹۰- ایضاً ، ص۶۳۔ ۲۹۱- کلیاتِ نظم حالی (جلد اوّل)، ص ۳۴۹ تا ۳۵۶۔ ۲۹۲- باقیاتِ اقبال، ص ۸۵۔ ۲۹۳- ایضاً، صفحات علی الترتیب: ۷۸، ۹۱۔ ۲۹۴- ایضاً، ص ۷۸،۸۰۔ ۲۹۵- ایضاً، ص ۸۴۔ ۲۹۶- ایضاً ، صفحات علی الترتیب:۷۴، ۷۵، ۸۱۔ ۲۹۷- ایضاً، ص ۳۱۳، ۳۱۴۔ ۲۹۸- ایضاً، صفحات علی الترتیب: ۱۱۷، ۱۱۸، ۱۲۰۔ ۲۹۹- باقیاتِ اقبال، ص ۶۴۔ ۳۰۰- بانگِ درا، (دیباچہ)، صفحہ ن۔ ۳۰۱- باقیاتِ اقبال، صفحات علی الترتیب: ۱۲۲، ۱۲۶، ۱۲۷۔ ۳۰۲- ایضاً، صفحات علی الترتیب: ۱۴۲ تا۱۴۴، ۱۴۸۔ ۲۰۳- ایضاً، ص ۱۴۷۔ ۳۰۴- بانگِ درا، ص ۶۳، ۶۴۔ ۲۰۵- باقیاتِ اقبال، ص ۳۲۱۔ ۳۰۶- ایضاً، ص ۳۲۲- ۳۲۳۔ ۳۰۷- بانگِ درا، ص ۶۵۔ ۳۰۸- باقیاتِ اقبال، ص ۳۲۴۔ ۳۰۹- بانگِ درا، ص ۶۷۔ ۳۱۰- باقیاتِ اقبال، ص ۳۲۵- ۳۲۶۔ ۳۱۱- بانگِ درا، ص ۶۸، ۶۹۔ ۳۱۲- ایضا، ص۷۰ تا۷۳۔ ۳۱۳- ایضاً، ۶۷۔ ۳۱۴- ایضاً، ص ۶۹، ۷۱، ۷۲۔ ۳۱۵- باقیاتِ اقبال، ص ۱۵۰، ۱۵۲۔ ۳۱۶- بانگِ درا، ص ۶۲۔ ۳۱۷- ایضاً، ص ۶۵۔ ۳۱۸- باقیاتِ اقبال، ص ۳۲۵۔ ۳۱۹- بانگِ درا، ص۶۷تا ۶۹۔ ۳۲۰- ایضاً، ص ۷۱۔ ۳۲۱- ایضاً، ص ۷۰۔ ۳۲۲- ایضاً؛ ص ۷۲۔ ۳۲۳- ایضاً، ص ۶۴۔ ۳۲۴- ایضاً، ص ۶۲۔ ۳۲۵- ایضاً، ص ۶۲۔ ۳۲۶- ایضاً، ص ۶۳۔ ۳۲۷- اقبال نامہ (حصہ اوّل)، ص ۶۔ ۳۲۸- باقیاتِ اقبال، ص ۱۷۰، ۱۷۱۔ ۳۲۹- ایضاً، ۱۷ تا۱۷۷۔ ۳۳۰- ایضاً، ص ۱۸۱، ۱۸۳۔ ۳۳۱- ایضاً، ص ۱۸۳ ، ۱۸۵۔ ۳۳۲- ایضاً، ص ۱۸۵، ۱۸۷۔ ۳۳۳- ایضاً، ص ۱۸۸، ۱۸۹۔ ۳۳۴- ایضاً، ص ۱۹۱۔ ۳۳۵- ایضاً، ۱۸۲۔ ۳۳۶- آئینۂ اقبال، ص ۱۴۹۔ ۳۳۷- ایضاً، ص ۱۴۸۔ ۳۳۸- ایضاً،ص ۱۴۹۔ ۳۳۹- باقیاتِ اقبال، (حاشیہ)، ص ۲۷۶۔ ۳۴۰- ایضاً، ص ۲۷۵۔ ۳۴۱- مخزن، لاہور، اپریل ۱۹۰۱ئ۔ ۳۴۲- بانگِ درا، ص ۴۔ ۳۴۳- مخزن، مئی ۱۹۰۱ئ۔ ۳۴۴- بانگِ درا، ص ۷۔ ۳۴۵- باقیاتِ اقبال، ص ۲۹۶۔ ۳۴۶- ایضاً؛ ص ۳۳۹۔ ۳۴۷- ایضاً ، ص ۳۳۵- ۳۳۶۔ ۳۴۸- ایضاً، ص ۳۴۱۔ ۳۴۹- ایضاً، ۳۴۶- ۳۴۷۔ ۳۵۰- اقبال کی شخصیت اور شاعری، ص ۱۲۲۔ ۳۵۱- مخزن، دسمبر ۱۹۰۲ئ، ص۷۵۔ ۳۵۲- The Story of Swami Rama Tirath, P. 118 ۳۵۳- منتخبات نظم اردو (مرتبہ ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ)، ص ۴۲، ۴۳۔ ۳۵۴- باقیاتِ اقبال، ص۲۷۵ تا ۲۷۷۔ ۳۵۵- اقبال۔ نئی تشکیل، ص ۱۸۔ ۳۵۶- اقبال، معاصرین کی نظر میں، ص۲۷۳۔ ۳۵۷- بانگِ درا، (دیباچہ)، صفحہ ط۔ ۳۵۸- شذرات فکرِ اقبال، ص ۱۰۵۔ ۳۵۹- باقیاتِ اقبال، ص ۳۰۴۔ ۳۶۰- ایضاً، ص ۲۹۹، ۳۱۱۔ ۳۶۱- شعر اقبال، ص ۱۶۹۔ ۳۶۲- بانگِ درا، ص ۵۔ ۳۶۳- ایضاً، ص ۱۱۔ ۳۶۴- A Book of Verses ... P. 66 ۳۶۵- Ditto, P. 76 ۳۶۶- بانگِ درا، ص ۱۱، ۱۲۔ ۳۶۷- باقیاتِ اقبال، ص ۲۸۴۔ ۳۶۸- اقبال کی شخصیت اور شاعری، ص ۱۱۸۔ ۳۶۹- ایضاً، ص ۱۱۷۔ ۳۷۰- بانگِ درا، ص ۳۵، ۳۶۔ ۳۷۱- ایضاً، ص ۹۲۔ ۳۷۲- باقیاتِ اقبال، ص ۱۹۷۔ ۳۷۳- بانگِ درا، ص ۴۴۔ ۳۷۴- ایضاً، ۴۵، ۴۶۔ ۳۷۵- پنجۂ فولاد ، لاہور، جلد ۳، نمبر ۳۸، ۲۱؍اکتوبر ۱۹۰۵ئ۔ ۳۷۶- اقبال۔ ۔ نئی تشکیل، ص ۲۵۔ ۳۷۷- بانگِ درا، ص ۸۴۔ ۳۷۸- باقیاتِ اقبال، ص ۱۳۶۔ ۳۷۹- روزگار فقیر (جلد دوم)، ص ۳۱۔ ۳۸۰- بانگِ درا، ص ۸۳۔ ۳۸۱- ایضاً، ص ۳۱۰۔ ۳۸۲- ایضاً، ص۹۶۔ ۳۸۳- مسائلِ اقبال، ص ۲۸۸، ۲۸۹۔ ۳۸۴- ایضاً ،ص ۲۵، ۲۶۔ ۳۸۵- باقیاتِ اقبال، ص ۲۸۹، ۲۹۰۔ ۳۸۶- بانگِ درا، ص ۲۵۔ ۳۸۷- پیامِ مشرق، ص، ۸۳ا۔ ۳۸۸- بانگِ درا، ص ۲۸، ۲۹۔ ۳۸۹- ایضاً، ص۳۲تا ۳۴۔ ۳۹۰- ایضاً، ص ۳۷ تا ۳۹۔ ۳۹۱- ایضاً، ص ۷۶۔ ۳۹۲- ایضا، ص ۱۶۰۔ ۳۹۳- باقیاتِ اقبال، ص ۳۳۳۔ ۳۹۴- بانگِ درا، ص ۷۶ تا ۷۸۔ ۳۹۵- ایضاً، ص ۸۰، ۸۱۔ ۳۹۶- ضربِ کلیم، ص ۶۷۔ ۳۹۷- اقبال درون خانہ، ص ۸۳۔ ۳۹۸- ایضاً،ص ۹۵۔ ۳۹۹- باقیاتِ اقبال، ص ۳۴۔ ۴۰۰- بانگِ درا، ص ۷۹۔ ۴۰۱- باقیاتِ اقبال، ص۳۴۱۔ ۴۰۲- بانگِ درا، ص ۸۹، ۹۰۔ ۴۰۳- ایضاً، ص ۲۲۸۔ ۴۰۴- ایضاً، ص ۹۰، ۹۱۔ ۴۰۵- باقیاتِ اقبال، ص ۱۳۴ تا ۱۳۸۔ ۴۰۶- شعر اقبال، ص ۱۶۰۔ ۴۰۷- باقیاتِ اقبال، (حاشیہ)، ص ۱۳۸۔ ۴۰۸- اردونامہ، کراچی، جولائی تا ستمبر ۱۹۶۱ء ، ص ۲۴۔ ۴۰۹- بانگِ درا، ص ۴۷، ۴۸۔ ۴۱۰- اقبال کی شخصیت اور شاعری، ص ۱۰۹ تا ۱۱۱۔ ۴۱۱- بانگِ درا، ص ۴۸ تا ۵۰۔ ۴۱۲- اقبال کی شخصیت اور شاعری، ص ۱۱۰۔ ۴۱۳- بانگِ درا، ص ۵۶۔ ۴۱۴- سہ ماہی اردو، کراچی، جنوری ۱۹۶۶ء ، ص ۱۶۔ ۴۱۵- ایمرسن کے مضامین، ص ۱۲۔ ۴۱۶- بانگِ درا، ص ۵۹۔ ۴۱۷- مقالاتِ اقبال، ص ۹۔ ۴۱۸- ایضاً، ص ۳۷۱ تا ۳۷۲۔ ۴۱۹- ایضاً ، ص ۳۷۶ تا ۳۸۰۔ ۴۲۰- سہ ماہی اردو، کراچی، جنوری ۱۹۶۶ئ، ص ۱۹ تا ۲۱۔ ۴۲۱- بانگِ درا، ص ۱۲ تا ۱۴۔ ۴۲۲- اقبال کی شخصیت اور شاعری، ص ۱۱۱۔ ۴۲۳- بانگِ درا، ص ۱۵، ۱۶۔ ۴۲۴- ایضاً، ص ۱۷، ۱۸۔ ۴۲۵- اردو، جنوری ۱۹۶۶ئ، ص ۲۶۔ ۴۲۶- بانگِ درا، ص ۱۹۔ ۴۲۷- اردونامہ، کراچی، جولائی تاستمبر ۱۹۶۱ء ، ص ۲۵۔ ۴۲۸- اقبال کی شخصیت اور شاعری، ص ۱۰۶۔ ۴۲۹- بانگِ درا، ص ۲۱۔ ۴۳۰- اردونامہ، کراچی، جولائی تا ستمبر ۱۹۲۱ئ، ص ۲۵، ۲۶۔ ۴۳۱- بانگِ درا، ص ۲۱، ۲۲۔ ۴۳۲- ایضاً، ص۲۳۔ ۴۳۳- Journal of the Research Society of Pakistan (Punjab University) October 1977, P.31.۔ ۴۳۴- اقبال کی شخصیت اور شاعری، ص ۱۱۵۔ ۴۳۵- باقیاتِ اقبال، ص ۲۷۶، ۲۸۷۔ ۴۳۶- اقبال نامہ ،از حسرت، ص ۲۳۔ ۴۳۷- اقبال کی شخصیت اور شاعری، ص ۱۱۴۔ ۴۳۸- بانگِ درا، ص ۹۳، ۹۴۔ ۴۳۹- اقبال، شاعر اور فلسفی، ص۱۸۵۔ ۴۴۰- مخزن، اپریل ۱۹۰۷ئ، ص ۲۶۔ ۴۴۱- شعرِ اقبال، ص ۱۲۳۔ ۴۴۲- باقیاتِ اقبال، صفحات علی الترتیب: ۳۹۲، ۳۹۴، ۴۰۸، ۴۱۷، ۴۲۱۔ ۴۴۳- نثر تاثیر، ص ۱۷۰، ۱۷۱۔ ۴۴۴- باقیاتِ اقبال، ص ۴۴۴۔ ۴۴۵- بانگِ درا، ص ۱۰۵۔ ۴۴۶- ایضاً، ص ۱۰۳۔ ۴۴۷- اقبال نامہ، حصہ دوم، ص ۲۹۹۔ ۴۴۸- روزگار فقیر، جلد دوم، ص ۲۹۵۔ ۴۴۹- باقیاتِ اقبال، ص ۴۴۵۔ ۴۵۰- بانگِ درا، ص ۱۰۳، ۱۰۴۔ ۴۵۱- انوارِ اقبال، ص ۵۲۔ ۴۵۲- بانگِ درا، ص ۱۰۶ تا ۱۰۹۔ ۴۵۳- صحیفہ، اقبال نمبر، اکتوبر ۱۹۸۳ئ، ص ۱۵۱ ، ۱۵۲۔ ۴۵۴- بانگِ درا، ص ۹ ۴۵۵- باقیاتِ اقبال، صفحات علی الترتیب: ۴۰۸، ۴۱۰، ۴۲۶، ۴۴۱۔ ۴۵۶- روزگار فقیر، جلد دوم، ص ۲۹۵۔ ۴۵۷- بانگِ درا، ص ۱۰۴، ۱۰۰، ۱۱۰۔ ۴۵۸- ایضاً، ص ۱۰۶۔ ۴۵۹- باقیاتِ اقبال، ص ۴۱۴، ۴۱۵۔ ۴۶۰- مخزن، دسمبر ۱۹۰۱ء ، ص ۴۰۔ ۴۶۱- بانگِ درا، صفحات علی الترتیب: ۱۰۰، ۱۰۱، ۱۰۲، ۱۰۳، ۱۱۱،۱۱۲۔ ۴۶۲- باقیاتِ اقبال، ص ۳۹۴۔ ۴۶۳- بانگِ درا، ص ۱۱۲۔ ۴۶۴- بانگِ درا، ص ۱۱۰، ۱۱۱۔ ۴۶۵- بالِ جبریل، ص ۱۲۹۔ /// باب سوم ذہنی انقلاب (تجربہ و مشاہدہ، تحقیق و تنقید) (۱۹۰۵ء -۱۹۰۸ئ) ززز فصل اوّل سوانح، مشاغل، شخصیت (۱) سفرِ انگلستان عزمِ سفر اقبال کے سفرِانگلستان کے محرکات کے بارے میں مختلف آرا کا اظہار کیا گیا ہے۔ گزشتہ باب میں ذکر آ چکا ہے کہ وہ دسمبر ۱۸۹۸ء میں قانون کے ابتدائی امتحان (پی۔ای۔ ایل) میں شریک ہوئے تھے اور اصولِ قانون کے پرچے میں فیل ہو گئے تھے۔ انھیں امید تھی کہ گزشتہ حاضریوں کی بنا پر وہ دسمبر ۱۹۰۰ء کے امتحان میں دوبارہ شریک ہو سکیںگے،لیکن جب انھوں نے رجسٹرار پنجاب چیف کورٹ سے درخواست کی کہ اس امتحان میں شرکت کے لیے انھیں دوبارہ حاضریاں پوری کرنے سے مستثنیٰ قرار دیا جائے تو ’’از روئے قواعد‘‘ان کی درخوست نا منظور ہو گئی۔ اس سلسلۂ مراسلت کی نقول مرتّب کرتے ہوئے بشیر احمد ڈار صاحب نے اس واقعے کو اقبال کی زندگی میں ایک اہم موڑ قرار دیا ہے، کیونکہ اسی سے متاثر ہو کر انھوں نے قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے باہر جانے کا فیصلہ کیا۔۱؎ لیکن اس واقعے کو سفرِ انگلستان کا محرک قرار دینا مناسب نہیں۔ اس سے اگلے سال (۱۹۰۱ء میں) وہ ای۔ اے ۔ سی کے مقابلے کے امتحان میں بھی شریک ہوئے ، لیکن طبی بورڈ نے انھیں (غالباً ایک آنکھ کی خرابی کی بنا پر) ناموزوں قرار دے دیا۔۲؎ میکلوڈ عربک ریڈر شپ کے دوران میں کئی مرتبہ رخصت لے کر گورنمنٹ کالج کی عارضی ملازمت قبول کی تاکہ شعبۂ تعلیم میں مستقل ملازمت کے لیے اپنی اہلیت و استحقاق میں اضافہ کر سکیں۔ ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ میکلوڈ عربک ریڈر منتخب ہونے کے بعد وہ مستقل ملازمت اور بہتر مستقبل کی تلاش میں مسلسل کوشاں رہے، لیکن کچھ عرصے تک اپنی مضطربانہ کوششوں کا کوئی خاص ہدف متعین نہ کر سکے۔ ڈاکٹر سٹرائن کی وفات کے بعد مسز سٹرائن کے نام انھوں نے جو تعزیتی خط بھیجا تھا، اس سے پہلی بار انگشاف ہوتا ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم و تحقیق کی غرض سے باہر جانا چاہتے تھے۔ ممکن ہے امریکہ جانے کے ارادے کی تکمیل میں دیگر موانع بھی در پیش رہے ہوں، لیکن غالباً انھیں پروفیسر آرنلڈ نے سمجھایا ہوگا کہ علمی تحقیق کے جس شعبے میں انھیں کام کرنا ہے، اس سے متعلق بیشتر نادر و نایاب مآخذ صرف انگلستان اور یورپ کے کتب خانوں میں موجود ہیں۔ یہ بات اس لیے بھی قرینِ قیاس ہے کہ عبدالکریم الجیلی کی الانسان الکامل پر اقبال نے اپنے مقالے میں مسلم حکما و صوفیہ پر تحقیقی کام کی ضرورت و اہمیت واضح کی تھی،۳؎ اور پروفیسر آرنلڈبھی اقبال کو اپنے مکتبۂ فکر و تحقیق کی طرف مائل دیکھ کر، ان کے اس رجحان اور تحقیقی کام کی صلاحیت سے مطمئن تھے۔ الغرض اقبال کے یہ علمی مقاصد ہی سفرِ انگلستان کے اولین محرک تھے۔ چنانچہ جب پروفیسر آرنلڈ ۲۶؍فروری ۱۹۰۴ء کو ۴؎ اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر عازمِ انگلستان ہوئے تو اقبال نے اپنی نظم ’’نالۂ فراق‘‘ میں اس عزم کا اعلان کیا تھا: ع توڑ کر پہنچوں گا میں پنجاب کی زنجیر کو۵؎ آرنلڈ کی روانگی کے چند ماہ بعد، مئی ۱۹۰۴ء میں اقبال کے ہمدم دیرینہ شیخ عبدالقادر صاحب بھی بیرسٹری کی تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے۔ شیخ صاحب لکھتے ہیں: ’’ انھیں یورپ جانے کا خیال بھی میرے وہاں جانے سے ہوا۔ جب میںنے انھیں اپنے ارادے سے مطلع کیا، تو کہنے لگے کہ آپ چلیے،میں اپنے بڑے بھائی صاحب کو خط لکھ کر غیر ممالک میں تعلیم کے اخراجات کا بندوبست کروانے کے لیے کہوں گا۔‘‘۶؎ اس میں شک نہیںکہ شیخ صاحب کی روانگی انگلستان، اقبال کے سمندِ شوق کے لیے ایک اور تازیانہ بن گئی، لیکن قرائن سے ظاہر ہے کہ بہت پہلے سے یہ منصوبہ ان کے زیرِ غور تھا۔ گورنمنٹ کالج کی ملازمت کے زمانے میں انھیں یہ بھی احساس ہوا کہ سرکاری ملازمت کی بندشیں ان کی آزادیٔ فکر میں حائل ہوں گی۔ نیز بعض ایسے مواقع بھی آئے کہ انگریز پرنسپل کے تحکمانہ برتائو سے ان کی خود داری مجروح ہوئی۔ بہرکیف ، وجوہ کچھ ہوں، وہ انگلستان روانہ ہونے سے پہلے یہ بھی طے کر چکے تھے کہ آیندہ وہ بیرسٹری کا آزاد پیشہ اختیار کریں گے۔ شیخ صاحب نے روانہ ہوتے ہی تقاضے شروع کر دیے۔ دورانِ سفر، ۱۷؍مئی کو جہاز مالدیویہ سے جو پہلا خط بھیجا، اس میں لکھتے ہیں: ’’کوشش یہ چاہیے کہ آپ وہاں میرے ہوتے ضرور پہنچیں۔ اس سے قیامِ پاکستان کا لطف دوبالا ہو جائے گا۔ لیکن سست نہ ہو جانا۔ میں وہاں پہنچتے ہیں آرنلڈ صاحب سے مشورہ کرکے آپ کو خط لکھوں گا۔اگر اس ستمبر میں کسی صورت تیار نہ ہو سکے تو آیندہ مئی میں ضرور چل دینا۔‘‘۷؎ لندن سے ۲؍ستمبر ۱۹۰۴ء کے خط میںلکھتے ہیں: ’’ہاں، اگلے ستمبر کے صرف آپ ہی منتظر نہیں، یہاں بھی کئی لوگ منتظر ہیں۔ ان میں سب سے بڑھ کر میں ہوں اور پھر وہ جو میرے ذریعے مشتاق بنتے جاتے ہیں۔‘‘۸؎ اقبال ان دنوںاپنے بھائی کے پاس، ایبٹ آباد گئے تھے تاکہ اپنے تعلیمی اخراجات کے بارے میں تمام مسائل طے کر لیں۔ گویا اگست ۱۹۰۴ء سے سفر کی تیاری کا آغاز ہو گیا۔ ۱۹۰۵ء میں مرزا جلال الدین، انگلستان سے بیرسٹر ہو کر واپس آ چکے تھے۔ شیخ عبدالقادر کی ہدایت کے مطابق اقبال،اپنے سفرِ انگلستان اور وہاں قیام کے متعلق ضروری معلومات حاصل کرنے کے لیے اپنے اور مرزا صاحب کے مشترک دوست شمس العلماء مولوی ممتاز علی صاحب کے توسط سے، ان کے گھر جا کر ملے۔ مرزا صاحب نے اس ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے ، مستقبل قریب کے اس محبوب دوست کی بڑی جاذبِ نظر قلمی تصویر کھینچی ہے: ’’اقبال کی عمر اُس وقت تیس سال کے قریب ہوگی۔ ان کے چہرے کے خدوخال کی موزونیت، ان کے قد و قامت کا تناسب اور ان کے جسم کی ساخت، انھی انفرادی خصوصیات کی حامل تھیں جن کی وجہ سے پنجابی ہر جگہ ممیز کیے جاتے ہیں۔ ان کے چہرے پر ایک ایسی بشاشت نظر آتی تھی جو آخر دم تک ان کے ساتھ رہی… ان کی روشن آنکھیں صاف ظاہر کرتی تھیں کہ ان کے دن خوش وقتی اور اطمینان میں بسر ہو رہے ہیں۔‘‘۹؎ اس ملاقات کے چند روز بعد اقبال عازمِ سفر ہوئے۔ رودادِ سفر : اقبال کی نظم ’’التجائے مسافر‘‘ میر نیرنگ کے ایک طویل نوٹ کے ساتھ مخزن (اکتوبر ۱۹۰۵ئ)میں شائع ہوئی تھی۔ ان کے بیان کے مطابق ، اقبال یکم ستمبر کو لاہور سے بمبئی میل پر روانہ ہو کر ۲؍ستمبرکی صبح کو دہلی پہنچے۔ ان کے احباب میں سے نیرنگ اور اکرام بھی دہلی تک ساتھ گئے۔ ’’جدید شاعری کے روح و رواں اقبال با اقبال‘‘کے استقبال کے لیے خواجہ حسن نظامی اور منشی نذر محمد سٹیشن پر موجود تھے۔ کچھ دیر بعد جملہ احباب آستانۂ حضرت محبوب الٰہی پر حاضر ہوئے۔ ’’اوّل اقبال نے عالمِ تنہائی میں مزار مبارک کے سرہانے بیٹھ کر ذیل کی نظم پڑھی… بعد میں دوستوں کے اصرار پر اقبال نے اس نظم کو درگاہ کے صحن میں بیٹھ کر مزار مبارک کی طرف منہ کرکے دوبارہ ایک نہایت درد انگیز اور دلنشین لہجے میں پڑھا۔ ‘‘۱۰؎ سہ پہر کے وقت مرزا غالب کے مزار کی زیارت کی۔ مزارِ غالب اور دیگر مقامات کے تاثرات اقبال کے الفاظ میںملاحظہ ہوں: ’’خواجہ صاحب موصوف ہم کو قبرستان کے ایک ویران گوشے میں لے گئے، جہاں وہ گنج معانی مدفون ہے جس پر دہلی کی خاک ہمیشہ ناز کرے گی۔ حسنِ اتفاق سے اس وقت ہمارے ساتھ ایک نہایت خوش آواز لڑکا، ولایت نام تھا۔ اس ظالم نے مزار کے قریب بیٹھ کر ع ’’دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی۔‘‘ کچھ ایسی خوش الحانی سے گائی کہ سب کی طبیعتیں متاثر ہو گئیں۔ بالخصوص جب اس نے یہ شعر پڑھا: وہ بادئہ شبانہ کی سرمستیاں کہاں اٹھیے بس اب کہ لذتِ خوابِ سحر گئی تومجھ سے ضبط نہ ہو سکا۔ آنکھیں پُرنم ہو گئیں اور بے اختیار لوحِ مزار کو بوسہ دے کر اس حسرت کدہ سے رخصت ہوا۔ یہ سماں اب تک ذہن میں ہے اور جب کبھی یاد آتا ہے تو دل کو تڑپاتا ہے… شہنشاہ ہمایوں کے مقبرے میں فاتحہ پڑھی۔ دارا شکوہ کے مزار کی خاموشی میں دل کے کانوں سے ’’ھوالموجود‘‘ کی آواز سنی اور دہلی کی عبرت ناک سر زمین سے ایک ایسا اخلاقی اثر لے کر رخصت ہوا جو صفحۂ دل سے کبھی نہ مٹے گا۔ ۱۱؎ ۳؍ستمبر ۱۹۰۵ء کی صبح کو اقبال اپنے احباب سے رخصت ہو کر دہلی سے روانہ ہوئے اور ۴؍ستمبر کو بمبئی پہنچ گئے۔ ٹامس کک کی جہازراں کمپنی کی ہدایت کے بموجب انھوں نے اپنے قیام کے لیے ایک ایسے ہوٹل کا انتخاب کیا جو ریلوے سٹیشن اور ٹامس کک کے دفتر سے قریب بھی تھا، نیز دیگر ہوٹلوں کی نسبت ارزاں ہونے کی وجہ سے ولایت جانے والے طلبہ کے لیے موزوں ترین ہوٹل تھا۔ اقبال نے اپنے سفر نامۂ لندن کی پہلی قسط ۱۲؍ستمبر کو عدن سے اور ۲۵؍نومبر کو کیمبرج سے ، مولوی انشاء اللہ خاں، مالک و مدیر اخبار وطن لاہور کے نام بھیجی تھی، ۱۲؎ جو مختصر ہونے کے باوجود چند دلچسپ مشاہدات و تجربات پر مشتمل ہے۔ اس سفر نامے کے وہ حصے خاص توجہ کے مستحق ہیں جہاں اقبال نے بعض واقعات و حالات کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ اس کے مطالعے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کم آمیز و سفر گریز فلسفی شاعر، جب ایک بار کمر ہمت باندھ کر گھر سے نکلا تو اپنے دورئہ یورپ کو زیادہ سے زیادہ نتیجہ خیز بنانے کے لیے ایک طالب علمانہ ذوقِ تجسس لے کر نکلا اور آغازِ سفر ہی میں، ہر نئے ماحول کے نو بہ نوتجربات و مشاہدات کے خزانے سمیٹنے کے لیے ہمہ تن چشم بن گیا۔ آئیے ہم بعض واقعات کے تناظر میں شاعر کے باطنی واردات کا جائزہ لیں۔ اقبال جس ہوٹل میں ٹھہرے اس کے بوڑھے پارسی منتظم کی نورانی شکل و صورت اور تاجرانہ عجز و انکسار، انھیں قدیم ایران کے مقدس و خشوروں کی یاد دلاتا تھا۔ اسے دیکھ کر بعض اوقات فرطِ عقیدت سے ان کی آنکھیں پُرنم ہو جاتی تھیں۔ ایک شام انھوں نے دیکھا کہ وہی مردِ بزرگ شراب کی بوتل بغل میں دبائے کمرے سے باہر نکل رہا ہے۔ اقبال کو دیکھتے ہی اس نے بوتل چھپانے کی کوشش کی۔ اگر اقبال اس کے ہم مشرب ہوتے تو پیرِ مغاں کے ہاتھ پر بیعت کر لیتے ، لیکن یہ منظر دیکھ کر ان کی ساری عقیدت ہوا ہو گئی۔ اسی ہوٹل میں ایک یونانی تاجر بھی آ کر مقیم ہوا۔ ایک روز اقبال کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ چین میں تجارت کرتا تھا، لیکن اب چینی لوگ بیرونی تاجروں کا مال نہیں خریدتے، لہٰذا وہ ٹرانسوال جا رہا ہے۔اقبال کو اس بات پر بڑی حیرت اور مسرت ہوئی کہ ’’گراں خواب چینی‘‘ بھی اب اتنے بیدار ہو گئے ہیں کہ اپنے ملک کی صنعت کو ترقی دینے کے لیے غیر ملکی مصنوعات کا مقاطعہ کرنے لگے ہیں۔ ’’قومی زندگی‘‘ کے عنوان سے ایک مقالے میں انھوں نے ایشیا کی پس ماندہ اقوام، خصوصاً اہل ہند کی ترقی و خوش حالی کے لیے صنعت و تجارت کا نسخہ تجویز کیا تھا۔ اب اس موقعے پر وہ اہل چین کی قومی غیرت و حمیّت کو سراہتے ہوئے، اپنے ابنائے وطن کی بے حسی کا یوں ماتم کرتے ہیں: ’’ہم متفق ہو کر کام کرنا نہیں جانتے۔ ہمارے ملک میں محبت اور مروّت کی بُو باقی نہیں رہی۔ ہم اس کو پکا مسلمان سمجھتے ہیں جو ہندوئوں کے خون کا پیاسا ہو اور اس کو پکا ہندو خیال کرتے ہیں جو مسلمانوں کی جان کا دشمن ہو۔ ہم کتاب کے کیڑے ہیں اور مغربی دماغوں کے خیالات ہماری خوراک ہیں۔ کاش خلیج بنگالہ کی موجیں ہمیں غرق کر ڈالیں… مولوی صاحب ! میں بے اختیار ہوں۔ لکھنے تھے سفر کے حالات اور بیٹھ گیا ہوں وعظ کرنے… ‘‘ ۱۳؎ ایک رات کھانے کے کمرے میں ایک ترک نوجوان نظر آیا، جو اپنے ایک ساتھی سے فرانسیسی زبان میں باتیں کر رہا تھا۔ ترک قوم سے ہندوستانی مسلمانوں کو جو دلی عقیدت و محبت ہے، اس نے اقبال کو ترک نوجوان سے ملاقات اور گفتگو کرنے پر مجبور کر دیا۔ مشکل یہ آ پڑی کہ ’’زبانِ یارِ من تُرکی و من ترکی نمی دانم‘‘۔ وہ نوجوان انگریزی کے سوا یورپ کی کئی زبانیں جانتا تھا۔ اقبال نے فارسی میں گفتگو شروع کی۔ اس سے بھی بات نہ بنی، تو ٹوٹی پھوٹی عربی میں ہم کلام ہوئے۔ معلوم ہوا کہ ترک نوجوان شاعر ہے اور ’’ینگ ٹرک پارٹی‘‘ سے تعلق رکھتا ہے۔ اقبال نے (خلافِ معمول) کلام سننے کا اشتیاق ظاہر کیا، تو پہلے اس نے اپنے استاد اور جدید ترکی کے مشہور شاعر کمال بے کے اشعار سنائے، پھر اپنا کلام سنانے لگا۔ وہ سلطان عبدالحمید کا کٹر مخالف تھا اور اس کے تمام اشعار سلطان کی ہجو میں تھے۔ سیاسی مسائل پر گفتگو چھڑی تو اقبال نے ترکی کے جمہوریت پسند نوجوانوں کی تحریک پر جو تبصرہ کیا وہ ان کے حکیمانہ تدبر اور سیاسی بصیرت کی دلیل ہے۔ ان کی رائے یہ تھی: ’’ینگ ٹرک پارٹی کو انگلستان کی تاریخ سے فائدہ اٹھانا چاہیے، کیونکہ جس طریق سے رعایائے انگلستان نے بتدریج اپنے بادشاہوں سے پولیٹیکل حقوق حاصل کیے، وہ طریق سب سے عمدہ ہے۔ بڑے بڑے عظیم الشان انقلابوں کا بغیر کشت و خون ہو جانا کچھ خاکِ انگلستان ہی کا حصہ ہے۔‘‘۱۴؎ اس میں شک نہیں کہ عالمِ اسلام میں خلافت کے ادارے کی مرکزی اہمیت کے پیش نظر، اگر انگلستان کی پابندِ آئین شہنشاہیت کی طرح ، ترکی میں بھی، خلافت کے زیر سایہ جمہوریت پروان چڑھتی تو بہتر ہوتا، لیکن شاید باہر والوں کو اس بات کا صحیح اندازہ نہیں تھا، کہ سلطان عبدالحمید کی قہرمانی استبدادیت نے جمہوریت کے ارتقا کے لیے پُر امن جدو جہد کی تمام راہیں بند کر رکھی تھیں۔ اقبال نے بمبئی کے پارسیوں کے تموّل، ترقی اور ان کی کاروباری صلاحیتوں کی تعریف کی ہے۔ اس کے باوجود وہ پارسی قوم کے مستقبل سے مایوس ہیں، کیونکہ ان کی فلسفیانہ نگاہ سے یہ حقیقت پوشیدہ نہ رہ سکی کہ قومی تشخص اور قومی بقا کے لیے جو ٹھوس بنیادیں درکار ہیں، وہ یہاں مفقود ہیں۔ یہ لوگ صرف دولت کمانے کی فکر میں سرگرداں ہیں اور ہر مسئلے پر اقتصادی پہلو کے سوا، کسی اور پہلو سے نگاہ نہیں ڈالتے۔ نہ ان کی اپنی کوئی زبان ہے، نہ لٹریچر اور طرہ یہ کہ فارسی کو نفرت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ لہٰذا اقبال یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ ’’میں اس قوم کے لیے کسی اچھی فیوچر (Future) کی پیش گوئی نہیں کر سکتا۔‘‘۱۵؎ اقبال، بمبئی شہر کی عالی شان عمارات، سٹرکوں اور بازاروں کی کشادگی، رونق اور گہما گہمی، اور یہاں کی رواں دواں، متحرک زندگی سے بہت متاثر ہوئے۔ ان کی رائے میںبمبئی کی تعلیمی حالت بھی بالعموم بہت اچھی اور یہاں کے عوام بھی دنیا کے حالات اور ملکی واقعات سے باخبر ہیں، لیکن اس شہر کے بارے میں (جسے وہ ’’باب لندن‘‘ کہتے ہیں) ان کا یہ تبصرہ نہایت معنی خیز ہے، کہ یہاں یورپ اور امریکہ کے کارخانوں کی ہر چیز مل سکتی ہے، ’’ہاں البتہ ایک چیز ایسی ہے جو اس میں نہیں مل سکتی یعنی فراغت۔‘‘۱۶؎ ’’باب لندن‘‘ کے بارے میں ان کی اس رائے سے خود لندن کے متعلق ان کے تاثرات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ۷؍ستمبر کو دو بجے وہ فرانسیسی کمپنی کے جہاز پر سوار ہوئے۔ جہاز کی عمدگی اور نفاست میں انھیں فرانسیسی قوم کی خوش مذاقی کی جھلک نظر آئی۔ فرانسیسی افسروں کے خوش خلقی اور ان کے تکلفات دیکھ کر، انھیں لکھنؤ یاد آیا۔ جہاز کے سفر میں مسافر عموماً دورانِ سر اور متلی کی شکایات میں مبتلا ہو جاتے ہیں، لیکن لوگوں کو اقبال کے مضبوط اعصاب پر حیرت ہوئی کہ وہ اس ’’مرضِ بحری ‘‘ سے بالکل محفوظ رہے۔ جہاز کے مسافروں میں ایک فرانسیسی پادری بہت دلچسپ آدمی تھا۔ وہ روسی زبان میں بھی روانی سے گفتگو کرتا تھا۔ اقبال نے باتوں باتوں میں اس سے مشہور روسی مصنف و مفکر ’’ٹالسٹائے‘‘ کے بارے میں پوچھا، تو انھیں تعجب ہوا کہ زباندان ہوتے ہوئے وہ روس کی اتنی مشہور ادبی شخصیت کے نام سے بھی آشنا نہیں۔ پادری صاحب اکثر ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں اقبال سے مزے مزے کی باتیں کرتے اور انھیں ’’ٹالسٹائے‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ ایک روز اقبال سے پوچھنے لگے: ’’تم ہندوستان کا ٹالسٹائے بننا چاہتے ہو؟‘‘ اقبال نے کہا : ’’ٹالسٹائے بن جانا آسان نہیں ہے۔ زمین سورج کے گرد لاکھوں چکر لگاتی ہے، تب کہیں جا کے ایک ٹالسٹائے پیدا ہوتا ہے۔‘‘ اگرچہ اس زمانے میں ٹالسٹائے کی تصانیف یہاں اتنی مقبول نہیں تھیں، لیکن اقبال کے اس جواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس کی ادبی تخلیقات کے مطالعے سے مستفید ہو چکے ہوں گے، جبھی وہ اس کے مرتبہ شناس اور اس کی ادبی عظمت کے اس حد تک معترف ہوئے۔ سمندر کے مختلف مناظر کے مشاہدات و تاًثرات کے بیان میں، ہمیں اقبال کے عارفانہ مزاج کی جھلک نظر آتی ہے۔ صبح کے وقت پُر سکون سمندر کی سطح پر طلوعِ آفتاب کا نظارہ، ان کے درد مند دل کے لیے ’’تلاوت کا حکم رکھتا ہے۔‘‘ سمندر کی لا محدود پہنائیاں، ’’باری تعالیٰ کی قوت نا متناہی‘‘ کا احساس دلاتی ہیں۔ جب سر کش اور متلاطم موجیںلپک لپک کر بڑھتی اور اچھل اچھل کر ’’حلقۂ صد کامِ نہنگ‘‘ کا منظر دکھاتی ہیں، تو دل پر ایک ہیبت سی طاری ہو جاتی ہے اور انسان کا سرِ پر غرور، قدرتِ الٰہی کے جلال و جبروت کے آگے عجز و نیاز سے جھک جاتا ہے۔ حج بیت اللہ کے تمدنی اور روحانی فوائد سے قطع نظر، جب سفر حج کا یہ اخلاقی و نفسیاتی پہلو اقبال کے سامنے آیا، تو وہ بے ساختہ شارع اسلام پر درود و سلام بھیجنے لگے۔ ۱۲ ؍ستمبر کو ان کا جہاز عدن کے قریب پہنچا، تو ساحلِ عرب کی ہوا نے اقبال کے دل میں عشقِ رسولؐ کی دبی ہوئی چنگاریوں کو مشتعل کر دیا۔ ذوق و شوق کی اس والہانہ کیفیت کا بیان انھی کی زبان سے سنیے: اے عرب کی مقدس سرزمین ! تجھ کو مبارک ہو۔ تو ایک پتھر تھی جس کو دنیا کے معماروں نے رد کر دیا تھا، مگر ایک یتیم بچے نے خدا جانے تجھ پر کیا افسوں پڑھ دیا کہ موجودہ دنیا کی تہذیب و تمدن کی بنیاد تجھ پر رکھی گئی … تیرے ریگستانوں نے ہزاروں مقدس نقشِ قدم دیکھے ہیں… کاش میرے بد کردار جسم کی خاک، تیرے ریت کے ذرّوں میں مل کر تیرے بیابانوں میں اڑتی پھرے، اور یہی آوارگی میری زندگی کے تاریک دنوں کا کفارہ ہو۔ کاش میں … اس پاک سرزمین میں جا پہنچوں جہاں کی گلیوں میں بلال کی عاشقانہ آواز گونجتی تھی…۱۷؎ کیمبرج پہنچنے کے بعد اقبال نے مدیر وطن کے تقاضے پر سفر نامے کی دوسری قسط بھیجی جو ان کی علمی مصروفیات کی وجہ سے اور زیادہ مختصر ہے۔ اس رودادِ سفر میں پہلے انھوں نے ساحل مصر، سویز اور پورٹ سعید وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔ اس علاقے کے مشاہدات نے ان کے دل میں ملّی اخوت کے جو جذبات پیدا کیے، ان کا اظہار جا بجا ہوا ہے۔ مثلاً سویز میں مسلمانوں کی تجارتی سرگرمیوں کو سراہتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ان لوگوں کی فطرت میں میلانِ تجارت مرکوز ہے اور کیوں نہ ہو، ان ہی کے آباو اجداد تھے جن کے ہاتھوں میں کبھی یورپ اور ایشیا کی تجارت تھی!۔‘‘ ایک نوجوان مصری دوکاندار سے سگریٹ خریدتے وقت مخاطب ہوئے اور بتایا کہ میں بھی مسلمان ہوں، لیکن ان کے سر پر انگریزی ٹوپی دیکھ کر پہلے تو وہ نہ مانا، جب قائل ہو گیا تو مختلف ملکوں کے اجنبی ، اسلامی رشتے میں منسلک ہو گئے۔ مصری دوکاندار نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں اپنے جذبۂ اخوت کا بے ساختہ اظہار کیا: تم بھی مسلم، ہم بھی مسلم، تو مجھے بڑی مسرت ہوئی۔‘‘۱۸؎ مصری تاجر حافظ قرآن بھی تھا۔ اقبال نے قرآن مجید کی چند آیات پڑھ کر سنائیں تو فرطِ مسرت سے ہاتھ چومنے لگا۔ آس پاس کے تمام دوکانداروں کو بلا کر اقبال کا تعارف کرایا۔ تاجروں کی جماعت ان کی قرأت سے خوش ہو کر ’’ماشاء اللہ، ماشاء اللہ‘‘ کہہ رہی تھی اور ان کے علمی مقاصد میں کامیابی کے لیے دعائیں دینے لگی۔ اقبال لکھتے ہیں ’’یوںکہیے کہ دو چار منٹ کے لیے وہ تجارت کی پستی سے ابھر کر اسلامی اخوت کی بلندی پر پہنچے۔‘‘ لیکن ہمیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے، کہ ان مظاہروں اور ان کیفیات نے اقبال کی نگاہیں وطنیت کی پستی سے اسلامی آفاقیت کی بلندی کی طرف مائل کر دیں۔ وہیں انھیں مصری نوجوان طلبہ کا ’’ایک نہایت خوبصورت گروہ‘‘ نظر آیا۔ اقبال کو ان کے چہرے اتنے مانوس معلوم ہوئے کہ اس جماعت پر انھیں ’’علی گڑھ کالج کے ایک ڈیپوٹیشن کا شبہ ہوا۔‘‘ان سے نہ رہا گیا۔ آگے بڑھ کر ان کے درمیان جا پہنچے اور عربی میں باتیں کرنے لگے۔ جہاز جب نہر سویز سے گزر رہا تھا تو مصری فوجیوں کا ایک جہاز، ان کے جہاز کے بالکل قریب ہو کر گزرا۔ اس جہاز کے تمام سپاہی ترکی ٹوپیاں پہنے ، نہایت خوش الحانی سے عربی غزل گا رہے تھے۔ اقبال لکھتے ہیں: ’’یہ نظارہ ایسا پر اثر تھا کہ اس کی کیفیت اب تک دل پر باقی ہے۔‘‘۹ ۱؎ پورٹ سعید کی سیر کا حال بھی لکھا ہے۔ وہیں، تختۂ جہاز پر ’’جنّت نگاہ‘‘ اور ’’فردوس گوش‘‘ کا سامان بھی مہیا کیا گیا۔ اس واقعے کا ذکر آیندہ کسی مناسب موقعے پر آئے گا۔ یہاں سے روانہ ہوئے تو جہاز بحر روم میں داخل ہو گیا۔ راستے میں بہت سے جزیروں کے مناظر سے محظوظ ہوئے۔ بحر روم کی آپ و ہوا کی لطافت اور ساحل کے مناظر سے کچھ ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ ایک غزل کہہ ڈالی، جس کا یہ شعر اُس وقت ہوا جب اٹلی کا ساحل نظر کے سامنے تھا: ہرے رہو وطنِ مازنی کے میدانو جہاز پر سے تمھیں ہم سلام کہتے ہیں فرانس کی مشہور تاریخی بندر گاہ مارسیلز پر آٹھ دس گھنٹے کا وقفہ مل گیا۔ نوٹرڈیم گرجا کی بلند و بالا عمارت دیکھ کر اقبال کے نکتہ رس ذہن نے یہ نتیجہ اخذ کیا ’’دنیا میں مذہبی تاثیر ہی حقیقت میں تمام علوم و فنون کی محرک ہوئی ہے۔‘‘۰ ۲؎ مارسیلز سے ریل گاڑی کا سفر شروع ہوا۔ فرانس کی سیر بھی ’’حسنِ رہ گزرے کے طریق پر ہو گئی‘‘ لیکن ان کی سرسری نگاہ بھی ہر جگہ فرانسیسی قوم کی نفاستِ ذوق کے مشاہدے کرتے رہی۔ پھر جہازٍ پر سوار ہو کر رو دبار برطانیہ کو پار کیا اور ۲۴؍ ستمبر کو اپنی منزل مقصود پر پہنچ گئے۔ ’’شیخ عبدالقادر کی باریک نگہ نے باوجود میرے انگریزی لباس کے مجھے دو ر سے پہچان لیا اور دوڑ کر بغل گیر ہو گئے۔‘‘۱ ۲؎ (۲)لندن اور کیمبرج میں مصروفیات و مشاغل اقبال ۲۴؍ ستمبر کی شام کو لندن پہنچے اور جیسا کہ انھوں نے اپنے سفرنامے کی آخری سطروں میں بیان کیا ہے، رات بھر آرام کرنے کے بعد دوسرے ہی دن سے ان کے تعلیمی مشاغل و مصروفیات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔۱ ۲؎ ایک نووارد طالب علم کو ابتدا میں جو مسائل و مراحل در پیش ہوتے ہیں، ان میں اقبال کو الجھنا نہ پڑا۔ یہاں اقبال کے دیرینہ رفیق ، شیخ عبدالقادر، پہلے ہی سے موجود تھے، اور پھر کئی دیگر اصحاب بھی تھے جو شیخ صاحب کے ذریعے اقبال سے غائبانہ متعارف ہو کر ان کی آمد کے منتظر و مشتاق تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہاں اقبال کے ’’فلاسفر، رہنما اور دوست‘‘ پروفیسر آرنلڈ بھی مقیم تھے جو لاہور کی طرح یہاں بھی، اسی محبت و شفقت کے ساتھ ان کی رہنمائی کرتے رہے۔ پروفیسر آرنلڈ نے ان کی آمد سے پہلے ہی ، ان کی تعلیم کا سارا منصوبہ طے کر رکھا تھا۔ چونکہ بیرسٹری کے امتحان کے لیے لندن میں مستقل قیام یا لیکچروں میں حاضری کی پابندی ضروری نہیں، لہٰذا جو حضرات بیرسٹری کی سند لینے لندن آتے ہیں، وہ ازروئے قواعد کسی متعلقہ ان (Inn) میں داخلہ لے کر ماہانہ عشائیوں میں تو شریک ہو جاتے ہیں، اور باقی اوقات سیر و تفریح میں گزارتے ہیں۔لیکن اقبال کو تو ’’شراب علم کی لذت کشاں کشاں‘‘ یہاں لائی تھی۔ پروفیسر آرنلڈ کے مشورے کے مطابق انھیں کیمبرج یونی ورسٹی میں داخل ہو کر ایرانی فلسفہ و تصوف کے موضوع پر تحقیقی کام کرنا تھا۔ لنکنز ان (Lincoln's Inn) میں تو ان کا داخلہ ۶؍نومبر ۱۹۰۵ء کو ہوا۔ لندن پہنچنے کے بعد، پہلے انھوں نے پروفیسر آرنلڈ سے اپنے تحقیقی کام کے بارے میں مشورہ کیا ہو گا۔ آرنلڈ اُن دنوں انڈیا آفس لائبریری کے اسسٹنٹ لائبریرین تھے۔ یہ کتب خانہ، اسلامی اور مشرقی علمی وادبی نوادر کا بہت بڑا مخزن ہے۔ آرنلڈ کی رہنمائی میںاقبال کو اپنے مقالے کا ابتدائی خاکہ مرتب کرنے میں بڑی سہولت ہوئی ہو گی۔ ۸؍اکتوبر ۱۹۰۵ء کو انھوں نے خواجہ حسن نظامی کے نام کیمبرج سے دوسرا خط لکھا جس میں عجمی تصوف سے متعلق چند اہم سوالات دریافت کیے تھے۔۲۳؎ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اوائل اکتوبر میں وہ ٹرنٹی کالج کیمبرج میں داخل ہو گئے تھے۔/ لندن جیسے ہوش ربا شہر میں چند دن گزارنے کے بعد، وہاں کے پُر آشوب ہنگاموں سے دور، ایک حسین و پر سکون ماحول میں کیم ندی کے سر سبز کناروں پر آباد، یہ دو ہزار برس پرانا تاریخی شہر، یہ قدیم و جدید آثار و ادوار کا سنگم، یہ علم و ادب کا گہوارہ ، یہ شاعروں، عالموں، حکیموں اور شمع علم کے ہزاروں پروانوں کی بستی ---- کیمبرج ----- یقینا اقبال کے لیے ’’بے کلی کے / ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی تصنیف زندہ رُود (مطبوعہ ۱۹۷۹ئ) میں اس امر کی وضاحت کی ہے کہ کیمبرج یونی ورسٹی میں تعلیمی سال یکم اکتوبر سے شروع ہوتا ہے۔(ص ۱۱۲) اس سے ظاہر ہے کہ اقبال ستمبر کی آخری تاریخوں میں (۲۹-۳۰ تک) کیمبرج پہنچ گئے ہوں گے۔ لیکن موصوف نے اس دور کے دو معتبر راویوں (عطیہ بیگم اور شیخ عبدالقادر صاحب) کے ان بیانات سے اختلاف کا اظہار کیا ہے کہ اقبال نے کیمبرج یونی ورسٹی میں اپنا مقالہ (Development of Metaphysics in Persia) پیش کرکے بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی، اور بعد ازاں پروفیسر آرنلڈ کے مشورے سے اسی مقالے کو (قدرے ترمیم کے ساتھ)میونخ یونی ورسٹی میں پی ایچ ۔ ڈی کی ڈگری کے لیے پیش کیا۔ بلکہ یہ رائے ظاہر کی ہے کہ انھوں نے ’’کیمبرج میں رہائش اختیار کرنے کے فوراً بعد، اپنے مو ضوع تحقیق کے متعلق ضروری رجسٹریشن میونخ یونی ورسٹی میں کروا دی تھی‘‘(ص۱۱۲)۔ راقم الحروف کے ایک رفیق، حافظ زبیر احمد قریشی صاحب (استاد شعبۂ معاشیات، اسلامیہ یونی ورسٹی بہاول پور) اپنے تحقیقی کام کے سلسلے میں کیمبرج یونی ورسٹی گئے تو میں نے ان سے بذریعۂ خط یہ درخواست کی کہ مناسب ذرائع سے اس امر کی تحقیق فرما کر مجھے مطلع کریں۔ موصوف نے یونی ورسٹی آرکائیوز (Archives) کے ایک ذمہ دار افسر ڈاکٹر لیڈھم گرین (Dr. E. Leedham Green) کی وساطت سے مندرجہ ذیل معلومات بذریعۂ خط مورخہ ۳۱؍جولائی ۱۹۸۱ء کو فراہم کیں: (۱) کیمبرج یونی ورسٹی میں پی ایچ ۔ ڈی کی سطح پر تحقیقی کام کا سلسلہ ۱۹۲۱ء سے شروع ہوا۔ (۲) اقبال کو پوسٹ گریجویٹ سکالر کی حیثیت سے Special Regulation for Advanced Students کے تحت بی ۔ اے کے امتحان کے لیے مقالہ لکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔ (۳)۱۷؍مئی ۱۹۰۷ء کو سپیشل بورڈ آف مارل سائینسز نے اقبال کا مقالہ منظو ر کیا۔ (۴) جس کے نتیجے میں ۱۳؍جون ۱۹۰۸ء کو بی ۔ اے کی ڈگری عطا ہوئی تھی۔ ان امور کی تصدیق و توثیق، بعد میں سعید اختر درانی کے نتائج تحقیق کی اشاعت سے ہوئی بلکہ ۱۹؍جون ۱۹۸۲ء کو موصوف نے کیمبرج یونیورسٹی کے شعبۂ مخطوطات میں سے اقبال کے مقالے کے ٹائپ شدہ مسودے کو نکلوا کر دیکھا اور بڑی جد وجہد کے بعد ۸؍مارچ ۱۹۸۳ء کو مقالے کی مکمل عکسی نقل بھی حاصل کی۔ (اقبال یورپ میں، ص ۱۵۵) ۔ سمندر میں طمانیت کا جزیرہ ، ۲۴؎ ثابت ہوا ہو گا۔ کیم ندی کے مشرقی جانب، کیمبرج یونی ورسٹی اور اس کے ملحقہ کالجوں کا سلسلہ دور تک ، ندی کے کنارے کنارے پھیلا ہوا ہے۔ یہاں یونی ورسٹی کے دفاتر اور شعبہ جاتی عمارتوں کے علاوہ طلبہ کے اکیس اقامتی مراکز کی دالان در دالان عمارتیں ہیں، جنھیں کالج کہا جاتا ہے اور ہر کالج کو اس کے مخصوص نام سے پکارا جاتا ہے۔ ان کالجوں کی اپنی منفرد تعمیری خصوصیات، اپنی مخصوص روایات اور اپنی ایک جداگانہ فضا ہے۔ ہر کالج سے مختلف مشاہیر ادب اور اکابرِ علم و فن کی یادیں وابستہ ہیں۔ مثلاً ٹرنٹی کالج جہاں اقبال داخل ہوئے تھے، وہ کالج ہے جس نے ’’بیکن، سجوک، میک ٹیگرٹ اور وائٹ ہیڈ جیسے فلسفی۔ نیوٹن، گالٹن، جیمز کلارک، میکسویل اور رود فورڈ جیسے سائنسدان۔ ڈرائیڈن، بائرن، ٹینی سن، میکالے اور تھیگرے جیسے شاعر و ادیب پیدا کیے۔‘‘ ۲۵؎ ان میں سے کتنے ہی فلسفی اور شاعر ہیںجن کے افکار و اشعار سے اقبال اپنی طالب علمی کے زمانے میں مستفید و متاثر ہوئے۔ ان کالجوں میں سے دو، خواتین کے لیے مخصوص ہیں۔ اکیسواں اقامتی مرکز جو کالج کے بجائے ’’فٹز ولیم ہال‘‘ کہلاتا ہے، اُن طلبہ کے لیے مخصوص ہے جو صرف یونی ورسٹی میں داخل ہوتے ہیں، کالج میں داخلے کی استطاعت نہیں رکھتے اور کالج کے اتالیقوں کی رہنمائی سے محروم رہتے ہیں۔۲۶؎ یوں تو ہر کالج کی اپنی اپنی جداگانہ شان ہے، لیکن بعض کالج ممتاز شہرت کے حامل ہیں اور اکثر طلبہ ان میں داخلے کے آرزو مند رہتے ہیں۔ ’’ان ممتاز کالجوں میں اول نمبر عموماً ٹرنٹی کالج کا شمار ہوتا ہے۔‘‘۲۷؎ یہ کالج ہنری ہشتم شاہ انگلستان نے ۱۹۴۶ء میں قائم کیا تھا۔۲۷؎ ان کالجوں کے اپنے اپنے، خزائنِ علمی سے بھرپورکتب خانے ہیں۔ ٹرنٹی کالج کے کتب خانے کی عمارت ، جو سترھویں صدی میں تعمیر ہوئی تھی، کیمبرج کی بہترین عمارات میں شمار ہوتی ہے۔ اس کتب خانے کے نوادر میں سنگِ مرمر کے بہت سے بت (جن میں لارڈ ہائرن کا مشہور مجسمہ خاص اہمیت رکھتا ہے) اور کئی شعرا کی تصانیف اور مشہور نظموں کے مسودات (مثلاً ملٹن کی "Paradise Lost" اور ٹینی سن کی نظم "In Memorium" کے مسودے) محفوظ ہیں۔ یونی ورسٹی لائبریری کی شش منزلہ عمارت، طلبہ و محققین کی جنت ہے جہاں لاکھوں مطبوعات و مخطوطات کے علاوہ قارئین کے لیے تمام سہولتیں مہیا ہیں۔ کتب خانے کے حسنِ انتظام کی بدولت طلبہ کو ان خزائنِ علمی سے فیض یاب ہونے میں ذرا بھی دقّت پیش نہیں آتی۔/ یونی ورسٹی میں تدریس کا نظام بھی نہایت منضبط اور منفرد ہے۔ لیکچروں کا مضمون وار پروگرام قبل از وقت مرتّب ہو کر شائع ہو جاتا ہے۔ کسی لیکچر میں حاضری نہیں لی جاتی۔ طلبہ اپنے اپنے ذوق و طلب کے مطابق، جس لیکچر میں چاہیں شامل ہو جائیں۔ یہاں کے اساتذہ اپنے اپنے مضمون میں مصنف و محقّق، اور کسی نہ کسی شعبۂ علم و ادب میں اجتہاد و تخصّص کا درجہ رکھتے ہیں۔ یونی ورسٹی کے اساتذہ بیشتر وہ فضلا ہیں جو کبھی یہاں کے ممتاز طالب علم تھے۔ تحصیل علم کے بعداپنے ہی کالج میں ’’فیلو‘‘ کی حیثیت سے تحقیقی کام کرتے رہے اور پھر پروفیسر ہو گئے۔ تعلیم و تعلّم، مطالعہ و تحقیق کے سوا ان کی زندگی کا کوئی نصب العین نہیں ہوتا۔ وہ مثالی استاد ہیں، کیونکہ ہمیشہ طالب علم رہتے ہیں اور سچے طلبہ کی بڑی قدر کرتے ہیں۔ تبحرِ علمی کے ساتھ ’’ان کا عجز، ان کا انکسار، ان کی سادگی دیکھنے کے لائق ہوتی ہے…طلبہ کے ساتھ ان کا سلوک برادرانہ ہوتا ہے۔‘‘ ۲۸؎طلبہ سے ان کا رابطہ محض یونی ورسٹی کے لیکچر روم تک محدود نہیں رہتا بلکہ کالجوں میں ان کی قیام گاہیں ہیں، وہ علمی مجالس ہیں جہاں جوق در جوق طلبہ کے گروہ آتے ہیں اور اساتذہ سے مختلف مسائل علمی پر بے تکلف مذاکرے کرتے ہیں۔ پروفیسر ایم۔ایم۔ شریف نے جو اقبال کے بعد کیمبرج میں فلسفے کے طالب علم رہے، اقبال کے اساتذہ میں، میک ٹیگرٹ اور جیمس وارڈ کا خصوصیت سے ذکر کیا ہے۔۲۹؎ اس میں شک نہیں کہ اقبال نے وارڈ کے فلسفے سے نسبتاً زیادہ استفادہ کیا، لیکن ان کے ذاتی تعلقات میک ٹیگرٹ سے / کیمبرج یونی ورسٹی اور اقبال کے بارے میں پروفیسر حمید احمد خاں کے ایک مضمون (مطبوعہ ماہنامہ ہمایوں، فروری۱۹۵۳ء )اور شیخ عبدالقادر کے مبسوط مقالے ’’کیمبرج یونی ورسٹی‘‘ (مطبوعہ مخزن ، ستمبر ۱۹۰۷ء ) سے استفادہ کیا گیا ہے۔ لیکن ان میں کہیں بھی اقبال کی اصل قیام گاہ کا ذکر نہیں آیا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی تصنیف زندہ رُود میں سب سے پہلے اس پہلو پر روشنی ڈالی ہے کہ ’’چونکہ آپ پوسٹ گریجویٹوں یا ریسرچ سکالروں کے زمرے میں آتے تھے، اس لیے کالج کی عمارت کے اندر ہوسٹل میں ان کے لیے مقیم ہونا ضروری نہ تھا۔ لہٰذا کیمبرج میں اقبال کچھ مدت تو ۱۰ کیسل سٹریٹ پر ٹھہرے اور پھر ۹۰ ہنٹنگڈن روڈ پر سکونت اختیار کی۔‘‘ (ص ۱۱۲) بعد ازاں سعید اختر درانی نے ٹرینٹی کالج کے رجسٹر داخلہ (Admission Book) کے حوالے سے اس امر کی وضاحت کی ہے کہ اقبال کی پہلی اقامت گاہ ۱۷۔ پرتگال پلیس ہے۔ یہ مکان کالج کے بہت قریب ہے اور اسی پر ۱۹۷۸ء میں یاد گاری تختی نصب کی گئی ہے۔ (اقبال یورپ میں، ص ۵۳)۔ زیادہ گہرے تھے۔ پروفیسر میک ٹیگرٹ کی شخصیت خاصی پہلو دار اور پُر کشش تھی۔ وہ ہیگل کے فلسفے کے بہت بڑے شارح اور خود بھی ایک اہل الرائے فلسفی ہونے کے علاوہ ایک زندہ دل انسان، شعر و ادب کے رسیا اور اقبال کی طرح مطالعۂ کتب کے دلدادہ تھے۔ ۳۰؎ میک ٹیگرٹ کی وفات کے بعد اقبال نے اپنے استاد کی فلسفیانہ حیثیت کی وضاحت کے لیے جو مقالہ Mc. Taggert's Philosopy لکھا تھا، اس کی ابتدائی سطروں میں انھوں نے کیمبرج میں کانٹ اور ہیگل پر میک ٹیگرٹ کے خطبات سے بحیثیت طالب علم مستفید ہونے کا ذکر کیا ہے۔ ۳۱؎ آگے چل کر ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’میں تقریباً ہر روز ٹرنٹی کالج میں ان کے کمرے میں ملاقات کے لیے جایا کرتا تھا اور اکثر ہماری گفتگو گھوم پھر کر وجود باری تعالیٰ کے مسئلے پر آ ٹھہرتی۔ ان کی زبردست منطق میری زبان بند کر دیتی تھی، لیکن وہ مجھے کبھی اپنا ہم خیال بنانے میں کامیاب نہ ہوئے۔‘‘۳۲؎ فلسفے کے اساتذہ کے علاوہ، پروفیسر نکلسن، ڈاکٹر برائون اور دیگر علماے مستشرقین سے بھی ان کے روابط قائم ہوئے اور ان سب علما و اساتذہ کو انھوں نے اپنی ذہانت سے متاثر کیا۔ دوسری گول میز کانفرنس کے موقعے پر جب اقبال لندن میں تھے تو ’’اقبال لٹریری ایسوسی ایشن‘‘ کے زیر اہتمام ، ان کے اعزاز میں ایک جلسہ ہوا جس میں پروفیسر نکلسن نے تقریر کرتے ہوئے ، شاعر و فلسفی اقبال کے علاوہ، کیمبرج کے سکالر اقبال کے بارے میں بھی اپنے تاثرات بیان کیے تھے: ’’میں آج سے ۲۵ برس پیشتر ڈاکٹر اقبال سے کیمبرج میںملا تھا۔ طالب علمی کے زمانے میں کوئی شخص کسی نوجوان کے شاندار مستقبل اور آیندہ حاصل ہونے والی عزت و شہرت کا اندازہ نہیں کر سکتا۔ مگر ڈاکٹر اقبال کے متعلق اس وقت بھی یقین تھا کہ وہ بہت بڑے مرتبے پر پہنچیں گے۔ بقولِ سعدی: بالائے سرش ز ہوش مندی می تافت ستارئہ بلندی۳۳؎ کیمبرج میں جن علما کی صحبتیں انھیں میسر آئیں، ان میں شمس العلماء ڈاکٹر سید علی بلگرامی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں، جو مشرق و مغرب کی چودہ زبانوں کے ماہر، ۳۴؎’’تمدنِ ہند‘‘ اور ’’تمدنِ عرب‘‘ جیسی مستند علمی تصانیف کے کامیاب مترجم، محقق اور مصنف تھے۔ حیدر آباد دکن سے پنشن یاب ہو کر وہ ۱۹۰۲ء میں کیمبرج یونی ورسٹی میں مرہٹی زبان کے لیکچرر ہو گئے اور وہاں معہ اہل و عیال مقیم تھے۔ ان کی خوش گفتاری اور فضیلتِ علمی ، نیز بیگم بلگرامی کی مہمان نوازی کی بدولت، ان کا مکان ہندوستانی طلبہ کا مرجع و مرکز بنا ہوا تھا۔ اقبال کو حقے جیسی نعمت غیر مترقبہ بھی یہاں مہیا ہو گئی، کیونکہ بیگم بلگرامی خود اپنے شوق سے حقے کا اہتمام فرماتی تھیں۔۳۵؎ ڈاکٹر بلگرامی کے یہاں اقبال کی بے تکلف آمد و رفت رہتی تھی اور ان صحبتوں میں اکثر علمی مسائل اور تاریخِ اسلام کے موضوعات پر گفتگو ہوا کرتی تھی۔ اقبال، شعبۂ فلسفہ کے درسی خطبات میں شامل ہوتے تھے، لیکن ان کا بیشتر وقت اپنے تحقیقی مقالے کی تیاری اور مطالعے میں صرف ہوتا تھا۔ اس سلسلے میںلندن کے کتب خانوں سے استفادے کی غرض سے ، نیز بیرسٹری کے لیکچروں اور ’’لنکنس ان‘‘ کے ماہانہ ڈنر میں شرکت کے لیے انھیں اکثر لندن جانا پڑتا تھا، جہاں کبھی کبھی دو ایک ہفتے قیام رہتا تھا۔ ان تمام مصروفیات کے باوجود، ان کے علمی شغف کا یہ حال تھا کہ علم الاقتصاد کی تصنیف اور اورینٹل کالج لاہور میں اس مضمون کو تدریس کے ضمن میں ، انھوں نے معاشیات کا جو مطالعہ کیا تھا، اس کی تکمیل کے لیے وہ اساتذۂ کیمبرج کے لیکچروں میں بھی شریک ہونے لگے۔ ایک ملاقات میں ممتاز حسن مرحوم سے انھوں نے فرمایا تھا: ’’جب میں کیمبرج میں تھا تو فلسفے کے ساتھ ساتھ اس غرض سے معاشیات کا مطالعہ بھی کرتا تھا، اور اس موضوع پر لیکچر بھی سنا کرتا تھا کہ مسلسل فلسفہ پڑھنے اور سوچنے سے ذہن میں یک طرفہ پن پیدا نہ ہو اور طبیعت کا توازن قائم رہے۔‘‘ ۳۶؎ ممکن ہے انھوں نے اپنے ذہن و مزاج کا توازن برقرار رکھنے کے لیے معاشیات کی طرف توجہ کی ہو، لیکن ان لیکچروں سے انھیں یہ فائدہ بھی پہنچا کہ معاشی مسائل میں ان کی نظر زیادہ عمیق ہو گئی ، جس کا ثبوت اپریل ۱۹۰۶ء میں سودیشی تحریک سے متعلق ان کے اس حقیقت پسندانہ بیان سے ملتا ہے جو مئی ۱۹۰۶ء کے زمانہ کانپور میں شائع ہوا تھا۔ کیمبرج سے جب کبھی لندن جاتے تو اقبال کو اپنے احباب، خصوصاً شیخ عبدالقادر کے ساتھ وہاں کی علمی مجالس میں بھی شریک ہونے کا موقع ملتا تھا۔۳۷؎ وہ اپنی کم آمیزی کے باوجود، لندن اور کیمبرج کی ان دعوتوں ، چائے کی پارٹیوں اور تفریحی اجتماعات (پکنک پارٹیوں) میں ضرور شریک ہوتے تھے، جہاں اہل علم کی صحبتیں میسر آتی تھیں، اور اس طرح یہ تقریباً بے تکلف علمی مذاکروں کا رنگ اختیار کر لیتی تھیں۔ اقبال ان مذاکروں میں بڑی دلچسپی اور سرگرمی سے حصہ لیتے تھے۔ لندن میں مس اے۔ جی۔ بیک کے مکان پر ہندوستانی طلبہ اور مقامی دانشوروں کے اجتماعات ہوتے تھے۔ مس بیک جو نیشنل انڈین ایسوسی ایشن کی آنریری سیکرٹری تھیں، اپنے بھائی مسٹر تھیوڈور بیک، سابق پرنسپل علی گڑھ کالج کے تعلق کی بنا پر ، ہندوستانی طلبہ کے مسائل میں خاص دلچسپی رکھتی تھیں۔۳۸؎ اور بقول عطیہ بیگم، ’’ان سے مادر مشفق کا سا برتائو کرتی تھیں۔‘‘۳۹؎ پروفیسر آرنلڈ بھی اقبال کے پاسِ خاطر سے ایسی مخصوص تقریبات کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔کیمبرج میں ڈاکٹر سید علی بلگرامی کے یہاں اکثر علمی مجالس برپا ہوتی تھیں۔ عطیہ بیگم نے ایسی بعض محفلوں کا ذکر اپنی کتاب میں کیا ہے۔ مثلاً جب بلگرامی کی طرف سے عطیہ فیضی کو مدعو کرنے کے لیے، اقبال لندن آئے تو مس بیک نے ملاقات کی ایک تقریب پیدا کی۔ یکم اپریل ۱۹۰۷ء کی اس صحبت میں مشرقی ادبیات، بالخصوص حافظ اور بابا فغانی کا کلام موضوعِ گفتگو رہا۔۴۰؎ چند روز بعد اقبال نے فراسکیٹس (Frascatis) نامی ریستوران میں، عطیہ کو چند جرمن فضلا سے ملاقات کے لیے، جن کے ساتھ وہ کام کر رہے تھے،ڈنر پر مدعو کیا۔ اس صحبت میں گہرے فلسفیانہ مسائل پر گفتگو ہوتی رہی۔۴۱؎ ۱۵؍اپریل کو عطیہ بیگم نے چائے کی دعوت میں اقبال کے علاوہ، اپنی چند فاضل دوستوں کو مدعو کیا جو لندن میں زبان اور فلسفے کی ممتاز و معروف طالبات تھیں۔ ’’فضا میں شروع سے آخر تک علمی پھلجھڑیاں چھٹتی رہیں۔‘‘۴۱؎ اس مرتبہ لندن میں اقبال تین ہفتے مقیم رہے۔ اب وہ کیمبرج میں اپنا تحقیقی کام مکمل کرکے ایک نئی منزل کی طرف گام زن تھے۔ عطیہ قدیم و جدید فلسفے میں اپنا نصابِ تعلیم مکمل کر چکی تھیں۔۴۲؎ لندن کی ان ابتدائی ملاقاتوں میں افلاطون اور نطشے کا فلسفہ اکثر زیرِ بحث رہا۔ بعض اختلافی مسائل پر کیمبرج سے بذریعہ مراسلت بحث کا سلسلہ جاری رہا۔۴۲؎ ۲۲؍ اپریل کو اقبال ، شیخ عبدالقادر اور عطیہ،لندن سے کیمبرج پہنچے اور بلگرامی کی دعوت میں شریک ہوئے۔ یہاں ہندوستانی طلبہ کے علاوہ کیمبرج کے فضلا بھی جمع تھے۔ یہ دن بلگرامیوں کے یہاں مدعوئین کے درمیان تابناک گفتگو اور عالمانہ مباحث میں گزرا۔۴۳؎ کیمبرج میں اس قسم کی آخری تقریب یکم جون ۱۹۰۷ء کو وہ ’’پکنک پارٹی‘‘ تھی، جس کا اہتمام پروفیسر آرنلڈ نے کیا تھا۔ کیم ندی کے کنارے، ایک درخت کے نیچے طلبہ اور نامور فضلا کی مجلس آراستہ ہوئی۔ کچھ دیر عام مسائل پر باتیں ہوتی رہیں۔ پھر آرنلڈ نے گفتگو کا رخ موت و حیات کے فلسفیانہ مسئلے کی طرف موڑ دیا۔ سب نے اپنا اپنا نقطۂ نظر پیش کیا۔ اقبال کیمبرج کو خیرباد کہنے والے تھے، اور شاید اسی لیے خلاف معمول خاموش اور کچھ مضمحل تھے۔ آرنلڈ نے موضوع بحث کے بارے میں اقبال کی رائے پوچھی تو یہ مختصر سا جملہ کہا اور اسی پر بحث کا خاتمہ ہو گیا:’’زندگی موت کی شروعات ہے اور موت زندگی کی۔‘‘۴۴؎ اقبال اپنا مقالہ کیمبرج یونی ورسٹی میں بی ۔ اے کی ڈگری کے لیے پیش کر چکے تھے۔ پروفیسر آرنلڈ نے ان کے تحقیقی کام کو بہت پسند کیا اور انھیں مشورہ دیا کہ میونخ یونی ورسٹی میں اپنا مقالہ پیش کرکے پی ایچ ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کی کوشش کریں۔۴۴؎ میونخ یونی ورسٹی کی طرف سے اقبال کو یونی ورسٹی میں سہ سالہ اقامت سے مستثنیٰ کر دیا گیا، نیز انھیں جرمن یا لاطینی زبان کے بجائے انگریزی ہی میں اپنا مقالہ پیش کرنے کی اجازت بھی مل گئی۔۴۵؎ لیکن اس مقصد کے لیے کم از کم تین ماہ تک جرمنی میں قیام اور جرمن زبان میں انٹرویو دے کر اپنی اہلیت کا ثبوت پیش کرنا ضروری تھا۔۴۶؎ چنانچہ اقبال نے جرمن سیکھنی شروع کر دی، اور اوائل جون میں جب وہ لندن آ گئے تو انھوں نے جرمن بول چال میں مہارت حاصل کرنے کی غرض سے ایک جرمن خاتون، مس شولی کے یہاں اپنے قیام کا انتظام کیا، اور بقول عطیہ امتحاناً یا بطور مشق جرمن زبان میں، جرمنی کے بعض فضلا کی مدد سے تاریخ عالم کے موضوع پر ایک مقالہ لکھنے لگے۔ لیکن مباحثوں اور مذاکروں کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔ ۱۰؍جون کو وہ ایک جرمن پروفیسر کے ساتھ، فلسفے پر چندجرمن اور عربی کتابیں لے کر عطیہ کے پاس آئے اور کسی متنازع فیہ مسئلے پر ان کتابوں کے حوالے سے بحث چھیڑ دی۔ دورانِ گفتگو میں حافظ کے اشعار بھی سناتے جاتے۔ مسلسل تین گھنٹے تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس قیل و قال کے جواز میں انھوں نے کہا کہ ’’اس طریقے سے پڑھنے اور بحث و مباحثہ کرنے سے میرے خیالات میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔‘‘۴۷؎ ۲۷؍جون کو اقبال نے مس شولی کے یہاں ایک خاص تقریب پیدا کی، جس کا مقصد یہ تھا کہ عطیہ کو اپنا (کیمبرج کا) مقالہ پڑھ کر سنائیں اور ان کی تنقید سے مستفید ہوں۔ چنانچہ پورا مقالہ سنایا اور عطیہ کے تبصرے کی نکات نوٹ کر لیے۔۴۸؎ ۴؍جولائی ۱۹۰۷ء تک اقبال جرمن زبان میں اپنا مقالہ (تاریخ عالم) مکمل کر چکے تھے۔ سارا مسودہ عطیہ کو پڑھ کر سنایا اور تاریخی واقعات و حقائق کے بارے میں اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کی۔ عطیہ بیگم لکھتی ہیں: ’’وہ علم کے مخزن تھے اور ان کی یاد داشت حیرت انگیز طریقے پر قوی تھی، جس کا اندازہ ان واقعات سے ہو سکتا ہے جو انھوں نے اپنی اس کتاب (تاریخی مقالے) میں جمع کیے تھے۔‘‘۴۹؎ ۱۳، ۱۴ اور ۱۵؍ جولائی کو روزانہ دو گھنٹے عطیہ کے ساتھ مطالعۂ فلسفہ کے لیے مقرر ہوئے۔ جرمنی کے ایک فاضل، ڈاکٹر ہر شیک کنٹ(Professor Herr Schaccent) بحث و مطالعہ میں شریک رہے۔ یہ تینوں فضلا انتہائی ذوق و شوق سے جرمن شاعری اور فلسفے پر بحث کرتے۔۵۰؎ اقبال نے اس سہ روزہ نشست کے خاتمے پر اپنی اس رائے کا عادہ کیا کہ دوسروں سے بحث کرنے سے خیالات کی ایک نئی دنیا منکشف ہوتی ہے۔۵۰؎ ان اسباق اور مباحثوں کے دوران میں عطیہ نے محسوس کیا کہ ’’اقبال اپنے افکارِ عالیہ میں جرمن فلسفہ اور شاعری کی طرف زیادہ مائل ہیں۔‘‘۵۱؎ ۱۷؍جولائی ۱۹۰۷ء کو وہ لندن سے روانہ ہو کر جرمنی پہنچ گئے۔ (۳) جرمنی میں قیام جرمنی میں اقبال نے سب سے پہلے میونخ پہنچ کر یونی ورسٹی میں حاضری دی۔ یہ خوش منظر مقام اقبال کو بہت پسند آیا، جسے وہ ’’تخیل کے سمندر میں نہایا ہوا جزیرۂ بہجت و مسرت‘‘ کہتے تھے۔ یہاں پروفیسر ران (Rann) / کی حسین و نوجوان بیٹی فرائو لائن ران (fraulein Rann) اقبال کی اتالیق مقرر ہوئی،جس کے تبحر علمی پر عطیہ بیگم نے بڑی حیرت کا اظہار کیا ہے۔ میونخ میں ابتدائی ہدایات و رہنمائی حاصل کرنے کے بعد، اقبال جرمن زبان سیکھنے اور ضمناً جرمن ادب و ثقافت اور جرمن فلسفے میں اعلیٰ تربیت حاصل کرنے کے لیے ہائیڈل برگ آ گئے اور ان کے قیام جرمنی کا پیشتر زمانہ یہیں گزرا۔ ہائیڈل برگ کا قدیم تاریخی شہر، دریائے نیکر کے کنارے، سر سبز پہاڑوں، حسین وادیوں، قدرتی آبشاروں، جھیلوں اور باغوں کے درمیان اس جگہ آباد ہے جہاں نیکر ’’پہاڑی باغات اور سر سبز چوٹیوں کو چیرتا ، آبشاریں بناتا، رائن کے میدانی علاقے میں داخل ہوتا ہے۔‘‘۵۳؎ حسنِ فطرت کا یہ شاہکار مغربی یورپ میں ’’سیاحوں کی جنت‘‘ سمجھا جاتا ہے۔۵۳؎ یہاں ازمنۂ وسطیٰ کی تاریخی یاد گاریں بھی سیاحوں کے لیے باعث کشش ہیں۔ ان آثارِ قدیمہ میں باغات و محلات کے علاوہ، وہ شاہی قلعہ خاص طورقابلِ ذکر ہے جس کی تعمیر نو کا آغاز پندرھویں صدی میں ہوا تھا اور سولھویں صدی میں فریڈرک پنجم کی نئی تعمیرات سے مزین و مکمل ہوا۔ فرانس کے شہنشاہ لوئی چہار دہم کے حملے سے شہر کی قدیم عمارات مسمار ہو گئیں اور سولھویں صدی کی صرف ایک عمارت (Renaissance House) باقی بچی جو اب تک ’’ہوٹل زم رٹر‘‘ / ایماویگے ناست کے نام اپنے تیسرے خط میں اقبال نے غالباً انھی کا ذکر کیا ہے لیکن وہاں اُس نام کی املا یوں ہے: Reiner (اقبال یورپ میں، ص ۱۱۱)۔ (Zum Ritter) کی صورت میں موجود ہے۔ اب بھی شہر کی بیشتر عمارات اٹھارویں صدی کی تعمیر شدہ ہیں۔ اقبال جس ہوسٹل میں رہتے تھے، وہ شہر کے ایک خوش منظر ماحول اور خوش حال علاقے میں دریائے نیکر کے دائیں کنارے پر، پل کے قریب واقع ہے۔ اس کا قدیم احاطہ اور بیرونی حصے اب تک محفوظ ہیں، اگرچہ اندر سے عمارت کی ہیئت تبدیل ہو چکی ہے۔۵۳؎ ہائیڈل برگ یونی ورسٹی بھی صدیوں قدیم ہے۔ اس کے کتب خانے میں یونانی، رومی اور اسلامی عہد کے متعدد قلمی نسخے اور نوادر محفوظ ہیں۔ ان میں سے بعض عربی، فارسی اور سنسکرت کے نادر نسخوں کی تدوین و ترتیب و اشاعت کا کام فاضل مستشرقین کے ہاتھوں مدت دراز سے جاری ہے۔ بقول عطیہ بیگم، ہائیڈل برگ میں تشنگانِ علم کے لیے ہر قسم کی سہولت میسر ہے۔ ’’یہاں دنیا کے ہر معلومہ علم کا جوہر نکھری ہوئی حالت میں ملتا تھا اور اس تک علم کے شیدائی کی رسائی آسانی ے ہو سکتی تھی۔‘‘۵۴؎ اس لحاظ سے یہ مقام طالبانِ علم و حکمت کی زیارت گاہ کی حیثیت رکھتا تھا۔/ اقبال کے ہوسٹل ( لسانی درسگاہ) کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ یہاں اساتذہ اور طلبہ کے درمیان مساوی سطح پر مخلصانہ روابط قائم تھے۔ درسی خطبات (لیکچرز) کے خاتمے پر لیکچر / ہائیڈل برگ شہر، اور یونی ورسٹی کے بارے میں مندرجہ بالا معلومات ایک مختصر سفر نامے سے ماخوذ ہیں۔ بعد ازیں اقبال کے ہوسٹل کے بارے میں تمام باتیں عطیہ فیضی کی کتاب کے حوالے سے بیان کی گئی ہیں۔ لیکن عطیہ کے بیانات اس مفروضے پر مبنی ہیں کہ اقبال ہائیڈل برگ یونی ورسٹی کے طالب علم کی حیثیت سے قیام پذیر تھے۔ سعید اختر درانی صاحب نے اپنے مقالات کا جو مجموعہ اقبال یورپ میں کے نام سے شائع کیا ہے ، اس میں دیگر امور سے متعلق جدید تحقیقی معلومات کے علاوہ اس بارے میں بھی جابجا مختلف اشارات و بیانات موجود ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ اقبال کی اقامت گاہ ’’شیرر منزل‘‘ (Pension Scherrer) ایک سہ منزلہ مکان ہے ، جس کے پہلو میں ایک مستزاد عمارت (Annex) ہے جو اقبال کے زمانے میں طلبہ کے ہوسٹل کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ اس صدی کے اوائل میں یہ مکان ہائیڈل برگ یونی ورسٹی کے ایک استاد، پروفیسر شیرر کی ملکیت تھا۔ یہ مہمان خانہ ایک لسانی در گاہ تھی جس کی نگران بیگن شیرر تھیں۔ (دیباچہ، ص (XX VIII-IX ایماویگے ناسٹ کے نام اپنے ایک خط میں اقبال نے اسے ’’ہائیڈل برگ سکول‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔ دراصل یہ اقامت گاہ جرمن سیکھنے والے غیر ملکی طلبہ کے لیے مخصوص تھی اور یہاں جرمن زبان کی تدریس کا خاص اہتمام کیا گیا تھا۔ اس زمانے میں طلبہ کے لیے اس قسم کے مہمان خانے جرمنی کے یونی ورسٹی شہروں میں عام طور پر مقبول تھے۔ (ص۹۴، ۹۵) ۱۶؍ستمبر ۱۹۱۶ء کو حکومتِ جرمنی نے یہاں علامہ اقبال کے نام کی یادگاری تختی نصب کر دی تھی۔ (ص۷۲)۔ روم کے باہر، کھلی فضا میں تعلیم و تفریح کا ایک خوش گوار دور شروع ہوتا تھا۔ رسمی تکلفات سے بے نیاز اساتذہ تمام مشاغل میں اس طرح گھل مل کر اپنے شاگردوں کا ساتھ دیتے کہ ان کے درمیان امتیاز کرنا مشکل ہوتا۔ انھی مشاغل و تفریحات کے دوران میں، جب طلبہ کے گروہ، علمی مذاکرے کے لیے ایک جگہ جمع ہوتے اور ان میں سے ایک صاحب طرح طرح کے سوالات پوچھنے لگتے یا دقیق فلسفیانہ مسائل کی گتھیاںسلجھاتے، تب ان کی استادانہ حیثیت نمایاں ہوتی تھی۔ یہ ہوسٹل جہاں ایک سو طلبہ و اساتذہ کی اقامت کا انتظام تھا ،ستر سال کی ایک محترم و لائق خاتون (مسز شیرر) کی نگرانی میں تھا۔ یہاں بھی ایک ’’منظم و مہذب گھر‘‘ کا سا ماحول تھا جس میں طالب علم اور پروفیسر ہر شعبے میں سیکھتے اور سکھاتے۔ ۵۵؎ ہائیڈل برگ میں دو خاتون پروفیسر اقبال کی اتالیق تھیں: فرائولائن ویگے ناست اور فرائو (: مسز) سینے شل (Frau Seneshal) ۔ یہ دونوں قدیم و جدید فلسفے میں اپنے علمی تخصص کے علاوہ، مغرب کی کئی زبانوں میں ماہر اور بقول عطیہ بیگم ’’بحر العلوم‘‘/ تھیں۔۵۶؎ تدریسی کام ختم / مس ایما ویگے ناست کو اقبال کی تدریس و تربیت میں جو خاص اہمیت حاصل تھی، اس کا اندازہ عطیہ بیگم کے عمومی و سرسری پیرایۂ بیان سے نہیںہوتا۔ ایما، جرمن زبان کی تدریس کے سلسلے میں اقبال کی اقامت گاہ (شیرر منزل) سے بحیثیت ٹیوٹر منسلک تھیں۔ اقبال کو جرمن زبان سکھانے کے علاوہ انھوں نے اس زبان کے ادبی شہ پاروں کے مطالعے میں بھی اقبال کی رہنمائی کی۔ عطیہ بیگم نے مسز سینے شل کو بھی اقبال کی اتالیق ظاہر کیا ہے، لیکن مس ایما کے نام اقبال کے ۲۷ نو دریافت خطوط میں جہاں میونخ اور ہائیڈل برگ کے مختلف اساتذہ کو یاد کیا گیا ہے، وہاں فرائو سینے شل کا ضمناً و رسماً بھی کہیں ذکر نہیں آیا۔ دراصل ایما ویگے ناست نہ صرف اقبال کی ٹیوٹر تھیں، بلکہ ایما کی شخصیت سے بھی وہ بے حد متاثر ہوئے، جس کا ذکر آگے آئے گا۔ ڈاکٹر اکرام چغتائی کے ایک مضمون کے حوالے سے ایما کے مختصر حالات درج ذیل ہیں: مس ایما ویگے ناست کی ولادت، ۲۶؍اگست ۱۸۷۹ء کو جرمنی کے ایک چھوٹے قدیم شہر ہائیل برون میں ہوئی، جو ہائیڈل برگ سے اسی کیلو میٹر دور، دریائے نیکر کے کنارے آباد ہے۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر میں مکمل کرنے کے بعد، ہائیڈل برگ یونی ورسٹی میں ادب و فلسفہ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں وہ اقامت خانۂ شیرر سے منسلک ہو کر غیر ملکی طلبہ کو جرمن زبان پڑھانے لگیں۔ اوائل اکتوبر ۱۹۰۷ء میں اقبال ہائیڈل برگ سے میونخ روانہ ہوئے۔ اس کے بعد ایما بھی اپنے آبائی شہر ہائیل برون چلی گئیں اور وہیں اپنے والدین کے ساتھ رہنے لگیں۔ گاہے گاہے ہائیڈل برگ آتی رہتی تھیں۔ ۱۹۱۳ء میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ جنگ عظیم شروع ہونے کے بعد ۱۹۱۴ء میں وہ ہائیڈل برگ (بقیہ حاشیہ اگلے صفحے پر) ہونے کے بعد، عموماً طلبہ کے حلقے نیکر ندی کے کنارے کسی کافی ہائوس میں بیٹھ جاتے اور اپنے پروفیسروں کے ساتھ کسی موضوع پر مذاکرہ شروع کر دیئے یا قریب کی اس قلعے والی پہاڑی کی چوٹی پر پہنچ جاتے جہاں سے وادیِ نیکر کا بہترین منظر نظر آتا تھا۔ یہاں فلسفیانہ مباحث کے علاوہ، ان صدیوں پرانی یادگاروں کے حوالے سے تاریخِ یورپ پر بھی گفتگو چھڑ جاتی تھی۔ ہائیڈل برگ کے قریب ایسے کئی خوش منظر تاریخی مقامات، باغات اور سیر گاہیں تھیں، جہاں ہفتے عشرے کے بعد طلبہ و اساتذہ کے گروہ اپنے تعلیمی تفریحی دوروں کے سلسلے میں ٹرین کے ذریعے جایا کرتے تھے۔ عطیہ بیگم کی موجودگی میں جن مقامات کی سیر ہوئی، ان میں سے بعض کا انھوں نے خصوصیت سے ذکر کیا ہے ۔ مثلاً ۲۳؍اگست ۱۹۰۷ء کا دن ایک غیر معمولی سیر (Excursion) کے لیے رکھا گیا’’جس کا مقصد خالصتاً تعلیمی تھا۔‘‘۵۷؎ اس تفریحی دورے کی رہنمائی اقبال کو تفویض ہوئی، یعنی ان پر یہ فرض عائد ہوا کہ راستے میں جو مقامات آئیں، ان کے تاریخی پس منظر پر وہ روشنی ڈالتے جائیں، اور جہاں تاریخی حقائق کی تفسیر و تعبیر میں کوئی غلطی ہو، اس کی اصلاح دوسرے طلبہ یا اساتذہ کر دیں۔ ہر جگہ نو بہ نو تاریخی واقعات و نکات بیان کیے گئے۔ اس دورے کے اگلے دن ، سوال و جواب کے لیے ایک نشست رکھی گئی۔ اس دن بہت سے عجیب و غریب اور پیچیدہ سوالات پوچھے گئے۔۵۷؎ ۲۵؍اگست کو ایک قدیم شاہی باغ ---- ’’باغ فردوس‘‘ کی سیر کا پروگرام بنا۔ ۲۶؍اگست کو ہوسٹل کی نگران کی رہنمائی میں سو طلبہ وطالبات کی جماعت، ٹرین کے ذریعے، ایک پہاڑی گائوں میں لوک ناچ کا سالانہ جشن دیکھنے گئی۔ سب کو مضمون لکھنے اور تصویریں بنانے کی ہدایت کی گئی تھی۔ واپسی کے بعد مضامین اور تصاویر کا جائزہ لیا گیا۔ اقبال سے پوچھا گیا تو برجستہ جواب دیا: ’’چونکہ میں جج ہوں … میں اگر لکھتا تو حَکَم نہیں بن سکتا تھا، اس لیے دوسروں کو موقع دیا۔‘‘ ۵۹؎ ۲۷؍اگست کو اقبال کی رہنمائی میں ایک جماعت میونخ کی سیر کے لیے گئی۔ یہاں تاریخی مقامات کی سیر کے دوران میں ’’اقبال قدم (حاشیہ صفحۂ گزشتہ) منتقل ہو گئیں۔ کچھ عرصے کے بعد ان کی بڑی بہن صوفی (Sofie) بھی ان کے پاس چلی آئیں۔ ۱۵؍جون ۱۹۲۰ء کو ایما نے ہائیڈل برگ یونی ورسٹی کلینگ میں بطورکیمسٹ ملازمت اختیار کی اور تقریباً ۲۷ سال بعد ۲۱ ؍نومبر ۱۹۴۷ء کو بعمر ۶۸ سال ریٹائر ہوئیں۔ ۱۹۵۶ء سے انھیں بڑھاپے کا الائونس ملنا شروع ہوا۔ ۱۶؍اکتوبر ۱۹۶۴ء کو ۸۵ سال کی عمر میں وفات پائی اور اپنے آبائی شیر ہائیل برون میں مدفون ہوئیں۔ (نوائے وقت میگزین ، ۹؍نومبر ۱۹۸۴ء ، ص ۷)۔] قدم پر دلچسپ واقعات اور مشاہیر کے کارنامے بیان کرتے چلے جاتے تھے۔‘‘۵۹؎ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نے عطیہ کو مغربی حکما سے متعارف کرانے کے لیے درسیات کا ایک سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ جب ایک باغ میں پہنچے تو کتابیں نکالیں اور کہا کہ ’’اسپینوزا تو ختم ہوا، آج آپ کو لیبنز کا نقطۂ نظر سمجھایا جائے گا۔‘‘ چنانچہ شام کو دو ڈھائی گھنٹے تک فلسفے کا درس جاری رہا۔۶۰؎ ۲۸؍اگست کو میونخ کے قدیم و جدید قومی میوزیم،محلات، باغات، پکچر گیلریوں وغیرہ، وغیرہ کی سیر ہوئی۔ شام کو پروفیسر ران کے مکان پر گئے جہاں فاضل خاتون پروفیسر ، فرائو لائن ران نے امتحاناً اقبال سے بہت سے سوالات پوچھے۔ تین گھنٹے کی یہ گفتگو ’’دماغ و قلب کو منور کرنے والی تھی۔‘‘۶۱؎ ۲۹؍اگست کو اقبال نے نواح شہر کی سیر کرائی اور مختلف مقامات کی تاریخ بھی بیان کی۔ ایک کتب خانے میں چند قدیم عربی مخطوطات دکھائے، جن سے اقبال نے استفادہ کیا تھا، اور پھر اسی روز ہائیڈل برگ واپس آ گئے۔ سٹیشن پر بہت سے رفقا پھولوں کے ہار لے کر آئے تھے۔ سینے شل، عطیہ کے لیے گلاب کے پھول لائی تھیں۔ اقبال نے کہا ’’گلاب کا پودا گلاب ہی دیتا ہے!‘‘ ۳۰؍اگست کو کشتی رانی کا مقابلہ ہوا، جس میں ہر ایک نے حصہ لیا۔ اقبال سب سے پیچھے رہ گئے۔ اس دلچسپ مقابلے کے بعد شام کو تین گھنٹے تک مذاکرے کی نشست رہی۔ ’’ان تین گھنٹوں میں ساری دنیا گھنگال ڈالی۔‘‘۶۲؎ ۳۱؍اگست کا دن شلوس نیکر بائن سٹائن (Schloss Neckerbein Stein) کی سیر کے لیے مخصوص تھا۔ اسّی طلبہ و اساتذہ کی جماعت ٹرین میں وادیِ نیکر کے مناظر دیکھتی ہوئی اُس مقام پر پہنچی جو ایک بڑی بلند پہاڑی پر واقع تھا۔ یہاں قدیم زمانے کا کوئی شاہی قلعہ (Schloss) تھا ، جس کے چاروں طرف ایک مشہور اور طویل و عریض باغِ اثمار تھا، جہاں ہر علاقے کے گونا گوں پھلوں کے درخت خاص اہتمام سے لگائے گئے تھے۔ باغ کے درمیان سے ایک چھوٹی سی ندی آبشار بناتی گزرتی تھی۔ سب لوگ بے روک ٹوک پھولوں اور پھلوں سے لطف اندوز ہوتے اور ایک گھرانے کے افراد کی طرح مل جل کر جشن مسرت مناتے رہے، لیکن ’’اس تفریح کے ساتھ نئی نئی باتیں سیکھنے اور دقیق سوالات کا جواب دینے کی وجہ سے اس ظاہری تفریح و تفنن کا معیار بہت بلند رہا۔ ‘‘۶۳؎ ایسے تمام موقعوں پر سوال و جواب کے دوران میں، جب پروفیسر ویگے ناست یا سینے شل یونانی، جرمنی یا فرانسیسی فلسفے کے کسی دقیق مسئلے کی وضاحت کرنے لگتیں، تو اقبال بڑی توجہ اور طالب علمانہ انکسار کے ساتھ ان کی باتیں سنتے تھے۔ عطیہ بیگم لکھتی ہیں: ’’ وہ سننے میں اس قدر محو ہو جایا کرتے تھے، کہ جب سبق ختم ہو جاتا تھا تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ …گرد و پیش کی خاموشی سے بھی سبق حاصل کر رہے ہیں… معلوم ہوتا تھا کہ جرمنی ان کی رگ و پے میں سرایت کر گیا ہے، اور وہ ان تمام درختوں سے جن کے پاس سے وہ گزرتے تھے، اور اس گھاس سے جس پر وہ چلتے تھے، علم کی خوشہ چینی کر رہے ہیں۔‘‘۶۴؎ اقبال کے قیامِ ہائیڈل برگ کے زمانے میں، جولائی سے اکتوبر تک یہاں کا معتدل اور خوش گوار موسم تفریحی و تعلیمی دوروں کے لیے زیادہ موزوں تھا، لہٰذا اقبال کو اس انوکھے اور دلچسپ طرزِ تعلیم و تربیت سے مستفید ہونے کا خاصا موقع مل گیا۔ عطیہ بیگم کی آمد کے بعد ان بزم آرائیوں میں تفریح کا عنصر شاید معمول سے زیادہ بڑھ گیا تھا، تاہم سیر و تفریح کے یہ پروگرام بھی نہایت سبق آموز ہوتے تھے۔ الغرض ہائیڈل برگ کے مختصر سہ ماہہ قیام کے زمانے میں، یہاں کے مخصوص طرزِ تعلیم اور بے تکلف مجلسوں اور مذاکروں میں آزادانہ بحث و تمحیص سے اقبال نے مغربی ادب و فلسفہ اور مغرب کی تاریخ و تہذیب و سیاست کے بارے میں جو کچھ سیکھا اور سمجھا، وہ شاید برسوں کے مطالعے کے بعد بھی ممکن نہ ہوتا۔ جرمنی جانے سے پہلے انھوں نے عطیہ بیگم سے کہا تھا: ’’اگر تم علم کے کسی شعبے میں اپنی معلومات بڑھانا چاہو تو تمھارا منتہائے نظر جرمنی ہونا چاہیے۔‘‘۶۵؎ نہ معلوم عطیہ نے علم و بصیرت اور فکر و نظر میں توسیع کے ان عظیم امکانات سے ، جو جرمنی میں میسر تھے، کس حد تک فائدہ اٹھایا، لیکن جرمنی سے اقبال کا حسنِ ظن خود ان کے حق میں صحیح ثابت ہوا۔ غالباً اکتوبر کے آخری ہفتے میں پی ایچ ۔ ڈی کا زبانی امتحان جرمن زبان میں ہوا۔/ ۴؍نومبر ۱۹۰۷ء کو میونخ یونی ورسٹی سے ان کو پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری مل گئی۶۶؎ اور وہ لندن آ گئے۔ / اقبال نے مس ایما ویگے ناست کے خط کے جواب میں میونخ سے پہلا خط ۱۶؍اکتوبر ۱۹۰۷ء کو لکھا تھا۔ (اقبال، یورپ میں، ص ۱۰۹) اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اکتوبر کے اوائل میں (۱۰؍اکتوبر سے پہلے)میونخ پہنچ گئے ہوں گے۔ ایما کے نام میونخ سے آخری خط ۲۷؍اکتوبر کو لکھا جس میں ۲۶ کو ایک فنی نمائش دیکھنے (غالباً میونخ آرٹ گیلری کی سیر۔ ایضاً ص ۱۱۰)کا تفصیل سے ذکر ہے۔ خط میں زبانی امتحان کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں۔ اس خط کے اندازِ تحریر سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ زبانی امتحان کئی دن بعد، غالباً ۴؍نومبر ۱۹۰۷ء کو ہو ا ہو گا۔ پی ایچ ۔ڈی کی ڈگری پر یہی تاریخ درج ہے۔ اقبال کا بیان ہے کہ انھیں۵؍نومبر کو لندن پہنچنا اس لیے ضروری تھا کہ پروفیسر آرنلڈ کی جگہ عربی پروفیسر کے فرائض انجام دے سکیں۔ (ایضاً ،ص ۱۱۴)۔ (۴) لندن میں آخری ایام اقبال کو لندن پہنچ کر اپنی تمام تر توجہ بیرسٹری کے امتحان کی تیاری میں صرف کرنی تھی،جس کے لیے بہت کم وقت رہ گیا تھا۔ لیکن پروفیسر آرنلڈ کی مشفقانہ نوازشات کا سلسلہ برابر جاری تھا۔ موصوف نے، جو اُن دنوں لندن یونی ورسٹی میں عربی کے پروفیسر تھے، چھ ماہ کی طویل رخصت لی اور اپنی جگہ عارضی تقرر کے لیے ڈاکٹر اقبال کا نام تجویز کیا۔ آرنلڈ کی سفارش پر شاگرد کو استاد کی جانشینی کا موقع مل گیا۔/ شعبۂ عربی میں تدریسی خدمات کے علاوہ ، اقبال نے اسی دوران میں اسلامی موضوعات پر چھ خطبات کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ ۱۰؍فروری ۱۹۰۸ء کو خواجہ حسن نظامی کے نام اپنے خط میں لکھتے ہیں: ’’ایک لیکچر ہو چکا ہے۔ دوسرا اسلامی تصوف پر فروری کے تیسرے ہفتے میں ہو گا۔ باقی لیکچروں کے معانی یہ ہوں گے: مسلمانوں کا اثر تہذیب نو پر، اسلامی جمہوریت، اسلام اور عقل انسانی وغیرہ۔‘‘۶۷؎ انور بیگ صاحب، مصنف شاعر مشرق (The Poet of the East)نے اقبال کے پہلے لیکچر کا موضوع ’’مذہب اسلام کے بعض پہلو‘‘ (Certain Aspects of Islam) بیان کیا ہے۔ اس بارے میں جو دیگر تفصیلات درج کی ہیں، ان کے مطابق یہ لیکچر ’’پان اسلامک سوسائٹی‘‘ کے زیرِ اہتمام کیکسٹن ہال (Caxton Hall) میں ہوا تھا۔ سامعین اس لیکچر سے بہت متاثر ہوئے۔ دوسرے دن لندن کے تمام اخبارات میں لیکچر کے مفصل اقتباسات شائع ہوئے۔۶۸؎ پان اسلامک سوسائٹی، ابتداء انجمن اسلامی کے نام سے مسلمان طلبہ کو مختلف سہولتیں فراہم کرنے کی غرض سے قائم ہوئی تھی۔ انجمن کے سیکرٹری، حافظ محمود شیرانی ، اور ان کے احباب نے پرانے نام کی جگہ ’’پان اسلامک سوسائٹی ‘‘ تجویز کیا۔ اس زمانے میں جمال الدین افغانی کی بین الملی تحریک کے خلاف انگریز قوم طرح طرح کے خدشات و تعصبات میں مبتلا تھی۔ لہٰذا بعض مصلحت اندیش بزرگوں نے مشورہ دیا کہ انجمن کا نام / سعید اختر درانی نے بہ تحقیق اس امر کی وضاحت کی ہے کہ لندن سکول آف پولیٹیکل سٹڈیز ،۱۹۱۸ء میں لندن یونی ورسٹی کا باقاعدہ حصہ بنا۔ اس سے پہلے یہ دبستان علوم مشرقی یونی ورسٹی کالج لندن میں، مشرقی السنہ و ادب کے ایک شعبے کی حیثیت رکھتا تھا(اقبال یورپ میں، ص ۳۰۰،۳۰۱) ۔ پروفیسر آرنلڈ، انڈیا آفس لائبریری کی ملازمت چھوڑ کر یونی ورسٹی کالج لندن میں پروفیسر عربی کے منصب پر فائز تھے۔ اقبال نے ۵؍نومبر سے یونی ورسٹی کالج میں اپنے استاد کی جگہ ہفتہ وار دو پیریڈ پڑھانا شروع کیے۔ صرف انجمن اسلامی یا ’’اسلامک سوسائٹی‘‘ رہنے دیا جائے ۔ اقبال سے رائے لی گئی تو انھوں نے ’’پان اسلامک سوسائٹی‘‘ کے حق میں قطعی فیصلہ کیا۔ چنانچہ یہی نام رکھا گیا اور سوسائٹی کا مقصد تحفظِ اسلام قرار پایا۔۶۹؎ انور بیگ کا بیان ہے کہ اقبال نے جرمنی سے واپس آنے کے بعد ’’لنکنس ان‘‘ سے قانون (بیرسٹری) کا امتحان پاس کیا اور لندن سکول آف اکنامکس اینڈ پولیٹیکل سائنس (London School of Economics and Political Science) میں داخلہ لے لیا۔۷۰؎ بیرسٹری کے امتحان کے بعد اقبال کا لندن میں قیام بہت تھوڑے عرصے رہا اور اس سے پہلے ان کی مصروفیات بہت زیادہ تھیں، لہٰذا ظاہر ہے کہ اس ادارے سے وہ کچھ زیادہ مستفید نہ ہو سکے ہوں گے۔ لیکن اس واقعے سے ان کے علمی شغف کا اندازہ ہوتا ہے، کہ اپنے اوقات کا کوئی لمحہ انھوں نے رائگاں نہیں جانے دیا۔ اُس زمانے میں مشہور مسلم دانشور اور ’’روح اسلام‘‘ (The Spirit of Islam) جیسی مشہور و مقبول کتاب کے مصنف ، جسٹس سید امیر علی، لندن میں مقیم تھے۔اقبال کو سید صاحب سے بھی متعارف ہونے کا موقع ملا۔ اقبال کے قیام لندن کے آخری ایام میں، سید امیر علی کی تحریک سے لندن میں آل انڈیا مسلم لیگ کی شاخ قائم ہوئی اور مئی ۱۹۰۸ء میں اس کا افتتاحی اجلاس کیکسٹن ہال میں منعقد ہوا۔ سید امیر علی صدراور اقبال مجلس عاملہ نیز اس سب کمیٹی کے بھی رکن منتخب ہوئے جو قواعد و ضوابط وضع کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔۷۱؎ اس کے دو ماہ بعد جولائی کے دوسرے ہفتے میں لندن سے روانہ ہو کر ۲۷؍جولائی۱۹۰۸ء کو اقبال لاہور پہنچ گئے۔ (۵)شخصیّت، تجربات، تاثرات اگرچہ اقبال کے سہ سالہ علمی و فکری مشاغل کی یہ روداد ہر پہلو سے ناقص و نامکمل ہے، تاہم اس سے یہ اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے کہ قیامِ یورپ کا یہ مختصر زمانہ، اقبال کی تعلیمی زندگی کا مفید ترین دور تھا، جس کا ایک ایک دن ذہنی و فکری اکتسابات اور نت نئے تجربات و مشاہدات میں صرف ہوا۔ یوں تو عمر بھر اقبال مطالعے اور غور و فکر کے عادی رہے، اور ان کا ذہن ہمیشہ متحرک رہا لیکن جہاں تک عملی حرکیت کا تعلق ہے، غالباً اتنی مستعدی اور سرگرمی کا مظاہرہ انھوں نے کبھی نہیں کیا۔ طلبِ علم کی راہ میںا ن کی حریصانہ تگ و دو کا خاص سبب وہ بلند مقاصد تھے، جن کی لگن انھیں سات سمندر پار، دیارِ غیر میں لائی تھی، اور جن کی تکمیل کے لیے انھوں نے اپنے بھائی کے مالی ایثار کا زیر بار منّت ہونا گوارا کیا تھا۔چنانچہ اس قلیل وقت کے کوتاہ دامن میں وہ ان تمام علمی خزانوں کو سمیٹ لینا چاہتے تھے جو ان کی دست رس میں تھے۔ ایک مرتبہ لندن میں کسی دعوت کے حسنِ اہتمام پر انھیں داد دی گئی تو انھوں نے کہا تھا کہ وہ دُہری شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کی ’’داخلی شخصیّت‘‘ ایک خواب دیکھنے والے فلسفی اور صوفی کی ہے اور ’’خارجی شخصیت‘‘، ایک عملی اور کاروباری انسان کی ۔ لیکن غالباًاس دور سے پہلے یا بعد میں، ان کی ’’خارجی شخصیت‘‘ کا اظہار و اثبات اتنی قوّت و شدّت سے پھر کبھی نہیں ہوا۔ یورپ کی آب و ہوا اور ماحول نے اقبال کے پورے وجود کو متاثر کیا۔ اس کے منفی پہلوئوں کے مشاہدات نے ان کی داخلی شخصیت کا رخ قبلے کی سمت موڑ دیا، اور مثبت اثرات نے ان کی خارجی شخصیت کو بالیدگی و توانائی بخشی، ان کی تمام حسی قوتوں کو بیدار کر دیا۔ ابتداء ً وہ یورپ کی مادی ترقی سے بہت مرعوب و متاثر ہوئے۔ اہلِ مغرب کی عملیت و حرکیت سے عبرت گیر ہو کر انھیں احساس پیدا ہوا کہ ع : ’’جو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں انھیں مذاقِ سخن نہیں ہے‘‘، اور یہ احساس اتنا شدید تھا کہ انھوں نے شعر گوئی سے توبہ کر لی۔ وہ تو خیر گزری کہ وہاں شیخ عبدالقادر جیسے مخلص دوست اور پروفیسر آرنلڈ جیسے شفیق و بالغ نظر بزرگ موجود تھے، جنھوں نے یہ دلیل دے کر انھیں قائل کر لیا، کہ تمھاری شاعری جو ایک پس ماندہ قوم کے لیے حیات آفرین و محرکِ عمل ہے، بجائے خود حسن عمل کا شاہکار ہے۔ شیخ عبدالقادر صاحب مئی ۱۹۰۷ء تک انگلستان میں رہے۔ تقریباً دو سال تک لندن اور کیمبرج میں دونوں دوستوں کی اکثر ملاقاتیں ہوتی رہیں ، شیخ صاحب نے اپنے متعدد انگریزی و اردو مقالات میں اُن دنوں کی یاد تازہ کی ہے، لیکن چند واقعات یا بعض اشارات سے زیادہ اور کچھ نہیں لکھا۔ بعض جگہ اقبال کی ’’قُطبیت‘‘ اور کم آمیزی کی شکایت بھی کی ہے۔ مثلاً جہاں انھوں نے بیرسٹری کے لیکچروں یا کھانوں اور علمی مجالس میں اکٹھے شریک ہونے کا ذکر کیا ہے، اسی ضمن میں لکھتے ہیں: ’’اقبال کی دو عادتیں وہاں زیادہ نمایاں ہوتی جاتی تھیں۔ ایک تو ان کی کم آمیزی … دوسری نقل و حرکت میں تساہل و تکاہل تھی۔ وہ کئی دفعہ کسی جگہ جانے کا وعدہ کرتے تھے اور پھر کہتے تھے: ’’بھئی کون جائے۔ اس وقت تو کپڑے پہننے یا باہر جانے کو جی نہیں چاہتا۔‘‘۷۲؎ شیخ صاحب کی یہ شکایت ایک حد تک بجا ہے۔ لندن میں مقیم طلبہ اکثر ایسی تقریبات کا اہتمام کرتے تھے، جن کا مقصد محض سیر سپاٹے یا کھانے پینے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا تھا۔ تفریح طبع کے لیے اقبال جیسے خوش گو اور خوش نوا شاعر کی شرکت بھی ضروری سمجھتے تھے۔ اسی طرح بعض اجتماعات میں صاحبانِ ذی اقتدار سے تعارف کے سوا اور کچھ ہاتھ نہ آتا۔ اقبال اس قسم کی دعوتوں میں جانا تضیعِ اوقات سمجھتے اور ٹال جاتے تھے۔ لیکن جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں ، وہ اہل علم کی صحبتوں اور ان دعوتوں میں، جہاں لذتِ کام و دہن کے علاوہ ذہنی غذا بھی میسر آنے کا امکان ہوتاتھا، بالالتزام شریک ہوا کرتے تھے۔ عطیہ نے ایک ایسی ہی تقریب کا ذکر کیا ہے جس میں شاہی خاندان کے افراد بھی شریک تھے، اور ان کی موجودگی سب کے لیے دلچسپی کا باعث تھی۔ لیکن اقبال اس تماشے سے بیزار بیزار دکھائی دیتے تھے۔ انھوں نے اسے تضیعِ اوقات قرار دیا۔۷۳؎ اب یہ کسے یقین آئے گا کہ وہی ’’کم آمیز‘‘ اور ’’تساہل پسند‘‘ اقبال ۱۵ دن تک لگاتار شہر سے دور، ساحلِ سمندر پر ایک ماہرِ حجریات کی خشک و غیردلچسپ گفتگو سننے جاتار ہا۔ اس واقعے کا پس منظر یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علامہ کی صحبت میں محمد حسین قرشی نے بعض آیات کے حوالے سے یہ سوال اٹھایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ ’’یسّرنا القرآن للذکر‘‘ اور ’’فصلت آیٰتہ‘‘ تو بعض آیات (متشابہات) کے فہم پر ’’لا یعلم تاویلہ الا اللہ و الراسخون فی العلم‘‘ کی مُہر کیوں لگا دی؟ اس کے جواب میں حضرت علامہ نے یہ واقعہ بیان کیا: ایک دفعہ لندن میں ایک صاحب نے کسی مہمان کے اعزاز میں چند دوستوں کو ضیافت پر مدعو کیا، اس میں میں بھی شامل تھا۔ فراغت طعام کے بعد مہمان عزیز سے تفصیلی تعارف کرایا گیا تو معلوم ہوا کہ آپ ماہر حجریات ہیں۔ میں نے ان سے دوبارہ ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ فیصلہ ہوا کہ شام کی سیر کو اکٹھے چلیں گے۔ چنانچہ سیر کرتے ہوئے ہم سمندر کے ساحل پر پہنچ گئے۔ میں نے ان سے کہا کہ اپنے مضمون (حجریات) کے متعلق کچھ فرمائیں۔ انھوں نے ساحل سے ایک چھوٹا سا سنگ پارہ اٹھا لیااور اس کی سوانح عمری بیان کرنا شروع کر دی۔ مختصر یہ کہ ہم ۱۵ دن روزانہ سیر کو جاتے رہے اور وہ پارئہ حجر کے اسرار و رموزبیان کرتے رہے۔ ان کے مدارج نشو و ارتقا … رنگ و صلایت و صورتِ نوعیہ وغیرہ کے تفصیلی اسباب، تاثیرات و خواص وغیرہ، اتنی باتیں بیان کر دیں جو میرے لیے اور اس علم سے ناواقف ہر شخص کے لیے، پردئہ خفا میں تھیں۔ اور اس شخص کے لیے کہ راسخ العلم تھا، مفصل و میسر تھیں۔ اسی طرح قرآن مجید سارے کا سارا مفصل بھی ہے اور متشابہہ بھی۔ جس قدر انسان کا ذوق و وجدان اور اخلاق و روحانیت ترقی کرتے جائیںگے، اس پر قرآن کے مطالب آشکارا ہوتے جائیں گے۔ اسی طرح کا ایک دوسرا واقعہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ایک دعوت میں ہمیں ایک صاحب سے تعارف کا اتفاق ہوا، جو صرف سطحِ بحر کی مخلوقات کے پروفیسر تھے۔ انھوں نے اپنے فن سے متعلق عجیب و غریب انکشافات فرمائے… مجھ پر ان کی تقریر کا سحر ہو رہا تھا۔ اسی طرح ہر وہ شخص جو اپنے فن کا راسخ ہوتا ہے وہ فن اس کے لیے ’’یسرنا‘‘ اور ’’فصلت‘‘ کے مترادف ہو جاتا ہے۔۷۴؎ صرف یہی نہیں کہ اقبال اپنے علم و بصیرت میں اضافے کے لیے مطالعے، یا علمی مجالس میں فکر انگیز مذاکروں کے شائق تھے، بلکہ مناظر فطرت، گرد و پیش کے ماحول اور مغربی تہذیب و تمدن کے تمام پہلوئوں کے مشاہدے کے لیے بھی ان کی آنکھیں کھلی رہتی تھیں، اور اس مقصد سے وہ سیر و سیاحت کے مواقع بھی نکال لیتے تھے۔ ایک صحبت میں انھوں نے بیان کیا کہ ’’میں جب کیمبرج میں پڑھتا تھا تو تعطیلات کے زمانے میں کچھ دنوں کے لیے میں اپنے ایک ہم سبق انگریز دوست کے ہمراہ اس کے وطن چلا گیا۔ اس کا گھر سکاٹ لینڈ کے ایک دور افتادہ قصبے میں تھا۔‘‘اس صحبت میں ذکر یہ ہو رہا تھا کہ پیشہ ور مولویوں اور پیروں نے سادہ لوح عوام کو لوٹنے کے لیے کیسے کیسے طریقے ایجاد کر لیے ہیں۔ اقبال نے کہا کہ اس قسم کے بگلا بھگت دنیا میںہر جگہ موجود ہیں۔ پھر یہ واقعہ سنایا کہ سکاٹ لینڈ کے اس قصبے میں چند روز بعد ہندوستان سے ایک مشنر ی آ پہنچا۔اس نے قصبے کے سکول میں جلسہ کیا اور اپنی تقریر میں اہل ہند کی جہالت اور وحشیانہ زندگی کا گھنائونا نقشہ پیش کرتے ہوئے عیسائیت کے فروغ اور تبلیغی مشن کی متوقع فتوحات کا سبز باغ دکھایا، اور آخر میں بیش از بیش مالی امداد کی اپیل کی۔ اقبال سے نہ رہا گیا۔ صدر جلسہ سے اجازت طلب کی اور پچیس منٹ کی پرجوش تقریر سے اس مشنری کی عیاری اور فریب کاری کا پردہ فاش کر دیا۔۷۵؎ انگلستان کے علاوہ جرمنی میں بھی انھیں سیر و سفر کے بہت سے مواقع ملے۔ پھر لندن کی زندگی بجائے خود مغربی تہذیب کے عروج و زوال کا ایک عبرت ناک مرقع تھی۔ اقبال نے اس کے روشن اور تاریک پہلوئوں کا بڑی گہری نظر سے جائزہ لیا۔ وہ اس اصول کے قائل تھے کہ زندگی کا ہر رخ مشاہدہ و تجربہ کے لائق ہے، اور انھی تجربات کی رنگا رنگی سے انسان کی شخصیت تکمیل پاتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ قابلِ ذکر ہے۔ اقبال کے قیامِ انگلستان کے زمانے میں سر سید کے ایک محترم رفیق، لندن تشریف لائے اور علی گڑھ سے تعلق کی بنا پر، پروفیسر آرنلڈ سے ملے۔ آرنلڈ نے اقبال سے کہا کہ مولوی صاحب کو لندن کے قابلِ دید مقامات دکھا دو۔ اس حکم کی تعمیل میں اقبال نے لندن کے چند مشہور مقامات اور تاریخی عمارات کی سیر کرانے کے بعد شام کے وقت مولوی صاحب کو کسی قہوہ خانے میں لا بٹھایا۔ وہاں کچھ ستم پیشہ لڑکیوں نے مولوی صاحب کو گھیر لیا، اور ایسی شوخی و بے تکلفی کا مظاہرہ کیا کہ مولوی صاحب بوکھلا گئے۔ واپس آ کر آرنلڈ سے شکایت کی۔ دوسرے دن اقبال آئے تو آرنلڈ نے پوچھا کہ تمھیں یہ کیا شرارت سوجھی، کہ ایسے بزرگ کو اُس قہوہ خانے میں لے گئے جو قحبہ خانے سے بدتر تھا۔ اقبال نے سنجیدگی سے جواب دیا: ’’حضرت! میں نے تو یہ سوچا کہ مولوی صاحب کو تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھا دوں، ورنہ وہ بیچارے لندن کے متعلق سخت غلط فہمی میں مبتلا رہیں گے۔‘‘۷۶؎ انگلستان کی زندگی میں آئے دن ایسے تجربات اور واقعات پیش آتے تھے، جن سے وہاں کی قومی نفسیات اور معاشرتی رجحانات کو کوئی نہ کوئی پہلو بے نقاب ہو جاتا تھا۔ حضرت علامہ نے مختلف صحبتوں میں اس دور کے بعض تجربات بیان کیے ہیں، جن میں سے چند اجمالاً یہاں درج کیے جاتے ہیں؛ کسی صحبت میں ’’فرنگی مقامروں‘‘ کی قمار بازی کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ کیمبرج سے لندن جاتے ہوئے وہ گاڑی میں بیٹھے تو دو شاطروں کو دیکھا کہ دوسرے مسافروں سے تاش کی ہر بازی جیت لیتے ہیں۔ اس طرح انھوں نے کوئی بیس پونڈ ہتھیا لیے۔ بغور دیکھنے سے اقبال ان کی چالیں سمجھ گئے۔ جب ان قمار بازوں نے کھیلنے کی دعوت دی تو تیار ہو گئے اور لندن پہنچتے پہنچتے ان سے بیس کے بیس پونڈ جیت لیے۔ لیکن گاڑی سے اترتے ہی وہ دونوں شاطر ساتھ ہو لیے اور رقم واپس لینے کے لیے چاپلوسی کی باتیں کرنے لگے ۔ جب بہت پیچھے پڑے تو اقبال نے ان کو دھمکی دی کہ پولیس میں تمھاری فریب کاری کی رپورٹ کی جائے گی۔ یہ سنتے ہی وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔۷۷؎ انگریزوں کی تاجرانہ ذہنیت روایتی طور پر مشہور ہے، لیکن یہودیوں کا طبقہ جو عموماًمغربی ممالک میں کاروبار پر چھایا ہوا ہے، بنیاپن میں سب پر سبقت رکھتا ہے۔ اقبال نے پروفیسر آرنلڈ سے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ لندن میں ان کے قیام و طعام کا انتظام ایک ایسے گھرانے میں کیا جائے جہاں ذبیحہ کا خاص اہتمام ہو۔ یورپ میں صرف یہود اس بارے میں محتاط ہیں۔ چنانچہ ایک خوش حال یہودی گھرانے میں معاملہ طے ہو گیا۔ اقبال کے یہ پیشہ ور میزبان بڑے خوش اخلاق تھے۔ اقبال ان سے اتنے مانوس ہوئے کہ جب گھر میں ہوتے تو ان کی ’’نماز‘‘ میں بھی شریک ہو جاتے۔ لیکن جب انھیں یہ پتا چلا کہ ضرورت کی جو چیزیں وہ ان لوگوں سے منگواتے تھے، سب پر وہ لوگ اپنا کمیشن وصول کیا کرتے ہیں، تو اقبال ان کی اس کم ظرفی سے سخت برگشتہ خاطر ہوئے۔۷۸؎ یہودیوں کا یہ رویہ کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ لیکن اقبال نے یہ بھی دیکھا کہ اہلِ مغرب کی مادہ پرستی اور ہوس ِ زر اندوزی اب اس انتہا تک پہنچ گئی ہے کہ عام معاشرتی زندگی کا اخلاقی معیار حیوانوں کی سطح سے بھی فرو تر نظر آتا ہے۔ اپنے قیامِ یورپ کے مشاہدات کا ذکر کرتے ہوئے اقبال نے ایک صحبت میں اس کی ایک عبرت انگیز مثال دی کہ ’’بعض لوگ اپنے بچوں کا بیمہ کروا کے انھیں بھوکا مرنے دیتے ہیں، تاکہ بیمے کی گراں قدر رقم خود وصول کر لیں۔‘‘۷۹؎ انھی مشاہدات کی بنا پر قیامِ یورپ کے زمانے ہی میں انھیں یقین ہو گیا تھا کہ یہ تہذیب اب زیادہ عرصے تک زندہ نہیں رہ سکتی۔ مغربی معاشرت و سیاست کے وسیع و عمیق مطالعے سے اقبال نے جو نتائج اخذ کیے، ان کی تفصیل آئندہ فصل میں پیش کی جائے گی۔ یہاں اس زمانے کا ایک واقعہ درج کیا جاتا ہے جو لطیفہ ہونے کے باوجود ان کے تاثرات کا آئینہ دار ہے۔ کیمبرج میں اقبال اور ان کے چند احباب مذہب پر بحث کر رہے تھے۔ایک صاحب نے اقبال سے پوچھا: ’’یہ کیا بات ہے کہ تمام پیغمبر اور بانیانِ مذہب ایشیا ہی میں مبعوث ہوئے۔ یورپ میں ایک بھی پیدا نہ ہوا؟‘‘ اقبال نے جواب دیا: ’’بھئی ، شروع میں اللہ میاں اور شیطان نے اپنا اپنا پیترا جما لیا۔ اللہ میاں نے ایشیا کو پسند کیا اور شیطان نے یورپ کو۔ اسی لیے جو پیغمبر اللہ میاں کی طرف سے آئے ہیں، ایشیا میں مبعوث ہوئے۔‘‘ وہ صاحب بول اٹھے، ’’تو پھر شیطان کے پیغمبر کون ہوئے؟‘‘ انھوں نے جواب دیا: ’’یہ تمھارے میکیاولی اور مشہور اہلِ سیاست اسی کے رسول ہیں۔‘‘۸۰؎ حاضر جوابی اور بذلہ سنجی اقبال کی شخصیت کا نہایت دلکش پہلو ہے۔ یورپ کی آزاد فضا میں جب فراغتِ خاطر (یعنی حصولِ علم کے سوا تمام الام و افکار سے رہائی) نصیب ہوئی تو ان کی ذہانت و ظرافت لندن، کیمبرج، ہائیڈل برگ اور میونخ کے دانشوروں کی ہر محفل میں پوری تابناکی سے جلوہ گر ہونے لگی۔ عطیہ بیگم کے بیانات سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ یہاں ان کی طبیعت میں کچھ غیر معمولی تیزی و طراری آ گئی تھی۔ پہلی ملاقات کے بیان میں وہ اقبال کی حاضر جوابی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں: ’’ دوسروں کی کمزوری سے فائدہ اٹھانے اور حاضرین پر مزاحیہ فقرے کسنے میں وہ یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔‘‘۸۱؎ اسی طرح کیمبرج میں ڈاکٹر بلگرامی کے یہاں عالمانہ مباحثوں کے درمیان جب کبھی انھوں نے اقبال کو خاموش دیکھا، تو انھیں محسوس ہوا کہ دراصل وہ حاضرین محفل کے کسی جواب طلب ریمارک کے منتظر ہوتے۔ ’’جہاں موقعہ ملا، بجلی کی سی تڑپ سے اس پر فقرہ کس دیتے۔ ان کا جوابی حملہ اس قدر برجستہ اور غیر متوقع ہوتا ہے کہ حریف تھوڑی دیر کے لیے سٹپٹا جاتا۔‘‘ بقول عطیہ، ان کا یہ انداز ہائوس آف پارلیمنٹ میں ولیم گلیڈ سٹون کی حاضر جوابی کی یاد دلاتا تھا۔۸۲؎ عطیہ نے اس سلسلے میں کوئی خاص مثال پیش نہیں کی ، لیکن مختلف صحبتوں میں حضرت علامہ نے خود کئی واقعات ضمناً بیان کیے ہیں، جن میں سے صرف ایک یہاں نقل کیا جاتا ہے؛ یورپ کے مشنری، سیاح اور سرکاری ملازمین، ہندوستان سے واپس جا کر یہاں کے حالات اور اپنے کارنامے بڑی مبالغہ آرائی کے ساتھ بیان کیا کرتے تھے۔ چنانچہ جب اقبال انگلستان گئے تو اس زمانے میں بھی بہت سے لوگ ہندوستان کو وحشی قبیلوں، ہولناک جنگلوں،درندوں، سانپوں اور شیروں کا ملک سمجھتے تھے۔ کسی مجلس میں ایک خاتون نے اقبال سے پوچھا، ’’کیا آپ کے پلنگ کے نیچے بھی ہر روز صبح کے وقت سانپ ہوتا تھا‘‘؟ اقبال نہایت سنجیدگی سے بولے: ’’نہیں محترمہ، ہر روز نہیں، ہر تیسرے دن!‘‘۔۸۳؎ اقبال کے دوستوں کے حلقے میں ان کی خوش گفتاری اور انجمن آرائی پہلے بھی مشہور تھی۔ انگلستان اور جرمنی کی مہذب ترین مجالس کے علمی مذاکروں میں ان کی ذہانت و علمیت کی چمک دمک اور بھی اجاگر ہو گئی۔ عطیہ بیگم نے ان کی گرمیِ گفتار کا ذکر کرتے ہوئے کہیں اسے ’’علمی پھلجھڑی‘‘ اور کہیں ’’عالمانہ گل فشانی‘‘ کے الفاظ سے یاد کیا ہے۔۸۴؎ وہ اپنی ڈائری میں لکھتی ہیں: ’’عام طور سے یہ بات مشہور ہے کہ اقبال بہت ہی فاضل اور تیز فہم سکالر ہیں… وہ لندن میں سب سے تیز طبیعت رکھنے والے ہندوستانی ہیں۔‘‘۸۵؎ اقبال کی مجلسِ گفتگو میں لطیف مزاح کی چاشنی بھی ہوتی اور علمیت کی شان بھی ۔ ان کا ذہنی افق پہلے بھی وسیع تھا۔ انگلستان میں مشرق و مغرب کی تاریخ، ادب اور فلسفے کے تنقیدی مطالعے ، مسلسل غور و فکر اور بحث و تمحیص سے ان کے خیالات میں بڑی پختگی پیدا ہوئی اور وہ بڑے اعتماد و قوت سے اپنی آراء کا اظہار کرنے لگے۔ خدا داد حافظے کی بدولت ان کا علم مستحضر تھا۔ عطیہ نے ان کی زبردست قوت حافظہ کی بڑی تعریف کی ہے۔ ان کا بیان ہے کہ اگر وہ کسی شہر یا جگہ کا حال پڑھتے تو اس کا نقشہ ان کے ذہن میں اس طرح جم جاتا کہ جب وہ اس کے بارے میں گفتگو کرتے تو معلوم ہوتا گویا وہ عینی مشاہدات بیان کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے اپنے میونخ کے سفر کا ذکر کیا ہے۔ اقبال کے علاوہ کچھ پروفیسر بھی اس تعلیمی دورے میں ہمراہ تھے۔ اقبال نے جن مختلف اداروں، عجائب گھروں، گیلریوں اور در سگاہوں کو اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا، ان کے بارے میں بھی ایسی تفصیلات بیان کیں کہ پروفیسر خواتین بھی حیرت زدہ رہ گئیں۔ اگر کبھی کوئی ایسا موقع پیش آتا کہ ان کی تاریخی معلومات کام نہ آتی، تو ان کا نکتہ آفریں تخیل آڑے آتا تھا۔ مثلاً ۲۵؍اگست ۱۹۰۷ء کو شاہی باغ (ہائیڈل برگ) کے تعلیمی دورے میں، جب ان کے ساتھی قدیم زمانے کی مسجد اور اس کے عربی کتبوں کے بارے میں طرح طرح کے سوالات پوچھنے لگے تو اقبال نے مسجد کی تاریخ کے طور پر یہ من گھڑت روایت بیان کر دی: جس بادشاہ نے یہ باغ اور عمارتیں بنوائی ہیں، اسے ایک دن باغ میں جنت کی ایک حور نظر آئی۔ وہ اس پر فریفتہ ہو کر بولا کہ تم میری ملکہ بن جائو۔ حور نے یہ شرط عائد کی کہ پہلے تم مسلمان ہو جائو اورایک مسجد بنوائو۔ اسی مسجد میں ہمارا نکاح ہو گا۔ جب اس شرط کے مطابق مسجد تعمیر ہو گئی تو بادشاہ کا حور سے نکاح ہو گیا۔ ہندوستانی طلبہ ان کی اس گڑھنت پر ہنسنے لگے، لیکن اقبال نے ایسی متانت سے یہ روایت بیان کی کہ دوسروں کو اس واقعے کے تاریخی ہونے کا یقین آ گیا۔۸۷؎ بے تکلف صحبتوں اور ہم وطن و ہم مذاق دوستوں کی محفل میں اقبال کی فقرہ بازیاں، پھبتیاں، لطیفے، چٹکلے اور فی البدیہہ مزاحیہ اشعار کی پھلجھڑیاں، ساری محفل کو زعفران زار بنا دیتی تھیں۔ ۲۳؍جون ۱۹۰۷ء کو لندن میں عطیہ کی قیام گاہ پر ایک تقریب منعقد ہوئی تھی جس میں چند ہندوستانی اور انگریز احباب شریک تھے۔ ڈاکٹر انصاری نے اپنے گانوں سے اور لارڈ سنہا کی صاحبزادیوں نے موسیقی کے کمالات سے سب کو محفوظ کیا۔ جب اقبال نے بعض مہمانوں کے بارے میں برجستہ مزاحیہ اشعار سنائے، جن میں مبالغہ آمیز نکتہ آفرینی سے ہر ایک کی خصوصیات کا خاکہ اڑایا گیا تھا، تو ہنسی کے مارے سب لوٹ پوٹ ہو گئے۔۸۸؎ ایسے مواقع کئی بار آئے،لیکن جب کبھی عطیہ نے ان برجستہ مزاحیہ اشعار کو نقل کرنے کی کوشش کی تو اقبال نے یہ کہہ کر روک دیا کہ ’’یہ باتیں صرف اسی خاص موقع کے لیے ہیں۔‘‘۸۹؎صرف ایک شعر انھیں یاد رہ گیا۔ ہائیڈل برگ میں ایک شام ڈنر پر سنہری بالوں والی ایک مہمان دوشیزہ موجود تھی، جس کے چہرے پر روئیں بہت نمایاں تھے۔ اقبال نے بر وقت یہ شعر اپنے احباب کو سنایا: اس کے عارض پر سنہری بال ہیں ہو طلائی اُسترا اس کے لیے۹۰؎ لیکن رنگِ محفل کے ساتھ ان کی خوش گفتاری کے انداز بھی بدلتے رہتے تھے۔ وہ نفسیات انسانی کے ماہر تھے اور عام گفتگو میں مخاطب کی ذہنی سطح پر اتر کر اس کی دلچسپی کی باتیں کرتے تھے۔ اہلِ علم کی صحبتوں میں لہجے کی شائستگی اور حفظ مراتب کا ہمیشہ خیال رکھتے تھے۔ عطیہ نے پروفیسر آرنلڈ اور اقبال کا ایک مختصر مکالمہ درج کیا ہے۔ آرنلڈ ، اپنے شاگرد کو جرمنی میں ایک نودریافت عربی مخطوطے کا جائزہ لینے کی ذمہ داری سونپنا چاہتے تھے اور مصر تھے کہ اقبال ہی اس کام کے لیے موزوں تریں آدمی ہیں۔ اقبال کو اس رائے سے اختلاف تھا۔ وہ اپنے استاد کے مقابلے میں خود کو مبتدی اور اس فریضے کے لیے نا اہل قرار دیتے تھے۔ لیکن اس حجت و تکرار کے بعد انھیں بالآخر سرِ تسلیم خم کرتے ہی بنی۔ اقبال کے اس انکار و اقرار سے ظاہر ہوتا تھا کہ ’’اعلیٰ پائے کے ذہین اور طباع اشخاص… کس پاکیزہ طریقے سے بحث کرتے ہیں۔‘‘۹۱؎ وہ مشرق و مغرب کے مخصوص آداب مجلسی سے بھی بخوبی آشنا تھے۔بعض لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اس حقیقت سے بے خبرہوتے ہیں کہ ہر قوم کی تہذیبی روایات اور معاشرتی آداب و رسوم مختلف ہوتے ہیں۔ چنانچہ مغربی سوسائٹی میں ان سے نادانستہ ایسی حرکتیں سرزد ہو جاتی ہیں جو دوسروں کی دلآزاری کا باعث ہوتی ہیں۔ اقبال نے ایک موقعے پر اس نکتے کی وضاحت کے لیے کہ ایک ہی معاملے میں لوگوں کے رد عمل اور رویے ، اپنے مخصوص تہذیبی روایات و رجحانات کے مطابق، مختلف ہو سکتے ہیں، انگلستان میں اپنے ایک معاصر ہندوستانی طالب علم کا واقعہ بطورمثال پیش کیا۔ کسی انگریز خاتون سے اس نوجوان کی دوستی تھی۔ وہ ہندوستان سے اپنے ساتھ ایک نادر شے (Curio) لے گیا تھا، جسے اس خاتون نے بہت پسند کیا۔ اس نوجوان نے بے تامل وہ چیز اسے تحفۃً پیش کر دی اور کہا: ’’آپ رکھ لیجیے، میرے لیے یہ بیکار ہے۔‘‘ انگریز خاتون ایک بیکار شے کی پیشکش پر ناخوش ہوئی ، اور ان کے تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ اقبال کو نوجوان کی اس افتاد کا علم ہوا تو انھوں نے انگریز خاتون کو سمجھایا ، کہ اہل مشرق کسی کو کوئی تحفہ دیتے ہیں تو ان کی عالی ظرفی یہ گوارا نہیں کرتی کہ تحفہ پانے والا اس احساس سے زیرِ بار ِ منت ہو کہ کوئی خاص مہربانی کی جا رہی ہے، لہٰذا وہ اپنے تحفے کو حقیر ظاہر کرتے ہیں۔ خاتون کو اس وضاحت سے اطمینان خاطر ہوا تو دونوں میں صلح صفائی ہو گئی۔۹۲؎ اگرچہ فکری اعتبار سے اقبال کی آزاد خیالی کا دور قیامِ انگلستان کے زمانے میں کچھ عرصے تک جاری رہا، لیکن اوائل عمر میں ان کے کردار کا جو سانچا والدین اور علامہ میر حسن کی تعلیم و تربیت سے بن چکا تھا، وہ اتنا پختہ تھا کہ اس دور میں بھی قائم رہا۔ وہ یہاں بھی اتنے محتاط تھے کہ غسل خانے میں طہارت کے لیے لوٹا لے کر جاتے تھے اور غیر ذبیحہ گوشت سے پرہیز کرتے تھے۔ مے و ساغر کا ذکر روایتی طور پر ان کی اس دور کی غزلوں میں بھی ہے، لیکن عملاً مے نوشی سے انھیں کوئی واسطہ نہیں تھا۔ یورپ سے واپسی کے چند ماہ بعد وہ شدید ذہنی کشمکش اور روحانی کرب کے عالم میں ایک مرتبہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ’’شراب نوشی میں پناہ لوں جو خود کشی کو آسان بنادیتی ہے۔‘‘۹۳؎ اگر وہ یورپ میں شغلِ مے نوشی کے عادی ہوتے تو یہ لکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ محترمہ حجاب امتیاز کی روایت کے مطابق، ایک خاص موقع پر انھوں نے بہ صراحت یہ بات کہی: ’’آپ کو شاید معلوم نہیں، میں نے اپنے قیام انگلستان کے دوران میں بھی کبھی شراب کا ایک قطرہ نہیں چکھا۔ ‘‘۹۴؎ یہ سچ ہے کہ انھوں نے لندن کی زندگی کے ہر پہلو کا مشاہدہ کیا، ہر محفل میں بیٹھے، لیکن اگر وہ تفریحات و تعیشات میںاپنا قیمتی وقت گنواتے یا نائونوش کی رنگ رلیوں اور رومانی کیفیتوں میں ڈوبے رہتے تو پونے تین سال کی اس قلیل مدت میں، جو علمی و فکری کارنامے انھوں نے انجام دیے وہ کس طرح ممکن ہوتے؟ مغربی معاشرے میں، جہاں حسن و صباحت کے ساتھ بے حجابی عام ہے اور مرد و زن کے مخلوط اجتماعات معمولاتِ زندگی میں سے ہیں، مشرقی نوجوان اپنے ذہن و کردار کی ناپختگی اور ندیدے پن کی وجہ سے کسی ’’مس ولسن‘‘ کے دامِ زلف میں گرفتار ہو جاتے ہیں، یا پھر زیادہ بہکے تو قہوہ خانوں، نائٹ کلبوں اور نائو نوش کی محفلوں میں اپنی متاعِ حیات لٹا دیتے ہیں۔ شیخ سعدی فرما گئے ہیں: ع چو گل بسیار شد پیلاں بلغزند‘‘۔ ایسے ویسوں کا ذکر نہیں، یہاں شریف ترین گھرانوں کے تربیت یافتہ نوجوانوں کو بھی پھسلتے دیکھا گیا ہے۔ اقبال کے معاصرین میں سید عشرت حسین، جو ’’پیرِ مشرقی‘‘ کے تربیت یافتہ اور شادی شدہ تھے، پھسلتے پھسلتے ایک ایسے دلدل میں جا پھنسے کہ سات برس تک اُبھر نہ سکے۔ اس عرصے میں کیمبرج سے صرف قانون میں بی۔ اے کی ڈگری حاصل کرکے ، بعد از خرابی بسیار و بہ صد منت و اصرار، فروری ۱۹۰۷ء میں وطن واپس آئے۔۹۵؎ اقبال کے ایک ذہین معاصر جو ۱۸۹۶ء کے بی ۔ اے کے امتحان میں صوبے بھر میں اوّل آئے تھے، آئی ۔ سی۔ ایس کے مقابلے کے لیے انگلستان گئے۔ ان کی ذہانت و قابلیت کے آگے اس امتحان کی کیا حقیقت تھی، لیکن اس مقصد میں ناکام رہے اور چار سال بعد آکسفورڈ سے صرف تاریخ جدید میں بی ۔ اے کرکے واپس آ گئے۔ اس ناکامی کی توجیہ انھوں نے اپنی خود نوشت سوانح عمری میں یوں کی ہے: ’’اس میں کچھ انگریزوں کے موسم بہار کا دخل تھا اور کچھ ایک نوجوان کی تھوڑی بہت احمقانہ ترنگ کا۔‘‘۹۶؎ اقبال کے زمانۂ قیام میں بھی اس موسم بہار کی جنوں سامانیاں اور اس حسین ماحول کی رنگینیاں وہی تھیں۔ پھر ایک جمال پسند شاعر کا دل اس سے کیوں متاثر نہ ہوتا۔ یقینا سرور و نشاط اور سوز و ساز کی کیفیتیں ان پر بھی گزری ہوں گی۔ لیکن یہ اقبال ہی کا ظرف تھا کہ از خود رفتگی تک نوبت نہ پہنچی۔ وہ خود کہتے ہیں: در چنیں زورِ جنوں پاسِ گریباں داشتم در جنوں از خود نہ رفتن کارِ ہر دیوانہ نیست۹۷؎ (۶) اقبال اور ’’جستجوئے گل‘‘ سہ سالہ دورِ قیامِ یورپ سے متعلق اقبال کے جمالیاتی مشاہدات و تجربات کے ضمن میں دو شخصیات ہمارے سامنے آتی ہیں ، جن سے اقبال کم و بیش متاثر ہوئے۔ زمانی اعتبار سے پہلے ان کی ملاقات عطیہ فیضی سے لندن میںیکم اپریل ۱۹۰۷ء کو ایک خاص تقریب سے ہوئی۔ بعدازاںجب وہ وسط جولائی میں جرمنی گئے اور ہائیڈل برگ میں چند ماہ مقیم رہے تو وہاں جرمن زبان کی ٹیوٹر مس ایما ویگے ناست سے بہت زیادہ متاثر ہوئے۔ عطیہ بیگم کی کتاب ’’اقبال‘‘ پر بڑی حاشیہ آرائیاں ہوتی رہیں لیکن جن حضرات نے عطیہ کے اشاراتِ خفی و جلی کے مطابق ’’شبلی کی حیاتِ معاشقہ‘‘ کے بعد، در جواب آں غزل، ’’اقبال کی حیاتِ معاشقہ‘‘مرتب کرنے کی سعی بے جا کی ہے، اگر وہ اس کتاب کی اشاعت کے نفسیاتی محرکات اور اس کی تصنیف و ترتیب کے سوچے سمجھے منصوبے پر غور فرماتے تو یقینا اس نتیجے پر پہنچتے کہ یہاں صورتِ حال دگر گوں ہے۔ اقبال کے جمالیاتی تصورات پر اس دور کی بعض نظموں کے حوالے سے، اگلے باب میں تفصیل سے بحث ہو گی۔ یہاں بہ طور تمہید چند بنیادی باتیں عرض کی جاتی ہیں۔ احساس جمال ہر سچے فن کار و شاعر کی حساس طبیعت کا ایک فطری تقاضا ہے: حسن جس رنگ میں ہوتا ہے جہاں ہوتا ہے اہلِ دل کے لیے سرمایۂ جاں ہوتا ہے(جگر) اس عمومی حیثیت سے جمالیاتی ذوق اقبال کی شاعرانہ شخصیت کا ایک ایسا اہم عنصر ہے، جس کا اظہار ابتدا سے آخر تک ان کی زندگی اور شاعری میں ہوتا رہا۔ اقبال کی فطرتِ سلیمہ کی خصوصیت یہ ہے کہ جمال پسند ہوتے ہوئے بھی انھوں نے جمال پرستی کو اپنا نصب العین نہیں بنایا۔ دوسرے یہ کہ اقبال جمال صورت سے صرف ذوقِ نظر کی حد تک متاثر ہوتے تھے، گویا وہ چشم ظاہر کے علاوہ دیدئہ باطن سے بھی شخصیت کو دیکھتے اور پرکھتے تھے۔ کردار کی پختگی اور فلسفیانہ و عارفانہ میلانِ طبع کی بدولت ان کے جمالیاتی مشاہدوں میں قلب و نظر کی پاکیزگی کا عنصر ہمیشہ شامل رہتا۔ شیخ سعدی نے کہا ہے: ’’در ایامِ جوانی چنانکہ افتد دانی‘‘اقبال کی زندگی میں ’’افتد دانی‘‘ کا ایک دور وہ تھا جب وہ لاہور میں شادی شدہ ہونے کے باوجود تجرد کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ ان کی شادی، ان کی مرضی کے خلاف بعمر ۱۶ سال ۱۸۹۳ء میں ہو گئی تھی۔ لیکن مزاجوںمیں شدید اختلاف اور معاشرتی تفاوت کی وجہ سے یہ شادی ناکام ہوئی اور رفتہ رفتہ باہمی کشیدگی اس حد تک بڑھی کہ پانچ سال کے زمانۂ ملازمت میں انھوں نے کبھی اپنی بیوی کو ساتھ رکھنا گوارا نہیں کیا۔ فکری اعتبار سے یہ اُن کی وسیع المشربی اور آزاد خیالی کا زمانہ تھا۔ اقبال کی بے ریائی نے ’’زہد و رندی‘‘ کے عنوان سے ، ایک ثقہ معترض کی زبانی، اپنی بے راہہ روی کی روداد بے کم و کاست بیان کی ہے۔ تاہم ان کا دامن ہوا و ہوس کی آلودگیوں سے اتنا پاک تھا کہ خود ان کے معترض کو یہ اعتراف کرنا پڑا: لیکن یہ سنا اپنے مریدوں سے ہے میں نے بے داغ ہے مانندِ سحر اس کی جوانی۹۸؎ بہر حال، زندگی میں صرف ذوقِ نظر کی تسکین سے گزارا نہیں ہو سکتا، تسکین جسم و جان کا انتظام بھی ضروری ہے، لہٰذا غالباً وہ سفرِ یورپ سے پہلے ہی عقدِ ثانی کے لیے مناسب موقعے کی تلاش میں تھے۔ لیکن انگلستان پہنچتے ہی ایک طے شدہ منصوبے کے مطابق ’’ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا‘‘ جیسے اچھوتے علمی موضوع پر ڈیڑھ سال کی قلیل مدت میں اعلیٰ معیار کا تحقیقی مقالہ مرتب کرنے میں انھیں اس یکسوئی اور انہماک سے مصروف رہنا پڑا، کہ اہل علم کی مخصوص مجالس کے سوا دیگر سماجی تقریبات و تفریحات میں شریک ہونے کی فرصت انھیں کم ہی ملی اور اگر ملی بھی تو ’’جلوئہ دانش فرنگ‘‘ کی طرح ’’حسنِ بتان فرنگ‘‘ سے بھی ان کی آنکھیں خیرہ نہ ہو سکیں۔ کیمبرج میں اقبال کا تحقیقی کام ختم ہونے ہی کو تھا کہ انھی دنوں لندن کے ہندوستانی طلبہ کے حلقوں میں عطیہ فیضی کے جمال و کمال کا آوازہ بلند ہوا۔ کیمبرج میں اقبال کے بزرگ کرم فرما شمس العلما ڈاکٹرسید علی بلگرامی کی قیام گاہ علمی و ادبی مجالس کا مرکز بنی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر بلگرامی نے عطیہ کو مدعو کرنے کی غرض سے اقبال کو لندن بھیجا۔ عطیہ کی بڑی بہن نازلی بیگم کی شادی نواب صاحب جنجیرہ سے ہوئی تھی اور والد کی وفات کے بعد نازلی بیگم کے زیر سایہ عطیہ کی امیرانہ تربیت اور خانگی تعلیم کے اعلیٰ انتظامات ہوئے۔ اب کچھ عرصے سے وہ اپنے بھائی ڈاکٹر فیضی کے ساتھ ایک تعلیمی و تفریحی دورے کے سلسلے میں لندن میں مقیم تھیں۔ چند ماہ میں فلسفے کی تکمیل تو کجا تعلیم بھی کیا ہوتی، لیکن یکم اپریل ۱۹۰۷ء کو جب اقبال سے ملاقات ہوئی تو بقول خود، عطیہ ’’فلسفۂ قدیم و جدید‘‘ کے آخری مراحل طے کر چکی تھیں۔۹۹؎ عطیہ فیضی کے شناسائوں نے ان کے دیگر اوصاف کے علاوہ ، شوخی و بے باکی کا خاص طور سے ذکر کیا ہے۔ سابق مدیر روزنامہ خلافت، رئیس احمد جعفری ان کے بڑھاپے کا سراپا یوں بیان کرتے ہیں: ’’سفید لباس میں ملبوس ایک کہن سال خاتون آگے بڑھیں۔ بال سفید ، چہرہ ضعیفی کا آئینہ دار، لیکن ادائوں میں شوخی، اندازِ گفتگو میں بے باکی، حرکات و سکنات میں ایک خاص قسم کی انفرادیت …۔۱۰۰؎ یہ خزاں کا عالم ہے تو بہار کیسی ہو گی۔ اقبال سے پہلی ملاقات کے موقعے پر اپنی بے باکی کا ذکر خود بڑی وضاحت سے کیا ہے۔ وجہ ملاقات معلوم کرنے کے لیے بڑی حجت کی ۔ یہی نہیں بلکہ اقبال کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا کہ شاید ماورائے سخن کسی بات کا سراغ ملے۔ لیکن ’’ان کی عمیق آنکھوں سے یہ ظاہر نہ ہو سکا کہ آیا وہ تعریف یا تعریض سے کام لے رہے ہیں۔ ‘‘۱۰۱؎ یکم اپریل سے ۲۲؍اپریل تک لندن میں مسلسل کئی ملاقاتوں سے اقبال کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ بیگماتی شان سے بنی ٹھنی اور تہذیبِ جدید کے سانچے میں ڈھلی ہوئی یہ خودبین و خود آرا خاتون، اپنے افتادِ مزاج اور بے باکی و طراری میں انگلستان کی مجلسی خواتین سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ فلسفے کے مطالعے سے بھی ان کے مزاج میں سنجیدگی اور خیالات میں گہرائی پیدا نہیں ہوئی۔ فلسفیانہ موضوعات پر مذاکرے ہوئے تو اس میدان میں بھی ان کی سطحیت اور خام خیالی ظاہر ہوتی رہی۔ چنانچہ افلاطون اور نیٹشے کے بارے میں چند اہم نکات کی وضاحت کے لیے اقبال نے کیمبرج سے خط لکھے۔ مارچ ۱۹۰۷ء کی یاد گار غزل (ع: ’’زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدارِ یار ہو گا) اور اسی دور کے دیگر کلام سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال کا معنوی وجود انوکھے خوابوں اور خیالوں کی ایک اجنبی دنیا کا تنہا مسافر ہے۔ شاعر احساسِ تنہائی سے گھبرا کر کسی ہم سفر کی تلاش میں ’’ستم کشِ انتظار‘‘ رہتا ہے۔ عطیہ کی ذہانت و فلسفہ دانی سے شاید انھیں یہ توقع رہی ہو کہ عطیہ کو اپنا ہم خیال بنا سکیں، اور اس طرح انھیں ایک ہمدم و دمساز میسر آ جائے لیکن عطیہ کے سطحی خیالات اور تفریحی رجحانات کے پیش نظر غالباً انھیں اپنے قلب و ذہن میں ہلچل مچانے والے افکار و نظریات کے اظہار کا موقع ہی نہ ملا ہو گا۔ عطیہ بیگم نے مختلف مجالس کی جو مفصل رودادیں لکھی ہیں، ان میں کہیں بھی اقبال کی اس اہم فکری و قلبی واردات کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں۔ عطیہ نے کلامِ حافظ سے بڑی دلچسپی ظاہر کی تھی اور شاید کسی صحبت میں اقبال سے فارسی کلام کی فرمائش بھی کی ہو گی۔ غالباً شیخ عبدالقادر صاحب نے بانگِ درا کے دیباچے میںفارسی گوئی کے نئے رجحان کا ذکر کرتے ہوئے انھی کی فرمائش کی طرف اشارہ کیا ہے۔۱۰۲؎ کیمبرج سے ۲۴؍اپریل۱۹۰۷ء کے ایک خط کے ساتھ اقبال نے ایک تازہ فارسی غزل بھیجی اور اس کے بارے میں عطیہ کی تنقیدی رائے بھی دریافت کی۔ لیکن اس غزل میں شبلی کی بمبئی والی غزلوں کی سی کوئی بات نہیں۔ تغزل کی عام روایت کے برخلاف ، نہ اس میں محبوب کے حسن و جمال کا ذکر ہے، نہ ہجر و وصال کی بات، بلکہ پوری غزل کا رنگ فلسفیانہ و عارفانہ ہے۔ صرف تین شعر ملاحظہ ہوں: با من مگو کہ مثلِ گل ہموارہ شاخ بستہ باش مانندِ موجِ بو ، مرا آوارہ آفریدہ ای ہستیم ما گدائے تو یا تو گدائے ماستی بہر نیاز سجدئہ در پس ما دویدہ ای اقبال غربتِ توام، نشتر بہ دل ہمی زند تو در ہجومِ عالمے یک آشنا نہ دیدہ ای۱۰۳؎ مقطع سے صاف ظاہر ہے کہ اس بھری دنیا میں وہ اب بھی احساسِ تنہائی کے کرب میں مبتلا ہیں۔ عطیہ بیگم نے اپنی کتاب ’’اقبال‘‘ میں جو روداد لکھی ہے وہ ان کی مطبوعہ ڈائری کے مندرجات سے جا بجا مختلف ہے۔ چونکہ یہ ڈائری وہ اپنی بہنوں (زہرہ فیضی اور نازلی بیگم) کو اپنے حالات سے مطلع کرنے کے لیے لکھ کر بھیجا کرتی تھی ، لہٰذا کسی مصلحت سے اقبال کی ذہانت وعلمیت کی بھرپور تعریف، اور بعض واقعات کے بیان میں حسب ضرورت تحریف روا رکھی گئی۔ لیکن انھوں نے اپنی زندگی کے آخری دور میں ایک اخباری مضمون "Iqbal-- A Reflection" کے عنوان سے چھپوایا تھا، جس سے بعض حقائق اور تاثرات پہلی مرتبہ اصل صورت میں منکشف ہوتے ہیں۔ ان متضاد بیانات سے عطیہ بیگم کی پیچیدہ نفسیات کی بہت سی گرہیں کھل جاتی ہیں۔ مضمون کی ابتدا اس واقعے سے ہوتی ہے کہ مس بیک نے انھیں اپنی دعوتِ استقبالیہ میں مدعو کرتے ہوئے لکھا: ’’میں چاہتی ہوں کہ تم آئو اور پروفیسر اقبال سے ملو … وہ حیرت انگیز آدمی ہیں… پروفیسر برائون ان کی ذکاوت و ذہانت کے مداح ہیں…‘‘ اسی ضمن میں عطیہ لکھتی ہیں کہ اقبال نے اپنی آمد سے پہلے کیمبرج سے بذریعہ خط انھیں مطلع کر دیا تھا، اور وہ ان کا ذکر بھی سن چکی تھیں۔۱۰۴؎ چونکہ عطیہ بقولِ خود ، لندن میں فلسفے کی وسیع تر تعلیم کے لیے مقیم تھیں اور پروفیسر آرنلڈ اس وقت لندن یونی ورسٹی کے شعبۂ عربی سے منسلک ہو چکے تھے، لہٰذا یہ ممکن ہے کہ آرنلڈ سے بغرضِ استفادہ قریبی رابطہ قائم کرنے کے لیے وہ آرنلڈ کے دیرینہ رفیق ، علامہ شبلی کا تعارفی خط لائی ہوں۔ بہرحال پروفیسر آرنلڈ کی خانگی مجالس میں شرکت اور ذاتی مراسم کے ذکر سے ظاہر ہے کہ عطیہ کو ان سے قرب حاصل تھا، اور ان سے یا دیگرہندوستانی طلبہ کی زبانی وہ اقبال کی غائبانہ تعریف و تعارف کے بعد، بڑے اشتیاق و تجسس سے ملاقات کی منتظر رہی ہوں گی۔ اب اپنی کتاب میں ان کا یہ اندازِ تجاہل ملاحظہ ہو: ’’اس سے قبل میں نے اقبال کا نام بھی نہ سنا تھا اور چونکہ لندن میں ہندوستانیوں کی طرف سے ایسے دعوت نامے وصول کرنے کی عادی تھی، اس لیے صرف ایک عارضی سا تجسّس ییدا ہوا اور بس۔‘‘۱۰۵؎ ابتدائی ملاقات کی روداد کے مطابق وہ جوانِ رعنا، فلسفی شاعر، عطیہ کی توقعات سے زیادہ حیرت انگیز و دلچسپ نکلا۔ مشرقی و مغربی ادب و فلسفہ کا شناور، انجمن آرا، خوش مذاق، حاضر جواب و بذلہ سنج۔ عطیہ کلام حافظ کی دلدادہ تھیں۔ حافظ پر گفتگو چھڑی تو اقبال کو کلامِ حافظ کا حافظ پایا۔۱۰۶؎ یکم اپریل سے ۱۶؍ جولائی تک یعنی اقبال کے جرمنی جانے سے پہلے، جن مجالس کی روداد بیان کی گئی ہے، ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عطیہ بیگم ، اقبال کی پُر کشش شخصیت سے بہت زیادہ متاثر ہوئیں۔ عطیہ کو اپنی خاندانی وجاہت اور اعلیٰ تعلیم و تربیت کی بدولت ہندوستان کے مسلم معاشرے ، خصوصا اعلیٰ طبقوں میں ایک ممتاز حیثیت و شہرت حاصل تھی۔ علامہ شبلی کی قدردانی ان کے سمندِ ناز پر ایک اور تازیانہ بن گئی۔ لیکن انھیں ایک ایسے پرستار کی تلاش تھی جو اقلیم ادب کا کہن سال تاجدار نہیں بلکہ خوش جمال شہزادہ ہو۔ اقبال میں وہ تمام اوصاف موجود تھے۔ اس میں شک نہیں کہ چند ماہ کے عرصے میں عطیہ کی مسلسل کوشش اور خصوصی توجہ کی بدولت اقبال سے ان کے دوستانہ مراسم میں خاصی پیش رفت بھی ہوئی۔ اقبال ان کی ذہانت اور تنقیدی صلاحیت سے کچھ متاثر ضرور تھے۔ انھوں نے اپنا تحقیقی مقالہ عطیہ کو پڑھ کر سنایا اور تنقید کی دعوت دی۔ جرمنی جانے سے پہلے علم الاقتصاد کا اصل مسودہ (کذا؟/ ) اور کیمبرج کے مقالے کا مسودہ (یا نقل ؟!) عطیہ کی نذر کیا۔ لیکن اقبال کی خودی، زبانی اظہارِ نیازمندی سے نا آشنا تھی۔ ایک غزل میں انھوں نے اپنے مسلک کا یوں علان کیا ہے: ع ’’حسن ہے مستِ ناز اگر تو بھی جواب ناز دے‘‘۱۰۸؎ عطیہ کو، جو ان سے پرستارانہ نیاز مندی کی متوقع تھیں، ان کی یہ خودداری بہت کھٹکتی تھی۔ انھوں نے اپنی کتاب میں اقبال کے علمی کمالات اور ذہنی اوصاف کی مدح سرائی کے ساتھ ان کی خود پرستانہ کلبیت (Cynicism) کا بار بار ذکر کیا ہے، بلکہ محولہ بالا اخباری مضمون میں اس پہلو پر خاص زور دیا ہے۔وہ لکھتی ہیں: ’’اگرچہ اقبال کلاسیکی فنونِ لطیفہ اور بالخصوص موسیقی سے بالکل نابلد تھے، لیکن خود پسندی کی بنا پر وہ کسی شعبۂ زندگی میں ہار ماننے کے لیے تیار نہ ہوتے۔‘‘ عطیہ بیگم اپنے ملنے والوں سے نیاز مندانہ خراجِ تحسین وصول کرنے کی عادی تھیں، اقبال کا رویہ انھیں کیوں نہ کھٹکتا۔ غور کیجیے، کہاں ایک بزرگ کی یہ قدر شناسی، جس نے عطیہ کی موسیقی دانی کی یوں داد دی تھی: ’’…اجازت دو کہ لوگ تم کو پوجیں و انا اول العابدین‘‘۱۰۹؎ اور کہاں اقبال کی یہ جرأت کہ اس میدان میں بھی وہ عطیہ کے حریف مقابل بنتے تھے۔ لیکن اس معاملے کا سب سے زیادہ مایوس کن پہلو یہ تھا کہ جس ’’سلطانِ جمال‘‘ کے بارے میں کسی دیدہ ور نے کہا تھا: من نہ آنم کہ بہ ہر شیوہ دل از دست دہم لیک با آں نگہِ حوصلہ فرسا چہ کنم؟! اس کے تمام شیوہ ہائے دلبری اور نگہ حوصلہ فرسا کے تمام آزمودہ تیر رائگاں جا رہے تھے۔ بلبلِ پر شکستہ اور شاہینِ بلند پرواز کے حوصلوں میں بڑا فرق ہوتا ہے۔!! اقبال نے جرمنی پہنچ کر جرمن زبان میں ایک خط لکھا۔ عطیہ کے جذبۂ خود نمائی نے اپنی ان فتوحات کی نمائش پر انھیں مجبور کیا۔ چنانچہ ۲۳؍جولائی ۱۹۰۷ء کو ایک خاص مجلس احباب منعقد ہوئی، جس میں لندن میںمقیم بیشتر ہندوستانی طلبہ مدعو تھے۔ اس مجلس میں اقبال کے بعض / ۲۴؍اپریل ۱۹۰۷ء کے خط میں اقبال نے علم الاقتصاد کا مطبوعہ نسخہ منگوانے کا وعدہ کیا تھا۔ (اقبال از عطیہ، خالدایڈیشن، ص ۱۴)۔ وہی نسخہ لاہور سے منگوا کر دیا ہو گا۔ اصل مسودے کی پیشکش محض عطیہ کا انداز بیان ہے۔ (راقم) قدردانوں نے مخزن کے مختلف شماروں سے اقبال کی نظمیں سنانی شروع کیں۔ سب حاضرین مجلس اقبال کے نغمے الاپنے لگے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ شمالی ہند کے کوچہ و بازار اقبال کے قومی ترانوں سے گونج رہے ہیں، اور ’’ان کے اثر سے قومیت کا وہ احساس بیدار ہو گیا ہے جس سے اب تک اہل ہند ناآشنا تھے۔‘‘۱۱۰؎ عطیہ بیگم نے جرمن زبان میں اقبال کا خط دکھایا۔ سب نے حسن عبارت کو سراہا۔ پروفیسر آرنلڈ نے بہ لطائف الحیل خط پر قبضہ جما لیا۔ کہنے لگے: ’’اگرچہ اقبال میرے شاگرد ہیں لیکن میں ان کی نگارشات سے بہت کچھ سیکھتا ہوں۔ اس قیمتی شاہکار کو اپنے عزیز ترین مجموعے میں بہ حفاظت رکھوں گا۔‘‘۱۱۱؎ اس خط کے علاوہ دونوں کتابوں کے مسودے انھوں نے عطیہ سے مانگ کر رکھ لیے۔ (پروفیسر آرنلڈ کی یہ دست درازی محلِ نظر ہے۔!) اقبال کی یہ قیمتی یادگاریں تو چھن گئیں، لیکن اس مجلس میں اقبال کی عظمت و شہرت کا جو آوازہ بلند ہوا، اس نے فتح کامل کے عزائم بیدار کر دیے۔جرمنی جانے کا منصوبہ طے ہو گیا۔ عطیہ نے اپنی خانگی ڈائری میں تو یہ لکھ بھیجا کہ اقبال نے مجھے جرمنی کی لائبریریاںاور عجائب گھر وغیرہ دکھانے کے لیے تین ہفتے کے لیے اپنا مہمان بننے کی دعوت دی ہے۔۱۱۲؎ متن کتاب (روداد)میں پروفیسر آرنلڈ کے پُر زور مشورے کو اس سفر کا محرک قرار دیا ہے، اور اقبال کے اس خط کے بارے میں لکھتی ہیں کہ میرے عزم سفر کی اطلاع ملنے کے بعد بھیجاتھا۔۱۱۳؎ لیکن اپنے آخری مضمون میں انھوں نے کچھ اور لکھا ہے، اور غالباً یہی بات قرینِ صحت ہے: ’’جب اقبال نے جرمنی چلنے کے بارے میں پوچھا تو میں نے جواب دیا کہ میں پہلے ہی ہائیڈل برگ اور وہاں سے میونخ جانے کا منصوبہ تیار کو چکی ہوں۔‘‘۱۱۴؎ بہرحال وہ اپنے بھائی کے ساتھ ۲۰؍اگست ۱۹۰۷ء کو ہائیڈل برگ پہنچ گئیں۔ لندن اور ہائیڈل برگ کے ماحول میں جو فرق ہے، اُسے سمجھنے کے لیے پہلے عطیہ بیگم کے یہ تاثرات ملاحظہ ہوں: ’’لندن کی فضا کے مقابلے میں یہاں کی فضا اس قدر مختلف تھی کہ تھوڑی دیر کے لیے مجھے یہ محسوس ہوا کہ میں ہندوستان میں اپنے ہی آدمیوں میں ہوں… جس بے تکلفانہ دوستی، یگانگت اور سچی مسرت کا اظہار ہماری آمد پر کیا گیا، وہ ایسی تھی کہ تمام رواجی تکلفات خود بخود ختم ہو گئے۔‘‘۱۱۵؎ یہ دراصل دو تہذیبوں کا فرق تھا۔ ہائیڈل برگ کی فضا اور خصوصاً اقبال کی درسگاہ (شیرر منزل) کے ماحول میں مشرقی خلوص، سادگی اور گرم جوشی رچی بسی تھی۔ اس ماحول کی سادگی و پاکیزگی میں وہاں کی خاتون اتالیقوں کے مزاج و کردار کا بھی دخل تھا۔ ہائیڈل برگ اور میونخ میں جو خواتین اقبال کی اتالیق تھیں، وہ علم و فضل اور وقار و تمکنت کا پیکر تھیں۔ گاہے گاہے وہاں کے تاریخی مقامات ، باغات اور سیر گاہوں کے تفریحی دورے بھی ہوتے تھے،لیکن ایسی تقریبات میں بھی ، ماحول کی شائستگی برقرار رہتی تھی۔ عطیہ اور ان کی پارٹی کی آمد کے بعد تفریحی دوروں کے پروگرام میں تسلسل و تواتر اور وہاں کی مجلس آرائیوں میں ایک نیا رنگ ترنگ پیدا ہوا۔ اگر کبھی سیر سپاٹے کا موقع نہ ملتا تو عطیہ کوئی تفریحی مشغلہ نکال لیتیں۔ ایک دن مظاہرئہ حسن کے لیے ’’فزیکل کلچر‘‘ کی مشق کی سوجھی ۔ دیگر خواتین کے ساتھ نیم برہنہ لباس میں یہ مشق جاری تھی کہ اتنے میں اقبال ادھر آنکلے اور ایک لمحے کے لیے مبہوت کھڑے رہ گئے۔ پوچھا گیا کہ اتنے غور سے کیا دیکھ رہے ہو؟ جواب دیا کہ میں یکایک ستارہ شناس بن گیا ہوں اور ستاروں کے ایک جھرمٹ کا مشاہدہ کر رہا ہوں۔ ۱۱۶؎ مجلسی ہنگاموں اور تفریحی مشغلوں کی دلدادہ عطیہ، سنجیدہ معاملات و مسائل کی طرف سے بے اعتنائی برتنے کی عادی تھی۔ ہائیڈل برگ کے بے تکلف ماحول میں آزادانہ میل ملاپ اور خاطر داریوں کے باوجود، ان کی غیر سنجیدہ طبیعت کی بے نیازی کا یہ عالم تھا کہ جس ہوسٹل میں وہ اتنے دن مقیم رہیں، اس کی اصل حیثیت، بلکہ خود اقبال کے ہائیڈل برگ میں قیام کی غرض و غایت اور ان کے تحقیقی کام کی نوعیت کو نہ سمجھ سکیں۔ ممکن ہے اقبال نے یونی ورسٹی کے کتب خانوں سے استفادے کی اجازت حاصل کر لی ہو، لیکن وہ اقبال کو ہائیڈل برگ یونی ورسٹی کا باقاعدہ طالب علم، اور اقبال کی قیام گاہ ’’شیرر منزل‘‘ جو غیر ملکی طلبہ کو جرمن زبان کی تدریس کے لیے ایک پرائیویٹ ادارے کی حیثیت رکھتی تھی، اسے یونی ورسٹی کا ایک ہوسٹل قرار دیا ہے۔ ان کی موجودگی میں تفریحی دورے، کشتی رانی کے مقابلے اور کلاسیکی موسیقی کی جو تقریبات منعقد ہوئیں، ان کے بارے میں یہ رائے زنی فرماتی ہیں کہ یہ سب مشاغل، یونی ورسٹی کے نظامِ تعلیم و تربیت کا ایک جزو ہیں،۱۱۷؎ حتیٰ کہ اقبال سے اتنے قرب کے باوجود ، وہ اس حقیقت سے بے خبر رہیں کہ انھوں نے پی ایچ ۔ ڈی کی ڈگری کے لیے جرمن زبان میں مقالہ نہیں لکھا بلکہ کیمبرج والے مقالے کو قدرے ترمیم و اضافہ کے ساتھ پیش کیا تھا۔ اسی طرح شخصیات کے بارے میں بھی ان کے تبصرے ، سطحی مشاہدوں اور غلط مفروضوں پر مبنی ہیں۔ چنانچہ اپنے اخباری مضمون میں انھوں نے اقبال کے حیرت انگیز کارناموں کا محرک بھی ان کی انا پرستی کو قرار دیا ہے۔ یہاں ان کی انگریزی عبارت کا محتاط ترجمہ درج ذیل ہے: اولاً بحیثیتِ انسان اور ثانیاً بحیثیت ایک زبردست عالم، وہ بڑے خود پرست تھے، اور ان کی اس علت سے کوئی مفرنہ تھا۔ چنانچہ اتنے گہرے انہماک سے اپنی تیاریوں میں لگ گئے کہ تین ماہ میں پی ایچ ۔ ڈی کی ڈگری اور وہ بھی جرمن زبان میں حاصل کرکے سب کو حیرت میں ڈال دیا۔۱۱۸؎ عطیہ بیگم کو یہ بھی گلہ ہے کہ اقبال عورتوں کو کم تر (inferior) لیکن ’’ناگزیر‘‘ سمجھتے تھے اور اس بات پر بڑی مسرت کا اظہار کیا ہے کہ جرمنی کی حسین و کم سن خاتون اتالیقوں نے اپنے علمی تفوق سے ان کے پندار کو توڑ دیا۔ عطیہ بیگم کے یہ بیانات دراصل خود ان کی شکست پندار کی دلیل ہیں۔ اپنی کتاب میں تو انھوں نے تسخیر کامل کا تاثر قائم رکھنے کے لیے کھل کر کچھ نہیں کہا اور اختتامیے میں ’’ظالم سماج‘‘ کو قصور وار ٹھہرایا ہے، لیکن اس پورے مضمون میں اقبال کی خود دار و باوقار شخصیت یا یوں کہہ لیجیے کہ ان کی حوصلہ شکن سخت جانی کے خلاف خوب خوب دل کا غبار نکالا ہے۔ قیامِ یورپ کے زمانے میں اقبال نے عطیہ کو کئی خط لکھے۔ کیمبرج کے خطوط میں فلسفیانہ موضوعات پر تبادلۂ خیال ہوتا رہا۔ بعض خطوط میں کتابوں کے انتخاب اور اس طرح کے دیگر علمی معاملات میں عطیہ سے مشورہ طلب کیا گیا تھا۔ لیکن اس دور کے خطوط میں سے صرف مذکورہ بالا ایک خط اور اس کے ساتھ مرسلہ غزل کتاب میں شامل ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ ان میں سے اکثر خطوط ’’جواب دے دینے کے بعد معرضِ وجود میں نہ رہے‘‘۔ میونخ اور لندن سے بھی ’’بہت سے خطوط آئے‘‘ لیکن ان کے بارے میں بھی عطیہ کا عذر یہ ہے کہ ’’ان کا ریکارڈ میرے پاس محفوظ نہیں رہا۔‘‘۱۱۹؎ اس عذر کے بعد اب یہ بوالعجمی ملاحظہ ہو کہ انھوں نے اپنے آخری مضمون میں اقبال کا وہ پہلا خط، جس میں انھوں نے بغرضِ ملاقات کیمبرج سے لندن آنے کی اطلاع دی تھی، حرف بہ حرف نقل کیا ہے۔ وھو ہذا: My dear Miss Fayzee! I am coming to London and looking forward to meet you, -- Yours. S. M. Iqbal P. S. My address in London is "Hammer Smith."120 جب ابتدائی ملاقات و تعارف سے پہلے کا یہ خط ان کے پاس موجود تھا، تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اقبال کی تحریر کا ایک ایک پرزہ ان کے ریکارڈ میں محفوظ ہو گا۔ اگر جملہ خطوط کتاب میں شامل ہوتے تو اقبالیات کے طالب علموں کو اس زمانے کے تعلیمی مشاغل و افکار کی نوعیت دریافت کرنے میں مدد ملتی۔ لیکن اس کتاب کی ترتیب و اشاعت کے مخصوص محرکات اور منصوبے کے پیش نظر ان خطوط کی شمولیت بے سود تھی۔ عطیہ بیگم کی کتاب کے ابتدائی حصے (: قیامِ یورپ کی سرگذشت) کا خاتمہ اقبال کی ایک نظم ’’وصال‘‘ (: ع ’’خوبیِ قسمت سے آخر مل گیا وہ گل مجھے‘‘) پر ہوا ہے جو میونخ سے بھیجی گئی تھی۔ اس کے بعد اقبال کے خطوط شروع ہوتے ہیں۔ پہلا خط جنوری ۱۹۰۹ء کا ہے۔ ستمبر ۱۹۰۷ء (عطیہ کی ہندوستان واپسی) اور جنوری ۱۹۰۹ء کے درمیان میں بعض نئی باتیں ظہور میں آ چکی تھیں۔ اوّل یہ کہ ہائیڈل برگ میں اقبال اپنی ٹیوٹر ، مس ایما کے خلوص و سادگی سے اتنا متاثر ہوئے کہ عطیہ کی پرتصنع شخصیت کا جو کچھ اثر تھا وہ رفتہ رفتہ زائل ہو چکا تھا۔ مذکورہ بالا نظم (وصال) تو زیب داستاں کے لیے عطیہ کے کام آئی، لیکن ان میں ’’وہ گل‘‘ کا مشار الیہ ایما کے سوا اور کوئی نہیں۔ پھر یہ گل کھلا کہ یورپ سے عطیہ کی واپسی کے کچھ عرصے بعد عطیہ سے مولانا شبلی کی خط و کتابت کا آغاز ہوا۔ اپریل ۱۹۰۸ء میں نواب و بیگم جنجیرہ کے ساتھ عطیہ دوبارہ لندن آگئیں جہاں اقبال سے پھر ملاقاتیں ہوئیں۔ اب عطیہ بیگم کے ’’ریکارڈ‘‘ میں مولانا شبلی کی مشفقانہ نگارشات کے علاوہ ان کی ’’وداعیہ نظم ‘‘ بھی تھی۔ شبلی سے اقبال کی نیاز مندی کے پیش نظر، عطیہ نے ان فتوحات کی نمائش ضرور کی ہو گی۔ عطیہ کی واپسی (اکتوبر ۱۹۰۸ء ) کے بعد کی افتاد، ڈاکٹر وحید قریشی کی کتاب شبلی کی حیات معاشقہ میں ملاحظہ ہو۔ عطیہ کے سفر لکھنؤ، نیز بمبئی اور جنجیرہ کی بزم آرائیوں سے بھی اقبال بے خبر نہ ہوں گے۔ بہرحال شبلی کے ’’عالم السرائر‘‘ احباب کے علاوہ، اب اقبال اور ان کے احباب (خصوصاً مدیر مخزن) پر یہ حقیقت منکشف ہو چکی تھی کہ بمبئی کی گرم گرم غزلوں میں جو آگ شعلہ زن ہے، اسے کس کی عشوہ گری نے بھڑکایا ہے۔ اسی ضمن میں ایک اور ناگفتہ حقیقت بھی قابلِ توجہ ہے؛ عطیہ کی والدہ بھی اب فوت ہو چکی تھیں۔ نواب بیگم جنجیرہ کو بحیثیت سرپرست ان کے لیے ایک موزوں رشتے کی تلاش تھی۔ خانگی ڈائری میں عطیہ کی مدح سرائی نے ان کے اہل خاندان کو نہ صرف اقبال سے متعارف ہی کرایا، بلکہ ان کے حق میں سفارش بھی بہم پہنچائی تھی۔ لندن میں ان کی بہن اور بہنوئی اقبال سے مل بھی چکے تھے۔ گمانِ غالب یہ ہے کہ عطیہ اسی مقصد سے انھیں لندن لے گئی تھیں۔ جنوری ۱۹۰۹ء میں عطیہ نے بیگم و نواب جنجیرہ کی طرف سے اقبال کو جنجیرہ آنے کی دعوت دی۔ اقبال نے اپنی پابندیاں اور مجبوریاں ظاہر کرتے ہوئے خوش اسلوبی سے معذرت کی۔ عطیہ کی طرف سے جنجیرہ آنے کے تقاضے اور تغافل کے شکوے ہونے لگے ۔ ان کی بعض مبہم اور موہوم شکایات کے جواب میں اقبال نے لکھا کہ وہ ایک عزیز دوست کی خاطر داری اور دلجوئی کے لیے سب کچھ کر سکتے ہیں، لیکن بعض باتوں میں وہ مجبور ہیں، کیونکہ ان کی فطرت کے تقاضے کشاں کشاں انھیں دوسری طرف لے جاتے ہیں۔۱۲۱؎ مارچ ۱۹۱۰ء کے تیسرے ہفتے میں اقبال دس یوم کی رخصت لے کر خاص ضرورت سے حیدر آباد گئے۔ اسی دوران میں انھیں نواب جنجیرہ کا دعوت نامہ ملا۔ چونکہ ۲۹؍مارچ کی صبح کو انھیں لاہور واپس پہنچ کر کالج میں حاضر ہونا تھا، لہٰذا اس مرتبہ بھی معذرت خواہ ہوئے۔۱۲۲؎ اقبال کی یہ عذر خواہیاں پرتکلف معلوم ہوتی ہوں گی لیکن یہ بھی ایک مجبوری تھی۔ اگر وہ رنگ رلیوں کے دلدادہ ہوتے تو بہارستان جنجیرہ کے قصرِ معلی ،میں جہاں بقول شبلی: لطف تھا، ذوقِ سخن تھا، صحبتِ احباب تھی مطرب و رود و سرود و ساغر و پیمانہ تھا غرض ایک شاعر کی دل بستگی کے بہت سے سامان تھے، وہ اس سے پہلے بارہا جا چکے ہوتے۔ لیکن اب اس سراب رنگ و بو میں ان کے لیے کوئی کشش باقی نہیں تھی، چنانچہ انھیں انکار کے مہذب پیرایے اختیار کرنے پڑے۔ اس مرتبہ عطیہ نے اقبال کے سفر حیدر آباد کی غرض و غایت معلوم کیے بغیر ، انھیں جاہ پرستی، دنیا داری اور طمع کے طعنے دیے اور شدید تر ملامت نامے بھیجے۔ اقبال نے اپنی مدافعت میں ضبط و تحمل سے کام لیا اور گزشتہ مراسم نباہتے ہوئے اپنے خطوط میں اخلاق و مروت کے تقاضوں کو ہر جگہ ملحوظ رکھا۔ عطیہ نے شبلی سے پہلے اقبال پر اپنا حق جتایا ہو گا اور نظموں کا مجموعہ اپنے نام معنون کرنے کی فرمائش کی ہو گی۔ اقبال اس کے لیے بھی آمادہ ہوئے لیکن اس ارادے کی تکمیل نہ ہو سکی۔ اگرچہ لندن اور ہائیڈل برگ کی صحبتوں کی یادیں اب بھی دلوں میں باقی تھیں اور ماضی کے دوستانہ تعلقات کا احترام تو ہمیشہ اقبال کو ملحوظ رہا۔ لیکن ان کے لیے ممکن نہ تھا کہ یہودی مصور، فیضی رحیمین کی طرح، نواب جنجیرہ کے دامنِ دولت سے وابستہ ہو کر ، ایوانِ رفعت کی زینت بن جاتے اور نہ تو محلوں کی ناز پروردہ، تفریحات و تعیشات کی دلدادہ عطیہ کی طبیعت میں خلوص و ایثار کی وہ خوبُو تھی کہ زندگی کی دشوار و پرخار راہوں میں، دو قدم بھی درویش مزاج اقبال کا ساتھ دے سکتیں ۔ جہاں تک ذہنی ہم آہنگی کا تعلق ہے، اس کی حقیقت بھی عطیہ کے اسلوب زندگی اور ان کے ثقافتی و تفریحی مشاغل سے پوری طرح واضح ہے۔ عطیہ بیگم اپنی اعلیٰ تعلیم، بے پردگی اور بے باکی کی وجہ سے اس دور کے ’’اصلاح پسند‘‘ نوجوانوں مثلاً سجاد حیدر یلدرم اور علی گڑھ کے شیخ عبداللہ وغیرہ کے نزدیک ، مسلم خواتین کے لیے ایک مثالی نمونہ بلکہ تحریک ِ اصلاح معاشرہ کی رہنما بنی ہوئی تھیں۔ لیکن اقبال اب عطیہ کے ان اوصاف اور طرزِ زندگی کو کس نگاہ سے دیکھتے تھے، اس کا اندازہ مندرجہ ذیل اقتباسات سے ہو گا جو ان کے کسی خطبے یا مقالے سے نہیں بلکہ ۱۹۱۰ء کی ذاتی بیاض "Stray Reflections" کے ترجمے ’’شذراتِ فکرِ اقبال‘‘ سے ماخوذ ہیں: (۱)- ایسے تمام مضامین جن میں عورت کو نسوانیت اور دین سے محروم کر دینے کا میلان پایا جاتا ہے، احتیاط کے ساتھ تعلیمِ نسواں کے نصاب سے خارج کر دیے جائیں۔۱۲۳؎ (۲) تفریحات کا شوق ایک مرتبہ پورا ہو جائے تو جلد ہی ایسا چسکا لگ جاتا ہے جو ناقابلِ تسکین ہو جاتا ہے۔ یورپی ممالک کا تجربہ اس افسوس ناک رجحان کا واضح ثبوت ہے… ۱۲۴؎ (۳) معاشرتی اصلاح کے نوجوان مبلغ سمجھتے ہیں کہ مغربی تعلیم کے چند جرعے مسلم خاتون کے تن مردہ میں جان ڈال دیں گے اور وہ اپنی ردائے کہنہ پارہ پارہ کر دے گی۔ شاید یہ بات درست ہو۔ لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ اپنے آپ کو برہنہ پا کر اسے ایک مرتبہ پھر اپنا جسم ان نوجوان مبلغوں سے چھپانا پڑے گا۔۱۲۵؎ عطیہ بیگم کی کتاب کی ترتیب میں جو مقاصد پوشیدہ تھے، ان کا تقاضا یہ بھی تھا کہ وہ قارئین کو اپنے حسبِ مراد نتائج تک پہنچنے میں مدد دیں۔ چنانچہ اختتامیے میں اقبال کی زندگی کو ایک سفاکانہ المیہ ثابت کرنے کے لیے، ان کی زندہ و توانا ، حیات آفرین و حیات افروز شخصیت اور زندئہ جاوید کارناموں کا استخفاف بھی روا رکھا۔ دراصل ان مسلمہ حقایق کا منہ چڑانا بھی ان کی انا کی تسکین کی ایک صورت اور ایک نفسیاتی مجبوری تھی! جستجو جس گل کی تڑپاتی تھی اے بلبل مجھے خوبیٔ قسمت سے آخر مل گیا وہ گل مجھے ہائیڈل برگ کے اقامت خانۂ شیرر میں جرمن زبان کی ٹیوٹر مس ایما ویگے ناست سے اقبال کی ملاقات ، اپنے گونا گوں اور دیرپا اثرات کے لحاظ سے اس دور کا سب سے اہم واقعہ ہے۔ گزشتہ اوراق میں یہ ذکر آ چکا ہے کہ کیمبرج میں اپنے مقالے کی تکمیل کے بعد، اور ۱۷؍جوکائی ۱۹۰۷ء کو جرمنی جانے سے پہلے، تقریباً تین ماہ کی مدت، اقبال نے جرمن زبان سیکھنے میں صرف کی، حتیٰ کہ جرمن ادب و فلسفہ کے مطالعے اور متعلقہ موضوعات پر بحث و تمحیص کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا۔ اب ہائیڈل برگ میں مس ایما جیسی فاضل اور بقول عطیہ فیضی ’’بحر العلوم‘‘ ٹیوٹر کی رہنمائی حاصل ہوئی تو تمام تر وقت جرمن ادبیات کے عمیق اور وسیع تر مطالعے میں صرف ہونے لگا۔ ایما کے نام اپنے خطوط میں اقبال بڑی حسرت سے ان مسرت بخش صحبتوں کو یاد کرتے ہیں جب وہ گوئٹے یا ہائنے کا کلام ایما کی مدد سے پڑھا کرتے تھے۔ یادوں کا یہ سلسلہ ربع صدی تک جاری رہا۔ چنانچہ ۱۷؍جنوری ۱۹۳۲ء کے خط میں وہ لکھتے ہیں: ’’اُن دنوں کی یاد جب ہم گوئٹے کا ’’فاؤسٹ‘‘ ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے، ہمیشہ ایک غم انگیز مسرت کے ساتھ میرے دل میں آتی رہتی ہے… جرمنی میرے لیے ایک طرح سے دوسرا روحانی وطن تھا۔ میں نے اس ملک میں بہت کچھ سیکھا اور بہت کچھ سوچا تھا۔ گوئٹے کے وطن نے میری روح کے اندر ایک دائمی گھر بنا لیا ہے۔‘‘۱۲۶؎ گوئٹے کے شہرئہ آفاق ڈرامے ’’فاؤسٹ‘‘ کو اقبال نے اپنے مختصر تبصروں میں ’’الہامی کارنامہ ‘‘ قرار دیا ہے،۱۲۷؎ اور اسی حوالے سے پیامِ مشرق کی ایک نظم ’’جلال و گوئٹے‘‘ میں گوئٹے کے بارے میں کہا: ع ’’نیست پیغمبر ولے دارد کتاب۔‘‘۱۲۸؎ بقول اقبال، گوئٹے نے اس ڈرامے کے معمولی قصے میں انسان کے اعلیٰ ترین نصب العین، خیر و شر کی کشمکش اور اس کشمکش میں انسان کے ارتقائی امکانات کے تما م مدارج نہایت فن کارانہ حسن کے ساتھ بیان کیے ہیں۔ اس کے مطالعے سے اقبال بہت متاثر ہوئے اور فکری طور پر مستفید بھی۔ گوئٹے جیسے بلند پایہ مفکر و شاعر کے افکارِ عالیہ کو سمجھنا اور سمجھانا کوئی معمولی بات نہیں۔ ایما ویگے ناست کی ذہانت و قابلیت، اور ان کی فلسفہ دانی و سخن شناسی کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہو گا کہ گوئٹے کے اس شاہکار کی فنی تحسین و معنوی تفہیم میں اقبال کی خاطر خواہ رہنمائی کی۔ گوئٹے کی عظمتِ فکر و فن کے علاوہ، اقبال کی گرویدگی کا ایک خاص سبب اس کی مشرقیت اور اسلامیت بھی تھی۔ اقبال کے خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’فائوسٹ‘‘ کے علاوہ گوئٹے کی دیگر شعری تخلیقات کا مطالعہ بھی انھوں نے ایما کی مدد سے کیا تھا۔لہٰذا اس کا ’’دیوانِ مغربی‘‘ اور مشہور نعتیہ شاہکار ’’نغمۂ محمد‘‘ بھی ایما سے پڑھا ہو گا۔ مطالعے کے دوران اور مختلف صحبتوں میں، دیگر مباحث علمی کے علاوہ محسنِ انسانیتؐ کی سیرت اور اسلامی اقدار کے بارے میں بھی گفتگو کا موقعہ ملا ہو گا۔ اس طرح دونوں کے درمیان ذہنی یگانگت اور روحانی قرب کے رشتے استوار ہوئے۔ ایما ویگے ناست کے حسن و جمال کی تعریف بھی کی گئی ہے، جس کی تصدیق ان کے عنفوانِ شباب کی ایک تصویر (مشمولہ اقبال یورپ میں) سے ہوتی ہے۔ اگرچہ انگلستان میں بھی حسن و جمال کے بہت سے پیکر اقبال کی نظر سے گزرے ہوں گے لیکن مشرقی نسائیت کے اوصاف اور ادائیں انھیں کہیں نظر نہ آئیں، جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں: میں نے اے اقبال یورپ میں اسے ڈھونڈا عبث بات جو ہندوستاں کے ماہ سیمائوں میں تھی۱۲۹؎ جرمن خواتین کے بارے میں اقبال کے تجربات مختلف تھے۔ اپنے عینی مشاہدات کے حوالے سے ایک صحبت میں انھوں نے جرمن اور انگریز خواتین کے باہمی فرق و امتیاز کے بارے میں فرمایاتھا: ’’انگریز عورت میں وہ نسائیت اور بے ساختگی نہیں جو جرمن عورت میں ہے۔ جرمن عورت ایشیائی عورت سے ملتی جلتی ہے۔ اس میں محبت کی گرمی ہے، انگریز عورت میں یہ گرمی نہیں۔ انگریز عورت گھریلو زندگی اور اس کی بندشوں کی اس طرح شیدا نہیں جس طرح کہ جرمن عورت ہے (اسی سلسلۂ گفتگو میں ایک مشہور انگریز سیاست دان، ڈبلیو۔ ٹی۔ سٹیڈ کا یہ قول بھی منقول ہوا) جرمن عورتیں در حقیقت پردے میں ہیں، یعنی انگریز اور امریکن عورتوں کی آزادی کے مقابلے میں جرمن عورتیں تقریباً پردے ہی میں ہیں۔‘‘۱۳۰؎ مس ایما اپنے علم و فضل اور تہذیبی و ثقافتی محاسن کے علاوہ ، جرمن خواتین کی اس مشرقیت کی بہترین نمائندہ تھیں۔ جرمن نو مسلم ، امان اللہ ہوبوہم صاحب (جن کی وساطت سے اقبال کے۲۷ نو دریافت خطوط پہلے پہل منظرِ عام پر آئے) اپنے تعارفی مقالے میں ان خطوط کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اقبال ان کے بڑے گرویدہ تھے … لیکن یہ گرویدگی بالکل پاک اور معصوم تھی۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ اقبال کی نظروں میں مس ویگے ناسٹ ان تمام اشیا کی نمائندگی کرتی تھیں جن کو وہ جرمنی میں محبوب اور قابلِ تعظیم سمجھتے تھے اور جو انھیں جرمنی کے تمدن، اس کے فکر و ادب اور اس کی تمام طرزِ معاشرت میں اس قدر پُر کشش معلوم ہوتی تھیں۔‘‘۱۳۱؎ بہ الفاظِ دیگر ، جب اقبال اپنے خطوط میں جرمنی سے اپنی شیفتگی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جرمنی میری روح میں سما گئی ہے، تو گویا اس سے مراد یہ ہے کہ مس ایما ہی جرمن ادب و ثقافت کی مجسّم علامت بن کر ان کی روح کی گہرائیوں میں اتر گئی ہیں۔ جمالیاتی ذوق، اقبال کی شاعرانہ شخصیت کا ایک نمایاں پہلو ہے لیکن وہ صرف صورت پرست نہیں، معنی آشنا بھی تھے۔ ابتدائی مشقِ سخن کے دور کی غزل کا یہ شعر اس حقیقت کا مظہر ہے کہ عنفوان شباب میں بھی ان کی نظر شخصیت کے باطنی حسن کو پرکھتی تھی: جس کی سیرت بھی دل کو تڑپا دے وہ حسیں خال خال ہوتے ہیں۱۳۲؎ دورانِ سفرِیورپ کے ایک واقعے سے (جس کا ذکر تفصیلاً آگے آئے گا) ان کے اس طرزِ احساس کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔ اس روداد کا خلاصہ یہ ہے کہ تختۂ جہاز پر رقص و سرود کا دور چل رہا تھا، رقاصائوں میں ایک اطالوی لڑکی نے اقبال کو بہت متاثر کیا، لیکن جب اس نے ایک چھوٹی سی تھالی میں مسافروں سے انعام مانگنا شروع کیا تو وہ تمام اثر زائل ہو گیا۔ ’’کیونکہ میری نگاہ میں وہ حسن جس پر استغنا کا غازہ نہ ہو، بد صورتی سے بدتر ہو جاتا ہے۔‘‘۱۳۳؎ اقبال جیسے دیدہ ور کی نگاہ جس جمالِ سیرت کو اصل معیار حسن قرار دیتی ہے، اس کی جھلک بھی نیک دل ایما کی شخصیت و کردار میں انھیں نظر آئی۔ بقولِ اقبال وہ ایک ’’فرشتہ سیرت‘‘ خاتون تھیں۔ عطیہ فیضی کے نام ایک خط (لاہور، ۹؍اپریل۱۹۰۹ئ) میں لکھتے ہیں:’’دو تین ہفتے ہوئے، مجھے آپ کی سہیلی ویگے ناسٹ کا خط ملا تھا۔ میں اس لڑکی کو پسند کرتا ہوں۔ وہ اتنی اچھی اور سچی ہے… ‘‘۱۳۴؎ اس سے زیادہ وہ اور کیا لکھتے۔اس زمانے میں عطیہ، کسی غلط فہمی کے تحت، اقبال کو سخن سازی، بے نیازی اور منافقت کے طعنے دے رہی تھیں اور اقبال ان سب کے جواب میں بڑی خوش اسلوبی سے حقِ دوستی نبھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ٹیوٹر کی حیثیت سے ایما کے رویے میں خود داری اور وقار کا پہلو نمایاں رہا ہو گا لیکن عطیہ بیگم کی مرصع اور سراپا ناز شخصیت کے برخلاف ایما کی سادہ و بے ریا فطرت ، خود نمائی اور پندارِ حسن کے داغ سے بالکل پاک تھی۔ ’’شذراتِ فکراقبال‘‘ میں جہاں گوئٹے کی شخصیت کے بارے میں ایک مختصر شذرہ ہے، اس کے ساتھ ہی دوسرا شذرہ اس عنوان سے درج ہے: ’’دنیا کی دلکش ترین شے‘‘۔ گمانِ غالب ہے کہ گوئٹے کی یاد آتے ہی ان کا ذہن، گوئٹے شناس ایما کی طرف منتقل ہوا ہوگا، جس کی درپردہ یوں تعریف کی گئی ہے: ’’وہ عورت جو کمال حسن کے باوصف پندارِ حسن سے مطلق مبرا ہو، میرے نزدیک تمام مخلوقاتِ ارضی میں دلکش ترین شے ہے۔‘‘۱۳۵؎ ایسی جامع صفات شخصیت سے اقبال کتنے مسحور ہوئے، اس کا اندازہ ان کی اس نظم (وصال) سے ہوتا ہے، جس کی ایک نقل انھوں نے میونخ سے عطیہ فیضی کے پاس بھیجی تھی اور جس کا پہلا شعر اس روداد کی ابتدا میں درج ہے۔ لیکن یہ گرویدگی یک طرفہ نہیں تھی۔ ایما ویگے ناسٹ بھی اس وجیہ نوجوان شاعر کے اعلیٰ کردار اور ذہانت و زندہ دلی سے بے حد متاثر تھیں۔وہ اقبال کے فلسفیانہ رجحان اور ادبی شہرت سے بھی باخبر تھیں۔ اس ہونہار فلسفی شاعر کی شخصیت میں انھوں نے مستقبل کے گوئٹے کی جھلک دیکھی ہو گی۔ ایما کے خصوصی تعلق خاطر اور گہرے جذباتی لگائو کا ثبوت یہ ہے کہ اقبال جب اپنی تربیت کی مدت ختم کرکے ہائیڈل برگ سے رخصت ہو کر میونخ چلے گئے، تو ان کے جاتے ہی وہ بھی شیرر منزل کی ملازمت سے دست بردار ہو کر اپنے آبائی وطن، ہائیل برون میں اپنے والدین کے ساتھ رہنے لگیں۔۱۳۶؎ خط لکھنے میں پہل بھی انھی کی طرف سے ہوئی۔ غالباً اقبال کو اپنے موجودہ پتے سے مطلع کرنا مقصود تھا۔ لیکن جیسا کہ اقبال نے اپنے ایک خط میں لکھا ہے کہ وہ اظہارِ جذبات کو پسند نہیں کرتی تھیں۔ اگر ہائیڈل برگ کے زمانۂ رفاقت میں کبھی اشارۃً اس تعلقِ خاطر کے اظہار کی نوبت آئی بھی ہو، تو اقبال نے ان کی خصوصی توجہ اور خلوص کو ، ان کی نیک دلی اور عام حسنِ اخلاق پر محمول کیا ہو گا۔ خط وکتابت کا سلسلہ شروع ہوا تو ابتداء ً اقبال نے ضبط و احتیاط سے کام لیا۔ مثلاً میونخ سے پہلے خط (مورخہ ۱۶؍اکتوبر ۱۹۰۷ئ) میں لکھتے ہیں: ’’اگر میرے خط مختصر ہوں تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ میرے پاس لکھنے کو کچھ نہیں ہے بلکہ میرا ذریعۂ اظہار ناقص ہے… میں نہیں چاہتا کہ اپنی ٹوٹی پھوٹی جرمن سے آپ کی طبیعت کو خراب کروں۔ لیکن یہ رکاوٹ آپ کے لیے موجود نہیں، چنانچہ آپ سے مکمل اظہار کی اُمید ہے۔‘‘ خط کی آخری سطروں میں اپنی افسردہ دلی کی طرف ایک مبہم سا اشارہ ہے: ’’خزاں کی دھیمی اور نم آلود ہوا بڑی خوش گوار ہے۔ موسم بڑا خوبصورت ہے۔ لیکن افسوس کہ ہر حسین چیز کی طرح یہ بھی بے دوام ہے۔‘‘۱۳۷؎ ایما، اقبال سے زیادہ محتاط تھیں۔ دوسرے خط میںاپنی پریشانی خاطر کے اظہار کا جرم بے اختیار سرزد ہو گیا تو اس خط کو پھاڑ ڈالا اور اس کی جگہ ایک مختصر سا خط لکھ بھیجا۔ لیکن خط لکھ کر پھاڑ ڈالنے کی خبر بجائے خود داخلی کیفیات کی غماز تھی۔ اقبال شکوہ سنج ہیں: ’’میں اس وقت تک آپ کو نہیں لکھوں گا جب تک آپ وہ خط نہیں بھیجتیں جو آپ نے پھاڑ ڈالا ہے۔ یہ بڑی بے رحمی ہے۔ آپ ہائیڈل برگ میں تو ایسی نہیں تھیں۔ شاید ہائیل برون کی آب و ہوا نے آپ کو بے مہر بنا دیا ہے۔‘‘۱۳۸؎ ان گلے شکووں میں بڑی لگاوٹ پوشیدہ ہے۔ میونخ سے ۲۷؍اکتوبر کے خط کے ایک جملے میں تعلقِ خاطر کا درپردہ اظہار یوں ہوا ہے: ’’جو شخص اقامت خانۂ شیرر میں رہ چکا ہو، اُسے اور کوئی اقامت گاہ پسند نہیں آ سکتی۔‘‘۱۳۹؎ لندن پہنچنے کے بعد بالآخر وہ مرحلہ آیا کہ اقبال نے ۲؍دسمبر کے خط میں اپنا دل کھول کر رکھ دیا: ’’میں زیادہ لکھ یا کہہ نہیں سکتا۔ آپ تصور کر سکتی ہیں کہ میرے دل میںکیا ہے… جو شخص آپ سے دوستی کر چکا ہو، اس کے لیے ممکن نہیں کہ آپ کے بغیر وہ جی سکے۔ براہ ِ کرم میں نے جو لکھا ہے، اس کے لیے مجھے معاف فرمائیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ اس قسم کے اظہارِ جذبات کو پسند نہیں کرتیں۔‘‘۱۴۰؎ یہ معذرت قبول ہوئی بلکہ اس حسین گناہ کا انعام بھی ۲۰؍جنوری ۱۹۰۸ء کو دو تصویروں کی صورت میں اقبال کو ملا۔ اب ان کے دلی جذبات جرمن زبان کی بندشوں کو توڑ کر یوں بہہ نکلے: ’’ یہ آپ کی بڑی کرم فرمائی ہے۔ دونوں تصویریں بڑی خوبصورت ہیں اور وہ ہمیشہ میرے مطالعے کے کمرے میں میری میز پر رہیں گی۔ لیکن یہ مت باور کیجیے (کذا) کہ وہ صرف کاغذ ہی پر نقش ہیں بلکہ وہ میرے… میں بھی جاگزیں ہیں اور تا دوام رہیں گی۔ شاید میرے لیے یہ ممکن نہ ہو گا کہ میں دوبارہ آپ کو دیکھ پائوں… لیکن میں یہ ضرور تسلیم کرتا ہوں کہ آپ میری زندگی کی ایک حقیقی قوت بن چکی ہیں۔/ میں آپ کو کبھی فراموش نہ کروں گا اور ہمیشہ آپ کے لطف و کرم کو یاد رکھوں گا۔‘‘۱۴۲؎ اگلے خط میں مس ایما نے کچھ ایسی بات لکھی کہ اقبال ’’اندیشہ ہائے دور دراز‘‘ میں مبتلا ہوئے اور جلد جواب نہ دے سکے۔ اس تاخیر پر ایما کا شکایت نامہ پہنچا تو جذبات کا چشمہ پھر آبل پڑا: ’’آپ سمجھتی ہیں کہ میں تغافل شعار ہوں؟ یہ بالکل ناممکن ہے… جب آپ کا پچھلا خط پہنچا تو میں بڑا بیمار تھا اور اس نے مجھے اور بھی بیمار کر ڈالا۔ کیونکہ آپ نے لکھا تھا کہ آپ نے بڑے طوفانوں میں سے گزرنے کے بعد اپنی طمانیتِ قلب دوبارہ حاصل کر لی ہے۔ میں یہ سمجھا کہ آپ میرے ساتھ مزید خط و کتابت نہیں کرنا چاہتیں اور اس بات سے مجھے بڑا دکھ ہوا۔ اب مجھے پھر آپ کا خط موصول ہوا ہے اور اس سے مجھے بڑی مسرت ہوئی ہے۔ میں ہمیشہ آپ کے بارے میں سوچتا ہوں اور میرا دل ہمیشہ بڑے خوبصورت خیالوں سے معمور رہتا ہے… ایک شرارے سے ایک شعلہ اٹھتا ہے اور ایک شعلے سے ایک بڑا الائو روشن ہو جاتا ہے۔ لیکن آپ سرد مہر ہیں، غفلت شعار ہیں۔ آپ جو جی میں آئے کیجیے، میں بالکل کچھ نہیں کہوں گا اور ہمیشہ صابر و شاکر رہوں گا۔‘‘۱۴۱؎ / اس دور کی بہترین رومانی نظم ’’حسن و عشق‘‘ میں انھی تاثرات کی ترجمانی کی گئی ہے۔ نظم کے دوسرے بند میں تصویر کے ذکر کے ساتھ، تیسرے بند میں ’’زندگی کی حقیقی قوت‘‘ کی تفسیر ملاحظہ ہو: مرے دل میں تری زلفوں کی پریشانی ہے تری تصویر سے پیدا مری حیرانی ہے حسن سے عشق کی فطرت کو ہے تحریک کمال تجھ سے سرسبز ہوئے میری امیدوں کے نہال (بانگِ درا، ۱۱۶) مس ایما ابتدا ہی سے محتاط تھیں۔ ہائیڈل برگ سے انتہائی پریشانی کے عالم میں اسی لیے اپنے گھر چلی گئیں کہ وہاں کے رفیقوں پر ان کے دل کا بھید نہ کھلنے پائے۔ گھر پہنچنے کے بعد اگرچہ جذباتی ہیجان و طوفان کی کیفیت کچھ عرصے تک طاری رہی، لیکن یہ کیفیت عارضی تھی۔ وہ ایک بالغ نظر اور دانشور خاتون تھیں۔ فلسفہ و ادب کے وسیع مطالعے نے ان کے ذہن میں مفکرانہ صلاحیتیں پیدا کر دی تھیں۔ اقبال کی طرح وہ بھی انسانیت کے اعلیٰ ترین نصب العین اور بلند اقدار سے گہرا لگائو رکھتی تھیں۔ انھوں نے سوچا ہو گا کہ دو غیر ملکیوں کی یہ محبت جس دائمی قرب و رفاقت کی طلب گار ہے، وہ بعض اعلیٰ معاشرتی و اخلاقی اقدار کی قربانی کے بغیر ممکن نہیں۔ لہٰذا تعلقات کو اس حد تک بڑھانا مناسب نہیں کہ دونوں کو شدید ترین ابتلائوں کا سامنا کرنا پڑے۔ یہی مفہوم ہے ان کے اس جملے کا کہ ’’میں نے بڑے طوفان سے گزرنے کے بعد اپنی طمانیتِ قلب دوبارہ حاصل کر لی ہے۔‘‘ دل کو کیا کیا سکون ہوتا ہے جب کوئی آسرا نہیں ہوتا(جگر) اقبال بھی اسی اندیشے میں مبتلا رہے ہوں گے۔ اس حقیقت کے اعتراف کے باوجود کہ ’’آپ میری زندگی کی ایک حقیقی قوت بن چکی ہیں‘‘، اُن کا یہ جملہ اسی ذہنی خلش کا مظہر ہے: ’’شاید میرے لیے یہ ممکن نہ ہو گا کہ میں دوبارہ آپ کو دیکھ پائوں۔‘‘ اقبال کی محولہ بالا نظم ’’وصال‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے دل میں، اپنی ازدواجی زندگی کی تلخیوں اور ناکامیوں کی تلافی کے لیے ایما جیسی خاتون کو رفیقۂ حیات کی حیثیت سے اپنانے کی آرزو پیدا ہو چکی تھی۔اب وہ اپنے گلِ مراد کے حصول کے لیے طرح طرح کے عملی منصوبے بنا رہے تھے۔ ان منصوبوں کا واضح اظہار تو آئندہ خطوط میں ہوا ہے لیکن محولہ بالا خط کا یہ جملہ بھی اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتا ہے: ’’میں ہمیشہ آپ کے بارے میں سوچتا ہوں اور میرا دل ہمیشہ بڑے خوبصورت خیالوں سے معمور رہتا ہے۔‘‘ وہ جانتے تھے کہ اپنا جائز حق منوانے کے لیے انھیں معاشرتی رسم و رواج کے خلاف عملی جہاد کرنا پڑے گا۔ اس انقلابی اقدام کے لیے عزم صمیم اور جذباتی قوت درکار ہو گی۔ اسی لیے وہ طعنہ آمیز لہجے میں کہتے ہیں: ’’ایک شرارے سے ایک شعلہ اُٹھتا ہے … لیکن آپ سرد مہر ہیں۔‘‘ غالباً سرد مہری کے طعنوں کے باوجود، ایما نے اپنی تحریر سے ہوا دے کر شرارے کو شعلہ بنانے کی کوشش نہ کی ہوگی۔ البتہ ہائیڈل برگ میں بیتے ہوئے مسرت بھرے دنوں کی یادیں اور ایما کی تصویریں انھیں برابر اکساتی رہی ہوں گی۔ اقبال کے آئندہ خطوط میں بھی اپنی تمنائوں اور مستقبل کے خوابوں اور ارادوں کا پرجوش الفاظ میں اظہار ہوا ہے۔ وہ اپنے ان خوش آئند خیالات کے بارے میں مس ایما کے تاثرات اور ان کا ردِعمل جاننے کے منتظر رہتے تھے۔ لندن سے ۳؍جون ۱۹۰۸ء کے خط میں لکھتے ہیں: ’’براہِ کرم جلد خط لکھیے اور مجھے بتائیے کہ آپ کیا کر رہی ہیں اور سوچ رہی ہیں؟ آپ میرے خط کا انتظار کیوں کرتی ہیں؟ میں ہر روز آپ سے اطلاع پانے کی آرزوں رکھتا ہوں… بے رحم نہ بنیے پلیز! جلد خط لکھیے اور تمام احوال بتائیے ۔ میرا جسم یہاں ہے، میرے خیالات جرمنی میں ہیں۔آج کل بہار کا موسم ہے۔ سورج مسکرا رہا ہے لیکن میرا دل غمگین ہے۔ مجھے کچھ سطریں لکھیے۔آپ کا خط میری بہار ہو گا۔ میرے دلِ غمگیںمیں آپ کے لیے بڑی خوبصورت سوچیں ہیں اور یہ خاموشی سے ایک کے بعد ایک آپ کی طرف روانہ ہو رہی ہیں۔__ یہ ہیں آپ کے لیے میری تمنائیں۔‘‘۱۴۳؎ ۲۷؍جون کو لندن سے لکھتے ہیں:’’میں اگلے سال یورپ واپس آنے اور آپ سے ملنے کی اُمید رکھتا ہوں۔ مت بھولیے گا کہ اگرچہ کئی ملک اور سمندر ہمیں ایک دوسرے سے جدا کریں گے، پھر بھی ہمارے درمیان ایک غیر مرئی رشتہ قائم رہے گا۔ میرے خیالات ایک مقناطیسی قوت کے ساتھ آپ کی طرف دوڑیں گے اور اس بندھن کو مضبوط بنائیں گے۔ ہمیشہ مجھے لکھتی رہیے گا اور یاد رکھیے گا کہ آپ کا ایک سچا دوست اگرچہ فاصلۂ دراز پر ہے لیکن جب دل ایک دوسرے سے قریب ہوں تو فاصلہ کچھ معنی نہیں رکھتا۔‘‘۱۴۴؎ اقبال۸ یا ۱۰؍جولائی کو لندن سے روانہ ہوئے ہوں گے اور ۲۷؍جولائی ۱۹۰۸ء کو لاہور پہنچے۔ سیالکوٹ سے ۳؍ستمبر کے خط میں مختلف حالات کے بعد یہ مختصر سا جملہ ایک داستانِ شوق کا حامل ہے: ’’میں اپنی ساری جرمن زبان بھول گیا ہوں لیکن مجھے صرف ایک لفظ یاد ہے… ایما!‘‘۱۴۵؎ چند ماہ تک وہ اپنے معاشی و خانگی مسائل میں بری طرح الجھے رہے۔ اس عرصے میں صرف ایک اور خط لکھا جو ایما کو نہ مل سکا۔ اس سے اگلے خط میں ان حسین خوابوں اور تمنائوں کی قدرے وضاحت ہوئی ہے، جن کا ذکر لندن کے خطوط میں بار بار آیا ہے۔ ۱۱؍جنوری ۱۹۰۹ء کو لاہور سے لکھتے ہیں۔’’…براہ کرم ہمیشہ مجھ کو لکھتی رہیے گا۔ شاید ہم دوبارہ جرمنی یا ہندوستان میں ایک دوسرے سے مل سکیں۔ کچھ عرصے بعد جب میرے پاس کچھ پیسے جمع ہو جائیں گے تو میں یورپ میں اپنا گھر بنائوں گا… یہ میرا تصور ہے اور میری تمنا ہے کہ یہ سب پورا ہو گا (کذا)… براہ کرم اپنے دوست کو مت بھولیے ، جو ہمیشہ آپ کو اپنے دل میں رکھتا ہے اور جو آپ کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ ہائیڈل برگ میں میرا قیام مجھے ایک خوبصورت خواب سا لگتا ہے اور میں اس خواب کو دہرانا چاہتا ہوں۔ کیا یہ ممکن ہے؟ آپ خوب (بہتر) جانتی ہیں۔‘‘۱۴۶؎ انگلستان اور جرمنی کی آزاد فضا میں جس محرومِ تمنا شاعر نے اپنے مستقبل کے حسین خواب دیکھے تھے، اسے اپنے وطن پہنچتے ہی زندگی کے تلخ و سنگین مسائل سے دوچار ہونا پڑا۔ ان میں سب سے زیادہ اہم اور پریشان کن مسئلہ ازدواجی زندگی سے متعلق تھا، جس کا ذکر سب سے پہلے اقبال نے اپنے ایک بے تکلف دوست خواجہ حسن نظامی سے کیا۔ خواجہ صاحب کے نام اپنے ایک خط مورخہ ۱۶؍اکتوبر ۱۹۰۸ء میں لکھتے ہیں: ’’آپ اپنی ہر تحریک میں بغیر پوچھے مجھے شریک تصور کیجیے، مگر جس درد نے کئی مہینوں سے مجھے بے تاب کر رکھا ہے، جو مجھے راتوں کو سونے نہیںدیتا، جو مجھے تنہائی میں رلاتا ہے، اس کی وجہ پہلے مجھ سے سن لیجیے۔‘‘۱۴۷؎ ایما کے نام ۱۱؍جنوری والے خط کے تین ماہ بعد ، ۹؍اپریل ۱۹۰۹ء کو اقبال نے عطیہ فیضی کے نام جو خط بھیجا، اس سے ان کی شدید ذہنی الجھن اور روحانی کرب کی نوعیت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔ عطیہ نے ان سے پوچھا تھا کہ علی گڑھ سے انھیں صدر شعبۂ فلسفہ کے منصب کی جو پیش کش ہوئی تھی اسے انھوں نے کیوں قبول نہیں کیا۔ اقبال جواباً لکھتے ہیں: ’’… ہاں میں نے علی گڑھ کی پیشکش مسترد کر دی ہے اور چند روز ہوئے گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبۂ تاریخ کی صدارت بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ میں کوئی ملازمت اختیار کرنا نہیںچاہتا۔ میرا ارادہ ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو، یہ ملک چھوڑ کر بھاگ جائوں۔ آپ اس کا سبب جانتی ہیں۔ مجھے اپنے بھائی کا ایک اخلاقی فرض ادا کرنا ہے جو مجھے روکے ہوئے ہے۔ یہ لوگ میری بیوی کو زبر دستی میرے سر منڈھنا چاہتے ہیں۔ میں نے اپنے والد کو لکھ دیا ہے کہ انھیں میری شادی کے اہتمام کا کوئی حق نہیں تھا، خصوصاً اس صورت میں جبکہ میں نے شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ میں اس کی کفالت کے لیے آمادہ ہوں، لیکن اسے اپنے ساتھ رکھ کر اپنی زندگی اجیرن بنانے کو ہرگز تیار نہیں۔ ایک انسان کی حیثیت سے مجھے بھی حصولِ مسرت کا حق حاصل ہے۔ اگر سماج یا فطرت مجھے اس سے محروم کرنا چاہے تو میں دونوں کا مقابلہ کروں گا۔ واحد علاج یہی ہے کہ میں اس منحوس ملک کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دوں یا مے نوشی میں پناہ ڈھونڈوں جو خودکشی کا آسان ذریعہ ہے۔ کتابوں کے یہ بنجر اوراق مجھے مسرت نہیں دے سکتے۔ میری روح میں اتنی آگ ہے کہ ان کے ساتھ سماجی رسوم و رواج کو بھی جلا ڈالے …‘‘۱۴۸؎ عطیہ کے نام اگلے خط مورخہ ۱۷؍اپریل میں بھی بعض جملے انتہائی مایوسی کے مظہر ہیں: ’’اب میں دوسروں سے زیادہ باتیں نہیں کرتا۔ خود میرا بدنصیب وجود المناک خیالات کا ایک معدن ہے، جو میری روح کے گہرے اور تاریک غاروں سے سانپ کی طرح پھنکارتے ہوئے نکلتے ہیں۔ شاید میں ایک سپیرا بن جائوں گا اور تماشابین لڑکوں کے ایک غول کے ساتھ گلیوں میں پھرا کروں گا…‘‘۱۴۹؎ مندرجہ بالا اقتباسات کے پیشِ نظر ، یہ بات غور طلب ہے کہ اقبال اس دور میں جس شدید درجے کی مایوسیی و بیزاری اور جس روحانی کرب و اذیت میں مبتلا تھے، اس کا اصل سبب کیا صرف ازدواجی زندگی کی الجھنیں تھیں؟ جہاں تک اس مسئلے کا تعلق ہے، وہ اپنی بیوی کو طلاق دے کر جہاں چاہتے جا سکتے تھے۔ بہرحال قدرے رد و کد کے بعد یہ مسئلہ یوں حل ہوا کہ انھوں نے علیحدگی کی صورت میں کفالت کی ذمہ داری قبول کرلی اور ایک مقررہ رقم ماہانہ بھیجتے رہے۔ لیکن اقبال نے یورپ جانے کے جو منصوبے باندھے تھے ، ان کی تکمیل کی راہ میں کئی سنگِ گراں حائل تھے۔ ۹؍اپریل ۱۹۰۹ء کے خط (بنام عطیہ فیضی) میںانھوں نے اپنے بڑے بھائی کے اخلاقی مقروض ہونے کا ذکر کیا ہے۔ شیخ عطا محمد عنقریب اپنی ملازمت سے سبک دوش ہونے والے تھے اور منتظر بیٹھے تھے کہ ’’اقبال کی ڈگریوں کا اجرا کب ہوتا ہے۔‘‘ ۲۹؍دسمبر ۱۹۰۸ء کو جب اقبال ایک قومی کانفرنس کے سلسلے میں مصروف تھے، بھائی کی شدید علالت کا تار ملتے ہی بھاگے ہوئے سیالکوٹ پہنچے۔ ۱۳؍جنوری ۱۹۰۹ء کے خط میں عطیہ کو لکھتے ہیں: ’’شکر ہے کہ خدا نے اپنے فضل و کرم سے انھیں میرے لیے بچا لیا۔ ان کا کتنا روپیہ مجھ پر خرچ ہو چکا ہے اور اب تک خرچ ہو رہا ہے۔ انھیں کھو دینا ہر لحاظ سے میرے لیے اندوہ ناک ہوتا۔‘‘۱۵۰؎ان جملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے بھائی کے کتنے زیر بار منت تھے، اور ان کے احسانات کا بدلہ چکانے کے لیے کیا کچھ نہ کرنا چاہتے ہوں گے۔ در حقیقت وہ اپنے بیٹے آفتاب سے زیادہ، ان کے تینوں بیٹوں کی تعلیم و تربیت کے بارے میں فکر مند رہے۔ انھیں اپنی ماں سے بے حد محبت تھی اور بزرگ باپ کو پیر و مرشد کی طرح مانتے تھے۔ سہ سالہ جدائی کے بعد اب والدین کا سایۂ شفقت نصیب ہوا تو کس طرح ممکن تھا کہ ان کی خدمت کے بجائے ، وہ انھیں داغِ مفارقت دے کر یورپ میں جا بستے۔ ان اخلاقی و معاشرتی تقاضوں کے علاوہ ایک بندھن جو ان کے ذہن و فکر کو جکڑے ہوئے تھا، ملکی و ملی مسائل کا بندھن تھا۔ عطیہ فیضی کے نام ۹؍اپریل ۱۹۰۹ء کے خط ہی کو دیکھیے جس میں انھوں نے اپنی خانگی زندگی کی سخت ترین ابتلا کا ذکر کیا ہے۔ عین اس بحرانی دور میں بھی ملی مسائل سے ان کی فکری وابستگی برابر قائم رہی، جس کا ثبوت خط کی اس عبارت سے ملتا ہے: ’’ابھی پچھلے دنوں میں نے ایک جلسۂ عام میں ’معاشرتی ارتقا میں مذہب بحیثیت ایک مؤثرعامل‘ کے موضوع پر ایک لیکچر دیا تھا۔ میں نے صرف چند مختصر اشارات لکھ رکھے تھے۔ مجھے معلوم نہیں کہ کسی نے میری تقریر قلم بند کی یا نہیں۔ انجمن کا خطبہ انگریزی میں اس موضوع پر ہو گا: ’اسلام بحیثیت ایک اخلاقی و سیاسی نصب العین‘۔ اگر یہ شائع ہوا تو ایک نسخہ آپ کی نذر کروں گا۔‘‘۱۵۱؎ اقبال کے سفرِ انگلستان کا اصل محرک، دیگر علمی مقاصد کے علاوہ یہ اعلیٰ تر مقصد تھا کہ مغربی حکمت و سیاست کے غلبہ و تسلط کے خلاف فکری جہاد کے لیے مناسب تر بیت حاصل کریں۔ چنانچہ روانگی سے قبل حضرت خواجہ نظام الدینؒ کے مزار پر خلوصِ دل سے یہ دعا مانگی تھی: مقام ہم سفروں سے ہو اس قدر آگے کہ سمجھے منزلِ مقصود کارواں مجھ کو۱۵۲؎ اقبال کی دعا بطریق احسن پوری ہوئی اور ان کی چشم بصیرت اس طرح روشن ہو گئی کہ ان کے افکار و اشعار، کاروانِ ملت کے لیے نشانِ منزل بن گئے۔ وہ یورپ سے اس عزم کے ساتھ لوٹے تھے: میں ظلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو شرر فشاں ہوگی آہ میری ، نفس مرا شعلہ بار ہوگا۱۵۳؎ اقبال اپنی زندگی کے اس اعلیٰ ترین نصب العین کو کسی حال میں بھی فراموش نہیں کر سکے۔ ۱۹۰۹ء میں وقتی طور پر وہ فرض و محبت کی شدید کشمکش میں مبتلا رہے۔ فرائض کے ہجوم میں محبت پسپا اور ان کی انا لہولہان ہو گئی۔ محبت تو اختیاری امر نہیں، البتہ ’’زورِ جنوں ‘‘ میں بھی ’’پاس گریباں‘‘ رکھنا اقبال کے لیے ممکن تھا اور اب تک وہ اس میں کامیاب بھی رہے، جس کا ثبوت ان کے عملی کارنامے اور علمی فتوحات ہیں۔ لیکن ازدواجی زندگی کی الجھنوں سے گھبرا کر ان سے یہ لغزش ہو گئی کہ جو خواب انھوں نے آزادی کی فضا میں دیکھا تھا، اس کا اعلان ایما کے نام ۱۱؍جنوری ۱۹۰۹ء کے خط میں کر دیا۔ اگرچہ اس خط میں ایک جملہ ایسا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں اپنے موجودہ حالات کی مجبوریوں کا کچھ احساس ضرور تھا: ’’شاید ہم جرمنی یا ہندوستان میں ایک دوسرے سے مل سکیں۔‘‘ یعنی اگر میں وطن چھوڑ کر یورپ نہ آ سکوں تو شاید تم ہی کو ہندوستان آنے کی زحمت دوں گا۔ اس خط کے آخر میں یہ جملہ: ’’کیا یہ ممکن ہے؟ آپ بہتر جانتی ہیں۔‘‘ گویا ایما کو کچھ سوچنے اور دستِ تعاون بڑھانے کی ایک تحریک و ترغیب ہے۔ لیکن ایما بھی انھی کی طرح اخلاقی و معاشرتی بندھنوں میں جکڑی ہوئی تھیں، کیا جواب دیتیں؟! اِدھر سے بھی ہے سوا کچھ اُدھر کی مجبوری کہ ہم نے آہ تو کی، ان سے آہ بھی نہ ہوئی(جگر) چھ ماہ بعد ۳۰؍جولائی ۱۹۰۹ء کے خط میں اگرچہ جذب و شوق کی وہی کیفیت ہے، لیکن اپنی بے بسی کا واضح اظہار بھی ہے: ’’… میں بے تابی سے اس وقت کا منتظر ہوں جب میں دوبارہ آپ کے وطن میں آپ سے مل سکوں گا۔ براہ کرم مجھے ہمیشہ ہمیشہ لکھتی رہیے گا… میں یہاں بالکل اکیلا رہتا ہوں اور خود کو بڑا غمگین پاتا ہوں۔ ہماری تقدیر ہمارے اپنے ہاتھوں میں نہیں ہے۔ ایک ایسی عظیم قوت ہے جو ہماری زندگیوں کو منظم کرتی ہے… براہ کرم مجھے اپنے دل اور اپنی یادوں میں ایک چھوٹی سی جگہ دیجیے گا۔‘‘۱۵۴؎ تنہائی کا احساس روز بروز بڑھتا رہا۔ ایما کی رفاقت میں گزرے ہوئے ’’بہجت آفریں ‘‘ دنوں کی یاد اس تنہائی میں ان کا واحد سہارا بنی رہی۔ بے بسی اور نا اُمیدی کے باوجود ’’دامانِ خیالِ یار‘‘ چھوٹنے نہ پایا۔ اگرچہ خطوط میں تواتر و تسلسل باقی نہ رہا لیکن دوستانہ مراسم قائم رکھنے کے لیے اگلے سال تحائف کے تبادلے بھی ہوئے۔ اس سے اگلے سال ۱۱؍مئی ۱۹۱۱ء کے مختصر سے خط میں جرمنی کے سفر کی تمنا اور ملاقات کی حسرت کے اظہار کے بعد ایک طویل خط لکھنے کی درخواست بھی کی ہے۔ اسی سال ۶؍اکتوبر کو اکبر الہ آبادی کے نام ایک خط میں اپنے احساسِ تنہائی کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’لاہور ایک بڑا شہر ہے لیکن میں اس ہجوم میں تنہا ہوں۔ ایک فرد واحد بھی ایسا نہیں جس سے دل کھول کر اپنے جذبات کا اظہار کیا جا سکے …‘‘۱۵۵؎ اپنے ذاتی معاملات میں وہ ’’سراپا تن بہ تقدیر‘‘ بن چکے تھے۔غالباً اسی سال لاہور کے ایک کشمیری گھرانے میں ان کی دوسری شادی ہوئی لیکن بعض غلط فہمیوں کی بنا پر ایک طویل عرصے تک رخصتی نہ ہو سکی۔ ۹۱۳اء میں لدھیانہ کے ایک متمول کشمیری خاندان میں رشتہ طے ہوا۔ تیسری شادی کے بعد دوسری بیوی (محترمہ سردار بیگم، والدئہ جاوید اقبال) کے بارے میں غلط فہمی کا ازالہ ہو گیا اور وہ دوبارہ حبالۂ عقد میں آ گئیں۔۱۵۶؎ اس طرح اقبال کا گھر آباد ہوا، ازدواجی زندگی کی آسائشیں اور آسودگی انھیں حاصل ہوئی، لیکن مس ایما نے عمر بھر شادی نہیں کی۔ ۱۳؍جولائی ۱۹۱۳ء کو ایما کے والد کی وفات کی خبر پا کر اقبال نے پہلی مرتبہ انگریزی میں نہایت پُرخلوص اور طویل تعزیت نامہ بھیجا ، جس کا خاتمہ ان حسرت بھری یادوں پر ہوا ہے: ’’مجھے وہ وقت بخوبی یاد ہے جب میں نے گوئٹے کی شاعری آپ کے ساتھ پڑھی تھی، اور مجھے اُمید ہے کہ آپ کو بھی وہ ایام خوب یاد ہوں گے جب ہم روحانی طور پر ایک دوسرے کے کس قدر قریب تھے۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ ہم اب بھی ایک دوسرے سے قریب ہیں، یہاں تک کہ میں روحانی لحاظ سے آپ کا شریکِ غم ہوں۔‘‘۱۵۷؎ اگلے سال ایما کے خط کے جواب میں ہے ۷؍جون ۱۹۱۴ء کو لکھتے ہیں:… اگلے روز (کذا) میں ہائنے کا مطالعہ کر رہا تھا، اور مجھے وہ پر مسرت دن یاد آگئے جب ہائیڈل برگ میں محترمہ پروفیسر صاحبہ کے یہاں ہم دونوں اس کو ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے…مجھے یہ جاننے کا بڑا چنبھا (کذا) ہے کہ آپ ان دنوں کیا کر رہی ہیں… ہو سکتا ہے کہ میں اگلے سال یورپ آئوں لیکن… یہ سب حالات پر منحصر ہے۔ اگر میں واقعی یورپ آیا تو یقینا دیار قدیم جرمنی کا بھی سفر کروں گا اور آپ سے دوبارہ ہائیڈل برگ یا ہائیل برون میں ملاقات کروں گا، جہاں سے ہم دونوں ایک ساتھ اس عظیم فن کار گوئٹے کے مزارِ مقدس کی زیارت کو چلیں گے۔‘‘۱۵۸؎ اس خط کے بعد جنگِ عظیم چھڑ جانے سے کئی سال تک رابطہ منقطع رہا۔ ۱۰؍اکتوبر ۱۹۱۹ء کو اقبال نے مس ایما اور ان کے خاندان کی خیریت دریافت کرنے کے لیے خط لکھا اور بالخصوص ان کے بھائیوں کی سلامتی کے بارے میں فکر و تشویش ظاہر کی۔۱۵۹؎ اس کے بعد بارہ سال تک خطوط کا سلسلہ منقطع رہا۔ دوسری گول میز کانفرنس کے سلسلے میں جب اقبال لندن پہنچے تو کسی جرمن شناسا نے ۱۵؍اکتوبر ۱۹۳۱ء کی صبح کو انھیں ایما کا موجودہ پتہ بہم پہنچایا۔ مس ایما، جنگ چھڑنے کے بعد ہائیڈل برگ میں اپنی بہن کے ساتھ مستقل طور پر سکونت پذیر تھیں اور ۱۹۲۰ء سے یونی ورسٹی کلینک میں بطور کیمسٹ کام کر رہی تھیں۔۱۵۹؎ اقبال نے پتہ معلوم ہوتے ہی اُسی روز خط لکھا۔ ایما نے بھی فوراً جواب بھیجا جو ۲۰؍اکتوبر کو مل گیا۔ اقبال نے اُسی دن ایک طویل خط لکھا جس کا ایک حصہ یہاں نقل کیا جاتا ہے: ’’… مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ باوجود ان تمام آلام و مصائب کے، جن سے آپ کو دو چار ہونا پڑا، آپ زندگی سے خندہ پیشانی کے ساتھ عہدہ برآ ہو رہی ہیں۔ میں ہائیڈل برگ کے وہ ایام کبھی فراموش نہ کر سکوں گاجب آپ نے مجھے گوئٹے کا فائوسٹ پڑھایا اور دیگر کئی طرح سے میری مدد کی تھی۔ وہ کیا ہی بہجت افزا دن تھے… میں اپنی سی پوری کوشش کروں گا کہ میں ہائیڈل برگ آئوں اور آپ سے اسی پرانے مقام پر ملاقات کروں۔ مجھے اب تک دریائے نیکر یاد ہے جس کے کنارے ہم ایک ساتھ گھوما کرتے تھے۔ لیکن فی الحال کوئی بات پختہ نہیں ہے… میری یہ بڑی ہی آرزو ہے کہ میں آپ سے ملوں اور ان پر مسرت دنوں کی یادیں تازہ کروں جو افسوس کہ اب ہمیشہ کے لیے گزر چکے ہیں…‘‘۱۶۰؎ لیکن لندن سے واپسی کا پروگرام کچھ اس طرح بنا کہ انھیں سیدھے روم جانا پڑا اور جرمنی کا سفر، اگلے سال دوبارہ لندن آنے کے وعدے پر ٹل گیا۔ تیسری گول میز کانفرنس کے اجلاس میں شرکت کے لیے جب وہ دوبارہ لندن آئے اور خط و کتابت کا موقعہ ملا تو پھر ملاقات کے وعدے وعید ہوئے، بلکہ ہائیڈل برگ کے بائر شر ہوٹل میں ٹھہرنے کا پیشگی انتظام بھی ہوا اور اپنی آمد کی تاریخ اور وقت سے بھی ایما کو مطلع کر دیا گیا۔ لیکن اس مرتبہ دانستہ یا نادانستہ بنا بنایا پروگرام دھرا رہ گیا، جو ٹکٹ خریدے گئے وہ منسوخ کرائے گئے اور پھر اقبال ٹرین کے ذریعے برگساں کی ملاقات کے لیے پیرس پہنچے (جہاں سے ہائیڈل برگ زیادہ دور نہیں تھا) اور پیرس سے سیدھے میڈرڈ (ہسپانیہ) چلے گئے۔۱۶۳؎ اتنی آرزوئوں کے بعد دونوں مرتبہ ملاقات سے محروم رہنا، کیا محض مقدر کی بات تھی یا دانستہ گریز و فرار؟ گمانِ غالب ہے کہ اقبال بھی مولانا حالی کی طرح اس مخمصے میں مبتلا رہے ہوں گے: واں اگر جائیں تو لے کر جائیں کیا؟ منہ اسے ہم جاکے یہ دکھلائیں کیا! ان کے معذرت ناموں سے قطع نظر کرتے ہوئے، ۱۷؍جنوری ۱۹۳۲ء کے اس خط کی چند سطریں یہاں نقل کی جاتی ہیں، جو ایما کے شکایت نامے کے جواب میں لاہور سے بھیجا گیا تھا۔ ایما یہ بھی جاننا چاہتی تھیں کہ شعر و فلسفہ کے میدان میں ان سے جو توقعات وابستہ تھیں، وہ کس حد تک پوری ہوئیں۔ اقبال لکھتے ہیں: ’’… ان تمام برسوں میں، میں نے آپ کو کبھی فراموش نہیں کیا اور میرے دل میں ہمیشہ یہ تمنا زندہ رہی ہے کہ میں دوبارہ آپ سے ملوں گا، لیکن بختِ تیرہ کو جو منظور ہوا: ع ’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘ …آپ چاہتی ہیں کہ میں آپ کو بتائوں کہ ان تمام سالہا سال کے دوران میں، میں کیا کرتا اور کیا سوچتا رہا ہوں؟ تو سنیے! میں نے بہت کچھ لکھا ہے اور وہ تمام چیزیں جو میں نے بطور شاعر اور لکھی کے لکھی ہیں، وہ میں نے شائع کر دی ہیں۔ تاہم میرے ذہن نے ہمیشہ ایک کمی سی محسوس کی ہے اور خود کو اپنے اس گردونواح میں تنہا سا پایا ہے۔ جوں جوں میری عمر بڑھ رہی ہے، اس تنہائی کا احساس بھی فزوں تر ہوا جاتا ہے۔ لیکن سوائے تسلیم و رضا کے ہمارے لیے کوئی چارہ کار نہیں اور میں نے بھی پوری تسکین دل کے ساتھ اپنی قسمت کو قبول کر لیا ہے۔‘‘۱۶۲؎ یوں تو اقبال کی دیگر تحریروں خصوصاً اشعار میں بھی احساسِ تنہائی کا جابجا اظہار ہوا ہے لیکن ان خطوط کے سیاق و سباق میں یقینی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس احساس کا خاص سبب ایما کی رفاقت سے محرومی تھا۔ وہ ایما جو ذہنی و روحانی قرب کی بدولت اقبال کی ’’زندگی کی ایک حقیقی قوت‘‘ بن چکی تھی، جس کی بے لوث محبت، اقبال کی صحیح جوہر شناسی اور سچی قدردانی پر مبنی تھی، جس کی پاکیزہ شخصیت اپنی فطرتِ سلیمہ کے لحاظ سے، ان کی ذات کا آئینہ اور ’’ہمدم دیرینہ‘‘ بننے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ اقبال نے ۱۹۰۹ء کے ایک خط میں اسی طرح احساسِ تنہائی کا ذکر کیا تھا، لیکن اُس دور میں وہ اپنی بے بسی پر نالاں اور احساسِ تنہائی پر فریاد کناں تھے۔ مثنوی اسرار خودی کے اختتامیے میں ان کی فریاد کی لے بڑی درد ناک ہے۔ آخری چند اشعار ملاحظہ ہوں: ہست در ہر گوشۂ ویرانہ رقص می کند دیوانہ با دیوانہ رقص من مثالِ لالۂ صحراستم درمیانِ محفلے تنہاستم خواہم از لطفِ تو یارِ ہمدمے از رموزِ فطرتِ من محرمے یا بجانِ او سپارم ہوئے خویش باز بینم در دلِ او روئے خویش سازم از مشتِ گلِ خود پیکرش ہم صنم او را شوم ہم آزرش۱۶۳؎ اور اب وہ اپنی محرومیوں پر بھی صابر و شاکر اور تنہائیوں میں بھی پُرسکون ہیں۔ لیکن ہمیں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ یہ سکون انھیں اپنی ذات کی بڑی عظیم قربانی کے بعد حاصل ہوا تھا۔ اقبال نے بہت پہلے افرادِ ملت کو ایثارِ نفس کا جو پیغام دیا تھا، اس پر خود عمل کرکے دکھا دیا: وجود افراد کا مجازی ہے، ہستیِ قوم ہے حقیقی فدا ہو ملّت پہ ، یعنی آتش زنِ طلسمِ مجاز ہو جا!۱۶۴؎ /// فصل دوم فکری جائزہ (۱) اقبال کا تحقیقی کام مغربی تہذیب پر اقبال کے ناقدانہ فکری عمل کا آغاز۱۹۰۷ء کے اوائل سے ہوتا ہے، لہٰذا آخری ڈیڑھ سال کی یہ مدت خاص اہمیت کی حامل ہے۔ لیکن فکری ارتقا کے سلسلے میں ابتدائی دور کے تحقیقی کام کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایرانی مابعد الطبیعیات کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھنے کے لیے مشرقی و مغربی فلسفے کی تاریخ سے واقفیت کے علاوہ فارسی و عربی اور کسی مغربی زبان میں مہارت درکار تھی۔ پروفیسر آرنلڈ نے مطلوبہ علمی استعداد کے ساتھ اقبال کے میلانِ طبع کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور خصوصاً الجیلی پر ان کے مطبوعہ مقالے کی رعایت سے، موضوع تحقیق کے انتخاب میں نہایت دانش مندی کا ثبوت دیا۔ اس موضوع پر اقبال کا تحقیقی مطالعہ اور غور و فکر کئی لحاظ سے مفید اور نتیجہ خیز ثابت ہوا۔ اس سلسلے میں انھیں متعددانگریز و جرمن فضلا، نیز لندن، کیمبرج، ہائیڈل برگ اور میونخ کے بہترین کتب خانوں سے استفادے کا موقعہ ملا۔ ایک محقق کسی موضوع پر چھان بین شروع کرتا ہے تو بہت سی ایسی چیزیں نگاہ سے گزرتی ہیں۔ جو اگرچہ اس موضوع کے محدود دائرے سے خارج ہوتی ہیں اور جن کے مطالعے سے اسے اپنے اصل کام میں کچھ زیادہ مدد نہیں ملتی، لیکن موضوع کے اطراف و جوانب کے بہت سے تاریک گوشے روشن ہو جاتے ہیں اور اس کے ذہنی افق میں بڑی وسعت پیدا ہو جاتی ہے۔ اقبال نے اپنے تحقیقی کام کے سلسلے میں، انگلستان اور جرمنی کے کتب خانوں میں جب مسلم علما و مفکرین کے علمی جواہر پارے، نادر مطبوعات و مخطوطات کی صورت میں محفوظ دیکھے تو ان کی آنکھیں کھل گئیں۔ اس مشاہدے سے جہاں اسلاف کے علمی کارناموں سے اخلاف کی غفلت، اور اس دولتِ بے بہا سے اپنی قومی محرومی پر انھیں افسوس ہوا، جس کا اظہار انھوں نے اپنی ایک نظم (خطاب بہ جوانانِ اسلام) میں کیا ہے: حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی نہیں قدرت کے آئینِ مسلّم سے کوئی چارا مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آباکی جو دیکھو ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا۱۶۵؎ وہاں اس باثروت علمی و فکری ورثے کے سر سری جائزے سے ان کے دل میں اسلام اور ملتِ اسلامیہ کی ثقافتی عظمت کا صحیح شعور بھی پیدا ہوا۔ یہ شعور و احساس انھیں آیندہ مزید تحقیقی کام پر اکساتا رہا، اور وہ دیگر مسلم علما و محققین کو بھی ’’حکمائے اسلام کے عمیق تر مطالعے کی دعوت‘‘/ دیتے رہے۔ اقبال نے اپنے ’’خطبات‘‘ کے سلسلے میں (اور اس کے بعد بھی ) مسلم علما کے تصور زمان کے بارے میں برسوں تحقیق جاری رکھی، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قیامِ انگلستان کے زمانے میں بھی وہ بعض مسلم حکما کے ارتقائی تصورِ کائنات اور اضافی تصورِ زماں سے متعارف ہو چکے تھے۔ چنانچہ انھوں نے ۱۹۰۶ء میں حقیقتِ زمان پر ایک مقالہ لکھا تھا، لیکن اپنے استاد میک ٹیگرٹ کی تنقید سے متاثر ہو کر اسے ضائع کر دیا، جس پر بعد میں وہ افسوس ظاہر کیا کرتے تھے۔ سب سے اہم بات یہ کہ اس تحقیق کے نتیجے میں ایرانی ذہن و فکر کے مخصوص رجحانات، اور تصوف کے آغاز و ارتقا کے تاریخی عوامل کے بارے میں جو حقائق منکشف ہوئے وہ مقالہ مکمل ہونے کے بعد، تصوف کی حقیقت و ماہیت پر مزید غور و فکر کی محکم اساس بن گئے۔ فلسفۂ عجم کے ارتقائی جائزے کے موضوع پر اقبال کے مقالے کو اوّلیت حاصل ہے، اور اس لحاظ سے اس کی تاریخی حیثیت بھی مسلّم ہے۔ لیکن اس موضوع کا دائرہ قبل اسلامی فلسفۂ ایران (بحوالۂ زرتشت، مانی و مزدک) سے لے کر انیسویں صدی کے مذہبی مفکرین(محمد علی باب شیرازی اور بہاء اللہ) تک پھیلا ہے۔ موضوع کی وسعت کے پیش نظر یہ توقع فضول ہے کہ ہر مسئلے اور ہر فرد کے بارے میں مقالہ نگار کی رائے حرفِ آخر ہو گی۔ اس وسیع موضوع کے مختلف پہلوئوں پر مغرب اور مشرق میں تحقیقی کام برابر جاری رہا۔ پھر یہ حقیقت بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ مقالے کی تکمیل و اشاعت کے بعد بعض بنیادی مسائل کے بارے میں خود مقالہ نگار کے نظریات بھی بدل گئے۔ چنانچہ ۱۹۲۷ء میں جب میر حسن الدین صاحب نے علامہ اقبال / اورینٹل کانفرنس کے اجلاس لاہور (۱۹۲۸ئ) میں اقبال کے صدارتی خطبے کا یہی موضوع تھا۔ اس انگریزی خطبے کا ترجمہ ’’حکمائے اسلام کے عمیق تر مطالعے کی دعوت‘‘ کے عنوان سے انوارِ اقبال میں شامل ہے (صفحات ۲۴۷ تا ۲۶۷) سے مقالے کے ترجمے کی اجازت طلب کی تو انھوں نے اجازت دیتے ہوئے یہ بھی تحریر فرمایا: ’’یہ کتاب آج سے اٹھارہ سال پہلے لکھی گئی تھی۔ اُس وقت سے نئے امور کا انکشاف ہوا ہے اور خود میرے خیالات میں بھی بہت سا انقلاب آ چکا ہے۔ جرمن زبان میں غزالی، طوسی وغیرہ پر علیحدہ کتابیں لکھی گئی ہیں جو میری تحریر کے وقت موجود نہ تھیں۔ میرے خیال میں اس کتاب کا صرف تھوڑا سا حصہ باقی ہے جو تنقید کی زد سے بچ سکے۔‘‘۱۶۶؎ گزشتہ پون صدی کے عرصے میں مشرق میں بھی ابن مسکویہ، ابن سینا، فارابی، غزالی، طوسی وغیرہ پر مستقل تصانیف شائع ہو چکی ہیں۔ اقبال کے سامنے اُس وقت جدید تحقیقی مواد موجود نہیں تھا، لہٰذا انھوں نے زیادہ تر مغربی مستشرقین کی تصانیف سے استفادہ کیا ہے۔ اس کتاب کے دوسرے ایڈیشن کے مرتب، پروفیسر میاں محمد شریف صاحب مرحوم نے اپنے مختصر دیباچے میں یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اقبال نے مستشرقین کے زیر اثر ، ابنِ سینا، ابن مسکویہ اور فارابی جیسے عظیم حکما کے اجتہادِ فکر کا اعتراف نہیں کیا اور انھیں نوفلاطونی دبستان کا مقلد قرار دیا ہے۔۱۶۷؎ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مستشرقین سے استفادے کے باوجود اقبال نے اپنے ذاتی مطالعہ و تحقیق کی رسائی کی حد تک ، بسا اوقات اپنی آزادانہ رائے کا اظہار کیا ہے۔ مثلاً باب دوم میںجہاں انھوں نے ابتدائی دور کے مذکورہ بالا حکما پر نو فلاطونی اثرات کی نشان دہی کی ہے، وہاں واضح الفاظ میںیہ بھی لکھا ہے کہ : ’’پھر بھی ان پر کورانہ تقلید کا الزام لگانا ناانصافی ہو گی۔ ان کی تاریخ فکر اس مجموعۂ خرافات میں سے نکل آنے کی ایک مسلسل کوشش ہے جو یونانی فلسفے کے مترجمین کی لا پروائی کا نتیجہ تھا۔‘‘۱۶۸؎ اسی باب میں ابن سینا کو اقبال نے ’’ایک علیحدہ نظامِ فکر‘‘ کا بانی قرار دیا ہے۔ باب سوم میں حضرت امام غزالیؒکے بارے میں لکھا ہے کہ مسلم علما کے ذہنوں پر عقلیت کا جو رعب طاری تھا، اسے انھوں نے کامل طور پر زائل کر دیا اور اس طرح عقلیت شکنی میں انھیں ہیوم پر تقدم حاصل ہے۔ اسی ضمن میں جدید فلسفۂ مغرب کے امام ڈیکارٹ (Descartes) کو فلسفیانہ اسلوب میں غزالی کا خوشہ چیں کہا ہے۔ پروفیسر شریف نے اپنے ایک مقالے (Muslim Philosophy and Western Thouht) میں غزالی سے متعلق اقبال کے ان بیانات کی مدلّل تائید کی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ چونکہ ۱۱۵۰ء سے قبل غزالی کی تمام اہم تصانیف لاطینی زبان میں منتقل ہو چکی تھیں، لہٰذا مغربی فلسفے پر غزالی کے اثرات جا بجا ملتے ہیں، اور ڈیکارٹ کا تو یہ عالم ہے کہ اس کی مشہور تصنیف ڈسکورس آن میتھڈ (Discourse Sur La Methode) اپنے موضوع و مطالب، اندازِ بیان اور تشکیک و تحقیق کے یکساں اسلوبِ فکر کے اعتبار سے غزالی کی ’’المنقذ من الضلال‘‘ کا ہو بہو چربہ ہے۔۱۷۰؎ بہرحال جزئیات میں اختلاف رائے کی گنجائش ہو سکتی ہے، لیکن اقبال نے عجمی فکر کے انفرادی میلانات اور تصوف کے عروج و ارتقا کے تاریخی پس منظر کی دریافت و انکشاف میں جس دیدہ وری اور تحقیقی کاوش کا ثبوت دیا ہے، وہ بجائے خود اس مقالے کی قدر و قیمت متعین کرنے کے لیے کافی ہے۔ اپنے مقالے کی تمہید میں اقبال نے اس امر کی صراحت کردی ہے کہ ان کا نقطۂ نظر خالص تاریخی ہے اور اس تحقیق کا مقصد ایرانی ما بعد الطبیعیات کی آیندہ تاریخ کے لیے صرف ایک بنیاد فراہم کرنا ہے۔ اس ضمن میں مقالہ نگار نے اپنی تحقیق کے دو پہلوئوں کی طرف خاص توجہ دلائی ہے: (۱) ایرانی تفکّر کے منطقی تسلسل کا سراغ لگانے کی کوشش، اور (۲) تصوف کے موضوع پر سائنٹفک طریقے سے بحث اور اُن ذہنی حالات و شرائط کو منظرِ عام پر لانے کی کوشش جو اس قسم کے واقعے کو معرضِ ظہور میں لاتے ہیں۔۱۷۱؎ ان دونوں پہلوئوں سے مقالے کا جائزہ لیا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ فاضل مقالہ نگار کو اپنی ان کوششوں میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی ہے، اور اس نے جابجا ذہنی اُپج اور فکری اجتہاد کا ثبوت دیا ہے۔ مثلاً تصوف کے مآخذ پر بحث کرتے ہوئے سب سے پہلے مقالہ نگار نے مستشرقین کے نقطۂ نظر اور طرز تحقیق سے اختلاف کیا ہے۔ مستشرقین، خارجی اثرات کا سراغ لگانے کی دھن میں یک طرفہ نظریے قائم کر لیتے ہیں۔ چنانچہ فان کریمر اور ڈوذی نے ایرانی تصوف کا ماخذ ہندی ویدانت کو ٹھہرایا، نکلسن نے نوفلاطونی اثرات پر زور دیا اور پروفیسر برائون نے یہ نظریہ پیش کیا کہ تصوف، سامی مذہب کے خلاف ایک آریائی رد عمل ہے۔ لیکن مقالہ نگار کی رائے میں ان محققین نے دو بنیادی حقیقتوں کو نظر آنداز کر دیا ہے: (۱) اول یہ کہ ہر قوم کا ایک مخصوص و منفرد ذہن و مزاج ہوتا ہے۔ کوئی تصور خارج سے کسی قوم کی روح کی گہرائیوں میں اُتر نہیں سکتا، جب تک کہ خود اس کی نفسیات میں وہ تصور ایک مخفی عنصر کی حیثیت سے جاگزیں نہ ہو۔ خارجی اثرات اس خفیہ عنصر کو بیدار کر سکتے ہیں، لیکن عدم محض سے اس کو وجود میں نہیں لاسکتے۔(۲) دوم یہ کہ مستشرقین نے اس حقیقت کو ملحوظ نہیں رکھا کہ کسی قوم کے ذہنی ارتقا کے کسی مظہر کی اہمیت اور حقیقت، اسی صورت میں واضح ہو سکتی ہے جبکہ اس قوم کے گزشتہ فکری ، سیاسی و اجتماعی حالات کی روشنی میں اس پر غور کیا جائے۔۱۷۲؎ اقبال کے نزدیک یہ تمام یک طرفہ نظریات ایک ایسے تصور تعلیل کے تحت وضع کیے گئے تھے جو قطعاً غلط تھا۔ لہٰذا انھوں نے صحیح تصورِ تعلیل کے مطابق اسلامی تاریخ کے ان اہم سیاسی، اجتماعی اور فکری عوامل کی نشان دہی کی ہے جو آٹھویں صدی عیسوی کے نصف آخر اور نویں صدی کے نصف اول میں پائے جاتے تھے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب صوفیانہ نصب العین اور اس کا فلسفیانہ جواز پیش کیا گیا۔ اس مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر فاضل مقالہ نگار کے تجزیے کے اہم نکات اجمالاً درج کیے جاتے ہیں: (۱) مختلف واقعات و انقلابات کے حوالے سے مقالہ نگار نے یہ ثابت کیا ہے کہ تاریخ کا یہ دور سیاسی بے چینی کا دور تھا۔ اس بے اطمینانی کی فضا میں اہل اللہ کا طبقہ پرسکون مراقبے کی طرف مائل ہونے لگا۔ ادھر ایران میں آزاد سلطنتوں (طاہریہ، صفاریہ، سامانیہ وغیرہ) کے قیام کے بعد وحدت الوجودی تصورات بتدریج نمو پذیر ہوئے جن پر آریائی رنگ چڑھا ہوا تھا۔ (۲) متکلمین کی عقلیت میں ارتیابیت (Scepticism) کے جراثیم پوشیدہ تھے۔ جب ارتیابیت کی رو چلی تو اس کے رد عمل میں وجدانیات کی جانب میلان پڑھنے لگا۔ (۳) خلیفہ المامون کی حوصلہ افزائی سے مذہبی مناظروں کا بازار گرم ہوا۔ حتیٰ کہ اشاعرہ و معتزلہ کے مناقشوں اور مجادلوں نے بڑی ناخوش گوار صورت اختیار کر لی، جس سے بیزار ہو کر فطرتِ سلیمہ روحانی بلندیوں کی طرف مائل ہونے لگی۔ (۴) خلفاے عباسیہ کے ابتدائی ادوار میں ایک طرف عقلیت کے فروغ سے اہل علم کے مذہبی جذبات سرد پڑ گئے، دوسری طرف دولت کی فراوانی اور ہوس پرستی نے امرا کے اخلاق و کردار مسخ کر دیے۔ غرضیکہ مذہبی زندگی سے بے اعتنائی عام ہو گئی۔ (۵) ان حالات میں عیسائی راہبوں کی زندگی ایک عملی نصب العین کی حیثیت سے ابتدائی مسلم صوفیہ کے لیے بہت پر کشش ثابت ہوئی، اگرچہ یہ رہبانی مسلک اسلامی روح کے بالکل منافی تھا۔۱۷۳؎ عجمی تصوف کے اس تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالنے کے بعد اقبال نے بڑی قطعیت کے ساتھ یہ رائے پیش کی ہے کہ جب تک تمام حالات کو، نیز ایرانی ذہن کے داخلی اور بنیادی میلانِ وحدت (Monism) کو ملحوظ نہ رکھا جائے، اس وقت تک تصوف کی ابتدا و ارتقا کی پوری توجیہ نہیں ہو سکتی۔ اس رائے کی صداقت سے کسے انکار ہو سکتا ہے؟ مقالے کے چھ ابواب میں سے باب پنجم غالباً اہم ترین اور طویل ترین باب ہے، جس میں اقبال نے تصوف کے مآخذ و محرکات اور صوفیانہ مابعد الطبیعیات کے مختلف پہلوئوں پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ جس زمانے میں اقبال اپنے مقالے کی تکمیل میں مصروف تھے، اُس دور کے کلام کے علاوہ کیمبرج میں ان کے استادِ فلسفہ پروفیسر میک ٹیگرٹ کے ایک بیان سے بھی اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ ان کا ذہن حسبِ سابق وحدت الوجودی تصوف کی گرفت میں تھا۔ اقبال نے میک ٹیگرٹ کے فلسفے پر اپنے ایک انگریزی مقالے میں ، موصوف کے اس خط کا ایک طویل اقتباس درج کیا ہے جو انھوں نے نکلسن کے انگریزی ترجمہ اسرار خودی کے مطالعے کے بعد لکھاتھا ۔ میک ٹیگرٹ نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ اقبال کے خیالات میں بڑی تبدیلی آ گئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب ہم دونوں باہم فلسفے کے موضوع پر گفتگو کیا کرتے تھے، اُس زمانے میں تم یقینا ایک وحدت الوجود صوفی تھے۔۱۷۴؎ غالباً یہی وجہ ہے کہ اقبال نے اپنے مقالے میں عجمی تصوّف کے نظریات سے تعّرض نہیں کیا۔ یہ بات نہیں کہ نقد و نظر کا یہ پہلو مقالے کے بنیادی منصوبے اور تحقیق کے دائرے سے خارج تھا۔ تصوف کی اسلامی یا قرآنی بنیاد کا مسئلہ تحقیقی کام کے آغاز ہی سے اقبال کے پیش نظر رہا۔ چنانچہ انھوں نے کیمبرج پہنچتے ہی ۸؍اکتوبر ۱۹۰۵ء کو خواجہ حسن نظامی کے نام جو خط لکھا تھا، اس میں تصوف سے متعلق قرآن مجید کی آیات کے حوالے دریافت کیے۔ نیزخواجہ صاحب کی وساطت سے حضرت قاری سید سلیمان شاہ پھلواروی کی خدمت میں یہ استفسارات پیش کیے: (۱) مسئلہ وحدت الوجود قرآن کی کن آیات سے ثابت کیا جا سکتا ہے؟ (۲) تاریخی طور پر تصوف کو اسلام سے کیا تعلق ہے؟ (۳) کیا حضرت علی مرتضیٰؓ کو کوئی خاص پوشیدہ تعلیم دی گئی تھی؟ ان امور کے بارے میں ’’معقولی، منقولی اور تاریخی طور پر ‘‘ مفصل جواب کی درخواست کی گئی تھی۔۱۷۵؎ لیکن مقالے میں جب یہ مسائل زیر بحث آئے تو اقبال نے جرح و تعدیل کی زحمت گوارا نہیں کی۔ مثلاًوہ لکھتے ہیں: ’’یہ ثابت کرنے کے لیے کوئی تاریخی شہادت موجود نہیں ہے کہ پیغمبر عرب(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فی الواقعی حضرت علیؓ یا حضرت ابوبکرؓ کو کوئی باطنی علم سکھلایاتھا۔ بہرحال صوفیہ کا یہ دعویٰ ہے کہ پیغمبر علیہ السلام نے قرآن کی تعلیم کے سوا ایک باطنی تعلیم بھی دی تھی۔‘‘۱۷۶؎ اس دعوے کی تائید میں وہ قرآن کی یہ مشہور آیت پیش کرتے ہیں: ’’کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا وَ یُزَکِّیْکُمْ وَ یُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ یُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ۔‘‘ ان کا خیال ہے کہ ’’حکمۃ‘‘ کا جو ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے، وہ ایسی چیز ہے جس کو قرآن کی تعلیم میں بیان کیا گیا، ورنہ ’’کتاب‘‘ کے ساتھ ’’حکمٖۃ‘‘ کا لفظ حشو و زائد ہوگا۔۱۷۷؎ اقبال نے اپنے ایک مضمون میں جو ’’علم ظاہر و باطن‘‘ کے عنوان سے ۲۸؍جون ۱۹۱۶ء کے اخبار وکیل (امرتسر) میں شائع ہوا تھا، یہ ثابت کیا ہے کہ علم ظاہر (شریعت) اور علم باطن (طریقت یا تصوفِ وجودی) کی یہ تفریق، اور علم باطن کے مقابلے میں ظاہر کی تحقیر ہر طرح کی گمراہی اور رہبانیت کی اصل بنیاد ہے۔۱۷۳؎ اگر اس بحث کو یہاں طول دینا مناسب نہیں تھا تو اجمالاًیہ دلیل پیش کی جا سکتی تھی کہ امت مسلمہ کے لیے علم باطن کی اگر کوئی اہمیت یا ضرورت ہے، اور وہ من جملہ ہدایات ربانی اور علوم رسالت میں سے ہے تو اس کا اخفا شانِ رسالت محمدیہ کے بالکل خلاف ہے۔ لیکن اس سلسلے میں تصوف وجودی کے قرآنی مآخذ بیان کرتے ہوئے چند مشہور آیات (مثلاً ’’نَحْنُ اَقْرَبُ اِِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ‘‘ یا ’’اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ‘‘ وغیرہ) درج کی ہیں لیکن ان حوالوں کے بعد صرف یہ جملہ لکھ کر بات ختم کر دی ہے: ’’یہ چند آیات ہیں جن کی بنا پر صوفی مفسرین نے کائنات کے ایک وحدت الوجودی نقطۂ نظر کو نمو دیا ہے۔‘‘ ۱۷۹؎ یہاں اس بحث کی گنجائش موجود تھی کہ قرآن مجید کی مجموعی تعلیمات کی روشنی میں مفسرین کا یہ نقطۂ نظر کہاں تک درست ہے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی تحقیق اور حضرت شاہ محمد سلیمان صاحب کی رہنمائی کے باوجود تصوفِ وجودی کے حق میں ’’معقولی، منقولی اور تاریخی‘‘ دلائل فراہم نہ کر سکے، اور اس کی تردید کے لیے وہ ذہنی طور پر آمادہ نہیں تھے، لہٰذا اس نازک مقام سے دامن بچا کر گزر گئے۔ تاہم یہ ممکن نہیں کہ جابجا تشکیک کے کانٹوں میں ان کے ذہن و فکر کا دامن الجھا نہ ہو۔ اس دور کی آخری نظموں میںہمیں ایسے اشعار ملتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ تصوف وجودی کی دھند ان کی فضائے ذہنی سے بہت کچھ چھنٹ چکی ہے، ورنہ اس مرحلے میں ارتقائے خودی کے یہ اسرار اور اسلامی اجتماعیت کے یہ رموز ان پر منکشف نہ ہوتے: غرض ہے پیکارِ زندگی سے کمال پائے ہلال تیرا جہاں کا فرض قدیم ہے تو، ادا مثالِ نماز ہو جا وجود افراد کا مجازی ہے، ہستیِ قوم ہے حقیقی فدا ہو ملت پہ، یعنی آتش زنِ طلسمِ مجاز ہو جا۱۷۳؎ (۲) ’’سودیشی تحریک‘‘پر حقیقت پسندانہ تبصرہ اقبال کے ذہن و مزاج کی ایک خصوصیت جو ہمیں ان کے فکری ارتقا کے ہر دور میں حیرت انگیز طور پر متاثر کرتی ہے، ان کی حقیقت پسندی اور فکر ونظر کی ہمہ گیری ہے۔ فلسفی عموماً ایک خاص زاویے سے کسی مسئلے پر غور کرتا ہے، اور بسا اوقات مسئلے کے بہت سے واقعاتی اور عملی پہلو اس کی نگاہ سے اوجھل رہ جاتے ہیں۔ شاعر وقتی جذبات سے متاثرہو کر نتائج و عواقب پر نظر نہیں ڈالتا۔ لیکن اس فلسفی شاعر کا رویہ دونوں سے مختلف ہے۔ نہ تو اس کے رد عمل میں جذباتیت ہوتی ہے، نہ اس کے انداز فکر سے عینیت کا یک رخا پن۔ وہ انفرادی یا اجتماعی زندگی کے ہر اہم مسئلے کا ہمہ جہتی جائزہ لے کر، معقولیت اور حقیقت پسندی کی ٹھوس بنیادوں پر اپنی رائے قائم کرتا ہے۔ اس لحاظ سے اقبال کا وہ بیان جو ’’سودیشی تحریک ‘‘ کے بارے میں رسالہ زمانہ (کانپور)کے شمارئہ ماہ مئی ۱۹۰۶ء میں شائع ہوا تھا، خاص توجہ کامستحق ہے۔ ۱۹۰۵ء میں تقسیم بنگال کے فیصلے کے خلاف، انگریزی حکومت پر دبائو ڈالنے کے لیے بنگالی ہندوئوں نے برطانوی مصنوعات کے مقاطعے کی تحریک چلائی۔ انڈین نیشنل کانگریس نے ۷؍اگست ۱۹۰۵ء میں اس تحریک کی حمایت میں ایک قرارداد منظور کی۔۱۸۱؎ کانگریس کی سر پرستی میں ’’سودیشی تحریک‘‘ ملک بھر میں پھیل گئی، حتیٰ کہ علی گڑھ میں مولانا حسرت موہانی بھی ’’سودیشی بھنڈار‘‘ کھول بیٹھے۔ منشی دیا نرائن نگم، مدیر رسالہ زمانہ (کانپور) نے سودیشی تحریک کے متعلق اپریل ۱۹۰۶ء کے شمارے میں ایک سوال نامہ شائع کیا، اور اسے خاص طور سے مسلمان مفکروں، ادیبوں اور رہنمائوں کے پاس اظہار رائے کے لیے بھیجا۔ اقبال کی جگہ کوئی اور شاعر ہوتا تو اس مسئلے کو قابلِ اعتنا ہی نہ سمجھتا، یا کوئی اور نیشنلسٹ مسلم رہنما یا مفکر ہوتا تو ایسی تحریک پر جو کانگریس جیسی منظم و موقر جماعت کی قیادت میں مقبولیت حاصل کر رہی تھی، نکتہ چینی کی جرأت ہی نہ کرتا، کہ کہیں ’’فرقہ پرست‘‘ یا ’’انگریز کا پٹھو‘‘ نہ سمجھا جائے۔ اقبال کے لیے تو تعلیمی و تحقیقی مصروفیات کا معقول عذر بھی موجود تھا۔ لیکن انھوں نے رسالہ پہنچتے ہی کیمبرج سے جواب بھیجا: سرسری جواب نہیں بلکہ اقتصادی نقطۂ نظر سے مسئلے کے تمام پہلوئوں پر بھرپور تبصرہ ۔ مدیر زمانہ کے سوالات یہ تھے: (۱) ’’سودیشی تحریک بذات خود ملک کی ترقی کے لیے کہاں تک مفید ہے اور اس تحریک کے نشیب و فراز، نفع و نقصان اور عمل درآمد کے متعلق آپ کی مفصل رائے کیا ہے؟ (۲) اس تحریک میں ہندوستانیوں کے اتفاق کی کہا تک ضرورت ہے؟ خاص مسلمانوں کے لیے اس سے نفع یا نقصان پہنچنے کی کہاں تک امید ہے؟ (۳) اس تحریک کی کامیابی کے لیے آپ کا کیا خیال ہے اور اس کی کامیابی کا ہندو مسلمانوں پر جداگانہ اور ملک پر بحیثیت مجموعی کیا اثر ہوگا؟۱۸۲؎ اب اقبال کے جواب کے اہم نکات اجمالاً پیش کیے جاتے ہیں۔ یہاں یہ واضح رہے کہ اقبال ملک میں صنعتی ترقی کے زبردست حامی تھے۔ انھوں نے اپنے مضمون ’’قومی ترقی‘‘ میں اس پہلوپر خاص زور دیا تھا۔ علاوہ ازیں اسی باب کی گزشتہ فصل میں بمبئی کا ایک واقعہ بیان کیا جا چکا ہے، کہ انھوں نے چینیوں کے بارے میں جب یہ سنا کہ ملکی صنعتوں کی ترقی کے لیے انھوں نے بدیشی مال کا مقاطعہ شروع کر دیا ہے، تو اپنے اہل وطن کی غفلت پر شدت یاس سے ماتم کناں ہوئے۔ اپنے بیان کے ابتدائی حصے میں سب سے پہلے تو وہ اسی خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ سودیشی تحریک بالعموم پس ماندہ اور محکوم قوموںکے لیے نہایت مفید ہے۔ اس سے ملک میں خوش حالی بڑھے گی، اقتصادی حالات درست ہوں گے اور اقتصادی ترقی سے سیاسی آزادی کے حصول میں بھی مدد ملے گی۔ لیکن انھیں افسوس ہے کہ موجودہ تحریک ایک منفی تحریک ہے۔ لہٰذاوہ اس جوش و خروش کو ’’طفلانہ حرکات‘‘ قرار دیتے ہیں: ’’بھلا یہ بھی کوئی عقل کی بات ہے کہ امریکہ اور جرمنی کی چیزیں خریدو، مگر انگلستان کی چیزوں کو ہندوستان کے بازاروں سے خارج کر دو… اس طریق عمل سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ انگلستان سے ہم کو سخت نفرت ہے، نہ یہ کہ ہم کو ہندوستان سے محبت ہے۔‘‘۱۸۲؎ اقتصادی نقطۂ نظر سے وہ اس قسم کی تحریک کو غیر مفید بلکہ ناقابلِ عمل سمجھتے ہیں۔ تہذیب و تمدن کی ترقی سے ہماری ضروریات کا دائرہ وسیع ہو گیا ہے۔ ہزاروں چیزیں ایسی ہیں جنھیں ہمارا ملک ارزاں نرخ پر تیار ہی نہیں کر سکتا۔ دنیا میں کوئی ملک ہر لحاظ سے خود مکتفی نہیں ہے اور نہ ہوکتا ہے۔ لہٰذا اس بات کی کوشش کرنا بھی ’’سراسر جنون ہے‘‘ سودیشی تحریک کو عملی صورت دینے کے لیے اقبال کی رائے میں ان باتوں کا لحاظ ضروری ہے: (الف) وہ کون سی مصنوعات ہیں جو اس وقت ملک میں تیار ہو رہی ہیں اور ان کی کمیت و کیفیت کیا ہے؟ (ب) وہ کون سی مصنوعات ہیں جو پہلے تیار ہوتی تھیں اور اب تیار نہیں ہوتیں؟ (ج) وہ کون کون سی مصنوعات ہیں جن کو ہم خصوصیت سے عمدہ اور ارزاں تیار کر سکتے ہیں؟ (د) ملک کے صوبوں یا دیگر قدرتی حصوں کے لحاظ سے وہ کون کون سے مقام ہیں جو بعض اسباب کی وجہ سے خاص خاص مصنوعات کے لیے زیادہ موزوں ہیں۔۱۸۲؎ سودیشی تحریک کی کامیابی کے لیے سرمائے کی فراہمی کا مسئلہ بھی قابلِ غور ہے۔ اس بارے میں اقبال کی تجاویز یہ ہیں: (الف) ملک میں جو سرمایہ زیورات کی صورت میں معطل پڑا ہے، اسے استعمال میں لانے کے لیے مناسب تدبیریں اختیار کی جائیں۔ (ب) سرمائے کے بہترین نتائج اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب اس کی مقدار بڑی ہو۔ ہندوستان میں غربت و افلاس عام ہے۔ لہٰذا مشترک سرمایے کی جماعتیںقائم کی جائیں۔ (ج) عوام کی مسرفانہ عادات و رسوم کی اصلاح کی جائے۔ ان میں اجتماعی شعور اور قومی ترقی کا جذبہ پیدا کیا جائے۔۱۸۲؎ سوال نامے میں اس تحریک کی کامیابی کے لیے قومی اتحاد و اتفاق کی ضرورت کے بارے میں اظہارِ خیال کے لیے کہا گیا ہے۔ اقبال کی رائے میں نہ صرف اس تحریک کی کامیابی کے لیے، بلکہ سیاسی حقوق کے حصول کے لیے بھی اتحاد و اتفاق نہایت ضروری ہے۔ لیکن قومی اتحاد کی بنیادی شرط اتحادِ اغراض ہے۔ ہمارے ملک میں صورتِ حال یہ ہے کہ زبان سے تو سب ’’اتحاد اتحاد پکارتے ہیں، لیکن عملاً فرقہ وارانہ مقاصد پر دوسروں کے مفادات و اغراض قربان کر دیتے ہیں ’’ہم کو قال کی ضرورت نہیں ہے۔ خدا کی واسطے حال پیدا کرنے کی کوشش کرو۔ مذہب دنیا میں صلح کرانے آیا ہے، نہ کہ جنگ کی غرض سے۔‘‘۱۸۳؎ غالباً اقبال کو اس وقت سودیشی تحریک کے اصل محرکات کا علم ضرور ہو گا، اسی لیے یہاں انھوں نے دکھتی رگ پر انگلی رکھی ہے۔ تقسیم بنگال سے ہندو سرمایہ داروں کے استحصالی مقاصد پر زد پڑتی تھی۔ یہ سارا جوش وخروش ایک سیاسی چال تھی۔ اقبال کی رائے میں، اگر سودیشی تحریک صحیح خطوط پر چلائی جائے، یعنی ملکی صنعتوں کو فروغ دیا جائے اور ملکی مصنوعات کے مقابلے میں کسی تخصیص یا امتیاز کے بغیر بیرونی مصنوعات کا مقاطعہ کیا جائے، تو اس کی کامیابی میں مسلمانوں کا بھی فائدہ ہے ۔ اگرچہ پنجاب کے مسلمان بیشتر زراعت پیشہ ہیں لیکن مصنوعات سستی ہوں تو کم از کم بحیثیتِ خریدار انھیں فائدہ پہنچے گا۔ پھر کون یہ کہتا ہے کہ مسلمان محض خریدار بن کر رہیں۔ انھیں بھی صنعتی ترقی میں عملاً حصہ لینے کا موقع ملے گا۔ اپنے بیان کے آخر میں وہ اس تحریک کی کامیابی کے لیے صبر و استقلال، مناسب منصوبہ بندی اور عملی تنظیم پر زور دیتے ہیں۔ اقبال کی یہ مختصر تحریر ان کے متوازن، سائنٹفک، تجزیاتی انداز فکر اور ان کی بے باکی اور بے ریائی کا آئینہ ہے۔ (۳) مغربی تہذیب اور اس کے تاریخی عوامل کا ناقدانہ جائزہ جیسا کہ گزشتہ فصل میں ذکر آ چکا ہے، اقبال ابتدا میں مغرب کی مادی ترقی اور اہلِ مغرب کی حرکیت و عملیت سے بہت متاثر ہوئے۔ جن ظاہر بیں لوگوں کے سامنے مادی ترقی کے سوا تہذیبِ انسانی کا کوئی اور تصور نہیں ہوتا، ان کا تو ذکر ہی کیا، بڑے بڑے دانشوروں کی نگاہیں بھی مغرب کے چہرئہ روشن کی آب و تاب سے چندھیا جاتی ہیں اور اس کے باطنی رخ کو نہیں دیکھ سکتیں، جو ’’چنگیز سے تاریک تر‘‘ ہے۔ لیکن اقبال کی دور رس نگاہ خارجی مظاہر سے گزر کر بنیادی حقائق تک پہنچنے لگی۔ ہم گزشتہ باب میں دیکھ چکے ہیں کہ اقبال کے سامنے انسانیت کا ایک بلند نصب العین تھا۔ ان کا دل نوعِ انسان کی محبت سے سرشار تھا۔ اس عالمگیر جذبۂ محبت کے تقاضے سے وہ تمام انسانوں کو ایک قوم اور ساری دنیا کو اپنا وطن سمجھتے تھے۔ انھوں نے اقوامِ ہند کے اختلافات دور کرنے کے لیے وطن کو باہمی اشتراک و اتحاد کی بنیاد قرار دیا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ وحدتِ قومی، وحدتِ انسانی کے اعلیٰ نصب العین کی طرف ایک ابتدائی قدم ہے۔ لیکن یورپ میں ان پر یہ حقیقت واضح ہوئی کہ وطنیت کا تصور، عالمی وحدت کی راہ میں سنگ گراں بن کر حائل ہے۔ یورپ کے تمام چھوٹے بڑے ممالک کے باشندے مذھباً عیسائی ہیں۔ ان میں رنگ و نسل اور تہذیب و تمدن کے لحاظ سے بھی کوئی نمایاں فرق نہیں۔ لیکن وطنیت نے وحدت اور یگانگت کے ان تمام رشتوں کو کاٹ کر انھیں ایک دوسرے کا حریفِ مقابل بنا دیا ہے، اور اس طرح یہ نظریہ امن و محبت کی جگہ، ایک ہی مذہب کے ماننے والوں میں مستقل کشمکش اور نزاع کا باعث بنا ہوا ہے۔ کیمبرج کے دوستوں کی ایک صحبت میں اقبال نے میکیاولی اور مغرب کے دیگر سیاست دانوں کو شیطان کے فرستادہ پیغمبر قرار دیا تھا۔ لیکن وہ اس حقیقت سے بے خبر نہیں تھے کہ نظریۂ وطنیت پر مبنی لا دینی سیاسی نظام، دراصل مغرب کی ملحدانہ و مادہ پرست تہذیب ہی کا ایک شاخسانہ ہے۔ اہل مغرب نے اعلیٰ انسانی اقدار کو ٹھکرا کر مادی قوت و اقتدار کو اپنی تمام علمی و عملی سرگرمیوں کا محور بنا لیا۔ طبیعی علوم اور سائنسی ایجادات کی بدولت انھوں نے فطرت کو مسخر کیا اور دیوتائوں کی سی طاقت حاصل کر لی، لیکن اپنی مادہ پرستی کے ہاتھوں وہ اس طاقت کو درندوں کی طرح استعمال کر رہے ہیں۔ اقبال، سفر یورپ سے واپسی کے بعد سے اپنی زندگی کے آخری دور تک ، تہذیبِ مغرب کے خلاف فکری محاذ پر برسرِ پیکاررہے، بلکہ انھوں نے قیامِ انگلستان کے زمانے ہی میں اعلانِ جنگ کر دیا تھا۔ ان کی تنقیدِ مغرب کی ٹھوس بنیاد اس دور کے عینی مشاہدات اور مغربی تاریخ کے وسیع و عمیق مطالعے پر قائم ہے۔مشاہدے اور مطالعے کے نتیجے میں، اقبال کے ذہن و فکر میں جو انقلاب رونما ہوا، اس کاذکر کرتے ہوئے وہ اپنے ایک خط (مورخہ ۷؍ستمبر ۱۹۲۱ئ) میں لکھتے ہیں: اس زمانے میں سب سے بڑا دشمن، اسلام اور اسلامیوں کا نسلی امتیاز و ملکی قومیت کا خیال ہے۔ پندرہ (تیرہ لکھ کر کاٹ دیا اور اسے پندرہ بنایا) برس ہوئے جب میں نے پہلے پہل اس کا احساس کیا۔ اُس وقت میں یورپ میں تھا اور اس احساس نے میرے خیالات میں انقلابِ عظیم پیدا کر دیا۔حقیقت یہ ہے کہ یورپ کی آب و ہوا نے مجھے مسلمان کر دیا۔ یہ ایک طویل داستان ہے۔ کبھی فرصت ملی تو اپنے قلب کی تمام سرگزشت قلم بند کروں گا۔۱۸۳؎ دوسری گول میز کانفرنس کے دوران میں جب اقبال لندن میں مقیم تھے تو ۱۸؍نومبر ۱۹۳۱ء کو کیمبرج یونی ورسٹی کے طلبہ کی طرف سے ان کے اعزاز میں ایک دعوت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس تقریب میں اقبال نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’میں نوجوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ دہریت و مادیت سے محفوظ رہیں۔ اہل یورپ کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے مذہب و حکومت کو علیحدہ علیحدہ کر دیا۔ اس طرح ان کی تہذیب روحِ اخلاق سے محروم ہو گئی اور اس کا رخ دہریانہ مادیت کی طرف پھر گیا۔ میں نے آج سے پچیس برس پیشتر اس تہذیب کی یہ خرابیاں دیکھی تھیں تو اس کے انجام کے متعلق پیش گوئیاں کی تھیں۔ یہ ۱۹۰۷ء کی بات ہے…‘‘۱۸۴؎ ان اقتباسات سے جہاں اقبال کے اس فکری انقلاب کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے، وہاں یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ قیامِ یورپ کے زمانے میں صرف علاقائی قومیت اور وطنیت ہی نہیں بلکہ مغربی لادینیت، لا دین سیاست اور دہریانہ مادیت کی حقیقت بھی اقبال پر منکشف ہو گئی۔ لہٰذا اقبال کے اس فکری عمل کو پوری طرح سمجھنے کے لیے مغربی تہذیب کے تاریخی عوامل کا تفصیل سے جائزہ لینا نہایت ضروری ہے۔ تہذیبِ مغرب کا تاریخی پس منظر: مغرب کی جدید تہذیب اگرچہ براہِ راست تحریک احیائے علوم و اصلاح کلیسا کا نتیجہ ہے، لیکن اس کی جڑیں تاریخِ ماضی میں بہت دور تک چلی گئی ہیں اور اس کا شجرئہ نسب قدیم یونانی تہذیب سے جا ملا ہے۔ رابرٹ بریفالٹ لکھتاہے: ’’ہمارے افکار و تصورات کی ساخت، ہمارے اسالیب اظہار اور ہماری ادبیات کے اوضاع یونانی فکر کی پیداوار ہیں… حقیقت یہ ہے کہ یورپ کی دنیا کو یونان نے بنایا… ‘‘۱۸۵؎ یونانی تہذیب کی اہم ترین خصوصیت ، جس کی بنا پر بریفالٹ نے اسے ’’تاریخِ انسانی کا نہایت اہم انقلابی دور‘‘ قرار دیا ہے، عقلیت پسندی ہے۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اگرچہ تہذیب و تمدن کے مسائل میں یونانیوں کا اصل الاصول محسوسات ہے لیکن ان کی تعقل پرستی، منطقی استدلال اور کلامیات و معقولات سے آگے نہ بڑھ سکی۔ وہ اپنی عقلیت کے زعم میں مشاہدہ و تجربہ، تحقیق و استقرا سے ، جن پر جملہ طبیعی علوم کی بنیاد ہے، عموماً بے نیاز رہے۔ بقول بریفالٹ: ’’اہل یونان نے صرف یہی نہیں کیا کہ سائنس کی حقیقی بنیاد یعنی تجربی تحقیق اور مشاہدے سے تغافل اختیار کیا بلکہ انھوں نے بہ اصرار اس کو ذلیل و خوار قرار دیا۔‘‘۱۸۶؎ یونانیوں کی دوسری خصوصیت ان کی قبائلی جمہوریت ہے جو ایتھنز کی شہری ریاست تک محدود تھی اور وسیع تر انسانی اخوت و مساوات کے تصور سے بیگانہ رہی۔ اگر ان کوتاہیوں کے باوجود قدیم یونان کو جدید یورپ کی تخلیق کا شرف حاصل ہے تو اس ’’فضیلت‘‘ کی بنیاد محض ان کا مادہ پرستانہ طرزِ تمدن اور خالص حسی فلسفۂ حیات ہے۔ اہل یونان فطرت کے پرستار، حسن و مسرت کے جویا اور حسی لذتوں کے رسیا تھے۔ ان کی ثقافت کی روح، جمال پرستی اور لذت کوشی تھی جو اُن کے فنونِ لطیفہ کی مختلف صورتوں میں ظاہر ہوئی۔ لیکن نزاکت و لطافت سے بھرپور یونانی تہذیب میں سنجیدگی و پاکیزگی، صلابت و توانائی کے عناصر مفقود تھے اور یہی عدمِ توازن اہلِ یونان کے زوال کا باعث ہوا۔ یونانیوں کے بعد رومیوں کا دور آیا۔ اگرچہ عسکری قوت اور سیاسی تنظیم کی بدولت رومیوں کی فتوحات کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا لیکن ان کی تہذیب و معاشرت، یونانی ثقافت کے اثرات سے اس حد تک مغلوب ہوئی کہ وہ یونانیوں کی تقلید پر فخر کرنے لگے۔ پھر تاریخ یورپ کا یہ سانحۂ عظیم رونما ہوا کہ بت پرست اور عیش کوش رومیوں کی سلطنت میں اس مذہب نے پناہ لی جو مسیحیت کی مسخ شدہ تعلیمات اور دین و دنیا کی ثنویت کے تصور پر مشتمل تھا۔ ابتدا میں اس ’’دین گوسفندی‘‘ کی رہبانی تعلیمات صرف غلاموں، مسکینوں اور مظلوموں کے طبقے کا روحانی سہارا بنی رہیں، لیکن قسطنطنین (قیصر روم) کے قبول مسیحیت کے بعد وہ امرا و شرفاء جو بباطن مشرک اور بت پرست تھے، محض ابن الوقتی اور دنیا سازی کے تقاضے سے اس مذہب کے پُر جوش حامی بن گئے۔ ان کے اثر سے مسیحیت میں مشرکانہ عناصر شامل ہونے لگے۔ اوّل تو دین و دنیا کی ثنویت کا تصور اور روحانیت کا انتہا پسندانہ مسلک ہی فطرتِ انسانی کے خلاف تھا، مزید برآں مشرکانہ بدعات اور جاہلانہ توہمات نے مسیحیت کا اور بھی حلیہ بگاڑ دیا۔ رہی سہی کسر اہل کلیسا کے تضادِ قول و فعل اور ہوسِ جاہ و ثروت نے پوری کر دی۔ ازمنۂ مُظلمہ میں کلیسا کا کردار: چوتھی صدی عیسوی سے لے کر سولھویں صدی عیسوی تک پورے ایک ہزار برس کے تاریک ترین دورِ تاریخ میں پاپایانِ روم کی بداعمالیوں سے انسانیت کی جو پامالی اور مسیحیت کی جو خواری ہوئی، اس کی داستانِ خوں چکاں، ڈاکٹر جان ولیم ڈریپر نے اپنی محققانہ تصنیف معرکۂ مذہب و سائنس (History of the Conflict Between Religion and Science) میں بڑی تفصیل سے بیان کی ہے۔اقبال کی نظم ’’سرگزشت آدم‘‘ کے بعض اشعار سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ان تاریخی حقائق سے سرسری طور پر آگاہ تھے۔ لیکن یقینا انھوں نے انگلستان میں اس کتاب کا مطالعہ کیا ہوگا جس کا اُن دنوں بڑا چرچا تھا۔/ جرمنی پہنچ کر ازمنۂ مظلمہ کے بارے میں ان کی تاریخی معلومات میں مزید اضافہ ہوا، کیونکہ یہ سرزمین اس دور کے واقعات سے گہرا تعلق رکھتی ہے اور اصلاحِ کلیسا کی انقلابی تحریک یہیں سے شروع ہوئی تھی۔ مذہب کے خلاف اہلِ مغرب کے شدید ردِ عمل کو پوری طرح سمجھنے کے لیے یہاں ڈاکٹر ڈریپر کے حوالے سے اس داستان کے چند اہم پہلو پیش کیے جاتے ہیں: (۱) اہلِ کلیسا نے لوگوں کے دل و دماغ پر اپنے روحانی اقتدار کو مسلط کرنے کے لیے مختلف عقائد اور دعاوی کی تبلیغ کی۔ مثلاً ان کا یہ دعویٰ تھا کہ پاپائے اعظم، خدا اور مسیح کا نائب، معصوم عن الخطا اور ہر قانون و احتساب سے بالاتر ہے۔ اس کا ہر فرمان کتبِ مقدسہ کی آیات کی طرح واجب العمل ہے۔ جو مسیحی اس کی نافرمانی کرے وہ مردودِ ازلی اور گردن زدنی ہے۔۱۸۷؎ لوگوں سے نذرانے وصول کرنے کے لیے انھوں نے اپنی مشکل کشائی کا رعب جمایااور یہ دعویٰ / اس کتاب سے اقبال اتنے متاثر ہوئے کہ یورپ سے واپس آتے ہی مولانا ظفر علی خاں سے اس کا ترجمہ کرنے کی فرمائش کی اور مولانا کا یہ ترجمہ معرکۂ مذہب و سائنس کے نام سے ۱۹۱۰ء میں شائع ہوا۔ کیا کہ وہ اپنے معجزات و کرامات سے آفاتِ ارضی و سماوی کو ٹال سکتے ہیں ۔ اس طرح یورپ بھر کے عوام توہم پرستی میں مبتلا ہو گئے۔ روحانی علاج اور جھاڑ پھونک کا رواج اتنا عام تھا کہ لوگ دبائوںاور بیماریوں میں طبیبوں کی جگہ خانقاہوں سے رجوع کرتے تھے۔۱۸۸؎ (۲) ابتدا میں اہلِ کلیسا نے عوام کو یہ درس دیا کہ ’’قیصر کا حق قیصر کو اور خدا کا حق خدا کو ادا کرو۔‘‘ لیکن رفتہ رفتہ کلیسا اور قیصر کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی شروع ہوئی۔ پاپائے روم کا روحانی اقتدار تمام مغربی ممالک پر چھا گیا۔ یورپ بھر میں ذمہ دار مناصب پر پادری مامور تھے۔ہر ملک میں دوہری حکومت تھی اور مقامی حکومت پر پاپائی اقتدار کا غلبہ تھا۔ اہلِ کلیسا کی ریشہ دوانیوں اور تفرقہ پر دازیوں سے دولِ یورپ میں باہمی تنازعے پیدا ہوتے تو پاپائے روم کو نزاعی امور میں مداخلت کا موقع مل جاتا، لیکن پاپائی مداخلت کا اصل مقصد ذرائع آمدنی میں اضافے کے سوا اور کچھ نہ ہوتا۔ کسی فرماں روا کا مقدمہ پاپائی عدالت عالیہ میں پیش ہوتا تو گراں قدر نذرانے وصول کیے جاتے تھے۔۱۸۹؎ (۳) پاپائے اعظم اور اس کے مقامی نائبوں اور گماشتوں کے علاوہ، کلیسائی نظام کے چھوٹے بڑے کثیر التعداد ارکان (: راہب، صدر راہب، پادری، قسیس، اسقف وغیرہ) یورپ کے تمام علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ پاپائے روم کی شان و شوکت کا تو ذکر ہی کیا، ان کلیسائی ارکان کے امیرانہ ٹھاٹھ باٹھ کا یہ عالم تھا کہ ’’بعض صدر راہبوں کے پاس بھی بیس بیس ہزار غلام موجود تھے۔‘‘ اہل کلیسا کی شاہ خرچی اور عیاشی کے لیے وہ مقررہ محاصل کافی نہ تھے جو ہر ملک سے پاپائے روم کے خزانے میں داخل ہوتے تھے۔ لہٰذا جلبِ زر کے لیے طرح طرح کے ’’پروانوں‘‘ کی فروخت کا شرمناک طریقہ اختیار کیا گیا تھا۔ مثلاً (الف) ’’تذکرۃ الغفران‘‘ (مغفرت نامہ یا بخششِ گناہ کا پروانہ) ۔(ب) ’’نجات نامہ‘‘ (خریدار کے لیے جنت کا پاسپورٹ)۔ (ج) ’’پروانۂ حلّتِ محرمات‘‘ (مراعات نامہ جس سے حرام شے حلال ہو جاتی تھی)۔ (د) ’’پروانۂ نقضِ قانون‘‘ (قانون شکنی کا اجازت نامہ) ۔ ان اجازت ناموں اور پروانوں کی خرید و فروخت مالِ تجارت کی طرح ہوتی تھی اور غرض مندوں کو ان کے حصول کے لیے ادنیٰ ملازم سے لے کر پوپ تک سب کی مٹھی گرم کرنی پڑتی تھی۔۱۹۰؎ اہل کلیسا کے ان کرتوتوں سے مسیحی معاشرے کی جس حد تک اقتصادی تباہی اور اخلاقی بربادی ہوئی، اس کی تفصیلات ڈریپر نے اپنی کتاب میں جابجا بیان کی ہیں۔ مختصر یہ کہ جس طرح پوپ کا محل، شاہی درباروں کی شرمناک روایات کا آئینہ دار تھا، اسی طرح ہر علاقے کے پادری اور کلیسائی حکام، تعیشات اور فواحش میں بڑے بڑے جاگیرداروں پر سبقت رکھتے تھے۔ ان طبقوں کی ہوس ناکی کے مسموم اثرات معاشرے پر چھائے ہوئے تھے۔ زمینیں جاگیرداروں اور پادریوں کی ملکیت تھیںاور محنت کش کسانوں کی حالت غلاموں سے بدتر تھی۔ عام شہری ، تاجر اور صناع، حکومت کے مظالم اور بھاری ٹیکسوں کی بھرمار سے خستہ حال تھے۔ گندگی دین داری کی علامت تھی۔ خواص و عوام سب حفظانِ صحت کے اصول سے بے پروا اور غسل و طہارت کی رسم سے نا آشنا تھے۔ یورپ کے تمام شہر بھی غلاظت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ رومۃ الکبریٰ کی تہذیبی عظمت کے نقوش ایک ایک کرکے مٹتے جا رہے تھے۔ صومعوں اور خانقاہوں میں جو مذہبی تعلیم دی جاتی تھی اس کے سوا، دیگر علوم و فنون کے چراغ گل ہو گئے۔ اہل کلیسا کی عافیت اسی میں تھی کہ لوگ جاہل رہیں۔ ’’یہ اصول عام طور سے تسلیم کیا گیا کہ جہالت زہد و اتقا کی ماں ہے۔‘‘ ۱۹۱؎ غرض یہ کہ جاگیرداری اور کلیسائی نظام چکی کے دو پاٹ تھے جن کے درمیان یورپ کے مظلوم عوام صدیوں پستے رہے۔ ہسپانوی عربوں کے زیرِاثر تحریک احیائے علوم کا آغاز: آٹھویں صدی کے اوائل میں ہسپانیہ کے مصیبت زدہ عوام اور یہودی غلام جاگیرداروں اور پادریوں کے مظالم سے تنگ آ کر شمالی افریقہ کی اسلامی سلطنت میں پناہ لینے لگے، جہاں اموی خلیفہ ولید اوّل کے گورنر موسیٰ بن نصیر کے عہدِ حکومت میں امن و امان اور ترقی و خوش حالی کا دور دورہ تھا۔ ہسپانوی پناہ گزینوں نے عربوں سے التجا کی کہ وہ حملہ کرکے اہل ہسپانیہ کو مصیبت سے نجات دلائیں۔ خلیفہ کی اجازت سے گورنر موسیٰ بن نصیر نے طارق بن زیاد کی سرکردگی میں اسلامی لشکر روانہ کیا جو ۳۰؍اپریل ۷۱۱ء کو جبرالٹر کے ساحل پر اترا ۔ یہ مجاہدین، راڈرک (شاہ ہسپانیہ) کی آٹھ گنی فوج کے حصار آہنی کو توڑ کر جدھر بڑھے،ہسپانوی عوام نے اپنا نجات دہندہ سمجھ کر ان کا خیر مقدم کیا۔ سید امیر علی لکھتے ہیں: ’’ہسپانیہ میں عربوں کے داخلے سے تاریخ کا ایک نیا باب شروع ہوا۔‘‘۱۹۲؎ یہودیوں اورعیسائیوں کو مذہبی آزادی دی گئی، عدل و انصاف کے دروازے کھل گئے،ٹیکسوں میں تخفیف سے صنعت و تجارت کو ترقی ہوئی، مخصوص طبقات کے تمام مراعات ختم ہو گئے اور ہسپانیہ میں ایک معاشرتی انقلاب رونما ہوا۔۱۹۳؎ قریباًآٹھ سو سال تک یہاں مسلمانوں نے حکومت کی۔ نصف صدی کے ابتدائی ’’دور ولایت‘‘ کے بعد دوسرا دور، جو ’’اموی دورِ حکومت‘‘ (۷۵۶ء ۔۱۰۲۰ئ) کہلاتا ہے، تاریخ ہسپانیہ کا عہدِ زریں ہے۔ اس کے بعد ’ملوک الطوافی دور‘‘ (۱۰۲۰ء تا ۱۴۹۲ئ) میں مسلمانوں کے سیاسی اقتدار کا زوال شروع ہوا، لیکن تہذیبی وعلمی فروغ کا سلسلہ برابر جاری رہا۔ اموی حکمرانوں کے دور میں انتظامیہ و عدلیہ کے اعلیٰ نظم و نسق، شہروں کی تعمیر و تزئین، پویس اور ڈاک کے محکموں کے قیام، صنعت و حرفت، تجارت، باغبانی اور زراعت کے شعبوں میں حیرت انگیز ترقی اور رفاہ عامہ کے بے شمار کارناموں کو قلم انداز کرتے ہوئے، یہاںصرف ایک پہلو کا جائزہ لیا جائے گا۔ عربوں کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ازمنۂ وسطیٰ میں جب تمام یورپ جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا، انھوں نے اپنے مقبوضات کے گوشے گوشے میں علم و ہنر کے چراغ روشن کیے۔ وہ اس دینِ حق کے پیرو تھے جو فطرت اور کائنات کے محسوس مظاہر پر تفکّر و تدبّر کی دعوت دیتا ہے، مشاہدہ و تجزیہ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور طلب علم کو ہر مسلمان کا فریضہ قرار دیتا ہے۔ اسلام کی اسی خردافروز تعلیم کا نتیجہ تھا کہ وہ دنیا بھر کے علمی و فکری سرچشموں سے فیض یاب ہوئے اور علوم و فنون کا جو خزانہ اپنے دامن میں سمیٹا، اسے بغداد وقاہرہ اور قرطبہ و غرناطہ کی درس گاہوں میں بے دریغ لٹاتے رہے۔ ’’میراثِ اسلام‘‘(The Legacy of Islam) کے مقالۂ اوّل :(ہسپانیہ اور پرتگال) میں جے۔ بی۔ ٹرینڈ لکھتا ہے: ’’اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جس زمانے میں یورپ مادی اور روحانی دونوں اعتبار سے زیادہ تر مصیبت اور انحطاط کا شکار ہو رہا تھا، ہسپانوی مسلمانوں نے ایک عظیم الشان تہذیب اور ایک منظم اقتصادی زندگی کی تخلیق کی۔ مسلم ہسپانیہ نے فنون، سائنس و فلسفہ کے نشو و ارتقا میں نتیجہ خیز حصہ لیا۔ بلاشبہ اس زمانے میں ہسپانیہ یورپ کے لیے ایک مشعل کا حکم رکھتا تھا۔‘‘۱۹۴؎ ہسپانیہ میں تعلیم لازمی اور مفت تھی۔ مدارس کے علاوہ جابجا دارالعلوم اور رصد گاہیں قائم تھیں۔ قرطبہ، اشبیلیہ، غرناطہ، بلنسیہ اور طلیطلہ کی مشہور یونیورسٹیوں میں فلسفہ و حکمت، ہیئت و نجوم، ریاضیات، تاریخ و جغرافیہ وغیرہ کے علاوہ طب، جراحی، ادویہ سازی، زراعت اور صنعت و حرفت کے شعبے بھی قائم تھے۔یہاں مسلمان طلبہ کی طرح عیسائیوں اور یہودیوں کو بھی مفت تعلیم دی جاتی تھی۔۱۹۵؎ عیسائی اور یہودی علماء نے عربی زبان میں جدید علوم کی تحصیل کے بعد مغربی زبانوں میں تراجم کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ عربوں سے اس علمی رابطے کے زیر اثر مسیحی یورپ میں احیائے علوم کی تحریک نویں، دسویں صدی ہی میں شروع ہو گئی تھی۔ دسوی صدی تک عربوں کے علمی اصول و نظریات یورپ کے کئی ملکوں میں وسیع پیمانے پر رائج و شائع ہو چکے تھے۔ بقول بریفالٹ، اُس زمانے سے لے کر پندرھویں صدی تک یورپ میں جتنی بھی سائنسی سرگرمی موجود تھی، وہ زیادہ تر عربوں کے علم و فضل سے ماخوذ تھی۔۱۹۶؎ اقبال نے ہسپانیہ کی اس ثقافتی عظمت اور علمی قیادت کا ذکر ۱۹۰۹ء کی ایک نظم ’’بلادِ اسلامیہ‘‘ کے ان اشعار میں کیا ہے: ہے زمینِ قرطبہ بھی دیدئہ مسلم کا نور ظلمتِ مغرب میں جو روشن تھی مثلِ شمعِ طور بجھ کے بزمِ ملّتِ بیضا پریشاں کر گئی اور دِیا تہذیبِ حاضر کا فروزاں کر گئی قبر اس تہذیب کی یہ سرزمینِ پاک ہے جس سے تاکِ گلشنِ یورپ کی رگ نمناک ہے۱۹۷؎ لیکن اُنیسویں صدی کے اواخر تک مغربی مصنفین اس باطل نظریے کی تبلیغ کرتے رہے کہ یورپ میں احیائے علوم اور نشاۃِ ثانیہ کی تحریک کے بانی وہ یونانی علما تھے جو ترکوں کی تسخیر قسطنطنیہ (۱۴۵۳ئ) کے بعد اٹلی آ گئے تھے۔ اسی طرح یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ جدید سائنس کے تجربی منہاج کا پیشوا راجر بیکن تھا۔ اقبال نے تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ کے پانچویں خطبے (اسلامی ثقافت کی روح)اور ’’حکمائے اسلام کے عمیق تر مطالعے کی دعوت‘‘کے عنوان سے اپنے ایک صدارتی خطبے میں اس نظریے کی مدلل تردید کی ہے اور دونوں جگہ بریفالٹ کے حوالے دیے ہیں۔ یہاں اس نامور محقق کی کتاب تشکیلِ انسانیت (The Making of Humanity) سے چند مختصر اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں: یورپ کی حقیقی نشاۃ الثانیہ پندرھویں صدی میں نہیں بلکہ عربوں اور موروں کی احیائے ثقافت کے زیر اثر وجود میں آئی۔ یورپ کی نئی پیدائش کا گہوارہ اٹلی نہیں ہسپانیہ تھا… اس کا نہایت واضح اور مہتم بالشان ثبوت یہ ہے کہ یورپ میں وہ قوت پیدا ہو گئی جو دنیائے حاضر کی اعلیٰ ترین امتیازی قوت اور اس کی کامیابی کا سب سے بڑا سرچشمہ ہے ، یعنی طبیعی سائنس اور سائنسی روح… دراصل سائنس کو اسی ثقافت نے جنم دیا ہے… دنیائے قدیم، ’’قبل سائنس‘‘ کی دنیا تھی… ہم جس چیز کو سائنس سے موسوم کرتے ہیں وہ ان امور کا نتیجہ ہے کہ تحقیق کی نئی روح پیدا ہو گئی، تفتیش کے نئے طریقے معلوم کیے گئے، تجربے ، مشاہدے اور پیمائش کے اسلوب اختیار کیے گئے،ریاضیات کو ترقی دی گئی اور یہ سب کچھ ایسی شکل میں نمایاں ہوا جس سے یونانی بالکل بے خبر تھے۔ دنیائے یورپ میں اس روح کو اور ان اسالیب کو رائج کرنے کا سہرا عربوں کے سر ہے۔‘‘۱۹۸؎ ہسپانوی عربوں نے اہلِ یورپ کو نہ صرف علمی تحقیق و تفتیش کے لیے اصول سکھائے بلکہ عرب ثقافت کے ہمہ گیر اثرات نے ان کے اندر زندگی کی ایک انقلابی روح پھونک دی۔ مختلف یورپی ممالک کے طالبانِ علم و فن جب ہسپانیہ کی سرزمین میں قدم رکھتے تھے تو ایسا محسوس کرتے تھے گویا ایک سرد و تاریک زنداں کی گھٹن سے نکل کر کسی کھلی فضا میں پہنچ گئے ہیں، جہاں ہر طرف حرکت و حرارت اور روشنی ہے، فکر و عمل کی آزادی ہے، زندگی کے جمال و کمال کے جلوے ہیں، انسان کی تخلیقی قوتوں کے کرشمے ہیں۔ جب وہ یہاںسے تحصیلِ علم کے بعد واپس جاتے تھے تو اپنے ساتھ انسانی شرف و عظمت کا ایک نیا تصور، انسان کی لا محدود تخلیقی صلاحیتوں کا احساس اور زندگی کے بارے میں ایک نیا زاویۂ نظر لے کر جاتے تھے۔ ان دانشوروں کی بدولت یورپ میں جدید علوم کی ترویج و اشاعت کے ساتھ ساتھ ذہنی بیداری کی لہر دوڑنے لگی۔ زندگی کے مسائل پر غور و فکر ہونے لگا۔ بارھویں صدی کے اواخر میں مسلم حکما کی تصانیف اور یہودی مترجمین کے ذریعے مسیحی دنیا ، فلسفۂ یونان سے روشناس ہوئی۔ ابن رشد کی تصانیف، ارسطو کے فلسفے کی بہترین تفسیر کی حیثیت سے بے حد مقبول ہوئیں اور اس طرح یورپ میں عقلیت کی باقاعدہ تحریک شروع ہوئی۔ عقلیت کے فروغ سے تقلیدِ جامد اور اوہام و عقائد کا وہ سنگین حصار ٹوٹنے لگا جسے پاپائیت نے ذہن انسانی کے گرد گھینچ رکھا تھا۔ اہلِ کلیسا کے مذہبی ڈھکوسلوں اور خلافِ عقل نظریات و توہمات پر کھل کر نکتہ چینی ہونے لگی۔ معرکۂ مذہب و سائنس: مسیحی پیشوایانِ دین نے ابتدا ہی سے سائنس کے خلاف محاذ قائم کر لیا۔ ان کے تحریف شدہ مذہبی صحیفوں (بالخصوص تورات کے ابتدائی پانچ حصوں) میں بہت سی ایسی باتیں درج ہیں جو انسانی عقل اور سائنسی علوم کی کسوٹی پر پوری نہیں اترتیں۔ لیکن اہلِ کلیسا، بڑی ہٹ دھرمی سے صدہا سال تک ان آیات کو قولِ فیصل ثابت کرنے کی سعیِ ناکام میں مصروف رہے۔ تیرھویں صدی میں تشکیک اور بے دینی کے سیلاب کو روکنے کے لیے پاپائے روم کی حکومت نے ’’انکوئزیشن‘‘ یعنی محکمۂ احتسابِ عقائد قائم کیا۔ ہر نئی آواز کو دبانے اور آزاد خیالی کی تحریک کو کچلنے کے لیے اہل کلیسا مجنونانہ جوشِ انتقام کا ثبوت دینے لگے۔ لاکھوں اشخاص کو مختلف سزائیں دی گئیں اور ’’بتیس ہزار نفوس زندہ جلا دیے گئے۔‘‘۱۹۹؎ ہر طرف جاسوسی کا جال بچھا تھا اور مشتبہ اشخاص کو وحشیانہ سزائیں دے کر اعتراف جرم پر مجبور کیا جاتا۔ اس ظلم و تشدد کے باوجود، آزاد خیالی کی رَو جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی جا رہی تھی۔ چھاپے کی ایجاد کے بعد کتابوں کی اشاعت سے محکمۂ احتساب کی سرگرمیاں اور بڑھ گئیں ۔ طباعت و اشاعت سے پہلے مسودات کی سختی سے جانچ پڑتال کی جانے لگی۔ ایسی کتابیں جن میں مذہبی عقائد اور کلیسائی اغراض و مقاصد کے خلاف کوئی بات ہو،ممنوع الاشاعت قرار پاتیں۔۲۰۰؎ کوپرنیکس نے اجرامِ فلکی پر اپنی تصنیف (۱۵۰۷ئ) چھتیس برس بعد اُس وقت شائع کی جب وہ بسترِ مرگ پر تھا، لیکن چونکہ اس نے سورج کو نظامِ شمسی کا مرکز قرار دیا تھا، لہٰذا احتساب کی زد میں آ گیا۔ گلیلیو نے ایک قوی دوربین کی مدد سے کوپر نیکس کے نظریے کی تائید کی، اور یہ ثابت کیا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ اس جرم میں اسے دس سال تک قید میں طرح طرح کی اذیتیں دی گئیں، حتیٰ کہ وہ چل بسا۔۲۰۱؎ ۱۶۰۰ء میں برونو بھی اسی جرم میں زندہ جلایا گیا۔۲۰۱؎ ۱۵۱۷ء میں سینٹ لوتھر نے جرمنی میں کلیسائے روم کے خلاف علمِ احتجاج بلند کیا۔ رفتہ رفتہ تمام شمالی یورپ لوتھر کا ہم نوا ہو کر پاپائے روم کی دین فروشی اور دنیا سازی کو ختم کرنے کے لیے متحدہو گیا۔ تحریکِ اصلاحِ مذہب کے علم برداروں نے کتبِ مقدسہ کو سر چشمۂ ہدایت اور معیارِ حق قرار دے کر پاپائی احکام و دعاوی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ مسیحی دنیا ’’رومن کیتھولک‘‘ اور ’’پروٹسٹنٹ‘‘ کے دو متحارب فرقوں میں بٹ گئی۔ باغی جماعت کی سرکوبی کے لیے اہلِ کلیسا کی انتقامی کارروائیوں اور حریفانہ سازشوں سے سالہا سال تک یورپ میں قتل و خوںریزی کا ہنگامہ برپا رہا۔ اس ہنگامے کی ابتدا جرمنی میں ہوئی اور ۱۵۷۲ء میں فرانس میں وحشیانہ خوں ریزی کی انتہا ہو گئی، جبکہ اہل کلیسا نے ایک سازش کے ذریعے پروٹسٹنٹ فرقے کے تمام سرداروں کو شاہی محل میں بطور مہمان جمع کرکے تہہ تیغ کیا، اور ڈیڑھ ماہ تک فرانسیسی اصلاح پسندوں کے قتلِ عام کا سلسلہ جاری رہا۔ اہل کلیسا کی اس شرمناک بدعہدی اور سفاکی نے تمام اہلِ یورپ کو مبہوت و سراسیمہ کر دیا۔ بہرحال سولھویں صدی کے خاتمے سے پہلے شمالی یورپ میں پروٹسٹنٹ فرقے کے قدم جم چکے تھے لیکن چونکہ یہ نیا فرقہ بھی کیتھولک فرقے کی طرح اجتہاد فکر کا مخالف تھا، لہٰذا مذہب اور سائنس کی کشمکش برابر بڑھتی رہی۔ لوتھر اور کیلون (Calvin) جیسے قائدین اصلاح بھی سائنس اور فلسفہ کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے اور مذہبی مسائل کے علاوہ علمی و فلسفیانہ مسائل میں بھی کتبِ مقدسہ سے استفادہ ضروری سمجھتے تھے۔ اختلاف رائے کا مجرم ان کے نزدیک بھی گردن زدنی تھا۔ چنانچہ کیلون کے حکم سے سروینٹس جیسے مفکر اور عالم کو اس کے فلسفیانہ عقائد کی وجہ سے ’’دھیمی آنچ میں کباب کی طرح بھون ڈالا گیا۔‘‘۲۰۳؎ ان حقائق کی بنا پر ڈریپرلکھتا ہے کہ ’’تحریکِ اصلاح کا سائنس کے سر پر ذرا بھی احساس نہیں۔‘‘۲۰۳؎ مادیت اور الحاد کی تحریک: اہل کلیسا کے مذہبی استبداد کے خلاف بغاوت کا جو طوفان اٹھا، اس کا ایک عام نتیجہ تو یہ نکلا کہ اب مذہب ہر فرد کا ایک ذاتی معاملہ ہو کر رہ گیا اور دنیوی زندگی کے تمام شعبوںسے اس کا عمل دخل اٹھنے لگا۔ لیکن سائنس کی مخالفت میں اہل کلیسا کی محاذ آرائی کا ردِ عمل ، مذہب کے حق میں اور زیادہ خطرناک ثابت ہوا۔ اہل مذہب کی ہٹ دھرمی، تنگ نظری اور تعصب کے خلاف مفکروں اور دانشوروں کا غم و غصہ اب خود نفسِ مذہب سے ایک ضد اور چڑ کی صورت اختیار کر گیا۔ اس طویل جذباتی کشمکش کے نتیجے میں مادیت اور الحاد کی تحریک روز بروز زور پکڑنے لگی۔ سائنس دانوں نے قدیم یونانی مفکر دیمقراطیس (Democritus) کے نظریۂ جوہریت (Atomism) پر جدید سائنٹیفک مادیت کی بنیاد رکھی اور یہ دعویٰ کیا کہ کائنات میں مادی ذرات کے سوا اور کسی شے کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ سترھویں صدی کے اواخر میں نیوٹن نے قانونِ تجاذب (کششِ ثقل) اور اصولِ حرکت کا انکشاف کرکے اس سادی و میکانکی نظریۂ کائنات کی تکمیل کر دی۔ اس نظریے کی رُو سے تمام کائنات قوانینِ فطرت کے ماتحت، علّت و معلول کی میکانکی حرکت سے سرگرم عمل ہے۔ طبیعی علوم کی طرح حیاتیات میں بھی اسی اصول کا اطلاق ہوا۔ یعنی زندگی بھی عناصر مادی اور توانائی کے باہمی امتزاج سے وجود میں آئی۔ اُنیسویں صدی میں ڈارون نے یہ نظریہ پیش کیا کہ مادی ذرات میں اتفاقاً زندگی پیدا ہو گئی۔ زندگی کی ابتدائی پست سطح سے مختلف انواع میں ارتقا کا سلسلہ، انتخابِ طبیعی (Natural Selection) اور علت و معلول کے میکانکی اصول کے مطابق جاری رہا جو نوعِ انسان پر آ کر منتہی ہوا۔ گویا انسانی ذہن و شعور و ارادہ بھی مادے ہی کی ترقی یافتہ صورت ہے۔ اس مادی و میکانکی تصورِ حیات کی رو سے انسان ایک بے بس مشین ہے اور جب انسانی اعمال کا ذمہ دار خود نفسِ انسانی نہیں ہے تو اخلاقیات کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ نیک و بد ، خیر و شر، عذاب و ثواب اور یوم حساب ، سب وہم باطل ہے۔ عالم محسوسات سے ماورا کوئی حقیقت نہیں۔ عقلِ انسانی کے علاوہ کوئی سرچشمۂ ہدایت نہیں۔ کائنات کا کوئی خالق و مالک نہیں۔ غرض مادہ ہی ’’خود کوزہ و خود کوزہ گر و خود گلِ کوزہ‘‘ ہے۔ اگرچہ بیسویں صدی میں جدید طبیعیات کے انقلابی انکشافات سے نظریاتی سطح پر مادیت کا بھرم اٹھ گیا، لیکن مغربی ذہن پر مادہ پرستی کا بھوت اب تک سوار ہے۔ رفتہ رفتہ اس نظریے کے اثرات ادب و ثقافت اور معاشرت و سیاست ، غرض زندگی کے تمام شعبوں پر چھا گئے۔ یونانی ثقافت نے جدید یورپ کو پوری طرح مسخر کر لیا۔۲۰۴؎ صنعتی انقلاب اور سرمایہ دارانہ نظام کے اخلاقی مفاسد: سترھویں صدی کے اواخر میں بھاپ (سٹیم) کی قوت کے انکشاف سے مشینی دور کا آغاز ہوا۔ اٹھارویں صدی میں صنعتی انقلاب آیا۔ سائنس اور ٹکنالوجی کی روز افزوں ترقی سے سرمایہ دارانہ نظام کے جلال و شکوہ میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ حصولِ دولت اور نفع اندوزی کی ہوس بھی بڑھتی چلی گئی۔ مادی ترقی ہی زندگی کی کامیابی اور انسان کے شرف و فضیلت کا پیمانہ بن گئی۔ مصلحت کوشی اور مفاد پرستی نے ’’نفع عاجل‘‘ کے لیے ہر اوچھے اور کمینے حربے کو جائز ٹھہرایا۔ کارخانے ہوں یا سیاسی و معاشرتی ادارے، ہر جگہ دیگر محرکاتِ عمل سے زیادہ مادی سود و زیاں کا تاجرانہ اصول کارفرما ہوا۔ گویا ذاتی ملکیت کی فراوانی ہی انسان کی لیاقت و عظمت کی نشانی ہے۔ بقول پروفیسر جوڈ: نظریۂ حیات اس زمانے میں مستولی ہے وہ اقتصادی نظریہ ہے یا دوسرے لفظوں میں ہر مسئلے کو پیٹ یا جیب کے نقطۂ نظر سے دیکھنا اور جانچنا۔‘‘۲۰۵؎ اگرچہ سرمایہ دارانہ نظام میں فرد کے حقوقِ ملکیت کے تحفظ اور تجارتی ساکھ کو قائم رکھنے کے لیے تاجرانہ اخلاق کے مصنوعی اصول رائج ہوئے، لیکن افراد و اقوام کے مادی مفادات میں جہاں کہیں تصادم کا خطرہ درپیش ہو تو یہ سارے اصول دھرے رہ جاتے تھے۔ پروفیسر ساروکن (Sorokan) تہذیب جدید کے اخلاقی مفاسد پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’موجودہ نظام کے حسّی اخلاقیات نے انسان کو کافی حد تک ذلیل کر دیا ہے۔ اخلاقی قدریں بالکل مٹ گئی ہیں۔ ان کی حیثیت اس کے سوا کچھ نہیں کہ اگر ان سے کسی کو فائدہ پہنچے تو ان کو قبول کیا جا سکتا ہے اور اگر وہ اس راہ میں مزاحم ہوں تو ان کو بلاتکلف ترک کر دیا جاتا ہے۔ انسان نے آج مصلحت پسندی کو اپنا شعار بنا لیا ہے اور اس طرح دنیا میں مستقل کشمکش اور عناد کے بیج بو دیے ہیں۔ جب ہمارے اخلاقی معیار ہی باہم متصادم ہوں تو اخلاقی قدریں بھی لامحالہ دفن ہو کر رہ جائیں گی۔ ان حالات میں انسانوں پر سے ان کی گرفت کا ڈھیلا پڑ جانا بالکل فطری ہے۔ مسیحیت کے اصول ’’الفت‘‘ کی جگہ اب نفرت نے لے لی ہے ۔ یہاں فرد اور فرد کے درمیان منافرت ہے اور ایک گروہ دوسرے گروہ سے برسر پیکار ہے۔ قومیں قوموں کے خلاف، ریاستیں ریاستوں کے خلاف اور نسلیں نسلوں کے خلاف صف آرا ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ’’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘ جیسے مذموم اصول کی پوری دنیا میں فرماں روائی ہے۔‘‘ ۲۰۶؎ اقبال کے سامنے مغرب کے نظامِ معاشرت کے یہ تمام پہلو موجود تھے، اور اس ملحدانہ تہذیب کے تاریخی پس منظر پر گہری نظر ڈالنے کے بعد انھوں نے مارچ۱۹۰۷ء کی غزل میں اس تہذیب کے زوال اور اس کے ہولناک نتائج کے بارے میں جو پیش گوئی کی وہ حرف بحرف صحیح نکلی۔ اقبال نے یہ پیش گوئی شپنگلر سے پہلے، اُس زمانے میں کی جب اہلِ مغرب کی مادی ترقی اور سیاسی اقتدار اپنے معراجِ کمال تک پہنچ چکا تھا۔ گزشتہ دو عالم گیر جنگوں کی تباہیاں دیکھنے کے بعد خود یورپ کے انسان دوست مفکرین بھی آج وہی باتیں کہہ رہے ہیںجو نصف صدی قبل اقبال نے کہی تھیں: تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہوگا دیارِ مغرب کے رہنے والو، خدا کی بستی دکاں نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا۲۰۷؎ (۴) نظریۂ وطنیت اور لادین سیاست کا آغاز و انجام قیامِ یورپ کے دوران میں اقبال کو مغربی نظریۂ وطنیت و قومیت کے تاریخی محرکات اور سیاسی اثرات و نتائج کے مطالعے و مشاہدے کا بھی موقعہ ملا۔ انھوں نے جب غور کیا کہ اس انسانیت سوز نظامِ اجتماعی کی نحوست مغربی دنیا پر کس طرح مسلط ہو گئی، تو معلوم ہوا کہ اس کی جڑیں بھی مغربی تہذیب کی گہرائیوں میں پیوست ہیں۔ اہلِ مغرب کا اوّلین فکری مأخذ اور ان کے بیشتر نظریات کا سرچشمہ فلسفۂ یونان ہے۔ قدیم حکمائے یونان کے سیاسی تصورات کی بنیاد ایک حد تک اخلاقی اقدار پر تھی، لیکن عیسائیت کے تصورِ ثنویت نے ابتدا ہی میں دین و اخلاق کو سیاست سے جدا کر دیا تھا۔ بعد کے مراحل کی سرگذشت، جب ’’ ہوس کی امیری ہوس کی وزیری‘‘ اہل کلیسا کے حصے میں آ گئی تھی، گزشتہ اوراق میں بیان کی جا چکی ہے۔ بہرحال سترھویں صدی تک کلیسائی اقتدار کے ماتحت یورپ کے ممالک مذہبی رشتے سے منسلک رہے، اور مسیحیت اپنی جملہ خرابیوں کے باوجود، یورپ کی حیاتِ اجتماعی کی بنیاد بنی رہی۔ لیکن ایک طرف پروٹسٹنٹ تحریک نے یورپ کی ثقافتی اور دینی وحدت کا خاتمہ کر دیا، دوسری طرف لادینی رجحانات نے مذہب اور سیاست کی خلیج اور وسیع کر دی۔ یورپ کی سلطنتوں نے جب کلیسائیت کا جوا اتار پھینکا تو اخلاقی قیود سے بھی آزاد ہونے لگیں۔ سولھویں صدی کے آغاز میں میکیاولی (Machiavelle) نے جو نظریۂ سیاست پیش کیا، اس سے لادین سیاست کی بنیاد مستحکم ہو گئی۔اس نے ۱۵۱۲ء کے بعد اپنی رسوائے عالم تصنیف کتاب الملوک (The Prince) مرتب کی۲۰۸؎ جس میں سیاست و حکومت کے لادینی (سیکولر) تصور کی پوری وضاحت کی ہے۔ میکیاولی کے نزدیک، سیاست میں قوت اور حصولِ قوت ہی قدرِ اعلیٰ ہے۔ قوت ہی حق و باطل اور عدل و انصاف کا پیمانہ ہے۔ حصولِ قوت کے لیے ہر حربہ جائز ہے کیونکہ بقول اس کے ’’مقصد بجائے خود وسائل کے لیے وجہِ جواز بن جاتا ہے۔‘‘۲۰۸؎ حکمران کو شیر کی طرح قوی اور جری ہونے کے علاوہ لومڑی کی طرح مکار اور حیلہ باز بھی ہونا چاہیے، حتیٰ کہ اگر وہ کسی حکومت سے کوئی سیاسی معاہدہ کرتا ہے تو اپنے مفاد کی خاطر معاہدہ شکنی میں اسے مطلق دریغ نہ ہو۔ ’’ایک دور اندیش حکمران کو اس وقت اپنے کسی عہد کا پابند نہ رہنا چاہیے جب یہ پابندی خود اس کے مفاد کے خلاف ہو۔‘‘۲۰۸؎ اقبال نے قیامِ یورپ کے زمانے ہی میں میکیاولی اور اس کے مریدانِ سیاسی کو ’’شیطان کے فرستادہ پیغمبر‘‘ قرار دیا تھا۔ رموزِ بے خودی میںا س کے نظریۂ سیاست پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے اس پھبتی کو دہرایا ہے: دہریت چوں جامۂ مذہب درید مرسلے از حضرتِ شیطاں رسید آن فلارنساویٔ باطل پرست سرمۂ او دیدئہ مردم شکست مملکت را دینِ او معبود ساخت فکرِ او مذموم را محمود ساخت باطل از تعلیمِ او بالیدہ است حیلہ اندوزی فنے گردیدہ است۲۰۹؎ میکیاولی یورپ کا ’’چانکیہ‘‘ تھا۔ قدیم بھارت کے مشہور ہندو مدبّرچانکیہ مہاراج نے بھی ’’راج نیتی‘‘ کے جو اصول پیش کیے ہیں وہ میکیاولی کے نظریۂ سیاست کے عین مطابق ہیں، اور جس طرح بھارت میں چانکیہ ہی کی راج نیتی کا بول بالا ہے، اسی طرح یورپ میں میکیاولی کے سیاسی نظریات نے اتنی مقبولیت حاصل کی کہ اس کی کتاب (The Prince) صدیوں سے مغربی سیاست گروں کے لیے صحیفۂ آسمانی کا درجہ رکھتی ہے۔ آج بھی مغرب میں سب سے بڑا مدبر اور بساط سیاست کا سب سے بڑا شاطر وہی مانا جاتا ہے جو مگر و فریب کی مہرہ بازی میں حریفوں کو شہ مات دے سکے۔ چنانچہ اقبال کہتے ہیں: مری نگاہ میں ہے یہ سیاستِ لادیں کنیزِ اہرمن و دوں نہاد و مردہ ضمیر ہوئی ہے ترکِ کلیسا سے حاکمی آزاد فرنگیوں کی سیاست ہے دیوِ بے زنجیر۲۱۰؎ الغرض، جب مغرب کے معاشرتی و سیاسی نظام میں مذہب و اخلاق کا کوئی مقام باقی نہ رہا تو ریاست (State) کی ترقی و استحکام کے لیے ایک ٹھوس نظریاتی بنیاد، اور ایک ایسے نصب العین کی ضرورت محسوس ہوئی جس سے لوگوں کی تمام وفا داریاں وابستہ ہوں۔ مغرب کی ملحدانہ تہذیب نے وطن پرستی یا وطنی قومیت (Nationalisim) کو اعلیٰ ترین نصب العین بنا لیا۔ یورپ کو خدا اور مذہب کے انکار کے بعد ایک معبود کی تلاش تھی۔’’خانۂ خالی را دیو می گیرد‘‘، وطن پرستی نے حق پرستی کی جگہ لے لی۔ وطن کے دیوتا کے قدموں میں انسان اور انسانی اقدار کی قربانی پیش کی جانے لگی۔ ہکسلے(Aldous Huxley) لکھتا ہے: ’’وطنیت ایک بت پرستانہ مذہب کی شکل اختیار کر چکی ہے جس میں ریاست نے خدا کی حیثیت اختیار کر رکھی ہے۔ یہ خدا بڑی عظیم قربانیاں مانگتا ہے… اس پرستش کی ایک وجہ اور ہے، اور وہ یہ ہے کہ اس سے انسان کے اسفل جذبات یعنی نفرت و دشمنی اور انتقام کے جذبات کی تسکین ہوتی ہے۔‘‘۲۱۱؎ ہکسلے کے بیان کا آخری جزو خصوصیت سے قابلِ غور ہے۔ وطن پرستی یا قومیت پرستی کی تہہ میں نفرت و عداوت کا وہ جذبہ کارفرما ہوتا ہے جو انسانیت کی غیر انسانی تقسیم کی بدولت ایک علاقے اور دوسرے علاقے کے لوگوں میں پیدا ہوتا ہے۔ جب ایک مرتبہ، علاقائی، لسانی یا نسلی بنیادوں پر تفریق ہو جاتی ہے تو مسلسل تصادم و پیکار سے نفرت و عداوت کا جذبہ شدید تر ہو جاتا ہے۔ وطنیت اور قومیت دراصل عہدِ قدیم کی قبائلی عصبیت ہی کی ایک دوسری شکل ہے۔ بیشتر علاقوں کے قبائلی نظام میں حق و ناحق کے دُہرے اخلاقی پیمانے رائج تھے۔ مثلاً اپنے قبیلے میں چوری یا ڈاکہ جرم تھا، لیکن اگر کوئی شخص قبیلے سے باہر کوئی ایسی واردات کر بیٹھے تو مجرم نہیں سمجھا جاتا تھا۔ میکیاولی کی لادین سیاست نے بھی دُہرے اخلاقی ضابطے مرتّب کیے: (۱) معاشرتی اخلاق۔ (۲) سیاسی اخلاق۔ معاشرتی زندگی میں جھوٹ بولنا، دھوکا دینا یا وعدہ خلافی کرنا جرم ہے، لیکن سیاست کے دائرے میں یہ سب کچھ روا ہی نہیں، عین مصلحت بلکہ کارِ خیر ہے۔ سترھویں صدی سے مغرب کے اربابِ حکومت نے وطنیت اور نسلی تفّوق کے نشے میں سرشار ہو کر جنگل کے قانون (Might is right)کو اپنی خارجی حکمتِ عملی کی بنیاد بنایا اور نوآبادیاتی نظام قائم کرنے کے لیے تگ و دو شروع کر دی۔ صنعتی انقلاب کے بعد تجارتی مسابقت کی دوڑ شروع ہوئی۔ دولِ مغرب نے ، نئی نئی منڈیوں کی تلاش میں تمام دنیا کے پس ماندہ ملکوں پر دھاوا بول دیا۔ شمالی اور جنوبی امریکہ ، آسٹریلیا اور افریقہ کے قدیم باشندوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے۔ جنوبی افریقہ کے دیسی باشندوں پر گوری نسل کے آباد کاروں کے مظالم کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ افریشیا کے پس ماندہ ممالک ان کی اقتصادی لوٹ کھسوٹ اور سامراجی عزائم کا اب تک نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ یورپ کی ان لٹیری قوموں کی تجارتی و سیاسی رقابتیں آپس میں بھی مستقل پیکار و تصادم کا باعث بنتی رہیں۔ موجودہ صدی میں دو عالمگیر جنگوں کی تباہ کاریاں، اہلِ مغرب کی قوم پرستی اور لادین سیاست کی چیرہ دستی کا نتیجہ ہیں۔ موجودہ عہد کے تمام انسان دوست مفکر اس بات پر متفق ہیں کہ وطنیت اور قوم پرستی کا جذبہ ہی جنگ و جدال کا سب سے بڑا محرک اور اتحادِ انسانی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اقبال نے اپنی نظم ’’وطنیت‘‘ (۱۹۱۰ئ) میں وطنی قومیت کے ان تمام مفاسد کو ایک ہی بند میں نہایت اختصار و بلاغت سے بیان کیا ہے: اقوامِ جہاں میں ہے رقابت تو اِسی سے تسخیر ہے مقصودِ تجارت تو اِسی سے خالی ہے صداقت سے سیاست تو اِسی سے کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اِسی سے اقوام میں مخلوقِ خدا بٹتی ہے اس سے قومیّتِ اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے۲۱۲؎ (۵) ذہنی انقلاب کے فکری عوامل کا مجموعی جائزہ اقبال نے نظریۂ وطنیت کے ان پہلوئوں کا تین مختلف زاویوں سے جائزہ لیا۔ یہاں اجمالاً ان کے نتائجِ فکر کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ (۱) انسانی نقطۂ نظر: مغرب کا نظریۂ وطنیت و قومیت انسانی وحدت کے آفاقی تصور کے منافی ہے۔ اس نظریے نے انسانیت کے ٹکڑے کرکے جغرافیائی حدود میں مقید کر دیا ہے۔ وطن کی بنیاد پر انسانیت کی اس غیر فطری تفریق و تقسیم کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان انسان کے درمیان نفرت اور عداوت کی دیواریں حائل ہو گئی ہیں۔ اب انسان ، انسان نہیں رہا، صرف جرمن، انگریز، چینی اور جاپانی بن کر ایک دوسرے کا حریفِ مقابل بن بیٹھا ہے۔ اسی کی بدولت استعماریت یا نو آبادیاتی نظام اور شہنشاہیت یا سامراجی نظام کی لعنتیں انسانیت پر مسلط ہو گئی ہیں جو کمزور اقوام و افراد کے لیے تباہی کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ (۲) دینی نقطۂ نظر: اقبال نے دینی نقطۂ نظر سے تصورِ وطنیت کا جائزہ لیا تو اسے ایک مشرکانہ اور خالص مادہ پرستانہ نظریہ پایا۔ وطنیت سے محض حب الوطنی یا وطن کی خدمت و محبت مراد نہیں بلکہ یہ ایک سیاسی نصب العین ہے جس کی رو سے وطن ہی اعلیٰ ترین قدر اور وطن کا مفاد ہی خیر و شر اور حق و باطل کا معیار ہے۔ وطنیت کے لادینی نظام میں خدا ، مذہب اور اعلیٰ انسانی و اخلاقی اقدار کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ جاتی۔ اسلام ایک جامع نظامِ حیات پیش کرتا ہے جس میں دین و دنیا اور مذہب و سیاست کی کوئی تفریق نہیں۔ وطنیت بھی ایک ہمہ گیر، لادینی، اجتماعی نظام ہے جس کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا نظام برقرار نہیں رہ سکتا۔ لہٰذا اگر مسلمان قومیں اس تصور کو قبول کر لیں تو معاشرتی اور اجتماعی زندگی میں اسلام ایک فعال اور مؤثر اجتماعی نظام کے مقام سے گر کر عیسائیت کی طرح محض ایک شخصی عقیدے کی حیثیت اختیار کرلے گا اور اسلامی تمدن و ثقافت کے نقوش بھی مٹ جائیں گے۔ (۳) ملّی نقطہ نظر : اسلام کا تصورِ ملت ، نسلی امتیازات اور جغرافیائی حد بندیوں سے بالاتر ایک آفاقی تصور ہے۔ یہ تصور رنگ و نسل اور ملک و وطن کی مادی و عارضی بنیادوں کے بجائے افکار و تصورات کی وحدت اور انسانی اخوت کی اٹل بنیادوں پر قائم ہے۔ اقبال نے اسی دور میں اسلامی قومیت یا ملت کے آفاقی تصور کی طرف اس شعر میں اشارہ کیا تھا: نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا بِنا ہمارے حصارِ ملّت کی اتحادِ وطن نہیں ہے۲۱۳؎ لیکن اقبال نے اسی زمانے میں یہ بھی محسوس کیا تھاکہ مغرب کی استعماری طاقتیں اپنے سیاسی اغراض کے لیے وطنیت کے تصور کو مسلم ممالک میں پھیلا رہی ہیں تاکہ ملّی وحدت ، علاقائی کثرت میں تقسیم ہو جائے۔ چنانچہ وہ مارچ ۱۹۲۸ء کے ایک بیان میں فرماتے ہیں: ’’مجھ کو یورپین مصنفوں کی تحریروں سے ابتدا ہی سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہو گئی تھی کہ یورپ کے ملوکانہ اغراض اس امر کی متقاضی ہیں کہ اسلام کی وحدتِ دینی کو پارہ پارہ کرنے کے لیے اس سے بہتر اور کوئی حربہ نہیں، کہ اسلامی ممالک میں فرنگی نظریۂ وطنیت کی اشاعت کی جائے۔ چنانچہ ان لوگوں کی یہ تدبیر جنگِ عظیم میں کامیاب بھی ہوگئی تھی…‘‘۲۱۴؎ الغرض، یورپ کی مادہ پرست تہذیب اور لادین سیاست کے محرکات و نتائج کے گہرے مطالعے نے اقبال کے خیالات میں ’’انقلابِ عظیم‘‘ پیدا کر دیا۔ ظاہر ہے کہ اس ذہنی انقلاب کے بعد اقبال کے جذبات و خیالات کا رخ وطنیت سے ملیت یا بین الاقوامیت کی طرف مڑ گیا ۔ اسی دور کی بعض نظمیں (مثلاً ’’شیخ عبدالقادر کے نام‘‘) ان کے اس جدید نصب العین کی نشان دہی کرتی ہیں۔ مارچ ۱۹۰۷ء کی غزل (زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدارِ یار ہو گا) ان کے ذہنی انقلاب کا واضح ثبوت ہے، جس کے ایک شعر میں انھوں نے اپنے مستقبل کے پروگرام یعنی ملی شاعری کے نئے دور کے آغاز کا یوں اعلان کیا ہے: مَیں ظلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو شرر فشاں ہوگی آہ میری، نفس مرا شعلہ بار ہوگا۲۱۵؎ اقبال کے جدید نصب العین کا بنیادی محرک: یہاں ہمیں اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اس نئے دور میں بھی ان کے فکر و فن کا بنیادی محرک وہی جذبہ ہے جو پہلے تھا۔ اقبال کی شخصیت اور شاعری کے گہرے اور وسیع مطالعے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ ان کی شاعری کے موضوعات بدلتے رہے لیکن جو جذبہ مشترک طور پر ان کے ہر دور کے کلام میں جاری و ساری ہے، وہ حبِ نوعِ انسانی ہے۔ اقبال جب شاعرِ وطن تھے تب بھی وہ دراصل شاعرِ انسانیت تھے اور جب شاعرِ ملت ہوئے تب بھی شاعرِ انسانیت رہے، اور اسی نصب العین کے حصول کے لیے انھوں نے وطنیت کے تنگ دائرے سے نکل کر ملت کے آفاقی تصور کو اپنایا۔ اس دور کی اُن غزلوں ور نظموں میں جہاں انھوں نے اپنے نئے جادہ و منزل کی نشان دہی کی ہے، وہاں بھی انسانیت کا تصور جلوہ فرما نظر آتا ہے۔ مثلاً مذکورہ بالا غزل کا یہ شعر ملاحظہ ہو: خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا اسی طرح شیخ عبدالقادر کے نام جو پیغام ہے اس کے یہ اشعار اقبال کے حقیقی نصب العین کی ترجمانی کرتے ہیں: درد ہے سارے زمانے کا ہمارے دل میں جنس کمیاب ہے، آ نرخ کو بالا کر دیں۲۱۶؎ شمع کی طرح جیئیں بزم گہِ عالم میں خود جلیں، دیدئہ اغیار کو بینا کر دیں۲۱۷؎ اسی دور کی ایک اور نظم ’’پیام‘‘ میں اقبال کہتے ہیں: عشق نے کر دیا تجھے ذوقِ تپش سے آشنا بزم کو مثلِ شمعِ بزم حاصلِ سوز و ساز دے صورتِ شمع نور کی ملتی نہیں قبا اسے جس کو خدا نہ دہر میں گریۂ جاں گداز دے اقبال کے ’’سوز و ساز ‘‘ اور ’’گریۂ جاں گداز‘‘ کا سبب غمِ انسانیت ہے،جسے وہ اپنے نغموں اور نالوں میں سمو کر افرادِ ملّت کے قلوب میں منتقل کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اقوامِ عالم میں قومِ مسلم ہی عالمگیر اخوت اور وحدتِ انسانیت کے بلند تصورات کو اپنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یوں تو اسلام اور ملّتِ اسلامیہ کے حقیقی نصب العین کے بارے میں وہ نظم و نثر میں بہت کچھ کہہ چکے ہیں، لیکن یہاں اس گفتگو کا حوالہ دیا جاتا ہے جو ان کے اور سرڈینی سن راس کے درمیان ہوئی تھی۔ دوسری گول میز کانفرنس کے ایام میں ۱۳؍اکتوبر ۱۹۳۱ء کو سر راس ، حضرت علامہ سے ملنے کے لیے آئے تھے۔ اثنائے گفتگو میں اسلام کی حقیقت واضح کرتے ہوئے علامہ نے فرمایا: اسلام Dogmatic مذہب نہیں ہے۔ اس کا منتہائے مقصود یہ ہے کہ نوعِ انسانی ایک گھرانا اور ایک خاندان بن جائے۔ شعرا اور فلسفی اس اتحادِ انسانی کے محض خواب دیکھتے رہے، لیکن اسلام نے اس مقصد کے حصول کے لیے ایک عملی سکیم پیش کر دی … آج دنیا میں اسلام کے سوا اور کوئی ایسا طریق نہیں جس پر کار بند ہو کر یہ امتیازات مٹ سکیں۔ اسلام نے جو فرائض، ارکان یا طریقِ عبادات مقرر کیے، ان سب کا مدعا یہ ہے کہ انسانی قلوب کو رنگ، نسل اور قوم کے امتیازات سے پاک کر دے۔ ۲۱۸؎ اقبال کا یہ قول کہ ’’یورپ کی آب و ہوا نے مجھے مسلمان کر دیا‘‘ اس ذہنی انقلاب کے ایک خاص مفہوم کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جب انھوں نے مغربی وطنیت اور قومیت کے مقابلے میں ملّت کے بلند انسانی و آفاقی تصور کا جائزہ لیا تو ان کی نگاہوں کے سامنے اسلام کی عظمت پوری تابانی سے آشکار ہو گئی ۔ سفرِ یورپ سے پہلے بھی اقبال جانتے تھے کہ اسلام نے قبائلی عصبیتوں کو مٹا کر اور رنگ و نسل کے بتوں کو توڑ کر محض ایک کلمۂ حق کی بنیاد پر دنیا بھر کے مسلمانوں کو متحد کر دیا ہے، لیکن اخوتِ ملی اور وحدتِ انسانی کا یہ تصور کتنی عظمت، سعادت و برکت کا حامل ہے، اس کا اندازہ انھیں اس وقت ہوا جب انھوں نے مغربی وطنیت کے گھنائونے چہرے کے مقابلے میں ملّتِ بیضا کے رخِ روشن کا مشاہدہ کیا۔ وہ ذہنی طور پر اسلام کی حقانیت کا ادراک تو رکھتے تھے، اب قلبی طور پر اسلام کی حقیقی روح سے آشنا ہو گئے ۔ اقبال نے محسوس کیا کہ دنیا کو وطنیت کی تخریب کاری اور مادہ پرست تہذیب کی لعنتوںسے اسلام ہی نجات دلا سکتا ہے۔ لیکن انھوں نے دیکھا کہ خود مسلم اقوام بھی وطنیت کے دام میں گرفتار اور اپنے نصب العین سے بے خبر ہیں، حتیٰ کہ مغرب کے بعض حق شناس مفکر بھی (مثلاً ٹائن بی) جو اسلام کی انقلاب آفریں قوتوں سے بڑی آس لگائے بیٹھے ہیں، مسلمانوں کی اس افتاد پر نالاں ہیں۔ اسی شعور و احساس نے اقبال کی فکر و نظر کے زاویے بدل دیے اور ان کے جذبات و خیالات کا دھارا وطنیت سے ملت یا بین الاقوامیت کی طرف مڑ گیا۔ چنانچہ ڈاکٹر نکلسن کے نام اپنے طویل خط میں وہ لکھتے ہیں: اسلام ہمیشہ رنگ و نسل کے عقیدے کا، جو انسانیت کے نصب العین کی راہ میں سب سے بڑا سنگِ گراں ہے، نہایت کامیاب حریف رہا ہے… میں دیکھ رہا ہوں کہ قومیت کا عقیدہ، جس کی بنیاد نسل یا جغرافیائی حدودِ ملک پر ہے، دنیائے اسلام میں استیلا حاصل کر رہا ہے اور مسلمان عالمگیر اخوت کے نصب العین کو نظر انداز کرکے اس عقیدے کے فریب میں مبتلا ہو رہے ہیں،جو قومیت کو ملک و وطن کی حدود میں مقید رکھنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اس لیے میں ، ایک مسلمان اور ہمدردِ نوعِ انسان کی حیثیت سے ، انھیں یہ یاد دلانا مناسب سمجھتا ہوں کہ ان کا حقیقی فرض سارے بنی آدم کی نشو و ارتقا ہے۔۲۱۹؎ علامہ افغانی اور حکمائے مغرب کے اثرات: دورانِ قیامِ یورپ میں اقبال کو سید جمال الدین افغانی کی بین الملی تحریک کے مطالعے کا بھی موقعہ ملا۔ عالم اسلام کی اس حرکی و انقلابی شخصیت کی نوائے آتشیں کے شرارے جو اس کی تحریروں اور ’’العروۃ الواثقیٰ‘‘ کی فائلوں میں محفوظ تھے، اب تک درد مندانِ ملت کے قلوب کو گرما رہے تھے۔ فرانس اور انگلستان کے مستشرقین میں افغانی کے کئی مداح اور پروفیسر نکلسن جیسے قدر شناس موجود تھے، جن سے اقبال کو علامہ افغانی مرحوم اور ان کی تحریک کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل ہوئیں۔ گزشتہ فصل میں ذکر آ چکا ہے کہ لندن میں پان اسلامک سوسائٹی کے قیام میں اقبال نے حصہ لیا تھا اور اس کے زیرِ اہتمام کئی لیکچر بھی دیے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ مسلم ممالک کو ایک مرکز پر لانے اور ملّتِ مظلوم کو مغربی استعمار کے چنگل سے چھڑانے کے لیے طویل فکری جہاد کی ضرورت ہے۔ اسی دور میں انھوں نے زوالِ ملت کے اسباب پر غور و فکر شروع کیا اور غالباً انھوں نے محسوس کر لیا کہ جس طرح مغربی فلسفے کے یک رخے پن سے اہلِ مغرب مادہ پرستی میں مبتلا ہیں، اسی طرح تصوف کی انتہا پسندانہ روحانیت نے مسلمانوں کو جادئہ اعتدال سے بھٹکا دیا ہے اور وہ مردہ دلی و بے عملی کا شکار ہو گئے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے ایک ایسے فلسفۂ حیات کی تشکیل کا ارادہ کیا جو اسلام کی متوازن تعلیمات کے مطابق دین و دنیا ، روح و مادہ، عشق و عقل اور فرد و جماعت کے تضادات سے پاک ہو۔ بشیر احمد ڈار صاحب نے اپنی ایک تصنیف Iqbal and Post kantian Voluntarism میں اجمالاً، اور ایک مقالے میں تفصیل سے، اس نکتے کی وضاحت کی ہے کہ قیامِ یورپ کے زمانے میں اقبال کی تنقیدِ مغرب اور ایک عظیم الشان عمرانی فلسفے کی تشکیل کا تصور نطشے کے مطالعے کا نتیجہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ نطشے ہی تھا جس نے اقبال کے سکون خاطر کو ہلا دیا اور بیسویں صدی کے جدید صنعتی دور میں اسلامی معاشرے کی تعمیر نو کو اپنا نصب العین بنانے کا شعور و احساس ان کے اندر بیدار کیا۔۲۲۰؎ یہ مسئلہ آیندہ کسی مناسب موقع پر زیر بحث آئے گا۔ اس میں شک نہیں کہ اسلامی تعلیمات کے زیادہ مثبت اور قوت بخش عناصر، اور عجمی تصوف کے منفی اثرات کی طرف اقبال کی توجہ غالباً نطشے کے مطالعے سے مبذول ہوئی، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسی دور کی ایک نظم پیام عشق میں جہاں انھوں نے نطشے کے فلسفۂ قوت و پیکار سے متاثر ہو کر یہ کہا: غرض ہے پیکارِ زندگی سے کمال پائے ہلال تیرا جہاں کا فرضِ قدیم ہے تو، ادا مثالِ نماز ہو جا وہیں نطشے کے برخلاف فرد کی خودی کو جماعت سے وابستہ رہنے کا پیغام بھی دیا: وجود افراد کا مجازی ہے، ہستیِ قوم ہے حقیقی فدا ہو ملّت پہ، یعنی آتش زنِ طلسمِ مجاز ہو جا۲۲۱؎ ان اشعار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس ضمن میں اقبال کے فکری محرکات کا دائرہ صرف نطشے تک ہی محدود نہیں تھا۔ اس سلسلے میں جرمنی کے فلسفی شاعر گوئٹے کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ گزشتہ فصل میں ذکر آ چکا ہے کہ ہائیڈل برگ میں اقبال نے مس ایما ویگے ناست کی رہنمائی میں گوئٹے کی تصانیف بالخصوص فاؤسٹ کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ گوئٹے اور ’’فائوسٹ‘‘ کے بارے میں انھوں نے اپنے تاثرات کا اظہار ۱۹۱۰ء کی بیاض (شذراتِ فکرِ اقبال) میں جس والہانہ انداز میں کیا ہے، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نطشے کے’’فوق البشر‘‘ سے کہیں زیادہ وہ ’’فائوسٹ‘‘ سے متاثر ہوئے تھے جسے وہ ’’انسانیت کی تجسیم‘‘ قرار دیتے ہیں۔ اقبال کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس دور میں ہیگل سے بھی متاثر ہوئے تھے، اور فلسفۂ ہیگل کے ممتاز شارح و متخصص پروفیسر میک ٹیگرٹ کے لیکچر میں شریک ہوا کرتے تھے۔ ’’شذرات‘‘ میں ایک جگہ گوئٹے اور ہیگل کا ایک ساتھ یوں ذکر آیا ہے کہ ان دونوں نے ’’اشیا کی باطنی حقیقت تک پہنچنے میں میری رہنمائی کی تھی‘‘ (ص ۱۰۵)لیکن ہیگل نے اضداد کی کشمکش سے ارتقا کا جو اصول بیان کیا ہے، اقبال کے لیے اس سے کہیں زیادہ پُر کشش اور فکر انگیز وہ داخلی کشمکش ہے جس کی مرقع کشی گوئٹے نے ’’فائوسٹ‘‘میں اس ہنرمندی سے کی ہے کہ انسانیت کا روحانی نصب العین اور انسانی خودی کے ارتقا کے تمام امکانات پوری طرح روشن ہو گئے۔ اسی لیے اقبال نے ’’فائوسٹ‘‘ کو ایک ’’الہامی کتاب‘‘ قرار دیتے ہوئے گوئٹے کے بارے میں کہا ہے: ’’نیست پیغمبر ولے دارد کتاب‘‘۔/ اس رزمیے میں ایک طرف ابلیس کی صورت میں عقلِ ہوس پیشہ کی ستیزہ کاری ہے اور دوسری طرف عشق کی حرکی قوت کے سہارے انسان کی قدم بہ قدم پیش روی ۔ اس کشمکشِ مدام اور کوششِ ناتمام کے بارے میں اقبال نے بہت کچھ کہا ہے، لیکن یہاں ’’فائوسٹ‘‘ کے اس رزمیے کی مناسبت سے پیامِ مشرق کی غزل کا صرف ایک شعر نقل کیا جاتا ہے: اگرچہ عقلِ ہوس پیشہ لشکرے انگیخت تو دل گرفتہ نہ باشی کہ عشق تنہا نیست / عطیہ بیگم نے اپنی کتاب کی ابتدا میں اقبال کے استغراق و محویت کا ایک عجیب واقعہ بیان کیا ہے جو ۲۳؍اگست ۱۹۰۷ء کی صبح کو ہائیڈل برگ میں رونما ہوا تھا۔ اس روز طلبہ و اساتذہ کی جماعت سیر و تفریح کے لیے روانہ ہونے والی تھی۔ جب یہ لوگ ایک ایک کرکے جمع ہو کر اقبال کے کمرے میں پہنچے تو دیکھا کہ وہ بُت کی طرح بے حس و حرکت بیٹھے، اپنے سامنے ایک کھلی کتاب کو خالی نظروں سے گھور رہے ہیں۔ اقبال کو سکتے کے عالم میں دیکھ کر سب حیران تھے۔ بالآخر انھیں جھنجھوڑ کر ہوش میں لایا گیا۔ عطیہ بیگم نے اس کیفیت کو صوفیانہ مراقبہ قرار دیا ہے۔ (اقبال از عطیہ بیگم، خالد ایڈیشن، ص ۹ و ۳۵) ۔ لیکن یہ توجیہ قرین قیاس نہیں۔ تعجب ہے کہ انھوں نے کھلی کتاب کا توذکر کیا لیکن کتاب کا نام تک دیکھنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ راقم الحروف نے اس معمے کو نظر انداز کر دیا تھا۔ لیکن ایما کے نام اقبال کے خطوط کی روشنی میں اب اس واقعے کی معقول توجیہ ممکن ہے۔ اُن دنوں اقبال بڑے ذوق و شوق سے گوئٹے کی کتاب ’’فائوسٹ‘‘ کے مطالعے میں منہمک تھے۔ غالباً اُس وقت ’’فائوسٹ‘‘ ہی ان کے پیشِ نظر تھی، اور وہ کسی ذہن کشا خیال اور دل نشیں تصور کے زیرِ اثر ایک سلسلۂ غور و فکر کے عالمِ جذب و کیف میں کھو گئے ہوں گے۔ /// فصل سوم اس دور کی شاعری کا فکری وفنی جائزہ تمہید ستمبر ۱۹۰۵ء سے جولائی ۱۹۰۸ء تک پونے تین سال کے اس مختصر زمانے کی کل ۲۴ نظمیں اور غزلیں بانگِ درا حصہ دوم میں درج ہیں۔ ان میں بھی تین نظمیں ایسی شامل ہیں جو یورپ سے واپسی کے بعد کہی گئیں: ’’عاشقِ ہرجائی‘‘ ، (جولائی ۱۹۰۹ئ)، ’’… کی گود میں بلی دیکھ کر‘‘ (۱۹۱۱ئ) ’’نوائے غم‘‘ (دسمبر ۱۹۱۱ئ)۔ روزگارِ فقیر، حصہ دوم میں ’’بیاضِ اعجاز‘‘ کی دو ایک غزلیں داخلی شواہد کی بنا پر اسی دور سے منسوب کی جا سکتی ہیں۔ اس دور کے متروک کلام میں بعض نظمیں ایسی ہیں جنھیں اقبال نے احتیاطاً تلف کر دیا ’’کہ کہیں کوئی انھیں چرا کر نہ لے جائے اور شائع نہ کر دے‘‘۔ اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں: ’’گزشتہ پانچ چھ سال کے دوران میں میری نظمیں زیادہ تر پرائیویٹ نوعیت کی رہی ہیں اور میرا خیال ہے کہ پبلک کو ان کے پڑھنے کا کوئی حق نہیں۔‘‘ اگرچہ بیشتر ایسی ’’پرائیویٹ نوعیت‘‘ کی نظمیں اُس زمانے میں کہیں شائع نہیں ہوئیں لیکن شکر ہے کہ بانگِ درا کی ترتیب کے وقت اقبال نے ’’پرائیوٹ ‘‘ اور ’’پبلک‘‘ کی غیرفن کارانہ حد بندیوں سے بالاتر ہو کر انھیں تلف ہونے سے بچا لیا۔ بہرحال اقبال کی گونا گوں مصروفیات کے پیشِ نظر ، اس دور کی شعری تخلیقات کا یہ سرمایہ، فکر و فن اور کیف و کم ، ہر اعتبار سے ازبس غنیمت ہے۔ موضوعِ فکر و محرکاتِ شعری کے لحاظ سے اس دور کا کلام مختلف زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جمالیاتی و رومانی نظموں کا دائرہ سب سے زیادہ وسیع ہے جس میں مندرجہ ذیل نظمیں شامل ہیں: محبت۔ حقیقتِ حسن۔ اخترِ صبح۔ حسن و عشق۔… کی گود میں بلی دیکھ کر۔ کلی۔چاند اور تارے۔ وصال۔ سلیمٰی۔ عاشقِ ہرجائی۔ نوائے غم۔ عشرتِ امروز جلوئہ حسن۔ ایک شام۔ تنہائی۔ فراق۔ یوں تو بحیثیتِ مجموعی اس دور کے کلام میں ہر جگہ ’’ایک حساس، بے قرار اور اور آتشیں شباب نوجوان کی تصویر نظر آتی ہے‘‘۲۲۳؎ لیکن یہ نظمیں خصوصیت سے شاعرکے احساس جمال اور حزن و نشاط کی مختلف رومانی کیفیات کی ترجمان ہیں۔ ہر سچے شاعر کی طرح اقبال بھی جمالیاتی ذوق سے بہرئہ وافر رکھتے تھے اور ان کی شخصیت کا یہ پہلو، ان کی زندگی اور شاعری کے ہر دور میں نمایاں ہے، حتیٰ کہ آخری دور کی درویشانہ زندگی میں بھی جمال پسندی کی مثالیں ملتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جمال پسندی سے مراد احساسِ حسن کا وہ ذوقِ لطیف ہے جس کا تعلق ’’شیوئہ اہل نظر‘‘ سے ہے، جیسا کہ ان دو واقعات سے ظاہر ہوگا۔ دسمبر ۱۹۲۸ء میں جب حضرت علامہ اپنے خطبات کے سلسلے میں مدراس گئے تو وہاں سے بنگلور و میسور ہوتے ہوئے حیدر آباد میں نظام کے مہمان کی حیثیت سے چند روز شاہی مہمان خانے میں قیام رہا۔ انھیں معلوم تھا کہ نظام کے ذاتی خزانے میں سیاہ رنگ کا ایک نایاب ہیرا بھی ہے۔ چنانچہ نظام سے ملاقات کے موقعے پر حضرت علامہ نے اس ہیرے کو دیکھنے کا شوق ظاہر کیا۔ جب ان کی اس فرمائش پر ہیرا لایا گیا تو اس کے انوکھے حسن کے مشاہدے سے بے حد محظوظ ہوئے۔۲۲۴؎ دوسرا واقعہ اُس زمانے کا ہے جب وہ دوسری گول کانفرنس سے واپسی پر اٹلی میں چند روز کے لیے ٹھہر گئے تھے۔ ان کی ایک دوست خاتون نے، جو طبقۂ امرا سے تعلق رکھتی تھیں، ان سے دریافت کیا کہ اگر آپ کو یہاں کوئی خاص چیز دیکھنی ہے تو فرمائیے تاکہ اس کا انتظام کیا جائے۔ فرمایاکہ اطالیہ کا حسن مشہور ہے، میں یہاں کی حسین ترین خواتین کو دیکھنا چاہتا ہوں۔چنانچہ موصوفہ نے ایک ٹی پارٹی میں اعلیٰ سوسائٹی کی چند حسین خواتین مدعو کیں، جن سے انھوں نے ملاقات کی۔ عہدِ شباب میں تو شاعر کی نگاہیں: ع ’’ننھے ننھے طائروں کی آشیاں سازی میں حسن‘‘ دیکھ لیا کرتی تھیں۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ قیامِ یورپ کے زمانے میں بھی ان کے جمالیاتی تصورات و تجربات میں بڑی وسعت اور ہمہ گیری ملتی ہے۔ لندن، کیمبرج ، ہائیڈل برگ اور میونخ کے حسن خیز ماحول اور فراغتِ خاطر کے مغتنم لمحات میں، شاعر کو حسنِ فطرت کے گونا گوں مظاہر اور محاسنِ ذہنی و ذوقی سے مزین انسانی حسن و جمال کے قریبی مشاہدے کے اتنے مواقع ملے کہ اس سے پہلے کبھی میسر نہ آئے تھے۔ ایسے ساز گار ماحول میں جمالیات کے موضوع کا مرکز توجہ بننا ایک قدرتی امر تھا۔۲۲۶؎ اس دور کے جمالیاتی تصورات اقبال کے جمالیاتی تصورات میں نوفلاطونی تصورِ جمال کو اولیت حاصل ہے۔ گزشتہ دور کی طرح وہ اس دور میں بھی کائنات کے ذرے ذرے میں حسنِ ازل کی جھلک دیکھتے ہیں۔ اس زمانے کی غزلوں اور نظموں میں جابجا اس کیفیت کا اظہار ہوا ہے: چمک تیری عیاں بجلی میں، آتش میں، شرارے میں جھلک تیری ہویدا چاند میں، سورج میں، تارے میں تارے میں وہ، قمر میں وہ، جلوہ گہِ سحر میں وہ چشمِ نظارہ میں نہ تُو سرمۂ امتیاز دے۲۲۷؎ فلسفۂ عجم کے تحقیقی مطالعے کے بعد انھیں معلوم ہوا کہ صوفیہ کا تصور، نو فلاطونی تصور سے زیادہ وسیع اور مکمل ہے۔ صوفیہ کے نزدیک خارجی فطرت کے مقابلے میں، انسان حسنِ ازل کا کامل تر آئینہ ہے ’’جو اصل جوہر کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘ موجودہ دور کے بعض اشعار میں اس تصور کی طرف واضح اشارے ملتے ہیں: جو ہے بیدار انساں میں وہ گہری نیند سوتا ہے شجر میں پھول میں حیواں میں پتھر میں ستارے میں ہر شے میں ہے نمایاں یوں تو جمال اس کا آنکھوں میں ہے سلیمیٰ تیری کمال اس کا۲۲۷؎ اقبال نے اپنے مقالے میں جہاں اس پہلو ( ’’حقیقتِ مطلق بطورِ جمال‘‘)پر بحث کی ہے، ابن سینا اور رومی کے تصورات کا خصوصیت سے ذکر کیا ہے۔ ابن سینا کا نظریہ یہ ہے کہ کائنات کی ہر شے ناقص ہے اور اپنی تکمیل کے لیے برابر کوشاں رہتی ہے۔ خدا کی ذات، جو حسنِ مطلق، خیرِ مطلق اور تمام کمالات کا سر چشمہ ہے، اعلیٰ ترین نصب العین کی حیثیت سے اس کی کشش ہر شے کی ارتقائی حرکت کا سبب ہے۔۲۲۸؎ رومی نے اس ارتقاکوش جذبے کو، جو کشاں کشاں اعلیٰ ترین نصب العین کی طرف لے جاتا ہے، ’’عشق‘‘ قرار دیا اور حسن و عشق میں ارتقا کے اس فلسفیانہ تصور کو جذبہ آمیز شعر کے آتشیں پیگر میں ڈھال کر پیش کیا ہے۔ اقبال کو اگرچہ اس دور میں مثنوی معنوی کے گہرے مطالعے کا موقع نہیں ملا، لیکن وہ حکمت رومی کے بعض اہم پہلوئوں سے آشنا ہو چکے تھے اور اپنے مقالے میں بھی انھوں نے مثنوی کا وہ پارہ نقل کیا ہے جس میں زندگی کے ارتقائی مراحل کا بیان یوں شروع ہوتا ہے: آمدہ اوّل بہ اقلیمِ جماد وز جمادی در نباتی اوفتاد۲۲۹؎ اقبال نے بھی اس دور کی ایک نظم ’’چاند اور تارے‘‘ میں مسلسل حرکت کو زندگی کا اصل اصول اور حسن کو ارتقائے حیات کی آخری منزل قرار دیا ہے: جنبش سے ہے زندگی جہاں کی یہ رسم قدیم ہے یہاں کی ہے دوڑتا اشہبِ زمانہ کھا کھا کے طلب کا تازیانہ اس رہ میں مقام بے محل ہے پوشیدہ قرار میں اجل ہے انجام ہے اس خرام کا حسن آغاز ہے عشق، انتہا حسن۲۳۰؎ حکمائے جمالیات نے حسن کی صفات اور تاثرات کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے، لیکن اس کی کوئی واضح اور متفق علیہ تعریف اب تک بیان نہیں کی جا سکی۔ اقبال نے اس نظم کے آخری شعر میں اشارۃً اور بعض دیگر نظموں میں صراحتاً حسن و عشق دونوں کی ایک جامع تعریف پیش کی ہے، یعنی حسن عبارت ہے جذب و کشش سے اور اس کششِ کا احساس، عشق ہے۔ اس طرح حسن و عشق ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں۔ حسن کی یہ کشش ہر جگہ کارفرما ہے۔ چنانچہ عشق بھی ہمہ گیر ہے۔ ایک نظم (’’… کی گود میںبلی دیکھ کر‘‘) کے چند اختتامی اشعار ملاحظہ ہوں: خاص انسان سے کچھ حسن کا احساس نہیں صورتِ دل ہے یہ ہر چیز کے باطن میں مکیں شیشۂ دہر میں مانندِ مئے ناب ہے عشق روح خورشید ہے خونِ رگِ مہتاب ہے عشق دلِ ہر ذرّہ میں پوشیدہ کسک ہے اس کی نور یہ وہ ہے کہ ہر شے میں جھلک ہے اس کی۲۳۱؎ حسن و عشق کا جذب و کشش حیات و کائنات کی روح ہے۔ یہی جذب و کشش کائنات کے تمام اجزا و عناصر کی باہمی وابستگی اور نظم و ضبط کا باعث ہے: ریاضِ ہستی کے ذرّے ذرّے سے ہے محبت کا جلوہ پیدا حقیقتِ گل کو تو جو سمجھے تو یہ بھی پیماں ہے رنگ و بو کا۲۳۲؎ اقبال نے اپنی نظم ’’محبت‘‘ میں اسی آفاقی اصولِ حرکت و حیات کو ایک حسین پیرایے میں بیان کیا ہے۔ عالم بالا کے کیمیا گر نے جب محبت کے آسمانی نسخے کے مختلف اجزا فراہم کرکے چشمۂ حیواں کے پانی میں گھولا تو اس مرکب کے اثر سے کائنات کی ہر شے متحرک ہو گئی: مہوّس نے یہ پانی ہستیِ نوخیز پر چھڑکا گرہ کھولی ہنر نے اس کے گویا کارِ عالم سے ہوئی جنبش عیاں، ذرّوں نے لطفِ خواب کو چھوڑا گلے ملنے لگے اُٹھ اُٹھ کے اپنے اپنے ہمدم سے خرامِ ناز پاپا آفتابوں نے، ستاروں نے چٹک غنچوں نے پائی، داغ پائے لالہ زاروں نے۲۳۳؎ اگرچہ دوسرے شعر کے الفاظ خالص جسمانی یا ارضی محبت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں لیکن سیاق و سباق سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ارضی محبت کا یہ اعلیٰ و ارفع تصور نہایت پاکیزہ عناصر پر مشتمل ہے۔ شاعر نے ’’کشش ‘‘ کو ایک ہمہ گیر کائناتی اصول قرار دیا ہے۔ انسانی محبت بھی کششِ حسن پر مبنی ہے اور حسن و جمال، محض رنگ روپ اور خد و خال کی موزونیت کا نام نہیں بلکہ وہ تمام صوری و معنوی محاسن و کمالات پر محیط ہے۔ مثنوی اسرارِ خودی میں یہ اشعار حسن و محبت کے اسی وسیع مفہوم کی ترجمانی کرتے ہیں: ہر چہ باشد خوب و زیبا و جمیل در بیابانِ طلب ما را دلیل نقشِ او محکم نشیند در دلت آرزوھا آفریند در دلت حسن خلاقِ بہارِ آرزو ست جلوہ اش پروردگارِ آرزو ست۲۳۴؎ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ صنفِ مخالف کی محبت میں جنسی کشش بھی کار فرما ہوتی ہے، تاہم محبت کی کیفیات، جنسی جذبے کی پست حیوانی سطح سے بدرجہا بلند، لطیف و پاکیزہ ہوتی ہیں۔ جنس کا مطلوبِ محض جسم ہے اور مقصود ایک وقتی ہیجان کی تسکین۔ محبت کا مطلوب مکمل شخصیت ہے اور مقصود توسیع و تکمیلِ ذات۔۲۳۵؎اقبال نے اپنی نظم ’’حسن و عشق‘‘ کے آخری بند میں حسن کی تحریکی قوت اور عشق کے تخلیقی و تعمیری فیضان کو یوں بیان کیا ہے: جب سے آباد ترا عشق ہوا سینے میں نئے جوہر ہوئے پیدا مرے آئینے میں حسن سے عشق کی فطرت کو ہے تحریک کمال تجھ سے سر سبز ہوئے میری امیدوں کے نہال قافلہ ہو گیا آسودئہ منزل میرا۲۳۶؎ فرائڈ کے نظریۂ جنس نے محبت کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں پیدا کی ہیں۔ اس انتہا پسند نظریے کی لغویت تو اسی سے ظاہر ہے کہ خود اس کے شاگردوں (ینگ اور ایڈلر)نے بھی اس سے اختلاف کیا ہے۔ اقبال نے حسن اور محبت کی جو جامع تعریف بیان کی ہے اس کی تصدیق انسانی فطرت اور زندگی کے عام مشاہدات سے ہوتی ہے۔ ایک سلیم الفطرت اور صحت مند انسان کا ذوقِ جمال جس طرح حواسِ خمسہ کے ذریعے کسی مادی پیکر کے حسنِ تناسب ، موسیقی کے آہنگ سے، پھولوں کی خوشبو اور شفق کے رنگ سے محظوظ ہوتا ہے، اسی طرح ایک باطنی حِس کے ذریعے معنوی جمال و کمال اور حسنِ سیرت سے متاثر ہوتا ہے۔ جمالِ صورت کی کشش رو بہ زوال ہوتی ہے، جمالِ معنی کی گرفت استوار و پائدار۔ ظاہری حسن کے پردے میں باطنی خباثت زیادہ دیر تک پوشیدہ نہیں رہ سکتی، لیکن معنوی جمال کی آب و تاب پوری شخصیت پر اس طرح چھا جاتی ہے کہ جمالِ صورت کا فقدان مطلق محسوس نہیں ہوتا۔ سقراط کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ نہایت بھدی شکل و صورت کا انسان تھا۔ لیکن جمال پرست ایتھنز کے دانش جو نوجوان اس حکیم فرزانہ کے شیدائی تھے،حتیٰ کہ اس کی زندگی کے آخری لمحات میں امرا کے طبقے کا ایک جوانِ رعنا اپنی جان کی بازی لگا کر اس محبوب شخصیت کو بچانے کے لیے بے قرار تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ جمالِ سیرت کی کشش محسوس کرنے کے لیے جو باطنی حسن درکار ہے، وہ سب میں یکساں نہیں ہوتی، بلکہ عموماً نہایت کمزور ہوتی ہے۔ ایک بہت بڑے عالم اور جمال پرست شاعر کے بارے میں ان کے ایک ارادت مند شاگرد لکھتے ہیں: ’’حسن کے معاملے میں ان کی نفاست نے اور بھی زیادہ جلا پیدا کر لی تھی۔ بدصورت آدمی کو دیکھ نہیں سکتے تھے۔‘‘۲۳۷؎ پھر یہ واقعہ لکھا ہے کہ ان کا نیا باورچی جو اپنے فن میں ماہر لیکن بد صورت تھا، جب پہلے دن کھانا لے کر آیا تو شدتِ تنفّر سے ’’ان کا سارا بدن تھر تھرانے لگا۔‘‘ اس بے چارے کا کمالِ فن دھرا رہ گیا اور بہت جلد اس کی جگہ ایک قبول صورت باورچی رکھا گیا۔ نہ جانے ممدوح ’’بلالی دنیا‘‘ کے سیہ فام و بدہیئت مسلمان بھائیوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ؟ اقبال کی زندگی میں نفاست پسندی کا ایسا کوئی واقعہ نہیں ملتا۔ البتہ باطنی لطافت و کثافت کے معاملے میں ان کی ذکاوتِ حس بہت شدید تھی۔ یہ ان کی فطرتِ سلیمہ کا تقاضا تھا کہ حسن و خیر و حق کی تثلیث وحدت میں بدل گئی۔ علاوہ ازیں اوائل عمر ہی سے انھیں ایک نسبتِ خاص تھی اُس ذاتِ گرامیؐ سے جس میں جمالِ معنوی کی رنگا رنگ تجلیات، متوازن ترکیب سے، ایک نور مجسم کے روپ میں ڈھل گئی تھیں۔ اقبال کے ذوقِ جمال کی تربیت و تہذیب اسی پیکر خوبی و محبوبی کے تصور و تاثر کے زیر سایہ ہوئی، جس کے بارے میں وہ کہہ چکے تھے۔ ع : ’’سراپا حسن بن جاتا ہے جس کے حسن کا عاشق‘‘۔ یہاں اسی دور کا ایک واقعہ درج کیا جاتا ہے جس سے یہ واضح ہو جائے گا کہ روزمرہ زندگی میں اقبال کا مشاہدئہ جمال، ظاہر پرستوں کی نظر بازی سے کس حد تک مختلف تھا۔ یہ واقعہ جو پورٹ سعید میں پیش آیا تھا، اقبال نے اپنے سفرنامے میں یوں بیان کیا ہے: تختۂ جہاز پر تین اطالوی عورتیں اور دو مرد وائلن بجا رہے تھے اور خوب رقص و سرود ہو رہا تھا۔ ان عورتوں میں ایک لڑکی، جس کی عمر تیرہ چودہ سال کی ہو گی، نہایت حسین تھی۔ مجھے دیانت داری کے ساتھ اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ اس کے حسن نے تھوڑی دیر کے لیے مجھ پر سخت اثر کیا۔ لیکن جب اس نے ایک چھوٹی سی تھالی میں مسافروں سے انعام مانگنا شروع کیا تو وہ تمام اثر زائل ہو گیا، کیونکہ میری نگاہ میں وہ حسن جس پر استغنا/ کا غازہ نہ ہو بدصورتی سے بدتر ہو جاتا ہے۔۲۳۸؎ یہی وجہ ہے کہ یورپ میں جہاں حسن ، شرمِ و حیا اور اخلاص و وفا کے جوہر سے عاری ہے، شاعر کے ذوقِ جمال کی تسکین نہ ہو سکی اور اسے یہ کہنا پڑا: میں نے اے اقبال یورپ میں اسے ڈھونڈھا عبث بات جو ہندوستاں کے ماہ سیمائوں میں تھی۲۳۹؎ اس دور کی نظموں، خصوصاً رومانی نظموں میں کسی زمانی ترتیب کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ ان / اقبال کی ایک قریب العہد تحریر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ’’استغنا‘‘ سے ان کی مراد صرف غنائے نفس ہے، ادائے ناز و شیوئہ بے نیازی ہر گز نہیں۔ وہ اپنی بیاض میں لکھتے ہیں: ’’وہ عورت جو کمالِ حسن کے باوصف پندار حسن سے مطلق مبرا ہو، میرے نزدیک خدا کی مخلوقاتِ ارضی میں دلکش ترین شے ہے۔‘‘ (شذراتِ فکرِ اقبال، ص ۱۵۰)۔ میں سے تین نظمیں (: عاشقِ ہر جائی،… کی گود میں بلی دیکھ کر اور نوائے غم) تو اس دور کے بعد لکھی گئیں۔ اس دور کی تخلیقات میں سے ایک شام، تنہائی، کلی، سلیمیٰ، وصال، فراق اور حسن و عشق، قرائن کے لحاظ سے ایک خاص جمالیاتی تجربے کی مرحلہ وار کیفیات سے وابستہ ہیں، اور یہ نظمیں جولائی ۱۹۰۷ء کے بعد جرمنی اور لندن میں لکھی گئی ہیں۔ باقی ماندہ نظمیں (: محبت، حقیقتِ حسن، اخترِ صبح، عشرتِ امروز اور جلوئہ حسن) عمومی حیثیت رکھتی ہیں، یعنی کسی خاص جمالیاتی تجربے سے ان کی وابستگی ثابت نہیں کی جا سکتی۔ گمانِ غالب ہے کہ ان میں سے بیشتر نظمیں قیامِ جرمنی سے پہلے کی تخلیقات ہیں۔ فرائڈ کا یہ نظریہ بھی انتہا پسندی پر مبنی ہے کہ ادب و فن کا سرچشمہ صرف جبلتِ جنس ہے۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ تخلیقِ فن میں، دبی ہوئی جنسی خواہشات کے ارتفاع کے عمل، اور لاشعور میں محبوس تشنۂ تکمیل آرزوئوں کی کرشمہ سازی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔مؤخر الذکر نظموں کا تعلق قیامِ یورپ کے جس اوائلی زمانے سے ہے، اس دور میںاقبال بھی اس تجربے سے گزرے کہ آرزوئے شباب نے شاعر کے ذوقِ جمال کو متاثرکیا اور تمنائوںکی رنگ آمیزی نے ایک حسین معروض کو کچھ اس طرح سنوارا کہ حسن کی کشش بے پناہ ہو گئی ۔ جس غزل کا مقطع اوپر درج کیا گیا ہے، اسی غزل کے اس شعر میں شاعر نے ایک عام حقیقت کے پردے میں خود اپنی افتاد کا اعتراف کیا ہے: حسن کی تاثیر پر غالب نہ آ سکتا تھا علم اتنی نادانی جہاں کے سارے دانائوں میں تھی کبھی کبھی ان پر ایسے لمحات بھی گزرے کہ اُس ماحول کے اثر سے، جس میں تہذیب مغرب نے ترغیبِ نفس کے جملہ اسباب فراہم کر رکھے ہیں، اور اپیقوری (Epicurean) فلسفۂ حیات نے حصولِ لذت و مسرت کو ’’خیر اعلیٰ‘‘(Summum Bonum) قرار دے رکھا ہے، شاعر کا شباب بھی ’’عشرتِ امروز‘‘ کا تقاضا کرنے لگا: شباب آہ! کہاں تک اُمیدوار رہے وہ عیش عیش نہیں جس کا انتظار رہے عجیب چیز ہے احساس زندگانی کا عقیدہ عشرتِ امروز ہے جوانی کا۲۳۹؎ اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ درد مند شاعر اور فلسفی ’’اپیقوریت‘‘ کا شکار ہو گیا۔ یہ تو ایک موجِ گزراں، ایک وقتی کیفیت تھی۔ اقبال نے تو اسی دور میں اس نفس پروردہ ’’ہوائی‘‘ فلسفے کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا: پیرِ مغاں! فرنگ کی مے کا نشاط ہے اثر اس میں وہ کیفِ غم نہیں، مجھ کو تُو خانہ ساز دے۲۴۱؎ بہرحال یہ نظم (عشرتِ امروز) شاعر کی داخلی کشمکش کا مظہر ضرور ہے۔ اس سے ایک تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جس پختہ کردار انسان کا دامن عنفوانِ شباب میں بھی بے داغ رہا، اسے اس ماحول میں مجاہدئہ نفس کی کن آزمائشوں سے گزرنا پڑا ہو گا۔ دوسرے اس فن کارانہ دیانت کا ثبوت بھی ملتا ہے کہ اس نے جو کچھ محسوس کیا، وہی کہا ہے اور اس دور کی جتنی غیر مطبوعہ نظمیں، اس وقت موجود تھیں، انھیں فکری احتساب کی چھلنی میں چھاننے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ اسی زمانے میں ایک مسحور کن شخصیت جو حسن و شباب کے علاوہ بعض ذہنی، ذوقی اور ثقافتی محاسن سے بھی مزّین تھی، کچھ عرصے تک ان کی توجہ کا مرکز بنی رہی۔ لیکن اسی دوران میں جائزۂ نفس (Introspection) کا عمل شروع ہوا تو یہ احساس ابھرنے لگا کہ یہ جمالیاتی تجربہ محض تخیل کا طلسم ، آرزوئے شباب کا ایک رنگین خواب ہے۔ ایک مختصر نظم ’’جلوئہ حسن‘‘ اسی خود آگہی کا نتیجہ ہے۔ ابتدائی دو اور آخری شعر درج ذیل ہیں: جلوئہ حسن کہ ہے جس سے تمنّا بے تاب پالتا ہے جسے آغوشِ تخیّل میں شباب ابدی بنتا ہے یہ عالمِ فانی جس سے ایک افسانۂ رنگیں ہے جوانی جس سے آہ موجود بھی وہ حسن کہیں ہے کہ نہیں خاتمِ دہر میں یا رب وہ نگیں ہے کہ نہیں۲۴۲؎ جولائی ۱۹۰۷ء کے بعد جس خاص جمالیاتی تجربے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اس کی نوعیت مختلف تھی۔ حسن و شباب کی کشش تو ایک قدرِ مشترک ہے، لیکن اس تجربے کی گہرائی و گیرائی کا سبب ذہنی و فکری ہم آہنگی، حسنِ سیرت اور اعلیٰ اقدار سے روحانی وابستگی ہے۔ دبستانی ماحول کے تقاضے سے اقبال اپنے ’’مسلکِ سکوت‘‘ پر زیادہ محتاط طریقے سے عمل پیرا رہے۔ لیکن قربت کے باوجود یہ دوری اور بیگانگی ان کے اضمحلال و اضطراب کا باعث بنی رہی۔ ’’ایک شام‘‘ اور ’’تنہائی‘‘ اس سلسلے کی ابتدائی نظمیں ہیں، جن میں ’’غمِ تنہا سوختن‘‘ کی دھیمی دھیمی آنچ محسوس ہوتی ہے۔ ’’ایک شام‘‘ کا آخری شعر اور ’’تنہائی‘‘ کے چند متفرق اشعار ملاحظہ ہوں: اے دل تو بھی خموش ہو جا آغوش میں غم کو لے کے سو جا۲۴۳؎ تنہائی شب میں ہے حزیں کیا؟ انجم نہیں تیرے ہم نشیں کیا؟ موتی خوش رنگ پیارے پیارے یعنی ترے آنسوئوں کے تارے کس شے کی تجھے ہوس ہے اے دل قدرت تری ہم نفس ہے اے دل۲۴۳؎ اظہار محبت کے لیے شاعر کی بے قراری و بیتابی، ایک حسین نظم ’’کلی‘‘ میں بڑی شدت سے نمایاں ہے۔ چند متفرق اشعار درج ذیل ہیں: جب دکھاتی ہے سحر عارضِ رنگیں اپنا کھول دیتی ہے کلی سینۂ زریں اپنا سامنے مہر کے دل چیر کے رکھ دیتی ہے کس قدر سینہ شگافی کے مزے لیتی ہے میرے خورشید! کبھی تو بھی اٹھا اپنی نقاب بہرِ نظارہ تڑپتی ہے نگاہِ بے تاب جان مضطر کی حقیقت کو نمایاں کر دوں دل کے پوشیدہ خیالوں کو بھی عریاں کردوں۲۴۴؎ مختصر یہ کہ ایک مخفی احساسِ یگانگت کے باوجود ، تہذیب و تکلف کے پردے حائل رہے، لیکن باہمی مراسلت کا آغاز ہوتے ہی قلبی و روحانی اتحاد کی تکمیل ہو گئی۔ اقبال کی نظم ’’وصال‘‘ اسی حقیقت کی آئینہ دار ہے۔ اس روحانی اتحاد کے ساتھ جسمانی دوری و مہجوری کااحساس بڑھنے لگا۔ نظم ’’فراق‘‘ میں اسی کرب و اضطراب کی ترجمانی کی گئی ہے۔ اس سلسلے کی آخری نظم ’’حسن و عشق‘‘ اس جمالیاتی تجربے اور احساسِ یگانگت کی منتہا ہے۔ لیکن یہاں عالمِ بے خودی میں ایک بات (: ’’حسن کامل ہے ترا، عشق ہے کامل میرا‘‘) ایسی کہہ دی گئی جس کی تردید حسنِ ازل کے جلووں کے متلاشی شاعر کو بار بار کرنا پڑی۔ حسنِ کامل کی تلاش ، حسن ازل کے جلووں کی جستجو و آرزو ، یہ باتیں صوفیانہ شاعری کا ایک روایتی حصہ نظر آتی ہیں، لیکن یہ احساس اقبال کے وجدان کا ایک بیدار و فعال عنصر ہے اور ان کی شاعری کے ہر دور میں اس زندہ احساس کا ایسا پر خلوص اظہار ہوا ہے کہ ہمیں اس کی داخلی واقعیت پر ایمان لانا ہی پڑتا ہے۔ یہ مطلع تو انھوں نے آٹھ نو برس بعد ۱۹۱۶ء میں کہا تھا: کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں لیکن موجودہ دور کی فارسی غزل (محولۂ فصل اوّل) کا یہ شعر بھی اسی جذبے کا مظہر ہے: افتی اگر بدستِ ما ، حلقہ بگردِ تو کشیم ہنگامہ گرم کردہ ای، خود از میان رمیدہ ای اس دور کی رومانی نظموں میں بھی جابجا روحانی واردات کا یہ رنگ جھلکتا ہے۔ مثلاً ’’وصال‘‘ کا یہ شعر ملاحظہ ہو: غازئہ الفت سے یہ خاکِ سیہ آئینہ ہے اور آئینے میں عکسِ ہمدمِ دیرینہ ہے۲۴۵؎ ’’سلیمیٰ‘‘ میں بھی حسنِ مجاز، جلوئہ حقیقت کا مظہرِ کامل بن گیا ہے۔ اس مختصر نظم کی بنیاد ہی اسی صوفیانہ واردات پر ہے: ہر شے میں ہے نمایاں یوں تو جمال اس کا آنکھوں میں ہے سلیمیٰ! تیری کمال اس کا۲۴۶؎ لیکن جس شاعر کی وسعتِ طلب کا یہ عالم ہو کہ: ہر تقاضاعشق کی فطرت کا ہو جس سے خموش آہ وہ کامل تجلّی مدّعا رکھتا ہوں میں۲۴۶؎ اسے بالآخر مایوسی و ناکامی سے دوچار ہونا پڑتاہے۔ ’’عاشق ہرجائی‘‘ میں شاعر نے اپنی جستجوئے پیہم اور تشنگی دائم کی روداد بیان کی ہے۔ ’’حسن سے مضبوط پیمانِ وفا‘‘ اور مظاہرِ حسن سے بے نیازی و بے وفائی کی جو توجیہ شاعر نے کی ہے، اس سے ہم مطمئن ہوں یا نہ ہوں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ شاعر کی زندگی اور شاعری میں یہ ایک مستقل کیفیت ہے جس کا اظہار جا بجا ہوتا رہا ہے۔ پیامِ مشرق کی ایک نظم (حور و شاعر) کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں: چہ کنم کہ فطرت من بہ مقام در نہ سازد دلِ نا صبور دارم چو صبا بہ لالہ زارے ز شرر ستارہ جویم، ز ستارہ آفتابے سرِ منزلے ندارم کہ بمیرم از قرارے طلبم نہایتِ آں کہ نہایتے نہ دارد بہ نگاہِ ناشکیبے، بہ دلِ اُمیدوارے۲۴۸؎ اب ہم یہ بحث مولانا حالی کے اس بلیغ شعر پر ختم کرتے ہیں، جس کے بعد مزید قیل و قال کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی: ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں؟ اب دیکھیے ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں؟! (۲)رومانی نظموں کے فنی محاسن اقبال کی یہ نظمیں اپنے موضوع اور طرزِ احساس کے علاوہ اسلوبِ فن کے لحاظ سے بھی ایک منفرد حیثیت رکھتی ہیں۔ گزشتہ باب میں رسالہ مخزن کے حوالے سے اردو شاعری میں رومانی رجحان کا ذکر آ چکا ہے۔ اس سہ سالہ دور میں بھی مخزن کے صفحات مغربی شعرا کی نظموں کے تراجم اور نو بہ نو رومانی تخلیقات و تجربات کا سلسلہ جاری رہا۔ لیکن اگر بیسویں صدی کے عشرئہ اوّل کی صدہا رومانی نظموں کا ایسا انتخاب مرتب کیا جائے جو اُنیسویں صدی کی انگریزی شاعری کی جمالیاتی اقدار و فنی معیار کا حامل ہو، تو شاید اقبال کی ان نظموں کے علاوہ بہت کم چیزیں اس انتخاب میں شامل ہو سکیں گی۔ اگرچہ دورِ اوّل میں بھی اقبال کے کلام میں رومانی رجحانات ملتے ہیں لیکن ان نظموں میں دو خصوصیات ایسی ہیں جن کی بدولت مغرب کی رومانی شاعری کی فضا اپنے پورے حسن اور نکھار کے ساتھ یہاں موجود ہے۔ رومانیت کی متنوع صورتوں اور مختلف رویوں کے باوجود ، یہی دو عناصر رومانی آرٹ میں روح و رواں کی طرح جاری و ساری ہیں: (۱) احساسِ جمال کی شدت یا جمالیاتی تجربے کا خلوص۔ (۲) تخیل کی فراوانی۔ یوں تو جمال کی تحسین و تخلیق ہی تمام فنونِ لطیفہ کا بنیادی مقصد رہا ہے، لیکن مغرب میں رومانی تحریک شروع ہی اس لیے ہوئی کہ انسان کے ذوقِ جمال کو عقلیت اور مادہ پرستی کی یلغار سے محفوظ رکھا جائے۔ رومانی فن کار، جمال پرستی کے جذبے سے سرشار ہو کر جمال ہی کو عین حقیقت گردانتے ہیں، جیسا ک کیٹس نے اس عقیدے کا اعلان کیا ہے: Beauty is Truth, Truth is Beauty, that is all, You know on earth and all you need to know. جہاں تک تخیّل کا تعلق ہے، بعض رومانی فن کاروں اور نقادوں، مثلاً شیلے اور کولرج نے تو اسے نہ صرف شاعری بلکہ تمام فنونِ لطیفہ کا سرچشمہ قرار دیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ تخیل ہی وہ قوت ہے جو حسّی تاثرات کی بے ترتیبی میں ربط و نظم پیدا کرتی ہے، جذبے اور فکر کو ہم آہنگ بناتی ہے، لطیف ترین احساسات کو واضح تمثالوں اور علامتوں کے محسوس پیکر عطا کرتی ہے اور شاعرانہ وجدان کو شعری تخلیق کے حسین سانچے میں ڈھالتی ہے، لیکن بعض وجوہ سے رومانی شاعری میںبالعموم ہمیںتخیّل کی اختراعی و ابداعی قوت کے جو عجیب و غریب کرشمے نظر آتے ہیں وہ اور کہیں شاذو نادر ہی دکھائی دیں گے۔ جیسا کہ گزشتہ باب میں بیان کیا جا چکا ہے، رومانی شاعری میں ابتدا ہی سے سریت، باطنیت اور روحانیت کی طرف ایک خاص میلان پایا جاتا تھا۔ رومانی تحریک نے ازمنۂ وسطیٰ کی ماورائی روایات و توہمات سے بھی اپنا رشتہ جوڑ لیا۔ حتیٰ کہ اکثر رومانیوں نے اپنے تخیل کی دنیا میں واہمے کی پیدا کردہ پُر اسرار مخلوقات (: سایہ، جن، بھوت، چڑیل وغیرہ) کا بھی خیر مقدم کیا۔ یونانی دیومالا اور ازمنۂ وسطیٰ کی فوق الفطرت داستانوں کے زیر اثر ، رومانی شعرا کے قصہ آفریں تخیل نے باطنی کیفیات اور روحانی حقائق کو محسوس تمثالوں کے ذریعے پیش کرنے کے نئے رمزیہ حکایات و علامات کا سہارا لیا۔ انگریزی شاعری میں رومانی دبستان کے آغاز سے لے کر انیسویں صدی کے آخر تک (مثلاًٹینی سن اور آسکروائلڈ کی نظموں میں)ہمیں اساطیری تخیل کی کارفرمائی کے نمونے ملتے ہیں۔ بانگِ درا (حصہ اوّل)میں اس کی ایک عمدہ مثال ٹینی سن کی نظم "Love and Death" کے حسین ترجمے (عشق و موت) کی صورت میں ہم دیکھ چکے ہیں۔ بانگِ درا میں اس دور کی پہلی نظم ’’محبت‘‘ (مطبوعہ مخزن جنوری ۱۹۰۶ئ) اس رنگِ تخیل کا اولین شاہکار بھی ہے۔ اقبال نے گزشتہ دور کی نظموں میں آفاقی محبت کے تصور کو ایک اعلیٰ نصب العین کے طور پر پیش کیا ہے اور اسے حاصلِ دین و ایمان قرار دیا ہے۔ کیمبرج میں ان کے استاد میک ٹیگرٹ کے فلسفے کا مرکزی نقطہ بھی محبت تھا ۔ وہ محبت کو انسانی ہستی کی معراج، تمام مسائل کا واحد حل اور حقیقتِ مطلق کا جوہر سمجھتے تھے۔۲۴۹؎ اقبال نے اس نظم میں محبت کا جو کائناتی تصور پیش کیا ہے، یقینا اس میں ان کے استاد کا فیضان بھی شامل ہے۔ شاعر کے نزدیک محبت کا لطیف و پاکیزہ جذبہ، انسانی روح کی طرح ایک جوہرِ علوی اور ودیعتِ ایزدی ہے۔ اس کا تعلق نہ صرف قلبِ انسانی سے ہے بلکہ یہ روحِ حیات ہے اور اسی پر نظام کائنات کا انحصار ہے۔ شاعر نے اس تصور کو رمزیہ پیرایے میں پیش کیا ہے اور سب سے پہلے روزِ آفرینش کا سماں باندھا ہے۔ کائنات کی تخلیق ہو چکی ہے لیکن چاند ، ستارے، کرئہ ارض، سب جامد و ساکت ہیں۔ کسی حیات آفریں عنصر کی کمی سے یہ کائنات نامکمل اور حرکت و حیات سے محروم ہے۔ ٹینی سن نے اپنی نظم "Love and Death" میں آفرینشِ کائنات کا ذکر ایک مصرعے میں کیا تھا جس سے کوئی بات نہیں بنتی۔ اقبال نے اپنے آزاد ترجمے میں اس خلا کو بڑی حسن و خوبی سے پُر کیا۔ اس نظم (محبت) کے چار ابتدائی اشعار میں بھی شاعر کے تخیّل نے نظم کے مرکزی تصور کی مناسبت سے فضا بندی کی ہے: عروسِ شب کی زلفیں تھیں ابھی نا آشنا خم سے ستارے آسماں کے بے خبر تھے لذّتِ رم سے قمر اپنے لباسِ نو میں بیگانہ سا لگتا تھا نہ تھا واقف ابھی گردش کے آئینِ مسلّم سے۲۵۰؎ پھر اصل مضمون شروع ہوتا ہے۔ شاعر کو کہنا یہ ہے کہ محبت ’’قدسی الاصل‘‘ ہے، کیمیائے حیات کا وہ آسمانی نسخہ ہے جو عرش کے پایے پر نقش ہے۔ اس نسخے کے حصول کے لیے کیمیا گر کا کردار تخلیق کیا گیا۔ یہاں شاعر کے تخیل نے عالم بالا میں کیمیا گر کے خیالی کردار کو ڈرامائی عمل کے ذریعے زندہ و متحرک بنا کر پیش کیا ہے۔ وہ فرشتوں کی آنکھ بچا کر اس نسخے کو حاصل کرنے کی تاک میں ہے۔ ع: ’’بڑھا تسبیح خوانی کے بہانے عرش کی جانب …‘‘ اب اس نسخے کے اجزا کی تلاش میں کیمیا گر کی تگ و دو شروع ہوتی ہے۔ شاعر کو یہ دکھانا مقصود ہے کہ محبت کی سرشت میں سوز و ساز، ناز و نیاز، نور و ظلمت، فتادگی و رفعت، غرض اس کائنات کی طرح، مختلف و متضاد عناصر موجود ہیں۔ جن مآخذ سے یہ اجزا فراہم کیے گئے ہیں ذرا ان کی بلندی و پاکیزگی ملاحظہ ہو: تاروں سے چمک، چاند سے داغ جگر، بجلی سے تڑپ، حور سے پاکیزگی، ملک سے عاجزی ، شبنم سے افتادگی… پھر یہ تمام اجزا آبِ حیات میں گھولے گئے اور اس طرح وہ آسمانی محلول تیار ہوا، جس کی تاثیر سے کائنات کا ذرہ ذرہ بیدار و متحرک ہو گیا۔ اس رمزیہ حکایت میں کسی منطقی ترتیب و استدلال کی تلاش بے محل ہے۔ شاعر، محبت کی ماہیت عظمت، ابدیت اور اس کی تقدیس کا تصور پیش کرنا چاہتا تھا اور اپنے تخیل کی مدد سے اس مقصد میں کامیاب رہا۔ صاحبِ بصیرت شاعر کا وجدان ہمیشہ کثرت کے پردوں میں چھپی ہوئی وحدت کے رشتوں کو منکشف کرتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ شاعر نے حواس کی زبان میں، یعنی حسی علامات اور خیالی حکایت کے ذریعے ، جس بلند تصور کی تجسیم کی ہے، وہ مبنی بر حقیقت ہے یا نہیں۔ یہاں شاعر نے باہمی جذب و کشش کے جس ابدی اصول کو ’’محبت‘‘ کے نام سے پکارا ہے اور مظاہرِ کائنات کے درمیان رشتۂ اتحاد قرار دیا ہے وہ محض توہّم نہیں، بلکہ ایک ایسی مسلّمہ حقیقت ہے جس پر شاعرانہ وجدان اور سائنسی تحقیق دونوں متفق ہیں۔ ترکیب بند کے ایک بند کی صورت میں، اس دور کی پہلی نظم، ارتقائے فن کی راہ میں ایک نیا قدم ہے۔ شاعر گزشتہ دور میں بھی ترکیب بند ہیئت میں، ردیف و قافیہ کے التزام کے ساتھ کئی نظمیں لکھ چکا ہے اور جابجا یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہیئت کی پابندیاں شاعر کے تخیّل پر مہمیز کا کام کرکے اسے زیادہ زور و قوت سے گرمِ جولاں رکھتی ہیں۔ لیکن اُن نظموں میں عموماً کسی موضوع سے وابستہ متجانس و مماثل افکار و جذبات کا اظہار ہوا ہے۔ مثلاً ’’سرگذشت آدم‘‘ کے اشعار میں بظاہر ایک تسلسل کے باوجود کسی تصویر کے مختلف خطوط یا کسی واقعے کی مختلف کڑیوں کا سا ربط نہیں ہے، بلکہ ہر شعر میں انسانی ارتقا کے مختلف ادوار کی منتشر جھلکیاں ہیں۔ اس نظم (:محبت) میں بیانیہ مثنوی کا سا ربط و تسلسل ہے اور تمام اشعار مل کر ایک ہی تمثیل کے منظر و پس منظر کی عکاسی کرتے ہیں۔ ہر شعر ایک مربوط کُل کا جُزوِ لازم معلوم ہوتا ہے۔ شاعر کی قادر الکلامی کا یہ عالم ہے کہ روانیِ بیان اور تخیل کے بہائو میں قافیہ اور ردیف کی بندشیں سرے سے حائل و مزاحم نہیں۔ پوری نظم میں کہیں کوئی الجھائو نہیں، کوئی لفظی یا معنوی تعقید نہیں۔ بعض مصرعوں میں صنعت گری اور قدرے تکلف کا شائبہ ضرور ہے، لیکن اس فنی مہارت کے ساتھ کہ بیان کا حسن چمک اٹھا ہے۔ مثلاً پہلے شعر میں بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اصل بات (کہ کائنات بے حس و حرکت تھی) دوسرے مصرعے میں کہی گئی ہے (ع: ’’ستارے آسماں کے بے خبر تھے لذّتِ رم سے‘‘) اور پہلے مصرعے (:’’عروسِ شب کی زلفیں تھیں ابھی نا آشنا خم سے‘‘) میں محض شعر کو مطلع بنانے کے لیے، خواہ مخواہ پیچ و خم پیدا کیا گیا ہے، لیکن شاعر کی مراد یہ ہے کہ فطرت کے تمام مظاہر و مناظر ، حسن کی کشش سے محروم تھے۔ اسی طرح مندرجہ ذیل شعر کا دوسرا مصرع پُر تکلف سا ہے: کمال نظمِ ہستی کی ابھی تھی ابتدا گویا ہویدا تھی نگینے کی تمنّا چشمِ خاتم سے۲۵۰؎ یہاں شاعر نے کائنات کے تمام کرّوں کو مدوّر انگوٹھی سے تشبیہ دی ہے اور انگوٹھی کے اس خانے کو جس میں نگینہ جڑا جاتا ہے ’’چشمِ خاتم‘‘ کہا ہے۔ اس تشبیہ در تشبیہ کی معنویت و مناسبت پر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ شاعر نے یہاں بھی بڑی ہنر مندی سے مرصع سازی کی ہے۔ پہلے مصرعے میں ’’کمال‘‘ کے ساتھ ’’ابتدا‘‘ کا لفظ بہ ظاہر تضاد معلوم ہوتا ہے لیکن یہاں تکمیلی مدارج کی طرف اشارہ ہے۔ انگوٹھی کا دائرہ مکمل ہے لیکن اس میں نگینے کا جڑائو ابھی باقی ہے۔ کائنات وجود میں آنے کے بعد بھی ناتمام تھی اور انگوٹھی کی پھٹی پھٹی آنکھوں کی طرح کسی ایسی شے کی محتاج و منتظر تھی جو انگوٹھی کے نگینے کی طرح اس کی زینت و تکمیل کا باعث ہو۔ نظم کا آخری شعر ترکیب بند کی ٹیپ کی طرح جداگانہ قافیہ و ردیف رکھتا ہے: خرامِ ناز پایا آفتابوں نے، ستاروں نے چٹک غنچوں نے پائی، داغ پائے لالہ زاروں نے۲۵۰؎ لیکن صرف ایک بند سے ترکیب بند کی ہیئت مکمل نہیں ہوتی۔ شاعر کے فنی اجتہاد نے ایک شعر کے اضافے سے نظم کی ہیئت کو قطعہ اور ترکیب بند دونوں سے جدا کر دیا۔ نظم کے پندرھویں شعر میں مضمون مکمل ہو چکا تھا: ہوئی جنبش عیاں، ذرّوں نے لطف خواب کو چھوڑا گلے ملنے لگے اٹھ اٹھ کے اپنے اپنے ہمدم سے۲۴۹؎ تو کیا اس سولھویں شعر کا اضافہ محض جدّت برائے جدّت ہے؟ شعر کے تیور بتا رہے ہیں کہ وہ برجستہ اسی صورت میں نازل ہوا ہے، اور شاعر نے نظم کی انگوٹھی میں نگینے کی طرح جڑ دیا ہے۔ تکمیل کائنات کی جو حسین اور روشن تصویر اس شعر میں پیش کی گئی ہے، اس کے بغیر مضمون تو ادا ہو جاتا، نظم مکمل نہ ہوتی۔ ’’حقیقتِ حسن‘‘ بھی اساطیری تخیّل کی قصّہ آفرینی کا ایک حسین نقش ہے۔ مارچ ۱۹۰۶ء کے مخزن میں جب یہ نظم ’’حسن اور زوال‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی تو اس کے ساتھ یہ نوٹ بھی شامل تھا: اصل خیال جرمن نثر میں دیکھا گیا۔ میں نے ناظرین کے لیے تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ اردو نظم میں منتقل کر دیا۔ لیکن بانگِ درا میں یہ نظم کسی نوٹ یا ’’ماخوذ‘‘کی صراحت کے بغیر درج ہو گئی۔ ڈاکٹر ریاض الحسن نے اس کے اصل ماخذکا سراغ لگایا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق نظم کا بنیادی تصور گوئٹے کی بارہ ماسا جیسی ایک طویل نظم : "Vierjahreszeiten" (:چار موسم)کے ایک ٹکڑے سے لیا گیا ہے۔ اس نظم میں بہار و خزاں ، سرما و گرما کی کیفیات اور ان کے اثرات کو بیان کیا گیا ہے۔ موسم گرما کے سلسلے میں ایک جگہ یہ خیال پیش کیا گیا ہے کہ حسن ، یونانی دیوتا زیوس (Zeus) کی بارگاہ میں پہنچتا ہے، جو انسانوں کی قسمت کا خالق و مالک ہے۔ اس ٹکڑے کا ترجمہ درج ذیل ہے: حسن نے زیوس سے سوال کیا کہ میں کیوں فانی بنایا گیا؟ خدا نے جواب دیا کہ میں نے صرف زوال پذیر اشیا کو حسن بخشا ہے۔ اس جواب کو عشق، پھول اور شباب نے سنا تو وہ روتے ہوئے زیوس کے تخت کے سامنے سے چلے گئے۔ انسان کو زندہ رہنا ہے اور محبت بھی کرنا مگر اس نے تو عشق اور زندگی کو ختم کر دیا۔اے قسمت کے مالک! تو نے دونوں کے رشتوں کو بیک وقت کاٹ دیا۔۲۵۱؎ گوئٹے کے ان مصرعوں کے مقابلے میں ’’حقیقتِ حسن‘‘ کو دیکھیے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال نے گوئٹے کی زمینِ سخن کو آسمان بنا دیا ہے۔ دونوں نظموں میں مماثلت کی بنیاد وہ سوال وجواب ہے جسے گوئٹے نے ابتدائی دو مصرعوں میں اور اقبال نے ان تین شعروں میں بیان کیا ہے: خدا سے حسن نے اک روز یہ سوال کیا جہاں میں تو نے نہ کیوں مجھ کو لازوال کیا ملا جواب کہ تصویر خانہ ہے دنیا شب درازِ عدم کا فسانہ ہے دنیا ہوئی ہے رنگِ تغیر سے جب نمود اس کی وہی حسیں ہے حقیقت زوال ہے جس کی۲۵۲؎ یہاں شاعر نے دنیا کو تصویر خانہ اور تغیر کو نظام عالم کا اٹل اصول قرار دے کر بنیادی خیال کو زیادہ واضح صورت میں پیش کیا ہے۔ نظم کے باقی چار شعروں میں شاعر نے جس درجہ بلاغت سے، تلازمے کے تمام رشتوں کو جوڑ کر آسمان سے زمین تک سلسلہ بہ سلسلہ اس قصے کو ایک حزنیہ اختتام تک پہنچایا ہے، وہ اس کی فنی بصیرت اور حسن کار تخیل کا ایک تخلیقی کارنامہ ہے۔ پھر قصہ گوئی کا یہ فطری اور بے تکلف پیرایہ ملاحظہ ہو: کہیں قریب تھا، یہ گفتگو قمر نے سنی فلک پہ عام ہوئی، اخترِ سحر نے سنی سحر نے تارے سے سن کر سنائی شبنم کو فلک کی بات بتا دی زمیں کے محرم کو۲۵۲؎ حسنِ تعلیل ، شاعرانہ تخیل کا ایک پُر تکلف حربہ ہے جس سے عموماً ذہن تو محظوظ ہوتا ہے، دل بہت کم متاثر ہوتا ہے۔ لیکن آخری دو شعروں میں اس سلیقے سے بات کہی گئی ہے کہ شعریت کا حسن و اثر بے پناہ ہو گیا ہے: بھر آئے پھول کے آنسو پیامِ شبنم سے کلی کا ننھا سا دل خون ہو گیا غم سے چمن سے روتا ہوا موسمِ بہار گیا شباب سیر کو آیا تھا ، سوگوار گیا۲۵۲؎ اقبال نے اپنی شاعری کے ہر دور میں اپنے خیالات و احساسات کے اظہار کے لیے ڈرامائی اندازِ تخاطب کے علاوہ مکالمہ، فضا بندی اور کردار نگاری سے کام لیا ہے اور ہر جگہ ان ڈرامائی عناصر کے استعمال میں فنی ہنر مندی کا ثبوت دیا ہے۔ لیکن اس نظم کی بات ہی اور ہے۔ بقول پروفیسر سید وقار عظیم مرحوم: ’’اس مختصر سی نظم میں جتنے کرداروں سے کام لیا ہے، جتنے وسیع پس منظر کو سمیٹ کر ایک خیال گیر تصویر بنائی ہے اور زمان و مکان اور عمل کی وحدتوں کو جس طرح ایک دوسرے میں پیوست اور جذب کر کے ایک مکمل تاثر پیدا کیا ہے، وہ نظموں میں صرف کبھی کبھی نظر آتا ہے۔‘‘۲۵۳؎ تخیّل کا عمل مغربی شاعری اور بالخصوص رومانی شعرا کے یہاں شعری تمثالوں کی صورت میں بہت عام ہے۔ اس عام روایت کے پس پردہ، دیگر محرکات کے علاوہ غالباً مغربی ذہن و مزاج کی مظاہر پرستی بھی کارفرما ہے۔ اقبال کے تخیل کی جولاںگاہیں مختلف ہیں لیکن تمثال کاری (: لفظی پیکر تراشی) کے نمونے گزشتہ دور کی بعض نظموں کے بعد سب سے زیادہ انھی نظموں میں ملتے ہیں، اور اس وصف نے انھیں رومانی دبستان کے شعرا سے اور زیادہ قریب کر دیا ہے۔ شعری تمثال، کسی تجربے یا خیال کی ایک حسی اور عموماً مرئی تصویر ہوتی ہے جو کبھی استعارہ، کبھی تشبیہہ،کبھی کسی خیال افروز تلمیح، کسی اسم صفت یا سادہ بیانِ محض سے پیش کی جا سکتی ہے۔ استعارہ یقینا انسان کے شعوری احساس و ادراک اور لاشعور کی روپوش آرزوئوں کا اوائلی و فطری وسیلۂ اظہار ہے ، اوربوجہِ اختصار تشبیہہ سے زیادہ مؤثر تھی۔ لیکن تشبیہہ کے پھیلائو میں محاکاتی اور تجسیمی امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ خصوصاً جب کبھی ایسی کیفیت یا حالت کو شعری تمثال کے آئینے میں جھلکانا مقصود ہو، جس میں معنویت اور ایتلاف کے کئی پہلو مضمر ہوں، اس صورت میں تشبیہہ سے لامحالہ کام لینا پڑتا ہے۔ اقبال نے ان نظموں میں جابجاخارجی و داخلی کیفیات کو لفظی تمثالوں کے آئینے میں جھلکایا ہے۔ اس لحاظ سے ’’حسن و عشق‘‘ خاص توجہ کی مستحق ہے۔ اس کے پہلے بند کے تین شعروں میں ایک داخلی کیفیت کی مصوری کے لیے چار تشبیہیں لائی گئی ہیں۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مغربی شعرا کی تقلید میں خواہ مخواہ تشبیہوں کا انبار لگایا ہے، لیکن یہ بات نہیں۔ دراصل اس نازک و لطیف کیفیت کاتقاضا تھا کہ شاعر کا تخیل خوب سے خوب تر پیکر تراشنے پر مجبور ہوا۔ مشبّہ کیفیت کا سادہ بیان ،ابتدائی تین شعروں کے بعد ٹیپ کے اس مصرعے میں کیا گیا ہے۔ ع : ہے ترے سیلِ محبت میں یونھیں دل میرا‘‘۔ ایک معروف نقاد، ممتاز حسین صاحب نے اس مصرعے سے یہ مفہوم اخذ کیا ہے کہ یہاں شاعر محبت کے سیلاب میں دل کے ڈوبنے اچھلنے کی تصویر پیش کر رہا ہے اور پھر یہ اعتراض جڑ دیا ہے کہ سیلِ محبت تو خود ایک تشبیہہ ہے، دیگر شعروں میں شاعر نے صرف سیل اور دل کی لفظی مناسبتوں کی رعایت سے ایک رنگ کے مضمون کو سو ڈھنگ سے باندھا ہے۔۲۵۴؎ غالباً فاضل نقاد نے اقبال کی تضحیک کے لیے تجاہلِ عارفانہ سے کام لیا ہے، ورنہ یہ بات تو وہ بھی بخوبی جانتے ہوں گے کہ اگر کوئی شاعر محبوب کی ادائے بے نیازی کے لیے ’’طغیانِ ناز‘‘ کی ترکیب لائے تو اس سے صرف وفورِناز مراد ہوتا ہے اور یہاں بھی سیلِ محبت سے وفورِ محبت ہی مراد ہے۔ اگلے بند کے ایک شعر میں ’’تیری تصویر‘‘ کے الفاظ اس صورتِ حال کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ محبوب کی جدائی میں تصویر نے اس کے تصور کو اور دوری و مہجوری نے اس کے جمالیاتی تاثر کو اور چمکادیا ہے۔ محبت بھری یادوں کا کیف و سرور اور حسن کی تجلّیات شاعر کے قلب و ذہن پر چھائی ہوئی ہیں اور اس پر ایک استغراق و محویت کا عالم طاری ہے۔ اب ان تشبیہوں کو دیکھئے۔ ہر جگہ دو دو مشبّہ بہ ہیں۔ ایک کا تعلق ہجومِ تجلی میں گھرے ہوئے اور وفورِ محبت سے مغلوب دل سے ہے، دوسرے کااُس چھا جانے والی کیفیت سے ۔ مثلاً پہلے شعرکی تشبیہہِ مرکب کو لیجیے : جس طرح ڈوبتی ہے کشتیٔ سیمینِ قمر نورِ خورشید کے طوفان میں ہنگامِ سحر۲۵۵؎ شاعر کا دل جو حسن کی تجلی گاہ اور خود مرکز نور ہے، کسی کی محبت بھری یادوں میں اس طرح ڈوبا ہوا ہے جیسے مشرق سے ابلتے ہوئے سیلِ نور میں چاند کی روپہلی کشتی ڈوب جاتی ہے۔ وجہِ تشبیہہ صرف استغراق و محویت نہیں بلکہ تنویر و تجلی کا وہ رشتۂ یگانگت ہے جو ایک طرف شاعر کے دل اور محبوب کے تصور میں اور دوسری طرف خورشید و قمر میں ہے۔ تیسرے شعر میں اسی قسم کی دو مرکب تشبیہیں اور بھی ہیں: جلوئہ طور میں جیسے یدِ بیضائے کلیم موجۂ نکہتِ گلزار میں غنچے کی شمیم۲۵۵؎ یہاں بھی محویت کے علاوہ، وہ رشتۂ وحدت بھی ملحوظ ہے جو مشبہ کے دونوں پہلوئوں اور مشبہ بہ کے دونوں اجزا کے درمیان موجود ہے۔ لیکن تیسرے شعر میں اس لطیف کیفیت کے اظہار کے لیے جو تمثال آفریں تشبیہہ پیش کی گئی ہے، اس کی ندرت و لطافت کی مثال ہماری رومانی شاعری میں بھی بہت کم ملے گی۔ چاندنی رات میں کسی جھیل یا تالاب کا منظر ذہن میں لائیے، جس کی سطح پر ہر طرف نور پارے بکھرے ہوئے ہیں۔ تالاب کی موجیں بھی عکس ماہ سے جگمگا رہی ہیں۔ ان درخشاں موجوں میں گھرے ہوئے کنول کے پھول کا تصور کیجیے، جس کے صبیح چہرے کو چاندنی کی نورانی چادر نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ بعینہ یہی کیفیت شاعر کے دل کی ہے کہ وہ ہجومِ تجلی سے مغلوب ہو کر اپنی ذاتی نورانیت اور انفرادیت کھو بیٹھا ہے۔ دوسرے بند کے تین اشعار میں بھی حسن و عشق کے باہمی ربط و یگانکت کے کئی پہلو مختلف تشبیہوں کے ذریعے واضح کیے گئے ہیں، جن میں سے دوسرے شعر کی تشبیہیں زیادہ موزوں و معنی خیز ہیں: تو سحر ہے تو مرے اشک ہیں شبنم تیری شامِ غربت ہوں اگر میں تو شفق تو میری۲۵۵؎ نظم کے آخری بند میں عشق کی تحریکی و تخلیقی قوت کا مؤثر اظہار ہوا ہے۔ فیضانِ عشق کا یہ واضح تصور اردو شاعری میں سب سے پہلے اسی نظم میں ملتا ہے: جب سے آباد ترا عشق ہوا سینے میں نئے جوہر ہوئے پیدا مرے آئینے میں حسن سے عشق کی فطرت کو ہے تحریک کمال تجھ سے سر سبز ہوئے میری امیدوں کے نہال قافلہ ہو گیا آسودئہ منزل میرا۲۵۵؎ اس نظم کی ہیئت بھی انوکھی ہے۔ نظم کے تین بند ہیں۔ ہر بند کے تین شعر الگ الگ ردیف و قافیہ رکھتے ہیں۔ ان اشعار کے بعد ٹیپ کا مصرع آتا ہے اور ہر بند کی ٹیپ یکساں ردیف و قافیہ کی حامل ہے۔ یہ ہیئت انگریزی "Sonnets" میں تو ملتی ہے لیکن اردو شاعری میںاس سے پہلے کہیں نظر نہیں آتی۔ اقبال نے بعد کے ادوار میں ہیئت کے جو نمایاں تجربے کیے ہیں، ان کا نقطۂ آغاز یہی نظم ہے۔ اسی دور کی ایک اور نظم ’’انسان‘‘ کی ہیئت میں بھی ایک عجیب قسم کی جدت پائی جاتی ہے۔ اس نظم میں اُسی خیال کا اظہار کیا گیا ہے جو پیامِ مشرق کی مشہور نظم ’’تنہائی‘‘(… ’’ہیچ نہ گفت‘‘) میں نہایت فنکارانہ حسن کے ساتھ ادا ہوا ہے، یعنی یہ کہ انسان اس کائنات میں بالکل تنہا ہے۔ عالمِ فطرت کے تمام مظاہر اپنی اپنی راہوں پر خاموشی سے گامزن ہیں، کسی کو انسان کی کوئی پروا نہیں۔ نظم کے دو اختتامی شعر درج ذیل ہیں: لذّت گیرِ وجود ہر شے سر مستِ مئے نمود ہر شے کوئی نہیں غمگسارِ انساں کیا تلخ ہے روزگارِ انساں۲۵۶؎ یہ نظم مثنوی کی ہیئت میںہے۔ لیکن نظم کا آغاز تنہا ایک مصرعے سے ہوتا ہے: ع ’’قدرت کا عجیب یہ ستم ہے‘‘۔ اس کے بعد ابتدائی دو شعر یہ ہیں: انسان کو راز جُو بنایا راز اس کی نگاہ سے چھپایا بتیاب ہے ذوق آگہی کا کھلتا نہیں بھید زندگی کا۲۵۶؎ تمثال آفرینی اس دور کی رومانی نظموں کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ اکثر محض ایک اضافتِ تشبیہی یا ترکیبِ لفظی سے تمثال کاری کی گئی ہے۔ مثلاً ایک نظم ’’تنہائی‘‘ کا یہ شعر ملاحظہ ہو: یہ چاند، یہ دشت و در، یہ کہسار فطرت ہے تمام نسترن زار۲۵۷؎ چاندنی میں دشت و کہسار کے خس و خار (بقول میر حسن) ’’جھمکتے ہوئے ‘‘نظر آتے ہیں۔ شاعر کے تخیل نے ہر جگہ نسترن کے پھول سفید بکھیر کر اس منظر کے حسن کو دوبالا کر دیا ہے۔ انگریزی شاعری میں تمثال آفرینی کے عام رجحان کے باوجود بصری تمثالوں ہی کی بہتات ہے اور یہی کیفیت اقبال کے یہاں بھی ہے۔ لیکن اس دور کی ایک نظم ’’فراق‘‘ میں سمعی تمثالوں کی دو نہایت دلکش مثالیں ملتی ہیں۔ سات اشعار کی اس مختصر نظم کا مرکزی خیال ایک شعر میں ادا ہوا ہے جو نظم کے وسط میں چوتھے نمبر پر آیا ہے: سکوتِ شامِ جدائی ہوا بہانہ مجھے کسی کی یاد نے سکھلا دیا ترانہ مجھے۲۵۷؎ اس سے پہلے تین شعر تمہیدی ہیں اور بعد کے تین شعر توضیحی یا تمثیلی۔ شاعر محبت کی جدائی میں پریشان ہے اور ایک ایسے گوشۂ عزلت کی تلاش میں ہے جہاں وہ یکسوئی کے ساتھ چند لمحے محبوب کی یاد میں گزار سکے۔ لہٰذا بستی سے دور، پہاڑ کے دامن میں آ بیٹھا ہے: تلاشِ گوشۂ عزلت میں پھر رہا ہوں میں یہاں پہاڑ کے دامن میں آ چھپا ہوں میں۲۵۸؎ اگلے دو شعروں میں ماحول کی عکاسی کی گئی ہے۔ قریب ہی ایک پہاڑی ندی : ’’سنگِ رہ سے گاہ بچتی، گاہ ٹکراتی ہوئی ‘ ‘ اور بے ربط سُروں میں کچھ گنگناتی اور بڑبڑاتی، رواں دواں ہے۔ لیکن اس مغنّی فطرت کا یہ شکستہ، بے ہنگم، بے سُرتال کا نغمہ بھی بڑی دلکشی رکھتا ہے۔ اس دلکشی کے اظہار کے لیے شاعر کا تخیل، عالمِ صوت و صدا سے ایک اچھوتی تشبیہہ ڈھونڈ لاتا ہے۔ وہ ہے ایک معصوم بچے کی زبان سے نکلی ہوئی دعا کے ٹوٹے پھوٹے بول جن میں پہاڑی چشمے کے شکستہ گیت کی سی بے ربطی کے باوجود فطری سادگی، معصومیت اور دلکشی بھی ہے۔ اس سے بہتر مثال اور کیا ہو سکتی ہے؟ شکستہ گیت میں چشمے کے دلبری ہے کمال دعائے طفلکِ گفتار آزما کی مثال۲۵۸؎ شام ہو چکی ہے۔ چاروں طرف خاموشی چھا گئی ہے۔ ماحول کے سناٹے میں شاعر کا احساس جدائی و تنہائی کچھ اور سوا ہو گیا ہے۔ وہ محبوب کی یاد میں ایک نغمہ چھیڑ دیتا ہے۔ نظم کے آخری تین اشعار میں شاعر اپنی کیفیت کو ایک مرکب تشبیہہ یا تمثیل کے ذریعے واضح کرتا ہے۔ یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ جب کوئی بچہ اندھیرے میں اکیلا ہوتا ہے تو اپنی تنہائی اور خوف کے احساس کو دبانے کے لیے طرح طرح کی آوازیں نکالتا ہے یا زور زور سے الاپنے لگتا ہے۔ گویا خود اپنی صدا پر کسی اور کی رفاقت کا گمان کرتا ہے۔ اب یہ اشعار ملاحظہ ہوں: یہ کیفیت ہے مری جانِ ناشکیبا کی مری مثال ہے طفلِ صغیرِ تنہا کی اندھیری رات میں کرتا ہے وہ سرود آغاز صدا کو اپنی سمجھتا ہے غیر کی آواز یونہی مَیں دل کو پیامِ شکیب دیتا ہوں شبِ فراق کو گویا فریب دیتا ہوں۲۵۸؎ اس ضمن میں مرکب تشبیہ کی ایک اور حسین مثال ہمیں ان کی نظم ’’کلی‘‘ میں ملتی ہے۔ نظم کے ابتدائی تین شعر ملاحظہ ہوں جو کسی تبصرے کے محتاج نہیں: جب دکھاتی ہے سحر عارض رنگیں اپنا کھول دیتی ہے کلی سینۂ زریں اپنا جلوہ آشام ہے وہ صبح کے مے خانے میں زندگی اس کی ہے خورشید کے پیمانے میں سامنے مہر کے دل چیر کے رکھ دیتی ہے کس قدر سینہ شگافی کے مزے لیتی ہے۲۵۹؎ دوسرے بند کے بھی تین شعر درج ذیل ہیں: میرے خورشید کبھی تو بھی اٹھا اپنی نقاب بہرِ نظّارہ تڑپتی ہے نگاہِ بے تاب تیرے جلوے کا نشیمن ہو مرے سینے میں عکس آباد ہو تیرا مرے آئینے میں اپنے خورشید کا نظارہ کروں دور سے میں صفتِ غنچہ ہم آغوش رہوں نور سے میں۲۵۹؎ ان اشعار کی نغمگی اُس دور کی نظموں کے غنائی پہلو کی طرف بھی ہمیں متوجہ کرتی ہے۔ یہاں خوش آہنگ اور متوازن الفاظ کی ترتیب و ترکیب میں صوتی حسن کا فنکارانہ اہتمام واضح طور پر نظر آتا ہے اور اس کی بحر(: رمل مثمن مخبون، مقصور، محذوف: فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن یا فعلات) بھی بذات ِ خود خاصی مترنم ہے۔ اسی طرح ایک اور نظم ’’سلیمیٰ‘‘ کا غنائی آہنگ بھی تکرارِ الفاظ و اصوات کے فنی حربے اور قافیہ و ردیف کے تال میل سے ترکیب پاتا ہے۔ اور اس کی مترنم بحر (مضارع اخرب: مفعول فاعلاتن، مفعول فاعلاتن) نے ’’جگنو‘‘ اور ’’نیا شوالہ‘‘ کی طرح نظم کی غنائیت کو اور بھی چمکا دیا ہے۔ مثلاً یہ اشعار ملاحظہ ہوں: جس کی نمود دیکھی چشمِ ستارہ بیں نے خورشید میں، قمر میں، تاروں کی انجمن میں جس کی چمک ہے پیدا، جس کی مہک ہویدا شبنم کے موتیوں میں، پھولوں کے پیرہن میں صوفی نے جس کو دل کے ظلمت کدے میں پایا شاعر نے جس کو دیکھا قدرت کے بانکپن میں۲۶۰؎ لیکن اقبال کے کلام کی غنائیت محض ان فنی حربوں کا نتیجہ اور بحور و اوزان کے ترنم کی رہینِ منت نہیں۔ اس دور کی نظموں میں ’’حقیقتِ حسن‘‘ کو لیجیے۔ زبان و بیان کے لحاظ سے اس میں صناعی اور صوت بندی کا کوئی اہتمام نہیں۔ لیکن سادگی کے باوجود اس نظم کے حزیں آہنگ کو اہلِ ذوق پوری طرح محسوس کر سکتے ہیں۔ اسی طرح ’’تنہائی‘‘ کے عنوان سے یہ نظم ملاحظہ ہو جو اپنی بحر (ہزجِ مقبوض، محذوف : مفعول مفاعلن فعولن یا مفاعیل) کی طرح سادہ اور مختصر ہے لیکن اس کی حزنیہ لے نشتر کی طرح دل میں اترتی جاتی ہے: تنہائیِ شب میں ہے حزیں کیا انجم نہیں تیرے ہم نشیں کیا یہ رفعتِ آسمانِ خاموش خوابیدہ زمیں جہان خاموش یہ چاند ، یہ دشت و در ، یہ کہسار فطرت ہے تمام نسترن زار۲۶۱؎ شاعر اپنے بے قرار دل کو فطرت سے ہم آہنگ ہونے کا پیغام دے رہا ہے۔ نہ جانے اس کا دل اس پر سکون ماحول سے کس حد تک متاثر ہوا، لیکن اس نظم کا ایک ایک مصرع ماحول کی خاموشی کا آئینہ دار اور فطرت کے پرسکون حسن سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ ایک ماہر فن شاعر کسی کیفیت کے اظہار کے لیے جو الفاظ استعمال کرتا ہے، ان الفاظ کی آوازیں بھی اس کیفیت کے تاثر کو جھلکاتی ہیں۔ انگریزی کے اساتذۂ سخن اس گُر سے اچھی طرح واقف ہیں، بلکہ کسی شاعر نے اس فنی نکتے کو ایک مصرعے میں یوں ادا کیا ہے: The sound must seem an echo of the sense. گزشتہ دور کی ایک نظم ’’کنارِ راوی‘‘ میں معانی و اصوات کی ہم آہنگی کی بڑی اچھی مثال اس شعر میں ملتی ہے جس میں شاعرنے ’’منارِ خوابگہِ شہ سوارِ چغتائی‘‘ کی عظمت و رفعت، اور (کھڑے ہیں دور،___ کہہ کر) ان کی دوری کے تاثر کو الف اور وائو کی کشیدہ آوازوں سے بڑھا دیا ہے۔ الفاظ کے آہنگ کی یہ اشارتی (Suggestive) خوبی ممکن ہے وہاں شعوری کوشش کے بغیر پیدا ہوئی ہو، لیکن موجودہ دور کی نظم ’’ایک شام‘‘ اقبال کی فنی ہنر مندی کی ناقابلِ تردید دلیل ہے۔ اس نظم کی بحر بھی وہی ہے جو ’’تنہائی‘‘ کی ہے۔ اس ہلکی پھلکی نرم رو بحر میں فطرت کے پُر سکون ماحول کی عکاسی کے لیے ’’ش‘‘ اور ’’س‘‘ کی نرم و شیریں اصوات سے شاعر نے وہ کام لیا ہے، اور حروفِ علت، خصوصاً وائو کی کھنچی ہوئی آوازوں سے سکوت کا ایسا افسوں پھونکا ہے کہ دریائے نیکر کا ’’خرام‘‘ بھی ’’سکون‘‘ معلوم ہوتا ہے۔ اس مختصر نظم کے چند ابتدائی اشعار ملاحظہ ہوں: خاموش ہے چاندنی قمر کی شاخیں ہیں خموش ہر شجر کی وادی کے نوافروش خاموش کہسار کے سبزپوش خاموش فطرت بے ہوش ہو گئی ہے آغوش میں شب کے سو گئی ہے کچھ ایسا سکوت کا فسوں ہے نیکر کا خرام بھی سکوں ہے۲۶۲؎ ’’عاشقِ ہرجائی‘‘ اگرچہ کسی مصلحت سے ان نظموں میں شامل ہے لیکن دراصل یہ آئندہ دور کا تخلیقی شاہکار ہے۔ بلحاظِ موضوع اسے موجودہ دور کی رومانی نظموں سے ایک دور کی نسبت ضرور ہے لیکن بہ اعتبار اسلوب و فن یہ ان سے یکسر مختلف ہے، لہٰذا اس دور کے فنی جائزے میں اسے شامل کرنا مناسب نہیں۔ (۳) ملّی رجحان کے ابتدائی نقوش اس دور کے کلام کا وہ حصہ جو ذہنی انقلاب کے بعد اقبال کے نئے افکار و رجحانات کا آئینہ دار ہے، فنی اعتبار سے بھی جدا گانہ حیثیت رکھتا ہے۔ اس سلسلے سے متعلق چار نظمیں ہیں جن کے عنوانات بانگِ درا کی ترتیب کے مطابق درج ذیل ہیں: (۱) طلبۂ علی گڑھ کالج کے نام (مطبوعہ مخزن، جون ۱۹۰۷ئ) ۔ (۲) پیامِ عشق(مخزن، اکتوبر ۱۹۰۸ئ)۔ (۳) عبدالقادر کے نام (مخزن، دسمبر ۱۹۰۸ئ)۔ (۴) صقلیہ (’’جزیرئہ سسلی‘‘ مخزن، اگست ۱۹۰۸ئ)۔ پہلی نظم کے سوا، تینوں نظمیں یورپ سے اقبال کی واپسی کے بعد مخزن میں شائع ہوئیں۔ ’’صقلیہ‘‘ تو دورانِ سفر ہی میں لکھی گئی اور چونکہ اس کے تاثرات زیادہ شدید تھے لہٰذا ۲۶ ؍جولائی کو جب وہ دہلی پہنچے، اس وقت تک مکمل ہو چکی تھی اور اگست کے شمارئہ مخزن میں شائع ہو گئی ۔ گمانِ غالب ہے کہ بقیہ دو نظمیں بھی قیامِ یورپ کے آخری زمانے میں یا سفر کے دوران میں تخلیق کے بعض مراحل سے گزر چکی ہوں گی، لیکن تکمیل یا نظرثانی میں تاخیر کے باعث بعد میں شائع ہوئیں، ورنہ اس دور کی نظموں میں ان کی شمولیت کا اور کوئی جواز نہیں۔ (الف) طلبۂ علی گڑھ کالج کے نام: اقبال کا یہ پیغام ایک خاص پس منظر سے متعلق ہے اور اس نظم کا کنایتی اسلوب بھی وضاحت طلب ہے۔ ۷- ۱۹۰۶ء تک علی گڑھ کالج کے نوجوانوں میں سیاسی بیداری کی ایک نئی لہر دوڑ چکی تھی اور اب ان کے لیے، اس قومی ادارے میں انگریز پرنسپل کی مطلق العنانی ناقابلِ برداشت ہوتی جا رہی تھی۔ فروری ۱۹۰۷ء کے ایک واقعے سے انگریز پرنسپل کے خلاف ان کے دلوں میں نفرت کے جذبات بھڑک اٹھے۔ اُن دنوں سرکاری اہتمام سے علی گڑھ میں ایک نمائش منعقد ہوئی تھی جس کے دوران میں پولیس اور طلبہ کے درمیان کوئی تنازعہ ہوا۔ پرنسپل نے طلبہ کے خلاف سخت کارروائی کی اور بعض طلبہ کو کالج سے نکال دیا۔ پرنسپل کے اس رویے سے مشتعل ہو کر طلبہ نے سٹرائک کر دی اور اب وہ مصر تھے کہ کالج کے تدریسی عملے کے تمام انگریز ارکان کو نکال دیا جائے۔۲۶۳؎ طلبہ اور کالج کی انتظامیہ کے درمیان یہ کشمکش کچھ عرصے تک جاری رہی۔ اس نازک صورت حال میں اقبال نے یہ ضروری سمجھا کہ جوانانِ ملت کے جوش و خروش کا رخ ایک اعلیٰ نصب العین کی طرف موڑا جائے اور انھیں ایسے ہنگاموں سے باز رکھا جائے جو وسیع تر قومی و ملّی مفاد کے منافی ہوں۔ ان کایہ منظوم پیغام جون ۱۹۰۷ء کے شمارئہ مخزن میں مدیر شہیر کے مندرجۂ ذیل شذرے کے ساتھ شائع ہوا:’’کلامِ اقبال علی گڑھ میں ہمیشہ سے مقبول ہے اور شوق و توجہ سے بڑھا جاتا ہے مگر ’’پیامِ اقبال‘‘ جو ہم آج شائع کرتے ہیں نہایت ہی غور سے پڑھے جانے کے لائق ہے۔ طلبائے علی گڑھ کو خصوصیت سے مخاطب کرنے کی یہ وجہ ہے کہ مسلمانانِ ہند کی آئندہ امیدیں بہت کچھ ان کے ساتھ وابستہ ہیں، ورنہ سب پڑھے لکھے نوجوان اس درد مندانہ مشورے کے مخاطب ہو سکتے ہیں جو حضرت اقبال نے ان چند جامع الفاظ اور بلیغ اشارات میں انھیں دیا ہے۔‘‘ اقبال کے پیغام کا بنیادی نکتہ تو وہی ہے جو استعارۃً نظم کے آخری شعر میں بیان کیا گیا ہے: بادہ ہے نیم رس ابھی ، شوق ہے نارسا ابھی رہنے دو خُم کے منہ پہ تم خشتِ کلیسیا ابھی۲۶۴؎ یہ وہی پیغام ہے جو چند سال بعد ایک غزل کے مطلعے میں یوں ادا ہوا: نالہ ہے بلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی۲۶۵؎ اقبال جب یہ کہتے ہیں کہ ’’رہنے دو خُم کے منہ پہ تم خشتِ کلیسیا ابھی‘‘ تو بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی جانشینانِ سر سید کے ہم نوا ہو کر ، قوم کے نوجوانوں کو انگریزی حکومت کی وفاداری کا درس دے رہے ہیں۔ لیکن مندرجہ بالا دونوں شعروں میں ’’ابھی‘‘ کے لفظ پر خاص زور دیا گیا ہے۔ غزل کے شعر کا ابہام تو شاید ذہن کو مجاز و حقیقت کی راہوں میں بھٹکاتا رہے لیکن نظم کے سیاق و سباق میں اس لفظ کی رمزیت واضح ہو جاتی ہے، اور اگر ہم اس نظم کے ابتدائی متن کو بھی پیش نظر رکھیں تو معلوم ہو گا کہ جو باتیں اب تک رہنمایانِ قوم کے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں آئیں، اور اگر آ بھی جاتیں تو کہنے کی جرأت نہ کرتے، وہ ساری باتیں شاعر نے استعاروں اور علامتوں کے پردے میں کہہ دیں: ع ’’سخن ِنگفتۂ را چہ قلندرانہ گفتم۔‘‘ نظم کے ابتدائی متن اور نظرثانی کے بعد موجودہ متن میں صرف یہی فرق نہیں کہ ۱۲ اشعار میں سے صرف ۷ شعر بانگِ درا میں درج کیے گئے ہیں، بلکہ بنیادی فرق یہ ہے کہ موجودہ نظم کے اشعار کا وزن ’’مفتعلن مفاعلن، مفتعلن مفاعلن‘‘ (بحرِ رمل مطوی مخبون) ہے، جبکہ ابتدائی متن کا وزن اس سے قدرے مختلف ہے، یعنی اس بحر کا پہلا اور تیسرا رکن ’’مفتعلن‘‘ کی جگہ ’’مستفعلن‘‘ آتا ہے۔ اپریل ۱۹۰۷ء میں اقبال نے ایک فارسی غزل اسی بحر میں (بروزن ’’مستفعلن مفاعلن…‘‘) لکھی تھی جس کا مقطع یہ ہے : اقبال غربتِ توام نشتر بہ دل ہمی زند تو در ہجوم عالمے یک آشنا ندیدہ ای۲۶۶؎ ہمارے علمِ عروض کے مطابق بحر رمل کے مقررہ اوزان میں یہ وزن شامل نہیں۔ لیکن اقبال کا ذوقِ موسیقی اس اجنبی بحر کی غنائیت سے اتنا متاثر ہوا کہ ایک ماہ بعد ان کا یہ منظوم پیغام بھی اسی سانچے میں ڈھل گیا۔ غالباً علی گڑھ کے خوش مذاق و جدت پسند نوجوان بھی اس کے آہنگ سے محظوظ ہوئے ہوں گے۔ لیکن عروضی نکتہ چیں اس بدعت کو کیسے گوارا کریں گے؟ چنانچہ اقبال نے بحر رمل مخبون کے وزن سے مطابقت کے لیے ابتدائی متن کے ۷ اشعار میں کچھ تبدیلیاں کر لیں، باقی شعر خارج کر دیے۔ مستفعلن اور مفتعلن کے وزن میں صرف ایک جگہ حرکت و سکون کا فرق ہے۔ اگر اس جگہ کسرئہ اضافت یا حرفِ علت کو کھینچ کر پڑھا جائے تو مفتعلق کا وزن مستفعلن میں بدل جاتا ہے۔ مثلاً اس نظم کا آخری مصرع (’’رہنے دو خم …‘‘) دونوں متون میں مشترک ہے۔ یہ مصرع موجودہ متن میں ’’مفتعلن مفاعلن…‘‘کے وزن پر ہے۔ لیکن اگر ’’رہنے‘‘ کی ’یا‘ اور ’’خشتِ کلیسیا‘‘ میں ’’خشت‘‘ کے کسرئہ اضافت کو کشیدہ پڑھا جائے (: خشتے کلیسیا) تو یہی مصرع ’’مستفعلن مفاعلن … ‘‘ کا ہم وزن ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس مصرعے کے علاوہ ابتدائی متن اور موجودہ متن کے دو اور مصرعوں (یعنی پہلے شعر کے مصرعِ اولیٰ اور دوسرے شعر کے مصرعِ ثانی) میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، کیونکہ وہ بھی دونوں اوزان پر پورے اترتے ہیں۔ رومانی نظموں کے بعد ان نظموں میں ہمیں ’’عشق کے درمند کا طرز کلام‘‘ بدلا ہوا نظر آتا ہے۔ وہاں حسن اور فطرت کے عکسِ رنگیں سے تشبیہوں اور تمثالوں کی فراوانی تھی۔ یہاں حکیمانہ تصورات اور ملّی جذبات کے اظہار میں تغزّل کی اشاریت اور ’’حدیثِ رندانہ‘‘ کی رمزیت کام آئی ۔ ابتدائی متن کے اشعار میں ’’بادہ و ساغر‘‘کے تلازمے بھی زیادہ ہیں اور غزل کی سی بے ربطی بھی نمایاں ہے۔ اقبال کے فکری ارتقا میں اس نظم کی اہمیت کا تقاضا یہ ہے کہ اشعار کی بے ربطی و بے ترتیبی کے باوجود ، ہم سلسلۂ خیال کی بکھری ہوئی کڑیاں جوڑ کر ، نظم کے فکری تجزیے کی کوشش کریں۔ (ابتدائی متن کے اشعار آگے درج ہیں)۔ (۱) تمہید کے ابتدائی دو اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ میرا دردمندانہ پیغام ان لوگوں کے شور و غوغا سے مختلف ہے جو ’’طائر زیرِ دام‘‘ کی طرح، اپنے انجام سے بے خبر، آزادی اور انقلاب کے دل فریب نعروں سے تمھیں اُکسا رہے ہیں۔ میری مثال اس ’’طائرِ بام‘‘ کی سی ہے جو ایک بلند سطح سے سارے منظر اور پس منظر کا جائزہ لیتا ہو۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ اس جال کے علاوہ اور بھی کئی ’’دامِ ہم رنگِ زمیں‘‘ بچھے ہوئے ہیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ عجلتِ پرواز میں تم ایک دام سے رہا ہو کر دوسرے ’’دامِ سخت‘‘ میں گرفتار ہو جائو گے۔ لہٰذا میری باتوں کو دھیان سے سنو۔ (۲) میں اُن لوگوں میں سے بھی نہیں ہوں جو تمہارے جذبۂ حریت اور قومی غیرت کی قدر نہیں کرتے اور تمھیں سکون پرستی کا درس دیتے ہیں۔ تمھارا یہ ’’جوشِ نمو‘‘ یہ حرکت و عمل ، زندگی اور زندہ دلی کی علامت ہے۔ ایک کمزور چیونٹی جو اپنی حرکت سے زندگی کا ثبوت دیتی ہے، بے حس و حرکت پہاڑ سے بہتر ہے۔ لیکن انسان کی حرکت کسی مقصد اور کسی منزل سے وابستہ ہوتی ہے، ورنہ ’’حرکتِ آدمی‘‘ اور ’’حرکتِ جام‘‘ میں (کہ وہ بھی ایک دائرے میں چکر کاٹتا ہے) کیا فرق باقی رہے۔ (شعر نمبر:۶، ۹)۔ (۳) تمھیں اپنی منزل اور اپنے رہنما کی تلاش ہے؟ آئو، میں بتائوں کہ تمھاری منزل کیا ہے اور تمھارا رہنما کون ہے۔ ستاروں کو دیکھو جو کسی خاص مرکز اور نظام سے وابستہ ہیں۔ جس گردوں کے تم ستارے ہو، اس کا بھی ایک مرکز ہے۔ حرمِ کعبہ اور نظامِ شمسی کی طرح اس کا بھی ایک نظام ہے جو ’’یثرب کے آفتاب‘‘ سے وابستہ ہے۔ اسی مرکز اور اسی آفتاب کے جذب و کشش سے تمھارا ملی وجود قائم ہے۔ تم تسبیح حجازی کے رشتے میں منسلک ہو۔ اسی تسبیح کا ’’امام‘‘ تمھارا حقیقی امام (رہنما) ہے۔ (شعر ۷، ۸)۔ (۴) بعض لوگ تمھاری محفل میں ساقی بن کر آتے ہیں اور ’’وطنیت‘‘ کی مے پلا کر تمھیں مدہوش کر دیتے ہیں۔ پھر تم سے کہتے ہیں کہ آنکھیں بند کرکے ہمارے ساتھ آزادی کی جنگ میں شریک ہو جائو۔ لیکن کیا ایسی نام نہاد آزادی تمھیں مطلوب ہے کہ آزادی کے بعد بھی اسلام مغلوب رہے اور مسلمان مجبور و محکوم؟ یاد رکھو ، کوئی ایک خطۂ ارض ہمارا وطن نہیں ۔ ہمارا وطن اسلام ہے۔ لہٰذا ہماری منزل صرف آزادیِ ہند نہیں بلکہ حریتِ اسلام ہے اور ہمارا رہنما بھی پیغمبرِ اسلام کے سوا کوئی اور نہیں۔ (شعر: ۴، ۵)۔ (۵) اس منزل کی لگن اپنے دل میں پیدا کرو۔ اس رہنما سے لو لگائو، اسی کے عشق کا سوزِ تمام تمھاری حیاتِ دوام کا ضامن ہے (شعر : ۱۰، ۱۱)۔ (۶) ابھی تو تم اپنے حقیقی نصب العین سے نا آشنا ہو، اپنی منزل سے بے خبر ہو۔ اس نصب العین کے حصول کے لیے تنظیم و اتحاد کی جو قوت درکار ہے، ابھی اس سے تم محروم ہو۔ پھر اس بے مقصد اور بے مصرف ہڑبونگ سے کیاحاصل؟ یہ موقع غنیمت ہے۔ ابھی ضبط و تحمل سے کام لو اور منظم و متحد ہو کر اس ملک میں اپنا سیاسی مستقبل محفوظ کر لو ورنہ انگریز کا تسلط اٹھ جانے کے بعد اکثریت کے شکنجے میں پھنس کر رہ جائو گے(آخری شعر)۔ چونکہ باقیاتِ اقبال میں بھی اس نظم کا ابتدائی متن شامل نہیں لہٰذا جون ۱۹۰۷ء کے شمارۂ مخزن سے اس کے اشعار یہاں نقل کیے جاتے ہیں: ۱- اَوروں کا ہے پیام اَور، میرا پیام اَور ہے غربت کے دردمند کا طرزِ کلام اَور ہے ۲- مرغانِ زیرِ دام کے ہنگامے سن چکے ہو تم یہ بھی سنو کہ نالۂ طائرِ بام اَور ہے ۳- مستور مے درونِ جام، پر تو مے برونِ جام اس کا مقام اَور ہے، اُس کا مقام اَور ہے ۴- یوں تو پلانے آتے ہیں محفل کو ساقیان ہند لیکن انھیں خبر نہیں، یہ تشنہ کام اور ہے ۵- جس بزم کی بساط ہو سرحدِ چیں سے مصر تک ساقی ہے اس کا اور ہی، مے اور جام اور ہے ۶- تمکیں جو ہے سکوں سے ہے، آتی تھی کوہ سے صدا کہتا تھا مورِ ناتواں لطفِ خرام اَور ہے ۷- اے بزمِ دور آخری! کس کی تلاش ہے تجھے؟ تو سبحۂ حجاز ہے، تیرا امام اَور ہے ۸- جذبِ عرب کے بل پہ ہے انجمِ قوم کا قیام یثرب کے آفتاب کا یعنی نظام اَور ہے ۹- باقی ہے زندگی میں کیا ذوقِ نمو اگر نہ ہو حرکتِ آدمی ہے اور ، حرکتِ جام اَور ہے ۱۰- شمع سحر یہ کہہ گئی، ہے ساز زندگی کا سوز اس محفلِ نمود میں شرطِ دوام اَور ہے ۱۱- فانوس کی طرح جیو، آتش بہ پیرہن رہو اے جلنے والو لذتِ سوزِ تمام اَور ہے ۱۲- عجلت کرو نہ مے کشو، بادہ ہے نارسا ابھی رہنے دو خُم کے منہ پہ تم خشتِ کلیسیا ابھی۲۶۷؎ (ب) پیامِ عشق یہ نظم مطلع سے مقطع تک تغزل کے رنگ میں اتنی ڈوبی ہوئی ہے کہ اگر اسے غزل کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ اس دور کی نظموں میں ایک اور غزل ’’پیام ‘‘ کے عنوان سے درج ہے۔ ’’پیامِ عشق‘‘ کے اشعار میں تو تغزل کے رچائو کے باوجود وحدتِ تاثر کی کیفیت پائی جاتی ہے جس کی بنا پر اسے ’’پیامِ عشق‘‘ کے وسیع اور مبہم سے عنوان کے تحت رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن ’’پیام‘‘/ کے اشعار عام غزل کے اشعار کی طرح منتشر اور بے ربط ہیں۔ یہ نظم اس دور کی وہ تنہا تخلیق ہے جو اقبال کے جدید فلسفیانہ افکار کی نمائندگی کرتی ہے۔ مثلاً اس نظم کے عنوان میں ’’عشق‘‘ کا لفظ مخصوص فلسفیانہ اصطلاح کے طور پر پہلے پہل استعمال ہوا ہے جس سے مراد کسی بلند نصب العین سے والہانہ لگائو ہے۔ نصب العین اتنا بلند ہونا چاہیے کہ وہ انسان کی پوری شخصیت کو اپنی گرفت میں لے لے۔ اقبال نے اسرارِ خودی کے ایک باب میں اسی نصب العین کی آرزو کو حیاتِ خودی کا ضامن قرار دیا ہے، جو انسان کے پورے وجود پر چھا جائے۔ اور اس کی شان مندرجہ ذیل اشعار میں بیان کی ہے: مقصدے مثلِ سحر تابندئہ ماسوا را آتشِ سوزندئہ مقصدے از آسماں بالا ترے دل ربائے دل ستانے دل برے باطل دیرینہ را غارت گرے فتنہ در جیبے سراپا محشرے۲۶۸؎ نظم کے پہلے شعر میں ایک ایسے ہی بلند و پاکیزہ، دلربا اور دلستاں نصب العین کے عشق کی طرف اشارہ ہے: سن اے طلب گارِ درد پہلو میں ناز ہوں تو نیاز ہو جا میں غزنوی سومناتِ دل کا ہوں، تو سراپا ایاز ہو جا۲۶۹؎ یہاں جذبۂ عشق سراپا ناز محبوب بن کر عاشق سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ اگر تو مجھے اپنانا چاہتا ہے تو کمال نیاز مندی سے اپنے پورے وجود کو میرے حوالے کر دے۔ میں غزنوی کی طرح بت شکن ہوں۔ جس دل کو مسخر کر لیتا ہوں اس میں ہوا و ہوس کے تراشے ہوئے بتوں کو پاش پاش کر دیتا ہوں۔ اس شعر میں غزنوی اور سومنات کی تلمیحی علامتیں بھی ایک نئی معنویت کے ساتھ ، پہلے پہل اقبال کے یہاں نظر آتی ہیں۔ / فروری۱۹۰۶ء کے شمارہ مخزن میں جب یہ غزل ’’پیغامِ راز‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی تو اس کے اشعار بھی (’’طلبۂ علی گڑھ کے نام‘‘ کے ابتدائی متن کی طرح) ’’مستفعلن مفاعلن …‘‘ کے وزن ٍمیں تھے۔ مثلاً پہلا شعر یوں تھا: قسمت سے ہو گیا ہے تو ذوقِ تپش سے آشنا پروانہ وار بزم کو تعلیم سوز و ساز دے نظم ثانی میں مناسب ترمیم کرکے ہر شعر کو بحر رجز مثمن مطوی مخبون (مفتعلن مفاعلن…) میں ڈھال دیا گیا ہے۔ دوسرا شعر بھی پہلے شعر سے مربوط ہے جس میں سکندر کی طرح آئینہ سازی کا پیغام دیا گیا ہے۔ اس آئینہ سازی کے لیے جاہ و جلال سکندری درکار نہیں۔ یہ اس صورت سے بھی ممکن ہے کہ صیقل عشق کے اثر سے دل کو آئینے کی طرح مجلا کیا جائے۔ اسی دور کی ایک نظم (عبدالقادر کے نام) میں یہ مضمون یوں ادا ہوا ہے: اہلِ عالم کو دکھا دیں اثر صیقلِ عشق سنگِ امروز کو آئینۂ فردا کر دیں تیسرے شعر میں تعمیر خودی کے لیے سعیِ پیہم اور جہدِ مسلسل کی اہمیت بیان کی گئی ہے: غرض ہے پیکار زندگی سے کمال پائے ہلال تیرا جہاں کا فرضِ قدیم ہے تو ادا مثالِ نماز ہو جا۲۶۹؎ ’’پیامِ عشق‘‘ کے ضمن میں تعمیرخودی کا ذکر اس بات کی دلیل ہے کہ عشق و خودی کے گہرے تعلق پر اقبال کی ابتدا ہی سے نظر تھی۔خودی کے استحکام و ارتقا کے لیے ’’ہلال‘‘ ایک موزوں مثال ہے کہ وہ ابتدا میں تنک ضو اور نحیف ہوتا ہے لیکن اپنی تکمیل کے لیے پیہم سرگرمِ سفر رہتا ہے، حتیٰ کہ ماہِ کامل بن جاتا ہے۔ اسی طرح انسان کی شخصیت میں ارتقا پذیر ی کے لا محدود امکانات، جوہرِ مخفی کی صورت میں پوشیدہ ہوتے ہیں، جنھیں عمل پیہم سے بروئے اظہار لا کر وہ اپنی خودی کو کمال کے بلند سے بلند تر مدارج تک پہنچاتا ہے۔ بالِ جبریل کا مندرجہ ذیل شعر اسی تشبیہ پر مبنی ہے: ہر اک مقام سے آگے گزر گیا مہِ نو کمال کس کو میسّر ہوا ہے بے تگ و دو۲۷۰؎ اگرچہ اس دور میں اقبال، نطشے کے مطالعے سے متاثر ہوئے اور ’’پیکار‘‘ کا لفظ اس اثر پذیری کا واضح ثبوت ہے لیکن یہاں سیاق و سباق سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ’’پیکار‘‘سے شاعر کی مراداعلیٰ نصب العین کی راہ میں تمام مشکلات و موانع کے خلاف جہاد ہے۔ مصرع ثانی میں دو اہم حقائق کی طرف اشارہ ہے: (۱) یہ کائنات ارتقائے حیاتِ انسانی کے لیے ایک وسیع جولاں گاہ ہے اور انسانیت کی تکمیل ہی سے تخلیق کائنات کے مقصد کی تکمیل ہو گی، لہٰذا اپنی خودی کی تعمیر و تکمیل ہر انسان پر فرض ہے۔ (۲) ’’ادا مثالِ نماز ہو جا‘‘ میں یہ مفہوم پوشیدہ ہے کہ تعمیر خودی کا فریضہ نماز کی طرح ادا ہونا چاہیے، یعنی انسانی خودی جذبۂ عبودیت کے ساتھ خدا کے حضور میں جھک جائے۔ احکامِ الٰہی کی اطاعت کے بغیر تکمیلِ خودی ممکن نہیں۔ اس نظم کا چوتھا متروک شعر اقبال کے اس پیغامِ خودی و خود شناسی کا نقشِ اول ہے: ع ’’اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی‘‘۔ لیکن یہ شعر (خصوصاً اس کا مصرعِ ثانی) اقبال اور اس کی اس نظم کے معیارِ بلاغت پر پورا نہیں اترتا، لہٰذا حذف کر دیا گیا۔ شعر یہ ہے : دیارِ خاموشِ دل میں ایسا ستم کشِ دردِ جستجو ہو کہ اپنے سینے میں آپ پوشیدہ صورتِ حرفِ راز ہو جا۲۷۱؎ اگلے (اور بانگِ درا کے چوتھے) شعر سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اقبال اہل تصوف کی رہبانی قناعت پسندی کو ، جو ترکِ عمل کے مترادف ہے، اسلامی تعلیمات کے منافی سمجھتے ہیں: نہ ہو قناعت شعار گلچیں اسی سے قائم ہے شان تیری وفورِ گل ہے اگر چمن میں تو اور دامن دراز ہو جا یہاں چمن اور گل کے استعاروں میں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ یہ دنیا خدا کی ودیعت کردہ نعمتوں سے مالا مال ہے اور تسخیرِ فطرت کا اذنِ عام ہے۔ لہٰذا ہم اپنی کوتاہ دستی سے کیوں محروم و ناکام رہ جائیں۔ کیوں نہ ہم اپنے عزائم بلند رکھیں اور عظیم تر مقاصد کے لیے تگ و دو کرتے رہیں۔ اب اقبال کے سامنے جو نیا تصورِعشق ہے ، اس عشق و جنون کے تقاضے بھی نئے ہیں اور اس کا صحرا بھی نیا ہے۔ اعلیٰ نصب العین سے وابستہ ہو کر جذبۂ عشق، تعمیری و تخلیقی سرگرمیوں کا زبردست محرک بن جاتا ہے۔ لہٰذا دیوانگانِ عشق کی جولانگاہ صحرا نہیں، بلکہ انسانی معاشرہ ہے۔ چنانچہ مارچ ۱۹۰۷ء کی معروف غزل میں وہ کہتے ہیں: کبھی جو آوارئہ جنون تھے وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے برہنہ پائی وہی رہے گی، مگر نیا خارزار ہو گا اور ’’شمع و شاعر‘‘ کے اس شعر میں بھی اسی نئے جنون کی نئی جولانگاہ کی طرف اشارہ ہے: کیفیت باقی پرانے کوہ و صحرا میں نہیں ہے جنوں تیرا نیا، پیدا نیا ویرانہ کر۲۷۲؎ لیکن اس نظم کا اگلا شعر اس نئے تصور کا بہتر ترجمان ہے: گئے وہ ایام اب زمانہ نہیں ہے صحرا نور دیوں کا جہاں میں مانندِ شمعِ سوزاں میانِ محفل گداز ہو جا یہاں ’’شمعِ سوزاں‘‘ کی تشبیہ مردِ مومن کے کردار کے جمالی پہلو پر روشنی ڈالتی ہے اور عشق کے سوز و ساز کی حیات افروزی پر دلالت کرتی ہے۔ اس نظم میں اقبال کے فلسفیانہ پیغام کا آغاز ’’عشق‘‘ سے ہوا، پھر خودی کا مرحلہ آیا اور اب یہ سلسلہ بے خودی کی منزل تک آ پہنچا ہے: وجود افراد کا مجازی ہے، ہستیِ قوم ہے حقیقی فدا ہو ملت پہ، یعنی آتش زنِ طلسمِ مجاز ہو جا اس شعر سے یہ مفہوم اخذ کیا جا سکتا ہے کہ شاعر جماعت پر فرد کی خودی کو قربان کر دینے کا قائل ہے۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ اسی نظم کے ابتدائی اشعار میں تعمیرِ خودی کا درس دینے کے بعد وہ یہیں اپنے قول کی نفی بھی کر دے۔ ملّت پر فدا ہونے کا مطلب اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہ تعمیر خودی کے بعد اپنی تمام قوتیں اور صلاحیتیں تعمیرِ ملّت اور خدمتِ انسانیت میں صرف کی جائیں۔ فرد کے وجود کو مجازی اور ملّت کو حقیقی قرار دینے سے شاعر کی مراد یہ ہے کہ فرد کے جوہرِ خودی کی نمود اور اس کی ذات کا تشخّص کسی جماعت سے وابستہ ہوئے بغیر ممکن نہیں: ع ’’فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں‘‘۔ البتہ اس شعر سے یہ نتیجہ نکالنا بے جا نہ ہو گا کہ احیائے ملت کا جذبہ ہی اقبال کے فلسفۂ خودی کا بنیادی محرک ہے۔ نظم کا آخری شعر، غزل کے مقطعے کا سا انداز رکھتا ہے جس میں شاعر کے تخلص کے علاوہ شخصی رنگ بھی پایا جاتا ہے۔ اقبال دیکھ رہے تھے کہ قائدینِ ملک و قوم میں یا تو وہ لوگ ہیں جو وطنیت کے پرستار ہیں، یا وہ جاہ پرست جو ذاتی مقاصد کی تکمیل کے لیے مختلف ناموں سے نئی نئی جماعتیں قائم کرکے قوم میں تفرقہ ڈال رہے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ سب بت تراش و بت پرست ہیں۔ لہٰذا ان سیاسی بازی گروں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے وہ اپنی زندگی خدمتِ اسلام کے لیے وقف کر دینا چاہتے ہیں: یہ ہندکے فرقہ ساز اقبال آزری کر رہے ہیں گویا بچا کے دامن بتوں سے اپنا غبارِ راہِ حجاز ہو جا آئندہ دور میں اقبال کی فکری کاوش کے دو پہلو تھے: (۱) نظریۂ خودی و بے خودی کی فلسفیانہ تشکیل۔ (۲) سیاست ملّی کے مسائل۔ اس نظم کی خاص اہمیت یہ ہے کہ یہ اقبال کے آئندہ فکری عمل کا اشاریہ یا ابتدائی خاکہ ہے۔ علاوہ ازیں جو لوگ اقبال کو نطشے کا خوشہ چیں قرار دیتے ہیں، ان کی مؤثر تردید کے لیے صرف یہ نظم کافی ہے، کیونکہ ابتدائی رجحانِ تصوف کے بعد اقبال کے فلسفیانہ تفکر کا یہی وہ نقشِ اوّل ہے جس میں نطشے سے اختلاف کے کئی اہم پہلو موجود ہیں، حالانکہ وہ اس زمانے میں نطشے سے خاصے متاثر تھے۔ یہ نظم بحر متقارب مثمن مقبوض اثلم(: فعول فعلن فعول فعلن، چار چار مرتبہ) میں لکھی گئی ہے۔ جہاں اس نرم رو بحر کا ٹھہرائو گہرے فلسفیانہ خیالات کے اظہار کے لیے موزوں ہے، وہیں اس کا پُرسوز آہنگ اس امر کی گواہی دیتا ہے کہ فلسفی کے افکار میں شاعر کے دل کا سوز بھی شامل ہے۔ (ج) عبدالقادر کے نام: اس سلسلے کی یہ تیسری نظم بھی اس لحاظ سے اہم ہے کہ شاعر نے ایک نئی منزل کی طرف اپنے عزمِ سفر کا اعلان کیا ہے۔ اس لیے سفر میں وہ اپنے ہمدم دیرینہ سے رفاقت کا بھی متمنّی ہے، نیز مخزن اور مدیر مخزن کی وساطت سے وہ اپنی پرانی بزمِ سخن کے احباب کو اپنے نئے خوابوں اور خیالوں میں شریک کرنا اور اپنے نئے شعری نصب العین سے روشناس کرانا بھی چاہتا ہے۔ اگرچہ احیائے ملّت کی تحریک فروغ بخشنے کے لیے اس نے جو نیا ادبی منشور مرتب کیا ہے وہ ایک طویل اور سنجیدہ عمل کا نتیجہ ہے لیکن اس نظم میں متغزلانہ اسلوب کی اشاریت اور جذبہ و جوش کی فراوانی سے فکری پہلو مبہم رہ گیا ہے۔ تاہم سلسلۂ خیال کی منتشر کڑیاں جوڑ کر اس کا فکری تجزیہ کیا جا سکتا ہے: (۱) نظم کا تمہیدی حصہ ابتدائی تین اشعار پر مشتمل ہے ۔ شاعر اپنے ذاتی عزائم ایک اجتماعی رنگ میں پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ عالمِ اسلام میں چاروں طرف مایوسی اور مردہ دلی کا جو اندھیرا چھایا ہوا ہے، آئو ہم اسے اپنے نغمۂ پُر سوز کے شعلوں سے دور کر دیں اور صیقلِ عشق کے اثر سے حال کے کثیف آئینے میں ملت کے درخشاں مستقبل کی تصویر دکھا کر مسلمانوں کے دلوں میں ایمان و یقین کی ایک نئی روح پھونک دیں۔ (شعر: ۱، ۲، ۳)۔ (۲) ہماری افتاد کا یہ عالم ہے کہ خود سرزمینِ حجاز کے مسلمان بھی اسلام کے حلقۂ اثر سے آزاد ہو رہے ہیں۔ اب ضرورت ہے کہ ہم مسلمانوں کے دلوں میں پھر ایک نئی آرزو ، ایک بلند نصب العین کی لگن پیدا کر دیں۔ ملت خود کو مغرب کی بڑی طاقتوں کے سامنے بے بس اور حقیر سمجھتے ہیں۔ انھیں ملی خود شناسی و خود داری کے حیات افروز اصول سکھائیں تاکہ ان کے وجود کا قطرئہ شبنم ارتقا پذیر ہو کر دریا بن جائے۔ (شعر : ۵، ۷)۔ (۳) عجمیت کا فکری غلبہ اسلام کے ضعف کا سب سے بڑا سبب اور احیائے ملت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ عجمی نظریات اور عجمی ثقافت نے اسلام اور اسلامی تہذیب کے رخ روشن پر جو پردے ڈال رکھے ہیں، ہم انھیں ایک ایک کرکے اٹھا دیں۔ جب مسلمان صحیح اسلامی تعلیمات اور خالص حجازی تمدن کے فطری اور سادہ حسن سے آشنا ہوں گے، تب ان کے دلوں میں پھر وہی جذبۂ ایمانی پیدا ہو گا جس کی حرارت خرمن باطل کو جلا دے گی۔ (شعر: ۴، ۶، ۸) ۔ عجمیت سے حجازیت کی طرف باز گشت کا پیغام اسرار خودی میں یوں ادا ہوا ہے: فکرِ صالح در ادب میں بایدت رجعتے سوئے عرب می بایدت دل بہ سلمائے عرب باید سپرد تا دمد صبحِ حجاز از شامِ کرد۲۷۳؎ (۴) نظم کے آخری حصے کے ساتھ اگر تین متروک اشعار کو ملا کر پڑھا جائے تو اس فکری سلسلے کی ایک گم شدہ کڑی اشعار کی حسبِ ذیل ترتیب سے پوری ہو جائے گی: گرم رکھتا تھا ہمیں سردیِ مغرب میں جو داغ چیر کر سینہ اسے وقفِ تماشا کر دیں۲۷۴؎ درد ہے سارے زمانے کا ہمارے دل میں جنس کم یاب ہے، آ نرخ کو بالا کردیں۲۷۵؎ زاہدِ شہر کہ ہے سوختہ طبعی میں مثال خشک ہے اس کو غریقِ نمِ صہبا کر دیں سنگ رس شاخ چنی ہم نے نشیمن کے لیے اپنے بے دردوں کو آمادئہ ایذا کر دیں شمع کی طرح جئیں بزم گہِ عالم میں خود جلیں، دیدئہ اغیار کو بینا کر دیں یہاں اس حقیقت کو پیش نظر رکھا جائے کہ اقبال نے جب دیکھا کہ سارے زمانے میں جس تہذیبِ مغرب کی دھوم مچی ہے، وہ کس درجے انسانیت کش ہے، تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اسلام ہی وہ تہذیب اور وہ معاشرہ جنم دے سکتا ہے جہاں انسانیت اور انسانی اقدار کو فروغ حاصل ہے۔ کیونکہ اسلام انسانی وحدت، احترام آدمیت اور عالم گیر اخوت و محبت کا نصب العین پیش کرتا ہے۔ اب شاعر اس عزم کا اظہار کرتا ہے کہ ہم اسلام کے حوالے سے اس نصب العین کی تبلیغ کریں گے۔ زاہدانِ خشک جو اس نصب العین سے نا آشنا ہیں،انھیں بھی صہبائے محبت میں ڈبو دیں گے۔ دنیا کے بے حس و بیدرد لوگ اگر ہمارے اس موقف کی مخالفت میں ہمیں ایذا پہنچائیں، تب بھی ہم اس مشن کو جاری رکھیںگے۔ ہم اس بزم ہستی میں شمع کی طرح زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں جو خود جلتی ہے اور دوسروں کی آنکھوں کو نور بخشتی ہے۔ اس نظم میں تشبیہیں تو دو تین ہی ہیں۔ شمع کی تشبیہ بانگِ درا میں بہت عام ہے اور ’’تصویر درد‘‘ کی طرح سپند کی کلاسیکی تشبیہ سے یہاں بھی مضمون آفرینی کی گئی ہے۔ لیکن علامتوں اور استعاروں کا سلسلہ اوّل اور آخر تک پھیلا ہوا ہے۔ ظلمت ، شعلہ نوائی، فریاد ،محفل ، اہلِ محفل، چمن ، شبنم وغیرہ کے استعارے تو ہماری شاعری میں روز مرہ و محاورہ کی حیثیت حاصل کر چکے ہیں۔ تیسرے شعر میں صیقلِ عشق، سنگِ امروز اور آئینۂ فردہ کے استعارے نہایت معنی خیز ہیں۔ جذبۂ عشق سے انسان میں ایسی بصیرت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ حال کے آئینے میں مستقبل کی جھلک دیکھ لیتا ہے۔ گویا عشق، سنگ امروز پر صیقل کرکے اسے آئینۂ فردا بنا دیتا ہے۔ یہاں سنگ اور آئینہ کی روایت ، آئینہ اور صیقل کی رعایت اور امروز و فردا کا تضاد قابل توجہ ہے۔ اس نظم کا مندرجہ ذیل شعر : بادہ دیرینہ ہو اور گرم ہو ایسا کہ گداز جگرِ شیشہ و پیمانہ و مینا کر دیں غالب کے اس مصرعے کی یاد دلاتا ہے: ع ’’آبگینہ تندیٔ صہبا سے پگھلا جائے ہے‘‘۔ لیکن غالباً اقبال کے پیش نظر غالب کا وہ فارسی شعر ہے جسے انھوں نے پیامِ مشرق میں غالب کی نمائندگی کے لیے منتخب کیا ہے: تا بادہ تلخ تر شود و سینہ ریش تر بگدازم آبگینہ و در ساغر افگنم۲۷۶؎ نظم کے چوتھے شعر (’’جلوئہ یوسف گم کشتہ…‘‘) میں یوسف و زلیخا کی قرآنی تلمیح کے علاوہ ’’یوسفِ گم گشتہ‘‘ ایک معنی خیز استعارہ بھی ہے جس سے مراد ہے اسلام کی عظمتِ رفتہ یا ملتِ بیضا کا رخِ روشن جو عجمیت کے پردوں میں چھپا ہوا ، دوبارہ اپنی نمود کا منتظر ہے۔ ساتویں شعر (’’ رخت جاں بتکدہ چیں… سعدیٰ و سلیمیٰ کردیں‘‘) میں ’’بت کدئہ چیں‘‘ استعارہ در استعارہ ہے۔ نقشِ مانی (ارژنگ) کو شاعر استعارۃً بت کدۂ چیں قرار دیتا ہے اور پھر اس سے عجمی تہذیب و روایات مراد لیتا ہے۔ دوسرے مصرعے میں ’’رخِ سعدیٰ و سلیمیٰ ‘‘ کی علامت سے خالص اسلامی یا حجازی تہذیب کے حسن و سادگی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یثرب ، ناقہ، لیلیٰ اور قیس کا علامتی مفہوم بالکل واضح ہے۔ یہ بات خصوصی توجہ کے لایق ہے کہ اس نظم کے متعدد استعاروں میں بھی اقبال کا حجازی رجحان نمایاں ہے۔ اقبال نے اپنے نئے رجحان کے ماتحت بعض نامانوس اور قدرے طویل بحریں اختیار کی ہیں۔ لیکن اس نظم کی بحر (رمل مخبون، مقصور، محذوف یا ابتر: فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن یا فعلات) عام طور پر مستعمل اور اردو مرثیوں کی مقبول بحر ہے، جو اپنے رجزیہ آہنگ کے لحاظ سے ان پرجوش جذبات و خیالات کے اظہار کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ (د) صقلیہ: اس سلسلے کی آخری نظم ’’صقلیہ‘‘ اگست ۱۹۰۸ء کے شمارہ مخزن میں مدیر مخزن کے ایک مختصر ادارتی شذرے کے ساتھ شائع ہوئی جس کی آخری سطریں یہاں منقول ہیں: ’’… ہمارے دوست فرماتے ہیں کہ وہ رات کے وقت جہاز میں اس جزیرے کے پاس سے گزرے اور اس کی روشنیوں کو دیکھ کر بعض خیالات اور جذبات نے یکایک ان کی طبیعت پر ہجوم کیا۔ یہ نالہ ہائے موزوں ان ہی خیالات اور جذبات کا نتیجہ ہے۔‘‘۲۷۷؎ اٹلی کے جنوبی ساحل سے ملحق اس خوش منظر جزیرے کی تاریخی عظمت ، قرونِ اولیٰ کے عرب مجاہدین کے علمی و تہذیبی کارناموں سے وابستہ ہے، اور اسی نسبت سے اس جزیرے کی روشنیوں پر نظر پڑتے ہی ’’تہذیبِ حجازی‘‘ کا تابناک منظر شاعر کے تخیل میںجگمگانے لگا۔ سنہ ۳۳ھ (۶۵۳ئ) ہی سے اس جزیرے کے ساحلی علاقے عرب تاجروں اور جہاز رانوں کی جولاں گاہ بن گئے تھے۔ جیسے جیسے سسلی کے علاقے مسلمانوں کے زیر نگیں آتے گئے، مختلف عرب قبائل اور افریقہ کے بربر مسلمان یہاں آباد ہوتے گئے۔ اس وقت تک یہاں یونانیوں اور رومیوں کے تہذیبی آثار مٹ چکے تھے اور ہر طرف جہالت کا دور دورہ تھا۔ مسلمانوں کے آتے ہی یہاں علم کی روشنی پھیلنے لگی۔ نویں صدی عیسوی (تیسری صدی ہجری)کے ربع آخر سے گیارھویں صدی عیسوی کے اواخر تک پورے جزیرے پر عربوں کی حکومت قائم رہی۔ اس عرصے میں صقلیہ کے شہر بلرام اور پلرمو، ہسپانیہ کے قرطبہ اور غرناطہ کی طرح جملہ علوم و فنون کا گہوارہ اور عرب تہذیب و تمدن کا عظیم مرکز بن گئے۔ عربوں کے بعد صدیوں تک یہ جزیرہ فرانس ، جرمنی اور سپین کے امرا کی غارت گری کا نشانہ بنا رہا، حتیٰ کہ ۱۸۶۱ء میں اٹلی میں شامل ہو گیا۔۲۷۸؎ اب وہاں اسلامی عہد کے آثار بھی باقی نہیں رہے اور مورخین کے سوا عام مسلمان بھی بھول گئے کہ سسلی کی تاریخ کا ان سے کوئی رشتہ رہا ہے۔ اقبال کی نگاہ اس دور میں بھی تاریخ کے ان تمام معروف و غیر معروف گوشوں پر پڑ رہی تھی جو کبھی حجازی تہذیب کا گہوارہ تھے۔ تاریخِ اسلام سے ان کا یہ گہرا لگائو ماضی پرستی کے بجائے ان کے خالص اسلامی نقطۂ نظر یا ’’حجازی‘‘ میلان کی دلیل ہیں۔ جزیرۂ صقلیہ ’’تہذیبِ حجازی کا مزار‘‘ ہے، اسی لیے اسے دیکھتے ہی ان کی آنکھیں اسلامی تاریخ کے اس عہدِ زریں کی یاد میں ’’خونابہ بار‘‘ ہو گئیں، جب عرب کے صحرا نشینوںنے اپنے جوشِ کردار سے صفحۂ ہستی پر اسلامی تہذیب کا نقشِ دوام ثبت کر دیا تھا۔ وہ مجاہد تھے، شہسوار تھے، فاتح تھے، لیکن ان کی فتوحات کا محرک ہوسِ ملک گیری نہیں بلکہ یہ بلند نصب العین تھا کہ مظلوم انسانیت کو ایرانی اور رومی سامراجوںکے مظالم اور پاپائیت کی زنجیر توہم سے آزاد کرایا جائے۔ چنانچہ وہ جہاں کہیں بھی گئے وہاں ایک نظامِ نوکی طرح ڈالی جو انسانی حریت و مساوات اور عدل و انصاف کی اسلامی قدروں پر استوار تھا۔ اس نظم کا ابتدائی بند ہمیں مسجدِ قرطبہ کا وہ بند یاد دلاتا ہے جس میں شاعر نے ہسپانوی عربوں کے کردار اور ان کی تہذیبی عظمت کی شان بیان کی ہے۔ یہاں اسی جوشِ عقیدت کے ساتھ صقلیہ کے عربوں کے کارناموں کو خراجِ تحسین ادا کیا گیا ہے۔ پہلے بند کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں: رو لے اب دل کھول کر اے دیدئہ خونابہ بار وہ نظر آتا ہے تہذیبِ حجازی کا مزار تھا یہاں ہنگامہ اُن صحرا نشینوں کا کبھی بحر بازی گاہ تھا جن کے سفینوں کا کبھی زلزلے جن سے شہنشاہوں کے درباروں میں تھے بجلیوں کے آشیانے جن کی تلواروں میں تھے اک جہانِ تازہ کا پیغام تھا جن کا ظہور کھا گئی عصرِ کہن کو جن کی تیغِ ناصبور مردہ عالم زندہ جن کی شورشِ ’’قُُم‘‘ سے ہؤا آدمی آزاد زنجیرِ توہّم سے ہؤا غلغلوں سے جس کے لذت گیر اب تک گوش ہے کیا وہ تکبیر اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہے؟۲۷۹؎ یہاں نہ صرف اقبال کا تحسینی نقطۂ نظر وہی ہے، بلکہ معنی خیز تراکیب اور اشاریت و بلاغت کے جو فنی محاسن ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ میں ہیں ان کا ہلکا سا پر تو یہاں بھی نظر آتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ بعد کی اصلاح نے اس کے اسلوب میں یہ نکھار پیدا کیا ہے۔ مثلاًدوسرے شعر کا مصرعِ اولیٰ ابتدائی متن میں یوں تھا: ع ’’یہ محل خیمہ تھا ان صحرا نشینوں کا کبھی۔‘‘۲۸۰؎ ظاہرہے کہ ابتدائی ٹکڑے کی جگہ ’’تھا یہاں ہنگامہ‘‘ کے الفاظ سے شعر میں معانی کی ایک دنیا سما گئی ہے۔ اسی طرح تیسرے شعر کے مصرع ثانی میں ’’بجلیوں کے آشیانے‘‘ کی جگہ ’’شعلہ‘‘ جاں سوز پنہاں‘‘ تھا۔ اس اصلاح سے مصرع بلند ہو گیا۔ زور و قوت کے لحاظ سے دونوں مصرعوں میں وہی فرق ہے جو شعلے اور بجلی کی تب و تاب میں ہے۔ ابتدائی متن میں چوتھا شعر یوں تھا: آفرینش جن کی دنیائے کہن کی تھی اجل جن کی ہیبت سے لرز جاتے تھے باطل کے محل۲۸۰؎ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شعر کی یہ صورت بلیغ تر ہے کیونکہ اس کے دوسرے مصرعے میں ایک نئے مفہوم کا اضافہ ہوا ہے لیکن یہ مفہوم تو اس سے پہلے تیسرے شعر میں نہایت خوبی سے ادا ہو چکا ہے۔ پہلے مصرعے میں عربوں کی تاریخ کا ایک انقلاب آفریں پہلو واضح نہیں ہو سکا۔ اصلاح کے بعد یہ اہم نکتہ روشن ہو گیا۔ پانچویں شعر کی پہلے یہ صورت تھی: زندگی دنیا کو جن کی شورشِ ’’قُم‘‘سے ملی مخلصی انساں کو زنجیرِ توہّم سے ملی۲۸۰؎ شعر کی ترمیم شدہ صورت بہتر ہے۔ ’’شورشِ قُم‘‘ کے ساتھ ’’مردہ عالم زندہ‘‘ کے الفاظ میں معنوی مناسبت زیادہ ہے۔ اس بند کا آخری شعر ابتدائی متن میں اس طرح تھا: جس کے آوازے سے لذّت گیر اب تک گوش ہے وہ جرس کیا اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہے؟۲۸۰؎ اس شعر کے پہلے مصرعے میں ’’آوازے‘‘ کا استعمال خلاف ِ محاورہ تھا، اور دوسرے مصرعے میں ’’جرس‘‘ مبہم۔ ترمیم کے بعد شعر کے معنوی حسن اور زورِ بیان میں اضافہ ہو گیا۔ دوسرے بند کے پہلے شعر میں ’’پانی کے صحرا‘‘کی ترکیب میں تشبیہ کا حسن بھی ہے اور جدتِ ادا بھی۔ اس بند کے اگلے دو شعر میں صقلیہ سے اپنی دلی عقیدت و محبت کا اظہار چند دعائیہ کلمات کے ذریعے کیا گیا ہے۔ یہاں شاعر نے جس ہنر مندی سے سادہ واقعیت کو ایک پاکیزہ و پُر خلوص دعا کی بلندی تک پہنچا دیا ہے، وہ اس کے تخیل کا ایک اعجاز ہے: زیب تیرے خال سے رخسار دریا کو رہے تیری شمعوں سے تسلی بحر پیما کو رہے ہو سبک چشمِ مسافر پر ترا منظر مدام موج رقصاں تیرے ساحل کی چٹانوں پر مدام تیسرے بند میں سعدی کے مرثیۂ بغداد، داغ کے مرثیۂ دہلی اور ابن بدرون کے مرثیۂ غرناطہ کا حوالہ دیتے ہوئے شاعر نے خود کو صقلیہ کاماتم گسار کہا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اقبال اپنی اس نظم کو ان شاہکارمرثیوں کی صف میں رکھنا چاہتے ہیں۔ مذکورہ بالا شعرا نے اپنے ہی عہد کے عظیم ترین سانحات کا ماتم کیا ہے، جن سے وہ اور ان کا پورا معاشرہ براہِ راست متاثر ہوا تھا۔ لیکن اقبال صدیوں قبل کے اس تاریخی سانحے پر اشک بار ہیں جس کی یاد بھی اب ذہنوں سے محو ہو چکی ہے۔ اس بند کا آخری شعر یہ ہے: غم نصیب اقبال کو بخشا گیا ماتم ترا چن لیا تقدیر نے وہ دل کہ تھا محرم ترا یہاں ’’بخشا گیا‘‘ اور ’’چن لیا‘‘ کے ساتھ ’’غم نصیب‘‘ کی ترکیب مناسب نہیں۔ اس کی جگہ ابتدائی متن کا مندرجہ ذیل شعر زیادہ برجستہ اور مؤثر تھا، نہ جانے کیوں بدلا گیا: مرثیہ تیری تباہی کا مری قسمت میں تھا یہ تڑپنا اور تڑپانا مری قسمت میں تھا آخری بند کے مندرجہ بالا اشعار سے یہ ظاہرتا ہے کہ کاروانِ ملّت سے وابستہ ہو نے کے بعد ان تمام منزلوں سے شاعر کا جذباتی رشتہ قائم ہو گیا ہے۔ جہاں جہاں وہ کارواں ٹھہرا وہاں اس نے اپنا تاریخی کردار ادا کیا تھا۔ تاریخ ماضی کے بارے میں پہلے اقبال کا نقطۂ نظر یہ تھا: ع ’’دھرا کیا ہے بھلا عہدِ کہن کی داستانوں میں‘‘ لیکن تاریخِ ملّت کے ان عجیب و غریب زمانوں اور ولولہ انگیز فسانوں سے متاثر ہو کر اب وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ: سرگذشتِ ملّتِ بیضا بگوے با غزال از وسعتِ صحرا بگوے۲۸۱؎ (۴) غزلیات اس سہ سال دور میں اقبال کے تعلیمی و تحقیقی مشاغل کے علاوہ یورپ کا معاشرتی ماحول اور وہاں کی متحرک و پُرشور زندگی بھی شعر گوئی اور خصوصاً غزل سرائی کے لیے نا ساز گار تھی چنانچہ دسمبر ۱۹۰۶ء تک ابتدائی ڈیڑھ سال میں انھوں نے صرف معدودے چند نظمیں کہیں،اور یہ بات برابر ان کے دل میں کھٹکتی رہی کہ : ع ’’جو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں انھیں مذاقِ سخن نہیں ہے‘‘۔ اس عرصے میں مغربی تہذیب کے مشاہدے اور مطالعے کے ردِ عمل سے ان کے قلب و ذہن میںنئے خیالات و جذبات کا تموّج پیدا ہوتا رہا۔ ۱۹۰۷ء کے اوائل میں اس تموّج نے تلاطم کی صورت اختیار کر لی جس کے اولین آثار مارچ ۱۹۰۷ء کی غزل اور جون ۱۹۰۷ء کی ایک نظم (طلبۂ علی گڑھ کے نام) میں نظر آتے ہیں۔ پھر ہائیڈل برگ کی رنگین فضا میں جمالیاتی تاثرات کے غلبے سے وہ تلاطم دب گیا اور اس چند ماہ کے دوران میں انھوں نے کئی رومانی نظمیں لکھیں جن سے گزشتہ دو برس کے تخلیقی جمود کی کچھ تلافی ہو گئی۔ بعد ازاں لندن میں قریباً نو ماہ قیام رہا۔ اب ان افکار و احساسات کی زیریں لہر پوری قوت سے ابھر آئی لیکن یہ مختصر زمانہ سنجیدہ مطالعہ، غور و فکر اور تعلیمی و تدریسی مصروفیات میں گزر گیا ۔ اس آخری دور کا تخلیقی سرمایہ صرف تین نظموں اور ایک غزل پر مشتمل ہے۔ اس طرح بانگِ درا حصہ دوم کے بہرئہ غزلیات میں اس دور کی صرف سات غزلیں شامل ہیں۔ اگر تلاش کی جائے تو متروک کلام کے مجموعوں میں دو ایک غزلیں اور مل سکتی ہیں۔ مثلاً ایک نامکمل غزل (مشمولہ روزگارِ فقیر ، جلددوم) جس کے مندرجہ ذیل شعر میں اہلِ مغرب کو مخاطب کرکے اپنے وطن کا یوں ذکر کیا گیا ہے: مَیں اس دیار کے، پچھم کے ساکنو! صدقے جہاں کے کوچوں میں غیرت ہے، تنگ دستی ہے۲۸۱؎ غالباً اسی دور کی تخلیق ہے۔ باقیاتِ اقبال میں رسالہ نشتر ، دسمبر ۱۹۰۷ء کے حوالے سے ایک غزل (ع:’’لاکھوں طرح کے لطف ہیں اس اضطراب میں‘‘) درج ہے لیکن اس مبتدیانہ غزل کا کوئی شعر اس دورسے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ اس قسم کی تلاش و جستجو یوں بھی بے سود ہے کہ متروک غزلیں، جو غالباً بعض احباب کے پیہم تقاضوں کا نتیجہ ہیں، اقبال کے اسلوبِ تغزل کی صحیح نمائندگی نہیں کرتیں۔ اس دور کی ان سات غزلوں کا بحیثیت مجموعی جائزہ لینے سے یہ چند پہلو قابلِ ذکر معلوم ہوتے ہیں: (۱) اگرچہ موجودہ صدی کے ربعِ اوّل میں تلامذئہ امیر و داغ یعنی سائل و بیخود اور جلیل و ریاض وغیرہم نے اپنی دبستانی روایات کے تسلسل کو قائم رکھا لیکن اس رسمی و میکانکی غزل گوئی کے دوش بدوش ، جدید دور کے تقاضوں کے مطابق، اردو غزل میں ایک تخلیقی اسلوبِ تغزل بھی فروغ پاتا رہا۔ تاہم یہ عجیب بات ہے کہ قدیم و جدید رنگِ تغزل کے بعض نمائندے طویل الذیل غزلیں کہتے رہے۔ ۱۹۱۱ئ۔۱۹۱۲ء کے بعد اقبال کی فارسی اور اردو غزلیں طوالت کی بدمذاقی سے پاک ہو گئیں۔ لیکن موجودہ دور کی بیشتر غزلیں حسبِ دستور ’’سیر حاصل‘‘ ہیں۔ بانگِ درا میں ترتیب کے لحاظ سے اس دور کی پہلی غزل (مثالِ پرتوِ مے طوفِ جام کرتے ہیں)کل دس منتخب اشعار پر مشتمل ہے۔ لیکن دکن ریویو ، ستمبر ۱۹۰۵ء کے حوالے سے باقیات میں چھ متروک شعر اور بھی درج ہیں۔ یہ غزل تو انگلستان جا تے وقت جہاز پر فرصت و فراغت کے لمحات میں کہی گئی لیکن ایک غزل شدید مصروفیت کے زمانے میں سرور جہاں آبادی کے منظوم تقاضے کے جواب میں مدیرِ مخزن کو ارسال کی گئی تھی۔ ادارتی شذرے میں اقبال کے یہ الفاظ نقل کیے گئے ہیں: ’’گو مصروفیت کا ابھی وہی عالم ہے لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ حضرت سرور، جنھوں نے میری خاموشی کو توڑنا چاہا ہے، کہیں ناراض نہ ہو جائیں، اس لیے ان کی نظم کے شکریے میں سردست یہ غزل بھیجتاہوں۔ امید ہے کہ عنقریب کچھ اور بھی بھیجوں گا۔‘‘۲۸۳؎ مخزن (دسمبر ۱۹۰۶ئ)میںاس غزل (چمک تیری عیاں بجلی میں آتش میں شرارے میں) کے ۱۲ شعر شائع ہوئے تھے۔ بانگِ درا میں کل ۸ رکھے گئے ہیں۔ اسی طرح بانگِ درا میں اپریل۱۹۰۶ء کی ایک غزل (ع: زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا) کے ۱۳ شعر درج ہیں۔ اس کے بعد دو متروک شعر باقیات میں ملتے ہیں۔۲۸۴؎ مارچ ۱۹۰۷ء کی غزل ، اس دور کی طویل ترین غزل ہے۔ لیکن بانگِ درا کے ۱۷ شعر کے علاوہ باقیات میں ایک متروک شعر اور موجود ہے۔۲۸۴؎ طوالت پسندی کے اس رجحان کے باوجود اقبال پر قافیہ پیمائی کا الزام عائد نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ باقی تین غزلیں شکستہ زمینوںمیں ہوتے ہوئے بھی مختصر ہیں اور ان میں سے دو غزلیں بے مطلع۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسمی غزل گوئی کی روایت سے آزاد ہونے کی کوشش جاری ہے۔ لیکن بعض اوقات جولانیِ طبع پُر گوئی سے باز نہیں آتی، جسے عموماً اُس دور میں عیب کے بجائے ہنر سمجھا جاتا تھا۔ (۲) موجودہ صدی کے اوائل میں جن نوجوان شعرا نے کلاسیکی شاعری کے زندہ اور صالح عناصر کو اپنے فن میں سمو کر غزل کے رنگ روپ کو نکھارنے اور سنوارنے میں حصہ لیا ، ان میں دو کو امتیازی مقام حاصل ہے۔ مولانا حسرت موہانی نے مذاقِ جدید کے مطابق عشقیہ واردات کے بیان میں خلوص ، واقعیّت اور ارضیت کا رنگ بھر کے کلاسیکی غزل کی آبرو رکھ لی۔ اقبال نے اپنی معنی آفرینی سے جدید غزل کو نئے ذہنی اُفق اور احساس و شعور کی نئی جہتوں سے آشنا کیا۔ گزشتہ دور کی طرح ان کی موجودہ دور کی غزلوں میں بھی فکری عنصر نمایاں ہے۔ اگرچہ تصوف کا نظریۂ وحدت الوجوداب بھی ان کے فکر کا محور رہا، لیکن اب ان کے متصّوفانہ خیالات و جذبات میں گہری معنویت اور اسلوب بیان میں جدّت و تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ مثلاً یہ اشعار ملاحظہ ہوں: رازِ ہستی راز ہے جب تک کوئی محرم نہ ہو کھل گیا جس دم تو محرم کے سوا کچھ بھی نہیں اگر کوئی شے نہیں ہے پنہاں تو کیوں سراپا تلاش ہوں میں نگہ کو نظارے کی تمنّا ہے، دل کو سودا ہے جستجو کا کمالِ وحدت عیاں ہے ایسا کہ نوکِ نشتر سے تو جو چھیڑے یقیں ہے مجھ کو گرے رگِ گل سے قطرہ انسان کے لہو کا جو ہے بیدار انساں میں وہ گہری نیند سوتا ہے شجر میں پھول میں حیواں میں پتھر میں ستارے میں نہیں جنسِ ثوابِ آخرت کی آرزو مجھ کو وہ سوداگر ہوں، میں نے نفع دیکھا ہے خسارے میں۲۸۴؎ تصوف کے دائرے سے ہٹ کر بھی زندگی کے مختلف مسائل و حقائق سے متعلق ان غزلوں میں حکیمانہ اشارات اور شاعرانہ نکتہ سنجی کی جابجا مثالیں ملتی ہیں: گل تبسم کہہ رہا تھا زندگانی کو مگر شمع بولی ، گریۂ غم کے سوا کچھ بھی نہیں جو موجِ دریا لگی یہ کہنے سفر سے قائم ہے شان تیری گُہر یہ بولا، صدف نشینی ہے مجھ کو سامان آبرو کا کوئی دل ایسا نظر نہ آیا نہ جس میں خوابیدہ ہو تمنا الٰہی! تیرا جہان کیا ہے، نگارخانہ ہے آرزو کا ریاضِ ہستی کے ذرّے ذرّے میں ہے محبت کا جلوہ پیدا حقیقتِ گل کو تو جو سمجھے تو یہ بھی پیماں ہے رنگ و بو کا۲۸۶؎ حسن کی تاثیر پر غالب نہ آ سکتا تھا علم اتنی نادانی جہاں کے سارے دانائوں میں تھی نیا جہاں کوئی اے شمع ڈھونڈیے کہ یہاں ستم کش تپشِ ناتمام کرتے ہیں۲۸۴؎ طنز، اقبال کے اسلوبِ تغزل کا ایک نمایاں پہلو ہے۔ ان چند غزلوں میں اس کے بھی دلکش نمونے موجود ہیں۔ کہیں کہیں مزاح کی شوخی و شگفتگی بھی ہے: زائرانِ کعبہ سے اقبال یہ پوچھے کوئی کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھی نہیں؟۲۸۷؎ تمام مضموں مرے پرانے، کلام میرا خطا سراپا ہنر کوئی دیکھتا ہے مجھ میں تو عیب ہے میرے عیب جُو کا بھلا نبھے گی تری ہم سے کیوں کر اے واعظ کہ ہم تو رسمِ محبت کو عام کرتے ہیں غرض نشاط ہے شغلِ شراب سے جن کو حلال چیز کو گویا حرام کرتے ہیں جو بے نماز کبھی پڑھتے ہیں نماز اقبال بُلا کے دیر سے مجھ کو امام کرتے ہیں۲۸۷؎ (۳) عموماً مارچ ۱۹۰۷ء کی غزل کو اقبال کے فکری انقلاب کی علامت قرار دیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سے ایک برس پہلے ہی مغربی تہذیب کی مادہ پرستی اور تعیش پسندی کے خلاف ان کے ذہن میں نفرت و بغاوت کی لہریں اٹھنے لگی تھیں۔ مثلاً اپریل ۱۹۰۶ء کی غزل کا یہ مطلع انقلابی افکار و جذبات کے طوفان تہہ نشیں کی خبر دے رہا ہے: زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا مری خموشی نہیں ہے گویا مزار ہے حرفِ آرزو کا۲۸۴؎ ابتدا میں انھوں نے مغربی زندگی کے ہنگاموں اور تہذیب و معاشرت کے رنگین کھلونوں کو شوق و تحیّر کی نگاہ سے دیکھا ہوگا لیکن رفتہ رفتہ وہاں کے دلکش تماشوں میں بھی انھیں افسردگی کا احساس ہونے لگا۔ اب وہ مغربی حکمت و دانش کے دردِ سر سے بیزار ہو کر پیرانِ مشرق کے درسِ عشق میں سکونِ خاطر حاصل کرتے ہیں: یوں تو اے بزم جہاں دلکش تھے ہنگامے ترے اک ذرا افسردگی تیرے تماشائوں میں تھی پا گئی آسودگی کوئے محبت میں وہ خاک مدتوں آوارہ جو حکمت کے صحرائوں میں تھی۲۸۹؎ ایک اور غزل کا آغاز بھی عشق و خرد کی کشمکش سے ہوتا ہے۔ اس غزل میں وحدتِ تاثر کی کیفیت تو نہیں لیکن ایک نئے اندازِ فکر و احساس اور ایک نئے رنگِ تغزل کی ابتدائی جھلک ضرور نظر آتی ہے۔ ابتدائی چار شعر ملاحظہ ہوں: الٰہی! عقلِ خجستہ پے کو ذرا سی دیوانگی سکھا دے اسے ہے سودائے پختہ کاری، مجھے سرِ پیرہن نہیں ہے ملا محبت کا سوز مجھ کو تو بولے صبحِ ازل فرشتے مثالِ شمعِ مزار ہے تو، تری کوئی انجمن نہیں ہے یہاں کہاں ہم نفس میسر، یہ دیس ناشناہے اے دل وہ چیز تُو مانگتا ہے مجھ سے کہ زیرِ چرخِ کہن نہیں ہے نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا بِنا ہمارے حصارِ ملّت کی اتّحادِ وطن نہیںہے ۲۹۰؎ آخری شعر میں، جس میں مغرب کے محدود وطنی تصور قومیت کے مقابلے میں ملت کے آفاقی تصور کی پائداری و استواری کا ذکر کیا گیا ہے، اقبال کے ذہنی سفر میںایک نئے موڑ کی واضح علامت ہے اور اس دور میں ان کے فکری انقلاب کی نشاندہی کے لیے تنہا یہی شعرکافی ہے۔ یہ فکری انقلاب اس نئے دور شاعری کا پیش خیمہ ضرور تھا لیکن نئی شاعری یا نئی غزل محض نئے افکار و تصورات سے جنم نہیں لیتی، یہ فکر اور جذبے کے امتزاج سے تشکیل پاتی ہے۔ جب اقبال کے یہ نئے افکار ایک واضح نصب العین کی صورت میں منظم ہو کر، ذہنی سطح سے دل کی گہرائیوں میں اتر گئے، اور ان کے وجدان و شعور میں ایک تلاطم برپا ہو گیا، تب مارچ ۱۹۰۷ء کی وہ غزل تخلیق ہوئی جسے بجا طور پر اقبال کی نئی شاعری اور نئے رنگِ تغزل کا نقطۂ آغاز کہا جا سکتا ہے۔ (۴) مولانا صلاح الدین احمد کے بقول یہ غزل ’’اقبال کی غزلیہ شاعری کے ارتقا میں ایک تاریخی حیثیت کی حامل ہے۔‘‘۲۹۱؎ تقریباً نصف صدی قبل ڈاکٹر ملک راج آنند نے ’’اقبال کی شاعری‘‘کے موضوع پر اپنے مقالے میں اس غزل کو ’’یورپ کے نام ان کا آخری پیام‘‘ اور ’’نئے کعبے کے مؤذن کی آواز‘‘۲۹۲؎ کہا تھا۔ غالباً اس غزل کی تاریخی حیثیت و اہمیت کا احساس خود اقبال کو بھی تھا۔ اسی لیے انھوں نے اس دور کی تمام شعری تخلیقات میں صرف اس غزل پر ’’مارچ ۱۹۰۷ئ‘‘ درج کرکے زمانۂ تصنیف کی صراحت کر دی۔ اگرچہ اس غزل میں کلاسیکی غزل کا مخصوص علامتی اسلوب اختیار کیا گیا ہے، لیکن اپنے انقلابی افکار، پر خروش آہنگ اور توانا لہجے کے لحاظ سے اس کو نہ صرف اقبال کی غزلیہ شاعری ، بلکہ اردو غزل کے ارتقا میں ایک تاریخی حیثیت حاصل ہے۔ اس غزل کی مجموعی فضا میں فکر و احساس کے تین اہم پہلو بہت نمایاں ہیں: (۱) زوالِ مغرب کی پیش گوئی (۲) اسلام اور ملتِ اسلامیہ کے احیائے نو کی نوید (۳) ادبی نصب العین کا اعلان۔ غزل کے بیشتر اشعار انھی پہلوئوں سے وابستہ ہیں۔ بقیہ اشعار، بظاہر پُر تکلف مضمون بندی کا نتیجہ معلوم ہوتے ہیں، لیکن غور کیجیے تو پوری غزل میں تلازمۂ خیال کا سلسلہ جاری ہے۔ جب کسی نصب العین سے گہرا قلبی لگائو ہو تو اس کے مخالف و موافق بہت سے عوامل سے لاگ اور لگائو کا رشتہ خود بخود پیدا ہو جاتاہے۔ یوں کہنا چاہیے کہ جس جذبے نے شاعر کے وجودِ معنوی میں ایک برق رَو دوڑادی ہے، اسی کی مثبت و منفی لہریں کم و بیش ہر شعر میں موجود ہیں۔ اشعار کی موجودہ ترتیب بدل کر ہم ان کے تحت الشعوری رشتوں کو جوڑ سکتے ہیں۔ غزل کے ابتدائی چند اشعار، شاعر کے جذبہ و فکر کے مثبت پہلو سے متعلق ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ وہ اس ذہنی سفر میں نفی کے مرحلے سے گزر کر اثبات تک پہنچا ہے۔ مغربی تہذیب کے ناقدانہ مطالعے سے اس کے فکری عمل کا آغاز ہوا۔ بالآخر وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اس انسانیت کش تہذیب کا خاتمہ یقینی ہے۔ غزل کے ساتویں شعر (’’دیارِ مغرب … زر کم عیار ہوگا‘‘)۲۹۳؎ میںاہلِ مغرب کی تاجرانہ ذہنیت پر طنز کرتے ہوئے دکان اور کھرے کھوٹے سکے کے موزوں تلازموں سے کام لیا گیا ہے۔ آٹھویں شعر (’’تمھاری تہذیب … ناپایدار ہو گا‘‘)۲۹۳؎ میں تعیش پسند اور مادہ پرست مغربی تہذیب کی بنیادی کمزوریوں کے لیے ’’شاخِ نازک‘‘ پر آشیانہ سازی کی تمثیل ، اس کے ناگزیر زوال کی دلیل بن گئی ہے۔ تاہم یہاں واضح تخاطب اور کھلی تہدید کا یہ انداز غزل کی اشاریت و عمومیت کے منافی ہے۔ ضربِ کلیم میں یہی بات تغزل کے بھرپور رچائو کے ساتھ یوں کہی گئی ہے: وہ بزمِ عیش ہے مہمانِ یک نفس دو نفس چمک رہے ہیں مثالِ ستارہ جس کے ایاغ۲۹۴؎ شاعر اس دور میں بھی غزل و تغزل کے آدابِ فن سے آشناہے لیکن اس کے دل میں تہذیبِ مغرب کے خلاف نفرت و بغاوت کا ایک طوفان امڈا ہوا ہے۔ اس عالم میں عموماً ’’گفتار کے اسلوب پر قابو نہیں رہتا‘‘ ، حیرت تو اس بات پر ہے کہ مشرق کے ترقی پسند نوجوان جس صنم کدئہ مغرب کے پرستار تھے اس پر وہ کس براہیمی شان سے ضرب کاری لگا رہا ہے۔ اب شاعر کے نزدیک عالم انسانیت کے لیے اسلام ہی واحد ذریعۂ نجات ہے، لہٰذا اسلام اور ملّتِ اسلامیہ کی نشأۃِ ثانیہ کا خواب ایک جیتی جاگتی حقیقت بن کر اس کی چشمِ تصور میں سما گیا۔ پہلے شعر سے پانچویں شعر تک وہ پورے یقین و اذعان کے ساتھ مستقبل میں احیائے اسلام کی بشارت دیتا ہے۔لیکن ابتدائی تین شعروں میں غزل کی جن مانوس علامتوں کو ذریعۂ اظہار بنایا گیا ہے(: ’’عام دیدارِ یار ہو گا‘‘، ’’ہر کوئی بادہ خوار ہو گا‘‘، ’’نیا خار زار ہو گا‘‘) ان سے ظاہرہوتا ہے کہ شاعر کا یہ خواب، اس عامیانہ تصور سے بلند ہے جس میں عہدِ ماضی کے شاہانہ جاہ و جلال اور اقتدار کی حسرتیں پنہاں ہوتی ہیں۔ اس کے خواب کی روح یہ ہے کہ آیندہ دور میں اسلام اور ملّت کی ’’شانِ جمالی‘‘ کا ظہور ہو گا۔ عجمیت اور ملوکیت کے پردے اٹھ جانے کے بعد اسلام کی خوبی و محبوبی سب کے دلوں کو مسخّر کرے گی۔ اب وہ امن، سلامتی اور عالمگیر اخوت و محبت کا پیغام لے کر ایک مستقل تحریک کی صورت میں مشرق سے مغرب تک چھا جائے گا۔ اسلام کے علم برداروں کی توانائیاں ایک نئے آدم اور ایک نئے عالم کی تعمیر میں صرف ہوں گی۔ اسی غزل کا تیرھواں شعر، شاعر کے ذاتی رجحان کے علاوہ خدمتِ انسانیت کے اس نصب العین کی بھی وضاحت کرتا ہے جسے اب وہ تصوف کے حوالے سے نہیں، بلکہ اسلام کے حوالے سے پیش کر رہا ہے: خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا چوتھے شعر میں (سنا دیا گوش منتظر کو … پھر استوار ہو گا) یہ مفہوم ادا کیا گیا ہے کہ جب مسلمان صحیح معنی میں حق پرست مسلمان بن جائیں گے تو ’’انتم الا علون‘‘ کا ربانی وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔ پانچویں شعر کے الفاظ(: ’’روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا … وہ شیر پھر ہو شیار ہوگا) سے شاید کسی کو یہ گمان گزرے کہ شاعر ملک گیری کی تاریخ کو دہرانا چاہتا ہے لیکن پہلے مصرعے میں اس عہد کی طرف اشارہ ہے جب مجاہدینِ اسلام سامراجیت کے باطل نظام سے مظلوم انسانیت کو نجات دلانے کے لیے دو عظیم ترین استبدادی قوتوں سے ٹکرائے تھے۔ دوسرے مصرعے کے ان الفاظ (سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے)سے ظاہر ہے کہ ’’وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا‘‘ کی نوید میں جارحیت یا تخریب کا کوئی پہلو نہیں بلکہ صرف یہ مراد ہے کہ اب مسلمان پھر شیرانہ عزم و جرأت اور اپنی قوتِ ایمانی سے کام لے کر عہدِ حاضر کے طاغوتی نظام کو نیست و نابود کر دیںگے۔ غزل کا نواں شعر (سفینۂ برگِ گل … دریا سے پار ہوگا) اسی سلسلے سے مربوط ہے۔ یہاں ’’مورِ ناتواں‘‘ اور ’’سفینۂ برگِ گل‘‘ کے استعاروں سے شاعر نے باطل کے طوفان میں گھرے ہوئے سفینۂ ملت کو ساحلِ مراد تک پہنچنے کی بشارت دی ہے۔ پندرھویں شعر میں احیائے ملت کے نصب العین کے لیے شاعر اپنی زندگی وقف کر دینے کا عزم ظاہر کرتا ہے۔ ’’شرر فشاں‘‘ اور ’’شعلہ بار‘‘ کے استعارے جہاں یہ اشارہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے پُرسوز نغموں اور نالوں سے ملّت کے پس ماندہ کارواں کے دلوں کو گرمائے گا، وہاں یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ وہ مایوسی کے اندھیروں میں امید کی روشنی بکھیر دے گا، نیز یہ بھی کہ اس کے کلام کا سوز و ساز وہ نورِ بصیرت عطا کرے گا جس سے ملت کے حقیقی جادہ و منزل کے نقوش واضح ہو جائیں گے۔ دسویں شعر( چمن میں لالہ … شمار ہو گا) میں قومی ہمدردی کے بلند بانگ دعووں سے اپنی قیادت کا رنگ جمانے والے رہنمائوں کا پردہ فاش کیا گیا ہے۔ اقبال کی شاعری کے مؤخر ادوار میں ’’لالہ‘‘ کی علامت کی معنوی حیثیت کچھ اور ہے۔ یہاں آتش کے اس شعر کی طرح: لہو مَل کے کُشتوں میں شامل ہوئے ہیں گل و لالہ و ارغواں کیسے کیسے ’’لالہ‘‘ کی علامت ان ریاکاروں کے لیے استعمال ہوئی ہے جن کے دل درد و سوز سے خالی ہیں لیکن وہ لالے کی طرح اپنے نمائشی داغ دکھا کر دل جلوں میں شمار ہونا چاہتے ہیں۔ بارھویں شعر (’’کہا جو قمری سے … راز دار ہوگا‘‘) کی علامتیں بھی سیاسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔قمری اور سرو، پھر سرو اور آزاد کی رعایت و مناسبت ظاہر ہے۔ جیسے سرو ’’آزاد‘‘ کہلانے کے باوجود زمین میں گڑا ہوا ، حرکت سے معذور ہے، اسی طرح حریت پسند رہنمائوں کا یہ حال ہے کہ ان کی سیاست بھی در پردہ انگریز کے اشاروں کی پابند ہے۔ سولھویں شعر میں اس حقیقت کا اظہار کیا گیا ہے کہ اگر کسی بلند نصب العین کے حصول کے بجائے انسان صرف اپنے نام و نمود کے لیے جد و جہد کرتا ہے تو اس کا وجود و نمود، شرارے کی چمک کی طرح عارضی ہوتا ہے۔ مقطع (’’نہ پوچھ اقبال… ستم کش انتظار ہوگا‘‘) میں جو بات کہی گئی ہے اس کے اعتراف و اظہار کی جرأت صرف اقبال جیسا بے ریا شاعر ہی کر سکتا تھا۔ پوری غزل میںاس نے اپنے افکار و جذبات کی ترجمانی کی ہے، اب وہ خود اپنے دل کی دکھتی رگ پرانگلی رکھتا ہے۔ وہ دل جس کے نہاں خانے میں ایک گوشہ کسی ’’مہمانِ عزیز‘‘ کے لیے خالی ہے۔ حاصلِ بحث یہ کہ جس طرح اس مختصر دور کے گونا گوں تجربات، اقبال کی شخصیت کی توسیع و تکمیل کا باعث ہوئے اور انگلستان و جرمنی میں سیرو تفریح کے اتنے مواقع اور ایسی صحبتیں میسر آئیں، جن کی یاد عرصۂ دراز تک ان کے لیے سرمایۂ نشاطِ روح بنی رہی؛ جس کے وسیع مطالعے اور مشاہدے کی بدولت اقبال کے ذہن و فکر کے زاویے بدل گئے اور وہ مغربی تہذیب کے ظلمات سے گزر کر اسلام کے سرچشمۂ حیات تک پہنچے، اسی طرح اُن کا فن بھی احساس وشعور کی ایک نئی جہت، ایک اعلیٰ نصب العین کے لیے سوز و ساز اور نئے آہنگ و انداز سے آشنا ہوا۔ صرف مارچ ۱۹۰۷ء کی یہ غزل ہی ایک نئے اسلوبِ غزل گوئی کا نقطۂ آغاز نہیں، ان نظموں کو دیکھیے؛ کیا ’’طلبۂ علی گڑھ کے نام‘‘ شاعر کے پیغام کا ابتدائی متن، مستقبل کے مفّکرِاسلام کے سیاسی فکر کا آئینۂ دار، اور ’’عبدالقادر کے نام‘‘ ان کے مستقبل کے نصب العین کا اعلامیہ نہیں ہے؟! /// کتابیات حصہ اوّل: موجودہ و گذشتہ ابواب کے مشترک مآخذ تصانیفِ اقبال:(شعری تخلیقات و دیگر نگارشات کے مجموعے اور ترجمے) ۱- اسرار و رموز ۲- اقبال نامہ حصہ اوّل ۳- اقبال نامہ حصہ دوم ۴-باقیاتِ اقبال ۵- بالِ جبریل ۶-بانگِ درا ۷- پیامِ مشرق ۸- شذراتِ فکرِ اقبال ۹- ضربِ کلیم ۱۰- مقالاتِ اقبال ۱۱- Thought and Reflections of Iqbal دیگر کتب: ۱۲- آثارِ اقبال ۱۳-اقبال درونِ خانہ ۱۴- اقبال، شاعراور فلسفی ۱۵-اقبال معاصرین کی نظر میں ۱۶- انوارِ اقبال ۱۷-اوراقِ گم گشتہ ۱۸- روزگارِ فقیر، جلد دوم ۱۹-ذکرِ اقبال ۲۰- ملفوظاتِ اقبال ۲۱-A History of Goverment Callege, Lahore. حصہ دوم: جدید مآخذ (الف) تصانیفِ اقبال (شعری تخلیقات و دیگر نگارشات کے مجموعے و ترجمے): ۱- جاوید نامہ (طبع ہفتم): لاہور، ۱۹۷۰ئ۔ ۲- زبورِ عجم (طبع نہم): لاہور، ۱۹۷۰ئ۔ ۳- فلسفۂ عجم : مترجم میر حسن الدین ، طبع ششم، کراچی، ۱۹۶۹ئ۔ 4- Development of Metaphysics in Persia (Edited by Prof. M. M. Sharif,) Second Editiion, Lahore. 5- Letters and Writings of Iqbal (Edited by B. A, Dar) Karachi, 1979. (ب) دیگر کتب: ۶- اخبار الاندلس، جلد اوّل (سکاٹ) مترجمہ مولانا خلیل الرحمان، لاہور، ۱۹۲۹ئ۔ ۷- ادب اور شعور، از ممتاز حسین ، لاہور، ۱۹۶۸ئ۔ ۸- اصلاحاتِ اقبال، مرتبہ محمد بشیر الحق دیسنوی، بانکی پور پٹنہ، ۱۹۵۰ئ۔ ۹- اقبال، از عطیہ بیگم، مترجمہ ضیاء الدین احمد برنی، کراچی، ۱۹۵۶ئ۔ ۱۰- اقبال ، از عطیہ بیگم، مترجمہ و مرتبہ عبدالعزیز خالد، لاہور، ۱۹۷۵ئ۔ ۱۱- اقبال کے اردو کلام میں اماکن (مقالہ ایم ۔ اے)، از ناہید سلطانہ، (غیر مطبوعہ، مخزولہ پنجاب یونیورسٹی لائبریری) ۱۲- اقبال یورپ میں، از ڈاکٹر سعید اختر درانی ، لاہور، ۱۹۸۴ئ۔ ۱۳- انسانیت کی تعمیر نو اور اسلام از پروفیسر عبدالحمید صدیقی، لاہور، ۱۹۵۶ئ۔ ۱۴- تاریخ اسلام، (مصنفہ سید امیر علی) مترجمہ باری علیگ، لاہور، طبع اوّل ۔ ۱۵- تاریخ تہذیب، حصہ اوّل، مترجمہ مولانا غلام رسول مہر، لاہور،۱۹۶۵ئ۔ ۱۶- تشکیلِ انسانیت، (مصنفہ رابرٹ بریفالٹ)، مترجمہ عبدالمجید سالک، لاہور، ۱۹۶۶ئ۔ ۱۷- تصوراتِ اقبال، از مولانا صلاح الدین احمد، لاہور، طبع ثانی، ۱۹۶۷ئ۔ ۱۸- چند یادیں چند تاثرات، از ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی، لاہور، ۱۹۶۹ء ۔ ۱۹- حیاتِ اقبال کا ایک جذباتی دور، پروفیسر محمد عثمان، لاہور، ۱۹۶۴ء ۔ ۲۰- حیاتِ اکبر، مرتّبہ مُلّا واحدی (مطبوعہ بزم اقبال، کراچی) ، کراچی، طبع اوّل ۔ ۲۱- سفرنامۂ اقبال، مرتّبہ حمزہ فاروقی، کراچی ، ۱۹۷۳ئ۔ ۲۲- کلامِ اقبال کا بے لاگ تجزیہ، از پروفیسر آسی ضیائی، لاہور، طبع اوّل۔ ۲۳- گفتارِ اقبال، مرتّبہ محمد رفیق افضل، لاہور ، ۱۹۶۹ئ۔ ۲۴- معرکۂ مذہب و سائنس، (مصنفہ ولیم جان ڈریپر) مترجمہ مولانا ظفر علی خاں، لاہور، ۱۹۱۰ئ۔ ۲۵- موجِ لآلی (مکاتیب جلد دوم)از مولانا سعید انصاری، لاہور، طبع اوّل۔ ۲۶- مولانا محمد علی (بحیثیت تاریخ اور تاریخ ساز) مرتبہ محمد سرور، لاہور، ۱۹۶۲ئ۔ ۲۷- میراثِ اسلام (مرتّبہ ٹامس آرنلڈ و الفریڈ گیا) مترجمہ عبدالمجید سالک، لاہور، ۱۹۶۰ئ۔ ۲۸- نذرِ اقبال، از شیخ عبدالقادر، مرتبہ محمد حنیف شاہد، لاہور، ۱۹۷۲ء ۔ 29- About Iqbal and his Thoughts, by Prof. M. M. Sharif, FirstEdition, Lahore. 30- Iqbal, The Great Poet of Islam, by Sh. Abdul Qadir (Edited by Muhammad Hanif Shahid) Lahore, 1967. 31- Ends and Means, by Aldous Huxley, Chatt & Windus, London, 1957. 32- The Poet of the East, by A. Anwar Beg, Lahore, 33- Quaid-e-Azam Jinnah, by G. Allana, Lahore, 1967. (ج) رسائل و جرائد: ۳۴- مجلہ اردو(دہلی)، اقبال نمبر ۱۹۳۸ئ، طبع جدید، ۱۹۴۰ئ۔ ۳۵- مجلہ اقبال، لاہور، جولائی۔ ستمبر، ۱۹۵۹ء ۔ ۳۶- مجلہ اقبال، لاہور، (شمارہ انگریزی)، جولائی۔ ستمبر، ۱۹۷۴ئ۔ ۳۷- مجلہ اقبال ریویو، کراچی، جنوری، ۱۹۷۴ئ۔ ۳۸- مجلہ مخزن، لاہور، اکتوبر، ۱۹۰۵ئ۔ ۳۹- مجلہ مخزن،لاہور، دسمبر، ۱۹۰۶ء ۔ ۴۰- مجلہ مخزن،لاہور، ستمبر، ۱۹۰۷ء ۔ ۴۱- مجلہ مخزن،، لاہور۔ مارچ ، ۱۹۰۸ء ۔ ۴۲- مجلہ مخزن،لاہور۔ اگست، ۱۹۰۸ء ۔ ۴۳- مجلہ مخزن،لاہور ۔ اکتوبر، ۱۹۰۸ء ۔ ۴۴- مجلہ نقوش، لاہور۔ شخصیات نمبر (۲) ، اکتوبر، ۱۹۵۶ء ۔ ۴۵- مجلہ نگارِ پاکستان، کراچی، سالنامہ ، ۱۹۶۲ء ۔ ۴۶- مجلہ ہمایوں، لاہور، فروری، ۱۹۵۳ء ۔ ۴۷- روز نامہ نوائے وقت، لاہور، مورخہ ، ۲۳ اپریل، ۱۹۶۷ئ۔ ۴۸- نوائے وقت میگزین، (روز نامہ نوائے وقت) مورخہ ۹ نومبر، ۱۹۸۴ئ۔ 49- The Dawn (Sunday Edition) Karachi, April 30, 1967. 50- The Pakistan Time, Lahore, April 21, 1961. /// حوالہ جات 1- Letters and Writings of Iqbal, p. 36. ۲- ذکرِ اقبال، ص ۲۴۔ 3- Thoughts and Reflections of Iqbal, p. 3,4 4- A History of Government College, Lahore, p.112. ۵- بانگِ درا، ص ۷۵۔ ۶- نذرِ اقبال، ص ۲۳۔ ۷- ایضاً، ص ۱۶۴ ۸- ایضاً، ص ۱۷۶۔ ۹- ملفوظاتِ اقبال، ص ۹۴،۹۵۔ ۱۰- مخزن،لاہور، اکتوبر ۱۹۰۵ئ، ص ۴۹۔ ۱۱- مقالاتِ اقبال،ص ۶۳،۶۴۔ ۱۲- ایضاً، ص ۶۳ تا ۸۳۔ ۱۳- ایضاً، ص ۶۶۔ ۱۴- ایضاً ، ص۶۷۔ ۱۵- ایضاً ،ص ۶۸۔ ۱۶- ایضاً، ص ۷۳۔ ۱۷- ایضاً ،ص۷۴، ۷۵۔ ۱۸- ایضاً ، ص ۷۶، ۷۷۔ ۱۹- ایضاً، ص ۷۸۔ ۲۰- ایضاً، ص ۸۶۔ ۲۱- ایضاً، ص ۸۳۔ 22- Iqbal, by Sh. Abdul Qadir, p.19. ۲۳- اقبال نامہ، حصہ دوم، ص ۳۵۳۔ ۲۴- ہمایوں، لاہور، فروری ۱۹۵۳ئ، ص ۱۵۸۔ ۲۵- ایضاً، ص ۱۵۹۔ ۲۶- مخزن،ستمبر ۱۹۰۷ئ۔ ص۱ ۔ ۲۷- ایضاً، ص ۲۔ ۲۸- ایضاً، ص ۷۔ 29- About Iqbal and his Thoughts, p.12. ۳۰- چندیادیں چند تاثرات، ص ۳۰۲۔ 31- Thoughts and Reflections of Iqbal, p.116. 32- Ditto, p.124. ۳۳- سفرنامۂ اقبال، ص ۶۷۔ ۳۴- نقوش، لاہور، شخصیات نمبر۲، اکتوبر ۱۹۵۶ء ، ص ۱۴۱۴۔ ۳۵- ایضاً، ص ۱۴۱۸۔ ۳۶- روزگارِ فقیر، جلد دوم، ص ۹۳۔ ۳۷- نذرِ اقبال، ص ۱۴۷۔ ۳۸- مخزن،مارچ، ۱۹۰۸ئ۔ ص ۸۔ ۳۹- اقبال،از عطیہ بیگم (مترجمہ برنی) ، ص ۹۔ ۴۰- ایضاً، ص ۱۱۔ ۴۱- ایضاً، ص ۱۲۔ ۴۲- ایضاً، ص ۷۔ ۴۳- ایضاً، ص ۱۲۔ 44- Iqbal, by A. Qadir, P. 19. 45- Letters and Writings of Iqbal, P. 24 . 46- Iqbal, by A. Qadir, P. 19. ۴۷- اقبال، از عطیہ بیگم (مترجمہ برنی)، ۱۵۔ ۴۸- ایضاً، ص ۱۵۔ ۴۸- ایضاً ، ص ۱۶۔ ۴۹- ایضاً، ص ۱۷۔ ۵۰- ایضاً، ص ۱۷، ۱۸۔ ۵۱- ایضاً، ص ۸۴۔ ۵۲- ایضاً، ص ۲۸۔ ۵۳- نوائے وقت، لاہور، مورخہ ۲۳ ، اپریل، ۱۹۶۷ئ، ص ۳۔ ۵۴- اقبال، از عطیہ بیگم ، (مترجمہ برنی)، ص ۴۔ ۵۵- ایضاً، ص ۸۶۔ ۵۶- ایضاً، ص ۲۳۔ ۵۷- ایضاً، ص ۲۶۔ ۵۸- ایضاً ، ص ۲۶، ۲۷۔ ۵۹- ایضاً،(ڈائری)، ص ۹۲۔ ۶۰- ایضاً، ص ۹۲، ۹۳۔ ۶۱- ایضاً، ص ۹۴۔ ۶۲- ایضاً ، ص ۲۹۔ ۶۳- ایضاً، ص ۲۳۔ ۶۵- ایضاً، ص ۱۷، ۱۸۔ ۶۶- روزگارِ فقیر، جلد دوم(عکس ڈگری)، ص ۶۶،۶۷۔ ۶۷- اقبال نامہ، حصہ دوم، ص۳۵۸۔ 68- The Poet of East, P.18 . 69- Ditto, P.17, 18 . 70- Ditto, P. 19. ۷۱- ذکرِ اقبال، ص ۷۲۔ ۷۲- نذرِ اقبال، ص ۸۹۔ ۷۳- اقبال، از عطیہ بیگم (مترجمہ برنی) ، ص۱۶۔ ۷۴- ملفوظاتِ اقبال، ص ۵۱، ۵۲۔ ۷۵- آثارِ اقبال، ص ۲۹ تا ۴۱۔ ۷۶- ایضاً، ص ۶۲۔ ۷۷- ملفوظاتِ اقبال، ص ۳۱۴۔ ۷۸- آثارِ اقبال، ص ۳۱۴۔ نیز، ص ۵۸،۵۹۔ 79- The Pakistan Times, April 21,1961 ("My Preceptor" by Afazl Hussain), P.IV. ۸۰- آثارِ اقبال، ص ۶۰۔ ۸۱- اقبال، از عطیہ بیگم (مترجم برنی) ، ص ۷۔ ۸۲- ایضاً، ص ۱۳۔ ۸۳- آثارِ اقبال، ص ۶۰۔ ۸۴- اقبال از عطیہ بیگم (مترجمہ برنی)، ص ۱۹، ۲۰۔ ۸۵- ایضاً، ص ۸۲، ۸۳۔ ۸۶- ایضاً ، ص ۷۰۔ ۸۷- ایضاً، ص ۲۷۔ ۸۸- ایضاً ، ص ۱۵۔ ۸۹- ایضاً، ص ۱۲۔ ۹۰- ایضاً، ص ۳۰۔ ۹۱- ایضاً ، ص ۱۴۔ 92- The Pakistan Times, April, 21, 1961,P. IV. ۹۳- اقبال، از عطیہ بیگم (مترجمہ برنی) ، ص ۳۷۔ ۹۴- اقبال درونِ خانہ، ص ۹۲۔ ۹۵- حیاتِ اکبر، ص ۱۱۱۔ ۹۶- مولانا محمد علی بحیثیت تاریخ اور تاریخ ساز، ص ۸۳، ۸۷۔ ۹۷- زبورِ عجم، ص ۳۶۔ ۹۸- بانگِ درا، ص ۵۹۔ ۹۹- اقبال از عطیہ بیگم (مترجمہ برنی)، ص ۷ ۔ ۱۰۰- شبلی کی حیاتِ معاشقہ، ص ۱۰۱۔ ۱۰۱- اقبال، از عطیہ بیگم، (مترجمہ برنی)، ص ۱۰۔ ۱۰۲- بانگِ درا، ص ۱۶۔ ۱۰۳- اقبال، از عطیہ بیگم، خالد ایڈیشن، ص ۱۵۔ ۱۰۴- روز نامہ ڈان ، کراچی، ۳ ؍اپریل ۱۹۶۷ء ، ص ۱۵۔ ۱۰۵- اقبال ، از عطیہ بیگم(مترجمہ برنی)، ص ۹۔ ۱۰۶- ایضاً، ص ۱۱۔ ۱۰۷- ایضاً، ص ۱۷۔ ۱۰۸- بانگِ درا، ص ۱۱۳۔ ۱۰۹- شبلی کی حیاتِ معاشقہ، ص ۶۵۔ ۱۱۰- اقبال، از عطیہ بیگم (مترجمہ برنی)، ص ۱۸۔ ۱۱۱- ایضاً ، ص ۱۹۔ ۱۱۲- ایضاً، ص ۸۵۔ ۱۱۳- ایضاً، ص ۱۹، ۲۰۔ ۱۱۴- روز نامہ ڈان، ص ۱۵۔ ۱۱۵- اقبال، از عطیہ بیگم (مترجمہ برنی) ، ص ۲۱۔ ۱۱۶- ایضاً ،ص ۳۰ ۔ ۱۱۷- ایضاً،خالد ایڈیشن، ص ۳۲۔ ۱۱۸- روز نامہ ڈان، ص ۱۵۔ ۱۱۹- اقبال،از عطیہ بیگم (مترجمہ برنی)، ص ۳۱۔ ۱۲۰- روز نامہ ڈان، ص ۱۵۔ ۱۲۱- اقبال، از عطیہ بیگم، خالد ایڈیشن، ص ۵۹۔ ۱۲۲- ایضاً، ص۶۳۔ ۱۲۳- شذراتِ فکرِ اقبال، ص ۸۵۔ ۱۲۴- ایضاً، ص ۱۲۳۔ ۱۲۵- ایضاً، ص۱۴۸۔ ۱۲۶- اقبال یورپ میں، ص ۱۳۷۔ ۱۲۷- شذراتِ فکرِ اقبال، ص ۱۱۷۔ ۱۲۸- پیامِ مشرق، ص ۲۰۶۔ ۱۲۹- بانگِ درا، ص ۱۲۹۔ ۱۳۰- آثارِ اقبال، ص ۶۰، ۶۱۔ ۱۳۱- اقبال یورپ میں، ص ۹۵۔ ۱۳۲- باقیاتِ اقبال، ص ۳۲۳۔ ۱۳۳- مقالاتِ اقبال، ص ۷۹۔ ۱۳۴- اقبال، از عطیہ بیگم، خالد ایڈیشن، ص ۵۰۔ ۱۳۵- شذراتِ فکرِ اقبال، ص ۱۵۰۔ ۱۳۶- نوائے وقت میگزین، ۹؍نومبر ۱۹۸۴ء ، ص ۷۔ ۱۳۷- اقبال یورپ میں، ص ۱۰۹، ۱۱۰۔ ۱۳۸- ایضاً ، ص ۱۱۱۔ ۱۳۹- ایضاً، ص ۱۱۲۔ ۱۴۰- ایضاً، ص ۱۱۴۔ ۱۴۱- ایضاً، ص ۱۱۴، ۱۱۵۔ ۱۴۲- ایضاً، ص ۱۱۶، ۱۱۷۔ ۱۴۳- ایضاً، ص ۱۱۹، ۱۲۰۔ ۱۴۴- ایضاً، ص ۱۲۱، ۱۲۲۔ ۱۴۵- ایضاً، ص ۱۲۳۔ ۱۴۶- ایضاً، ص ۱۲۵۔ ۱۴۷- اقبال نامہ ، حصہ دوم، ص ۳۶۰۔ ۱۴۸- اقبال،از عطیہ بیگم، خالد ایڈیشن، ترجمہ انگریزی متن، ص ۱۰،۹۔ ۱۴۹- ایضاً، ص ۱۴۔ ۱۵۰- ایضاً ، ص ۵،۶ ۔ ۱۵۱- ایضاً ، ۱۱ ۔ ۱۵۲- بانگِ درا، ص ۹۶۔ ۱۵۳- ایضاً، ص ۱۴۲۔ ۱۵۴- اقبال یورپ میں، ص ۱۲۶۔ ۱۵۵- اقبال نامہ، حصہ دوم، ص ۳۴۔ ۱۵۶- زندہ رُود، ص ۱۶۷۔ ۱۵۷- اقبال یورپ میں، ص ۱۳۰۔ ۱۵۸- ایضاً ، ص ۱۳۱، ۱۳۲۔ ۱۵۹- ایضاً، ص ۱۳۳۔ ۱۶۰- نوائے وقت میگزین، ۹؍نومبر ۱۹۸۴ء ۔ ۱۶۱- اقبال یورپ میں، ص ۱۳۵۔ ۱۶۲- ایضاً، ۱۳۷۔ ۱۶۳- اسرارِ خودی، ص ۷۸۔ ۱۶۴- بانگِ درا، ص ۱۳۰۔ ۱۶۵- بانگِ درا، ص ۱۹۸، ۱۹۹۔ ۱۶۶- فلسفۂ عجم، ص ۹۔ 167- Development of Metaphysics in Persia (Preface) . ۱۶۸- فلسفۂ عجم، ص ۴۷۔ ۱۶۹- ایضاً، ص ۶۱،۱۰۳۔ ۱۷۰- مجلہ اقبال، جولائی ۱۹۵۹ئ، ص ۹ تا ۱۱۔ ۱۷۱- فلسفۂ عجم، ص ۱۶۔ ۱۷۲- ایضاً ، ص ۱۳۱ تا ۱۳۴۔ ۱۷۳- ایضاً، ص ۱۳۵ تا ۱۳۸۔ 174- Thoughts and Reflecions of Iqbal, P.118 . ۱۷۵- اقبال نامہ ، حصہ دوم، ص ۳۵۳۔ ۱۷۶- فلسفۂ عجم، ص ۱۴۳، ۱۴۵۔ ۱۷۷- ایضاً، ص ۱۴۵۔ ۱۷۸- انوارِ اقبال، ص ۲۶۸ تا ۲۷۷۔ ۱۷۹- فلسفۂ عجم، ص ۱۴۷۔ ۱۸۰- بانگِ درا، ص ۱۳۸۔ 181- Quaid-e-Azam Jinnah P.64 ۱۸۲- انوارِ اقبال، ص ۲۵ تا ۳۱۔ ۱۸۳- ایضاً، ص۱۷۲۔ ۱۸۴- گفتارِ اقبال، ص ۲۵۴۔ ۱۸۵- تشکیلِ انسانیت، ص ۱۷۱۔ ۱۸۶- ایضاً، ص ۲۲۷۔ ۱۸۷- معرکۂ مذہب و سائنس ، ص ۳۵۱، ۳۷۳، ۳۸۹۔ ۱۸۸- ایضاً، ص ۳۱۵، ۳۶۷۔ ۱۸۹- ایضاً، ص ۳۶۵، ۳۷۵۔ ۱۹۰- ایضاً، ص ۲۹۱، ۳۷۳، ۳۷۴، ۳۸۰۔ ۱۹۱- ایضاً، ص ۳۶۶۔ ۱۹۲- تاریخ اسلام (امیر علی)، ص ۱۳۶۔ ۱۹۳- ایضاً، ۱۳۹۔ ۱۹۴- میراثِ اسلام، ص ۷۔ ۱۹۵- اخبار الاندلس، جلد اوّل، ص ۵۱۳۔ ۱۹۶- تشکیلِ انسانیت، ص ۳۱۵۔ ۱۹۷- بانگِ درا، ص ۱۵۶۔ ۱۹۸- تشکیلِ انسانیت، ص ۲۹۲۔ ۱۹۹- معرکۂ مذہب و سائنس، ص ۲۸۶۔ ۲۰۰- ایضاً، ص ۲۹۸۔ ۲۰۱- ایضاً، ص ۲۳۸، ۲۵۰۔ ۲۰۲- ایضاً، ص ۲۹۴، ۲۹۵۔ ۱۰۳- ایضاً، ص ۲۹۶، ۲۹۸۔ ۲۰۴- تاریخ تہذیب،حصہ اوّل، ص ۵۶۱۔ ۲۰۵- انسانیت کی تعمیر نو اور اسلام، ص ۳۶۔ ۲۰۶- ایضاً، ص ۳۸،۳۹۔ ۲۰۷- بانگِ درا، ص ۱۵۰۔ ۲۰۸- تاریخ تہذیب، حصہ اوّل، ص ۵۵۵، ۵۵۶۔ ۲۰۹- اسرار و رموز، ص ۱۳۴۔ ۲۱۰- ضربِ کلیم، ص ۱۵۴۔ 211- Ends and Means, P.97,98 . ۲۱۲- بانگِ درا، ص ۱۷۴۔ ۲۱۳- ایضاً ،ص ۱۴۴۔ ۲۱۴- مقالاتِ اقبال، ص ۲۲۲۔ ۲۱۵- بانگِ درا، ص ۱۵۲۔ ۲۱۶- باقیاتِ اقبال، ص ۳۵۱۔ ۲۱۷- ایضاً،ص ۱۱۷، ۱۴۰۔ ۲۱۸- گفتارِ اقبال، ص ۲۳۵۔ ۲۱۹- اقبال نامہ، حصہ اوّل، ص ۴۶۸، ۴۶۹۔ ۲۲۰- اقبال (شمارئہ انگریزی)، جولائی ۱۹۷۴ء ، ص ۴۰، ۴۱۔ ۲۲۱- بانگِ درا، ص ۱۳۸۔ ۲۲۲- اقبال، از عطیہ بیگم۔ ۲۲۳- اقبال معاصرین کی نظر میں، ص ۱۱۰۔ ۲۲۴- رسالہ اردو، اقبال نمبر، طبع جدید، ص۱۹۶۔ ۲۲۵- آثارِ اقبال، ص ۷۵۔ ۲۲۶- بانگِ درا، ص ۱۱۷، ۱۴۷۔ ۲۲۷- ایضاً، ص ۱۲۸، ۱۴۷۔ ۲۲۸- فلسفۂ عجم، ص۶۲۔ ۲۲۹- ایضاً، ص ۱۵۷۔ ۲۳۰- بانگِ درا، ص ۱۲۵۔ ۲۳۱- ایضاً، ص ۲۳۔ ۲۳۲- ایضاً، ص ۱۴۶۔ ۲۳۳- ایضاً، ص ۱۱۶۔ ۲۳۴- اسرار و رموز، ص ۲۰۰۔ ۲۳۵- جنسی تعلقات کی نفسیات، از تھیوڈور بک، بحوالہ حیات ِ اقبال کا ایک جذباتی دور، ص ۹۷ ، ۹۸۔ ۲۳۶- بانگِ درا، ص ۱۲۱، ۱۲۲۔ ۲۳۷- موجِ لآلی، ص ۵۷۔ ۲۳۸- مقالاتِ اقبال، ص ۷۹۔ ۲۳۹- بانگِ درا، ص ۱۴۸۔ ۲۴۰- ایضاً، ص ۱۳۳۔ ۲۴۱- ایضاً، ص ۱۱۸۔ ۲۴۲- ایضاً، ص ۱۳۵۔ ۲۴۳- ایضاً، ص ۱۳۶، ۱۳۷۔ ۲۴۴- ایضاً، ص ۱۲۳،۱۲۴۔ ۲۴۵- ایضاً، ص ۱۲۶۔ ۲۴۶- ایضاً، ص ۱۲۷۔ ۲۴۷- ایضاً، ص ۱۳۰۔ ۲۴۸- پیامِ مشرق، ص ۱۴۸، ۱۴۹۔ 249- Thoughts and Reflections, P. 124. ۲۵۰- بانگِ درا، ص ۱۱۵، ۱۱۶۔ ۲۵۱- اقبال ریویو، جنوری ۱۹۷۴ء ،ص ۳۔ ۲۵۲- بانگِ درا، ص ۱۱۶، ۱۱۷۔ ۲۵۳- اقبال، شاعراور فلسفی، ص ۱۲۱۔ ۲۵۴- ادب اور شعور، ص ۸۳۔ ۲۵۵- بانگِ درا، ص ۱۲۱، ۱۲۲۔ ۲۵۶- ایضاً، ص۱۳۴، ۱۳۵۔ ۲۵۷- ایضاً، ص ۱۳۷۔ ۲۵۸- ایضاً، ص ۱۳۹۔ ۲۵۹- ایضاً، ص ۱۲۳، ۱۲۴۔ ۲۶۰- ایضاً، ص ۱۲۷ ا۲۶- ایضاً،ص ۱۳۷۔ ۲۶۲- ایضاً، ص ۱۳۶۔ 263- Iqbal, July 1974, P.47. ۲۶۴- بانگِ درا، ص ۱۱۹۔ ۲۶۵- ایضاً، ص ۳۱۸۔ ۲۶۶- باقیاتِ اقبال، ص ۴۳۴۔ ۲۶۷- مخزن،جون ۱۹۰۷ئ، ص ۵۷، ۵۸۔ ۲۶۸- اسرار و رموز، ص ۱۸۔ ۲۶۹- بانگِ درا، ص ۱۳۷، ۱۳۸۔ ۲۷۰- بالِ جبریل، ص ۱۰۱۔ ۲۷۱- مخزن،اکتوبر ۱۹۰۸ئ، ص ۵۸۔ ۲۷۲- بانگِ درا، ص ۲۱۱۔ ۲۷۳- اسرار و رموز، ص ۴۲۔ ۲۷۴- بانگِ درا، ص ۱۴۰۔ ۲۷۵- باقیاتِ اقبال، ص ۳۵۱۔ ۲۷۶- پیامِ مشرق، ص ۲۵۲۔ ۲۷۷- مخزن،اگست ۱۹۰۸ئ، ص ۶۳۔ ۲۷۸- اقبال کے اردو کلام میں اماکن، ص ۱۵۲، ۱۵۳۔ ۲۷۹- بانگِ درا، ص ۱۴۱۔ ۲۸۰- اصلاحاتِ اقبال، ص ۵۵،۵۶۔ ۲۸۱- جاوید نامہ، ص ۸۵۔ ۲۸۲- روزگارِ فقیر، جلد دوم، ص ۲۶۶، باقیاتِ اقبال، ص ۴۵۴۔ ۲۸۳- مخزن،دسمبر ۱۹۰۶ئ۔ ۲۸۴- باقیاتِ اقبال، ص ۴۴۹ تا ۴۵۱۔ ۲۸۵- بانگِ درا، ص ۱۴۳، ۱۴۵ تا ۱۴۷۔ ۲۸۶- ایضاً، ص ۱۴۴، ۱۴۵ تا ۱۴۸۔ ۲۸۷- ایضاً، ص ۱۴۳، ۱۴۶، ۱۴۸، ۱۴۹ ۔ ۲۸۸- ایضاً، ص ۱۴۵۔ ۲۸۹- ایضاً، ص۱۴۸۔ ۲۹۰- ایضاً، ص ۱۴۳، ۱۴۴۔ ۲۹۱- تصوراتِ اقبال، ص ۲۱۸۔ ۲۹۲- اقبال معاصرین کی نظر میں، ص ۲۷۹، ۲۸۰۔ ۲۹۳- بانگِ درا، ص ۱۴۹ تا ۱۵۲۔ ۲۹۴- ضربِ کلیم، ص ۸۵۔ /// بسا۔۲۰۱؎ ۱۶۰۰ء میں برونو بھی اسی جرم میں زندہ جلایا گیا۔۲۰۱؎ ………پرنٹ کا ، باب۳ صفحہ۸۶ ہی میں شروع ہو چکا۔/ / [* یہاں دیگر تفصیلات سے قطع نظر حواشی نمبر درست کروانے ہیں، …اشعار میں لگائے گئے ہیں، عام اعراب نہیں لگائے گئے ۔ / الف آتش لکھنوی، خواجہ حیدر علی: آدم علیہ السلام، حضرت: آرنلڈ، پروفیسر ٹامس: آریہ سماج، تحریک: آزاد، ابوالکلام : آزاد، محمد حسین: آسکر وائلڈ: آشوب، پیارے لال: آفتاب اقبال: آل انڈیا مسلم (لندن شاخ): ابراہیم علیہ السلام، حضرت: ابراہیم میر سیالکوٹی، مولوی: ابن بدروں: ابن سینا (بوعلی سینا)، حکیم : ابن عربی، شیخ محی الدین : ابن مسکویہ : ابوالحسن علی ندوی، مولانا سید: ابوبکر صدیق، حضرت: اپیقورس : اثر لکھنوی، نواب جعفر علی خاں: احسن مارہروری، پروفیسر، مولانا : احمد الدین وکیل، مولوی: احمد بخش، مولوی : احمد حسین خاں احمد، خان : احمد شجاع، حکیم : احمد میاں اختر، جونا گڑھی : احیائے علوم، تحریک : احیائے ملت ، تحریک۔ رک: ارسطو، حکیم : ارشد گورگانی، مرزا : اسماعیل میرٹھی، مولانا محمد: اسلامیہ کالج پشاور : اسلامیہ کالج لاہور: اسلامیہ یونیورسٹی، بہاول پور: اشاعرہ (دبستانِ فکر): اُشر، جی ۔ بی، پروفیسر : اصلاحِ کلیسا، تحریک : اظہر، اے۔ ڈی: اعجاز احمد، شیخ: افغانی: افلاطون، حکیم: اقبال لٹریری ایسوسی ایشن، لندن : اکبر الہ آبادی : اکبر حسین قریشی، ڈاکٹر : اکبر ، شیخ محمد: اکبر علی خاں : اکرام ، شیخ محمد : اکرام چغتائی، ڈاکٹر محمد : الحاد، تحریک (سائنٹفک مادیت) : الجیلی، عبدالکریم : العروۃ الوثقیٰ : اللہ داد، شیخ (مرید کیسر شاہ): المامون، خلیفہ : امان اللہ ہوبوہم : امام بی بی (والدۂ اقبال) امجد علی بیگ، ڈاکٹر مرزا : امیر بیگم : امیر علی، جسٹس، سید : امیر مینائی، منشی امیر احمد: امین حزیں سیالکوٹی، محمد شیخ پال: امین الدین ، حکیم (بیرسٹر): انا بوتھ سمس : انجمن اتحاد(بھاٹی گیٹ، لاہور) : انجمن اخوان الصفا (علی گڑھ کالج): انجمن الفرض (ڈیوٹی سوسائٹی، علی گڑھ کالج): انجمن اسلامیہ، لاہور: انجمن پنجاب، لاہور: انجمن حمایت اسلام، لاہور : انجمن کشمیری مسلمانانِ لاہور: اندیا آفس لائبریری، لندن: انڈین ایسوسی ایشن، لاہور: انڈین نیشنل کانگریس : انسٹی ٹیوٹ گزٹ، علی گڑھ : انشاہ اللہ خاں، مولوی (مدیر اخبار ’’وطن‘‘): انصاری ، ڈاکٹر : انگوئیزیشن (ادارٖۃ احتسابِ عقاید) : انور بیگ، مرزا : انور سدید، ڈاکٹر: انیس لکھنوی، میر ببر علی: اورنگ زیب عالمگیر شہنشاہ: اورینٹل سکول، لاہور: اورینٹل کالج لاہور، یونیورسٹی: اورینٹل یونیورسٹی (تحریک): ایاز (غزنوی): ایڈلر (ماہر نفسیات): ایڈورڈس، ایم۔ بی (شاعر): ایما ویگے ناسٹ، مس : ایمرسن : ب باقر، ڈاکٹر محمد، رک : بانمیک : بائرن، لارڈ : بدھ، مہاتما گوتم : بڈ شاہ، سلطان زین العابدین : برائون، ڈاکٹر: برگساں: برونو : برہمو سماج (تحریک) بریفالٹ، رابرٹ: بشیر احمد ڈار: بشیر حیدر، سید : بلالؓ، حضرت: بلبل شاہ، حضرت سید عبدالرحمان: بلوم فیلڈ، پروفیسر : بلھے شاہ : بہاول خاں، نواب محمد (پنجم عباسی): بہاء اللہ : بھگتی تحریک : بیدل، مرزا عبدالقادر: بیخود دہلوی: بیک ، تھیوڈور (سابق پرنسپل علی گڑھ : بیک، مس اے۔ جی : بیکن، راجر: بیکن، سر فرانسس : بیل، ڈبلیو، پروفیسر : بین الملی تحریک : پ پاپائیت : پان اسلامک سوسائتی (لندن): پرارتھنا سماج، تحریک : پروٹسٹنٹ، تحریک: پنجاب اسمبلی : پنجاب یونیورسٹی: پوپ (شاعر): پیارے لال آشوب : پیسہ اخبار، لاہور : ت تاثیر، ڈاکٹر محمد الدین: تسلیم، منشی امیر اللہ : تقی شاہ، سید محمد: تہذیب الاخلاق : تہذیب النسواں، لاہور، (رسالہ): تھیوڈور شولر (ماہرِ معاشیات): تھیکرے : ٹ ٹالسٹائے (ٹالسٹائی) : ٹامس کک (مالک جہازراں کمپنی): ٹامس مور: ٹائن بی : ٹرینٹی کالج کیمبرج : ٹرینڈ، جے۔ بی: ٹینی سن، لارڈ : ث ثناء اللہ امرتسری، مولوی : ج جاوید اقبال، ڈاکٹر، جسٹس : جگر مراد آبادی : جلال الدین ، چودھری: جلال الدین ، مرزا (بیرسٹر): جلیل لکھنوی، میر : جلیل مینائی: جماعت علی شاہ، حضرت پیر: جمال الدین افغانی، علامہ سید: جمال الدین، شیخ : جمشید (جم) شہنشاہ: جوڈ، پروفیسر سی ۔ ایم : جوہر، مولانا محمد علی : جہانگیر، شہنشاہ نور الدین : جھنڈے خاں : جیا رام، لالہ (پروفیسر): جیمز کلارک : جیمز وارڈ : جین ٹیلر : چ چانکیہ، مہاراج : چشتی: رک معین الدین چشتی، حضرت خواجہ : چکبست، پنڈت برج نرائن : چنگیز : چیپ مین : ح حافظ شیرازی، خواجہ : حالی، مولانا الطاف حسین : حامد حسین قادری، پروفیسر: حبیب الرحمان شروانی، مولانا : حجاب امتیاز علی: حسام الدین، میر: حسرت موہانی ، مولانا : حسن اختر ، راجہ : حسن الدین، میر: حسن نظامی ، خواجہ : حسینؓ، سید الشہداء حضرت امام: حمید احمد خاں، پروفیسر: خ خاقانی شروانی (ناظمِ شروان): خالد نذیر صوفی : خضر علیہ السلام ، حضرت : خلافتِ عثمانیہ : خلیل اللہ :رک: ابراہیم علیہ السلام، حضرت خوشیا، چا چا (خوشی محمد ): خوشی محمد ناظر : رک : ناظر، خوشی محمد : د دارا (شہنشاہ ایران ): دارا شکوہ: داغ دہلوی، نواب مرزا : دبستانِ لکھنؤ: دبستانِ دہلی : دل محمد دل ، خواجہ : دیا نرائن لگم، منشی : دیمافریطس : ڈ ڈارون : ڈالنجر، پی۔ جی ۔ پروفیسر: ڈرائیڈن : ڈریپر، ڈاکٹر جان ولیم : ڈوزی : ڈی ۔ اے ۔ وی کالج، لاہور : ڈیکارٹ : ڈینی سن راس، سر: ذ ذکاء اللہ دہلوی، منشی : ذکی شاہ: رک: محمد زکی شاہ، سید: ذوق، شیخ محمد ابراہیم : ر رابرٹسن سمتھ، پروفیسر : رابسن، پرنسپل : راجرز، سیمویل: راڈرک (شاہ سپین): رازی ، امام فخر الدین : راقم مشہدی : راما کرشنا مشن: رام تیرتھ، سوامی: ران، پروفیسر : ران، فرولائن: رستم (پہلوان): رشید احمد صدیقی: رو دفورڈ: رودکی : روسو : رومانی تحریک : رومی، مولانا جلال الدین : رئیس احمد جعفری : ریاض الحسن ، ڈاکٹر: ریاض خیر آبادی : رینچن ، بدھ راجا: ز زبیراحمد قریشی، پروفیسر، حافظ: زرتشت: زلیخا: زہرہ فیضی: اینب بی بی (خواہر اقبال): زین العابدین،سلطان : رک :بڈ شاہ: س ساروکن، پروفیسر: سالک، مولانا عبدالمجید: سائل دہلوی، نواب: سپینوزا: سٹائن، ڈاکٹر سر مارک آرل: سٹپ (Stubb) : سٹرائن، ڈاکٹر اے۔ ڈبلیو: سٹیڈ، ڈبلیو۔ ٹی: سجاد حیدر یلدرم: سجوک: سراج الدین، منشی: سردار بیگم (والدئہ جاوید اقبال): سرداری لال، لالہ: سرور جہاں آبادی: سروینٹس : سری رام ، لالہ : سعدی شیرازی، حضرت شیخ: سعدی: سعید اختر درانی، ڈاکٹر: سقراط، حکیم: سکاٹ، ڈی۔ ایل: سکاٹ ، ڈاکٹر ولیم: سکاٹ، سر والٹر: سکاچ مشن سکول سیالکوٹ: سکاچ مشن کالج، سیالکوٹ: سکندر اعظم : سکندر خاں: سکول آف اورینٹل سٹڈیز، لندن یونیورسٹی: سلیم اختر، ڈاکٹر: سلیم اللہ، نواب، سید سر (ڈھاکہ): سلیمان اشرف، مولانا شاہ محمد: سلیمان شاہ پھلواروی، مولانا سید: سلیمان ندوی، سید: سلیم چشتی، پروفیسر: سلیم وارثی، سید: سلیمیٰ : سندر سنگھ، سردار (ماسٹر): سنہا، لارڈ: سو دیشی تحریک: سول اینڈ ملٹری گزٹ: سید احمد خاں، سر: سید علی بلگرامی، ڈاکٹر: سینا: رک : ابن سینا سینے شل، فرائو : ش شاد، کشن پرشاد، مہاراجہ: شاہ دین ہمایوں، میاں: شبلی نعمانی، علامہ: شپنگلر: شجاع الدین ، حکیم: شجاع الدین ، خلیفہ : شرر، مولانا عبدالحلیم : شمس الدین ، سلطان : شنکراچاریہ: شوپنہار : شورش کاشمیری: شولی ، مس: شہاب الدین ، چودھری: شہباز دین، حکیم : شہباز ، پروفیسر : شیخ احمد فاروقی، سرہندی: رک : مجدد الف ثانی ، حضرت شیخ عبداللہ (علی گڑھ): شیرر، پروفیسر : شیرر، مسز: شیرر منزل (ہوٹل ، ہائیڈل برگ): شیلے (یاشیلی)، پی۔ بی: ص صدر الدین، سلطان: صدیق، ابوبکر: رک : ابوبکر صدیق، حضرت صدیق حسن خاں، نواب مولوی: صلاح الدین احمد ، مولانا : صوفی (Sofie) ویگے ناست: ض ضامن کنتوری: ضیاء الدین، شیخ : ضیاء الدین، مولوی: ط طارق بن زیاد: طالع بی بی (خواہر اقبال): طوسی، شیخ نصیر الدین : ظ ظفر اقبال، پروفیسر مولوی : ظفر علی خاں، مولانا : ع عابد رضا بیدار : عابد علی عابد، پروفیسر، سید : عاشق حسین بٹالوی، ڈاکٹر: عالمگیر: ر ک : اورنگ زیب عالمگیر: عبدالحق، ڈاکٹر (دہلی یونیورسٹی): عبدالحق، مولوی (بابائے اردو): عبدالحکیم، ڈاکٹر خلیفہ : عبدالحکیم کلانوری، مولانا : عبدالحمید، پروفیسر خواجہ : عبدالحمید ، سلطان : عبدالرحمان ، شیخ : عبدالرحمان راسخ، مولوی: عبدالسلام خورشید(مؤلف سر گزشت اقبال): عبدالعزیز، سلطان: عبدالعزیز، مولوی : عبدالغفار شکیل: عبدالقادر، شیخ (مدیر مخزن): عبدالقیوم، صاحبزادہ: عبدالکریم الجیلی: عبدالکریم ، مولوی (مرزائی): عبداللہ بسمل، مولوی : عبداللہ چغتائی، ڈاکٹر: عبداللہ ٹونکی، مفتی محمد : ر ک : محمد عبداللہ ٹونکی، مفتی عبداللہ ، ڈاکٹر، سید محمد: ر ک : محمد عبداللہ ، ڈاکٹر سید عبداللہ قریشی ، محمد: رک : محمد عبداللہ قریشی عبدالواحد ، ابوظفر : عرفی شیرازی: عزیز احمد، پروفیسر : عشرت حسین، سید : عطا محمد، خان بہادر، ڈاکٹر: عطا محمد ، شیخ (برادرِ اقبال ): عطیہ فیضی: عقلیت (تحریکِ خرد افروزی): علی بخش: علی گڑھ (ایم ۔ اے ۔ او) کالج: علی گڑھ تحریک : علی مرتضیٰؓ ، حضرت: عیسیٰ مسیح علیہ السلام، حضرت: عنایت اللہ دہلوی، منشی: غ غالب ، مرزا اسد اللہ خاں: غزالی، امام ابو حامد محمد : غلام احمد قادیانی مرزا: ر ک :مرزا غلام احمد غلام بھیگ نیرنگ: ر ک : نیرنگ، غلام بھیگ غلام رسول مہر: ر ک : مہر، غلام رسول غلام حسین، مولانا ابو عبداللہ: غلام فریدؒ ، حضرت خواجہ : ف فارابی (الفارابی) ابوالنصر محمد: فاطمہ بی بی (خواہر اقبال): فان کریمر: فتح علی خاں قزلباش، نواب : فرائڈ، سگمنڈ : فردوسی طوسی : فضل حسین، میاں: فضل حق آزاد : فغانی، بابا : فقیر سید افتخار الدین: فقیر سید نجم الدین: فقیر سید وحید الدین : فلاطونس : فلر، میجر: فوق، منشی محمد الدین : فیض الحسن سہارن پوری، مولانا: فیضی رحیمن : ق قدسی : قدیم دلی کالج : قسطنطنین (قیصر روم): قومی شاعری کی تحریک: قیس عامری (مجنوں): ک کاپر لیکس (کوپر لیکس): کالرج : کانٹ : کیلر : کرزن ، لارڈ: کرشن جی: کریم الدین، مولوی: کریم بی بی (خواہر اقبال): کریم بی بی (زوجہ اقبال): کلکتہ یونیورسٹی: کلیسائی نظام (پاپائیت): کلیم اللہ : ر ک :موسیٰ علیہ السلام ، حضرت کمال بے (ترکی شاعر): کوہر، ولیم : کیٹس، جان : کیسر شاہ، سائیں: کیلون : کیمبرج یونیورسٹی: گ گالٹن: گرامی، مولانا شیخ غلام قادر : گرے (شاعر): گلاب دین، شیخ (وکیل): گلیلیو: گوتم بدھ، مہاتما: ر ک : بدھ ، مہاتما گوتم گورنمنٹ کالج ،لاہور: گولڈ سمتھ: گول میز کانفرنس (لندن): گوئٹے : گیرٹ، پرنسپل: ل لالو پہلوان: لانگ فیلو: لائٹنر، ڈاکٹر جی ۔ ڈبلیو: لندن سکول آف اکنامکس اینڈ پولیٹکل سائنس: لندن سکول آف اورینٹل سٹڈیز : لندن یونیورسٹی: لندن یونیورسٹی کالج: لنگنزان (لندن): لول حج (لولی حاجی): لیوتھر(لوتھر) سینٹ : لیبنیز (لائبنیز): لیڈھم گرین، ڈاکٹر: لیلیٰ : م ماریسن، پروفیسر : مانی : مجدد الف ثانی، حضرت شیخ احمد فاروقی سرہندی: مجلس مذاہب عالم: محبوب عالم، مولوی: محسن الملک : محمد اکبر، شیخ: محمد اکرام (معاون مدیر مخزن): محمد الدین بھٹی، پروفیسر : محمد الدین فوقی: محمد الدین مختار: محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : محمد باقر خاں قزلباش،آغا: محمد باقر ، ڈاکٹر: محمد باقر، مولوی: محمد تقی شاہ، سید: محمد حسین، خلیفہ : محمد حسین قرشی امرتسری، حکیم: محمد رفیق ، شیخ : محمد رمضان، شیخ: محمد زکی، سید: محمد شریف، پروفیسر میاں: محمد شعیب ، مولویابو سعید : محمد شفیع، میاں (صحافی): محمد عبدالقدیر صدیقی، پروفیسر : محمد صادق، ڈاکٹر: محمد عبداللہ ٹونکی، مفتی: محمد عبداللہ، ڈاکٹر سید: محمد علی باب شیرازی: محمد علی جوہر، مولانا: محمد علی خاں قزلباش، نواب: محمد عمر نور الٰہی : محمد قاسم نانوتوی، مولانا: محمد ناصر قزلباش، آغا: محمڈن ایجوکیشنل کانگریس: رک: مسلم ایجوکیشنل کانفرنس محمودشیرانی ، حافظ : محمود غزنوی، سلطان : مختار احمد، شیخ: مخزن (رسالہ) لاہور: مدرستہ العالیہ کلکتہ: مدرستہ العلوم علی گڑھ : رک : علی گڑھ (ایم ۔ اے ۔او) کالج مرزا غلام احمد قادیانی: مرے کالج سیالکوٹ : مسز سٹرائن : مسلم ایجوکیشنل کانفرنس: مسیح: رک : عیسیٰ علیہ السلام، حضرت مشن سکول؍کالج سیالکوٹ: رک : سکاچ مشن سکول؍ کالج، سیالکوٹ مصحفی، غلام ہمدانی : ملٹن، جان : ممتاز حسین، پروفیسر: ممتاز علی، مولوی، سید : منصور حلاج: مہتاب بی بی (زوجہ شیخ عطا محمد) : مہر علی شاہ (گولڑہ شریف) حضرت: مہر، مولانا غلام رسول : موتی لال بسمل: موسیٰ بن نصیر (اموی گورنر) : موسیٰ علیہ السلام، حضرت(کلیم اللہ): مومن خاں مومن: موہن سنگھ دیوانہ ، ڈاکٹر: میر تقی میر : میر حسن دہلوی : میر حسن، مولوی سید (شاہ جی) : میری ہوویٹ : میکالے، لارڈ : میکس ملر: میکس وہل : میکش اکبر آبادی: میکلوڈ: میک ٹیگرٹ، پروفیسر : میکڈالن کالج ، کیمبرج : میکیاولی: میونخ یونی ورسٹی : ن نادر کاکوروی : ناسخ لکھنوی، شیخ امام بخش : نازلی بیگم (جنجیرہ): ناظر ، خوشی محمد : ناظم لکھنوی، ناظر حسین: نانک ، بابا گرو : نذر محمد، منشی : نذیر احمد دہلوی، ڈپٹی : نذیر حسین ، میر : نذیر حسین، سید : نصیر احمد ناصر، ڈاکٹر: نصیر الدین ولی، بابا: نیطشے (نیٹشے یا نیٹشا): نظام الدین اولیا، حضرت خواجہ، محبوبِ الٰہی : نظام الدین ، خلیفہ: نظام الدین، میاں : نظام حیدر آباد دکن (میر عثمان علی خاں): نظامی گنجوی: نظامیہ ، جامعہ (بغداد): نظیری نیشا پوری : نقوش (رسالہ ) لاہور: نکلسن، پروفیسر ڈاکٹر : نوح علیہ السلام، حضرت : نور الحسن، مولانا حافظ: نور محمد ، شیخ : نوفلاطونی دبستانِ فلسفہ : نولٹن (پرنسپل) نیاز ،شیخ : نیرنگ ، میر غلام بھیک: نیشنل انڈین ایسویسی ایسن، لندن : نیوٹن : و واخ، ریورنڈ جارج، پرنسپل: واکر (ماہر معاشیات): وائی ۔ ایم ۔ سی۔ اے، لاہور : وائی ۔ ایم، آئی، اے، لاہور : وحید قریشی ، ڈاکٹر : ورڈز ورتھ، ولیم : وزیر علی بلگرامی، ڈپٹی : وقار عظیم، پروفیسر، سید : وکٹوریہ، ملکہ : ولایت (گلوکار): ولید اوّل، خلیفہ : ولیم بارلس : ولیم کوپر: ر ک : کوپر، ولیم ولیم گلیڈ سٹون: وولٹر، ڈاکٹر اے ۔ سی : وویکالند، سوامی : وہائٹ ہیڈ : ھ ہالرائڈ، کرنل: ہائوس آف پارلیمنٹ: ہائیڈل برگ سکول: ر ک : شیرر منزل ہائیڈل برگ یونی ورسٹی: ہائنے : ہر دیال ، لالہ : ہرشیک کینٹ ، ڈاکٹر: ہکسلے، آلڈووس: ہمایوں، نصیر الدین محمد، شہنشاہ: ہنری ہشتم ، (شاہ انگلستان: ہندی بھاشا، تحریک : ہومر : ہیگل: ی یلدرم : رک : سجاد حیدر یلدرم یوسف علیہ السلام، حضرت: ینگ : ینگ ٹرک پارٹی: ینگ سن ، پرنسپل : یونی ورسٹی اورینٹل کالج: رک : اورینٹل لاہور: یونی ورسٹی کالج لندن: ر ک : لندن یونیورسل کالج