پیش لفظ میں نے حیات اقبال پر اس کتاب کو لکھنے کا ارادہ ۱۹۷۵ء کی گرمیوں میں کیا تھا۔ ایک دن میرے دونوں بیٹے منیب اور ولید کمرے میں بیٹھے کھیل رہے تھے۔ میں نے انہیں دیکھ کر سوچا کہ اقبال نے تو مجھے ایک اشارے کے طور پر استعمال کرکے نوجوانان مِلّت سے خطاب کیا تھا۔ مگر وقت اس تیز ی سے گزررہا ہے کہ اب ایک نئی نسل وجود میں آگئی ہے۔ ممکن ہے یہ نئی نسل اقبال کے اشعار و افکار کو ہم سے بہتر سمجھنے کے قابل ہو کیونکہ اقبال تو آنے والے کل یا مستقبل کے شاعر ہیں۔ لیکن کسی بھی مفکر کے افکار ونظریات سے پوری طرح شناسا ہونے کے لیے اس کی حیات کا مطالعہ ضروری ہے۔ اقبال کی شخصیّت، شاعری، فکر اور فلسفہ پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ اقبال شناسوں نے اُن کی زندگی کے مختلف گوشوں پر بڑی محنت سے کئی مضمون اور کتابیں تحریر کر رکھی ہیں۔ مگر یہ ساراذخیرہ بکھرا ہوا ہے اور جو کتب سوانح عمری کے طور پر لکھی گئیں وہ نسبتاً کم ہیں اور اُن میں سے بیشتر میں درج کردہ تفصیلات ناکافی ہیں۔ اقبال کے اپنے احباب میں سب سے پہلے ان کے حالاتِ زندگی پر مضمون عبدالقادر مدیر مخزن نے لکھا جو خدنگ نظر (لکھنؤ) کے شمارہ ،مئی ۱۹۰۲ء میں شائع ہوا۔ پھر اس موضوع پر ایک مضمون محمد دین فوق نے تحریر کیا جو، حالات اقبال کے عنوان سے کشمیری میگزین لاہور اپریل ۱۹۰۹ء میں شائع ہوا۔ بعد میں نواب سر ذوالفقار علی خان اور مولوی احمد دین ایڈووکیٹ نے بھی اپنے اپنے کتابچوں میں چند صفحات اس موضوع پر صرف کئے۔ مگر اقبال کی اپنی زندگی میں کسی نے بھی ان کے سوانح عمری کی صورت میں کوئی جامع کتاب تحریر نہ کی۔ بات دراصل یہ ہے کہ اقبال خود اس معاملہ میں تعاون نہ کرتے تھے۔ کیونکہ انہیں اپنے حالات زندگی کی تشہیر میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ایک خط میں تحریر کرتے ہیں کہ میری زندگی میں کوئی ایسا غیر معمولی واقعہ نہیںجو دوسروں کے لیے سبق آموز ہوسکے۔ البتہ میرے خیالات کا تدریجی انقلاب سبق آموز ہوسکتاہے۔ لیکن خیالات کے تدریجی انقلاب کے متعلق وہ اپنے دل ودماغ کی سرگزشت خود قلمبند کرنا چاہتے تھے جس کی انہیں فرصت نہ ملی اور یہ موضوع ان کے عزائم کی فہرست میں رہ گیا ایک اور مقام پر تحریر کرتے ہیں کہ فلسفہ کی جتنی بھی تاریخیں لکھی گئی ہیں، ان میں مختلف فلسفیوں کے افکار و نظریات کے مطالعہ سے بحیثیت مجموعی فلسفہ کے تدریجی ارتقا کا پتا تو چلتا ہے مگر اِن کتب میں انفرادی فلسفیوں کے گرد و نواح کی تفصیل کی عدم موجودگی کے سبب یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ انہوں نے اپنے خیالات کی تدوین کن حالات میں اور کس ماحول کے رّد عمل کے طور پر کی۔ اس لیے تاریخ فلسفہ کے موضوع پر بیشتر کتب غیر تسّلی بخش ہیں۔ اس تحریر سے واضح ہے کہ اقبال کسی مفکر کے فلسفہ سے شناسائی کے سلسلہ میں اس کے ماحول سے پوری طرح واقف ہونے کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ سوانح عمری کی ہئیت میں اقبال پر جو کتب ان کی وفات کے بعد اور ولادت اقبال کی صد سالہ تقریبات سے قبل شائع ہوئیں، میں نے انہیں بغورپڑھا اور حیات اقبال کے موضوع پر جو دیگر کتب یا مضامین دستیاب ہوسکے انہیں بھی دیکھا۔ مگر اقبالیاتی ادب میں بالخصوص اس موضوع پر جن معلومات کی مجھے ضرورت تھی۔ اُن کے حصول میں تشنگی ہی رہی۔ پس میں نے قصد کیا کہ اقبال کی ایک ایسی بیاگرافی تحریر کرنی چاہئیے جس میں خیالات و افکار کے تدریجی ارتقاء اور ان کے ماحول کا زیادہ تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا جائے مگر زندگی کے نجی پہلو کو اقبال ہی کی منشا کے مطابق ثانوی حیثیت دی جائے۔ میں مطالعہ کی خاطر مواد اکٹھا کرنے لگا اور باب اوّل یعنی اقبال کے سلسلۂ اجداد کی تدوین کے لیے تحقیق شروع کر دی۔ اسی تحقیق کے دوران ایک دن میں نے اپنی بیوی سے ازراہِ مذاق کہا کہ دیکھو کشمیری پنڈتوں نے ہندوستان کو سیاسی آزادی دلوائی اور آزاد مسلم ریاست یعنی پاکستان کے قیام کا تصو ّر بھی کشمیری پنڈت ہی نے دیا۔ سو یہ تو پنڈتوں کا آپس میں جھگڑا معلوم ہوتا ہے۔ میں خوابوں یا اُن کی تعبیر کا زیادہ قائل نہیں، البتہ میری بیوی ایسی باتوں کو بہت اہمیّت دیتی ہیں۔ میں نے اقبال کو بھی شاذ ہی خواب میں دیکھا ہے۔ مگر اُس رات انہیں خواب میں دیکھا۔ میں دیکھتا ہوں کہ جاوید منزل، کی چھت پر بیٹھا ہوں ۔ ساتھ ہی منڈیر پر سفید کاغذوں کا ایک ڈھیر پڑا ہے۔ اقبال بنیان اور تہبند میں ملبوس ایک طرف سے ظاہر ہوتے ہیں اور حسب عادت خراماں خراماں چلتے ہوئے میرے قریب پہنچ جاتے ہیں۔ ان کے چہرے پر خفگی کے آثار ہیں۔ مجھ سے انگریزی میں کہتے ہیںکہ تم کیا لکھتے رہتے ہو؟ میں جواب دیتا ہوں کہ اپنی طرف سے تو ہمیشہ میری یہی کوشش رہی ہے کہ آپ کے افکار صحیح طورپر لوگوں تک پہنچائے جائیں۔ فرماتے ہیں۔ خیر اس بارے میں میرے تاثرات تمہیں کل معلوم ہوجائیں گے۔ اس کے بعد یکلخت خواب کا منظر تبدیل ہوجاتا ہے۔ میں اب کسی گھنے درخت پر چڑھا اس کی شاخوں میں اٹکے ہوئے بہت سے کاغذکے پرزے اکٹھے کررہاہوں ۔ میری مدد کے لیے کوئی اور شخص بھی وہاں موجود ہے لیکن میں اُسے شناخت نہیں کرسکا۔ البتہ اسے شکاتیاً کہہ رہا ہوں کہ عجیب بات ہے ، میں اُن کے افکار کی تشہیر کے لیے اتنی محنت کرتاہوں ۔ مگر اُن کی تسلی نہیں ہوتی۔ اسی اثناء میں میری آنکھ کھل گئی۔ گھڑی دیکھی۔ رات کے ساڑھے تین بجے تھے۔ خواب میرے ذہن میں تازہ تھا۔ اس خیال سے کہ مبادا صبح تک بھول جاؤں میں اسے قلمبند کرنے کے لیے اٹھ کر کاغذ پنسل تلاش کرنے لگا۔ میری بیوی بھی بیدار ہوگئیں۔ میں نے انہیں خواب سنایا وہ کہنے لگیں کہ درخت پر چڑھ کر شاخوں میں اٹکے کاغذ کے پرزے سمٹینے کی تعبیر تو یہی ہے کہ آپ آج کل ان کے شجرہ نسب کے متعلق تحقیق میں مصروف ہیں ۔ البتہ اس ضمن میں وہ آپ کی کسی بات پر ناخوش ہیں۔ بہر حال آپ منتظر رہیں۔ کل تک اُن کی طرف سے ضرور آپ کو کوئی اشارہ ملے گا۔ اگلا سارا دن میں نے اُن کی طرف سے کسی اشارے کے انتظار میں گزارا۔ مجھے رہ رہ کر یہی خیال آتا کہ آخر وہ کس بات پر ناراض ہیں ۔ رات ہوگئی لیکن اُن کی طرف سے کوئی پیغام موصول نہ ہوا۔ میری بیوی یہ کہہ کر سونے کے لیے چلی گئیں کہ ابھی بارہ نہیں بجے آپ انتظار کرتے رہیئے۔ میں نے تنگ آکر سوچا کہ میں بھی کس قدر توہم پرست ہوں ، بیوی کے کہنے پر سارا دن اسی ادھیڑ بن میں ضائع کردیا۔ ابھی بارہ بجنے میں چند منٹ باقی تھے۔ لیکن میری نیند اچاٹ ہوچکی تھی۔ میں نے پڑھنے کے لیے الماری میں سے کوئی کتاب اٹھانی چاہی۔ میرے ہاتھ روزگار فقیر جلد دوم لگی اور میں نے غیر ارادی طور پر اسے کھولا۔ اچانک میری نگاہیں کتاب کے صفحہ ۱۲۱ پر جم گئیں۔ میرے سامنے اقبال کا ایک قطعہ تھا جس میں ارشاد کرتے ہیں ؎ بت پرستی کو مرے پیشِ نظر لاتی ہے یادِ ایام گذشتہ مجھے شرماتی ہے ہے جو پیشانی پہ اسلام کا ٹیکا اقبال کوئی پنڈت مجھے کہتا ہے تو شرم آتی ہے انہوں نے اپنے تاثرات مجھ تک پہنچا دیئے تھے۔ میں نے بیوی کو جگا کر یہ قطعہ سنایا۔ وہ کہنے لگیں کہ آپ نے کہا تھا کہ یہ تو پنڈتوں کا آپس میں جھگڑا معلوم ہوتا ہے۔ جو ان کی ناراضگی کاسبب بنا۔ میں نے جواب دیا کہ میں نے توازراہ مذاق بات کی تھی۔ وہ بولیں کہ آپ کے منہ سے انہیں یہ بات ازراہ مذاق بھی ناگوار گزری ہے اور کیوں نہ ہو، جو بات اُن کے لیے شرم و ندامت کا باعث ہے آپ کو زیب نہیں دیتا کہ اُس کا تذکرہ ازراہ مذاق بھی کریں۔ آپ اُن کے سوانح حیات کے سلسلہ میں تحقیق کا کام جاری رکھئے ۔ میرا خیال ہے کہ جب بھی آپ سے انہیں کسی غلطی کے سرزد ہونے کا احتمال ہوا۔ وہ خواب میں آکر آپ کی رہنمائی کریں گے۔ میں نے پہلے دوباب مکمل کرنے کے بعد بیاگرافی کاکام اس لیے چھوڑ دیا کہ ولادت اقبال کے صد سالہ جشن منانے کا اہتمام ہونے لگا۔ میرا خیال تھا کہ ۱۹۷۷ء میں کوئی پختہ قلم کار حیات اقبال کی تدوین کی طرف متوجہ ہوگا اور عین ممکن ہے کہ وہ مجھ سے بہتر طور پر یہ کام سر انجام دے سکے۔ مگر سال اقبال کے دوران بھی اس موضوع پر جو کتب شائع ہوئیں، اُن کی تالیف اس نقطۂ نگاہ سے نہ کی گئی جو مجھے مطلوب تھا۔ سو میں نے اپنی گو ناگوں مصروفیات کے باوجود یہ کا م از سر نو شروع کر دیا۔ اس نو دس برس کی سعی و کوشش کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ کتاب میں اقبال کے افکار کے تدریجی ارتقا اور ان کے ماحول پر بحث زیادہ تفصیل کے ساتھ کی گئی ہے اور زندگی کے نجی پہلو کو ثانوی حیثیت دی گئی ہے۔ اس اعتبار سے یہ کتاب صرف سوانح اقبال ہی پر مشتمل نہیں بلکہ عہد اقبال کی تاریخ بھی ہے۔ میں نے سوانح اقبال کی ترتیب کے لیے حیات اقبال کو تین واضح حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا حصّہ حیات اقبال کے تشکیلی دور سے متعلق ہے۔ یہ حصّہ برصغیر کے حالات، خصوصاً اٹھارہویں صدی عیسوی میں احیائے اسلام کے پس منظر میں اقبال کے سلسلہ اجداد اور اُن کی ولادت یعنی نومبر ۱۸۷۷ء سے لیکر اُن کی تعلیم کی حتمی تکمیل یعنی جولائی ۱۹۰۸ء تک پھیلا ہوا ہے ۔ یہ حصّہ اقبال کی حیات میں ایک نہایت اہم فکری انقلاب پر ختم ہوتا ہے۔ جب اُن کی شاعری مختلف ارتقائی مراحل سے گزر کر ایک ایسے مقام پر پہنچ گئی تھی جہاں سے اُس نے آواز رحیل کارواں، نغمۂ جبرئیل آشوب یا جزو پیغامبری بننے کے لیے جست لینی تھی۔ دوسرے حصّے کا تعلق حیات اقبال کے وسطی دور سے ہے۔ اس کا آغاز ستمبر ۱۹۰۸ء یعنی اقبال کی دنیا دارانہ جدوجہد سے ہوتا ہے اور دسمبر ۱۹۲۵ء تک کی مدّت میں اُن کی زندگی اور افکار کے بتدریج ارتقا کے جائزے پر اختتام پذیر ہوتاہے۔ اس دور میں اقبال نے ملت اسلامیہ کے لیے نیا سرمایہ حیات فراہم کرنے کی غرض سے اپنے خیالات کا برملا اظہار کرنا شروع کیا او رحقیقی اسلامیت کی بیداری کی خاطر ایک مخصوص نظام فکر کی تدوین کی۔ نتیجہ میں نہ صرف ان کے افکار پر کڑی تنقید کی گئی بلکہ ان کے مخالفین نے اقبال کی کردار کُشی کی مہم کا بھی آغاز کیا۔ اُن کی ذات کے متعلق مختلف قسم کے بہتان تراشے گئے اور مسلمانوں کو خودی کا احساس دلاکر ایک ملّت یا قوم کی صورت میں متحد کرنے والی اس محترم شخصیّت پر کفر کا فتویٰ بھی صادر کیا گیا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اقبال کے افکار کو نہ تو کوئی سمجھنے کی کوشش کرتا تھا اور نہ کوئی قبول کرنے کو تیار تھا۔ بیشتر علمائ، مشائخ اور مسلم سیاسی رہنما اُن کے خلاف ہوچکے تھے۔ سو یہ دور مختلف وجوہ کی بنا پر بحیثیت مجموعی اقبال کے ذہنی و روحانی کرب و اضطراب اور شدید تنہائی کا دور تھا اور وہ کسی ایسے ہمدم یارفیق کے لیے ترستے تھے جو اُن کاہمخیال ہو۔ گویا اقبال کی شاعری نے آواز رحیل کا رواں، نغمۂ جبرئیل آشوب یا جڑو پیغامبری بننے کے لیے جست تولے لی تھی۔ لیکن عقل یاراں ابھی تک محوِ تماشائے لب بام تھی۔ تیسرا حصّہ حیات اقبال کا اختتامی دور ہے۔ اس حصے کا آغاز اقبال کے عملی سیاسیات کے میدان میں اترنے سے ہوتاہے۔ یعنی جنوری ۱۹۲۶ء سے جس سال انہوں نے پنجاب قانون ساز کونسل کے انتخابات میں حصہ لیا اور۲۱؍ اپریل ۱۹۳۸ء کو ان کی رحلت تک کی مدت میں ان کی نجی زندگی اور ان کے افکار و نظریات کے بتدریج ارتقا کے جائزے پر ختم ہوتا ہے۔ اس دور میں اقبال کی شخصیت کے کئی نئے پہلو ظاہر ہوئے۔ وہ احیائے اسلام اور مسلمانان برصغیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کی سمت کی تعین کے بارے میں اپنے دینی، سیاسی، اخلاقی ، قانونی، تمدنی، معاشی اور الہٰیاتی خیالات کو مخالفین کی پرواکئے بغیر ترتیب دیتے چلے گئے۔ مگر بالآخر اپنا کام ادھورا چھوڑ کے عجب بے چینی، بے تابی اور بے قراری کے عالم میں وفات پائی۔ روح اقبال کی بے چینی، بے تابی اور بے قراری ایک عجیب و غریب کیفیت ہے۔۔۔ ایک ایسی کیفیت جو آج بھی شعر اقبال کے ذریعے رازداروں کے سینوں میں شعلے کی طرح لپکتی ہے۔ کتاب میں بعض نئی باتیںہیں جن کا ذکر آج تک اقبال کے کسی بھی سوانح نگار نے نہیں کیا۔ کتاب کی تدوین و تالیف کے دوران میں نے پھر اقبال کو خواب میں نہیں دیکھا اس سے میں یہ مراد لیتاہوں کہ انہیں دوبارہ میری رہنمائی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ کتاب حرف آخر ہے۔ اقبال کی شخصیت اور فکر کے متعلق تحقیق لگاتار جاری ہے۔ آئے دن کسی نہ کسی نئی بات کا انکشاف ہوتا ہے یا کوئی نیا مواد سامنے آتاہے ۔ اس کتاب کی اشاعت تک اقبال کی ذات کے بارے میں جو بھی نئی معلومات حاصل ہوسکی ہیں، میں نے اُن کا اضافہ کردیا ہے۔ ’زندہ رُود، نام اقبال نے اپنے لیے خود’’جاوید نامہ‘‘ میں منتخب کررکھا ہے۔ زندہ رود کے معنی ہیں مسلسل بہتی ہوئی حیات آفریں ندی۔ اقبال اُسی کی تعریف میں فرماتے ہیں ؎ وہ جوئے کہستاں اچکتی ہوئی اٹکتی، لچکتی، سرکتی ہوئی اچھلتی، پھسلتی، سنبھلتی ہوئی بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی رکے جب تو سِل چیر دیتی ہے یہ پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ ذرا دیکھ اے ساقیٔ لالہ فام سناتی ہے یہ زندگی کا پیام اقبال کی حیات دراصل ان کی فکری زندگی کا ارتقا ہے جو ایک مستقل حال میں جاری اور رواں دواں ہے اور جسے موت نہیں چھو سکی۔ وہ اپنی جسمانی زندگی کو غیر اہم سمجھتے تھے۔ اس لیے حیات اقبال کو زندہ رود کے سوا اور کیا نام دیا جاسکتاہے۔ ’’زندہ رود‘‘ نام بھی انہوں نے غالباً آنحضور ﷺ کے حوالے سے اپنے لئے چنا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ اقبال جرمن شاعر گوئٹے کے بڑے مداّح تھے ۔ گوئٹے قرآنی تعلیمات اور حیات طیبّہ سے بے حد متاثر تھا۔ یہاں تک کے اس نے پیغمبر اسلامؐ پر ایک منظوم تمثیل تحریر کرنے کا ارادہ کیا۔ لیکن صرف ابتدا ئیہ ہی لکھ سکا، تمثیل کی تکمیل کی نوبت نہ پہنچی۔ اس ابتدائیہ یا نظم بعنوان نغمۂ محمدؐ میں حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کی آپس میں گفتگو کے دوران گوئٹے نبوت کی تشریح کے سلسلہ میں آنحضور ﷺ کے لیے حیات آفریں ، جوئے آب، کی تشبیہہ استعمال کرتا ہے جس کا کام بہت سے نالے ندیوں کو اپنی آغوش میں لے کر سمندر یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانا ہے، اقبال نے یہ نظم پڑھی ہوئی تھی اور اس کی تشبیہات اور استعارات سے بخوبی واقف تھے بلکہ اس کا آزاد ترجمہ بھی پیام مشرق کی نظم ’’جوئے آب‘‘ میں کیا تھا۔ چونکہ وہ آنحضورﷺ کو انسان کامل سمجھتے تھے، اس لیے ان کے نزدیک ہر مسلمان کے لیے آنحضور ﷺ کے نقشِ قدم پر چلنا فرض تھا۔ اسی جذبہ کے تحت انہوں نے جاوید نامہ کے روحانی سفر کے لیے اپنا نام زندہ رود منتخب کیا۔ کتا ب میں انہیں جذبۂ محبت کے تحت اقبال تحریر کیا ہے لیکن اس بے تکلفی میں عقیدت مندی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا گیا۔ اقبال کی وفات پر میری عمر ساڑھے تیرہ برس تھی ۔ اس لیے میں اُن کے ہم عصر ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ البتہ اُن کے عہد سے دوری کے سبب مجھے اپنے نقطۂ نگاہ یا انداز تحریر کو خارجی رکھنے میں آسانی محسوس ہوئی ہے۔ پس واقعات کی غیر جانبدارانہ پیش کش کی کوشش کی گئی ہے۔ ہر باب سے متعلق مآخذ، حوالے یا نوٹ آخر میں دیئے گئے ہیں۔ اقبال اکادمی ، لاہور کا تیار کردہ خاندانِ اقبال کا شجرۂ نسب کتاب کے آغاز اور اختتام پر جلد کے اندرونی حصوں پر موجود ہے۔ جاوید اقبال دیباچہ (نقش ثانی) علامہ اقبال کی سوانح حیات’’زندہ رود ‘‘ کو جو عالمگیر پذیرائی ملی ہے اس کا نتیجہ ہے کہ یہ کتاب طبع مکررکے مرحلوں سے بار بار گزر رہی ہے۔ اس کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں میں ہو رہے ہیں۔ فارسی میں جاویدانِ اقبال کے نام سے ترجمہ کئی بار شائع ہوا ۔ عربی میں نہرالخالد کے نام سے ترجمہ ہوا ہے جو اشاعت کے لیے تیار ہے اسی طرح بنگالی، انگریزی اور دنیا کی دوسری زبانوں میں بھی ترجمے کا کام جا رہی ہے ۔ زندہ رود کی اقبال کی ایک مستند سوانح حیات کے طور پر مقبولیت میرے لیے باعث مسرت ہے۔ موجودہ ایڈیشن اقبال اکادمی پاکستان نے پاکستان کے ایک معروف اشاعتی ادارے سنگ میل پبلیکیشنز لاہور کے اشتراک سے شائع کیا ہے اس موقع پر میں نے اس پر دو بارہ ایک نظر ڈالی ہے اور اس کے پروف بھی دیکھے ہیں تاکہ کتاب ہر حوالے سے مستند ہو سکے کتاب کو میں نے کہیں کہیں قلم بھی لگایا ہے۔ کتاب میں شجرہ مزید تحقیق کے ساتھ شامل کیا گیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس میں علامہ کی نایاب تصاویر کا اضافہ کیا گیا ہے، جس سے ان کی زندگی کے مختلف ادوار کا مطالعہ کرنے میں سہولت ہو گی۔ عصر حاضر ایک تہذیبی بحران میں مبتلا ہے آشوب کی اس گھڑی میں مسلم دانش وری کی کڑی آزمائش ہو رہی ہے۔ تہذیبوں کے تصادم کی اس فضا میں مغربی تہذیب و تمدن پر اقبال کی تنقیدی نظر سے ہم استفادہ کر سکتے ہیں کیونکہ بیسویں صدی میں علامہ سے بڑھ کر کسی نے اس تہذیب و ثقافت کا گہری نظر سے مطالعہ کر کے اساسی نتائج اخذ نہیں کئے ۔ جن کی مدد سے ہم اس تہذیب کا جائزہ لے کر بنیادی فیصلے کر سکتے ۔ زندہ رود کا مطالعہ ہمیں صرف علامہ کے سوانح سے ہی آگاہ نہیں کرتا اقبال کی جدوجہد ، ذہنی ارتقا ، تخلیقی کرشمے اور قلمی ہنگاموں کی تاریخ سے بھی شناسائی فراہم کرتا ہے، یوں عصر حاضر میں اقبال مسلمانوں کے لیے فکری رہنمائی کا ایک سر چشمہ ہے جو اب بھی تازہ کاری میں مثال نہیں رکھتا۔ دنیا بھر میں فکر اقبال کا مطالعہ ایک ایسی دانش کے طور پر کیا جا رہا ہے جس نے برصغیر کے مسلمانوں کو نظریاتی اور سیاسی قوت فراہم کی جس پر پاکستان معرض وجود میں آیا ۔ جو مذہبی اعتدال پسندی اور اسلام میں روشن خیالی کا استعارہ ہے۔ جو مغرب اور مشرق میں رابطے اور تعلق کی اساس فراہم کرتا ہے ۔ لہٰذا اقبال کا بطور ایک شخصیت اور مفکر کے مطالعہ از بس ضروری ہے ۔ زندہ روداسی مطالعے میں آپ کی مدد کرتی ہے کہ ہم اقبال کی شخصیت کی تفہیم کے ذریعے ان کی فکر سے رہنمائی حاصل کریں۔ موجودہ ایڈیشن کو نظرثانی شدہ ایڈیشن بھی کہا جا سکتا ہے ۔ اسے اعلیٰ کاغذ اور معیاری طباعت کے ساتھ ساتھ یک جلدی بھی بنا دیا گیا ہے، کمپوزنگ بھی نئی کی گئی ہے جس سے اس کا حجم کم ہو گیا ہے ۔ امید ہے کہ قارئین کتاب سے بہتر طور پر استفادہ کر سکیں گے ۔ جاوید اقبال علامہ اقبال کی سوانح ’’زندہ رود‘‘ کو جو عالمگیر پذیرائی ملی ہے اس کا نتیجہ ہے کہ یہ کتاب طبع مکرر کے مرحلوں سے بار بار گزر رہی ہے۔ اس کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں میں ہو رہے ہیں۔ فارسی تشکیلی دور (حصہ اوّل ) باب: ۱ سلسلۂ اجداد ایک قلمی رجسٹری شدہ دستاویز میں اقبال نے اپنی قومیّت سپرو (کشمیری پنڈت) تحریر کی ہے ۱۔ انہوں نے اپنے والد سے سن رکھا تھا کہ ان کا تعلق کشمیری برہمنوں کے ایک قدیم خاندان سے ہے ۔ گوت ان کی سپرو ہے اور ان کے جدّ اعلیٰ جنہوں نے اسلام قبول کیا، بابا لول حج یا لولی حاجی کے لقب سے پکارے جاتے تھے ۔ محمد دین فوقؔ کے نام اقبال کے خطوط سے پتا چلتا ہے کہ فوقؔ ، اقبال کے احباب میں سے تھے اور ان کے والد کو بھی جانتے تھے ۲ ۔ ظاہر ہے یہ اطلاع اقبال یا ان کے والد نے، فوق کو دی ہو گی؛ چنانچہ فوق نے اسی اطلاع پر انحصار کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’مشاہیر کشمیر‘‘ (جو ۱۹۳۰ء میں شائع ہوئی) اور پھر اپنے مضمون بعنوان ’’ڈاکٹر شیخ سر محمد اقبال ‘‘ (’’نیرنگ خیال‘‘ لاہور ، اشاعت ستمبر ،اکتوبر ۱۹۳۲ئ) میں تحریر کیا : شیخ صاحب کا کشمیری پنڈتوں کے ایک قدیم خاندان سے تعلق ہے ۔۔۔۔ شیخ صاحب کے جدّ اعلیٰ قریباً سوا دو سو سال ہوئے ، مسلمان ہو گئے تھے ۔ گوت ان کی سپرو تھی ۔ دو سال بعد یعنی ۱۹۳۴ء میں فوقؔ نے ’’تاریخ اقوام کشمیر‘‘ (جلد اوّل) شائع کی ۔ اس کتاب میں وہ تحریر کرتے ہیں کہ لفظ ’’سپرو‘‘ پر مزید تحقیق کے لیے انہوں نے اقبال سے رجوع کیا ، جواب میں انہیں اقبال کا خط (محررّہ ۱۶ جنوری ۱۹۳۴ئ) موصول ہوا ۔ اقبال نے انہیں لکھا : کشمیری برہمنوں کی جو گوت ’’سپرو‘‘ ہے ، اس کے اصل کے متعلق میں نے جو کچھ اپنے والد مرحوم سے سنا تھا ، عرض کرتا ہوں ۔ جب مسلمانوں کا کشمیر میں دور دورہ ہوا تو برہمنۂ کشمیر مسلمانوں کے علوم و زبان کی طرف قدامت پرستی یا کسی اور وجہ کے باعث توجہ نہ کرتے تھے، اس لیے جس گروہ نے سب سے پہلے فارسی زبان وغیرہ کی طرف توجہ کی اور اس میں امتیاز حاصل کر کے حکومتِ اسلامیہ کا اعتماد حاصل کیا ، وہ ’’سپرو‘‘ کہلایا ۔ ’’س‘‘ تقدیم کے لیے کئی زبانوں میں آتا ہے اور ’’پرو‘‘ کا رُوٹ وہی ہے ، جو ہمارے مصدر ’’پڑھنا‘‘ کا ہے۔ والد مرحوم کہتے تھے کہ یہ نام کشمیر کے برہمنوں نے اپنے ان بھائی بندوں کو از راہِ تعریض و تحقیر دیا تھا ، جنہوں نے قدیم رسوم و تعصباتِ قومی و مذہبی کو چھوڑ کر سب سے پہلے اسلامی زبان و علوم کو سیکھنا شروع کیا تھا ، جو رفتہ رفتہ ایک مستقل گوت ہو کر مشہور ہو گیا ۳ ۔ اسی خط میں اقبال تحریر کرتے ہیں : دیوان ٹیک چند ایم اے نے ، جو پنجاب میں کمشنر تھے اور جن کو زبانوں کی تحقیق کا شوق تھا، ایک دفعہ انبالے میں مجھ سے کہا کہ لفظ ’’سپرو ‘‘ کا تعلق ایران کے قدیم بادشاہ شاپور سے ہے اور ’’سپرو‘‘ حقیقت میں ایرانی ہیں، جو اسلام سے بہت پہلے ایران کو چھوڑ کر کشمیر میں آباد ہوئے اور اپنی ذہانت و فطانت کی وجہ سے برہمنوں میں داخل ہو گئے ۔ فوق ، اقبال کے اس خط کو نقل کرنے کے بعد تحریر کرتے ہیں کہ پنجاب میں ’’سپرو ‘‘ گوت کے چند ہندو اور مسلم خاندان مشہور ہیں اور مسلمانوں میں اقبال کا خاندان ، جن کے جدّ اعلیٰ سوا دو سو سال ہوئے عالمگیر کے زمانے میں مسلمان ہو گئے تھے ؛ بہت مشہور ہے ۔ پھر ’’تاریخ اقوام کشمیر ‘‘ (جلد دوم) میں اقبال کے اسی خط کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ پنجاب میں کوئی اور گھر مسلمان سپروئوںکا نہیں ، البتہ ہندو سپروئوں کے چند نام انہوں نے کتاب میں درج کئے ہیں ۴ ۔ اقبال کو اپنے والد کی روایت کی تصدیق کے لیے اپنے اجداد کا سراغ لگانے میں کتنی دلچسپی تھی ، وہ ان کے مندرجہ ذیل خط سے ظاہر ہے جو انہوں نے ۵ اکتوبر ۱۹۲۵ء کو اپنے برادر شیخ عطامحمد کو لکھا ۔ آپ کا کارڈ مل گیا ، جس سے بہت اطمینان ہوا ۔ الحمدللّٰہ علٰی ذالک۔ جاوید اقبال بالکل تندرست ہے۔ آج پورے ایک سال کا ہو گیا ہے ۔ اس کی والدہ آج قربانی دینے میں مصروف ہے ۔ آپ اور والد مکرم یہ سن کر خوش ہوں گے کہ مدت کی جستجو کے بعد آج اپنے بزرگوں کا سراغ مل گیا ہے ۔ حضرت بابا لول حج، کشمیر کے مشہور مشائخ میں سے تھے ۔ ان کا ذکر خواجہ اعظم کی ’’تاریخ کشمیر ‘‘ میں اتفاقاً مل گیا ہے ۔ والدِ مکرم نے جو کچھ اپنے بزرگوں سے سنا تھا ، وہ بحیثیت مجموعی درست ہے ۔ ان کا اصل گائوں ’’لوچر‘‘ نہ تھا بلکہ موضع چکو پرگنہ آدون تھا ۔ بارہ سال کشمیر سے باہر رہے اور مختلف ممالک کی سیر میں مصروف رہے۔ بیوی کے ساتھ ان کے تعلقات اچھے نہ تھے ، اس واسطے ترکِ دنیا کر کے کشمیر سے نکل گئے۔ واپس آنے پر اشارئہ غیبی پا کر حضرت بابا نصر الدین کے مرید ہوئے ۔ بقیہ عمر انہوں نے بابا نصرالدین کی صحبت میں گزاری اور اپنے مرشد کے جوار میں مدفون ہیں ۔ اب امید ہے کہ مزید حالات معلوم ہو جائیں گے ۔ خواجہ اعظم کا تذکرہ مختصر ہے۔ مگر یہ مختصر نشان غالباً مزید انکشافات کا باعث ہو گا ۔ ان حالات کے معلوم ہونے کا سبب بھی عجیب و غریب ہے ۔ دہلی یونیورسٹی کے رجسٹرار الہ آباد یونیورسٹی سے ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے ایک کتاب کشمیری تہذیب و تمدن پر لکھ رہے ہیں ۔ میں ان کے ممتحنین میں سے ہوں ۔ باقی دو ممتحن انگلستان اور آئرلینڈ کے پروفیسر ہیں ۔ اتفاق سے رجسٹرار صاحب کل آئے ہوئے تھے ۔ انہوں نے اپنے کسی دوست کو ہدایت کی تھی کہ خواجہ اعظم کی ’’تاریخ کشمیر ‘‘ کا قلمی نسخہ میرے مکان پر پہنچا دے ۔ وہ شخص قلمی نسخہ تاریخِ مذکور کا لایا ۔ میں اس وقت فارغ بیٹھا تھا ۔ یہی کتاب دیکھنا شروع کر دی ۔ دو چار ورق ہی الٹے تھے کہ بابا صاحب کا تذکرہ مل گیا، جس سے مجھ کو بڑی خوشی ہوئی ۔ غالباً بابا نصرالدین کی اولاد کشمیر میں ہو گی ۔ ان سے مزید حالات معلوم ہونے کی توقع ہے اور کیا عجب کہ ان کے پاس اپنے مریدوں کا سارا سلسلہ موجود ہو۵۔ اقبال نے خواجہ محمد اعظم شاہ دیدہ مری کی تصنیف ’’تاریخ کشمیر اعظمی :واقعاتِ کشمیر‘‘ نوشتہ ۱۷۵۵ء کے صفحہ ۷۳ پر رشیوں کے باب میں بابا لول حج کے متعلق یہ اندارج پایا ہو گا: از ساکنانِ موضعِ چکو پرگنہ آدئوں بود ۔ زنی خواستہ بود۔ وقتِ صحبت زنش خوش نکردہ ۔ خلع بمیان آمد ۔ ایں معنی موجبِ برددتِ دلش از دنیا شدہ راہ کعبہ گرفت ۔ دو ازد ہ سال سیاحت کردہ بہ کشمیر آمدہ باشاراتِ غیبی۔ مرید حضرت بابا نصرالدین شد وبقیۂ عمر در خدمت و صحبتِ او گزرانید ۔ وقتِ رحلت در آستانہ چرار در جوار پیر بزرگوار آسود۔ اقبال کے جدّ اعلیٰ بابا لول حج یا لولی حاجی کے متعلق اس ماخذ کا علم فوق کو بھی تھا اور اس کا ذریعہ غالباً اقبال خود تھے ۔ فوق اپنی تصنیف ’’تاریخ اقوام کشمیر ‘‘ (مطبوعہ ۱۹۴۳ئ) جو اقبال کی وفات کے پانچ سال بعد شائع ہوئی، میں تحریر کرتے ہیں: سلطان زین العابدین بڈشاہ کے زمانے (تخت نشینی ۸۲۴ھ وفات ۸۷۴ھ )میں حضرت شیخ العالم شیخ نورالدین ولی کے ارادت مندوں میں حضرت بابا نصرالدین ایک بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں ۔ حضرت شیخ العالم نے اپنے اشعار (کشمیری) میں اپنے اس نامور خلیفہ کا بہت کچھ ذکر کیا ہے ۔ بابا نصرالدین کے مریدوں میں بابا لولی حاجی ایک بزرگ تھے، جنہوں نے کئی حج کیے تھے اور بارہ سال تک کشمیر سے باہر سیر و سیاحت ہی میں رہے تھے ۔ چنانچہ مصنف ’’تاریخ کشمیر اعظمی‘‘ صفحہ ۷۲ پر لکھتا ہے کہ : دو از دہ سال سیاست کردہ بہ کشمیر آمدہ ۔ باشارات غیبی مرید حضرت بابا نصرالدین شد و بقیۂ عمر در خدمت و صحبتِ او گزرانید ۔ ان کا اصل نام معلوم نہ ہو سکا ۔ لول حج یا لولی حاجی کے نام سے انہوں نے شہرت پائی ۔ انہوں نے کئی حج پا پیادہ کیے تھے ۔ لول یا لالہ یا لال کشمیر میں پیار یا عزت کا لفظ ہے ۔ جیسے بڑے بھائی کو کاک لال کہتے ہیں ۔ وطن ان کا پرگنہ آدئون کے موضع چکو میں تھا ۔ قبول اسلام سے قبل ذات کے برہمن تھے ، گوت سپرو تھی ۔ پیشہ ان کا زراعت کاری اور زمینداری تھا، لیکن جب فقر اختیار کیا تو سب باتوں سے کنارہ کش ہو گئے۔ آپ کی قبر چرار شریف میں احاطۂ مزار شیخ نور الدین ولی کے اندر ہے ۔ جہاں ان کے مرشد بابا نصرالدین بھی مدفون ہیں ۔ چنانچہ صاحب ’’تاریخ کشمیر اعظمی ‘‘ لکھتے ہیں : وقت رحلت در آستانۂ چرار در جوار پیر بزرگوار آسود ۶۔ فوق نے بابا لول حج کے متعلق دیدہ مری کی تحریر دیکھنے کے بعد ،جو کچھ اپنی طرف سے لکھا ہے ، ممکن ہے ، ان کی ذاتی تحقیق پر یا اقبال یا ان کے والد کی اطلاع پر مبنی ہو ۔ بہرحال وہ اس سلسلہ میں کوئی سند پیش نہیں کرتے ۔ بابا لول حج کا تذکرہ دیدہ مری سے تقریباً ڈیڑھ سو سال بعد ابو محمد حاجی محی الدین مسکین کی تالیف ’’تحائف الابرار فی الاولیاء الاخیار‘‘ (تاریخِ کبیر کشمیر ۱۹۰۳ء ) کے رشیوں کے باب میں بھی مندرجہ ذیل الفاظ میں ملتا ہے : ولادتش در موضع چکو حلبند پرگنہ آدئون بود ۔ ہر دو چشم و پایش کج بودند ۔ پس دیرا داعیہ تزویج بظہور آمد و بازنی عقدِ نکاح بربست ۔ چوں منکوحہ اش صورت ویرابدید و بخندید ، دلِ بابا ازدی متنفر گردید۔ پس کمرہمت بربستہ برآمد ۔ سفرِ زیارتِ حرمین شریفین نمود و پس از تشریف یابی بزیارتِ مبارک چوں مراجعت بجانب کشمیر کرد ، در خدمتِ بابا نصرالدین رومی ارادت آوردہ گوئی تجرید و تفرید ربود ۔ چوں رحلت کرد، در مقبرہ مرشد آسود ، و بعضی نوشتہ اند کہ در قریۂ زالرہ پرگنۂ کا مراج مدفون است ۷ ’’روز گار فقیر‘‘ جلد دوم میں شیخ اعجاز احمد (برادر زادہ اقبال) کے حوالے سے نہ صرف اقبال کے خط محررّہ ۵ اکتوبر ۱۹۲۵ء کا ذکر ہے ، بلکہ شیخ اعجاز احمد کی سند پر یہ بھی لکھا ہے کہ اقبال کے بزرگوں کی ایک ولی عارف سے عقیدت ، ان کے بزرگوں کے اسلام لانے کا سبب اور ذریعہ بن گئی اور یہ اب سے ڈھائی سو سال پہلے کی بات ہے ، جب اقبال کے گھرانے میں ایمان و اسلام کی روشنی نمودار ہوئی ۔ شیخ اعجاز احمد بیان کرتے ہیں کہ ان کے دادا نے اپنے بزرگوں کی زبانی سُنا تھا کہ ان کے آباء میں ایک بزرگ نے اتنی مرتبہ پا پیادہ حج کیا کہ ان کا لقب ہی لول حج (حج کا عاشق) پڑ گیا ۸ ۔ بابا لول حج کے متعلق مسکین کا بیان دیدہ مری کی تفصیل سے قدرے مختلف ہے ۔ بہرحال ہمیں یہ اطلاع اقبال کی تحریر سے ملی ہے کہ ان کے والد نے اپنے بزرگوں سے سُن رکھا تھا کہ شیخ بابا لول حج یا لولی حاجی ان کے جدّ اعلیٰ تھے ، گو یہ پتا نہیں چلتا کہ بابا صاحب سے اقبال کا رشتہ کس پشت پر جا کر منسلک ہوتا ہے ۔ دیوان ٹیک چند نے لفظ ’’سپرو‘‘ کی جو توجیہ اقبال کے حوالے سے کی تھی ، یعنی سپرو در اصل شاپور کی اولاد یا ایرانی النسل ہیں ۔ اس کے متعلق تاریخی شواہد موجود نہیں ۔ البتہ مسکین کے ایک اقتباس سے یہ سراغ ملتا ہے کہ کشمیر میں ایک آتش پرست راہب شاپور نامی نے کسی شہر میں سید علی ہمدانی سے مرعوب ہو کر اسلام قبول کیا تھا ۹ ۔ اسی طرح خواجہ حسن نظامی نے بھی اقبال پر اپنے مضمون میں یومِ اقبال کے موقع پر دہلی میں مقیم مصری سفیر کی تقریر کا ذکر کیا ہے ، جس میں انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ کشمیری برہمنوں کا تعلق مصر سے ہے ۔ ان کی تحقیق کے مطابق مصر میں سورج کے مندر کے بڑے پجاری مہنت ہری ہر تھے اور مصری زبان میں سورج کو ’’را ‘‘ کہتے ہیں ۔ قرآن شریف کی سورہ یوسف بھی الف لام را سے شروع ہوتی ہے ۔ یعنی را کا لفظ قرآن میں بھی موجود ہے ۔ اسی طرح ہندومت میں بھی رام کی بڑی اہمیت ہے ۔ بقول مصری سفیر مہنت ہری ہر کی شادی قبطی فرعون کی لڑکی سے ہوئی اور جب فرعون لاولد مر گیا تو مہنت ہری ہر کو فرعون بنا دیا گیا اور اس کی اولاد چار سو برس تک مصر میں حکومت کرتی رہی ۔ بعد میں نئے انقلاب کے سبب نیا خاندان حاکم ہو گیا اور ہری ہر کی اولاد موسیٰ علیہ السلام کی یہودی قوم کے ساتھ مصر سے نکل گئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام تو فلسطین چلے گئے۔ لیکن ہری ہر کی اولاد افغانستان میں آ گئی ۔ یہاں اس نے ہری نام کا ایک شہر آباد کیا ، جس کو بعد میں ہرات کہنے لگے ۔ اس کے بعد یہ لوگ کشمیر میں آئے اور کشمیر سے ہندوستان میں آئے اور گنگا کے کنارے اپنے مورث کے نام پر ہری دوار تیرتھ بنایا ۔ لہٰذا برصغیر کے کشمیری برہمن سب مصری النسل ہیں اور چونکہ اقبال کشمیری برہمن تھے اس لیے اقبال بھی مصری ہیں اور پنڈت جواہر لعل بھی کشمیری برہمن ہونے کے سبب مصری ہیں ۱۰ ۔ ایسی توجیہات پر تبصرہ کرنا بیکار ہے ۔ انسان کا ذہن اگر زر خیز ہو تو شواہد کی عدم موجودگی میں بھی، کسی نہ کسی مصلحت کے تحت ، جو چاہے اختراع کرکے احیطۂ تحریر میں لا سکتا ہے ۔ اگر بابا لول حج ، اقبال کے جدّ اعلیٰ تھے تو جو مواد ہمارے سامنے ہے ، اس کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ ان کے بارے میں دیدہ مری کی تفصیل مسکین کی تفصیل سے زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے ۔ مسکین کے بیان سے تو یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ بابا صاحب کی اپنی منکوحہ سے ازدواجی تعلقات قائم ہونے سے پیشترہی علیحدگی ہو گئی اور وہ بقیہ عمر مجرد رہے ۔ اس صورت میں سوال پیدا ہو گا کہ نسل آگے کیسے چلی ؟ ڈاکٹر اکبر حیدری کاشمیری نے خاندانِ اقبال کی اصلیت کے بارے میں ایک مضمون لکھا ہے جو پہلے ہفتہ وار، قومی آواز ، لکھنؤ (۲۴ فروری ۱۹۸۰ئ) میں اور دوسری بار چند تبدیلیوں کے ساتھ روز نامہ ’’آفتاب ‘‘ سری نگر (ا۲ اپریل ۱۹۸۱ئ) میں شائع ہوا ۔ اکبر حیدری فرماتے ہیں کہ دراصل فوق نے اقبال اور دیگر لوگوں کو اس غلط فہمی میں مبتلا کیا ہے کہ اقبال کشمیری برہمن زاد اور سپرو خاندان سے منسوب تھے۔ اس نے لفظ سپرو کی تشریح کے متعلق بھی افسانہ گھڑ دیا ، بلکہ اپنے پہلے مضمون میں تحریر کرتے ہیں کہ اقبال کے حالاتِ زندگی سر عبدالقادر نے لکھے جو رسالہ’’ خدنگ نظر‘‘ لکھنؤ کے شمارہ مئی ۱۹۰۲ء میں شائع ہوئے ، لیکن سر عبدالقادر نے اپنے اس مضمون میں اقبال کے خاندان کے بارے میں ایسی کوئی بات نہیں کہی ۔ سو یہ فوق ہی تھے جو ہمیشہ من گھٹرت قصے بیان کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے ۔ مگر اکبر حیدری کا یہ بیان درست نہیں ۔ سر عبدالقادر نے بھی متذکرہ مضمون میں تحریر کیا ہے کہ شیخ صاحب (اقبال) کشمیری الاصل ہیں اور ان کا کشمیر ی پنڈتوں کے ایک قدیم خاندان سے تعلق ہے ، جس کی ایک شاخ اب تک وطن اصلی میں موجود ہے ۔ خاندان کی وہ شاخ جس میں شیخ صاحب ہیں ، دو سو سال ہوئے مسلمان ہو گئی۔ گوت ان کی ’’سیفرو‘‘ ہے اور ان کے بزرگوں کا اسلام پر ایمان لانا ایک ولی کے ساتھ عقیدت کی وجہ سے ہوا ۔ ہر چند سر عبدالقادر نے لفظ ’’سپرو ‘‘ کی بجائے ’’سیفرو‘‘ تحریر کیا ہے ، لیکن بات وہی کہی ہے جو فوق نے کہی ۔ فوق یا سر عبدالقادر نے خاندان اقبال کی اصلیت کے بارے میں من گھڑت قصے بیان نہیں کیے۔ بات دراصل یہ ہے کہ فوق اور عبدالقادر کو یہ معلومات اقبال یا ان کے والد نے فراہم کی تھیں۔ اس کے بعد اکبر حیدری یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ لفظ ’’سپرو‘‘ کی جو تشریح فوق نے نہیں بلکہ والدِ اقبال یا خود اقبال نے بذات خود پیش کی ہے ، وہ کسی بھی تاریخی کتاب میں موجود نہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ’’سپرو ‘‘ کشمیری برہمنوں کی ایک مشہور گوت ہے ۔ اگر اس کے بارے میں والد اقبال یا اقبال کی بیان کردہ تشریح اکبر حیدری کو قابل قبول نہیں تو پھر ان کی اپنی تحقیق کے مطابق اس کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟ اقبال کو اپنے والد ہی سے یہ معلوم ہوا تھا کہ ان کے جد اعلیٰ جنہوں نے اسلام قبول کیا ، بابا لول حج کے لقب سے پکارے جاتے تھے ۔ اکبر حیدری فرماتے ہیں کہ دیدہ مری کی ’’تاریخ کشمیر اعظمی‘‘ (واقعات کشمیر ۔ ۱۷۵۵ئ) اور مسکین کی ’’تاریخ کبیر کشمیر‘‘ (۱۹۰۳ئ) کا ماخذ نصیب الدین کی کتاب ’’نور نامہ‘‘ ۱۶۳۰ء ہے جو ابھی تک غیر مطبوعہ ہے ۔ اس کتاب میں رشیوں کے کمالات بیان کیے گئے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ تاریخ سے ثابت ہے کہ رشی کے لیے شادی ممنوع تھی۔ اس کے بعد وہ بابا لول حج کے بارے میں دیدہ مری کی بجائے مسکین کی تفصیل (جو تاریخی اعتبار سے بہت عرصہ کے بعد لکھی گئی ) پر انحصار کرتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ بابا لول حج نے نکاح کے بعد ازدواجی تعلقات قائم کرنے سے پیشتر اپنی منکوحہ کو چھوڑ دیا اور رہبانیت اختیار کر لی۔ گویا ان کی رائے میں بابا لول حج کی نسل آگے نہ چل سکتی تھی، لیکن اقبال کے والد نے اپنے بزرگوں ہی سے یہ سُنا ہو گا کہ ان کے جد اعلیٰ جو مسلمان ہوئے ، بابا لول حج تھے اور یہ روایت سینہ بہ سینہ ان تک پہنچی ہو گی ۔ اس لیے جیسا کہ دیدہ مری کے اقتباس سے ظاہر ہے ، بابا لول حج کی نسل لازماً آگے چلی ہو گی،اگرچہ انہوں نے خود اہل وعیال کو چھوڑ کر رہبانیت اختیار کر لی ۔ بابا لول حج کے اصل پیر و مرشد شیخ نور الدین ولی رشی بھی تو اہل وعیال کو چھوڑ کر تارک الدنیا ہو گئے تھے۔ یہ کہنا درست نہیں کہ رشی کے لیے شادی ممنوع تھی ، بلکہ شرط یہ تھی کہ اگر اولاد و ازدواج سے وابستگی ہے تو وہ اس تعلق کو توڑ کر ان سے مستقل علیحدگی ، کنارہ کشی یا فراغت اختیار کر لے ۔ سو خاندانی روایت کے مطابق بابا صاحب اسلام قبول کرنے سے پیشتر ذات کے برہمن اور گوت کے ’’سپرو ‘‘ تھے ۔ البتہ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان کا ہندو نام کیا تھا ۔ یا اسلامی نام کیا رکھا گیا ۔ ان کا ذکر تو ان کے لقب ہی سے ہم تک پہنچا ہے ۔ پس خاندانی روایت کو اگر دیدہ مری کے بیان کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ بات اخذ کی جا سکتی ہے کہ بابا صاحب نے نکاح سے پیشتر اسلام قبول کیا اور کچھ مدت بیوی کے ساتھ بسر کرنے کے بعد ان کے درمیان خلع ہوا ۔ اس صورت میں نسل آگے چلنے کا امکان ہے ۔ چونکہ مذہب یا عقیدے کا تعلق عقل سے کہیں زیادہ جذبات سے ہوتا ہے ، اس لیے کسی بھی انسان کے لیے اپنا مذہب یا عقیدہ تبدیل کرنا آسان نہیں ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بابا صاحب نے اپنا روایتی مذہب چھوڑ کر اسلام کیوں قبول کیا ؟ اس کا جواب متذکرہ کتب میں موجود نہیں ۔ البتہ ان کی زندگی کے مختصر حالات سے ، جو ہم تک پہنچے ہیں ، یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ یہ تغیر کسی جبر کے تحت وقوع پذیر ہوا، نہ کسی مادی فائدے کے حصول کی خاطر ۔ اگر یہ تغیر کسی جبر کے تحت وجود میں آیا ہوتا تو اسلام یا پیغمبر اسلام ﷺسے ان کی محبت و وابستگی کا یہ عالم نہ ہوتا کہ کئی بار پاپیادہ حج کو جاتے اور کسی مادی فائدے کے حصول کی خاطر یہ تبدیلی رونما ہوئی ہوتی تو قبول اسلام کے بعد ان کی مالی حالت کے بہتر ہو جانے کا ثبوت ملتا ۔ بابا صاحب کا تعلق برہمنوں کے اس گروہ یا گوت سے تھا جس نے اپنوں کی تعریض و تحقیر کی پروا نہ کرتے ہوئے فارسی زبان کی طرف توجہ کی اور اس میں امتیاز حاصل کیا ۔ ممکن ہے بابا صاحب اپنے برہمن بزرگوں یا دیگر بھائی بندوں کی طرح فارسی جانتے ہوں اور اس زبان سے شناسائی کے سبب ان پر اسلامی علوم کے دروازے کھلے ہوں اور اس ذاتی جدوجہد یا مطالعے نے ان کے قلب و ذہن میں ایسا انقلاب بپا کیا ہو جو ان کے اسلام قبول کرنے پر منتج ہوا ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بابا صاحب اپنے روایتی مذہب سے مطمئن نہ ہوں یا مذہبی اور دینی معاملات میں روایت کے پابند ہونے کے بجائے متجسّس یا تازہ پسند طبیعت رکھتے ہوں ۔ فوق تحریر کرتے ہیں کہ اقبال کے بزرگوں کا اسلام پر ایمان لانا ایک ولی کے ساتھ عقیدت کی وجہ سے ہوا ، اور وہ حسن عقیدت آج بھی ان کے خاندان میں موجود ہے ۱۱۔بہرحال یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ دائرہ اسلام میں آنے کے بعد بابا صاحب کا نکاح کسی مسلم گھرانے کی خاتون سے ہوا ہو ۔ دیدہ مری اور مسکین دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ ان کے بیوی سے تعلقات اچھے نہ تھے ۔ ہو سکتا ہے جیسا کہ مسکین بیان کرتے ہیں، ان کی بیوی ان کی بھینگی آنکھوں اور ٹیڑھے پائوں کی وجہ سے ان پر ہنسا کرتی ہو ، جس کے سبب بابا صاحب بالآخر دل برداشتہ ہو کر نہ صرف اہل و عیال کو چھوڑ گئے بلکہ تارک الدنیا ہی ہو گئے ۔ کشمیر کو خیر باد کہہ کر حرمین الشریفین کا رخ کیا اور بارہ سال تک سیاحت کرتے رہے ۔ اس مختصر سی تفصیل سے واضح ہے کہ بابا صاحب طبیعت کے کس قدر حساس اور خود دار ہوں گے ۔ بیوی کا رویہ باطنی حسن کی تلاش میں ان کے لیے مہمیز ثابت ہوا ۔ وہ ایمان واسلام کی شمع تو اپنی جدوجہد یا کسی عارف کی توجہ سے اپنے اندر فروزاں کر ہی چکے تھے ، لیکن ان کے شوق کی تسکین کے لیے کسی مرشد کامل سے بیعت لازمی تھی ۔ پس بارہ سال کی ہجرت کے بعد جب وہ واپس کشمیر آئے تو انہیں وہ اشارئہ غیبی ملا جس کا انہیں انتظار تھا اور انہوں نے بابا نصرالدین کی مریدی اختیار کر کے سلسلہ رشیاں سے وابستگی پیدا کر لی ۔ متذکرہ کتب میں بابا صاحب کی اولاد کا کوئی ذکر نہیں ملتا ۔ عین ممکن ہے کہ تارک ہو جانے کے بعد ان کا اپنی اولاد سے کوئی واسطہ یا سروکار نہ رہا ہو ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال کے جد اعلیٰ کب مسلمان ہوئے ؟ اقبال کے بیشتر سوانح نگار تحریر کرتے ہیں کہ ولادت اقبال سے تقریباً سوا دو یا ڈھائی سو سال پیشتر ان کے بزرگوں نے اسلام قبول کیا تھا ۔ فوق نے لکھا ہے کہ وہ تقریباً سوا دو سو سال ہوئے ، عالمگیر کے زمانے میں مشرف بہ اسلام ہوئے تھے لیکن یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی ، بلکہ فوق کی اپنی تحریریں اسے غلط ثابت کرتی ہیں ۔ فوق نے اپنی تصنیف ’’تاریخ بڈشاہی ‘‘ مطبوعہ ۱۹۴۴ء کے باب عہد بڈشاہی کے علماء و مشائخ میں جن علماء و مشائخ یا سلسلہ رشیاں سے منسلک ، بڈشاہ کے زمانے کے جن صوفیہ کے نام درج کیے ہیں ، ان میں شیخ نور الدین ولی رشی اور شیخ نصر الدین کے ساتھ بابا لولی حاجی کا ذکر بھی کیا ہے ۱۲۔ بڈشاہ ۱۴۲۰ ء میں تخت کشمیر پر بیٹھا اور ۱۴۷۰ء میں اس نے وفات پائی ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال کے جد اعلیٰ پندرہویں صدی میں مسلمان ہوئے ، یعنی اقبال کی پیدائش سے تقریباً ساڑھے چار سو سال قبل ، اور ظہیر الدین بابر کے ہندوستان میں ورود سے تقریباً ایک سو سال پہلے ، جب تخت دہلی پر سادات یا ان کے بعد سلطان بہلول لودھی کا قبضہ تھا ۔ پنجاب کے بیشتر حصہ پر جسرت گکھڑ حاوی تھا اور دکن میں بہمنی خاندان کی حکومت تھی ۔ اس بات کا ذکر اوپر اشارتاً آ چکا ہے کہ اقبال کے جدِّ اعلیٰ بابا لول حج کا تعلق سلسلہ رشیاں سے تھا ، اس لیے صوفیا کے اس حلقے کا ذکر ذرا تفصیل سے کرنا غیر مناسب نہ ہو گا ۔ فوق کی تحقیق کے مطابق کشمیر کی تاریخ پانچ ہزار سال سے زائد عرصے پر محیط ہے ،اور اس دوران اس پر ہندو راجگان کے اکیس خاندان یکے بعد دیگرے حکمران رہ چکے ہیں ۔ راجگان کشمیر کو گیارہویں اور بارہویں صدی میں زوال آیا اور اس کے اسباب قحط ، سیلاب ، محلاتی سازشیں اور اندرون ملک خانہ جنگی تھے۔ بالآخر ذوالقدر خان تاتاری (جسے اہل کشمیر ذوالچو کے نام سے پکارتے ہیں) کے حملے نے ہندو راجگان کے آخری خاندان کا خاتمہ کر دیا ۔ تیرہویں صدی کے شروع میں کشمیر پر شہمیری خاندان قابض ہوا ۔ اس ترکی النسل مسلم خاندان کا بانی شاہ میر جو بعد میں سلطان شمس الدین کے نام سے کشمیر کا بادشاہ بنا ، شمالی افغانستان کے علاقہ پنج گور(پنج کوڑہ) سے کشمیر آیا تھا۔ فوق کے اندازے کے مطابق فارسی بطور سرکاری زبان ۱۲۹۵ء میں کشمیر میں رائج ہوئی اور غالباً اسی دور میں کشمیری براہمنہ کے ایک گروہ نے قدیم قومی و مذہبی رسوم و تعصبات کو خیر باد کہہ کر اسلامی زبان و علوم کی طرف رجوع کیا جو رفتہ رفتہ ایک مستقل گوت کی ہیئت میں ’’سپرو‘‘ کہلایا ۔ شہمیری خاندان کے مشہور سلاطین شہاب الدین ، قطب الدین اور سکندر بت شکن ہو گزرے ہیں لیکن سب سے زیادہ شہرت سلطان زین العابدین بڈشاہ کے نصیب میں آئی ۔ بڈشاہ ۱۴۲۰ء میں کشمیر کے دارالسلطنت نوشہرہ (میرا کدل اور گاندربل کے درمیان ، سرینگر کا شمالی گوشہ ) میں تخت نشین ہوا ، اور ۱۴۷۰ء میں اس نے وفات پائی ۔ اس کے پچاس سالہ عہد حکومت میں کشمیر نے ظاہری اور باطنی علوم میں بڑی ترقی کی ۔ بادشاہ خود عالم اور شاعر تھا ۔کئی زبانوں سے آگاہ تھا۔ علماء مشائخ اور صوفیہ کی قدر کرتا تھا ۔ اس نے سنسکرت کی کتب کا ترجمہ فارسی میں اور فارسی کتب کا ترجمہ سنسکرت میں کرا کے ہندوئوں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کی مذہبی تعلیمات اور علوم سمجھنے کا موقع فراہم کیا ۔ اسی مقصد کے حصول کی خاطر دارالترجمہ اور دارالتصانیف کا اجرا ء بھی کیا گیا اور سلطان کے کہنے پر ملا احمد نے مہا بھارت کو فارسی کا جامہ پہنایا ۔ بڈشاہ ایک بے تعصب اور محب وطن بادشاہ تھا اور اپنے ذاتی حسن سلوک کی وجہ سے ہندوئوں اور مسلمانوں میں ہر دلعزیز تھا ۔ بادشاہ نے ہندوئوں کی دلجوئی کے لیے جزیہ موقوف کر دیا اور بت خانوں اور مندروں کی نگرانی کے علاوہ ان کے ساتھ پاٹ شالے بھی بنوائے ۔ اس نے لا اکراہ فی الدین کا عملی نمونہ پیش کیا ۔ سابقہ سلاطین کے عہد میں جن ہندوئوں کو بہ اکراہ مسلمان کیاگیا تھا ۔ سلطان کے حکم سے ان نو مسلم ہندوئوں کی شد ھی کی گئی اور کسی قاضی یا مفتی کو جرأت نہ ہوئی کہ ان سے ارتداد کا مواخذہ کرتا ۔ جن ہندوئوں نے وطن سے دوری اختیار کر رکھی تھی ، انہیں واپس بلوا کر ان کی جائدادیں انہیں لوٹائی گئیں اور ان کے لیے وظائف مقرر کیے گئے ۔ فوق کے بیان کے مطابق فارسی زبان کشمیر میں عہد بڈشاہ سے سوا سو سال سے زائدعرصہ سے سرکاری زبان کی حیثیت سے رائج ہو چکی تھی ، لیکن ابھی تک براہمنہ کشمیر میں سے بیشتر اسے ملیچھوں کی زبان سمجھتے تھے اور اپنے بھائی بندوں کو فارسی پڑھنے یا سرکاری ملازمت حاصل کرنے سے روکتے تھے اور ان میں سے جو فارسی سیکھ کر سرکاری ملازمت اختیار کرتا تھا ، اسے اپنی برادری سے خارج کر دیتے تھے ، بادشاہ نے ہندوئوں کو فارسی پڑھنے کی تلقین کی ۔ فارسی پڑھنے والے ہندو طلبہ کے لیے خاص و ظائف مقرر کیے گئے ۔ چنانچہ اس زمانے میں بہت سے کشمیری پنڈتوں نے فارسی پڑھنا شروع کی اور تھوڑے ہی عرصے میں ان میں فارسی زبان کے ایسے نامور شاعر اور عالم فاضل پیدا ہوئے کہ سلطان نے ان کی قابلیت کی وجہ سے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا اور اعلیٰ مراتب پر فائز کیا ۱۳۔ بڈشاہ سے پہلے سلطان قطب الدین اور سلطان سکندر بت شکن کے عہد میں مسلمان رشیوں کے نام تاریخوں میں ملتے ہیں ، لیکن در حقیقت شیخ نور الدین ولی رشی ، جنہوں نے سکندر بت شکن اور بڈشاہ دونوں کا زمانہ دیکھا تھا ، اس حلقے کے پیشوا اور سرخیل تھے۔ صوفیہ کے اس سلسلہ سے کشمیر میں اشاعت و تبلیغِ اسلام میں بڑی مدد ملی ۔ بقول فوق ، رشی بجائے خو دکوئی ذات یا گوت نہیں بلکہ زہاّد کا طبقہ تھا ، جسے اس نام سے پکارا جاتا تھا ۔ ان میں کھشتری ، راجپوت ، برہمن ، ویش ، میر اور بٹ ذاتوں کے افراد شامل تھے ، مگر اکثریت ایسے صوفیہ کی تھی جو اپنا روایتی مذہب ترک کر کے دائرہ اسلام میں آئے تھے ۔ ’’رشی ‘‘ سنسکرت میں تارک الدنیا اور مشغول بہ یاد خدا شخص کو کہتے ہیں ۔ کشمیری زبان میں ’’رشی ‘‘ کی بجائے ’’رکھی ‘‘ لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔ زاہدوں اور عابدوں کا یہ طبقہ ازدواج واولاد ، مال و متاع ، ہوا و ہوس سے لاتعلق ، آبادیوں سے دور ، جنگلوں بیابانوں ، یا پہاڑوں کی غاروں میں ، سکوت و خلوت کی کیفیت میں ، عبادت و ریاضت میں مشغول رہتا اور جنگلی پیدا وار پر گزارا کرتا ۔ فوق کے بیان کے مطابق بعض تاریخوں میں ’’رشی ‘‘ کی وجہ تسمیہ لفظ ’’ریشہ ‘‘ سے منسوب کی گئی ہے کہ چونکہ یہ لوگ محاربہ نفس و شیاطین میں جہاد اکبر سے کام لیتے اور شمشیر ریاضت اور عبادت کثیرالمشقت سے اپنے بدن کو ریشہ ریشہ کر دیتے تھے ، اس لیے ’’رشی ‘‘ کہلائے ۔ بانی سلسلہ ٔ رشیاں شیخ نور الدین ولی کے والد ، جن کا ہندو نام سالارسنز تھا ۔ جب مسلمان ہوئے تو ان کا اسلامی سالار الدین رکھا گیا ۔ وہ ذات کے کھشتری راجپوت تھے اور راجہ پتاسنز (راجگان کشتوار) کی چوتھی پشت میں سے تھے ۔ ان کی اہلیہ اور شیخ نورا لدین ولی کی والدہ کانام سدرہ ماجی تھا ۔ حضرت شیخ موضع کیموہ میں ۱۳۷۸ء میں پیدا ہوئے ۔ فوق تحریر کرتے ہیں کہ جناب شیخ نے جوان ہو کر اپنے بھائیوں کے زیر اثر راہزنی اختیار کی ، مگر آپ اس پیشہ سے سخت بیزار تھے ۔ چنانچہ تیس سال کی عمر میں راہزنی ترک کر کے اور اہل و عیال چھوڑ کر تارک الدنیا ہو گئے۔ کئی برس پہاڑوں اور جنگلوں میں صرف کاسنی کے پتے کھا کر گزارا کیا ۔ تاریخوں میں شیخ نورا لدین ولی کی تحصیل رشد و ہدایت اور کشف و کرامات سے متعلق کئی روایتیں درج ہیں۔ وہ کشمیری زبان کے معروف شاعر بھی تھے ۔ انہوں نے ۱۴۳۹ء میں ۶۳ سال کی عمر میں وفات پائی اور چرار شریف میں دفن ہوئے ۔ بڈشاہ ان کا بڑا معتقد تھا ، اس لیے اپنے امرا و وزرا سمیت ان کی نماز جنازہ میں شریک ہوا ۔ روضہ کی تعمیر بھی سلطان ہی کے حکم سے کی گئی ۔ بعد کے سلاطین نے اس تعمیر میں وقتاً فوقتاً اضافے کیے ۔ ۱۸۰۸ء میں کشمیر کے افغان صوبہ دار عطا محمد خان نے ان کی تعظیم میں ان کے نام کا سکہ بھی جاری کیا ۔ حضرت شیخ کے خلیفہ اوّل کا نام بام الدین رشی تھا ۔ آپ قبول اسلام سے پیشتر ذات کے برہمن تھے اور ان کا اصل نام بھیمہ سادھے تھا ۔ خلیفہ دوم کا نام زین الدین رشی تھا ۔ آپ ذات کے کھشتری راجپوت تھے اور ہندو نام جیاسین (یا سنگھ) تھا ۔ خلیفہ سوم کا نام لطیف الدین رشی تھا ۔ آپ بھی ذات کے کھشتری راجپوت تھے اور ہندو نام لدھے رینہ تھا ۔ شیخ نصرالدین رشی جو اقبال کے جد اعلیٰ بابا لول حج کے مرشد تھے ، شیخ نور الدین ولی کے خلیفہ چہارم تھے ۔ آپ بھی ذات کے کھشتری راجپوت تھے اور ہندو نام رئوتر تھا ۔ آپ حضرت شیخ کی توجہ سے مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ وفات ۱۴۵۱ء میں ہوئی اور چرار شریف میں دفن ہوئے ۱۴۔ شیخ نصرالدین کے معروف مریدوں کے نام یہ ہیں ۔لچھم رشی اوّل، لچھم رشی دوم ، جوہر الدین رشی ، صدرالدین رشی ، بدر الدین رشی اور بابا لول حج ۔ بابا لول حج کے جن مریدوں کا ذکر تذکروں میں ملتا ہے ، وہ ہیں : رکن الدین رشی ، جو اپنے مرشد کی وفات کے بعد ان کے جانشین ہوئے اور رنبو رشی جو موضع لاجورہ پتہ چہراٹ کے رہنے والے تھے ۔ سلسلہ رشیاں کے بعد کے عرفاء کی تفصیلات کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے ۱۵۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں برصغیر میں صوفیہ کے جو معروف سلسلے یا طریقے رائج ہوئے ، ان کے بانی عموماً سیّد تھے ، جو وسطی ایشیا یا مشرق وسطیٰ سے یہاں آئے اور یہیں انہوں نے وفات پائی ۔ ان کے خلفاء یا جانشین بھی اکثر ان کے اپنے خاندان یا اولاد میں سے مقرر ہوئے ؛ لیکن سلسلہ ٔ رشیاں کی ایک واضح خصوصیت یہ ہے کہ اس کے بانی کشمیر ہی کی سر زمین کے ایک نو مسلم کھشتری راجپوت کے فرزند تھے اور ان کے خلفاء یا جانشین اور مرید بھی سب کے سب نو مسلم تھے۔ دوسری خصوصیت اس طریقہ کی یہ ہے کہ اس کی تعلیمات ویدانتی اور وجودی فکر کے امتزاج پر مبنی تھیں ۔ ترک دنیا کی تلقین تو خالصتاً ویدانتی نوعیت کی تھی ۔ فوق نے اپنی تصنیف ’’تاریخ اقوام کشمیر ‘‘ طباعت ۱۹۴۳ء میں اقبال کے دادا شیخ محمد رفیق سے چوتھی پشت میں ایک بزرگ شیخ اکبر کا ذکر کیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں ۱۶۔ بابا لول حج کی اولاد میں ایک بزرگ شیخ اکبر کے نام سے ہوئے ہیں۔ باعمل صوفی اور بزرگوں کی صحبت میں بیٹھنے والے تھے ۔ ان کے تقدس و اتقاء اور ان کی خاندانی نجابت کی وجہ سے اُن کی شادی اُن کے مرشد نے،جو سیّد تھے، اپنی صاحبزادی سے کر دی تھی۔ مرشد کی وفات پر اُن کے فرزند سیّد میر نام نابالغ تھے اس لیے وہی اپنے مرشد کے جانشین قرار پائے ۔ شیخ اکبر سیلانی طبع تھے۔ کئی بار انہوں نے پنجاب کا سفر کیا ۔ فوق نے یہ نہیں بتایا کہ اقبال کے اس بزرگ کے متعلق ان کی معلومات کا ذریعہ کیا تھا ، نہ یہ واضح کیا ہے کہ شیخ اکبر ، بابا لول حج کی کس پشت میں سے تھے ۔ اس تفصیل سے یہ بھی ظاہر نہیں ہوتا کہ شیخ اکبر کے مرشد کا نام کیا تھا ، یا وہ صوفیہ کے کس سلسلہ یا طریقہ سے وابستگی رکھتے تھے ۔ اس سلسلہ میں سید نذیر نیازی نے اپنی کتاب میں اقبال کا ایک بیان نقل کیا ہے ، جو قابلِ توجہ ہے۔ اقبال نے انہیں بتایا : ہمارے والد کے دادا یا پڑ دادا پیر تھے ۔ ان کا نام تھا شیخ اکبر ۔ انہیں پیری اس طرح ملی کہ سنکھترا میں سادات کا ایک خاندان تھا جسے لوگ سید نہیں مانتے تھے ، اور اس لیے ان پر ہمیشہ طعن و تشنیع ہوا کرتی تھی ۔ اس خاندان کے سربراہ کو ایک روز جو غصہ آیا تو ایک سبز کپڑا اوڑھ کر آگ میں بیٹھ گئے ، جس کے متعلق روایت تھی کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی یاد گار ہے ۔ اس کی برکت سے آگ نے ان پرکوئی اثر نہ کیا ۔ مخالفین نے یہ دیکھا تو انہیں یقین ہو گیا کہ وہ فی الواقعہ سید ہیں ۔ ان کا انتقال ہوا تو شیخ اکبر نے ان کے مریدوں کو سنبھالا اور خاندان کی خدمت کرنے لگے ۔ ایک مرتبہ اسی خاندان کا ایک فرد والد ماجد کے پاس آیا اور کہنے لگا ، آپ دھسّوں کی تجارت کیوں نہیں کرتے ؟ اس زمانے میں معمولی دھسّوں کی قیمت دو روپے فی دھسّے سے زیادہ نہ تھی ۔ والد صاحب نے کوئی دو چار سو دھسّے تیار کیے ، تو قدرت خدا کی ایسی ہوئی کہ سب کے سب اچھے داموں پر بک گئے ، حالانکہ فی دھسّا آٹھ آنے سے زیادہ لاگت نہیں آئی تھی ۔ دو چار سو دھسّے فروخت ہو گئے تو کافی روپیہ جمع ہو گیا۔ پس یہ ابتدا تھی ہمارے دن پھرنے کی ۔ پھر بھائی صاحب بھی ملازم ہو گئے۱۷ ۔ بقول سید نذیر نیازی ، اقبال نے شیخ اکبر کے پیر خاندان کے سکونتی گائوں کے لیے لفظ سنکھترہ استعمال کیا ہے۔ نیازی نے حاشیہ میں سنکھترہ کو ضلع سیالکوٹ کا ایک گائوں بیان کیا ہے ۔ ضلع سیالکوٹ میں ایک گائوں اس نام کا ضرور ہے ، مگر فوق نے جو تفصیل دی ہے اس میں یہ ذکر نہیں کہ شیخ اکبر کا سید پیر خاندان سنکھترہ ضلع سیالکوٹ میں سکونت پذیر تھا ۔ بلکہ اس کے برعکس اس خاندان کی سکونت کشمیر ہی میں معلوم ہوتی ہے ۔ کیونکہ لکھا ہے ،کہ شیخ اکبر نے کئی بار پنجاب کا سفر بھی کیا ۔فوق نے شیخ اکبر کو اقبال کے دادا شیخ محمد رفیق کی چوتھی پشت بیان کیا ہے ، نیازی کی تحریر سے جو نئی بات پیدا ہوتی ہے ، وہ شیخ اکبر کے پیر خاندان کی سکونت سے متعلق ہے ، یعنی کیا یہ خاندان کشمیر میں تھا یا ضلع سیالکوٹ میں ؟ اگر مؤخر الذکر سکونت درست ہے تو فوق کے بیان اور شیخ اعجاز احمد کی اپنی اطلاع کے مطابق کشمیر سے ہجرت شیخ نور محمد کے والد شیخ محمد رفیق اور ان کے تین بھائیوں نے نہیں کی ، بلکہ ان کی پیدائش سے بہت پہلے یہ خاندان ہجرت کر کے سیالکوٹ آ چکا تھا اور شیخ نور محمد کے دادا یا پڑدادا شیخ اکبر ضلع سیالکوٹ ہی میں سکونت پذیر تھے ؛ مگر یہ بھی ممکن ہے کہ شیخ اکبر کی سکونت کشمیر میں ہو اور ان کا پیر خاندان ضلع سیالکوٹ ہی میں مقیم ہو ۔ جس کی نگہداشت کی خاطر وہ پنجاب یا ضلع سیالکوٹ آتے جاتے رہتے ہوں ۔ نیازی کی تحریر کی طرف جب راقم نے شیخ اعجاز احمد کی توجہ مبذول کرائی تو ان کی رائے کے مطابق : ہو سکتا ہے کہ چچا جان نے کشمیر کے کسی گائوں کا نام لیا ہو ، جسے نیازی صاحب نے سنکھترہ سنا ہو ۔ یہ وضاحت تو نیازی صاحب ہی کر سکتے ہیں ۔ اگر اڑتیس سال بعد انہیں حتمی طور پر یاد ہو کہ کیا چچا جان نے شیخ اکبر کے پیر خاندان کے متعلق یہ وضاحت کی تھی کہ یہ گائوں ضلع سیالکوٹ والا سنکھترہ تھا ￿ اس بیان سے جہاں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ میاں جی (والد اقبال) کی حیات تک پیروں کے اس خاندان سے تعلقات قائم تھے ، وہاں اس سے یہ استدلال بھی کیا جا سکتا ہے کہ پیروں کا یہ خاندان ضلع سیالکوٹ ہی میں سکونت رکھتا تھا لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پیروں کے خاندان کا یہ فرد میاں جی کے پاس کشمیر سے آیا ہو ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے بچپن میں گاہے بگاہے ، بالخصوص سردیوں میں ، میاں جی کے پاس ایک صاحب کشمیر سے آیا کرتے تھے ، جن کے متعلق کہا جاتا تھا کہ ہمارے پیروں کے خاندان سے ہیں ۔ ان کے آنے پر بے جی (والدہ اقبال) بہت جزبز ہوا کرتی تھیں۱۸۔ فوق مزید تحریر کرتے ہیں : ان (شیخ اکبر) کی چوتھی پشت میں ۔۔۔۔ چار بھائی تھے ۔ وہ ان ایام میں جب کشمیر افغانستان کے ماتحت تھا ، ترک وطن کر کے پنجاب آئے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کا وطن چونکہ تحصیل کو لگام کے علاقے میں تھا ، اس لیے وہ بانہال کو طے کرتے ہوئے جمّوں کے راستے سیالکوٹ آئے اور یہیں آ کر مقیم ہو گئے ۔فرزندِ اوّل شیخ محمد رمضان اور شیخ محمد رفیق فرزند دوم نے سیالکوٹ کو ہی مستقل وطن قرار دے دیا ۔ شیخ عبداللہ ضلع سیالکوٹ میں موضع جیٹھ یکے میں سکونت پذیر ہو گئے ۔ چوتھے بھائی نے جو سب سے چھوٹے تھے اور جن کا نام معلوم نہیں ہو سکا ، لاہور میں سکونت اختیار کی ۔ شیخ محمد رمضان صوفی منش بزرگ تھے ۔ انہوں نے تصوف پر فارسی زبان میںچند ایک کتابیں بھی لکھی ہیں ۔ شیخ محمد رفیق نے سیالکوٹ میں بزازی کی دکان کھول لی ۔ ان کے فرزند شیخ نور محمد (والد اقبال) بھی والد کی دکان پر کام کرتے رہے ۔ البتہ شیخ محمد رفیق کے چھوٹے فرزند شیخ غلام محمدمحکمہ نہر میں ملازم ہو گئے اور روپٹر میں تھے کہ شیخ محمد رفیق جو اپنے فرزند کی ملاقات کے لیے آئے ہوئے تھے ، یہیں بیمار ہوئے اور یہیں انتقال کر گئے ۔ آپ کی آخری آرام گاہ بھی روپٹر ہی میں ہے ۔ تیسرے فرزند شیخ عبداللہ کی اولاد کا کثیر حصہ ریاست حیدر آباد دکن میں رہتا ہے ۔ وہیں ان کی بودوباش ہے اور زراعت ان کا پیشہ ہے ۔ چوتھے بھائی جو لاہور میں تھے وہ لاولد ہی انتقال کر گئے ۔ شیخ محمد رفیق کے والد کا نام سیالکوٹ میں نہ کسی عمر رسیدہ آدمی کو معلوم ہے اور نہ ہی ان کی اولاد اور دوسرے قرابت داروں کو ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے والد پنجاب نہیں آئے تھے بلکہ یہ خود ہی اپنے بھائیوں کے ہمراہ آئے تھے ۔ اس لیے کسی کو اُن کے والد کا نام معلوم نہیں ہو سکا ۔ شیخ محمد رفیق کے متعلق مولانا عبدالعزیز ملک (گوجرانوالہ عمر ۹۴ سال) کا بیان ہے کہ وہ درمیانے قد کے بزرگ تھے اور نہایت وجیہ اور خوبصورت تھے اور خدوخال لب و لہجہ اور درخشاں چہرے سے ان کی کشمیریت ٹپکی پڑتی تھی۱۹ ۔ فوق کی اس تفصیل میں کچھ خامیاں رہ گئی ہیں ۔ شیخ محمد رفیق اور ان کے بھائیوں کے والد کا نام شیخ جمال الدین تھا ، کیونکہ شیخ اعجاز احمد کے بیان کے مطابق بعض رجسٹری شدہ مسودات میں ان کی ولدیت یونہی درج ہے ۔ اسی طرح شیخ محمد رفیق کے اس نا معلوم بھائی کا نام شیخ عبدالرحمن تھا ۔ یہ درست نہیں کہ انہوں نے لاہور میں سکونت اختیار کی اور لا ولد فوت ہوئے ۔ شیخ عبدالرحمن کی رہائش بھی سیالکوٹ ہی میں تھی اور ان کی اولاد آج تک وہیں آباد ہے ۔ اسی طرح شیخ عبداللہ کی اولاد بھی سیالکوٹ میں آباد ہے ۔ گو یہ صحیح ہے کہ ان کے خاندان میں سے بعض افراد حیدر آباد دکن چلے گئے تھے ۔ فوق لکھتے ہیں کہ شیخ محمد رمضان (اقبال کے دادا کے بھائی) نے فارسی زبان میں تصوف پر چند ایک کتابیں بھی لکھیں ، لیکن ان کتب کی انہوں نے کوئی تفصیل نہیں دی ہے نہ یہ بتایا ہے کہ ان کی اس اطلاع کا ذریعہ کیا تھا ۔ ’’روز گار فقیر‘‘ ( جلد دوم) میں شیخ اعجاز احمد کے حوالے سے تحریر ہے : علامہ اقبال کے اجداد میں کس نے اور کب کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ میں سکونت اختیار کی ۔ اس بارے میں پورے وثوق کے ساتھ کوئی بات نہیں کہی جا سکتی۔۔۔ قرآئن یہ ہیں کہ اٹھارہویں صدی کے آخر میں یا انیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں یہ ہجرت ہوئی ہو گی اور ہجرت کرنے والے بزرگ یا تو علامہ کے دادا کے باپ شیخ جمال الدین تھے یا ان کے چار بیٹے ، جن کا نام شیخ عبدالرحمن ، شیخ محمد رمضان ، شیخ محمد رفیق اور شیخ عبداللہ تھے ۔ اس کا بھی امکان ہے کہ شیخ جمال الدین نے اپنے چاروں بیٹوں کو ساتھ لے کر ترک وطن کیا ہو، بہرحال یہ تو ثابت ہے کہ انیسویں صدی کے آغاز میں یہ چاروں بھائی سیالکوٹ میں سکونت پذیر تھے ۔ ان میں علامہ اقبال کے دادا شیخ محمد رفیق اور ان کے دو بھائی شیخ عبدالرحمن اور شیخ محمد رمضان تو سیالکوٹ میں رہتے تھے اور تیسرے بھائی شیخ عبداللہ موضع جیٹھ یکے میں۔ ان چاروں بھائیوں کی اولاد آج تک شہر سیالکوٹ اور موضع جیٹھ یکے میں آباد ہے ۔ علامہ کے دادا کی پہلی شادی شہر سیالکوٹ کے ایک کشمیری خاندان میں ہوئی ۔ اس بیوی سے کوئی اولاد نہ ہوئی اور وہ وفات پا گئیں ۔ دوسری شادی جلالپور جٹاں کے ایک کشمیری گھرانے میں ہوئی ۔ یہ بیوی بہت خوبصورت تھیں ، اس لیے ان کا لقب ’’گجری ‘‘ پڑ گیا تھا ۔ ان سے شیخ محمد رفیق کے اوپر تلے دس لڑکے ہوئے اور سب کے سب فوت ہو گئے۔ علامہ کے والد (شیخ نور محمد) شیخ محمد رفیق کی گیارہویں اولاد تھے ۔ ان کی پیدائش پر گھر کی عورتوں نے بڑی منتیں مانیں ۔ پیروں ، فقیروں سے دعائیں بھی کرائیں ، اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ کسی نیک دل بزرگ کی دعا قبول ہوئی اور علامہ کے والد نہ صرف زندہ رہے بلکہ طویل عمر پائی ۔ قمری حساب سے ان کی عمر ۹۶ سال اور شمسی حساب سے ۹۳ سال کی ہوئی ۔ انہوں نے اپنے قابل فخر بیٹے اقبال کی شہرت ، عزت اور مقبولیت کی بہاریں بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ۔ علامہ کے والد کی پیدائش کے بعد ان کے والدین کے یہاں ایک اور لڑکا بھی پیدا ہوا ۔ ان کا نام غلام محمد تھا ۔ وہ محکمہ نہر میں اوورسیئر تھے اور روپٹر ضلع انبالہ میں متعین تھے ۔ شیخ محمد رفیق اپنے بیٹے سے ملنے کے لیے روپٹر گئے ہوئے تھے کہ وہیں ہیضہ ہوا اور اسی مرض میں اللہ کو پیارے ہو گئے ۔ روپٹر ہی میں وہ دفن ہوئے ۔ شیخ غلام محمد نرینہ اولاد سے محروم تھے ۔ وفات کے وقت ان کی دو لڑکیاں حیات تھیں، جن کی اولاد شہر سیالکوٹ میں آج تک آباد ہے۲۰ ۔ شیخ نور محمد (والد اقبال) کو موت سے بچانے کی خاطر اس زمانے کے ضعیف الاعتقاد اور توہم پرست معاشرہ کی رسم کے مطابق ان کے والدین نے ان کا ناک چھید کر نتھ پہنائی ، تاکہ نظر بد یا قدرت کی منفی قوتوں کو دھوکا دیا جا سکے ، کہ بچہ لڑکا نہیں لڑکی ہے ۔ اسی سبب بعد میں ان کا لقب نتھو پڑ گیا ۔ شیخ نور محمد کی وفات ۱۹۳۰ء میں ہوئی ۔ اگر شمسی حساب سے انہوں نے ۹۳ سال عمر پائی تو سنہ ولادت ۱۸۳۷ ء ہو گا اور اس کی تصدیق بھی اس بات سے ہوتی ہے کہ شیخ نور محمد کہا کرتے تھے کہ ۱۸۵۷ء کے ہنگامے میں وہ جوان تھے ، یعنی ان کی عمر تب بیس برس تھی ۔ انسان کے لیے ترک وطن کرنا کوئی آسان کام نہیں ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال کے بزرگوں نے کشمیر سے ہجرت کیوں کی ؟ اس کا کوئی واضح جواب ہمارے پاس موجود نہیں ۔ بقول فوق جب اقبال کے بزرگ کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آئے تو کشمیر افغانوں کے ماتحت تھا ۔ اگر یہ ہجرت اٹھارہویں صدی کے آخری یا انیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں ہوئی تو اس وقت کشمیر میں افغانوں کا زوال شروع تھا اور سکھ اس پر قابض ہو رہے تھے۔ فوق لکھتے ہیں کہ کشمیر سے ہجرت کرتے وقت بزرگان اقبال کی سکونت تحصیل کو لگام کے علاقے میں تھی ۔ ہمیں معلوم نہیں کہ فوق نے یہ اطلاع کہاں سے حاصل کی ۔ البتہ ان کا یہ قیاس درست ہو سکتا ہے کہ وہ بانہال سے گزر کر جمّوں کے راستے سیالکوٹ آئے۲۱ ۔ احمد شاہ ابدالی ۱۷۵۲ء میں کشمیر پر حملہ آور ہوا اور اسے فتح کر کے درانی سلطنت میں شامل کر لیا۔ کشمیر پر کابل سے حکومت صوبہ داروں کے ذریعے ہونے لگی ۔ نو سال بعد یعنی ۱۷۶۱ء میں احمد شاہ ابدالی نے پانی پت کی تیسری لڑائی میں مرہٹوں کو شکست دی اور وہ ۱۷۷۲ء میں فوت ہو گیا۔۱۷۹۸ء میں اس کے ایک جانشین زمان شاہ نے رنجیت سنگھ کو لاہور کا حاکم مقرر کیا، جو بعد ازاں پنجاب اور سرحد کے علاقوں میں افغان برتری کا قلع قمع کر کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حیثیت سے اس سارے علاقے کا آزاد اور خود مختار حاکم بن گیا ۔ صوفی کے مطابق افغانوں کے کشمیر پر تسلط کی مدت کل ستاسٹھ برس ہے (۱۷۵۲ء تا ۱۸۱۹ئ) اس دوران میں اس پر چودہ افغان صوبہ داروں نے حکومت کی ۔ صوفی تاریخ کشمیر کے اس دور کو افراتفری کے دور کا نام دیتے ہیں ۔ کیونکہ افغانوں کے ماتحت کشمیریوں کی حالت ابتر ہو گئی ۔ افغان صوبہ داروں کی کوشش ہمیشہ یہی رہی کہ کسی طرح کابل سے آزاد ہو جائیں ۔ دوسری طرف تخت کابل کے مختلف دعویداروں کی آپس میں خانہ جنگی کا خرچ بھی کشمیر کو اٹھانا پڑتا تھا ۔ مثال کے طور پر ۱۷۵۷ء میں صوبہ دار عبداللہ خان کشمیر سے ایک کروڑ روپیہ لے کر کابل گیا ۔ چند سال بعد کشمیر میں ایسا قحط پھوٹا کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ ۱۷۷۶ء میں صوبہ دار کریم داد خان کے عہدِ حکومت میںتین ماہ کے عرصہ تک کشمیر میں وقتاً فوقتاً شدید زلزلے آتے رہے ، جن سے ہزاروں افراد متاثر ہوئے ۔ ۱۷۸۳ء میں صوبہ دار آزاد خان کے دور حکومت میں افغانوں کی آپس میں خانہ جنگی کے علاوہ کشمیر میں پھر ایک سخت قحط پڑا اور نمک کی قیمت چار روپے سیر تک پہنچ گئی ۔ سیف الدولہ مدد خان اور میرداد خان کے عہد حکومت میں ، جو ۱۷۸۸ء میں ختم ہوا ، کشمیریوں پر اتنے ٹیکس عائد تھے کہ کوئی پیٹ بھر کر کھانا نہ کھا سکتا تھا۔ ۱۷۸۹ء میں جمعہ خان کے دور حکومت میں شدیدبرف باری کے سبب سیلاب نے کشمیر میں بڑی تباہی مچائی ۔ ۱۷۹۳ء سے لے کر ۱۸۰۰ء تک کشمیر میں افغانوں کی آپس میں خانہ جنگی کے باعث ہزاروں جانیں تلف ہوئیں ۔ بالآخر صوبہ دار عبداللہ خان گرفتار ہوا اور اسے پابہ جولاں کابل لے جایا گیا ۔ ۱۸۰۱ء میں کابل کے بادشاہ زمان شاہ کو پکڑ کر اندھا کر دیا گیا اور اس کا بھائی محمود شاہ افغانستان کا بادشاہ بنا ۔ اسی دوران عبداللہ خان کابل سے فرار ہو کر کشمیر آ پہنچا اور کابل سے آزادی کا اعلان کر دیا ۔ کابل میں محمود شاہ کو معزول کر کے شجاع الملک کو بادشاہ بنا دیا گیا ۔ ۱۸۰۶ء میں اس نے شیر محمد خان کو کشمیر کی تسخیر کے لیے روانہ کیا ، لیکن عبداللہ خان ۱۸۰۷ء میں فوت ہو گیا ۔ ۱۸۰۹ء میں کابل پھر افغانوں کی اندرون ملک خانہ جنگی کا شکار ہوا۔ شجاع الملک کو عظیم خان نے شکست دی اور اس نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پناہ لی ۔ شیر محمد خان کشمیر سے کابل پہنچا اور وہاں قتل کر دیا گیا ۔ اس کے بعد عطا محمد خان کشمیر کا صوبہ دار بنا اور ۱۸۱۰ء میں اس نے کابل سے آزادی کا اعلان کیا ۔ ۱۸۱۳ء میں عطا محمد خان نے مہاراجہ رنجیت سنگھ اور فتح خان کی فوجوں سے شکست کھائی اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کو چکمہ دے کر فتح محمد کشمیر پر قابض ہو گیا ۔ ۱۸۱۴ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے کشمیر پر حملہ کیا لیکن فتح خان کے جانشین عظیم خان کے ہاتھوں شکست کھا کر پسپا ہوا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ سیالکوٹ کے راستے کشمیر پر حملہ آور ہوا تھا ، بلکہ اس نے کچھ روز سیالکوٹ میں ٹھہرنے کے بعد درّہ پیر پنجال کے راستے کشمیر میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی ۔ اس سال بھی کشمیر میں ایک مہیب قحط پڑا اور ہزاروں جانیں اس کی بھینٹ چڑھیں ۔ عظیم خان کو کابل واپس بلوا لیا گیا ۔ ۱۸۱۸ء میں اس کا بھائی جبار خان صوبہ دار بنا ۔ یہ کشمیر کا آخری افغان حاکم تھا ۔ ۱۸۱۹ء میں اس نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوجوں سے شکست کھائی اور کابل بھاگ گیا ۔ یوں ۱۸۱۹ء میں کشمیر سکھوں کے قبضے میں آ گیا۔ کشمیر پر سکھوں کی حکومت ستائیس برس (۱۸۱۹ ء تا ۱۸۴۶ئ) تک قائم رہی ، اور اس دوران ان کے دس صوبہ دار یہاں من مانی کرتے رہے ۔ صوفی کے نزدیک سکھوں کا عہد حکومت کشمیر کی تاریخ کا تاریک ترین دور تھا ۔ وہ ولیم مور کرافٹ کے حوالے سے (جو ۱۸۲۴ء میں کشمیر گیا) تحریر کرتے ہیں کہ سکھ کشمیریوں کو جانوروں کی طرح سمجھتے تھے ۔ ان کے دور حکومت میں اگر کوئی سکھ کسی کشمیری کو قتل کر دیتا تو اسے قانوناً سولہ روپے سے بیس روپے جرمانہ ادا کرنا پڑتا اور اس رقم میں سے چار روپے مقتول کے خاندان کو ملتے اگر وہ ہندو ہوتا ، اور دو روپے اگر وہ مسلمان ہوتا ۔ کشمیریوں پر ٹیکسوں کا اتنا بوجھ تھا کہ قصبوں کے گردو نواح فقیروں سے اٹے پڑے تھے اور ہزاروں لوگ نہایت کسمپرسی کے عالم میں پنجاب یا ہندوستان کی طرف ہجرت کر رہے تھے ۔ بیرن شو نبرگ (جو چند سال بعد کشمیر گیا ) نے بھی اپنی تحریروں میں سکھوں کے ماتحت کشمیریوں کی نہایت درد ناک تصویر کھینچی ہے ۔ ان کی حکومت میں گائے کے ذبیحہ کی سزا موت تھی ۔ اگر کوئی مسلمان گائے ذبح کرتے پکڑا جاتا تو اسے سرینگر کی گلیوں میں گھسیٹا جاتا اور پھر پھانسی پر لٹکا دیا جاتا یا زندہ جلا دیا جاتا۔ ۱۸۳۱ء میں کنور شیر سنگھ کے عہد حکومت میں کشمیر میں ایسا قحط پڑا کہ اس کی آبادی آٹھ لاکھ سے دو لاکھ رہ گئی ۔ اسی سال وکٹریاک موں کشمیر میں تھا ۔ وہ کشمیر سے لکھے گئے اپنے خطوط میں ایک جگہ لکھتا ہے کہ کوٹلی میں میرے کیمپ کے نزدیک درختوں پر درجنوں شخص پھانسی پر لٹکائے گئے تھے ۔ جب بھیم سنگھ اردلی مجھے ملنے آیا تو بڑی بے پروانی سے کہنے لگا کہ اپنے دور حکومت کے پہلے سال اس نے دو سو کشمیریوں کو پھانسی پر چڑھایا تھا، لیکن اب ان پر حاکموں کا خوف طاری رکھنے کے لیے ایک آدھ درجن کو پھانسی دینا کافی ہے ۔ یاک موں لکھتا ہے کہ اگر میرے اختیار میں ہوتا تو بھیم سنگھ اور اس کے تین سو سپاہیوں کو ، جو کسی لحاظ سے بھی ڈاکوئوں سے کم نہیں ، ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنا کر کسی مضبوط سڑک کی تعمیر پر لگا دیتا ۔ اس کے نزدیک کشمیر ایک صحرا کی طرح غیر آباد تھا ۔ ۱۸۳۲ء میں کرپا رام کے عہد حکومت میں کشمیر کو ایک بار پھر زلزلوں نے جھنجھوڑا ۔ ڈاکٹر جوزف ولف کا بیان ہے کہ اس نے ۲۱ اکتوبر ۱۸۳۲ء کو کشمیر کو خیر باد کہا ۔ رستہ میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ سکھوں کی بربریت سے بچنے کی خاطر کشمیر سے فرار ہو رہے تھے ۔ نیم برہنہ عورتیں اپنے بچے سروں پر اٹھائے بھاگی چلی جا رہی تھیں وین ۱۸۳۵ء میں کشمیر گیا۔ اس نے دیہات کو خالی پایا ، کیونکہ ان کے مکین ہجرت کر کے پنجاب ، یو پی اور دیگر علاقوں میں پناہ گزین ہو چکے تھے ۔ ۱۸۳۶ء میں سکھوں کی شکست کے بعد جب پنجاب پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا تو انہوں نے کشمیر کو پچاس لاکھ روپے کے عوض مہاراجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ بیچ دیا ۔ یوں کشمیر ڈوگرہ خاندان کی جاگیر بن گیا ۲۲ ۔ انسان عموماً آسودہ زندگی کی تلاش میں یا خرابی حالات کے سبب ترک وطن کرتا ہے ۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کے جد اعلیٰ پنڈت راج کول ، جو فارسی اور سنسکرت کے عالم تھے ، مغلوں کے آخری دور میں بادشاہ فرخ سیر کے زمانے میں ، تقریباً ۱۷۱۶ء میں ، دہلی آکر آباد ہوئے ۔ فرخ سیر بادشاہ جب کشمیر گیا تو پنڈت راج کول کی شخصیت سے متاثر ہوا اور انہیں خاندان سمیت دہلی لے آیا ۔ بعد میں یہ خاندان الہ آباد منتقل ہو گیا ۔اقبال کے ہم گوت اور دوست سرتیج بہادر سپرو (جو فارسی کے عالم تھے) کے بزرگ ، ان کے اپنے بیان کے مطابق ان کی پیدائش سے ایک سو تیس سال پہلے کشمیر سے ہجرت کر کے ہندوستان میں آباد ہوئے ۔ خواجہ ناظم الدین کے بزرگ ۱۸۲۲ء میں اپنی طرف سے سکھ بربریت کی شکایت مغل بادشاہ کو کرنے دہلی گئے تھے ۔ جب وہاں پہنچ کر انہیں بادشاہ کی بے بسی کا احساس ہوا یا یہ معلوم ہوا کہ بادشاہ اس سلسلے میں کوئی قدم اٹھانے سے قاصر ہے تو وہ بنگال جا آباد ہوئے اور ڈھاکہ کے نوابوں کے خاندان کی بنیاد رکھی ۲۳ ۔ کشمیر پر افغانوں اور سکھوں کے تسلط کی مختصر روداد بیان کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی تاکہ واضح کیا جا سکے کہ اٹھارہویں صدی کے آخر یا انیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں ، جب اقبال کے بزرگوں نے کشمیر سے ہجرت کی تو وہاں کے حالات کیا تھے ۔ ظاہر ہے کہ تاریخ کشمیر کے متذکرہ دور میں قحط ، سیلاب ،زلزلے ، افغانوں کی اندرون ملک خانہ جنگی ، ٹیکسوں کا بوجھ ، غربت و افلاس ، سکھوں کی سفاکی و خون ریزی اورجور و ستم کو بڑا دخل ہے ۔ اس زمانے میں بے شمار کشمیری خاندان ترک وطن کر کے برصغیر کے مختلف شہروں میں پناہ گزیں ہوئے ۔ اس لیے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اقبال کے بزرگ بھی انہی حالات کے پیش نظر عدم تحفظ کے عالم میں افغانوں کے آخری دور میں وطن سے ہجرت کر گئے اور سیالکوٹ پہنچ کر انہوں نے تجارت کو اپنا پیشہ بنایا ۔ اقبال کے سلسلۂ اجداد کے تذکرے سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا تعلق ایک ایسے خاندان سے تھا جو فطری طور پر دنیوی یا مادی آسودگی سے کہیں زیادہ اخلاقی اور روحانی مسرتوں کی جستجو میں تھا اور جو دنیا کے مقابلے میں ہمیشہ دین کو ترجیح دیتا تھا ۔ غالباً اسی بنا پر اقبال ’’ضرب کلیم ‘‘ میں اپنی نظم ’’جاوید سے خطاب‘‘ میں ارشاد کرتے ہیں : غارت گر دیں ہے یہ زمانہ ہے اس کی نہاد کافرانہ دربار شہنشہی سے خوشتر مردان خدا کا آستانہ خالی ہوا ان سے دبستاں تھی جن کی نگاہ تازیانہ جس گھر کا مگر چراغ ہے تو ہے اس کا مذاق عارفانہ اقبال نے خصوصاً اپنی جوانی میں بہت سے ایسے اشعار کہے ہیں جو ان کی کشمیر کے ساتھ وابستگی ظاہر کرتے ہیں ۔ اسی طرح باوجود اس کے کہ اقبال کے ہاں محدود قسم کی وطنیت یا قومیت کی گنجائش نہیں، کیونکہ ان کا انداز فکر عالمی ہے ، ان کے دل میں کشمیراور اپنے تباہ حال ہموطنوں کے لیے جو درد و کرب تھا اس کا عکس ان کے بعض اشعار میں دیکھا جا سکتا ہے ۔ اسی طرح اپنے برہمن نسب کی طرف بھی اقبال نے چند اشعار میں اشارے کیے ہیں ۔ ہندوئوں کو بالعموم اور برہمنوں کو بالخصوص اپنے اسلاف کے برہمن ہونے پر بڑا فخر رہا ہے۔ غالباً اسی سبب پنڈت رام چندر دہلوی فاضل عربی و سنسکرت نے اقبال پر اپنے مضمون میں تحریر کیا ہے : ایشوری گیان اور کلام ربانی کو برہمن زادہ ہی سمجھ سکتا ہے ۔ اس میں اقبال نے کیا راز پنہاں رکھا ہے ؟ یہی کہ وہ کشمیری پنڈت تھے ۔ ہزاروں برس تک ان کے آباو اجداد نے روحانیت کی تربیت میں اقبال کو اپنے اندر پرورش کیا۲۴ ۔ برہمنی قیادت نے ہندوستان کو سیاسی آزادی دلائی ، مگر عجیب اتفاق ہے کہ برصغیر میں مسلم قومیت کے اصول اور الگ مسلم ریاست یعنی پاکستان کے قیام کا تصور بھی ایک برہمن زادے نے دیا ۔ سوال پیدا ہوتا ہے ، کیا اقبال کو اپنے اسلاف کے برہمن ہونے پر فخر تھا یا جو کچھ اپنے اسلاف سے انہیں ورثہ میں ملا، اس میں برہمنیت کا کتنا حصہ تھا؟ انسان کی نجی زندگی میں متروکہ عقائد کی کوئی اہمیت نہیں رہتی بلکہ ان کا اثر تو ایک آدھ نسل تک مکمل طو رپر زائل ہو جاتا ہے ۔ اقبال کے جد اعلیٰ نے ان کی پیدایش سے تقریباً ساڑھے چار سو سال قبل اسلام قبول کیا ۔ اس لیے اقبال کو اپنے اسلاف کے برہمن ہونے پر کیا فخر ہو سکتا ہے ، مگر یہ حقیقت ہے کہ اقبال گائے کا گوشت نہ کھا سکتے تھے ۔ اس لیے گائے کا گوشت گھر میں نہ پکتا تھا ۔ اگر انہیں غلطی سے کوئی گائے کا گوشت کھلا دیتا تو ان کا معدہ قبول نہ کرتا اور ان کی طبیعت مکدّر ہو جاتی ۔ علاوہ اس کے گو وہ علم نجوم کے قائل نہ تھے ، انہوں نے راقم کی پیدائش پر دو جنم پتریاں بنوائیں ، جو محفوظ رکھی گئیں ۔ ایک جنم پتری لاہور میں راجہ نریندر ناتھ نے ترتیب دی اور دوسری میسور سے پنڈت سر نیواسیہ نے بنا کر بھیجی ۔ بہرحال ان کے اشعار میں ، جن میں برہمن نسبی کی طرف اشارے ہیں ، طنز کا پہلو نمایاں ہے،یعنی یہ کہ سیاست کے میدان میں مسلمان ایک دوسرے سے جھگڑ رہے ہیں ، لیکن قدرت کی ستم ظریفی ہے کہ اگر یہاں کوئی حقیقی معنوں میں اسلام کے اسرار و رموز یا اس کے روشن مستقبل سے آگاہ ہے، تو برہمن زادہ ہے ۔ اقبال کے بعض اشعار سے یہ ثاثر بھی ملتا ہے کہ ان کے نزدیک فلسفے ایسے علوم پر ان کے عبور کا سبب ان کی برہمن نسبی تھی ، مگر اقبال نے خود ہی فلسفہ کو اپنی رہبری کے لیے ناکافی پا کر مسترد کر دیا ۔ ان کے تجربے میں تو عشق رسول ؐ ہی ایسی نعمت ہے جس کی ذریعے وہ اپنے تمام فکری مسائل حل کرسکے تھے ۔ اس لیے قرآنی تعلیمات سے ان کا شغف ، اسلام کے ساتھ ان کی محبت اور مسلمان ہونے پر ان کا فخر ، وہ فطری عناصر تھے ، جنہوں نے ان کی شخصیت کی تشکیل کی ۔ مآخذ باب : ۱ ۱ ۔ تحریر کے عکس کے لیے دیکھیے ’’روز گار فقیر‘‘ ،جلد دوم از فقیر سید وحید الدین صفحہ ۱۲۰۔ ۲ ۔ ’’انوار اقبال ‘‘ مرتبہ بشیر احمد ڈار ، صفحات ۵۱ تا ۸۷ ۔ سر عبدالقادر نے بھی اقبال کے حالات سے متعلق اپنے مضمون میں ، جو ’’خدنگِ نظر‘‘ لکھنؤ مئی ۱۹۰۲ء میں شائع ہوا ، تحریر کیا ہے کہ گوت ان کی ’’سیفرو‘‘ ہے ۔ ۳ ۔ ’’تاریخ اقوام کشمیر ‘‘ ،جلد اوّل ، صفحات ۴۳ ، ۴۴ ۔ خط کے پورے متن کے لیے دیکھیے ’’انوار اقبال‘‘ ، صفحات ۷۵ تا ۷۷ ۔ ۴ ۔ ’’تاریخ اقوام کشمیر ‘‘ جلد دوم ،صفحہ ۴۴ ۔ سپرووں کے کسی مسلم خاندان کی تلاش اقبال کے برادر زادے شیخ اعجاز احمد کی شادی کے سلسلہ میں کی گئی تھی ، لیکن بقول اقبال ناکامی ہوئی ۔ ۵ ۔ اصل خط شیخ اعجاز احمد کے پاس محفوظ ہے ۔ عکس کے لیے ملاحظہ ہو ۔ ’’صحیفہ‘‘ اقبال نمبر حصہ اوّل ، اشاعت دسمبر ۱۹۷۳ء ، صفحات ۴ اور ۵ کے درمیان ۔ رجسٹرار دہلی یونیورسٹی ڈاکٹر صوفی غلام محی الدین تھے ۔ ۶ ۔ ’’تاریخ اقوام کشمیر ‘‘ طباعت ۱۹۴۳ء ، صفحات ۳۲۰ تا ۳۲۳ ۔ ۷ ۔ ’’تحائف الابرارفی ذکر الاولیاء الاخیار ‘‘ صفحات ۱۲۳ ، ۱۲۴ ۸ ۔ ’’روز گار فقیر ‘‘ جلد دوم ، صفحات ۱۱۳ ، ۱۱۴ ۹ ۔ ’’صحیفہ ‘‘ اقبال نمبر، اکتوبر ۱۹۷۳ء حصہ اوّل ، صفحہ ۹ ، مضمون’’ اقبال کے اجداد کا سلسلۂ عالیہ ‘‘ از ڈاکٹر محمد باقر ۔ ۱۰۔ ’’ادبی دنیا ‘‘ ، مئی ۱۹۶۵ء صفحہ ۹ ۔ مضمون’’ اقبال سے میرے تعلقات‘‘ ، از خواجہ حسن نظامی ۔ ۱۱ ۔ ’’مشاہیر کشمیر ‘‘ طباعت ۱۹۳۰ء ۱۲ ۔ ’’تاریخ بڈشاہی ‘‘، (طباعت ۱۹۴۴ئ) ،صفحات ۴۰۰ ، ۴۰۱ ۱۳ ۔ ایضاً ، صفحات ۲۹۴ ، ۲۹۵،۲۹۸، ۲۹۹، ۳۰۶تا ۳۰۹ ، ۳۵۷ ۔ فوق نے پنڈت بیربر کاہچرو کی تصنیف ’’مجمع التواریخ کشمیر ‘‘ پر انحصار کیا ہے ۔ ۱۴ ۔ ’’تاریخ اقوام کشمیر ‘‘ (طباعت ۱۹۳۴ئ) صفحات ۳۵۲ تا ۳۵۶ ۔ نیز دیکھیے کشمیر از ڈاکٹر جی ۔ ایم ڈی صوفی ۔ (انگریزی )جلد اوّل ، صفحات ۲۸ تا ۱۰۲ ۔ چرار شریف سرینگر سے تقریباً بیس میل کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا قصبہ ہے ۔ شیخ نور الدین ولی رشی کے معتقد ہندو بھی ہیں جو انہیں نندہ رشی یا سہاجا نندہ کے ناموں سے یاد کرتے ہیں ۔ ۱۵ ۔ صحیفہ اقبال نمبر اکتوبر ۱۹۷۳ء جلد اوّل ، صفحات ۱۱ ، ۱۲ ۔ ’’اقبال کے اجداد کا سلسلہ عالیہ ‘‘ از ڈاکٹر محمد باقر ۱۶ ۔ صفحات ۳۲۰ تا ۳۲۳ ۱۷ ۔ اقبال کے حضور ’’جلد اوّل ، صفحات ۱۶۹ ، ۱۷۰ ۱۸ ۔ خط بنام راقم ۱۹ ۔ ’’تاریخ اقوام کشمیر (طباعت ۱۹۴۳ئ) صفحات ۳۲۰ تا ۳۲۳ ۲۰ ۔ فقیر سید وحید الدین ، صفحات ۱۱۵ ، ۱۱۶ ۲۱ ۔ دیکھیے ’’نقوش ‘‘ آپ بیتی نمبر ، جون ۱۹۶۴ء صفحہ ۲ ۔ اقبال کا بیان ہے کہ ان کے آبا واجداد برہمن تھے۔ انہوں نے اپنی عمریں اس سوچ میں گزار دیں کہ خدا کیا ہے اور میں اس سوچ میں گزار رہا ہوں کہ انسان کیاہے اور یہ کہ کشمیر میں ان کے خاندان کی رہائش موضع چکو پرگنہ آئوون (تحصیل کولگام ) میں تھی ۔ موضع چکو پرگنہ آئوون کا ذکر تو بابا لول حج کے وطن کے سلسلہ میں آیا ہے اور بابا لول حج کا تعین پندرہویں صدی میں کیا گیا ہے ۔ کیا بابا لول حج کی اولاد کئی صدیوں تک یہیں آباد رہی اور اقبال کے آبا و اجداد تحصیل کولگام سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آئے ؟ ایسا ممکن تو ہو سکتا ہے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ فوق کی اس اطلاع کا ذریعہ اقبال کے والد یا اقبال خود ہوں۔ نیز دیکھیے ’’اقبال کے چند جواہر ریزے ‘‘ از خواجہ عبدالحمید صفحہ ۲۳۔کشمیر میں بعض کی تحقیق کے مطابق اقبال کے بزرگ شمالی کشمیر کے علاقہ لولاب یا اننت ناگ سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آئے۔ لیکن اب جدید تحقیق کے تحت دعویٰ کیا گیا ہے کہ اُن کے بزرگوں کا تعلق دراصل جنوبی کشمیر کے موضع ساپر ضلع پلوانہ سے تھا ۔ (ڈیلی ٹائمز ،لاہور، ۳؍اگست ۲۰۰۳ئ) ۲۲ ۔ ’’کشمیر‘‘ (انگریزی) جلد اوّل ، صفحات ۲۹۶ تا ۳۳۸ ۔ جلد دوم صفحات ۶۹۹ تا ۷۵۰ ۲۳ ۔ ایضاً جلد اوّل ، صفحات ۱۷۳ ، ۲۸۸ ، ۲۸۹ ۔ جلد دوم صفحہ ۷۲۹ ۲۴ ۔ دیکھیے ’’احسان ‘‘ اقبال نمبر جون ۱۹۳۸ء باب: ۲ خاندان سیالکوٹ میں سیالکوٹ پنجاب کے شمال مشرق میں ایک نہایت قدیم شہر ہے - فوق کی تحقیق کے مطابق اسے پانچ ہزار سال یا اس سے بھی زاید عرصہ قبل راجا شل نے آباد کیا اور شاکل نام رکھا - مہابھارت میں لکھا ہے کہ شاکل نگری اُپکاندی کے کنارے مدردیش میں واقع ہے - اس زمانے میں پنجاب کا یہ حصہ مدر دیش کہلاتا تھا اور سیالکوٹ کے معروف نالۂ ’’ایک‘‘ کو اُپکا ندی پکارا جاتا تھا - مہاراجا چندر گپت بکر ما جیت کے عہد میں ، جسے گزرے تقریبا ً دو ہزار سال ہو چکے ہیں ، راجا شالباہن نے یہاں ایک قلعہ تعمیر کرایا - قلعہ کو ہندی زبان میں کوٹ کہا جاتا ہے- اس لیے یہ قلعہ شالکوٹ پکارا جانے لگا اور صدیوں بعد سیالکوٹ کے نام سے مشہور ہو گیا - راجا شالباہن کے بیٹے پورن کے جو تارک الدنیا اور فقیر ہو کر پورن بھگت کہلایا ، کئی قصے پنجابی زبان میں دستیاب ہیں - سیالکوٹ کے شمال میں کوئی چار میل کے فاصلے پر موضع کرول میں وہ چاہ بھی موجود ہے جس میں پورن کو پھینکا گیا تھا اور جہاں اکثر ہندو مستورات بخواہش اولاد ہر نئے چاند کی پہلی اتوار کو جا کر نہایا کرتی تھیں - سیالکوٹ ابتدائی مسلم سلاطین کے مختلف ادوار سے گزرا ، لیکن چودہویں صدی میں سلطان فیروز تغلق کے عہد میں (۱۳۵۱ء تا ۱۳۸۸ئ) ، جب دہلی میں بد نظمی اور ابتری کا ظہور ہوا تو سیالکوٹ کے باجگزار حکمران راجا سہنپال نے مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کی خاطر قلعہ کو مضبوط بنانا چاہا - اسے نجومیوں اور جوتشیوں نے مشورہ دیا کہ قلعہ کے چاروں گوشوں اور فصیل کی بنیادوں پر اگر کسی مسلمان کا خون چھڑکنے کے بعد از سر نو تعمیر کا کام شروع کیا جائے تو راجا کے غنیم اسے کبھی سر نہ کر سکیں گے ، چنانچہ راجا کے آدمیوں نے ایک مسلم نوجوان کو پکڑا اور اسے بیدردی سے ذبح کر کے اس کا خون استعمال میں لایا گیا - اس نوجوان کی بوڑھی ماں روتی پیٹتی سیالکوٹ سے باہر نکل گئی اور بیٹے کے ماتم میں شہر بشہر اور دربدر پھرتی ہوئی سید امام علی الحق بن سید حسن کلی کی خدمت میں حاضر ہوئی ، جو ان دنوں کوہستان کا نگڑہ کے نواح میں گوشہ نشینی اختیار کیے ہوئے تھے - انہوں نے راجا سہنپال کے ظلم و ستم کی درد ناک کہانی سن کر بڑھیا سے امداد کا وعدہ کیا - حسن اتفاق سے چند یوم بعد سلطان فیروز تغلق کا گزر اس طرف سے ہوا - حضرت امام نے سلطان سے بڑھیا کی المناک داستان اور راجا کی سنگدلی کا ذکر کیا - سلطان نے ایک لشکر امام صاحب کے سپرد کر دیا تاکہ راجا کو قرار واقعی سزا دے کر خلق خدا کو اس کے استبداد سے نجات دلائی جائے - امام صاحب اپنے مریدوں اور لشکر سمیت ، امام حسین علیہ السلام کی تقلید میں ، سیالکوٹ کی جانب روانہ ہوئے اور راجا کے ساتھ جنگ کی - راجا سہنپال نے قلعے کی حفاظت کا ایسا انتظام کیا ہوا تھا کہ بظاہر اس پر فتح پانا مشکل تھا - امام صاحب نے نالہ ’’ایک‘‘ کے جنوب میں پڑائو ڈالا - دو دن تک گھمسان کی لڑائی جاری رہی لیکن لشکر نالہ ’’ایک ‘‘ پار نہ کر سکا - تیسرے دن کے معرکے میں مسلمان نالہ عبور کرنے میں کامیاب ہو گئے اور راجا قلعے میں محصور ہو گیا - کئی دنوں تک محاصرہ قائم رہا ، بالآخر مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور قلعہ سر ہو گیا، لیکن بہت سی نامور ہستیاں شہید ہوئیں - خود امام صاحب زخمی ہو گئے - زخم اس قدر شدید اور گہرے تھے کہ آپ جانبر نہ ہو سکے - بہرحال اس واقعے کے بعد سیالکوٹ میں ہندو راج کا خاتمہ ہو گیا ۱ - امام صاحب اور اس معرکے کے دیگر شہدا کے متعلق یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ جہاں کہیں اور جس حالت میں بھی کسی نے جام شہادت نوش کیا اسی مقام اور اسی حالت میں اسے دفن کر دیا گیا- یہی وجہ ہے کہ پرانے قلعہ سیالکوٹ کے اردگرد متفرق مقامات پر شہدائے اسلام کے مزار نظر آتے ہیں - جس مقام پر امام صاحب کا روضہ مبارک ہے اس کے گردو نواح میں سیکڑوں مزار ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو موجود ہیں - امام صاحب کے مزار پر آج بھی ، ہر جمعرات کو مسلمان کثرت سے زیارت کے لیے آتے ہیں اور عیدین کے میلوں کے علاوہ ایام محرم میں روضۂ مبارک پر بہت سے زائرین جمع ہوتے ہیں - مغلوں کے عہد میں سیالکوٹ پھلتا پھولتا رہا - صوفیہ اور مشائخ کے حسن عمل اور خلق محمدی سے بیشتر ہندو مشرف بہ اسلام ہوئے اور مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہوتا چلا گیا - ۱۸۰۷ ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ ، سیالکوٹ پر فوج کشی کر کے اس پر قابض ہو گیا، لہٰذا بزرگانِ اقبال اگر انیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں سیالکوٹ آئے ہوں تو اس زمانے میں سیالکوٹ سکھوں کے تسلط میں تھا - اقبال کے دادا شیخ محمد رفیق عرف شیخ رفیقا نے جب سیالکوٹ میں سکونت اختیار کر کے کشمیری لوئیوں اور دھسوں کی فروخت کا کاروبار شروع کیا تو پہلے اس شہر کے محلہ کھٹیکاں کے ایک مکان میں فروکش ہوئے - غالباً اسی مکان میں شیخ نور محمد (والد اقبال) اور ان کے چھوٹے بھائی شیخ غلام محمد پیدا ہوئے اور یہیں ا ن کی شادیاں ہوئیں - ۱۸۶۱ء میں شیخ محمد رفیق نے موجودہ جدّی مکان جو بعد میں ’’اقبال منزل‘‘ کے نام سے موسوم ہوا ، خریدا اور اس میں اقامت پذیر ہوئے اس وقت یہ مکان ایک منزلہ تھا اور دو کوٹھڑیوں دالان،ڈیوڑھی اور صحن پر مشتمل تھا - کونے والی کوٹھڑی کی کھڑکیاں گلی میں کھلتی تھیں اور مکان کا دروازہ محلہ چوڑیگراں کی جانب تھا - انہی کوٹھڑیوں میں سے کسی ایک میں اقبال پیدا ہوئے - ۱۸۹۲ء میں اس مکان سے ملحق ایک دو منزلہ مکان جو اوپر نیچے دو کوٹھڑیوں ، باورچی خانہ اور دالان پر مشتمل تھا ، شیخ نور محمد نے خریدا اور دو ڈھائی سال بعد ۱۸۹۵ء میں دو دکانیں جو پہلے مکان کی پشت پر بازار چوڑیگراں (اقبال بازار) کی طرف تھیں ، بھی خرید لی گئیں - ان تینوں قطعات مکان و اراضی کو ملا کر موجودہ مکان تعمیر ہوا - بعد میں شیخ عطا محمد (اقبال کے بڑے بھائی) نے جدّی مکان سے ملحق ایک اور دکان خریدی اور اس ساری عمارت کو ایک سہ منزلہ حویلی کی شکل دے کر اس کا نام ’’اقبال منزل‘‘ رکھا - شیخ نور محمد نے جدّی مکان کے قریب محلہ چوڑیگراں میں ایک اور مکان بھی خریدا ، جو کرایے پر اٹھا دیا گیا - بعد ازاں جب انہوں نے اپنی زندگی ہی میں جائداد کی تقسیم کی تو جدّی مکان اپنے بڑے بیٹے شیخ عطا محمد کے نام منتقل ہوا ، اور چھوٹا مکان اقبال کے حصے میں آیا ، یہ مکان کچھ عرصہ کے لیے راقم کے نام ہبہ رہا بعد میں انہوں (اقبال) نے لاہور ’’جاوید منزل ‘‘ کی تعمیر سے پیشتر اسے فروخت کر دیا - شیخ نور محمد نہایت وجیہ صورت کے مالک تھے ؛ سرخ رنگ ، کشادہ پیشانی، ستواں ناک ، روشن آنکھیں ، پتلے ہونٹ اور نورانی چہرہ - اچھے قد آور تھے - غالباً جوانی ہی سے باریش تھے - صاف ستھرا لباس پہنتے تھے - انہوں نے کسی مکتب میں تعلیم نہیں پائی تھی ، البتہ حروف شناس ہونے کے سبب اردو اور فارسی کی چھپی ہوئی کتابیں پڑھ لیتے تھے- وہ اصول کے پکے ، عالی ظرف ، بردبار، مخالفوں اور ناحق ایذا پہنچانے والوں کو معاف کرنے والے ، طبیعت کے سادہ ، نیک ،شفیق ، حلیم اور صلح کن تھے - فوق کے بیان کے مطابق تجارت پیشہ ہونے کے باوجود صوفیہ اور علماء کی مجلسوں میں بیٹھنے اور ان کی صحبت میں رہنے کی وجہ سے شریعت اور طریقت کے نکات و رموز سے پوری طرح آگاہ تھے - شب بیدار رہنے اور نمازِ تہجد ادا کرنے کے عادی تھے - کلام اللہ کی تلاوت اکثر کرتے اور اسی کو دین و دنیا کی ترقی کا سبب سمجھتے تھے - ان کی یہی تاکید اپنی اولاد کو بھی تھی - چونکہ وہ فکر کی عادت کے علاوہ تصوّف کی پیچیدگیوں سے بھی آشنا تھے ، اس لیے بعض ہم عصر اکابر علم انہیں ان پڑھ فلسفی کہتے تھے - بعض لوگ تصوف کی کتابوں کے مشکل مطالب کی تشریح کے لیے ان سے رجوع کرتے تھے - شیخ نور محمد اپنے والد کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹاتے رہے - بعد میں اس میں اضافہ کیا اور ٹوپیاں یا کلاہ سینے لگے - اس سلسلہ میں سلائی کی مشین سیالکوٹ میں سب سے پہلے انہی نے منگوائی تھی - دکان میں شاگرد اور ملازم بھی موجود تھے - یہ ٹوپیاں اس زمانے میں بڑی مقبول ہوئیں، اور یوں لوگ انہیں شیخ نتھو ٹوپیاں والے کہنے لگے - زندگی کے بیشتر حصے میں انہوں نے اپنے زور بازو سے کمایا لیکن جوں جوں عمر بڑھتی گئی وہ تصوّف کی طرف زیادہ مائل ہوتے چلے گئے- بڑھاپے میں ان کی دکان کچھ عرصہ کے لیے ان کے ایک داماد نے سنبھالی ، مگر بعد میں ان کے الگ ہونے پر دکان بند ہو گئی - انہیں اپنے اور پرائے سب میاں جی کہہ کر بلاتے تھے - شیخ نور محمد کی شادی موضع سمبڑیال ضلع سیالکوٹ کے ایک کشمیری گھرانے میں ہوئی - ان کی بیوی (والدہ اقبال) کا نام اما م بی تھا - شادی کے کچھ عرصہ بعد شیخ نور محمد کے سسرال والے بھی سیالکوٹ ہی میں آ کر آباد ہو گئے - امام بی کو سب ’’بے جی‘‘ کہتے تھے - وہ لکھنا پڑھنا نہ جانتی تھیں - انہیں صرف نماز ازبر تھی جسے وہ باقاعدگی سے پڑھا کرتی تھیں - تاہم ناخواندہ ہونے کے باوجود بڑی سمجھ دار ، معاملہ فہم اور مدّبر خاتون تھیں - برادری اور محلہ داری کے جھگڑوں کا نہایت خوش اسلوبی سے تصفیہ کراتی تھیں اور اپنے حسن سلوک کے باعث محلے کی عورتوں میں بڑی مقبول تھیں - گھرداری کے سب انتظامات خود کرتیں- اکثر مستورات اپنے زیور یا نقدی ان کے پاس بطورِ امانت رکھواتیں ، جنہیں وہ علیحدہ علیحدہ سرخ کپڑے کی پوٹلیوں میں باندھ کر احتیاط سے رکھتیں - ان کی سب سے نمایاں خصوصیت غرباء پروری تھی - کئی حاجتمندخواتین کو خفیہ طور پر نقدی دیتی تھیں - ان کے بڑے بیٹے شیخ عطا محمد ایسی امداد کو مذاق میں ’’گپت دان ‘‘ کہا کرتے تھے اور جب رخصت پر گھر آتے ، تو انہیں ’’گپت دان ‘‘ کے لیے علیحدہ رقم دیا کرتے تھے - امداد کرنے کا ایک اور طریقہ ، ان کا یہ تھا کہ محلے کے غریب گھرانوں کی دس بارہ سال کی تین چار بچیاں اپنے یہاں لے آتیں اور ان کی کفالت کرتیں - بچیاں گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتیں اوربے جی کی بہوبیٹیوں سے قرآن مجید ، نماز ، ضروری دینی تعلیم ، اردو لکھنا پڑھنا ، کھانا پکانا اور سینا پرونا سیکھتیں ، کچھ مدت بعد مناسب رشتہ تلاش کر کے ان کا بیاہ کر دیتیں - جتنا عرصہ وہ ان کی تحویل میں رہتیں، ان کی دیکھ بھال ایسے ہی کرتیں جیسے اپنی بیٹیوں کی، اور شادی کے وقت بھی انہیں بیٹیوں ہی کی طرح رخصت کرتیں - شادی کے بعد وہ لڑکیاں ان کے ہاں اسی طرح آتیں ، جس طرح بیٹیاں میکے آتی ہیں - ان کے جذبہ ایثار کا ایک واقعہ شیخ اعجاز احمد کے بیان کے مطابق یہ ہے کہ میاں جی کے چھوٹے بھائی شیخ غلام محمد کے ہاں لڑکیاں ہی ہوتی تھیں - ان کی بیوی کو بیٹے کی خواہش تھی - دونوں بھائی اکٹھے رہتے تھے - ایک بار دونوں کی بیویاں امید سے ہوئیں - اس مرتبہ بے جی کو اللہ نے لڑکا دیا اور دیور کی بیوی کے ہاں پھر لڑکی پیدا ہوئی - ان کی افسردگی کو محسوس کرتے ہوئے بے جی نے ان سے کہا کہ لڑکا تم لے لو اور لڑکی مجھے دے دو - چنانچہ بچوں کا تبادلہ ہو گیا- بے جی نے لڑکی کو پالنا شروع کر دیا اور ان کی دیورانی نے لڑکے کو - چند ماہ بعد ایک دن صبح کے وقت دونوں گھر کے کام کاج میں مصروف تھیں ، بے جی نے لڑکے کے متعلق پوچھا تو ان کی دیورانی نے کہا کہ ابھی دودھ پی کر سو گیا ہے - جب خاصی دیر ہو گئی اور بچہ بیدار نہ ہوا تو جا کر دیکھنے پر معلوم ہوا کہ مر چکا ہے - اس کے ہونٹوں پر دودھ لگا ہوا تھا - اس کے بعد بے جی نے لڑکی دیورانی کو لوٹا دی - شیخ اعجاز احمد بیان کرتے ہیں کہ اس فوت ہوجانے والے لڑکے کی پیدائش کا اندراج ، رجسٹر میونسپل کمیٹی میں موجود نہیں - میونسپل کمیٹی کے رجسٹر کے جس اندراج کو غلطی سے اقبال یا اس لڑکے کی پیدائش کا اندراج (۱۸۷۳ئ) لیا گیا ، در اصل محلہ کشمیریاں کے کسی نتھو کشمیری کے ہاں لڑکے کی پیدائش کا اندراج ہے ۲ - امام بی کی وفات ۱۹۱۴ء میں ہوئی اور انہیں امام صاحب کے قبرستان میں دفن کیا گیا - اقبال کے والد شیخ نور محمد ان کے پہلو میں دفن ہیں - شیخ نور محمد کی اولاد کی تعداد سات تھی - سب سے بڑے بیٹے شیخ عطا محمد ۱۸۵۹ء میں پیدا ہوئے ، اس وقت میاں جی کی عمر تیئس برس تھی ، ان کے بعد دو بیٹیاں فاطمہ بی اور طالع بی پیدا ہوئیں - اس دوران ایک لڑکا بھی ہوا جو چند ماہ بعد فوت ہو گیا - اقبال کی پیدائش کے وقت میاں جی کی عمر تقریباً چالیس برس تھی - ان کے بعد دو بیٹیاں کریم بی اور زینب بی پیدا ہوئیں - جوں جوں اولاد بڑھتی گئی ، میاں جی ضرورت کے مطابق جدّی مکان کو کشادہ کرتے چلے گئے - اقبال کے بھائی شیخ عطا محمد نے جو ان سے عمر میں تقریباً اٹھارہ سال بڑے تھے ، ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں حاصل کی - آپ کی دو شادیاں ہوئیں -پہلی بیوی کشمیری راٹھوروں کے خاندان سے تھی ، جس کو طلاق ہو گئی - دوسری بیوی کا نام مہتاب بی تھا مگر انہیں سب بھابی جی کہتے تھے - شیخ عطا محمد کے پہلے سسرال والے فوجی وظیفہ خوار تھے - ان کے فوج سے تعلق اور شیخ عطا محمد اپنے طویل قد اور مضبوط جسم کے سبب رسالے میں بھرتی ہو گئے - کچھ عرصے بعد انہیں تھامپسن انجینئرنگ سکول رڑکی میں تعلیم پانے کے لیے بھیجا گیا ، جہاں سے امتحان پاس کر کے وہ فوج کے شعبہ بارک ماسٹری میں تعینات ہوئے - ساری عمر سرکاری ملازمت کی - اقبال کو علمی لحاظ سے پروان چڑھانے اور اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ بھیجنے میں انہوں نے بڑی مدد کی - اقبال ان سے بڑی محبت کرتے تھے اور ان کے مداح تھے ، ان کا بے حد ادب کرتے تھے کبھی ان کے سامنے اونچا نہ بولتے - وہ پنشن کے بعد کافی عرصے تک حیات رہے - انہوں نے ۱۹۴۰ء میں اکیاسی ، بیاسی سال کی عمر میں سیالکوٹ میں وفات پائی اور اپنے والدین سے چند قدم کے فاصلے پر امام صاحب کے قبرستان میں دفن کیے گئے - جس زمانے میں اقبال کے اجداد نے کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ میں سکونت اختیار کی، اس وقت برصغیر کے مسلمان اپنی تاریخ کے ایک نہایت ہی نازک دور سے گزر رہے تھے - ۱۷۹۹ء میں میسور میں سلطان ٹیپو کی انگریزوں کے مقابلے میں شکست نے مسلمانان ہند کی ، اپنی زوال پذیر اجتماعی سیاسی قوت کے احیاء اور بحالی کے لیے تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا - اس دور کے فقہاء نے مسلمانوں کے غور کے لیے کئی سوال اٹھائے تھے ، مثلاً ہندوستان دارالاسلام سمجھا جائے یا دارالحرب؟ اسلامی فقہ میں ’’جہاد ‘‘ اور ہجرت ‘‘ سے کیا مراد ہے ؟ اور کن صورتوں میں مسلمانوں پر ’’جہاد‘‘ یا ’’ہجرت ‘‘ واجب ہے ؟ قرآن مجید کی آیت’’ اَطِیعُوا ----- اُولِی الاَمرِ مِنکُم ‘‘کے معانی کیا ہیں ؟ کیا خلافت سے تعلق رکھنا مسلمانوں پر فرض ہے ؟ ہندوستان اور دیگر ممالک کے مسلمان جو عثمانی سلطنت کا حصہ نہیں ، عثمانی خلافت سے کیونکر منسلک تصور کیے جا سکتے ہیں ؟ یہ سوال بڑی اہمیت کے حامل تھے - جنگ پلاسی (۱۷۵۲ئ) کے بعد کئی مفتیوں نے فتوے دے رکھے تھے کہ ہندوستان دارالاسلام نہیں رہا ، بلکہ دارالحرب بن چکا ہے ۳- ۱۷۶۵ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے دہلی میں مغل بادشاہ شاہ عالم کو مرہٹوں کے مقابلے میں مدد کرنے کے وعدے کے عوض اس سے بنگال ، بہار اور اڑیسہ کی دیوانی حاصل کر لی تھی - ان صوبوں کا مالیہ، کمپنی بادشاہ کے مختار کی حیثیت سے وصول کرتی تھی ، لیکن بادشاہ کا اس میں کوئی دخل نہ تھا - کمپنی کا صدر مقام کلکتہ تھا - ہندوستان کے مشرقی صوبوں کا نظم و نسق رفتہ رفتہ بادشاہ کے ہاتھ سے نکلتا جا رہا تھا ، اور ان پر انگریز قابض ہو رہے تھے - بادشاہ کی حیثیت محض نمائشی تھی - ۱۸۳۵ء میں کمپنی نے ہندوستان کا سکہ تبدیل کر دیا اور ۱۸۳۷ء میں فارسی کی سرکاری زبان کی حیثیت ختم کر دی - بالآخر ۱۸۵۷ء کے ہنگامے میں اسے بادشاہ کو معزول کرنے کا موقع مل گیا - بادشاہ کو ملک بدر کر کے رنگون بھیج دیا گیا - شہزادوں کو ہمایوں کے مقبرے کے نزدیک گولی سے اڑا دیا گیا اور اس طرح مغل تخت کے دعویداروں کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا - ہندوستان تاج برطانیہ کے ماتحت آگیا،اگرچہ ملکہ وکٹوریہ نے ۱۸۵۸ء میں اعلان کیا کہ ہندی رعایا کے ساتھ برابری کا سلوک کیا جائے گا، بغاوت کی ذمہ داری مسلمانوں پر ڈالی گئی -ان کی جاگیریں ، اراضی اور جائدادیں بحق سرکار ضبط کر لی گئیں - نیا تعلیمی نظام ایسا نافذ ہوا جس میں عربی ، فارسی اور دیگراسلامی علوم کو کوئی حیثیت حاصل نہ تھی - ۱۸۶۴ء میں قاضی موقوف کر دیے گئے اور اسلامی قانون اورضابطہ کے بجائے انگریزی قانون و ضابطہ نافذ کیا گیا نیز مسلمانوں پر بحیثیت مجموعی سرکاری ملازمت کے دروازے بند کر دیے گئے ۴ - بہر حال یہ کہنا غلط ہو گا کہ برصغیر کے مسلمانوں نے اپنی سیاسی حیثیت کے تغیر کو چپ چاپ اور کسی رد عمل یا احتجاج کے بغیر قبول کر لیا - البتہ اس سلسلے میں سید احمد بریلوی (۱۷۸۶ء تا ۱۸۳۱ئ) اور ان کے رفقا و معتقدین مثلاً شاہ محمد اسمعٰیل (شاہ عبدالغنی کے بیٹے ، شاہ ولی اللہ کے پوتے اور شاہ عبدالعزیز کے بھتیجے) اور مولانا عبدالحیٔ نے نہایت اہم اور دور رس خدمات انجام دیں - ان کی تحریک اصلاح مسلمانوں کے مذہبی ، اخلاقی ، سیاسی اور اقتصادی انحطاط کے خلاف ایک طرح کا فطری رد عمل تھا- یہ تحریک در حقیقت اسلام کو شرک اور بدعت کی لعنتوں سے مبّرا کر کے اس کی اصل پاکیزگی کی طرف رجوع کی دعوت تھی - مصلحین نے مسلمانوں کو توحید و رسالت ، قرآن و سنت اور ارکان دین کی اہمیت کا احساس دلایا اور ہر نوع کے شرک و بدعت کو چھوڑنے کی تلقین کر کے انہیں خواب غفلت سے بیدار کیا - احیاے اسلام کی اس تحریک کا نمایاں پہلو سیاسی تھا - مصلحین کے نزدیک چونکہ ہندوستان دارالحرب بن چکا تھا ، اس لیے اپنی سیاسی قوت کی بحالی کے لیے مسلمانوں پر جہاد فرض تھا - سید صاحب کے اپنے تبلیغی دوروں کے دوران دعوت اصلاح اور تنظیم جہاد پر اصرار نے بیشتر شہروں اور دیہات کے مسلمانوں کے دلوں میں آگ لگا دی - پٹنہ اس تحریک کا مرکز بنا - روپیہ اکٹّھا ہوا- وسائل جمع کیے گئے اور ہزاروں کی تعداد میں مجاہدین ان کی تحریک میں شامل ہونے لگے جو اسلام کی سربلندی کی خاطر اپنی جانیں قربان کرنے کو تیار تھے - ۱۸۲۲ء میں سید صاحب اپنے رفقا اور معتقدین سمیت بیت اللہ کے حج کے لیے گئے - وہ دہلی سے براستہ پٹنہ کلکتے پہنچے ، جہاں کلکتے سے ان کا قافلہ جہازوں کے ذریعے عرب روانہ ہوا - وہ براستہ بمبئی واپس ہندوستان آئے اور شمال کی طرف تبلیغی دوروں کا سلسلہ ایک بار پھر سے شروع کیا- سکھ چونکہ پنجاب ، سرحد اور کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقوں پر قابض تھے ، اس لیے انہوں نے سکھوں کے خلاف جہاد کی تلقین کی - سورت ، حیدر آباد دکن ، کلکتہ ، ڈھاکہ ، پٹنہ ، لکھنؤ، دہلی اور دیگر شہروں کے مسلمانوں نے انہیں نہ صرف دل کھول کر مالی امداد دی بلکہ ان شہروں اور گرد و نواح کے دیہات سے مجاہدین بھی جوق در جوق ان کی عسکری تنظیم میں شامل ہوتے چلے گئے - بعدازاں سید صاحب سندھ گئے اور وہاں کے حکمرانوں کے ساتھ سکھوں کے خلاف جہاد میں امداد کا معاہدہ کیا - ۱۸۲۴ء میں وہ سرحد جا پہنچے اور افغان اور پٹھان قبائل کو اپنے ساتھ ملایا - سرحد کو مرکز جہاد اس لیے بنایا گیا کہ وہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور اس علاقہ کی پشت پر مسلم ممالک بھی موجود تھے - اسی دوران ہندوستان سے مجاہدین سرحد پہنچنے لگے - سرفروشوں اور غازیوں کی یہ جماعتیں مشرقی بنگال اور دکن کے دور دراز علاقوں سے سرحد آ کر جمع ہونے لگیں - ۲۱ دسمبر ۱۸۲۶ء کو سید صاحب نے سکھوں کے خلاف باقاعدہ اعلان جہاد کیا - ۱۸۲۶ء سے لے کر ۱۸۳۰ ء تک ان کی زیر قیادت لشکر اسلام نے سکھوں کے خلاف کئی مقامات پر جنگ کی اور انہیں شکست دی - ۱۸۳۰ء میں سکھوں کو پشاور کے محاذ پر شکست ہوئی اور مجاہدین نے پشاور پر قبضہ کر لیا - مگر کچھ عرصہ بعد چند افغان سرداروں کی سکھوں کے ساتھ سازش کے باعث پشاور ان کے ہاتھ سے نکل گیا- ۱۸۳۱ء میں سید صاحب اور شاہ محمد اسمعٰیل سکھوں کے خلاف لڑتے ہوئے بالا کوٹ میں شہید ہو گئے۵ - جب سید صاحب کی قیادت میں مجاہدین ، سکھوںکے خلاف سرحد پر لڑ رہے تھے ، ان کے ایک رفیق میر نثار علی نے مشرقی بنگال میں مسلم کاشتکاروں کو ہندو جاگیرداروں کے ظلم و استبداد کے خلاف منظم کیا - مشرقی بنگال میں دینی اصلاح کے لیے ایک تحریک مولوی شریعت اللہ نے ۱۸۰۴ء سے قائم کر رکھی تھی - مولوی شریعت اللہ نے بھی یہی اعلان کیا تھا کہ ہندوستان چونکہ دارالحرب بن چکا ہے ، اس لیے مسلمانوں پر جہاد فرض ہے - ان کے فرزند ودود میاں نے اس تحریک کوبہادر پور میں زندہ رکھا -میر نثار علی ، سیّد صاحب کو حج کے دوران ملے اور ان کے معتقد ہو گئے تھے - واپسی پر انہوں نے سیّد صاحب کے نظریات کی تبلیغ مشرقی بنگال کے مختلف شہروں اور دیہات میں کی اور بالخصوص مسلم کاشتکاروں کی عسکری تنظیم بنائی - ۱۸۳۱ء میں انہوں نے ہندو جاگیرداروں کے خلاف اعلانِ جہاد کیا ، مگر ہندوئوں نے اپنی مدد کے لیے کلکتے سے انگریزی فوج طلب کر لی - میر نثار علی اور غلام معصوم کی زیر قیادت مسلم کاشتکار انگریزی فوج کے خلاف بڑی جوانمردی سے لڑے مگر شکست کھائی - میر نثار علی اس لڑائی میں شہید ہوئے اور غلام معصوم کو انگریزوں نے کلکتہ میں پھانسی دے دی ۶ - سرحد میں سید صاحب کی شہادت کے بعد ان کے حامیوں نے سکھوں کے خلاف جہاد جاری رکھا- مجاہدین ستھانہ میں جمع ہوئے اور انہوں نے مولوی نصیر الدین کو اپنا قائد منتخب کیا - تھوڑے عرصہ بعد مولانا عنایت علی اور ان کے بھائی مولانا ولایت علی بہار سے مزید کمک لے کر ان سے آملے - سندھ اور ٹونک کے مسلم حکمرانوں سے بھی امداد حاصل کی گئی - چنانچہ مولانا عنایت علی کی زیر قیادت سکھ فوجوں پر پے در پے حملے کیے گئے اور انہیں بالا کوٹ ، مانسہرہ اور مظفر آباد سے نکال دیا گیا - ۱۸۳۹ء میں مہاراجا رنجیت سنگھ کی موت کے بعد چونکہ سکھ محلاتی سازشوں کا شکار ہو گئے ، اس لیے ان میں مجاہدین کا مقابلہ کرنے کی سکت نہ رہی تھی چنانچہ ۱۸۴۶ ء تک مجاہدین نے دریاے سندھ کے بائیں کنارے یعنی سرحد کے تمام علاقے ، ستھانہ سے لے کر کشمیر تک ، سکھوں سے بآسانی خالی کرا لیے - اب تک مجاہدین نے انگریزوں کے خلاف باقاعدہ اعلان جہاد نہ کیا تھا ، تاہم جب انگریزوں نے افغانستان پر حملہ کیا ، تو انہوں نے بادشاہ افغانستان کی مدد کی تھی ۷ - ۱۸۲۳ء تک برصغیر کے بیشتر علاقوں پر انگریزوں کا قبضہ ہو چکا تھا ، مگر ابھی شمال مغربی حصہ (پنجاب، سرحد ، کشمیر ، سندھ اور بلوچستان) ان کی دسترس سے باہر تھا - ۱۸۴۳ء میں انگریزوں نے سندھ پر قبضہ کر لیا اور اس کا الحاق صوبہ بمبئی کے ساتھ کر دیا گیا - ۱۸۴۶ء میں سکھوں کی شکست کے بعد انگریز پنجاب کے بیشتر حصے پر قابض ہو گئے - انہوں نے مولانا عنایت علی اور مولانا ولایت علی کو بہار واپس چلے جانے کے لیے پیغام بھیجا - ان دونوں کے اہل و عیال پٹنہ میں تھے - پس جب وہ واپس پٹنہ پہنچے تو ان پر چار سال کے لیے پٹنہ کی حدود سے باہر نہ نکلنے کی پابندی لگا دی گئی - پنجاب میں سکھ سلطنت کا حشر بھی نہایت عبرتناک ہے - مہاراجہ رنجیت سنگھ نے بظاہر یہاں سکھوں کی حکومت کا جو ڈھانچہ کھڑا کیا ، اسے حکومت تو نہیں البتہ ایک طرح کا عارضی فوجی غلبہ کہا جا سکتا ہے - یہ غلبہ اس کی زندگی تک قائم رہا ، لیکن جب وہ مرا تو اس کے جانشینوں نے چند سالوں ہی میں اس کا تارو پود ہمیشہ کے لیے بکھیر کر رکھ دیا - ۱۸۳۹ء میں مہاراجا رنجیت سنگھ کی موت کے بعد اس کا پہلا بیٹا کھڑک سنگھ گدی پر بیٹھا - کھڑک سنگھ افیون کا رسیا تھا - دن میں دو مرتبہ افیون کھا کر ہوش و حواس کھو دینے کا عادی تھا - ظاہر ہے ، حکومت ایسے شخص کے ہاتھ میں زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتی تھی ، لہٰذا ایک ہی سال کے اندر اس کے وزیر اعظم دھیان سنگھ اور چیت سنگھ کے درمیان اقتدار کی کشمکش ہوئی جس کے نتیجہ میں چیت سنگھ اور اس کے خاندان کے افراد کا صفایا کر دیا گیا اور کھڑک سنگھ کو معزول کر کے اس کا بیٹا نو نہال سنگھ گدی پر بیٹھا - نونہال سنگھ نے اپنے باپ کو لاہور کی ایک حویلی میں نظر بند کر دیا - کھڑک سنگھ ۱۸۴۰ء میں مر گیا، مگر جس دن کھڑک سنگھ کی موت واقع ہوئی ، اسی روز کسی سازش کے تحت نونہال سنگھ پر دیوار کا ایک حصہ گرا دیا گیا اور وہ اس کے نیچے دب کر مر گیا - انہی دنوں میں اس کی ماں رانی چاند کور نے مہارا جا رنجیت سنگھ کے دوسرے بیٹے اور اپنے شوہر کے بھائی شیر سنگھ کی جان لینے کی کوشش کی ، مگر دوپہر کے وقت جب رانی چاند کور سو رہی تھی ، اس کی نوکرانیوں نے اسے ، اس کی خواب گاہ میں سر پر اینٹ مار کر ختم کر دیا- نونہال سنگھ کی موت کے بعد مہاراجا رنجیت سنگھ کا دوسرا بیٹا شیر سنگھ گدی پر بیٹھا - وہ ہر وقت شراب کے نشے میں دھت رہتا تھا - بہرحال، ۱۵ ستمبر ۱۸۴۳ء کو جب وہ ایک فوجی دستے کا معائنہ کر رہا تھا، رانی چاند کور کے حامی اجیت سنگھ ساندھا نوالیہ نے اسے گولی سے اڑا دیا - عین اسی لمحے جب یہ قتل وقوع پذیر ہو رہا تھا ، قریب ہی ایک باغیچہ میں ، اس کا چچا لہنہ سنگھ ، شیر سنگھ کے بارہ سالہ بیٹے پرتاب سنگھ کی تلوار سے ٹکڑے اڑا رہا تھا - اسی دن دھیان سنگھ اور سچیت سنگھ کو بھی قتل کر دیا گیا- شیر سنگھ کے قتل کے بعد مہاراجا رنجیت سنگھ کا سب سے چھوٹا بیٹا دلیپ سنگھ (نابالغ) گدی پر بیٹھا اور دھیان سنگھ کا بیٹا ہیرا سنگھ اس کا وزیر اعظم بنا - ہیرا سنگھ کی اپنے چچا سچیت سنگھ کے ساتھ دشمنی تھی ، چنانچہ ۲۱ دسمبر ۱۸۴۴ء کو ہیرا سنگھ، شاہدرہ کے قریب قتل کر دیا گیا - ۱۸۴۶ء میں سکھوں نے انگریزوں کے ہاتھوں شکست کھائی اور انگریز پنجاب پر بھی حاوی ہو گئے - انہوں نے سکھ سلطنت کے تین حصے کر دیے - لاہور کا علاقہ سکھوں کے پاس رہنے دیا - کشمیر گلاب سنگھ ڈوگرہ کے ہاتھ ، اس کی خدمات کے صلے میں بیچ دیا گیا اور بقیہ پنجاب انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا - دلیپ سنگھ سے تاوانِ جنگ وصول کیا گیا - اس کی حکومت لاہور تک محدود کر دی گئی اور لال سنگھ اس کا وزیر اعظم بنا دیا گیا - انگریزوں نے لارنس کو لاہور میں ریذیڈنٹ کے طور پر مقرر کیا - مئی ۱۸۴۸ء اور فروری ۱۸۴۹ء میں سکھ پھر انگریزوں سے نبرد آزما ہوئے اورگجرات میں انہوں نے شکستِ فاش کھائی - نتیجۃً لاہور پربھی انگریز قابض ہو گئے اور سارا پنجاب ان کے تسلط میں آ گیا - دلیپ سنگھ کو پنجاب بدر کر دیا گیا - وہ کچھ عرصہ ہندوستان میں انگریزوں کی پنشن پر رہا ، پھر ۱۸۵۴ء میں انگلستان لے جایا گیا، جہاں اس نے سکھ مذہب ترک کر کے عیسائیت قبول کر لی اور وکٹر دلیپ سنگھ نام اختیار کیا -وہ پیرس میں ۱۸۹۳ء میں مرا ۸ - اس کی بیٹی راجکماری بامبا، اقبال کے جاننے والوں اور مدّاحوں میں سے تھی - ماڈل ٹائون لاہور کی ایک کوٹھی میں مقیم تھی ، اس کا انتقال غالباً پاکستان بننے کے بعد ہوا - مولانا عنایت علی اور مولانا ولایت علی برطانوی ہند کو دارالحرب سمجھتے تھے - ان کے نزدیک ہندوستان کو انگریزوں کے تصرف سے آزاد کرانے کی خاطر جہاد کرنا یا وہاں سے ہجرت کر جانا مسلمانوں پر فرض تھا - چنانچہ چار سال پٹنہ میں گزارنے کے بعد وہ اپنے خاندانوں سمیت ہجرت کر کے ستھانہ جا پہنچے - کچھ مدت بعد مولانا ولایت علی وہیں فوت ہو گئے - ۱۸۵۲ء میں مجاہدین اور حسن زئی قبیلہ نے انگریزوں کے حلیف خان امب پر حملہ کر دیا - ۱۸۵۰ء سے لے کر ۱۸۵۷ء تک انگریزوں نے مجاہدین کی سرکوبی کے لیے تقریباً سولہ مرتبہ اپنی فوجیں بھیجیں، لیکن کوئی بھی مہم کامیاب نہ ہوئی - ۱۸۵۸ء - ۱۸۵۷ء کے ہنگاموں کے دوران جب عسکری بغاوت کے سبب انگریزوں کو ہر جگہ نازک حالات کا سامنا کرنا پڑا ، تو مجاہدین نے سرحد پر ان کے خلاف شیخ جانا ، سلیم خان ، چنگلئی ، پنجتار ، منگل تھانہ اور ستھانہ میں زبردست لڑائی کی- بالآخر ۱۸۵۸ء کی جنگ میں انگریزی فوج نے ستھانہ تباہ کر دیا - مولانا عنایت علی ستھانہ کی تباہی سے بارہ روز بیشتر انتقال کر گئے - دو سال تک سرحد میں خاموشی رہی - اس وقفے کے دوران میں مجاہدین نے ملکا میں اپنے مورچے قائم کیے اور ۱۸۶۱ء میں وہاں سے انگریزوں پر حملہ آور ہوئے اور رفتہ رفتہ پیش قدمی کر کے ۱۸۶۳ء میں ستھانہ پر قبضہ کر لیا - انگریزوں نے فوج بھیجی اور متعدد لڑائیوں کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوا - بالآخر انگریزی فوج نے ملکا کو بھی تباہ کر دیا ، مگر پانچ سال بعد پھر لڑائی شروع ہو گئی - ۱۸۶۸ء میں اس علاقے میں مجاہدین کو زیر کرنے کے لیے ایک اور فوجی مہم روانہ کی گئی لیکن اس لڑائی کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا - سرحد میں جو مجاہدین انگریزوں نے گرفتار کیے ، اور ہندوستان میں ان کے جن حامیوں کے خلاف ۱۸۶۴ء اور ۱۸۶۶ء میں مقدمے قائم کیے گئے ، ان میں سے کچھ کو پھانسی کی سزا ملی ، لیکن بیشتر کو جزیرہ انڈیمان میں کالے پانی کی سزا بھگتنے کے لیے بھیج دیا گیا - ۱۸۷۰ء میں برصغیر میں تحریکِ اصلاح اور تنظیمِ جہاد کے تمام مراکز بند کردیے گئے ۹ - تاریخِ برصغیر کے متذکرہ دور میں انگریز، مسلمانوں کو بالعموم اور مجاہدین کو بالخصوص اپنا دشمن سمجھتے تھے - لارڈ ایلن برو نے ۱۸۴۳ء میں تحریر کیا کہ اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی کہ مسلمان ہمارے سخت دشمن ہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ برصغیر کی ہندو اکثریت کو اپنے ساتھ ملایا جائے ۱۰ - انگریزوں کو یقین تھا کہ ۱۸۵۷ء کے سرکش فوجیوں کو مجاہدین کی حمایت حاصل تھی - ان کا الزام یہ تھا کہ اس ہنگامے سے چند برس بیشتر جب مولانا ولایت علی پٹنہ سے ہجرت کر کے ستھانہ گئے تھے ، تو انہوں نے دہلی میں بادشاہ کی رضامندی کے ساتھ انگریزوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا - سرجیمز آئوٹرام کی نظر میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کی ابتداء مسلمانوں نے کی - کیونکہ کئی سالوں سے مسلم مبلغین سارے برصغیر میں ان کے خلاف اعلان جہاد کر رہے تھے - اس نے تحریر کیا ہے کہ مجاہدین نے ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ میں بادشاہ کو دہلی میں تاج پہنایا اور اس سے وفاداری کا عہد کیا اور اس طرح انہوں نے انگریزوں کے خلاف ستھانہ کی تباہی تک کئی لڑائیوں میں حصہ لیا ، بلکہ ستھانہ کی تباہی کے باوجود سرحد میں لڑائی جاری رکھی اور انگریزی فوج کو شدید نقصان پہنچایا - آئوٹرام کے نزدیک ۱۸۶۴ء اور ۱۸۶۶ء میں مجاہدین کے خلاف مقدمات کی شہادت سے بھی واضح تھا کہ مسلمان ، انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کی سازش کر رہے تھے - اس کی رائے میں مسلمان برصغیر میں برطانوی حکومت کے استحکام کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ تھے ، کیونکہ انہوں نے اپنی سیاسی حیثیت کی تبدیلی کو ہندوئوں کی طرح قبول نہ کیا تھا - اس لیے مسلمانوں کو اعتماد میں لینا چاہیے اور نہ ان کی دوستی پر بھروسا کرنا چاہیے ۱۱ - ۱۸۵۷ء کی بغاوت دراصل بنگالی فوج کی سرکشی تھی اور اس کے اشتعال کا فوری سبب چربی والے کارتوس تھے ، مگر یہ فوجیوں تک محدود نہ رہی - غیر مصافی آبادی میں بھی بے اطمینانی اور بے چینی وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی تھی، اس لیے عوام اپنے ہاں کے سپاہیوں کی بغاوت سے پہلے اٹھ کھڑے ہوئے- بہرحال اس کی ذمہ داری مسلمانوں پر ڈالی گئی - ۱۸۵۸ء میں جب انگریزوں کا دہلی پر قبضہ ہوا ، تو وہاں مسلمان ہی ان کے انتقام کا نشانہ بنے - انگریز اور سکھ فوجوں نے ’’سرکشوں‘‘ کو توپ سے اڑانے، کھال کھنچوانے ، میخیں ٹھونک کر ہلاک کرنے ، مشکیں کس کر ننگے بدن پر تانبے کے پیسے گرم کر کے جسموں پر سر سے پائوں تک داغنے ، چہروں کو سنگینوں سے زخم پہنچا کر دھیمی آگ میں جلانے اور اس قسم کی اذیتیں دے کر جان سے مارنے کی سزائیں دیں - دہلی میں لوٹ مار کی قیامت بھی مسلمانوں پر ٹوٹی- مسلمانوں کے جو مکان ضبط ہو کر نیلام ہوئے ، وہ ہندوئوں کے قبضہ میں چلے گئے - جامع مسجد سکھوں کی بارک بنی ، زینت المساجد گوروں کا مسکن تھی اور نواب حامد علی خان کی مسجد میں ، جو شیعوں کی سب سے بڑی مسجد تھی گدھے اور خچر باندھے گئے - دہلی میں ہر طرف پھانسیاں آویزاں تھیں ، جن پر سیکڑوں کی تعداد میں مسلمان لٹکائے گئے تھے۱۲- رسل نے اپنی ڈائری میں تحریر کیا ہے کہ مسلمانوں کو پھانسی دینے سے پہلے سور کی کھال میں سیا جاتا یا ان کے جسموں پر سور کی چربی مل دی جاتی اور مر چکنے کے بعد انہیں جلا دیا جاتا ۱۳ - ٹریویلیان کے بیان کے مطابق جب دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہوا تو جو شخص بھی ’’غازیوں ‘‘ (سید احمد کے حامیوں) کی جماعت میں سے پکڑا گیا ، اسے بغیر کسی ثبوتِ جرم پھانسی پر لٹکا دیا گیا - وہ لکھتا ہے کہ انگریز جج ، اگر کسی شخص کے چہرے مہرے سے بھی اسے ’’غازی‘‘ کی صورت کے مشابہ پاتے ، یعنی جس بھی شخص کے ماتھے پر محراب ہوتا یا وہ باریش ہوتا ، اسے فوراً پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ۱۴ - کمال الدین حیدر کے بیان کے مطابق ستائیس ہزار اہل اسلام نے پھانسی پائی - سات دن برابر قتل عام رہا- بچوں تک کو مار ڈالا گیا - عورتوں سے جو سلوک کیا گیا وہ بیان سے باہر ہے اور اس کے تصور سے ہی دل دہل جاتا ہے ۱۵ - الطاف حسین حالی تحریر کرتے ہیں کہ سرکشی کا اصل سبب یعنی چربی والے کارتوس کے استعمال پر اعتراض تو ہندوئوں نے کیا ، لیکن الزام مسلمانوں پر عائد کیا گیا ۱۶ - ہندوئوں نے اس الزام کی تردید کے بجائے تائید کی ، بلکہ ہندو پریس نے بار ہا انگریزوں کو خبردار کیا کہ مسلمانوں کو سرکاری تحفظ سے محروم رکھا جائے کیونکہ ان کی ہمدردیاں ایک معروف نافرمان مسلم جماعت (یعنی سید احمد کے حامیوں) کے ساتھ ہیں ۱۷ - انگریزی حکومت سے مسلمانوں کی نفرت اور بیزاری کی کئی وجوہات تھیں - مسلمانوں کو احساس تھا کہ انگریزوں کی آمد سے پیشتروہی برصغیر کے حکمران تھے - ظاہر ہے ، وہ اپنی سیاسی حیثیت میں تغیر کو بآسانی قبول نہ کر سکتے تھے - اس کے علاوہ انگریزوں نے اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے عیاری اور فریب کاری سے جو بھی قدم اٹھائے ، ان کی چوٹ مسلمانوں ہی پر پڑی- مثلاً جب بنگال ، بہار اور اڑیسہ کی دیوانی کے حصول کے بعد ان صوبوں اور دوسرے علاقوں کا نظم و نسق انگریزوں کے ہاتھ میں آیا ، تو انہوں نے مسلم منتظمین کو موقوف کر کے ان کی جگہ اپنے افسر مقرر کیے- جب ہندوستان کا سکہ تبدیل کیا گیا تو مسلم سکے کی حیثیت ختم ہو گئی - جب فارسی کا بطور سرکاری زبان خاتمہ کیا گیا تو اس کا نقصان بھی فارسی خواں مسلم کارکنان کو ہوا جو بیروزگار ہو گئے - ۱۸۵۲ء میں جب انعام کمیشن مقرر ہوا تو اس نے ۳۵ ہزار جاگیروں کی تصدیقی اسناد طلب کیں اور ان میں سے بیس ہزار ضبط کر لیں ،جو بیشتر مسلمانوں کی تھیں- ان جاگیروں کی ضبطی کے سبب ، خاص طور پر اودھ میں ، جس کا الحاق ۱۸۵۶ء میں ہوا ، بڑی بے چینی پھیلی - مسلم کاشتکار بھی انگریزوں کے ہتھکنڈوں سے سخت مضطرب تھے ، کیونکہ انہوں نے جو قوانین نافذ کیے ان سے ہندو ساہو کاروں کو برتری حاصل ہو گئی ۱۸ - سر سید بیان کرتے ہیں کہ ۱۸۷۳ء کے اعداد و شمار کے مطابق یوپی میں قرضے کی وصولی کے پچاس فیصد دعوے مسلمانوں کے خلاف دائر ہوئے اور اسی سال پنجاب میں مسلمانوں کی اراضی، جایدادیں یا املاک جن کی مالیت تیرہ لاکھ اسی ہزار پونڈ تھی ، ہندوئوں کے پاس رہن یا انہیں منتقل ہوئیں۱۹۔ ۱۸۵۸ء میں چونکہ مسلمان بادشاہ معزول کیا گیا تھا ، لہٰذا مسلمانوں پر عسکری بغاوت کی ذمہ داری بھی ڈال دی گئی اور ان پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند کر دئیے گئے ۔ نئے تعلیمی نظام میں فارسی ، عربی اور دیگر اسلامی علوم کو کوئی حیثیت حاصل نہ تھی ۔ ایشیاٹک سوسائٹی صرف سنسکرت پر تحقیق کے لیے مخصوص تھی ، مگر اسلامی تمدن کا مطالعہ ممنوع تھا ۔ انگریزی حکومت صرف ان مدرسوں کو تحفظ دیتی جو عیسائی مشنریوں کی ملکیت تھے اور جن میں عیسائیت کی تبلیغ کی جاتی ۔ عیسائی مبلغ پولیس کی مدد سے بر سرعام اپنے مذہب کو فروغ دینے کے لیے تقریریں یا مناظرے کرتے اور دیگر مذاہب کے بانیوں کے متعلق نازیبا اور اشتعال انگیز الفاظ استعمال کرتے ۔ سرکاری یتیم خانوں میں مسلم بچوں کو عیسائی بنا لیا جاتا۔ انگریز افسر اپنے ماتحتوں کو عیسائیت قبول کرنے پر مجبور کرتے ۔۱۸۶۴ء میں جب قاضی موقوف کیے گئے تو بھی مسلمانوں میں بے اطمینانی پھیلی ۔ قاضی اپنی قانونی ذمہ داریوں کے علاوہ مساجد میں امامت کا فرض ادا کرتے تھے۔ نکاح خوانی اور اوقاف کی نگرانی بھی انہی کا کام تھا ۔ ان کی موقوفی کے سبب مسلمانوں نے مساجد میں جمعہ اور عیدین کی نمازیں ادا کرنا بند کر دیں ، پھر انگریزی حکومت نے اوقاف میں بھی خیانت کرنے سے دریغ نہ کیا۔ بنگال میں محسن فنڈ اور پنجاب میں اعتماد الدولہ فنڈ مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کے لیے وقف تھے ، لیکن ان تعلیمی اداروں میں ہندوئوں کو تعلیم دی جاتی اور مسلمانوں کا داخلہ ممنوع تھا ۲۰ ۔ اس حوصلہ شکن ماحول اور ناموافق گرد و نواح سے تقریباً ہر مسلمان خاندان متاثر ہوا ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال کے بزرگوں نے اس صورت حال سے کیا اثر قبول کیا ۔ سیالکوٹ ایک چھوٹا سا شہر ہے اور اقبال کا تعلق ایک متوسط الحال تجارت پیشہ خاندان سے تھا ، جس کی نمایاں خصوصیات شرافت اور دینداری تھیں ۔ یہ قیاس کرنا تو صحیح نہیں کہ جس طوفان نے سارے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا اور جس کی زد میں پنجاب بھی آ چکا تھا ، اس سے سیالکوٹ محفوظ رہا ہو گا ۔ ہو سکتا ہے ، سید احمد کی تحریک اصلاح اور تنظیم جہاد کے مبلغ یا داعی یہاں بھی پہنچے ہوں اور سید صاحب کی تعلیمات کی بازگشت یہاں بھی سنی گئی ہو ، لیکن اقبال کے دادا شیخ محمد رفیق کے لیے جو کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ میں تلاش رزق میں سرگرداں تھے ، یہ ممکن نہ تھا کہ وہ پہلے اپنے خاندان سمیت سیالکوٹ سے ہجرت کرکے ہندوستان کے کسی شہر کا رخ کرتے اور پھر وہاں سے سندھ کے رستے سرحد پہنچ کر سکھوں یا انگریزوں کے خلاف جہاد میں حصہ لیتے ۔ سید نذیر نیازی بیان کرتے ہیں کہ انہیں اقبال نے بتایا کہ ان کے دادا شیخ محمد رفیق سکھوں کی طرف داری میں گجرات میں انگریزوں سے لڑے تھے ۲۱ ۔ اس بارے میں انہوں نے مزید تفصیل نہیں دی ۔ سکھ فوج مئی ۱۸۴۸ء اور فروری ۱۸۴۹ء میں آخری بار انگریزوں سے نبرد آزما ہوئی اور گجرات میں ان سے شکست کھائی ۔ بہرحال اقبال کے دادا کے متعلق یہ بات پہلے کبھی سننے میں نہیں آئی ۔ فوق اپنی کسی تحریر میں اس بات کا ذکر نہیں کرتے ۔ اگر اقبال نے یہ بات کہی اور نیازی کو سننے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی تو ان کے اپنے بیان کے بعد اس امر واقعہ کی صحت کے متعلق مزید تحقیق کا سوال پیدا نہیں ہوتا اور اگر ہو بھی تو مزید تحقیق کے لیے اب کس سے رجوع کیا جا سکتا ہے ۔ جہاں تک اقبال کے والد شیخ نور محمد کا تعلق ہے ، انہوں نے انگریزوں کے ظلم و استبداد کا وہ زمانہ ضرور دیکھا، جس نے مسلمانوں کے دلوں میں انگریزی حکومت کے لیے نفرت کا بیج بو دیا ۔ فوق کے بیان کے مطابق سیالکوٹ میں عسکریوں نے ۹ جولائی ۱۸۵۷ء کو علم بغاوت بلند کیا ، لیکن دہلی پر قبضہ کے بعد انگریزوں نے سیالکوٹ میں دو عہدیداروں کو سولی پر چڑھایا اور ۱۳۹ عسکریوں کو توپ سے اڑا دیا ۔ ان میں بیشتر مسلمان تھے ۔ شہر سیالکوٹ کے مکینوں پر پچاس ہزار روپیہ اجتماعی جرمانہ عائد کیا گیا ۲۲ ۔شیخ نور محمد طبعاً ایک حلیم ، صلح کن اور امن پسند شخص تھے ، جنہیں یا تو اپنے کام سے تعلق تھا یا ان کا وقت صوفیہ و علماء کی مجلسوں میں بیٹھنے اور یادِ الٰہی میں گزرتا تھا ۔ انہیں اپنے ہم عصر اہل علم کی طرح اس بات کا احساس ہو گا کہ برصغیر کی عنانِ حکومت مسلمانوں کے ہاتھ سے چھن چکی ہے اور اس وقت انگریزوں کے خلاف جہاد میں کامیابی ممکن نہیں ، کیونکہ ان کے مال و دولت ، ہتھیاروں اور جدید انداز جنگ کا مقابلہ محدود وسائل اور پرانے طور طریقوں سے نہیں کیا جا سکتا ۔ نیز اس خطے کے سارے کے سارے مسلمانوں کا ہجرت کر کے مسلم ممالک میں آباد ہونا بھی اگر عملی طور پر نا ممکن نہیں ، تو مشکل ضرور تھا ۔ ماضی گزر چکا تھا اور مستقبل ابھی پس پردہ تھا ۔ اس لیے اس دور کے مسلمانوں کے حال کی زندگی بڑے تذبذب اور کرب و اضطراب میں گزر رہی تھی ۔ تعلیمی اداروں سے فارسی، عربی اور اسلامی علوم کا خاتمہ ، عیسائی مشنریوں کے اسلام کی مخالفت میں مناظرے ، پیغمبر اسلام ﷺکی ذات اقدس پر رکیک حملے وغیرہ ایسے اقدام تھے جن سے مسلمانوں کو اندیشہ ہوا کہ انگریزی حکومت ان کا نام و نشان مٹانے کے درپے ہے ، چنانچہ اپنی انفرادی اور اجتماعی بقاء کے لیے مسلمانوں نے ضروری سمجھا کہ ان کے بچے انگریزی اسکول میں داخل ہونے سے پیشتر کچھ مدت کے لیے دینیات کی تعلیم حاصل کر لیا کریں تاکہ بچپن ہی سے اسلام پر ان کا ایمان اس قدر مضبوط ہو جائے کہ وہ بعد میں کسی بھی قسم کی غیر اسلامی تعلیمات کا اثر قبول نہ کرسکیں ۔چنانچہ سرکاری سطح پر دینی مدرسوں کے فقدان کی وجہ سے تقریباً ہر شہر کے علماء کو مسجدوں یا اپنے گھروں میں درسگاہیں اور مکتب کھولنا پڑے ۔ سیالکوٹ میں ان دنوں درس و تدریس کے ایسے چار مراکز قائم تھے ، جن میں مولوی غلام مرتضیٰ، مولانا ابو عبداللہ ، غلام حسن اور مولوی مزمل کے مدرسوں میں تو عربی زبان اور دینیات کی تعلیم دی جاتی تھی ، البتہ مولانا سید میر حسن کے مدرسۃ العلوم میں عربی اور فارسی ادب کی تدریس ہوتی ۲۳ ۔ شیخ نور محمد نے اپنی اولاد کو انگریزی اسکول میں داخل کرانے سے پیشتر نہ صرف دینیات یا اسلامی علوم کی تحصیل کے لیے درسگاہ میں بھیجا ، بلکہ گھر میں بھی ان کی اسلامی تربیت کا خاص خیال رکھا ۔ انیسویں صدی کے ربعِ آخر کے مسلم بزرگوں کا امت مسلمہ پر یہ بہت بڑا احسان تھا کہ ان کی توجہ کے باعث آنے والی نسل میں اسلامی عصبیت بیدار ہوئی جس نے بالآخر برصغیر میں مسلم قومیت کے جذبہ کو فروغ دیا ۔ بہرحال شیخ نور محمد کے چھوٹے بھائی شیخ غلام محمد اور بڑے بیٹے شیخ عطا محمد نے غالباً اس وقت سرکاری ملازمت حاصل کی جب سر سید احمد خان کی سعی و کوشش سے رفتہ رفتہ مسلمانوں کی طرف انگریزی حکام کا رویہ بدلنا شروع ہوا۔ مآ خذ باب : ۲ ۱ ۔ ’’تاریخ سیالکوٹ‘‘ از محمد دین فوق ، مرتبہ ۱۹۲۴ء ، صفحات ۹۴ تا ۱۲۶ نیز ملاحظہ ہو ۔’’تاریخ سیالکوٹ‘‘ از عبدالصمد غلام محمد ، مالک مطبع صمدی ، محلہ رنگ پورہ شہر سیالکوٹ ، طباعت ۱۸۸۷ء صفحات ۵ تا ۴۰ ۲ ۔ ’’تاریخ اقوام کشمیر‘‘ طباعت ۱۹۴۳ء صفحات ۳۲۰ تا ۳۲۳ ۔ نیز ملاحظہ ہو ۔’’روز گار فقیر‘‘، جلد دوم ، صفحات ۱۲۴ تا ۱۲۶ ، ۱۳۳ تا ۱۳۵ اور ’’ذکر اقبال‘‘ از عبدالمجید سالک، صفحات ۸ تا ۱۰ ۔ ۳ ۔ ہنٹر کی کتاب ’’ہندی مسلمان ‘‘ پر تبصرہ از سر سید احمد خان (انگریزی) صفحہ ۴۴ ۔ ۴ ۔ ’’ہندی مسلمان ‘‘ از ڈبلیو ۔ ڈبلیو۔ ہنٹر (انگریزی) صفحات ۳،۴،۳۵ا تا ۱۳۹ ، ۱۶۵تا ۱۶۷۔ ’’آکسفورڈ تاریخ ہند‘‘ از وی اے سمتھ (انگریزی) صفحہ۵۰۳ ، ’’تاریخ بغاوت ہند‘‘ از کے۔ اورمیلی سن (انگریزی) جلد دوم ، صفحات ۲ ، ۳ ، ۱۱ ، ۱۳، ۱۵ ، ۱۶ ، ۱۹ ، ہندی اسلام از مرے ٹی ۔ ٹائیٹس (انگریزی ) صفحات ۱۹۱ تا ۱۹۳ ۵ ۔ ’’سیرت سید احمد شہید ‘‘از سید ابوالحسن علی ندوی ، صفحات ۵۷ تا ۸۳ ، ۱۰۴ تا ۱۴۳، ۱۵۰ تا ۲۰۳ ؛ ’’آثار الصنادید ‘‘ از سر سید احمد خان ، صفحات ۴۳ تا ۴۷ ، ’’ہندی مسلمان ‘‘ (انگریزی) صفحات ۱۲ تا ۱۵ ۔ مزید مطالعے کے لیے ’’سید احمد شہید ‘‘ (دو جلدیں) از غلام رسول مہر۔ ’’جماعت مجاہدین‘‘از غلام رسول مہر صفحات ۵۷ تا ۸۹ ، ۱۰۹تا ۱۲۹ ۶ ۔ ’’ہندی مسلمان ‘‘ (انگریزی) صفحات ۴۴ تا ۴۷ ، ’’ہندی اسلام ‘‘(انگریزی) صفحات ۱۷۹ تا ۱۸۱ ۔’’کلکتہ ریویو ‘‘ (انگریزی) جلد ،۵ ، مطبوعہ ۱۸۷۰ء صفحہ ۱۰۴ ۔ ایضاً جلد ۵۱ ، صفحات ۱۷۷ ، ۱۷۸، ’’تاریخ برطانوی ہند‘‘ از جیمز مل (انگریزی) جلد نہم ، صفحات ۲۲۰ تا ۲۲۳ ۔ مزید مطالعے کے لیے ’’سر گزشت مجاہدین‘‘ از غلام رسول مہر صفحات ۲۰۲ تا ۲۰۹ ۷ ۔ ’’کلکتہ ریویو ‘‘ (انگریزی) جلد ۵۱ ، صفحات ۱۸۸ ، ۱۸۹ ، ایضاً ، جلد ۵۱ نمبر سی ۱۱، صفحات ۳۸۱ ، ۳۸۴ مزید مطالعے کے لیے’’ سرگزشت مجاہدین ‘‘ دیکھیے ۔ ۸ ۔ ’’کشمیر‘‘ از جی ۔ ڈی ۔ ایم ۔ صوفی (انگریزی) جلد دوم صفحات ۷۱۶ تا ۷۱۹ ۔ ۹ ۔ ’’کلکتہ ریویو ‘‘ (انگریزی) جلد ۵۱ نمبر سی ۱۱، صفحات ۳۸۲ ، ۳۸۶ ، ۳۹۲ ، ۳۹۹ ،’’ہندی مسلمان ‘‘ (انگریزی) صفحات ۲۳ تا ۲۵ ، ۲۷ ، ۳۸ ، ۴۲ ، ۷۸ ، ۸۴تا ۱۰۵ مزید مطالعے کے لیے ’’سرگزشت مجاہدین ‘‘ دیکھیے ۔ ۱۰ ۔ ’’ہند میں جدید اسلام ‘‘ از ڈبلیو۔ سی۔ سمتھ (انگریزی) صفحہ ۱۶۲ ۱۱ ۔ ’’کلکتہ ریویو ‘‘ (انگریزی) جلد ۵۱ نمبر سی ۱۱ ،صفحہ ۳۸۲، ’’تاریخ بغاوت ہند ‘‘ (انگریزی) جلد اول ، صفحات ۱۴۲ ، ۱۴۳ اور جلد دوم ، صفحہ ۲۷۔ ’’ہندی مسلمان ‘‘(انگریزی) ،صفحات ۱۱ ، ۲۴ ، ۲۵، ۲۶ تا ۴۳ ،۶۱، ۷۵ ، ۸۹ ، ۱۳۹ ۱۲ ۔ ’’۱۸۵۷ئ‘‘ از غلام رسول مہر ، صفحات ۲۰۱ تا ۲۱۹ ، ۴۴۰ تا ۴۴۷ ۱۳ ۔ ’’میری ڈائری ہند میں ‘‘ (انگریزی) ، صفحات ۱۱ ، ۴۳ ۔ نیز ملاحظہ ہو ’’ہند میں برطانوی حاکمیت کا طلوع اور تکمیل ‘‘ از ای ۔ تھامپسن اور جی ۔ ٹی گیرٹ (انگریزی) ، صفحہ ۴۳۹ ۱۴ ۔ ’’کان پور ‘‘ از جی ۔ او ۔ ٹریویلیان (انگریزی) صفحہ ۱۰۹ نیز دیکھیے ’’ہند میں برطانوی حاکمیت کا عروج اور تکمیل ‘‘ (انگریزی) صفحہ ۴۶۲ ۱۵ ۔ ’’قیصر التواریخ‘‘ جلد دوم ، صفحہ ۴۵۲ ۱۶ ۔ ’’حیات جاوید ‘‘ حصہ اول صفحات ۷۱ ، ۲۱۴ ، ۲۲۲ ۱۷ ۔ ’’کلکتہ ریویو‘‘ (انگریزی) جلد ۵۰ صفحہ ۷۳ تا ۷۵ ۱۸ ۔ ’’ہند کا تاریخی جغرافیہ ‘‘ از آر۔ای۔ رابرٹس (انگریزی) صفحہ ۳۶۳ ، ’’ہندی برطانوی حاکمیت کا طلوع و تکمیل ‘‘ (انگریزی) ، صفحات ۴۴۲ ، ۴۴۳ ۱۹۔ ’’مضامین تہذیب الاخلاق ‘‘ جلد دوم صفحات ۵۲۲ ، ۵۲۳ ۲۰ ۔ ’’ہندی مسلمان ‘‘ (انگریزی) صفحات ۱۶۸ تا ۱۷۱ ، ۱۸۴ ، ۱۹۳ ، ۱۹۴ ، ’’ اسباب بغاوت ہند ‘‘ از سر سید احمد خان ، صفحات ۱۷ تا ۱۹ ۲۱ ۔ ’’اقبال کے حضور ‘‘ جلد اول ،صفحہ ۹۴ ۲۲ ۔ ’’تاریخ سیالکوٹ ‘‘ صفحہ ۱۲۶ ۲۳ ۔ ’’ذکر اقبال ‘‘ ، صفحات ۱۰، ۱۱ باب: ۳ تاریخِ ولادت کا مسئلہ اقبال کی تاریخ ولادت عرصے سے ایک متنازع فیہ مسئلہ رہا ہے اور اس سلسلے میں کئی سنہ بیان کیے جاتے رہے ہیں ۔ اقبال کی زندگی کے دوران میں جو مضامین یا کتابیں ان پر تحریر کی گئیں ، ان میں اقبال کا سنِ ولادت ۱۸۷۰ء ، ۱۸۷۲ء ، ۱۸۷۵، ۱۸۷۶ء یا ۱۸۷۷ء بتایا گیا ہے ۔ ان مصنفین میں سے چند تو اقبال کے حلقہ احباب میں سے تھے ، لیکن بیشتر انہیں ذاتی طور پر نہ جانتے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ اقبال اپنے حالات زندگی کی تشہیر میں دلچسپی نہ رکھتے تھے اسی لیے ۱۹۲۲ء میں جب فوق نے ان سے ، بذریعہ خط ، حالات طلب کیے تو انہوں نے جواب میں لکھا : ’’باقی رہے میرے حالات ، سو ان میں کیا رکھا ہے ۔۔۔۱ ‘‘ ’’اقبال یورپ میں‘‘ (مطبوعہ اقبال اکادمی ۱۹۸۶ئ) کے مصنف ڈاکٹر سعید اختر درّانی کی تحقیق کے مطابق قیام یورپ کے دوران میں اقبال نے یکم اکتوبر ۱۹۰۵ء کو ٹرینٹی کالج کیمبرج کے رجسٹر میں اپنے ہاتھ سے اپنی تاریخ ولادت محرم (۱۸۷۶ئ) تحریر کی ۔ پھر انہوں نے ۶ نومبر ۱۹۰۵ء کو ’’لنکنزان لندن ‘‘ کے رجسٹر داخلہ میں اپنی عمر انتیس برس درج کی ، جس کے مطابق سن ولادت ۱۸۷۶ء بنتا ہے ۔ ۱۹۰۷ء میں جب اقبال نے ڈاکٹریٹ کے لیے اپنا تحقیقی مقالہ ’’ ایران میں فلسفہ مابعد الطبیعیات کا ارتقائ‘‘ (انگریزی) میونخ یونیورسٹی میں پیش کیا تو اس کے ساتھ ، اس یونیورسٹی کے دستور کے مطابق ، ایک خود نوشت سوانحی خاکہ بھی منسلک کیا جس میں انہوں نے اپنے ہاتھ سے لکھا : میں ۳ ذیقعد ۱۲۹۴ھ (مطابق ۱۸۷۶ئ) کو سیالکوٹ ، پنجاب (انڈیا) میں پیدا ہوا ۲ ۔ اس تحریر سے ظاہر ہے کہ انہوں نے ہجری سن میں اپنی ولادت کی تاریخ ، ماہ اور سال کے ساتھ قوسین میں اس کا متبادل عیسوی سن یعنی ۱۸۷۶ء اندازے سے درج کر دیا، مگر اسے صحیح طور پر پوری تفصیل کے ساتھ عیسوی تاریخ ماہ یا سال کے مطابق تبدیل نہ کیا ۔ ڈاکٹریٹ کے لیے ان کا زبانی امتحان میونخ میں ۴ ۔نومبر ۱۹۰۷ء کو پروفیسر ایف ہومل کے زیر صدارت ایک بورڈ نے لیا اور اس سے متعلقہ کارڈ میں ان کی تاریخ ولادت ۹۔ نومبر ۱۸۷۷ء درج ہے۔ بعد میں ۱۹۳۱ء میں جب گول میز کانفرنس میں شمولیت کی خاطر انگلستان جانے کے لیے پاسپورٹ بنوایا تو اس میں بھی انہوں نے اپنا سن ولادت ۱۸۷۶ء ہی تحریر کیا ۳ ۔ اقبال کے حصول تعلیم کی خاطر یورپ جانے کا پاسپورٹ جو ۱۹۰۵ء میں بنوایا گیا ہو گا ، موجود نہیں ۔ ممکن ہے اس میں بھی سال ولادت ۱۸۷۶ء ہی درج ہو ۔ ’’خمخانہ جاوید ‘‘ جلد اوّل ، مصنفہ لالہ سری رام (طباعت ۱۹۰۸ئ) میں اقبال کا سن ولادت ۱۸۷۰ء درج ہے ۔ اس کتاب کی تحریر یا اشاعت کے دوران اقبال انگلستان میں تھے اور عین ممکن ہے کہ لالہ سری رام نے اقبال کے حالات زندگی ان کے بعض جاننے والوں سے حاصل کیے ہوں ، کیونکہ وہ مقدمہ کتاب میں شیخ عبدالقادر ، پنڈت کیفی اور نواب سر ذوالفقار علی خان کا ذکر اسی سلسلہ میں کرتے ہیں۔شاید ان احباب نے اپنے اندازے کے مطابق سال ولادت ۱۸۷۰ء بتایا ہو ۔ ’’انتخاب زرّیں‘‘ مرتب سر سید راس مسعود (طباعت ۱۹۲۱ئ) میں تاریخ ولادت اگست ۱۸۷۰ء مطابق ۱۲۸۷ھ تحریر ہے۔’’قاموس المشاہیر ‘‘ جلد اوّل ، مرتب نظامی بدایونی (طباعت ۱۹۲۴ئ) میں سال ولادت ۱۸۷۰ء اور ’’قند اردو‘‘ مرتب جلال الدین احمد جعفری (طباعت ۱۹۲۴ئ) میں بھی سال پیدائش ۱۸۷۰ء ہی دیا گیا ہے۔سر سید راس مسعود کے علاوہ باقی حضرات اقبال کے حلقہ احباب سے تعلق نہ رکھتے تھے ۔ بلکہ عین ممکن ہے کہ اس زمانے میں سر سید راس مسعود کے ساتھ بھی اقبال کے تعلقات اتنے گہرے نہ ہوں جتنے بعد میں ہوگئے تھے ، اس لیے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ان تمام حضرات نے سال ولادت ’’خمخانہ جاوید ‘‘ مطبوعہ ۱۹۰۸ء سے اخذ کیا ہو ۔ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم اور عبدالقادر سروری اقبال پر اپنے اپنے مضمونوں میں ، جو ’’آثار اقبال‘‘ مرتب دستگیر رشید ، ادارہ اشاعت اردو حیدر آباد (دکن) میں شائع ہوئے اقبال کا سن ولادت ۱۸۷۲ء درج کرتے ہیں ۔ اقبال کے احباب میں ان کے حالات زندگی پر ایک مضمون فوق نے تحریر کیا جو ’’حالات اقبال ‘‘ کے عنوان سے ’’کشمیری میگزین ‘‘ لاہور میں ۱۹۰۹ء میں شائع ہوا ۔ اس میں اقبال کا سالِ پیدائش ۱۸۷۵ء درج ہے ۴ ۔ اس کے بعد نواب سر ذوالفقار علی خان نے اقبال پر اپنے انگریزی کتابچہ بعنوان ’’مشرق سے ایک آواز ‘‘ (طباعت ۱۹۲۲ئ) میں ان کا سن ولادت ۱۸۷۶ء کے لگ بھگ تحریر کیا ہے ۔ مولوی احمد دین ایڈووکیٹ نے اقبال پر اپنی کتاب ’’اقبال ‘‘ (طباعت ۱۹۲۴ئ، بار اوّل اور ۱۹۳۶ء بار دوم) میں ان کا سال پیدائش ۱۸۷۵ ء لکھا ہے ۵ ۔ ۱۹۳۰ء میں فوق نے اپنی کتاب ’’مشاہیر کشمیر ‘‘ کی طبع ثانی میں ۱۸۷۵ء ہی کو اقبال کا سن ولادت قرار دیا ۔ لیکن ۱۹۳۲ء میں ’’نیرنگ خیال ‘‘ کے اقبال نمبر میں فوق نے اقبال کی سوانح حیات پر اپنے مضمون میں پہلی بار ان کا سال پیدائش ۱۸۷۶ ء تحریر کیا اور اسی طرح ’’تاریخ اقوام کشمیر ‘‘ جلد دوم میں بھی ۱۸۷۵ء کی بجائے ۱۸۷۶ء ہی کو ان کا سن ولادت قرار دیا ۔ یہاں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ فوق ، نواب سر ذوالفقار علی خان اور مولوی احمد دین کے تعلقات اقبال سے بہت گہرے تھے ۔ شیخ اعجاز احمد کے قیاس کے مطابق فوق نے سن ولادت کی تصحیح اقبال کے ایما پر کی ہو گی۶۔لیکن ڈاکٹر وحید قریشی کا اعتراض ہے کہ اس سلسلہ میں اگر ۱۹۲۲ء سے لے کر ۱۹۳۰ء تک اقبال نے فوق کی کوئی مدد نہ کی تو بعد میں تعاون کیونکر کیا ہو گا ۔ ان کی رائے میں فوق نے یا تو نواب سر ذوالفقار علی خان کی تحریر پر بھروسہ کیا یا ملک راج آنند کے مضمون پر ، جس کا ماخذ بھی نواب سر ذوالفقار علی خان ہی کی کتاب تھی۔ ان کے خیال میں یہ بھی ممکن ہے کہ نواب سر ذوالفقار علی خان اور مولوی احمد دین کے بیانات ہی اقبال کی نظر میں معتبر شمار ہوئے ہوں ۷ ۔ فوق کے نام اقبال کے خط محررّہ ۱۹ دسمبر ۱۹۲۲ء سے ظاہر ہے کہ وہ کسرِ نفس سے یا قدرے تکلفانہ انداز میں تحریر کیا گیا ۔ غالباً فوق نے انہیں خط میں اپنے حالات لکھنے کی فرمائش کی جسے اقبال نے انکسار سے ٹال دیا ۔ لیکن ساتھ ہی تحریر کیا : ۰۰۰ میرا طرز رہائش مشرقی ہے ، آپ شوق سے تشریف لا سکتے ہیں ۸ ۔ ممکن ہے ، بعد کی ملاقاتوں میں جب فوق نے انہیں بحیثیتِ دوست مجبور کیا تو سن ولادت کے سلسلے میں اقبال نے ان کی رہنمائی کر دی ہو ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اقبال کے علاوہ نواب سر ذوالفقار علی خان کی معلومات کا ذریعہ کیا تھا ؟ ظاہر ہے انہیں اقبال ہی نے بتایا ہو گا کہ میرا سن ولادت ۱۸۷۶ء کے لگ بھگ ہے جسے انہوں نے اسی طرح تحریر کر دیا ، یہ علیحدہ بات ہے کہ انہوں نے جس سن کو ’’لگ بھگ ‘‘ کے لفظ سے ظاہر کیا ، فوق یا ملک راج آنند نے اسے حتمی بنا دیا ۔ مگر ۱۹۰۵ء میں ٹرینٹی کالج کیمبرج کے رجسٹر میں ان کا اپنی تاریخ ولادت محرّم (۱۸۷۶ئ) تحریر کرنا، پھر ’’لنکنزان لندن ‘‘ کے رجسٹر داخلہ میں اپنی عمر انتیس برس درج کرنا (جس کے مطابق سن ولادت ۱۸۷۶ء بنتا ہے ) یا ۱۹۳۱ء میں اپنے پاسپورٹ میں سنۂ ولادت ۱۸۷۶ء لکھنا ، ان حقائق کے حوالے سے یہ گمان کرنا کہ اقبال کی نظر میں نواب سر ذوالفقار علی خان اور مولوی احمد دین کے بیانات معتبر شمار ہوئے ہوں گے ، درست معلوم نہیں ہوتا۔ ’’دیباچہ ‘‘ کلیاتِ اقبال ‘‘ مرتب محمد عبدالرزاق علیگ (مطبوعہ ۱۹۲۲ئ) میں اقبال کا سنہ ولادت ۱۸۷۵ء درج ہے ۔ رام بابو سکسینہ کی اردو ادب پر انگریزی کتاب (مطبوعہ ۱۹۲۹ئ) میں ان کا سنہ ولادت ۱۸۷۵ء ہی درج ہے ۔ ’’یاد اقبال ‘‘ مرتب چودہری غلام سرور فگار ، میں محمد حسنین نے بھی اقبال پر اپنے مضمون میں ان کا سال پیدائش ۱۸۷۵ء تحریر کیا ہے اور ’’جدید شاعری ‘‘ از عبدالقادر سروری میں بھی ۱۸۷۵ء ہی کو ان کا سال ولادت قرار دیا گیا ہے ۔ اسی طرح ’’سرمایۂ اردو ‘‘ مرتب حافظ محمود شیرانی میں بھی ان کا سنۂ ولادت ۱۸۷۵ء ہی بیان کیا گیا ہے ۔ عین ممکن ہے کہ ان مصنفین نے اس سلسلہ میں ’’کشمیری میگزین ‘‘یا ’’مشاہیر کشمیر ‘‘ پر انحصار کیا ہو ۔ جرمن مستشرق ہیلمتھ فان گلا سنیپ نے ہندوستانی ادب پر اپنی تصنیف (مطبوعہ ۱۹۲۹ئ) میں اقبال کا سنہِ ولادت ۱۸۷۶ء تحریر کیا ہے ۔ اسی طرح ملک راج آنند نے اقبال پر اپنے انگریزی مضمون میں جو رائل اکیڈیمی جرنل میں شائع ہوا اور جس کا اردو ترجمہ ۱۹۳۲ء میں ’’نیرنگ خیال ‘‘ کے اقبال نمبر میں چھپا ، ان کا سال پیدائش ۱۸۷۶ء بیان کیا ہے ۔ ’’اقبال ، شاعری اور پیغام ‘‘ مصنفہ : شیخ اکبر علی (انگریزی،مطبوعہ ۱۹۳۲ئ) میں بھی سن ولادت ۱۸۷۶ء تحریر کیا گیا ہے ۔ علاوہ ازیں مندرجہ ذیل کتب میں بھی ان کا سن ولادت ۱۸۷۶ء ہی درج ہے : ۱ ۔’’ مختصر تاریخ اردو ادب ‘‘ از سید اعجاز حسین ، مطبوعہ ۱۹۳۴ء ۲ ۔ ’’تذکرہ شعرائے پنجاب ‘‘، مرتب نسیم رضوانی ، مطبوعہ ۱۹۳۷ء ۳ ۔ مجلہ اردو ، انجمن ترقی اردو ، اقبال نمبر ، مطبوعہ ۱۹۳۸ء ۴ ۔ ’’اقبال کامل ‘‘ از عبدالسلام ندوی ۱۹۴۸ء ۵ ۔ ’’گلستان ہزار رنگ ‘‘ از سید بہاء الدین احمد ۶ ۔ ’’مراۃ الشعراء ‘‘ جلد دوم از مولوی محمد یحییٰ تنہا ۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ان کتب کا ماخذ یا تو نواب سر ذوالفقار علی خان کا انگریزی کتابچہ تھا یا ’’نیرنگ خیال ‘‘ اقبال نمبر میں فوق اور ملک راج آنند کے مضامین، البتہ مندرجہ ذیل کتب میں اقبال کا سال پیدائش ۱۸۷۷ء درج ہے : ۱ ۔’’انڈین انسائیکلوپیڈیا ‘‘ مرتب پی ڈی چندر (انگریزی) مطبوعہ ۱۹۲۸ء ۔ ۲ ۔ ’’ہندوستان میں کون ، کون ہے ‘‘ ۔ مرتب تھامس پیٹر (انگریزی) مطبوعہ ۱۹۳۶ء ۔ معلوم ہوتا ہے ، انہی کتب پر انحصار کرتے ہوئے جرمن مستشرق گائفیلڈ سائمن نے بھی اسلام پر اپنی تصنیف (مطبوعہ ۱۹۳۷ئ) میں اقبال کا سنہ ولادت ۱۸۷۷ء تحریر کیا ۔ اوپر دی گئی تفصیل سے ظاہر ہے کہ اقبال کی زندگی کے دوران میں جس سن ولادت کو ہمارے قیاس کے مطابق ، اقبال کی تائید حاصل تھی وہ ۱۸۷۶ء ہی تھا ۔ ۱۸۷۳ء کو کسی نے بھی ان کے سن ولادت کے طور پر پیش نہیں کیا۔ سوال یہ ہے کہ اس زمانے میں ۱۸۷۰ء ، ۱۸۷۲ء ، ۱۸۷۵ئ،یا ۱۸۷۷ء کے بارے میں ذریعۂ معلومات کیا تھا؟ اس کے جواب میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس بارے میں اقبال کی عدم دلچسپی یا عدم تعاون کے سبب محض اندازے سے کام لیا گیا ۔ اقبا ل کی وفات کے دوسرے روز یعنی ۲۲ اپریل ۱۹۳۸ء کو انگریزی روز نامہ ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ نے اپنے ایک نوٹ میں ان کا سال ولادت ۱۸۷۷ء تحریر کیا ۔ چند یوم بعد روز نامہ ’’انقلاب ‘‘ میں ان کے حالات زندگی پر ایک مختصر مضمون شائع ہوا جو شیخ عطا محمد سے حاصل کردہ معلومات پر مبنی تھا ۔ اس مضمون میں شیخ عطا محمد کے تخمینی بیان کے مطابق اقبال کی پیدائش کا مہینہ دسمبر اور سال ۱۸۷۶ء تحریر کیا گیا ، لیکن بعد ازاں روز نامہ ’’انقلاب‘‘ کی اشاعت ۷ مئی ۱۹۳۸ء میں علامہ اقبال کی تاریخ پیدائش کے عنوان کے تحت مندرجہ ذیل نوٹ شائع ہوا : حضرت علامہ اقبال کے جو مختصر سوانح حیات ’’انقلاب‘‘ کی کسی گزشتہ اشاعت میں چھپے تھے، ان میں شیخ عطا محمد صاحب برادرِ کلاں حضرت علامہ مرحوم کے تخمینی بیان کے مطابق حضرت مرحوم کی تاریخ پیدائش دسمبر ۱۸۷۶ء بتائی گئی تھی ، لیکن اب تحقیقی طور پر یہ معلوم ہو چکا ہے کہ حضرت علامہ مرحوم ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کو پیدا ہوئے ۔ اسلامی تاریخ ۲۳ ، ۲۴ ذی الحجہ ۱۲۸۹ھ تھی ۔ ان تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علامہ مرحوم کی عمر بحساب سنین شمسی ۶۵ برس دو ماہ اور بحساب قمری ۶۷ برس دو ماہ ہوئی۔ اس نوٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ روز نامہ ’’انقلاب‘‘ کی تحقیق کا ماخذ کیا تھا مگر معلوم ہوتا ہے کہ ادارۂ ’’انقلاب ‘‘ نے سیالکوٹ میونسپل کمیٹی کے رجسٹرڈ پیدائش و اموات میں ۱۸۷۳ء کے ایک اندراج پر انحصار کرتے ہوئے اقبال کی تاریخ ولادت ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء لکھ دی ۔ بعد میں عبدالمجید سالک نے اپنی تصنیف ’’ذکرِ اقبال ‘‘ (مطبوعہ ۱۹۵۵ئ) میں بھی اسی اندراج پر انحصار کیا اور حاشیے میں لکھا : ’’تصدیق ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ بحوالہ رجسٹر پیدائش و اموات ۹ ۔ ظاہر ہے کہ ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ ۱۹۵۴ء یا ۱۹۵۵ء میں ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کو اقبال کی تاریخ ولادت کے طور پر تصدیق نہ کر سکتا تھا ۔ اس نے تو محض رجسٹر پیدائش و اموات کے اس اندراج کی تصدیق کی تھی کہ ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کو محلہ کشمیریاں کے کسی نتھو کشمیری کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا تھا ۔ اگر ادارہ ’’انقلاب‘‘ اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد سے پوچھ لیتا کہ ان کے تخمینی بیان اور اس اندراج میں اختلاف کیوں ہے یا اقبال کی بہنوں میں سے کسی ایک سے اس اندراج کو بطور تاریخ ولادت اقبال تصدیق کرنے کے لیے رجوع کرتا ، تو اس غلط فہمی کا ازالہ بر وقت ہو جاتا ، لیکن رجسٹر پیدائش و اموات کے ایک ایسے اندراج کو جو ولادت اقبال سے متعلق نہ تھا ، بغیر کسی تحقیق کے ان کی تاریخ پیدائش تسلیم کر لیا گیا ۔ روز نامہ ’’انقلاب ‘‘ کے نوٹ پر انحصار کرتے ہوئے مرے کالج سیالکوٹ کے رجسٹر میں ، جہاں اقبال کے داخلہ کا اندراج ہے ، ان کی وفات کے بعد کالج کے پرنسپل اور وائس پرنسپل نے اسی تاریخ ولادت کو درست تسلیم کیا اور وجہ یہ لکھی کہ ’’انقلاب ‘‘ نے متذکرہ تاریخ پیدائش اقبال کے ’’فیملی ریکارڈ ‘‘ سے ڈھونڈ کر شائع کی ہے ۔ حالانکہ اقبال کے خاندان میں ایسا کوئی ریکارڈ سرے سے موجود ہی نہیں ، جس میں ان کی تاریخ پیدائش ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء لکھی ہو ۔ یہاں یہ بتا دینا بھی مناسب ہو گا کہ مرے کالج کے رجسٹر میں اقبال کی تاریخ داخلہ کالج ۵ مئی ۱۸۹۳ء درج ہے ، مگر تاریخ ولادت کی بجائے عمر ۱۸ سال لکھی ہے ۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ اقبال ۱۸۹۳ء میں ۱۸ سال کے تھے تو بھی ان کا سن ولادت ۱۸۷۳ء کی بجائے ۱۸۷۵ء بنے گا ۔ اس بحث سے نتیجہ نکلا کہ اقبال کے بعض سوانح نگاروں نے اسی تاریخ پیدائش کو اقبال کی تاریخ ولادت کے طور پر پیش کیا ۔ محکمہ آثار قدیمہ نے اقبال کی بعض لاہور اور سیالکوٹ کی رہائش گاہوں پر جو کتبے نصب کیے ان پر بھی سن ولادت ۱۸۷۳ء ہی کندہ کیا گیا۔ یہاں تک کہ وفات اقبال کی بیسویں برسی کے موقع پر ۱۹۵۸ء میں حکومت پاکستان کے محکمہ ڈاک نے جو یاد گاری ٹکٹ چھاپے ان پر بھی سن پیدائش ۱۸۷۳ء ہی درج کیا گیا ۔ ’’انقلاب ‘‘ یا’’ذکرِ اقبال ‘‘ پر انحصار کرتے ہوئے جن کتابوں میں ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کو تاریخ ولادت اقبال قرار دیا گیا ، ان میں سے چند یہ ہیں : ۱ ۔ ’’حیات اقبال ‘‘ از چراغ حسن حسرت ، مطبوعہ تاج کمپنی ، لاہور ۱۹۳۸ء ۔ ۲ ۔ ’’اقبال ‘‘ از محمد حسین خان مطبوعہ ۱۹۳۹ء ۔ ۳ ۔ ’’شاعر مشرق ‘‘ از عبداللہ انور بیگ (انگریزی) مطبوعہ ۱۹۳۹ء ۔ ۴ ۔ ’’سیرت اقبال ‘‘ از محمد طاہر فاروقی ، مطبوعہ ۱۹۳۹ء ۱۹۴۴ء ، ۱۹۴۹ء ۔ ۵ ۔ ’’اقبال ‘‘ از سچید انند سہنا (انگریزی) الٰہ آباد ۱۹۴۷ء ۔ ۶ ۔ ’’سرگرم زائر (حیات اقبال) از اقبال سنگھ (انگریزی ) ۱۹۵۱ئ۔ ۷ ۔ ’’تذکرہ شعرائے متغزلین ‘‘ مرتب محمد اسمعٰیل پانی پتی ، مطبوعہ ۱۹۵۶ء ۔ ۸ ۔ ’’اقبال ، اس کا آرٹ اور فکر ‘‘از سید عبدالواحد معینی (انگریزی) مطبوعہ ۱۹۵۹ء ۔ ۹ ۔ ’’کلیات اقبال ‘‘ مطبوعہ نظامی پریس بدایوں ۔ ۱۰ ۔ ’’کلیات اقبال ‘‘ مطبوعہ نسیم بک ڈپو لکھنؤ ۔ ۱۱ ۔ ’’یاد گار اقبال ‘‘ مرتب : سید محمد طفیل احمد بدر امرو ہوی ۔ ۱۲ ۔ ’’اردو انسائیکلوپیڈیا ‘‘ مطبوعہ فیروز سنز لمیٹڈ پاکستان، لاہور ۔ ۱۳ ۔ ’’تاریخ ادب اردو ‘‘ از ڈاکٹر محمد صادق (انگریزی) ۔ ۱۴ ۔ ’’شعر اقبال ‘‘ از سید عابد علی عابد ۔ اس مرحلہ پر یہ ذکر کر دینا بھی ضروری ہے کہ مزار اقبال کی تکمیل غالباً ۱۹۵۰ء میں ہوئی ۔ تعویذ اور لوح مزار حکومت افغانستان نے کابل سے تیار کرا کے بھیجے تھے ۔ لوح مزار پر اقبال کا سنہ ولادت ۱۲۹۲ھ کندہ ہے جو ان کے مروجہ یا مفروضہ کسی بھی سنہ پیدائش کے مطابق نہیں ۔ اقبال مزار کمیٹی کا ریکارڈ اس معاملہ میں کوئی رہبری نہیں کرتا کہ اس سنہ ولادت کے متعلق اطلاع کس نے ، کس بنا پر کابل ارسال کی ۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ کابل والوں نے اپنے کسی اندازے کے مطابق خود ہی یہ سنۂ ہجری کندہ کر دیا۔ حالانکہ اس کے درست ہونے کا کوئی ثبوت موجود نہ تھا ۔ ’’انقلاب‘‘ کی دریافت کردہ تاریخ کے باوجود بعض اقبال شناسوں نے اسے درست تسلیم نہیں کیا ، بلکہ ۱۸۷۶ء یا ۱۸۷۷ء ہی کو ان کا سنۂ ولادت تحریر کرتے چلے گئے ۔ مثلاً ولیم کینٹول سمتھ کی تصنیف ’’ہند میں جدید اسلام‘‘ (مطبوعہ ۱۹۴۶ئ)۔ (انگریزی) میں اقبال کا سن پیدائش ۱۸۷۶ء درج ہے ۔ جرمن مستشرق فیوک نے اقبال پر اپنی تصنیف میں (جو ۱۹۵۴ء میں جرمنی میں شائع ہوئی) ۱۸۷۷ء ان کا سنۂ ولادت قرار دیا ۔ اسی طرح روسی مستشرق کو بیکوا نے اپنی تصنیف ’’نوووپیسکن لٹریچر‘‘ (مطبوعہ۱۹۵۶ئ) میں ان کا سالِ پیدائش ۱۸۷۷ء تحریر کیا ہے ۔ سید عبدالواحد معینی کے بیان کے مطابق پہلی شخصیت جس نے ’’انقلاب ‘‘کی تحقیق پر شبہے کا اظہار کیا ، پان (جرمنی) میں اردو کے استاد ٹی ۔ سی۔ رائے تھے ۔ رائے نے ۱۹۵۷ء میں پاکستانی سفارت خانہ واقع گاڈ سبرگ کے ثقافتی اتاشی کو ایک خط لکھا جس میں اقبال کی تاریخ پیدائش کے متعلق الجھائو کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ چونکہ مختلف مصنف اور اہل قلم اس سلسلے میں مختلف تواریخ اور سنین تحریر کرتے ہیں ، اس لیے یہ معاملہ مثبت اور مکمل تحقیق کے ذریعے طے کیا جانا چاہیے ۔ لیکن اس مسئلے کو سلجھانے کے لیے پاکستان میں کوئی قدم نہ اٹھایا گیا ۱۰ ۔ ۱۹۵۸ء میں پراگ یونیورسٹی (چیکو سلواکیہ) کے پروفیسر یان مارک نے اقبال کی تاریخ پیدائش کے موضوع پر ایک مدلل مضمون ، رسالہ ’’ آرچیو اور ینٹلی‘‘ پراگ میں شائع کیا ۔ ان کے سامنے اقبال کا خود نوشت تعارفی نوٹ تھا ، جو انہوں نے ۱۹۰۷ء میں اپنا تحقیقی مقالہ میونخ یونیورسٹی جرمنی میں پیش کرتے وقت ساتھ منسلک کیا تھا ۔ اس تعارفی نوٹ کی روشنی میں یان مارک اس نتیجے پر پہنچے کہ اقبال کی صحیح تاریخِ ولادت ۹ نومبر ۱۸۷۷ء ہے ۱۱ ۔ ۱۹۶۳ء میں جرمن مستشرق این میری شمل نے فکر اقبال پر اپنی انگریزی تصنیف بعنوان ’’بال جبریل ‘‘ میں یان مارک کے حوالے سے تحریر کیا کہ اُن کی صحیح تاریخ ولادت کے متعلق اختلافات ہیں ۔ عام طور پر ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء ان کی تاریخ ولادت سمجھی جاتی ہے مگر اپنے تحقیقی مقالے کے نوٹ میں اقبال نے خود اپنی تاریخ ولادت ۳ ذیقعد ۱۲۹۴ھ مطابق ۱۸۷۶ء درج کی ہے ۔ ہجری کا سن ۱۲۹۴ھ چونکہ جنوری ۱۸۷۷ء سے شروع ہوا ، اس لیے ۹ نومبر ۱۸۷۷ء اقبال کی درج کردہ ہجری تاریخ کے عین مطابق ہے ۔ یہ تاریخ اس لیے بھی درست ہے کہ اقبال کی زندگی کے مختلف تعلیمی مراحل یعنی ان کے کالج یا یونیورسٹی میں امتحانات کی تکمیل کی تواریخ سے اس کی مطابقت بمقالہ ۱۸۷۳ء زیادہ قرین قیاس اور بہتر معلوم ہوتی ہے ۱۲ ۔ اسی سال ’’روز گار فقیر‘‘ کے مصنف فقیر سیّد وحیدالدین (نقشِ ثانی) نے شیخ اعجاز احمد کے پیش کردہ شواہد کی روشنی میں اس موضوع پر طویل بحث کے بعد یہ ثابت کیا ہے کہ اقبال کی صحیح تاریخ ولادت ۹ نومبر ۱۸۷۷ء ہے ۱۳ ۔ اس کے بعد جن اہلِ علم نے اقبال پر مضامین یا کتب شائع کیں ، ان میں سے بیشتر نے اسی تاریخ ولادت کو درست تسلیم کیا ۔ مثلاً سیّد عبدالواحد معینی نے اپنی انگریزی تصنیف ’’اقبال ، اس کا آرٹ اور فکر ‘‘ (مطبوعہ ۱۹۶۴ئ)میں اقبال کی تاریخ ولادت ۹ نومبر ۱۸۷۷ء درج کی ، حالانکہ اسی کتاب کے طبع ۱۹۵۹ء میں انہوں نے ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کی تاریخ تحریر کی تھی ۔ اسی طرح رسالہ ’’نقوش ‘‘ کے آپ بیتی نمبر (مطبوعہ ۱۹۶۴ئ) میں ان کی تاریخ ولادت ۹ نومبر ۱۸۷۷ء درج کی گئی ۔ اس سے پیشتر اسی رسالے کے مختلف شماروں مثلاً غزل نمبر، مکاتیب نمبر ، طنز و مزاح نمبر اور لاہور نمبر میں سنہ پیدائش ۱۸۷۵ء یا ۱۸۷۶ء درج کیا گیا تھا ۔ رام بابو سکسینہ کی اردو ادب پر (انگریزی) تصنیف کے اردو ترجمے از عسکری (مطبوعہ ۱۹۶۵ئ) میں نظر ثانی کے بعد مرتضیٰ حسین فاضل نے ۱۸۷۵ء کی بجائے ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کو اقبال کی صحیح تاریخ پیدائش قرار دیا ۔ اسی طرح محمد طاہر فاروقی نے اپنی کتاب ’’سیرت اقبال ‘‘ (مطبوعہ۱۹۶۶ئ) میں اقبال کی تاریخ ولادت تصحیح کے بعد ۹ نومبر ۱۸۷۷ء لکھی جبکہ اس کتاب کی طبع ۱۹۳۹ء ، ۱۹۴۴ء اور ۱۹۴۹ء میں ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء درج ہے ۔ ۱۹۶۷ء میں یوم اقبال کے موقع پر حکومت پاکستان کے محکمہ ڈاک نے جو یادگاری ٹکٹ شائع کیے ، ان پر اقبال کا سن ولادت ۱۸۷۷ء چھاپا گیا ، لیکن چونکہ ۱۹۵۸ء کے یاد گاری ٹکٹوں پر سنہ ولادت ۱۸۷۳ء تحریر کیا گیا تھا ، اس لیے ایک اخبار نے اس تضاد کے بارے ایک تبصرہ شائع کیا جس کے جواب میں حکومت ِ پاکستان نے ۲۷ اپریل ۱۹۶۷ء کو ایک وضاحتی نوٹ جاری کیا ، جس میں کہا گیا کہ ۱۸۷۷ ء سنہِ ولادت اقبال اکادمی اور اقبال سرکل کراچی کا تصدیق شدہ ہے اور کرنل وحید الدین نے اپنی کتاب ’’اقبال ‘‘ باتصویر میں یہی سن ولادت درج کیا ہے ۔ نیز چیکو سلواکیہ یونیورسٹی کے پروفیسر یان مارک نے بھی اسی سنہ ولادت کی تصدیق کی ہے ، لیکن ان کتابوں میں جن کا ذکر کسی اخبار میں سند کے طور پر کیا گیا ہے صحیح تاریخ ولادت اقبال درج نہیں ۱۴ ۔ بعدازاں جب ۱۹۶۸ء میں ’’انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا ‘‘ کی جلد بارہ شائع ہوئی ، تو اس میں اقبال کی تاریخ پیدائش ۹ نومبر ۱۸۷۷ء تحریر کی گئی ۔ مارچ ۱۹۶۹ء کے روز نامہ ’’جنگ ‘‘ کے کسی شمارے میں حفیظ ہوشیارپوری نے اس موضوع پر ایک مضمون تحریر کیا اور شواہد کی روشنی میں ایک بار پھر ثابت کیا کہ صحیح تاریخ ولادت اقبال ۹ نومبر ۱۸۷۷ء ہے ۔ اسی سال سید عبدالواحد معینی کی تصنیف ’’نقش اقبال ‘‘ شائع ہوئی ، جس کے پہلے باب میں اقبال کی تاریخ ولادت کے زیر عنوان اس موضوع پر پھر بحث کی گئی اور ثابت کیا گیا کہ پیدائش اقبال کی صحیح تاریخ ۹ نومبر ۱۸۷۷ء ہی ہے۔ تاریخ ولادت اقبال کے بارے میں اختلافِ رائے کے سبب پاکستان میں سرکاری ادارہ بزم اقبال ، لاہور نے غالباً ۱۹۶۹ء میں اپنے طور پر جسٹس ایس اے رحمان کی سر کردگی میں ایک کمیٹی قائم کی تاکہ اقبال کی صحیح تاریخ ولادت کا تعین کیا جا سکے کمیٹی کی تحقیقات کئی سال جاری رہیں۔ اسی دوران ۱۹۷۱ء میں بزم اقبال نے خالد نظیر صوفی کی کتاب ’’اقبال ، درون خانہ ‘‘ شائع کی ۔ جس میں تحریر کیا گیا کہ اقبال کی تاریخِ ولادت در اصل ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء ہے ۔ خالد نظیر صوفی،شیخ عطا محمد کی سب سے چھوٹی دختر کے فرزند ہیں ۔ ان کے والد نظیر صوفی اقبال کی بڑی بہن طالع بی کے بیٹے خورشید احمد کے فرزند ہیں۔ ان کی تحقیق کے مطابق سیالکوٹ میونسپل کمیٹی کے رجسٹر پیدائش و اموات کے ایک اندارج کے تحت ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء کو ایک لڑکا محلہ چوڑیگراں کے نتھو مسلم خیاط کے ہاں پیدا ہوا ، جس کا اطلاع کنندہ علی محمد ولد غلام محی الدین تھا ۔ مصنف کی رائے میں یہ اندارج اقبال کی تاریخِ پیدائش کا تھا ، کیونکہ اس میں اقبال کے والد شیخ نور محمد (عرف نتھو) کے ہاں ، جن کا پیشہ خیاطی تھا ، لڑکا پیدا ہونے کی اطلاع علی محمد ولد غلام محی الدین نے دی جو رشتے میں شیخ نور محمد کے پھوپھی زاد بھائی تھے ۱۵ ۔ جسٹس رحمان کمیٹی کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی ۔ بالآخر ۱۹۷۲ء میں حکومت پاکستان نے اقبال کی تاریخ ولادت کے تعین کے بارے میں حتمی فیصلہ کرنے کی خاطر مرکزی سیکرٹری تعلیم کی زیر قیادت ایک کمیٹی تشکیل کی ۔ اس کمیٹی کے کئی اجلاس ہوئے اور تحقیقات جاری رہیں ۔ ۱۹۷۳ء میں غالباً ’’انقلاب ‘‘یا خالد نظیر صوفی کی دریافت شدہ تاریخ ولادت پر انحصار کرتے ہوئے حکومت ہندوستان نے اعلان کر دیا کہ ۷۴۔۱۹۷۳ء کے سال میں پیدائشِ اقبال کے صد سالہ جشن کی تقریبات منعقد کی جائیں گی ۔ بعدازاں اس سلسلے میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی زیر قیادت ایک قومی کمیٹی قائم کی گئی اور بھارت میں جشن اقبال منانے کی تیاریاں شروع ہو گئیں ۔ یہاں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ اس مسئلے پر ہندوستان میں بھی آراء کا اختلاف تھا ۔ مثلاً مالک رام نے اقبال کی تاریخ ولادت سے متعلق اپنی تحریر میں ۲۰ دسمبر ۱۸۷۳ء کو تاریخ پیدائش اقبال قرار دیا ۱۶ ۔ اسی طرح مولانا عبدالقوی کو ۳ ذیقعد ۱۲۹۴ھ بطور تاریخ ولادت اقبال تسلیم کرنے میں تامل تھا، کیونکہ ان کی رائے میں اس تاریخ کے سلسلے میں جو ثبوت فراہم کیے گئے وہ اطمینان بخش نہ تھے ۱۷ ۔ لیکن مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے اپنی تصنیف ’’نقوش اقبال ‘‘ میں ۱۸۷۷ء کو بطورِ سنِ پیدائش اقبال قبول کیا اور اسی طرح جگن ناتھ آزاد نے بھی اقبال کی تاریخ پیدائش ۹ نومبر ۱۸۷۷ء ہی قرار دی ۱۸ ۔ بہر حال حکومتِ ہندوستان کے اعلان پر مرکزی تاریخ ولادت کمیٹی نے اپنی کارروائی تیز کر دی، کیونکہ سوال پیدا ہو گیا کہ اگر بھارت اقبال کی صد سالہ جشن ولادت منانے کا اہتمام کر سکتا ہے تو پاکستان کیوں خاموش رہے ۔ تاریخ ولادت کمیٹی کی کارروائی ڈیڑھ دو سال تک جاری رہی ۔ بالآخر ۹ فروری ۱۹۷۴ء کو کمیٹی کی سفارشات پر حکومت پاکستان نے اعلان کیا کہ اقبال کی صحیح تاریخ ولادت ۹ نومبر ۱۸۷۷ء ہے ۔ بعدازاں ۲۵ جولائی ۱۹۷۴ء کو حکومت پاکستان نے متذکرہ تاریخ ولادت کی بنا پر اعلان کیا کہ ۷۸ ۔ ۱۹۷۷ء کے سال میں ولادت اقبال کا صد سالہ جشن منایا جا ئے گا ۔ جس کے اہتمام و انتظام کے لیے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی زیر قیادت ایک قومی کمیٹی قائم ہوئی ۔ یہ جشنِ پاکستان اور ہندوستان میں ۱۹۷۷ء ہی کے سال میں منایا گیا ۔ اقبال کی تین مختلف تواریخ پیدائش پیش کی گئی ہیں ، جو اقبال کی وفات سے لے کر اب تک اہل علم میں موضوع بحث رہی ہیں۔ یہ ہیں ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء ، ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء اور ۹ نومبر ۱۸۷۷ء ۔ ان تینوں میں سے کونسی ایک صحیح تاریخِ ولادت اقبال ہے ؟ اس سلسلے میں کسی حقیقی نتیجے پر پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ ان تینوں تواریخ پیدائش کی تائید یا تردید میں جو کچھ کہا گیا ہے ، اس پر غور کیا جائے ۔ ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء یہ تاریخ ولادت ادارہ ’’انقلاب‘‘ کی دریافت کردہ ہے ۔ اس کا انحصار سیالکوٹ میونسپل کمیٹی کے رجسٹر پیدائش و اموات کے اس اندراج پر ہے کہ ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کو نتھو کشمیری ساکن محلہ کشمیریاں کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا ، جس کا اطلاع کنندہ نتھو درج ہے ۱۹ ۔اقبال کے خاندان کے بزرگ اور معتبر افراد اس بات پر متفق ہیں کہ اقبال کی پیدائش سے قبل شیخ نور محمد کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا تھا جو شیر خواری کی عمر میں فوت ہو گیا ۔ اس بنا پر شیخ اعجاز احمد کی رائے میں اس اندراج کا اقبال کی پیدائش سے کوئی تعلق نہیں ۔ گو فقیر سید وحیدالدین بیان کرتے ہیں کہ ان کی تحقیق کے مطابق یہ اندراج شیخ نور محمد کے ہاں لڑکے کی پیدائش کے متعلق ہے جو اقبال سے تین چار سال پہلے پیدا ہو کر شیر خواری کی عمر میں وفات پا گیا۲۰ ۔ اسی طرح خالد نظیر صوفی اپنے والد کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں کہ در اصل یہ اندراج اس بچے سے متعلق ہے جسے پیدائش کے فوراً بعد والدہ اقبال نے اپنی دیورانی کی جھولی میں ڈال دیا تھا ، لیکن وہ بچہ شیر خواری ہی کی عمر میں انتقال کر گیا ۲۱ ۔ پس متذکرہ تاریخ ولادت اقبال اس بناء پر غلط ثابت ہو چکی ہے کہ رجسٹر پیدائش و اموات کے جس اندراج پر ’’انقلاب‘‘ نے انحصار کیا ،اس کا تعلق اقبال سے نہیں بلکہ اقبال کی پیدائش سے قبل شیخ نور محمد کے ہاں اس لڑکے کی پیدائش سے ہے جو شیرخواری کی عمر میں وفات پا گیا تھا ۔ اس لڑکے کی پیدائش اور وفات کے بارے میں اقبال کی ایک بہن کی تحریری تصدیق شیخ اعجاز احمد کے پاس موجود ہے ۲۲ ۔ یہاں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ شیخ نور محمد کی سکونت محلہ چوڑیگراں میں تھی ۔ اس وقت کے رجسٹری شدہ مسودات میں بھی ان کے رہائشی مکان کا محل و قوع بازار یا محلہ چوڑیگراں درج ہے ۲۳ ۔ اور ڈاک کا پتا بھی ہمیشہ یہی رہا ہے ۔ محلہ چوڑیگراں اور محلہ کشمیریاں ساتھ ساتھ واقع ہیں ، لیکن علیحدہ علیحدہ محلے ہیں ۔ کتاب ’’اقبال درون خانہ‘‘ میں شیخ نور محمدکی اولاد سے متعلق سیالکوٹ میونسپل کمیٹی کے رجسٹر پیدائش و اموات کے جو اندراجات نقل کیے گئے ہیں ، ان میں صرف ایک اندراج ایسا ہے ، جس کی صحت پر کسی قسم کا شبہ نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ اندراج اقبال کی بڑی بہن طالع بی کی پیدائش کا ہے کہ نتھو کشمیری ساکن محلہ چوڑیگراں کے ہاں ۶ ستمبر ۱۸۷۰ء کو ایک لڑکی پیدا ہوئی ، جس کا اطلاع کنندہ رفیق درج ہے (جو شیخ نور محمد کے والد تھے) ۲۴ ۔ شیخ نور محمد کی اولاد میں سے شیخ عطا محمد اور فاطمہ بی کی پیدائش کے اندراج اس لیے موجود نہیں کہ ان وقتوں میں غالباًپیدائش و اموات کے میونسپل رجسٹر ابھی شروع نہیں ہوئے تھے ۔ ۱۸۷۰ء میں طالع بی کی پیدائش کے اندراج سے واضح ہے کہ جب تک شیخ محمد رفیق زندہ رہے ، وہ ایسی پیدائشوں کے درج کرانے کا اہتمام کرتے رہے ۔ لیکن شیخ نور محمد کے متعلق وثوق سے ایسا نہیں کہا جا سکتا۔ بہر حال متذکرہ اندراج میں سکونت والد کے خانے میں محلہ چوڑیگراں کی بجائے محلہ کشمیریاں درج ہے ۔ کیا دونوں محلوں کی قربت کی بناء پر یہ تسلیم کر لینا جائز ہے کہ متذکرہ اندراج میں محلہ کشمیریاں کو محلہ چوڑیگراں تصور کیا گیا ؟ راقم کے خیال میں ایسا تصور کرنا درست نہیں ۔ راقم کی رائے میں ، جس سے شیخ اعجاز احمد نے بھی اتفاق کیا ہے ،شیخ نور محمد کی اولاد سے متعلق ہر وہ اندراج، جس میں سکونت والد کے خانے میں محلہ چوڑیگراں کی بجائے محلہ کشمیریاں درج ہے ، مشکوک سمجھا جانا چاہیے ۔ اس لیے متذکرہ اندراج کا تعلق اقبال کی پیدائش سے قبل اس لڑکے کی پیدائش سے بھی نہیں، جو شیر خواری کی عمر میں فوت ہو گیا تھا ۔ عین ممکن ہے کہ یہ اندراج کسی ایسے بچے کی پیدائش کا ہو جو محلہ چوڑیگراں کی بجائے محلہ کشمیریاں میں سکونت پذیر کسی نتھو کشمیری کے ہاں ہوا ہو اور جس کا اطلاع کنندہ اس کا والد تھا ۔ ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء یہ تاریخ ولادت خالد نظیر صوفی کی دریافت ہے اور اس کا انحصار سیالکوٹ میونسپل کمیٹی کے رجسٹر پیدائش و اموات کے اس اندراج پر ہے کہ ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء کو ایک لڑکا محلہ چوڑیگراں کے نتھو مسلم خیاط کے ہاں پیدا ہوا ، جس کا اطلاع کنندہ علی محمد ولد غلام محی الدین تھا ۔ مصنف ’’اقبال درون خانہ ‘‘ بیان کرتے ہیں کہ یہ اندراج پیدائش اقبال کا ہے اور شیر خواری کی عمر میں انتقال کرنے والے لڑکے کی وفات کے پورے سوا دس ماہ بعد آپ پیدا ہوئے ۔ وہ تحریر کرتے ہیں کہ متذکرہ اندراج میں لڑکے کے والد کا نام نتھو خیاط اس لیے درج ہے کہ شیخ نور محمد عرف نتھو کا پیشہ خیاطی تھا ۔ پھر لکھتے ہیں کہ اس ولادت کا اطلاع کنندہ علی محمد ولد غلام محی الدین رشتے میں شیخ نور محمد کا پھوپھی زاد بھائی تھا ۲۵۔ ظاہر ہے اس سلسلے میں خالد نظیر صوفی کی معلومات کا ذریعہ ان کے والد نظیر صوفی تھے اور اطلاع کنندہ علی محمد ولد غلام محی الدین کے شیخ نور محمد کے پھوپھی زاد بھائی ہونے کی اطلاع بھی انہوں نے اپنے فرزند کو دی، مگر بعد میں نظیر صوفی نے ایک بیان ’’اخبار جہاں ‘‘ کراچی کو دیا ، جس میں کہا گیا تھا کہ اطلاع کنندہ علی محمد مذکور شیخ نور محمد کے چچا زاد بھائی تھے ۲۶ ۔ علی محمد ولد غلام محی الدین کے بارے میں شیخ اعجاز احمد بیان کرتے ہیں کہ ان کے خاندان میں اس نام اور ولدیت کے کسی شخص کے متعلق انہوں نے کبھی نہیں سنا ، نہ کوئی ایسے نام کا شخص خاندان کی خوشی یا غمی کے موقعوں پر کبھی شریک ہوا ۔ فوق اور شیخ اعجاز احمد کی تحریروں کے مطابق تو شیخ نور محمد کے والد اپنے تین بھائیوں کے ساتھ ہجرت کر کے کشمیر سے سیالکوٹ آئے تھے ۔ یہ کبھی سننے میں نہیں آیا کہ والد اقبال کی پھوپھی یعنی شیخ محمد رفیق کی کوئی بہن بھی ان کے ہمراہ آئی تھیں ۔ فوق کے تیار کردہ خاندان اقبال کے شجرہ نسب میں ، جو ’’تاریخ اقوام کشمیر ‘‘ جلد دوم مطبوعہ ۱۹۴۳ء میں دیا گیا ہے ، شیخ نور محمد کی نہ تو کسی پھوپھی کا ذکر ہے نہ ان کے کسی تایا یا چچا کا نام غلام محی الدین تحریر ہے اور نہ ان کی اولاد میں کسی کا نام علی محمد درج ہے ۔ شیخ اعجاز احمد نے خاندان کا جو شجرئہ نسب کئی سال پیشتر بزرگوں سے پوچھ گچھ کے بعد بڑی محنت سے تیار کیا تھا ، اس میں بھی ایسے کسی شخص کا نام درج نہیں ۔ اسی طرح جگن ناتھ آزاد کے تیار کردہ شجرئہ نسب میں ایسے نام کا کوئی شخص درج نہیں۲۷۔ اس مرحلے پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال کے آبا و اجداد کے بارے میں نظیر صوفی کی معلومات کس حد تک قابل اعتماد ہیں ۔ ’’ذکر اقبال‘‘ میں عبدالمجیدسالک ان کے حوالے سے اقبال کے آبا واجداد کے متعلق تحریر کرتے ہیں : بیان کیا جاتا ہے کہ کوئی سید بزرگ کہیں باہر سے سری نگر تشریف لائے ۔ علامہ کے جد اعلیٰ ان کی پاک نفسی کے باعث ان کے گرویدہ ہو گئے ۔ صحبت و محبت نے اپنا کام کیا ۔ برہمن نے سید کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ۔ صالح نام پایا ۔ سید صاحب نے اپنے دوست کی صالحیت کو دیکھ کر اپنی دختر نیک اختر سے اس کی شادی کر دی ۔ اسلام لانے کے بعد صلاح و تقویٰ کی وہ منازل طے کیں کہ بابا صالح کے نام سے مشہور ہو گئے رجوع عام ہوا۔ مزار کشمیر میں ہے ، لیکن مقام معلوم نہیں ہو سکا ۲۸ ۔ نظیر صوفی کی اس روایت کی تائید نہ تو اقبال کے اپنے بیانات سے ہوتی ہے اور نہ فوق کی تحریروں سے باب اوّل میں دی گئی تفصیل سے ظاہر ہے کہ شیخ نور محمد ، اقبال اور فوق کے نزدیک اقبال کے جداعلیٰ بابا لول حج یا حاجی لولی کے لقب سے مشہور تھے اور انہوں نے پندرہویں صدی عیسوی میں بڈشاہ کے زمانے میں اسلام قبول کیا اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ انہوں نے صالح نام پایا ، یا کسی سید کی بیٹی سے ان کی شادی ہوئی ، یا وہ بعد میں بابا صالح کہلائے ، لیکن نظیر صوفی کی روایت کو بغیر کسی تحقیق کے صحیح مان کر اقبال کے کئی سوانح نگاروں نے اسے ’’ذکر اقبال ‘‘ سے اخذ کر کے اپنی اپنی تصانیف میں درج کر لیا ۲۹ ۔ راقم کی رائے میں علی محمد کی رشتہ داری مشکوک ہے ، لیکن ڈاکٹر وحید قریشی سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا یہ ضروری ہے کہ اطلاع کنندہ رشتہ دار بھی ہو ؟ عام دستور کے مطابق بعض اوقات محلے کا چوکیدار یا خاکروب بھی اطلاع کر دیتا ہے یا کبھی کوئی محلے دار بھی اندراج کرا دیتا ہے ۔ اس کا بھی امکان ہے کہ اطلاع کنندہ اقبال کے ننھیال کا کوئی فرد ہو۳۰ ۔ کسی چوکیدار یا خاکروب کے اطلاع کروانے کا رواج دیہات میں ہو تو ہو، مگر قصبوں یا شہروں میں ایسے دستور کو عام تصور کر لینا درست نہیں ۔ شہروں میں عام دستور کے مطابق تو ہمیشہ رشتہ دار ہی ایسے اندراج کراتے ہیں ۔ جہاں تک کسی محلّے دار یا اقبال کے ننھیال میں سے کسی فرد کے اندراج کرانے کا تعلق ہے، تو یہ محض قیاس آرائی ہے ، جسے بغیر کسی تائیدی شہادت کے قبول کرنا مناسب نہیں ہے ۔ شیخ نور محمد کے شیر خواری کی عمر میں فوت ہونے والے لڑکے کی وفات کا اندراج میونسپل ریکارڈ میں موجود نہیں ۔ اگر ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کو اس لڑکے کی پیدائش کا اندراج سمجھ لیا جائے تو چند ماہ بعد اس کی فوتیدگی کا اندراج بھی ہونا چاہیے، لیکن اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ مذکورہ تاریخ پیدائش کے اندراج کا تعلق اقبال کی ولادت سے قبل اس بچے کی پیدائش سے بھی نہیں، جو شیرخواری کی عمر میں انتقال کر گیا تھا ۔ یہاں یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ شیخ نور محمد اور ان کے بھائی شیخ غلام محمد اکٹھے رہتے تھے اور خاندانی روایت کے مطابق دونوں بھائیوں کے ہاں ایک ہی وقت لڑکا اور لڑکی پیدا ہوئے ، جن کاتبادلہ ہو گیا ۔ کیا شیخ غلام محمد کے ہاں لڑکی کی پیدائش کا اندراج ریکارڈ میں موجود ہے ؟ جواب ہے نہیں ۔ طالع بی کی وفات کا اندراج ریکارڈ میں موجود ہے ۔ آپ ۱۳ جولائی ۱۹۰۲ء کو فوت ہوئیں اور اطلاع کنندہ تاج دین درج ہے ۔ طالع بی غلام محمد سے بیاہی ہوئی تھیں ۔غلام محمد لڑکپن ہی سے شیخ نور محمد کی دکان پر کام کرتے تھے اور آپ ان کے وہی داماد ہیں ، جنہیں شیخ نور محمد نے اپنی دکان دے دی تھی ۔ اطلاع کنندہ ، تاج دین ، فوق اور شیخ اعجاز احمد کے تیار کردہ شجرئہ نسب کے مطابق شیخ نور محمد کے چچا شیخ عبداللہ کے بیٹے شیخ فتح محمد کے فرزند تھے اور شیخ نور محمد کے چچیرے بھائی کے فرزند ہونے کی نسبت سے رشتہ میں ان کے بھتیجے تھے ۔ اسی طرح اقبال کی بہن کریم بی کی وفات کا اندراج بھی ریکارڈ میں موجود ہے ۳۱ ۔ وہ سیالکوٹ میں اپنے آبائی مکان واقع محلہ چوڑیگراں میں ۴ جولائی ۱۹۵۱ء کو فوت ہوئیں اور اطلاع کنندہ کا نام افتخار احمد درج ہے ، جو شیخ اعجاز احمد کے بھائی شیخ امتیاز احمد کے فرزند ہیں۔ سو یہ سب اندراجات رشتہ داروں نے ہی کرائے تھے ۔ متذکرہ اندراج کی صحت پر دوسرا اعتراض ، جو شیخ اعجاز احمد نے کیا ہے ؛ یہ ہے کہ شیخ نور محمد یا تو شیخ نتھو کہلاتے تھے یا کشمیری برادری سے متعلق ہونے کے سبب نتھو کشمیری یا اپنے پیشے کی نسبت سے نتھو ٹوپیاں والے ۔ وہ نتھو خیاط کے نام سے مشہور نہ تھے ، کیونکہ ان کا تعلق خیاط برادری سے نہ تھا۔ ان کے بیان کے مطابق سیالکوٹ میں ایک بڑی اور مخصوص برادری ’’خیاط‘‘ کہلاتی ہے اور اس برادری کے چند خاندان محلہ چوڑیگراں میں بھی آباد تھے ۔ وہ خود محلہ چوڑیگراں کے ایک نتھو زرگر کو جانتے تھے ۔ اسی طرح ان کے چھوٹے بھائی شیخ مختار احمد کا بیان ہے کہ محلہ چوڑیگراں کی خیاط برادری سے متعلق ان کے ایک ہم جماعت کے دادا کا نام نتھو تھا ۔ کتاب ’’اقبال درون خانہ ‘‘ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ لوگ شیخ نور محمد کے خاندان کو ٹوپیاں والے یا کلہ والے کہہ کر پکارتے تھے ۳۲ ۔ لیکن متذکرہ اندراج میں ان کے پیشے کی نسبت سے پیشہ قوم اور مذہب کے خانے میں ، ’’خیاط ‘‘ لکھا گیا ۔ اسی طرح ڈاکٹر وحید قریشی تحریر کرتے ہیں کہ اسکاچ مشن اسکول کے ریکارڈ میں اقبال کے داخلے کے اندراج میں شیخ نور محمد کو ٹیلر لکھا ہوا ہے ۳۳ ۔ ’’اخبار جہاں‘‘ کراچی میں نظیر صوفی کا بیان ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ محلہ کشمیریاں میں علامہ کے والد گرامی کے علاوہ نتھو نامی کوئی اور شخص کسی وقت بھی موجود نہ تھا ۔ اس لیے محلہ کشمیریاں اور اس کی ملحقہ گلیوں میں مسمی نتھو نامی بزرگ کے بچوں کی پیدائش کی رپورٹیں فی الواقعہ علامہ کے والد شیخ نور محمد کے بچوں ہی کی ہیں۳۴۔ نتھو ایک ایسا عرفی نام ہے ، جو نتھ کی نسبت سے عمومی حیثیت رکھتا ہے اور ایک سے زائد نتھو ایک ہی شہر یا ایک ہی محلے میںممکن ہیں ۔ نظیر صوفی کے بیان میں قطعیت ہے ۔ حالانکہ وہ عمر میں شیخ اعجاز احمد اور شیخ مختار احمد سے چھوٹے ہیں، البتہ علی محمد کی شیخ نور محمد سے رشتہ داری کے بارے میں دو متضاد بیان ان سے منسوب ہیں ، جو دونوں غلط ثابت کیے جا چکے ہیں، اور اقبال کے آبا و اجداد کے متعلق بھی ان کی معلومات کسی ٹھوس تحقیق پر مبنی نہیں ، اس لیے اس معاملے میں شیخ اعجاز احمد اور شیخ مختار احمد ہی کے بیانات کو ترجیح دینا مناسب ہو گا ۔ یہ امر واقعہ ہے کہ شیخ نور محمد کا تعلق کشمیری برادری سے تھا ، خیاط برادری سے نہ تھا ۔ ہو سکتا ہے اسکاج مشن سکول کے ریکارڈ میں شیخ نور محمد کو ان کے پیشے کی نسبت سے ٹیلر کہا گیا ہو ، لیکن اگر محلہ چوڑیگراں میں خیاط برادری کے چند خاندان آباد تھے اور ان میں سے کسی بزرگ کا عرف عام نتھو بھی تھا ، تو متذکرہ اندراج میں اطلاع کنندہ کی رشتہ داری کے مشکوک ہونے کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ کیونکر تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ پیشہ قوم اور مذہب کے خانے میں نتھو کشمیری یا ٹوپیاں والے کی بجائے اس مرتبہ ’’خیاط‘‘ شیخ نور محمد کے پیشے کی نسبت سے درج کیا گیا ۔ عین ممکن ہے کہ اس اندراج کا تعلق خیاط برادری کے کسی نتھو کے ہاں لڑکے کی پیدائش سے ہو ، اور جس کا اطلاح کنندہ اسی برادری سے متعلق کوئی رشتہ دار ہو ۔ کتاب ’’اقبال درون خانہ ‘‘ کے مصنف کو اقبال کی چھوٹی بہن زینب بی کی پیدائش کا اندراج ریکارڈ میں نہیں مل سکا ، لیکن انہیں ، بقول ان کے ، اقبال کی بہن کریم بی کا اندراج ملا ہے ، جس میں درج ہے کہ محلہ کشمیریاں کے نتھو ولد محمد رفیع مسلمان کشمیری کے ہاں ۱۴ نومبر ۱۸۷۶ء کو ایک لڑکی پیدا ہوئی ۔ مصنف نے نیچے حاشیے میں تحریر کیا ہے کہ شیخ نور محمد کے والد کا نام شیخ محمد رفیق تھا ، جو یہاں سہواً محمد رفیع لکھا گیا ہے ۳۵ ۔ راقم کی رائے میں یہ اندراج بھی مشکوک ہے ۔ اس میں لڑکی کے والد کا نام نتھو ولد محمد رفیع درج ہے ۔ اوّل تو ہم اس تحریر کو سہواً کہنے میں حق بجانب نہیں، لیکن اگر اس غلطی کو محض قلم کی لغزش تسلیم کر بھی لیا جائے تو بھی والد کی سکونت محلہ کشمیریاں تحریر ہے ، جب کہ شیخ نور محمد کی سکونت محلہ چوڑیگراں میں تھی ۔ ا ب تک کی گئی بحث سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ شیخ نور محمد کی اولاد کی تواریخ پیدائش سے متعلق سیالکوٹ میونسپل کمیٹی کے رجسٹر پیدائش و اموات سے جو بھی اندراجات کتاب ’’اقبال درون خانہ ‘‘ میں دیے گئے ہیں ، ان میں ایک کے سوا باقی سب کے سب کسی نہ کسی وجہ سے مشکوک ہیں ۔ جس اندراج کی صحت پرشبہے کی گنجائش نہیں ، وہ طالع بی کی تاریخ پیدائش سے متعلق ہے ، جس کے اطلاع کنندہ شیخ محمد رفیق تھے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا متذکرہ تاریخ ولادت اقبال کی تائید اقبال کے تعلیمی ریکارڈ یا ان کے خاندان کے بزرگ اور معتبر افراد کے بیانات سے ہوتی ہے ؟ اقبال کے تعلیمی ریکارڈ میں سب سے پرانا مسودہ وہ سرٹیفیکیٹ ہے ، جسے پنجاب یونیورسٹی نے ۱۸۹۱ء میں ان کے مڈل اسکول امتحان پاس کرنے پر جاری کیا تھا ۔ اس کی ۱۹۰۷ء میں جاری کردہ نقل شیخ اعجاز احمد کے پاس محفوظ ہے ۔ اس سرٹیفیکیٹ میں اقبال کی عمر پندرہ سال درج ہے ۔ امتحان میں داخلے کی درخواست اقبال نے خود دی یا ان کے والد یا بڑے بھائی کی طرف سے دی گئی ۔ ۱۸۹۱ء میں وہ اگر پندرہ سال کے تھے تو اس حساب سے ان کی سن پیدائش ۱۸۷۶ء بنتا ہے ۳۶ ۔ اقبال نے میٹرک کا امتحان ۱۸۹۳ء میں پاس کیا اور اسکاچ مشن کالج میں ایف اے کے سال اوّل میں ان کے داخلہ کی تاریخ بمطابق ریکارڈ ۵ مئی ۱۸۹۳ء اور عمر اٹھارہ برس درج ہے۳۷۔ اس لحاظ سے سال ولادت ۱۸۷۵ء بنتا ہے ۔ اقبال نے ۱۸۹۷ء میں بی اے کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی ۔ پنجاب یونیورسٹی کے کیلنڈر سال ۱۸۹۷ئ۔۱۸۹۸ء میں ان کی عمر جو داخلہ فارم میں ظاہر کی گئی ہے، انیس برس بنتی ہے ۳۸ ۔ داخلے کا فارم بمطابق دستور ایک سال قبل یعنی ۱۸۹۶ء میں دیا گیا ہو گا ۔ اس حساب سے ان کا سن ولادت ۱۸۷۷ء ہو گا ۔ بہرحال سن ۱۸۷۳ء تعلیمی ریکارڈ میں دی گئی عمر سے چنداں مطابقت نہیں رکھتا ۔ اقبال کے تعلیمی ریکارڈ سے سن ۱۸۷۳ء کی نفی کے سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ اقبال نے خود اقرار کیا ہے کہ ان کی تعلیم کی ابتدا مکتب سے ہوئی اور چند برس بعد انہوں نے سکول میں داخلہ لیا ۔ مکتب نشینی کی مدت کے متعلق حتمی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں ۔ فوق کچھ دن کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۳۹ اور اقبال نے ’’چند برس ‘‘ بیان کیا ہے ۔ کتاب ’’اقبال درون خانہ‘‘ میں مکتب نشینی کی مدت ایک دو برس قرار دی گئی ہے ۴۰ ۔ لیکن ڈاکٹر وحید قریشی نے اس سلسلے میں سیالکوٹ میں اقبال کی کسی ہم عمر کرم بی بی کی شہادت پر انحصار کرتے ہوئے مکتبی تعلیم کا تعین ’’پانچ برس ‘‘ کیا ہے ۔ ان کے خیال مطابق اقبال کے پانچ برس کی مکتب نشینی کے بعد اسکول کی پہلی جماعت میں داخل ہونے کا امکان ہے ۴۱ ۔ دراصل اقبال کے تعلیمی ریکارڈ کی ۱۸۷۳ء سے مطابقت اسی صورت میں ممکن ہے کہ یہ تصور کر لیا جائے کہ اقبال پانچ سال کی عمر میں مکتب میں بیٹھے ، پانچ برس مکتب نشینی میں گزارے اردو، فارسی ، عربی کی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد دس سال کی عمر میں اسکول کی پہلی جماعت میں داخل ہو کر پھر الف۔ ب سے ابتدا کی ۔ اس حساب سے مڈل کا امتحان دیتے وقت ان کی عمر پندرہ سال کی بجائے اٹھارہ سال ہوتی ۔ لیکن بقول خالد نظیر صوفی ، اس زمانے میں عام طور پر اسکول میں داخل کراتے وقت بچوں کی عمر یں کم لکھوائی جاتی تھیں تاکہ تکمیل تعلیم کے بعد حصول ملازمت کے لیے کافی وقت مل سکے ۔ لہٰذا اقبال بھی اسکول میں دیر سے داخل ہوئے اور اس فرق کو دور کرنے کے لیے ان کی عمر اصل سے کم لکھوائی گئی ۴۲ ۔ اقبال کے معاملے میں اسکول کا ریکارڈ ان کی تاریخ پیدائش ، داخلے یا عمر کے متعلق کوئی مدد نہیں کرتا ۔ اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ وہ اسکول میں دیر سے داخل ہوئے تو ان کے تعلیمی ریکارڈ سے ظاہر ہے کہ وہ ذہانت و فطانت میں دوسرے بچوں سے بہت آگے تھے ۔ آپ نے مکتب نشینی کا بیشتر حصہ مولانا سید میر حسن کی زیر نگرانی گزارا ۔ سید میر حسن سے انہوں نے اردو ، فارسی ، عربی ادب کی تعلیم حاصل کی ۔ سید میر حسن اسکاچ مشن اسکول میں بھی پڑھاتے تھے اور انہی کی وساطت سے اقبال اس اسکول میں داخل ہوئے ۔ سلطان محمود حسین کی تحقیق کے مطابق ’’اقبال کی پہلی جماعت کا نتیجہ ‘‘ (اقبال ریویو جولائی ۱۹۸۳ء صفحہ ۱۳۴ ) اقبال نے ۱۸۸۵ء میں اسکاچ مشن اسکول سے پہلی جماعت کا امتحان پاس کیا ۔ اس کے بعد انہوں نے ۱۸۹۱ء میں آٹھویں جماعت کا امتحان پنجاب یونیورسٹی لاہور سے پاس کیا ۔ بقول سلطان محمود حسین ۱۸۸۵ء اور ۱۸۹۱ء کے درمیان چھ سالوں کا فرق ہے ۔ ان چھ سالوں میں اقبال نے سات جماعتیں پاس کیں، اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کسی ایک سال میں دو جماعتیں پاس کی ہوں گی ۔ اسکول میں ان کے چوتھی جماعت میں پڑھنے کا ذکر تو ملتا ہے ۴۳ ، لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ انہوں نے کون سے سال میں دو جماعتیں پاس کیں ۔ اس زمانے میں اسکول کی پہلی چار جماعتوں میں بچوں کو سارے کے سارے مضمون اردو میں پڑھائے جاتے تھے اور انگریزی کی ابتدا عموماً پانچویں جماعت سے ہوتی تھی ۔ عین ممکن ہے کہ وہ پہلی جماعت کا امتحان پاس کرنے کے بعد تیسری جماعت میں گئے ہوں ۔ ڈاکٹر وحید قریشی مصر ہیں کہ اگر اقبال نے براہ راست کسی بالائی جماعت میں داخلہ لیا ہوتا، تو ان کا داخلہ نادر الوقوع ہوتا اور وہ اعزہ و احباب سے اس کا ذکر ضرور کرتے ۴۴ ، لیکن اگر پانچ سال مکتب نشینی کے بعد دس سال کی عمر میں وہ اسکول کی پہلی جماعت کا امتحان پاس کر کے تیسری جماعت میں گئے تو یہ کونسی ذکر کرنے والی بات تھی ۔ داخلے کے نادر الوقوع ہونے کا امکان یا ان کے ذکر کرنے کا احتمال تو تب تھا کہ وہ ذہانت کے سبب اپنی عمر کی نسبت سے کسی بہت اوپر کی کلاس میں داخل ہوتے ۔ مصنف ’’اقبال درون خانہ ‘‘ کے مطابق اقبال کی دو بہنیں (کریم بی اور زینب بی) بارہا یہ کہتے سنی گئیں کہ طالع بی ، اقبال سے تقریباً تین سال بڑی ہیں اور کریم بی ان سے تین سال ،چھوٹی۔ مصنف بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کریم بی کی زبانی سنا کہ اقبال ان سے تین سال بڑے تھے ۔ انہوں نے دو بہنوں کی تاریخ پیدائش کی نقلیں شایع کی ہیں ۔ مصنف کے نزدیک طالع بی کی تاریخ پیدائش ۲ ستمبر ۱۸۷۰ء ہے اور کریم بی کی ۱۴ نومبر ۱۸۷۶ء ، اور پھر اسی بنا پر اقبال کا سن ولادت ۱۸۷۳ء قرار دیا ہے ۔ طالع بی کا سن ولادت تو بلاشبہ درست تحریر ہے لیکن کریم بی کی پیدائش کا اندراج مشکوک ہے ۔ اس لیے ان بیانات کی کوئی تائیدی شہادت موجود نہیں ۴۵ ۔ ڈاکٹر وحید قریشی سیالکوٹ میں اقبال کی ہم جماعت کرم بی بی کے بیان پر انحصار کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اقبال کی پیدائش ۲۹ ؍ دسمبر ۱۸۷۳ء قرار دینے کے قرائن زیادہ وقیع ہیں ۔ اقبال کی تاریخ ولادت کے تعین سے متعلق تحقیقات کے دوران کرم بی بی کا بیان ۱۹۷۴ء میں لیا گیا ۔ کرم بی بی بیان کرتی ہیں کہ اقبال کی پہلی شادی کے وقت ان کی عمر انیس برس تھی اور کرم بی بی کی سترہ برس ۔ یہ بیان اتنی مدت کے بعد حافظے کی بنیاد پر دیا گیا اور اتنے عرصے کے بعد یادداشت کا صحیح رہنا ممکن نہیں۴۶۔بہرحال ڈاکٹر وحید قریشی نے اس سے پیشتر اپنی تحریر میں اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے متذکرہ تاریخ ولادت کی بجائے ۹ نومبر ۱۸۷۷ء ہی کو صحیح قرار دیا ہے۴۷۔ ۹ نومبر ۱۸۷۷ ء اس تاریخ ولادت کا اندراج سیالکوٹ کے میونسپل ریکارڈ میں موجود نہیں ۔ مگر یہ اقبال کی ہجری سن میں اپنی بیان کردہ تاریخ ولادت کا عیسوی سنہ میں صحیح متبادل ہے ۔ ۱۹۰۷ء میں اپنے تحقیقی مقالے کے ساتھ دیئے گئے ۔ انگریزی میں تحریر کردہ اقبال کے تعارفی نوٹ کا لفظ بہ لفظ اردو ترجمہ یہ ہے : میں ۳ ذیقعد ۱۲۹۴ھ (بمطابق ۱۸۷۶ئ) کو سیالکوٹ پنجاب (انڈیا) میں پیدا ہوا۔ میری تعلیم کی ابتدا عربی اور فارسی کے مطالعے سے ہوئی ۔ چند برس بعد میں نے شہر کے ایک اسکول میں داخلہ لیا اور یونیورسٹی کے مراحل طے کرنے شروع کر دیے ۔ میں نے پنجاب یونیورسٹی کا پہلا پبلک ، امتحان ۱۸۹۱ء میں پاس کیا ۔ ۱۸۹۳ء میں میٹرک کے امتحان میں کامیابی کے بعد میں اسکاچ مشن کالج سیالکوٹ میں داخل ہو گیا ۔ جہاں دو سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد میں نے پنجاب یونیورسٹی کا انٹرمیڈیٹ امتحان ۱۸۹۵ء میں پاس کیا ۔ ۱۸۹۷ء اور ۱۸۹۹ء میں ،میں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے بالترتیب بی ۔اے اور ایم ۔ اے میں کامیابی حاصل کی ۔ یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران خوش قسمتی سے میں نے کئی طلائی اور نقرئی تمغے اور وظیفے حاصل کیے ۔ ایم ۔ اے کر چکنے کے بعد میں پنجاب یونیورسٹی کے اورئینٹل کالج میں میکلوڈ عربیک ریڈر تعینات ہوا ۔ جہاں میں نے تین سال تک ہسٹری اور پولیٹیکل اکانومی کے موضوعات پر لیکچر دیے ۔ اس کے بعد گورنمنٹ کالج، لاہور میں فلسفہ کا اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوا ۔ ۱۹۰۵ء میں یورپ میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کی خاطر میں نے یونیورسٹی سے تین برس کی بلا تنخواہ رخصت لی اور اب اسی مقصد کے لیے یہاں مقیم ہوں۴۸۔ اس تعارفی نوٹ سے واضح ہے کہ ۱۹۰۷ء میں اقبال نے ہجری سن میں اپنی مکمل تاریخ ولادت تحریر کرنے کے بعد قوسین میں اس کا متبادل عیسوی سال لکھا ہے ۔ تعارفی نوٹ کے پہلے فقرے پر اہل علم نے کئی زاویوں سے بحث کی ہے۔مثلاً اقبال کو ان کی تاریخ ولادت ہجری سن میں کیوں بتائی گئی ؟ کیا یہ تاریخ ولادت انہیں درست بتائی گئی یا کسی نہ کسی مقصد کے پیش نظر اس کے غلط ہونے کا امکان ہے ؟ اقبال نے قوسین میں اس تاریخ ولادت کا متبادل محض عیسوی سال میں کیوں یا کس حساب سے دیا اور اسے مکمل طور پر عیسوی کیلنڈر میں تبدیل کرنے کی زحمت کیوں نہ کی؟ اقبال کی ولادت ہندوستان میں برطانوی حکومت کے دور استحکام میں ہوئی ۔ ظاہر ہے عیسوی کیلنڈر پنجاب میں اس کے الحاق کے بعد نافذ کیا گیا ۔ لیکن مسلمان ،انگریز حاکموں سے نفرت کرتے تھے ۔ سر سید احمد خان کی کوششوں سے تقریباً ۱۸۷۰ء سے ان کے آپس میں تعلقات بہتر ہونے شروع ہوئے اور مسلمانوں نے روز گار کے حصول کی خاطر بہ امر مجبوری برطانوی حکومت کو قبول کیا ، لیکن پھر بھی وہ انگریزی نظام تعلیم قبول کرنے پر رضا مند نہ تھے ۔ اسی طرح ان کے لیے عیسوی کیلنڈر قبول کرنا بھی ممکن نہ تھا ۔ اس لیے عیسوی کیلنڈر کے نفاذ کے باوجود مسلمانوں میں دیگر امور کی طرح اپنے معاملات کی ترتیب کے لیے ہجری کیلنڈر ہی مستعمل تھا اور عیسوی کیلنڈر کو دینی یا مذہبی عقائد کی بنا پر نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔ اعتراض کیا گیا ہے کہ سرکاری ملازمت کے حصول کے لیے اس زمانے میں عموماً بچوں کی عمریں کم لکھوانے کا رواج تھا ، اس لیے ممکن ہے ، اقبال کو ان کی تاریخ ولادت غلط بتائی گئی ہو ۔ ڈاکٹر وحید قریشی تحریر کرتے ہیں کہ اقبال کے پاس اپنے سن پیدائش کے بارے میں معلومات ناکافی بھی ہو سکتی ہیں اور ان کے ذرائع معلومات ناقص بھی ہو سکتے ہیں ۔ پیدائش کے وقت نہ شعور بیدار ہوتا ہے نہ کوئی شخص معروضی طور پر اپنی پیدائش کے عمل کو دیکھ سکتا ہے ۔یہ اطلاعات تو ہمیشہ دوسروں سے حاصل ہوتی ہیں ۔ اس لیے اقبال کی پیدائش کے بارے میں ان کی اپنی اطلاعات بھی دوسروں کے بیانات پر مبنی ہیں اور ان کے غلط ہونے کا بھی امکان ہے ۴۹ ۔ ان کے جواب میں شیخ اعجاز احمد بیان کرتے ہیں کہ تعارفی نوٹ تحریر کرتے وقت اقبال کے پیشِ نظر کسی ملازمت کا حصول نہ تھا ۔ اس لیے کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ خود ساختہ یا غلط تاریخ پیدائش تحریر کرتے۔ علاوہ ازیں اگر یہ کہا جائے کہ والدین نے ان کی تاریخ پیدائش انہیں غلط بتائی تو یہ بات اقبال سے چھپی نہ رہ سکتی تھی ۔ بہر حال ایک جھوٹی تاریخ ساخت کر کے اقبال کو بتانا ان کے والدین کے مزاج کے خلاف تھا ۔ اسی طرح یہ گمان کرنا بھی درست نہ ہو گا کہ اقبال نے اپنی تاریخ پیدائش خود ساخت کر لی ، کیونکہ ایسا فعل اقبال کے کیریکٹر سے مطابقت نہیں رکھتا تھا ۔ وہ ایک با اصول آدمی تھے اور اگر کہیں فائدہ پہنچنے کا امکان بھی ہوتا تو بھی وہ جھوٹا بیان دینے کو تیار نہ ہوتے تھے ۔ اس سلسلے میں شیخ اعجاز احمد نے اقبال کے کردار کے متعلق ایک واقعہ بیان کیا ہے ۔جب اقبال نے سیالکوٹ میں اپنا مکان ایک رشتے دار کو بیچنا چاہا تو رشتے دار کو ڈر تھا کہ مباد ا ہمسایہ حق شفعہ کا دعویٰ کردے ۔ اس لیے رشتہ دار نے اقبال سے کہا کہ عام رواج کے تحت رجسٹری میں زائد مفروضہ زر بیع تحریر کردیں ، لیکن اقبال نے رجسٹری میں ایسا تحریر کرنے یا رجسٹرار کے روبرو اس کی حمایت میں بیان دینے سے انکار کر دیا ۔ رشتے دار نے کہا کہ جو رقم بھی رجسٹری میں لکھی جائے گی ، وہی رجسٹرار کے سامنے انہیں دی جائے گی ۔ اس لیے رجسٹرار کے سامنے ان کا بیان درست ہو گا ، مگر اقبال نہ مانے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ ہمسائے نے اقبال کے رشتہ دار پر حقِ شفعہ کا دعویٰ کیا اور مقدمہ جیتا۵۰۔ سید عبدالواحد معینی تحریر کرتے ہیں کہ تعارفی نوٹ لکھتے وقت اقبال نے قوسین میں محض متبادل عیسوی سال اس لیے درج کیا کہ ہجری تاریخ کو عیسوی یا اس کے برعکس تبدیل کرنے کے لیے جنتریوں کی ضرورت پڑتی ہے ، جو اقبال کے زمانے میں خصوصاً یورپ میں نایاب تھیں ۔ اس لیے ان کو یہ تبدیلی مستند جنتریوں کے بغیر اندازے ہی سے کرنا پڑی ہو گی ۵۱ ۔ ڈاکٹر وحید قریشی اس دلیل کو قابل قبول نہیں سمجھتے ۔ ان کی رائے میں اس زمانے میں جرمن زبان میں بھی ایسی جنتریاں شائع ہو چکی تھی اور اقبال نے اپنے تحقیقی مقالے کے متن میں ، ہجری سنین کو عیسوی میں بدلنے کے لیے ان سے استفادہ بھی کیا تھا ، مگر اپنے حالات کے ضمن میں تقویم استعمال کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی اورتخمینے سے صرف سال پیدائش کو منتقل کیا اور دن اور مہینے کو چھوڑ دیا ۵۲ ۔ان کے خیال میں اقبال نے ہجری سن کو جس طرح عیسوی میں بدلا ہے ، اس کے بارے میں دو قیاس ہو سکتے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ اس مقصد کے لیے انہوں نے تقویم کی بجائے زبانی حساب کو ترجیح دی ہو ۔ جس سے ایک سال کا فرق بخوبی ممکن ہے ۔ دوسرا یہ کہ انہوں نے مطبع آفتاب پنجاب لاہور ۱۸۷۶ء کی جنتری استعمال کی ہو ، جسے دیوان بوٹا سنگھ نے شائع کیا تھا ، کیونکہ جنتری کے صفحہ ۲۲ پر ۱۲۹۳ھ کچھ اس طرح مرقوم ہے کہ اسے بآسانی ۱۲۹۴ ھ پڑھا جا سکتا ہے۵۳۔بہر حال انہوں نے اقبال کے اس عمل کو ’’بے احتیاطی‘ ‘ کا نام دیا ہے ۵۴ ۔ یورپی یونیورسٹیوں کے قاعدے کے مطابق تعارفی نوٹ تحقیقی مقالہ پیش کرتے وقت اس کے ساتھ دیا جاتا ہے جو عموماً جلدی میں لکھا جاتا ہے ۔ عین ممکن ہے کہ اقبال نے تحقیقی مقالہ تحریر کرتے وقت تو ہجری سنین کو عیسوی میں بدلنے کے لیے تقویم استعمال کی ہو ، کیونکہ یہ معاملہ تحقیق کا تھا ، لیکن ساتھ پیش کرنے کے لیے اپنا مختصر سوانحی خاکہ عجلت میں تحریر کیا ہو ۔ بہر حال اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ اقبال نے ہجری سن میں اپنی تاریخ ولادت کو عمر بھر کبھی عیسوی سن میں مکمل طور پر منتقل کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی ۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اقبال بھی اپنے بزرگوں کی طرح عیسوی سنین پر ہجری سنین کو ترجیح دیتے تھے ۔ اس بات کا اعتراف ڈاکٹر وحید قریشی بھی کرتے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں کہ اقبال اگرچہ خطوط میں مکتوب الیہ کی سہولت کے خیال سے عیسوی تاریخیں دیتے تھے ، لیکن انہوں نے جو منظوم تاریخیں کہی ہیں ، آٹھ تاریخوں کے سوا باقی تمام ہجری سنین میں ہیں ۵۵ ۔ اس لیے ہجری سن میں انہیں جو حتمی تاریخِ ولادت و الدین نے بتائی ، اسے جوں کا توں رکھا گیا ۔ پس وہی تاریخ ان کی نگاہ میں معتبر تھی ، جو ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کے برابر ہوتی ہے ۵۶۔ ان حالات میں یہ قیاس کرنا کہ اقبال نے تعارفی نوٹ میں ہجری سن میں تاریخ ولادت کا متبادل عیسوی نہ دینے میں ’’بے احتیاطی‘‘ سے کام لیا ، درست معلوم نہیں ہوتا ۔ممکن ہے انہوں نے ایسا دانستہ طور پر کیا ہو اور بعد میں ساری عمر اس پر کاربند رہے ہوں ۔ انہیں جب بھی اپنی تاریخ ولادت کے اظہار کی ضرورت پیش آئی ، انہوں نے اس کا متبادل عیسوی سال ۱۸۷۶ء ہی سمجھا اور یہی بتاتے رہے ۔ گو یہ طریق کار اولاد کی تواریخ ولادت کے بارے میں قائم نہ رکھا گیا ۔ معلوم ہوتا ہے اسی بنا پر نو اب سر ذوالفقار علی خان نے ان کی ولادت ۱۸۷۶ء کے لگ بھگ تحریر کی ، یا فوق نے اپنی بعد کی تحریروں میں ۱۸۷۶ء درج کی اور انہوں نے اپنے پاسپورٹ میں بھی یہی سال ولادت تحریر کیا ۔ اب ہم اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ متذکرہ تاریخ ولادت اقبال کے تعلیمی ریکارڈ سے کس حد تک مطابقت رکھتی ہے ۔ اقبال کے ۱۸۹۱ء میںمڈل پاس کرنے کے سرٹیفیکیٹ میں ان کی عمر پندرہ سال درج ہے ۔شیخ اعجاز احمد کی رائے میں در اصل عیسوی کیلنڈر کے مطابق اس وقت ان کی عمر چودہ سال تھی اور اس حساب سے ان کا سال ولادت ۱۸۷۷ء بنتا ہے ۔ اسی طرح اقبال نے ۱۸۹۷ء میں بی ۔اے کی ڈگری لی ، اور داخلہ فارم میں جو ۱۸۹۶ء میں دیا گیا ، ان کی عمر انیس برس تحریر ہے ۔ اس حساب سے بھی ان کا سن ولادت ۱۸۷۷ء بنتا ہے ۔ البتہ ۱۸۹۳ء میں ان کے اسکاچ مشن کالج میں داخلے کے فارم میں درج کردہ عمر (اٹھارہ سال)اس سال ولادت سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ کیونکہ اس سے سن ولادت ۱۸۷۵ء نکلتا ہے ، جو غلط ہے ۔ اقبال کی ’’چند برس‘‘ مکتب نشینی کی مدت کو ڈاکٹر وحید قریشی نے کرم بی بی کی مبینہ شہادت کا سہارا لیتے ہوئے پانچ سال تک پھیلایا ہے ۔ مگر راقم کی نگاہ میں ’’چند ‘‘ سے مراد کم از کم دو برس اور زیادہ سے زیادہ چار برس ہے ۔ ’’چند‘‘ کو بقول ان کے ’’کئی ‘‘ سمجھنا جائز نہیں ۔کیونکہ ایسی صورت میں لفظ ’’کئی‘‘ استعمال ہوتا ۔ ڈاکٹروحید قریشی کے خیال میں بچے عموماً پانچ برس کی عمر میں پڑھنا شروع کرتے ہیں ، اِس لیے اقبال کو بھی پانچ برس کی عمر میں مکتب بھیجا گیا ہو گا ۵۷ ۔لیکن راقم کی رائے میں مسلمانوں میں عام دستور کے مطابق بچے کو چار سال چار ماہ اور چار دن میں بسم اللہ کرائی جاتی ہے اور وہ قرآن مجید پڑھنا شروع کرتا ہے ۔ شیخ اعجاز احمد کا بیان ہے کہ ان کے دادا شیخ نور محمد نے انہیں چار سال چار ماہ کی عمر میں سید میر حسن کے پاس پڑھنے کے لیے بٹھایا تھا ۔ اس لیے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اقبال کے والد نے انہیں بھی اسی عمر میں قرآن مجید پڑھنے کے لیے بٹھایا ہو گا۔ اگر اقبال عام رواج کے مطابق تقریباًساڑھے چار سال کی عمر میں مکتب نشین ہوئے اور چند سال کی مدت تک مکتبی تعلیم کے حصول کے بعد ۱۸۸۵ء میں انہوں نے اسکول کی پہلی جماعت کا امتحان پاس کیا ، لیکن اپنی ذہانت کے سبب دوسری جماعت کی بجائے تیسری جماعت میں چڑھے ، تو اس حساب سے ۱۸۹۱ء میں مڈل پاس کرتے وقت ان کی عمر چودہ یا پندرہ سال ہونا بخوبی ممکن ہے ۔ اگر اقبال ۱۸۸۴ء میں اسکول کی پہلی جماعت میں داخل ہوئے تو اس وقت ان کی عمر سات سال ہو سکتی ہے ۔ یعنی انہوں نے اڑھائی برس تک مکتبی تعلیم حاصل کی۔ لیکن اگر سلطان محمود حسین کی تحقیق کے مطابق ۱۸۸۵ء اور ۱۸۹۱ء کے چھ سالوں میں اقبال نے سات جماعتیں پاس کیں تو ۱۸۹۱ء میں ان کی عمر چودہ برس ہو گی ۔ اقبال کے خاندان کے بزرگ اور معتبر افراد کے بیانات بھی اس سلسلے میں قابل توجہ ہیں ۔ اقبال کے بیان کردہ ہجری سن میں اپنی تاریخ ولادت کے بارے میں معلومات کا ذریعہ ان کے والدین ہوں گے اور یہ قیاس کرنا ممکن نہیں کہ متذکرہ تاریخ ولادت ان کی خود ساختہ تھی ۔ شیخ عطا محمد نے ادارہ ’’انقلاب‘‘ کو اپنے تخمینے کے مطابق ولادت اقبال کی تاریخ دسمبر ۱۸۷۶ء بتائی تھی ۔ شیخ اعجاز احمد بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے والد شیخ عطا محمد سے سن رکھا ہے کہ وہ عمر میں اقبال سے تقریباً اٹھارہ سال بڑے تھے ۔شیخ عطا محمد کی سروس بک میں ان کا سن ولادت ۱۸۵۹ء درج ہے ۔ اس حساب سے اقبال کا سن پیدائش ۱۸۷۶ء یا ۱۸۷۷ء بنتا ہے ۔ شیخ اعجاز احمد نے اپنی والدہ (اہلیہ شیخ عطا محمد)سے سن رکھا ہے کہ ۱۸۸۸ء میںان کی شادی کے وقت اقبال پانچویں جماعت میں پڑھتے تھے اور عمر دس بارہ سال تھی ۔ اس بیان کی تصدیق اقبال کا تعلیمی ریکارڈ بھی کرتا ہے ۔ اقبال کی بہن کریم بی بی نے شیخ اعجاز احمد کے سامنے اس بات کی تصدیق کی ، کہ انہوں نے اپنی والدہ سے سنا تھا کہ اقبال جمعہ کے دن فجر کے وقت پیدا ہوئے ۔ تاریخ ۳ ذیعقد ۱۲۹۴ھ جمعہ کا دن تھا ۔ اس تاریخ کے علاوہ اقبال کی کوئی بھی اور تاریخِ ولادت جمعہ کے دن نہیں پڑتی۵۸ ۔ ڈاکٹر وحید قریشی کی رائے میں اگر متذکرہ تاریخِ ولادت درست تسلیم کر لی جائے تو جمعہ کی خاندانی روایت ٹھیک ہے ۔ مگر دسمبر کی خاندانی روایت غلط ٹھہرتی ہے ۔ ان کے خیال میں جمعہ اور دسمبر کی خاندانی روایتوں میں سے یا تو ایک صحیح ہے ، یا پھر ان دونوں کو یکجا کرنے کے لیے اقبال کی ولادت کی کوئی اور تاریخ قیاس کرنا پڑے گی ۵۹ ۔ راقم کی نظر میں دسمبر کی خاندانی روایت تخمینے کے زمرے میں آتی ہے اور اس سے اگر موسمِ سرما مراد لی جائے تو دونوں خاندانی روایتیں بخوبی یکجا ہو سکتی ہیں ۔ بعض مزید اعتراضات جو متذکرہ تاریخ ولادت پر کیے گئے ہیں ، ان میںسے ایک تو یہ ہے کہ اس کا اندراج میونسپل ریکارڈ میں موجود نہیں ۔ لیکن عدم اندراج ، عدم پیدائش کا ثبوت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ خصوصاً اس زمانے میں جب ہر پیدائش درج کرانے کا اتنا اہتمام نہ کیا جاتا تھا،جتنا اب کیا جاتا ہے ۔ ہم نے واضح کیا ہے کہ شیخ نور محمد کی اولاد سے متعلق صرف ایک اندراج صحیح ہے ، جو شیخ محمد رفیق نے کرایا ۔ لیکن باقی تمام کے تمام اندراجات مشکوک ہیں۔ عین ممکن ہے کہ شیخ نور محمد نے ایسی پیدائشوں کے اندراج کرانے کا اہتمام ہی نہ کیا ہو ۔ دوسرا اعتراض مصنف ’’اقبال درونِ خانہ‘‘ ان الفاظ میں کرتے ہیں ۔ ۱۸۷۶ء کی غلط فہمی در اصل اس طرح پیدا ہوئی کہ حضرت علامہ کی دونوں بڑی اور دونوں چھوٹی بہنوں کی عمروں میں تقریباً تین تین سال کا فرق تھا ۔ فروری ۱۸۷۳ء میں پیدا ہونے والا لڑکا بھی اپنی بہن مرحومہ طالع بی بی جنت مکانی سے تقریباً تین سال چھوٹا تھا۔ اس پیدائشی قاعدے کلیے کے پیش نظر، مرور ایام کے ساتھ، خاندان میں حضرت علامہ کو فروری ۱۸۷۳ء میں پیدا ہونے والے لڑکے کے تین سال بعد ۱۸۷۶ء میں پیدا شدہ سمجھا جانے لگا۔ بہن بھائیوں کے ایک جیسے پیدائشی فرق نے اس خیال کو مزید تقویت بخشی۔ چونکہ اس زمانے کے سیدھے سادے لوگ زیادہ تردد میں پڑنے کے قائل نہ تھے ، اس لیے یہ غلط فہمی آہستہ آہستہ صحیح تاریخ(یعنی ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ئ)کے مقابلے میں مشہور ہو گئی اور کسی کو بھی اس کا خیال نہ رہا کہ ۱۸۷۶ء میں تو علامہ صاحب کی چھوٹی ہمشیرہ پیدا ہوئی تھیں۔ چنانچہ حکیم الامت کو بھی اپنے بزرگوں کی اسی روایت کا سہارا لینا پڑا اور اس طرح انہوں نے اپنے تحقیقی مقالے کے تعارفی نوٹ اور پاسپورٹ میں اپناسنہ پیدائش ۱۸۷۶ء ہی درج فرمایا۶۰ ۔ پہلے تو یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ اقبال نے تعارفی نوٹ میں سن ولادت قوسین میں ۱۸۷۶ء ہی تحریر نہیں کیا بلکہ ہجری سن کی پوری تاریخ ۳ ذیعقد ۱۲۹۴ھ بھی درج کی ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ اقبال کے خاندان میں ایسے کسی پیدائشی قاعدے کلیے کی موجودگی کا ثبوت موجود نہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اقبال کے والدین کے ہاں سات بچے پیدا ہوئے ، جن میں سے ایک شیر خواری کی عمر میں فوت ہو گیا، مگر اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ ان کے بچے کسی مخصوص خاندانی فارمولے کے مطابق پیدا ہوئے ۔ مصنف کی رائے میں اگر اقبال ایک مرحوم لڑکے کی پیدائش کے پورے سوا دس ماہ بعد پیدا ہوئے تو یہ وقوعہ نہ صرف اس نام نہاد فارمولے کے خلاف تھا، بلکہ ایک ہی سال میں دو بچے پیدا ہونا ایک ایسا اتفاق تھا ، جسے خاندان کے افراد ضرور یاد رکھتے، لیکن ایسی کوئی صورت نہیں ہے ۔ تیسرا عتراض بقول مصنف ’’اقبال درون خانہ ‘‘یہ ہے کہ اقبال کی پہلی بیوی کریم بی بی کی روایت کے مطابق ۱۸۹۳ء میں شادی کے وقت اقبال کی عمر بیس برس سے کچھ کم تھی ۶۱ ۔ اس سلسلے میں ’’پنجابی عہدہ دار ‘‘ کے نام سے کرنل خواجہ عبدالرشید نے ایک مضمون ’’چٹان‘‘ لاہور کے ۲۷ نومبر ۱۹۷۲ء کے شمارے میں شائع کیا ۔ کرنل خواجہ عبدالرشید ، خواجہ فیروز الدین کے بھتیجے ہیں ۔ خواجہ فیروز الدین اقبال کے ہم زلف تھے اور ان کی پہلی بیوی کی چھوٹی بہنوں میں سے ایک سے بیاہے ہوئے تھے ۔ کرنل خواجہ عبدالرشید نے تحریر کیا ہے کہ کریم بی بی کے بیان کے مطابق شادی کے وقت ان کی عمر پندرہ سال تھی اور اقبال ان سے پانچ سال بڑے یعنی بیس سال کے تھے ۔ اقبال کی پہلی بیوی کا انتقال ۱۹۴۶ء میں ہوا ۔ اس لیے انہوں نے کرنل خواجہ عبدالرشید کو یہ بات بتائی تو اپنی فوتیدگی سے پہلے بتائی ہوگی ۔ مگر اقبال کی ابتدائی زندگی اور پہلی شادی کے موضوع پر کرنل خواجہ عبدالرشید کا ایک انگریزی مضمون ’’پاکستان ٹائمز ‘‘ کی ۱۲ جولائی ۱۹۶۴ء کی اشاعت میں چھپاتھا ، جس میں انہوں نے اقبال کی پہلی شادی کا نکاح نامہ شائع کیا ہے اور اقبال کی تاریخ پیدائش کے ذکر کے ساتھ یہ بھی تحریر کیا ہے کہ کریم بی بی سے کئی بار اقبال کے بارے میں گفتگو ہوئی ۔ بہر حال انہوں نے اس مضمون میںمتذکرہ بات کا کوئی حوالہ نہیں دیا ، بلکہ تحریر کرتے ہیں : شائع کردہ نکاح نامے سے ظاہر ہے کہ اقبال کی پہلی شادی ۴ مئی ۱۸۹۳ء کو گجرات میں ہوئی۔ تب انہوں نے ابھی میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا اور ان کی عمر بمشکل سولہ سال تھی ۔ کیونکہ ان کی تاریخ پیدائش ۹ نومبر ۱۸۷۷ء ہے۔ اسی مضمون میں انہوں نے نکاح نامے پر گواہانِ نکاح میں سے ایک حاجی نور محمد ولد حاتم میر قوم کشمیری سکنہ سیالکوٹ کا نام پڑھ کر سمجھ لیا کہ یہ گواہ نکاح اقبال کے والد تھے اور نتیجہ نکالا کہ اقبال کا اپنے آپ کو برہمن نثراد یا سپرو بیان کرنا درست نہیں، کیونکہ ان کے والد نے تو اپنے نام کے ساتھ قومیت میر لکھی تھی اور کشمیر کے میر ، مغل یا ترک نسل کے ہیں ۔ انہوں نے اتنا معلوم کرنے کی کوشش بھی نہیں کی کہ شیخ نور محمد کو حج کی سعادت نصیب نہ ہوئی تھی ۔ اس لیے وہ کبھی حاجی نور محمد نہیں کہلائے ۔ ان کے والد کا نام حاتم نہ تھا بلکہ شیخ رفیق تھا اور حاجی نور محمد ولد حاتم میر ان کے ایک قرابت دار تھے جن کے بھتیجے فضل دین میر سے شیخ نور محمد کے چھوٹے بھائی شیخ غلام محمد کی نواسی بیاہی ہوئی تھی ۔ شیخ عطا محمد کے ایک خط کے مطابق ، جو شیخ اعجاز احمد کو تحریر کیا گیا ، شادی کے وقت کریم بی بی اقبال سے عمر میں دو تین سال بڑی تھیں اور اس بات کی تصدیق اقبال کی بہنوں نے بھی کی ہے ۔ سید حامد الجلالی کی تصنیف ’’علامہ اقبال اور ان کی پہلی بیوی‘‘ کے صفحات ۸۳ اور ۱۷۲ پر درج ہے کہ کریم بی بی ۱۹۴۶ء میں فوت ہوئیں ۔ اسی کتاب کے صفحہ ۲۶ پر ان کی تصویر کے نیچے تحریر ہے بہ عمر ۷۰ سال ، وفات سے چار روز قبل ۔ اگر انہوں نے ۱۹۴۶ء میں ستر برس کی عمر میں وفات پائی تو ان کا سن ولادت ۱۸۷۵ء یا ۱۸۷۶ء ہو گا اور اگر اقبال ان سے پانچ سال بڑے تھے تو ان کا سنِ پیدائش ۱۸۷۰ء یا ۱۸۷۱ء بن جاتا ہے ، جو کسی لحاظ سے درست نہیں ۔بہرحال مرکزی تاریخِ ولادت کمیٹی نے اپنی تحقیقات کے دوران کریم بی بی کی تاریخ پیدائش معلوم کرنے کے لیے میونسپل کمیٹی گجرات سے رجوع کیا اور رجسٹر پیدائش و اموات میں درج ان کی تاریخ ولادت ۲۲ مارچ ۱۸۷۴ء پائی گئی۔ اس حساب سے اگر اقبال ان سے پانچ سال بڑے تھے تو ان کا سن ولادت ۱۸۶۹ء بن جاتا ہے ۔ جو قطعی غلط ہے ۔ لیکن اگر تین سال چھوٹے تھے تو سن ولادت ۱۸۷۷ء نکلتا ہے ۔ اس ضمن میں ڈاکٹر وحید قریشی کی تحقیق بھی ملاحظہ کے قابل ہے ۔ انہوں نے اپنے مضمون کے ساتھ کریم بی بی کے والد ڈاکٹر عطا محمد کی دو لڑکیوں کی پیدائشوں کے میونسپل اندراجات ۲۲ مارچ ۱۸۷۴ء اور ۲۰ اپریل ۱۸۷۷ء کے عکس شائع کیے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ۲۲ مارچ ۱۸۷۴ء کا اندراج کریم بی بی سے متعلق نہیں ، بلکہ ڈاکٹر عطا محمد کے ہاں پیدا ہونے والی بعد کی کسی لڑکی کا ہے ، کیونکہ سید حامد جلالی کے بیان کے مطابق کریم بی بی جدہ میں پیدا ہوئیں ،جہاں ان کے والد وائس قونصل کے عہدے پر فائز تھے ۔ وہ دس برس جدّہ میں رہیں اور عربی بے تکان بولتی تھیں۔ ڈاکٹر وحید قریشی کی رائے میں کریم بی کی پیدائش کا امکان ۱۸۷۱ء میں ہے اور اس حساب سے خاندانی روایت کے مطابق اگر وہ اقبال سے دو تین سال بڑی تھیں ، تو اقبال کا سنِ ولادت ۱۸۷۳ء شمار ہو گا۶۲۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اس بارے میں سید حامد الجلالی کی معلومات کا ذریعہ کریم بی بی سے اقبال کے فرزند آفتاب اقبال ہوں گے ۔ سید حامد الجلالی نے ڈاکٹر عطا محمد کا سنِ ولادت ۱۸۵۹ء بیان کیا ہے۶۳۔اس حساب سے ڈاکٹر وحید قریشی کے کریم بی بی کے سالِ ولادت سے متعلق مفروضے کے مطابق ان کے والد ڈاکٹر عطا محمد کی عمر ۱۲ سال بنتی ہے ۔ گویا وہ ۱۲ برس کی عمر میں جدّہ میں وائس قونصل کے عہدے پر فائز تھے اور اسی عمر میں ان کے ہاں کریم بی بی پیدا ہوئیں ۔ یہ استدلال کیونکر قبول کیا جا سکتا ہے ۔ بہر کیف بعض اہلِ علم ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کو تاریخِ ولادتِ اقبال کے طور پر تسلیم نہیں کرتے ۔ ان میں سے ایک کے خیال میں تو اس تاریخِ ولادت کا اعلان سیاسی مصلحت کی بناء پر کیا گیا۶۴ ۔مگر اقبال کے سال ولادت کو ۱۸۷۳ء کی طرف لے جانے کی خاطر ان کے استدلال کی کڑیاں بظاہر بہت کمزور معلوم ہوتی ہیں ۔ مثلاً ڈاکٹر وحید قریشی ، میونسپل اندراجات کی خامیوں کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے حساب سے ۱۸۷۳ء کی مطابقت اقبال کے تعلیمی ریکارڈ سے پاتے ہیں ان کے نزدیک اقبال کے خاندان کے افراد کے بیانات میں یا تو تناقض ہے یا حافظے کی بنیاد پر دیے گئے ہیں ۔ اس لیے اس بارے میں وہ اقبال کے حلقہ احباب میں سے کسی کرم بی بی کے حافظے کی بنیاد پر دیے گئے بیان کی تائیدی شہادت کتاب’’اقبال درونِ خانہ ‘‘یا کرنل خواجہ عبدالرشید کے مضمون میں پیش کردہ اقبال کی پہلی بیوی کریم بی بی کے مفروضہ بیان کو قرار دیتے ہیں اور پھر کرم بی بی کے ۱۸۷۱ء میں پیدا ہونے کے امکان کو پیش نظر رکھ کر اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اقبال کی ولادت ۱۸۷۳ء میں ہو سکتی ہے ، کیونکہ خاندانی روایت کے مطابق وہ اپنی بیوی سے دو تین سال چھوٹے تھے ۔ راقم کی رائے میں اقبال کی اپنی بیان کردہ تاریخ ولادت کی مطابقت ان کے تعلیمی ریکارڈ سے ۱۸۷۳ء کے مقابلے میں زیادہ سہولت سے ہوتی ہے ۔ مزید برآں واقعاتی شہادت اور خاندان اقبال کے بزرگ اور معتبر افراد کے بیانات بھی بمقابلہ ۱۸۷۳ء اسی سن ولادت کی تائید کرتے ہیں ۔ ان شواہد کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اقبال کی تاریخ ولادت ۳ ذیعقد ۱۸۹۴ء ہے جو ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کے برابر ہوتی ہے ۔ مآخذ باب: ۳ ۱ ۔ ’’انوار اقبال ‘‘ مرتبہ بشیر احمد ڈار ، صفحہ ۷۳ ۔ ۲ ۔ سوانحی خاکہ انگریزی میں تحریر کردہ ہے جس کے متن کے لیے دیکھیے ’’نقش اقبال ‘‘ از سید عبدالواحد معینی ،بالمقابل صفحہ ۱۷ ۳ ۔ اصل کے عکس کے لیے دیکھیے ’’روز گار فقیر‘‘ (نقش ثانی) از فقیر سید وحیدالدین صفحہ ۲۳۲ ۔ ۴ ۔ ’’انوار اقبال‘‘ صفحہ ۷۹۔ سرعبدالقادر کے ’’حالات اقبال‘‘ پر مضمون میں ، جو ’’خذنگِ نظر‘‘ لکھنؤ کے شمارہ مئی ۱۹۰۲ء میں شائع ہوا ، اقبال کی تاریخ ولادت یا سنہ ولادت کی تفصیل موجود نہیں ۔ دیکھیے ’’اقبال جادوگر ہندی نژاد ‘‘ از عتیق صدیقی ، مکتبہ جامعہ نئی دہلی صفحات ۱۳۴ تا ۱۴۴ ۔ ۵ ۔ نیز ملاحظہ ہو ’’بیان مشفق خواجہ ‘‘ شائع کردہ روز نامہ ’’جنگ ‘‘، کراچی ، ۲۶ اپریل ۱۹۷۱ئ۔ ۶ ۔ ’’روز گار فقیر ‘‘ (نقش ثانی) صفحہ ۲۳۲۔ ۷ ۔ ’’نقوش ‘‘ اقبال نمبر ۲ ۔ دسمبر ۱۹۷۷ء علامہ اقبال کی تاریخ ولادت صفحہ ۱۰ ۔ ۸ ۔ ’’انوار اقبال ‘‘ صفحہ ۷۳ ۔ ۹ ۔ صفحہ ۱۰ ، کتاب مذکور ۔ ۱۰ ۔ ’’نقش اقبال ‘‘ صفحہ ۱۴ ، ۱۵۔ ۱۱ ۔ ایضاً۔صفحہ ۱۵۔ یان مارک کے مضمون ’’محمد اقبال کی تاریخ ولادت‘‘ (انگریزی) کے لیے دیکھیے ’’تیغ اور عصاے شاہی ‘‘مرتبہ رفعت حسن (انگریزی) مطبوعہ اقبال اکادمی۔لاہور ۱۹۷۷ء ۱۲ ۔ اس سلسلہ میں این میری شمل کا استدلال وہی ہے جو یان مارک کا ہے ۔ یان مارک کے اندازے کے مطابق اقبال کے اسکاچ مشن کالج میں داخلے کا امکان سولہ سترہ سال کی عمر میں بمقابلہ اٹھارہ بیس سال زیادہ قرین قیاس ہے ۔ دیکھیے ’’بال جبریل‘‘(انگریزی) صفحہ ۳۵ ۔ ۱۳ ۔ صفحات ۲۲۹تا ۲۳۷ ،کتاب مذکور۔ ۱۴ ۔ نوٹ(انگریزی) شیخ اعجاز احمد براے مرکزی تاریخ ولادت اقبال کمیٹی ۔ ۱۵ ۔ صفحہ ۱۵۸ کتاب مذکور ۔ عکس اندراج کے لیے دیکھیے بالمقابل صفحہ ۱۵۵۔ ۱۶ ۔ ’’نقوش ‘‘ اقبال نمبر، ستمبر ۱۹۷۷ء حاشیہ صفحہ ۲۹ ۔ ۱۷ ۔ ’’سات تحریریں ‘ ‘ مطبوعہ اردو پبلشرز لکھنؤ ،صفحہ ۴۲ (۱۹۷۵ئ) ۸ ۱۔ ’’نقوش اقبال ‘‘ از سید ابوالحسن علی ندوی صفحہ ۱۸ ۔ جگن ناتھ آزاد کے متعلق دیکھیے ’’نقوش‘‘ اقبال نمبر، ۲ دسمبر صفحہ۳۸ ۱۹ ۔ اصل کے عکس کے لیے دیکھیے ’’روز گار فقیر ‘‘ (نقش ثانی) بالمقابل صفحہ ۲۳۳۔ ۲۰ ۔ ’’روز گار فقیر ‘‘ (نقش ثانی) صفحہ ۲۳۱ ۔ ۲۱ ۔ ’’اقبال درون خانہ‘‘ صفحہ ۱۵۷۔ ۲۲ ۔ نوٹ (انگریزی) شیخ اعجاز احمد ۔ ۲۳ ۔ عکس کے لیے دیکھیے ’’روز گار فقیر‘‘ جلد دوم، صفحہ ۱۱۹ ۔ ۲۴ ۔ ’’اقبال درون خانہ ‘‘ صفحہ ، ۱۵۵ ۔ ۲۵ ۔ ایضاً صفحات ۱۵۵ تا ۱۵۸ ۔ ۲۶ ۔ بحوالہ ’’نقوش ‘‘ اقبال نمبر ۲ دسمبر ۱۹۷۷ء صفحہ ۳۹ ۲۷ ۔ ’’مرقع اقبال ‘‘ مرتبہ جگن ناتھ آزاد ، ناشر پبلی کیشنز ڈویژن ۔ وزارت اطلاعات و نشریات حکومت ہند ۱۹۷۷ء ، صفحہ ۷ ۲۸ ۔ صفحہ ۷ کتاب مذکور ۲۹ ۔ دیکھیے ’’حیات اقبال ‘‘ از ایس ۔ ایم ۔ ناز صفحہ ۱۵ ۔ جگن ناتھ آزاد نے بھی اسی غلطی کی بنا پر اپنے تیار کردہ شجرہ نسب خاندان اقبال میں بابا صالح کو لول حج کا جداعلیٰ ظاہر کیا ہے۔ملاحظہ ہو ’’مرقع اقبال ‘‘ صفحہ ۷ ۔ اسی غلطی کے لیے مزید دیکھیے ’’یاد اقبال ‘‘از صابر کلوروی صفحہ ۵ ۳۰ ۔ ’’نقوش اقبال ‘‘ اقبال نمبر ۲ ،دسمبر ۱۹۷۷ء علامہ اقبال کی تاریخ ولادت صفحہ ۲۲ ، ۲۳ ۔ ۳۱ ۔ ’’اقبال درون خانہ ‘‘ کے صفحات ۱۵۶ ، ۱۵۹ پر دونوں اندراجات نقل کیے گئے ہیں ۔ ۳۲ ۔ ایضاً ۔ حاشیہ صفحہ ۱۵۸ ۳۳ ۔ ’’نقوش‘‘ اقبال نمبر ۲ ، دسمبر ۱۹۷۷ء علامہ اقبال کی تاریخ ولادت صفحہ ۲۴ ۔ ۳۴ ۔ ایضاً صفحہ ۳۹ ۔ ۳۵ ۔ ’’اقبال درون خانہ ‘‘ ، صفحہ ۱۵۵ ۔ ۳۶ ۔ نوٹ (انگریزی) شیخ اعجاز احمد ۔ ۳۷ ۔ ایضاً ۳۸ ۔ ایضاً ۳۹ ۔ ’’نیرنگ خیال ‘‘ اقبال نمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۲۵ ۔ ۴۰ ۔ صفحہ ۱۶۳ کتاب مذکور ۔ ۴۱ ۔ ’’نقوش ‘‘ اقبال نمبر ۲ ، دسمبر ۱۹۷۷ء ،’’ علامہ اقبال کی تاریخ ولادت ‘‘ ، صفحہ ۱۵ ، ۱۶۔ ۴۲ ۔ ’’اقبال درون خانہ ‘‘ صفحہ ۱۵۳ ، ۱۶۳ ۔ ۴۳ ۔ ’’نیرنگ خیال ‘‘ اقبال نمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۷۴ ، مقالہ بعنوان ’’علامہ سر اقبال کے استاد ‘‘ از شیخ آفتاب احمد ۔ نیز دیکھیے ’’حیات اقبال ‘‘ مطبوعہ تاج کمپنی ، صفحات ، ۱۲ ، ۱۳۔ ۴۴ ۔ ’’نقوش ‘‘ اقبال نمبر ۲ ، دسمبر ۱۹۷۷ء ’’علامہ اقبال کی تاریخ ولادت‘‘ صفحہ ۱۵ ۴۵۔ ’’اقبال درون خانہ ‘‘صفحہ ۱۵۵ ۔ ۴۶ ۔ ’’نقوش‘‘ اقبال نمبر ۲ ، دسمبر ۱۹۷۷ء ’’علامہ کی تاریخ ولادت ‘‘ صفحات ۲۴ ، ۲۵، ۳۰۔ ۴۷ ۔ ’’کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ‘‘ ، مطبوعہ مکتبہ ادب جدید لاہور ، ۱۹۶۵ء ،صفحات ۳۰۶، ۳۰۷۔ ۴۸ ۔ ’’نقش اقبال‘‘ بالمقابل صفحہ ۱۷ ۔ ۴۹ ۔ ’’نقوش ‘‘ اقبال نمبر ۲ ، دسمبر ۱۹۷۷ء ،’’علامہ اقبال کی تاریخ ولادت ‘‘ صفحہ ۱۸۔ ۵۰ ۔ نوٹ (انگریزی) شیخ اعجاز احمد ۔ یہ وہی مکان تھا جو کچھ عرصہ کے لیے راقم کے نام ہبہ رہا۔ ۵۱ ۔ ’’نقش اقبال‘‘ صفحہ ۱۸ ۔ ۵۲ ۔ ’’نقوش ‘‘ اقبال نمبر ۲ ، دسمبر ۱۹۷۷ء ’’علامہ اقبال کی تاریخ ولادت ‘‘ صفحہ ۱۴ ۔ ۵۳۔ ایضاً صفحہ ۱۴ ۔ ۵۴ ۔ ایضاً صفحہ ۳۰ ۔ ۵۵ ۔ ایضاً صفحہ ۳۰ ۔ ۵۶ ۔ ایضاً صفحہ ۳۰ ۔ ۵۷ ۔ ایضاً صفحہ ۱۵ ۔ ۵۸ ۔ نوٹ (انگریزی) شیخ اعجاز احمد ۔ ۵۹ ۔ ’’نقوش‘‘ اقبال نمبر ۲ ، دسمبر ۱۹۷۷ء ’’علامہ اقبال کی تاریخ ولادت‘‘ صفحہ ۲۴ ۔ ۶۰ ۔ صفحہ ۱۶۱ ، کتاب مذکور ۔ ۶۱ ۔ ایضاً صفحہ ۱۶۱ ۔ ۶۲ ۔ ’’نقوش ‘‘ اقبال نمبر ۲ ، دسمبر ۱۹۷۷ء ’’علامہ اقبال کی تاریخ ولادت ‘‘ صفحات ۲۷ تا ۳۰ ، نیز دیکھیے ’’علامہ اقبال اور ان کی پہلی بیوی ‘‘ صفحہ ۲۲ ۔ ۶۳ ۔ ’’علامہ اقبال اور ان کی پہلی بیوی ‘‘ ، صفحہ ۲۲ ۔ ۶۴ ۔ ’’نقوش ‘‘ اقبال نمبر ۲ ، دسمبر ۱۹۷۷ء ’’علامہ اقبال کی صحیح تاریخ پیدائش ‘‘ از ڈاکٹر اکبر حیدری کاشمیری ،صفحہ ۴۰۔ باب: ۴ بچپن اور لڑکپن اقبال کی پیدائش سے کچھ روز قبل ان کے صوفی منش والد نے خواب میں دیکھا کہ کسی وسیع میدان میں بہت سے لوگ ، فضا میں چکر لگاتے ہوئے ایک سفید کبوتر کو ہاتھ اٹھا اٹھا کر دیوانہ وار پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔وہ کبوتر کبھی نیچے اترتا اور کبھی آسمان کی طرف اڑ جاتا ۔ بالآخر اس نے اچانک فضا میں غوطہ لگایا اور اقبال کے والد کی جھولی میں آن گرا ۔ شیخ نور محمد اسے اشارہ غیبی سمجھے اور خواب کی تعبیر یہ کی کہ ان کے ہاں بیٹا پیدا ہو گا جو خدمت اسلام میں نام پیدا کرے گا ۱ ۔ جمعہ ۳ ذیعقد ۱۲۹۴ھ (بمطابق ۹ نومبر ۱۸۷۷ئ) کے دن سیالکوٹ کی فضا میں ابھی نمازِ فجر کی اذانیں بلند ہونا شروع ہوئی تھیں کہ شیخ نور محمد کے چھوٹے سے ایک منزلہ مکان کی تاریک کوٹھڑیوں میں سے کسی ایک میں ، چراغ کی ٹمٹماتی ہوئی روشنی میں ، ایک سرخ و سپید پیارا سا بچہ پیدا ہوا ، جس نے گھر کے مکینوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرالی ۔ چالیس سالہ شیخ نور محمد نے اپنے خواب کی نسبت سے نومولود کا نام محمد اقبال رکھا ۔ ننھے منّے اقبال کے بھائی عطا محمد تب اٹھارہ سال کے تھے اور غالباً شادی شدہ تھے ۔بہن فاطمہ بی ، عطا محمد سے چھوٹی تھیں اور ہو سکتا ہے بیاہ کے بعد اپنے شوہر کے گھر آباد ہوں ، مگر بہن طالع بی سات سال کی تھیں ۔ مکان میں ان کے چچا شیخ غلام محمد کے اہل و عیال بھی رہتے تھے ۔ اس غریب یا متوسط الحال خاندان میں ننھا منّا اقبال اپنی والدہ امام بی کے سایۂ شفقت میں رفتہ رفتہ پروان چڑھنے لگا ۔ بجلی کی سہولت سے محروم اس گھر کے محدود دالان میں اس نے چلنا سیکھا اور پھر تعلیم کے آغاز کے بعد اسی گھر کی تاریک کوٹھڑیوں میں ، چراغ کی روشنی میں اس نے ابتدائی سبق ازبر کیے ۔ شیخ نور محمد خود چونکہ بڑے دیندار آدمی تھے ، اس لیے ان کی خواہش تھی کہ بچے کو صرف دینی تعلیم دلوائیں ۔ وہ سیالکوٹ کے علماء و فضلا سے دوستانہ مراسم رکھتے تھے اور معارف دین کی تفہیم کے لیے بعض اوقات مولانا ابوعبداللہ غلام حسن کے ہاں جایا کرتے تھے ۔ مولانا غلام حسن محلہ شوالہ کی مسجد میں درس بھی دیتے تھے ۔چنانچہ جس روز اقبال چار سال چار ماہ کی عمر کو پہنچے، شیخ نور محمد انہیں مسجد میں مولانا غلام حسن کے پاس لے گئے ۲ ۔اقبال نے اسی مسجد میں درس قرآن سے تعلیم کی ابتداء کی ۔ یہ تو وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ انہوں نے کتنا عرصہ مولانا غلام حسن کی درسگاہ میں قرآن مجید پڑھا مگر یہ مدت تقریباً ایک سال کے لگ بھگ تھی ۔ ایک دن مولانا سید میر حسن درس گاہ میں آئے اور اقبال کو وہاں درس لیتے دیکھا ۔وہ ان کی کشادہ پیشانی ، متین صورت اور بھورے بالوں سے بے حد متاثر ہوئے اور مولانا غلام حسن سے پوچھا کہ کس کا بچہ ہے؟ جب انہیں معلوم ہوا کہ شیخ نور محمد کا لڑکا ہے تو ان کے پاس جا پہنچے اور چونکہ شیخ نور محمد کو خوب جانتے تھے ، اس لیے انہیں سمجھایا کہ اس بچے کو محض دینی تعلیم دلوانا کافی نہیں بلکہ اسے جدید تعلیم سے بھی آراستہ کرنا ضروری ہے ۔ لہٰذا اسے درس گاہ سے اٹھوا کر ان کی تحویل میں دے دیا جائے ۔ شیخ نور محمد نے کچھ دن تو پس و پیش کیا مگر سید میر حسن کے اصرار پر اقبال کو ان کے سپرد کر دیا ۔چنانچہ اقبال نے اپنے گھر کے قریب ہی کوچہ میر حسام الدین میں سید میر حسن کے مکتب میں اردو، فارسی اور عربی ادب پڑھنا شروع کیا ۔ اپنی ابتدائی تعلیم کے متعلق اقبال خود بیان کرتے ہیں : پنجاب میں ان دنوں علم وحکمت کا خاتمہ ہو چکا تھا ۔ میرے والد کی بڑی خواہش تھی کہ مجھے تعلیم دلوائیں ۔ انہوں نے اوّل تو مجھے محلے کی مسجد میں بٹھاد یا ، پھر شاہ صاحب کی خدمت میں بھیج دیا۳ ۔ اقبال نہایت ذہین اور ہونہار تھے ، اس لیے سید میر حسن نے انہیں بڑی توجہ سے تعلیم دینا شروع کی ۔ یہ سلسلہ تقریباً ڈیڑھ سال تک جاری رہا ۔ اسی دوران سید میر حسن نے اسکاچ مشن سکول میں بھی پڑھانا شروع کر دیا ۔ چونکہ وہ مسلمانوں میں جدید تعلیم کے فروغ کے زبردست حامی تھے ، اس لیے انہوں نے شیخ نور محمد کی رضامندی حاصل کر کے اقبال کو اسکاچ مشن اسکول میں داخل کرا دیا ۔ اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ اقبال نے تقریباً سات برس کی عمر میں ، ۱۸۸۴ء میں ، اسکول کی پہلی جماعت میں داخلہ لیا مگر چونکہ وہ دوسرے بچوں سے ذہانت میں بہت آگے تھے ، اس لیے پہلی جماعت کا امتحان پاس کرنے کے بعد ۱۸۸۵ء سے لے کر ۱۸۹۱ء تک کے چھ سالوں میں انہوں نے سات جماعتیں پاس کر لیں ۔ وہ اساتذہ سے صرف اسکول ہی میں نہ پڑھتے تھے بلکہ اسکول کے بعد سید میر حسن کے گھر میں بھی ان کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہتا اور سید میر حسن کا تو معمول تھا کہ اگر بازار میں سودا سلف لینے جاتے تو بھی شاگرد پیچھے پیچھے چلتے جاتے اور درس و تدریس کا تسلسل ٹوٹنے نہ پاتا ۴ ۔ اقبال کے گھر کا ماحول نہایت سادہ اور پاکیزہ تھا ۔ آمدنی کا ذریعہ یا تو شیخ نور محمد کی دکان تھی یا اپنی تنخواہ کا وہ حصہ جو شیخ غلام محمد روپڑ سے اپنے اہل و عیال کی کفالت کے لیے بھجواتے تھے ۔ جب تک وہ وہاں مقیم رہے ، گھرداری کا سارا انتظام امام بی کے ہاتھ میں تھا ۔ دکان سے قلیل آمدنی کے سبب ایک وقت ایسا بھی آیا کہ شیخ نور محمد کو سیالکوٹ کے ایک رئیس ڈپٹی وزیر علی بلگرامی کے ہاں پارچہ دوزی کی ملازمت کرنا پڑی ۔ تاہم چند ماہ بعد انہوں نے وہ ملازمت ترک کر دی ۔ اقبال کے بعض سوانح نگار ملازمت ترک کرنے کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ امام بی ، شیخ نور محمد کی تنخواہ کو ہاتھ تک نہ لگاتی تھیں ، کیونکہ انہیں شبہ تھا کہ ڈپٹی وزیر علی کے بعض ذرائع آمدنی شرعاً ناجائز ہیں ، بہرحال یہ فرضی روایت بیان کر کے بیچارے ڈپٹی صاحب پر ناحق اتہام تراشی کی گئی ہے ۔ ملازمت ترک کرنے کی جو وجہ شیخ نور محمد نے اعجاز احمد کی موجودگی میں ایک عزیز سے بیان کی وہ اس روایت سے بالکل مختلف ہے ۔ شیخ اعجاز احمد کے بیان کے مطابق رزق حلال پر گفتگو کے دوران شیخ نور محمد نے بتایا کہ ڈپٹی وزیر علی کے ہاں ملازمت کے کچھ عرصے بعد انہیں ذاتی تجربے سے احساس ہوا کہ ڈپٹی صاحب کے ہاں پارچہ دوزی کا کام تو برائے نام تھا یا اتنا نہیں تھا کہ ایک ہمہ وقت خیاط کی ضرورت ہو ، البتہ حاضر باشی اور مصاحبت کاکام زیادہ تھا ۔ ڈپٹی صاحب کو تصوف سے لگائو تھا اور اپنی فرصت کے اوقات میں وہ اکثر شیخ نور محمد سے اس موضوع پر گفتگو کرتے ۔ اس بنا پر شیخ نور محمد کے دل میں خلش رہتی کہ ڈپٹی صاحب سے جو تنخواہ پارچہ دوزی کے لیے انہیں ملتی ہے ، اس کا بیشتر حصہ رزق حلال نہیں ۔ دو ایک مرتبہ انہوں نے ڈپٹی صاحب سے ملازمت ترک کرنے کی اجازت چاہی مگر وہ بات کو ٹال گئے ۔ ایک دن شیخ نور محمد کے اصرار پر انہوں نے کہا کہ آپ کو ہمارے یہاں کوئی تکلیف ہے جو آپ ملازمت چھوڑنا چاہتے ہیں ۔ اگر تکلیف بیان کر دیں تو اس کا ازالہ کر دیا جائے گا۔ بہ عالمِ مجبوری شیخ نور محمد نے اپنی قلبی خلش کا اظہار کیا جسے سن کر وہ بہت متاثر ہوئے اور ترکِ ملازمت کی اجازت دے دی ۔ جب شیخ نور محمد رخصت ہونے لگے تو انہوں نے ملازم کو حکم دیا کہ سلائی کی مشین جو انہوں نے اپنے خرچ سے منگوائی تھی ۔شیخ نور محمد کے ہاں پہنچا دی جائے ۔ مشین آخر ان کی ملکیت تھی ، اس لیے شیخ نور محمد نے عذر کیا ۔ وہ کہنے لگے کہ مجھے تو اب اس کی ضرورت نہیں اور آپ کے کام کی چیز ہے ، مزید برآں آپ ہمارا کام بھی تو کیا ہی کریں گے ۔ شیخ نور محمد نے اپنے عزیز کو یہ بات سنانے کے بعد کہا کہ اگرچہ ملازمت کا تعلق تو ڈپٹی صاحب سے ختم ہو گیا مگر دوستانہ روابط ان کی وفات تک قائم رہے ۔ شیخ نور محمد ملازمت چھوڑ کر دکان پر برقعوں کی ٹوپیاں یا کلاہ سینے لگے اور یہ ٹوپیاں بے حد مقبول ہوئیں ۔ پھر انہوں نے دھسے بنوا کر فروخت کرنا شروع کر دیے ۔ اسی دوران میں شیخ عطا محمد کی شادی کشمیری راٹھوروں کے خاندان کی ایک لڑکی سے ہوئی ۔ شیخ عطا محمد کے سسرال والوں کا تعلق چونکہ فوج سے تھا ، اس لیے ان کی وساطت سے اور شیخ عطامحمد کے اپنے قد و قامت کے سبب،وہ رسالے میں بھرتی ہو گئے ۔یوں خاندان کے مالی حالات رفتہ رفتہ بہتر ہو نے لگے ۔ اقبال خود بیان کرتے ہیں : اس زمانے میں معمولی دھسوں کی قیمت دو روپے فی دُھسّے سے زیادہ نہ تھی ۔ والدِ ماجد نے کوئی دد چار سو دھسے تیار کیے تو قدرت خدا کی ایسی ہوئی کہ سب کے سب اچھے داموں بک گئے ۔ حالانکہ فی دھسا آٹھ آنے سے زیادہ لاگت نہ آئی تھی ۔ دو چار سو دھسّے فروخت ہو گئے تو کافی روپیہ جمع ہو گیا ۔ پس یہ ابتدا تھی ہمارے دن پھرنے کی ۔ پھر بھائی صاحب بھی ملازم ہو گئے ۵ ۔ شیخ نور محمد کاروبار میں دلچسپی نہ رکھتے تھے ۔ اس لیے روٹی کمانے کے دھندے سے فراغت کے بعد ان کا بیشتر وقت یا تو علما و فضلا کی صحبت میں گزرتا تھا یا یادِ الٰہی میں غور و فکر کی عادت کے علاوہ انہیں تصوف سے بھی بے حد شغف تھا ۔ یہاں تک کہ محی الدین ابن عربی کی تصانیف ، ’’فتوحاتِ مکیہ‘‘ اور’’ فصوص الحکم‘‘ کا درس ان کے گھر پر ہوتا تھا ۔ اس سلسلے میں اقبال خود تحریر کرتے ہیں : شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ کی نسبت کوئی بدظنی نہیں ۔۔۔۔ میرے والد کو ’’فتوحات ‘‘ اور ’’فصوص‘‘ سے کمال تو غل رہا ہے اور چار برس کی عمر سے میرے کانوں میں ان کا نام اور ان کی تعلیم پڑنی شروع ہوئی ۔ برسوں تک ان دونوں کتابوں کا درس ہمارے گھر میں رہا ۔ گو بچپن کے دنوں میں مجھے ان مسائل کی سمجھ نہ تھی ، تاہم محفل درس میں ہر روز شریک ہوتا ۔ بعد میں جب عربی سیکھی تو کچھ کچھ خود بھی پڑھنے لگا اور جوں جوں علم اور تجربہ بڑھتا گیا ، میرا شوق اور واقفیت زیادہ ہوتی گئی ۶۔ شیخ نور محمد ، ابنِ عربی کی تعلیمات سے بے حد متاثر تھے ۔ ان کی شخصیت پر وجودی تصوف کا کس قدر اثر تھا ، اس کا اظہار اقبال نے اپنی ایک بعد کی تحریر میں یوں کیا ہے : ہزار کتب خانہ ایک طرف اور باپ کی نگاہ شفقت ایک طرف اسی واسطے تو جب کبھی موقع ملتا ہے ان کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں اور پہاڑ پر جانے کی بجائے ان کی گرمیِ صحبت سے مستفید ہوتا ہوں ۔ پرسوں شام کھانا کھا رہے تھے اور کسی عزیز کا ذکر کر رہے تھے جس کا حال ہی میں انتقال ہوگیا تھا ۔ دورانِ گفتگو کہنے لگے ، معلوم نہیں بندہ اپنے رب سے کب کا بچھڑا ہوا ہے ، اس خیال سے اس قدر متاثر ہوئے کہ تقریباً بے ہوش ہو گئے اور رات کے دس گیارہ بجے تک یہی حالت رہی ۔ یہ خاموش لیکچر ہیں جو پیرانِ مشرق سے ہی مل سکتے ہیں ۔ یورپ کی درسگاہوں میں ان کا نشان نہیں ۷ ۔ اوپر ذکر آ چکا ہے کہ سیّد میر حسن مسلمانوں میں جدید تعلیم مقبول کرنے کے لیے کوشاں تھے۔ وہ سر سید احمد خان کو ۱۸۷۳ء سے جانتے تھے اور مسلم ایجوکیشن کانفرنس کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شامل ہوتے تھے ۔ اقبال کے سالِ پیدائش یعنی ۱۸۷۷ء میں علی گڑھ کالج کے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں بھی وہ شریک ہوئے ۸ ۔ اس مرحلے میں مسلمانوں میں جدید تعلیم کے فروغ کے سلسلے میں سر سیّد احمدخان (۱۸۱۷ء تا ۱۸۹۸ئ) کی تحریک اور خدمات کا ذکر کرنا اشد ضروری ہے ۔ یہ بتایا جا چکا ہے کہ برصغیر کی انگریزی حکومت مسلمانوں کی سخت مخالف تھی لیکن سر سید کی سعی و کوشش سے مسلمانوں کے ساتھ سرکار برطانیہ کا رویہ رفتہ رفتہ بدلنا شروع ہوا ۔ سر سید نے انگریز حاکموں کی ہمدردی حاصل کرنے کی خاطر انہیں یقین دلایا کہ مسلمان حکومت کے وفادار ہیں اور ساتھ ہی مسلمانوں کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی کہ بدلنے ہوئے حالات میں جب تک وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اپنا زاویہ نگاہ نہ بدلیں گے ان کی من حیث الملت مکمل تباہی لازمی ہے ۔ انگریزی حکومت کو مسلمانوں کی وفاداری کا یقین دلانے کے لیے سر سیّد نے ۱۸۵۸ء میں اپنا کتابچہ ’’اسباب بغاوتِ ہند ‘‘ تحریر کیا ۔ ۱۸۶۰ء اور ۱۸۶۱ء میں انہوں نے ’’ہندکے وفادار مسلمان‘‘ کے موضوع پر تحریروں کا ایک سلسلہ شروع کیا ۔ ۱۸۶۳ء میں انہوں نے ’’تبیین الکلام ‘‘ (نامکمل تفسیر انجیل) شائع کی ۔ ۱۸۶۸ء میں ’’احکام طعام اہل کتاب ’’(یعنی اہل کتاب کے ساتھ بیٹھ کر کھانے کے اصول) لکھی گئی ۔ ۱۸۷۲ء میں ڈاکٹر ہنٹر کی انگریزی کتاب ’’ہندی مسلمان‘‘ پر ایک تبصرہ شائع کیا ۔ ان تحریروں کے علاوہ انہوں نے کئی معذرت خواہانہ اور مناظرانہ کتب لکھیں ۔ مثلاً ۱۸۷۰ء میں ’’خطبات الاحمدیہ ‘‘ (سیرتِ طیبہ پر مضامین کا مجموعہ) شائع کی ۔ تفسیر قرآن موسومہ تفسیر احمد (نامکمل)کی چھ جلدیں ۱۸۸۰ء اور ۱۸۹۵ء کے درمیان طبع کرائیں ۔ ان کی تقاریر، مقالات اور مضامین کی اشاعت بھی جاری رہی ۹ ۔ ’’اسباب بغاوتِ ہند‘‘ میں سر سید نے اس الزام کی تردید کی کہ فوجی سرکشی کے ذمہ دار مسلمان تھے ۔ ان کی رائے میںبغاوت کے کئی اسباب تھے اور ان میں سب سے نمایاں سبب فوج کا غلط انتظام تھا۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ وائسرائے کی قانون ساز کونسل میں ہندوستانیوں کو شریک کیا جائے نیز انہیں اعلیٰ انتظامی اور عدالتی عہدوں پر فائز کیا جائے ۱۰۔ ’’ہندکے وفادار مسلمان‘‘ سلسلۂ تحریر میں انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ انگریز عیسائی ہونے کے بنا پر اہل کتاب ہیں ، اس لیے مسلمان ان کے مخالف نہیں ہو سکتے ۔ ’’تبیین الکلام‘‘ مسلمانوں کو عیسائی مذہب کے اصولوں سے روشناس کرانے کی خاطر تحریر کی گئی ، تاکہ عیسائی مشنریوں اور مبلّغوں کے ساتھ بحث و مناظرہ کرنے سے پیشتر وہ ان کے مذہبی نقطۂ نگاہ سے باخبر ہوں ۔ کتابچہ’’ احکام اہل کتاب ‘‘ ، مسلمانوں اور انگریزوں میں معاشرتی رابطہ کے قیام و فروغ کے پیشِ نظر شائع کیا گیا ۔ اس میں یہ ثابت کیا گیا کہ مسلمان اہل کتاب کے ساتھ بیٹھ کر کھا پی سکتے ہیں ۔ بشرطیکہ وہ حرام اشیاء کو ہاتھ نہ لگائیں ۔ سرسید نے ڈاکٹر ہنٹر کی کتاب پر تبصرے میں یہ ثابت کیا کہ سید احمد بریلوی کے حامیوں نے صرف سکھوں کے خلاف اعلان جہاد کیا اور انہوں نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا اعلان نہیں کیا تھا ۔ ’’خطبات الاحمدیہ ‘‘ ایک معذرت خواہانہ تصنیف تھی جو سر سید نے قیام انگلستان کے دوران تحریر کی ۔ اس میں میور کی انگریزی کتاب ’’سیر تِ محمدؐ‘‘میں درج الزامات کا جواب دیا گیا ہے ۔ تفسیرِ قرآن کی اشاعت کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ اسلام عقلی اصولوں پر مبنی ایک سائنٹیفک مذہب ہے ۔ سر سیّد نے جہاد کے موضوع پر بھی بہت کچھ لکھا۔ ان کی نگاہ میں جہاد مسلمانوں پر جارحیت کے لیے نہیں بلکہ صرف مدافعانہ صورت میں فرض ہے ۱۱ ۔ سرسیّد نے ترکی (یورپین) لباس اختیار کیا اور انگریزوں سے میل جول بڑھایا ۔ ۱۸۶۹ء میں انگلستان گئے اور یورپ کی سیر بھی کی ۔ آپ یورپی تمدن سے بڑے متاثر ہوئے ۔ ۱۸۸۰ء میں واپس آ کر انہوں نے مسلمانوں کی دینی ، اخلاقی ، معاشرتی ، ادبی ، تعلیمی ، اقتصادی اور سیاسی حالت کی اصلاح کے لیے اپنی تحریک شروع کی ۔ اس اصلاحی تحریک کا سبب در اصل وہ تغیر تھا جو برصغیر میں انگریزی حکومت کے استحکام سے وقوع پذیر ہوا اور جس میں سے مسلمان ابھی ابھی گزرے تھے ۱۲ ۔ دینیات کے میدان میں سر سید کی خاص طور پر قابل توجہ کتب ۱۸۷۰ء اور ۱۸۹۸ء کے درمیان شائع ہوئیں۔ ان میں تقلید کی بجائے تحقیق پر زور دیا گیا ہے ۔ الطاف حسین حالی ؔ ’’حیاتِ جاوید‘‘میں لکھتے ہیں کہ سر سید کی ابتدائی دینی تعلیم نامکمل رہی اور اسی طرح انگریزی تعلیم سے بھی وہ پوری طرح آشنانہ تھے ، جس کے سبب مغربی تمدن کو صحیح طور پر سمجھنا ان کے لیے آسان نہ تھا ۔ حالیؔ کے نزدیک یہ کیفیت بے حد مناسب تھی ۔ کیونکہ اگر پرانے ماحول میں ان کی دینی تعلیم مکمل ہو گئی ہوتی تو تقلید کی زنجیر میں جکڑے رہتے اور ان میںنئے تمدن کے سمجھنے کے لیے تجسّس پیدا نہ ہوتا ۔ دوسری طرف یورپ کا تمدنی ارتقاء جو اکثر ہندوستانی طلبہ کی نگاہوں کو اس قدر خیرہ کر دیتا تھا کہ وہ اپنے ملک کے تمدنی مستقبل سے مایوس ہو جاتے انہیں یوں متاثر نہ کر سکا ، کیونکہ وہ نئے تمدن یا مغربی تہذیب سے پوری طرح واقف نہ تھے ۱۳ ۔ سر سیّد کو غالباً احساس تھا کہ جدید سائنس اسلام کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے ، لیکن جدید سائنس کا مطالعہ چونکہ وہ مسلمانوں کے لیے از حد ضروری خیال کرتے تھے ، اس لیے ان کے نزدیک اسلامی نظریات کی تشریح روایتی انداز میں کرنے کی بجائے نئے اور بدلے زاویہ نگاہ سے کرنا لازمی تھی ۔اس کے علاوہ عیسائی مشنریوں کے اسلام پر حملے نے انہیں مدافعانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور کر رکھا تھا ۔ عیسائی مشنریوں کا استدلال عموماً یہ ہوتا کہ اسلام ایک غیر عقلی مذہب ہے جو انسان کے تمدنی ارتقا کا مخالف ہے۔ سر سید کی رائے میں جدید سائنس چونکہ تجربہ و مشاہدہ پر مبنی ہے ، اس لیے دہریت کی طرف لیے جاتی ہے لیکن اگر جدید سائنس کی تحقیقات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام کی تشریح سے متعلق نیا علم الکلام ترتیب دیا جائے تو مسلمان اسلام کو زندگی کے جدید تقاضوں کے عین مطابق پائیں گے اور اسلام پر ان کا ایمان مضبوط ہو گا ، ان کے نزدیک اسلام ایک فطری یا نیچری مذہب تھا ، کیونکہ جدید سائنس جن نتائج پر پہنچی تھی، وہ قرآنی تعلیمات سے ہم آہنگ تھے ۱۴ ۔ یہ محض سر سید کے زاویہ نگاہ کی تبدیلی تھی ۔ا ن کے افکار میں کوئی جدت یا نئی بات نہ تھی ، کیونکہ وہ اپنے خیالات میں تاریخِ فکرِ اسلامی کی کسی نہ کسی شخصیت کے نظریات سے مطابقت رکھتے تھے ۔ سر سید کی عقلی اصولوں پر مبنی اسلام کی تشریح سے یہ تاثر لینا کہ وہ ہم عصر مغرب میں رائج فلسفۂ عقلیت سے مرعوب تھے یا دینیات کے میدان میں ان کی تحریریں یورپی فلسفہ عقلیت کی بازگشت تھیں ، درست نہیں ، کیونکہ انہوں نے کبھی مغربی فلسفے کا مطالعہ نہ کیا تھا ۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اسلام کے معتزلہ مدرسۂ فکر کے علماء سے اثر ضرور قبول کیا ۔ ان کی رائے میں جب تک تحقیق کا جذبہ مسلمانوں میں زندہ رہا ، ان کا عمل تخلیقی تھا اور سائنس یا ترقی اسلام سے متصادم نہ ہوئے ، مگر جو نہی تحقیق کی جگہ تقلید نے لی اسلام متحرک ، فعال اورتخلیقی مذہب ہونے کی بجائے ایک جامد مذہب بنا دیا گیا اور اس کی دینیات میں یہودی ، عیسائی اور ہندو نظریات یا مقامی رسوم ورواجات خلط ملط ہو گئے ۱۵ ۔ سر سیّد کے مذہبی نظریات کی نوعیت ذاتی تھی ۔ وہ دوسروں پر اپنے نظریات ٹھونسنا یا انہیں اپنا قائل کرنا نہ چاہتے تھے ، نہ ان کا مقصد اپنی زیر قیادت کسی نئے مذہبی فرقے کی بنیاد رکھنا تھا ۔ اس لیے دینیات کے شعبے میں ان کی تحریک بے جان ثابت ہوئی ۔ اس دور کے دیگر مصلحین مثلاً جسٹس سید امیر علی ، مولوی خدا بخش اور مولوی چراغ علی نے بھی اپنے اپنے انداز میں اسلام کی تشریح کے لیے کتب تحریر کیں ۔ مگر ان کی نوعیت مدافعانہ اور معذرت خواہانہ تھی۔ علماء نے سر سید کے مذہبی نظریات کی شدید مخالفت کی ۔ اس مخالفت کے سبب مسلمانوں میں جدید تعلیم کے فروغ کے لیے ان کی تحریک بھی متاثر ہوئی ، کیونکہ عام طور پر شبہ ہونے لگا کہ مسلمانوں کی نئی نسل میں جدید تعلیم کے ذریعے سر سید اپنے مذہبی نظریات پھیلانا چاہتے ہیں لہٰذا مکہ کے مفتیوں سے ان کے خلاف کفر کے فتوے حاصل کر کے شائع کیے گئے ۔ انہیں دہریت اور دجال کے القاب سے پکارا گیا ۔ ایک مرتبہ جان لینے کی بھی کوشش کی گئی ، لیکن سر سید اپنے مذہبی نظریات پر قائم رہے ۔ غالباً اسی بنا پر علماء نے ۱۸۹۰ء میں لکھنؤ میں ندوۃ العلماء اور بعد میں دارالعلوم کی بنیاد رکھی ۱۶ ۔ سر سید کی اخلاقی اور معاشرتی اصلاح کے لیے تحریک بھی برصغیر میں سیاسی تغیر کا نتیجہ تھی ۔ راجہ رام موہن رائے ، جیسے مصلحین نے نصف صدی پیشتر اپنے ہم مذہبوں کو مغربی تمدن کی اہمیت کا احساس دلایا تھا اور ہندو اپنے معاشرے کی تعمیر نو میں مسلمانوں سے تقریباً پچاس سال آ گے نکل چکے تھے ۱۷ ۔ سر سید نے انگلستان سے واپسی کے فوراً بعد اپنا رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ جاری کیا جس میں مضامین کے ذریعے وہ اور ان کے حامی ، پڑھے لکھے مسلمانوں کو تبدیلی کا احساس دلانے یا اپنا زاویۂ نگاہ بدلنے کی ترغیب دینے لگے ۔ سر سیّد کی رائے میں برصغیر میں انگریزی حکومت کا قیام مسلم معاشرہ کو لاحق تمام عارضوں کا واحد سبب نہ تھا بلکہ مسلمانوں کی غلامی اور ابتری کا باعث در اصل ان کی جہالت ، ضعیف الاعتقادی ، خود غرضی ، تکبر ، قدامت پسندی اور تنگ نظری کے علاوہ قوت عمل اور جذبۂ اخوت کا فقدان تھا۔ ان کے نزدیک کسی ملت کی عظمت کا دارومدار اس کے افراد کے انداز فکر اور عمل پر ہوتا ہے جو انفرادی مفاد کی بجائے اجتماعی مفاد کے حصول کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔ ’’تہذیب الاخلاق ‘‘ ، وسیع النظری ، عدل و انصاف ، اپنی مدد آپ اور ترقی کے اصولوں کی تشہیر کرتا تھا ۔ مسلمانوں میں اخوت کے جذبے کے فروغ کا حامی تھا ، ان میں جدید تعلیم اور بالخصوص سائنس کی تعلیم کی تحصیل کی ضرورت پر زور دیتا تھا ۔ وہ قدامت پسندی ،غفلت ، بیکاری ، بداخلاقی ، ضعیف الاعتقادی ، غیر اسلامی رسوم و رواجات کی پابندی اور ہر اس بات کے خلاف تھا جو مسلمانوں کو متمدن دنیا کی نگاہوں میں رسوا کرنے والی ہو ۱۸ ۔ ’’ تہذیب الاخلاق‘‘ بارہ سال تک جاری رہا ۔ حالی کی رائے میں اس سے مسلمانوں کا متوسط الحال طبقہ (جو نہ تو مکمل طور پر جاہل تھا اور نہ جدید تعلیم کے زیرِ اثر روشن خیال)متاثر ہوا ۔ مگر علماء اس رسالے کے سخت خلاف تھے کیونکہ ان کے نزدیک وہ اسلام کو نقصان پہنچا رہا تھا ۔ اس میدان میں سر سید کی کوششُں کا مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ پڑھے لکھے مسلمانوں میں ایک نیا ادبی ذوق پیدا ہوا ۔ ابھی تک شعراے اردو نے شاعری میں فارسی لہجہ اور انداز اپنا رکھا تھا اور ان کے موضوع محدود تھے ۔ اردو نثر نے بھی کوئی قابلِ ذکر ترقی نہ کی تھی لیکن نئے شاعروں نے ملت کی فلاح و بہبود اور ترقی کی خاطر بامقصد شاعری کی بنیاد رکھی۔ اسی طرح اردو نثر میں بھی تغیر آیا ۔ ۱۸۶۳ء میں سر سید نے غازی پور میں پریس قائم کیا اور تب سے مسلمانوں میں طباعت و اشاعت کا سلسلہ وسیع ہوتا چلا گیا ۱۹ ۔ جدید تعلیم کے فروغ کے سلسلے میں سر سید نے جو خدمات انجام دیں وہ بے حد عظیم تھیں ۔ مسلمانوں میں انگریزی تعلیم کی مخالفت کے کئی سبب تھے ۔ حالی کے نزدیک مسلمان اجنبی زبانوں کو سیکھنے کی اہلیت نہ رکھتے تھے ، کیونکہ و ہ عموماًجہاں کہیں بھی آباد ہوئے ، اپنی زبانیں اور ادب ساتھ لے کر گئے۔ کئی صدیوں میں انہوں نے اپنا ایک مخصوص تعلیمی نظام ترتیب دیا جو دینیات اور دنیاوی علوم کا عجیب و غریب مرقع تھا ۔ بعدازاں یہ تعلیمی نظام اسلام کا جزو سمجھا جانے لگا ۔ مسلمان اپنے تعلیمی نظام پر ہمیشہ فخر کرتے تھے اور اسے دوسرے نظاموں سے افضل خیال کرتے تھے ۔ اس لیے ۱۸۳۵ء میں جب سرکارِ برطانیہ نے ان کا نظام معطل کر کے انگریزی نظام تعلیم نافذ کیا تو مسلمان نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ مسلمانوں کو شبہ تھا کہ نئی تعلیم ان کے بچوں کو اسلام سے منحرف کرنے کی خاطر رائج کی گئی ہے لہٰذا ہندو بچے کے برعکس ، مسلم بچے کو انگریزی اسکول میں داخلے سے پہلے دینی تعلیم کی تکمیل کے لیے درس گاہ یا مکتب بھیجا جاتا اور وہ انگریزی اسکول میں ہندو بچے کی نسبت زیادہ عمر میں داخل ہوتا ۔ تعلیم مکمل کر لینے کے بعد مسلم نوجوان کے لیے کوئی باعزت ملازمت ملنے کا امکان نہ تھا کیونکہ اس دور میں ایسی تمام ملازمتوں کے دروازے انگریزی حکومت نے مسلمانوں پر بند کر رکھے تھے ۔ ویسے بھی مسلمان ، ہندوئوں کے مقابلے میں معاشی طور پر زیادہ پسماندہ تھے اور ان کے لیے نئی تعلیم کی تحصیل ممکن نہ تھی ۔ حالیؔ تحریر کرتے ہیں کہ کلکتہ ، مدراس ، بمبئی اور برصغیر کے دیگر بڑے شہروں کی یونیورسٹیوں میں ، جنہیں سرکاری امداد حاصل تھی ، ۱۸۵۸ء سے لے کر ۱۸۷۵ء تک مسلم گریجوایٹوں کی کل تعداد بیس تھی اور ان کے مقابلے میں ہندو گریجوایٹوں کی تعداد آٹھ سو چھیالیس تھی ۲۰ ۔ نئے تعلیمی نظام پر مسلمانوں کا بڑا اعتراض یہ تھا کہ وہ سیکولر یا لا دین تھا ۔ جس کے سبب مسلم نوجوانوں میں دہریت کے فروغ کا احتمال تھا ۔ نیز وہ یہ سمجھتے تھے کہ نیا تعلیمی نظام ایک غیر ملکی اور غیر مسلم قوم کا نظام تھا جو مسلمانوں کی تمدنی اور معاشرتی روایات کا قلع قمع کر کے ان پر ایک اجنبی تمدن کی اقدار ٹھونسنے کے درپے تھا ۔ بہرحال ۱۸۷۰ء میں سرکارِ برطانیہ نے مسلمانوں میں جدید تعلیم کے فروغ کے لیے ان کے اعتراضات کی روشنی میں دلچسپی لینا شروع کی ۔ حکومت کو فارسی اور عربی زبانوں کی اہمیت کا احساس ہوا ، اور تعلیمی اداروں میں ان زبانوں کو انگریزی زبان کے ساتھ پڑھائے جانے کا اہتمام کیا گیا۔ مسلم تعلیمی اداروں کو دیگر غیر سرکاری تعلیمی اداروں کی طرح مالی امداد دی گئی اور مسلم طلبہ کے لیے وظائف کا انتظام کیا گیا ۔ ۱۸۸۲ء میں تعلیمی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں مسلمانوں سے ہمدردی کا اظہار کیا اور سفارش کی کہ ان کی تمدنی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے نظام میں مناسب ترامیم کی جائیں۲۱ ۔ سر سیّد ۱۸۵۸ء سے انگریزی زبان سیکھنے کے حامی تھے ۔ پہلے تو ان کا خیال تھا کہ جدید سائنس پر انگریزی کتب کا ترجمہ اردو میں کر دیا جائے تاکہ جدید علوم مسلمانوں کی مانوس زبان میں منتقل ہو سکیں ۔ اس سلسلے میں انہوں نے ۱۸۶۳ء میں غازی پور میں سائنٹیفک سوسائٹی قائم کی اور ترجمے کا کام شروع ہوا۔ ۱۸۶۴ء میں یہ سوسائٹی غازی پور سے علی گڑھ منتقل ہوئی اور اس سوسائٹی کی طرف سے ایک انگریزی رسالہ ’’علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ‘‘ بھی ۱۸۶۶ء میں شائع کیا گیا ، جو ۱۸۹۵ء تک جاری رہا ، لیکن ترجمے کے کام اور جدید سائنس کی کتب کو اردو قالب میں ڈھالنے کی کوشش ناکام رہی ۲۲ ۔ انگلستان میں قیام کے دوران جدید یونیورسٹیوں کے انتظام کو سمجھنے کی خاطر سر سید کیمبرج یونیورسٹی گئے ۔ واپسی پر انہوں نے مسلم ایجوکیشن کانفرنس قائم کی ۔ جس کا مقصد مسلمانوں کی دینی اور تمدنی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں جدید تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے نصاب ترتیب دینا تھا ۔ اس کے بعد روپیہ فراہم کرنے کی خاطر فنڈ کمیٹی قائم ہوئی تاکہ ایک مسلم کالج تعمیر کیا جا سکے۔ علماء کی مخالفت کے باوجود خاصا روپیہ اکٹھا ہوا ۔ بالآخر ۱۸۷۷ء میں وائسرائے لارڈ لٹن نے علی گڑھ میں اینگلو اورئینٹل کالج کی بنیاد رکھی ۔ جسے ۱۹۲۰ ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بنا دیا گیا ۲۳ ۔ کالج کے نصاب میں مشرقی علوم کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان و ادب ، جدید سائنس اور نئے علوم کے مطالعہ کے لیے بھی انتظام کیا گیا تھا ۔ آرٹ اور سائنس کی تعلیم کے ساتھ دینیات کی تعلیم بھی لازمی تھی ۔ چونکہ مسلمانوں نے سر سید کے مذہبی نظریات قبول نہ کیے تھے ، اس لیے وہ دینیات کے شعبے سے لاتعلق رہے ۔ بہرحال سنی اور شیعہ طالب علموں کو ان کے عقائد کے مطابق دینیات کی تعلیم دی جاتی۔ کالج میں کھیلوں اور دیگر ادبی ، معاشرتی اور ثقافتی تفریحوں کا انتظام بھی کیا گیا تھا ۔ ہندو طلبہ بھی کالج میں داخل ہو سکتے تھے ۔ ان کے لیے دینیات کا مطالعہ لازمی نہ تھا ۔ کالج میں گائے کا ذبیحہ ممنوع تھا اور ہوسٹل میں کھانے کی میز پر گائے کا گوشت نہ رکھا جاتا ۲۴ ۔ اس مرحلے پر سر سید کے سیاسی نظریات کا ذکر کر دینا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ وہ مسلمانوں کی انگریزی حاکموں کے خلاف محاذ آرائی کے مخالف تھے ۔ ان کی خواہش تھی کہ مسلمان حکومت کے ساتھ وفاداری کا دم بھریں اور فائدہ اٹھائیں ۔ سرکاری ملازمتیں حاصل کریں یا اپنے آپ کو تعلیمی اور معاشی طور پر مضبوط کریں ۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ۱۸۶۶ء میں ایک نیم سیاسی تنظیم برٹش انڈیا ایسوسی ایشن قائم کی ۲۵ ۔ ۱۸۷۸ء سے لے کر ۱۸۸۲ء تک وہ وائسرائے کی قانون ساز کونسل کے ممبر رہے ۔ سر سید کی رائے میں مسلمانوں کی عزبت و افلاس کا اصل سبب ان میں اخوت کے جذبے کا فقدان اور بحیثیت مجموعی اپنی معاشی حالت سدھارنے کی طرف بے حسی یا بے پرواہی تھا ۔ انہوں نے اپنی تقریروں میں کئی بار مسلمانوں کو تجارت اور صنعت کے میدانوں میں دلچسپی لینے کی ترغیب دی اور مسلم کاشتکاروں اور زمینداروں کو کاشت کاری کے جدید طریقے اپنانے کی طرف توجہ دلائی ۔ ۱۸۸۲ء میں لدھیانے کے مسلم طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس ملک میں تمام وہ افراد جو مسلمان ہیں ، ان کا تعلق ایک مخصوص قوم یا ملت سے ہے ۔ ۱۸۸۳ء میں انہوں نے سی پی کے لوکل سلیف گورنمنٹ بل کی مخالفت کی ۔ ان کا موقف یہ تھا کہ ہندوستان بجائے خود ایک براعظم ہے، جس میں کئی ملتیں آباد ہیں ، جن کا تعلق مختلف مذہبوں اور تمدنوں سے ہے ، ان میں سیاسی طور پر یک جہتی ہے نہ معاشی طور پر ۔ لہٰذا ان حالات میں یہاں کسی بھی قسم کی نمایندہ حکومت کا قیام کئی سیاسی اور معاشی مسائل کھڑے کر دے گا ۔ ان کی رائے میں جب تک ہندوستان میں مذہبی اختلافات اور معاشی تضادات ختم نہیں ہو جاتے ، یہاں نمایندہ حکومت کے قیام کا مطلب یہ ہو گا کہ اکثریت ہمیشہ اقلیت کو سرنگوں رکھے گی اور جمہوریت کے نفاذ کے ذریعے نتیجہ جمہوریت ہی کے تقاضوں کی مکمل نفی ہو گا ۔ سر سید کے خیال میں ہندو اکثریت جب چاہے مسلم اقلیت کو ختم کر سکتی تھی کیونکہ ملک کی اندرونی تجارت کا ملاً ہندوئوں کے ہاتھ میں تھی اور بیرونی تجارت پر انگریز حاوی تھے ۲۶ ۔ ۱۸۸۵ء میں بمبئی میں آل انڈیا کانگرس کی بنیاد رکھی گئی ۔ اس کے ایک سال بعد یعنی ۱۸۸۶ء میں سر سید نے علی گڑھ میں محمڈن ایجوکیشنل کانگرس قائم کی ، کیونکہ ان کے نزدیک مسلمانوں کے لیے ملکی سیاست میں حصہ لینے کی بجائے جدید تعلیم کی طرف اپنی توجہ مبذول کرنا ضروری تھا ۔ ۱۸۸۷ء میں انہوں نے لکھنؤ میں اپنی مشہور تقریر میں مسلمانوں کو کانگرس میں شامل ہونے سے منع کیا ۔ ہندوتعلیمی اور معاشی طور پر مسلمانوں سے بہت آگے نکل چکے تھے ۔ اس زمانے میں ملک کی انتظامیہ یا عدلیہ کے محکموں میں جو بھی آسامیاں ہندوستانیوں کے لیے مخصوص تھیں ، ان میں سے اکثر پر ہندو فائز تھے ۔ اس لحاظ سے کانگرس کے قیام کا مقصد بنیادی طور پر ہندو متوسط طبقہ کے لیے زیادہ تعداد میں سرکاری ملازمتوں کا حصول تھا ۔ سر سید نے مسلمانوں پر واضح کیا کہ تعداد میں وہ ہندوئوں سے بہت کم ہیں ۔ نیز تعلیمی اور معاشی اعتبار سے بھی وہ ان کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں ، اس لیے اگر ہندوستان میں نمائندہ حکومت قائم ہو گئی تو تعلیمی اور معاشی طور پر پسماندہ مسلم اقلیت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہندو اکثریت کی دست نگر ہو جائے گی ۲۷ ۔ ہندوستان میں ہندو متوسط طبقے کے لیے زیادہ تعداد میں سرکاری ملازمتوں کی فراہمی کی خاطر احتجاج ۱۸۷۶ء سے شروع ہوا ، جب کلکتہ میں سریندر ناتھ بینرجی نے انڈین ایسوسی ایشن قائم کی ۔ دوسرے لفظوں میں اس اجتماع کی ابتداء بنگالی ہندوئوں نے کی جو سب سے پہلے نئی تعلیم اور تمدن کے زیر اثر آتے تھے ۔ بنگال کے ہندو پریس نے سر سیّد اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنا شروع کیا ۲۸ ۔ ۱۸۸۵ء میں کانگرس کے قیام کے کچھ عرصہ بعد یہ تنظیم بی ۔ جی۔ تلک کے زیر قیادت آ گئی۔ تلک ایک نہایت متعصب اور جنگجو قسم کے سیاسی کارکن تھے ۔ ان کی تقریریں مسلمانوں کے خلاف زہر سے بھری ہوئی ہوتیں ۔ انہوں نے ہندوئوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے کے لیے مرہٹوں کی ایک پرانی رسم از سر نو رائج کی جس کے ذریعے شیوا جی کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ۔ اسی طرح انہوں نے گائے کے ذبیحے کے امتناع کے لیے سوسائٹی قائم کی اور حکومت کے نافذ کردہ اس قانون کے خلاف منظم مظاہرہ کیا کہ بوقت نماز مساجد کے سامنے ڈھول ڈھمکا نہ بجایا جائے ۔ تلک کی نگاہ میں مسلمان ایک غیر ملکی عنصر تھا جس کا قلع قمع کرنا یا جسے ہندوستان کی سرزمین سے خارج کرنا از حد ضروری تھا ۔ ان سب اقدامات کا نتیجہ یہ ہوا کہ ۱۸۹۳ء میں بمبئی میں ہندو مسلم فساد ہو گیا جس میں بہت سے مسلمانوں کی جانیں تلف ہوئیں ۔ گویا ابتداء ہی سے کانگرس کے ذریعے ہندوستانی قومیت کے جذبے کی تشہیر کو دراصل ہندو قوم پرستی کے فروغ کے مترادف سمجھا جانے لگا اور سوراج (آزادی)سے مراد ہندو راج لی جانے لگی ۔ ان حالات میں ہندو اکثریت کے مقابلے میں مسلمانوں کے لیے مدافعانہ رویہ اختیار کر نے کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا ۲۹ ۔ اس زمانے کی نیم سیاسی مسلم تنظیمیں اسی مدافعانہ نقطہ نظر سے وجود میں لائی گئیں ۔ ۱۸۶۳ء میں نواب عبداللطیف کی محمڈن سوسائٹی اور ۱۸۷۷ء میں سید امیر علی کی کلکتہ والی سنٹرل نیشنل محمڈن ایسوسی ایشن کا مقصد مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ تھا ۔ سر سید نے کانگرس کے مقابلہ میں علی گڑھ میں ۱۸۸۸ء میں یونائٹیڈ انڈیا پیٹر پیاٹک ایسوسی ایشن بھی قائم کی تھی لیکن ۱۸۹۳ء میں بمبئی کے ہندو مسلم فساد کے بعد انہوں نے اس تنظیم کو توڑ کر اس کی جگہ محمڈن اینگلو اورئینٹل ڈیفنس ایسوسی ایشن آف اپر انڈیا قائم کی ۔ سر سید ۱۸۶۷ء کے اردو ہندی تنازع سے بھی بے حد متاثر ہوئے ۔ ہندوستان میں فارسی اور عربی زبانوں کی معطلی کے بعد ۱۸۳۵ء سے اردو ، عدالتوں کی زبان کے طور پر رائج تھی ۔ ۱۸۶۷ء میں بنارس کے متعصب ہندوئوں نے اردو کے خلاف تحریک چلائی کہ اس مسلم زبان کا خاتمہ کرکے ہندی زبان رائج کی جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے یوپی ، بہار اور دیگر صوبوں میں ہندوئوں نے انجمنیں قائم کیں ۔ ’’حیاتِ جاوید ‘‘میں حالی تحریر کرتے ہیں کہ ہندوئوں کے اردو کے خلاف اس تعصب سے سر سید بے حد رنجیدہ ہوئے اور اس کے بعد خصوصاً مسلمانوں کے ملّی مستقبل کی طرز پر سوچنے لگے۔انہوں نے شکسپئر کمشنر بنارس سے پیش گوئی کے طور پر کہا کہ اب ہندوئوں اور مسلمانوں میں اتحاد کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو گا ۔ اس وقت گو بظاہر ان کے اختلافات کم ہیں لیکن جوں جوں پڑھے لکھے طبقہ کی تعداد میں اضافہ ہو گا ، اختلافات بڑھتے چلے جائیں گے اور آپس میں اعتماد کی عدم موجودگی ان میں نفرت و افتراق کا بیج بو دے گی ۔ ان کے بعد آنے والے اس حقیقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے ۳۰ ۔بہار میں اردو کی بجائے بہاری رائج کر دی گئی ۔ دیگر صوبوں میں ہندوئوں نے ہندی رائج کرنے کے لیے اپنی مہم جاری رکھی لیکن سر سید تا دم مرگ اردو زبان کی حمایت میں لکھتے رہے ۔ ۱۸۸۴ء میں سر سید نے پنجاب کا دورہ کیا اور مسلمانوں کو نئی تعلیم کے حصول کی اہمیت کا احساس دلانے کے لیے کئی تقریریں کیں ۔ سرسید کو پنجاب میں جن افراد پر اعتماد تھا اور جن کا وہ احترام کرتے تھے، ان میں اقبال کے استاد سید میر حسن بھی تھے ۔ ۱۸۹۵ء میں جب مسلم ایجوکیشن کانفرنس کا اجلاس لاہور میں ہوا تو اس میں انہوں نے شرکت کی ۳۱ ۔ اقبال کی ابتدائی طالب علمانہ زندگی پر سید میر حسن (۱۸۴۴ء تا ۱۸۲۹ئ) کی شخصیت حاوی ہے ۔ سید میر حسن ایک روشن فکر اہلِ علم تھے، جو مصالح دین اور مصالح دنیا کو ایک ساتھ پیشِ نظر رکھ کر شاگردوں کی تربیت کرتے تھے۔وہ نہ صرف علوم اسلامی اور عرفان و تصوف سے آگاہ تھے بلکہ علومِ جدیدہ ، ادبیات ، لسانیات اور ریاضیات کے بھی ماہر تھے ۔ ان کے پڑھانے کا انداز ایسا تھا کہ اپنے شاگردوں میں اردو ، فارسی اور عربی کا صحیح لسانی ذوق پیدا کر دیتے ۔ انہیں عربی ، فارسی ، اردو اور پنجابی کے ہزاروں اشعار از بر تھے ۔ فارسی کے کسی شعر کی تشریح کرتے وقت وہ اس کے مترادف اردو اور پنجابی کے بیسیوں اشعار پڑھ ڈالتے تاکہ اس کا مطلب پوری طرح ذہن نشین ہو جائے ۔ اپنی تدریسی مصروفیات کے باوجود مسلسل اور متواتر مطالعہ بھی جاری رکھتے ۔ وہ ایک راسخ العقیدہ اور عبادت گزار مسلمان تھے ۔ حافظِ قرآن تھے اور قرآنِ مجید سے بے حد شغف رکھتے تھے ۔ مجسمِ اخلاق تھے ۔ عام طور پر نہایت فصیح اور سلجھی ہوئی اردو میں بات چیت کرتے ۔ سادگی ، سنجیدگی،قناعت ، استغنا ، تواضع ، خوش طبعی اور احسان مندی ان کے مزاج کی نمایاں خصوصات تھیں۔ انہیں شاگرد شاہ صاحب کہہ کر خطاب کرتے ۔ ان کا معمول تھا کہ نماز تہجد یا نماز فجر سے فراغت پا کر ہر روز سب سے پہلے قبرستان جاتے اور اپنے اعزہ و احباب کی قبروں پر فاتحہ پڑھتے۔ شاگرد انہیں قبرستان ہی میں آ ملتے اور واپسی پر سارا رستہ سبق لیتے گھر پہنچ کر پھر تدریس میں مصروف ہو جاتے ۔ اسکول کے وقت سے پیشتر جلدی جلدی کھانا کھاتے اور اسکول چل دیتے ۔ رستہ میں بھی شاگرد ساتھ لگے رہتے تھے۔ دن بھر اسکول میں پڑھاتے ، شام کو گھر آتے اور تدریس کا سلسلہ رات تک جاری رہتا ۔ سودا سلف بازار سے خود لاتے ، اس آمدو رفت میں بھی شاگرد ساتھ نہ چھوڑتے ۔ سیّد میر حسن کی زندگی نہایت سادہ اور غریبانہ تھی ۔ وہ معمولی مگر صاف ستھرا لباس زیبِ تن کرتے ۔ تمام عمر اسکاچ مشن اسکول ہی سے وابستہ رہے جہاں ان کی تنخواہ ان کی وفات تک ایک سو بیس روپے سے زائد نہ ہونے پائی ۳۲ ۔ سیّد میر حسن نے اقبال کو عربی ، فارسی اور اردو ادبیات ، علم و حکمت ، تصوف وغیرہ کی تعلیم دے کر ان کے دل میں علومِ قدیمہ اور اسلامیہ کے لیے بے پناہ شیفتگی پیدا کر دی تھی ۔ اقبال کی اپنی طبیعت کی سادگی ، قناعت ، استغنا ، ظرافت اور نکتہ سنجی ، سب سید میر حسن کے مزاج کا عکس تھیں ۔ جب تک وہ زندہ رہے ، اقبال ان کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے علمی مسائل میں ان سے ہدایت و رہبری لیتے رہے ۔ بعض اوقات انہیں مطالعے کے لیے نئی کتب ارسال کرتے تھے ۔ اقبال بارہا یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ شاہ صاحب کی صحبت میں بیٹھ کر اطمینان خاطر نصیب ہوتا ہے اور فکر مندی دور ہو جاتی ہے ۔ اقبال ان کا بے حد احترام کرتے تھے ،یہاں تک کہ ان کے روبرو انہیں کبھی شعر سنانے کی جرأت نہ ہوئی ۳۳ ۔ اس سلسلے میں اقبال نے اپنے لڑکپن کا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ شاہ صاحب کے سامنے صرف ایک مرتبہ ان کی زبان سے ایک مصرع نکل گیا اور وہ بھی اتفاقی طور پر ۔ ہوا یوں کہ شاہ صاحب کسی کام کے لیے گھر سے نکلے ۔ ایک بچہ احسان نامی ، جو ان کے عزیزوں میں سے تھا ، ان کے ہمراہ تھا ۔ شاہ صاحب نے فرمایا ، اقبال اسے گود میں اٹھا لو ۔ اقبال نے اسے اٹھا تو لیا مگر تھوڑی دور چل کر تھک گئے ۔ چنانچہ انہوں نے احسان کو کسی دکان کے تختے پر کھڑا کر دیا اور خود سستانے لگے ۔ شاہ صاحب بہت آ گے جا چکے تھے ۔ اقبال کو نہ پا کر لوٹے اور ان کے قریب پہنچ کر کہا : ’’اس کی برداشت بھی دشواری ہے؟‘‘ اقبال کے منہ سے بے اختیار نکل گیا : ’’تیرا احسان بہت بھاری ہے ‘‘ اقبال کو سر سیّد اور علی گڑھ تحریک کا احساس سید میر حسن کی وساطت سے ہوا تھا ۔ اسی نسبت کی بنا پر بعد میں جب اقبال کی ملاقات سرسید کے پوتے سر راس مسعود سے ہوئی تو ان کے گہرے دوست بن گئے اور ان سے والہانہ محبت کرنے لگے ۔ ۱۸۹۸ء میں جب سر سید کی وفات کا تار سید میر حسن کو ملا تو وہ اسکول جا رہے تھے ۔ رستے میں اقبال مل گئے جو ان دنوں تعطیلات گزارنے کے لیے لاہور سے سیالکوٹ آئے ہوئے تھے ۔ سید میر حسن نے انہیں سر سید کی رحلت کی اطلاع دی اور فرمایا کہ مادئہ تاریخ نکال دیں ۔ اقبال قریب ہی کسی دکان پر جا بیٹھے اور تھوڑی ہی دیر میں مادئہ تاریخ نکال دیا : اِنِّی مُتَوَفِّیکَ و رأفِعکَ اِلَّیَ ومُطَہّرِکَ ۳۴ ۔ سید میر حسن نے اسکول سے واپسی پر جب یہ مادہ سنا تو اس کی تعریف کی ۔ پھر کہا میں نے بھی ایک مادہ نکالا ہے : غَفَّرلہٗ ۳۵ ۔ ۱۹۰۵ء میں اقبال نے انگلستان جاتے ہوئے دہلی میں جو نظم ’’التجائے مسافر ‘‘خواجہ نظام الدین اولیاؒ کے مزار پر پڑھی تھی ۔ اس میں سید میر حسن کے متعلق یہ اشعار ہیں : وہ شمعِ بارگہِ خاندانِ مرتضوی رہے گا مثلِ حرم ، جس کا آستاں مجکو نفس سے جس کے ، کھلی میری آرزو کی کلی بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجکو دعا یہ کر کہ خداوندِ آسمان و زمین کرے پھر اس کی زیارت سے شادماں مجکو اقبال کو ۱۹۲۳ء میں ’’سر‘‘ کے خطاب کی پیش کش کی گئی تو انہوں نے گورنر پنجاب سے کہا کہ جب تک ان کے استاد سید میر حسن کی علمی خدمات کا اعتراف نہ کیا جائے ۔ وہ خطاب قبول نہ کریں گے ۔ گورنر نے پوچھا کہ کیا سید میر حسن کی کوئی تصانیف ہیں ؟ اقبال نے جواب دیا ، میں خود ان کی تصنیف ہوں ۔ چنانچہ اقبال کے خطاب کے موقع پر سید میر حسن کو بھی شمس العلماء کا خطاب ملا۔ سیّد میر حسن کی وفات پر اقبال نے مادئہ تاریخ نکالا : ’’ما اَرْسَلْنٰک اِلاَّ رَحْمَۃً لِلعٰلَمِیْن ‘‘ ۳۶ ۔ اقبال نے سیّد میر حسن کے متعلق اپنے جذبات کا اظہار یوں بھی کیا ہے ؎ مجھے اقبال اس سیّد کے گھر سے فیض پہنچا ہے پلے جو اس کے دامن میں ، وہی کچھ بن کے نکلے ہیں اقبال کی سیالکوٹ میںزندگی سے متعلق جو مواد ملتا ہے ، اس کی بنا پر ان کی حیات کے اوائلی دور کا کسی حد تک تعین کیا جا سکتا ہے ۔ شیخ عطا محمد کی دوسری شادی کے وقت اقبال پانچویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ ان کی بھاوج بیان کرتی ہیں کہ اقبال کو شعروں سے بڑی دلچسپی تھی نیز ان کی آواز بھی بہت شیریں تھی ۔ وہ بازار سے منظوم قصے خرید لاتے اور گھر کی عورتوں کو خوش الحانی سے پڑھ کر سناتے ۔ اسی طرح ان کا بیان ہے کہ اقبال چھوٹی عمر ہی سے بے حد ذہین تھے ، پڑھائی کا بڑا شوق تھا اور سخت محنت کرتے تھے ، یہاں تک کہ رات گئے تک پڑھتے رہتے ۔ ایک دفعہ نصف شب کے قریب بے جی کی آنکھ کھل گئی ۔ دیکھا کہ اقبال لیمپ کے پاس بیٹھے اسکول کا کام کر رہے ہیں بے جی نے انہیں دو تین مرتبہ پکارا لیکن کوئی جواب نہ پایا ۔ پھر انہوں نے اٹھ کر بیٹے کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا کہ اس وقت آدھی رات کو کیاپڑھ رہے ہو ۔ سو جائو ۔ اقبال نے اونگھتے ہوئے جواب دیا ۔ بے جی ، سویا ہوا ہی تو ہوں ۔ وہ پڑھتے پڑھتے سو گئے تھے ۳۷ ۔ مصدقہ روایات سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ ذہانت میں اپنی عمر کے دوسرے بچوں سے بہت آگے تھے۔ مگر اس کایہ مطلب نہیں کہ وہ کتاب کے کیڑے تھے بلکہ انہیں کھیل کود کا بھی شوق تھا ، شرارتیں بھی کرتے تھے اور بڑے حاضر جواب تھے ۔ ان کے کبوتر پالنے ، پتنگ اڑانے اور اکھاڑے میں ورزش کرنے کے شوق کے متعلق تو کئی شہادتیں موجود ہیں ۔ ان مشاغل میں ان کے بچپن کے دوست سید میر حسن کے فرزند سید محمد تقی اور لالو پہلوان بھی برابر شریک ہوتے تھے اور ان کے والد منع نہ کرتے تھے ۔ کبوتر پالنے کا شوق تو انہیں آخر دم تک رہا ۔ وہ مکان کی چھت پر گھنٹوں خاموش بیٹھے کبوتروں کی پرواز سے لطف اندوز ہوتے رہتے ۔ ان کی اڑان سے ان کی قسم یا نسل پہچان لینے کا طریقہ انہوں نے لالو پہلوان سے سیکھا تھا ۔ اقبال کے لڑکپن کے زمانے میں ان کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد سیالکوٹ سے باہر تعینات تھے، گو ان کی اہلیہ سیالکوٹ ہی میں رہتی تھیں ۔ شیخ نور محمدکے خاندان میں دو بچیوں یعنی کریم بی اور زینت بی کا اضافہ ہو گیا تھا ۔ گھر میں زیادہ تعداد عورتوں کی تھی ۔ ظاہر ہے اقبال زندگی کے اس دور میں اپنے والدین کی توجہ کا مرکز تھے ۔ وہ ماں سے بے حد محبت کرتے تھے اور باپ سے انہیں جس قسم کی تربیت ملی ، اس کے متعلق دو واقعات کی تفصیل تو اقبال کے اپنے الفاظ میں ہم تک پہنچی ہے ۔ پہلے واقعے کا ذکر عبدالمجید سالک اور عطیہ فیضی کی کتب میں موجود ہے ، لیکن دوسرا واقعہ اقبال نے ’’رموزِ بے خودی ‘‘میں نظم کیا ہے ۔ ’’ذکرِ اقبال ‘‘ میں سالک لکھتے ہیں ، انہیں اقبال نے خود بتایا : جب میری عمر کوئی گیارہ سال تھی ، ایک رات میں اپنے گھر میں کسی آہٹ کے باعث سوتے سے بیدار ہو گیا ۔ میں نے دیکھا کہ میری والدہ کمرے کی سیڑھیوں سے نیچے اتر رہی ہیں ۔ میں فوراً اپنے بستر سے اٹھا اور اپنی والدہ کے پیچھے چلتے سامنے دروازہ کے پاس پہنچا جو آدھا کھلا تھا اور اس میں سے روشنی اندر آ رہی تھی ۔ والدہ اس دروازے سے باہر جھانک رہی تھیں ۔ میں نے آگے بڑھ کر دیکھا کہ والد کھلے صحن میں بیٹھے ہیں اور ایک نور کا حلقہ ان کا احاطہ کیے ہوئے ہے ۔ میں نے والد کے پاس جانا چاہا لیکن والدہ نے مجھے روکا اور سمجھا بجھا کر پھر سلا دیا ۔ صبح ہوئی تو میں سب سے پہلے والد صاحب کے پاس پہنچا تا کہ ان سے رات کا ماجرا دریافت کروں۔ والدہ پہلے ہی وہاں موجود تھیں اور والد انہیں اپنا ایک رویا سنا رہے تھے ، جو رات انہوں نے بحالتِ بیداری دیکھا تھا ۔ والد نے بتایا کہ کابل سے ایک قافلہ آیا ہے جو مجبوراً ہمارے شہر سے کوئی پچیس میل کے فاصلہ پر مقیم ہوا ہے اس قافلے میں ایک شخص بے حد بیمار ہے اور اس کی نازک حالت ہی کی وجہ سے قافلہ ٹھہر گیا ہے ۔ لہٰذا مجھے ان لوگوں کی مدد کے لیے فوراً پہنچنا چاہیے ۔ والد نے کچھ ضروری چیزیں فراہم کر کے تانگا منگایا ۔ مجھے بھی ساتھ بٹھا لیا اور چل دیے ۔ چند گھنٹوں میں تانگا اس مقام پر پہنچ گیا ۔ جہاں کارواں کا ڈیرا تھا ۔ ہم نے دیکھا کہ وہ قافلہ ایک دولت مند اور با اثر خاندان پر مشتمل ہے ، جس کے افراد اپنے ایک فرد کا علاج کرانے پنجاب آئے تھے۔ والد نے تانگے سے اترتے ہی دریافت کیا کہ اس قافلے کا سالار کون ہے ؟ جب وہ صاحب سامنے آئے تو والد نے کہا کہ مجھے فوراً مریض کے پاس لے چلو ۔ سالار بے حد متعجب ہوا کہ یہ کون شخص ہے جو ہمارے مریض کی بیماری سے مطلع ہے اور فوراً اس کے پاس بھی پہنچنا چاہتا ہے ، لیکن وہ مرعوبیت کے عالم میں والد کو اپنے ساتھ لے گیا ۔ جب والد مریض کے بستر کے پاس پہنچے تو کیا دیکھا کہ مریض کی حالت بہت خراب ہے اور اس کے بعض اعضاء اس مرض کی وجہ سے ہولناک طور پر متاثر ہو چکے ہیں ۔ والد نے ایک چیز نکالی جو بظاہر راکھ نظر آتی تھی ۔ وہ راکھ مریض کے گلے سڑے اعضا ، پر مل دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مریض کو شفا حاصل ہو گی ۔ اس وقت تو نہ مجھے یقین آیا نہ مریض کے لواحقین ہی نے اس پیش گوئی کو اہمیت دی ، لیکن چوبیس ہی گھنٹے گرزے تھے کہ مریض کو نمایاں افاقہ ہو گیا اور لواحقین کو یقین ہونے لگا کہ مریض صحت یاب ہو جائے گا ۔ ان لوگوں نے والد کی خدمت میں ایک اچھی خاصی رقم فیس کے طور پر پیش کی ۔ جس کو والد نے قبول نہ کیا اور ہم لوگ واپس سیالکوٹ پہنچ گئے ۔ چند روز بعد وہ قافلہ سیالکوٹ میں وارد ہو گیا اور معلوم ہوا کہ وہ مایوس العلاج مریض شفایاب ہو چکا ہے۳۸ ۔ عطیہ فیضی نے اپنی انگریزی تصنیف بعنوان ’’اقبال ‘‘ میں اس واقعے کو بعینہٖ اسی انداز میں تحریر کیا ہے ۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ اقبال کے والد نے کسی ولی کی رہنمائی میں کئی ماہ تنہائی میں گزارے تھے اور انہیں جو کچھ حاصل ہوا ، بیٹے کو دیا ۳۹ ۔ معلوم ہوتا ہے کہ شیخ نور محمد ، سلطان العارفین حضرت قاضی سلطان محمود دربار اعوان شریف کے مرید تھے جو قادریہ سلسلے سے تعلق رکھتے تھے ۔ اسی بنا پر اقبال بھی بچپن سے سلسلۂ قادریہ میں بیعت کیے ہوئے تھے ۴۰ ۔عین ممکن ہے کہ شیخ نور محمد نے اپنے قواے روحانی کی نشو ونما کے لیے چلہ کشی کی ریاضت بھی کی ہو ۔ بعض اوقات اقبال خود بھی باری کے بخار کے مریضوں کو پیپل کے پتوں پر قرآنی آیات قلم سے لکھ کر دیتے تھے ۔ جس کے چاٹنے سے مریض کا بخار اتر جاتا تھا ۔ اپنے بچپن میں راقم نے انہیں پیپل کے پتوں پر ایسا تحریر کرتے دیکھا ہے ۔ اس قسم کے روحانی علاج کرنے کی اجازت ممکن ہے انہوں نے اپنے والد سے حاصل کی ہو ، لیکن شیخ نور محمد باقاعدہ بیعت لے کر کسی کو مرید نہ بناتے تھے ۔ ان کی لوح مزار پر اقبال کے تحریر کردہ قطعۂ تاریخِ وفات میں انہیں پیرو مرشد اقبال کہا گیا ہے ،مگر اس روایت میں کوئی صداقت نہیں کہ اقبال اپنے والد سے بیعت تھے ۔ البتہ معنوی رنگ میں اقبال کی نگاہ میں اپنے والد کا وہی رتبہ تھا جو ایک مرید کی نظر میں مرشد کا ہوتا ہے ۔ سالک تحریر کرتے ہیں کہ جب باپ کی یہ کیفیت ہو اور اس کے جاننے والوں کا حلقہ بھی ایسے لوگوں پر مشتمل ہو، تو ظاہر ہے اقبال کا ذہن وجدانی کیفیات کے لیے کس قدر آمادہ ہو گا ۔ ان کی رائے میں غالباً اسی بنا پر اقبال نے اپنی علمی تحقیق کے لیے مابعد الطبیعیات کا موضوع منتخب کیا۴۱۔ خلیفہ عبدالحکیم نے اپنی کتاب ’’فکرِ اقبال ‘‘ میں اقبال کے عارف باپ کے غیر معمولی روحانی مشاہدات کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ غذائے روح ، اقبال کو شروع ہی سے جسمانی رزق کے ساتھ باپ سے ملتی رہی اور اقبال اپنی آخری عمر میں کہا کرتے تھے کہ میں نے اپنا زاویہ حیات فلسفیانہ جستجو سے حاصل نہیں کیا ۔ زندگی کے متعلق ایک مخصوص زاویہ نگاہ ورثہ میں مل گیا تھا : بعد میں میں نے عقل و استدلال کو اسی کے ثبوت میں صرف کیا ہے ۴۲ ۔ دوسرا واقعہ جو اقبال نے اپنے والد کی شخصیت کے متعلق ’’رموز بے خودی ‘‘ میں نظم کیا ہے ، اس کی تفصیل کچھ یوں ہے : ایک دفعہ کوئی سائل بھیک مانگتا ہوا ان کے گھر کے دروازے پر آ کھڑا ہوا اور باوجودیکہ اسے کئی بار جانے کے لیے کہا گیا ، وہ اڑیل فقیر ٹلنے کا نام نہ لیتا تھا ۔ اقبال ابھی عنفوان شباب میں تھے ۔ اس کے بار بار صدا لگانے پر انہیں طیش آ گیا اور اسے دو تین تھپڑ دے مارے ۔ جس کی وجہ سے جو کچھ اس کی جھولی میں تھا ، زمین پر گر کر منتشر ہو گیا۔ والد ان کی اس حرکت پر بے حد آزردہ ہوئے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ۔ فرمایا : قیامت کے دن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گرد غازیانِ اسلام ، حکماء ، شہدا ، زہاد ، صوفیہ ، علماء اور عاصیانِ شرمسار جمع ہوں گے تو اس مجمع میں اس مظلوم گدا کی فریاد آنحضور ؐ کی نگاہِ مبارک کو اپنی طرف مرتکز کر لے گی اور آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے پوچھیں گے کہ تیرے سپرد ایک مسلم نوجوان کیا گیا تھا تاکہ تو اس کی تربیت ہمارے وضع کردہ اصولوں کے مطابق کرے ، لیکن یہ آسان کام بھی تجھ سے نہ ہو سکا کہ اس خاک کے تودے کو انسان بنا دیتا ، تو تب میں اپنے آقا و مولا کو کیا جواب دوں گا ؟ بیٹا ! اس مجمع کا خیال کر اور میری سفید داڑھی دیکھ اور دیکھ ، میں خوف اور امید سے کس طرح کانپ رہا ہوں ، باپ پر اتنا ظلم نہ کر اور خدا را میرے مولاؐ کے سامنے مجھے یوں ذلیل نہ کر ۔ تو تو چمن محمدیؐ کی ایک کلی ہے ، اس لیے اسی چمن کی نسیم سے پھول بن کر کھل ، اور اسی چمن کی بہار سے رنگ و بو پکڑ، تاکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کی خوشبو تجھ سے آ سکے ۔ اقبال کے والد کایہ معمول تھا کہ جب بھی انہیں کسی بات سے ٹوکتے یا ان کو کچھ کرنے سے منع کرتے تو ہمیشہ قرآن مجید یا اسوئہ رسول ؐ کی سند سے پندو نصیحت فرماتے۔ اقبال ان کے منہ سے جب قرآن مجید کی کوئی آیت یا حدیث آنحضورؐ سنتے تو چہرے پر کسی قسم کی ناگواری کا اظہار کیے بغیر خاموش ہو جاتے ۔ اقبال خود بیان کرتے ہیں کہ جب وہ سیالکوٹ میں پڑھتے تھے تو روزانہ صبح اٹھ کر تلاوت قرآن کیا کرتے ، مگر ان کے والد اور ادو وظائف سے فرصت پا کر آتے اور انہیں دیکھ کر گزر جاتے۔ ایک دن صبح سویرے ان کے قریب سے گزرے تو فرمایا کہ کبھی فرصت ملی تو میں تمہیں ایک بات بتائوں گا ۔ بالآخر انہوں نے کچھ مدت بعد اقبال کے اصرار پر وہ بات بتا دی ۔ ایک دن صبح جب اقبال حسب دستور قرآن مجید کی تلاوت کر رہے تھے تو وہ ان کے پاس آئے اور شفقت سے فرمایا ، بیٹا ! مجھے کہنا یہ تھا کہ جب تم قرآن پڑھو تو یہ سمجھو کہ قرآن تم پر ہی اترا ہے ، یعنی اللہ خود تم سے ہمکلام ہے ۴۳ ۔غالباً اقبال نے ایک شعر میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے ؎ ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب گرہ کشا رہیں نہ رازی، نہ صاحبِ کشاف اقبال مزید بیان کرتے ہیں : ایک دن والد مرحوم نے مجھ سے کہا کہ میںنے تمہارے پڑھانے لکھانے میں جو محنت صرف کی ہے ، میں تم سے اس کا معاوضہ چاہتا ہوں ۔ میں نے بڑے شوق سے پوچھا کہ وہ کیا ہے ؟ والد مرحوم نے کہا ،کسی موقع پر بتائوں گا چنانچہ انہوں نے ایک دفعہ کہا کہ بیٹا میری محنت کا معاوضہ یہ ہے کہ تم اسلام کی خدمت کرنا ۔ بات ختم ہو گئی ۔ اس کے بعد میں نے امتحان وغیرہ دے کر اور کامیاب ہو کر لاہور کام شروع کر دیا ۔ ساتھ ہی میری شاعری کا چرچا پھیلا۔ نوجوانوں کے لیے اسلام کا ترانہ بنایا اور دوسری نظمیں لکھیں اور لوگوں نے ان کو ذوق و شوق سے پڑھا اور سنا اور سامعین میں ولولہ پیدا ہونے لگا، تو ان ہی دنوں میرے والدمرض الموت میں بیمار ہوئے ۔ میں ان کے دیکھنے کو لاہور سے آیا کرتا تھا ۔ ایک دن میں نے پوچھا کہ آپ سے میں نے جو اسلام کی خدمت کا عہد کیا تھا ، وہ پورا کیا یا نہیں؟ انہوں نے بستر مرگ پر شہادت دی کہ تم نے میری محنت کا معاوضہ ادا کر دیا ۴۴ ۔ اسی سلسلے میں چند واقعات شیخ اعجاز احمد کے حوالے سے ’’روز گار فقیر ‘‘ جلد دوم میں درج کیے گئے ہیں ۔ اقبال کی بہنوں کی ازدواجی زندگی پریشانیوں ہی میں گزری ۔ فاطمہ بی کے اپنے شوہر سے تعلقات اچھے نہ تھے ۔ طالع بی جواں عمری ہی میں فوت ہو گئیں ۔ کریم بی بھی اپنے شوہر کی دوسری شادی کے سبب عرصے تک اپنے بھائیوں کے پاس رہیں ۔ زینب بی کی شادی وزیر آباد کے ایک گھرانے میں ہوئی تھی لیکن غالباً بے اولاد ہونے کے باعث ان کی خوش دامن نے سسرال میں اُنہیں رہنے نہ دیا اور وہ مجبوراً میکے چلی آئیں ۔ کئی سال وہیں رہیں ۔ اس دوران ان کی ساس نے بیٹے کی دوسری شادی کر دی اور بعد میں وہ اپنی اس دوسری بہو پر بھی سوتن لے آئیں۔ اقبال کے بہنوئی ایک سعادت مند بیٹے کی طرح ماں کی زندگی بھر توان کے ہر حکم کی تعمیل کرتے رہے لیکن ماں کی وفات کے بعد انہوں نے اپنی پہلی بیوی کو بسانا چاہا ، مصالحت کی کوششیں ہونے لگیں ۔ اقبال کے والدین بالآخر رضامند ہو گئے ۔ لہٰذا اقبال کے بہنوئی ان کی رضا مندی کا سہارا پا کر کچھ عزیزوں کے ساتھ زینت بی کو لے جانے کے لیے اپنے سسرال آئے۔ اتفاق سے ان دنوں اقبال بھی سیالکوٹ میں موجود تھے ۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ بہنوئی مصالحت کی غرض سے آئے ہوئے ہیں تو بہت برہم ہوئے ۔ والد نے بہتیرا سمجھایا لیکن اقبال یہی کہتے رہے کہ مصالحت ہرگز نہیں ہوگی۔ آنے والوں کو واپس کر دیا جائے ۔ والد نے جب دیکھا کہ وہ کسی طرح بھی رضا مند نہیں تو انہوں نے اپنے مخصوص نرم انداز میں کہا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں والصلح خیر کہا ہے ۔ اتنا سننا تھا کہ اقبال خاموش ہو گئے ۔ چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا ، جیسے کسی نے سلگتی ہوئی آگ پر برف کی سل رکھ دی ہو ۔ تھوڑے عرصے بعد والد نے پھر پوچھا کہ کیا فیصلہ کیا جائے ۔ اقبال نے جواب دیا ، وہی جو قرآن کہتا ہے ، چنانچہ مصالحت ہو گئی اور یہ صلح خیر ہی ثابت ہوئی ۔ پہلی بیوی ہونے کی حیثیت سے گھر کا پورا اختیار زینب بی کے ہاتھ میں رہا ۔ مصالحت کے چند دن بعد ہی اقبال کو بہنوئی پر اس قدر اعتماد ہو گیا تھا کہ اپنے نجی معاملات میں ان کے مشورے پر عمل کرتے اور ان کی خیر خواہی کی قدر کرتے۔ اسی طرح ایک مرتبہ اعجاز احمد کو ان کی پھوپھی کریم بی نے بتایا کہ میاں جی کو اسم اعظم معلوم ہے جسے وہ بھائی صاحب (اقبال) کو سکھا چکے ہیں ۔ اقبال جب لاہور سے سیالکوٹ آئے تو اعجاز احمد نے ان سے پوچھا ، میں نے سنا ہے کہ میاں جی نے آپ کو اسم اعظم سکھا دیا ہے ۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ بات تم میاں جی سے خود پوچھنا چنانچہ اعجاز احمد نے میاں جی سے اسم اعظم کے متعلق دریافت کیا ، وہ کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا مشکلوں کو حل کرتی ہے ۔ اس لیے دعا ہی اسمِ اعظم ہے ۔ قبول دعا کا ایک نسخہ جو یاد رکھنے کے قابل ہے ، وہ یہ ہے کہ ہر دعا سے قبل اور بعد میں آنحضور ؐ پر درود بھیجا جائے ، کیونکہ درود سے بڑھ کر اور کوئی اسمِ اعظم نہیں اور میں نے یہی اسمِ اعظم تمہارے چچا کو سکھایا ہے ۔ کسی اور موقع پر فرمایا کہ اسماء الٰہی میں یا حَیُّ یا قَیّوم کا ورد بکثرت کرنا چاہیے ۴۵ ۔ راقم نے شیخ نور محمد کو بہت ضیعف عمر میں دیکھا ہے ، جب ان کی بصارت جواب دے چکی تھی اور وہ کمرے کی تنہائی میں اپنے پلنگ پر گم صم بیٹھے رہتے تھے ۔ دراصل تنہائی کا احساس تو انہیں پندرہ سولہ برس بیشتروالدئہ اقبال کی وفات پر ہی ہونا شروع ہو گیا تھا ۔ بے جی کی وفات کا صدمہ ان کی قوت برداشت سے باہر تھا ۔وہ شاعر تو نہ تھے ، مگر اس صدمہ کے زیرِ اثر انہوں نے ایک دن اعجاز احمد سے کاغذ اور قلم دوات لانے کے لیے کہا ۔ اعجاز احمد سمجھے کہ شاید اقبال کو خط لکھوائیں گے ۔ فرمایا کہ جو کچھ بولتا ہوں، لکھتے جائو اور پھر اس کاغذ کو اپنے چچا کے پاس بھیج دو ۔ میاں جی سوچ سوچ کر شعر لکھواتے جاتے تھے چنانچہ دو تین نشستوں میں انہوں نے دس بارہ شعر قلمبند کروائے ۔ ان اشعار میں سے ایک شعر شیخ اعجاز احمد نے لکھوایا ہے: ؎ یہ تنہا ، زندگی پیری میں ، نصف الموت ہوتی ہے نہ کوئی ہم سخن اپنا ، نہ کوئی راز داں اپنا اشعار اقبال کو بھیج دیئے گئے ، جنہوں نے کچھ عرصہ بعد اپنی نظم ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ کاتب سے خوشخط لکھوا کر میاں جی کو ارسال کر دی ۔ ویسے بھی اقبال کی جو تصانیف میاں جی کی زندگی میں شائع ہوئیں ، وہ ان کی زیرِ مطالعہ رہتی تھیں ۴۶ ۔ اقبال کی والدہ نے بھی ان کی تربیت میں نمایاں حصہ لیا ۔ وہ ایک نہایت اچھی منتظم تھیں اور اقبال ان سے بے حد محبت کرتے تھے ۔ گھر میں ان کی موجودگی اقبال کے سیالکوٹ آنے کے لیے باعث کشش تھی ۔ جب یورپ میں تعلیم حاصل کر رہے تھے تو وہ ان کے خط کے انتظار میں بیٹھا کرتیں ۔ ان کی وفات پر اقبال نے جو مرثیہ کہا ، اس میں ایک جگہ کہتے ہیں ؎ خاکِ مرقد پر تری لے کر یہ فریاد آئوں گا اب دعائے نیم شب میں ، کس کو میں یاد آئوں گا تربیت سے میں تری ، انجم کا ہم قسمت ہوا گھر مرے اجداد کا،سرمایۂ عزت ہوا دفترِ ہستی میں تھی زریں ورق ، تیری حیات تھی سراپا دین و دنیا کا سبق ، تیری حیات اسی طرح انہیں اپنے بڑے بھائی سے بھی ، جن کی اعانت سے اقبال نے اپنی تعلیم کے مراحل طے کیے ، بے حد محبت تھی ۔ شیخ عطا محمد قدآور ، مضبوط جسم اور بارُعب شخصیت کے مالک تھے۔ طبیعت کے سخت تھے مگر دل کے صاف، انہیں جتنی جلدی غصہ چڑھتا ، اتنی جلدی اتر جاتا ۔ فوجی ملازمت ان کے مزاج کے عین مطابق تھی ۔ وہ ہمیشہ مغربی لباس زیب تن کرتے ۔ لیکن سر پر موتیے یا سیاہ رنگ کی لنگی باندھتے ، ہاتھ میں ہنٹر رکھتے ۔ بہت خوش پوش تھے اور گھر میں ان کا بڑا دبدبہ تھا ۔ اقبال ، ’’التجائے مسافر‘‘میں ان کے متعلق ارشاد کرتے ہیں ؎ وہ میرا یوسفِ ثانی ، وہ شمعِ محفلِ عشق ہوئی ہے جس کی اخوت قرار جاں مجکو جلا کے جس کی محبت نے دفتر من و تو ہوا ئے عیش میں پالا ، کیا جواں مجکو ریاضِ دہر میں مانند گل رہے خنداں کہ ہے عزیز تر از جاں ، وہ جانِ جاں مجکو والدہ کی وفات پر مرثیے میں اقبال ان الفاظ میں شیخ عطا محمد کے غم و انددہ کا نقشہ کھینچتے ہیں ؎ وہ جواں ، قامت میں ہے جو صورتِ سرو بلند تیری خدمت سے ہوا جو مجھ سے بڑھ کر بہرہ مند کاروبارِ زندگانی میں وہ ہم پہلو مرا وہ محبت میں تری تصویر ، وہ بازو مرا تجھ کو مثلِ طفلکِ بے دست و پا روتا ہے وہ صبر سے نا آشنا صبح و مساروتا ہے وہ انسان کے اصل اساتذہ تو اس کے والدین ہی ہوتے ہیں ۔ جن سے جو کچھ شعوری یا غیر شعوری طور پر حاصل کیا جاتا ہے ، اس کے نقوش نہایت گہرے اور انمٹ ہوتے ہیں ۔ ان واقعات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ اقبال کے گھر کا ماحول ایک ایسا دیندارانہ اور درویشانہ ماحول تھا جس میں محبت و شفقت کے ساتھ عزت و احترام کا بڑا دخل تھا ۔ اقبال گو لطائف وجدانی کو تسلیم کرتے تھے اور ان کے ورود کا ذاتی تجربہ بھی کسی حد تک رکھتے تھے لیکن یہ حقیقت ہے کہ بعد کی زندگی میں تصوف کے بارے میں ، علمی اعتبار سے ، ان کے ذہن میں کچھ الجھنیں پیدا ہوئیں اور ان کا زاویۂ نگاہ بدل گیا تھا ۔ بہرحال ۱۸۹۱ء میں اقبال نے مڈل کا امتحان پاس کیا اور نویں جماعت میں داخل ہوئے ۔ اس وقت ان کی عمر چودہ پندرہ سال تھی ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے شعر کہنے کب شروع کیے ۔ اس بات کا جواب وثوق سے تو نہیں دیا جا سکتا کیونکہ شعروں سے مناسبت تو انہیں بچپن ہی سے تھی۴۷۔ممکن ہے اس عمر میں باقاعدہ طبع آزمائی کی ابتداء ہوئی ہو ۔ یکتا حقانی امروہوی اپنی کتاب ’’سیرتِ اقبال ‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ اقبال کی طبیعت کا رجحان نو عمری ہی سے شعر و شاعری کی طرف تھا ۔ بچپن میں وہ اکثر فقرے ایسے بول جاتے جو کسی نہ کسی بحر یا وزن میں ہوتے تھے ۔ اس کے بعد اسکول میں اکثر چھوٹی چھوٹی غزلیں کہا کرتے تھے اور ان کو کسی قابل نہ سمجھتے ہوئے پھاڑ کر پھینک دیتے ، لیکن اس کے بعد جوں جوں ان کی سید میر حسن سے وابستگی بڑھی ، تو با قاعدہ شاعری کی تحریک سید میر حسن ہی کے فیضان صحبت سے ہوئی اور انہوں نے ابتدائی زمانہ میں ان ہی سے اصلاح لی ۴۸ ۔ یہ بات سید میر حسن کے چھوٹے بیٹے اور اقبال کے ہمجولی ، سید ذکی شاہ بھی بیان کرتے ہیں کہ اقبال نے اپنی ابتدائی مشق میں غزلوں کی اصلاح میں میرے والد سے فیض حاصل کیا جس کا وہ اکثر ذکر کیا کرتے تھے ۴۹ ۔مگر ہمارے سامنے ایسا بیان بھی ہے جس میں اقبال نے ارشاد کیا ہے کہ شاہ صاحب کے احترام کے پیش نظر وہ ان کے روبرو شعر کہنے کی جرأت نہ کرتے تھے ۔ ممکن ہے سید میر حسن کے فیضان صحبت سے اقبال کو شاعری کی تحریک ہوئی ہو ۔ مگر یہ کہنا شاید درست نہیں کہ سید میر حسن فن شعر گوئی میں اقبال کے استاد اول تھے ۔ اگر اقبال ابتدائی مراحل میں ان سے اصلاح لیتے تھے تو پھر انہی مراحل میں داغ کی شاگردی اختیار کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔ اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں کہ اقبال نے سید میر حسن کے مشورہ سے داغ کی شاگردی اختیار کی ۔ اقبال نے ۱۸۹۳ء میں میٹرک کے امتحان میں فسٹ ڈویژن لے کر کامیابی حاصل کی اور تمغے اور وظیفے سے سرفراز ہوئے ۔ تب ان کی عمر سولہ برس تھی ۔ میٹرک کا نتیجہ ۴ مئی ۱۸۹۳ء کو نکلا اور وہ ۵ مئی ۱۸۹۳ء کو اسکاج مشن کالج میں داخل ہو گئے ۔ اس وقت تک اسکاج مشن اسکول میں انٹرمیڈیت کی کلاسیں جاری ہو چکی تھیں اور اسی بنا پر اس کا نام اسکاج مشن کالج رکھ دیا گیا تھا ۔ اس لیے اقبال نے میٹرک پاس کرنے کے بعد ایف ۔ اے کی تعلیم وہیں جاری رکھی ۔ اقبال کی چند پرانی غزلوں سے جو رسالہ ’’زبان ‘‘ دہلی کے شمارہ نومبر ۱۸۹۳ء اور بعد کے شماروں میں شائع ہوئیں ۵۰ ۔ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف سولہ سترہ سال کی عمر میں اچھی غزلیں کہنے لگے تھے بلکہ ان کی غزلیں دہلی کے رسالوں کی زینت بھی بنتی تھیں ۔ ان کی جو غزل ’’زبان ‘‘ دہلی کے شمارہ فروری ۱۸۹۴ء میں شائع ہوئی ، اس کا مقطع ہے ؎ گرم ہم پر جو کبھی ہوتا ہے وہ بت اقبال حضرتِ داغؔ کے اشعار سنا دیتے ہیں اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال نے میرزا خان داغ (۱۸۳۱ء تا ۱۹۰۵ئ) کی شاگردی کب اختیار کی ؟’’زبان‘‘ دہلی کے شمارہ نومبر ۱۸۹۳ء میں پروفیسر حمید احمد خان کے حوالے سے اقبال کو بلبلِ ہند حضرت داغؔ دہلوی کا تلمیذ لکھا گیا ہے ۵۱ ۔اور اس شمارے میں اقبال کی غزل ان کی اب تک دریافت شدہ غزلوں میں سے قدیم ترین ہے ۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اقبال ایف ۔ اے کے سال اول کے درمیان میں داغؔ کے شاگرد ہوئے ۔ ۱۹۰۹ء میں فوقؔ نے اقبال کے جو مختصر حالاتِ زندگی تحریر کیے ہیں ان میں درج ہے کہ اقبال نے ایف ۔اے کی طالب علمی کے دنوں میں داغؔ سے اصلاح لینی شروع کی ۵۲۔سری رام نے اپنی تصنیف میں لکھا ہے کہ اقبال نے ابتداء میں چند غزلیں میرزا ارشد گورگانی کو دکھائیں اور پھر داغؔ سے بذریعہ خط و کتابت تلمذ اختیار کیا ۵۳ ۔مگر یہ درست نہیں کیونکہ ارشد گورگانی سے اقبال کی پہلی ملاقات بھاٹی دروازہ لاہور کے ایک مشاعرہ میں ۱۸۹۵ء کے بعد ہوئی ۔ سرعبدالقادر ’’بانگ درا‘‘ کے دیباچہ میں تحریر کرتے ہیں : ’’اقبال ابھی اسکول ہی میں پڑھتے تھے کہ کلام موزوں زبان سے نکلنے لگا ۔ پنجاب میں اردو کا رواج اس قدر ہو گیا تھا کہ ہر شہر میں زبان دانی اور شعر و شاعری کا چرچا کم و بیش موجود تھا۔ سیالکوٹ میں بھی شیخ محمد اقبال کی طالب علمی کے دنوں میں ایک چھوٹا سا مشاعرہ ہوتا تھا۔ اس کے لیے اقبال نے کبھی کبھی غزل لکھنی شروع کر دی۔ شعرائے اردو میں ان دنوں نواب میرزا خان صاحب داغ دہلوی کا بہت شہرہ تھا اور نظام دکن کے استاد ہونے سے ان کی شہرت اور بھی بڑھ گئی تھی ۔ لوگ جو ان کے پاس جا نہیں سکتے تھے ، خط و کتابت کے ذریعہ دور ہی سے ان سے شاگردی کی نسبت پیدا کرتے تھے ۔ غزلیں ڈاک میں ان کے پاس جاتی تھیں اور وہ اصلاح کے بعد واپس بھیجتے تھے ۔ پچھلے زمانے میں جب ڈاک کا یہ انتظام نہ تھا ، کسی شاعر کو اتنے شاگرد کیسے میسر آ سکتے تھے ۔ اب اس سہولت کی وجہ سے یہ حال تھا کہ سیکڑوں آدمی ان سے غائبانہ تلمذ رکھتے تھے اور انہیں اس کام کے لیے ایک عملہ اور محکمہ رکھنا پڑتا تھا ۔شیخ محمد اقبال نے بھی انہیں خط لکھا اور چند غزلیں اصلاح کے لیے بھیجیں ۔ اسی طرح اقبال کو اردو دانی کے لیے بھی ایسے استاد سے نسبت پیدا ہوئی جو اپنے وقت میں زبان کی خوبی کے لحاظ سے فن غزل میں یکتا سمجھا جاتا تھا ۔ گو اس ابتدائی غزل گوئی میں وہ باتیں تو موجود نہ تھیں ، جن سے بعد ازاں کلام اقبال نے شہرت پائی ، مگر جناب داغؔ پہچان گئے کہ پنجاب کے ایک دورافتادہ ضلع کا طالبِ علم کوئی معمولی غزل گو نہیں ، انہوں نے جلد کہہ دیا کہ کلام میں اصلاح کی گنجائش بہت کم ہے اور یہ سلسلہ تلمذ کا بہت دیر قائم نہیں رہا ۔ البتہ اس کی یاد دونوں طرف رہ گئی ۔ داغ کا نام اردو شاعری میں ایسا پایہ رکھتا ہے کہ اقبال کے دل میں داغ سے اس مختصر اور غائبانہ تعلق کی بھی قدر ہے اور اقبال نے داغ کی زندگی ہی میں قبول عام کا وہ درجہ حاصل کر لیا تھا کہ داغ مرحوم اس بات پر فخر کرتے تھے کہ اقبال بھی ان لوگوں میں شامل ہے ، جن کے کلام کی انہوں نے اصلاح کی۔ مجھے خود دکن میں ان سے ملنے کا اتفاق ہوا اور میں نے خود ایسے فخریہ کلمات ان کی زبان سے سنے ۵۴ ۔ اس تحریر سے ظاہر ہے کہ اقبال نویں یا دسویں جماعت سے باقاعدہ غزلیں لکھنے لگے تھے اور مشاعرہ میں شریک بھی ہوتے تھے ۔ داغ کا شہرہ سن کر ان کو خط لکھا ، کچھ غزلیں اصلاح کے لیے بھیجیں اور یوں ایف ۔ اے کے سال اول میں ان کی شاگردی اختیار کر لی ۔ اقبال کی لاہور آمد تک یا بقول فوق قیام لاہور کے ابتدائی ایام تک۵۵۔وہ گاہے بگاہے خط و کتابت کے ذریعہ کلام پر اصلاح لیتے رہے ۔ اقبال کی داغ کے ساتھ بالمشافہ ملاقات کبھی نہیں ہوئی ۔ البتہ اس خواہش کی طرف اشارہ ان کے ایک شعر میں موجود ہے ۔ یہی ہے جو شوقِ ملاقاتِ حضرت تو دیکھیں گے اک بار ملکِ دکن بھی بعد میں اگرچہ اقبال نے اصلاح لینا ترک کر دیا تاہم اعزاز یا احترام کے طور پر شاگردی داغ کی نسبت قائم رہی ۔ یہ تعلق ان کے قیام لاہور کے ابتدائی زمانے کی چند غزلوں سے عیاں ہے۔ مثلاً ’’شور محشر‘‘ کے شمارہ دسمبر ۱۸۹۶ء میں شائع شدہ ان کی غزل کا مقطع ہے : نسیمؔ و تشنہؔ ہی اقبالؔ کچھ نازاں نہیں ان پر مجھے بھی فخر ہے شاگردیِ داغِ سخنداں کا۵۷ اسی دور کی ایک اور غزل کا مقطع ہے ؎ جنابِ داغؔ کی اقبال یہ ساری کرامت ہے ترے جیسے کو کر ڈالا سخنداں بھی سخنور بھی ۵۸ ۱۸۹۸ء میں وجاہت حسین جھنجھانوی کے ’’قومی ماتم ‘‘ میں بھی انہیں تلمیذ حضرت داغؔ کہا گیا ، پھر ۲۸ فروری ۱۸۹۹ء کے ایک خط بنامِ مولانا احسن مارہروی میں اقبال نے انہیں داغؔ کی تصویر ارسال کرنے کی فرمائش کی۵۹۔۱۹۰۵ء میں وفاتِ داغؔ پر لکھی گئی نظم میں بھی ، جو ’’بانگ درا‘‘ میں شامل ہے اور جو دراصل ’’مخزن ‘‘ کے اپریل ۱۹۰۵ء کے شمارہ یاد گارِ داغؔ نمبر میں ایک بند کے اضافے کے ساتھ چھپی تھی ، اس تعلق کا واضح ذکر ہے ۔ علاوہ اس کے اقبال نے داغؔ کی وفات پر ’’نواب میرزا داغ‘‘ کے الفاظ سے ان کی تاریخ وفات نکالی ۶۰ ۔سو داغ سے اصلاح کا زمانہ مختصر تھا اور اس کا تعین ۱۸۹۳ء اور ۱۸۹۶ء کے درمیانی عرصے میں کیا جا سکتا ہے ۔بہرحال داغ کی شاگردی کا اعتراف اقبال کو عمر بھر رہا ۔ اقبال کی اسکول اور ایف اے کے زمانے میں استعمال کردہ چند کتابیں محفوظ ہیں ۶۱ ۔ان میں سے ایک کتاب کے کسی صفحے پر ، جو انہوں نے نویں جماعت میں پڑھی ، راگ کے الاپ تحریر کیے ہیں ، جن کے نیچے غالب ، بیدل ، ناسخ اور واقفؔ کے مختلف اشعار پنسل سے تحریر کردہ ہیں ۔ اسی کتاب کے ایک اور صفحے پر پھر راگ کے الاپ لکھے ہوئے ہیں ۔ دو ایک کتب جو ایف اے میں ان کے زیر استعمال رہیں ان پر اپنا تخلص ’’اقبال‘‘ درج کیا ہے ، ان تحریروں سے دو باتوں کا پتا چلتا ہے ۔ پہلی یہ کہ وہ راگوں کے الاپ یا فنِ موسیقی کے تکنیکی پہلو سے آگاہ تھے اور شعر کا جو تعلق صوت یا موسیقی سے ہے ، اسے سمجھتے تھے اور دوسری یہ کہ انہوں نے لفظ ’’اقبال‘‘ بطورِ تخلص ایف اے کے سالِ اوّل میں اختیار کیا تھا ۔ ۴ مئی ۱۸۹۳ء کو جب میٹرک کے نتیجے کی خبر اقبال کو ملی تو اقبال نے سہرا باندھ رکھا تھا اور ان کی بارات سیالکوٹ سے گجرات روانہ ہونے والی تھی ۔ اسی روز ان کی شادی گجرات کے ایک متمول کشمیری گھرانہ میں ہو گئی ۔ ان کی بیوی کا نام کریم بی تھا ۔ شادی کے وقت اقبال کی عمر سولہ اور کریم بی کی انیس برس تھی ۔ اقبال کے خسر ڈاکٹر عطا محمد اس زمانے کے مشہور و معروف سرجن تھے اور کریم بی ان کی سب سے بڑی صاحبزادی تھیں ۔ اقبال کے والد شیخ نور محمد مال و دولت کے اعتبار سے ڈاکٹر عطا محمد کی ٹکر کے نہ تھے ۔ سیالکوٹ اور گجرات قریب قریب ہیں ، اس لیے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اقبال اور کریم بی کے بزرگوں کو جاننے والے کشمیری برادری کے کسی فردنے یہ رشتہ کرایا ہو گا اور رواج کے مطابق والدین نے شادی طے کر دی ۶۲ ۔ اس زمانے میں مناسب رشتہ ملنے پر کم سنی میں بچوں کا بیاہ کرنا کوئی معیوب بات نہ سمجھی جاتی تھی۔ اقبال کے والدین اس شادی میں شریک ہوئے اور بڑی چاہت سے بہو کو گھر لائے ۔ گو اقبال کی بعد کی تحریروں سے معلوم ہو تا ہے کہ وہ اس شادی پر رضامند نہ تھے۔ بہرحال جب گھر کے ماحول میں محبت اور شفقت کے ساتھ عزت و احترام کا پہلو ملحوظ رکھنا لازم ہو تو بزرگوں کے سامنے نوعمر لڑکوں کے لیے اختلاف رائے کا اظہار ممکن نہ تھا ۔ کریم بی سے اقبال کے ہاں دو بچے ہوئے ۔ ۱۸۹۶ء میں معراج بیگم پیدا ہوئیں ۔ خدا نے انہیں سیرت و صورت سے نوازا تھا ، مگر انہیں خنازیر کا مرض لاحق ہو گیا ۔ بہت علاج کرائے گئے لیکن وہ جانبر نہ ہو سکیں ۔ ان کا انتقال ۱۹۱۵ء میں سیالکوٹ میں بعمرِ انیس برس ہوا ۔ امام صاحب کے قبرستان میں اپنے دادا اور دادی کی قبروں کے قریب دفن ہوئیں ۶۳ ۔لیکن خواجہ فیروز الدین بیرسٹر کے بیان کے مطابق وہ گجرات میں فوت ہوئیں ۔ اس صورت میں ممکن ہے میت کو سیالکوٹ لے جایا گیا ہو ۔ وہ فرماتے ہیں : ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ بچوں کو لے کر گجرات چلی گئی تھیں ۔ وہاں بچی بیمار ہوگئی ۔ ڈاکٹر صاحب کو بے حد خیال تھا کہ بچے اور ان کی والدہ ان کے پاس رہیں تاکہ بچی کا پورا علاج ہو سکے ۔ انہیں یہ خیال بھی تھا کہ میری بچی بہت عقلمند ہے ، وہ اپنی والدہ کو ضرور راضی کر سکتی ہے ، لیکن میرا خیال ہے کہ یہ آرزو پوری نہ ہوئی اور بچی گجرات میں فوت ہو گئی ۶۴ ۔ ۱۸۹۸ء میں آفتاب اقبال پیدا ہوئے ۶۵ ۔کریم بی نے اقبال کے انتقال سے تقریباً آٹھ سال بعد ۱۹۴۶ء میں اپنے آبائی گھر میں وفات پائی اور گجرات ہی میں دفن ہوئیں۔ ۱۸۹۵ء میں اسکاچ مشن کالج سے اقبال نے ایف ۔ اے کا امتحان سکینڈ ڈویژن میں پاس کیا اور انہیں مزید تعلیم کے حصول کے لیے لاہور کا رخ کرنا پڑا ، کیونکہ اسکاچ مشن کالج میں ابھی بی۔ اے کی کلاسیں شروع نہ ہوئی تھیں اور وہ مرے کالج کے نام سے موسوم نہ ہوا تھا ۔ ویسے سیالکوٹ کی محدود فضا سے لاہور کی وسیع تر فضا میں پہنچنا اقبال کے ذہنی ارتقاء کے لیے ازبس لازم تھا ۔ سیالکوٹ میں اقبال کی اٹھارہ سالہ زندگی کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ وہاں کی محدود فضا میں اقبال کا پنپنا کسی صورت بھی ممکن نہ تھا ۔ گھر میں وہ اپنے والدین کے احترام کے سبب ان کے سامنے دم نہ مار سکتے تھے ۔ ان کے خاندان میں صرف شیخ عطا محمد ہی کمانے والے تھے۔ شیخ نور محمد اپنا کاروبار قریب قریب ترک چکے تھے اور اگر وہ جاری بھی رہا تو وقت گزرنے کے ساتھ کوئی معقول آمدنی کا ذریعہ نہ تھا ۔ اسی بنا پر مالی اعتبار سے اپنا سلسلۂ تعلیم جاری رکھنے کے لیے اقبال ، شیخ عطا محمد کے دست نگر تھے کیونکہ اقبال کو اگر شیخ عطا محمد کی اعانت میسر نہ آتی تو ان کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ۔ علمی اعتبار سے اقبال پر اپنے استاد سید میر حسن کی شخصیت حاوی تھی اور فن شعر گوئی میں انہوں نے کچھ عرصہ پیشتر داغ کی شاگردی اختیار کی تھی ، ان سے اصلاح لیتے اور ان کی تبتع میں شعر کہتے تھے ۔ لہٰذا علم اور شاعری کے میدانوں میں ابھی ان میں خود اعتمادی پیدا نہ ہوئی تھی ، تاہم قدرت کے بوئے ہوئے بیج میں پھلنے پھولنے کی اہلیت تو تھی کیونکہ کسی حد تک اس کی آبیاری ہو چکی تھی ، لیکن کلی کا پھول بن کر کھلنا ابھی باقی تھا۔ مآخذ باب: ۴ ۱۔ اس خواب کا ذکر اقبال نے کیا ہے ۔ دیکھیے ’’اقبال کے حضور ‘‘ از سید نذیر نیازی جلد اوّل، صفحہ ۹۵ ۔ نیز دیکھیے ’’ذکر اقبال ‘‘ از عبدالمجید سالک ، صفحہ ۱۰ ۔ ’’فکر اقبال ‘‘ از خلیفہ عبدالحکیم ، صفحات ۱۴ ، ۱۵ ۲ ۔ یہ قیاس اس بنیاد پر کیا گیا ہے کہ شیخ نور محمد نے اپنے پوتے اعجاز احمد کو اسی عمر میں سید میر حسن کے پاس پڑھنے کے لیے بٹھایا تھا۔ سید نذیر نیازی کی رائے میں اقبال پہلے عمر شاہ کے مکتب میں بیٹھے جو مسجد میر حسام الدین میں بچوں کو قرآن شریف پڑھاتے تھے اور پھر انہوں نے مولانا غلام حسن سے درس لینا شروع کیا ۔ ۳ ۔ ’’اقبال کے حضور ‘‘ جلد اول ، صفحہ ۹۴ ۴ ۔ شروع میں سید میر حسن اسکول کی پرائمری جماعتوں کو فارسی ، عربی ، حساب ، جغرافیہ ایسے مضامین پڑھایا کرتے تھے اور پرائمری کی معلمی کے خاتمہ کے بعد مڈل اور ہائی جماعتوں کے استاد مقرر ہوئے ۔ ’’علامہ سر اقبال کے استاد‘‘ ،مضمون از آفتاب احمد ’’نیرنگ خیال‘‘ ، اقبال نمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۶۵۔ ۵ ۔ ’’اقبال کے حضور ‘‘ جلد اول صفحات ۱۶۹، ۱۷۰۔ ’’روایات اقبال ‘‘ مرتبہ عبداللہ چغتائی ، صفحہ ۲۲ ۔ ’’ذکر اقبال ‘‘ ، صفحات ۸،۹ ۔ا قبال اسی سلسلہ میں بیان کرتے ہیں : ٍ ’’ میرے والد ایک روز گھر آ رہے تھے ۔ ہاتھ میں رومال تھا ، رومال میں تھوڑی سی میٹھائی اثناے راہ میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک کتا بھوک کے مارے دم توڑ رہا ہے ۔ اس کی حالت دیکھ کر ان سے نہ رہا گیا ۔ میٹھائی سمیت رومال اس کے آگے ڈا ل دیا ۔ کتے نے میٹھائی کھانا شروع کر دی۔ میٹھائی کھا چکا تو ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اسے پانی کی طلب ہے ۔ والد ماجد نے کسی نہ کسی طرح پانی بھی پلا دیا ۔ رات کو سوئے تو خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک مکان ہے جس میں مٹھائی کے طبق ہی طبق رکھے ہیں ۔ صبح آنکھ کھلی تو اس احساس کے ساتھ کہ یہ اس نیک عمل کا ثمرہ تھا جو کل ان سے سرزد ہوا ۔ چنانچہ اس روز سے انہیں یقین ہو گیا کہ ہمارے دن پھرنے والے ہیں ’’اقبال کے حضور‘‘ جلد اول ، صفحہ ۱۶۹۔ ۶۔ ’’انوار اقبال ‘‘ مرتبہ بشیر احمدڈار ، خط مورخہ ۲۴ فروری ۱۹۱۶ء بنام شاہ سلیمان پھلواروی صفحہ ۱۷۸ ۷ ۔ ’’اقبال نامہ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ جلد دوم ، خط مورخہ ۱۳ اگست ۱۹۱۸ء بنام اکبر الہ آبادی صفحات ۶۶،۶۷ ۸ ۔ ذکر اقبال صفحہ ۲۷۷ ۹ ۔ ’’سر سید احمد خان کی اصلاحات و مذہبی نظریات‘‘ از جے ۔ ایم ۔ ایس ۔ بالیشون (انگریزی) صفحات ۱۴ ، ۱۶ ، کتابیات صفحات ۹۹ ، ۱۰۰ ۱۰ ۔ صفحات ۴ ، ۵ ، ۷ تا ۹ ، ۱۱ تا ۱۴ ، ۴۵ ، ۴۶ کتابچہ ، مذکور ۱۱ ۔ دیکھیے ’’حیات جاوید ‘‘ از الطاف حسین حالی ، حصہ اول ، صفحات ۷۵ تا ۸۲ ، ۸۶ ،۹۵ ، ۱۱۵تا ۱۱۷، ۱۲۹ تا ۱۳۱، ۱۴۴ تا ۱۵۲ حصہ دوم ، صفحات ۳۰ ، ۳۱ ، ۱۱۴ تا ۱۵۳، ۱۷۷ تا ۱۸۹۔ کان پور میں ایک مسلمان کو محض اس لیے پھانسی پر لٹکا دیا گیا کہ اس نے انگریزوں کو نصاریٰ کہا تھا ۔ رسالہ ، ’’احکام طعام اہل کتاب ‘‘، صفحات ۲ ، ۳،۸ ، ۱۱، ۱۲ ، ۱۵ ، ۲۸ ’’تفسیر قرآن ‘‘ جلد دوم ، صفحات ۹ ، ۱۰، ۱۵ تا ۴۸ ، ۱۱۲ تا ۱۲۰ ، ۱۴۹ تا ۱۶۸ ، جلد سوم ، صفحات ۲۰۹ تا ۲۱۶، جلد چہارم ، صفحات ۳۳ تا ۵۷ ۔’’ سر سید احمد خان کی حیات و خدمات ‘‘ از جی ۔ ایف۔ آئی۔ گراہم (انگریزی) صفحہ ۱۲۴ ۔ ’’ہندی مسلمان ‘‘ از ہنٹر (انگریزی) صفحات۱۱، ۶۱، ۷۵، ۹۳ ۔ تبصرہ کتاب ہنٹر صفحات ۱۳ تا ۲۸ ، ۴۵’’خطبات الاحمدیہ ، صفحات ۳۵۳ تا ۳۹۷ ۔ ’’سر سید کے آخری مضامین ‘‘ صفحات ۵۳ تا ۵۸ ۔ ’’مضامین تہذیب الاخلاق ‘‘ جلد دوم ، صفحات ۱۱۱ تا ۱۱۳ ۱۲ ۔ ’’حیات جاوید ‘‘ حصہ دوم ، صفحہ ۴۲ ۔ حصہ اول ، صفحات ۱۱۸ تا ۱۳۲ ؛ ’’سر سید احمد خان کی حیات و خدمات ‘‘ (انگریزی) صفحہ ۱۸۵ ۔ ۱۳ ۔ ’’حیات جاوید ‘‘ حصہ دوم ، صفحات ۴ ، ۸ ، ۹ حصہ اول ، صفحہ ۱۵ ۱۴ ۔ ’’حیات جاوید ‘‘ حصہ دوم ، صفحات ۱۱۲ تا ۱۱۴ ، ۱۷۰ ’’مجموعہ لکچر ہائے سر سید ‘‘ ، مرتبہ سراج الدین ، صفحات ۱۷۸ تا ۱۹۵ ’’مضامین تہذیب الاخلاق ‘‘ جلد دوم ، صفحات ۱۶۱ ۔ ۱۸۱، ۱۸۲۔ ۱۵ ۔ ’’ہندی اسلام ‘‘ از مرے ٹائیٹس (انگریزی) ، صفحات ۲۹۷ ، ۲۰۸ ’’حیات جاوید ‘‘ حصہ دوم ، صفحات ۲۰۰ ، ۲۰۸ تا ۲۱۶ ، ’’مضامین تہذیب الاخلاق ‘‘جلد دوم ، صفحات ۲۱ ، ۲۲ ، ۲۹، ۵۰، ۱۸۳ ’’خطبات الاحمدیہ‘‘ صفحہ ۴، ’’مجموعہ لکچر ہائے سر سید ‘‘ ، صفحات ۱۷۶ تا ۱۹۵ ۱۶ ۔ ’’مجموعہ لکچر ہائے سر سید ‘‘ صفحات ۱۸۱ ، ۱۸۲ ؛ ’’ حیات جاوید ‘‘ حصہ دوم ، صفحات ۲۰۱ تا ۲۰۶ ، ۲۱۶ تا ۲۵۶ ، ’’ سر سید احمد خان کی اصلاحات و مذہبی نظریات ‘‘ (انگریزی) صفحات ۶۸ تا ۷۶ ’’ہندی اسلام ‘‘ (انگریزی) صفحہ ۱۹۹ ۱۷ ۔ ’’حیات جاوید ‘‘ حصہ دوم ، صفحہ ۳۱۷ ۱۸ ۔ ایضاً حصہ اول ، صفحہ ۱۳۳ ، حصہ دوم ، صفحات ۵۴ تا ۶۳ ؛ ’’مضامین تہذیب الاخلاق ‘‘ حصہ دوم ، صفحات ۵ تا ۱۸ ، ۲۳ تا ۴۸ ، ۵۰ تا ۵۹ ، ۶۹ تا ۱۰۱ ، ۱۲۷ تا ۱۳۳ ، ’’سر سید احمد خان کی اصلاحات و مذہبی نظریات‘‘(انگریزی) صفحات ۲۵ ، ۲۶ ۱۹ ۔ ’’مضامین تہذیب الاخلاق ‘‘ جلد دوم ، صفحات ۵۶۹ تا ۵۷۲ ، ’’ہندی اسلام (انگریزی) صفحہ ۲۰۴ ، ’’حیات جاوید ‘ ‘ حصہ اول ، صفحات ۱۳۳ تا ۱۳۷ ۔ حصہ دوم ، صفحہ ۶۳۔ ۲۰ ۔ ’’حیات جاوید ‘‘ حصہ دوم ، صفحات ۶۴ تا ۶۶ ، ۲۸۳ ، ۲۸۴ ؛ ’’ہندمیں اسلامی نظام تعلیم کی تاریخ‘‘ از جسٹس سید محمود (انگریزی) صفحہ ۱۴۸ ۔ ۲۱ ۔ ’’سر سیّد احمد خان کی اصلاحات و مذہبی نظریات ‘‘ (انگریزی) صفحہ ۲۴ ؛ ’’مجموعہ لکچرہائے سر سیّد ‘‘ ، صفحات ۴۹ ، ۵۰ ’’ہند کے نظام تعلیم پر تبصرہ ‘‘ از سر الفرڈ کرافٹ (انگریزی) صفحات ۳۱۲ تا ۳۱۴ ۔ ۲۲ ۔ ’’ سر سیّد احمد خان کی اصلاحات و مذہبی نظریات ‘‘ (انگریزی) ، صفحہ ۳۴ ؛ ’’مجموعہ لکچر ہائے سر سیّد‘‘ ، صفحات ۱۹۷ ؛ ۱۹۸؛ ’’حیات جاوید ‘‘ حصہ اول ، صفحات ۹۵ تا ۱۰۰، ۱۰۳ تا ۱۰۶ حصہ دوم ۳۷ تا ۴۰ ۔ ۲۳ ۔ ’’حیاتِ جاوید ‘‘ حصہ اول صفحات ۱۲۷ ، ۱۳۷ تا۱۳۹ ، ۱۴۰ تا ۱۴۴ ، ۱۵۲ تا ۱۶۹ ۔ ۲۴ ۔ ’’حیاتِ جاوید ‘‘ حصہ اول ، صفحات ۱۶۹ تا ۱۷۷ ؛ حصہ دوم ، صفحات ۶۳ ، ۶۴ ، ۷۱ تا ۷۶، ۲۴۰ ’’سر سید احمد خان اور مسلم سیاست میں علیحدگی کی تحریک ‘‘ از عبدالحمید (انگریزی) صفحہ ۱۱۴۔ ۲۵ ۔ ’’حیات جاوید ‘‘ حصہ دوم ، صفحات ۴۷ ، ۴۸ ؛ حصہ اول ، صفحات ۱۰۱ ، ۱۰۲ ۲۶ ۔ ’’حیات جاوید ‘‘ حصہ اول ، صفحہ ۱۹۲ ؛ ’’ مضامین تہذیب الاخلاق ‘‘ جلد دوم ، صفحہ ۵۵ ؛ ’’مجموعہ لکچرہائے سرسیّد ‘‘، صفحات ۲۴۷ ، ۲۵۲ ، ۲۵۳، ۲۶۶، ۲۶۷، ۲۷۵، ۲۷۶ ۔ ۲۷ ۔ ’’حیات جاوید ‘‘ حصہ اول ، صفحات ۲۰۴ تا ۲۱۰ ، ۲۱۴، ۲۱۵ ؛ ’’مجموعہ لکچرہائے سر سید ‘‘صفحہ ۲۱۵ ؛ ’’سر سیّد احمد خان اور مسلم ریاست میں علیحدگی کی تحریک ‘‘ (انگریزی) صفحات ۱۴۴ تا ۱۴۷ ۔ ۲۸ ۔ ’’ایک قوم عمل تشکیل میں ‘‘ از سریندر ناتھ بینر جی (انگریزی)، صفحات ۴۱ تا ۴۸ ؛ ’’ہند میں جدید اسلام ‘‘ از ڈبلیو ۔سی۔ سمتھ (انگریزی) ، صفحہ ۱۶۸ ۔ ۲۹ ۔ ’’سیاسی ہند ‘‘ از سر جان کیوسنگ (انگریزی) صفحات ۴۸ ، ۴۹ ؛ ’’تحریک قومی آزادی کی تاریخ‘‘از وی ۔ لووٹ (انگریزی) صفحات ۴۷ تا ۵۱ ؛ ’’بے چینی ہند‘‘ از وی ۔ چیرول (انگریزی) صفحات ۴۳ ، ۴۴ تا ۵۵ ۳۰ ۔ ’’حیاتِ جاوید ‘‘ حصہ اول ، صفحات ۱۱۱ تا ۱۱۵ ، ’’خطبات سر سید ‘‘ مرتبہ سر راس مسعود صفحہ ۶۶ ۳۱ ۔ ’’ذکرِ اقبال ‘‘ صفحہ ۲۷۷ ۳۲ ۔ سیّد میر حسن کے مزید حالات کے لیے دیکھیے ؛ ’’ذکرِ اقبال ‘‘ صفحات ۲۷۱ تا ۲۸۹ ؛ ’’نیرنگ خیال‘‘ اقبال نمبر ۱۹۳۲ء ، مضمون ’’علامہ سر اقبال کے استاد ‘‘ از آفتاب احمد ، صفحات ۶۲ تا ۷۶ ’’روایات اقبال ، صفحات ۶ تا ۵۵ ، ۶۲ تا ۷۰ ۳۳ ۔ ’’روز گار فقیر ‘‘ (نقش ثانی) از فقیر سید وحیدالدین ، صفحات ۵۷ ، ۵۸ ۳۴ ۔ ایضاً ، صفحات ۱۲۶ تا ۱۲۸ ۔ بعض علماء کے اعتراض پر کہ آیت مذکور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق ہے ، اقبال نے دوسرا مادہ تاریخ نکالا ؛ کانہ مسیح لکل امراض ۔ دیکھیے ’’روز گارِ فقیر‘‘ جلد دوم ، صفحہ ۱۵۷ ، ’’سرود رفتہ ‘‘ مرتبہ غلام رسول مہر ،صفحہ ۲۱۷ ۔ ’’حیاتِ جاوید ‘‘ میں اقبال اور ان کے استاد ، دونوں کی تاریخوں کا ذکر ہے لیکن نام کسی کا تحریر نہیں ہے ۔ البتہ وجاہت حسین جھنجھانوی نے ’’قومی ماتم‘‘ کے نام سے جو مرقع چھاپا تھا اس میں اقبال کے مادئہ تاریخ کے متعلق تحریر ہے ؛ منشی محمد اقبال صاحب ، طالب علم ، گورنمنٹ کالج لاہور ، تلمیذ حضرت داغ ، ۳۵ ۔ ’’روز گارِ فقیر ‘‘ (نقش ثانی) صفحہ ۱۲۷ ۳۶ ۔ ’’ذکرِ اقبال ‘‘ صفحہ ۲۸۹ ۳۷ ۔ ’’اقبال درونِ خانہ ‘‘ از خالد نظیر صوفی ،صفحات ۸ تا ۱۰ ۳۸ ۔ صفحات ۱۲ تا ۱۴ ، کتاب مذکور ۳۹ ۔ صفحات ۹ ، ۱۰ کتاب مذکور ۔ اردو ترجمہ از ضیا الدین برنی صفحہ ۱۶ ۴۰ ۔ ’’آئینہ اقبال ‘‘ مرتبہ عبداللہ قریشی صفحہ ۲۵۴ ، ’’ مطالعہ اقبال ‘‘ مرتبہ گوہر نوشاہی ، صفحات ۳۶ ، ۳۷ ۔ مضمون ، ’’سلسلہ قادریہ میں علامہ کی بیعت ‘‘ از نور محمد قادری ، ماہنامہ ’’ضیائے حرم ‘‘اپریل ۱۹۷۵ء ، صفحات ۴۳ تا ۴۶ ۔ اعوان شریف ضلع گجرات میں ہے ۔ عین ممکن ہے کہ شیخ نور محمد اقبال کو بیعت کرانے کے لیے قاضی سلطان محمود کے پاس لے گئے ہوں ۔ اقبال اپنے خط بنام سید سلیمان ندوی میں بھی تحریر کرتے ہیں کہ وہ قادریہ سلسلہ میں بیعت ہیں ۔ ’’ اقبال نامہ ‘‘ حصہ اول صفحہ ، ۷۹ ۴۱ ۔ ’’ذکر اقبال ‘‘ ، صفحہ ۱۴ ۴۲ ۔ صفحہ ۱۵ ، کتاب مذکور ۴۳ ۔ ’’اقبال کے حضور ‘‘ جلد اول ، صفحات ۶۰ ، ۶۱ ۴۴ ۔ ’’نقوش ‘‘ آپ بیتی نمبر ۱۹۶۴ء ، صفحہ ۶ ۴۵ ۔ صفحات ۱۲۷، ۱۲۸ ، ۱۵۴تا ۱۵۶ ، کتاب مذکور ۴۶ ۔ ایضاً صفحات ۱۲۶ ، ۱۲۷ ۴۷ ۔ ’’خمخانہ جاوید ‘‘ جلد اول ، صفحہ ۳۶۹ ۔ سری رام کے مطابق اقبال سن تمیز سے شعر گوئی کا شوق رکھتے تھے ۔ ۴۸ ۔ صفحات ۴۷ ، ۴۸ کتاب مذکور سر عبدالقادر لکھتے ہیں کہ شعر کا شوق تو اقبال نے بچپن سے پایا تھا ، مگر سید میر حسن کے فیضان صحبت کے زمانہ میں ان کے اس شوق کو بے حد ترقی ہوئی ۔ اقبال’’ خدنک نظر ‘‘ لکھنؤ۔ مئی ۱۹۰۲ء ، متن کے لیے دیکھیے : ’’اقبال جا دوگر ہندی نژاد ‘‘ از عتیق صدیقی صفحہ۱۴۰ ۴۹ ۔ ’’روایات اقبال ‘‘ صفحہ ۱۳ ۵۰ ۔ ’’سرود رفتہ ‘‘ مرتبہ غلام رسول مہر و صادق علی دلاوری ، صفحات ۱۴۳ ، ۱۳۴۔ ۵۱ ۔ ’’راوی‘‘ صد سالہ اقبال نمبر اپریل ۱۹۷۴ء ، صفحہ ۸۰ ۵۲ ۔ ’’انوار اقبال‘‘ ، صفحہ ۸۳ سر عبدالقادر کے بیان کے مطابق امتحان انٹرنس پاس کرنے کے بعد اقبال نے داغ سے بذریعہ خط وکتابت تلمذ کی ٹھہرائی اور اس مدت تک ان سے اصلاح لی جب انہوں نے نئے رنگ میں مخمس ، مسدس یا ترجیع بند لکھنے شروع کئے ۔ جس سال داغ سے اصلاح لینی شروع کی اسی سال ان کی شادی ہوگئی یعنی ۱۸۹۳ ء میں اقبال ’’خدنگ نظر ‘‘ لکھنؤ مئی ۱۹۰۲ء ۵۳ ۔ ’’خمخانہ جاوید ‘‘ جلد اول ، صفحہ ۳۰۷ ۵۴ ۔ دیباچہ ’’بانگ درا ‘‘ ، صفحات ز، ح ۵۵ ۔ ’’مشاہیر کشمیر ‘‘ ، صفحہ ۱۸۴ ۵۶۔ ’’روز گارِ فقیر ‘ ‘ جلد دوم ، صفحہ ۲۹۸ ۵۷ ۔ ’’سرودِ رفتہ ‘‘ ، صفحات ۱۴۵ تا ۱۴۷ ۵۸ ۔ ’’باقیاتِ اقبال ‘‘ مرتبہ عبداللہ قریشی ، صفحہ ۳۹۶ ۵۹ ۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ حصہ اول ، صفحات ۳ ، ۴ ۶۰ ۔ ’’باقیاتِ اقبال ‘‘ مرتبہ عبداللہ قریشی ، صفحہ ۴۸۳ ۶۱ ۔ ’’اقبال درونِ خانہ ‘‘ ، صفحات ۱۰۳ تا ۱۰۷ یہ کتب اقبال کے سیالکوٹ کے آبائی مکان میں موجود تھیں ۔ دیکھیے : ’’روایات اقبال ‘‘، صفحہ ۱۸۸ قوسین میں نوٹ ۶۲ ۔ ’’اقبال درونِ خانہ ‘‘ کے مصنف کے مطابق اقبال جب میٹرک کا امتحان دینے گجرات سنٹر گئے ہوئے تھے تو وہاں ڈاکٹر عطا محمد نے انہیں دیکھا اور پسند کیا اور صاحبزادی کے لیے سلسلہ جنبانی کی لیکن اس روایت کی تصدیق نہیں ہو سکی ۔ دیکھیے صفحہ ۱ ۱ کتاب مذکور ۔ ان ایام میں سیالکوٹ میٹرک کے امتحان کا سنٹر نہ تھا البتہ گجرات اور لاہور تھے ۔لاہور دور ہونے کے سبب اقبال گجرات سنٹر میں میٹرک کا امتحان دینے گئے ۔ سید ذکی شاہ کے بیان کے مطابق اقبال کی شادی کے موقع پر پسرور کی مشہور کنچنی (گانے والی) پیراں دتی نامی بارات کے ساتھ گئی تھی ۔ ’’روایات اقبال ‘‘ ، صفحہ ۲۶ ۔ بقول سید نذیر نیازی شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی اور بزرگوں کے لیے گانے کی علیحدہ محفل بھی جمی۔ شیخ اعجاز احمد کی اطلاع کے مطابق اس زمانے میں پیراں دتی اور اس کی بہنیں پسرور کی پریاں کہلاتی تھیں۔ گانے کی محفلوں کا انتظام شیخ نور محمد کے ایک داماد نے کیا تھا ۔ راقم کی اطلاع کے مطابق بعد میں پیراں دتی اپنے خاندان کے دیگر افراد سمیت تائب ہو گئیں۔ خداوند تعالیٰ کے حضور میں ان کی توبہ قبول ہوئی ۔ ازدواجی زندگی کی خوشیاں نصیب ہوئیں ۔ اولاد کو اعلیٰ تعلیم دلوائی پیراں دتی کی اپنی دینداری ، شرافت اور حسن سلوک کے سبب پسرور کے اہل دل نے انہیں اور ان کے خاندان کو عزت کی نگاہ سے دیکھا ۔ البتہ تنگ نظر اور بلند جذبات سے عاری لوگوں نے انہیں معاف نہ کیا اور ہمیشہ معتوب ہی قرار دیا ۔ ۶۳ ۔ ’’روایاتِ اقبال ‘‘ صفحہ ۷۵ ۶۴ ۔ ایضاً صفحہ ۸۹ ۶۵ ۔ آفتابِ اقبال ،شیخ اعجاز احمد سے سات یا آٹھ ماہ بڑے ہیں ۔ شیخ اعجاز احمد کی تاریخ پیدائش ، ان کے بیان کے مطابق ۱۲ جنوری ۱۸۹۹ء ہے ۔ باب: ۵ گورنمنٹ کالج، لاہور ستمبر ۱۸۹۵ء کی ایک دوپہر ایک گورا چٹا ،کشیدہ قامت ، متناسب جسم نوجوان ، سفید شلوار قمیض پر چھوٹا کوٹ پہنے ، سر پر رومی ٹوپی اوڑھے ، لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر گاڑی سے اترا یہ جوانِ رعنا اقبال تھے ۔ انہیں سٹیشن پر لینے کے لیے ان کے دوست شیخ گلاب دین آئے ہوئے تھے۔ دونوں بغلگیر ہوئے اور گلاب دین اقبال کو ان کے سامان سمیت تانگے میں بھاٹی دروازے کے اندر اپنے مکان پر لے گئے۔ اقبال نے گورنمنٹ کالج میں بی اے کی کلاس میں داخلہ لیا اور چند دن گلاب دین کے مکان پر ٹھہرنے کے بعد کواڈرینگل ہوسٹل کے کمرہ نمبر ایک میں فروکش ہوئے۱۔ اقبال لاہور کے چار سالہ زمانہ طالب علمی کے دوران اسی کمرہ میں مقیم رہے ۔ گیرٹ بیان کرتا ہے کہ اس زمانے میں گورنمنٹ کالج میں طلبہ کی تعداد دو اڑھائی سو سے زائد نہ تھی ۔اس لیے طلبہ کا ایک دوسرے کو جاننا اور اپنے اساتذہ کے ساتھ قریبی روابط پیدا کرنا آسان تھا ۔ گورنمنٹ کالج لاہور کی عمارت کے سامنے نچلے قطعہ اراضی میں جسے اب ’’اوول‘‘ کہا جاتا ہے ۔ سنگترے اور لیموں کے بے شمار پودوں کے علاوہ بڑے بڑے درخت تھے ، جن پر شہد کی مکھیوں نے چھتے لگا رکھے تھے ۔ موسم گرما کی طویل دوپہروں میں یہ جگہ لڑکوں اور شہد کی مکھیوں کی آماجگاہ ہوتی ۔ لڑکے طویل درختوں کے گھنے سائے میں گھاس پر اپنی اپنی صفیں بچھا کر یہاں گھنٹوں لیٹے کتابیں پڑھتے اور ان کے سروں پر شہد کی مکھیاں بھنبھناتی رہتیں ، کالج کے چھوٹے ٹاور کے عین سامنے قدرے شمال کی طرف ایک پرانا برگد کا درخت تھا ، جس کے تنے کے اردو گرد لکٹری کے ڈائس پر لڑکے بیٹھ کر پڑھتے یا خوش گپیاں لگاتے ۔ کالج کی زندگی نہایت سادہ تھی ۔ مختلف قسموں کی سوسائٹیوں ، انجمنوں، میٹنگوں یا سالانہ اجتماعوں کا رواج ابھی نہ چلا تھا ۔ اساتذہ اور طلبہ کو ایک دوسرے سے ملنے یا قریب سے جاننے کے مواقع اکثر ملتے رہتے ۔ اس طرح ہونہار طلبہ اساتذہ کی نگاہوں میں رہتے اور اپنے اساتذہ سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے یا ان سے اثر قبول کرتے ۲ ۔ اقبال کے لیے کالج میں دوست بنانا مشکل نہ تھا ۔ چند ایک طالب علموں کو تو وہ پہلے ہی سے جانتے تھے ۔ مثلاً چوہدری جلال الدین ڈسکہ ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے اور سیالکوٹ سے انٹرنس پاس کرنے کے بعد لاہور آ کر گورنمنٹ کالج میں داخل ہوئے تھے ۔ وہ ہوسٹل میں رہتے تھے ۔ شعر سے خاص ذوق تھا اور ان کے اس ذوق کی پرورش سید میر حسن کی صحبت میں ہوئی تھی ۔ اقبال کی ملاقات غلام بھیک نیرنگ سے جلال الدین کے ذریعے اس وقت ہوئی جب اقبال ابھی گلاب دین کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے اور ہوسٹل میں داخل نہ ہوئے تھے البتہ نیرنگ اور جلال الدین ہوسٹل میں آ چکے تھے ۳ ۔ ایک شام نیرنگ ، جلال الدین کے ہمراہ شہر کو گئے ۔بھاٹی دروازے کے قریب پہنچے تو اقبال آتے ہوئے دکھائی دیئے۔ جلال الدین نے نیرنگ سے ان کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ ہیں شیخ محمد اقبال شاعر ، جن کا میں نے ذکر کیا تھا ۔ ہوسٹل میں اقبال کا کمرہ رفتہ رفتہ احباب کے جمگھٹوں اور شعر خوانیوں کا مرکز بننے لگا ۔ ہوسٹل کی صحبتوں کے متعلق نیرنگ لکھتے ہیں : اقبال سے زیادہ صحبت کا موقع اس وقت ملا جب وہ بھی بورڈنگ ہائو س میں داخل ہو گئے۔۔۔ اقبال چونکہ بی۔ اے کلاس میں سینئیر طلبہ کے زمرے میں تھے ، وہ کیوبکل میں رہتے تھے ۔ ۔۔۔ کھانے کا انتظام سینئیراور جونیئر طلبہ کا ایک ہی مطبخ میں تھا ۔ صرف اس قدر تفریق تھی کہ مسلمانوں کا مطبخ الگ تھا اور ہندوئوں اور سکھوں کا الگ ۔۔۔۔ اقبال کو نیچے کی منزل میں مغربی قطار کے جنوبی سرے پر کیوبکل ملا تھا ۔ میں مشرقی قطار کی ایک ڈارمیٹری میں رہتا تھا ۔ گویا بلحاظ سکونت ہم دونوں میں بعد المشرقین تھا ، لیکن کالج کے اوقات درس کے سوا ہم دونوں کا وقت زیادہ تر ایک دوسرے کے ساتھ ہی گزرتا تھا اور اوقات مطالعہ کے بعد گرمی کے موسم میں رات کے وقت ان کا پلنگ ہماری ڈارمیٹری کے آگے ہمارے ہی پاس بچھتا تھا ۔ اقبال کی طبیعت میں اسی وقت سے ایک گو نہ قطبیت تھی اور وہ قطب از جانمی جنبد کا مصداق تھے ۔ میں اور بورڈ نگ ہائوس میں جو جو ان کے دوست تھے ۔ سب انہی کے کمرے میںا ن کے پاس جا بیٹھتے تھے ۔ وہ وہیں میر فرش بنے بیٹھے رہتے تھے ۔ حقہ جبھی سے ان کا ہمدم و ہم نفس تھا ۔ برہنہ سر ، بنیان ،دربر ، ٹخنے تک کا تہبند باندھے ہوئے ۔ اور اگر سردیوں کا موسم ہے تو کمبل اوڑھے ہوئے حقہ پیتے رہتے تھے ۔ اور ہر قسم کی گپ اڑاتے رہتے تھے ۔ طبیعت میں ظرافت بہت تھی ۔ پھبتی زبردست کستے تھے ۔ادبی مباحثے بھی ہوتے تھے ۔ شعر کہے بھی جاتے تھے اور پڑھے بھی جاتے تھے ۔۔۔۔ اس ابتدائی زمانے میں کسی کو بھی اقبال میں ایک اچھے شاعر مگر عام معیار کے شاعر کے سوا کچھ نظر نہ آیا ، یا اگر آپ اجازت دیں تو یہ کہوں کہ دیکھنے والوں کی کوتاہ نظری نہ تھی بلکہ اس وقت وہ چیز موجود ہی نہ تھی جو بعد میں بن گئی ۔۔۔۔ ہاں ایک بات ضرور لکھنے کے قابل ہے ۔ ہماری ان سہ سالہ صحبتوں میں اقبال اپنی ایک سکیم بار بار پیش کرتے تھے ۔ ملٹن کی مشہور نظم ’’فردوس گمشدہ‘‘ اور ’’تحصیل فردوس ‘‘ کا ذکر کرتے کرتے کہا کرتے تھے کہ واقعات کربلا کو ایسے رنگ میں نظم کروں گا کہ ملٹن کی نظم کا جواب ہو جائے ، مگر اس تجویز کی تکمیل کبھی نہ ہو سکی۔ میں اتنا اور کہدوں کہ اردو شاعری کی اصلاح اور ترقی کا اور اس میں مغربی شاعری کا رنگ پیدا کرنے کا ذکر بار بار آیا کرتا تھا۴۔ ہوسٹل میں قیام کے دوران بعض اوقات اقبال اپنے احباب کے ہاں بھی جا کر رہا کرتے تھے ۔ مثلاً گمٹی بازار سے ذرا آگے سید مٹھا کے کوچہ ہنومان میں مولانا صلاح الدین احمد اور ان کے بڑے بھائی مولوی ضیاء الدین احمد کے والد کا مکان تھا ۔ ضیاء الدین احمد ، اقبال کے ہم جماعت تھے ۔ اس لیے کبھی کبھار ان کے ہاں جا کر قیام کرتے تھے ۔ ضیاء الدین احمد اور نیرنگ کو ورزش کا بہت شوق تھا ۔ یہ شوق مکان کے ایک کونے میں بنے ہوئے اکھاڑے میں کشتی لڑکر پورا کیا جاتا ۔ کبھی کبھی اقبال کو شوق چراتا تو وہ بھی لنگوٹ باندھ کر اکھاڑے میں اترتے اور نیرنگ کے ساتھ دنگل کرتے ۵ ۔ بی اے کی کلاس میں اقبال نے انگریزی ، فلسفہ اورعربی کے مضامین لیے ۔ اقبال اگرچہ گورنمنٹ کالج لاہور کے طالب علم تھے لیکن اس زمانے میں اورئینٹل کالج کی بی ۔ اے کی جماعتوں میں بھی پڑھتے تھے ۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کے بیان کے مطابق اس وقت اورئینٹل کالج ، گورنمنٹ کالج کی عمارت ہی میں قائم تھا اور دونوں کالجوں کے مابین باہمی تعاون کے اصول پر بعض مضامین کے پڑھانے میں اشتراکِ عمل کا سلسلہ جاری تھا ۔ اقبال بی اے کے طالبِ علم ہونے کی حیثیت سے انگریزی اور فلسفہ کے مضامین تو گورنمنٹ کالج کی جماعتوں میں پڑھتے اور عربی زبان و ادب کا مطالعہ اورئینٹل کالج میں کرتے تھے ۔ اس دور کے گورنمنٹ کالج اور اورئینٹل کالج کے اساتذہ میں مولانا فیض الحسن سہارنپوری ، مولانا محمد حسین آزاد اور مولوی محمد دین شامل تھے ۶ ۔ اقبال نے ۱۸۹۷ء میں بی ۔ اے ، عربی و انگریزی میں امتیازی حیثیت کے ساتھ پاس کیا اور تمغے پائے ۔ پنجاب یونیورسٹی کے کیلنڈر ۱۹۰۶ء کے مطابق اقبال نے بی اے کا امتحان سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیا ۷ ۔عظیم حسین اپنے والد کی انگریزی میں نوشتہ سوانحِ حیات بعنوان ’’فضل حسین ‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ۱۸۹۷ء میں بی اے کے امتحان میں کل ۱۰۵ طالب علم کامیاب ہوئے تھے جن میں سے چار نے فسٹ ڈویژن حاصل کی ۔ اقبال اور ان کے ہم جماعت میاں فضل حسین کو سکینڈ ڈویژن ملی ۔ مسلمانوں میں اقبال اول تھے اور میاں فضل حسین دوم ۸ ۔ اقبال کی طبیعت کا رجحان چونکہ فلسفہ کی طرف تھا ، اس لیے انہوں نے ایم اے فلسفہ میں داخلہ لے لیا ۔ اس زمانے میں بی اے میں فلسفہ کے پروفیسر ڈبلیو ۔ بیل تھے ، جو ۱۸۹۶ء میں انسپکٹر آف سکولز ہو کر گورنمنٹ کالج سے چلے گئے ۔ ان کے بعد کچھ مدت تک تاریخ کے پروفیسر ڈلنگر فلسفہ پڑھاتے رہے پھر پروفیسر اوشر آگئے ۔ وہ ۱۸۹۸ء میں مستعفی ہو گئے اور ان کی جگہ پروفیسر ٹی۔ ڈبلیو۔ آرنلڈ نے لی ۹ ۔ گیرٹ کے بیان کے مطابق آرنلڈ نے ۱۱ فروری ۱۸۹۸ء کو اپنے منصب کا چارج لیا۱۰۔آرنلڈعلی گڑھ کالج سے قطع تعلق کر کے گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ کے پروفیسر مقرر ہوئے تھے۔ سر سید ان کی بڑی قدر کرتے تھے اور وہ مولانا شبلی نعمانی کے بھی گہرے دوست تھے ۔ آرنلڈ کی مشفقانہ رہبری نے اقبال کے ذوقِ تحصیلِ فلسفہ کو جلا بخشی اور آرنلڈ خود بھی اقبال کی صلاحیتوں سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ان سے دوستانہ برتائو کرنے لگے ۔ بقول سرعبدالقادر ،آرنلڈ علمی جستجو اور تلاش کے جدید طریقوں سے خوب واقف تھے ۔ انہوں نے اپنے شاگرد کو اپنے مذاق اور اپنے طرز عمل میں رنگ دیا اور جو دوستی اور محبت استاد اور شاگرد میں پہلے دن سے پیدا ہوئی ، وہ آخر کار شاگرد کو استاد کے پیچھے پیچھے انگلستان لے گئی ۱۱ ۔آرنلڈ ، اقبال کے اس قدر مداح بن گئے کہ ان کے متعلق اپنے احباب سے اکثر کہتے کہ ایسا شاگرد استاد کو محقق اور محقق کو محقق تر بنا دیتا ہے۱۲ ۔اقبال نے مارچ ۱۸۹۹ء میں ایم اے فلسفہ کا امتحان دیا ۔ پنجاب یونیورسٹی کیلنڈر ۱۹۰۶ء کے مطابق انہوں نے ایم اے میں تھرڈ ڈویژن لی ، مگر چونکہ یونیورسٹی میں اس مضمون کے واحد کامیاب امیدوار تھے اس لیے پنجاب میں اول بھی وہی رہے اور نقرئی تمغہ بھی حاصل کیا ۱۳ ۔ایم اے فلسفہ کی کلاسوں کے ساتھ ساتھ اقبال نے ۱۸۹۸ء میںلاہور لاء اسکول کی جماعتوں میں قانون کے طالب علم کی حیثیت سے بھی پڑھنا شروع کر دیا ۔ مگر وہ دسمبر ۱۸۹۸ء کے قانون کے ابتدائی امتحان میں جو رسی پروڈنس کے پرچہ میں فیل ہو گئے ۔ انہوں نے بعد میں دسمبر ۱۹۰۰ء کے قانون کے ابتدائی امتحان میں کلاسوں میں شامل ہوئے بغیر بیٹھنے کی اجازت کے لیے درخواست دی، لیکن وہ درخواست نامنظور ہوئی ۱۴ ۔اس کے بعد اقبال نے یہاں قانون کا امتحان دینے کا ارادہ ترک کر دیا اور ان کی اس خواہش کی تکمیل بالآخر لندن میں ہوئی ۔ آرنلڈ ۱۹۰۴ء میں ملازمت سے سبکدوش ہو کر انگلستان واپس چلے گئے ۔ اس موقع پر اقبال نے ایک الوداعی نظم بعنوان ’’نالۂ فراق‘‘ تحریر کی ، جس میں اس علمی ذوق کاخاص طور پر ذکر ہے جو ان کے فیض صحبت نے اقبال میں پیدا کر دیا تھا: تو کہاں ہے ، اے کلیم ذروہ سینائے علم! تھی تری موجِ نفس ، بادِ نشاطِ افزاے علم اب کہاں وہ شوقِ رہ پیمائیِ صحراے علم تیرے دم سے تھا ہمارے سر میں بھی سوداے علم مگر آرنلڈ نے اقبال میں جو علمی تحقیق کے لیے تجسّس یا تشنگی پیدا کر دی تھی ، اس نے اور خود آرنلڈ کی ذات سے وابستگی نے انہیں انگلستان جانے پر مجبور کر دیا ۔ لہٰذا عزم انگلستان کا اظہار بھی متذکرہ نظم میں موجود ہے : کھول دے گا دشتِ وحشت عقدئہ تقدیر کو توڑ کر پہنچوں گا میں پنجاب کی زنجیر کو بہر حال ،یہاں اس بات کو نظر انداز نہ کرنا چاہیے کہ استاد سے گہرے روابط اور تعلق خاطر کے باوجود اقبال آرنلڈ کی شخصیت اور اس کی حدود سے پوری طرح آشنا تھے ۔ سید نذیر نیازی تحریر کرتے ہیں کہ ۱۹۳۰ء میں جب آرنلڈ کی وفات کی خبر ان تک پہنچی تو اشکبار آنکھوں کے ساتھ فرمایا کہ اقبال اپنے استاد اور دوست سے محروم ہو گیا ۔ اس پر نیازی نے آرنلڈ کے مرتبہ استشراق اور اسلام سے ان کی عقیدت کا ذکر چھیڑا تو تعجب سے گویا ہوئے کہ آرنلڈ کا اسلام سے کیا تعلق ؟ ’’دعوتِ اسلام‘‘ اور اس قسم کی تصانیف پر مت جائو ۔ آرنلڈ کی وفاداری صرف خاک انگلستان سے تھی ۔ انہوں نے جو کچھ کیا ، انگلستان کے مفاد کے لیے کیا ۔ میں جب انگلستان میں تھا تو انہوں نے مجھے برائون کی تاریخِ ادبیاتِ ایران پر کچھ لکھنے کی فرمائش کی تھی ، لیکن میں نے انکار کر دیا ، کیونکہ مجھے اس قسم کی تصنیفات میں انگلستان کا مفاد کام کرتا نظر آتا تھا ۔ دراصل یہ بھی ایک کوشش تھی ، ایرانی قومیت کو ہوا دینے کی ، تاکہ اس طرح ملّتِ اسلامیہ کی وحدت پارہ پارہ ہو جائے ۔ بات یہ ہے کہ مغرب میں فرد کی زندگی صرف ملک کے لیے ہے اور وطنی قومیت کا تقاضا بھی یہ ہے کہ ملک اور قوم (دونوں ایک ہی چیز کے دو نام ہیں) کو ہر بات پر مقدم رکھا جائے ۔ لہٰذا آرنلڈ کو مسیحیت سے غرض تھی ، نہ اسلام سے ، بلکہ سیاسی اعتبار سے دیکھا جائے تو آرنلڈ کیا ہر مستشرق کا علم و فضل وہی راستہ اختیار کر لیتا ہے جو مغرب کی ہوسِ استعمار اور شہنشاہیت کے مطابق ہو ۔ ان حضرات کو بھی شہنشاہیت پسندوں اور سیاست کاروں کا دست و بازو تصور کرنا چاہیے ۱۵ ۔ مولوی احمد دین ایڈووکیٹ بیان کرتے ہیں کہ اقبال کی لاہور آمد سے پیشتر بھاٹی دروازے کے اندر بازار حکیماں میں ایک انجمن مشاعرہ قائم تھی ، جس کی نشستیں حکیم امین الدین کے مکان میں منعقد ہوا کرتیں ۱۶ ۔ امین الدین اسی خاندان حکیماں سے تعلق رکھتے تھے، جس کے نام پر بازار مشہور ہے ۔ اس انجمنِ مشاعرہ کی بنیاد حکیم شجاع الدین نے ۱۸۹۰ء میں رکھی تھی۱۷ اور پہلے اس کے مشاعرے حکیم امین الدین کے مکان پر ہوتے تھے۔ مگر ۱۸۹۶ء میں حکیم شجاع الدین کے انتقال کے بعد یہ مشاعرے نواب غلام محبوب سبحانی خلف شیخ امام الدین والیِ کشمیر کی سرپرستی میں ان کی حویلی میں ہونے لگے ۔ حکیم شجاع الدین اپنی زندگی میں میرِ مجلس ہوتے تھے ۔ میرزا ارشد گورگانی دہلوی اور ناظر حسین ناظم لکھنوی مشاعرے کی روح رواں تھے ۔ دونوں خود بھی شعر کہہ کر لاتے تھے اور ان کے شاگردوں اور ثناخوانوں کی ایک دوسرے کے مقابلے میں طبع آزمائیاں بھی مشاعرے کی رونق دوبالا کرتی تھیں ۔ تماشائیوں کا ایک اچھا خاصا جمگھٹا ہوتا تھا ۔ کالجوں کے نوجوان طالبِ علم بھی شعر گوئی اور شعر فہمی کے شوق میں کھچے چلے آتے تھے اور سخن دانی کی داد لینے اور دینے میں کسی سے پیچھے نہ رہتے ۔ اقبال لاہور کے کسی مشاعرے میں شریک نہ ہوئے تھے ، لیکن نومبر ۱۸۹۵ء کی ایک شام ان کے چند ہم جماعت انہیں کھینچ کر حکیم امین الدین کے مکان پر اس مجلس مشاعرہ میں لے گئے۱۸۔ مشاعرے میں ارشد گورگانی حسب سابق موجود تھے اور شرکت کے لیے خاص طور پر فیروز پور سے آئے ہوئے تھے ۔ میر ناظر حسین ناظم بھی موجود تھے ۔ ان دونوں کے شاگرد بھی کثیر تعداد میں موجود تھے اور تماشائیوں کا ہجوم تھا ۔یہاں لاہور میں غالباً پہلی مرتبہ اقبال نے مشاعرے میں اپنی نظم پڑھی ۱۹ ۔ جب آپ اس شعر پر پہنچے: موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے تو ارشد بے اختیار ہو کر داد دینے لگے اور انہیں محبت و قدر دانی کی نگاہ سے دیکھا ۔ اسی غزل کا مقطع جو اس وقت اقبال نے پڑھا ، دلی اور لکھنؤ کی زبان کے جھگڑوں پر ان کے خیالات کی عکاسی کرتا ہے: اقبال ! لکھنؤ سے نہ دلی سے ہے غرض ہم تو اسیر ہیں خمِ زلفِ کمال کے لاہور میں در اصل حالی اور آزاد نے شعر کا ذوق پیدا کر دیاتھا اور ارشد جو ایک برجستہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ شعر کے نقاد بھی تھے ، لاہور آتے جاتے رہتے تھے ۔ بلکہ کچھ عرصہ کے لیے لاہور ہی میں اقامت پذیر ہو گئے تھے ۔ اقبال کی متذکرہ غزل سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ابتدائی دور میں انہیں محسوس ہونے لگا تھاکہ دلی اور لکھنؤ کی شاعری کے حدود و قیود سے آزاد ہو کر ہی وہ اپنے لیے نئی راہ پیدا کر سکتے ہیں ۔بہرحال اقبال اس انجمن مشاعرہ میں شریک ہونے لگے اور لاہور کے مشتاقانِ سخن کی توجہ ان کی طرف مبذول ہو گئی ۔ اگلے سال یعنی ۱۸۹۶ء میں محمد دین فوق گھڑتل ضلع سیالکوٹ سے ملازمت کی تلاش میں لاہور آئے اور بھاٹی دروازہ بازار حکیماں کی انجمن مشاعرہ کی دھوم سن کر وہاں پہنچے ۲۰ ۔اس شام محفل میں اقبال بھی موجود تھے ۔ فوق نے بھی اپنی غزل پڑھی ۔ دونوں کی ملاقات ہوئی اور دونوں میں ایسی دوستی پیدا ہو گئی جو تاحیاتِ اقبال قائم رہی ۔ فوق نے بعد میں شاعر سے بڑھ کر ایک ادیب، مورخ اور اخبار نویس کی حیثیت سے شہرت پائی ، مگر اقبال کے گورنمنٹ کالج میں طالب علمی کے دور میں ابھی تک انہوں نے اخبار ’’پنجۂ فولاد‘‘ کشمیری میگزین اور ’’اخبار کشمیری ‘‘ نہیں نکالے تھے۔ گو اسی زمانے میں لاہور میں قائم شدہ انجمن کشمیری مسلمانان کے اجلاسوں میں فوق بڑی سرگرمی سے حصہ لینے لگے اور اقبال بھی ان کی مجالس میں نظر آنے لگے ۔ اقبال نے ابتدا میں کشمیر کے متعلق جو اشعار اور قطعات کہے ، وہ اسی انجمن کے اجلاسوں میں پڑھے گئے تھے اور بعد میں فوق کے اخبارات میں ان کی اشاعت ہوئی۲۱ ۔ سر عبدالقادر تحریر کرتے ہیں کہ انہوں نے ۱۹۰۱ء سے غالباً دو تین سال پہلے اقبال کو پہلی مرتبہ لاہور کے ایک مشاعرے میں دیکھا ، جہاں ان کو ان کے چند ہم جماعت لے آئے تھے اور انہوں نے کہہ سن کر ان سے ایک غزل بھی پڑھوائی تھی ۔ اس وقت تک لاہور میں لوگ اقبال سے واقف نہ تھے ۔ چھوٹی سی غزل تھی ۔ سادہ سے الفاظ ۔ زمین بھی مشکل نہ تھی مگر کلام میں شوخی اور بے ساختہ پن موجود تھا ، بہت پسند کی گئی ۲۲ ۔اس تحریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ سر عبدالقادر سے اقبال کا تعارف ۱۸۹۸ء یا ۱۸۹۹ء میں مخزن کے اجراء سے تقریباً دو تین سال قبل ہو چکا تھا ۔ اسی ملاقات کا ذکر انہوں نے مزید تفصیل کے ساتھ اپنے ایک بعد کے مضمون ’’اقبال کی شاعری کا ابتدائی دور‘‘ میں کیا ہے : میں نے ستارہ اقبال کا طلوع دیکھا اور چند ابتدائی منازل ترقی میں اقبال کا ہم نشین اور ہم سفر تھا ۔ دو چار تصویریں اس ابتدائی دور کی پیش کرتا ہوں ۔ لاہور میں ایک بزم مشاعرہ بازار حکیماں میں حکیم امین الدین صاحب مرحوم کے مکان پر ہوا کرتی تھی ۔ ایک شب اس بزم میں ایک نوجوان طالب علم اپنے چند ہم عصروں کے ساتھ شریک ہوا ۔ اس نے سادہ سی غزل پڑھی ، جس کا مقطع یہ تھا: شعر کہنا نہیں اقبال کو آتا ، لیکن آپ کہتے ہیں سخنور ، تو سخنور ہی سہی اس’’سخنور ہی سہی ‘‘کی بے ساختگی اور پڑھنے کے بے ساختہ انداز سے سخن فہم سمجھ گئے کہ اردو کی شاعری کے افق پر ایک نیا ستارہ نمودار ہوا ہے ۔ اسی غزل میں ایک شعر اور تھا ، جس کی سامعین نے بہت داد دی اور تقاضا کیا کہ اقبال صاحب اگلے مشاعرے میں بھی ضرور شامل ہوں ۔ وہ شعر یہ تھا: خوب سوجھی ہے ، تہِ دام پھڑک جائوں گا میں چمن میں نہ رہوں گا تو میرے پر ہی سہی۲۳ بقولِ سر عبدالقادر ، اقبال قمیص ، واسکٹ اور شلوار پہنے ہوئے تھے ۔ اس وقت وہ لڑکپن کی حدود سے نکل کر شباب کی سرحدوں میں داخل ہو چکے تھے ۔ ان کے نکھرے ہوئے رنگ اور بھرے ہوئے جسم نے ان کی شخصیت میں عجیب بانکپن پیدا کر رکھا تھا ۔ ان کے باوقار چہرے کو دیکھتے ہی ان کی غیر معمولی شخصیت کا نقش دل پر ثبت ہو جاتا تھا۲۴ ۔ مشاعروں میں سامعین کی تعداد بڑھتی چلی گئی ۔ بعد میں یہی مشاعرے نواب غلام محبوب سبحانی کی صدارت میں اس مقام پر منعقد ہونے لگے جہاں آج کل انار کلی بازار کے شروع میں ہوٹل واقع ہے۔ ان مشاعروں کی تنظیم کے لیے ایک ادبی انجمن بھی قائم ہو گئی جس کے صدر مدن گوپال بیرسٹر اور سیکرٹری خان احمد حسین خان تھے ۔ لالہ ہرکشن لعل ، میاں شاہ دین اور دیگر نامور ہستیاں بھی اس کی رکن بن گئیں ۔ خان احمد حسین خان مدیر ’’شباب اردو ‘‘ اس مجلس کی روح رواں تھے ۔ کچھ مدت بعد شاعرانہ چشمک کی بنا پر اس انجمن کا لکھنوی بازوکٹ کر علیحدہ ہو گیا ، جس نے بزمِ قیصری کی صورت اختیار کر لی ۔ ناظر حسین ناظم اس کے کرتا دھرتا تھے ۔ ان کے دوستوں اور شاگردوں کا حلقہ بڑا وسیع تھا۔ خان احمد حسین خان کی طرف سے ’شور محشر اور ناظم کی طرف سے سخن کے ناموں سے طرحی غزلوں کے ماہوار رسالے بھی شائع ہوتے تھے ۔ اقبال ، نواب غلام محبوب سبحانی کے مشاعروں میں شریک ہو کر طرحی غزلیں پڑھتے تھے ۔ اسی انجمن کے کسی ایک مشاعرے میں جس کے لیے یہ طرح دی گئی تھی: ؎ مرا سینہ ہے مشرق آفتابِ داغ ہجراں کا، اقبال نے اپنی وہ غزل پڑھی جس کے مقطع میں داغ کی شاگردی پر فخر کا اظہار کیا گیا ہے ؎ نسیمؔ و تشنہؔ ہی ، اقبالؔ کچھ اس پر نہیں نازاں مجھے بھی فخر ہے شاگردیِ داغِ سخنداں کا اسی انجمن کے کسی اجلاس میں اقبال نے اپنی نظم ’’ہمالہ‘‘ بھی پڑھ کر سنائی تھی ۔ انجمن کی کوشش تھی کہ غزل کے علاوہ نظم کو بھی رواج دیا جائے ۔ سر عبدالقادر تحریر کرتے ہیں کہ اقبال کی یہ نظم نئے رنگ کی نظم تھی ۔ جس میں خیالات مغربی تھے اور بندشیں فارسی اور ساتھ ہی حبِ وطن کی چاشنی اس میں موجود تھی۔ اس لحاظ سے غالباً ۱۸۹۸ء یا ۱۸۹۹ء میں اسی بزم کی نشستوں میں اقبال کی نئے انداز کی شاعری کی ابتداء ہوئی ۲۵ ۔ مولوی احمد دین مزید تحریر کرتے ہیں کہ حکیم امین الدین کے مکان کے سامنے جہاں انجمن مشاعرہ قائم تھی ، ایک چھوٹا سا مکان حکیم شہباز الدین کا تھا جو امین الدین کے چچازاد بھائی تھے ۔ حکیم شہباز الدین نہایت ہی دبلے پتلے آدمی تھے مگر ان کا دل اسلامی اخوت اور محبت کے جوش سے ہر وقت لبریز رہتا تھا ۔ خاطر داری اور مہمان نوازی ان کا شیوہ اور خدمت اور ہمدردی ان کی جبلت تھی ۔ ان کے خصائل کی وجہ سے ان کا مکان ایک کلب بن گیا تھا جہاں شہر کے بامذاق اصحاب جمع ہوتے تھے ۔ انجمن مشاعرہ میں اقبال کی شہرت کے باعث حکیم شہباز الدین اور ان کی جماعت نے فی الفور اقبال کو اپنے دائرہ اثر میں لے لیا اور چند ہی روز میں اقبال اس جماعت کے رکن بن گئے ۔ احباب کے اس گروہ نے جو رفتہ رفتہ اقبال کا حلقہ بگوش ہو گیا تھا ۔ انہیں بالآخر ۱۹۰۰ء میں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس کے لیے نظم لکھنے پر آمادہ کر لیا ۲۶ ۔ اس تفصیل سے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ۱۸۹۵ء سے لے کر ۱۸۹۹ء تک اقبال کو لاہور کی مختلف انجمنوں نے اپنی طرف کھینچا اور یہاں کے ایک مخصوص باذوق طبقہ سے ان کی شناسائی ہو گئی۔ اگر ایک طرف وہ انجمنِ مشاعرہ کے رکن کی حیثیت سے مشاعروں میں شریک ہو کر روایتی غزلیں پڑھتے تھے تو دوسری طرف ادبی انجمن کے اجلاسوں میں اپنی تحریر کردہ نئے انداز کی نظمیں سناتے تھے ۔ اسی طرح وہ انجمنِ کشمیری مسلمانان لاہور سے بھی وابستہ تھے ۔ یہ انجمن فروری ۱۸۹۶ء میں لاہور کی کشمیری برادری کے چند بزرگوں نے قائم کی تھی ، جو ۱۸۹۷ء کے وسط میںبند ہو گئی لیکن ۱۹۰۱ء میں دوبارہ زندہ کی گئی ۔ اقبال اس کی کارروائیوں میں سرگرم حصہ لیتے اور اس کی مجالس میں پُر جوش نظمیں پڑھتے تھے۔ ۲۷ بعد میں حکیم شہباز الدین کے حلقہ کے زیرِ اثر وہ انجمن حمایتِ اسلام کے بڑے مجمعوں اور جلسوں میں شریک ہو کر ایک ملّی اور عوامی شاعر کی حیثیت سے مقبول عام ہوئے ۔ اقبال ان مجالس میں عموماً اپنا کلام تحت اللفظ سناتے تھے مگر ان کی آواز نہایت دلگداز تھی ۔ اس لیے اسی زمانے میں بعض بے تکلف دوستوں کے اصرار پر انہوں نے کبھی کبھار اپنا کلام ترنم سے پڑھنا شروع کر دیا ۔ سر عبدالقادر اپنے مضمون ’’کیف غم ‘‘ میں تحریر کرتے ہیں: شعر سے رغبت کے ساتھ اقبال کو موسیقی کا بھی شوق تھا ۔ ان کو علم موسیقی سے گہری واقفیت پیدا کرنے کا تو موقع نہیں ملا ۔ مگر ان کے کان موسیقی کی اچھی شناخت رکھتے تھے اور کوئی گاتا ہو تو وہ اس سے ایسا لطف اٹھاتے تھے جیسے کوئی ماہر فن اٹھائے ۔ قدرت نے خود انہیں بھی اچھا گلا عطا کیا تھا ۔ اس لیے کبھی کبھی بے تکلف دوستوں کی صحبت میں اپنا کلام ترنم سے پڑھتے تھے جس سے اشعار کا لطف دوبالا ہو جاتا تھا ۔ وہ ہر بحر کے لیے ایسی موزوں لے چن لیتے تھے کہ سننے والے مسحور ہو جاتے ۔ اس ترنم کے وقت ان پر اکثر غم کی حالت طاری ہوتی تھی اور سننے والے بھی اس سے اثر پذیر ہونے سے بچ نہیں سکتے تھے ۔ جب انہوں نے بڑے مجمعوں اور قومی جلسوں میں شریک ہوناشروع کیا تو پہلے اپنا کلام تحت اللفظ سناتے تھے مگر رفتہ رفتہ لوگوں کو خبر ہو گئی کہ وہ خوش آہنگ بھی ہیں ، تو فرمائشیں ہونے لگیں کہ لے سے پڑھیں ۔ دوستوں کے کہنے سننے سے وہ مان گئے ۔ پھر تو یہی چرچا ہو گیا۔ جب کبھی وہ تحت اللفظ پڑھنا چاہیں تو لوگ انہیں ترنم پر مجبور کر دیں ۔ لاہور کی مشہور تعلیمی انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس اکثر ان کے کلام سے مستفید ہوتے تھے ۔پہلے پہل جب ان کا کلام ترنم سے وہاں سنا گیا تو کئی موزوں طبع طلبہ اور بعض دوسرے شعراء کو شوق ہوا کہ وہ ان کے طرزِ ترنم کا تتبع کریں ۔ اب جسے دیکھو وہ اپنا کلام اسی طرز سے پڑھ کر سنا رہا ہے ۔ خواجہ دل محمد ایم اے اسلامیہ کالج میں ریاضیات کے پروفیسر ہیں اور شاعری میں بھی نام پیدا کر چکے ہیں ، اس وقت طالبِ علم تھے اور اقبال کی آواز کا نمونہ پیش کرنے میں بہت کامیاب سمجھے جاتے تھے ۔۔۔۔ ان دنوں دہلی کے شاہی خاندان کے ایک نامور فرد میرزا ارشد گورگانی مرحوم زندہ تھے اور فیروز پور کے سرکاری مدرسے میں فارسی پڑھانے پر مامور تھے۔ وہ بھی انجمن کے سالانہ جلسوں میں اپنی قومی نظمیں سنایا کرتے تھے ، جو بہت مقبول ہوتی تھیں ۔ میرزا صاحب ہمیشہ تحت اللفظ پڑھتے تھے ۔ انہوں نے اقبال کی روز افزوں قبولیت کو دیکھ کر محسوس کیا کہ اقبال کی خوش آہنگی اس کی نظم کو پر لگا رہی ہے اور اپنی نظم میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ مصرع لکھا ؎ نظمِ اقبالی نے ہر اک کو گویّا کر دیا یہ بات تو درست تھی کہ بہت سے لوگ اقبال کو دیکھ کر ترنم پر آمادہ ہو گئے تھے مگر اس کی مقبولیت کی اصل وجوہ اور تھیں جو اس وقت کے کلام میں بھی موجود تھیں اور بعد میں زیادہ پختہ ہو گئیں ۲۸ ۔ یہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ اقبال بچپن ہی سے خوش آہنگ تھے ۔ انہیں قرآن مجید کو بھی خوش الحانی سے پڑھنے کی عادت ڈالی گئی تھی اور ان کی یہ عادت اس وقت تک قائم رہی جب تک ان کی آواز جواب نہ دے گئی بچپن میں بازار سے جا کر منظوم قصے خرید لاتے اور گھر کی عورتوں کو خوش الحانی سے پڑھ کر سناتے ۔ ذرا بڑے ہوئے تو راگوں کے الاپ سیکھ لیے ۔ اس بات کا تو واقعی کوئی ثبوت نہیں کہ انہوں نے علمِ موسیقی میں دسترس حاصل کرنے کے لیے کسی استاد کی طرف رجوع کیا لیکن ان کی آواز بہر طور اچھی تھی ۔ کان موسیقی سے آشنا تھے اور طبیعت شاعرانہ تھی ۔ اس لیے کسی بھی بحر کے لیے موزوں لے کا انتخاب کر لینا ان کے لیے مشکل نہ تھا ۔ بہرحال ان میں اپنے اشعار ترنم سے پڑھ کر سنانے کا ذوق لاہور ہی میں پیدا ہوا ۔ اس میں بے تکلف دوستوں کے اصرار کا بڑا ہاتھ تھا ۔ جو نہ صرف اچھے شعر کی داد دے سکنے کے اہل تھے بلکہ موسیقی کی صحیح شناخت بھی رکھتے تھے اور ایسی محفلوں کا اہتمام بھی کرتے تھے ۔ غالباً اسی زمانے میں اقبال نے ستار خریدی اور سیکھنے کے لیے باقاعدہ سبق لیے ۔ وہ ستار بجانے کی مشق کیا کرتے تھے اور انہیں ستار نوازی کا شوق ایک مدت تک رہا ۔ ۱۹۰۵ء میں یورپ جانے سے پیشتر وہ یہ ستار اپنے کسی ہندو دوست کو دے گئے لیکن مضراب کو یاد گار کے طور پر محفوظ رکھ لیا ۔ یہ مضراب راقم نے ان کی وفات کے بعد دیگر استعمال کی اشیاء کے ساتھ پڑی ہوئی خود دیکھی ہے ، مگر بعد میں ڈھونڈنے سے نہ مل سکی ۔ گورنمنٹ کالج میں طالب علمی کے زمانے میں اقبال کا یہ معمول رہا کہ گرمی کی چھٹیاں یا دیگر تعطیلات سیالکوٹ میں اپنے والدین اور اہل وعیال کے ساتھ گزارتے تھے لیکن ان ایام میں سیالکوٹ کی کسی ادبی مجلس میں اقبال کے شریک ہونے یا غزل پڑھنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔ ممکن ہے کہ ان دنوں سیالکوٹ میں ان کا بیشتر وقت اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ گزرتا رہا ہو یا چند پرانے احباب کی معیت یا سید میر حسن کی صحبت میں ۔ اقبال کی اب تک دریافت شدہ تصاویر میں جو تصویر سب سے پرانی ہے وہ ۱۸۹۹ء میں اتروائی گئی جب اقبال ایم ۔اے کے آخری سال میں پڑھتے تھے ۔ اس تصویر میں انہوں نے سیاہ اچکن اور سر پر رومی ٹوپی پہن رکھی ہے ، گھنی بھوری مونچھیں نیچے کی طرف ترشی ہوئی ہیں اور انہوں نے عینک لگا رکھی ہے ۔ اقبال نے شاعری کی ابتداء ایک روایتی غزل گو کی حیثیت سے کی ۔ ۱۸۹۳ء سے لے کر ۱۸۹۹ء تک ان کے طالب علمی کے دور کی غزلوں کا جو اب تک دریافت ہو سکی ہیں ، اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو ظاہر ہو گا کہ اگرچہ وہ داغ کے رنگ میں غزل کہتے تھے ،پھر بھی خال خال ایسے شعر کہہ جاتے جن میں ’’اقبال‘‘ کی جھلکیاں دکھائی دیتی تھیں ۔ داغ دراصل عشق مجازی کے شاعر تھے مگر اقبال نے صرف مشق سخن کی خاطر مصنوعی عاشقی کی غزلیں کہیں ، جنہیں انہوں نے بعد میں خود ہی رد کر دیا ۔ خلیفہ عبدالحکیم تحریر کرتے ہیں : اس ابتدائی زمانے کی یادگار کچھ غزلیں ’’بانگ درا‘‘ میں موجود ہیں ۔ ان غزلوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جا بجا داغ کی زبان کی مشق کر رہے ہیں ۔ موضوع بھی وہی داغ والے ہیں ۔ کہیں کہیں داغ کے انداز کے شعر نکال لیتے ہیں ۔۔۔۔ لیکن اس دور مشق و تقلید میں بھی اس اقبال کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں ، جس کا آفتابِ کمال بہت جلد افق سے ابھرنے والا تھا ۔ اس دور کی شاعری کو اقبال کی شاعری کی صبحِ کا ذب کہنا چاہیے ، جس کی روشنی طلوع آفتاب کا پیش خیمہ ہوتی ہے ۲۹ ۔ اس دور کی دیگر خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ اقبال کی توجہ اپنے گرد و نواح کی طرف مبذول ہونے کی بجائے زیادہ تر اپنی ذات پر مرتکز تھی ۔ فلسفے کے مطالعے میں دلچسپی گو ان کو غزل کے روایتی مضامین میں بعض اوقات حکمت کے موتی بکھیر دیتی رہی مگر اس نے کچھ فکری الجھنیں بھی پیدا کر دی تھیں ۔ چنانچہ اقبال نے خود ۱۹۱۰ء میں تحریر کیا : میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے ہیگل ، گوئٹے ، میرزا غالب ، عبدالقادر بیدل اور ورڈزورتھ سے بہت کچھ استفادہ کیا ہے ۔ ہیگل اور گوئٹے نے اشیاء کی باطنی حقیقت تک پہنچنے میں میری رہنمائی کی ۔ بیدلؔ اور غالب نے مجھے یہ سکھایا کہ مغربی شاعری کی اقدار اپنے اندر سمولینے کے باوجود اپنے جذبہ اور اظہار میں مشرقیت کی روح کیسے زندہ رکھوں اور ورڈز ورتھ نے طالب علمی کے زمانے میں مجھے دہریت سے بچا لیا ۳۰۔ اس تحریر سے عیاں ہے کہ زمانہ طالب علمی ہی میں اقبال کے ذہنی تجسّس نے انہیں تلاش حقیقت میں سرگرداں کر رکھا تھا۔ یہ ایک خالصتاً ذاتی اور باطنی نوعیت کی کشمکش تھی کیونکہ اس عہد کے اقبال کسی بات کی صحت و صداقت کو دوسروں کی سند کے حوالے سے تسلیم کرنا پسند نہ کرتے تھے ۔ دہریت کی عارضی کیفیت غالباً ہیگل کے مطالعہ سے پیدا ہوئی ۔ شیخ علی ہجویری ؒ نے ’’کشف المحجوب ‘‘ میں دہریت کو حجاب سے تعبیر کیا ہے ۔ ان کے نزدیک ایسے حجاب کی دو قسمیں ہیں ۔ پہلی قسم کا حجاب وہ ہے جو اٹھ نہیں سکتا ۔ گویا ایسے شخص کے قلب پر مہر لگ جاتی ہے ۔ یہی وہ مستقل دہریت ہے جو جامد اور کسی کہنہ مرض کی طرح لا علاج ہے ۔ دوسری قسم ’حجابِ حق ‘ ہے ۔ یہ ایسی دہریت ہے جس کا آغاز تو تشکیک سے ہوتا ہے لیکن انجام ایمان پر ایسے شخص کا باطنی وجود ، عرفانِ حق اور امتیاز خیر و شر کے لیے پیہم متحرک اور کوشاں رہتا ہے۔ یہ دہریت کسی بھی متجسّس ذہن کے سفر ارتقاء میں ایک عارضی مرحلہ ہے ۳۱ ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اقبال کی تعلیم و تربیت ابتداء ہی سے روایتی اسلامی نہج پر ہوئی تھی تو ورڈز ورتھ نے انہیں کیوں اس طرح متاثر کیا ؟ اقبال کا ذوق تجسّس اس امر کا شاہد ہے کہ وہ خود اپنی روایت کی تنگ اور محدود فضا سے بیزار تھے ۔ یورپی فلسفہ کے مطالعہ نے انہیں اس ذہنی خلفشار سے دو چار کیا ، جس میں اٹھارہویں اور انیسویں صدی کا یورپی فلسفہ مبتلا تھا ۔ اس لیے اگر ان کے متجسّس ذہن اور شاعرانہ قلب نے ورڈز ورتھ کے مطالعہ سے عقلیت کے کھوکھلے پن کا ایک قابل فہم جواب پالیا تو کوئی تعجب کی بات نہ تھی بلکہ یہ تو ان کی سلامتی عقل کی دلیل تھی کہ وہ اپنے عہد کے مادہ پر ستانہ نظریات سے اثر قبول کرنے کے باوجود ان سے گمراہ نہ ہوئے ۔ فلسفہ و تصوف کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ ورڈز ورتھ کے خیالات ابن عربی کی وجودی تعلیمات سے کتنی مشابہت رکھتے ہیں ۔ اس سے بآسانی یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ذہنی ارتقاء کے اس مرحلے میں اقبال کو تصوّرِ وحدت الوجود ہی نے عالمِ تشکیک سے نکالا ۔ اس مختصر دور کی شاعری میں اقبال کے ارتقائے فن کی رفتار بہت تیز تھی ۔ بعض غزلوں میں فن کی پختگی کے ساتھ فکر کی گہرائی نمایاں ہے ۔ غزلوں میں گو عشق مجازی کی آمیزش ہے لیکن مضامین میں ہر قدم پر متصوفانہ یا حکیمانہ شاعری ، روایتی غزل کو پیچھے دھکیل رہی ہے۔ انداز بیان میں انوکھا پن بڑھ رہا ہے ۔ وجودی فلسفے کے زیر اثر بعض اشعار تصوف کے روایتی نظریہ فنا کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں ۔ گویا اقبال کے نزدیک نفس کی انفرادیت ایک فریب ہے جو نمودِ حق کے بعد خود بخود مٹ جاتا ہے اور پھر وہی ازلی حقیقت ’’خدا‘‘باقی رہ جاتی ہے۔اسی عہد میں اقبال نے وجودی فلسفہ کی روشنی میں اپنے سیاسی تصورات کی بنیاد رکھی اور بعد میں وطنی قومیّت کی حمایت میں نظمیں تحریر کیں ۔ طالب علمی ہی کے زمانے میں اقبال نے نئے انداز کی شاعری کی ابتدا کی اور روایتی غزل کہنا چھوڑ کر نظم کی طرف متوجہ ہوئے ۔ یہ ان پر مغربی افکار کے اثر کا نتیجہ تھا ۔ جدید تمدن نے ، جو انگریزوں کے ساتھ برصغیر میں آیاتھا ، اردو ادب میں نئی اقدار کو فروغ دیا ۔ علی گڑھ تحریک کے دوران ہی کم از کم مضامین کے انتخاب میں مغربی انداز کی نئی شاعری وجود میں آنا شروع ہو گئی تھی ۔ حالی ، شبلی اور آزاد گو انگریزی دان نہ تھے پھر بھی اردو شاعری کے روایتی انداز کوخیر باد کہ کر جدید اثرات قبول کر چکے تھے ۔ اقبال کی طالبِ علمی کے دور میں گورنمنٹ کالج میں بھی جدید اثرات کام کر رہے تھے ۔ ان کے سامنے اردو اور فارسی شاعری کے علاوہ انگریزی شاعری کے بہترین نمونے موجود تھے ۔ اردو اور فارسی میں وطن اور قوم کی محبت کی شاعری مفقود تھی ، مگر یہ جذبات انگریزی شاعری میں موجود تھے ۔ پس مغربی اثرات نے ابتداء ہی سے اقبال کی شاعری کا رخ بدل دیا ۔ انہوں نے چند انگریزی نظموں کا آزاد اردو ترجمہ بھی کیا اور ان کی بعض نظمیں گو ترجمہ تو نہ تھیں ، البتہ افکار اور اسلوب بیان کے اعتبار سے مغربی تھیں ۔ حالی نے جدید اثرات کے تحت قومی یا ملّی شاعری کی داغ بیل بھی ڈالی تھی ، مگر مسلمانوں کی حیات ملّی میں وہ دور ہی ایسا تھا کہ قومی شاعری زیادہ تر قوم کا ماتم تھی ۔ سو اقبال نے بھی جب اپنے احباب کے کہنے سننے پر ملّی شاعری کی طرف رجوع کیا تو ابتداء ماتم سے کی ۔ بہرحال طالب علمی کے زمانے میں اقبال کی بعض غزلیں چند رسالوں مثلاً زبان ، دہلی ، ’’شورِ محشر‘‘ وغیرہ میں شائع ہوئیں اور ان کی شہرت ان لوگوں تک محدود تھی جو مشاعروں میں شریک ہوتے تھے ۔ اقبال دراصل مشاعروں کے شاعر نہ تھے ، اس لیے طالب علمی کے دور کے اختتام کے بعد رفتہ رفتہ ان کا مشاعروں میں شریک ہونابھی ختم ہو گیا ۔ اقبال کی طالب علمی کے دور کی شاعری کے مطالعے سے عیاں ہے کہ اس عہد میں وہ مجموعۂ اضداد تھے ۔ زندگی ان کے لیے ابھی تک ایک معماتھی ۔ وہ کسی پختہ یقین تک نہ پہنچے تھے بلکہ ان کا ذہن مختلف افکار ، نظریات اور جذبات کی پائیداری یا ناپائیداری کو پرکھنے کے لیے ایک تجربہ گاہ تھا اور یہ کیفیت خاصی مدت تک طاری رہی ۔ مآخذ باب: ۵ ۱ ۔ ’’صحیفہ‘‘ اقبال نمبر، حصہ اوّل دسمبر ۱۹۷۳ء مضمون ’’لاہور میں علامہ اقبال کی قیامگاہیں ‘‘ از ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی ، صفحہ ۵۲ ، ’’ذکر اقبال ‘‘ از عبدالمجید سالک صفحہ ۱۷ ۔ ۲ ۔ ’’تاریخ گورنمنٹ کالج لاہور‘‘ ۱۸۶۴ء تا ۱۹۱۴ء (انگریزی) صفحہ ۴۸ ۔ ۳ ۔ ’’مطالعہ اقبال ‘‘ مرتبہ گوہر نوشاہی ، مضمون ’’اقبال کے بعض حالات ‘‘ از غلام بھیک نیرنگ، صفحات ۱۹ ، ۲۰ ۔ ۴ ۔ ایضاً ، صفحات ۲۲ تا ۲۴ ۔ ۵ ۔ ’’صحیفہ‘‘ اقبال نمبر، حصہ اوّل، صفحہ ۵۳ ۔ ۶ ۔ ’’مطالعہ اقبال ‘‘ ، مضمون ’’اقبال اورئینٹل کالج میں ‘‘ صفحات ۴۷ تا ۴۹ ۔ ۷ ۔ صفحہ ۳۳۹ کیلنڈر مذکور ۸ ۔ صفحہ ۱۲ کتابِ مذکور ، دیکھئے ’’پنجاب گزٹ ، ۳ جون ۱۸۹۷ء حصہ سوم ، صفحہ ۱۰۹۹ ، ۳ مارچ ۱۸۹۸ء حصہ سوم ، صفحہ ۳۷۰ ۔ ۹ ۔ ’’تاریخ گورنمنٹ کالج‘‘ لاہور (انگریزی) ، صفحات ۹۰ تا ۹۳ ۔ ۱۰۔ ایضاً ، صفحہ ۱۱۳ ۔ ۱۱ ۔ ’’بانگ درا‘‘ صفحہ ح (دیباچہ) ۱۲ ۔ ’’انوار اقبال ‘‘ مرتبہ ، بشیر احمد ڈار ، مضمون ’’حالات ِاقبال‘‘ از محمد دین فوق ، صفحہ ۸۰۔ ۱۳ ۔ صفحہ ۳۳۰ کلنڈر مذکور ۔ مزید دیکھئے ’’پنجاب گزٹ ‘‘ ۸ جون ۱۸۹۹ء حصہ سوم ، صفحہ ۱۰۸۵۔۲۶ اپریل ۱۹۰۰ء حصہ سوم ، صفحات ۸۶۷ ، ۸۶۸ ۱۴ ۔ ’’اقبال کے خطوط اور تحریریں ‘‘ مرتبہ بی ۔ اے۔ ڈار(انگریزی) صفحات ۳۶ تا ۴۰ ۔ گورنمنٹ کالج کے طلبہ کو یہ خصوصی رعایت تھی کہ وہ ایم ۔ اے کے ساتھ ایک ہی سال میں دونوں امتحان دے سکتے تھے اور اسی سبب طلبہ سے دونوں امتحانوں کی صحیح طریقہ پر تیاری نہ ہوتی تھی ۔اقبال نے غالباً۱۸۹۸ء میں یا تو ایم ۔اے کا امتحان نہ دیا یا اس میں بھی ناکام رہے ، غالب امکان ہے کہ وہ اس سال ایم ۔ اے کے امتحان میں فیل ہوئے تھے ۔ ۱۵ ۔ ’’مکتوبات اقبال ‘‘، صفحات ۹۶، ۹۷۔ ۱۶ ۔ ’’اقبال ‘‘ صفحات ۱ ، ۲ ۔ ۱۷ ۔ ’’تاریخ اقوام کشمیر ، جلد سوم ، مضمون ’’منشی محمد دین فوق ‘‘ از محمد عبداللہ قریشی ، صفحات ۳۶۲، ۲۶۳ ۱۸۔ ’’نقوش ‘‘ شمارہ نمبر ۱۰۴ مضمون ’’لاہور کا چیلسی ، از حکیم احمد شجاع ، صفحات ۳۱ ، ۳۹۔ ۱۹ ۔ پوری غزل انجمن مشاعرہ کے رسالے ’’شورِ محشر ‘‘ کے شمارہ دسمبر ۱۸۹۶ء میں چھپی اور اب دیکھیے ’’سرود رفتہ‘‘مرتبہ غلام رسول مہر و صادق علی دلاوری صفحہ ۱۴۶۔ اس مشاعرے کی تفصیل سر عبدالقادر نے یوں بیان کی ہے ۔ اچانک طلبہ کے گروہ میں ایک نوجوان اٹھا ، عمر بیس سال سے کچھ متجاوز ہو گی ، رواجِ وقت کے مطابق ڈاڑھی چٹ ، مونچھیں بڑھائی ہوئی ، لباس نئے اور پرانے فیشن کے بین بین ، سیدھا اس کرسی کی طرف بڑھا جس پر بیٹھ کر شعرا غزل خوانی کرتے تھے اور بیٹھتے ہی مطلع پڑھا ۔ ؎ تم آزمائو ہاں کو زباں سے نکال کے یہ صدقے ہو گی میرے سوالِ وصال کے مطلع کا پڑھنا تھا کہ کئی سخن آشنا کان ، متکلم کی طرف لگ گئے اور کئی آنکھیں اس کی طرف متوجہ ہوگئیں ۔ مشاعرہ میں یہ رسم تھی کہ دبیر مجلس ہر سخن ور کی تعریف کر کے اس سے حاضرین کی شناسائی کرا دیتا تھا مگر اس نوجوان منچلے شاعر سے خود دبیر مجلس نا واقف تھا ۔ ایک طرف سے آواز آئی کہ پہلے حضرت کی تعریف تو فرمائیے ۔ نوجوان شاعر نے کہا لیجیے میں خود عرض کیے دیتا ہوں کہ میں کون ہوں ۔ خاکسار کو اقبال کہتے ہیں اور یہی میرا تخلص ہے ۔ سیالکوٹ کا رہنے والا ہوں اور یہاں کے سرکاری کالج میں بی ۔ اے کی جماعت میں پڑھتا ہوں ۔ حضرت داغ سے تلمذ کا فخر حاصل ہے ، یہاں کے کسی بزرگ سے نہ خصوصیت ہے نہ خصومت ۔ چند شعر لکھ کر لایا ہوں اگر اجازت ہو تو پڑھ سنائوں ۔ ’’اقبال ‘‘ ۔ ’’خدنگِ نظر‘‘ لکھنؤ مئی ۱۹۰۲ء ۲۰ ۔ ’’مطالعہ اقبال ‘‘ مضمون ’’اقبال اور فوق‘‘ از محمد عبداللہ قریشی ، صفحات ۸۵،۸۶۔ ۲۱ ۔ ’’باقیات اقبال ‘‘ مرتبہ عبدالواحد معینی ، صفحات ۱۱ ، ۱۳ ، کشمیر سے متعلق اقبال کے اشعار و قطعات ۲۲۔ ’’بانگ درا ‘‘ صفحہ ط (دیباچہ) ۲۳۔ ’’نذر اقبال ‘‘ مرتبہ محمد حنیف شاہد، صفحہ ۸۵ ۲۴ ۔ ’’راوی ‘‘ صد سالہ اقبال نمبر اپریل ۱۹۷۴ء ، مضمون ’’اقبال اور گورنمنٹ کالج ، از محمد حنیف شاہد، صفحہ ۲۵۸ ۲۵ ۔ ’’ذکرِ اقبال ‘‘ ، صفحہ ۲۷ ۔ ’’بانگِ درا ‘ ‘ صفحہ ط (دیباچہ) ’’تاریخِ اقوامِ کشمیر ‘‘ جلد سوم ، صفحات ۲۶۲ ، ۲۶۳ ۔ سید شبیر حسین نسیم بھرت پوری اور حافظ محمد یوسف خاں تشنہ بلند شہری بھی داغ کے شاگردوں میں سے تھے ۔ ۲۶ ۔ اقبال ، صفحہ ۲ ۲۷ ۔ ’’آئینہ اقبال ‘‘ مرتبہ محمد عبداللہ قریشی ، صفحہ ۱۹۶ ۔ ۲۸ ۔ ’’ملفوظات اقبال ‘‘ مرتبہ ابواللیث صدیقی ، صفحات ۳۲ تا ۳۴ ۔ ۲۹ ۔ ’’فکرِ اقبال ‘‘ ، صفحات ۱۷ ،۱۸ ۔ ۳۰ ۔ ’’شذراتِ فکرِ اقبال ‘‘ مرتبہ جاوید اقبال ۔ اردو ترجمہ افتخار احمد صدیقی ، صفحہ ۱۰۵ ۔ ۳۱ ۔ ’’کشف المحجوب ‘‘ ترجمہ مولوی فیروز الدین ، صفحات ۱۸ ، ۱۹ حضرت شیخ نے پہلی قسم کے حجاب کو حجاب رینی کہا ہے اور دوسری قسم کے حجاب کو حجابِ عینی ، باب: ۶ تدریس و تحقیق ایم اے کا امتحان دے چکنے کے بعد اقبال ۱۳ مئی ۱۸۹۹ء کو اورئینٹل کالج میں بہتّر روپے چودہ آنے ماہوار تنخواہ پر میکلوڈ عربک ریڈر کی حیثیت سے ملازم ہو گئے ۱ ۔اسی سال آرنلڈ بھی کچھ مدت کے لیے دوسو پچاس روپے ماہوار تنخواہ پر اورئینٹل کالج کے قائم مقام پرنسپل مقرر ہوئے ۔ میکلوڈ عربک ریڈر کی حیثیت سے اقبال تقریباً چار سال یعنی مئی ۱۹۰۳ء تک اورئینٹل کالج میں کام کرتے رہے ۔ اسی دوران انہوں نے یکم جنوری ۱۹۰۱ء سے چھ ماہ کی بلا تنخواہ رخصت لی اور گورنمنٹ کالج میں انگریزی کے اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے کام کیا ۲ ۔اسی سال یعنی ۱۹۰۱ء میں اقبال ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنری کے امتحان مقابلہ میں بھی کامیاب ہوئے مگر میڈیکل بورڈ نے طبی نقطہ نظر سے ان کی دائیں آنکھ کی بینائی کی کمزوری کے باعث انہیں ان فٹ قرار دیا ۳ ۔ اقبال کی دائیں آنکھ کی بینائی بچپن ہی سے بہت کمزور تھی ۔ غالباً اسی سبب کالج میں طالب علمی ہی کے زمانے میں وہ عینک لگانے لگے تھے ۔ اقبال کے اپنے بیان کے مطابق ان کی یہ آنکھ دو سال کی عمر میں ضائع ہوگئی تھی ۔ اس لیے انہیں اپنی ہوش میں مطلق یاد نہ تھا کہ یہ آنکھ کبھی ٹھیک تھی بھی یا نہیں ۔ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ داہنی آنکھ سے خون لیا گیا ہے ، جس کی وجہ سے بینائی زائل ہو گئی ۔ اقبال کو ان کی والدہ نے بتایا تھا کہ دو سال کی عمر میں انہیں جونکیں لگوائی گئی تھیں ۴ ۔ ۱۹۰۲ء میں آرنلڈ دوبارہ اورئینٹل کالج کے قائم مقام پرنسپل مقرر ہوئے ، کیونکہ اورئینٹل کالج کے کینیڈین نژاد پرنسپل سٹراٹن ، گلمرگ میں وفات پا گئے تھے ۔ اقبال کے سٹراٹن کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے ۔ غالباً اُنہی تعلقات کی بنا پر اقبال کے دل میں اعلیٰ تعلیم کے لیے کینیڈا یا امریکہ جانے کی تحریک پیدا ہوئی اور اس سلسلے میں انہوں نے امریکن یونیورسٹیوں میں داخلے وغیرہ کے قواعد معلوم کرنے کی کوشش کی ، لیکن یہ خواہش بار آور نہ ہو سکی۵۔آرنلڈ نے بالآخر انہیں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انگلستان اور جرمنی جانے پر رضا مند کر لیا ۔ آرنلڈ نے اپریل ۱۹۰۳ء تک اورئینٹل کالج کے قائم مقام پرنسپل کی حیثیت سے کام کیا اور پھر گورنمنٹ کالج واپس چلے گئے ۔ آرنلڈ ۲۶ فروری ۱۹۰۴ء کو گورنمنٹ کالج کی ملازمت سے سبکدوش ہو کر انگلستان روانہ ہو ئے ۔ میکلوڈ عربک ریڈر کی حیثیت سے اقبال اورئینٹل کالج بی او ایل اور انٹرمیڈیٹ کی جماعتوں کو تاریخ ، اقتصادیات اور فلسفہ پڑھاتے تھے ۔ اقبال کے ذمہ ہر ہفتہ اٹھارہ پیریڈ درس و تدریس کے لیے وقف تھے ۔ ہر پیریڈ پچاس منٹ کا ہوتا تھا ۔وہ بی او ایل کی جماعتوں کو تاریخ اور اقتصادیات کے مضامین چھ پیریڈز میں پڑھاتے تھے اور بارہ پیریڈز میں انٹر میڈیٹ کی سال اوّل اور دوم کی جماعتوں کو فلسفہ کا درس دیتے تھے۔ اس چار سال کے عرصے میں انہوں نے مندرجہ ذیل تراجم و تالیفات مرتب کیں : ۱ ۔ نظریہ توحیدِ مطلق ، پیش کردہ شیخ عبدالکریم الجیلی (انگریزی) ۔ ۲ ۔ اسٹبس کی تصنیف ’’ارلی پلانیجنٹس ‘‘ کی اردو میں تلخیص و ترجمہ۔ ۳ ۔ واکر کی تصنیف ،’’ پولیٹکل اکانومی ‘‘ کی اردو میں تلخیص و ترجمہ ۔ ۴ ۔ ’’علم الاقتصاد ‘‘ ۶ ۔ پہلی تحریر تو انگریزی میں ایک تحقیقی مقالہ تھا ، جس میں الجیلی کی تصنیف انسان کامل پر بحث کی گئی تھی۷۔دوسری تحریر برطانیہ کی ابتدائی تاریخ سے متعلق تھی، جس میں ہنری دوم سے لے کر رچرڈ سوم کے عہد کاذکر تھا۔ تیسری تحریرکا تعلق واکر کے معاشیات کے اصولوں سے تھا ، البتہ چوتھی تحریراقبال کی اپنی تصنیف تھی ۔ اقبال کی تصنیف ’’علم الاقتصاد‘‘(اردو نثر) ان کی پہلی مطبوعہ تصنیف ہے اس کتاب کا جو نسخہ اقبال کی کتب میں موجود ہے ، اس پر سن اشاعت درج نہیں ، البتہ سرورق پر اقبال کے اپنے ہاتھ سے تحریر ہے کہ وہ سرکشن پرشاد وزیر اعظم نظام حیدر آباد کو بطور تحفہ ارسال کی گئی ۔ نیچے انہوں نے اپنا نام ایس ۔ ایم۔ اقبال بیرسٹر ایٹ لاء لاہور اور تاریخ ۳۱ مارچ ۱۹۱۰ء تحریر کی ہے ۔ عین ممکن ہے کہ انہوں نے یہ کتاب ارادے کے باوجود سرکشن پرشاد کو نہ بھیجی ہو یا اگر ارسال کی ہو تو ان سے اپنے ریکارڈ میں رکھنے کی خاطر واپس مانگ لی ہو۔ بہر حال سرورق پر مصنف کا نام شیخ محمد اقبال ایم۔اے اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور درج ہے ۔ کتاب پیسہ اخبار کے خادم التعلیم سٹیم پریس لاہور میں منشی محمد عبدالعزیز منیجر کے زیر اہتمام چھپی اور ڈبلیو ۔ بیل ، ڈائریکٹر محکمۂ تعلیم پنجاب کے نام سے منسوب ہے جو آرنلڈ کی گورنمنٹ کالج میں آمد سے قبل اقبال کے استاد فلسفہ تھے ۸۔ اورئینٹل کالج میں بطورِ میکلوڈ عربک ریڈر اپنی مدت ملازمت کے اختتام کے بعد اقبال جون ۱۹۰۳ء سے دوبارہ گورنمنٹ کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر مقرر کیے گئے، اس لیے یہ کتاب ۱۹۰۴ء میں شائع ہوئی ۹ ۔ کتاب کے دیباچے میں اقبال نے واضح کر دیا ہے کہ یہ کتاب کسی خاص انگریزی کتاب کا ترجمہ نہیں ہے بلکہ اس کے مضامین مختلف مشہور اور مستند کتب سے اخذ کیے گئے ہیں اور بعض جگہ انہوں نے اپنی ذاتی رائے کا بھی اظہار کیا ہے ، مگر صرف اسی صورت میں جہاں انہیں اپنی رائے کی صحت پر پورا اعتماد تھا ۔ اسی دیباچے میں اقبال نے اظہارِ تشکر کے طور پر یہ بھی بتایا ہے کہ اس کتاب کے لکھنے کی تحریک استاذی المعظم حضرت قبلہ آرنلڈ کی طرف سے ہوئی ، پروفیسر لالہ جیارام اور میاں فضل حسین کے کتب خانوں سے بھی استفادہ کیا گیا اور مولانا شبلی نعمانی نے اس کتاب کے بعض حصوں میں زبان کے متعلق قابلِ قدر مشورے دیے ۔ علم الاقتصاد پر کتاب تحریر کرنے کی ضرورت کے بارے میں فرماتے ہیں : علم الاقتصاد انسانی زندگی کے معمولی کاروبار پر بحث کرتا ہے اور اس کا مقصد اس امر کی تحقیق کرنا ہے کہ لوگ اپنی آمدنی کس طرح حاصل کرتے ہیں ، اور اس کا استعمال کس طرح کرتے ہیں ۔ پس ایک اعتبار سے تو اس کا موضوع دولت ہے اور دوسرے اعتبار سے یہ اس وسیع علم کی ایک شاخ ہے ، جس کا موضوع خود انسان ہے ۔ یہ امر مسلم ہے کہ انسان کا معمولی کام کاج ، اس کے اوضاع و اطوار اور اس کے طرز زندگی پر بڑا اثر رکھتا ہے بلکہ اس کے دماغی قویٰ بھی اس اثر سے کامل طور پر محفوظ نہیں رہ سکتے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تاریخ انسانی کے سیل رواں میں اصولِ مذہب بھی انتہا درجے کا موثر ثابت ہوا ہے ، مگر یہ بات بھی روز مرہ کے تجربے اور مشاہدے سے ثابت ہوتی ہے کہ روزی کمانے کا دھندا ہر وقت انسان کے ساتھ ساتھ ہے اور چپکے چپکے اس کے ظاہری اور باطنی قویٰ کو اپنے سانچے میں ڈھالتا رہتا ہے ۔ ذرا خیال کرو کہ غریبی یا یوں کہو کہ ضروریاتِ زندگی کے کامل طور پر پورا نہ ہونے سے انسانی طرزِ عمل کہا ں تک متاثر ہوتا ہے ۔ غریبی قواے انسانی پر بہت بُرا اثر ڈالتی ہے ، بلکہ بسا اوقات انسانی روح کے مجلا آئینے کو اس قدر زنگ آلود کر دیتی ہے کہ اخلاقی اور تمدنی لحاظ سے اس کا وجود و عدم برابر ہو جاتا ہے ۔ معلمِ اوّل یعنی حکیم ارسطو سمجھتا ہے کہ غلامی تمدنِ انسانی کے قیام کے لیے ایک ضروری جزو ہے مگر مذہب اور زمانہ حال کی تعلیم نے انسان کی جبلی آزادی پر زور دیا اور رفتہ رفتہ مہذب قومیں محسوس کرنے لگیں کہ یہ وحشیانہ تفاوت مدارج بجائے اس کے کہ قیامِ تمدن کے لیے ایک ضروری جزو ہو ۔ اس کی تخریب کرتا ہے اور انسانی زندگی کے ہر پہلو پر نہایت مذموم اثر ڈالتا ہے ۔ اس طرح اس زمانے میں یہ سوال پیدا ہوا کہ آیا مفلسی بھی نظم عالم میں ایک ضروری جزو ہے؟ کیا ممکن نہیں کہ ہر فرد مفلسی کے دکھ سے آزاد ہو؟ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ گلی کوچوں میں چپکے چپکے کراہنے والوں کی دلخراش صدائیں ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جائیں اور ایک درد مند دل کو ہلا دینے والے افلاس کا درد ناک نظارہ ہمیشہ کے لیے صفحہ عالم سے حرفِ غلط کی طرح مٹ جائے ؟ اس سوال کا شافی جواب دینا علم اقتصاد کا کام نہیں ، کیونکہ کسی حد تک اس کے جواب کا انحصار انسانی فطرت کی اخلاقی قابلیتوں پر ہے جن کو معلوم کرنے کے لیے اس علم کے ماہرین کوئی خاص ذریعہ اپنے ہاتھ میں نہیں رکھتے مگر چونکہ اس جواب کا انحصار زیادہ تر ان واقعات اور نتائج پر بھی ہے جو علم الاقتصاد کے دائرئہ تحقیق میں داخل ہیں ، اس واسطے یہ علم انسان کے لیے انتہا درجے کی دلچسپی رکھتا ہے اور اس کا مطالعہ قریباً قریباً ضروریات زندگی میں سے ہے، بالخصوص اہل ہندوستان کے لیے تو اس علم کا پڑھنا اور اس کے نتائج پر غور کرنا نہایت ضروری ہے ،کیونکہ یہاں مفلسی کی عام شکایت ہو رہی ہے۔ ہمارا ملک کامل تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے اپنی کمزوریوں اور نیز ان تمدنی اسباب سے بالکل ناواقف ہے ، جن کا جاننا قومی فلاح و بہبود کے لیے اکسیر کا درجہ رکھتا ہے ۔ انسان کی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ جو قومیں اپنے تمدنی اور اقتصادی حالات سے غافل رہی ہیں ، ان کا حشر کیا ہوا ہے ۔۔۔۔ پس اگر اہل ہندوستان دفتر اقوام میں اپنا نام قائم رکھنا چاہتے ہوں تو ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس اہم علم کے اصولوں سے آگاہی حاصل کر کے معلوم کریں کہ وہ کون سے اسباب ہیں جو ملکی عروج کے مانع ہو رہے ہیں۔ میری غرض ان اوراق کی تحریر سے یہ ہے کہ عام فہم طور پر اس علم کے نہایت ضروری اصول واضح کروں اور نیز بعض جگہ اس بات پر بھی بحث کروں کہ یہ عام اصول کہاں تک ہندوستان کی موجودہ حالت پر صادق آتے ہیں ۔ اگر ان سطور سے کسی فردِ واحد کو بھی ان معلومات پر غور کرنے کی تحریک ہو گئی تو میں سمجھوں گا کہ میری دماغ سوزی اکارت نہیں گئی۔ کتاب کے مختلف ابواب میں جن موضوعات پر بحث کی گئی ہے ، وہ یہ ہیں ، علم الاقتصاد کی ماہیئت اور اس کا طریق تحقیق ، پیدائش دولت ( زمین ، محنت اور سرمایہ ، کسی قوم کی قابلیت پیدائش دولت کے لحاظ سے)تبادلہ دولت (مسئلہ قدر تجارت بین الاقوام ، زرِنقد کی ماہیئت اور اس کی قدر، حق الضرب ، زر کاغذی ، اعتبار اور اس کی ماہیئت)پیداوار دولت کے حصے دار لگان ، ساہوکار کا حصہ یا سود ، مالک یا کارخانہ دار کا حصہ یا منافع ، محنتی کا حصہ یا اجرت ، مقابلہ ناکامل دستکاروں کی حالت پر کیا اثر کرتا ہے ، سرکار کا حصہ یا مالگزاری ، آبادی (وجہِ معیشت ، جدید ضروریات کا پیدا ہونا، صرف دولت) اقبال نے اس کتاب کو معاشیات کے تغیر پذیر نظریات کے پیشِ نظر دوبارہ اشاعت کے قابل نہ سمجھا۱۰۔بہرحال اس کے بعض پہلو ایسے ہیں جن سے اقبال کے خیالات کا پتا چلتا ہے ۔ مثلاً خاندانی منصوبہ بندی کے متعلق تحریر کرتے ہیں :۔ اکثر ممالک کے مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی نوع انسان کی آبادی پچیس سال میں دگنی ہو جانے کا میلان رکھتی ہے ، جب یہ حال ہو تو جس ملک میں آبادی بلا قید بڑھ رہی ہو ، وہاں کے لوگوں کو چاہیے کہ انجام بینی سے کام لیں اور ان وسائل کو اختیار کریں جو آبادی کو روکتے ہیں ۔ انسان کی قوت تولد و تناسل قدرتاً کچھ اس قسم کی ہے کہ اگر اس کے عمل کو اختیاری یا غیر اختیاری اسباب (یعنی قحط ، وبا اور جنگ)سے روکا نہ جائے تو اس کا وجود مجموعی طور پر بنی آدم کی بربادی اور تباہی کا باعث ہو گا ۔۔۔۔ ان اسباب کے ہوتے ہوئے بھی کثیر التعداد بنی آدم غریبی کے روز افزوں دکھ میں مبتلا ہیں ، جس کی شدت سے مجبور ہو کر ان کو ایسے ایسے جرائم کا مرتکب ہونا پڑتا ہے، جو انسان کے لیے ذلت و شرم کا باعث ہیں۔۔۔۔ مفلسی تمام جرائم کا منبع ہے ، اگر ایسی بلائے بے درماں کا قلع قمع ہو جائے تو دنیا جنت کا نمونہ نظر آئے گی ۔۔۔۔ مگر موجودہ حالت کی رو سے اس کالی بلا کے پنجے سے رہائی پانے کی یہی صورت ہے کہ نوع انسان کی آبادی کم ہو تاکہ موجودہ سامانِ معیشت کفالت کر سکے ۔۔۔۔ لہٰذا ہمارا فرض ہے کہ ہم کمی آبادی کے ان اسباب کو عمل میں لائیں جو ہمارے اختیار میں ہیں ، تاکہ ان اسباب کا عمل قدرتی اسباب کے عمل سے متحد ہو کر آبادیِ انسان کو کم کرے اور دنیا مفلسی کے دکھ سے آزاد ہو کر عیش و آرام کا ایک دلفریب نظارہ پیش کرے۔۔۔۔۔ ہندوستان کی موجودہ حالت کس امر کا تقاضا کرتی ہے؟ ہمارے ملک میں سامانِ معیشت کم ہے اور آبادی روز بروز بڑھ رہی ہے ۔ قدرت قحط اور وبا سے اس کا علاج کرتی ہے مگر ہم کو بھی چاہیے کہ بچپن کی شادی اور کثرتِ ازدواج کے دستور کی پابندیوں سے آزاد ہو جائیں ۔ اپنے قلیل سرمائے کو زیادہ دور اندیشی سے صرف کریں ۔ صنعت و حرفت کی طرف توجہ کر کے ملک کی شرح اجرت کو زیادہ کریں اور عاقبت بینی کی راہ سے اپنی قوم کے انجام کی فکر کریں تاکہ ہمارا ملک مفلسی کے خوفناک نتائج سے محفوظ ہو کر تہذیب و تمدن کے ان اعلیٰ مدارج تک رسائی حاصل کرے جن کے ساتھ ہماری حقیقی بہبودی وابستہ ہے ۔ ان سطور سے تم یہ نہ سمجھ لینا کہ ہم بنی آدم کو کلی طور پر شادی وغیرہ کی لذت اٹھانے سے روکنا چاہتے ہیں ۔ ہمارا مقصد صرف اس قدر ہے کہ بچوں کی کم سے کم مقدار پیدا ہو اور بی بی کی خواہش ایک فطری تقاضا ہے ، اس کو بالکل دبائے رکھنا بھی صحت کے خلاف ہے ۔ لہٰذا اقتصادی لحاظ سے انسان کی بہبودی اسی میں ہے کہ وہ حتیٰ المقدور اپنی حیوانی خواہشوں کو پورا کرنے سے پرہیز کرے اور جہاں تک ممکن ہو بچوں کی کم سے کم تعداد پیدا کرے ۔ یہ مطلب بڑی عمر میں شادی کرنے یا بالفاظ دیگر شرحِ پیدائش کو کم کرنے اور نفسانی تقاضوں کو بالعموم ضبط کرنے سے حاصل ہو سکتا ہے۱۱ ۔ اقبال اورئینٹل کالج میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ کالج میں بھی پڑھاتے تھے ۔ ۴؍جنوری ۱۹۰۱ء کو انہوں نے لالہ جیا رام کی جگہ گورنمنٹ کالج میں عارضی طور پر اسسٹنٹ پروفیسر انگریزی کی خدمات انجام دینا شروع کیں ۱۲۔ اقبال کی انجمنِ حمایتِ اسلام کے ساتھ کچھ نہ کچھ وابستگی تو ۱۸۹۹ء ہی سے ہو چکی تھی ؛ سرعبدالقادر ان دنوں اسلامیہ کالج میں انگریزی پڑھاتے تھے۔ انہیں کچھ عرصے کے لیے رخصت لینا پڑی اور اس دوران میں ان کی جگہ اقبال اسلامیہ کالج میں انگریزی پڑھانے کے فرائض انجام دیتے رہے ۱۳۔ بعد میں گورنمنٹ کالج میں اسی منصب پر ان کا تقرر ۳۱ مارچ۱۹۰۳ء تک رہا ، جس کا چارج انہوں نے ۱۶ اکتوبر ۱۹۰۲ء کو لیا تنخواہ دو سو روپے ماہوار مقرر ہوئی۔ جب اورئینٹل کالج میں بطور میکلوڈ عربک ریڈر ان کی مدت ملازمت ختم ہوئی تو ان کا تقرر دوبارہ گورنمنٹ کالج میں بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر انگریزی ہوا ، جس کا چارج انہوں نے ۳ جون ۱۹۰۳ء کو لیا ۔ مدتِ ملازمت ۳۰ ستمبر ۱۹۰۳ء تک تھی ۱۴۔لیکن ختم ہونے سے پیشتر ہی اس میں چھ ماہ یعنی ۳۱ مارچ ۱۹۰۴ء تک توسیع کر دی گئی۱۵ ۔اس مدت کے اختتام پر انہیں مزید توسیع دی گئی اور وہ فلسفہ پڑھانے پر مامور ہوئے ۔ تنخواہ بھی دو سو روپے سے دو سو پچاس روپے ہو گئی ۔ آپ اسی منصب پر فائز تھے جب یورپ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے انہوں نے یکم اکتوبر ۱۹۰۵ء سے تین سال کی بلا تنخواہ رخصت لی ۱۶۔ اس دور میں اقبال کے تدریسی اور تحقیقی مشاغل سے ظاہر ہے کہ ان کے موضوعات میں خاصا تنوع تھا ۔ وہ تاریخ ، معاشیات ، فلسفہ اور انگریزی پڑھاتے تھے اور انہوں نے فلسفہ ، تاریخ اور معاشیات کے موضوعات پر تصنیف و تالیف کا کا م کیا۔ گورنمنٹ کالج میں تعلیم کے خاتمے کے بعد اقبال کو اڈرینگل ہوسٹل سے بھاٹی دروازے منتقل ہو گئے ۔ مراجعت انگلستان سے قبل لاہور میں اقبال کی قیام گاہوں کے متعلق ڈاکٹر عبداللہ چغتائی تحریر کرتے ہیں کہ اقبال نے معلم کی حیثیت سے ملازمت اختیار کرنے پر سب سے پہلے ۱۹۰۰ء میں بھاٹی دروازے کے اندر ایک مکان کرایہ پر لیا، جو میاں احمد بخش کی ملکیت تھا۔ اسی علاقے میں مولوی محمد باقر پروفیسر فارسی ، شمس العلما مولوی محمد حسین ، پروفیسر عربی مشن کالج ، مولوی حاکم علی ، پروفیسر اسلامیہ کالج اور مفتی عبداللہ ٹونکی کا قیام بھی تھا ۔ اس مکان کا تعین ممکن نہیں ۔ البتہ کچھ عرصہ کے بعد اقبال جس دوسرے مکان میں منتقل ہوئے ، وہ بھاٹی دروازہ میں کوچہ جلوٹیاں کے نکڑ پر تھا ۔ کوچے کے موڑ پر ایک کنواں ہے جس کے ساتھ ایک سیڑھی اوپر جاتی ہے ۔ اسی کی بالائی منزل پر اقبال چند ماہ رہے۔ اس کے بعد اس مکان میں اٹھ آئے جو لالہ رام سرن داس کی ملکیت تھا اور اس کا موجودہ نمبر ۵۹۷ ۔ بی ہے ۔ یہاں اقبال کا قیام انگلستان جانے یعنی وسط ۱۹۰۵ء تک رہا۔ اقبال سے پہلے اس مکان میں مولوی حاکم علی رہا کرتے تھے ۔ مکان کا دروازہ گلی کے اندر تھا ۔ اوپر کی منزل میں بازار کے رخ تین کھڑکیاں اور تین بخارچے تھے ۔ اسی مکان میں ۱۹۰۵ء کا مشہور زلزلہ آیا تھا ۔ اقبال اس دوران بخارچے کے قریب پلنگ پر لیٹے اطمینان سے مطالعہ کر تے رہے۔ حالاکہ زلزلہ اس قدر شدید تھا کہ اس کے اثر سے دوسرا بخارچہ ٹوٹ گیا تھا ۱۷۔ مکان کے قریب اقبال کے دیگر احباب کے علاوہ شیخ گلاب دین رہا ئش پذیر تھے ۔ حکیم شہباز الدین کا مکان بھی کچھ فاصلے پر تھا ۔ اقبال روزانہ وہاں جاتے تھے ۔ مکان کے باہر ایک چبوترہ تھا جس پر احباب کی محفلیں جمتی تھیں ۔ حقہ نوشی کے لیے ایک پیسے کا تمباکو منگایا جاتا اور سب مل کر حظ اٹھاتے ۔ سر عبدالقادر بھی بیان کرتے ہیں کہ اقبال کی پہلی نظمیں جس کارگاہ میں لکھی جاتی تھیں ، وہ بازار حکیماں کے نکڑپر بھاٹی دروازہ سے شہر میں داخل ہوتے وقت دائیں ہاتھ کی دکانوں کے اوپر ایک چھوٹا سا بالا خانہ تھا جو سفرِ یورپ تک اقبال کا مسکن رہا ۔ سر عبدالقادر تحریر کرتے ہیں : میں شام کو ان کے ہاں بیٹھتا ، ان کے دو تین اور دوست عموماً وہاں موجود ہوتے تھے ۔ ان میں ایک تو ان کے استاد مولانا کے فرزند سید محمد تقی تھے ان کی دوستی پرانے تعلقات پر مبنی تھی ۔ سیالکوٹ کے ایک اور صاحب سید بشیر حیدر بھی تھے جو اس وقت طالب علم تھے ، بعد ازاں ڈپٹی ہو گئے ایک اور طالب علم سردار عبدالغفور تھے جو ابو صاحب کہلاتے تھے ۔ یہ سب اقبال کی شاعری کے مداح تھے ۔ میں جاتا تو سلسلہ شعر و سخن شروع ہو جاتا ۔ میں کوئی شعر یا مصرع اقبال کو سنانے کے لیے ڈھونڈ رکھتا جو طرح کا کام دیتا ۔ وہ حقہ پیتے اور شعر کہتے جاتے ۔ ابو صاحب کاغذ اور پنسل لے کر لکھنا شروع کر دیتے ۔ اقبال کے ابتدائی کلام کا بیشتر حصہ اسی طرح لکھا گیا ۔ ابو صاحب ایک مجلد بیاض میں اپنی پنسلی یاد داشتیں صاف کر کے لکھ لیتے تھے۔ اگر ابو صاحب کا تیار کیا ہوا مسالہ موجود نہ ہوتا تو ہمارے مرحوم دوست کا بہت سا کلام چھپنے سے رہ جاتا ، کیونکہ وہ اس زمانے میں اپنے پاس کوئی مسودہ نہ رکھتے تھے ۱۸ ۔ اس زمانے میں لاہور کی ثقافتی زندگی کا مرکز دراصل بھاٹی دروازہ تھا ۔ لاہور ریلوے اسٹیشن ، چھاونی ، مال روڈ ، گورنمنٹ ہائوس ، لارنس باغ ، پنجاب یونیورسٹی ، عجائب گھر اور چڑیا گھر وغیرہ میں بھی گہما گہمی رہتی ، مال روڈ پر یورپی تاجروں کی دکانیں ہوا کرتی تھیں اور لارنس باغ کے منٹگمری ہال میں صرف گوری نسل کے حاکم شراب و رقص کی محفلیں جماتے تھے ۔ نیلا گنبد یا انارکلی بازار سے اصل شہر لاہور شروع ہوتا اور شہر کے اندر کی زندگی خالصتاً مشرقی تھی۔ اقبال نے اندرون بھاٹی دروازہ سکونت کے واسطے اس لیے چنا کہ ان کے بیشتر دوست یہیں رہتے تھے ۔ اسی دور میں علی بخش اقبال کے پاس ملازم ہوا ۔ اس وقت اقبال کو گورنمنٹ کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر تعینات ہوئے کچھ مدت گزری تھی ۔ علی بخش موضع اٹل گڑھ ضلع ہوشیار پور سے اپنے کسی رشتے دار کے پاس ملازمت کی تلاش میں آیا اور چند دن بعد اسے مولوی حاکم علی کے ہاں ملازمت مل گئی ۔ ابھی اس ملازمت پر اسے دو تین ماہ ہی گزرے تھے کہ ایک دن مولوی حاکم علی نے ایک خط علی بخش کے ہاتھ اقبال کو بھیجا ۔ اقبال نے جب علی بخش کو دیکھا تو اس سے کہا کہ تم ہماری نوکری کر لو ۔ علی بخش نے جواب دیا کہ میں تو مولوی صاحب کے پاس ہوں ، انہیں کیسے چھوڑوں ۔ اقبال نے کہا کہ ہمارے پاس آ جائو گے تو اچھے رہو گے ۔ ان کے اصرار پر علی بخش نے گائوں سے اپنے کسی عزیز کو بلوا کر مولوی حاکم علی کے پاس رکھوا دیا اور خود اقبال کے ہاں ملازم ہو گیا ۔ وسط ۱۹۰۵ء میں جب اقبال انگلستان جانے لگے تو علی بخش کو اپنے بڑے بھائی شیخ عطا محمد کے پاس ہنگو (کوہاٹ) بھیج دیا ۔ لیکن وہاں اس کا دل نہ لگا اور وہ واپس لاہور آ گیا ۔ پہلے اسلامیہ کالج اور پھر مشن کالج میںنوکر ہو گیا ۔ اسی دوران علی بخش کی چوری ہو گئی اور اس نے اقبال کو انگلستان میں ایک خط تحریر کرایا ۔ اقبال نے انگلستان سے واپسی سے کچھ ماہ پیشتر اسے جواب دیا ۱۹۔ ۱۹۰۸ء میں انگلستان سے اقبال کی واپسی پر علی بخش نوکری چھوڑ کر دوبارہ ان کے پاس آ گیا ۔ علی بخش کی شادی تو بچپن ہی میں ہو چکی تھی لیکن اس کی بیوی لاہور آنے سے پیشتر ہی فوت ہو گئی تھی ۔ گھر والوں نے دو تین مرتبہ اس کی شادی کا انتظام کرنے کی کوشش کی ، مگر اقبال نے اسے یہی مشورہ دیا کہ پہلے کھانے پینے کا انتظام کرو پھر شادی کرنا مناسب ہو گا۔ غرضیکہ دوبارہ شادی کی نوبت ہی نہ آئی ۲۰ ۔ اس کے بعد علی بخش آخری دم تک اقبال کے پاس رہا ۔ بلکہ ان کے انتقال کے بعد بھی بچوں کی خدمت کرتا رہا ۔ علی بخش کی وفات ۲ جنوری ۱۹۶۹ ء کو چک نمبر ۱۸۸ ۔ آر بی فیصل آباد میں ہوئی ۔ اقبال کی زندگی کے اس دور میں ان پر ایک افتاد بھی پڑی۔ مئی ۱۹۰۳ء میں شیخ عطا محمد بلوچستان کی سرحد پر سب ڈویزنل آفیسر ملٹری ورکس تھے ۔ ان کے بعض مخالفین نے سازش کر کے ان کے خلاف ایک جھوٹا فوجداری مقدمہ کھڑا کر دیا ۔ اس مقدمے کی ساری بنا عداوت پر تھی ۔ شیخ عطا محمد کو اندیشہ تھا کہ ان کے مخالفین گواہوں کو متاثر کرنے کی کوشش کریں گے اور عدالت پر بھی اثر انداز ہوں گے ، اس لیے ان کی خواہش تھی کہ یا تو ان مخالف عہدیداروں کا تبادلہ کر دیا جائے یا مقدمہ کسی دوسرے ضلع کی عدالت میں منتقل ہو جائے ، لیکن بلوچستان پولٹیکل ایجنسی والے ان دونوں میں سے کسی بات پر آمادہ نہ تھے ۔ مجبور ہو کر اقبال نے وائسرائے ہند لارڈ کرزن کو تمام حالات سے مطلع کیا ، جس نے واقعات کی تحقیق کرانے کے بعد ان افسروں کا تبادلہ کر دیا ۔ اقبال اپنے مربی بھائی کی امداد کی خاطر علی بخش کو ساتھ لے کر لاہور سے فورٹ سنڈیمن پہنچے ۔ سفر کی کچھ منزلیں گھوڑے اور اونٹ پر طے کیں ۔ پہلے روز سینتیس میل کا سفر گھوڑے پر کیا ۔ اقبال گھوڑے کی سواری کے عادی نہ تھے اس لیے سخت تکلیف اٹھائی ۔ بہرحال انجام بخیر ہوا اور اقبال کی تشویش کا خاتمہ ہوا ۔ شیخ عطا محمد با عزت طور پر بری ہوگئے ۔ ابتلا کے اس دور میں اقبال نے ایک نظم (برگِ گل) لکھ کر خواجہ حسن نظامی کے پاس بھیجی کہ خواجہ نظام الدین اولیاء کے مزار پر پڑھی جائے۔ چنانچہ یہ نظم مزار پر پڑھی گئی اور اس کا یہ شعر علیحدہ تحریر کرا کے مزار کے دروزاے پر لٹکا دیا گیا : ہند کا داتا ہے تو ، تیرا بڑا دربار ہے کچھ ملے مجھ کو بھی اس دربار گوہربار سے۲۱ اقبال اس زمانے میں بھی حسبِ معمول تعطیلات سیالکوٹ میں اپنے والدین یا اپنے اہل و عیال کے ساتھ گزارتے تھے ۔ البتہ اگست ۱۹۰۴ء میں کچھ مدت کے لیے شیخ عطا محمد کے پاس ایبٹ آباد بھی گئے ۔ وہاں احباب کے اصرار پر ایک لیکچرقومی زندگی پر دیا ۔’’بانگِ درا‘‘ کی نظم ’’ابر ‘‘ قیامِ ایبٹ آباد کے دوران تحریر کی گئی۔ مراجعت انگلستان سے قبل ان کا بھاٹی دروازے میں قیام تقریباً پانچ ساڑھے پانچ سال تک رہا ، لیکن اس عرصے میں بیوی بچوں کو اپنے ساتھ نہ رکھا ۔ وہ بھاٹی دروازے والے مکان میں اکیلے رہتے تھے ۔ علی بخش ان کا کھانا پکاتا اور وہی ان کی خدمت کرتا تھا۔ ان سے ملنے کے لیے طلبہ اور احباب وہیں آتے ۔ جب احباب کی محفلیں جمتیں اور سلسلہ شعر و سخن شروع ہوتا تو علی بخش چولہا گرم رکھتا تاکہ اقبال کا حقہ بار بار تیار کرتا رہے ۔ اقبال کی طبیعت جب شعر پر مائل ہوتی تو وہ حقہ پیتے جاتے اور شعر کہتے جاتے ۔ لاہور میں ان دنوں اخبار اور رسالے اتنے عام نہ تھے ۔ دو انگریزی اخبار نکلتے تھے ، روز نامہ ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ ‘‘ جو انگریز لوگ پڑھتے تھے اور ہفت روزہ ’’ ٹریبیون‘‘جو ہندوئوں کے جذبات کا ترجمان تھا ۔ دو تین اردو اخبار تھے ’’ اخبار عام‘‘ ، ’’وطن‘‘ اور ’’پیسہ اخبار ‘‘ لیکن ان کی اشاعت محدود تھی ۔ اپریل ۱۹۰۱ء میں شیخ عبدالقادر نے مشہور ادبی ماہنامہ ’’مخزن ‘‘ جاری کیا ۔ اسی سال فوق نے ہفتہ وار اخبار ’’پنجہ فولاد ‘‘ نکالا اور اس کے بند ہونے پر ۱۹۰۶ء میں ماہنامہ ’’کشمیری میگزین ‘ ‘ جاری کیا ، جو ۱۹۱۲ء میںہفتہ وار ’’ اخبار کشمیری ‘‘ کی صورت اختیار کر گیا ۔ فوق کی زیرِ ادارت کچھ مدت اخبار ’’کوہ نور ‘‘ ، ’’رسالہ طریقت‘‘ اور ’’نظام ‘‘ وغیرہ بھی شائع ہوئے ۲۲۔ اقبال کی اکثر نظمیں اور مضامین ’’مخزن ‘‘ کی زینت بنتے تھے ۔ ان کی نظم ’’ہمالہ‘‘ دراصل ’’مخزن‘‘ کے پہلے شمارے میں شائع ہوئی ۔ اسی طرح ’’پیسہ اخبار ‘‘ کے علاوہ فوق کے اخبار کے صفحات بھی کلام اقبال کی نشر و اشاعت کے لیے وقف تھے ۔ اقبال نے اپنی اس دور کی شاعری میں تقلیدی یا روایتی غزل سے بہت حد تک چھٹکارا حاصل کر لیا تھا ۔ اگرچہ بعض اوقات ان کے کلام میں رندی یا عشق مجازی کی بازگشت سنائی دیتی تھی ، لیکن انہوں نے ہوس عشق کو اپنے آپ پر کبھی حاوی نہ ہونے دیا ۔ ان کی نظموں میں مناظر فطرت حسن و جمال اور وطنی قومیت کے موضوعات کو خصوصی اہمیت حاصل تھی ۔ مزاج میں اضطراب تھا ۔ جو بات بھی ان کی دلچسپی کا باعث بنتی ، اس پر شعر کہہ لیتے تھے ، مگر کلام میں بحیثیت مجموعی افکار کی وسعت ، گہرائی اور تنوع موجود تھا ۔ اگرچہ سر سید نے مسلمانوں کو سیاسیاتِ ہند میں حصہ لینے سے منع کر رکھا تھا ، تعلیم یافتہ مسلمان طبقے میں سیاسی بیداری ، غلامی سے بیزاری اور آزادی کی آرزو انگڑائیاں لینے لگی تھی ، لیکن چونکہ ہندوئوں کی اکثریت تھی اور تعلیم یا معیشت کے میدانوں میں بھی وہ مسلمانوں سے بہت آگے تھے ، اس لیے ان میں بے چینی زیادہ تھی ۔ کانگرس کے علاوہ ہندوئوں نے ۱۹۰۰ء میں لاہور میں ہندو مہاسبھا قائم کر لی تھی ۔ انہیں خوش کرنے کی خاطر چند دستوری مراعات ۱۸۶۱ء ، ۱۸۸۳ء اور ۱۸۹۲ء میں دی گئیں ۔ ۱۹۰۵ء میں وائسرائے لارڈ کرزن نے تقسیمِ بنگال نافذ کی ۔ پرانے صوبہ بنگال میں بہار ، اڑیسہ اور آسام کے صوبے شامل تھے ۔ دارالسلطنت کلکتہ تھا ۔ اس بڑے صوبے کے نظم و نسق کی مشکلات کے پیش نظر اسے دو حصوں میںتقسیم کر دیا گیا ۔ مشرقی بنگال میں آسام اور مغربی بنگال میں بہار اور اڑیسہ ڈال دیے گئے ۔ مشرقی بنگال کے قیام سے مسلمانوں کو وہاں اکثریت حاصل ہو گئی اور یہ تقسیم ان کی پسماندگی کو ختم کرنے یا ان کی معاشی ترقی کے لیے سود مند تھی، لیکن ہندوستان میں مسلمانوں کی ایسی کوئی سیاسی جماعت نہ تھی ، جو بنگالی مسلمانوں کو تقسیم کے حق میں منظم کر سکتی ۔بہرحال کانگرس کے زیرِ اہتمام بنگالی ہندوئوں نے اس تقسیم کے خلاف شدید احتجاج کیا ، یہاں تک کہ دہشت انگیزی شروع ہو گئی ۔ ۱۹۱۱ء میں شاہ جارج پنجم کے دہلی آنے پر تقسیم بنگال کی تنسیخ ہوئی اور کلکتے کی بجائے دہلی دارالحکومت بنایا گیا ۔ اس موقع پر اقبال کا قطعہ ملاحظہ ہو: مندمل ، زخم دلِ بنگال ، آخر ہو گیا وہ جو تھی پہلے تمیزِ کافر و مومن گئی تاجِ شاہی یعنی کلکتہ سے دہلی آ گیا مل گئی بابو کو دھوتی اور پگڑی چھن گئی۲۳ نئے تعلیم یافتہ گروہ کے سامنے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں تھی کہ انگریز اور یورپ کی دیگر اقوام نے وطنی قومیت کے جذبے کی وجہ سے ترقی کی ہے ۔ اس سے اگر وہ بھی یہی جذبہ اپنے اندر پیدا کر لیں تو ان کی طرح آزاد اور ترقی یافتہ اقوام کی صف میں کھڑے ہو جائیں گے ۔ اقبال نوجوان تھے اور ان کا تعلق نئے تعلیم یافتہ طبقے سے تھا ۔ اس لیے وطنی قومیت کی زد میں بہ گئے ۔ اقبال وہ پہلے شاعر تھے جنہوں نے ہندوستان میں وطنیت کے جذبے کو فروغ دیا۔ خلیفہ عبدالحکیم تحریر کرتے ہیں : چونکہ ہندو قوم کا وطن اور اس کا مذہب گونا گونی کے باوجود باہم وابستہ ہیں اس لیے وطن پرستی کی تحریک ہندوئوں میں مسلمانوں سے قبل پیدا ہوئی ۔ لیکن ہندو قوم کوئی ایسا شاعر پیدا نہ کر سکی جو اس کے اس جذبے کو ابھار سکے اور اس کے قلوب کو گرما سکے ۔ ہندو قوم کے پاس وطنیت کا کوئی ترانہ موجود نہ تھا ۔ اقبال نے جب اپنے شاعرانہ کمال کو وطنیت کے لیے وقف کیا تو مسلمانوں کے علاوہ بلکہ ان سے زیادہ ہندو اس سے متاثر ہوئے ؎ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ملک کے طول و عرض میں گونجنے لگا ۔بعض ہندو مدارس میںمدرسہ شروع ہونے سے قبل تمام طالب علم اس کو ایک کورس میں گاتے تھے ۲۴ ۔ اقبال کی اس عہد کی شاعری پر سرسری نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ہندو مذہب ، فلسفہ اور ادب کو سمجھنے کی خاطر سنسکرت سے شناسائی پیدا کی ۔ اس بارے میں مخزن میں شائع شدہ نظم ’’آفتاب‘‘ کے ساتھ اقبال کا تعارفی نوٹ ملاحظہ ہو ۲۵۔ روحانیتِ ہند نے جو برگزیدہ ہستیاں پیدا کیں ، اقبال نے انہیں خلوص اور فراخ دلی سے خراج تحسین ادا کیا ہندوستانی بچوں کے قومی گیت میں چشتی اور بابا گورو نانک دونوں کو پیغامبرانِ توحید و حق قرار دیا ۔ نظم ’’نانک ‘‘ میں گوتم بدھ کو پیغامبر کا درجہ دیا ۔ بابا گورونانک کو توحید پرست اور نورِ ابراہیم کہہ کر خطاب کیا ، اور پنجاب کی سرزمین کو آزر کا گھر قرار دیا ۔ نظم ’’رام‘‘ میں رام چندر جی کی تعریف میں اشعار کہے اور انہیں ہندوستان کا امام تسلیم کیا ۔ پنجاب کے معروف ہندو صوفی سوامی رام تیرتھ ، اقبال کے ہم عصر تھے اور ان کے ساتھ کالج میں پڑھاتے تھے ۔ تزکیۂ قلب کے سبب انہوںنے عالمِ روحانی میں ایک بلند مقام حاصل کیا ۔ اہلِ پنجاب اور اہلِ ہند ان کی روحانیت کے قائل ہوئے ۔ آپ کی تحریریں قابل توجہ تھیں ۔ موت دریائے گنگا میں ڈوبنے سے واقع ہوئی ۔ اقبال کے ان سے گہرے مراسم تھے ۔ اس لیے ان کی وفات پر اقبال نے نہایت اچھے اشعار کہے، جو اب ’’بانگِ درا‘‘کی زینت ہیں ۔ اقبال ہندو قوم سے نفرت کرتے تھے نہ اس کی تحقیر کرتے تھے۔ وہ ہندوستان سے دل برداشتہ نہ تھے۔ ان کے نزدیک دوسری ملتوں کے مذہبی پیشوائوں کی تذلیل کرنا یا تعصب کی بنا پر ان کے مذہبی اور تمدنی کارہائے نمایاں کی تعریف نہ کرنا ایک اخلاقی جرم تھا جو بلند پایہ شخصیتوں کو زیب نہ دیتا تھا ۲۶۔ انہوں نے سنسکرت غالباً سوامی رام تیرتھ کی مدد سے سیکھی اور ہندو فلسفہ ویدانت کا مطالعہ کیا ۔ اس دور کی شاعری میں بہت کچھ تھا ، عشق مجازی کی گونج تھی ،روایتی تصوف تھا ، مناظرِ فطرت کی عکاسی تھی،بچوں کے لیے نظمیں تھیں ، مغربی شاعری کے آزاد تراجم تھے ، ہنگامہ کائنات، حسن و جمال اور وطنی قومیت کے احساسات تھے اور اسلامیات کا عنصر بھی موجود تھا مگر سب کچھ وسیع المشربی کے ہمہ اوست میں غرق تھا ۔ نظم ’’زہد اور رندی‘‘ میں ایک مولوی صاحب نے جو اعتراض ان پر کیے کہ شعر تو اچھے کہتا ہے لیکن احکام شریعت کی پابندی نہیں کرتا، صوفی بھی معلوم ہوتا ہے اور رند بھی ہے ، مسلمان ہے مگر ہندو کو کافر نہیں سمجھتا ۔ طبیعت میں کسی قدر تشیع بھی ہے کیونکہ تفضیل علیؓ کرتا ہے ۔ راگ کو داخلِ عبادت سمجھتا ہے ، رات کو محفلِ رقص و سرور میں شریک ہوتا ہے لیکن صبح کے وقت خشوع و خضوع سے تلاوت بھی کرتا ہے ، اس کی جوانی بے داغ بھی ہے اور شعراء کی طرح اسے حسن فروشوں سے بھی عار نہیں ۔ آخر اس مجموعہ اضداد کی سیرت کیا ہے ؛ تو جو جواب اقبال اس کا دیتے ہیں ، وہ اس دور میں ان کے مزاج کی صحیح کیفیت تھی: میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا گہرا ہے میرے بحرِ خیالات کا پانی مجھ کو بھی تمنّا ہے کہ اقبال کو دیکھوں کی اس کی جدائی میں بہت اشک فشانی اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے کچھ اس میں تمسخر نہیں ، واللہ نہیں ہے ۲۷ اہل زبان اقبال کے جدید اسالیب بیان میں کیڑے نکالتے تھے۔ وہ تو حالی کی زبان کو بھی مستند نہ سمجھتے تھے ، کیونکہ حالی کا وطن پانی پت تھا ، جہاں کی زبان ٹکسالی نہ تھی ۔ سو شروع ہی سے ٹکسالی زبان کے مدعیان نے اقبال کی زبان اور محاورے پر اعتراض وارد کیے ۔ ’’ادوھ پنچ‘‘ نے اپنے مخصوص انداز میں ان کے انداز بیان کا مضحکہ اڑایا ۔ پھر ۱۹۰۳ء میں کسی اخبار میں ’’تنقید ہمدرد‘‘ کے نام سے ان کی زبان اور فن پر اعتراضات اٹھائے گئے ۔ اقبال نے جواب میں ’’اردو زبان پنجاب میں ‘‘ کے زیر عنوان ایک مضمون تحریر کیا جو ’’ مخزن‘‘ میں شائع ہوا ۔ اس جوابی مضمون کے کچھ حصے ’’ذکرِ اقبال ‘‘ میں دئیے گئے ہیں۔ سالک کا تجزیہ ہے کہ گوا بھی ان کی عمر پچیس اور تیس سال کے درمیان تھی ، وہ علومِ مغربی کا بحر بے پایاں ہونے کے باوجود فارسی اور اردو شاعری اور ان دونوں زبانوں کے غوامض کے ماہر تھے ۲۸ ۔ لاہور میں اقبال کا حلقۂ احباب خاصا وسیع ہو گیا تھا ۔ محمد دین تاثیر کے بیان کے مطابق ابتدائی دور کے دوستوں ، غلام بھیک نیرنگ ، میرا عجاز حسین ، سرعبدالقادر وغیرہ کے علاوہ جسٹس شاہ دین اور میاں شاہ نواز بھی ان کے دوست بن گئے تھے ۲۹۔ میاں فضل حسین اور سرمحمد شفیع سے بھی گہرے تعلقات قائم ہوئے ۔ چوہدری سر شہاب الدین اور پھر میاں احمد یار دولتانہ سے بھی دوستی ہوئی ۔ سوامی رام تیرتھ سے بہت میل جول تھا اور شیو نرائن شمیم سے بے تکلفی تھی ۔ بھاٹی دروازے کے معزز مکینوں سے ان کے دوستانہ مراسم قائم تھے ۔فقیر سید افتخار الدین اور فقیر سید نجم الدین کے علاوہ خواجہ عبدالصمد ککٹرو رئیس بارہ مولا (جو خود فارسی کے طباع شاعر تھے اور مقبل تخلص کرتے تھے)کے ذریعے میاں نظام الدین بارودخانہ والے سے دوستانہ تعلقات قائم ہوئے ۔ انجمنِ حمایت اسلام کے سالانہ اجلاسوں میں شرکت کے لیے دور دراز سے بعض اہم شخصیتیں لاہور آتی تھیں ، لہٰذا اجلاسوں میں اقبال کی ملاقات لاہور ہی نہیں بلکہ ہندوستان بھر کی مسلم برگزیدہ ہستیوں سے ہوتی رہتی تھی ۔ خواجہ حسن نظامی اور مولانا غلام قادر گرامی سے اقبال کے دوستانہ مراسم انجمن کے اجلاسوں ہی میں قائم ہوئے ۔ بعد میں گرامی تو جب بھی لاہور آتے اقبال کے ہاں ہی ٹھہرتے تھے ۔اس زمانے میں اقبال صرف اردو شعر کہتے تھے اور فارسی میں غالباً چند اشعار کے سوا کوئی چیز منظرِ عام پر نہ آئی تھی لیکن گرامی محض فارسی کے شاعر تھے ۔ ان کے ساتھ دوستانہ مراسم اقبال کی یورپ سے واپسی کے بعد مزید مستحکم ہو گئے ۔ دوستی میں اقبال اس قدر وضع دار اور مستقل مزاج تھے کہ جس شخصیت یا خاندان سے ایک بار قلبی تعلق قائم کیا اسے زندگی کے آخری لمحے تک استوار رکھا ۔ اس دور میں اقبال ستار نوازی کے بے حد شائق تھے لیکن فقیر سید نجم الدین کو طائوس نوازی کا شوق تھا ، وہ بڑے کیف کے عالم میں طائوس بجا کر اقبال اور دوسرے احباب کا دل بہلاتے تھے ۔ انجمن کشمیری مسلمانان سے وابستگی کے سبب اقبال کا تعارف لاہور کی کشمیری برادری کے معززین سے ہوا ۔ اقبال ۱۸۹۶ء ہی سے اس انجمن کی کارروائیوںمیں حصہ لینے لگے تھے اور اس کے اجلاسوں میں اشعار پڑھتے تھے ۔ یہ انجمن ۱۸۹۶ء میں تین مقاصد کے لیے قائم کی گئی تھی ۔ اصلاحِ رسومِ شادی و غمی ، کشمیری مسلمانوں میں تعلیم ، تجارت، صنعت و حرفت اور زراعت کو رواج دینا اور قوم میں اتحاد و اتفاق بڑھانا مگر کچھ مدت بعد یہ انجمن بند ہو گئی پھر ۱۹۰۱ء میں دوبارہ زندہ کی گئی ۔ اس کی کارروائیاں ماہنامہ’’ کشمیری گزٹ‘‘ میں چھپتی تھیں ، جسے فوق کی زیر ادارت جان محمد گنائی نے جاری کر رکھا تھا ۔ اقبال اس انجمن کے سیکرٹری بنے اور انگلستان سے واپسی پر جنرل سیکرٹری بنا دیے گئے ۔ آپ کشمیریوں کی فلاح و بہبود کے لیے انجمن کی کارروائیوں میں سرگرم حصہ لیتے رہے ، بالآخر اسی انجمن کی بنیادوں پر آل انڈیا مسلم کشمیری کانفرنس لاہور عالم وجود میں آئی ۔ جس نے کشمیر میں بیداری پیدا کرنے اور تعلیمی پسماندگی دور کرنے میں نمایاں خدمات انجام دیں ۔ اس کانفرنس کے پہلے جنرل سیکرٹری اقبال تھے ۔ محمد عبداللہ قریشی کے بیان کے مطابق آج بھی مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں جو مسلمان ممتاز عہدوں پر فائز ہیں ان میں سے بیشتر اسی کانفرنس کے تعلیمی وظائف کے رہین منت ہیں ۔ بہرحال ۱۹۱۸ء میں جب اقبال نے محسوس کیا کہ مسلمان عالمی اخوت کے نصب العین کو پیچھے دھکیل کر برادریوں کے فریب میں مبتلا ہو گئے ہیں اور ان کی اس فریب خوردگی سے ملّی سیاست بری طرح متاثر ہو رہی ہے تو انہوں نے کانفرنس سے کنارہ کشی اختیار کر لی۳۰۔ اس دور میں انجمنِ حمایتِ اسلام سے وابستگی کے سبب اقبال کی ملّی یا عوامی شاعری کی ابتداء بھی ہوئی ۔ اقبال ۱۲ نومبر ۱۸۹۹ء کو انجمن کی مجلسِ منتظمہ کے رکن منتخب کیے گئے اور یوں ان کے انجمن کے ساتھ تعلقات کی ، جو انہوں نے آخری دم تک قائم رکھے ، ابتدا ہوئی ۳۱ ۔ انجمنِ حمایتِ اسلام لاہور کا قیام ۱۸۸۴ء میں عمل میں آیا ۔ مقاصد یہ تھے ، عیسائی مشنریوں کی تبلیغ کا سد باب کرنا ، مسلمانوں کی تعلیم کے لیے اسکول و کالج قائم کرنا جن میں جدید و قدیم علوم پڑھائے جا سکیں ، مسلمانوں کے یتیم اور لاوارث بچوں کے لیے ایسے ادارے قائم کرنا جن میں نگہداشت کے علاوہ انہیں تعلیم و تربیت بھی دی جا سکے اور اسلامی لٹریچر کی اشاعت و فروغ کا اہتمام کرنا۔ انجمن کا آغاز چون روپے کے حقیر سرمائے سے ہوا جو مسجد بکن خان کے اجتماع میں جمع کیے گئے ۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ چندے کے ذریعے انجمن نے لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے کئی اسکول جاری کیے ۔ اسلامیہ کالج ،شیرانوالہ دروازے میں اسلامیہ اسکول کی عمارت میں ۱۹۰۶ء تک قائم رہا۔ بعد میں ۱۹۰۷ء میں اس کا سنگ بنیاد ریلوے روڈ پر افغانستان کے حکمران امیر حبیب اللہ خان نے لاہور آ کر رکھا اور کالج کی عمارت کی تکمیل ہوئی ۔ انجمن نے یتامیٰ کے لیے مردانہ ، زنانہ دارالشفقت ، دارالاطفال اور دارالامان بھی جاری کیے اور پیشہ ورانہ تربیت کا مرکز ، کتب خانہ ، چھاپہ خانہ وغیرہ کے قیام کا اہتمام بھی کیا گیا ۳۲ ۔ انجمن ملّی چندہ کے ذریعے چلتی تھی ۔ اس لیے اسے چندہ جمع کرنے کے لیے وسائل کی تلاش رہتی تھی ۔ سالانہ اجلاسوں کا اہتمام بھی چندہ کی فراہمی کا ایک ذریعہ تھا ۔ ان دنوں انجمن کا سالانہ جلسہ ، جو پنجاب اور بیرون پنجاب والوں کے لیے ایک طرح کا علمی میلہ بن گیا تھا ، اسلامیہ ہائی اسکول شیرانوالہ دروازے کے وسیع صحن میں منعقد ہوا کرتا تھا ۔ اسکول کی عمارت دو منزلہ تھی اور چاروں طرف کمرے تھے۔ اوپر کے کمروں کے آگے گیلریاں تھیں۔ نیچے اور اوپر کی منزل کے ایک حصے میں تو اسکول لگتا تھا لیکن دوسرا حصہ اسلامیہ کالج کے لیے مخصوص تھا کیونکہ ابھی کالج کے لیے علیحدہ عمارت تعمیر نہ ہوئی تھی ۔ جلسے کے موقع پر صحن میں دریاں بچھا دی جاتیں کرسیاں صرف سٹیج پر ہوتیں ۔ صحن اور گیلریوں میں لوگوں کا وہ ہجوم ہوتا کہ تل دھرنے کو جگہ نہ ملتی ۔ اسٹیج پر ممتاز علماء ، اوبائ، شعرا اور دیگر ملّی رہنما بیٹھتے ۔ اس زمانے کے جلسوں میں شریک ہونے والی اہم شخصیات میں سے کچھ یہ تھیں : حالی ، شبلی ، اکبر الہ آبادی ، سیماب اکبر آبادی ، سائل دہلوی ، ارشد گورگانی ، خوشی محمد ناظر ، ڈپٹی نذیر احمد ، مولانا ابوالکلام آزاد ، گرامی ، خواجہ حسن نظامی ، مولانا عبداللہ ٹونکی ، سرعبدالقادر، سر فضل حسین ، سر محمد شفیع ، نواب ذوالفقار علی خان ، مولانا سلیمان پھلواروی، مولانا اصغر علی روحی ، مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی ، مولانا ثناء اللہ ، مولانا نذیر احمد دہلوی وغیرہ ۳۳۔ اقبال نے پہلی مرتبہ انجمن کے اسٹیج پر ۲۴ فروری ۱۹۰۰ء کے سالانہ جلسے میں اپنی نظم ’’نالہ یتیم ‘‘ پڑھی ۔ صدارت کے فرائض شمس العلماء مولانا نذیر احمد انجام دے رہے تھے ۔ اقبال نے اس سوز و گداز سے یتیموں کی بے کسی کا نقشہ کھینچا ، کہ تمام آنکھیں اشکبار ہو گئیں ۔ اس کے بعد جب یتیم کو دربار نبویؐ میں لے گئے ، تو لوگوں کی چیخیں نکل گئیں ۔ پھر جب رسالت مآبؐ نے یتیم کی معرفت امت کو ان کی امداد کا پیغام دیا تو لوگوں نے جیبیں الٹ دیں۳۴۔ جلسے میں میاں ایم۔ اسلم موجود تھے ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اقبال گورے چٹے رنگ کے دبلے پتلے اور خوبصورت جوان تھے ۔ انہوں نے عینک لگا رکھی تھی ۔ شلوار قمیض سیاہ اچکن اور رومی ٹوپی پہنے ہوئے تھے ۔ نظم کا موضوع درد مندانہ تھا ، زبان سادہ تھی ، آواز بلند و دلکش اور پڑھنے کا انداز بڑا پُر سوز تھا ۔ ان کی آواز کی ساحری نے ہُو کا عالم طاری کر دیا تھا ۳۵ ۔ خواجہ محمد حیات کی اس جلسہ کی رو داد کے مطابق جب یہ نظم رقت انگیز انداز میں پڑھی جا رہی تھی تو ’’پیسہ اخبار‘‘ والے منشی عبدالعزیز نے انہیں چند بند پڑھنے کے بعد اس غرض سے روک دیا کہ نظم کی مطبوعہ کاپیاں جن کی تعداد کئی صد تھی ، فروخت کر لی جائیں ۔ قیمت فی جلدچار روپے بتلائی ، تو یہ جلدیں آنا فانا فروخت ہو گئیں مگر مانگ بدستور رہی ۔ چنانچہ بعض حضرات نے خرید کر وہ جلدیں اس شرط پر انجمن کو مکرر عطیہ میں دے دیں کہ کوئی جلد پچاس روپے سے کم فروخت نہ ہو ۔ چند لمحوں بعد وہ بھی بک گئیں ۔ اقبال کے والد نے جو اس وقت گیلری میں بیٹھے تھے ، سولہ روپے میں ایک جلد خریدی ۔ نظم کے خاتمے پر صاحب صدر نے کہا کہ میں نے اپنے کانوں سے انیس ودبیر کے مرثیے سنے مگر جس پائے کی نظم آج سننے میں آئی اور جو اثر اس نے میرے دل پر کیا ، وہ اس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا ۔ لوگوں نے اقبال کو مجبور کر کے نظم دوبارہ پڑھوائی ۳۶ ۔ اس کے بعد اقبال کی نظمیں انجمن کے سالانہ جلسوں کی ایک امتیازی خصوصیت بن گئیں ۔ چنانچہ ۱۹۰۱ء میں انجمن کے اجلاس میں اقبال نے اپنی نظم ’’ایک یتیم کا خطاب ہلال عید سے ‘‘ پڑھی۔ ۱۹۰۲ء کے اجلاس میں ’’خیر مقدم‘‘ ’’دین و دنیا‘‘ اور اسلامیہ کالج کا خطاب پنجاب کے مسلمانوں سے‘‘ پڑھیں ۔ ۱۹۰۳ء کے اجلاس میں ’’فریاد امت ‘‘ پڑھی ۔ اس موقع پر سر عبدالقادر ، سر محمد شفیع ، سر فضل حسین، نواب ذوالفقار علی خان ،شاہ سلیمان پھلواروی ، عبداللہ ٹونکی ، ثنار اللہ ، خوشی محمد ناظر ، اور ارشد گورگانی ایسی ہستیاں موجود تھیں ۔ یہ نظم لوگوں کے اصرار پر غالباً ترنم سے پڑھی گئی۔ کیونکہ اس اجلاس کی روداد میں درج ہے کہ قدت نے اقبال کو گلا بھی عطا کیا ہے اور ایسی بلند ، شیریں اور پُر درد آواز کی نعمت مرحمت کی ہے جو انہی کا حصہ ہے نظم کے اختتام پر خواجہ عبدالصمد ککڑو نے اقبال کو ایک نقرئی تمغہ پہنایا جو وہ کشمیر سے بنوا کر لائے تھے ۳۷ ۔ ۱۹۰۴ء کے اجلاس میں انہوں نے نظم’’ تصویر درد ‘‘پڑھی ۔ اس موقع پر دیگر شخصیات کے علاوہ حالی ، ارشد گورگانی ، سر محمد شفیع ، سر عبدالقادر ، سر فضل حسین ، مولانا ابوالکلام آزاد اور خواجہ حسن نظامی موجود تھے ۔ نظم ترنم سے پڑھی گئی اور نہایت توجہ سے سنی گئی ۔ ایک شعر سے متاثر ہو کر حالی نے بے اختیار دس روپے کا نوٹ پیش کیا جو انجمن کے چندہ میں جمع ہو گیا ۔ نظم کے اختتام پر خواجہ حسن نظامی اس قدر متاثر ہوئے کہ اپنا عمامہ اتار کر اقبال کے سر پر رکھ دیا ۔ میاں بشیر احمد پر جو اس اجلاس میں موجود تھے، بیان کرتے ہیں : ایک حسین نوجوان ناک پکڑ عینک لگائے ، شلوار اور چاندنی جوتے پہنے ، سر گریبان کا بٹن کُھلا، اسٹیج پر کھڑا خوش الحانی سے ایک مخصوص لے میں پڑھ رہا تھا ، یہاں تک کہ ایک ایک شعر بکنے لگا ۔ اقبال اس وقت گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے اسسٹنٹ پروفیسر تھے۔ ایک نوجوان نے بڑھ کر شاید پندرہ روپے میں ایک شعر خرید لیا۔ معلوم ہوا کہ یہ اقبال کے گورنمنٹ کالج کا ایک ہندو شاگرد ہے ۔ یہ قیمتیںسب انجمنِ حمایتِ اسلام کے چندہ میں ادا ہوتی تھیں ۳۸ ۔ اس اجلاس کے دوسرے روز کی نشست میں حالی اپنی نظم پڑھنے کے لیے اٹھے لیکن پیرانہ سالی کے سبب ان کی نحیف آواز حاضرین تک نہ پہنچتی تھی ۔ جلسے میں لا تعداد انسانوں کا مجمع تھا ۔ اس لیے افراتفری پیدا ہونے لگی ۔ سر عبدالقادر نے کھڑے ہو کر مجمع کو آرام و سکون سے حالی کی زبان سے تبرکاً کچھ سننے کی تلقین کی اور کہا کہ بعد میں اقبال ان کی نظم پڑھ کر سنا دیں گے ۔ تھوڑی دیر بعد اقبال سٹیج پر آئے اور حالی کی نظم سنانے سے قبل ایک فی البدیہہ رباعی نہایت خوش الحانی سے پیش کی: مشہور زمانے میں ہے نامِ حالی معمور مے حق سے ہے جامِ حالی میں کشورِ شعر کا نبی ہوں گویا نازل ہے مرے لب پہ کلامِ حالی اس کے بعد انہوں نے اپنی دلکش اور شیریں آواز میں حالی کی پوری نظم ’’مادرِ پنجابِ انجمن‘‘ حاضرین کو سنائی ۳۹ ۔ اس مرحلے پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس عہد کے اقبال نے ، جو وطنی قومیّت کی مے سے سرشار اور وسیع المشربی کے ہمہ اوست میں مستغرق تھے ، اپنے موضوعات میں اسلام کا عنصر کیونکر شامل کیا ؟ کیا ان کی مسلم قومیّت یا ملّی ماتم کی شاعری حالی یا شبلی کی تقلید میں وجود میں آئی ؟ اس سوال کے جواب کے لیے اقبال کے گرد و نواح سے پوری طرح باخبر ہونے کے لیے تحریک اتحاد ممالکِ اسلامیہ کا سر سری جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے ۔ سولہویں اور سترہویں صدیوں میں یورپی ممالک میں صنعتی انقلاب ، کلیسا اور ریاست کے آپس میں دنگل میں ریاست کی فتح ، وطنی قومیّت کے فروغ اور عقلیت کے اصولوں پر جدید علوم اور سائنس کی ترقی نے شہنشاہیت یا استعمار اور سرمایہ دارانہ نظام کو جنم دیا ۔ تجارت اور صنعت و حرفت کے پھیلائو کی خواہش نے یورپی ممالک میں ملک گیری کی ہوس پیدا کی ۔ چونکہ صنعت و حرفت کی پیداوار بڑھانے کی خاطر خام مال کی ضرورت تھی اور تجارت کے فروغ کے لیے بیرونی منڈیاں درکار تھیں ، سو یورپی ممالک کی توجہ شمالی ولاطینی امریکہ ، افریقہ ، ایشیا اور دنیا کے دیگر خطوں کی طرف مبذول ہوئی ۔ یورپ اور روس ، یورپ اور افریقہ اور ایشیا ، مشرق بعید اور بحر الکاہل کے درمیان ممالک اسلامیہ کو ایک خصوصی جغرافیائی اہمیت حاصل تھی ۔ شروع میں تو یورپ اور ایشیا میں سمندری آمدو رفت افریقہ کے گرد چکر کاٹ کر رأس امید کے لمبے رستے سے ہوتی تھی ، لیکن اٹھارہویں صدی کے اختتام پر یورپ کی نوآبادیاتی طاقتوں نے اپنی معاشی ضروریات کے پیشِ نظر بحیرہ روم میں سے آمد و رفت کا نیا سمندری رستہ نہر سویز کی تعمیر کی صورت میں ڈھونڈ نکالا ۔ بہر حال اس نئے رستے کو جبل الطارق اور سرزمینِ مصر کنٹرول کرتے تھے ۔ اسی طرح مشرقِ بعید کا سمندری رستہ جزیرہ نما ملایا کی علاقائی حدود میں سے گزرتا تھا ۔ یورپ اور جنوبی روس کے درمیان بحیرہ اسود کا سمندری رستہ ترکی کی علاقائی حدود میں سے گزرتاتھا ، نیز خشکی کے رستے باکو میں تیل کے ذخائر تک پہنچنے کے لیے بھی وسطی ایشیا کے مسلم ملکوں میں سے گزرنا پڑتا تھا ۔ پس روس اور یورپ کی نوآبادیاتی طاقتوں کی استعماری توسیع کے سبب دنیائے اسلام کے مختلف علاقوں پر ان کا قبضہ ہو گیا۔ مسلمانان وسطی ایشیا ، ہندوستان ، ملایا ، جزائر شرق الہند، چین اور شمالی افریقہ نے ان کا مقابلہ تو کیا مگر نا کامی کا سامنا کرنا پڑا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کمزور مسلم سلطنتِ عثمانیہ کے مقابلے میں استعمار پرست روس اور یورپی طاقتوں کے اقتدار کے زیر اثر دنیائے اسلام کا اخلاقی ، سیاسی اور معاشی زوال انتہا تک پہنچ گیا۔ اس عمومی انحطاط کے باعث عرب ، شمالی افریقہ ، وسطی ایشیا اور ہندوستان میں ’’وہابی ‘‘ قسم کی کئی اصلاحی تحریکیں وجود میں آئیں ۔ جن کا مقصد عالمِ اسلام میں ان تمام خرابیوں کی بیخ کنی تھا جو مسلمانوں کے زوال کا سبب تھیں ۔ دنیا بھر کے مسلمان ان تحریکوں سے متاثر ہوئے کیونکہ مصلحین نے اسلام کی اصل پاکیزگی کی طرف از سرِ نو رجوع کرنے کی تلقین کی اور بدعتوں کے مکمل رد پر زور دیا تھا ۔ ابتداء میں بہ اعتبارِ نوعیت گو یہ تحریکیں داخلی تھیں ، لیکن کچھ مدت بعد روس اور یورپی نوآبادیاتی طاقتوں کے استحصال کے خلاف انہوں نے زبر دست مزاحمت کی ۔ سید احمد بریلوی اور ان کے معتقدین نے ہندوستان میں اور محمد السنوسی نے شمالی افریقہ میں برطانوی استعمار کے خلاف جہاد کیا۔ مغرب سے براہِ راست تعلق کے باعث نئے نظریات مثلاً دستور پسندی ، سیکولر ازم، نیشنلزم وغیرہ دنیائے اسلام میں در آئے ۔ گو اسلام کا جدید احیا’’ وہابیت‘‘کے ہاتھوں وجود میں آیا لیکن ایک دو نسلوں کے بعد مسلمانوں میں وسیع النظری یا لبرل ازم کی تحریک عالم وجود میں آئی اور عالمِ اسلام میں کچھ ایسے مصلحین بھی پیدا ہو گئے جنہوں نے مغربی نظریات کو اسلامی رنگ دینا شروع کر دیا ۔ ترکی میں مدحت پاشا ، وسطی ایشیا میں مفتی عالم جان ، مصر میں شیخ محمد عبدہٗ اور ہندوستان میں سر سید احمد خان نے اس سلسلے میں نمایاں خدمات انجام دیں ۔ یہاں تک کہ گمان ہونے لگا کہ مصلحین کے دو گروہ یعنی قدامت پسند اور اعتدال پسند ایک دوسرے کے خلاف ہمیشہ صف آرا ہی رہیں گے، لیکن چونکہ دونوں گروہ مغرب کے استعمار کے بیرونی خطرے سے آگاہ تھے، اس لیے اسلام کے دینی اور ملکی دفاع میں دونوں نے مشترکہ طور پر حصہ لیا ۔ جدید اسلام میں قدامت پسندی اور اعتدال پسندی کے ان دو بظاہر مخالفانہ رجحانات کے درمیان مصالحت کرانے کے بارے میں عموماً جمال الدین افغانی (۱۸۳۸ء تا ۱۸۹۷ئ) کا نام لیا جاتا ہے ۔ انہوںنے یورپ کی ترقی کی تکنیک کو سمجھنے پر زور دیا اور مسلمانوں کو مغربی طاقتوں کے استعمار کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کی قوت کے اصل راز یعنی سائنس اور ٹکنالوجی اور تنظیم کو اپنا نے کی تلقین کی ۴۰۔ اس زمانے میں دنیائے اسلام کسمپرسی کی حالت میں تھی ۔ سلطنتِ عثمانیہ محض نام کی اسلامی سلطنت رہ گئی تھی۔ سلطان عبدالحمید نے ۱۸۷۶ء میں سلطنتِ عثمانیہ کی باگ ڈور سنبھالی تھی ۔ ۱۸۷۶ء سے لے کر ۱۸۸۲ء تک مسلمان مشرقی یورپ کے بیشتر علاقوں سے نکال دیئے گئے ۔ تیونس، فرانس کے قبضے میں چلا گیا اور جبل الطارق و مصر پر انگریز حاوی ہو گئے ۔ وسطی ایشیا کی مسلم ریاستیں یکے بعد دیگرے زار کی سلطنت روس کا حصہ بن گئیں ۔ شمالی اور جنوب مغربی چین کے مضطرب مسلمان ۱۸۵۶ء سے لے کر ۱۸۷۸ء تک جنگ آزادی میں ناکام ہونے کے بعد ایک سیاسی قوت کی حیثیت سے ختم کر دئیے گئے۔ فرانسیسیوں کی نگاہیں مراکش پرتھیں ۔ ایران نزع کے عالم میں تھا ۔ جزائرِ شرق الہند پر ڈچ غلبے کے سبب مسلمانوں کی حالت قابلِ رحم تھی ۔ برصغیر ہند میں بھی ۱۸۵۷ء کے ہنگامے کے بعد اسلام کے جھنڈے سر نگوں ہو چکے تھے ۔ ملایا پر انگریز قابض تھے اور افغانستان کے خارجی امور کا کنٹرول بھی ۱۸۷۹ء سے انگریزوں کے ہاتھ میں چلا گیا تھا ۴۱ ۔ اس بے بسی کے عالم میں مسلمانوں کی نگاہیں سلطنت عثمانیہ کی طرف اٹھتی تھیں ، کیونکہ صرف یہی ایک ایسی اسلامی سلطنت رہ گئی تھی جس کا بین الاقوامی سیاسیات میں کچھ نہ کچھ وقار ابھی قائم تھا۔ لیکن یورپی طاقتوں میں ملک گیری کی ہوس بڑھتی چلی جا رہی تھی ۔ ان کی نگاہوں میں سلطنت عثمانیہ میں اسلام کا ٹمٹماتا ہوا آخری چراغ بھی کھٹک رہا تھا ۔ انہوں نے اسے یورپ کے ’’بیمار آدمی‘‘ کا نام دے رکھا تھا ۔ ۱۸۹۷ء میں انگریزوں کے اشارے پر یونانیوں نے سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا ، جس کی وجہ سے مسلمانانِ ہند میں انگریزی حکومت کے خلاف نفرت کا جذبہ دوبارہ ابھر آیا ۔ بہرحال ترکوں کے ہاتھوں یونانی باغیوں کی شکست پر مسلمانانِ ہند بہت خوش ہوئے ۔ اس پر سر سید کا ماتھا ٹھنکا ، سر سید گو غروب ہوتا ہوا آفتاب تھے مگر ان کی نگاہوں کے سامنے ۱۸۵۷ء کا ہنگامہ ابھی تک ایک زندہ حقیقت تھا ، انہیں اندیشہ تھا کہ مبادا مسلمان اس نئے جذبہ نفرت سے متاثر ہو کر ایک بار پھر اپنے حاکموں سے نبردآزما ہو جائیں اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے جو عمارت سر سیّد نے بلند کر رکھی تھی وہ زمین پر آ رہے ، ان کی خواہش تھی کہ مسلمان نہ صرف سیاسیات ہند سے الگ تھلگ رہیں بلکہ انہیں دنیائے اسلام کی سیاسی کشمکش میں بھی دلچسپی لینے سے باز رکھا جائے ۔ اسی خیال کے پیشِ نظر سر سید نے خلافتِ عثمانیہ کی تردید میں چند مضمون تحریر کیے۴۲۔ سلطان عبدالحمید کے عہد میں داخلی اعتبار سے سلطنت عثمانیہ مطلق العنانیت اور دستوریت کی کشمکش میں مبتلا تھی ۔ سلطان عبدالحمید اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی خاطر بحیثیتِ خلیفۂ اسلام دیگر مسلم ممالک کی حمایت حاصل کرنے کے درپے تھے تاکہ ترکوں میں دستوری تحریک کا خاتمہ کیا جا سکے ۔ گو وہ اپنی تخت نشینی کے فوراً بعد مدحت پادشاہ کا تیار کردہ جمہوری دستور نافذ کرنے پر راضی ہو گئے ، جس کے سبب ان کے بعض اختیارات چھن گئے ، لیکن جو نہی بحیثیتِ خلیفہ انہوں نے اپنے آپ کو مضبوط سمجھا ، انہوں نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے مجلسِ آئین ساز توڑ دی اور شیخ الاسلام سے یہ فتویٰ حاصل کر لیا کہ جو بھی دستور کا مطالبہ کرے گا ، اس کے خلاف جہاد کرنا مسلمانوں کا فرض ہے ۔ ترکی کی تاریخ جدید میں اس دور کو دور استبداد کا نام دیا گیا ہے ۔ بہرحال ۱۹۰۸ء میں انور پاشا اور طلعت پاشا کی قیادت میں نوجوان ترکوں کے انقلاب کے سبب دوبارہ دستور کے نفاذ پر مجبور ہوئے مگر ۱۹۰۹ء میں تقابلی انقلاب کی ناکامی پر انہیں معزول کر دیا گیا۴۳ ۔ جمال الدین افغانی عثمانی سلطان خلیفہ کی سربراہی میں جمہوریت کی بنیادوں پر ایک دستوری وفاق کی صورت میں ممالک اسلامیہ کے اتحاد کے داعی تھے ۔ اس لحاظ سے انہیں تحریک اتحاد اسلام (یا پین اسلام ازم) کا بانی سمجھا جاتا ہے ۔ وہ ۱۸۳۸ء میں اسد آباد (افغانستان) میں پیدا ہوئے ۔ کچھ عرصہ تک انہوں نے امیر دوست محمد خان اور دیگر افغان امیروں کی انتظامیہ میں خدمات انجام دیں ۔ انہوں نے حرمین الشریفین کی زیارت بھی کی اور ۱۸۶۹ء میں افغانستان کو خیر باد کہ کر ہندوستان کے رستے قاہرہ پہنچے ۔ جہاں کچھ مدت قیام کر کے مسلم ممالک کے اتحاد کی ضرورت پر تقریریں کیں ۔ اس کے بعد وہ استنبول گئے لیکن ۱۸۷۱ء میں پھر قاہرہ واپس آگئے اور مصر کی قومی تحریکِ آزادی میں سرگرم عمل ہوئے۔ ۱۸۷۹ء میں انگریزوں نے انہیں مصر سے نکال دیا اور وہ ہندوستان آ کر حیدر آباد (دکن) میں مقیم ہوئے ۔ ۱۸۸۲ء میں مصری قوم پرستوں نے اعرابی پاشا کی زیرِ قیادت خدیو مصر کی مطلق لعنانیت اور انگریزوں کی مصر کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ، جس کے نتیجے میں انگریز مصر پر قابض ہوگئے ۔ ۱۸۸۲ء میں مصر پر انگریزوں کے تسلط کے بعد جمال الدین افغانی کو ہندوستان سے باہر جانے کی اجازت دے دی گئی ۔ وہ لندن پہنچے اور پھر پیرس میں تین سال کے قیام کے دوران اپنا ہفت روزہ ’’العروۃ الوثقیٰ‘‘ نکالتے رہے ۔ ۱۸۸۵ء میں ایک بار پھر لندن گئے ۔ بعد میں ماسکو اور سینٹ پیٹرز برگ گئے اور چار سال تک روس میں قیام کیا اس عرصے میں انہوں نے وسطی ایشیا کے مسلمانوں کو زار روس سے کچھ دستوری مراعات لے کر دیں۔ میونخ میں جمال الدین افغانی کی ملاقات ایران کے بادشاہ ناصر الدین قاچار سے ہوئی اور وہ ایران بلوالیے گئے ۔ وہاں پہنچ کر چونکہ انہوں نے دستوری تحریک کی حمایت کی ، اس لیے ۱۸۹۰ء میں انہیں ایران بدر کر دیا گیا ۔ ۱۸۹۱ء میں وہ ایک بار پھر لندن گئے لیکن اسی سال واپس استنبول آ گئے ۔ سلطان عبدالحمید نے انہیں اپنی اغراض کے حصول کے لیے استعمال کرنا چاہا لیکن کامیابی نہ ہوئی ، کیوں کہ جمال الدین افغانی ترکی میں بھی دستوری تحریک کے حامی تھے ۔ ۱۸۹۷ء میں ان کی وفات استنبول میں ہوئی ۔ بعض محققین کی رائے میں انہیں سلطان عبدالحمید کی ہدایت پر زہر دیا گیا تھا ۴۴ ۔ ای جی برائون کے نزدیک اس عظیم ہستی نے بیس سال کی مدت میں عالم اسلام کے حالات کو اپنی کسی بھی ہم عصر شخصیت سے زیادہ متاثر کیا ۔ وہ مصر کی قومی آزادی کی تحریک کے اصل محرّک تھے۔ ایران میں دستوری تحریک انہی کی ایما پر منظم ہوئی ۔ نیز ترکی کے دستور پسندوں کو بھی ان کی حمایت حاصل تھی ۔ ان سب باتوں کے ساتھ وہ مسلم ریاستوں کے اتحاد کے داعی تھے تاکہ مسلمانانِ عالم کو روس اور یورپ کے استعمار و استحصال سے بچایا جا سکے ۔ انہوں نے مسلمانوں میں سنی اور شیعہ تفرقہ مٹانے کے لیے شاہِ ایران کو رضا مند کیا کہ عثمانی سلطان کے خلافت کے دعوے کو تسلیم کر لیا جائے اور عثمانی سلطان کو مشورہ دیا کہ وہ شاہِ ایران کو بطور سربراہ مسلمانانِ شیعہ قبول کر لیں ۴۵ ۔ جمال الدین افغانی کی تحریک کے دو نمایاں پہلو تھے ۔ وہ ایک طرف تو مسلم ممالک میں سلاطین کی مطلق العنانیت کی بجائے دستوری حکومت کا نفاذ اور قانون کی بالا دستی چاہتے تھے اور دوسری طرف عثمانی سلطان خلیفہ کی آئینی سربراہی میں آزاد مسلم ریاستوں کے وفاق کو عالم وجود میں لانے کے لیے کوشاں رہے ۔ بہ الفاظِ دیگر وہ صحیح معنوں میں ایک وفاقی جمہوری نظام کے ذریعے عالم اسلام میں اتحاد قائم کرنے کے خواہشمند تھے ۔ کیونکہ ان کے نزدیک یہی وہ واحد طریقہ تھا جس سے مسلمانانِ عالم روسی اور یورپی استعمار و استحصال سے اپنا تحفظ کر سکتے تھے ۔ لیکن بد قسمتی سے زوال پذیر مسلم سلطنتیں جمال الدین افغانی کے افکار و نظریات قبول کرنے کے لیے ابھی تیار نہ تھیں ۔ ادھر روس اور یورپی طاقتوں کو ، جو اپنے اپنے سیاسی اور معاشی مقاصد کے حصول کی خاطر دنیائے اسلام کو پارہ پارہ دیکھنا چاہتی تھیں ، کسی بھی صورت میں اسلام کی وحدت یا اتحاد قابل قبول نہ تھا ، نتیجہ یہ ہوا کہ یورپی پریس نے جمال الدین افغانی اور تحریکِ اتحادِ اسلام کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا ۔ انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی یہ تحریک روس اور یورپ کی عیسائی اقوام کے خلاف جارحانہ اتحاد ہے اور مسلمانان عالم آپس میں متحد ہو کر عیسائیت کو دنیا میں بحیثیت ایک سیاسی قوت ختم کر دینا چاہتے ہیں ۔ غرضیکہ اس مدافعانہ تحریک کو ، جو در حقیقت کوئی منظم تحریک نہ تھی بلکہ محض ایک احساس تھا، جارحانہ ظاہر کرکے اس کی جتنی بھی مخالفت ہو سکتی تھی، کی گئی۔ بہرحال جمال الدین افغانی کے ہندوستان میں قیام کے دوران سرسید اور ان کے حامی ان سے الگ تھلگ رہے ۔ مگر جب جمال الدین افغانی کلکتہ گئے تو سید امیر علی ، مولوی چراغ علی اور حسن عسکری جیسے مسلم نوجوانوں نے انہیں گھیر لیا اور ان کے افکار سے استفادہ کیا ۔ سید امیر علی نے جمال الدین افغانی سے متاثر ہو کر خلافت عثمانیہ کی سربراہی میں اتحاد اسلام کی حمایت میں بہت کچھ لکھا۴۶۔ البتہ ان کی ان تحریروں سے قبل روس اور ایران کے شیعہ مجتہدین نے اس سیاسی ضرورت پر کئی فتوے دے رکھے تھے ۴۷ ۔ جمال الدین افغانی نے ہندوستان میں قیام کے دوران سر سیّد کے مذہبی نظریات کی تردید میں اپنا رسالہ’’ ردِّ نیچریہ‘‘ تحریر کیا ۴۸ اور بعد میں پیرس سے اپنے ہفت روزہ میں ان کے خلاف لکھتے رہے ۔ مولانا شبلی نعمانی (۱۸۵۷ء تا ۱۹۱۴ئ) نے تحریک اتحاد اسلام میں گہری دلچسپی لی ۔ وہ سولہ سال تک علی گڑھ کالج میں سر سید کے ساتھ کام کرتے رہے اور سرسید کے زیر اثر سلطان عبدالحمید کے دعویٰ خلافت اسلامیہ کی تردید میں ایک مضمون بھی تحریر کیا، لیکن بقول ان کے یہ مضمون انہوں نے اپنی مرضی کے خلاف لکھا تھا ۴۹ ۔دراصل وہ سر سیّد کے مذہبی اور سیاسی نظریات کے مخالف تھے۔ انہوں نے بالآخر ۱۹۰۵ء میں علی گڑھ کالج چھوڑ کر لکھنؤ میں ندوۃ العلماء سے تعلق استوار کر لیا۔ ۱۸۷۷ء میں ، جب ترک روسیوں کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے اور انہیں انگریزوں کی حمایت حاصل تھی تو شبلی نے معذور ترک عسکریوں کے لیے چندہ جمع کرنے کی مہم شروع کی ۔ یہ چندہ بعد میں ترکی بھجوا دیاگیا۵۰ ۔ ۱۸۹۲ء میں شبلی استنبول گئے اور تین ماہ تک وہاں ٹھہرے ۔سلطان عبدالحمید نے انہیں مجیدی تمغہ سے نوازا۵۱ ، لیکن بعد میں جب انگریزوں کے ترکوں کے ساتھ تعلقات خراب ہو گئے تو حکومت ہند نے شبلی کو ہندوستان میں سلطان عبدالحمید کا ایجنٹ سمجھ کر انہیں تمغہ پہننے سے روک دیا ۔ وہ تمغہ بھی آخر کار چوری ہو گیا ۵۲ ۔ شبلی نے اپنے سفرِ ترکی کی روداد قلم بند کی ، ترکوں کے متعلق بہت کچھ لکھا نیز اپنی نظموں میں بھی ان کی مصیبتوں کا ذکر بار بار کیا ۵۳ ۔ سر سیّد کا بتایا ہوا رستہ گرچہ مصلحتِ وقت کے تحت درست تھا لیکن اسے مسلمانوں کے لیے مستقل لائحہ عمل قرار نہ دیا جا سکتا تھا ۔ چنانچہ سر سید کی وفات کے بعد جس طرح نوجوان مسلم تعلیم یافتہ افراد میں وطنی قومیت کا جذبہ فروغ پانے لگا ،ا سی طرح قلبی اور ذہنی طور پر وہ تحریکِ اتحادِ اسلام سے بھی متاثر ہوئے۔ لیکن بظاہر ایسے اتحاد کے وجود میں آنے کے امکانات دکھائی نہ دیتے تھے ۔ بلکہ آئے دن کسی نہ کسی مسلم ملک پر مغربی استعمار کے ہاتھوں مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا تھا جسے مسلمانان ہند محسوس تو کرتے تھے مگر ان کی حالت محض تماشائی کی سی تھی ۔ وہ ماتم کے سوا کچھ نہ کر سکتے تھے ۔ ان کی کوئی معقول سیاسی تنظیم تھی نہ قیادت ۔ اس لیے تعلیم یافتہ طبقہ بیک وقت وطنی قومیت اور عالمی اسلامی اخوت کے متضاد جذبات کا حامل تھا ۔ اقبال کی اس دور کی شاعری مسلم معاشرے میں اسی تضاد کی عکاسی کرتی ہے اور بس۔ اقبال کے ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنری کے امتحان مقابلہ میں شریک ہونے سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ شروع شروع میں ان کا اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر یورپ جانے کا ارادہ نہ تھا ، مگر انہیں سرکاری ملازمت نہ مل سکی ۔ اسی طرح قانون کے امتحان میں بھی ناکامی ہوئی اور ان کے لیے صرف تدریس کا مشغلہ رہ گیا ۔ جو بجائے خود کوئی معقول آمدنی کا ذریعہ نہ تھا ۱۹۰۴ء میں جب شیخ عبدالقادر یورپ جانے لگے تو اقبال کو بھی تحریک ہوئی ۔انہوں نے شیخ عبدالقادر سے کہا کہ میں بھی بھائی کو لکھتا ہوں ، اگر وہ بندوبست کر سکے تو آپ کے جانے کے بعد ایک سال کے اندر اندر وہاں پہنچ جائوں گا ۵۴ ۔اقبال نے گذشتہ چند سالوں میں کچھ روپے اپنی تنخواہ سے بچا رکھے تھے ، شیخ عطا محمد نے بھی ان کی امداد کی ۔ اسلامی فلسفہ و تصوف کے کسی موضوع پر ڈاکٹریٹ کرنے کی ترغیب تو ممکن ہے انہیں آرنلڈ نے دی ہو لیکن بیرسٹری کرنے کا ارادہ غالباً ان کا اپنا تھا ۔ شیخ عبدالقادر نے مرزا جلال الدین کو لندن سے واپسی پر تاکید کی کہ اگر اقبال ان کے پاس انگلستان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے آئیں تو ان کی رہنمائی کی جائے ۔ سو انگلستان جانے سے کچھ عرصہ قبل اقبال ، مرزا جلال الدین کے پاس گئے ۔ یہ دونوں کی پہلی ملاقات تھی ، دوستانہ مراسم اقبال کی انگلستان سے واپسی کے بعد قائم ہوئے ۵۵ ۔ اقبال انگلستان جانے سے قبل ہمیشہ قومی لباس زیب تن کرتے تھے ۔ گھر میں وہ عموماًتہبند اور بنیان پہنتے ۔ اگر سردیوں کا موسم ہوتاتو قمیض پہن کر اوپر دُھسا اوڑھ لیتے باہر جاتے وقت عموماً شلوار قمیض اور اچکن یا کوٹ پہنتے تھے ۔ پائوں میں پمپ پادیسی جوتا ہوتا اور سر پر رومی ٹوپی یا سیاہ قراقلی کی اونچی ٹوپی ۔ بعض اوقات سر پر لنگی بھی باندھ لیتے تھے ، لیکن یورپ میں پہننے کے لیے انہوں نے خاص طور پر انگریزی لباس یعنی سوٹ سلوائے اور جب لندن پہنچے تو سوٹ ہی زیب تن کر رکھا تھا ۔ علی بخش نے ایک بار راقم کو بتایا تھا کہ اقبال نے فیلٹ ہیٹ صرف یورپ میں طالب علمی کے زمانے میں پہنا ۔ بعد میں اسے کبھی استعمال نہ کیا ۔ لندن روانہ ہونے سے پہلے گرمیوں کی تعطیلات کا بیشتر حصہ اقبال نے سیالکوٹ میں اپنے والدین اہل و عیال اور بھائی بہنوں کے درمیان گزارا ۔ سیّد میر حسن سے تحقیق کے معاملے میں مشورے بھی کیے ۔ آخر کار وہ اپنے ماں باپ اور بھائی سے رخصت ہو کر لاہور پہنچے ، لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر ان کے احباب نے انہیں الوداع کہی ۔ اقبال کے لاہور سے لندن تک سفر کی تفصیل ان کی اپنی تحریروں اور احباب کے مضامین میں ملتی ہے ۔وہ یکم ستمبر ۱۹۰۵ء کی رات کو لاہور سے دہلی روانہ ہوئے ۔ احباب میں سے نیزنگ اور شیخ محمد اکرام انہیں رخصت کرنے کے لیے دہلی تک ساتھ گئے۵۶ ۔گاڑی ۲ ستمبر ۱۹۰۵ء کی صبح دہلی پہنچی ۔ اسٹیشن پر خواجہ حسن نظامی اور منشی نذر محمد استقبال کو آئے ہوئے تھے ۔ ریل سے اتر کر پہلے منشی نذر محمد کے مکان پر تھوڑی دیر آرام کیا ۔ پھر سب دوست مل کر نظام الدین اولیاء کی درگاہ کی طرف روانہ ہوئے ۔ رستے میں ہمایوں کے مقبرہ پر فاتحہ پڑھی اور داراشکوہ کے مزار کی زیارت کی ۔ درگاہ میں پہنچ کر مزارِ نظام الدین اولیاء پر حاضر ہوئے ۔ اقبال نے عالم تنہائی میں تربت کے سرہانے بیٹھ کر اپنی نظم ’’التجائے مسافر‘‘ پڑھی ۔ ان کی درخواست پرسب احباب باہر صحن میں ٹھہرے رہے ۔ بعد میں دوستوں کے اصرار پر وہی نظم صحن میں بیٹھ کر مزار کی طرف منہ کر کے دوبارہ پڑھی درگاہ سے واپس ہو کر خواجہ حسن نظامی کے مکان پر قیام کیا اور دوپہر کو لنگر کی مہمانی سے بہرہ اندوز ہوئے ۔ ایک نو عمر ، نو آموز مگر خوش گلو اور با مذاق قوال ولایت نامی انہیں کچھ گا کر سناتا رہا ۔ شہر واپس ہونے سے پہلے قبرستان کے ایک ویران گوشے میں میرزا اسد اللہ خان غالب کی تربت پر حاضر ہوئے ۔ نیزنگ ، تربت کے سرہانے لوح تربت پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے ، ان کے دائیں اقبال عالمِ محویت میں بیٹھے اور باقی لوگ تربت کے اردگرد حلقہ باندھے کھڑے تھے ۔ دوپہر دو بجے کا وقت ، تیز دھوپ اور ہوا میں گھمس ، لیکن کسی کو گرمی کا ذرا بھی احساس نہ ہوا ۔ قوال زادے کو عجیب بر وقت سوجھی کہ ان سے اجازت لے کر غزل گانے لگا: دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی ذیل کے دو شعروں پر عجیب کیفیت رہی: اڑتی پھرے ہے خاک مری کوئے یار میں بارے اب اے ہوا ہوسِ بال و پر گئی وہ بادئہ شبانہ کی سرمستیاں کہاں اٹھیے! بس اب کہ لذتِ خوابِ سحر گئی غزل کے اختتام پر جب کچھ لمحوں بعد ذرا ہوش بحال ہوئے اور سب چلنے کا سوچنے لگے۔ اقبال نے جوشِ محویّت میں غالب کی تربت کو بوسہ دیا اور شہر کو روانہ ہوئے ۵۷ ۔ اقبال نے رات منشی نذر محمد کے ہاں گزاری ۔ اقبال خود تحریر کرتے ہیں : ۳ ستمبر کی صبح کو میر نیرنگ اور شیخ محمد اکرام اور باقی دوستوں سے دہلی میں رخصت ہو کر بمبئی کو روانہ ہوا اور ۴ کو خدا خدا کر کے اپنے سفر کی پہلی منزل پر پہنچا ۔ ریلوے اسٹیشن پر تمام ہوٹلوں کے ٹکٹ ملتے ہیں مگر میں نے ٹامس کک کی ہدایت سے انگلش ہوٹل میں قیام کیا اور تجربے سے معلوم کیا کہ یہ ہوٹل ہندوستانی طلبہ کے لیے جو ولایت جا رہے ہوں ، نہایت موزوں ہے ۔۔۔۔ یہاں کا منتظم ایک پارسی پیر مرد ہے جس کی شکل سے اس قدر تقدس ظاہر ہوتا ہے کہ دیکھنے والے کو ایران کے پرانے خشور( نبی) یاد آ جاتے ہیں ۔ دکانداری نے اس کو ایسا عجز سکھا دیا ہے کہ ہمارے بعض علما میں باوجود عبادت اور مرشدِ کامل کی صحبت میں بیٹھنے کے بھی ویسا انکسار پیدا نہیں ہوتا ۔۔۔۔ اس ہوٹل میںایک یونانی بھی آ کر مقیم ہوا جو ٹوٹی پھوٹی سی انگریزی بولتا تھا ۔۔۔۔ کہنے لگا ، (چین میں) سوداگری کرتا تھا لیکن چینی لوگ ہماری چیزیں نہیں خریدتے ، میں نے سن کر دل میں کہا ، ہم ہندیوں سے تو یہ افیمی ہی عقل مند نکلے اپنے ملک کی صنعت کا خیال رکھتے ہیں ۔ شاباش افیمیوں ، شاباش ! نیندسے بیدار ہو جائو۔ ابھی تم آنکھیں ہی مل رہے ہو کہ اس سے دیگر قوموں کو اپنی اپنی فکر پڑ گئی ہے ۔ ہاں ہم ہندوستانیوں سے یہ توقع نہ رکھو کہ ایشیاء کی تجارتی عظمت کو از سر نو قائم کرنے میں تمہاری مدد کر سکیں گے ہم متفق ہو کر کام کرنا نہیں جانتے ۔ ہمارے ملک میں محبت اور مروت کی بو باقی نہیں رہی ۔ ہم اس کو پکا مسلمان سمجھتے ہیں جو ہندوئوں کے خون کا پیاسا ہو اور اس کو پکا ہندو خیال کرتے ہیں جو مسلمان کی جان کا دشمن ہو ۔ ہم کتاب کے کیڑے ہیں اور مغربی دماغوں کے خیالات ہماری خوراک ہیں ۔ کاش خلیج بنگالہ کی موجیں ہمیں غرق کر ڈالیں ۔۔۔۔ ایک شب میں کھانے کے کمرے میں تھا کہ دو جنٹلمین میرے سامنے آ بیٹھے ۔۔۔۔ فرانسیسی زبان میں باتیں کرتے تھے ۔ آخر جب کھانا کھا کر اٹھے تو ایک نے کرسی کے نیچے سے اپنی ترکی ٹوپی نکال کر پہنی ۔ جس سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ یہ کوئی ترک ہے ۔ میری طبیعت بہت خوش ہوئی اور مجھے یہ فکر پیدا ہوئی کہ کسی طرح ان سے ملاقات ہو ۔ دوسرے روز میں نے خواہ مخواہ باتیں شروع کیں ۔۔۔ یہ نوجوان ترک ینگ پارٹی سے تعلق رکھتا ہے اور سلطان عبدالحمید کا سخت مخالف ہے ۔ باتوں باتوں میں مجھے معلوم ہوا کہ شاعر بھی ہے ۔ میں نے درخواست کی کہ اپنے شعر سنائو کہنے لگا ، میں کمال بے (ترکی کا سب سے مشہور زندہ شاعر) کا شاگرد ہوں ۔۔۔۔۔ کمال بے کے جو اشعار اس نے سنائے وہ سب کے سب نہایت عمدہ تھے لیکن جو شعر اپنے سنائے وہ سب کے سب سلطان کی ہجو میں تھے ۔۔۔۔ ایک روز سر شام میں اور یہ ترک جنٹلمین بمبئی کا اسلامیہ مدرسہ دیکھنے چلے گئے وہاں اسکول کی گراونڈ میں مسلمان طلبہ کرکٹ کھیل رہے تھے ۔ ہم نے ان میں سے ایک کو بلایا اور اسکول کے متعلق بہت سی باتیں اس سے دریافت کیں ۔۔۔۔ غرض کہ بمبئی (خدا اسے آباد رکھے) عجب شہر ہے ۔ بازار کشادہ ، ہر طرف پختہ سر بفلک عمارتیں ہیں کہ دیکھنے والے کی نگاہ ان سے خیرہ ہوتی ہے ۔ بازاروں میں گاڑیوں کی آمد و رفت اس قدر ہے کہ پیدل چلنا محال ہو جاتا ہے۔۔۔۔ یہاں پارسیوں کی آبادی اسّی نوے ہزار کے قریب ہے ، مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمام شہر ہی پارسیوں کا ہے ۔ اس قوم کی صلاحیت نہایت قابل تعریف ہے اور ان کی دولت و عظمت بے اندازہ ۔ مگر اس قوم کے لیے کسی اچھے فیوچر کی پیش گوئی نہیں کر سکتا ۔یہ لوگ عام طور پر سب کے سب دولت کمانے کی فکر میں ہیں اور کسی چیز پر اقتصادی پہلو کے سوا کسی اور پہلو سے نگاہ ہی نہیں ڈال سکتے ۔ علاوہ اس کے نہ کوئی ان کی زبان ہے ، نہ ان کا لٹریچر ہے اور طرہ یہ کہ فارسی کو نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ افسوس یہ لوگ فارسی لٹریچر سے غافل ہیں ۔ ورنہ ان کو معلوم ہوتا کہ ایرانی لٹریچر میں عربیت کو فی الحقیقت کوئی دخل نہیں ہے بلکہ زر دشتی رنگ اس کے رگ و ریشے میں ہے اور اسی پر اس کے حسن کا دارومدار ہے ۔ میں نے اسکول کے پارسی لڑکوں اور لڑکیوں کو بازار میں پھرتے دیکھا ۔ چستی کی مورتیں تھیں مگر تعجب ہے کہ ان کی خوبصورت آنکھیں اسّی فی صدی کے حساب سے عینک پوش تھیں ۔۔۔۔ اس شہر کی تعلیمی حالت عام طور پر نہایت عمدہ معلوم ہوتی ہے ۔ ہمارے ہوٹل کا حجام ہندوستان کی تاریخ کے بڑے بڑے واقعات جانتا تھا ۔ گجراتی کا اخبار ہر روز پڑھتا تھا اور جاپان اور روس کی لڑائی سے پورا باخبر تھا۔نوروزجی دادا بھائی کا نام بڑی عزت سے لیتا تھا ۔۔۔۔ ہوٹل کے نیچے مسلمان دکاندار ہیں ۔ میں نے دیکھا ہر روز گجراتی اخبار پڑھتے تھے ۵۸۔ اقبال تین روز بمبئی میں ٹھہرنے کے بعد ۷ ستمبر ۱۹۰۵ء کو دو بجے دوپہر جہاز پر سوار ہوئے ۔ لالہ دھنپت رام وکیل اور ان کے ایک دوست جو اتفاق سے بمبئی میں تھے ، انہیں رخصت کرنے کے لیے گھاٹ پر گئے ، کوئی تین بجے جہاز نے حرکت کی اور اقبال اپنے دوست کو سلام کہتے اور رومال ہلاتے ہوئے سمندر پر چلے گئے ، یہاں تک کہ موجیں اِدھر اُدھر سے آ آ کر جہاز کو چومنے لگیں ۔ اقبال لکھتے ہیں : فرانسیسی قوم کا مذاق اس جہاز کی عمدگی اور نفاست سے ظاہر ہے ۔۔۔۔ ملازموں میں مصر کے چند حبشی بھی ہیں جو مسلمان ہیں اور عربی بولتے ہیں ۔ جہاز کے فرانسیسی افسر نہایت خوش خلق ہیں اور ان کے تکلفات کو دیکھ کر لکھنؤ یاد آ جاتا ہے ۔ ۔۔۔ کھانے کا انتظام بھی نہایت قابلِ تعریف ہے ۔۔۔۔ ہمارے اس جہاز میں ساٹھ سے زیادہ مسافر نہیں ہیں ۔ ہم لوگ رات کو اپنے اپنے کمروں میں سوتے ہیں اور صبح سے شام تک تختۂ جہاز پر کرسیاں بچھا کر بیٹھے رہتے ہیں ۔ کوئی پڑھتا ہے ، کوئی باتیں کرتا ہے ، کوئی پھرتا ہے۔ کیبن میں جہاز کی جنبش کی وجہ سے طبیعت بہت گھبراتی ہے مگر تختۂ جہاز پر بہت آرام رہتا ہے ۔ میرے تمام ساتھی دوسرے ہی روز مرض بحری میں مبتلا ہو گئے ۔ مگر الحمد للہ! کہ میں محفوظ رہا۔۔۔۔ بمبئی سے ذرا آگے نکل کر سمندر کی حالت کسی قدر متلاطم تھی ۔۔۔۔ اتنی اونچی اونچی موجیں اٹھتی تھیں کہ خدا کی پناہ ! دیکھ کر دہشت آتی تھی ۔۔۔۔ جہاز پر دیا سلائی استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ تختۂ جہاز کے ایک طرف کمرے کی دیوار پر پیتل کی ایک انگیٹھی سی لگا رکھی ہے ، جس میں چند لکڑیاں آگ لگا کر رکھ دیتے ہیں ۔ جن لوگوں کو سگریٹ یا سگار روی کرنا ہو، اس انگیٹھی سے ایک لکڑی اٹھالیں ۔ جہاز کے سفر میں دل پر سب سے زیادہ اثر ڈالنے والی چیز سمندر کا نظارہ ہے ۔ باری تعالیٰ کی قوتِ لامتناہی کا جو اثر سمندر دیکھ کر ہوتا ہے ، شاید ہی کسی اور چیز سے ہوتا ہو ۔ حج بیت اللہ میں جو تمدنی اور روحانی فوائد ہیں ، ان سے قطع نظر کر کے ایک بڑا اخلاقی فائدہ سمندر کی ہیبت ناک موجوں اور اس کی خوفناک وسعت کا دیکھنا ہے جس سے مغرور انسان کو اپنے ہیچ محض ہونے کا پورا پورا یقین ہو جاتا ہے ۔۔۔۔ آج ۱۲ ستمبر کی صبح ہے۔ میں بہت سویرے اٹھا ہوں ، جہاز کے جاروب کش ابھی تختے صاف کر رہے ہیں۔ چراغوں کی روشنی دھیمی پڑ گئی ہے ، آفتاب چشمۂ آب میں سے اٹھتا ہوا معلوم ہوتا ہے اور سمندر اس وقت ایسا ہی ہے جیسے ہمارا دریائے راوی ۔۔۔۔ طلوعِ آفتاب کا نظارہ ایک درد منددل کے لیے تلاوت کا حکم رکھتا ہے۔ یہی آفتاب ہے جس کے طلوع و غروب کو میدان میں ہم نے کئی دفعہ دیکھا ہے۔۔۔۔ حقیقت میں جن لوگوں نے آفتاب پرستی کو اپنا مذہب قرار دے رکھا ہے ، میں ان کو قابل معذور ہی سمجھتا ہوں ۔۔۔۔ کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر صاحب جو اٹھارہ ماہ کی رخصت لے کر ولایت جا رہے ہیں ۔۔۔۔ بڑے باخبر آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ کل رات ان سے ہندوستان کے پولٹیکل معاملات پر بہت دیر تک گفتگو ہوتی رہی ۔ عربی اور فارسی جانتے ہیں ۔ سر ولیم میور کی تصانیف کے متعلق گفتگو ہوئی تو کہنے لگے کاش یہ شخص ذرا کم متعصب ہوتا ۔ عمر خیام کے بڑے مداح ہیں ، مگر میں نے ان سے کہا کہ اہل یورپ نے ابھی سحابی نجفی کی رباعیات کا مطالعہ نہیں کیا ، ورنہ عمر خیام کو کبھی کے فراموش کر گئے ہوتے ۔ اب ساحل قریب آتا جاتا ہے اور چند گھنٹوں میں ہمارا جہاز عدن جا پہنچے گا۔ ساحلِ عرب کے تصور نے جو ذوق و شوق اس وقت دل میں پیدا کر دیا ہے ، اس کی داستان کیا عرض کروں ۔ بس دل یہی چاہتا ہے کہ زیارت سے اپنی آنکھوں کو منور کروں: اللہ رے خاکِ پاکِ مدینہ کی آبرو خورشید بھی گیا تو ادھر سر کے بل گیا اے عرب کی مقدس سر زمین ! تجھ کو مبارک ہو ! تو ایک پتھر تھی جس کو دنیا کے معماروں نے رد کر دیا تھا مگر ایک یتیمؐبچے نے خدا جانے تجھ پر کیا افسوں پڑھ دیا کہ موجودہ دنیا کی تہذیب و تمدن کی بنیاد تجھ پر رکھی گئی ۔۔۔۔ اے پاک سر زمین ! ۔۔۔۔ تیرے ریگستانوں نے ہزاروں مقدس نقشِ قدم دیکھے ہیں اور تیری کھجوروں کے سائے نے ہزاروں ولیوں اور سلیمانوں کو تمازتِ آفتاب سے محفوظ رکھا ہے ۔ کاش میرے بد کردار جسم کی خاک تیرے ریت کے ذروں میں مل کر تیرے بیابانوں میں اڑتی پھرے اور یہی آوارگی میری زندگی کے تاریک دنوں کا کفّارہ ہو ۔ کاش! میں تیرے صحرائوں میں لٹ جائوں اور دنیا کے تمام سامانوں سے آزاد ہو کر تیری تیز دھوپ میں جلتا ہوا اور پائوں کے آبلوں کی پروا نہ کرتا ہوا اس پاک سر زمین میں جا پہنچوں جہاں کی گلیوں میں اذانِ بلال کی عاشقانہ آواز گونجتی تھی۵۹۔ اقبال قرنطینہ کے سبب اور گرمی کے باعث عدن کی سیر نہ کر سکے اور جہاز ہی میں رہے ۔ کچھ گھنٹوں بعد جہاز نے لنگر اٹھایا اور بحر قلزم میں سے گزرتا ہوا سویز پہنچا ۔ اقبال تحریر کرتے ہیں : جب ہم سویز پہنچے تو مسلمان دکانداروں کی ایک کثیر تعداد ہمارے جہاز پر آموجود ہوئی اور ایک قسم کا بازار تختۂ جہاز پر لگ گیا ۔۔۔۔ کوئی پھل بیچتا ہے ، کوئی پوسٹ کارڈ دکھاتا ہے، کوئی مصر کے پرانے بت بیچتا ہے ۔۔۔۔ انہی لوگوں میں ایک شعبدہ باز بھی ہے کہ ایک مرغی کا بچہ ہاتھ میں لیے ہے اور کسی نامعلوم ترکیب سے ایک کے دو بنا کر دکھاتا ہے ۔ ایک نوجوان مصری دکاندار سے میں نے سگریٹ خریدنے چاہے اور باتوں باتوں میں میں نے اس سے کہا کہ میں مسلمان ہوں ، مگر چونکہ میرے سر پر انگریزی ٹوپی تھی ، اس نے ماننے میں تامل کیا اور مجھ سے کہا کہ تم ہیٹ کیوں پہنتے ہو؟ ۔۔۔۔ میں نے اسے جواب دیا کہ ہیٹ پہننے سے کیا اسلام تشریف لے جاتا ہے ؟ کہنے لگا کہ اگر مسلمان کی ڈاڑھی منڈی ہو تو اس کو ترکی ٹوپی یعنی طربوش ضرور پہننا چاہیے ورنہ پھر اسلام کی علامت کیا ہو گی۔۔۔۔خیر آخر یہ شخص میرے اسلام کا قائل ہوا اور چونکہ حافظِ قرآن تھا ، اس واسطے میں نے چند آیات قرآن شریف کی پڑھیں تو نہایت خوش ہوا اور میرے ہاتھ چومنے لگا ۔ باقی تمام دکانداروں سے مجھ کو ملایا اور وہ میرے گرد حلقہ باندھ کر ماشاء اللہ ، ماشاء اللہ کہنے لگے اور میری غرضِ سفر معلوم کر کے دعائیں دینے لگے یا یوں کہیے کہ دو چار منٹ کے لیے وہ تجارت کی پستی سے ابھر کر اسلامی اخوت کی بلندی پر جا پہنچے ۔ تھوڑی دیر بعد مصری نوجوانوں کا ایک نہایت خوبصورت گروہ جہاز کی سیر کے لیے آیا ۔ میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو ان کے چہرے اس قدر مانوس معلوم ہوتے تھے کہ مجھے ایک سیکنڈ کے لیے علی گڑھ کالج کے ایک ڈیپوٹیشن کا شبہ ہوا ۔ یہ لوگ جہاز کے ایک کنارے پر کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگے اور میں بھی دخل در معقولات ان میں جا گھسا ۔ دیر تک باتیں ہوتی رہیں ۔ ان میں سے ایک نوجوان ایسی خوبصورت عربی بولتا تھا کہ جیسے حریری کا کوئی مقالہ پڑھ رہا ہو ۔ آخر مسلمانوں کے اس گروہ کو چھوڑ کر ہمارا جہاز رخصت ہوا اور آہستہ آہستہ سویز کینال میں جا داخل ہوا ۔ یہ کینال جسے ایک فرانسیسی انجنیئر نے تعمیر کیا تھا ۔ دنیا کے عجائبات میں سے ایک ہے ۔۔۔۔ دنیا کی روحانی زندگی پر مہاتما بدھ نے بھی اس قدر اثر نہیں کیا ، جس قدر اس مغربی دماغ نے زمانہ حال کی تجارت پر اثر کیا ہے ۔۔۔۔ سیکڑوں آدمی ہر وقت کام کرتے رہتے ہیں جب ٹھیک رہتی ہے اور اس کا ہمیشہ خیال رکھنا پڑتا ہے کہ دونوں جانب سے جوریگ ہوا سے اڑ کر اس میں گرتی رہتی ہے ، اس کا انتظام ہوتا رہے ۔ کنارے پر جو مزدور کام کرتے ہیں ، بعض نہایت شریر ہوتے ہیں ۔ جب ہمارا جہاز آہستہ آہستہ جا رہا تھا اور جہاز کی چند انگریز بیبیاں کھڑی ساحل کی سیر کر رہی تھیں تو ان میں سے ایک مزدور از سر تا پا برہنہ ہو کرناچنے لگا ۔ یہ بے چاری دوڑ کر اپنے اپنے کمروں میں چلی گئیں ۔ جہاز سے گزرتے ہوئے ایک اور دلچسپ نظارہ بھی دیکھنے میں آیا اور وہ یہ کہ ہم نے ایک مصری جہاز گزرتے ہوئے دیکھا جو بالکل ہمارے ہی پاس سے ہو کر گزرا ۔ اس پر تمام سپاہی ترکی ٹوپیاں پہنے ہوئے تھے اور نہایت خوش الحانی سے عربی غزل گاتے جاتے تھے ۔۔۔۔ ابھی ہم پورٹ سعید نہ پہنچے تھے کہ ایک بارود سے بھرے ہوئے جہاز کے پھٹ جانے اور ٹکڑے ٹکڑے ہو کر غرق ہو جانے کی خبر آئی ۔ تھوڑی دیر میں اس کے ٹکڑے کینال سے گزرتے ہوئے دکھائی دیے ۔۔۔۔ پورٹ سعید پہنچ کر پھر مسلمان تاجروں کی دکانیں تختۂ جہاز پر لگ گئیں ۔ میں ایک کشتی پر بیٹھ کر مع پارسی ہم سفر کے بندرگاہ کی سیر کو چلا گیا ۔۔۔۔ مدرسہ دیکھا ، مسجدوں کی سیر کی ۔ اسلامی گورنر کا مکان دیکھا ۔ موجدِ سویزکینال کا مجسمہ دیکھا ، غرض کہ خوب سیر کی ۔۔۔۔ آخر اپنے مسلمان راہ نما کو ، جو اکثر زبانیں جانتا تھا ، کچھ انعام دے کر جہاز کو لوٹا، یہاں جو پہنچا تو ایک اور نظارہ دیکھنے میں آیا ۔ تختہ جہاز پر تین اطالین عورتیں اور دو مرد وائلن بجا رہے تھے اور خوب رقص و سرود ہو رہا تھا ۔ ان عورتوں میں ایک لڑکی جس کی عمر تیرہ چودہ سال کی ہو گی ۔ نہایت حسین تھی ۔ مجھے دیانتداری کے ساتھ اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ اس کے حسن نے تھوڑی دیر کے لیے مجھ پر سخت اثر کیا ، لیکن جب اس نے ایک چھوٹی سی تھالی میں مسافروں سے انعام مانگنا شروع کیا تو وہ تمام اثر زائل ہو گیا ، کیونکہ میری نگاہ میں وہ حسن جس پر استغنا کا غازہ نہ ہو بدصورتی سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔ القصہ فردوس گوش اور کسی قدر جنت نگاہ کے حظوظ اٹھا کر ہم روانہ ہوئے اور ہمارا جہاز بحیرئہ روم میں داخل ہو گیا ۔ یہاں سے بہت سے جزیرے رستے میں ملتے ہیں ۔ جن میں سے بعض کسی نہ کسی بات کے لیے مشہور ہیں۔۔۔۔ بحیرئہ روم کے ابتدائی حصے میں سمندر کا نظارہ بہت دلچسپ تھا ، اور ہوا میں ایسا اثر تھا کہ غیر موزوں طبع آدمی بھی موزوں ہو جائے ۔ میری طبیعت قدرتاً شعر کی طرف مائل ہو گئی اور میں نے چند اشعار کی غزل لکھی ۶۰ ۔۔۔۔مارسیلزتک پہنچنے میں چھ روز صرف ہوئے ۔ کچھ تو اس وجہ سے کہ سمندر کا آخری حصہ بہت متلا طم تھا اور کچھ اس خیال سے کہ اصلی رستے میں طوفان کا اندیشہ ہو گا ، ہمارا کپتان جہاز کو ایک اور رستے سے لے گیا، جو معمولی رستے سے کسی قدر لمبا تھا ۔ ۲۳ کی صبح مارسیلز یعنی فرانس کی ایک مشہور تاریخی بندرگاہ پر پہنچے اور چونکہ ہمیں آٹھ دس گھنٹے کا وقفہ مل گیا تھا ، اس واسطے بندرگاہ کی خوب سیر کی ۔ مارسیلز کا نوٹرڈام گر جا نہایت اونچی جگہ پر تعمیر ہوا ہے اور اس کی عمارت کو دیکھ کر دل پر یہ بات منقوش ہو جاتی ہے کہ دنیا میں مذہبی تاثیر ہی حقیقت میں تمام علوم و فنون کی متحرک ہوئی ہے ۔ مارسیلز سے گاڑی پر سوار ہوئے اور فرانس کی سیر بھی، حسن رہگزرے کے طریق پر ہو گئی کھیتیاں جو گاڑی کے ادھر ادھر آتی ہیں ، ان سے فرانسیسی لوگوں کا نفیس مذاق مترشح ہوتا ہے۔ ایک رات گاڑی میں کئی اور دوسری شام کوہم لوگ برٹش چنال کو کراس کر کے ڈوور اور ڈوور سے لندن پہنچے ۔ شیخ عبدالقادر کی باریک نگاہ نے باوجود میرے انگریزی لباس کے مجھے دور سے پہچان لیا اور دوڑ کر بغل گیر ہو گئے ۶۱ ۔ اقبال ۲۴ ستمبر ۱۹۰۵ء کو لندن پہنچے اور ایک رات شیخ عبدالقادر کے ساتھ گزارنے کے بعد ۲۵ ستمبر کو کیمبرج روانہ ہو گئے ۔ مآخذ باب: ۶ ۱ ۔ بمطابق شرائط مندرجہ ’’پنجاب گزٹ‘‘ ۱۸؍ فروری ۱۸۹۷ء حصہ سوم ، صفحہ ۲۸۷ گیارہ ماہ بعد ان کی تنخواہ تہتر روپے ہو گئی تھی ۔ ۲ ۔ ’’تاریخ گورنمنٹ کالج‘‘ لاہور (انگریزی) ، صفحہ ۱۱۵ ۔ نیز دیکھئے ’’مطالعہ اقبال‘‘ ، مرتبہ گوہر نوشاہی ، صفحات ۴۹ تا ۵۱ ، مضمون ، ’’اقبال اورئینٹل کالج میں‘‘ از ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار اس تفصیل میں ریکارڈ کی وضاحت کے سلسلے میں بعض اختلافات بھی ہیں ۔ ڈاکٹر محمد باقر کی تحقیق کے مطابق اقبال ۱۳ مئی ؍ ۲۴ جون ۱۸۹۹ء کو عربک ریڈر کی حیثیت سے مقرر ہوئے ۴ جنوری ۱۹۰۱ء کو طویل رخصت پر چلے گئے ۔ لیکن معلوم نہیں کس تاریخ سے واپس اورئینٹل کالج آئے ۔ پھر ۱۸ ؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء سے لے کر ۳۱ مارچ ۱۹۰۳ء تک انہوں نے دوبارہ رخصت لی اور گورنمنٹ کالج میں انگریزی کے ایڈیشنل پروفیسر کی حیثیت سے کام کیا ۔ یکم اپریل ۱۹۰۳ء کو واپس اورئینٹل کالج آ گئے ۔ پھر یکم جون ۱۹۰۳ء کو چار ماہ کی رخصت پر گئے اور گورنمنٹ کالج میں انگریزی کے ایڈیشنل پروفیسر کی حیثیت سے کام کیا ۔ معلوم نہیں کس تاریخ کو واپس اورئینٹل کالج آئے ۔ پھر ۳۱ مارچ ۱۹۰۴ء تک بلا تنخواہ رخصت لی ۔ میکلوڈ عربک ریڈر کی حیثیت سے مارچ ۱۹۰۴ء میں سبکدوش ہوئے ۔ اورئینٹل کالج میگزین علامہ اقبال صد سال برسی ۱۹۷۷ء ، مرتبہ ڈاکٹر عبادت بریلوی (انگریزی) صفحات ۲۹ تا ۳۷ ۔ محمد حنیف شاہد کی تحقیق کے مطابق ۴ ؍جنوری ۱۹۰۱ء کو اقبال کا تقرر بحیثیت عارضی اسسٹنٹ پروفیسر انگریزی صرف اٹھائیس دنوں کے لیے ہوا ۔ دوبارہ تقرر بطور اسسٹنٹ پروفیسر انگریزی ۱۶؍اکتوبر۱۹۰۲ء تا ۳۱ ؍ مارچ ۱۹۰۳ء ہوا اور تنخواہ دو سو روپیہ ماہوار قرار پائی ۔ ۳ جون ۱۹۰۳ء کو اقبال نے تیسری بار گورنمنٹ کالج میں عارضی طور پر اسسٹنٹ پروفیسر انگریزی کی حیثیت سے ۳۰ ستمبر ۱۹۰۳ء تک خدمات انجام دیں ، لیکن عرصۂ ملازمت کے اختتام سے پیشتر اس میں ۳۱ مارچ ۱۹۰۴ء تک تو سیع کر دی گئی ۔ ملازمت میں مزید توسیع ہوئی اور اقبال گورنمنٹ کالج میں فلسفہ کے اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے ۔ اعلیٰ تعلیم کی تحصیل کے لیے عازم انگلستان ہونے سے پیشتر آپ اسی عہدے پر فائز تھے۔ ’’اقبال اور گورنمنٹ کالج‘‘ لاہور ۔ جرنل آف دی ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان اکتوبر ۱۹۷۸ء جلد ۱۵ نمبر ۴ ، صفحات ۶۹ تا۷۷۔ ۳ ۔ ’’ذکرِ اقبال‘‘ از عبداالمجید سالک صفحہ ۲۳ ۴ ۔ ’’ملفوظاتِ اقبال‘‘ مرتبہ ابواللیث صدیقی ، صفحات ۱۵۱ ، ۱۵۲ مضمون ’’اقبال سے ایک ملاقات‘‘ از پروفیسر حمید احمد خان ۔ ۵ ۔ ’’مطالعہ اقبال‘‘ ، صفحہ ۵۱ ۔ ’’اقبال کے خطوط اور تحریریں‘‘ مرتبہ بی۔ اے۔ ڈار (انگریزی) ۔ صفحہ ۱۲۱ ۶۔ ’’مطالعہ اقبال‘‘ ، صفحات ۵۴ تا ۵۷ ۔ اقبال کا مقالہ انگریزی نظریہ توحید مطلق ، پیش کردہ شیخ عبدالکریم الجیلی ، پہلی بار رسالہ ’’انڈین انٹی کیوری‘‘ بمبئی کے شمارہ ستمبر ۱۹۰۰ء میں شائع ہوا ۔ ۷ ۔ مقالۂ مذکور کے لیے دیکھیے ’’اقبال کی تحریریں تقاریر اور بیانات‘‘ ، مرتبہ لطیف احمد شیروانی (انگریزی) صفحات ۶۹ تا ۸۵ ۸ ۔ کتاب مذکور علامہ اقبال میوزیم ، جاوید منزل لاہور میں محفوظ ہے ۔ ۹ ۔ شیخ عبدالقادر کی تحریر کے مطابق یہ کتاب اپریل ۱۹۰۴ ء میں ابھی چھپ رہی تھی دیکھیے’’ مخزن‘‘ اپریل ۱۹۰۴ء صفحات ۱ تا ۸ ، لیکن ’’مخزن‘‘ دسمبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۴ پر اس کی اشاعت ، قیمت ایک روپیہ اور مصنف سے مل سکنے کا ذکر ہے ۔ کتاب پر منشی دیا نرائن نگم نے تبصرہ بھی کیا جو ان کے ماہنامہ ’’زمانہ‘‘ کانپور کے مئی ۱۹۰۵ء کے شمارے میں شائع ہوا ۔ ۱۰ ۔ کتاب مذکور ۱۹۶۱ء میں کراچی سے دوسری بار شائع ہوئی ۔ تیسری مرتبہ اقبال اکادمی لاہور نے ۱۹۷۷ء میں باہتمام آئینہ ادب لاہور شائع کی ’’روز گار فقیر‘‘ جلد دوم ، صفحہ ۶۴ ۔ ۱۱ ۔ صفحات ۲۰۷ ، ۲۱۰ تا ۲۱۳ کتاب مذکور ۱۲ ۔ ’’پنجاب گزٹ ‘‘ ۲۴ فروری ۱۹۰۱ء حصہ اوّل ، صفحہ ۵۰ ۱۳ ۔ مضمون ’’علامہ اقبال انجمن کے جلسوں میں ‘‘ از خلیفہ شجاع الدین ۔ حمایت اسلام شجاع الدین نمبر ۳ مئی ۱۹۵۶ء صفحہ ۱۰ ۱۴ ۔ ’’پنجاب گزٹ ‘‘ ۹؍جولائی ۱۹۰۳ء ، حصہ اوّل، صفحہ ۶۲۶ ۱۵ ۔ ’’پنجاب گزٹ ‘‘ ۱۰ دسمبر ۱۹۰۳ء حصہ اوّل ، صفحہ ۱۳۴۷ ۱۶ ۔ ’’پنجاب گزٹ ‘‘ ۸ ؍ جون ۱۹۰۵ء حصہ اول ، صفحہ ۳۷۲ ، پنجاب گزٹ ۱۶ ؍ اگست ۱۹۰۶ء حصہ اول ، صفحہ ۷۲۹ ۱۷ ۔ ’’صحیفہ ‘‘اقبال نمبر ،حصہ اوّل، صفحہ ۵۴ مضمون ’’لاہور میں اقبال کی قیام گاہیں ‘‘، اس زلزلے نے کانگڑے میں بڑی تباہی مچائی تھی ۔ علی بخش اقبال کی ملازمت میں آچکا تھا اور زلزلے کے خوف سے کبھی سیڑھیاں چڑھتا اور کبھی اترتا ۔ اقبال نے کتاب سے اپنی نگاہیں اٹھا کر اسے کہا کہ ڈرو مت بلکہ سیڑھیوں میں کھڑے ہو جائو ۔ اس کے بعد پھر اطمینان سے کتاب پڑھنے میں منہمک ہو گئے تھے ۔ ۱۸ ۔ ’’نذرِ اقبال ‘‘ مرتبہ محمد حنیف شاہد ، صفحات ۳ ، ۴ ۱۹ ۔ خط محررہ ۱۱ دسمبر ۱۹۰۷ء بنام علی بخش ، اقبال نامہ جلد دوم ، صفحہ ۲۹۶ ۲۰ ۔ ’’ذکرِ اقبال ‘‘ ، صفحات ۲۲ ، ۲۳ ۲۱ ۔ خط بنام سیّد محمد تقی شاہ ’’اقبال نامہ ‘‘ جلد دوم ،صفحات ۲۹۸ ، ۲۹۹ ۔ خط محررہ ۶؍اگست ۱۹۰۳ء بنام حبیب الرحمن شروانی ، ’’اقبال نامہ ‘‘ جلد اوّل ، صفحہ ۶ ، ’’ روز گارِ فقیر ‘‘ جلد دوم ، صفحات ۱۴۸ تا ۱۵۰ ، نظم برگ گل ، کے لیے دیکھیے ’’باقیاتِ اقبال ‘‘ مرتبہ عبداللہ قریشی ، صفحہ ۱۶۹۔ ۲۲ ۔ ’’ذکر اقبال ‘‘ ، صفحہ ۲۰ ’’مطالعۂ اقبال ‘‘ ،صفحہ ۸۶ ، مضمون ’’اقبال اور فوق ‘‘ از محمد عبداللہ قریشی ۲۳ ۔ سرودِ رفتہ مرتبہ غلام رسول مہر و صادق علی دلاوری ، صفحہ ۲۳۲ ۲۴ ۔ ’’فکر اقبال ‘‘ صفحہ ۴۶ ۲۵ ۔ ’’باقیات اقبال ‘‘ مرتبہ عبداللہ قریشی ، صفحہ ۱۳۴ سر عبدالقادر تحریر کرتے ہیں کہ بقول اقبال ہندو فلسفہ کے مطالعے سے ان کی طبیعت میں ایک قسم کا سکون محسوس ہونے لگا اور شانتی کے معنی سمجھ میں آگئے ، اسی سبب اب مذہب میں تعصب کی گنجائش نہ رہی اور سب مذاہب کی دل سے تعظیم کرتے تھے ۔ اقبال ،’’ خدنگ نظر‘‘ لکھنؤ مئی۱۹۰۲ء ۔ ۲۶ ۔ ’’ترانہ ہندی ‘‘ ، ’’ہندوستانی بچوں کا گیت‘‘ اور ’’نیا شوالہ ‘‘ اسی دور کی پیداوار ہیں ۔ لیکن ’’سوامی رام تیرتھ یورپ میں قیام کے دوران تحریر کی گئی اور رام ۱۹۰۸ء کے بعد کے دور کی ہے ۔ سوامی رام تیرتھ اقبال کے ذاتی دوست تھے ۔ باقی نظموں میں ایک ہی جذبہ کار فرما ہے۔’’نیا شوالہ ‘‘ کی اصلی ہئیت میں جو مخزن مارچ ۱۹۰۵ء میں شائع ہوئی ، وطنی قومیت کا جذبہ زیادہ شدید ہے اور بہت سے ہندی الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ ہو ’’سرود رفتہ ، صفحہ ۱۲۵ نیز دیکھیے مضمون ’’اقبال اور سوامی رام تیرتھ از اندرجیت لال ’’شیرازہ‘‘(اقبال نمبر) سرینگر ، صفحات ۸۳ تا ۸۷ اور اسی رسالے میں مضمون ’’اقبال اور گیتا ‘‘ از موتی لال ساقی صفحات ۱۱۱ تا ۱۱۷۔ ۲۷ ۔ ’’بانگ درا ‘ ‘ صفحات ۵۰ تا ۵۲ ۲۸ ۔ صفحات ۲۸ تا ۳۹ کتاب مذکور ۲۹ ۔ ’’کریسنٹ ‘‘ تاثیر نمبر فروری ۔ اپریل ۱۹۵۱ء مضمون ’’اسماء الرجال اقبال ‘‘ صفحہ ۱۴۶۔ ۳۰ ۔ ’’آئینہ اقبال ‘‘ مرتبہ محمد عبداللہ قریشی مضمون ’’اقبال اور انجمن کشمیری مسلمانان ، صفحات ۱۹۶، ۱۹۸ تا ۲۰۰ ، ۲۱۰ ۳۱ ۔ ’’اقبال اور انجمن حمایت اسلام ‘‘ از محمد حنیف شاہد ، صفحہ ۴۹ ۳۲ ۔ ایضا ً ، صفحات ۲۵ تا ۲۷ ۳۳ ۔ ایضاً ، صفحات ۲۷ تا ۳۱ ۳۴ ۔ ایضاً ، صفحات ۶۹ ، ۷۱ ۳۵ ۔ حمایت اسلام انجمن نمبر ۱۰ اپریل ۱۹۷۰ء مضمون ’’اقبال کی بزم آرائیاں ، صفحہ ۴۹ ۔ ۳۶ ۔ ’’مختصر تاریخ انجمن حمایت اسلام ‘‘ ، صفحہ ۲۵ حمایت اسلام ’’شجاع الدین نمبر ‘‘ ۳ مئی ۱۹۵۶ء صفحات ۱۳ ، ۱۴، ’’اقبال اور انجمن حمایت اسلام ‘‘ ، صفحات ۷۰ ، ۷۲ ۳۷ ۔ ’’اقبال اور انجمن حمایت اسلام ‘ ‘ ، صفحات ۷۷ ، ۷۸ ۳۸ ۔ ایضاً ، صفحات ۷۹، ۸۰ ’’ملفوظات اقبال ‘‘ مرتبہ ابواللیث صدیقی مضمون ’’ اقبال کی یاد میں‘‘ صفحہ۴۱ ۳۹ ۔ ’’اقبال اور انجمن حمایت اسلام ‘‘ ، صفحات ۸۰، ۸۱ ۔ حالی کی اس نظم کے لیے دیکھیے ’’جواہرات حالی‘‘ ، مرتبہ شیخ محمد اسماعیل پانی پتی ۔ ۴۰ ۔ ’’نئی دنیائے اسلام ‘‘ از ایل سٹو وارڈ (انگریزی) ، صفحہ ۵۴ ۴۱ ۔ ’’بین الاقوامی امور کا جائزہ ‘‘ ۱۹۲۵ء جلد اول از اے ۔ جے۔ ٹائیوہنی (انگریزی)، صفحات۳۳،۳۶، ۳۷ ۴۲ ۔ ’’آخری مضامین سر سید‘‘ ، صفحات ۳۱ تا ۴۵ ، ۵۹ تا ۶۹ ۴۳ ۔ ’’خلافت ‘‘ ازایم برکت اللہ (انگریزی) ، صفحہ ۱۰ بین الاقوامی امور کا جائزہ ۱۹۲۵ء جلد اول (انگریزی) ، صفحات ۴۲ ، ۴۳ ۴۴ ۔ ’’انقلاب ایران ‘‘ (۱۹۰۵ء تا ۱۹۰۹ئ)از ای ۔ جی ۔ برائون (انگریزی) ، صفحات ۱ تا ۵۸ ’’جمال الدین افغانی ‘‘از امین افغانی (انگریزی) ’’پین اسلام ازم ‘‘ ، خلافت ، وغیرہ لکچرز ۔ (انگریزی) از جلال الدین ، صفحات ۱ تا ۱۵ (حصہ اول) ۴۵ ۔ ’’انقلاب ایران ‘‘ (انگریزی) صفحہ ۱۲ ۔ ۴۶ ۔ ’’ ہمعصری ریویو ، جون ۱۹۱۵ء ، مضمون ’’خلافت ‘‘ (انگریزی) مضمون ’’خلافت اور احیاے اسلام ‘‘ (انگریزی) ’’ایڈنبرا ریویو ‘‘ جنوری ۱۹۲۳ء ۴۷ ۔ ’’انقلاب ایران ‘‘ (انگریزی) ، صفحہ ۳۰ ۴۸ ۔ طبع فارسی بمبئی ۱۸۸۱ء ، طبع اردو کلکتہ ۱۸۸۲ء ۔ طبع عربی بیروت ۱۸۸۶ء ۔ ۴۹ ۔ ’’حیات شبلی ‘‘ از سید سلیمان ندوی ، صفحات ۲۸۱ ، ۲۹۷ ۵۰ ۔ ایضاً ، صفحات ۹۴ تا ۹۶ ۵۱ ۔ ایضاً ، صفحات ۱۹۰ تا ۲۱۹ ۵۲ ۔ ایضاً ، صفحات ۲۷۸ تا ۲۸۱ ۵۳ ۔ ’’کلیات شبلی ‘‘ مرتبہ مولوی مسعود علی ، صفحات ۳۰ ، ۵۶ تا ۶۲ مولانا شبلی ہی نے اقبال کے متعلق کہا تھا کہ جب آزاد اور حالی کی کرسیاں خالی ہوں گی تو لوگ اقبال کو ڈھونڈیں گے۔ ’’اقبال ‘‘ از سر عبدالقادر ، خدنگ نظر، لکھنؤ مئی ۱۹۰۲ء ۵۴ ۔ ’’نذر اقبال ‘‘ صفحہ ۱۴۶ ۵۵ ۔ ’’ملفوظات اقبال ‘‘ ، مضمون ’’میرا اقبال ‘‘ از مرزا جلال الدین ، صفحات ۸۲ ، ۸۳ ۵۶ ۔ دہلی میں اقبال کے یک روزہ قیام کی روداد کے لیے دیکھیے میر غلام بھیک نیرنگ ، مخزن ، اکتوبر ۱۹۰۵ء خواجہ حسن نظامی ’’اخبار وطن ‘‘ ۲۴ ؍دسمبر ۱۹۰۵ء ملا واحدی ماہنامہ ’’منادی ‘‘ دہلی ، شمارہ ۴ جلد ۳۹ ۔ شیخ محمد اکرام نائب ایڈیٹر ’’مخزن ‘‘ تھے ۔ منشی نذر محمد اسسٹنٹ انسپکٹر مدارس حلقہ دہلی اقبال کے مداحوں میں سے تھے جو احباب اقبال کے ساتھ نظام الدین اولیا کی درگاہ پر گئے ان میں منشی نور الدین ڈرائنگ ماسٹر نارمل اسکول دہلی بھی تھے ۔ ۵۷ ۔ راقم نے نیرنگ اور اقبال کی تفصیل پر انحصار کیا ہے ۔ دیکھیے ’’مطالعہ اقبال ‘‘ صفحات۴۷۱ تا ۴۷۴ ۵۸ ۔ ’’مطالعۂ اقبال ‘‘ ، صفحات ۴۷۴ تا ۴۷۸۔ اقبال کے دو خطوط جو اخبار وطن مورخہ ۶؍ اکتوبر اور ۲۲ ؍ دسمبر ۱۹۰۵ء میں شائع ہوئے ۔ ۵۹ ۔ ایضاً صفحات ۴۷۹ تا ۴۸۳ ۶۰۔ اس غزل کا مطلع ہے : مثالِ پر توِ مئے ، طوفِ جام کرتے ہیں یہی نماز ادا ، صبح و شام ، کرتے ہیں جب اطالیہ کا ساحل نظر آنے لگا تو ارشاد کیا : ہرے رہو وطن ’’مازنی‘‘ کے میدانو جہاز پر سے تمہیں ہم سلام کرتے ہیں (بانگِ درا۔ مطبوعہ ۱۹۴۶ء صفحات ۱۴۸ ، ۱۴۹) ۶۱ ۔ ’’مطالعۂ اقبال ‘‘ صفحات ۴۸۳ تا ۴۸۸ باب: ۷ یورپ اقبال کے قیامِ یورپ کے دوران ان کی تعلیمی سرگرمیوں کے بارے میں تاریخوں کا تعین قدرے مشکل ہے۔ قیام کی کل مدت تقریباً تین سال تھی اور ان کی حیات کے اس تین سالہ دور کو ازسرِ نو مرتب کرنے لے لیے جن مآخذ پر انحصار کیا جا سکتا ہے ، وہ یا تو ان کی اپنی تحریریں اور بیانات ہیں یا ان کی ذات اور مشاغل کے متعلق عطیہ فیضی اور سر عبدالقادر جیسے احباب کے مشاہدات اور تاثرات ۔ اقبال ۲۵ ستمبر ۱۹۰۵ء کو کیمبرج پہنچے ۔ کیمبرج یونیورسٹی کے قواعد و ضوابط کے مطابق ٹرینٹی کالج میں ان کے داخلے کا انتظام غالباً پہلے ہی سے بذریعہ آرنلڈ ہو چکا تھا ۔ چونکہ آپ پوسٹ گریجوایٹس یا ریسرچ اسکالروں کے زمرے میں آتے تھے ۔ اس لیے کالج کی عمارت کے اندر ہوسٹل میں آپ کے لیے مقیم ہونا ضروری نہ تھا ۔ لہٰذا کیمبرج میں اقبال نے ۱۷ ۔ پرتگال پیلس پر سکونت اختیار کی ۔ کیمبرج یونیورسٹی کا اکادمی سال مائیکلمس ٹرم یعنی یکم اکتوبر سے شروع ہوتا ہے ۔ چنانچہ اقبال کا یونیورسٹی میں رہائشی سال اسی ٹرم سے شروع ہوا ۔ مغربی یونیورسٹیوں میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کی تحصیل کے لیے طریق کار یہ ہے کہ ریسرچ اسکالر کسی کالج سے منسلک ہو کر یونیورسٹی میں رہائش اختیار کرنے کے بعد اپنی تحقیق کا موضوع ، اپنا نام اور اپنے سپروائزر کا نام رجسٹر کرا دیتا ہے ۔ تحقیق کی مدت عموماً تین سال ہوتی ہے ۔ اس مدت میں ریسرچ اسکالر کا بیشتر وقت مختلف کتب خانوں میں گزرتا ہے ۔ جہاں سے وہ موضوع تحقیق کے لیے سارا مواد اکٹھا کرتا ہے ۔ مہینے میں ایک آدھ بار سپروائزر سے مل کر رہبری حاصل کرتا ہے ۔ اپنی تحقیق کے ابواب اسے پڑھنے کے لیے دیتا ہے یا ان پر بحث و مباحثہ ہوتا ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک تحقیقی مقالہ آخری شکل میں یونیورسٹی کو پیش نہیں کر دیا جاتا۔ تحقیقی مقالہ یونیورسٹی میں پیش کرتے وقت ممتحنین کے لیے عموماً دو جلدیں دی جاتی ہیں ، جن میں سے ایک بالآخر واپس مل جاتی ہے اور دوسری ریکارڈ میں رکھ لی جاتی ہے ۔ کچھ مدت بعد یونیورسٹی کی مقرر کردہ تاریخ پر ریسرچ اسکالر کو ممتحنین کے سامنے موضوع تحقیق کے بارے میں زبانی امتحان کے لیے پیش ہونا پڑتا ہے اور یہ انٹرویو تقریباً ڈیڑھ یا دو گھنٹے تک جاری رہتا ہے ۔ اس کے بعد ممتحنین کی رپورٹ پر یونیورسٹی سے اسے اطلاع ملتی ہے کہ وہ پی ایچ۔ڈی کی ڈگری لینے میں کامیاب ہو گیا ہے یا نہیں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نے بھی کیمبرج میں رہائش اختیار کرنے کے فوراً بعد اپنے موضوع تحقیق کے متعلق ضروری رجسٹریشن میونخ یونیورسٹی میں کروا دی تھی ۔ اس ضمن میں وہ خود تحریر کرتے ہیں : میں نے اپنا مقالہ میونخ یونیورسٹی میں پیش کیا ، جس کے ارباب اختیار نے مجھے یونیورسٹی میں قیام کی شرط سے مستثنیٰ کر دیا اور مجھے اپنا مقالہ انگریزی میں لکھنے کی اجازت بھی مرحمت فرمائی۔ جرمن یونیورسٹیاں بالعموم تین سال یا ڈیڑھ سال کے لیے لیکچروں میں حاضری پر اصرار کرتی ہیں ۔ حاضری کی مدت کا تعین امیدوار کی اہلیت پر ہوتا ہے اور عام طور پر مقالہ جرمن زبان میں مرتب کرنے پر اصرار کیا جاتا ہے ، لیکن مجھے اپنے کیمبرج کے استادوں کی سفارش کی بنا پر اس سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ۔ پی ایچ ڈی کا امتحان زبانی جرمن زبان میں ہوا ، جو میں نے دوران قیام میںتھوڑی بہت سیکھ لی تھی ۱ ۔ بیرسٹری کے امتحانوں کے لیے بھی کسی نہ کسی ’’ان ‘‘ میں ٹرمیں پوری کرنے کی خاطر داخلے کی ضرورت تھی ۔ لندن میں مستقل رہائش اختیار کرنا یا قانون کے لیکچروں میں حاضر ہونا ضروری نہ تھا ۔ قواعد کے مطابق کسی ’’ان ‘‘ سے منسلک ہو کر اس کے عشائیوں کی مخصوص تعداد پوری کرنے سے ٹرموں کی تکمیل کی جا سکتی تھی ۔ پہلے حصے کے چھ پرچوں کا امتحان علیٰحدہ علیٰحدہ دیا جا سکتا تھا ۔ البتہ دوسرے حصے کے چھ پرچوں کا امتحان اکٹھا دینا ضروری تھا ۔ سال میں تین چار بار یہ امتحانات اننر آف کورٹ میں دیے جاتے تھے ۔اقبال نے چھ نومبر ۱۹۰۵ء کو لنکنز ان میں داخلہ لیا اور کیمبرج سے لندن جا کر ٹرمیں پوری کرنا شروع کر دیں ۔ سر عبدالقادر تحریر کرتے ہیں کہ جب اقبال لندن آتے تو بیرسٹری کے لیکچروں اور عشائیوں کے لیے ہم مل کر جاتے ۲ ۔ بہرحال یہ بتا سکنا ممکن نہیں کہ اقبال نے بیرسٹری کے پہلے حصے کے سارے پرچوں کا امتحان ایک ہی بار دیا یا علیٰحدہ کر کے دئیے اور یہ امتحانات کب ہوئے ۔ ہمیں تو اتنا معلوم ہے کہ انہیں بار ایٹ لاء کی ڈگری یکم جولائی ۱۹۰۸ء کو ملی۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے امتحانات کے پہلے حصے کی تکمیل کیمبرج میں اپنے قیام کے دوران کر لی ہو گی مگر دوسرے حصے کی تیاری اور تکمیل لندن میں رہائش کے دوران کی ہو گی ۔ اقبال نے کیمبرج سے بی اے کی ڈگری بھی لی ۔ مگر یہ ڈگری مروجہ طریق سے حاصل نہ کی گئی۔ کیمبرج میں بی اے کا امتحان ، جسے ٹرائی پوس کہتے ہیں ، میٹرک کے بعد تین مضامین میں تین سال کی مدت کے بعددیا جاتا ہے اور یہ امتحان انڈر گریجویٹ دیتے ہیں ۔ یونیورسٹی میں مخصوص عرصے کی رہائش کے بعد ہرپوسٹ گریجوایٹ کو ایم ۔اے کی ڈگری اعزازی طور پر مل جاتی ہے ۔ خیر اقبال نے تو ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے ٹرینٹی کالج میں داخلہ لیا تھا ۔ اس لیے ان کے وہاں سے ٹرائی پوس کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ البتہ بعض اوقات ریسرچ اسکالر کسی خاص موضوع میں دلچسپی کے سبب اس کے لیکچروں میں شامل ہو کر اس مضمون کے سالانہ ٹرائی پوس امتحان میں بھی بیٹھ سکتے ہیں اور اپنی کامیابی کے ذریعے سپروائزر یا اساتذہ کو اپنی اہلیت سے مطمئن کر سکتے ہیں ۔ اقبال نے یونیورسٹی کی اجازت سے یورپی فلسفہ کے مطالعے کے لیے میک ٹیگرٹ ، وائیٹ ہیڈ ، وارڈ اور شاید برائون یا نکلسن کے لیکچروں میں شمولیت اختیار کی ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ میونخ یونیورسٹی کی شرائط کے پیشِ نظر اس کے ارباب اختیار کے اطمینان کے لیے انہوں نے فلسفے ، عربی یا فارسی کے خصوصی امتحان پاس کیے ہوں ۔ معاشیات میں ذاتی دلچسپی کے سبب وہ کیمبرج میں اس موضوع پر لیکچر بھی بڑے اہتمام سے سنتے تھے ۔ بہرحال ۷ مارچ ۱۹۰۷ء کو انہوں نے اپنا ایک تحقیقی مقالہ فلسفے اور اخلاقیات کے شعبے میں داخل کیا ، جس پر انہیں ۱۳ جون ۱۹۰۷ء کو کیمبرج یونیورسٹی کی طرف سے بی اے کی ڈگری ملی۳۔ ان دنوں آرنلڈ لندن یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر تھے اور لندن سے کچھ فاصلے پر ویمبلڈن میں مقیم تھے ، راقم کی رائے میں آرنلڈ سمیت یہی اقبال کے وہ استاد تھے، جنہوں نے میونخ یونیورسٹی کو انہیں بعض شرائط سے مستثنیٰ قرار دینے کی سفارش کی تھی ۔ اس زمانے میں میک ٹیگرٹ کیمبرج میں کانٹ اور ہیگل کے فلسفے پر لیکچر دیتے تھے اور ان کا تعلق ٹرینٹی کالج سے تھا ۔ وارڈ اور وائیٹ ہیڈ بھی میک ٹیگرٹ کی طرح انگلستان کے معروف فلسفی تھے ۔ برائون اور نکلسن فارسی اور عربی زبانوں کے ماہر تھے ۔ اور ان کا شمار مستشرقین میں ہوتا تھا ۔ بعد میں نکلسن نے اقبال کی تصنیف ’’اسرار خودی‘‘کا ترجمہ انگریزی میں کیا ۔ اقبال کے ان سب کے ساتھ دوستانہ روابط قائم ہوئے ۔ میک ٹیگرٹ صوفی منش بزرگ تھے ۔ اقبال نہ صرف ان کے لیکچر باقاعدگی سے سنتے تھے بلکہ تصوف کے مسائل پرا ن سے طویل بحث و مباحثے بھی کرتے تھے ۔ انگلستان سے واپسی کے بعد میک ٹیگرٹ اورنکلسن کے ساتھ ان کی خط و کتابت بھی رہی ۔ میک ٹیگرٹ نے جب ’’اسرار خودی‘‘ کا انگریزی ترجمہ پڑھا تو اقبال سے بذریعہ خط پوچھا کیا آپ نے اپنی پوزیشن تبدیل نہیں کر لی ؟ کیونکہ کیمبرج میں قیام کے دوران تو آپ وجودی تصوف کے قائل معلوم ہوتے تھے ۴۔اقبال نے میک ٹیگرٹ کے فلسفے پرا یک مقالہ بھی تحریر کیا ۵۔ کیمبرج میں رہائش کے سلسلے میں اقبال کا ایک بڑا مسئلہ ذبیحہ گوشت کا انتظام تھا ۔ اس معاملے میں آرنلڈ نے ان کی مدد کی ۔ اقبال بیان کرتے ہیں : جب میں انگلستان گیا تو میں نے ڈاکٹر آرنلڈ صاحب سے یہ خواہش ظاہر کی میرے قیام کا انتظام ایسے گھر میں کروا دیا جائے جہاں ذبیحہ کا خاص انتظام ہو ۔ یورپ میں صرف یہودی اس بات کا خاص طور پر خیال رکھتے ہیں کہ صرف اپنا ذبیحہ کھائیں ۔ چنانچہ ایک اچھے یہودی کے گھر میںمیری رہائش کا انتظام کروا دیا گیا ۔ ان لوگوں میں بہت سی خوبیاں تھیں ۔ اپنی نماز باقاعدہ پڑھتے تھے ۔ جب میں گھر میں ہوتا تو میں بھی شریک ہو جاتا تھا ۔ میں نے ان سے کہا کہ مسلم ہونے کی وجہ سے حضرت موسیٰ ؑ میرے بھی پیغمبر ہیں اور میں ان کی روش پر چل سکتا ہوں وغیرہ ، لیکن کچھ عرصے کے بعد میرا دل ان لوگوں کی طرف سے کھٹا ہو گیا۔ مجھے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ہر اس چیز میں جس کی مجھے ضرورت ہوتی تھی اور جس کو میں ان کے ذریعے منگواتا تھا ، یہ لوگ دکانداروں سے کمیشن لیا کرتے تھے ۔ ان کی اسی ایک عادت نے ان کی تمام خوبیوں پر پانی پھیر دیا ۶ ۔ اسی طرح طہارت کے لیے پانی استعمال کرنے کی خاطر وہ لوٹا بھی اپنے ساتھ رکھتے چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں : میں جب طالب علمی کے سلسلے میں انگلستان گیا تو میرا لوٹا میرے ساتھ تھا ۔ میں جب کبھی رفع حاجت کے لیے غسل خانے جاتا تو میرا لوٹا میرے ساتھ ہوتا ۔ چند روز اسی طرح گزر گئے ۔ آخر میری میزبان یعنی مالکۂ مکان سے نہ رہا گیا (یہ خاتون پچاس سال کے لگ بھگ ہوں گی اور میرے ساتھ نہایت مہربانی سے پیش آتی تھیں) مجھ سے پوچھنے لگیں ، یہ چیز تم غسل خانے میں کیوں لے جاتے ہو؟ میں نے کہا ، اسلامی طہارت کا ایک قاعدہ یہ ہے کہ قضائے حاجت کے بعد صرف کاغذ یا مٹی کے ڈھیلے کا استعمال کافی نہیں ہے بلکہ پانی سے استنجا کرنا ضروری ہے ، چنانچہ اس موضوع پر گفتگو شروع ہوئی، میں نے اس کے سامنے طہارت اور غسل کے اسلامی اصول بیان کیے ۷۔ معلوم ہوتا ہے کہ اقبا ل نے کیمبرج پہنچتے ہی تحقیق کا کام شروع کر دیا تھا ۔ یہ کام ان کے اپنے بیان کے مطابق ان تمام فرائض کا مجموعہ تھا جن کی انجام دہی نے انہیں وطن سے جدا کیا تھا اور اس لیے ان کی نگاہ میں ایسا ہی مقدس تھا جیسے عبادت ۸۔ اقبال کی تحقیق کے ابتدائی مراحل میں جب فوق نے لاہور سے ’’ کشمیری میگزین‘‘ جاری کیا اور اس میں اشاعت کے لیے مضمون مانگا تو اقبال نے جواب دیا کہ یہاں کے مشاغل سے مطلق فرصت نہیں ملتی اور ایسے حالات میں مضامین لکھنے کی فرصت کہاں ، البتہ شعر ہے جو کبھی کبھی موزوں ہو جاتا ہے ، سو وہ شیخ عبدالقادر لے جاتے ہیں ۹۔اقبال نے تحقیق کے لیے موضوع چونکہ ’’ایران میں فلسفۂ مابعد الطبیعیات کا ارتقا‘‘ منتخب کیا تھا ، اس لیے ابتدا ہی سے انہیں تصوف کے بارے میں قرآنی شواہد کی ضرورت تھی ۔ اس سلسلے میں انہوں نے ایک خط ۸؍اکتوبر ، ۱۹۰۵ء کو خواجہ حسن نظامی کے نام تحریر کیا : قرآن شریف میں جس قدر آیات صریحاً تصوف کے متعلق ہوں ان کا پتا دیجیے ۔ اس بارے میں آپ قاری شاہ سلیمان صاحب یا کسی اور صاحب سے مشورہ کر کے مجھے بہت جلد مفصل جواب دیں ۔ اس مضمون کی سخت ضرورت ہے اور یہ گویا آپ کا کام ہے ۔۔۔۔ اگر قاری صاحب موصوف کو یہ ثابت کرنا ہو کہ مسئلۂ وحدت الوجود یعنی تصوف کا اصل مسئلہ قرآن کی آیات سے نکلتا ہے تو وہ کون کونسی آیات پیش کر سکتے ہیں اور ان کی کیا تفسیر کرتے ہیں ؟ کیا وہ ثابت کر سکتے ہیں کہ تاریخی طور پر اسلام کو تصوف سے تعلق ہے ؟ کیا حضرت علی المرتضیٰ کو کوئی خاص پوشیدہ تعلیم دی گئی تھی ؟ غرضیکہ اس امر کا جواب معقولی اور منقولی اور تاریخی طور پر مفصل چاہتا ہوں ۔ میرے پاس کچھ ذخیرہ اس امر کے متعلق موجود ہے مگر آپ سے اور قاری صاحب سے استصواب ضروری ہے ۱۰۔ تحقیق کے ساتھ ساتھ قانون کے امتحانات کی تیاری بھی شروع ہو گئی ۔ تعطیلات میں یونیورسٹی کے بیشتر طالب علم یا تو اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے یا یورپ کی سیر کے لیے نکل جاتے۔ ہمارے پاس اقبال کے تعطیلات یورپ میں گزارنے کا کوئی ثبوت نہیں ۔غالباً وہ اس کا خرچ برداشت نہ کر سکتے تھے ، اس لیے تعطیلات کے دوران وہ کیمبرج ہی میں رہ کر تحقیق کا کام جاری رکھتے تھے ۔ ان دنوں کیمبرج میں حیدر آباد دکن کے سید علی بلگرامی مرہٹی زبان کے استاد تھے۔ آپ معروف تصانیف ، ’’تمدن عرب ‘‘ اور ’’تمدن ہند ‘‘کے تراجم کے سبب مشہور تھے ۔ اقبال کے ان کے ساتھ دوستانہ مراسم تھے بلکہ کیمبرج میں ان کا مکان برصغیر سے آنے والے طالب علموں کی سرگرمیوں کا مرکز تھا۱۱۔اقبال اپنا فارغ وقت بلگرامی اور ان کی ذہین اہلیہ کے ساتھ گزارتے تھے یا کبھی کبھار چند دنوں کے لیے کسی انگریز دوست کے ساتھ اس کے گھر چلے جاتے تھے ۔ اس بارے میں اقبال بیان کرتے ہیں : جب میں کیمبرج میں پڑھتا تھا تو تعطیلات کے زمانے میں کچھ دنوں کے لیے میں اپنے ایک ہم سبق انگریز دوست کے ہمراہ اس کے وطن چلا گیا ۔ اس کا گھر سکاٹ لینڈ کے ایک دور افتادہ قصبے میں تھا ۔ مجھے وہاں گئے چند روز ہوئے تھے کہ معلوم ہوا کہ ایک مشنری جو ہندوستان سے آئے ہیں آج شام کو قصبے کے اسکول میں لیکچر دیں گے کہ ہندوستان میں عیسائیت کو کس قدر فروغ ہو رہا ہے ۔ میں اور میرے میزبان دونوں لیکچر سننے کے لیے پہنچے ، سامعین میں عورتیں اور مرد کافی تعداد میں تھے۔ مشنری نے بتایا کہ ہندوستان میں تیس کروڑ انسان آباد ہیں ، لیکن ان لوگوں کو انسان کہنا جائز نہیں ۔ عادات و خصائل اور بود و باش کے اعتبار سے یہ لوگ انسانوں سے بہت پست اور حیوانوں سے کچھ اوپر ہیں ۔ ہم نے سالہا سال کی جدو جہد سے ان حیوان نما انسانوں کو تھوڑی بہت تہذیب سے آشنا کیا ہے لیکن کام بہت وسیع اور اہم ہے ، آپ ہمارے مشن کو دل کھول کر چندہ دیجیے تاکہ اس عظیم الشان مہم میں ، جو ہم نے بنی نوع انسان کی بھلائی کے لیے جاری کر رکھی ہے ، زیادہ سے زیادہ کامیابی ہو ۔ یہ کہہ کر مشنری نے میجک لینڑن سے سامنے لٹکے ہوئے پردے پر ہندوستانیوں کی تصویریں دکھانا شروع کیں ۔ان میں بھیل ، گونڈ ، دراوڑ اور اڑیسہ کے جنگلوں میں بسنے والی قوم کے نیم برہنہ افراد کی نہایت مکروہ تصاویر تھیں ۔ جب لیکچر ختم ہو گیا تو میں نے صدر جلسہ سے کھڑے ہو کر کچھ کہنے کی اجازت طلب کی ۔ انہوں نے بخوشی اجازت دے دی تو میںنے بڑے جوش سے پچیس منٹ تقریر کی ۔ میں نے حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں خالص ہندوستانی ہوں ۔ میرا خمیر اسی ملک کی سرزمین سے اٹھا ہے ۔ آپ میری وضع قطع ، رنگ ، روپ ، چال ڈھال دیکھ لیجئے۔ میں آپ لوگوں کی زبان میں اسی روانی سے تقریر کر رہا ہوں ،جس روانی سے مشنری صاحب نے بہ زعم خود حقائق و معارف کے دریا بہائے ہیں۔ میں نے ہندوستان میںرہ کر تعلیم حاصل کی ہے ۔ اب مزید تعلیم کے لیے کیمبرج میں آیا ہوں ۔ آپ میری شکل وصورت دیکھ کر اور میری باتیں سن کر خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ مشنری صاحب نے ہندوستان کے باشندوں کے متعلق جو کچھ کہا ہے ، وہ کہاں تک درست ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان مشرقی دنیا کا ایک متمدن و مہذب ملک ہے ، جس نے صدیوں تک تہذیب اور علم کی شمع بلند رکھی ہے ۔ اگرچہ ہم سیاسی طور پر انگلستان کے غلام ہو گئے ہیں لیکن ہمارا اپنا ادب ہے ، اپنا تمدن ہے ، اپنی قومی روایات ہیں جو کسی طرح مغربی قوموں کی روایات سے کم شاندار نہیں ہیں ۔ مشنری صاحب نے محض آپ کے جذبات کو برانگیختہ کر کے آپ کی جیبیں خالی کرنے کے لیے ہندوستانیوں کی یہ گھنائونی اور خوفناک تصویر پیش کی ہے ۔۔۔۔ جونہی میری تقریر ختم ہوئی ، جلسے کا رنگ بالکل بدل گیا ۔ سب لوگ میرے ہم خیال ہو گئے اور مشنری صاحب کو حد درجہ مایوس ہو کر وہاں سے خالی ہاتھ نکلنا پڑا۱۲ ۔ کیمبرج میں رہائش کے دوران کبھی کبھی اشعار کہنے کے علاوہ اقبال نے ہندوستان میں سودیشی تحریک کے متعلق چند سوالات کا جواب بھی ایک مضمون کی صورت میںمدیر ماہنامہ ’’زمانہ ‘‘ کانپور کو بھیجا، جو ’’زمانہ‘‘ کے شمارہ اپریل ۱۹۰۶ء میں شائع ہوا ۔ اس مضمون میں اقبال نے تحریر کیا : سیاسی حقوق کے حصول کی شرط کسی ملک کے افراد کے اغراض کا متحد ہونا ہے ۔ اگر اتحادِ اغراض نہ ہو گا تو قومیت پیدا نہ ہوگی اور اگر افراد قومیت کے شیرازے سے ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ نہ ہوں گے ، تو نظامِ قدرت کے قوانین ان کو صفحہ ہستی سے حرفِ غلط کی طرح مٹا دیں گے ۔ قدرت کسی خاص فرد یا مجموعۂ افراد کی پروا نہیں کرتی ، مگر رونا تو اس بات کا ہے کہ لوگ اتفاق اتفاق پکارتے ہیں اور عملی زندگی اس قسم کی اختیار نہیں کرتے جس سے ان کے اندرونی رجحانات کا اظہار ہو ۔ ہم کو قال کی ضرورت نہیں ہے ، خدا کے واسطے حال پیدا کرنے کی کوشش کرو ۔ مذہب دنیا میں صلح کے لیے آیا ہے نہ کہ جنگ کی غرض سے ۔۔۔۔۔ اگر اس تحریک سے ہندو اور مسلمانوں میں اتحادِ اغراض پیدا ہو جائے اور رفتہ رفتہ قوی ہوتا جائے تو سبحان اللہ ! اور کیا چاہیے۔ ہندوستان کے سوئے ہوئے نصیب بیدار ہوں اور میرے دیرینہ وطن کا نام جلی قلم سے فرق اقوام میں لکھا جائے۱۳۔ حالات سے ظاہر ہے کہ اقبال جون ۱۹۰۷ء تک کیمبرج میں رہے اور تحقیق کا کام جاری رکھا ۔ اس دوران میں ان کا لندن آنا یا تو لنکنز ان کے عشائیوں کی خاطر ہوتا تھا یا بیرسٹری کے پہلے حصے کے امتحانوں کے لیے ۔ لندن میں وہ یا تو سرعبدالقادر کے ہاں ٹھہرتے یا ان کے گھر کے قریب کسی مکان میں فروکش ہوتے ۱۴۔اسی طرح لندن کے کسی دورے میں ،یکم اپریل ۱۹۰۷ء کو مس بیک کے ہاں ان کی ملاقات عطیہ فیضی سے ہوئی ۔ مس بیک علی گڑھ کالج کے مشہور پرنسپل بیک کی بہن تھیں ۔ وہ لندن میں ہندوستانی طلبہ کی بہبودی کی نگران تھیں اور ان سے مادر مشفق کا سابرتائو کرتی تھیں ۔ عطیہ فیضی نے اقبال کو فارسی اور عربی کے علاوہ سنسکرت سے بھی شناسا پایا ۔ بقول عطیہ اقبال بہت حاضر جواب تھے اور دوسروں کی کمزوری سے فائدہ اٹھانے یا مزاحیہ فقرے کسنے میں انہیں کمال حاصل تھا ، لیکن زندہ دلی کے باوجود ان کے مذاق میں طنز کا پہلو نمایاں تھا ۔دوران گفتگو عطیہ فیضی نے تاثر قائم کیا کہ اقبال ، حافظ ؔکے بے حد مداح ہیں عطیہ کے مطابق انہوںنے کہا کہ میں جب حافظؔکے رنگ میں ہوتا ہوں تو ان کی روح مجھ میں حلول کر جاتی ہے اور میں خود حافظ بن جاتا ہوں ۔ بہرحال اقبال نے سید اور بیگم بلگرامی کی طرف سے عطیہ فیضی کو کیمبرج آنے کی دعوت دی اور طے پایا کہ وہ ۲۲ اپریل کو کیمبرج پہنچیں گی ۱۵۔ چند روز بعد اقبال نے عطیہ فیضی کو فراس کاتی ریستوران میں عشائیہ پر مدعو کیا ۔ کھانوں کے انتخاب اور پھولوں کی زیبایش پر نگاہ ڈال کر عطیہ فیضی نے ان کی تعریف میں چند جملے کہے تو اقبال نے جواب دیا کہ میری شخصیت کے دو پہلو ہیں ۔ باطنی طور پر عالمِ خواب میں بسنے والا فلسفی اور صوفی ہوں ، مگر ظاہری طور پرایک عملی اور کاروباری قسم کا انسان ہوں ۔ عطیہ فیضی نے بھی کچھ دنوں بعد اقبال کے لیے ایک چائے پارٹی کا انتظام ، اپنی رہائش گاہ پر کیا اور اپنے جاننے والوں کو ان سے ملایا۔ اس دعوت میں ادب و فلسفہ کی طالبات مس سلوسٹر اور مس لیوی بھی شریک تھیں اور منیڈل اور ٹمنرٹراتھ جیسے موسیقار بھی موجود تھے ، جنہوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا ۔ اقبال نے اس موقع پر فی البدیہہ مزاحیہ شعار سنا کر محفل کو زعفرانِ زار بنا دیا ۔ جب عطیہ فیضی نے وہ اشعار قلمبند کرنے کی خواہش ظاہر کی تو اقبال نے یہ کہہ کر انہیں روک دیا کہ اشعار کا تعلق صرف اس مخصوص موقع سے تھا اور ان کو قلمبند کرنا غیر ضروری ہے ۱۶ ۔ اقبال دو ہفتے لندن ٹھہرنے کے بعد کیمبرج واپس چلے گئے ۔ اس کے بعد وہ عطیہ فیضی کو کیمبرج لے جانے کے لیے پھر لندن پہنچے ، چنانچہ ۲۲ اپریل کو اقبال ، سرعبدالقادر اور عطیہ فیضی لندن سے کیمبرج روانہ ہوئے ۔ سارے رستے عالمانہ اور ظریفانہ باتیں ہوتی رہیں ۔ یہ لوگ تقریباً بارہ بجے بلگرامی کے مکان پر پہنچے ۔ اقبال نے عطیہ فیضی کا تعارف سید اور بیگم بلگرامی سے کرایا ۔ دن بھر وہاں طالبِ علم آتے جاتے رہے ۔ اقبال بظاہر تھکے تھکے اور خاموش دکھائی دیتے تھے ، لیکن جونہی کسی نے کچھ کہا ، وہ بجلی ایسی سرعت سے اس پر کوئی نہ کوئی فقرہ ایسا کستے کہ لاجواب کر دیتے ۔ عطیہ فیضی اسی رات واپس لندن چلی گئیں۔ یکم جون ۱۹۰۷ء کو آرنلڈ نے کیمبرج میں دریائے کیم کے کنارے ایک پکنک کا اہتمام کیا اور عطیہ فیضی کو شرکت کے لیے دعوت بھیجی ۔ عطیہ فیضی لندن سے پھر کیمبرج پہنچیں ۔ اس دعوت میں کئی اہل علم بلائے گئے تھے ۔ اقبال بھی موجود تھے ۔ حیات و موت کے مسئلہ پر بحث چھڑ گئی ۔ ہر کوئی اپنی اپنی رائے کا اظہار کرنے لگا مگر اقبال خاموش تھے ۔ جب سب اپنی اپنی کہہ چکے تو آرنلڈ نے اقبال سے پوچھا کہ آپ نے کسی رائے کا اظہار نہیں کیا ۔ اقبال نے اپنی مخصوص طنز بھری مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا کہ حیات ، موت کی ابتداء ہے اور موت ، حیات کی ابتداء ۔ اس فقرہ پر بحث ختم ہو گئی ۱۷ ۔ غالباً انہی دنوں سر عبدالقادر بھی اقبال کو ملنے آخری مرتبہ کیمبرج گئے ۔ کچھ دوستوں نے انہیں چائے پر مدعو کیا اور پھر سب دریائے کیم کے کنارے سیر کرنے کے لیے گئے ۔ ایک خاتون کے پاس کیمرہ تھا ، وہ مجمع کی تصویر لینے لگیں ۔ مجمع کیمرے کے سامنے ترتیب پا رہا تھا کہ آفتاب بادلوں کی اوٹ میں چھپ گیا اور سب اس کے بادلوں کے پیچھے سے نکلنے کا انتظار کرنے لگے ۔ آفتاب کو منہ چھپاتے دیکھ کر اقبال نے فی البدیہہ دو مصرعے موزوں کیے: ماہ روے برلبِ جوے کشید تصویر ما منتظر باشیم ماتا آفتاب آید بروں۱۸ جون کے پہلے ہفتے سے کیمبرج میں گرمیوں کی تعطیلات شروع ہو جاتی ہیں اور یونیورسٹی کا اکادمی سال اختتام پذیر ہوتا ہے ۔ راقم کی رائے میں اقبال نے جون ۱۹۰۷ء تک یعنی تقریباً ڈیڑھ یا پونے دو سال میں اپنا تحقیقی مقالہ مرتب کر کے میونخ یونیورسٹی کو ارسال کر دیا تھا ۔ لہٰذا کیمبرج میں مزید رہائش کی ضرورت نہ تھی ، اس لیے وہ لندن منتقل ہو گئے ۔ ۱۹۰۷ء میں سرعبدالقادر وطن واپس چلے گئے ، اس لیے وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ اقبال نے ہائیڈل برگ (جرمنی) جانے سے پیشتر لندن میں کہاں سکونت اختیار کی ۔ بعض تحریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کبھی کبھار آرنلڈ کے ہاں ویمبلڈن میں بھی قیام کرتے تھے ۔ بہرحال عطیہ فیضی کے بیانات سے واضح ہے کہ لندن میں آپ مس شولی نامی ایک جرمن لینڈ لیڈی کے مکان میں فروکش تھے اور دیسی کھانانہ صرف خود پکاتے تھے بلکہ مس شولی کو بھی پکانا سکھا رکھا تھا۔ اقبال تقریباً ایک ماہ لندن میں مقیم رہے اور پھر غالباً جولائی کے تیسرے ہفتے میں ہائیڈل برگ چلے گئے ۔ لندن میں ان کے قیام کے دوران ۱۹ جون ۱۹۰۷ء کو آرنلڈ نے اقبال اور عطیہ فیضی کو اپنے گھر عشائیے پر مدعو کیا ۔ اثنائے گفتگو میں آرنلڈ نے بتایا کہ وہ اقبال کو جرمنی بھیجنا چاہتے ہیں کیونکہ وہاں بعض ایسے نایاب عربی مسودات دریافت ہوئے ہیں ، جن کو پڑھ کر سمجھنے کی ضرورت ہے اور وہ اس کام کے لیے موزوں ہیں ۔ اقبال نے اس کام کو کرنے کی ہامی بھر لی ۔ اگلی شام وہ کچھ عربی اور جرمن کتب لے کر عطیہ فیضی کے مکان پر پہنچے اور تین گھنٹے تک انہیں وہ کتابیں پڑھ کر سناتے رہے ۔ عطیہ فیضی کے خیال میں وہ جرمن فلسفیوں کے افکار سے متاثر لگتے تھے اور فارسی شعرا میں زیادہ تر وہ حافظ کا کلام سناتے رہے ۔ ۲۳ جون کو عطیہ فیضی کے ہاں پھر محفل جمی ، ڈاکٹر انصاری نے گانا سنایا ۔ لارڈ سہنا کی بیٹیوں کمولا اور رمولا نے ساز بجائے اور اقبال نے حاضرینِ محفل میں سے ہر ایک کے بارے میں فی البدیہہ مزاحیہ اشعار موزوں کر کے سب کو محظوظ کیا ۔ ۲۷ جون کو اقبال عطیہ فیضی کو اپنی رہائش گاہ پر لے گئے ۔ ان کی لینڈ لیڈی مس شولی نے نہایت عمدہ دیسی کھانے پکا رکھے تھے ۔ عطیہ فیضی کو بتایا گیا کہ وہ کھانے تو اقبال کی ہدایت پر تیار کیے گئے ہیں ، اور مزید یہ کہ اقبال ہر قسم کے ہندوستانی کھانے پکا سکتے ہیں ۔ اسی شام اقبال نے اپنے تحقیقی مقالے کے کچھ حصے عطیہ فیضی کو پڑھ کر سنائے اور ان کی رائے طلب کی ۔ بعد میں عطیہ فیضی انہیں امپیریل انسٹی ٹیوٹ کی سالانہ تقریب پر لے گئیں ، جہاں شاہی خاندان کے افراد موجود تھے اس پُر تکلف اجتماع سے اقبال سخت بیزار ہوئے اور حسب عادت طنز بھرے فقرے کسنے لگے ۔ عطیہ فیضی کے بیان کے مطابق ، سوسائٹی میں اقبال کے متعلق یہ مشہور تھا کہ وہ لندن میں سب سے تیز طبیعت رکھنے والے ہندوستانی ہیں ۱۹ ۔اقبال زیادہ دوست بنانے کے قائل نہ تھے ۔ اجنبیوں میں کم آمیز ہو جاتے ۔ وہ چلنے پھرنے یا باہر جانے سے گریز کیا کرتے تھے ۔ سرعبدالقادر تحریر کرتے ہیں : اقبال کی طبیعت کی دو عادتیں وہاں (لندن میں) زیادہ نمایاں ہوتی جاتی تھیں ، ایک تو ان کی کم آمیزی ، جس کا اشارہ انہوں نے اپنے اشعار میں بھی کیا ہے ۔ بہت سے دوست نہیں بناتے تھے ۔ دوسری عادت نقل و حرکت میں تساہل و تکاہل تھی ۔ وہ کئی دفعہ کسی جگہ جانے کا وعدہ کرتے تھے اور پھر کہتے تھے ، بھئی کون جائے ۔ اس وقت تو کپڑے پہننے اور باہر جانے کو جی نہیں چاہتا ۲۰۔ ۲۹ جون کو لیڈی ایلیٹ کی پرتکلف ایٹ ہوم پارٹی پر عطیہ فیضی اور اقبال موجود تھے ۔ اتنے میں مس سروجنی داس (بعد میں سروجنی نائیڈو، ہندوستان کی معروف شاعرہ اور سیاست دان ) زرق برق لباس پہنے ، بیش قیمت زیورات سے آراستہ اور ضرورت سے زیادہ بنائو سنگار کیے ہوئے داخل ہوئیں ۔ وہ سب کو نظر انداز کرتیں ، لپک کر اقبال تک جا پہنچیں اور کہا کہ میں صرف آپ سے ملنے یہاں آئی ہوں ۔ اقبال کا برجستہ جواب تھا ، یہ دھچکا اتنا اچانک ہے کہ میرے لیے تعجب کا باعث ہوگا ، اگر میں اس کمرے سے زندہ و سلامت باہر نکل سکوں۔ اقبال کے ہائیڈل برگ جانے سے پیشتر عطیہ فیضی ہر دوسرے تیسرے روز انہیں ملتی رہیں۔ اس دوران میں اقبال نے انہیں ، دنیا کی تاریخ کے موضوع پر جرمن زبان میں اپنا تحریر کردہ مضمون دکھایا۔ معلوم ہوتا ہے ، اقبال نے جرمن زبان سیکھنے کی تیاری کیمبرج ہی سے شروع کر دی تھی ۔ عطیہ فیضی کے بیان کے مطابق اقبال اب تاریخ میں دلچسپی لینے کے علاوہ جرمن فلسفے اور شاعری کی طرف زیادہ مائل ہو گئے تھے ۲۱ ۔ اقبال جولائی ۱۹۰۷ء کے تیسرے ہفتے میں ہائیڈل برگ چلے گئے۔ غالباً وہ ڈو ورسے کیلے یا بالون کے رستے فرانس کے شمال مشرقی حصے کو طے کرتے ہوئے جرمنی میں داخل ہوئے ۔ ہائیڈل برگ جا کر وہ جرمن زبان سیکھنا چاہتے تھے تاکہ میونخ یونیورسٹی میں اپنے تحقیقی مقالے کے بارے میں زبانی امتحان جرمن زبان میں دے سکیں۔ ہائیڈل برگ ایک چھوٹا سا یونیورسٹی شہر ہے ۔ جس کے درمیان میں سے دریائے نیکر گزرتا ہے۔ ارد گرد جنگلوں سے لدی پہاڑیاں ہیں جن میں سے بعض کی چوٹیوں پر پرانے جرمن قلعے ہیں۔ شہر اپنی سیرگاہوں ، پھلوں کے باغات اور پھولوں کی وجہ سے مشہور ہے ۔ ہر سمت خاموشی طاری رہتی ہے ، جس میں صرف دریا کے بہتے پانی کی آواز ارتعاش پیدا کرتی ہے ۔ یونیورسٹی کی عمارت بھی ایک پہاڑی پر واقع ہے ۔ دریا کے کنارے کنارے دور تک سیر گاہیں ہیں ۔ نیز شہر یا یونیورسٹی کے ہوسٹلوں کے قریب دریا کے ساتھ ساتھ نہایت خوبصورت قہوہ خانے ہیں ۔ اقبال نے ہائیڈل برگ میں تقریباً چار ماہ یعنی ۲۰ جولائی سے لے کر ۵ نومبر ۱۹۰۷ء تک قیام کیا اور اس دوران میں پرائیویٹ طور پر جرمن زبان اور ادب کی تعلیم حاصل کرتے رہے ۔ ان کی استانیاںدو پروفیسر لڑکیاں فرائولین ویگے ناسٹ اور فرائولین سینے شل تھیں ۔ وہ دریائے نیکر کے قریب ہوسٹل میں رہتے تھے،جہاں چند طلبہ اور اساتذہ فروکش تھے اور جس کا انتظام ایک ستر سالہ خاتون فرائو پروفیسر ہیرن کے ہاتھ میں تھا ۔ طلبہ کو یونیورسٹی اور ہوسٹل میں رہائش کے اخراجات خود اٹھانے پڑتے تھے لیکن اساتذہ کو کھانے پینے یا قیام کا کچھ ادا نہ کرنا پڑتا بلکہ مفت رہتے اور انہیں مزید کئی مراعات بھی حاصل تھیں ۔ درس و تدریس کے اوقات صبح سے لے کر شام تک تھے ۔ استادوں اور شاگردوں میں میل جول بہت تھا ۔ فارغ اوقات میں سب اکٹھے پیدل سیر کو جاتے ، کورس گانے گاتے ،دریا میں کشتی رانی کرتے یا قہوہ خانوں میں بیٹھ کر گپیں اڑاتے ۔ اقبال کی زندگی کے بہترین لمحے ہائیدل برگ میں گزرے ۔ وہ یہاں بے حد خوش اور بے تکلف تھے ۔ ہر کام میں بچوں کی طرح شریک ہوتے ۔ ہر بات میں دلچسپی لیتے ۔ وہ طلبہ میں نہایت ذہین سمجھے جاتے تھے ۔ البتہ اوقات کی پابندی ان کے لیے ممکن نہ تھی اس لیے دوسروں کو ان کا انتظار کرنا پڑتا ، مگر سب لوگ ان کی اس عادت سے واقف ہونے کے باوجود انہیں بہت پسند کرنے لگے تھے ۔ ہائیڈل برگ میں قیام کے دوران اقبال کچھ فاصلے پر واقع میونخ آتے جاتے رہتے تھے ۔ میونخ نسبتاً بڑا شہر ہے اور اپنے کلیسائوں ، عجائب گھروں اور کتب خانوں کی وجہ سے مشہور ہے ۔ اقبال کا تعلق میونخ یونیورسٹی سے بھی تھا ، کیونکہ انہوں نے اس یونیورسٹی میں اپنا تحقیقی مقالہ پیش کر رکھا تھا اور پی ایچ ڈی کے زبانی امتحان کے لیے انہیں یہیں آنا تھا ۔ میونخ میں وہ پروفیسر ران اور ان کی بیٹی فرائولین ران سے بھی جرمن زبان ، ادب اور فلسفے سے شناسائی کے سلسلے میں رہبری لیتے تھے ۔ ممکن ہے ، آرنلڈ کے بتائے ہوئے نایاب عربی مسودات کی تشریح اقبال نے میونخ میں کی ہو مگر اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں ۲۲ ۔ اقبال نے ہائیڈل برگ میں سکونت اختیار کرنے کے کچھ عرصے بعد عطیہ فیضی کو وہاں آنے کی دعوت دی اور ساتھ کچھ کتابیں لانے کو بھی کہا ۔ عطیہ فیضی پانچ چھ اشخاص کے ہمراہ ۲۰ اگست ۱۹۰۷ء کی شام کو پانچ بجے ہائیڈل برگ پہنچیں ۔ اقبال اپنے احباب کے ساتھ ان کا استقبال کرنے کے لیے اسٹیشن پر موجود تھے ۔ ان کا تعارف فرائولین ویگے ناسٹ اور فرائولین سینے شل سے کرایا گیا ۔ پہلے ایک قافلے کی صورت میںانہیں ان کی رہائش گاہ تک لے جایا گیا اور پھر سب رات گئے تک یونیورسٹی باغ کے قہوہ خانے میں بیٹھے کافی پیتے اور گپ شپ کرتے رہے ۔ عطیہ فیضی نے محسوس کیا کہ اقبال بے حد خوش ہیں ۔ ان کا لندن والا طنزیہ انداز مفقود ہے اور ان کی طبیعت میں ایک نئی قسم کا سادہ پن اور تحمل آ گیا ہے ۔ دوسرے روز لیکچروں سے فراغت کے بعد پھر سب دریا کے کنارے قہوہ خانے میں اکٹھے ہوئے ۔ یونانی ، فرانسیسی اور جرمن فلسفے پر بحث ہونے لگی ۔ فرائولین ویگے ناسٹ اور فرائولین سینے شل ، یہ تینوں زبانیں بخوبی جانتی تھیں اور اقبال ان کی باتیں سننے میں اس قدر محو یا پھر اپنے خیالات میں اتنے مستغرق تھے کہ جب جانے کا وقت آیا تو یوں محسوس ہوا گویا ابھی خواب سے بیدار ہوئے ہیں ۔ عطیہ فیضی بیان کرتی ہیں کہ اقبال لندن میں بڑے خود رائے اور تنک مزاج تھے لیکن اس کے برعکس یہاں بات بات پر ان کا عجزو انکسار ظاہر ہوتا تھا ۔ تھوڑی دیر بعد دوسرے طلبہ بھی آ کر شریک ہو گئے ، اور سب دریا کے پار ایک ہزار سیڑھیاں چڑھ کر پہاڑی کی چوٹی پر شلوس تک کورس میں جرمن گانے گاتے پہنچے ۔ اقبال بھی کورس میں شریک ہوئے مگر بالکل بے سرے تھے ۔ تیسرے روز پکنک کے لیے نائن ہائیم جانا طے پایا ۔ سب گاڑی پکڑنے کے لیے علی الصبح تیار ہو کر اکٹھے ہوئے لیکن اقبال ندارد ۔ گاڑی کا وقت نکلا جا رہا تھا ۔ فقط اقبال کا انتظار تھا ۔ اتنے میں ایک خادمہ چلاتی ہوئی آئی اور کہا کہ نہ جانے ہیر پروفیسر اقبال کو کیا ہو گیا ہے ۔ سب سراسیمگی کے عالم میں ان کے کمرے کی طرف دوڑے ، کمرے میں بتی جل رہی تھی ، اقبال کے سامنے دو چار کتابیں میز پر کھلی پڑی تھیں اور وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر سکتے کے عالم میں بیٹھے خلا میں گھور رہے تھے ۔ فرائو پروفیسر ہیرن بہت گھبرائی ہوئی تھیں ۔ انہوں نے عطیہ فیضی سے پوچھا کہ کیا کیا جائے ۔ عطیہ فیضی نے اقبال کا نام لے کر انہیں پکارا، مگر کوئی جواب نہ ملنے پر ان کو شانے سے جھنجھوڑتے ہوئے اردو میں کہا کہ خدارا اٹھیے ، آپ جرمنی کے سیدھے سادے شہر میں ہیں ۔ یہ ہندوستان نہیں ، جہاں ایسی کیفیت کو بآسانی قبول کیا جا سکے ۔ رفتہ رفتہ اقبال نے اپنے آپ پر قابو پا لیا ۔ کہنے لگے کہ میں رات دیر تک کچھ کتابیں پڑھتا رہا اور اسی اثناء میں مجھے محسوس ہوا کہ میرا شعور میرے جسم سے الگ ہو گیا ہے ۔ شعور کے یوں بلاجسم بھٹکنے سے میں سخت پریشانی کے عالم میں تھا لیکن آپ نے مجھے جگا دیا ۔ اس کے بعد سب روانہ ہوئے اور کوئی ڈیڑھ گھنٹہ ریل کے سفر کے بعد نائن ہائم پہنچے دو تین میل کی چڑھائی چڑھی رستہ میں فرائولین ویگے ناسٹ نے عطیہ فیضی کا سکھایا ہوا ایک ہندوستانی گیت گانا شروع کر دیا : گجرا بیچن والی ناداں ، یہ تیرا نخرا باقی لوگوں نے ساتھ دیا ۔ چلتے چلتے جنگلی پھول جمع کر کے سب نے مکٹ بنا کر اپنے اپنے سروں پر پہن لیے ۔ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر ڈیرا ڈالا ۔ پھر یکایک سب نے اپنے اپنے مکٹ اقبال کے سر پر رکھتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو دنیائے نامعلوم کی بادشاہت کا تاج پہناتے ہیں ۔ چوتھے روز بجلی کی ریل میں بیٹھ کر سب پہاڑ کی چوٹی پر واقع کونگ اشٹال پہنچے اقبال ہر ایک پر مزاحیہ اشعار موزوں کرنے لگے جو جرمنوں کی سمجھ میں نہ آتے تھے ۔ ان کے مطالب پوچھنے پر اقبال نے کہا کہ میں آپ کو آفاقی زبان میں حکم دیتا ہوں کہ ایک جادو کا دائرہ بنائیں اور ہمیں فرشتوں کا نغمہ سنائیں ۔ اس حکم کی فوراً تعمیل ہوئی اور کسی جرمن آپیرا کا حصہ تمثیلی انداز میں گایا گیا ۔ اس کے بعد سب پیدل چلتے کو ہلوف گئے جو تین میل دور تھا ، کچھ وقت کو ہلوٹ کے باغات میں گزارا ۔ واپسی پر ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑے ، دو تین صفیں بنا کر دوڑتے ہوئے شام ڈھلے تھکے ہارے ہائیڈل برگ پہنچے ۔ پانچویں روز ریل میں سوار ہو کر شمال کی سمت نکل گئے اور ایک گھنٹے کے سفر کے بعد اس مقام پر پہنچے جہاں کوئی تاریخی باغ ہے ، جس میں ہر مذہب کی عبادت گاہیں موجود ہیں، یونانی مجسمے ہیں ، آبشاریں ، تالاب ، پھل دار درخت اور انواع و اقسام کے پرندے ہیں ۔ اسی باغ میں ایک دلکش مسجد بھی تھی ، جس کی دیواروں پر شاید چند آیات کندہ تھیں ۔ ہر کوئی ان تحریروں کے مطالب جاننے کے لیے بے قرار تھا ۔ اقبال نے نہایت متانت سے ان عربی عبارتوں کو پڑھا اور پھر کہنے لگے کہ جس شاہ نے یہ عظیم الشان باغ بنوایا تھا ، اسے اتفاق سے ایک حور مل گئی ، جس سے وہ شادی کرنا چاہتا تھا لیکن حور صرف اسی شرط پر اس کی ملکہ بننے کے لیے تیار ہوئی کہ وہ اسلام قبول کرے اور ایک مسجد تعمیر کرائے اور ان کا نکاح اسی مسجد پر پڑھا جائے ۔ چنانچہ شاہ نے اس کی بات مان لی اور اس مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور یہیں ان کا نکاح پڑھا گیا ۔ اقبال نے یہ سارا افسانہ ایسی سنجیدگی اور خوش اسلوبی سے سنایا کہ سب اس کو حقیقت سمجھے۔ چھٹے روز پھر سب ہنستے ہنساتے ، گاتے ، کھاتے ریل میں بیٹھ کر کسی پہاڑ کی چوٹی پر جرمن دیہاتیوں کے لوک ناچ دیکھنے پہنچ گئے ۔ اس چوٹی پر پھلوں کے باغ میں کسی پرانے قلعے کے کھنڈر تھے۔ سارا دن رنگ برنگے لباس پہنے دیہاتیوں کے رقص دیکھنے گزرا ۔ ساتویں روز عطیہ فیضی ، اقبال کے ساتھ میونخ گئیں ۔ ایک دو دن وہیں گزارے اقبال نے انہیں کلیسا ، عجائب گھر ، محلات ، باغات ، آرٹ گیلریوں اور کتب خانوں کی سیر کرائی ۔ میونخ اقبال کو بے حد پسند تھا اور وہ اسے جزیرہ مسرت کہتے تھے ۔ شام کو پروفیسر ران کے گھر پہنچے اور کھانا وہیں کھایا ۔ فرائولین ران نے انہیں پیانو پر جرمن کلاسیکی موسیقی کے کچھ ٹکڑے سنائے ۔ فرائولین ران نے عطیہ فیضی کو بتایا کہ چند ماہ کی قلیل مدت میں جتنی جلد اقبال نے جرمن زبان سیکھی ہے ، اتنی جلدی کوئی نہیں سیکھ سکتا۔ بالآخردونوں ہائیڈل برگ واپس پہنچے۔ ۳۰ اگست کا دن دریا میں کشتیوں کی ریس کے لیے مقرر تھا ۔ جب طلبہ اقبال کے کمرے میں پہنچے تو وہ کتابوں میں مستغرق تھے ۔ فرائولین ویگے ناسٹ نے کہا کہ آج کشتیوں کی ریس مقرر ہے اور آپ کو چلنا ہو گا ۔ اقبال نے پس و پیش کیا مگر سب مل کر انہیں گھسیٹ کر لے گئے ۔ اقبال بوٹ ریس میں شریک ہوئے لیکن ان کی کشتی سب سے آخر میں آئی ۔ اگلے چند روز ہائیڈل برگ کے ارد گرد مشہور شلوس نیکر بائن شٹائن اور آئر باخ میں پہاڑیوں کی سیر کرتے ، باغات میں سیب توڑتے ، پھول اکٹھے کرتے ، لوک ناچ میں حصہ لیتے ، اوپن ائیر ریستورانوں میں کھانا کھاتے یا نیچرل ہسٹری اور اسلحے کے عجائب گھر دیکھتے گزر گئے ۔ اقبال کی رگ ظرافت پھڑکنے سے باز نہ رہتی تھی ۔ ایک شب ہوسٹل میں رات کے کھانے پر کسی لڑکی کو دیکھ کر عطیہ فیضی کے سامنے یہ شعر فی البدیہہ موزوں کر کے انہیں خوب ہنسایا : اس کے عارض پہ سنہری بال ہیں ہو طلائی استرا اس کے لیے عطیہ فیضی کو بروز ۴ ستمبر ۱۹۰۷ء اپنے ہمراہیوں سمیت لندن واپس جانا تھا۔ اس دن صبح اشپیئر ہوف پھلوں کے باغ میں ہر کوئی الگ الگ کھانے تیار کر کے لایا ۔ اقبال بھی ہندوستانی طرز کا کھانا خود پکا کر لائے۔ سب نے باغ میں بیٹھ کر انواع اقسام کے کھانے کھائے۔ جب عطیہ فیضی کے رخصت ہونے کا وقت آیا تو سب لوگ ایک صف میں کھڑے ہو گئے عطیہ فیضی کو سامنے کھڑا کر لیا اور بینڈ کے ساتھ ، اقبال کی رہنمائی میں جرمن زبان میں تحریر کردہ یہ الوداعی نظم کورس میں گائی گئی: آخر کار ہندوستان کے اس نہایت درخشاں ہیرے کو خدا حافظ کہنے کا وقت آ ہی گیا وہ تارا، جو یہاں چمکتا تھا اور رقصاں رہتا تھا اور دور و نزدیک کے مجمعوں کو روشن کرتا تھا جو صلح اور امن کے جھنڈے کی طرح خبر گیری کرتے ہوئے ہر جگہ برہم مزاجوں کو سکون بخشتا تھا ہم ایک بڑی آہ سے آراستہ ہو کر آئے ہیں جو دور ، نزدیک اور ہر بلندی تک جاتی ہے ہاں ! تم ، جسے ان اشعار میں مخاطب کیا گیا ہے ہماری بہترین دعائیں اور برکتیں اپنے ساتھ لیتی جائو ہماری بہترین خواہشات تمہارے ساتھ رہیں گی دریائوں ، جھیلوں اور سمندروں کو عبور کرتے وقت شان و شوکت اور کامیابی کے ساتھ واپس لوٹو تمہارے دوست بہت بڑی تعداد میں منتظر ہیں لہٰذا اس وقت تک کے لیے ہم کہتے ہیں خدا حافظ ! الوداع ! ! ۲۳ تحقیقی مقالے کے بارے میں میونخ یونیورسٹی میں اقبال کا زبانی امتحان ۴ نومبر ۱۹۰۷ء کو پروفیسر ایف۔ ہومل کی زیر صدارت ایک بورڈ نے لیا ۔ ان دنوں وہ غالباً پانسی یاں تھرنر،ا۴۔شیلنگ سٹراسے میونخ میں ٹھہرے ہوئے تھے ۔ ان کا تحقیقی مقالہ بعنوان ’’ایران میں فلسفہ مابعدالطبیعیات کا ارتقا‘‘ (انگریزی) پہلی بار ۱۹۰۸ء میں لندن سے شائع ہوا اور آرنلڈ کے نام سے منسوب کیا گیا ۔ اقبال نے ۵ نومبر ۱۹۰۷ء کو لندن واپس پہنچ کر بیرسٹری کے فائنل امتحانوں کی تیاری شروع کر دی ۔ لندن میں وہ جولائی ۱۹۰۸ء تک رہے ۔ غالباً بیرسٹری کے فائنل امتحانات انہوں نے مئی ۱۹۰۸ء میں دئیے ہوں گے یکم جولائی کو نتیجہ نکلنے کے چند ہی روز بعد وطن واپس روانہ ہو گئے ۔ جرمنی میں اقبال کا قیام اگرچہ مختصر تھا ، لیکن اس کے باوجود اس سرزمین ، جرمن شعر و ادب اور فلسفے سے انہیں گہری جذباتی اور روحانی وابستگی پیدا ہو گئی تھی ۔ اس وابستگی کے پیدا کرنے میں ایما ویگے ناست کا بڑا ہاتھ تھا، کیونکہ جرمن زبان اور ادب و فلسفے سے ایما ویگے ناست ہی نے اقبال کو روشناس کرایا تھا ۔ ایما ویگے ناست اقبال سے عمر میں دو سال چھوٹی تھیں ۔ وہ ۲۶ اگست ۱۸۷۹ء کو صوبہ بادن کے شہر ہائیل برون میں پیدا ہوئیں جو ہائیڈل برگ سے تقریباً اسّی کلو میٹر کے فاصلے پر دریائے نیکر کے کنارے آباد ہے ۔ ان کے اور بہن بھائی بھی تھے ، لیکن اقبال کی ان سے کبھی ملاقات نہ ہوئی ۔ ایما ویگے ناست ہائیڈل برگ یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد جرمن زبان کے ایک اسکول (پینسیون شیرر) سے منسلک ہو گئیں اور یہیں جولائی ۱۹۰۷ء میں اقبال کی ان سے ملاقات ہوئی ۔ تب ایما ویگے ناست کی عمر اٹھائیس برس تھی ۔ اقبال نے انہی سے جرمن زبان سیکھی اور جرمن شاعری اور ادب سے متعارف ہوئے۔ دونوں روزانہ ملتے اور گوئٹے کی تخلیقات اور جرمن فلسفے پر تبادلہ خیالات کرتے ۔ ایما ویگے ناست ایک ذہین اور حسین خاتون تھیں۔یہی وجہ ہے کہ ان دونوں کے دل و دماغ کے فاصلے بتدریج کم ہوتے چلے گئے ۔ یہاں تک کہ اقبال جب اوائل اکتوبر ۱۹۰۷ء میں ہائیڈل برگ سے میونخ گئے تو وہاں کے تقریباً ایک ماہ کے قیام کے دوران انہیںیکے بعد دیگرے تین خط لکھے ۔ پہلا خط ۱۶ اکتوبر ۱۹۰۷ء کو تحریر کیا گیا : افسوس کہ جرمن زبان سے میری محدود واقفیت ہمارے درمیان ایک دیوار کی طرح حائل ہے ۔۔۔۔۔ ہائیڈل برگ میں قیام کے دوران میں نے جرمن لکھنے کی مشق نہ کی ، یہ پہلی تحریر ہے جو میں اس زبان میں لکھ رہا ہوں ، خزاں کی دھیمی اور نم آلود ہوا بڑی خوشگوار ہے ۔ موسم بڑا خوبصورت ہے ۔ لیکن افسوس کہ ہر حسین شے کی طرح یہ بھی بے دوام ہے: دوسرا خط ۲۳ اکتوبر ۱۹۰۷ء کو تحریر کیا گیا: یہ آپ کا بڑا کرم تھا کہ آپ نے خط لکھا لیکن نہایت مختصر میں اس وقت تک آپ کو بالکل نہیں لکھوں گا جب تک آپ مجھے وہ خط نہیں بھیجتیںجو آپ نے لکھ کر پھاڑ ڈالا ۔ یہ بڑی بے رحمی ہے ۔ آپ ہائیڈل برگ میں تو ایسی نہ تھیں ۔ شاید ہائیل برون کی آب و ہوا نے آپ کو بے مہر بنا دیاہے۔ میں زیادہ لکھنا چاہتا ہوں ، مگر وہ خط : آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ میرا خط پھاڑ ڈالیں۔ اور تیسرا خط ۲۷ اکتوبر ۱۹۰۷ء کو تحریر کیا گیا ۔ لکھتے ہیں : آج میں باہر نہیں نکل سکا ۔ موسم خوشگوار نہیں ہے ۔ براہ کرم میری بھدی جرمن زبان کا برا مت منائیے اور نہ اس کا جو میں نے اپنے پچھلے خط میں لکھا تھا ۔ اقبال کی لندن روانگی سے قبل ایما ویگے ناست اپنے آبائی شہر ہائیل برون چلی گئیں اور کچھ مدت تک نا مساعد حالات کا شکار رہیں ۔ اقبال لندن واپس تو آ گئے لیکن دل ابھی تک ہائیڈل برگ ہی میں تھا ۔ لندن میں تقریباً نو ماہ قیام کے دوران انہوں نے ایما ویگے ناست کو کئی خط لکھے ۔ مثلا۲ دسمبر ۱۹۰۷ء کو تحریر کرتے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ ہائیل برون کے رستے سفر کروں گا لیکن یہ ممکن نہ ہوا میرے لیے یہ قطعی لازم تھا کہ میں ۵ نومبر کو لندن میں ہوں ۔ پروفیسر آرنلڈ مصر گئے ہیں اور میںعربی کا پروفیسر مقرر ہوا ہوں۔ میرے ذمے ہفتے میں دو لیکچر ہیں ۔ میں زیادہ لکھ یا کہہ نہیں سکتا ، لیکن آپ تصور کر سکتی ہیں کہ میری روح میں کیا ہے ۔ میری بہت بڑی خواہش یہ ہے کہ میں دوبارہ آپ سے بات کر سکوں اور آپ کو دیکھ سکوں ، لیکن میں نہیں جانتا کہ کیا کروں۔ جو شخص آپ سے دوستی کرچکا ہو، اس کے لیے ممکن نہیں کہ آپ کے بغیر جی سکے۔ براہ کرم میں نے جو لکھا ہے ، اس کے لیے مجھے معاف کر دیجیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ اس قسم کے اظہار جذبات کو پسند نہیں کرتیں ۔ براہ کرم جلد لکھیے اور سب کچھ یہ اچھا نہیں کہ کسی شخص کا کچھ بگاڑا جائے ، جو آپ کا کچھ نہیں بگاڑتا ۔ ۳۰ جنوری ۱۹۰۸ء کو تحریر کیا : میں آپ کی تصاویر کے لیے ہزار گونہ شکریہ ادا کرتا ہوں جو کل شام مجھے موصول ہوئیں۔۔۔۔ دونوں تصویریں بہت خوبصورت ہیں اور وہ ہمیشہ میرے مطالعے کے کمرے میں میری میز پر رہیں گی ۔ لیکن مت باور کیجیے کہ وہ صرف کاغذ ہی پر نقش ہیں بلکہ وہ میرے دل میں بھی جا پذیر ہیں اور تا دوام وہیں رہیں گی ۔ شاید میرے لیے یہ ممکن نہ ہو گا کہ میں دوبارہ آپ کو دیکھ سکوں ۔۔۔۔ مگر میں یہ ضرور تسلیم کرتا ہوں کہ آپ میری زندگی میں ایک حقیقی قوت بن چکی ہیں ۔میں آپ کو کبھی فراموش نہ کروں گا اورہمیشہ ہمیشہ آپ کے لطف و کرم کو یاد رکھوں گا ۔ ۲۱ جنوری ۱۹۰۸ء کو تحریر کیا : جب آپ کا پچھلا خط پہنچا تو میں بڑا بیمار تھا اور اس نے مجھے اور بھی بیمار کر ڈالا ۔ کیونکہ آپ نے لکھا تھا کہ آپ نے بڑے طوفان میں سے گزرنے کے بعد اپنی آزادی دوبارہ حاصل کی ہے ،میں یہ سمجھا کہ آپ میرے ساتھ مزید خط و کتابت نہیں کرنا چاہتیں اور اس بات سے مجھے بڑا دکھ ہوا ۔ اب مجھے پھر آپ کا خط موصول ہوا ہے اور اس سے مجھے بڑی مسرت ہوئی ہے ۔ میں اکثر آپ کے بارے میں سوچتا ہوں اور آپ کے لیے میرا دل ہمیشہ بڑے حسین خیالات سے معمور رہتا ہے ، ایک شرارے سے شعلہ اٹھتا ہے اور شعلے سے بڑا الائو روشن ہو جاتا ہے ، لیکن آپ غیر جانبدار ہیں ، غفلت شعار ہیں ، آپ جو جی میں آئے کیجیے ، میں بالکل کچھ نہ کہوں گا اور ہمیشہ صابر و شاکر رہوں گا ۔ شاید جب میں ہندوستان روانہ ہوں گا تو آپ سے ملاقات کر سکوں گا۔ ۲۶ فروری ۱۹۰۸ء کو تحریر کیا : میں ہر چیز کے لیے معذرت خواہ ہوں ۔ مجھے اس قدر مصروفیت رہی کہ آپ کو خط نہ لکھ سکا ، مگر آپ چونکہ فرشتہ خصلت ہیں ، اس لیے امید رکھتا ہوں کہ آپ مجھے معاف کر دیں گی۔ آج شام بھی مجھے ایک لیکچر دینا ہے ، تصوف پر ۔۔۔۔۔ مجھے آپ کے کانوں کو اپنی بھونڈی جرمن سے مورد توہین بنانے پر شرم آتی ہے ۔۔۔۔ میںجولائی کے اوائل میں ہندوستان لوٹ رہا ہوں اور میری تمنا ہے کہ اپنے سفر سے پیشتر آپ سے ملاقات کا موقع مجھے مل جائے۔ میں پوری کوشش کروں گا کہ چند روز کے لیے ہائیڈل برگ آسکوں ، لیکن اگر ممکن ہو تو کیا آپ پیرس میں مجھ سے مل سکتی ہیں ؟ ۔۔۔۔۔ آپ تمام دن کیا کرتی ہیں؟ کیا آپ مطالعہ کرتی ہیں یا دوستوں کے ساتھ وقت گزارتی ہیں ؟ آپ کی تصویر میری میز پر رکھی ہے اور ہمیشہ مجھے ان سہانے وقتوں کی یاد دلاتی ہے جو میں نے آپ کے ساتھ گزارے تھے ۔ ایک تسبیحِ خیالاتِ خوش آیند کے ساتھ۔ ۳ جون ۱۹۰۸ء کو تحریر کیا : براہِ کرم جلد لکھیے اور مجھے بتائیے کہ آپ کیا کررہی ہیں اور کیا سوچ رہی ہیں ۔ آپ میرے خط کا انتظار کیوں کرتی ہیں ؟ میں ہر روز آپ سے اطلاع پانے کی آرزو رکھتا ہوں ۔۔۔۔ میں بہت مصروف ہوں ، جلد انگلستان سے رخصت ہو رہا ہوں ، آغاز جولائی میں مجھے معلوم نہیں کہ آیا میرا جرمنی کے رستے سفر کرنا ممکن ہو گا کہ نہیں ، یہ میری بڑی تمنا ہے کہ میں ہندوستان لوٹنے سے پہلے آپ سے ملاقات کر سکوں ، بے رحم نہ بنیے ،براہ کرم جلد خط لکھیے اور تمام احوال بتایئے ۔ میرا جسم یہاں ہے، میرے خیالات جرمنی میں ہیں آج کل بہار کا موسم ہے ، سورج مسکرا رہا ہے لیکن میرا دل غمگین ہے ۔ مجھے کچھ سطریں لکھیے اور آپ کا خط میری بہار ہو گا ۔ میرے دلِ غمگین میں آپ کے لیے بڑے خوبصورت خیالات ہیں اور یہ خوموشی سے یکے بعد دیگرے آپ کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ ۱۰ جون ۱۹۰۸ء کو تحریر کیا : میں آپ کو پہلے خط لکھ چکا ہوں اور آپ کے خط کا منتظر ہوں ۔میں اپنی ایک تصویر لف کر رہا ہوں ۔شاید میں ایک اور تصویر آپ کو بھیجوں ۔ میں ۲ جولائی کو ہندوستان روانہ ہو رہا ہوں اور وہاں سے خط لکھوں گا۔ لندن سے آخری خط ۲۷ جون ۱۹۰۸ء کو تحریر کیا ۔ لکھتے ہیں : میں نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہے کہ جرمنی کے رستے سفر کر سکوں لیکن یہ ممکن نہیں ہے ۔ میں ۳ جولائی کو انگلستان سے روانہ ہوں گا اور چند روز پیرس میں رکوں گا ۔ جہاں مجھے کچھ کام ہے ۔ براہ کرم فوراً لکھیے ۔ میں ہندوستان روانہ ہونے سے پیشتر آپ کا خط پانے کا متمنی ہوں ۔میں اگلے سال یورپ آنے اور آپ سے ملنے کی امید رکھتا ہوں ۔ مت کہیے گا کہ کئی ملک اور سمندر ہمیں ایک دوسرے سے جدا کریں گے ، پھر بھی ہمارے درمیان ایک غیر مرئی رشتہ قائم ہے ۔ میرے خیالات ایک مقناطیسی قوت کے ساتھ آپ کی سمت دوڑیں گے اور اس بندھن کو مضبوط بنائیں گے ۔ ہمیشہ مجھے لکھتے رہیے گا اور یاد رکھیے گا کہ آپ کا ایک سچا دوست ہے ، اگرچہ وہ فاصلہ دراز پر ہے ۔ جب دل ایک دوسرے کے قریب ہوں تو فاصلہ کچھ معنی نہیں رکھتا ۔ ایما ویگے ناست کی ذات کے بارے میں محمد اکرام چغتائی نے ہائیڈل برگ جا کر تحقیق کی ہے اور اس سلسلے میں ان کا مضمون ’’اقبال اور ایما ویگے ناست‘‘ نوائے وقت( جمعہ میگزین مورخہ ۹تا ۱۵ نومبر ۱۹۸۴ئ) میں چھپ چکا ہے ۔ ان کی تحقیق کے مطابق ایما ویگے ناست کچھ مدت پانسی یاں شیر ر میں جرمن زبان پڑھاتی رہیں ۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے کلینک میں بطور کیمسٹ ملازم ہوئیں اور اٹھائیس برس تک یہی خدمت انجام دیتی رہیں ۔ ۱۹۴۷ء میں بعمر ۶۸ سال ریٹائر ہوئیں۔ تمام عمر غیر شادی شدہ رہیں ۔ ہائیڈل برگ میں اپنی بہن صوفی ویگے ناست کے ساتھ رہتی تھیں۔ ۱۹۵۶ء میں انہیںبڑھاپے کا الائونس ملنا شروع ہوا ۔ بالآخر پچاسی سال کی عمر میں ۱۶۔ اکتوبر ۱۹۶۴ء کو وفات پا گئیں ۔ اقبال کی ایما ویگے ناست کے ساتھ مراسلت جاری رہی ، لیکن وہ پھر ایک دوسرے سے کبھی نہ مل سکے ۔ اب تک دریافت شدہ خطوط کی تعداد ستائیس ہے ۔ پہلا ۱۶۔ اکتوبر ۱۹۰۷ء کو اور آخری خط ۲۱ جنوری ۱۹۳۳ء کو لکھا گیا ۔ سترہ خط جرمن زبان میں ہیں اور دس انگریزی میں ۔ ایماویگے ناست جرمن زبان کے علاوہ اور کوئی زبان نہ جانتی تھیں ۔ انہوں نے اقبال کو جو خطوط لکھے ، وہ محفوظ نہیں ۔ دونوں نے آپس میں تصاویر اور تحائف کا تبادلہ بھی کیا ۔ اقبال انہیں اپنی تقاریر یا کلام بھی بھیجتے رہتے تھے اور بعض اوقات ان کے کلام کا جرمن ترجمہ بھی ایماویگے ناست کی وساطت سے ہائیڈل برگ کے اخبارات میں چھپتا تھا ۔ ایماویگے ناست کی وفات سے چند برس پیشتر ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے کسی پاکستانی طالب علم کا وہاں کے اخبار میں مراسلہ شائع ہوا ، جس میں تحریر کیا گیا تھا کہ ۱۹۰۷ء میں اقبال اس شہر میں چند ماہ ٹھہرے تھے مگر معلوم نہیں کہ کہاں ٹھہرے تھے ۔ یہ مراسلہ ایماویگے ناست کی نظر سے گزرا اور انہوں نے پاکستانی طالب علم کو اپنے ساتھ جا کر اس مکان کی نشاندہی کرائی ۔ اقبال کے ایماویگے ناست کے نام خطوط کی دریافت کے متعلق یہ صورت ہے کہ ۱۹۶۰ء میں پاکستان جرمن فورم دونوں کے درمیان ثقافتی تعلقات کی ایک انجمن تھی ۔ اس زمانے میں ممتاز حسن اس کے صدر اور جرمن مسلم محمد امان اللہ ہابوہم اس کے سیکرٹری تھے ۔ اس انجمن کی کوششوںسے ہائیڈل برگ میں ایماویگے ناست کا سراغ ملا اور ممتاز حسن اور ایماویگے ناست کے درمیان خط و کتابت کے نتیجے میں ایماویگے ناست نے اقبال کی طرف سے اپنے نام موصول ہونے والے خطوط اس شرط پر فورم کے حوالے کر دئیے کہ انہیں پاکستان کے کسی ایسے تاریخی حفاظت خانے یا نیشنل آرکائیوز میں محفوظ کر دیا جائے گا جہاں اقبال کے حیات و فکر پر تحقیق کرنے والے ان سے استفادہ کر سکیں لیکن خطوط کا یہ مجموعہ ممتاز حسن کے پاس ہی رہا حتیٰ کہ وہ وفات پا گئے اور اب شاید ان کے ورثا کی تحویل میں ہے ۔بہرحال ممتاز حسن نے اس مجموعے کی ایک مکمل فوٹو نقل تیار کروا کے ہابوہم کو دے دی اور ہابوہم لندن سکول آف اورئینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز میں ۵ مئی ۱۹۸۲ء کو منعقد ہونے والے یوم اقبال کے موقع پر اپنے مقالے کے ذریعے پہلی مرتبہ خطوط کے اس مجموعہ کو منظر عام پر لائے ۔ ان کے مقالے ’’ایما اور اقبال کے مابین خط وکتابت ‘‘ کا اردو ترجمہ ڈاکٹر سعید اختر درانی نے کیا ہے جو ’’نوائے وقت میگزین‘‘ مورخہ ۱۸ فروری ۱۹۸۳ء میں شائع ہو چکاہے۔ ہابوہم فرماتے ہیں کہ ان کی یاد کے مطابق کل ملا کر چالیس خطوط اور کچھ تصویریں تھیں ، لیکن ممکن ہے ، ان کے کئی سفروں میں چند فوٹو کاپیاں گم ہو گئی ہوں ۔ وہ اقبال کی جرمن زبان سے شناسائی پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں : اقبال ان خطوط میں بار بار اس بات کا شکوہ کرتے ہیں کہ جرمن زبان سے بڑے ناواقف ہیں اور اس میں وہ اپنے خیالات کا حسب خاطر اظہار نہیں کر سکتے بلکہ اپنی ٹوٹی پھوٹی جرمن کو مکتوب الیہ کے لیے گستاخی سمجھ کر اظہار معذرت بھی کرتے ہیں ، تاہم میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ اقبال ایسا کہنے میں ضرورت سے زیادہ انکسار برت رہے ہیں ۔ مجھے تو اس بات پر تعجب ہے کہ وہ اس زبان میں اپنے خیالات کا اظہار کس خوبی کے ساتھ کر سکتے ہیں ، حالانکہ اس زبان کی تعلیم انہوں نے نہایت ہی مختصر عرصے میں حاصل کی تھی۔ ان خطوط کا اردو ترجمہ ڈاکٹر سعید اختر درانی نے کیا ہے اور وہ دو قسطوں میں ’’نوائے وقت‘‘ اقبال نمبر مورخہ ۹ نومبر ۱۹۸۳ء اور ’’نوائے وقت‘‘ مورخہ ۲۲ نومبر ۱۹۸۳ء میں شائع ہو چکا ہے ۔ یہ خطوط اب ان کی کتاب ’’اقبال یورپ میں ‘‘ میں شامل ہیں ۔ لندن میں قیام کے دوران اقبال نے اسلامی دین و تمدن پر لیکچروں کا ایک سلسلہ شروع کیا، جس کے موضوعات تھے ۔ اسلامی تصوف ، مسلمانوں کا اثر تہذیبِ یورپ پر ، اسلامی جمہوریت، اسلام اور عقل انسانی وغیرہ ، خواجہ حسن نظامی کے نام اقبال کے ایک خط محررہ ۱۰ فروری ۱۹۰۸ء سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت تک اس سلسلے کا ایک لیکچر اقبال دے چکے تھے اور دوسرا لیکچر اسلامی تصوف پر انہوں فروری کے تیسرے ہفتہ میں ابھی دینا تھا ۲۴۔یہ لیکچر کن کن تاریخوں پر لندن میں کسی جگہ دیے گئے ؟ اس کا جواب وثوق سے نہیں دیا جا سکتا ۔ غالباًان میں سے ایک لیکچر کیکسٹن ہال میں دیا گیا ۲۵ ۔ اقبال لندن یونیورسٹی میں چھ ماہ کے لیے عارضی طور پر عربی کے پروفیسر مقرر کیے گئے ۔ یہ تقرر لندن کے اسی قیام کے دوران ہوا جب آرنلڈ چھ ماہ کے لیے رخصت پر گئے اور اقبال نے ان کے قائم مقام کی حیثیت سے تدریس کے فرائض سنبھالے ۲۶ ۔ اقبال نے لندن کے اپنے تقریباً ۹ ماہ کے اس قیام میں مسلم طلبہ کی اجتماعی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا ۔ مرزا جلال الدین کے بیان کے مطابق انہوں نے اپنے قیام لندن کے دوران وہاں پین اسلامک سوسائٹی کے نام سے ایک نیم سیاسی انجمن قائم کر رکھی تھی ، سر عبداللہ سہروردی جس کے جنرل سیکرٹری اور سر سلطان احمد اور مرزا جلال الدین دونوں جائنٹ سیکرٹری تھے ۲۷ ۔جب اقبال انگلستان پہنچے تو یہ سوسائٹی موجود تھی ۔ سر عبدالقادر بیان کرتے ہیں کہ اقبال جب کیمبرج سے لندن آتے تو بعض اوقات وہ دونوں علمی مجالس میں اکھٹے شریک ہوتے تھے ۲۸ ۔عبداللہ انور بیگ تحریر کرتے ہیں کہ لندن میں نئے آنے والے مسلم طلبہ کے معاشرتی مسائل حل کرنے کے لیے مسلمانوں کی ایک انجمن حافظ محمود شیرانی نے قائم کر رکھی تھی ۔ بعض مسلم طلبہ نے اصرار کیا کہ اس انجمن کا نام پین اسلامک سوسائٹی رکھ دیا جائے ۔ لیکن دوسروں کا اعتراض تھا کہ اس طرح انجمن سیاسی رنگ اختیار کر لے گی ۔سر عبداللہ سہروردی ’’پین اسلامک ‘‘ نام کے حق میں تھے مگر سید امیر علی اور آرنلڈ ’’اسلامک سوسائٹی‘‘ نام رکھنا چاہتے تھے ۔ بالآخر اقبال نے پین اسلامک نام رکھنے والوں کی حمایت کی ۔ چنانچہ سوسائٹی کا یہی نام رکھا گیا ۲۹ ۔ بات دراصل یہ ہے کہ اتحاد ممالک اسلامیہ کی تحریک کو مسلمانوں نے تو ہمیشہ اسلام یا اتحاد اسلام کا نام دیا ، مگر یورپ میں اس تحریک کے خلاف عوامی رائے منظم کرنے کی خاطر سیاستدانوں یا پریس نے ’’پین اسلام ازم ‘‘کانام دیا ۔ چنانچہ اقبال یا مسلم طلبہ ’’پین اسلام‘‘اصطلاح کو اپنانے کے حق میں کیونکر ہو سکتے تھے ۔ بہرحال انگلستان میں ایسی انجمنیں عموماً طلبہ کو کسی نہ کسی بہانے اکٹھا کرنے کے لیے قائم کی جاتی تھیں۔وہ یا تو مذہبی تقریبات منانے کا اہتمام کرتیں یا ان کے ذریعے کسی نامور شخصیت کو مدعو کر کے اس کے لیکچر کا انتظام کیا جاتا تھا ۔ممکن ہے ، اقبال نے اس انجمن کی کاروائیوں میں لندن میں مقیم دیگر مسلم طلبہ سے ملنے کی خاطر حصہ لیا ہو ۔ ۱۹۰۵ء میں ہندوستان میں وائسرائے کی تبدیلی ہوئی ۔ لارڈ کرزن کی جگہ لارڈ منٹو نے لی اور انگلستان میں اقتدار لبرل پارٹی کے ہاتھوں میں آ گیا اور کانگرس کے ذریعے مزید دستوری مراعات کے لیے نئی آئینی اصلاحات کے نفاذ کا امکان پیدا ہوا ۔ اس ضمن میں لارڈ منٹو اور جان مورلے (سیکرٹری آف سٹیٹ برائے ہندوستان) نے بھی اعلانات کیے ۔ یہ صورت حال سر سید کے حامیوں محسن الملک اور وقار الملک کے لیے تشویش کا باعث تھی کیونکہ اگر ہندوستان میں انتخابات کا اصول رائج کر دیا جاتا تو ہندو اکثریت مسلمانوں پر مسلط ہو جاتی۔ سیاسی اعتبار سے ہندو اکثریت کے مقابلے میں مسلم قائدین کا رویہ مدافعانہ تھا لہٰذا ان کے نزدیک مسلم اقلیت کا تحفظ اسی صورت ممکن تھا کہ انتخابات کا نفاذ جداگانہ نیابت کے اصول پر کیا جائے ۔ اسی سلسلے میں بالآخر یکم اکتوبر ۱۹۰۶ء کو آغاخان کی زیر قیادت مسلم قائدین کا ایک وفد لارڈ منٹو سے شملے میںملا ۔ جس نے یقین دلایا کہ مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ ان کے مطالبات کی روشنی میں کیا جائے گا ۔ اس وفد کی کامیابی نے مسلمانوں کی سیاسی تنظیم کے قیام کے لیے راہ ہموار کر دی۔ دسمبر ۱۹۰۶ء میں مسلم قائدین ڈھاکے میں اکٹھے ہوئے اور آغا خان کی زیر صدارت آل انڈیا مسلم لیگ معرض وجود میں آئی ۔ وقارالملک سیکرٹری اور محسن الملک جوائنٹ سیکرٹری مقرر کیے گئے ۔ مورلے منٹو دستوری اصلاحات کا نفاذ ہندوستان میں انڈین کونسلز ایکٹ ۱۹۰۹ء کے ذریعے ہوا جس کے تحت مسلمانوں کا مطالبہ یعنی انتخابات میں جداگانہ نیابت کا اصول آئینی طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی برٹش کمیٹی کا افتتاح لندن میں مئی ۱۹۰۸ء میں کیا گیا ، جب کیکسٹن ہال میں سید امیر علی کی زیر صدارت لندن میں مقیم مسلمانوں کا ایک اجلاس ہوا ۔ سید امیر علی کمیٹی کے صدر چنے گئے اور اقبال کو مجلس عاملہ کا رکن منتخب کیا گیا ۔ قواعد و ضوابط وضع کرنے کے لیے جو سب کمیٹی مقرر ہوئی ، اس میں بھی سید امیر علی ، میجر سید حسن بلگرامی اور اقبال شامل تھے ۳۰ ۔ لندن میں اقبال کا معمول تھا کہ وہ شہر سے اپنی رہائش گاہ تک پہنچنے کے لیے ریل استعمال کرتے تھے ۔ اس قسم کے ایک سفر کے متعلق وہ بیان کرتے ہیں: انگلستان میں طالب علمی کے زمانے میں مجھے ہر روز شام کے وقت اپنی قیام گاہ کی طرف ریل گاڑی میں سفر کرنا پڑتا تھا ۔ یہ گاڑی ایک جگہ ختم ہوتی تھی اور سب مسافروں کو سامنے والے پلیٹ فارم پر دوسری گاڑی میںسوار ہونا پڑتا تھا ۔ گاڑی جب اسٹیشن پر پہنچتی تو گارڈ بلند آواز سے پکارتا ’’ آل چینج‘‘ یعنی سب بدلو ۔ ایک روز میں حسب معمول گاڑی میں بیٹھا تھا کہ میرے اردگرد اخبار بین مسافر آپس میںبدھ مذہب کے متعلق باتیں کرنے لگے ۔ ایک صاحب نے میری طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ صاحب غالباً ایشیائی ہیں ، ان سے بدھ مذہب کے متعلق پوچھنا چاہیے ۔ چنانچہ مجھ سے پوچھا گیا میں نے کہا ، ابھی جواب دیتا ہوں۔یہ کہہ کر میں چپ رہا ۔ چند منٹوں کے بعد انہوں نے مجھ سے دوبارہ پوچھا ۔ میں نے پھر کہا ، ابھی جواب دیتا ہوں ۔ وہ کہنے لگے ، شاید آپ جواب سوچ رہے ہیں ۔ میں نے کہا، ہاں ۔ اس دوران میں اسٹیشن آ گیا ۔ گارڈ ’’آل چینج‘‘ پگارنے لگا۔ میں نے کہا ، بس یہی بدھ مذہب ہے ۳۱ ۔ اقبال کی یورپ میں تعلیم اور رہائش کے اخراجات زیادہ تر ان کے بھائی شیخ عطا محمد برداشت کرتے تھے ۔ لندن یونیورسٹی میں چھ ماہ کے لیے عربی کی پروفیسری کے سبب ان کی مالی حالت نسبتاً بہتر ہو گئی تھی ۔ لیکن اس تقرر سے پیشتر وہ بھائی ہی سے روپے منگواتے تھے ۔ اس ضمن میں اقبال بیان کرتے ہیں : جب میں ولایت گیا تو اپنا کچھ روپیہ میرے پاس موجود تھا لیکن زیادہ تر رقم میرے بھائی صاحب نے مجھ کو دی تھی ۔ ولایت کے قیام کے دوران بھی وقتاً فوقتاً مجھ کو روپے بھیجتے رہتے تھے ۔ جب میں نے کیمبرج سے بی اے کر لیا تو انہوں نے لکھا کہ اب بیرسٹری کا کورس پورا کر کے واپس آجائو ، لیکن میرا ارادہ پی ایچ ڈی کی ڈگری لینے کا تھا ۔ اس لیے میں نے جواب دیا کہ کچھ رقم بھیجئے تاکہ جرمنی جا کر ڈاکٹری کی سند لے لوں ۔ انہوں نے مجھے مطلوبہ رقم بھیج دی ۔ انہی دنوں میں وہ ایک روز سیالکوٹ میں اپنے بے تکلف دوستوں کی صحبت میں بیٹھے تھے کہ کسی شخص نے پوچھا ، کیوں شیخ صاحب ! سنا ہے اقبال نے ایک اور ڈگری لی ہے ؟ بھائی صاحب نے جواب دیا ، بھئی کیا بتلائوں ، ابھی تو وہ ڈگریوں پر ڈگریاں لیے جا رہا ہے ۔ خدا جانے ان ڈگریوں کا اجرا کب ہو گا ۳۲۔ اس دور میں شاعری کے میدان میں اقبال چند تغیرات سے گزرے شروع میں انہوںنے یہ محسوس کیا کہ روایتی شاعری کے ذریعے مشرقی افکار کے اظہار کو وقت کی ضروریات کے مطابق ڈھالنا اور اس طرح شاعری کو بامقصد بنانا ممکن نہیں ۔ چنانچہ اس خیال کے پیش نظر انہوں نے شاعری ترک کر دینے کا ارادہ کر لیا اور غالباً۱۹۰۶ء کے وسط میں اس بات کا ذکر سر عبدالقادر سے بھی کیا ۔ سر عبدالقادر نے انہیں سمجھایا کہ ا ن کے کلام میں وہ تاثیر ہے جس سے ان کی درماندہ قوم اور بدنصیب ملک کے امراض کے علاج کا امکان ہے ، اس لیے ایسی مفید خداداد قوت کو معطل کر دینا مناسب نہیں ۔ بالآخر دونوں میںیہ قرار پایا کہ آڑنلڈ کی رائے پر فیصلہ چھوڑ دیا جائے ۔ آرنلڈ نے سر عبدالقادر سے اتفاق کیا اور فیصلہ یہی ہوا کہ اقبال کے لیے شاعری چھوڑنا جائز نہیں ۳۳ ۔ دوسرا تغیر سر عبدالقادر کے بیان کے مطابق ایک چھوٹے سے آغاز سے ایک بڑے انجام تک پہنچا ۔ سر عبدالقادر لکھتے ہیں : بظاہر جس چھوٹے سے واقعے سے ان کی فارسی گوئی کی ابتدا ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ وہ ایک دوست کے ہاں مدعو تھے ۔ جہاں ان سے فارسی اشعار سنانے کی فرمائش ہوئی اور پوچھا گیا کہ وہ فارسی میں بھی شعر کہتے ہیں یا نہیں؟ انہیں اعتراف کرنا پڑا کہ انہوں نے سوائے ایک آدھ شعر کے فارسی میں کہنے کی کوشش نہیں کی ، مگر کچھ ایسا وقت تھا اوراس فرمائش نے ایسی تحریک ان کے دل میں پیدا کی کہ دعوت سے واپس آ کر بستر پر لیٹے ہوئے باقی وقت وہ شاید فارسی اشعار کہتے رہے اور صبح اٹھتے ہی جو مجھ سے ملے تو دو تازہ غزلیں فارسی میں تیار تھیں جو انہوں نے زبانی مجھے سنائیں ۔ ان غزلوں کے کہنے سے انہیں اپنی فارسی گوئی کی قوت کاحال معلوم ہوا ، جس کا انہوں نے پہلے اس طرح امتحان نہیں کیا تھا ۔ اس کے بعد ولایت سے واپس آنے پر گوکبھی کبھی اردو کی نظمیں بھی کہتے تھے مگر طبیعت کا رخ فارسی کی طرف ہو گیا ۳۴ ۔ انگریزی ادب سے شناسائی کے سبب اقبال شکسپئر کے علاوہ ملٹن ، ورڈز ورتھ، شیلے ، بائرن ، برائوننگ ، میتھو آرنلڈ ، ٹینی سن ، ایمرسن ، گرے ، لانگ فیلو وغیرہ سے متاثر تھے ، ہو سکتا ہے ، فرانسیسی ادب کے کچھ شہ پارے بھی ان کی نظروں سے گزرے ہوں ۳۵۔ لیکن جرمن زبان سے دلچسپی کے باعث وہ جرمن ادب سے متعارف ہوئے اور ہائیڈل برگ میں قیام کے دوران انہوں نے اس کا خصوصی طور پر مطالعہ کیا ۔ اقبال کو جرمن ادب سے اس بنا پر وابستگی پیدا ہوئی کہ اس میں مشرقی تحریک ، یورپ کے دیگر ممالک کے ادب کی نسبت زیادہ دلکش اور مؤثر تھی ۔ جرمن ادب میں مشرقی تحریک کا آغاز ہیرڈر کی تصنیف ، گلہائے چیدہ از کلام شاعرانِ مشرق سے ہوا ، جس میں حافظ، سعدی ، رومی اور بھرتری ہری کے اشعار اور ہتیوپدیش اور بھگوت گیتا کی حکایات کا آزاد ترجمہ تھا ۔ بعد میں گوئٹے اس تحریک کی طرف متوجہ ہوا ۔ گوئٹے فارسی ، عربی اور سنسکرت ادب سے متاثر تھا ۔ اس کی خالصتاً مغربی تصنیف ’’فائوسٹ‘‘ کے ابتدائیے میں کالی داس کی ، شکنتلا کا اثر نمایاں ہے ۔ دیوان حافظ کے مطالعے سے گوئٹے کو ، مغربی دیوان ، لکھنے کی تحریک ہوئی ۔ وہ حافظ کے علاوہ رومی ، سعدی ، فرید الدین عطار اور فردوسی کے کلام نیز حضور اکرمؐ کی حیات طیبہ اور قرآن مجید کی تعلیمات سے بھی متاثر تھا ۔ اس کے دیوان میں فارسی تشبیہات اور استعارات اس کثرت سے استعمال ہوئے ہیں کہ اشعار میں مشرقی فضا پیدا ہو گئی ہے ۔ مغربی مشرقی دیوان کی اشاعت سے جرمن ادب میں مشرقی تحریک مزید مستحکم ہو گئی بعد میں روکرٹ ، پلاٹن ، بوڈن اشٹیٹ ،شلر اور ہائینے نے اسے کمال تک پہنچا دیا اور حافظ کے تتبع میں اشعار کہنا جرمن ادب میں بجائے خود ایک تحریک بن گیا ۔ یوں مشرق کی روح ، جرمن ادب میں داخل ہوئی۳۶۔اقبال جرمن شعرا سے بحیثیت مجموعی متاثر تھے مگر گوئٹے کا اثر ان پر بہت گہرا اور دیرپا ثابت ہوا ۔ اقبال نے اس دور میں کل چوبیس نظمیں اور سات غزلیں کہیں ، جو ’’بانگ درا‘‘ کے حصہ دوم کی زینت ہیں ۔ ان نظموں میں سے بعض میں تو ، جو کیمبرج یا ہائیڈل برگ میں قیام کے دوران لکھی گئیں ، مناظرِ فطرت کی عکاسی ہے ، حسن و عشق اور عاشق ہرجائی ، میں عشق مجازی کی جھلک ہے اور وہ نسوانی حسن سے متاثر ہو کر یا یورپ کے خصوصی ماحول میں اپنی بے وفائی کو وفا سے بہتر قرار دیتے ہوئے کہی گئی ہیں ۔ وطنی قومیت کا جذبہ گو یورپ میں بھی موجود تھا لیکن رفتہ رفتہ ملت اسلامیہ یا اس کے تحت عالمی اخوت کا جذبہ فوقیت حاصل کر رہا تھا ۔ فلسفہ اور تصوف میں ابھی تک اقبال کے ذہن پر وحدت الوجود کا غلبہ تھا ۔ گو قلب اس سے مطمئن نہ رہا تھا ۔ ان نظموں میں تین تو کسی نہ کسی طرح کے پیام سے متعلق ہیں ، مثلاً’’پیام طلبہ علی گڑھ کے نام‘‘، ’’پیام عشق ‘‘ اور ’’پیام ‘‘۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال میں یہ احساس فروغ پا رہا تھا کہ بامقصد شاعری کو پیغامبری کا جزو ہونا چاہیے۳۷۔ ایک غزل اور ایک نظم تو خاص طور پر توجہ کے قابل ہے ۔ غزل مارچ ۱۹۰۷ء میں لکھی گئی۳۸ ۔اور مغرب و مشرق کے لیے پیش گوئیوں سے لبریز ہے ۔ نظم ’’عبدالقادر کے نام‘‘ ہے، جس میں قوم و ملک کے اندازِ فکر میں انقلاب لانے کی خاطر ایک طرح کی دعوتِ شعلہ نوائی دی گئی ہے ۔ ’’صقلیہ‘‘ مراجعتِ وطن کے وقت سمندری سفر کے دوران کہی گئی ۔ جب ان کا جہاز جزیرۂ سسلی کے قریب سے گزر رہا تھا ۔ قیام یورپ کے دوران اقبال میں جو سب سے بڑا انقلاب آیا ، وہ ان کا وطنی قومیت اور فلسفہ و تصوف سے متنفر ہو کر ذہنی اور قلبی طور پر اسلامی تعلیمات کی طرف رجوع کرنا تھا ۔ یہ انقلاب ان میں کیونکر اور کب و قوع پذیر ہوا ؟ اس کا جواب مختلف مراحل کے تاریخ وار تعین سے دینا تو ممکن نہیں ، تاہم اس بارے میں اقبال کی بعض تحریروں اور اشعار میںاشارے ضرور موجود ہیں ؛ ویسے انگلستان میں انہیں قریب سے جاننے والوں کی تحریریں بھی ہماری کوئی خاص رہبری نہیں کرتیں ۔ میک ٹیگرٹ کے بیان کے مطابق اقبال کیمبرج میں قیام کے دوران وحدت الوجود کے قائل تھے ۔ عطیہ فیضی نے لندن میں ملاقاتوں کے دوران انہیں حافظ کا دلدادہ پایا ۔ سر عبدالقادر صرف سرسری طور پر ذکر کرتے ہیں کہ اقبال کو جب مغربی معاشرت کے نقائص قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تو تہذیب یورپ کی زر پرستی اور کم ظرفی نے ان کی طبیعت کو متنفر کر دیا ۳۹ ۔ اقبال اپنے دل و دماغ کی سرگزشت لکھنا چاہتے تھے ۔ اس بات کا ذکر انہوں نے اپنے کئی خطوط میں کیا ہے۔ سید سلیمان ندوی کے نام اپنے ایک خط محررہ ، ۱۰ اکتوبر ۱۹۱۹ء میں لکھتے ہیں کہ میں اپنے دل و دماغ کی سرگزشت لکھنا چاہتا ہوں اور یہ سرگزشت کلام پر روشنی ڈالنے کے لیے نہایت ضروری ہے ۴۰ ۔ عشرت رحمانی کے نام خط محررہ ۲۷ اکتوبر ۱۹۱۹ء میں رقم طراز ہیں کہ میری زندگی میں کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں جو اوروں کے لیے سبق آموز ہو سکے ، البتہ میرے خیالات کا تدریجی انقلاب سبق آموز ہو سکتا ہے ، اگر فرصت ملی تو اسے قلمبند کروں گا اور یہ کہ فی الحال اس کا وجود محض عزائم کی فہرست میں ہے ۴۱ ۔ ممتاز حسن سے ایک ملاقات میں فرمایا کہ جب میں کیمبرج میں تھا تو فلسفے کے ساتھ ساتھ اس غرض سے معاشیات کا مطالعہ کیا کرتا تھا اوراس موضوع پر لیکچر سنا کرتا تھا کہ مسلسل فلسفہ پڑھنے اور سوچنے سے ذہن میں یک طرفہ پن پیدا نہ ہو اور طبیعت کا توازن قائم رہے ۴۲ ۔ وحید احمد مدیر’’نقیب‘‘ بدایوں کو اپنے خط محررہ ۷ ستمبر ۱۹۲۱ء میں تحریر کرتے ہیں : اس زمانے میں سب سے بڑا دشمن اسلام اور اسلامیوں کا ، نسلی امتیاز اور ملکی قومیت کا خیال ہے ۔ پندرہ (تیرہ لکھ کر کاٹ دیا اور اسے پندرہ بنایا) برس ہوئے جب میںنے پہلے پہل اس کا احساس کیا ۔ اس وقت میں یورپ میں تھا اور اس احساس نے میرے خیالات میں انقلاب عظیم پیدا کر دیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپ کی آب و ہوا نے مجھے مسلمان کر دیا ۔ یہ ایک طویل داستان ہے ۔ کبھی فرصت ہوئی تو اپنے قلب کی تمام سرگزشت قلمبند کروں گا۔ جس سے مجھے یقین ہے بہت لوگوں کو فائدہ ہو گا ۔ اس دن سے جب یہ احساس مجھے ہوا ، آج تک برابر اپنی تحریروں میں یہی خیال میرا مطمح نظر رہا ہے۔معلوم نہیں میری تحریروں نے اور لوگوں پر اثر کیا یا نہیں ، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اس خیال نے میری زندگی پر حیرت انگیز اثر کیا ہے ۴۳۔ اقبال میں مغرب زدگی یورپ جانے سے قبل تھی نہ قیامِ یورپ کے دوران آئی ۔ ان کی نظر محققانہ تھی ۔ اس لیے ان میں مغرب کی کورانہ تقلید کا شائبہ تک پیدا نہ ہوا ۔ انہوںنے یورپ کے ظاہری حسن کا تماشا ضرور کیالیکن ساتھ ہی اس کے باطن پر بھی گہری نگاہ ڈالی ۔ عقلی علوم ، سائنس اور ٹیکنالوجی کی کرشمہ سازیاں بھی دیکھیں، مگر ساتھ ہی مشاہدہ کیا کہ یورپی علم وہنر کا منتہائے نظر تن ہے ، من نہیں ۔ یعنی یورپ میں دماغ کی تربیت تو ہو جاتی ہے لیکن دل تشنہ رہ جاتا ہے ۔ یورپ کی زیرکی کی بنیاد مادہ پرستی پر استوار کی گئی ہے ۔ اس کا نصب العین مفاد اندوزی ہے اور وہ اس جذبہ عشق سے محروم ہے ، جو روح کے اندر حقیقی معنوں میں احترام آدمیت یا انسان دوستی کا خلاق ہے اور ارتقائے حیات کا ضامن ہے ۔ اس لیے ان کی مشرقی بصیرت نے بھانپ لیا کہ یورپ کی تہذیب میں خرابی کی صورت مضمر ہے اور اس کی تجلی عارضی نوعیت کی ہے ۔ یورپ میں کلیسا اور ریاست کے درمیان اقتدار کی کش مکش میں کلیسا کی شکست کے بعد اٹھارہویں صدی میں مذہب ، فرد کا ذاتی معاملہ سمجھا جانے لگا تھا اور قوموں کی تنظیم ایک مشترک روحانی مطمح نظر پر استوار ہونے کی بجائے نسل ، رنگ ،زبان اور علاقے کی بنیادوں پر قائم ہونا شروع ہو گئی تھی۔ عقلی علوم ، سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے سبب ان قوموں میں باہمی رقابتیں پیدا ہوئیں اور مفاد پرستی ، زر اندوزی اور کمزوروں کے استحصال کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی خاطر ان میں مقابلہ ہونے لگا ۔ اس دوڑ میں کوئی بھی پیچھے رہنا نہیں چاہتا تھا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انیسویں صدی کے آخر تک ایشیا ، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے بیشترملکوں کے باشندے برطانوی ، فرانسیسی ، روسی ،ہسپانوی اور ولندیزی استعمار کے غلام بن گئے ۔ حالت یہ تھی کہ بلجیم جیسا چھوٹا ملک اپنے سے کئی گنا بڑے ملک کا نگو پر قابض تھا ۔ پس جذبہ وطنیت اور سائنسی علوم کی ترقی نے ان قوموں میں جو قوتیں پیدا کر دی تھیں ، ان کے ذریعے کمزوروں کو لوٹنے اور مغلوب کرنے کا سلسلہ جاری رہا ۔ روس نے زار پیٹر اول کے عہد میں ۱۷۲۵ء سے مغربی طریقے اپنا نے شروع کیے۔انیسویں صدی میں زار اسکندر دوم کے عہد حکومت میں وسطی ایشیا کی مسلم ریاستوں کو تاراج کر کے انہیں سلطنت روس کا حصہ بنا لیاگیا ۔ پھر روسی حکمرانوں کی حریصانہ نگاہیں مشرقی یورپ میں عثمانی ترکیہ کے علاقوں پر مرتکز ہوئیں ۔ انہوں نے ایک طرف تو سلا دی قومی اتحاد کی تحریک کی حمایت کر کے سربیا اور آسٹریا ہنگری سلطنت کے درمیان چپقلش کی حوصلہ افزائی کی ، کیونکہ اس خطے میں جنگ کی صورت میں روس کی نیّت درّئہ دانیال پر قبضہ کرنے کی تھی اور دوسری طرف انہوں نے بلقانی ریاستوں میں مختلف قومیتوں کو عثمانی ترکوں کے خلاف بغاوت پر اکسایا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انیسویں صدی کے آخر تک ترکوں کو مشرقی یورپ کے بیشتر علاقوں سے نکال دیا گیا ۔ اقبال کی انگلستان روانگی کے وقت ۱۹۰۵ء میں جاپانیوں اور روسیوں کی جنگ میں روسیوں نے شکست کھائی۔ یہ جنگ بھی اسی غرض کے لیے لڑی گئی تھی کہ ہر ملک شمال مشرقی ایشیا کے ساحل ، کوریا اور شمالی سمندروں کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں رکھنا چاہتا تھا ۔ یہ پہلی جنگ تھی جو ایک ایشیائی ملک نے کسی مغربی طاقت کے خلاف جدید ہتھیاروں سے لیس ہو کر لڑی ۔ جاپان نے صنعت و حرفت کے میدان میں مغربی ممالک کا مقابلہ کرنے کے لیے ۱۸۵۰ء سے مغربی طریقے اپنائے چند ہی سالوں میں جاپانیوں نے تجارت میں بہت ترقی کی اور اس قدر طاقتور ہو گئے کہ ۱۸۹۵ء میں چین کو شکست دے کر فارموسا اور کچھ دوسرے علاقے چھین لیے ۔اس دور میں روسی استعمار کا رخ مشرق بعید کی طرف بھی تھا ۔ زارا سکندر دوم نے چین کے شمال مغربی علاقوں اور جاپان کے جزیرے سکہالن کے آدھے حصے پر قبضہ کر رکھا تھا ۔ بالآخر روسی اور جاپانی استعمار ایک دوسرے سے نبرد آزما ہو ئے ۔ جاپان نے مشرق بعید میں روس کا بحری بیڑہ تباہ کر دیا اور انہیں ہر محاذ پر شکست دی ۔ اس جنگ میں بے شمار روسی مارے گئے اور جاپان نے نہ صرف اپنے علاقے واپس لے لیے بلکہ مملکت روس کے کچھ مشرقی حصوں پر بھی اس کی برتری قائم ہوگئی۔ یورپ میں اٹلی اور جرمنی ، استعمار کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے تھے ، کیونکہ اطالوی اور المانوی قومیں اپنی سرزمین میں چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹی ہوئی اور منتشر تھیں ۔ فرانسیسی، برطانوی یا یورپ کی دیگر متحد اقوام کی ، اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر کوشش یہ تھی کہ اطالوی اور المانوی قومیں متحد نہ ہوں اور ان کے انتشار کی کیفیت مستقل طور پر قائم رکھی جائے، تاکہ انہیں ایشیاو افریقہ کی مغلوب قوموں پر تسلط جمانے ، استحصال میں شریک ہونے یا اس کاروبار میں اپنے حصے کا مطالبہ کرنے سے باز رکھا جا سکے۔ بہرحال اطالوی قوم کا اتحاد مازنی کے ہاتھوں معرض وجود میں آیا ۔ مازنی جینوا کا ایک وکیل تھا ۔ اس نے ۱۸۳۱ء میں ’’ینگ اٹلی‘‘ کے نام سے ایک خفیہ انقلابی سوسائٹی قائم کی ، جس کا مقصد ایک مشترک دستور کے تحت اٹلی کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کا الحاق کر کے اطالوی قوم کو متحد کرنا تھا ۔ اٹلی میں قومی اتحاد کی تحریک ۱۸۴۸ء سے شروع ہوئی ۔ ۱۸۴۹ء میں مازنی نے صافی اور ارمینلی کی مدد سے روم کی ری پبلک کی بنیاد رکھی ، مگر یہ کوشش کامیاب ثابت نہ ہوئی اور مازنی کو روم چھوڑنا پڑا ۔ بعد میں اٹلی کے بڑے شہروں میں مازنی کی زیر ہدایت قومی اتحاد کے لیے کامیاب مظاہرے ہونے لگے ۔ اس مرحلہ پر گیری بالدی ، مازنی کی مدد کو آ پہنچا ۔ اٹلی کا شمالی حصہ آسٹریا کے قبضے میں تھا ۔ گیری بالدی نے آسٹرویوں کے خلاف اطالویوں کی بغاوت میں حصہ لیا اور کئی مہمیں سر کیں ۔ اس نے فرانسیسیوں کو روم میں داخل ہونے سے باز رکھا اور سسلی پر قابض ہو کر نیپلز کو فتح کیا ۔ آخر کار مازنی اور گیری بالدی کی کوششوں سے اٹلی کا قومی اتحاد شاہ وکٹر ایمنول دوم کے تحت انیسویں صدی کے آخر میں قائم ہوا اور اٹلی نے بھی استعمار کی دوڑ میں شریک ہو کر مشرقی افریقہ کے علاقوں اریٹیریا اور صومالیہ پر قبضہ کر لیا ۔ المانویوں کی منتشر قوم کو متحد کرنے یا جرمنی کے اتحاد کو وجود میں لانے کا سہرا بسمارک کے سر ہے۔ جرمنی کی جغرافیائی حدود کے اندر جرمنوں ہی کی چالیس چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم تھیں ۔ ان سب ریاستوں کے باشندوں میں وطنیت کے جذبے کے فروغ کے سبب متحد ہونے کی خواہش تو موجود تھی لیکن ان کے آپس میں الحاق کی کوئی قابل قبول صورت نہ بنتی تھی ۔ بسمارک اس نتیجے پر پہنچا کہ جرمن قوم کا اتحاد طاقت کے ذریعے ہی سے وجود میں لایا جا سکتا ہے ۔ اسے پرشیا کے شاہ ولیم نے اپنا وزیر اعظم مقرر کیا اور بسمارک پرشین فوجوں کی تنظیم میں مصروف ہو گیا ۔ اس کا ارادہ یہ تھا کہ فوج کی طاقت سے وہ جنوبی جرمن ریاستوں کی قیادت آسٹریا سے چھین کر کل جرمنی کا اتحاد پرشیا کی قیادت میں قائم کرے ۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر اس نے پہلے تو ڈنمارک کے خلاف جنگ میں پرشیا کو آسٹریا کا حلیف بنایا، پھر ڈنمارک کی شکست کے بعد بہتر علاقہ پرشیا کے لیے رکھ لیا اور بڑا علاقہ آسٹریا کو دے دیا ۔ اس پر آسٹریا نے پرشیا کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا، مگر اس جنگ میں پرشیا کی فوری کامیابی کے باعث شمالی جرمن ریاستوں کا اتحاد پرشیا کی زیر قیادت قائم ہو گیا ۔ اب بسمارک کے پیش نظر جنوبی جرمن ریاستوں کو اس اتحاد میں شامل کرنے کا مسئلہ تھا اور یہ اسی صورت ممکن تھا کہ کوئی غیر ملکی طاقت پرشیا پر حملہ کر دے ۔ چنانچہ بسمارک اس موقع کی تاک میں رہا۔ یہ موقع اسے ۱۸۷۰ء میں ملا ۔ ہسپانیہ کا خالی تخت لیوپولڈ کو دیا جانا تھا ۔ لیوپولڈ پرشیا کے شاہ ولیم کا رشتے دار تھا ۔ فرانس کے شاہ لوئی نپولین سوم نے مطالبہ کیا کہ شاہ ولیم، لیوپولڈکو ہسپانیہ کا تخت قبول کرنے کی اجازت نہ دے ، لیکن شاہ ولیم نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور اس ضمن میں فرانسیسی سفیر کے ساتھ اپنی گفتگو سے بسمارک کو مطلع کیا ۔ بسمارک نے اس گفتگو کی اشاعت اخباروں میں کچھ ایسے انداز میں کرائی کہ جرمنوں کو محسوس ہو اکہ ان کے شاہ کی ہتک ہوئی ہے ، اور فرانسیسیوں کو گمان ہوا کہ ان کے سفیر کی تذلیل کی گئی ہے ۔ نتیجہ وہی نکلا جو بسمارک چاہتا تھا ۔ فرانس نے پرشیا کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا ۔ چنانچہ جنوبی جرمن ریاستیں اپنے معاہدوں کے تحت پرشیا کی حمایت میں نکل آئیں ، اور فرانس کو شکستِ فاش کا سامنا کرنا پڑا ۔ ۱۸۷۱ء میں آسٹریا کے علاوہ ساری جنوبی جرمن ریاستوں کا الحاق بھی پرشیا کی زیر قیادت شمالی ریاستوں سے ہو گیا اور شاہ ولیم متحدہ جرمن سلطنت کا قیصر یا شہنشاہ کہلایا ۔ مزید بیس سال کی مدت میں بسمارک نے متحد جرمنی کی کایا پلٹ کر رکھ دی اور کاشتکاروں کی قوم کو ایک مضبوط صنعتی قوم میں بدل دیا ۔ جرمنی نے عقلی علوم ، سائنس و ٹیکنالوجی صنعت و حرفت اور تجارت میں بے حد ترقی کی۔ یہاں تک کہ جرمن قوم میں ایک مخصوص قسم کا قومی تکبر فروغ پانے لگا ۔ وہ سمجھنے لگے کہ جرمن کلچر دنیا میں سب سے اعلیٰ اور ارفع ہے اور دنیا بھر کی اقوام محض رشک یا حسد کی بنا پر ان کی دشمن ہیں ۔ ۱۸۸۸ء میں قیصر ولیم دوم نے جرمن استعمار کی بنیادیں مضبوط کرنا شروع کیں ۔ وہ جنوبی افریقہ کے کئی علاقے ہتھیانے میں کامیاب ہو گیا ۔ پھر تجارت کے میدان میں انگریزی قوم کا مقابلہ کرنے کے لیے اس نے بحری بیڑا بنایا اور ایسی فوج تیار کی جس کی نظیر یورپ نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی ۔ روس اور یورپی اقوام کا استعمار تو روز بر روز روبہ ترقی تھا لیکن عثمانی ترکیہ کا استعمار روبہ تنزل تھا ۔ عثمانی ترکیہ میں مغربی طریقے اپنانے کی تحریک ۱۷۷۴ء سے شروع ہوئی اور ۱۸۳۹ء کے بعد سلطان سلیم سوم اور سلطان محمود دوم کے ادوار میں تنظیمات کی صورت میں سلطنت کے نظم و نسق کوبہتر بنانے کی کوششیں کی گئیں ۔ رشید پاشا، علی پاشا اور مدحت پاشا ایسے مصلحین کی خواہش تھی کہ عثمانی ترکیہ کو ایک جدید ریاست میں بدل دیا جائے ، جس میں ہر شہری کو مساوی حقوق حاصل ہوں اور جمہوری طرز کی آئینی بادشاہت کا قیام عمل میں لایا جائے ، مگر سلطان کی مطلق العنانیت قدم قدم پر حائل تھی ۔ ۱۸۷۶ء میں سلطان عبدالحمید نے اتحادِ اسلام کی تحریک کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنا چاہا ، لیکن وہ کامیاب نہ ہوئے ۔ اسی دور میں ترک مشرقی یورپ کے بیشتر علاقوں سے نکال دیئے گئے اور عثمانی ترکیہ کو یورپ کے ’’مرد بیمار‘‘ کا نام دیا گیا ۔ ترک دور استبداد میں سے گزرے ۔ آخر کار ۱۹۰۸ء میں ’’ینگ ترک ‘‘ تنظیم کا انقلاب کامیاب رہا اور ۱۹۰۹ء میں سلطان عبدالحمید کو معزول کر دیا گیا بعد میں نوجوان ترکوں نے انور پاشا کی قیادت میں عربوں اور دیگر ممالک کے مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کی خاطر نعرہ تو اتحاد اسلام کا بلند کیا لیکن انہوں نے جرمن قومیتوں کے اتحاد کی طرح ترک قومیتوں کے اتحاد (پان تورانین ازم) کو وجود میں لانے کی کوششیں شروع کر دیں ۔ انور پاشا جرمنی سے بہت متاثر تھا ۔ اس لیے اس کی کوششوں سے جرمنی اور عثمانی ترک ایک دوسرے کے قریب آ گئے ۔ مراکو عثمانی سلطنت کا حصہ تھا ۔ فرانس اس پر قبضہ کرنا چاہتا تھا مگر قیصر ولیم دوم نے مطالبہ کیا کہ مراکو میں جرمن مفادات کے تحفظ کا خیال رکھا جائے۔ اسی طرح قیصر ولیم دوم نے برلن کو بغداد سے ملانے کے لیے جرمن ریلوے لائن کی تعمیر کے منصوبے پر عمل کرنا شروع کر دیا ۔ ایران نے مغربی انداز ۱۸۵۲ء میں ناصر الدین شاہ قاچار کے زمانے میں اپنا نے شروع کیے ۔ ۱۸۸۹ء میں انگریزوں نے وہاں اپنا بینک قائم کیا اور کچھ عرصے بعد سلطنت کے کسٹمز کی وصولی کا انتطام بلجیم نے سنبھال لیا۔ ملک میں برطانیہ اور روس کا اقتدار روز بروز بڑھنے لگا ، کیونکہ شاہ اپنی ضروریات کے لیے ان سے مسلسل قرضے لیے جا رہا تھا ۔ لہٰذا ایران ان طاقتوں کا مقروض ہوتا جا رہا تھا ۔ نتیجے کے طور رپر ایران میں بھی قومی تحریک شروع ہوئی اور عوام نے آئین کے نفاذ کا مطالبہ کیا ۔ ناصر الدین شاہ کے قتل کے بعد جب مظفر الدین شاہ ، تخت نشین ہوا تو شاہ پسندوں اور آئین پسندوں کے درمیان کشمکش جاری ہو گئی ۔ اس کشمکش میں روس نے تو شاہ کی حمایت کی مگر برطانیہ نے آئین پسندوں کا ساتھ دیا (اس لیے نہیں کہ انگریز ایران میں دستور کے نفاذ میں دلچسپی رکھتے تھے بلکہ محض اس لیے کہ ان کا حریف روس شاہ کی حمایت کر رہا تھا )۔ بالآخر اس کشمکش میں آئین پسند کامیاب ہوئے ۔ ۱۹۰۶ء میں مظفر الدین شاہ دستور کے نفاذ پر مجبور ہوا اور قومی مجلس کا قیام عمل میں آیا ۔ ایرانیوں نے اپنا قومی بینک قائم کیا ، جس پر برطانیہ نے روس کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے ۱۹۰۷ء میں ایک معاہدہ کر لیا ۔ اس معاہدے کی رو سے اثر و رسوخ کے لحاظ سے ایران کے دو حصے کر دیے گئے ۔ شمالی حصے پر روس کی برتری تسلیم کر لی گئی اور جنوبی حصے پر برطانیہ مسلط ہو گیا ۔ ۱۹۰۸ء میں محمد علی شاہ نے روسیوں کی مدد سے پھر آئین کا خاتمہ کر دیا ۔ جس کے نتیجے میں شاہ پسندوں اور آئین پسندوں کی دوبارہ لڑائی ہوئی جس میں آئیں پسند کامیاب رہے۔ اس کامیابی کو ’’فتح ملی‘‘ کا نام دیا گیا اور ۱۹۰۹ء میں محمد علی شاہ کو معزول کر دیا گیا ۔ یورپ میں جرمنی کی بڑھتی ہوئی طاقت سے فرانس ، برطانیہ اور روس بہت خائف تھے ۔ اس لیے طاقت کا توازن برقرار رکھنے کی خاطر یورپ کی قوموں میں معاہدوں کا سلسلہ شروع ہوا ان معاہدوں میں جرمنی اور اٹلی کی قومی حیثیت کو تاریخِ یورپ میں پہلی بار تسلیم کیا گیا ۔ فرانسیسی ، جرمنوں کو اور جرمن ، فرانسیسیوں کو انتہائی حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ نیز فرانسیسی جرمنوں کے ہاتھوں اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے تلملا رہے تھے ۔اسی طرح آسٹریا، ہنگری سلطنت اور روس ایک دوسرے سے نفرت کرتے تھے ۔ انگریز ، جرمنوں کو صنعت و حرفت اور تجارت کے معاملات میں اپنا رقیب سمجھتے تھے اور انہیں کسی نہ کسی طریقے سے نیچا دکھانے کے درپے تھے ۔ بالآخر طاقت کا توازن قائم رکھنے کے لیے ایک طرف تو جرمنی اور آسٹریا ہنگری سلطنت کا معاہدہ ہو گیا اور دوسری طرف ۱۹۰۷ء میں برطانیہ ، فرانس اور روس کے درمیان ’’ٹرپل دطانت ‘‘ معاہدہ طے پایا ۔ یوں یورپ کی استعماری طاقتیں دو واضح دھڑوں میں تقسیم ہو گئیں ۔ اقبال اپنے دل و دماغ کی سرگزشت یا اپنے خیالات کے تدریجی تغیر کے متعلق اگر خود تحریر کرتے تو ان کے ذاتی تجربے اور مشاہدے کی بنا پر ممکن ہے بہت سے دلچسپ انکشافات ہوتے ، لیکن اب تو اس عظیم انقلاب کا جائزہ صرف خارجی طور پر ہی لیا جا سکتا ہے ۔ اقبال یورپ جاتے وقت وطنی قومیت کے نشے سے سرشار تھے ۔ جب ان کا جہاز اٹلی کے ساحل کے قریب سے گزرا تو انہوں نے تعظیماً ارشاد کیا : ہرے رہو ! وطنِ مازنی کے میدانو! جہاز پر سے تمہیں ہم سلام کرتے ہیں مگر انگلستان میں ابھی ڈیڑھ سال ہی گزرا تھا کہ رفتہ رفتہ ان کے سامنے وطنی قومیت کے انسان دشمن اور تاریک پہلو نمایاں ہونے لگے ۔ انہیں احساس ہونے لگا کہ انسان کا کسی علاقے میں پیدا ہو کر کسی مخصوص نسل، رنگ یا زبان سے تعلق رکھنا محض ایک اتفاق ہے ، جس پر اس کا کوئی اختیار نہیں۔ اس اتفاق کی بنا پر اس کا تکبر کرنا یا ایک مخصوص انسانی گروہ یا خطہ زمین سے محبت کرنا اور دنیا بھر کے دوسرے انسانوں سے نفرت کرنا نیز انہیں کمتر سمجھ کر مغلوب کرنا ، ان کے حقوق غصب کرنا اور ان کا استحصال کرنا ، کیا مذہبی ، روحانی ، اخلاقی یا کسی بھی اعتبار سے جائز قرار دیا جا سکتا ہے ؟ ان کے پیش نظر وطنیت کا مغربی تصور ، انسان دوستی یا احترامِ آدمیت کے آفاقی اصولوں کے سراسر منافی تھا ۔ ۱۹۰۷ء میں انہوں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا کہ یورپی قوموں کے گروہ عسکری طاقت کے بل بوتے پر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو گئے ہیں ۔ ان کی نگاہ میں یہ محاذ آرائی ڈاکووں کے گروہوں کی محاذ آرائی تھی جو غاصبانہ تجارت کو وسعت دینے یا کمزوروں کی غارت گری کی خاطر کی گئی تھی ۔پس اقبال کے دل میں نہ صرف مغربی استعمار اور ملوکیت کے خلاف شدید نفرت کا جذبہ پیدا ہوا بلکہ وہ وطنی قومیت کے جذبے کو بھی حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگے ۔ یہ نفرت و حقارت اس قدر عمیق تھی کہ بعد میں اپنی وطنی قومیت کی شاعری پر بھی نادم تھے اور بسا اوقات کہا کرتے تھے کہ قیام یورپ سے قبل کا کلام میرے زمانۂ جاہلیت کا کلام ہے۔ بہرحال اقبال کے ۷ ستمبر ۱۹۲۱ء کے خط اور مارچ ۱۹۰۷ء کی تحریر کردہ غزل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے دل میں یہ احساس کہ نسلی امتیاز و ملکی قومیت ، اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن ہے ، قیام کیمبرج کے آخری ایّام میں ’’ٹرپل دطانت‘‘ معاہدے کی تشہیر کے وقت پیدا ہوا ۔ اور متذکرہ غزل ملوکیت یا وطنیت کے یورپی تصور کے خلاف رد عمل کے برملا اظہار کی صورت تھی : دیار مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو ، وہ اب زرِ کم عیار ہو گا تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ، ناپایدار ہو گا خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں ، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے میں اس کا بندہ بنوں گا، جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا سنا دیا گوشِ منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا ، پھر استوار ہو گا نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے ، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا میں ظلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو شرر فشاں ہو گی آہ میری ، نفس میرا شعلہ بار ہو گا اس مرحلے پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس زمانے میں ملوکیت ، استعمار اور وطنی قومیّت کی مخالفت میں یورپ میں بعض تصورات مثلاً بین الاقوامیّت (کاز موپالی ٹینزم)، انسان دوستی (ہیومنزم) ، اشتراکیت ، ریڈیکل ازم ، سوشلزم وغیرہ موجود تھے جو احترام آدمیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے عالمی اخوت کی بنیادوں پر ایک نئی دنیا وجود میں لانے کی ترغیب دیتے تھے ، اور روس میں کئی خفیہ سوسائٹیاںعملی طور پر ملوکیت کے خلاف برسر عمل تھیں اقبال نے اگر ملوکیت، استعمار یا وطنی قومیّت کو رد کیا تو ان تصورات میں سے کسی ایک کو قبول کرنے کی بجاے اسلام کے بنیادی اصولوں کی طرف رجوع کیوں کیا؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ تمام متذکرہ تصورات و نظریات یورپ کے فلسفہ عقلیت کی پیدا وار تھے ۴۴۔ ان کی بنیاد مادہ پرستی پر رکھی گئی تھی ۔ یورپ آنے سے کئی برس قبل لاہور میں طالب علمی ہی کے زمانے میں اقبال پر اٹھارہویں اور انیسویں صدیوں کے یورپی فلسفہ عقلیت کا کھوکھلا پن ظاہر ہو چکا تھا ۔ اس وقت انہوں نے اس کا قابل فہم جواب وجودی تصوف میں پایا تھا ، مگر ان کے لیے فلسفہ اور وجودی تصوف دونوں اپنی ہمیت کھو چکے تھے ۔وہ مقام عقل سے گزر کر مقام شوق کی طرف رواں دواں تھے ۔ فلسفہ ان کے نزدیک ایک بیکار ذہنی مشق کی حیثیت اختیار کرتا جا رہا تھا اور وجودی تصوف کی تعلیمات کو وہ افیون کا نشہ سمجھنے لگے تھے ۔ یہ درست ہے کہ معاشیات میں گہری دلچسپی کے سبب اور اپنے عہد کے مادہ پرستانہ نظریات سے باخبر ہونے کی خاطر انہوں نے کیمبرج اور لندن میں معاشیات کے موضوع پر کئی لیکچر خصوصی طورپر سنے اور ان سے اثر بھی قبول کیا ، لیکن وہ کسی بھی معاشی نظریے یا مفروضے سے گمراہ نہ ہوئے ۔ قرآنِ مجید میں لفظ قوم ، ایک گروہ یا قبیلہ کے معنوں میں استعمال ہو ا ہے ۔ بالفاظ دیگر قرآنی نقطۂ نظرکے مطابق انسانوں کا ایسا گروہ جو مشترک نسل ، رنگ ، زبان یا علاقے کی بنیادوں پر وجود میں آیا ہو ، ایک قبیلہ یا ایک قوم کہلا سکتی ہے ۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے تمہیں قبیلوں اور ذاتوں کی ہیئت میں اس لیے بنایا ہے تاکہ تمہاری شناخت ہو سکے، لیکن اللہ کی نگاہ میں تم میں سب سے بہتر وہی ہے، جس کی زندگی پاکیزہ ہے ۴۵ ۔ بہرکیف اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں قرآن مجید کسی قبیلے یا قوم میں شامل ہونے کا ذکر نہیں کرتا بلکہ ’اُمّت‘ یا ’ملّت‘ میں داخل ہونے کی دعوت دیتا ہے ۔ پس اُمّت یا ملّت سے مراد انسانوں کی ایسی جماعت ہے جس کے اتحاد کی بنا فقط ایمان یا عقیدے کا اشتراک ہے اور اس اشتراک میں مختلف قومیں و قبیلے اور ذاتیں سما سکتی ہیں۔ اسلام میں اشتراک ایمان پر اتحاد کی بنیاد پر اتحاد انسانی کا تصور جس طرح نسل ، رنگ یا زبان کی عصبیتوں کو مٹاتا ہے ، اسی طرح علاقے یا وطن کی قید سے آزاد ہے ۔ حیات طیبہ سے ظاہر ہے کہ آنحضورؐ نے اپنے آبائی وطن یعنی مکہ سے اپنے ایمان کے تحفظ کی خاطر ہجرت کی اور مدینے پہنچ کر مہاجرین اور انصار کو ایمان کے اشتراک کی بنا پر ایک دوسرے کے ساتھ اخوت کے رشتے میں منسلک کیا۔ گویا مدینے میں قائم کردہ ملّت اسلامیہ کا انحصار اتحاد وطن پر نہیں بلکہ اشتراک ایمان کے اصول پر تھا ۔ پس اس لحاظ سے ملّت اسلامیہ کاکوئی آبائی وطن نہیں بلکہ ہر وہ سر زمین اس کا وطن ہے ، جس میں مسلمان اشتراک ایمان کی بنیاد پر متحد ہو کر اسلامی معاشرہ قائم کریں۔ انگلستان میں غالباً اسلامی تعلیمات کا یہی پہلو اقبال کے پیش نظر تھا جب انہوںنے اسی دور کی ایک اور نظم میں فرمایا : نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمارؐ نے بنایا بنا ہمارے حصارِ ملّت کی ، اتحادِ وطن نہیں ہے کہاں کا آنا، کہاں کا جانا، فریب ہے امتیازِ عقبیٰ نمود ہر شے میں ہے ہماری، کہیں ہمارا وطن نہیں ہے اقبال نے مشاہدہ کیا کہ روس اور یورپ کی نو آبادتی طاقتیں اپنی اپنی اغراض کے حصول کی خاطر دنیائے اسلام کو مستقل طور پر پارہ پارہ یا منتشر رکھنا چاہتی ہیں ، کیونکہ اس حکمت عملی سے وہ یکے بعد دیگرے مسلم علاقوں پر قابض ہو کر یا مسلمانوں کے حقوق غصب کرکے ان کا استحصال جاری رکھ سکتی ہیں۔ اقبال نے محسوس کیا کہ وطنیت کے یورپی تصور کے زیر اثر مصر ، ترکی ، ایران ، افغانستان اور عرب ممالک میں بھی قومی تحریکیں وجو دمیں آ چکی ہیں ۔ ان میں سے بعض ملکوں میں تو انہی تحریکوں کے ذریعے قومی آزادی کے حصول کے لیے کشمکش جاری تھی ۔اقبال کی نگاہ میں مذہب دنیا میں صلح کے لیے آیا تھا اور اسلام کا منتہاے نظر نسل ، رنگ ، زبان اور وطن کی تمام عصبیتوں کو مٹا کر احترامِ آدمیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ، عالمگیر اخوّت کی بنیادوں پر اتحاد انسانی کا قیام تھا ۔ انہیں خدشہ تھا کہ مسلم اقوام میں اگر وطنیت کا یورپی تصور فروغ پا گیا تو وہ بھی مغربی ریاستوں کی طرح ایک دوسری سے نفرت کرنے لگیں گی ۔ یا آپس میں مصروفِ پیکار ہو کر ایک دوسری کے حقوق غصب کرنے یا استحصال کرنے لگیں گی ، اور اس طرح تمام کی تمام معدوم ہو جائیں گی ۔ اس لیے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانان عالم کی طاقت برقرار رکھنے اور ان کی بقا کی خاطر ضروری ہے کہ وہ اشتراک ایمان کے اصول پر متحد ہو کر ملّت اسلامیہ یا اتحاد اقوام اسلامیہ کو وجود میں لائیں ۔ پس مازنی اور بسمارک تو اطالوی اور المانوی قوموں کا اتحاد ملکی وطنیت کے اصول پر وجود میں لائے ، لیکن اقبال اشتراک ایمان کے جذبے پر مسلم اقوام کے اتحاد کا خواب دیکھنے لگے ۔ ۱۹۰۷ء میں اقبال کے قلبی اور ذہنی انقلاب کا ایک لازمی نتیجہ یہ بھی نکلا کہ انہوں نے برصغیر ہند میں ملکی قومیت کی بنیاد پر ’’ہندو مسلم‘‘ اتحاد کے خیال سے کنارہ کشی اختیار کرلی ۔ اس کا ثبوت بھی ان کی ایک تحریر میں موجود ہے ۔ اقبال جولائی ۱۹۰۸ء میں لاہور واپس پہنچے ۔ آٹھ ماہ بعد انہیں منشی غلام قادر فرخ نے امرتسر میں قائم شدہ ایک ہندو مسلم اور سکھوں کی انجمن منروالاج کے سالانہ جلسے میں شرکت کی لیے مدعو کیا ۔ آپ نے انہیں اپنے خط محررہ ۲۸ مارچ ۱۹۰۹ء میں تحریر کیا: میرا یہ نظریہ رہا ہے کہ اس ملک (ہندوستان) سے مذہبی اختلافات اٹھ جانے چاہییں اور میں اب بھی اپنی نجی زندگی میں اسی اصول پر کاربند ہوں ، مگر اب میں سوچتا ہوں کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ اپنا اپنا قومی تشخص ایک دوسرے سے الگ برقرار رکھیں ۔ ہندوستان کے لیے ایک مشترک قومیت کا تصور بجائے خود نہایت حسین اور شاعرانہ کشش کا حامل ہے ، تاہم موجودہ حالات اور دونوں قوموں کے نا دانستہ رجحانات کے پیش نظر وہ ناقابل عمل ہے ۴۶ ۔ قیام یورپ کے دوران اقبال کے قلب و ذہن میں یہ انقلاب بڑے دور رس نتائج کا حامل تھا ۔ عین ممکن ہے کہ فارسی کی طرف ان کی طبیعت کا رخ اسی سبب سے ہوا ہو ۔ چنانچہ اس دور میں نہ صرف ان کی تعلیم کی تکمیل ہوئی بلکہ شاعری بھی احساسات کے مختلف مراحل طے کرتی ہوئی ایک ایسے موڑ پر آ کھڑی ہوئی ، جہاں سے اسے جزو پیغامبری بننے کے لیے جست لینا تھی۔ اقبال ۳ جولائی ۱۹۰۸ء کو انگلستان سے وطن روانہ ہوئے ۔ واپسی پر جب ان کا جہاز اٹلی کے جزیرئہ سسلی کے ساحل کے قریب سے گزرا تو ان کے دل میں کچھ اور ہی جذبات موج زن تھے۔ وہ سسلی کو مازنی کی سرزمین کے طور پر نہیں بلکہ تہذیب حجازی کے مزار کی صورت میں دیکھ کر رو دیے تھے: ہے ، ترے آثار میں پوشیدہ ، کس کی داستان تیرے ساحل کی خموشی میں ہے اندازبیاں درد اپنا مجھ سے کہہ ، میں بھی سراپا درد ہوں جس کی تُو منزل تھا ، میں اس کارواں کی گردہوں رنگ تصویر کہنِ میں ، بھر کے دکھلا دے مجھے! قصّہ ایّامِ سلف کا ، کہہ کے تڑپا دے مجھے! میں ترا تحفہ ، سوے ہندوستاں لے جائوں گا خود یہاں روتا ہوں ، اوروں کو وہاں رلوائوں گا اقبال بمبئی سے ہوتے ہوئے ۲۵ جولائی کی رات کو دہلی پہنچے ۔ احباب اسٹیشن پر ان کا استقبال کرنے کی خاطرآئے ہوئے تھے ۔ اگلے روز احباب سمیت نظام الدین اولیاؒ کی درگاہ پر پہنچے اور مزار کے پہلو میں کھڑے ہو کر دیر تک دست بدعا رہے ۔ سارا دن درگاہ ہی میں گزارا ۔ احباب میں نیرنگ اور مقبول احمد نظامی نے ان کی آمد کی خوشی میں نظمیں پڑھیں ، قوالی کا لطف بھی اٹھایا ۔ خواجہ حسن نظامی میر مجلس تھے شام کو غالب کی قبر پر گئے اور فاتحہ پڑھی۔ ۲۷ جولائی ۱۹۰۸ء کو دوپہر کی گاڑی سے لاہور پہنچے ۔اسٹیشن پر احباب نے گرمجوشی سے استقبال کیا ۔ وہاں سے بھاٹی دروازے کے باہر بلدیہ کے باغ میں آئے ، جہاں شیخ گلاب دین نے ان کے اعزاز میں ایک دعوت دے رکھی تھی ۔ اس تقریب میں کوئی ڈیڑھ سو کے قریب احباب شریک ہوئے ۔ سر محمد شفیع نے ان کی شخصیت اور شاعری کے بارے میں تقریر کی ۔ مولانا حامد حسن قادری ، اللہ یار جوگی ، منشی غلام علی خان غلامی، منشی نذر محمد اور بدرالدین قیصری نے ان کی آمد کی خوشی میں نظمیں پڑھیں ۔ اس تقریب سے فراغت کے بعد اسی دن شام کی گاڑی سے سیالکوٹ روانہ ہو گئے ۔ سیالکوٹ میں بھی ان کا پر جوش خیر مقدم کیا گیا ۔ پلیٹ فارم استقبال کرنے والوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ۔ اقبال کے والد ، بھائی اور دیگر اعزہ و احباب موجود تھے ۔ شیخ اعجاز احمد ، اس وقت ساڑھے نو برس کے تھے اور اپنے والد کے ساتھ وہاں گئے ہوئے تھے ۔ ہار اتنی کثیر تعداد میں پہنائے گئے کہ اقبال کا چہرہ پھولوں میں چھپ گیا ۔ بڑی مشکل سے اسٹیشن سے نکل کر گھر پہنچے اور اپنی ماں سے ، جو گذشتہ تین سال سے ان کے لیے چشم براہ تھیں ، لپٹ گئے ۔ مآخذ باب: ۷ ۱ ۔ ’’اقبال نامہ‘‘مرتبہ شیخ غطاء اللہ جلد دوم ، صفحہ۲۲۸،۲۲۹۔ ۲ ۔ ’’نذرِ اقبال‘‘ مرتبہ محمد حنیف شاہد ، صفحہ ۱۰۔ ۳ ۔ ’’علامہ اقبال یورپ میں‘‘ از ڈاکٹر سعید اختر درانی ۔ ۴ ۔ ’’اقبال کی تقریریں اور بیانات ‘‘ مرتبہ اے ۔ آر۔ طارق (انگریزی) صفحہ ۱۴۲۔ ۵ ۔ ایضاً ، صفحات۱۴۰ تا ۱۵۱۔ ۶ ۔ ’’اقبال کے جواہر ریزے ‘‘ از خواجہ عبدالحمید ، صفحات ۱۱ ، ۱۲۔ ۷ ۔ ایضاً ، صفحہ ۱۰۔ ۸ ۔ ’’مطالعہ اقبال ‘‘ مرتبہ گوہر نوشاہی ، صفحہ ۴۸۸ ۔ ۹ ۔ ’’انوار اقبال ‘‘ مرتبہ بشیر احمد ڈار ، صفحہ ۵۳ ۔ ۱۰۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ حصہ دوم ، صفحات ۳۵۳ ، ۳۵۴۔ ۱۱ ۔ ’’نذر اقبال ‘‘ ، صفحات ۷،۸،۹۔ ۱۲ ۔ ’’آثار اقبال ‘‘ مرتبہ غلام دستگیر رشید ، مضمون ’’علامہ اقبال کی خدمت میں چند لمحے‘‘از ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی ، صفحات ۳۹ تا ۴۱۔ ۱۳ ۔ ’’انوار اقبال ‘‘، صفحات ۳۰ ، ۳۱۔ ۱۴ ۔ ’’نذر اقبال ‘‘ ، صفحہ ۸۹۔ ۱۵ ۔ ’’اقبال ‘‘ از عطیہ بیگم (ڈائری عطیہ بیگم) مترجم ضیاء الدین احمد برنی ، صفحات ۹۷ ، ۹۸۔ ۱۶ ۔ ایضاً ، صفحات ۹۸ ، ۹۹۔ ۱۷ ۔ ایضاً ، صفحات ۹۹، ۱۰۰۔ ۱۸ ۔ ’’نذر اقبال ‘‘، صفحات ۱۰ ، ۱۱۔ ۱۹ ۔ ’’اقبال ‘‘ از عطیہ بیگم ، صفحات ۱۰۰ تا ۱۰۲۔ ۲۰ ۔ ’’نذر اقبال ‘‘ ، صفحہ۸۹۔ ۲۱ ۔ ’’اقبال ‘‘ از عطیہ بیگم ، صفحہ ۱۰۳۔ ۲۲ ۔ ایضاً ، صفحات ۱۰۷ ، ۱۰۸۔ ہائیڈل برگ میں اقبال کی رہائش ۵۸ نیو ہائمر لینڈ سٹرا سے پر تھی ۔ جرمن حکومت نے ان کے نام کی تختی اس مکان کی دیوار میں نصب کر رکھی ہے ۔ دریاے نیکر کے دوسرے کنارے کی سٹرک کو اقبال کے نام سے منسوب کر دیا گیا ہے ۔ اسی سٹرک کے کنارے ایک باغ میں پتھر کی ایک بڑی سی سل پر ’’دریاے نیکر کے کنارے ایک شام ‘‘کا جرمن زبان میں ترجمہ کندہ ہے ۔ ہائیڈل برگ کے سائوتھ ایشین انسٹی ٹیوٹ میں اقبال چیئر قائم کی گئی ہے ۔ ’’علامہ اقبال یورپ میں‘‘ از ڈاکٹر سعید اختر درانی۔ ۲۳ ۔ ایضاً ، صفحہ ۱۰۶ تا ۱۲۱۔ ۲۴ ۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ حصہ دوم ، صفحہ ۳۵۸ ۔ ۲۵ ۔ ’’اقبال ریویو‘‘ اپریل ۱۹۷۶ء ، مضمون ’’اقبال انگلستان میں ‘‘ از ایس اے واحد (انگریزی)، صفحہ ۲ ۔ ۲۶ ۔ ’’شاد اقبال ‘‘ مرتبہ ڈاکٹر محی الدین زور ، صفحہ ۴۵ ۔ جرمن مسلم محمد امان اللہ ہوبو ہم کی تحقیق کے مطابق اس زمانے میں لندن میں اقبال ، ۴۹ ایلشام روڈ کینسنگٹن میں مقیم تھے ۔ ’’لندن میں اقبال کی رہائش گاہ کی نشاندہی‘‘ (انگریزی رپورٹ )’’ڈان ‘‘ ۸ مئی ۱۹۸۲ء ۲۷ ۔ ’’ ملفوظات اقبال ‘‘ مرتبہ ابواللیث صدیقی ، صفحہ ۸۹۔ ۲۸ ۔ ’’نذر اقبال ‘‘ ، صفحہ ۱۰۔ ۲۹ ۔ ’’شاعر مشرق‘‘ (انگریزی) ، صفحات ۱۷، ۱۸۔ ۳۰ ۔ ’’ذکر اقبال ‘‘ از عبدالمجید سالک ، صفحہ ۵۷۔ ۳۱ ۔ ’’اقبال کے جواہر ریزے‘‘ ، صفحات ۱۲ ، ۱۳۔ ۳۲ ۔ ’’آثار اقبال ‘‘، صفحہ ۳۶۔ ۳۳ ۔ ’’نذر اقبال ‘‘ ، صفحہ ۸ ۔ ۳۴ ۔ ایضاً ، صفحہ ۹ ۔ اقبال کی ابتدائی غزلوں اور قطعوں میں کئی فارسی اشعارموجود ہیں لیکن انہوں نے فارسی کو اظہار جذبات و خیالات کا ذریعہ اس طرح نہ بنایا تھا جیسے بعد میں بنایا۔ ۳۵ ۔ ’’پیام مشرق‘‘ اور بعض دیگر کتب کی نظموں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فرانسیسی ادب سے بھی شناسا تھے ۔ ۳۶ ۔ ’’ایران و ہندوستان کا اثر جرمن شاعری پر ‘‘ از ایف ۔ جے ۔ ریمی (انگریزی) مترجم ریاض الحسن ، صفحات ۳۵ ، ۴۱ ، ۴۶ ، ۴۹ تا ۵۱ ، ۵۳ ، ۶۰ ، ۶۱ ۔ ۳۷ ۔ ’’فکر اقبال ‘‘ از خلیفہ عبدالحکیم ، صفحہ ۷۵۔ ۳۸ ۔ ’’بانگ درا ‘‘ ، صفحات ۱۴۹ ، ۱۵۰ ۔ ۳۹ ۔ ’’نذر اقبال ‘‘ ، صفحہ ۱۲۴ ۔ ۴۰ ۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ حصہ اوّل ، صفحہ ۱۰۹۔ ۴۱ ۔ ایضاً ، صفحہ ۴۲۶۔ ۴۲ ۔ ’’ روز گار فقیر ‘‘ جلد دوم ، صفحہ ۹۳ ۔ ۴۳ ۔ ’’انوار اقبال ‘‘ ، صفحات ۱۷۶ ، ۱۷۷ ۔ ۴۴ ۔ وسیع المشربی یا ہیومنزم کی روش کی اخلاقی قدر و قیمت سے اقبال کو انکار نہ تھا کیوں کہ اس کے نتیجے میں تعصب اور تنگ نظری کا ازالہ ممکن تھا ، مگر اس کی روح انفرادی تھی ، اس لیے چند لوگوں سے آگے نہ بڑھ سکتی تھی ۔ یہ ایک فطری رجحان تھا اور بس ۔ اجتماعی و سیاسی اعتبار سے اتحاد انسانی کا کوئی پہلو اس میں سے نہ نکلتا تھا ، لہٰذا یہ ایک عالمگیر معاشرے کی تعمیر کا ذریعہ نہ بن سکتی تھی ۔ ۴۵ ۔ سورہ ۴۹ آیت ۱۳ ۔ آنحضورؐ نے بھی خطبہ حجۃالوداع میں یہی ارشاد فرمایا تھا کہ : اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تم میں سب سے افضل وہی ہے جو متقی ہے اور کسی عرب کو کسی غیر عرب پر فضیلت نہیں سواے نیک کرداری کے ۔ ۴۶ ۔ ’’سفینۂ حیات ‘‘ مولفہ منشی غلام قادر فرخ ، صفحات ۲۲ ، ۲۳ ۔ وسطی دور (حصہ دوم) باب: ۸ فکرِ معاش یورپ سے واپسی کے بعد اقبال کے لیے سب سے اہم مسئلہ فراہمی روز گار تھا۔ انہوں نے اپنی تعلیم کی تکمیل بڑے بھائی شیخ عطا محمد کی مالی امداد سے کی تھی اور اب شیخ عطا محمد کی فوج سے ریٹائرمنٹ میں چند سال باقی رہ گئے تھے۱ ۔ علاوہ اس کے ان کی اپنی عیال داری بھی تھی وہ تین بیٹوں اور تین بیٹیوں کے باپ تھے ۔ نیز والدین کے بڑھاپے کا سہارا بھی وہی تھے ۔ اقبال نے قیام یورپ کے دوران غالباً ۱۹۰۸ء کے ابتدائی حصّے میں گورنمنٹ کالج لاہور کی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا تھا ۲ ، اس لیے کچھ نہ کچھ آمدنی کا ذریعہ بھی موجود نہ رہا تھا ۔ لہٰذا اب اقبال کے لیے وکالت کا پیشہ اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا لیکن اس پیشے میں قدم جمانے کے لیے بھی وقت درکار تھا اور بڑے بھائی کی مزیدمالی اعانت کی ضرورت تھی ، جس کے لیے وہ بخوشی تیار تھے ۔ اگست ۱۹۰۸ء کے پہلے یا دوسرے ہفتے میں جب اقبال ابھی سیالکوٹ ہی میں تھے ، شیخ عطا محمد لاہور آئے اور مرزا جلال الدین کی وساطت سے موہن لال روڈ(جسے آج کل اردو بازار کہا جاتا ہے) پر منشی گلاب سنگھ کے مطبع مفید عام کے قریب اقبال کی رہائش اور دفتر کے لیے ایک مکان کرایہ پر لیا ۔ چند دنوں کے بعد اقبال لاہور پہنچ کر اسی مکان میں فرد کش ہوئے ۔ دفتر کے لیے قانونی کتب کی ایک معمولی سی لائبریری خرید کی اور ہندو منشی کاہن چند رکھا ۔ علی بخش کو بھی بلوایا لیا گیا ۔ اقبال نے پریکٹس کی ابتداء نچلی عدالتوں سے کی اور چند ماہ انہی عدالتوں میں کام کرتے رہے ، مگر نچلی عدالتوں میں کام کرنا انہیں پسند نہ آیا ۔ کاہن چند بھی لین دین کے معاملات میں ہمیشہ جھگڑتا رہتا تھا۳۔ ۳۰ اکتوبر ۱۹۰۸ء سے اقبال کی بحیثیت ایڈووکیٹ انرولمنٹ ہو گئی اور اس حکمنامے کے تحت انہیں چیف کورٹ پنجاب میں پریکٹس کرنے کی اجازت مل گئی ۴ ۔اور وہ لاہور کے بار روم میں داخل ہوئے ، جو میاں شاہ دین ، سر فضل حسین ، سر محمد شفیع ، سر شہاب الدین ، سرشادی لعل ، لالہ لاجپت رائے، پنڈت شیو نارائن شمیم ، پیر تاج الدین غلام رسول بیرسٹر ، مرزا جلال الدین وغیرہ جیسی مقتدر ہستیوں کے سبب مشہور تھا ۔ چیف کورٹ پنجاب میں اپنے مقدمات کی پیروی کے لیے اقبال سخت محنت کرتے تھے ، یہاں تک کہ شعرو شاعری کے شغل سے بھی کچھ مدت تک دور رہے ۔ اقبال نے صرف کچھ عرصے تک موہن لعل روڈ والے مکان میں قیام کیا ۔ اکتوبر ۱۹۰۸ء میں وہ انارکلی کے اس مکان میں اٹھ آئے ، جس میں ان سے پیشتر سر فضل حسین اور پھر سر محمد شفیع مقیم رہ چکے تھے۔ یہ مکان پہلے مکان سے کشادہ تھا ۔ اسی مکان میں آپ کی سکونت تھی اور اسی میں دفتر بھی تھا ۔ کاہن چند کی جگہ ، سر محمد شفیع کے منشی طاہر الدین کی خدمات حاصل کی گئیں ۔منشی طاہرالدین بھی اس مکان کے عقب میں رہائش پذیر ہو گئے ۔ اقبال ان پر بہت اعتماد کرتے تھے اور اپنی عمر کے آخری دن تک انہوں نے ان سے تعلقات قائم رکھے ۔ یہ وہی منشی طاہرالدین ہیں جنہوں نے بعد میں حکیم طاہر الدین کی حیثیت سے ’’دل روز‘‘ نامی دوا ایجاد کر کے خوب نام پیدا کیا ۔ انہوں نے مئی ۱۹۴۰ء میں انتقال کیا ۔ اقبال کو بچپن سے کبوتر پالنے کا شوق تھا۔ وہ جب سیالکوٹ سے لاہور موہن لعل روڈ والے مکان میں منتقل ہوئے تو کبوتر ساتھ لائے تھے ۔ اب انارکلی والے مکان میں سکونت اختیار کی تو کوٹھے پر کبوتروں کے رکھنے کا بندوبست بھی کیا گیا ۔ اقبال ۱۹۲۲ء تک اسی مکان میں فروکش رہے ۵ ۔ مرزا جلال الدین ان ایّام میں اقبال کی زندگی کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں: ڈاکٹر صاحب کی طبیعت میں ظرافت کو بہت دخل تھا ۔ وہ فارغ اوقات میں بار روم میںبیٹھ کر جب اپنی پُر لطف باتوں اور ظریفانہ گفتگو کو شروع کرتے تو متعدد افراد ان کے گرد اگر د جمع ہو جاتے ۔ ہندوئوں میں پنڈت شیونا رائن شمیم کو اقبال سے خاص انس تھا اور وہ ڈاکٹر صاحب کی باتوں میں خاص دلچسپی لیتے ۔ اس دوران میں میرے اور ڈاکٹر صاحب کے تعلقات بہت گہرے ہو چکے تھے ۔ ہمارا معمول یہ تھا کہ دس بجے کے قریب ہم چیف کورٹ میں پہنچتے ، مقدمات کے شروع ہونے تک اِدھر اُدھر کی گپ چلتی اور جب کوئی مقدمہ ختم ہو جاتا تو دوسرے کے شروع ہونے تک پھر بار روم میں آ جاتے ۔ منشی طاہر الدین کی جیب میں قینچی کے سگریٹوں کی ڈبیا پڑی رہتی ۔ ڈاکٹر صاحب سگریٹ سلگا کر کرسی پر بیٹھ جاتے اور لطائف و پر مذاق باتوں سے وقت کاٹتے ۔ بعد میں تو یہاں تک نوبت پہنچی کہ اکثر عدالت عالیہ کے کام سے فارغ ہو کر وہ میرے ہمراہ میرے دفتر میں تشریف لے آتے اور رات دیر گئے تک میرے پاس ہی ٹھہرتے ۔ انہی ایّام میں ڈاکٹر صاحب کی ملاقات نواب سر ذوالفقار علی خان مرحوم کے ساتھ بھی ہو گئی اور اسی طرح سر جوگندر سنگھ جوگی سے مراسم قائم ہو گئے ۔ ذوالفقار مرحوم ، اقبال اور میں ، کبھی نواب صاحب کے دولت خانے پر اور کبھی میرے دفتر ، قریباً بلا ناغہ ملا کرتے ۔ ہمارے باہمی تعلقات ایسے گہرے تھے کہ سرمیاں محمد شفیع مرحوم و فضل حسین مرحوم ہمیں ٹرایو یا اصحاب ثلاثہ کے نام سے یاد کرتے۶‘‘۔ ابھی وکالت کا پیشہ اختیار کیے دو ایک ماہ ہی گزرے ہوں گے کہ اقبال کو ایم اے او کالج علیگڑھ میں فلسفے کی پروفیسری کی پیش کش ہوئی لیکن انہوں نے اسے قبول نہ کیا ۔ اسی طرح اپریل ۱۹۰۹ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں تاریخ کی پروفیسری بھی ٹھکرا دی ۷۔ اقبال کو ہمہ وقتی طور پر معلمی کا پیشہ اختیار کرنے میں اس لیے تامل تھا کہ یہ کوئی معقول آمدنی کا ذریعہ نہ تھا ۔ ان کے نزدیک وکالت کا پیشہ اختیار کیے رکھنے میں بہتر مالی مستقبل کے امکانات تھے ۔ یکم اکتوبر ۱۹۰۸ء سے جب بریٹ ، صدر شعبہ فلسفہ گورنمنٹ کالج لاہور ایک سال کی رخصت پر گئے تو ان کی جگہ آسٹن وائٹ جیمز کو قائم مقام پروفیسر فلسفہ مقرر کیا گیا ، لیکن جیمز یکم مئی ۱۹۰۹ء کو اچانک فوت ہوئے ۔ ان کی اسامی پُر کرنے کے لیے فوری طور پر کسی انگریز پروفیسر کا انتظام ہو سکناممکن نہ تھا ۔ چنانچہ پرنسپل کی درخواست پر حکومت پنجاب نے اقبال سے استدعاکی کہ عارضی طور فلسفے کی پروفیسری قبول کر لیں ۔ گرمیوں کا موسم تھااس لیے کہ تدریسی اوقات اقبال کے پیشہ وکالت کی ذمہ داریوں میں حائل نہ ہوں ، کالج ان کے پیریڈ صبح چھ بجے سے لے کر نو بجے تک متعین کرنے کو تیار تھا ، مگر گرمیوں کی تعطیلات کے بعد چونکہ کالج اور کورٹ کے اوقات میں تصادم یقینی تھا ، اس لیے اقبال اور گاڈلے ، انڈر سیکرٹری تعلیم حکومت پنجاب نے کورٹ کے چیف جج و جج صاحبان کو تحریر کیا کہ اقبال کے مقدمات ایسے اوقات میں پیش ہوا کریں جب وہ اپنے تدریسی فرائض سے فارغ ہو جائیں ۔ اس زمانے میں اقبال کی پریکٹس ابتدائی مراحل میں ہونے کے سبب برائے نام تھی ، اس لیے اجازت مل گئی ۸۔ چنانچہ انہوں نے ۱۰ مئی ۱۹۰۹ء سے گورنمنٹ کالج میں عارضی طور پر فلسفہ پڑھانا شروع کر دیا ۔۱۲؍ اکتوبر۱۹۰۹ء سے ان کی بنیادی تنخواہ پانچ سو روپے ماہوار مقرر ہوئی ۹۔گرمیوں کے مہینے میں وہ صبح صبح گھر سے سیدھے کالج جایا کرتے اور تین گھنٹے لیکچر دینے کے بعد کورٹ پہنچتے ، جہاں چار بجے شام تک اپنے مقدموں کی پیروی کرتے یا فراغت ہوتی تو بار روم میں بیٹھ کر دوستوں کے ساتھ گپیں اڑاتے، سردیوں میں نو بجے صبح کا لج جاتے اور وہاں سے فارغ ہونے کے بعد کورٹ پہنچتے۔ کالج میں وہ اپنے شاگردوں میں بڑے ہر دلعزیز تھے اور پڑھانے کا انداز سیّد میر حسن جیسا تھا ۱۰۔ رفتہ رفتہ اقبال کی مصروفیات بڑھتی جا رہی تھیں ۔ ۱۹۰۹ء میں آپ لاء پبلشنگ پریس لاہور کے شائع کردہ ایک قانونی رسالۂ ’’انڈین کیسنر لاء رپورٹس ‘‘ کے حلقۂ ادارت میں بطور جائنٹ ایڈیٹر شامل ہو گئے ۱۱ ۔’’انجمنِ حمایتِ اسلام‘‘ اور ’’انجمنِ کشمیری مسلمانانِ پنجاب‘‘ سے تعلق کے علاوہ انہیں ۲۶ مارچ ۱۹۰۹ء کو’’ انجمنِ اسلامیہ پنجاب‘‘ کا رکن بھی منتخب کر لیا گیا ۔ انجمن اسلامیہ پنجاب ۱۸۶۹ء سے قائم تھی اور بادشاہی مسجد و دیگر اہم مساجد کی نگرانی یہی انجمن کرتی تھی۔ برکت علی محمڈن ہال کا انتظام بھی اسی کے سپرد تھا ۔ اس انجمن سے اقبال کا تعلق آخری دم تک قائم رہا ۱۲ ۔ ۲۸ دسمبر ۱۹۰۸ء کو آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ اجلاس کی صدارت کے سلسلے میں خواجہ سلیم اللہ خان ، نواب آف ڈھاکا ، امرتسر آئے ہوئے تھے؛ انجمنِ کشمیری مسلمانانِ پنجاب کا ایک وفد، جس میں اقبال بھی شامل تھے ، ان سے ملا ، خواجہ صاحب کی خدمت میں فارسی میں تحریر کردہ سپاسنامہ پیش کیا گیا ، جسے اقبال نے پڑھا ۔ ان دنوں انجمن، کشمیریوں کو زراعت پیشہ قرار دینے اور فوج میں ان کی نمائندگی کو موثر بنانے کے لیے تگ و دو میں مصروف تھی ۔ خواجہ صاحب نے انجمن کا سر پرست بننا قبول کر لیااور ۱۹۰۹ء میں اقبال ہی کی تحریک پر ان مسائل کو وائسرایگل قانون ساز کونسل کے اجلاسوں میں اٹھایا ۔ اس سلسلہ میں اقبال کے چند مراسلے بھی اخباروں میں شائع ہوئے ، جن کے ذریعے فوجی بھرتی اور حصول اراضی کی ضرورت کشمیریوں اور حکام دونوں پر واضح کرنے کی کوشش کی۱۳ ۔ اسی طرح محمد عبداللہ قریشی ’’سرگزشت فوق ‘‘(قلمی) کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ۱۹۰۹ء یا ۱۹۱۰ء میں کشمیریوں کا ایک وفد مہاراجہ پرتاب سنگھ والی کشمیر کی خدمت میں بمقام کشمیر ہائوس لاہور ، جانے والا تھا ۔ محمد دین فوق ، اقبال کو بلانے گئے ، مگر اقبال وفد میں شامل ہونے یا مہاراجہ سے ملنے پر رضا مند نہ ہوئے ۔ بالآخر اقبال کے دوست انہیں مہاراجہ پرتاب سنگھ کے پاس لے ہی گئے ۔ مہاراجہ نے اقبال کی علمی شہرت اور شاعرانہ عظمت کے متعلق کچھ نہ کچھ سن رکھا تھا ۔ جب تعارف ہوا تو اقبال سے پوچھا : ڈاک دار صاحب ! سنا ہے آپ بیت بناتے ہیں ؟ اقبال نے جواب دیا : سرکار ! بیت نہ کبھی میں نے بنائے ہیں ، نہ میرے باپ دادا نے اس کے علاوہ میں ڈاک دار بھی نہیں، نہ میں نے کبھی ڈاک کا کام کیا ہے ، نہ میرے بزرگوں نے مہاراجہ حیرانی سے اقبال کے دوستوں کا منہ تکنے لگے ۔ دوستوں میں سے کسی نے کہا کہ حضور یہ شاعر ہیں اور شعر تحریر کرتے ہیں۔ شعر کو بیت بھی کہتے ہیں ، مگر انہوں نے بیت کو وہ بید سمجھا، جس سے کرسیاں بنائی جاتی ہیں۔ مہاراجہ نے اقبال سے کوئی شعر سنانے کی فرمایش کی ۔ جب اقبال شعر پڑھنے لگے تو مہاراجہ بولے : یوں نہیں ! گا کر پڑھیے ۔ اقبال نے فوق کی طرف دیکھا اور دبی زبان میں کہا : جی تو یہی چاہتا ہے کہ کہوں کہ میرے دوستوں کے پائوں میں گھنگرو باندھیے تو میں گائوں ۔ پھر چند شعر ترنم سے پڑھے اور انہیں مہاراجہ نے خود بھی کچھ شعر فارسی کے سنائے۱۴ ۔ سال ڈیڑھ سال کے اس عرصے میں معلمی اور وکالت کے سلسلے میں اقبال کو اتنی تگ و دو کرنا پڑتی کہ ان کا سارا وقت اسی میں صرف ہو جاتا ۔ تمام دن تدریسی مشاغل یا مقدمات کی پیروی میں گزرتا۔ شام کو مؤکلوں کی ملاقات کے لیے دفتر میں بیٹھنا پڑتا اور رات گئے تک اگلے روز کے مقدمات کی تیاری کرتے رہتے ۔ بسا اوقات طالب علم گھر پر بھی پڑھنے کے لیے آ جاتے شعر کہنے کا وقت نہ ملتا تھا بلکہ ایسی مہلت کے لیے ترستے ہی رہتے تھے ۔ فوق تحریر کرتے ہیں کہ مئی ۱۹۱۰ء کی کسی شام کو وہ اور وجاہت حسین جھنجھانوی ان کے ہاں گئے اور ان کو اپنا کلام سنانے لگے ۔ اقبال سننے میں منہمک تھے کہ اسی اثنا میں منشی طاہرالدین کمرے میں داخل ہوئے اور کہا کہ ایک مؤکل آیا ہے اور ملنا چاہتا ہے ۔ اقبال نے جواب دیا کہ اس کو بٹھائیے ، یہاں سے فارغ ہو کر بلائوں گا ۔ فوق نے کہا : بابا پہلے پیٹ کی فکر کرنی چاہیے ، یہ شغل تو ہوتا ہی رہتا ہے ۔بولے : یہی شغل تو غذا ئے روح ہے اور روح ہے تو سب کچھ ہے ۔ مؤکل اگر میرا نام سن کر آیا ہے تو وہ کہیں بھاگ نہیں جائے گا ۔ چنانچہ ان دونوں کا کلام سننے کے بعد اقبال نے اپنا تازہ کلام سنایا اور پھر مجلس برخاست ہوئی ۱۵ ۔ ظاہر ہے، اقبال معقول آمدنی کے کسی ایسے ذریعے کی تلاش میں تھے جو کشاکش روز گار سے انہیں کم از کم اتنی مہلت دے کہ وہ اپنی قوت ِفکر ِکا رُخ اس عالم کی سمت موڑنے کے قابل ہو سکیں ، جس کا تعلق تخلیق سے تھا ۔ اقبال کی روح کی گہرائیوں میں یہ احساس تڑپ رہا تھا کہ ان کا اصل مقدر شعر کے ذریعے ایک نیا پیغام عالم اسلام تک پہنچانا ہے، لیکن بدقسمتی سے برصغیر میں تصنیف و تالیف کا شغل بجائے خود معقول آمدنی کا ذریعہ نہ تھا ، بلکہ ایسے مقصد کی تحصیل کے لیے کسی نہ کسی مالدار سر پرست کی ضرورت تھی ۔ اقبال اس ’’گدھے پیٹ ‘‘ کی خاطر جو لائو چارہ لائو چارہ کا ورد کرتے ہوئے انہیں دم بھر کے لیے بھی مہلت نہ دیتا تھا ، اپنی تقدیر معطل کرنے پر رضا مند نہ تھے۱۶۔ اسی بنا پر وہ اپنے مزاج کے موافق کسی ملازمت کے اختیار کرنے کو خارج از بحث قرار نہ دیتے تھے۔ اس مرحلے پر ان کی توجہ حیدر آباد دکن کی طرف مبذول ہوئی ۔ اقبال کبھی حیدر آباد نہ گئے تھے ۔ گو ان کی غزلیں اور نظمیں وہاں کے مختلف رسالوں یا جریدوں میں چھپتی رہتی تھیں اور حیدر آباد کی بعض علم دوست شخصیات مثلاً سر اکبر حیدری ، مہاراجہ کشن پرشاد وغیرہ سے ان کا غیبی تعارف یا غالباً خط و کتابت تھی۱۷ ۔نیز اقبال کے دوست غلام قادر گرامی بھی شاعر خاص نظام کی حیثیت سے وہاں مقیم تھے ۔ حیدر آباد میں اہل سخن کی قدر افزائی کے چرچے اقبال کے کانوں تک پہنچتے رہتے تھے اور انہیں یہ توقع ہو گئی تھی کہ دہلی اور لکھنؤ کی بربادی کے بعد حیدر آباد ہی ایک ایسی مسلم ریاست ہے ، جہاں ہو سکتا ہے انہیں وہ مہلت میسر آ سکے، جس کی انہیں جستجو تھی ۔ چنانچہ وہ کالج سے دس دن کی رخصت لے کر ۱۸ مارچ ۱۹۱۰ء کی رات کو حیدر آباد روانہ ہو گئے۔ عطیہ فیضی تحریر کرتی ہیں ، اقبال نے اپنے کسی خط میں حیدر آباد جانے کی خواہش کا اظہار کیا اور ان سے تعارفی چٹھی کے طالب ہوئے ۔ سو عطیہ فیضی نے اپنے عزیز سر اکبر حیدری کے نام ، جو ان دنوں نظام کے معتمد فنانس تھے ، تعارفی خط ارسال کر دیا ۱۸۔مگر یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی ۔ عطیہ فیضی کی کتاب میں اقبال کا کوئی ایسا خط شامل نہیں ، جس میں ان سے کسی تعارفی چٹھی کا مطالبہ کیا گیا ہو ۔ علاوہ اس کے عطیہ فیضی کے نام خط محررہ ۳۰ مارچ ۱۹۱۰ء میں اقبال لاہور سے اپنے دورئہ حیدر آباد کی تفصیل بیان کرتے ہوئے انہیں تحریر کرتے ہیں : اگر میں حیدر آباد میں مزید کچھ عرصہ قیام کر سکتا تو مجھے یقین ہے کہ ہزہائی نس نظام مجھ سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کرتے ۔ میں وہاں کے سب بڑے آدمیوں سے ملا اور کئیوں نے مجھے اپنے یہاںمدعو بھی کیا ۔ میرا حیدر آباد جانا کچھ معنی رکھتا تھا ، جس کے بارے میں ملاقات پر آپ سے عرض کروں گا ۔ صرف سر اکبر و لیڈی حیدری سے ملنا میری سیاحت کا مقصد نہ تھا ۔ شاید آپ انہیں جانتی ہوں ۔ حیدر آباد میں ملاقات سے پیشتر مجھے ان سے واقفیت کی مسرت حاصل نہ تھی ۔ ان کے ہاں میرا قیام نہایت پر لطف رہا ۱۹۔ اگر اقبال عطیہ فیضی کی وساطت سے سر اکبر حیدری اور ان کی اہلیہ سے ملے ہوتے تو یہ تحریر نہ کرتے کہ شاید آپ انہیں جانتی ہوں ، بلکہ متذکرہ خط میں عطیہ فیضی کی تعارفی چٹھی کا حوالہ دے کر ان کا شکریہ ادا کرتے ۔ اقبال کی کسی تحریر سے پتا نہیں چلتا کہ ان کے حیدر آباد جانے کا مقصد کیا تھا ۔ ان کے پیش نظر کوئی مخصوص ملازمت نہ تھی ۔ یہ قیاس کرنا بھی درست نہیں کہ ان کا دورہ کسی خاص ملازمت کی غرض سے تھا ۔ بہرحال غالب امکان یہ ہے کہ اگر انہیں دربار دکن میں باریابی حاصل ہو جاتی تو وہ نظام کو تصنیف و تالیف کے سلسلے میں اپنے مستقبل کے عزائم کی اہمیت سے روشناس کرانا چاہتے تھے اور اگر ان عزائم کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے نظام انہیں کسی مناسب منصب کی پیشکش کرتے تو وہ غالباً اسے قبول کر لیتے ، لیکن ایسی نوبت ہی نہ آئی ۔ حیدر آباد میں یہ زمانہ آخری تاجدار آصفی کے والد نواب میر محبوب علی خان کی حکومت کا تھا ۔ نواب میر محبوب علی خان داغ کے شاگرد اور اقبال کے استاد بھائی تھے ۔ داغ کا انتقال ہو چکا تھا ۔ نظر حیدر آبادی ، نواب میر محبوب علی خان کے متعلق تحریر کرتے ہیں: وہ عجیب و غریب مزاج کے آدمی تھے ۔ کھڑے ہیں تو گھنٹوں کھڑے ہیں، جاگ رہے ہیں تو پہروں جاگ رہے ہیں، اس میں دن اور رات کی کوئی قید نہیں تھی ۔ دکن کے پرانے لوگوں میں ’’ولی‘‘ مشہور تھے۔ شکار کے لیے نکل گئے تو ہفتوں اسی شغل میں گزار دیے ۔لکھ لٹ اور دریا دل تھے ۔ جس نے ان کی ایک جھلک دیکھ لی یا دربار میں باریاب ہو گیا ، اس نے منہ مانگی مراد پائی اور دنیا سے بے نیاز کر دیا گیا۔ ان غیر معمولی مشاغل کے باوجود یہ بھی ان کی کرامت تھی کہ امورِ سلطنت کو وہ بحسن و خوبی انجام دیتے تھے ، لیکن ان کی آزمائشیں بڑی صبر آزما ہوتی تھیں ۔ چنانچہ خود داغ پہلی دفعہ حیدر آباد گئے تو طویل مدت تک انتظار کرنے کے باوجود دربار نظام میں باریاب نہ ہو سکے اور وطن واپس ہو گئے ۔ پھر اسی سال ، بلوائے گئے لیکن استادی کا شرف ساڑھے تین سال کے قیام کے بعد بخشا گیا ۔ پھر جس طرح نوازے گئے وہ اظہر من الشمس ہے ، لیکن اقبال کو اتنی فرصت کہاں تھی کہ وہ چندے انتظار کرتے۲۰۔ حیدر آباد میں اقبال نے سر اکبر حیدری کے ہاں قیام کیا ۔ ممکن ہے ، وہ (حیدری) خط و کتابت کے ذریعے اقبال سے متعارف ہوئے ہوںاور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اقبال سے ان کا غائبانہ تعارف گرامی کے ذریعے ہوا ہو ۔ کیونکہ حیدر آباد جانے سے چند روز قبل اقبال نے اپنے ایک خط ، محررہ ۱۱ مارچ۱۹۱۰ء بنامِ گرامی، میں تحریر کیا: خط لکھے ہوئے کئی دن گزر گئے ، حیدری صاحب کے متعلق استفسار کیا تھا،جواب ندارد۔دو خطوں کے جواب آپ کے ذمّے ہیں۔آپ کس عالمِ غفلت میں قیام پذیر یا تشریف فرما ہیں۲۱۔ سر اکبر حیدری اور ان کی اہلیہ علم و ادب کا نہایت عمدہ ذوق رکھتے تھے ۔ انہوں نے نہ صرف اقبال کی خاطر تواضع کی بلکہ حیدر آباد کی مقتدر ہستیوں سے انہیں متعارف کرایا ۔ حیدر آباد میں قیام کے دوران اقبال نے نظم طباطبائی سے ملنے کی خواہش ظاہر کی ۔ نظم ان ایام میں نظام کالج میں فارسی کے پروفیسر کی حیثیت سے مامور تھے ۔ سر اکبر حیدری نے انہیں بلوا بھیجا اور اقبال سے تعارف کرایا۔ کچھ دیر بات چیت کے بعد اقبال نے ان سے اپنا کلام سنانے کی درخواست کی ۔ نظم نے اپنے ایک نعتیہ قصیدے کی تشبیب کے اشعار سنائے : پردئہ ظلمت سے نکلا روئے سلمائے سحر ناقۂ گردوں سے کھینچی لیلیٰ ٔشب نے مہار اشعار سن کر اقبال نے نظم کو ان کی قادر الکلامی پر بے انتہا داد دی اور بعد میں انہوں نے نظم ہی کی زمین میں مدحیہ قصیدہ ’’شکریہ‘‘ تحریر کیا ، جو مہاراجہ کشن پرشاد سے منسوب ہے۲۲ ۔ اقبال حیدر آباد میں گرامی کی صحبتوں سے مستفید ہوئے ۔ علاوہ اس کے وہاں کے تمام اہل کمال سے ملے ۔ حافظ جلیل حسن جلیل مانک پوری نے ، جو داغ کے بعد استاد نظام مقرر ہوئے تھے ، اقبال کے اعزاز میں ایک عشائیہ دیا ، جس میں حیدر آباد کے متعدد شاعروں اور ادیبوں کو مدعو کیا گیا۔ اس تقریب میں ظہیر دہلوی بھی نقاہت اور بڑھاپے کے باوجود شامل ہوئے ۔ اقبال کا اپنا بیان ہے : میں گزشتہ سال حیدر آباد گیا تو یہ ضروری بات تھی کہ میں وہاں کے اہلِ کمال سے ملوں ۔ چنانچہ حافظ جلیل حسن صاحب جلیل مانک پوری کے ہاں میری دعوت ہوئی۔ وہیں مولانا ظہیر بھی تشریف رکھتے تھے ۔ مولانا نے مجھ سے شعر پڑھنے کی فرمائش کی ، مگر سنانے سے زیادہ مجھے خود یہ شوق تھا کہ مولانا کی زبان سے کوئی شعر سنوں ، چنانچہ میں نے عرض کیا کہ حضرت!جب تک میں پہلے آپ کی زبان سے شعر نہ سن لوں گا ، اپنا شعر ہر گز نہ سنائوں گا ۔ مولانا نے اس درخواست کو منظور فرمایا اور یہ شعر سنایا: وہ جھوٹاعشق ہے، جس میں فغاں ہو وہ کچی آگ ہے،جس میں دھواں ہو ایک آدھ شعر اور بھی سنایا تھا مگر وہ یاد نہیں رہا ۔ مولانا ظہیر اس وقت بہت ضعیف و ناتواں تھے اور اونچا سنتے تھے۲۳۔ اقبال نے حیدر آباد میں ایک نظم ’’گورستانِ شاہی‘‘ کے عنوان سے گولکنڈہ کے قطب شاہی بادشاہوں کے مقبروں سے متاثر ہو کر لکھی ۔ یہ نظم ان کے حیدر آباد سے لاہور واپس آنے پر مخزن میں اقبال کے اس نوٹ کے ساتھ شائع ہوئی ۲۴ : حیدر آباد دکن کے مختصر قیام کے دنوں میں میرے عنایت فرما مسٹر نذر علی بی اے ، معتمدِ محکمۂ فنانس ۔۔۔۔ مجھے ایک دن ان شاندار مگر حسرت ناک گنبدوں کی زیارت کے لیے لے گئے،جن میں سلاطینِ قطب شاہی سو رہے تھے ۔ رات کی خاموشی ، ابرآلود آسمان اور بادلوں سے چھن کر آتی ہوئی چاندنی نے اس پر حسرت منظر کے ساتھ مل کر میرے دل پر ایسا اثر کیا جو کبھی فراموش نہ ہو گا ۔ذیل کی نظم ان ہی بے شمار تاثرات کا اظہار ہے ۔ اس کو میں اپنے سفر حیدر آباد کی یادگار میں مسٹر حیدری اور ان کی لئیق بیگم صاحبہ مسز حیدری کے نام سے منسوب کرتا ہوں ، جنہوں نے میری مہمان نوازی اور میرے قیام حیدر آباد کو دلچسپ ترین بنانے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا۲۳ ۔ حیدر آباد میں اقبال ، مہاراجہ کشن پرشاد سے بھی ملے ، جو ان دنوں ریاست کے صدر المہام تھے۔ مہاراجہ کشن پرشاد ، راجا ٹو ڈرمَل کی اولاد سے تھے ۔ ان کا اصل وطن لاہور تھا جہاں سے ان کا خاندان پہلے دہلی اور پھر حیدر آباد پہنچا ۔ وہ ذات کے کھشتری تھے ، لیکن سنسکرت کے علاوہ عربی ، فارسی اور اردو میں مہارت کے سبب صوفیانہ خیالات رکھتے تھے ۔ شعر گوئی اور شعر فہمی کا ان کو خاص ملکہ تھا ۔ داغ اور آصف کے شاگرد رہ چکے تھے ۔ اپنا تخلص شاد تھا ۔ فنون سپہ گری کے ساتھ رمل، نجوم، خطاطی ، مصوری اور موسیقی پر بھی عبور حاصل تھا ۔ ایک بہت بڑی جاگیر جس کی آمدنی سولہ لاکھ روپے سالانہ تھی ، ان کو ورثے میں ملی تھیں ۔ ان کا ماحول تو امیرانہ تھا، لیکن عادات فقیرانہ تھیں ۔ چار بیگمیں مسلمان تھیں ، جن میں سے ایک کی محبت میں ختنہ بھی کرا لیا تھا ۔ تین رانیاں ہندو تھیں ۔ مسلمان بیگمات کی اولاد مسلمان تھی اور ان کے رشتے مسلمانوں میں کیے گئے ۔ اسی طرح ہندو رانیوں کی اولاد ہندئووں میں بیاہی گئی۔ راجا صاحب کی تعلیم و تربیت اسلامی طریقے پر ہوئی تھی ، لہٰذا قرآن مجید کی کئی سورتیں اور احادیت انہیں زبانی یاد تھیں۔ مندروں میں قشقہ لگاتے اور مسجدوں میں نماز پڑھتے تھے ۔ انہوں نے اپنا موحدانہ مسلک اپنے اشعار میں یوں بیان کیا ہے : ؎ میں ہوں ہندئو ، میں ہوں مسلماں ہر مذہب ہے میرا ایماں ؎ شاد کا مذہب شاد ہی جانے آزادی ، آزاد ہی جانے ان کے شعر و نثر کے کئی مجموعے مختلف ناموں سے شائع ہوئے اور ایک نعت کو تو یہ شرف حاصل ہوا کہ مدینہ منورہ میں مسجد نبویؐ کے پیچھے کتب خانۂ شیخ الاسلام کی ایک دیوار پر آویزاں کی گئی۔ مئی ۱۹۴۰ء میں انتقال کیا ۲۵۔ حیدر آباد کے اس ہندو جاگیر دار کی فقیرانہ عادات ، موروثی عجز و انکسار، نوازش کریمانہ اور وسعت اخلاق نے اقبال کا دل ہمیشہ کے لیے جیت لیا۔ دونوں کے درمیان بہت گہرے تعلقات قائم ہوئے ۔ اقبال نے مہاراجہ کشن پرشاد کی تعریف میں ایک مدحیہ قصیدہ ’’شکریہ‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا ، جو ’’مخزن ‘‘ میں اقبال کے اس نوٹ کے ساتھ شائع ہوا: ’’گذشتہ مارچ میں مجھے حیدرآباد دکن جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں آستانۂ وزارت پر حاضر ہونے اور عالی جناب ہز ایکسیلنسی مہاراجہ کشن پرشاد بہادر جی سی آئی ای ، یمین السلطنت ، پیش کار وزیرِ اعظم دولتِ آصفیہ المتخلص بہ شاد کی خدمت با برکت میں باریاب ہونے کا فخر بھی حاصل ہوا۔ ہزایکسیلنسی کی نوازشِ کریمانہ اور وسعتِ اخلاق نے جو نقش میرے دل پر چھوڑا ، وہ میری لوح دل سے کبھی نہیں مٹے گا۔ مزید الطاف یہ کہ جنابِ ممدوح نے میری روانگی حیدر آباد سے پہلے ایک نہایت تلطف آمیز خط لکھا اور اپنے کلام شیریں سے بھی شیریں کام فرمایا ۔ ذیل کے اشعار اس عنایت بے غایت کے شکریے میں دل سے زبان پر بے اختیار آ گئے۲۶۔ اقبال ۲۳ مارچ ۱۹۱۰ء کو حیدرآباد سے واپس لاہور روانہ ہوئے ۔ رستے میں دو دن اورنگ آباد میں قیام کیا اور اورنگ زیب عالمگیر کے مقبرے کی زیارت کی ۔ مزار اورنگ زیب عالمگیر کی زیارت کے وقت اقبال کے ساتھ بڑے بھائی شیخ عطا محمد بھی تھے، لیکن وہ تعظیماً مزار پر آویزاں قنات کے اندر داخل نہ ہوئے کیونکہ بقول ان کے ان کی داڑھی غیر مشروع تھی ۲۷ ۔ اقبال ۲۸ مارچ ۱۹۱۰ء کو لاہور پہنچے معلوم ہوتا ہے ، عطیہ فیضی کو اندیشہ تھا کہ اقبال نے ریاست حیدر آباد یا نظام کی ظاہری شان و شوکت سے متاثر ہو کر اُدھر کا رُخ کیا ہے، نیز چونکہ وہ مالی مشکلات میں مبتلاتھے اور بقول عطیہ فیضی جس انسان کے رستے میں اس قسم کی مشکلات حائل ہوں ، وہ ہر اس تنکے کا سہارا لیتا ہے جو اس کی راہ میں آ جائے، وہ حیدر آباد کے ہو کر اپنی توجہ کہیں اعلیٰ مقاصد کی تحصیل کی بجائے معمولی امور کی طرف مبذول نہ کردیں ، اس لیے انہوں نے اقبال کو طنزاً تحریر کیا کہ وہ نظام کی قدر شناسی کی خاطر اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کو تباہ نہ کریں ۔ مگر عطیہ فیضی ، اقبال کے سفر حیدر آباد کے مقصد کو نہ سمجھ سکی تھیں ، چنانچہ اقبال نے انہیں چڑ کر جواب دیا: میں نے کب کہا تھا کہ نظام کی قدر شناسی میرے لیے باعثِ عزت ہے ۔ آپ جانتی ہیں کہ میں ایسی باتوں کی مطلق پروا نہیں کرتا ۔ میں نہیں چاہتا کہ بحیثیتِ شاعر پہچانا جائوں ۔ اگرچہ بد قسمتی سے لوگ مجھے اس حیثیت سے جانتے ہیں ، ابھی اگلے روز ہی مجھے نیپلز سے ایک اطالوی بیرونس کا خط موصول ہوا ۔ جس نے مجھ سے میری چند نظمیں مع انگریزی ترجمہ طلب کی تھیں ، لیکن شاعری کے لیے میرے دل میں کوئی ولولہ موجود نہیں اور اس کی ذمہ دار بھی آپ ہیں ۔ میں کسی دیسی والی ریاست کی قدر دانی کی کیا پروا کرتا ہوں ، جب کہ غیر ممالک کے باذوق اشخاص کی قدر دانی مجھے میسر ہے ۲۸۔ اقبال لاہور واپس پہنچ کر حسب معمول اپنی تگ و دو میں مصروف ہو گئے ۔ گزشتہ دو سالوں میں انہوں نے انجمنِ حمایتِ اسلام کے سالانہ جلسوں میں کوئی نظم نہ سنائی تھی، البتہ انگریزی میں لیکچر دیے تھے، لیکن ۱۹۱۰ء کے سال میں انہوں نے انجمن کے سالانہ اجلاس میں کسی بھی قسم کی شرکت سے گریز کیا۔ وجہ یہ تھی کہ انجمن کے ارباب بست و کشاد میں دھڑے بندی کے سبب اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ متنازع فیہ امور میں دستور العمل بھی شامل تھا۔ اخبارِ’’ وطن ‘‘ کے مدیر مولوی انشاء اللہ خان نے انجمن کے خلاف مقدمات دائر کر رکھے تھے ۔ اقبال کارکنانِ انجمن کے رویے سے بہت مایوس تھے ۔ بہرحال فریقین میں صلح کرانے کی خاطر ۲۹ اپریل ۱۹۱۰ء کو نواب فتح علی خان قزلباش کی صدارت میں چھ افراد پر مشتمل ایک ثالثی مجلس قائم کی گئی ، جس میں اقبال بھی شامل تھے ۔ ثالثی مجلس کا فیصلہ سب نے قبول کیا اور انجمن کے خلاف مقدمات واپس لے لیے گئے۲۹ ۔ اقبال کا یہ دور بے حد مصروفیت کا دور تھا ۔ اس لیے ۱۹۰۸ء سے لے کر ۱۹۱۰ء تک جو معروف نظمیں ’’مخزن‘‘ میں شائع ہوئیں وہ چھ سے زاید نہ تھیں ’’پیامِ عشق‘‘ (اکتوبر ۱۹۰۸ئ) ’’عبدالقادر کے نام‘‘(دسمبر ۱۹۰۸ئ) ’’بلاد اسلامیہ‘‘(اپریل ۱۹۰۹ئ) ’’شکریہ‘‘ (جون ۱۹۱۰ئ) ’’گورستان شاہی‘‘ (جون ۱۹۱۰ئ) اور ’’فلسفہ غم ‘‘ (جولائی ۱۹۱۰ئ) اسی عہد میں چھپیں ، گو ’’ پیامِ عشق‘‘ اور’’ عبدالقادر کے نام‘‘ قیامِ یورپ کے آخری ایام میں تحریر کی گئی تھیں ۔ اس دور میں اقبال نے چند انگریزی مقالات بھی تحریر کیے جن کا جائزہ مناسب مقام پر لیا جائے گا ۔ علاوہ ازیں انہوں نے اپنے افکار ایک بیاض میں نوٹس کی صورت میں جمع کرنے شروع کیے ۳۰ ۔ اقبال کی مشکل یہ تھی کہ معلمی اور وکالت کے دو پیشے بیک وقت اختیار کرنے سے وہ کوئی کام بھی یکسوئی سے نہ کر سکتے تھے ۔ شاعری کی طرف توجہ دینے کا وقت تو نکلتا ہی نہ تھا ۔ ۱۹۱۰ء میں انہیں یہ پیشکش بھی ہوئی کہ گورنمنٹ کالج میں مستقل طور پر شعبۂ فلسفہ کی صدارت قبول کر لیں ۔ لیکن یہ اسی صورت ممکن تھا جب کہ آپ وکالت کے پیشے کو خیرباد کہہ دیتے ۔ احباب سے مشورہ کیا گیا ۔مرزا جلال الدین تحریر کرتے ہیں: ہم سب نے یہی رائے دی کہ سرکاری ملازمت میں اوّل تو قوت عمل کے سلب ہونے کا احتمال ہے ، دوسرے محکمہ تعلیم میں وسعت کے امکانات بہت محدود ہیں ۔ چنانچہ اگر سرکاری ملازمت پر ہی نگاہ ہو تو وکالت ہی کیوں نہ رکھی جائے ، جس میں ترقی کے جملہ مدارج میں جج کا عہدہ بھی ہے۔ اسی پر انہوں نے کالج سے تعلقات منقطع کر لیے اور وکالت پر اکتفا کی۳۱۔ گورنمنٹ کالج کی ملازمت سے اقبال ۳۱ دسمبر ۱۹۱۰ء کو سبکدوش ہو گئے ۔ سبکدوشی کے متعلق وہ کافی عرصہ پہلے ہی سے سوچ رہے تھے ۔ چنانچہ عطیہ فیضی کے نام اپنے ایک خط محررہ ۱۷ جولائی ۱۹۰۹ء میں تحریر کرتے ہیں : حالات نے مجھے مجبور کر دیا ہے کہ میں مختلف امور پر مالی نقطہ نظر سے غور کروں اور یہ نقطہ نظر وہ ہے ، جس سے چند برس پیشتر مجھے دلی کراہت تھی ۔ میں نے طے کر لیا ہے کہ خدائی امداد پر بھروسا کرتے ہوئے اپنے قانونی پیشے کو جاری رکھوں گا ۳۲ ۔ سبکدوشی کے موقع پر کالج کی طرف سے انہیں ایک الوداعی پارٹی دی گئی اور انہوں نے طلبہ کو ’’رابرٹ برائوننگ کی شاعری‘‘ کے موضوع پر اپنا آخری لیکچر دیا ۳۳ ۔بہرحال ملازمت سے مستعفی ہونے کے بعد اقبال کا گورنمنٹ کالج سے کسی نہ کسی حیثیت سے تعلق قائم رہا ۔ وہ اکثر طالب علموں کے مشاعروں کی صدارت کے لیے بلوائے جاتے اور ان میں منصف کے فرائض انجام دیتے ۳۴ ۔ اسی طرح پنجاب یونیورسٹی اور دیگر یونیورسٹیوں سے بھی ان کا تعلق قائم رہا۔ انہوں نے۱۹۰۰ء سے لے کر ۱۹۳۷ء تک مڈل ، انٹرنس ، ایف اے ، بی اے ، ایم اے ، بی او ایل ، ایم او ایل ، ایف ای ایل ، ایل ایل بی وغیرہ ، حتیٰ کہ ای ، ایس ۔ سی اور سول سروس کے امتحانات کے پرچے مرتب کیے ۔ اس کے علاوہ پنجاب ، علی گڑھ ، الہ آباد ، ناگپور اور دہلی یونیورسٹیوں کے ممتحن رہے ،بیت العلوم حیدر آباد دکن کے لیے بھی تاریخ اسلام کے پرچے مرتب کرتے رہے ، وہ عموماً تاریخ ، فلسفہ ، انگریزی ، اردو ، فارسی ، عربی اور قانون کے پرچے بناتے تھے ۔ بعض اوقات زبانی امتحان کے لیے لاہور سے باہر یعنی علی گڑھ ، الہ آباد ، ناگپور وغیرہ بھی جاتے ۔ ممتحن یا ممتحن اعلیٰ کی حیثیت سے کبھی سفارش قبول نہ کرتے اور اگر کوئی عزیز سے عزیز تر دوست بھی سفارش کرنے کی جسارت کرتا تو ناراض ہو جاتے ۳۵۔ اقبال کے گو شوارہ آمدنی کی پڑتال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ممتحن کی حیثیت سے مختلف یونیورسٹیوں کے لیے پرچے ترتیب دینا ان کی آمدنی کا ایک ذریعہ تھا ۳۶۔ پنجاب یونیورسٹی کے ریکارڈ سے عیاں ہے کہ انہیں ۲ مارچ ۱۹۱۰ء کو یونیورسٹی کا فیلو نامزد کیا گیا۳۷۔تب اقبال کا تعلق ابھی گورنمنٹ کالج سے قائم تھا۔ انہوں نے لالہ رام پرشاد پروفیسر تاریخ گورنمنٹ کالج لاہور کے اشتراک سے نصابی کتاب ’’تاریخ ہند‘‘ مرتب کی ، جو ۱۹۱۳ء میں شائع ہوئی۳۸۔رفتہ رفتہ انہیں ممبر اورئینٹل و آرٹس فیکلٹی ، ممبر سینٹ اور ممبر سنڈیکیٹ بنا دیا گیا ۔ کنوینر بورڈ آف سٹڈیز کی حیثیت سے وہ فلسفہ ، عربی اور فارسی کے شعبوں سے متعلق بورڈ کے اجلاسوں میں بھی شریک ہوتے تھے ۔ بورڈ کا کام ان مضامین کے نصاب تیار کرنا ، ماہرین کی خدمات حاصل کرنا ، طلبہ کے مسائل اور ان کا حل تلاش کرنا اور اپنی سفارشات یونیورسٹی سنڈیکیٹ کو پیش کرنا تھا ۔ ۱۹۱۹ء میں اقبال اورئینٹل فیکلٹی کے ڈین منتخب کیے گئے ۳۹۔۱۹۲۳ء میں یونیورسٹی کی اکیڈیمک کونسل کے رکن چنے گئے۴۰۔ اسی سال وہ پروفیسر شب کمیٹی کے رکن بھی مقرر ہوئے ۔ اس کمیٹی کا تعلق یونیورسٹی کے لیے لیکچراروں اور پروفیسروں کی تقرری سے تھا ، یونیورسٹی کے کام کی زیادتی اور اپنی عدیم الفرضی کے پیش نظر انہوں نے اسی سال اکیڈیمک کونسل سے استعفادینا چاہا ، لیکن سر جان مینارڈ وائس چانسلر کی درخواست پر واپس لے لیا ۔ ۱۹۲۴ء میں اقبال یونیورسٹی کی اس کمیٹی کے ممبر نامزد کیے گئے ، جس کا تعلق یونیورسٹی کی انتظامیہ ، مشاورتی کمیٹیوں اور انتخابات وغیرہ کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے تجاویز پیش کرنا تھا۴۱ ۔۱۹۲۵ء میں اقبال کی زیر نگرانی حکیم احمد شجاع نے ان کے نظریات و رجحانات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سلسلۂ ادبیہ کے نام سے چھٹی ، ساتویں اور آٹھویں جماعتوں کے لیے اردو کورس کی تین کتابیں مرتب کیں ، جنہیں ٹیکسٹ بک کمیٹی نے اپنے اجلاس بتاریخ ۱۲ جنوری ۱۹۲۵ء کو نصاب میں شامل کرنے کی منظوری دے دی ۴۲۔ اقبال پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی کے رکن بھی رہے ۔ میٹرک کے طلبہ کے لیے انہوں نے ایک فارسی کتاب ’’آئینہ عجم‘‘ بھی مرتب کی ، جسے میسرز عطر چند کپور انارکلی بازار لاہور نے ۱۹۲۷ء میں شائع کیا ۴۳۔ پنجاب یونیورسٹی سے اقبال کا عملی تعلق ۱۹۲۳ء تک رہا ۔ اس کے بعد دیگر قسم کی مصروفیات یا علالت کے باعث انہوں نے یونیورسٹی کے امور میں دلچسپی لینا چھوڑ دی ۔ ۲۳ نومبر ۱۹۲۹ء میں علی گڑھ انٹر میڈیٹ کالج یونین کی اعزازی لائف ممبر شپ بھی انہیں دی گئی ۔ تقریب میں شرکت کے لیے اقبال علی گڑھ گئے ۴۴۔۲۳؍دسمبر ۱۹۳۴ء کو انہیں علی گڑھ یونیورسٹی کی طرف سے ڈی لٹ کی ڈگری پیش کی گئی ۔ پنجاب یونیورسٹی نے بھی اقبال کی علمی ، ادبی ، تدریسی اور تعلیمی خدمات کے اعتراف کے طور پر ۴ دسمبر ۱۹۳۳ء کو انہیں ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی ۔ ۱۹۳۷ء میں الہٰ آباد یونیورسٹی نے اپنی جوبلی کے موقع پر اقبال کو ڈی لٹ کی ڈگری سے نوازا اور اسی سال عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد دکن سے بھی انہیں ڈی لٹ کی ڈگری موصول ہوئی۴۵ ۔ بہرحال کالج کی ملازمت سے سبکدوشی کے بعد اقبال کی تمام تر توجہ پر یکٹس کی طرف مبذول ہو گئی ۔ کام کے سلسلے میں اب انہیں کبھی کبھار لاہور سے باہر بھی جانا پڑتا ۔ جب وکالت کچھ چلنے لگی تو اقبال نے ایک گگ (بگھی) خرید لی ۔ گھوڑے کی دیکھ بھال کے لیے ایک پوربیا سائیس رکھا ۔ اسی گگ پر ہاتھوںمیں گھوڑے کی باگ تھامے وہ کچہری جایا کرتے تھے ۔ بعض اوقات کچہری سے فارغ ہو کر گگ کو واپس بھیج دیتے اور مرزا جلال الدین کی کار میں بیٹھ کر ان کے دفتر چلے جاتے ۔ مرزا جلال الدین کا ملازم ایک خاص طرز سے مسدِس حالی ستار پر سنایا کرتا تھا ، اسی لیے اقبال اس سے اکثر ’’مسدس‘‘ سنا کرتے۔ اب اقبال کے بے تکلف احباب میں مرزا جلال الدین ، نواب سر ذوالفقار علی خان ، سر جوگندر سنگھ کے علاوہ سردار امرائو سنگھ شیر گل (مشہور آرٹسٹ امرتا شیر گل کے والد) بھی شامل ہو گئے تھے۔ ان کا معمول تھا کہ شام کی چائے نواب سر ذوالفقار علی خان کے ہاں پیتے ، اور زیادہ وقت انہی کے ساتھ گزارتے ۔ کچہری میں تعطیل ہوتی تو دوپہر کا کھانا بھی وہیں کھاتے۔ مرزا جلال الدین کے ہاں بعض اوقات رات کو محفل رقص و سرود بھی برپا ہوا کرتی تھی ۔ اقبال کو راگ رنگ کا شوق تھا ۔ اس لیے ان مجالس میں شامل ہوتے۔ اگر کوئی اپنی وجاہت کی بنا پر ان سے شعر سننا چاہتا تو نہ سناتے ۔ عام طور پر شعر سنانے کے معاملے میں وہ بڑے محتاط واقع ہوئے تھے ۔ چند دوستوں کے سوا کسی کو اپنا کلام نہ سناتے ۔ البتہ اگر کبھی سر عبدالقادر لائل پور سے آ کر محفل میں شریک ہوتے یا گرامی موجود ہوتے تو اقبال اپنے اشعار سناتے اور لطافتِ سخن اور رفعتِ تخیل کی طرف خاص طور پر توجہ دیتے ۔ ان صحبتوں میں ان کی ظرافت پر ور طبیعت اپنے زوروں پر ہوتی، اور زبان سے ایسے ایسے لطیف فقرے چست ہو جاتے یا ایسی دلفریب پھبتیاں نکلتیں کہ احباب پھڑک اٹھتے ، مگر ان کے مذاق میں بیہودہ باتوں کو کوئی دخل نہ تھا ۔ بسا اوقات اقبال پر ایک معنی خیز سکوت سا چھا جاتا اور یوں نظر آتا گویا وہ کسی اور ہی دنیا میں چلے گئے ہیں ، پھر اچانک چونک پڑتے، جیسے نیند سے بیدار ہوئے ہوں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پوتی راجکماری صوفیہ جنداں بمبا، اقبال سے ملنے کی بڑی خواہشمند تھیں ۔ وہ جیل روڈ کی ایک کوٹھی میں رہتی تھیں ۔ ۱۹۱۲ء کی ایک شام سر جو گندر سنگھ، اقبال اور مرزا جلال الدین کو ان کے ہاں لے گئے ۔ درختوں کے ایک جھنڈ میں چائے کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ وہاں راجکماری کی فرمایش پر اقبال نے انہیں چند اردو اشعار سنائے ۔ بمبا اردو سمجھ لیتی تھیں ۔ لیکن شعر سمجھنے کی اہلیت نہ رکھتی تھیں ۔ اس لیے جوگندر سنگھ نے اشعار کا انگریزی ترجمہ کر کے ان کی تشریح کی۔ بمبا کو معلوم ہو گیا تھا کہ اقبال حقے کے شوقین ہیں ، اس لیے انہوں نے اپنے ڈرائیور پیر جی سے حقہ بھروا کر پہلے ہی سے برآمدے کے ایک کونے میں رکھوا دیا تھا ، جب اقبال بیٹھ گئے تو وہ خود اٹھ کر گئیں اور حقہ لا کر اقبال کے آگے رکھ دیا ۔ اقبال نے مرزا جلال الدین کو مخاطب ہو کر کہا کہ دیکھ لو ، رنجیت سنگھ کی پوتی نے اپنے ہاتھ سے ہمیں حقہ پلایا ہے ۔ بمبا نے اقبال کو ایک آدھ بار پھر اپنے ہاں چائے پر بلایا ، کیونکہ ان کی ایک آسٹرین سہیلی فرائولین گوٹسمین اقبال سے ملنے کی آرزو مند تھیں ۔ چند دنوں بعد ایک شام بمبا نے فرائولین گوٹسمین اور اپنی ایک اور یورپین سہیلی کے لیے شالا مار باغ میں چائے کا انتظام کیا، جس میں اقبال بھی مدعو تھے ۔ فرائولین گوٹسمین نے باغ میں سے ایک پھول توڑ کر اقبال کی خدمت میں پیش کیا ، جس سے متاثر ہو کر وہ نظم لکھی گئی جو ’’بانگِ درا‘‘ میں ’’پھول کا تحفہ عطا ہونے پر ‘‘ کے عنوان سے شامل ہے ۔ دوسری سہیلی نے ایک خوبصورت بلی پال رکھی تھی جو اس کی گود میں بیٹھی ہوئی تھی ۔ اقبال نے اس پر بھی نظم ’’۔۔۔۔۔ کی گود میں بلی دیکھ کر ‘‘ کہی ، جو ’’بانگِ درا‘‘ میں موجود ہے ۴۶ ۔ اس زمانے میں پنجاب میں سیاست براے نام تھی ، پھر بھی لاہور میں دو سیاسی دھڑے موجود تھے ، ایک کی قیادت سر محمد شفیع کے ہاتھ میں اور دوسرے کی سر فضل حسین کے ہاتھ میں تھی ۔ دسمبر ۱۹۰۷ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس کراچی میں ہوا ، جس میں سر محمد شفیع اور سر فضل حسین دونوں اپنے اپنے حمایتیوں کے ساتھ شریک ہوئے ۔ اس اجلاس کے نتیجے میں پنجاب میں صوبائی مسلم لیگ قائم ہو گئی ۔ بقولِ عظیم حسین ، میاں شاہ دین اس کے صدر بنے اور سر محمد شفیع سیکرٹری جنرل، لیکن سر فضل حسین نے اپنے حمایتیوں یعنی پیر تاج الدین ، ملک برکت علی ، اقبال ، خلیفہ شجاع الدین ، سرشہاب الدین ، غلام بھیک نیرنگ وغیرہ سمیت عملی طور پر اس نئی صوبائی مسلم لیگ میں حصہ نہ لیا۴۷۔راقم کی رائے میں اس مرحلے پر اقبال کا شمار سر فضل حسین کے حامیوں میں کرنا درست نہیں، کیونکہ اقبال جولائی ۱۹۰۸ء تک یورپ سے واپس نہ آئے تھے ۔ مرزا جلال الدین بیان کرتے ہیں کہ صوبائی مسلم لیگ کے قیام پر میاں شاہ دین صدر ، سر محمد شفیع سیکرٹری جنرل ، مولوی محبوب عالم جائنٹ سیکرٹری ، مرزا جلال الدین اسسٹنٹ سیکرٹری اور ڈاکٹر محمد شریف فنانشل سیکرٹری مقرر ہوئے تھے ۔ جبکہ سر فضل حسین اس کے مخالف تھے ، اس لیے انہوں نے اپنی لیگ الگ بنائی ، جس میں وہ خود ، عبداللہ وکیل ، پیر تاج الدین اور میاں حسام الدین شامل تھے ۔ میاں شاہ دین کے جج بن جانے پر ان کی جگہ سر محمد شفیع صوبائی مسلم لیگ کے صدر بنے۴۸ ۔ اقبال کے میاں شاہ دین ، سر محمد شفیع اور سر فضل حسین سب سے ایک سے دوستانہ مراسم تھے۔ اس کے علاوہ ابھی تک انہوں نے پنجاب کی عملی سیاست میں حصہ لینا شروع ہی نہیں کیا تھا ۔ اس لیے انہوں نے سیاسی پارٹی بازی سے اپنے آپ کو ، جہاں تک ممکن ہو سکا ، الگ تھلگ رکھا ۔ عظیم حسین بیان کرتے ہیں کہ جب نئی دستوری اصلاحات کے پیش نظر صوبے میں سیاسی زندگی کے کچھ آثار نمودار ہوئے اور سر فضل حسین نے پنجاب میں یونینسٹ پارٹی بنائی تو اقبال اس میں شامل ہو گئے تھے ، یہ درست ہے ۔ کہ اقبال نے پنجاب کی عملی سیاست میں ۱۹۲۶ء سے دلچسپی لینا شروع کی تھی ہو سکتا ہے وہ سر فضل حسین کے اصرار پر یونینسٹ پارٹی میں شامل ہو گئے ہوں ، لیکن بقول ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی ، اقبال ۱۹۲۷ء سے ۱۹۳۰ء تک پنجاب قانون ساز کونسل کے رکن رہے اور ان تین سالوں میں انہوں نے یونینسٹ پارٹی کے اندر رہ کر اس جماعت کے طریق کار کو بغور دیکھا ۔ شہری اور دیہاتی چپقلش ، قانون ساز کونسل میں اسی پارٹی نے پیدا کی تھی اور پھر اس چپقلش نے صوبے کی پوری آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ اقبال سے یہ تمام باتیں پوشیدہ نہ رہ سکتی تھیں ۴۹۔ اس لیے بعد میں سیاست کے میدان میں سر فضل حسین اور اقبال میں شدید اختلافات رونما ہوئے اور سر عبدالقادر کے ساتھ دوستی میں بھی وہ گرم جوشی نہ رہی۔ ۱۹۱۱ء تک برصغیر کے بیشتر مسلم قائدین سر سید احمد خان کے بتائے ہوئے رستے پر چلتے ہوئے انگریزی حکومت سے وفاداری کا دم بھرتے تھے ، مگر ۱۹۱۱ء اور ۱۹۱۴ء کے درمیانی عرصے میں بعض ایسے حالات پیدا ہوئے کہ اس اندازِ فکر میں تبدیلی آ گئی۔ مسلم قائدین کو انگریزی حکومت کے ہاتھوں پہلا دھچکا ۱۹۱۱ء میں تقسیم بنگال کی تنسیخ پر لگا۔ مسلم قائدین تقسیم بنگال کے حامی تھے اور انگریزی حکومت نے بھی ۱۹۰۵ء سے لے کر ۱۹۱۱ء تک تنسیخ تقسیمِ بنگال کے ہندو مطالبے کو نظر انداز کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ تقسیم بنگال کا فیصلہ اٹل ہے ، لیکن جب ہندوئوں نے اپنے مظاہروں میں تشدد کا طریقہ اختیار کیا تو انگریزی حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے ۔ تقسیم بنگال کی تنسیخ کا اعلان ۱۹۱۱ء میں قیصر ہند جارج پنجم نے بذات خود دہلی پہنچ کر کیا اور اسی سال سے کلکتے کی بجائے دہلی کو برطانوی ہند کا دارالحکومت بنا دیا گیا ۔ مشرقی بنگال کے مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی کو دور کرنے کے لیے انگریزی حکومت نے وعدہ کیا کہ ڈھاکے میں ایک مسلم یونیورسٹی قائم کی جائے گی ، مگر ہندوئوں نے اس کی بھی مخالفت کی ۔ تقسیم بنگال کی تنسیخ نے خواجہ سلیم اللہ خان نواب آف ڈھاکہ کی سیاسی زندگی کا خاتمہ کر دیا اور وہ کچھ ہی عرصے بعد فوت ہو گئے ۵۰ ۔چنانچہ مسلم قائدین کو پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ اپنے سیاسی مطالبات تسلیم کرانے کی خاطر صرف وفاداری کا دم بھرنا یا آئینی ذرائع اختیار کرنا ہی کافی نہیں ہیں ۔ مولانا شبلی کی نگاہ میں تقسیم بنگال کی تنسیخ مسلمانوں کے چہرے پر ایک ایسا تھپڑ مارنے کے مترادف تھی جس نے ان کے منہ کا رخ پھیر کے رکھ دیا ۵۱ ۔ اسی سال سے عالم اسلام کی صورت حال بھی مزید مخدوش ہونا شروع ہوئی۔ ایران کو برطانیہ اور روس نے اپنے اپنے حلقۂ اثر کے اعتبار سے ۱۹۰۷ء سے آپس میں بانٹ رکھا تھا ۔ ۱۹۱۱ء میں روس اور جرمنی کے درمیان ایک معاہدہ ہوا ، جس کے تحت جرمنی نے ایران پر روس کا حق تسلیم کر لیا ۔ ۱۹۱۲ء میں روس نے مشہد پر بمباری کی اور بعد میں روس اور برطانیہ کی فوجوں نے ایران پر قبضہ کر کے نہ صرف وہاں آئینی تحریک کو کچل دیا بلکہ ایرانیوں کی آزادی بھی سلب کر لی ۔ دوسری طرف ترکی میں ینگ پارٹی یا انجمن اتحاد و ترقی کا لایا ہوا انقلاب بھی ترکی کے ’’ بیمار مرد‘‘ کے لیے شفا کا باعث نہ بن سکا ۔ انجمن کبھی تو سلطنت عثمانیہ کی بنیاد اسلام کے بجائے عثمانیت کو قرار دیتی تھی اور کبھی تورانی اتحاد کا نسلی نعرہ بلند کرتی تھی ۔ اسی دوران میں آسٹریا نے اعلان کیا کہ مشرقی یورپ کے ترکی علاقے ، بوسنیا اور ہرزگو وینا اس کی سلطنت کا جزو ہیں ۔ پھر بلغاریہ نے ترکی سے آزادی کا اعلان کر دیا ۔ ۲۸ ستمبر ۱۹۱۱ء کو اٹلی نے دیگر یورپی طاقتوں سے عدم مداخلت کی یقین دہانی حاصل کر کے طرابلس اور سیرے نائیکہ (لیبیا) پر قبضہ کرلیا ۔ برطانیہ نے مصر کو ترکی کی حمایت میں اٹھنے سے باز رکھا ۔ مگر ترکوں اور وہاں کے مقامی مسلمانوں نے بے شمار جانیں قربان کر کے اطالوی فوج کو ساحلی علاقے کی طرف دھکیل دیا۔ اسی گھمسان کی جنگ میں فاطمہ بنت عبداللہ ، ایک تیرہ سالہ بچی زخمیوں کو پانی پلاتی ہوئی شہید ہوئی ۔ ابھی طرابلس کی جنگ جاری تھی کہ اکتوبر ۱۹۱۲ء میں چار بلقانی ریاستوں یونان ، سربیا ، مانٹی نیگرو اور بلغاریہ نے ترکی پر حملہ کر دیا اور یوں جنگ بلقان شروع ہو گئی ۔ جس کے سبب ترک مشرقی یورپ کے تمام علاقوں سے محروم ہو گئے ۔ اسی سال فرانس نے مراکو پر اپنا تسلط مستحکم کیا ۔ برصغیر کے مسلم قائدین گذشتہ کئی برسوں سے انگریزی حکومت سے استدعا کرتے چلے آ رہے تھے کہ ان کی وفاداری کے باوجود مخالف پالیسی اختیار کرنے سے احتراز کیا جائے ، لیکن انگریزی حکومت نے ان کی ایک نہ سنی نتیجتاً مسلمانان ہند میں ترکی کی حمایت میں بڑا جوش و خروش پیدا ہوا ۔ مولانا محمد علی جوہر کا اردو اخبار ہمدرد اور انگریزی’’ ہفت روزہ ‘‘کا مریڈ ‘‘ مولانا ابوالکلام آزاد کا ’’الہلال ‘‘ اور مولانا ظفر علی خان کا ’’زمیندار‘‘ اسی جوش و خروش کی عکاسی کرتے تھے ۔ انہی مسلم قائدین نے ۱۹۱۲ء میں چند ہ جمع کر کے ایک ہلال احمر مشن ڈاکٹر انصاری کی قیادت میں ترکی بھیجا ۔ ۱۹۱۱ء میں اقبال بھی اپنے گردو نواح سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ، اور اپنی ذاتی محرومیوں ، مسلمانان ہند کی مایوسیوں اوردنیائے اسلام پر پے در پے نازل ہوتی ہوئی مصیبتوں کے ردِّ عمل کے طور پر ان کا جذبِ اندروں ’’شکوہ‘‘ جیسی معرکۃ الآرا نظم کی صورت میں پھوٹ نکلا ۔ نظم ’’شکوہ ‘‘ ریواز ہوسٹل اسلامیہ کالج کے صحن میں منعقدہ انجمنِ حمایتِ اسلام کے اپریل ۱۹۱۱ء والے سالانہ اجلاس میں پڑھی گئی ۔ انجمن کے جلسوں میں پڑھی جانے والی اقبال کی نظمیں عموماً چھپوا کر لائی جاتی تھیں ، مگر اس مرتبہ نظم کے متعلق پردہ داری سے کام لیا گیا ۔ مرزا جلال الدین تحریر کرتے ہیں : ڈاکٹر صاحب اپنے خاص دوستوں کی صحبت میں عموماً تازہ اشعار بلا کسی فرمائش کے خود بخود سنا دیا کرتے ، مگر جس زمانے میں وہ ’’شکوہ‘‘ لکھ رہے تھے ، انہوں نے حد درجہ خاموشی سے کام لیا ۔ جس شام انجمنِ حمایتِ اسلام کے سالانہ جلسے میں فقیر سید افتخار الدین مرحوم کی صدارت میں آپ یہ نظم سنانے والے تھے ، اسی شام آپ اپنے والد صاحب کے ہمراہ میرے ہاں مدعو تھے۔ ہم کھانا ختم کر رہے تھے کہ انجمن کے سیکرٹری صاحب مع چند اراکین کے ہاپنتے ہوئے تشریف لائے اور پریشانی کے عالم میں کہا کہ نظم کا وقت شروع ہونے والا ہے اور سامعین شدت سے انتظار کر رہے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب فی الفور اٹھ کھڑے ہوئے اور ہم سمجھ گئے کہ اس مرتبہ کوئی معرکۃ الآرا نظم ہو گی ، جس کے لیے اس قدر پردہ داری سے کام لیا گیا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب پنڈال میں داخل ہوئے تو ہمیشہ کی طرح اللہ اکبرکے فلک شگاف نعروں سے ان کا استقبال کیا گیا ۔ اس کے بعد تالیوں کے شور میں ڈاکٹر صاحب نظم سنانے کے لیے اٹھے ۵۲۔ اقبال نے شلوار اور چھوٹا کوٹ پہن رکھا تھا ۔ سر پر ترکی ٹوپی تھی ۔ سب سے پہلے انہوں نے ایک قطعہ تحت اللفظ پڑھا ، جس کے دو مصرعے یہ تھے: ڈھب مجھے ، قوم فروشی کا نہیں یاد کوئی اور پنجاب میں ملتا نہیں استاد کوئی جب نظم پڑھنے لگے تو مختلف اطراف سے صدائیں بلند ہونے لگیں کہ ترنم سے پڑھیے ۔ کیونکہ انجمن کے جلسوں میں اقبال عموماً اپنی نظمیں ترنم سے پڑھا کرتے تھے ، سو ’’شکوہ ‘‘ ترنم سے پڑھی گئی ۵۳۔ سر عبدالقادر جو جلسے میں موجود تھے ، رقم طراز ہیں : اقبال نے اپنی مشہور نظم ’’شکوہ‘‘ اپنے خاص انداز میں پڑھی ۔ بہت لوگوں کو یاد ہو گا ، جب کیف غم کا سماں جلسے پر چھایا ہوا تھا ۔ ان کے بہت سے مداح پھولوں سے جھولیاں بھر کر لائے تھے اور جب وہ پڑھ رہے تھے تو ان پر پھول برسا رہے تھے۔ اس وقت کی ایک اور بات خاص طور پر قابل دید تھی کہ اقبال کا معمر باپ اس نظم کے سننے والوں میں موجود تھا ۔ باپ کی آنکھوں میں بیٹے کی کامیابی دیکھ کر خوشی کے آنسو تھے مگر لبوں پر تاثیر کلام سے وہی علامات غم تھیں جو بیٹے کے چہرے پر تھیں ۔ درحقیقت یہ خصوصیت بیٹے نے باپ سے ورثے میں پائی تھی ۔ اقبال کے والد ایک صوفی منش بزرگ تھے ، مگر ان کا رنگ تصوف ایسا نہ تھا کہ ان کو زندگی کے روز مرہ فرائض سے بے پروا کر دے ۔ ساری عمر اپنی دس انگلیوں کی محنت سے روزی کمائی ۔ ’دل بہ یار دوست بکار‘ پر ان کا عمل تھا ۔ دل خدا کی طرف اور ہاتھ کام پر لگے رہتے تھے ۵۴ ۔ اقبال جب نظم پڑھ چکے تو ان کے مداح خواجہ عبدالصمد ککڑو رئیسِ بارہ مولا آ گے بڑھے اور جوشِ مسرت میں اپنا قیمتی دوشالہ اقبال کے شانوں پر ڈال دیا ۔ اقبال نے یہ دوشالہ انجمن کے منتظمین کو دے دیا ۔ دوشالہ مجمع عام میں نیلام ہوا اور سب سے بڑی بولی ختم ہونے پر جو رقم وصول ہوئی ، انجمن کی تحویل میں دے دی گئی ۵۵ ۔ ۱۹۱۱ء کے سال میں اقبال نے کئی معروف نظمیں کہیں ۔ ’’ترانہ ملی‘‘ اسی دور کی پیداوار ہے۔ ۶ اکتوبر ۱۹۱۱ء کو انہوں نے بادشاہی مسجد لاہور میں مسلمانوں کے مجمع عام میں اپنی نظم ’’حضور رسالت مآب میں ‘‘ پڑھی یہ نظم ان نظموں میں سے ایک ہے جو جنگِ طرابلس سے متاثر ہو کر لکھی گئیں۔ جنگِ طرابلس میں ترکوں کی فتح کے بارے میں اکبر الٰہ آبادی کے نام اپنے خط محررہ ۹ نومبر ۱۹۱۱ء میں تحریر کرتے ہیں : ترکوں کی فتح کا مژدئہ جاں فزا پہنچا ، مگر اس کا کیا علاج کہ دل کو پھر بھی اطمینان نہیںہوتا ۔ معلوم نہیں روح کیا چاہتی ہے اور آنکھوں کو کس نظارے کی ہوس ہے ۔ میں ایک زبردست تمنا کا احساس اپنے دل میں کرتا ہوں۔گو اس تمنا کا موضوع مجھے اچھی طرح سے معلوم نہیں۔ ایسی حالت میں مجھے مسرت بھی ہو تو اس میں اضطراب کا عنصر غالب رہتا ہے۵۶ ۔ دسمبر ۱۹۱۱ء میں آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس نے فیصلہ کیا کہ اقبال کو کانفرنس کے اجلاس کی صدارت کے لیے دہلی مدعو کیا جائے اور انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے مولانا شبلی ان کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالنے کی رسم ادا کریں ۔ اقبال نے دعوت قبول کر لی اور کانفرنس کے اجلاس میں شرکت کے لیے دہلی گئے ۔ اجلاس میں مولانا شبلی ، مولانا شاہ سلیمان پھلواروی ، سیّد سجاد حیدر یلدرم اور خواجہ کمال الدین کے علاوہ ، سرآغا خان ، سید حسین بلگرامی ، اعیان و ار کان حکومت ، رہبران و فرمان روایان ریاستہاے ہند اور برصغیر کی دیگر مسلم برگزیدہ ہستیاں موجود تھیں۔ اقبال نے کانفرنس کے اجلاس کی تیسری نشست کی صدارت کی مگر جس نشست میں ان کے گلے میں ہار پہنانے کی رسم ادا کی جانے والی تھی ، اس کی صدارت مولانا شاہ سلیمان پھلواروی نے کی ۔ اس اجلاس میں خواجہ کمال الدین نے ’’اسلام اور علومِ جدیدہ ‘‘ کے موضوع پر لیکچر دیا اور اپنی تقریر کے اختتام پر اقبال کو مخاطب کر تے ہوئے کہا : کہاں ہے تو ڈاکٹر اقبال ! خداے تعالیٰ تجھے دین و دنیا میں با اقبال کرے۔ تیرے نادر قواے ذہنی ابھی دنیا کی نظروں سے چھُپے ہوئے ہیں۔ تجھ میں وہ ذہنی قابلیتیں اور استعدادیں ہیں کہ ان کا ٹھیک استعمال بقائے دوام کا تاج تیرے سر پر رکھ سکتا ہے ، لیکن یہ خاص الخاص قویٰ تجھے اس لیے عطا نہیں ہوئے ۔ کہ تو فی کل واد یھیمون کا مصداق بن کر ایک بے ثمر باغ میں جس کا نام مشاعرہ ہے ، گلگشت کرے۔ اب وقت ہے ، اٹھ ! اور حقیقی تلمیذ الرحمن بن ! عالم سفلی کو چھوڑ اور طائرِ قدس ہو جا! تجھے اگر مغربی حکمت و فلسفہ انہوں نے سکھا کر ڈاکٹر کا خطاب دیا تو یہ قرضہ ترانوں اور نغموں سے ادا نہیں ہو سکتا ۔ اس کا معاوضہ یہ ہے کہ تو قرآن کو کھولے اور اس کے دریاے حقیقت میں غوطہ لگائے اور اس سے حکمت و فلسفہ حَقّہ کے دُرِّ شہوار نکالے ۔۔۔۔ کیا یہ بات درست ہے، جو چند دن ہوئے اٹلی اور ترکی کی جنگ کے متعلق لیکچر دیتے ہوئے اس بیسویں صدی کے ایک شقی ازلی شریڈن نے کہی اور ہمارے دل کو کباب کیا کہ اسلام ہمیشہ ہی بے ثمر رہا ، اور اس سے نسل انسانی کو کبھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا اور یہ کہ اسلام کا نام و نشان مٹنا ہی اچھا ہے۔ یہ جرمنوں کے سامنے ان کو دھوکا دینے کے لیے اور ان کی نگاہ میں اٹلی کی قزاقی کا جواز ثابت کرنے کے لیے اس بیسویں صدی کا بڑے سے بڑا کذب بولا گیا ۔ کیا یہ بہتر سے بہتر وقت جرمن کا قرضہ اتارنے کا نہیں؟ دیکھ یورپ کیا اور اس کا فلسفہ کیا ہے : یہ سب کا سب مال مسروقہ ہے اور بیرسٹر اقبال ، آمیرے ساتھ وکالت میں شامل ہو اور ہم بحیثیت منصبی اس مال کو اپنے گھر کا مالِ مسروقہ ثابت کریں ۔ تجھے خدا نے بے نظیر قابلیتیں اس لیے نہیں دیں کہ تو لفظی موشگافی میں پڑے اور اپنے شعروں سے ہمیں خوش کرے ۔ تیرے گانے کا یہ وقت نہیں ، یہ عملی کام کا وقت ہے ۔ وہ ہار جو قوم تیرے گلے میں عملاً ڈال رہی ہے اور تو اس کا حقیقی طور پر مستحق ہے وہ ان گلہائے فردوس بریں کے مقابل کیا حقیقت رکھتے ہیں ، جو خدمت قرآن تیرے لیے وقف کر سکتی ہے ۔ قوم تجھے ملک الشعراء بنانا چاہتی ہے اور وہ ایسا کرنے میں غلطی پر ہے اور تو پست ہمت ہو گا اگر اس پر قانع ہوا میں تجھ میں رازی اور غزالی کا بروز دیکھنا چاہتا ہوں ۵۷ ۔ خواجہ کمال الدین کے جواب میں اقبال نے اپنی تقریر میں کہا: خواجہ صاحب نے جو تقریر اس وقت کی ہے ، وہ نہایت دلچسپ اور معنی خیز ہے ۔۔۔۔ اس زمانے میں مسلمانوں نے اس مبحث پر بہت کچھ لکھا ہے کہ اسلام اور علوم جدیدہ کے مابین کیا تعلق ہے ؟ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اسلام مغربی تہذیب کے تمام عمدہ اصولوں کا سرچشمہ ہے ۔ پندرہویں صدی عیسوی میں جب سے کہ یورپ کی ترقی کا آغاز ہوا ، یورپ میں علم کا چرچا مسلمانوں ہی کی یونیورسٹیوں سے ہوا تھا ۔ ان یونیورسٹیوں میں مختلف ممالکِ یورپ کے طلبہ آ کر تعلیم حاصل کرتے اور پھر اپنے اپنے حلقوں میں علوم و فنون کی اشاعت کرتے تھے ۔ کسی یورپین کا یہ کہنا کہ اسلام اور علوم یک جا نہیں ہو سکتے ، سراسر ناواقفیت پر مبنی ہے اور مجھے تعجب ہے کہ علومِ اسلام اور تاریخِ اسلام کے موجود ہونے کے باوجود کوئی شخص کیونکر یہ کہہ سکتا ہے کہ علوم اور اسلام ایک جگہ جمع نہیںہو سکتے ۔ بیکن ، ڈی کارٹ اور مل ، یورپ کے سب سے بڑے فلاسفر مانے جاتے ہیں ، جن کے فلسفے کی بنیاد تجربے اور مشاہدے پر ہے ، لیکن حالت یہ ہے کہ ڈی کارٹ کا میتھڈ (اصول) امام غزالی کی احیاء العلوم میں موجود ہے اور ان دونوں میں اس قدر تطابق ہے کہ ایک انگریز مؤرخ نے لکھا ہے کہ اگر ڈی کارٹ عربی جانتا ہوتا تو ہم ضرور اعتراف کرتے کہ ڈی کارٹ سرقہ کا مرتکب ہوا ہے ۔ راجر بیکن خود ایک اسلامی یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ تھا ۔ جان اسٹوارٹ مل نے منطق کی شکل اوّل پر جو اعتراض کیا ہے ، بعینہٖ وہی اعتراض امام فخر الدین رازی نے بھی کیا تھا اور مل کے فلسفے کے تمام بنیادی اصول شیخ بو علی سینا کی مشہور کتاب شفاء میں موجود ہیں ۔ غرض یہ کہ تمام وہ اصول جن پر علومِ جدیدہ کی بنیاد ہے ، مسلمانوں کے فیض کا نتیجہ ہیں ، بلکہ میرا دعویٰ ہے کہ نہ صرف علومِ جدیدہ کے لحاظ سے بلکہ انسان کی زندگی کاکوئی پہلو اور اچھا پہلو ایسا نہیں ہے کہ جس پر اسلام نے بے انتہا روح پرور اثر نہ ڈالا ہو ‘‘۔ اس کے بعد سجاد حیدر یلدرم نے مولانا شبلی سے درخواست کی کہ وہ اقبال کو پھولوں کے ہار پہنائیں ۔ مولانا شبلی نے اپنی مختصر سی تقریر میں فرمایا : یہ رسم کوئی معمولی رسم نہیں ہے اور اس کو محض تفریح نہ تصور کرنا چاہیے ہم مسلمانوں کا یہ شعار رہا ہے کہ ہم جس قدر قوم کی دی ہوئی عزت اور خطابات کی قدر کرتے رہے ہیں، اتنی کسی اور عزت کی شہرت ہمارے ناموں کے ساتھ نہیں ہوئی ۔۔۔۔ جو عزت قوم کی طرف سے آج ڈاکٹر اقبال کو دی جاتی ہے وہ ان کے لیے بڑی عزت اور فخر کی بات ہے اور حقیقت میں وہ اس عزت کے مستحق ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے اقبال کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈالا۔ اقبال نے اس عزت افزائی کے لیے قوم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا : میری نظموں کے متعلق بعض ناخدا ترس لوگوں نے غلط باتیں مشہور کر رکھی ہیں اور مجھ کو پان اسلام ازم کی تحریک پھیلانے والا بتایا جاتا ہے ۔ مجھ کو پان اسلامسٹ ہونے کا اقرار ہے اور میرا یہ اعتقاد ہے کہ ہماری قوم ایک شاندار مستقبل رکھتی ہے اور جو مشن اسلام کا اور ہماری قوم کا ہے ، وہ ضرور پورا ہو کر رہے گا شرک اور باطل پرستی دنیا سے ضرور مٹ کر رہے گی اور اسلامی روح آخر کار غالب آئے گی ۔ اس مشن کے متعلق جو جوش اور خیال میرے دل میں ہے ، اپنی نظموں کے ذریعے قوم کو پہنچانا چاہتا ہوں اور اس سپرٹ کے پیدا ہونے کا خواہشمند ہوں جو ہمارے اسلاف میں تھی کہ باوجود دولت و امارت کے وہ اس دار فانی کی کوئی حقیقت نہ سمجھتے تھے ۔ میں جب کبھی دہلی آتا ہوں تو میرا یہ دستور رہا ہے کہ ہمیشہ حضرت نظام الدین ؒ محبوب الٰہی کے مزار پر جایا کرتا ہوں اور وہاں کے دیگر مزارات وغیرہ پر بھی ہمیشہ حاضر ہوا کرتا ہوں ۔ میں نے ابھی ایک شاہی قبرستان میں ایک قبر پر الملک للہ کا کتبہ لکھا ہوا دیکھا ۔ اس سے اس اسلامی جوش کا اظہار ہوتا ہے ، جو دولت اور حکومت کے زمانے میں مسلمانوں میں تھا ۔ جس قوم اور جس مذہب کا یہ اصول ہو، اس کے مستقبل سے نا امیدی نہیں ہو سکتی اور یہی وہ پان اسلام ازم ہے ، جس کا شائع کرنا ہمارا فرض ہے اور اسی قسم کے خیالات کو میں اپنی نظموں میں ظاہر کرتا ہوں۔ جلسے کے اختتام پر صاحبِ صدر مولانا شاہ سلیمان پھلواروی نے اپنے خطبۂ صدارت میں اقبال کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا : ایک اور قابلِ ذکر امر میرے عزیز دوست ، فخر قوم ، پروفیسر اقبال صاحب کو ان کی قومی شاعری کی سند میں پھولوں کے ہار پہنائے جانے کابھی ہے ۔ اس کے متعلق میں قرآن سے کیا فیصلہ دوں ۔ وہاں تو فرمایا گیا ہے والشعراء یتبعھم الغاؤن مگر نہیںنہیں! یہ تو ایّام جاہلیت کے ان شعراء کی نسبت کہا گیا ہے ، جن کی شاعری کا مایۂ ناز ہزلیات ، ہجو و مذمت ، غیر مہذب اور مخربِ اخلاق باتیں تھیں ، لیکن ڈاکٹر اقبال ان شاعروں میں ہیں ، جن کو اسی آیت کے آگے الا الذین امنوا سے مستثنیٰ کر دیا گیا ۔ یہ ان لوگوں میں ہیں،جن کی شان یہ بتائی گئی کہ فبشر عبادی الذین یسمعون القول فیتبعون احسنہ! مسٹر اقبال تو احسن القول والے ممدوح شاعر ہیں۔ ان کی قومی شاعری اب اس عام مقبولیت کو پہنچ گئی ہے کہ قومی جلسوں میں ، مولود اور وعظ کی محفلوں میں ان کے قومی ترانے اور ان کی نعتیہ نظمیں پڑھی جاتی ہیں۔ اقبال کی شاعری کا رنگ ڈھنگ اگلے شعراء سے نرالا ہے ۔ اگلے شاعروں کی سخاوت و دریا دلی اس درجہ بڑھی ہوئی تھی کہ محبوب کے خال پر سمرقند و بخارا نثار کرتے تھے ۔ بخال ہندوش بخشم سمر قند و بخارا را ، اگرچہ اب یہ ملک چونکہ مسلمانوں کے قبضہ سے نکل کر روس کی عملداری میں ہیں، اس لیے یوں کہنا زیبا ہے ۔ بخال روسیہ بخشم سمر قند و بخارا را ۔ مگر پروفیسر اقبال صاحب کی عالی خیالی سنیے کہ ایک طرف تو طرابلس قبضہ سے نکلا جاتا ہے ، ایک طرف ایران معرض خطر میں ہے ، مگر ان کا ترانہ یہ ہے کہ زمین ہماری ، آسمان ہمارا ، چین ہمارا ، ہندوستان ہمارا، یہاں تک کہ مسلم ہیں ہم وطن ہیں سارا جہاں ہمارا ۔ خیر ہم بھی کہتے ہیں کہ خدا کرے سارا جہاں تمہارا ہو جائے اور کوئی نہ ہو تو ہم تمہارے ہیں ۔۔۔۔ اقبال صاحب کے لیے یہ موقع بہت ہی مبارک ہے اور ہمیں بھی بڑی مسرت ہے کہ اس جلسے میں انہوں نے علامہ شبلی کے مقتد ر ہاتھوں سے پھولوں کے ہار پہنے نام بھی مبارک ، کام بھی مبارک ، پھولوں کا ہار بھی مبارک اور ہار ڈالنے والے کا دستِ کرم بھی مبارک۔ ہندوئوں کے دبائو کے تحت تقسیمِ بنگال کی تنسیخ مسلمانوں کے لیے بلاشبہ ایک اہم سبق تھا ۔ قیصر ہند جارج پنجم کی رخصتی کے بعد اس سلسلے میں یکم فروری ۱۹۱۲ء کو باغِ بیرونِ موچی دروازہ مسلمانوں کا ایک جلسۂ عام ہوا ، جس میں اقبال نے تقریر کرتے ہوئے کہا: مسلمانوں کو اپنی ترقی کے لیے خود ہاتھ پائوں مارنے چاہییں ۔ ہندوئوں کو اب تک جو کچھ ملا ہے ، محض اپنی کوششوں سے ملا ہے ۔ اسلام کی تاریخ کو دیکھو ، وہ کیا کہتی ہے ۔ عرب کے خطے کو یورپین معماروں نے ردی اور بیکار پتھر کا خطاب دے کر یہ کہہ دیا تھا کہ اس پتھر پر کوئی بنیاد کھڑی نہیں ہو سکتی ۔ ایشیاء اور یورپ کی قومیں عرب سے نفرت کرتی تھیں ، مگر عربوں نے جب ہوش سنبھالا اور اپنے کس بل سے کام لیا تو یہی پتھر دنیا کے ایوان تمدن کی محراب کی کلید بن گیا اور خدا کی قسم روما جیسی با جبروت سلطنت عربوں کے سیلاب کے آگے نہ ٹھہر سکی ۔ یہ اس قوم کی حالت ہے جو اپنے بل پر کھڑی ہوئی۵۸ ۔ ۱۶ اپریل ۱۹۱۲ء کو انجمنِ حمایتِ اسلام کے سالانہ اجلاس میں اقبال نے اپنی مشہور نظم ، ’’شمع و شاعر‘‘ ، پڑھ کر سنائی ۔ نظم چونکہ طویل تھی ، اس لیے دونشستوں میں سنائی گئی ۔ سامعین کی تعداد دس ہزار کے لگ بھگ تھی ۔ نظم پڑھنے سے پہلے انہوں نے اپنی تقریر میں کہا: جو نظم پچھلے سال لکھی تھی وہ ’’شکوہ ‘‘ تھا اور اس میں خدا کی شکایت تھی اور بعض لوگوں نے اسے برا خیال کیا اور یہ سمجھا کہ یہ بہت بڑی جسارت ہے ۔ میں نے بھی یہی خیال کیا لیکن پھر بھی وہ اس قدر مقبول عام ہوئی کہ آج تک کئی ہزار خطوط اس کی تعریف میں میرے پاس آ چکے ہیں ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہی بات جو لوگوں کے دلوں میں تھی ، وہ ظاہر کر دی گئی ، لیکن میں خیال کرتا ہوں کہ میرا شکوہ خدا کو بھی پسند آیا ، خیر اگر وہ نہ بھی بخشے تو میں تو یہی کہوں گا: یہ بھی رحمت ہے تری ، تو نے دیا دوزخ مجھ کو میرے مکافات کی تو یہ بھی جگہ نہ تھی اس لیے میں نے خود ایک سزا تجویز کی ہے کہ اپنی شکایت کروں ، تاکہ معاوضہ ہو جائے ۔ میں اپنی نظم کی طرف خاص توجہ انگریزی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو دلاتا ہوں ۔میرا شعر لکھنا خاص خاص احساس کا ایک نمونہ ہے ۔ میری آج کی نظم ایسی جامع ہے ، جس میں مشکلات کی تصویر اور ان کے حل کرنے کا نسخہ درج ہو گا ۔ اس لیے آپ اس کو دونوں حیثیتوں سے دیکھیں ۔ ایک شاعرانہ پہلو سے ، دوسرے تجاویز نسخہ کے لحاظ سے اور اس لیے عرض ہے کہ تعلیم یافتہ خاص کر توجہ فرمائیں۔ یہ زمانہ اہل اسلام کی تاریخ میں سخت پولیٹیکل ٹائم ہے ۔ خدا کے واسطے تم توجہ کرو اور اسلام کی عزت بڑھانے کے لیے پوری سرگرمی سے کام لو ۔ میری نظم کا عنوان ’’شمع و شاعر‘‘ کا مناظرہ ہے۔ اقبال نے نظم کا آغاز کیا تو صدائیں بلند ہونے لگیں ، ترنم ، ترنم ،لیکن اقبال نے کہا کہ وہ خود ہی بہتر سمجھتے ہیں کہ نظم گا کر پڑھنا چاہیے یا تحت الفظ ۔ یہ نظم ایسی ہے کہ گا کر نہیں پڑھی جا سکتی ۔ اس کے بعد نظم شروع ہو گئی ۔ اس سال برصغیر کے لیے لازمی تعلیم کابل امپیریل قانون ساز کونسل میں پیش ہوا ۔ اس کی حمایت میں ایک جلسہ لاہور میں بھی ہوا ، جس کی صدارت اقبال نے کی ۔ انہوں نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا : لفظ جبر سے کسی کو کھٹکنا نہیں چاہیے ۔ جس طرح چیچک کا ٹیکا لازمی اور جبری قرار دیا گیا ہے اور یہ لزوم و جبر اس شخص کے حق میں کسی طرح مضر نہیں ہو سکتا جس کے ٹیکا لگایا جاتا ہے ، اسی طرح جبر یہ تعلیم بھی قابلِ اعتراض متصور نہیں ہو سکتی ۔ جبریہ تعلیم بھی گویا روحانی چیچک کا ٹیکا ہے ۔ اسلام میں جبر کی تعلیم موجود ہے ۔ مسلمانوں کو حکم ہے کہ اپنے بچوں کو زبر دستی نماز پڑھائیں۶۰۔ ’’شکوہ‘‘ پر بعض علماء نے اعتراض کیا تھا کہ نظم کا لب و لہجہ گستاخانہ ہے ۔ اقبال نے اس کی تلافی ’’جوابِ شکوہ‘‘ میں کی جو ۱۹۱۳ء میں موچی دروازے کے باہر باغ میں ایک بہت عظیم الشان جلسے میں عوام کے جم غفیر کے سامنے جنگِ بلقان کے ترک مجاہدین کے لیے چندہ جمع کرنے کی خاطر پڑھی گئی ۔ اس نظم کا ایک ایک شعر نیلام ہوا اور ایک بھاری رقم بلقان فنڈ کے لیے جمع ہو گئی ۔ تقسیم بنگال کی تنسیخ اور ترکی سے متعلق انگریزی حکومت کے رویے سے مسلمان پہلے ہی بہت رنجیدہ تھے ۔ اس پر ۱۹۱۳ء میں سانحۂ کانپور نے صورت حالات مزید خراب کر دی ۔کانپور کی سول انتظامیہ نے کسی سڑک کو سیدھی کرنے کی غرض سے ، مقامی مسلمانوں کے احتجاج کے باوجود ، ایک مسجد کا کوئی حصہ شہید کر دیا ۔ اس سے مسلمانوں کے جذبات سخت مجروح ہوئے اور ایک جلوس کی شکل میں مسجد تک پہنچ کر انہوں نے منہدم دیواروں کو از سر نو تعمیر کرنا شروع کر دیا ۔ اسی اثنا میں انگریز ڈپٹی کمشنر پولیس کی نفری کے ساتھ موقع پر پہنچا اور بغیر کسی تنبیہ کے گولی چلانے کا حکم دے دیا ، جس کے نتیجے میں چند بچوں سمیت کچھ مسلمان شہید ہو گئے اور کئی گرفتار ہوئے ۔ اس سانحے کے باعث سارے مسلم ہند میں صدائے احتجاج بلند ہونے لگی ۔ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شبلی کی تحریک سے شہدا کے پس ماندگان کے لیے چندہ اکٹھا کیا گیا اور جب گرفتار شدگان کے لیے قانونی امداد کی اپیل ہوئی تو اقبال بھی مرزا جلال الدین کے ساتھ ، ستمبر ۱۹۱۳ء کو کانپور پہنچے ۔ مسجد کے حصے کی شہادت کے سلسلے میں خواجہ حسن نظامی کی معیت میں کانپور کے کلکٹر سے ملے ۔ ۸ ستمبر کو الہٰ آباد گئے اور اکبر الٰہ آبادی سے ملاقات کی ۔ پھر دہلی پہنچ کر حکیم اجمل خان سے ملتے ہوئے لاہور واپس آ گئے ۔ تقسیم بنگال کے خلاف ہندوئوں کی دہشت انگیزی سے خائف ہو کر مسلم قائدین نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کی خاطر آل آنڈیا مسلم لیگ قائم کی تھی اور ۱۹۰۹ء میں مارلے منٹو اصلاحات کے تحت جدا گانہ انتخاب کا اصول بھی جزوی طور پر نافذ کرانے میں کامیاب ہوگئے تھے لیکن بدلی ہوئی صورتِ حال میں مسلم قائدین کے انگریزی حکومت کے ساتھ مسلسل وفادارانہ رویے کے سبب مسلم لیگ کی قیادت پر سے پڑھے لکھے مسلمانوں کا اعتبار اٹھتا جا رہا تھا ، اور ان میں یہ اندازِ فکر پیدا ہو رہا تھا کہ انگریز پر انحصار کرنا بیکار ہے ۔ بلکہ اس سے اپنے مطالبات منوانے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ ہندووں سے مفاہمت کی جائے اس رجحان کے روکنے کے لیے وقار الملک نے ، سرسید احمد خان کے صحیح جانشین کی حیثیت سے چند مضامین بھی تحریر کیے ، مگر ان کا جواب ۱۹۱۲ء میں مولانا شبلی نے ، مسلمانوں کو ’’پولیٹیکل کروٹ ‘‘ کے زیر عنوان سیاسی مضامین کے ایک سلسلے میںدیا اور مسلم لیگ پر کڑی نکتہ چینی کی۔ مولانا شبلی نے تحریر کیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ مسلمان اپنی آنکھیں کھولیں ۔ جو سیاست ان کے کانوں میں روزِ ولادت سے کلمۂ توحید کی طرح ڈالی جاتی رہی ہے ، یہی ہے کہ ابھی وقت نہیں آیا ۔ پہلے انہیں اپنے آپ میں سیاست سمجھنے کی اہلیت پیدا کرنی چاہیے ۔ سب سے اہم ضرورت تعلیم کی تحصیل ہے، وہ اقلیت میں ہیں ، اس لیے انتخاب کا طریقہ ان کے لیے فائدہ مند نہیں ۔ یہ فقرے بار بار دہرائے گئے ہیں اور ہر ایک کے ذہن نشین ہو گئے ہیں۔ ہر مسلمان بچہ انہی خیالات کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اور ساری عمر انہی خیالات کا پابند رہتا ہے اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ جب کبھی بھی مسلم نوجوان سیاست پر آپس میں بحث کرتے ہیں تو یہی فقرات گراموفون کے ریکارڈ کی طرح دہراتے ہیں ۔ آئیڈیل ہی ایک ایسی شے ہے جو دنیا میں انسانوں کو عمل پر اکساتی ہے ۔ مسلمانوں کا آئیڈیل کیا ہے ؟ ان کا نصب العین کیا ہے ؟ یونیورسٹیوں سے ڈگریاں حاصل کر کے انگریزی حکومت کی ملازمت اختیار کرنا ۔ کیا یہ آئیڈیل ان میں بلند اور ارفع جذبات پیدا کر سکتا ہے ؟ کیا یہ نصب العین ان کے دلوں میں اعلیٰ مقاصد کی تحصیل کے لیے تمنا پیدا کر سکتا ہے ؟ مسلمانوں کے پست نظریات نے انہیں بے حد نقصان پہنچایا ہے ۔ ان میں سیاسی شعور کی نشو و نما روک دی گئی ہے ۔ اسی سبب ان کی سیاسی لغت میں آزادی کے لیے جدوجہد کرنے کے معنی بغاوت ہیں ۔ بہرحال غفلت کا دور گزر چکا ۔ اب مسلمانوں میں سیاسی شعور پیدا ہو گیا ہے اور یہ فیصلہ کرنا باقی ہے کہ اس نئی زندگی میں انہیں کیا لائحۂ عمل اختیار کرنا چاہیے؟ اگر سر سید احمدخان نے انہیں کانگرس میں شامل ہونے سے منع کیا تو مصلحتِ وقت کے تحت یہ مشورہ درست تھا لیکن کیا مسلمانوں کو اپنے قدموں پر کھڑا نہ ہونا چاہیے؟ اپنا رستہ خود تلاش نہ کرنا چاہیے ؟ مسلمانوں اور ہندووں کے بعض اغراض مشترک ہیں اور بعض غیر مشترک اس لیے ضروری ہے کہ ان کا ایک اپنا سیاسی پلیٹ فارم ہو ۔ مولانا شبلی نے لکھا : اس موقع پرآ کر دفعتہ ہمارے سامنے ایک چیز نمودار ہوتی ہے ’’ مسلم لیگ‘‘ یہ عجیب الخلقت کیا چیز ہے؟ کیا یہ پالیٹکس ہے ؟ خدانخواستہ نہیں ۔ اینٹی کانگرس ہے ؟ نہیں ۔ کیا ہائوس آف لارڈز ہے؟ ہاں! سوانگ تو اسی قسم کا ہے ۔۔۔۔ پالیٹکس کی بحث میں ہمارا سب سے بڑا اور مقدم کام یہ ہے کہ یہ سمجھا دیا جائے کہ مسلم لیگ نہ آج بلکہ ہزار برس کے بعد بھی پالیٹکس نہیں بن سکتی ۔۔۔۔ جس گروہ کے نزدیک صرف زبان سے کوئی لفظ بول دینا پالیٹکس ہے ، وہ کیونکر پالیٹکس کی حقیقت سمجھ سکتا ہے ۔ پالیٹکس ایک سخت قومی احساس ہے ۔ اس کا ظہور بیگار کے طریقے پر نہیں ہوتا ۔ یہ احساس جب دل میں پیدا ہوتا ہے تو دل و دماغ اور اعضاء سب مصروفِ کار ہو جاتے ہیں ۔ لیگ کا طرز عمل بتاتا ہے کہ اس کی آواز ایک مصنوعی اور خارجی آواز ہے ۶۱۔ انہوں نے مسلم لیگ کے نظام ترکیبی پر اعتراض کرتے ہوئے تحریر کیا : کیا وہ قیامت تک درست ہو سکتا ہے ؟ پہلا سوال یہ ہے کہ مسلم لیگ اس خصوصیت کو چھوڑ دے گی کہ اس کو سب سے پہلے دولت اور جاہ کی تلاش ہے۔ اس کو ۔۔۔۔ وہ مہرے مطلوب ہیں ، جن پر طلائی رنگ ہو، لیکن پالیٹکس کی بساط میں ان مہروں کی کیا قدر ہے؟ کیا ایک معزز رئیس ، ایک بڑا زمیندار ، ایک حکام رس دولت مند کسی تحریک کے لیے اپنی جایداد، اپنی حکام رسی ، اپنی فرضی آبرو کو نقصان پہنچانا گوارا کر سکتا ہے ؟ ۔۔۔۔ آج کل کسی شخص کی پرائیویٹ حالت پوچھنا خلافِ تہذیب ہے ، لیکن بہ ضرورت مسلم لیگ سے اگر یہ سوال کیا جائے کہ مالی حالت کے لحاظ سے آپ کی ہستی کیا ہے؟ تو جواب ملے گا ’ ایک خاص دستِ کرم اس بنا پر مسلم لیگ کے تمام منصوبے ، تمام تجاویز، تمام ارادے اسی دستِ کرم کے اشاروں پر حرکت کرتے ہیں۔ مولانا شبلی نے تجویز کیا کہ مسلم لیگ اپنی رکنیت صرف اہلِ ثروت کے ایسے طبقے تک محدود نہ رکھے جس کا مسلم عوام سے کوئی رابطہ نہیں ہے ۔ اس کی مجلسِ انتظامیہ سے رئیسوں اور جاگیرداروں کو نکال دیا جائے اور ان کی جگہ ایسے مسلمان لائے جائیں جو آزادی سے اپنی رائے کا اظہار کر سکیں ۔ لیگ کے آئین میں مقاصد کی توسیع کی جائے اور محض تحفظات کے حصول کی بجائے ہندوستان کے لیے حق خودارادیت کے نصب العین کو شامل کیا جائے ۔ لیگ کی شاخیں دیہات میں کھولی جائیں ، تاکہ مسلم کاشتکاروں میں بڑھتی ہوئی غربت اور افلاس کا مداوا کیا جا سکے ۔ لیگ مسلم عوام میں سیاسی شعور پھیلانے کی خاطر لیکچروں کا اہتمام کرے اور مختلف ہم عصری سیاسی مسائل پر پمفلٹ چھپوا کر تقسیم کیے جائیں ۔ لیگ ہندوستان میں ایسے ہندو مسلم اتحاد کو وجود میں لانے کی کوشش کرے جو مغلوں کے عہد حکومت میں موجود تھا ۔ وہ اعتدال پسندوں کی پالیسی اختیار کرے اور اپنے شیڈول میں ، سواے ان چند مخصوص قراردادوں کے جن کا تعلق خالصتاً مسلمانوں سے ہے ، باقی تمام وہ قراردادیں اپنا لے ، جو کانگرس نے منظور کر رکھی ہیں ۔ جو معاملات ہندووں اور مسلمانوں میں مشترک ہیں، ان پر بحث و مباحثہ مشترک سیاسی پلیٹ فارم پر کیا جائے اور اسی طرح جو وفد وائسرائے کو بھیجے جائیں، ان کے رکن ہندو اور مسلمانوں ، دونوں قوموں کے نمائندوں پر مشتمل ہوں ۔ ان خیالات کے اظہار سے تعلیم یافتہ مسلمانوں میں ہلچل مچ گئی ۔ یہاں تک کہ مسلم لیگ کو بھی اپنی اصلاح کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ لیگ کی اس وقت کی قیادت کے لیے مولانا شبلی کی تجاویز پر عمل کرنا تو ممکن نہ تھا ، البتہ لیگ کے ۱۹۱۳ء کے اجلاس میں جو سر محمد شفیع کی صدارت میں لکھنؤ میں منعقد ہوا ، آئین میں تھوڑی سی ترمیم کی گئی اور مقاصد میں ہندوستان کے لیے مناسب حق خودارادیت کے حصول کے نصب العین کا اضافہ کر دیا گیا ، مگر چونکہ یہ ترمیم قطعی غیر تسلی بخش تھی اس لیے مولانا شبلی نے لفظ مناسب پر اپنے طنزیہ اشعار کے ذریعے اس کا خوب مذاق اُڑایا۔ نوجوان مسلم سیاسی رہنمائوں کی نگاہ میں لیگ کی پرانی قیادت کی کوئی وقعت نہ رہی تھی ۔ اور وہ رفتہ رفتہ لیگ پر چھانے لگے تھے ۔ ہندو اخبارات ترکی کی محرومیوں پر ہمدردی کا اظہار کرتے تھے اور مسلم قائدین سے لگاتار اپیل کر رہے تھے کہ ہندوئوں سے مفاہمت کریں ۔ اس طرح نوجوان مسلم سیاسی قائدین میں متحدہ ہندی قومیت کی حمایت میں رجحان بڑھنے لگا اور لیگ اور کانگرس کے اجلاس ساتھ ساتھ ہونے لگے ۔ اس نئے سیاسی رجحان کی حمایت میں اقبال کی کسی تحریر کا سراغ نہیں ملتا ، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس رجحان سے متاثر نہ ہوئے بلکہ اسلام کے تصورِ ملّی یا مسلم قومیّت کے اصول پر قائم رہے۔ وجہ یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک مسلمانانِ عالم کو اس لیے ہر مقام پر شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا کہ اسلام کے تصورِ ملّی پر ان کا اعتقاد نہ رہا تھا اور وہ اپنی اپنی قومیتوں کے تحفظ کی خاطر علاقائی وطنیت کے مغربی تصور میں نجات کی راہ ڈھونڈ رہے تھے ۔ اقبال کے عقیدے کے مطابق قومیّت اسلام مقام کی پابند نہ تھی ۔ لہٰذا اس دور کی شاعری میں وہ مغربی تصورِ وطنیت کی مخالفت میں سرگرم عمل رہے اور مسلم قومیّت کے اصول کی تشہیر پر انہوں نے خاص زور دیا ۔ ۱۹۱۳ء میں خواجہ حسن نظامی کے نام اپنے ایک خط میں تحریر کرتے ہیں: مسلمانان ہندوستان کی بیداری کے پانچ اسباب جو آپ نے اس ہفتے کے توحید میں ارقام فرمائے ہیں۔ بالکل بجا ہیں ۔ لیکن آپ نے یہ نہیں لکھا کہ اقبال ، جس نے اسلامی قومیت کی حقیقت کا راز اس وقت منکشف کیا جب ہندوستان والے اس سے غافل تھے ، اور جس کے اشعار کی تاریخ زمیندار ’کامریڈ‘ ، بلقان ، طرابلس اور نواب وقارالملک کی حق گوئی کی تاریخ سے پہلے کی ہے ، کس کا خوشہ چیں ہے ؟ شاعروں کی بد نصیبی ہے کہ ان کا کام برا بھلا جو کچھ بھی ہو ، غیر محسوس ہوتا ہے اور ظاہر میں آنکھیں مرئیات کی طرف قدرتاً زیادہ متوجہ ہوتی ہیں۔ اس خط کا مقصد شکایت نہیں اور نہ یہ کہ اقبال کے کام کا اشتہار ہو۔ حسن نظامی کو خوب معلوم ہے کہ اس کا دوست اشتہار پسند مزاج لے کر دنیا میں نہیں آیا مگر یہ مقصد اس خط کا ضرور ہے کہ ایک واقفِ حال دوست کی غلط فہمی دور ہو تا کہ اقبال کی وقعت اپنے دوست کی نگاہ میں محض اس خیال سے کم نہ ہو کہ اس نے مسلمانانِ ہند کی بیداری میں حصہ نہیں لیا ۶۲۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود اس زمانے میں ، جہاں تک ان کی نجی زندگی کا تعلق ہے ، ان پریاسیت کا عالم طاری رہا ۔ وہ بظاہر اپنے احباب میں اپنے آپ کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے اور اپنے باطنی اضطراب کا اظہار کسی پر بھی نہ کرتے تھے ۔ اس پریشانی کی طرف اشارہ ان کے ایک خط میں موجود ہے جو ۶ اکتوبر ۱۹۱۱ء کو اکبر الٰہ آبادی کے نام لکھا گیا ۔ فرماتے ہیں : لاہور ایک بہت بڑا شہر ہے لیکن میں اس ہجوم میں تنہا ہوں ۔ ایک فرد واحد بھی ایسا نہیں، جس سے دل کھول کر اپنے جذبات کا اظہار کیا جا سکے: طعنہ زن ہے ضبط ، اور لذت بڑی ، افشا میں ہے ہے کوئی مشکل سے مشکل رازداں کے واسطے لارڈ بیکن کہتے ہیں جتنا بڑا شہر ہو، اتنی ہی بڑی تنہائی ہوتی ہے ۔ سو یہی حال میرا لاہور میں ہے ۔ اس کے علاوہ گذشتہ چند ماہ میں بعض معاملات کی وجہ سے سخت پریشانی رہی اور مجھے بعض کام اپنی فطرت اور طبیعت کے خلاف کرنے پڑے ۶۳۔ اقبال یورپ سے واپس آ جانے کے باوجود نفسیاتی طور پر ابھی تک ایک لحاظ سے یورپ ہی میں تھے ۔ جب انہیں عملی زندگی کے تلخ حقائق کا سامنا کرنا پڑتا ، تو سخت گھبرا جاتے ۔ اس احساسِ محرومی کا سبب مختلف عناصر تھے ۔ جن میں ایک تو ان کی مالی مشکلات تھیں اور دوسرا ان کی ازدواجی زندگی کی بے سکونی ۔ وہ ذہنی کرب و اضطراب کے ایک کٹھن دور سے گزر رہے تھے البتہ اس کیفیت میں قیامِ یورپ کا حسین و جمیل تصور انہیں ایک گونہ تسکین بخشتا تھا ۔ جرمنی میں ان کی خط و کتابت فرائولین ایماویگے ناست سے جاری تھی ، جسے وہ ایک اچھی اور سچی لڑکی سمجھ کر پسند کرتے تھے۶۴ ۔ چنانچہ یورپ سے واپس آ کر انہیں پہلا خط سیالکوٹ سے ۳ ستمبر ۱۹۰۸ء کو لکھا ۔ فرماتے ہیں : میں یہاں پہنچ گیا ہوں ۔ یہ بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ میں انگلستان سے رخصت ہونے سے پیشترآپ سے مل نہ سکا ۔براہ کرم مجھے جلد لکھیے کہ آپ ان دنوں کیا کر رہی ہیں۔ میں نے اپنے پیشے کا آغاز لاہور میں کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ وہ ایک وکیل کے لیے اچھی جگہ ہے۔۔۔۔ میں اپنی ساری جرمن بھول چکا ہوں ، لیکن مجھے صرف ایک لفظ یاد ہے۔ ایما! ۱۱ جنوری ۱۹۰۹ء کو تحریر کرتے ہیں : میں اب لاہور میں ہوں اور یہاں ایڈووکیٹ کے طور پر کام کر رہا ہوں ۔ یہ میرے لیے ممکن نہیں کہ میں کبھی بھی آپ کے خوبصورت وطن کو بھول سکوں، جہاں میں نے بہت کچھ سیکھا اور شاید ہم دوبارہ جرمنی یا ہندوستان میں ایک دوسرے کو مل سکیں ۔ کچھ عرصے بعد جب میرے پاس کچھ پیسے جمع ہو جائیں گے تو میں یورپ میں اپنا گھر بنائوں گا ۔ یہ میرا تصور ہے اور میری تمنا ہے کہ یہ سب پورا ہو ۔۔۔۔ براہ کرم اپنے اس دوست کو مت بھولیے جو آپ کو ہمیشہ اپنے دل میں رکھتا ہے اور جو آپ کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا ۔ ہائیڈل برگ میں میرا قیام مجھے ایک خوبصورت خواب سا لگتا ہے اور میں اس خواب کو دہرانا چاہتا ہوں ۔ کیا یہ ممکن ہو سکتا ہے ؟ آپ بہتر جانتی ہیں۔ ۲۰ جولائی ۱۹۰۹ء کو تحریر کیا : میں بڑی بے تابی سے اس وقت کامنتظر ہوں ، جب میں دوبارہ آپ کے وطن میں آپ سے مل سکوں گا ۔۔۔۔ مجھے جرمنی بہت پسند ہے ۔ اس نے میرے خیالات پر بہت گہرا اثر کیا ہے اور میں جرمنی میں اپنا قیام کبھی فراموش نہ کروں گا ۔ میں یہاں بالکل اکیلا ہوں اور خود کو بڑا غمگین پاتا ہوں ۔ ہماری تقدیر ہمارے اپنے ہاتھوں میں نہیں ہے ، بلکہ کوئی عظیم قوت ہماری زندگیوں کو منظم کرتی ہے ۔۔۔۔ آہ ! وہ دن جب میں جرمنی میں تھا ۔۔۔۔ براہ کرم مجھے اپنے دل اور یادوں میں ایک چھوٹی سے جگہ دیجیئے گا !۔ ۲۲ ستمبر ۱۹۱۰ء کو ایک تحفہ ارسال کرتے ہوئے انہیں تحریر کیا : یہ پوستین ایک تبتی بھیڑکی ہے ۔ دراصل اسے اوور کوٹ کے کالر اور بازووں پر لگایا جا سکتا ہے۔ ۱۱ مئی ۱۹۱۱ء کو لکھا : میری بڑی تمنا ہے کہ جرمنی کا دوبارہ سفر کروں تاکہ آپ سے مل سکوں ۔ میں نہیں جانتا کہ یہ کس دن ممکن ہو سکے گا ۔۔۔۔ وہ خوبصورت ٹائیاں مجھے مل گئی تھیں ، لیکن میں بے حد شرمندہ ہوں کہ اپنی مصروفیت کے سبب جلد شکریہ ادا نہ کر سکا۔ ۳۰ جولائی۱۹۱۳ء کو ایما ویگے ناست کے والد کی وفات کے موقع پر تعزیت کرتے ہوئے انہوں نے تحریر کیا: آپ کو یاد ہوگا کہ گوئٹے نے اپنی موت کے لمحے پر کہا تھا ’’مزید روشنی‘‘،گویا موت مزید روشنی کی طرف ایک نئی راہ وا کرتی ہے اور ہمیں ان مقامات تک لے جاتی ہے جہاں ہم ابدی حسن و صداقت کے روبرو کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مجھے وہ وقت خوب یاد ہے جب میں نے گوئٹے کی شاعری آپ کے ساتھ پڑھی اور مجھے امید ہے کہ آپ کو بھی وہ ایام خوش یاد ہوں گے ، جب ہم روحانی طور پر ایک دوسرے کے بے حد قریب تھے ، اور میں تو محسوس کرتا ہوں کہ ہم اب بھی ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں ،کیونکہ میں روحانی اعتبار سے آپ کا شریکِ غم ہوں ۔۔۔۔ کاش میں جرمنی میں ہوتا اور اس موقع پر اپنی ہمدردی ذاتی طور پر آپ تک پہنچا سکتا ۔ پہلی جنگ عظیم شروع ہونے سے پیشتر اپنے خط مورخہ ۷ جون ۱۹۱۴ء میں بھی یہی بات دہراتے ہیں کہ وہ دیار قدیم جرمنی کا سفر کرنے کی زبر دست خواہش رکھتے ہیں تاکہ انہیں اپنے ساتھ لے کر گوئٹے کے مزار کی زیارت کو جائیں ۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران خط و کتابت بند ہو گئی ، البتہ جنگ کے خاتمے پر چار سال کی طویل خاموشی کے بعد ان کی اور ان کے خاندان کی خیر و عافیت کے بارے میں خط لکھ کر پوچھا ۔ اسی طرح ۱۹۰۹ء سے لے کر ۱۹۱۱ء تک عطیہ فیضی کے نام تحریر کردہ خطوط ان کے جذبات کی عکاسی کرتے ہیں ۔ ان کی نگاہ میں عطیہ فیضی بھی ان کے قیامِ یورپ کی یادوں کا حصہ تھیں اور ان کی ہمدردانہ توجہ کے پیشِ نظر ان کے سامنے محرومیوں کا اظہار ممکن تھا ۔ اقبال کو اپنی بے چینیوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے وقتی طور پر ایک جذباتی سہارے کی ضرورت تھی ۔ان نہایت ہی حساس، با ذوق اور صاحبِ علم خواتین سے قلمی تعلق نے انہیں یہ سہارا مہیا کر دیا ۔ اس دور کے اقبال کی ذہنی کیفیت کو پوری طرح سمجھنے کے لیے عطیہ فیضی کو لکھے ہوئے ان کے خطوط کے درج ذیل اقتباسات کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے ۔ فرماتے ہیں : کل رات میں آسمان پر پہنچا اور دوزخ کے دروازوں میں سے گزرنے کا اتفاق ہوا ۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ خوفناک طور پر سرد ہے ۔ مجھے متعجب دیکھ کر انہوں نے بتایا کہ یہ جگہ اپنی فطرت کے اعتبار سے سرد ہے لیکن تپش سے سخت گرم ہو جاتی ہے ، کیونکہ دنیا سے ہر کوئی اپنی آگ اپنے ساتھ لے کر آتا ہے ۔ سو میں جتنے انگارے ممکن ہو سکیں جمع کرنے میں مصروف ہوں ، کیونکہ اس ملک میں کوئلے کی کانیں کم ہیں ۔۔۔۔ آج کل میں دوسروں سے بہت ہی کم بات چیت کرتا ہوں ۔میرا بد بخت نفس خود ہی شامت زدہ خیالات کا معدن بنا ہوا ہے، جو میری روح کے تاریک و تار گوشوں سے سانپوں کی طرح نکلتے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ میں عنقریب ایک سپیرا بن کر گلیوں میں آوارہ پھروں گا اور میرے پیچھے پیچھے متجسس لڑکوں کا ٹولا ہوگا ۔ یہ خیال مت کرو کہ میں یاس پسند ہوں ، سچ یہ ہے کہ غم بجائے خود ایک لذت ہے ۔ میں تو اپنی محرومیوں سے لطف اندوز ہوتا ہوںاور ان لوگوں پر ہنستا ہوں جو اپنے تئیں سمجھتے ہیں کہ وہ خوش ہیں ۔ دیکھا ، میں اپنی مسرت کیسے چُرا لیتا ہوں ۔۔۔۔ مجھے یاد نہیں کہ میں اس سے پیشتر کیا لکھ چکا ہوں ، اس لیے اگر آپ میرے خط کو بے ربط پائیں تو اس سیلانی کو معاف کر دیجیے گا ۶۵۔ ایک اور خط میں تحریر کرتے ہیں : بعض اوقات میں کوئی کام کرنے کا ارادہ کرتا ہوں اور پھر اپنے آپ کو حالات پر چھوڑ دیتا ہوں تاکہ وہ مجھے جس طرف چاہیں ، لے جائیں ۔۔۔۔ بے شک ہر انسان اپنی آخری آرامگاہ تک پہنچنے کا صابرانہ انتظار کرتا ہے ۔ میں بھی جلد سے جلد اس مقام کو جانا چاہتا ہوں تاکہ اپنے خالق سے یہ مطالبہ کروں کہ وہ میرے ذہن کی عقلی توجیہ کرے اوریقین کیجیے کہ یہ کام اس کے لیے بھی آسان نہ ہو گا ۔ آپ مجھے سمجھ نہ سکنے کی شکایت مت کیجیے ۔ خود میں بھی اپنے آپ کو نہیں سمجھتا ۔ مدت ہوئی ، میں نے لکھا تھا: اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے مجھے یہ سن کر افسوس ہوا کہ آپ کو اس بات کا رنج ہے کہ شمالی ہندوستان کے لوگ میرا کماحقہ ، احترام اور تعریف نہیں کرتے ، لیکن آپ اس کی پروا نہ کیجیے ، میں دوسروں کی باتوں پر زندگی بسر نہیں کرنا چاہتا: جینا وہ کیا ، جو ہو نفس غیر پر مدار شہرت کی زندگی کا بھروسا بھی چھوڑ دے میں ایک سیدھی سادی دیانتدارانہ زندگی بسر کرتا ہوں ، میرے دل اور زبان کے درمیان پوری موافقت ہے ، لوگ منافقت کی مدح و ثنا کرتے ہیں اگر شہرت و عزت اور ستائش حاصل کرنے کے لیے مجھے منافقت اختیار کرنی پڑے تو میں گمنامی اور کس مپرسی کی حالت میں مر نا زیادہ پسند کروں گا ۔ عوام کو ، جن کی گردن پر راون کی طرح کئی سر ہیں ، ان لوگوں کا احترام کرنے دو جو مذہب اور اخلاق کے متعلق عوام کے جھوٹے اور بے بنیاد نظریات کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں ۔ میں ان کے رسوم و روایات کے آگے سر جھکانے اور ذہن انسانی کی آزادی کو دبانے سے بالکل قاصر ہوں ۔ بائرن ، گوئٹے اور شیلے کے معاصرین ان کی عزت نہیں کرتے تھے۔ میں اگرچہ ان کے مقابلے میں قوت شعری کے اعتبار سے کمتر ہوں ، پھر بھی مجھے فخر ہے کہ کم از کم اس معاملے میں تو ان کا ہمسفر ضرور ہوں ۔۔۔۔ دنیا میری پرستش نہیں کر سکتی اور نہ میں اپنے آپ کو پرستش کے قابل سمجھتا ہوں کیونکہ میں تو فطرتاً خود پجاری ہوں ، لیکن اگر میری روح کی گہرائیوں میں چھپے ہوئے خیالات لوگوں پر ظاہر ہو جائیں ، اگروہ باتیں جو میرے دل میں پوشیدہ ہیں ، سامنے آ جائیں ، تو مجھے یقین ہے کہ دنیا میری موت کے بعد ایک نہ ایک دن ضرور میری پرستش کرے گی ۔ لوگ میری کوتاہیوں کو بھول جائیں گے اور آنسووں کی صورت میں مجھے خراج عقیدت پیش کریں گے ۶۶۔ مآخذ باب: ۸ ۱۔ شیخ عطا محمد کی سروس بک کے مطابق وہ پنشن پا کر ۲۲ ستمبر ۱۹۱۲ء کو ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ جب انگریزی حکومت کی افغانستان کے ساتھ جنگ شروع ہوئی تو انہیں پھر ملازمت پر واپس بلا لیا گیا اور ڈیڑھ دو سال بعد غالباً ۱۹۱۹ء میں فارغ ہو کر گھر آئے ۔ خط شیخ اعجاز احمد بنام راقم ۔ ۲ ۔ ’’پنجاب گزٹ ‘‘ ۱۷، اپریل ۱۹۰۸ء حصہ اوّل ، صفحہ ۲۱۰ ۔ نیز دیکھیے ’’اقبال ریویو ‘‘ جنوری تا مارچ ۱۹۸۵ء ، مضمون ’’علامہ اقبال کا سلسلہ ملازمت ‘‘ از حسن اختر ، صفحات ۱۲۸،۱۲۹،۱۳۰۔ ۳ ۔ ’’صحیفہ‘‘ اقبال نمبر حصہ اوّل ، صفحہ ۵۵ نیز دیکھیے ’’روایات اقبال ‘‘ مرتبہ عبداللہ چغتائی ، صفحات ۷۶، ۷۷، ۱۰۴،۱۰۵ ، ملفوظات اقبال مرتبہ ابواللیث صدیقی ، صفحہ ۸۴ ، ذکر اقبال از عبدالمجید سالک ، صفحات ۶۳ ، ۶۴ ۔ ۴ ۔ ’’ اقبال کے خطوط اور تحریریں ‘‘ مرتبہ بشیر احمد ڈار (انگریزی) صفحہ ۴۲ ۔ اقبال کے والد کا نام غلطی سے میر محمد لکھا گیا ہے ۔ ۵ ۔ ’’صحیفہ ‘‘ اقبال نمبر حصہ اوّل ، صفحہ ۵۵ ’’ روایات اقبال ‘‘ مرتبہ عبداللہ چغتائی ، صفحات ۱۰۴، ۱۰۵ ۔ ۶ ۔ ’’ملفوظات اقبال ‘‘ مرتبہ ابواللیث صدیقی ، صفحات ۸۶ ، ۸۷ ۔ ۷ ۔ ’’اقبال ‘‘ از عطیہ بیگم (انگریزی) ، صفحہ ۳۶ ۸ ۔ ’’اقبال کے خطوط اور تحریریں ‘ ‘ مرتبہ بشیر احمد ڈار (انگریزی) ، صفحات ۴۳ تا ۴۸ ، ’’پنجاب گزٹ‘‘ ۲۱ مئی ۱۹۰۹ء حصہ اوّل ، صفحہ ۴۱۵ ، ’’تاریخ گورنمنٹ کالج ‘‘ از گیرٹ (انگریزی) ، صفحہ ۱۱۵ ۹ ۔ ’’پنجاب گزٹ ‘‘ ۵ نومبر ۱۹۰۹ء حصہ اوّل ، صفحہ ۸۰۹ سروسز کی تاریخ (انگریزی) یکم جولائی ۱۹۰۹ء ، صفحہ ۳۲۹۔ ۱۰ ۔ بیانات میاں ایم اسلم اور مولوی محمد علی قصوری ، ’’جام نو ‘‘ (اسلم نمبر ) اپریل و مئی ۱۹۷۱ء جلد ۲۱ نمبر ۱،۲، صفحہ ۸۶ ، ’’راوی ‘‘ (اقبال نمبر ) اپریل ۱۹۷۴ء ، صفحہ ۱۸ ۱۱ ۔ اس قانونی جرنل کے چیف ایڈیٹر ایس۔ ڈی۔ چودھری تھے ۔ ۱۲ ۔ رسالہ ’’انجمن اسلامیہ پنجاب ‘‘ جنوری تا جون ۱۹۰۹ء صفحہ ۱۵ ، ’’ صحیفہ ‘‘ اقبال نمبر حصہ اوّل ، صفحات ۱۹۵ ، ۱۹۶ ۔ ۱۳ ۔ ’’آئینہ اقبال ‘‘ مرتبہ عبداللہ قریشی ، صفحات ۲۰۰ تا ۲۰۶ ۔ ۱۴ ۔ ایضاً ، صفحات ۲۰۷ تا ۲۰۹ ۔ ۱۵ ۔ ایضا ً ، صفحات ۲۳۴ ، ۲۳۵ ۔ ۱۶ ۔ ’’ضحیفہ ‘‘ اقبال نمبر حصہ اوّل ، صفحہ ۱۱۴ ۔ ۱۷ ۔ ایضا ً ، صفحات ۸۳ ، ۸۴ ۔ ۱۸ ۔ ’’اقبال ‘‘ از عطیہ بیگم (انگریزی) صفحہ ۵۳۔ ۱۹ ۔ ایضاً ، صفحہ ۵۵ ۔ ۲۰ ۔ ’’ اقبال اور حیدر آباد دکن ‘‘ تالیف نظر حیدر آبادی ، صفحہ ۱۸ ۔ ۲۱ ۔ ’’مکاتیب اقبال بنام گرامی ‘‘ مرتبہ عبداللہ قریشی صفحہ ۹۱ یہ خط شیخ عطاء اللہ مرتب ’’اقبال نامہ ‘‘ کو مدیر ’’شہاب‘ ‘ حیدر آباد دکن سے ملا تھا جن کے ہاں یہ ایک بسکٹ فروش کی دکان سے پڑیا کی صورت میں پہنچا تھا ۔ ۲۲ ۔ ’’اقبال اور بزم اقبال حیدر آباد دکن ‘‘ از عبدالرؤف عروج ،صفحات ۲۱ ، ۲۲ ۔ ۲۳ ۔ ’’صحیفہ ‘‘ اقبال نمبر حصہ اوّل ، صفحات ۱۰۵ ، ۱۰۶۔ ۲۴ ۔ ’’مخزن ‘‘ جون ۱۹۱۰ء ۔ ۲۵ ۔ ’’مکاتیب اقبال بنام گرامی ‘‘ مرتبہ عبداللہ قریشی ، صفحہ ۲۲۰ ، ’’صحیفہ ‘‘ اقبال نمبر حصہ اوّل ، صفحات ۷۳تا۷۶۔ ۲۶ ۔ ’’مخزن‘‘ جون ۱۹۱۰ء اس قصیدے کے ابتدائی نو شعر ’’نمود صبح‘‘ کے عنوان کے تحت ’’بانگ درا‘‘ میں شامل ہیں ۔ ۲۷ ۔ ان ایّام میں شیخ عطاء محمد کی تعیناتی ملٹری ورکس سروس کے بمبئی ڈسٹرک کی دیولا لی چھائونی میں تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اقبال سے ملنے حیدر آباد پہنچے اور پھر وہاں سے دونوں بھائی اکٹھے اورنگ آباد گئے۔ خط شیخ اعجاز احمد بنام راقم ۔ نیز دیکھیے خط اقبال بنام اکبر الٰہ آبادی ’’اقبال نامہ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ حصہ دوم ، صفحہ ۴۳ ۔ ۲۸ ۔ ’’اقبال ‘‘ از عطیہ بیگم (انگریزی) صفحات ۵۳ ، ۶۲، ۶۳ ۔ ۲۹ ۔ ’’اقبال اور انجمن حمایت اسلام ‘‘ از محمد حنیف شاہد ، صفحات ۵۰ ، ۵۱ ۔ ۳۰ ۔ یہ انگریزی نوٹ بک راقم نے مرتب کر کے شائع کر دی ہے ۔ اس کے اردو ترجمے کے لیے دیکھیے ’’شذرات فکر اقبال ‘‘ از افتخار احمد صدیقی ۔ ۳۱ ۔ ’’ملفوظات اقبال ‘‘ مرتبہ ابواللیث صدیقی ، صفحات ۸۵ ، ۸۶۔ ۳۲ ۔ ’’اقبال ‘‘ از عطیہ بیگم (انگریزی) ، صفحہ ۵۲ ۔ ۳۳ ۔ ’’پنجاب گزٹ ‘‘ ۲۰ جنوری ۱۹۱۱ء حصہ اوّل ، صفحہ ۳۲ ۔ ’’راوی‘‘ جنوری ۱۹۱۱ء جلد نمبر ۵ نمبر ۳۶ ، صفحہ ۲ ۔ ۳۴ ۔ ’’جام نو ‘‘ (اسلم نمبر ) اپریل و مئی ۱۹۷۱ء ، صفحہ ۸۶ ۔ ۳۵ ۔ ’’عظمت رفتہ ‘‘ از ضیاء الدین برنی ،صفحہ ۲۷۱۔ ۳۶ ۔ ’’صحیفہ ‘‘ اقبال نمبر حصہ اوّل ، صفحات ۲۱ ، ۲۸ ۔ ۳۷ ۔ ’’پنجاب گزٹ ‘‘ ۴ مارچ ۱۹۱۰ء حصہ اوّل ،صفحہ،۱۳۰ ۔ ۱۹۱۱ء میں جب مسلمانوں کے تعلیمی مسائل پر غور و فکر کرنے کے لیے پنجاب پراونشل ایجوکیشنل کانفرنس قائم ہوئی تو اس کے ۱۵ ؍ اپریل ۱۹۱۱ء کے اجلاس میں اقبال کو سیکرٹری مقرر کیا گیا ۔ اس کانفرنس کا بعد میں انجمن حمایت اسلام سے الحاق ہو گیا ۔ اقبال تین سال تک کانفرنس کے سیکرٹری کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ ’’انوار اقبال ‘‘ مرتبہ بشیر احمد ڈار ، صفحات ۲۹۵ تا ۳۰۰ ۔ ۳۸ ۔ ایضاً صفحات ۲۴ ، ۲۵ ۔ ۳۹ ۔ ’’پنجاب گزٹ ‘‘ ۲۸ مارچ ۱۹۱۹ء حصہ سوم ، صفحات ۴۷۲ ، ۴۷۳ ، ۱۵ اگست ۱۹۱۹ء حصہ سوم ، صفحہ ۱۱۱۲۔ ۴۰ ۔ ’’پنجاب گزٹ ‘‘ ۴ مئی ۱۹۲۳ء حصہ سوم الف ، صفحہ ۱۴۰ ۔ ۴۱ ۔ ’’پنجاب گزٹ ‘‘ ۹؍ جنوری ۱۹۲۵ء حصہ سوم الف ، صفحہ ۷۱ ۔ ۴۲ ۔ کارروائی اجلاس پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی فائل نمبر ۳۷؍۱۲ ،(۱۹۲۴ئ) اردو کورسز ۔ ۴۳ ۔ ’’انوار اقبال‘‘ مرتبہ بشیر احمد ڈار ، صفحہ ۲۵ ۔ ۴۴ ۔ ’’اقبال کے خطوط اور تحریریں ‘‘ مرتبہ بشیر احمد ڈار (انگریزی) ، صفحات ۹۸ تا ۱۰۱ ۔ ۴۵ ۔ ’’سیرت اقبال ‘‘ از طاہر فاروقی ، صفحہ ۴۷ ، ’’ اردوے مصفیٰ‘‘ (بابائے اردو کے خطوط کا مجموعہ) ، اقبال کا خط بنام مظفر الدین قریشی ، صفحات ۱۱۶ ، ۱۱۷ ۔ ۴۶ ۔ ’’روایات اقبال ‘‘ مرتبہ عبداللہ چغتائی ، صفحات ۹۸ تا ۱۴۱ ، مرزا جلال الدین کے بیان کے مطابق وہ مقام شاہدرہ تھا لیکن یہ غلط ہے ، ملاحظہ ہو ، ’’اقبال‘‘ از عطیہ بیگم (انگریزی) صفحہ ۷۴ ۴۷ ۔ ’’فضل حسین ۔ ایک سیاسی بیاگرافی‘‘ (انگریزی) ، صفحات ۹۶ ، ۹۸ ۔ ۴۸ ۔ ’’روایات اقبال ‘‘ مرتبہ عبداللہ چغتائی ، صفحات ۱۳۲ ، ۱۳۴ ۔ ۴۹ ۔ ’’فضل حسین ایک سیاسی بائیوگرافی ‘‘ (انگریزی) صفحہ ۱۵۷۔ ’’اقبال کے آخری دو سال ‘‘ صفحہ ۲۷۴ ۔ ۵۰ ۔ ’’تاریخ انڈین نیشنل موومنٹ ‘‘ ازوی لووٹ (انگریزی) ، صفحات ۵۷ ، ۵۸ ، ۶۳ ، ۶۵ ، ۶۶ ، ۸۸ ۔ ’’منقسم ہند ‘‘ از راجندر پرشاد (انگریزی) صفحہ ۱۱۷،’’ مسلمانوں کا روشن مستقبل ‘‘ از طفیل احمد ، صفحات ۳۷۴، ۳۷۵۔ ۵۱ ۔ ’’مقالات شبلی‘‘ ۔ جلد ۸ صفحہ ۱۴۸۔ ۵۲ ۔ ’’ملفوظات اقبال‘‘ مرتبہ ابواللیث صدیقی صفحہ ۹۶۔ ۵۳ ۔ ’’اقبال اور انجمن حمایت اسلام ‘‘ از محمد حنیف شاہد ، صفحات ۸۱ ، ۸۲ ، شیخ اعجاز احمد بھی اس جلسے میں موجود تھے ۔ ان کے بیان کے مطابق اقبال نے ’’شکوہ ‘‘ سنانے سے پیشتر جو نظم پڑھی اس کے تین چار اشعار حذف کر کے اور پہلے شعر کے پہلے مصرعے کو بدل کر ’’بانگ درا‘‘ میں ’’نصیحت ‘‘ کے عنوان کے تحت شائع کی ۔ اس نظم کے بعض اشعار اپنی اصلی حالت میں یوں تھے: کل ملا مجھ سے جو اقبال تو پوچھا میں نے عامل روزہ ہے تو اور نہ پابند نماز کبھی ایراں کے لیے ہو جو دعا کا جلسہ عذر تیرا ہے کہ ہے میری طبیعت ناساز سن کے کہنے لگا اقبال بجا فرمایا شک مجھے آپ کی باتوں میں نہیں بندہ نواز مجھ میں اوصاف ضروری تو ہیں موجود مگر ہے کمی ایک کہوں تجھ سے جو ہو فاش نہ راز ڈھب مجھے قوم فروشی کا نہیں یاد کوئی اور پنجاب میں ملتا نہیں استاد کوئی شیخ اعجاز احمد کی رائے میں یہ اشعار پبلک میں سنانے کی آیندہ زندگی میں اقبال کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ۔ راقم کے خیال میں اس کی وجہ یہ تھی کہ ان اشعار کا اشارہ غالباً میاں سر فضل حسین کی طرف تھا ۔ ۵۴ ۔ ’’ملفوظات اقبال ‘‘ مرتبہ ابواللیث صدیقی ، صفحہ ۳۴ ۔ ۵۵ ۔ ’’روز گار فقیر ‘‘ جلد اوّل ، صفحہ ۱۲۳ ۔ ۵۶ ۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ حصہ دوم ، صفحات ۳۷ ، ۳۸ ۔ ۵۷ ۔ ’’کلیات اقبال ‘‘ مرتبہ محمد عبدالرزاق حیدر آباد دکن ۱۹۲۳ء صفحات ۵۰ تا ۵۸ یہ کتاب ’’بانگ درا‘‘ کی اشاعت سے پیشتر اقبال کی اجازت کے بغیر شائع کر دی گئی ۔ تصفیے کی شرائط کے تحت مرتب کو ایک ہزار روپے کی رقم بطور معاوضہ ادا کرنی پڑی اور کتاب کی فروخت ریاست حیدر آباد دکن تک محدود کر دی گئی۔ اس کا ایک نسخہ علامہ اقبال میوزیم میں محفوظ ہے ۔ نیز دیکھیے مضمون ’’ اقبال کی زندگی کا ایک پہلو‘‘ از محمد حنیف شاہد مطبوعہ ضیا بار اقبال نمبر ۱۹۷۳ء (صفحات ۱۷۲ تا ۱۸۱) گورنمنٹ کالج سرگودھا ۔ ۵۸ ۔ ’’گفتار اقبال ‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۲ ،۳ ۔ ۵۹ ۔ ’’اقبال اور انجمن حمایت اسلام ‘‘ از محمد حنیف شاہد ، صفحات ۸۳ ، ۸۴ ۔ ۶۰ ۔ ’’گفتار اقبال ‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۳ ، ۴۔ ۶۱ ۔ ’’مقالات شبلی ‘‘ جلد ۸ ، صفحات ۱۴۹ تا ۱۵۱ ، ۱۵۸، ۱۵۹، ۱۶۱، ۱۶۳،۱۶۴،۱۷۰ تا ۱۷۷ ۰۔ نیز دیکھیے ’’کلیات شبلی ‘‘ مرتبہ مولوی مسعود علی ، صفحات ۶۴ تا ۷۴ ’’مسلمانوں کا روشن مستقبل ‘‘ از طفیل احمد ، صفحات ۳۸۱ ، ۳۸۲ ۔ ۶۲ ۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ حصہ دوم ، صفحات ۳۶۵ ، ۳۶۶ ۔ ۶۳ ۔ ایضا ً ، صفحہ ۳۵ ۔ ۶۴ ۔ ’’اقبال ‘‘ از عطیہ بیگم (انگریزی) ، صفحہ ۳۹ ۔ ۶۵ ۔ ایضاً ، صفحات ۴۱ تا ۴۳ ۔ ۶۶ ۔ ایضا ً ، صفحات ۴۶ تا ۵۱ ۔ باب: ۹ ازدواجی زندگی کا بحران ۱۸۹۳ء میں اقبال کی کریم بی کے ساتھ شادی رواج کے مطابق ان کے بزرگوں نے طے کی تھی اور ان کی اپنی بعد کی تحریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شادی پر رضا مند نہ تھے ، مگر چونکہ سولہ برس کی عمر کے لڑکے تھے اس لیے احترام کے پیشِ نظر انہیں اپنے بزرگوں کے سامنے دم مارنے کی ہمت نہ ہوئی ۔ شادی کے پہلے دو سال سیالکوٹ میں گذارے۔ اس دوران میں انہوں نے ایف۔اے کا امتحان پاس کیا اور مزید تعلیم کی تحصیل کی خاطر ۱۸۹۵ء میں لاہور آ گئے ۔ لاہور میں چار سال کو اڈرینگل ہوسٹل میں گزارے۔ کریم بی ہوسٹل میں ان کے ساتھ تو نہ رہ سکتی تھیں ، اس لیے وہ بیشتر وقت اپنے والدین کے ساتھ یا اپنے میکے گجرات میں بسر کرتی تھیں اور بعض اوقات چند ماہ کے لیے سیالکوٹ آ جاتیں ۔ اقبال گرمیوں کی چھٹیاں عموماً سیالکوٹ میں اپنے والدین کے ساتھ گزارتے اور کبھی کبھار چند ہفتوں کے لیے اپنے سسرال گجرات چلے جاتے ۔ اس دوران وہ دو بچوں کے باپ بن چکے تھے ۔ معراج بیگم ۱۸۹۶ء میں پیدا ہوئیں اور آفتاب اقبال ۱۸۹۸ء میں۔ ۱۹۰۰ء سے لے کر ۱۹۰۵ء تک کی پانچ سالہ ملازمت کے دوران جب اقبال بھاٹی دروازے والے مکان میں رہائش پذیر تھے ، کریم بی نے ان کے ساتھ اس مکان میں قیام نہ کیا۔نذیر نیازی کی رائے میں کریم بی سے کشیدگی کی ابتداء انہی ایّام میں ہو گئی تھی ۱۔ ۱۹۰۵ء سے لے کر ۱۹۰۸ء تک کے تین سال اقبال نے یورپ میں گزارے ۔ ان کی واپسی پر معراج بیگم بارہ برس کی اور آفتاب اقبال دس برس کے تھے ۔ نذیر نیازی تحریر کرتے ہیں : یورپ سے واپسی کے بعد اگرچہ وہ (کریم بی) احیاً نا لاہور آتیں، محمد اقبال ان کا بڑا خیال رکھتے، مگر ایک دوسرے سے کشیدگیء بڑھتی چلی گئی ۔ تاآنکہ باپ اور بھائی کی کوششوں کے باوجود مکمل علیحدگی کی نوبت آ گئی۔ یہ زمانہ محمد اقبال کے لیے بڑے اضطراب کا تھا ۔ بغیر طلاق کے چارہ نہ رہا ۔ لیکن والدئہ آفتاب کی عزتِ نفس نے گوارا نہ کیا محمد اقبال کفالت کے ذمے دار ٹھہرے ۔ فرمایا شرعاً میرے سامنے دو ہی راستے تھے ، طلاق یا کفاف کی ذمہ داری۔ والدئہ آفتاب طلاق پر راضی نہ ہوئیں ۔میں نے بخوشی کفاف کی ذمہ داری قبول کر لی۔ چنانچہ ایک مقررہ رقم ہر مہینے بھیج دیتے ۔ حتیٰ کہ آخری علالت کے دوران میں بھی یہ رقم باقاعدہ روانہ کی جاتی۔ پھر جب علالت نے طول کھینچا اور مالی دشواریاں بڑھیں تو اس میں تخفیف کرنا پڑی ، لیکن رقم کی ترسیل میں کوئی فرق نہ آیا ۔ آخری منی آرڈر میرے ہاتھوں سے ہوا ، میں نے تعمیل ارشاد کر دی ۲ ۔ اقبال کی یہ شادی کیوں نا کام رہی ؟ اس سلسلے میں اکثر ایسی باتیں کہی گئیں جو بالکل لغو اور بے بنیاد ہیں ۔ شادی بیاہ ایک انتہائی نجی معاملہ ہے ۔ کئی شادیاں ناکام رہتی ہیں ، جن میں فریقین یا ان کے اعزہ و اقربا مختلف قسم کی نا انصافیوں یا غلطیوں کے مرتکب ہو سکتے ہیں ۔ افسوس ہے کہ اس شادی کی ناکامی کے حقیقی اسباب بتا سکنے والا آج کوئی بھی نہیں ، لیکن راقم کے قیاس کے مطابق شادی کی ناکامی کا اصل سبب زوجین کے طبائع کی عدم مناسبت تھا ۔ شادی کے وقت اقبال کی عمر سولہ برس اور کریم بی کی عمر انیس برس تھی ۔ اقبال طالب علم تھے اور مالی اعتبار سے اپنے بڑے بھائی یا باپ کے دست نگر تھے ۔ ابھی اپنے قدموں پر کھڑے نہ ہوئے تھے ۔ اقبال کا تعلق ایک متوسط الحال خاندان سے تھا ، جس کے تمام افراد سیالکوٹ کے ایک چھوٹے سے مکان میں رہتے تھے ، لیکن کریم بی ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں ، اور انہوں نے گجرات کے محلہ شال بافاں کی ایک ایسی حویلی میں پرورش پائی تھی جو کسی محل سے کم نہ تھی ۔ ان کے والد کے خاندان کی شہر میں بے حد عزت تھی ۔ ان کے والد ڈاکٹر عطا محمد نے اس زمانے میں ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کی اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کے اوّلین سند یافتہ طلبہ میں سے تھے۳۔ بعد میں سرکاری ملازمت اختیار کی اورترقی کرتے کرتے بلند عہدوں پر جا پہنچے ۔ جدّے میں حکومت برطانیہ کی طرف سے وائس تونصل رہ چکے تھے ۔ ۱۸۷۹ء میں وائسرائے کے اعزازی سرجن مقرر ہوئے ، ۱۸۸۸ء میں انہیں خان بہادر کا خطاب ملا ۔ پنجاب کے مختلف اضلاع میں سول سرجن تعینات رہے اور جہاں کہیں بھی رہے ، بڑی شان و شوکت سے رہے ۔ تاہم ڈاکٹر عطا محمد دولت کی فراوانی کے باوجود بڑے دین دار ، عبادت گزار اور نیک انسان تھے ۔ حافظِ قرآن بھی تھے ۔ اقبال ان کی بڑی عزت کرتے تھے اور ان کی وفات تک اقبال نے ان سے تعلقات قائم رکھے ۔ علی بخش کے بیان کے مطابق ڈاکٹر عطا محمد اپنے فرزند اور اقبال کے برادرنسبتی شیخ غلام محمد کو اعلیٰ تعلیم کی تحصیل کے لیے انگلستان جانے کی اجازت نہ دیتے تھے ۔ اقبال نے ڈاکٹر عطا محمد کی منت سماجت کر کے انہیں انگلستان بھجوایا ، لیکن وہ انگلستان سے میم لے آئے اور پہلی منکوحہ بیوی کو چھوڑ دیا۴ ۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم کی تکمیل کے بعد جب اقبال اپنے قدموں پر کھڑے ہوئے، ملازمت اختیار کر کے بھاٹی دروازے والے مکان میں انہوں نے رہائش اختیار کی تو اس وقت بھی کریم بی ان کے ساتھ لاہور نہ آئیں ۔ ممکن ہے اس کا سبب اقبال کی کم تنخواہ ہو ، جو ابتدا میں بہتّر روپے چودہ آنے ماہوار مقرر ہوئی تھی ۔ دو سال بعد دو سو روپے اور چار سال بعد دو سو پچاس روپے ماہوار تک پہنچی ۔ پھر اقبال تین سال کے لیے یورپ چلے گئے ۔ یورپ سے واپسی کے بعد اقبال کے لیے سب سے بڑا مسئلہ فراہمی روز گار تھا اور یہ زمانہ ان کے لیے بلاشبہ شدید تذبذب اور اضطراب کا تھا ، مگر اس زمانے میں باپ اور بھائی کی کوششوں کے باوجود اقبال اور کریم بی ایک دوسرے کے قریب نہ آ سکے ۔ کریم بی بچوں سمیت اپنے والدین کے ساتھ رہنا پسند کرتی تھیں اور اس سلسلے میں اقبال کی جو ذہنی کیفیت تھی وہ عطیہ فیضی کے نام ان کے خط محررہ ۹ اپریل ۱۹۰۹ء سے ظاہر ہے ۔ لکھتے ہیں : میں کوئی ملازمت کرنا نہیں چاہتا ۔ میری خواہش یہ ہے کہ جلد سے جلد اس ملک سے بھاگ جائوں۔ اس کی وجہ آپ کو معلوم ہے ، میں اپنے بھائی کا ایک قسم کا اخلاقی قرضدار ہوں اور صرف اسی چیز نے مجھے روک رکھا ہے ۔ میری زندگی نہایت مصیبت ناک ہے ۔ یہ لوگ میری بیوی کو زبردستی مجھ پر منڈھ دینا چاہتے ہیں ۔ میں نے اپنے والد کو لکھ دیا ہے کہ انہیں میری شادی کر دینے کا کوئی حق نہ تھا ، بالخصوص جب کہ میں نے اس قسم کے تعلق میں پڑنے سے انکار کر دیا تھا ۔ میں اس کی کفالت کرنے پر آمادہ ہوں ، لیکن اسے اپنے پاس رکھ کر اپنی زندگی کو عذاب بنانے کے لیے ہرگز تیار نہیں ۔ ایک انسان ہونے کی حیثیت سے مجھے مسرت کے حصول کا حق ہے ۔ اگر معاشرہ یا فطرت وہ حق مجھے دینے سے انکاری ہیں تو میں دونوں کے خلاف بغاوت کروں گا ۔ میرے لیے صرف ایک ہی چارہ ہے کہ میں اس بدبخت ملک کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دوں یا مے خواری میں پناہ ڈھونڈوں ، جس سے خود کشی آسان ہو جاتی ہے ۔ کتابوں کے یہ بے جان اور بنجر اوراق مسرت نہیں دے سکتے اور میری روح کے اندر اس قدر آگ بھری ہوئی ہے کہ میں ان کتابوں کو اور ان کے ساتھ ہی معاشرتی رسوم و روایات کو بھی جلا کر خاکستر بنا سکتا ہوں ۔ آپ کہیں گی کہ ایک اچھے خدا نے یہ سب کچھ تخلیق کیا ہے ، ممکن ہے ایسا ہی ہو ، مگر اس زندگی کے تلخ حقائق کسی اور ہی نتیجے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ۔ ذہنی طور پر ایک اچھے خدا کی بجاے کسی قادر مطلق شیطان پر یقین لے آنا زیادہ آسان ہے ۔مہربانی کر کے ایسے خیالات کے اظہار کے لیے مجھے معاف کیجیے گا ۔ میں ہمدردی کا خواستگار نہیں ہوں ۔ میں تو صرف اپنی روح کا بوجھ اتارنا چاہتا تھا۔ اقبال کی اس شادی کی ناکامی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ان کے دونوں بچے شفقتِ پدری سے محروم رہ گئے ۔ ایسی صورت میں بچوں کی ہمدردیاں عموماً ماں کے ساتھ ہوتی ہیں ۔ معراج بیگم اور آفتاب اقبال کے بچپن اور جوانی کا بیشتر زمانہ ماں کے ساتھ ننھیال میں گزرا ۔ جب دونوں کچھ بڑے ہو گئے تو دادا اور دادی کے پاس سیالکوٹ میں رہنے لگے ۔ باپ کے ساتھ تو ان کی ملاقات شاذ و نادر ہی ہوتی تھی ۔ اس کے باوجود اقبال معراج بیگم سے بڑی محبت کرتے تھے ۔ معراج بیگم ماں باپ کے تعلقات میں کشیدگی پر اندر ہی اندر کڑھتی رہتیں ، لیکن کیا کر سکتی تھیں ، بے بس تھیں ۔ انہیں جوانی ہی میں خنازیر کا مرض لاحق ہوا ، اور انیس برس کی عمر میں ۱۷ ؍ اکتوبر ۱۹۱۵ء کو وفات پا گئیں ۔ آفتاب اقبال اپنے دادا کے منظور نظر تھے ۔ ان کا نام بھی شیخ نور محمد ہی نے رکھا تھا ۔ لیکن شفقت پدری کی عدم موجودگی میں اپنے تایا کی سخت طبیعت کو انہوں نے کبھی قبول نہ کیا ۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا ، آفتاب اقبال کے دل میں یہ بات ہمیشہ کے لیے بیٹھ گئی کہ ان کی ماں کے ساتھ باپ نے ناانصافی کی ہے ۔ نتیجتاً باپ بیٹے کے اختلافات بڑھتے چلے گئے ۔ اقبال کے بعض احباب کی کوششوں کے باوجود ان کی آپس کی غلط فہمیاں دور نہ ہو سکیں ، تا آنکہ اقبال کی زندگی ہی میں باپ بیٹے میں قطع تعلقی ہو گئی ۶ ۔ نذیر نیازی تحریر کرتے ہیں: بے شک یہ شادی ناکام رہی ، لیکن اس کی ایک ہی وجہ تھی اور وہ طبائع کی عدم مناسبت ، علیٰ ہذا، خاندانی حالات میں تفاوت ۔ میں سمجھتا ہوں ۔ رشتہ عجلت میں طے ہوا ۔ فریقین نے اس معاملے میں احتیاط سے کام نہیں لیا ۔ محمد اقبال نے لاکھ کوشش کی کہ نباہ کی کوئی صورت نکل آئے مگر بات نہ بنی ۔ ایک تو والدئہ آفتاب کا انداز طبیعت ، دوسرے آفتاب اقبال کی روش، حالات بگڑتے چلے گئے ۔ ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ کی کوششیں بھی ، کہ اصلاح احوال کی کوئی صورت نکل آئے ، ناکام رہیں ۔ محمد اقبال اس معاملے میں چونکہ حق بجانب تھے ، لہٰذا شاہ صاحب اور ان کے دوستوں نے ان کی انصاف پسندی کو دیکھتے ہوئے پھر کبھی اس میں دخل نہیں دیا ۔ محمد اقبال کی اس شادی کے بارے میں بھی اکثر ایسی باتیں کہی گئیں جو سرتا سر بے بنیاد ہیں ۔ جہاں تک راقم الحروف کی ذاتی معلومات کا تعلق ہے ، اسے یہ کہنے میں باک نہیں کہ عمدا نہ سہی ، بہ سببِ نا مناسبتِ مزاج اور افتادِ طبیعت ’’گجرات‘‘ نے اس معاملے میں جو روش اختیار کی سر تا سر غلط تھی ۔ آفتاب اقبال بھی بہک گئے ۔ باپ کے خلاف ایک محاذ قائم کر لیا ۔ الزام تراشیوں سے کام لیا گیا ۷ ۔ عطیہ فیضی کی رائے میں شادی کی ناکامی کے سبب اقبال کی خداداد غیر معمولی قابلیت نشو و نما پانے کی بجائے گھٹ کر رہ گئی اور اپنے علم کو وسیع کرنے کے باوجود اقبال وہ نہ بن سکے جو بن سکتے تھے ، بلکہ ان واقعات نے ، جو ان کی زندگی کے اس حصے میں رونما ہوئے ، انہیں ویسا بنا دیا جیسا کہ وہ اپنی تحریروں میں دکھائی دیتے ہیں ۔ عطیہ فیضی کے نزدیک معاشرتی رسوم و روایات کے تحت بزرگوں کے احکام کی پابندی بہت سے غیر معمولی ذہانت رکھنے والے مردوں اور عورتوں کی زندگیاں تباہ کر دیتی ہے اور اقبال کی مثال ایک ایسا المیہ ہے ، جو اسی قسم کی خاندانی ضد کا نتیجہ تھا۔ عطیہ فیضی تحریر کرتی ہیں : جیسا کہ میں اقبال کو یورپ میں جانتی تھی ، ہندوستان میں ان کی شخصیت ویسی نہ رہی اور جو لوگ اتنے خوش نصیب واقع نہیں ہوئے کہ ان کی ابتدائی زندگی میں ان سے ملے ہوں ، وہ کبھی بھی اس ذہانت اور قابلیت کا اندازہ نہیں کر سکتے جو فطرت کی طرف سے انہیں ودیعت کی گئی تھی اور جس کا اظہار وہ کر سکتے تھے ۔ ہندوستان آ کر ان کی ذکاوت ، طباعی اور آب و تاب کو گھن سا لگ گیا تھا اور جوں جوں وقت گزرتا گیا یہ گھن ان کی ساری شعوری قوت پر چھا گیا تھا ۔ وہ اپنے خیال میں چندھیائی ہوئی زندگی بسر کرتے تھے اور پستی سی محسوس کرتے تھے ، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ کیا کچھ بن سکتے تھے ۸ ۔ عطیہ فیضی کا تبصرہ حقائق پر مبنی نہیں ہے ، بلاشبہ حیات اقبال کا یہ مختصر سا دور ذہنی اور روحانی کرب کا دور تھا ۔ یورپ کی یونیورسٹیوں میں اقبال کی زندگی ایک ایسے پرندے کی طرح تھی جو آشیانے کے تحفظ کی لذت سے سر شار تھا اور جو زندگی کے تلخ حقائق کا سامنا کرنا وقتی طور پر بھول چکا تھا ، لیکن واپس آ کر اقبال کو ان تلخ حقائق کا سامنا کرنا پڑا اور بعض اوقات جب ذہنی اور روحانی کرب اپنی انتہا کو پہنچتا تو اقبال یورپ کے قیام کے زمانے کے بارے میں رومانی انداز سے سوچتے اور عطیہ فیضی کو تحریر کرتے کہ آہ! وہ دن پھر کبھی لوٹ کر نہ آئیں گے ۹ ۔ بہرحال ذہنی اور روحانی کرب کی یہ کیفیت محض عارضی تھی اور اقبال کی غیر معمولی قابلیت کو مستقل طور پر مفلوج نہ کر سکتی تھی ۔ ان کی تخلیقی قوتوں کی سمت تو پہلے ہی سے متعین تھی ۔ البتہ شعر یا نثر کے لباس میں ان کے افشا ہونے کا انتظار تھا ۔ اضطراب کی کیفیت تو محض رستے کی رکاوٹ تھی اور اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ اس تجربے نے اقبال کی شخصیت کو جھنجھوڑ کر انہیں جرمن ادب کے مطالعے کے زیر اثر رومانی طرز کی شاعری کی گرفت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آزاد کر دیا ؛ کیونکہ اس مرحلے کو عبور کرنے کے بعد انہوںنے پھر کبھی ۔۔۔۔ کی گود میں بلی دیکھ کر ’’یا ‘‘ پھول کا تحفہ عطا ہونے پر قسم کی نظموں کی طرف رجوع نہیں کیا ۔ اقبال کی بعض یورپی منظومات یا ان جیسی چند نظموں کا ، جو واپس آ کر لکھی گئیں ، شمار ادب کی اصطلاح کے مطابق رومانی شاعری میں ہو سکتا ہے لیکن بنیادی طور پر وہ رومانی شاعر نہ تھے ، اس لیے یہ استدلال کہ اگر اقبال اضطراب کے اس مرحلے سے نہ گزرتے تو بہت کچھ بن سکتے تھے ، درست نہیں ۔ وہ خواہ اس مرحلے سے گزرتے یا نہ گزرتے ، بننا انہوں نے وہی کچھ تھا ، جو بالآخر بنے ۔ اس دور میں فراہمی روز گار کے ساتھ اقبال ازدواجی سکون کی تلاش میں بھی سرگرداں تھے۔ یورپ سے واپسی پر ان کی عمر اکتیس برس کی ہو چکی تھی اور پہلی بیوی سے کشیدگی کی ناگوار صورت حال طلاق میں نہیں تو مستقل علیحدگی کی شکل میں ختم ہو چکی تھی ۔ اقبال کے سامنے حقیقی ازدواجی سکون کی دو مثالیں موجود تھیں ، ایک آرنلڈ کا گھر اور دوسری سر اکبر حیدری اور ان کی اہلیہ کی آپس میں وابستگی ۱۰ ۔ اقبال اعلیٰ تعلیم سے آراستہ ہونے کے علاوہ ایک وجیہ صورت کے مالک تھے ۔ سرخ چہرہ ، کشادہ پیشانی ، بھاری ابرو ، روشن آنکھیں ، ستواں ناک ، باریک ہونٹوں پر بھوری مونچھیں ، بھورے بال ، میانہ قد ، متناسب جسم اور نہایت نفیس ہاتھ ۔ یورپ سے واپسی کے بعد عموماً سیاہ سوٹ زیب تن کرتے اور سر پر ترکی ٹوپی اوڑھتے کبھی کبھار مانیکل (ایک آنکھ کی عینک) بھی استعمال کرتے تھے ۱۱۔ اقبال کے احباب کو معلوم تھا کہ وہ دوسری شادی کے خواہاں ہیں اور یہ بات باہر نکل چکی تھی ۔حیرت کا مقام ہے کہ اس قدامت پسندی کے زمانے میں بھی انہیں شادی کے سلسلے میں کئی پڑھی لکھی خواتین کے خطوط آیا کرتے تھے ۔ بعض خواتین رشتے کی خاطر اپنے قاصد بھی ان کی طرف بھجواتیں اور چند ایک تو انہیں ملنے بھی آ گئیں ۱۲ ۔ اقبال اگر چاہتے تو ایسی ہی کسی اعلیٰ تعلیم سے آراستہ خاتون سے شادی کر سکتے تھے ، لیکن روشن خیال ہونے کے باوجود وہ بعض معاملات میں روایتی قدامت پسندی کو چھوڑ نے کے لیے تیار نہ ہوئے ۔ معلوم ہوتا ہے انہیں کسی ایسی خاتون کی تلاش تھی جو ان کی بیوی کی حیثیت سے ان کے خاندان کے افراد سے ان کے گہرے تعلق اور وابستگی کو قائم رکھ سکے ۔ دوسری شادی کے سلسلے میں ، جو ۱۹۱۰ء میں ہوئی ، مرزا جلال الدین کا بیان ہے کہ اقبال کے دوست شیخ گلاب دین وکیل نے موچی دروازے کے ایک کشمیری خاندان کی صاحبزادی کے متعلق تحریک کی جو اس وقت وکٹوریہ گرلز اسکول میں پڑھتی تھی ۔ جب بات پکی ہو گئی تو اقبال کے بڑے بھائی سیالکوٹ سے آئے اور مرزا جلال الدین ، میاں شاہنواز ، مولوی احمد دین اور شیخ گلاب دین کو ساتھ لے کر اقبال کے سسرال پہنچے اور وہاں ان کا نکاح سردار بیگم سے پڑھا گیا ۔ اس موقع پر صرف نکاح ہوا ، رخصتی عمل میں نہ آئی ۱۳ ۔ اسی سلسلے میں علی بخش کا بیان ہے کہ وہ اور والدئہ اقبال ، اقبال کے رشتے کی خاطر کسی کے گھر گئے ۔ جب واپس آ رہے تھے تو ایک نائن جو سیالکوٹ کی رہنے والی تھی والدئہ اقبال سے ملی ، والدئہ اقبال نے اسے بتایا کہ وہ اپنے چھوٹے لڑکے کے لیے کسی موزوںرشتے کی تلاش میں ہیں ۔ اس پر وہ نائن والدئہ اقبال کو سردار بیگم کے گھر لے گئی ، اور والدئہ اقبال نے سردار بیگم کو دیکھتے ہی فیصلہ کر لیا کہ یہ رشتہ بہت مناسب ہے ۱۴ ۔ سردار بیگم سے اقبال کے عقد کے متعلق منشی طاہر الدین کا بیان ، جو ان کے فرزند شیخ بشیر احمد کی وساطت سے راقم تک پہنچا ، قدرے مختلف ہے ۔ اس بیان کے مطابق اقبال اپنی بیوی کا انتخاب اولاً خود کرنا چاہتے تھے ۔ سردار بیگم کے برادر خواجہ عبدالغنی ، منشی طاہر الدین کے احباب میں سے تھے ۔ دونوں بہن بھائی موچی دروازے کے ایک غریب کشمیری خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور بچپن ہی سے یتیم ہو گئے تھے ۔ دونوں کی پرورش ان کی پھوپھی نے کی ۔ پھوپھا ضلع کچہری میں عرضی نویس تھے ۔ سردار بیگم کسی اسکول میں نہ جاتی تھیں بلکہ انہوں نے قرآن مجید اور معمولی اردو پڑھنے لکھنے کی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی تھی ۔ خواجہ عبدالغنی قالین بیچنے کا کاروبار کرتے تھے ۔ جب سردار بیگم سے رشتے کے متعلق منشی طاہر الدین نے تحریک کی تو اقبال نے صاحبزادی کی تصویر دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ منشی طاہر الدین نے تصویر خواجہ عبدالغنی سے یہ کہہ کر حاصل کی کہ والدئہ اقبال کو دکھانے کے لیے سیالکوٹ بھیجنا ہے ۔ اقبال نے سردار بیگم کی تصویر دیکھ کر انہیں پسند فرمایا ۔ بعد میں والدئہ اقبال سیالکوٹ سے لاہور آئیں اور سردار بیگم کے گھر جا کر رشتے کی بات کی ۔ پھر اقبال اپنے بڑے بھائی ، والدہ اور چند احباب سمیت سسرال پہنچے ، جہاں ان کا نکاح سردار بیگم سے پڑھا گیا ۔ ان مختلف روایتوں میں سے خواہ کوئی بھی درست تسلیم کر لی جائے ، حقیقت یہ ہے کہ سردار بیگم کسی سکول میں نہ پڑھتی تھیں ۔ ان کا اقبال سے عقد ۱۹۱۰ء میں ہوا اور اس موقع پر صرف نکاح ہی پڑھا گیا، رخصتی عمل میں نہ آئی ۔ راقم کے اندازے کے مطابق اس وقت سردار بیگم کی عمر انیس برس کے لگ بھگ تھی ۔ رخصتی کا معاملہ اس لیے التوا میں پڑ گیا کہ نکاح کے فوراً بعد اقبال کو دو ایک گمنام خط موصول ہوئے ، جن میں سردار بیگم کے چال چلن پر نکتہ چینی کی گئی تھی۔ اقبال شدید تذبذب میں پڑ گئے ۔ یہ زمانہ ان کی ذہنی پریشانی کا تھا ۔ ایک بیوی سے علیحدگی ہو چکی تھی ۔ دوسری کے متعلق یہ صورت پیدا ہو گئی ۔ احباب سے ذکر کیا ۔ انہوں نے معاملے کی تہ تک پہنچنے کی ہامی بھر لی ۔ بہرحال اقبال نے ارادہ کر لیا کہ سردار بیگم کو طلاق دے کر کہیں اور شادی کرنے کی کوشش کریں گے ۔ اسی تذبذب میں تین سال مزید گزر گئے ۔ بالآخر اقبال کے ایک پرانے دوست سید بشیر حیدر جو اس زمانے میں ایکسائز انسپکٹر لدھیانہ تھے، لدھیانے کے ایک متمول کشمیری خاندان کی صاحبزادی مختار بیگم کے رشتے کا پیغام لے کر آئے ۔ مختار بیگم کا خاندان لدھیانے میں ’’نو لکھیوں ‘‘ کا خاندان کہلاتا تھا ۔ چنانچہ جب رشتہ طے ہو گیا تو اقبال کی برات لاہور سے لدھیانہ گئی ۔ مرزا جلال الدین نے اپنے بیان میں اس شادی کی تاریخ کا ذکر نہیں کیا۱۵ ، اسی طرح عبدالمجید سالک نے بھی اقبال کی اس شادی کی تفصیل بیان کرتے وقت سن کا ذکر نہیں کیا۱۶ ۔ لیکن غالب امکان ہے کہ یہ شادی ۱۹۱۳ء کے ابتدائی حصے میں ہوئی۔ اقبال ، مختار بیگم کو ساتھ لے کر لاہور پہنچے جہاں انہوں نے انار کلی والے مکان میں قیام کیا ۔ اسی اثناء میں سردار بیگم سے متعلق گمنام خطوط کے سلسلے میں جب مرزا جلال الدین اور اقبال کے دیگر احباب نے تحقیق کرائی تو راز کھلا کہ گمنام خطوط تحریر کرنے والا کوئی وکیل تھا ، جو سردار بیگم کی شادی اپنے بیٹے کے ساتھ کرنا چاہتا تھا ۔ سردار بیگم نے ، جو اقبال سے عقد کے سبب تین سال تک طرح طرح کے مصائب پرداشت کرتی رہیں ، خود بھی جرأت کر کے ایک خط اقبال کو بھجوایا ، جس میں لکھا کہ انہیں اس بہتان پر یقین نہ کرنا چاہیے تھا ، اور یہ کہ میرا نکاح تو اب آپ سے ہو چکا ہے ، اب میں دوسرے نکاح کا تصور بھی نہیں کر سکتی ۔ اسی حالت میں پوری زندگی بسر کروں گی اور روزِ قیامت آ پ کی دامنگیر ہوں گی۱۷۔ اقبال یہ خط پڑھ کر اپنی غلطی پر سخت پشیمان ہوئے۔ مختار بیگم کو صورتِ حالات سے باخبر کیا۔ وہ نہایت نرم دل اور حلیم طبیعت کی تھیں ، کسی کا دکھ ان سے برداشت نہ ہوتا تھا ، سردار بیگم کی بابت سن کر رونے لگیں ۔ بالآخر اقبال ، سردار بیگم کو گھر لانے کے لیے تیار ہو گئے، لیکن چونکہ ایک مرحلے پر دل میں انہیں طلاق دینے کا ارادہ کر چکے تھے اس لیے سردار بیگم سے اگست یا ستمبر ۱۹۱۳ء میں دوبارہ نکاح پڑھوایا گیا ۱۸۔ ان ایّام میں مختار بیگم اپنے میکے لدھیانے روانہ ہو گئیں اور اقبال سردار بیگم کو ساتھ لے کر سیالکوٹ جا پہنچے ۔ چند ہفتوں کے بعد انارکلی والے مکان میں دونوں بیویاں اکٹھی ہو گئیں ۔ مختار بیگم اور سردار بیگم قریب قریب ایک ہی عمر کی تھیں اور دونوں میں ایسی محبت پیدا ہو گئی جو بہنوں میں بھی نہیں ہوتی۔ سردار بیگم سے شادی کے متعلق اقبال اپنے ایک خط محررہ ۲۶؍ اکتوبر ۱۹۱۳ء بنام مہاراجا کشن پرشاد میں تحریر کرتے ہیں: تیسری بیوی آپ کے تشریف لے جانے کے کچھ عرصے بعد کی۔ ضرورت نہ تھی، مگر یہ عشق و محبت کی ایک عجیب و غریب داستان ہے ۔ اقبال نے گوارانہ کیا کہ جس عورت نے حیرت انگیز ثابت قدمی کے ساتھ تین سال تک اس کے لیے طرح طرح کے مصائب اٹھائے ہوں، اسے اپنی بیوی نہ بنائے ۔ کاش دوسری بیوی کرنے سے پیشتر یہ حال معلوم ہوتا ۱۹۔ اقبال نے اپنی ازدواجی زندگی کے مسئلے کو سلجھانے کی خاطر پہلی بیوی سے علیحدگی اختیار کی تھی ۔ وہ کریم بی کی جگہ ایک رفیقۂ حیات کے خواہاں تھے ، مگر حالات نے ایسی صورت اختیار کی کہ انہیں ایک کی بجائے دو بیویوں کا شوہر بننا پڑ گیا ۔ انارکلی والا مکان ، جس میں اقبال صرف علی بخش کے ساتھ رہا کرتے تھے ، ۱۹۱۳ء میں سیالکوٹ والے گھر کی طرح خاصا آباد ہو گیا ۔ مختار بیگم اور سردار بیگم کے علاوہ اقبال کی ایک غیر آباد بہن کریم بی بھی یہیں رہنے لگیں ۔ نیز شیخ عطا محمد کی دو چھوٹی بیٹیوں عنایت بیگم اور وسیمہ بیگم کو سردار بیگم سیالکوٹ سے اپنے ساتھ لے آئیں ۔ گھر میں چہل پہل ہو گئی ۔ سب کے سب خوشی و مسرت سے دن گزارنے لگے ۔ اقبال شام کو کاموں سے فراغت کے بعد اپنی بہن اور بیویوں کے ساتھ عموماً تاش یا لوڈو کھیلتے ، اپنی بھتیجیوں کے ساتھ ہنسی مذاق کی باتیں کرتے یا کوٹھے پر چڑھ کر کبوتر اڑاتے ۔ بیویوں اور بہن کے اصرار پر اقبال نے اپنی پہلی بیوی کو بھی بلوالیا ۔ سو کریم بی ایک آدھ بار انارکلی والے مکان میں آ کر ان سب کے ساتھ رہیں ، مگر صرف چند دنوں کے لیے۔ مردانے میں پہلے کی طرح اقبال کے احباب کی محفلیں لگتیں ۔ گرامی آ جاتے تو کئی کئی دن قیام کرتے ۔ گرمیوں کی تعطیلات میں سب سیالکوٹ چلے جاتے اور وہاں رونق لگتی ۔ جولائی ۱۹۱۳ء میں اقبال کے دوست مہاراجہ کشن پرشاد لاہور پہنچے ۔ ان کے استقبال کے لیے اقبال اسٹیشن پر موجود تھے ۔ مہاراجہ کشن پرشاد کے قیام لاہور کے دوران اقبال کا بیشتر وقت ان کے ساتھ گزرا ۔ وہ انہیں ساتھ لے کر آغا حشر کا شمیری کے تھیٹر میں بھی گئے ۲۰ ۔ اسی سال اقبال ریاست الور گئے ۔ سر سید علی امام نے انہیں بتایا تھا کہ مہاراجہ الور کو ایک قابل پرائیویٹ سیکرٹری کی ضرورت ہے اور وہ اس سلسلے میں مہاراجہ سے اقبال کا ذکر کر چکے ہیں ۔ اقبال ، منشی طاہر الدین اور علی بخش کے ہمراہ الور پہنچے ، مہمان خانۂ شاہی میں ٹھہرائے گئے ۔ مہاراجہ سے ملاقات ہوئی تو پتا چلا کر تنخواہ چھ سو روپے ہو گی۔ اقبال کے خیال میں تنخواہ قلیل تھی ۔ اس لیے خاموشی سے لاہور واپس آ گئے ۔اپنے خط محررہ یکم اکتوبر ۱۹۱۳ء بنام مہاراجہ کشن پرشاد میں تحریر کرتے ہیں : مہاراجہ بہادر الور کی طرزِ گفتار سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ مجھے ملازمت میں لینے کے خواہشمند ہیں مگرپرائیویت سیکرٹری کی تنخواہ اتنی تھی کہ میں اسے قبول نہ کر سکتا تھا ۔ اس کے علاوہ غالباً ان پر زور ڈالا گیا ہے کہ اس جگہ کے لیے کسی ہندو کی تقرری مناسب ہے اور شاید یہ درست بھی ہو یہ وجہ تھی میرے الور نہ جانے کی۲۲۔ انہی کے نام اپنے ایک اور خط محررہ ۲۶ اکتوبر ۱۹۱۳ء میں فرماتے ہیں : الور کی ملازمت نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی تنخواہ قلیل تھی ۔ سات آٹھ سو روپے ماہوار تو لاہور میں بھی مل جاتے ہیں ۔ اگرچہ میری ذاتی ضروریات کے لیے تو اس قدر رقم کافی بلکہ اس سے زیادہ ہے تاہم چونکہ میرے ذمے اوروں کی بھی ضروریات پوری کرنا ہے ، اس واسطے ادھر ادھر دوڑ دھوپ کرنے کی ضرورت لا حق ہوتی ہے ۔بڑے بھائی جان جنہوں نے اپنی ملازمت کا اندوختہ میری تعلیم پر خرچ کر دیا ۔ اب پنشن پا گئے ، ان کے اور ان کی اولاد کے اخراجات بھی میرے ذمے ہیں اور ہونے چاہئیں ، خود تین بیویاں رکھتا ہوں اور دو اولادیں ۔۔۔۔ غرض کہ مختصر طور پر یہ حالات ہیں ، جو مجھے بسا اوقات مزید دوڑ دھوپ کرنے پر مائل کر دیتے ہیں۲۳۔ مہاراجہ کشن پرشاد اقبال سے لاہور میں مل کر ان کے اتنے گرویدہ ہوئے کہ حیدر آباد واپس پہنچتے ہی انہیں فکر معاش سے نجات دلانے کے لیے ان کے شایانِ شان وظیفے کی پیش کش کی ، لیکن اقبال نے نہایت خوبصورتی سے ان کی پیش کش ٹال دی اور انہیں متذکرہ بالا خط ہی میں تحریر کیا: جو عنایت آپ اقبال کے حال پر فرماتے ہیں ، اس کا شکریہ کس زبان سے ادا ہو ۔ دوست پروری اور غربت نوازی آپ کے گھرانے کا خاصہ ہے ۔ کیوںنہ ہو ، جس درخت کی شاخ ہو ، اس کے سائے سے ہندوستان بھر مستفید ہو چکا ہے ۔۔۔۔ میں تو اپنا سامان یعنی قاش ہاے دل صد پارہ ایسے وقت بازار میں لے کر آیا ، جب سوداگروں کا قافلہ رخصت ہو چکا تھا۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے کہ آپ کی جانب سے ’’بوے کسے‘‘ آتی ہے۔۔۔۔ آپ کی فیاضی کہ زمان و مکان کی قیود سے آشنا نہیں ہے ، مجھ کو ہر شے سے مستغنی کر سکتی ہے ، مگر یہ بات مروّت و دیانت سے دور ہے کہ اقبال آپ سے ایک بیش قرار تنخواہ پائے اور اس کے عوض میں کوئی ایسی خدمت نہ کرے ، جس کی اہمیت بقدر اس مشاہرے کے ہو ۔ خدا کو منظور ہوا تو کوئی نہ کوئی ایسی صورت نکل آئے گی کہ اقبال جو ہمیشہ سے معنوی طور پر آپ کے ساتھ رہا ہے ، صوری طور پر بھی آپ کے ہمراہ ہو گا ۔ آپ نے جس وسعت قلب سے اقبال کو یاد فرمایا ، مروت کی تاریخ میں یادگار رہنے کے قابل ہے۔ اقبال کی ذات کے متعلق ان کی زندگی میں مخالفین مختلف قسم کے بہتان تراشنے لگے تھے ، گو انہوں نے ایسے لوگوں کی باتوں کی پروا نہ کی اور انہیں کبھی درخور اعتنا نہ سمجھا۔ ان کی زندگی ہی میں ان پر شراب نوشی کا الزام لگا ، انہیں عیاش ظاہر کیا گیا اور یہ من گھڑت قصہ بھی مشہور کیا گیا کہ ایام جوانی میں وہ ایک طوائف کے قتل کے مرتکب ہوئے تھے اس سے پیشتر کہ اقبال پر عائد کردہ ان الزامات کی تردید میں کچھ کہا جائے، چند سوالات کا جواب دینا ضروری ہے ۔ اوّل یہ کہ اقبال کے مخالفین کون تھے ؟ دوم یہ کہ اقبال کی کردار کشی کی مہم کا آغاز کب ہوا ؟ اور سوم یہ کہ اقبال خود کس حد تک ایسے بے بنیاد الزامات کی تشہیر کے ذمے دار تھے ؟ اقبال ایک ایسی ہستی تھے ، جس نے جواں عمری ہی میں اپنے کس بل پر شہرت حاصل کی ۔ ایسی ہستیاں عموماً جاننے والوں کے لیے حسد کا سبب بنتی ہیں ۔ پس جوں جوں اقبال کے حامیوں اور عقیدت مندوں میں اضافہ ہوتا گیا، ان کے مخالفین کی تعداد بھی بڑھتی چلی گئی ۔ اقبال کے مخالفین میں پہلا گروہ تو دہلی اور لکھنؤ کے اہل زبان کا تھا ۔ ان لوگوں میں سے اکثر نے لسانی تعصب کی بنا پر اقبال کے جدید اسالیب بیان میں کیڑے نکالے ۔ لیکن ان کے اعتراضات کا ایک پہلو اور بھی تھا ۔ معترضین میں بعض اہل سخن ایسے تھے جو تنزل کے عہد کی شاعری کو اب تک سینے سے لگائے بیٹھے تھے اور جن کے نزدیک مے نوشی اور طوائفوں سے عشق کے بغیر شاعری نا ممکن تھی ۔ وہ اقبال کی دور احیاء کی شاعری سے مانوس نہ ہوتے تھے ، اس لیے اقبال کے متعلق ایسی باتیں اڑاتے رہتے ، جن سے ظاہر ہو کہ اقبال انہی کی طرح کا شاعر ہے ۔ اس سلسلے میں پنڈت شیو نا رائن شمیم کا بیان غور طلب ہے ۔ تحریر کرتے ہیں : اسٹیشن پر ایک شاعر جلال صاحب بقول خود تلمیذ امیر مینائی مل گئے ۔انہوں نے مجھے اردو بولتے سن کر سمجھا کہ میں ہندوستان کا رہنے والا ہوں ۔ باہم تعارف ہوا اور چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ جب میں نے بتلایا کہ میں لاہور رہتا ہوں تو آپ نے فرمایا کہ حضرت اقبال کا کیا حال ہے؟ میںنے عرض کیا کہ میں گاہے گاہے نظم کی اصلاح ان سے لیا کرتا ہوں ۔ بقول ان کے اقبال نے کبوتر پالے ہیں ، بیرسٹری سے منحرف ہو گئے ہیں ۔ کہتے تھے کہ وہ اور ہم خوب ایک دوسرے سے واقف ہیں ۔ آگرے میں ان سے خوب اختلاط رہا ہے ۔ وہ مجھے رنگین مزاج معلوم ہوئے ۔۔۔۔ میں نے انہیں بتلایا کہ آپ کو کسی نے غلط بتلایا ہے ۔ حضرت اقبال روز مرہ کچہری آتے ہیں اور وکالت کرتے ہیں ۔ نظم نگاری ان کا شغل ثانی ہے ۔ اب فارسی میں زیادہ لکھتے ہیں ۔ میں نے ان سے یہ بھی کہا کہ اقبال در اصل ہندوئوں کی دولت تھی جو آپ کے قبضے میں چلی گئی ۔۔۔۔ شاعر صاحب قدرے متحیر ہوئے ۲۴ ۔ اقبال کے مخالفین میں دوسرا گروہ ، جو رفتہ رفتہ تعداد میں بڑھتا چلا گیا ، کم علم یا تنگ نظر علماء کا تھا ۔ اقبال ، اسلام سے متعلق سر سید احمد خان کی انقلاب انگیز تحریروں سے آشنا تھے ،ا ور ان کے مداح بھی تھے ، لیکن جہاں تک سر سید احمد خان کے مذہبی اور سیاسی افکار کا تعلق ہے ، وہ سمجھتے تھے کہ ان میں اصلاح کی گنجائش ہے ۔ قدامت پسند علماء شروع ہی سے سر سید احمد خان کے خلاف تھے ۔ ان کی نگاہ میں جو کوئی بھی وقت کے جدید تقاضوں کے مطابق علمِ کلام یا فقہ کی تعبیر کی ضرورت کا ذکر چھیڑتا ، وہ بدعتی اور مغرب زدہ قرار پاتا ۔ اس کے علاوہ اقبال نے اپنی ملی شاعری کے ابتدائی مراحل ہی میں بعض نظموں میں ایسے علماء کو تضحیک کا نشانہ بنایا تھا ، کیونکہ ان کے نزدیک کم علم ملائوں کا طبقہ ہندوستان میں اسلامی ترقی کو ضعف پہنچا رہا تھا ۲۵ ۔ جس زمانے میں تحریکِ خلافت زوروں پر تھی اور ہندوستان کے بیشتر علماء ہندوئوں کے ساتھ مل کر ترک موالات کی تحریک میں حصہ لے رہے تھے ، اقبال نے اسلامیہ کالج لاہور کو بند رکھنے اور طلبہ کو عدم تعاون کے لیے تیار کرنے کے سلسلے میں کانگرسی ، ذہنیت رکھنے والے علماء سے اختلاف کیا تھا ۲۶ ۔ بعد میں جب سلطان ابن سعود کی تطہیر حجاز کے سلسلے میں ہندوستان کے علماء دو گروہوں میں بٹ گئے اور سلطان ابن سعود کے حامیوں اور مخالفوں کے درمیان کشمکش شروع ہوئی اور دونوں طرف کے علماء نے تکفیر کا ہنگامہ برپا کیا تو اقبال نے سلطان ابن سعود کی حمایت میں بیان دے دیا ۲۷ ۔ اقبال کے مخالف علماء ان سے پہلے ہی سے خار کھائے بیٹھے تھے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مولوی ابو محمد دیدار علی خطیب مسجد وزیر خان لاہور نے اقبال کے خلاف کفر کا فتویٰ صادر کر دیا۔ عبدالمجید سالک تحریر کرتے ہیں : اس فتویٰ پر ملک بھر میں شور مچ گیا، مولوی دیدار علی پر ہر طرف سے طعن و ملامت کی بوچھاڑ ہوئی۔مولانا سید سلیمان ندوی نے زمیندار میں اس جاہلانہ فتویٰ کی چتھاڑ کر دی ۔ خود زمیندار نے فتویٰ پر تبصرہ کیا ۔۔۔۔ مولوی دیدار علی کی اس حرکت سے علمائے اسلام کے اجتماعی وقار کو سخت صدمہ پہنچا ، کیونکہ مسلمانوں کے تمام طبقات عالم و عامی ، قدیم تعلیم یافتہ اور جدید پڑھے ہوئے لوگ ، علامہ اقبال کو نہایت مخلص مسلمان ، عاشقِ رسولؐ ، درد مندِ ملت، حامیِ دینِ اسلام تسلیم کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر علماء کے نزدیک اقبال جیسا مسلمان بھی کافر ہے تو پھر مسلمان کون ہے ۲۸ ۔ بہر حال کانگرسی ذہنیت رکھنے والے علماء کا اقبال سے تنازع ختم نہ ہوا ۔ ان کی زندگی کے آخری چند ماہ میں جب قوم و ملت کی توضیح کے مسئلے پر ان کا مولانا حسین احمد مدنی سے اختلاف ہوا تو مولانا حسین احمد مدنی کے حامیوں نے گمنام خطوط کے ذریعے ایسے ہی الزامات اقبال پر لگائے۲۹۔ بعد میں جب مولانا حسین احمد مدنی نے ایک اخباری مضمون میں اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے تسلیم کر لیا کہ انہوں نے مسلمانان ہند کو جدید نظریۂ قومیت کے اختیار کرنے کا مشورہ نہیں دیا تھا ، تو اقبال نے اعلان کیا کہ انہیں مولانا حسین احمد مدنی کے اس اعتراف کے بعد کسی قسم کا حق ان پر اعتراض کرنے کا نہیں رہتا ۔ اقبال نے اپنے اعلان میں مزید کہا : میں مولانا کے عقیدت مندوں کے جوش عقیدت کی قدر کرتا ہوں ، جنہوں نے ایک دینی امر کی توضیح کے صلے میں پرائیویٹ خطوط اور پبلک تحریروں میں مجھے گالیاں دیں۔ خدا تعالیٰ ان کو مولانا کی صحبت سے زیادہ مستفید کرے۳۰۔ سو کانگرسی ذہنیت رکھنے والے علماء اور ان کے حامیوں کے لیے چونکہ اقبال کے موقف کو باطل ثابت کرنا ممکن نہ تھا ، اس لیے انہوں نے اقبال کی ذات پر بے دریغ کیچڑ اچھالا ۔ ان بدتوفیقوں کے پراپیگنڈے کے زیر اثر اور معاصر انہ چشمک کے نتیجے میں مجلس احرار کے قائد عطا اللہ شاہ بخاری نے بھی اقبال کے متعلق فیصلہ دے دیا کہ اقبال کا قلم تو تمام عمر صحیح رہا لیکن قدم اکثر و بیشتر غلط ۳۱ ۔ اقبال کے مخالفین میں تیسرا گروہ احمدی عقیدہ رکھنے والوں کا تھا ۔ اقبال کی یورپ سے واپسی پر پنجاب میں احمدی تحریک کا چرچا تھا ۔ انہوں نے احمدی تحریک کا مطالعہ کیا ، لیکن اس مطالعے کے باوجود شروع شروع میں اس تحریک سے اپنی بیزاری کا وہ اظہار نہیں کیا جو بعد میں انہوں نے نظم و نثر دونوں میں شدت کے ساتھ کیا ۔ ۱۹۱۰ء میں اپنے ایک انگریزی خطبہ بعنوان ’’مسلم کمیونٹی، ایک معاشرتی مطالعہ‘‘ میں جو علی گڑھ میں دیا گیا ، اقبال نے ایک مقام پر قادیانی فرقے کو پنجاب میں خالصتاً مسلم طرز کے کردار کا طاقتور مظہر بیان کیا ۳۲ ۔ احمدیوں کی شروع ہی سے کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طرح اقبال جیسی غیر معمولی قابلیت کی حامل شخصیت کو احمدی مذہب قبول کر لینے کے لیے رضا مند کیاجائے ۔ چنانچہ ان میں سے اقبال کو جاننے والے کسی شخص نے انہیں بیعت کا پیغام بھیجا ، لیکن اقبال نے اپنے منظوم جواب میں ایسا کرنے سے معذرت کی ۔ اس کے بعد احمدیوں کے ایک اخبار نے خبر وضع کر کے شائع کر دی ، کہ اقبال نے احمدی عقیدہ رکھنے والے ایک خاندان کی لڑکی سے شادی کر لی ہے ۔ اس پر اقبال نے اس خبر کی تردید میں ایک بیان دیا کہ انہوں نے ایسی کوئی شادی نہیں کی ، بلکہ جس کسی نے بھی یہ شادی کی ہے ، وہ کوئی اور ڈاکٹر اقبال ہوں گے۳۳ ۔جب احمدیوں کو اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہ ہوئی تو انہوں نے اقبال کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیا ۔ مگر جب اقبال نے احمدی تحریک سے بیزاری کا اظہار کھل کر کیا ، احمدیوں کے عقائد کو اسلام کے منافی ثابت کرکے انہیں ملت اسلامیہ سے خارج گردانا اور انگریزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ انہیں ایک علیحدہ اقلیت قرار دیا جائے ، تو وہ ان کے دشمن ہو گئے اور ا نہوں نے اقبال کی کردار کشی کو اپنا شعار بنا لیا ۔ اقبال کے مخالفین میں چوتھا گروہ مشائخ کا تھا ۔ اقبال ماضی کے صوفیاے کرام کی بڑی عزت کرتے تھے اور ان کی روحانی تعلیمات ، نیز ہندوستان میں اشاعت و تبلیغ اسلام کے سلسلے میں ان کی خدمات کی عظمت کے معترف تھے ۔ وہ اکثر روحانی فیض کے حصول کی خاطر بعض درگاہوں پر بھی جاتے۔ حضرت نظام الدین محبوب الٰہیؒ،حضرت شیخ احمد سرہندی ، مجدد الف ثانیؒ ، حضرت علی ہجویری داتا گنج بخشؒ ان کے محبوب صوفیہ میں سے تھے ، لیکن ہمعصر پیروں اور درویشوں میں سے اکثریت کو وہ مسلمانوں کے عہد تنزل کی یاد گاریں سمجھتے تھے ، اور ان کی نااہلی ، عادات و خصائل اور طور طریقوں کے سبب انہیں اپنی تنقید کا نشانہ بناتے رہتے تھے ۔ ’’اسرار خودی‘‘ کے پہلے ایڈیشن میں اقبال نے مسلمانوں پر یہ واضح کرنے کے لیے کہ کس قسم کی ادبیات کے مطالعے سے قوموں میں خودی یا خود داری پیدا ہوتی ہے ، خواجہ حافظ شیرازی کی تعلیمات پر تبصرہ کرتے ہوئے انہیں گوسفندان قدیم کے گروہ میں شامل کر دیا۔ حافظ کے متعلق چونکہ صوفیہ کے حلقے میں ایک خاص تقدس کا عقیدہ موجود تھا اس وجہ سے ’’اسرار خودی‘‘کی اشاعت کے بعد اقبال پر اعتراضات کی بوچھاڑ ہونے لگی اور انہیں تصوف کا مخالف اور صوفیائے کرام کی روحانی تعلیمات کا دشمن قرار دیا گیا ۔ اقبال کے مخالفین میں پانچواں گروہ بالشویک ، کمیونسٹ یا سو شلسٹ خیالات رکھنے والوں کا تھا۔ اس گروہ کی ایک شاخ نے بعد میں ترقی پسند مصنفین کی صورت اختیار کر لی ، ’’خضر راہ ‘‘ اور ’’پیام مشرق‘‘ کی اشاعت کے بعد اشتراکی خیالات کی تبلیغ کرنے والے کسی اخبار نے لکھا کہ اقبال یقینا ایک اشتراکی ہی نہیں بلکہ اشتراکیت کے مبلغ اعلیٰ ہیں ۔ اس کی تردید میں اقبال نے زمیندار میں اپنا ایک خط بغرض اشاعت بھیجا جس میں تحریر کیا کہ وہ مسلمان ہیں۔ اُن کا عقیدہ ہے کہ انسانی جماعتوں کے اقتصادی امراض کا بہترین علاج قرآن نے تجویز کیا ہے اور ان کے نزدیک اشتراکی خیالات رکھنا دائرہ اسلام سے خارج ہونے کے مترادف ہے ۳۴ ۔لہٰذا ہندوستان کے سوشلسٹ اور ان کے حامی ترقی پسند مصنفین بھی ان کی ذات پر کیچڑ اچھالنے لگے ۔ انہوں نے نہ صرف اقبال کے خلاف فرسودہ الزامات کی تشہیر کی بلکہ بعد میں ایک نئے الزام کا اضافہ بھی کر دیا کہ اقبال برطانوی استعمار کے گماشتے ہیں اور انگریز کے اشارے پر ہندوستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرانے کے درپے ہیں ۔ اقبال کے مخالفین کا چھٹا گروہ مختلف قسم کے افراد پر مشتمل تھا ۔ ان میں سے بعض تو اقبال کے اپنے احباب تھے ، جو بظاہر ان کے عقیدت مند تھے ، لیکن حسد کی بنا پر یا اپنے ذاتی اغراض کے حصول کی خاطر انگریز حاکموں سے ان کی شکایتیں کرتے یا ان کے متعلق طرح طرح کے بہتان تراشتے رہتے تھے۔ اسی گروہ میں سر شادی لعل جیسے پنجاب کے متعصب ہندو بھی شامل تھے ، جو کسی بھی قابل مسلمان کو زندگی میں ترقی کرتے دیکھنا گوارا نہ کر سکتے تھے۳۵۔ انگریز حاکموں نے اقبال کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں سر کا خطاب دیا اور ہندوستان کے آیندہ دستور میں مسلمانوں کے ملّی تشخص کی حفاظت کرنے والے قائدین میں سے انہیں ایک ممتاز قائد تسلیم کرتے ہوئے دو مرتبہ گول میز کانفرنس کے اجلاسوں میں شرکت کے لیے نامزد بھی کیا ، لیکن وہ اقبال کو ہمیشہ شبہے کی نظر سے دیکھتے تھے ان سے میل ملاپ رکھنے والوں پر نگاہ رکھی جاتی بلکہ ملاقاتیوں کے ساتھ ان کی گفتگو کی تفصیل بھی حکومت تک پہنچتی رہتی تھی ۔ اقبال کے مخالفین کی نشان دہی سے یہ بتلانا مقصود تھا کہ جب دلائل و براہین سے کسی قابل شخصیت کے اقوال کو جھٹلانا مشکل ہو تو انسانی فطرت کے مطابق آسان طریقہ یہی ہے کہ مخالف کی کردار کشی کا راستہ اختیار کیا جائے ۔ اقبال کی کردار کشی کی مہم کا آغاز کب ہوا ؟ اس سلسلے میں راقم نے اقبال کے چند پرانے جاننے والوں سے ، رجوع کیا۔ میاں ایم ۔ اسلم کے خیال میں ترک موالات کی تحریک سے پیشتر اقبال کے بارے میں کوئی بھی بہتان انہوں نے نہیں سنا تھا ۔ اس لیے ان کی رائے کے مطابق اقبال کی کردار کشی کی مہم کا آغاز ۱۹۲۰ء کے بعد ہوا ۔ میاں امیر الدین بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔میاں ایم ۔ اسلم کے والد میاں نظام الدین سے اقبال کے گہرے مراسم تھے اور میاں ایم ۔ اسلم خود بھی ۱۹۰۹ء میں گورنمنٹ کالج کے طالب علم ہونے کی حیثیت سے اقبال کے شاگردوں میں سے تھے ۔ اس اعتبار سے راقم کے نزدیک ان کی رائے مستند ہے ۔ البتہ یہ بات طے ہے کہ اقبال کی کردار کشی کی مہم کا آغاز کانگرسی ذہنیت رکھنے والے علماء اور ان کے حامیوں نے کیا اور بعد میں کم علم یا تنگ نظر مُلّا ، عہد تنزل کی شاعری کے پرستار اہل سخن ، احمدی ، سوشلسٹ ، ترقی پسند مصنفین ، مروجہ صوفی سلاسل کے محافظ مشائخ ، اقبال کے منافق اور احکام رس احباب ، پنجاب کے بعض متعصب ہندو اور دیگر افراد بقدر ہمت اس مہم میں شامل ہوتے چلے گئے ۔ اپنے متعلق اقبال خود کس حد تک ایسے بے بنیاد الزامات کی تشہیر کے ذمہ دار تھے ؟ اس کی تفصیل میں جانے کے لیے اقبال کے عادات و خصائل پر نگاہ رکھنا ضروری ہے ۔ انہیں بچپن ہی سے صوم و صلوٰۃ کا پابند رہنے ، اور ہر صبح خوش الحانی سے قرآن مجید کی تلاوت کرنے کی تربیت دی گئی تھی۔ ذرا بڑے ہوئے تو والد کی تقلید میں تہجد پڑھنے کی عادت پڑ گئی اور شب کے آخری حصے میں بیدار ہونے کے سبب ان کا رات کا کھانا چھوٹ گیا ۔ جب لاہور آئے تو شب بیداری کی عادت قائم رہی ۔ عموماً صبح کی نماز بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھتے اور نماز کے بعد خوش الحانی سے قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتے۔ ایک مدت تک شب کا کھانا نہ کھانے کی وجہ سے انہیں رات کو بھوک ہی نہ لگتی ۔ صرف نمکین کشمیری چائے کی ایک آدھ پیالی پی لیا کرتے ۔ مہاراجہ کشن پرشاد کو اپنے ایک خط محررہ ۳۱ ؍ اکتوبر ۱۹۱۶ء میں اپنی اس عادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : صبح چار بجے کبھی تین بجے اٹھتا ہوں ، پھر اس کے بعد نہیں سوتا ۔ سوائے اس کے کہ مصلّٰی پر کبھی اُونگھ جائوں ۳۶ ۔ ان کا بیشتر کلام شب کے آخری حصے کے سکون ہی میں مرتب ہوا ۔ مسجد میں عیدین کی نماز پڑھنے ضرور جاتے تھے ورنہ عام نماز پڑھتے تو تخلّیے میں ۔ اقبال کو جوانی میں کچھ عرصے تک ورزش کرنے یا اکھاڑے میں اُتر کر کشتی لڑنے کا شوق رہا اور وہ بظاہر تندرست دکھائی دیتے تھے ، لیکن تیس پینتیس برس کی عمر سے انہیں درد گردہ اور نقرس جیسے عوارض لاحق ہونے شروع ہو گئے اور صحت خراب رہنے لگی ۔ ویسے بھی بڑے سہل مزاج تھے ، جسمانی تکلیف برداشت نہ ہوتی تھی ۔علی بخش راوی ہے کہ ایک دفعہ انارکلی والے مکان میں ان کے پائوں پر بھڑنے کاٹ لیا ۔ آپ نے اس قدر شدت کا درد محسوس کیا کہ پائوں بستر سے نیچے نہ لٹکاتے تھے ، تاآنکہ کسی ڈاکٹر کو فوری طور پر بلوا لیا گیا اور اسے بتیس روپے فیس ادا کی ، لیکن تکلیف اپنے وقت پر ہی ختم ہوئی ۔ روزہ کبھی کبھار رکھتے تھے اور جب رکھتے تو ہر گھنٹے دو گھنٹے بعد علی بخش کو بلوا کر پوچھتے کہ افطاری میں کتنا وقت باقی ہے ۔ بہر حال یہ حقیقت ہے کہ اقبال کو ، شاید ظرافت طبعی کے سبب ، پارسائی کی بجائے اپنی زندی کی تشہیر کرنے میں زیادہ لطف آتا تھا ۔ مثلاً انارکلی والے مکان میں ایک روز جب محمد دین فوق ان سے ملنے گئے تو اقبال کتابوں کی الماری کے پاس کھڑے کتابوں کو اس طرح ٹٹول رہے تھے گویا کسی خاص کتاب کی تلاش ہے ۔ فوق نے کچھ دیر تک انتظار کیا پھر بے چینی سے پوچھا کہ کس چیز کی تلاش ہو رہی ہے؟ جواب دیا ! انگوری شراب کی ایک بوتل رکھی تھی ، کل شمس العلماء مفتی عبداللہ ٹونکی آئے تھے ، دیکھ رہا ہوں ، کہیں وہ نہ لے گئے ہوں ۳۷ ۔ اسی طرح میاں شاہ دین نے اپنے گھر میں ایک عظیم الشان دعوت کا اہتمام کیا اور دستور کے مطابق اس میں انگریز مہمانوں کے لیے کسی علیحدہ کمرے میں شراب کا بندوبست بھی کر دیا ۔ میاں شاہ دین مہمانوں کا استقبال کر رہے تھے ۔ جب اقبال اور مرزا جلال الدین سے ملاقات ہوئی تو از راہ مذاق کہا کہ تم لوگوں کے لیے الگ انتظام کر رکھا ہے ۔ اس پر اقبال بر جستہ بول اٹھے میاں صاحب ! ہم نے آپ سے دو باتیں سیکھی ہیں ، ایک چھپ کر پینا ، دوسرے کسی کو چندہ نہ دینا۳۸ ۔ مہاراجہ کشن پرشاد کے ساتھ اقبال کی خط و کتابت عموماً سنجیدہ امور یا شعرو شاعری کے بارے میں ہوتی تھی ، لیکن بعض اوقات وہ اس میں بھی مذاق کا پہلو نکال لیتے ۔ ایک مرتبہ مہاراجہ کشن پرشاد نے بحالیِ صحت کے لیے انہیں کسی کشتے کا نسخہ تجویز کیا ۔ اقبال نے اپنے خط محررہ ۳۰ دسمبر ۱۹۱۵ء میں انہیں جواب دیا ۔ میری صحت عام طور پر اچھی نہیں رہتی ، کوئی نہ کوئی شکایت دامن گیر رہتی ہے ۔ دوا پر مجھے چنداں اعتبار نہیں ، ورزش سے گریز ہے ۔ اس واسطے یہ فیصلہ کر بیٹھا ہوں کہ چلو اگر مقررہ وقت سے کچھ عرصہ پہلے رخصت ہو گئے تو کیا مضایقہ ہے ۔ میرے دوست ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ورزش وغیرہ سے عمر میں اضافہ ہو گا ، مگر میرا جواب یہی ہوتا ہے کہ دس سال پہلے کیا اور پیچھے کیا ، آخر رخصت ہونا ہے تو کیوں دوا اور ورزش کا درد سر خریدا جائے ۔ سرکار نے جو نسخہ میرے لیے تجویز فرمایا ہے ضرور مفید ہو گا ، کیونکہ مجرب ہے اور مجھے اس کے استعمال کی خواہش بھی بہت ہے ۔ مگر نری خواہش سے کام نہیں چلتا ۔ استعمال کے وسائل ضروری ہیں اور وہ مفقود ۔۔۔۔ ایک مطربہ پنجاب میں رہتی ہے۔ میں نے اسے کبھی دیکھا نہیں ، مگر سنا جاتا ہے کہ حسن میں لاجواب ہے اور اپنے گذشتہ اعمال سے تائب ہو کر پردہ نشینی کی زندگی بسر کرتی ہے ۔ چند روز ہوئے اس کا خط مجھے موصول ہوا کہ مجھ سے نکاح کر لو ۔ تمہاری نظم کی وجہ سے تم سے غائبانہ پیار رکھتی ہوں اور میری تو بہ کو ٹھکانے لگا دو ۔ دل تو یہی چاہتا ہے کہ اس کا ر خیر میں حصہ لوں ، مگر کمر میں طاقت ہی نری کافی نہیں ، اس کے لیے دیگر وسائل بھی ضروری ہیں ۔ مجبوراً مہذبانہ انکار کرنا پڑا ۔ اب بتائیے کہ آپ کا نسخہ کیسے استعمال میں آئے۔ مگر میں آپ کی ولایت کا قائل ہوں کہ آپ نے ایسے وقت یہ نسخہ تجویز فرمایا کہ مریض کی طبیعت خود بخود اُدھر مائل تھی ۔ نسخہ مجھے دل سے پسند ہے مگر اس کو کسی اور وقت پر استعمال میں لائوں گا ۔ جب حالات زیادہ مساعد ہوں گے ۔ فی الحال سرکار کا شکریہ ادا کرتا ہوں:۳۹ ۔ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے اپنے ایک مضمون میں، جو ۱۹۳۸ء میں وفات اقبال کے بعد رسالہ ’’جوہر‘‘ دہلی میں شائع ہوا ، اقبال کی شخصیت کے اسی پہلو کے بارے میں تحریر کیا : اقبال کے متعلق عام خیال یہ ہے کہ وہ فقط اعتقادی مسلمان تھے ، عمل سے ان کو کچھ سروکار نہ تھا۔ اس بدگمانی کے پیدا کرنے میںخود ان کی اُفتاد طبیعت کا بھی بہت کچھ دخل ہے ۔ ان میں کچھ فرقۂ ملامتیہ کے سے میلانات تھے ، جن کی بنا پر اپنی رندی کے اشتہار دینے میں انہیں کچھ مزہ آتا تھا ، ورنہ درحقیقت وہ اتنے بے عمل نہ تھے ۔ قرآن مجید کی تلاوت سے ان کو خاصا شغف تھا اور صبح کے وقت بڑی خوش الحانی کے ساتھ پڑھا کرتے تھے مگر اخیر زمانے میں طبیعت کی رقت کا یہ حال ہو گیا تھا کہ تلاوت کے دوران میں روتے روتے ہچکیاں بندھ جاتی تھیں اور مسلسل پڑھ ہی نہ سکتے تھے ۔ نماز بھی بڑے خشوع و خضوع سے پڑھتے تھے مگر چھپ کر ظاہر میں یہی اعلان تھا کہ نرا گفتار کا غازی ہوں۴۰ ۔ اقبال کی طبیعت میں حاضر جوابی ، بذلہ سنجی اور ظرافت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں ، اور ان کی علامات بچپن ہی ظاہر ہو گئی تھیں ۔ مثلاً اسکول میں دیر سے پہنچتے استاد نے پوچھا ، کہ دیر سے کیوں آئے ہو؟ جواب دیا ، اقبال دیر ہی سے آتا ہے وغیرہ ، کالج کے ایّام میں بھی پھبتی زبردست کستے تھے ۔ ابتدائی پانچ سالہ ملازمت کے دوران جب انہوں نے انجمنِ حمایتِ اسلام کے جلسوں میں اپنی ملّی شاعری کی بنیاد رکھی تو کم علم ملائوں اور پیشہ ور پیروں کو اپنی طنز کا نشانہ بنایا ۔ ان کی نظمیں ’’زہد و رندی‘‘ اور ’’دین و دنیا‘‘ اسی عہد کی یادگار ہیں ۔ ’’دین و دنیا ‘‘ میں تو بعض ظریفانہ اشارے ایسے تھے ، جنہیں چند لوگوں نے اپنی طرف منسوب کر لیا اور یوں اقبال نے ایسے لوگوں کوناراضگی کا موقع فراہم کیا ۴۱۔قیام یورپ کے دوران میں بھی اقبال کی طبیعت پر طنز ومزاح کا عنصر غالب رہا ۔ وطن واپسی کے بعد ابتدائی دور میں سر شہاب الدین پر ان کی پھبتیاں یا مدیر ’’اخبار وطن‘‘ اور سر جوگندر سنگھ وغیرہ سے متعلق ان کے لطیفے کئی مصنفین نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیے ہیں ۔ یہ سلسلہ ان کی آخری عمر تک قائم رہا اور اقبال نے مرتے دم تک ظرافت کو نہ چھوڑا ۔ بہرحال یورپ اور وہاں سے واپسی کے ابتدائی ایام میں ، بالخصوص مولویوں سے متعلق ان کا مذاق بعض اوقات عملی صورت بھی اختیار کر لیتا جو یقینا ان کی اقبال سے شکر رنجی کا سبب بنتا ۔ طالب علمی کے زمانے میں ایک مولوی صاحب یورپ کی سیاحت کرتے ہوئے لندن پہنچے ۔ آرنلڈ ان دنوں لندن یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر تھے ۔ اس لیے مولوی صاحب جو انہیں علی گڑھ کی نسبت سے جانتے تھے ، ان کو ملنے گئے ، آرنلڈ نے اقبال سے ان کا تعارف کرایا اور اقبال کو حکم دیا کہ انہیں لندن کے تمام قابل دید مقامات کی سیر کرائیں ۔ اقبال نے نہایت تندہی سے مولوی صاحب کو جگہ جگہ پھرایا اور شام کے قریب انہیں کسی قہوہ خانے میں لے گئے اس جگہ ’’چند ستم پیشہ‘‘ لڑکیاں بھی موجود تھیں ۔ اقبال کے اشارے پر یا خود اپنی جولانی طبع سے وہ مولوی صاحب کے گرد جمع ہو گئیں ۔ کوئی ان کا قہوہ پلانے لگی ، کسی نے ان کی نورانی داڑھی کو چھوا اور ایک نے تو ان کے رخساروں پر عقیدت کی چند مہریں بھی جڑدیں ۔ مولوی صاحب سخت پریشان ہوئے اور جب اس مصیبت سے نجات ملی تو غصّے سے بھرے ہوئے آرنلڈ کے پاس پہنچے اور اقبال کی شکایت کی ۔ آرنلڈ سخت نادم ہوئے ۔ اور اقبال سے خفگی کے لہجے میں کہا : مولوی صاحب ایسے بزرگ کو قہوہ خانے میں لے جاتے ہوئے تمہیں شرم نہ آئی ؟ اقبال نے نہایت متانت سے جواب دیا : آپ نے خود ہی حکم دیا تھا کہ انہیں لندن کے تمام قابل دید مقامات کی سیر کرادوں ۔ اگر میں مولوی صاحب کو صرف محلّات ، عجائب گھر اور تاریخی عمارات ہی دکھلا دیتا تو وہ لندن کے متعلق سخت غلط فہمی میں مبتلا رہتے اور ہندوستان جاتے ہوئے یک طرفہ خیالات لے کر جاتے ۔ لندن کی زندگی میں قہوہ خانے نہایت اہم ہیں ، اس لیے میںنے مناسب سمجھا کہ مولوی صاحب کو تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھا دوں۴۲ ۔ مرزا جلال الدین اسی سلسلے میں ایک اور واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں : ایک مرتبہ ہم مسلم ایجوکیشنل کانفرنس میں شرکت کی غرض سے لکھنؤ گئے ۔ اجلاس کے ایّام میں ایک شام ایسی بھی تھی کہ ہم فارغ تھے ۔ اقبال کی طبیعت جب بیکاری سے گھبرانے لگی تو وہ مجھ سے فرمانے لگے ، چلو کہیں چل کر گھڑی دو گھڑی گانا ہی سن آئیں ۔ میں پہلے تو آمادہ ہو گیا مگر بعد میں کسی اچانک کام کی وجہ سے رک گیا۔ وہ چل کھڑے ہوئے ۔ کوئی گھنٹے بھر کے بعد جب وہ واپس لوٹے تو مسکرا رہے تھے ۔ کہنے لگے، لو آج تمہیں تماشا دکھائیں ۔ میں نے استعجاب کے عالم میں دریافت کیا : آخر ہوا کیا ہے ؟ فرمانے لگے ، ہونا کیا تھا ، بس ایک مولوی صاحب کو آج ہم نے پکڑ لیا ۔ جس طوائف کے ہاں ہم گانا سننے گئے تھے ، وہیں کہیں اس کانفرنس کے مندوبین میں سے ایک مولوی صاحب بھی ہمارے جانے سے قبل دل بہلا رہے تھے ، مگر آپ جب وہاں سے چمپت ہوئے تو اپنی بوکھلاہٹ کے عالم میں کانفرنس کا دعوتی رقعہ وہیں پھینک آئے تھے ، ہم پہنچے تو طوائف نے ہم سے کہا : جس طرح بھی ہو ، ہم مولوی صاحب کو تلاش کرکے ان کی امانت بحفاظت ان تک پہنچا دیں ، مگر ہم نے یہ سوچا ہے کہ یہ رقعہ نواب وقارالملک بہادر صدر ایجوکیشنل کانفرنس ہی کی معرفت کیوں نہ لوٹائیں تاکہ ضابطے کی پابندی بھی ملحوظ رہے اور نواب بہادر بھی دیکھ لیں کہ دنیا بھلی سے بھلی ہے ۔ اتنا کہہ کر اقبال نے کاغذ کا تختہ نکالا اور قلم پکڑ کر نواب صاحب کے نام طوائف کی طرف سے ایک مفصل خط لکھ ڈالا ۔ اس میں شام کے واقعے کی تمام تفصیل بے کم و کاست بیان کرنے کے بعد لکھا کہ چونکہ بندی قبلہ مولوی صاحب کے پتے سے واقف نہیں ، اس لیے آپ سے التماس کرتی ہے کہ ان کا کھوج نکال کر ان کے کاغذات ان تک پہنچا دیں ۔ اس خط کی بھنک مولوی صاحب کے کان میںبھی پڑ گئی اور وہ کانپتے کانپتے اقبال کے پاس آئے اور لگے بے طرح منت خوشامد کرنے اور ان کی جان و مال کو دعائیں دینے ۔ مگر اقبال تو گویا اسی وقت کے انتظار میں تھے ۔ اب آئے ہو تو جاتے کہاں ہو ، کے مصداق انہوں نے حضرت کو وہ رگیدا دیا کہ بس اللہ دے اور بندہ لے ۔ نہ جانے آپ نے ناک سے کتنی لکیریں کھینچیں ، تب آپ کی جان چھوٹی ۴۳ ۔ اقبال کو بچپن ہی سے گانے کا بہت شوق تھا اور راگوں کے الاپ سے شناسا تھے ۔ لاہور میں طالب علمی کے زمانے میں مشاعروں میں حصہ لینا شروع کیا اور پھر پانچ سالہ ملازمت کے دوران انجمنِ حمایتِ اسلام کے جلسوں میں ترنم کے ساتھ اپنی نظمیں پڑھنے لگے ۔ ستار خرید لی اور اسے بجانے کی مشق کیا کرتے ۔ رفتہ رفتہ جب ان کا تعارف شہر کے باذوق رئوسا سے ہوا تو ان کی رقص و سرود کی محفلوں میں وہ بھی بلائے جانے لگے۔ ۱۹۰۴ء میں محمد دین فوق نے ایک کتاب بعنوان ’’یاد رفتگان ‘‘ شائع کی ، جو دراصل ہندو اور مسلم صوفیہ کا تذکرہ تھا اور اس میں یہ بحث کی گئی تھی کہ راگ یا سرود و سماع جائز ہے یا نہیں ۔ اگر جائز ہے تو کن صورتوں میں ۔ راگ سننے اور سنانے والے کس قسم کے لوگ ہونے چاہئیں ۔ گانا کس موضوع پر اور حاضرینِ مجلس کے عادات و خصائل کیسے ہونے چاہئیں۔ انہوں نے اقبال کے اس شعر پر بحث ختم کی: لوگ کہتے ہیں مجھے ، راگ کو چھوڑو اقبال! راگ ہے دین مرا ، راگ ہے ایماں میرا۴۴ سو اس زمانے میں راگ رنگ ان کا دین اور ایمان تھا ۔ یہ ان کی جوانی کے ایّام تھے ۔ شاعری کے میدان میں نئے نئے تجربے کرتے تھے اور بحیثیت شاعر حسن پسندی ان کی فطرت کا حصہ تھی ۔ جس طرح مناظر فطرت کی دلکشی ان کی توجہ کا مرکز بنتی ، اسی طرح نسوانی حسن سے بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے۔ ۱۹۰۳ء میںان کے بچپن کے دوست سید تقی شاہ کے نام ایک خط میں ’’امیر‘‘ کا ذکر ملتا ہے ۔ لکھتے ہیں : امیر کہاں ہے ؟ خدا کے لیے وہاں ضرور جایا کریں ۔ مجھے بہت اضطراب ہے ۔ خدا جانے اس میں کیا راز ہے ، جتنا دور ہو رہا ہوں ، اتنا ہی اس سے قریب ہو رہا ہوں ۴۵۔ راقم کی تحقیق کے مطابق امیر بیگم کا تعلق گو طوائفوں کے ایک گھرانے سے تھا لیکن وہ اور اس خاندان کی دیگر خواتین تائب ہو چکی تھیں ۔ اس خاندان کی بعض خواتین اپنے حسن و جمال کے ساتھ اردو اور فارسی ادب سے گہرے شغف کے سبب مشہور تھیں ۔ اور ان میں سے چند ایک کی شادیاں لاہور کی معزز شخصیات سے ہوئیں ۔ امیر بیگم اردو اور فارسی اساتذہ کے کلام سے شناسا ہونے کے علاوہ خود بھی شعر کہتی تھیں ۔ نہایت فصیح و بلیغ اردو میں بات چیت کرتیں ۔ اس وجہ سے اقبال ان سے بے حد متاثر تھے۔ یورپ میں قیام کے دوران اقبال ایک نئے تمدن اور اس اعتبار سے ذہن و قلب کے بعض نئے تقاضوں سے آشنا ہوئے ۔ یورپ کی مخلوط معاشرت میں انہیں چند ایسی خواتین ملیں ، جو جسمانی حسن کے ساتھ ادب و فلسفے سے شناسائی کے سبب اقبال کے لیے اور بھی پر کشش تھیں ۔ یورپین خواتین کے علاوہ عطیہ فیضی جیسی حاضر دماغ بعض مشرقی خواتین سے بھی متعارف ہوئے ۔ اطالوی بیرونس سے ، جس کا ذکر عطیہ فیضی کے نام ایک خط میں ملتا ہے ، اقبال کی ملاقات غالباً لندن میں ہوئی تھی ۔ یہ اطالوی بیرونس ان لوگوں میں سے ایک تھیں ، جنہوںنے سفر اطالیہ کے دوران اقبال کی ملاقات فاشی آمر مسولینی سے کرائی اور روم میں اقبال کے استقبال کے لیے ایک دعوت کا اہتمام بھی کیا ، جس میں اقبال کی خواہش پر انہیں روم کی حسین ترین خواتین سے ملوایا ۴۶ ۔ یورپ سے واپسی کے بعد جب تک وہ تنہا رہے ، مرزا جلال الدین کی رقص و سرود کی محفلوں میں شریک ہوتے تھے ، لیکن اقبال کی یہ زندگی ۱۹۱۳ء میں ختم ہو گئی ۔ البتہ گانا سننے کا شوق انہیں آخر عمر تک رہا ۔ دہلی جاتے تو خواجہ حسن نظامی ان کے لیے قوالی کی محفل لگاتے جو انہیں بے حد پسند تھی ۔ انارکلی والے مکان میں رہائش کے دوران اقبال کو اپنے ایک رشتے دار کے لا اُبالی پن کے سبب پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ۔ غالباً ۱۹۱۵ء میں ان کا ایک بھانجا اسی مکان میں اقامت پذیر ہوا ۔ گرمیوں کی تعطیلات میں اقبال حسب معمول اپنی بیگمات کے ہمراہ سیالکوٹ گئے ہوئے تھے اور بھانجا گھر میں اکیلا تھا ۔ وہ بازار حسن سے ایک ہندو لڑکی کی التجائوں سے اس قدر متاثر ہوا کہ اسے گناہ آلود زندگی سے نجات دلانے کے لیے گھر لے آیا اور اس سے نکاح پڑھوا کر اپنے ساتھ ٹھہرا لیا ۔ لڑکی کے سر پرستوں نے اقبال کے بھانجے کے خلاف اغوا کی رپٹ پولیس میں لکھوا دی ۔ تعطیلات کے اختتام پر جب اقبال واپس لاہور پہنچے تو پولیس لڑکی کو برآمد کرنے کے لیے ان کے مکان پر پہنچ گئی ۔ بھانجے نے لڑکی کو کوٹھے پر کبوتروں کے ڈربے میں چھپا رکھا تھا ۔بہرحال لڑکی کے بیان سے فیصلہ تو بھانجے ہی کے حق میں ہو گیا ، لیکن اقبال بہت برہم ہوئے اور بھانجے کو اس کی بیوی سمیت گھر سے نکل جانے کا حکم دے دیا اور پھر ساری عمر اس کی صورت تک دیکھنے کے روا دار نہ ہوئے ۴۷ ۔ راقم کے خیال میں اس پس منظر کی روشنی میں اقبال کے خلاف الزامات کا جائزہ بہتر طور پر لیا جا سکتا ہے ۔ جہاں تک مے نوشی کی تہمت کا تعلق ہے تحقیق کے باوجود ایسی کوئی مؤثر شہادت نہیں جس سے یہ الزام ثابت ہو سکے ۔ لاہور میں اقبال کی طالب علمی کے عہد میں غلام بھیک نیرنگ نے ان کے حالات قلمبند کیے لیکن ان میں شراب نوشی کا کہیں ذکر نہیں ملتا ۔ اس کے علاوہ ان ایّام میں اقبال کے وسائل بھی محدود تھے ۔ کیونکہ اپنے تعلیمی اخراجات کے لیے وہ بڑے بھائی کے دست نگر تھے ۔ ابتدائی پانچ سالہ دورِ ملازمت سے متعلق سید تقی شاہ ، سر عبدالقادر اور محمد دین فوق کے بیانات یا تحریروں میں اقبال کے میخوری کا کوئی ذکر نہیں ملتا ۔ قیام یورپ کے دوران سر عبدالقادر اور عطیہ فیضی کا اقبال سے خاصا میل جول تھا۔ راقم کے روابط عطیہ فیضی کے ساتھ ان کی وفات تک قائم رہے اور کراچی میں کئی بار ان سے ملاقاتیں ہوئیں ۔ اس سلسلے میں راقم کے استفسار پر عطیہ فیضی نے بتایا کہ انہوں نے یورپ میں کسی موقع پر بھی اقبال کو شراب پیتے نہیں دیکھا ۔ یورپ سے واپسی پر مولوی احمد دین اور نواب سر ذوالفقار علی خان نے ، جو مزار جلال الدین کی طرح اقبال کے بے تکلف دوستوں میں سے تھے ، ان کے سوانح حیات لکھے ، لیکن کہیں بھی انہوں نے اقبال کی میخوری کا ذکر نہیں کیا ۔ مرزا جلال الدین نے اقبال سے متعلق اپنے بیانات میں رقص و سرود کی محفلوں میںان کے شریک ہونے یا کسی مغنّیہ کے بالا خانے پر جا کر گانا سننے کا تذکرہ تو ضرور کیا ہے مگر مے نوشی کا ذکر نہیں کرتے ۔ راقم کی خط و کتابت اقبال کے اس دور کے ایک اور بے تکلف دوست سردار مرائو سنگھ شیر گل سے بھی رہی ہے ، وہ بھی یہی تحریر کرتے ہیں کہ اقبال نے ان کے سامنے کبھی شراب نہیں پی تھی ۔ اقبال کسی مقدمے کے سلسلے میں غالباً ۱۹۱۲ء میں کیمبل پور گئے ، وہاں ان کے ایک وکیل دوست نے دعوت کا اہتمام کیا ، جس میں چند مقامی انگریز حکام بھی مدعو تھے اور شراب کا بندوبست بھی کیا گیا تھا ۔ اس دعوت میں ساڑھے تیرہ سالہ شیخ اعجاز احمد موجود تھے جو ان دنوں اپنے والد کے پاس کیمبل پور گئے ہوئے تھے اور جنہیں اقبال اپنے ساتھ اس دعوت میں لے گئے تھے ۔ ان کے بیان کے مطابق جب اقبال کو ان کے دوست نے شراب کا جام پیش کیا اور پینے پر اصرار کیا، تو انہوں نے فرمایا کہ جس شے کو میں نے یورپ میں رہ کر کبھی منہ نہ لگایا ، اسے اب کیا پیوں گا ۔ انارکلی والے مکان یا میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں اقبال کی دو بھتیجیاں بھی ان کے ساتھ رہتی تھیں ، جو یہیں جوان ہوئیں ۔ ان میں سے ایک کا حلفیہ بیان ہے کہ اقبال نے ان کے سامنے شراب کبھی چکھی تک نہ تھی اور ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے ان کے مشاہدے میں یا سننے میں کبھی کوئی ایسا واقعہ نہیں آیا جس سے یہ شبہ بھی ہو سکتا کہ وہ شراب کا شوق کرتے تھے ۴۸ ۔ اقبال کے جواں سال عقیدتمندوں میں سے ایک خواجہ عبدالوحید تھے ، جو اقبال کی یورپ سے واپسی کے فوراً بعد سے انہیں جانتے تھے اور آخر عمر تک ان کے ارادت مند رہے ۔ وہ اپنے مضمون ’’میری ذاتی ڈائری میں ذکر اقبال‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ انہوں نے اقبال کو شروع سے لے کر ان کی وفات تک (تقریباً تیس برس) حقہ پیتے تو دیکھا لیکن کبھی یہ نہ سنا کہ انہوں نے اس سارے عرصے میں شراب کو ہاتھ لگایا ۴۹۔ اسی طرح جاوید منزل میں قیام کے دوران میں ، جہاں راقم سنِ تمیز تک پہنچا ، اقبال کو اس نے کبھی شراب پیتے نہیں دیکھا بلکہ راقم اس سلسلے میں علی بخش سے اقبال کی برہمی کے ایک واقعے کا شاہد ہے۔ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ۱۹۳۸ء کے اوائل میں ایک دن کوئی سکھ اقبال سے ملنے کے لیے آیا ۔ اس وقت اقبال کے پاس ایک عرب قاری بھی بیٹھے ہوئے تھے ، جو انہیں عمر کے آخری ایّام میں قرآن مجید خوش الحانی سے پڑھ کر سنایا کرتے تھے ۔ علی بخش نے سکھ کو عقیدت مند سمجھتے ہوئے اقبال تک پہنچا دیا ۔ کچھ دیر وہ ان کے ساتھ باتیں کرتا رہا ۔ پھر کمرے سے نکل کر باہر آیا اور علی بخش سے کہا کہ تانگے میں رکھی ہوئی بوتل اور گلاس اسے لا دے ۔ علی بخش نے حکم کی تعمیل کی اور سکھ برآمدے میں کرسی کے سامنے میز لگا کر بیٹھ گیا اور بے دھڑک شراب پینے میں مصروف ہو گیا ۔ بیس پچیس منٹ گزرنے پر اقبال نے علی بخش کو بلوا کر پوچھا کیا سردار صاحب چلے گئے ؟ علی بخش نے جواب دیا کہ نہیں ، وہ تو برآمدے میں بیٹھے شراب پی رہے ہیں ۔ اس پر اقبال کا چہرہ غصّے سے سرخ ہو گیا ۔ بیماری کی حالت میں بنیان اور دھوتی پہنے وہ یک دم بستر سے اٹھے اور باہر نکل پڑے۔ عرب قاری بھی ان کے پیچھے بھاگا ۔ اقبال نے آتے ہی سکھ کو گریبان سے پکڑنے کی کوشش کی اور اسی کشمکش میں شراب کی بوتل فرش پر گر کر چکنا چور ہو گئی ۔ گھر میں شور سن کر راقم بھی بھاگتا ہوا موقع پر پہنچا ۔ سکھ انہیں انتہائی غصّے کی حالت میں دیکھ کر بھاگ کھڑا ہوا اور تانگے میں سوار ہو کر رفو چکر ہو گیا ، لیکن اقبال غصّے سے کانپ رہے تھے اور عرب قاری نے انہیں تھام رکھا تھا ۔ راقم نے انہیں زندگی میں پہلی بار علی بخش کو جھڑکیاں دیتے ہوئے سنا ۔ برآمدے کے سارے فرش کو اسی وقت دھلوایا گیا اور اقبال نے دو تین روز تک علی بخش سے بات نہ کی ۔ بلکہ اسے ان کے سامنے آنے کی اجازت نہ تھی بالآخر چودھری محمد حسین کی کوششوں سے اسے معافی ملی ۔ اقبال کے بعض عقیدت مند، شاید جن میں صوفی غلام مصطفیٰ تبسم اور عبدالمجید سالک بھی تھے، یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ اقبال نے شاید کسی زمانے میں مے پی ہو ،بعد میں بہرحال چھوڑ دی۔ اس مفروضے کی تائید میں اقبال کے اپنے اعتراف پر مبنی وہ اشعار پیش کیے جاتے ہیںجو ’’رموز بے خودی ‘‘ کے آخر میں ’’حضور رحمۃ للعٰلمین ﷺ میں عرض حال کرتے ہوئے انہوں نے تحریر کیے: مدتے با لالہ رویاں ساختم عشق با مرغولہ مویاں باختم بادہ ہا با ماہ سیمایاں زدم بر چراغِ عافیت داماں زدم برقہا رقصید گردِ حاصلم رہزناں بروند کا لاے دلم ایں شراب از شیشہ جانم نہ ریخت ایں زرِ سارا ز دامانم نہ ریخت۵۰ یہ درست ہے کہ کسی شاعر کے مشاہدات ، قلبی و اروات یا ذاتی جذبات کی ترجمانی بعض اوقات اس کے اشعار کے حوالے سے بھی کی جا سکتی ہے بشرطیکہ وہ واقعاتی شہادت سے مطابقت رکھتے ہوں ، مگر واقعاتی شہادت کے برعکس محض اشعار کے حوالے سے کسی حقیقت کو ثابت کرنا صحیح نتائج تک نہیں پہنچا سکتا ۔ اگر صرف اشعار کے حوالے سے یہ ثابت کرنا مقصود ہو کہ شاعر مے سے شغف رکھتا تھا تو اس اعتبار سے حافظ ، ریاض خیر آبادی اور دیگر کئی شعراء کو بھی جن کی عملی زندگیاں صوفیہ کی زندگیوں کی طرح تھیں اور جنہوں نے مے کو کبھی چھوا تک نہ تھا ، لیکن جن کے دو اوین خرابات کے تذکرے سے اٹے پڑے ہیں ، میخوروں کے زمرے میں شامل کرنا پڑے گا ۔ اقبال کے یہ عقیدت مند اپنے متعلق یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ وہ اقبال کے ہم نشین تھے ، اور اقبال نے ان کے روبرو اپنی لغزشوں کو چھپانے کی کبھی کوشش نہیں کی تھی ، لیکن بقول محمد دین تاثیر اقبال تو ایک چشمۂ شیریں تھا ، مورو ملخ کا قافلہ آتا جاتا رہتا تھا ، اس لیے راقم کے نزدیک ان سب کا شمار اقبال کے عقیدت مندوں میں ہو تو ہو ، ان کے بے تکلف دوستوں میں نہیں ہو سکتا کیونکہ اپنی کم عمری کے سبب وہ اقبال کی ابتدائی زندگی میں ان سے متعارف نہ ہو پائے ویسے بھی اپنے نیاز مندوں کے سامنے اقبال کے اپنی ابتدائی لغزشوں کا یوں اعتراف کر لینے کی دلیل قرین قیاس معلوم نہیں ہوتی ، خصوصاً جب اسی زمرے میں شامل اقبال کے ایک اور قابلِ اعتماد عقیدت مند (سید نذیر نیازی) اس کی پر زور تردید کرتے ہوں ۔ اقبال سے متعلق دوسرا الزام کہ وہ عیاش تھے ، غالباً اس لیے لگایا گیا کہ وہ اپنے ابتدائی زمانے میں رقص و سرود کی محفلوں میں شریک ہوتے تھے ، بلکہ گانا سننے کے شوق میں کبھی کبھار کسی مغنّیہ کے بالا خانے پر بھی چلے جاتے تھے ، مگر اس سے یہ نتیجہ اخذ کر لینا کہ وہ عیاش تھے یا بقول عبدالمجید سالک ، رنگ رلیاں ، مناتے تھے، کسی طرح درست نہیں ۵۱ ۔ مالی اعتبار سے اقبال کبھی بھی ایسی پوزیشن میںنہ ہوئے کہ عیاشی کر سکیں یا رنگ رلیاں منا سکیں ۔ اس زمانے میں بعض طوائفیں شائقین کو اردو اور فارسی اساتذہ کا کلام بھی سنایا کرتی تھیں اور چونکہ ایسی محفلوں میں ثقافتی پہلو نمایاں ہوتا ، اس لیے ان میں شرفاء ، رئوسا یا ہل ذوق کا شریک ہونا کوئی عارنہ سمجھا جاتا تھا ۔ اقبال کی پہلی شادی کے موقع پر گجرات میں بھی اسی قسم کی محفل کا اہتمام کیا گیا تھا اور بزرگوں نے ، جن میں سید میر حسن اور اقبال کے والد بھی شامل تھے ، ایک بند کمرے میں اساتذہ اور حافظ کا کلام سنا تھا۵۲ ۔ علاوہ ازیں اس زمانے میں تفریح کا کوئی اور سامان نہ تھا۔ بمبئی کی چند تھیٹر کمپنیاں تھیں جو لاہور آ کر آغا حشر کا شمیری کے ڈرامے پیش کرتیں اور اقبال ان کے ڈرامے دیکھنے بھی جاتے ۔ لیکن ایسے مواقع کبھی کبھار ملتے تھے ۔ مرزا جلال الدین اسی سلسلے میں بیان کرتے ہیں : سارا دن عدالتوں میں موشگافیوں میں بسر ہو جاتا ۔ رات کے وقت دیر گئے تک مقدمات کی تیاری کے مشاغل درپیش رہتے اور دن چڑھتے ہی از سر نو اسی دماغی کاوش میں الجھنا پڑتا۔ اس مسلسل انہماک سے قویٰ مضمحل ہو جاتے اور دماغ کے نچڑ جانے سے روح پر افسردگی سی چھانے لگتی ۔ چنانچہ طبیعت میں تازہ دم ہونے کی خواہش پیدا ہوتی اور دل فراغت کے لمحات کے لیے بے چین ہو جاتا ۔ اس پر ہم چند دوست زندگی کے پریشان کرنے والے ہنگاموں سے ہٹ کر خوش وقتی کے لیے ایک مختصر سی بزم قائم کرتے اور اس کی دلکشیوں میں اپنے تھکے ہوئے دماغوں کو تازہ دم کرتے ۵۳۔ اقبال سے بعد کی آنے والی نسل کے چند نقاد انِ اقبال میں انفرادی تجسس کے تحت یا شاید جدت تحریر کے خیال سے ، ایک نیا رجحان یہ پیدا ہوا ہے کہ اقبال کی شخصیت کا تجزیہ یا ان کی حیاتِ معاشقہ کی ترتیب وہ ان کے اشعار و مکتوبات کے حوالے سے کرنے لگے ہیں ۔ محمد عثمان کی رائے میں متذکرہ دور میں اقبال نے بہت سی نظمیں خود اپنے ہاتھوں تلف کر ڈالیں اور اس لیے تلف کیں کہ ان کی نوعیت حد درجہ پرائیویٹ تھی ۔ ان کے نزدیک جو نظمیں تلف ہونے سے بچ گئیں ، مثلاً ’’وصال ‘‘ ،’’حسن و عشق‘‘ ،’’ نواے غم‘‘ ، ’’پھول کا تحفہ عطا ہونے پر ‘‘ وغیرہ کا اگر بنظرِ غور مطالعہ کیا جائے تو اس حقیقت میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا کہ اس دور میں اقبال کا اضطراب در اصل ایک ناکام محبت یا تشنہ محبت دل کا اضطراب ہے اور اس بات کی تائیدعطیہ فیضی کے نام ان کے خطوط بھی دبی زبان میں کرتے ہیں ۔ محمد عثمان ان چند نظموں اور عطیہ فیضی کے نام اقبال کے خطوط کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اقبال کو انسان کا عشق ہو سکتا تھا اور واقعتا انہیں ایک انسان یعنی عطیہ فیضی سے یہ تعلق خاطر پیدا ہوا۔ اس لیے اقبال انہیں اپنی رفیقہ حیات بنانا چاہتے ہوں گے ، لیکن ان کے خاندان کے عام اور سادہ رہن سہن میں کسی ایسی خاتون کا کھپ جانا انہیں یقینا نا ممکن نظر آتا ہوگا ۔ نیز ان کی اپنی مالی حالت اور معاشرتی حیثیت نا تسلی بخش اور غیر مستحکم تھی ۔ چونکہ ان کی دنیا دارنہ جدوجہد کا ابھی آغاز ہوا تھا ، اس بنا پر بھی وہ انہیں اپنا نے میں ہچکچاتے ہوں گے ۔ اس کے علاوہ گو وہ عطیہ فیضی جیسی اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون کی ذہنی ترقی و کمال کی قدر کر سکتے تھے ، لیکن ایسی خاتون بالعموم جس قسم کی آزادی کو اپنا حق سمجھتی ہے ، اس کی ادائیگی کی گنجائش اقبال کے اخلاقی تصور میں ہر گز نہ تھی ۔ چنانچہ یہ محبت نا کام رہی ۵۴ ۔ مسعود الحسن ، اقبال پر اپنی تصنیف میں تحریر کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے ، اقبال اور عطیہ فیضی کے درمیان ۱۹۰۷ء یا ۱۹۰۸ء میں سمجھوتا ہو چکا تھا کہ وہ آپس میں شادی کریں گے ۔ ہندوستان واپس آ کر عطیہ فیضی انہیں اپنے خطوط میں جنجیرہ آنے کے لیے اس لیے بار بار کہتی تھیں کہ رشتے کی بات پکی ہو جائے ، مگر اقبال جنجیرہ نہ گئے۔ لہٰذا یہ معاشقہ تھوڑی مدت تک ہی چلا اور دسمبر ۱۹۱۱ء میں ختم ہو گیا ۔ ۱۹۱۲ء میں عطیہ فیضی کی شادی فیضی رحمین سے ہو گئی ۔ بعد میں ۱۹۳۳ء میں اقبال کی ان سے پھر خط و کتابت ہوئی، لیکن اس کی نوعیت محض رسمی تھی ۵۵ ۔ خالد نظیر صوفی کی رائے میں عام طور پر عطیہ فیضی کے نام اقبال کے خطوط کو بنیاد بنا کر عجیب و غریب اور مضحکہ خیز مفروضے تشکیل دیئے جاتے ہیں ۔ان کے نزدیک ان خطوط میں عطیہ فیضی سے متعلق بعض ریمارکس یہ چغلی ضرور کھاتے ہیں کہ وہ اقبال کے ساتھ شادی کرنے کی خواہش مند تھیں، مگر اقبال نے کبھی ان کا نوٹس نہیں لیا اقبال انہیں ایک علمی دوست کی حیثیت سے تو پسند کر سکتے تھے لیکن بیوی کے روپ میں وہ ان کے لیے ناقابلِ قبول تھیں ۔ اس بنا پر وہ جنجیرہ آنے کی متعدد دعوتوں کے باوجود وہاں نہ گئے ۔ البتہ ۱۹۳۱ء میں عطیہ فیضی کی شادی کے کافی عرصے بعد ان کی دعوت کو انہوں نے شرف قبولیت بخشا اور بمبئی میںان کے دولت کدہ ایوان رفعت میں ان سے ملنے گئے ۵۶ ۔ راقم اس معاملے میں تبصرہ کرنے والوں کی آراء کی معقولیت یا نا معقولیت پر اس لیے بحث کرنا نہیں چاہتا کہ وہ محض قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں اور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپ سے واپسی پر اقبال مالی مشکلات اور ازدواجی زندگی کی بے سکونی کے سبب کرب و اضطراب کی ایک ایسی کیفیت سے گزرے تھے جس پر غالب آنے کے لیے انہیں وقتی طور پر کسی جذباتی سہارے کی ضرورت تھی اور یہ سہارا کوئی ایسی ہستی ہی فراہم کر سکتی تھی جو ان کی یورپ میں فراغت کی مختصر زندگی کی دلکش یادوں کا جزو ہو ۔ پس عطیہ فیضی جیسی حاضر دماغ خاتون یا ایما ویگے ناست جیسی حساس شخصیت نے اپنی ہمدردانہ توجہ کے ذریعے انہیں مطلوبہ سہارا مہیا کر دیا ، لیکن یہ کہنا کہ وہ محبت کی بناء پر واقعی عطیہ فیضی کو اپنی رفیقہ حیات بنانا چاہتے تھے یا اپنے وطن کو خیر باد کہہ کر یورپ یا خصوصی طور پر جرمنی میں اپنا گھر بسانے کا ارادہ رکھتے تھے ، درست نہیں ، البتہ بے چینی کے اس دور میں ، جیسا کہ ان کے بعض خطوط سے ظاہر ہے، ایسے خیالات ان کے ذہن میں ضرور ابھرتے تھے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اقبال کی بعض یورپی نظمیں یا دوسری چند نظمیں جو واپس آ کر لکھی گئیں ، ذاتی اور واقعاتی نوعیت کی تھیں اور جرمن رومانی ادب کے مطالعے کے زیر اثر تحریر کی گئی تھیں ۔ اس طرز کی چند ایک نامکمل نظمیں قیامِ یورپ کے زمانے میں ان کی بیاض میں بھی درج ہیں ، جو (بیاض) اب علامہ اقبال میوزیم میں محفوظ ہے ۔ ان میں ایک نا مکمل نظم ’’گم شدہ دستانہ ‘‘ کے عنوان سے ہے ۔ جس کے صرف تین مصرعے لکھے گئے: رکھا تھا میز پر ابھی ہم نے اتار کر تو نے نظر بچا کے ہماری اڑا لیا آنکھوں میں ہے تری جو تبسم شریر سا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سو جس طرح اقبال نے داغ اور بعد میں اکبر الٰہ آبادی کے رنگ میں اشعار کہے ، اسی طرح قیام یورپ کے دوران میں جرمن رومانی شاعروں کے تتبع میں بعض واقعاتی نوعیت کی نظمیں بھی لکھیں ، لیکن اقبال فطرتاً رومانی شاعر نہ تھے ، اس لیے انہوں نے سوائے چند کے باقی نظمیں غیر ضروری سمجھ کر تلف کر دیں ، جیسے داغ کے رنگ میں لکھی گئی کئی غزلیں انہوں نے تلف کی تھیں ۔ اگراقبال اپنی زندگی کے جذباتی دور یا حد درجہ پرائیویٹ معاملات کی پردہ پوشی کرنا چاہتے تھے تو اس عہد کی لکھی ہوئی تمام نظموں کو تلف کر سکتے تھے ۔ اقبال سے متعلق تیسرا الزام کہ وہ ایّام جوانی میں ایک طوائف کے قتل کے مرتکب ہوئے ، کسی ایسے ذہن کی اختراع ہے، جو اقبال سے قطعی طور پر ناواقف تھا ۔ اقبال کو غصّہ بہت کم آتا تھا ۔ اگر کسی سے سخت ناراض ہو جاتے تھے تو عمر بھر کے لیے قطع تعلق کر لیتے ، لیکن غصّے کے جذبات سے مغلوب ہو کر انہوں نے نہ تو کبھی کسی سے فحش کلامی کی اور نہ ہاتھا پائی تک نوبت پہنچی ۔ علاوہ ازیں طاقت ، قوت اور جہاد کے داعی ہونے کے باوجود ان کی رقت قلب کا یہ عالم تھا کہ خون بہتا دیکھ نہ سکتے تھے ۔ اس لیے راقم کو حکم تھا کہ عید قربان کے موقع پر بکرے کے ذبح ہوتے وقت وہاں ضرور موجود رہے ۔ اقبال کا کلام گو خنجر و شمشیر یا تیر و تفنگ کے ذکر سے بھرا پڑا ہے ، لیکن انہوں نے خود زندگی بھر نہ تو کبھی پستول چلائی اور نہ بندوق اور اگر کبھی چاقو استعمال کیا تو وہ بھی قلم یا پنسل تراشنے کی غرض سے ۔ اس لیے ایسی شخصیت سے کسی کے قتل کا مرتکب ہونے کی توقع کیونکر کی جا سکتی ہے؟ اقبال کی شخصیت کے اس پہلو کے متعلق ان کے چند احباب نے مختلف آراء کا اظہار کیا ہے ۔ مرزا جلال الدین فرماتے ہیں : اقبال آخر انسان تھے ، پیغمبرانہ اعجاز رکھنے کے باوجود پیغمبر نہ تھے۔ اس لیے ان کو ایسی باتوں سے معّرا سمجھنا، جو بشریت کا لازمہ اور انسانیت کا خاصہ ہیں ، ایک ایسا تمسخر انگیز دعویٰ ہے ، جس میں نہ تو حقیقت کو دخل ہے نہ خود ڈاکٹر صاحب کی روح کے لیے مسرت کا سامان موجود ہے۵۷۔ عبدالمجید سالک تحریر کرتے ہیں : اقبال عنفوان شباب میں اپنے عہد کے دوسرے نوجوانوں سے مختلف نہ تھے۔ بلاشبہ وہ مصری کی مکھی ہی رہے ، شہد کی مکھی کبھی نہ بنے، لیکن آج بھی ان کے بعض ایسے کہن سال احباب موجود ہیں ، جو اس گئے گزرے زمانے کی رنگین صحبتوں کی یاد کو اب تک سینوں سے لگائے ہوئے ہیں۵۸ ۔ محمد دین تاثیر لکھتے ہیں : اقبال کی رندی کوئی راز نہیں ، لیکن یہ رندی بیشتر لفظی اور خیالی رندی تھی ۔ جوانی کا زور تھا اور بس۔ اقبال پر رندی کبھی غالب نہیں آئی ، رندی پر اقبال ہی غالب رہا ۔ میں اس وثوق سے اس لیے کہتا ہوں کہ اقبال نے کبھی اپنی پردہ پوشی نہیں کی ۔ ہم نے جو سوال کیا ، اس کا صاف جواب دیا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان کی زندگی میں کوئی چھپانے کے قابل بات ہی نہیں تھی۔ اور وہ جسے رندی کہا جا سکتا ہے ، وہ سب اسرارِ خودی سے پہلے کے لطائف ہیں۔ان لطائف کو سر شادی لعل نے اقبال کو ہائی کورٹ کی ججی سے روکنے کے لیے اور چند ان کے ہم پیشہ مسلمان مشاہیرنے اپنے مطالب کی خاطر خوب بڑھا چڑھا کر شہرت دی ۔ اتنی سی بات تھی ، جسے افسانہ کر دیا۔ میں اقبال کو ولی نہیں کہتا ، لیکن ایسا تہجد خواں ، عاشق رسولؐ ، اولیاء کا خادم اور عقیدت گزار ، خوش عقیدہ، گداز قلب مسلمان ، انگریزی دانوں میں کم دیکھا ہے ، مگر مزاج میں رندی موجود تھی ۔ اچھی شکل کو اچھی شکل ضرور سمجھتے تھے لیکن عاشقی کے گنہ گار کبھی نہیں ہوئے ، عمل میں توازن تھا ، طبیعت میں شاعری ۵۹۔ بہر حال راقم اس پوزیشن میں نہیں کہ اقبال کو قریب سے جاننے والوں کی ان آراء پر کوئی تبصرہ کرے ، لیکن اقبال نے اپنا جو تجزیہ خود نظم ’’ابر گو ہر بار ‘‘ میں کیا ہے ، وہ اس معاملے میں بہت کافی ہے۔ ارشاد کرتے ہیں: ہوں وہ مضمون ، کہ مشکل ہے سمجھنا میرا کوئی مائل ہو سمجھنے پہ ، تو آساں ہوں میں رند کہتا ہے ولی مجھ کو ، ولی رند مجھے سن کے ان دونوں کی تقریر کو حیراں ہوں میں زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا اور کافر یہ سمجھتا ہے ، مسلماں ہوں میں کوئی کہتا ہے کہ اقبال ہے صوفی مشرب کوئی سمجھا ہے کہ شیداے حسیناں ہوں میں ہوں عیاں سب پہ ، مگر پھر بھی ہیں اتنی باتیں کیا غضب آئے نگاہوں سے جو پنہاں ہوں میں دیکھ اے چشمِ عدو ! مجھ کو حقارت سے نہ دیکھ جس پہ خالق کو بھی ہو ناز ، وہ انساں ہوں میں مزرعِ سوختۂ عشق ہے حاصل میرا درد قربان ہو جس دل پہ ، وہ ہے دل میرا ۶۰ مآخذ باب: ۹ ۱ ۔ دانائے راز ، صفحہ ۹۶۔ ۲ ۔ ایضاً ، صفحہ ۹۶۔ ۳ ۔ ایضاً ، صفحہ۹۴۔ ۴ ۔ ’’روایات اقبال ‘‘ مرتبہ عبداللہ چغتائی ، صفحات ۷۳ ، ۷۴ ۔ ۵ ۔ ’’اقبال ‘‘ عطیہ بیگم (انگریزی) ، صفحات ۳۶ ، ۳۷ ،۳۸۔ ۶ ۔ آفتاب اقبال کا نتقال اکیاسی برس کی عمر میں ۱۴ ؍اگست ۱۹۷۹ء کو لندن میں ہوا ۔ میت کراچی لائی گئی اور وہیں انہیں دفنایا گیا ۔ ۷ ۔ ’’دانائے راز ‘‘ صفحات ۹۶ تا ۹۸۔ ۸ ۔ ’’اقبال ‘‘ عطیہ بیگم (انگریزی) ، صفحات ۸۵ تا ۸۸۔ ۹ ۔ ایضاً ، صفحہ ۴۳ ۔ ۱۰ ۔ ایضا ، صفحہ ۵۶ ۔ ۱۱ ۔ راقم نے بچپن میں اقبال کی زیر استعمال اشیا میں یہ مانیکل دیکھا ہے لیکن بعد میں تلاش کے باوجود نہ ملا ۔ ۱۲ ۔ ’’روایاتِ اقبال ‘‘ مرتبہ عبداللہ چغتائی ، صفحات ۱۲۸ ، ۱۲۹ ، ’’ذکرِ اقبال ‘‘ از عبدالمجید سالک ، صفحہ ۷۲ ۔ ۱۳ ۔ ایضاً ، صفحات ۱۲۲ ، ۲۳ا ، ایضاً صفحات ۶۷ ، ۶۸ ۔ ۱۴ ۔ ایضاً ، صفحات ۷۴ ، ۷۵ ۔ ۱۵ ۔ ایضاً ، صفحات ۱۲۳ ، ۱۲۴ ۔ ۱۶ ۔ ’’ذکرِ اقبال ‘‘ از عبدالمجید سالک ، صفحات ۶۸ ، ۶۹ ۔ ۱۷ ۔ ’’روایاتِ اقبال ‘‘ مرتبہ عبداللہ چغتائی ، صفحات ۱۲۵ ، ۱۲۶ ’’ذکر اقبال ‘‘ از عبدالمجید سالک ، صفحہ۷۰۔ ۱۸ ۔ ایضاً ، صفحہ ۱۲۶ ۔ ۱۹ ۔ ’’صحیفہ ‘‘ اقبال نمبر حصہ اوّل ، صفحہ ۱۰۹ ۔ ۲۰ ۔ ایضاً ، صفحہ ۸۹ ۔ ۲۱ ۔ ’’ذکر اقبال ‘‘ از عبدالمجید سالک ، صفحات ۸۳ ، ۸۴ ۔ ۲۲ ۔ ’’صحیفہ ‘‘ اقبال نمبر حصہ اوّل ، صفحہ ۱۰۱۔ ۲۳ ۔ ایضا ً ، صفحات ۱۰۹ ، ۱۱۰ ۔ ۲۴ ۔ ’’سفر نامہ شمیم ‘‘ ، صفحات ۱۷۹ ، ۱۸۰ ۔ ۲۵ ۔ ’’روایاتِ اقبال ‘‘ مرتبہ عبداللہ چغتائی ، صفحہ ۱۲۲۔ ۲۶ ۔ ’’اقبال اور انجمنِ حمایتِ اسلام ‘‘ از محمد حنیف شاہد ، صفحات ۹۵ تا ۹۷ ۔ ۲۷ ۔ ’’گفتارِ اقبال ‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۱۰ تا ۱۲ ۔ ۲۸ ۔ ’’ذکرِ اقبال‘‘ ، صفحہ ۱۳۰ ۔ ۲۹ ۔ اس قسم کا ایک خط جو اقبال کے کاغذات میں پڑا تھا راقم کے پاس اب تک محفوظ ہے ۔ ۳۰ ۔ ’’انوار اقبال ‘‘ مرتبہ بشیر احمد ڈار ، صفحہ ۱۷۰ ، ’’ذکر اقبال ‘‘ از عبدالمجید سالک ، صفحہ ۲۱۷ ۔ ۳۱ ۔ ’’یاد اقبال ‘‘ از صابر کلوروی ، صفحہ ۵۷ ۔ ۳۲ ۔ اس مقالے یعنی ’’مسلم کمیونٹی ، ایک معاشرتی مطالعہ ‘‘ کا اصل مسودہ اقبال میوزیم میں محفوظ ہے اور اس کے صفحہ اوّل کے حاشیے پر اقبال کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا انگریزی میں ایک وضاحتی نوٹ بھی ہے ۔ جس میں تحریر کرتے ہیں ۔ ’’ یہ لیکچر علی گڑھ میں ۱۹۱۱ء میں دیا گیا ۔ مقالے میں قادیانیوں کی طرف اشارہ اس تحریک کی ۱۹۱۱ء سے بعد کی صورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے نظر ثانی کا محتاج ہے ۔ قادیانی اب بھی بظاہر مسلمانوں کی طرح دکھائی دیتے ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے کے معاملے میں خصوصی توجہ بھی دیتے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جس طرح اس تحریک کا اصلی روپ سامنے آیا ہے ، اس سے عیاں ہے کہ وہ کلی طور پر اسلام کی دشمن ہے ، پس بظاہر قادیانی مسلمان نظر آتے ہیں ، لیکن حقیقت میں اُن کی ذہنیت ’میگین‘ (مجوسی)ہے ، عین ممکن ہے کہ اس تحریک کا انضمام بالآخر بہائی مذہب میںہو جائے جس سے معلوم ہوتا ہے قادیانی تحریک ابتداً اثر قبول کر کے ابھری تھی ۔ محمد اقبال ۲۱ اکتوبر ۱۹۳۵ء ‘‘۔ اقبال نے غالباً اندازے سے لکھ دیا کہ یہ مقالہ ۱۹۱۱ء میں علی گڑھ میں پڑھا گیا ، لیکن در اصل یہ دسمبر ۱۹۱۰ء میں پڑھا گیا تھا ۔ ۳۳۔ ’’معاصرین اقبال کی نظر میں ‘‘ از عبداللہ قریشی ، صفحات۲۳۱ تا ۳۴۲ ، بحوالہ ’’مخزن مئی ۱۹۰۲ء اور اخبارپنجۂ فولاد ‘‘ ۱۱ جون ۱۹۰۲ء ہفت روزہ ’’الحکم ، قادیان ۱۰،۱۱ اور ۲۴ جنوری ۱۹۰۳ء و اگست ۱۹۱۰ء ’’پیسہ اخبار ‘‘ ۱۵ ؍ ستمبر ۱۹۱۰ء ۔ ۳۴ ۔ ’’گفتارِ اقبال‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۵ ، ۶ ۔ ۳۵ ۔ ’’روایاتِ اقبال ‘‘ مرتبہ عبداللہ چغتائی ، صفحات ۱۳۴ ، ۱۳۵ ۔ ۳۶ ۔ ’’شاد اقبال ‘‘ مرتبہ سید محی الدین قادری زور ، صفحہ ۶ ۔ ۳۷ ۔ ’’آئینہ اقبال ‘‘ مرتبہ عبداللہ قریشی ، صفحہ ۲۳۴۔ اقبال خرابی صحت کے سبب روزے نہ رکھ سکتے تھے ۔ ایک مرتبہ تین روزے رکھے تھے کہ درد گردہ کا دورہ پڑ گیا ۔ دوسری مرتبہ شدید گرمی کے سبب صرف گیارہ روزے رکھ سکے۔ دیکھیے ’’مکتوبات اقبال ‘‘ بنام محمد نیاز الدین خان ، صفحات ۴ ، ۳۴۔ ۳۸ ۔ ’’روایاتِ اقبال ‘‘ مرتبہ عبداللہ چغتائی ، صفحہ ۱۳۶۔ ۳۹ ۔ ’’صحیفہ اقبال نمبر ‘‘ حصہ اوّل ، صفحات ۱۵۸، ۱۵۹ ۔ ۴۰ ۔ ماہنامہ ’’آتش فشاں ‘‘ مودودی نمبر ۱۹۸۰ء میں اس مضمون کی نقل شائع کی گئی ہے ، صفحہ ۶۲ ۴۱۔ نظم ’’ دین و دنیا‘‘ کے لیے دیکھیے ’’سرود رفتہ ‘‘ مرتبہ غلام رسول مہر و صادق علی دلاوری صفحات ۳۸ تا ۴۲ ۔ ۴۲ ۔ ’’اقبال کے چند جواہر ریزے ‘‘ از عبدالمجید ، صفحات ۲۱ تا ۲۴ ۔ ۴۳ ۔ ’’ملفوظات اقبال ‘‘ مرتبہ ابواللیث صدیقی ، صفحات ۱۱۸ ، ۱۱۹۔ ۴۴ ۔ ’’آئینہ اقبال ‘‘ مرتبہ عبداللہ قریشی ، صفحہ ۲۴۱۔ ۴۵ ۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطا ء اللہ حصہ دوم ، صفحہ ۲۹۹ ۔ گانے کی محفلوں میں مرزا جلال الدین کے علاوہ اقبال کے ساتھ مولانا گرامی اور کبھی کبھار سر عبدالقادر بھی شریک ہوتے تھے ، لیکن جس امیر کا ذکر شورش کاشمیری نے اپنی تصنیف ’’اس بازار میں ‘‘ میں اقبال کے حوالے سے کیا ہے وہ ساری تفصیل غلط فہمی پر مبنی ہے دیکھیے کتاب مذکور ، صفحات ۲۱۳ ۔ ۲۱۴ ۴۶ ۔ ’’اقبال کے چند جواہر ریزے ‘‘ عبدالمجید ، صفحہ ۵۱ ۔ ۴۷ ۔ در اصل یہ خاتون کشمیر کے کسی دیہاتی ہندو گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں ، جنہیں کوئی اغوا کر کے لاہور لے آیا اور بازار حسن میں فروخت کر دیا ۔ وہ آخری دم تک اپنے خاوند کی فرمانبردار رہیں اور سیالکوٹ میں فوت ہوئیں ۔ ۴۸ ۔ ’’اقبال درون خانہ ‘‘ از خالد نظیر صوفی ، صفحات ۱۲۳ تا ۱۳۰۔ شیخ اعجاز احمد نے اقبال کے ساتھ کیمبل پور کے سفر کا تذکرہ تو ’’روز گار فقیر ‘‘ جلد دوم از فقیر سید وحید الدین صفحات ۱۵۹ ، ۱۶۰ پر کیا ہے ، لیکن دعوت میں شریک ہونے کا واقعہ راقم کو زبانی بتایا ۔ شیخ اعجاز احمد راقم کو تحریر کرتے ہیں : ۱۹۰۸ء سے ۱۹۳۸ء کے عرصے میں مجھے ان (اقبال) کے ہاں جانے کا کئی بار اتفاق ہوا اور کئی مرتبہ ان کے ہاں قیام بھی کیا ۔ میں نے انہیں کبھی نہ پیتے دیکھا نہ پیے دیکھا نہ ان کے ہاں مے نوشی کے کوئی لوازم یا آثار ہی نظر آئے ۔ اگر وہ شراب پینے کے عادی ہوتے تو یہ بات مجھ سے چھپی نہ رہ سکتی اپنے عینی مشاہدے سے میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ مے نوشی کے قصے غلط ہیں ۔ ۴۹ ۔ ’’اقبال ریویو‘‘ جنوری ۱۹۶۹ء صفحہ ۴۷ خواجہ عبدالحمید اپنے ایک اور مضمون ’’اقبال کے حضور‘‘ دیکھیے’’ نقوش‘‘ اقبال نمبر (۲) دسمبر ۱۹۷۷ء ، صفحات ۳۸۲، ۳۸۳ میں تحریر کرتے ہیں کہ ۱۹۱۸ء میں یا اس سے پہلے ایک مرتبہ للی لاج کی محفل مشاعرہ میں شریک ہونے کے لیے سب سے پہلے پہنچنے والے بزرگ اقبال تھے ، جب وہ تشریف لائے تو کمرے میں خواجہ عبدالحمید کے سوا اور کوئی نہ تھا ۔ اقبال نے انہیں حکم دیا کہ حقہ لائو ۔ اس پر خواجہ عبدالحمید نے ڈرتے ڈرتے کہا : ڈاکٹر صاحب آپ حقہ چھوڑ کیوں نہیں دیتے ۔ وہ یہ بات سن کر مسکرائے اور پھر فرمایا : یار ! شراب چھوڑ دی تو اب حقہ بھی چھوڑ دوں ۔ اس گفتگو کا شاہد بقول خواجہ عبدالحمید ان کے سوا اور کوئی نہ تھا ۔ یہ بات قرین قیاس معلوم نہیں ہوتی کہ اقبال نے ایک کم عمر یا نوجوان عقیدت مند کی بات کا جواب اس انداز میں دیا ہو ۔ البتہ یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی ظرافت طبعی کے سبب ایسا کہہ کر خواجہ عبدالحمید کی فرمائش کو ٹال دیا ہو۔ ۵۰ ۔ ’’ذکرِ اقبال ‘‘ از عبدالمجید سالک ، صفحہ ۷۱ ۔ ۵۱ ۔ ایضاً ، صفحہ ۷۰ ۔ ۵۲ ۔ ’’دانائے راز‘‘ از ۔۔۔ سید نذیر نیازی ، صفحہ ۹۵ ۔ بقول شورش کاشمیری شرفا ، طوائف کو ایک ثقافتی ادارہ سمجھ کر اس کے ہاں جاتے تھے ۔ ان کا معاملہ جسم کا نہ تھا ، ایک تہذیب کا تھا۔ سرسید اور مولانا شبلی بڑے شوق سے گانا سنتے تھے ۔ مولانا اکبر الٰہ آبادی نے تو بوٹا بیگم سے نکاح پڑھوا کر انہیں گھر ہی میں بسا لیا تھا ۔ مولانا محمد علی جوہر کلکتے یا لکھنؤ میں قیام کے دوران میں زہرہ و مشتری کے ہاں ایک آدھ نشست ضرور جماتے یہاں تک کہ سیاسی سفروں میں بھی فیض آباد کی آواز سن کر آیا کرتے تھے ۔ حکیم اجمل خان بھی تحریک خلافت کے ایّام میں کبھی کبھار خوش وقت ہو لیتے ۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے ’’غبار خاطر‘‘ میں اپنی آشفتہ سری کا اقرار کیا ہے ۔ عبدالحلیم شرر ، آغا حشر کا شمیری ، قاضی عبدالغفار یہاں تک کہ حضرت داغؔ بھی کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی زلف کے اسیر تھے ۔ دیکھیے ’’اس بازار میں‘‘ ، صفحات۱۹۶ ، ۱۹۷، ۲۱۶ ، ۲۱۷۔ ۵۳ ۔ ’’ملفوظاتِ اقبال‘‘مرتبہ ابواللیث صدیقی ، صفحات ۱۱۵،۱۱۶۔ ۵۴ ۔ ’’حیاتِ اقبال کا ایک جذباتی دور ‘‘ ، صفحات ۶۷ تا ۱۱۵ ، ۱۳۷ تا ۱۵۶ ۔ ۵۵ ۔ ’’حیاتِ اقبال ‘‘ (انگریزی) ، صفحات ۷۷ ، ۷۸ ۔ ۵۶ ۔ ’’اقبال درونِ خانہ ‘‘ ، صفحات ۱۳۸ ، ۱۴۲ ۔ ۵۷ ۔ ’’ملفوظاتِ اقبال‘‘ مرتبہ ابواللیث صدیقی ، صفحات ۱۱۳ ، ۱۱۴۔ ۵۸ ۔ ’’ذکرِ اقبال ‘‘ ، صفحات ۷۰ ، ۷۱ ۔ ۵۹ ۔ مضمون ’’اسماء الرجال اقبال ‘‘ مطبوعہ ’’کریسنٹ ‘‘ مجلہ اسلامیہ کالج، لاہور فروری تا اپریل ۱۹۵۱ء ۔ ۶۰ ۔ ’’ سرود رفتہ ‘‘ مرتبہ غلام رسول مہر و صادق علی دلاوری ، صفحات ۴۳ ، ۴۴ ۔ باب: ۱۰ ذہنی ارتقا اقبال دراصل احیائے اسلام کے شاعر و مفکر تھے ۔ اس لیے ان کے ذہنی ارتقا کو تحریکِ احیاے اسلام کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے ۔ عہدِ حاضر میں احیاے اسلام کا ظہور اٹھارہویں صدی عیسوی کے وسط میں نجد کی سرزمین میں ابنِ عبدالوہاب (۱۷۰۳ء تا ۱۷۸۷ئ) کی اصلاحی تحریک سے ہوا ۔ یہ تحریک عثمانی ترک سلطنت و خلافت کے تحت مسلمانوں کے دینی ، اخلاقی اور سیاسی تنزل کے خلاف ردِّ عمل کے طور پر ابھری تھی ، بعد میں دنیاے اسلام کے مختلف حصوں میں اسی قسم کی صورت حال کے سبب ایسی تحریکیں وجود میں آتی چلی گئیں ۔ ان تحریکوں کا ایک دوسری سے کوئی واضح تعلق تو نہ تھا ، البتہ جہاں کہیں بھی ابھریں ، قومیت اسلام کے جذبے کے تحت ان کا نصب العین سلاطین کی مطلق العنانیت ، علماء کی موقع پرستی ، صوفیہ کی شعبدہ بازی ، عوام کی ضعیف الاعتقادی اور بحیثیت مجموعی مسلمانوں کے داخلی انحطاط یا ان کے غیر مسلم حاکموں کے ظلم و استبداد اور روس اور یورپ کی نو آبادیاتی طاقتوں کے استعمار کے خلاف شدید احتجاج یا جہاد کرنا تھا ۔ برصغیر میں انیسویں صدی میں سید احمد بریلوی، مولوی شریعت اللہ ، ودودمیاں اور میر نثار علی کی دعوتِ اصلاح اور تنظیمِ جہاد ،ا سی قسم کی تحریکیں تھیں ، سید احمد بریلوی اور ان کے حامیوں نے شمال مغربی سرحد کو مرکز جہاد بنایا، کیونکہ وہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی ، اور پشت پر مسلم ممالک موجود تھے ۔ انہوں نے اولاً سکھوں کے خلاف ، جو مسلم اکثریتی علاقوں پنجاب اور کشمیر پر قابض تھے ، اعلانِ جہاد کیا ۔ اس زمانے میں سندھ اور بلوچستان کے مسلم اکثریتی علاقوں کے حاکم مسلمان تھے ، جو سید صاحب کے حلیف اور مددگار تھے ۔ معلوم ہوتا ہے سید صاحب کا مقصد یہ تھا کہ برصغیر کے شمال مغربی مسلم اکثریتی علاقوں میں اسلامی حکومت قائم ہو جائے اور غالباً اسی سبب وہ سب سے پہلے مسلم پنجاب اور کشمیر کو سکھوں کے تسلط سے آزاد کرانا چاہتے تھے ۔ اسی طرح مشرقی بنگال کے مسلم اکثریتی علاقے میں میر نثار علی کی مسلم کاشت کاروں پر مشتمل عسکری تنظیم بھی ہندو جاگیرداروں کے استحصال کا خاتمہ کرنے کے لیے وجود میں لائی گئی اور غالباًان کے اعلانِ جہاد کا مقصد بھی مشرقی بنگال میں اسلامی حکومت کا انعقاد تھا ۔ مگر یہ تحریکیں اپنے سیاسی مقاصد کے حصول میں اس لیے ناکام رہیں کہ برصغیر میں انگریزوں کے لا محدود وسائل اور جدید اندازِ جنگ کا مقابلہ محدود وسائل اور فرسودہ طور طریقوں سے نہ کیا جا سکتا تھا ۔ بہرحال ناکامیوں کے باوجود تحریکِ احیاے اسلام جاری رہی ۔ مغرب سے براہ راست تعلق کے باعث نئے تصورات دنیاے اسلام میں در آئے۔ دو ایک نسلوں کے بعد اس تحریک میں وسعتِ نظر نے جنم لیا اور عالمِ اسلام میں کچھ ایسے مصلحین بھی پیدا ہو گئے ، جنہوں نے جدید نظریات کی مخالفت کی بجاے انہیں اسلامی رنگ دینا شروع کر دیا ۔ برصغیر میں سرسید احمد خان اور ان کے معتقدین اسی دور کی پیداور تھے ۔ انہوں نے بھی قومیّتِ اسلام کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے ملت کی فلاح و بہبود کی خاطر مسلمانان ہند میں جدید تعلیم کے فروغ کے لیے عظیم خدمات انجام دیں ، مگر اب مصلحین دو گروہوں میں بٹ گئے تھے ، قدامت پسند اور اعتدال پسند ، جو ایک دوسرے کی مخالفت کرنے لگے تھے ۔ لیکن چونکہ دونوں گروہ روس اور یورپ کی نو آبادیاتی طاقتوں کے استعمار کے بیرونی خطرے سے آگاہ تھے ، اس لیے اسلام کے دینی اور علاقائی دفاع میں دونوں نے مشترکہ طور پر حصہ لیا ۔ جدیداسلام میں قدامت پسندی اور اعتدال پسندی کے ان دو بظاہر مخالفانہ رجحانات کے مابین مصالحت کے ضمن میں عموماً جمال الدین افغانی کا نام لیا جاتاہے ۔ انہوں نے یورپ کی ترقی کی تکنیک کو اپنا نے پر زور دیا اور مسلمانوں کو یورپ کی طاقت کا اصل راز سمجھنے کی تلقین کی ۔ حقیقت یہ ہے کہ جمال الدین افغانی ہی کی شخصیت کے زیرِ اثر قدامت پسند اور اعتدال پسند مصلحین باہم شیر و شکر ہوئے اور دنیاے اسلام میں اتحادِ ممالکِ اسلامیہ (پان اسلامزم) اور مسلم قومیّت (مسلم نیشنلزم) کی مثبت تحریکیں رونما ہوئیں ۔ اقبال نے شاعری کی ابتداء مسلمانوں کے زمانہ تنزل کے ایک روایتی غزل گو کی حیثیت سے مشاعروں میں کی ، مگر انہوں نے عہد تنزل کی بجائے احیاء کے ماحول میں آنکھیں کھولی تھیں ، اس لیے اپنے گردونواح سے متاثر ہوئے بغیر کیونکر رہ سکتے تھے ۔ چنانچہ چند ہی سالوں میں ان کا مشاعروں میں شریک ہونا ختم ہو گیا اور ان کی شاعری نے وطن اور قوم کی محبت کی شاعری کی صورت اختیار کر لی ۔ اس زمانے میں اقبال کو توقع تھی کہ ہندووں اور مسلمانوں میں اشتراکِ اغراض کی بنا پر مفاہمت ہو سکتی ہے ، اس لیے وہ حب وطن کی مے سے سرشار وسیع المشربی کے ہمہ اوست میں بہہ گئے ، مگر یہ دور بھی عارضی ثابت ہوا ۔ قیام یورپ کے دوران میں اقبال ایک عظیم ذہنی اور قلبی انقلاب سے گزرے ، جس نے ان کی شاعری کا رخ حتمی طور پر اسلام کی طرف پھیر دیا ۔ خلیفہ عبدالحکیم تحریر کرتے ہیں: اقبال نے یہ قطعی فیصلہ کر لیا کہ باقی عمر میں شاعری سے اب احیاے ملت کا کام لیا جائے گا۔ فرماتے تھے کہ میرے والد نے مجھ سے یہ خواہش کی تھی اور مجھے نصیحت کی تھی کہ اپنے کمال کو اسلام کی خدمت میں صرف کرنا ۔ حالی کی شاعری کا رخ سر سید نے پھیرا اور اس کے جو ہر کو ملت کے لیے وقف کرایا ۔ سید علیہ الرحمۃ کی صحبت سے پہلے حالی میں یہ چیز بالکل موجود نہ تھی۔ روایتی تغزل کے علاوہ اس کے پاس کچھ نہ تھا ۔ اقبال میں یہ جذبہ شروع سے موجود تھا ، لیکن اس میں شدت اور گرمی مغرب میں پیدا ہوئی ۔ اس کی طبیعت میں یہ آفتابِ محشر مغرب میں طلوع ہوا ۱ ‘‘۔ بہرحال وطن اور قوم کی محبت کی شاعری کے دور میں بھی اقبال کے ہاں اسلامیّت کا عنصر موجود تھا ، جیسے کہ انجمنِ حمایتِ اسلام کے جلسوں میں پڑھی گئی ان کی ملّی نظموں سے عیاں ہے ۔ اس عہد میں گو وہ ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے ، پھر بھی برصغیر کو وہ مختلف اقوام کا وطن تصور کرتے تھے اور اس حیرت انگیز تغیر کے پیش نظر جو بقول ان کے زمانۂ حال کو زمانۂ ماضی سے متمیز کرتا ہے ، انہیں مسلم قوم کی تعمیرِ نو کی فکر تھی۔ ۱۹۰۴ء میں تحریر کردہ اپنے ایک مضمون بعنوان ’’ قومی زندگی‘‘ میں دنیا کی دیگر اقوام کی ترقی کا ذکر کرتے ہوئے برصغیر کے مسلم معاشرے کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں : مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اگر اس اعتبار سے مسلمانوں کو دیکھا جائے تو ان کی حالت نہایت مخدوش نظر آتی ہے ۔ یہ بدقسمت قوم حکومت کھو بیٹھی ہے ، صنعت کھو بیٹھی ہے ، تجارت کھو بیٹھی ہے ، اب وقت کے تقاضوں سے غافل اور افلاس کی تیز تلوار سے مجروح ہو کر ایک بے معنی توکل کا عصا ٹیکے کھڑی ہے اور باتیں تو خیر ، ابھی تک ان کے مذہبی نزاعوں کا ہی فیصلہ نہیں ہوا ۔ آئے دن ایک نیا فرقہ پیدا ہوتا ہے ، جو اپنے آپ کو جنت کا وارث سمجھ کر باقی تمام نوع انسان کو جہنم کا ایندھن قرار دیتا ہے ۔ غرضیکہ ان فرقہ آرائیوں نے خیر الامم کی جمعیت کو کچھ اس بری طرح منتشر کر دیا ہے کہ اتحاد و یگانگت کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔۔۔۔ مولوی صاحبان کی یہ حالت ہے کہ اگر کسی شہر میں دو جمع ہو جائیں تو حیاتِ مسیح یا آیات ناسخ و منسوخ پر بحث کرنے کے لیے باہمی نامہ و پیام ہوتے ہیں اور اگر بحث چھڑ جائے اور بالعموم بحث چھڑ جاتی ہے ، تو ایسی جوتیوں میں دال بٹتی ہے کہ خدا کی پناہ پرانا علم و فضل جو علمائے اسلام کا خاصہ تھا ، نام کو بھی نہیں ۔ ہاں ، مسلمان کافروں کی ایک فہرست ہے کہ اپنے دست خاص سے اس میں سے روز بروز اضافہ کرتے رہتے ہیں ۔۔۔۔ امراء کی عشرت پسندی کی داستان سب سے نرالی ہے ۔ خیر سے چار لڑکیاں اور دو لڑکے تو پہلے سے ہیں ۔ ابھی میاں تیسری بیوی کی تلاش میں ہیں اور پہلی دو بیویوں سے پوشیدہ کہیں کہیں پیغام بھیجتے رہتے ہیں ۔ کبھی گھر کی جو تم پیزار سے فرصت ہوئی تو بازار کی کسی حسن فروش نازنین سے بھی گھڑی بھر کے لیے آنکھ لڑا آئے ۔۔۔۔ عوام کی تو کچھ نہ پوچھیے۔ کوئی اپنی عمر کا اندوختہ بچے کے ختنے پر اڑا رہا ہے ، کوئی استاد کے خوف سے اپنے ناز پروردہ لڑکے کا پڑھنا لکھنا چھڑوا رہا ہے ، کوئی دن بھر کی کمائی شام کو اڑاتا ہے اور کل کا اللہ مالک ہے کہہ کر اپنے دل کو تسکین دیتا ہے ۔ کہیں ایک معمولی بات پر مقدمہ بازیاں ہو رہی ہیں، کہیں جائیداد کے جھگڑوں سے جائیدادیں فنا ہو رہی ہیں ۔۔۔۔ تمدن کی یہ صورت کہ لڑکیاں ناتعلیم یافتہ، نوجوان جاہل ، روز گار ان کو نہیں ملتا ، صنعت سے گھبراتے ہیں، حرفت کو یہ عار سمجھتے ہیں ، مقدمات نکاح کی تعداد ان میں روز بروز بڑھ رہی ہے ، جرم کی مقدار روز افزوں ہے۔۔۔۔ یہ بڑا نازک وقت ہے اور سوائے اس کے کہ تمام قوم متفقہ طور پر اپنے دل و دماغ کو اصلاح کی طرف متوجہ نہ کرے ، کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔دنیا میں کوئی بڑا کام سعی بلیغ کے بغیر نہیں ہوا ۔ یہاں تک کہ خدا تعالیٰ بھی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا ، جب تک کہ وہ قوم اپنی حالت خود نہ بدلے۲ ۔ اس کے بعد فرد اور قوم کے تعلق پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہر فرد کی محنت عبادت ہے ، کیونکہ وہ ایک قومی کام ہے ۔ عورتوں کی تعلیم پر زور دیتے ہیں اور ارشاد کرتے ہیں کہ مرد کی تعلیم تو ایک فردِ واحد کی تعلیم ہے مگر عورت کو تعلیم دینا سارے خاندان کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے۔ پردہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس دستور کو یک قلم موقوف کرنا قوم کے لیے مضر ہو گا ، لیکن اگر قوم کی اخلاقی حالت سدھر جائے تو عورتوں کو آزادی سے مردوں کے ساتھ تبادلۂ خیالات کرنے کی عام اجازت ہو سکتی ہے ۔ تعداد ازدواج کے دستور میں اصلاح کے طلبگار ہیں ۔ آپ کے نزدیک اس کا جائز قرار دیا جانا ایک دقیق روحانی وجہ پر مبنی ہے ، فرماتے ہیں : ابتداے اسلام میں اقتصادی اور سیاسی لحاظ سے اس کی ضرورت بھی تھی ، مگر جہاں تک میں سمجھتا ہوں ، موجودہ مسلمانوں کو فی الحال اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ موجودہ حالت میں اس پر زور دینا قوم کے اقتصادی حالات سے غافل رہنا ہے اور امراے قوم کے ہاتھ میں زنا کا ایک شرعی بہانہ دینا ہے۔ بے جا نام و نمود کی خواہش کو ایک مرض تصور کرتے ہیں ، جس سے نجات حاصل کرنا اشد ضروری ہے ۔ شادی بیاہ کی بعض قبیح رسوم اور ایسے موقعوں پر فضول خرچی پر اعتراض کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ نا رضا مندی کی شادیاں مسلمانوں میں عام ہو رہی ہیں ، جس سے ننانوے فیصد اسلامی گھروں میں اس بات کا رونا رہتا ہے کہ میاں بیوی کی آپس میں نہیں بنتی ۔ آپ کی رائے میں منگنی کا رواج نہایت مفید ہو سکتا ہے ، بشرطیکہ شادی سے پہلے میاںبیوی کو اپنے بزرگوں کے سامنے ملنے کا موقع دیا جائے تاکہ وہ ایک دوسرے کے عادات اور مزاج کا مطالعہ کر سکیں اور اگر ان کے مزاج قدرتاً مختلف واقع ہوئے ہوں تو منگنی کا معاہدہ فریقین کی خواہش سے ٹوٹ سکے ۳ ۔ آپ کی رائے میں مسلم قوم کی تعمیرِ نو کے لیے دو چیزوں کی بہت ضرورت ہے ۔ اصلاح تمدن اور تعلیمِ عام ۔ تعلیمِ عام کے سلسلے میں آپ کے نزدیک مسلمانوں کو تعلیم کی تمام شاخوں سے زیادہ صنعت کی تعلیم پر توجہ دینی چاہیے۔ آپ صنعت و حرفت کو قوم کی سب سے بڑی ضرورت خیال کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں : اگر میرے دل سے پوچھو تو سچ کہتا ہوں کہ میری نگاہ میں اس بڑھئی کے ہاتھ ، جو تیشے کے متواتر استعمال سے کھر درے ہو گئے ہیں ، ان نرم نرم ہاتھوں کی نسبت بدر جہا خوبصورت اور مفید ہیں ، جنہوں نے قلم کے سوا کسی اور چیز کا بوجھ کبھی محسوس نہیں کیا ۔ اصلاحِ تمدن کے متعلق اقبال کے نظریات اس زمانے میں بھی وہی تھے ، جن کا آپ بعد کی زندگی میں زیادہ تفصیل کے ساتھ اعادہ کرتے رہے ۔ ارشاد کرتے ہیں: مسلمانوں میں اصلاحِ تمدّن کا سوال دراصل ایک مذہبی سوال ہے ، کیونکہ اسلامی تمدن اصل میں مذہبِ اسلام کی عملی صورت کا نام ہے اور ہماری تمدنی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو اصول مذہب سے جدا ہو سکتا ہو۔ میرا یہ منصب نہیں کہ اس اہم مسئلہ پر مذہبی اعتبار سے گفتگو کروں ۔ تاہم میں اس قدر کہنے سے باز نہیں رہ سکتا کہ حالات زندگی میں ایک عظیم الشان انقلاب آ جانے کی وجہ سے بعض ایسی تمدنی ضروریات پیدا ہو گئی ہیں کہ فقہا کے استدلالات ، جن کے مجموعے کو عام طور پر شریعتِ اسلامی کہا جاتا ہے ، ایک نظرِ ثانی کے محتاج ہیں ۔ میرا یہ عندیہ نہیں کہ مسلماتِ مذہب میںکوئی اندرونی نقص ہے ، جس کے سبب سے وہ ہماری موجودہ تمدنی ضروریات پر حاوی نہیں ہیں ، بلکہ میرا مدعا یہ ہے کہ قرآن شریف و احادیث کے وسیع اصول کی بنا پر جو استدلال فقہا نے وقتاً وفوقتاًکیے ہیں ،ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو خاص خاص زمانوں کے لیے واقعی مناسب اور قابلِ عمل تھے ، مگر حال کی ضروریات پر کافی طور پر حاوی نہیں ۔۔۔۔ اگر موجودہ حالات زندگی پر غور و فکر کیا جائے تو جس طرح اس وقت ہمیں تائید اصول مذہب کے لیے ایک جدید علمِ کلام کی ضرورت ہے ، اسی طرح قانون اسلامی کی جدید تفسیر کے لیے ایک بہت بڑے فقیہ کی ضرورت ہے ، جس کے قوائے عقلیہ و متخیلہ کا پیمانہ اس قدر وسیع ہو کہ وہ مسلمات کی بنا پر قانونِ اسلامی کو نہ صرف ایک جدید پیراے میں مرتب و منظم کر سکے ، بلکہ تخیل کے زور سے اصول کو ایسی وسعت دے سکے جو حال کے تمدنی تقاضوں کی تمام ممکن صورتوں پر حاوی ہو ۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے ، اسلامی دنیا میں اب تک کوئی ایسا عالی دماغ مقنن پیدا نہیں ہوا اور اگر اس کا م کی اہمیت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام شاید ایک سے زیادہ دماغوں کا ہے اور اس کی تکمیل کے لیے کم از کم ایک صدی کی ضرورت ہے۔ اس مضمون کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال ارتقاے فکر کے اوائلی دور ہی میں ملّتِ اسلامیہ کے تنزل کے اسباب سے باخبر تھے ، ان کی نگاہ میں حیات انسانی میں ایک ایسا تغیر آ چکا تھا۔ جس نے زمانہ حال کو زمانہ ماضی سے منقطع کر کے مسلمانوں کو اپنا انداز فکر تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا تھا ۔ اقبال احیاے اسلام کے ماحول میں فرد اور معاشرے کی وابستگی کے مسئلے پر غور کرتے ہوئے ملتِ اسلامیہ کی تعمیرِ نو قومیّتِ اسلام کے اصول کی روشنی میں کرنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ ان کی رائے میں اسلامی تمدن دینِ اسلام کی عملی صورت تھی ۔ مگر حیات انسانی میں انقلاب آ جانے کے سبب وقت کے جدید تقاضوں کے تحت نئی حاجات پیدا ہو گئی تھیں ۔ تو جس طرح تائید اصول مذہب کے لیے ایک جدید علمِ کلام کی ضرورت تھی ، اسی طرح نئے تمدنی تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اجتہاد کے ذریعے قانون اسلامی کی جدید تفسیر لازمی تھی ۔ اقبال کے استدلال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کی رائے میں سرعت سے بدلتے ہوئے حالاتِ زندگی میں اگر مسلمان نیا علمِ کلام تخلیق کرنے اور قانونِ اسلامی کی نئی تفسیر مرتب کرنے کے قابل نہ ہوئے تو اسلام دیگر مذاہب کی طرح ایک مذہب کے طور پر زندہ رہے تو رہے ، لیکن ایک تمدن یا طریقِ حیات کی صورت میں اس کا زندہ رہ سکنا محال ہو گا ۔ اقبال کے قیام انگلستان کے دوران ، تقسیمِ بنگال کے خلاف (جو مسلمانوں کی معاشی پس ماندگی دور کرنے کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی تھی ) ہندووں کے مظاہروں اور دہشت پسندی کے خوف سے مسلم قائدین نے ۱۹۰۶ء میں آل انڈیامسلم لیگ قائم کی اور اپنے حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں جداگانہ انتخاب کا مطالبہ کیا ۔ اس سے اگلے سال اقبال ذہنی اور قلبی انقلاب سے گزرے۔ لندن میں پان اسلامک سوسائٹی اور مسلم لیگ کی برٹش کمیٹی میں ان کی دلچسپی ، نیز اسلامی تمدن پر ان کے لیکچروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال کا زاویہ نظر بدل چکا تھا ۔ لاہور واپسی کے بعد انجمنِ حمایتِ اسلام کے دو ایک جلسوں میں نظموں کی بجائے انہوں نے انگریزی میں اسلامی تمدن کے موضوع پر تقریریں کیں ۔ ۱۹۰۹ء تک وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ ہندووں اور مسلمانوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ اپنا اپنا قومی تشخص ایک دوسرے سے الگ بر قرار رکھیں ۔ ۱۹۰۹ء میں ان کا ایک انگریزی مضمون بعنوان ’’اسلامِ بحیثیت ایک اخلاقی اور سیاسی نصب العین ‘‘ ہندوستان ریویو میں شائع ہوا ۴ ۔ اس مضمون کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نے دنیا کے تمام بڑے مذاہب کا مطالعہ کر رکھا تھا اور تاریخِ اسلام کے علاوہ ، تاریخِ عالم پر بھی انہیں عبور حاصل تھا۔ اسلام کے اخلاقی اصول کی وضاحت کے سلسلے میں وہ بدھ مت ، عیسائیت اور دیگر مذاہب کے اخلاقی نصب العین کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ اسلام انسان کو اس کی شخصیت کا احساس دلاتا ہے ، تاکہ وہ اپنے آپ کو طاقت کا سر چشمہ محسوس کرنے لگے ۔ انسان کی انفرادیت کا یہ تصور کہ وہ بجائے خود طاقت کا سر چشمہ ہے ، اسلامی تعلیمات کے مطابق ، اس کے ہر عمل کی قدر و قیمت کا تعین کرتا ہے ۔ پس ہر وہ شئے جو انسان میں انفرادیت کے احساس کو قوی کرے ، نیکی ہے اور ہر وہ شے جو اسے کمزور کرے ، بدی ہے ۔ اسلام کے نزدیک نیکی سے مراد طاقت ، قوت یا مضبوطی ہے اور بدی سے مراد کمزوری ہے ۔ اگر انسان کی عزت و تکریم اس کی ذاتی شخصیت کی بنا پر ہونے لگے اور اسے خدا کی بنائی ہوئی دنیا کی وسعتوں میںبغیر کسی خوف کے آزاد انہ حرکت کی اجازت ہو تو وہ دیگر شخصیتوں کی عزت کرے گا اور مکمل طور پر نیکی کا مظہر بن جائے گا ۔ اسی مضمون میں ارشاد کرتے ہیں کہ دنیاے قدیم کے اقتصادی شعور میں مزدوری کا تعلق چونکہ جبر سے تھا ، اسی لیے ارسطو نے غلامی کو انسانیت کے ارتقا کے لیے ایک بنیادی ضرورت قرار دیا، لیکن پیغمبرِؐ اسلام نے جو دنیاے قدیم اور دنیاے جدید کے درمیان ایک کڑی ہیں ، انسانوں میں معاشی مساوات کے اصول کا اعلان کیا ۔ اس وقت کے معاشرتی تقاضوں کے پیش نظر اگرچہ نام کی غلامی جاری رہی ، مگر آنحضورؐ نے اس ادارے کی اصل روح کا خاتمہ کر دیا ۔ اسلام کے نزدیک غربت ایک قسم کی بدی ہے اور قرآنِ مجید میں انسانوں کو تلقین کی گئی ہے کہ وہ دنیا سے اپنا حصہ وصول کرنا نہ بھولیں ۔ پس اسلام میں انسانی انفرادیّت یا احترامِ آدمیّت کا تصور ہی ایک ایسا رہنما اصول ہے جس سے آگاہی کے بغیر اس کے اخلاقی یا قانونی پہلوئوں کو پوری طرح سمجھ سکنا محال ہے۔ ایک مضبوط جسم میں ایک مضبوط قوتِ ارادی ہی اسلام کا اخلاقی نصب العین ہے ، فرماتے ہیں: کیا ہندوستان کے مسلمان اس معیار پر پورے اترتے ہیں ؟ کیا ہندوستانی مسلمان کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک توانا جسم میں مضبوط قوت ارادی رکھتا ہے ؟ کیا اس میں زندہ رہنے کا عزم موجود ہے ؟ کیا وہ اپنے اندر اتنی قوت کردار رکھتا ہے کہ ان تمام طاقتوں کا مقابلہ کر سکے جو اس کے معاشرتی نظام کو پارہ پارہ کرنے کے درپے ہیں؟ افسوس ہے کہ مجھے اپنے سوالات کا جواب نفی میں دینا پڑ رہا ہے ۔ قارئین جانتے ہیں کہ حیات کی تگ و دو میں افراد کی کثرتِ تعداد ہی وہ عنصر نہیں جو کسی معاشرتی نظام کی بقا کا ضامن ہے بلکہ افراد کی اجتماعی قوت کردار اس کی بقا کے لیے ایک قطعی لازمہ ہے۔ انفرادی قوت کردار کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ارشاد کرتے ہیں: میرے دل میں تو شیطان کی بھی کچھ نہ کچھ قدر و منزلت موجود ہے ۔ آدم کو جسے وہ دیانت داری سے اپنے آپ سے کمتر سمجھتا تھا ، سجدہ کرنے سے انکار کے ذریعے شیطان نے اپنی نگاہوں میں اپنی عزت کے ایک انتہائی بلند جذبے کا مظاہرہ کیا ۔ میری رائے میں تو اس کے کردار کی صرف یہ خوبی ہی اسے اس کے روحانی قبح سے نجات دلا سکتی ہے ۔۔۔۔ میرا عقیدہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے شیطان کو اس لیے سزا نہیں دی کہ اس نے کمزور انسانیت کے جدِّاعلیٰ کے سامنے جھکنے سے انکار کیا ، بلکہ محض اس لیے کہ اس نے حیات و کائنات کے عظیم خالق و مالک کی رضا کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے سے احتراز کیا تھا ‘‘۔ پھر تحریر کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں تعلیم یافتہ طبقے کا آئیڈیل سرکاری ملازمت کا حصول ہے اور ملازمت سے مراد بالخصوص ہندوستان جیسے ملک میں حکومت کی محتاجی ہے اور اس جذبے کا فروغ انسانی انفرادیّت کے احساس کو نشو و نما کے لیے زہرِ قاتل ہے ۔ غربا بالکل نادار ہیں ۔ وسطی طبقے کے لوگ باہمی بداعتمادی کے سبب مشترکہ سرمائے سے معاشی کاروبار میں دلچسپی لینے سے گریزاں ہیں اور امراء صنعت و حرفت یا تجارت کے پیشوں کو اختیار کرنا اپنے وقار کے منافی سمجھتے ہیں ۔ مسلمانوں میں معاشی محتاجی ان کی ساری خرابیوں کی جڑ ہے ۔ قومی مفاد کا انہیں تصورنہیں۔اس لیے نجی اور اجتماعی دونوں حیثیتوں سے ایک ایسے رستے پر گامزن ہیں ، جو انہیں بالآخر تباہی کی طرف لے جائے گا۔ تعلیمی نظام کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کے لیے ناموزوں ہے ، ان کی فطرت کے منافی ہے ۔ یہ نظام کردار کی ایک غیر مسلم قسم پیدا کرتا ہے ، انہیں اپنے ماضی سے الگ تھلگ رکھتا ہے اور اس غلط مفروضے پر مبنی ہے کہ تعلیم کا نصب العین قوت ارادی پیدا کرنے کی بجائے محض انسانی ذہن کی تربیت کرنا ہے ۔ ان کے نزدیک قومیں اس لیے زندہ رہتی ہیں کہ وہ اپنے ماضی کی عظیم شخصیتوں کو فراموش نہیں کرتیں ، لہٰذا مسلمانوں کے لیے ایسے نظامِ تعلیم کی ضرورت ہے جو ان کی معاشرتی اور تاریخی روایات کو زندہ رکھے اور ان میں خالصتاً اسلامی کردار پیدا کرے۔ اس کے بعد اسلام بحیثیت سیاسی نصب العین کے موضوع پر بحث کرتے ہوئے اسلام کے تصورِ ملّی کی وضاحت کرتے ہیں کہ اسلام صرف مذہب ہی نہیں بلکہ ملت یا قوم بھی ہے ، اسلام میں مذہب اور ملت ایک دوسرے سے الگ نہیں کیے جا سکتے۔ اس اعتبار سے ان کے نزدیک اصطلاح ، ہندی مسلمان میں تناقص ہے ، کیونکہ اسلام میں قومیت ایک نظریہ ہے ، جس کی بنیاد علاقائی یا جغرافیائی اصول پر استوار نہیں کی گئی ۔ فرد کے مفاد پر ملت کے مفاد کو اس لیے فوقیت حاصل ہے کہ ملت اسلام کی خارجی شکل ہے ۔ اسلامی دستور کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد کرتے ہیں کہ اس کے دو بنیادی اصول ہیں ۔ اوّل قانون الٰہی کی حاکمیت اور دوم ملت کے تمام افراد میں مساوات ۔ اسلام کا سیاسی نصب العین ملت اسلامیہ کے اتحاد کے ذریعے صحیح معنوں میں جمہوریت کا قیام ہے ۔ یہ تمام مسلمانوں کی برابری ہی کا اصول تھا ، جس نے انہیں دنیا کی عظیم ترین سیاسی طاقت بنا دیا ۔ ہندوستان میں بھی ان کے سیاسی اقتدار کا راز یہی تھا کہ صدیوں سے روندے ہوئے انسانوں کو ایک اعلیٰ مقام حاصل ہوا ۔ مگر ہندوستان میں اسلام کی ہئیت اجتماعی کی وحدت اس لیے محفوظ نہیں کہ مسلمانوں میں امتیازات کا دہرا نظام قائم ہے ۔ ایک طرف فرقہ بندی کی صورت میں مذہبی فرقوں کی بھر مار ہے اور دوسری طرف معاشرتی طور پر ذات پات کا وہ امتیاز بھی موجود ہے جو انہوں نے ہندووں سے ورثے میں حاصل کر رکھا ہے ۔ اسلام میں ایسے امتیازات کی کوئی گنجائش نہیں، کیونکہ وہ ایک ناقابل تقسیم وحدت ہے ، فرماتے ہیں : جب حق بجائے خود خطرے میں ہو تو اس کی تاویلات پر مت لڑو۔ رات کی تاریکی میں چلتے وقت ٹھوکرکھانے کی شکایت کرنا بے معنی ہے آئو ہم سب مل کر آگے بڑھیں ۔ طبقاتی امتیازات اور فرقہ بندی کے بت ہمیشہ کے لیے پاش پاش کر دیں تاکہ اس ملک کے مسلمان ایک بار پھر ایک عظیم بامعنی قوت کی صورت میں متحد ہوں۔ اس مضمون کا مطالعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ جہاں تک برصغیر میں مسلمانوں کی ہیئت اجتماعی کا تعلق ہے ، سرسید کی وفات کے بعد، بالخصوص علم و ثقافت کے میدان میں یہ اقبال ہی تھے جنہوں نے ایک خیال افروز قیادت فراہم کی ۔ مضمون میں اور بھی بہت سی باتیں ایسی ہیں جو اقبال کے افکار کے بتدریج ارتقاء کی نشاندہی کرتی ہیں ۔ آپ کے سامنے ایک شکست خوردہ ، بیمار ، کمزور اور انتشار پذیر معاشرہ تھا جس کے ارکان منفی اقدار پر بھروسا کرنے کے سبب قنوطیت کا شکار تھے ۔ انہیں متعدد امراض لاحق تھے، جن کی وجہ سے انہوں نے مدافعانہ روّیہ اختیار کر رکھا تھا ۔ ظاہر ہے ایسی صورت حالات میں جارحانہ ، مثبت اقدار کا حامل اور رجائیت سے بھرپور پیغام حیات ہی ان کی بقاء کی ضمانت دے سکتا تھا ۔ اقبال کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ اسلام کا تصور شوکت و قوت کے بغیر ممکن نہیں ۔ اس مضمون میں ایسے کئی افکار کے نقوش بھی موجود ہیں ، جن کی بنیادوں پر بعد میں اقبال نے اپنے فلسفۂ خودی کی عظیم الشان عمارت تعمیر کی۔ اقبال کی ۱۹۱۰ء کی بھی بعض تحریریں قابل توجہ ہیں ۔ اس سال انہوں نے ’’افکار ، پریشاں ‘‘ کے عنوان کے تحت انگریزی میں ایک بیاض ۲۷ اپریل ۱۹۱۰ء سے لکھنا شروع کی ۔ اس میں وقتاً فوقتاً ذہن سے گزرتے ہوئے خیالات کا اندراج کرتے تھے ۵۔ اس سال دسمبر میں انہوں نے ایک انگریزی مقالہ بعنوان ’’مسلم کمیونٹی‘‘ ایم ۔ اے۔ او کالج علی گڑھ کے اسٹریچی ہال میں پڑھا۶۔ بعد میں اس کا ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے اردو میں ’’ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ کے عنوان کے تحت کیا ۔ پھر اسی سال انہوں نے ایک انگریزی مضمون بعنوان ’’اسلام میں سیاسی فکر‘‘ تحریر کیا ، جو ’’ہندوستان ریویو ‘‘ کے دسمبر ۱۹۱۰ء اور جنوری ۱۹۱۱ء کے شماروں میں شائع ہوا ۷۔ اقبال کے ذہنی ارتقاء کے مختلف مراحل سے شناسائی کے لیے ان تحریروں کا علیحدہ علیحدہ تجزیہ کرنا اشد ضروری ہے ۔ بیاض ’’افکار پریشاں‘‘ میں اقبال نے متنوع موضوعات مثلاً آرٹ ، فلسفہ ، ادب ، سائنس سیاست اور مذہب کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ ان اہم خیالات کے نقوش بھی ہیں ، جو بعد کے شاعرانہ کلام اور فلسفیانہ تصانیف میں تفصیل کے ساتھ پیش کیے گئے ۔ تاریخ انسانی میں ملت اسلامیہ کے مخصوص و منفرد مقصد پر اپنے ایمان اور قومی کردار کی تعمیر کے لیے موزوں نظام حکومت کی اہمیت کا ذکر کرتے ہیں ۔ آپ کے نزدیک زندگی جہد پیہم کا نام ہے ۔ اس لیے تعلیم کا مقصد کشمکش حیات کی تیاری ہونا چاہیے ، نہ کہ تربیت دماغ ۔ آپ بار بار قوت کی ضرورت اور قوائے انسانی کی اہمیت کی طرف توجہ دلاتے ہیں ۔ ان کی رائے میں مسلمانوں کا زوال جزواً اس بات کا نتیجہ ہے کہ وہ غلامانہ اطاعت اور عجزو انکسار جیسی منفی اور انفعالی قدروں کو نیکیاں سمجھ بیٹھے ہیں ۔ علامہ کے خیال میں شاعر کا مقصد حصول قوت کے لیے مسلمانوں کو مسلسل جدوجہد پر اکسانا ہے ، کیونکہ ان کا انقلاب آفریں عمل ہی انہیں سیاسی مغلوبیت اور اخلاقی پستی سے نجات دلا سکتا ہے ۔ اقبال مسلمانان ہند کی قومی معیشت کا گہرا شعور رکھتے ہیں اور ان کے افلاس کو ان کے اخلاقی انحطاط کا ایک اہم سبب قرار دیتے ہیں ۔ بیاض میں اقسام حکومت کی متعلق ارشاد ہوتا ہے: میری رائے میں حکومت ، خواہ جس قسم کی ہو ، وہ بہر صورت قومی کردار کے متعین کرنے والے عوامل میںسے ہے ۔ سیاسی اقتدار کا زوال قومی کردار کے حق میں بھی تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔ مسلمانانِ ہند اپنے سیاسی زوال کے ساتھ ہی بڑی سرعت سے اخلاقی انحطاط میں مبتلا ہو گئے۔ اتحاد ملّی کے متعلق فرماتے ہیں: ہمارے ملّی اتحاد کا انحصار اس بات پر ہے کہ مذہبی اصول پر ہماری گرفت مضبوط ہو ۔ جونہی یہ گرفت ڈھیلی پڑی ، ہم کہیں کے بھی نہیں رہیں گے اور عین ممکن ہے کہ ہمارا انجام وہی ہو ، جو یہودیوں کا ہوا۔ وطنیت کے رد میں تحریر کرتے ہیں: اسلام کا ظہور بت پرستی کے خلاف ایک احتجاج کی حیثیت رکھتا ہے ۔ وطنیت بھی بت پرستی کی ایک لطیف صورت ہے ۔ مختلف قوموں کے وطنی ترانے میرے اسی دعوے کا ثبوت ہیں کہ وطن پرستی ایک مادی شے کی پرستش سے عبارت ہے ۔ اسلام کسی صورت میں بھی بت پرستی کو گوارا نہیں کر سکتا ، بلکہ بت پرستی کی تمام اقسام کے خلاف احتجاج کرنا ہمارا ابدی نصب العین ہے ۔ اس لیے اسلام جس چیز کو مٹانے کے لیے آیا ، اسے مسلمانوں کی سیاسی تنظیم کا بنیادی اصول قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ پیغمبر علیہ السلام کا اپنی جاے پیدائش مکّے سے ہجرت فرما کر مدینے میں قیام و وصال غالباً اسی حقیقت کی طرف ایک مخفی اشارہ ہے۔ ’’شذرات‘‘ میں ایک اندراج تو فقط اس فقرے پر مبنی ہے : قومیں شاعروں کے دلوں میں جنم لیتی ہیں ، لیکن سیاستدانوں کے ہاتھوں نشو و نما پاتی اور مر جاتی ہیں۔ ۱۵ مئی ۱۹۱۰ء کا اندراج آسمان پر دُم دار ستارہ دیکھتے وقت اقبال کے ذاتی تاثرات کا غماز ہے : کل تقریباً چار بجے صبح میں نے کرئہ ارض کے اس عظیم الشان زایر کو دیکھا جو ہیلی کا دُم دار ستارہ کہلاتا ہے۔ فضائے بسیط کا یہ پر شکوہ تیراک پچھتّر برس میں ایک بار ہماری فضائے آسمانی پرنمودار ہوتا ہے ۸ ۔ اب میں دوبارہ اسے صرف اپنے پوتوں کی آنکھوں سے دیکھ سکوں گا ۔ میری ذہنی کیفیت عجیب و غریب تھی ۔ مجھے یوں محسوس ہوا گویا کوئی چیز اپنی ناقابل بیان وسعتوں سمیت میرے وجود کی تنگ حدود میں سما گئی ہے ۔ تاہم اس خیال نے کہ میں اس آوارہ مسافر کو پھر نہ دیکھ سکوں گا ، مجھے اپنی ذاتی ہستی کی اندوہناک حقیقت کا احساس دلا دیا اور لحظہ بھر کے لیے میرے تمام ولولے سرد پڑ گئے۔ مقالہ ’’مسلم کمیونٹی‘‘ (ملّتِ اسلامیہ) میں قوموں کی حیات و موت پر فلسفیانہ نقطۂ نظر سے مختصر تعارف کے بعد ملّتِ اسلامیہ کی ہیئت ترکیبی ، اسلامی تمدن کی یک جہتی اور مسلمانوں کی قومی ہستی کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے ان میں کس قسم کے کردار کی ضرورت ہے ، ایسے موضوعات کو زیر بحث لاتے ہیں ۔ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں اور دوسری قوموں میں اصولی فرق یہ ہے کہ قومیت کا اسلامی تصور دوسری اقوام کے تصور سے بالکل مختلف ہے ۔ ان کی قومیت کا اصل اصول نہ اشتراک زبان ہے ، نہ اشتراک وطن اور نہ اشتراک اغراض اقتصادی ، بلکہ وہ اس برادری میں شامل ہیں جو پیغمبرِؐ اسلام نے قائم کی تھی ۔ حیات و کائنات کے متعلق ان کا ایک مخصوص عقیدہ ہے اور جو تاریخی روایات ان سب کو ترکہ میں پہنچی ہیں ، وہ بھی ان سب کے لیے یکساں ہیں ۔ اسلام صرف مذہب ہی نہیں بلکہ بیک وقت ایک خاص تہذیبی تصوّرِ قوم اور وطن بھی ہے ۔ جو عقیدت اسلام پیدا کرتا ہے ، اس سے صرف قومی یا ملّی پاسداری مراد ہے۔ دوسری اقوام کو بنظر تنفر دیکھنا ، اس کے مفہوم میں داخل نہیں ہے ۔ ان کی نگاہ میں زمانۂ حال میں وطنیت کا خیال ، جو قومیت کے تصور سے پیدا ہوتا ہے ، ملکی ہونے کے سبب مادی ہے ۔ اور یہ تصور اصول اسلام کے سراسر خلاف ہے ۔ توحید پر اعتقاد کے ہمہ گیر وفاق کا نکتہ جس پر مسلمانوں کی من حیث القوم وحدت کاانحصار ہے ، اپنے مفہوم کے لحاظ سے ، بقول اقبال ، ان کے لیے عقلی نہیں بلکہ قومی ہے ۔ پس اسلامی اصول یا روایات کی اصطلاح میں اگر مسلمانوں کے ہاتھ سے خدا کی رسی چھوٹ گئی تو ان کی قوم کا شیرازہ بکھر جائے گا ۔ اسلامی تمدن کی یک رنگی کے سلسلے میں ارشاد ہوتا ہے کہ اسلامی تمدن سامی (عربی) تفکر اور آریا (ایرانی) تخیل کے اختلاط کا ماحصل ہے ۔ قومی کردار کی تعمیر کے متعلق اورنگ زیب عالمگیر کی مثال پیش کرتے ہیں جو آپ کے نزدیک برصغیر میں مسلم قومیت کا بانی تھا ، اور تحریر کرتے ہیں کہ قومی سیرت کا وہ اسلوب جس کا سایہ عالمگیر کی ذات نے ڈالا ، خالصتاً اسلامی کردار کا نمونہ ہے ۔ اس کے بعد مسلمانوں میں سرکاری ملازمت کے علاوہ تجارت اور صنعت و حرفت کے فروغ کے علاوہ مسلم عوام کی معاشی حالت سدھار نے کے لیے صنعتی تعلیم کو عام کرنے اور مسلم قوم کے اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے ایک مرکزی اسلامی دارالعلوم کے قیام کی ضرورتوں پر زور دیتے ہیں ۔ مرکزی اسلامی دارالعلوم کے قیام کے سلسلے میں فرماتے ہیں :۔ ہندوستان میں اسلامی یونیورسٹی کا قیام ایک اور لحاظ سے بھی نہایت ضروری ہے ۔ کون نہیں جانتا کہ ہماری قوم کے عوام کی اخلاقی تربیت کا کام ایسے علماء اور واعظ انجام دے رہے ہیں جو اس خدمت کی انجام دہی کے پوری طرح سے اہل نہیں ہیںاس لیے کہ ان کا مبلغِ علم اسلامی تاریخ اور اسلامی علوم کے متعلق نہایت ہی محدود ہے ۔ اخلاق اور مذہب کے اصول و فروع کی تلقین کے لیے موجودہ زمانے کے واعظ کو تاریخ ، اقتصادیات اور عمرانیات کے حقائقِ عظیمہ سے آشنا ہونے کے علاوہ اپنی قوم کے ادب اور تخیل میں پوری دسترس رکھنی چاہیے۔ الندوہ ، علی گڑھ کالج ، مدرسہ دیوبند اور اس قسم کے دوسرے مدارس جو الگ الگ کام کر رہے ہیں ، اس بڑی ضرورت کو رفع نہیں کر سکتے ۔ ان تمام بکھری ہوئی تعلیمی قوتوں کا شیرازہ بند ایک وسیع تر اغراض کا مرکزی دارالعلوم ہونا چاہیے ، جہاں افرادِ قوم نہ صرف خاص قابلیتوں کو نشو و نما دینے کا موقع حاصل کر سکیں بلکہ تہذیب کا وہ اسلوب یا سانچہ بھی تیار کیا جا سکے جس میں زمانۂ موجودہ کے ہندوستانی مسلمانوں کو ڈھالنا ضروری ہے۔ اس مضمون کا مطالعہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ ایسے زمانے میں جب کہ برصغیر کے بیشتر مسلم قائدین کا سیاسی فکر نہایت ہی تنگ دائرے تک محدود تھا ، اقبال نے قومیّتِ اسلام کے اصول کی روشنی میں مسلمانوں کے مسائل کا تجزیہ کیا اور ان کا حل پیش کیا ۔ مضمون ’’اسلام میں سیاسی فکر ‘‘ پر تبصرہ کرنے سے پیشتر اس دور کے مسلمانان عالم کے حالات پر نگاہ رکھنا بہت ضروری ہے ۔ اس زمانے میں مسلمانان ہند ، ترکی میں خلافت کا تسلسل قائم رکھنے کو بڑی اہمیت دیتے تھے ، لیکن ترکی کے اندر ینگ ترک پارٹی یا انجمن اتحاد و ترقی ، سلطان عبدالحمید کی مطلق العنان خلافت کا وقتی طور پر خاتمہ کر نے کے بعد دستوری حکومت کا انعقاد کر چکی تھی۔ اسی طرح ایران میں بھی شدید تگ و دو کے بعد شاہ نے آئین پسندوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر دستور نافذ کیا تھا ۔ اس مقالے کے تعارفی حصے میں اقبال زمانۂ جاہلیت کے عرب قبائل میں وراثت حکومت کے طریقے کا ذکر کرنے کے بعد تحریر کرتے ہیں کہ پیغمبرِؐ اسلام کی ذاتِ اقدس اور آنحضورؐ کی ہمہ گیر تعلیمات کے زیر اثر عرب قبائل متحد ہو کر ایک مشترک اور مسلسل پھیلتی ہوئی ملت کی صورت میں ابھرے ۔ موروثی ملوکیت کا خیال ان کے اذہان کے لیے ایک قطعی غیر ملکی تصور تھا ۔ پھر اقبال خلفائے راشدین کے دور پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ابتداء ہی سے یہ بنیادی اصول تسلیم کر لیا گیا کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق سیاسی اقتدار اصلاً عوام الناس کے ہاتھوں میں ہے اور ان کی اجتماعی رضا کے بغیر کسی قسم کی بھی حاکمیت کا قیام ممکن نہیں ۔ اس سلسلے میں آپ کے نزدیک دو نکتے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں ۔ اوّل یہ کہ مسلم کامن ویلتھ (دول مشترکہ) اس اصول پر مبنی ہے کہ اسلامی قانون کی نگاہ میں تمام مسلمان ہر لحاظ سے برابر کی حیثیت رکھتے ہیں اور دو م یہ کہ اسلامی قانون کے تحت مذہب اور سیاست میں کوئی امتیاز موجود نہیں ۔ نکتۂ اوّل کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ اسلام کا سیاسی مقصد تمام نسلوں اور قومیتوں کے ادغام سے ایک ملت کی تعمیر ہے ۔ اسلام کے نزدیک قومیت بجائے خود سیاسی ارتقا کی آخری منزل نہیں ہے ، کیونکہ اسلامی قانون کے عمومی اصولِ فطرتِ انسانی کی بنیاد پر وضع کیے گئے ہیں ، کسی مخصوص قوم کی خصوصیات پر نہیں ۔ پس ایسی قوم (ملت) کی باطنی پیوستگی کا انحصار نہ تو نسل پر ہو سکتا ہے ، نہ جغرافیائی یا علاقائی حدود پر ، نہ اشتراکِ زبان پر اور نہ معاشرتی روایت کی یکسانیت پر ، بلکہ اس کا انحصار دینی اور سیاسی نصب العین کی وحدت پر ہے یا اس نفسیاتی کیفیت پر کہ اس کے تمام افراد میں فکری یگانگت موجود ہے ۔ اقبال کی رائے میں ایسی قوم کا مثالی وطن ساری دنیا ہی ہو سکتی ہے ۔ نکتۂ دوم کی تشریح کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ اسلام کے نزدیک مذہب اور ریاست ایک وحدت ہے ۔ جہاں تک اسلامی قانون کے دنیاوی (سیکولر) معاملات کا تعلق ہے ، ان کی تفاصیل کی تشریح پیشہ ور وکلاء پر چھوڑ دی گئی ہے ۔ اس اعتبار سے یہ کہنا درست ہے کہ اسلامی قانون کا پورا ڈھانچا عملی یا انتظامی شکل میں ، قاضیوں کا بنایا ہوا قانون ہے ، پس اسلامی دستور میں قانون سازی کا کام وکلاء کو سونپا گیا ہے ؛ لیکن اگر کوئی بالکل نیا مسئلہ پیدا ہو جائے جس کے حل کے متعلق اسلامی قانون میں کوئی وضاحت نہ ہو تو اجماعِ امت ایک مزید ماخذ قانونی کی صورت اختیار کر سکتاہے ۔ اس کے بعد اقبال نے سنی نظریہ خلافت کی تشریح گیا رہویں صدی عیسوی کے شافعی فقیہ الماوردی کی تصنیف ’’احکام السلطانیہ‘‘ کی روشنی میں کی ہے ۔ مقالے کا یہ حصہ تحقیقی نوعیت کاہے اور اس کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابن خلدون سمیت کئی اور فقہا کی تحریریں بھی اقبال کے زیر مطالعہ رہی ہوں گی ۔ پھر اس موضوع پر شیعہ نقطہ نظر اور خوارج کے مختلف فرقوں کے نظریات بھی پیش کیے ہیں ۔شیعہ نقطہ نظر کی وضاحت کے سلسلے میں فرماتے ہیں کہ ایران میں شاہ کے اختیارات کو ملا بحیثیتِ نائبینِ امام غائب محدود کرتے ہیں ۔ اگرچہ شاہ بحیثیتِ سر براہ مملکت بااختیار ہے اور نظم و نسق کے تمام شعبے اسی کے ماتحت ہیں ، لیکن اس کے تمام اختیارات مجتہدین کے دینی اختیارات کے تابع ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایران میں دستوری اصلاحات کے نفاذ کے لیے تحریک میں وہاں کے مجتہدین نے عملی حصہ لیا ۔ خوارج کے مختلف فرقوں کے نقطہ ہائے نظر کی تفصیل پیش کرتے وقت بیان کرتے ہیں کہ بعض کے نزدیک خلافت کے قیام کی ضرورت نہیں کیونکہ قرآنِ مجید میں اسے مسلمانوں پر فرض قرار نہیں دیا گیا ۔ مقالے کے اختتامی حصے میں اقبال تحریر کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں تو ریاست کا بنیادی اصول انتخاب ہی قرار دیا گیا ہے ، اگرچہ حکومت کی عملی تشکیل کے سلسلے میں اس کی تفاصیل طے کرنے کا معاملہ کئی اور امور پر چھوڑا گیا ہے ۔ بدقسمتی سے انتخاب کے بنیادی اصول کی خالص جمہوری خطوط پر نشو و نما نہ ہوئی۔ جس کے سبب مسلم فاتحین ایشیا کی سیاسی بہتری کے لیے کچھ نہ کر سکے ۔ پھر دنیائے اسلام میں جدید سیاسی رجحانات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آج کے زمانے میں مغرب کے سیاسی نظریات کے زیر مسلم ممالک میں سیاسی زندگی کے آثار از سر نو نمودار ہوئے ہیں ۔ مصر نے برطانوی غلبے کے سبب نئی سیاسی زندگی کی ابتدا کی ہے ایران نے شاہ سے آئین حاصل کیا ہے اور ترکی میں ینگ ترک پارٹی نے بھی اپنے مقاصد کی تحصیل کے لیے جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے ۔ مگر ان سیاسی مصلحین کے لیے نہایت ضروری ہے کہ اسلام کے آئینی اصولوں کا گہرا مطالعہ کریں اور محض نئے تمدن کے پیغامبر بن کر اپنے عوام کے قدامت پسندی کے جذبے کو ٹھیس نہ پہنچائیں ، بلکہ انہیں تو متاثر کرنا مشکل نہیں ، کیونکہ مصلحین یہ بآسانی ثابت کر سکتے ہیں کہ سیاسی آزادی کے جو نظریات وہ بظاہر یورپ سے مستعار لے رہے ہیں ، درحقیقت اسلام ہی کے اپنے تصورات ہیں اور ان کا عملی نفاذ آزاد مسلم ضمیر کا جائز مطالبہ ہے۔ اس مقالے میں پیش کردہ اقبال کے خیالات کو پوری طرح سمجھنا ضروری ہے ، کیونکہ اسلام میں ریاست کے تصور کے بارے میں ان کے بعد کے ذہنی ارتقا کا ان خیالات کے ساتھ گہرا تعلق ہے ۔ اقبال نے اس بات پر بحث نہیں کی کہ مسلم فلاسفہ کے نزدیک اسلامی ریاست کا تصور دیگر اقوام میں ریاست کے تصورات سے کیونکر مختلف ہے ، مثلا فارابی کی رائے میں ہر ریاست کا اوّلین فرض اپنے شہریوں کے لیے خوشی ، مسرت یا سعادت کی تحصیل ہے ۔ یونانیوں کے نزدیک سعادت کی تحصیل اسی دنیا میں ممکن ہے اور عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق وہ صرف آخرت ہی میں حاصل ہو سکتی ہے ، لیکن اسلامی ریاست میں دوہری سعادت کا تصور موجود ہے یعنی اسلامی ریاست پر اپنے شہریوں کے لیے اس جہاں میں بھی سعادت کی تحصیل کے لیے وسائل فراہم کرنا فرض ہے اور آخرت میں بھی سعادت کے حصول کے لیے انہیں تیار کرنے کی ذمہ داری ہے ۔ ابن خلدون کی رائے میں اسلامی ریاست اور سیکولر ریاست میںبنیادی فرق یہ ہے کہ اسلامی ریاست خدا تعالیٰ کے وضع کردہ قوانین کی تابع ہے ۔ مگر سیکولر ریاست انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین پر قائم ہے ۔ فارابی یونانی فلاسفہ بالخصوص افلاطون کے سیاسی تصور ’’فلسفی بادشاہ‘‘ سے متاثرتھا ۔ اس لیے اس کے قول کے مطابق مثالی اسلامی ریاست (المدینۃ الفاضلہ) وہی تھی جو آنحضورؐ نے بحیثیت ’’پیغمبرِ امام ‘‘ قائم کی اور اس ریاست کے شہری خوش نصیب تھے ، کیونکہ انہیں حقیقی طور پر دوہری سعادت نصیب ہوئی ۔ اقبال نے اپنے مضمون میں اس بحث کو بھی نہیں چھیڑا کہ خلافت کا قیام یا ترکی میں اس کا تسلسل قائم رکھنا مسلمانوں پر فرض ہے ۔ ترکی یا سلطنتِ عثمانیہ کے دیگر حصوں میں سیاسی صورتِ حال کے مطالعہ نے غالباً اقبال پر یہ واضح کر دیا تھا کہ خلافت کا مستقبل مخدوش ہے ، اس لیے مسلم ممالک کے اتحاد کی بنیاد خلافت کی بجائے کسی اور اصول پر رکھنا ناگزیر ہے ۔ لیکن جس زمانے میں یہ مقالہ تحریر کیا گیا ، ترکی خلافت ہی کو اتحادِ اسلام کا خارجی مظہر سمجھا جاتا تھا ۔ زیرِ نظر مقالے میں اقبال کے بعض افکار توجہ طلب ہیں ، مثلاً یہ کہ قرآن مجید میں ریاست کا بنیادی اصول انتخاب ہی کو قرار دیا گیا ہے ۔ اگرچہ حکومت کی عملی تشکیل کے متعلق تفاصیل طے کرنے کا معاملہ کئی اور امور پر چھوڑا گیا ہے ، یا یہ کہ اسلامی دستور میں قانون سازی کاکام وکلاء کو سونپا گیا ، اور اسلامی قانون کا ڈھانچا ، عملی یا انتظامی شکل میں، قاضیوں کابنایا ہوا قانون ہے ۔ مزید برآں آپ اسلامی ریاست کے لیے اصطلاح ’’مسلم کا من ویلتھ‘‘ (دُول مشترکہ) استعمال کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دور میں بھی اقبال نے ابن تیمیہ کی طرح ریاست کے اسلامی تصور کی بنیاد صرف ملت اور اسلامی قانون کے دو اصولوں پر استوار کی اور خلافت کے اصول کو خاص اہمیت نہ دی ۔ قرآن مجید اور احادیث میں مسلمانوں کے لیے کسی حتمی کانسٹی ٹیوشن یا حکومت کی قسم کی تفصیل موجود نہیں ہے، کیونکہ ایسے ادارے ملت اپنے ضمیر کی روشنی میں قائم کر سکتی تھی اور بہرصورت وہ دائمی قرار نہ دئیے جا سکتے تھے ۔ اس لیے کہ ملت کی بدلتی ہوئی سیاسی ضروریات کے تحت وہ قانون تغیر کے پابند تھے ۔ اسلام کا اصل مقصد ایک ایسی ملت کو وجود میں لانا تھا جو قانون شریعت کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتی ہو ۔ اس لیے قانون شریعت کے نفاذ یا اطلاق کے لیے ملت کو اپنی رضا کے مطابق ایسا نظام حکومت قائم کرنے کا اختیار دیا گیا جو اس کی ضروریات کو پورا کر سکتا تھا ۔ خلافت کی ضرورت آنحضورؐ کے وصال کے موقع ۶۳۲ء پر پیش آئی ، کیونکہ نئے معاشرتی نظام کی بقا کے لیے کسی ایک انتظامی سربراہ کے بغیر چارہ نہ تھا اور سنی نقطۂ نظر کے مطابق پیغمبر اسلام ؐ نے مصلحتاً اپنا کوئی جانشین نامزد نہ کیا تھا ، لہٰذا اخلافت کے قیام کے جواز کو بعد کے فقہا نے صورت حالات کے پیش نظر ایک عقلی ضرورت قرار دیا ۔ فقہا میں سے بیشتر کا اس مسئلے پر بھی اتفاق ہے کہ خلیفہ کا تقرر عوام الناس ہی کی رضا سے ممکن ہے اور اگرچہ قرآن مجید میں انتخاب کو ریاست کا بنیادی اصول قرار دئیے جانے کے بارے میں کوئی واضح آیت نہیں ہے، پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ احکام قرآنی کی روح اسی تصور سے مطابقت رکھتی ہے ۔ خلفاے راشدین کے اوائلی دور (۶۳۲ء تا ۶۶۱ئ) میں گو انتخاب اور نامزدگی کا طریقہ پہلو بہ پہلو استعمال ہوتا نظر آتا ہے لیکن اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ موروثی ملوکیت کے تصور کی اسلام میں کوئی گنجائش نہ تھی اور رضاے عوام کو کسی نہ کسی صورت میں خلیفہ کے تقرر کے لیے بنیادی اصول تسلیم کیا گیا تھا ، مگر یہ ری پبلکن دور صرف تیس سال کی مدت تک مدینے میں قائم رہ سکا ۔ ۶۶۱ء سے خلافت کا تصور متغیر ہوتا چلا گیا ۔ اموی عہد (۶۶۱ء تا ۷۵۰ئ) میں اس نے دمشق میں موروثی یا خاندانی ملوکیت کی صورت اختیار کر لی ، اگرچہ بظاہر انتخاب یا نامزدگی کا قانونی مفروضہ قائم رکھا گیا ۔ اس دور کو اقبال نے اپنی بعد کی تحریروں میں عربی استعمار کا دور قرار دیا ہے ۔ دور عباسیہ (۷۵۰ء تا ۱۲۵۸ئ) میں خلافت نے بغداد میں نہ صرف ایرانی طرز کی ملوکیت کا لبادہ اوڑھ لیا ، بلکہ اس کی وحدت بھی پارہ پارہ ہو گئی ۔ مغربی اسلام یعنی اندلس (ہسپانیہ)میں آزاد اموی ریاست کا انعقاد ہوا ۔ بعد میں شمالی افریقہ میں یکے بعد دیگرے ادریسی ، اغلبی اور فاطمی خاندانوں نے آزاد ریاستیں قائم کیں ۔ فاطمی تو مصر کے علاوہ تمام شمالی افریقہ ، شام ، یمن اور حجاز تک کے علاقوں پر مسلط ہوگئے ۔ فاطمی خاندان عقیدے کے لحاظ سے شیعہ تھا ۔ جب حرمین الشریفین ان کے قبضے میں چلے گئے تو قرطبہ میں اموی امیر عبدالرحمن سوم نے خلیفہ کا لقب اختیار کیا۔ چنانچہ دسویں عیسوی میں دنیائے اسلام میں ایک دوسری سے متصادم تین خلافتیں بغداد ، قاہرہ اور قرطبہ میں قائم تھیں ۔ دسویں ، گیارہویں اور بارہویں صدی میں مشرقی اسلام نے بھی کئی خاندانوں کا عروج و زوال دیکھا ۔ ہسپانیہ میں اموی خلافت ۱۰۳۷ء میں ختم ہو گئی اور فاطمی امامت کا بھی صلاح الدین کے ہاتھوں ۱۱۷۱ء میں خاتمہ ہوا۔ خلافت بغداد اور امراء میں اقتدار کی مسلسل کشمکش نے اسلام میں سلطنت کے تصور کو جنم دیا اور کئی آزاد سلاطین دنیاے اسلام کے مختلف حصوں پر قابض ہو گئے ۔ بہرحال بارہویں اور تیرہویں صدی کے فقہا نے خلافت بغداد کی وحدت کا قانونی مفروضہ بر قرار رکھنے کی خاطر یہ فتویٰ جاری کیا کہ اسلامی قانون کی رو سے سلطان اسی صورت میں اپنے منصب پر فائز رہ سکتا ہے ، جب وہ خلیفۂ بغداد سے سند حاصل کرے کہ وہ اپنی سلطنت میں ملت اسلامیہ پر قانون شریعت کے مطابق حکومت کرے گا ۔ اسی طرح کی سند برصغیرکی تاریخ میں پہلی بار سلطان شمس الدین التمش نے ۱۲۱۰ء میں خلیفہ مستنصر باللہ سے حاصل کی ، مگر سلطنت اور خلافت کی آپس میں کشمکش بالآخر مسلمانوں کی تباہی کا باعث بنی ۔ ۱۲۵۸ء میں منگولوں نے بغداد پر حملہ کیا اور خلیفہ معتصم باللہ کو قتل کرکے خلافتِ بغداد کا خاتمہ کر دیا ۔ ۱۲۵۸ء سے ۱۲۶۱ء تک تین سال کے عرصے میں دنیاے اسلام میں کہیں بھی کوئی خلیفہ نہ تھا، صرف آزاد مسلم ریاستیں تھیں ۔ لیکن ۱۲۶۱ء میں مملوک سلاطین نے قاہرہ میں خلافت کا احیاء کیا۔ سو ۱۲۶۱ء سے ۱۵۱۷ء تک قاہرہ میں نام کی خلافت قائم رہی ، کیونکہ اسے کوئی سیاسی اقتدار حاصل نہ تھا اور اس کی نوعیت خالصتاً مذہبی تھی ۔ خلیفہ صرف سلاطین کو اسناد دینے کاکام کرتا تھا ۔ برصغیر کے سلاطین محمد تغلق اور فیروز تغلق نے چودہویں صدی میں خلیفہ قاہرہ ہی سے ایسی اسناد حاصل کی تھیں ،مگر منگول سلاطین نے ، جو چودہویں اور پندرہویں صدی میں دائرئہ اسلام میں داخل ہوئے ، خلافت قاہرہ کو تسلیم نہ کیا ۔ ۱۵۱۷ء میں سلطان سلیم اول مصر پر قابض ہوا اور خلیفہ متوکل سوم کو اپنے ہمراہ قسطنطنیہ لے گیا اور یوں خلافت ، عثمانی خاندان میں منتقل ہوئی ۔ اب تک خلافت صرف قبیلہ قریش تک محدود سمجھی جاتی رہی تھی ، لیکن سو لہویں اور سترہویں صدیوں کے فقہا نے اس شرط کو معدوم قرار دے دیا۔ خلافت عثمانیہ کو نہ تو شاہان ایران نے تسلیم کیا ، نہ برصغیر کے مغل بادشاہوں نے ۔ کیونکہ ان کی آپس میں خداندانی رقابتیں تھیں ۔ عثمانی خلافت کا خاتمہ ۱۹۲۴ء میں مصطفیٰ کمال پاشا کے ہاتھوں ہوا ۔ اس مختصر جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ گذشتہ ایک ہزار چار سو سالوں میں خلافت نے تغیر پذیر سیاسی صورت حالات میں کئی شکلیں اختیار کیں ۔ صدیوں تک خلافت اور سلطنت کا امتزاج رہا۔ پھر سلطنت نے خلافت سے الگ مقام حاصل کر لیا اور سلطنت و خلافت کی آپس میں کشمکش جاری ہوئی ، جس کے نتیجے میں خلافت کو شکست کھانا پڑی ۔ بعد میں سلطنت ہی کے زیرِ سایہ خلافت کا از سر نو احیاء ہوا اور بالآخر وہ سلطنت ہی میں مدغم ہو کر ختم ہو گئی ۔ تاریخ اسلام شاہد ہے کہ گو سیاسی حوادث نے دنیاے اسلام کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے تھے لیکن اس تمام عرصے میں فقہا کی یہی مسلسل کوشش رہی کہ وہ اصول اور حقیقت کے درمیان خلیج کو عبور کرنے کے لیے ایسے قانونی استدلالات پیش کرتے چلے جائیں جن سے ملت کا اسلامی تشخص بر قرار رہے ۔ اس پس منظر میں یہ سمجھنا آسان ہے کہ اقبال نے اسلامی ریاست کا ذکر کرتے وقت اصطلاح مسلم کا من ویلتھ (دول مشترکہ) کیوں استعمال کی یا ان کے نزدیک ملت اسلامیہ کا وطن ساری دنیا کس اعتبار سے تھا ۔ بات یہ ہے کہ اسلامی ریاست کا تصور جدید مغربی ریاست کے تصور سے مختلف ہے ۔ مغربی تصور کے مطابق ریاست کی تین خصوصیات ہیں ۔ اول یہ کہ وہ مکمل طور پر بااختیار ہو، دوم یہ کہ وہ کسی مخصوص قومیت پر مشتمل ہو اور سوم یہ کہ اس کی علاقائی حدود متعین ہوں مگر اسلامی ریاست میں اصل حاکمیت خدا تعالیٰ کی ہے اور اس لحاظ سے وہ مکمل طور پر بااختیار نہیں ۔ وہ کسی مخصوص قومیت پر مشتمل نہیں بلکہ بین الاقوامی ہے یا مختلف قومیتوں کے ادغام سے وجود میں آتی ہے اور پھر اس کی علاقائی حدود کا تعین بھی ممکن نہیں ، کیونکہ وہ عالمی ریاست ہے ۔ بہرحال اپنے ذہنی ارتقا ء کے اس مرحلے پر اقبال کا زیادہ زور ملت یا قومیت اسلام کے تصور کی پیش رفت پر تھا ۔ اسی سبب وہ اسلامی قانون کی از سر نو تشریح کے لیے اجتہاد کی ضرورت پر بار بار اصرار کرتے تھے ۔اجتہاد کے مسئلے میں ان کی دلچسپی ۱۹۰۴ء سے ثابت ہے ، کیونکہ ان کے نزدیک ملت اسلام کی تعمیر اسلامی قانون کی تفسیر نو کے بغیر ممکن نہ تھی ۔ اقبال کے عقیدے کے مطابق اسلام کا تصور حیات متحرک تھا ، اس لیے ان کی نگاہ میں ایسے قدامت پسند علماء کی کوئی وقعت نہ تھی ، جن کا تصور حیات اسلامی جامد تھا ۔ غالباً اسی بنا پر انہوں نے بالآخر اجتہاد کی روایتی تعریف کو کلّی طور پر تسلیم نہ کیا اور اس کی تعریف اسلامی معاشرہ میں حرکت کے اصول کے طور پرکی ۔ اجتہاد کے موضوع پر وہ اکثر اپنے جاننے والے علماء سے خط و کتابت یا بحث و مباحثے کرتے رہتے تھے ۔ اس سلسلے میں جنوبی ہند میں اپنے لیکچر سے پیشتر انہوں نے ایک انگریزی مقالہ بعنوان ’’اسلام میں اجتہاد ‘‘ سر عبدالقادر کی زیر صدارت ۱۳ دسمبر ۱۹۲۴ء کو حبیبیہ ہال اسلامیہ کالج لاہور میں بھی پڑھا تھا۹۔ لیکن اس کی تفصیل محفوظ نہ رکھی گئی ۔ ممکن ہے ، یہی مقالہ اضافے کے ساتھ ۱۹۲۹ء میں دورہ علی گڑھ کے دوران بھی پڑھا گیا ہو۔ اقبال کی زیرِ نظر تحریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسلم ہند کی تمام ہمعصر برگزیدہ ہستیوں میں سے پہلی اہم شخصیت تھے ، جس نے قومیت اسلام کا عقیدہ قبول کر لینے کے بعد ہندوستان میں مخلوط قومیت کے تصور کو حتمی طور پر خیر باد کہا ۔ سر سید احمد خان کے حامی مسلم قائدین نے اگرچہ کانگرس میں شامل ہونے سے ہمیشہ گریز کیا ، مگر ان کے سامنے قومیت اسلام کا کوئی مثبت تصور نہ تھا۔ دوسری طرف نوجوان مسلم سیاسی قائدین میں متحدہ ہندی قومیت کی حمایت کا رجحان بڑھ رہا تھا اور وہ ہندوئوں سے کسی نہ کسی قسم کی بامقصد مفاہمت کرنا چاہتے تھے ، یہاں تک کہ مولانا شبلی بھی ان کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے ۔ لیکن اقبال اپنے مؤقف پر مستقل مزاجی سے قائم رہے ۔ اقبال کا عملی سیاست سے کوئی تعلق نہ تھا۔ وہ اپنی زندگی کے اس مختصر ابتدائی دور میں بھی ، جب وہ حب وطن کے جذبہ کے تحت متحدہ ہندی قومیت کے حامی تھے ، کانگرس میں شریک نہ ہوئے اور ہندوستان کو مختلف اقوام کا وطن قرار دیا ۔ قیام یورپ کے دوران میں انقلاب نے ان کا رخ کا ملاً اسلام کی طرف پھیر دیا ۔ عین ممکن ہے کہ تقسیم بنگال کی تنسیخ کے لیے ہندووں کے یک طرفہ مظاہرے بھی متحدہ قومیت کے تصور سے ان کے انحراف کا سبب بنے ہوں ۔ بہر حال دسمبر ۱۹۱۱ء میں آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاس میں اقبال کے گلے میں ہار پہنانے کی رسم کی ادائیگی سے عیاں ہے کہ اس مایوس کن اور غیر یقینی دور میں بھی تعلیم یافتہ مسلمانوں کی نگاہ میں ان کا کیا مقام تھا ۔ اقبال نے انجمن حمایت اسلام کے بعض جلسوں یا دیگر موقعوں پر اسلام کے موضوع پر تقریریں کیں یا مقالے پڑھے ہیں اور کئی بیانات کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا ہے ، جن کا ذکر مناسب مقام پر کیا جائے گا ۔ لیکن ان کا ایک انگریزی نوٹ جو ۴ جون ۱۹۲۵ء کو ایک خط کی صورت میں انہوں نے صاحبزادہ آفتاب احمد خان ، سیکرٹری آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس (اور بعد میں وائس چانسلر علی گڑھ یونیورسٹی) کو ارسال کیا ، خصوصی طور پر قابل توجہ ہے ۱۰ ۔ علی گڑھ یونیورسٹی میںعلوم اسلامیہ کے مطالعے کے لیے ایک نئے شعبے کا قیام صاحبزادہ آفتاب احمد خان کے زیر غور تھا ۔ اور اس سلسلے میں انہوں نے کچھ تجاویز مرتب کر کے اقبال کو بھیجی تھیں ۔ اس تحریر میں اقبال نے وقت کے جدید تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے علوم اسلامیہ کے مقاصد کے سلسلے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ اقبال کے بعض یورپی نقاد اصرار کرتے ہیں کہ انہوں نے انسان دوستی (ہیومنزم) کے مغربی تصور کا اطلاق اسلام پر کیا ہے ۔ اقبال نے ہیومنزم کی روش کی اخلاقی قدر و قیمت سے کبھی انکار نہیں کیا ۔ کیونکہ اس جذبے سے تنگ نظری اور تعصب کا خاتمہ مقصود تھا ، لیکن اقبال کی نگاہ میں مغربی ہیومنزم کی روح انفرادی تھی ۔ گویا یہ ایک ایسا فکری رجحان تھا ، جس میں سے اجتماعی اعتبار سے اتحاد انسانی کا کوئی پہلو نہ نکلتا تھا ۔ اس لیے ہیومنزم بجائے خود ایک تحریک کی صورت میں کسی عالمگیر یا بین الاقوامی معاشرے کی تعمیر کا ذریعہ نہ بن سکتا تھا ۔ بہرحال اس تحریر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال کی رائے میں یورپ میں ہیومنزم کی تحریک بڑی حد تک ان قوتوں کا نتیجہ تھی جو فکر اسلامی سے بروئے کار آئیں ۔ فرماتے ہیں۔ یورپ میں اسلام کا سیاسی زوال، کہا جاتا ہے ، بدقسمتی سے ایسے وقت میں رونما ہوا ، جب مسلم حکماء کو اس حقیقت کا احساس ہونے لگا تھا کہ استخراجی علوم لا یعنی ہیں اور جب وہ استقرائی علوم کی تعمیر کی طرف کسی حد تک مائل ہو چکے تھے ۔ دنیائے اسلام میں تحریک ذہنی (عقلیت)عملاً اس وقت سے مسدود ہو گئی اور یورپ نے مسلم حکما کے غور و فکر کے ثمرات سے بہرہ اندوز ہونا شروع کیا ۔ یورپ میں جذبہ انسانیت (ہیومنزم)کی تحریک بڑی حد تک ان قوتوں کا نتیجہ تھی جو اسلامی فکر سے بروئے کار آئیں ۔ یہ کہنامطلق مبالغہ نہیں ہے کہ جدید یورپین جذبہ انسانیت کا جو ثمر جدید سائنس اور فلسفے کی شکل میں برآمد ہوا ہے ، اسے کئی لحاظ سے محض اسلامی تمدن کی توسیع پذیری کہا جاسکتا ہے ۔ اس اہم حقیقت کا احساس نہ آج کل کے یورپین کو ہے اور نہ مسلمانوں کو ، کیونکہ مسلم حکماء کے جو کارنامے محفوظ ہیں ، وہ ابھی تک یورپ ، ایشیاء اور افریقہ کے کتب خانوں میں منتشر اور غیر مطبوعہ حالتوں میں ہیں ۔ آج کل کے مسلمانوں کی جہالت کا یہ عالم ہے کہ جو کچھ ایک بڑی حد تک خود ان کے تمدن سے برآمد ہوا ہے ، وہ اسے بالکل غیر اسلامی تصور کرتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی مسلم حکیم کو یہ معلوم ہو کہ آئن سٹائن کے نظریے سے ملتے جلتے خیالات پر اسلام کے سائنٹیفک حلقوں میں سنجیدگی سے بحث و مباحثے ہوتے تھے (ابوالمعالی جس کا قول ابن رشد نے نقل کیا ہے) تو آئن سٹائن کا موجودہ نظریہ اس کو اتنا اجنبی معلوم نہ ہو ۔ اس کے علاوہ جدید استقرائی منطق سے اسے جو بیگانگی ہے وہ بہت کچھ کم ہوجائے ، اگر اس کو یہ علم ہو کہ جدید منطق کا تمام نظام رازی کے ان مشہور و معروف اعتراضات سے وجود میں آیا جو انہوں نے ارسطو کے استخراجی منطق پر عائد کیے تھے۔ اقبال کی رائے میں مسلم یونیورسٹی کے لیے ایسے عالموں کا تیار کرنا از بس ضروری ہے جو اسلامی فلسفے کے ساتھ جدید فلسفے پر بھی عبور رکھتے ہوں ، کیونکہ جدید علوم کے اخذ و جذب کرنے میں صرف یہی لوگ مدد کر سکتے ہیں ۔ اسی طرح ایسے عالم تیار کرنا بھی نہایت ضروری ہے جو اسلامی تاریخ ، آرٹ (فنون) اور علم تہذیب و تمدن (کلچر) کے مختلف پہلوئوں پر حاوی ہوں ، جو اسلام کے قانونی لٹریچر (فقہ) میں تحقیق و تدقیق کے لیے موزوں ہوں اور جو اسلامی افکار اور ادبیات کے مختلف شعبوں میں اپنی تحقیقات سے اسلامی تمدن اور جدید علوم کے درمیان حیات ذہنی کا جو تسلسل پایا جاتا ہے ، اس کی از روئے نشو و نما جستجو کریں ۔ دینیات کے مطالعے کے متعلق تحریر کرتے ہیں: ہمارا پہلا مقصد ۔۔۔ موزوں صفات کے علماء پیدا کرنا ہے ، جو ملت کی روحانی ضرورتوں کو پورا کر سکیں، مگر زندگی کے متعلق ملت کے زاویۂ نگاہ کے دوش بدوش ملت کی روحانی ضرورتیں بھی بدلتی رہتی ہیں ۔ فرد کی حیثیت اس کی ذہنی و فکری آزادی اور طبعی علوم کی لامتناہی ترقی ،ان چیزوں میں جو تبدیلی واقع ہوئی ہے ، اس نے جدید زندگی کے اساس کو یکسر متغیر کر دیا ہے ۔ چنانچہ جس قسم کا علمِ کلام اور علمِ دین ازمنۂ متوسطہ کے مسلمان کی تسکین قلب کے لیے کافی ہوتا تھا ، وہ آج تسکین بخش نہیں ہے ۔ اس سے مذہب کی روح کو صدمہ پہنچانا مقصود نہیں ۔ اجتہادی گہرائیوں کو دوبارہ حاصل کرنا مقصود ہے ، تو فکر دینی کو از سر نو تعمیر کرنا قطعاً لازمی ہے اور بہت سے مسئلوں کی طرح اس مسئلے میں بھی سر سید احمد خان کی دور رس نگاہ کم و بیش پیش گوئیانہ تھی ۔ جیسا کہ آپ کو علم ہے ، انہوں نے اس کی بنیاد زیادہ تر ایک گزرے ہوئے عہد کے فلسفیانہ معتقدات و افکار پر رکھی ۔ مجھے اندیشہ ہے کہ میں آپ کے مسلم دینیات کے مجوزہ نصاب سے اتفاق نہیں کر سکتا ۔ میرے نزدیک قدیم طرز پر مسلم دینیات کا شعبہ قائم کرنا بالکل بے سود ہے ۔ اگر اس سے آپ کا یہ مقصد نہیں ہے کہ سوسائٹی کی زیادہ قدامت پسند جماعت کی تالیف قلب مد نظر رہے ۔ جہاں تک روحانیت کا تعلق ہے ، کہا جاسکتا ہے کہ قدیم تر دینیات فرسودہ خیالات کی حامل ہے اور جہاں تک تعلیمی حیثیت کا تعلق ہے ، جدید مسائل کا طلوع اور قدیم مسائل کی طرح نو کے مقابلے میں اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ۔ آج ضرورت ہے کہ دماغی اور ذہنی کاوش کی ایک نئی وادی کی طرف مہمیزکیا جائے اور ایک نئی دینیات اور علم کلام کی تعمیر و تشکیل میں اس کو برسرکار لایا جائے ۔ ظاہر ہے کہ یہ کام انہی لوگوں کے ہاتھوں سرانجام پا سکتا ہے ، جن میں اس کام کی صلاحیت ہے ، مگر ایسے آدمی کس طور پر پیدا کیے جائیں ۔۔۔۔ میری تجویز یہ ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ سوسائٹی کا قدامت پسند عنصر مطمئن ہو جائے تو آپ قدیم طرز کی دینیات کے اسکول سے ابتداء کر سکتے ہیں ۔۔۔۔ مگر آپ کا نصب العین یہ ہونا چاہیے کہ آپ تدریجاً اس کی بجائے ان لوگوں کی جماعت کو کار فرما بنائیں جو میری تجویز کردہ سکیم کے مطابق خود اجتہاد فکر پر قادر ہوں۔ اس کے بعد دیوبند اور ندوہ کے طلبہ کی عربی علمیت کو تسلیم کرتے ہوئے فرماتے ہیں ، کہ ان کے بہترین مواد کو بر سرکار لانے کی کوئی سبیل نکالی جائے ۔ انہیں علوم اسلامیہ کے نئے شعبے میں داخلہ لینے کی دعوت دی جائے ۔ انگریزی میں انٹرمیڈیٹ امتحان پاس کرنے پر مجبور کیا جائے ۔ علوم طبیعی ، ریاضیات، فلسفہ اور اقتصادیات کے مضامین میں انتخاب کرنے کو کہا جائے تاکہ افکارِ جدیدہ اور سائنس سے متعارف ہو جائیں ۔ اس کے بعد دوسری منزل میں انہیں اسلام کے فرقہ جات ، اسلامی اخلاق اور فلسفۂ مابعد الطبیعیات ، دینیات، کلام اور تفسیر پر مجتہدانہ خطبے دینے کے لیے یونیورسٹی کے فیلو بنا دیا جائے ۔ ان میں سے جو خالص سائنٹیفک تحقیقات کا ذوق رکھتے ہیں ، ان کو ان کے میلاناتِ طبعی کے مطابق جدید ریاضیات ، سائنس اور فلسفے کی مکمل تعلیم دی جائے ۔ جو طلبہ اسلامی تمدن کی عام تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہوں ، ان کے کورس میں مسلم آرٹ اور فن تعمیر بھی شامل کیا جائے اور جو اسلامی حکمت ، ادبیات ، آرٹ تاریخ نیز دینیات کا نصاب اختیار کریں ان کے لیے جرمن اور فرانسیسی زبانوں کا حسب ضرورت جاننا از بس ضروری قرار دیا جائے ۔ اسلامی قانون کی تعلیم کے متعلق ارشاد ہوتاہے : ہمیں دیوبند اور ندوہ سے ایسے ذہین اور طباع لوگ منتخب کرنے چاہئیں ، جو قانون کا خاص ذوق رکھتے ہوں،کیونکہ قانونِ محمدی سر تا سر تعمیری تشکیل کا محتاج ہے ۔ ہم کو چاہیے کہ انہیں اصولِ فقہ و قانون سازی کے اصولوں کی تعلیم دیں اور شاید جدید اقتصادیات اور اجتماعیات کی جامع تعلیم دینے کی بھی ضرورت پیش آئے ۔ اگر آپ چاہیں تو ان کو ایل ایل بی بنائیں۔ بعض کو وکالت کا پیشہ اختیار کرنے دیا جائے ، دوسروں کو یونیورسٹی کی فیلو شپ اختیار کرنے کی اجازت دی جائے کچھ اپنے آپ کو قانونی ریسرچ کے لیے وقف کر دیں اس ملک میں قانون محمدیؐ جس طرح سے عمل میں لایا جاتا ہے ، وہ بغایت تاسف انگیز ہے اور بعض دشواریاں ایسی ہیں جو صرف مجلس قانون ساز کے قیام سے دور ہو سکتی ہیں ۔ مسلم قانون دان ، جن کا پیشہ وکالت ہو اور جو قانون محمدیؐ کے اصولوں پر پورے طور پر حاوی ہوں ، وہ عدالت اور کونسل دونوں میں بے حد مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ آخر میں تحریر کرتے ہیں : میری رائے میں جدید اسلامی ملتوں کے لیے جدید دینیاتی افکار کی توسیع اور ترویج ضروری ہے۔ قدیم اور جدید اصولات تعلیم کے مابین اور روحانی آزادی اور معبدی اقتدار کے مابین دنیاے اسلام میں ایک کشاکش شروع ہو گئی ہے ۔ یہ روح انسانیت کی تحریک افغانستان جیسے ملک پر بھی اثر ڈال رہی ہے ۔ آپ نے امیر افغانستان کی وہ تقریر پڑھی ہو گی جس میں انہوں نے علماء کے اختیارات کے حدود متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ جدید دنیاے اسلام کی مختلف تحریکیں اسی نتیجے کی طرف لے جاتی ہیں ۔ ان حالات کے تحت مسلم یونیورسٹی کی حیثیت سے آپ کا فرض ہے کہ دلیری سے اس وادی کی طرف قدم بڑھائیں ۔ اس میں شک نہیں کہ محتاط رہنا لازم ہو گا اور فکر و حکمت کی اصلاح اس طور پر عمل میں لانی ہو گی کہ معاشرتی امن و سکون میں خلل نہ آنے پائے۔ اس عہد میں فن شاعری کے متعلق اقبال کا مطمع نظر کیا تھا ؟ اس موضوع پر ان کے ایک وقیع انگریزی مضمون بعنوان ’’جناب رسالت مآبؐ کا ہمعصری عربی شاعری پر تبصرہ ‘‘کامطالعہ بے حد ضروری ہے ، جو ۱۹۱۷ء میںشائع ہوا ، وہ تحریر کرتے ہیں: آنحضورؐ نے اپنے عہد کی شاعری کی نسبت وقتاً فوقتاً جن ناقدانہ خیالات کا اظہار فرمایا ، تاریخ نے انہیں محفوظ کیا ہے لیکن دو موقعوں پر جو تنقیدات آپؐ نے ارشاد فرمائیں ان سے مسلمانان ہند کو اس زمانے میں بہت بڑا فائدہ پہنچ سکتا ہے ، اس لیے کہ ان کا ادب ان کے قومی انحطاط کے دور کا نتیجہ ہے اور اب انہیں کسی نئے ادبی نصب العین کی تلاش ہے ۔ ایک تنقید تو یہ ظاہر کرتی ہے کہ شاعری کیسی نہ ہونی چاہئے اور دوسری تنقید کا مقصد یہ بتانا ہے کہ شاعری کیسی ہونی چاہیے ۔ امراء القیس نے اسلام سے چالیس برس قبل کا زمانہ پایا ہے ۔ روایت ہے کہ آنحضورؐ نے اس کی نسبت ایک موقع پر رائے ظاہر کی کہ ’’اشعر الشعراء وقائد ھم الی النار‘‘ یعنی وہ شاعروں کا سرتاج ہے لیکن جہنم کے راستے میں ان کا سردار۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں امراء القیس کی شاعری میں کیا دکھائی دیتا ہے ؟ شراب ارغوانی کے دور ، عشق و حسن کے جاں گداز جذبات یا ہوش رباء داستانیں آندھیوں سے اڑی ہوئی پرانی بستیوں کے کھنڈر اور ریتلے ویرانوں کی خاموشی کے دل ہلا دینے والے مناظر ۔۔۔۔ کیونکہ یہی عرب کے دور جاہلیت کی کل تخیلی کائنات ہے ۔ امراء القیس قوت ارادی کو جنبش میں لانے کی بجائے اپنے سامعین کے تخیل پر جادو کے ڈورے ڈالتا ہے اور ان میں بجائے ہوشیاری کے بے خودی کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے ۔۔۔۔ رسول اللہ ؐ نے اپنی حکیمانہ تنقید میں فنون لطیفہ کے اس اہم اصول کی توضیح فرمائی ہے کہ آرٹ میں جو کچھ خوب ہے ، ضروری نہیں کہ وہ زندگی میں خوب سے مشابہت رکھتا ہو ۔ عین ممکن ہے کہ ایک شاعر خوبصورت اشعار کہتا ہو لیکن اس کے باوجود اپنے معاشرے کو دوزخ کی طرف دھکیل دے۔شاعری دراصل ساحری ہے اور حیف ہے اس شاعر پر جو قومی زندگی کے مشکلات و امتحانات میں دل فریبی کی شان پیدا کرنے کی بجائے فرسودگی و انحطاط کو صحت اور قوت کی تصویر بنا کر دکھاے اور اس طور پر اپنی قوم کو ہلاکت کی طرف لے جائے ۔ اس کی ذمے داری تو یہ ہے کہ فطرت کی لازوال ، دولتوں میں سے حیات و قوت کا جو حصہ اسے ودیعت کیا گیا ہے،اس میں اوروں کو بھی شریک کرے ، نہ کہ اٹھائی گیرا بن کر جو رہی سہی پونجی ان کے پاس ہے ، اس کو بھی ہتھیالے ، ایک دفعہ قبیلہ بنو عبس کے مشہور شاعر عنترہ کا یہ شعر آنحضورؐ کے سامنے پڑھا گیا ؎ ولقدابیت علی الطویٰ والظَلّہ حتٰی انال بہٖ کریم الماکل یعنی میں نے بہت سی راتیں محنت و مشقت میں بسر کی ہیں تاکہ میں اکل حلال کے قابل ہو سکوں۔ رسول اللہ ، جن کی بعثت کا مقصد وحیدیہ تھا کہ انسانی زندگی کو دل کش بنائیں، اور اس کی آزمایشوں اور سختیوں کو خوش آیند اور مطبوع کر کے دکھائیں ، اس شعر کو سن کر بہت محظوظ ہوئے اور صحابہ کرام سے مخاطب ہو کر فرمایا ! کسی عرب کی تعریف نے میرے دل میں اس کا شوق ملاقات پیدا نہیں کیا لیکن میں سچ کہتا ہوں کہ اس شعر کے کہنے والے کو ملنے کے لیے میرا دل بے اختیار چاہتا ہے ۔ مقام حیرت ہے کہ آنحضورؐ جن کے چہرہ مبارک پر ایک نظر ڈال لینا، دیکھنے والے کے لیے دنیوی برکت اور اُخروی نجات کی دو گونہ سرمایہ اندوزی کا ذریعہ تھا ، خود ایک بت پرست عرب سے ، اس کے ایک شعر کی خاطر، ملاقات کا شوق ظاہر کرتے ہیں ۔ رسول اللہ ؐ نے جو عزت عنترہ کو بخشی اس کی وجہ عیاں ہے عنترہ کا شعر صحت بخش حیات کی جیتی جاگتی بولتی چالتی تصویر ہے ۔ حلال کی کمائی میں انسان کو جو سختیاں اٹھانی پڑتی ہیں ، جو کڑیاں جھیلنی پڑتی ہیں ، اس کا نقش پردئہ خیال پر شاعر نے نہایت خوبصورتی کے ساتھ کھینچاہے۔ آنحضورؐ نے جو اس شعر کی تعریف فرمائی ، اس سے آرٹ کے ایک اور اہم اصول کی شرح ہوتی ہے کہ آرٹ حیات انسانی کے تابع ہے ، اس پر فوقیت نہیں رکھتا ۔ تمام انسانی عمل کا منتہاے نظر شوکت ، قوت اور جوش سے بھری ہوئی زندگی کی تحصیل ہے ۔ اس لیے ہر انسانی آرٹ اس غایت آفرین کا مطیع ہونا چاہئے اور ہر شے کی قدر و قیمت کا معیار یہی ہونا چاہیے کہ اس میں حیات بخشی کی صلاحیت کتنی ہے ۔ ارفع آرٹ وہی ہے جو ہماری خوابیدہ قوت عزم کو بیدار کرے اور ہمیں زندگی کی آزمایشوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی ترغیب دے ۔ لیکن وہ سب کچھ ، جس کے اثر سے ہم اونگھنے لگیں اور جو جیتی جاگتی حقیقتیں ہمارے گردو پیش موجود ہیں (کہ انہی پر غلبہ پانے کا نام زندگی ہے ) ان کی طرف آنکھوں پر پٹی باندھ لیں، انحطاط اور موت کا پیغام ہے ۔ آرٹ میں افیون نوشی کی کوئی گنجائش نہ ہونی چاہیے ۔ یہ نعرہ کہ آرٹ برائے آرٹ یا آرٹ قائم بالذات ہے ، انفرادی و اجتماعی انحطاط کا ایک عیارانہ حیلہ ہے اور اس لیے تراشا گیا ہے کہ ہم سے زندگی اور قوت دھوکا دے کر چھین لی جائے ۔ پس آنحضورؐ نے عنترہ کے شعر کی خوبی کا اعتراف کر کے ہم پر ہر نوع کے آرٹ کے ارتقا کے اصل الاصول کی وضاحت کر دی ہے ۱۱ ۔ اقبال کی تحریروں کے مطالعے سے عیاں ہے کہ وہ ابتدا ہی سے مسلم فرد اور معاشرے کی تعمیرِ نو کے سلسلے میں بعض مخصوص خیالات رکھتے تھے ۔ اسی طرح شاعری کے مقصد کے بارے میں بھی ان کے اندازِ فکر میں کوئی الجھائو نہ تھا ۔ اپنی حیات کے وسطی اور اختتامی ادوار میں اقبال انہی افکار کو زیادہ تفصیل کے ساتھ شعر و نثر میں پیش کرتے رہے ۔ ان کے سامنے بحیثیت مجموعی مسلمانوں کا تعلیم یافتہ طبقہ متضاد خیالات یا دہرے معیار کا حامل تھا ، جس کی روز مرہ زندگی کا اسلوب تو مغربی نظریات کے زیر اثر سیکولر یا لا دین تھا مگر روایتاًوہ اسلام پر اپنے ایمان کا دعویٰ بھی کرتا تھا۔ تعلیم یافتہ مسلمانوں کے اذہان میں ایمان و عمل کی وحدت مفقود تھی بلکہ دونوں میں موجود فاصلے نے دوئی کی صورت اختیار کرلی تھی اور اس ذہنی دوئی کے سبب معاشرہ بری طرح سے منافقت کا شکار تھا ۔ اقبال ان کی ذہنی دوئی کا خاتمہ کرنا چاہتے تھے ۔ ان کے نزدیک مسلم فرد اور معاشرے کی تعمیرِ نو صرف مذہب کی روایتی تعبیر کے فروغ سے ممکن نہ تھی ۔ وہ وقت کے جدید تقاضوں اور علوم کی بے انتہا ترقی کے پیش نظر علم کلام اور فقہ کی از سر نو تدوین کے آرزو مند تھے اور اس کے ساتھ ہی اسلام اور علوم کی حیات ذہنی کا ٹوٹا ہوا سلسلہ دوبارہ جوڑ کر صحیح معنوں میں اسلامی تمدن کے احیاء کے لیے کوشاں تھے ۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلم تعلیمی اداروں میں سیرت کا وہ اسلوب یا ڈھانچا تیار کیا جا سکے جو دور حاضر میں خالصتاً مسلم کردار کی تشکیل کے لیے ممد ثابت ہو ۔ بہرحال انہیں اس بات کا احساس تھا ان کے خیالات بیشتر قدامت پسند یا روایت پرست علماء وصوفیہ کے لیے ناقابل قبول ہیں ، مگر احیاء کے تقاضے کچھ ایسے تھے کہ ان کا برملا اظہار اشد ضروری تھا ۔ اسی بنا پر ایک طرف تو مسلم فرد اور معاشرے کی تعمیرِ نو کی خاطر ان کا منصوبہ خالصتاً عملی تجاویز پر مبنی تھا اور دوسری طرف وہ اس انسان کامل یا مردِ فردا کی جستجو میں لگے رہتے تھے جس نے اقبال کے مستقبل کے مثالی مسلم معاشرے کو وجود میں لانا تھا ۔ مآخذ باب : ۱۰ ۱ ۔ ’’فکر اقبال‘‘ ، صفحہ ۹۷۔ ۲ ۔ ’’مخزن ‘‘ اکتوبر ۱۹۰۴ء ۔یہ مضمون ’’اورئینٹل کالج میگزین‘‘ جشن اقبال نمبر مرتبہ ڈاکٹر عبادت بریلوی میں بھی دیکھا جا سکتا ہے ، صفحات ۱۹ تا ۳۹۔ ۳ ۔ غالباً اقبال نے اپنے ذاتی تجربے کی بنا پر تحریر کیا ۔ ۴ ۔ ’’ہندوستان ریویو‘‘ الہ آباد جولائی ۱۹۰۹ء ، صفحات ۲۹ تا ۳۸ (اگست ۱۹۰۹ئ) صفحات ۱۶۶ تا ۱۷۱، ملاحظہ ہو ’’ اقبال کی تقریریں ، تحریریں اور بیانات ‘‘ مرتبہ لطیف احمد شیروانی (انگریزی) صفحات ۸۵ تا ۱۰۳۔ ۵ ۔ یہ انگریزی نوٹ بک شائع ہو چکی ہے ۔ اردو ترجمہ ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی نے بعنوان ’’شذرات فکر اقبال ‘‘ کیا ہے ۔ ۶ ۔ اس مقالے کے کچھ حصے ہندوستان کی مردم شماری کی رپورٹ (انگریزی) ۱۹۱۱ء لاہور جلد ۱۴ پنجاب حصہ اول ۱۹۱۲ء ، صفحات ۱۶۲ تا ۱۶۴ میں شائع ہو ئے ۔ دیکھیے ’’اقبال کی تقریریں ، تحریریں اور بیانات ‘‘ مرتبہ لطیف احمد شیروانی (انگریزی) ، صفحات ۱۰۳ تا ۱۰۷۔ مولانا ظفر علی خان نے اقبال کے اس مقالے کا آزاد اردو ترجمہ کیا تھا ۔ یہ مقالہ اگر کہیں شائع ہوا ہے تو اب نایاب ہے ۔ غالب امکان ہے کہ مقالے کا اصل متن کہیں شائع نہیں ہوا ۔ ڈاکٹر ایس ۔ اے۔ رحمن کی یہ رائے کہ مولانا ظفر علی خان نے کسی اور مقالے کا ترجمہ کیا تھا ، یا ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کی یہ رائے کہ جس مقالے کا اردو ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے کیا تھا ، اس کا اصل انگریزی متن محفوظ نہیں، غلط ہے ، دیکھیے ’’سرگزشت اقبال ‘‘ از ڈاکٹر عبدالسلام خورشید ، صفحات ۹۹، ۱۰۸، اس مقالے کا اصل مسودہ علامہ اقبال میوزیم میں محفوظ ہے ۔ ۷ ۔ ملاحظہ ہو ’’اقبال کی تقریریں ، تحریریں اور بیانات ‘‘ مرتبہ لطیف احمد شیروانی (انگریزی) صفحات ۱۰۷ تا ۱۲۱۔ ۸ ۔ اس دم دار ستارے کے نمودار ہونے کی توقع ۱۹۸۵ء تا ۱۹۸۶ء میں تھی ۔ ۹ ۔ دیکھیے ’’زمیندار ‘‘ ۱۲ دسمبر ۱۹۲۴ء ۔ ۱۰۔ انگریزی متن کے لیے ملاحظہ ہو ’’مکتوبات اقبال ‘‘ مرتبہ بشیر احمد ڈار (انگریزی) ، صفحات ۱۵۱ تا ۱۵۶ ، لیکن آخری حصہ غائب ہے ۔ اردو ترجمہ جو ’’سہیل ‘‘ سے نقل کیا گیا پورا ہے لیکن اس پر تاریخ موجود نہیں ، دیکھیے ’’اقبال نامہ ‘‘مرتبہ شیخ عطا اللہ حصہ دوم ، صفحات ۲۱۲ تا ۲۲۵ ۔ جو اسکیم اقبال نے تیار کی ، بقول اقبال ، وہ علی گڑھ یونیورسٹی میں بدقسمتی سے کبھی بھی نافذ العمل نہ ہوئی۔ دیکھیے اقبال کا خط بنام فضل کریم (انگریزی) جو وفات سے چند ماہ قبل تحریر کیا گیا ۔ ’’صحیفہ‘‘اقبال نمبر حصہ اوّل ، صفحہ ۳۳۵ ۔ اقبال مسلم دینیات کو افکار جدیدہ کا ہمدوش بنانا چاہتے تھے ۔ ان کے نزدیک قدیم اسلامی دینیات کا ماخذ زیادہ تر یونانی فلسفہ تھا ۔ اس لیے عصر حاضر میں اس کے تار و پود بکھرچکے تھے اور اب اس کی از سر نو شیرازہ بندی کی ضرورت تھی ۔ ان کی رائے میں یورپ نے عقل والہام کو ہم آہنگ بنانا مسلمانوں سے سیکھا تھا ۔ مگر یورپ اپنے دینیات کو جدید فلسفہ کی روشنی میں از سر نو تعمیر کرنے میں مسلمانوں سے بہت آ گے نکل گیا ۔ پس اسلام کے لیے جو عیسائیت سے کہیں زیادہ سادہ اور عقلی مذہب ہے اس شعبے میں بے حس و حرکت رہنے کاکوئی جواز نہیں ہے ۔ اسی بنا پر اقبال کا خیال تھا کہ ادارہ دینیات کو ایک جدید علم کلام کی طرح ڈالنی چاہیے ۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ حصہ دوم ، صفحہ ۲۸۱ ۔ ۱۱ ۔ ’’نیوایرا‘‘ لکھنؤ ۲۸ جولائی ۱۹۱۷ ء صفحہ ۲۵۱ ’’اقبال کی تقریریں ، تحریریں اوربیانات ‘‘ مرتبہ لطیف احمد شیروانی (انگریزی) ، صفحات ۱۲۴ ، ۱۲۵ ۔ باب: ۱۱ تخلیقی کرشمہ ۱۹۰۷ء ہی سے یورپی قوموں کے گروہ عسکری قوت کے بل بوتے پر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو چکے تھے ۔ ایک طرف جرمنی اور آسٹریا ہنگری سلطنت کا معاہدہ ہو گیا تھا ، اور یہ مرکزی قوتیں کہلاتی تھیں ، تو دوسری طرف برطانیہ ، فرانس اور روس کے درمیان ٹریپل دیطانت معاہدہ طے پا چکا تھا اور انہوں نے اپنے آپ کو اتحادی طاقتوں کا نام دے رکھا تھا ۔ قیصر ولیم دوم نے برلن کو بغداد سے ملانے کے لیے جرمن ریلوے لائن کی تعمیر کے منصوبے پر عمل کر کے عثمانی ترکیہ اور جرمنی کو ایک دوسرے کے قریب لا کھڑا کیا ۔ پہلی جنگِ عظیم شروع ہونے سے پیشتر قسطنطنیہ (استنبول)کے علاوہ باقی تمام یورپی علاقوں میں عثمانی ترکوں کی حکومت اور اقتدار کا خاتمہ ہو چکا تھا ۔ اسی طرح شمالی افریقہ کے مختلف علاقے ، مصر اور مراکو سمیت ، ان کے ہاتھوں سے نکل چکے تھے ، لیکن ابھی تک شام، لبنان ، فلسطین، عراق ، اردون ، عدن ، یمن ، حجاز اور جزیرہ نما عرب کے دیگر علاقے ترکوں کے قبضے میں تھے اور چونکہ یہ علاقے لسانی اور تمدنی اعتبار سے عرب تھے ، اس لیے ان پر عثمانی سلطان خلیفہ اپنے نمائندے ملک حسین کی وساطت سے حکومت کرتا تھا ۔ یورپ کی استعماری طاقتیں عسکری قوت کے نشے سے سرشار دو دھڑوں میں بٹی ہوئی تھیں اور صرف کسی ایسے حادثے کی منتظر تھیں جو جنگ شروع کرنے کے لیے بہانہ بن سکے ۔ بالآخر یہ حادثہ ۲۸ جون ۱۹۱۴ء کو پیش آ گیا ۔ اس روز آسٹریا ، ہنگری سلطنت کا ولی عہد فرانسس فرڈنینڈ اپنی بیوی سمیت سراجیود (بوسنیا) کی ایک شاہراہ پر قتل کر دیا گیا۔ اس پر قیصر نے اعلان کر دیا کہ اگر آسٹریا اور ہنگری سلطنت اس قتل کا بدلہ لینا چاہے تو اسے جرمنی کا تعاون حاصل ہو گا ۔ آسٹریا ایک عرصے سے سربیا کی طاقت کچلنے کے در پے تھا ، اس لیے قتل کا الزام سربیا کے سر تھوپ کر اس نے سربیا کے خلاف ۲۸ جولائی ۱۹۱۴ء کو اعلان جنگ کر دیا ۔ سربیا کی مدد کے لیے روس اٹھ کھڑا ہوا۔ اور روس کے مقابلے میں جرمنی میدانِ جنگ میں اتر آیا۔ اُدھر فرانس اور برطانیہ روس کی حمایت میں جرمنی کے خلاف جنگ میں کود پڑے ۔ یوں یورپ میں پہلی جنگ عظیم چھڑ گئی ۔ مغربی محاذ پر جرمنی نے بلجیم کو تاراج کرتے ہوئے برطانوی اور فرانسیسی فوجوں کو شکست دی اور فرانس کے بیشتر حصے پر قبضہ کر لیا ۔ مشرقی محاذ پر جرمن اور آسٹرین فوجیں روس کے کئی علاقوں پر مسلط ہو گئیں ۔ ۲۳ اگست ۱۹۱۴ء کو جاپان نے جرمنی کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا ، اور چین میں جرمن نو آبادی سنگتائو پر وہ قابض ہو گیا۔ ۲۹ اکتوبر ۱۹۱۴ء کو عثمانی ترکیہ مرکزی قوتوں سے مل کر میدان جنگ میں آ گیا ۔ جنوری ۱۹۱۵ء میں ونسٹن چرچل نے برطانوی حکومت سے اجازت حاصل کر کے ترکی پر حملہ کر دیا ، لیکن برطانوی فوج کو گیلی پولی کے محاذ پر سخت رسوا کن ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ۔ ۲۳ مئی ۱۹۱۵ء کو اٹلی اتحادی طاقتوں کی طرف سے جنگ میں شریک ہو گیا ۔ دوسری طرف بلغاریہ مرکزی قوتوں کی حمایت میں شامل جنگ ہو گیا ۔ اطالوی فوجوں نے بلغاری آسٹرین اور جرمن فوجوں کے ہاتھوں شکست کھائی اور سربیا پر قابض ہونے کے سبب مرکزی قوتوں کا عثمانی ترکیہ سے براہ راست رابطہ قائم ہو گیا ۔ ۱۹۱۶ء میں مشرقی محاذ پر روسی فوجوں کو پھر شکست کا سامنا کرنا پڑا ، ان کے پسپا ہونے پر رومانیہ پر بھی مرکزی قوتوں کا قبضہ ہو گیا ۔ مارچ ۱۹۱۷ء میں روس میں انقلاب آیا اور زار روس کو تخت سے دستبردار ہونا پڑا۔ بالشویک روس نے ۳ مارچ ۱۹۱۷ء کو جرمنی سے صلح کرلی ۔ اسی سال امریکہ بھی اتحادی طاقتوں کی حمایت میں جنگ میں شریک ہو گیا ۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران یعنی ۱۹۱۵ء اور ۱۹۱۶ء میں انگریزی حکومت نے ہندوستان میں مولانا محمد علی جوہر (۱۸۷۸ء تا ۱۹۳۱ئ) مولانا شوکت علی ، مولانا ابوالکلام آزاد اور ظفر علی خان وغیرہ کو گرفتار کر لیا اور ان کے اخبارات بند کر دیے گئے ؛ لیکن مولانا محمود حسن ، مولانا عبیداللہ سندھی، مولانا محمد میاں ، مولانا حسین احمد مدنی ، مولانا عزیز گل اور دیگر علماء چونکہ جنگ شروع ہونے سے ایک آدھ سال قبل ہی ہندوستان سے ہجرت کر گئے تھے ، اس لیے انہوں نے عثمانی ترکیہ کے شریک جنگ ہونے پر مکہ معظمہ اور کابل سے انگریزوں کے خلاف جہاد کے فتوے جاری کیے ۔ انگریزی حکومت ہند نے ۲ نومبر ۱۹۱۴ء کو اعلان کیا تھا کہ حکومت برطانیہ کو اس بات پر سخت تشویش ہے کہ وہ عثمانی ترکیہ کے خلاف مصروف پیکار ہے ، لیکن مسلمانان ہند کو یقین رکھنا چاہیے کہ اس جنگ کی کوئی مذہبی اہمیت نہیں ہے ، اس لیے برطانیہ ، عرب ، عراق ، فلسطین وغیرہ کے ان مقامات پر حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ، جو مسلمانوں کے نزدیک مقدس ہیں ، چنانچہ ہندی مسلمان اسی اعلان کی بنیاد پر انگریزی فوج میں بھرتی ہوئے ، مگر اپنے وعدوں کے برعکس انگریزوں نے عراق پر حملہ کر دیا ۔ نومبر ۱۹۱۴ء میں بصرہ پر انگریزی فوج کا قبضہ ہوا ۔ نومبر ۱۹۱۵ء میں سلمان پاک میںانگریزی فوجیں داخل ہو گئیں ۔ جون ۱۹۱۶ء میں حکومت برطانیہ نے ملک حسین والی حجاز کے ساتھ سازش کی اور پان عرب ریاست کا آزاد حاکم بنا دینے کا وعدہ کر کے ترکوں کے خلاف بغاوت پر آمادہ کر لیا ۔ یوں حجاز کی سر زمین پر خون خرابہ ہوا ۔ انگریزوں نے ۱۹۱۶ء ہی میں ملک حسین کے ذریعے علما ے ہند کو گرفتار کر لیا اور انہیں جزیرہ مالٹا میں نظر بند کر دیا ۱ ۔ ۱۱ مارچ ۱۹۱۷ء کو انگریزی فوجیں بغداد پر قابض ہو گئیں ۔ پھر کوفہ ، کربلا اور نجف بھی ان کے قبضے میں چلے گئے ۔ دسمبر ۱۹۱۶ء میں انگریزی فوجیں یروشلم (بیت المقدس) میں داخل ہو گئیں ۔ انگریزوں نے جدّہ پر بمباری کی اور ان کے ہوائی جہازوں نے مدینہ منورہ کی فضا میں بھی پروازیں کیں ۔ ان ہندی مسلم فوجیوں کو ، جنہوں نے مذہبی بنا پر ان محاذوں پر جنگ میں شریک ہونے سے انکار کیا ، بے دردی سے گولیوں سے اُڑا دیا گیا لیکن کئی مسلمان فوجی انگریزی فوج کو چھوڑ کر ترکوں سے جا ملنے میں کامیاب ہو گئے اور ترکوں کے شانہ بشانہ انگریزوں کے خلاف لڑتے رہے ۲ ۔ بہر حال امریکہ کے جنگ میں شریک ہونے سے اتحادی طاقتوں کی عسکری قوت میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ۔ انہوں نے یورپ میں مغربی اور جنوبی محاذوں پر مرکزی قوتوں کو پے بہ پے شکستیں دیں ، حتیٰ کہ ۱۹۱۸ء میں جرمنی ، آسٹریا ، ہنگری سلطنت ، بلغاریہ اور عثمانی ترکیہ صلح کرنے پر مجبور ہو گئے ۔ اتحادی طاقتوں کو فتح نصیب ہوئی اور مرکزی قوتوں کو شکست کی ذلت برداشت کرنا پڑی ۔ یورپ کی سر زمین پر یہ جنگ بڑی تباہ کن تھی ۔ دونوں طرف سے لاکھوں افراد مارے گئے یا جنگی قیدیوں کی صورت میں حراست میں لیے گئے اور کروڑوں بے گھر ہوئے لیکن اقبال کے دل پر اس عظیم سانحے کا کوئی اثر نہ ہوا ۔ اقبال ہی نہیں بلکہ برصغیر کی ہر اہم شخصیت اس جنگ سے لا تعلق رہی ۔ اقبال کے نزدیک تو یہ جنگ ڈاکو قوموں کی جنگ تھی جو غاصبانہ تجارت کو فروغ دینے یا کمزوروں کے استحصال کی خاطر لڑی جا رہی تھی ۔ ان کی نگاہ میں یورپ کا انسان جدید ، جو ایک خالصتاً بیوپاری معاشرے کی پیداروار تھا ، روحانی مذہبی ، اخلاقی اور انسانی قدروں کو پامال کر کے وطنی قومیت کے حیوانی جذبے کے تحت خود کشی کے عمل میں مصروف تھا ۔ اقبال کو نئے یورپی تمدن کے اس درندے سے کوئی ہمدردی نہ تھی ، بلکہ وہ تو اس مردِ فردا کی تلاش میں سرگرداں تھے ، جس نے مستقبل کے مسلم معاشرے کو وجود میں لانا تھا ۔ پس جنگ کے شور و غوغا سے بے پروا اقبال ’’اسرار خودی‘‘ لکھنے میں منہمک رہے ۔ اقبال نے چند برس پیشتر ہی سے فارسی میں ایک مثنوی لکھنے کا ارادہ کر رکھا تھا ۔ عطیہ فیضی کے نام اپنے ایک خط محررہ ۷ جولائی ۱۹۱۱ء میں تحریر کرتے ہیں : میرے والد نے کہاہے کہ میں بو علی قلندر کی پیروی میں ایک فارسی مثنوی لکھوں ۔ اگرچہ یہ کام مشکل تھا لیکن میں نے وعدہ کر لیا ہے ۳ ۔ اقبال کے ایک اور بیان کے مطابق مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ تحریر کرنے کا آغاز تو ۱۹۱۰ء سے ہو گیا تھا ، مگر ابتدا میں مثنوی یعنی حقایق حیات فردیہ ، انہوں نے اردو میں لکھنا شروع کی ۔ ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں : میں نے ’’اسرار خودی‘‘ پہلے اردو میں لکھنی شروع کی تھی مگر مطالب ادا کرنے سے قاصر رہا۔ جو حصہ لکھا گیا تھا ، اس کو تلف کر دیا گیا ۔ کئی سال بعد پھر یہی کوشش میں نے کی ۔ قریباً ڈیڑھ سو اشعار لکھے ، مگر میں خود ان سے مطمئن نہیں ہوں ۴ ۔ یہ مثنوی فارسی میں کیوں تحریر کی گئی ؟ اس سلسلے میں اقبال خود بیان کرتے ہیں : ۱۹۰۵ء میں جب میں انگلستان آیا تھا تو میں محسوس کر چکا تھا کہ مشرقی ادبیات اپنی ظاہری دلفریبیوں اور دلکشیوں کے باوجود اس روح سے خالی ہیں ، جو انسان کے لیے امید ، ہمت اور جرأت عمل کا پیغام ہوتی ہے ، جسے زندگی کے جوش اور ولولے سے تعبیر کرنا چاہیے ۔ یہاں پہنچ کر یورپی ادبیات پر نظر ڈالی تو وہ اگرچہ ہمت افروز نظر آئیں لیکن ان کے مقابلے کے لیے سائنس کھڑی تھی ، جو ان کو افسردہ بنا رہی تھی ۔ ۱۹۰۸ء میں جب میں انگلستان سے واپس آیا تو میرے نزدیک یورپی ادبیات کی حیثیت بھی تقریباً وہی تھی، جو مشرقی ادبیات کی تھی ۔ ان حالات سے میرے دل میں کشمکش پیدا ہوئی کہ ان ادبیات کے متعلق اپنی رائے ظاہر کرنی چاہیے اور ان میں روح پیدا کرنے کے لیے کوئی نیا سرمایۂ حیات فراہم کرنا چاہیے ۔ میں اپنے وطن گیا تو یہ کشمکش میرے دل میں جاری تھی اور میں اس درجہ منہمک تھا کہ دو تین سال تک میرے عزیز دوستوں کو بھی علم نہ تھا کہ میں کیا کر رہا ہوں ۔ ۱۹۱۰ء میں میری اندرونی کشمکش کا ایک حد تک خاتمہ ہوا اور میں نے فیصلہ کیا کہ اپنے خیالات ظاہر کر دینے چاہئیں ، لیکن اندیشہ تھا کہ ان سے غلط فہمیاں پید ا ہوں گی ۔ بہرحال میں نے ۱۹۱۰ء میں اپنے خیالات کو مدِّ نظر رکھ کر اپنی مثنوی ’’اسرارِ خودی‘‘ لکھنی شروع کی اردو کو چھوڑ کر فارسی میں شعر کہنے شروع کرنے کے متعلق اب تک مختلف لوگوں نے مختلف توجیہات پیش کی ہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے ، آج میں یہ راز بھی بتا دوں کہ میں نے فارسی میں شعر کیوں کہنے شروع کیے ۔ بعض اصحاب خیال کرتے ہیں کہ فارسی زبان میں نے اس لیے اختیار کی کہ میرے خیالات زیادہ وسیع حلقے میں پہنچ جائیں ۔ حالانکہ میرا مقصد اس کے بالکل برعکس تھا۔ میں نے اپنی مثنوی ’’اسرارِ خودی‘‘ ابتداء میں صرف ہندوستان کے لیے لکھی تھی اور ہندوستان میں فارسی سمجھنے والے بہت کم تھے ۔ میری غرض یہ تھی کہ جو خیالات میں باہر پہنچانا چاہتا ہوں وہ کم از کم حلقے تک پہنچیں۔ اس وقت مجھے یہ خیال تک بھی نہ تھا کہ یہ مثنوی ہندوستان کی سرحدوں سے باہر جائے گی یا سمندر کا سینہ چیر کر یورپ پہنچ جائے گی ۔ بلا شبہ یہ صحیح ہے کہ اس کے بعد فارسی کی دلکشی نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا اور میں اسی زبان میں شعر کہتا رہا ۵ ۔ خیر’’ اسرارِ خودی‘‘ کا بیشتر حصہ آخری دو سالوں یعنی ۱۹۱۳ء اور ۱۹۱۴ء میں مکمل ہوا ۔ اقبال لکھتے ہیں : یہ مثنوی گزشتہ دو سالوں میں لکھی گئی مگر اس طرح کہ کئی کئی ماہ کے وقفوں کے بعد طبیعت مائل ہوتی رہی۔ چند اتوار کے دنوں اوربعض بے خواب راتوں کا نتیجہ ہے ۔ موجودہ مشاغل وقت نہیں چھوڑتے اور جوں جوں اس پروفیشن میں زمانہ زیادہ ہوتا جاتا ہے ۔ کام بڑھ جاتا ہے ۔ لٹریری مشاغل کے امکانات کم ہو جاتے ہیں اگر مجھے پوری فرصت ہوتی تو غالباً اس موجودہ صورت سے یہ مثنوی بہتر ہوتی ۶ ۔ لیکن ’’اسرارِ خودی‘‘ لکھتے وقت رفتہ رفتہ اقبال کو یہ احساس ہونے لگا تھا کہ مثنوی وہ از خود نہیں لکھ رہے بلکہ انہیں اس کو لکھنے کی ہدایت ہوئی ہے ۔ مہاراجہ کشن پرشاد کے نام اپنے ایک خط محررہ ۱۴ اپریل ۱۹۱۶ء میں تحریر کرتے ہیں : یہ مثنوی جس کا نام ’’اسرارِ خودی‘‘ ہے ، ایک مقصد سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے ۔ میری فطرت کا طبعی اور قدرتی میلان سکر و مستی و بیخودی کی طرف ہے ۔ مگر قسم ہے اس خدائے واحد کی ، جس کے قبضے میں میری جان و مال و آبرو ہے ، میں نے یہ مثنوی از خود نہیں لکھی بلکہ مجھ کو اس کے لکھنے کی ہدایت ہوئی ہے اور میں حیران ہوں کہ مجھ کو ایسا مضمون لکھنے کے لیے کیوں انتخاب کیا گیا ۔ جب تک اس کا دوسرا حصہ ختم نہ ہو لے گا ، میری روح کو چین نہ آئے گا ۔ اس وقت مجھے یہ احساس ہے کہ بس میرا یہی ایک فرض ہے اور شاید میری زندگی کا اصل مقصد بھی یہی ہے ۔ مجھے یہ معلوم تھا کہ اس کی مخالفت ہو گی ، کیونکہ ہم سب انحطاط کے زمانے کی پیدوار میں اور انحطاط کا سب سے بڑا جادو یہ ہے کہ یہ اپنے تمام عناصر و اجزا و اسباب کو اپنے شکار (خواہ وہ شکار کوئی قوم ہو خواہ فرد) کی نگاہ میں محبوب و مطلوب بنا دیتا ہے ، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بدنصیب شکار اپنے تباہ و برباد کرنے والے اسباب کو اپنا بہترین مربی تصور کرتا ہے مگر: من نوائے شاعرِ فرداستم اور: نا امید ستم ز یارانِ قدیم طورِ من سوزد کہ می آید کلیم نہ خواجہ حسن نظامی رہے گا نہ اقبال ۔ یہ بیج جو مردہ زمین میں اقبال نے بویا ہے ، اُگے گا ، ضرور اُگے گا اور علی الرغم مخالفت بار آور ہوگا ۔ مجھ سے اس کی زندگی کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ الحمدللہ ۷ ۔ اقبال ’’اسرارِ خودی‘‘ تحریر کرنے میں اتنے مصروف تھے کہ ۲۳ مارچ ۱۹۱۳ء کے انجمنِ حمایتِ اسلام کے جلسے میں انہوں نے صرف ایک مختصر سی فارسی نظم پڑھی ۔۱۹۱۴ء کے اجلاس میں اقبال نے عجمی تصوف اور اسلام کے موضوع پر تقریر کی اور’’ اسرارِ خودی‘‘ کے چند حصے پڑھ کر سنائے ۔ ۱۹۱۵ء میں کوئی نظم نہ پڑھی۔ البتہ ۱۹۱۶ء کے اجلاس میں اپنی بے مثال نظم ’’بلال‘‘ پڑھی اور اسی طرح ۱۹۱۷ء کے جلسے میں بھی ایک نظم پڑھی البتہ اس کے بعد ۱۹۲۰ء تک کوئی نظم نہ پڑھی ۸ ۔ اقبال کی خواہش تھی کہ مثنوی ’’اسرارِ خودی‘‘ کی اشاعت سے پیشتر کسی ماہرِ ادبِ فارسی کو سنائیں۔ اس سلسلے میں وہ اپنے استاد مولانا سید میر حسن اور گرامی سے مشورے لیتے رہے ۔ خواجہ عزیز الدین لکھنوی سے بھی ، جو ایک بلند پایہ فارسی شاعر وادیب تھے ، صلاح لینے کا قصد کیا، لیکن خواجہ عزیز بہت ضعیف ہو چکے تھے ، تاآنکہ ۱۹۱۵ء میں ان کا انتقال ہو گیا ۔ گرامی کو ایک خط محررہ ۱۸ جنوری ۱۹۱۵ء میں لکھتے ہیں : مثنوی ختم ہو گئی ہے۔ آپ تشریف لائیں تو آپ کو دکھا کر اس کی اشاعت کا اہتمام کروں ، مگر فروری ، مارچ تو محض وعدۂ معشوقانہ معلوم ہوتا ہے ۔ گرامی سے حیدر آباد نہیں چھوٹ سکتا ۔ کاش میں خود حیدر آباد پہنچ سکوں مگر یہ بات اپنے بس کی نہیں ۔ نہ یہاں کے حالات و مشاغل سفر کی اجازت دیتے ہیں ، نہ حیدر آباد کافی زور کے ساتھ کشش کرتا ہے ۔ آپ کی دعائے نیم شبی کو بھی معلوم ہوتا ہے ، آسمان تک رسائی نہیں۔۔۔۔ اردو اشعار لکھنے سے دل برداشتہ ہو جاتا ہوں ۔ فارسی کی طرف زیادہ میلان ہوتا جاتا ہے اور وجہ یہ ہے کہ دل کا بخار اردو میں نکال نہیں سکتا ۹ ‘‘ ۔ شیخ غلام قادر گرامی (۱۸۵۶ء تا ۱۹۳۷ئ) سے اقبال کے تعلقات ان ایّام سے قائم تھے جب انہوں نے انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں اپنی ملّی شاعری کی ابتداء کی تھی یا جب ’’مخزن‘‘کا اجراء ہوا۔ بعض اوقات اقبال گرامی کو انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں اپنے ساتھ لاتے تھے ۔ مثلاً ۱۹۱۴ء کے اجلاس میں گرامی ان کے ساتھ آئے اور اقبال نے حاضرین سے گرامی کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ گرامی اکابر شعرائے فارسی میں سے ہے ۔ آج اسے سن لو تو کل فخر کرو گے کہ گرامی کو سنا ہے ۔ اس کے بعد گرامی نے اپنا کلام سنایا ۱۰ ۔ گرامی ، اقبال سے عمر میں بہت بڑے تھے ،لیکن دونوں کے تعلقات غیر رسمی اور انتہائی بے تکلفانہ تھے ۔ گرامی نہ صرف فارسی اساتذہ کے کلام سے پوری طرح شناسا تھے بلکہ کئی برسوں سے ان اساتذہ کے انداز میں شعر بھی کہتے رہے تھے ۔ اس لیے اقبال کو اپنے فارسی کلام میں اسلوب بیان اور انداز اظہار کے بارے میں ان سے بہتر مشورہ کوئی نہ دے سکتا تھا ۔ گرامی ہو شیار پور میں مستقل سکونت اختیار کرنے کے بعد جب کبھی لاہور آتے تو اقبال کے ہاں قیام کرتے ۔ بعض اوقات اقبال ، گرامی کو ہوشیار پور سے لاہور لانے کے لیے علی بخش کو بھجواتے اور دنوں نہیں بلکہ ہفتوں ان کی مہمانداری کرتے ۔ ان سے دن رات علمی گفتگو ہوتی ، اشعار کی باریکیوں پر بحث کی جاتی ، اقبال ان کا کلام سنتے ، اپنی شعری الجھنیں انہیں بیان کر کے رہنمائی حاصل کرتے یا اپنا کلام انہیں سناتے ۔ گرامی بھی اقبال کے دیوانے تھے اور گرامی ہی نے اقبال کے متعلق کہہ رکھا ہے: در دیدئہ معنی نگہاں حضرتِ اقبال پیغمبری کرد و پیمبر نتواں گفت اور اقبال نے بھی گرامی کی وفات پر جو اشعار کہے ، ان میں پرانی محفلوں کی یاد میں فرمایا: یاد ایّامے کہ با او گفتگو ہا داشتم اے خوشا حرفے کہ گوید آشنا باآشنائی اقبال اور گرامی کے بیشمار لطیفے عبدالمجید سالک کی تصانیف ’’سرگزشت ‘‘اور ’’یاران کہن‘‘میں محفوظ ہیں ۔ مثلاً ایک دفعہ اقبال نے علی بخش کو انہیں لانے کے لیے ہوشیار پور بھیجا اور علی بخش کئی دن وہاں ٹھہرا رہا ، لیکن گرامی آج چلتے ہیں ، کل چلتے ہیں ، ہی کہتے رہے بالآخر ایک دن لاہور جانے کے لیے تیار ہو گئے ۔ سامان باندھا اور ٹانگے میں رکھوایا ۔ باہر نکلے ، مگر کچھ لینے کے لیے اندر چلے گئے ۔ زنانہ میں بیگم سے باتیں کرتے رہے ۔ مزید سامان ہاتھوں میں اٹھا کر لائے اور ٹرنک میں ٹھونسا ۔ گرمیوں کا موسم تھا ۔ اس اثنا میں دھوپ میں کھڑے کھڑے تانگے کی نشست تپ گئی ۔ سوار ہوتے ہی نیچے اتر آئے اور سامان بھی اتروا دیا ۔ علی بخش سے کہنے لگے کہ تم جائو ، اقبال سے کہہ دینا کہ تانگہ گرم ہو گیا تھا ، اب سردیوں میں آئیں گے ۔ لیکن جب اقبال کے ہاں آ جاتے تو ہلنے کا نام نہ لیتے ۔ بیگم بیماری کا بہانہ کر کے تاریں بھجواتیں ، مگر ان پر کوئی اثر نہ ہوتا ۔ انارکلی والے مکان کی پہلی منزل پر بیٹھک کے ساتھ ملحقہ کمرے میں ٹھہرتے ۔ ایک مرتبہ اسی طرح اقبال کے پاس ٹھہرے ہوئے کئی ہفتے گزر گئے ۔ بیگم نے واپس بلانے کی غرض سے شدید علالت کا تار دیا ۔ تار پڑھ کر بہت پریشان ہوئے ، اور اقبال سے کہا کہ مجھے ابھی اسٹیشن بھجوا دیا جائے ۔ سردیوں کا موسم تھا ۔ رات کے ۹ بجے تھے۔ اس وقت کوئی ٹرین جالندھر کی طرف نہ جاتی تھی ۔ اقبال نے جواب دیا کہ آپ کو ابھی بھجوائے دیتے ہیں ، ساتھ ہی کہا ، کہ ایک رباعی کہی تھی ، تین مصرعے تو ہو گئے لیکن چوتھا مصرع مرضی کے مطابق نہیںبن سکا ۔ گرامی بولے، ذرا مجھے بھی سنائیے ۔ تین مصرعے سن کر وہ حسب عادت فکر میں مشغول ہو گئے ۔ کسی قدر غور کے بعد ایک مصرعہ سنایا ۔ اقبال نے کہہ دیا کہ اس کا فلاں حصہ مزید توجہ کا محتاج ہے ۔ اسی طرح انہوں نے گھنٹہ بھر میں کئی مصرعے کہے ، لیکن اقبال ان میں کوئی نہ کوئی نقص نکالتے رہے ۔ پھر اقبال اوپر کی منزل پر جا کر سو گئے ۔ رات کے تین بجے کے قریب علی بخش نے دروازہ کٹھکٹھایا کہ گرامی یاد کر رہے ہیں ۔ اقبال نیچے آئے ۔ گرامی نے کہا کہ موزوں مصرع کہہ لیا تھا ، سوچا صبح کا انتظار کرنے کی بجائے ابھی سنا دوں ۔ مصرع سنایا تو واقعی نادر تھا ۔ اقبال نے اس کی بہت تعریف کی ۔ بولے کہ اب میرا دل سنگترے کھانے کو چاہتا ہے۔ رات کے تین بجے کا عمل ، سردیوں کا موسم ، اس کے باوجود علی بخش نے بازار جا کر کسی میوہ فروش کو جگایا اور ان کے لیے سنگترے مہیا کیے گئے ۔ چائے تیار ہوئی اور گرامی کے سامنے یہ چیزیں رکھی گئیں ۔ بہت ہشاش بشاش تھے اور اس اثنا میں تار کا واقعہ بالکل بھول گئے ۱۱ ۔ جب مثنوی ختم ہو گئی تو اس کے نام کے انتخاب کا مسئلہ باقی تھا ۔ چنانچہ اس سلسلہ میں اقبال نے خواجہ حسن نظامی کو تحریر کیا : وہ مثنوی جس میں خودی کی حقیقت و استحکام پر بحث کی ہے ، اب قریباًتیار ہے اور پریس جانے کو ہے ۔ اس کے لیے بھی کوئی عمدہ نام یا خطاب تجویز فرمائیے ۔ شیخ عبدالقادر نے اس کا نام ’’اسرارِ حیات ‘‘ ، ’’پیامِ سروش ‘‘ ، ’’پیامِ نو ‘‘ اور ’’آئینِ نو‘‘تجویز کیے ہیں ۔ آپ بھی طبع آزمائی فرمائیے اور نتائج سے مجھے مطلع فرمائیے تاکہ میں انتخاب کر سکوں۱۲ ‘‘۔ بہرحال مثنوی کا نام اقبال نے خود ہی ’’اسرارِ خودی ‘‘ منتخب کیا ۔ اقبال کی والدہ کا انتقال ۹ نومبر ۱۹۱۴ء کو ہوا اور اس کے باوجود کہ وہ اس وقت پورے سینتیس برس کی عمر کے تھے (اتفاق سے ۹ نومبر ان کا یوم ولادت بھی تھا) انہوں نے ماں کی موت کو اس بچے کی طرح محسوس کیا جو ابھی ابھی سن تمیز کو پہنچا ہو یا جس میں ماں کی محبت کا شعور ابھی ابھی پیدا ہوا ہو ۔ اقبال اپنی ماں کے پرستار تھے ۔ دراصل ماں ہی کی کشش انہیں تعطیلات میں سیالکوٹ لے جاتی تھی ۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں سیالکوٹ والے گھر کے زنانے میں دوپہر کے کھانے سے پہلے یا بعد روزانہ محفل جمتی تھی ، جس میں بے جی ، اقبال کی بہنیں بھاوجہ اور ان کی بیگمات شریک ہوتیں ۔ اقبال ان سب کے ساتھ تختوں کے فرش پر بیٹھ جاتے اور محلّے بھر کے قصے یا برادری کے جھگڑے بڑے شوق سے سنتے ۔ مسکراہٹ ان کے لبوں پر کھیلتی رہتی بلکہ بعض اوقات ماں سے پوچھتے کہ بے جی فلاں ساس بہو کی لڑائی میں آپ نے کیسے صلح کرائی ۔ رات کے کھانے کے بعد البتہ میاں جی کے پاس بیٹھتے اور گفتگو کا رنگ علمی ہوتا ۔ دراصل ماں کے ساتھ ان کے بچپن کی ساری یادیں وابستہ تھیں ، اس لیے ان کی وفات کا انہیں سخت صدمہ ہوا ۔ کئی دن تک دل گرفتہ رہے ۱۳ ۔ عبدالمجید سالک لکھتے ہیں کہ جب وہ تعزیت کے لیے گئے تو دیر تک والدہ کی خوبیاں بیان کر کر کے آبدیدہ ہوتے رہے ۔ کہتے تھے کہ جب میں سیالکوٹ جاتا تھا اور والدہ شگفتہ ہو کر فرماتیں ’’میرا بالی آ گیا ‘‘ تو میں ان کے سامنے اپنے آپ کو ایک ننھا سا بچہ سمجھنے لگتا ۱۴ ۔ مہاراجہ کشن پرشاد کو تحریر کیا : آہ انسان اپنی کمزوری کو چھپانے میں کس قدر تاک ہے ، بے بسی کا نام صبر رکھتا ہے اور پھر اس صبرکو اپنی ہمت و استقلال کی طرف منسوب کرتا ہے ۔ مگر اس حادثے نے میرے دل و دماغ میں ایک شدید تغیر پیدا کر دیا ہے ، میرے لیے دنیا کے معاملات میں دلچسپی لینا اور دنیا میں بڑھنے کی خواہش کرنا صرف مرحومہ کے دم سے وابستہ تھا ۔ اب یہ حالت ہے کہ موت کا انتظار ہے ۔ دنیا میں موت سب انسانوں تک پہنچتی ہے اور کبھی کبھی انسان بھی موت تک جا پہنچتا ہے ۔ میرے قلب کی موجودہ کیفیت یہ ہے کہ وہ تو مجھ تک پہنچتی نہیں ، کسی طرح میں اس تک پہنچ جائوں ۱۵ ۔ اکبر الہ آبادی نے تعزیت کرتے ہوئے فرمایا : حضرتِ اقبال میں جو خوبیاں پیدا ہوئیں قوم کی نظریں جو ان کے طرز کی شیدا ہوئیں یہ حق آگاہی ، یہ خوش گوئی ، یہ ذوقِ معرفت یہ طریقِ دوستی ، خود داریِ با تمکنت! اس کی شاہد ہیں کہ ان کے والدین ابرار تھے با خدا تھے ، اہلِ دل تھے ، صاحبِ اسرار تھے جلوہ گر ان میںا نہی کا ہے یہ فیضِ تربیت ہے ثمر اس باغ کا یہ طبعِ عالی منزلت مادرِ مرحومۂ اقبال جنت کو گئیں! چشم تر ہے آنسووں سے ، قلب ہے اندوہ گیں روکنا مشکل ہے آہ و زاری و فریاد کو نعمتِ عظمیٰ ہے ماں کی زندگی اولاد کو اکبر اس غم میں شریکِ حضرتِ اقبال ہے سال رحلت کا یہاں منظور اسے فی الحال ہے واقعی مخدومۂ ملّت تھیں وہ نیکو صفات رحلت مخدومہ سے پیدا ہے تاریخِ وفات ۱۳۳۳ھ ۱۶ اس کے علاوہ اکبر نے مندرجہ ذیل قطعہ تاریخ وفات بھی لکھا جو آج بھی والدئہ اقبال کی لوح مزار پر کندہ ہے : مادرِ مرحومۂ اقبال رفت سوئے جنت زیں جہانِ بے ثبات گفت اکبر بادل پُر درد و غم ’’رحلت مخدومہ‘‘ تاریخِ وفات ۱۳۳۳ھ اس موقع پر اقبال نے خود اپنا معروف مرثیہ ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں ‘‘ تحریر کیا اور اس کی ایک نقل کسی خوش نویس سے لکھوا کر والد کی خدمت میں سیالکوٹ بھجوائی ۱۷ ۔ وسط ۱۹۱۵ء میں ’اسرارِ خودی ‘ پانچ سو کی تعداد میں شائع ہوئی ۔ کتابت مشہور کاتب منشی فضل الٰہی مرغوب رقم نے کی اور اقبال کے دوست حکیم فقیر محمد چشتی نے اسے چھپوایا ۔ کتاب کی اوّلین اشاعت میں دو تین باتیں قابل ذکر تھیں ۔ اوّل یہ کہ سر سید علی امام کے نام پر معنون کی گئی تھی ۔ دوم یہ کہ دیباچے میں اس دقیق مسئلے پر اقبال نے اپنی رائے کا اظہار کر دیا تھا ، جو اس نظم کا موضوع تھا اور سوم یہ کہ خواجہ حافظ شیرازی کے اندازِ فکر کے خلاف اقبال نے چند اشعار میں آواز بلند کی تھی ۔ دیباچے میں اقبال کے نقطہ نظر اور حافظ پر ان کی کڑی نکتہ چینی کے سبب کئی مشائخ ہی نہیں، اربابِ ذوق بھی اقبال سے ناراض ہو گئے اور انہوں نے مخالفت کا طوفان کھڑا کر دیا ۔ اسی طرح اس بات پر بھی اعتراض کیا گیا کہ جس کتاب میں فلسفۂ خودی کی تشریح کی گئی ہو اور قوم کو خود داری کی تعلیم دی گئی ہو ، اسے ایک خطاب یافتہ اور دنیا دار کے نام کیوں معنون کیا گیا ہے ۔ ’’اسرارِ خودی‘‘ کی اشاعت پر جو تنازعہ اقبال اور مشائخ میں ہوا یا اس کے انگریزی ترجمے کی اشاعت پر یورپی نقادوں نے جو غلط فہمیاں پھیلائیں ، ان کا تفصیلی جائزہ تو اگلے باب میں لیا جائے گا لیکن یہاں یہ ذکر کر دینا مناسب ہو گا کہ حافظ پر تنقید و الے معاملے میں اقبال کے معترضین میں ان کے والد بھی شامل تھے ۔ اقبال کے والد وحدت الوجود کے قائل تھے ، بلکہ اقبال کے سلسلۂ اجداد میں بھی اکثر بزرگوں کا مسلک وحدت الوجود ہی تھا ۔ اس اعتبار سے وجودی تصوف کے خلاف بغاوت اقبال کے اپنے خاندانی مسلک کے خلاف بھی بغاوت تھی ۔ اسرارِ خودی کا ایک نسخہ اقبال نے اپنے والد کی خدمت میں ارسال کیا ، جسے وہ عموماً صبح کے وقت پڑھتے تھے ۔ حافظ کے اندازِ فکر پر تنقیدی اشعار کو انہوں نے حافظ کی شان میں گستاخی کے مترادف سمجھا اور ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا ۔ اسی اثنا میں ’’اسرارِ خودی‘‘ کی مخالفت میں اخبارات و رسائل میں مضامین شائع ہونے لگے ۔ اتفاق سے انہی دنوں اقبال سیالکوٹ گئے ۔ گرمیوں کے موسم میں رات کو سب کوٹھے پر سوتے تھے ۔ اقبال اور ان کے والد کی چارپائیوں کے درمیان حسب معمول حقہ بھر کر رکھ دیا گیا اور باپ بیٹا دونوں علمی گفتگو میں مشغول ہو گئے ۔ جب گفتگو کے دوران ’’اسرارِ خودی‘‘ میں حافظ پرنکتہ چینی کے سلسلے میں حلقۂ صوفیہ کی برہمی کا ذکر آیا تو اقبال نے کہا کہ میں نے حافظ کی ذات اور شخصیت پر اعتراض نہیں کیا، بلکہ میں نے تو صرف ایک اصول کی وضاحت کی ہے، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ مسلمانان ہند پر عجمی تصوف کا اس قدر غلبہ ہے کہ وہ زہر کو آب حیات سمجھنے لگے ہیں۔ اس پر شیخ نور محمد گویا ہوئے کہ حافظ کے عقیدتمندوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے بغیر بھی تو اس اصول کی تشریح ہو سکتی تھی ۔ اقبال نے جواب دیا کہ یہ حافظ پرستی بھی تو بت پرستی سے کم نہیں ۔ شیخ نور محمد نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول ؐ نے تو بتوں کو بھی برا کہنے سے منع کیا ہے ۔ اس لیے مثنوی کے وہ اشعار جن پر عقیدتمندانِ حافظ کو اعتراض ہے ، حذف کر دینے چاہئیں ۔ اقبال کچھ نہ بولے ، بس مسکرا کر رہ گئے ۱۸ ۔ بعد میں مثنوی کی اشاعت دوم میں قابل اعتراض اشعار ، دیباچہ اور سر سید علی امام سے متعلق انتسابی اشعار خارج کر کے اقبال نے بحث کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا اور نئے دیباچے میں تحریر کیا : اس مثنوی کی پہلی ایڈیشن ۱۹۱۵ء میں شائع ہوئی تھی ، اس دوسری ایڈیشن میں جو اب ناظرین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے ۔ بعض بعض لفظی ترمیم ہے ، بعض جگہ اشعار کی ترتیب میں فرق ہے اور ایک آدھ جگہ تشریح مطالب کے لیے اشعار کا اضافہ ہے ، لیکن سب سے بڑی ترمیم یہ ہے کہ اس ایڈیشن سے وہ اشعار خارج کر دئیے گئے ہیں جو خواجہ حافظ پر لکھے گئے تھے ۔ اگرچہ ان سے محض ایک ادبی نصب العین کی تنقید مقصود تھی اور خواجہ حافظ کی شخصیت سے کوئی سروکار نہ تھا ، تاہم اس خیال سے کہ یہ طرز بیان اکثر احباب کو ناگوار ہے ۔ میں نے ان اشعار کو نکال کر ان کی جگہ نئے اشعار لکھ دیئے ہیں جن میں اس اصول پر بحث کی ہے جس کی رو سے میرے نزدیک کسی قوم کے لٹریچر کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنا چاہیے۔ پہلی ایڈیشن کے اردو دیباچے کی اشاعت بھی ضروری نہیں سمجھی گئی ۱۹ ۔ مثنوی کی اشاعتِ اوّلین کے ساتھ بارہ صفحات پر پھیلا ہوا دیباچہ غالباً اس لیے حذف کیا گیا کہ مسئلے کی جتنی وضاحت انہوں نے کی ، وہ اصل مطلب کے لیے ناکافی تھی اور جتنی وضاحت ضروری تھی ، وہ ایسی تفصیل کی محتاج تھی کہ دیباچہ بجائے خود ایک کتاب کی صورت اختیار کر لیتا ۔ اسی سلسلے میں انہوں نے حافظ محمد اسلم جیراجپوری کو تحریر کیا : دیباچہ بہت مختصر تھا اور اپنے اختصار کی وجہ سے غلط فہمی کا باعث تھا ۲۰ ۔ جہاں تک مثنوی کے سر سید علی امام کے نام معنون ہونے کا تعلق ہے ، اس کی دو وجوہ پیش کی جا سکتی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ اقبال اپنے اس دوست کے جذبۂ اسلامیت سے متاثر تھے اور انہیں احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ سر سید علی امام اسلامی اخلاق اور آداب کا بے مثل نمونہ تھے ۔ یورپ میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود عربی قصائد کے اشعار اور فارسی اساتذہ کا کلام انہیں زبانی یاد تھا ۔ ۱۹۳۱ء میں اقبال کے ساتھ ایک ہی جہاز میں دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے انگلستان گئے ۔ اقبال ان کے متعلق منشی طاہر الدین کے نام اپنے خط میں تحریر کرتے ہیں: سید علی امام کو عربی ، فارسی اور اردو کے بے شمار اشعار یاد ہیں اور پڑھتے بھی خوب ہیں۔ الولد سرّلابیہ،ان کے والد ماجد مولانا نواب امداد ادبیات اردو میں ایک خاص پایہ رکھتے تھے ۔۔۔۔ گول میز کانفرنس کے ہندومسلمان نمائندے شاید سات ، آٹھ ہیں ۔ راجہ نرندر ناتھ صاحب بھی اسی جہاز میں ہیں ۔ چار مسلمان نمائندے ہیں اور چاروں مغرب زدہ۔ مغرب زدہ مسلمان کی اصطلاح (جو) شاید معارف نے وضع کی تھی ، نہایت پرلطف ہے ، لیکن مسلمانوں کے اس مغرب زدہ قافلے کی کیفیت یہ ہے کہ اس میں دو حافظ قرآن ہیں یعنی نواب صاحب چھتاری اور خان بہادر حافظ ہدایت حسین ، مقدم الذکر ہر روز ورد کرتے ہیں اور سنا ہے ہر سال تراویح بھی پڑھاتے ہیں۔ سید علی امام کی مغرب زدگی کی کیفیت یہ ہے کہ ایک روز صبح کے وقت عرشئہ جہاز پر کھڑے تھے ۔ میں بھی ان کے ہمراہ تھا۔ میل و فرسنگ کا حساب کر کے کہنے لگے ، دیکھو بھائی اقبال ! اس وقت ہمارا جہاز ساحل مدینہ کے سامنے سے گزر رہا ہے ۔ یہ فقرہ ابھی پورے طور پر ان کے منہ سے نکلا بھی نہ تھا کہ آنسووں نے الفاظ پر سبقت کی ۔ ان کی آنکھ نمناک ہو گئی اور بے اختیار ہو کر بولے ، بلغ سلامی روضۃفیھا النبی المحترم ۔ان کے قلب کی کیفیت نے مجھے بے انتہا متاثر کیا ۔ باقی رہا میں ، مغرب زدہ بھی ہوں اور مشرق زدہ بھی البتہ مشرقی ضرب میرے لیے زیادہ کاری ثابت ہوئی۲۱ ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ابتدائی ایّام میں اقبال کی یہ زبردست خواہش تھی کہ کسی نہ کسی طرح حیدر آباد دکن کو اسلام کی دینی ، فکری ، علمی اور تمدنی احیاء کا مرکز بنایا جائے ۔ وہ خود بھی وہاں کوئی مناسب ملازمت حاصل کر کے منتقل ہونا چاہتے تھے اور نظام کی سر پرستی میں تصنیف و تالیف کا کام کرنے کے آرزومند تھے ۔ حیدر آباد کی علم دوست اور با اثر شخصیتوں سے ان کی واقفیت تھی ۔ نواب میر محبوب علی خان انتقال کر چکے تھے اور نواب میر عثمان علی خان نظام تھے۔ ۱۱ جنوری ۱۹۱۲ء کو مہاراجہ کشن پرشاد نے مدارالمہام کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور یکم دسمبر ۱۹۱۴ء تک نواب میر یوسف علی خان سالارِ جنگ ، مدارالمہام رہے ۔ پھر نظام نے دیوانی اور وزارت کا قلمدان خود سنبھال لیا ۔ سو جس زمانے میں مثنوی اسرارِ خودی شائع ہوئی اس وقت سر سید علی امام حیدر آباد کے وزیر اعظم نہ تھے بلکہ نظام نے خود وزارتِ عظمیٰ سنبھال رکھی تھی اور مملکتِ حیدر آباد بڑی تن دہی سے اصلاحات کی جانب گامزن تھی ۔ چونکہ نظام کے لیے بیک وقت سربراہی اور وزارت میں دخل رکھنا ممکن نہ تھا ۔ اس لیے افواہ گرم تھی کہ انگریزی حکومت سے سر سید علی امام کی خدمات مستعار حاصل کی جائیں گی ۔ اقبال کا خیال تھاکہ اس مرحلے پر اگر سر سید علی امام وزیر اعظم مقرر ہو گئے تو ممکن ہے ریاست میں اسلام کے تمدنی احیاء کے لیے کوئی مثبت قدم اٹھایا جا سکے ۔ اسی توقع کے پیش نظر مثنوی کی اشاعت اوّلین کو سر سید علی امام کے نام معنون کیا گیا ۔ بالآخر ۱۹۱۹ء میں سر سید علی امام کا تقرر بطور صدرالمہام ہو گیا ۔ انہوں نے ریاست کی ترقی کے لیے کئی منصوبے تیار کیے ، جن میں عثمانیہ یونیورسٹی کا قیام بھی تھا ۔ چار سال کی مدت تک صدر المہام رہ کر ۱۹۲۲ء میں وہ اپنے عہدے سے سبکدوش ہوئے ۔ پھر ۱۹۲۶ء سے لے کر ۱۹۳۷ء تک مہاراجہ کشن پرشاد صدر المہام رہے ۔ ان کے الگ ہونے پر ۱۹۳۷ء سے سر اکبر حیدر ی کا دور وزارت شروع ہوا ۲۲ ۔ یہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ نوجوان مسلم سیاسی قائدین کا لیگ کی پرانی قیادت سے اعتماد اٹھتا جا رہا تھا اور وہ ہندووں سے مفاہمت کرنا چاہتے تھے ۔ اسی بنا پر لیگ اور کانگرس کے اجلاس ساتھ ساتھ ہونے لگے تھے ۔ بالآخر ۱۹۱۶ء میں مسلم اور ہندو رہنما لکھنؤ میں اکٹھے ہوئے اور محمد علی جناح کی قیادت میں لیگ اور کانگرس کے درمیان میثاقِ لکھنؤ طے پا گیا ۔ یوں بقولِ طفیل احمد مسلم لیگ مولانا شبلی کی خواہش کے مطابق صحیح معنوں میں سیاسی جماعت بن گئی۲۳ ۔ کانگرس لیگ سمجھوتے میں ہندووں نے مسلمانوں کی جداگانہ نیابت کا حق تو تسلیم کرلیا ۔ لیکن مسلم اکثریتی صوبوں یعنی پنجاب اور بنگال میں ان کو اکثریت سے محروم کر کے صرف مساوات کا حق دیا اور ان کی زائد نشستوں کو اقلیتوں میں بانٹ دیا گیا ۔ اس کے معاوضے میں مسلم اقلیتی صوبوں میں مسلمانوں کو اضافی نشستیں دی گئیں ۔ میثاق لکھنؤ کی تصدیق و توثیق کے وقت مسلم اکثریتی علاقوں یعنی سرحد (۹۱ فیصد مسلم اور ۷ فیصد ہندو) اور بلوچستان (۸۷ فیصد مسلم اور ۱۱ فیصد ہندو) پر چیف کمشنروں کے ذریعے حکومت کی جاتی تھی ، اور ان میں ۱۹۰۹ء کی دستوری اصلاحات نافذ نہ تھیں ۔ اسی طرح سندھ (۷۵ فیصد مسلم اور ۱۹ فیصد ہندو) کا الحاق بمبئی پریسیڈنسی کے ساتھ کیا گیا تھا اور اس صورت میں دونوں کی آبادی کا تناسب ۷۷ فیصد ہندو اور ۱۹ فیصد مسلم ہو گیا تھا ۔ گویا میثاق لکھنؤ کے وقت دستوری اعتبار سے صرف پنجاب اور بنگال ہی دو مسلم اکثریتی صوبے تھے، جن میں مسلمانوں کو اکثریت سے محروم کر دیا گیا ۔ باقی تمام صوبوں اور مرکز میں تو ہندووں کی واضح اکثریت تھی ۔ اس لیے مسلمانوں کو اضافی نشستیں ملنے سے انہیں کوئی حقیقی فائدہ پہنچ سکنے کا امکان نہ تھا ۔ جن مسلم قائدین نے میثاقِ لکھنؤ کی تصدیق کی ، ان میں سے بیشتر مسلم اقلیتی صوبوں سے تعلق رکھتے تھے ۔ مسلم اکثریتی صوبہ پنجاب سے سر محمد شفیع اس میثاق کے حق میں نہ تھے البتہ سر فضل حسین نے اس کی حمایت کی اور پنجاب کی طرف سے میثاقِ لکھنؤ پر دستخط کیے ۲۴ ۔ اقبال گو عملی سیاست سے تعلق نہ رکھتے تھے، پھر بھی میثاق لکھنؤ کے حق میں نہ تھے ۔ عبدالمجید سالک تحریر کرتے ہیں : علامہ اقبال اس میثاق کے مخالف تھے ، کیونکہ اس کے ماتحت مسلم اکثریت والے صوبوں میں مسلمانوںکو مؤثر اقتدار نہ ملتا تھا اور مسلم اقلیت والے صوبوں میں پاسنگ کی وجہ سے ان کو کوئی خاص فائدہ نہ پہنچتا تھا۔ اس کے علاوہ علامہ اقبال کا خیال تھا کہ ایسا میثاق اسی صورت میں مفید ہو سکتا ہے کہ ہندوستان میں قومیت متحدہ کی داغ بیل ڈالنا منظور ہو اور حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں قومیتِ متحدہ کی تعمیر ناممکن ہے ، نہ اس کے لیے کوشش کرنا مفید ہے ۲۵ ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میثاقِ لکھنؤ دو مذہبی ملتوں (یا قوموں ) کے درمیان طے پایا ، لیکن یہ ایک غیر حقیقی سمجھوتا تھا اور بعد کی ترکِ موالات کی تحریک سے ظاہر ہو گیا کہ فریقین کی نیت میں فرق تھا۔ مسلم سیاسی رہنمائوں کی اکثریت اس معاہدہ کے باوجود مسلمانوں کا الگ قومی تشخص برقرار رکھنا چاہتی تھی ۔ دوسری طرف ہندو قیادت جداگانہ نیابت کے اصول کو تسلیم کر لینے کے باوجود انہیں قومیّتِ متحدہ میں مدغم کرنے کے درپے تھی ۔ اس لیے میثاقِ لکھنؤ ہندووں اور مسلمانوں کو وقتی طور پر تو ایک دوسرے کے قریب لے آیا لیکن حقیقی معنوں میں ان کے بعد کا خاتمہ نہ کر سکا ۔ ۱۹۱۷ء میں شاہ آباد اور آرہ میں مسلم کش فسادات برپا ہوا اور چالیس مربع میل کے رقبے میں ہندووں کے ہاتھوں مسلمانوں کے ۱۲۹ گائوں تباہ و برباد ہو گئے ۲۶ ۔ اسی سال مانٹی گو ہندوستان آیا اور ۱۹۰۹ء کی دستوری اصلاحات پر میثاقِ لکھنؤ کی روشنی میں نظرثانی نے ۱۹۱۸ء میں مانٹی گو چیمسفورڈ رپورٹ کی صورت اختیار کی ۔ بعد میں اسی رپورٹ کی بنیاد پر گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۱۹ء منظور کیا گیا ۔ جس کا عملی نفاذ ہندوستان میں ۱۹۲۱ء میں ہوا ۔ بہرحال ان سیاسی جھمیلوں سے لا تعلق اقبال ایک گائوں کی تنہائی میں گرمیوں کے موسم میں مثنوی ’’اسرارِ خودی‘‘ کے حصہ دوم یعنی رموزِ بے خودی لکھنے میں مصروف رہے ۲۷ ۔ ۱۹۱۷ء میں اقبال کی توجہ ایک بار پھر حیدر آباد کی طرف مبذول ہوئی ۔ سید ہاشم بلگرامی کے انتقال سے حیدر آباد ہائی کورٹ میں جج کی اسامی خالی ہوئی ۔ اس کے لیے منشی دین محمد مدیر میونسپل گزٹ لاہور نے اقبال کا نام تجویز کیا اور اس سلسلے میں ایک خط بھی مہاراجہ کشن پرشاد کو تحریر کیا ۔ مہاراجہ کشن پرشاد نے ان کے خط کے جواب میں جو کچھ لکھا ، اقبال نے اس کا شکریہ ان الفاظ میں ادا کیا : اخباروں میں کئی دنوں سے یہ بات چکر لگا رہی ہے ۔ میں نے سنا ہے کہ پنجاب اور یوپی کے اکثر اخباروں اور ’’مخزن ‘‘ دکن نے بھی لکھا ہے ، مگر سرکار کو میں نے عمداً اس بارے میں کچھ نہ لکھا ۔زیادہ تر اس وجہ سے کہ اگر کوئی امکان اس قسم کا نکلے تو سرکار کی مساعی پر مجھے پورا اعتماد تھا ۔ انہی وجوہ سے باوجود اس بات کے کہ سرکار کے قریب اور ظّل عاطفت میں رہنے کا خیال مدت سے دامن گیر ہے ، میں نے سرکار کی خدمت میں کچھ لکھنے کی ضرورت محسوس نہ کی ۔ میں نے اب تک اپنے معاملات میں ذاتی کوشش کو بہت کم دخل دیا ہے ۔ ہمیشہ اپنے آپ کو حالات کے اوپر چھوڑد یا ہے اور نتیجہ سے خواہ وہ کسی قسم کا ہو خدا کے فضل وکرم سے نہیں گھبراتا ۔ اس وقت بھی قلب کی کیفیت یہی ہے کہ جہاں اس کی رضا لے جائے گی ، جائوں گا۔ دل میں یہ ضرور ہے کہ اگر خدا کی نگاہِ انتخاب نے مجھے حیدر آباد کے لیے چنا ہے تو اتفاق سے یہ انتخاب میری مرضی کے بھی عین مطابق ہے ۲۸ ۔ پنجاب اور یوپی کے اخباروں میں چرچا ہوا تو اقبال کو مبارک باد کے تار آنے لگے ، لیکن پنجاب کے موکلوں کو ، جن کے مقدمات اقبال کے سپرد تھے ، بہت پریشانی ہوئی ۲۹ ۔ بالآخر ’’مخبرِدکن‘‘ سے اقبال کو جب یہ معلوم ہوا کہ حیدر آباد ہائی کورٹ کی ججی کے لیے چند نام نظام کے زیرِ غور ہیں ، جن میں ایک نام ان کا بھی ہے تو انہوں نے مہاراجہ کشن پرشاد کو اپنے خط محررہ ۱۵ اپریل ۱۹۱۸ء میں اپنی تعلیمی کامیابیوں اور تصنیفی خصوصیات کا ذکر تفصیل کے ساتھ کرتے ہوئے امداد کے لیے لکھا : باقی جو کچھ میرے حالات ہیں وہ سرکار پر بخوبی روشن ہیں، ان کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ فقۂ اسلام میں اس وقت ایک مفصل کتاب بزبانِ انگریزی زیرِ تصنیف ہے ، جس کے لیے میں نے مصر و شام و عرب سے مسالہ جمع کیا ہے جو ان شاء اللہ بشرطِ زندگی شائع ہو گی اور مجھے یقین ہے کہ اپنے فن میں ایک بے نظیر کتاب ہو گی ۔ میرا ارادہ ہے کہ اس کتاب کو تفصیلِ مسائل کے اعتبار سے ایسا ہی بنائوں جیسی کہ امام نسفی کی مبسوط ہے ، جو ساٹھ جلدوں میں لکھی گئی تھی ۳۰ ۔ مگر قدرت کو اقبال کا حیدر آباد جانا منظور نہ تھا ۔ اسی طرح فقۂ اسلام پر انگریزی میں مفصل کتاب لکھ پانے کی بھی فرصت انہیں کبھی نصیب نہ ہوئی اور یہ کام ان کے عزائم کی فہرست ہی میں رہ گیا۔ کچھ ماہ بعد سر اکبر حیدری نے انہیں حیدر آباد میں قانون کی پروفیسری کی پیشکش کی اور پوچھا کہ اگر انہیں پرائیویٹ پریکٹس کی بھی ساتھ اجازت ہو تو کیا تنخواہ لیں گے ؟ لیکن اقبال کو اپنے ذرائع سے معلوم ہوا کہ ابھی حیدر آباد میں ان کی ضرورت نہ تھی اور سر اکبر حیدری انہیں محض اس لیے بلا رہے تھے کہ وہ یونیورسٹی اسکیم کے متعلق ان سے مفصل گفتگو کر سکیں۔ اقبال چونکہ اس قدر اخراجات کے متحمل نہ ہو سکتے تھے ، اس لیے انہوں نے حیدر آباد جانے سے معذوری ظاہر کر دی ۳۱ ۔ ۱۹۱۷ء ہی میں اقبال کی ملاقات چودھری محمد حسین (۱۸۹۴ء تا ۱۹۵۰ئ)سے ہوئی ۔ ان ایّام میں چوہدری محمد حسین اسلامیہ کالج کے طالب علم تھے ، اور ہنری مارٹن پرنسپل اسلامیہ کالج کے کہنے پر انہوں نے نواب سر ذوالفقار علی خان کے بچوں کی اتالیقی قبول کر لی تھی ۔ چونکہ اقبال کا نواب سر ذوالفقار علی خان سے گہرا دوستانہ تھا ، اس لیے چوہدری محمد حسین کو ان سے ملاقات کے مواقع ملنے لگے ۔ اقبال نے ان کی مخلص دینداری کو بھانپ لیا اور پھر ایسا اپنایا کہ مرتے دم تک نہ چھوڑا ۔ ۱۹۲۶ء میں اقبال ہی کے اصرار پر چودھری محمد حسین نے پنجاب سول سیکرٹریٹ میں ملازمت کر لی ۔ اقبال کو کبوتروں سے بڑا اُنس تھا ۔ انہوں نے بڑی مشکل سے مدینہ منورہ کا ایک کبوتر حاصل کر کے پالا تھا اور اس کی دیکھ بھال بڑے اہتمام سے کرتے تھے بدقسمتی سے ۲۰ اکتوبر ۱۹۱۷ء کو وہ کبوتر کسی بلی کی چیرہ دستی کا شکار ہو گیا ۔ اقبال اس واقعے سے بے حد مغموم ہوئے اور نظم بہ عنوان ’’مدینے کے کبوتر کی یاد میں ‘‘ تحریر کی ۳۶ ۔ انہی ایّام میں انہیں یہ خیال بھی آیا کہ اگر کسی اچھی نسل کے پالتو کبوتر کو ہریل (سبز رنگ کے جنگلی کبوتر کی قسم ) سے ملایا جا سکے تو نئی نسل وجود میں لائی جا سکتی ہے ۔ اس مقصد کے لیے اقبال چند برس تک مختلف تجربے کرتے رہے لیکن کامیابی نہ ہوئی ۔ ۱۹۱۷ء کے اواخر میں ’’ رموزِ بے خودی ‘‘ مکمل ہوئی ، البتہ اقبال مثنوی کے تیسرے حصے بعنوان ’’حیاتِ مستقبلہ اسلامیہ ‘‘ تحریر کرنے پر بھی غور کر رہے تھے ۔ چنانچہ گرامی کے نام خط میں لکھتے ہیں : مگر اب تیسرا حصہ ذہن میں آ رہا ہے اور مضامین دریا کی طرح امڈے آ رہے ہیں اور حیران ہو رہا ہوں کہ کس کس کو نوٹ کروں ۔ اس حصے کا مضمون ہو گا ، حیات مستقبلۂ اسلامیہ یعنی قرآنِ شریف سے مسلمانوں کی آئندہ تاریخ پر کیا روشنی پڑتی ہے اور جماعتِ اسلامیہ ، جس کی تاسیس دعوتِ ابراہیمی سے شروع ہوئی ، کیا کیا واقعات و حوادث آیندہ صدیوں میں دیکھنے والی ہے اور بالآخر ان سب واقعات کا مقصود و غایت کیا ہے ۔ میری سمجھ اور علم میں یہ تمام باتیں قرآنِ مجید میں موجود ہیں اور استدلال ایسا صاف اور واضح ہے کہ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ تاویل سے کام لیا گیا ہے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم ہے کہ اس نے قرآن شریف کا یہ مخفی علم مجھ کو عطا کیا ہے ۔ میں نے پندرہ سال تک قرآن پڑھا ہے اور بعض آیات اور سورتوں پر مہینوں بلکہ برسوں غور کیا ہے اور اتنے طویل عرصے کے بعد مندرجہ بالا نتیجہ پر پہنچا ہوں ، مگر مضمون بڑا نازک ہے اور اس کا لکھنا آسان نہیں ۔ بہرحال میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اس کو ایک دفعہ لکھ ڈالوں گا ، اور اس کی اشاعت میری زندگی کے بعد ہو جائے گی یا جب اس کا وقت آئے گا اشاعت ہو جائے گی ۳۳ ۔ اسی طرح اس ارادے کا اظہار ’’رموزِ بے خودی ‘‘ کی اشاعت کے بعد ، اکبر الٰہ آبادی سے بھی اپنے ایک خط محررہ ۲۸ نومبر ۱۹۱۸ء میں کیا اور تیسرے حصے کے چند شعر بھی انہیں لکھے ۳۴ ، مگر اس عزم نے بھی کبھی عملی صورت اختیار نہ کی اور تیسرے حصے کے لیے مخصوص چند اشعار پانچ سال بعد ’’پیام مشرق‘‘ میں شامل کر دیئے گئے ۔ ’’رموزِ بے خودی ‘‘ اپریل ۱۹۱۸ء میں شائع ہوئی ۔ اشاعتِ اوّلین کے دیباچے میں اقبال نے اپنے استاد مولانا میر حسن اور گرامی کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا کہ ان دونوں حضرات سے انہیں بعض اشعار کی زبان اور طرز بیان کے متعلق قابلِ قدر مشورے ملے کتاب کے موضوع کے بارے میں فرماتے ہیں : افراد کی صورت میں احساس نفس کا تسلسل قوتِ حافظہ سے ہے ۔ اقوام کی صورت میں اس کا تسلسل و استحکام قومی تاریخ کی حفاظت سے ہے ۔ گویا قومی تاریخ حیاتِ ملیہ کے لیے بمنزلہ قوتِ حافظہ کے ہے ، جو اس کے مختلف مراحل کے حسیات و اعمال کو مربوط کر کے قومی انا کا زمانی تسلسل محفوظ و قائم رکھتی ہے ۔ علم الحیات و عمرانیات کے اسی نکتے کو مدِ نظر رکھ کر میں نے ملتِ اسلامیہ کی ہئیتِ ترکیبی اور اس کے مختلف اجزا و عناصر پر نظر ڈالی ہے اور مجھے یقین ہے کہ امتِ مسلمہ کی حیات کا صحیح ادراک اسی نقطۂ نگاہ سے حاصل ہو سکتا ہے ۳۵ ۔ سر عبدالقادر مثنوی کے اس حصے کی وجہِ تصنیف اقبال ہی کی زبانی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ڈاکٹر صاحب کہنے لگے ، میں عبدالرحمن بجنوری کی علمی و ادبی صلاحیتوں کا بڑا معترف ہوں بلکہ ایک اعتبار سے ممنون بھی ہوں ۔ وہ یوں کہ جب ’’اسرارِ خودی ‘‘ شائع ہوئی تو بجنوری نے ایک تنقیدی مضمون لکھا ، جس میں خودی کے مختلف پہلوئوں پر بحث کرنے کے بعد یہ کہا کہ اقبال فرد کی خودی پر اتنا زور دے رہاہے کہ اس سے یہ خوف پیدا ہو چلا ہے کہ شاید اس کے پیش نظر ملت کا وجود نہیں ۔ حالانکہ انفرادی خودی کی تکمیل بھی ملت ہی میں گم ہو کر ہوتی ہے ۔ بجنوری کے اس مضمون کے بعد میں نے ضروری سمجھا کہ’’رموز بے خودی‘‘ لکھ کر اس قسم کے اندیشوں کا ازالہ کردوں ۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ اگر بجنوری کا مضمون نہ چھپتا تو ’’رموزِ بے خودی‘‘ لکھی جاتی یا نہ لکھی جاتی، لیکن یہ واقعہ ہے کہ بجنوری کا مضمون پڑھ کر مجھے احساس ہوا کہ ’’رموزِ بے خودی ‘‘ کا لکھا جانا بے حد ضروری ہے۳۶۔ اسی طرح نیاز الدین خان کے نام ایک خط محررہ ۲۷ جون ۱۹۱۷ء میں ’’رموزِ بے خودی ‘‘ کے موضوع پر اقبال نے تحریر کیا : جہاں تک مجھے معلوم ہے ، ملّتِ اسلامیہ کا فلسفہ اس صورت میں اس سے پہلے کبھی اسلامی جماعت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا ۔ نئے اسکول کے مسلمانوں کو معلوم ہو گا کہ یورپ جس قومیّت پر ناز کرتا ہے ، وہ محض بو دے اور سست تاروں کا بنا ہوا ایک ضعیف چیتھڑا ہے ۔ قومیّت کے اصول حَقّہ صرف اسلام نے ہی بتائے ہیں جن کی پختگی اور پائیداری مرورایّام و اعصار سے متاثر نہیں ہو سکتی ۳۷ ۔ ’’رموزِ بے خودی‘‘ کا ایک نسخہ اقبال نے نظام حیدر آباد دکن کو بھی بھیجا اور اس نسخے کے ساتھ ایک فارسی نظم ’’خطاب بہ تاجدارِ دکن ‘‘ارسال کی ۔ اصل میں ۱۹۱۸ء میں جب نظام علی گڑھ گئے تو سیکرٹری کالج نے اقبال کو تار دیا کہ ان کے خیر مقدم کے لیے چند اشعار علی گڑھ آ کر پڑھیں ۔ اقبال بوجہ علالت علی گڑھ تو نہ جا سکے لیکن چند ہفتوں بعد ’’رموزِ بے خودی‘‘ کے نسخے کے ساتھ یہ نظم نظام کو بھیج دی۳۸ ۔ ۱۹۱۸ء میں جنگِ عظیم کے اختتام سے چند ماہ قبل پنجاب کے بعض علاقوں میں ایک مخصوص قسم کے انفلوئنزا کی وبا پھوٹ پڑی ۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہ اس مرض کا علاج کیا ہے پھر دوائوں کا بھی قحط تھا ، جو دوائیں موجود تھیں ، اس عارضے کا مقابلہ کرنے سے قاصر تھیں ۔ یہاں تک کہ ڈاکٹر خود علاج کرتے کرتے مرض کا شکار ہو جاتے تھے ۔ لاہور میں تقریباً ڈھائی سو اموات روزانہ ہوتی تھیں اور اس تعداد میں کمی کی کوئی صورت نظر نہ آ رہی تھی ۔ مردوں کو دفنانے کے لیے گورکن ملنے مشکل ہو گئے تھے ۔ یہی حال امرتسر کا تھا ۳۹۔ انہی ایّام میں اقبال کو اسلامیہ کالج کے ایم ۔ اے فلسفہ کے طلبہ کو دو ماہ کے لیے پڑھانا پڑ گیا۔ فلسفے کے پروفیسر ہیگ چیچک کی بیماری سے دفعتاً انتقال کر گئے اور انجمنِ حمایتِ اسلام نے اقبال سے درخواست کی کہ جب تک کسی نئے پروفیسر کا بندوبست نہیں ہو جاتا ، وہ طلبہ کو پڑھانے کی ذمہ داری قبول کریں ۔ اقبال نے اپنے ایک خط محررہ ۲۸ نومبر ۱۹۱۸ء میں اکبر الٰہ آبادی کو تحریر کیا : یہ لڑکے شام کو ہر روز میرے مکان پر آ جاتے ہیں ، دن میں جو تھوڑی بہت فرصت ملتی ہے، اس میں ان کے لیکچر کے لیے کتب دیکھتا ہوں ، لیکچر کیا ہیں ، انسان کی ذہنی مایوسیوں اور ناکامیوں کا افسانہ ہے جسے عرف عام میں تاریخ فلسفہ کہتے ہیں ۔ ابھی کل شام ہی ان کو آپ کا یہ شعر سنا رہا تھا : میں طاقت ذہن غیر محدود جانتا تھا ، خبر نہیں تھی کہ ہوش مجھ کو ملا ہے تُل کر ، نظر بھی مجھ کو ملی ہے نپ کے ۔۔۔۔۔ بہرحال ان لیکچروں کے بہانے سے ان لڑکوں کے کان میں کوئی نہ کوئی مذہبی نکتہ ڈالنے کا موقع مل جاتا ہے ۴۰ ۔ ۱۱ نومبر ۱۹۱۸ء کو جنگِ عظیم ختم ہوئی ۔ اس کے تقریباً ایک ماہ بعد سرمائیکل اوڈ وائر گورنر پنجاب نے بریڈلا ہال لاہور میں جشن فتح کے لیے ایک بہت بڑے جلسے کا اہتمام کیا ، جس میں نواب سر ذوالفقار علی خان کے ساتھ اقبال بھی شریک ہوئے اور گورنر کی فرمائش پر چند فارسی اشعار بھی پڑھ کر سنائے ۴۱ ۔ اس دور میں اقبال کے کئی تصنیفی عزائم تھے ، جن کی تکمیل کبھی نہ ہو سکی ۔ فقۂ اسلام پر انگریزی کتاب لکھنے کا ارادہ تو آخر وقت تک رہا ۔ ’’مثنوی اسرار و رموز‘‘ لکھنے کا سلسلہ بھی بہت پیچھے تک جاتا ہے۔ اقبال لاہور میں دسمبر ۱۸۹۸ء کے قانون کے ابتدائی امتحان میں کامیاب نہ ہوئے تھے اور انہیں ۱۹۰۰ء کے قانون کے امتحان میں لااسکول کی کلاسوں میں شریک ہوئے بغیر بیٹھنے کی اجازت نہ ملی ۔ اس لیے ظاہر ہے کہ اعلیٰ تعلیم کی خاطر انگلستان جانے کا اصل مقصد تو لندن میں علم قانون کی تحصیل تھا جو اس زمانے میں دنیا دارانہ زندگی میں ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے ضروری سمجھا جاتا تھا ؛ مگر آرنلڈ سے وابستگی نے ان میں تحقیق کے لیے جو تجسس پیدا کر دیا تھا ، اس کے سبب فلسفے میں پی ۔ ایچ ڈی کی ڈگری لینے کی خواہش ان کے دل میں ابتداء ہی سے پیدا ہو چکی تھی ۔ جہاں تک تحقیق کے لیے موضوع کا تعلق ہے، اقبال ابتدائی تربیت اور خاندانی رجحان کے زیر اثر بلاشبہ وجودی یا بقول ان کے عجمی تصوف کی طرف مائل تھے ۔ اس لیے تحقیق کے لیے موضوع ’’ایران میں فلسفہ مابعد الطبیعیات کا ارتقا‘‘انتخاب کیا۔ اس زمانے میں اقبال نے خواجہ حسن نظامی کی وساطت سے شاہ سلیمان پھلواروی سے تصوف کے بارے میں چند بنیادی سوال پوچھے ۔ مثلاً قرآنِ مجید میں تصوف سے متعلق صریحاً جو آیات ہیں ، ان کا پتا دیں ۔ وحدت الوجود کا مسئلہ کن آیات سے اخذ کیا جا سکتا ہے ۔ تاریخی اعتبار سے اسلام اور تصوف کا کیا رشتہ ہے ؟ کیا حضرت علیؓ کو کوئی پوشیدہ تعلیم دی گئی تھی ؟ وغیرہ ، اور شاہ سلیمان پھلواروی نے انہیں جو ابات بھی بھجوائے ، جنہیں اقبال نے اپنے مقالے میں تصوف کے باب میں استعمال کیا ۔ اقبال نے کیمبرج پہنچتے ہی تحقیق کا کام شروع کر دیا تھا اور جون ۱۹۰۷ء یعنی تقریباً ڈیڑھ یا پونے دو سال میں تحقیقی مقالہ مکمل کر کے میونخ یونیورسٹی بھیج دیا ۔ یہ تحقیقی مقالہ پہلی بار ۱۹۰۸ء میں لندن سے شائع ہوا ؛ مگر اس وقت تک اقبال کے نظریات میں تغیر آنا شروع ہو چکا تھا ۔ اسی سبب انہوں نے مقالہ کو ناقص پا کر اسے دوبارہ شائع کرنے کی ضرورت کبھی محسوس نہ کی ۔ ۱۹۳۶ء میں اقبال کی زندگی ہی میں اس مقالے کا اردو ترجمہ بعنوان ’’فلسفۂ عجم ‘‘ میر حسن الدین نے حیدر آباد دکن میں کیا ۔ اقبال نے انہیں ترجمے کی اشاعت کی اجازت دیتے ہوئے تحریر فرمایا : یہ کتاب اس سے اٹھارہ سال پہلے لکھی گئی تھی ۔ اس وقت سے نئے امور کا انکشاف ہوا ہے اور خودمیرے خیالات میں بھی بہت سا انقلاب آ چکا ہے ۔جرمن زبان میں غزالی ، طوسی وغیرہ پر علیٰحدہ کتابیں لکھی گئی ہیں ، جو میری تحریر کے وقت موجود نہ تھیں ۔ میرے خیال میں اب اس کتاب کا صرف تھوڑا سا حصہ باقی ہے جو تنقید کی زد سے بچ سکے ۴۲ ۔ مقالے کو بعد میں انہوں نے ناقص اس لیے پایا کہ اس میں تحریر کردہ بعض نتائجِ فکر غلط تھے۔ مثلاً غلطی سے جلال الدین رومی کو بھی وجودی مکتبہ فکر کا ترجمان تصور کر لیا گیا ۔ اسی طرح منصور حلاج کے متعلق تحریر تھا کہ وہ وحدت الوجودی تھے اور ایک سچے ہندو ویدانتی کی طرح انہوں نے اناالحق (اہم برہما اسمی) کہا تھا ۴۳ ۔ جلال الدین رومی کی مثنوی کے عمیق مطالعے کے بعد اقبال کا نظریہ ان کے بارے میں تبدیل ہو گیا ۔ اسی طرح جب فرانس میں میسنیاں نے اپنے تشریحی نوٹوں کے ساتھ ’’ کتاب الطواسین ‘‘ شائع کی ، تو منصور حلاج کے متعلق بھی اقبال کو اپنا نظریہ بدلنا پڑا ۔ ژند سے نا واقف ہونے کے سبب زرتشتی نظریات کو بھی وہ صحیح طور نہ سمجھ سکے تھے اور بعد میں جب مولانا سید میر حسن کی مدد سے پہلوی زبان میں چند قدیم مجوسی تحریروں کا مطالعہ کیا تو مقالہ کا حصہ اوّل یعنی قبل از اسلام فلسفۂ ایران کو غیر تسلی بخش قرار دیا ۔ تاہم مقالے میں تصوف کے مآخذ اور قرآن سے اس کے جواز کے بارے میں اقبال نے صوفیوں کے دعوے کا ذکر کیا ہے اور اس سلسلے میں اپنی رائے کا اظہار وہ یوں کرتے ہیں: میں اجمالی طور پر یہ بتائوں گا کہ صوفی مصنفین اپنے اپنے خیالات کو قرآن کے نقطۂ نظر سے کس طرح جائز قرار دیتے ہیں ۔ یہ ثابت کرنے کے لیے کوئی تاریخی شہادت موجود نہیں ہے کہ پیغمبرؐ عرب نے فی الواقعی حضرت علی ؓ یا حضرت ابوبکر ؓ کو کوئی باطنی علم سکھایا تھا ۔ بہرصورت صوفیہ کا یہ دعویٰ ہے کہ پیغمبر علیہ السلام نے قرآن کی تعلیم کے ماسوا ایک باطنی تعلیم (حکمت) بھی دی تھی ۔ اس دعویٰ کی تائید میں وہ قرآن سورۃ البقرہ آیت ۱۴۶ پیش کرتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ قرآن وحدیث صحیحہ میں صوفیانہ نظریے کی طرف اشارات موجود تھے لیکن وہ عربوں کی خالص علمی ذہانت کی وجہ سے نشو ونما پا کر بار آور نہ ہو سکے ۔ جب ان کو ممالک غیر میں موزوں حالات میسر آ گئے تو وہ ایک جداگانہ نظریہ کی صورت میں جلوہ گر ہوئے ۔ قرآن نے ایک مسلم کی تعریف کی ہے (کہ وہ غیب پر ایمان رکھتا ہے ، سورہ البقرہ آیت ۲) لیکن اس غیب کے متعلق کیا اور کیوں جیسے سوالات پیدا ہوتے ہیں ، ا س کا قرآن نے جواب دیا ہے کہ غیب تمہاری ہی روح کے اندر ہے (سورۃ الذاریات آیت ۲۰،۲۱اور سورۃ ق آیت ۱۵) اسی طرح قرآن کی تعلیم ہے کہ اس غیب کی اصل ماہیت خالص نور ہے (سورہ النور آیت ۳۵) اس سوال کے متعلق کہ آیا نور اولیٰ شخصی ہے ۔ قرآن نے شخصیت کے تصور کو مختلف عبارتوں میں پیش کرنے کے باوجود مختصر الفاظ میں یہ جواب دیا ہے کہ لیس کمثلہٖ شییئُٗ (سورۃ الشوریٰ آیت ۹)یہ چند آیات ہیں جن کی بنا پر صوفی مفسرین نے کائنات کے ایک وحدت الوجودی نقطۂ نظر کو نمو دیا ہے ۴۴۔ پس ظاہر ہے کہ اگر اقبال نے وجودی تصوف سے انحراف کیا یا اس سلسلے میں ان کے خیالات میں تغیر کی کیفیت پیدا ہوئی تو تحقیقی مقالہ تحریر کرتے وقت ہوئی ۔ عبدالمجید سالک تحریر کرتے ہیں: پی ۔ ایچ ڈی کے مقالے کے لیے مطالعہ و تحقیق کے دوران ان پر یہ انکشاف ہواکہ مروجہ تصوف کے اکثر پہلو اسلام سے کوئی تعلق نہیں رکھتے، بلکہ اس سے مغایر ہیں ۔ اس زمانہ کے چند سال بعد جب لاہور میں راقم الحروف اقبال سے ملا تو ایک صحبت میں انہوں نے بڑے شد و مد سے فرمایا کہ میں نے شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کی’’ فصوص الحکم‘‘ اور شیخ شہاب الدین سہروردی کی ’’حکمت الاشراق‘‘ کوئی دس دس دفعہ بالاستیعاب اور نہایت غور و خوض سے پڑھی ہیں ۔ ان بزرگوں کے علم و ذوق میں کوئی کلام نہیں، لیکن ان کتابوں کے اکثر مندرجات کو اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔ کم از کم میں انہیں عقائد و تعلیماتِ اسلام سے تطابق نہیں دے سکتا ۴۵ ‘‘۔ راقم کی رائے میں ۱۹۰۷ء کے وسط میں تحقیقی مقالہ میونخ بھیج چکنے کے تھوڑے عرصے بعد جب اقبال ابھی کیمبرج ہی میں مقیم تھے کہ قلبی اور مذہبی انقلاب سے گزرے جس کے زیر اثر انہوں نے نہ صرف ملوکیّت ، استعمار اور وطنی قومیّت کو رد کر دیا ، بلکہ اپنی تحقیق کی روشنی میں وجودی تصوف سے بھی منحرف ہو گئے ۔ وجودی تصوف سے انحراف کی وجہ کیا تھی ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ گو اقبال یورپی تمدن کے بیشتر پہلوئوں سے مایوس تھے لیکن چند مثبت پہلو ایسے ضرور تھے جنہوں نے ان پر گہرا اثر چھوڑا۔ وہ یورپ میں فلسفے کی تدوینِ نو ، علومِ جدیدہ کی ترقی ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں تجسس، مشاہدہ اور تحقیق کے عمل پیہم سے یقینا متاثر تھے ۔ ان کی نگاہ میں مغرب جس اعتبار سے بیدار تھا، مشرق اسی اعتبار سے محوِ خواب تھا ۔ اس مرحلے پر ان کے ذہن میں یہ سوال اٹھا کہ مسلمانوں کے انحطاط کا اصل سبب کیا ہے ؟ اور غور و فکر کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ وجودی تصوف کے سحر ہی نے ان کی قوتِ عمل کو شل کر کے رکھ دیا ہے ۔ اس کی تائید اکرام الحق سلیم کے بیان سے بھی ہوتی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ اقبال ابھی کیمبرج ہی میں تھے کہ ایک دن کسی انگریزی رسالے کے لیے اسلامی سیاست پر مضمون لکھنا شروع کیا ۔ یکا یک ان کے دل میں سوال پیدا ہوا کہ مسلمانوں کے زوال کا نفسیاتی محرک کیا تھا ؟ اس سوال کے جواب کے لیے انہوں نے بہت سی کتابیں دیکھ ڈالیں لیکن تسلی نہ ہوئی ۴۶ ۔ اسی لمحے سے وہ مسلمانوں کے وجوہ تنزل پر غور کرنے لگے اور اسی زمانے میں انہوں نے حقیقی اسلامیت کی بیداری کے لیے ایک نظام فکر ترتیب دینے کا کام شروع کر دیا ۔ اقبال کا اپنا بیان ہے کہ ۱۹۰۸ء میںجب وہ انگلستان سے واپس آئے تو ان کے دل میں کشمکش جاری تھی ۔ وہ اپنی ادبیات میں روح پیدا کرنے کی غرض سے کوئی نیا سرمایہ حیات فراہم کرنا چاہتے تھے اور بالآخر ۱۹۱۰ء میں انہوں نے فیصلہ کیا کہ اپنے خیالات ظاہر کر دینے جاہئیں اور انہی خیالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انہوں نے مثنوی ’’اسرارِ خودی‘‘ لکھنا شروع کی۔ اقبال کی تحریروں سے یہ بھی واضح ہے کہ اپنے والد کی فرمائش پر بو علی قلندر کی مثنوی کی طرز پر ایک مثنوی لکھنا چاہتے تھے ۔ بوعلی قلندر سے تین مثنویاں منسوب ہیں۔ پہلی ’’مخزنِ معنوی‘‘ ہے ،دوسری ’’کلام قلندری‘‘ کہلاتی ہے اور تیسری کا کوئی نام نہیں ، اور اسے صرف مثنوی بوعلی قلندر قرار دیا گیا ہے۔ غلام رسول مہر فرماتے ہیں کہ ممکن ہے اقبال اور ان کے والد کے پیش نظر یہی آخری مثنوی ہو ، اور طرز سے مقصود صرف بحر ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ ابتداء میں مختصر مثنوی لکھنے کا خیال ہو ، لیکن جب موضوع پر غور و فکر کا سلسلہ شروع ہوا تو مزید مطالب سامنے آئے اور مثنوی کو پھیلانا پڑا ، یہاں تک کہ وہ اس کے تین حصے لکھنا چاہتے تھے مگر صرف دو لکھ سکے ۔ اس وقت رومی ان کے سامنے آئے اور ان کی مثنوی سے انتساب مناسب سمجھا گیا ۔ نیز رومی مختلف مرحلوں میں ان کی فکری اور روحانی رہبری کرتے رہے ۔ پس غلام رسول مہر کی رائے میں حقیقی اسلامیت کی بیداری کے لیے نظام فکر کی ترتیب نے ان کے ذہن میں مختلف شکلیں اختیار کیں ۔ شروع میں اس کی حیثیت کچھ تھی ۔ پھر نئے نئے پہلو سامنے آتے رہے ، حتیٰ کہ دو مثنویوں کا خاکہ ان کے ذہن میں مکمل ہو گیا ۔ ایک کا تعلق حیات فرد سے تھا اور اس کا نام ’’اسرارِ خودی‘‘ رکھا ،دوسری کا تعلق حیات ملت سے تھا ، الہٰذا اسے ’’رموزِ بے خودی ‘‘ سے موسوم کیا گیا ۴۷،لیکن تیسری کو، جس کا موضوع حیات مستقبلۂ اسلامیہ تھا ، ضبطِ تحریر میں نہ آ سکی ۔ ۱۹۱۶ء میں انہوں نے تاریخ تصوف لکھنا شروع کی ، مگر مطلب کا مسالہ نہ ملنے کے سبب وہ صرف دو ایک باب ہی لکھ کر رہ گئے ۴۸ ۔ اسی طرح ۱۹۱۹ء میں رامائن کو اردو قالب میں ڈھالنے کا قصد کیا اور مہاراجہ کشن پرشاد کو لکھا کہ سعد اللہ مسیحا پانی پتی نے رامائن کے قصے کو فارسی میں نظم کیا تھا ، لیکن وہ مثنوی، اقبال کو کہیں سے دستیاب نہیں ہو سکی، اس لیے اگر ان کے کتب خانے میں موجود ہے توچند روز کے لیے عاریتاًارسال کی جائے ۴۹ ۔ مہاراجہ کشن پرشاد کے کتب خانے میں متذکرہ مثنوی موجود نہ تھی ، اس لیے یہ ارادہ تشنہ تکمیل رہا ۔ پھر ۱۹۲۱ء میں بھگوت گیتا کا اردو ترجمہ کرنے کا خیال آیا اور مہاراجہ کشن پرشاد کو تحریر کیا : سرکار نے میرا ترجمہ گایتری پسند فرمایا (بانگِ درا کی نظم ’’آفتاب‘‘ ) میرے لیے یہ بات سرمایۂ فخر و امتیاز ہے ۔افسوس کہ سنسکرت الفاظ کی موسیقیت اردو زبان میں منتقل نہیں ہو سکتی۔ بہرحال غالباً اصل کا مفہوم اس میں آگیا ہے ۔ زمانے نے مساعدت کی تو گیتا کا اردو ترجمہ کرنے کا قصد ہے ۔ فیضی کا فارسی ترجمہ تو حضور کی نظر سے ضرور گزرا ہو گا۔ فیضی کے کمال میں کس کو شک ہے ، مگر اس ترجمہ میں اس نے گیتا کے مضامین اور اس کے انداز بیان کے ساتھ بالکل انصاف نہیں کیا بلکہ میرا تو یقین ہے کہ فیضی گیتا کی روح سے نا آشنا رہا ۵۰ ۔ اسی طرح ۱۹۲۵ء میں انگریزی میں ایک کتاب بعنوان ’’اسلام میرے نقطۂ نظر سے ‘‘ کا ارادہ کیا اور اس سلسلے میں صوفی غلام مصطفی تبسم کو تحریر کیا : کچھ مدت ہوئی ، میں نے اجتہاد پر ایک مضمون لکھا تھا مگر دوران تحریر میں اس کا احساس ہوا کہ یہ مضمون اس قدر آسان نہیں جیسے میں نے اسے ابتدا میں تصور کیا تھا ۔ اس پر تفصیل سے بحث کرنے کی ضرورت ہے ، موجودہ صورت میں وہ مضمون اس قابل نہیں کہ لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں ، کیونکہ بہت سی باتیں جن کو مفصل لکھنے کی ضرورت ہے، اس مضمون میں نہایت مختصر طور پر محض اشارۃً بیان کی گئی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اسے آج تک شائع نہیں کیا ۔ اب میں ان شاء اللہ اسے ایک (انگریزی) کتاب کی صورت میں منتقل کرنے کی کوشش کرونگا، جس کا عنوان ہو گا ، اسلام میرے نقطۂ نظر سے اس عنوان سے مقصود یہ ہے کہ کتاب کا مضمون میری ذاتی رائے تصور کیا جائے ، جو ممکن ہے غلط ہو ۔ اس کے علاوہ ایک اور بات یہ بھی ہے کہ میری عمر زیادہ تر مغربی فلسفہ کے مطالعہ میں گزری ہے اور یہ نکتۂ خیال ایک حد تک طبیعت ثانیہ بن گیا ہے ۔ دانستہ یا نا دانستہ میں اسی نقطۂ نگاہ سے حقائقِ اسلام کا مطالعہ کرتا ہوں اورمجھے بارہا اس کا تجربہ ہوا ہے کہ اردو میں گفتگو کرتے ہوئے میں اپنے مافی الضمیر کو اچھی طرح ادا نہیں کر سکتا۵۱۔ اقبال اپنے تصنیفی عزائم کو عملی جامہ کیوں نہ پہنا سکے ؟ اس کی دو وجوہ تھیں ۔ پہلی یہ کہ انہیں فکرِ معاش سے نجات نہ ملتی تھی اور دوسری یہ کہ تلاش معاش میں ان کا بیشتر وقت صرف ہو جاتا اور تحقیق یا پڑھنے لکھنے کی فرصت نہ ملتی تھی ۔ اقبال کے گوشوارئہ آمدنی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ۱۹۱۶ء سے پیشتر ان کی آمدنی ناقابلِ ٹیکس تھی ۔ ان کی فائل میں آمدنی کا سب سے پہلا گوشوارہ انکم ٹیکس سال ۱۸۔ ۱۹۱۷ء سے متعلق ہے ۔ جس میں مالی سال ۱۷۔ ۱۹۱۶ء کی آمدنی کی تشخیص کی گئی ۔ متذکرہ سال میں ان کی آمدنی تین ہزار چھ سو چودہ روپے تشخیص ہوئی ، جس پر ان کو چورانوے روپے انکم ٹیکس لگا ۔ اس زمانے میں ابھی کتابوں سے آمدنی شروع نہ ہوئی تھی ۔ آمدنی کے ذرائع پیشہ وکالت اور مختلف یونیورسٹیوں کے لیے پرچے بنانا تھے ۔ آئندہ آٹھ برسوں میں آمدنی کا گوشوارہ یہ تھا : مالی سال آمدنی ٹیکس ۱۸۔۱۹۱۷ئ ۴۲۲۵ روپے ۱۱۰ روپے ۱۹۔ ۱۹۱۸ئ ۴۱۸۳ روپے ۱۰۷ روپے ۲۰۔ ۱۹۱۹ء ۱۱۶۸۹ روپے ۵۴۸ روپے ۲۱ ۔ ۱۹۲۰ء ۸۶۸۹ ۲۷۱ روپے۸آنے ۲۲ ۔ ۱۹۲۱ء ۱۰۰۸۴ روپے ۵۲۳ روپے اس سال اسرار و رموز کی رائلٹی انہیں پہلی بار ملی جو ۳۲ روپے تھی ۔ ۲۳۔۱۹۲۲ء ۷۱۹۲ روپے ۲۲۴ روپے ۲۴ ۔ ۱۹۲۳ئ ۱۳۶۰۸ روپے ۶۳۷ روپے ۲۵ ۔ ۱۹۲۴ء ۱۳۷۰۲ روپے ۶۴۲ روپے۵۲ صفدر محمود اپنے مضمون ’’علامہ اقبال کا گوشوارئہ آمدنی ‘‘ (انکم ٹیکس کے ریکارڈکی روشنی میں) تحریر کرتے ہیں اس آمدنی کے علاوہ ان برسوں کے گوشواروں سے کچھ اور دلچسپ چیزیں بھی سامنے آتی ہیں ۔ مثلاً یہ کہ مالی سال ۲۳ ۔ ۱۹۲۲ء میں علامہ اقبال نے اپنی آمدنی میں ۱۴۵ روپے سود بھی لکھا ۔ اس سود کی نوعیت جانے کیا ہے ، کیونکر اسے واضح طور پر بیان نہیں کیا گیا ۔ تحقیق کرنے پر کئی بزرگوں نے صرف اتنا بتایا کہ اس دور میں بینکوں کے اکائونٹ پر سود ملتا تھا ، جو آج کل بھی ملتا ہے ۔ البتہ قانون کے مطابق جو بنکوں سے سود وصول نہیں کیا جاتا تھا ، حکومت اس رقم سے مشنری اداروں اور عیسائیت کے پرچار کا کام لیتی تھی ۔ اس لیے بہت سے لوگ اس صورتِ حال سے بچنے کے لیے سود وصول کر لیتے تھے اور غربا میں تقسیم کر دیتے تھے ۔ بہرحال علامہ اقبال کے ضمن میں صحیح بات کا علم نہیں ہو سکا ۔ ان سالوں میں کار، پٹرول اور ڈرائیور کا ذکر پہلی بار مالی سال ۲۵۔۱۹۲۴ء کے گوشوارے میں آتا ہے ۔ گویا علامہ اقبال کی مالی حالت نے انہیں اجازت دے دی تھی کہ وہ ۱۹۲۴ء میں کار خرید لیں ۔۔۔۔ سب سے پہلے صرف ’’بانگِ درا‘‘ سے مالی سال ۲۵۔۱۹۲۴ء میں ۵۵۰۰ روپے آمدنی ہوئی اور اسی سال علامہ اقبال نے کار بھی خریدی ۵۳ ۔ صفدر محمود کے اندازے کے مطابق آج کے روپے کی قیمت سامنے رکھتے ہوئے متذکرہ سالوں میں اقبال کی آمدنی آج کل کی آمدنی سے کم از کم آٹھ گنا تھی اور اس حساب سے ان کی سالانہ آمدنی خاصی معقول تھی ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آمدنی پیدا کرنے کے لیے جو تگ و دو اقبال کو پیشہ وکالت اور مختلف یونیورسٹیوں کے پرچے بنانے یا دیکھنے میں کرنی پڑتی ، اس پر ان کا کتنا وقت صرف ہوتا تھا اور انہیں لٹریری امور کی طرف توجہ دینے کے لیے کس قدر فرصت ملتی تھی ؟ اس کے علاوہ اقبال پر اخراجات کا بوجھ کس نوعیت کا تھا ؟ وکالت چلانے کی خاطر ان کے لیے اپنا معاشی سٹیٹس برقرار رکھنا بھی ضروری تھا ۔ دو بیویاں اور اولاد رکھتے تھے ۔ تیسری بیوی کو ، جس سے علیحدگی ہو چکی تھی ، ایک مقررہ رقم ہر مہینے بھیجتے تھے۔ بڑے بھائی کی ریٹائرمنٹ پر، جنہوں نے اپنی ملازمت کا اندوختہ ان کی تعلیم پر خرچ کر دیا ، ان کی اولاد کے اخراجات کچھ حد تک برداشت کرتے تھے اور ماں باپ کو بھی ایک معقول رقم ہر ماہ ارسال کرتے تھے ۔ ان حالات میں ان کے لیے اپنے تمام تصنیفی عزائم کو عملی جامہ پہنانا واقعی مشکل تھا اور غالباً فکر معاش سے نجات حاصل کرنے یا اپنی توجہ زیادہ تر لٹریری مشاغل کی طرف مبذول کرنے کی خاطر ان کی نگاہیں بار بار حیدر آباد دکن کی طرف اٹھتی تھیں ۔ اقبال دو مرتبہ حیدر آباد گئے ۔ پہلی بار ۱۹۱۰ء میں اور دوسری بار ۱۹۲۹ء میں ۔ لیکن سید عبدالواحد معینی کا خیال ہے کہ انہوں نے ۱۹۲۰ء یا ۱۹۲۱ء میں بھی حیدر آباد کا سفر کیا تھا اور اس سفر کا ذکر احمد محی الدین رضوی چیف سیکرٹری حکومت نظام اور نواب فضل نواز جنگ صدر المہام مالگذاری نے معینی صاحب کے سامنے بڑے وثوق کے ساتھ کیا تھا ۔ بہرحال وہ تحریر کرتے ہیں کہ اس سفر کے دوران اقبال کس کے مہمان رہے اور کن کن اصحاب سے ملاقاتیں کیں ، اس کے متعلق انہیں معلومات فراہم نہیں ہو سکیں ۔ پھر خود ہی بیان کرتے ہیں کہ یہ امر قابل ذکر ہے کہ بعض احباب کو اس میں شبہ ہے کہ اقبال ۱۹۲۰ء یا ۱۹۲۱ء میں واقعی حیدر آباد گئے تھے یا نہیں ۵۴ ۔ اقبال کے اس سفرِ حیدر آباد کے متعلق راقم کو کسی قسم کا کوئی تحریری ثبوت نہیں مل سکا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سر سید علی امام ریاست کے وزیر اعظم تھے اور سر اکبر حیدری اور مہاراجہ کشن پرشاد بھی حیدر آباد ہی میں موجود تھے ۔ خیر ہمیں اس بحث سے کوئی سرو کار نہیں کہ اقبال اپنی زندگی میں دو ہی بار حیدر آباد گئے یا تین بار ۔ حیاتِ اقبال کے چند پہلو جرمن شاعر گوئٹے کی زندگی سے مشابہت رکھتے ہیں ۔مثلاً گوئٹے نے اقبال کی طرح قانون کا امتحان پاس کیا اور دنیا دارانہ زندگی میں بڑھنے کے لیے فرینک فورٹ کے شہر میں پریکٹس شروع کی ۔ لیکن گوئٹے پریکٹس سے بیزار تھا اور اسے ثانوی حیثیت دینا چاہتا تھا ۔ وہ اپنے لٹریری مشاغل جاری رکھنے کے لیے کسی سرپرست کی تلاش میں سرگرداں رہا ۔ بالآخر ۱۷۷۵ء میں اسے ڈیوک کارل آگسٹ نے اپنی ریاست ویمر میں تعلیمی مشیر مقرر کر دیا اور یوں گوئٹے نے بقیہ زندگی ریاست ویمر ہی میں بسر کی ، جہاں فکر معاش سے آزاد ہو کر اسے ریاست کے امور کی دیکھ بھال کے علاوہ اپنے لٹریری مقاصد کی تکمیل کے لیے خاصی فرصت مل جاتی تھی ۔ معلوم ہوتا ہے ، اقبال بھی پیشہ وکالت میں جو تگ و دو کرنی پڑتی ہے ، اس سے بیزار تھے اور نظام حیدر آباد کی سر پرستی میں فکرِ معاش سے نجات حاصل کر کے اپنے لٹریری مقاصد کی تکمیل کے لیے فرصت کے آرزو مند تھے ۔ اسی سبب انہیں جب بھی موقع ملتا تھا حیدر آباد کے لیے اپنی خدمات پیش کرتے تھے ۔ مثلاً اپنے ایک خط محررہ ۲۸ دسمبر ۱۹۲۶ء بنامِ مہاراجہ کشن پرشاد میں تحریر کرتے ہیں : اگر سرکار کے اثر و رسوخ کی وجہ سے چیمبر آف پرنسنر ہندوستانی رئوسا اور سرکار انگریزی کے تعلقات کے مسئلہ کو اپنا سوال بنا لے تو حیرت انگیز نتائج پیدا ہونے کی توقع ہے ۔ رائل کمیشن ہندوستان میں عنقریب آنے والی ہے ۔ اس مسئلہ کی چھان بین کے لیے بین الاقوامی قانون جاننے والوں کی ایک جماعت تیار کرنی چاہیے جو کمیشن کے سامنے شہادت دینے والوں کو اس مسئلہ کے مالہٗ و ماعلیہ میں پورے طور پر تیار کرے۔ اگر اس مسئلے میں اقبال کی ضرورت ہو تو وہ بھی اپنی بساط کے مطابق حاضر ہے۔ ان شاء اللہ سرکار والا اسے خدمت میں قاصر نہ پائیں گے ۔ مگر یہ مسئلہ نہایت ضروری ہے ۔ اس کی طرف فوری توجہ ہونا چاہیے اور اس کے حل کا طریق بھی یہی ہے جو میں نے اوپر عرض کیا ۔ برار کے متعلق جو طریق اختیار کیا گیا تھا ، میری ناقص رائے میں یہ صحیح نہ تھا۔ بعد میں ۱۹۳۱ء میں جب اقبال دوسری گول میز کانفرنس میں شریک ہونے کے لیے انگلستان گئے تو بھی حیدر آباد کے امور میں انہوں نے خاص طور پر دلچسپی لی ۔ بقول بہادر یار جنگ ، وہ کانفرنس کے دوران نجی طور پر وزیرِ ہند اور انگلستان کے دیگر مدبرین سے حیدر آباد کی آئینی پوزیشن کے متعلق بات چیت کرتے رہے اور انہیں دلائل سے قائل کر لیا کہ حیدر آباد کو اس کے مفوضہ علاقوں کی واپسی کے ساتھ ڈومینین اسٹیٹس کا درجہ دیا جانا چاہیے تاکہ وہ اپنی آزاد حیثیت میں کامن ویلتھ کی تقویت کا باعث بن سکے ۔ مگر وفد حیدر آباد کے سربراہ سر اکبر حیدری نے اس کی مخالفت اس بنا پر کی کہ ایسے اقدام سے ہندو جماعتیں ایجی ٹیشن کریں گی اور ممکن ہے دوسری ریاستیں بھی ایسے ہی مطالبات پیش کر دیں ، لہٰذا یہ تجویز مسترد کر دی گئی ۵۶ ۔ اس کی تائید عظیم حسین کے بیان سے بھی ہوتی ہے۔وہ تحریر کرتے ہیں ،ہر چند کہ ان کے والد سر فضل حسین نے وائسرائے کو خاص طور پر کہہ کر اقبال کو دوسری گول میزکانفرنس میں شریک ہونے کے لیے نامزد کرایا تھا لیکن کانفرنس کے دوران وہ سر اکبر حیدری سے جھگڑ پڑے ۵۷ ۔ بہرحال ان سب باتوں کے باوجود اقبال کی حیدر آباد میں مستقل قیام کی خواہش پوری نہ ہوئی۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اقبال کے سفارشی خط لے کر لوگ حیدر آباد جاتے اور اعلیٰ ملازمتیں یا وظائف حاصل کرلیتے تھے مثلاً جوش ملیح آبادی کے لیے مہاراجہ کشن پرشاد کو تحریر کیا : یہ خط شبیر حسین صاحب جوش ملیح آبادی لکھنوی کی معرفی کے لیے لکھتا ہوں ۔یہ نوجوان نہایت قابل اور ہونہار شاعر ہیں ۔ میں نے ان کی تصانیف کو ہمیشہ دلچسپی سے پڑھا ہے۔ اس خداداد قابلیت کے علاوہ لکھنؤ کے ایک معزز خاندان سے ہیں ، جو اثر و رسوخ کے ساتھ لٹریری شہرت بھی رکھتا ہے مجھے امید ہے کہ سرکار ان کے حال پر نظر عنایت فرمائیں گے اور اگر ان کو کسی امر میں سرکار عالی کے مشورے کی ضرورت ہو گی تو اس سے دریغ نہ فرمائیں گے ۔ سرکار والا کی شرفا پروری کے اعتماد پر اس درخواست کی جرأت کی گئی ہے۵۸۔ مگر حیدر آباد اقبال کی اپنی عملی خدمات سے کیوں محروم رہا ؟ نظر حیدر آبادی لکھتے ہیں : اس سوال کے جواب میں قیاس یہ کہتا ہے کہ باخبر اور ہوش مند انگریز، جس کے ذرائع معلومات بہت وسیع اور پوشیدہ ہوتے تھے اور جس نے حیدر آباد میں واقارالملک ، محسن الملک، ظفر علی خان ، عبدالحلیم شرر اور آخر میں علی امام کو ٹکنے نہ دیا ، وہ حیدر آباد میں اقبال جیسے خطرے کو پروان چڑھتے نہیں دیکھ سکتا تھا ۵۹ ۔ یہ درست ہے کہ حیدر آباد عام ریاستوں سے مختلف ایک خاصی وسیع مملکت تھی اور دیگر دیسی ریاستوں کے نوابوں اور راجائوں کے مقابلے میں نظام کی حیثیت بڑی مہتم بالشان اور مطلق العنان کی تھی، لیکن بعض خاص امور میں نظام ، انگریز ریذیڈنٹ کے مشورے یا اشارے کے بغیر کچھ نہ کر سکتا تھا۔ اقبال کے بارے میں نظر حیدر آبادی کے قیاس کی تصدیق ایک اور ذریعے سے بھی ہوتی ہے ۔ ۱۹۲۹ء میں جب اقبال حیدر آباد میں پہلی بار نواب میر عثمان علی خان آصف سابع کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس ملاقات کے بارے میں نظام نے جو فرمان شاہی جاری کیا ، اس کا محتاط لہجہ توجہ کے قابل ہے : ما را ایں قدر یاد ہست کہ تخمینا عرصۂ ربع صدی گذشتہ است کہ یکبار ایں جا آمدہ بود ، مگر معلوم نیست کہ آیا او از خود بغرضِ سیر و سیاحت آمدہ یا بردعوت کسے یا براے کارِ خاص آمدہ وہم او چونکہ برما کال کردہ بود یعنی نام خودش در کتاب نوشتہ بود حسب عادت مطابق ایٹی کیٹ او را انٹرویو دادہ بودیم و نتیجہ کہ ما از گفتگوئے او اخذ کردیم ایں بود کہ او در نظر ما از معزز طبقہ اہل اسلام آمد و ایں ہم از طرز کلام او برما ہویدا (گشت)؟ کہ او جذبہ خدمتِ قوم و ملّتِ خویش در دل می داشت و ایں ہم ظاہر شد کہ او زبان انگریزی را خوب می دانست و سفر یورپ ہم کردہ بود ۔ بہرحال شمارِ او درمیانِ مشاہیر بیرون ملک بود ۔ زیادہ از احوال او مانا بلدہستیم ۶۰ ۔ اس سلسلے میں سید شکیل احمد نے آندھرا پردیش کے ریاستی دفتر اسناد (اسٹیٹ آرکائیوز) حیدر آباد سے حاصل کردہ اقبال سے متعلق کچھ مواد ’’ اقبال ریویو ‘‘ اقبال اکادمی حیدر آباد کے سہ ماہی رسالے کی خصوصی اشاعت اپریل تا جون ۱۹۸۴ء میں شائع کیا ہے۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاستی حکام بلکہ خود نظام کا اقبال کی طرف زاویۂ نظر کیا تھا ۔ مثلاً جب ۱۹۲۹ء میں عثمانیہ یونیورسٹی کی دعوت پر اقبال لیکچر دینے کی خاطر حیدر آباد پہنچے تو ان کے بیلاوِ سٹاگیسٹ ہائوس (سرکاری مہمان خانہ) میں قیام پر اعتراض کیا گیا بلکہ لیکچر کے لیے ٹائون ہال کے استعمال جیسی معمولی بات کی اجازت بھی نظام نے ہچکچاہٹ کے ساتھ دی ۔ پھر ۱۹۳۲ء میںنواب بھوپال حمید اللہ خان نے نظام کو خط تحریر کیا کہ اقبال کی مالی امداد کے لیے ایک ہزار روپے ماہانہ وظیفہ مقرر کر دیا جائے ۔ اتنی اونچی سفارش کے باوجود حیدر آباد کے حکام اور خود نظام نے یہ درخواست مسترد کر دی اور کہا کہ خود نواب بھوپال یہ وظیفہ کیوں نہیں دے دیتے۔ اسی طرح ۱۹۳۷ء میں اقبال کی علالت کے زمانے میں انہیں مالی امداد دینے سے سیاسی وجوہات کی بنا پر انکار کر دیا گیا۔ اقبال کے بیلاوسٹا گیسٹ ہائوس میں ٹھہرائے جانے پر اعتراض کے بارے میں سید شکیل احمد تحریر کرتے ہیں:۔ علامہ اقبال کو سرکاری دارالاضیاف میں ٹھہرانے کی نسبت محکمۂ عدالت و کوتوالی و امورِ عامہ اور محکمہ سیاست کے درمیان جو کارروائی چلی ہے اس کے بعض دلچسپ و عبرت انگیز پہلو بھی ہیں جن سے اس بات کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ مختلف وجوہات کی بنا پر حکومت سرکارِ عالی کے بعض وزیر اور عہدے دار ڈاکٹر اقبال کو سرکاری مہمان بنانے یا ان کا سرکاری سطح پر استقبال کرنے سے متفق نہیں تھے۔ خود نظام حیدر آباد نے بھی دبے لفظوں میں ’’بلاوسٹہ‘‘ میں ڈاکٹر اقبال کے ٹھہرائے جانے پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے لیکن غالباً مہاراجہ کشن پرشاد کی شخصی دلچسپی کی وجہ یا اس موقع پر اپنی عدم موجودگی کی وجہ سے وہ (یعنی نظام) کچھ زیادہ مداخلت نہیں کر سکے۔ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال کی حیدر آباد آمد کے دن نظام کلکتے میں تھے اس لیے منظوری کی توقع پر یا بادل نخواستہ اقبال کے قیام کا انتظام مہاراجہ کشن پرشاد کے حکم پر بیلاوسٹا گیسٹ ہائوس میں کر دیا گیا ۔ البتہ نظام کی واپسی پر جب ان کی خدمت میں یہ عرضداشت پیش کی گئی تو انہوں نے جو فرمان جاری کیا ، اس کا لب و لہجہ ملاحظہ ہو : بجز معزز اشخاص کے ’’بلاوسٹہ‘‘ میں کسی کو نہ ٹھہرایا جائے ۔ اس کی اجازت صدرِ اعظم کو دی جاتی ہے جو ان کے صوابدید پر چھوڑا گیا ہے ۔ رہا معمولی حیثیت کے اشخاص ، وہ دوسرے گیسٹ ہائوس میں ٹھہرائے جا سکتے ہیں۔ اقبال کے قیامِ حیدر آباد کا مسئلہ حل ہو جانے کے بعد ان کے لیکچر کے لیے ٹائون ہال کے استعمال کی اجازت کے لیے بھی تحریری عرضداشت صدرِ اعظم کی جانب سے نظام کی خدمت میں گزاری گئی اور غالباً ٹیلی فون پر ان کی زبانی منظوری کے بعد ہی اقبال کے لیکچر ہوئے ۔ اسی طرح ۷ جنوری ۱۹۳۸ء کو اقبال کی زندگی میں یومِ اقبال منانے کے لیے جب مسلم کلچر سوسائٹی نے نظام سے ٹائون ہال کے استعمال کی اجازت مانگی تو نظام نے یہ فرمان جاری کیا: اس وقت اجازت دی جاتی ہے، مگر آئندہ سے ٹائون ہال کے استعمال کی اجازت خاص حالات کے تحت دی جائے گی نہ کہ ایسے ویسے کام کے لیے۔ یہ حقیقت ہے کہ اقبال نے شخصی طور پر اپنے لیے کبھی کسی سے کوئی امداد نہیں چاہی ۔ البتہ ان کے دوستوں اور مداحوں کا ایک حلقہ ضرور ان کی مالی امداد کے لیے کوشاں رہا ۔ جس میں بوجوہ کامیابی نہیں ہوئی ۔ نظام سے اقبال کی مالی امداد کے سلسلے میں نواب بھوپال کی تحریک کے بارے میں سید شکیل احمد تحریر کرتے ہیں کہ نواب بھوپال کا ایک انگریزی خط مورخہ ۴ مئی ۱۹۳۲ء بنام نظام ریکارڈ پر موجود ہے ۔ اس خط میں نظام کو برادرم محترم ومکرم کے القاب سے یاد کیا گیا جس کا متن مختصراً یہ ہے کہ مسلمانوں کی سب سے بڑی ریاست کے فرمانروا ہونے کی حیثیت سے نظام نے علوم و فنون کی جس فیاضی کے ساتھ سرپرستی کی ہے، اس کے لیے تمام ملک اور خصوصاً ملّتِ اسلامیہ ممنونِ احسان ہے اور دنیائے ادب میں ایک شاعر اور فلسفی ہونے کی حیثیت سے اقبال کو جو مرتبہ حاصل ہے ، وہ ان پر بخوبی عیاں ہے ۔ اقبال کی شاعری نے مسلمانانِ ہند کے نام کو تمام عالم میں روشن کیا اور وہ نہایت مستعدی کے ساتھ پیامِ اسلام کی مغربی ممالک میں ترجمانی کر رہے ہیں ، لیکن ان کی مالی مشکلات ان کی ادبی جدوجہد میں سخت مزاحم ہو رہی ہیں۔ اس لیے اگر ان کو ان مشکلات سے نجات دلوا دی جائے تو وہ اپنے ادبی مشاغل میں ہمہ تن مصروف ہو سکتے ہیں ۔ اقبال کو اپنے خاندان کی پرورش کے لیے ماہانہ ایک ہزار روپے کی آمدنی فراہم ہوجائے تو وہ مالی مشکلات سے نجات پا لیں گے ۔ چونکہ نظام نے ایسے معاملات میں ہمیشہ دلچسپی کا اظہار کیا ہے ، اس لیے ان کے روبرو تجویز پیش کی جاتی ہے کہ اگر اقبال کو اس حد تک مالی امداد ان کی طرف سے دیئے جانے کا فرمان جاری کر دیا جائے تو وہ تمام لوگ جو مشرقی ادب اور اسلامی تعلیمات و فلسفہ سے دلچسپی رکھتے ہیں ، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نظام اور ریاست حیدر آباد کے ممنونِ احسان رہیں گے ۔ نظام نے یہ خط اپنے وزراء کی رائے معلوم کرنے کی خاطر بذریعہ گشت انہیں بھجوایا ۔ اس زمانے میں مہدی یار جنگ صدر المہامی سیاسیات کے عہدے پر فائز تھے ، انہوں نے اس کارروائی پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر کیا:۔ یہ امر کہ سر محمد اقبال اچھے شاعر ہیں، اس کے بارے میں فن شاعری کے ماہروں میں اختلاف ہے ۔اگر فرض کیا جائے کہ وہ اچھے شاعر ہیں ، تب بھی یہ وجہ ان کو یک ہزار روپیہ ماہوار دینے کے لیے کافی نہیں ہے ۔نواب صاحب بھوپال، جو ان کی سفارش کرتے ہیں ، وہ خود ان کو کیوں نہیں کچھ دیتے ؟ اصولاً حیدر آباد کا روپیہ اسٹیٹ سے باہر نہ جانا چاہیے جب تک کوئی واقعی ضرورت نہ ہو۔۔۔۔ بلکہ اب ہم کو اس نظریے سے اس مسئلہ کو دیکھنا ہے کہ انفرادی طور پر جو لوگوں کو ماہواریں ملک کے باہر دی جا رہی ہیں، وہ کس مصلحت پر مبنی ہیں یا کس خدمت کے صلے میں دی جاتی ہیں یا ایسی کونسی سیاسی اغراض وابستہ ہیں اور ایسے تبصرہ کے بعد غیر ضروری ماہواروں کو تخفیف کر دینا چاہیے۔ اس رائے سے وزراء کی کونسل کے اراکین نے اتفاق کیا ۔ چنانچہ طے ہوا کہ ریاست کا روپیہ ایک غیر ملکی کو نہیں دینا جاہیے، حالانکہ اقبال جیسے ملّتِ اسلامیہ کے خادم کو کسی علاقے کے ساتھ پابند کر نا مناسب نہ تھا ۔ لیکن دفترِ شاہی قیدِ مقام میں پابہ گل رہا اور بالآخر نظام نے ۳ جنوری ۱۹۳۳ء کو نواب بھوپال کے خط کا جواب نفی میں دے دیا۔ اسی طرح ۱۹۳۷ء میں اقبال کی علالت کے ایّام میں سر اکبر حیدری نے ایک بار پھراقبال کی مالی امداد کے لیے کوشش کی، لیکن اس مرتبہ امداد کے مسئلے میں اقبال کے خیالات کے بارے میں تحقیقات کی گئیں اور اس لیے انکار کر دیا گیا کہ وہ’’ مغرب‘‘ کے سخت مخالف تھے اور اس ضمن میں انہون نے اپنے خیالات کا اظہار ’’پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق‘‘ میںبڑی شدت کے ساتھ کیا تھا۔ سو غیر ملکی ہونے اور مغربی استعمار کی مخالفت کرنے کی بنا پر اقبال کے زمانہ حیات میں کوئی پنشن حیدر آباد سے جاری نہ ہو سکی۔ شاید اقبال کو بھی اپنی زندگی کے آخری ایّام میں اس بات کا احساس ہو گیا تھا اور عین ممکن ہے کہ اس پس منظر میں انہوں نے جنوری ۱۹۳۸ء میں سر اکبر حیدری کے ، نظام کے توشے خانے سے ایک ہزار روپے کی رقم کا چیک ارسال کرنے پر وہ غیر فانی اشعار تحریر کیے ہوں جو اب ’’ارمغانِ حجاز‘‘کا حصہ ہیں اور جن کی وجہ سے بظاہر سر اکبر حیدری لیکن درحقیقت نظام کی شخصیت مسلمانوں میں مشتبہ ہو کر رہ گئی۶۱ ۔ گوئٹے کا سرپرست ڈیوک کارل آگسٹ ایک خود مختار فرمانروا تھا اور اس کی ریاست ویمر ایک آزاد جرمن ریاست تھی۔ اس لیے گوئٹے جب اس کا تعلیمی مشیرمقرر ہوا تو فکرِ معاش سے آزاد ہو گیا اور اسے اپنے لٹریری مقاصد کی تکمیل کے لیے فرصت مل گئی ؛ لیکن نظام مکمل طور پر خود مختار مسلم فرماں روا نہ تھا اور نہ حیدر آباد ہی صحیح معنوں میں مقتدر مسلم مملکت تھی ، اس لیے جو کچھ اقبال چاہتے تھے وہ نہ ہو سکا ، اور اگر ہو گیا ہوتا تو میراث اقبال کے معاملے میں آج عالمِ اسلام امیر تر ہوتا۔ مختصر یہ کہ اقبال کا بیشتر وقت ایسے معاملات کی نذر ہوتا رہا جو انہیں اور ان کے خاندان کے افراد کو باعزت زندگی گزارنے کے قابل بنا سکیں۔ تحقیق و تصنیف کی خاطر فرصت کے لیے وہ تمام عمر ترستے رہے اور شعر شب بیداری کے عالم میں یا پھر تعطیل کے دنوں میں کہتے تھے ۔ بعض اوقات مضامین سیلاب کی طرح اُمڈ کر آتے اور الفاظ میں ڈھلے ہوئے اشعار کا طوفان بپا ہو جاتا ، جیسے کسی مچھیرے کے جال میں بہت ساری مچھلیاں آپھنستی ہوں اور وہ اس کشمکش میں ہو کہ کس کو پکڑے اور کس کو جانے دے۔ آمد سے پیشترعموماً شدید پیچ و تاب کی کیفیت میں سے گزرتے، چہرے کا رنگ متغیر ہو جاتا، بستر پر کروٹیں بدلتے ، کبھی اٹھ کر بیٹھ جاتے اور کبھی گھنٹوں میں سر دے لیتے۔ اشعار بیاض میں لکھ چکنے کے بعد رفتہ رفتہ سکون کے آثار نمودار ہو جاتے اور اطمینان سے سو جاتے۔ مآخذ باب: ۱۱ ۱ ۔ ’’مسلمانوں کا روشن مستقبل‘‘ از طفیل احمد صفحات ، ۳۸۴ تا ۳۸۶ ۲۔ سیکڑوں ہندی مسلم شہدا کی قبریں آج بھی ترکی کے مختلف قبرستانوں میں موجود ہیں۔ ۳ ۔ ’’اقبال‘‘ از عطیہ بیگم (انگریزی) ، صفحہ۷۳۔ ۴ ۔ ’’انوار اقبال ‘‘ مرتبہ بشیر احمد ڈار، صفحہ ۱۵۶ ۔ ۵ ۔ رو داد لٹریری ایسوسی ایشن لندن ۶ ؍ نومبر ۱۹۳۱ء بحوالہ ’’انقلاب‘‘۲۱؍ نومبر ۱۹۳۱ئ’’گفتار اقبال‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۲۴۹ تا ۲۵۲ ۶ ۔ ’’اقبال نامہ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ حصہ اوّل ، صفحہ ۲۳۔ ۷ ۔ ’’صحیفہ ‘‘ اقبال نمبر، حصہ اوّل ، صفحات ۱۶۸ ، ۱۶۹ ۔ ۸ ۔ ’’اسرار خودی‘‘ کی اشاعت سے پہلے ، مضمون عبدالمجید سالک ہفت روزہ ’’قندیل‘‘ ۲۱ ؍اپریل ۱۹۵۰ء ، ’’ذکر اقبال ‘‘ از عبدالمجید سالک ، صفحات ۸۴، ۸۵ ۔ ’’اقبال اور انجمن حمایت اسلام‘‘ از محمد حنیف شاہد، صفحات ۸۵ ، ۸۶۔ ۹ ۔ ’’مکاتیب اقبال بنام گرامی‘‘ مرتبہ عبداللہ قریشی ، صفحہ ۹۹ نیز دیکھیے صفحات ۹۸ ، ۱۰۵، ۱۰۶۔ ۱۰ ۔ اس جلسے میں عبدالمجید سالک موجود تھے ، ’’ذکر اقبال ‘‘، صفحات ۸۴، ۸۵۔ ۱۱ ۔ بیان غلام رسول مہر ۔’’مکاتیب اقبال بنام گرامی ‘‘ مرتبہ عبداللہ قریشی ، صفحات ۶ ، ۳۵۔ ۱۲ ۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ حصہ دوم ، صفحہ ۳۶۸ ۔ ۱۳ ۔ ’’روز گار فقیر ‘‘ از فقیر سید وحیدالدین جلد دوم ، صفحہ ۱۳۶۔ ۱۴ ۔ ’’ذکر اقبال ‘‘ ، صفحات ۸۵ ، ۸۶ ۔ ۱۵ ۔ ’’صحیفہ ‘‘ اقبال نمبر حصہ اوّل ، صفحات ۱۳۱ ، ۱۳۲۔ ۱۶ ۔ ’’کلیات اکبر‘‘ جلد دوم و سوم شائع کردہ بزم اکبر کراچی ، صفحہ ۴۲۱۔ ۱۷ ۔ یہ نظم شیخ اعجاز احمد کے پاس موجود ہے ’’روز گار فقیر ‘‘ از فقیر سید وحید الدین ، صفحہ ۱۳۸۔ ۱۸ ۔ ’’روز گار فقیر ‘‘ از فقیر سید وحیدالدین ، صفحات ۱۶۲ تا ۱۶۴۔ ۱۹ ۔ ’’مقالات اقبال ‘‘ مرتبہ عبدالواحد معینی ، صفحہ ۱۹۳۔ ۲۰ ۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطا ء اللہ حصہ اوّل ، صفحہ ۵۳ ۔ ۲۱ ۔ ’’خطوط اقبال ‘‘ مرتبہ رفیع الدین ہاشمی ، صفحات ۲۰۸ تا ۲۱۰ ۔ ۲۲ ۔ ’’صحیفہ ‘‘ اقبال نمبر حصہ اوّل ، صفحات ۶۷ ، ۶۸ ۔ ۲۳ ۔ ’’مسلمانوں کا روشن مستقبل ، صفحہ ۳۸۸ ۔ ۲۴ ۔ ’’انڈیا ۲۷۔ ۱۹۲۶ئ‘‘ (پارلیمنٹ کے لیے رپورٹ) از جے کوٹمین (انگریزی)صفحات ۲ ، ۱۵ ، ۱۶ ۔ ۲۵ ۔ ’’ذکر اقبال ‘‘ ، صفحہ ۱۰۲ ۔ ۲۶ ۔ ’’انڈین نیشنل موومنٹ کی تاریخ ‘‘ از دی لووٹ (انگریزی) ، صفحات ۱۴۸ تا ۱۵۰ ۔ ۲۷ ۔ ’’شاد اقبال ‘‘ مرتبہ محی الدین قادری زور ، صفحہ ۳ ۔ ۲۸ ۔ ایضاً ، صفحہ ۳۸ ۔ ۲۹ ۔ ایضاً ، صفحات ۴۲ ، ۴۳ ۔ ۳۰ ۔ ایضاً ، صفحہ ۴۶ ۔ ۳۱ ۔ ایضاً ، صفحات ۶۱ تا ۶۸ ۔ ۳۲ ۔ ’’ذکر اقبال ‘‘ از عبدالمجید سالک ، صفحہ ۸۷ ، ’’باقیات اقبال ‘‘ مرتبہ عبدالواحد معینی، صفحہ ۱۰۶۔ ۳۳ ۔ ’’مکاتیب اقبال بنام گرامی‘‘ مرتبہ عبداللہ قریشی ، صفحات ۱۲۴ ، ۱۲۵۔ ۳۴ ۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ حصہ دوم ، صفحہ ۷۵ ۔ ۳۵ ۔ ’’مقالات اقبال ‘‘ مرتبہ عبدالواحد معینی ، صفحات ۱۹۱، ۱۹۲۔ ۳۶ ۔ ’’نذر اقبال ‘‘ مرتبہ محمد حنیف شاہد ، صفحہ ۱۸ ۔ ۳۷ ۔ ’’مکاتیب اقبال بنام نیاز الدین خان ‘‘ ، صفحہ ۹ ۔ ۳۸ ۔ ’’ صحیفہ‘‘ اقبال نمبر حصہ اوّل ، صفحات ۶۳ تا ۶۸ ۔ ۳۹ ۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ حصہ دوم ، صفحہ ۷۱ ۔ ۴۰ ۔ ایضاً ، صفحات ۷۳ ، ۷۴ ۔ ۴۱ ۔ ’’ذکر اقبال ‘‘ از عبدالمجید سالک ، صفحات ۹۰ ، ۹۱ ۔ ۴۲ ۔ ’’فلسفہ عجم ‘‘ ، صفحہ ۹ ۴۳ ۔ ایضاً ، صفحات ۱۵۵ ، ۱۵۶ ،۱۵۸ ۔ ۴۴ ۔ ایضا ً ، صفحات ۱۴۶ تا ۱۴۹۔ ۴۵ ۔ ’’ذکر اقبال ‘‘ صفحہ ۴۶ ۔ ۴۶ ۔ حوالہ ’’صوفی‘‘ مارچ ۱۹۲۶ء دیکھیے مضمون ’’حیات اقبال کی گمشدہ کڑیاں‘‘ از عبداللہ قریشی ۔ ’’اقبال ‘‘ مجلہ بزم اقبال اکتوبر ۱۹۵۳ء ، صفحہ ۶۴ ۔ ۴۷ ۔ ’’مطالب اسرار و رموز ‘‘ ، صفحہ ۵ ۔ ۴۸ ۔ ’’مکاتیب اقبال بنام نیازالدین خان ‘‘ ، صفحہ ۱ ۔ ۴۹ ۔ ’’شاد اقبال ‘‘ مرتبہ محی الدین قادری زور ، صفحہ ۱۰۲ ۔ ۵۰ ۔ ’’صحیفہ ‘‘ اقبال نمبر، حصہ اوّل ، صفحات ۱۸۱ ، ۱۸۲۔ ۵۱ ۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ، حصہ اوّل ، صفحات ۴۶ ، ۴۷ ۔ ۵۲ ۔ ’’صحیفہ ‘‘ اقبال نمبر حصہ اوّل ، صفحات ۱۵ تا ۱۷ ۔ ۵۳ ۔ ایضاً ، صفحہ ۱۸ ۔ ۵۴ ۔ ’’ارمغان دکن ‘‘ بہادر یار جنگ اکادمی کراچی ، صفحہ ۴۰ ۔ اپنی تصنیف ’’نقش اقبال ‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ مجھے احمد محی الدین رضوی کے بیان پر پورا اعتماد ہے ۔ دیکھیے ، صفحہ ۲۷۳۔ ۵۵ ۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ حصہ دوم ، صفحات ۲۰۶ ، ۲۰۷ ۔ ۵۶ ۔ ’’اقبال اور حیدر آباد ‘‘ از نظر حیدر آبادی ، صفحات ۱۹ ، ۲۰ ۔ ۵۷ ۔ ’’فضل حسین ‘‘ (انگریزی) ، صفحہ ۳۱۹ ۔ ۵۸ ۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ حصہ دوم ، صفحات ۲۰۴ ، ۲۰۵ ۔ ۵۹ ۔ ’’اقبال اور حیدر آباد ‘‘ ، صفحہ ۲۰ ۔ ۶۰ ۔ ’’نظام گزٹ ‘‘ ۴ مئی ۱۹۲۹ء روز پنجشنبہ۔ ’’اقبال اور بزم اقبال ‘‘ ۔ حیدر آباد دکن از عبدالرئوف عروج ، صفحہ۳۹ ۶۱ ۔ صفحات ۱۰ تا ۱۴ ، ۲۹ تا ۳۸، ۲۸ تا ۴۲ رسالہ مذکور ۔ ریکارڈ سے یہ بھی ظاہر ہے کہ اقبال کے پس ماندگان کی امداد کے سلسلے میں کچھ وظائف جاری کیے گئے ، لیکن شاید یہ محض کاغذی کارروائی تھی کیونکہ راقم کے علم کے مطابق نا بالغان کے اولیاء نے حیدر آباد سے ایسا کوئی وظیفہ حاصل نہیں کیا ۔ صفحات ۴۳ تا ۴۶ رسالہ مذکور ملاحظہ ہو ۔ باب: ۱۲ قلمی ہنگامہ مثنوی ’’اسرار خودی‘‘کی اشاعت پر وجودی تصوف کے حامی صوفیوں ، روایتی سجادہ نشینوں عہدِ تنزل کی شاعری کے دلدادوں اور فرسودہ یونانی فلسفۂ اشراق کے پیروکاروں کی اقبال اور اس کے حامیوں کے ساتھ جو قلمی جنگ ہوئی ، وہ ۱۹۱۵ء کے اواخر سے لے کر ۱۹۱۸ء یعنی تقریباً ڈھائی تین برس تک جاری رہی۔ اس قلمی ہنگامے کی پوری تفصیل اقبال کے کسی تحریر کردہ سوانح حیات میں ملتی ہے نہ ان کتب میں جو اقبال اور تصوف کے موضوع پر لکھی گئیں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان سالوں میں بیسیوں مضامین مختلف اخباروں اور رسالوں میں مثنوی ’’اسرار خودی ‘‘ کی تعریف یا مخالفت میں ، وجودی تصوف کے حق میں یا خلاف اور حافظ کی حمایت یا ان کے نظریۂ حیات کی تردید میں شائع ہوئے ۔ مشائخ میں اقبال کی مخالفت میں خواجہ حسن نظامی اور ان کے مرید سب سے آگے تھے۔ اقبال نے خود اس بحث میں پڑ کر کئی مضامین لکھے ۔ ان کے حامیوں میں مولوی سراج الدین پال ایڈووکیٹ ، مولانا عبداللہ عمادی ، مولانا ظفر علی خان ، مولوی الف دین وکیل ، مولوی محمود علی، عبدالرحمن بجنوری وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ بعض ادیبوں نے اپنے نام مخفی رکھے اور کشاف ، نقاد ، ایک مسلمان یا مسلم فلاسفر و طبعی ایسے فرضی ناموں کے تحت مضامین لکھتے رہے ۔ اس موضوع پر ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے ۔ اگر ان سب مضامین کو جمع کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب بن سکتی ہے ۔ بہرحال اس سلسلے میں راقم کے پیش نظر عبداللہ قریشی کا تحریر کردہ ایک مضمون ہے جو ’’حیاتِ اقبال کی گمشدہ کڑیاں‘‘ (معرکہ اسرارِ خودی) کے عنوان سے ’’اقبال‘‘ مجلہ بزم اقبال میں دو قسطوں میں شائع ہوا ۱، اور اسی مضمون پر انحصار کرتے ہوئے غلام رسول مہر نے اپنی تصنیف ’’مطالب اسرار و رموز‘‘ کا مقدمہ ترتیب دیا۔ اس کے علاوہ راقم نے عبداللہ قریشی کی ایک اور تصنیف ’’معاصرین اقبال کی نظر میں ‘‘ سے خواجہ حسن نظامی اور اکبر الہٰ آبادی سے متعلق ابواب اور اقبال کے مکتوبات سے بھی استفادہ کیا ہے ۔ اس بحث سے متعلق اقبال کے تین مضمون ، ’’مقالات اقبال ‘‘ مرتبہ عبدالواحد معینی میں محفوظ ہیں اور چوتھا، ’’انوار اقبال‘‘ مرتبہ بشیر احمد ڈار میں شامل کیا گیا ہے ۔ گذشتہ سالوں میں عبداللہ قریشی نے بڑی محنت کر کے اخباروں اور رسالوں سے اس موضوع پر مزید مضامین اکٹھے کیے ہیں ۔ چنانچہ یہ باب زیادہ تر عبداللہ قریشی کی تحریروں کی بنیاد پر یا ان سے بالمشافہ گفتگو کی روشنی میں ترتیب دیا گیا ہے۔ عبداللہ قریشی کی رائے میں لفظ خودی کا مفہوم مروجہ معنوں سے ہٹ کر اقبال کے ذہن میں ۱۸۹۷ء سے موجود تھا اور اس کی تائید میں وہ اس دور میں لکھی گئی ان کی ایک غزل کا یہ شعر پیش کرتے ہیں: جو وفا پیشہ سمجھتا ہے خودی کو ایماں جنتی ہو گا ، فرشتوں میں نمایاں ہو گا۲ یہ درست ہے کہ ابتدائی دور میں بھی کبھی کبھار اس اقبال کی جھلکیاں دکھائی دے جاتی تھیں، جس کا آفتاب کمال عنقریب اُفق سے ابھرنے والا تھا ، لیکن بقول خلیفہ عبدالحکیم اس دور کی شاعری کو اقبال کی شاعری کی صبح کاذب سمجھنا چاہیے جس کی روشنی طلوع آفتاب کا پیش خیمہ ہوتی ہے ۔ حقیقت میں وجودی تصوف سے انحراف کا اعلان اقبال نے پہلی بار ۱۹۱۴ء میں انجمنِ حمایتِ اسلام کے جلسے میں عجمی تصوف اور اسلام کے موضوع پر خطبہ دیتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے فرمایا: اس (یعنی مروجہ) تصوف کو اسلام کے سادہ عقائد اور عربی روح دینی سے کوئی علاقہ نہیں اور اس کابنیادی ستم یہ ہے کہ یہ خودی کو تباہ کرتا ہے ۔حالانکہ خودی ایک ایسی چیز ہے جو افراد و اقوام کی زندگی کی ضامن اور انسان کو بلند ترین مادی و روحانی مدارج پر پہنچا نے کی کفیل ہے ۔۔۔۔ تصوف کے لٹریچر میں جہاں کہیں خودی کو مارنے کا ذکر آیا ہے ، وہاں عوام اس کے معنی غرور و تکبر کرتے ہیں ، جو زوائل سے ہے اور اس سے ہر مسلمان کو اجتناب کرنا چاہیے ، لیکن متصوفین نے یہ لفظ غرور کے معنی میں استعمال نہیں کیا ، بلکہ احساس ذات ، انا اور میں کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو مٹا دے ، اپنے نفس کی نفی کرے ، تب معرفت کی منزل پر فائز ہو سکتا ہے ، حالانکہ یہ تصور بالکل خلافِ اسلام ہے ۔ اسلام چاہتا ہے کہ ہر انسان کی خودی نہ صرف قائم رہے بلکہ ارتقا کی منزلیں طے کرتے کرتے اس مقام پر پہنچ جائے جو اس کے لیے مقدر ہے اور جس سے بڑا کوئی مقام انسانی تصور میں نہیں آ سکتا۳ ۔ اسی تقریر کے دوران میں اقبال نے بتایا کہ انہوں نے ’’اسرار خودی‘‘ کے نام سے ایک مثنوی تحریر کی ہے جو عجمی تصوف کے اس طلسم کو پاش پاش کر دے گی جس نے مسلمانوں کو عمل کی قوت سے محروم کر کے ساکت و جامد کر رکھا ہے ۔ اس کے بعد ’’اسرار خودی‘‘ کے بعض مقامات پڑھ کر سنائے ۔ ۱۹۱۵ء کے وسط میںمثنوی ’’اسرار خودی‘‘ کی اشاعت پر قلمی جنگ کے محرک دراصل اقبال کا دیباچہ اور حافظ سے متعلق اشعار تھے ۔ مثنوی کو سر سید علی امام کے نام پر معنون کیا جانا بھی اعتراض کا سبب بنا لیکن اس کی حیثیت ثانوی تھی ۴۔ دیباچے میں اقبال نے خودی یعنی احساسِ نفس یا تعیینِ ذات کو وحدتِ وجدانی ، شعور کا روشن نقطہ ، پر اسرار شے، مشاہدات کی خالق، فطرت انسانی کی لا تعداد منتشر کیفیتوں کی شیرازہ بند قرار دیتے ہوئے لکھا کہ مشرقی اقوام اسے محض ایک فریب تخیل تصور کرتی ہیں اور ان کے نزدیک اس پھندے کو گلے سے اُتار دینے کا نام نجات ہے۔ اس سلسلے میں ہندو حکماء کے فکر کا ماحصل یہ تھا کہ انسانی انا کی موجودہ کیفیات ولوازمات اس کے گذشتہ طریق عمل کا لازمی نتیجہ ہیں ۔ پس جب انا کا تعین عمل سے ہے تو اس کے پھندے سے نکلنے کا واحد طریقہ ترکِ عمل ہے ۔ یہ نتیجۂ فکر انفرادی اور اجتماعی اعتبار سے نہایت خطرناک تھا اور اس بات کا مقتضی تھا کہ کوئی ایسی شخصیت پیدا ہو جو ترکِ عمل کا اصل مفہوم واضح کرے ۔ اس مرحلے پر سری کرشن نے ہندوئوں کی فلسفیانہ روایات پر تنقید کی اور اس راز کو افشا کیا کہ ترکِ عمل سے مراد ترک کلی نہیں ، کیونکہ عمل فطرت کا تقاضا ہے اور اسی سے زندگی کا استحکام ہے ۔ بلکہ ترکِ عمل سے مراد محض یہ ہے کہ عمل کو ترک کیے بغیر عمل اور اس کے نتائج سے وابستگی پیدا نہ ہو ۔ سری کرشن کے نقطۂ نظر کو سری رام نوج نے بھی اپنایا ، لیکن سری شنکر نے ترک عمل کی اس توضیح کو منطقی اعتبار سے باطل قرار دے کر ہندوئوں کو سری کرشن کی تجدید فکر کے ثمر سے محروم کر دیا ۔ دوسری طرف تحریکِ اسلامی بھی ابتداً ایک زبردست پیغام عمل کی صورت میں ابھری ۔ اگرچہ اس کے نزدیک انا ایک مخلوق ہستی ہے جو عمل سے لازوال ہو سکتی ہے مگر ہندوئوں اور مسلمانوں کی ذہنی تاریخ میں ایک عجیب و غریب مماثلت یہ ہے کہ جس نقطۂ نظر سے سری شنکر نے گیتا کی تفسیر کی، اسی نقطۂ نظر سے ابن عربی نے قرآنِ مجید کی تفسیر کی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسئلہ وحدت الوجود اسلامی تخیل کا ایک لاینفک جزو بن گیا۔ کرمانی اور عراقی اس تعلیم سے بے حد متاثر ہوئے اور رفتہ رفتہ چودہویں صدی عیسوی کے تمام عجمی شعرا اسی رنگ میں رنگے گئے ۔ اقبال نے تحریر کیا : مختصر یہ کہ ہندو حکما نے مسئلہ وحدت الوجود کے اسباب میں دماغ کو اپنا مخاطب کیا ۔ مگر ایرانی شعراء نے اس مسئلہ کی تفسیر میں زیادہ خطرناک طریق اختیار کیا۔ یعنی انہوں نے دل کو اپنا آماجگاہ بنایا اور ان کی حسین و جمیل نکتہ آفرینیوں کا آخر کار یہ نتیجہ ہوا کہ اس مسئلے نے عوام تک پہنچ کر قریباً تمام اسلامی اقوام کو ذوق عمل سے محروم کر دیا ۔۔۔ اگرچہ مغرب کے فلسفہ جدید کی ابتداء ہالینڈ کے اسرائیلی فلسفی کے نظام وحدت الوجود سے ہوتی ہے ، لیکن مغرب کی طبائع پر رنگ عمل غالب تھا۔ مسئلہ وحدت الوجود کا یہ طلسم جس کو ریاضیات کے طریق و استدلال سے پختہ کیا گیا تھا، دیر تک قائم نہ رہ سکتا تھا ۔ سب سے پہلے جرمنی میں انسانی انا کی انفرادی حقیقت پر زور دیا گیا اور رفتہ رفتہ فلاسفۂ مغرب بالخصوص حکماے انگلستان کے عملی ذوق کی بدولت اس خیالی طلسم کے اثر سے آزاد ہو گئے ۵ ۔ اقبال نے واضح کیا کہ جس طرح رنگ و بو وغیرہ کے لیے حواس مختص ہیں ۔ اسی طرح انسانون میں ایک اور حاسہ بھی ہے جسے حسِ واقعات کا نام دیا جا سکتا ہے ۔ انسانی زندگی کا انحصار اپنے گرد وپیش کے حقائق کا مشاہدہ کرنے اور ان کے صحیح مفہوم کو سمجھ کر عمل پیرا ہونے پر ہے۔ مگر دنیاے مشرق میں بہت کم لوگ ہیں جو اس قوتِ حاسہ سے کام لیتے ہیں ۔ پس حکماے یورپ کی جدید تحریریں اس قابل ہیں کہ مشرقی دل و دماغ ان سے مستفید ہو کر اپنی قدیم فلسفیانہ روایات پر نظر ثانی کریں ۔ اقبال نے آخرمیں لکھا : یہ ہے ایک مختصر خاکہ اس مسئلہ کی تاریخ کا جو اس نظم کا موضوع ہے ۔ میں نے اس دقیق مسئلہ کو فلسفیانہ دلائل کی پیچیدگیوں سے آزاد کر کے تخیل کے رنگ میں رنگین کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ اس کی حقیقت کو سمجھنے اور غور کرنے میں آسانی پیدا ہو ۔ اس دیباچہ سے اس نظم کی تفسیر مقصود نہیں، محض ان لوگوں کو نشانِ راہ بتلانا مقصود ہے جو پہلے سے اس عسیر الفہم حقیقت کی دقتوں سے آشنا نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ سطورِ بالا سے کسی حد تک یہ مطلب نکل آئے گا ۔ شاعرانہ پہلو سے اس نظم کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ شاعرانہ تخیل محض ایک ذریعہ ہے ۔ اس حقیقت کی طرف توجہ دلانے کا کہ لذتِ حیات انا کی انفرادی حیثیت ، اس کے اثبات ، استحکام اور توسیع سے وابستہ ہے ۔ یہ نکتہ مسئلہ حیات مابعد الموت کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ایک تمہید کا کام دے گا۔ اقبال نے مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ میں جو اشعار حافظ کے خلاف لکھے اور جن پر اعتراض ہوا وہ یہ تھے : ہوشیار از حافظِ صہبا گسار جامش از زہر اجل سرمایہ دار رہنِ ساقی خرقۂ پرہیز اُو مے علاجِ ہولِ رستا خیز اُو نیست غیراز بادہ در بازارِ اُو از دو جام آشفتہ شد دستارِ اُو چوں جرس صد نالۂ رسوا کشید عیش ہم در منزلِ جاناں ندید آں فقیہِ ملتِ مے خوارگاں آں امامِ اُمّتِ بے چارگاں گو سفنداست و نوا آموخت است عشوہ و ناز و ادا آموخت است دلربائی ہاے او زہراست و بس چشم او غارتگرِ شہر است و بس از بز یوناں زمیں زیرک تراست پردئہ عودش حجابِ اکبر است بگرز از جامش کہ در میناے خویش چوں مریدانِ حسن دارد حشیش محفلِ او درخورِ ابرار نیست ساغرِ او قابلِ احرار نیست بے نیاز از محفل حافظ گزر الحذر از گوسفنداں الحذر۶ مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ کی مخالفت میں جو طوفان اٹھا ، اس کے متعلق عبداللہ قریشی تحریر کرتے ہیں: بعض صوفی، پیر اور سجادہ نشین جنہیں روایات باطلہ کی پابندی اور شریعت حقہ، سے ناواقفیت کی نمایندگی کا شرف حاصل تھا، اقبال کے خلاف صف آراہو گئے ۔ انہیں حکیم افلاطون کی نسبت کم لیکن خواجہ حافظ کی بابت زیادہ ملال ہوا، کیونکہ وہ صرف شاعر ہی نہیں بلکہ ایک مقدس بزرگ بھی تسلیم کیے جاتے ہیں اور ان کی غزلیں مجلسوں اور محفلوں میں گائی جاتی اور ان پر سر دُھنے جاتے ہیں، یہاں تک کہ حافظ کے ایک ہمعصر شاہ جہانگیر اشرف تو انہیں ولیِ کامل تصوّر کرتے تھے۔ اسی بنا پر حمیت کے جوش میں مخالفوں نے ڈاکٹر اقبال کو بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا اور اپنی کم فہمی سے اتنا بھی نہ سمجھا کہ یہ اشعار خواجہ حافظ کی بزرگی پر حملہ کرنے کی نیت سے نہیں بلکہ ان کے ادب پر تنقید کرنے کی غرض سے لکھے گئے ہیں۔ اس تنازع کا دلچسپ پہلو یہ تھا کہ بحث کے دوران خواجہ حسن نظامی جیسی معتبر ہستی نے اقبال کے فارسی اشعار کا اردو ترجمہ کرتے وقت انہیں خلاف حقیقت شکل دی یا دیباچے پر نکتہ چینی کرتے وقت ایسی تعبیرات شامل کر دیں جو اصل میں موجود نہ تھیں۔ اکبرالٰہ آبادی سمیت بعض بزرگوں نے مثنوی پڑھی ہی نہ تھی اور دوسروں کی ہنگامہ آرائی سے متاثر ہو گئے تھے۔ علاوہ اس کے کئی مخالفین نے علمی سطح سے اتر کر اقبال کی ذات پر بھی ناجائز حملے کیے اور انہیں دہریہ ، شغال ، خر ، کتا، دشمنِ تصوف، دشمنِ اسلام ، دین و ملت فروش، رہزنِ ایمان ، شیطان وغیرہ کے القاب سے پکارا۔ غلام رسول مہر اس قلمی جنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: حیرت انگیز امر یہ ہے کہ کسی کا بھی نقطۂ نگاہ درست نہ تھا۔ خواجہ حسن نظامی مرحوم صرف خواجہ حافظ، وحدت الوجود اور خودی کا نام لے کر خود بھی پریشان ہو رہے تھے اور دوسروں کو بھی پریشان کر رہے تھے۔ مولانا اکبر الٰہ آبادی نے سرے سے مثنوی پڑھی ہی نہ تھی اور دوسروں کی ہنگامہ آرائی سے متاثر ہو گئے تھے۔ بالکل یہی کیفیت باقی اصحاب کی تھی ۔۔۔ سب کے اختلاف کی حیثیت سوال از آسماں و جو اب از ریسماں کے مترادف تھی۔ یعنی اقبال نے کچھ کہا تھا اور ان حضرات نے کچھ اور ہی فرمایا ۔۔۔ سب کچھ شائع ہوا اور ناپید ہو گیا ۔ آج ان چیزوں کو تلاش کیا جائے تو ایک بھی شاید ہی مل سکے ۷۔ مثنوی کی اشاعت پر ۱۶ نومبر ۱۹۱۵ء کے ’’زمیندار‘‘ نے لکھا کہ مدعاے اسلام یہی ہے کہ ہر مسلمان اپنی مخفی قوتوں کے اثر سے آگاہ ہو اور ان حدود کے اندر رہ کر جو قرآن مجید نے مقرر کر دئیے ہیں ، ان سے کام لے ۔ یہی بات تھی جسے مسلمان اب تک فراموش کیے ہوئے تھے اور اس کے نتیجے میں موجودہ تنزل اور انحطاط ہے۔ یہی وہ بھولا ہوا سبق ہے جسے اقبال نے اپنی مثنوی کے ذریعے مسلمانوں کو پھر یاد دلایا ہے۔ بقول عبداللہ قریشی جنگ کی ابتداء سب سے پہلے خواجہ حسن نظامی نے کی ۔ انہوں نے اپنے ایک مرید ذوقی شاہ سے ’’اسرار خودی‘‘ کی مخالفت میں ایک مضمون لکھوا کر ۳۰ نومبر ۱۹۱۵ء کے رسالہ ’’خطیب ‘‘ میں شائع کرایا۔ ذوقی شاہ نے اپنے تنقیدی مضمون میں اس بات پر زور دیا کہ تصوف کلیتاً اسلام ہے ، بلکہ اسلام کی روح ہے اور اسلام کے اس عملی حصے سے عبارت ہے جو اصلاح باطن یا درستی نیت سے تعلق رکھتا ہے ۔ تصوف کی مخالفت اسلام کی مخالفت ہے ۔ انہوں نے لکھا کہ اقبال کا نصب العین ، جیسے کہ مثنوی کی سرخیوں سے ظاہر ہے ، نظام عالم کی تسخیر ہے ۔ حالانکہ مذہب ہمیں سکھاتا ہے اور تصوف ہمیں اس راستہ پر چلاتا ہے کہ ہمارا نصب العین اللہ ہونا چاہیے اور ہر وہ شے جو غیر اللہ کی فہرست میں شامل ہو ، خواہ تسخیر عالم کی تمنا ہو، خواہ پولٹیکل اقتدار کی خواہش ، حب دنیا ہو، خواہ ہوائے نفس ، شہرت طلبی ہو ، خواہ عزت کی آرزو ، انا کابت ہو یا خودی کی مورت ، شیشے کے گنبد کی طرح ان سب کو چکنا چور کر دینا چاہیے کیونکہ مردان خدا کا مقصود اللہ ہے ۔ ذوقی شاہ نے اقبال پر الزام لگایا کہ اقبال نے اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لیے منطق کے بجاے شعر کا پیرایہ جان بوجھ کر اختیار کیا تاکہ وقتاً فوقتاً حسب ضرورت تاویل کی گنجائش نکلتی رہے ۔ انہوں نے وحدت الوجود کے مسئلے پر اقبال سے بحث میں پڑنے سے اس لیے گریز کیا کہ ان کی نگاہ میں یہ مسئلہ ماوراے عقل تھا اور ہر شخص اس کا اہل نہیں تھا ۔ اسی طرح حافظ کی شان میں بقول ان کے جو گستاخیاں مثنوی میں اقبال سے ہوئیں ، ان کے متعلق بھی انہوں نے کچھ لکھنے کی ضرورت محسوس نہ کی کیونکہ ان کے نزدیک اللہ کے مقبول بندوں کے ساتھ معاملہ گویا اللہ کے ساتھ معاملہ تھا۔ اس مضمون کے جواب میں اقبال کے کسی حامی کشاف کا ایک مضمون ۲۲ دسمبر ۱۹۱۵ء کے اخبار ’’وکیل‘‘ میں چھپا ۔ انہوں نے تحریر کیا کہ مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ کی مخالفت خواجہ حسن نظامی کے ایما پر ہو رہی ہے ، کیونکہ وہ آل انڈیا صوفی کانفرنس کے سیکرٹری ہیں۔ اقبال نے حافظ کے متعلق درست لکھا ہے ۔ عوام کلام حافظ کو نہیں سمجھتے اور اس کو غلط تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی سبب اورنگ زیب عالمگیر نے عوام کے لیے کلام حافظ کا مطالعہ ممنوع قرار دے دیا تھا ۔ انہوں نے لکھا کہ کسی قوم کے ارتقاء میں شعرا کا خاص حصہ ہوتا ہے ۔ بائرن کے اشعار نے یونان میں آگ لگا دی ۔ فرانسیسی شعرا نے انقلاب فرانس میں نمایاںحصہ لیا۔ اقبال ہمارا واحد قومی شاعر ہے جس کے کلام نے ارتقاء اور احیاے اسلام میں نمایاں حصہ لیا ہے اور اب مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ میں مسلمانوں کے سامنے ان کا دستور العمل رکھا ہے۔ اس مرحلے پر خواجہ حسن نظامی خود میدانِ کارزار میں اتر آئے ۔ خواجہ حسن نظامی ، اقبال کے پرانے احباب میں سے تھے ۔ ۱۹۰۳ء سے ایک دوسرے کا ملنا جلنا تھا اور اقبال نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ اگر میں خواجہ حسن نظامی جیسی نثر لکھنے پر قادر ہوتا تو کبھی شاعری کو اظہار خیال کا ذریعہ نہ بناتا۸۔ خواجہ حسن نظامی نے انجمن حمایت اسلام کے ایک جلسے میں اقبال کے نظم پڑھنے کے انداز سے متاثر ہو کر اپنا عمامہ سر سے اتار کر ان کو دے دیا تھا ، اور کہا تھا: تمہارے جامِ مے کی نذر میری پارسائی ہو۹ اقبال کے تعلقات آخری دم تک ان سے قائم رہے۔ دہلی جاتے تو انہیںضرور ملتے اور خطوط کے ذریعے خیالات کا تبادلہ بھی ہوتا رہتا۔ ۱۹۱۵ء میں خواجہ حسن نظامی نے اقبال کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں’’سرِّ الوصال‘‘ کا خطاب دیا تھا اور اسی کے جواب میں اقبال نے خط میںان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایش کی تھی کہ مثنوی کے لیے بھی کوئی نام یا خطاب تجویز کریں۔ خواجہ حسن نظامی تحریر کرتے ہیں کہ مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ کا نام میں نے تجویز کیا تھااور بھی کئی نام تجویز کیے تھے مگر اقبال نے اس کو پسند کیا ۱۰۔ بہرحال یکم اگست ۱۹۱۳ء کے ہفتہ وار ’’توحید‘‘ میرٹھ میں جو خواجہ حسن نظامی کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ اقبال کے چند اشعار مثنوی اسرار خودی کے زیر عنوان خواجہ حسن نظامی کے مندرجہ ذیل تعارف کے ساتھ شائع ہوئے: یہ نظم ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کی شہرہ آفاق اور ہر دلعزیز شاعری میں ایک نئے باب کا افتتاح کرتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مولانا روم ؒ ارشاد فرماتے ہیں اقبال مثنوی لکھو، ۔ عرض کیا ، مثنوی کا حق تو آپ ادا کر گئے ؛ فرمایا ’ نہیں تم بھی لکھو‘۔ التماس کی ، آپ فرماتے ہیں، خودی کو مٹائو اور مجھ کو یہ مفہوم ہوتا ہے کہ خودی قائم کرنے کی چیز ہے، ارشاد ہوا ، ’نہیں ہمارا مطلب بھی یہی ہے جو تم سمجھتے ہو‘ ۱۱۔آنکھ کھلی تو زبان پر یہ شعر تھے، جن کو قلم بند کرنا شروع کیا ۔ پہلی قسط اخبار ’’توحید‘‘ کے ذریعے شائع کی جاتی ہے، جس میں کچھ حصہ نعت کا ہے اور کچھ متفرق اشعار قیامِ خودی کی نسبت ہیں۔ نوکری کی نسبت جو کچھ جناب اقبال کے قلم سے نکلا ہے ، وہ اس قابل ہے کہ دور حاضر کے وہ تمام نوکری پرست لوگ جو دوسروں کی غلامی کے لیے باہمی کشمکش میں مبتلا ہیں ، غور سے پڑھیں ۔ ہندو کہتے ہیں کہ ہم غلام بنیں گے ، مسلمان کہتے ہیں یہ حلقہ ہمارے کان میں ڈالنا چاہیے ۔ ایسے داروگیر کے زمانہ میں ڈاکٹر اقبال کی یہ نظم ہندوستانیوں میں ایک نئی زندگی پیدا کرے گی ۔ میں چاہتا ہوں کہ ناظرین توحید اس نظم کو خود بھی یاد کریں اور اپنے دوستوں کو بھی یاد کرائیں۔ لیکن مثنوی کے قلمی ہنگامے میں کشاف کے جواب میں خواجہ حسن نظامی نے مضمون بعنوان ’’ کشاف خودی‘‘ تحریر کیا جو ’’وکیل ‘‘ ۱۹ دسمبر ۱۹۱۵ء میں شائع ہوا ۔ آپ نے اقبال کے کمال شاعری ، سوز و گداز اور اس کے اثر یا مسلمانوں کی موجودہ نسل کی بیداری میں ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے بتلایا کہ انہوں نے ہر طریقے سے اقبال کے خیالات کی تبلیغ کی۔ کشاف کو جواب دیتے ہوئے لکھا: مجھے کوئی بتائے اسرار خودی چاہتی کیا ہے ؟ یہ تو نہیں جس کا اشارہ نا دانستہ جناب کشاف کے قلم سے نکل گیا ہے۔ یعنی انقلاب فرانس ؟ فرانس میںشاعری کی تحریک سے کیا ہوا تھا؟ ہولناک قتل عام اہل مذہب کی خون ریزی ، عبادت خانوں کی پامالی ، اسی انقلاب کا نتیجہ ہے کہ فرانس میں مذہب ناپید ہو گیا ، خود پرستی نے قبضہ کر لیا اور فرانس نے خدا کو چھوڑ دیا، تو ’اسرار خودی‘ یہ چاہتی ہے کہ ہندوستان میںبھی مذہب کا وہی حشر ہو؟ اگر یہ ارادہ ہے تو سمجھ لو کہ ایسا نہیں ہو سکے گا ۔ مذہب کے ہاتھ پر بکے ہوئے ایسا نہیں کرنے دیں گے ۔ ہم سمندر کی کف آلود موجوں کی تہ کو دیکھ رہے ہیں۔ ہم اس دور کے زمانہ سے غافل نہیں جو اس نئی نسل سے اہل مذہب کو پیش آنے والا ہے ۔ اسرار خودی آج کاغذ کے حرفوں میں آئی ہے ہم نے تو بہت پہلے سے نوجوانوں کے دل پر یہ عبارتیں پڑھ لی تھیں۔ پھر اقبال کے بارے میں فرمایا: میں اقبال کی نیت پر حملہ نہیں کروں گا ۔ اس لیے نہیں کہ وہ میرے دوست ہیں، اس لیے نہیں کہ وہ بڑے آدمی ہیں بلکہ اس لیے کہ سالہا سال سے میں ان کے خیال و ارادے کو جانتا ہوں ۔ انہوں نے تو یہ مثنوی اپنی دانست میں مسلمانوں کے فائدہ کے لیے لکھی ہو گی ، مگر اس سے سخت خطرے پیدا ہوں گے اور مسلمانوں کے اصول عقائد میں تزلزل پڑ جائے گا۔ دراصل یہ مثنوی اقبال کی نہیں بلکہ اقتضاے وقت کی لسانِ حال ہے ۔ وقت کی خواہش ہے کہ مشرقی مغربی بن جائیں ، مگر کیا وہ ایسا کر سکے گا؟ اس سے کہہ دو کہ نہیں: سانچے گر کا بالکا مرے نہ مارا جائے حافظ شیرازی کی ۔۔۔۔کیسی آبروریزی کی ہے۔ کیسے کریہہ الفاظ سے ان کو یاد کیا ہے۔ اگر وہ سچے ہیں کہ حافظ کے کلام نے مسلمانوں کو کم ہمت بنا دیا ہے تو میں پوچھوں گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دنیاے مردار کی مذمت کی تھی ، اس سے مسلمانوں کی ہمت نہ ٹوٹی؟ حضور اور سب صحابہ دین کو مقدم اوردنیا کو مؤخّر کہتے تھے انہوں نے کیسی کیسی فتوحات کیں۔ ’’اسرار خودی‘‘ دنیا کو مقدم کہہ کر کیا دکھا سکے گی؟۔۔۔۔ ’’اسرار خودی‘‘ میں کن کن یورپین فلاسفروں کی روح ہے ؟ اس کو ذرا سمجھ لینے دو ۔ گو ہم بے علم ہیں، بے سہارا ہیں ، مگر دین کی حمایت میں ہم سے جو کچھ بن پڑے گا، کریں گے ۔ اقبال سے خدانخواستہ دشمنی نہیں لیکن دوستی کو عقائد میںحائل ہونے کا کوئی حق نہیں۔مسلمان اپنی مذہبی رائے میں کسی دنیاوی تعلق کا پابند نہیں ہو سکتا، لہٰذا میں بھی نہیں ہوں‘‘۔ خواجہ حسن نظامی نے چند سوالات مرتب کر کے مشائخ کو ارسال کیے اور ان کے جوابات کی، جو مثنوی پڑھے بغیر لکھے گئے تھے، اپنے رسائل میں خوب تشہیر کی۔ سوال یہ تھے ۔ کیا قرآن شریف عقیدئہ وحدت الوجود کا مخالف ہے؟ کیا توحید اور وحدت الوجود دوجداگانہ اشیاء ہیں؟ کیا اسلام صرف انانیت مٹانے کو آیا ہے؟تصوف کا انتہائی نتیجہ او ر مقصود کیا ہے؟ کیا صحابہ کرام میں سے کسی میں بھی کیف سکر مثل خواجہ حافظ شیرازی کے نہ تھا؟ کیا کیفیت وحدت الوجود کسی مقام کا نام ہے اور اس مقام کے بعد کیا مقام ہے؟ کیا حضرت ابن عربی ؒ نے اس کے بعد عدم محض تسلیم کیا ہے اور یہ مذہبی امور میں مفید ہے یا نہیں ؟ کیا وحدت الوجود محض علمی مسئلہ ہے یا اس کو مذہب سے بھی کچھ تعلق ہے؟ یکم جنوری ۱۹۱۶ء کے ’’وکیل‘‘ میں ’’اسرار خودی‘‘ کی حمایت میں ایک مضمون ایک مسلمان کے نام سے شائع ہوا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ دنیا کشمکش کی دنیا ہے ۔ افراد اور قوموں کی زندگی خودی یا خودداری سے قائم اور باقی رہ سکتی ہے۔ اقبال کہتا ہے،کچھ کر کے دکھائو، اپنی ہمت سے کام لو، اغیار کا بھروسا چھوڑ دو، اپنی حالت کو خود درست کرو، وہ رعونت یا تکبر کی تعلیم نہیںدیتا بلکہ اس غیرت اور شرم وحیا ،ا س ہمت و استقلال ، اس بردباری اور حوصلے کی تعلیم دیتا ہے جو کسی زمانے میں مسلمانوں کا شعار تھا۔ وہ صوفیاے کرام کا مخالف نہیں۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم سے اقبال کو جو محبت اور عشق ہے وہ اس امر کی ضمانت کے لیے کافی ہے کہ اس کے دل و دماغ میں روحانیت کا کیسا صادق و لولہ اور جوش ہے۔ اس کے بعد ۲۴ جنوری ۱۹۱۶ء کے ہفتہ وار ’’سراج الاخبار‘‘ (جہلم) میں ’’ڈاکٹر صاحب کی کمزوریاں‘‘ کے زیر عنوان ایک مسلم فلاسفر و طبعی کے فرضی نام سے حافظ کی حمایت اور اقبال کی مخالفت میں مضمون شائع ہوا جس میں کہا گیا کہ حافظ کا تصوف قرآن مجید سے ایک حرف بھی جُدا نہیں اور اقبال کے خیالات ہندی محاورے ، ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا کے مصداق کمزور ہیں۔ مضمون نگار نے اعتراف کیا کہ اس نے خود مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ کا مطالعہ نہیں کیا، لیکن بعض بزرگوں کی تقلید میں اس کی مخالفت کرنا ضروری سمجھا ’’وکیل‘‘ ۲۹ جنوری ۱۹۱۶ء میں کسی نقاد نے مثنوی میں پیش کردہ خیالات پر اپنی رائے کا اظہار کیا ۔ ۲۰ جنوری ۱۹۱۶ء کے ’’لائل گزٹ‘‘ لاہور میں مثنوی کے خلاف ایک مضمون نکلا ۔ تصوف و اقبال کے موضوع پر کئی مضمون وکیل میں ، اخبار ’’لمحات‘‘ میں اور ’’سراج الاخبار‘‘ میں شائع ہوئے لیکن کسی بھی لکھنے والے نے اپنا نام ظاہر کرنا مناسب نہ سمجھا۔ اسی اثنا میں مثنوی کی حمایت میں ایک مضمون مولوی الف دین وکیل کا بھی ’’وکیل‘‘ میں شائع ہوا جس میں انہوں نے ذوقی شاہ اور خواجہ حسن نظامی کے مضامین پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ دونوں بزرگوں کی تحریریں مثنوی سے غیر متعلق ہیں۔ خواجہ حسن نظامی نے اپنے تخیلی انداز میں جذبات کو اپیل کیا ہے، مگر حقیقت سے چشم پوشی کی ہے ۔ انہوں نے مزید لکھا کہ اقبال نے اپنی مثنوی میں حقیقی اسلامی تعلیم کی طرف توجہ دلائی ہے اور اطاعت ، ضبطِ نفس اور نیابت الٰہی پر زور دیا ہے۔ مثنوی کی مخالفت میںخواجہ حسن نظامی کا دوسرا مضمون ’’سرِ اسرار خودی‘‘ ۳۰ جنوری ۱۹۱۶ء کے ’’خطیب‘‘ میں شائع ہوا جس میں انہوںنے مثنوی کے اصول پر بحث کی اور پانچ وجوہ کی بنا پر اسے نامعقول قرار دیا ۔ اس مضمون میں انہوں نے مثنوی کے بعض اشعار کو جو حافظ کے متعلق تھے اور دیباچے کی اصل عبارت کو جو اردو میں تھی، اپنی زبان میں غلط معانی کا لبادہ پہنا کر کئی قسم کی غلط فہمیاں پھیلا دیں تاکہ عوام دھوکے میں آ کر مثنوی سے بدظن ہو جائیں ۔ جن وجوہ کی بنا پر مثنوی کو نامعقول قرار دیا گیا ۔ وہ مندرجہ ذیل ہیں: اوّل یہ کہ مثنوی میں اقبال نے خودی کی حفاظت کے بارے میں جو کچھ تحریر کیا ہے وہ کوئی نرالی بات نہیںبلکہ قران مجید کی تعلیم سے بہت کم ہے۔ اس لیے بمقابلہ قرآن خواجہ حسن نظامی کو مثنوی کی ضرورت نہیں۔ دوم یہ کہ دیباچے میں مسئلہ وحدت الوجود اور صوفیہ کو معتوب قرار دیا گیا ہے کہ انہی کے سبب مسلمانوں میں ترک خودی کا جذبہ پیدا ہوا ۔ نیز اقبال کی نجی خط و کتابت اور ان کے احباب کی گفتگو سے ظاہر ہے کہ مثنوی کا اصل مقصد صوفیانہ تحریک کو ختم کرنا ہے ، لیکن چونکہ اقبال اپنی اس کوشش میں قیامت تک کامیاب نہیں ہو سکتے ، اس لیے مثنوی بے نتیجہ ہے اور ایسی لغویت سے اختلاف ضروری ہے۔ سوم یہ کہ اقبال نے دیباچے میں مسلمانوں کو یورپی فلسفیوں کی پیروی کرتے ہوئے اپنے عقائد بدل دینے کا مشورہ دیا ہے۔ چہارم یہ کہ مثنوی گو خود داری کی تعلیم دیتی ہے لیکن اس کے ساتھ مغربی خود غرضی کو اپنا نے کی تلقین بھی کرتی ہے جو اسلام کے سراسر خلاف ہے ۔ پنجم یہ کہ مثنوی نے ان کی خودی کی توہین کی ہے۔ خواجہ حسن نظامی نے مسئلہ وحدت الوجود کو قرآن مجید کی روشنی میں ثابت کرنے کا قصد بھی کیا ، لیکن اکبر الٰہ آبادی اور شاہ سلیمان پھلواروی نے انہیں ایسا کرنے سے منع کیا ۔ اکبرالٰہ آبادی نے انہیں تحریر کیا : میں آپ کو مناسب اور محفوظ جگہ نہ پائوں گا، اگر آپ قرآن مجید سے مسئلہ وحدت الوجود کو ثابت کرنے کے لیے قلم اٹھائیں گے ۔ علماے شریعت نے غالباً فرما دیا ہے کہ یہ مسئلہ جزو اسلام نہیں اور میں تو یہ کہتا ہوں کہ ہمہ اوست کہنے سے پہلے ’’او‘‘ کو ثابت کرو پھر ’’ہست‘‘ کی توضیح کرو، یعنی ہستی کیا چیز ہے اور ’’او‘‘کسے کہتے ہیں۔ شاہ سلیمان پھلواروی نے انہیں لکھا: وحدت الوجود ایک علمی مسئلہ ہے جس کو اصطلاح میں ربط الحادث بالقدیم کہتے ہیں اور تمام کتبِ الہٰیات میں اس کا ذکر ہوتا ہے۔ اسلامی سیر و سلوک اور مشاہدئہ انوار و تجلیات سے اس کا تعلق ضرور ہے ، مگر مدارِ نجات سے اس کا کوئی واسطہ نہیں۔ اسی دور میں پیرزادہ مظفر احمد فضلی نے ’’اسرار خودی‘‘ کے جواب میں ایک مثنوی ’’رازِ بے خودی‘‘ لکھ کر شائع کی ۔ یہ مثنوی افلاطون اور حافظ کی تعریف میں تحریر کی گئی تھی اور اس میں اقبال کی ذات پر ناجائز حملے کیے گئے تھے لیکن اس کا ’’اسرار خودی‘‘ کے اصل موضوع سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اسی طرح ملک محمد ٹھیکیدار جہلم نے ’’اسرار خودی‘‘ کے جواب میں ایک مثنوی لکھی جس میں حافظ کی مدح سرائی کی گئی اور اقبال کو بُرا بھلا کہا گیا۔ میرٹھ کے رسالے ’’اسوئہ حسنہ‘‘ نے اپنی فروری ۱۹۱۶ء کی اشاعت میں ’’اسرار خودی‘‘ اور ان مضامین کو پڑھ کر جو اس کی حمایت یا مخالفت میں ’’خطیب ‘‘ اور ’’وکیل‘‘ میں شائع ہو چکے تھے، اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے تحریر کیا کہ مثنوی اسلامی نقطۂ نظرسے قابلِ اعتراض ہے۔مسلمانوں کے تنزل کے اسباب میں غلط فہمیوں کا دخل ہے، نہ کہ نفیِ خودی کا۔ اگر اقبال کے نزدیک نفیِ خودی نے مسلمانوں کو رہبانیت پرست ، ضعیف العمل ، پست ہمت اور کاہل الوجود بنا دیا ہے، تو کہا جا سکتا ہے کہ خودی کے احساس نے یورپ میں بھی کئی ایسے گل کھلائے ہیں، جن کا ایک نمونہ وہ عالم سوز جنگ ہے جو انسانوں کو درندگی کے سیکڑوں خوفناک مناظر دکھلا چکی ہے، تو کیا اقبال کا بھی یہی منشا ہے کہ بکریوں سے شیروں میں منتقل ہو کر مسلمان بھی ایسی ہی درندگی کا مظاہرہ کریں اور روحانیت کو چھوڑ کر مادہ پرست بن جائیں ؟ صوفیوں نے خودی کو مٹانے کی تلقین کی ہے اور دراصل قرآن کا بھی یہی مؤقف ہے لیکن جس طرح دیگر مسائل قرآنی کی غلط تاویلیں کر کے انہیں کچھ کا کچھ بنا دیا گیا ہے، اسی طرح مسئلہ خودی بھی جاہلوں اور خود غرضوں کے دست تصرف سے نہ بچ سکا اور آج مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اس کے متعلق طرح طرح کی غلط فہمیوں کا شکار ہو کر اپنی عاقبت خراب کر رہی ہے۔ حکیم فیروز الدین احمد طغرائی نے حافظ کی حمایت میں ایک رسالہ ’’لسان الغیب‘‘ کے نام سے شائع کیا ۔ انہوں نے لکھا کہ مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ کا مطالعہ یاس آفرین ثابت ہوا، کیونکہ اقبال نہ تو اربابِ مشاہدہ میں سے تھے، نہ انہیں طریقِ اظہار میں پختہ کلامی حاصل تھی ۔ طغرائی نے کلام حافظ میں سے جوش ، ولولہ انگیزی ، تحریک عمل ، صبر و استقلال ،حزم و احتیاط اور فلسفہ اخلاق کی تعلیم کی مثالیں پیش کرتے ہوئے تحریر کیا کہ اقبال نے حافظ کے ان پہلووں کو نظر انداز کر دیا، کیونکہ عرفا کے رموز و اشارات سمجھنے کے لیے اربابِ حال کی خدمت میں کچھ عرصہ زانوئے ادب تہ کرنے کی ضرورت ہے ، جس سے اقبال محروم تھے۔ مولوی محمود علی نے ’’اسرار خودی‘‘ کی حمایت میں ایک مضمون لکھا جو ’’خطیب‘‘ ۷ فروری ۱۹۱۶ء میں شائع ہوا۔ انہوں نے تحریر کیا کہ مثنوی میں اقبال نے کون سا ایسا خیال پیش کیا ہے جو مسلکِ وحدت الوجود کو تسلیم کرتے ہوئے بھی غلط کہا جا سکتا ہے۔ کیا من عرف نفسہ، فقد عرف ربّہ کو ماننے والے اپنی بات کے ایسے کچے نکلے کہ اپنے نفس کو پہچاننے کی ترغیب سے بیزار ہو گئے؟ جو شخص انسان کی آنکھ کو مشاہدہ انوارِ احدیث کے قابل سمجھتا ہے اور آنکھ کے آگے سے ہاتھ کا پردہ اٹھانے کی ترغیب دیتا ہے، اسے اندھا کیسے کہا جا سکتا ہے البتہ یہ کہا جا سکتاہے کہ اقبال نے دیباچے ۔ جیسے تنگ میدان اور نظم کی خیالی فضا میں وحدت الوجود کے ذکر سے ناحق بحث و تکرار کا دروازہ کھولا۔ اگر انہوں نے جذبۂ عمل کو تحریک دینا تھا تو جذبۂ عمل ہی کے ذکر سے شروع کیا جاتا۔ وحدت الوجود کا ذکر کرنا تھا تو نثر میں کسی مستقل مضمون یا کتاب کی شکل میں پیش کرتے۔ حافظ محمد اسلم جیراجپوری نے ایک غیر جانبدار کی حیثیت سے بحث میں حصہ لیا ۔ انہوں نے اپنے مضمون میں لکھا کہ اقبال نے مثنوی میں حافظ کے متعلق جو کچھ تحریر کیا ، وہ اگر نہ لکھتے تو بہتر تھا، لیکن حافظ کے متعلق ایسی آرا کا اظہار پہلے بھی ہوتا رہا ہے بلکہ ایک جماعت نے تو ان کا جنازہ پڑھنے سے بھی انکار کر دیا تھا اورنگ زیب عالمگیر نے دیوانِ حافظ پڑھنے پر قدغن لگا رکھی تھی ۔ نیز حالی نے ’’حیات سعدی‘‘ میں لکھا ہے کہ حافظ کی غزل محافل میں زیادہ گائی جاتی ہے ۔ گو اکثر سامعین اس کے مضامین سے واقف نہیں۔ حافظ کی غزل سے سامعین کے دلوں میں دنیا کی بے ثباتی ، توکل ، استغناء اور قناعت کا خیال پیدا ہوتا ہے اور اوباش لوگوں کو بے فکری ، عاقبت نا اندیشی ، عشق بازی، بدنامی اور رسوائی کی ترغیب ہوتی ہے۔ قوم کی موجودہ حالت میں یہ دونوں تاثیریں اس کے لیے مضر ہیں ۔ جہاں تک تصوف کا تعلق ہے ،قرآن و حدیث اس لفظ سے نا آشنا ہیں ۔ یہ دوسری صدی ہجری میں عربی زبان میں داخل ہوا۔ ایسی صورت میں اسلام کا عین تصوف ہونا یا تصوف کا عین اسلام ہونا کیونکر قبول کیا جا سکتا ہے۔ شیخ مشیر حسین قدوائی نے حافظ کی حمایت میں لندن سے ایک مضمون بھیجا جو ’’زمیندار ‘‘ ۲۳ مارچ ۱۹۱۶ء میں شائع ہوا۔ اسی طرح انہوں نے ایک مضمون خودی اور رہبانیت کے موضوع پر لکھا اور رہبانیت کی عظمت کے سلسلے میں یہ ثبوت پیش کیا کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ راہبوں کا ادب ملحوظ رکھا اور ان کی تعظیم فرمائی ۔ اس کے جواب میں مولوی سراج الدین پال ایڈووکیٹ نے ’’وکیل‘‘ ۵ جولائی ۱۹۱۶ء میں ایک مضمون تحریر کیا جس میں لکھا کہ اسلام میںرہبانیت ممنوع ہے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا راہبوں سے تعرض نہ کرنا رہبانیت کی عظمت پر مبنی نہ تھا بلکہ اس کا سبب یہ تھا کہ وہ اسلام میں مزاحم نہ ہوتے تھے۔ اقبال اپنے نقطۂ نظر کی مدافعت میں اس بحث میں شریک ہوئے اور سلسلۂ مضامین کے ذریعے یا خطوط سے معترضین کے اعتراضات کا جواب دیتے رہے ۔ اس سلسلے میں ان کا پہلا مضمون بعنوان ’’اسرارِ خودی اور تصوف ‘‘ وکیل ۱۵ جنوری ۱۹۱۶ء میں شائع ہوا۱۲ ۔ انہوں نے تحریرکیا کہ اکثر احباب نے شکایت کی ہے کہ اقبال نے تصوف کی مخالفت کی ہے مگر انہیں اس بات کا گلہ ہے کہ ہندوستان میں ایسے لوگ بہت کم ہیں جنہوں نے اسلامی لٹریچر کا بغور مطالعہ کیا ہے ۔ اس مضمون میںا نہوں نے فرمایا کہ وہ تحریکِ تصوف کی ایک مفصل تاریخ لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس میں ان کا مقصد یہ دکھانا ہو گا کہ اس تحریک میں اسلامی عنصر کون کون سے ہیں اور غیر اسلامی عنصر کون کون سے؟ لیکن اس مرحلے پر یہ بتلا دینا کافی ہے کہ یہ تحریک غیر اسلامی عناصر سے خالی نہیں اور اگر وہ مخالف ہیں تو صرف صوفیہ کے اس گروہ کے جنہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر بیعت لے کر دانستہ یا نادانستہ ایسے مسائل کی تعلیم دی جو دین اسلام سے غیر متعلق تھے ۔ لیکن جو صوفیہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ پر قائم ہیں، اقبال ان کی خاک پا ہے اور ان کی محبت کو سعادتِ دارین کا سبب سمجھتا ہے ۔ اس مضمون میں اقبال نے اپنے متعلق تحریر کیا: مجھے اس امر کا اعتراف کرنے میں کوئی شرم نہیں کہ میں ایک عرصے تک ایسے عقائد و مسائل کا قائل رہا جو بعض صوفیہ کے ساتھ خاص ہیں اور جو بعد میں قرآن شریف پر تدبر کرنے سے قطعاًغیر اسلامی ثابت ہوئے ۔ مثلاً شیخ محی الدین ابن عربی کا مسئلہ قدم ارواح کملا ، مثلاً وحدت والوجود یا مسئلہ تنزلات ستہ یا دیگر مسائل جن میں بعض کا ذکر عبدالکریم جیلی نے اپنی کتاب ’’انسان کامل‘‘ میں کیاہے ۔ مذکورہ بالا تینوں مسائل میرے نزدیک مذہب اسلام سے کوئی تعلق نہیں رکھتے ، گو میں ان کے ماننے والوں کو کافر نہیں کہہ سکتا کیونکہ انہوں نے نیک نیتی سے ان مسائل کا استنباط قرآن شریف سے کیا ہے۔مسئلہ قدم ارواح ، افلاطونی ہے ۔ بوعلی سینا اور ابونصر فارابی دونوں اس کے قائل تھے، چنانچہ امام غزالی نے اس وجہ سے دونوں بزرگوں کی تکفیر کی ہے ۔ ابن عربی نے اس مسئلے میں اس قدر ترمیم کی ہے کہ وہ صُلحاء و کُملا کے ارواح کے قدم کے قائل ہوئے مگر ظاہر ہے کہ اُ صول وہی ہے اور مسلمانوں میں اس مسئلے نے قبر پرستی کی بنیاد رکھی ہے ۔ تنزلات ستّہ افلاطونیت جدید کے بانی پلو ٹانیس کا تجویز کردہ ہے ۔۔۔ مسئلۂ تنزلات ستّہ ۔۔۔۔ یونانی فلسفے سے منتقل ہو کر مسلمانوں میں مروج ہوا اور بعد میں اسلامی حکماء اور صوفیہ نے اپنی اپنی اغراض کے مطابق اصطلاحات اسلامیہ میں بیان کیا ۔ شیخ شہاب الدین سہروردی مقتول نے ’’حکمت الاشراق‘‘ میں اس مسئلے کو اس طرح بیان کیا ہے کہ اسلام سے پہلے زر تشتی عنصر کی تصدیق و توثیق کے لیے قرآن کی مشہور آیت اللہ نور السمٰوات والارض میں تلاش کی ہے۔ اس وقت ہندوستان میں بہت سے صوفی حضرات اس مسئلے کے قائل ہیں اور غالباً اس وجہ سے کہ وہ اس کی تاریخ سے آگاہ نہیں ۔ مسئلہ وحدت الوجود گویا مسئلہ تنزلات ستّہ کی فلسفیانہ تکمیل ہے ۔۔۔۔ میرا مذہب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نظامِ عالم میں جاری و ساری نہیں بلکہ نظام عالم کا خالق ہے اور اس کی ربوبیت کی وجہ سے یہ نظام قائم ہے ۔ جب وہ چاہے گا، اس کا خاتمہ ہو جائے گا ۔ حکماء کا مذہب تو جو کچھ ہے ، اس سے بحث نہیں ، رونا اس بات کا ہے کہ یہ مسئلہ اسلامی لٹریچر کا ایک غیر منفک عنصر بن گیا ہے اور اس کے ذمہ دار زیادہ تر صوفی شاعر ہیں، جو پست اخلاق ، اس فلسفیانہ اُصول سے بطورِ نتیجہ کے پیدا ہوتے ہیں ان کا بہترین گواہ فارسی زبان کا لٹریچر ہے۔ اس کے بعد اپنے اندازِ فکر کی وضاحت کے سلسلے میں پنجابی زبان کے ایک شاعر وحید خان کی مثال پیش کرتے ہیں۔ وحید خان کسی ہندو جوگی رگناتھ جی کا مرید ہو کر فلسفہ ویدانت یا وحدت الوجود کا قائل ہو گیا تھا اور اس تبدیلیِ عقیدہ نے جو اثر اس پر کیا اسے یوں بیان کرتے ہیں: تھے ہم پوت پٹھان کے ، دل کے دل دیں موڑ شرن پڑے رگناتھ کے ، سکیں نہ تنکا توڑ یعنی یہ کہ میں پٹھان تھا اور فوجوں کے مُنہ موڑ دیتا تھا ، مگر جب سے رگناتھ جی کے قدم پکڑے ہیں یا یہ معلوم ہوا ہے کہ ہر شے میں خدا کا وجود جاری و ساری ہے، میں ایک تنکا بھی نہیں توڑ سکتا، کیونکہ توڑنے میں خدا کو دکھ پہنچنے کا احتمال ہے ۔ اقبال نے مزید لکھا: فلسفیانہ اور مؤر خانہ اعتبار سے مجھے بعض ایسے مسائل سے اختلاف ہے جو حقیقت میں فلسفے کے مسائل ہیں،مگر جن کو عام طور پر تصوف کے مسائل سمجھا جاتا ہے ۔ تصوف کے مقاصد سے مجھے کیونکر اختلاف ہو سکتا ہے، کوئی مسلمان ہے جو ان لوگوں کو بُرا سمجھے جن کا نصب العین محبتِ رسولؐ اللہ ہے اور جو اس ذریعے سے ذاتِ باری سے تعلق پیدا کر کے اپنے اور دوسروں کے ایمان کی پختگی کا باعث ہوتے ہیں۔ اگر میں تمام صوفیہ کا مخالف ہوتا تو مثنوی میں ان کی حکایات و مقولات سے استدلال نہ کرتا ۔ پھر حافظ کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ حافظ محض ایک شاعر تھے اور ان کے کلام سے جو صوفیانہ حقایق اخذ کیے گئے وہ بعد کے لوگوں کا کام ہے، مگر چونکہ اس کو صوفی اور مجذوب سمجھا گیا، اس لیے ان کی تنقید ہر دو اعتبار سے ضروری تھی۔ بحیثیت صوفی ان کا نصب العین یہ تھا کہ اپنے آپ میں اور دوسروں میں حالت سکر پیدا ہو، لیکن سکر کی حالت اسلامی تعلیمات کے منافی ہے ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی زندگی اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ مسلم قلب کی مستقل کیفیت بیداری ہے نہ کہ خواب یا سُکر۔ مزیدبراں جو لوگ سُکر کی حالت کو مستقل بنا لیتے ہیں ، وہ کشمکش حیات کے قابل نہیں رہتے اور قومی و ملی اعتبار سے بھی اس کے نقصان دہ ہونے کی مثالیں اسلامی تاریخ میں ملتی ہیں۔ اقبال نے لکھا: شاعرانہ اعتبار سے میں حافظ کو نہایت بلند پایہ سمجھتا ہوں ۔۔۔۔ لیکن فردی اور ملی اعتبار سے کسی شاعر کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنے کے لیے کوئی معیار ہونا چاہیے ۔ میرے نزدیک معیار یہ ہے کہ اگر کسی شاعر کے اشعار اغراضِ زندگی میں ممد ہیں تو وہ شاعر اچھا ہے اور اگر اس کے اشعار زندگی کے منافی ہیں یا زندگی کی قوت کو کمزور یا پست کرنے کا میلان رکھتے ہیں تو وہ شاعر خصوصاً قومی اعتبار سے مضرت رساں ہے ۔۔۔۔ جو حالت خواجہ حافظ اپنے پڑھنے والوں کے دل میں پیدا کرنا چاہتے ہیں (یعنی بحیثیت صوفی ہونے کے ) وہ حالت افراد و اقوام کے لیے جو اس زمان و مکان کی دنیا میں رہتے ہیں ، نہایت ہی خطرناک ہے۔۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے دیوان میں ایسے اشعار بھی ہیں جو تحفظ ذاتی کے ممد ہیں ۔ مگر میری تنقید پر رائے زنی کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ حافظ شیرازی مسلمان تھے اور ان کے رگ و ریشہ میں اسلام تھا۔ وحدت الوجودی تصوف نے خواہ ان کے نقطۂ نظر کو کتنا ہی تبدیل کیوں نہ کر دیا ہو، یہ ممکن نہیں کہ کبھی صحو ، سکر پر غالب نہ آتا ہو اور وہ ایسے اشعار نہ لکھتے ہوں ۔ حکیم فیروز الدین صاحب طغرائی نے اپنے رسالہ لسان الغیب میں ایسے بہت سے اشعار لکھے ہیں اور گو انہوں نے اپنے خیال میں میری مخالفت کی ہے، حقیقت میں انہوں نے میرے مقصد کی تصدیق کی ہے ۔ وہ غور کریں گے تو ان کو یہ بات معلوم ہو جائے گی اور یہ بات ظاہر ہے کہ بحیثیت مجموعی خواجہ حافظ کا اخلاقی نصب العین حالت سُکر ہے نہ کہ حالت صحو ، اور کسی شاعر کی تنقید کے لیے اس کے نصب العین ہی کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد اپنے نصب العین کی مزید توضیح کے سلسلے میں اقبال نے محمد دین فوق کی تصنیف ’’وجدانی نشتر‘‘ میں اورنگ زیب عالمگیر سے متعلق ایک واقعے کا ذکر کیا ۔ اورنگ زیب عالمگیر نے ایک دفعہ فرمان جاری کیا کہ ایک مخصوص میعاد کے اندر اس کی مملکت میں ساری طوائفیں نکاح کر لیں، ورنہ انہیں کشتیوں میں بٹھا کر دریا بُرد کر دیا جائے گا۔ سیکڑوں نکاح ہو گئے لیکن ایک بڑی تعداد رہ گئی ، جن کو ڈبونے کے لیے کشتیاں تیار کی گئیں۔ میعاد میں صرف ایک دن باقی رہ گیا ۔ یہ زمانہ حضرت شیخ کلیم اللہ جہان آبادی کا تھا۔ ایک جوان اور حسین طوائف ہر روز ان کے سلام کو آیا کرتی تھی ۔ جب آپ درود و وظائف سے فارغ ہوتے تو طوائف سامنے آ کر دست بستہ کھڑی ہو جاتی اور جب آپ نظر اٹھاتے تو سلام کر کے چلی جاتی ۔ اب جو وہ آئی تو عرض کی کہ بندی کا آخری سلام قبول ہو ۔ آپ نے حقیقت حال پوچھی تو طوائف نے تمام کیفیت بیان کر دی ۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ حافظ کا یہ شعر : در کوے نیک نامی مارا گزر نہ دادند گر تو نمی پسندی تغییر کن قضا را تم سب یاد کر لو اور جب تمہیں دریا کی طرف لے چلیں تو بآواز بلنداس شعر کو پڑھتی جائو۔ طوائفوں نے شعر ازبر کر لیا۔ جب روانہ ہونے لگیں تو خوش الحانی سے بڑے درد ناک لہجے میں یہ شعر پڑھنا شروع کر دیا۔جس جس نے سُنا دل تھام کے رہ گیا۔ جب اورنگ زیب عالمگیر کے کان میں آواز پہنچی تو بے قرار ہو گیا اور حکم دیا کہ سب کو چھوڑ دو۔ اقبال نے اس مثال سے واضح کیا کہ جو محمد دین فوق کے نزدیک حافظ کا حسن ہے وہ اقبال کے نقطۂ نگاہ سے ان کا قبح ہے، کیونکہ حافظ کی شاعرانہ ساحری نے مسئلہ تقدیر کی ایک دل کش مگر غلط تعبیر سے ایک متشرع اور نیک نیت بادشاہ کو جو آئین حقۂ شرعیۂ اسلامیہ کی حکومت قائم کرنے اور زانیات کا خاتمہ کر کے مسلم معاشرے کے دامن کو اس بدنما داغ سے پاک کرنے کی کوشش کر رہا تھا ، قلبی طور پر اس قدر ناتواں کر دیا کہ اس میں قوانین اسلام کی تعمیل کرانے کی ہمت نہ رہی اور اگر اورنگ زیب عالمگیر دارا کے معاملے میں بھی ’’بادشمنان مدارا‘‘پر عمل کرتا تو ہندوستان میں شریعت اسلامیہ کی حکومت کبھی قائم نہ ہوتی۔ اس مضمون کی اشاعت کے چند دنوں بعد اپنے ایک خط بنام محمد نیاز الدین خان محررہ ۱۹ جنوری ۱۹۱۶ء میں اقبال نے تحریر کیا۔ شاہ ولی اللہ کا رسالہ میں نے دیکھا ہے ۔ یہی افلاطونیت جدید ہے جس کا اشارہ میں نے اپنے مضمون میں کیا ہے۔ فلسفہ افلاطون کی ایک بگڑی ہوئی صورت ہے جس کو ایک پیرو پلوٹانیس نے مذہب کی صورت میں پیش کیا۔ عیسائیت کی ابتدائی صدیوں میں رومی دنیا میںیہ مذہب نہایت مقبول تھا۔ اس کی آخری حامی ایک عورت تھی۔ ہائی پاٹیہ نام ، جس کو عیسائیوں نے ہی مصر میں نہایت بے دردی سے قتل کراد یا تھا ۔ مسلمانوں میں یہ مذہب حران کے عیسائیوں کے تراجم کے ذریعے سے پھیلا اور رفتہ رفتہ مذہبِ اسلام کا ایک جزو بن گیا۔ میرے نزدیک یہ تعلیم قطعاً غیر اسلامی ہے اور قرآن کریم کے فلسفے سے اسے کوئی تعلق نہیں۔تصوف کی عمارت اسی یونانی بے ہودگی پر تعمیر کی گئی۱۳ ۔ خواجہ حسن نظامی کے مضمون ’’سّراسرار خودی‘‘ کے چھپنے سے پہلے اقبال نے ان کے نام ایک خط شائع کیا، جس میں فرمایا: مجھے خوب معلوم ہے کہ آپ کو اسلام اور پیغمبر اسلام سے عشق ہے۔ پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ آپ کو ایک حقیقت اسلامی معلوم ہو جائے اور آپ اس سے انکار کریں، بلکہ مجھے ابھی سے یقین ہے کہ آپ بالآخرمجھ سے اتفاق کریں گے، میری نسبت بھی آپ کو معلوم ہے، میرا فطری اور آبائی میلان تصوف کی طرف ہے اور یورپ کا فلسفہ پڑھنے سے یہ میلان اور بھی قوی ہو گیا تھا ۔ کیونکہ فلسفہ یورپ بحیثیت مجموعی وحدت الوجود کی طرف رُخ کرتا ہے۔ مگر قرآن پر تدبر کرنے اور تاریخ اسلام کا بغور مطالعہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے اپنی غلطی معلوم ہوئی اور میں نے محض قرآن کی خاطر اپنے قدیم خیال کو ترک کر دیا اور اس مقصد کے لیے مجھے اپنے فطری اور آبائی رجحانات کے ساتھ ایک خوفناک دماغی اور قلبی جہاد کرنا پڑا۔ اقبال نے یہ بھی واضح کیا کہ اسلام حقیقت میںرہبانیت کے خلاف ایک صداے احتجاج ہے اور ان کے نزدیک ’’گسستن ‘‘ عین اسلام ہے اور ’’پیوستن‘‘ رہبانیت یا ایرانی تصوف ہے۔اقبال نے خواجہ حسن نظامی کو یاد دلایا کہ انہوں نے اقبال کو ’’سرالوصال‘‘کا خطاب دیا تھا، تو تب بھی اقبال نے انہیں تحریر کیا تھا کہ انہیں ’’سرالفراق‘‘ کہا جائے، کیونکہ اس وقت بھی ان کے ذہن میں گسستن اور پیوستن کا امتیاز تھا، جو شیخ احمد مجدد الف ثانی کے ہاں موجود ہے۔ تصوف کی اصطلاح میں اقبال نے اپنا مسلک بیان کرتے ہوئے لکھا کہ شان عبدیت انتہائی کمال روح انسانی کا ہے اور اس سے آگے کوئی مرتبہ یا مقام نہیں بلکہ بقول ابن عربی عدم محض ہے ۔ پس حالت سکر منشائے اسلام اور قوانین حیات کے مخالف ہے اور حالت صحو، جس کادوسرا نام اسلام ہے، قوانین حیات کے عین مطابق ہے۔ اقبال کی رائے میں صوفیہ کو توحید اور وحدت الوجود کا مفہوم سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ توحید کا مفہوم ذہنی ہے اور وحدت الوجود کا مفہوم فلسفیانہ ہے۔ توحید کی ضد ، جیسا کہ صوفیہ نے تصور کیا، کثرت نہیں بلکہ شرک ہے۔ وحدت الوجود کی ضد کثرت ہے۔ اس غلطی کا نتیجہ یہ ہوا کہ جن لوگوں نے وحدت الوجود یا جدید فلسفہ یورپ کی اصطلاح میں توحید کو ثابت کیا، وہ موحد کہلائے، حالانکہ ان کے ثابت کردہ مسئلہ کا تعلق مذہب سے نہ تھا بلکہ نظامِ عالم کی حقیقت سے تھا۔ اسلام کے نزدیک قابل عبادت ذات اللہ، پاک یعنی خالق کی ہے۔ باقی جو کچھ کثرت نظام عالم میں نظر آتی ہے، وہ سب کی سب مخلوق ہے۔ گو فلسفیانہ اعتبار سے اس کی حقیقت ایک ہی کیوں نہ ہو۔ بالفاظِ دیگر قرآن کی تعلیم کی رو سے وجود فی الخارج کو ذاتِ باری سے نسبت اتحاد کی نہیں بلکہ مخلوقیت کی ہے۔ بہر حال جب توحید اور وحدت الوجود ایک ہی مسئلہ سمجھ لیا گیا تو صوفیہ کو فکر ہوئی کہ توحید ثابت کرنے کا کوئی ایسا طریقہ ہونا چاہیے جو منطقی قوانین سے لا تعلق ہو۔ اس غرض کے لیے حالت سُکر ممد ہوئی۔ اقبال کو حقیقت سُکر کی واقعیت سے انکار نہ تھا لیکن ان کی رائے میں جس غرض کے لیے یہ حالت پیدا کی جاتی ہے ، وہ غرض اس سے مطلق پوری نہیں ہوتی۔ اس سے زیادہ سے زیادہ صاحب حال کو ایک علمی یا فلسفیانہ مسئلہ کی تصدیق ہو جاتی ہے اور بس ۔ پس اقبال کے عقیدے کے مطابق ہر کیفیت قلبی مذہبی اعتبار سے کوئی فائدہ نہیں رکھتی۔ بحث کچھ تلخی کا رنگ اختیار کرنے لگی تھی، اس لیے اکبر الٰہ آبادی ، اقبال اور خواجہ حسن نظامی میں صلح کرانے کی کوشش کرنے لگے ۔ اس سلسلے میں اقبال نے انہیں اپنے ایک خط محررہ ۲۷ جنوری ۱۹۱۶ء میں تحریر کیا: ان شاء اللہ اختلاف رائے کا اثر پرائیویٹ تعلقات پر نہ ہو گا ۔ میں نے صرف دو ایک خط شائع کیے تھے اور وہ بھی اسی وقت جب خواجہ حسن نظامی نے خود مضامین لکھے اور اپنے احباب سے لکھوائے ۔ ان مضامین کی مجھے کوئی شکایت نہیں۔ شکوہ صرف اس امر کا تھا کہ پرائیویٹ خطوں میں تو وہ مجھے لکھتے تھے، اورلکھتے ہیں کہ تمہاری نیت پر کوئی حملہ نہیں، لیکن اخباروں میں اس کے برعکس لکھتے ہیں ۔ میں نے خود خواجہ حسن نظامی سے اس امر کی شکایت کی تھی اور نہایت صاف باطنی کے ساتھ لکھا تھا کہ آپ میرے ساتھ ناانصافی نہ کریں ۔ علمی بحث ہونی چاہیے، حریف کو بدنام کرنا مقصود نہ ہونا چاہیے۱۴ ۔ پھر اٍپنے ایک اور خط محررہ ۴ فروری ۱۹۱۶ء بنام اکبر الٰہ آبادی میں لکھا : چونکہ خواجہ حسن نظامی نے عام طور پر اخباروں میں میری نسبت یہ مشہور کر دیا ہے کہ میں صوفیاے کرام سے بدظن ہوں ، اس واسطے مجھے اپنی پوزیشن صاف اور واضح کرنی ضروری ہے ۔۔۔۔ ان کا خیال ہے میں تحریک تصوف کو دنیا سے مٹانا چاہتا ہوں ۔ ’’سّراسرار خودی‘‘ کے عنوان سے انہوں نے ایک مضمون ’خطیب‘ میں لکھا ہے ، جو آپ کی نظروں سے گزرا ہو گا۔ جو پانچ وجوہ انہوں نے مثنوی سے اختلاف کرنے کے لکھے ہیں، انہیں ذرا غور سے ملاحظہ فرمائیے ۱۵ ۔ اس کے بعد اقبال نے ’’سرِ اسرار خودی‘‘ کے عنوان سے دوسرا مضمون خواجہ حسن نظامی کے اعتراضات کے جواب میں لکھا ، جو ’’وکیل‘‘ ۹ فروری ۱۹۱۶ء میں شائع ہوا ۱۶۔ اس میں بھی اپنے عقیدے کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام نے دین اور دنیا کے فرائض کو یکجا کیا ہے اور اس طرح بنی نوع انسان کے لیے ایک معتدل راہ قائم کی ہے۔ جہاں یہ تعلیم دی ہے کہ انسان کا مقصود اصلی اعلاے کلمتہ اللہ ہے، وہاں یہ بھی سکھایا ہے ولا تنس نصیبک من الدنیا (دنیا سے اپنا حصہ لینا نہ بھولو) پھر اس حصہ کو حاصل کرنے کا طریقہ بھی بتایا جو شریعت اسلامیہ کا وہ حصہ ہے جو معاملات سے تعلق رکھتا ہے لیکن جس طرح خواجہ حسن نظامی نے اپنے مضمون میں اسلام کی تعبیر کی ہے اس طرح تو اسلام اور رہبانیت میں کوئی فرق نہیں رہتا ۔ انہوں نے لکھا کہ جو کچھ میں کہتا ہوں وہ فلسفۂ حقۂ اسلامیہ ہے نہ کہ فلسفہ مغربی خواجہ حسن نظامی کو معلوم نہیں کہ یورپ کا علمی مذہب وحدت الوجود ہے جس کے خواجہ حسن نظامی حامی ہیں۔ لیکن اقبال تو اس مذہب سے جو ان کے نزدیک ایک قسم کی زندیقیت ہے، تائب ہو کر خدا کے فضل و کرم سے مسلمان ہو چکا ہے۔ پھر اقبال نے خواجہ حسن نظامی کی ان لغزشوں کی نشان دہی کی جو انہوں نے اقبال کے حافظ سے متعلق اشعار کو غلط معانی پہنا کر یا مثنوی کے دیباچے کے بعض حصوں کی غلط تعبیر کے ذریعے کی تھیں اور جن کا مقصد عوام کو مثنوی سے بدظن کرنا تھا ۔ مثنوی کی نا معقولیت سے متعلق جو پانچ وجوہ خواجہ حسن نظامی نے دی تھیں، ان میں پہلی وجہ کے جواب میں تحریر کیا: مجھے خواجہ صاحب سے اتفاق ہے کہ قرآن شریف میں کہیں زیادہ تعلیم خودی کی ہے اور اگر یہ تعلیم انوکھی یا نرالی ہوتی تو میں ہر گز مسلمانوں کے سامنے اسے پیش کرنے کی جرأت نہ کرتا۔۔۔۔ مثنوی ۔۔۔۔ ایک مسلمان کی لکھی ہوئی ہے، جس نے قرآن سے فائدہ اٹھایا ہے اور اس کی تعلیم کو بنی نوع انسان کی نجات کا باعث تصور کرتا ہے ۔۔۔۔ خواجہ صاحب نے اس مثنوی کی نامعقولیت کی ایک دلیل یہ دی ہے کہ چونکہ مجھ کو اس کی ضرورت نہیں، اس واسطے یہ مثنوی نامعقول ہے ۔ سبحان اللہ۔ دوسری وجہ نامعقولیت کے جواب میں فرمایا : دیباچے میں جو کچھ لکھا ہے، اس کا مفہوم یہی ہے اور یہی میرا عقیدہ ہے۔۔۔۔ خواجہ صاحب کی خدمت میں مؤدبانہ عرض ہے کہ صوفی تحریک کو مٹانا میرا مقصد نہیں، میرا مقصد محض حفاظتِ اسلام ہے ۔ میں صرف یہ بات مسلمانوں پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ عجمی تصوف۔۔۔۔ جزوِ اسلام نہیں یہ ایک قسم کی رہبانیت ہے ، جس سے اسلام کو قطعاً تعلق نہیں اور جس کے اثر سے اسلامی اقوام میں قوتِ عمل مفقود ہو چکی ہے ۔۔۔۔ مسئلہ وحدت الوجود کے متعلق تو علماے امت کا اجماع ہے کہ یہ قطعاً غیر اسلامی تعلیم ہے۔ تیسری وجہ کے جواب میں ارشاد فرمایا : کہاں میں نے مسلمانوں کو یہ صلاح دی ہے کہ وہ اپنے عقائد بدل دیں۔ میں تو ان کو یہ صلاح دیتا ہوں کہ وہ اپنی فلسفیانہ روایات پر نظر ثانی کریں۔۔۔۔ میرے نزدیک یورپ کی ذہنی تاریخ اسلام کی صداقت کا ایک قطعی ثبوت ہے۔ مسلمانوں کو تو حکم ہے کہ علم اگر چین میں بھی ملے تو اس کو حاصل کرو۔ پھر اگر کوئی مفید اور کام کی بات مغربی ادبیات میں ہم کو ملتی ہے تو اس سے فائدہ نہ اٹھانا سخت تنگ دلی ہے۔ چوتھی وجہ کے جواب میں تحریر فرمایا: اس (وجہ) کی تائید میں ایک شعر بھی مثنوی کا پیش نہیں کیا گیا، جس سے معلوم ہو کہ اقبال( خودداری کے ساتھ)خود غرضی کی تعلیم دیتا ہے۔ پانچویں وجہ کے جواب میں لکھا : یعنی چونکہ خواجہ صاحب ، حافظ کے حلقہ بگوش ہیں اس واسطے (ان کے نزدیک) یہ مثنوی بوجۂ تنقید حافظ نا معقول ہے۔ آخر میں اقبال نے تحریر کیا: باقی مضمون میں دو باتیں ہیں ، یعنی یہ کہ اقبال نے مثنوی کو سر علی امام کے نام سے نامزد کرنے میں اپنی خودی پر چوٹ لگائی ہے اور اس طرح ایک دنیا دار کے سامنے سر جھکا کر اپنی مثنوی کی تعلیم کے خلاف کیا ہے۔ اس کے جواب میں صرف اس قدر عرض ہے کہ خواجہ صاحب لفظ ’’ڈیڈیکیشن‘‘کے معنی نہیں سمجھتے ۔۔۔۔ اس سے مراد محض اظہار محبت و اخلاص ہے جو دو آمیوں کے ذاتی تعلقات پر مبنی ہوتا ہے ۔۔۔۔ دوسرا الزام جو خواجہ صاحب مجھ پر لگاتے ہیں یہ ہے کہ اقبال نے مولانا روم کو خواب میں دیکھا ۔ ان کی مثنوی کو بیداری میںنہیں پڑھا۔اگر وہ ایسا کرتے تو قرآن کے خلاف نہ چلتے بلکہ قرآن کے اصول کو مثنوی میں لکھتے ۔۔۔۔ حضرت ! میں نے مولانا جلال الدین رومیؒ کی مثنوی کو بیداری میں پڑھا ہے اور بار بار پڑھا ہے۔ آپ نے شاید اسے سُکر کی حالت میں پڑھا ہے کہ اس میں آپ کو وحدت الوجود نظر آتا ہے۔مولوی اشرف علی تھانوی سے پوچھیے، وہ اس کی تفسیر کس طرح کرتے ہیں۔ میں اس بارے میں انہی کا مقلد ہوں۔ اقبال مثنوی کا دوسرا حصہ لکھنے کے لیے بیتاب تھے، لیکن خواجہ حسن نظامی نے بحث چھیڑ کر ان کی توجہ ہٹادی اس بات کا ذکر اپنے ایک خط محررہ ۱۳ ؍ فروری ۱۹۱۶ء بنامِ محمد نیاز الدین خان میں یوں کرتے ہیں: میرا تو خیال تھا کہ فرصت کا وقت مثنوی کے دوسرے حصے کو دوں گا، جو پہلے سے زیادہ ضروری ہے ، مگر خواجہ حسن نظامی نے بحث چھیڑ کر توجہ اور طرف منعطف کردی ہے ۔۔۔ دین کی اصل حقیقت ائمہ اور علماء کی کتابیں پڑھنے سے ہی کھلتی ہے اور آج کل زمانہ کا اقتضاء یہ ہے کہ علم دین حاصل کیا جائے اور اسلام کے عملی پہلو کو نہایت وضاحت سے پیش کیا جائے۔ حضرات صوفیہ خود کہتے ہیں کہ شریعت ظاہر ہے اور تصوف باطن ، لیکن اس پُر آشوب زمانہ میں ۔۔۔۔ اگر ظاہر قائم نہ رہا تو اس کا باطن کس طرح قائم رہ سکتا ہے۔ مسلمانوں کی حالت آج بالکل ویسی ہے جیسے کہ اسلامی فتوحات ہندوستان کے وقت ہندوئوں کی تھی یا ان فتوحات کے اثر سے ہو گئی۔ ہندو قوم کو اس انقلاب کے زمانے میں منو کی شریعت کی کو رانہ تقلید نے موت سے بچا لیا۔ اپنی شریعت کی حفاظت کی وجہ سے ہی یہودی قوم اس وقت تک زندہ ہے ورنہ اگر فیلو (پہلا یہودی متصوف) قوم کے دل و دماغ پر حاوی ہو جاتا تو آج یہ قوم دیگر اقوام میں جذب ہو کر اپنی ہستی سے ہاتھ دھو چکی ہوتی۱۷۔ اپنے ایک اور خط محررہ ۱۳ ؍ اپریل ۱۹۱۶ء بنام مہاراجہ کشن پرشاد میں فرماتے ہیں : خواجہ حسن نظامی صاحب نے تنقید حافط کی وجہ سے اس مثنوی کو مخالفِ تصوف سمجھا ہے اور اسی مفروضے پر ان کے مضامین کا دارومدار ہے، جن میں مجھے انہوں نے دشمن تصوف کہہ کر بدنام کیا ہے۔ ان کو تصوف کے لٹریچر سے واقفیت نہیں اور جس تصوف پر وہ قائم ہیں اس کا میں مخالف نہیں۔ ہاں اس کے بعض مسائل کو میں صحیح تسلیم نہیں کرتا اور جس مسئلہ میں میں نے اختلاف کیا ہے مجھ سے پہلے ہزاروں صوفی اس سے اختلاف کر چکے ہیں ۔۔۔۔ میں نے مسلمانوں اور ہندووں کی گذشتہ دماغی تاریخ اور موجودہ حالت پر بہت غور کیا ہے جس سے مجھے یقین ہو گیا ہے کہ ان دونوں قوموں کے اطباء کو اپنے مریض کا اصل مرض اب تک معلوم نہیں ہو سکا ۔ میرا عقیدہ ہے کہ ان کا اصل مرض قواے حیات کی ناتوانی اور ضعف ہے اور یہ ضعف زیادہ تر ایک خاص قسم کے لٹریچر کا نتیجہ ہے جو ایشیا کی قوموں کی بد نصیبی سے ان میں پیدا ہو گیا ۔۔۔۔ اب حالات حاضرہ اس امر کے مقتضی ہیں کہ اس نکتہ خیال میں اصلاح کی جائے ۱۸۔ اپنے ایک دوسرے خط محررہ ۱۰ مئی ۱۹۱۶ء میں انہیں لکھا : اگرچہ میں کوئی معمولی ذہانت و فطانت رکھنے والا آدمی نہیںہوں اور نہ کوئی غیر معمولی علم رکھتا ہوں ، تاہم عام لوگوں سے علم اور سمجھ کسی قدر زیادہ رکھتا ہوں۔ جب مجھ کو اس نتیجے پر پہنچنے کے لیے بیس سال کی ضرورت ہے ، تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ عام لوگ جو دنیا کی دماغی اور علمی تاریخ سے پورے واقف نہیں، تھوڑے غور و فکر سے اس کی حقیقت تک پہنچ جائیں۱۹۔ مگر مہاراجہ کشن پرشاد بھی خواجہ حسن نظامی کے اعتراضات سے اثر قبول کرکے یہ محسوس کرنے لگے تھے کہ مثنوی میں ’جرمن فلسفہ ‘ پیش کیا گیا ہے، اس لیے اقبال نے انہیں اپنے ایک خط محررہ ۲۴ جون ۱۹۱۶ء میں تحریر کیا : تعجب ہے آپ کا بھی یہ خیال ہے کہ میں نے جرمن فلسفہ ، اس مثنوی میں لکھا ہے ۔ علماے اسلام ابتدا سے آج تک تصوف وجودیہ کے مخالف رہے ہیں۔ میں نے کوئی نئی بات نہیں کی۔ ہندووں میں کشن کی گیتا (جہاں تک میں اسے سمجھا ہوں) اس کے خلاف ایک زبردست آواز تھی ۔ پھر اگر کوئی شخص تصوفِ وجودیہ کی مخالفت کرے تو اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ تصوف کا مخالف ہے ۔ حقیقی اسلامی تصوف اور چیز ہے ۔ تصوف وجودیہ مذہب اسلام سے قطعاً تعلق نہیں رکھتا اور مذہب ہنود سے گو تعلق رکھتا ہے، تاہم ہندووں کے لیے سخت مضر ثابت ہوا ہے ۔ ہمارے صوفیہ کی کتابوں میں اس امر پر ایک عجیب و غریب بحث موجود ہے کہ گسستن اچھا ہے یا پیوستن ، اور صوفیہ کا اس میں اختلاف ہے ۔ اسلامی تصوف کا دارو مدار گسستن پر ہے، تصوف وجودیہ کا پیوستن یا فنا پر ۔ اگر میں نے گسستن کی حمایت کی ہے تو کوئی بدعت نہیں کی ۔ صوفیہ میں سے جن لوگوں نے مجھ پر اعتراض کیا ہے وہ خود اپنے تصوف کے لٹریچر سے آگاہ نہیں معلوم ہوتے۔ تصوف وجودیہ کے متعلق خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیش گوئی موجود ہے جس پر میں نے مفصل بحث کی ہے ، ان شاء اللہ عنقریب یہ مضمون شائع ہو گا ۔ میرا ذاتی میلان پیوستن کی طرف ہے ، مگر وقت کا تقاضا اور ہے اور میں نے جو کچھ لکھا ہے اس کے لکھنے پر مجبور تھا۔ حکم کی اطاعت لازم تھی اس سے چارہ نہ تھا ۔دنیا مخالفت کرتی ہے تو کرے ، اس کی پروا نہیں ۔ میں نے اپنی بساط کے مطابق اپنا فرض ادا کر دیا ہے ۲۰۔ قلمی جنگ کے سلسلے میں اقبال کا تیسرا مضمون بعنوان ’’علم ظاہر و علم باطن‘‘’’وکیل‘‘ ۲۸ جون ۱۹۱۶ء میں شائع ہوا ۲۱۔ اس مضمون میں اقبال نے واضح کیاکہ اس تصوف کو جس کا نصب العین شعائر اسلام میں مخلصانہ استقامت پیدا کرنا ہو وہ عین اسلام سمجھتے ہیں ، لیکن صوفیاے اسلام میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو شریعت اسلامیہ کو علمِ ظاہر کے حقارت آمیز خطاب سے یاد کرتا ہے اور تصوف سے وہ باطنی دستور العمل مراد لیتا ہے جس کی پابندی سے سالک کو فوق الادراک حقائق کا مشاہدہ ہو جاتا ہے۔ اقبال کے نزدیک معرفت کو علم پر ترجیح دینا مذہبی اعتبار سے ہر قسم کی رہبانیت کی جڑ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ علم منسوب کیا جاتا ہے نہ کہ معرفت ، لیکن صوفیہ کے اس گروہ کے خیال میں معرفت یا علم باطن ایک مرتب و منظم دستورالعمل ہے جو شریعت اسلامیہ سے مختلف ہے۔ اقبال کی رائے میں احادیث صحیحہ میں ایسی کوئی روایت نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے علوم رسالت میں سے کوئی خاص علم بعض صحابہ کو سکھایا اور بعض سے اسے چھپایا تھا ۔ لہٰذا شریعت اسلامیہ کو ہر اعتبار سے فوقیت حاصل ہے اور صوفیہ کے معرفت یا علم باطن کے ایک علیحدہ دستورالعمل ہونے کے متعلق تمام دعوے باطل ہیں۔ اسی مضمون کی اہمیت کے بارے میں اقبال اپنے ایک خط محررہ ۸ جولائی ۱۹۱۶ء بنام محمد نیازالدین خان میں تحریر کرتے ہیں: معلوم ہوتا ہے میرا مضمون علم ظاہر و باطن جو ’’وکیل ‘‘ میں شائع ہوا ہے، آپ کی نظر سے نہیں گزرا ، اسے بھی پڑھیئے ۔ ایک اور مضمون لکھ رہا ہوں جو بالکل نرالا ہے ۔ غالباً آج تک ایسا مضمون نہیں لکھا گیا ۔ جن علماء نے تصوف وجودیہ کی مخالفت کی ہے ، ان کی توجہ کبھی اس طرف نہیں ہوئی ۔۔۔۔ ہاں کتابیں نہیں ملتیں ۔ بڑی دقت ہے ۔ شیخ روز بہان بقلی کی شرح شطحیات ایک عجیب و غریب کتاب ہے ۔ اس میں، صوفیۂ وجودیہ نے جو خلاف شرع باتیں کہی ہیں ، ان کی شرح ہے ۲۲ ۔ اپنے ایک اور خط محررہ ۱۰ جولائی ۱۹۱۶ء بنام مولوی سراج الدین پال میں لکھتے ہیں: حدیث میں آتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے۔ افسوس ہے مسلمان مردہ ہیں ۔ا نحطاطِ ملّی نے ان کے تمام قویٰ کوشل کر دیا ہے۔۔۔۔ مگر ہمیں اپنے اداے فرض سے کام ہے ۔ ملامت کا خوف رکھنا ہمارے مذہب میں حرام ہے ۔ کسی مذہب یا قوم کے دستورالعمل و شعائر میں باطنی معانی تلاش کرنا یا باطنی مفہوم پیدا کرنا اصل میں اس دستورالعمل کو مسخ کر دینا ہے ۔ یہ ایک نہایت لطیف طریق تنسیخ کاہے اور یہ طریق وہی قومیں اختیار یا ایجاد کر سکتی ہیں جن کی فطرت گوسفندی ہو۔ شعراے عجم میں بیشتر وہ شعرا ہیں جو اپنے فطری میلان کے باعث وجودی فلسفہ کی طرف مائل تھے ۔ اسلام سے پہلے بھی ایرانی قوم میں یہ میلان طبیعت موجود تھا اور اگرچہ اسلام نے کچھ عرصے تک اس کا نشو و نما نہ ہونے دیا ، تاہم وقت پا کر ایران کا آبائی اور طبعی مذاق اچھی طرح سے ظاہر ہوا یا بالفاظ دیگر مسلمانوں میں ایک ایسے لٹریچر کی بنیاد پڑی جس کی بنا وحدت الوجود تھی۔ ان شعراء نے نہایت عجیب و غریب اور بظاہر دلفریب طریقوں سے شعائر اسلام کی تردید و تنسیخ کی ہے اور اسلام کی ہر محمود شے کو ایک طرح سے مذموم بیان کیا ہے ۔ اگر اسلام افلاس کو بُرا کہتا ہے تو حکیم سنائی افلاس کو اعلیٰ درجے کی سعادت قرار دیتاہے۔ اسلام جہاد فی سبیل اللہ کو حیات کے لیے ضروری تصور کرتا ہے تو شعراے عجم اس شعار اسلام میں کوئی اور معنی تلاش کرتے ہیں۲۳۔ پھر اپنے خط محررہ ۱۹ جولائی ۱۹۱۶ء میں انہیں تحریر کیا: ہندی مسلمانوں کی بڑی بدبختی یہ ہے کہ اس ملک سے عربی زبان کا علم اٹھ گیا اور قرآن کی تفسیر میں محاورہ عرب سے بالکل کام نہیں لیتے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں قناعت اور توکل کے وہ معنی لیے جاتے ہیں جو عربی زبان میں ہرگز نہیں ہیں۔۔۔۔ ان لوگوں نے نہایت بے دردی سے قرآن اور اسلام میں ہندی اور یونانی تخیلات داخل کر دئیے ہیں ۔ کاش مولانا نظامی کی دعا اس زمانہ میں مقبول ہو، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر تشریف لائیں اور ہندی مسلمانوں پر اپنا دین بے نقاب کریں۔۔۔۔ حافظ کی معاصرانہ تاریخ غور سے دیکھیے ۔ مسلمانوں کی دماغی فضا کس قسم کی تھی اور کون کون سے فلسفیانہ مسائل اس وقت اسلامی دماغ کے سامنے تھے؟ مسلمانوں کی پولیٹیکل حالت کیا تھی ؟ پھر ان سب باتوں کی روشنی میں حافظ کے کلام کا مطالعہ کیجئے۔۔۔۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ تصوف کی تمام شاعری مسلمانوں کے پولیٹیکل انحطاط کے زمانے میں پیدا ہوئی اور ہونا بھی چاہیے تھا ۔جس قوم میں طاقت و توانائی مفقود ہو جائے ، جیسا کہ تاتاری یورش کے بعد مسلمانوں میں مفقود ہو گئی، تو پھر اس قوم کانکتۂ نگاہ بدل جایا کرتا ہے۔ ان کے نزدیک ناتوانی ایک حسین و جمیل شے ہو جاتی ہے اور ترکِ دنیا موجب تسکین۔ اس ترکِ دنیا کے پردے میں قومیں اپنی سستی و کاہلی اور اس شکست کو جو ان کو تنازع للبقا میں ہو، چھپایا کرتی ہیں۔ خود ہندوستان کے مسلمانوں کو دیکھیے کہ ان کے ادبیات کا انتہائی کمال لکھنؤ کی مرثیہ گوئی پر ختم ہوا ۲۴ ۔ ہمہ اوست اور ہمہ از اوست یا وحدت الوجود اور وحدت الشہود میں امتیاز کے سلسلے میں اقبال نے اپنے ایک خط محررہ ۱۱ ستمبر ۱۹۱۶ء بنام محمد نیاز الدین خان میں فرمایا: میرے نزدیک منطقی اعتبار سے کوئی آدمی ایک ہی وقت میں ان دونوں شقوں کا قائل نہیں ہو سکتا ۔ اسی واسطے لاٹسا(جرمن مفکر)کا فلسفہ یورپ میں مقبول نہ ہوا، گو اس کی تعلیم اس قسم کی تھی کہ وحدت الوجود اور وحدت الشہود دونوں کی طرف میلان رکھنے والی طبائع کے لیے موزوں تھا، مگر میرا مذہب تو یہ ہے کہ یہ سارے مباحث مذہب کا مفہوم غلط سمجھنے سے پیدا ہوتے ہیں ۔ مذہب کا مقصود عمل ہے نہ کہ انسان کے عقلی اور دماغی تقاضائوں کو پورا کرنا۔۔۔۔ اگر مذہب کا مقصود عقلی تقاضائوں کو پورا کرنا ہو بھی (جیسا کہ ہنود کے رشیوںاور فلسفیوں نے خیال کیا ہے) تو زمانۂ حال کی خصوصیات کے اعتبار سے اس کو نظر انداز کرنا چاہیے۔اس وقت وہی قوم محفوظ رہے گی جو اپنی عملی روایات پر قائم رہ سکے گی: اس دور میں سب مٹ جائیں گے ہاں باقی وہ رہ جائیگا جو اپنی راہ پہ قائم ہے اور پکا اپنی ہٹ کا ہے۲۵ اس کے بعد اقبال نے بقول ان کے دو تین مضمون تصوف وجودیہ کے متعلق لکھے۔ اس سلسلۂ مضامین میں دوسرا مضمون ۱۳ دسمبر ۱۹۱۶ء کے ’’وکیل‘‘ میں شائع ہوا،۲۶ جس میں انہوںنے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیش گوئی پر بحث کی کہ میری امت میں تین قرنوں کے بعد ’’سمن ‘‘ کا ظہور ہو گا ۔ اسی طرح انگریزی میں ایک مضمون ’’اسلام اور تصوف‘‘ کے زیر عنوان تحریر کیا جو ’’نیوایرا‘‘ کی جولائی ۱۹۱۷ء کی اشاعت میں شائع ہوا ۲۷۔ اس مضمون میں اقبال نے نوجوانان ملت سے مخاطب ہو کر کہا : آنحضور ﷺ کی تعلیمات میں کوئی چیز نہیں جسے مخفی کہا جا سکے۔۔۔۔ اس شخص کی بات پر کان مت دھرو جو کہتا ہے کہ اسلام میں کوئی مخفی اصول بھی ہے، جسے نا آشنائوں پر منکشف نہیں کیا جا سکتا۔ اسی پر ایسے جھوٹے مدعی کے اقتدار اور تمہاری غلامی کا انحصار ہے ۔۔۔۔ مسلم نوجوانو! ایسے شعبدہ باز سے خبردار رہو کیونکہ اس کی کمند بڑی مدت سے تمہاری گردن میں پڑی ہوئی ہے ۔ دنیائے اسلام کے احیاء کا انحصار اس پر ہے کہ بڑی سختی سے غیر مصلحانہ انداز میں اس توحید کے اصول کو اپنا لیا جائے جس کی تعلیم تیرہ سو سال پیشتر عربوں کو دی گئی تھی ۔ پس عجمیت کے دھندلکوں سے باہر نکلو اور عرب کے درخشاں صحرا کی روشن فضا میں آ جائو۔ اکبر الٰہ آبادی کے خطوط پڑھ کر اقبال کو احساس ہوا کہ انہوں نے مثنوی پڑھے بغیر بعض اعتراضات کیے تھے دراصل اس زمانے میں اکبر الٰہ آبادی نے جو خطوط مولانا عبدالماجد دریاآبادی کو تحریر کیے، ان میں اقبال کے خیالات پر شدید الفاظ میں نکتہ چینی کی گئی تھی، مثلاً یہ کہ حضرت اقبال معلوم نہیں کیوں تصوف کے پیچھے پڑے ہیں، یا اقبال کو آج کل تصوف پر حملے کا بڑا شوق ہے ۔ لکھتے ہیں کہ عجمی فلاسفی نے عالم کو خدا قرار دے رکھا ہے اور یہ بات غلط ہے ، خلاف اسلام ہے یا اقبال نے جب سے حافظ شیرازی کو اعلانیہ بُرا کہا ہے میری نظر میں کھٹک رہے ہیں۔ ان کی مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ آپ نے دیکھی ہو گی ۔ اب ’’رموز بے خودی ‘‘ شائع ہوئی ہے ، میں نے نہیں دیکھی ، دل نہیں چاہا ۔ اس لیے اقبال نے انہیں اپنے ایک خط محررہ ۱۱ جون ۱۹۱۸ء میں تحریر کیا: میں نے خواجہ حافظ پر کہیں یہ الزام نہیں لگایا کہ ان کے دیوان سے میکشی بڑھ گئی ۔ میرا اعتراض حافظ پر بالکل اور نوعیت کا ہے۔ ’’اسرار خودی‘‘ میں جو کچھ لکھا گیا وہ ایک لٹریری نصب العین کی تنقید تھی۔۔۔۔ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ کون (سا) تصوف میرے نزدیک قابلِ اعتراض ہے ۔ میں نے جو کچھ لکھا ہے ، وہ نئی بات نہیں ۔۔۔۔ معاف کیجیے گا مجھے آپ کے خطوط سے یہ معلوم ہوا ہے (ممکن ہے غلطی پر ہوں) کہ آپ نے مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ کے وہی اشعار دیکھے ہیںجو حافظ کے متعلق لکھے گئے تھے، باقی اشعار پر نظر شاید نہیں فرمائی۔ کاش آپ کو ان کے پڑھنے کی فرصت مل جاتی تو آپ ایک مسلمان پر بدظنی کرنے سے محفوظ رہتے ۔۔۔۔ اس وقت اسلام کا دشمن سائنس نہیں(جیسا کہ بعض دوست نادانی سے سمجھے بیٹھے ہیں ، اسلام کی پوزیشن سائنس کے خلاف نہایت مضبوط ہے ) مگر اس کا دشمن یورپ کا علاقائی نیشنلزم ہے جس نے ترکوں کو خلافت کے خلاف اُکسایا، مصر ، مصریوں کے لیے ،کی آوازِ بلند کی اور ہندوستان کو پان انڈین ڈیماکریسی کا بے معنی خواب دکھایا ۔۔۔۔ مذہب اسلام کا ایک نہایت ضروری پہلو قومیت ہے، جس کا مرکز کعبۃاللہ ہے ۲۸۔ پھر انہیں اپنے ایک خط محررہ ۲۰ جولائی ۱۹۱۸ء میں لکھا : آپ مجھے تناقض کا ملزم گردانتے ہیں ، یہ بات درست نہیں بلکہ میری بدنصیبی یہ ہے کہ آپ نے مثنوی ’’اسرارِ خودی‘‘ کو اب تک نہیں پڑھا ۔ میں نے کسی گذشتہ خط میں عرض بھی کیا تھا کہ ایک مسلمان پر بدظنی کرنے سے محترز رہنے کے لیے میری خاطر اسے ایک مرتبہ پڑھ لیجئے ۔ اگر آپ ایسا کرتے تو یہ اعتراض نہ ہوتا ۔۔۔۔ ’’اسرار خودی‘‘ میںکوئی تناقض نہیں۔۔۔۔ میں اس خودی کا حامی ہوں جو سچی بے خودی سے پیدا ہوتی ہے۔۔۔ مگر ایک اور بھی بے خودی ہے جس کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو عشقیہ شاعری کے پڑھنے سے حاصل ہوتی ہے ، یہ اس قسم سے ہے جو افیون و شراب کا نتیجہ ہے ۔ دوسری وہ بے خودی ہے جو بعض صوفیۂ اسلامیہ اور تمام ہندو جوگیوں کے نزدیک ذاتِ انسانی کو ذات باری میں فنا کر دینے سے پیدا ہوتی ہے اور یہ فنا ذات باری میں ہے ، نہ کہ احکامِ باری تعالیٰ میں پہلی قسم کی بے خودی تو ایک حد تک مفید بھی ہو سکتی ہے مگر دوسری قسم تمام مذہب و اخلاق کے خلاف جڑ کاٹنے والی ہے ۔ میں ان دو قسموں کی بے خودی پر معترض ہوں، بس حقیقی اسلامی بے خودی میرے نزدیک اپنے ذاتی اور شخصی میلانات، رجحانات و تخیلات کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے احکام کا پابند ہو جانا ہے، اس طرح کہ اس پابندی کے نتائج سے انسان بالکل لا پروا ہو جائے اور محض رضا و تسلیم کو اپنا شعار بنائے یہی اسلامی تصوف کے نزدیک فنا ہے۔۔۔۔ غرض یہ ہے کہ سلطنت ہو، امارت ہو، کچھ ہو ، بجائے خود کوئی مقصد نہیں ہے ، بلکہ یہ ذرائع ہیں، اعلیٰ ترین مقاصد کے حصول کے ۔۔۔۔ زیادہ کیا عرض کروں ، سوائے اس کے کہ مجھ پر عنایت کیجیے عنایت کیا رحم کیجیے اور ’’اسرار خودی‘‘کو ایک دفعہ پڑھ جائیے۔ جس طرح منصور کو شبلی کے پتھر سے زخم آیا اور اس کی تکلیف سے اس نے آہ و فریاد کی ، اسی طرح مجھ کو آپ کا اعتراض تکلیف دیتا ہے۲۹۔ اقبال نے مثنوی ’’اسرارِخودی‘‘ کی اشاعتِ ثانی سے حافظ سے متعلق اشعار اور دیباچہ حذف کر دئیے اور اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے حافظ محمد اسلم جیراجپوری کو اپنے ایک خط محررہ ۱۷؍مئی۱۹۱۹ء میں تحریر کیا : خواجہ حافظ پر جو اشعار میں نے لکھے تھے، ان کا مقصد محض ایک لٹریری اصول کی تشریح اور توضیح تھا۔ خواجہ کی پرائیویٹ شخصیت یا ان کے معتقدات سے سروکار نہ تھا مگر عوام اس باریک امتیاز کو سمجھ نہ سکے اور نتیجہ یہ ہوا کہ اس پر بڑی لے دے ہوئی ۔ اگر لٹریری اصول یہ ہو کہ حسن حسن ہے ، خواہ اس کے نتائج مفید ہوں خواہ مضر ، تو خواجہ دنیا کے بہترین شعراء میں سے ہیں۔ بہرحال میں نے وہ اشعار حذف کر دئیے ہیں اور ان کی جگہ اسی لٹریری اصول کی تشریح کرنے کی کوشش کی ہے، جس کو میں صحیح سمجھتا ہوں ۔۔۔۔دیباچہ بہت مختصر تھا اور اپنے اختصار کی وجہ سے غلط فہمی کا باعث تھا ۔۔۔۔ کیمبرج کے پروفیسر نکلسن بھی اس خیال میں آپ کے ہمنوا ہیں کہ دیباچہ دوسری ایڈیشن سے حذف نہ کرنا چاہیے تھا ۔۔۔۔ پیرزادہ مظفر الدین صاحب نے میرا مقصد مطلق نہیں سمجھا۔ تصوف سے اگر اخلاص فی العمل مراد ہے (اور یہ مفہوم قرونِ اولیٰ میں اس کا لیا جاتا تھا) تو کسی مسلمان کو اس پر اعتراض نہیں ہو سکتا ۔ ہاں جب تصوف فلسفہ بننے کی کوشش کرتا ہے اور عجمی اثرات کی وجہ سے نظامِ عالم کے حقایق اور باری تعالیٰ کی ذات کے متعلق موشگافیاں کر کے کشفی نظریہ پیش کرتا ہے تو میری روح اس کے خلاف بغاوت کرتی ہے۳۰ ۔ اقبال اور خواجہ حسن نظامی دونوں اکبر الٰہ آبادی کی بڑی عزت کرتے تھے ۔ انہوں (اکبر) نے پہلے تو اقبال اور خواجہ حسن نظامی کے قلمی دنگل کو اپنے انداز میں یہ ارشاد کرکے مذاق میں اڑا دیا: حضرتِ اقبال اور خواجہ حسن پہلوانی اِن کی ، ان کا بانکپن جب نہیں ہے زور ، شاہی کے لیے آئو ! گتھ جائیں خدا ہی کے لیے ورزشوں میں کچھ تکلف ہی سہی ہاتھا پائی کو تصوف ہی سہی ہست در ہر گوشۂ ویرانہ رقص می کند دیوانہ با دیوانہ رقص۳۱ لیکن جب بات بڑھ گئی اور معاملہ تلخی کا رنگ اختیار کرنے لگا تو انہوں نے اقبال کو بیکار بحث جاری رکھنے سے روکا اور دوسری طرف خواجہ حسن نظامی کو بھی ممانعت فرمائی: اے خواجہ حسن ! کرو نہ اقبال کو رد! قومی رکنوں کے ہیں نگہباں وہ بھی تم محو ہو حسن کی تجلی میں ، اگر ہیں دشمنِ فتنہ رقیباں وہ بھی پریوں کے لیے جنوں ہے تم کو اگر دیووں کے لیے بنے سلیماں وہ بھی اس پر دونوں خاموش ہو گئے اور خواجہ حسن نظامی پہلے کی طرح اقبال کی دوستی کا دم بھرنے لگے۔ لیکن ۱۹۱۸ء کے اوائل میں پھر غلط فہمی کا امکان پیدا ہوا ۔ ’’زمیندار‘‘ پر پابندی عائد تھی اور مولانا ظفر علی خان اپنے آبائی گائوں کرم آباد میں نظر بند تھے لیکن انہوں نے کسی نہ کسی طرح ایک نئے ہفتہ وار ’’ستارہ صبح‘‘ کے اجراء کی اجازت حاصل کر لی اور اخبار کی اشاعت بڑھانے کی خاطر اس میں پیشہ ور پیروں اور صوفیوں کے خلاف مضامین کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ خواجہ حسن نظامی کو شبہ ہوا کہ یہ سب کچھ اقبال کے ایما پر ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں، غلام بھیک نیرنگ نے ایک وضاحتی خط لکھ کر ان کا مغالطہ دور کر دیا۔ خواجہ حسن نظامی نے اپنی بدگمانی کو واپس لیتے ہوئے اقبال سے معذرت چاہی اور اقبال نے جواب میں خواجہ حسن نظامی کو یقین دلایا کہ انہوں نے مولانا ظفر علی خان کو کوئی مضمون لکھنے کی تحریک کی نہ ان کے قلم سے ایک سطر بھی اس موضوع پر نکلی۳۲ ۔ ’’اسرار خودی‘‘ اور ’’رموز بے خودی‘‘ کی اشاعت کے بعد مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب ’’تذکرہ‘‘ شائع ہوئی ، جس کے دیباچے میں مولوی فضل الدین احمد نے دعویٰ کیا کہ اقبال کی مثنویاں تحریکِ الہلال ہی کی آواز بازگشت ہیں اور ان کے جو مذہبی خیالات اس سے پہلے سنے گئے، ان میں اور مثنویوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔اس پر اقبال کو بڑا رنج ہوا اور انہوں نے اپنے ایک خط محررہ ۱۰ ؍نومبر ۱۹۱۹ء میں سید سلیمان ندوی سے شکایت کی: شاید ان کو یہ معلوم نہیں کہ جو خیالات میں نے ان مثنویوں میں ظاہر کیے ہیں ، ان کو برابر ۱۹۰۷ء سے ظاہر کر رہا ہوں ۔۔۔۔ اس بات سے مجھے رنج ہوا کہ ان کے خیال میں اقبال تحریکِ الہلال سے پہلے مسلمان نہ تھا،تحریک الہلال نے اسے مسلمان کیا ۔۔۔ میرے دل میں مولانا ابوالکلام آزاد کی بڑی عزت ہے اور ان کی تحریک سے ہمدردی ، مگر کسی تحریک کی وقعت بڑھانے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اوروں کی دل آزاری کی جائے ۔۔۔۔ معلوم نہیں انہوں نے کیا سنا اور سنی سنائی بات پر اعتبار کر کے ایسا جملہ لکھنا ، جس کے کئی معنی ہو سکتے ہیں ، کسی طرح ان لوگوں کے شایان شان نہیں جو اصلاح کے علمبردار ہیں ۔۔۔۔ اگر آپ سے ان کی ملاقات ہو تو میری شکایت ان تک پہنچائیے۳۳ ۔ ’’رموزِ بے خودی‘‘ شائع ہوئی تو اقبال نے اس کا ایک نسخہ سید سلیمان ندوی کو بھی بھیجا اور فرمائش کی کہ اس کی لغزشوں سے آگاہ کریں۔ سید سلیمان ندوی نے جوا عتراضات کیے وہ بقول غلام رسول مہر تقریباً سب کے سب نا درست تھے اور ان میں سے بیشتر کے جوابات اقبال نے اساتذہ فارسی کے کلام کی اسناد کے ساتھ دے دئیے تھے۳۴۔ دونوں مثنویوں کی تعریف میں عبدالرحمن بجنوری کا ایک انگریزی مضمون ’’ایسٹ اینڈ ویسٹ‘‘ میں شائع ہوا۔ جس میں انہوں نے لکھا کہ اقبال مسیحا بن کر آیا ہے اور اس نے مردوں میں زندگی کے آثار پیدا کر دئیے ہیں ۔ جب یہ مثنویاں حقیقی معنوں میں سمجھ میں آ جائیں گی تو دنیائے اسلام میں وہ لہر اٹھے گی جس کے نتائج نہایت شاندار ہوں گے ۔ اس مضمون کی گونج یورپ اور امریکہ میں بھی سنی گئی۔ مثنوی ’’اسرارِ خودی‘‘ کا انگریزی ترجمہ کیمبرج کے مشہور مستشرق نکلسن نے کیا جو لندن سے ۱۹۲۰ء میںشائع ہوا۔ مسئلہ خودی پر اقبال نے ایک وضاحتی نوٹ بھی بھیجا۳۵ ، جسے انہوں نے دیباچہ تحریر کرتے وقت استعمال کیا ۔ اس کے بعد بعض ادبائے مغرب نے مثنوی پر تبصرے کیے اور اس کی خوبیوں سے دنیا کو روشناس کرایا ، لیکن انگریز نقاد ڈکنسن کے چند اعتراضات نے فکرِ اقبال کے متعلق غلط فہمیاں بھی پھیلا دیں۔ ڈکنسن نے تحریر کیا کہ اقبال کا انسانِ کامل اور ارتقائے حیات کا تصور جرمن مفکر نطشے اور فرانسیسی مفکر برگساں کا مرہونِ منت ہے اور وہ مادی قوت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے حیاتِ انسانی میں کشمکش اور جارحیت کا علمبردار ہے۔ اسی بنا پر وہ فرد کو سخت کوشی کی تعلیم دیتاہے پھر لکھا کہ گو اقبال کا فلسفہ نوعیت کے اعتبار سے عالمگیر ہے لیکن وہ اس کا عملی اطلاق صرف انسانوں کے ایک محدود اور مخصوص حلقے یعنی مسلمانوں پر کرتا ہے۔ ڈکنسن کا مجموعی تاثر یہ تھا کہ اقبال نے ایشیاء کی پسماندہ اقوام اور خصوصاً مسلمانوں کو جنگ کی تعلیم دی ہے اور اس کے ہر لفظ میں ایک سیاسی قوت چھپی ہوئی ہے۳۶۔ اقبال نے اس کا جواب ڈکنسن کے نام ایک طویل خط کے ذریعے جنوری ۱۹۲۱ء میں دیا جس میں تحریر کیا: وہ (ڈکنسن) انسان کامل کے متعلق میرے تخیل کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکے۔۔۔۔ میں نے آج سے تقریباً بیس سال قبل انسانِ کامل کے متصوفانہ عقیدے پر قلم اٹھایا تھا اور اس زمانے میں نہ تو نطشے کے عقائد کا غلغلہ میرے کانوں تک پہنچا تھا نہ اس کی کتب میری نظروں سے گزری تھیں۔۔۔۔ ڈکنسن کے نزدیک میں نے ۔۔۔۔ مادی قوت کو منتہاے آمال قرار دیا ہے ۔۔۔۔ انہیں اس بارے میں غلط فہمی ہوئی ہے ۔ میں روحانی قوت کا تو قائل ہوں لیکن مادی قوت پر یقین نہیں رکھتا ۔ جب ایک قوم کو حق و صداقت کی حمایت میں دعوت پیکار دی جائے تو میرے عقیدے کی رو سے اس دعوت پر لبیک کہنا اس کا فرض ہے ، لیکن میں ان تمام جنگوں کو مردود سمجھتا ہوںجن کا مقصد کشور کشائی یا ملک گیری ہو۔ ڈکنسن نے درست کہا ہے کہ جنگ خواہ حق و صداقت کی حمایت میں لڑی جائے ، خواہ ملک گیری اور استحصال کے لیے ، اس کا لازمی نتیجہ تباہی و بربادی ہے۔ اس لیے اس کے خاتمے کی کوشش کرنی چاہیے ، مگر ہم دیکھ چکے ہیں کہ معاہدے ، لیگیں ، ثالثی، پنچائتیں اور کانفرنسیں استیصالِ حرب نہیں کر سکتیں، اگراس کوشش میں ہمیں پہلے سے زیادہ کامیابی ہو بھی جائے تو زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ چالاک اقوام پسماندہ اقوام کے غلبے یا استیصال کے لیے زیادہ پر امن وسائل اختیار کر لیں گی ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں کسی ایسی شخصیت کی ضرورت ہے جو ہمارے معاشری مسائل کی پیچیدگیاں سلجھائے ، ہمارے تنازعات کا فیصلہ کرے اور بین الاقوامی اخلاق کی بنیادیں مستحکم و استوار کر دے۔۔۔۔ ڈکنسن نے آگے چل کر میرے فلسفۂ سخت کوشی کا ذکر کیا ہے ۔۔۔۔ میں کشمکش کو سیاسی حیثیت سے نہیں بلکہ اخلاقی حیثیت سے ضروری سمجھتا ہوں ممکن ہے فطرت کا ارتقا ۔۔۔۔ (بالآخر) تصادم اور جنگ و پیکار کو ۔۔۔۔ (ہمیشہ کے لیے) مٹادے ۔۔۔۔ (لیکن) میرے نزدیک اس نوع کے انقلاب کا زمانہ ابھی بہت دور ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ یورپ کی جنگ عظیم نے جو سبق انسانیت کو سکھایا ہے ، وہ اس سے عرصہ دراز تک فائدہ نہ اٹھا سکے گی۔ پس ظاہر ہے کہ میں نے صرف اخلاقی زاویۂ نگاہ سے کشمکش کو ضروری قرار دیا ہے ۔ افسوس ہے کہ ڈکنسن نے میرے فلسفۂ سخت کوشی کے اس پہلو کو نظر انداز کر دیا۔ پھر ڈکنسن کہتے ہیں کہ میرے فلسفے کی نوعیت گو عالمگیر ہے لیکن میں نے اس کا اطلاق محدود و مخصوص طور پر کیا ہے ۔ ان کا یہ ارشاد ایک لحاظ سے درست ہے۔۔۔۔انسان دوستی کا آئیڈیل شاعری اور فلسفے میں ہمیشہ عالمگیر ہی ہوتا ہے لیکن اگر اس کا عملی اطلاق کرنا ہو ۔۔۔۔ تو اس کا دائرہ ایک ایسی سوسائٹی تک محدود کرنا پڑے گا جو ایک مستقل عقیدہ اور معین راہِ عمل رکھتی ہو ۔۔۔۔ میرے نزدیک اس قسم کی سوسائٹی اسلام ہے ۔۔۔۔ میرے خیال میں ڈکنسن کا ذہن ابھی تک یورپ والوں کے اس قدیم نظریے سے آزاد نہیں ہوا کہ اسلام سفّاکی اور خونریزی کا سبق دیتا ہے ۔ دراصل خدا کی ارضی بادشاہت صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص نہیں بلکہ تمام انسان اس میں داخل ہو سکتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ نسل اور قومیت کے بتوں کی پرستش ترک کر دیں اور ایک دوسرے کی شخصیت تسلیم کر لیں ۔ لیگیں ، حکم برداریاں ، معاہدے ، جن کا ذکر کنیز نے کیاہے اور ملوکیتیں، خواہ وہ جمہوریت ہی کی قبا میں پوشیدہ ہوں، انسان کی فلاح کا سبب نہیں بن سکتیں۔ انسانی فلاح تو اسی صورت ممکن ہے کہ تمام انسانوں میں مساوات اور حریت کا دور دورہ ہو ۔۔۔۔ میرا دعویٰ ہے کہ اسرارِ خودی کا فلسفہ مسلم صوفیہ اور حکما کے افکار و مشاہدات سے ماخوذ ہے ۔ برگساں کا تصورِ زماں بھی ہمارے صوفیہ کے لیے نئی چیز نہیں ۔۔۔۔ بد قسمتی سے اہلِ مغرب اسلامی فلسفہ کی تاریخ سے ناآشناے محض ہیں۳۷۔ مثنوی کے انگریزی ترجمہ پر مشہور امریکی ادیب اور نقاد ہربرٹ ریڈ نے بھی تبصرہ کیا جو ’’نیو ایج‘‘ مورخہ ۲۵ اگست ۱۹۲۱ء میں چھپا ۔ انہوں نے اقبال کا موازنہ امریکی فلسفی شاعر وٹمین سے کرتے ہوئے تحریر کیا کہ مثنوی نے ہندی مسلم نوجوانوں کے خیالات میں ایک محشر برپا کر دیا ہے اور ایک ہندی مسلمان نے لکھا ہے کہ اقبال ہم میں مسیحا بن کر نمودار ہوا ہے، جس نے مردہ اجسام کو جنبش دے کر ان میں حیات تازہ کی لہر دوڑا دی ہے۔ اقبال کی نکتہ آفرینی کے طلسم نے افکار کی گوناگونی سے وحدتِ ایمانی پیدا کی ہے اور ایک ایسی منطق کو جو محض مدرسوں کے طلبہ تک محدود تھی ایک عالمگیر پیغام کی صورت میں بدل کر دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے ۔ اسی بنا پر اس نے انسانِ کامل کے تخیل کی صداقت کا نطشے یا وٹمین کی نسبت زیادہ وثوق سے ادراک کیا ہے۳۸۔ مثنوی کے معقولات پر ہندوستان ، یورپ اور امریکہ میں تو اہل علم نے رائے زنی کی، لیکن دنیاے اسلام میں خاموشی طاری رہی۔ ایران ، افغانستان ، ترکی اور عرب ممالک پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد قومی اور وطنی آزادی کی تحصیل کی خاطر مقامی جنگوں میں مصروف ہو گئے ۔ ان تمام ممالک میں مغربی طرز کی علاقائی قومیت اور وطنیت کو بڑے اہتمام سے اپنایا جا رہا تھا ۔ اس لیے ایران و افغانستان کے اہلِ علم یا ترکی اور عرب ممالک میں فارسی جاننے والے عالموں نے مثنوی کے معقولات پر اظہارِ خیال کرنا ضروری نہ سمجھا۔ دراصل اس افراتفری کے دور میں دنیاے اسلام کی مختلف اقوام کے لیے مثنوی کے پیغام کی نہ تو کوئی اہمیت تھی اور نہ وہ اسے سمجھنے کو ابھی تیار تھیں ۔ گویا جس ملت کو یہ پیغام دیا گیا ، وہ اسے سمجھنے کے قابل نہ تھی اور اقبال کو بھی اس بات کا احساس تھا ۔ ان ایّام میں انہوں نے بار ہا اپنے اس تاثر کا اظہار فرمایا کہ جس ملت کے لیے یہ مثنوی کہی گئی ہے ، وہ نہ تو ٹھیک طرح سے اس کے مفہوم کی تہ کو پہنچتی ہے اور نہ اس آواز اور پیغام کو سنتی ہے۔ مگر جن قوموں کو اس مثنوی میں خطاب نہیں کیا گیا ، وہ اس کا مطلب سمجھ گئی ہیں ۳۹ ۔ مثنوی ’’اسرارِ خودی‘‘ سے متعلق بحث سے ظاہر ہے کہ اقبال تصوفِ وجودیہ سے متنفر ہو گئے تھے ، لیکن وہ تصوفِ اسلامیہ کے حامی تھے اور آخری دم تک حامی رہے ۔ دراصل انہوں نے اپنے عقیدے کے تعین کے سلسلے میں مسلک وحدت الوجود کے مقابلے میں مسلک وحدت الشہود سے زیادہ اثر قبول کیا ۔ وہ مفکر و شاعرِ احیائے اسلام تھے ، اس لیے اسلام کی اصل پاکیزگی کی طرف ان کا رجوع کرنا لازمی تھا۔ اس اعتبار سے وہ اس لڑی کا ایک موتی تھے جس میں ابن تیمیہ اور شیخ احمد مجدد الف ثانی جیسی برگزیدہ ہستیوں کو پرویا جا سکتا ہے۔ مغربی نقادوں نے فلسفۂ اسلامی کی تاریخ سے نا واقفیت کے سبب ان کے افکار کو نطشے اور برگساں کی آوازِ بازگشت قرار دیا ۔ حالانکہ انسان کامل یا ارتقاے حیات کا تخیل مسلم صوفیہ و حکما میں صدیوں سے موجودہ تھا اور اس کا ثبوت الجیلی ، جلال الدین رومی ، ابن مسکویہ اور ابن باجہ کی تحریریںہیں ۔ نطشے کے فوق الانسان کا موازنہ اقبال کے انسان کامل کے بجائے اگر بارہویں صدی عیسوی کے اندلسی مسلم مفکر ابن باجہ کے ’’متوحد‘‘ سے کیا جاے تو گمان ہو گا کہ نطشے نے شاید اس کے افکار کا مطالعہ کر رکھا تھا، کیونکہ ابن باجہ کی کتب خصوصاً کتاب ’’تدبیر المتوحد‘‘اور کتاب ’’ اتصال العقل بالانسان ‘‘ کا ترجمہ عبرانی اور غالباً لاطینی زبانوں میں یورپ میں موجود تھا ۔ ابن باجہ کا متوحد بھی نطشے کے فوق الانسان کی طرح صحبت انسان سے گریزاں ہے اور شریعت اسلامیہ کو نظر انداز کرتے وقت ارتقاے عقل کے تسلسل پر ایمان رکھتا ہے ۔ فلسفہ نطشے کے برعکس گو ابن باجہ فلسفیانہ طور پر خدا کی ہستی کا بحیثیت خالق و مالکِ کائنات قائل تھا، پھر بھی اس کے افکار کے سبب اس کے مخالفین نے ۱۱۳۸ء میں اسے زہر دے کر مروا دیا۔ اقبال غالباً ابن باجہ کی تحریروں سے ناآشنا تھے ورنہ نطشے کے ضمن میں اس کا ذکر ضرور کرتے۔ اقبال مغرب کے انسانِ جدید سے اُسی طرح بیزار تھے، جس طرح مشرق کے انسانِ مردہ سے ۔ وہ جلال الدین رومی کی طرح کسی ایسے انسان کی تلاش میں تھے جو حقیقی معنوں میں کامل ہو؛ اسی لیے مثنوی کی ابتدا جلال الدین رومی کے ان اشعار سے کی: دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر کزدام و دد ملولم و انسانم آرزو ست زیں ہمرہانِ سست عناصر دلم گرفت شیرِخدا و رستمِ دستانم آرزوست گفتم کہ یافت می نہ شود جُستہ ایم ما گفت آنکہ یافت می نہ شود آنم آرزوست مغرب کا جدید انسان مغربی اقوام کی مادی ترقی کا حاصل ہے مجموعی حیثیت سے یہ ترقی ان اقوام کے افراد کی انفرادی آمدنی میں اضافے سے سامنے آئی ۔ اس کی وجہ ہر قسم کی پیداوار میں اضافہ تھا جس کے نتیجے میںان کی ذہنیت اور طریق حیات کے بارے میں ان کے زاویہ نگاہ میں تبدیلی رونما ہوئی۔ ترقی کے اس تصور کا شمار عموماً مغربی اختراعات میں کیا جاتا ہے۔ اس کا تعلق مغربی معاشرے کے اس سلسلۂ ارتقاء سے ہے جو یورپ میں تحریک احیائے علوم سے لے کر صنعتی انقلاب تک جاری رہا۔ اس سلسلۂ ارتقا کے دوران مغرب نے رفتہ رفتہ ساری دنیا کو ایک تجارتی منڈی میں منتقل کر دیا۔ اس کے نتیجے میں مغرب میںبیوپاری معاشرہ وجود میں آیا اور پھر یہی بیوپاری معاشرہ پسماندہ اقوام کی لوٹ کھسوٹ کے ذریعہ آسودہ حال اور متمول ہوتا چلا گیا، حتّٰی کہ ایک ترقی یافتہ معاشرہ بن گیا ۔ ارتقاکے سبب کئی مادی نوعیت کی تبدیلیاں اس معاشرے میں آئیں اور یوں سرمایہ دارانہ نظام کی ابتداء ہوئی ۔ زیادہ پیدا کر سکنے کی صلاحیت نے مغرب کو ساری دنیا پر غالب آ جانے کی قوت حاصل کرنے کا ایک نیا جنون عطا کیا ۔ سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ ملوکیت آئی، نو آبادیات قائم کی گئیں، اور پسماندہ اقوام کا استحصال شروع ہوا۔ مغرب میں بھی ان تبدیلیوں کے سبب مغربی اقوام میں رقابت ، کشمکش اور تصادم کی فضا پیدا ہوئی ، جس نے ایک طرف تو پہلی جنگ عظیم کی صورت اختیار کی اور دوسری طرف روس میں اشتراکی نظام کے قیام کی۔پس اقبال کے اس عہد میں مغرب کا انسان ایک ایسا نیا انسان تھا جس کے ذہنی رجحانات نئے تھے۔ وہ بنیادی طور پر مغربی انسان تھا، جسے سائنس کی ترقی نے رفتہ رفتہ صنعتی انسان، ٹکنیکاتی انسان، تھوک انسان، یک طرفہ انسان ، بے طاقت انسان ، ناراض انسان،تنہا انسان ، وغیرہ بنا دیا ۔ وہ سائنس اور ٹکنالوجی کی حاکمیت تسلیم کرتا تھا جس کی وہ خود پیداوار تھا۔ انفرادی عقل اور عمل کی پھرتی پر یقین رکھتا تھا، لا دین تھا اور اپنے معاملات کو دنیا دارانہ زاویۂ نگاہ سے سلجھانے کا قائل تھا۔ متکبر، خود غرض اور اخلاق سے بیگانہ تھا اور زندگی میں صرف مادی ذرائع سے مسرت کی تحصیل کے لیے کوشاں تھا۔ وہ ہر لحظہ متغیر حالات کا پابند تھا اور اسے اپنی تقدیر پر کوئی غلبہ حاصل نہ تھا ۔ بقولِ اقبال وہ ایسا پست فطرت انسان تھا جس سے شیطان تک بیزار تھا کیونکہ وہ انکار کی اہمیت سے ناواقف محض تھا اور شیطان کے احکام کی بے چون وچرا تعمیل کرتا چلا جا رہا تھا ۔ایسے انسانوں پر مشتمل معاشروں کا ایمان فقط سیاسی و اقتصادی قوت میںاضافہ کرتے چلے جانا تھا اور اسی سبب یہ معاشرے ایک دوسرے سے دائمی طور پر مصروف پیکار تھے۔ اقبال میں مغرب کے جدید انسان کی خامیوں اور کمزوریوں کا مشاہدہ کرنے ہی سے صحیح معنوں میں انسانِ کامل کے لیے جستجو کی تحریک پیدا ہوئی۔ یہ وقت کے تقاضوں کے پیشِ نظر ایک عملی ضرورت تھی ۔ اسی سبب اقبال کا انسانِ کامل محض متصوفانہ یا فلسفیانہ تخیل کے خلا میں معلق نہ تھا بلکہ ان کی نگاہ دور بین نے تاریخِ تمدّنِ اسلامی کے تسلسل میں،’’مردِ مومن‘‘ کی حقیقی صورت میں اس انسان کامل یا مرد فردا کو پا لیا ۔ ’’اسرارِ خودی‘‘ کے انگریزی ترجمے کے دیباچے میں نکلسن نے درست کہا ہے: اقبال کے احساسات ایک پرُ جوش مسلم کے احساسات ہیں۔ اس کا اسلام سے یہ عقیدتمندانہ تعلق دنیا میں ایسی حکومت چاہتا ہے جس میں مسلمانوں کے لیے قومیّت اور وطنیت کی رکاوٹیں حائل نہ ہو سکیں ۔ اس کا نصب العین ایک ایسے آزاد مسلم معاشرے کا قیام ہے جس کا مرکز کعبہ ہو اور جو ایمان و ایقان کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر مضبوط عقیدہ رکھتا ہو ۔ اقبال نے’’اسرارِ خودی ‘‘ اور ’’رموزِ بے خودی‘‘ میں اسی کی تعلیم دی ہے ‘‘۔ مآخذ باب: ۱۲ ۱۔ شمارہ اکتوبر۱۹۵۳ء اور شمارہ اپریل ۱۹۵۴ء ۔ ۲۔ ’’باقیاتِ اقبال‘‘ مرتبہ عبداللہ قریشی ، صفحہ ۳۸۷ ۔ ۳ ۔ مضمون ’’اسرار خودی کی اشاعت سے پہلے‘‘ از عبدالمجید سالک مطبوعہ ہفت روزہ ’’قندیل‘‘ ۲۱ اپریل ۱۹۵۰ئ۔ ۴ ۔ انتسابی اشعار بعنوان ’’پیشکش ‘‘ کے لیے دیکھیے ’’سرود رفتہ ‘‘ مرتبہ غلام رسول مہر و صادق علی دلاوری ، صفحات ۶۸؛۶۹ ۵ ۔ دیباچۂ ’’اسرار خودی‘‘ اشاعت اول ،’’ مقالات اقبال‘‘ مرتبہ عبدالواحد معینی ، صفحات ۱۵۳ تا ۱۵۹۔ ۶ ۔ پورے متن کے لیے دیکھیے ’’سرود رفتہ ‘‘ ، صفحات ۷۰ تا ۷۲ ۔ ۷ ۔ ’’مطالب اسرار و روموز ‘‘ صفحات ۲۰ ، ۲۶ ۔ ۸ ۔ ’’اتالیقِ خطوط نویسی ‘‘ مرتبہ خواجہ حسن نظامی ، صفحہ ۴۱ ۔ ۹ ۔ دیکھیے دیباچہ ’’پاکستان کے موجد اوّل ڈاکٹر سر محمد اقبال کے خطوط بنام خواجہ حسن نظامی دہلوی‘‘ مرتبہ خواجہ حسن نظامی ۔ ۱۰۔ ماہنامہ ’’منادی ‘‘ دہلی جون ۱۹۵۰ء ۔ ۱۱۔ اس خواب کی تائید مثنوی کے تمہیدی اشعار اور اس خط سے بھی ہوتی ہے جو اقبال نے مہاراجہ کشن پرشاد کے نام مورخہ ۱۴ اپریل ۱۹۱۶ء کو لکھا تھا۔ مثنوی میں ان اشعار کی ترتیب مختلف ہے۔ ۱۲ ۔ ’’مقالات اقبال‘‘ مرتبہ عبدالواحد معینی ، صفحات ۱۶۰ تا ۱۷۰ ۔ ۱۳ ۔ ’’مکاتیب اقبال بنا محمد نیازالدین خان ‘‘ ، صفحہ ۱ ۔ ۱۴ ۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ حصہ دوم ، صفحات ۴۹ ، ۵۰ ۔ ۱۵ ۔ ایضاً ، صفحہ ۵۲ ۔ ۱۶ ۔ ’’مقالات اقبال ‘‘ مرتبہ عبدالواحد معینی ، صفحات ۱۷۱ تا ۱۸۱ ۔ ۱۷ ۔ ’’مکاتیب اقبال بنام محمد نیاز الدین خان ‘‘ ، صفحات ۲،۳،۴۔ ۱۸ ۔ ’’صحیفہ ‘‘ اقبال نمبر، حصہ اوّل ، صفحات ۱۶۵ ، ۱۶۶ ۔ ۱۹ ۔ ایضاً صفحہ ۱۷۰ ۔ ۲۰ ۔ ایضاً صفحہ ۱۷۲ ۔ ۲۱ ۔ ’’انوار اقبال ‘‘ مرتبہ بشیر احمد ڈار ، صفحات ۲۶۸ تا ۲۷۷ ۔ ۲۲ ۔ ’’مکاتیب اقبال بنام محمد نیاز الدین خان ‘‘ ، صفحہ ۴ ۔ ۲۳ ۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ حصہ اوّل ، صفحات ۳۴ تا ۳۶ ۔ ۲۴ ۔ ایضاً ، صفحات ۴۱ تا ۴۵ ۔ ۲۵ ۔ ’’مکاتیب اقبال بنام محمد نیاز الدین خان ‘‘ ، صفحہ ۶ ۲۶ ۔ ’’ مقالات اقبال ‘‘ مرتبہ عبدالواحد معینی ، صفحات ۱۸۲ تا ۱۸۶ ۔ ۲۷ ۔ ’’خطبات اقبال ‘‘ مرتبہ شاہد حسین رزاقی (انگریزی) ، صفحات ۱۶۰ تا ۱۶۳ ۔ ۲۸ ۔ دیکھیے ’’اقبال اور تصوف ‘‘ مرتبہ آل احمد سرور ۔ سری نگر ، صفحات ۸۳ ، ۸۴ اور ’’اقبال نامہ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ، حصہ دوم ، صفحات ۵۳ تا ۵۷ ۔ ۲۹ ۔ ایضاً ، صفحات ۵۸ تا ۶۲ ۔ ۳۰ ۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ، حصہ اوّل ، صفحات ۵۲ تا ۵۵ ۔ ۳۱ ۔ ’’اقبال معاصرین کی نظر میں ‘‘ از عبداللہ قریشی ، صفحات ۴۲۵، ۴۲۸۔ ۳۲ ۔ ’’انوار اقبال ‘‘ مرتبہ بشیر احمد ڈار ، صفحات ۱۸۲ تا ۱۸۶ ۔ ۳۳ ۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ، حصہ اوّل صفحات ۱۱۰، ۱۱۱ ۔ ۳۴ ۔ ایضاً ، صفحات ۸۴ ، ۸۸ تا ۹۷ نیز دیکھیے ’’مطالب اسرار و رموز‘‘ از غلام رسول مہرصفحات ۳۰ تا ۳۲۔ ۳۵ ۔ ’’خطبات اقبال ‘‘ مرتبہ شاہد حسین رزاقی (انگریزی) صفحات ۱۸۳ تا ۱۸۸ ۔ ۳۶ ۔ ’’ روز گار فقیر ‘‘ از فقیر سید وحید الدین ،جلد دوم ، صفحہ ۱۶۸۔ ۳۷ ۔ ’’خطبات اقبال ‘‘ مرتبہ شاہد حسین رزاقی (انگریزی) صفحات ۱۸۹ تا ۱۹۶ ۔ ۳۸ ۔ ’’اقبال چوہدری محمد حسین کی نظر میں ‘‘ مرتبہ محمد حنیف شاہد ، صفحات ۸۷ تا ۹۳ ۔ ۳۹ ۔ ’’روز گار فقیر ‘‘ از سید فقیر وحید الدین، جلد دوم ، صفحہ ۱۶۸ ۔ باب: ۱۳ خانہ نشینی یورپ میں جنگ عظیم کے شروع ہوتے ہی برصغیر میں انگریزی حکومت کا رویہ سخت ہونے لگا۔۱۵ ۔ ۱۹۱۴ء میں پنجاب کے کاشت کاروں میں بے چینی پھیلی ۔بنگال میں دہشت پسندوں کی انقلابی کارروائیاں شدّت اختیار کر نے لگیں ۔ اس کے علاوہ امریکہ اورکینیڈا سے ملک بدر کیے جانے والے سکھوں نے ہندوستان واپس پہنچ کر مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ انگریزی حکومت کو خدشہ تھا کہ برصغیر میں بے چینی ، مظاہرے اور دہشت پسندوں کی انقلابی کارروائیاں کہیں عام بغاوت کی شکل اختیار نہ کر لیں ۔ اس خوف کے پیشِ نظر ۱۹۱۷ء میں رولٹ کمیشن کا تقرر کیا گیا جس کا مقصد سیاسی مجرموں کے خلاف تادیبی کارروائی کے بارے میں غور کرنا تھا ۔ جنگِ عظیم کے خاتمے سے کچھ عرصہ پیشتر جب اتحادی طاقتوں کی فتح یقینی ہو گئی ، تو برطانوی وزیر اعظم لائڈ جارج نے ۵ جنوری ۱۹۱۸ء کو اعلان کیا کہ ترکوں کو خالصتاً ترکی علاقوں یعنی ایشیاے کوچک کے زرخیز میدانوں ، تھریس اور ان کے دارالحکومت قسطنطنیہ سے محروم نہ کیا جائے گا ۔لیکن آرمینیا ، شام ، لبنان ، عراق ، اردن، فلسطین اور عرب کے علاقوں میں آباد اقوام کو اجازت دی جائے گی کہ وہ اپنے اپنے ملکوں میں آزاد قومی حکومتیں قائم کریں ۔ ۸ جنوری ۱۹۱۸ء کو امریکی صدر ولسن نے بھی ایک ایسا ہی اعلان کیا بعد میں جمعیت اقوام کے معرض وجود میں آنے پر اس نے بھی اعلان کیا کہ وہ چھوٹی قوموں کی آزادی وخود مختاری کی ضامن و محافظ ہو گی ، مگر جنگِ عظیم کے خاتمے پر فاتح اتحادی طاقتوں میں خفیہ معاہدوں کے ذریعے عثمانی ترکیہ کے علاقوں کا بٹوارا ہو چکا تھا ۔ تھریس مع ایڈریا نوپل ، یونان کے حصے میں آیا ۔ سمرنا بھی ایشیاے کوچک سے علیٰحدہ کر کے یونان کو دے دیا گیا ۔ انگریز قسطنطنیہ پر خود قابض ہو گئے ۔ سلطان خلیفہ ان کا قیدی بن گیا اور اس کے اختیارات چھین لیے گئے ایشیاے کوچک کے باقی ماندہ حصے میں ترکوں کو آزادی سے حکومت کرنے کے حق سے محروم کر دیاگیا اور انہیں اپنی عیسائی اقلیت پر کوئی اختیار نہ رہا ۔ شام مع لبنان ، فرانس کے سپرد کردئیے گئے ۔ عراق ، اردن اور فلسطین کے علاقے انگریزوں نے ہتھیا لیے یورپ کی استعماری طاقتوں کی اس سودا بازی سے مسلمانانِ ہند نہ صرف حکومت برطانیہ سے مایوس ہو گئے تھے بلکہ انہوں نے محسوس کیا کہ ان کے ساتھ غداری کی گئی ہے ۱ ۔ رولٹ کمیشن نے سیاسی مجرموں کے خلاف تادیبی کارروائی کے سلسلے میں جو سفارشات انگریزی حکومت کو پیش کیں ۔، ان میں انتظامیہ اور پولیس کو ناواجب اختیارات دیے گئے تھے ۔ پولیس جسے چاہے بغیر وارنٹ کے گرفتار کر سکتی تھی ۔ عدالتی حکم کے بغیر جس مکان کی تلاشی لینی چاہے، لے سکتی تھی اور سیاسی مجرموں کے لیے سخت اور منتقمانہ سزائیں تجویز کی گئی تھیں ۔ بالآخر ان سفارشات نے رولٹ ایکٹ کی صورت اختیار کی، جو شدید مخالفت کے باوجود ۱۸ مارچ ۱۹۱۹ء کو پاس ہو گیا ۔ گاندھی نے اس ایکٹ کے خلاف ہڑتالیں اور مظاہرے کرائے ۔ محمد علی جناح نے احتجاجاً وائسراے کی امپیریل کونسل کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ۔ رولٹ ایکٹ کے نفاذ سے ہندوستان بھر میں احتجاجی جلسوں اور جلوسوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ جس کے جواب میں انگریزی حکومت نے ظلم و تشدد اور قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا اور اس کی لپیٹ میں پنجاب بھی آ گیا ۔ یہ زمانہ اقبال کی خانہ نشینی کا زمانہ تھا ۔ دراصل اقبال کی عزلت نشینی کے زمانے کا آغاز تو ۱۹۱۴ء ہی سے ہو گیا تھا ۔ مولانا شوکت علی نے انہیں علی گڑھ کالج کے اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے دعوت بھیجی۔ اقبال نے جواب میں تحریر کیا : بھائی شوکت ! اقبال عزلت نشین ہے اور اس طوفانِ بے تمیزی کے زمانہ میں گھر کی چار دیواری کو کشتی نوح سمجھتا ہے۔ دنیا اور اہل دنیا کے ساتھ تھوڑا بہت تعلق ضرور ہے ، مگر محض اس وجہ سے کہ روٹی کمانے کی مجبوری ہے ۔ تم مجھے علی گڑھ بلاتے ہو، میں ایک عرصے سے خدا گڑھ میں رہتا ہوں اور اس مقام کی سیر کئی عمروں میں ختم نہیںہو سکتی ۲ ۔ لیکن ۱۹۱۹ء میں حالات مزید خراب ہو گئے ۔ لاہور میں روز احتجاجی جلوس نکلتے تھے، جنہیں پنجاب کے گورنر مائیکل اڈوائر کی انتظامیہ بُری طرح سے کچل دیتی ۔ اسی طرح کے ایک جلوس کا آنکھوں دیکھا حال خالد نظیر صوفی نے اپنی والدہ اور اقبال کی بھتیجی کے حوالے سے یوں بیان کیا ہے: ان دنوں ہم انار کلی میں رہتے تھے ۔ ایک روز بازار سے بڑا عظیم الشان جلوس گزرا ۔ بے شمار نوجوان بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھے اور رولٹ بل ہائے ہائے کے فلک شگاف نعرے لگاتے جا رہے تھے۔ ہم سب نے دریچوں سے اس کا نظارہ کیا۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ بازار میں پھر شور اٹھا ۔ ہم سب کھڑکیوں کی طرف لپکے تو ایسا دلفگار منظر نظر آیا کہ روح کانپ گئی ۔ چند فوجی گاڑیاں ، جن میں خون سے لت پت لاشیں بڑی بے ترتیبی سے پڑی تھیں آہستہ آہستہ بازار میں سے گزر رہی تھیں ۔ ہر طرف شور تھا کہ جلوس پر گولی چل گئی۔ بڑے بڑے خوبصورت نوجوان جو ابھی چند لمحے پیشتر رولٹ بل ہائے ہائے کے نعرے لگاتے ہوئے گزرے تھے ، خون میں نہلا دئیے گئے تھے ، جدھر سے ان شہیدوں کا جلوس گزرتا ، لوگ دھاڑیں مار مار کر روتے ۔ یہ روح فرسا نظارہ دیکھ کر چچا جان کا چہرہ غصّے اور ضبط سے تمتما رہا تھا اور ان کا دلی کرب چہرے سے صاف عیاں تھا ۔ سردار چچی جان (والدئہ جاوید اقبال) زارو قطار رو رہی تھیں ۔ انہوں نے روتے روتے چچا جان سے کہا : ظالموں نے کتنی مائوں کے لال موت کے گھاٹ اُتار دئیے ہیں ۔ چچا جان سرجھکائے خاموش بیٹھے تھے ، آہستہ سے سر اٹھاکر دلگیر لہجے اور گلوگیر آواز میں فرمایا : میرے مولا کو یہی منظور ہے، سرتابی کی مجال نہیں، وہ ان شہداء کی قربانیاں ضرور قبول کرے گا جنہوں نے عروسِ آزادی کی مانگ کے لیے اپنا گرم اور نوجوان خون پیش کیا ہے۔ اتنا کہا اور پھر سر جھکا لیا۔ اس وقت اُن کی آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے ۳ ۔ ۱۳؍اپریل ۱۹۱۹ء کو امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں ایک احتجاجی جلسہ منعقد ہوا، جس میں ہندو مسلم اور سکھ عوام نے شرکت کی ۔ اس جلسے میں موجود لوگوں کو گھیرے میں لے کر جنرل ڈائر نے بڑی بے دردی سے اندھا دھند گولیاں چلوائیں اور سینکڑوں انسانوں کو موت کی نیند سلا دیا۔ اس سانحہ کے متعلق سرجان سمتھ اپنے سوانح حیات میں تحریر کرتا ہے کہ ۱۳ ؍ اپریل ۱۹۱۹ء کی صبح کو جنرل ڈائر فوج کے ایک دستے کے ساتھ امرتسر شہر کی گشت پر نکلا اور ڈھول کی چوٹ پر اعلان کروایا کہ جلسہ کرنا یا جلوس نکالنا غیر قانونی فعل ہے۔ اس لیے اگر کوئی جلسہ منعقد ہوا یا کوئی جلوس نکلا تو اس پر گولیاں برسائی جائیں گی ۔ جب وہ سول لائنز میں واپس پہنچا تو اطلاع ملی کہ اس کے اعلان کی پروانہ کرتے ہوئے بعد ازدوپہر جلیانوالہ باغ نامی دیواروں سے محدود چوک میں ایک جلسہ ہونے والا ہے ۔ چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس چیلنج کا مقابلہ کرے گا ۔ اس نے ایک چھوٹا سا فوجی دستہ جو خالصتاًہندوستانی نوجوانوں پر مشتمل تھا، جلیانوالہ باغ کے لیے منتخب کیا۔ اس دستے میں پچیس جوان گورکھا رجمنٹ کے ،پچیس جوان فرنٹیر فورس رائفلز کے اور چالیس گورکھے تھے جو صرف ککریوں سے لیس تھے ۔ ان کے علاوہ دو آرمرڈ کاریں تھیں ۔ اس دستہ کی کمانڈ اس کے اپنے ہاتھ میں تھی ۔ گوکیپٹن برگز بھی اس کے ہمراہ تھا ۔ جب وہ موقع پر پہنچا تو دس سے بیس ہزار تک کی تعداد میں لوگ موجود تھے اور انقلابی رہنما بڑی جوشیلی تقریریں کر رہے تھے ۔ آرمرڈ کاریں آگے نہ بڑھ سکتی تھیں ۔ اس لیے جنرل ڈائر اپنے ساتھ پچاس عسکری لے کر مجمع میں داخل ہو گیا ۔ عسکریوں کو دیکھ کر ہجوم بپھرنے لگا، جس پر جنرل ڈائر نے بغیر کسی تنبیہ کے گولی چلانے کا حکم دے دیا ۔ فوجیوں نے تعمیل حکم میں ایک ہزار چھ سو پچاس رائونڈ چلائے ۔گویا فی فوجی اوسطاً پینتیس رائونڈ چلے، ہجوم میں افراتفری پھیل گئی ۔ بہت سوں نے دیواریں پھاند کر بھاگ جانا چاہا ، لیکن کامیاب نہ ہو سکے ۔ دیواروں سے گھرے ہوئے اس رقبے میں رائفلیں چلنے کی گونج کانوں کے پردے پھاڑ رہی تھی اور ہجوم کی چیخ و پکار میں سیز فائر کاکوئی حکم نہ سُنا جا سکتا تھا ۔ اس سانحے میں جو لوگ مرے یا زخمی ہوئے، ان کی تعداد کا صحیح اندازہ آج تک نہیں لگایا گیا۔ قیاس ہے کہ مرنے والوں کی تعداد تین سو اور زخمی ہونے والوں کی تعداد تیرہ سو کے لگ بھگ تھی ۔ پھر ان کو وہاں سے اٹھوانے کا بھی کوئی انتظام نہ کیا گیا ۵ ۔ اقبال نے اس سانحہ سے متاثر ہو کر یہ اشعار کہے: ہر زائرِ چمن سے یہ کہتی ہے خاک پاک غافل نہ رہ جہاں میں گردوں کی چال سے سینچا گیا ہے خونِ شہیداں سے، اس کا تخم تو آنسوئوں کا بخل نہ کر اس نہال سے۶ جلیانوالہ باغ کے سانحے کے فوری بعد مائیکل اڈوائر کے حکم سے پنجاب میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا ۔ اس مارشل لاء کے دوران طالب علموں اور عوام سے جو وحشیانہ سلوک روا رکھا گیا اس کی تفصیل عاشق حسین بٹالوی کی تصنیف میں ملتی ہے ، جو ان دنوں لاہور میں موجود تھے ۔ وہ تحریر کرتے ہیں: اس (مائیکل اڈوائر) نے لاہور ، قصور ، امرتسر، گجرات ، گوجرانوالہ ، شیخوپورہ اور لائل پور میںمارشل لاء جاری کرکے مظالم کی وہ آگ برسائی جس کی مثال ہندوستان کی تاریخ میں صرف۱۸۵۷ء کا کشت و خون ہی پیش کر سکتا ہے ۔۔۔۔۔چودہ چودہ برس کے بچوں کو ٹکٹکی میں باندھ کر کوڑوں کی سزا مقرر تھی، حالانکہ بڑے سے بڑے سخت جان کی کھال بھی چھ کوڑوں کے بعد ادھڑ جاتی ہے اور وہ بیہوش ہو جاتا ہے ۔ ہر محلہ سے چن چن کر معززین کو گھروں سے نکالا گیا تاکہ کھلے بندوں ان کی تذلیل ہو ۔ وہ لوگ جو اپنی قابلیت کی بنا پر آئندہ ہائی کورٹ کے جج اور صوبے کے وزیر بننے والے تھے، انہیں گورا فوج کے سپاہیوں سے پٹوا کر پھانسی کے مجرموں کی کوٹھڑیوں میںبند کیا گیا۔مئی کی گرمی میں لاہور کے کالجوں کے طلبہ کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے سروں پر اپنے بستر اٹھا کر دن میں چار مرتبہ ۱۶ میل کا فاصلہ طے کر کے آئیں اور یونین جیک کو سلامی دیں ۔ لاہور کے تمام باشندوں کو حکم مل گیا کہ وہ اپنی موٹرکاریں ، سائیکلیں ، بجلی کے پنکھے اور بجلی کے لیمپ فوج کے حوالے کر دیں ۔ اسکول کے بچوں کو ہر روز دھوپ میں کھڑے ہو کر ایک فوجی افسر کے سامنے یہ کہنا پڑتا : حضور ہم نے کوئی قصور نہیں کیا! ہماری توبہ !آیندہ بھی ہم سے کوئی خطا سرزد نہیں ہو گی۔ ایک پوری بارات کو جس میں دولہا بھی شامل تھا ،بلا وجہ پکڑ کر کوڑوں سے پٹوا دیا گیا ۔ ریل گاڑیوں پر آزادانہ سفر کی ممانعت کر دی گئی ۔۔۔۔ عورتوں کی کھلے منہ بے حرمتی کی گئی ۔ ایک گلی مقرر کی گئی ، جس میں ہر شخص کو پیٹ کے بل رینگتے ہوئے گزرنا پڑتا تھا ۔ اُوپر گورا فوج کا سپاہی ہاتھ میں بندوق تھام کر کھڑا رہتا تھا اور اگر رینگنے والا شخص ذرا دم لیتا تو سپاہی بندوق کا کندا اس کی پشت پر مارتا تھا ۔ شہر کے بعض معزز اور سربرآوردہ لوگوں کے مکانوں پر مارشل لاء کے احکام کے اشتہار چسپاں کر دیے جاتے تھے اور حکم تھا کہ اگر کسی نے اس اشتہار کو پھاڑدیا تو مالک مکان کو گرفتار کر لیا جائے گا ۔ چنانچہ صاحبِ خانہ کو محض اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کے لیے دن بھر اپنے مکان سے باہر کھڑے رہنے کی ذلت پرداشت کرنا پڑتی تھی ۔ دیال سنگھ کالج کی بیرونی دیوار پر کسی نامعلوم شخص نے ایک اشتہار لگا دیا جس کا مضمون فوجی احکام کے نزدیک قابل اعتراض تھا ۔ اس جرم کی پاداش میں کالج کے پرنسپل کو گرفتار کرلیا گیا۔۔۔۔ حکم صادر ہوا کہ جونہی کوئی انگریز نظر آئے ، مقامی باشندوں کا فرض ہے کہ فوراً تانگے سے اُتر کر کھڑے ہو جائیں اور جھک کر سلام کریں ۔ ایک پچیس فٹ لمبے اور بارہ فٹ چوڑے کمرے کے اندر مئی کے مہینے میں پچیس آدمیوں کو بند کر دیا گیا ، جہاں وہ ہفتہ بھر مقید رہے اور انہیں بول و براز کے لیے بھی باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی ۔ قصور میں منادی کر دی گئی کہ جو لوگ ۱۰ ؍اپریل ۱۹۱۹ء سے پہلے یا اس تاریخ کے بعد شہر سے باہر گئے ہوئے تھے ، اگر چار روز کے اندر واپس نہ آئے تو ان کی جائدادیں ضبط کر لی جائیں گی ۔ جب عدالتوں کے سامنے مقدمات پیش ہونے لگے تو صفائی کی طرف سے کسی وکیل کو پیروی کرنے کی اجازت نہیں تھی اور ملزموں کو پھانسی اور عمر قید کے علاوہ مشکل ہی سے کوئی اور سزا ملتی تھی ۔ قصور میں ستائیس آدمیوں کو پھانسی اور تیرہ کو عمر قید کی سزا ہوئی ۔ گوجرانوالہ میں۔۔۔۔ پانچ آدمیوں کو پھانسی اور دس کی حبسِ دوام کی سزا ہوئی ۔ حافظ آباد میں چار کو پھانسی اور پندرہ کو حبسِ دوام کی سزا ملی ۔ نظام آباد میں چار کو پھانسی اور آٹھ کو عمر قید کی سزا ہوئی۔ امرتسر میں چونتیس کو پھانسی اور پندرہ کو حبسِ دوام کی سزا ملی۔ اسی طرح لاہور اور امرتسر ایسے شہروں سے لے کر چھوٹے چھوٹے قصبات تک میں سزائوں کی وہ بھرمار ہوئی کہ اس کی مثال پہلے کبھی نہ دیکھی گئی تھی ۔ ایک شخص کو محض اس جرم میں کہ اس نے ایک پولیس افسر کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ تم ہمارے بھائی ہو ، ہم تمہارے بھائی ہیں، آئو ہمارے ساتھ مل جائوحبسِ دوام کی سزا ملی ۔ یہ سب کچھ مائیکل اڈوائر ۷ کی آنکھوں کے سامنے اس کی منظوری اور رضا مندی سے ہوتا رہا ۸ ‘‘۔ عبدالمجید سالک تحریر کرتے ہیں : اب پورا ملک بلا امتیاز مذہب و ملت احتجاج اور تنفر کا ہنگامہ زار بن رہا تھا ۔ مسلمانوں کے دلوں پر جلیانوالہ باغ اور پنجاب کے مظالم سے بھی زیادہ گہرا چرکہ ترکی کی شکست سے لگ چکا تھا جس کی وجہ سے خطرہ تھا کہ ترکانِ آل عثمان کی آزادی و خود مختاری خاک میں ملا دی جائے گی ۔ خلافتِ اسلامیہ کی مسند کے گرد فرنگی گدھ منڈلا رہے تھے ۹ ۔ اسی سال کے اواخر میں مولانا محمد علی چار سال کی نظر بندی کاٹ کر ۲۲ ستمبر ۱۹۱۹ء کو آل انڈیا مسلم کانفرنس کے جلسہ میں شریک ہونے کے لیے لکھنؤ پہنچے اور اسی احتجاجی جلسے میں خلافت کانفرنس قائم کی گئی ۔ ۲۳ ستمبر ۱۹۱۹ء کو دہلی میں جلسہ ہوا، جس میں گاندھی اور چند ہندو رہنما بھی شریک ہوئے۔اس اجلاس میں خلافت کانفرنس نے طے کیا کہ مسلمانانِ ہند ترکیہ کی تقسیم ، عثمانی سلطان خلیفہ کے اختیارات میں تخفیف اور مسلم مقامات مقدسہ پر غیر مسلموں کے قبضے کے خلاف مظاہرے کریں ۔ انگریزی حکومت سے عدم تعاون کا رویہ اختیار کریں اور انگریزی مال کا مقاطعہ کریں ۱۰ ۔ بعد میں مولانا محمد علی بحیثیتِ قائدِ تحریکِ خلافت لاہور پہنچے اور اقبال سے ملنے کے لیے انار کلی والے مکان میںگئے ۔ اقبال بیٹھک میں دُھسا اوڑھے بیٹھے حقے کے کش لگا رہے تھے ۔ مولانا محمد علی سے ان کی خاصی بے تکلفی تھی ۔ مولانا محمد علی نے انہیں دیکھتے ہی طنزاً کہا : ظالم ! ہم تو تیرے شعر پڑھ کر جیلوں میں چلے جاتے ہیں اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہیں لیکن تو ویسے کا ویسا دُھسا اوڑھے حقے کے کش لگاتارہتا ہے۔ گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ اقبال نے برجستہ جواب دیا: مولانا میں تو قوم کا قوال ہوں ، اگر قوال خود ہی وجد و حال میں شریک ہو کر ہُو حق میں تہ و بالا ہونے لگے تو قوالی ہی ختم ہو جائے۱۱ ۔ بہرحال اقبال نے خلافت کانفرنس کے ایک آدھ جلسے میں شرکت کی اور صوبائی خلافت کمیٹی کے رکن بھی بن گئے ۱۲ ۔ دسمبر ۱۹۱۹ء میں خلافت کانفرنس اور کانگرس کے جلسے امرتسر میں ہوئے ۔ ان جلسوں میں مولانا محمد علی ، مولانا شوکت علی ، گاندھی ، موتی لعل نہرو اور دیگر بڑے بڑے رہنما بھی شریک ہوئے۔ اقبال اور مرزا جلال الدین خلافت کانفرنس کے جلسے کی رونق دیکھنے کے لیے نواب سر ذوالفقار علی خان کی موٹر کار میں امرتسر پہنچے۔ جب پنڈال میں داخل ہو کر اقبال، علی برادران سے بغلگیر ہوئے تو جلسہ میں عوام کے جوش و خروش کا عجیب عالم تھا ۔ اکثر لوگ رو رہے تھے ۔ اس موقع پر دونوں بھائیوں کو مخاطب کرتے ہوئے اقبال نے وہ اشعار جلسے میں پڑھ کر سنائے جو بانگ درا میں ’’اسیری‘‘ کے عنوان کے تحت موجود ہیں۔ اور جو اسی روز موٹر کار میں سفر کے دوران موزوں ہوئے تھے ۱۳ ۔ دسمبر ۱۹۱۹ء ہی میں اتحادی طاقتوں کے ترکی کے ساتھ نا مناسب سلوک پر ایک احتجاجی جلسہ عام سر فضل حسین کی صدارت میں موچی دروازے کے باہر منعقد ہوا ۔ اس جلسے میں اقبال نے اکبرالٰہ آبادی کا یہ شعر پڑھ کر قرار داد پیش کی: جو ہنس رہا ہے وہ ہنس چکے گا، جو رو رہا ہے وہ رو چکے گا سکونِ دل سے خدا خدا کر، جو ہو رہا ہے وہ ہو چکے گا مسلمانانِ لاہور اس جلسے میں اُس عظیم پریشانی اور بے چینی کا اظہار کرتے ہیں جو پیرس کی صلح کانفرنس میں اب تک سلطنت عثمانیہ اور خلیفۃ المسلمین کے متعلق قابلِ اطمینان فیصلہ نہ ہونے سے لاحق ہوئی ہے اور حکومت کو وہ وعدے یاد دلاتے ہیں جو مسٹر لائڈ جارج وزیر اعظم برطانیہ نے جنوری ۱۹۱۸ء میںتمام اسلامی دنیا سے سلطنت ترکی کے متعلق کیے تھے اور پیرس کی صلح کانفرنس کے اُن اُصولوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں، جو پریذیڈنٹ ولسن نے اپنے اعلانوں میں قائم کیے تھے اور جن کی بنا پر اس عظیم الشان جنگ کا خاتمہ کیا گیااور باصرار تمام درخواست کرتے ہیں کہ جن اُصولوں پر اتحادیوں نے اپنی عیسائی دشمن سلطنتوں سے قرار داد کی ہے، انہیں اُصولوں پر مسلمان سلطنتوں سے بھی صلح انجام پانی چاہیے اور سلطنتِ عثمانیہ کے کسی حصے پر صراحتاً یا اشارۃً کسی دوسری سلطنت کا قبضہ نہیں ہونا چاہیے۱۴۔ قرار داد کی حمایت میں تقریر کرتے ہوئے اقبال نے کہا : جس قوم نے دنیا میں آزادی اور حریت کی اشاعت کی تھی، آج اُس کی آزادی چھینی جا رہی ہے ۔ جب بنی نوع انسان کو پامال کیا جاتا تھا ، اس وقت اس قوم نے مساوات کا پرچار کیا ۔ مسلمانو! تم کو یاد ہے ، جب عرب میں نبیﷺ آخرالزمان پیدا ہوئے، اس وقت دنیا کی کیا کیفیت تھی۔ قسطنطنیہ میں قیصر کی سختی یورپ کی قوموں کا گلا گھونٹ رہی تھی ، اس وقت یہ امر واضح کیا گیا کہ خدا کی اطاعت کے سوا او ر کسی کی اطاعت نہ کی جائے تمہارا مذہبی عقیدہ ہے کہ انسان کو آزادی ملنی چاہیے ۔۔۔۔ خوشامد، منت یا مانگے سے کبھی کچھ نہیں ملا ۔ خدا کے سوا کسی کی اطاعت ہمارے لیے واجب نہیں ۔ یاد رکھو کہ جو قوم ایک بڑا مقصد لے کر پیدا ہوئی ہے، وہ یونہی نہیں مٹ سکتی ۔ بادشاہیاں مٹ رہی ہیں ۔ انسان نے اپنے فطری حقوق کا دعویٰ پیش کیا ہے ۔ تمہاری تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔۔۔۔ پریذیڈنٹ ولسن نے چودہ اصول قائم کیے جن کے مطابق عالمگیر جنگ کا فیصلہ کیا جانا تھا ۔ ان میں ایک بات یہ تھی کہ ہر ایک قوم اپنے معاملہ کو خود فیصل کر لیا کرے ۔ ہماری سرکار نے بار ہا اس بات کا اعلان کیا کہ ہم حق ، انصاف اور صداقت کے لیے لڑ رہے ہیں ۔ ہماری جنگ اس لیے ہے کہ بین الاقوامی معاہدے قائم رکھے جائیں ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ ہمارے حقوق کا خیال رکھا جائے اور ان کو پامال نہ کیا جائے ۔ خلافت کانفرنس نے اپنے اجلاس میں طے کیا کہ خلافت فنڈ کے لیے دس لاکھ روپیہ جمع کیا جائے اور اس رقم سے ایک خلافت وفد انگلستان بھیجا جائے جو عثما نی خلافت کو قائم رکھنے کے سلسلے میں مسلمانوں کے مطالبات حکومت برطانیہ کے سامنے رکھے ۱۵ ۔ اسی اثنا میں علماء نے بھی عملی سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا اور ان کی تنظیم جمعیتِ علمائے ہند خلافت کانفرنس کی قرار دادوں کی تائید فتووں کی صورت میں کرنے لگی ۱۶ ۔ ان کے اجلاسوںکے سبب خلافت کانفرنس اور کانگرس میں اتحاد ہو گیا اور علماء ، مسلم قائدین و عوام نے گاندھی کو اپنا قائدِ اعلیٰ تسلیم کر لیا۔ اقبال اگرچہ صوبائی خلافت کمیٹی کے رکن تھے لیکن ان کا خلافت کانفرنس کے رہنمائوں سے دو باتوں پر شدید اختلاف ہو گیا ۔ اوّل یہ کہ اقبال خلافت وفد کے انگلستان بھیجنے کے حق میں نہ تھے ۔ انہوں نے اپنے ایک خط محررہ ۲۷ ستمبر ۱۹۱۹ء میں سید سلیمان ندوی پر واضح کیا کہ واقعات صاف اور نمایاں ہیں، مگر ہندوستان کے سادہ لوح مسلمان نہیں سمجھتے اور لندن میں آغا خان کے اشاروں پر ناچتے چلے جاتے ہیں ۱۷ ۔ بات دراصل یہ تھی کہ حکومت برطانیہ اپنی اغراض کے حصول کی خاطر خلافت وفد کو لندن بلوانا چاہتی تھی اور اس مقصد کے لیے آغا خان کو استعمال کر رہی تھی ، خلافت کانفرنس کی بنیاد بھی ، بقول سید سلیمان ندوی ، اسی طرح پڑی تھی کہ آغا خان نے مشیر حسین قدوائی کو آمادہ کیا اور انہوں نے مولانا عبدالباری فرنگی محلی کو لکھ کر آمادہ کیا ۔ اقبال نے اپنے اسی خط میں سید سلیمان ندوی کو مندرجہ ذیل اشعار’’معارف‘ ‘ میں اشاعت کے لیے بھیجے اور انہیں لکھا کہ عنوان ان اشعار کا خود تجویز کر لیں اور اگر ’’معارف‘‘ کے لیے انہیں موزوں نہ سمجھیں تو واپس بھیج دیں: بہت آزمایا ہے غیروں کو تو نے مگر آج ہے وقتِ خویش آزمائی نہیں تجھ کو تاریخ سے آگہی کیا؟ خلافت کی کرنے لگا تو گدائی خریدیں نہ ہم ، جس کو اپنے لہو سے مسلماں کو ہے ننگ وہ پادشاہی مرا از شکستن چنیں عار ناید کہ از دیگراں خواستن میومیائی۱۸ دوم یہ کہ اقبال مسئلہ ٔ تحفظِ خلافت پر مسلمانوں کے ہندووں کے ساتھ مل کر عدمِ تعاون کی تحریک میں شرکت کے خلاف تھے، کیونکہ کسی قابل قبول ہندو مسلم معاہدے کے بغیر محض انگریز دشمنی کی بنا پر قومیّتِ متحدہ کی تعمیر ممکن نہ تھی ۔ اس کے علاوہ انہیں خدشہ تھا کہ کہیں ایسے اشتراک اور مسلمانوں کی سادہ لوحی سے فائدہ اٹھا کر قومیّتِ متحدہ کے داعی ان کی علیٰحدہ ملی حیثیت ہی کو ختم نہ کر دیں ، جس کے سبب بعد میںا نہیں پشیمان ہونا پڑے ۔ انہی اختلافات کی بنا پر اقبال نے صوبائی خلافت کمیٹی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا اور محمد نیاز الدین خان کو اپنے ایک خط محررہ ۱۱ فروری ۱۹۲۰ء میں واضح کیا : گرامی صاحب کی خدمت میں السلام علیکم عرض کیجیے ۔ سنا ہے وہ مجھ پر ناراض ہیں کہ میں نے خلافت کمیٹی سے کیوں استعفیٰ دے دیا ۔ وہ لاہور آئیں تو ان کو حالات سے آگاہ کروں۔ جس طرح یہ کمیٹی قائم کی گئی اور جو کچھ اس کے بعض ممبران کا مقصد تھا، اس کے اعتبار سے تو اس کمیٹی کا وجود میری رائے میں مسلمانوں کے لیے خطرناک تھا ۱۹۔ اسی زمانے میں اقبال کے بھتیجے شیخ اعجاز احمد نے دیگر نوجوانوں کی طرح تحریکِ خلافت میں خاصی سرگرمی کے ساتھ حصہ لینا شروع کر دیا ۔ ان کے والد نے اقبال سے اس کا ذکر کیا تو جواب میں فرمایا : اعجاز کو چاہیے کہ پہلے اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے ، اس کے بعد ملک کی تحریکوں میں شامل ہو۔خلافت کا کام کرنے سے میں نہیں روکتا ، کیونکہ اس کا سارا دارو مدار قلب کی اندرونی کیفیت پر ہے ، مگر پہلے اسے اپنے کام میں پختہ ہو جانا چاہیے ۔۔۔۔ اس کے علاوہ خلافت کمیٹیوں کے بعض ممبر ہر جگہ قابلِ اعتماد نہیں ہوتے ، وہ بظاہر جوشیلے مسلمان ہوتے ہیںلیکن در باطن اخوان الشیاطین ہیں ۔ اسی وجہ سے میں نے خلافت کمیٹی کی سیکرٹری شپ سے استعفیٰ دے دیا تھا ۔ اس استعفیٰ کے وجوہ اس قابل نہ تھے کہ پبلک کے سامنے پیش کیے جاتے ، لیکن اگر پیش کیے جا سکتے تو لوگوں کو سخت حیرت ہوتی ۲۰ ۔ بہرحال مارچ ۱۹۲۰ء میں مولانا محمد علی ، سیّد سلیمان ندوی ، سیّد حسن ، محمد حیات وغیرہ پر مشتمل خلافت وفد لندن پہنچا تاکہ حکومت برطانیہ اور حکومتِ فرانس پر مسئلہ خلافت کی اہمیت کے بارے میں مسلمانوں کا نقطۂ نظر واضح کیا جا سکے ۔ وفد کا مطالبہ یہ تھا کہ خلافت عثمانیہ کو قائم رکھا جائے اور مسلمانانِ عالم کی دینی اور سیاسی ضروریات کے پیش نظر شام ، فلسطین ،اردن ، عراق اور حجاز وغیرہ کے علاقے اس کی تحویل میں واپس دے دئیے جائیں ۔ وفد پیرس بھی گیا لیکن ناکام لوٹا ۔ اقبال کو اس کے انجام کا پہلے ہی سے علم تھا ۔ اس لیے سید سلیمان ندوی کو تحریر کیا کہ وزارت انگلستان کا جواب وہی ہے ، جو ان حالات میں ہمیشہ دیا گیا ہے ، انو من لبشرین مثلنا و قومہمالناعبٰدون یہ قرآن مجید کی آیت اس موقع کی ہے،جب فرعون نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہ السلام پر ایمان لانے سے اس لیے انکار کر دیا تھا کہ یہ دونوں عام بشر تھے اور ان کی قوم فرعون کی غلام رعایا میں تھی ۲۱ ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ خلافت وفد نے اس معاملے میں ترکوں اور عربوں کے نقطہ ہائے نظر معلوم کرنے کی کوشش نہ کی ۔ عرب خلافتِ عثمانیہ کے ماتحت نہیں آنا چاہتے تھے، بلکہ وہ ایک آزاد اور خود مختار پان عرب ریاست کے قیام کا خواب دیکھ رہے تھے ۔ اس بات کا احساس ترکوں کو بھی تھا اور وہ عرب علاقوں کو سلطنت ترکیہ میں شامل نہ کرنا چاہتے تھے بلکہ ان کا مقصد تو ترکی کو تقسیم سے بچانا تھا اور وہ صرف ترکی کو آزاد اور خود مختار ریاست بنانے کے خواہاں تھے ۔ البتہ انگریزوں کی یہ مصلحت ضرور تھی کہ قسطنطنیہ پر ان کا قبضہ قائم رہے اور عثمانی سلطان خلیفہ ان کی کٹھ پتلی کی حیثیت سے ان کی خواہش کے مطابق حکومت کرے ۔ مئی ۱۹۲۰ء میں معاہدہ سیورے ، جس کے ذریعے ترکی کی تقسیم مقصود تھی ، کٹھ پتلی سلطان خلیفہ نے قبول کر لیا ۔ اس معاہدے کے خلاف مسلم ہند میں شورِ احتجاج بلند ہوا ۔ دوسری طرف مصطفی کمال پاشا نے اناطولیہ کے وسط میں ترکی کی ایک مستقل آزاد ، حکومت کی بنیاد رکھ کر یونانیوں اور انگریزوں کے خلاف جنگ شروع کر دی۔ خلافت کانفرنس نے معاہدہ سیورے کے خلاف مظاہروں کا اہتمام کیا ۔ اسی اثنا میں ابوالکلام آزاد قید سے نجات حاصل کر کے کلکتے پہنچے اور انگریزی حکومت سے عدم تعاون کے بارے میں اپنی مشہور تقریر کی ۔ کانگرس کے ہندو راہنمائوں نے گاندھی کی قیادت میں خلافت کانفرنس کے مطالبہ تحفظِ خلافت کی حمایت شروع کر دی اور وسط ۱۹۲۰ء میں دونوں جماعتوں نے عدم تعاون یا ترکِ موالات کی تحریک کا اعلان کر دیا۔ اس کی تائید میں پانچ سو علماء نے مولانا محمود حسن کی قیادت میں، جو مالٹا سے رہائی حاصل کر کے واپس آ چکے تھے، ترک موالات پر کفار کا فتویٰ جاری کیا ۔ تحریکِ ترک موالات میں خطابات کی واپسی ، سرکاری یا فوجی ملازمت سے دست برداری ، کونسلوں کی رکنیت سے استعفیٰ ، عدالتوں کا مقاطعہ ، بدیشی مال کا مقاطعہ ، حکومت سے زرِ امداد لینے والے تعلیمی اداروں کا مقاطعہ وغیرہ شامل تھے ۔ تحریک کا مطالبہ تھا کہ معاہدہ ترکی پر نظر ثانی کی جائے اور ہندوستان کو آزادی و خود مختاری دی جائے۔ تحریک ترکِ موالات بڑے زور شور سے شروع ہوئی ۔ مسلم اور ہندو سیاسی رہنمائوں نے ملک بھر کا دورہ کیا اور گاندھی پورے ملک کے واحد قائد تسلیم کر لیے گئے۔ اس ہندو مسلم اتحاد کی اندرونی داستان بھی توجہ کے قابل ہے ۔ ہندو راہنمائوں نے خلافت کے معاملے میں گو مسلمانوں کا ساتھ دیا، لیکن ظاہر ہے کہ انہیں مطالبۂ تحفظِ خلافت سے کوئی دلچسپی نہ تھی، بلکہ لا جپت رائے اور بی سی پال جیسے ہندو مہا سبھائیوں نے تو ابتداء ہی سے تحریکِ خلافت کو شبہ کی نگاہ سے دیکھا تھا۔ بی ۔ سی۔ پال نے تحریر کیا کہ پان اسلامزم کی تحریک ایسی پیچیدگیاں پیدا کر رہی ہے جو انڈین نیشنلزم اور برٹش امپیریلزم دونوں کے مستقبل پر اثر انداز ہو سکتی ہے ۔ اس لیے اگر انڈین نیشنلزم اور برٹش امپیریلزم ایک دوسرے کے قریب نہ آئے تو پان اسلامزم کی علیحدگی کی تحریک یقینا کامیاب ہو جائے گی ۔ اس پس منظر میں مسلمانوں کا ہندوستان کی آزادی اور خود مختاری کے لیے نئے ولولے کا اظہار کرنا شبہ سے خالی نہیں ہے ۲۲۔ اس کے جواب میں مولانا محمد علی نے کہا کہ ممکن ہے لاجپت رائے اورپان اسلامزم کے ازلی دشمن بیپن چندرپال یا دیگر متعصب ہندو رہنمائوں کے لیے مسلم اصطلاحوں کو سمجھ سکنا مشکل ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمان انڈین نیشنلزم کے ساتھ اپنی شرائط پر ہی تعاون کرنے کو تیار ہیں۔ انہیں یہ علم نہیں کہ جسے وہ پان اسلامزم کہتے ہیں ، وہ مسلمانوں کے نزدیک عین اسلام ہے، ہو سکتاہے کہ لاجپت رائے کی نگاہ میں سوراج (آزادی) سے مراد خود مختاری ہو ۔ مگر مسلمانوں کے لیے سوراج ایک بے معنی چیز ہے جب تک کہ اس کے ساتھ سو ادھرمہ (مذہبی آزادی) نہ ہو۲۳۔ بہرحال جمعیتِ علمائے ہند نے فتویٰ جاری کیا کہ چونکہ ترکی کے ساتھ صلح کی شرائط مسلمانانِ ہند کی خواہشات کے مطابق طے نہیں پائیں ، اس لیے ہندوستان دارالحرب بن چکا ہے اور مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس ملک سے ہجرت کر کے کسی مسلم ملک میں جا آباد ہوں ۔ ۱۹۲۰ء کی گرمیوں میں اعلان کیا گیا کہ مسلمانانِ ہند ہجرت کر کے افغانستان چلے جائیں۲۴ ۔ اس فتویٰ کے زیر اثر ہزاروں کی تعداد میں سندھ ، پنجاب اور سرحد کے کاشتکار اپنی اپنی اراضی اور گھر بار نہایت سستے داموںہندوئوں کے ہاتھ فروخت کر کے اہل و عیال سمیت درئہ خیبر کی طرف بڑھنے لگے ۲۵ ۔ اقبال کے بعض خطوط میںان مہاجرین کی روانگی کے متعلق اشارے ملتے ہیں ۔ مثلاً خط بنام گرامی محررہ ۱۲ جولائی ۱۹۲۰ء ؛ سندھی مہاجرین کابل کا نظارہ بڑا رقت انگیز تھا ۔ لوگ ہزاروں کی تعداد میں ان کے استقبال کو حاضر تھے۔ اہلِ لاہور نے بڑے جوش سے ان کا خیر مقدم کیا ۲۶ ۔ خط بنام پروفسیر محمد اکبر منیر محررہ ۴ اگست ۱۹۲۰ء ؛ ہندوستان اور بالخصوص پنجاب سے بے شمار لوگ (مسلمان) افغانستان کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ اس وقت تک پندرہ بیس ہزار آدمی اور ممکن ہے کہ زیادہ جا چکا ہو گا ۲۷۔ لیکن درحقیقت جمعیتِ علمائے ہند کے فتوے بحقِ تحریکِ ہجرت نے برصغیر کے شمال مغربی حصے میں مسلمانوں کے لیے تباہی و بربادی کا سامان پیدا کر دیا ۔ افغانستان ایک پسماندہ ملک کی حیثیت سے اتنی بڑی تعداد میںمہاجرین قبول نہ کر سکتا تھا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ افغان حکام نے سرحدیں بند کر دیں اور مسلم مہاجرین کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا ۔ اس لیے مہاجرین کو بہ امر مجبوری واپس آنا پڑا اور انہوں نے جس قدر صعوبتیں برداشت کیں ، ان کا شمار کرنا محال ہے ۔ رش بروک و لیمز کے بیان کے مطابق کابل سے لے کر پشاور تک کی شاہراہ کے دونوں طرف کی زمین ان بوڑھوں ، عورتوں اور بچوں کی قبروں سے بھر گئی جو اس سفر کی مصیبتیں برداشت نہ کر سکے ۔ جب مہاجرین اپنے اپنے دیہات واپس پہنچے تو بالکل قلاش اور گھربار سے محروم تھے اور سر چھپانے کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۲۸ ۔ اقبال کے تحریکِ ترکِ موالات کے حامی یا مخالف ہونے پر اقبال شناسوں میں اختلاف ہے ۔ محمد حنیف شاہد کی تحریر سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شاید اقبال تحریک ترکِ موالات کے حامی تھے۲۹ ۔ عبدالسلام خورشید کے نزدیک اگرچہ اقبال کو تحریک ترکِ موالات کے مقاصد سے اتفاق تھا لیکن وہ نہیں چاہتے تھے کہ نہایت محنت سے بنائی ہوئی ایک اسلامی درسگاہ (یعنی اسلامیہ کالج لاہور) اس کی زد میں آ کر برباد ہو جائے۳۰ ۔ سیّد نور محمد قادری کی رائے میں اقبال نہ صرف تحریک ترکِ موالات کے مخالف تھے، اس کے رہنمائوں سے سخت نالاں بھی تھے ۳۱ ۔ اقبال کی چند نثری تحریروں سے عیاں ہے کہ وہ خلافت عثمانیہ کے مستقبل کو مخدوش سمجھتے تھے۳۲۔ اس لیے ان کے نزدیک مستقبل میں مسلم اقوام کے اتحاد کی بنیاد خلافت کی بجائے کسی اور اصول پر رکھنا ناگزیر تھا ۔ لیکن وہ تحریکِ خلافت کے ذریعے مسلمانان ہند کو سیاسی طور پر بیدار ہوتے دیکھ کر خوش ضرور تھے ۔ مسلم لیگ کا مسلم عوام سے کوئی رابطہ نہ تھا ۔ مگر تحریک خلافت کا جوش و خروش مسلم عوام میں بیداری پیدا کر کے ان کی سیاسی تنظیم کو فعال بنا سکتا تھا ۔ اس سے زیادہ ان کی تحریکِ خلافت میں دلچسپی نہ تھی ۔ وہ تحفظِ خلافت کے سلسلے میں خلافت وفد کے یورپ جانے کے خلاف تھے۔ اسی طرح وہ مسلمانوں کے ہندووں کے ساتھ تحریکِ موالات میں شریک ہونے پر بھی معترض تھے ۔ وہ احتجاجی جلسوں کی حد تک مسلمانوں کو عدم تعاون میں حق بجانب سمجھتے تھے ، مگر اس مرحلے پر غالباً وہ مسلمانوں کی کسی علیٰحدہ تنظیم عدم تعاون یا ترک موالات کے حق میں بھی نہ تھے ، کیونکہ اس معاملے میں ان کی شرط یہ تھی کہ مختلف مکتبہ ہائے فکر کے علماء اگر جمع ہو کر اتفاقِ رائے سے عدمِ تعاون یا ترک موالات کے حق میں فتویٰ صادر کریں تو ایسا ہو سکتا تھا۔ اقبال کا استدلال یہ تھا کہ واجب الطاعتہ امام کی عدم موجودگی کی صورت میں صرف اجماع ہی کے ذریعے مسلمان من حیث القوم ترکِ موالات کا پروگرام مرتب کر سکتے تھے ، لیکن چونکہ ایسی صورت نہ تھی ، اس لیے ان کے نزدیک ترکِ موالات کی تحریک میں حصہ لینا مسلمانوں کے لیے شرعی فرض نہ تھا اور طلبہ کا تو ایسی تحریک میں حصہ لینا قطعاً غیر شرعی تھا ۔ تحریکِ ترکِ موالات کا ایک پہلو انگریزی حکومت سے زرِ امداد لینے والے تعلیمی اداروں کا مقاطعہ تھا ۔ تحریک کے زور میں آتے ہی مولانا محمد علی وغیرہ نے علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ کی بڑی تعداد کو توڑ کر آزاد قومی یونیورسٹی یا جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد ڈالی ۔ ۲۲ نومبر ۱۹۲۰ء کو مولانا محمد علی نے تجویز پیش کی کہ اقبال سے نئی یونیورسٹی میں عہدئہ پرنسپل قبول کرنے کی درخواست کی جائے۔ یہ تجویز منظور ہوئی اور ساتھ ہی خلافت کانفرنس کے رہنمائوں نے اخبارات میں خبر شائع کرا دی کہ اقبال نے علی گڑھ محمدن کالج کے مقابلے میں نئی قائم شدہ آزاد قومی یونیورسٹی کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے ۔ یہ خبر پڑھ کر اقبال کو سخت ذہنی کوفت ہوئی ، جس کا اظہار انہوں نے اپنے ایک خط محررہ ۲۸ اکتوبر ۱۹۲۰ء بنام محمد نیاز الدین خان میں یوں کیا : علی گڑھ سے ابھی تک کوئی خبر نہیں آئی ۔ اسلامیہ کالج میں بھی وہی حالات پیدا ہو چلے تھے، مگر طلبہ کو چھٹی دے دی گئی ہے اور الحاق کے بارے میں خود ان کی رائے میں بھی تبدیلی ہو رہی ہے ۔ میری تو یہی رائے ہے کہ گرانٹ اور الحاق کے بارے میں جو فتویٰ علماء کا ہو ، اس پر عمل کرنا چاہیے، چونکہ واجب اطاعت امام اس وقت موجود نہیں، اس لیے جمہور مشاہیر علماے ہند کا فتویٰ ضروری ہو گا ۔ صرف ایک عالم کا فتویٰ اس بارے میں کافی نہیں خواہ وہ صحیح ہی کیوں نہ ہو ۔ علماء کی غالب جماعت کا اس پر اتفاق ہونا چاہیے ذاتی رائے میری خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو ، اگر علماء کا فتویٰ میری ذاتی رائے کے خلاف ہو تو سر تسلیم خم ہے۔ جہاںتک میں اندازہ کرتا ہوں ، قرآن کے احکام اس بارے میں صاف اور واضح ہیں، لیکن افسوس ہے کہ بعض مشہور علماء فتویٰ دیتے ہوئے خائف ہیں۔ بعض کی خدمت میں میں نے خطوط لکھے ہیں، مگر امید نہیں کہ جواب ملے۔ باقی رہا میرا ان لوگوں سے ہم خیال ہونا ، ہم خیالی صرف اسی حد تک ہے جس حدتک قرآن کا حکم ہو اور بس ۔ اخباروں میں انہوں نے شائع کیا ہے کہ اقبال نے قومی آزاد یونیورسٹی سے متعلق مدد دینے کا وعدہ کیا ہے۔ یوں تو مسلمانوں کے معاملات میں اگر مجھ سے مدد طلب کی جائے تو مجھے تعمیلِ حکم میں کیونکر تامل ہو سکتا ہے، تاہم جو کچھ اخباروں میں لکھا گیا ہے بالکل غلط ہے ۔ میرے ساتھ ان کی کوئی گفتگو اس بارے میں نہیں ہوئی ہے ۔ واقعات کی رو سے یہ بات بالکل غلط ہے ۔ اس خیال سے کہ علی گڑھ میں اس بیان سے لوگ دھوکا نہ کھائیں میں نے ایک تار آنریری سیکرٹری کو دیا ہے کہ یہ بات صحیح نہیں ہے ، جو اخبارات میں شائع ہوئی ہے ۳۳ ۔ اسی اثنا میں مولانا محمد علی وغیرہ کے ایماء پر گاندھی نے اقبال کو ایک خط تحریر کیا ، جس میں لکھا: مسلم نیشنل یونیورسٹی آپ کو آواز دے رہی ہے ۔ اگر آپ اس کا چارج لے سکیں تو مجھے یقین ہے کہ وہ آپ کی صحیح رہنمائی میں ترقی کر سکے گی۔ حکیم اجمل خان ، ڈاکٹر انصاری اور علی برادارن کی یہی خواہش ہے اور میری بھی خواہش ہے کہ آپ قبول یابی کاکوئی رستہ نکالیں ۔ نئی بیداری کے تقاضوں کے بقدر آپ کے اخراجات کی کفالت کی جا سکے گی ۔ براہ کرم پنڈت نہرو (موتی لعل) کی معرفت الٰہ آباد کے پتے پر جواب دیجئے ۳۴ ۔ اقبال نے اپنے خط محررہ ۲۹ نومبر ۱۹۲۰ء میں گاندھی کو جواب دیا: ۔۔۔۔۔ مجھے بے حد افسوس ہے کہ بعض وجوہ کی بنا پر ، جن کا ذکر اس وقت ضروری نہیں ، اُن حضرات کی آواز پر، جن کی میرے دل میں بڑی عزت ہے ، لبیک کہنا میرے لیے مشکل ہے۔ اگرچہ میں قومی تعلیم کے شدید حامیوں میں سے ہوں ، لیکن ایک تو یونیورسٹی کی رہنمائی کے لیے مجھ میں وہ صلاحیتیں نہیں ہیں جو مختلف کشمکشوں اور رقابتوں کی صورت میں عموماً ابتدائی مراحل میں پیدا ہوتی ہیں ۔۔۔۔ مزید یہ کہ فطری طور پر میں پر سکون حالات ہی میں کام کر سکتا ہوں ، ایک اور بات یہ بھی ہے کہ ہم جن حالات سے دوچار ہیں، ان میں سیاسی آزادی سے قبل معاشی آزادی ضروری ہے ، اور معاشی اعتبار سے ہندوستانی مسلمان دوسرے فرقوں کے مقابلے میںبہت پیچھے ہیں۔ بنیادی طور پر انہیں ادب و فلسفہ کی نہیں ٹکنیکاتی تعلیم کی ضرورت ہے ۔۔۔۔جن حضرات نے جامعہ ملیہ قائم کی ہے ، انہیں چاہیے کہ اس نئے ادارے میں خصوصی طور پر طبعی علوم کے ٹکنیکاتی پہلو پر زور دیں اور اس کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم کا بھی انتظام کریں۔ اس میں شبہ نہیں کہ عالمِ اسلام بالخصوص عرب ملکوں اور مقدس مقامات میں جو واقعات پیش آئے ، ان کے پیش نظر کسی نہ کسی قسم کا عدم تعاون اختیار کرنے میں وہ حق بجانب ہیں ، لیکن تعلیم کا مذہبی پہلو میرے ذہن میں ہنوز غیر واضح ہے اور میں نے اس مسئلہ پر مکمل غور کرنے کے لیے اپنی تجاویز شائع کر دی ہیں ۔ مجھے اس کا اعتراف ہے کہ میں شریعت کا ماہر نہیں ہوں ، لیکن میرا عقیدہ ہے کہ جہاں تک تعلیم کا سوال ہے ، موجودہ مجبوریوں کے باوجود فقہ اسلامی ہماری مناسب رہنمائی کرنے سے معذور نہیں ۔ علی گڑھ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد مولانا محمد علی اور دیگر رہنما انجمن حمایت اسلام کے ارباب بست و کشاد سے ملاقات کی خاطر لاہور پہنچے ۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ کسی نہ کسی طرح اسلامیہ کالج لاہور کے اساتذہ اور طلبہ کو ترک موالات کی تحریک میں شمولیت کے لیے آمادہ کیا جائے ۔ اقبال ۳۱ مارچ ۱۹۲۰ء سے انجمن کے آنریری جنرل سیکرٹری کے عہدہ پر فائز تھے ۔ مولانا محمد علی انجمن کے ٹرسٹیوں اور اقبال سے ملے ، لیکن اقبال نے ان سے اتفاق نہ کیا۔ انجمن کی مجلس عاملہ کا ایک اجلاس ۱۴ نومبر ۱۹۲۰ء کو زیر صدارت نواب سر ذوالفقار علی خان منعقد ہوا ، جس میں اقبال نے تقریر کرتے ہوئے کہا: مسٹر محمد علی ، مسٹر شوکت علی ، مولانا ابوالکلام آزاد اور دوسرے اصحاب لاہور آئے ہوئے ہیں۔ ان کے خیالات سننے کے لیے ارکانِ انجمن کے دو جلسے ہو چکے ہیں۔ اسلامیہ کالج میں جو جلسہ ہوا تھا اس میں مجلس عاملہ نے انجمن کے غور و فکر کے لیے ذیل کی دو تجاویز پیش کیں: ۱ ۔ اسلامیہ کالج اور اسکولوں کے لیے حکومت سے جو سالانہ عطیات اور امدادی رقوم لی جاتی ہیں ، انہیں ترک کر دیا جائے۔ ۲ ۔ اگر اسلامیہ کالج کے طلبہ کی اکثریت موجودہ نظام تعلیم پر عدم اطمینان کا اظہار کرے تو کالج کا رشتہ الحاق پنجاب یونیورسٹی سے منقطع کر لیا جائے۔ حامیان ترکِ موالات نے (حکومت کی مالی امداد کی بجائے) انجمن کو سالانہ گیارہ ہزار روپے کی رقم دینے کا وعدہ کیا ہے ، نیز خطوط موصول ہوئے ہیں ، جن میں اسلامیہ کالج کو یونیورسٹی سے علیٰحدہ کر لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے ۳۵۔ ان ایّام میں اقبال نے ’’زمیندار‘‘ میں ایک مضمون بھی لکھا تھا، جس میں زیر بحث موضوع کے متعلق علماے کرام کو ایک مقام پر جمع کرنے اور ان سے فتویٰ لینے کے اُصول اور طریقوں کی وضاحت کی تھی ۔ اس سلسلے میں چند فتوے شائع ہو چکے تھے ۔ اقبال نے تقریر میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا : میرا عقیدہ یہ ہے کہ انجمن الحاق اور حکومت سے امداد لینے کے مسائل کا فیصلہ مذہبی علماء سے مشورہ لیے بغیر اور دینی احکام معلوم کیے بغیر نہیں کر سکتی۔ لیکن اقبال کی تجویز منظور نہ ہوئی ۔ اس کے بعد سر فضل حسین کی طرف سے جو اسلامیہ کالج کے سیکرٹری تھے ، تجویز پیش کی گئی کہ اسلامیہ کالج اور اسکول بدستور پنجاب یونیورسٹی سے ملحق رہیں ۔ چھبیس ارکان نے اس تجویز کے حق میں ووٹ دئیے ۔ اقبال اور پندرہ دیگر ارکان نے ووٹ دینے میں حصہ نہ لیا ، پھر بھی زمیندار نے یہ غلط خبر شائع کر دی کہ اقبال اور چند دوسرے اصحاب نے یہ کہہ کر تجویز کی مخالفت کی ہے کہ ہم مذہب کو تمام چیزوں سے بالاتر سمجھتے ہیں، علمائے کرام کو اپنا حکم سمجھتے ہیں اور جمعیت علمائے ہند جو فیصلہ کرے گی ، وہی ہماری رائے ہو گی ۔ اس پر اقبال نے زمیندار میں اپنے ایک خط محررہ ۱۵ نومبر ۱۹۲۰ء میں واضح کیا : آج کے زمیندار میں جنرل کونسل انجمن حمایت اسلام لاہور کے جلسہ منعقدہ ۱۴ نومبر ۱۹۲۰ء کی کارروائی پر آپ نے جو کچھ لکھا ہے ، اس میں ایک آدھ فروگذاشت ہو گئی ہے جس کا ازالہ عام مسلمانوں کی آگاہی کے لیے ضروری ہے ۔۔۔۔ ارکان کونسل کے سامنے تین تجویزیں تھیں: ۱ ۔ اسلامیہ کالج کا الحاق پنجاب یونیورسٹی سے جاری رکھا جائے۔ محرک ، میاں فضل حسین صاحب سیکرٹری کالج ۔ ۲۔ انجمنِ حمایتِ اسلام لاہور اپنے طور پر علماے پنجاب و ہندوستان کی ایک کانفرنس کرے، جس میں حالات حاضرہ سے واقف کار لوگ بطورِ مشیر کام کریں تاکہ حضرات علماء مسائل متنازعہ فیہ کے ہر پہلو پر پوری بحث و تمحیص کے بعد نتائج پر پہنچیں۔ علماء کی اس بحث میں مشیروں کو رائے دینے کا کوئی حق نہ ہو گا اور فیصلہ کثرت آراء سے ہوگا ۔ اختتام کانفرنس تک اسلامیہ کالج کا الحاق یونیورسٹی سے قائم رہے۔ متحرک ، مولوی ابراہیم سیالکوٹی۔ ۳ ۔ جمعیت علماء کا اجلاس دہلی میں عنقریب ہونے والا ہے۔ ان کے فتوے کا انتظار کیا جائے اور چند حضرات ، انجمن کی طرف سے بطور وفد اس جلسے کے بحث مباحثے میں شریک ہوں۔ محرک ، ڈاکٹر کچلو ۔ ۔۔۔۔ تجویز اوّل پر ووٹ لیے گئے ، جن کا نتیجہ یہ ہے کہ کثرتِ آراء میاں فضل حسین کی تجویز کے حق میں تھی ۔۔۔۔ خاکسار ۔۔۔۔ (نے) ووٹ دینے سے اس بنا پر انکار کیا کہ ۔۔۔۔ معاملہ زیر بحث کا ایک نہایت اہم مذہبی پہلو ہے ، جس کا فیصلہ علماء سے استفتا کیے بغیر ایک ایسی انجمن کے لیے نا ممکن ہے جو انجمن حمایت اسلام کے نام سے موسوم ہے ، پہلی تجویز کے فیصلہ ہو جانے پر باقی دو تجاویز پر ووٹ لینا ضروری نہ سمجھا گیا ۔۔۔۔ ممبران میں سے بعض ڈاکٹر کچلو کی تجویز کے موید تھے اور بعض مولوی ابراہیم صاحب کی تجویز کے مویّد تھے ۔ میری رائے یہ تھی کہ مولوی ابراہیم صاحب کی تجویز کے مطابق انجمن خود علماء کی ایک کانفرنس مدعو کرے تاکہ اس نازک مسئلے کے ہر پہلو پر پوری بحث ہو سکے؛ جو فتوے دفتر انجمن میں موصول ہوئے ہیں ان کو حضرات علماء سے فرداً فرداً حاصل کیا گیاہے او رنیز بعض نہایت ضروری سوالات ان سے پوچھے ہی نہیں گئے ۔۔۔۔ اس وقت مسلمانوں کی بدنصیبی سے ایک ملک میں یا اور اسلامی ممالک میں کوئی واجب الطاعتہ امام موجود نہیں۔مولانا ابوالکلام آزاد نے فرمایا تھا کہ واجب الطاعتہ امام نہ ہونے کی صورت میں خلافت کمیٹی کا فتویٰ واجب الطاعتہ ہے ۔ میں نے ان کے دلائل نہیں سنے ۔ اس وقت تک مجھے ان کی رائے سے اتفاق نہیں ۔۔۔۔ فی الحال تو میرے نزدیک یہی راہ کھلی ہے اور یہی راہ شریعت کی رو سے بھی انسب و اولیٰ ہے کہ حضرات علماء ایک جگہ جمع ہو کر ہر قسم کا اعتراض سننے اور پورے بحث و مباحثے کے بعد مسلمانوں کے لیے ترک موالات کا ایک پروگرام مرتب کریں ۔۔۔۔ شاید آپ کے بعض ناظرین کے دل میں یہ خیال گزرے کہ جمعیت علماء کا جلسہ دہلی میں عنقریب ہونے والا ہے تو ایسی کانفرنس قائم کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر کچلو صاحب کی تجویز میں سر دست کسی خرچ اور وقت کی ضرورت نہیں، لیکن جب جنرل کونسل میں ان تجاویز پر بحث ہو رہی تھی تو بعض صاحبان کی گفتگو سے یہ مترشح ہوتا تھا کہ وہ دہلی کی کانفرنس کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اس بناء پر کہ یہ کانفرنس ایک خاص خیال کے علماء کا مجموعہ ہو گی ۔ میرا یہ عقیدہ ہے کہ اس خیال کے اور بھی مسلمان ہیں اور میں مولوی ابراہیم صاحب کی تجویز کی اس بنا پر تائید کرتا ہوں کہ کوئی ، شائبہ بھی کسی قسم کے شک وظن کا نہ رہے اور ایک ایسی کانفرنس قائم کی جائے ، جس کا فتویٰ ہر خیال کے مسلمانوں کے لیے حجت ہو اور کسی بھی قسم کے اعتراض کی گنجائش نہ رہے ۔ جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ حالات حاضرہ محض ایک سیاسی مفہوم رکھتے ہیں اور پختہ کارانِ سیاست ہی اس کے فیصلے کے اہل ہیں اور مسند نشینانِ پیغمبر کو ان حالات سے کچھ سروکار نہیں ، وہ میری ناقص رائے میں ایک خطرناک غلطی میں مبتلا ہیں ، جو حقائق و تاریخ اسلامیہ اور شریعت حقہ کے مقاصد کے نہ سمجھنے سے پیدا ہوئی ہے ۔ قومی زندگی کی کوئی حالت ایسی نہیں جس پر فقہائے اسلام نے حیرت انگیز چھان بین نہ کی ہو ۔ اگر مسلمان اس خدا کے دیے ہوئے قانون سے فائدہ نہ اٹھائیں تو ان کی بدنصیبی ہے ۔۔۔۔ مسلمانوں کے لیے نہ مسٹر گاندھی کی زندگی اسوئہ حسنہ ہے ، نہ کسی انسان کا بنایا ہوا ہدایت نامہ ان کے لیے دلیل راہ ہو سکتا ہے ۔ ان کے ہر فعل کے لیے خواہ انفرادی ہو ، خواہ اجتماعی ، کتاب اللہ اور رسول ﷺکے عمل میں نظام کار تلاش کرنا چاہئے اور جو نظام کار ان دو مؤاخذ سے ملے ، اسی پر عمل پیرا ہونا چاہیے اور اس بات کا خیال تک بھی نہ کرنا چاہیے کہ ان کا نظام عمل مسٹر گاندھی کے پروگرام کے مطابق ہے یا اس سے مختلف ہے۔۔۔۔ اسلام کے نزدیک مسلمان کاکوئی فعل ، انفرادی ہو یا اجتماعی ، مذہب کی ہمہ گیری سے آزاد نہیں برخلاف دیگر مذاہب کے اسلام نے زندگی کے ہر پہلو کے لیے احکام وضع کیے ہیں ۔۔۔۔ وہ سیاست جو مذہب سے معرا ہو ، ضلالت و گمراہی ہے اور وہ مذہب جو اپنے احکام میں تمام ضروریات انسانی کو ملحوظ نہیں رکھتا، ایک قسم کی ناقص رہبانیت ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ بعض مغربی خیالات ایک نامحسوس زہر کی طرح ہمارے دماغوں میں سرایت کر گئے ہیں ، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مذہب کو سیاست سے کوئی واسطہ نہیں ۔ اکثر تعلیم یافتہ نوجوان بے تحاشا اس خیال کا اظہار کرتے ہیں اور قوم کو بھی اس پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دیتے ہیں ان کو اس بات کا احساس تک نہیں کہ یہ خیال کم از کم اسلام کے لیے زہر قاتل ہے۳۶ ۔ اگر اقبال کی تجویز منظور کرلی جاتی اور برصغیر کے مختلف مکتبہ ہائے فکر کے علماے کرام کی کانفرنس منعقد کرانے کا اہتمام ہو جاتا تو متنازع فیہ مسائل کے حل کے علاوہ مستقبل کے لیے ایک مستقل اجماع کی مثال قائم ہو جاتی ، مگر اس جوش و خروش کے زمانے میں علماے کرام اور مسلم سیاسی رہنمائوں میں سے کسی نے بھی اقبال کا ساتھ نہ دیا ۔ اسی صورتحال کے پیش نظر اقبال نے اپنے ایک خط بنام محمد نیاز الدین خان محررہ ۳ دسمبر ۱۹۲۰ء میں فرمایا : امید کہ عوام کی حالتِ جنوں اب زیادہ دیر تک نہ رہے گی ۔ تعلیم میں عدم تعاون کرنے کا یہ طریقہ نہ تھا جو بعض لوگوں نے اختیار کر رکھا ہے ۔ اگر عدم تعاون کو شرعی فرض بھی تسلیم کر لیا جائے تو طریق کار میرے نزدیک شریعت اسلامیہ کی سپرٹ کے مخالف ہے ۳۷ ۔ اقبال سے ملاقات اور ان کے اختلاف کی جو رو داد مولانا محمد علی نے تحریر کی ، اس میں مایوسی اور طنز کے جذبات نمایاں تھے ۔ بیان کرتے ہیں : ہم لاہور پہنچے اور اسلامیہ کالج کے ٹرسٹیوں اور اساتذہ کو دعوت الی الخیر دی، تو ان کو علی گڑھ کالج کے ٹرسٹیوں اور اساتذہ سے بھی زیادہ مستعد پایا اور اس سے اندازہ کیا کہ طلبہ کس قدر مستعد ہوں گے ، مگر ڈاکٹر محمد اقبال صاحب سیکرٹری تھے اور آپ نے جن سے ہم نے اسلام سیکھا تھا (نہ کہ کسی مولوی سے) ،ہماری دعوت کو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ پہلے علماے کرام کا فتویٰ لیا جائے ۔ خیر پانچ سو علماء نے بھی چند ماہ بعد فتویٰ صادر فرما دیا ، مگر ڈاکٹر اقبال نے اس پر بھی توجہ نہیں فرمائی ، البتہ اجتہاد فرمایا تو علم الاقتصاد کے ماہر کی حیثیت سے ، اس وقت جبکہ مہاتما گاندھی ایک کروڑ روپیہ جمع کر لائے اور وہ اجتہاد یہ تھا کہ اس سے ٹیکنالوجیکل (صنعتی) انسٹی ٹیوٹ کا افتتاح کیا جائے ۳۸ ۔ مولانا محمد علی کی روداد میں جو گاندھی کے ایک کروڑ روپیہ جمع کر لینے کا ذکر ہے، وہ روپیہ اگرچہ مسلمانوں نے دیا تھا ، لیکن کانگرس کو ملک گیر بنانے پر صرف ہوا ۔ اس سلسلے میں سید عابد حسین تحریر کرتے ہیں: ایک کروڑ ، جس کا بیشتر حصہ مسلمانوں کی جیب سے نکلا تھا ۔ کہاںکہاں اور کیسے خرچ ہوا؟پنڈت جواہر لعل نہرو کی زبانی سنیے: گاندھی جی پر اعتراض تھا کہ ان کے پاس لاکھوں پائونڈ کی رقم جمع ہے اور یہ رقم انہوں نے خفیہ طور پر اپنے دوستوں کے پاس رکھی ہوئی ہے۔ اس اعتراض کا جواب پنڈت نہرو صاحب نے یہ دیا ہے کہ افواہ غالباً ایک کروڑ روپے والے قصے پر مبنی ہے، جو کانگرس نے ۱۹۲۱ء میں جمع کئے تھے ۔ یہ رقم جو یوں خاصی بڑی معلوم ہوتی ہے مگر سارے ہندوستان پر پھیلائی جائے تو کچھ ایسی بڑی نہیں ، مدرسوں کے لیے استعمال ہوئی ، قومی یونیورسٹیوںاور دیہی صنعتوں خصوصاً کھدر کو فروغ دینے میں، اُچھوتوں کے کام اور دوسری تعمیری تجاویز کے سلسلے میں ، اس میں سے بہت سی رقم تو پہلے مختلف کاموں کے لیے مخصوص تھی اور یہ فنڈ اب تک موجود ہیں اور ان مخصوص اغراض میں کام آ رہے ہیں۔ باقی حصہ مقامی کمیٹیوں کے سپرد کر دیا گیا ہے اور کانگرس کے تنظیمی اور سیاسی کام میں صرف ہوا ۔ تحریکِ ترکِ موالات کے مصارف اس سے پہلے اور چند سال دور تک کانگرس کاکام بھی اسی روپیہ سے چلا ۳۹ ۔ تحریک ترکِ موالات میںطلبہ پیش پیش تھے ۔ علی گڑھ کالج میں گڑبڑ ہوئی اور اسلامیہ کالج لاہور میں تو ہنگامے انتہا کو پہنچ گئے ۔ توڑ پھوڑ کے سبب کالج کچھ مدت کے لیے بند کرنا پڑا، لیکن اقبال نے اسلامیہ کالج کو تحریک ِ ترکِ موالات کی لپیٹ میں آکر مکمل طور پر تباہ ہونے سے بچا لیا۔ مسلم تعلیم کو عدم تعاون کی تحریک سے علیٰحدہ رکھنے کی وجہ دراصل یہ تھی کہ اس زمانہ میںخالصتاً مسلم درسگاہیں صرف تین تھیں ۔ علی گڑھ کالج ، اسلامیہ کالج لاہور اور اسلامیہ کالج پشاور ۔ علی گڑھ کالج تو، بقول سید نور محمد قادری خلافت کانفرنس کے نیشنلسٹ رہنمائوں کے ہاتھوں کچھ حد تک برباد ہو چکا تھا، اب ان کا نشانہ اسلامیہ کالج لاہور تھا اور اس کے بعد اسلامیہ کالج پشاور کی باری تھی ۔ اقبال محسوس کرتے تھے کہ کانگرس کی اعانت سے مسلمانوں کے لیے جو نئے تعلیمی ادارے قائم ہوئے تھے،وہ بظاہر تو اسلامی تھے لیکن درحقیقت مسلم قومیت کی بجائے قومیت متحدہ کے مبلغ و ترجمان تھے ۔ اس کے علاوہ انہیں یقین تھا کہ اگر مسلم درس گاہیں عدم تعاون کی لپیٹ میں آ گئیں تو مسلمانوں کی تعلیمی حالت اور بھی ناگفتہ بہ ہو جائے گی ۔ اس زمانے میں تعلیمی معاملے میں مسلمانوں کے اعداد و شمار کے متعلق علی گڑھ کے سید سلیمان اشرف تحریر کرتے ہیں: ۔ سارے ہندوستان میں مسلمانوں کے صرف تین کالج ہیں۔ علی گڑھ لاہور اور پشاور میں اس وقت ہندوستان میںمجموعی تعداد کالجوں کی ایک سو پچیس ہے ۔ تین مسلمانوں کے اور ایک سو بائیس ہندوئوں کے ان میں سے اگر سرکاری کالجوںکو جن کی تعداد چونتیس ہے ، الگ کر دیجیے، جب بھی اٹھاسی کالج ہندوئوں کے رہ جاتے ہیں۔ ان میں سے بائیس کالج ایسے ہیں جن میں گورنمنٹ کی امداد قطعاً شامل نہیں اور چھیاسٹھ کالج ایسے ہیں ، جن میں گورنمنٹ کی امداد جاری ہے ۔ تین اور اٹھاسی کی نسبت ذرا غور سے ملاحظہ کیجیے تو پھر تعلیم کو ملیا میٹ کر دینے کا فیصلہ کیجیے ۔ سارے کالجوں میں مجموعی تعداد ہندوستانی طلبہ کی چھیالیس ہزار چار سو سینتیس ہے ، جن میں سے مسلم طلبہ چار ہزار چار سو پچھتّر ہیں ۔ ہندو طلبہ کی تعداد اکیالیس ہزار پانچ سو باسٹھ ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ ہندو چوبیس کروڑ اور مسلمان سات کروڑ ہیں ۔ اس تناسب سے ، جب کہ مسلمانوں کے تین کالج تھے، ہندووں کے بارہ ہوتے ۔ مسلمان طلبہ کی تعداد کالج میں چار ہزار تھی تو ہندو سولہ ہزار ہوتے ، لیکن جبکہ واقعہ نمونہ عبرت پیش کر رہا ہو تو مسئلہ تعلیم کو تہ و بالا کرنے میں کس کا نقصان ہے ۴۰ ۔ بہرحال تحریک ترکِ موالات کے دوران ہزاروں مسلمانوں نے جیلیں بھر دیں ، سرکاری ملازمت سے استعفے دیئے ، کونسل کی رکنیت چھوڑ دی اور برطانوی مال کا مقاطعہ کیا، تعلیمی ادارے سنسان ہو گئے اور اسلامی جوش و خروش کے عالم میں نوجوانوں نے ڈاڑھیاں رکھ لیں ، برصغیر کے شمال مغربی حصے میں تو تحریکِ ہجرت کا زور تھا، لیکن ۱۹۲۱ء میں جنوبی ہند میں موپلوں کی انقلابی کارروائیوں کے سبب انگریزی حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ موپلے عرب اور ہندی نسل کے مسلمان ہیں، جن کی تعداد اس زمانے میں تقریباً ایک لاکھ تھی ۔ انہوں نے جنوبی مالا بار کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر کے وہاں آزاد اسلامی ریاستیں قائم کر لیں اور ایک سال کے عرصے تک انگریزی فوجوں کا مقابلہ کرتے رہے مگر ان کا انجام بھی مسلم مہاجرین کی طرح بڑا عبرتناک ہوا۔ دس ہزار کے قریب ، انگریزی فوج کے ہاتھوں مارے گئے ۔ ایک سو گرفتار شدہ موپلوں کو ایک گورے سارجنٹ نے مال گاڑی کے ڈبے میں بند کر کے دم گھونٹ کر مار دیا اور سیکڑوں کو حبس دوام کی سزا ملی۴۱ ۔ جون ۱۹۲۱ء میں اقبال زندگی میں پہلی مرتبہ کسی مقدمے کے سلسلے میںکشمیر گئے ۔ مولوی احمد دین ایڈووکیٹ اور منشی طاہر الدین ان کے ہمراہ تھے وہ تقریباً دو ہفتے تک سری نگر میں ٹھہرے اور ہائوس بوٹ میں قیام کیا۔ مقدمہ ڈسٹرکٹ جج کی عدالت میں تھا ، لیکن اس کا فیصلہ حسبِ منشا نہ ہوا ۔ سری نگر میں قیام کے دوران میں اقبال کو ایک اور مقدمہ بھی ملا ۔ یہ سری نگر کے ایک رحمان راہ کا تھا جو قتل کے الزام میں گرفتار ہوا تھا ۔ اقبال کی بحث سے وہ پھانسی سے تو بچ گیا مگر اسے قید کی سزا ہوگئی۔ قانونی کاموں سے فراغت کے بعد اقبال شکارے میں بیٹھ کر ڈل کی سیر کو جاتے اور احباب کے ہمراہ نشاط باغ اور شالا مار باغ میں دن گزارتے ۔ ’’ساقی نامہ ‘‘ جو بعد میں ’’پیام مشرق ‘‘ کی زینت بنا، انہوں نے نشاط باغ ہی میں بیٹھ کر لکھا تھا ۔ ایک شام شکارے میں بیٹھے ڈل کی سیر سے واپس آ رہے تھے ، صاحبزادہ محمد عمران کے ہمراہ تھے ۔ وہ تحریر کرتے ہیں: دونوں وقت مل رہے تھے کہ شکارہ (ہلکی کشتی) اس انجمنِ ادب کو لیے ڈل میں پہنچ گیا، اس وقت آفتاب غروب ہو رہا تھا ۔ شفق پھولی ہوئی تھی اور اس منظر کا عکس ڈل کے شفاف پانی میں شرر افشانی کر رہا تھا ۔ اس کیف آور منظر نے عجیب کیفیت پیدا کر رکھی تھی ، جس نے علامہ ممدوح کے دل پر خاص اثر کیا ۔ تھوڑی دیر صحیفہ قدرت کے اس سنہری ورق کا مطالعہ کرنے کے بعد خلاقِ معانی بحر فکر میں غوطہ زن ہوئے اور دو دُرِ شہوار نکال لائے ۔ نقاشِ فطرت کی قدرت دیکھنا ، دو شعروں میں سارے منظر کی تصویر کھینچ دی ہے: تماشائے ڈل کن کہ ہنگام شام دہد شعلہ را آشیاں زیر آب بشوید زتن تا غبار سفر! زند غوطہ در آب ڈل آفتاب۴۲ تحریک ترکِ موالات سال بھر سے جاری تھی لیکن عوام کے جوش و خروش کے ٹھنڈا پڑنے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے تھے ۔ اسی اثنا میں بعض تعاون پسند مسلم قائدین نے سوچا کہ خلافت کانفرنس نے کانگرس سے اتحاد کر کے مسلم لیگ کی اہمیت ختم کر دی ہے لہٰذا اسے از سر نو زندہ کر کے مسلمانوں کو احتجاجی سیاست سے نکال کر آئینی سیاست کی طرف آنے کی ترغیب دینا چاہیے ، چنانچہ آغا خان ایک طرف تو تحفظِ خلافت کی حمایت میںبیانات دینے لگے اور دوسری طرف محمد علی جناح کے ذریعے مسلم لیگ کے احیاء کی کوششیں تیز تر کر دیں ۔ اقبال نے اس محکومانہ سیاسی حکمت عملی کو تحسین کی نگاہ سے نہ دیکھا اور ’’صدائے لیگ ‘‘ کے عنوان سے چند اشعار میں ، جو زمیندار ۹نومبر ۱۹۲۱ء میں شائع ہوئے آغا خان اور محمد علی جناح دونوں کو اپنی طنز کا نشانہ بنایا: لندن کے چرخِ نادرہ فن سے پہاڑ پر اُترے مسیح بن کے محمد علی جناح نکلے گی تن سے تو کہ رہے گی، بتا ہمیں اے جان بر لب آمدہ اب تیری کیا صلاح دل سے خیالِ دشت و بیاباں نکال دے مجنوں کے واسطے ہے یہی جاوئہ فلاح آغا امام اور محمد علی ہے باب اس دین میں ہے ترکِ سواد حرم مباح ’’بشریٰ لکم ‘‘ کہ منتظر ما رسیدہ است یعنی حجابِ غیبتِ کبریٰ دریدہ است۴۳ اقبال کے بیشتر سوانح نگار یہی سمجھتے ہیں کہ اقبال نے اس عہد کی پر شور سیاست کے سبب کنارہ کشی اختیار کر لی تھی اور اس کے ہنگاموں سے الگ تھلگ ’’پیام مشرق ‘‘ کی ترتیب میں مصروف رہے ۴۴۔ لیکن یہ خیال درست معلوم نہیں ہوتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کے نقطۂ نظر کو نہ تو کوئی سمجھتا تھا اور نہ کوئی قبول کرنے کو تیار تھا۔ عدم تعاون کے حامی علماء اور مسلم سیاسی رہنما سب ان کے خلاف ہو چکے تھے ۔ اسی طرح تعاون پسند مسلم قائدین بھی انہیں شبہے کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اقبال کے ساتھ کوئی بھی نہ تھا ۔ اسی دور میں ان کی کردار کشی کی مہم کا آغاز ہوا ۔ سو اقبال کی لا تعلقی یا خانہ نشینی کا اصل سبب عالمِ تنہائی تھا اور وہ کسی ایسے ہمدم یا رفیق کے لیے ترستے تھے جو ان کا ہم خیال ہو ۔ اس نوع کی تنہائی کا احساس انہیں چند برسوں سے لگاتار ہو رہا تھا جیسا کہ ’’اسرار خودی‘‘ کے آخر میں دعائیہ اشعار سے ظاہر ہے: شمع را تنہا تپیدن سہل نیست آہ یک پروانۂ من اہل نیست انتظارِ غم گسارے تا کجا جستجوے راز دارے تا کجا یا مرا یک ہمدم دیرینہ دہ عشق عالم سوز را آئینہ دہ من مثالِ لالۂ صحراستم درمیانِ محفلے تنہا ستم خواہم از لطفِ تو یارے ہمدمے از رموزِ فطرتِ من محرمے ہمدمے دیوانۂ فرزانہ از خیالِ این و آں بیگانۂ تا بجانِ او سپارم ہوئے خویش باز بینم در دلِ او روے خویش سازم از مشتِ گلِ خود پیکرش ہم صنم او را شوم ہم آزرش ۱۹۲۲ء کے اوائل میں معاہدئہ سیورے کی رو سے مقاماتِ مقدسہ فلسطین و شام کے تنازعات کا فیصلہ کرنے کے لیے حکومت برطانیہ نے ایک ایسا کمیشن مقرر کرنے کا ارادہ کیا، جو مسلم ، عیسائی اور یہودی اراکین پر مشتمل ہونا تھا۔ خیال تھا کہ اس کمیشن کے اجلاس یروشلم میں منعقد ہوں گے اور یہ سلسلہ دو تین برس تک جاری رہے گا ۔ انگریزی حکومت نے اقبال سے دریافت کیا کہ آیا وہ اس کمیشن کا رکن بننا قبول کریں گے ۔ لیکن اقبال نے انکار کر دیا بعد میں حالات نے ایسی صورت اختیار کی کہ یہ کمیشن بن ہی نہ سکا ۴۵ ۔ اقبال نے انجمن حمایت اسلام کے ۱۹۲۰ء کے سالانہ جلسے میں دو ایک چھوٹی نظمیں ، ’’ارتقا‘‘ اور ’’مردِ آزاد‘‘ کے عنوان سے پڑھیں ۔ چونکہ ترکِ موالات کی تحریک زوروں پر تھی ، اس لیے کوئی مستقل نظم تحریر نہ کی۔ البتہ انجمن کے سالانہ اجلاس منعقدہ ۱۶ اپریل ۱۹۲۲ء میں انہوں نے اپنی مشہور نظم ’’خضر راہ‘‘ ، کوئی بیس ہزار کے مجمع کے سامنے پڑھی ۔ اقبال کو ان دنوں نہ صرف تنہائی کا شدید احساس تھا بلکہ بیمار بھی تھے ۔ اس لیے نظم کے انداز بیان نے سامعین کو رُلا دیا ۔ نظم پڑھتے ہوئے اقبال نے یہ شعر پڑھا تو رو پڑے: بیچتا ہے ہاشمی ناموس دین مصطفی خاک و خوں میں مل رہاہے ترکمانِ سخت کوش۴۶ اور جب اس شعر پر پہنچے تو خود بھی رو رہے تھے اور سارا مجمع بھی اشکبار تھا: ہو گیا مانندِ آب ارزاں مسلماں کا لہو مضطرب ہے تو کہ تیرا دل نہیں دانائے راز نظم ’’خضر راہ ‘‘ کے متعلق بعض باتیں غور طلب ہیں ۔پہلی یہ کہ جن دنوں اقبال نے یہ نظم لکھناشروع کی ، ان پر نقرس کے مرض کا شدید حملہ ہوا اور انہوں نے کئی راتیں لگاتار بیداری کے عالم میں گزاریں۔ وہ انار کلی والے مکان کی بیٹھک سے ملحقہ کمرے میں اٹھ آئے تھے اور رات کو عموماً علی بخش ان کی دیکھ بھال کرتا تھا ۔ ایک شب درد کی شدت کے سبب ان پر نیم بیہوشی کی کیفیت طاری ہو گئی ۔ اس کیفیت میں انہیں محسوس ہوا، گویا کوئی مرد بزرگ ان کے پاس بیٹھا ہے۔ اقبال اس مرد بزرگ سے سوال پوچھتے ہیں اور وہ ان کے ہر سوال کا جواب دیتا جاتا ہے ۔ کچھ دیر کے بعد وہ مرد بزرگ اٹھتا ہے اور چل دیتا ہے۔ اس کے رخصت ہونے کے فوراً بعد اقبال نے علی بخش کو آواز دے کر بلایا اور اس مرد بزرگ کے پیچھے دوڑایا تاکہ اسے واپس لے آئے ۔ علی بخش کا بیان ہے کہ وہ بیٹھک کے فرش پر لیٹا اس وقت جاگ رہا تھا اور اقبال کو تنہائی میں کسی کے ساتھ باتیں کرتے سن رہا تھا ۔ رات کے تقریباً تین بجے تھے ۔ علی بخش تعمیل حکم میں پھرتی سے سیڑھیاں اترا لیکن نچلے دروازے کو اندر سے مقفل پایا ۔ دروازہ کھول کر بازار میں نکلا مگر ہو کا عالم طاری تھا، اور بازار کے دونوں طرف دور دور تک اسے کوئی بھی شخص دکھائی نہ دیا ۴۷ ۔ سو ظاہر ہے کہ نظم تحریر کرتے وقت کسی مرحلے پر اقبال حالتِ سکر سے گزرے ، کیونکہ وہ بیمار تھے اور شدتِ درد کا وہ عالم تھا کہ شعوری طور پر اس پر غالب آنا یا حالتِ صحو برقرار رکھنا غالباً ان کے لیے ممکن نہ رہا تھا ۔ اس کے علاوہ شدید تنہائی اور ہر طرف سے مخالفت کے سبب انہیں شاید اپنے آپ پر اعتماد نہ رہا تھا اور ان کے دل میں یہ احساس پیدا ہو گیا تھا کہ ان کا مؤقف غلط ہے یا وہ صحیح راہ سے بھٹک گئے ہیں ، اور انہیں راستہ دکھانے کے لیے کسی رہبر کی ضرورت ہے۔ دوسری یہ کہ نظم اسلوب اور انداز کے اعتبار سے اقبال کی دیگر نظموں میں منفرد ہے جلسے میں یہ نظم پڑھی گئی تو عبدالمجید سالک سامعین میں موجود تھے ، وہ تحریر کرتے ہیں ۔ ایک تو اس نظم میں اقبال کے شاعرانہ تخیل اور بدیع اسلوب کا جمال پوری تابانیوںکے ساتھ جلوہ گر تھا اور ایک ایک شعر پر اربابِ ذوقِ سلیم وجد کر رہے تھے ، دوسرے اس میں علامہ نے جنگِ عظیم کے سلسلے میں فاتح اقوام کی دھاندلی ، ان کی ابلیسانہ سیاست ، سرمایہ داری کی عیاری ، مزدور کی بیداری ،عالمِ اسلام خصوصاً ترکانِ آلِ عثمان کی بے دست و پائی پر مؤثر اور بلیغ تبصرہ کیا ہے اور اسی سلسلے میں نسلی قومیّت اور امتیازِ رنگ و خون کے خیالات پر بھرپور چوٹ کی ہے ۔ اس نظم کے حسن اور درد و اثر میں کلام نہیں لیکن اس کی ترکیب زیادہ تر واقعات و حقائق کو بیان کرنے پر مبنی ہے اور آخری چند اشعار کے سوا کامرانی و شادمانی اور اُمید اور اُمنگ کے آثار کم ہیں ، اس لیے کہ حالات ہی ایسے تھے ۔ ترکی موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھا اور ہندوستان کے مسلمان جوش و خروش کے عالم میں ایک ایسی جنگ لڑ رہے تھے جس کا انجام انہیں معلوم نہ تھا ۴۸ ‘‘۔ تیسری یہ کہ نظم کے متعلق گرامی نے اعتراض کیا کہ اس کے تمام اشعار بے لطف ہیں اور بعض غلط ۔ اس پر اقبال نے انہیں اپنے ایک خط محررہ ۱۶ مئی ۱۹۲۲ء میں جو جواب دیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کو خضر کی شخصیت سے شناسائی کا ذاتی تجربہ تھا، فرماتے ہیں: آپ کے اعتراض کا پہلا حصہ صحیح ہے ، مگر یہ اعتراض گرامی کے شایانِ شان نہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ اس نظم کا بیشتر حصہ خضر کی زبان سے ادا ہوا ہے اور خضر کی شخصیت ایک خاص قسم کی شخصیت ہے۔ وہ عمرِ دوام کی وجہ سے سب سے زیادہ تجربہ کار آدمی ہے اور تجربہ کار آدمی کا یہ خاصہ ہے کہ اس کی قوّتِ متخیّلہ کم ہوتی ہے اور اس کی نظر حقائق واقعی پر جمی رہتی ہے ۔ اس کے کلام میں اگر تخیل کی رنگینی ہو تو وہ فرض رہنمائی کے اداکرنے سے قاصر رہے گا ۔ پس اس کے کلام میں پختگی اور حکمت تلاش کرنی چاہیے نہ کہ تخیل اور خاص کر اس حالت میں جب کہ اس سے ایسے معاملات میں رہنمائی طلب کی جائے ، جن کا تعلق سیاسیات اور اقتصادیات سے ہو۔ قرآن شریف کی سورہ کہف پڑھیے اور حضرت موسیٰ اور خضر کے قصے کو ملاحظہ فرمائیے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ خدا تعالیٰ نے خضر کی اس خصوصیت کو کس خوبی سے ملحوظ رکھا ہے ۔ ایک سطحی نظر سے دیکھنے والا آدمی تو کشتی توڑنے اور بچے کو قتل کر ڈالنے یا ایک یتیم کی دیوار کو گرا دینے میںکوئی غیر معمولی بات نہ دیکھے گا اور شعریت تو اس قصے میں مطلق نہیں، لیکن غور کرنے پر خضر کے افعال کی حکمت معلوم ہوتی ہے ۔ خضر کی طرف جو کلام منسوب کیا جائے اس میں رنگینی پیدا کی جا سکتی ہے ، مگر وہ خضر کاکلام نہ رہے گا ، بلکہ نظیریؔ یا عرفیؔ کا کلام ہو گا اور بالغ نظر اہل فن تخیل کی اس رنگینی کو بہ نگاہ استحسان نہ دیکھیں گے ۔ ان رموز اور اسرار کو آپ سے بہتر کون جانتا ہے ۴۹۔ چوتھی یہ کہ اس نظم میں اقبال نے پہلی بار مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال کے مقابلے میں مزدوروں کی بیداری کا ذکر کیا، جس سے ظاہر ہے کہ وہ انقلاب روس کی حقیقت کو نظر انداز نہ کر سکتے تھے ۔ ۱۹۱۷ء میں زار کے تخت سے دست بردار ہونے کے بعد روس میں بالشویک حکومت قائم ہوئی ، جسے عسکریوں ، محنت کشوں اور کسانوں کی حمایت حاصل تھی ۔ اس تحریکِ انقلاب کے قائد لینن اور ٹراٹسکی تھے ۔ لینن نے نئے نظام کو محنت کشوں اور کسانوں کی سوشل جمہوریت کا نام دیا۔ لیکن انقلاب کے ساتھ ہی روس میں بالشویک اور مخالف عناصر کی آپس میں خانہ جنگی شروع ہو گئی ۔ جس کے نتیجے میں لاکھوں انسان لقمۂ اجل بنے ۔ بالآخر لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں اشتراکیوں کو کامیابی حاصل ہوئی ، لیکن ملک بھر میں قحط پھوٹ پڑا ، جس کی بھینٹ تقریباً پانچ لاکھ افراد چڑھے۔ ۱۹۲۱ء میں لینن نے نئی اقتصادی پالیسی نافذ کی ، جس کے تحت نجی صنعتوں کو محدود پیمانے پر جاری رکھنے کی اجازت دی گئی ، مگر بڑی بڑی صنعتیں حکومت ہی کی تحویل میں رہیں ۔لینن کی وفات جنوری ۱۹۲۴ء میں ہوئی اور سوویٹ روس میں ایک بار پھر اقتدار کی کشمکش کا آغاز ہوا ۔ یہ کشمکش ٹراٹسکی اور جوزف سٹالن کے درمیان تھی۔ جس میں سٹالن کو کامیابی حاصل ہوئی۔ اقبال ابتداء ہی سے اقتصادیات کے موضوع میں دلچسپی رکھتے تھے ، کیونکہ برصغیر میں غربت و افلاس کا خاتمہ کیے بغیر کسی قسم کے بھی نئے ہندو یا مسلم معاشرے کا قیام ممکن نہ تھا ۔ ان کی اردو میں پہلی نثری تصنیف ’’علم الاقتصاد‘‘ انہی حقائق سے متاثر ہو کر لکھی گئی ۔ قیامِ انگلستان کے دوران میں وہ کیمبرج یونیورسٹی میں اقتصادیات کے موضوع پر باقاعدہ لیکچر سننے جاتے تھے ۔ واپس آ کر ان کا یہ پختہ عقیدہ ہو گیا تھا کہ اسلام کے نزدیک غربت ایک قسم کا گناہ ہے اور قرآنِ مجید میں انسانوں کو تلقین کی گئی ہے کہ وہ مادی دنیا میں اپنا حصہ وصول کرنا نہ بھولیں ۔ ’’اسرارِ خودی‘‘ کی اشاعت پر قلمی ہنگامے میں ان پر مادہ پرست ہونے کا جو الزام لگا، اس کے جواب میں بھی انہوں نے یہی فرمایا کہ اسلام نے جہاں یہ تعلیم دی ہے کہ انسان کا مقصود اصلی اعلاے کلمتہ اللہ ہے، وہاں یہ بھی سکھایا ہے کہ ولا تنس نصیبک من الدنیا (دنیا سے اپنا حصہ لینا نہ بھولو)اور پھر اس حصے کو حاصل کرنے کا طریقہ بھی بتایا جو شریعت اسلامیہ کا وہ حصہ ہے جو معاملات سے تعلق رکھتا ہے۔ اقبال نے اس دور میں اگرچہ اکبر الٰہ آبادی کے تتبع میں ظریفانہ اشعار تحریر کیے، جن میں سے کچھ اب بانگ درا کے آخر میں موجود ہیں، لیکن انقلابِ روس سے متاثر ہو کر بھی انہوں نے چند اشعار کہے،جو بانگ درا کے آخری حصے میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔ بات یہ ہے کہ اقبال کی نگاہ میں انقلابِ روس ، یورپ کی نو آبادیاتی طاقتوں کی عیاری ،جنگِ زرگری ، استحصال اور استعمار کا لازمی رد عمل تھا۔ اور اس میں دنیا بھر کے پسماندہ انسانوں کے لیے جو پیغام مخفی تھا، اس نے اقبال کے ذہن میں ایک اہم سوال اٹھایا تھا کہ اسلام کا معاشی نظام کیا ہے ؟ یا اسلام نے مساوات کا جو تصور دیا ہے، اسے مادی اعتبار سے عملی طور پر ایک جدید مسلم معاشرے میں کیونکر نافذ کیا جا سکتا ہے ؟ اقبال کو یقین تھا کہ اگر اس سوال کاجواب نہ ڈھونڈا گیا اور مسلم اقوام مغرب کی اندھا دھند تقلید میں مصروف رہیں تو ایک نہ ایک دن وہ سب بھی اسی قسم کے انقلاب کی لپیٹ میں آ جائیں گی اور اسلام کا نام و نشان صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ مئی ۱۹۲۲ء میں لاہور کے شاہ عالمی دروازے کے باہر ہندووں نے ایک مندرتعمیر کیا۔ مسلمانوں نے مطالبہ کیا کہ مندر کے ساتھ مسجد بھی بننی چاہیے ۔ یہ مطالبہ سارے لاہور شہر میں آگ کی طرح پھیل گیا ۔ جوش و خروش اور ہندو مسلم اتحاد کا زمانہ تھا ۔ سیکڑوں مسلمانوں نے مندر کے ساتھ بلدیہ لاہور کے ملکیتی ایک قطعہ اراضی پر نمازِ عشا کے بعد عمارتی مسالہ اکٹھا کیا اور بنیادوں کی کھدائی اور تعمیر کے کام میں مصروف ہو گئے ، یہاں تک کہ صبح ہونے تک انہوں نے دو دکانیں اور اس کے اوپر مسجد کی عمارت مکمل کر دی ۔ اقبال نے مسلمانوں کے اس جذبۂ دینی سے متاثر ہو کر چند اشعار کہے جو ’’بانگ درا‘‘ کے آخر میں درج ہیں۔ پہلا شعر یہ ہے: مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا اسی سال کے آخر یعنی دسمبر ۱۹۲۲ء میں اقبال انار کلی والا مکان چھوڑ کر میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں آ گئے ۔ یہ کوٹھی ایک سو ستر روپے ماہوار کرایہ پر لی گئی تھی اور کسی ہندو بیوہ کی ملکیت تھی ۔ منتقل ہونے سے چند ماہ پیشتر اقبال کے بھائی شیخ عطا محمد سیالکوٹ سے لاہور آئے اور یہیں رہ کر انہوں نے کوٹھی کی شکل و صورت بہتر بنانے کے لیے کام کیا ۵۰ ۔ساز و سامان کے ساتھ کبوتر بھی کوٹھی میں منتقل ہوئے ۔ اقبال کے بعض احباب انہیں طرح طرح کے کبوتر بھیجتے رہتے تھے ،جن کی دیکھ بھال وہ خود کرتے تھے ۔ ایک دفعہ کبوتر بھیجنے پر محمد نیازالدین خان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے تحریر کیا کہ ان کے کبوتروں کے برابر اقبال کے تجربے میں کوئی نسل کبوتروں کی نہیں آئی ۔ لدھیانہ ، ملتان ، سیالکوٹ ، گجرات، شاہجہان پور سے کبوتر منگوائے گئے مگر اچھے خواص کی اتنی تعداد کسی نسل میں جمع نہ تھی ، جتنی ان کے کبوتروں میں تھی ۔ ظاہری شکل خوبصورت اور اس کے ساتھ اڑان اور کھیل میں یکتا تھے ۵۱ ۔اقبال کبوتروں پر اپنی منشا کے مطابق پکے رنگ چڑھانے کے بھی تجربے کیا کرتے تھے۔ کھانا کم مگر ذائقے میں اچھا پسند کرتے تھے ۔ شادیوں سے قبل تو علی بخش ہی سودا سلف لاتا اور ان کے لیے کھانا پکاتا لیکن بعد میں گھر بھر کا کھانا سردار بیگم پکاتیں اور ان کی مدد اقبال کی بھتیجیاں یا ایک ملازمہ کرتی تھیں ، اقبال پلائو ، دہی ، شامی کباب ، قورمہ ، زردہ ، اور فرنی بڑے شوق سے کھاتے ۔ سالن عموماً خمیری روٹی کے ساتھ کھایا کرتے۔ پھلوں میں سردا اور آم انہیں خاص طور سے مرغوب تھے ۔ ایک مرتبہ انہیں اکبر الہ آبادی نے لنگڑے آموں کی بیٹی بھیجی ۔ اقبال نے رسید میں یہ شعر لکھا ۵۲ : اثر یہ تیرے اعجاز مسیحائی کاہے اکبر! الٰہ آباد سے لنگڑا چلا لاہور تک پہنچا ۱۹۲۲ء کے بعد مصر، مراکو، لیبیا ، فلسطین ، شام ، عراق ، لبنان ، عرب ، ایران ، افغانستان، ترکی وغیرہ کے مسلمانوں نے علاقائی قومیت کی بنیادوں پر اپنے اپنے علاقوں میں جنگ آزادی کا آغاز کر دیا تھا ۔ افغانستان میں امیر حبیب اللہ خان نے تعلیمی اصلاحات نافذ کیں اور ملک کی عسکری قوت میں اضافہ کیا ۔ حبیبیہ کالج کابل کے اساتذہ میں اکثریت ہندی مسلمانوں کی تھی جو علی گڑھ یا لاہور کے کالجوں کے سندیافتہ تھے ۔ اسی طرح مدرسہ حربیہ سراجیہ میں افغان نوجوانوں کو ترکی فوجی افسر فنونِ حرب کی تعلیم دیتے تھے ۔ عسکری ادارے کے تعلیمی نصاب میں قرآن مجید کا مطالعہ لازمی تھا۔ افغانستان اس زمانے میں اتحادِ ممالک اسلامیہ کی تحریک سے بھی بے حد متاثر تھا،لیکن ۲۰ فروری ۱۹۱۹ء کو امیر حبیب اللہ خان قتل کر دیا گیا اور اس کے بعد امان اللہ خان امیر بنا۔ امیر امان اللہ خان نے تخت پر بیٹھتے ہی افغانستان کی مکمل آزادی کے حصول کی طرف توجہ دی ، جو ۱۹۱۹ء میں تیسری اینگلو افغان جنگ کی صورت میں رونما ہوئی۔ اس جنگ میں انگریزوں نے جلال آباد اور کابل پر بمباری کی۔ نادر خان کی زیر کمان افغان اور چند آزاد قبائل نے سرحد پر انگریزی فوج کو شکست دی۔ بالآخر ۱۹۱۹ء کو معاہدہ راولپنڈی کے تحت انگریزوں نے افغانستان کی مکمل آزادی تسلیم کر لی اور امیر امان اللہ خان نے ڈیورنڈ لائن کو دونوں ملکوں کے درمیان سرحد تسلیم کرایا۵۳۔اس کے بعد امان اللہ خان نے افغانستان میں مغرب کی تقلید میں ایسی اصلاحات نافذ کرنا شروع کیں جو خالصتاً قومی نوعیت کی تھیں۔ ایران پر بھی ۱۹۲۰ء کے بعد روس اور برطانیہ کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی ۔ رضا خان نے ملا سیّد ضیاالدین کے کہنے پر ایرانی فوج کو از سر نو منظم کیا ۔ اسی اثنا میں روسی فوجوں نے شمالی ایران کے علاقے خالی کر دیے اور انگریزی اثر و رسوخ کا بھی خاتمہ کر دیا گیا ۔ رضا خان نے ۱۹۲۱ء تک وزیرِ حرب کا عہدہ سنبھالا اور ۱۹۲۳ء میں وزیر اعظم بن گیا ۔ بالآخراکتوبر ۱۹۲۴ء میں سلطان احمد شاہ قاچار کو تخت سے دستبردار ہونا پڑا اور اس کی جگہ دسمبر ۱۹۲۴ء میں مجلس نے رضاخان کو شاہِ ایران کی مسند پر بٹھا دیا ۔ رضا خان نے بھی جدید ایران کی تعمیر مغرب کی تقلید میں خالصتاً قومی طرز پر شروع کر دی۔ ترک قوم پرستوں نے مصطفی کمال پاشا کی زیر قیادت اپنے آپ کو ایشیاے کوچک میں مستحکم کیا اور ۱۹۱۹ء میں یونانیوں اور انگریزوں کے خلاف جنگ شروع کر دی۱۹۲۲ء میں ترکوں نے یونانیوں کو سمرنا اور تھریس کے علاقوں سے نکال دیا اور انگریزی فوجوں نے قسطنطنیہ کو خالی کر دیا۔سلطان خلیفہ وحید الدین نے انگریزوں کے جہازمیں پناہ لی اور قسطنطنیہ پر ترک قوم پرستوں کا قبضہ ہو گیا ۔ اسی سال معاہدہ لوزان کے تحت انگریزوں نے ترکوں کے مطالبات تسلیم کر لیے ۔ ۱۹۲۲ء میں ترکی میں سلطان کے منصب کا خاتمہ ہوا ۔ ۱۹۲۳ء میں اسمبلی نے اعلان کیا کہ ترکی ایک لا دین ری پبلک ہے اور مصطفی کمال پاشا اس کا پہلا صدر قرار پایا ۔ ۱۹۲۴ء میں مصطفی کمال پاشا نے خلافت کے منصب کا خاتمہ کر دیا اور ترکی میں مغربی طرز کی قومی اصلاحات نافذ ہوتی چلی گئیں ۔ عراق اور فلسطین کے علاقے ابھی تک انگریزوں کے قبضے میں تھے ۔ لیکن عرب بالخصوص حجاز کی سرزمین میں شریفی خاندان کے ملک حسین اور ابن سعود میں کشکمش جاری تھی۔ بالآخر ۱۹۲۴ء میں ابن سعود نے ملک حسین کو حجاز سے بے دخل کر کے اس پر قبضہ کر لیا ۔ انگریزوں نے سلطان ابن سعود کو حجاز کا آزاد حاکم تسلیم کر لیا اور ملک حسین ان کی پناہ میں چلا گیا ۔ بعد میں حکومت برطانیہ نے ملک حسین کی خدمات کے صلے میں اس کے دو بیٹوں کو عراق اور اردن کے علاقوں کا حاکم بنا دیا ، لیکن تیل کی ترسیل کے معاملے میں عراق میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھا ۔ فلسطین کو حکومتِ برطانیہ نے اعلان بالفور کے تحت یہودیوں کی ریاست بنانے کی غرض سے اپنے قبضے میں رکھا ۔ شام اور لبنان میں فرانس کے خلاف جنگِ آزادی جاری رہی ۔ اسی طرح مصر، لیبیا ، مراکو وغیرہ کے علاقوں میں بھی قومی سطح پر آزادی کی جنگ اختتام پذیر نہ ہوئی۔ ترکی میں خلافت کے خاتمے کے ساتھ برصغیر میں تحریکِ خلافت کا بھی خاتمہ ہو گیا ۔ خلافت کانفرنس کے اکثر قائدین نے گاندھی سے تعلقات توڑ لیے اور کانگرس سے علیحدگی اختیار کر لی مگر ان میں سے چند مسلم رہنما اور جمعیت علمائے ہند سیاسی اور مذہبی طور پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کانگرس کے ہمنوا بن گئے ۔ جب سید سلیمان ندوی نے کانگرس سے علیحدگی اختیار کر لی تو اقبال نے انہیں تحریر کیا: جس راہ پر آپ اس سے پہلے قدم زن تھے ، اس سے متعلق ان شاء اللہ بوقتِ ملاقات گفتگو ہوگی ۔ ہندوستانی نیشنلزم کی انتہا یہی تھی جو آپ کے مشاہدہ میں آ گئی۵۴۔ ایک اور موقع پر انہیں لکھا: اسلام کا ہندووں کے ہاتھ بک جانا گوارا نہیں ہو سکتا ۔ افسوس اہلِ خلافت اپنی اصلی راہ سے بہت دور جا پڑے۔ وہ ہم کو ایک ایسی قومیت کی راہ دکھا رہے ہیں جس کو کوئی مخلص مسلمان ایک منٹ کے لیے بھی قبول نہیں کر سکتا۵۵۔ اقبال مسلم اقوام میں مغربی طرز کے نیشنلزم کے فروغ پر خوش نہ تھے ۔ پھر بھی انہیں یقین تھا کہ مستقبل میں ایسے حالات پیدا ہو جائیں گے جب مسلم اقوام کو اتحاد کے سوا کوئی چارہ نہ رہے گا ۔ اسی زمانے میں پروفیسر محمد اکبر منیر کو ایک خط لکھتے ہیں: مغربی اور وسطی ایشیا کی مسلمان قومیں اگر متحد ہو گئیں تو بچ جائیں گی اور اگر ان کے اختلافات کا تصفیہ نہ ہو سکا تو اللہ حافظ ہے ۔ مضامین اتحاد کی سخت ضرورت ہے ، میرا مذہبی عقیدہ یہی ہے کہ اتحاد ہو گا اور دنیا پھر ایک دفعہ جلال اسلامی کا نظارہ دیکھے گی ۔۔۔۔ قلوب کا ہیجان حیرت انگیز ہے۔ اتنے عرصے میںاتنا انقلاب تاریخ امم میں بے نظیر ہے ۔ ہم لوگ جو انقلاب سے خود متاثر ہونے والے ہیں ، اس کی عظمت اور اہمیت کو اس قدر محسوس نہیں کرتے ۔ آئندہ نسلیں اس کی تاریخ پڑھ کر حیرت میں ڈوب جائیں گی ۔ ایشیا کی مسلمان اقوام کی حرکت بھی کم حیرت انگیز نہیں۔ کیا عجب کہ اس نئی بیداری کو ایک نظر دیکھنے کے لیے میں بھی جولائی یا اگست کے مہینے میں ایران جا نکلوں ۵۶۔ چوہدری محمد احسن کو ایک خط میں لکھتے ہیں : زمانۂ حال میں میرے نزدیک اگر کوئی شخص مجدد کہلانے کا مستحق ہے تو وہ صرف جمال الدین افغانی ہے۔مصر و ایران و ترکی و ہند کے مسلمانوں کی تاریخ جب کوئی لکھے گا تو اسے سب سے پہلے عبدالوہاب نجدی اور بعد میں جمال الدین افغانی کا ذکر کرنا ہوگا ۔ مؤخر الذکر ہی اصل میں موسس ہے زمانۂ حال کے مسلمانوں کی نشاۃِ ثانیہ کا ۔ اگر قوم نے ان کو عام طور پر مجدد نہیں کہا یا انہوں نے خود اس کا دعویٰ نہیں کیا تو اس سے ان کے کام کی اہمیت میں کوئی فرق ، اہلِ بصیرت کے نزدیک نہیں آتا۵۷۔ مسقبل قریب میں اسلام کے عروج و جلال کے متعلق ان کا ایمان اس قدر پختہ تھا کہ اس زمانے کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی خاطر زندہ رہنا چاہتے تھے، بلکہ بعض اوقات تو اس بارے میںاخباری گپ شپ پر بھی یقین کر لیتے ۔ شیخ اعجاز احمد کے پا س اقبال کے کچھ نادر خطوط موجود ہیں ، جو انہوں نے اپنے والد ، بھائی اور ہمیشرہ کو وقتاً فوقتاً تحریر کیے۔ اعجاز احمد ان مکاتیب کو کتابی صورت میں شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ، ذیل میں ان مکاتیب میں سے چند کے اقتباس پیش کیے جاتے ہیں ۔ ایک مرتبہ شیخ عطا محمد ریٹائرمنٹ کے بعد شدید بیمار ہوئے اور بیماری کی حالت میں اپنی مشکلات یا ذمہ داریوں کے متعلق سوچتے سوچتے اتنے افسردہ ہوئے کہ زندگی سے دل برداشتہ ہو گئے۔ اقبال نے انہیں اپنے خط محررہ ۲۸ ستمبر ۱۹۲۲ء میں لکھا: میں آپ کے لیے دعا کر رہا ہوں ۔ ان شاء اللہ آپ کی صحت ضرور اچھی ہو جائے گی ۔ میں نے جو نسخہ آپ کو بتایا تھا اس پر ضرور روزانہ عمل کیے جائیے۔ اس کی بناء محض فلسفیانہ خیالات پر نہیںبلکہ اس انکشاف پر ہے جو خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے قلبِ انسانی کے متعلق مجھ کو عطا فرمایا ہے ۔ اگر بعض خیالات آپ کو افسردہ کر رہے ہیں تو ان کو یک قلم دل سے نکال دینا چاہیے ۔ خدا تعالیٰ آپ کی تمام مشکلات رفع کر دے گا اور برکت نازل کرے گا ۔ اگر آپ زندگی سے دل برداشتہ بھی ہوں تو محض اس خیال سے کہ اسلام پر بہت اچھا زمانہ عنقریب آنے والا ہے ، اپنی صحت کی طرف توجہ کیجیے تاکہ آپ اپنی آنکھوں سے اس زمانے کا ایک حصہ دیکھ لیں ۔ آج چودہ یا شاید سولہ سال ہو گئے ، جب مجھ کو اس زمانے کا احساس انگلستان کی سرزمین پر ہوا تھا ۔ اسی وقت سے آج تک یہی دعا رہی ہے کہ بارالٰہی اس وقت تک مجھے زندہ رکھ ، یہاں تک کہ اپنی بعض پرائیویٹ مشکلات کے متعلق بھی میں نے شاذ ہی دعا مانگی ہو گی ۔ آپ نے اخباروں میں پڑھ لیا ہو گا کہ ترکوں کا قبضہ بغیر جنگ کے اپنے تمام ممالک پر ہو گیا ہے ۔ آبنائوں پر ان کا اقتدار تسلیم کر لیا گیا ہے ۔ البتہ یہ اقتدار بعض شرایط کا پابند ہو گا ، جس کا فیصلہ مجلس اقوام کرے گی ۔ ترکستان کی جمہوریت کو بھی روس کی گورنمنٹ نے تسلیم کر لیا ہے ۔ اس کے صدر غازی انور پاشا ہوں گے ۔ اس سے بھی زیادہ معنی خیز یہ ہے کہ روس کی سلطنت کا صدر اب ایک مسلمان محمد استالین نام ہے ۔ لینن جو پہلے صدر تھا ، بوجہ علالت رخصت پر چلا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ روسی گورنمنٹ کا وزیر خارجہ بھی ایک مسلمان مقرر ہوا ہے ، جس کا نام قرہ خان ہے ۔ ان تمام واقعات سے انگریزی پولیٹیکل حلقوں میںبہت اضطراب پیدا ہو گیا ہے اور ان سب باتوں پر طرہ یہ ہے کہ ایشیاء میں ایک لیگ اقوام کی قائم ہونے والی ہے ، جس کے متعلق افغانی اور روسی گورنمنٹ کے درمیان گفتگو ہو رہی ہے ۔ یہ سب اخباروں کی خبریں ہیں اور مجھے یقین ہے کہ حقیقت اس سے بھی زیادہ ہے ۔ غالباً اب مسلمانانِ ایشیا کا فرض ہے کہ تمام اسلامی دنیا میں چندہ کرکے کابل اور قسطنطنیہ کو بذریعہ ریل ملا دیا جائے اور یہ ریل ان تمام اسلامی ریاستوں میں سے ہو کر گزرے جو روس کے انقلاب سے آزاد ہوئی ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ یہ تجویز ضرور عمل میں آئے گی ۔ باقی خدا کا فضل و کرم ہے جو واقعات رونما ہوئے ہیں انہوں نے قرآنی حقائق پر مہر لگا دی ہے کہ حقیقت میں کون کمزور یا طاقتور ہیں ۔ جس کو اللہ چاہتا ہے ، طاقتور بنا دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ، آن کی آن میں تباہ کر دیتا ہے۔ اپنی بہن کریم بی کو ایک خط محررہ ۸ دسمبر ۱۹۱۹ء میں تحریر کرتے ہیں: میرا عقیدہ بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نئی زندگی عطا فرمائے گا اور جس قوم نے آج تک اس کے دین کی حفاظت کی ہے، اس کو ذلیل و رسوا نہ کرے گا۔ مسلمانوں کی بہترین تلوار دُعا ہے ، سو اسی سے کام لینا چاہیے ہر وقت دعا کرنا چاہیے اور نبی کریم ﷺ پر درود بھیجنا چاہیے ۔ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ اس اُمت کی دعا سن لے اور اس کی غریبی پر رحم فرمائے۔ میں جو اپنی گذشتہ زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ میں نے اپنی عمر یورپ کا فلسفہ وغیرہ پڑھنے میں گنوائی ۔ خدا تعالیٰ نے مجھ کو قواے دماغی بہت اچھے عطا فرمائے تھے ۔ اگر یہ قواے دینی علوم پڑھنے میں صرف ہوتے تو آج خدا کے رسول ﷺ کی کوئی خدمت کر سکتا اور جب مجھے یاد آتا ہے کہ والد مکرم مجھے دینی علوم ہی پڑھانا چاہتے تھے تو مجھے اور بھی قلق ہوتا ہے کہ باوجود اس کے کہ صحیح راہ معلوم بھی تھی ، تو بھی وقت کے حالات نے اس راہ پر چلنے نہ دیا ۔ بہرحال جو کچھ خدا کے علم میں تھا ، ہوا اور مجھ سے بھی جو کچھ ہو سکا ، میں نے کیا، لیکن دل چاہتا ہے کہ جو کچھ ہوا ، اس سے بڑھ کر ہونا چاہیے تھا اور زندگی تمام ومکمل نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بسر ہونی چاہیے تھی‘‘۔ اپنے والد کو ایک خط محررہ ۳ جون ۱۹۲۰ء میں تحریر کرتے ہیں: روحانی کیفیات کا سب سے بڑا ممدو معاون یہی کھانے پینے کی چیزوں میں احتیاط ہے۔نبی کریم ﷺ کی ساری زندگی اسی بات کا ثبوت ہے ۔ میں خود اپنی زندگی کم از کم کھانے پینے کے متعلق اسی طریق پر ڈھال رہا ہوں۔ دنیا کے حالات اور عام لوگوں کے حالات ایسے ہی ہیں۔ ان کی طرف توجہ نہ کرنا چاہیے ۔ عام لوگوں کی نگاہ بہت تنگ ہے اور ان میں سے بیشتر محض حیوانوں کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ اسی واسطے مولانا روم ایک جگہ لکھتے ہیں کہ چراغ لے کر تمام شہر میں پھرا کہ کوئی انسان نظر آئے مگر نظر نہ آیا اور موجودہ زمانہ تو روحانیت کے اعتبار سے بالکل تہی دست ہے۔ اسی واسطے اخلاق ، محبت ، رواداری یک جہتی کا نام و نشان نہیں رہا۔ آدمی آدمی کا خون پینے والا اور قوم، قوم کی دشمن ہے۔یہ زمانہ انتہائی تاریکی کا ہے ۔ لیکن تاریکی کا انجام سفید ہے ۔ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ جلد اپنا فضل کرم اور بنی نوع انسان کو پھر ایک دفعہ ’’نورِ محمدی‘‘ عطا کرے ۔ بغیر کسی بڑی شخصیت کے اس بدنصیب دنیا کی نجات نظر نہیں آتی۔ ایک اور خط محررّہ ۳ جنوری ۱۹۲۱ء میں اپنے والد کو لکھتے ہیں: حقیقی شخصیت یہی ہے کہ انسان اپنی اصلی حقیقت کا خیال کر کے تمام تعلقات سے آزاد ہو جائے ۔ نبی کریم ﷺ کی زندگی میں بھی اس کی مثال ملتی ہے ۔ ان سے زیادہ اپنے عزیزوں سے محبت کرنے والا بلکہ ساری دنیا کو اپنا عزیز جاننے والا اور کون ہوگا؟ لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا تھا ۔ جب آپ کو نہ یہ معلوم ہوتا تھا کہ عائشہ کون ہے اور ابوبکر کون ہے نہ یہ کہ محمد کون ہے۔ ہمارے صوفیہ نے اس کو فنا سے تعبیر کیا ہے، لیکن سچ بات یہ ہے کہ یہ شخصیت یا خودی کا کمال ہے، اسے فنا نہیں کہنا چاہیے اور انسانی حیات کی یہی کیفیت حیات مابعد الموت کی تیاری ہے۔لیکن آپ اس نقطہ کو مجھ سے بہتر جانتے ہیں ۔ ہمارے عزیزوں میں جب آپس میں بگاڑ ہو جاتا ہے تو ہم جو ان کی صلح و آشتی میں خوش ہوتے ہیں ، ان کا بگاڑ دیکھ کر رنجیدہ اور پریشان ہوتے ہیں ۔ جب اس قسم کا بگاڑ اور لوگوں میں ہو جو عام معنوں میں ہمارے عزیز یا رشتہ دار نہیں ہیں تو ہم کو کوئی رنج نہیں ہوتا اور کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی۔ جو آدمی انسانی زندگی کی حقیقت سے آگاہ ہے، اسے معلوم ہے کہ بنی نوع انسان آپس میں عزیز و رشتہ دار ہیں ۔ کیونکہ حیاتِ انسانی کی جڑ ایک ہے ۔ پھر کیاوجہ ہے کہ چند آدمیوں کے بگاڑ سے جن کو ہم خاص طور پر اپنا رشتے دار کہتے ہیں، ہم کو رنج ہوتا ہے اور باقی لوگوں کے بگاڑ سے ہم پر کچھ اثر نہیں ہوتا ۔ حالانکہ عزیز تو حقیقت میں وہ بھی ہیں؟ انسان اس فطری میلان سے مجبور ہے کہ جو آدمی خون کے اعتبار سے ہمارے قریب تر ہیں ، ان کو اپنا رشتہ دار کہتا ہے اور جو دور ہیں، اس سے بے تعلق ہو جاتا ہے ، حالانکہ خون اور زندگی میں قرب اور بعد ، نزدیکی و دوری کچھ حقیقت نہیں رکھتی ۔ اس تقریر سے ظاہر ہے کہ تعلقات کی وجہ سے جو پریشانی ہم کو لاحق ہوتی ہے اس کی بنا اصل میں ناانصافی پر ہے اور نا انصافی یہ ہے کہ بعض افراد کو قربتِ خونی کی وجہ سے قریب جاننا اور بعض کو بُعدِ خونی کی وجہ سے بعید جاننا ، حالانکہ زندگی کی حقیقت قرب وبُعد سے مُعّرا ہے ۔ کامل انسان تمام عالم کے لیے رحمت ہے۔ بالفاظ دیگر یوں کہیے کہ کامل انسان تعلقات سے بالاتر ہے ۔ اقبال کو جنوری ۱۹۲۰ء میں ایک گمنام خط موصول ہوا ،جس میں تحریر کیا گیا تھا کہ نبی کریم ﷺکے دربار میں تمہاری ایک خاص جگہ ہے ، جس کا تمہیں کچھ پتا نہیں۔ اگر تم فلاں وظیفہ پڑھا کرو تو تمہیں اس کا علم ہو جائے گا اور وہ وظیفہ خط میں درج تھا ۔ چونکہ خط گمنام تھا اس لیے اقبال نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی اور وہ خط ضائع ہو گیا ۔ چار ماہ بعد اسی سلسلے میں اقبال کے ساتھ ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا اور انہوں نے اپنی روح کے کرب و اضطراب کو کم کرنے یا تسکینِ قلب کے حصول کی خاطر اپنے والد سے رہبری کی التماس کی۔ اپنے ایک خط محررہ ۲۳ اپریل ۱۹۲۰ء میں انہیں تحریر کیا : پرسوں کا ذکر ہے کہ کشمیر سے ایک پیرزادہ مجھ سے ملنے کے لیے آیا۔ اس کی عمر قریباً تیس پینتیس سال کی ہوگی۔ شکل سے شرافت کے آثار معلوم ہوتے تھے ۔ گفتگو سے ہوشیار ، سمجھدار اور پڑھا لکھا آدمی معلوم ہوتا تھا، مگر پیشتر اس کے کہ وہ مجھ سے کوئی گفتگو کرے ، مجھ کو دیکھ کر بے اختیار زار و قطار رونے لگا ۔ میں نے سمجھا کہ شاید مصیبت زدہ ہے اور مجھ سے کوئی مدد مانگتا ہے ۔ استفسار ِ حال کیا ، تو کہنے لگا ، کسی مدد کی ضرورت نہیں۔ مجھ پر خدا کا بڑا فضل ہے ۔ میرے بزرگوں نے خدا کی ملازمت کی اور میں ان کی پنشن کھا رہا ہوں ۔ رونے کی وجہ خوشی ہے، نہ غم ۔ مفصل کیفیت پوچھنے پر اس نے کہا کہ نوگام میں جو میرا گائوں سری نگر کے قریب ہے، میں نے عالمِ کشف میں نبی کریم ﷺ کا دربار دیکھا ۔ صف نماز کے لیے کھڑی ہوئی تو حضور سرور کائنات ﷺ نے پوچھا کہ محمد اقبال آیا ہے یا نہیں ۔ معلوم ہوا ، محفل میں نہیں تھا۔ اس پر ایک بزرگ کو اقبال کے بلانے کے واسطے بھیجا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک جوان آدمی جس کی ڈاڑھی منڈھی ہوئی تھی اور رنگ گورا تھا ، مع ان بزرگ کے صفِ نماز میں داخل ہو کر حضور سرور کائنات ﷺکے دائیں جانب کھڑا ہو گیا ۔ پیرزادہ صاحب کہتے ہیں کہ اس سے پہلے میں آپ کی شکل سے واقف نہ تھا ۔ نہ نام معلوم تھا ۔ کشمیر میں ایک بزرگ نجم الدین صاحب ہیں ، جن کے پاس جا کر میں نے یہ سارا قصہ بیان کیا تو انہوں نے آپ کی بہت تعریف کی ۔ وہ آپ کو آپ کی تحریروں کے ذریعے سے جانتے ہیں ۔ گو انہوں نے آپ کو کبھی نہیں دیکھا ۔ اس دن سے میں نے ارادہ کیا کہ لاہور جا کر آپ کو ملوں گا۔ سو محض آپ کی ملاقات کی خاطر میں نے کشمیر سے سفر کیا ہے اور آپ کو دیکھ کر مجھے بے اختیار رونا اس واسطے آیا ، کہ مجھ پر میرے کشف کی تصدیق ہو گئی ۔ کیونکہ جو شکل آپ کی میں نے حالت کشف میں دیکھی ، اس سے سر بمو فرق نہ تھا ۔ اس ماجرا کو سن کر مجھ کو معا دہ گمنام خط یاد آیا ، جس کا ذکر میں نے اس خط کی ابتدا میں کیا ہے ۔ مجھے سخت ندامت ہو رہی ہے اور روح نہایت کرب و اضطراب کی حالت میں ہے ، کہ میں نے کیوں وہ خط ضائع کر دیا ۔ اب مجھ کو وہ وظیفہ یاد نہیں جو اس خط میں لکھا تھا ۔ آپ مہربانی کر کے اس مشکل کا کوئی علاج بتائیں ،کیونکہ پیرزادہ صاحب کہتے تھے کہ آپ کے متعلق میں نے جو کچھ دیکھا ہے ، وہ آپ کے والدین کی دعائوں کا نتیجہ ہے ۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ جو کچھ انہوں نے کہا ہے ، بالکل صحیح ہے کیونکہ میرے اعمال تو اس قابل نہیں ہیں ۔ ایسا فعل ضرور ہے کہ دعا کا ہی نتیجہ ہو ۔ لیکن اگر حقیقت میں پیرزادہ صاحب کا کشف صحیح ہے تو میرے لیے لا علمی کی حالت سخت تکلیف دہ ہے ۔ اس کا یا تو کوئی علاج بتائیے یا مزید دُعا فرمائیے کہ خدا تعالیٰ اس گرہ کو کھول دے۔ مآخذ باب : ۱۳ ۱ ۔ ’’خلافت ‘‘ از ابولکلام آزاد ، صفحات ۲۰۳ تا ۲۰۷ ۔ ۲ ۔ ’’اقبال نامہ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ حصہ اول ، صفحہ ۲۵۵۔ ۳ ۔ ’’اقبال درون خانہ ‘‘ صفحات ۵۵، ۵۶ ۔ ۴ ۔ ’’سنگ ہائے میل‘‘ (انگریزی) ، صفحہ ۶۰ ۔ ۵ ۔ جنرل ڈائر کو بعد میں فوجی ملازمت سے جبری طور پر ریٹائر کر دیا گیا ۔ ۶ ۔ ’’باقیات اقبال ‘‘ مرتبہ عبداللہ قریشی ، صفحہ ۲۳۸ ۔ ۷ ۔ مائیکل اڈوائر ایک ہندوستانی کے ہاتھوں لندن میں قتل ہوا ۔ ۸ ۔ ’’اقبال کے آخری دو سال ‘‘، صفحات ۱۰۰ تا ۱۰۳ ۔ ۹ ۔ ’’ذکر اقبال ‘‘ ، صفحات ۱۰۳ ، ۱۰۴ ۔ ۱۰ ۔ ’’مسلمانوں کا روشن مستقبل ‘‘ از طفیل احمد ، صفحات ۵۰۸ تا ۵۱۰ ۔ ۱۱ ۔ صحیفہ ‘‘ اقبال نمبر حصہ اول ، صفحہ ۱۴۰ ۔ ۱۲ ۔ ’’مکاتیب اقبال بنام محمد نیاز الدین خان ‘‘ ، صفحہ ۲۴ ۔ ۱۳ ۔ ’’ذکر اقبال ‘‘ از عبدالمجید سالک ، صفحات ۱۰۵، ۱۰۶ ۔ ۱۴ ۔ ’’انوار اقبال ‘‘ مرتبہ بشیر احمد ڈار ، صفحات ۴۲ تا ۴۴، مرتب تحریر کرتے ہیں کہ یہ جلسہ ۳۰ ؍ دسمبر ۱۹۱۹ء کو ہوا لیکن اقبال کے خط بنام محمد نیاز الدین خان محررہ ۱۹ ؍دسمبر ۱۹۱۹ء سے ظاہر ہوتا ہے کہ جلسہ خط لکھنے سے پہلے ہوا تھا ۔ دیکھیے ’’مکاتیب اقبال بنام محمد نیاز الدین خان‘‘، صفحہ ۲۵ ۔ ۱۵ ۔ ’’مسلمانوں کا روشن مستقبل ‘‘ از طفیل احمد ، صفحات ۵۱۰ تا ۵۱۲ ۔ ۱۶ ۔ ایضاً ، صفحات ۵۲۶ تا ۵۲۸ ۔ ۱۷ ۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ، حصہ اوّل ، صفحہ ۱۰۶ ۔ ۱۸ ۔ ’’بانگ درا ‘‘ میں ’’دریوزہ خلافت‘‘ کے زیر عنوان ان اشعار کے پہلے شعر میںیہ ترمیم ہے: ؎ اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے جائے تو احکامِ حق سے نہ کر بے وفائی ۱۹۔ ’’مکاتیب اقبال بنام محمد نیاز الدین خان ‘‘، صفحہ ۲۷ ۔ ۲۰ ۔ ’’روز گار فقیر ‘‘ از فقیر سید وحید الدین ،جلد دوم ، صفحہ ۱۸۰۔ ۲۱ ۔ خط محررہ ۱۰؍اکتوبر ۱۹۲۰ء ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ، حصہ اوّل ، صفحہ ۱۱۲۔ ۲۲ ۔ ’’قومیت اور شہنشاہیت ‘‘ (انگریزی) ، صفحات رومن ۲۹ ، ۱۶۰ ۔ ۲۳ ۔ ’’مولانا محمد علی کی منتخب تقریریں اور تحریریں ‘‘ مرتبہ افضل اقبال (انگریزی) ، صفحہ ۳۸۹ ۔ ۲۴ ۔ ’’مسلمانوں کا روشن مستقبل ‘‘ از طفیل احمد ، صفحات ۵۱۵ ، ۵۲۹ ۔ ۲۵ ۔ ’’انڈیا ۱۹۲۰ء ‘‘ از رش بروک ولیمز (انگریزی) ، صفحہ ۵۲ ۔ ۲۶ ۔ ’’مکاتیب اقبال بنام گرامی ‘‘ مرتبہ عبداللہ قریشی ، صفحات ۱۶۰ ، ۱۶۲ ۔ سندھی قافلۂ مہاجرین کے سالار جان محمد جونیجو بیرسٹر تھے ۔ ۲۷ ۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء محمد حصہ دوم ، صفحہ ۱۵۹ ۔ ۲۸ ۔ ’’انڈیا ۱۹۲۰ء (انگریزی) ، صفحات ۵۲ ، ۵۳ ۔ ۲۹ ۔ ’’اقبال اور انجمن حمایت اسلام ‘‘ از محمد حنیف شاہد ، صفحات ۹۷ ، ۹۸ ۔ ۳۰ ۔ مضمون ’’علامہ اقبال تحریک ترک موالات کے حامی تھے یا مخالف؟ ‘‘ روز نامہ ’’مشرق‘‘ ۱۲؍ مئی ۱۹۷۸ء ۔ ۳۱ ۔ مضمون ’’اقبال اور تحریک ترک موالات ‘‘ جس کا مسودہ راقم کے پاس ہے اور اس سے استفادہ کیا گیا ہے۔ ۳۲ ۔ اقبال نے اپنے انگریزی مضمون بعنوان ’’اسلام میں سیاسی فکر ‘‘میں جس کی پہلی قسط ۱۹۰۸ء میں ’’سوشولاجیکل ریویو‘‘ لندن میں شائع ہوئی تھی ، کسی بھی مقام پر خلافت عثمانیہ یا مسلمانانِ عالم کے لیے اس کی اہمیت کا ذکر نہیں کیا ۔ البتہ اس مضمون میں مسلم دول مشترکہ (کامن ویلتھ) کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ ۳۳ ۔ ’’مکاتیب اقبا ل بنام محمد نیاز الدین خان ‘‘ ، صفحہ ۳۵ ۔ ۳۴ ۔ دیکھیے ’’جامعہ ‘‘ مجلہ جامعہ ملیہ دہلی اقبال نمبر مضمون عبداللطیف اعظمی جس کا حوالہ عبدالسلام خورشید نے اپنے مضمون ’’علامہ اقبال تحریک ترک موالات کے حامی تھے یا مخالف؟ ‘‘ میں دیا ہے ۔ روز نامہ ’’مشرق‘‘ ۱۲؍مئی ۱۹۷۸ئ۔ ۳۵ ۔ ’’گفتار اقبال ‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۲۶۸ ، ۲۶۹ ۔ ۳۶ ۔ ’’اقبال اور انجمن حمایت اسلام ‘‘ از محمد حنیف شاہد ، صفحات ۹۸ تا ۱۰۳ ۔ ۳۷ ۔ ’’مکاتیب اقبال بنام محمد نیاز الدین خان ‘‘ ، صفحہ ۳۶ ۔ ۳۸ ۔ ’’مضامین محمد علی ‘‘ مرتبہ غلام سرور حصہ دوم ، صفحات ۴۲۵ ، ۴۲۶ ۔ ۳۹ ۔ ماہنامہ ’’جامعہ ‘‘ دہلی جولائی ۱۹۳۶ء ، صفحہ ۶۵۳ ۔ ۴۰ ۔ ’’النور ‘‘ مطبوعہ علی گڑھ ۱۹۲۱ء ، صفحات ۱۹۶، ۱۹۷۔ ۴۱ ۔ ’’نیشنلزم اور اصلاح ہند‘‘ از سمتھ (انگریزی) صفحات ۳۱۶ تا ۳۱۸ ، ’’آٹو بائیو گرافی ‘‘ از پنڈت جواہر لعل نہرو (انگریزی)، صفحہ ۸۷ ، ’’موپلا بغاوت ۱۹۲۱ء ‘‘ ازجی ۔گوپالن نیر (انگریزی) صفحات ۹۰ تا ۹۳ ۔ ۴۲ ۔ مضمون ’’اقبال اور کشمیر ‘‘ از عبداللہ قریشی دیکھیے ’’آئینہ اقبال ‘‘ مرتبہ عبداللہ قریشی ، صفحہ ۲۱۴ ۔ ۴۳ ۔ ’’ذکر اقبال ‘‘ از عبدالمجید سالک ، صفحہ ۱۱۱ ۔ ۴۴ ۔ ایضاً ، صفحہ ۱۰۸ ۔ ۴۵ ۔ ’’مکاتیب اقبال بنام گرامی ‘‘ مرتبہ عبداللہ قریشی ، صفحات ۱۹۴ تا ۱۹۶ ، ’’صحیفہ ‘‘ اقبال نمبر حصہ اول ، صفحات ۱۸۶ تا ۱۸۸ ۔ ۴۶ ۔ ’’اقبال اور انجمن حمایت اسلام ‘‘ از محمد حنیف شاہد ، صفحات ۸۷ ، ۸۸ ۔ ۴۷ ۔ اس واقعے کا ذکر علی بخش نے راقم سے کیا تھا ۔ بعد میں اس قسم کے چند اور واقعات راقم کے اپنے مشاہدے میں بھی آئے جن کا تذکرہ مناسب مقام پرکیا جائے گا ۔ شیخ اعجاز احمد کے خیال میں اقبال کے اس کشف کا تعلق ۱۹۱۰ء سے ہے۔ فرماتے ہیں کہ انارکلی والے مکان میں وہ رات گئے اشعار قلم بند کرنے کی غرض سے نچلی منزل میں واقعہ اپنے دفتر میں گئے ۔ جب واپس اوپر جانے لگے تو کمرے میں ایک دراز قد، سفید ریش ، متبرک صورت بزرگ جو سفید لباس پہنے ہوئے تھے ، دکھائی دئیے۔ بزرگ نے انہیں ارشاد کیا کہ پانچ سو آدمی تیار کرو اور اتنا کہنے کے بعد غائب ہو گئے ۔ چند ماہ بعد جب اقبال موسم گرما کی تعطیلات میں سیالکوٹ آئے تو اس واقعہ کا ذکر اپنے والد سے کیا ۔ میاں جی نے انہیں کہا کہ میں سمجھتا ہوں تمہیں ہدایت ہوئی ہے کہ مسلمانوں کو صحیح معنوں میں زندہ کرنے اور انہیں ’’آدمی‘‘ بنانے والی پانچ سو اشعار کی کتاب لکھو شیخ اعجاز احمد کی رائے میں اس کشفی ہدایت کی تعمیل میں لکھی جانے والی کتاب دراصل مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ تھی۔ لیکن راقم کے خیال میں ’’اسرار خودی‘‘ کا سبب تخلیق ایک خواب تھا جس میں مولانا رومی نے اقبال کو مثنوی لکھنے کی تلقین کی تھی فقیر سید وحید الدین ، ’’روز گار فقیر‘‘ حصہ اوّل ، صفحات ۱۱۵، ۱۱۶، ۱۱۷ پر اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ وہ کتاب مثنوی ’’پس چہ باید کرد اے اقوام شرق ‘‘ تھی کیونکہ اس کے اشعار کی تعداد ۵۳۱ ہے اور آغاز اس شعر سے ہوتا ہے: سپاس تازہ برانگیزم از ولایتِ عشق کہ در حرم خطرے از بغاوتِ خرد است علاوہ ازیں شیخ اعجاز احمد کا بیان ہے کہ ایک خاتون مضمون نگار کہکشاں ملک کی تحقیق کے مطابق ’’طلوع اسلام ‘‘ وہ نظم تھی جو کشفی ہدایت کی تعمیل میں کہی گئی ۔ اس مضمون نگار کی رائے میں یہ واقعہ خود اقبال نے اپنی طویل نظم ’’طلوع اسلام‘‘ کی تخلیق کے بارے میں بتلایا ہے ۔ تاہم مضمون نگار نے اس بیان کی تائید میں اقبال کی کسی تحریر کا حوالہ نہیں دیا۔ ۴۸۔ ’’ذکر اقبال ‘‘، صفحہ ۱۱۰ ۔ ۴۹ ۔ ’’مکاتیب اقبال بنام گرامی‘‘ مرتبہ عبداللہ قریشی ، صفحات ۲۰۵ ، ۲۰۶ نیز دیکھیے خط بنام سید سلیمان ندوی محررہ ۲۹ ؍مئی ۱۹۲۲ء ، ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ حصہ اوّل ، صفحات ۱۱۸،۱۱۹ ۔ ۵۰ ۔ ’’صحیفہ ‘‘ اقبال نمبر، حصہ اوّل ، صفحات ۵۶،۵۷ شیخ اعجاز احمد کی رائے میں عبداللہ چغتائی کی یہ روایت غلط ہے اور اس کی تردید اقبال کے بعض خطوط سے ہوتی ہے جو انہوں نے ان ایّام میں شیخ عطا محمد کو سیالکوٹ کے پتے پر تحریر کیے تھے ۔ البتہ شیخ عطا محمد نے میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں جاوید منزل کی تعمیر کے سلسلے میں چند ماہ مسلسل قیام کیا تھا ۔ ۵۱ ۔ ’’مکاتیب اقبال بنام محمد نیاز الدین خان ، صفحات ۲۹ ، ۳۰ ۔ ۵۲ ۔ ایضاً ، صفحہ ۳۴ ۔ ۵۳ ۔ ’’ظہور افغانستان جدید ‘‘ از گریگورین (انگریزی) صفحہ ۲۳۱۔ ۵۴ ۔ خط محررہ ۵؍ستمبر ۱۹۲۴ء ’’اقبال نامہ ‘‘مرتبہ شیخ عطاء اللہ حصہ اوّل ، صفحہ ۱۴۰ ۔ ۵۵ ۔ خط محررہ ۱۸؍ مارچ ۱۹۲۸ء ایضاً ، صفحہ ۱۵۸ ۔ ۵۶ ۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ حصہ دوم ، صفحہ ۱۶۳ ۔ ۵۷ ۔ ایضاً ، صفحہ ۲۳۰ ۔ باب: ۱۴ ہندو مسلم تصادم کا ماحول یکم جنوری ۱۹۲۳ء کو انگریزی حکومت نے اقبال کی علمی اور ادبی خدمات کے صلے میں انہیں ’’سر ‘‘ کا خطاب دیا ۔ خطاب کے پس منظر کے متعلق اقبال نے مہاراجہ کشن پرشاد کو تحریر کیا : سرکار نے میرے خطاب کے متعلق جو کچھ سُنا ہے ، صحیح ہے یہ ’اسرار خودی‘ کا انگریزی ترجمہ ہونے اوراس پر یورپ اور امریکہ میں متعدد ریویو چھپنے کا نتیجہ ہے ۱۔ مزید تفصیل کے بارے میں فقرسیّد وحید الدین اپنی تصنیف میں اقبال کی زبانی تحریر کرتے ہیں کہ پنجاب کورٹ کے چیف جج سر شادی لعل نے انہیں بلا کر کہا کہ اس سے گورنمنٹ نے خطابات کے لیے سفارشیں طلب کی ہیںاور وہ اقبال کا نام خان صاحب کے خطاب کے لیے تجویز کرنا چاہتا ہے۔اقبال نے جواب دیا کہ انہیں کسی خطاب کی خواہش نہیں، اس لیے زحمت نہ کی جائے ۔ چند دنوں بعد پنجاب کے گورنر سر ایڈورڈ میکلیگن نے اقبال کو گورنمنٹ ہائوس میں مدعو کیا ۔ جب وہ وہاں پہنچے تو انہیں ’’لندن ٹائمز‘‘ کے ایک مقالہ نگار سے ، جس نے ’’اسرار خودی ‘‘ کا انگریزی ترجمہ پڑھا تھا، ملوایا گیا ۔ مقالہ نگار نے کوئی کتاب تحریر کی تھی، جس کے متعلق اقبال کی رائے معلوم کرنا چاہتا تھا ۔اقبال کی اس کے ساتھ خاصی دیر تک صحبت رہی۔ جب رخصت ہونے لگے تو گورنر کا پیغام ملا کہ اس سے ملتے جائیں ۔ اقبال اس کے کمرے میں گئے تو اس نے کہا کہ میں آپ کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر آپ کے لیے ’’نائٹ ہڈ‘‘کے خطاب کی سفارش کرنا چاہتا ہوں، بشرطیکہ آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو۔ اقبال کچھ پس و پیش کے بعد رضا مند ہو گئے۔ اس کے بعد گورنر نے پوچھا کہ کیا ان کی نگاہ میں کوئی ایسا شخص ہے جو شمس العلماء کے خطاب کا مستحق ہو۔ اس پر اقبال نے جواب دیا کہ وہ ایک نام پیش کرنے کو تیار ہیں، بشرطیکہ کسی دوسرے نام کو سفارش میں شریک نہ کیا جائے ۔ گورنر نے قدرے تامّل کے بعد جب شرط قبول کر لی تو اقبال نے اپنے استاد مولانا سید میر حسن کا نام تجویز کیا ۔ گورنر ، مولانا میر حسن کے نام سے واقف نہ تھا ، اس لیے دریافت کیا کہ انہوں نے کون کون سی کتابیں تحریر کی ہیں؟ اقبال نے کہا کہ انہوں نے کتاب تو کوئی نہیں لکھی لیکن میں ان کی زندہ تصنیف آپ کے سامنے موجود ہوں ، کیونکہ وہ میرے استاد ہیں ۔ اس کے بعد یہ بھی واضح کر دیا کہ اگر ان کے لیے شمس العلماء کے خطاب کی سفارش منظور ہو جائے تو ضعیف العمری کے سبب انہیں سندِ خطاب لینے کے لیے سیالکوٹ سے لاہور آنے کی زحمت نہ دی جائے۔ چنانچہ جب خطاب کا اعلان ہوا تو مولانا سید میر حسن کی سندِ خطاب ان کے فرزند کے حوالے کی گئی۲۔ تحریک ترکِ موالات کے سبب لوگوں میں سرکاری خطابات کے خلاف نفرت پیدا ہو چکی تھی ، اس لیے سر کا خطاب ملنے پر اقبال کے متعلق طرح طرح کی چہ میگوئیاں ہونے لگیں ۔ اخبارات کے کالموں میں ان پر طنز بھری چوٹیں کی گئیں ۔ عبدالمجید سالک نے فوری ردِ عمل کے طور پر چند اشعار بھی زمیندار میں شائع کر دیے جو زبان زدِ عام ہو گئے : لو مدرسہ علم ہوا قصرِ حکومت افسوس کہ علامہ سے سر ہو گئے اقبال پہلے تو سرِ ملت بیضا کے وہ تھے تاج اب اور سنو ! تاج کے سر ہو گئے اقبال پہلے تو مسلمانوں کے سر ہوتے تھے اکثر تنگ آکے اب انگریز کے سر ہو گئے اقبال کہتا تھا یہ کل ٹھنڈی سڑک پر کوئی گستاخ سرکار کی دہلیز پر سر ہو گئے اقبال سر ہو گیا ترکوں کی شجاعت سے سمرنا سرکار کی تدبیر سے سر ہوگئے اقبال۳ اقبال کے پرانے دوست میر غلام بھیک نیرنگ نے انہیں خط میں اندیشہ ظاہر کیا کہ اب آپ شاید آزادی اظہار سے کام نہ لے سکیں ۔ اقبال نے جواب میں تحریر کیا : میں آپ کو اس اعزاز کی خود اطلاع دیتا ،مگر جس دنیا کے میں اور آپ رہنے والے ہیں ، اس دنیا میں اس قسم کے واقعات احساس سے فروتر ہیں ۔ سینکڑوں خطوط اور تار آئے اور آ رہے ہیں اور مجھے تعجب ہو رہا ہے کہ لوگ ان چیزوں کو کیوں گراں قدر جانتے ہیں ۔ باقی رہا وہ خطرہ جس کا آپ کے قلب کو احساس ہوا ہے ، سو قسم ہے خداے ذوالجلال کی جس کے قبضے میں میری جان اور آبرو ہے اور قسم ہے اس بزرگ و برتر وجود کی جس کی وجہ سے مجھے خدا پر ایمان نصیب ہوا اور مسلمان کہلاتا ہوں، دنیا کی کوئی قوت مجھے حق کہنے سے باز نہیں رکھ سکتی۔ ان شاء اللہ اقبال کی زندگی مومنانہ نہیں لیکن اس کا دل مومن ہے۴۔ ۱۷ جنوری ۱۹۲۳ء کو خطاب ملنے پر اقبال کے لیے ایک مبارک باد پارٹی کا اہتمام ہندو ، مسلم اور سکھ معززین لاہور کی طرف سے مقبرہ جہانگیر میںکیا گیا ، جس میں گورنر پنجاب سمیت تمام سرکاری اور غیر سرکاری عمائد وحکام شریک ہوئے۔ اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے اقبال نے بتایا کہ وہ گوئٹے کے ’’دیوان مغرب ‘‘ کے جواب میں ایک کتاب تحریر کر رہے ہیں جس کا نام ’’پیامِ مشرق‘‘ ہو گا ۔ اخبار ’’بندے ماترم ‘‘ لاہور ، اس تقریب کا آنکھوں دیکھا حال یوں بیان کرتا ہے: ۱۷ جنوری کو بوقت چار بجے شام ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کو سر کا خطاب ملنے کی تقریب پر شاہدرہ میں ایک پر لُطف گارڈن پارٹی دی گئی ۔ جن اصحاب کی طرف سے دعوتی کارڈ جاری ہوئے تھے ، ان میں گورنر پنجاب کی انتظامیہ کونسل کے ممبر سر جان مینارڈ ، میاں فضل حسین وزیر تعلیم اور لالہ ہرکشن لعل وزیر صنعت و حرفت کے علاوہ سر ذوالفقار علی خان ، نواب سر فتح علی خان قزلباش ، چوہدری شہاب الدین ، میاں احمد یار خان دولتانہ اور دیگر بہت سے سرکار پرستوں کے نام بھی تھے ۔ دعوت شہنشاہ جہانگیر کے مقبرے کے وسیع احاطے میں دی گئی ۔ جلسۂ دعوت کے صدر سر ایڈورڈ میکلیگن گورنر پنجاب تھے۔ مقبرے کے دروازے پر پولیس کے سپاہی تعینات تھے۔ جو اصحاب اس دعوت میں شریک ہوئے وہ زیادہ تر ایسے تھے جن کو دیکھ کر اس خیال کی تردید ہوتی تھی کہ یہ دعوت کسی شاعر کی عزت افزائی کی خوشی میں دی گئی ہے ۔ یورپین لیڈیوں کے علاوہ متعدد ہندوستانی خواتین بھی شریکِ دعوت نظر آتی تھیں۔جہاں تک دعوتی کارڈوں کا تعلق ہے ، میر میزبان سر ذوالفقار علی خان تھے، لیکن جلسے کو کامیاب بنانے کا سہرا زیادہ تر میاں فضل حسین کے سر سمجھنا چاہیے ۔ کیونکہ لاہور کے تقریباً تمام سکولوں اور کالجوں کے پروفیسر ، ٹیچر اور شاید طالب عالم بھی خاصی تعداد میں مدعو کیے گئے تھے ۔ ایک اور بات جو دیکھنے والوں کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی ، وہ ہندو اصحاب کی کمی تھی اور اس سے اس امر کا ایک زبر دست ثبوت مہیا ہو رہا تھا کہ جذبۂ سرکار پرستی ، ہندو مسلمانوں کے گلے ملوانے میں جذبۂ قوم پرستی کا ہرگز مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ کھانے کے دوران میں سر ایڈورڈ میکلیگن اور سرجان مینارڈ کی کرسیوں کے قریب سکول کے چند لڑکے ڈاکٹر اقبال کی نظم ، ہندوستاں ہمارا ، گا رہے تھے ، جو باعتبارِ مضمون اس مجمع میں نہایت غیر موزوں معلوم ہوتی تھی ۔ کھانا ختم ہو چکنے کے بعد سر ذوالفقار علی خان نے ایک تقریر کی ۔ اس تقریر میں ڈاکٹر ٹیگور کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر ٹیگور کو نوبل پرائز ملنے کے بعد سر کا خطاب دیا گیا، لیکن انہوں نے اتنا کہنے کی تکلیف گوارا کرنا مناسب نہ سمجھا کہ ڈاکٹر ٹیگور اس خطاب کو واپس کر چکے ہیں ۔ سر محمد اقبال نے جوابی تقریر میں اس دلچسپی کا ذکر کیا جو مغربی ممالک میں ایشیائی خصوصاً عربی و فارسی علوم کے متعلق پیدا ہو گئی ہے ۔ جب سر محمد اقبال نے یہ کہا کہ مجھ کو خطاب دے کر گورنمنٹ نے اردو فارسی کے ادیبوں کی عزت افزائی کی ہے، اس وقت ان سے شاید یہ امر واقع نظر انداز ہو گیا تھا کہ آج کل سرکاری خطابوں کو پسندیدگی کی نگاہوں سے نہیں دیکھا جاتا ، بلکہ عوام ان کو نفرت کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ اگرچہ ظاہر یہ کیا جاتا ہے کہ سر محمد اقبال کو اردو فارسی کا ایک بلند پایہ شاعر ہونے کی حیثیت سے خطاب دیا گیا ہے اور حاضرین جلسہ میں بھی زیادہ تعداد یورپینوں کی نہیں تھی ، لیکن سر ذوالفقار علی خان اور سر محمد اقبال ، دونوں کی تقریریں انگریزی میں تھیں ۔ ایک اور عجیب بات یہ تھی کہ سر ایڈورڈ میکلیگن نے جو جلسہ دعوت کے صدر تھے ، کوئی تقریر نہ کی ۔ جلسے کے اختتام پر ایک فوٹو لیا گیا،جس میں سر محمد اقبال کے علاوہ سر ایڈورڈ میکلیگن ، سر جان مینارڈ ، سر ذوالفقار علی خان ، راجہ نریندر ناتھ اور دیوان کشن کشور شریک ہوئے ۔ گویا فوٹو سے بھی یہ ظاہر نہیںہوتا کہ سر محمد اقبال کو خالص ادبی خدمات کے صلے میں خطاب ملا ہے ۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ میاں فضل حسین، سردار سندر سنگھ مجیٹھیہ ممبر انتظامیہ کونسل گورنر پنجاب اور لالہ کشن لعل فوٹو میں کیوں شریک نہ ہوئے۵۔ یہ حقیقت ہے کہ اقبال کے نزدیک خطابات یا دینوی اعزازات کی کوئی اہمیت نہ تھی ۔ اس لیے خطاب حاصل کرنے کے بعد ، جیسا کہ ان کی تحریروں سے ظاہر ہوتا ہے، آزادیِ اظہار میں کمی کی بجائے اور بھی زیادہ اضافہ ہوا ۔ مگر ایسے زمانے میں جب عوام میں خطابات کے خلاف نفرت پیدا ہو چکی تھی، اقبال نے خطاب کیوں قبول کیا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اقبال کا تعلق اقلیتی قوم سے تھا اور برصغیر کے سیاسی پس منظر میں اقلیتی قوم کی نفسیات اکثریتی قوم سے مختلف تھیں؛ یعنی انگریزی حکومت یا ہندو اکثریت کے مقابلے میں مسلم اقلیت کا رویہ بنیادی طور پر مدافعانہ تھا اور اقبال کے خطاب قبول کرنے کی مصلحت اسی مدافعانہ نفسیات کی غماز تھی۔ ۱۹۲۳ء سے برصغیر ہندو مسلم فسادات کی لپیٹ میں آ گیا ۔ اس زمانے میں ہر سال جس طرح کوئی نہ کوئی وبا مثلاً طاعون ، چیچک یاہیضہ برصغیر کے مختلف علاقوں میں پھوٹتی اور سیکڑوں انسان اس کی بھینٹ چڑھتے تھے، اسی طرح ہندومسلم فساد بھی کہیں نہ کہیں برپا ہوتا اور متعدد انسان اس کی بھینٹ چڑھ جاتے ۔ دونوں قوموں کا تصادم اس لیے ہوتا تھا کہ ان کی وابستگی دو متحارب مذہبوں کے ساتھ تھی ۔ اس کے علاوہ اقتصادی رقابتیں، معاشرتی اور تمدنی اختلافات یا سیاسی برتری کے خدشات بھی ان میں ایک دوسری کے خلاف نفرت یا بے اعتمادی کی فضا پیدا کرتے تھے۔ دو قومی آویزش کا اظہار عموماً ہندو مسلم فسادات کی صورت میںہوتا جو اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے تھوڑے ہی عرصے بعد برصغیر میں برپا ہونے شروع ہو گئے تھے۔ ہندو مسلم تصادم کی اپنی تاریخ ہے ۔ اسلام ہندوستان میں آٹھویں صدی عیسوی میں وارد ہوا ، لیکن ہندو مسلم مذہبی ، معاشرتی اور تمدنی اختلافات کی حقیقت کے متعلق پہلی مرتبہ البیرونی (۹۷۳ء تا ۱۰۴۸ئ) نے رائے کا اظہار اپنی مشہور تصنیف ’’کتاب الہند‘‘ میں کیا ۔ البیرونی ، سلطان محمود کی معیت میں دسویں صدی عیسوی کے اختتام پر برصغیر آیا تھا اور اسے دونوں قوموں کے عادات و خصائل میں امتیاز کا قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ وہ اپنی کتاب میں ہندووں کے عادات و رواجات کا مسلمانوں کے عادات و رواجات سے مقابلہ کرتے ہوئے تحریر کرتا ہے: ہندو ہم (یعنی مسلمانوں) سے ہر لحاظ سے مختلف ہیں۔ ان کے کئی معاملات جو بظاہر مشکل اور پیچیدہ معلوم ہوتے ہیں ، نہایت آسانی سے سمجھ میں آ سکتے اگر ہمارے درمیان کوئی رابطہ ہوتا ۔۔۔۔ لیکن یوں محسوس ہوتا ہے گویا ہندوئوں نے اپنے رسم و رواج کو جان بوجھ کر مسلمانوں کے رسم و رواج کے برعکس شکل دے رکھی ہے۔ ہمارے رسم و رواج ہندوئوں کے رسم و رواج سے مشابہت نہیں رکھتے بلکہ بالکل الٹ ہیں اور اگر اتفاق سے ان کا کوئی رواج ہمارے کسی رواج سے مشابہت رکھتا بھی ہے تو اس کے معانی قطعی اُلٹ ہوتے ہیں ۶۔ پھر ہندوئوں اور مسلمانوں کی ایک دوسرے سے علیحدگی اور لا تعلقی کے وجوہ بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے: ہندوئوں کے تمام تر تعصب کا نشانہ وہ لوگ بنتے ہیں جو ان میں سے نہیں یعنی جو نو وارد (مسلمان) ہیں ۔ وہ انہیں ملیچھ کہتے ہیں ، جس کے معنی ہیں غلیظ یا ناپاک ۔ ان سے کسی قسم کا کوئی واسطہ نہیں رکھتے ۔ نہ ان سے ازدواجی تعلق قائم کرتے ہیں ، اور نہ کسی اور قسم کا تعلق ۔ نہ ان کے ساتھ مل بیٹھنے پر رضا مند ہوتے ہیں ، نہ کھانے اور پینے پر ۔ کیونکہ ایسی صورت میں وہ سمجھتے ہیں کہ پلیدہو جائیں گے ۔ ان کے نزدیک ہر وہ شے پلید ہے ، جسے مسلمانوں کی آگ یا پانی نے چھوا ہو اور یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی گھر ان دو فطری عناصر کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا ۔ انہیں کسی غیر ہندو کو اپنے ہاں بلانے کی اجازت نہیں۔ اگرچہ غیر ہندو اس دعوت کا کتنا ہی خواہشمند ہو یا ان کے مذہب کی طرف مائل ہی کیوں نہ ہو ۔ ان حالات میں ان اور مسلمانوں میں کسی قسم کا تعلق قائم ہو سکنا قطعی نا ممکن ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اور ان کے درمیان ایک ایسی خلیج حائل ہے جو عبور نہیں کی جا سکتی ۷۔ مغلوں کی آمد سے قبل کی چند صدیوں میں ہندو مسلم امتیاز کے پیش نظر ہندوستان میں مسلم سلطنت کے چہرے کا رُخ مشرقِ وسطیٰ کی طرف رہا اور مسلم سلطنت ہند، خلافتِ بغداد یا بعد میں خلافتِ قاہرہ سے بسا اوقات مذہبی اور تمدنی وابستگی کے اظہار کے ذریعے استحکام حاصل کرتی رہی۔ بہرحال سولہویں عیسوی میں ہندوئوں اور مسلمانوں کو آپس میں مدغم کرنے کی پہلی شعوری کوشش اکبر نے دین الٰہی کی وساطت سے کی۔ اس زمانے میں ایسا سیاسی مقصد تصوف ہی کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا تھا اور چونکہ اس وقت ہندوستان میںبہت سے وجودی صوفیہ کے طریقے رائج تھے اس لیے اکبر نے دینِ الٰہی کو بطور ایک صوفی سلسلے کے پیش کیا۔ اس عہد کی خصوصیات کے متعلق سید ابوالحسن علی ندوی تحریر کرتے ہیں: اس وقت کیا تحریکیں کام کر رہی تھیں ۔ ہندوستان اور اس کے ہمسایہ ملکوں میں کیا ذہنی و دینی بے چینی پائی جاتی تھی۔ اسلام اور شریعتِ اسلامی کے خلاف علمی اور عقلی حلقوں میں کس بغاوت کے آثار تھے اور کن سازشوں کی تیاریاں ہو رہی تھیں ، اسلام کی تاریخ میں پہلے ایک ہزار سال کی تکمیل کے قرب نے حوصلہ مندوں اور طالع آزمائوں کے دلوں میں کیسی کیسی اُمیدوں اور اُمنگوں کے چراغ روشن کردیے تھے اور متشکک اور متردد طبیعتوں میں کیسے کیسے شکوک و شبہات پیدا کر دیے تھے۔ ایک طرف فلسفہ اور علوم عقلیہ ، دوسری طرف اشراق و باطنیت نے نبوت و رسالت کی عظمت و مقام کے گھٹانے اور عقل و تفلسف یا ریاضت و مجاہدہ اور نفس کشی کو معرفتِ الٰہی اور وصول الی اللہ اور نجات و ترقی درجات کے لیے کافی سمجھنے کا کیسا فتنہ برپا کر دیا تھا ۔ وحدت الوجود کے خالی عقیدے نے کیسی آزادی اور بے قیدی بلکہ الحاد و زندقہ کا دروازہ کھول دیا تھا ۸۔ بہرحال اکبر کی کوشش اس لیے ناکام رہی کہ ہندو اور مسلمان دونوں ایسے ادغام کے خلاف تھے۔ ’’منتخب التواریخ‘‘ کا مصنف مُلا بدایونی تحریر کرتا ہے کہ جب اکبر نے مان سنگھ کو دین الٰہی قبول کرنے کی دعوت دی تو اس نے جواب دیا : میں حضور کانمک خوار ہوں، غلام ہوں اور مجھے آپ کی ذات سے عقیدت ہے۔ آپ میرے بادشاہ ہیں اور بندہ اپنی جان بھی حضور پر سے قربان کر سکتا ہے، لیکن اگر آپ یہ کہیں کہ دین الٰہی قبول کر لوں تواس میں مجھے پس و پیش ہے، کیونکہ اس ملک میں در حقیقت دو مذہب ہیں، ایک ہندو مت اور دوسرا اسلام ۔ میں آپ کے حکم کی تعمیل میں اسلام پرتو ایمان لانے کو تیار ہوں لیکن مجھے دین الٰہی قبول کرنے کے لیے مت کہیے ۹ ۔ اکبر کی مذہبی آزادی کی پالیسی کے سبب ہندوستان میں بھگتی تحریک کو فروغ حاصل ہوا ، اور نچلے طبقے کے سیکڑوں مسلمان ہندو مت میں داخل ہوگئے ۔ اسی طرح اکبر نے ہندو یوگیوںاور سنیاسیوں کو ہتھیار رکھنے کی اجازت دے دی اور یوں ہندو عسکریت کی بنیاد رکھی ۱۰ ۔بقول مولانا شبلی ، ہندوئوں نے اس پالیسی سے ناجائز فائدہ اٹھایا اور انہوں نے زبر دستی اسلام کو ہندو مت میں جذب کر نے کی کوشش کی ۔ وہ مسلم عورتوں کو اٹھا کر لے جاتے اور ان سے شادیاں کر لیتے ۔ مسلم بچوں کو ہندو مت کی تعلیم دیتے اور مسجدوں کو مندروں میں منتقل کر لیتے ۔ یہ کیفیت جہانگیر اور شاہ جہان کے ادوار تک جاری رہی ۱۱۔ اکبر کی نافذ کردہ بدعتوں کے خاتمے کے سلسلے میں شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی نے اہم خدمات انجام دیں۔ا نہوںنے تصوّفِ وجودیہ کی تردید میں بہت کچھ لکھا اور وحدت الشہود کے ذریعے ثابت کیا کہ تصوفِ اسلامیہ کی بنیاد پابندیِ شریعت پر استوار کی گئی ہے ۔ تصوف کی اس تطہیر نے برصغیر کے مسلمانوں کی ملی وحدت کو استحکام بخشا ۔ شیخ احمد سرہندی کو مسلمانانِ ہند کی ملی تاریخ میں جو عظیم سیاسی مرتبہ حاصل ہے، اس کا اندازہ ابھی تک نہیں لگایا گیا۔ اقبال انہیں ہندوستان میں مسلم قومیت کابانی تصور کرتے تھے اور ان کی تحریروں سے بے حد متاثر تھے ۔ اقبال کی تصنیف ’’اسرار و رموز‘‘ اور شیخ احمد سرہندی کی تحریروں بالخصوص ’’مکتوباتِ امام ربانی ‘‘ میں جو روحانی تعلق موجود ہے ، وہ مزید غور و فکر اور تحقیق کا محتاج ہے۔ دراصل برصغیر میں جن حالات کے پیش نظر شیخ احمد ؒ سرہندی نے اسلام کی حفاظت و تقویت کی خاطر تجدید کا تاریخ ساز اور عہد آفرین کام انجام دیا، کچھ اسی نوع کا ماحول مغربی تصورات مثلاً علاقائی قومیت و وطنیت ، سیکولر یا لادین سیاست و معاشرت وغیرہ کے فروغ کے سبب عہدِ اقبال میں بھی پیدا ہو گیا تھا یہ ماحول احیائے اسلام کا مقتضی تھا۔ پھر ہندوئوں اور مسلمانوں کے ادغام کی دوسری شعوری کوشش دارا شکو نے کی، لیکن اسے اورنگ زیب عالمگیر نے ناکام بنا دیا ۔ مغلوں کے زوال اور انگریزوں کے عروج کے زمانے میں ، بالخصوص ۱۸۵۷ء کے ہنگامے کے بعد ہندو مسلم اختلافات بڑھتے چلے گئے۔ ۱۸۰۹ء میںبنارس (یوپی)میں جدید اصطلاح کے مطابق پہلا فرقہ وارانہ فساد ریکارڈ کیا گیا ۔ ۱۸۷۱ء میں بریلی (یوپی) میں فساد ہوا ۔ جس کے سبب بہت سی جانیں تلف ہوئیں ۔ ۱۸۸۵ء سے لے کر ۱۸۸۷ء تک یوپی کے بیشتر علاقوں اور دہلی میں فسادات رونما ہوئے ۔ ۱۸۹۳ء میں پٹنہ ، بنارس، گورکھ پور اور بمبئی کے اضلاع فسادات کی لپیٹ میں آئے ۔ ۱۲۔۱۹۱۱ء اور ۱۹۱۵ء تا ۱۹۱۸ء میں مونگھیر، پٹنہ ، شاہ آباد ، آرہ اور کرتارپور (بہار و یوپی) کے ضلعوں میں فسادات ہوئے ۱۲۔ ۲۳۔۱۹۲۲ء میں پنجاب ، یوپی اور سندھ کے صوبے فسادات کی زد میں آئے۔ انہی ایّام میں اقبال نے اپنے ایک خط بنام مہاراجہ کشن پرشاد محررّہ ۱۹؍ مارچ ۱۹۲۳ء میں فرمایا: افسوس ہے کہ پنجاب میں ہندو مسلمانوں کی رقابت بلکہ عداوت بہت ترقی پر ہے ۔ اگر یہی حالت رہی تو آیندہ تیس سال میں دونوں قوموں کے لیے زندگی مشکل ہوجائے گی۱۳۔ اسی دور میں اپنے ایک اور خط بنام سیّد محمد سعید الدین جعفری محررّہ ۱۴ نومبر ۱۹۲۳ء میں واضح کیا: میرے نزدیک اسلام بنی نوع انسان کی اقوام کو جغرافیائی حدود سے بالاتر کرنے اور نسل و قومیت کی مصنوعی مگر ارتقاء انسانی کے ابتدائی مراحل میں مقید امتیازات کو مٹانے کا ایک عملی ذریعہ ہے۔اسی وجہ سے اور مذاہب (یعنی مسیحیت ، بدھ اِزم وغیرہ) سے زیادہ کامیاب رہا ہے ۔ چونکہ اس وقت ملکی اور نسلی قومیت کی لہر یورپ سے ایشیا میں آ رہی ہے اور میرے نزدیک انسان کے لیے یہ ایک بہت بڑی لعنت ہے، اس واسطے بنی نوع انسان کے مفاد کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس وقت اسلام کے اصلی حقائق اور اس کے حقیقی پیش نہاد پر اور زور دینا نہایت ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ میں خالص اسلامی نقطۂ خیال کو ہمیشہ پیش نظر رکھتا ہوں۔ ابتدا میں ، میں بھی قومیت پر اعتقاد رکھتا تھا اور ہندوستان کی متحدہ قومیت کا خواب شاید سب سے پہلے میں نے دیکھا تھا، لیکن تجربے اور خیالات کی وسعت نے میرے خیال میں تبدیلی پیدا کر دی اور اب قومیت میرے نزدیک محض ایک عارضی نظام ہے ، جس کو ہم ایک ناگزیر زشتی سمجھ کر گوارا کرتے ہیں۔ آپ پان اسلام کو ایک پولٹیکل یا قومی تحریک تصور کرتے ہیں،میرے نزدیک یہ ایک طریق چند اقوام انسانی کو جمع کرنے اور ان کو ایک مرکز پر لانے کا ہے، اس غرض سے ایک مرکز شہودی پر مجتمع ہو جائے اور ایک ہی قسم کے خیالات اور سوچنے کے باعث یہ اقوام نسلی اور قومی اور ملکی امتیازات و تعصبات کی لعنت سے آزاد ہو جائیں ۔ پس اسلام ایک قدم ہے نوع انسانی کے اتحاد کی طرف ، یہ ایک سوشل نظام ہے جو حرّیت و مساوات کے ستونوں پر کھڑا ہے ۔ پس جو کچھ میں اسلام کے متعلق لکھتا ہوں، اس سے میری غرض محض خدمت بنی نوع ہے، اور کچھ نہیں اور میرے نزدیک عملی نقطۂ خیال سے صرف اسلام ہی انسان دوستی کے آئیڈیل کو حاصل کرنے کا ایک کارگر ذریعہ ہے۔ باقی ذرائع محض فلسفہ ہیں ، خوش نما ضرور ہیں مگر ناقابل عمل ۔ مجھے یہ معلوم کرکے تعجب ہوا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ خالص ، اسلامی حقائق پر لکھنے اور ان کو نمایاں کرنے سے ہندوستان کی اقوام میں باہمی عناد بڑھتا ہے ۔ اس بات میںمیں آپ سے متفق ہوں کہ مسلمانوں کو محبت کے طریق اختیار کرنے چاہئیں ۔ نبی کریم ﷺ کی حدیث ہے کہ مسلمان دنیا کے لیے سراپا شفقت ہے، مگر اس اخلاقی انقلاب کو حاصل کرنے کے لیے بھی یہی ضروری ہے کہ اسلام اپنی اصلی روشنی میں پیش کیا جائے ۔ میرا ذاتی طریقہ یہی ہے کہ میں دنیا کی تمام مذہبی تحریکوں کو ادب اور احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۱۴۔ ۱۹۲۴ء میں دہلی و ناگپور، لاہور ، کوہاٹ ، لکھنؤ ، مراد آباد ، بھاگلپور ، گلبرگہ ، کنکینارہ،شاہ جہان پور اور الٰہ آباد میں فسادات پھوٹ پڑے۔ ان فسادات کے سبب اتحاد کانفرنس وجود میں لانے کی ضرورت پیش آئی ، جس کے اجلاس ۱۹۲۴ء کے بعد ہر سال ہوتے رہے، لیکن وہ فسادات کی روک تھام کے لیے بے اثر ثابت ہوئی ۱۵۔ ۱۹۲۵ء میں دہلی،الٰہ آباد صوبہ یوپی ، سی پی، برار، گجرات ، بمبئی اور کلکتے کے مختلف علاقوں میں فسادات ہوئے ۔۱۹۲۶ء میں بنگال ، پنجاب اور یوپی میں فسادات ریکارڈ کئے گئے ۔ ۱۹۲۷ء میں متاثرہ علاقے یوپی ، سی پی ، بمبئی ، بہار اور اڑیسہ، دہلی بنگال اور پنجاب تھے ۔۱۹۲۸ء میںبمبئی ، کلکتہ اور پنجاب میں فسادات ہوئے، اسی طرح ۱۹۲۹ء سے لے کر ۱۹۳۲ء تک بمبئی یوپی ، بہار اور پنجاب میں فسادات ہوتے رہے ۔ اسی دوران میں کشمیر میں صورت حالات خراب ہو گئی ۔ وہاں مسلمانوں نے گائوکشی کے جرم میں بھاری سزائوں ، ہندو برت کے ایّام کے جبری احترام، ریاستی ملازمتوں سے مسلمانوں کے اخراج وغیرہ کے خلاف مظاہرے شروع کر رکھے تھے۔ ان کی حمایت میں پنجاب اور صوبہ سرحد کے مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے اور مجلسِ احرار کے پرچم تلے مسلم مظاہرین کے گروہ کثیر تعداد میں ریاست میں داخل ہونے لگے ۔ بالآخر انگریزی حکومت کو ان کا ریاست میں داخلہ روکنے کی خاطر مہاراجہ کشمیر کی امداد کے لیے فوج بھیجنا پڑی دوسری طرف ہندو مہا سبھائی رہنمائوں نے مہاراجہ کشمیر کو اس وقت تک اپنے مؤقف پر قائم رہنے کی تلقین کی جب تک وہ مسلم ریاستوں میں منتقمانہ تحریک کا آغاز نہ کر دیں۱۶۔ فسادات روکنے کے لیے مختلف قوموں کے رہنمائوں نے امن و اتحاد قائم کرنے کی غرض سے جو کانفرنسیں منعقد کیں ، ان کے تحت بعض مخصوص اور ہنگامی جماعتیں بھی قائم ہوئیں لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلا ۔ لاہور میں نیشنل لبرل لیگ کے نام سے ہندووں اور مسلمانوں کی ایک مشترکہ انجمن قائم ہوئی۔ اقبال اس میں شریک ہوئے مگر کچھ مدت بعد مستعفی ہوگئے ۔ اس کے بعد چنتامنی نے اس مقصد کے لیے بمبئی میں ایک نیشنلسٹ کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے داعیوں میں نام درج کرنے کی خاطر اقبال سے اجازت طلب کی۔ اقبال نے اجازت دے دی ۔ اس پر اقبال سے استفسار کیا گیا کہ نیشنل لبرل لیگ سے علیحدگی اور چنتامنی کانفرنس میں شرکت کے متعلق ان کے رویے کا سبب کیا ہے ؟ جواب میں اقبال نے ایک بیان دیا جو زمیندار میں شائع ہوا: پنجاب میں ہندوئوں اور مسلمانوں کی کشیدگی کے باعث جو شرمناک حالات پیدا ہو رہے ہیںاور صوبے کی فضا جیسی مکدّر ہو رہی ہے ۔ اسے کوئی مخلص انسان اچھی نظروں سے نہیں دیکھتا ۔ میں دل سے چاہتا ہوں کہ ہندو اور مسلمان اپنے اختلافات کو دور کر کے ملک میں بھائیوں کی طرح سے رہیں اور بات بات پر ایک دوسرے کا سر نہ پھوڑتے پھریں ۔ میرے بعض احباب نے مجھ سے کہا کہ پنجاب کی مختلف اقوام کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے ایک متحدہ کوشش ضروری ہے جس میں ہر جماعت کے افراد شامل ہوں گے ، میں نے ان سے کہا کہ میرے پیش نظر فی الحال کوئی سیاسی مقصد نہیں ہے، تاہم اخلاقی اعتبار سے اس میں شرکت کرنا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں ۔ چنانچہ میںان کی اس کوشش میں شریک ہوا ۔ لیکن تھوڑی ہی مدت کے بعد معلوم ہوا کہ گوہر مقصود یہاں بھی مفقود ہے اور ملک میں ابھی حصولِ مقصد کے امکانات بہت کم ہیں۔ اس بنا پر میں نے اس جماعت سے استعفا دے دیا۔ اس کے بعد چند روز ہوئے مسٹر چنتامنی کا تار میرے نام موصول ہوا ، جس میں مجھ سے استدعا کی گئی تھی کہ مجوزہ نیشنلسٹ کانفرنس کے داعیوں میں اپنا نام درج کرنے کی اجازت دیجئے ۔ میں نے رسمی طور پر جلسے کا داعی بننا منظور کر لیا اور ان کو اجازت دے دی کہ وہ میری طرف سے دستخط کریں ۔ جس سے میری مراد کسی سیاسی جماعت کی موافقت یا مخالفت نہ تھی ۔ نہ مسٹر چنتامنی کے تار میں ایسے الفاظ تھے، جن سے معلوم ہوتا کہ ان کا جلسہ کسی سیاسی جماعت کی مخالفت کے لیے ہے ۔ اب معلوم ہوا کہ ان کے جلسے کا مقصود بالخاصہ سوراجی جماعت کی مخالفت تھا۔ میں اس امر کا اعلان کر دینا چاہتا ہوں کہ میں اب تک تمام سیاسی جماعتوں سے علیٰحدہ رہا ہوں۔ البتہ میری خواہش یہ رہی ہے اور ہے کہ ہندوستان کی تمام جماعتوں کے تعلقات بہتر ہو جائیں کہ موجودہ فضا ملک کے لیے بالبداہت باعثِ ننگ ہے اور مختلف اقوام کی اخلاقی و معاشرتی زندگی کے لیے نہایت مضرت رساں ہے ۔ کسی سیاسی جماعت سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ ہاں اہلِ ہند کے باہمی تعلقات کی درستی میں ہر مخلص شخص کے ساتھ ہوں ۱۷ ۔ پس ظاہر ہے کہ اقبال اپنے مؤقف پر قائم رہنے کے باوجود ہندوستان میں ہندو اور مسلم اقوام کے درمیان صلح اور امن کے خواہشمند تھے اور اس نصب العین کو حاصل کرنے کے لیے ہر کوشش میں دوسروں کے ساتھ تعاون کرنے پر تیار رہتے تھے۔ مگر ان کو بارہا یہ تجربہ ہوا کہ ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان مصالحت کی کوشش کے پردے میں ہر سیاسی رہنما اپنا یا اپنی قوم کا مفاد سامنے رکھتا تھا اور حقیقی معنوں میں صلح و امن کے لیے کوئی بھی مخلص نہ تھا۔ اسی وجہ سے ایسی تمام کوششیں ناکام ہوتی تھیں۔ ہندو مسلم تصادم کے وجوہ کیا ہیں؟ مذہبی اعتبار سے مسلمانوں کی گائوکشی ہندوئوں کے اشتعال کا سبب بنتی ہے ۔ دوسری طرف نماز کے وقت کسی مسجد کے سامنے ہندووں کا باجا بجانا مسلمانوں کی برہمی کا باعث ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر اتفاق سے ہندو مسلم تہوار ایک ہی تاریخ پر آ جائیں اور خوشی یا غمی کے جلوسوں کا آمنا سامنا ہو جائے تو تصادم یقینی ہے۱۸ ۔اس کے علاوہ اگر کسی بُت ، پیپل کے درخت ، دریا ، تالاب یا کنوئیں کو جو ہندوئوں کے نزدیک مقدس ہے ، مسلمان کا ہاتھ لگ جائے یا کسی نہ کسی طرح اس کی بے حرمتی ہو جائے تو فساد شروع ہو سکتا ہے ۔ اسی طرح اگر مسلمانوں کے مجمع میں سور چھوڑ دیا جائے یا تمباکو کا دھواں کسی سکھ تک جا پہنچے ، یا کسی بھی قسم کا گوشت، خون ، مچھلی ، انڈا پیاز وغیرہ ایک ایسے ہندو کو چھو جائیں جو انہیں نجس خیال کرتا ہو، تو فساد کا آغاز ہو سکتا ہے ۔پھر تبلیغی کارروائی یا ایسی کتب کی اشاعت جن میں کسی قوم کے بانی مذہب کی تذلیل کا پہلو نکلتا ہو یا کسی قوم کی مذہبی کتب کو جلانا ، یا کسی قوم کی مقدس جگہ ، نشان یا عبادت گاہ پر دوسری قوم کا قبضہ کر لینا ،بھی فساد کا موجب بن سکتے ہیں۔ بعض اوقات فریقین میں کوئی نجی تنازع فساد کی شکل اختیار کر لیتا ہے یا کوئی بھی غیر معمولی واقعہ مثلاً سرپٹ بھاگتا ہوا گھوڑا ہی بے اعتمادی کی فضا میں ایسی افواہیں پھیلا سکتا ہے کہ لوگ فوراً اپنی اپنی دکانیں بند کر دیں ، کاروبار رک جائے، بازار سنسان ہونے لگیں اور چھرا گھونپنے کی وارداتیںشروع ہو جائیں ۱۹۔ اقتصادی اعتبار سے ہندو مسلم رقابت جب بھی عداوت کی حد تک پہنچتی ہے تو فساد رونما ہونے لگتے ہیں ۔ بقول جی۔ ٹی ۔ گیرٹ، اگر نقشے پر ان خطوں کاجائزہ لیا جائے جو عموماً فسادات کی زد میں آتے ہیں تو ظاہر ہو گا کہ ان خطوں میں دونوں قومیں مخصوص معاشی گروہوں میں منقسم ہیں۔ مثلاً برصغیر کے شمال مغربی خطے میں ہندووں کی اکثریت ساہوکاروں پر مشتمل ہے، لیکن مسلمان غریب کاشتکار ہیں ۔ اسی طرح شمال مشرقی خطے میں ہندووں کی اکثریت زمینداروں پر مشتمل ہے، مگر مسلمان ان کے مزارع ہیں۔ شہروں میں تاجر ، دکاندار یا مالکان زیادہ تر ہندو ہیں، لیکن دستکار، محنت کش اور مزدور عموماً مسلمان ہوتے ہیں ۲۰ ۔ دونوں قوموں میں ۱۸۵۸ء سے معاشی رقابت نے عداوت کی صورت اختیار کر رکھی ہے اور اس سے صنعت و حرفت ، کاروباری منڈیاں اور سرکاری ملازمتیں سب متاثر ہیں ۲۱ ۔ معاشرتی اعتبار سے ہندو مسلمانوں کو ملیچھ سمجھتے ہیں اور بعض مخصوص حدود کو ملحوظ رکھ کر ہی ان سے میل جول یا کسی قسم کا تعلق قائم ہوتا ہے ۔ دونوں قوموں کے افراد کی اکثریت نہ باہم بیٹھ کر کھا سکتی ہے، نہ پی سکتی ہے اور نہ ان میں باہم ازدواجی تعلقات قائم ہو سکتے ہیں ۔ دونوں مختلف قسم کے لباس پہنتے ہیں۔ بچوں کے نام بھی مختلف رکھتے ہیں اور مختلف عادات و رسوم کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں ، یہاں تک کہ ایک ہی شہر کے مختلف حصوں میں رہتے ہیں ۔ پس ایک دوسرے کے اختلافات کو تسلیم کرتے ہوئے اگر وہ باہم دوستانہ ماحول قائم رکھنے کی کوشش کریں ، تو بھی ان کی وابستگی بنیادی طور پر دو علیٰحدہ اور متحارب معاشرتی گروہوں سے رہے گی ۔ تمدنی اعتبار سے دونوں قوموں کے اختلافات بعض اوقات فساد کا سبب بنتے ہیں۔ ایسے اختلافات کو عموماً تاریخی روایات اُجاگر کرتی ہیں۔ مثلاً ایک قوم کاکسی ایسی تاریخی شخصیت کو خراجِ عقیدت پیش کرنا جو دوسری کی نگاہ میں معتوب ہے، یا ایک قوم کاکسی ایسے مٹے ہوئے نشان یا منہدم عمارت کو از سرِ نو تعمیر کرنا جو اس کے لیے تو باعث فخر ہو، مگر دوسری کے لیے باعثِ اشتعال ، یا کسی تاریخی اہمیت کی عبادت گاہ کی ملکیت پر دونوں قوموں کا بیک وقت دعویٰ کرنا یا کسی ایک قوم کی زبان یا تمدن دوسری پر زبر دستی مسلط کرنا وغیرہ ۔ اسی طرح سیاسی اختلافات بھی بسا اوقات فساد کا باعث ہوتے ہیں ۔ مثلاً ۱۸۹۳ء میں بمبئی میں ہندو مسلم فساد ، ۱۹۰۵ء میں تقسیم بنگال پر فساد ، ۱۹۰۹ء کے انڈین کونسلز ایکٹ کے تحت مسلمانوں کے لیے جدا گانہ نیابت کے اصول کی مخالفت میں فساد ، ۱۹۱۷ء میں شاہ آباد اور آرہ کے فسادات ، ۱۹۱۸ء میں کرتارپور کا فساد ، ۱۹۲۴ء میں متحارب تنظیموں یعنی ہندوئوں کی سنگھٹن اور شدھی اور مسلمانوں کی تبلیغ و تنظیم کے سبب فسادات اور ۱۹۳۱ء میں کانپور اور کشمیر کے فسادات ۔ مولانا محمد علی ، ہند و مسلم تصادم کی نفسیات کا تجزیہ یوں کرتے ہیں: متعصب ہندو محبِ وطن سوراج کے جنگی نعرے سے لیس ہو کر اٹھا ہے ۔ اب وہ مسلمان کو پناہ دینے سے انکاری ہے تاوقتیکہ مسلمان اپنی انفرادیت کو خیر باد کہ کر کلی طور پر ہندو تمدن اختیار نہیں کر لیتا ۔۔۔۔ ایک ایسے قوت پذیر ہندو ازم کے نظارے سے جو مستقبل میں ہندوستان کی حکومت سنبھالنے کا خواب دیکھ رہا ہو اور اپنے قدیم خداوں کو جمہوریت کا لباس پہنا کر ان سے کھیل رہا ہو ، قدامت پسند مسلمان کی آنکھیں چندھیا گئیں۔۔۔۔ جس نے ابھی ابھی اپنے ماضی کی مفلوج گرفت سے نجات حاصل کی تھی۔ اس نے محسوس کیا کہ لڑائی کا نقشہ بدل گیا ہے ۔ ہتھیار علاقائی قومیت و وطنیت ، جمہوریت وغیرہ سب نئے ہیں اور ان کو استعمال کرنے کے طریقے بھی ۔۔۔۔ اسی وجہ سے وہ ڈر کے مارے اپنے خول کے اندر سمٹ گیا اور اس نے مذہبی حبِ وطن کے عقیدے میں پناہ ڈھونڈی۔ متعصب ہندو محب وطن کو اپنے فارمولوں کے انتخاب میں مسلمان پر فوقیت حاصل ہے۔ وہ ہندوستان کے چیمپیئن کے لباس میں آزادی کی راہ پر سینہ تان کر چلتا ہے، مگر مسلمان جو اس سے نسبتاً کم متحرک اور زیادہ بدنصیب ہے ، اپنے زندہ رہنے کے بنیادی حق کو بھی مدافعانہ یا معذرت خواہانہ انداز میں پیش کرتا ہے۔۔۔۔ ہندو ، مسلمان کو قابل توجہ نہیں سمجھتا ، اور مسلمان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ تمام نیشنلسٹ آرزوئیں سراب نہیں تو دھوکا ضرور ہیں۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود بڑے اہتمام سے اس مفروضے کو قائم رکھا جاتا ہے کہ ہماری اغراض مشترک ہیں اور ہندو پریس قومی اتحاد کے متعلق گمراہ کن اصطلاحیں استعمال کرتا ہے۔ گویا تصورات ، مزاج ، احساسات اور نقطہ ہاے نظر میں کسی بنیادی اختلاف کا وجود ہی نہیں۲۲۔ مولانا محمد علی پہلے اہم مسلم سیاسی رہنما تھے جنہوں نے ۱۹۲۳ء میں اعلان کیا کہ ہندوستان کا براعظم ایک جغرافیائی دھوکا ہے ، جس میں کسی قسم کا اتحاد نہیں، ماسوا گمراہ کن اختلاف کے اتحاد کے ، اور یہ کہ ہندو اور مسلم قوموں میں علیٰحدگی کا سبب دراصل مذہب ہے، لہٰذا ہندوستان کے مسائل کی نوعیت بین الاقوامی ہے۔ علی برادران کی جیل سے رہائی پر ہندوستان کی سیاسی صورت حال بدل چکی تھی ۔ تحریک ترکِ موالات کی ناکامی کے سبب کانگرس کا وقار ختم ہو چکا تھا اور سیاسی میدان میں سوراج پارٹی اور ہندو مہا سبھا سبقت لے جا چکی تھیں۔ پنڈت موتی لعل نہرو اور سی۔ آر۔ داس کی قیادت میں سوراج پارٹی یہ طے کر چکی تھی کہ گاندھی اور ان کے حامیوں کے خیال کے مطابق ترکِ موالات کی تحریک جاری رکھنے کی بجائے قانون ساز اسمبلیوں میں داخل ہو کر حکومت کی پالیسیوں کی مخالفت کی جائے اور یوں دستور کو بروئے کار لانے میں رکاوٹ ڈالی جائے ۔ ترکی میں تنسیخِ خلافت کے بعد مسلم سیاسی رہنمائوں کی تمام تر توجہ بھی ہندوستان کے سیاسی مسائل کی طرف مبذول ہو چکی تھی ۔ ۳۰ مارچ ۱۹۲۳ء کو انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں اقبال نے اپنی معروف نظم ’’طلوع اسلام‘‘ پڑھی ۔ یہ نظم ترک قوم پرست مجاہدین کی اپنی آزادی کے جہاد میں فتح کے موقع پر کہی گئی تھی، جب انہوں نے سمرنا سے یونانیوں کو نکال کر اور قسطنطنیہ پر قبضہ کر کے اپنی ہستی کو بہ نوک شمشیر تسلیم کرایا تھا ۔ اسی بنا پر اس نظم کا لہجہ ابتداء ہی سے اُمید افزا اور مسلمانوں کے لیے روشن و درخشاں مستقبل کا پیغام لیے ہوئے تھا ۔ عبدالمجید سالک تحریر کرتے ہیں: حقیقت یہ ہے کہ ’’خضر راہ‘‘ اور ’’طلوع اسلام‘‘ نے اس زمانے میں مسلمانوں کو بہت بڑا سہارا دیا۔ اور ان کے جذبات و خیالات کو ایک طوفانی دور کے بعد صراطِ مستقیم پر لگانے میں بڑا کام کیا۲۳۔ مئی ۱۹۲۳ء میں ’’پیام مشرق‘‘ پہلی بار شائع ہوئی ۔ اشاعت سے چند برس پیشتر ’’پیامِ مشرق‘‘ کی تالیف کے متعلق اقبال نے سید سلیمان ندوی کو تحریر کیا: فی الحال میں ایک مغربی شاعر کے دیوان کا جواب لکھ رہا ہوں ، جس کا تقریباًنصف حصہ لکھا جا چکا ہے ۔۔۔۔ شاعری میں لٹریچر بحیثیت لٹریچر کے کبھی میرا مطمحِ نظر نہیں رہا کہ فن کی باریکیوں کی طرف توجہ کرنے کے لیے وقت نہیں ۔ مقصود صرف یہ ہے کہ خیالات میں انقلاب پیدا ہو اور بس اس بات کو مد نظر رکھ کر جن خیالات کو مفید سمجھتا ہوں ، ان کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ کیا عجب کہ آئندہ نسلیں مجھے شاعر تصور نہ کریں ۔ اس واسطے کہ آرٹ (فن) غایت درجہ کی جان کاہی چاہتا ہے اور یہ بات موجودہ حالات میں میرے لیے ممکن نہیں۔ جرمنی کے دو بڑے شاعر بیرسٹر تھے، یعنی گوئٹے اور اوہلنڈ ۔ گوئٹے تھوڑے دن پر یکٹس کے بعد ویمر کی ریاست کا تعلیمی مشیر بن گیا اور اس طرح فن کی باریکیوں کی طرف توجہ کرنے کا اُسے پورا موقع مل گیا ۔ اوہلنڈ تمام عمر مقدمات پر بحث کرتا رہا ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت تھوڑی نظمیں لکھ سکا اور وہ کمال پورے طور پر نشو ونما نہ پا سکا جو اس کی فطرت میں ودیعت کیا گیا تھا ۲۴ ۔ ’’پیام مشرق‘‘ کی تصنیف کے دوران میں اقبال ۔ گرامی کے مشوروں سے بھی مستفید ہوئے اس کتاب کا مسودہ چودہری محمد حسین نے اشاعت کے لیے مرتب کیا۔ کتاب کی اشاعت سے چند ماہ پیشتر چوہدری محمد حسین نے اس پر ایک نہایت مدّلل تبصرہ لکھا جو پہلے ’’ہزار داستان‘‘ اور پھر ’’زمیندار ‘‘ میں بالاقساط شائع ہوا ۲۵۔ ’’پیام مشرق‘‘ کو امیر امان اللہ خان فرمانرواے افغانستان کے نام سے منسوب کیا گیا۔کیونکہ بقولِ اقبال : اس دنیا میں اور بالخصوص ممالک مشرق میں ہر ایسی کوشش ، جس کا مقصد افراد و قوم کی نگاہ کو جغرافیائی حدود سے بالاتر کر کے ان میں ایک صحیح اور قومی انسانی سیرت کی تجدید یا تولید ہو، قابل احترام ہے۔ اسی بنا پر میں نے ان چند اوراق کو اعلیٰ حضرت فرمانرواے افغانستان کے نام نامی سے منسوب کیا ہے، کہ وہ اپنی فطری ذہانت و فطانت سے اس نکتے سے بخوبی آگاہ معلوم ہوتے ہیں اور افغانوں کی تربیت انہیں خاص طور پر مدّ نظر ہے۲۶۔ تصنیف کی غرض و غایت کے متعلق اقبال نے تحریر کیا : ’’پیامِ مشرق‘‘ کی تصنیف کا محرّک جرمن حکیم حیات گوئٹے کا مغربی دیوان ہے ۔۔۔۔ ’’پیامِ مشرق‘‘ کے متعلق جو ’مغربی دیوان ‘ سے سو سال بعد لکھا گیا ہے مجھے عرض کرنے کی ضرورت نہیں،ناظرین خود اندازہ کر لیں گے کہ اس کا مدعا زیادہ تر ان اخلاقی ، مذہبی اور ملّی حقایق کو پیش نظر لانا ہے جن کا تعلق افراد و اقوام کی باطنی تربیت سے ہے۔ اس سے سو سال پیشتر کی جرمنی اور مشرق کی موجودہ حالت میں کچھ نہ کچھ مماثلت ضرور ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقوامِ عالم کا باطنی اضطراب جس کی اہمیت کا صحیح اندازہ ہم محض اس لیے نہیں لگا سکتے کہ خود اس اضطراب سے متاثر ہیں ، ایک بہت بڑے روحانی اور تمدنی انقلاب کا پیش خیمہ ہے ۔ یورپ کی جنگِ عظیم ایک قیامت تھی ، جس نے پرانی دنیا کے نظام کو قریباً ہر پہلو سے فنا کر دیا ہے اور اب تہذیب و تمدن کی خاکستر سے فطرتِ زندگی کی گہرائیوں میں ایک نیا آدم اور اس کے رہنے کے لیے ایک نئی دنیا تعمیر کر رہی ہے، جس کا ایک دھندلا سا خاکہ ہمیں حکیم آئن سٹائن اور برگساں کی تصانیف میں ملتا ہے ۔۔۔ مشرق اور بالخصوص اسلامی مشرق نے صدیوں کی مسلسل نیندکے بعد آنکھ کھولی ہے ۔ مگر اقوامِ مشرق کو یہ محسوس کر لینا چاہیے کہ زندگی اپنے حوالی میں کسی قسم کا انقلاب پیدا نہیں کر سکتی ، جب تک کہ پہلے اس کی اندرونی گہرائیوں میں انقلاب نہ ہو اور کوئی نئی دنیا خارجی وجود اختیار نہیں کر سکتی ، جب تک کہ اس کا وجود پہلے انسانوں کے ضمیر میں متشکل نہ ہو ۲۷ ۔ کتاب میں ’’نقشِ فرنگ‘‘ (یعنی دنیاے فرنگ میں کیا ہو رہا ہے) کے بارے میں اقبال نے سرمایہ و محنت کی کشمکش کے متعلق چند نظمیں بعنوان ’’پیامِ صحبتِ رفتگان‘‘ (در عالمِ بالا) ’’محاورہ مابین حکیم فرنسوی اگسٹس کومٹ و مردِ مزدور ‘‘، موسیولینن و قیصر ولیم ، ’’قسمت نامہ ‘‘ سرمایہ دار و مزدور ‘‘ اور ’’نوائے مزدور‘‘ شامل کیں۔ اقبال کی ان نظموں اور ’’خضرِ راہ‘‘ کا حوالہ دے کر پنجاب کے چند اشتراکیت کے حامیوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اقبال اشتراکیت کے مبلغِ اعلیٰ ہیں ۔ اس زمانے میں اشتراکیت کی تبلیغ کے لیے ایک رسالہ انقلاب بھی شائع ہوتا تھا ، جس کی ادارت کے فرائض کچھ مدت تک شمس الدین حسن نے ادا کیے ، لیکن رسالہ مالی خسارے کی وجہ سے بند ہو گیا۔ شمس الدین حسن ایک سرگرم اشتراکی تھے ۔ انہوں نے اپنے ایک مضمون میں جو ’’زمیندار ‘‘ ۲۳ جون ۱۹۲۳ء میں شائع ہوا۔ تحریر کیا: بالشویک نظام حکومت کارل مارکس کے فلسفہ سیاست کا لبِ لباب ہے ؛ اور کارل مارکس کے فلسفہ کو عام فہم زبان میں سوشلزم اور کمیونزم کہا جاتا ہے ۔ ان حالات میں اگر کوئی تھوڑی سی عقل کا مالک بھی سر محمد اقبال کی ’’خضر راہ‘‘ اور ’’پیام مشرق‘‘ ، کو بغور دیکھے تو فوراً اس نتیجے پر پہنچے گا کہ علامہ اقبال یقینا ایک اشتراکی ہی نہیں بلکہ اشتراکیت کے مبلغِ اعلیٰ بھی ہیں ۔ پیام مشرق ‘ میں ’قسمت نامہ ‘ سرمایہ دار و مزدور اور ’نواے مزدور‘ کے عنوان سے جو مختصر سی نظمیں لکھی ہیں ، ان سے قطع نظر کر کے صفحہ ۱۵۶ کی غزل کا مطلع ملاحظہ ہو : تیر و سنان و خنجر و شمشیرم آرزو ست با من میا کہ مسلکِ شبیرم آرزو ست کیا ایسے اشعار کی موجودگی میں کسی کو شک ہو سکتا ہے کہ علامہ اقبال ایک انتہائی خیالات رکھنے والے اشتراکی نہیں ہیں ۲۸ ۔ اقبال کی نظر سے یہ مضمون یا اخبار نہ گزرا تھا ۔ انہیں کسی نے اطلاع دی کہ ان سے بالشویک خیالات منسوب کیے گئے ہیں۔ انہوں نے بلا تاخیر اس کی تردید میں ۲۴ جون ۱۹۲۳ء کے ’’زمیندار‘‘ میں اپنا خط شائع کرایا ، جس میں تحریر کیا: کسی صاحب نے ۔۔۔۔ میری طرف بالشویک خیالات منسوب کیے ہیں چونکہ بالشویک خیالات رکھنا میرے نزدیک دائرہ اسلام سے خارج ہو جانے کے مترادف ہے ، اس واسطے اس تحریر کی تردید میرا فرض ہے ۔ میں مسلمان ہوں۔ میرا عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ دلایل و براہین پر مبنی ہے کہ انسانی جماعتوں کے اقتصادی امراض کا بہترین علاج قرآن نے تجویز کیا ہے اس میں شک نہیں کہ سرمایہ داری کی قوت جب حد اعتدال سے تجاوز کر جائے تو دنیا کے لیے ایک قسم کی لعنت ہے، لیکن دنیا کو اس کے مضر اثرات سے نجات دلانے کا طریق یہ نہیں کہ معاشی نظام سے اس قوت کو خارج کر دیا جائے ، جیسا کہ بالشویک تجویز کرتے ہیں۔ قرآنِ کریم نے اس قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھنے کے لیے قانون میراث ، حرمتِ ربا اور زکوۃ وغیرہ کا نظام تجویز کیا ہے اور فطرتِ انسانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہی طریق قابلِ عمل بھی ہے۔ روسی بالشوزم یورپ کی ناعاقبت اندیش اور خود غرض سرمایہ داری کے خلاف ایک زبردست ردِّ عمل ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغرب کی سرمایہ داری اور روسی بالشوزم دونوں افراط و تفریط کا نتیجہ ہیں۔ اعتدال کی راہ وہی ہے جو قرآن نے ہم کو بتائی ہے اور جس کا میں نے اوپر اشارۃً ذکر کیا ہے ۔ شریعت حقۂ اسلامیہ کا مقصود یہ ہے کہ سرمایہ داری کی بنا پر ایک جماعت دوسری جماعت کو مغلوب نہ کر سکے اور اس مدعا کے حصول کے لیے میرے عقیدے کی رو سے وہی راہ آسان اور قابل عمل ہے جس کا انکشاف شارح علیہ السلام نے کیا ہے ۔ اسلام سرمایہ کی قوت کو معاشی نظام سے خارج نہیں کرتا بلکہ فطرت انسانی پر ایک عمیق نظر ڈالتے ہوئے اسے قائم رکھتا ہے اور ہمارے لیے ایک ایسا معاشی نظام تجویز کرتاہے جس پر عمل پیرا ہونے سے یہ قوت کبھی اپنے مناسب حدود سے تجاوز نہیں کر سکتی ۔ مجھے افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کے اقتصادی پہلو کو مطالعہ نہیں کیا۔ ورنہ ان کو معلوم ہوتا کہ اس خاص اعتبار سے اسلام کتنی بڑی نعمت ہے۔ میرا عقیدہ ہے فاصبحتم بنعمتہٖ اخواناً،میں اسی نعمت کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ کسی قوم کے افراد صحیح معنوں میں ایک دوسرے کے اخوان نہیں ہو سکتے جب تک کہ وہ ہر پہلو سے ایک دوسرے کے ساتھ مساوات نہ رکھتے ہوں اور اس مساوات کا حصول بغیر ایک ایسے سوشل نظام کے ممکن نہیں جس کا مقصود سرمایہ داری کی قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھنا ہے۔ یورپ اس نکتے کو نظر انداز کر کے آج آلام و مصائب کا شکار ہے۔ میری دلی آرزو ہے کہ بنی نوع انسان کی تمام قومیں اپنے اپنے ممالک میں ایسے قوانین وضع کریں جن کا مقصود سرمایہ کی قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھ کر مذکورہ بالا مساوات کی تخلیق و تولید ہو اور مجھے یقین ہے کہ خود روسی قوم بھی اپنے موجودہ نظام کے نقائص تجربے سے معلوم کر کے کسی ایسے نظام کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہو جائے گی جس کے اصولِ اساسی یا تو خالص اسلامی ہوں گے یا ان سے ملتے جلتے ہوں گے ۔ موجودہ صورت میں روسیوں کا اقتصادی نصب العین خواہ کیسا ہی محمود کیوں نہ ہو، ان کے طریق عمل سے کسی مسلمان کو ہمدردی نہیں ہو سکتی ۔ ہندوستان اور دیگر ممالک کے مسلمان جو یورپ کی پولٹیکل ایکانمی پڑھ کر مغربی خیالات سے فوراً متاثر ہو جاتے ہیں ، ان کے لیے لازم ہے کہ اس زمانے میں قرآنِ کریم کی اقتصادی تعلیم پر نظرِ غائر ڈالیں ۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی تمام مشکلات کا حل اس کتاب میں پائیں گے ۔ لاہور کی لیبر یونین کے مسلمان ممبر بالخصوص اس طرف توجہ کریں ۔ مجھے ان کے اغراض و مقاصد کے ساتھ دلی ہمدردی ہے مگر مجھے امید ہے کہ وہ کوئی ایسا طریقِ عمل یا نصب العین اختیار نہ کریں گے جو قرآنی تعلیم کے منافی ہو ۲۹ ۔ ’’زمیندار‘‘ میں یہ خط اقبال کی پہلی تحریر ہے جس کے مطالعے سے ان کے معاشی تصورات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔ بعد میں اقبال نے ’’جاوید نامہ ‘‘ یا اپنی دیگر تحریروں اور تقریروں کے ذریعے انہی خیالات کی وضاحت کی۔ ان کا جائزہ مناسب مقام پر لیا جائے گا ۔ بہرحال اس تحریر سے کمیونسٹ عناصر اقبال سے منحرف ہو گئے اور انہیں ایک رجعت پسند مسلمان سمجھتے ہوئے ان کی کردار کشی کی مہم میں بڑی شدو مد سے حصہ لینے لگے۔ نئی دستوری اصلاحات کے تحت پنجاب میں جب ۱۹۲۳ء کے انتخابات کا وقت آیا تو اقبال کے احباب نے اصرار کیا ، عوام نے وفود بھیجے اور اخبارات نے اپیلیں شائع کیں کہ لاہور کونسل کی رکنیت کے لیے اقبال امیدوار کھڑے ہو جائیں ، لیکن چونکہ اسی حلقے سے ان کے ایک دوست میاں عبدالعزیز بیرسٹر کی امیدواری کا اعلان ہو چکا تھا ، اس لیے اقبال ان کے مقابلے میں کھڑے نہ ہوئے اور محمد نیاز الدین خان کو تحریر کیا: میں الیکشن کے ہنگامے میں نہ پڑوں گا۔ لاہور کے لوگ مجبور کرتے ہیں اور بہت سے ڈیپوٹیشن ان کے آ چکے ہیں، مگر میاں عبدالعزیز سے مقابلہ کرنا میں نہیں چاہتا ۔ ان سے دیرینہ تعلقات ہیں۔ اگرچہ مقابلہ کے بعد انتخاب ہو جانا قریباً یقینی ہے، تاہم یہ بات میرے نزدیک مروّت کے خلاف ہے کہ ایک موہومی دنیوی فائدے کی خاطر دیرینہ تعلقات کو نظر انداز کر دوں ۳۰ ۔ ۲۳؍ اکتوبر ۱۹۲۳ء کو لارڈ ریڈنگ وائسراے ہند پنجاب کے نئے ہائی کورٹ کے افتتاح کے لیے لاہور آیا۔ اس موقع پر ہائی کورٹ کے لان میں ججوں ، وکیلوں اور صوبے کے احکام کا ایک بہت بڑا اجتماع ہوا۔ سر شادی لعل چیف جسٹس نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا اور وائسراے نے اپنی جوابی تقریر میں اقبال کا ذکر تعریفی انداز میں کیا ، جس سے بقول اقبال سب کو تعجب ہوا، کیونکہ انہیں اس کی توقع نہ تھی ۳۱ ۔ ۱۹؍مئی ۱۹۲۴ء کو اقبال انجمن حمایت اسلام کے صدر منتخب ہوئے ، لیکن ۲۸؍ جون۱۹۲۴ء کو مستعفی ہو گئے ۔ کیونکہ کونسل کے اراکین میں اختلاف تھا اور انجمن کی عام حالت اچھی نہ تھی ۔ بعض ارکان ذاتی اغراض سے اس میں داخل ہوئے تھے اور ان کے نزدیک انجمن ان اغراض کے حصول کا ذریعہ تھی ۳۲ ۔ ستمبر ۱۹۲۴ء میں ’’بانگ درا‘‘ شائع ہوئی ۔ اقبال کے چند احباب کا پرانا تقاضا تھا کہ وہ اپنے اردو کلام کا مجموعہ چھاپیں، لیکن اس کی ترتیب میں التوا اس لیے ہوتا چلا گیا کہ اقبال کے نزدیک تمام اردو نظمیں نظر ثانی کی محتاج تھیں اور ان کی عدیم الفرصتی کے پیش نظر کام پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکتا تھا ۔ اس ضمن میں انہوں نے سید سلیمان ندوی کو تحریر کیا کہ مجموعہ اب تک مرتب نہ ہو سکنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ ان تمام نظموں پر نظرِ ثانی کرنا چاہتا ہوں، جس کے لیے فرصت نہیں ملتی ۳۳۔ چوہدری محمد حسین کا اصرار تھا کہ اقبال اپنے اردو کلام پر نظر ثانی کا کام ختم کریں اور مجموعہ جلد چھاپیں تاکہ کوئی اور اسے مرتب کر کے شائع نہ کر دے۔ ابھی اقبال ’’بانگ درا‘‘ ترتیب دے رہے تھے کہ محمد عبدالرزاق نے ان کی اجازت کے بغیر مختلف رسالوں اور اخباروں میں سے ان کا کلام اکٹھا کر کے ’’کلیات اقبال‘‘ کے نام سے حیدر آباد دکن میں شائع کر دیا ۔ چونکہ اقبال نے نظر ثانی کرتے وقت اپنی اکثر نظموں میں اصلاح و ترمیم کی تھی یا بعض کو ناقص سمجھ کر رد کر دیا تھا اور اپنے ذہنی ارتقا کے مراحل کو ملحوظ رکھتے ہوئے کلام کا انتخاب کر رہے تھے، اس لیے وہ اس جسارت پر سخت برہم ہوئے۔ بہرحال سر اکبر حیدری کی مداخلت سے طے یہ پایا کہ مرتب اقبال کو ایک ہزار روپیہ بطور معاوضہ ادا کر دے اور کتاب کی فروخت ریاست حیدر آباد تک محدود رکھی جائے۔ اسی طرح اقبال کے دوست مولوی احمد دین ایڈووکیٹ نے بھی ۱۹۲۴ء میں ’’اقبال ‘‘ نامی کتاب میں ان کے حالات کے ساتھ کلام کا مجموعہ شائع کر دیا ، لیکن جب معلوم ہوا کہ اقبال خود اردو کلام کا مجموعہ مرتب کر رہے ہیں تو بے حد نادم ہوئے اور اپنے مجموعے کو نذر آتش کر دیا۳۴ ۔’’بانگِ درا‘‘ کی ترتیب میں چوہدری محمد حسین نے اقبال کی مدد کی ۔ دیباچہ سر عبدالقادر نے تحریر کیا ۔ کتاب شائع ہوتے ہی اتنی مقبول ہوئی کہ ہاتھوں ہاتھ بک گئی ۔ سوراج پارٹی کے حامی انتخابات میں حصہ لے کر قانون ساز اسمبلی اور صوبائی کونسلوں میں داخل ہوئے اور نئے دستور کے عملی نفاذ میں بالخصوص بنگال اور سی پی میں کامیابی کے ساتھ رکاوٹیں ڈالنے لگے ۔ بنگال میں سوراجیوں کی کامیابی کا سبب مسلمانوں کا تعاون تھا جو سی۔ آر۔ داس نے ان کے ساتھ ایک معاہدے کے ذریعے حاصل کیا تھا۔ سوراجیوں نے پنڈت موتی لعل نہرو کی قیادت میں مسلمانوں کو مجبور کیا کہ وہ مخلوط انتخابات کا اصول قبول کر لیں اور اس کے معاوضے میںبنگال اور پنجاب کے صوبوں میں ان کی اکثریت کو بروے کار لانے کا موقع دیا جائے گا ۔ بہرحال ہندووں کی دیگر سیاسی پارٹیوں کے برعکس ، ہندو مہاسبھا نے ہمیشہ مسلمانوں کی علیٰحدہ حیثیت کو تسلیم کیا ۔ اس جماعت نے کانگرس پر ۱۹۲۴ء میں فوقیت حاصل کی تھی ، کیونکہ اس کے نزدیک کانگرس ہندو مفادات کا تحفظ کرنے کے قابل نہ رہی تھی ۔ ہندو مہاسبھائیوں نے سی۔آر۔داس کے بنگالی مسلمانوں کے ساتھ معاہدے کی مخالفت کی ۔ بالآخر ہندو مہاسبھا نے پنڈت مدن موہن مالویہ اور لاجپت رائے کی قیادت میں کونسلوں کے انتخابات میں کانگرس کو شکست دے کر ہندوستان کی سیاست میں ایک اہم مقام حاصل کر لیا ۔ پنجاب میں بیشتر ہندو سیاسی رہنمائوں کی وابستگی ہندو سبھا کے ساتھ تھی ۔ اسی دور میں پنڈت مدن موہن مالویہ کے زیرِ اثر ہندو مہا سبھا نے سنگھٹن کی تحریک شروع کی جس کا مقصد ہندووں میں عسکری تربیت کو فروغ دینا تھا۔ ساتھ ہی شُدھی کی تحریک چلائی گئی جس کے ذریعے معاشی طور پر پسماندہ مسلمانوں کو ہندومت میں داخل کرنا تھا۔ لالہ ہردیال کے الفاظ میں ہندو مہاسبھا کا نیا پروگرام یہ تھا کہ: پنجاب اور ہندوستان میں ہندو قوم کے مستقبل کا انحصار ان چار مقاصد کی تحصیل پر ہے ۔ اوّل ، ہندو سنگھٹن (یعنی ہندو عسکریت) ، دوم ، ہندو راج، سوم، ہندوستان میں تمام مسلمانوں کی شُدھی اور چہارم ، سرحدی علاقوں اور افغانستان پر فتح حاصل کرنے کے بعد وہاں کے مسلمانوں کی شُدھی ۔ جب تک ہندو قوم ان چار مقاصد کو حاصل نہیں کر لیتی ، ہمارے بیٹوں اور پوتوں کی سلامتی خطرے میں رہے گی اور ہندو نسل کا تحفظ ناممکن ہو جائے گا ۔ ہندو قوم کی تاریخ ایک ہے اور اس کے مختلف اداروں میں یک جہتی ہے، لیکن مسلمان اور عیسائی ، ہندو تمدن کے دائرے سے باہر ہیں ، کیونکہ ان کے مذاہب غیر ملکی ہیں اور ان کا تعلق فارسی ، عربی یا یورپین اداروں سے ہے۔لہٰذا جس طرح اپنی آنکھ میں پڑی ہوئی کسی چیز کو نکال باہر کرنا ضروری ہے ۔ اسی طرح ان دونوں مذہبوں کے پیروکاروں کی شُدھی لازمی ہے ۔۔۔۔ اگر ہندو حقیقی معنوں میں اپنا تحفظ کرنا چاہتے ہیں تو افغانستان اور سرحدی علاقوں پر قبضہ کر کے وہاں کے کوہستانی قبائل کو ہندو مت میں داخل کرنا اشد ضروری ہے۳۵۔ بعد میں ہندو مہاسبھا کا ایک اجلاس کلکتے میں ہوا جس میں ہندووں کے تمام فرقوں میں اتحاد اور ملک بھر میں ہندی زبان کے اجرا کے متعلق قرار دادیں پاس کی گئیں ۳۶ ۔ مسلمانوں نے ہندو سبھا کی سنگھٹن اور شُدھی کی تحریکوں کو شبہے کی نگاہ سے دیکھا اور رد عمل کے طور پر ڈاکٹر کچلو اور میر غلام بھیک نیرنگ نے تبلیغ اور تنظیم کی تحریکیں شروع کیں۔ تبلیغ کا مقصد معاشی طور پر پسماندہ مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانا تھا اور تنظیم کا مقصد سنگھٹن کا مقابلہ کرنا اور غریب مسلمانوں کی شُدھی کو روکنا تھا ۳۷ ۔ اس دوران میں کچھ عرصے سے خلافت کانفرنس نے مسلم لیگ کی اہمیت کو ختم کر دیا تھا ، لیکن بالآخر ۱۹۲۴ء میں محمد علی جناح کی کوششوں سے مسلم لیگ کا احیاء ہوا اور اس کا اجلاس بمبئی میں رضا علی کی زیرِ صدارت ہوا ۔ اجلاس میں ہندو مہاسبھا کی کارروائیوں کی مذمت کی گئی اور اسے ہندوئوں اور مسلمانوں میں نفرت کا بیج بونے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۳۸ ۔ سوراجیوں کی یہ شرط کہ اگر مسلمان جداگانہ نیابت کا اُصول ترک کر دیں تو پنجاب اور بنگال میں ان کی اکثریت کو بروئے کار لانے کا موقع دیا جائے گا، مسلمانوں کے لیے اس وجہ سے ناقابل قبول تھی کہ سوراج پارٹی کی باگ ڈور زیادہ تر ہندو مہاسبھائی قائدین کے ہاتھ میں تھی اور جداگانہ نیابت کا اصول چھوڑنے کی صورت میں انہیں اندیشہ تھا کہ مسلمانوں کی معاشی پس ماندگی کے سبب ہندو ایسے مسلم امیدواروں کو اپنے اکثریتی حلقوں میں انتخابات میںکامیاب کرا سکیں گے جو ان کی حمایت کرتے ہوں اور جو مسلم امیدوار ایسا کرنے پر رضا مند نہ ہوں ، انہیں انتخابات میں کامیاب نہ ہونے دیں گے ۔ایسی صورت میں اگر پنجاب اور بنگال میں ان کی اکثریت بروے کار لائی بھی جائے تو بھی اس کا ہندوئوں کے ہاتھ آلۂ کار بننا لازمی تھا۔ اقبال کی دونوں بیویاں سردار بیگم اور مختار بیگم ۱۹۱۳ء سے لے کر ۱۹۲۳ء تک اولاد سے محروم رہیں ، مگر عجیب اتفاق ہے کہ ۱۹۲۴ء کے اوائل میں دونوں قریباً ایک ہی وقت امید سے ہوئیں۔ دونوں کی آپس میں بے حد محبت تھی۔ اس لیے طے پایا کہ دونوں اپنی اپنی اولاد کا تبادلہ کر لیں گی اور ایک کی اولاد دوسری پالے گی ۔ اقبال کو جب معلوم ہوا کہ ان کی دونوں بیگمات امید سے ہیں تو ۱۹۲۴ء کی گرمیوں میں شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی ؒ کے مزار پر سرہند شریف پہنچے اور دعا کی کہ اگر خدا تعالیٰ انہیں اولاد نرینہ سے نوازے تو پھر اسے احیاے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت اسی طرح انجام دینے کی توفیق عطا کرے جس طرح شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی ؒ کو عطا کی تھی۔ اقبال اپنے محبوب صوفیہ کے مزاروں پر اکثر حاضری دیتے تھے اور علماء و مشائخ کے طبقے میںجس کسی کی بھی شہرت سنتے ، اس کی خدمت میں حاضر ہو کر استفادہ کرتے ۔ ان کے مہاراجہ کشن پرشاد کے نام چند خطوط سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض بزرگ ہستیوں یا مجذوبوں کے متعلق سن کر ملاقات کے شوق میں ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اسی طرح ایک دن لاہور سے چند میل کے فاصلے پر قصبہ شرق پور میں ایک نہایت منقی اور پرہیز گار بزرگ میاں شیر محمد کے متعلق سنا اور ان کی خدمت میں پہنچے ، میاں شیر محمد ہمیشہ احترام شریعت پر اصرار کرتے تھے اور جو کوئی بھی انہیں ملنے آتا اسے ڈاڑھی رکھنے کی سخت تاکید کرتے ۔ جب اقبال انہیں ملے تو وہ مسجد میں بیٹھے تھے ۔ پوچھا ؛ کیسے آئے ہو؟ جواب دیا: میرے لیے دعا کیجیے ۔ فرمایا ؛ تم ڈاڑھی منڈاتے ہو، میں تمہارے لیے دعا نہیں کروں گا۔ اقبال یہ سن کر اٹھے اور مسجد سے نکل کر تانگوں کے اڈے کی طرف چل دئیے اسی اثنا میں میاں شیر محمد کے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے کسی نے کہہ دیا کہ یہ اقبال تھے۔ یہ سُن کر میاں شیرمحمد کی عجیب حالت ہوئی ۔ عبدالمجید سالک تحریر کرتے ہیں؛ مسجد سے نکل کر ننگے پائوں اڈے کی طرف دوڑے ، علامہ تانگے پر سوار ہو ہی رہے تھے کہ یہ آن پہنچے ، بے حد معذرت کی اور کہا کہ میں عام لوگوں کو ڈاڑھی رکھنے کی تاکید کرتا رہتا ہوں، لیکن میرے نزدیک آپ جیسے شخص پر جس نے لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کے قلوب میں ایمان و عمل کے چراغ روشن کر دیے ہیں ۔ ڈاڑھی کے معاملے میں سختی کرنا مناسب نہیں۔ اس کے بعد علامہ کے لیے دعا کی اور علامہ مسرور و مطمئن واپس لاہور آئے۳۹۔ بہرحال اقبال کے اہلِ دل مشائخ سے ملاقات کے شوق سے ظاہر ہے کہ وہ کسی ایسی ہستی کی تلاش میں تھے جو ان پر ایک ہی نگاہ ڈال کر ان کی روحانی تکمیل کر دے، جیسے خواجہ باقی باللہ نے شیخ احمد سرہندی کو خلوت میں لے جا کر ذکرِ قلبی کی تلقین کی تھی اور ان کی توجہ سے اسی وقت ذکرِ قلبی جاری ہو گیا اور شیخ احمد سرہندی نے ایسی حلاوت محسوس کی جو آناً فاناً ترقی کرنے لگی ، جس کے ذریعے انہوں نے منازل سلوک طے کیں ، ایک نئی نوعیت و طرز سے احیائے دین کا کام مکمل کیا ، طریقت کو شریعت کے تابع بنایا اور وسائل کو مقاصد تک پہنچایا۴۰ ، لیکن اقبال کو اپنی جستجو میںکامیابی نہ ہوئی۔ ۵؍اکتوبر ۱۹۲۴ء کو رات ساڑھے نو بجے راقم سیالکوٹ میں سردار بیگم کے بطن سے پیدا ہوا۔ شیخ نور محمد نے کان میں اذان دی اور اپنے بڑے پوتے آفتاب کی نسبت سے راقم کانام قمر الاسلام تجویز کیا ، لیکن اقبال کو یہ نام پسند نہ آیا اور پہلے سے اپنے سوچے ہوئے نام جاوید کو ترجیح دی ۔ لہٰذا راقم کا نام جاوید رکھا گیا ۴۱ ۔ انہی دنوں مختار بیگم بچے کی پیدائش کے لیے لدھیانے اپنے میکے گئی ہوئی تھیں ۔ اقبال لاہور ہی میں تھے اور اعجاز احمد ان کے پاس کسی کام کے سلسلے میں آئے ہوئے تھے ۔ توقع تھی کہ اکتوبر کے آخر میں لدھیانے سے بھی خوشی کی خبر آئے گی ، لیکن لدھیانے میں مختار بیگم کو زچگی کی حالت میںنمونیہ ہو گیا اور ان کی تشویش ناک علالت کی اطلاع لاہور پہنچی ۔ اقبال بے حد متفکر ہوئے اور ۱۹ ؍ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو افراتفری کے عالم میں اعجاز احمد کو ساتھ لے کر لدھیانہ پہنچے ، مگر مختار بیگم ۲۱ ؍ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو فوت ہو گئیں ۔ فقیر سید وحیدالدین اعجاز احمد کی زبانی تحریر کرتے ہیں: نمونیہ نے چچی مختار کو سخت کمزور کر دیا تھا اور وہ وضع حمل کی زحمت برداشت کرنے کے قابل نہ رہی تھیں ۔ اس پر ستم یہ کہ دردِ زہ بند ہو گیا جو بڑی خراب علامت تھی ، آخر چچا جان نے ڈاکٹروں سے کہا کہ وہ جہاں تک ممکن ہو زچہ کی جان بچانے کی کوشش کریں اور بچے کا خیال نہ کریں ، لیکن ڈاکٹروں کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی اور اس نیک بی بی نے جان دے دی۔ وفات سے پندرہ منٹ پہلے چچا جان نے ان کو دیکھا اور حال پوچھا تو انہوںنے خدا کا شکر ادا کیا اور کہا کہ اچھی ہوں، حالانکہ اس وقت ان کا وقت بالکل قریب تھا اور ان کو بھی یہ بات معلوم تھی ۔ اس درد ناک وفات نے چچا جان کے قلب پر بڑا اثر کیا۔ ان کے کرب اور بے چینی کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی ۔ وفات کے دوسرے دن لدھیانہ سے میرے ابا جان کو لکھا؛ کل آپ کی خدمت میں تار دے چکا ہوں ۔ تقدیر الٰہی کا مقابلہ تدبیر انسانی سے نہیں ہو سکتا ۔ مرحومہ کی موت کا منظر نہایت درد انگیز تھا ۔ خدا تعالیٰ اس کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے بہترین ڈاکٹروں کا علاج تھا ، مگر اللہ کے علم میں مرحومہ کی زندگی کے دن پورے ہو چکے تھے۔ درد کی حالت میں اس کی حالت اس قدر بے چارگی اور بے بسی کی تھی کہ میرے لیے اس کی طرف نگاہ کرنا بھی مشکل تھا اور میرا قلب سخت رقیق ہو گیا مزید لکھا : ایک معمولی انسان کو دنیا میں لانے کے لیے، جو پچاس ساٹھ سال سے زیادہ اس دارفانی میں نہیں ٹھہرتا نیچر اس قدر تکلیف ایک ضعیف عورت کو دیتی ہے ۔ اس خط میں سردار چچی کے نام پیغام تھا کہ انہیںمرحومہ کی خالہ زاد بہنوں کو ہمدردی کا خط لکھنا چاہیے اور کہنا چاہیے کہ میں تا عمر تمہاری بہن ہوں اور ہمیشہ تم کو ایسا ہی سمجھوں گی ۔ سردار چچی جان نے نہ صرف ایسا خط ہی لکھا بلکہ پھر زندگی بھر اس عہد کو نبھایا ۔ رسمِ قل ادا ہو جانے کے بعد میں اور چچا جان واپس لاہور آ گئے مرحومہ کے بھائیوں نے ان کا تمام زیور اور سامان واپس کر دیا ۔ ہر چند چچا جان نے کہا کہ شریعت کی رو سے اس کے بیشتر حصے کے وارث مرحومہ کے بھائی بہنیں ہیں مگر انہوں نے ایک نہ مانی لاہور پہنچ کر اس بات کا ذکر کرتے ہوئے ابا جان کو لکھا کہ ؛ اب ارادہ ہے کہ یہ ترکہ اس کی کسی یادگار کی صورت میں صرف کیا جاوے۔ کچھ روپیہ میں اور اپنی طرف سے اس میں اضافہ کردوں گا ۔ اگر خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو بہت اچھی صورت ہو جائے گی۔ چچا جان کی طبیعت بہت دنوں تک نہایت پریشان رہی ۔ مرحومہ کی لوحِ مزار تیار کراکے لاہور سے بھجوائی۔ جس پر حسبِ ذیل قطعۂ تاریخ ۴۲ کندہ تھا : اے دریغا! ز مرگِ ہم سفرے دلِ من در فراقِ او ہمہ درد ہاتف از غیب داد تسکینم سخن پاک مصطفی آورد بہر سال رحیل او فرمود بشہادت رسید و منزل کرد یہ قطعہ لدھیانے کے قیام کے دوران میں ہی وفات کے دوسرے یا تیسرے دن کہا تھا ۔ جس کاغذ پر لکھا تھا، وہ میرے سپرد کر دیا تھا کہ لاہور پہنچ کر انہیں دے دوں۴۳ ۔ سردار بیگم جب راقم کے ہمراہ لاہور واپس پہنچیں تو ان سے مختار بیگم کی جدائی برداشت نہ ہوتی تھی۔ گھر میں تنہا بیٹھی روتی رہتیں ۔ اقبال نے انہیں بارہا صبر کرنے کی تلقین کی ، مگر سردار بیگم یہی کہتیں کہ مرحومہ کی گیارہ سالہ رفاقت کے بعد وہ شدید تنہائی محسوس کرتی ہیں۔ انہوں نے اقبال سے استدعا کی کہ مرحومہ کی کسی خالہ زاد بہن سے عقد کر لیں اور یوں سردار بیگم کو مختار بیگم کی بجائے گھر میں ان کی بہن کی رفاقت میسر آ جائے ۔ اقبال اسے مذاق سمجھ کر ٹالتے رہے، لیکن سردار بیگم کا اصرار تھا کہ خاندانوںکا تعلق قائم رکھنے کے لیے مروت کا تقاضا یہی ہے کہ وہ اس سلسلے میں مرحومہ کے بھائی سے بات کریں ۔ بالآخر ایک مرتبہ اقبال اور مرزا جلال الدین، نواب سر ذوالفقار علی خان کو ملنے دہلی گئے ۔ اقبال نے سردار بیگم کی ضد کا تذکرہ ان دونوں سے کیا ۔ نواب سر ذوالفقار علی خان نے مشورہ دیا کہ مرزا جلال الدین بات کریں چنانچہ اقبال اور مرزا جلال الدین واپسی پر لدھیانہ اترے اور مرزا جلال الدین نے اس سلسلے میں مختار بیگم کے بھائی لالہ غلام محمد سے بات چھیڑی ، لیکن انہوں نے بات ٹال دی اور یوں سردار بیگم کی آرزو پوری نہ ہو سکی۴۴ ۔ ۳۰ ؍ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو اقبال نے انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں اپنی غزل ’’نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا‘‘ الخ پڑھی ۔ یہ جلسہ اسلامیہ ہائی اسکول بھاٹی دروازے میں منعقد ہوا تھا اور بقول عبدالمجید سالک، انجمن کے بے حد کس مپرسی کی حالت میں ہونے کے سبب اس کے سالانہ اجلاس بھی اب محض بغرض خانہ پری ہی منعقد ہونے لگے تھے۴۵ ۔ ۳ ؍ نومبر ۱۹۲۴ء کے ’’زمیندار‘‘ میں سلطان ابنِ مسعود کی حمایت میں اقبال کا بیان شائع ہوا۔ صورت اصل میں یہ تھی کہ ہندوستان کے بعض علماء کے نزدیک حجاز کا نظام حکومت سابق خلیفہ ترکی عبدالمجید خان کے سپرد کیا جانا چاہیے تھا۔ اس سلسلہ میں انگریزی اخبار ’’مسلم آئوٹ لُک ‘‘ کے نمایندے نے اقبال کے خیالات معلوم کرنے کے لیے ان سے ملاقات کی اور دوران ملاقات اقبال نے حرمِ پاک کی خدمت و حفاظت کا منصب سابق خلیفہ عبدالمجید خان کے سپرد کر نے کی تجویز کے متعلق فرمایا: تجویز نامناسب ہے اور اگر موجودہ نازک صورت حالات میں اس پر زیادہ زور دیا گیا تو اندیشہ ہے کہ کہیں دنیائے اسلام کے پیچیدہ معاملات میں مزید الجھنیں پیدا نہ ہو جائیں ۔ ابن سعود عام وہابیوں کا نمائندہ ہے اور سابق خلیفہ المسلمین سُنی دنیائے اسلام کے دینی پیشوا رہ چکے ہیں۔ حجاز اس وقت عملاً وہابیوں کے قبضے میں ہے اگر اس حالت میں سابقہ خلیفۃالمسلمین کو حاکمِ حجاز بنانے کی کوشش کی گئی تو اندیشہ ہے کہ مسلمانوں کے ان دو فرقوں میں سخت کشمکش شروع ہو جائے گی ۔ میں اس انتظام کو عارضی اورہنگامی طور پر بھی مناسب نہیں سمجھتا میری رائے یہ ہے کہ ایسی تجویز کا پیش کرنا ہی ایک غلطی ہے۔ میں حجاز کی موجودہ صورت حالات سے پورے طور پر مطمئن ہوں اور ابن سعود پر بدون تذبذب اعتماد رکھتا ہوں۔ میری رائے میں سلطان نجد ایک روشن خیال آدمی ہے اور جو لوگ سلطان موصوف سے ملے ہیں یا انہوں نے نجد کو دیکھا ہے، وہ میری اس رائے کے مؤید ہیں۔۔۔۔ اس وقت دنیائے اسلام میں گوناگوں تغیرات کا سلسلہ قائم ہے لیکن ابن سعود چونکہ خود نمایندگان اسلام کی موتمر منعقد کرنے کے خواہاں ہیں اس لیے توقع ہے کہ وہ اس موتمر کے فیصلے کی پابندی کریں ۔۔۔۔ بہت ممکن ہے کہ عرب میں ابن سعود کے ماتحت ایک زبردست قومی تحریک نشو و نما پائے اور اس کے آثار و علائم نظر آ رہے ہیں۔ اس احساس خودی کا ہمیں تہ دل سے خیر مقدم کرنا چاہیے ، اگرچہ اس کی تہ میں تجرد و تفرید کے مادہ کے نشو و نما کا بھی اندیشہ ہے ، لیکن ہمیں کچھ مدّت تک اس تجرد و تفرید کو بھی برداشت کرنا چاہیے ۔ عرب فطرتاً جمہوریت پسند ہیں اور سر زمینِ عرب میں کوئی مطلق العنان حکومت زیادہ مدت تک قائم نہیں رہ سکتی ۴۶ ۔ اقبال نے تجویز پیش کی کہ سابق خلیفہ کو چاہئے کہ بغرضِ تبلیغِ اسلام ایک وسیع بین الاقوامی تنظیم قائم کرے جسے دنیائے اسلام کے مختلف ممالک کی مالی امداد حاصل ہو۔ اس تنظیم کے تحت مبلغین کی ایک وسیع بین الملّی تبلیغی درس گاہ قائم کی جائے اور مبلغین ، اسلام کی مشعل ہاتھ میں لے کر دنیا کے ہر گوشے میں پہنچ جائیں۔ ۱۹۲۵ء میں مسلم لیگ کا اجلاس علی گڑھ میں عبدالرحیم کی صدارت میں ہوا۔ اس میں محمد علی جناح ، مولانا محمد علی ، مولانا شوکت علی، حسرت موہانی، سر سید علی امام ، سر محمد شفیع وغیرہ شریک ہوئے۔ عبدالرحیم نے اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بعض ہندو سیاسی رہنما دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو ہندوستان سے اسی طرح باہر نکال دیں گے جس طرح اہل ہسپانیہ نے موروں کو اپنے ملک سے نکالا تھا ۔ انہوںنے سوراج پارٹی کی کارروائیوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے اعلان کیا کہ مسلمان اس سے کسی قسم کا سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اجلاس میں جداگانہ نیابت کی حمایت میں قرار داد بھی پاس کی گئی اور مطالبہ کیا گیا کہ مستقبل میں کسی بھی علاقائی تقسیم کے وقت پنچاب ، بنگال ، سندھ اور سرحد میں مسلم اکثریت کو برقرار رکھا جائے اور ایک رائل کمیشن کا تقرر عمل میں لایا جائے جو ۱۹۱۹ء کی دستوری اصلاحات پر نظر ثانی کرے۴۷ ۔ اس کے کچھ عرصے بعد مسلم نمایندگان نے قانون ساز اسمبلی میں ایک قرار داد پیش کی جس میں صوبۂ سرحد میں نئے دستور کے نفاذ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ہندووں نے پنڈت مدن موہن مالویہ کی قیادت میں اس قرار داد کی مخالفت کی ، جس کے نتیجے میں سواراج پارٹی کے مسلم حامی اس سے ٹوٹ گئے ۴۸ ۔ ۱۹۲۵ء میں پنجاب ہائی کورٹ میں ایک مسلم جج کے تقرر کا مسئلہ پیدا ہوا ۔ سرشادی لعل چیف جسٹس تھا ۔ صوبے بھر کے مسلم اخباروں ، انجمنوں ، وکیلوں اور تعلیم یافتہ لوگوں نے مطالبہ کیا کہ اقبال کو ان کی قابلیت اور روشن دماغی کی بنا پر عدالت عالیہ کا جج مقرر کیا جائے۴۹ ۔ مگر سر شادی لعل نے ان کے متعلق یہ ریماکس دیے کہ ہم اقبال کو شاعر کی حیثیت سے جانتے ہیں، قانون دان کی حیثیت سے نہیں۔ چنانچہ اقبال جج نہ بن سکے اور اسامی کو پُر کرنے کے لیے سر شادی لعل کی خواہش کے مطابق یوپی سے سید آغا حیدر کا تقرر عمل میں آیا ۵۰ ۔ سر شادی لعل ایک متعصب ہندو تھا اور مسلمانوں کے خلاف اس کا تعصب پنجاب بھر میں مشہور تھا۔وہ پنجاب کی عدات عالیہ میں ۱۹۱۳ء میں ایڈیشنل جج مقرر ہوا اور ۱۹۱۷ء میں مستقل جج بنا دیا گیا ۔ ۱۹۲۰ء میں جب عدالت کے چیف جسٹس کی تقرری کا سوال پیدا ہوا تو لاہور کی معروف میاں فیملی کے سربراہ سر محمد شفیع نے خاص طور پر وائسرائے کو کہہ کر اس کا تقرر کروایا ۔ اس سلسلے میں سر محمد شفیع کی غیر مطبوعہ یاد داشتوں کی کتاب کے اندراجات غور طلب ہیں۔ مثلاً ۳۰ جنوری ۱۹۲۰ء کا اندراج ہے : راجہ نریندر ناتھ چائے پر آئے اور شکوہ کیا کہ ہندوئوں کے ساتھ حکومت پنجاب کا رویہ نہایت غیرہمدردانہ ہے۔ آئی سی ایس ،امپیریل پولیس سروس اور ریاست بہاولپور کی ریجنسی کونسل سے متعلق ان کے دعووں کو نظر انداز کیا گیاہے اور مجھے (وائسرائے کی کونسل میں) ایک ہندوستانی رکن کی حیثیت سے کچھ کرنا چاہیے ۔ انہوں نے سفارش کی کہ شادی لعل کا تقرر بحیثیت چیف جسٹس ایک صحیح فیصلہ ہوگا ، میں نے امداد کا وعدہ کیا ۵۱۔ ۱۹ ؍ فروری ۱۹۲۰ء کا اندراج اس سلسلے میں وائسرائے سے ہفتہ وار ملاقات کے بارے میں ہے: وائسرائے نے مجھے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے سیکرٹری آف سٹیٹ کو لکھ دیا ہے کہ اگر چیمئیریا اس جیسی اہلیت کا کوئی شخص نہ مل سکے تو وہ شادی لعل کے چیف جسٹس پنجاب کی حیثیت سے تقرر کی سفارش کریں گے ۔ میں نے ان سے اپنے اطمینان اور مسرت کا اظہار کیا ، نیز انہیں یقین دلایا کہ شادی لعل کا تقرر پنجاب کے لیے بہتری کا باعث ہو گا۔ پھر ۲۲ اپریل ۱۹۲۰ء کے اندراج میں تحریر کرتے ہیں: میں نے وائسرائے سے کہا کہ میں نے حال ہی میں لاہور اور امرتسر کا دورہ کیا ہے اور اگرچہ ابھی تک وہاں کی فضا میں کشیدگی موجود ہے ، لیکن مجھے یقین ہے کہ شادی لعل کا تقرر بحیثیت چیف جسٹس تعلیم یافتہ طبقے اور ہر مذہبی حلقے میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ سو، ۱۹۲۱ء میں سر محمد شفیع کی کوششوں ہی سے سر شادی لعل عدالت عالیہ پنجاب کا چیف جسٹس بنا۔ مگر چیف جسٹس مقرر ہوتے ہی وہ سر محمد شفیع کی میاں فیملی کا حریف بن گیا ، اور اسے ہر ممکن طریق سے نیچا دکھانے کی کوشش کرنے لگا ۔ ویسے تو سر شادی لعل اپنے تعصب کے سبب پنجاب کی ہر اہم مسلم شخصیت کے خلاف تھا، لیکن اقبال سے اس کی دشمنی کی وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے میاں فیملی سے بہت اچھے تعلقات تھے ۔مرزا جلال الدین تحریر کرتے ہیں: میں کراچی گیا ہوا تھا ۔ شادی لعل مجھ سے ملے اور کہنے لگے کہ میاں محمد شفیع اقبال کو بہت ناپسند کرتا ہے، کہتا ہے کہ وہ شرابی ہے ، چال چلن بھی اچھا نہیں۔ یہ بات ڈاکٹر اقبال کے مستقبل کے لیے بہت بُری ہے ۔ ڈاکٹر صاحب میرے ساتھ ہو جائیں تو بہت اچھا ہے۔ میں لاہور آیا تو ڈاکٹر صاحب سے ذکر کیا ۔ وہ بولے : مرزا صاحب ! شادی لعل اپنا الو سیدھا کرنا چاہتا ہے۔ اس کا اپنا مطلب ہے ہمیں کیا مصیبت پڑی ہے کہ اس جھگڑے میں پڑیں۔ ہم اس کاساتھ نہیں دے سکتے ۵۲۔ اقبال گو نظریاتی طور پر مسلم قومیت کے اصول پر کار بند تھے لیکن اپنی نجی زندگی میںانہوں نے مذہبی اختلافات کو کبھی کوئی اہمیت نہ دی ہندوئوں اور سکھوں کے ساتھ ان کے گہرے دوستانہ مراسم تھے اور بعض ہندو عقیدت مند اپنے اشعار میں ان سے اصلاح بھی لیتے تھے ۔ سر تیج بہادر سپرو نے اقبال کی وفات کے چند ماہ بعد ایک خط میں مولانا عبدالحق بابائے اردو کوتحریر کیا: اقبال کے ساتھ میرے خیال میں وہ لوگ بہت بے انصافی کرتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ وہ محض اسلامی شاعر تھا۔ یہ کہنا اس کے دائرہ کو محدود کرنا ہے ۔ یہ ضرور ہے کہ اس نے اسلامی فلسفہ ، اسلامی عظمت اور اسلامی تہذیب پر بہت کچھ لکھا ہے لیکن کسی نے آج تک ملٹن کی نسبت یہ کہہ کر وہ عیسائی مذہب کا شاعر تھا، یا کالی داس کی نسبت یہ کہہ کر کہ وہ ہندو مذہب کا شاعر تھا، اس کے اثر کو محدود نہ کیا اور نہ مذہب کے آدمیوں نے اس وجہ سے اس کی قدردانی میں کمی کی۔ اگر وہ اسلامی تاریخ کے بڑے کارناموں کے بارے میں ، یا اسلامی عظمت کا تذکرہ کرتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ غیر مسلم اس کی قدر نہ کریں، ’’بال جبریل‘‘ میں( میں صرف تمثیلاً عرض کرتا ہوں) جو نظم متعلق ہسپانیہ لکھی ہے، کیا اس کا اثر صرف مسلمانوں ہی کے دل پر ہو سکتاہے؟۔۔۔۔ شاعری اور تخیل ایک طرف، ان کے اشعار کی زبان دوسری طرف ۔ آج کل جو مسئلہ زبان کے اوپر بحث چھڑی ہوئی ہے، اس پر اکثر غور کرتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ جس زبان میں یہ درد ، یہ قدرت اور یہ وسعت ہے، جو ان اشعار میں پائی جاتی ہے ، اس کو ہم کیوں چھوڑیں ۔ مگر زمانے کی فضا بدلی ہوئی ہے۔ رنگ بدلا ہوا ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ مزاجِ یار دگر گوں ہے۔ ایجاد اور مرجاو کا مقابلہ ہے۔ خدا معلوم ہم کہاں سے کہاں پہنچیں۵۳ ۔ بہرحال عام مسلمانوں کو تو ذکر ہی کیا ، اقبال جیسی شخصیت بھی اپنی تمام صلاحیتوں اور صلح جوئی کے باوجود ، سر شادی لعل جیسے ہندو کے تعصب کا نشانہ بنی۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ تحریر راقم کی نظر سے گزری ہے جو ہندوستان کے ایک نابینا ادیب وید مہتہ کی اپنے خاندان کے متعلق انگریزی میں لکھی ہوئی یاد داشتیں ہیں اور جو امریکی رسالہ نیو یار کر میں تین اقساط میں پر وفائلز کے زیر عنوان شائع ہوئیں ۔ وید مہتہ کے والد بابوجی سے سر شادی لعل کا گہرا دوستانہ تھا۔ وید مہتہ تحریر کرتے ہیں: بابوجی اور سر شادی لعل آپس میں ملتے ہی مقامی سیاست کے متعلق بحث کرنے لگتے اور اپنے اپنے تاثرات کا موازنہ کرتے ۔ ایک شام سر شادی لعل ، بابوجی سے مخاطب ہو کر کہنے لگے ، مجھے مبارک باد دو بھائی! آج میں نے دو پنجابی مسلمانوں کی بطخ پکا دی ہے (یعنی انہیں ختم کر دیا ہے) کیا تمہیں معلوم ہے کہ ہائی کورٹ میں ایک جج کی اسامی خالی تھی ، خیر! ہزایکسیلنسی، گورنر نے مجھے اپنے ہاں بلوایا اور پوچھا کہ سر محمد اقبال اور خان بہادر شاہ نواز (یعنی میاں شاہ نواز، سر محمد شفیع کے داماد) کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے ، کیونکہ خالی اسامی کے لیے یہ دو نام ان کے زیر غور تھے۔ میں نے جواب دیا ، اقبال کو کون نہیںجانتا ، وہ ہمارا سب سے بڑا اردو شاعر ہے اور اسی طرح ہر کوئی جس کا تعلق حکومت سے ہے، شاہ نواز اور اس کے کام سے بطورِ رکنِ پنجاب قانون ساز کونسل سے پوری طرح واقف ہے۔ ان دو میں سے کوئی ایک بھی بنچ کے لیے نہایت مناسب انتخاب ہوگا ، لیکن یور ایکسیلنسی آپ ان سے انٹرویو کیوں نہیں کر لیتے ۔ پھر ہم فیصلہ کر سکیں گے کہ ان دونوں میں سے کون سا بنچ کے لیے موزوں ہے۔ اس کے بعد میں اقبال کے پاس گیا اور اسے اطلاع دی کہ گورنر اس سے ججی سے متعلق انٹرویو کرنے والے ہیں اور اس کا سب سے بڑا حریف شاہ نواز ہے۔ میں نے اس کا بازو پکڑتے ہوئے راز دارانہ لہجے میں کہا، اقبال ! جب تم گورنر سے ملو تو انہیں ضرور بتانا کہ شاہ نواز کس قسم کا آدمی ہے ، یعنی وہ طوائفوں اور خانگیوں سے میل جول رکھتا ہے۔ اقبال سے فارغ ہو کر میں شاہ نواز کے ہاں گیا اور اسے بھی یہی مشورہ دیا کہ گورنر کو ضرور بتانا کہ اقبال فاحشہ عورتوں سے میل جول رکھتا ہے اور ان کے لیے اشعار بھی لکھتا ہے۔ جب ان کے انٹرویو ہوئے تو انہوں نے ایک دوسرے پر خوب کیچڑ اُچھالا ۔ گورنر نے بعد میں مجھ سے کہا، توبہ ! دونوں کتنے بیہودہ آدمی ہیں ۔ سو آج میں نے گورنر سے اپنی پسند کے الہ آباد سے تعلق رکھنے والے ایک اچھے اور فرمانبردار مسلمان کا تقرر ججی کے لیے کروا لیا ہے۔ بابوجی نے اپنی سوٹی زمین پر پٹختے ہوئے کہا، تم نے بہت بڑی غلطی کی شادی لعل ! اقبال اور شاہ نواز دونوں مشہور اور قابل شخصیتیں ہیں۔ اگر تم ان میں سے کسی ایک کا تقرر کروا دیتے تو وہ تمام عمر تمہارا احسان مند رہتا اور یوں ایک معروف پنجابی شخصیت تمہاری جیب میں ہوتی ۔ سر شادی لعل نے جواب دیا، میری جیب میں الٰہ آباد کا جج جو ہے، مجھے اور کیا چاہیے۔ بابوجی بولے ، لیکن تم نے دو طاقتور پنجابی مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے اپنا دشمن بنا لیا ۔ سر شادی لعل نے حقارت آمیز لہجے میں کہا: اقبال اور شاہ نواز کو ایک دوسرے کا گلا کاٹنے دو! پنجابی مسلمان اسی کے مستحق ہیں۵۴۔ اگر وید مہتہ کی یاد داشتیں درست ہیں اور سر شادی لعل اور ان کے والد کے مابین یہ گفتگو واقعاتی طور پر ہوئی ہے تو اس سے عیاں ہے کہ سر شادی لعل معروف وکیل اور عدالت عالیہ کا چیف جسٹس ہونے کے باوجود ایک مکار ، جھوٹا اور کمینہ فطرت آدمی تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال اور میاں شاہ نواز ایک دوسرے کے انتہائی گہرے دوست تھے اور آخری دم تک ان کی دوستی قائم رہی ۔ اس کے علاوہ وہ دونوں سر شادی لعل کو خوب سمجھتے تھے۔ اس لیے سر شادی لعل کے لیے یہ قطعی ممکن نہ تھا کہ دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکا سکے اور پھر اس کے بھڑکانے پر دونوں گورنر کے سامنے جا کر ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے لگیں ۔ عام طور پر کہاجاتا ہے کہ انگریزوں کا زمانہ بہتر تھااور آزادی کے بعد ان کی قائم کردہ عدلیہ کا وقار معیاری ججوں کے تقرر میں لازمی احتیاط کی عدم موجودگی کے سبب گر گیا ہے، مگر یہ بات درست نہیں۔ انگریزوں ہی کے زمانے میںسر شادی لعل جیسا مکار ، جھوٹا اور کمینہ فطرت شخص تیرہ برس کی مدت تک پنجاب کی عدالت عالیہ کا چیف جسٹس رہا، لیکن کوئی اس کا بال بھی بیکا نہ کر سکا۔ اسی طرح ججوں کے تقرر میں اخلاقی گراوٹ کی بعض اور مثالیںبھی موجود ہیں ۔ ۱۹۳۴ء میں جب سر شادی لعل ریٹائر ہوا تو لاہور کے ہندو اخبار ملاپ نے ایک جھوٹی خبر شائع کی کہ اقبال سر شادی لعل کے خلاف مظاہرہ کرنا چاہتے تھے اور اس سازش میں مولانا ظفر علی خان بھی شامل تھے ، لیکن دفعتہ یہ بھانڈا پھوٹ گیا۔ اس جھوٹی خبر پر پنجاب ہی کے نہیں بلکہ ہندوستان بھر کے مختلف مسلم اخباروں نے تبصرہ کیا ۔ روز نامہ خلافت بمبئی نے سر شادی لعل کے عہد انصاف کے متعلق تحریر کیا : سر شادی لعل پنجاب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اپنی مدتِ ملازمت ختم کر کے انگلستان جا رہے ہیں ۵۵۔ لاہور کی متعدد جماعتوں کی طرف سے انہیں سپاسنامے پیش کیے جار ہے ہیں، جن میں ہندو بھی ہیں اور سکھ بھی۔مسلمانوں کو ظاہر ہے ان کے عہد انصاف سے شکایت ہے۔ انہیں بجا طور پر یہ احساس ہے کہ اپنے زمانہ ملازمت میں انہوں نے مسلمانوں کے حقوق نظر انداز کیے اور ہائی کورٹ میں مسلمانوں کی نمایندگی ہمیشہ قلیل رکھی ۔ اس پر اگر وہ انہیں خوش دلی سے رخصت نہ کریں تو اس پر شکایت کا کیا موقع ہے۔ ملاپ نے نہایت عامیانہ اور سوقیانہ لب ولہجے میں ایک اطلاع شائع کی ہے کہ سر اقبال ، سرشادی لعل کے خلاف مظاہرہ کرنا چاہیے تھے ۔ اس سازش میں ظفر علی خان جیسا پیشہ ور ایجی ٹیٹر بھی شامل تھا لیکن دفعتہ یہ بھانڈا پھوٹ گیا ۔ ’’ملاپ‘‘ کو معلوم ہونا چاہیے کہ مسلم زعما کے متعلق اس کا یہ لب و لہجہ بہت ناگوار ہے اور اسے اس طرز عمل میں اصلاح کرنا پڑے گی۔ سر شادی لعل ، ملکِ معظم نہیں ہیں ، جن کے خلاف سازش کی جائے ، نہ مسلمانوں کی نظر میں انہیں اتنی اہمیت حاصل ہے کہ وہ ان کی پوزیشن پر حملہ کریں ۔ بلاشبہ مسلمانوں کو سر شادی لعل سے شکایات ہیں، لیکن وہ اتنے بزدل نہیں ہیں کہ وہ ان کے خلاف سازش کرتے پھریں ۔ ان کی جو شکایات ہیں، وہ اعلانیہ ہیں۔ پریس اور پلیٹ فارم پر بارہا اس کا تذکرہ آ چکا ہے۔ نہ سر شادی لعل کو سر اڈوائر جیسے اختیاراتِ ملوکانہ حاصل ہیں کہ لوگ ان کے خلاف کچھ کہتے ہوئے ڈریں ۔ وہ ایک ملازم سرکار تھے۔ ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ جائز حدود میں ان پر نکتہ چینی کرے اور ان سے شکایات کرے۔ رہی اقبال کی ہائی کورٹ کی ججی سے محرومی کی داستان تو اسے سب جانتے ہیں کہ اگر اقبال ہائی کورٹ کا جج ہو جائے یہ ہائی کورٹ کا اعزاز ہوگا ۔ اقبال کی سربلندی میں اس سے کوئی اضافہ نہیں ہو سکتا ۔ سر شادی لعل ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنیں، پنجاب کے گورنر بنا دیے جائیں، پھر بھی وہ اقبال کی عظمت کے مالک نہیں ہو سکتے۔ ان کا اور اقبال کا مقابلہ ہی کیا ۔ اقبال جس مقامِ بلند پر آج فائز ہے ، سر شادی لعل کا وہاں تک پہنچنا بہت دشوار ہے۵۶۔ اس دور میں اقبال صرف ہندو تعصب ہی کا شکار نہ ہوئے بلکہ ان علماء کو بھی جو عرصۂ دراز سے ان کے خلاف اُدھار کھائے بیٹھے تھے، اقبال پر کفر کا فتویٰ صادر کرنے کا بہانہ مل گیا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سلطان ابن سعود کے حامیوں اور مخالفوں کے درمیان ، کشمکش جاری تھی اور ہندوستان کے مسلمان دو مذہبی گروہوں ، یعنی وہابیوں اور سنیوں میں بٹے ہوئے تھے۔ اقبال نے سلطان ابن سعود کی حمایت میں بیان دے کر ان کے مخالف علماء کی عداوت مول لے رکھی تھی ۔ اسی اثنا میں کسی پیرزادہ محمد صدیق سہارنپوری نے ایک استفتاء مرتب کر کے مولانا ابو محمد سید دیدار علی شاہ خطیب مسجد وزیر خان کو بھی بھیج دیا۔ یہ صاحب بقولِ عبدالمجید سالک ، اپنے شوقِ تکفیر کے لیے بے حد مشہور تھے۔ چنانچہ کئی مسلم زعما کو کافر قرار دے چکے تھے۔ استفتاء میں تحریر کیا گیا: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور حامیان شرع مبین اس مسئلے میں کہ ایک شخص اشعار میں آفتاب کوخدائی صفات کے ساتھ متصف کرے اور اس سے مرادیں طلب کرے، آخرت پر یقین نہ رکھے ، حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر سے استہزا کرے ، علماے کرام اور پیران عظام پر آوازے کسے اور انہیں بُرے خطابات سے یاد کرے ۔ ہندوئوں کے ایک بزرگ کو جسے وہ خدا کا اوتار مانتے ہیں ، امام اور چراغ ہدایت کے الفاظ سے یاد کرے اور اس کی تعریف میں رطب اللسان ہو۔ کیا ایسا آدمی اسلام پر ہے یا کفر پر؟ اس کے ساتھ لین دین ، نشست و برخاست اور ہر طرح کا مقاطعہ کرنا جائز ہے یا ناجائز اور نہ کرنے والوں کے متعلق کیا حکم ہے ؟ بینوا و توجروا ۔ اشعار حسب ذیل ہیں: ؎ آفتاب ۱۔ اے آفتاب ! ہم کو ضیائے شعور دے چشمِ خرد کو اپنی تجلی سے نور دے ہے محفلِ وجود کا ساماں طراز تو یزدانِ ساکنانِ نشیب و فراز تو ہر چیز کی حیات کا پروردگار تو زائیدگانِ نور کا ہے تاجدار تو نے ابتدا کوئی، نہ کوئی انتہا تری آزادِ قید اوّل و آخر ضیا تری (ترجمہ گایتری منتر) ۲۔ کہاں کا آنا ، کہاں کا جانا، فریب ہے امتیازِ عقبیٰ نمود ہر شے میں ہے ہماری ، کوئی ہمارا وطن نہیں ہے ۳۔ خصوصیت نہیں کچھ اس میں ، اے کلیم ! تری شجر حجر بھی خدا سے کلام کرتے ہیں ۴ ۔ غضب ہیں یہ مرشدانِ خودبیں، خدا تری قوم کو بچائے بگاڑ کر تیرے مسلموں کو ، یہ اپنی عزت بنا رہے ہیں رام کی تعریف میں فرماتے ہیں : ؎ ۵ ۔ اس دیس میں ہوئے ہیں ہزاروں ملک سرشت مشہور جن کے دم سے ہے دنیا میں نامِ ہند ہے رام کے وجود پہ ہندوستان کو ناز اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امامِ ہند اعجاز ، اس چراغِ ہدایت کا ہے یہی روشن تر از سحر ہے ، زمانے میں شامِ ہند تلوار کا دھنی تھا، شجاعت میں فرد تھا پاکیزگی میں جوشِ محبت میں فرد تھا (المستفتی پیرزادہ محمد صدیق سہارنپوری) فتویٰ بسم اللّٰہ الرّحمن الرّحیم ’’اسم پروردگار اور یزداں عرفاً مخصوص ذاتِ جنابِ باری ہے اور اوتار ہنود کے نزدیک خدا کے جنم لینے کو کہتے ہیں۔ اندریں صورت یزداں اور پروردگار آفتاب کو کہنا صریح کفر ہے۔ علیٰ ہذا خدا کے جنم لینے کا عقیدہ بھی کفر اور توہین موسیٰ علیہ السلام بھی کفر اور توہین بزرگان دین فسق ۔ لہٰذا جب تک ان کفریات سے قائل اشعار مذکورہ توبہ نہ کرے ، اس سے ملنا جلنا تمام مسلمان ترک کر دیں، ورنہ سخت گنہگار ہوں گے ‘‘۔ (ابو محمد دیدار علی ، خطیب فی مسجد وزیر خان المرحوم)۵۷ یہ حقیقت ہے کہ اس فتوے سے مولوی دیدار علی پر ہر طرف سے ملامت کی بوچھاڑ ہوئی۔ لیکن یہ علماء کے طبقے کا اس شخص سے انتقام تھا، جس نے مسلمانوں کو خودی کا احساس دلا کر ایک قوم یا ملّت کی صورت میں متحد کرنے کی جسارت کی تھی ۔ مآخذ باب: ۱۴ ۱۔ خط محررہ ۲۴ جنوری ۱۹۲۳ء ، ’’شاد اقبال‘‘ مرتبہ محی الدین قادری زور، صفحہ ۱۳۵ ۔ ۲ ۔ ’’روز گار فقیر‘‘ جلد اوّل، صفحات ، ۴۱ تا ۴۴ ، ’’ذکر اقبال ‘‘ از عبدالمجید سالک ، صفحات ۱۱۸ تا ۱۲۰ ۔ ۳۔ ’’چٹان ‘‘ اقبال نمبر ۲۵ ؍ اپریل ۱۹۴۹ء ، صفحہ ۱۵ ۔ اقبال کو سر کا خطاب ملنے پر جو تبصرے ہندو اور مسلم اخباروں میںہوئے یا جو طنزیہ اشعار چھپے ان کے لیے مزید دیکھئے: ’’صحیفہ‘‘ اقبال نمبر حصہ دوم مضمون ’’سر ہو گئے اقبال ‘‘ از محمد حنیف شاہد ، صفحات ۱۳۸ تا ۱۵۱ ۔ اس مضمون میں مولانا ظفر علی خان کے طنزیہ اشعار بھی درج کیے گئے ہیں۔ ۴ ۔ خط محررہ ۴؍ جنوری۱۹۳۳ء ، ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ ،حصہ اوّل ، صفحہ ۲۰۶ ۔ ۵ ۔ ’’بندے ماترم ‘‘ ۲۰ جنوری ۱۹۲۳ء صفحہ ۷ و ۳۱ جنوری ۱۹۲۳ئ، صفحہ ۳ ۔ ۶ ۔ ’’کتاب الہند ‘‘ ترجمہ انگریزی از ای ۔ زخائو ، جلد اوّل ، صفحات ۱۷،۱۷۹ ۔ ۷ ۔ ایضاً ، صفحہ ۱۹ ۔ ۸ ۔ ’’تاریخ دعوت و عزیمت ‘‘ حصہ چہارم ، صفحات ۱۸، ۱۹۔ ۹ ۔ ’’منتخب التواریخ‘‘ ترجمہ انگریزی از ڈبلیو ایچ لو جلد دوم ، صفحہ ۳۷۵ ۔ ۱۰ ۔ دیکھیے مضمون ’’ویدانت سنیاسیوں کی عسکری تنظیم‘‘ (انگریزی) از جے این فار قوہار’’جرنل آف رائل ایشیاٹک سوسائٹی ‘‘ ۱۹۲۵ء ، صفحات ۴۸۳ تا ۴۸۵ ۔ ۱۱ ۔ ’’اورنگ زیب عالمگیر پر ایک نظر‘‘ از مولانا شبلی نعمانی ، صفحات ۵۹ تا ۶۳ ، ۶۶ ، ۶۷ ، ۶۹ ۱۲ ۔ ’’تاریخ انڈین نیشنل تحریک ‘‘ از دی لووٹ (انگریزی) صفحات ۱۴۴ تا ۱۵۰ ، ۱۸۰۔ ۱۳ ۔ ’’شاد اقبال‘‘ مرتبہ محی الدین قادری زور ، صفحہ ۳۹ ۱ ۔ ۱۴ ۔ ’’خطوط اقبال ‘‘ مرتبہ رفیع الدین ہاشمی ، صفحات ۱۶۵ ، ۱۶۶ ۔ ۱۵ ۔ ’’انڈیا ۲۵، ۱۹۲۴ء ‘‘ازر ۔ ش بروک ولیمز (انگریزی) صفحات ۳۰۱ ، ۳۲۰ تا ۳۲۲۔ ۱۶ ۔ ’’انڈیا ۳۶۔۱۹۲۵ئ‘‘، صفحات ۲۹ ، ۶۶ ’’انڈیا ۲۷ ۔۱۹۲۶ئ‘‘، صفحات ۱،۲ ۔’’انڈیا ۲۸۔۱۹۲۷ء ‘‘، صفحات ۹ تا ۱۶۔ ’’انڈیا ۲۹۔۱۹۲۸ئ‘‘، صفحات ۲ تا ۴ ، ۲۴ ، ’’انڈیا ۳۰۔۱۹۲۹ء ‘‘ ، صفحات ۹ ،’’انڈیا ۳۱۔۱۹۳۰ء ‘‘ صفحات ۹۱ ، ۱۰۳، ’’انڈیا ۳۲۔۱۹۳۱ئ‘‘، صفحات ۱۴ ، ۳۰ تا ۳۲ ازرش بروک ولیمز (انگریزی) ۔ ۱۷ ۔ ’’زمیندار‘‘ ۶ ؍ اپریل ۱۹۲۶ء دیکھیے ’’گفتار اقبال ‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۱۳ ، ۱۴ ۱۸ ۔ ’’ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات ‘‘انگریزی رپورٹ (پارلیمنٹ کے لیے)، صفحات۱۷، ۲۳، ۲۶ ، ۳۳۔ ۱۹ ۔ ’’ہندو مسلم فسادات ، اسباب و علاج ‘‘ از آر ایم اگروال (انگریزی) ، صفحات ۱۴ تا ۱۷ ۔ ’’انڈیا ۲۸۔۱۹۲۷ء ’’ازرش بروک ولیمز (انگریزی)، صفحات ۱۰، ۱۱ ۔ ۲۰ ۔ ’’انڈین کمنٹری ‘‘ (انگریزی) ، صفحات ۱۷۷ ، ۱۷۸ ۔ ۲۱ ۔ ’’ہندوستان میںنیشنلزم اور اصلاح ‘‘ از سمتھ (انگریزی) ، صفحہ ۳۴۶ ۔ ۲۲ ۔ ’’مولانا محمد علی کی تقریریں اور تحریریں ‘‘ مرتبہ افضل اقبال (انگریزی) ، صفحات ۶۶ تا۶۸ ۲۳ ۔ ’’ذکر اقبال ‘‘ ، صفحات ۱۱۰ ، ۱۱۱۔ ۲۴ ۔ خط محررہ ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۱۹ء ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ حصہ اوّل ، صفحات ۱۰۷، ۱۰۸۔ ۲۵ ۔ تبصرے کے لیے ملاحظہ ہو ’’اقبال چودہری محمد حسین کی نظر میں ‘‘ مرتبہ محمدحنیف شاہد ، صفحات ۱۲۵ تا ۱۴۴ ۔ ۲۶ ۔ دیباچہ ’’پیام مشرق‘‘۔ ۲۷ ۔ دیباچہ ’’پیام مشرق ‘‘۔ ۲۸ ۔ ’’خطوط اقبال ‘‘ مرتبہ رفیع الدین ہاشمی ، صفحات ۱۵۳ ، ۱۵۴ ۔ ۲۹ ۔ ایضاً ، صفحات ۵۵ا تا ۱۵۷ ۔ ۳۰ ۔ خط محررہ ۲۰؍ جولائی ۱۹۳۳ء ’’مکاتیب اقبال بنام محمد نیاز الدین خان ، صفحہ ۴۶ ۔ ۳۱ ۔ ’’لاہور ہائی کورٹ اور اس کی معروف بار ‘‘ از آر ۔ ایس سدھوا (انگریزی) ،صفحہ ۲۰۸ نیز دیکھیے ’’شاد اقبال ‘‘ مرتبہ محی الدین قادری زور ، صفحہ ۱۵۴ ۔ ۳۲ ۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ حصہ اوّل ، صفحہ ۱۳۷ ۔ ’’اقبال اور انجمن حمایت اسلام ‘‘ از محمد حنیف شاہد ، صفحات ۱۷۸ ، ۱۷۹ ۔ ۳۳ ۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ حصہ اوّل ، ۱۰۱۔ ۳۴ ۔ اس کتاب کے ۱۹۲۶ء کے ایڈیشن میں مولوی احمددین ایڈووکیٹ نے اقبال کے حالات، مقصد شاعری ، خیالات کی نشو و نما ، مضامین کلام اور طرز بیان سے بحث کی ہے۔ ۳۵ ۔ ’’ہندوستان میں نیشنلزم کا تصادم ‘‘ از ایم ۔ آر ۔ ٹی (انگریزی) ، صفحات ۴ ، ۵ ۔ ۳۶ ۔ ’’انڈیا ۲۶ ۔ ۱۹۲۵ئ‘‘ ازرش بروک ولیمز (انگریزی) ، صفحات ۶ تا ۸ ۔ ۳۷ ۔ ’’ہندوستان کے بعض اہم مسائل ‘‘ از سر محمد شفیع (انگریزی) ، صفحہ ۱۸ ۔ ۳۸ ۔ ’’انڈیا ۲۵ ۔ ۱۹۲۴ء ‘‘ازرش بروک ولیمز (انگریزی) ، صفحات ۳۲۸ ، ۳۲۹، ’’انڈیا اینول رجسٹر ۱۹۲۴ء ‘‘ جلد دوم ، مرتبہ ایچ ۔ این۔ مترا (انگریزی) ، صفحات ۴۷۲ تا ۴۸۲ ۔ ۳۹ ۔ ’’ذکر اقبال ‘‘ ، صفحہ ۱۳۱ ۔ ۴۰ ۔ ’’تاریخ دعوت و عزیمت ‘‘ حصہ چہارم از سید ابوالحسن علی ندوی ، صفحات ۱۴۸ ، ۱۴۹ ۔ ۴۱ ۔ ۱۹۳۴ء میں جب راقم تقریباً دس برس کی عمر کا تھا تو اقبال اسے ہمراہ لے کر دوبارہ سرہند پہنچے ۔ راقم ان کی انگلی پکڑے مزار کے اندر داخل ہوا۔ اقبال تربت کے قریب بیٹھ گئے اور راقم کو بھی اپنے پہلو میں بٹھا لیا۔ پھر انہوں نے قرآن مجید کا ایک پارہ منگوایا اور دیر تک خوش الحانی سے پڑھتے رہے۔ راقم نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو امنڈ کر رخساروں پر ڈھلک آئے ہیں۔ ۴۲ ۔ شیخ اعجاز احمد بیان کرتے ہیں کہ ’’سرود رفتہ ‘‘ مرتبہ غلام رسول مہر و صادق علی دلاوری صفحہ ۲۱۹ پر یہ قطعہ چند غلطیوں کے ساتھ درج ہے اولاً یہ کہ تاریخ وفات غلط لکھی گئی ہے ، دوسرے ہجری سنِ وفات غلط تحریر کیا گیا۔ اس کے علاوہ آخری مصرع میںکتابت کی غلطی سے ہجری سنِ وفات کی صحت میں خلل پیدا ہو گیا۔ ۴۳ ۔ ’’روز گار فقیر ‘‘ جلد دوم ، صفحات ۱۹۰ تا ۱۹۳۔ ۴۴ ۔ ’’روایات اقبال ‘‘ مرتبہ عبداللہ چغتائی ، صفحات ۱۲۶، ۱۲۷، مرزا جلال الدین نے اپنی تفصیل میں اس واقعے کے پس منظر کے متعلق کچھ بیان نہیں کیا ۔ اقبال بعض اوقات لدھیانے میں اپنے سسرال والوں کے ہاں بھی قیام کرتے تھے ۔ مثلاً ۱۹۲۴ء کے اوائل میں جب لاہور میں طاعون کی وبا زوروں پر تھی تو وہ چند دنوں کے لیے مع عیال لدھیانے چلے گئے ۔ ’’مکاتیب اقبال بنام محمد نیاز الدین خان ، صفحہ ۵۰ ۔ ان ایام میںاقبال کی دونوں بیگمات امید سے تھیں۔ ۴۵ ۔ ’’ذکر اقبال ‘‘ ، صفحہ ۱۲۶ ۔ ۴۶ ۔ ’’گفتار اقبال ‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۱۰ تا ۱۲ ۔ ۴۷ ۔ ’’انڈیا ۲۶ ۔ ۱۹۲۵ء ‘‘ ، ازرش بروک ولیمز (انگریزی) صفحات ۷۰،۷۱،۷۸تا ۸۰ ، ’’انڈین اینول رجسٹر ۱۹۲۵ئ‘‘جلد دوم مرتبہ ایچ این مترا (انگریزی) صفحات ۳۵۵ تا ۳۶۱ ۴۸ ۔ ’’انڈیا ۲۶ ۔ ۱۹۲۵ء ازرش بروک ولیمز (انگریزی) ، صفحات ۱۰۵ تا ۱۱۰ ۔ ۴۹ ۔ ’’زمیندار ‘‘ ۹ ؍ اکتوبر ۱۹۲۵ء ۔ ۵۰ ۔ ’’روز گار فقیر ‘‘ از فقیر سید وحیدالدین ، جلد اوّل ، صفحہ ۱۱۴ ۔ ۵۱ ۔ ’’سر محمد شفیع کی ذاتی ڈائری جلد یکم جنوری ۱۹۲۰ء تا ۱۶ ؍ جون ۱۹۲۱ء (انگریزی)میاں احمد شاہ نواز کی تحویل میں ہے اور راقم نے اس سے استفادہ کیا ہے۔ ۵۲ ۔ ’’روایات اقبال ‘‘ مرتبہ عبداللہ چغتائی ، صفحات ۱۳۴ ، ۱۳۵ ۵۳ ۔ اس خط کی نقل سرتیج بہادر سپرو کی بیٹی کے فرزند پنڈت اپل نارائن رینا ولد پنڈت چاند نارائن رینا نے راقم کو ارسال کی ہے۔ پنڈت چاند نارائن رینا پنجاب میں اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر تھے اور انہیں اقبال سے تلمذ کا فخر حاصل تھا ۔ ۵۴ ۔ ’’نیویارکر ‘‘ (انگریزی) ۲۳ ؍ جولائی ۱۹۷۹ء ، صفحہ ۴۴ ۔ ۵۵ ۔ سر شادی لعل کا انجام عبرت ناک تھا ۔ اس نے بینائی کھو کر نہایت کس مپرسی کے عالم میں ایک قلاش کی حیثیت سے اپنی بیٹی کے گھر میں وفات پائی۔ ۵۶ ۔ ۹؍ مئی ۱۹۳۴ء میں شذرات کا کالم ملاحظہ ہو ۔ ۵۷ ۔ بحوالہ ’’زمیندار‘‘ ۱۵ ؍ اکتوبر ۱۹۲۵ء ’’ذکر اقبال ‘‘ از عبدالمجید سالک ، صفحات ۱۳۰ تا ۱۲۹۔ اختتامی دور (حصہ سوم) باب : ۱۵ عملی سیاست کا خارزار اقبال گو فکری اعتبار سے سیاسیات میں گہری دلچسپی رکھتے تھے لیکن ۱۹۲۶ء سے پیشترانہوں نے عملی سیاست میں حصہ نہ لیا تھا۔ اُن کی اپنی تحریر کے مطابق وہ شاید پہلی شخصیت تھے جس نے ہندوستان میں قومیت متحدہ کا خواب دیکھا تھا ۱ ، مگر اس زمانے میں بھی جب وہ اشتراکِ اغراض کی بنا پر ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے، انہوں نے کانگرس میں شمولیت اختیار نہ کی بلکہ برصغیر کو مختلف اقوام کا وطن ہی تصور کیا، مسلم قومیت کا خیال بھی کم از کم ۱۹۰۰ء سے اُن کی قومی شاعری میں موجود تھا۔ قیام انگلستان کے دوران میں وہ ایک ایسے ذہنی اور قلبی انقلاب سے گزرے جس نے ان کا رُخ حتمی طور پر اسلام کی طرف موڑ دیا۔ لندن میں پان اسلامک سوسائٹی یا مسلم لیگ کی برٹش کمیٹی سے ان کی وابستگی سر سری نوعیت کی تھی ۔ لاہور واپسی پر مسلم لیگ کی صوبائی شاخ سے ان کا تعلق بھی ابتداً فکری بنیادوں پر قائم ہوا ۔ کانگرس لیگ سمجھوتا یا میثاقِ لکھنؤ پر پنجاب کی طرف سے سر فضل حسین نے دستخط کیے تھے ۔ اقبال میثاق لکھنؤ کے حق میں نہ تھے ۔ بعد میں جب خلافت کانفرنس وجود میں آئی اور مسلم سیاسی رہنما ہندوئوں کے ساتھ عدم تعاون یا ترکِ موالات کی تحریک میں شامل ہو گئے تو اقبال نے اختلافات کے سبب ان سے کنارہ کشی اختیار کی ۔ یہ دور اقبال کی ذہنی اور قلبی تنہائی کا دور تھا کیونکہ عدم تعاون کے حامی اور تعاون پسند دونوں قسم کے مسلم قائدین کے گروہ ان کے زاویہ نگاہ کو سمجھنے سے قاصر تھے ۔ اقبال برصغیر میں مسلمانوں کی عملی سیاست کو ایک بیکار مشق ، وقتی شور و شغب یا تحصیل جاہ کے لیے ذریعہ سمجھ کرنا پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ عملی سیاست میں حصہ لینے کے متعلق ان کی ذاتی رائے یہ تھی: ہوس بھی ہو تو نہیں مجھ میںہمت تگ و تاز حصولِ جاہ ہے وابستۂ مذاقِ تلاش! ہزار شکر ، طبیعت ہے ریزہ کار مری ہزار شکر، نہیں ہے دماغ فتنہ تراش مرے سخن سے دلوں کی ہیں کھیتیاں سر سبز جہاں میں ہوں میں مثالِ سحابِ دریا پاش یہ عقد ہاے سیاست تجھے مبارک ہوں کہ فیضِ عشق سے ناخن مرا ہے سینہ خراش اس پس منظر میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ۱۹۲۶ء میں انہوں نے عملی سیاست کے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ بات یہ ہے کہ قیام انگلستان کے دوران میں جب وہ انقلاب سے گزرے اور انہی ایام میں برصغیر میں مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخاب کا اصول تسلیم کر لیا گیا، تو اقبال ، سرسید احمد خان کے سیاسی مکتبۂ فکر کو درست خیال کرتے ہوئے ، ذہنی و قلبی طور پر اس سے وابستہ ہو گئے۔ سر سید کے سیاسی مکتبۂ فکر کی منطق یہ تھی کہ برصغیر میں ہندو اکثریت کے جو رواستبداد کے خوف سے مسلم اقلیت نے مدافعانہ رویہ اختیار کر رکھا تھا ۔ سو جمہوریت کے ذریعے متحدہ قومیت کی بنیاد تب ہی رکھی جا سکتی تھی جب ہندو اور مسلمان مرکزی حکومت میں برابر کے حصے دار ہوں، لیکن فرقہ وارانہ منافرت کے سبب ہندو ایسی کسی صورت کو قبول کرنے کے لیے کبھی آمادہ نہ ہو سکتے تھے ۔ اس بنا پر برصغیر میںمتحدہ قومیت کا تصور ایک خیال خام تھا۲۔ اقبال کے ہاں اس منطق نے ایک عقیدے کی شکل اختیار کر لی اور ۱۹۰۹ء میں وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ برصغیر میں ہندوئوں اور مسلمانوں کو اپنا اپنا قومی تشخص ایک دوسرے سے الگ برقرار رکھنا چاہیے۳۔ اسی عقیدے کے پیشِ نظر اقبال اپنی تحریروں کے ذریعے مسلم قومیت کے اُصول اجاگر کرتے رہے ۔ تحریکِ خلافت یا تحریکِ ترکِ موالات کے دوران میںانہیں احساس ہوا کہ دنیائے اسلام کے تمام ممالک پر تو علاقائی قومیت کا بھوت سوار ہے اور برصغیر میں مسلمانوں کے بیشتر سیاسی رہنما یا تو ہندو مسلم اتحاد کے سراب میں بھٹک رہے ہیں یا انگریزی حکومت کی خوشنودی حاصل کر نے ہی کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتے ہیں ۔ اس مرحلے پر اقبال مسلم قائدین سے کٹ گئے۔ بہرحال اُن کا تعلق پنجاب یا ایک مسلم اکثریتی صوبے سے تھا، اس لیے فطرتاً وہ سیاست میں جارحانہ روّیہ رکھتے تھے،مدافعانہ روّیے کے قائل نہ تھے، پس انہوں نے عملی سیاست کے خار زار میں اترنے کا قصد اس لیے کیا کہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کو اپنے مطالبات منوانے کے لیے قومی سطح پر منظم کر کے ہندو اکثریت اور انگریزی حکومت دونوں کے مقابلے میں کھڑا کیا جائے۔ منٹو مورلے اصلاحات کی بنا پر ۱۹۰۹ء میں جو ایکٹ منظور ہوا، گو اس میں مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخاب کا مطالبہ تسلیم کر لیا گیا تھا، صوبائی کونسلوں میں منتخب نمائندوں کی تعداد محدود تھی، مگر اس کے بعد کئی حوادث کے سبب برصغیر کے سیاسی حالات بد سے بد تر ہوتے چلے گئے ۔ تقسیم بنگال کی تنسیخ ، جنگ طرابلس و بلقان ، سانحۂ کانپور ، پہلی جنگ عظیم میں ترکی کا مرکزی قوتوں کے ساتھ مل کر شریک جنگ ہونا ، رولٹ ایکٹ ، سانحہ جلیا نوالہ باغ، خلافت ، عدم تعاون یا ترکِ موالات کی تحریکیں، شدھی اور سنگھٹن کے سبب فرقہ وارانہ تعصب کا فروغ اور ہندو مسلم فسادات کا لا متناہی سلسلہ ۔۔۔۔ انہی مخدوش حالات کے پیش نظر مانیٹگو چیمسفورڈکی رپورٹ پر مزید دستوری اصلاحات کی صورت میں ۱۹۱۹ء کا ایکٹ نافذ ہوا ۔ اُس میں صوبوں کی کونسلوں میں نشستوں کی تعداد بڑھا دی گئی اور یوں نیا دو عملی نظام رائج ہوا ۔ نئے دستور کے تحت پہلی مرتبہ ۱۹۲۳ء کے صوبائی انتخابات میں اقبال پر لاہور سے کونسل کی رکنیت کے لیے امیدوار کھڑا ہونے کے بارے میں زور دیا گیا ، لیکن چونکہ اُسی حلقے سے اُن کے دوست میاں عبدالعزیز بیرسٹر کی امیدواری کا اعلان ہو چکا تھا ، وہ اُن کے مقابلے میں کھڑے نہ ہوئے ۔ ۱۹۲۶ء تک ہندو مسلم تعلقات میں ایک بہت وسیع خلیج حائل ہو چکی تھی ۔ ترک ِ موالات کی تحریک کے خاتمے پر کانگرس اور خلافت کانفرنس دونوں سیاسی تنظیموں کی اہمیت کم ہو گئی تھی ۔ سیاسیات کا میدان اب ہندو مہا سبھا یا سواراج پارٹی کے ہاتھوں میں تھا جو مسلمانوں کے کسی بھی مطالبے پر غور کرنے کو تیار نہ تھیں۔ مسلم لیگ تنظیم نو کے مراحل سے گزر کر ان مطالبات کو بار بار دہراتی ، مگر فرقہ وارانہ تعصب اور فسادات کے ماحول میں کسی قسم کی ہندو مسلم مفاہمت کا امکان نہ تھا۔ پنجاب کا سیاسی نقشہ بھی عجیب و غریب تھا ۔ شہروں میں کچھ پڑھے لکھے اور درمیانے طبقے کے لوگ آباد تھے، لیکن صوبہ کی بیشتر آبادی دیہات میں تھی، اس لیے دیہاتی شہری کا امتیاز اہمیت اختیار کر گیا تھا ۔ اس کے علاوہ سارے کا سارا صوبہ مختلف قسم کی برادریوں یعنی جاٹوں ، راجپوتوں، پٹھانوں، اعوانوں ، گکھڑوں، گوجروں ، مغلوں وغیرہ میں بٹا ہوا تھا۔ شہروں میں بھی یہی حال تھا ۔ لاہور شہر میں ارائیں ، کشمیری ، ککے زئی وغیرہ برادریوں نے الگ الگ ٹولیاں بنا رکھی تھیں اور کوئی شخص اپنی برادری کی حمایت کے بغیر کسی قسم کی عوامی مقبولیت حاصل نہ کر سکتا تھا ۔ اقبال نے غالباً اسی سبب سے اپنے قیام لاہور کے ابتدائی ایّام میں انجمن کشمیری مسلماناں سے وابستگی پیدا کی اور کشمیریوں کی فلاح و بہبود کے لیے انجمن کی کارروائیوں میں سرگرم حصہ لیتے رہے ۔ لیکن ۱۹۱۸ء میں جب انہوں نے محسوس کیا کہ مسلمان اخوّت کے نصب العین کو پسِ پشت ڈال کر برادریوں کے فریب میںمبتلا ہیں اور ان کی اس فریب خوردگی سے ملّی سیاست کے متاثر ہونے کا خطرہ ہے تو انہوں نے ایسے مخصوص اداروں سے کنارہ کشی اختیار کر لی ۴۔ بہرحال اس زمانے میں صوبے میں کوئی بھی ایسی فعال سیاسی جماعت نہ تھی جو مسلمانوں کو ان کے قبائلی تعصبات اور فرقہ پرستی سے نجات دلا کر ملّی سطح پر منظم کر سکتی ۔ جو سیاسی تنظیمیںموجود تھیں ، ان کا اثربہت محدود تھا۔ عاشق حسین بٹالوی کی رائے میں مائیکل اڈوائر پہلا شخص تھا جس نے حد درجہ چالاکی سے پنجاب کے دیہاتی مسلمانوں کو شہری مسلمانوں کا حریف بنا کر اس صوبے میں مسلمانوں کی قومی وحدت کو شدید نقصان پہنچایا ، بالآخر اسی مصنوعی اور غیر حقیقی تقسیم نے پنجاب کی سیاسیات میں ۱۹۲۳ء میں یونینسٹ پارٹی کو جنم دیا، جس کے بانی سر فضل حسین تھے ۔ سر فضل حسین کے اثر و رسوخ کے سبب پنجاب قانون ساز کونسل میں یونینسٹ پارٹی نے مضبوط پوزیشن حاصل کر لی ، لیکن پارٹی کی ریشہ دوانیوں سے قبائلی تعصب کا زہر مزید پھیلا اور مسلمانوں کے درمیان شہری دیہاتی کی دیوار کھڑی ہو گئی ۵۔ ۱۹۲۶ء کے ابتدائی مہینوں میں اقبال معمول کے مطابق وکالت کے شغل میں مصروف رہے۔ اب وہ موٹرکار میں عدالت عالیہ جایا کرتے تھے، جسے فیروز نامی ایک شوفر چلاتا تھا۔ انہی ایّام میں وہ ’’زبورِ عجم‘‘ لکھ رہے تھے اور مختلف یونیورسٹیوں کے امتحانات کے لیے پرچے بھی بناتے یا دیکھتے تھے۔ احباب کی محفلیں بھی جمتیں جن میں عالمی ، ملکی یا صوبائی سیاسیات پر گفتگو ہوتی یا علمی ، ادبی اور فلسفیانہ موضوعات زیرِ بحث آتے ۔ اسی سال اقبال کے اصرار پر چوہدری محمد حسین نے پنجاب سول سیکرٹریٹ میں ملازمت کر لی ۔ وہ پریس برانچ سے وابستہ ہوئے اور ترقی کرتے کرتے ہوم ڈیپارٹمنٹ تک پہنچے، اقبال ابتدا ہی سے چوہدری محمد حسین پر بے حد اعتماد کرتے تھے اور انہیں ایک مخلص مسلمان اور اپنا مخلص دوست سمجھتے تھے ۔ چوہدری محمد حسین بھی نہ صرف اقبال کے باعمل نیاز مند تھے بلکہ ان کی ذات سے بے پناہ محبت کرتے تھے ، ملازمت اختیار کرنے کے تھوڑے ہی عرصے بعد انہیں صوبے کی انگریزی حکومت نے ڈیوٹی سونپی کہ اقبال یا ان کے ملاقاتیوں کے ساتھ گفتگو کی خفیہ رپورٹ حکومت تک پہنچاتے رہیں ۔ چوہدری محمد حسین سخت شش و پنج میں مبتلا ہوئے اور انہوں نے نوکری چھوڑ دینے کا ارادہ کر لیا ، لیکن چونکہ وہ اقبال ہی کے اصرار پر ملازم ہوئے تھے ، اس لیے انہوں نے اقبال کے استفسار پر انہیں ساری حقیقت بیان کر دی ۔ اقبال نے انہیں ملازمت جاری رکھنے اور حکومت کی سونپی ہوئی ڈیوٹی بجا لانے پر مجبور کیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ چوہدری محمد حسین نے ملازمت ترک نہ کی ۔ حکومت کے لیے خفیہ رپورٹ وہ اور اقبال دونوں ہی اکٹھے بیٹھ کر مرتب کیا کرتے اور یہ سلسلہ کئی برسوں تک یونہی جاری رہا ۶۔ انہی ایّام میں چوہدری محمد حسین نے اقبال کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کی یاد داشت بھی لکھنا شروع کی۔ اس یاد داشت میںدینی ، علمی اور ادبی باتوں کے علاوہ بعض اندراجات بڑے دلچسپ ہیں۔ مثلاً ایک مقام پر تحریر کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ کوئی خاتون اقبال پر فریفتہ ہو گئیں، ان سے خط و کتابت کرنے لگیں اور انہیں لکھا کہ مجھ سے شادی کر لو۔ اقبال نے کوئی جواب نہ دیا تو اس نے اپنی طرف سے کسی شخص کو اقبال سے رشتہ طے کرنے کی غرض سے بھیجا ۔ جب وہ شخص آیا تو چوہدری محمد حسین بھی وہیں موجود تھے۔ اس زمانے میں چوہدری محمد حسین کے سب احباب انہیں غیر شادی شدہ سمجھتے تھے، یہاں تک کہ اقبال کو بھی معلوم نہ تھا کہ وہ شادی شدہ ہیں اور صاحبِ اولاد ہیں۔ اقبال نے اس شخص کو بیٹھنے کے لیے کہا اور آنے کی وجہ پوچھی ۔ اس وقت چوہدری محمد حسین دور کھڑے الماری میں کوئی کتاب ڈھونڈ رہے تھے۔ وہ شخص کہنے لگا کہ میں ڈاکٹر اقبال سے ملنا چاہتا ہوں اور مجھے بتایا جائے کہ آپ دونوں میں وہ کون سے ہیں ۔ اقبال نے کہہ دیا کہ میں ڈاکٹر اقبال ہوں ۔ اس پر اس شخص نے راز دارانہ لہجے میں انکشاف کیا کہ وہ اُن کے رشتے کی غرض سے فلاں کا پیغام لے کر آیا ہے ۔ اقبال نے معذرت کی اور کہا کہ وہ شادی شدہ ہیں اور انہیں مزید شادی کی فی الحال ضرورت نہیں۔ جب وہ مایوس ہو کر جا چکا تو اقبال نے سارا قصہ چوہدری محمد حسین کو کہہ سنایا۔ چوہدری محمد حسین بولے : واہ ! آپ کو چاہیے تھا کہ میری طرف اشارہ کر کے کہہ دیتے کہ ڈاکٹر اقبال میںہوں ۔ اگر آپ نے خود بیاہ نہ کرنا تھا تو کم از کم میرا بندوبست تو ہو جاتا ۷ ۔ میکلوڈ روڈ والی رہائش گاہ میں راقم کی پیدائش کے فوراً بعد اقبال نے اپنے سارے کبوتر احباب میں بانٹ دیئے اور کبوتر بازی کے شغل کو اس لیے ترک کر دیا کہ کہیں راقم بھی بڑا ہو کر ان کی دیکھا دیکھی کبوتر اُڑانے کی عادت نہ ڈال لے۔ گھر کی حالت خستہ تھی ، لیکن ماحول نہایت پُرسکون تھا۔ کوٹھی کے بالمقابل میدان تھا جس کی ایک طرف قانون کی کتب سے بھرا منشی خانہ، اس کے ساتھ مہان خانہ، برآمدہ ، گیراج اور نوکروں کے چند کوارٹر تھے، اس مختصر سی عمارت کی بغل میں ایک قبرستان تھا، جس کا اب نام و نشان مٹ چکا ہے ۔ کوٹھی کے سامنے برآمدے کے ستونوں میں لکڑی کے تختے جڑے تھے اور ایک چھوٹا سا سیمنٹ کا تھڑا تھا جس پر کرسیاں رکھی جاتی تھیں اور اقبال اور اُن کے احباب سردیوں میںدن کے وقت دھوپ میں یہیں بیٹھتے تھے، یا گرمیوں میں رات کو اقبال کا بستر لگایا جاتا تھا۔ برآمدے سے ایک دروازہ ڈرائنگ روم میں کھلتا تھا۔ یہ ایک وسیع کمرہ تھا جس مین قالین پر صوفے اور کرسیاں رکھی تھیں ۔ دیوار پر ایک طرف سیمنٹ عرصے سے اُکھڑا ہوا تھا جسے چھپانے کی خاطر ملکہ وکٹوریہ کی بڑی تصویر آویزاں کی گئی تھی ۔ ڈرائنگ روم کی دائیں جانب دروازہ ایک چھوٹے سے بغلی کمرے میں کھلتا تھا جو اقبال کی خواب گاہ تھا ۔ اس کمرے میں لوہے کی اسپرنگ والی چار پائی پر وہ سردیوں میں سویا کرتے تھے ۔ ساتھ ان کے استعمال کے لیے غسل خانہ بھی تھا۔ ڈرائنگ روم کی سامنے والی دیوار میں دروازہ ایک اور بڑے کمرے میں کھلتا تھا جس میں اقبال مع اہل و عیال عموماً گرمیوں میں دوپہر کو آرام کیا کرتے ۔ باہر کے برآمدے میں دوسرا دروازہ زنانخانے کی طرف جانے کا راستہ تھا جو ایک ڈیوڑھی میں سے ہوتا ہوا اندر کے برآمدے تک جاتا تھا ۔ اندر کے برآمدے کے سامنے ایک بڑا دالان تھا جس کے ایک طرف باورچی خانہ تھا اور سامنے اونچی دیوارتھی جو کوٹھی کی حدِ فاصل تھی اور اُسے دیالِ سنگھ کالج کی گرائونڈ سے علیحدہ کرتی تھی ۔ اندر کے برآمدے سے ایک دروازہ دو وسیع کوٹھریوں میں کھلتا تھا جن کے ساتھ ایک غسل خانہ ملحق تھا ۔ گھر کے تمام افراد کے لیے کھانا سردار بیگم خود پکاتی تھیں ۔ اُن کی مدد کے لیے موچی دروازے کی ایک ادھیڑ عمر کی کشمیری خاتون رحمت بی بھی تھیں ، جنہیں ہرچھوٹا بڑا ماں وڈی ، (بڑی اماں) کہہ کر بلاتا تھا ۔ رحمت بی ۱۹۱۳ء میں سردار بیگم کے ساتھ آئی تھیں اور انہوں نے علی بخش کی طرح اپنی تمام عمر اقبال کے خاندان کی خدمت کرتے گزار دی۔ تقریباً ستّر برس کی عمر میں وفات سے چند ماہ قبل اپنی بیٹی کے گھر گئیں اور وہیں غالباً ۱۹۴۵ء میں فوت ہوئیں ۔ کوٹھی کی پشت پر مُصلّیوں (نومسلم) کا محلہ تھا جن کی لڑکیاں سردار بیگم سے قرآن مجید پڑھنے آتیں ، اقبال کی بھتیجیوں عنایت بیگم اور وسیمہ بیگم سے معمولی اردو پڑھنا لکھنا یا سینا پرونا سیکھتیں اور گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتیں۔ ان میں سے بعض کی شادیاں بھی سردار بیگم ہی نے کروائی تھیں ۔ کبھی کبھار اقبال کی بہنوں زینت بی یا کریم بی میں سے کوئی ایک بھی آ جاتیں اور یہیں ٹھہرتیں ۔ اسی طرح اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد بھی تبدیلیِ آب و ہوا کے لیے لاہور آتے تو اقبال ہی کے پاس قیام کرتے ، لیکن چونکہ اقبال کے والد شیخ نور محمد اب بہت ضعیف ہو چکے تھے ، اس لیے اقبال انہیں ملنے کی غرض سے گرمیوں کی تعطیلات میں مع اہل و عیال سیالکوٹ چلے جایا کرتے۔ باہر منشی خانے میں تو منشی طاہر الدین یا موکل بیٹھا کرتے اور مہمان خانے میں اقبال کے بھتیجے مختار احمد مقیم تھے جو اپنی تعلیم مکمل کر لینے کے بعد سول سیکرٹریٹ میں ملازم ہوئے۔ اس دور میں راقم نے اقبال کے ہاں رشتے داروں کے علاوہ صرف دو مہمان مختار احمد والے مہمان خانے میں ٹھہرتے ہوئے دیکھے ۔ ان میں سے ایک تو جنوبی ہند کے کوئی سر اور ڈاڑھی منڈے سوامی جی تھے جو کبھی کبھار لاہور آتے اور یہیں ٹھہرتے ۔ وہ ہمیشہ ننگے پائوں رہتے اور ہلکے کیسری رنگ کا کھدر کا چولا پہنتے جس کے اندر چمڑے کی ایک پیٹی میں اپنی رقم محفوظ رکھتے تھے۔ دوسرا مہمان ایک جرمن تھا جو جغرافیائی نقشہ جات بنانے میں ماہر تھا اور جس نے ۱۹۲۹ء میں اقبال کی فرمائش پر انہیں برصغیر کی اس وقت کی مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق ، ہندو مسلم آبادی کے تناسب سے ، ہندوستان اور اس کے مختلف صوبوں کے نقشے تیار کر کے دیئے ۔ راقم نے اپنے بچپن میں یہ نقشے گھر میں بکھرے ہوئے دیکھے ہیں، لیکن بعد میں ضائع ہو گئے ۔ راقم کی یاد داشت کے مطابق ان نقشوں میں آبادی نقطوں کی صورت میں ظاہر کی گئی تھی ۔ ہندو اور مسلم آبادی کی شناخت کے لیے یہ نقطے کیسری اور سبز رنگوں کی روشنائی سے بنائے گئے تھے۔ علی بخش کی امداد کے لیے اب ایک اور ملازم رحماں بھی رکھ لیا گیا تھا ، جو علی بخش ہی کے گائوں اٹل گڑھ ضلع ہوشیار پور کا رہنے والا تھا ۔ میکلوڈ روڈ والی رہائش گاہ ایک ہندو بیوہ اور اس کے دو یتیم بچوں کی ملکیت تھی۔ اسی خیال کے پیشِ نظر اقبال نہ صرف کوٹھی کا کرایہ زیادہ ادا کرتے بلکہ انہوں نے کبھی مرمت کا بھی تقاضا نہ کیا ۸۔ ۱۹۲۶ء میں دوسری مرتبہ پنجاب قانون ساز کونسل کے انتخابات ہونے تھے ۔ اس مرتبہ احباب نے پھر اصرار کیا کہ اقبال لاہور کے مسلم حلقے سے انتخابات میںحصہ لیں۔ اسی دوران میںجب میاں عبدالعزیز بیرسٹر نے انہیں یقین دلایا کہ وہ اقبال کے مقابلے میں کھڑے نہ ہوں گے بلکہ ان کی امداد کریں گے تو اقبال اپریل ۱۹۲۶ء میں انتخابات میں حصہ لینے کے لیے آمادہ ہو گئے۹ ۔میاں عبدالعزیز بیرسٹر کا اقبال کے حق میں دستبرداری کا اعلان ۱۵ جولائی ۱۹۲۶ء کے ’’زمیندار‘‘ میں شائع ہوا ۔ اس کے بعد ۲۰؍ جولائی ۱۹۲۶ء کے ’’زمیندار‘‘ میں اقبال کی طرف سے امیدواری کا باقاعدہ اعلان چھپا ۔ انہوں نے میاں عبدالعزیز بیرسٹر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا۔ مسلمانوں کو معلوم ہے کہ میں اب تک اس قسم کے مشاغل سے بالکل علیٰحدہ رہا ، محض اس لیے کہ لوگ یہ کام انجام دے رہے تھے اور میں نے اپنے لیے دوسرا دائرہ کار منتخب کر لیا تھا، لیکن اب قوم کی مصیبتیں مجبور کر رہی ہیں کہ اپنا حلقۂ عمل قدرے وسیع کردوں ۔ شاید میرا ناچیز وجود اس طرح اس ملّت کے لیے زیادہ مفید ہو سکے جس کی خدمت میں میری زندگی کے تمام لیل و نہار گزرے ہیں ۱۰۔ گو لاہور کے مسلم اخباروں نے بارہا تحریر کیا کہ اقبال جیسی شخصیت کو بلا مقابلہ کونسل کا رکن منتخب کیا جانا چاہیے ، لیکن لاہور میں ’برادری نوازی‘ کی وبا کی موجودگی کے سبب دو اورحضرات مقابلے میں کھڑے ہو گئے۔بہرحال ان میں سے ملک محمد حسین صدر بلدیہ لاہور نے اقبال کے حق میں دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا اور اقبال نے اُن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا: میں اُن کے اس جذبے کو بے انتہا قابل تعریف سمجھتا ہوں کہ وہ مسلمانوں میں برادریوں کے افتراق کو دیکھنا پسند نہیں کرتے اور اتحاد المسلمین کے مقصدِ عزیز کے لیے انتہائی ایثار سے کام لے سکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اس قسم کی درد مندی اور ایثار کی توفیق دے ۱۱۔ مگر ملک محمد دین مقابلے میں ڈٹے رہے، اس لیے اقبال کو انتخابی جنگ کے میدان میں اترنا پڑا۔ لاہور میں اُن کی حمایت میں تقریباً بیس جلسے منعقد ہوئے جن میں بعض سے اقبال نے خطاب کیا۔ ہر محلے سے جلوس نکالے گئے۔ شہر کی کئی برادریوں نے اُن کی حمایت میں اشتہار شائع کیے اور اقبال کو انتخابی مہم میں اپنی جیب سے بہت کم خرچ کرنا پڑا۱۲ ۔ انتخابی مہم میں ملک محمد دین ، اقبال پر مختلف سمتوں سے حملہ آور ہوئے ۔ اُن کا ایک زاویہ یہ تھا کہ اقبال کے عقاید قابلِ اعتراض ہیں۔ یعنی وہ وہابی العقیدہ ہیں، جب کہ ملک محمد دین اہلِ سنت و الجماعت ہیں۔ یہ پہلو اس لیے فائدہ مند تھا کہ اقبال نے ’’اسرار خودی‘‘ میں حافظ شیرازی پر تنقید کر کے بعض مشائخ سے ’’دشمن تصوف‘‘ کا خطاب پایا تھا ، نیز سلطان ابن سعود کے حق میں بیان دے کر علما کے ایک طبقے سے انہوں نے کفر کا فتویٰ بھی حاصل کر رکھا تھا۔ ملک محمد دین کا دوسرا زاویہ یہ تھا کہ اقبال کشمیری برادری سے تعلق رکھتے ہیں مگر چونکہ ملک محمد دین ارائیں ہیں اس لیے ارائیں برادری کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ارائیں ہی کو اپنا نمایندہ چننا چاہیے۔ ان کا تیسرا زاویہ اشتہارات کے ذریعے اقبال کے ذاتی کردار پر کیچڑ اچھالنا یا ان کی کردار کشی کرنا تھا ۔ ملک محمد دین کی انتخابی مہم کا یہ پہلو نہایت افسوس ناک تھا ۔ اس قسم کے چودہ اشتہار سوالات کی شکل میںدیواروں پر چسپاں کیے گئے اور اُن کا اسلوب الزام تراشی یا بہتان طرازی کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ اقبال کی طرف سے ان اشتہارات کا کوئی جواب نہ دیا گیا۔ اُن کے جلسوں میں اسلامی اتحاد و اتفاق برقرار رکھنے کی تلقین کی گئی ، ذات برادری کے غیر اسلامی قیود کے خاتمے کی ترغیب دی گئی اور اختلافات عقاید سے احتراز کیا گیا ۔ کسی جلسے میں کسی کے خلاف کچھ نہ کہا گیا اور اگر کسی کے منہ سے جوش میں آ کر کوئی نازیبا کلمہ نکل بھی گیا تو اسے روک دیا گیا ۱۳ ۔ مدیر ’’زمیندار‘‘ نے اقبال کی حمایت میں ملک محمد دین کی انتخابی مہم پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر کیا : کیا یہ مسلمانوں کی انتہائی بدبختی اور نامرادی کی دلیل نہیں کہ انہوں نے ایسی محترم شخصیت کو بھی پنجاب کونسل ممبری جیسے حقیر منصب کے لیے بلا مقابلہ منتخب نہ ہونے دیا؟ جب مسلمانوں کی بے حسی اور بے غیرتی کی حالت یہ ہے تو پھر اُن کی یہ شکایت کہاں تک حق بجانب قرار دی جا سکتی ہے کہ مخلص خادمانِ قوم نہیںملتے اور حقیقی رہنمائوں کا قحط پڑ رہا ہے ۔ میاں عبدالعزیز بیرسٹر ایٹ لا اور ملک محمد حسین صاحب صدر بلدیہ لاہور نے علامہ اقبال کے حق میں کونسل کی امیدواری سے دستبردار ہو کر اپنی دانشمندی اور ضرورت شناسی ملّت کا ثبوت دیا اور مسلمان تہِ دل سے اُن کے شکر گزار ہیں ، لیکن اب علامہ اقبال کے مقابلے میں لاہور کے ایک غیر معروف بیرسٹر ملک محمد دین صاحب کھڑے ہوئے ہیںجن کے نام سے بھی عامتہ المسلمین اب تک ناواقف تھے ۔۔۔۔ ملک محمد دین نے اپنے انتخاب کے سلسلے میں جو اعلان شائع کیا ہے اس میںجابجا اس امر پر زور دیا ہے کہ میں اہلِ سنت و الجماعت میں سے ہوں ۔ میں نے بزرگوں کے مزاروں کی زیارت کی ہے اور میں صرف اہلِ سنت کے ووٹ حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ ہم یہ سوال کرنا چاہتے ہیں کہ کیا کونسل کی ممبری کے لیے آئندہ اہلِ سنت اور غیر اہل سنت معیار معتبر سمجھا جائے گا ؟ ۔۔۔۔۔ جو شخص امیدواری کی حالت میں اس قدر فرقہ پرست ہے وہ کونسل کی ممبری حاصل کر لینے کے بعد تمام مسلمانوں کا نمائندہ کیوں کر کہلا سکتا ہے ؟ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ شیعہ اور اہل حدیث کونسل میں اپنے لیے الگ نشستوںکا مطالعہ شروع کردیں؟ ایک طرف علامہ اقبال پُکار پُکار کر کہہ رہے ہیں کہ میں تمام کلمہ گویوں کا نمائندہ بننا چاہتا ہوں اور برادریوں اور فرقوں کے بُت کو پاش پاش کر دینا میرا مقصد ہے اور دوسری طرف ایک شخص حنفیّت کو پیش کر رہا ہے اور یہ نہیں دیکھتا کہ مسلمانوں کو تفرق کی ضرورت نہیں بلکہ اتحاد کی ضرورت ہے ۔۔۔۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ملک محمد دین کو ارائیوں کی برادری کے ووٹوں پر زیادہ تر اعتماد ہے اور کسی ایک برادری کے ووٹوں پر تکیہ کرنا بھی ان کی تفرق پسندی کی نہایت روشن دلیل ہے ۔ عامتہ المسلمین سے ان کو کوئی مطلب نہیں۔ لیکن ہم ان کو بتانا چاہتے ہیں کہ ارائیں برادری کے تعلیم یافتہ اور روشن خیال افراد بھی اس قدر کو رسواد اور عقل کے اندھے نہیں ہیں کہ علامہ اقبال اور ملک محمددین میں تمیز نہ کر سکیں ۔۔۔۔ وہ کبھی برادری کے مقاصد کو اسلام کی اغراض پر ترجیح نہ دیں گے ۔۔۔۔ یہ حالت تو ملک محمد دین کی ہے اور علامہ اقبال بارہا لاہور کے جلسوں میں بآواز بلند فرما چکے ہیں کہ جو شخص مجھے کشمیری ہونے کی وجہ سے ووٹ دینا چاہتا ہے ، وہ مجھے ایسے ووٹ سے معاف رکھے ۔ میں صرف اسلام کے نام پر اپیل کرتا ہوں اور مجھے صرف مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت ہے ۔۔۔۔ ایک لالہ لاجپت رائے جس حلقے سے چاہتا ہے ایک شخص کو نامزد کر کے بلا مقابلہ منتخب کرا دیتا ہے ، اور کسی دوسرے کو اس کے مقابلے میں کھڑے ہونے کی جرأت نہیں ہوتی ۔ ہندوئوں نے شدید باہمی مخالفت کے باوجود پنڈت موتی لعل نہرو اور پنڈت مالویہ کو بلا مقابلہ منتخب کرانے کا فیصلہ کر لیا ہے جس حلقے سے پنڈت مالویہ کھڑے ہو رہے ہیں اس میں لاکھوں کانگرسی موجود ہیں اور جس حلقے سے پنڈت موتی لعل نہرو امیدوار ہیں ، اُس میں لاکھوں سنگٹھنی موجود ہیں، لیکن قومی اتحاد کی یہ حالت ہے کہ ان اکابر مملکت کے مقابلے میں کوئی شخص کھڑا نہیں ہو سکتا اور مسلمان ہیں جو علامہ اقبال کی جلیل القدر اور عظیم ایشان شخصیت کے ساتھ عقیدت کا یہ منظر بھی پیش نہیں کر سکتے۱۴ ۔ حاجی دین محمد خوشنویس کے بیان کے مطابق ، جو انتخابات میں اقبال کے زبردست حامیوں میں سے تھے اور جنہوں نے اس سلسلے میں نمایاں خدمات انجام دیں، ملک محمد دین کو سر شادی لعل نے اقبال کے مقابلے میں کھڑا ہونے کے لیے تیار کیا تھا ۔ وہ مزید بیان کرتے ہیں کہ ملک محمد دین کی طرف سے ایک بہت بڑا اشتہار دیواروں پرچسپاں کیا گیا ۔ مزنگ میں اقبال کے حامیوں کا جلسہ ہونے والا تھا ۔ ملک لال دین قیصر نے خواہش ظاہر کی کہ ہماری طرف سے بھی ایسا ہی قد آدم اشتہار چھپنا چاہیے ۔ سب کی نگاہ حاجی دین محمد پر پڑی، کیونکہ وہ جلی یا نمایاں خوش نویسی میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے۔ انہوں نے فوراً اشتہار کی کتابت کی، کاغذ فراہم کیا، پریس میں پہنچے ، پروف نکلوا کر پڑھا، شائع کرایا ، مزنگ کی دیواروں اور جلسہ گاہ کے باہر چسپاں کیا اور جلسہ گاہ میں آ کر چپ چاپ ایک طرف بیٹھ گئے۔ جب جلسہ شروع ہونے لگا تو ملک لال دین قیصر نے ان سے پوچھا ۔ حاجی صاحب آپ یہاں بیٹھے ہیں ، اشتہار کہاں ہے؟ وہ مسکرائے اور ایک طرف اشارہ کرکے کہنے لگے: وہ رہا آپ کا اشتہار۔ لوگ بڑے متعجب ہوئے کہ اتنی قلیل مدت میں اتنا بڑا اشتہار کیوں کر تیار ہو گیا ۔ جب اقبال کو پتا چلا تو انہوں نے بھی حیرت کا اظہار کیا اور فرمایا : حاجی صاحب تو ’’کاتبِ کُن فیکون ‘‘ ہیں۔ انہوں نے اشتہار سے کہا ’’کُن‘‘ اور وہ اسی وقت ’’فیکون‘‘ ہو گیا۱۵۔ ملک لال دین قیصر بھی اقبال کے زبر دست حامیوں میں سے تھے ۔ پنجابی کے معروف شاعر تھے اور اقبال کے ہر جلسے میں شریک ہوتے تھے ۔ مولانا غلام مرشد اسلامی اتحاد کی ضرورت پر تقریریں کرتے اور ملک لال دین قیصر اپنے پنجابی اشعار سنا کر سامعین کو محظوظ کرتے ۔ اس زمانے میں ملک لال دین قیصر کے پنجابی اشعار : ’’آگئی فوج اقبالی ، کر دیو رستہ خالی ‘‘ (الخ) کارکنان کی زبان پر رہتے ۔ جلوسوں میں اسلامیہ کالج کے طلبہ اور شہر کے دیگر نوجوان یہی اشعار پڑھتے یا اقبال کے اس شعر کا ورد ہوتا : یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو تم سبھی کچھ ہو ، بتائو تو مسلمان بھی ہو چوہٹہ مفتی باقر میںکسی انتخابی جلسے کے تقریباً تین چار ہزار کے مجمع میں اقبال بھی موجود تھے۔اس جلسے میں مولوی محرم علی چشتی کو، جو ملک محمد دین کے حمایتی تھے ملک لال دین قیصر اپنے ساتھ کھینچ لائے اور حاضرین سے ان کا تعارف کراتے ہوئے یہ طنزیہ پنجابی اشعار پڑھے: جیبی پور۱۶ اک پنڈ سنی دا، اوتھوں دا پٹواری اے اسی تے اُو سنوں کجھ نہیں کہنا، اوہدے منہ تے داہڑی اے کل جو کسے یار نے جا کے اوسنوں بولی ماری اے حضرت تہاڈی طاقت کتھے ، اودھر خلقت ساری اے کہن لگا اوہ بے وقوفا ، مت تری گئی ماری اے شہر لاہور اقبال دے ولّے ، ساڈا زور اٹاری اے اقبال کے حامیوں میں لاہور شہر کی کئی معروف ہستیاں تھیں ۔ میاں نظام الدین ، میاں امیر الدین ، میاں حسام الدین بیرسٹر ، میاں ایم اسلم ، محمد دین تاثیر ، خلیفہ شجاع الدین ، میاں عبدالعزیز بیرسٹر ، مولوی سید ممتاز علی، غلام رسول مہر ، عبدالمجید سالک، خواجہ فیروز دین ، خواجہ دل محمد، پہلوان چنن دین ،ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ ، مولوی احمد دین ایڈووکیٹ ، حفیظ جالندھری ، سید محسن شاہ ایڈووکیٹ، سید مراتب علی، شیخ گلاب دین ایڈووکیٹ ، شیخ عظیم اللہ ایڈووکیٹ ، عبدالرحمن چغتائی ، عبداللہ چغتائی ، نواب محمدعلی خان قزلباش ، سید افضال علی حسنی ، مرزا جلال الدین بیرسٹر، سردار حبیب اللہ، ملک میراں بخش ، مولانا ظفر علی خان ، شیخ محمد نقی ،مولوی محبوب عالم ، میاں شاہ نواز، حکیم محمد یوسف حسن کے علاوہ سیکڑوں شخصیتوں کے نام محمد حنیف شاہد نے اپنی تصنیف ’’اقبال اور پنجاب کونسل‘‘ میں درج کیے ہیں ۔ مختلف علاقوں کی انجمنوں یا وارڈوں کے مکینوں نے اقبال کی حمایت میں اعلان جاری کیے۔ شہر میں کشمیریوں کی تعداد ارائیوں سے کم تھی، لیکن کئی دیگر برادریوں مثلاً زرگروں، خوجوں ، قصابوں، گوجروں اور لوہاروں نے اقبال کے حق میں متفقہ فیصلے کیے ۔ ککے زئی برادری نے عملی حیثیت سے اقبال کی امداد کی ۔ مذہبی حلقوں میں شیعہ رہنما سید علی حائری ، خواجگانِ نارووال، احمد دیان قادیان اور احمدیان لاہور نے بھی اقبال کی تائید اور حمایت میں اعلان جاری کیے۔ انجمن اسلامیہ میاں میر اور اہل حدیث بھی اقبال کے ساتھ تھے ۔ سیاسی جماعتوں میں مجلس خلافت نے اقبال کو بہترین امیدوار قرار دیتے ہوئے ان کی اعانت کی۔ اقبال نے مجلسِ خلافت کے اُصول سے اتفاق کیا تھا اور اس کے مندرجہ ذیل منشور پر دستخط کیے تھے: ۱ ۔ ہمیشہ قومی مفاد کو ذاتی اغراض اور حکومت کی خوشنودی پر ترجیح دینا۔ ۲ ۔ مسلمانوں کے تمام حقوق کی حفاظت کے علاوہ ہندوستان کی مکمل آزادی کا نصب العین پیش نظر رکھنا اور مجلسِ خلافت جب تک اس نصب العین کو سامنے رکھ کر کام کر رہی ہے ، اس کی مخالفت کونسل کے اندر یا باہر نہ کرنا ۔ ۳ ۔ عام اسلامی مفاد کی حفاظت کے علاوہ جب تک ہندوستان کے حالات بدل نہ جائیں اس وقت تک مسلمانوں کے فرقہ وارانہ نیابت کی جد وجہد کو جاری رکھنا ۔ ۴ ۔ کونسل کے اندر اس جماعت کی ہمنوائی کرنا جو مندرجہ بالااصولوں پر کار بند ہو۔ کشمیریوں کے دو اخبار ’’سیاست ‘‘ اور ’’نشتر‘‘ اقبال کو جھوٹا، کذاب، وہابی، نجدی ، اسلام دشمن وغیرہ کے خطابات سے نواز کر ان کی شدید مخالف کرتے رہے ، لیکن لاہور کے باقی تمام مسلم اخبار اقبال کی حمایت میں لکھتے تھے ۱۷ ۔ جلسوں کا سلسلہ اکتوبر ۱۹۲۶ء سے شروع ہوا۔ ان جلسوں میں مولانا غلام مرشد اور ملک لال دین قیصر کے علاوہ جو معروف شخصیتیں تقریریں کرتی یا نظمیں پڑھتی تھیں ، ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں۔ مولانا محمد بخش مسلم ، حفیظ جالندھری ، ڈاکٹر سیف الدین کچلو ، مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا ظفر علی خان ، مولانا حبیب الرحمن ، مولانا مظہر علی اظہر ۔ بڑے بڑے جلوس بھی نکلتے ۔ جن میں اقبال شامل ہوتے۔ مختلف وارڈوں کے رضا کاروں کی ٹولیاں انتخابی اعلانات کی جھنڈیاں بلند کیے اقبال کی تعریف میں اشعار پڑھتے ہوئے آگے آگے روانہ ہوتیں ۔ ہر ٹولی کا امتیازی نشان مختلف ہوتا ۔ کسی جماعت کے سروں پر کاسنی رنگ کی پگڑیاں ہوتیں کہیں ملگجی رنگ کی پکڑیاںدیکھائی دیتیں ۔ کہیں سرخ ترکی ٹوپیوں والے نوجوان ہوتے جن کی ٹوپیوں پر اقبال کا لفظ کھریا مٹی سے لکھا ہوا نظر آتا ۔ ان ٹولیوں کے پیچھے معززین شہر کی جماعت ہوتی جن میں رئوسا ، کاروباری لوگ ، کالجوں کے پروفیسر اور دیگر اہلِ علم شامل ہوتے ۔ اس جماعت نے اقبال کو گھیرے میںلیا ہوتا ۔ وہ چند قدم چلنے نہ پاتے کہ پھولوں کے ہاروں سے لاد دیے جاتے ۔ رستے میں ہر طرف سے پھولوں کی بارش ہوتی ۔ کارکن اور رضاکار اقبال کے ان اشعار کو خاص طور پر گاتے جن میں اسلامی اتحاد کا پیغام دیا گیا تھا کیونکہ اقبال نے لاہور میں انتخابات کے موقع پر برادری اور فرقے بندی کی لعنتوں کو ختم کرنے کا بیٹرا اٹھایا تھا ۔ جلوس لاہور کے بازاروں سے گزرتے اور جلوس کے دوران میں اگر نماز کا وقت آ جاتا تو کسی بڑی مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کے بعد جلوس پھر مرتب کیا جاتا اور اسی شان و شوکت سے مختلف بازاروں سے گزرتا ہوا لاہور شہر کے کسی نہ کسی دروازے پر اختتام پذیر ہوتا جہاں اقبال تقریر کرتے اور مسلمانوں کو اتحاد کا پیغام دیتے ۱۸ ۔ ایسے انتخابی جلسوں یا جلوسوں میں کی گئی اقبال کی کچھ تقریریں جو ’’زمیندار‘‘ میں شائع ہوئیں، اب تک محفوظ ہیں ۔ مثلاً ۱۱؍ اکتوبر ۱۹۲۶ء کو ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا: میں انگریزی ، اردو ، فارسی میں برنگِ نثر بھی اپنے خیالات کا اظہار کر سکتا تھا ، لیکن یہ ایک مانی ہوئی بات ہے کہ طبائع نثر کی نسبت شعر سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں، لہٰذا میں نے مسلمانوں کو زندگی کے صحیح مفہوم سے آشنا کرنے ، اسلاف کے نقش قدم پر چلانے اور ناامیدی بزدلی اور کم ہمتی سے باز رکھنے کے لیے نظم کا ذریعہ استعمال کیا۔ میں نے پچیس سال تک اپنے بھائیوں کی مقدور بھر ذہنی خدمت کی ۔ اب اُن کی بطرزِ خاص عملی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کر رہا ہوں اسلامیانِ ہند پر عجب دور گزر رہا ہے ۔ ۱۹۲۹ء میں ایک شاہی مجلسِ تحقیقاتِ اصلاحات جسے رائل کمیشن کہتے ہیں ، یہ تحقیق کرے گی کہ آیا ہندوستان مزید رعایات و اصلاحات کا مستحق ہے یا نہیں ۔ ضرورت ہے کہ مسلمان بھی اس باب میں پوری توجہ سے کام لیں اور اپنے حقوق کا تحفظ کریں۔ ممبر کا سب سے بڑا وصف یہ ہونا چاہیے کہ ذاتی اور قومی منفعت کی ٹکر کے وقت اپنے شخصی مفاد کو مقاصدِ قوم پر قربان کر دے ، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں کبھی بھی اپنے مفاد کو قوم کے مصالح کے مقابلے میں ترجیح نہیں دوں گا اور ربّ العزت سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اس امر کی توفیق بخشے کہ میں آپ کی خدمت کر سکوں ۔ میں اغراض ملّی کے مقابلے میں ذاتی خواہشوں پر مر مٹنے کو موت سے بدتر خیال کرتا ہوں ۱۹ ۔ ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۲۶ء کو ایک جلسے میں انہوں نے اعلان کیا کہ اگر قوم متفقہ طور پر مجھے دستبردار ہونے کا حکم دے تو میں حکم کی تعمیل کے لیے بسرو چشم تیا رہوں ۔ میں ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانا بد ترین گناہ سمجھتا ہوں ۔ میں عنقریب نوجوانوں کا ایک جیش تیار کروں گا جو مسلمانوں کے درمیان فرقہ پرستی کی موجودہ لعنت کو بیخ و بنیاد سے اکھاڑ دے گا ۔ ۱۵؍ اکتوبر ۱۹۲۶ء کو ایک مجمع سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد کیا کہ مذہب جیسی مقدس چیز کو الیکشن کی آڑ نہ بنایا جائے اور باہمی اتفاق سے کام لیا جائے اور یہ کہ ہم کو پھر ابراہیمی کام کرنا ہے اور ذات پات کے بُت کو پاش پاش کرنا ہے۔ میں نوجوانوں کے سامنے عنقریب ایک سوشل پروگرام پیش کرنے والا ہوں۔ ۱۷ ؍ اکتوبر ۱۹۲۶ء کو ایک جلسے میں انہوں نے جمہوریت ، اسلام اور پنجاب کونسل کے موضوع پر ایک فاضلانہ خطبہ دیا ۲۰ ۔ ۱۹؍ نومبر ۱۹۲۶ء کو کٹڑا ولی شاہ کا جلسہ اندرون شہر میں غالباً آخری جلسہ تھا ۔ اقبال ساڑھے آٹھ بجے شب جلسہ گاہ میں تشریف لائے۔ جلسہ گاہ سے باہر بازار دور تک آراستہ تھا اور ہر سمت لوگوں کا ہجوم تھا۔ حاضرین کی کثرت کا یہ عالم تھا کہ تل دھرنے کو جگہ نہ تھی ۔ اقبال کے داخل ہوتے ہی انہیں ہار پہنائے گئے اور جلسہ پر جوش نعروں سے گونج اٹھا ۔ ملک لال دین قیصر ، آس اور ثمر کی نظموں کے بعد شیخ عظیم اللہ ایڈووکیٹ ، شمس الدین حسن ایڈیٹر ، خواجہ فیروز دین اور مولانا محمد بخش مسلم نے تقریریں کیں۔ آخر میں اقبال کھڑے ہوئے اور فرمایا : مسلمانوں کی زندگی کا راز اتحاد میں مضمر ہے ۔ میں نے برسوں مطالعہ کیا، راتیں غور و فکر میں گزاریںتاکہ وہ حقیقت معلوم کروں جس پر کار بند ہو کر عرب حضورِؐ سرورِ کائنات کی محبت میں تیس سال کے اندر اندر دنیا کے امام بن گئے ۔ وہ حقیقت اتحاد و اتفاق ہے جو ہر شخص کے لبوں پر ہر وقت جاری رہتی ہے ۔ کاش ہر مسلمان کے دل میں بیٹھ جائے ۔ نسلی اور اعتقادی اختلافات میں تنگ نظری اور تعصب نے مسلمانوں کو تباہ کر دیا ۔ اختلاف رائے ایک طبعی امر ہے۔ اس لیے کہ طبائع مختلف ہوتی ہیں ۔ ہر شخص کی نظر مختلف ہے ، اسلوبِ فکر مختلف ہے۔ لیکن اس اختلاف کو اس طریقے پر رکھنا چاہیے جس طرح ہمارے آبا و اجداد نے اُسے رکھا ۔ اس صورت میں اختلاف رحمت ہے ۔ جب لوگوں میں تنگ نظری آ جاتی ہے تو یہ زحمت بن جاتا ہے ۔ مسلمانو! میں تمہیں کہتا ہوں کہ اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو متحد ہو جائو ۔ اختلاف بھی کرو تو اپنے آباء کی طرح تنگ نظری چھوڑ دو۔ میں کہتا ہوں کہ تنگ نظری چھوڑنے سے سب اختلافات مٹ سکتے ہیں ۔ مسلمانانِ ہند کے لیے دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ وہ ہندوستان کی سیاسیات کے ساتھ گہری دل بستگی پیدا کریں۔ جو لوگ خود اخبار نہ پڑھ سکتے ہوں وہ دوسروں سے سنیں ۔ اس وقت جو قوتّیںدنیا میں کار فرما ہیں ، اُن میں سے اکثر اسلام کے خلاف کام کر رہی ہیں۔ لیکن ’’ لیظھرہ علی الدین کلہ ‘‘ کے وعدہ کی بنا پر میرا ایمان ہے ۔ کہ انجام کار اسلام کی قوتیں کامیاب و فائز ہوں گی ۔ لا تھنوا ولا تحزنوا و انتم الا علون ان کنتم مومنین ۲۱ ۔ انتخابی مہم کے دوران میں بعض لطیفے بھی پیدا ہوئے ۔ مثلاً حفیظ جالندھری کے بیان کے مطابق ایک روز کسی جلسے کو خطاب کرنے کے بعد اقبال ان کے ساتھ اندرونِ شہر کی گلیوں میں سے ہوتے ہوئے پیدل واپس آ رہے تھے۔ چونکہ امیدوار تھے اس لیے رستے میں جو کوئی بھی ملتا اسے سلام کرتے ۔ ایک شخص کو سلام کیا ، لیکن وہ شاید ملک محمد دین کا حمایتی تھا، اس نے جواب میں اپنی دھوتی اٹھا دی اور ننگا ہو گیا۔ اقبال جب موٹر کار میں بیٹھے تھکے ہارے گھر جا رہے تھے تو نہایت بجھے ہوئے لہجے میں حفیظ جالندھری سے کہنے لگے : اس قوم کے مصائب کے سبب میری راتوں کی نیند اچاٹ ہے ، لیکن اس کے افراد اخلاق اور مرّوت کی دولت سے کیوں محروم ہیں؟ حفیظ جالندھری نے اپنے مخصوص انداز میں اقبال کو تسلی دیتے ہوئے جواب دیا : ڈاکٹر صاحب ! قوم کے پاس جو کچھ ہے، وہ اس نے آپ کو دکھلا دیا ۔ اس میں مغموم ہونے کی کیا بات ہے ۔ اس پر اقبال کھلکھلا کر ہنس دیے اور ساری کدورت دور ہو گئی ۲۲ ۔ ۲۳ اور ۲۴ نومبر ۱۹۲۶ء کو پولنگ کے آنکھوں دیکھے حال کی تفصیل ان ایّام کے ’’زمینددار‘‘ اخبار کے حوالوں سے محمد حنیف شاہد کی تصنیف ’’ اقبال اور پنجاب کونسل‘‘ میں پڑھی جا سکتی ہے ۲۳ ۔ ۲۳ ؍نومبر کو لاہور شہر کے مسلم حلقے میں اور ۲۴؍ نومبر کو لاہور چھائونی کے حلقے میں ووٹنگ ہوئی۔ ہر پولنگ اسٹیشن پر دن کے ابتدائی گھنٹوں میںووٹ ڈالنے کا بہت زور رہا اور آخری گھنٹوں میں رفتار سست ہو گئی ۔ اکبری دروازے کے پولنگ اسٹیشن پر چپقلش بھی رونما ہوئی ۔ مختلف مراکز پر ملک محمد دین کے حامیوں نے جعلی ووٹ درج کرانے کی کوشش کی لیکن بہت سے جعلی ووٹ مسترد کر دیے گئے ۔ دس کے قریب گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں ۔ بہت سے پڑھے لکھے ارائیوں نے جو اپنے آپ کو برادری کے سوال سے بالا خیال کرتے تھے اقبال کے حق میں ووٹ ڈالے ۔ موچی دروازے کے انتخابی مرکز پر فریقین کے حامیوں کے درمیان ہنگامہ ہو گیا اور ایک شخص نے اپنے مدِّ مقابل کو چاقو سے زخمی کر دیا۔ پولنگ کے اختتام پر ہجوم نے اقبال کو گھیر لیا اور شہر کے اندر لے گئے ۔ چنانچہ خود بخود ایک جلوس مرتب ہو گیا جو اللہ اکبر اور اقبال زندہ باد کے نعرے لگاتا ہوا کشمیری بازار اور ڈبی بازار سے گزرا ۔ ۲۴؍ نومبر کو لاہور چھائونی کے انتخابات کے دوران میںملک محمد دین کے چار آدمی جعلی پرچیاں ڈالنے کے جرم میں گرفتار کیے گئے جن میں ان کا چھوٹا بھائی نذیر احمد بھی شامل تھا، لیکن بعد میں وہ ضمانت پر رہا کر دیے گئے ۔ ملک محمد دین کے ایک حامی نے اس شخص کی طرف سے جعلی پرچی ڈالنا چاہی جو اقبال کی طرف سے رائے دہندوں کی شناخت کے لیے مقرر کیا گیا تھا ۔ چنانچہ فی الفور پہچان لیا گیا کہ وہ جعلی پرچی ڈالنا چاہتا تھا ۔ دولت علی نامی ایک ٹمٹم والے کی ٹمٹم اس بنا پر غائب کر دی گئی کہ اس نے ملک محمد دین کے ایک جعلی ووٹر کو شناخت کیا تھا ۔ بعد میں وہ ٹمٹم ملک محمد دین کے چار آدمیوں کے قبضے سے بر آمد کی گئی جن میں سے دو گرفتار ہوئے اور دو فرار ہو گئے ۔ اس معاملے کی تفتیش کے لیے چوہدری علی گوہر حوالدار پولیس تھانہ لاہور چھائونی متعین کیے گئے ۔ ۶ ؍دسمبر ۱۹۲۶ء کو انتخابات کونسل کے نتائج کا سرکاری اعلان ضلع کچہری میں ہوا ۔ اُس زمانے میں حلقے کے کل ووٹروں کی تعداد بارہ ہزار کے لگ بھگ تھی جن میں سے تقریباً ساڑھے آٹھ ہزار ووٹ ڈالے گئے ۔ اقبال کو پانچ ہزار چھ سو پچھتر ووٹ ملے اور ملک محمد دین کو دو ہزار چھ سو اٹھانوے ۲۴ ۔ سو اقبال تقریباً تین ہزار ووٹوں کی اکثریت سے کامیاب قرار دیے گئے ۔ بعدازاں جب اقبال کے حامی مختلف ٹولیوں میںمیونسپل مارکیٹ کے چوک میں پہنچے تووہاں اقبال انہیں مل گئے ۔ چنانچہ لوگوں نے انہیں گھیر لیا اور ایک جلوس مرتب ہو گیا ۔ نوجوان بھنگڑا ڈال رہے تھے ۔ محمد دین تاثیر بھی جنہوں نے میاں صلاح الدین کو کندھوں پر اٹھا رکھا تھا، بھنگڑے میں شامل تھے۔ یہ جلوس تقریباً تین بجے دوپہر انارکلی اور لوہاری دروازے سے گزرتا ہوا سر شام بھاٹی دروازے پہنچا اور یہاں اونچی مسجد میں نماز مغرب ادا کی گئی ۔ پھر جلوس ہیرا منڈی اور سید مٹھا بازار سے ہوتا ہوا چوک جھنڈا میں پہنچا ، جہاں کسی نے اقبال کے سر پر پگڑی باندھی ۔ اس کے بعد جلوس موری دروازے پہنچا اور اقبال کو فٹن میں سوار کرایا گیا ۔ پھر جلوس پانی والے تالاب اور ڈبی بازار سے ہوتا ہوا کشمیری بازار پہنچا جہاں ملکوں کی دکان پر اقبال کی خدمت میں ایک مشہدی لنگی ہدیتہ پیش کی گئی ۔ ازاں بعد جلوس پرانی کوتوالی سے ہوتا ہوا کچھ دیر چوہٹہ مفتی باقر میں ٹھہرا جہاں استاد گام نے پنجابی نظم پڑھی ۔ رات ساڑھے دس بجے اقبال نے اہلِ جلوس کا شکریہ ادا کیا اور یہ جلوس منتشر ہوا ۲۵ ۔ ملک محمد دین کی ناکامی کا ذکر کرتے ہوئے ’’زمیندار ‘‘ نے ادارتی نوٹ میں تحریر کیا کہ جن مسلمانوں نے ملک محمد دین کے حق میں اپنے ووٹ دیے ان میں دو ہزار تو وہ ناخواندہ ارائیں تھے جو اقبال کی علمی قابلیت سے ناواقف محض تھے ۔ باقی چار پانچ سو پرچیاں غالباً ان حضرات نے ڈالیں جنہیں ’’بریلوی حنفیت‘‘ کا ہیضہ تھا اور جو ایک ضال و مضل مقامی اخبار اور حزب الاحناف کے اسلام فرد شانہ پراپیگنڈے سے متاثر ہو گئے ۲۶ ۔ ملک محمد دین کے ایک عزیز ملک ظہور الدین کے خلاف ، جنہوں نے اقبال کے حق میں ووٹ ڈالا تھا ، ارائیں برادری کے چند ارکان نے طوفانِ بدتمیزی کھڑا کر دیا ۔ یہاں تک کہ انہیں اپنی وضاحت کے لیے مدیر ’’زمیندار‘‘ کے نام ایک خط شائع کروانا پڑا جس میں تحریر کیا ۔ مجھ پر عام اعتراض کیا جاتا ہے کہ میں نے پنجاب کونسل میں ملک محمد دین کی امداد کیوں نہ کی اور برادری اور رشتے داروں کے کہنے پر عمل کیوں نہ کیا ۔ اس کی وجوہ حسب ذیل ہیں : اوّل : جب کہ برادری کے ایک اعلیٰ رکن عبدالعزیز بیرسٹرایٹ لا جیسے قابل شخص نے ڈاکٹر محمد اقبال کے حق میں دستبردار ہو کر اور امداد کا وعدہ فرما کر برادری پر ثابت کر دیا کہ ڈاکٹر اقبال اس قدر قابل ہستی ہیں کہ ان کے مقابلے میں کھڑا ہونا درست نہیں تو ہم پر فرض تھا کہ ہم میاں عبدالعزیز کی تائید کے لیے ڈاکٹر صاحب کی مدد کرتے اور برادری کے نام کو روشن کرتے ۔ دوم : میرے محترم بزرگ ملک محمد دین کو شاید اس بات کا علم نہ ہو گا کہ ان کو ڈاکٹر اقبال کے مقابلے میں کھڑا ہونے پر آمادہ کرنے والے اشخاص (یہ اشارہ سر شادی لعل کی طرف تھا) کی ارائیں برادری کے ساتھ کس قدر دیرینہ عداوت چلی آتی تھی (یعنی سر محمد شفیع کی میاں فیملی سے) اور انہوں نے موقع سے فائدہ اٹھا کر برادری سے انتقام لیا ہے اور ارائیں برادری کو دنیا بھر میں ذلیل کروا کر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کیا ہے ۔ عنقریب جب کہ سب حالات برادری پر روشن ہوں گے تو اس وقت برادری اپنی غلطی پر پچھتائے گی ۔ سوم : ملک محمد دین نے برادری کے نا تعلیم یافتہ آدمیوں سے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے جس کو اب وہ محسوس کرنے لگے ہیں۔ برادری کے تعلیم یافتہ اصحاب نے پچاس فیصدی ڈاکٹر اقبال کے حق میں رائے دی اور باقی پچاس فیصدی جو ملک محمد دین کے ساتھ مجبوراً رہے اُن میں سے بھی زیادہ نے اندر جا کر ڈاکٹر صاحب کو ووٹ دیا ۲۷۔ اقبال کی کامیابی پر انہیں صوبے بھر سے مبارک باد کی اطلاعات موصول ہوئیں اور لاہور کے علاوہ پنجاب کے مختلف شہروں کے زعماء نے انہیں دعوتوں میں شرکت کے لیے مدعو کیا ۔ لاہور شہر میں اقبال نے ۱۲ ؍ دسمبر ۱۹۲۶ء کو کشمیری بازار میں حاجی دین محمد خوشنویس کی پر تکلف دعوت میں شرکت کی۔ اسی طرح ۲۶ ؍ دسمبر ۱۹۲۶ء کو شہر کی ککے زئی برادری نے ان کے اعزاز میں ایک پُر تکلف دعوت طعام دی جس میں ملک برکت علی نے اقبال کو کامیاب کرانے کے لیے مسلمانوں کا شکریہ ادا کیا ۔ بعد میں اقبال نے بھی ایک مؤثر تقریر کی جس میں مسلم ارکانِ کونسل سے پُر زور استدعا کی کہ وہ دیہاتی اور غیر دیہاتی کے امتیازات سے یکسر کنارہ کش ہو کر متحدہ طورپر اسلام اور وطن کی خدمت انجام دیں ۔ اسی طرح میاں تصدق حسین خالد کی دعوت قبول کرتے ہوئے معززین فیروز پور کے استقبالیہ میں شریک ہونے کے لیے فیروز پور گئے ۲۸ ۔ پس ۱۹۲۶ء کا تقریباً سارا سال اقبال نے انتخابات کے ہنگاموں میں صرف کیا۔ ۳ جنوری ۱۹۲۷ء کو پنجاب قانون ساز کونسل کا افتتاحی اجلاس سہ پہر کے وقت منعقد ہوا۔ جہاں اراکیں نے یکے بعد دیگرے حلف اٹھایا ۔ اخبارات میں خبریں شائع ہو رہی تھیں کہ بعض ذی اثر ارکان کونسل میں آزاد گروپ ترتیب دینے کی کوشش کر رہے ہیں اور ممکن ہے کہ اقبال اس گروپ کے قائد بنا دیے جائیں ۔ توقع تھی کہ آزاد گروپ کسی جماعت کی مخالفت نہ کرے گا ، بلکہ صوبے کے تمام طبقات آبادی کے جائز حقوق کے تحفظ کا اہتمام کرے گا اور اس کے نزدیک زمیندار اور غیر زمیندار، مزدور یا غیر مزدور ، نیز دیہاتی اور شہری کا امتیاز نہ ہو گا ۲۹ ۔ لیکن ایسا گروپ وجود میں نہ آ سکا۔کونسل میں سر فضل حسین کے اثر و رسوخ کے سبب یونینسٹ پارٹی کی اکثریت تھی اور اقبال نے یہی مناسب سمجھا کہ وہ کونسل کی اکثریتی پارٹی میں شریک ہو کر ممکن ہے بہتر خدمات انجام دے سکیں ، مگر جب اقبال نے یونینسٹ پارٹی کے اندر رہ کر اس جماعت کے طریق کار کو بغور دیکھا تو وہ سر فضل حسین اور یونینسٹ پارٹی دونوں سے منحرف ہو گئے ۔ عظیم حسین اپنے والد سر فضل حسین کی سیاسی بائیوگرافی میں شکایتاً تحریر کرتے ہیں: چونکہ فضل حسین پر تنقید کی زیادہ تر ذمہ داری ڈاکٹر اقبال پر عائد ہوتی ہے، اس لیے یہاں اُن کے کیریر کا خصوصی طور پر ذکر کرنا مناسب ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ فضل حسین ہمیشہ ڈاکٹر اقبال کی اعانت کرنے کی کوشش کرتے رہے ، مگر ڈاکٹر اقبال ایسے موقعوں سے ، جو اُن کو فراہم کیے گئے ، فائدہ اٹھانے سے قاصر رہے ۔ ۱۹۲۴ء میں فضل حسین نے سر میلکم ہیلی (گورنر پنجاب) کو ترغیب دی کہ وہ ڈاکٹر اقبال کو عدالت عالیہ کی ججی کا عہدہ دیں، لیکن یہ امر ابھی زیرِ غور تھا کہ ڈاکٹر اقبال نے حکومت پر بے لگام تنقید لکھ کر سرکاری افسران کی ہمدردیاں کھو دیں ۔ پھر ۱۹۲۷ء میں ایک تجویز یہ تھی کہ آنے والی سیاسی اصلاحات کے سلسلے میں مسلمانوں کے مطالبات وزیر ہند کے سامنے پیش کرنے کے لیے ایک مسلم وفد انگلستان روانہ کیا جائے ۔ فضل حسین نے ڈاکٹر اقبال سے اس وفد کی قیادت کرنے کے لیے کہا اور اس غرض کے لیے تین ہزار روپیہ اکٹھا کیا ۔ یہ چیز ڈاکٹر اقبال کے لیے درجۂ اوّل کی سیاسی زندگی کو یقینی بنا دیتی ، لیکن انہوں نے جانے سے انکار کر دیا کیوں کہ مزید چند ہزار روپیوں کا خرچ لاحق ہوتا تھا ۔ ان کے بجاے چوہدری ظفر اللہ خان جانے کے لیے راضی ہو گئے اور انہوں نے اپنے لیے روشن مستقبل متعین کر لیا ۔ ان باتوں سے قطع نظر فضل حسین نے پھر ڈاکٹر اقبال کی مدد کرنا چاہی اور انہوں نے تجویز پیش کی کہ بحیثیت صدر کونسل چوہدری شہاب الدین کی میعاد پوری ہونے پر یونینسٹ پارٹی کی حمایت سے ڈاکٹر اقبال کو صدر کونسل منتخب کیا جائے، مگر ڈاکٹر اقبال نے یونینسٹ پارٹی کی تمام ہمدردیاں اس کی پالیسی پر اعتراضات کر کے اور اس کے اراکین پر پریس میں شدید تنقید کر کے گنوا دیں ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پارٹی کی اکثریت نے انہیں اپنا امیدوار تسلیم کرنے سے انکار کر دیااور چوہدری شہاب الدین کو دوبارہ صدر کونسل منتخب کیا گیا ۳۰ ۔ عظیم حسین کا گلہ شاید اپنی جگہ درست ہو مگر جس قسم کا سیاسی مستقبل اقبال کے لیے سر فضل حسین تجویز کرتے رہے وہ انہیں زیادہ سے زیادہ ایک اور سر فضل حسین یا سر ظفر اللہ خان بنا دیتا ۔ ایسی صورت میں وہ اقبال ہرگز نہ رہتے۔ اسی سبب اقبال سر فضل حسین کے معیار پر پورے نہ اترے اور انہیں ہر مرحلے پر اپنے بارے میں مایوس اور ناامید کرتے رہے۔عاشق حسین بٹالوی تحریر کرتے ہیں : اقبال ۱۹۲۷ء سے ۱۹۳۰ء تک پنجاب قانون ساز کونسل کے رکن رہے۔ یہ تین سال انہوں نے یونینسٹ پارٹی کے اندر رہ کر اس جماعت کے طریق کار کو بغور دیکھا ۔ شہری دیہاتی چپقلش قانون ساز کونسل کے اندر اسی پارٹی نے پیدا کی تھی اور پھر اس چپقلش نے صوبے کی پوری آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ اقبال سے یہ تمام باتیں پوشیدہ نہ رہ سکتی تھیں۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اقبال ایسے بلند پایہ مفکر ، فلسفی اور شاعر کو صوبے کی قانون ساز کونسل میں نہیں جانا جاہیے تھا ۔ یہ اعتراض اپنی جگہ درست ہے ، لیکن میری ناچیز رائے ہے کہ اگر اقبال کونسل کے اندر بیٹھ کر یونینسٹ پارٹی کے طرزِ عمل کوبچشمِ خود ملاحظہ نہ کرتے تو شاید ان کے ہاتھوں وہ کارنامہ سر انجام نہ پا سکتا جو قدرت نے ان کی زندگی کے آخری دو برسوں میں ان کے لیے مقدر کر رکھا تھا ۳۱ ۔ سو اقبال نے پنجاب قانون ساز کونسل میں ساری مدت ایک تنہا رکن کی حیثیت ہی سے گزاری۔ انہیں کونسل میں کسی جماعت کی تائید یا حمایت حاصل نہ تھی ۔ اس لیے صوبے کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کونسل میں اُن کی تقریریں بحیثیت مجموعی واویلا ثابت ہوئیں یا نقار خانہ میں طوطی کی آواز۔ البتہ عملی سیاست میں قدم رکھنے کے سبب وہ اسی سال پنجاب صوبائی مسلم لیگ کے سیکرٹری بن گئے ۔ یوں انہیںبرصغیر کے مسلمانوں کی قومی سیاسیات میںبھرپور حصہ لینے کا موقع مل گیا اور یہی ان کی سیاسی زندگی کا اہم ترین پہلو تھا۔ یہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ اس دور کے فسادات کا ایک بڑا سبب شُدھی اور سنگھٹن کی تحریکیں تھیں جن سے مسلمانوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی تھی ۔ سوامی شردھا نند راجپوتانے میں شُدھی کی تحریک (یعنی مسلمانوں کو ہندو بنانے) میںبڑی سرگرمی سے حصہ لے رہے تھے کہ دسمبر ۱۹۲۶ء میں عبدالرشید نامی ایک شخص نے انہیں قتل کر دیا ۔ اس واقعے کے دوسرے ہی دن دہلی میں فساد ہوا۔ جس میں ہندوئوں نے چھ مسلمان شہید کر دیے ۳۲۔ بعدازاں پنجاب کے چند آریہ سماجی اخبارات مثلاً ’’پرتاپ ‘‘اور ’’ملاپ ‘‘ اور بعض ہندو سیاسی رہنمائوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نہایت دل آزار پراپیگنڈا مہم شروع کر دی ۔ اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے لیے مسلمانانِ لاہور کے دو عام جلسے اقبال کی صدارت میں منعقد ہوئے۔ پہلا جلسہ ۲۲؍جنوری ۱۹۲۷ء کو باغ بیرونِ موچی دروازہ میں ہوا اور دوسرا جلسہ اسی مقام پر ۳۰ ؍ جنوری ۱۹۲۷ء کو منعقد ہوا ۔ اقبال نے اس جلسے کے اختتام پر فرمایا : ہندوستان اور ہندوستان سے باہر دیگر ممالک میں ہر جگہ ہماری رسوائی کے چرچے ہو رہے ہیں۔ ہمارے باہمی تنازعات نہایت افسوس ناک ہیں۔ ہم یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہماری اس کشمکش کے نتائج ایشیا کے دیگر ممالک کے حق میںکیا ہوں گے ۔ میرے تصور میں صداقت ایک ایسا تراشا ہوا ہیرا ہے جس کے کئی پہلو ہیں اور اس کے ہر پہلو سے مختلف رنگ کی شعاعیں نکل رہی ہیں اور ہر شخص اپنی اپنی پسند کے مطابق کسی رنگ کی شعاع کو اختیار کر لیتا ہے اور اپنے نقطۂ نگاہ سے صداقت کو دیکھتا ہے ۔۔۔۔ رواداری کا اصول یہی ہے کہ مثالِ بالا کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کسی کو یہ نہ کہا جائے کہ تم باطل پر ہو ۔۔۔۔ اختلافات کا نتیجہ یہ نہ ہونا چاہیے کہ آپس میں سر پھٹول ہو ۔۔۔۔ اسلام نے بھی اُسی صداقت کی تعلیم دی ہے ، جو زمانۂ قدیم کے بعض رشیوں نے دی (آپ نے اس موقع پر سنسکرت کا ایک اشلوک پڑھ کر سنایا جس کا مفہوم قرآن کریم کی ان آیات کے مطابق تھا : کل شیٔ ھالک الا وجھہ ، نحن اقرب الیہ من حبل الورید) میں تم سے صداقت کے نام سے اپیل کرتاہوں کہ خدا کے لیے حقایق کی طرف دیکھو اور آپس میں مت لڑو ۔ ہندوستان میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی اغراض کے لیے تمہارے درمیان پھوٹ ڈالنے کی مساعی میں رہتے ہیں ۔ اگر تم آپس میں لڑو گے تو ملک میں بدامنی ہو گی ۔ سب کو تکلیف اٹھانی پڑے گی ۳۳ ۔ شُدھی اور سنگھٹن کے جواب میں مسلمانوں نے تبلیغ اور تنظیم کی متخالف تحریکیں جاری کر رکھی تھیں ۔ غلام بھیک نیرنگ انجمن تبلیغ اسلام کے معتمد تھے اور ایک ایسی تبلیغی کانفرنس کرنا چاہتے تھے جس میں نو مسلم یورپین بھی شریک ہوں۔ اقبال نے انہیں اپنے ایک خط محررہ ۲۴؍ جنوری ۱۹۲۷ء میں کانفرنس کے لیے چندہ جمع کرنے اور اس کے انتظامات میں عملی حصہ لینے کا ارادہ ظاہر کیا ۳۴ ۔ انہوں نے غلام بھیک نیرنگ کی تحریک کی نہ صرف تائید کی بلکہ اس کے لیے اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے تحریر کیا : میرے نزدیک تبلیغ اسلام کا کام اس وقت تمام کاموں پر مقدم ہے۔ اگر ہندوستان میں مسلمانوںکا مقصد سیاسیات سے محض آزادی اور اقتصادی بہبودی ہے اور حفاظت اسلام اس مقصد کا عنصر نہیں ہے، جیسا کہ آج کل کے قوم پرستوں کے رویے سے معلوم ہوتا ہے، تو مسلمان اپنے مقاصد میںکبھی کامیاب نہ ہوں گے ۔ یہ بات میں علیٰ وجہ البصیرت کہتا ہوں اور سیاسیات حاضرہ کے تھوڑے سے تجربہ کے بعد ۔ ہندوستان کی سیاسیات کی روش ، جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، خود مذہب اسلام کے لیے خطرئہ عظیم ہے ۔ میرے خیال میںشدھی کا خطرہ اس خطرے کے مقابلے میںکچھ وقعت نہیں رکھتا یا کم از کم یہ بھی شدھی ہی کی ایک غیر محسوس صورت ہے۔ بہرحال جس جانفشانی سے آپ نے تبلیغ کا کام کیا ہے اُس کا اجر حضور سرور کائنات ؐ ہی دے سکتے ہیں ۔ میں ا نشاء اللہ جہاں جہاں موقع ہو گا ، آپ کے ایجنٹ کے طور پر کہنے سننے کو حاضر ہوں ۳۵ ۔ جنوری ۱۹۲۷ء ہی میں اقبال پنجاب کونسل کی فنانس کمیٹی اور ایجوکیشن کمیٹی کے رکن مقرر کیے گئے ۳۶ ۔ ۱۳؍ فروری ۱۹۲۷ء کو انہوں نے کونسل کے آئندہ اجلاس میں دو قراردادیں پیش کرنے کا نوٹس دیا۔ اول یہ کہ تعلیم یافتہ طبقے میںبیکاری اور بے روز گاری کے پیشِ نظر حکومت بیکار تعلیم یافتہ اشخاص کو قطعاتِ اراضی عطا کرے تاکہ وہ اس میں زراعت کر سکیں۔ دوم یہ کہ چونکہ حکومت ہند نے پنجاب کا سالانہ زر تعاون معاف کر دیا ہے اس لیے ٹیکسوں میں تخفیف کرنے کے لیے ایک مجلس تحقیقات مقرر کر دی جائے تاکہ تخفیف سب محصول گزاروں پر مساوی طور پر تقسیم ہو سکے۳۷ ۔ ۴؍مارچ ۱۹۲۷ء کو اسلامیہ کالج کے حبیبیہ ہال میں ایک جلسہ اقبال کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ جس میں مرزا بشیر الدین محمود نے مذہب اور سائنس کے موضوع پر تقریر کی تقریر کے خاتمہ پر اقبال نے مختصر الفاظ میں اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: مذہب ، فلسفہ ، طبیعیات اور دیگر علوم و فنون سب کے سب مختلف راستے ہیں جو ایک ہی منزل مقصود پر جا کر ختم ہوتے ہیں ۔ مذہب اور سائنس کے تصادم کا خیال اسلامی نہیں کیوں کہ سائنس یعنی علوم جدیدہ اور فنون حاضرہ کے باب کھولنے والے تو مسلمان ہی ہیں اور اسلام ہی نے انسان کو منطق کا استقرائی طریق سکھایا اور علوم کی بنیاد نظریات اور قیاسات پر پرکھنے کے طریق کو مسترد کرنے کی تعلیم دی اور یہی بات علوم جدیدہ کی پیدائش کا موجب ہوئی ۔۔۔۔ سائنس اور مذہب کے تصادم کا خیال غیر اسلامی ہے۔ قرآن کریم کے ہر صفحے پر انسان کو مشاہدے اور تجربے کے ذریعے علم حاصل کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور منتہائے نظر، یہ بتایا گیا ہے کہ قواے فطرت کو مسخر کیا جائے چنانچہ قرآن پاک تو صاف الفاظ میں انسان کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ اگر وہ قواے فطرت پر غلبہ حاصل کرلیں گے تو ستاروں سے بھی پرے پہنچنے کے قابل ہو جائیں گے ۳۸ ۔ ۵؍ مارچ ۱۹۲۷ء کو اقبال نے بحیثیت رکن فنانس کمیٹی پنجاب کونسل میں اس سال کے بجٹ پر تقریر کرتے ہوئے دو تجاویز پیش کیں ۔ اول یہ کہ چونکہ صوبے کی مالی حالت اطمینان بخش ہے اور ترقی کے کاموں کے لیے وافر رقومات موجود ہیں اس لیے دیہات میں صفائی کے بہتر انتظامات اور عورتوں کی طبی امداد بہم پہنچانے کی خاطر رقم کا ایک خاص حصہ محفوظ کر دیا جاے ۔ دوم یہ کہ محاصل یعنی لگان میں کمی کی جائے ۔ طریقۂ محصول اندازی میں جونا انصافی ہے اسے دور کیا جائے ۔محصول آمدنی کو عائد کرتے وقت تو اس اصول کو مدِّ نظر رکھا جاتا ہے کہ ہر شخص پر اس کی محصول ادا کرنے کی استطاعت کے لحاظ سے محصول عائد کیا جائے لیکن لگان کے سلسلے میں اس اصول کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ ۱۰؍مارچ ۱۹۲۷ء کو انہوں نے بحیثیت رکن ایجوکیشن کمیٹی حکومت پنجاب کی تعلیمی پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے ابتدائی تعلیم کے جبری نفاذ پر زور دیا ۳۹ ۔ ۱۹۲۷ء میں سری نواس آئنگر کو کانگرس کا صدر منتخب کیا گیا ۔ محمد علی جناح مسلم لیگ کے صدر تھے ۔ دونوں مرکزی اسمبلی کے ممبر تھے اور اس حیثیت سے ان کا آپس میںبرصغیر کے سیاسی حالات پر تبادلۂ خیالات ہوتا رہتا تھا ۔ سری نواس آئنگر کی خواہش تھی کہ کوئی ایسی تدبیر سوچی جائے جس سے مسلمانوںکے حقوق کا تحفظ بھی ہو سکے اور ہندووں کی یہ شکایت بھی رفع کر دی جائے کہ جداگانہ انتخاب فساد کی اصل جڑ ہے ۔ اس مسئلے پر غور کرنے کے لیے محمد علی جناح نے مسلم لیگ کے بعض قائدین کا ایک اجلاس ۲۰؍مارچ ۱۹۲۷ء کو دہلی میں طلب کیا۔ پنجاب سے سر محمد شفیع بحیثیت صدر صوبائی مسلم لیگ اس اجلاس میں شریک ہوئے۔ ان کے علاوہ مولانا محمد علی، ڈاکٹر انصاری ، سر محمد یعقوب وغیرہ بھی اس موقع پر موجود تھے ۔ ان قائدین نے سوچ بچار کے بعد مندرجہ ذیل تجاویز منظور کیں ۔ جنہیں ’’تجاویز دہلی‘‘ کا نام دیا گیا : ۱ ۔ سندھ کو بمبئی سے الگ کر کے ایک علیحدہ صوبہ بنادیا جائے ۔ ۲ ۔ صوبہ سرحد اور بلوچستان میں نئی دستوری اصلاحات نافذ کی جائیں ۔ ۳ ۔ پنجاب اور بنگال کی کونسلوں میں مسلم اکثریت بحال کی جائے۔ ۴ ۔ مرکزی اسمبلی میں مسلم نمائندوں کی تعداد جملہ نمائندوں کے تناسب سے ایک تہائی ہو۔ ۵ ۔ اگر مندرجہ بالا تجاویز قابلِ قبول ہوں تو مسلمان نشستوں کے تحفظ کے ساتھ مخلوط طریقۂ انتخاب قبول کرلیں گے اور جداگانہ حقِ نیابت سے دستبردار ہو جائیں گے ۔ ۶ ۔ جو رعایت ہندو اکثریتی صوبوں میں مسلم اقلیت کو دی جائے گی وہی رعایت سندھ ، صوبہ سرحد اور بلوچستان کے مسلم اکثریتی صوبوں میںہندو اقلیت کو دی جائے گی۔ ۷ ۔ یہ تجاویز غیر منفک ہیں اور انہیں بحیثیت کلی بیک وقت قبول کیا جائے اور یہ نہ ہو کہ چند تجاویز کو قبول کر لیا جائے اوردیگر کو رد کر دیا جائے۔ ایسی صورت میں مسلمان جداگانہ انتخاب سے دستبردار نہ ہوں گے ۴۰ ۔ ان تجاویز کی وضاحت کے سلسلے میں محمد علی جناح نے اپنے ایک اخباری بیان مورخہ ۲۹؍مارچ ۱۹۲۷ء میں فرمایا: جہاں تک طریقہ انتخاب کا تعلق ہے وہ بجا ئے خود مقصود بالذات نہیں ہے ۔ انتخاب جداگانہ رہے تو کیا اور مخلوط ہو تو کیا ۔ مقصد صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے قومی حقوق اور اپنی قومی ہستی کے تحفظ و بقا کا پورا یقین ہو جانا چاہیے اور انہیں اس امر کا اطمینان ہو جائے کہ اکثریت محض اپنی تعداد کے بل بوتے پر ان کے حقوق پامال نہیںکر سکے گی اور اس بات کا بھی یقین ہو جائے کہ ہندوستان میں مکمل ذمہ دارانہ قومی حکومت قائم ہونے تک کا جو درمیانی وقفہ ہے اس میں وہ اکثریت کے جور و استبداد سے بالکل محفوظ رہیں گے ۔ اس لیے اس سارے قضیئے کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ اقلیتوں کو ان کے تحفظ و بقاکا کیونکر اطمینان دلایا جائے۔ مذکورہ بالا تجاویز مرتب کرتے وقت یہی نقطہ ہمارے پیش نظر تھا۴۱۔ ’’تجاویزِ دہلی‘‘ کا سیاسی فلسفہ یہ تھا کہ ہندو اکثریتی صوبوں میں مسلم اقلیت کا تحفظ اور مسلم اکثریتی صوبوں میں ہندو اقلیت کا تحفظ ہو اور یوں دونوں قوموں کے درمیان ایک طرح کا توازنِ قوت پیدا کر دیا جائے تاکہ وہ ایک دوسری کو نقصان نہ پہنچا سکیں ۔ اس زمانے میں صوبہ سرحد، جو ۱۹۰۱ء میں پنجاب سے علیحدہ کیا گیا ، دستوری اصلاحات سے محروم تھا ۔ اسی طرح بلوچستان میںبھی دستوری اصلاحات کا نفاذ نہ ہوا تھا ، سندھ صوبہ بمبئی کا علاقہ تھا ۔ الگ صوبہ نہ تھا ۔ سندھ کا الحاق ۱۸۴۲ء میں ہوا اور اسے انگریزی حکومت نے صوبہ بمبئی میں شامل کر دیا، حالانکہ سندھ کے لوگ مذہب ، زبان اور نسل کے اعتبار سے صوبہ بمبئی کے لوگوں سے مختلف تھے، اس کے علاوہ سندھ کا علاقہ گجرات اور کاٹھیا واڑ کے درمیان میں ہونے کے سبب صوبہ بمبئی سے بالکل الگ تھلگ تھا ، یہاں تک کہ سندھ اور بمبئی کے مابین کوئی براہ راست تعلق ریل کا بھی نہ تھا ۔ پنجاب اور بنگال صرف دو ایسے مسلم اکثریتی صوبے تھے جہاں کو نسلیں موجود تھیں اور ان کے لیے انتخابات بھی ہوتے تھے۔ لیکن ان کونسلوں میں مسلمانوں کی اکثریت برائے نام تھی، کیونکہ انہیں اپنی آبادی کے تناسب سے کم نمائندگی حاصل تھی ۔ ’’تجاویز دہلی ‘‘کے ذریعے مسلم لیگی قائدین دو کی بجائے پانچ مسلم اکثریتی صوبے بنانا چاہتے تھے تاکہ سات ہندو اکثریتی صوبوں کے ساتھ توازن قائم ہو جائے۔ بہر حال جب سر محمد شفیع واپس لاہور پہنچے تو پنجاب کے دیگر مسلم لیڈروں نے، جن میں اقبال پیش پیش تھے، جداگانہ انتخاب سے دستبردار ہونے کی مخالفت کی ۔ اُن کا زاویہ نگاہ یہ تھا کہ پنجاب ، بنگال اور سندھ میں ہندوئوں کی اقتصادی برتری ہے اس لیے اگر مسلمان جداگانہ انتخاب سے دستبردار ہو گئے تو ہندو ایسے مسلم امیدواروں کو انتخابات میں کبھی کامیاب نہ ہونے دیں گے جوخالصتاً مسلم مفادات کا تحفظ کر سکیں۔ ۱۶؍ اپریل ۱۹۲۷ء کو انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں اقبال نے روحِ تمدن اسلامی کے موضوع پر انگریزی میں ایک فاضلانہ خطبہ دیا۔ خطبہ اتنا طویل تھا کہ ڈیڑھ گھنٹے تک صرف اس کا ابتدائی حصہ ختم ہو سکا ۔ خطبے میں جو نکات پیش کیے گئے ، ان میں سے بعض یہ تھے کہ : آنحضوؐر ختم الرسل ہیں اور عروج عقل کی ابتدا اس روز سے ہوئی جب ختم الرسلؐ مبعوث ہوئے۔ اس دن سے تقلید جامد کی جگہ علم و ادراک نے لی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا کہ اب کوئی ایسا شخص نہیں آ سکتا ۔ جس کی باتوں کو تم تنقید کے بغیر تسلیم کرو۔ یہ کہ یورپ میں ترقی اس وقت شروع ہوئی جب اہلِ مغرب نے فلسفۂ یونان کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا ۔ اس سلسلے میں یورپ میں پہلا قدم اٹھانے والا شخص بیکن تھا جس نے استقرائی منطق پر زور دیا، مگر استقرائی منطق کا موجدِ اوّل یعقوب کندی تھا، بیکن نہ تھا ۔ بیکن نے جو عربی پڑھا ہوا تھا ، اندلس کے عرب منطقیوں کی تصانیف سے استفادہ کیا اور انہی کے خیالات کا ترجمہ کیا ۔ یہ کہ ہندی اور یونانی حکماء کے نزدیک کائنات کا نظام مکمل تھا، لیکن غزالی اور ابن تیمیہ نے اس واہمے کا قلع قمع کیا، قرآن مجید کی روشنی میں کائنات کی عدمِ تکمیل کا دعویٰ کیا اور ثابت کیا کہ وہ ابھی منازلِ ارتقا ء طے کر رہی ہے ۔ یہ کہ فلسفۂ یونان کے خلاف بغاوت کرنے کا طریقہ یورپ کے اربابِ فکر نے مسلم حکماء سے سیکھا ۔ یہ کہ ذوالنون مصری صرف صوفی ہی نہ تھے بلکہ کیمیا دان بھی تھے ۔ انہوں نے دریافت کیا کہ پانی جو ہر بسیط نہیں بلکہ ایک مرکب شے ہے اور یہ کہ دانتے نے اپنی مشہور نظم میں بہشت کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ تمام و کمال ابن عربی کی تصنیف ’’فتوحات مکیہ ‘‘ سے ماخوذ ہے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ مسلمانوں نے یورپ کے فلسفے پر ہی نہیں بلکہ ادب پر بھی گہرا اثر ڈالا ۔ اقبال نے اردو میں خطبے کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے فرمایا : ہر انسان کے دل میں مشاہدہ حقیقت کی ہوس ہے ۔۔۔۔ مشاہدہ حقیقت کے حصول کے دو طریق ہیں سمع و بصر اور قلوب یا بہ اصطلاح قرآن حکیم ، افئدہ ۔ یہ ضروری ہے کہ ان دوطریقوں سے بقدر ضرورت کام لیا جائے ۔ یورپ نے اپنی ساری کوششیں صرف سمع اور بصر تک محدود کر دیں اور افئدہ کو ترک کر دیا۔ مسلمانوں نے اپنی توجہات افئدہ پر مرتکز کر دیں اور سمع و بصر سے پورا کام نہ لیا ۔۔۔۔ مشاہدے کا مقصد یہ نہیں ہونا چاہیے کہ انسان اس میں اپنے آپ کو فنا کر دے۔ اسلام جس مشاہدے کا معلم ہے وہ اپنے آپ کو قائم رکھنے کی تعلیم دیتا ہے ، یعنی اسلام کا مشاہدہ مردانگی پر مبنی ہے ۔ ایک شاعر نے حضور سرور کائناتؐ کی نعت میں یہ نکتہ بڑے اچھے طریق پر واضح کیا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ نعت میں اس سے بہتر شعر نہیںلکھا گیا: موسیٰ ز ہوش رفت بہ یک جلوئو صفات تو عینِ ذات می نگری در تبسمّے یہ اسلامی آئیڈیل ہے۔ اسلامی نقطۂ خیال سے معراج یہی ہے کہ مشاہدئہ ذات کے بعد بھی عبودیت قائم رہے ، لیکن سر کشی اور تمردّ کے لیے نہیں بلکہ خدمت و عبودیت کے لیے ۔ مسلم کو کسی چیز میں فنا نہ ہونا چاہیے گویہ فنا فی اللہ ہی کیوں نہ ہو ۴۲۔ مئی ۱۹۲۷ء میں کانگرس کی مجلس عاملہ اور کانگرس کمیٹی نے اپنے بمبئی کے اجلاسوں میں ’’تجاویز دہلی‘‘ منظور کر لیں ۔ بعد میں کانگرس کے اجلاس عام بمقام مدراس میں بھی ان تجاویز کو منظور کر لیا گیا ، لیکن ہندو مہاسبھا نے تجاویز دہلی کی شدید مخالفت شروع کر دی۔ یہ مخالفت اس لیے کی گئی کہ مہاسبھائی قائدین کے نزدیک اگر پنجاب اور بنگال میںآبادی کے تناسب سے مسلم اکثریت بحال ہو گئی اور اسی طرح اگر سندھ (پچھتر فی صد مسلم )کو الگ صوبہ بنا دیا گیا اور صوبہ سرحد و بلوچستان (نوے فی صد مسلم) میں دستوری اصلاحات نافذ ہو گئیں تو برصغیر کے شمال مغرب میں چار مسلم اکثریتی صوبوں کا ایک بلاک قائم ہو جانے کا امکان تھا اور یہ صورت ان کے لیے قابلِ قبول نہ تھی۴۳ ۔ یکم مئی ۱۹۲۷ء کو پنجاب صوبائی مسلم لیگ کا ایک اجلاس برکت علی محمڈن ہال لاہور میں منعقد ہوا۔ سر محمد شفیع نے تجاویز دہلی کے خلاف اور ہندو مہاسبھا کے جواب میں ایک جامع تقریر کی ۔ اسی جلسے میں اقبال نے جداگانہ انتخاب قائم رکھنے کے حق میں اور مخلوط و مشترک انتخاب کے خلاف قرار داد پیش کی۔ قرار داد پر تقریر کرتے ہوئے اقبال نے کہا : مجھے یہ کہنے کا حق پہنچتا ہے کہ میں سب سے پہلا ہندوستانی ہوں جس نے اتحاد ہندو مسلم کی اہمیت و ضرورت کا احساس کیااور میری ہمیشہ سے آرزو ہے کہ یہ اتحاد مستقل صورت اختیار کرے، لیکن حالات حلقہ ہائے انتخاب کے اشتراک کے لیے موزوں نہیں ہیں اور ہمارے صدر (سر محمد شفیع) نے ہندو رہنمائوں کی تقریروں کے جو اقتباسات اپنے خطبۂ صدارت میں دیئے ہیں اُن سے ہندوئوں کی افسوناک ذہنیت آشکار ہوتی ہے ۔۔۔۔ میں حیران ہوں کہ مسلمانوں کے خلاف اس قسم کی ذہنیت اختیار کرنے کی ہندوئوں کو کیوں ضرورت پڑی۔ مسلمان تعداد میں کم ہیں، اقتصادی حیثیت سے پیچھے ہیں ، تعلیم میں پس ماندہ ہیں ۔ ویسے بڑے بھولے بھالے ہیں۔ حکومت انہیں آسانی سے چکنی چپڑی باتیں کر کے پھسلا لیتی ہے، ہندو انہیں پھسلا لیتے ہیں ۔ میں حیران ہوں کہ ہندوئوں نے یہ ذہنیت کیوں اختیار کی اور یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندوئوں کی ذہنیت ہے اور اگر کوئی اور وجہ نہ بھی ہوتی تو میں کہتا کہ تنہا اسی وجہ سے حلقہ ہائے انتخاب الگ رکھے جائیں ۔ آخر میں میں مسلمانوں سے ایک ضروری بات کہنا چاہتا ہوں ۔ وہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے پائوں پر کھڑے ہو جائیں ۔ ایک طرف ہندوئوں کی کوششیں اُن کے خلاف ہو رہی ہیں دوسری طرف حکومت کے موجودہ نظام کی سرگرمیاں مسلمانوں کے خلاف جاری ہیں ۔ ان مصیبتوں میں بچائو کی صورت محض یہ ہے کہ مسلمان اپنے پائوں پر کھڑے ہو جائیں اور مردانہ وار ہر مصیبت کا مقابلہ کریں۴۴۔ اس مرحلے پر یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ اقبال ’’تجاویز دہلی‘‘ کے صرف اُس حصے سے اختلاف کرتے تھے جس میں جداگانہ انتخاب سے دستبرداری کے ارادے کا اظہار کیا گیا تھا ، گویہ پیش کش مشروط تھی۔ اقبال کسی صورت میں جداگانہ انتخاب سے دستبردار ہونا نہ چاہتے تھے، کیونکہ مخلوط انتخاب کو تسلیم کر لینے سے قومیت متحدہ کی تشکیل ہوتی تھی ، جو ان کے عقیدے کے مطابق مسلم قومیت کے اصول کے منافی تھی ۴۵۔ اس کے علاوہ ہندوذہنیت کے متعلق ان کی بصیرت نے انہیں ہر قسم کی ہندو مسلم مفاہمت کے امکان کے بارے میں مایوس اور نا امید کر رکھا تھا ۔ غالباً اسی جذبے کا اظہار انہوں نے حکیم محمدحسن قرشی سے کیا ، جب انہیں کہا گیا کہ کانگرس اپنے اجلاس عام میں ’’تجاویز دہلی‘‘ کو منظور کر لے گی ۔ اقبال نے جواب دیا : مجھے یقین نہیں آتا کہ ہندو کبھی سمجھوتے پر رضا مند ہو سکیں ، بلکہ میرا تو خیال ہے کہ اگر مسلمان زعماء ہندو لیڈروں کی سب شرطیں مان لیں اور بلا شرط مفاہمت کی پیش کش کریں ، جب بھی ہندو اس سے انحراف کی کوئی نہ کوئی صورت پیدا کرنے کی سعی کریں گے ۴۶۔ پنجاب میں فرقہ وارانہ کشیدگی کی فضا خاصی سنگین تھی۔ ۳؍ مئی ۱۹۲۷ء کو ہندوئوں اور سکھوں کی کثیر تعداد باولی صاحب ڈبی بازار میں جمع ہوئی ، جہاں اشتعال انگیز تقریریں کی گئیں ۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ کسی مسلمان نے ایک سکھ لڑکی پر مجرمانہ حملہ کیا ہے ۔ مشتعل ہجوم حویلی کابلی مل میں داخل ہوا اور اس نے مسلمانوں پر کر پانوں اور لاٹھیوں سے حملہ کر دیا۔ اس واقعے سے دکانیں بند ہو گئیں ، کاروبار معطل ہو گیا اور سارے شہر میں فساد شروع ہو گیا ۔ اقبال فساد کے دوران حویلی کابلی مَل پہنچے اور انہوں نے لاہور کے مختلف مقامات کے دورے کر کے مسلمانوں کو صبر کی تلقین کی ، مظلومین کی امداد کی اور مصالحت کی کوشش کی۔ مسلمان اپنے شہدا کا جلوس نکالنا چاہتے تھے اور چونکہ ڈر تھا کہ احتجاجی جلوس مزید اشتعال کا باعث ہوگا ۔ اس لیے اقبال دیگر معززین کے ساتھ جلوس میں شریک ہوئے اور مسلمانوں کے جذبات کو انہوں نے بے قابو نہ ہونے دیا۴۷ ۔ اسی سلسلے میں اخبار ’’ٹریبیون ‘‘ کے نامہ نگار خصوصی سے ملاقات کے دوران انہوں نے بتایا : ۴ مئی کو میں ڈبی بازار میں تقریر کر رہا تھا کہ حاضرین میں سے کسی نے مداخلت کی اور کہا کہ سکھوںکے پاس تو کرپانیں ہیں مسلمانوں کے پاس کچھ بھی نہیں، وہ بھلا اپنی حفاظت کس چیز سے کریں ۔ مسلمانوں کے رہنمائوں کو اس طرف متوجہ ہونا چاہیے اور اس سلسلے میں کچھ کرنا چاہیے۔ اگر اپنی حفاظت اور اغیار کے حملوں کی مدافعت کے لیے مسلمانوں کو ہتھیار رکھنے کی اجازت نہ ملے تو کونسل کے تمام مسلمان علی العموم (اور میں علیٰ الخصوص) اس کے لیے سعیِ بلیغ کریں گے۴۸ ۔ ۱۳؍مئی ۱۹۲۷ء کو ہندو مسلم اور سکھ اکابرینِ شہر نے ایک اعلان جاری کیا کہ دیسی اخبار فرقہ وارانہ کشیدگی کا موجب بنتے ہیں ، اس لیے حکومت کو ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنی چاہیے ۔ اقبال نے اس بیان کا خیر مقدم کیا اور ’’مسلم آوٹ لُک ‘‘ کے نامہ نگار سے انٹرویو مورخہ ۲۳؍مئی ۱۹۲۷ء کے دوران میں کہا کہ اگر اخبار سنسنی پھیلا نے والے عنوان لکھنا چھوڑ دیں ، تقریروں وغیرہ کے رپورٹ کرنے کے لیے بہتر آدمی رکھیں اور ایسے چھوٹے چھوٹے واقعات کو فرقہ وارانہ رنگ دینے سے احتراز کریں تو ان کی تعلیمی قدرو قیمت بہت بڑھ سکتی ہے۔ پس اعلان کا مقصداخبارات کے لب و لہجے کی اصلاح ہے ، ان کی آزادی کو سلب کرنا نہیں ۔ آپ نے مزید فرمایا: ہمیں لاہور کے فسادات سے سبق حاصل کرنا چاہیے ۔ صرف یہ حقیقت کہ ہمیں ایک دوسرے کے خلاف اپنی حفاظت کے لیے برطانوی تحفظ کی ضرورت ہے، یہ ظاہر کر رہی ہے کہ ہم کس منزل پر ہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ اس حقیقت نے مجھے اپنے سیاسی خیالات اور سیاسی عقائد پر از سر نو غور کرنے پر مجبور کر دیا ہے ۔ پنجاب کے مسلمانوں ، خاص طور پر دیہاتی مسلمانوں میں ، جو ہماری قوم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہیں، جہالت عام ہے اور کسی قسم کی سیاسی یا اقتصادی بیداری پیدا نہیں ہوئی ۔ قوم کی قوتوں کو فرقہ بندی اور ذاتوں کی تقسیم نے علیحدہ منتشر کر رکھا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم سراسر غیر منظم کے غیر منظم ہیں ۔ اب میں اس امر کا قائل ہو گیا ہوں کہ اس صوبے کے مسلمانوں کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ اپنی داخلی تنظیم اور اصلاح کی طرف متوجہ ہوں۴۹ ۔ جون ۱۹۲۷ء میں ’’زبور عجم ‘‘ شائع ہوئی ۔ گو اس کی کتابت کا کام اسی سال کے ابتدائی مہینوں میں ختم ہو چکا تھا ، لیکن غالباً اقبال اپنی مصروفیات کے سبب اسے جلد چھپوا نہ سکے ۔ اپنے ایک خط بنام گرامی محررہ ۳۱ ؍ جنوری ۱۹۲۷ء میں کتاب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: میری کتاب ’’زبور عجم ‘ ‘ ختم ہو گئی ہے ۔ ایک دو روز تک کاتب کے ہاتھ میں جائے گی اور پندرہ دن کے اندر اندر شائع ہو جائے گی ۔ اس کے چار حصے ہیں پہلے حصے میں انسان کا راز ونیاز خدا کے ساتھ دوسرے حصے میں آدم کے خیالات آدم کے متعلق طرز دونوں کی غزلیات کے موافق یعنی الگ الگ غزل نما ٹکڑے ہیں ۔ تیسرے حصے میں مثنوی ’گلشن راز ‘ (محمود شبستری) کے سوالوں کے جواب ہیں اس کا نام میں نے ’’مثنوی گلشن راز جدید ‘‘ تجویز کیا ہے ۔ چوتھے حصے میں ایک مثنوی ہے ، جس کا نام میں نے ’’بندگی نامہ ‘‘ تجویز کیا ہے۔ مثنوی کا مضمون یہ ہے کہ غلامی کا اثر فنون لطیفہ مثلاً موسیقی و مصوری وغیرہ پر کیا ہوتا ہے۵۰۔ لاہور کے ایک ہندو راجپال نے اپنی کتاب ’’رنگیلا رسولؐ ‘‘ میں آنحضورؐ کی شانِ مبارک میں گستاخی کی تھی اور اس پر دو ڈھائی سال تک مقدمہ چلتا رہا ، لیکن جون ۱۹۲۷ء میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس دلیپ سنگھ نے راجپال کے حق میں فیصلہ دے دیا ۔ اس فیصلے کے خلاف مسلمانوں میں شدید رد عمل ہوا ۔ مسلم اکابرین لاہور کے ایک وفد نے جس میں اقبال بھی شامل تھے، گورنر سے مطالبہ کیا کہ ایسی دلآزار تحریروں کی اشاعت ممنوع قرار دینے کے لیے ایک فرمان فوراً جاری کیا جائے، چونکہ لاہور میں فسادات برپا ہونے کا اندیشہ تھا ، اس لیے حکومت نے دفعہ ۱۴۴ نافذ کر دی ۔ مجلس خلافت نے اس دفعہ کے نفاذ کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اس تحریک سے پیدا ہونے والی صورت حالات پر غور کرنے کے لیے ۸؍ جولائی ۱۹۲۷ء کو معززینِ لاہور کا ایک اجلاس سرعبدالقادر کی زیر صدارت برکت علی محمڈن ہال میں منعقد ہوا ۔ جس میں اقبال نے قابلِ اعتراض کتاب کی مذمت کرتے ہوئے ارکانِ مجلس خلافت سے درخواست کی کہ موجودہ حالات کو ملحوظ رکھتے ہوئے سول نافرمانی کی تحریک کو ملتوی کر دیں ۔ بعدازاں اسی سلسلے میں مسلمانانِ لاہور کا ایک جلسۂ عام ۱۰؍جولائی ۱۹۲۷ء کو شاہی مسجد میں منعقد ہوا۔ اقبال نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا: ایک مسلمان کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی ابتلا نہیں ہو سکتی جو اس وقت درپیش ہے۔ راجپال کی تصنیف نے ، جس کا نام لینا میں پسند نہیں کرتا ، مسلمانوں کے قلب کے نازک ترین حصے کو چوٹ لگائی ہے ۵۱۔ اس کے ساتھ ہی اقبال نے واضح کیا کہ سول نافرمانی کی تحریک اس مرحلے پر کیونکر مسلمانوں کے مفاد کے خلاف ہے۔ وہ توہین انبیاء و بزرگانِ دین کے واقعات کا ہمیشہ کے لیے سدِّباب کرنا چاہتے تھے اور اس سلسلے میں انہوں نے پنجاب کونسل میں قرار داد بھی پیش کی ۔ آخر کار تقریباً دو سال بعد لاہور کے ایک نوجوان علم الدین نے راجپال کو قتل کر دیا، جس پر اقبال کے منہ سے بے اختیار نکلا : اسی گلاں کردے رہے تے ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا۵۲۔ علم الدین کے خلاف مقدمہ چلا اور جب اسے سزا ئے موت دی گئی تو مسلمانوں میں بڑا اضطراب پھیلا ۔ حکومت اس کی نعش مسلمانوں کے حوالے کرنے سے ہچکچاتی تھی کہ مبادا فسادات کا سلسلہ شروع ہو جائے ۔ اس پر اقبال سمیت مسلم رہنمائوں کا ایک وفد گورنر سے ملا اور امن قائم رکھنے کی ضمانت پر نعش وصول کی گئی ۔ ایک لاکھ کے قریب مسلمانوں نے علم الدین شہید کی نمازِ جنازہ پڑھی اور پھر خاموشی سے منتشر ہو گئے ۔ ۱۸؍جولائی ۱۹۲۷ء کو پنجاب کونسل کے اجلاس میں مزید پولیس کے مصارف کے لیے رقم کے مطالبے پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے اقبال نے اراکین کی توجہ پولیس کے بے رحمانہ رویے اور انتظامیہ کی کذب گوئی کی طرف مبذول کرائی۔ بات یہ تھی کہ لاہور میں مشہور عالمِ دین مولانا محمد عرفان کو پولیس نے بری طرح پیٹا تھا۔ معاملے کی تحقیقات کے سلسلے میں اقبال نے ڈپٹی کمشنر سے ملاقات کی، لیکن اس نے کہہ دیا کہ اُن کی اطلاع درست نہیں۔ بعد میں اقبال مولانا محمد عرفان سے ملنے گئے اور ان کی ضربات کا بچشم خود معائنہ کیا تو ظاہر ہوا کہ انہیں نہایت بے رحمی سے پیٹا گیا تھا اور جو کچھ ڈپٹی کمشنر نے انہیں بنایا وہ سراسر جھوٹ تھا ۵۳۔ اسی روز اقبال نے فرقہ وارانہ فسادات کے سبب پیدا ہونے والی منافرت کے موضوع پر بھی اظہار خیال کیا اور فرمایا : میں سوچتا ہوں کہ اراکین کو اس امر کا احساس ہے بھی کہ درحقیقت ہم خانہ جنگی کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور اس خانہ جنگی کو دبانے کے لیے اگر سخت اقدام نہ اٹھائے گئے تو سارے صوبے کی فضا مسموم ہو جائے گی ۔۔۔۔ یہ فرقہ وارانہ منافرت اگر یونہی پھیلتی رہی تو ملک کے دیگر حصے اور گائوں میں رہنے والے لوگ بھی ایک دوسرے کا گلا کاٹنا شروع کر دیں گے پھر خدا ہی جانتا ہے کہ اس کشمکش کا انجام کیا ہو ۵۴۔ ۱۹ جولائی ۱۹۲۷ء کو سردار اجل سنگھ نے کونسل میں قرار داد پیش کی کہ مستقبل میں تمام سرکاری اسامیاں کھُلے مقابلے کے امتحان سے پُر کی جائیں اور جہاں ایسا نہ ہو سکے وہاں بلا تمیز مذہب بہترین تعلیمی اوصاف رکھنے والے امیدواروں کا تقرر کیا جائے۔ یہ قرار داد غالباً اس لیے پیش کی گئی کہ مسلمان تعلیمی اعتبار سے پسماندہ تھے اور کھلے مقابلے کے امتحان میں ان کی کامیابی کا امکان نسبتاً کم تھا ۔ اقبال اصولی طور پر مقابلے کے امتحان کے خلاف نہ تھے ، لیکن مسلمانوں کے حالات کو مدِّنظر رکھتے ہوئے ایسا نظام چاہتے تھے ، جس میں مقابلے کے امتحان کے ساتھ ساتھ انتخاب یا نامزدگی کی بھی گنجائش ہو تا کہ پسماندہ طبقے انتظامیہ سے بے دخل نہ ہو سکیں۔ قرار داد پر بحث کے دوران کسی غیر مسلم ممبر نے یہ بھی کہا کہ یوںمتحدہ قومیت کی نشو نما میں مدد ملے گی ۔ اقبال نے تقریر کرتے ہوئے کہا : میرے دوست پنڈت نانک چند بدقسمتی سے یہاں نہیں ہیں ۔ انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ حکومت نے رنگ کے امتیاز کو ختم کر دیا ہے۔ اس لیے وہ عہدے جن پر پہلے برطانوی افراد کا تقرر ہوا کرتا تھا ، اب ہندوئوں اور مسلمانوں کو ملنے لگیں گے ، لیکن میں اپنے دوست کو یقین دلاتا ہوں کہ حکومت نے بڑی سخت غلطی کی ہے ۔ اگر زیادہ برطانوی عہدے دار ہوتے تو میں ان کا خیر مقدم کرتا (آوازیں: نہیں، نہیں) میں اپنی ذمے داری کا پورا احساس رکھتے ہوئے یہ کہہ رہا ہوں اور نہیں نہیں کی آوازوں کی معنویت کو بھی بخوبی سمجھتا ہوں ۔ میں اس جھوٹی اور کھوکھلی قوم پرستی سے مسحور نہیں ہوں (ڈاکٹر شیخ محمد عالم: ہر شخص ایسا نہیں ہے) یہ ہو سکتا ہے لیکن متحدہ قومیت کا نعرہ ازکار رفتہ ہے اور شاید ایک عرصہ دراز تک ازکار رفتہ ہی رہے گا۔ یہ لفظ اس ملک کے لوگوں کی زبان پر گذشتہ پچاس سال سے ہے ، مگر وہ اس کُڑک مرغی کی کُکڑکُوں ہے جس نے انڈا دینا بند کر دیا ہو۔ بہرحال آپ سے کہتا ہوں کہ اس ملک کے حالات ایسے ہیں کہ ہمارے لیے نا ممکن ہے کہ کھُلے مقابلے کے امتحان کے سیدھے سادے اُصول کو رائج کریں ۔۔۔۔ میں نہیں جانتا ایک قوم بننا اچھی بات ہے یا نہیں ۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جسے ردّ بھی کیا جا سکتا ہے ۔ بہرحال فرض کیجیے کہ ایک قوم بننا اچھی بات ہے، تو میں کہوں گا کہ اس سے پہلے اس ملک کے مختلف فرقوں میں باہمی اعتماد پیدا ہو۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ فرقے ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے ۔ جب ہم آپس میں ملتے ہیں تو قومیت کی بات کرتے ہیں اور نوعِ انسان سے محبت کا ذکر کرتے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے میرے ایک دوست نے دو ہندو شرفاء کی گفتگو سُنی ۔ ایک نے دوسرے سے پوچھا : اب ہماری پالیسی کیا ہونی چاہیے؛ دوسرے نے کہا : زبان پر قوم پرستی کے الفاظ ہوں لیکن اصل میں اپنے فرقے کے حقوق پر نگاہ رکھی جائے ۵۵ ۔ ۲۵؍ جولائی ۱۹۲۷ء کو اقبال نے کونسل میں کئی قراردادیں پیش کرنے کا نوٹس دیا، جن میں چند یہ تھیں کہ: حکومت پنجاب نے نیلی بار ضلع منٹگمری میں سوا تین لاکھ ایکٹر رقبہ زیادہ تر سرمایہ داروں کے ہاتھ فروخت کیا ، اُس اراضی کا نصف حصہ مزارعین کے لیے مخصوص کر دیا جائے یہ کہ توہینِ انبیاء و بزرگانِ دین کے انسداد کے لیے قانون نافذ کیا جائے (یہ قانون ۱۹۲۷ء ہی میں نافذ کر دیا گیا)، یہ کہ پنجاب میں انسدادِ شراب نوشی کے لیے قانون بنایا جائے اور تلوار کو قانونِ اسلحہ سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ چنانچہ اقبال کی کوششوں سے تلوار نو اضلاع یعنی میانوالی ، ڈیرہ غازی خان ، مظفر گڑھ ، جھنگ ، گڑ گائوں، حصار، انبالہ ، شملہ اور کانگڑہ میں قانونِ اسلحہ سے مستثنیٰ قرار دے دی گئی۵۶۔ ۴؍ ستمبر ۱۹۲۷ء کو مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے ایک انجمن قائم ہوئی۔ اس کے پہلے اجلاس میں شرکت کے لیے تقریباً دس ہزار افراد کشمیری بازار کے متصل محلہ کوٹھی داراں میں جمع ہوئے۔ اقبال صدرِ جلسہ تھے ۔ا نہوں نے اپنے خطبۂ صدارت میں مسلمانوں کو معاشی میانہ روی کے فوائد سے آگاہ کیا ۔ فضول مصارف ترک کرنے کی تلقین کی، اور’’الکاسب حبیب اللہ ‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ ہر مسلمان کو ضرور کچھ نہ کچھ کمانا چاہیے اور آپس میں اعتماد کی فضا پیدا کر کے تجارت و صنعت کی توسیع کے لیے کمپنیاں کھولنا چاہییں ۵۷ ۔ ۸؍نومبر ۱۹۲۷ء کو حکومت برطانیہ نے سائمن کمیشن کے تقرر کا اعلان کیا اس کمیشن کے تمام ارکان انگریز تھے اور اس کا کام حالات کے پس منظر میں شہادتیں لینا اور مختلف تجاویز اکٹھی کرنے کے بعد ہندوستان کے لیے آئندہ دستوری اصلاحات کے بارے میں سفارشات پیش کرنا تھا ۔ چونکہ اس میں کسی ہندوستانی کو شامل نہ کیا گیا تھا ، اس لیے برصغیر کے سیاسی لیڈروں میں سے اکثریت کمیشن کی تشکیل پر معترض تھی، مگر اقبال کی رائے ان سے مختلف تھی، انہوں نے ۹؍ نومبر ۱۹۲۷ء کو کمیشن کی تشکیل کے متعلق اپنے بیان میں کہا کہ بلاشبہ اس میں کسی ہندوستانی کا نہ لیا جانا ہندوستان کے وقار پر حملہ ہے ، لیکن اس حملے کی وجہ وہ بے اعتمادی اور بدظنی ہے جو ہندوستان کی مختلف اقوام کو ایک دوسرے کے متعلق ہے۵۸ ۔ کانگرس نے سائمن کمیشن کے مقاطعے کا اعلان کیا، مگر اس بارے میں مسلم قائدین میں اختلاف رونما ہو گیا ۔ ایک گروہ مقاطعے کا حامی تھا اور دوسرا تعاون کرنا چاہتا تھا ۔ مقاطعے کے حامیوں میں مولانا محمد علی اور محمد علی جناح پیش پیش تھے جب کہ تعاون کے حامی سر محمد شفیع ، اقبال اور مولانا حسرت موہانی تھے ۔ مولانا محمد علی کے اثر و رسوخ کے سب خلافت کانفرنس نے مقاطعے کا اعلان کر دیا اور چونکہ محمد علی جناح مسلم لیگ کے صدر تھے ، اس لیے یہی گمان کیا گیا کہ لیگ نے بھی مقاطعہ کیا ہے ۔ ان ایّام میں پنجاب صوبائی مسلم لیگ کے صدر سر محمد شفیع اور سیکرٹری اقبال تھے ۔ ۱۳؍نومبر۱۹۲۷ء کو سر محمد شفیع کی کوٹھی میں ایک جلسہ منعقد ہوا ، جس میں قرار داد منظور کی گئی کہ کمیشن کا مقاطعہ مسلمانوں کے مفاد کے لیے نقصان رساں ہو گا۔ اس لیے اس کے ساتھ تعاون کیا جائے ۔ اس اجلاس کے بعد اقبال نے بحیثیت سیکرٹری پنجاب صوبائی مسلم لیگ اخباروںمیں ایک بیان شائع کرایا جس میں واضح کیا کہ پنجاب پراونشل مسلم لیگ نے مسئلے کے تمام پہلوئوں پر کامل غور و خوض کے بعد ایک قرارداد منظور کی ہے جس کا مفاد یہ ہے کہ کمیشن کا بائیکاٹ ملکی زاویہ نگاہ سے علی العموم اور اسلامی نقطۂ نگاہ سے علی الخصوص نقصان رساں ہو گا۔ میرے خیال میں یہ قرار داد پنجابی مسلمانوں کے احساسات کا آئینہ ہے۔۔۔۔اس ملک کی قلیل التعداد جماعتوں کو رائل کمیشن کی آمد سے بڑھ کر اپنے اندیشے اپنی امیدیں اور اپنے مقاصد ظاہر کرنے کا اور کوئی موقع نہیں مل سکتا ۔ میری رائے میں ان کا مقصد یہ ہے کہ اپنی اپنی تہذیبوں کے مطابق نشو و ارتقاء حاصل کریں۔ یہ مقصد حاصل ہونا چاہیے خواہ مغرب کے دستوری اصول سے حاصل ہو یا کسی دوسرے ایسے ذریعے سے جو وقت کے مطابق ہو اور لوگوں کی ضروریات پوری کرے۵۹۔ مولانا محمد علی کو اقبال کا یہ اعلان تعاون پسند نہ آیا ۔ لہٰذا انہوں نے اپنے اخبار ’’ہمدرد‘‘ میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر کیا : سر محمد شفیع سے بھلا یہ کیونکر ممکن ہے کہ کسی وائسرائے کی رائے سے ہم رائے نہ ہوں ۔ انہوں نے وفاداری کا راگ گانا شروع کر دیا ہے۔ یہ پنجاب کی بدقسمتی ہے کہ سر محمد اقبال جیسے لیڈر سر محمد شفیع جیسے وفادار کو اپنی آزاد خیالی کی سطح تک نہ ابھار کر لا سکے بلکہ بر خلاف اس کے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود بھی سر محمد شفیع کی وفاداری کی پست سطح پر اتر آئے ہیں ۔ چنانچہ کمیشن کے متعلق پنجاب مسلم لیگ کے سیکرٹری کا بیان اس کے صدر کے بیان سے کہیں زیادہ چاپلوسی کا ہے ۔ پنجاب حقیقتاًاچھے لوگوں کا خطہ ہے مگر ان کی راہنمائی صحیح طور پر نہیں کی جاتی۶۰ ۔ بالآخر دسمبر ۱۹۲۷ء میں محمد علی جناح نے بعض دیگر لیڈروں کے ساتھ مل کر ایک بیان میں کمیشن کی تشکیل پر اعتراض کرتے ہوئے مسلمانوں سے اس کے مقاطعے کی اپیل کی، لیکن اقبال نے بعض مسلم رہنمائوں کے ہمراہ ۸؍دسمبر ۱۹۲۷ء کو ایک بیان میں واضح کیا : چند روز ہوئے مسٹر جناح اور چند ایک دیگر سربرآوردہ اشخاص نے ایک اعلان شائع کیا تھا جو ملک کے موجودہ ناگوار حالات کی طرف سے پریشان کر دینے والی بے حسی کو ظاہر کرتا ہے۔اس اعلان میں اس حقیقت عظمیٰ کو نظر انداز کر دیا گیا کہ رائل کمیشن موجودہ تاسف زار حالات ہی کی پیدائش ہے ۔۔۔۔ ہم نہایت عاجزی سے اپنے اہل وطن کو بالعموم اور مسلمان بھائیوں کو بالخصوص متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ مقاطعے کی لا حاصل روش اختیار کرنے سے ، جیسا کہ مسٹر جناح اور اُن کے ہم خیالوں نے تجویز کی ہے، افسوس اور ندامت کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا ۔۔۔۔ یہ امر نہایت ضروری ہے کہ ہم اپنے ان حقوق کا تحفظ کر لیں جو ہندو ہمیں دینے سے انکار کر رہے ہیں ۔ جن مسلمانوں نے مسٹر جناح کے اعلان پر دستخط کیے ہیں ، ان میں سے بعض تو ایسے صوبوں سے تعلق رکھتے ہیں جن میں مسلمان آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ۔اُن کی روش پنجاب اور بنگال ایسے صوبوں کے مسلمانوں کی حکمت عملی کو تبدیل یا وضع نہیں کر سکتی ۔۔۔۔ ہمارا صاف اور غیر مبہم روّیہ اس خیال پر قائم ہے کہ ملک کی اکثریت سے اپنے منصفانہ حقوق حاصل کرنے میں ناکام رہ کر ہم یہ خیال کرنے لگے ہیں کہ ایسا قیمتی وقت ضائع کرنا ہمارے اہم مفاد کے منافی ہو گا ۔ ہندوئوں کو اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ ہم باہمی اختلافات کے تصفیے کے معاملے کو مزید التوا میں ڈالنے کے لیے آمادہ نہیں ہو سکتے۔۔۔۔ ملک کی اکثریت کو چاہیے کہ ابھی ہمارے ساتھ دیانت دارانہ مفاہمت کر کے مسلمانوں کے دل میں اپنا اعتماد پیدا کریں ۔ مسلمانوں کو محض اعمال ہی قائل کر سکتے ہیں، اقوال اور بلند بانگ دعوئوں سے کچھ نہ بنے گا ، کیونکہ مسلمان بیش بہا تجارب کے بعد قدرے سوچ بچار کے عادی ہو گئے ہیں ۔ ہم نہایت جرأت اور زور سے کہتے ہیں کہ ہم کرائے کے ٹٹو بننے کے لیے تیار نہیں ۔ مسٹر جناح اور دیگر حضرات نے یہ فقرہ اڑا لیا ہے کہ ہماری خودداری ہمیں رائل کمیشن کی تائید کی اجازت نہیں دیتی ۔ ہم اس کے برعکس یہ کہتے ہیں کہ فرقہ وار جنگ اور خود داری یکجا قائم نہیں رکھی جا سکتیں ۔ تدبّر کا اقتضا یہ ہے کہ اس نازک موقع پر جذبات کو عقل اور دلیل پر حاوی نہ ہونے دیں ۶۱ ۔ سائمن کمیشن سے تعاون یا عدم تعاون کے بارے میں مسلم قائدین کا اختلاف نمایاں ہوتا چلا گیا ۔ یہ دوسرا موقع تھا کہ پنجاب صوبائی مسلم لیگ ، اس کے صدر سر محمد شفیع اور سیکرٹری اقبال نے آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر محمد علی جناح سے اختلاف کیا تھا ۔ پہلا موقع یکم مئی ۱۹۲۷ء کو ’’تجاویز دہلی‘‘ میں جداگانہ حق نیابت سے دستبرداری کی مخالفت کے دوران میں پیدا ہوا تھا ۔’’ تجاویز دہلی‘‘ کو مسلم لیگ نے ابھی تک حسبِ ضابطہ منظور نہ کیا تھا ، اس سے سوال پیدا ہوا کہ آئندہ مسلم لیگ کا اجلاس کہاں منعقد کیا جائے ۔ اس زمانے میں ڈاکٹر کچلو مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل تھے ، اور محمد علی جناح و ڈاکٹر کچلو کی خواہش تھی کہ مسلم لیگ اپنے سالانہ اجلاس میں تجاویز دہلی منظور کر لے تاکہ میثاق لکھنؤ کی طرح ایک اور ہندو مسلم سمجھوتا وجود میں آ جائے ، لیکن ڈاکٹر کچلو لاہور میں مسلم لیگ کا اجلاس منعقد کرنے کے مخالف تھے، کیونکہ پنجاب صوبائی مسلم لیگ نے جداگانہ حق نیابت کی دستبرداری کے خلاف آواز بلند کی تھی اور انہیں یقین تھا کہ وہاں تجاویز دہلی مسترد کر دی جائیں گی اور جداگانہ حق نیابت قائم رکھنے پر زور دیا جائے گا ۔ اس لیے انہوں نے طے کیا کہ مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس لاہور کی بجائے کلکتے میں زیر صدارت سر محمد یعقوب منعقد ہو ۔ اقبال نے اس فیصلے کو غیر دستوری قرار دیتے ہوئے ۱۴ ؍دسمبر ۱۹۲۷ء کو سر فیروز خان نون کی معیت میں ایک بیان جاری کیا جس میں کہا : کلکتے میں اجلاس منعقد کرنے کے وجوہ کچھ اور ہی ہیں اور وہ نہیں جو ہمیں یا پبلک کو بتائے جا رہے ہیں ۔ اصل وجہ یہ ہے کہ کلکتے میں مشترکہ حلقہ ہائے انتخاب کے متعلق ۲۰؍مارچ کی منظور کردہ تجاویز دہلی کو مسلمان قوم کے سر منڈھنے کا موقع لاہور کی بہ نسبت بہت زیادہ ہے کیونکہ مسلمانان پنجاب متفقہ طور پر جداگانہ حلقۂ ہائے انتخاب کے حامی ہیں۶۲ ۔ چنانچہ اس مرحلے پر مسلم لیگ دو حصوں میں بٹ گئی ۔ ایک جناح لیگ کہلائی اور دوسری شفیع لیگ ۔ ۱۹؍دسمبر ۱۹۲۷ء کو اقبال نے نواب سر ذوالفقار علی خان کے ہمراہ محمد علی جناح کی پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک بیان میں واضح کیا : ہم نے پہلے بھی وضاحت کر دی ہے کہ مختلف اقوام باہمی خونریزی کے ہولناک مظاہروں میں مصروف ہیں جس سے ہندوستان کی خودداری خاک میں مل گئی ہے ۔ مسٹر جناح اور ان کے رفقاء نے بدقسمتی سے قومی زندگی کی ایسی حالت کا تصور کر رکھا ہے جو حقیقت میں مفقود ہے ۔۔۔۔ مسٹر جناح کو بخوبی معلوم ہے کہ تقرر کمیشن کا اعلان ہونے سے پہلے مسلمانوں نے متعدد مرتبہ اکثریت سے درخواست کی کہ باہمی اختلافات کا تصفیہ کر ائیں پھر مؤتمر اتحاد شملہ میں مسلمانوں نے ایک مرتبہ پھر اپنے شکوے کی آواز بلند کی اور اب اس موقع پر پھر مسلمان ان کو صلح کرنے کی دعوت دیتے ہیں ۔ اس تماشے میں مسٹر جناح چیف ایکٹر رہے ہیں ۔ کیا وہ ہم کو بتلا سکتے ہیں کہ ان کو کبھی ہندووں کی جانب سے سوائے سخت ہٹ دھرمی کے اور کوئی جواب ملا ہے ۔۔۔۔ ہم اس بات کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ دولت ، رسوخ ، سیاسی قیادت اور تعداد کے لحاظ سے ہم ہندووں کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ اس لیے جب تک ہم ہندوئوں اور انگریزی حکومت دونوں سے اپنے حقوق کا مطالبہ مستعدی اور سرگرمی سے نہ کریں ، ہماری سیاسی موت مسلمہ امر ہے ، جیسا کہ بعض مسلمان ہم سے کہتے ہیں کہ ہم اکثریت کی ہوائی فیاضی پر اعتماد نہیں کر سکتے ۔ اب قیاسات اور جذباب کی گنجائش نہیں۔ ہمیں ٹھوس دلائل کی ضرورت ہے ۔ مسٹر جناح اور ان کے دوست ہم کو اپنے مفاد کے لیے موردِ طعن و تشنیع بنائیں ، ہم اس بات کو زمانۂ مستقبل پر چھوڑتے ہیں۔ جو ہمارے اس استقلال کا انصاف کرے گا ، جو ہم نے فرقہ وار مفاد کو مستحکم بنیاد پر رکھنے میں دکھلایا ہے۶۳۔ ۲۹ ؍ دسمبر ۱۹۲۷ء کو باغ بیرون موچی دروازہ میں مسلمانوں کے ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے اقبال نے اعلان کیا : اس وقت مسلمانوں کے سامنے دو مسائل پیش ہیں ۔ ایک حصول سوا راج کا معاملہ اور دوسرا فرقہ وار نیابت کے قیام کا معاملہ ۔۔۔۔ بد قسمتی سے ملک کی اکثریت کے طرزِ عمل نے مسلمانوں کو حصولِ سواراج کے مسئلے کی طرف سے بد دل کر رکھا ہے ۔ اب انہیں اپنے حقوق ملّی کے تحفظ کی فکر لاحق ہو رہی ہے اور مسلمانانِ ہند کی ترقی کا انحصار اس مسئلے پر ہے ۶۴ ۔ بہرحال لیگ دو حصوں میں منقسم رہی ۔ جناح لیگ نے اپنا سالانہ اجلاس کلکتے میں سر محمد یعقوب کی زیر صدارت منعقد کیا۔ جہاں تجاویز دہلی منظور کر لی گئیں ، لیکن شفیع لیگ نے اپنا اجلاس زیر صدارت سر محمد شفیع ۳۱؍دسمبر ۱۹۲۷ء کو لاہور میں منعقد کیا۔ جس میں جداگانہ حق نیابت قائم رکھنے پر اصرار کیا گیا اور اقبال کی پیش کردہ مندرجہ ذیل قرار داد منظور ہوئی : موجودہ نظام میں بنگال اور پنجاب کے مسلمانوں کو مجلسِ وضع قوانین میں اکثریت کے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس اس کے خلاف پُر زور احتجاج کرتا ہے اور اسے اصول جمہوریت کے منافی بتاتا ہے ۔ لیگ ، حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ ۱۹۲۱ء میں مسلمانوں کے ساتھ جو بے انصافی کی گئی تھی اسے دور کیا جائے ۶۵۔ جنوری ۱۹۲۸ء میں مولانا محمد علی اس غرض سے لاہور تشریف لائے کہ اقبال کو اپنا ہمنوا بنائیں اور سائمن کمیشن سے انہیں تعاون کرنے سے باز رکھیں ، لیکن اقبال نے شرط یہ لگا دی کہ اگر ہندو قائدین مسلمانوں کے مطالبات تسلیم کر کے ان سے حقیقی مفاہمت کر لیں تو نہ صرف وہ خود کمیشن سے تعاون نہ کریں گے بلکہ سر محمد شفیع کو بھی اس کے مقاطعے کے لیے مجبور کریں گے ۔ مگر چونکہ ایسا ہو سکنا ممکن نہ تھا ، اس لیے مولانا محمد علی ، اقبال کو اپنا ہم خیال نہ بناسکے ۶۶۔فروری ۱۹۲۸ء میں سائمن کمیشن کے ممبر لاہور آئے اور شفیع لیگ کے سوا ملک کی تقریباً ساری سیاسی جماعتوں نے ان کا بائیکاٹ کیا ۔ ۷؍فروری ۱۹۲۸ء کو اقبال نے پنجاب کونسل کے آئندہ اجلاس میں یہ قرار داد پیش کرنے کا نوٹس دیا کہ گذشتہ سال ہنگامۂ فساداتِ لاہور میں جن اشخاص کو سزائیں دی گئیں ، انہیں معاف کرکے رہا کر دیا جائے۶۷ ۔۲۲ ؍ فروری ۱۹۲۸ء کو کونسل میں طب اور آیور ویدک طریق علاج پر بحث کے دوران انہوں نے فرمایا : حکومت ایک طرف تو مغربی طب کی حمایت اور دوسری طرف ملکی طب کی عدم حمایت اس لیے کر رہی ہے کہ اس کے پیش نظر تجارتی اغراض ہیں ۔۔۔۔ طب یونانی کے متعلق بہت سی کتابیں بالخصوص نجیب الدین سمر قندی کی تصانیف اب تک شائع نہیں ہو سکیں ۔ یورپ کے کتب خانوں میں بہت سی ایسی کتابیں موجود ہیں ۔ جن کے شائع ہونے سے ان لوگوں کی آنکھیں کھل جائیں گی جو طب مغربی کی برتری کے فخریہ طور پر قائل ہیں ۔۔۔۔ ہندوستان ایک غریب ملک ہے اور یہاں کے باشندے قیمتی دوائوں کا استعمال نہیں کر سکتے ۔ اس لیے ایسے نظام کو جو سستا ہو رواج دینا ضروری ہے۔ اس نکتے کے پیش نظر میرا خیال ہے کہ یونانی اور آیورویدک طبی نظام ہمارے لیے زیادہ مناسب ہے ۶۸۔ ۲۳؍ فروری ۱۹۲۸ء کو انہوں نے کونسل میں انکم ٹیکس کے اصولوں کو محاصل اراضی پر عائد کرنے کی بحث میں شرکت کی اور اپنی دلچسپ تقریر میں واضح کیا کہ حکومت لگان وصول کرنا اپنا حق اس لیے سمجھتی ہے کہ وہی زمین کی مالک ہے ، لیکن یہ نظریہ اب فرسودہ ہو چکا ہے ۔ آپ نے فرمایا: پہلا یورپی مصنف جس نے ۱۷۷۷ء میں اس نظریے کی تردید کی وہ ایک فرانسیسی پیرون نامی تھا۔اس کے بعد ۱۸۳۰ء میں برگز نے ریاست کے حقِ ملکیتِ زمین کے تصور اور ہندوستان میں اس سے متعلق قانون اور رسوم و رواجات پر وسیع تحقیق کی۔ اس نے اپنی کتاب میں منو کے قوانین ، اسلامی شریعت اور ان رسوم کا جو ہندوستان کے مختلف اقطاع ، بنگال ، مالوہ ، پنجاب وغیرہ میں رائج تھیں ، مفصل تذکرہ کیا ہے اور وہ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ تاریخ ہند کے کسی زمانے میں بھی ریاست نے زمین پر اپنی ملکیت کا دعویٰ نہیں کیا ۔ لارڈ کرزن کے زمانے میں یہ نظریہ ضرور پیش کیا گیا تھا ، مگر محصول کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ اس نظریے کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہے ۔۔۔۔ اگر کوئی شخص زمیندار ہو، خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ، تو اس کو لگان لازماً ادا کرنا پڑتا ہے، لیکن اگر کوئی شخص زمین کے علاوہ اور ذرائع سے دو ہزار سالانہ سے کم آمدنی پیدا کرے تو آپ اس پر ٹیکس عائد نہیں کرتے ۔۔۔۔ اس صوبے میں منفعت بخش اراضی دس یا گیارہ بیگھے ہے اور پانچ بیگھے اس قسم کی ملکیت کا نصف ہے۔ میری رائے میں اسی اصول پر پانچ بیگھے تک زمین کا لگان معاف کر دینے میں صوبے کی آمدنی میں کوئی خاص کمی نہ ہو گی ۔۔۔۔ اس سلسلے میں کسی معزز ممبر نے ایک تحقیقاتی کمیٹی کو روس بھیجنے کی تجویز بھی پیش کی ہے ۔۔۔۔ میرے معزز دوست کو شاید ان اسباب کا علم نہیں جو انقلابِ روس کا پیش خیمہ تھے ۔ ان اسباب کو یہاں تفصیل کے ساتھ پیش کرنا بھی ضروری نہیں۔۔۔۔ اس وقت پنجاب کا زمینداراپنی مالکانہ حیثیت کو ترک کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس ملک میں ایسے چھوٹے چھوٹے زمیندار بھی ہیں جن کی ملکیت دو بیگھے یا دو کنال ہے۔ اگرچہ ان کی حیثیت مزار عین کی سی ہے تاہم وہ انفرادی ملکیت کے حقوق سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں لہٰذا میری گزارش ہے کہ حکومت کو قرار داد کے مطالبے پر غور کرنا چاہیے تاکہ چھوٹے زمینداروں کے لیے جن کی زمینی پیدوار ان کے خاندانوں کی پرورش کے لیے بھی قطعی طور پر ناکافی ہے ، کوئی بہتری کی صورت نکل آئے ۶۹۔ ۸ ؍ اپریل ۱۹۲۸ء کو انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں اقبال نے فلسفۂ اسلام کے موضوع پر انگریزی میں تقریر کی۔ انہی ایّام میں وہ الہٰیاتِ اسلامیہ سے متعلق مقالوں کا ایک سلسلہ تحریر کر رہے تھے اور یہ خطبہ اس سلسلے کی ایک کڑی تھا ۷۰ ۔ اس مرحلے پر ان سوالات کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے کہ جناح لیگ نے جو تجاویزِ دہلی کی بنا پر ہندوئوں کے ساتھ مفاہمت کرنے کی کوششوں میں مصروف تھی اور جس نے سائمن کمیشن کا مقاطعہ کر رکھا تھا کیا حاصل کیا؟اسی طرح شفیع لیگ نے، جو جداگانہ حقِ نیابت سے دستبردار ہونے کے خلاف تھی اور سائمن کمیشن سے تعاون کرنا چاہتی تھی ، کیا پایا ؟ جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے ، کانگرس نے اپنے دسمبر ۱۹۲۷ء کے سالانہ اجلاس بمقام مدراس میں تجاویز دہلی منظور کر لی تھیں، گو ہندو مہا سبھا ان کی سخت مخالف تھی۔ مارچ ۱۹۲۸ء میں کانگرس کی طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس کا اجلاس دہلی میں منعقد ہوا جس میں دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح جناح لیگ کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔ اس کانفرنس کا مقصد ہندوستان کے آئندہ دستور کی ترتیب کے لیے فرقہ وارانہ تناسب کا مسئلہ طے کرنا تھا ، لیکن کانفرنس کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی ۔ بعد میں بھی چند اجلاس ہوئے مگر ملتوی کر دیے گئے ۔ اسی دوران میں برطانیہ کے وزیر ہند لارڈ برکن ہیڈ نے چیلنج دیا کہ ہندوستانی خود کوئی متحدہ دستوری سکیم تیار کر کے دکھائیں ۔ چنانچہ ۱۹؍مئی ۱۹۲۸ء کو ایک کمیٹی پنڈت موتی لعل نہرو کی قیادت میں بنی ، جسے ہندوستان کے آئندہ دستور کا خاکہ تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ۔ اس کمیٹی نے جو رپورٹ اگست ۱۹۲۸ء میں پیش کی ، اِسے نہرو رپورٹ کہا جاتا ہے۔ اس رپورٹ کے نمایاں پہلو یہ تھے : سب اختیارات صوبوں سے لے کر مرکز کو دیے گئے اور یوں وفاقی طرز حکومت کی بجائے وحدانی حکومت کی بنیاد رکھی گئی ۔ سندھ کی علیحدگی کو اس وقت تک ملتوی کر دیا گیا جب تک کہ صوبہ مالی حیثیت سے خود کفیل ہو۔ نشست کی تعین کے بغیر مخلوط انتخابات پر زور دیا گیا اور مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کا ایک تہائی کا مطالبہ ردّ کر کے انہیں تناسب آبادی کے لحاظ سے نشستوں کا حق دیا گیا ۔ پنجاب اور بنگال میں مسلم اکثریت کو بروئے کار لانے یا صوبہ سرحد و بلوچستان میں دستوری اصلاحات نافذ کرنے کا ذکر تک بھی نہ کیا گیا ۔ مختصراً وہی تجاویز دہلی جنہیں کانگرس کے اجلاسِ عام منعقدہ مدراس میں پنڈت موتی لعل نہرو منظور کر انے میں پیش پیش تھے، پنڈت موتی لعل نہرو ہی کی زیر قیادت کمیٹی کی رپورٹ کے ذریعے ختم کر دی گئیں ۔ بہرحال جناح لیگ کو اب بھی توقع تھی کہ رپورٹ مناسب ترمیمات کے ساتھ قبول کی جا سکتی ہے ۔ چنانچہ اس سلسلے میں جو ترمیمات محمد علی جناح نے پیش کیں وہ یہ تھیں : باقی اختیارات صوبوں کو دیے جائیں ، مرکز میں مسلمانوں کے لیے ایک تہائی نشستیں رکھیںجائیں اور پنجاب و بنگال میں مسلم اکثریت کو بروئے کار لانے کے لیے یا تو بالغ حقِ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات ہوں یا کونسلوں میں مسلمانوں کی نشستیں ان کی آبادی کے تناسب میں محفوظ کر دی جائیں ۔ لیکن محمد علی جناح کی ترمیمات رد کر دی گئیں اور نہرو رپورٹ ہندو مہاسبھا کی مرضی کے مطابق بغیر کسی رد و بدل کے منظور کر لی گئی ۔ پس تجاویز دہلی کو ’’نہرو رپورٹ ‘‘ میں ترمیمات کے ذریعے داخل کرانے یا ہندو مسلم مفاہمت کے سلسلے میں محمد علی جناح کی آخری کوشش ناکام رہی اور بقول محمد احمد خان اقبال کی پیش گوئی کہ مجھے یقین نہیں آتا کہ ہندو کبھی سمجھوتے پر رضامند ہو سکیں ۔ پتھر کی لکیر ثابت ہوئی۷۱ ۔ دسمبر ۱۹۲۸ء میں کانگرس کے سالانہ اجلاس منعقدہ کلکتے میں یہ الٹی میٹم بھی دیا گیا کہ اگر برطانوی پارلیمنٹ نے ایک سال کے اندر نہرو رپورٹ کو منظور نہ کیا تو کانگرس عدم تعاون اور عدمِ ادائیگی محصول کی مہم شروع کر دے گی۔ دوسری طرف شفیع لیگ نے سائمن کمیشن کو پیش کرنے کے لیے مسلمانوں کے مطالبات کی یاد داشت کا مسودہ تیار کرنے کی غرض سے مئی ۱۹۲۸ء میں ایک کمیٹی مقرر کی ۔ جس میں اقبال بھی شامل تھے ۔ اقبال نے کمیٹی کے پہلے اجلاس میں صوبجاتی خود مختاری کے مطالبے کی اہمیت کا ذکر کیا۔ مگر اسی دوران میں وہ دردِ گردہ میں مبتلا ہوئے اور انہیں حکیم نابینا (حکیم عبدالوہاب انصاری برادر ڈاکٹر انصاری) سے علاج کی خاطر دہلی جانا پڑ گیا ۔ اس لیے وہ شفیع لیگ کی یاد داشت کے حتمی مسودے کی ترتیب میں شریک نہ ہو سکے ۷۲ ۔ جب دہلی سے واپس لاہور آئے تو اخبارات میں یادداشت کی تفصیل پڑھ کر سخت برہم ہوئے کیونکہ اس میں مکمل صوبجاتی خود مختاری کا مطالبہ نہ کیا گیا تھا۔ اسی بناء پر انہوں نے ۲۴ ؍ جون ۱۹۲۸ء کو شفیع لیگ کی سیکرٹری شپ سے استعفیٰ دے دیا اور اس سلسلے میں اپنے اخباری بیان میں فرمایا : میں اب یہ دیکھ رہا ہوں کہ اخبارات میں لیگ کی یاد داشت کے جو حصے شائع ہوئے ہیں ان میں مکمل صوبجاتی خود مختاری کا مطالبہ نہیں کیا گیا بلکہ ایسی وحدانی حکومت کی تجویز پیش کی گئی ہے جس میں قانون نظم و ضبط اور عدلیہ گورنر کی براہِ راست نگرانی میں رہیں گے ۔ مجھے یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ یہ تجویز دو عملی کی ایک نقاب پوش صورت ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی دستوری ترقی ہی نہ ہو ۔ چونکہ مجھے اب بھی اپنی اس رائے پر اصرار ہے جو میں نے مسودہ نگار کمیٹی کے پہلے اجلاس میں ظاہر کی تھی اور وہ یہ کہ آل انڈیا مسلم لیگ کو چاہیے کہ مکمل صوبجاتی خود مختاری کا مطالبہ کرے ، اس لیے مجھے ان حالات میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سیکرٹری نہیں رہنا چاہیے ۔ براہ مہربانی میرا استعفیٰ قبول کر لیا جائے ۷۳۔ اقبال کے استعفیٰ کا اثر یہ ہوا کہ سر محمد شفیع کو لیگ کی یاد داشت میں ترمیم کر کے مکمل صوبجاتی خود مختاری کا مطالبہ اس میں شامل کرنا پڑا اور اس کے بعد اقبال نے بھی یاد داشت پر اپنے دستخط کر دئیے۷۴ ۔ ۵؍ نومبر ۱۹۲۸ء کو شفیع لیگ کے ایک وفد نے ، جس میں اقبال بھی شامل تھے ، سائمن کمیشن کے سامنے شہادت دی۔ بالآخر کمیشن نے کچھ حد تک مسلمانوں کے مطالبات قبول کر لینے کی سفارش کی ۔ تاہم اقبال کمیشن کی رپورٹ سے مطمئن نہ تھے ۔ وسط ۱۹۳۰ء میں جب سائمن رپورٹ شائع ہوئی تو انہوں نے اپنے بیان مورخہ ۲۴؍ جون ۱۹۳۰ء میں اس پر کڑی تنقید کی۷۵۔ بہرحال گول میز کانفرنس کے متعلق وائسراے کے اعلان نے سائمن رپورٹ کی اہمیت کو ختم کر دیا ۔ لہٰذا یہ مشق بھی بار آور ثابت نہ ہوئی ۔ اگست ۱۹۲۸ء میں جب نہرو رپورٹ کے کچھ حصے اخبارات میں شائع ہوئے تو اقبال نے اپنے تاثرات کا اظہار ایک بیان مورخہ ۲۰؍اگست ۱۹۲۸ء میں کیا ۔ انہوں نے اعداد و شمار کی روشنی میں رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے بالغوں کو رائے دہی کے حقوق کے متعلق واضح کیا کہ بیس سال کے مسلم بالغوں کی تعداد کل بالغ مردوں کے مقابلے میں ۵۴ فیصد ہے، حالانکہ پنجاب میں کل آبادی کے لحاظ سے مسلمانوں کا تناسب ۵۶ فیصد ہے۔ رپورٹ میں تجویز کردہ طریق انتخاب سے مسلمانوں کے دو فیصد خسارے سے ہندوئوں اور سکھوں کے تناسب آبادی میں دو فیصد کا اضافہ ہو جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ مسلم بالغہ خواتین کو تمام صوبے کی بالغہ خواتین میں ۵۵ فیصد کی نسبت حاصل ہے، لیکن وہ غیر تعلیم یافتہ اور بے حد قدامت پسند ہیں ۔ اس لیے کافی دیر تک ان کا پولنگ اسٹیشن پر ووٹ دینے کے لیے انتظار میں کھڑے رہنا محال ہے۔ غیر مسلم خواتین مقابلتاًزیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ لہٰذا وہ زیادہ تعداد میں رائے دینے کے لیے جائیں گی ۔ سو یوں بھی مسلمانوں کی نشستوں کی تعداد کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ پھر ایک لاکھ آبادی کی طرف سے ایک نمائندہ مقرر کرنے سے پنجاب میں حلقہ جاتِ انتخابات کی از سرِ نو تقسیم کرنا پڑے گی ۔ اس سے بھی مسلمانوں کی نیابت کو نقصان پہنچنے اور اکثریت سے اقلیت میں جانے کا اندیشہ ہے۷۶ ۔ اسی ماہ آل پارٹیز کانفرنس کے اجلاس لکھنؤ میں مولانا شوکت علی اور مولانا حسرت موہانی نے مسلم نقطۂ نظر سے نہرو رپورٹ کی خامیاں دور کرنے کی کوشش کی اور غالباًمولانا حسرت موہانی نے اپنی تجویز کو دہرایا کہ شمال مغرب میں صوبہ سرحد، بلوچستان ، سندھ اور پنجاب کو مدغم کر کے ایک صوبہ بنا دیا جائے، لیکن نہرو کمیٹی پہلے ہی اس تجویز کو اس بنا پر مسترد کر چکی تھی کہ یوں سارے شمال مغرب میں پھیلا ہوا ایک ایسا صوبہ وجود میں آجائے گا جس کا انتظام کرنا مشکل ہو جائے گا۷۷ ، چنانچہ مولانا شوکت علی اور مولانا حسرت موہانی اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہو سکے اور مولانا شوکت علی نے بھی نہرو رپورٹ اور آل پارٹیز کانفرنس کے خلاف اخبارات میں بیانات شائع کیے ۔ اقبال نے ان بیانات کو پڑھ کر ۴ ؍ ستمبر ۱۹۲۸ء کو فری پریس کے نمائندے سے ملاقات کے دوران کہا: مجھے ڈر ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس کے اجلاس لکھنؤ کے فیصلہ جات اور مولانا شوکت علی کے وہ حیرت انگیزانکشافات ، جو انہوں نے اپنے ابتدائی بیان میں کئے ہیں ، ہندوستان کی فرقہ وار صورتِ حال کو بد سے بدتر بنا دیں گے ۔۔۔۔ ہندوستان کا مسلمان اب اس جذبے کو ازسرِ نو سمجھنے اور اس کی قدرو قیمت مقرر کرنے پر مجبور ہو جائے گا، جسے ہندی قومیت کے جذبے سے موسوم کیا جاتا ہے۔ جو نہی وہ اس امر پر غور کرے گا وہ اپنے آپ کو مولانا شوکت علی کی طرح پائے گا، جن کی آنکھیں اب کھل چکی ہیں اور جو کمال رنج اور احساسِ درد کے ساتھ اپنے دل کو آزادی کے اس جوش اور جذبے سے خالی پاتے ہیں جس نے ان کی ہستی میں ایک قسم کی بجلی بھر رکھی تھی ۔ تمام باتیں مسلمانوں کے احساسِ عدم اعتماد کو مستحکم و مضبوط کرنے کا موجب ہوں گی ۔۔۔۔ ذاتی طور پر میں جداگانہ حلقہ ہائے انتخاب کا حامی ہوں۔ اس کی وجہ کسی حد تک تو مسلمانانِ ہند اور خاص کر مسلمانانِ پنجاب کی موجود اقتصادی حالت ہے، لیکن بڑی وجہ فرقہ وار امن و آتشی کے قیام کا احتمال ہے ، جو میرے خیال میں صرف جداگانہ حلقہ ہائے انتخاب ہی سے متعین ہو سکتا ہے۷۸ ۔ ۷؍ نومبر ۱۹۲۸ء کو اقبال نے پنجاب کونسل کے آئندہ اجلاس میں چند قرار دادیں پیش کرنے کا نوٹس دیا۔ جس کا مقصد صوبہ سرحد اور بلوچستان کے لیے علیحدہ یونیورسٹیوں کے قیام کی خاطر حکومت ہند کی توجہ مبذول کرانا تھا اور پنجاب کے مختلف اضلاع میں جن زمینداروں کی اراضیات دریائوں یا نالوں میں سیلاب کے سبب برباد ہو گئی تھیں، انہیں نیلی بار منٹگمری کی نو آبادی میں مناسب اراضی دلوانا تھا ۷۹۔ اسی ماہ انہوں نے اورئینٹل کانفرنس لاہور کے اجلاس میں شرکت کی اور مسلم سائنسدانوں کے عمیق تر مطالعہ کی دعوت کے موضوع پر انگریزی میں ایک جامع مقالہ پڑھا۸۰۔ نہرو رپورٹ نے مسلمانوں پر یہ حقیقت واضح کر دی کہ کانگرسی لیڈروں کا وسیع النظر یا اعتدال پسند طبقہ بھی ہندو مہاسبھا کے زیر اثر ہے۔ چنانچہ کوشش کی جانے لگی کہ اس کے خلاف مسلمانوں کا ایک متحدہ محاذ بنایا جائے۔ اس تگ و دو کے نتیجے میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس وجود میں آئی۔ اقبال اس کانفرنس کے بانیوں میں سے تھے اور انہوں نے کانفرنس کے لیے مسلمانوں کے مطالبات مرتب کرنے کے سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ۸۱۔۲۹؍دسمبر ۱۹۲۸ء کو آل پارٹیز مسلم کانفرنس کا اجلاس زیر صدارت آغا خان دہلی میں منعقد ہوا ، جس میں جناح لیگ کے سوا تمام مسلم جماعتوں کے نمائندے شریک ہوئے۔ اجلاس میں نہرو رپورٹ کی مذمت کی گئی اور بالآخر ایک قرار داد منظور کی گئی جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے: ۱ ۔ ہندوستان کا آئندہ دستور وفاقی طرز کا ہو اور باقی اختیارات صوبوں کو دیے جائیں ۔ ۲ ۔ مرکزی حکومت میں مسلمانوں کو ایک تہائی نشستیں دی جائیں۔ ۳ ۔ مسلمانوں کو جداگانہ حقِ نیابت سے کسی صورت میںمحروم نہ کیا جائے۔ ۴ ۔ جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، وہ بروئے کار لائی جائے اور مسلم اقلیتی صوبوں میںانہیں جو نشستیں حاصل ہیں وہ برقرار رکھی جائیں۔ ۵ ۔ کسی بھی مذہبی یا تمدنی مسئلے سے متعلق قانون منظور نہ کیا جائے اگر اس کی مخالفت اقلیت کے تین چوتھائی اراکین کریں۔ ۶ ۔ سندھ کو علیحدہ صوبہ بنایا جائے۔ ۷ ۔ بلوچستان اور صوبہ سرحد میں دیگر صوبوں کی طرح دستوری اصلاحات نافذ کی جائیں ۔ ۸ ۔ دستور اساسی میں مسلمانوں کے مذہب ، تمدن ، شخصی قانون ، تعلیم اور زبان کا تحفظ کیاجائے۔ ۹ ۔ مرکزی وصوبائی کابینہ میں مسلمانوں کو ان کا جائز حصہ دیا جائے۔ ۱۰۔ دستور اساسی میں اس وقت تک کوئی تبدیلی نہ کی جائے جب تک وفاق کے تمام اجزا یعنی ریاستیں اور صوبے اس پر متفق نہ ہوں ۸۲۔ اقبال نے قرار داد کی حمایت میں اپنی تقریر میں فرمایا: میں اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہوں کہ آج سے نصف صدی قبل سر سید احمد خان مرحوم نے مسلمانوں کے لیے جو راہِ عمل قائم کی تھی وہ صحیح تھی اور تلخ تجربوں کے بعد ہمیں اس راہِ عمل کی اہمیت محسوس ہو رہی ہے ۔ حضرات ! آج میں نہایت صاف لفظوں میں کہنا چاہتا ہوں کہ اگر مسلمانوں کو ہندوستان میں بحیثیت مسلمان ہونے کے زندہ رہنا ہے تو ان کو جلد از جلد اپنی اصلاح و ترقی کے لیے سعی و کوشش کرنی چاہیے اور جلد از جلد ایک علیحدہ پولیٹکل پروگرام بنانا چاہیے ۔ آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان میں بعض حصے ایسے ہیں ۔ جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور بعض حصے ایسے ہیں جن میں وہ قلیل تعداد میں ہیں ۔ ان حالات میں ہم کو علیحدہ طور پر ایک پولیٹکل پروگرام بنانے کی ضرورت ہے آج ہر قوم اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے سعی و کوشش کر رہی ہے ، پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمان اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے سعی و کوشش نہ کریں ۔ آج اس کانفرنس میں متفقہ طور پر جو ریزولیوشن پیش ہوا ہے وہ نہایت صحیح ہے اور اس کی صحت کے لیے میرے پاس ایک مذہبی دلیل ہے ، اور وہ یہ ہے کہ ہمارے آقائے نامدار حضور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ میری اُمت کا اجتماع کبھی گمراہی پر نہ ہو گا ۸۳۔ آل پارٹیز مسلم کانفرنس کے اجلاس سے فراغت کے بعد اقبال دہلی سے ۲؍جنوری ۱۹۲۹ء کو چوہدری محمدحسین اور عبداللہ چغتائی کی معیت میں جنوبی ہند کے دورے پر روانہ ہو گئے اور اس دورے کے دوران میں انہوں نے الہٰیات اسلامیہ کے موضوع پر مدراس ، میسور ، بنگلور اور حیدر آباد دکن میں خطبات دیے ۔ جنوری ۱۹۲۹ء کے آخر میں وہ واپس لاہور پہنچے ۔ اقبال افغانستان کے حالات میں گہری دلچسپی رکھتے تھے ، کیونکہ وہ ایک مسلم ملک ہونے کے علاوہ برصغیر کے شمال مغربی مسلم اکثریتی صوبوں کا ہمسایہ تھا۔ افغانستان کو تیسری افغان جنگ کے بعد امیر امان اللہ خان کے ہاتھوں مکمل آزادی نصیب ہوئی تھی ، اس لیے اقبال کو امیر امان اللہ خان کی ذات سے نہ صرف عقیدت تھی، بلکہ ان سے انہیں بڑی توقعات بھی وابستہ تھیں ۔ اسی بنا پر انہوں نے اپنی تصنیف ’’پیام مشرق‘‘امیر امان اللہ خان کے نام معنون کی ۔ لیکن امیر امان اللہ خان نے افغانستان میں چند ایسی اصلاحات نافذ کرنے کی کوشش کی جو سیکولر نوعیت کی اور اسلام کے منافی تھیں ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ علماء ان کے خلاف ہو گئے اور ۱۴ ؍ نومبر ۱۹۲۸ء کو افغانستان میں بغاوت کی ابتدا ء ہوئی ، ہندوستان کی انگریزی حکومت نے اپنی اغراض کے پیش نظر باغیوں کی امداد کی ۔ بالآخر ۱۷؍ جنوری ۱۹۲۹ء کو بچہ سقہ نامی ایک باغی نے کابل پر قبضہ کر لیا اور امیر امان اللہ خان کو ملک بدر کر دیا گیا ۔ گو بچہ سقہ نے کابل میں اپنی بادشاہت کا اعلان جاری کیا، مگر ملک بھر میں خانہ جنگی کی کیفیت طاری رہی ۔ ۲۶؍فروری ۱۹۲۹ء کو لاہور کے ’’ٹریبیون ‘‘اخبار کے نمائندے نے افغانستان کے حالات کے متعلق اقبال کا رد عمل معلوم کرنے کے لیے ان سے ملاقات کی ۔ انہوں نے فرمایا : معلوم ہوتا ہے کہ شہریار غازی کی ناکامی کا سبب بڑی حد تک یہ ہے کہ انہوں نے اصلاحات نافذ کرنے میں عجلت اور فوج کی طرف توجہ کرنے میں غفلت سے کام لیا اور دنیا کے ملائوں کے نظریے کے خلاف حقیقی ترقی میں گہری دلچسپی لی ۔ اس سے بلاشبہ افغانستان کے چند علماء ناراض ہو گئے ۔۔۔۔ اس امر کے یقینی ہونے میں کوئی شبہ نہیں کہ عالمِ اسلام میں قدامت پسندانہ جذبات اور لبرل خیالات میںجنگ شروع ہوگئی ہے۔ اغلب ہے کہ قدامت پسند اسلام بغیر جدوجہد کے سر تسلیم خم نہیں کرے گا ۔اس لیے ہر ایک ملک کے مسلم مصلحین کو چاہیے کہ نہ صرف اسلام کی حقیقی روایات کو غور کی نگاہ سے دیکھیں بلکہ جدید تہذیب کی صحیح اندرونی تصویر کا بھی احتیاط سے مطالعہ کریں، جو بے شمار حالتوں میں اسلامی تہذیب کی مزید ترقی کا درجہ رکھتی ہے ۔ جو چیزیں غیر ضروری ہیں ان کو ملتوی کر دینا چاہیے ، کیونکہ ضروری چیزیں فی الحقیقت قابلِ لحاظ ہیں ۔ یہ امر صحیح نہیں کہ مجلسی معاملات میں قدامت پسندانہ طاقتوں کو بالکل نظر انداز کر دیا جائے کیونکہ انسانی زندگی اپنی اصلی روایات کا بوجھ کندھوں پر اٹھا کر منزل ارتقا طے کرتی ہے ۸۴۔ بہرحال افغانستان کے حالات سرعت سے بدلتے چلے گئے بچہ سقہ کی حکومت جو صرف کابل تک محدود تھی ، دیرپا ثابت نہ ہو سکتی تھی، اس لیے کسی ایسی متبادل قیادت کی ضرورت تھی، جس پر افغان بحیثیت مجموعی اعتماد کر سکیں ۔ اس مقصد کے حصول کے لیے حکومت برطانیہ نے پیرس میںمقیم افغان سفیر جنرل نادر خان سے رابطہ قائم کیا۔ جنرل نادر خان نے تیسری افغان جنگ میں نمایاں کردار ادا کیا تھا اور ٹل کے مقام پر انگریزی فوجوں کو شکست دی تھی ۔ چنانچہ جنرل نادر خان حکومت برطانیہ کی دعوت پر ہندوستان آئے۔ اقبال انہیں جانتے تھے ، اس لیے جب جنرل نادر خان لاہور پہنچے تو ان کا استقبال کرنے والوں میں اقبال بھی لاہور ریلوے اسٹیشن پر موجود تھے ۔ اقبال نے ان کی امداد کے لیے اپنی جیب سے پانچ سو روپے کی رقم پیش کی جو جنرل نادر خان نے انتہائی شکریے کے ساتھ انہیں لوٹا دی ۔ بالآخر جنرل نادر خان اور ان کے بھائیوں نے آزاد علاقے میں وزیری اور محسود قبائل پر مشتمل لشکر تیار کیا اور انگریزی حکومت کے فراہم کردہ ہتھیاروں کے ساتھ افغانستان میں داخل ہو گئے ، لیکن جب تک وہ افغانستان کی جنگ میں مصروف رہے ، اقبال نے کسی نہ کسی طریقے سے ان کی مدد جاری رکھی۔ اس سلسلے میں اقبال کی خدمات کا اعتراف جنرل نادر خان نے اپنے ایک مکتوب محررہ ۲؍اکتوبر ۱۹۲۹ء میں کیا، جس میں انہوں نے اقبال کو لکھا: آپ نے اپنے ان عالی جذبات ہمدردانہ سے، جو آپ افغانستان کی موجودہ تباہ حالی کے متعلق رکھتے ہیں ۔ مجھے اور افغانستان کے عام بہی خواہوں اور فدا کاروں کو ممنون و متشکر بنا دیا ہے ۔ افغانستان تباہی کے نزدیک ہے، اس کی بے چارہ ملت کو بہت بڑے تہلکہ کا سامنا ہے۔افغانستان اپنے ہندی بھائیوں کی ہر قسم کی امداد و اعانت کا محتاج ہے۔ آپ ایسے وقت میں جو خیر خواہانہ قدم اٹھا رہے ہیں ، وہ ہمارے لیے ڈھارس کا موجب ہے خصوصاً مالی امداد کا مسئلہ جس کے متعلق میں اخبار’’ اصلاح‘‘ کے ذریعے سے اپنے ہندی بھائیوں کے لیے شائع کر چکا ہوں ، بہت حوصلہ افزا ہے ۔ امیدہے کہ جناب فاضل محترم جو روحاً افغانستان کی موجودہ مصیبت میں شریک ہیں، اس موقع پر اپنی مساعی سے کام لے کر افغانستان کی رنج زدہ قوم کو ہمیشہ کے لیے ممنون و مشکور فرمائیں گے ۔ باحترامات لائقہ ۔ محمد نادر خان ۸۵۔ جنرل نادر خان کو وسیع مالی امداد فراہم کرنے کی خاطر سرمایہ اکٹھا کرنے کے لیے ایک جلسہ لاہور میں ۳؍اکتوبر ۱۹۲۹ء کو اقبال کی صدارت میںمنعقد ہوا، جس میں باہمی مشورے کے بعد اتفاق رائے سے قرار پایا کہ فی الفور نادر خان ہلال احمر فنڈ کے نام سے ایک فنڈ کھول دیا جائے ۔ سرمائے کی فراہمی کے لیے ایک مجلس عاملہ قائم کی گئی ، جس کے صدر اقبال منتخب ہوئے ۔ اس سلسلے میں اقبال نے ۱۱ ؍ اکتوبر ۱۹۲۹ء کو مسلمانانِ ہند کے نام ایک اپیل بھی شائع کی۔ جس میں کہا: اس وقت اسلام کی ہزارہا مربع میل سرزمین اور لاکھوں فرزندانِ اسلام کی زندگی اور ہستی خطرے میں ہے اور ایک درد مند اور غیور ہمسایہ ہونے کی حیثیت سے مسلمانانِ ہند پر ہی فرض عائد ہوتاہے کہ وہ افغانستان کو باد فنا کے آخری طمانچہ سے بچانے کی لیے جس قدر دلیرانہ کوشش بھی ممکن ہو کر گزریں ۸۶۔ غرض انہی ایّام میں جنرل نادر خان اور ان کے لشکر نے کابل فتح کر لیا اور ۱۶؍اکتوبر ۱۹۲۹ء کو افغانستان میں محمد نادر شاہ کی بادشاہت قائم ہو گئی ۔ ۴؍مارچ ۱۹۲۹ء کو اقبال نے پنجاب کونسل میں خسارے کے صوبائی بجٹ پر تقریر کرتے ہوئے یہ تجاویز پیش کیں؛ صوبائی حکومت کو چاہیے کہ حکومتِ ہند کو آمادہ کر کے انکم ٹیکس کو صوبجاتی بنائے۔ اموات پر ڈیوٹی لگائی جائے اور ایسے محصولات کی وصولی کے لیے ایک حد مقرر کی جائے ۔ مثلاً ایسے لوگ جنہیں بیس یا تیس ہزار روپیہ کی مالیت کی جائداد ورثے میں مل رہی ہو ، بڑی تنخواہیں کم کی جائیں اور مشینری ارزاں ترین منڈیوں سے خریدی جائے ۸۷‘‘ ۔ نہرو رپورٹ میں جناح ترمیمات کی نامنظوری کے تلخ تجربے کے بعد محمد علی جناح کو یہ احساس ہو گیا کہ ہندووں کے ساتھ کسی قسم کا سمجھوتا ممکن نہیں ۔ اس لیے انہوں نے اپنی تمام تر توجہ مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کی طرف مبذول کی ۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کی خاطر جو مطالبات آل پارٹیز مسلم کانفرنس نے اپنی قرار داد میں شامل کر رکھے تھے، ان میں اضافہ کی گنجائش ہے اور یہ اضافی نکات انہوں نے مرتب بھی کر لیے، اس کے ساتھ ہی وہ چاہتے تھے کہ مسلم قائدین کا آپس میں اختلاف ختم ہو جائے ۔ چنانچہ مارچ ۱۹۲۹ء میںمحمد علی جناح اور سر محمد شفیع کی ملاقات ہوئی اور یہ طے پایا کہ دونوں لیگوں کا اکٹھا اجلاس دہلی میں طلب کیا جائے ، جس میں نہرو رپورٹ کی مذمت کی جائے اور مسلمانوں کے متفقہ مطالبات کی ایک ایسی جامع قرار داد پیش کی جائے جو سب کے لیے قابلِ قبول ہو ۔ اس پروگرام کے تحت شفیع لیگ کے ارکان ، جن میں اقبال بھی شامل تھے، دہلی پہنچے۔ یہی وہ موقع تھا جب اقبال اور محمد علی جناح کے سیاسی افکار میں ، دونوں کی زندگی میں، پہلی بار ایسی ہم آہنگی پیدا ہوئی جو آخری دم تک قائم رہی ۔ اس کا اعتراف محمد علی جناح نے اپنے ایک خط بنام انعام اللہ خان محررہ ۱۶ ؍مئی ۱۹۴۴ء میں کیا ہے فرماتے ہیں : ۱۹۲۹ء سے میرے اور سر محمد اقبال کے نظریات میں ہم آہنگی پیدا ہوئی اور وہی ایک عظیم اور اہم مسلمان تھے ۔ جنہوں نے ہر مرحلے پر میری حوصلہ افزائی کی اور آخری دم تک میرے ساتھ مضبوطی سے کھڑے رہے ۸۸۔ تاہم بدقسمتی سے اس وقت دونوں لیگوں کا اتحاد نہ ہو سکا ۔جناح لیگ کے اجلاس مورخہ ۳۱؍مارچ ۱۹۲۹ء میں نیشنلسٹ مسلمانوں کے گروپ کی ریشہ دوانیوں کے سبب ہنگامہ برپا ہو گیا اور محمد علی جناح کو غیر معینہ مدت کے لیے اجلاس ملتوی کرنا پڑا ۔ اقبال نے جناح لیگ میں موجودہ نیشنلسٹ مسلمانوں کے گروپ کی کارکردگی سے پردہ اٹھاتے ہوئے سر عبدالقادر اور سر فیروز خان نون کی معیت میں ۷ ؍اپریل ۱۹۲۹ء کو ایک بیان میں واضح کیا کہ : لاہور لیگ کے ارکان کی ایک بہت بڑی تعداد ، جن میں کئی ایم ۔ ایل ۔سی اور دیگر سرکردہ حضرات شامل تھے ، محض اس مفاہمت کی بنا پر دہلی گئی کہ جناح لیگ اس قرار داد کو منظور کرنے کے لیے تیار ہے،جو آل انڈیامسلم کانفرنس دہلی نے ہزہائی نس آغا خان کی زیرِ صدارت مسلمانوں کے متحدہ مطالبے کے طور پر پاس کی تھی۔ ہمیں یہ معلوم کر کے سخت مایوسی ہوئی کہ اگرچہ مسٹر جناح متذکرہ تجویز کو منظور کرنے کے لیے ذاتی طور پر تیار تھے، کیونکہ وہ مسلمانوں کی اکثریت کے نقطۂ نگاہ کی نمائندگی کرتی تھی، جیسا کہ ان کی تیار کردہ قرار داد سے ظاہر ہے۔ تاہم ان کی لیگ میں ایک ایسا گروہ بھی تھا جو ہر حال میں نہرو رپورٹ کی تائید کرنے پر تلا ہوا تھا اور اس نے اجلاس پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے ناواجب کوششیں بھی کی تھیں ۔۔۔۔ نہرو رپورٹ کی مختصر سی حامی ٹولی کا روّیہ دہلی لیگ میں بڑا ہی افسوسناک تھا۔ تاہم ہمارا خیال ہے کہ مسلمان قوم کو اس بات پر پریشان نہ ہونا چاہیے جس پر اس مختصر سے گروہ کی مساعی منتج ہوئی ہیں ۔ ہمارا خیال ہے کہ محض لیگ کے اجلاس کے التوا ہی میں ہماری فتح مضمر ہے ۔ ہم نے مسٹر جناح کو ایک مکتوب لکھا تھا ، جس میں یہی تجویز کی گئی تھی ۔ یہ خط اخبارات میں شائع ہو چکا ہے۔ جس مقصد کے لیے لیگ کے اجلاس کو مئی کی بجائے مارچ میں منعقد کیا گیا تھا، یعنی دونوں لیگوں کے درمیان اتحاد کرانے کی کوشش،اس مقصد کے پیش نظر اگر التوائے اجلاس ہمارے مکتوب کے باعث عمل میں آتا تو بڑا اچھا ہوتا ۔ خیر جس طرح بھی ہوا اس سے یہ تو ظاہر ہو گیا ہے کہ مسلمانوں کی عام رائے نہرورپورٹ کے خلاف ہے ۸۹۔ محمد علی جناح نے جناح لیگ میں موجود نیشنلسٹ مسلمانوں کے گروہ سے بیزار ہو کر آل انڈیا مسلم کانفرنس کی قرار داد کے دس مطالبات میں کچھ ترمیم (یعنی مرکز اور صوبے کی ہر وزارت میں ایک تہائی حصہ مسلمان ضرور ہوں)اور چار مطالبات کا اضافہ کر کے اپنا فارمولا ، جو چودہ نکات کے نام سے مشہور ہوا، اخباروں میں شائع کرا دیا۔ چار اضافی مطالبات حسبِ ذیل تھے : ۱ ۔ صوبوں کو کامل خود مختاری حاصل ہو گی اور تمام صوبے خود مختاری میں مساوی طور پر شریک ہوں گے ۔ یعنی تمام صوبوں کو یکساں اختیارات حاصل ہوں گے ۔ ۲ ۔ صوبوں کی سرحدات میں کوئی ایسی تبدیلی نہیں کی جائے گی ، جس کا بُرا اثر پنجاب اور بنگال کی مسلم اکثریت پر پڑتا ہو۔ ۳۔ تمام قوموں کو ضمیر کی پوری آزادی ۔ عقیدہ ، عبادات و رسوم ، تعلیم و تبلیغ اور اجتماع و تنظیم کی کامل آزادی حاصل ہو گی۔ ۴ ۔ حکومت اور دیگر خود مختار اداروں کی ملازمتوں میں مسلمانوں کو دیگر ہندوستانیوں کے پہلو بہ پہلو مناسب حصہ صلاحیت و کارکردگی کا لحاظ کرتے ہوئے دیا جائے گا۹۰۔ محمد علی جناح کے چودہ نکات کی اشاعت کے بعد جناح لیگ اور شفیع لیگ کے اختلافات ختم ہو گئے ، لیکن دونوں لیگوں کا صحیح اتحاد ۲۸ ؍ فروری ۱۹۳۰ء ہی کو عمل میں آیا، جب ڈاکٹر انصاری، چوہدری خلیق الزمان، آصف علی ، مولانا ابوالکلام آزاد ، ڈاکٹر کچلو اور ان کے ہمنوا جناح لیگ سے نکل گئے تھے ۔ ڈاکٹر کچلو اور ابوالکلام آزاد، نے تو کانگرس کا رُخ اختیار کیا ، لیکن باقیوں نے نیشنلسٹ مسلم پارٹی بنا لی ، جس کے صدر ڈاکٹر انصاری تھے اور سیکرٹری چوہدری خلیق الزمان۹۱۔ اب چودہ نکات مسلمانوں کی تمام سیاسی جماعتوں کے مشترکہ و متفقہ مطالبات قرار پائے لیکن چونکہ ماضی میں لیگ کے دو لخت ہونے یا جناح لیگ میں موجودہ نیشنلسٹ مسلمانوں کے عنصر کے سبب بحیثیت مجموعی مسلم لیگ کی پوزیشن خاصی کمزور ہو گئی تھی، اس لیے یہی مناسب سمجھا گیا کہ مسلم لیگ کے ساتھ ساتھ آل پارٹیز مسلم کانفرنس کو بھی مسلمانانِ ہند کے فعال سیاسی ادارے کی حیثیت سے زندہ رکھا جائے۔ ۱۴؍اپریل ۱۹۲۹ء کو انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس میں اقبا ل نے ’قرآن کا مطالعہ‘ کے موضوع پر ایک محققانہ اور فلسفیانہ خطبہ دیا اور یہ اجلاس دماغی اور روحانی روشنی کا بہتا ہوا چشمہ قرار دیا گیا ۹۲۔ ستمبر ۱۹۲۹ء میں فلسطین میں حکومت برطانیہ کی یہودی نواز حکمت عملی کے سبب مسلمانوں میں بڑا اضطراب پھیلا ۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر حکومت برطانیہ نے اعلان بلفورڈ کے ذریعے عالمی صہیونی جماعت سے وعدہ کیا تھا کہ عربوں کے مفاد کو متاثر کیے بغیر فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنا دیا جائے گا ۔ اس اعلان کے بعد دنیا کے مختلف ممالک سے یہودی دھڑا دھڑ فلسطین میں آباد ہونے لگے، جس پر مقامی عربوں نے احتجاج کیا۔ اسی دوران میںیہودی مسجد اقصیٰ کے ایک حصے پر قابض ہو گئے اور فسادات کا سلسلہ شروع ہو گیا ،جس میں فلسطینی عرب یہودیوں کے غیظ و غضب کا نشانہ بننے لگے ۔ اس صورت حال سے برصغیر کے مسلمان سخت مشتعل ہوئے اور مختلف شہروں میں احتجاجی جلسے منعقد کیے گئے ۔ ۷؍ ستمبر ۱۹۲۹ء کو لاہور میں ایک عظیم الشان جلسہ جس میں ہر جماعت کے لوگ شامل تھے، بیرون دہلی دروازہ منعقد ہوا ۔ اس کی صدارت کے فرائض انجام دیتے ہوئے اقبال نے اپنے خطبے میں فرمایا: یہ بات قطعاً غلط ہے کہ مسلمانوں کا ضمیر حُبِ وطن کے جذبات سے خالی ہے۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ حُبِ وطن کے علاوہ مسلمانوں کے دل میں دینیت و محبت اسلام کا جذبہ بھی برابر موجود رہتا ہے اور یہ وہی جذبہ ہے جو ملّت کے پریشان اور منتشر افراد کو اکٹھا کر دیتا ہے، اور کرکے چھوڑے گا اور ہمیشہ کرتا رہے گا ۔۔۔۔ فلسطین میں مسلمان اور ان کے بیوی بچے شہید کیے جا رہے ہیں۔ اس ہولناک سفاکی کا مرکز یروشلم ہے، جہاں مسجد اقصیٰ واقع ہے۔ اس مسجد کا تعلق حضرت خواجہ دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج مبارک سے ہے اور معراج ایک دینی حقیقت ہے جس کا تعلق مسلمانوں کے گہرے جذبات کے ساتھ ہے ۔ شریعت اسلامیہ کی رو سے مسجد اقصیٰ کا سارا احاطہ وقف ہے جس پر قبضہ اور تصرف کا یہود اب دعویٰ کرتے ہیں۔ قانونی اور تاریخی اعتبار سے اس کا حق انہیں ہر گز نہیں پہنچتا۔ ۱۹۱۴ء میں انگریز مدبروں نے اپنے سیاسی اغراض و مقاصد کے لیے یہودیوں کو آلٰہ کار بنایا ، صیہونی تحریک کو فروغ دیا اور اپنی غرض کی تکمیل کے لیے جو ذرائع استعمال کیے گئے ان میں سے ایک کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے یہودی مسجد اقصیٰ کے ایک حصے کے مالکانہ تصرف کا دعویٰ کر رہے ہیں ۔ انہوں نے آتشِ فساد مشتعل کر رکھی ہے۔ مسلمان ، ان کی عورتیں اور بچے بھیڑبکریوں کی طرح ذبح کیے جا رہے ہیں۔ فلسطین کے عربوں کی مجلس اعلیٰ نے اعلان کیا ہے کہ حکمدار حکومت نے یہودیوں کو مسلح کر دیا ہے، جس کی وجہ سے اس قدر خون ریزی ہو رہی ہے ۔ صہیونی تحریک مسلمانوں کے لیے کوئی خوشگوار نتایج پیدا نہیں کرے گی ، بلکہ اس سے غیر معمولی فتنوں کے ظہور پذیر ہونے کا خطرہ ہے ۔ اب حکومت برطانیہ نے فلسطین میں تحقیقاتِ حالات کے لیے ایک کمیشن بھیجنا منظور کیا ہے، مگر میں اعلان کر دینا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کو اس پر کوئی اعتماد نہیں ۹۳۔ اسی سال مرکزی اسمبلی میں شارد ا بل پیش ہوا ، جس کا مقصد یہ تھا کہ چودہ سال سے کم عمر کی لڑکیوں اور اٹھارہ سال سے کم عمر کے لڑکوں کی شادی ممنوع قرار دی جائے۔ اس کے خلاف علماء نے آواز بلند کی ، لیکن قانون ازدواج صغر سنی کے متعلق اقبال کا نقطۂ نظر متوازن تھا اور شریعت اسلامی کے مطابق انہوں نے ۲۹؍ستمبر ۱۹۲۹ء کو اس قانون پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام والدین کو صغر سنی کی شادی کی اجازت دیتا ہے لیکن نابالغ لڑکیوں کے مائیں بن جانے کی برائی کو روکنے کے لیے حکم دیتا ہے کہ شادی کے بعد لڑکی جب تک بالغ نہ ہو جائے خاوند کے گھر نہ بھیجی جائے۔ اس لیے ان کے خیال میں قانون یہ بنانا چاہیے تھا کہ شادی کے بعد جو والدین اپنی نابالغ بیٹی کو خاوند کے گھر بھیجیں گے وہ مستوجبِ سزا ہوں گے ۹۴ ۔ اکتوبر ۱۹۲۹ء کے پہلے ہفتے میں جب راقم پانچ برس کی عمر کو پہنچا تو اسے لاہور کے سیکرڈ ہارٹ مشنری اسکول میں داخل کرایا گیا۔ پہلے دن جب راقم اسکول گیا تو سردار بیگم بہت فکر مند تھیں کہ اتنے گھنٹے گھر سے دور کیسے گزارے گا ۔اقبال انہیں دلاسا دیتے ، لیکن ساتھ خود بھی پریشانی کے عالم میں علی بخش سے پوچھتے کہ جاوید کب واپس آئے گا۔ چھٹی ہونے پر جب راقم گھر پہنچا تو سردار بیگم برآمدے میں کھڑی ا س کی راہ تک رہی تھیں ۔ اقبال بھی اپنے کمرے سے اٹھ کر زنانخانے میں آ گئے اور راقم سے اسکول کے متعلق پوچھتے رہے۔ غالباً انہی ایّام میں مولانا محمد علی، اقبال سے ملاقات کے لیے آئے وہ متناسب جسم ، میانہ قد اور باریش بزرگ تھے ، نہایت خوش پوش ، خوش باش اور خوش خوراک تھے۔ راقم کے لیے چاکلیٹ کا ڈبا بمبئی سے تحفے کے طور پر لائے تھے ۔ اقبال سے بے تکلفی کے سبب وہ انہیں اقبال کہہ کر پکارتے تھے اور یہ بات راقم کے لیے بڑے تعجب و استعجاب کی تھی ۔ رات کا کھانا وہ عموماًاقبال کے ساتھ کھاتے تھے۔ ان کے قہقہے کوٹھی میں گونجتے اور سردار بیگم انواع و اقسام کے کھانے پکا کر ان کی تواضع کرتیں۔ راقم ، اقبال اور سردار بیگم کے ہمراہ دو ایک مرتبہ سیالکوٹ بھی گیا۔ تب شیخ نور محمد بہت ضعیف ہو چکے تھے اور اپنے کمرے میں پلنگ پر بیٹھے رہتے۔ جب راقم ان کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آنکھوں کو ہاتھ کا سایہ دے کر پوچھا کہ کون ہے؟ جب انہیں بتایا گیا کہ جاوید ہے تو ہنس پڑے ۔ طاق میں پڑا ایک ٹین کا ڈبا اٹھایا اور اس میں سے برفی نکال کر راقم کو کھانے کے لیے دی ۔ ۳۱؍اکتوبر ۱۹۲۹ء کو وائسراے ہند لارڈ ارون نے اعلان کیا کہ ہندوستان کی آئندہ دستور سازی کے مسئلے پر غور کرنے کے لیے حکومت برطانیہ ، برطانوی ہند اور دیسی ریاستوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک گول میز کانفرنس کا انعقاد کرے گی۔ کانگرس نے اس اعلان کی طرف توجہ نہ دی ، کیونکہ نہرو رپورٹ کے منظور کیے جانے کے متعلق جو مدت دی گئی تھی اس کے گزر جانے پر وہ عدم تعاون کی تحریک کے لیے تیاریوں میں مصروف ہو گئی۔ اقبال نے چند سیاسی رفقا کے ساتھ اس اعلان کا خیر مقدم کیا اور اپنے ایک بیان ، مورخہ ۳ ؍ نومبر ۱۹۲۹ء میں کہا کہ ’’مجوزہ کانفرنس کی کامیابی کے لیے دو شرطوں کا پورا کیا جانا ضروری ہے۔ اوّل یہ کہ ہندو مسلم اختلافات نمائندگان ہند کے اس تاریخی اجتماع میں جانے سے پہلے طے ہو جانے چاہئیں اور دوم یہ کہ جو نمائندے اس کانفرنس میں شریک ہوں ، وہ تمام قوموں کے حقیقی نمائندے ہونے چاہئیں ۹۵۔ نومبر ۱۹۲۹ء کے آخری ہفتے میں اقبال علی گڑھ گئے اور وہاں مسلم یونیورسٹی میںمزید تین خطبات ’’الہٰیات اسلامیہ ‘‘ کے موضوع پر دیے ۔ ان ایّام میں سر راس مسعود مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے ۔ ۲۹؍نومبر۱۹۲۹ء کو یونیورسٹی کے طلبہ کی یونین نے انہیں ایک سپاسنامہ پیش کیا اور آنریری لائف ممبر شب دی ۔ ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اقبال نے فرمایا : ایک دو باتیں ایسی کہوں گا جو کتابوں پر نہیں ، میرے ذاتی تجربے پر مبنی ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ جب سے ہمارے تعلقات یورپ ، خصوصاً انگلستان سے قائم ہوئے ہیں، اس وقت سے بہت سی چیزیں ہم تک وہاں سے پہنچی ہیں۔ سب سے اوّل چیز انگریزی لٹریچر ہے۔ دوسری بات افکار کی عادت ہے ۔ تیسری چیز جو انگلستان نے ہم کو دی ہے وہ ایک مشتبہ قدر و قیمت کی چیز ہے اور وہ ڈیماکریسی ہے۔ جس صورت میں یہ ڈیماکریسی آ چکی ہے اور جو بمقدار کثیر آئندہ آنے والی ہے وہ افسوس ہے کہ میرے دل کو نہیں بھائی ۔ ذاتی طور پر میں اس ڈیماکریسی کا معتقد نہیںہوں اور محض اس لیے اس کو گوارا کر لیتا ہوں کہ اس کا فی الحال کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ ایک اور بات جس پر میں زور دینا چاہتا ہوں وہ ہمارا انکشافِ ماضی ہے ۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو صرف اپنے ماضی سے محبت کرتے ہیں ۔ میں تو مستقبل کا معتقد ہوں مگر ماضی کی ضرورت مجھے اس لیے ہے کہ میں حال کو سمجھوں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ آج دنیائے اسلام میں کیا ہو رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ ماضی کو سمجھیں ، چونکہ ہم جدید تہذیب اور شائستگی کے اصولوں سے ناواقف ہیں اس لیے ہم علوم جدیدہ کو حاصل کرنے میں دیگر اقوام سے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ ان گم گشتہ رشتوں پر نظر ڈالیں جن کے ذریعے سے ہم ماضی و مستقبل سے وابستہ ہیں ۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ علوم جدیدہ پر اصول استقرائی عائد کیا گیا ہے ۔ یہ وہ نعمت ہے جو قرآن شریف نے دنیا بھر کو عطا فرمائی ہے۔ اس طریقہ استقرائی کے نتائج و ثمرات ہم کو آج نظر آ رہے ہیں ۔ میں گزشتہ بیس برس سے قرآن شریف کا بغور مطالعہ کر رہا ہوں ، ہر روز تلاوت کرتا ہوں ، مگر میں ابھی تک یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے کچھ حصوں کو سمجھ گیا ہوں ۔ اگر خدا نے توفیق دی اور فرصت ہوئی تو میں ایک دن کامل تاریخ اس بات کی قلمبند کروں گا کہ دنیاے جدیدہ اس مطمح حیات سے کس طرح ترقی کرتی ہوئی بنی ہے جو قرآن شریف نے ظاہر کیا ہے ۔ میں امید کرتا ہوں کہ یونیورسٹی ایسے لوگوں کی ایک تعداد پیدا کرے گی جو مطالعہ قرآن میں اپنی زندگیاں صرف کر دیں گے ۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ لوگ میرے ساتھ مل کر کام کریں۔ گذشتہ چند سال سے میں صرف اپنے جسد خاکی کا مالک ہوں، میری روح ہمیشہ آپ کی خدمت کے لیے حاضر رہی ہے اور جب تک میں زندہ ہوں وہ آپ کی خدمت کرتی رہے گی ۹۶۔ اقبال کی تمنا تھی کہ گول میز کانفرنس سے بیشتر مسلمانوں کا آپس میں مکمل اتحاد ہونا چاہیے اور بعد میں اگر ممکن ہو سکے تو ہندو مسلم اتحاد ،تبھی گول میز کانفرنس کے حوصلہ افزا نتایج برآمد ہو سکتے تھے ۔اس سلسلہ میں برکت علی محمڈن ہال کے ایک جلسہ مورخہ ۱۹؍ دسمبر ۱۹۲۹ء میں انہوں نے بڑی درد مندی سے فرمایا : خدا کے لیے مسلمانوں کے تحفظِ حقوق کے لیے کچھ کرو ۔ تمام اسٹیجوں کو جلا دو اور ایک متحدہ اسٹیج بنائو اور آئندہ گول میز کانفرنس میں جانے سے پیشتر ایک کانفرنس کر لو۔ ہندوئوں کو ایک موقع دو محض تمام حجت کے لیے ، تاکہ ان سے مفاہمت اگر ممکن ہو تو ہوجائے ، گو مجھے اس کا یقین نہیں۔ انگلستان متحد ہو گا اور متحد ہندوستان کو انگلستان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ جنوری ۱۹۳۰ء سے ہندووں کی نافرمانی کی تحریک شروع ہوئی اور تحریک تقریباً سارا سال جاری رہی نیشنلسٹ مسلمانوں کے گروہ اور جمعیت العلماء دہلی گروپ کے سوا مسلمانوں نے بحیثیت مجموعی اس تحریک میں حصہ نہ لیا ۔ ۷؍مارچ ۱۹۳۰ء کو اقبال نے پنجاب کونسل میں بجٹ پر اپنی آخری تقریر کے دوران میں کہا کہ صوبہ پہلے ہی سے مقروض ہے۔ بیکاری کا مسئلہ روز بروز خطرناک صورت اختیار کر رہا ہے ۔ تجارت کا بُرا حال ہے ۔ حکومت انتظامیہ پر تو بے انتہاخرچ کرتی ہے ، لیکن صنعتوں کے فروغ کے لیے کچھ بھی خرچ نہیں کیا جاتا ۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ صوبے میں کپڑا بنانے اور جوتے بنانے کی صنعتوں کا اچھا مستقبل ہے، اس لیے ان صنعتوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے ، کیونکہ صنعتی ترقی ہی سے بیکاری کی لعنت دور کی جا سکتی ہے۹۸ ۔ ۱۳؍جولائی ۱۹۳۰ء کو محمد علی جناح نے لیگ کونسل کا اجلاس طلب کیا تاکہ گول میز کانفرنس کے متعلق لیگ کی پالیسی وضع کی جا سکے اور اس میں شرکت کرنے والے مسلم نمائندگان اس پالیسی کے تحت متحد ہو کر مسلمانوں کے مطالبات پیش کریں ۔ کونسل نے فیصلہ کیا کہ اس سلسلے میں لیگ کا اجلاسِ عام لکھنؤ میں ، ۱۷؍ اگست ۱۹۳۰ء کو منعقد کیا جائے ۔ محمد علی جناح نے مجوزہ اجلاس کی صدارت کے لیے اقبال کا نام تجویز کیا ، جسے کونسل نے اتفاق رائے سے قبول کر لیا ۔ بعد ازاں محمد علی جناح نے اقبال سے رابطہ قائم کیا اور وہ بھی اجلاس کی صدارت کے لیے رضا مند ہو گئے، مگر بقول سید شمس الحسن یہ اجلاس ملتوی کرنا پڑا کیونکہ سر فضل حسین پنجاب سے اپنی مرضی کے نمائندے گول میز کانفرنس میں بھجوانا چاہتے تھے اور ان کی رہنمائی کے لیے خود ہی پالیسی مرتب کرنے کی تمنا رکھتے تھے ۔ اسی بنا پر ان کے حمایتی لیگ کا اجلاس ملتوی کرانے کے درپے تھے ، لیکن کونسل کے اراکین اجلاس ملتوی کرنا نہ چاہتے تھے بلکہ انہوں نے سر فضل حسین پر الزام لگایا کہ اجلاس ملتوی کروانے کا اصل مقصد اقبال کے گول میز کانفرنس میں شریک ہونے کے امکان کو روکنا تھا، کیونکہ اگر وہ لیگ کے اجلاس کی صدارت کر لیتے تو انہیں بحیثیت صدر مسلم لیگ گول میز کانفرنس میں شرکت کی دعوت دینا پڑ جاتی ۔ بہرحال اقبال نے خود ہی اجلاس ملتوی کرنے کی درخواست کی جو لیگ کونسل نے منظور کر لی ۔ بعد میں کوشش کی گئی کہ اجلاس اکتوبر ۱۹۳۰ء میں گول میز کانفرنس کے انعقاد سے ایک آدھ ہفتہ قبل لکھنؤ میں منعقد کیا جائے ، مگر ایسا ممکن نہ ہو سکا ۔ پھر اجلاس کے لیے پہلے بنارس منتخب کیا گیا اور بعد میں اجمیر تجویز ہوا ۔ بالآخر طے پایا کہ اجلاس ۲۹؍دسمبر ۱۹۳۰ء کو الٰہ آباد میں منعقد کیا جائے ۹۹۔ ۱۷؍اگست ۱۹۳۰ء کو شیخ نور محمد کا سیالکوٹ میں انتقال ہوا۔ اقبال ان کی تیمارداری کے لیے سیالکوٹ آتے جاتے رہتے تھے ۔ تجہیز و تکفین کے لیے بھی سیالکوٹ گئے اور فراغت کے بعد واپس لاہور پہنچے ۔ شیخ نور محمد فطرتاً بڑے دیندار ، عالی ظرف ، بردبار ، ناحق ایذا پہنچانے والوں کو معاف کرنے والے ، سادہ ، نیک ، شفیق ،حلیم اور صلح کن تھے۔ عطا محمد اور اقبال کو ان کی چند ہی خوبیاں ورثے میں ملیں ۔ ورنہ باپ کے مقابلے میں دونوں بیٹوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا ۔ شیخ نور محمد کی لوحِ مزار پر اقبال کا یہ قطعۂ تاریخ کندہ ہے ؎ پدر و مُرشدِ اقبال ازیں عالم رفت ماہمہ را ہرواں ، منزل ما ملک ابد ہاتف از حضرتِ حق خواست دو تاریخ رحیل آمد آواز ’’اثر رحمت و آغوش لحد‘‘ ۱۳۴۹ ھ ۱۳۴۹ھ ۳۱؍اگست ۱۹۳۰ء کو میکلوڈ روڈ والی رہائش گاہ میں سردار بیگم کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی جب انہیں (سردار بیگم)کو علم ہوا کہ نوزائیدہ بچہ لڑکی ہے۔ تو شدید تذبذب کے عالم میں فرمایا : ہائے اس کا کیا بنے گا ، کیونکہ انہیں (یعنی اقبال کو) تو اس کے لیے کوئی بر پسند ہی نہیں آنے کا ۔ اقبال نے ایک سال پیشتر اعجاز احمد کی پہلی بیٹی کی ولادت پر انہیں لڑکیوں کے لیے اپنے پسندیدہ ناموں کی فہرست اپنے ہاتھ سے لکھ کر بھیجی تھی، جو یہ ہے: منیرہ بیگم ، مُنیرہ شرقیہ ، قرۃ العین ، ارجمند بیگم ، عاصمہ ، فروغ عاصمہ ، کوثری بیگم ، انوری بیگم ، اسماء ، سلیمیٰ، خجستہ بیگم ۱۰۰ ۔ ان ناموں میں سے اعجاز احمد نے اپنی بیٹی کے لیے عاصمہ منتخب کیا اور اقبال نے اپنی بیٹی کے لیے منیرہ بیگم پسند فرمایا ۔ ۱۲؍ نومبر ۱۹۳۰ء کو لندن میں پہلی گول میز کانفرنس شروع ہوئی ، جس کا اختتام ۱۹ جنوری ۱۹۳۱ء کو ہوا ۔ اس کانفرنس میں کانگرس نے شرکت نہ کی اور لیگ کو سر فضل حسین نے کسی متفقہ پالیسی مرتب کرنے کا موقع نہ دیا تھا ، اس لیے سولہ مسلم نمائندوں میں، جن میں محمد علی جناح ، مولانا محمد علی ، آغا خان ، سر محمد شفیع اور فضل الحق (بنگال والے) شامل تھے، کوئی اتحاد نہ تھا ، اقبال کو مسلم نمائندوں میں شریک نہ کیا گیا تھا ۔ کانفرنس کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی۔ بہرحال برطانیہ کے وزیر اعظم نے دوسری گول میز کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کیا اور اس میں کانگرس کی شرکت کے لیے راہ ہموار کر دی۔ مولانا محمد علی ۴؍ جنوری ۱۹۳۱ء کو لندن میں وفات پا گئے اور محمد علی جناح ، حکومت برطانیہ ، ہندوئوں اور ہندو یا انگریز دوست مسلم نمائندوں کی سازشوں سے اس قدر بیزار ہوئے کہ سیاسیات سے کنارہ کشی اختیار کرکے لند ن ہی میں مقیم ہو گئے ۔ اور وکالت شروع کر دی۔ وہ تین سال بعد یعنی دسمبر ۱۹۳۳ء میں ہندوستان واپس آئے اور ان کے ہاتھوں ۱۹۳۴ء میں مسلم لیگ کا احیا ہوا۔ کانفرنس کے شروع ہوتے ہی حکومت برطانیہ کی لیبر گورنمنٹ نے کوشش کی کہ کسی طرح پنجاب اور بنگال کے مسلم نمائندوں کو مخلوط انتخاب قبول کرنے پر رضامند کیا جائے اور اس مقصد کے حصول کے لیے سر محمد شفیع اور فضل الحق پر دبائو ڈالا گیا ۔ جب یہ خبر ہندوستان پہنچی تو اقبال سخت مضطرب ہوئے اور انہوں نے ۱۵؍نومبر ۱۹۳۰ء کو آغا خان کے نام اپنے تار میں فرمایا : تازہ خبریں اضطراب انگیز آ رہی ہیں ۔ مسلمانانِ پنجاب کی رائے عامہ دہلی مسلم کانفرنس کی منظورکردہ قرار دادوں پر قائم ہے اور ان میں ردّ و بدل کو ناقابل برداشت خیال کرتی ہے ۔ اگر کوئی ردّ و بدل کیا گیا تو مسلم مندوبین پر اعتماد نہیں رہے گا ۔ اگر ہندو، مسلم مطالبات کو نہیں مانتے تو مسلمان کانفرنس کو چھوڑ کر چلے آئیں۱۰۱۔ اس تار پر ہندو پریس نے اقبال کے خلاف انتہائی ناراضگی کا اظہار کیا ۔ لاہور کے اخبار ’’ٹریبیون‘‘ نے لکھا کہ ہندو مسلم مفاہمت کی راہ میں در اصل اقبال ہی حائل ہیں ۱۰۲ ، لیکن اقبال اپنے خلاف اس پراپیگنڈے سے متاثر نہ ہوئے ، کیونکہ پنجاب کے مسلم اخبار نہ صرف ان کے نقطۂ نظر کے حامی تھے بلکہ اقبال ہی کے ایماء پر تجویز پیش کر رہے تھے کہ ایسی مفاہمت کے خلاف عملی اقدام کے طور پر شمالی ہند یعنی پنجاب صوبہ سرحد ، سندھ اور بلوچستان کے مسلمانوں کی ایک کانفرنس فوراً بلائی جائے ، جس میں دہلی کانفرنس کی تجاویز کی پُرزور حمایت کی جائے، اس سلسلے میں ۲۳؍نومبر ۱۹۳۰ء کو اقبال نے’ مسلم آوٹ لک‘ کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: پنجاب اور دوسرے حصوں کے مسلمان جداگانہ انتخاب پر مضبوطی کے ساتھ جمے ہوئے ہیں۔آل انڈیا مسلم کانفرنس کے اجلاس لکھنؤ کے صدر (نواب محمد اسمعٰیل خان )نے اس باب میں مسلمانوں کی رائے کو ملحوظ رکھتے ہوئے ، نیز یہ سمجھتے ہوئے کہ فرقہ وار مسائل کے متعلق بیان کردہ مفاہمت مسلمانانِ ہند کے مفاد کے لیے نقصان رساں ہو گی ، ہز ہائی نس آغا خان کو تار دیا کہ مسلمان کسی حالت میں بھی جداگانہ انتخاب ترک کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ پنجاب اور دوسرے صوبوں سے بھی اسی مضمون کے برقی پیغامات آغا خان اور دوسرے مندوبین کے نام بھیجے جا چکے ہیں۔ میری رائے میں مسلمانوں کا خوف بالکل حق بجانب ہے ۔ یہ تجویز پیش ہو چکی ہے کہ شمالی و مغربی ہند اور پنجاب کے مسلمان لاہور میں ایک اجلاس منعقد کر کے بیان کردہ مفاہمت کے متعلق اپنی رائے کا پر زور طریقے پُر اظہار کریں۔ جن صوبوں میں مسلمانوں کو بہ اعتبارِ آبادی اکثریت حاصل ہے، ان میں حصول اکثریت کے لیے اصرار ضروری ہے ۱۰۳۔ اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر اسی دن یعنی ۲۳؍ نومبر ۱۹۳۰ء کو اقبال کی دعوت پر مسلم اکابرین کا ایک اجتماع برکت علی محمڈن ہال لاہور میں منعقد ہوا، جس میں اقبال نے اجتماع کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا: حالات حاضرہ کے اعتبار سے شمالی ہند کے مسلمانوں کی ایک خاص کانفرنس کا انعقاد ضروری ہے ، جس میں صوبہ سرحد، بلوچستان ، پنجاب و سندھ کے نمائندے شریک ہوں اور ان صوبوں کے مسلمانوں کو اسلامی حقوق کے حصول کے لیے منظم بنانے اور ان میں جوش عمل پیدا کرنے کی تدابیر اختیار کی جائیں ۱۰۴ ۔ اس اجتماع میں اپر انڈیا مسلم کانفرنس کی ایک مجلس استقبالیہ قائم کی گئی ، اور اقبال کانفرنس کے صدر منتخب ہوئے۔ ۴؍دسمبر ۱۹۳۰ء کو مجلس استقبالیہ کا اجلاس اقبال کی میکلوڈ روڈ والی رہائش گاہ پر منعقد ہوا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ چونکہ مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس اقبال کی زیرِ صدارت دسمبر ۱۹۳۰ء میں الٰہ آباد میں ہونے والا ہے ، اس لیے اپر انڈیا مسلم کانفرنس دسمبر ۱۹۳۰ء کی بجائے جنوری ۱۹۳۱ء کے آخری ہفتے میںلاہور میں منعقد کی جائے ۔ ۱۹؍دسمبر ۱۹۳۰ء کو اقبال اور دیگر ارکانِ مجلس استقبالیہ کی طرف سے صوبہ سرحد، بلوچستان ، سندھ اور پنجاب کی اہم مسلم شخصیات کے نام اپر انڈیا مسلم کانفرنس کے اغراض و مقاصد کے متعلق ایک اپیل کی گئی جس کا مندرجہ ذیل اقتباس قابلِ توجہ ہے: اس کانفرنس کے طلب کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان صوبہ جات کے مسلمانوں کو حالات حاضرہ اور آج کی سیاسی تحریکات سے آگاہ کیا جائے اور ہماری ہمسایہ اقوام اور ہندوستان کی حاکم قوم کی حکمتِ عملی سے واقف کر کے ان خطرات سے آگاہ کیا جائے جن سے ملتِ مرحومہ دوچار ہے۔ اور اس کے بعد مسلمانانِ ہند کی اس اکثریت کو ، جو ان صوبجات میں ہے ، جن کو خدائے حکیم و علیم و خبیر نے یقینا بلا مصلحت نہیں بلکہ کسی ایسی مصلحت کے لیے، جو ارباب دانش و بینش پر روز بروز عیاں ہوتی چلی جا رہی ہے، یکجا رکھا ہے، ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل ہونے کا پیغام دیا جائے ۱۰۵۔ بہرحال اپرانڈیا مسلم کانفرنس منعقد کرنے کی سردست ضرورت نہ پڑی ، کیونکہ اقبال کے برقی پیغام کے جواب میں آغا خان نے ان کی تسلی کر دی تھی کہ مخلوط انتخاب قبول کر کے ہندوئوں کے ساتھ کسی قسم کی مفاہمت کی خبریں بے بنیاد ہیں ۔ اس کے علاوہ دسمبر ۱۹۳۰ء کے سالانہ اجلاسِ مسلم لیگ کی صدارت کے لیے اقبال کا انتخاب عمل میں آچکا تھا ، اور وہ جو بات کہنا چاہتے تھے، وہاں کہہ سکتے تھے ۔ نیز گول میز کانفرنسوں کے نتائج کا بھی انتظار ضروری تھا جو ۱۹۳۳ء تک جاری رہیں۔ اپر انڈیا مسلم کانفرنس کے انعقاد کی بعد میں بھی کبھی ضرورت پیش نہ آئی ، تاہم اس کا خیال اقبال کے ذہن میں آخری دم تک رہا ۱۰۶ ۔ ۲۷؍ دسمبر ۱۹۳۰ء کو انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے کی صدارت کے لیے نظام حیدر آباد دکن نے آنا تھا ، لیکن انہوں نے بعض مجبوریوں کے باعث معذرت کر دی۔ اس پر نواب صادق علی خان والیِ ریاست بہاولپور نے جلسے کی صدارت کے فرائض انجام دیے اور اقبال نے ان کی خدمت میں تہنیت نامہ پیش کیا۱۰۷ ۔ اس سے اگلے روز وہ مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کے لیے الٰہ آباد روانہ ہو گئے ۔ یہ واضح کیا جا چکا ہے کہ اقبال جیسے گوشہ نشین شاعر و مفکر نے عملی سیاست میں اُتر کر گلی کُوچوں کی خاک اس لیے چھانی تھی کہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کو صوبائی اور قومی سطح پر منظم کر کے انہیں اپنے مطالبات منوانے کے لیے ہندو اکثریت اور انگریزی حکومت دونوں کے مقابلے میں کھڑا کر دیا جائے ۔ انہوں نے جو عہد اپنی انتخابی تقریروں میں کیا وہی انتخابات کے بعد مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کے باب میں کونسل کے اندر اور باہر پورا کر دکھایا ۔ پنجاب کونسل میں ان کی شخصیت کا ایک نیا پہلو ظاہر ہوا، اور وہ یہ کہ وہ ایک منجھے ہوئے پارلیمانی مقرر تھے، جس مسئلے پر بھی زبان کھولتے ، پوری تیاری کر کے اظہار خیال کرتے ۔ ان کی تقریریں عموماً گہری تحقیق ، اعدادو شمار اور حقائق پر مبنی ہوتیں ۔ بسا اوقات تقریروں کے دوران میں اشعار بھی استعمال کرتے اور ان کا فطری طنز و مزاح کا پہلو بھی نمایاں ہوتا ۔ اس کے علاوہ چونکہ بنیادی طور پر وہ فلسفی تھے، اس لیے دیگر ارکان سے بہت آگے سوچتے تھے ۔ یونینسٹ پارٹی سے وابستہ ہو گئے ، مگر جلد ہی اس کے موقف سے بد دل ہو گئے ۔ سر فضل حسین سے ہر مرحلے پر اختلاف کیا اور اگر ایک آزاد رکن کی حیثیت اختیار کی تو اس آزادی کی قیمت بھی ادا کرنے سے گریز نہ کیا ۔ یہ درست ہے کہ کونسل میں ان کی تقاریر نگار خانہ میں طوطی کی آواز ہی رہیں ، لیکن ان کی بعض تجاویز بڑی دور رس تھیں ۔ مثلاً لگان کی وصولی اور انکم ٹیکس کی چھوٹ کے اصول پر جس سے چھوٹے مزارعین کو فائدہ پہنچ سکتا تھا ، اموات پر ٹیکس کی وصولی اور انکم ٹیکس کی صوبوں کو سپردگی ۔کونسل میں اقبال کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے محمد احمد خان تحریر کرتے ہیں : صوبے کی عام معاشی خوشحالی ، غریبوں کی مالی امداد ، بزرگان دین کی توہین کا انسداد ، امتناعِ شراب نوشی، شمشیر کی آزادی ، یونانی و آیورویدک طریقہ علاج کی ہمت افزائی ، دیہات کی بہتر صفائی ، عورتوں کی طبی امداد جبری ابتدائی تعلیم کا نفاذ ، مسلم تعلیمی اداروں کی بہتر مالی امداد، محصول فوتی نفاذ ، محصول آمدنی کو صوبوں کے سپرد کرنے کی تجویز ، اُونچی تنخواہوں میں تحفیف ، صوبے کی صنعتی ترقی کے مسائل ، ان تمام امور پر ڈاکٹر صاحب نے اپنے زمانہ رکنیت کونسل میں وقتاً فوقتاً بڑے سلجھے ہوئے انداز میں اظہار خیال کیا ہے ، لیکن جن مسائل کو آپ نے بڑے زور و شور کے ساتھ پیش کیا وہ محاصل ، خصوصاً لگان کی تخفیف اور مسلمانوں کی تعلیمی پستی اور مسلم مدارس کے ساتھ نا انصافی کے مسائل تھے ۱۰۸۔ کونسل سے باہر بھی اس ہنگامی اور جذباتی دور میںجب لاہور میں آئے دن کسی نہ کسی مسئلے پر ہندو مسلم فسادات برپا ہوتے تھے، وہ ایک مقبولِ عام سیاسی رہنما کی طرح مظلومین کی امداد یا ہندو مسلم مفاہمت کی خاطر شہر کے گلی کوچوں میں گھومے ، عوامی جلسوں میں مسلمانوں کی رہنمائی کی اور جلوسوں میں شریک ہو کر ان کے جذبات کو بے قابو نہ ہونے دیا۔ اقبال کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ برصغیر کے مسلمان متحد ہوں ، قومی اور ملّی معاملات میں گہری دلچسپی لیں اور انہیں پوری طرح سمجھیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ انہیں عالمِ اسلام کے مسائل سے بھی باخبر رکھنا چاہتے تھے تاکہ انہیں معلوم ہو کہ ہمسایہ ملک افغانستان میں کیا ہو رہا ہے، یا فلسطین میں مسلمانوں پر کیا کیا مظالم ڈھائے جا رہے ہیں ۔ اس پانچ سالہ دور میں کُل ہند مسلم سیاست کے میدان میں اقبال کی کارکردگی خصوصی توجہ کی مستحق ہے۔ ان کے سیاسی فکر کا ارتقاء صحیح معنوں میں اسی دور میں ہوا ۔ وہ ابتداہی سے مسلم قومیت کے پرستار تھے ۔ اس لیے جداگانہ انتخاب کا اصول ان کے عقیدے کے مطابق مسلمانوں کے قومی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے اشد ضروری تھا اور وہ کسی صورت میں بھی اس سے دست بردار ہونا نہ چاہتے تھے۔ یہی نقطہ ان کے تمام سیاسی فکر کا محور تھا اور اسی کے لیے وہ کانگرس سے لڑتے، محمد علی جناح اور مولانا محمد علی سے جھگڑتے یا سر محمد شفیع سے الجھتے رہے مگر اس اصول پر مستقل مزاجی سے قائم رہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقبال کے عملی سیاست میں داخل ہونے کے بعد کب ان کے ذہن میں برصغیر کے شمال مغربی مسلم اکثریتی صوبوں پر مشتمل مسلم ریاست کا خاکہ ابھرنا شروع ہوا؟ اس سلسلے میں ان کی چند تقریروں کے اقتباسات اور بعض واقعات تاریخ وار پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ اقبال نے یکم مئی ۱۹۲۷ء کو پنجاب صوبائی مسلم لیگ کے اجلاس میں اپنی تقریر میں ’’تجاویز دہلی‘‘ کے اس حصے کی شدید مخالفت کی جس میںجداگانہ انتخاب سے دست برداری کی پیشکش کی گئی تھی ۔ ۲۸؍جون ۱۹۲۸ء کو اپنے اخباری بیان میں وفاق سے عدم دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے مسلم اکثریتی صوبوں کے لیے مکمل صوبجاتی خود مختاری کے مطالبہ پر اصرار کیا ۔ ۲۹؍دسمبر ۱۹۲۸ء کو آل انڈیا مسلم کانفرنس کے اجلاس منعقدہ دہلی میں تقریر کے دوران میں واضح کیا کہ ہندوستان کے بعض حصے ایسے ہیں ، جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور بعض حصے ایسے ہیں جن میں وہ قلیل تعداد میں ہیں ، اس لیے ان حالات میں مسلمانوں کو علیحدہ طور پر ایک سیاسی پروگرام بنانے کی ضرورت ہے۔ عبدالسلام خورشید کے بیان کے مطابق انہی ایّام میں اخبار ’’انقلاب‘‘ میں مولانا مرتضیٰ احمد خان (میکش) نے چار مضامین یکے بعد دیگرے شائع کیے جن میں مسلمانوں کے لیے پنجاب ، صوبہ سرحد ، سندھ اور بلوچستان پر مشتمل ایک علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا گیا اور ہندوئوں اور مسلمانوں کو مشورہ دیاگیا کہ وہ اپنے اپنے وطنوں کو آزاد کرانے کی کوشش کریں اور ایک دوسرے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی بجائے اپنی تمام قوتیں انگریزی اقتدار کے خاتمے کے لیے وقف کر دیں ، ان مضامین پر ہندو اخبار ’’پرتاب ‘‘ نے طنزاً لکھا کہ مسلمان اب اس کفرستان میں اسلامستان بنانا چاہتے ہیں ۔ عبدالسلام خورشید تحریر کرتے ہیں: پاکستان بننے کے بعد میں نے والد مرحوم مولانا عبدالمجید سالک سے پوچھا کہ یہ مقالات مولانا مرتضیٰ احمد خان نے اپنے آپ لکھے یا کسی کے کہنے پر؟ انہوں نے بتایا کہ علامہ اقبال کے ہاں ہمارا روز کا آنا جانا تھا اور ملاقاتوں میں سیاسی مسائل ہی بیشتر زیر بحث آتے تھے ۔ بالخصوص اس زمانے میں جب سائمن کمیشن کے مقاطعے اور نہرو رپورٹ کے چکر چل رہے تھے اور علامہ اس وقت بھی علیحدہ مسلم مملکت کے قیام ہی کو ہندو مسلم مسئلے کا حل سمجھتے تھے لیکن مسلم لیگ سے وابستگی کی بنا پر وہ اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ اس قسم کی تجویز پبلک طور پر خود پیش کرتے ۔ اگر کرتے تو باقی مسلم قیادت سے ان کا رابطہ ٹوٹ جاتا ۔ چونکہ ہم مدیران ’’انقلاب ‘‘ (مہرو سالک) علامہ اقبال کی رہنمائی میں مسلمانوں کے حقوق کی جنگ لڑ رہے تھے ، اس لیے ہم بھی اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ اس قسم کی انقلابی تجویز کو پیش کرتے پس باہمی مشورے سے فیصلہ ہوا کہ ہندوئوں کا ردّ ِ عمل معلوم کرنے کے لیے یہ تجویز مولانا مرتضیٰ احمد خان کی وساطت سے پیش کرائی جائے جو ’’انقلاب ‘‘میں نیوز ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرتے تھے، اور پالیسی کے ذمے دار نہیں تھے ۔ علامہ نے مولانا موصوف کی متصل رہنمائی کی اور نتیجے میں یہ مقالات چھاپے گئے ۱۰۹۔ ۱۹۲۹ء کے اوائل میں جغرافیائی نقشہ جات بنانے میں ماہر ایک جرمن مہمان سے اقبال نے اس وقت کی مردم شماری کی رپورٹ پر انحصار کرتے ہوئے ہندو مسلم تناسب سے ہندوستان اور اس کے مختلف صوبوں کے نقشے تیار کرائے جن میں ہندو آبادی کیسری رنگ کے نقطوں سے اور مسلم آبادی سبز رنگ کے نقطوں سے ظاہر کی گئی ۔ اقبال کے بھتیجے شیخ مختار احمد کے بیان کے مطابق جن کے کمرے میں جرمن ماہر مقیم تھا اور نقشے بنانے کے کام میں مصروف تھا، ان نقشوں میں بالخصوص پنجاب اور بنگال کے صوبوں کے مختلف اضلاع میں بھی ہندو مسلم آبادی کی تفصیل دی گئی ۔ غالباً ۱۹۶۶ء یا ۱۹۶۷ء میں اس جرمن کو اقبال کی اس خدمت پر خراج تحسین ادا کرنے کی صورت میں حکومت پاکستان نے سرکاری مہمان کی حیثیت سے پاکستان کی سیر کے لیے بلوایا اور وہ راقم اور مختار احمد سے ملاقات کی خاطر لاہور بھی آیا تھا ۔ ۴؍مارچ ۱۹۲۹ء کو اقبال نے پنجاب کونسل میں بجٹ پر تقریر کرتے ہوئے انکم ٹیکس کو صوبہ جاتی بنانے کی جو تجویز پیش کی تھی ۔ اس زمانے میں اسے ایک انوکھی تجویز سمجھا گیا، لیکن یہ اندازہ نہ لگایا جا سکا کہ ایسی تجویز اقبال نے کس ذہنی پس منظر کے ساتھ پیش کی ہے۔ اقبال کا موقف یہ تھا کہ مرکزی حکومت ہر صوبے سے صرف اپنا حصہ رسدی وصول کرے ۔ ۳۰؍دسمبر ۱۹۲۹ء کو خلافت کانفرنس کے اجلاس منعقدہ لاہور، جس میں دیگر اکابرین کے ساتھ اقبال بھی موجود تھے ، نواب سر ذوالفقار علی خان نے تقریر کرتے ہوئے کہا: ہندوستان کی آزادی اور ترقی کا انحصار اس بات پر ہے کہ مسلمانوں کو شمالی ہند میں ایسا علاقہ دے دیا جائے جو دو یا تین صوبوں پر مشتمل ہو یا انہیں مدغم کر کے ایک صوبہ بنا دیا جائے۔ اس صوبے میں مسلمانوں کی آبادی اسّی فیصد سے کم نہ ہونی چاہیے ۔ اسی طرح مشرقی ہند میں بنگال کی ایسی تقسیم کر دی جائے کہ مسلمانوں کی آبادی وہاں اسّی فیصد ہو۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ حقوق کے بجائے علیحدہ وطن کا مطالبہ کریں ۱۱۰۔ نواب سر ذوالفقار علی خان ، اقبال کے گہرے دوست تھے اور سیاسی اعتبار سے ان کا تعلق مسلم لیگ سے تھا ۔ اس لیے عین ممکن ہے کہ جس طرح مولانا مرتضیٰ احمد خان سے انقلاب میں اسی موضوع پر مضامین لکھوائے گئے۔ اسی طرح ان کے منہ سے اقبال نے خلافت کانفرنس کے پلیٹ فارم پر یہ بیان دلوایا ہو۔ بعدازاں نومبر ۱۹۳۰ء میں اقبال کے ایما پر مسلم اخبارات نے تجویز پیش کی کہ اپر انڈیا مسلم کانفرنس فوراً بلوائی جائے۔ عبدالسلام خورشید تحریر کرتے ہیں : انہوں نے مدیرانِ’’انقلاب‘‘ مہر و سالک ، مدیر ’’سیاست‘‘ ، سید حبیب ، اور مدیر’’ مسلم آوٹ لک‘‘ مجید ملک کو بلا کر تبادلۂ خیال کیا اور انہی کے مشورے پر ’’انقلاب‘‘ نے ایک مقالۂ افتتاحیہ میں یہ تجویز پیش کی کہ شمالی ہند کے مسلمان اپنے مخصوص مسائل پر غور کرنے کے لیے ایک کانفرنس منعقد کریں ۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمانوں کی ایک علاقائی کانفرنس کرانے کا منصوبہ باندھا گیا، ورنہ اس سے پہلے کانفرنسیں صوبائی اور کُل ہند سطح پر ہوا کرتی تھیں۱۱۱۔ ۲۳؍نومبر ۱۹۳۰ء کو اپر انڈیا مسلم کانفرنس قائم ہوئی اور اقبال اس کے صدر منتخب کیے گئے۔ دوسرا اجلاس ۱۹؍دسمبر ۱۹۳۰ء کو ہوا۔ جس میں اقبال اور دیگر ارکانِ مجلس استقبالیہ اپر انڈیا مسلم کانفرنس کے نام سے ایک اپیل تیار کی گئی، جو بعد میں اخباروں میں چھپی ۔ اس اپیل کے الفاظ میں بھی اقبال ہی کا فکر کار فرما تھا ، مثلاً مسلمانانِ ہند کی اس کثرت کو جو ان صوبہ جات میں ہے، جن کو خدا ے حکیم و علیم و خبیر نے یقینا بلا مصلحت نہیں بلکہ کسی ایسی مصلحت کے لیے، جو ارباب دانش و بینش پر روز بروز عیاں ہوتی جاتی ہے،یکجا رکھا ہے۔ دوسرے اجلاس میں بعض اصحاب نے سوال اٹھائے کہ کیا کانفرنس کے انعقاد کا مطلب یہ ہے کہ شمالی ہند کے مسلمانوں کو باقی ہندوستان کے مسلمانوں سے کوئی ہمدردی نہیں اور اگر بنگال بھی مسلم اکثریتی صوبہ ہے، تو کانفرنس سے وہاں کے مسلمانوں کو کیوں الگ رکھا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں عبدالسلام خورشید لکھتے ہیں : حضرت علامہ کی طرف سے’ ’انقلاب‘‘ نے پہلے سوال کا جواب یہ دیا کہ ساری مخالفت مسلم اکثریتی صوبوں کے مسلمانوں کے خلاف مرتکز ہے۔ جہاں تک مسلم اقلیتی صوبوں کا تعلق ہے، وہاں کے مسلمانون کو ویٹج یا پاسنگ (آبادی کے تناسب سے زیادہ نیابت) دینے پر نہ ہندووں نے کوئی خاص اعتراض کیا ہے، نہ حکومت ہند نے اور نہ سائمن کمیشن نے ۔ ایسے میں مسلم اکثریتی خطوں کے رہنمائوں کے درمیان اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے مشاورت ضروری ہو جاتی ہے۔ دوسرے سوال کے جواب میں کہا گیا کہ بنگال کو محض اس لیے مدعو نہیں کیا گیا کہ فاصلے طویل ہیں۔ بہرحال اگر وہاں کے مسلمان ایسی ہی کانفرنس منعقد کریں تو شمال مغربی خطے کے مسلمان ان کی ہر ممکن مدد کریں گے ۱۱۲۔ اس ساری تفصیل سے تو یہی واضح ہوتا ہے کہ سیاسیات کے عملی میدان میں داخل ہوتے ہی اقبال کے ذہن میںبرصغیر کے شمال مغرب میں مسلم اکثریتی صوبوں پر مشتمل ایک مسلم ریاست کا خاکہ ابھرنے لگا تھا ، جس کی جھلکیاں ان کی بعض تقاریر اور تجاویز میں صاف دکھائی دیتی ہیں۔وہ اپنی ذمے داری پر کوئی ایسا انقلابی تصور پیش کرنے سے پیشتر اس کے لیے زمیں ہموار کرنا چاہتے تھے اور اسی خیال کے پیش نظر انہوں نے مسلم پریس کے ذریعے یا مسلم لیگ کے علاوہ کسی مسلم سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے اپنے دل کی بات کہلوائی تاکہ ہندووں کا رد عمل معلوم کیا جا سکے یا مسلم رائے عامہ کو ایسی تجویز کے حق میں تیار کیا جا سکے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ عملی سیاست کے ہنگامے میں وہ اسی مقصد کی تحصیل کے لیے پڑے ہوں ، کیونکہ وہ اگر ذاتی منفعت یا شخصی مفاد پر مرمٹنے کو موت سے بدتر خیال کرتے تھے تو پھر وہ کون سی غرض تھی جس نے انہیں سیاسیات کے خار زار میں گھسیٹا تھا؟ اب ایک اور سوال بھی غور طلب ہے ۔ مسلم لیگ کے اجلاس الہ آباد کی صدارت کے لیے لیگ کونسل کے اجلاس مورخہ ۱۴؍جولائی ۱۹۳۰ء میں محمد علی جناح نے اقبال کا نام کیوں تجویز کیا؟ محمد احمد خان کی رائے ہے کہ چونکہ اقبال کو کُل ہند مسلم سیاسیات میں نہایت ہی نمایاں اور ممتاز مقام حاصل ہو چکا تھا اور ہندو پریس نے انہیں چوٹی کا فرقہ پرست لیڈر قرار دے دیا تھا ، غالباً اس لیے انہیں اجلاس الٰہ آباد کے لیے لیگ کا صدر منتخب کیا گیا ۱۱۳، مگر راقم ان سے اتفاق نہیں کرتا ۔ اقبال اور محمد علی جناح کے سیاسی نظریات میں یگانگت اور ہم آہنگی کا دور مارچ ۱۹۲۹ء سے شروع ہوا۔ اس مرحلے پر مسلمانانِ برصغیر کے مطالبات کی حتمی صورت یہ تھی کہ اگر وفاقی نظام قائم ہوتا ہے تو چودہ نکات کی بنیاد پر قائم کیا جائے ، لیکن ہندو قائدین چودہ نکات دیکھنے تک کے روادار نہ تھے۔ اس سے پیشتر نہرو رپورٹ میں جناح ترمیمات نا منظور ہو چکی تھیں اور مولانا حسرت موہانی کی وحدانی طرزِ حکومت کے اندر شمال مغرب کے چار صوبوں کے ادغام سے ایک مسلم اکثریتی صوبے کے قیام کی تجویز بھی نہرو کمیٹی نے ابتداء ہی میں مسترد کر دی تھی گویا جناح کے چودہ نکات یا حسرت موہانی کا ’’انڈیا کے اندر مسلم انڈیا‘‘ کے قیام کا تصوّر ہندوئوں کو ناقابلِ قبول تھا۔ اب اس کے بعد اگلا منطقی مطالبہ جو مسلم لیگ کی طرف سے پیش کیا جا سکتا تھا وہ سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا تھا جو اقبال نے خطبہ الٰہ آباد میں فی الواقعی پیش کیا ۔ سو راقم کا خیال ہے کہ محمدعلی جناح اور لیگ کونسل کے بعض ارکان کو معلوم تھا کہ اقبال کے خطبے کا مرکزی نکتہ کیا ہو گا۔ پس اسی سبب اجلاس الٰہ آباد کی صدارت کے لیے انہیں منتخب کیا گیا ۔ لیگ کونسل کے ارکان کا اصرار تھا کہ اجلاس گول میز کانفرنس شروع ہونے سے پہلے منعقد کیا جائے تاکہ کانفرنس کے متعلق لیگ کی پالیسی مرتب کی جا سکے اور اس میںشرکت کرنے والے مسلم مندوبین اس پالیسی کے تحت متحد ہو کر مسلمانوں کے مطالبات پیش کریں ۔ یعنی اگر چودہ نکات کی بنیاد پر وفاقی نظام قائم نہ ہوا تو پھر مسلمان وہ سیاسی لائحہ عمل اختیار کریں گے ، جس کی طرف لیگ کے اجلاس الٰہ آباد میں اشارہ کیا گیا، مگر اس کوشش کو سر فضل حسین نے ناکام بنا دیا اور جب اجلاسِ الٰہ آباد میں اقبال نے اپنا تاریخی خطبہ دیا تو بیشتر مسلم قائدین گول میز کانفرنس میں شمولیت کے لیے لندن جا چکے تھے ۔لہٰذا اقبال کے خطبے کے بعد اس کے مرکزی نکتے کے متعلق کوئی قرار داد منظور نہ کی گئی ۔ ۱۹۳۰ء کے بعد مسلمانوں کی سیاسیات میںبڑا انتشار پیدا ہوا ۔ مولانا محمد علی فوت ہو گئے اور محمد علی جناح نے لندن میں گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کر لی۔ ۱۹۳۱ء میں چند ماہ کے لیے سر محمد شفیع مسلم لیگ کے صدر رہے ، لیکن انہوں نے وائسرائے کی کونسل کی رکنیت قبول کر لی اور بالآخر ۶؍فروری ۱۹۳۲ء کو انتقال کر گئے ۔ بقول سید شمس الحسن اس کے بعد سر فضل حسین کی کوشش یہ تھی کہ لیگ کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے ۔ چنانچہ انہوں نے دسمبر ۱۹۳۱ء میں دہلی میں اپنے حمایتیوں کی مدد سے سر ظفر اللہ خان کو لیگ کا صدر منتخب کروا دیا ۔ اس پر دہلی کے مسلمانوں نے شدید احتجاج اور مظاہرہ کیا ، کیونکہ وہ سر ظفر اللہ خان کو احمدی ہونے کی وجہ سے غیر مسلم سمجھتے تھے ۔مزید مظاہروں کے خوف سے لیگ کا اجلاس فتح پوری اسکول ہال کی بجائے سید نواب علی نامی ایک ٹھیکے دار کے گھر میں منعقد کیا گیا ۔ اس اجلاس میں لیگ کو آل پارٹیز مسلم کانفرنس میں مدغم کر کے کسی نئی سیاسی تنظیم کی شکل میں قائم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا، لیکن خوش قسمتی سے سر ظفر اللہ خان جون ۱۹۳۲ء میں وائسرائے کی کونسل میں شامل کر لیے گئے اور انہوں نے لیگ کی صدارت سے استعفا دے دیا۔ یوں لیگ اپنی موت سے بچ گئی۔ ان کی جگہ پشاور کے میاں عبدالعزیز لیگ کے قائم مقام صدر منتخب ہوئے، مگر انہوں نے دھاندلی سے لیگ کو ایک گروہی جماعت کے طور پر چلانا چاہا اور سر محمدیعقوب کو سیکرٹری شپ سے علیحدہ کر دیا ۔ ۱۹۳۳ء میں بڑی مشکل سے انہیں صدارت سے الگ کیا گیا ۔ میاں عبدالعزیز کی جگہ حافظ ہدایت حسین لیگ کے صدر بنے، لیکن اس دوران میں اراکین میں نفاق کے سبب ہنگامہ ہو گیا ۔ جس میں عثمان آزاد مدیر روز نامہ ’’انجم‘‘ کے چند دانت ٹوٹ گئے اور یوں لیگ مزید انتشار کا شکار ہو ئی اور یہ صورت حال اس وقت تک جاری رہی ، جب دسمبر ۱۹۳۳ء کے آخری ہفتے میں محمد علی جناح ہندوستان واپس آئے۔ آخرکار ۴؍مارچ ۱۹۳۴ء کو محمد علی جناح لیگ کے صدر منتخب کیے گئے اور لیگ کا احیاء عمل میں آیا ۱۱۴۔ ۱۹۳۰ء میں پنجاب کونسل کی مدتِ رکنیت کے خاتمے کے بعد اقبال برصغیر کے مسلمانوں میں ایک اہم سیاسی شخصیت کے طور پر اُبھرے ۔ انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے منتخب صدر کی حیثیت سے الٰہ آباد میں اپنا معروف خطبہ دیا ۔بعد میں دو مرتبہ گول میزکانفرنسوں میں شمولیت کے لیے انگلستان گئے ۔ آل پارٹیز مسلم کانفرنس کے اجلاس لاہور کی صدارت کی اور آخری دم تک مسلمانانِ ہند اور مسلمانانِ عالم کے سیاسی مستقبل میں گہری دلچسپی لیتے رہے ، لیکن پھر کبھی صوبائی یا دیگر نوعیت کے انتخابات میں امیدوار کی حیثیت سے کھڑے نہ ہوئے ۱۱۵۔ ۱۹۳۰ء سے لے کر ۱۹۳۳ء تک کل ہند مسلم سیاسیات کے محقق کو تاریخی اہمیت کی حامل اگر کوئی تحریریں ملتی ہیں۔ تو ان میں اقبال کے دو خطبات بھی ہیں ۔ ایک خطبہ الٰہ آباد اور دوسرا خطبۂ صدارت آل پارٹیز مسلم کانفرنس لاہور ، مورخہ ۲۱ ؍مارچ ۱۹۳۲ء ان خطبات کا تجزیہ مناسب مقام پر کیا جائے گا ۔یہاں اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ ان خطبات کے ذریعے اقبال نے نظریاتی اساس پر مسلمانوں کی آئندہ سیاسی حکمت عملی کے لیے ایک رُخ ، سمت ، نصب العین یا منزل کا تعین کر دیا دراصل مسلمانانِ برصغیر کے لیے اقبال کی خدمات کے دو قابلِ ذکر پہلو اس عہد میں منکشف ہوئے۔ ایک خالصتاً عملی ، جس کا تعلق سیاسیات سے تھا اور دوسرا خالصتاً فکری جس کا اظہار وہ شروع ہی سے اپنی شعری تخلیقات یا نثری تحریروں میں کرتے چلے آرہے تھے، مگر اس دور میں انہوں نے الہٰیات اسلامیہ کی تشکیلِ نو کے سلسلے میں یہ اظہار اپنے مقالات کے ذریعے کیا ۔ مآخد باب :۱۵ ۱۔ ’’خطوطِ اقبال‘‘ مرتبہ رفیع الدین ہاشمی ، صفحات ۱۶۵،۱۶۶ ۲۔ ’’تشکیل پاکستان ‘‘ از رچرڈ سائمنڈز (انگریزی) ، صفحہ ۳۱ ، سرسید کی تقریر کا اقتباس ۔ ۳ ۔ ’’سفینۂ حیات‘‘ مولفہ منشی غلام قادر فرخ ، صفحات ۲۲، ۲۳ ، مکتوب اقبال محررہ ۲۸؍مارچ۱۹۰۹ء ۴۔ ’’آئینۂ اقبال ‘‘ مرتبہ محمدعبداللہ قریشی ، صفحات ۱۹۶،۱۹۸ تا ۲۰۰، ۲۰۱ ۵۔ ’’اقبال کے آخری دو سال‘‘ ، صفحات ۳۹ ، ۴۶، ۱۹۳، ۶ ۔ یہ بات راقم کو چوہدری محمدحسین نے اپنی زندگی میںبتائی تھی ۔ اقبال کی شاعری کے متعلق ابتداء ہی سے انگریزی حکومت کی خفیہ رپورٹوں کا سلسلہ جاری تھا اور معائنے کی غرض سے ان کی نظموں ، تصویرِ درد اور شمع و شاعر کے انگریزی ترجمے پریس برانچ اور خفیہ پولیس پنجاب کی ہدایات کے تحت ہوئے تھے ۔ حکومت پنجاب کے اس خفیہ ریکارڈ کی تفصیل کے لیے دیکھیے مضمون ’’علامہ اقبال کی شاعری حکومت کی خفیہ رپورٹوں کے آئینے میں ‘‘ از حفیظ رومانی ، ’’نوائے وقت ‘‘ اشاعت خصوصی بیاد اقبال شمارہ ۲۱؍اپریل ۱۹۸۳ء ۷۔ چوہدری محمد حسین کی یاد داشت کی کتاب ان کے بیٹے چوہدری نفیس احمد کی تحویل میں ہے۔ ۸۔ کوٹھی کا کرایہ ایک سو تیس روپے ماہوار تھا جو اس زمانے کے حساب سے زیادہ تھا ، دیکھیے ’’ملفوظات ‘‘ مرتبہ محمود نظامی، صفحہ ۲۰۸ ۔ ۹۔ ’’زمیندار‘‘ ۳۰ اپریل ۱۹۲۶ء ۱۰۔ ’’گفتار اقبال ‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل، صفحہ ۱۴ ۱۱۔ ایضاً ، صفحہ ۲۶۹ بحوالہ ’’زمیندار ‘‘ ۵؍اکتوبر ۱۹۲۶ء ۱۲۔ ’’اقبال اور پنجاب کونسل ‘‘ از محمد حنیف شاہد ، صفحہ ۷ کے بالمقابل تحریر اقبال کا عکس ، نیز صفحہ۷۴ ۱۳ ۔ ایضاً ، صفحہ ۷۴ ۱۴ ۔ ’’زمیندار ‘‘ ۲۴؍اکتوبر ۱۹۲۶ء ۱۵ ۔ ’’اقبال اور پنجاب کونسل ‘‘ از محمد حنیف شاہد ، صفحات ۱۹،۲۰ ۱۶ ۔ زیب النساء عرف جیبی ایک طوائف تھی اور شہر میں عام مشہور تھا کہ مولوی محرم علی چشتی کا اس سے تعلق ہے۔ محمد حنیف شاہد نے دوسرا مصرع یوں لکھا ہے: ’’جگہ کرائے تے گو نہیں لبھدی بندا اُنج اعتباری اے‘‘ ’’اقبال اور پنجاب کونسل ‘‘، صفحہ۱۸ ۱۷ ۔ میاں امیر الدین کے بیان کے مطابق سر محمد شفیع اور ان کی تقریباً ساری ارائیں برادری ملک محمد دین کی حامی تھی ۔ ارائیں برادری کے شاید ہی کسی فرد نے اقبال کو ووٹ دیا ہو ۔ سوائے میاں عبدالعزیز بار ایٹ لاء کے ، نواب سر ذوالفقار علی خاں بھی ملک محمد دین کے حامی تھے دیکھیے ’’یاد ایّام‘‘صفحہ ۴۹ ، ’’اقبال اور پنجاب کونسل ‘‘ از محمد حنیف شاہد ، صفحات ۲۵ تا ۲۷ ، ۳۱ تا ۴۰ ،۷۴’’اقبال ایوان اسمبلی میں ‘‘ مرتبہ حق نواز ، صفحہ ۲۰ ۱۸۔ ’’اقبال اور پنجاب کونسل‘‘ از محمد حنیف شاہد ، صفحات ۴۶ تا ۵۹ ۱۹ ۔ ’’گفتار اقبال ‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۱۶ ۔۱۷ ۲۰ ۔ ’’اقبال اور پنجاب کونسل ‘‘ از محمد حنیف شاہد ، صفحات ۵۴ ، ۶۴ تا ۶۶ ۲۱ ۔ ’’گفتار اقبال ‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۱۸ ، ۱۹ ’’اقبال اور پنجاب کونسل ‘‘ از محمد حنیف شاہد ، صفحات ۶۶ ، ۶۷ ۲۲ ۔ راقم کو یہ لطیفہ حفیظ جالندھری نے سنایا ۲۳ ۔ صفحات ۶۹ تا ۷۴ ۲۴ ۔ ’’روز گار فقیر ‘‘ سید وحید الدین جلد اوّل ، صفحات ۱۰۳، ۱۰۴ ’’سرگزشت اقبال ‘‘ ازعبدالسلام خورشید ، صفحہ ۲۰۶ ۲۵ ۔ ’’اقبال اور پنجاب کونسل ‘‘ از محمد حنیف شاہد ، صفحہ ۷۵ ۔ اس جلوس میں میاں امیرالدین اور سید افضال علی حسنی اقبال کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے ۔ ۲۶ ۔ ایضاً ، صفحات ۷۵ ، ۷۶ ۲۷ ۔ ایضاً ، صفحات ۷۷ ، ۷۸ ۲۸ ۔ ایضاً ، صفحات ۷۸ ، ۷۹ ، ’’ذکر اقبال ‘‘ از عبدالمجید سالک ، صفحات ۱۳۴ ، ۱۳۵ ۔ ۲۹ ۔ ’’اقبال اور پنجاب کونسل‘‘ از محمد حنیف شاہد ، صفحہ ۷۹ ۳۰ ۔ فضل حسین (انگریزی) ، صفحات ۳۱۸ ، ۳۱۹ ۳۱ ۔ ’’اقبال کے آخری دو سال‘‘ ، صفحہ ۲۷۴ ۳۲ ۔ ’’اقبال کا سیاسی کارنامہ ‘‘ از محمد احمد خان ، صفحات ۱۵۴ ، ۱۵۵ ۳۳ ۔ ’’گفتار اقبال ‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۲۰ تا ۲۲ ۳۴ ۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ حصہ اوّل ، صفحات ۲۰۷ ، ۲۰۸ ۳۵ ۔ ایضاً ، صفحہ ۲۰۹ ۳۶ ۔ ’’ اقبال اور پنجاب کونسل ‘‘ از محمد حنیف شاہد ، صفحات ۸۰ ، ۸۱ ۔ اقبال ہر سال ان کمیٹیوں کے رکن مقرر ہوتے رہے ۔ ۱۹۲۹ء میں انہیں لوکل سیلف گورنمنٹ کمیٹی اور کونسل آف اسٹیٹ (پنجاب) کا رکن بھی مقرر کیا گیا ۔ ۱۹۳۰ میں میڈیکل بورڈ کے رکن مقرر ہوئے۔ ۳۷ ۔ ایضاً ، صفحہ ۸۱ ۳۸ ۔ ’’گفتار اقبال ‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۲۲ ، ۲۳ ۳۹ ۔ ’’اقبال اور پنجاب کونسل ‘‘ از محمد حنیف شاہد ، صفحات ۸۲ تا ۸۶ ۔ انگریزی متن کے لیے دیکھیے ’’اقبال کی تقریریں اور بیانات ‘‘مرتبہ اے آر طارق (انگریزی) ، صفحات ۵۶ تا ۶۱ ۴۰ ۔ ’’اقبال کا سیاسی کارنامہ ‘‘ از محمد احمد خان ، صفحات ۱۰۱ تا ۱۰۳ ۴۱ ۔ ایضاً ، صفحہ ۱۰۴ ۴۲ ۔ ’’اقبال اور انجمن حمایت اسلام ‘‘ از محمد حنیف شاہد ، صفحات ۱۱۰ تا ۱۱۳ ۴۳ ۔ ’’انڈیا ۲۷۔۱۹۲۶ء ‘‘ از ر ش بروک ولیمز (انگریزی) ، صفحات ۱۶ تا ۱۹ ، ۴۷ ،’’ ہند میں نیشنلزم اور اصلاح ‘‘ از سمتھ (انگریزی)، صفحات ۳۳۶ تا ۳۴۶ ۴۴ ۔ ’’گفتار اقبال ‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۲۶ تا ۲۸ ۴۵ ۔ ’’اقبال کا سیاسی کارنامہ ‘‘ از محمد احمد خان ، صفحات ۱۶۲ ۔ ۱۶۳ ۴۶ ۔ ایضاً ، صفحہ ۱۶۶ ۴۷ ۔ ایضاً ، صفحات ۱۵۵، ۱۵۶ ۴۸ ۔ ’’گفتار اقبال ‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحہ ۳۲ ۴۹ ۔ ایضاً ، صفحہ ۳۷ ۵۰ ۔ ’’مکاتیب اقبال بنام گرامی ‘‘ مرتبہ محمد عبداللہ قریشی ، صفحات ۲۴۱ ۔ ۲۴۲ ۵۱ ۔ ’’گفتار اقبال ‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۳۹ تا ۴۶ ۵۲ ۔ ’’روز گار فقیر ‘‘ از فقیر سید وحیدالدین جلد دوم ، صفحہ ۳۰ ، ’’سرگذشت اقبال ‘‘ از عبدالسلام خورشید ، صفحہ ۲۷۶ ۔ اہانت رسول ؐ کا ایک اور واقعہ ۱۹۳۳ء میں کراچی میں بھی پیش آیا، جہاں نتھو رام، نامی ایک شخص نے اپنی کتاب میں رسول اکرم ؐ کی شان اقدس میں گستاخی کی تھی۔ اسے ہزارہ کے ایک نوجوان عبدالقیوم نے قتل کیا۔ عبدالقیوم نے بھی علم الدین کی طرح پھانسی کی سزا پائی ۔ جب بعض مسلمانوں نے عبدالقیوم کے لیے رحم کی اپیل کے سلسلے میں وائسرائے تک پہنچنا چاہا تو عبدالقیوم نے کہا کہ میں نے شہادت خریدی ہے، مجھے پھانسی کے پھندے سے بچانے کی کوشش نہ کی جائے ، لہٰذا اسے پھانسی دے دی گئی ۔ اقبال نے ان واقعات سے متاثر ہو کر ’’ضرب کلیم ‘‘ میں شامل نظم ’’لاہور اور کراچی ‘‘ تحریر کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ’’روز گارِ فقیر ‘‘ از فقیر سید وحیدالدین جلد دوم ، صفحات ۳۰تا۳۹ ۵۳ ۔ ’’گفتار اقبال ‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۴۶ تا ۴۸ ۵۴ ۔ ’’اقبال کی تقریریں اور بیانات ‘‘ مرتبہ اے ۔ آر ۔ طارق (انگریزی) ، صفحات ۶۲ تا ۶۴ ۵۵۔ ایضاً ، صفحات ۶۵ تا ۶۹ ۵۶ ۔ ’’انقلاب ‘‘ ۲۵؍جولائی ۱۹۲۷ء ۵۷ ۔ ’’گفتار اقبال ‘‘مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۴۸ ، ۴۹ ۵۸ ۔ ایضاً، صفحات ۴۹ تا ۵۱ ۵۹ ۔ ایضاً ، صفحات ۵۲ ، ۵۳ ۶۰ ۔ ’’اقبال کا سیاسی کارنامہ ‘‘ از محمد احمد خان ، صفحہ ۱۷۰ ۶۱ ۔ ’’گفتار اقبال ‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۵۳ تا ۵۶ ۶۲ ۔ ایضاً ، صفحات ۵۷ تا ۶۰ ۶۳ ۔ ایضاً ، صفحات ۶۱ تا ۶۴ ۶۴ ۔ ایضاً ، صفحہ ۶۴ ۶۵ ۔ ایضاً ، صفحہ ۶۵ ۶۶ ۔ ’’ذکر اقبال ‘‘ از عبدالمجید سالک ، صفحہ ۱۳۹ ۶۷ ۔ ’’انقلاب ‘‘ ۹ ؍ فروری ۱۹۲۸ء ۶۸۔ ’’اقبال کی تقریریں اور بیانات ‘‘ مرتبہ اے ۔ آر۔ طارق (انگریزی) ، صفحات ۷۰ ، ۷۱ ۶۹ ۔ ایضاً ، صفحات ۷۲ تا ۷۸ ۷۰ ۔ اقبال اور انجمن حمایتِ اسلام از محمد حنیف شاہد ، صفحات ۱۱۳ تا ۱۱۵ ۷۱ ۔ ’’اقبال کا سیاسی کارنامہ ‘‘ از محمد احمد خان ، صفحہ ۱۶۸ ۷۲ ۔ ’’ذکر اقبال ‘‘ از عبدالمجید سالک ، صفحات ۱۴۰ ، ۱۴۱ ۷۳ ۔ ’’اقبال کی تقریریں ، تحریریں اور بیانات ‘‘ مرتبہ لطیف احمد شیروانی (انگریزی) ، صفحات۲۰۴ ، ۲۰۵ ۷۴ ۔ یاد داشت کے خلاصہ کے لیے ملاحظہ ہو ’’اقبال کا سیاسی کارنامہ ‘‘ از محمد احمد خان ، صفحات ۱۸۱ ، ۱۸۲ ۷۵ ۔ ’’گفتار اقبال ‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۱۰۶ تا ۱۰۹ ۷۶ ۔ ایضاً ، صفحات ۶۶ تا ۶۹ ۷۷ ۔ ’’نہرو رپورٹ ‘‘ باب ۳ (انگریزی) ، صفحات ۳۷،۳۸ ۷۸ ۔ ’’گفتار اقبال ‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۷۰ ، ۷۱ ۷۹ ۔ ’’انقلاب ‘‘ ۷؍نومبر ۱۹۲۸ء ۸۰ ۔ یہ مقالہ ’’اسلامک کلچر ‘‘ حیدر آباد دکن شمارہ اپریل ۱۹۲۹ء میں شائع ہوا۔ انگریزی متن کے لیے دیکھیے ’’خطباتِ اقبال ‘‘ مرتبہ شاہد حسین رزاقی (انگریزی) ، صفحات ۱۰۳ تا ۱۱۳۔ اردو ترجمہ از دائود رہبر کے لیے ’’انوار اقبال ‘‘ مرتبہ بشیر احمد ڈار ، صفحات ۲۴۷تا۲۶۷ ملاحظہ کیجئے ۔ ۸۱ ۔ ’’اقبال کا سیاسی کارنامہ ‘‘ از محمد احمد خان ، صفحہ ۱۹۷ ۸۲ ۔ ایضاً ، صفحات ۱۱۷ ، ۱۱۸ ۸۳ ۔ ’’گفتار اقبال ‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل صفحہ ۷۳ ۸۴ ۔ ایضاً ، صفحات ۸۴ تا ۸۶ ۸۵ ۔ ایضاً ، صفحہ ۹۸ ۸۶ ۔ ایضاً ، صفحات ۹۹ ، ۱۰۰ ۸۷ ۔ ’’اقبال کی تقریریں اور بیانات ‘‘مرتبہ اے ۔ آر۔ طارق (انگریزی) ، صفحات ۷۹ تا ۸۲ ۸۸ ۔ یہ خط اخبار میں چھپ چکا ہے اور راقم کے پاس اس کا تراشہ موجود ہے لیکن اخبار کے نام اور تاریخ اشاعت کا اندراج سہواً رہ گیا ۔ ۸۹ ۔ ’’گفتار اقبال‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۸۷ تا ۹۱ ۹۰ ۔ ’’اقبال کا سیاسی کارنامہ ‘‘ از محمد احمد خان ، صفحہ ۱۲۱ ۹۱ ۔ ’’صاف گو مسٹر جناح ‘‘ از سید شمس الحسن (انگریزی) ، صفحات ۴۹ ، ۵۰ ۹۲ ۔ ’’اقبال اور انجمن حمایت اسلام ‘ ‘ از محمد حنیف شاہد ، صفحات ۱۱۵ ، ۱۱۶ ۹۳ ۔ ’’گفتار اقبال ‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۹۱ تا ۹۴ ۹۴ ۔ ایضاً ، صفحات ۹۴ تا ۹۷ ۹۵ ۔ ایضاً ، صفحات ۱۰۰ تا ۱۰۲ ۹۶ ۔ ایضاً ، صفحات ۱۰۲ تا ۱۰۵ ۹۷ ۔ ایضا، صفحات ۱۰۵ ، ۱۰۶ ۹۸ ۔ ’’اقبال کی تقریریں اور بیانات ‘‘ مرتبہ اے ۔ آر طارق (انگریزی) صفحات ۸۳ تا ۸۷ ۹۹ ۔ ’’صاف گو مسٹر جناح ‘‘ از سید شمس الحسن (انگریزی) ، صفحات ۵۰ تا ۵۳ ۱۰۰۔ ’’روز گار فقیر ‘‘ از فقیر سید وحیدالدین جلد اوّل ، صفحہ ۱۲۲ ۱۰۱ ۔ ’’گفتار اقبال ‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحہ ۱۰۹ ۱۰۲۔ ’’اقبال کا سیاسی کارنامہ ‘‘ از محمد احمد خان ، صفحہ ۲۰۶ بحوالہ ’’ٹریبیون‘‘ یکم جنوری ۱۹۳۱ء ۱۰۳ ۔ ’’گفتار اقبال ‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۱۱۰ ، ۱۱۱ ۱۰۴ ۔ ایضاً ، صفحات ۱۱۲ ۱۰۵ ۔ ایضاً ، صفحات ۱۱۳ تا ۱۱۶ ۱۰۶ ۔ ’’اقبال کا سیاسی کارنامہ ‘‘ از محمد احمد خان ، صفحات ۲۱۲ تا ۲۱۴ ۱۰۷ ۔ ’’اقبال اور انجمن حمایت اسلام ‘‘ از محمد حنیف شاہد ، صفحات ۱۲۱ تا ۱۲۴ ۱۰۸ ۔ ’’اقبال کا سیاسی کارنامہ ‘‘ ، صفحہ ۱۵۱ ۱۰۹ ۔ ’’سرگذشتِ اقبال ‘‘ از عبدالسلام خورشید ، صفحات ۲۸۹ تا ۲۹۲ ۱۱۰ ۔ ’’علیحدہ مسلم ریاست کا نظریہ ‘‘ (تقریر نواب سر ذوالفقار علی خان ، اجلاس آل انڈیا خلافت کانفرنس منعقدہ لاہور ، دسمبر ۱۹۲۹ئ) مرتبہ محمد رفیق افضل (انگریزی) ، صفحہ ۶ ۱۱۱۔ ’’سرگذشت اقبال ‘‘ از عبدالسلام خورشید ، صفحات ۲۹۸ ، ۲۹۹ بحوالہ ’’انقلاب‘‘ ۲۱؍نومبر۱۹۳۰ء ۱۱۲۔ ایضاً ، صفحات ۳۰۱،۳۰۲ ۱۱۳ ۔ ’’اقبال کا سیاسی کارنامہ ‘‘ از محمد احمد خان ، صفحہ ۲۱۶ ۱۱۴ ۔ ’’صاف گو مسٹر جناح ‘‘ از سید شمس الحسن (انگریزی) ، صفحات ۵۲ تا ۵۶ ۱۱۵ ۔ رحیم بخش شاہین نے اقبال کے ایک مکتوب محررہ ۲۱؍جولائی ۱۹۳۰ء کے حوالے سے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ اقبال نئے صوبائی انتخابات میں حصہ لینے کی خاطر انبالے کے کسی حلقے سے امیدوار کھڑا ہونے کے بارے میں سوچ رہے تھے ، دیکھیے مضمون ’’اقبال کا ایک نادر مکتوب ‘‘ ،’’اقبال ریویو‘‘ ، جنوری ۱۹۸۲ء ، صفحات ۵۴ ، ۵۵ ، لیکن عین ممکن ہے کہ اس خط کے ذریعے اقبال یہ معلوم کرنا چاہتے ہوں کہ پنجاب کونسل کے آئندہ انتخابات میں کس قسم کی ذہنیت رکھنے والے یا سیاسی مکتبہ فکر سے وابستہ شہری مسلم امیدواروں کی کامیابی کا امکان ہے۔ باب :۱۶ دورئہ جنوبی ہند اقبال کا سفرِ جنوبی ہند ایک خالصتہً علمی سفر تھا ، لیکن حیاتِ اقبال میں اس کی اہمیت سے انکار کرنا اس لیے ممکن نہیں کہ اس سفر کے دوران میں انہوں نے اپنے ’’خطبات‘‘ کے ذریعے اسلامی تمدن کی قدیم فکری روایات کو فکر جدید کی روشنی میں پیش کر کے عہد حاضر کے مسلمانوں کو ترغیب دی کہ مستقبل میں ایک نیا اسلامی معاشرہ وجود میں لانے کی کوشش کریں۔ اقبال کے عقیدے کے مطابق اسلام کا تصورِ حیات جامد نہیں بلکہ متحرک ہے۔ لہٰذا وہ ابتدا ہی سے اجتہاد کے مسئلے میں گہری دلچسپی رکھتے تھے ۔ اس سلسلے میں انہوں نے ایک انگریزی مقالہ بعنوانِ ’’اسلام میں اجتہاد ‘‘ حبیبیہ ہال اسلامیہ کالج ، لاہور میں ۱۳؍دسمبر ۱۹۲۴ء کو پڑھا ۔ مگر بعض قدامت پسند علماء اس میں پیش کردہ خیالات پر معترض ہوئے اور اقبال کو کافر گرداننے لگے۔ اقبال کے لیے غالباً یہ پہلا ایسا تجربہ تھا، کیونکہ انہی ایّام میں مولوی ابو محمد دیدار علی نے ان کے خلاف کفر کا فتویٰ صادر کیا تھا ۔ اقبال نے اس کا بُرا منایا اور اپنے ردّ ِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے مولانا اکبر شاہ خان نجیب آبادی کو تحریر کیا : آپ نے ٹھیک فرمایا ہے پیشہ ور مولویوں کا اثر سر سید احمد خان کی تحریک سے بہت کم ہو گیا تھا، مگرخلافت کمیٹی نے اپنے سیاسی فتوئوں کی خاطر ان کا اقتدار ہندی مسلمانوں میں پھر قائم کر دیا۔ یہ ایک بہت بڑی غلطی تھی، جس کا احساس ابھی تک غالباً کسی کو نہیں ہوا ۔ مجھ کو حال ہی میں اس کا تجربہ ہوا ہے ۔ کچھ مدت ہوئی میں نے اجتہاد پر ایک انگریزی مضمون لکھا تھا جو یہاں ایک جلسے میں پڑھا گیا تھا ان شاء اللہ شائع بھی ہو گا ، مگر بعض لوگوں نے مجھے کافر کہا ۱۔ یہ مضمون شائع نہ ہوا ، البتہ اسے پڑھے جانے کا اعلان اخباروں میں چھپا اور ممکن ہے بعد میں سرسری تفصیل بھی شائع ہوئی ہو۔ یہی تفصیل جنوبی ہند کے سیٹھ جمال محمد کی نظر سے گذری سیٹھ جمال محمد مدراس کے ایک بہت بڑے تاجر تھے اور ان کی تجارت اُس زمانے میں ایک کروڑ روپے سالانہ کے لگ بھگ تھی۔ انہوں نے اپنے خرچ پر کئی خیراتی اداروں کے علاوہ ایک مسلم ایسوسی ایشن بھی قائم کر رکھی تھی ، جس کا مقصد معروف مسلم علمی شخصیتوں کو مدراس میں مدعو کرکے ان سے اسلام سے متعلق موضوعات پر خطبات دلوانا تھا۔ سید سلیمان ندوی اس انجمن کی دعوت پر مدراس میں سیرت نبویؐ پر اور محمد مارما ڈیوک پکتھال تمدنِ اسلام پر عالمانہ خطبے دے چکے تھے ۔ سیٹھ جمال محمد نے مسلم ایسوسی ایشن کی طرف سے اوائل ۱۹۲۵ء میں اقبال کو مدراس آ کر اجتہاد ہی کے موضوع پر مقالات پڑھنے کی دعوت بھیجی اور تمام اخراجات برداشت کرنے کی ذمہ داری بھی لی۔ اقبال نے دعوت قبول کر لی ، لیکن خطبات کی تعداد یا سفرِ مدراس کی تاریخ کا فیصلہ مستقبل پر چھوڑ دیا۔ ان کے نزدیک اس دعوت کو قبول کرنے کے دو اہم وجوہ تھے ۔ اوّل یہ کہ جنوبی ہند کے سفر میں وہ سلطان ٹیپو شہید کی تُربت کی زیارت کرنا چاہتے تھے اور اس تجربے سے جو سوز وگداز کی کیفیت ان پر طاری ہو اسے نظم کر کے لافانی بنا دینے کا قصد تھا، دوم یہ کہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر وہ تمدنِ اسلام کے بعض نہایت اہم مسائل کے متعلق ہمعصری تقاضوں کی روشنی میں اپنی تحقیقات یا اُن پر مبنی اپنے نظریات یکجا کرنا چاہتے تھے، تاکہ انہیں کتاب کی صورت میں شائع کراکے دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکے۲ ۔ اقبال مسلمانوں کی نئی نسل کے متعلق بہت فکر مند تھے ۔ وہ محسوس کرتے تھے کہ نئی نسل فکری طور پر یورپ کی طرف کھنچی چلی جا رہی ہے اور انہیں خدشہ تھا کہ مبادا وہ یورپی نظریات کی ظاہری چمک سے خیرہ ہو کر صحیح راہ سے بھٹک جائے۔ اسی اندیشے کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے سید سلیمان ندوی کو تحریر کیا: میں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ میرے دل میں ممالکِ اسلامیہ کے موجودہ حالات دیکھ کر بے انتہا اضطراب پیدا ہو رہا ہے۔ ذاتی لحاظ سے خدا کے فضل و کرم سے میرا دل پورا مطمئن ہے۔ یہ بے چینی اور اضطراب محض اس وجہ سے ہے کہ مسلمانوں کی موجودہ نسل گھبرا کر کوئی اور راہ اختیار نہ کر لے ۳۔ ویسے ان کے خیال میںنئی نسل کے اس رجحان میں کوئی قباحت نہ تھی ، کیونکہ یورپ کی جدید تہذیب ، اسلامی تمدن ہی کی ایک ترقی یافتہ صورت تھی۔ مثلاً یورپ میں فکر کے میدان میں ڈے کارٹ کو اپنے اصول کی بنا پر جدید فلسفہ کا بانی سمجھا گیا اور اسی اصول پر نئے علوم کی بنیاد رکھی گئی ، لیکن ڈے کارٹ کے اصول کا مقابلہ اگر غزالی کی’’ احیائے علوم ‘‘سے کیا جائے تو ظاہر ہوگا کہ ڈے کارٹ سے کئی صدیاں قبل غزالی نے ’’اصول‘‘ کی وضاحت کر دی تھی ۔ اسی طرح دانتے کی تصنیف ’’ڈیوائن کامیڈی‘‘ ، محی الدین ابن عربی کے تخیلات سے لبریز ہے۔ یورپی اہل علم یہ دعویٰ کرتے تھے کہ استقرائی منطق کا موجد بیکن ہے، مگر فلسفۂ اسلامی کی تاریخ سے عیاں ہوتا ہے کہ اس سے بڑا جھوٹ یورپ میں کبھی نہیں بولا گیا۔ ارسطو کی منطق کی شکلِ اوّل پر سب سے پہلا معترض مسلم منطقی یعقوب کندی تھا اور جو اعتراض اس نے اٹھایا ، بعینہٖ وہی اعتراض نہ صرف بیکن نے بلکہ جان اسٹوارٹ مل نے بھی اٹھایا۔ گویا مسلمانوں کا استقرائی طریق منطق بیکن سے مدتوں پہلے سارے یورپ کو معلوم تھا ۔ نصیرالدین طوسی کی تصانیف سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم ریاضی دان قرون وسطیٰ ہی میں ایسے نتائج پر پہنچ چکے تھے جن سے یورپ میں یونانی ریاضیات پر تبصرہ کرتے وقت استفادہ کیا گیا اور یوں جدید ریاضیات کی بنیاد رکھی گئی ۔ اس کے علاوہ مسلم صوفیہ ایک مدّت سے تعدّد زمان و مکاں کے قائل تھے اور انہوں نے فکری طور پر اس امکان کا اظہار کر دیا تھا کہ مکان کے ابعاد تین سے زیادہ بھی ہو سکتے ہیں۔ یورپ میں اس نکتے کی طرف سب سے پہلے جرمن فلسفی کانٹ نے توجہ کی ۔ جب کہ مسلم صوفیہ پانچ سو سال پیشتر اس نکتے سے آشنا تھے، سو یورپ میں مسلم مفکروں کے نتائج فکر کا چرچا تھا اور وہاں کے اہلِ علم ، خواہ وہ عربی جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں ، عام طور پر اسلامی تخیلات سے آگاہ تھے ۴ ۔ اقبال جدید فکر کی روشنی میں علوم اسلا میہ کے احیاء کے خواہشمند تھے، کیونکہ ان کے نزدیک اگر ایسا نہ کیا گیا تو یورپ کے ’’معنوی استیلا‘‘ کا خطرہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے سید سلیمان ندوی کو لکھا : میرے نزدیک اقوام کی زندگی میں قدیم ایک ایسا ہی ضروری عنصر ہے جیسا کہ جدید مگر میں دیکھتا ہوں کہ اسلامی ممالک میں عوام اور تعلیم یافتہ لوگ دونوں طبقے علومِ اسلامیہ سے بے خبر ہیں۔ اس بے خبری سے آپ کی اصطلاح میں یورپ کے ’’معنوی استیلا‘‘ کا اندیشہ ہے جس کا سدِّباب ضروری ہے۵۔ اقبال کو یہ بھی یقین تھاکہ ہندوستان کے مسلمان سیاسی اعتبار سے دیگر ممالکِ اسلامیہ کی کوئی مدد نہیں کر سکتے ، لیکن دماغی اعتبار سے ان کی بہت کچھ مدد کر سکتے تھے ۶۔ ان کی رائے میں یورپ میں تجدیدِ دین مارٹن لوتھر کے ہاتھوں عمل میں آئی، مگر دنیائے اسلام میں کلیسا کی صورت میں ایسا کوئی بُت موجود نہ تھا جس کو توڑنے کے لیے کسی لوتھر کی ضرورت پیش آتی ۔ پھر بھی احیاے علوم اسلامیہ کے بغیر چارہ نہ تھا، کیونکہ ایسے احیاء کے ذریعے ہی اسلام اور علومِ جدیدہ کی حیاتِ ذہنی کا ٹوٹا ہوا سلسلہ دوبارہ جوڑ کر مسلمانوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں ترقی کرنے کی ترغیب دی جا سکتی تھی اور انہیں اس حقیقت کا احساس دلایا جا سکتا تھا کہ یورپی تمدن کے فکری اور سائنٹفک پہلوئوں کو قبول کرنے سے مراد کسی قسم کے غیر اسلامی علوم کی تحصیل یا تقلید نہیں بلکہ جو کچھ مسلمانوں نے اپنے عالم بیداری میں یورپ کو دیا اور جس پر یورپ نے ان کی خوابیدگی کے دوران میں اضافے کیے، اس فکری تسلسل کو ترقی یافتہ شکل میں واپس لے کر مزید آگے بڑھانا ہے۷ ۔ اقبال کا خیال تھا کہ ہندوستان کے مسلم سیاسی رہنمائوں کا نصب العین اگر صرف مسلمانوں کی سیاسی یا اقتصادی آزادی کا حصول ہے اور اسلام کی حفاظت ان کا مقصد نہیں تو وہ اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے ۸۔ مزید برآں وہ علوم اسلامیہ کے ساتھ دینی فکر کو بھی جدید انداز میں پیش کرنے کے آرزو مند تھے اور علومِ دینیہ کو فلسفہ جدید کا ہمدوش بنانا چاہتے تھے۔ ان کی رائے میں قدیم اسلامی دینیات یا علم کلام کے، جس کا ماخذ زیادہ تر یونانی فکر و حکمت تھا، تار و پود بکھر چکے تھے اور اس کی نئی شیرازہ بندی کی ضرورت تھی۔ ان کی نگاہ میں یورپ نے عقل و الہام کو ہم آہنگ بنانے کا طریقہ مسلمانوں سے سیکھا تھا ، لہٰذا وہ اس طریق سے اپنی دینیات کو موجودہ فلسفے کی روشنی میں از سرِ نو تعمیر کرنے میں مسلمانوں سے بہت آگے نکل گئے ، لیکن چونکہ اسلام، عیسائیت سے کہیں زیادہ سادہ اور عقلی مذہب ہے، اس لیے اس میں جدید دینیات یا علم کلام کی طرح ڈالنانسبتاً آسان تھا۹ ۔ ایسی کوشش اقبال سے پیشتر سر سید احمد خان نے بھی کی تھی،لیکن وہ اس لیے ناکام رہی کہ سرسید نے اپنے نظریات کی بنیاد معتزلہ کے نظامِ فکر پر استوار کی جو بجائے خود یونانی فکر و حکمت پر مبنی ہونے کے سبب فرسودہ تھا۱۰ ۔ انہیںاس بات کا احساس تھا کہ دنیائے اسلام میں ایک ذہنی انقلاب کے آثار پیدا ہو رہے ہیں۔ اور اگرچہ مسلم اقوام اپنی سیاسی اور اقتصادی مشکلات میں الجھی ہوئی ہیں ، لیکن ان مشکلات کے خاتمے پر ذہنی انقلاب کا آغاز یقینی ہے اور وہ توقع رکھتے تھے کہ اُس وقت تک ایسی شخصیات پیدا ہو جائیں گی جو اس انقلاب کی صحیح راہنمائی کر سکیں گی۱۱، تاہم اس میدان میں اقبال کی تگ و دو کا مدعا اس آنے والے ذہنی انقلاب کے لیے راہ ہموار کرنا تھا ۔ دوسرا اہم مسئلہ جس کی طرف ان کی توجہ شروع ہی سے مبذول رہی وہ فقہ اسلامی کی تشکیل نو کا مسئلہ تھا ۔ اقبال کا عقیدہ تھاکہ جو شخص دور حاضر میں قرآنی نقطۂ نظر سے زمانۂ حال کے جورس پر ڈونس پر ایک تنقیدی نگاہ ڈال کر احکامِ قرآنیہ کی ابدیت کو ثابت کرے گا ، وہی اسلام کا مجدد اور بنی نوعِ انسان کا سب سے بڑا خادم ہو گا ۱۲ ۔ اس سلسلے میں انہوں نے سید سلیمان ندوی کو تحریر کیا : میرا مقصود یہ ہے کہ زمانۂ حال کے جو ُرس پروڈنس کی روشنی میں اسلامی معاملات کا مطالعہ کیا جائے مگر غلامانہ انداز میں نہیں بلکہ ناقدانہ انداز میں اس سے پہلے مسلمانوں نے عقائد کے متعلق ایسا ہی کیا۔ یونان کا فلسفہ ایک زمانے میں انسانی علوم کی انتہا تصور کیا گیا، مگر جب مسلمانوں میں تنقید کا مادہ پیدا ہوا تو انہوں نے اسی فلسفے کے ہتھیاروں سے اس کا مقابلہ کیا۔ اس عصر میں معاملات کے متعلق بھی ایسا ہی کرنا ضروری ہے۱۳۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اجتہاد کے بغیر کوئی چارہ نہ تھا ، لیکن وہ بخوبی جانتے تھے کہ مغرب کہ نظریاتی اور سیاسی محکومی کے عالم میں مسلمان اجتہاد فکر کی صلاحیت سے محروم ہیں اور ایسی غلامی کے دور میں بہتر یہی ہے کہ فقہ اسلامی کے تحفظ کی خاطر وہ صرف تقلید ہی کو اپنا شعار بنائیں۔ پھر بھی ہر لحظہ تغیر پذیر حالات میں یہ سلسلہ ہمیشہ کے لیے تو جاری نہ رکھا جا سکتا تھا، اس لیے ضروری تھا کہ اس سمت میں کوئی قدم اٹھایا جائے تاکہ مسلمانوں میں رفتہ رفتہ ایسے لوگ پیدا کیے جا سکیں جو خود اجتہاد فکر پر قادر ہوں اور مستقبل میں آنے والے ذہنی انقلاب کے دور میں انہیں صحیح راہنمائی فراہم کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں ۱۴۔ مگر دنیائے اسلام اور بالخصوص ہندوستان کے علماء کی روایتی قدامت پسندی کے پیش نظر یہ ایک نہایت نازک مسئلہ تھا اور اقبال کو اس سلسلے میں اپنے خیالات کے اظہار پر بعض لوگوں نے کافر کہنا شروع کر دیا تھا ۔ اس کے باوجود وہ عہد حاضر کے تقاضوں کے مطابق اجتہاد کے بارے میں اپنی تحقیق جاری رکھنا چاہتے تھے اور اس تحقیق پر مبنی اپنے نظریات کا برملا اظہار کرنے میں انہیں کوئی خوف یا ہچکچاہٹ نہ تھی ۔ تیسرا اہم مسئلہ جس پر اقبال اظہارِ خیال کرنے کے خواہشمند تھے، مسلم ریاستوں کی طرزِ حکومت اور اتحاد اقوام اسلامیہ کا تھا ۔ اس عہد میںخلافت کا خاتمہ ہو چکا تھا اور ترکی میں مغربی جمہوریت کا دور دورہ تھا ، لیکن بعض روایت کے پابند علماء خلافت کے احیاء پر مصر تھے اور ان کی سادگی یا سادہ لوحی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت ِ برطانیہ کسی ایسی شخصیت کی تلاش میں تھی جو مسلمانان عالم کے لیے تو خلیفۃالمسلمین کا کردار ادا کرے مگر درحقیقت انگریزوں کی کٹھ پتلی ہو ۔ ایسی حکمت عملی سے یقینا ساری دنیائے اسلام کو آلۂ کار بنایا جا سکتا تھا ۔ اقبال اس حکمتِ عملی کو سمجھتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ عصر حاضر میں خلافت کا احیاء مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہے اور مسلم اقوام کے اتحاد کے لیے کوئی اور تدبیر سوچنے کی ضرورت ہے۔ بنیادی طور پر وہ جمہوریت کے اتنے قائل نہ تھے ، لیکن کسی مناسب نعم البدل کی عدم موجودگی میں اسے محض گوارا کرتے تھے ۱۵۔ جمہوریت کے متعلق ان کا اعتراض خالصتاً فلسفیانہ یا اخلاقی نوعیت کا تھا ۔کیونکہ اس نظام میں کسی شخص کا انتخاب صرف افراد کی تعداد کی بنیاد پر عمل میں آتا تھا اور یہ طریق بجائے خود اس بات کی ضمانت فراہم نہ کرتا تھا کہ منتخب کردہ شخص واقعی قیادت کا اہل ہے۔ بالفاظ دیگر اس طرزِ حکومت میں کسی اچھے اور اہلیت رکھنے والے امیدوار کا بُرے اور نااہل امیدوار کے مقابلے میں انچاس پچاس کی گنتی میں منتخب نہ ہو سکنے کا امکان تھا جو اسلامی اور اخلاقی اعتبار سے ایک غلط بات تھی ۔ اس کے علاوہ اقبال مغرب کے سرمایہ دارانہ یا کیپیٹلسٹ جمہوری نظام کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، کیونکہ اس نظام کی روح استعماری تھی اور وہ پسماندہ اقوام کے استحصال کا باعث تھا ۔ اس کے ردِّعمل کے طور پر روس میں مکمل دہریت کی بنیادوں پر اشتراکی انقلاب آ چکا تھا اور انہیں اندیشہ تھا کہ مغرب کی نقالی کرتے ہوئے اگر اسی قسم کا نظام دنیائے اسلام کی اقوام میں رائج ہوا تو وہ بھی کسی نہ کسی دن اشتراکی انقلاب کی زد میں آ کر روس کے سوشل استعمار کا نشانہ بن جائیں گی ۔ ان اہم مسائل کے علاوہ اقبال اسلام سے متعلق اپنی تحقیقات کی بنیاد پر خدا ، کائنات اور انسان کے بارے میں اپنے نظریات کی وضاحت کرنا چاہتے تھے ۔ ان کے آفاقی تصور یا مقصودِ حیاتِ انسانی سے متعلق افکار کچھ حد تک ان کی نثری تحریروں یا شعری تخلیقات میں واضح کیے جا چکے تھے ، لیکن اس دوران میں وہ عشق و عقل، خودی ، تصوف، حیات بعدالموت، زمان و مکاں یا دیگر مابعد الطبیعیاتی ، اخلاقی اور تمدنی مسائل پر مزید غور و فکر کے ارتقائی مراحل سے گزر کر جن نتائج پر پہنچے ان کا بیان کرنا بھی ضروری تھا ۔ اس مرحلے پر یہ بتا دینا مناسب ہو گا کہ اقبال کو یورپی تمدن یا مغربی ادبیات و فلسفے پر خاصا عبور حاصل تھا۔ اسی طرح وہ اسلامی تمدن ، عربی و فارسی ادبیات اور مسلم فلاسفہ کے افکار سے بھی آشنا تھے، لیکن تفسیر ، حدیث اور فقہ یا دینی علوم کے معاملے میں چونکہ ان کی تعلیم و تربیت روایتی ڈسپلن کے تحت نہ ہوئی تھی ، اس لیے مروجہ اصطلاح کے مطابق انہیں ، ’’عالم‘‘ نہ کہا جا سکتا تھا۔ اقبال کو اپنی اس کمزوری کا پورا احساس تھا ۱۶۔ اس لیے خطبات تحریر کرتے وقت لاتعداد کتب کے مطالعے کے علاوہ علماء سے بھی رہنمائی حاصل کرنے کی غرض سے رجوع کیا گیا اور اس سلسلے میں انہوں نے اپنے جاننے والے بعض علماء سے خط و کتابت کی یا بحث و مباحثے کیے ، مگر ایک مشکل یہ تھی کہ جس قسم کی رہنمائی اقبال کو مطلوب تھی، وہ انہیں صرف ایسے علماء ہی سے مل سکتی تھی جو دینی علوم اور اسلامی فلسفے میں پوری دسترس رکھنے کے ساتھ ساتھ مغربی تمدن ، فلسفہ ، قانون اور علوم جدیدہ پر بھی نگاہ رکھتے ہوں، لیکن ایسے علماء ہندوستان میں تو کیا ساری دنیائے اسلام میں نایاب تھے۔ بہرحال اس ضمن میں جو سوالات اقبال کے ذہن میں ابھرے اور بالخصوص جو سوالات انہوں نے وقتاً فوقتاً سید سلیمان ندوی سے پوچھے انہیں پیش نظر رکھنا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا ۔ ان سوالات کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے: قرآن کتابِ کامل ہے اور وہ خود اپنے کمال کا مدعی ہے ۔ اس کا کمال عملی طور پر ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ معاملات کے اصول پر، جو دیگر اقوام میں اس وقت مروّج ہیں، قرآنی نقطۂ نظر سے تنقید کی جائے۔ اس کے لیے کیا ذرائع اختیار کیے جائیں ؛ متکلمین میں سے بعض نے علمِ مناظر و مرایا کی رو سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ خدا تعالیٰ کو دیکھ سکنا ممکن ہے ۔ یہ بحث کہاں ملے گی ؟ رؤیتِ باری کے متعلق جو استفسار کیا گیا اس کا مقصد یہ تھا کہ شاید اس بحث میں کوئی ایسی بات نکل آئے جس سے آئن سٹائن کے انقلاب انگیز ’’ نظریۂ نور ‘‘ پر کچھ روشنی پڑے ، اس خیال کو ابن رُشدکے ایک رسالے سے تقویت ہوئی جس میں انہوں نے ابوالمعالی کے رسالے سے ایک فقرہ اقتباس کیا ہے ۔ ابوالمعالی کا خیال آئن سٹائن سے بہت ملتا جلتا ہے ، گو اوّل الذکر کے ہاں یہ بات محض ایک قیاس ہے اور مؤخر الذکر نے اس ریاضی کی رو سے ثابت کر دیا ہے۔ کیا اجماع امت ، نص قرآنی کو منسوخ کر سکتا ہے ؟ مثلاً مدتِ شیر خوارگی جو نصِ صریح کی رو سے دو سال ہے کم یا زیادہ ہو سکتی ہے ، یا حصصِ میراث میں کمی بیشی کر سکتا ہے ؟ بعض حنفاء اور معتزلہ کے نزدیک اجماع امت یہ اختیار رکھتا ہے ۔ کیا مسلمانوں کے فقہی لٹریچر میں کوئی ایسا حوالہ موجود ہے؟ آپ نے ارشاد کیا ہے کہ فقہا نے اجماع سے نص کی تخصیص جائز سمجھی ہے ۔ ایسی تخصیص یا تعمیم کی کوئی مثال؛ کیا ایسی تخصیص یا تعمیم صرف اجماع صحابہؓ ہی کر سکتا ہے یا علماء و مجتہدین امت بھی کر سکتے ہیں ؟ مسلمانوں کی تاریخ میں صحابہؓ کے بعد کوئی ایسی مثال ہو تو آگاہ کیجیے ۔ تخصیص یا تعمیم حکم سے کیا مراد ہے ؟ اگر صحابہؓ کا کوئی حکم نص کے خلاف ہو تو اس سے یہ مراد لی جائے گی کہ کوئی ناسخ حکم ان کے علم میں ہو گا ۔ کیا کوئی حکم ایسا بھی ہے جو صحابہؓ نے نصِ قرآن کے خلاف نافذ کیا ہو؟ حضور سرورِ کائناتؐ نے کسی دریافت کردہ مسئلے کا جو جواب وحی کی بنا پر دیا وہ تمام امت پر حجت ہے اور وہ وحی بھی قرآن مجید میں داخل ہو گئی ، لیکن جو جواب محض استدلال پر دیا گیا ، جس میں وحی کو دخل نہیں ، کیا وہ بھی تمام امت پر حجت ہے ؟ اگر جواب اثبات میں ہو تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ حضور کے تمام استدلالات بھی وحی میں داخل ہیں یا بالفاظ دیگر یہ کہ قرآن و حدیث میں کوئی فرق نہیں ؟ نبی کریم ﷺ کی دو حیثیتیں ہیں ، نبوت اور امامت ، نبوت میں احکامِ قرآنی اور آیاتِ قرآنی سے حضور ﷺ کے استنباط داخل ہیں۔ اجتہاد کی بنا محض عقلِ بشری اور تجربہ و مشاہدہ ہے ، کیا یہ بھی وحی میں داخل ہے ؟ اگر وحی میں داخل ہے تو اس پر آپ کی دلیل کیا ہے ؟وحی غیر متلو کی تعریف نفسیاتی اعتبار سے کیا ہے ؟ کیا وحی متلو اور غیر متلو کے امتیاز کا پتا رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں چلتا ہے یا یہ اصطلاحات بعد میں وضع کی گئیں؟ حضور ﷺ نے اذان کے متعلق صحابہ کرام ؓ سے مشورہ کیا ، کیا یہ مشورہ نبوت کے تحت آئے گا یا امامت کے تحت میں ؟ آیۂ توریت میں حصص بھی ازلی ابدی ہیں یا قاعدئہ توریث میں جو اصول مضمر ہے ، صرف وہی ناقابلِ تبدیل ہے اور حصص میں حالات کے مطابق تبدیلی ہو سکتی ہے؟ آیۂ وصیت کی وضاحت کیجیے ۔ کیا امام کو اختیار ہے کہ قرآن کی کسی مقرر کردہ حد ( مثلاً سرقہ کی حد) کو ملتوی کر دے اور اس کی جگہ کوئی اور حد مقرر کر دے ؟ اس اختیار کی بنا کون سی آیتِ قرآنی ہے؟ امام ایک شخص واحد ہے یا جماعت بھی امام کی قائم مقام ہو سکتی ہے ؟ ہر اسلامی ملک کے لیے اپنا امام ہو یا تمام اسلامی دنیا کے لیے ایک امام ہونا چاہیے؟ موخر الذکر صورت موجودہ فرقِ اسلامیہ کی موجودگی میں کیسے بروے کار آ سکتی ہے؟ حضرت عمر ؓ نے طلاق کے متعلق جو طریقہ اختیار کیا، اگر اس کا اختیار انہیں شرعاً حاصل تھا تو اس اختیار کی اساس کیا تھی؟ زمانۂ حال کی زبان میں آیا اسلامی کانسٹی ٹیوشن ان کو ایسا اختیار دیتی تھی؟ فقہا کے نزدیک خاوند کو جو حق اپنی بیوی کو طلاق دینے کا ہے ، وہ بیوی کو یا اس کے کسی خویش یا کسی اور آدمی کے حوالے کیا جا سکتا ہے ، اس مسئلے کی بنا کوئی آیت قرآنی ہے یا حدیث؟ امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک طلاق یا خاوند کی موت کے دو سال بعد بھی اگر بچہ پیدا ہو تو قیاس اس بچے کے ولد الحرام ہونے پر نہیں کیا جا سکتا ۔اس مسئلے کی اساس کیا ہے ؟ کیا یہ اصول محض ایک قاعدہ شہادت ہے یا جزوِ قانون ہے؟ ’’شمس بازغہ‘‘ یا ’’صدرا ‘‘ میں جہاں زمان کی حقیقت کے متعلق بہت سے اقوال نقل کیے گئے ہیں ان میں ایک قول یہ ہے کہ زمان خدا ہے ’’بخاری‘‘ میں ایک حدیث بھی اسی مضمون کی ہے ، لاتسبوا الدھر الخ ، کیا حکمائے اسلام میں سے کسی نے یہ مذہب اختیار کیا ہے ؟ اگر ایسا ہے تو یہ بحث کہاں ملے گی ؟ قرون وسطی کے ایک یہودی حکیم موسیٰ بن میمون نے لکھا ہے کہ خدا کے لیے کوئی مستقبل نہیں ہے بلکہ وہ زمان کو لحظہ بہ لحظہ پیدا کرتا ہے، میمون نے قرطبہ میں مسلم یونیورسٹیوں میں تعلیم پائی ، اس لیے کیا اس کا یہ مذہب بھی کسی مسلم حکیم کی خوشہ چینی ہے ؟ مولانا شبلی نے ایک فقرہ شعائر دار تفاقات کے متعلق نقل کیا ہے: وہ شعائرالدین امر ظاہر تخصیص بہٖ و یمتاز صاحبہ بہٖ فی سائرالا دیان کا لختان و تعظیم المساجد و الاذان و الجمعۃ و الجماعات ۔ کیا یہ شاہ ولی اللہ کی اپنی تشریح ہے؟ اسی طرح ارتفاقات میں شاہ ولی اللہ کی تشریح کے مطابق تمام تدابیر جو سوشل اعتبار سے نافع ہوں ، داخل ہیں، مثلاً نکاح و طلاق کے احکام وغیرہ ، اگر شاہ ولی اللہ کی یہ تشریح صحیح ہے تو سوسائٹی کا کوئی انتظام نہ رہے گا اور ہر ایک ملک کے مسلمان اپنے اپنے دستور و مراسم کی پابندی کریں گے ؟ اس کی وضاحت کیجیے ۔ ’’الکلام ‘‘ (یعنی علم کلام جدید) میں مولانا شبلی نے ’’حجتہ اللہ البالغہ‘‘ کے صفحہ ۱۲۳ کا ایک فقرہ عربی میں نقل کیا ہے ،جس کے مفہوم کا خلاصہ انہوں نے اپنے الفاظ میں بھی دیا ہے ۔ اس کے آخری حصے کا ترجمہ یہ ہے : اس بنا پر اس سے بہتر اور آسان طریقہ کوئی نہیں کہ شعارِ تعزیرات اور انتظامات میں خاص اس قوم کے عادات کا لحاظ کیا جائے، جن میںیہ امام پیدا ہوا ہے، اس کے ساتھ آنے والی نسلوں پر ان احکام کے متعلق چنداں سخت گیری نہ کی جائے ۔ اس فقرے میں لفظ شعار سے کیا مراد ہے ، اور اس کے تحت کون کون سے مراسم یا دستور آتے ہیں؟ کیا ’’حجتہ اللہ البالغہ ‘‘ میں کسی جگہ شعائر کی تشریح شاہ ولی اللہ نے کی ہے؟ شاہ ولی اللہ نے لفظ ارتفاقات استعمال کیا ہے ۔ مولانا شبلی نعمانی نے ایک جگہ اس کا ترجمہ انتظامات اور دوسری جگہ مسلمات کیا ہے ۔ ان کا اصل مقصود کیا ہے؟ شاہ ولی اللہ نے ارتفاقات کی چار قسمیں لکھی ہیں ، ان چار قسموں میں تمدنی امور مثلاً نکاح طلاق وغیرہ کے مسائل بھی آ جاتے ہیں ۔ کیا ان کے خیال میں ان معاملات میں بھی سخت گیری نہیں کی جاتی؟ محی الدین ابن عربی کی فتوحات یا کسی اور کتاب میں حقیقت زمان کی بحث کس کس جگہ ہے ؟ صوفیہ میں اگر کسی اور بزرگ نے اس مضمون پر بحث کی ہو تو اُس کا حوالہ دیجیے متکلمین کے نقطہ ٔ خیال سے حقیقت زمان یا آنِ سیال پر بحث کون سی کتاب میں ملے گی؟ ہندوستان میںبڑے بڑے اشاعرہ کون کون سے ہیں؟ ملا جونپوری کو چھوڑ کر کیا اور فلاسفہ بھی ہندی مسلمانوں میں پیدا ہوئے؟ ان کے اسماء اور تصانیف سے مطلع فرمائیے۔ ہندی مسلم فلسفی ساکن پھلواروی مصنف ’’تسویلاتِ فلسفہ ‘‘ کانام کیا ہے؟ کتاب مذکور کا نسخہ کہاں سے دستیاب ہوگا؟ مولوی نور الاسلام کا عربی رسالہ بابت ’’مکان‘‘ جورامپور میں ہے، کس زبان میں ہے؟ قلمی ہے یا مطبوعہ۔ مولوی نورالاسلام کا زمانہ کون ساہے مسئلہ آن کے متعلق ابھی تک مشکلات باقی ہیں ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فلاسفہ پر جو اعتراض ہمارے متکلمین نے کیے، وہ مسئلہ زمان کے متعلق خود ان کے افکار پر بھی عائد ہوتے ہیں ۔ مولوی سید برکات احمد نے دہر اور زمان میں امتیاز کر کے کسی قدر مشکلات کو کم کرنے کی کوشش کی ہے، مگر مسئلہ نہایت مشکل ہے ۔ اس پر مزید روشنی ڈالیے۔ اگر دہر ممتد اور مستمر ہے اور حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی ہے تو پھر مکان کیا چیز ہے ؟ جس طرح زمان دہر کا ایک طرح سے عکس ہے ، اسی طرح مکان بھی دہر ہی کا عکس ہونا چاہیے ، یعنی زمان اور مکان دونوں کی حقیقت اصلیّہ دہر ہی ہے۔ کیا یہ خیال محی الدین ابن عربی کے خیال کے مطابق صحیح ہے؟ کیا انہوں نے مکان پر بھی بحث کی ہے اور اگر کی ہے تو مکان اور دہر کا تعلق ان کے نزدیک کیا ہے؟ میں نے زمان و مکان کے مسئلے کے متعلق مطالعہ کیا ہے ، جس سے ظاہر ہوا کہ ہندوستان کے مسلم فلسفیوں نے بڑے بڑے مسائل پر غور و فکر کیا ہے اور اس غور و فکر کی تاریخ لکھی جا سکتی ہے ۔ یہ کام آپ کو کرنا چاہیے۔ آپ نے لکھا ہے کہ اسلامی ریاست کے امیر کو اختیار ہے کہ جب اُسے معلوم ہو کہ بعض شرعی اجازتوں میں فساد کا امکان ہے تو ان اجازتوں کو عارضی طور پر منسوخ کر دے ، بلکہ بعض فرائض کو بھی یونہی منسوخ کر سکتا ہے ۔ اس کا حوالہ کہاں ملے گا؟ کیا یہ صحیح ہے کہ مُتُعہ (نکاح موقت) حضرت عمرؓ سے پہلے مسلمانوں میں مروّج تھا اور حضرت عمرؓ نے اسے منسوخ کر دیا؟ کیا زمانۂ حال کا کوئی امیر بھی کسی امر کی نسبت ایسا فیصلہ کرنے کا مجاز ہے؟ ان معاملات کی ایک فہرست دیجیے جن کے متعلق رائے قائم کرنا امام کے سپرد ہے ۔ جرائم میں ایسے جرم ہیںجن کی تعزیر قرآن شریف میں مقرر ہے، ان کے متعلق امام کیونکر کوئی رائے دے سکتا ہے ۔ تواترِ عمل کی ایک مثال آپ کے نزدیک نماز ہے ۔ مالکیوں ، حنفیوں اور شیعوں میں جو اختلاف صورتِ نماز میں ہے ، وہ کیوںکر ہوا؟ احکامِ منصوصہ میں تو سیع اختیاراتِ امام کے اصول کیا ہیں؟ اگر امام توسیع کر سکتا ہے تو ان کے عمل کو محدود بھی کر سکتا ہے ۔ اس کی کوئی تاریخی مثال ہوتو واضح کیجیے؟ زمین کامالک قرآن کے نزدیک کون ہے ؟ اسلامی فقہا کا مذہب اس بارے میں کیا ہے ؟ ’’قاضی مبارک‘‘ میں شاید اس کے متعلق کوئی فتویٰ ہے وہ فتویٰ کیا ہے؟ اگر کوئی اسلامی ملک ( روس کی طرح)زمین کو حکومت کی ملکیت قرار دے تو کیا یہ بات شرع اسلامی کے موافق ہو گی یا مخالف ؟ کیا یہ بات بھی امام کی رائے کے سپرد ہوگی ؟ صدقات کی کتنی قسمیں اسلام میں ہیں ، صدقہ اور خیرات میں کیا فرق ہے؟ لفظ نبی کے دو معنی ہیں : خبر دینے والا اور مقامِ بلند پر کھڑا ہونے والا۔ اوّل الذکر نبی ہمزے کے ساتھ اور دوسرا بغیر ہمزے کے ۔ اس ضمن میں راغب اصفہانی نے ’’مفردات ‘‘ میں ایک حدیث بھی نقل کی ہے، یعنی آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ میںنبی بغیر ہمزے کے ہوں قرآن شریف میں جن ابنیاء کا ذکر ہے ان میں کون سے نبی بالہمزہ ہیں اور کون سے بغیر ہمزہ؟ یا سب کے سب بغیر ہمزے کے ہیں؟ اگر قرآنی انبیاء یا آنحضور ؐ نبی بغیر ہمزہ ہیں تو لفظ نبی کا مروّجہ انگریزی ترجمہ ’’پرافٹ ‘‘، جس کے معنی خبر دینے والا کے ہیں ، کیونکر درست ہو سکتا ہے ؟ لفظ نارکا رُوٹ عربی زبان میں کیا ہے؟ لفظ نجات کا رُوٹ کیا ہے اور رُوٹ کی رُو سے کیا معنی ہیں ۱۷ ۔ سوالات کے مطالعے سے یہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ ’’تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ ‘‘ کے موضوع پر خطبات تیار کرتے وقت اقبال کے سامنے کس قسم کے مسائل تھے۔ ان مقالات کو تحریر کرنے کے لیے پانچ برس لگے ۔ وعدہ چھ مقالات لکھنے کا تھا لیکن جنوری ۱۹۲۹ء تک صرف تین صحیح طور پر لکھے جا سکے اور یہی تین جنوبی ہند کے دورے کے دوران میں مدراس ، بنگلور ، میسور اور حیدرآباد دکن میں پڑھے گئے ۔ باقی تین خطبے ۱۹۲۹ء ہی میں مکمل ہوئے اور علی گڑھ میں نومبر ۱۹۲۹ء میں دیے گئے ۱۸ ۔ یہ پانچ سال کا عرصہ اقبال کی زندگی میں نہایت مصروفیت کا تھا ۔ عین ممکن ہے کہ ۱۹۲۵ء ہی میں انہوں نے خطبات کے سلسلے میں موضوعات کا انتخاب کیا اور ساتھ ہی ضروری مواد اکٹھا کر کے کتب کے مطالعے کا کام بھی شروع کر دیا ہو ۔ ان سالوں میں انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں تین مرتبہ انہوں نے ’’روحِ تمدنِ اسلامی‘‘ ، فلسفۂ اسلام اور قرآن کا مطالعہ ایسے موضوعات پر انگریزی میں مقالے پڑھے جو غالباً اسی سلسلے کی کڑیاں تھے۔ ۱۹۲۶ء کا سارا سال انہوں نے پنجاب کونسل کے انتخابات کی گہماگہمی میں گزارا ، ووٹ حاصل کرنے کے لیے لاہور کے گلی کوچوں کی خاک چھانی ، انتخابی جلسوں سے خطاب کیا اور جلوسوں میں شامل ہوئے ۔ بعدازاں کونسل کی مصروفیات شروع ہوئیں ۔ کونسل میں وہ سخت محنت اور تحقیق کے بعد تقریریں کرتے تھے اور ایسی تقریروں کی تیاری کے لیے بھی وقت درکار ہوتا تھا ۔ اسی طرح لاہور شہر میں فرقہ وارانہ فسادات کے دوران میں ایک مقامی سیاسی لیڈر کی مانند گلیوں اور بازاروں کے دورے کرتے ، مظلومین کی ڈھارس بندھاتے ، مفاہمت کراتے ، جو شیلے جلوسوں میں شریک ہو کر لوگوں کے جذبات قابو میں رکھنے کی کوشش کرتے ، یا پے در پے جلوسوں سے خطاب کرتے ۔ ۱۹۲۷ء سے لے کر ۱۹۲۹ء تک کی مدت میں انہوں نے مسلمانوں کی کُل ہند سیاسیات میں بھی بھرپور حصہ لیا ۔ کئی بار لاہور سے دہلی اور دہلی سے لاہور کے چکر کاٹے ۔ مسلم لیگ کا دو حصوں میںتقسیم ہونا ، سائمن کمیشن کا ورود ، نہرو رپورٹ ، آل پارٹیز مسلم کانفرنس کا انعقاد ، افغانستان کی یورش ، مسئلۂ فلسطین ، چودہ نکات ، لیگوں کا اتحاد ، پہلی گول میز کانفرنس کا اعلان ، اخباروں میں بیانات اور انٹرویو ، غرضیکہ سب ذہنی پریشانیوں کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ تھا، مگر اسی کیفیت میں انہوںنے اپنی شعری تخلیق ’’زبور عجم‘‘ شائع کی۔روزی کمانے کے لیے وکالت کا دھندا بھی جاری رکھا اور یونیورسٹیوں کے لیے پرچے بھی بناتے اور دیکھتے رہے ۔ حیرت کی بات ہے کہ مختلف نوع کی مصروفیات کے دوران میں وہ کیونکر فلسفے ایسے مشکل میدان میں کام کرنے کے لیے وقت نکالنے کے قابل ہو سکے ۔ یہ سب کچھ کس جذبے کی شدّت کے تحت عمل میں آیا؟ ان کے ذہنی کیمیا کا تجزیہ تو ممکن نہیں ، لیکن قوائے میں غیر معمولی تخلیقی صلاحیتوں کی نوعیت کیا تھی کہ ذہنی پریشانیوں کے ایک لامتناہی سلسلے میں بھی انہوں نے ادق فلسفیانہ مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور وہ بھی ایسی حالت میں جبکہ اظہار کے لیے انہیں مناسب الفاظ بھی ہاتھ نہ آتے تھے، مثلاً خود ہی تسلیم کرتے ہیں: بعض خیالات زمانۂ حال کے فلسفیانہ نقطۂ نظر کا نتیجہ ہیں ۔ ان کو ادا کرنے کے لیے اور بعض تاثرات کے اظہار کے لیے الفاظ ہاتھ نہیں آتے۱۹ ۔ جنوبی ہند کا سفر اوائل جنوری ۱۹۲۹ء سے شروع ہوا۔ اقبال کے ہمراہ چوہدری محمد حسین ، عبداللہ چغتائی اور علی بخش بھی گئے تھے۔ خوش قسمتی سے عبداللہ چغتائی اس سفر کی روز بروز کی روداد تحریر کرکے’’ انقلاب‘‘ میں اشاعت کے لیے بھیجتے رہے ، اس لیے سفر کی کچھ تفصیلات محفوظ ہو گئیں۲۰۔اقبال نے دسمبر ۱۹۲۸ء ہی میں سیٹھ جمال محمد ، صدر مسلم ایسوسی ایشن مدراس کو اپنے پروگرام سے مطلع کر دیا تھا ۔ چنانچہ آل پارٹیز مسلم کانفرنس کے اجلاس سے فراغت کے بعد ۲ جنوری ۱۹۲۹ء کو صبح ساڑھے آٹھ بجے بذریعہ فرنٹیئر میل ان کا چھوٹا سا قافلہ دہلی سے روانہ ہوا۔ ۳؍جنوری ۱۹۲۹ء کو دوپہر کے وقت وہ کولامبار (بمبئی) پہنچے ۔ سیٹھ اسماعیل کے صاحبزادے سیٹھ ہاشم اسماعیل اسٹیشن پر استقبال کے لیے موجود تھے، کیونکہ پہلے ہی سے یہ طے پایا تھا کہ بمبئی میں اقبال جتنا عرصہ ٹھہریں گے انہی کے مہمان ہوں گے ۔ سب نے دوپہر کا کھانا سیٹھ ہاشم اسماعیل کے ہاں کھایا۔ سیٹھ ہاشم اسما عیل کی اہلیہ بمبئی کے ایک مشہور سوداگر حاجی یوسف سبحانی کی بیٹی اور اعلیٰ درجہ کی تعلیم یافتہ خاتون تھیں ۔ انہوں نے اپنی اعلیٰ تعلیم جرمنی میں حاصل کی تھی ۔ جب اقبال کھانے سے فارغ ہو چکے تو بیگم ہاشم اسماعیل نے گوئٹے کی تصنیف ’’فائوسٹ‘‘ انہیں اس درخواست کے ساتھ بھجوائی کہ اس پر اپنے ہاتھ سے اپنا کوئی شعر لکھ دیں اقبال نے یہ شعر تحریر کیا:۔ کلام و فلسفہ از لوحِ دل فروشستم ضمیر خویش کشادم بہ نشتر تحقیق اور ساتھ فرمایا : یہ وہ نتیجہ ہے جس پر فائوسٹ کو پہنچنا چاہیے تھا، مگر وہ نہ پہنچ سکا۔ شام کو پانچ بجے سیٹھ ہاشم اسماعیل نے اقبال کے اعزاز میں گرنیز ہوٹل (متصل تاج ہوٹل) میں ایک پُر تکلف چائے کی دعوت کا اہتمام کیا تھا، جس میں بمبئی کی اہم شخصیات شریک ہوئیں ۔ اس کے بعد آٹھ بجے شب اقبال مسلم فیڈریشن بمبئی کے کھانے پر گئے۔ رات دس بجے وہ مدراس میل کے ذریعے مدراس کے سفر پر روانہ ہوئے ، وہ رات ،اگلا دن اور اگلی رات گاڑی میں گزری ۔ ۵؍جنوری ۱۹۲۹ء کی صبح ساڑھے سات بجے گاڑی مدراس اسٹیشن پر رُکی ۔ مدراس سے ایک اسٹیشن پہلے باسن برج کے مقام پر مدراس کے کسی معزز مسلم خاندان کی ایک ذوقِ ادب سے بہرہ ور لڑکی ، جس نے اقبال کے انتظار میں لاہور ہی میں ان سے خط و کتابت کی تھی، اپنے والد کی معیت میں اقبال کے استقبال کے لیے گاڑی میں آ بیٹھی ۔ مدراس اسٹیشن پر ایک ہجوم ان کے استقبال کے لیے موجود تھا جس میں بیشتر مسلمان تھے اور جنہوں نے ترکی ٹوپیاں پہن رکھی تھیں ۔ مدراس کے اکثر علماء و فضلا اور امراء و رئوساء بھی موجود تھے ۔ اقبال کے لیے گاڑی سے اترنا مشکل ہو گیا تھا ۔ اتنے میں سیٹھ جمال محمد کے صاحبزادے اور ان کے سیکرٹری عبدالحمید حسن گاڑی کے اندر آ گئے اور انہوں نے اقبال کو پھولوں کے ہار پہنائے ۔ بڑی مشکل سے انہیں گاڑی سے باہر نکالا گیا۔ عبدالحمید حسن نے لوگوں سے مخاطب ہو کر؛ بآواز بلند کہا کہ رستہ چھوڑ دیں تاکہ ہر شخص کو اقبال سے ملنے کا موقع مل سکے ۔ پھر پلیٹ فارم پر عمائد و معززین کا تعارف اقبال سے کرایا گیا ۔ بعدازاں وہ سیٹھ جمال محمد کے ساتھ موٹر کار میں اپنی قیام گاہ بوسو ٹو ہوٹل پہنچے، جو سیٹھ جمال محمد ہی کی ملکیت تھا۔ ناشتا یہیں کیا گیا۔ دوپہر کا کھانا سیٹھ جمال محمد کی علی شان رہائش گاہ پر تھا ۔ چار بجے شام مدرسہ جمالیہ میں دعوت چائے تھی ۔ یہ مدرسہ یتیم اور غریب مسلم طلبہ کے لیے سیٹھ جمال محمد کے والد نے ایک وقف کی صورت میں قائم کیا تھا اور کئی عمارتوں پر مشتمل تھا، جن میںجمالیہ ہوسٹل کی عمارت بھی شامل تھی ۔ ہوسٹل میں مدراس کے کالجوں کے مستحق مسلم طلبہ مفت اقامت گزیں تھے اور سکونت کے علاوہ انہیں کھانا بھی سیٹھ جمال محمد کی طرف سے ملتا تھا ۔ مزید برآں ہر طالب علم کو سات روپے ماہوار کالج کی فیس کی ادائیگی کے لیے دے دیے جاتے تھے۔ ہال میں اسلامی کتب کی ایک بڑی لائبریری تھی۔ مدرسہ میں اسلامیات کے مضمون کے لیے ندوہ کے فارغ التحصیل مدرّس تھے اور انگریزی یا ریاضی وغیرہ ایسے مضامین پڑھانے کے لیے ہندو مدرّس بھی رکھے گئے تھے ۔ اقبال اساتذہ اور طلبہ سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ پانچ بجے شام کو کھلے ہال میں اقبال کا پہلا خطبہ ’’دینیاتِ اسلامیہ اور افکار حاضرہ‘‘ کے موضوع پر تھا ۔ ہال لوگوں سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا ۔ ان میں بیشتر مسلمان تھے، لیکن ہندو بھی کم تعداد میں نہ تھے ۔ صدارت کے فرائض ڈاکٹر سبرائن چیف منسٹر مدراس نے انجام دیے۔ جلسے کا آغاز تلاوتِ قرآن مجید سے ہوا۔ اقبال نے ایک گھنٹے سے کچھ منٹ زیادہ اپنا مقالہ پڑھنے میں لیے۔ مقالے کے اختتام پر ڈاکٹر سبرائن نے تقریر کرتے ہوئے کہا: میرے لیے باعث عزت ہے کہ ہندو ہونے کے باوجود اسلامی فلسفے پر لکچر کی صدارت کے لیے منتخب کیا گیا ہوں۔ میں خوش ہوں کہ اس صوبے کے مسلمانوں کا زاویۂ نگاہ صحیح ہے۔ اسلام نے مشرق کو بلکہ ساری دنیا کو اخوت کا سبق دیا ہے ۔ ہم ہندو ذات پات اور قومی امتیازات میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ ہمیں اسلامی تہذیب اور اسلامی کلچر سے اخوت کا سبق سیکھنا ہے۔ میں یہاں غیر برہمن کی حیثیت سے تقریر نہیں کر رہا اور نہ اس نقطۂ خیال سے ذات پات کے خلاف کہہ رہا ہوں ۔ ہندوئوں اور مسلمانوں کو یکجا کرنے اور تمام ہندوستانی اقوام میںا تحاد پیدا کرنے کے لیے ہمیں اسلامی اخوت کو دلیل راہ بناناہے ۲۱۔ جلسے کے اختتام پر عبدالحمید حسن نے پہلے سے تیار کردہ مقالے کے خلاصے کی نقول اخباری نمائندوں کو دیں۔ رات کو نہایت پُرتکلف دعوت عبدالحمید حسن کی طرف سے تھی اور اس میں جدّت یہ تھی کہ ارود میں مطبوعہ نظامِ طعام کا کارڈ ہر مہمان کے سامنے میز پر رکھا تھا ۔ کارڈ پر یہ تحریر تھا۔ نظامِ طعامِ دعوتِ اقبال شنبہ ۵؍ جنوری ۱۹۲۹ء مقام دو کوچہ دانیار شیرازی شربت ہندی مرغ و نان مدراسی بریانی دلی بریانی حلوہ گاجر زعفرانی پیوسی فواکہات ہندوستانی قلفی المکلف عبدالحمید حسن رات گئے ہوٹل واپسی پر سیٹھ جمال محمد ، عبداللہ چغتائی سے اقبال کا مقالہ پڑھنے کی غرض سے لے گئے ۔ اگلی صبح ناشتا کے بعد جب وہ ہوٹل آئے تو مقالہ واپس کر دیا ۔ اسی دوران میں اقبال بھی ناشتا سے فارغ ہو چکے تھے ۔ سیٹھ جمال محمد نے مقالے کے حوالے سے ان سے چند امور کے متعلق استفسار کیے، جن کا اقبال نے تسلی بخش جواب دیا ۔ سیٹھ جمال محمد صرف بین الاقوامی تاجر یا ہندوستان میں مسلمانوں کے برلا ہی نہ تھے، بلکہ اعلیٰ درجے کے علم و فضل کے مالک تھے۔ یورپ اور اکثر بلاد اسلامیہ کا سفر کر چکے تھے ۔ حاجی بھی تھے، لیکن سادگی کا یہ عالم تھا کہ سر پر پگڑی باندھتے تھے ۔ تہمد کُرتا زیب تن کرتے اور ڈاڑھی بھی رکھی ہوئی تھی ۔ اقبال ان سے بے حد متاثر ہوئے اور ان کی بلند فہمی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس شخص نے مقالہ پڑھ کر بعض ایسے امور کے متعلق سوال کیے جن کا مجھے وہم و گمان بھی نہ تھا ۔ پھر فرمایا: اللہ اللہ یہ انسان ایک کروڑ سالانہ کی تجارت کرتا ہے ۔ تہمد کُرتا پہنتا ہے اور حقیقت روح و مادہ جیسے مسائل پر انگریزی اردو میں گفتگو کرتا ہے ۔ اس کو فکر د امنگیرہے کہ مسلمانوں کی قدیم اور نئی تعلیم کا حقیقی اتصال ہو اور اسلام اپنی اصلی شان میں دنیا پر ظاہر ہو ۔ مسلمانوں میں ایسے افراد پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ جب تک یہ قسم پیدا نہ ہو گی ، نصب العین تک رسائی محال ہے۔ اصل میں سیٹھ جمال محمد کی تمام مساعی مرکوز ہی اسی ایک نقطہ پر تھیں ۔ عبداللہ چغتائی ان کی شخصیت کے متعلق اپنے تاثرات یوں بیان کرتے ہیں: پرانی مذہبی تعلیم اور عہد حاضر کے علوم و فنون کی تعلیم کو کس طریق پر آمیزش دی جائے کہ مُلّا عہد حاضر کا تعلیم یافتہ بن جائے اور عہد حاضر کا تعلیم یافتہ مُلّا نہ سہی مسلمان بن کر دنیا میں رہے۔ یہ آپ کی نیک سرگرمیوں کا سب سے بڑا نصب العین ہے ۔ آپ سائنس کے مسائل پر عالمانہ گفتگو کرتے ہیں۔ قرآنی آیات سے بعض ایسے مسائل کا استنباط نہایت خوبی سے کرتے ہیں۔ آپ شاکی ہیں کہ گذشتہ دو صدیوں بلکہ اس سے زیادہ عرصے سے حضرات علماء نے اپنے فرائض تبلیغ و تعلیم میں حالات شناسی سے کام نہیں لیا۔ تاہم وہ اس قدر موردِملامت بھی نہیں ۔یہ صورت حالات ایک وجہ سے نہیں ، بیسیوں وجوہ سے قوم کو دیکھنی پڑی ہیں ۔ تاہم گذشتہ ، گذشتہ تھا ، اس پر واویلا مفید نہیں ہو سکتا ۔ عہد حاضر کے علماء و زعما کو قدیم ونو اس طرح ترکیب دینا چاہیے کہ تمام گذشتہ کوتاہیوں کی تلافی ہو جائے اور دنیا پھر اس ’’مسلم‘‘ کو دیکھ سکے جس کا دنیا میں پیدا کرنا قرآن کا مقصد ، پیغمبر اسلام کا مقصد اور خدائے دوجہاں کا مقصد تھا ۔ اقبال ۸؍جنوری ۱۹۲۹ء تک مدراس میں رہے اور یہ چار دن نہایت مصروفیت کے عالم میں گزرے۔۶؍جنوری ۱۹۲۹ء کو گو کھلے ہال میں انہوں نے دوسرا مقالہ ’’مذہبی تجربات کے کشف و الہامات کا فلسفیانہ امتحان ‘‘ پڑھا ۔ اسی دن صبح اخبار ’’سوراجیہ‘‘کے خصوصی نمائندے کو انٹرویو بھی دیا ، جس میں فرمایا کہ وہ مذہب کو سوراج پر مقدم خیال کرتے ہیں اور انہیں ایسے سواراج سے کوئی واسطہ نہیں جو مذہب سے بے نیاز ہو، مگر اس کے ساتھ ایشیا کے لوگ یورپ کے خالص مادی روّیے کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے ، اس لیے اُس کے سامنے اصل مسئلہ یہی ہے کہ روحانی اور مادی امور کو کس طرح یکجا جمع کیا جائے۔ اقبال کے نزدیک جدید تُرک روحانیت اور مادیت کے مطلوبہ اجتماع کو حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ بہر حال وہ ان کی طرف سے مایوس نہیں ہیں ، مگر ان کے عقیدے کے مطابق باشندگانِ ہندوستان اس کارِ عظیم کو انجام دے سکتے ہیں اور پرانی دنیا کے کھنڈروں پر نئے آدم کے لیے نئی دنیا تعمیر کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔ ان کی رائے میں نوجوانوں کی ایسی باتیں کہ مذہب کو بالائے طاق رکھ کر تمام تر توجہ سیاسیات پر دینی چاہیے ، یورپ کی غلامانہ تقلید کے سوا اور کچھ نہیں ہیں ، ترکوں کی ناکامی کی زبر دست وجہ بھی یہی ہے کہ انہوں نے یورپ کی نقالی شروع کر دی تھی ۔ اگر وہ اس مسئلہ کا حل اسلام کی وساطت سے ڈھونڈتے تو معاملہ مختلف ہوتا، کیونکہ اسلام تخیل اور حقیقت یعنی روحانیت اور مادیت کے درمیان تطابق پیدا کرنے کی نہایت کامیاب کوشش ہے ۔ انہوں نے واضح کیا کہ ایشیا اور افریقہ کے مسلمانوں کو زندہ رہنے کی خاطر دنیائے جدید میں داخل ہونا پڑے گا، لیکن اس داخلے کے وقت صرف وہی لوگ محفوظ رہیں گے جو عہد حاضر کو بنانے اور بگاڑنے والی قوتوں سے پورے طور پر باخبر ہوں گے ۔ پان اسلامزم سے متعلق سوال کے جواب میں ارشاد کیا کہ اس لفظ کے متعلق یورپ اور ایشیا میں بڑی غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں ۔ سب سے پہلے یہ اصطلاح ایک فرانسیسی اخبار نویس نے وضع کی تھی اور اس کا مقصد یورپ کو مسلم اقوام کے اتحاد کے خیالی اندیشہ سے متنبہ کرنا تھا ۔ سو یہ لفظ بھی ’’زرد خطرے ‘‘ کی طرح تھا جو ایسے ہی مقصد کے لیے گھڑا گیا تھا ۔ جہاں تک معانی کا تعلق ہے پان اسلامزم کی کوئی تحریک موجود نہیں۔ کیمبرج کے پروفیسر برائون بھی اس خیال کو بے بنیاد ثابت کر چکے ہیں ۔ اگر اس لفظ کے کوئی معنی ہیں تو یہی کہ اخوتِ اسلام کا دوسرا نام پان اسلامزم ہے۔ لفظ پان اسلامی لغت میں موجود نہیں کیونکہ اسلام اس تجربے کا نام ہے جو نسل ، رنگ ، زبان ، قوم اور ملک سے بالا ہو کر انسان کو یکجا کرنے کے لیے کیا گیا ۔ ۷؍جنوری ۱۹۲۹ء کو اقبال نے گوکھلے ہال میں اپنا تیسرا مقالہ پڑھا ۔ تینوں لیکچروں میں عظیم الشان اجتماع دیکھنے میں آیا اور مدراس کے اکثر و بیشتر انگریزی اخباروںمیں لکچروں کے اقتباسات شائع ہوتے رہے ۔ اسی دن انہیں انجمن خواتین اسلام مدراس نے اپنے اجلاس منعقدہ ٹاکراس گارڈن میں مدعو کر رکھا تھا ۔ اس جلسے کی روح رواں مسز عبدالسلام تھیں جو وہاں کے پوسٹ ماسٹر جنرل کی اہلیہ تھیں ۔ اقبال کی خدمت میں ایک سپاسنامہ بھی پیش کیا گیا ۔ عبداللہ چغتائی کے بیان کے مطابق تما م مستورات پردہ میں تھیں اور اقبال پردے کے باہر بیٹھے تھے ۔ سپاسنامہ میں اقبال کی دینی ، علمی اور ادبی خدمات کا ذکر کیا گیا ۔ مگر مندرجہ ذیل حصہ غالباً ان کی خصوصی توجہ اور جواب کے لیے شامل کیا گیا تھا : آپ سے یہ عاجزانہ التماس کرنا غیر موزوں اور نامناسب نہ ہو گا کہ آپ ہم اسیرانِ قفس کے لیے بھی اپنے قیمتی اوقات سے کچھ تھوڑا سا وقت وقف فرمائیں اور طبقہ ٔ نسوانِ اسلام کی شرعی آزادی کے لیے نغمہ سنجی فرمائیں ۔ ہم اسیرانِ قفس کی حالت ناگفتہ بہ ہے ، اس کے انسداد کے لیے کوئی ایک پُر جوش نظم لکھ کر سوتے ہوئے جذبات کو بھڑکائیے ۔ مولانا حالی کے ہم مرہونِ منت ہیں کہ انیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں ان کے کلام نے طبقۂ نسواں کا رتبہ بلند کر دیا ۔ ان کی ’’چپ کی داد‘‘ نے ہماری عزت بڑھا دی ۔ ان کے اشعار نے اسلامی گھروں میں آزادیٔ نسواں کی جھلک بتا دی ، لیکن اب بھی بہت سے گھرانے موجود ہیں، جہاں آزادی کا نام نہیں ہے، حالانکہ دنیا میں مرد عورت کے توقعات ایک دوسرے سے یکساں ہوتے ہیں اور اسلام نے مساوات کی تعلیم دی ہے ۔ ہم بہت رنج سے دیکھتی ہیں کہ مردوں کی جانب سے عورتوں کے حقوق کے متعلق سخت بے پروائی برتی جاتی ہے ۔ ہم آپ سے درخواست کرتی ہیں کہ آپ اس کی اصل وجوہ پر مفصل روشنی ڈالیں ۔ ہم یہ کہنا نہیں چاہتے کہ ہمارے بھائی جو ہماری ہی ماں سے پیدا ہوتے ہیں ۔ سخت ظالم و سفاک ہوتے ہیں ، ہرگز ہرگز نہیں۔ لیکن ہم کو اس بات کا رنج ہے کہ فرقۂ اناث کے ساتھ بے انصافی کرنے اور ان کے حق تلفی کرنے کی بنیاد خود والدین کے گھروں میں ہی ڈالی جاتی ہے۔ ماں باپ دونوں فریق میں افراط و تفریط و فرق کو ہمارے ساتھ ساتھ پرورش کرتے ہیں ۔ لڑکی کو لڑکے کے مقابلے میں کھانے پینے کے علاوہ تقسیمِ املاک میں بھی اس کو محروم کر دیتے ہیں ۔ لڑکی اگر بدقسمتی سے بیوہ ہو جاتی ہے تو ظالم ماں باپ اپنی خاندانی عزت و عظمت بچانے کے لیے اس کی شادی نہیں کر دیتے ۔ ان کو بھائیوں اور چچائوں کے دست نگر بنا کے تباہ کر دیتے ہیں۔ اب عصر جدید میں ہر جگہ طبقۂ نسواں کی آزادی کی چیخ و پکار ہے۔ نئی تعلیم و روشنی کا فطری نتیجہ یہ ہے کہ اسلامی طبقۂ نسواں میں ان کے شرعی اور جائز حقوق آزادی اور مساوات ان کو حاصل ہوں۔ اسلام کی سچی اور زندہ روح اسلامی مستورات میں ہی ہے اور اسلامی صنفِ نازک نے زندہ آگ میں جل جل کربھسم ہو ہو کر اپنے ایثار کا ثبوت دیا ہے ۔ خاتمہ پر آپ کی تضیع اوقات کی معافی چاہتے ہیں اور امید قوی رکھتے ہیں کہ آپ زمانہ قریب میں طبقۂ نسواں کی بہبودی و آزادی کی ترانہ سنجی فرمائیں گے اور فرقہ ٔ اناث اس کار خیر کی ہمیشہ ممنون و شکر گزار رہے گی ۲۲۔ اقبال نے سپاسنامہ کے جواب میں جو تقریر کی وہ اتفاق سے محفوظ ہے۔ آپ نے فرمایا۲۳: میرا یہ عقیدہ رہا ہے کہ کسی قوم کی بہترین روایات کا تحفظ بہت حد تک اس قوم کی عورتیں ہی کر سکتی ہیں ۔ اگر چہ انحطاط کے دور میں عورت کے حقوق سے بے پروائی ہوئی ، مسلمان مردوں نے مسلمان عورتوں سے تغافل برتا ، لیکن عورت باوجود اس تغافل کے اپنا منصب پورا کرتی رہی ۔ کوئی ایسا شخص نہ ہوگا جو اپنی ماں کی تربیت کے اثرات اپنی طبیعت میںنہ پاتا ہو یا بہنوں کی محبت اس کے دل پر اپنا نشان نہ چھوڑتی ہو، وہ خوش نصیب شوہر جن کو نیک بیویاں ملی ہیں ، خوب جانتے ہیں کہ عورت کی ذات مرد کی زندگی کے ارتقاء میں کس حد تک اس کی ممدو معاون ہے ۔ مجھے یہ بتلانے کی ضرورت نہیں کہ اسلام میں مرد و زن میں قطعی مساوات ہے۔ میں نے قرآن پاک کی آیت سے یہی سمجھا ہے۔ بعض علماء مرد کی فوقیت کے قائل ہیں ۔ جس آیت سے شک کیا جاتا ہے ، وہ مشہور ہے ، الرجال قوامون علی النساء عربی گرامر کی رو سے قائم کا صلہ جب اعلیٰ پرآئے تو معنی محافظت کے ہو جاتے ہیں۔ ایک دوسری جگہ قرآن حکیم نے فرمایا : ھن لباس لکم وا نتم لباس لھن لباس بھی محافظت کے لیے ہوتا ہے ۔ مرد عورت کا محافظ ہے ۔ دیگر کئی لحاظ سے بھی مرد و عورت میں کسی قسم کا فرق نہیں، قرون اولیٰ میں عورتیں مردوں کے دوش بدوش جہاد میں شریک ہوئیں ۔ خلفائے عباسیہ کے عہد میں ایک موقع پر خلیفہ کی بہن قاضی القضاۃ کے عہدہ پر مامور تھیں اور خود فتویٰ صادر کرتی تھیں ۔ اب یہ مطالبہ ہے کہ عورت کو ووٹ کا حق ملنا چاہیے ۔ خلافت اسلاْمیہ میں خلیفہ کے انتخاب میں ہر شخص کو رائے دینے کا حق حاصل تھا ۔ نہ صرف مرد بلکہ عورتیں بھی خلیفہ کے انتخاب میں اپنی آواز رکھتی تھیں ۔ اسلام تمام معاملات میں اعتدال کو مدنظر رکھتا ہے ۔ عورت کے بحیثیت عورت اور مرد کے بحیثیت مرد بعض خاص علیٰحدہ علٰیحدہ فرائض ہیں۔ ان فرایض میں اختلاف ہے، مگر اس سے نتیجہ نہیں نکلتا کہ عورت ادنیٰ ہے اور مرد اعلیٰ ۔ فرائض کا اختلاف اور وجوہ پر مبنی ہے ۔ مطلب یہ کہ جہاں تک مساوات کا تعلق ہے ، اسلام کے اندر مرد و زن میں کوئی فرق نہیں ۔ تمدنی ضروریات کی وجہ سے فرائض میں اختلاف ہے ۔ اسلام نے عورت کو کسی طرح مرد سے ادنیٰ درجہ پر نہیں رکھا ۔ سب سے پہلے یہ دیکھیے کہ ماں بچوں کی وراثت کا حق رکھتی ہے ۔ یورپ کے کئی ملکوں میں اب تک آپ کی بہنوں کو علیٰحدہ جائداد کا حق حاصل نہیں ۔ اولاد کی ولایت کا حق انگریز ماں کو اِس وقت تک بھی نہیں ۔ اسلام میں یہ حق ہمیشہ سے موجود ہے۔ ان تمام امور میں یورپین قومیں یا تو اسلام کا تتبع کر رہی ہیں یا خود فطرت نے اب انہیں اس طرف توجہ دلا دی ہے ۔ یورپ میں طلاق حاصل کر لینا مشکل تھا ۔ مسلمانوں میں یہ شکایت کبھی خاص طور پر پیدا نہیں ہوئی ۔ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسلام میں عورت کو مرد کی طرح طلاق دینے کا حق نہیں۔ آپ کو شاید معلوم نہیں کہ ہمارے علماء نے کبھی اس بات کی توضیح ہی نہیں کی کہ نکاح کے وقت عورت کہہ سکتی ہے کہ جو حق اسلام نے طلاق کا تم کو (مرد کو) دیا ہے ، وہی اس وقت مجھے (عورت کو) دے دو تو پھر نکاح ہو گا یا یہ حق میرے کسی قریبی تعلق رکھنے والے کو دے دیا جائے ۔آپ نے اپنے لیے ایڈریس میںاسیران قفس ، کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اس سے مجھے مغربی عورتوں کی اس تحریک کا خیال ہوا جسے ترکی میں یا اور جگہ یورپ میں ایمنسی پیشن(مردوں کے غلبہ سے آزادی) کے لفظ سے تعبیر کیا جاتاہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ جن باتوں کو لفظی قیود سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ وہ اپنی اصل میں قیود ہیں یا نہیں ۔ پردے کے متعلق اسلام کے احکام واضح ہیں۔ ’’غض بصر ‘‘کا حکم ہے اور وہ اس لیے کہ زندگی میں ایسے وقت بھی آتے ہیں جب عورت کو غیر محرم کے سامنے ہونا پڑتا ہے ۔ خاص اس وقت کے لیے یہ حکم ہے ، دیگر حالات کے لیے اور احکام ہیں ۔ پردے کے سلسلے میں اسلام کا عام حکم عورت کو یہ ہے کہ وہ اپنی زینت کو ظاہر نہ کرے ۔ پھر اسلام میں تعددِ ازدواج کا حکم نہیں دیا گیا ، محض اجازت ہے ۔ یہ سچ ہے کہ مسلمان مردوں نے اس اجازت سے بے جافائدہ اٹھایا ۔ اس میں اصول و قوانین کا کیاقصور؟ جب جنگ میں کسی قوم کے مردوں کی تعداد میں خاص کمی واقع ہو جائے تو آئندہ ملکی حفاظت کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ ایک مرد ایک سے زاید بیویاں کرے ۔ قرآن پاک نے انہی مصالح کو ملحوظ رکھ کر اس قسم کی اجازت دی ہے اس لیے فقہ میں ’’فرض ‘‘ اور ’’رخصت ‘‘ میں فرق کیا گیا ہے۔ رخصت ترک کی جا سکتی ہے۔ فرض ہرگز نہیں ۔ اگر نکاح کے وقت عورت مرد سے یہ مطالبہ کرے کہ تم اس رخصت کو اپنے حق میں ترک قرار دو ، جو تعددِ ازدواج کے متعلق از روئے قرآن تمہیں حاصل ہے ، تو وہ اس مطالبے کا حق رکھتی ہے ۔ اس سلسلے میں ایک الزام میں لڑکیوں کے باپوں کو بھی دوں گا کہ وہ نکاح کے وقت عورتوں کے حقوق پر نگاہ نہیں رکھتے ۔ مگر ایک الزام خود عورتوں کو بھی دیے بغیر نہیں رہ سکتا ، وہ یہ کہ کیوں بوقت ضرورت عورتیں مردوں سے قانونی ذریعے سے حقوق کا مطالبہ نہیں کرتیں؟ کیوں بھائیوں سے جائداد کا حصہ طلب نہیں کرتیں؟ افسوس ہے کہ ہندوستان میں اسلامی قانون کی عدالتیں قائم نہیں ، تاکہ یہ معاملے شریعت اسلامی کے ذریعے طے ہوں۔ گذشتہ پانچ یا چھ سو سال سے شریعت اسلامیہ جامد رہی ہے ۔ انگریزی قانون والے شریعت اسلامی کو نہیں سمجھ سکتے ۔ چند فقہ کی کتابیں مشہور ہیں جو آج سے پانچ چھ سو سال قبل لکھی گئی تھیں ۔ اس وقت جو فتوے دیے گئے وہ ان حالات کے مطابق تھے۔ آج حالات اور ہیں ۔ اب ان حالات کو ملحوظ رکھ کر شرعی مسائل پر غور کرنا چاہیے۔ اگر عورتیں اپنے حقوق کی حفاظت پر پورے طور پر آمادہ ہو جائیں اور وہ حق جو شریعت اسلامی نے عورتوں کو دے رکھے ہیں، آپ مردوں سے لے کر رہیں ، تو میں سچ کہتا ہوں کہ مردوں کی زندگی تلخ ہو جائے ۔ عورتیں بچوں کو دودھ پلانے کی اجرت طلب کر سکتی ہیں ۔ کھانا پکانے کی اجرت بذریعہ عدالت حاصل کر سکتی ہیں مردوں کو آپ الزام دیتی ہیں ، مگر آپ خود الزام سے بری نہیں ہیں ۔ آپ کو اپنے حقوق پر شدت کے ساتھ اصرار کرنا چاہیے ۔ وہ حق جس کا عورت انصاف و عقل کے ساتھ کبھی مطالبہ کر سکتی ہے ، وہ قرآن پاک نے دے دیا ہے ۔ ہاں ما در پدر آزادی کی شریعت نے کبھی اجازت نہیں دی ، نہ کوئی ہوش مند انسان کبھی اس کی خواہش کرے گا ۔ ہمیں تو ملک میں مسلمانوں کے اندر اس قسم کی راے عامہ پیدا کرد ینی چاہیے کہ جب تک یہ طے نہ پا چکے کہ آئندہ زندگی میں عورت کے کون کون سے حقوق ہوں گے ، اس وقت تک نکاح نہ پڑھا جائے ۔ یہ تحریک بہت زور سے شروع ہونی چاہیے ۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ مسلمان عورتیں مسلمان قوم کی بہترین روایات کی حفاظت کر سکتی ہیں ،بشرطیکہ وہ اصلاح کا صحیح اور عقل مندانہ رستہ اختیار کریں، اور ترکی یا دیگر یورپین ممالک کی عورتوں کی اندھا دھند تقلید کے درپے نہ ہو جائیں ۔ آپ کو لفظ آزادی پر نہیں جانا چاہیے ۔ آزادی کے صحیح مفہوم پر غور کرنا چاہیے ۔ یورپ کی آزادی ہم خوب دیکھ چکے ہیں ۔ یورپین تہذیب باہر ہی سے دیکھی جا رہی ہے ۔ کبھی اندر سے دیکھی جائے تو رونگھٹے کھڑے ہوں ۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قرآن پڑھیں ۔ اس کی تعلیم پر غور کریں۔ پنجاب میں تو اچھی اچھی عدالتوں میں کہہ دیتے ہیں کہ ہم رواج کے پابند ہیں شریعت کے پابند نہیں ۔ محض اس لیے کہ بیٹیوں کو جائداد میں حصہ نہ دینا پڑے۔ ہم کو کوشش کرنی چاہیے کہ ہم رواج کی قیود سے آزادی حاصل کریں ۲۳ ۔ تقریر ختم ہونے پر خواتین نے اصرار کیا کہ اقبال اپنی کوئی نظم سنائیں ، مگر اقبال نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اپنا کلام زبانی یاد نہیں اور یہ کہ وہ کوئی کتاب بھی ساتھ نہیں لائے۔ اس پر پردے میں سے بانگِ درا کے کئی نسخے باہر پھینک دیے گئے اور اقبال مجبور ہو گئے ۔ چنانچہ انہوں نے ’’بانگِ درا‘‘ کا ایک نسخہ اُٹھا لیا اور نظم ’’فاطمہ بنت عبداللہ ‘‘ پڑھ کر سنائی۔ مدراس میںکئی اداروں اور سیٹھ جمال محمد کے حلقۂ احباب نے اپنے اپنے گھروں میں اقبال کے لیے دعوتوں کا اہتمام کر رکھا تھا ۔ نیز عبدالحمید حسن نے بڑی فراخ دلی سے مختلف انجمنوں کی طرف سے دیے جانے والے سپاسناموں کے اجلاسوں کو اقبال کی طرف سے قبول بھی کر لیا تھا ۔ اقبال بطیب فاطر ہر دعوت اور جلسے میں شریک ہوئے تاکہ کسی کو بد اخلاقی کی شکایت پیدا نہ ہو ۔ انہیں مدراس میں اپنے قیام کے دوران میں مدرسۂ جمالیہ ، انجمن ترقی اردو ، ہندی پرچار سبھا ، اردو سوسائٹی گورنمنٹ محمڈن کالج ، انجمن ہلالِ احمر وغیرہ نے سپاسنامے پیش کیے اور اقبال نے ایسے سب مجمعوں سے خطاب بھی کیا ۔ مدراس کی سیر کے لیے وقت کم تھا ، لیکن اس کے باوجود سیٹھ جمال محمد نے انہیں فورٹ منرو ، پر یزیڈنسی اور کئی عالی شان عمارات کی سیر کرائی ۔ انہوں نے غیر برہمنوں کے درا دویدی فنِ تعمیرات کے مندر بھی دیکھے ۔ پھر ساحل کی سیر کے لیے نکل گئے ۔ ماہی گیروں کو مل کرمچھلیاں پکڑتے ہوئے دیکھا اور وہاں کا ایکوریم (ماہی خانہ) ان کی خاص توجہ کا مرکز بنا ۔ بعدازاں مدراس کے علاقے اڈیار میں گئے،جہاں تھیسوفسٹ فرقہ کے لوگ آباد تھے اور ان کی رہنما مسز اینی بسنت تھیں ۔ اس مقام پر بڑ کا ایک قدیم اور عظیم ایشان درخت تھا جس کی شاخیں وسیع رقبے میں پھیلی ہوئی تھیں اور وہ بجائے خود ایک قابل دید چیز تھی ۔ ۷؍جنوری ۱۹۲۹ء کی رات کو مسلم ایسوسی ایشن کی طرف سے انہیں الوداعی دعوت دی گئی ۔ اس دعوت میں شہر کے روسا اور اہلِ علم شریک ہوئے۔ اقبال کے سفرِ مدراس پر علمی اعتبارسے تبصرہ کیا گیا اور بعض لوگوں نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان کے مدراس آنے سے مسلمانوں میں خالص اسلامی تعلیم کے حصول اور فروغ کا ولولہ پیدا ہوا ہے۔ اس موقع پر عبدالحمید حسن اور سیٹھ جمال محمد نے مختصر تقاریر کیں ۔ بقول عبداللہ چغتائی اقبال نے جواب میں جو تقریر کی وہ دل کو ہلا دینے والی تھی ۔ اس میں مسلمانوں کے ماضی میں علوم و فنون کی ترقی کا ذکر کیا گیا اور ان کی موجودہ حالت پر تشویش کا اظہار کیا گیاتھا ۔ آخر میں انہوں نے سیٹھ جما ل محمد کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ مدراس کے مسلمانوں میں ایسے شخص کی موجودگی مغتنمات ِروز گار میں سے ہے۔ ۸ ؍جنوری ۱۹۲۹ء کی شام سے قبل سیٹھ جمال محمد بوسوٹو ہوٹل میں آئے اور اقبال کو خطبات کے اخراجات کے طور پر ایک چیک کے علاوہ نہایت نفیس کشمیری دُھسا بھی پیش کیا ۔ اسی طرح چوہدری محمدحسین ، عبداللہ چغتائی اور علی بخش کو پشمینہ کی اعلیٰ چادریں دیں گئیں اور یوں ان کے عمل نے اسلامی ثقافت کی ایک قدیم روایت کو زندہ کر دیا ۔ اسی شام بنگلور روانہ ہونے کی خاطر اقبال مدراس چھائونی ریلوے اسٹیشن پر پہنچے جہاں لوگوں کا ایک بہت بڑا ہجوم انہیں الوداع کہنے کے لیے موجود تھا ۔ ۹؍جنوری ۱۹۲۹ء کو صبح سوا چھ بجے گاڑی بنگلور چھائونی کے اسٹیشن پر رکی ۔ مسلمانانِ بنگلور ہزاروں کی تعداد میں اقبال کے استقبال کے لیے وہاں موجود تھے اور انہوںنے پھولوں کے بڑے بڑے ہار ، جوخاصے قیمتی تھے، ہاتھوں میں تھام رکھے تھے ۔ اسٹیشن کو خاص طور پر سجایا گیا تھا ۔ پلیٹ فارم پر مجمع میں سب سے نمایاں فخر التجار حاجی سر اسمعٰیل امین الملک وزیر اعظم ریاست میسور ،حاجی سیٹھ عبدالغفور ، کلیم الملک سید غوث محی الدین مدیر اخبار’’الکلام ‘‘ اور محمود خان محمود بنگلوری تھے ، جنہوں نے آگے بڑھ کر اقبال کو ہار پہنائے ۲۴۔ حاجی سر اسمٰعیل سیٹھ ، اقبال کے استقبال کے لیے مدراس کے ریلوے اسٹیشن پر بھی پہنچے تھے، اور مدراس ہی میں انہوں نے اقبال کو بنگلور میں اپنے ہاں ٹھہرنے کی دعوت دی تھی چنانچہ اقبال حاجی سر اسمٰعیل سیٹھ اور حاجی سیٹھ عبدالغفور کے ساتھ موٹر کار میں سوار ہو کر ان کی رہائش گاہ الکس لاج کی طرف روانہ ہوئے ۔ چونکہ لوگوں نے موٹر کار کے ساتھ بھاگنا شروع کر دیا تھا اس لیے تقریباً نصف میل اسے نہایت آہستہ چلانا پڑا۔ حاجی سر اسمٰعیل سیٹھ بنگلور کے ایک بہت بڑے رئیس تھے۔ بنگلور کا مشہور زنانہ ہسپتال جو گوشہ ہسپتال کے نام سے پکارا جاتا تھا، انہی کا قائم کردہ تھا ۔ کئی مساجد تعمیر کرا چکے تھے ۔ لاکھوں روپے مسلمانوں کی تعلیم پر خرچ کرتے تھے۔ بین الاقوامی تاجر بھی تھے ۔ تمام کاروبار انگریزوں کے ساتھ تھا ۔ گھر میں انگریز خاتون ملازم رکھی ہوئی تھی جو تمام اہم امور کی نگرانی کرتی تھی ۔ خود انگریزی بولتے تھے، لیکن انگریزی لکھنا نہ جانتے تھے ۔ ایک موقع پر اقبال سے کہنے لگے کہ ڈاکٹر صاحب میں انگریزی دان نہیں ہوں۔ اقبال نے جواب میں فرمایا کہ آپ انگریزی دان نہ سہی ’’انگریزدان ‘‘ تو ضرور ہیں، اس لیے آپ کو انگریزی جاننے کی کیا ضرورت ہے ۔ ان کی عمر تقریباًاسی سال تھی اور کانوں سے قدرے بہرے تھے گھڑ دوڑ کا بے حد شوق تھا چنانچہ ان کی کوٹھی میں ایک کمرہ ایسا تھا جسے لاتعداد انعامات سے سجایا گیا تھا ، جو ان کے گھوڑوں نے جیتے تھے، ان کا ایک لڑکا سیٹھ محمد انہی دنوں بیمار ہو کر لندن سے آیاتھااور کوٹھی میں مقیم تھا ۔ اقبال اور ان کے ہمسفروں کی رہائش کا انتظام اسی کوٹھی میں کیا گیا تھا ۔ اقبال ناشتا سے فارغ ہو کر سیٹھ محمد کی عیادت کے لیے ان کے کمرے میں گئے اور ان کی یورپین اہلیہ سے ہمدردی کا اظہار کیا ۔ دس بجے صبح مسلم لائبریری معسکر بنگلور کے زیر اہتمام اقبال کے اعزاز میں مہاتما گاندھی روڈ پر واقع اپرا ہائوس میں ایک جلسہ منعقد ہوا ، جس میں انہیں سپاسنامہ پیش کیا گیا ۔ جلسے کی صدارت امین الملک سر مرزا اسمعٰیل وزیر اعظم ریاست میسور نے کی ۔ اقبال نے اپنی جوابی تقریر میں دنیا کے اسلامی کتب خانوں پر روشنی ڈالی اور مسلم لائبریری کو ترقی دینے پر زور دیا اس کے بعد کتب خانہ میں کتابوں کا معائنہ فرمایا اور کتاب آراء میں تحریر کیا: جنوبی ہندوستان کے مسلمان نوجوان خصوصاً بنگلور کے مسلمانوں میں اسلامی کلچر کی اشاعت کا پورا احساس پیدا ہو چکا ہے،جس کو میں تمام ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے نیک فال تصور کرتا ہوں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ بنگلور کی مسلم لائبریری نے اس احساس کے پیدا کرنے میں بڑا حصہ لیا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ مستقبل قریب میں اس لائبریری کے اثر کا دائرہ اور بھی وسیع ہو جائے گا ۔ اراکین کتب خانہ کو چاہیے کہ تاریخ میسور کی قلمی کتابوں کی طرف بالخصوص توجہ فرمائیں ۲۵۔ اسی شام دوسرا جلسہ آرٹس اینڈ سائنس کالج کے میدان میں ہوا ۔ یہ جلسہ عام محکمہ تعلیم میسور کی طرف سے منعقد کیا گیا ۔ جس کی صدارت پروفیسر سبارائو نے کی ۔ اس میںبنگلور کے ہزاروں تعلیم یافتہ ہندو اور مسلمان جمع تھے۔ اس موقع پر اقبال نے ایک پُر مغز فلسفیانہ تقریر کی۲۶۔ رات کا کھانا بنگلور کے ایک اور مسلمان رئیس حجمان محمد علی کے ہاں تھا ۔ جس میں ہزار ہا معززین مدعو تھے دعوت کا انتظام میمن تاجروں کی روایات کے مطابق فرشی تھا۔ بنگلور میں مختصر قیام کے دوران میں اقبال کی ملاقات وہاں کے بیشتر شرفاء سے ہوئی اور حاجی اسمٰعیل سیٹھ کی کوٹھی میں ملنے والوں کا ایک تانتا لگا رہا ۔ اقبال کو اطلاع کر دی گئی تھی کہ اگلے روز بوقت دوپہر مہاراج میسور کی خاص موٹر کار انہیں لینے کے لیے آئے گی ۔ چنانچہ ۱۰؍ جنوری ۱۹۲۹ء کو تقریباً گیارہ بجے ریاست کے ایک رہنما افسر ایک بڑی موٹر کار لے کر وہاں پہنچ گئے ۔ حاجی سر اسمٰعیل سیٹھ کی کوٹھی پر موجود بنگلور کے سیکڑوں اہل علم نے اقبال کو الوداع کہی اور یوں اقبال اور ان کے ہمسفر موٹر کار میں سوار ہو کر میسور کی طرف روانہ ہوئے ۔ دریائے کادیری کا پل عبور کر کے کسی سڑک کے موٹر سے گزر رہے تھے کہ چند آدمیوں نے موٹرکار رکوالی ۔ ان میں ایک معمر شخص تھا۔ باقی افراد نے چائے سے بھری ہوئی چائے دانی اور پیالے اٹھا رکھے تھے ۔ وہ لوگ اقبال سے بڑی عقیدت مندی سے ملے اور انہیں چائے پیش کی ۔ بوڑھے شخص نے بتایا کہ اس نے لاہور کے انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں اقبال کو ’’نالۂ یتیم‘‘ پڑھتے سنا تھا اور وہ منظر اب تک اس کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ یہ سب کسی دور کے گائوں کے رہنے والے تھے اور بوڑھے شخص کے ساتھ اقبال کی ملاقات کے لیے صبح ہی سے آئے ہوئے تھے ۔ سفر پھر جاری ہوا ۔ رستے میں سوا سمدرم کے مقام پر ریاست میسور کا بجلی پیدا کرنے کا کارخانہ دیکھا اور بالآخر کوئی سوا چار بجے کے قریب میسور پہنچ گئے ۔ میسور ایک نہایت صاف ستھرا اور پُر فضا شہر ہے ۔ چونکہ یہی وقت مہاراج میسور سے ملاقات کا طے پا چکا تھا ۔ اس لیے موٹر کار انہیں سیدھی ریاست کے مہمان خانے میں لے گئی ۔ اقبال فوراً تیار ہو کر مہاراج میسور سے ملاقات کے لیے گئے اور کچھ عرصہ ان کے ساتھ گزار نے کے بعد واپس آ گئے ۔ شام کو چھ بجے میسور یونیورسٹی کے زیر اہتمام اقبال نے ایک لکچر یونیورسٹی ہال میں دینا تھا۔ اس جلسے کی صدارت چاندی ، وائس چانسلر کر رہے تھے۔ جب اقبال وہاں پہنچے تو ہال لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ۔ حاضرین میں یونیورسٹی کے پروفیسروں کے علاوہ شہر کے کئی برہمن اور غیر برہمن شرفاء و فضلا بھی موجود تھے ۔ اقبال نے مدراس میں پڑھے ہوئے تین مقالوں میں سے ایک مقالہ اس موقع پر پڑھا ۔ ۱۱ ؍ جنوری ۱۹۲۹ء کو ریاست میسور کی طرف سے ان کے لیے سلطان ٹیپو کے قلعہ سرنگاپٹم جانے اور وہاں قریب ہی سلطان ٹیپو کے مزار وغیرہ کی زیارت کرنے کا پروگرام تھا ۔ سو صبح تقریباً نو بجے سب موٹر کاروں میں سوار ہو گئے ۔ اس قافلے کی ایک موٹر کار میں میسور کے مشہور و معروف درباری موسیقار علی جان اپنے سازندوں سمیت موجود تھے ، جنہیں مہاراج میسور نے اقبال کی صحبت میں رہنے کے لیے خاص طور پر بھیجا تھا ۔ اقبال بارہ بجے کے قریب سلطان ٹیپو کے مقبرے یعنی گنبد سلطانی پر پہنچے ۔ مقبرے کے دروازے پر ریاست کی طرف سے ہر وقت نوبت بجتی رہتی ہے۔ روضہ سیاہ سنگ مرمر یا سنگ موسیٰ سے تعمیر کیا گیا ہے ۔ اقبال نے مزار کے اندر داخل ہوتے ہی قرآن مجید کی وہ آیت جو شہدا کے ضمن میں ہے (وہ جو اللہ کے راستے میں مارے گئے ، انہیں مردہ مت کہو ، وہ زندہ ہیں ۔ مگر لوگوں کو شعور نہیں ہے ) تلاوت فرمائی ۔ گنبدِ سلطانی میں تین قبریں ہیں۔ سیاہ غلاف والی قبر حیدر علی والد سلطان ٹیپو کی ہے ۔ اور دائیں طرف دو قبروں میں ایک سنہری قبر فاطمہ والدہ سلطان ٹیپو کی اور دوسری قبر جس پر سُرخ غلاف ہے ، سلطان ٹیپو شہید کی ہے۔ سُرخ رنگ دراصل شہید کی نشانی ہے ۔ سلطان ٹیپو نے خود اپنے والدین کو یہاں دفن کیا اور یہ مقبرہ تعمیر کرایا تھا ۔ مزار کے اندر کی فضا ایسی ہے کہ انسان پر ہیبت طاری ہو جاتی ہے ۔ اقبال نے جس عقیدے اور خلوص سے روضہ کے اندر فاتحہ خوانی کی ،اسے بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ روضے کے اندر چاروں طرف دیواروں اور تعویذوں پر کئی فارسی اشعار شہدا کی شان میں کندہ ہیں ۔ سلطان ٹیپو ۱۲۱۳ھ بمطابق ۱۷۹۹ء میں شہید ہوئے اور ان کی تاریخ شہادت ’’شمشیر گم شد ‘‘ کے الفاظ سے برآمد ہوتی ہے ۔ یہی تاریخ ان کے بیشتر سوانح نگاروں نے بھی تحریر کی ہے ۔ روضے سے باقی لوگ تو باہر چلے گئے ، لیکن تنہا اقبال ، سلطان شہید کی تربت کے قریب آنکھیں بند کیے دیر تک کھڑے رہے اور سب سے آخر میںباہر نکلے ۔ عبداللہ چغتائی لکھتے ہیں کہ میں نے جو منظر اقبال کا یہاں دیکھا اسے الفاظ میں تو ڈھالنا ممکن نہیں ۔ پھر بھی اس پر ایک الگ مضمون بعنوان’’ شمشیر گم شد‘‘لاہور واپس آ کر تحریر کیا جو ’’نیرنگ خیال ‘‘ میں طبع ہوا ۔ روضے کے قریب ایک چھوٹی سی مسجد ہے ۔ اس کے باہر صحن میں سب لوگ جا کر بیٹھ گئے اور علی جان نے نہایت سوز کے عالم میں اقبال کا اردو اور فارسی کلام گانا شروع کر دیا ۔ اقبال کے آنسووں کا سلسلہ نہ تھمتا تھا اور حاضرین پر بھی رقت طاری تھی ۔ علی جان یہ کیفیت دیکھ کر گھبرا گئے اور گاتے گاتے رک گئے ۔ اقبال نے بڑے اضطراب کے عالم میں کہا : رک کیوں گئے جاری رکھو ۔ سو علی جان گاتے رہے اور اقبال آنسو بہاتے رہے ۔ جب وہاں سے رخصت ہوئے تو میسور کے مشہور تاجر سیٹھ محمد ابا (عباس) نے، جو ان کے ساتھ تھے، پوچھا کہ سلطان شہید نے آپ کو کوئی پیغام دیا ۔ اقبال نے جواب دیا کہ ان کی معیت میںمیراایک لمحہ بھی بیکار نہیں گزرا۔ پھر فرمایا کہ ایک پیغام یہ ملا ہے: در جہاں نتواں اگر مردانہ زیست ہمچو مرداں جاں سپردن زندگیست یہ شعر اُس واقعے کی طرف اشارہ کرتا ہے ،جب سطان ٹیپو کو شہادت سے کچھ دیر قبل کسی مشیر نے رائے دی تھی کہ انگریزوں سے مصالحت کرلی جائے ، اور انہوں نے فوراً جواب دیا تھا کہ گیدڑ کی صد سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے ۲۷ ۔ بعدازاں رستے میں چار اور شعر بھی موزوں ہو گئے ، جو اقبال کے انتہائی ذاتی تاثرات پر مبنی تھے اور ان کے کسی مجموعۂ کلام میں شامل نہیں: آتشے در دل دگر بر کردہ ام داستانے از دکن آوردہ ام در کنارم خنجر آئینہ فام می کشم اورا بتدریج از نیام نگتۂ گویم ز سلطانِ شہید زاں کہ ترسم تلخ گردد روز عید پیشتر رفتم کہ بوسم خاک او تاشنیدم از مزارِ پاک او در جہاں نتواں اگر مردانہ زیست ہمچو مرداں جاں سپردن زندگیست (یعنی میں دکن سے ایک داستان اپنے ساتھ لایا ہوں ، جس نے میرے دل میں نئی حرارت پیدا کر دی ہے۔ میرے پہلو میں آئینے جیسا ایک چمکدار خنجر ہے جسے میں آہستہ آہستہ نیام سے باہر نکال رہا ہوں ۔ سلطان شہید کی طرف سے مجھے ایک نکتہ ملا ہے ۔ جسے بیان کیے دیتا ہوں ، گو مجھے خوف ہے کہ اسے سن کر کہیں تیری عید کی خوشیوں میں تلخی کا رنگ نہ بھر جائے ۔ میں جب ان کی خاک کو بوسہ دینے کی غرض سے وہاں تک پہنچا تو مزار پاک سے ندا آئی ؛ اگر جہاں میں مردوں کی طرح زندہ رہنا ممکن نہ ہو تو مردانہ وار جان قربان کر دینے ہی میں زندگی ہے) مزار سے سرنگا پٹم قلعے کی طرف روانہ ہوئے ۔ کوئی ایک بجے کے قریب اقبال دولت باغ پہنچے جو قلعے کی نزدیک ہے۔ سرنگا پٹم دراصل ایک جزیرہ ہے جو دریائے کاویری کی دو شاخوں کے درمیان واقع ہے۔ ایک حصے میں باغ اور قلعہ ہے جب کہ دوسرے حصے میں شہر آباد تھا ، جس کی آبادی سلطان ٹیپو کی شہادت کے چار پانچ سال بعد بھی دو تین لاکھ سے کم نہ تھی ، مگر اب یہ ایک ویرانہ ہے ۔مہاراج میسور کے مصاحب خاص صدیق الملک صادق زین العابدین شاہ ، اقبال کے استقبال کے لیے دولت باغ میں منتظر تھے ۔ دوپہر کی ضیافت طعام کا انتظام تھا ۔ دولت باغ میں سلطان ٹیپو کے زمانے کے درخت ابھی تک موجود تھے ۔سلطان ٹیپو کو قلعے کی عمارت اور باغ سے خاص انس تھا ۔ دولت باغ کے ایک طرف دریاے کاویری بہتا ہے اور اس کا منظر نہایت ہی دلفریب ہے ۔ کھانے سے فراغت کے بعد اقبال سرنگاپٹم قلعے کی سیر کو نکل گئے وہاں انہوں نے قلعے کی مسجد اعلیٰ ، وہ مقام جہاں سلطان ٹیپو کی شہادت واقع ہوئی ، زندان ، میر جعفر کی مفروضہ قبر، لنگڑے غلام علی کا مقبرہ ، وہ مندر جسے حیدر علی نے مرمت کر کے ہندووں کے لیے واگزار کیا تھا اور دیگر آثارِ سلطانی دیکھے محمود خان محمود بنگلوری ہر مقام کا تعارف کراتے اور تاریخی پس منظر بتاتے جاتے تھے۔ مسجد اعلیٰ کے بوڑھے امام سے اقبال کی ملاقات ہوئی ۔ معلوم ہو ا کہ ان کے دادا سلطان ٹیپو کے زمانے میں مسجد اعلیٰ کے امام تھے۔ انہوں نے اپنے والد کی روایت سے اقبال کو بتایا کہ سلطان ٹیپو مسجد کی عقبی دیوار کے دروازے سے مسجد میںنماز کے لیے آیا کرتے تھے ۔ اسی طرح دیوار پر سید غفار شہید ، سپہ سالار افواج سلطانی کی جو سلطان ٹیپو سے کچھ لمحے پیشتر شہید ہوئے ، تصویر دیکھ رہے تھے کہ کسی نے بتایا کہ رفیق سفر کلیم الملک سید غوث محی الدین مدیر اخبار ’’الکلام ‘‘ ان کے پڑپوتے ہوتے ہیں ، تو اقبال نے فرطِ عقیدت سے انہیں گلے سے لگا لیا سرنگاپٹم سے واپسی پر رستے میں سدِکاویری (کاویری ڈیم) دیکھا ۔ کاشتکاروں کو زراعت کے لیے وافر پانی فراہم کرنے کی خاطر اس بند کی بنیاد سلطان ٹیپو نے رکھی تھی ، لیکن اس کی تکمیل ان کی شہادت کے بعد ہوئی اور اب اسے کرشنا راج ساگر کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔سلطان ٹیپو کا بنیادی پتھر جس پر فارسی زبان میں کتبہ کندہ تھا ۔ اتفاق سے وہیں پتھروں میںپڑا مل گیا اور اسے مہاراج میسور کے حکم سے سدّ کے اوپر عام گزر گاہ کے قریب نصب کر دیا گیا ۔ کتبے کا انگریزی ترجمہ بھی مرمر کے ایک ٹکڑے پر کندہ کر کے ساتھ نصب کیا گیا اور ساتھ ایک باغ بھی لگوایا گیا جس کے فوارے بجلی کے زور سے چھوٹتے تھے اور عجیب و غریب منظر پیدا کرتے تھے۔ اقبال عصر کے قریب واپس میسور پہنچے۔ مہمان خانے میں تھوڑا آرام کرنے کے بعد چھ بجے شام اقبال ٹائون ہال گئے ،کیونکہ وہاں انہیں مسلمانان میسور کی طرف سے سپاسنامہ پیش کیا جانا تھا اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ ان کے منتظر تھے۔ اس جلسے کا اہتمام سیٹھ محمد ابا (عباس) نے کیا تھا ۔ صدارت نواب غلام احمد کلامی نے کی ۔ جلسے کا آغاز تلاوتِ قرآنِ مجید سے ہوا ۔ قاری مولانا ابوالمظفر تھے ۔ بعدازاں علی جان نے اپنے تمام سازندوں کے ساتھ اقبال کی چند نعتیہ نظمیں نہایت رقت آمیز سُروں میں گائیں ۔ پھر سیٹھ محمد ابا(عباس) نے سپاسنامہ پیش کیا ۔ اقبال نے جواب میں نہایت موثر تقریر کی ۔ ان کے بعد میسور یونیورسٹی کے فلسفے کے پروفیسر واڈیا نے منتظمین کی طرف سے چند اختتامی کلمات کہے جس میں اقبال کے پچھلے دن کے لکچر کی خوب تعریف کی اور کہا کہ اقبال کو مسلمان ہزار اپنا کہیں مگر وہ سب کے ہیں ، کسی ایک مذہب یا جماعت کی ملکیت نہیں۔ اگر مسلمانوں کو یہ ناز ہے کہ اقبال ان کا ہم مذہب ہے تو ہم ہندووں کو یہ فخر کچھ کم نہیں کہ وہ ہندوستانی ہے۔ ۱۲ ؍جنوری ۱۹۲۹ء کی صبح کو اقبال میسور یونیورسٹی کا شعبۂ نفسیات عملی دیکھنے گئے ۔ ڈاکٹر گوپال سوامی صدر شعبہ نے انہیں طلبہ سے ملوایا اور چند دلچسپ تجربے دکھلائے ان میں سے ایک تجربہ یہ تھا : ڈاکٹر گوپال سوامی نے اقبال کی نبض پر اپنے نفسیاتی آلہ کا تار باندھ دیا اور انہیں کہا کہ ایک سے دس تک کسی عدد کو اپنے ذہن میں رکھ لیں ۔ اقبال نے چھ کا عدد اپنے ذہن میں چن لیا ۔ ڈاکٹر گوپاک سوامی ایک دو گننے لگے ۔ جب چھ پر پہنچے تو آلے کا کانٹا زور سے حرکت کرنے لگا ۔ اس تجربے پر تبصرہ کرتے ہوئے اقبال نے بتایا کہ مثنوی رومی کی پہلی حکایت میں طبیب الٰہی بھی نبض کی رفتار میں فرق آ جانے کے ذریعے کنیزک کے مرض کی نوعیت معلوم کرلیتا ہے ۔ اور اسی طرح بو علی سینا نے بھی قابوس بن و شمگیر کے مرض کی تشخیص کی تھی ۔ سو آج سے کئی صدیاں قبل حکماء اسی اصول سے کام لیتے تھے ۲۹ ۔ بعدازاں اقبال میسور کے چند پرانے محلات دیکھنے گئے ۔ ایک مقام پر سلطان ٹیپو کی یاد میں پتھر میں تراشا ہوا شیر ان کی توجہ کا مرکز بنا ۔ بجلی کی ٹرالی کے ذریعے ایک پرانے مزار پر پہنچے ، کیونکہ سلطان ٹیپو اکثر وہاں جایا کرتے تھے ۔ چڑیا گھر دیکھا جہاں شیر بالکل کھلے پھرتے تھے ، لیکن انہیں علم نہ ہوا کہ درمیان میں ایک خندق حائل ہے جو دکھائی نہیں دیتی۔ اسی روز دوپہر کے کھانے کے بعد اقبال اپنے ہمسفروں کے ساتھ بذریعہ موٹر کار واپس بنگلور روانہ ہوئے ۔ رستے میں دو تین مقامات پر دیہاتیوں نے انہیں پھولوں کے ہار پیش کیے ۔ سلطان ٹیپو کے مزار کے قریب سے گزرتے وقت انہوں نے موٹر کار سے اتر کر ایک بار پھر فاتحہ پڑھی ۔ چاندپٹم میں حیدر علی اور سلطان ٹیپو کے پیروں کے مزار تھے ۔ وہاں بھی رکے اور فاتحہ کہی۔ شام پانچ بجے کے قریب بنگلور پہنچے ۔ چائے سر مرزا اسمٰعیل کے ساتھ نوش فرمائی ۔ ان کے گھر کا سارا ماحول ایرانی تھا ۔ چائے سے فارغ ہو کر سر اسمٰعیل سیٹھ کی کوٹھی پر پہنچ گئے ۔ رات کا کھانا بنگلور کے کسی تاجر محمد علی کے ہاں تھا ۔ تمام عمائد شہر وہاں مدعو تھے ۔ رات گئے سراسمٰعیل سیٹھ کی رہائش گاہ میں آ کر سوئے ۔ ۱۳؍ جنوری ۱۹۲۹ء کو صبح ساڑھے آٹھ بجے اقبال بنگلور سے میٹرگیج ریل پر حیدر آباد روانہ ہوئے ۔ عثمانیہ یونیورسٹی نے انہیں لکچروں کے لیے دعوت دے رکھی تھی جو قبول کر لی گئی تھی ۔ سید غوث محی الدین مدیر ’’الکلام ‘‘ بھی میسور سے ساتھ گئے ۔ اگلے روز یعنی ۱۴؍ جنوری ۱۹۲۹ء کو صبح جب گاڑی فلک نما سے گزر کر حیدر آباد کے اسٹیشن پر رکی تو پلیٹ فارم پر سیکڑوں مسلمان بچے قطاروں میں کھڑے’’ چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا ‘‘خوش الحانی سے پڑھ رہے تھے۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے رجسٹرار انصاری اور دیگر اصحاب یہیں سے ساتھ ہوئے۔ انہوں نے اقبال کو مطلع کیا کہ وہ حیدر آباد میںحکومتِ نظام کے مہمان ہوں گے ، اس لیے انہیں سرکاری گیسٹ ہائوس میں ٹھہرنا ہو گا ۔ اس سے پیشتر دلکشا میں ان کے ٹھہرنے کا انتظام کیا گیا تھا ۔ چائے گاڑی ہی میں آ گئی۔ اگلے اسٹیشن سکندر آباد پر اترنا تھا ۔ جب وہاں پہنچے تو سر اکبر حیدری ، ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم ، مولانا عبداللہ عمادی ، سید ابراہیم ، ڈاکٹر مظفر الدین قریشی اور عثمانیہ یونیورسٹی کے دیگر اساتذہ استقبال کے لیے موجود تھے ۔ دستور کے مطابق اقبال کو پھولوں کے ہار پہنائے گئے۔ اس کے بعد وہ سر اکبر حیدری کے ہمراہ بیلاوسٹا گیسٹ ہائوس پہنچ گئے ۔ اقبال نے ۱۴؍جنوری ۱۹۲۹ء سے لے کر ۱۸؍جنوری ۱۹۲۹ء تک حیدر آباد میں قیام کیا ۔ اپنی آمد کے پہلے ہی دن وہ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کے ساتھ جاکر محل کی کتابِ حضوری میں اپنا نام لکھ آئے ۔ اگلے روز یعنی ۱۵؍جنوری ۱۹۲۹ء کی شام کو باغِ عامہ کے ہال میں اقبال کا پہلا لکچر تھا ۔ صدارت مہاراجہ سرکشن پرشاد نے کی اور حاضرین میں عثمانیہ یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ شامل تھے۔ رات کو مہاراجہ سر کشن پرشاد کے ہاں ایک پرتکلف ضیافت اور مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا اور تمام مدعوئین کو ہدایت تھی کہ آصف شاہی دستار اور بگلس یعنی ریاست کا درباری لباس پہن کر آئیں ۔ سو حیدر آباد کے تمام مشہور اردو اور فارسی کے شعرا اسی لباس میں آئے ۔ طعام کے بعد مشاعرہ شروع ہوا۔ حیدر یار جنگ طباطبائی ، نواب ضیاء یار جنگ بہادر ، نواب عزیز یار جنگ بہادر ، مولوی مسعود علی محوی ، جوش ملیح آبادی ، نظام شاہ لبیب تیموری، میر کاظم علی باغ اور دیگر شعراء نے اپنا اپنا کلام سنایا ۔ اقبال کسی کو داد دیے بغیر خاموش بیٹھے رہے ۔ صرف مولوی مسعود علی محوی کے اس شعر: نگاہ کردن دزدیدہ ام بہ بزم بہ دید میاں چیدن گل باغباں گرفت مرا پر اتنا ارشاد کیا کہ پھر پڑھیے لیکن یہ معلوم نہ ہو سکا کہ داد کے طور پر مکّرر پڑھنے کو کہا یا تنقیدی نقطۂ نگاہ سے ۔ اقبال نے شروع ہی میں اعلان کر دیا تھا کہ کوئی شعر یا نظم اس دعوت میں نہ پڑھیں گے ، لیکن مہانوں اور مہاراجہ سر کشن پرشاد کے اصرار پر مندرجہ ذیل فارسی اشعار پڑھے: زندگی انجمن آراء و نگہدارِ خود است اے کہ در قافلہٖ بے ہمہ شو باہمہ رو آں نگینے کہ تو یا اہر مناں ساختہ ہم بہ جبریل امیں نتواں کرد گرو ابھی اقبال دعوت سے لوٹے نہ تھے کہ رات نو بجے کے قریب سر امین جنگ پرائیویٹ سیکرٹری نظام نے گیسٹ ہائوس میں ایک پیغام بھجوایا کہ ۱۸ ؍ جنوری ۱۹۲۹ء کو صبح گیارہ بجے نظام ان سے ملاقات کریں گے ۔جب وہ واپس آئے تو عبداللہ چغتائی اور چوہدری محمد حسین نے انہیں خط کے موصول ہونے کی اطلاع دی اور بتایا کہ اب ان کے لیے ۱۹؍جنوری ۱۹۲۹ء سے پہلے لاہور روانہ ہونا ممکن نہ ہو سکے گا ۔ ۱۶ ؍جنوری ۱۹۲۹ء کا دن گیسٹ ہائوس ہی میں یونیورسٹی کے اساتذہ طلبہ اور دیگر ممتاز شخصیات سے ملاقاتوں میں گزرا ۔ ۱۷؍جنوری ۱۹۲۹ء کی صبح اقبال نے دوسرا لکچر زیر صدارت نواب اعظم جاہ ولی عہد سلطنت، باغ عامہ کے ہال میں دیا ۔ دونوں مقالے وہی تھے جو مدراس میں پڑھے جا چکے تھے۔ دوپہر کا کھانا سر اکبر حیدری کے ہاں تھا ، جس میں یونیورسٹی کے اساتذہ ، محکمہ مالیات کے عہدے دار اور بعض اہم شہریوں نے شرکت کی ۔ اسی رات سر امین جنگ نے اقبال کے اعزاز میں عشائیہ دیا۔ ۱۸ ؍جنوری ۱۹۲۹ء کو صبح گیارہ بجے اقبال نظام سے ملے ۔ نظر حیدر آبادی تحریر کرتے ہیں کہ نظام کے دربار میں جانے والوں کے لیے لازمی ہوتا تھا کہ وہ آصف شاہی دستار اور بگلس لگائیں ، لیکن اقبال پر یہ پابندی نہ لگائی گئی ۳۰۔ اس ملاقات کے متعلق بعض غلط باتیں بھی مشہور ہوئیں ۔ مثلاً یہ کہ اقبال نے نظام کو اپنے فارسی اشعار سنائے اور ’’رموز بے خودی ‘‘ ایک نسخہ پیش کیا۔ یا یہ کہ اقبال نے حکیم اجمل خان سے سُن رکھا تھا کہ نظام کے پاس ایک بیش بہا ، نہایت چمکدار ہیرا ہے اور اقبال کے ہیرا دیکھنے کی خواہش پر نظام نے انہیں فوراً وہ ہیرا منگوا کر دکھایا ۔ یا یہ کہ نظام نے انہیں شکایتاً کہا کہ ہم دہلی گئے ہوئے تھے، لاہور قریب ہی تھا، تم ہمیں ملنے کیوں نہ آئے اور اقبال نے جواب دیا کہ میں ان دنوں بیمار تھا ، اب اسی سہو کی تلافی کے لیے ڈیڑھ ہزار میل کا سفر طے کر کے حاضرِ خدمت ہوا ہوں ۔ اس پر نظام نے خوش ہو کر کہا کہ چلو ہم تمہیں ریاست کا وزیر قانون مقرر کرتے ہیں ، لیکن اقبال نے جواب دیا کہ سرکار ، اقبال کو آزاد ہی رکھیں تو بہتر ہے۳۱۔ در حقیقت نظام سے اقبال کی ملاقات محض ایک رسمی ملاقات تھی ۔ اقبال نے ملاقات کے دوران میں نظام کو انجمن حمایت اسلام کے آئندہ سالانہ جلسے کی صدارت کے لیے پنجاب آنے کی دعوت دی جو نظام نے قبول کر لی ۔ بعد میں اس سلسلے میں اقبال کی نظام کے ساتھ خط و کتابت بھی ہوئی ، لیکن بالآخر نظام اپنی بعض ناگزیر مجبوریوں کے سبب پنجاب نہ آ سکے ۔ ۱۹؍جنوری ۱۹۲۹ء کو اقبال ، حیدر آباد سے لاہور روانہ ہوئے اور یوں جنوبی ہند کا یہ دلچسپ علمی دورہ اختتام پذیر ہوا ۔ برصغیر کے مسلم علمی حلقوں میں اقبال کے خطباتِ مدراس کی خاصی تشہیر ہوئی ۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبۂ فلسفہ نے خواہش ظاہر کی کہ وہی مقالات علی گڑھ میں بھی پڑھے جائیں، لیکن چونکہ اقبال نے تین مزید مقالات اسی سال مکمل کر لیے تھے ، اس لیے سر راس مسعود کی درخواست پر،جو ان دنوں مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے ، اقبال نے چھ مقالات علی گڑھ میں پڑھنے منظور فرما لیے ۔ چنانچہ ۱۷؍نومبر ۱۹۲۹ء کو اقبال ، عبداللہ چغتائی کے ساتھ علی گڑھ روانہ ہوئے۔ جب علی گڑھ پہنچے تو سر راس مسعود کسی کام کے لیے بھوپال گئے ہوئے تھے ۔ بہرحال ریلوے اسٹیشن پر اساتذہ اور طلبہ نے ان کا استقبال کیا اور وہ ڈاکٹر سید ظفر الحسن ، صدر شعبۂ فلسفہ کے ہاں جا کر مقیم ہو گئے ۔ اگلے روز سر راس مسعود بھی بھوپال سے واپس آ گئے ۔ علی گڑھ میں اقبال کا قیام ۳۰؍نومبر ۱۹۲۹ء تک رہا ۔ اس دوران میں انہوں نے اپنے چھ مقالات اسٹریچی ہال میں پڑھے ۔ پہلے جلسے میں سر راس مسعود نے اقبال کا تعارف انتہائی ذاتی عقیدت کے جذبات کے ساتھ کرایا اور اپنی تقریر کے دوران میں انکشاف کیا کہ ایک موقع پر جب وہ یورپ میںبیمار ہو کر ہسپتال پہنچے تو وہاں ان کی تسکین کا سامان اقبال کے وہ ایک ہزار شعر تھے جو انہیں زبانی یاد تھے۳۲۔ علی گڑھ میں اقبال کا بیشتر وقت علمی مجلسوں یا علمی صحبتوں میں گزرا ۔ سر راس مسعود ، ڈاکٹر سید ظفر الحسن ، خواجہ غلام السیدین ، ڈاکٹر ضیاء الدین ، بشیر حسین زیدی اور ڈاکٹر عطا اللہ بٹ نے ان کے اعزاز میں دعوتیں دیں۔ اقبال صاحبزادہ آفتاب احمد خان کی عیادت کے لیے گئے ، جو ان ایام میں بعارضۂ فالج بیمار تھے ۔ اسی طرح رشید احمد صدیقی کی بیمارپُرسی کے لیے بھی ان کے ہاں گئے۔ اقبال، اپنی تمام مصروفیات کے باوجود خطبات کو کتاب کی صورت میں مکمل کرنے کی کوشش کرتے رہے ۔ خطبات کے عنوانات اور متن میں کچھ تبدیلیاں کیں اور بالآخر چھ خطبوں پر مشتمل یہ کتاب پہلی بار وسط ۱۹۳۰ء میں لاہور سے شائع ہوئی ۔ بعد ازاں اس میں ایک خطبہ بعنوان ’’کیا مذہب ممکن ہے‘‘ کا اضافہ کیا گیا ۔ ساتواں مقالہ انگلستان کی ارسطاطلین سوسائٹی کی درخواست پر تحریر کیا گیا تھا ، جو ۱۹۳۲ء میں وہیں پڑھا گیا ۔ لہٰذا سات خطبات پر مشتمل یہ مجموعہ دوسری بار آکسفورڈ یونیورسٹی پریس انگلستان نے ۱۹۳۴ء میںشائع کیا۔ اس طرح خطبات کا جو سلسلہ ۱۹۲۵ء سے شروع ہوا تھا ، ۱۹۳۲ء میں اختتام کو پہنچا ۔ جرمنی کے مستشرق پروفیسر ہبل نے جب اس تصنیف کا مطالعہ کیا تو اس نے اقبال کو لکھا کہ کتاب عصر حاضر کے اہم ترین مظاہر میں سے ہے۳۳۔ اقبال کا خیال تھا کہ عام لوگ کتاب سے مستفید نہ ہو سکیں گے اور وہی اہل علم جنہوں نے مغربی اور اسلامی فلسفے کا خاص طور پر مطالعہ کیا ہے ، ان کا مقصد سمجھ سکیں گے۳۴، لیکن اس کے باوجود انہوں نے سید نذیر نیازی کو اردو ترجمہ کرنے کی ترغیب دی۔ چوہدری محمد حسین خطبات کے اردو ترجمہ کے خلاف تھے۔ ان کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو مسائل فلسفہ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور ویسے بھی یہ مسائل ضمنی تھے ، اصولی نہ تھے ۔ انہیں یہ بھی اندیشہ تھا کہ کہیں اردو ترجمے سے خطبات کے متعلق غلط فہمیاں پیدا نہ ہو جائیں یا پیدا کر دی جائیں ۔ اس کے علاوہ چونکہ خطبات کے مباحث خالصتاً فلسفیانہ نوعیت کے تھے، اس لیے امکان تھا کہ اقبال کے افکار کے متعلق کوئی نیا فتنہ نہ کھڑا کر دیا جائے۔ چوہدری محمد حسین کا اندیشہ بے بنیاد نہ تھا ، کیونکہ خطبات کی اشاعت کے بعد قاہرہ میں مقیم کسی ہندی نثراد عالم نے اپنے مضمون میں اس خیال کا اظہار کیا کہ اقبال کا فکر مغربی فلسفے سے دب گیا ہے اور اگر اس کی اشاعت اردو میںہوئی تو علمائے ہندوستان کا فرض ہو گا کہ سر سید احمد خان کے نیچری فتنہ کی طرح اس کا بھی استیصال کریں۳۵۔ مگر اقبال کی توقع کے برعکس مسلمانوں میں فلسفہ دان حضرات نے بھی تو خطبات کو بہت کم سمجھنے کی کوشش کی ۔ چنانچہ اس سلسلے میں سید نذیر نیازی تحریر کرتے ہیں: دراصل خطبات میں حضرت علامہ نے اساسی طور پر جو بحث اٹھائی ہے اس کا تقاضا ہے کہ مغربی فلسفہ اور علوم و معارف کے ساتھ ساتھ ہمیں اسلام ، اسلامی تہذیب و ثقافت اور علم و حکمت پر بھی پورا پورا عبور حاصل ہو۔ محض فلسفہ یاعلوم طبیعی یا تاریخ تہذیب و تمدن یا مذاہب ، الٰہیات اور علوم دینیہ کا مطالعہ کافی نہیں۔ پھر اس سے بڑھ کر یہ کہ ہماری نظر فکر انسانی کے ان تغیرات پر بھی ہونی چاہیے جو مشرق و مغرب ، بالخصوص مغرب میں بڑی تیزی سے رونما ہو رہے ہیں اور جن سے اس امر کا تھوڑا بہت اندازہ ہو جاتا ہے کہ موجودہ تمدن کا رُخ آئندہ کس جانب ہو گا اور انسان کس قسم کے عالم کی تعمیر کا آرزو مند ہے ۔ لیکن نہ خطبات کا مطالعہ اس نقطۂ نظر سے کیا گیا نہ ان کی اشاعت پر یہ توقع پوری ہو سکی کہ ارباب فن اقبال کا حقیقی مقصد سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ لہٰذاخطبات کا مطالعہ بہت کچھ سطحی رہا بلکہ ان پر بہت کم توجہ کی گئی۳۶ ۔ چونکہ خطبات کا مطالعہ سطحی تھا ، اس لیے بعض انگریز مستشرقین نے ڈکنسن (جو خود صرف انگریزی ادبیات کا ماہر تھا اور جس نے نہ تو اسلامی فلسفے کا مطالعہ کیا تھا اور نہ ہی یورپی فلسفہ ہی سے پوری طرح شناسا تھا) کی تقلید میں یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ اقبال تو یورپی فلسفیوں بالخصوص نطشے اور برگساں کے نظریات سے متاثر تھے ۔ علماء بحیثیت مجموعی خطبات کی طرف متوجہ نہ ہوئے ، مگر جنہوں نے اظہار خیال کی ضرورت محسوس کی، ان کے نزدیک بھی اقبال کا نظامِ فکر مغربی فلسفیوں کے تخیلات پر مبنی تھا، اس لیے ان کے افکار کفریات کے سوا کچھ نہ تھے ۔ خطبات کا اردو ترجمہ سید نذیر نیازی نے اقبال کی زندگی ہی میں کر دیا تھا ، بقول ان کے اس کا نام ’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ‘‘ اقبال ہی کا تجویز کردہ ہے ۳۷، لیکن ترجمے کی اشاعت اقبال کی وفات کے بیس سال بعد ۱۹۵۸ء میں ہوئی ۔ ’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ‘‘ ایک مشکل کتاب ہے ، کیونکہ اس میں مشرق و مغرب کے ڈیڑھ سو سے زائد قدیم و جدید فلسفیوں ، سائنس دانوں ، عالموں اور فقیہوں کے اقوال و نظریات کے حوالے دیے گئے ہیں اور اقبال قاری سے توقع رکھتے ہیں کہ خطبات کے مطالعے سے پیشتر وہ ان سب شخصیات کے زمانے ، ماحول اور افکار سے شناسا ہوگا۔ ان شخصیات میں بعض تو معروف ہیں اور بعض غیر معروف ۔ اس کے علاوہ خطبات کا انداز تحریر نہایت پیچیدہ ہے۔ بسا اوقات کسی مقام پر ایک ہی بحث میں کئی مسائل کو اٹھایاگیا ہے یا ایک مسئلے پر جاری بحث کو اچانک چھوڑ کرکسی اور مسئلے کا ذکر چھڑ جاتا ہے، اور اس پر اظہار خیال کی تکمیل کے بعد پھر چھوڑے ہوئے مسئلے کی طرف رجوع کیا جاتا ہے ۔ بعض نظریات کی وضاحت کی خاطر نئی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں اور ان میں الفاظ کی ترتیب مطالب کے فہم و تفہیم کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہے ۔ کئی مقامات پر انگریزی زبان میں استدلال ناقابل فہم ہے اور اس کے بار بار تعاقب کرنے سے بھی معانی صاف نہیں ہوتے۔ خطبات کے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے اقبال اپنے دیباچے میں تحریر کرتے ہیں کہ قرآن حکیم فکر کے مقابلے میں عمل پر زیادہ زور دیتا ہے ۔ مسلمانوں نے اپنے تمدن کے ابتدائی دور میں اس زاویۂ نگاہ کو ترقی دی اور علماء و صوفیہ نے دین و ایمان کی اساس باطنی وجدان پر رکھی، لیکن آج کا انسان جدید تعلیم کے زیر اثر ، احوال باطن کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور علماء و صوفیہ چونکہ عصر حاضر کی نفسیات سے نا آشنا ہیں ، اس لیے روحانیت کے میدان میں اسے مؤثر ہدایت دینے سے قاصر ہیں۔ ان کی ہدایت ایک ایسے زمانے کی نفسیات کے مطابق تھی جو گزر گیا ۔ آج کے انسان کی نفسیات چونکہ مختلف ہیں ، اس لیے پرانا اندازِ ذکر و فکر اس کے لیے جاذب توجہ نہیں رہا۔ پس ضرورت پیدا ہو گئی ہے کہ علم دین کو سائنٹیفک یا فلسفیانہ استدلال کے طور پر پیش کیا جائے، مگر ایسے انداز میں کہ اسلام کی فلسفیانہ روایات کو پیش نظر رکھتے ہوئے جدید انسانی افکار کی روشنی میں اس کی افادیت و اہمیت کو ثابت کیا جا سکے ۔ قدیم و جدید کے اس امتزاج سے فکر اسلامی ایک ایسی نئی صورت اختیار کر سکتا ہے جو آج کے بالخصوص مغرب زدہ مسلمان کے لیے یقین آفرین اور دل نشین ہو۔ سائنسی علوم کی ترقی نے طبیعیات کی پرانی بنیادوں کو منہدم کر دیا ہے ، جس کے نتیجے میں طبیعیات کی اپنی قائم کردہ مادے کی خصوصیات رفتہ رفتہ مفقود ہوتی چلی جا رہی ہیں اور وہ وقت دور نہیں کہ مذہب اور سائنس آپس میں ایسی ہم آہنگی محسوس کرنے لگیں جو گزشتہ زمانے میں روح اور مادے کی خیالی یا قیاسی دوئی کے سبب نگاہوں سے اوجھل تھی۔ آخر میں اقبال فرماتے ہیں: بایں ہمہ یاد رکھنا چاہیے کہ فلسفیانہ غور و فکر میں قطعیت کوئی چیز نہیں ۔ جیسے جیسے جہان علم میں ہمارا قدم آگے بڑھتا ہے اور فکر کے لیے نئے نئے راستے کُھل جاتے ہیں، کتنے ہی اور شاید ان نظریوں سے جو خطبات میں پیش کیے گئے ہیں ، زیادہ بہتر نظریے ہمارے سامنے آتے جائیں گے۔ ہمارا فرض بہرحال یہ ہے کہ فکر انسانی کی نشو ونما پر باحتیاط نظر رکھیں اور اس باب میں آزادی کے ساتھ نقد و تنقید سے کام لیتے رہیں۳۸۔ پہلے مقالے کا موضوع ’’علم اور مذہبی مشاہدات ‘‘ ہے ۔ اس بحث کو پوری طرح سمجھنے کے لیے یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ انسان کن ذرائع سے علم حاصل کرتا ہے ۔ یہ ذرائع تین ہیں: اوّل ، حواس کی مدد سے مشاہدہ (محسوسات) دوم عقل (فہم یا ادراک ) اور سوم، وجدان (عرفان)۔ علم کی تحصیل کے لیے تینوں ذرائع اپنی اپنی جگہ محدود ہیں یعنی ہر ذریعے سے حاصل کردہ معلومات میں کسی نہ کسی غلطی یا خامی کے دخل کا امکان ہے۔ لہٰذا ان کی صحت کی جانچ پڑتال کے لیے فکر انسانی نے طور طریقے وضع کر رکھے ہیں۔ اس مقالے میں بحث کا مرکزی نقطۂ یہ ہے کہ اگر حواس کے ذریعے حاصل کردہ معلومات کی صحت کی جانچ پڑتال عقل سے کی جا سکتی ہے اور منطقی استدلال میں خامی کا سراغ مشاہداتی تجربے کے ذریعے لگایا جا سکتا ہے تو وجدان کی وساطت سے حاصل کردہ معلومات یا مذہبی مشاہدات (جنہیں معرفت کا نام بھی دیا جاتا ہے) کی صحت کو پرکھنے کے لیے بھی دو ایسے معیار موجود ہیں جن پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ ان دو معیاروں کو اقبال عقلی معیار اور عملی معیار کا نام دیتے ہیں ۔ عقلی معیار سے مراد وہ ناقدانہ تعبیر ہے جو قطع نظر کسی انسانی تجربے کے پہلے سے قائم شدہ مفروضے کے ، یہ ثابت کرتی ہے کہ وجدان سے حاصل کردہ معلومات یا مذہبی مشاہدات بعینہٖ اسی حقیقت تک پہنچاتے ہیں ، جس کی طرف بالآخر انسان کی ناقدانہ تعبیر اس کی رہنمائی کرتی ہے۔ مگر عملی معیار ایسی معلومات یا مشاہدات کی صحت کو ان کے نتائج کے حوالے سے جانچتا ہے۔ اقبال کی رائے میں اوّل الذکر طریقے سے فلسفی کام لیتا ہے اور موّخر الذکر طریقے سے بنی۔ اقبال کا استدلال یہ ہے کہ جس زمانے میں بھی مذہب کا غلبہ رہا ۔ اس زمانے کے اہل علم نے دین کو عقلیت کی بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کی ۔ مذہبی عقائد کے لیے عقلی ثبوت فراہم کرنے کی ضرورت اس لیے پڑتی ہے کہ انسانی کردار کے لیے اگر ایمان کی بنیاد مضبوط نہ ہو تو عملی زندگی کے منزلزل ہو جانے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔ پس ایمان کے اندر عقل اور علم کے عناصر موجود ہیں۔ قرآن حکیم بھی فواد یا قلب (وجدان) کے علاوہ انسان کو اپنی عقل اور سمع و بصر ایسے حواس کے ذریعے مشاہدہ کائنات سے اس کے خالق کو پہچاننے کی تلقین کرتا ہے۔ دین چونکہ انسان کے فکر ، احساس اور عمل پر بیک وقت حاوی ہے اس لیے ضروری ہے کہ دینی عقائد و اقدار کو عقلیت کی بنیادوں پر استوار کر کے قابل فہم بنایا جائے۔ اقبال کے نزدیک عقل اور وجدان میں کوئی بنیادی تضاد موجود نہیں، بلکہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں ۔ دونوں کا منبع و ماخذ ایک ہی ہے، فرق صرف رفتار کا ہے ۔ عقل قدم بہ قدم سفر کرتے ہوئے منزل کی طرف بڑھتی ہے ، لیکن وجدان ایک ہی جست میں منزل پا لیتا ہے ۔ پس عقل بھی متحرک ہے اور جس طرح بیج کے اندر پورے درخت کے امکانات پوشیدہ ہوتے ہیں ، اسی طرح عقل میں ایک باطنی کلُیّت ہے یا اس کے اندر بھی علم کے تمام امکانات موجود ہیں گو وہ بتدریج ظاہر ہوتے ہیں ۔ اس مرحلے پر اقبال برگساں سے اتفاق کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وجدان ، عقل ہی کی ایک بلند تر یا ترقی یافتہ صورت ہے۔ اقبال کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ گذشتہ پانچ سو برس سے علوم اسلامیہ پر جمود کی کیفیت طاری ہے ۔ ایک وہ زمانہ تھا ۔ جب یورپ کے افکار دنیائے اسلام سے متاثر ہوتے تھے ۔ مگر قرون وسطیٰ میں دینی علوم کی تکمیل کے بعد جب سے عالم اسلام بیہوشی کی نیند سو گیا، یورپ نے انہیں مسائل پر غور و فکر کیا جن میں کبھی مسلم فلسفی اور سائنس دان گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ قرون وسطیٰ سے لے کر اب تک انسانی فکر اور تجربے میں غیر معمولی ترقی ہو چکی ہے ۔ فطرت کی تسخیر اور اس پر غلبے نے انسان کے اندر ایک تازہ ولولہ اور نیا احساس برتری پیدا کر دیا ہے نئے نکتہ ہائے نگاہ پیش کیے جا چکے ہیں اور قدیم مسائل کو جدید تجربات کی روشنی میں حل کیا جا رہا ہے ۔ اس کے علاوہ کئی نئے مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔ سائنسی افکار کی ترقی کے سبب علم و ادراک کے متعلق انسانی تصورات بدلتے جا رہے ہیں ، یہاں تک کہ کئی ایسے مسائل پر جو فلسفہ اور مذہب میں مشترک ہیں ، نئے زاویہ ہائے نگاہ سے سوچنا ضروری ہو گیا ہے۔ ان حالات میں ایشیا اور افریقہ کے مسلمانوں کی نئی نسل یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہے کہ ان کے دینی عقائد کو تازگی اور شگفتگی کے ساتھ اجاگر کیا جائے۔ اقبال تحریر کرتے ہیں: احیائے اسلام کے اس دور میںنہایت ضروری ہے کہ اس امر کی آزادنہ تحقیق کی جائے کہ یورپ فکر کے میدان میں کن نتائج پر پہنچا ہے اور یہ نتائج کس حد تک علوم دینیہ کی نظر ثانی یا تشکیل نو کے لیے ہمیں مدد دے سکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ہمیں وسط ایشیا (یعنی اشتراکی روس) کے خلاف مذہب اور بالخصوص خلافِ اسلام اس پراپیگنڈے سے بھی غافل نہیں رہنا چاہیے جو اب تک ہندوستان کی سرحد عبور کرچکاہے ۳۹ ۔ اقبال آیاتِ قرآنی کے حوالے سے ثابت کرتے ہیں کہ کائنات اس لیے وجود میں نہیں آئی کہ تخلیق کا عمل خدا کے لیے محض ایک کھیل ہے۔ دراصل وہ بامقصد ہے اور اس کی ترکیب بھی ایسے ہوئی کہ اس میں مزید اضافے کے ذریعے وسعت کی گنجائش ہے۔ پس کائنات نہ تو جامد ہے ، نہ کوئی ایسی تخلیق ہے جس کی تکمیل ختم ہو چکی اور جو بے حس و حرکت اور ناقابل تغیر و تبدل ہے، بلکہ عین ممکن ہے کہ اس کے باطن میں کسی نئی آفرینش کا خواب پنہاں ہو ۔ جہاں تک انسان کا تعلق ہے، وہ اس ماحول میں اپنی تمام خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود گردو پیش کی قوتوں کو جیسی چاہے شکل دے سکتا اور جس طرف چاہے موڑ سکتا ہے ۔ لہٰذا وہ ایک تخلیقی فعلیت ہے اور اپنے گردو نواح کی قوتوں کی بہتری کی خاطر گہری سے گہری آرزووں میں شریک ہو کر، کبھی ان قوتون سے توافق پیدا کر کے اور کبھی ان کو اپنے مقاصد کے مطابق ڈھال کر ، اپنی اور ساتھ ہی کائنات کی تقدیر متشکل کر سکتا ہے اور اس بتدریج تغیر پذیر سلسلۂ عمل میں وہ خدا کا معاون بن سکتا ہے، بشرطیکہ ایسے انقلاب کی ابتدا انسان کی طرف سے ہو۔ اقبال کی نگاہ میں قرآن حکیم جگہ جگہ مطالعۂ فطرت اور مشاہدئہ موجودات پر اصرار کرتا ہے۔ اسی سبب مسلمانوں کی توجہ فطرت یا عالم موجودات کی طرف مبذول ہوئی اور انہوں نے آگے چل کر طبیعی علوم کی بنیاد رکھی ۔ اقبال فرماتے ہیں : قرآن حکیم ہمیں تغیر ایسی زبر دست حقیقت کی طرف متوجہ کرتا ہے کیونکہ اس حقیقت کو سمجھنے اور قابو میں رکھنے ہی سے ایک زندہ اور پایدار تمدن کی تعمیر ممکن ہو سکتی ہے ۔ واقعاتی طور پر ایشیا اور دنیائے قدیم کے سارے تمدن اس لیے ناکام رہے کہ انہوں نے حقیقت کو پانے کے لیے خالصتاًباطن (تخیل یا قیاس) سے ظاہر (عالم موجودات) کا رستہ اختیار کیا ۔ یوں انہوں نے مفروضے تو قائم کر لیے لیکن قوت سے محروم رہے اور ظاہر ہے صرف مفروضوں کی بناء پر کوئی پایدار تمدن قائم نہیں ہو سکتا ۴۰ ۔ دوسرے مقالے کا موضوع ’’مذہبی مشاہدات کا فلسفیانہ معیار‘‘ ہے ۔ اس بحث میں اقبال واضح کرتے ہیں کہ عقل کے لیے کس حد تک مذہبی مشاہدات کی تائید ممکن ہے اور اس حد سے وہ کیوں آگے نہیں بڑھ سکتی ۔ بحث کا آغاز خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے ان تین عقلی دلیلوں سے ہوتا ہے جو عیسوی علم الکلام نے قائم کر رکھی ہے۔ یعنی کونی، غائی اور وجودی ۔ تینوں دلیلوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عقل انسانی نے ذاتِ مطلق کی جستجو کے لیے حقیقی طور پر تحریک کی لیکن منطقی اعتبار سے تینوں ناقص ہیں: گویا عقل نے ان کے لیے جو اساس قائم کی ہے وہ عقل ہی کے اوزاروں سے منہدم ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد قرآن حکیم کی اس آیت کے حوالے سے کہ خدا اوّل بھی ہے اور آخر بھی، ظاہر بھی اور باطن بھی، اقبال محسوسات و مدرکات کے تین مراتب یعنی مادہ ، حیات اور شعور پر بحث کے لیے طبیعیات ، حیاتیات اور نفسیات ایسے علوم کے نتائج فکر پر تبصرہ کرتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ سائنس کے ہاں حقیقت کا کوئی مبسوط نظریہ نہیں، صرف الگ الگ اجزا کے متعلق علیحدہ علیحدہ تصورات قائم کیے گئے ہیں اور ان تصورات میںبھی کوئی ایسا ربط نہیں کہ انہیں آپس میں جوڑ کر حقیقت کی شکل کا سراغ لگایا جا سکے ۔ مذہب چونکہ کل حقیقت کا طلب گار ہے ، اس لیے اسے جزئی نظریات سے کوئی خوف نہیں۔ اقبال کہتے ہیں کہ قرآنی تعلیمات کے مطابق خدا، کائنات اور حیات متحرک ہیں۔ اس لیے ان کے ہاں زمان کی ماہیت کا مسئلہ بہت زیادہ اہمیت اختیار کر لیتا ہے ۔ آئن سٹائن نے اپنی تحقیق ریاضی سے ثابت کیا ہے کہ اگر کائنات جامد یا ساکن ہوتی تو مکان کے لیے تین ابعاد کا وجود قابل فہم تھا ، مگر چونکہ کائنات متحرک ہے ، اس لیے مکان کے صحیح جائے وقوع کا تعین کرنے کے لیے پیمائش زمان ضروری ہو جاتی ہے اور یوں زمان و مکاں کا اضافی یا چوتھا بُعد بن جاتا ہے ۔ اس کے نظریہ اضافیت کے تحت مکان کا وجود ناظر کے لیے اضافی ہے اور جوں جوں ناظر اپنے عمل و رفتار میں تغیر و تبذل کرتا ہے مکان بھی اس کے مطابق بدل جاتا ہے ۔ اضافیت پر اقبال کا بنیادی اعتراض یہ ہے کہ یوں زمان کا وجود غیر حقیقی ہو جاتا ہے، کیونکہ اگر زمان کو مکان کی ابعاد میں شامل کر دیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ ماضی کی طرح مستقبل کا وجود بھی پہلے ہی سے متعین ہے۔ ایسی صورت میں زمان آزاد تخلیقی حرکت نہیں رہتا ، نہ اس میں کوئی تسلسل رہتا ہے۔ گویا واقعات رونما نہیں ہوتے بلکہ ہم صرف ان سے دو چار ہو جاتے ہیں کیونکہ مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والے تمام واقعات کا محلِ وقوع پہلے ہی سے کسی نہ کسی نامعلوم مکان میں متعین ہے۔ پس آئن سٹائن کا تصور زمان نہ تو زمان مسلسل ہے اور نہ پرگساں کا زمان خالص۔ برگساں کے نظریے کے مطابق انسانی شعور ایک کیفیت سے دوسری کیفیت میں منتقل ہوتا رہتا ہے اور یوں ذہنی کیفیات کے پیہم رد و بدل کے سبب ہم لگاتار بدلتے چلے جاتے ہیں ۔ انسانی شعور کے دو پہلو ہیں ۔ ایک خارجی یا فعال جس کا تعلق گردو پیش روز مرہ کی عملی زندگی یا زمان مسلسل سے ہے، برگساں کی نظر میں زمان کا یہ تصور حقیقی زمان نہیں ہے ۔ دوسرا پہلو داخلی یا بصیر ہے، جس کا تعلق انسان کے گہرے غور و فکر کے لمحات سے ہے۔ جب انسان اپنے عمیق تر نفس میں ڈوب جاتا ہے تو شعور کا خارجی یا فعال پہلو معطل ہو جاتا ہے۔ اس کیفیت میں زمان محض ایک آن ہے یا اسے مستقل حال کہا جا سکتا ہے اور یہی برگساں کے نزدیک زمانِ خالص یا زمان حقیقی ہے ۔ اقبال یہاں تک تو برگساں سے اتفاق کرتے ہیں ، یعنی انسان جب اپنی خودی کی انتہائی گہرائیوں میں ڈوبتا ہے تو اسے زمان خالص (بلاشائبہ مکان) کا تجربہ ہوتا ہے ۔ قرآن حکیم کی رُو سے خدا کا تخلیقی عمل بھی ایسا ہی تیز ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا (کلمح بالبصر) پس خدا کا زمان زمانِ خالص یا ایک طرح کی عدم زمانِ مسلسل کی کیفیت ہے، البتہ وہ اپنے تخلیقی عمل کے ساتھ زمان مسلسل لحظہ بہ لحظہ تخلیق کرتا چلا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے کائنات خلا میں اشیاء کے مجموعے کانام نہیںبلکہ ایک مسلسل تخلیقی عمل ہے۔ بہرحال برگساں کے تصورِ زماں خالص میں صرف ماضی ہے جو مستقل حال سے ہمکنار ہوتا ہے۔ وہ مستقبل کو اس میں شامل کرنے سے اس لیے گریز کرتا ہے کہ یوں حیات کی تخلیقی آزادی پر قدغن لگنے کا امکان ہے۔ اس مرحلے پر اقبال برگسان کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں، کیونکہ ان کے خیال میں زندگی کی یہی ایک تعبیر نہیں۔ زندگی پے در پے تبدیلی اور کارفرمائی سے اغراض و مقاصد کی تشکیل کرتی ہے اور جوں جوں اس کا عمل بڑھتا ہے نئے نئے عزائم وضع ہوتے ہیں ۔ اس تسلسل میں ہم جو کچھ ہیں وہ نہیں رہتے ۔ زندگی کا رستہ گویا موت در موت سے گزرتا ہے ، مگر اس کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس رستے کا تسلسل بے قاعدہ ہے۔ حیات و کائنات کا عمل زمان کے تسلسل میں اس لحاظ سے مقصد سے خالی ہے کہ وہ کسی پہلے سے متعین منزل کی طرف نہیں بڑھ رہا۔ پس زمان کی حرکت کسی پہلے سے کھنچے ہوئے خط کی شکل میںنہیں ،کیونکہ یہ خط ابھی کھنچ رہا ہے اور اس سے مراد وہ امکانات ہیں جو ہو سکتا ہے ، وقوع میں آئیں اور ہو سکتا ہے ، نہ آئیں ۔ اقبال کے نزدیک مستقبل انہیں معنوں میں بامقصد ہے اور وہ قرآنی اصطلاح ’’تقدیر‘‘ کی تشریح بھی اس انداز میں کرتے ہیں۔ آخر میں اقبال فرماتے ہیں کہ صرف وجدان کے ذریعے یہ علم حاصل ہوتا ہے کہ حیات دراصل ایک اپنی ذات پر مرتکز خودی ہے۔ ایسے علم کو خواہ نا مکمل قرار دیا جائے لیکن پھر بھی وہ ایک نقطۂ آغاز ہے، جس کی بدولت انسان پر بلا واسطہ انکشاف ہوتا ہے کہ حقیقت مطلق کی ماہیت کیا ہے۔ محسوسات یا عقل ایسے ذرائع سے حاصل کردہ مختلف نوع کے حقائق سے بھی یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ حقیقت مطلق اپنی اصل میں روحانی ہے۔ اس لیے اس کا تصور ایک خودی کے طور پر ہی کیا جا سکتا ہے۔ اقبال کے نزدیک مذہب کے عزائم فلسفے سے بلند تر ہیں ۔ فلسفہ حقائق کا محض عقلی ادراک ہی کر سکتا ہے۔ لہٰذا وہ کسی ایسے تصور سے آگے نہیں بڑھ سکتا جو محسوسات یا عقل ایسے ذرائع سے حاصل کردہ مختلف جزئی قسم کی معلومات کو سمیٹ کر کسی نہ کسی نظام میں مدغم کر دے ۔ بالفاظ دیگر فلسفہ دور ہی سے حقیقت کا مشاہدہ کرتا ہے ، مگر اس کے برعکس مذہب حقیقت سے قرب و اتصال کا آرزومند ہے۔ ایک صرف مفروضہ ہے اور دوسرا تقرب اور اتصال کا زندہ تجربہ ۔ عقل کے لیے ایسا تقرب تبھی ممکن ہے کہ وہ اپنے حدود سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے اور تکمیل آرزو کی خاطر ایسی ذہنی روش اختیار کرے جسے مذہب دعا سے تعبیر کرتا ہے۔ تیسرے مقالے کا موضوع ہے ’’ذات الٰہیہ کا تصور اور حقیقت دعا‘‘ اس مقالے میں اقبال فلسفے کی روشنی میں خدا کے اسلامی تصور کی وضاحت کرتے ہیں ۔ ان کی رائے میں انسانی ذرائع علم کے اجتماعی تجربے سے ہم پر منکشف ہوتا ہے کہ ان ذرائع کی اساس کوئی بابصر تخلیقی مشیت ہے ۔ جسے ایک خودی ہی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔ چنانچہ خودی مطلق کی انفرادیت کے پیش نظر قرآن حکیم نے اس کے لیے اللہ کا اسم معرفہ استعمال کیا۔ خودی مطلق اپنی تخلیقی فعلیت کے ممکنات میں ، جو اس کے وجود کے اندر مضمر ہیں، لا متناہی ہے ۔ یعنی اس کی لا محدودیت وسیع ہونے کے بجائے عمیق ہے بعدازاں وہ اس سوال کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ خدا کی تخلیقی فعلیت سے عملِ تخلیق کی ابتدا کس طرح ہوتی ہے ۔ اس مرحلے پر قرآنی آیات کی روشنی میں اقبال اشاعرہ کے افکار پیش کرتے ہیں۔ اشاعرہ کے نزدیک کائنات کی ترکیب جواہر یا ان لا تعداد چھوٹے چھوٹے ذرّوں سے ہوئی جن کا مزید تجزیہ نا ممکن ہے ، اور چونکہ تخلیقی فعلیت کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس لیے جواہر کی تعداد لامتناہی ہے یہ جواہر تبھی وجود میں آتے ہیں جب ان کو ہستی کی صفت عطا ہوتی ہے ۔ سو ہر لحظہ نئے نئے جواہر عدم سے وجود میں لائے جاتے ہیں اور کائنات میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس جوہری عمل کی ذہنی تصویر قائم کرنا ممکن نہیں ،مگر اقبال واضح کرتے ہیں کہ جدید طبیعیات میں عالم طبعی کی ہر مقدار کے اصل جوہر (ایٹم) کا تصور بھی بطور عمل کیا جاتا ہے ۔ ان کی رائے میں اشاعرہ کا تخلیقِ کائنات کا نظریہ عہد حاضر کے طبیعی علوم میں موجود رجحانات سے زیادہ قریب ہے۔ اقبال کے نزدیک ان افکار کی روشنی میں خدا کا تخلیقی عملی وحدتوں کی صورت ہی میں ہوتا ہے۔ جن کو وہ ’خودیوں‘ سے تعبیر کرتے ہیں ۔ گویا ہر عمل خواہ اس کا تعلق مادی جواہر کی میکانیاتی حرکت سے ہو یا ذات انسانی میں فکر کی آزادانہ کارفرمائی سے ، سب کی حقیقت صرف خودیِ مطلق کے انکشاف ذات کے سوا اور کچھ نہیں۔ پس کائنات کا ہر جوہر خودی ہی کی پست و بالا صورت ہے البتہ وہ ارتقائی منازل طے کر تی ہوئی ذات انسانی میں اپنے معراج کمال کو پہنچتی ہے۔ اسی سبب قرآن حکیم نے خودیِ مطلق کو انسان کی شہ رگ سے قریب تر ٹھہرایا ہے ۔ حیات الٰہیہ کا سیل رواں تمام خودیوں کا سر چشمہ ہے اور ہم اس میں موتیوں کی طرح زندہ اور متحرک ہیں۔ اس اعتبار سے انسان ہی جملہ مخلوق میں اس قابل ہے کہ خدا کی حیاتِ تخلیقی میں ایک معاون یا ہمکار کی طرح عمداً حصہ لے اور چونکہ وہ ایک بہتر اور خوب تر عالم کا تصوّر کر سکتا ہے اس لیے موجود کو مطلوب میں بدلنے کا اہل ہے۔ اقبال کی نگاہ میں فلسفہ تو صرف تصورات پر قناعت کرتا ہے ، لیکن مذہب اپنے مقصود کا زیادہ گہرا علم حاصل کرنے کے لیے اس کے قریب تر ہونے کی خواہش رکھتا ہے اور یہ قرب دعا کے ذریعے ہی میسر ہوتا ہے۔ دعا کا تعلق روحانی تجلیات سے ہے اور اس سے مختلف طبیعتیں مختلف اثرات قبول کرتی ہیں۔ اقبال فرماتے ہیں : اسلام نے عبادت کے لیے ایک مخصوص سمت انتخاب کی تو محض اس لیے کہ جماعت کے اندر ایک ہی قسم کے جذبات موج زن ہوں ۔ بعینہٖ جس طرح اس کی ظاہری شکل سے مساوات اجتماعی کی حس بیدار ہوتی اور پرورش پاتی ہے ، کیونکہ صلٰوۃ باجماعت سے مقصود ہی یہ ہے کہ شرکائے جماعت میں اپنے مرتبہ و مقام یا نسلی حیثیت کا کوئی احساس باقی نہ رہے۔ مثلاً یونہی سوچیے کہ جنوبی ہندوستان کا وہ برہمن جس کو اپنے شرفِ ذات کا غرّہ ہے ، اگر ہر روز ایک اچھوت کے پہلو بہ پہلو کھڑا ہونے لگے تو ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کیسا زبر دست انقلاب رونما ہو جائے گا ۔ نوع انسانی ایک ہے ، اس لیے کہ وہ محیط برکُل ، ذات جس نے ہر شے کو اپنے دامن میں لے رکھا ہے ، جوہر انا کا خالق اور اس کا سہارا ہے، ایک ہے ۔ لہٰذا قرآن مجید نے نسل اور قوم اور شعوب و قبائل کی تقسیم کو تعارف کا ایک ذریعہ ٹھہرایا ، تو اس کی وجہ بھی یہی ہے ۔ حاصل کلام یہ کہ اسلام میں صلٰوۃ باجماعت حصولِ معرفت ہی کا سر چشمہ نہیں، اُس کی قدر و قیمت اس سے بڑھ چڑھ کر ہے صلوٰۃ با جماعت سے اس تمنا کا اظہار بھی مقصود ہے کہ ہم ان سب امتیازات کو مٹاتے ہوئے جو انسان اور انسان کے درمیان قائم ہیں، اپنی اس وحدت کی ترجمانی، جو گویا ہماری خلقت میں داخل ہے، اس طرح کریں کہ ہماری عملی زندگی میں اس کا اظہار سچ مچ ایک حقیقت کے طور پر ہونے لگے۴۱ ۔ چوتھے مقالے میں اقبال نے ’’خودی ، جبرو اختیار ، حیات بعد الموت ‘‘ کے موضوع پر بحث کی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ قرآن حکیم نے انسان کی انفرادیت پر زور دیا ہے۔ اور قرآنی نقطۂ نظر سے نہ تو ایک انسان کسی دوسرے کا بوجھ اٹھا سکتا ہے ، نہ یہ ممکن ہے کہ اسے اپنی کوشش سے زیادہ کچھ ملے۔ اسلامی تصوف میں بعض صوفیہ کی واردات سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ خودی ایک حقیقت ہے اور اگر ایک عمیق اور پختہ شخصیت پیدا کرلی جائے تو وہ روحانی طور پر ثبات و استحکام حاصل کر سکتی ہے۔قرآن حکیم کے نزدیک ایسی واردات علم کا ایک ذریعہ ہیں ۔ اقبال اس سلسلے میں منصور حلاج کی مثال پیش کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ مسلمانوں نے صوفیہ کے اس قسم کے احوال اور مشاہدات کی علمی نہج پر تحقیق نہیں کی ۔ اس لیے ان سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا جا سکا ۔ وہ کہتے ہیں: ہمارا فرض ہے ماضی سے اپنا رشتہ منقطع کیے بغیر اسلام پر بحیثیت ایک نظام فکر از سر نو غور کریں ۔ یہ غالباً شاہ ولی اللہ دہلوی تھے جنہوں نے سب سے پہلے ایک نئی روح کی بیداری محسوس کی لیکن اس عظیم الشان فریضے کی حقیقی اہمیت اور وسعت کا پورا پورا اندازہ تھا تو سید جمال الدین افغانی کو جو اسلام کی حیات ملی اور حیات ذہنی کی تاریخ میں بڑی گہری بصیرت کے ساتھ ساتھ طرح طرح کے انسانوں اور ان کی عادات و خصائل کا خوب خوب تجربہ رکھتے تھے۔ ان کا مطمح نظر بڑا وسیع تھاا ور اس لیے یہ کوئی مشکل بات نہیں تھی کہ ان کی ذات گرامی ماضی اور مستقبل کے درمیان ایک جیتا جاگتا رشتہ بن جاتی ۔ بہر حال اب ہمارے سامنے کوئی رستہ ہے تو یہ کہ علم حاضر کے احترام اور قدر و منزلت کے باوجود ہم اپنی آزادیِ رائے برقرار رکھتے ہوئے یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ اسلامی تعلیمات کی تعبیر اب علم حاضر کے پیش نظر کس رنگ میں کرنی چاہیے ، خواہ ایسا کرنے میں ہمیں اپنے اسلاف سے اختلاف ہی کیوں نہ ہو ۴۲ ۔ اقبال انسانی خودی کے اختیار یا اس کے کلی طور پر ذمے دار ہونے کے متعلق خدا کی تخلیقی فعلیت کے دو پہلووں کا ذکر کرتے ہیں ، خلق ، جس کے معنی پیدا کرنے کے ہیں اور امر ، جس کے معنی ہدایت کے ہیں ، قرآن حکیم واضح کرتا ہے کہ دونوں قسم کی تخلیق یعنی خلق اور امر خدا کے ہاتھ میں ہے ۔ روح کی حقیقی ماہیئت کا اظہار اصطلاع امر ہی سے کیا گیا ہے ۔ اسلامی تعلیمات کا مقصد یہی ہے کہ آزادی و اختیار کی قدرت خودی کی زندگی کا ایک مستقل عنصر بن جائے ۔ سو خودی کی زندگی اختیار کی زندگی ہے۔ اس کا ہر عمل ایک نیا موقف پیدا کرتا ہے اور یوں انسان کو اپنی خلاقی ، دریافت ، ایجاد اور طباعی کے لیے نئے نئے مواقع بہم پہنچاتا ہے ۔ مسئلہ حیات بعد الموت کے متعلق اقبال کہتے ہیں کہ قرآنی تعلیمات کے مطابق اس بات کا امکان ہے کہ بعض انسان کائنات کے مقاصد میں حصہ لیتے ہوئے غیر فانی ہو جائیں ۔ مگر کائنات کے مقاصد میں وہی حصہ لے سکتے ہیں جو اپنے افعال و اعمال کی شیرازہ بندی اس طور پر کریں کہ ان کی خودی مستحکم ہو جائے اور وہ موت کے صدمے سے محفوظ رہے ۔ ایسی صورت میں موت صرف ایک رستہ ہی ہو گی ۔ پس اقبال کے ہاں حیات بعد الموت انسان کا حق نہیں بلکہ اس کے لیے اپنے آپ کو مستحق بنانا پڑتا ہے اور اس کی تحصیل کا دارومدار مسلسل جد وجہد پر ہے ۔ انسان حیات بعد الموت کا امیدوار ہے اور اسے خدا کی طرف سے انعام کی صورت ہی میں حاصل کر سکتا ہے ، بشرطیکہ وہ اس کا اہل ہو۔ جنت اور دوزخ کسی مقام یا جگہ کے نام نہیں، انسان کے احوال ہیں، نہ جنت عیش و آرام کی کوئی حالت ہے اور نہ جہنم کوئی مستقل اذیت کا گھڑھا ۔ حیات ایک تسلسل ہے اور انسان خدا کی نو بہ نو تجلیات کے لیے ہمیشہ آگے ہی آ گے بڑھتا رہے گا ۔ پانچویں مقالے کا موضوع ’’اسلامی ثقافت کی روح ‘‘ ہے ۔ اس مقالے میں اقبال نے شعور ولایت میں امتیاز کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ولی یا صوفی کو جو لذت خدا کے قرب یا اتصال سے حاصل ہوتی ہے وہ اسے چھوڑ کر واپس آنا نہیں چاہتا کیونکہ یہی اس کے لیے آخری چیز ہے ، لیکن بنی ایسی واردات سے نہ صرف واپس آتا ہے بلکہ نظام کہنہ کو زیر و زبر کر کے دنیا میں تمدنی انقلاب برپا کرتا ہے۔ نبی کے روحانی مشاہدات و واردات کو ایک تخلیقی عمل ہی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ، کیونکہ ایک طرف تو وہ اپنے تجربے کی صداقت کو خود جانچتا ہے اور دوسری جانب اسے خارجی حقائق کی دنیا کے حوالے سے پرکھتا ہے ۔ مزید برآں نبی کے مذہبی مشاہدات و واردات کی قدر و قیمت کا فیصلہ یہ دیکھ کر بھی کیا جا سکتا ہے کہ ان سے کیا نتائج برآمد ہوئے ، یا نبی کی تعلیمات کے زیر اثر انسانوں میں کسی قسم کا تغیر رونما ہوا ، یا تہذیب و تمدن کی وہ کیا دنیا تھی جو اس کی دعوت سے ظہور میں آئی ۔ اس بحث کے دوران میں اقبال عقیدئہ ختم نبوت کی ثقافتی اہمیت پر ہماری توجہ مبذول کراتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن حکیم نے لفظ وحی کا استعمال جن معنوں میں کیا ہے ان سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وحی خاصۂ حیات ہے اور جوں جوں وہ ارتقاء حاصل کرتی ہے اس کی ماہیت بھی بدلتی جاتی ہے ، حتی کہ جب وہ اپنے معراج کمال کو پہنچتی ہے تو اس کا خاتمہ ضروری ہو جاتا ہے ۔ اقبال فرماتے ہیں: اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یوں نظر آئے گا جیسے پیغمبر اسلام صلعم کی ذاتِ گرامی کی حیثیت دنیائے قدیم اور جدید کے درمیان ایک واسطہ کی ہے ۔ یہ اعتبار اپنے سر چشمۂ وحی کے آپ کا تعلق دنیائے قدیم سے ہے ، لیکن بہ اعتبار اس کی روح کے دنیائے جدید سے ۔ یہ آپؐ ہی کا وجود ہے کہ زندگی پر علم و حکمت کے وہ تازہ چشمے منکشف ہوئے جو اس کے آئندہ کے رُخ کے عین مطابق تھے۔ لہٰذا اسلام کا ظہور استقرائی عقل کا ظہور ہے ۔ اسلام میں نبوت چونکہ اپنے معراج کمال کو پہنچ گئی لہٰذا اس کا خاتمہ ضروری ہو گیا ۔ اسلام نے خوب سمجھ لیا تھا کہ انسان ہمیشہ سہاروں پر زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ اس کے شعورِ ذات کی تکمیل ہو گی تو یونہی کہ وہ خود اپنے وسائل سے کام لینا سیکھے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اگر دینی پیشوائی کو تسلیم نہیں کیا یا موروثی بادشاہت کو جائز نہ رکھا یا بار بار عقل اور تجربے پر زور دیا ، یا عالم فطرت اور عالم تاریخ کو علمِ انسانی کا سر چشمہ ٹھہرایا تو اس لیے کہ ان سب کے اندر یہی نکتہ مضمر ہے ، کیونکہ یہ سب تصورِ خاتمیت ہی کے مختلف پہلو ہیں ۴۳ ۔ اقبال کی رائے میں قرآن حکیم نے مشاہدات باطن کے علاوہ علم انسانی کے لیے دو سر چشموں کا ذکر کیا ہے۔ ایک عالمِ فطرت اور دوسرا عالمِ تاریخ ۔ اقبال کے خیال میں ان دو سر چشموں سے استفادہ کرنے میں دنیائے اسلام کی بہترین روح کا اظہار ہوا ۔ جب مسلمانوں نے اس حقیقت کو پا لیا کہ کائنات حرکت میں ہے تو انہوں نے یونانی فلسفے کے قیاسیات و نظریات کے خلاف بغاوت کی ۔ قرآنی تعلیمات کے زیر اثر ان کی توجہ ٹھوس حقایق کی طرف مبذول ہوئی اور انہوں نے استقرائی منطق ، منہاج تجرباتی ، مشاہدئہ عملی ، پیمائش ، ریاضی و الجبرا ، فلکیات ، طب ، کیمیا وغیرہ سے ابتدا کی ۔ اقبال مسلم سائنسدانوں ، ریاضی دانوں اور طبیعی علوم کے ماہروں کے افکار کے حوالے سے ثابت کرتے ہیں کہ یہ قرآنی تعلیمات ہی کا اثر تھا کہ مسلمانوں نے سائنس کی بنیاد رکھی ، جس کے ثمرات بہت آگے چل کر یورپ میں ظاہر ہوئے ۔ چنانچہ اقبال کے نزدیک مغربی تہذیب کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس سے اسلامی ثقافت کے فیصلہ کن اثرات کا پتا نہ چلے۔ اسی طرح دنیائے اسلام میں حِسِّ تاریخ کی پرورش بھی قابل مطالعہ موضوع ہے۔ اس کی ابتدا ادیانِ حدیث سے ہوئی اور رفتہ رفتہ تاریخِ تنقید کے اصول مرتب ہوتے چلے گئے ۔ ابن اسحاق ، طبری اور مسعودی جیسے مورّخ پیدا ہوئے ۔ بعد ازاں تاریخ کا نشو و نما ایک علم کے طور پر ہوا۔ بالآخر ابن خلدون نے تعلیمات قرآنی ہی کی روشنی میں فلسفۂ تاریخ پیش کرتے ہوئے اس کی بنیاد و اصولوں پر رکھی ۔ وحدتِ انسانیت اور حیاتِ انسانی کی مسلسل اور مستقل حرکت۔ چھٹا مقالہ ’’الاجتہاد فی الاسلام ‘‘ کے موضوع پر ہے ۔ دراصل اقبال کے اس مقالے کے انگریزی عنوان کا لفظی ترجمہ ’’اسلام کی ترکیب میں حرکت کا اصول ‘‘ ہے یعنی وہ اجتہاد کے روایتی فقہی معنوں (وہ کوشش جو کسی قانونی مسئلہ میں رائے قائم کرنے کے لیے کی جائے) سے ہٹ کر اس کی تعبیر ایک اصولِ حرکت کے طور پر کر رہے ہیں۔ مقالے کی ابتداء بھی اسی نقطۂ نظر سے کرتے ہیںکہ تحریک اسلام نے کائنات کو متحرک قرار دیا اور تاریخ انسانی کے ایک ایسے مرحلے پر نمودار ہوئی جب رنگ و خون کے زمینی پیوستگی کے رشتے توڑ کر حیات انسانی کے لیے اساس فراہم کرنے کی ضرورت تھی یا ایک قریب المرگ تمدن کی جگہ لینے کے لیے ، جس کی بنا بادشاہت پر قائم تھی، دنیا کو نئی تہذیب کی حاجت تھی ۔ اقبال فرماتے ہیں : اس نئی تہذیب نے اتحاد عالم کی بنا اصول توحید پر رکھی ۔ اسی اصول کا تقاضا ہے کہ ہم صرف اللہ کی اطاعت کریں ، نہ کہ ملوک و سلاطین کی ۔ اسلام کے نزدیک حیات کی روحانی اساس ایک قائم و دائم وجود ہے اب اگر کوئی معاشرہ حقیقت مطلقہ کے اس تصور پر مبنی ہے توپھر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ثبات اور تغیر دونوں خصوصیات کا لحاظ رکھے ۔ اس کے پاس کچھ تو اس قسم کے دوامی اصول ہونا چاہئیں جو حیات اجتماعیہ میں نظم و انضباط قائم رکھیں ، لیکن دوامی اصولوں کا یہ مطلب تو ہے نہیں کہ اس سے تغیر اور تبدیلی کے جملہ امکانات کی نفی ہو جائے ۔ اسلام کی ہئیت ترکیبی میں وہ کون سا عنصر ہے جو اس کے اندر حرکت اور تغیر قائم رکھتا ہے ؟ اس کا جواب ہے، اجتہاد ۴۴ ۔ اقبال واضح کرتے ہیں کہ اہل سنت و الجماعت نے اجتہاد کی ضرورت سے کبھی انکار نہیں کیا، مگر جب سے فقہ کے چار مکاتب فکر قائم ہوئے ہیں انہوں نے عملاًاس کی کبھی اجازت بھی نہیں دی ، کیونکہ انہوں نے اجتہاد پر ایسی کڑی شرطیں لگا دی ہیں جن کا پورا کرنا محال ہے۔ اقبال اس روش کے اسباب گنواتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیاسی زوال اور انحطاط کے دور میں ایسا کرنا اسلام کی ہیئت ِ اجتماعیہ کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری تھا ، تاہم وہ قدامت پسند علماء کے رویے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے فرماتے ہیں: لیکن وہ نہیں سمجھے اور ہمارے زمانے کے علماء نہیں سمجھتے ، تو یہ کہ قوموں کی تقدیر اور ہستی کا دارومدار اس امر پر نہیں کہ ان کا وجود کہاں تک منظم ہے بلکہ اس بات پر کہ افراد کی ذاتی خوبیاں کیا ہیں ، اگر قوم کے زوال و انحطاط کو روکنا ہے تو اس کا یہ طریق نہیں کہ ہم اپنی گذشتہ تاریخ کو بے جا احترام کی نظر سے دیکھنے لگیں یا اس کا احیا ، خود ساختہ ذرائع سے کریں ۔ قوائے انحطاط کے سدِباب کا کوئی ذریعہ فی الواقع موثر ہے تو یہ کہ معاشرے میں اس قسم کے افراد کی پرورش ہوتی رہے ۔ جو اپنی ذات اور خودی میں ڈوب جائیں ،کیونکہ ایسے ہی افراد ہیں جن پر زندگی کی گہرائیوں کا انکشاف ہوتا ہے اور ایسے ہی افراد وہ نئے نئے معیار پیش کرتے ہیں جن کی بدولت اس امر کا اندازہ ہونے لگتا ہے کہ ہمارا ماحول سرے سے ناقابل تغیر و تبدل نہیں اس میں اصلاح اور نظر ثانی کی گنجائش ہے۔ یوں بھی ماضی کا غلط احترام علیٰ ہذا ضرورت سے زیادہ تنظیم کا رجحان اسلام کی اندرونی روح کے منافی تھا ۔ اگر اسلام کی نشاۃ الثانیہ ناگزیر ہے جیسا کہ میرے نزدیک قطعی طور پر ہے ، تو ہمیں ایک نہ ایک دن اپنے عقلی اور ذہنی ورثے کی قدر و منزلت کا جائزہ لینا پڑے گا ۔ جیسے جیسے مسلمانوں میں زندگی کو تقویت پہنچے گی ، اسلام کی عالمگیر روح فقہا کی قدامت پسندی کے باوجود اپنا کام کر کے رہے گی ۔ بدقسمتی سے اس ملک کے قدامت پسند مسلم عوام کو ابھی یہ گوارا نہیں کہ فقہ اسلامی کی بحث میں کوئی تنقیدی نقطۂ نظر اختیار کیا جائے ۔ وہ بات بات پر خفا ہو جاتے اور ذرا سی تحریک پر بھی فرقہ وارانہ نزاعات کا دروازہ کھول دیتے ہیں۔ ائمہ مذاہب کا کیا یہی دعویٰ تھا کہ ان کے استدلال اور تعبیرات حرفِ آخر ہیں؟ ہرگز نہیں ۔ اندریں صورت مسلمانوں کا آزاد خیال طبقہ اگر اس امر کا دعوے دار ہے کہ اسے اپنے تجربات ، علیٰ ہذا زندگی کے بدلتے ہوئے احوال و ظروف کے پیش نظر فقہ و قانون کے بنیادی اصولوں کی از سرِ نو تعبیر کا حق پہنچتا ہے تو میرے نزدیک اس میں کوئی ایسی بات نہیں جو غلط ہو ۔ قرآن پاک کا یہ ارشاد کہ زندگی ایک مسلسل تخلیقی عمل ہے ، بجائے خود اس امر کا مقتضی ہے کہ مسلمانوں کی ہر نسل اسلاف کی رہنمائی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مسائل آپ حل کرے ۔ لہٰذا یہ کہنا کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا ہے ، محض ایک افسانہ ہے ۔ عہدِ حاضر کے مسلمان کبھی یہ گوارا نہیں کریں گے کہ اپنی آزادی ذہن کو خود اپنے ہاتھوں قربان کر دیں ۔ اگر ہمارے افکار میں وسعت اور دقتِ نظر موجود ہے اور ہم نئے نئے تجربات سے فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ فقہ اسلامی کی تشکیل نو میں جرأت سے کام لیں ۔ لیکن یہ کام محض اس زمانے کے احوال و ظروف سے مطابقت پیدا کرنے کا نہیں ہے ، بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ اہم یورپ کی جنگ عظیم نے بیداری کی لہر دوڑا دی ہے، علیٰ ہذا وہ نیا معاشی تجربۂ اشتراکیت ، جو اسلامی ایشیا کے حوالی میں کیا گیا، یہ دونوں باتیں ایسی ہیں جن کے پیشِ نظرہمیں خوب سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام کا معنی و منشا اور اس کی تقدیر فی الحقیقت کیا ہے ۴۵ ۔ مقالہ کے مندرجہ بالا اقتباسات سے ظاہر ہے کہ اقبال اجتہاد کے ذریعے فقۂ اسلامی کی تشکیلِ نو پر فقط اس لیے زور نہیں دے رہے تھے کہ عہد حاضر کے احوال و ظروف سے مطابقت پیدا کرنے کا مسئلہ درپیش تھا، بلکہ اس لیے کہ انہیں ایک طرف مغرب کی سرمایہ دارانہ جمہوریت اور دوسری طرف روس کی ملحدانہ اشتراکیت کی نظریاتی یلغار کا خطرہ تھا ۔ اقبال اجتہاد کا حق بحیثیت افراد علماء یا مجتہدین کے ہاتھ میں نہیں دیتے ۔ ان کی رائے میں یہ حق دنیائے اسلام کے ممالک میں مجالسِ آئین ساز کو سونپا جانا چاہیے ۔ کیونکہ عہدِ حاضر میں فقۂ اسلامی کے مآخذ اجماع کا اسی صورت میں احیاء ممکن ہے۔ اس مقالے میں اقبال جدید اسلامی ریاست کے متعلق اپنا تصور بھی پیش کرتے ہیں ۔ان کے نزدیک اسلامی ریاست حُریّت ، مساوات اور استحکام کی ابدی صداقتوں پر قائم ہوتی ہے اور جمہوری طرزِحکومت کا اصول نہ صرف اسلام کی روح کے عین مطابق ہے ، بلکہ جو قوتیں دنیائے اسلام میں کام کر رہیں ، ان کے لحاظ سے بھی وہ ناگزیر ہے۔و ہ ترکوں کے اس اجتہاد کو درست خیال کرتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات کی رو سے خلیفہ یا امام کا منصب فردِ واحدکی بجائے افراد کی ایک جماعت بلکہ منتخب شدہ مجلس کے ذمے بھی کیا جا سکتا ہے ۔ ان کی رائے میں عالمگیر خلافت یا امامت کا تصور تبھی قابل عمل تھا جب سارا عالمِ اسلام ایک سلطنت کی صورت میں تھا ۔ لیکن متعدد آزاد اور خود مختار مسلم ریاستوں کی موجودگی میں ایسا تصور نہ صرف ناقابل عمل ہے بلکہ ان ریاستوں کے اتحاد میں حائل ہو سکتا ہے ۔ اقبال سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالت میں ہر مسلم قوم کو اپنی تمام تر توجہ اپنے آپ پر مرتکز کرنی چاہیے ، حتیٰ کہ اُن سب میں اتنی طاقت پیدا ہو جائے کہ باہم مل کر اسلامی جمہوریتوں کی ایک برادری کی صورت اختیار کر لیں ۔ اس ضمن میں فرماتے ہیں: میں تو کچھ یونہی دیکھ رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ شایدہم مسلمانوں کو بتدریج سمجھا رہی ہے کہ اسلام نہ تو وطنیت ہے ، نہ شہنشاہیت ، بلکہ ایک انجمن اقوام ہے جس نے ہمارے خود پیدا کردہ حدود اور نسلی امتیازات کو تسلیم کیا ہے ، تو محض سہولت تعارف کے لیے اس لیے نہیں کہ اس کے ارکان اپنا اجتماعی مطمح نظر محدود کر لیں۴۶ ۔ اقبال کے نزدیک فقۂ اسلامی کے ماخذوں میں اجماع کی اہمیت سب سے زیادہ ہے، گو ممالک اسلامیہ میں وہ کبھی ایک مستقل ادارے کی صورت اختیار نہ کر سکا ۔ غالباً اس لیے کہ خلفاء راشدینؓ کے دور کے خاتمے پر عالم اسلام میںمطلق العنان ملوکیت رائج ہوئی اور اجماع کا ایک مستقل ادارے کی شکل اختیار کرنا اس کے مفاد کے خلاف تھا۔ اموی اور عباسی خلفاء کا فائدہ تو اسی میں تھا کہ اجتہاد کا حق افراد کے ہاتھ میں رہے تاکہ حسب ضرورت ان پر ریاست کی طرف سے دبائو ڈالا جا سکے ، بجائے اس کے کہ وہ ایک مستقل قانون ساز یا بااختیار مجلس کی صورت میں قائم ہو جو انجام کار ان سے بھی زیادہ اقتدار حاصل کر لے اقبال کے ہاں عہد حاضر میںاجماع کا تصور مجلس شوریٰ کے طور پر نہیں بلکہ ایک قانون ساز اور بااختیار ’’پارلیمنٹ ‘‘ کی شکل میں ہے ۔ وہ اپنی بحث میں شوریٰ کا ذکر نہیں کرتے۔ اقبال فرماتے ہیں: یہ دیکھ اطمینان ہوتا ہے کہ اس وقت دنیا میں جو نئی نئی قوتیں اُبھر رہی ہیں، کچھ ان کے اور کچھ مغربی اقوام کے سیاسی تجربات کے پیشِ نظر مسلمانوں کے ذہن میں بھی اجماع کی قدرو قیمت اور اس کے مخفی امکانات کا شعور پیدا ہو رہاہے ۔ بلاد اسلامیہ میں جمہوری روح کا نشو ونما اور قانون ساز مجالس کا بتدریج قیام ایک بہت بڑا ترقی زا قدم ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ مذاہب اربعہ کے نمایندے جو سردست فرداً فرداًاجتہاد کا حق رکھتے ہیںاپنا یہ حق مجالس تشریعی کو منتقل کر دیں گے۔ مزید برآں غیر علماء جو ان امور میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں ، اس میں حصہ لے سکیں گے ۔ میرے نزدیک یہی ایک طریقہ ہے جس سے کام لے کر ہم زندگی کی اس روح کو جو ہمارے نظامات فقہ میں خوابیدہ ہے ، از سر نو بیدار کر سکتے ہیں ۴۷ ۔ اس مرحلے پر اقبال خود ہی ایک سوال اٹھاتے ہیں اور وہ یہ کہ موجودہ زمانے میں تو جہاں کہیں مسلمانوں کی کوئی قانون ساز مجلس قائم ہو گی اس کے ارکان زیادہ تر وہی لوگ ہوں گے ، جو فقہ اسلامی کی نزاکتوں سے ناواقف ہیں اور یوں اس قسم کی مجالس شریعت کی تعبیر میں شدید غلطیوں کی مرتکب ہو سکتی ہیں، لہٰذا اس کا طریق کار کیا ہو گا ؟ وہ ۱۹۰۶ء کے ایرانی دستور کے حوالے سے جواب دیتے ہیں ، کہ قانون ساز مجلس کے اندر اس امر کی گنجائش رکھی جا سکتی ہے کہ امور دینی کے معاملات میں علماء کی ایک الگ مجلس قائم ہو جو قانون ساز مجلس کی سرگرمیوں پر نظر رکھے اور شریعت کی تعبیر میں غلطیاں نہ ہونے دے ۔ لیکن ساتھ ہی وہ خبردار کرتے ہیں کہ ایرانی نظریۂ دستور کا یہ طریق کار بجائے خود نہایت خطرناک ہے ، اس لیے سنّی ممالک اسے اختیار کریں تو صرف عارضی طور پر۔ آپ فرماتے ہیں : انہیں (سُنّی ریاستوں کو ) چاہیے کہ مجلس قانون ساز میں علماء کو بطور ایک موثر جزو شامل تو کر لیں لیکن علماء بھی ہر امرِ قانونی میں آزادانہ بحث و تمحیص اور اظہار رائے کی اجازت دیتے ہوئے اس کی رہنمائی کریں۔ بایں ہمہ شریعتِ اسلامی کی غلط تعبیرات کا سدِ باب ہو سکتا ہے تو صرف اس طرح کہ بحالت موجودہ بلادِ اسلا میہ میں فقہ کی تعلیم جس نہج پر ہو رہی ہے ، اس کی اصلاح کی جائے ۔ فقہ کا نصاب مزید تو سیع کا محتاج ہے ، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ جدید فقہ (جورس پروڈنس) کا مطالعہ بھی باختیار اور سوچ سمجھ کر کیا جائے ۴۸ ۔ اسی مقالے کے اختتامی پیرے میں اقبال واضح کرتے ہیں کہ اس کا اصل مقصد ’’روحانی جمہوریت‘‘ کا قیام ہے۔ فرماتے ہیں: اسلام کا یہ بنیادی تصوّر کہ آئندہ کا انسان کسی بھی وحی کا پابند نہیں ہوگا، ظاہر کرتا ہے کہ ہم مسلمان روحانی طور پر دنیا کے آزاد ترین لوگ ہیں۔ ابتدائی زمانہ کے مسلمان جنہوں نے قبل اسلامی ایشیا کی روحانی غلامی سے نجات حاصل کی تھی، اس بنیادی نکتہ کی حقیقی اہمیت کو نہ سمجھ سکے۔ لیکن آج کے مسلمان کے لیے لازم ہے کہ اپنی حیثیت کو پہچانے اور اپنی معاشرتی زندگی کو بنیادی اصولوں کی روشنی میں، از سر نو تعمیر کر کے اسلام کے اصل مقصد ، یعنی ’’روحانی جمہوریت‘‘ جس کا ابھی صرف ایک محدود حد تک اظہار ہوا ہے، مکمل طور پر نافذ کر کے دکھائے۴۹۔ ساتویں مقالے کا موضوع ہے ’’کیا مذہب کا امکان ہے ‘‘ ۔ اس مقالے میں اقبال نے مذہب اور سائنس کی جستجووں کا موازنہ کیا ہے ، بقول اقبال مذہبی زندگی کے تین ادوار ہیں: ایمان ، فکر اور معرفت ، ایمان کا دور احکام کے بے چون و چرا اطاعت کا دور ہے ۔ اس کے بعد فکر کا دور آتا ہے ،جب انسان عقلاً سمجھنا چاہتا ہے کہ احکام کا سر چشمہ کیا ہے۔ اس دور میں مذہب کو کسی ایسی مابعد الطبیعیات کی تلاش ہوتی ہے جو اس کے لیے ایک اساس کا کام دے سکے ۔ سب سے آخر میں معرفت کا دور ہے کہ جب انسان کی آرزو ہوتی ہے کہ حقیقت مطلقہ سے براہ راست اتصال قائم کرے ۔ اقبال سائنس کے جدید اکتشافات کے حوالے سے واضح کرتے ہیں کہ وہ ایک ایسی سمت میں بڑھ رہی ہے کہ اب عقلاً بھی الٰہیات کا ایک نظام تشکیل دے سکنا مشکل نہیں رہا ۔ لیکن اس کے باوجود عصرِ حاضر کا مغربی انسان اپنے تصورات کے اعتبار سے خود اپنی ذات سے اور سیاسی اعتبار سے افراد افراد سے متصادم ہیں ۔ اس تصادم کا سبب وہ سنگدل اور بے رحم انانیت یا ناقابل تسکین جوعِ زرہے جس پر قابو پانا مغربی انسان کے لیے مشکل ہے ۔ بالفاظ دیگر مادیّت نے اس کے رگ و پے مفلوج کر دیے ہیں۔ دوسری طرف مشرقی انسان کی کیفیت کہیں زیادہ المناک ہے۔وہ اپنی اندرونی زندگی کی شیرازہ بندی کرنے سے قاصر ہے ، لہٰذا تاریخ کی مسلسل حرکت میں عملاًحصہ لینے کی صلاحیت اس میں پیدا نہیں ہوتی۔ ترک ، ایرانی ، مصری یا عرب مسلمان وطنیت کا سہارا لے رہے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ یوں انہیں قوت اور طاقت کا کوئی نیا سر چشمہ مل جائے گا ۔ دورِحاضر کا مسلمان بحیثیت مجموعی یہ یقین کھو بیٹھا ہے کہ اس کی روحانی زندگی کا احیاء دراصل مذہب ہی کے ذریعے ممکن ہے ۔ اسے اس حقیقت کا احساس نہیں رہا کہ مذہب ہی وہ ذریعہ ہے ، جس سے افکار و خیالات کی دنیا میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور جس کے سہارے وہ زندگی ، طاقت اور قوت کے دائمی سر چشمے تک پہنچ سکتا ہے ، مگر اسے گمان ہے کہ وہ از سر نو زندگی اور طاقت حاصل کرے گا تو اس طرح کہ اپنے افکار و خیالات کی دنیا کو تنگ سے تنگ کرتا چلا جائے ۔ ملحدانہ اشتراکیت میں گو ایک نئے مذہب کا جوش و خروش ہے، لیکن وہ اس چیز سے برسرِ پیکار ہے جو اس کے لیے زندگی اور طاقت کا سرچشمہ بن سکتی تھی ۔ پس دنیائے جدید کی مایوسی اور دل گرفتگی کا مداوا نہ تو تصوف ہے ، نہ علاقائی وطنیت ، اور نہ ملحدانہ اشتراکیت ۔ عصر حاضر کا انسان اگر پھر سے وہ اخلاقی ذمہ داری اٹھا سکے گا جو سائنس یا علوم جدیدہ کی ترقی نے اس کے کندھوں پر ڈال رکھی ہے، تو صرف مذہب کی بدولت ۔ جب تک انسان کو اپنی ابتدا اور انتہا کی کوئی نئی جھلک نظر نہیں آتی ، وہ کبھی اس معاشرے پر غالب نہیں آ سکتا ، جس کی روحانی وحدت اس کی مذہبی اور سیاسی قدروں کے اندرونی تصادم سے پارہ پارہ ہو چکی ہے ، اور جس میں ہمہ گیر مقابلے اور مسابقت کی دوڑ نے ایک انتہائی غیر انسانی شکل اختیار کر رکھی ہے اقبال کے خطبات میں بعض ایسے افکار ہیں جو ارتقائی مراحل سے گزرے اور بعض ایسے نظریات ہیں ، جن پر مختلف اہل علم نے تبصرے بھی کیے ہیں، مگر ان میں سے بعض امور پر بحث آگے چل کر کی جائے گی۔ خطبات کے اس مختصر جائزے سے یہ بخوبی ظاہر ہو جاتا ہے کہ برصغیر میں مسلم ریاست کے قیام کا تصور پیش کرنے سے قبل اقبال نے اس کے لیے ایک دینی ، تمدنی ، معاشرتی یا نظریاتی بنیاد فراہم کرنے کی کوشش کی۔ مآخذ باب: ۱۶ ۱۔ ’’انوار اقبال‘‘مرتبہ بشیر احمد ڈار ، صفحہ ۳۱۷۔ ۲۔ ’’متعلقاتِ خطبات اقبال ‘‘ مرتبہ ڈاکٹر سید عبداللہ ، صفحات ، ۱۷ تا ۲۰ ۳ ۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ، حصہ اوّل ، صفحہ ۱۵۵ ۴ ۔ ایضاً ، حصہ دوم ، صفحات ، ۳۴۲ تا ۳۴۴ ۵ ۔ ایضاً حصہ اوّل ، صفحہ ۱۴۸ ۶ ۔ ایضاً حصہ اوّل ، صفحہ ۱۴۸ ۷ ۔ ایضاً حصہ اوّل ، صفحہ ۱۴۳ ، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ‘‘ از محمد اقبال ، (انگریزی) ، صفحات ۷،۸ ۸ ۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ، حصہ اوّل ، صفحہ ۲۰۹ ۹ ۔ ایضاً حصہ دوم، صفحہ ۲۸۱ ۱۰۔ ایضاً حصہ دوم ، صفحہ ۲۱۶ ۱۱ ۔ ایضاً حصہ دوم ، صفحہ ۳۴۸ ۱۲ ۔ ایضاً حصہ اوّل ، صفحہ ۵۰ ۱۳ ۔ ایضاً حصہ اوّل ، صفحہ ۱۴۷ ۱۴ ۔ ایضاً حصہ اوّل ، صفحہ ۱۴۴ ۱۵ ۔ ’’گفتارِ اقبال ‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل، صفحات ۱۰۳، ۱۰۴ ۔ اقبال کے بعض فارسی اور اردو اشعار میں بھی جمہوریت پر تنقید کی گئی ہے ۔ ۱۶ ۔ دیکھیے اقبال کا خط اپنی ہمیشرہ کے نام مورخہ ۸؍دسمبر ۱۹۱۹ء (اقتباس ’’زندہ رود‘‘ جلد دوم ، صفحہ ۲۶۵ ) ۱۷ ۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ، حصہ اوّل ، صفحات ۴۹، ۵۰، ۱۱۶ تا ۱۸۷ ۱۸ ۔ ’’نقوش ‘‘ اقبال نمبر ستمبر ۱۹۷۷ء صفحہ ۵۷۲ ۱۹ ۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطا ء اللہ، حصہ اوّل صفحہ ۱۴۵ ۲۰ ۔ ’’نقوش ‘‘ اقبال نمبر، ستمبر ۱۹۷۷ء ، صفحات ۵۵۰ تا ۵۷۱ ، مضمون ۔ عنوان ’’علامہ اقبال کے سفر کی روئیداد اور خطبات ‘‘ از محمد عالم مختار حق ، ’’متعلقاتِ خطبات اقبال ‘‘مرتبہ ڈاکٹر سید عبداللہ ، صفحات ۱۷ تا ۴۵ ۔ باسن برج کے مقام پر جو مسلم لڑکی اپنے والد کے ساتھ اقبال کے استقبال کے لیے گاڑی میں آ بیٹھی، وہ بیگم حجاب امتیاز علی تاج تھیں ۔ انہوں نے اس ملاقات کی تفصیل خود بیان کی ہے ۔ دیکھیے ’’اقبال درونِ خانہ ‘‘ از خالد نظیر صوفی ، صفحات ۱۸۳ تا ۱۹۴ ۔ ۲۱ ۔ پوری تقریر کے انگریزی متن کے لیے ، دیکھیے ’’اقبال کے خطوط اور تحریریں ‘‘ مرتبہ بی اے ڈار (انگریزی) صفحات ۵۰ ، ۵۱ ، ۲۲ ۔ ’’انوار اقبال ‘‘ مرتبہ بشیر احمد ڈار ، صفحات ۲۳۴ تا ۲۳۶ ۲۳ ۔ ’’گفتار اقبال ‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۷۵ تا ۸۴ ۔ اس تقریر کی اشاعت میں ’’انقلاب‘‘ نے غلطی سے لکھ دیا کہ عورتیں بچے جننے کی اُجرت طلب کر سکتی ہیں۔ اقبال نے ایک خط کے ذریعے تصحیح کرائی ۔ ۲۴ ۔ ’’علامہ اقبال کی داستانِ دکن ‘‘ از میر محمود حسین ۔ میسور ، صفحہ ۷ ۲۵۔ ایضاً ، صفحات ۹، ۱۰ ۲۶ ۔ ایضاً ، صفحہ ۱۰ ۲۷ ۔ ایضاً ، صفحات ۳، ۴ ، ۵ ۲۸ ۔ ’’انوار اقبال ‘‘ مرتبہ بشیر احمد ڈار ، صفحہ ۲۲۹ کے بالمقابل اقبال کی تحریر کا عکس ۲۹ ۔ ’’علامہ اقبال کی داستانِ دکن ‘‘ از میر محمود حسین ، میسور ، صفحات ۱۳ ، ۱۴ ۳۰ ۔ ’’اقبال اور حیدر آباد ‘‘ ، صفحہ ۱۴ ، اقبال کو عثمانیہ یونیورسٹی سے حیدر آباد میں تین لکچر ، بمعاوضہ ایک ہزار کلدار ، دینے کی دعوت موصول ہوئی تھی ۔ لکچروں کے مضامین کا انتخاب ان کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ اقبال نے یہ دعوت ۹؍دسمبر ۱۹۲۸ء کو قبول کی، لیکن معلوم ہوتا ہے انہوں نے مدراس میں دیے گئے تین لکچروں میں سے صرف دو حیدر آباد میںدیے ۔ انہیں جنوری ۱۹۳۰ء کے آخر میںبقیہ تین لکچر بھی اسی معاوضے پر دینے کی دعوت ملی تھی ، لیکن اقبال کے لیے چونکہ دوبارہ حیدر آباد آنا ممکن نہ تھااس لیے انہوں نے معذرت کر دی ۔ دیکھیے ’’اقبال ریویو ‘‘ اقبال اکیڈمی حیدر آباد ، خصوصی ایڈیشن ، شمارہ اپریل تا جون ۱۹۸۴ء ، صفحات ۸،۹، ۱۰ ، ۱۸ ، ۱۹ ۳۱۔ ’’اقبال اور حیدر آباد ‘‘ از نظر حیدر آبادی ، صفحات ۱۴ تا ۱۶ ’’اقبال اور بزم اقبال حیدر آباد ‘‘ از عبدالرئوف عروج ،صفحات ۴۰ تا ۴۲ ۳۲ ۔ ’’نقوش ‘‘ اقبال نمبر، ستمبر ۱۹۷۷ء ، صفحات ۵۷۲ تا ۵۷۵ ۔ اقبال دسمبر ۱۹۲۹ء میں دوبارہ علی گڑھ گئے ۔ ۳۳ ۔ ’’مکتوبات اقبال ‘‘ مرتبہ سید نذیر نیازی ؛ صفحات ۴۵ ، ۴۶ ۳۴ ۔ ایضاً ، صفحہ ۲۴ ۳۵ ۔ ایضاً ، صفحات ۴۲ ، ۴۳ ۳۶ ۔ ایضاً ، صفحہ ۲۵ ۳۷ ۔ دیکھیے مقدمہ از مترجم ؛ صفحہ ۱ ۔ ’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ (اردو) ۳۸ ۔ دیباچہ ’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ‘‘ (اردو ) ۳۹ ۔ ’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ‘‘ اردو ترجمہ سید نذیر نیازی ، صفحہ ۱۲ ۔ راقم نے ترجمے میںاصل متن کی روشنی میں کچھ ترمیم کی ہے۔ ۴۰ ۔ ایضاً ، صفحہ ۲۲ کچھ ترمیم کے ساتھ ۴۱ ۔ ایضاً ، صفحہ ۱۴۰ ۴۲ ۔ ایضاً ، صفحات ۱۴۵ ، ۱۴۶ ۴۳ ۔ ایضاً ، صفحات ۱۹۳، ۱۹۴ ۴۴ ۔ ایضاً ، صفحات ۲۲۷ ، ۲۲۸ ۴۵ ۔ ایضاً ، صفحات ، ۲۳۲ ۔ ۲۳۳، ۲۳۶ ، ۲۵۴، ۲۶۰ ، ۲۷۴ ، ۲۷۵ ۴۶ ۔ ایضاً ، صفحہ ۲۴۶ ۴۷ ۔ ایضاً صفحہ ۲۶۸ ۴۸ ۔ ایضاً ، صفحہ ۲۷۱ ۴۹۔ ’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ از علامہ اقبال (انگریزی) طبع ۱۹۸۲ء ، اردو ترجمہ از راقم ۔ باب :۱۷ مُسلم ریاست کا تصوّر ہندو مسلم امتیاز کا مسئلہ ، جسے بعد میں فرقہ وارانہ مسئلے یا دو قومی نظریے کا نام دیا گیا، آٹھویں صدی عیسوی میںبرصغیر میں اسلام کے ورود کے ساتھ ہی پیدا ہو گیا تھا ۔ لیکن اس امر کے متعلق تاریخی شہادت پہلی بار ، آج سے تقریباً نو سو برس قبل ، البیرونی کی تصنیف ’’کتاب الہند‘‘ فراہم کرتی ہے ، جس میںہندو مسلم اختلافات کی تفصیل بیان کرنے کے بعد البیرونی اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان ایک ایسی خلیج حائل ہے جو عبور نہیں کی جا سکتی ۱ ۔تاریخ کا مطالعہ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ مسئلے کے حل یا قومیت متحدہ کی داغ بیل ڈالنے کے لیے پہلی شعوری کوشش سولہویں صدی عیسوی میں شہنشاہ اکبر نے دین الٰہی کے ذریعے کی۔ لیکن یہ کوشش اس لیے ناکام رہی کہ ہندو اور مسلمان دونوں ایسے ادغام کے خلاف تھے۔ مسلمانوں میں شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی ؒ نے اس تحریک کی شدید مخالفت کی اور ہندووں میں راجہ مان سنگھ نے شہنشاہ اکبر کو صاف صاف بتا دیا کہ ہندوستان میں صرف دو ہی مذہب ہیں، ہندو مت اور اسلام ، اور ان کا ادغام کسی صورت میں بھی ممکن نہیں۲۔ سترھویں صدی عیسوی میں شہنشاہ اکبرہی کے خطوط پر قومیت متحدہ کو وجود میں لانے کی دوسری شعوری کوشش داراشکوہ نے کی۔ جسے شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے ناکام بنا دیا ۔ پس انہی تاریخی شہادتوں کی بنا پر اقبال شیخ احمد سرہندی اور اورنگ زیب عالمگیر کو ہندوستان میں مسلم قومیت کے بانیوں میںشمار کرتے تھے۔ برصغیر میں اسلام کا جدید احیاء اٹھارہویں صدی عیسوی سے شروع ہوتا ہے ، جب جنگ پلاسی ۱۷۵۲ء اور بالخصوص سلطان ٹیپو کی شہادت ۱۷۹۹ء کے بعد مسلم علماء و فقہانے فتوے صادر کیے کہ ہندوستان دارالاسلام نہیں رہا ، بلکہ دارالحرب بن چکا ہے، اس لیے مسلمانوں پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ جہاد کے ذریعے اپنا کھویا ہوا سیاسی اقتدار حاصل کریں یا ہندوستان چھوڑ کر کسی مسلم ملک میں ہجرت کر جائیں ۔ انہی فتووں کی اساس پر سید احمد بریلوی شہید ، شاہ اسمٰعیل شہید ، مولوی شریعت اللہ ، دو دو میاں ، میر نثار علی شہید اور غلام معصوم شہید ایسی برگزیدہ ہستیوں نے دعوت اصلاح و تنظیم جہاد کی تحریکیں چلائیں سید احمد بریلوی شہید اور شاہ اسمٰعیل شہید نے شمال مغربی سرحد کو مرکزِ جہاد بنا کر مسلم اکثریتی علاقوں پنجاب اور کشمیرکی آزادی کے لیے سکھوں کے خلاف اعلان جہاد کیا ۔ اس زمانے میں سرحد اور بلوچستان کے مسلم اکثریتی علاقوں کے سردار یا حاکم مسلمان تھے، جو سید احمدبریلوی شہید کے مددگار تھے۔ سید احمد بریلوی شہید کا مقصد شمال مغربی مسلم اکثریتی علاقوں میں اسلامی ریاست کا قیام تھا اور اسی سبب وہ پنجاب اور کشمیر کو سکھوں کے تسلط سے آزاد کرانا چاہتے تھے۔ اسی طرح مشرقی بنگال کے مسلم اکثریتی علاقے میں میر نثار علی شہید اور غلام معصوم شہید کی مسلم کاشتکاروں پر مشتمل عسکری تنظیم بھی ہندو جاگیرداروں کے استحصال کا خاتمہ کرنے کے لیے وجود میں لائی گئی اور ان کے اعلان جہاد کا مقصد بھی مشرقی بنگال میں اسلامی ریاست کا انعقاد تھا ، مگر برصغیر کے شمال مغربی اور مشرقی خطوں میں اسلامی ریاستوں کے قیام کے لیے مسلمانوں کی کوششیں اس لیے ناکام رہیں کہ انگریزوں کے جدید اندازِ جنگ کا مقابلہ فرسودہ طور طریقوں سے نہ کیا جا سکتا تھا ۔ بہر حال اسلام کے احیائے جدید کے تاریخی پہلو کے مطالعے سے یہ تو صاف عیاں ہے کہ برصغیر میں سب سے پہلے مسلمانوں میں اسلامی عصبیت کے جذبے کے تحت آزادی کی تحصیل کے لیے شعور پیدا ہوا اور انہوں نے انیسویں صدی عیسوی میں شمال مغربی اور مشرقی علاقوں میں اسلامی ریاستوں کے انعقاد کی خاطر عملی جستجو کی ۔ یہ جستجو گو وقتی طور پر ناکام رہی ، لیکن تحریک احیائے اسلام کا خاتمہ نہ ہوا ۔ انگریزی غلبے کے تحت برصغیر میں نئے مغربی تصورات داخل ہوئے اور سر سید احمد خان نے اسلامی عصبیت ہی کے جذبے کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے مسلمانوں میںجدید تعلیم کے فروغ کے سلسلے میں نمایاں خدمات انجام دیں ، مگر اسی دوران میں مغربی نظریات کے زیر اثر ہندو اکثریت میںسیاسی بیداری پیدا ہوئی اور وہ جمہوری اداروں کے قیام کے لیے اجتماعی مظاہرے کرنے لگے۔ اُس دور کے مسلمانوں میں سر سید پہلی شخصیت ہیں ۔ جنہوں نے محسوس کیا کہ مغربی طرز کے جمہوری اداروں کے قیام سے برصغیر کے مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ ممکن نہ ہو سکے گا، لہٰذا انہوں نے مسلمانوں کو کانگرس میںشامل ہونے سے باز رکھا ۔ بالآخر ان کے معتقدین محسن الملک اور وقار الملک کی کوششوں سے بیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخاب کا اصول مان لیا گیا ۔ یہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ مسلمانانِ ہند کے حقوق کے تحفظ کے بارے میں سرسید کے نظریات نے اقبال کے ہاں ۱۹۰۷ء ہی سے ایک عقیدے کی صورت اختیار کر لی تھی اور اسی عقیدے کے پیش نظر وہ اپنی شعری تخلیقات یا نثری تحریروں کے ذریعے نہ صرف مسلم قومیت کے اصول کو اجاگر کرتے رہے بلکہ انہوں نے مسلمانوں کا علیحدہ قومی تشخص برقرار رکھنے کی خاطر ایک مضبوط فکری اور نظریاتی اساس بھی فراہم کی ۔ ۱۹۲۷ء سے لیکر ۱۹۳۰ء تک اسی نظریاتی اساس پر انہوں نے مسلمانوں کی کُل ہند سیاسیات میں عملی طور پر حصہ لیا اور بالآخر برصغیر میںمسلم ریاست کے قیام کا تصور پیش کیا ۔ برصغیر میں فرقہ وارانہ مسئلہ یا اس کے شمال مغربی اور مشرقی خطوں میں مسلم اکثریت کی موجودگی بجائے خود ایسی حقیقتیںتھیں جو روز روشن کی طرح عیاں تھیں ، اس لیے اقبال سے پیشتر بھی بعض شخصیتوں کو ان کا احساس تھا اور فرقہ وارانہ مسئلے کے حل کے طور پر ہندووں اور مسلمانوں میں ہندوستان کی تقسیم کے متعلق بسا اوقات خیالات کا اظہار کیا جاتا یا تجاویز پیش کی جاتی تھیں ۔ شریف الدین پیرزادہ نے اپنی انگریزی تصنیف ’’ارتقائے پاکستان‘‘ میں سر سید ، حالی، اور عبدالحلیم شرر (دونوں سر سید کے معتقدین میں سے تھے) کے علاوہ ایسی انیس شخصیتوں کا ذکر کیا ہے ، جن کی کارگزاری کا اس مرحلے پر جائزہ لینا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا ۔ شریف الدین پیرزادہ کی تحقیق کے مطابق ۱۸۵۷ء میں جان برائیٹ نے برطانوی پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان میں بیس مختلف قومیں آباد ہیں جو بیس مختلف زبانیں بولتی ہیں۔ اس لیے انگریزوں کو ہندوستان سے نکلنے سے پیشتر وہاں پانچ یا چھ آزاد ریاستیں قائم کرنی پڑیں گی۔ ۱۸۸۱ ء میں جمال الدین افغانی نے وسطی ایشیا کے روسی مسلم علاقوں افغانستان اور ہندوستان کے شمال مغرب میںمسلم اکثریتی صوبوں پر مشتمل ایک مسلم ری پبلک کے قیام کا خواب دیکھا تھا ۔ ۱۸۸۳ء میںولفرڈ بلنٹ نے تجویز پیش کی کہ شمالی ہندوستان میں مسلم اور جنوبی ہندوستان میں ہندو حکومتیںقائم کر دی جائیں ، مگر ہر صوبے میں انگریزی فوج موجود رہے ۔ ۱۹۰۵ء میں وائسرائے لارڈ کرزن نے تقسیم بنگال کا نفاذ کیا تاکہ مشرقی بنگال کے پسماندہ مسلمان ترقی کر سکیں ، لیکن چونکہ بنگالی مسلمان سیاسی طور پر منظم نہ تھے ، اس لیے بنگالی ہندوئوں کے احتجاجی مظاہروں کے سبب تقسیم منسوخ کرنا پڑی ۔ ۱۹۱۱ء میں سید امیر علی نے سر محمد شفیع کو خط لکھا تھا کہ ہندوستان میں ہندو اور مسلم دو علیٰحدہ قومیں ہیں، اس لیے یہاں صرف ایسا دستوری نظام ہی قابل عمل ہو سکتا ہے جو ان کے جداگانہ قومی تشخص یا حقوق کے تحفظ کا ضامن ہو۔ ۱۹۱۳ء میں ولایت علی بمبوق نے اخبار’’ کامریڈ‘‘کے مزاحیہ کالم میں تحریر کیا تھا کہ ہندوئوں اور مسلمانون کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ رکھنا چاہیے تاکہ شمالی ہندوستان مسلمانوں کو دیا جا سکے ، اور جنوبی ہندوستان ہندوئوں کو ۱۹۱۷ء میں ڈاکٹر عبدالجبار خیری اور پروفیسر عبدالستار خیری نے یورپ میںسٹاک ہوم کی سوشلسٹ انٹرنیشنل کانفرنس کے دوران میں ایک تحریری بیان میں کہا تھا کہ ہندوستان کے ہر صوبے کو خود مختاری کا حق دیا جانا چاہیے ، تاکہ مسلم اور ہندو اکثریتی صوبے علیٰحدہ علیٰحدہ وفاق قائم کر سکیں۔ ۱۹۲۰ء میں محمد عبدالقادر بلگرامی نے اخبار ’’ذوالقرنین ‘‘ بدایوں میں مہاتما گاندھی کے نام ایک خط شائع کیا، جس میں تجویز پیش کی کہ ہندوستان کو مسلمانوں اور ہندوئوں میں تقسیم کر دینا چاہیے ۔ اس خط میں صوبوں کے مختلف اضلاع میں ہندومسلم آبادی کے تناسب کا ذکر بھی کیا گیا تھا۔ ۱۹۲۱ء میں نادر علی نے ، جو انگریزوں کے بڑے مداح تھے اور تحریک خافت کی مخالفت میں سرگرم عمل رہے ، حکومت برطانیہ کو مشورہ دیا تھا کہ ہندووں اور مسلمانوں کے تنازعوں کے حل کے لیے ہندوستان کی تقسیم لازمی ہے۔ ۱۹۲۳ء میںسردار گل محمد خان ، صدر انجمن اسلامیہ ڈیرہ اسماعیل خان نے سرڈینس برے کی زیر صدارت شمال مغربی سرحد کمیٹی کے سامنے شہادت دیتے ہوئے کہا تھا کہ پشاور سے آگرہ تک کا علاقہ مسلمانوں کو اور آگرے سے راس کماری تک کا علاقہ ہندوئوں کو دے دیا جائے اور دونوں قومیں آپس میں اپنی اپنی آبادیوں کا تبادلہ کرلیں ۔ ۱۹۲۴ء میں مولانا حسرت موہانی نے تجویز پیش کی تھی کہ شمال مغرب کے مسلم اکثریتی صوبوں کو مدغم کر کے ایک صوبہ بنا دیا جائے اور اسے ہندوستان کے وفاقی نظام میں ایک وحدت کی پوزیشن حاصل ہو ۔ یہ تجویز نہرو کمیٹی نے رد کر دی تھی۔ ۱۹۲۴ء میں لالہ لاجپت رائے نے اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ ہندو مسلم آبادی کے لحاظ سے پنجاب اور بنگال کی تقسیم کر دی جائے اور پھر مغربی پنجاب ، صوبہ سرحد ، سندھ ، بلوچستان اور مشرقی بنگال کے علاقے مسلمانوں کو دے دیے جائیں اور ہندوستان کے باقی تمام صوبوں میں ہندو حکومتیں قائم کی جائیں ، مگر بعد میں لالہ لاجپت رائے مُکر گئے اور کہا کہ انہوں نے ایسے کسی خیال کا اظہار نہیں کیا تھا ۔ ۱۹۲۴ء ہی میں اسٹالن (روسی آمر) نے کہا تھا کہ ہندوستان بظاہر ایک متحد ملک دکھائی دیتا ہے لیکن جب وہاں انقلاب آیا تو کئی اجنبی قومیں منصہ شہود پر آ جائیں گی ۔ ۱۹۲۴ء میں مولانا محمد علی نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ مسلمان اقلیت نہیں بلکہ ایک قوم ہیں اور ہندوستان کا مسئلہ بین الاقوامی ہے لہٰذا مسلمانوں کے لیے قسطنطنیہ سے لے کر دہلی تک ایک ’’کارے ڈور‘‘ (رستہ کی شکل میں علاقے کا ٹکڑا) بنا دینا چاہیے ۔ ۱۹۲۵ء میں دست شناس کیرو نے پیشگوئی کی تھی کہ ہندوستان سے انگریزوں کو بالآخر نکلنا پڑے گا اور وہ مسلمانوں اور بدھ مت کے ماننے والوں میں برابر برابر تقسیم ہو جائے گا ۔ ۱۹۲۸ء میں ’’ایک ہندی مسلمان ‘‘ نے اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ ہندو اور مسلمان دو ایسی ہی مختلف قومیں ہیں جیسے جرمن اور فرانسیسی اور چونکہ ان میں اتحاد ممکن نہیں، اس لیے ہندوستان کو ان میں تقسیم کر دینا چاہیے ۔ ۱۹۲۸ء میں مرتضیٰ احمد خان نے اخبار ’’انقلاب ‘‘ میں مضامین کا ایک سلسلہ شائع کیا، جس میں شمال مغرب کے مسلم اکثریتی صوبوں پر مشتمل ایک مسلم وطن کے قیام کی تجویز پیش کی گئی ۔ ۱۹۲۹ء میں دُرانی نے اپنی کتاب میں تحریر کیا کہ ہندو اور مسلمان دو مختلف قومیں ہیں، اس لیے مسلمان یا تو خود کشی کر لیں ۔ یا ہندو بن جائیں اور یا ہندوستان کی حکومت میں اپنا حصہ طلب کریں ۳۔ شریف الدین پیرزادہ ان تمام شخصیات کو مسلم ریاست (یعنی پاکستان) کے بننے میں معاون یا اس کے ’’بنانے والوں ‘‘میں شمار کرتے ہیں ۴۔ ان کی کتاب کے مطالعے سے بظاہر یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ اقبال نے بھی انہی شخصیات کی طرح ہندوستان کی تقسیم یا الگ مسلم ریاست کا تصور دیا تھا ، لیکن اس مرحلے پر یہ بتا دینا ضروری ہے کہ اقبال نے تو مسلم ریاست کی تجویز پیش کرنے سے قبل اس کے لیے ایک فکری یا نظریاتی اساس فراہم کی اور پھر جب تک ان کی زندگی نے وفا کی اسے وجود میں لانے کے لیے عملی طور پر جدوجہد بھی کرتے رہے ، لیکن باقی شخصیات مثلاً برائیٹ ، ولفرڈ بلنٹ ، لارڈ کرزن ، لالہ لاچپت رائے ، اسٹالن یادست شناس کیرو نے اس سلسلے میں کون سی ایسی خدمات انجام دی ہیں ، جنہیں مسلمانوں کے لیے نظر انداز کرنا مناسب نہیں؟ظاہر ہے کہ بعض لوگوں نے فرقہ وارانہ مسئلے کے حل کے طور پر تقسیم ہند کی تجاویز پیش کیں؟ لیکن انہیں پاکستان بننے میں معاون یا اس کے بنانے والوں میں شمار کرنا درست نہیں۔ اشتیاق حسین قریشی نے اپنی انگریزی تصنیف ’’پاکستان کے لیے جدوجہد‘‘ میں اقبال سے پیشتر برصغیرمیں مسلم ریاست کا تصور پیش کرنے والوں میں جمال الدین افغانی ، چودھری رحمت علی، ڈاکٹر عبدالجبار خیری اور پروفیسر عبدالستار خیری ، محمد عبدالقادر بلگرامی ، لووٹ فریزر ، ساورکر ، لالہ لاجپت رائے، سردارگل خان ، مولانا محمد علی اور آغا خان کے ناموں کا ذکر کیا ہے، لیکن ان سب اور اقبال میں وہ یہ فرق روا رکھتے ہیں کہ اقبال نے ایک اہم عوامی شخصیت کے طور پر مسلم ریاست کا تصور مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے پیش کیا ۵ ۔ گویا وہ بھی اس سلسلے میں اقبال کے مسلم ریاست کے پیش کردہ تصور سے قبل اس کے لیے فکری یا نظریاتی اساس کے فراہم کرنے یا زندگی بھر اس کے قیام کے لیے جدوجہد کرنے کے پہلوئوں کو نظر انداز کرنا مناسب خیال کرتے ہیں یا شاید حیاتِ اقبال کے یہ اہم پہلوان کے علم یا تحقیق کی زد سے باہر رہے ۔ دونوں مصنف یعنی شریف الدین پیرزادہ اور اشتیاق حسین قریشی اپنی تصانیف میں ذکر کرتے ہیں کہ جمال الدین افغانی نے وسطی ایشیا کے روسی مسلم علاقوں ، افغانستان اور ہندوستان کے شمال مغرب میں مسلم اکثریتی صوبوں پر مشتمل ایک مسلم ری پبلک کے قیام کا خواب دیکھا تھا ۔ اس ضمن میں شریف الدین پیرزادہ، اشتیاق حسین قریشی کی تحریر پر انحصار کرتے ہیں اور اشتیاق حسین قریشی کا انحصار کتاب ’’تاریخ تحریک آزادی ‘‘جلد اوّل (انگریزی) کے صفحات ۴۸،۴۹ پر ہے ، مگر تحریک آزادی (جلد اوّل) کا مصنف اس روایت کی تائید میں کوئی مستند ماخذ یا حوالہ پیش نہیں کرتا ۔ ’’تاریخ تحریک آزادی‘‘ کی جلدیں اس لیے نامکمل رہیں کہ یہ سلسلہ ہائے کتب تحقیقی طور پر ناقابل اعتماد قرار دیا گیا تھا۔ بلاشبہ جمال الدین افغانی ترکی کے سلطان خلیفہ کی سربراہی میں جمہوریت کی بنیادوں پر ایک دستوری وفاق کی صورت میں ممالک اسلامیہ کے اتحاد کے داعی تھے اور ملت اسلامیہ کے لیے ان کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے اقبال انہیں عصر حاضر کا مجدد سمجھتے ہیں ۶۔مگر مسلمانان ہندو ستان کے متعلق ان کے نظریات وہی تھے جو مولانا شبلی کے تھے ، یعنی یہ کہ ہندوئوں کے ساتھ اشتراکِ اغراض کی بنیاد پر تعاون کیا جائے اور ترکی خلافت کے حق میں تحریک میں سرگرمی سے حصہ لیا جائے۔ انہوں نے ہندوستان میں اپنے قیام کے دوران میں سر سید احمد خان اور ان کے مکتبہ خیال کے لوگوں سے کوئی تعلق یا وابستگی پیدا نہ کی ، بلکہ سر سید کے نظریات کی تردید میں ’’ردّ نیچریہ‘‘ تحریر کی اور اپنے اخبار ’’العروۃالوثقٰی‘‘ میں بھی ان کے خلاف لکھتے رہے ۔ اسی اخبار کے ایک مضمون میں جمال الدین افغانی نے تحریر کیا کہ سر سید اور اس کے حامیوں نے مذہب کا لبادہ اتار پھینکا ہے اور وہ مسلمانوں میںکفر و الحاد پھیلا رہے ہیں۔ یہ مادہ پرست یورپ کے مادہ پرستوں سے بھی گئے گزرے ہیں، کیونکہ مغربی ممالک میں جو کوئی بھی اپنا مذہب چھوڑتا ہے وہ محب وطن تو رہتا ہے اور غیر ملکی حملہ آوروں کے خلاف اپنے وطن کے دفاع کے لیے جان تک کی بازی لگا دیتا ہے ، مگر ان لوگوں میں یہ جذبہ بھی مفقود ہے ۷۔ سو راقم کی رائے جمال الدین افغانی سے منسوب متذکرہ مسلم ری پبلک کا تصور ایک ایسی روایت ہے جس کی تائیدی شہادت اب تک کسی نے پیش نہیں کی۔ بہرحال شریف الدین پیر زادہ ، اشتیاق حسین قریشی یا مصنف ’’تاریخِ تحریک آزادی ‘‘ کی تحریروں پر انحصار کرتے ہوئے بعض اور منصفین نے بھی اسی مشکوک روایت کو دہرایا ہے۔ ایک اور کتاب جس کا یہاں ذکر کرنا مناسب ہے چودھری خلیق الزمان کی انگریزی تصنیف ’’شاہراہ پاکستان ‘‘ ہے۔ اس کتاب میں مسلم ریاست کے تصور کے خالقوں میں سرتھیوڈ ورماریسن وغیرہ کے ناموں کا اضافہ ہوا ہے ، لیکن اقبال کے بارے میں ایک مقام پر غلط بیانی سے کام لیا گیا ہے ۔ مصنف فرماتے ہیں کہ ۱۹۳۰ء میں پہلی گول میز کانفرنس کے دوران میں چوہدری رحمت علی نے لندن میں کئی مسلم قائدین سے ملاقات کی اور انہیں اپنی تقسیم ہند والی اسکیم سمجھائی ، جس کو انہوں نے پہلی مرتبہ پاکستان کا نام دیا اور آخر کار دسمبر ۱۹۳۰ء میں اقبال نے خود اسی کو کُل ہند مسلم لیگ کے اجلاس الٰہ آباد کے صدر کی حیثیت سے پیش کیا تھا ۔ چودھری خلیق الزمان کی تحریر سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ چوہدری رحمت علی سے متاثر ہو کر اقبال نے مسلم لیگ کے اجلاس الٰہ آباد میں مسلم ریاست کا تصور پیش کیا ۸ ۔چوہدری خلیق الزمان پہلی گول میز کانفرنس میں مندوب کی حیثیت سے شریک نہ ہوئے اور وہ اس موقع پر لندن میں موجود بھی نہ تھے ۔ سو یہ ان کا چشم دید واقعہ نہیں، مگر عین ممکن ہے کہ یہ غلط بات انہوں نے اپنے قیاس سے تحریر کی ہو، اور ان کے قیاس نے انہیں دھوکا دیا ہو۔ بات یہ ہے کہ برصغیر میںمسلم ریاست یا پاکستان کے لیے تحریک کے متعلق اب تک اسلامی یا نظریاتی نقطۂ نظر سے کوئی مستند کتاب تحریر نہیں کی گئی ۔ مسلمانوں یا غیر مسلموں نے اس موضوع پر جو کتب انگریزی یا اردو میں لکھی ہیں ان میں اس تحریک کا صرف نیشنل پہلو نمایاں کیا گیا ہے ۔ یعنی ان میں اسلام کو ایک قومیت ساز عنصر کی حد تک تو قبول کیا جاتا ہے لیکن اس سے زیادہ نہیں ۔ ایسی تمام کتب کے مطالعے سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ دوقومی نظریہ (جس کی حقیقت کا اعتراف بعض انگریزوں یا ہندوئوں کو بھی تھا ) مسلمانوں کی ہندوئوں اور انگریزوں کے ساتھ سیاسی جنگ میں ایک طاقتور ہتھیار تھا جو پوری شدت کے ساتھ استعمال کیا گیا ۔ گویا تحریک کے لیڈر اس ہتھیار کے بار بار استعمال سے یہ واضح کرتے تھے کہ مسلمان ایک علیٰحدہ قوم ہیںاور وہ ہندوئوں کے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتے ۔ بالفاظ دیگر مسلم ریاست کے قیام کے لیے تحریک کا مقصد صرف ایک آزاد قومی وطن کی تحصیل تھا اور جو نہی وہ وطن حاصل ہوا دو قومی نظریے کے ساتھ تحریک کی مقصدیت کا بھی خاتمہ ہو گیا ۔ اس زاویۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو جان برائیٹ ، بلنٹ ، لارڈ کرزن ، تھیوڈور ماریسن ، لووٹ فریزر ، ساورکر ، لالہ لاجپت رائے ، اسٹالن یا دست شناس کیرو ایسے سب کا شمار مسلم ریاست کے تصور کے خالقوں میں کیا جا سکتا ہے ۔ جہاں تک اقبال کے پرابلم کا تعلق ہے اسے حل کرنے کا آسان طریقہ یہی تھا کہ اقبال کی تصویر بھی دوسروں کے شانہ بشانہ اسی آرٹ میوزیم میں لٹکا دی جائے ۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ تحریک پاکستان کے بعض لیڈر خود ہی اقبال کو مسلم ریاست کے تصور سے الگ تھلگ رکھنا چاہتے تھے ۔ ایسی احسان فراموشی کی ایک مثال مسلم لیگ یا تحریک پاکستان کے ایک نامور لیڈر اور قائد اعظم محمد علی جناح کے دست راست ایم ۔اے۔ ایچ۔ اصفہانی کی تحریر کے حوالے سے پیش کی جا سکتی ہے ۔ وہ شریف الدین پیرزادہ ، اشتیاق حسین قریشی یا چودھری خلیق الزمان کی کتب میں درج کردہ بیانات سے متاثر معلوم ہوتے ہیں ۔ اپنی تحریر میں مسلم ریاست کے تصور کے خالقوں میںجمال الدین افغانی ، خیری برادران ، محمد عبدالقادر بلگرامی، سردار گل خان اور چوہدری رحمت علی کے نام گنوانے کے بعد فرماتے ہیں: اس بات سے بلاشبہ انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ڈاکٹر اقبال کا فکر ، شاعری اور خطبات بھی اسی سمت میں اشارہ کرتے تھے (یعنی مسلم ریاست کے قیام کی ضرورت کی طرف) لیکن یہ کہنا کہ وہ مسلم ریاست کے تصور کے خالق تھے تاریخ کو منسوخ کرنا ہے ۹ ۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اقبال کے بارے میں پنڈت جواہر لعل نہرو، ڈاکٹر راجندر پرشاد اور ڈاکٹر امبیدکر نے بھی ، جیسا کہ آگے چل کر واضح کیا جائے گا، کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا ۔ وہ اپنی اپنی تصانیف میں فرماتے ہیں کہ پاکستان کے قیام کے لیے تحریک سے اقبال کا کوئی تعلق نہ تھا ۔ آخر انہوں نے ایسا کیوں لکھا؟ ہندو لیڈروں کو اندیشہ تھا کہ اگر اقبال کی تحریک پاکستان سے وابستگی ثابت ہوتی ہے تو تحریک کو ایک جامع نظریاتی اساس یا مقصدیت مل جاتی ہے ، لیکن اقبال کی تحریک سے لاتعلق اسے کسی پائدار نظریاتی اساس یا مقصدیت سے محروم رکھے گی اور ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں یہی اس کی موت کا سبب بن جائے ۔ بہرحال پاکستان ایک مسلم نیشنل ریاست کی صورت میں تو قائم ہو گیا ، مگر اسلامی ریاست نہ بن سکا ۔ پس اسلامی عصبیّت کی بجائے علاقائی تعصّب نے زور پکڑا اور اقبال کے عقابی فکر کے پراس تعصّب کی قینچی کی نذر ہو گئے: گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا کہاں سے آئے صدا لا الٰہ الا للہ! پاکستان کے تصوّر کے متعلق محمد احمد خان تحریر کرتے ہیں: تصوّر پاکستان کو جن اشخاص سے منسوب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، ان میں سے کسی کو بھی تصوّرِ پاکستان کا بانی اوّل قرار دینا درست نہیں ہے ۔ ان میں سے بعض (جیسے سر سید، تھیوڈ ور ماریسن) نے صرف دو قومی نظریے کا اظہار کیا، بعض (بلنٹ ، شرر ، بمبوق ، خیری برادران، سردار گل خان، مولانا حسرت موہانی ، لاجپت رائے ، مرتضیٰ احمد خان) نے مسلم اضلاع یا مسلم صوبوں کے قیام کا خیال ظاہر کیا اور بعض (جیسے عبدالقادر بلگرامی اور نادر علی) نے حلقۂ اثر یا تقسیم ہند کی مبہم تجویز پیش کی۔ یہ صحیح ہے کہ یہ سب تجاویز ۱۹۳۰ء سے قبل (یعنی علامہ اقبال کے تصوّر پاکستان پیش کرنے سے پہلے )کی ہیں ، لیکن ان میں کسی تجویز میں بھی واضح طور پر مسلم صوبوں کے ایک علیٰحدہ وفاق یا ایک آزاد ، مقتدر مسلم مملکت کے قیام کا ذکر نہیں ہے ان تجاویز کی حمایت میں زیادہ سے زیادہ کہا جا سکتا ہے کہ جب ہم ان تجاویز کو پڑھتے ہیں تو ہمارے متخیلہ میں پاکستان کا موہوم سا تصور یا ہلکی سی جھلک پیدا ہوتی ہے ، لیکن اقبال کی پوری سیاسی فکر اور عملی جدوجہدکے پس منظر میں، جب ہم ان کے خطبۂ صدارت مسلم لیگ اور قائد اعظم کے نام ان کے دونوں خطوط (مورخہ ۲۸ ؍مئی ۱۹۳۷ء اور ۲۱ ؍جون ۱۹۳۷ئ) کو بنظرِ غائر دیکھتے ہیں تو ہماری آنکھوں کے سامنے پاکستان کی نہایت واضح ، بہت ہی صاف اور کاملاً جامع تصویر اجاگر ہوتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ بالا تمام تجاویز میں صرف ایک ہی قدر مشترک ہے اور وہ قدر مشترک یہ ہے کہ ان میں ایک تاثر یا ایک احساس پایا جاتا ہے ۔ مسلمانوں کی ہندوئوں سے علیٰحدگی کا تاثر یا مسلمانوں کی ہندووں سے مغائرت کا احساس لیکن پاکستان کا تصور کسی مبہم احساس یا سرسری تاثر کا نام نہیں ہے۔ اقبال کا کارنامہ یہ ہے کہ و ہ اپنی نغمہ سرائی کے ذریعے اس احساس کو مسلمانانِ برصغیر کے لاشعور سے نکال کر ان کے شعور میں لے آئے ۔ پھر اپنی صوت سرمدی سے اس شعور کو پختہ کیا اور اپنی سیاسی بصیرت سے اس کی عملی تجسیم و تشکیل کا خاکہ پیش کیا اور یہی ان کی اوّلیت ہے ۱۰ ۔ اقبال ۱۹؍دسمبر ۱۹۳۰ء کی صبح کو الٰہ آباد پہنچے ۔ اسٹیشن پر ان کے میزبان نواب سر محمد یوسف اور چند دوسرے مسلم لیگی لیڈر موجود تھے ۔ لوگوں کا ایک بہت بڑا ہجوم انہیں دیکھنے کی خاطر اکٹھا ہو گیا تھا ، اور نہایت گرمجوشی سے ان کا خیر مقدم کیا گیا۔ سید شمس الحسن تحریر کرتے ہیں کہ اقبال کے عظیم الشان استقبال کی اصل وجہ ان کی منفرد شخصیت تھی اور لیگ کے اجلاس سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا ۔ انہیں ایک جلوس کی شکل میں اسٹیشن سے نواب سر محمد یوسف کی کوٹھی لے جایا گیا ۱۱۔ لیگ کا اجلاس کا لیون ہسپتال (اب موتی لعل نہرو ہسپتال) کے بالمقابل مسلمانوں کے محلہ یاقوت گنج میں واقع دوا زدہ منزل میں منعقد ہوا۔ اس زمانے میں اس عمارت کے مالک ایک تاجر شیخ رحیم بخش تھے، جن کا تمباکو کا بہت وسیع کاروبار تھااور شیخ رحیم بخش کا خاندان تمباکو والوں کا خاندان کہلاتا تھا ۔ عمارت کے صحن یا ہال کے چاروں طرف بارہ دروازے برآمدوں میں کھلتے تھے ، اسی لیے اس کا نام دوازدہ منزل رکھا گیا تھا ۱۲۔ اجلاس میں لیگ کے صرف چند نمائندوں نے شرکت کی اور اس کا کورم بھی بڑی مشکل سے پورا ہوا۔ سید حسین امام ، مولوی عبدالقادر قصوری ، سر محمد یعقوب ، مولانا عبدالماجد بدایونی، سید حبیب اور ذاکر علی اجلاس میں موجود تھے ۱۳ ۔ مفتی فخر الاسلام وکیل کے مطابق ، جو اس جلسے میں موجود تھے ، حاضرین کی تعداد مشکل سے چار یا پانچ سو ہو گی یا شاید اس سے بھی کم ۔ ان میں بہت سے اسکول کے لڑکے بھی شامل تھے، جو تفریحاً شریک ہو گئے ۔ اقبال ، نواب سر محمد یوسف کے ساتھ موٹرکار میں بیٹھ کر جلسہ گاہ میں تشریف لائے ۱۴ ۔ نہایت خاموشی سے جلسے کی کارروائی شروع ہوئی تلاوتِ قرآن مجید کے بعد اقبال نے اپنا خطبہ پڑھنا شروع کیا۔ خطبہ انگریزی میں تھا اور غالباً چند لوگ ہی اسے سمجھ سکے، باقیوں کے پلّے کچھ نہ پڑا ۔ فرانسیسی مفکر البرٹ کامیوں کا قول ہے کہ عظیم خیالات دنیا میں معصوم پرندوں کی طرح چپ چاپ آتے ہیں لیکن اگر ہم اپنی توجہ سے سننے کی کوشش کریں تو شاید قوموں اور سلطنتوں کے شور و غل میں ہمیں ان کے پروں کی ہلکی سی پھڑ پھڑاہٹ سنائی دے جائے۔ گویا زندگی میں معمولی ہلچل کے ساتھ امید کا خاموش پیغام دیا جا رہا ہے۔ اقبال نے اپنے خطبے میں جن امور کا ذکر کیا ، ان پر زیادہ توجہ نہ دی گئی ۔ خطبے میں پیش کردہ تجویز کی حمایت میں کوئی قرار داد منظور نہ ہوئی ۔ مقامی اخباروں نے بھی خطبے کی تفصیل شائع کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی، کسی کو بھی یہ احساس نہ ہوا کہ خطبے میں جو خیال پیش کیا جا رہا ہے ، اس کے سبب ہزاروں انسان اپنی جانیں قربان کر دیں گے ، لاکھوں انسانوں کی زندگیاں متاثر ہوں گی اور کروڑوں انسانوں کی آبادی پر مشتمل ایک نیا ملک معرضِ وجود میں آ جائے گا۔ اقبال نے دو دن الہ آباد میں قیام کیا۔ ظہور احمد بیرسٹر کے ساتھ پیدل بازاروں میں گھومنتے رہے ۔ وکاندار اور لوگ بڑھ بڑھ کر ان سے ملتے اور مصافحہ کرتے تھے ۔ مفتی فخر الاسلام انہیں پرانا کالا ڈانڈا کے قبرستان میں لے گئے ، جہاں انہوں نے اکبر الٰہ آبادی کی قبر پر فاتحہ پڑھی ۔ ۳۱؍دسمبر ۱۹۳۰ء کو لاہور واپسی تھی۔ اسٹیشن پر پہنچے ، لیکن پنجاب میل لیٹ تھی۔ ریاض الٰہ آبادی کے بیان کے مطابق پلیٹ فارم پر دو چار اشخاص ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ ریاض الہ آبادی نے آگے بڑھ کر انہیں سلام کیا اور اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا: جناب ، میں ایک معمولی طالب علم ہوں اسکول میں مدرس ہوں اور بچوں کو پڑھاتا ہوں۔ آپ کا ایک شعر میری سمجھ میں نہیں آیا ، مہربانی کر کے اس کا مطلب واضح کر دیجیے ۔ اقبال نے نہایت شفقت سے ان کا ہاتھ پکڑا ، انہیں فسٹ کلاس کے ویٹنگ روم میں لے گئے ، بٹھایا اور پوچھا ، کون سا شعر ہے ؟ ریاض الٰہ آبادی نے عرض کیا ؎ اجل ہے لاکھوں ستاروں کی اک ولادتِ مہر فنا کی نیند مئے زندگی کی ہستی ہے اقبال نے مطلب سمجھاتے ہوئے کہا، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ قومیں فنا نہیں ہوتیں، آئندہ نسلوں کی صورت میں اپنا قائم مقام پیش کر دیتی ہیں اور ان کی حالت پہلے سے بہتر ہو جاتی ہے،جس طرح ستارے فنا نہیں ہوتے بلکہ اپنا قائم مقام آفتاب کی صورت میں پیش کر دیتے ہیں جو تابانی میں ستاروں سے کہیں زیادہ برتر ہے۔ اتنے میں پنجاب میل آ گئی اور وہ چلے گئے ۱۵ ۔ خطبۂ الٰہ آباد میں شمال مغربی ہند میں مسلم ریاست کا تصور تو پیش کیا گیا ، لیکن مسلم اکثریتی صوبہ بنگال کا ذکر موجود نہ تھا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ مجوزہ مسلم ریاست کا تصور ایک نصب العین کے طور پر پیش کیا گیا تھا اور شمالی مغربی ہند میں مسلم ریاست کے قیام کے سلسلے میں بھی وہاں کی مسلم اکثریت کے بارے میں ’’کم از کم ‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے تھے، جس سے ظاہر ہے کہ بنگال بھی اقبال کے پیشِ نظر تھا، مگر اس کا واضح ذکر اس لیے نہ کیا گیا کہ اگر شمال مغربی ہند میں مسلم اکثریت کی بنا پر مسلم ریاست کے قیام کا اصول قابل قبول ہوتا ہے تو منطقی طور پر اسی اصول کا اطلاق مشرقی ہند پر بھی کیا جا سکتا تھا ۔ جہاں تک مسلم اقلیتی صوبوں کا تعلق ہے ، ان کا خطبے میں ذکر کرنا اس لیے غیر ضروری تھا کہ وہاں مسلمانوں کو ویٹیج یا پاسنگ دینے پر ہندوئوں کو کوئی اعتراض نہ تھا ، بلکہ شمال مغرب میں مسلم ریاست کے قیام کے نتیجے میں قوّت کے توازن کے سبب ان کی پوزیشن زیادہ مضبوط ہوتی تھی ۔ خطبے میں پیش کردہ تجویز کی تائید میں کوئی قرار داد منظور نہ کیے جانے کا ایک سبب تو یہ تھا کہ لیگ کے سر کردہ لیڈر محمد علی جناح سمیت گول میز کانفرنس میں شرکت کی غرض سے لندن گئے ہوئے تھے، لیکن چند اور اہم وجوہ بھی تھیں ۔ اس مرحلے پر ہندووں کے ساتھ مفاہمت کے لیے مسلمانوں کی طرف سے محمد علی جناح نے چودہ نکات پیش کر رکھے تھے اور گول میز کانفرنس میں حکومت برطانیہ کے نمائندوں کے سامنے بھی یہی مطالبات تھے۔ گویا چودہ نکات ابھی زیر غور تھے اور ان کے قبول یا کلّی طور پر روکیے جانے کا حتمی فیصلہ ابھی ہونا تھا ۔ اس صورت حال میں اقبال کی پیش کردہ تجویز کی تائید میں کوئی قرار داد منظور کرنا نامناسب یا قبل از وقت تھا ۔ علاوہ ازیں اس کے باوجود کہ اقبال ، لیگ کے ساتھ عرصہ سے وابستہ تھے، پنجاب پرونشل مسلم لیگ کے سیکرٹری رہ چکے تھے اور اب مسلم لیگ کے منتخب صدر کے طور پر اجلاس کی صدارت فرما رہے تھے۔ انہوں نے خطبے کے ابتدائی حصے میں واضح کیا کہ وہ کسی سیاسی جماعت کے رہنما یا کسی سیاسی رہنما کے پیرو کی حیثیت سے مسلم ریاست کے قیام کی تجویز پیش نہیں کر رہے ہیں ۔ بالفاظ دیگر اقبال کی پیش کردہ تجویز ایک متبادل بلکہ ایک قدم آگے بڑھانے کی تجویز تھی، یعنی اگر چودہ نکات رد کر دیے گئے یا ہندوستان کے اندر مسلم انڈیا قائم کرنے کی تجویز منظور نہ ہوئی تو پھر یہ لائحہ عمل اختیار کرنا پڑے گا ۔ اقبال نے خطبے کے آخری حصے میں اسی امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا: میں کسی فرقہ وارانہ سمجھوتے کے امکان کے متعلق نا امید نہیں ہوں ، لیکن میں اپنا یہ احساس بھی آپ سے مخفی رکھنا نہیں چاہتا کہ موجودہ سیاسی بحران سے نپٹنے کی خاطر ملّت اسلامیہ کو مستقبل قریب میں ایک آزادانہ راہ عمل اختیار کرنی پڑے گی اور ایسے نازک وقت میں آزادانہ سیاسی راہ عمل اختیار کرنا صرف انہی لوگوں کے لیے ممکن ہے جو باعزم ہوں اور اپنی قوت ارادی ایک مخصوص مقصد پر مرتکز کر سکیں ۱۶ ۔ چنانچہ خطبے میں ایک مخصوص متبادل مقصد مسلمانوں کے سامنے رکھ دیا گیا ، لیکن اس کی تائید میں فوری طور پر کسی قرار داد کو ترتیب دینے یا منظور کرنے کی ضرورت نہ تھی ، کیونکہ حالات اس کے موافق نہ تھے ۔ بہر کیف اقبال کی احتیاط کے باوجود ، حکومت برطانیہ کے سر کردہ لیڈروں نے جو اپنی طر ف سے ہندوستان کے آئندہ دستور کا پیچیدہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش میں مصروف تھے، اقبال کے خطبے کو پسند نہ کیا ۔ بمبئی کے انگریزی اخبار ’’انڈین ڈیلی میل ‘‘نے اپنے لندن کے نامہ نگار کے حوالے سے لکھا کہ اقبال کے خطبے پر وزیر اعظم برطانیہ ریمزے میکڈانلڈ سخت برہم ہوئے ۔ الہ آباد کے انگریزی اخبار ’’لیڈر‘‘ کے نمائندے نے لندن سے تحریر کیا کہ وفاقی حکومت کے تصور اور اس کی حمایت میں ہندوستانی رہنمائوں کے نظریات پر اقبال نے جو حملہ کیا ہے اس کے رد عمل کے طور پر برطانوی اور ہندوستانی حلقے شدید غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں ۔ اسی طرح ہندوستان کے دو اینگلو انڈین اخباروں ’’پائونیر‘‘ اور ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ نے بھی اپنے اداریوں میں اقبال کی تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے رجعت پسند اور ناقابل عمل قرار دیا ہے۱۷۔ جہاں تک ہندو پریس کا تعلق ہے، وہ خطبے پر تبصرہ کرتے وقت گالی گلوچ اور بہتان تراشی پر اتر آیا، اخبار ’’ٹریبیون‘‘ لاہور نے لکھا کہ اقبال کو گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے مدعو نہیں کیا گیا اس لیے وہ انتقام پر اتر آئے ۔ پہلے آغا خان کو تار بھیج کر مخلوط انتخاب قبول کرنے پر احتجاج کیا اور پھر خطبۂ الہ آباد کے ذریعے ہندو مسلم مفاہمت کے تمام امکانات ختم کر دیے ۔ ’’پرتاپ‘‘ نے ایک مضمون بعنوان ’’شمالی ہند کا ایک خوفناک مسلمان، ڈاکٹر اقبال کی گستاخیوں پر چند خیالات‘‘ شائع کیا، جس میں اقبال کو جنونی ، شرانگیز ، احمق ، خوفناک ، زہریلا ، تنگ خیال ، پست نظر، متعصب ، قابلِ نفرت ، کمینہ اور نالائق کے القاب سے نوازا گیا ۱۸ ۔ پھر بھی ، بقول عبدالسلام خورشید ، ہندوئوں میں کم از کم ایک شخص ایسا تھا جس نے خطبے پر مثبت انداز میں تبصرہ کیا ۔اس نے اپنا اصل نام ظاہر نہ کیا ، لیکن ’’ایک روشن خیال ہندو ‘‘ کے قلمی نام سے ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ میں تحریر کیا کہ وفاقی ڈھانچے میں دیسی ریاستوں کی شمولیت کے سبب ہندوئوں کی پوزیشن مسلمانوں کے مقابلے میں بہت مضبوط ہو جائے گی ۔ اگر اقبال کی تجویز کے مطابق سندھ، سرحد ، اور بلوچستان کو پنجاب کے ساتھ ملا کر ایک شمال مغربی مسلم ریاست قائم ہو جائے تو اس میں ہندو ایک مضبوط اقلیت ہوں گے اور اگر سکھ ان کے ساتھ مل جائیں تو وہ ایک بہت بڑی قوت بن سکتے ہیں اس لیے ہندوئوں کو اس تجویز پر تشویش کا اظہار کرنے کی ضرورت نہیں ۱۹ ۔ مسلم پریس اقبال کا ہمنوا تھا ۔ ’’مسلم آوٹ لک ‘‘ ، ’’سیاست ‘‘، ’’ہمدم لکھنؤ ‘‘ وغیرہ سب نے اقبال کی تجویز کا خیر مقدم کیا اور ’’انقلاب ‘‘ تو ان کی حمایت میں سر فہرست تھا ۲۰ ۔ ’’انقلاب ‘‘ کے دو شماروں میں خطبہ الہ آباد کا اردو ترجمہ شائع ہوا ۔ ترجمہ غالباً غلام رسول مہر نے کیا تھا ۲۱ ۔ اس کے علاوہ ’’انقلاب ‘‘ نے جنوری ۱۹۳۱ء میں خطبے کے حق میں تقریباً بارہ اداریے تحریر کیے۔ ایک اداریے میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا، کہ تقسیم ہند کی تجویز تو دراصل ہندوئوں ہی کی طرف سے پیش کی گئی تھی، جب لالہ لاجپت رائے نے کہا تھا کہ مسلمان شمالی ہند کو اپنا قومی وطن بنا لیں اور ہندو ان علاقوں کو چھوڑ کر وسطی اور جنوبی ہند میں آباد ہو جائیں ۔ بعد میں بھائی پرمانند نے بھی اسی قسم کے خیال کا اظہار کیا اور پھر خطبۂ الہ آباد سے چند روز پیشتر پروفیسر جی۔ آر۔ ابھیانکر نے برصغیر کو تین حصوں میں بانٹنے کا تصور پیش کیا ۔ یعنی ریاستی ہند ، مسلم ہند اور ہندو ہند۔پس اگر ہندو تقسیم ہند کے متعلق سوچ سکتے ہیں ، تو پھر اقبال کو ایسی تجویز پیش کرنے کا حق کیوں نہیں دیا جاتا ۲۲ ۔ لالہ لاجپت رائے کے تصور تقسیم ہند کا ذکر اقبال نے بھی اپنے خط بنام سید نذیر نیازی محررہّ ۱۱؍ جنوری ۱۹۳۱ء میں کیا ہے ، جس میں اپنی تجویز کی وضاحت کے سلسلے میں فرماتے ہیں : مجوزہ اسلامی ریاست ایک نصب العین ہے۔ اس میںآبادیوں کے تبادلے کی ضرورت نہیں ۔ یہ خیال آبادیوں کے تبادلے کا مدت ہوئی لالہ لاجپت رائے نے ظاہر کیا تھا ۔ اس ایک یا متعدد اسلامی ریاستوں میں جو شمال مغربی ہند میں اس اسکیم کے مطابق پیدا ہوں گی ، ہندو اقلیت کے حقوق کا پورا پورا تحفظ کیا جائے گا ۲۳ ۔ ’’انقلاب ‘‘ نے کسی اور اداریے میں لکھا کہ اگر ہندو مسلمانوں کو نظرانداز کر کے محض اکثریت کے بل بوتے پر سواراج کے لیے جدوجہد کر سکتے ہیں تو پھر مسلمانوں کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ ایسے علاقوں میں جہاں ان کی اکثریت ہے مسلم ریاست کے قیام کو اپنا نصب العین بنائیں ۔ اسی فیصد مسلم اکثریتی علاقے میں مسلمانوں کو مسلم ریاست قائم کرنے کا حق تو جمعیت اقوام (لیگ آف بیشنز)بھی دیتی ہے ، کیونکہ وہ حق خود ارادیت کے اصول کی قائل ہے، ایک اور اداریے میں کہا گیا کہ اگر اقبال کی تجویز کے مطابق شمال مغربی ہند کے مسلم اکثریتی علاقوں کا حق آزادی تسلیم کر لیا گیا تو سارے برصغیر میں امن اور سکون کی کیفیت طاری ہو سکتی ہے، لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو ہندو اور مسلمان آپس میں ایک نہ ختم کونے والی خانہ جنگی میں مبتلا ہو جائیں گے ۲۴۔ ’’انقلاب ‘‘ نے ایک طویل اداریے کے آخر میں اقبال کو خراج تحسین ادا کرتے ہوئے لکھا : خدا اس مبارک ہستی کو زندہ رکھے جس نے پراگ (الہ آباد کا پرانا ہندو نام) میں سب سے پہلی مرتبہ راہ گم کردہ اور قومیت و جمہوریت کے فریب کا رانہ دعا دی سے مسحور ملت کے لیے ہدایت کی حقیقی روشنی کا بندوبست کیا ۔ خدا کو منظور ہوا تو یہ روشنی زندگی کی صحیح منزل مقصود تک اسلامیان ہند کی رفیق رہے گی ۲۵ ۔ ’’ہمدم‘‘ لکھنؤ نے تجویز کی حمایت میں تحریر کیا : اقبال کا یہ مطالبہ نہایت حق بجانب ہے کہ مسلمانوں کو ہندوستان کے اندر ایک اسلامی ہند کے قیام کا موقع ملنا چاہیے اور اس کی بہترین تشکیل اس صورت سے ہو سکتی ہے کہ پنجاب ، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ملا کر ایک واحد سلطنت قائم کر دی جائے۔ حق یہ ہے کہ ہندومسلم تنازعات کا یہ بہترین حل ہے اور اس قابل ہے کہ ہندوستان کے تمام مسلمان متحدہو کر اس کے لیے جدوجہد کریں اور اپنی قوتِ عمل کا مظاہرہ کر کے اس کو حاصل کر کے چھوڑیں ۲۶ ۔ مسلم پریس ، اقبال کے خلاف چلائی گئی ہندو پریس کی ہمہ گیرمہم کا ترکی بہ ترکی جواب تو بہر حال دیتا رہا ۔ خطبۂ الہ آباد کے دیے جانے کے چند ہی روز بعد اس کی دھوم لندن میں بھی پہنچی اور وہاںکے اخبارات نے اس کے بعض حصّے شائع کیے۔ اس سلسلے میں ریمزے میکڈانلڈ و زیر اعظم برطانیہ کی ناراضگی کا ذکر تو ہو چکا ہے ، لیکن پہلی گول میز کانفرنس کی اقلیتوںکی سب کمیٹی میں ڈاکٹر مونجے نے بھی اپنی تقریر کے دوران خطبۂ الہ آباد پر برہمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے فرمایا: میں نہیں کہہ سکتا کہ اس مرحلے پر جو کچھ کل کے پریس میں سر محمد اقبال کی تقریر کی رپورٹ کی صورت میں شائع ہوا ہے ، اس کا ذکر کرنا مناسب ہے یا نہیں ۔۔۔ وہ ہندوستان میں مسلم لیگ کے صدر ہیں اور مجھے اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سخت کوفت ہوتی ہے ، لیکن چونکہ انہی خطوط پر مطالبات متواتر پیش کیے جا رہے ہیں ، اس لیے مجھے نہایت تکلیف دہ احساس کے ساتھ ان کی طرف رجوع کرنا پڑا ہے ۔ میں اپنے مسلم دوستوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ جذبات کی رو میں نہ بہ جائیں ۔ ہم سب لوگ ہندوستان کے باشندے ہیں۔ہمارے اور تمہارے خون اور ہڈیوں میں کوئی فرق نہیں۔ ہم سب ایک ہی قوم کی اولاد ہیں اور ہم تمہارے مذہب تمدن اور نسل کی ترقی کے لیے ہر وہ تحفظ دینے کو تیار ہیں جس کا تم مطالبہ کرتے ہو۔ میں تم سے اپیل کرتا ہوں کہ جرأت اور حوصلے سے کام لیتے ہوئے اپنے آپ کو ہندوستان کی متحدہ قومیت میں مستغرق کر دو اور مجھے یقین ہے کہ اگر تم اگلے دس برس کے لیے یہ تجربہ کر دیکھو تو تمہیں کبھی کسی قسم کی کوئی شکایت نہ رہے گی ۲۷ ۔ اس کا جواب سر محمد شفیع نے سب کمیٹی کے اجلاس منعقدہ یکم جنوری ۱۹۳۱ء کو دیا ۔ آپ نے فرمایا : ڈاکٹر مونجے نے اس تقریر کا خصوصی طور پر حوالہ دیا ہے جو کہتے ہیں سر محمد اقبال نے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدرات کرتے ہوئے الہ آباد میں تین چار روز ہوئے کی تھی ۔ اے کاش ! ڈاکٹر مونجے اس امر کی طرف اشارہ کر کے مجھے ایسے مسئلے پر زبان کھولنے کے لیے مجبور نہ کرتے جس کے متعلق بحث کرنے کا میرا قطعی کوئی ارادہ نہ تھا ۔ میں کمیٹی کو یقین دلاتا ہوں کہ کل صبح جب میں یہاں آیا تو ایسی نیت کے ساتھ نہ آیا تھا ۔ اب سب سے پہلے تو یہ بات ہے کہ جب تک اس تقریر کا پورا متن میرے سامنے نہ ہو ، میں اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں دے سکتا ۔۔۔۔ اگر سر محمد اقبال نے کہا ہے کہ ہندوستان کی مرکزی حکومت میں ہندووں کی پائدار اور غیر متغیر اکثریت کے سبب سارے ہندوستان میں ہندو ریاست قائم ہو گی ، یا ایسی غیر متغیر اور پائدار اکثریت کے سبب آٹھ گورنری صوبوں میں سے چھ میں ہندو ریاستیں قائم ہوںگی ، تو پھر ان چار مسلم صوبوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، چار مسلم ریاستیں کیوں نہ قائم کی جائیں ؟ مجھے تو اس تجویز میں کوئی بری بات دکھائی نہیں دیتی اور میں بذات خود اس کمیٹی کے سامنے یہی تجویز دہرانے کے لیے تیار ہوں ۔۔۔ ہر صوبائی وحدت ایک ریاست بنا دی جائے۔ اگر انہوں نے (اقبا ل نے) یہ کہا ہے تو اس میں کچھ بھی نہیں اور اس پر اعتراض کرنے کی ضرورت نہ تھی ۔ البتہ اگر انہوں نے مروجہ اصطلاح کے مطابق برٹش کامن ویلتھ سے باہر کسی آزاد مسلم ریاست کے قیام کا ذکر کیا ہے تو میں سارے مسلم ڈیلی گیشن کی طرف سے ایسی تجویز کو رد کرتا ہوں ۔ جناب وزیر اعظم ! میں ایک مسلمان کے پیمانۂ صبر کے لبریز ہو جانے کا بخوبی تصور کر سکتا ہوں ، جبکہ میرے دوست ڈاکٹر مونجے ہندوستان کے مختلف حصوں میں ، بغیر سوچے سمجھے مختلف قسم کے ایسے ہی متضاد اعلانات کرتے پھرتے ہیں ۲۸ ۔ بہرحال دیگر مسلم سیاسی رہنمائوں میں سے کسی ایک نے بھی خطبۂ الہ آباد کے حق میں یا خلاف اپنی زبان نہ کھولی ، بلکہ سب کے سب خاموش رہے۔ اس خاموشی کا اصل سبب یہی تھا کہ لندن میں پہلی گول میز کانفرنس کے کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہونے کے بعد دوسری گول میز کانفرنس کے انعقاد کا اعلان ہو چکا تھا ۔ پس مسلم سیاسی رہنما چودہ نکات کی بنیاد پر کسی نہ کسی ہندو مسلم سمجھوتے یاچودہ نکات کے حشر کے منتظر تھے ۔ گول میز کانفرنسوں کا یہ سلسلہ ۱۹۳۳ء تک جاری رہا اور ان میں اقبال نے بھی شرکت کی۔ اس لیے ان کے حتمی نتائج کا انتظار ضروری تھا۔ اقبال نے بھی خطبۂ الہ آباد کے بعد اپنی تجویز کردہ مسلم ریاست کے قیام کی خاطر اندرون خانہ اَپّر انڈیا مسلم کانفرنس کے انعقاد کے لیے کوششیں جاری رکھیں ۔ مثلاً ۱۹ ؍اپریل ۱۹۳۱ء کو اپنے ایک خط بنام سید نذیر نیازی میں لکھا کہ اپر انڈیا مسلم کانفرنس کا جلسہ بھی انشاء اللہ ہو گا ۔ پھر ۱۹۳۲ء میں بھی اقبال کے ذہن میں اَپّر انڈیا مسلم کانفرنس کا اجلاس منعقد کرنے کا خیال موجود تھا اور انہوں نے سید نذیر نیازی سے کہا کہ انتظار کرو ، تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔ بقول سید نذیر نیازی وہ اس کے لیے خطبہ بھی تحریر کر رہے تھے ۔ (یہ خطبہ بالآخر آل پارٹیز مسلم کانفرنس کے اجلاس منعقدہ لاہور بتاریخ ۲۱ ؍مارچ ۱۹۳۲ء میں پڑھاگیا ) لیکن اپر انڈیا مسلم کانفرنس کا انعقاد نہ ہوا ۔ اس ضمن میں سید نذیر نیازی تحریر کرتے ہیں: رہی یہ بات کہ اس کانفرنس کا انعقاد کیوںنہ ہو سکا ، سو اس کی بڑی وجہ تو گول میز کانفرنس کا انعقاد تھا جن میں خود حضرت علامہ کو بھی شریک ہونا پڑا ۔ یہ کہنا کہ اس کانفرنس کی ناکامی میںبعض افراد کا بھی ہاتھ ہے ، غلط ہو گا ، کیونکہ حضرت علامہ کسی فرد یا جماعت کے چکر میںنہیں آئے ، خواہ اس فرد یا جماعت کے عزائم کچھ بھی ہوں۔ گول میز کانفرنسوں کی کارروائی اور اس کے نتائج کا انتظار بہرکیف ضروری تھا ۔۔۔ پھر جب ۱۹۳۳ء میں گول میز کانفرنس سے واپسی پر کچھ سفر کی کلفت اور کچھ اس وقت کے مخصوص احوال کے پیش نظر حضرت علامہ نے یہی بہتر سمجھا کہ اپنے اس ارادے کو چند دن اور ملتوی رکھیںحتیٰ کہ ۱۹۳۴ء کے آغاز میںحضرت علامہ خود ہی بیمار ہو گئے اور یہ کانفرنس رہ گئی ۲۹ ۔ حقیقت یہ ہے کہ اپر انڈیا مسلم کانفرنس کے انعقاد کا خیال آخری دم تک اقبال کے ذہن میں رہا۔ اس کانفرنس کا ذکر ان کے ایک خط بنام محمد علی جناح محررہ ۲۱ ؍ جون ۱۹۳۷ء میں موجود ہے، اور پھر اپنے ایک دوسرے خط محررہ ۱۱؍اگست ۱۹۳۷ء میں انہیں مشورہ دیتے ہیں کہ شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کو مسلم لیگ کی سرگرمیوں کا محور بنایا جائے۳۰ ۔ سو خطبہ ٔ الہ آباد کے متعلق بیشتر مسلم سیاسی رہنمائوں نے تو مکمل خاموشی اختیار کی ، البتہ سندھی مسلمانوں کے نامور رہنما حاجی سیٹھ عبداللہ ہارون نے اقبال کے ساتھ تعاون کیا اور خطبے کی روشنی میں اپر انڈیا مسلم کانفرنس کے انعقاد کے بارے میں اقبال سے خط و کتابت کرتے رہے ۔ خطبہ کچھ پڑھے لکھے مسلمانوں اور طلبہ کی توجہ کا مرکز ضرور بنا ۳۱ ۔رسالہ ’’صوفی‘‘( منڈی بہاء الدین) کے اصرار پر اس کا اردو ترجمہ سید نذیر نیازی نے بھی کیا ، کیونکہ بقول ان کے پنجاب ، سرحد اور سندھ کے بعض دور دراز حصوں میں مسلم ریاست کے اس نئے تخیل نے بڑا جوش و خروش پیدا کر دیا تھا ۔ ترجمہ رسالہ ’’صوفی ‘‘ کے زیر اہتمام چھپا اور ہزاروں کی تعداد میںمفت تقسیم کیا گیا ۳۲ ۔بعض مسلم نوجوانوں نے خطبے کے حق میں اخباروں میں مضامین شائع کیے۔ بقول عبدالسلام خورشید ، الہ آباد کے ایک وکیل عبدالرب اور لاہور کے خان غلام مصطفی خان تائب نے خطبے کی حمایت میں مقالات لکھے ، کلکتے کے تین مسلم طلبہ راغب احسن ، فضل رسول خان آفریدی اور ایس۔ ایم۔ سلیم نے ایک مشترکہ بیان میں خطبے کی تائید کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ مسلم ریاست کے قیام کے لیے تحریک کے تمدنی پہلو پر کتب کی اشاعت کی خاطر ایک ’’مسلم نصب العین فنڈ‘‘ کھولا جائے ۳۳ ۔ جہاں تک کانگرسی ذہنیت رکھنے والے مسلمانوں کا تعلق ہے انہوں نے خطبۂ الہ آباد کوایک ’’سیاسی غزل‘‘ سے تعبیر کیا، سید نذیرنیازی تحریر کرتے ہیں ۔ یہ غالباً ۱۹۳۱ء کی ابتداء تھی جب قرول باغ دہلی میں شاید مولانا محمد علی مرحوم کے دولت کدے پر (غالباً ان کے انتقال کے فوراً بعد)بعض احباب جمع ہوئے ۔ ان میں وہ حضرات بھی تھے جنہوں نے خلافت اور ترکِ موالات کی تحریکوں میں حصہ لیا تھا اور تبدیلیِ حالات کے باوجود اپنے مسلک پر قائم تھے ۔ دوران گفتگو میں کسی نے کہا ارے صاحب آپ نے وہ اقبال کا خطبہ صدارت بھی پڑھا ۔ واللہ کیا خوب شاعری کی ہے ، آخر شاعر ہی تو ہیں ،کیسی غزل کہہ گئے ہیں۔ اس پر بڑے زور کا قہقہہ پڑا ۳۴ ۔ یہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ خلافت اور ترکِ موالات کی تحریکوں کے زمانے میں کانگریسی ذہنیت رکھنے والے علماء نے اقبال پر بہتان تراشی یا ان کی کردار کشی کی مہم کا آغاز کیا اور بعد میں ان کی بیل گاڑی میں مختلف نوع کے دشمنان اقبال سوار ہوتے چلے گئے ۔ ۱۹۲۶ء میں پنجاب قانون ساز کونسل کے انتخابات کے دوران میںاقبال کے حریف نے انہی بہتانون کا اعادہ کرتے ہوئے ان کی ذات پر کیچڑ اچھالا ، اس پس منظر میں ظاہر ہے خطبۂ الہ آباد کے بعد ان کے برا چاہنے والوں میں سیاسی دشمنوں کا خوب اضافہ ہوا۔ پس مہاسبھائی ہندو پریس کمیونسٹ یا سوشلسٹ عقائدرکھنے والے ترقی پسند ، کانگرسی ذہنیت رکھنے والے مسلمان اور مختلف قسم کے حاسدین پر مشتمل استغاثے نے الزامات کا ایک نیا پلندہ پیش دفتر کر دیا ۔ الزامات تو کئی تھے ۔ انگریز کا ایجنٹ ، وطن کا دشمن ، سرمایہ داروں کا حامی ،غریبوں کا مخالف ، متعصب ، فرقہ پرست ، رجعت پسند ، بے عمل اور مایوس انسان وغیرہ وغیرہ ۔ محمد احمد خان نے اپنی معروف تصنیف ’’اقبال کا سیاسی کارنامہ ‘‘ میں اس طویل فہرست کے تین جلی عنوانات مرتب کر کے حق و صداقت کی عدالت میں تحقیق و تلاش کی فضا میں اقبال کی نہایت موثر داد رسی کی ہے ۳۵ ۔ راقم اقبال کے کیس کو محمد احمد خان سے بہتر طور پر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ لہٰذا انہی کے دلائل کی روشنی میں ان الزامات کا جواب دینے کی کوشش کی جائے گی ۔ جہاں تک انگریزی دوستی کے الزامات کا تعلق ہے اس بارے میں جو دلیلیں اقبال کے مختلف مخالفین نے وضع کیں وہ یہ تھیں : ۱ ۔ انگریز حکام کی مدح میں یا فرمایش پر نظمیں لکھنا ۔ ۲ ۔ خلافت یا ترکِ موالات کی تحریکوں میں حصہ نہ لینا ۔ ۳ ۔ سر کا خطاب قبول کرنا ۔ ۴ ۔ پنجاب کونسل کی رکنیت کے ذریعے انگریز کے نظام حکومت سے تعاون کرنا ۔ ۵ ۔ کونسل کے اندر برطانوی استعمار کو مستحکم کرنے کی خاطر انگریز عہدہ داروں کی تعداد میں اضافے کی خواہش کا اظہار کرنا ۔ ۶ ۔ سائمن کمیشن سے تعاون کرنا ۷ ۔ سر محمد شفیع جیسے برطانیہ کے حاشیہ بردار کا ساتھ دینا ۔ ۸ ۔ انگریز کے اشارے پر خطبۂ الہ آباد میں مسلم ریاست کا تصور پیش کرنا ۔ ۹ ۔ دوسری اور تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے انگریزی حکومت کا انہیں نامزد کرنا ۔ ۱۰ ۔ انگریز کے اشارے پر ہندو مسلم مفاہمت میں رخنہ انداز ہونا ۔ ایک لحاظ سے اس الزام کی بیشتر شقوں کا جواب اقبال کے حالات بیان کرتے ہوئے پچھلے صفحوں میں یا اسی کتاب کے دوسرے حصے میں دیا جا چکا ہے ۔ جہاں تک ان کا انگریز حکام کی مدح میں یا فرمایش پر اشعار لکھنے کا تعلق ہے، تو اقبال نے کئی وقتی نظمیں کہی ہیں جو خاص خاص مواقع پر انہوں نے طبعاً ،اخلاقاً یا مصلحتاً تحریر کیں اور جنہیں اس قابل نہ سمجھا کہ اپنے مطبوعہ کلام میں شامل کریں۔ یہ واضح کیا جا چکا ہے کہ اقبال کا تعلق سر سید کے سیاسی مکتبۂ فکر سے تھا ۔ وہ کلمۂ حق کہنے سے باز نہ رہ سکتے تھے لیکن ایجی ٹیشنل یا احتجاجی سیاست ان کی فطرت کے خلاف تھی۔ انگریزی حکومت اور ہندو اکثریت کے مقابلے میں مسلمانوں کی نازک سیاسی پوزیشن کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ مسلمانوں سے بھی یہی چاہتے تھے کہ ایجی ٹیشنل سیاست سے گریز کریں۔ مسلمانان ہند کی جدید تاریخ کے مطالعے سے ظاہر ہے کہ انہوں نے جب انگریزی حکومت کے خلاف کھلم کھلا جنگ کا رویہ اختیار کیا تو نقصان ہندو اکثریت کی بجائے مسلم اقلیت ہی کو اٹھانا پڑا ۔ سو ایجی ٹیشنل یا کھلم کھُلا جنگ اقبال کے مصالح کے بھی خلاف تھی۔ اسی ذہنی پس منظر کے ساتھ ۱۹۰۱ء میںانہوں نے ملکۂ وکٹوریہ کی وفات پر مرثیہ بعنوان ’’اشک خون ‘‘ تحریر کیا ۔ غلام رسول مہر اس مرثیے کے متعلق فرماتے ہیں: اقبال نے یہ نظم بڑی حد تک ارتجالاً لکھی ۔ موضوع کے باب میں کچھ عرض کرنا غیر ضروری ہے ۔ ۱۹۰۱ء میںملک کے سیاسی افکار و تصورات کا جو رنگ ، جو انداز اور جو اسلوب تھا، اسے جانچنے کے لیے دس پندرہ سال بعد کا یا آج کا پیمانہ استعمال کرنا اتنا ہی غیر مناسب ہو گا جتنا کہ افلاطون یا بو علی سینا جیسے حکیموں کی زندگی سے بچپن اور طفولیت کا عہد خارج کر دینا غیر مناسب سمجھا جا سکتا ہے ۔ اس زمانے میں ملک کی عام جماعتوں اور قوموں کا طریق فکر و نظر وہ نہ تھا ، جو بعد میں اختیار کر لیا گیا اس سلسلہ میںخواجہ حالی مرحوم کا مرثیہ بھی پیش نظر رکھنا چاہیے جو انہوں نے ملکۂ وکٹوریہ کی وفات پر لکھا اور رسالہ ’’ معارف ‘‘ پانی پت بابت جنوری ۱۹۰۱ء میں شائع ہوا تھا ۳۶ ۔ اس دور کے اقبال کی ایک اور نظم بھی ہے جو انجمن حمایت اسلام کے اجلاس ۱۹۰۲ء میں سر میکورتھ ینگ ، گورنر پنجاب اور ڈبلیو۔ بل ، ڈائریکٹر سر رشتۂ تعلیم ، پنجاب کی آمد پر بطور خیر مقدم پڑھی گئی، کیونکہ اس زمانے میں انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں ایسے حکام کی آمد سے فائدہ اٹھایا جا سکتا تھا اور ویسے بھی اسے بہت بڑا اور نہایت اہم واقعہ سمجھا جاتا تھا۳۷ ۔۱۹۱۱ء میں اقبال نے کچھ اشعار ’’بیادگار دربار شاہی‘‘ (یعنی تاجپوشی جارج پنجم ) بمقام دہلی کہے جو ’’زمانہ ‘‘ کانپور کے دربار شاہی نمبر دسمبر ۱۹۱۱ء میں شائع ہوئے ۳۸ ۔۱۹۱۴ء میں پہلی جنگ عظیم کا یورپ میں آغاز ہوا اور عثمانی ترکیہ نے جو خلافتِ اسلامیہ کا مرکز تھا، برطانیہ کے خلاف جرمنی کا حلیف بننے کا اعلان کیا۔ اس نہایت پر آشوب زمانے میںحکامِ وقت کی ناراضگی مول لینا حکومت کی گرفت میں آجانے کے مترادف تھا، اور اس کا کوئی فائدہ بھی نہ تھا ۔ سو اقبال نے مصلحتاً عزلت نشینی اختیار کی، لیکن ۱۹۱۸ء یعنی اواخر جنگ میں وائسرائے ہند نے دہلی میں وارکانفرنس منعقد کی اور نواب سر ذوالفقار علی خان کی وساطت سے اقبال کو اس موقع کے لیے ایک نظم تحریر کرنے کی فرمایش کی گئی ۔ اس فرمائش کو ٹالنے کی کوئی صورت نہ نکل سکتی تھی ، اس لیے اقبال نے مجبوراً نظم بعنوان ’’پنجاب کا جواب ‘‘ لکھی اور دہلی کے مشاعرے میں جا کر پڑھی۳۹ ۔ چند ماہ بعد اختتام جنگ پر مائیکل اڈوائر ، گورنر پنجاب کی صدارت میں ۱۵؍دسمبر ۱۹۱۸ء کو بریڈلا ہال لاہور میںجشنِ فتح کی صورت میں جلسہ منعقد کیا گیا ، جس میں اقبال ، نواب سر ذوالفقار علی خان کے ساتھ شریک ہوئے اور گورنر کی فرمائش پر اردو اشعار اور چند فارسی اشعار پڑھے ۔ اردو اشعار کا کوئی تعلق جشن فتح کے موقع سے نہ تھا اور وہ ’’بانگ درا‘‘ میں نظم ’’شعاع آفتاب ‘‘ کی صورت میں شائع بھی ہو چکے ہیں۴۰ ۔ پس اقبال نے یہ پانچ نظمیں انگریز دوستی کے جذبے کے تحت نہیںبلکہ اپنے سیاسی مسلک سے مطابقت رکھتے ہوئے مصلحتاً تحریر کی تھیں ۔ اقبال نے اصولی طور پر خلافت یا ترکِ موالات کی تحریکوں میں حصہ نہ لیا کیونکہ وہ مسلمانوں کا ہندووں کے ساتھ مل کر تحریک ترکِ موالات میں شامل ہونا پسند نہ کرتے تھے ۔ وہ مسلمانوں کے احتجاجی یا ایجی ٹیشنل سیاست میںملوث ہونے کے بھی خلاف تھے۔ اس کے علاوہ انہیں شبہ تھا کہ ان تحریکوں کے لیڈر گو بظاہر مسلمان تھے ۔ لیکن درحقیقت مسلم قومیت کی بجائے متحدہ قومیت کے مبلغ اور ترجمان تھے۔ اقبال کے علاوہ ہندوستان میںکئی اور شخصیات بھی تھیں جنہوں نے ان تحریکوں میںحصہ نہ لیا بلکہ ان کی مخالفت کی محمد علی جناح ان تحریکات کے خلاف تھے اور انہوں نے کانگرس سے ترک تعلق محض ان تحریکات ہی کی وجہ سے کیا۔ اسی طرح پنڈت مدن موہن مالویہ نے ان تحریکوں کی مخالفت کی اور بنارس ہندو یونیورسٹی کو ان کے مضر اثرات سے محفوظ رکھا ۔ اقبال کو سر کا خطاب ان کی علمی و ادبی خدمات کے سبب دیا گیا ۔ سرمان ٹیگوبٹلر کے بیان کے مطابق اقبال کی فارسی مثنویوں اور بالخصوص ’’اسرار خودی‘‘ کے انگریزی ترجمے کو پیش نظر رکھتے ہوئے انہوں نے ۱۹۲۲ء میںحکومت ہند کو اقبال کے لیے کسی خطاب کی سفارش کی تھی ۔ سر مانٹیگو بٹلر نے ان کے لیے کسی پرانے ایرانی یا فارسی خطاب کے احیاء کی تجویز پیش کی تھی، لیکن حکومت ہند کو خدشہ پیدا ہوا کہ اقبال کو کسی ایسے خطاب سے نوازنے سے کہیں ایسی رسم ہی نہ چل نکلے ۔ لہٰذا انہیں انگریزی خطاب دینے کا فیصلہ کیا گیا ۴۱ ۔ اقبال کے نزدیک ایسے خطابات یا دنیوی اعزازات کی کوئی وقعت نہ تھی۔ وہ خطاب کے خواہشمند نہ تھے اور نہ اس کے لیے انہوں نے انگریزی حکومت سے کوئی سودا کیا ۔ اس لیے خطاب یابی کے بعد جیسا کہ ان کی تحریروں سے ظاہر ہے ، آزادی اظہار میں کمی کی بجائے زیادہ شدت سے اضافہ ہوا اور دنیا کی کوئی طاقت بھی انہیں حق کہنے سے باز نہ رکھ سکی۔ کونسل کی رکنیت اقبال نے انتخاب لڑکر حاصل کی اور اگر وہ چاہتے تو اس رکنیت کے بل بوتے پر سر فضل حسین یا یونینسٹ پارٹی سے مستقل وابستگی پیدا کر کے بلند مراتب حاصل کر سکتے تھے، مگر انہوں نے سر فضل حسین اور یونینسٹ پارٹی کی پالیسیوں پر شدید تنقید کی اور کونسل میں ان کی آواز ایک آزاد رکن کی آواز ہی رہی ۔ اگر محض کونسل کی رکنیت حاصل کرنے سے انگریز کے نظام حکومت سے تعاون کا پہلو نکلتا ہے تو عدم تعاون یا سول نافرمانی کے حامی سوراجیوں نے بھی صوبائی کونسلوں کے انتخابات میں حصہ لیا یا کونسلوں کے رکن بنے اور کانگریس نے ۱۹۳۶ء میںنہ صرف انتخابات میں حصہ لیا بلکہ انگریز کے نظام حکومت میں وزارتیں بھی تشکیل دیں۔ الزام کی اس شق کا تعلق اقبال کی کونسل میں تقریر مورخہ ۱۹؍ جولائی ۱۹۲۷ء سے ہے، جب انہوں نے سردار اجل سنگھ کی اس تحریک کی مخالفت کی تھی کہ سرکاری عہدوں کو کھلے مقابلے کے امتحان کے ذریعے پُر کیا جائے۔ یہ مخالفت اس بناء پر کی گئی کہ سردار اجل سنگھ کی تحریک کا مقصد متحدہ قومیت کے لبادے میں تعلیمی طور پر پسماندہ مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں سے محروم رکھنا تھا ۔ اقبال ایسا نظام چاہتے تھے جس میں مقابلے کے امتحان کے ساتھ ساتھ انتخاب یا نامزدگی کی بھی گنجائش ہو، تاکہ پسماندہ طبقے انتظامیہ سے بے دخل نہ ہو سکیں ۔ لہٰذا انہوں نے طنزاً ارشاد فرمایا کہ سرکاری عہدوں کو مقابلے کے امتحان کے ذریعے پُر کرنے کی بجائے اگر برطانوی عہدہ داروں کی تعداد بڑھا دی جائے تو بہتر ہوگا ۔ یعنی اگر مسلمانوں کو انتظامیہ سے بے دخل کرنا مقصود ہے تو پھر سرکاری عہدوں پر ہندووں کی بجائے انگریز عہدہ دار زیادہ تعداد میں فائز کیے جائیں تاکہ مسلمان ہندو عہد داروں کے تعصب کا نشانہ نہ بنیں ۔ اگر ان کا مقصد انگریز عہدہ داروں کی تعداد میں اضافہ کر کے برطانوی استعمار کو مستحکم کرنا تھا تو کونسل میں ایسے عہدداروں کی تنخواہوں میں تخفیف کی تحریک پیش کیوں کرتے ۔ آخر بڑی بڑی تنخواہیں بھی تو انگریز عہدہ دار ہی لیتے تھے جن کی ادائیگی صوبے کے خزانے سے کرنا پڑتی تھی۔ سائمن کمیشن سے تعاون کی اصل وجہ بھی مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ تھا۔ ہندو مسلمانوں کے مطالبات ماننے کو تیار نہ تھے ، اس لیے فرقہ وارانہ بے اعتمادی اور بدظنی کی فضا میں کمیشن سے تعاون کے ذریعے ہی مسلمان اپنے اندیشے امیدیں اور مقاصد اس کے سامنے پیش کر سکتے تھے ۔ مولانا حسرت موہانی بھی ، جنہوں نے آزادی کی راہ میں کئی قربانیاں دیں، سائمن کمیشن سے تعاون کے حق میں تھے۔ سر محمد شفیع کو برطانیہ کا حاشیہ بردار سمجھا جاتا ہے، لیکن جداگانہ انتخاب کے اصول پر قائم رہ کر انہوں نے مسلمانوں کی جو خدمت انجام دی اس کا ابھی تک صحیح طور پر اندازہ نہیں کیا گیا۔ سو اس امر کا فیصلہ کرنا کہ آیا ان کی سیاست انگریز کی ہوا خوا ہی تھی یا مسلمانوں کی بہی خواہی ، مستقبل میں ان کے کسی سوانح نگار کا کام ہے۔ بہرکیف اقبال نے ان کا صرف اس حد تک ساتھ دیا جس حد تک مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کا تقاضا تھا سائمن کمیشن کے لیے تیار کردہ یاد داشت میں اگر صوبائی خود مختاری کا ذکر نہ آیا تو وہ سر محمد شفیع سے الجھ گئے۔ شفیع لیگ کی سیکرٹری شپ سے استعفا دے دیا ۔ یہاں تک کہ سر محمد شفیع کو یاد داشت میں ترمیم کرکے اس میں صوبائی خود مختاری کا مطالبہ شامل کرنا پڑا ، مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کی خاطر سر محمد شفیع تو کیا وہ ہر کسی سے جھگڑنے کو تیار ہو جاتے ، کانگرس سے، مولانا محمد علی سے، محمد علی جناح سے۔ اگر اقبال نے انگریز کے اشارے پر خطبۂ الہ آباد میں مسلم ریاست کا تصور پیش کیا تھا تو پھر ریمزے میکڈانلڈ اس خطبے پر اتنا برہم کیوں ہوا؟ اور ہندوستان میں برطانوی استعمار کے پاسبان اخباروں نے خطبے کی مذمت کیوںکی؟ مزید برآں اگر اقبال انگریزوں کے ایجنٹ تھے تو پہلی گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے انہیں نامزد کیوں نہ کیا گیا ؟ خطبہ الہ آباد کے خلاف جو ہمہ گیر مہم ہندو اخباروں نے چلائی تو اس میں انہوں نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ چونکہ اقبال کو انگریز ی حکومت نے گول میز کانفرنس کے سلسلے میں نظر انداز کیا تھا ، اس لیے وہ انتقام پر اُتر آئے تھے ۔ گویا خطبۂ الہ آباد میں مسلم ریاست کا تصور انگریزوں سے بدلہ لینے کی غرض سے پیش کیا گیا ۔ اگر یہی صورت تھی تو وہ انگریزوں کے ایما سے مسلم ریاست کا تصور کیونکر پیش کر سکتے تھے؟ گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے ہر نمائندے کو انگریزی حکومت ہی نامزد کر تی تھی۔ مولانا محمد علی ، مہاتما گاندھی ، اور محمد علی جناح بھی انگریزی حکومت ہی کی نامزدگی کی بنا پر گول میز کانفرنسون میں شریک ہوئے۔ اسی طرح اقبال کو بھی دوسری اور تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے نامزد کیا گیا ، لیکن ان دونوں کانفرنسوں میں اقبال کا رویہ کیا رہا؟ بقول عظیم حسین وہ دوسری گول میز کانفرنس میں سر اکبر حیدری سے ریاست حیدر آباد دکن کو ڈومینین اسٹیٹس نہ دلوانے کے معاملے میں جھگڑے اور واپس آ کر کھلے اجلاس میں انہوں نے حکومت برطانیہ پر شدید نکتہ چینی کی ۔ نتیجے میں انگریزی حکومت اور بالخصوص وزیر ہند کو ان کی نامزدگی پرپشیمانی اٹھانا پڑی اور تیسری گول میز کانفرنس میں ان کی نامزدگی بادل ناخواستہ کی گئی ۴۲ ۔مگر تیسری گول میز کانفرنس ابھی جاری تھی کہ انہوں نے اختلافات کی بنا پر اس سے استعفا دے دیا ۔ ہندوستان واپس چلے آئے اور یہاں پہنچ کر پھر حکومت برطانیہ کی شدید مذمت کی۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کو یہ یقین کبھی نہ آیا کہ ایسی ہندو مسلم مفاہمت ہو سکتی ہے جو دونوں فریقوں کے لیے قابل قبول ہو، لیکن اس کے باوجود انہوں نے ایسی ہر کوشش میں مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کا خیال یا جداگانہ انتخاب کا اصول چھوڑے بغیر گفت و شنید کرنے والے مسلم لیڈروں کا ساتھ دیا۔ ہندو لیڈروں نے محمد علی جناح کی تجاویز دہلی منظور کر لینے کے بعد انہیں نہرو رپورٹ میں جگہ نہ دی ۔ نہرو رپورٹ میں محمد علی جناح کی ترمیمات ٹھکرا دی گئیں ۔ آل پارٹیز مسلم کانفرنس کی تجاویز اور چودہ نکات کا بھی بالآخر یہی حشر ہوا ۔ کمیونل ایوارڈ ۱۹۳۲ء کے بعد بھی جتنی ایسی کوششیں مولانا شوکت علی یا دیگر مسلم قائدین نے کیں، بار آور ثابت نہ ہوئیں کیونکہ ہندو لیڈر مسلمانوں کے مطالبات قبول کرنے کو تیار نہ تھے ۔ کیا ان سب موقعوں پر مفاہمت میں رخنہ اندازی انگریز کے اشارے پر اقبال کی طرف سے ہوتی رہی جو ایسی گفت و شنید کرنے والی پارٹیوں میں شامل تک نہ تھے؟ اقبال نے نفسِ مفاہمت کی مخالفت کبھی نہیں کی۔ البتہ مسلمانوں کے مفادات کے پیش نظر مفاہمت کے طریقِ کار پر معترض ضرور ہوئے۔ ڈاکٹر راجندر پرشاد اپنی انگریزی تصنیف ’’ہندوستان کا مستقبل میں خود تحریر کرتے ہیں: ۷؍اکتوبر ۱۹۳۲ء کو آل پارٹیز مسلم کانفرنس کے صدر (اس زمانے میں صدر اقبال ہی تھے)کا یہ اعلان شائع ہوا کہ اب پھر سے جداگانہ اور مخلوط انتخاب کا سوال اٹھانا بہت ہی بے موقع ہو گا اور مسلمان اس کے لیے تیار نہیں ہیں کہ اس ذریعہ تحفظ کو چھوڑ دیں، لیکن وہ اس کے لیے تیار ہیں کہ اگر اکثریتی فرقے کی جانب سے اس قسم کی تحریک ہو تو وہ ان قطعی تجاویز پر غور کر لیں جس میں تمام ضروری اور اہم مسائل شامل ہوں۴۳۔ اگر اقبال انگریز دوست ہوتے تو بڑے اہم مراتب حاصل کر کے اپنی زندگی کو مالی اعتبار سے کامیاب بنا سکتے تھے، لیکن ان کی زندگی کا سر سری مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ کسی صورت میں بھی انگریزوں کی ملازمت کرنے کے لیے تیار نہ تھے ۔ انگلستان سے واپس آ کر گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے پروفیسر مقرر ہوئے ، مگر کچھ مدت کے بعد ملازمت سے استعفا دے دیا۔ خلیفہ عبدالحکیم نے پوچھا کہ استعفا کیوں دیا؟ اقبال کا جواب تھا: میں نے کچھ دنوں پروفیسری کی اور اس نتیجے پر پہنچا کہ ہندوستانی کالجوں کی پروفیسری میں علمی کام تو ہوتا نہیں ، البتہ ملازمت کی ذلتیں ضرور سہنی پڑتی ہیں۔ چنانچہ ایک مرتبہ طالب علموں کی حاضری کے متعلق گورنمنٹ کالج کے پرنسپل سے کچھ جھگڑا سا ہو گیا اور پرنسپل نے مجھ سے کچھ اس طرح گفتگو کی جیسے کوئی کلرک سے باتیں کرتا ہے ، اس دن سے طبیعت کچھ ایسی کھٹی ہوئی کہ دل میں ٹھان لی ہے کہ جہاں تک ہو سکے گا ملازمت سے گریز کروں گا۴۴۔ علی بخش کے بیان کے مطابق جس روز وہ استعفا دے کر واپس آئے تو اس نے پوچھا کہ نوکری کیوں چھوڑ دی ۔ جواب دیا: علی بخش! انگریز کی ملازمت میں بڑی مشکل یہ ہے کہ میرے دل میں کچھ باتیں ہیں جنہیں میں لوگوں تک پہنچانا چاہتا ہوں مگر انگریز کا نوکر رہ کر انہیں کھلم کھلا نہیں کہہ سکتا ۔ میں اب بالکل آزاد ہوں جو چاہے کروں ، جو چاہے کہوں ۴۵ ۔ اسی آزادی کی خاطر انگریزی حکومت کا انڈین ایجوکیشن سروس میں پیش کردہ عہدہ قبول نہ کیا ۔ قید ملازمت کے خیال سے علی گڑھ میں فلسفے کی پروفیسری اور گورنمنٹ کالج لاہور میں تاریخ کی پروفیسری ٹھکرا دی ۔ فرماتے ہیں : لفٹنٹ گورنر (پنجاب) گورنمنٹ کالج لاہور کی پروفیسری کے لیے سیکرٹری آف سٹیٹ سے میری سفارش کرنے پر آمادہ تھے ، لیکن میں نے اپنے میلانِ طبع کے خلاف اس اسامی کی امیدواری سے دست برداری کا فیصلہ کر لیا ہے ۴۶ ۔ اقبال نے شاید ایک مرتبہ کسی انگریز افسر کو ملازمت کے لیے سفارش کی خاطر لکھا۔ یہ ان کا خط محررہ ۱۷؍اکتوبر ۱۹۲۵ء بنام سر جے۔ پی۔ تھامپسن ہے۔ اقبال ، تھامپسن کو بخوبی جانتے تھے ۔ تھامپسن ان ایام میں انڈین کونسل آف سٹیٹس کا ممبر تھا اور اس حیثیت سے اس کا واسطہ ہندوستان کی ریاستوں کے حکمرانوں سے پڑتا رہتا تھا ۔ ۱۹۲۵ء کا سال اقبال کے لیے کئی پریشانیوں کا سال تھا۔ اسی سال ان پر کفر کا فتویٰ لگا۔ نیز سر شادی لعل کے تعصب کا نشانہ بنے اور انہیں عدالت عالیہ کا جج نہ بننے دیا گیا ۔ اس پر سر شادی لعل کے خلاف مسلم پریس نے احتجاج کیا، سر شادی لعل کا خیال تھا کہ دیگر لوگوں کے ساتھ اقبال بھی اس کے خلاف احتجاج کی پشت پناہی کر رہے ہیں ۔ سووہ اور اس کے حواری اقبال کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو گئے ۔ یعنی اقبال کے غیر مسلم اور مسلم مخالفین نے ان کی کردار کشی کی مہم تیز کر دی ۔ اقبال ان کے ہاتھوں اس قدر بیزار تھے کہ انہوں نے لاہور کو خیر باد کہہ کر کشمیر میں ملازمت اختیار کرنے کا ارادہ کر لیا تھا ۔ تھامپسن کو خط اسی ذہنی پس منظر کے ساتھ تحریر کیا گیا ۔ لکھتے ہیں : میں آپ کو یہ خط ایک ایسے معاملے کے بارے میں لکھ رہا ہوں جس کا فوری تعلق میری اپنی ذات سے ہے اور مجھے امید ہے کہ آپ ایک ایسے وقت میں میری مدد کریں گے جبکہ مجھے اس کی سخت ضرورت ہے۔لاہور ہائی کورٹ میں جو جگہ خالی ہوئی تھی ، اس کے متعلق حکومت کے فیصلے کی خبر تو آپ نے سن لی ہو گی ۔ میری یہ بدقسمتی ہے کہ لوگوں نے مجھے اس سلسلے میں خواہ مخواہ ملوث کیا ۔ مسلم پریس نے اب تک یہاں جتنا احتجاج کیا ہے یا آئندہ کرے گا اس سے مجھے بہت زیادہ نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ چیف جج (سر شادی لعل) کا خیال ہے کہ چند اشخاص جن میں میرا نام بھی شامل ہے اس احتجاج کی پشت پناہی کر رہے ہیں،حالانکہ میرے خیال میں ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ جس قسم کی سازش میں مجھے ملوث کیا جا رہا ہے میرا ا س سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ بہرحال ان حالات میں میرے لیے یہاں پر ایک وکیل کی حیثیت سے کام کرنا بے حد مشکل ہو جائے گا ۔ خاص طور پر جب کہ مجھے ماضی میں بھی کئی ذرائع سے نقصان پہنچ چکا ہے۔ اس کے علاوہ بعض دیگر نا قابل بیان اسباب کی بنا پر جن کا اس خط میں ذکر کرنا مناسب نہیں، میں اس ماحول سے قطعی بیزار ہو چکا ہوں اور دل چاہتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ کر کہیں دور بھاگ جائوں ۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کے قلم کی ایک جنبش مجھے ان تمام مشکلات سے نجات دلا سکتی ہے ۔ اس وجہ سے آپ کی فیاضی اور ہمدردی پر یقین رکھتے ہوئے میں آپ کی سرپرستی کا خواہاں ہوں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ آپ مجھے کشمیر کی اسٹیٹ کونسل میںکوئی جگہ دلوا سکیں ؟ شاید آپ کو علم ہو کشمیر میرا آبائی وطن ہے اور اس خطۂ زمین سے مجھے خاص انس ہے ۔ عین ممکن ہے کہ ریاست کا نیا مہاراجہ (ہری سنگھ) اپنی حکومت میں کچھ تبدیلیاں لانے کی سوچ رہا ہو ۔ اگر ایسا ہے تو مجھے یقین ہے کہ اس معاملے میں سلسلہ جنبانی کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ اگر آپ مجھے تھوڑا سا سہارا دے سکیں تو یہ میرے لیے روحانی اور مادی طور پر ایک بہت بڑی نعمت ثابت ہو گی اور میں آپ کے اس لطف و کرم کا ہمیشہ ممنون رہوں گا ۴۷ ۔ خوش قسمتی سے اس زمانے میں حکومت ہند کی پالیسی یہ تھی کہ ریاستوں میں ملازمتوں کے لیے اس وقت تک سفارش نہ کی جائے جب تک کہ اسے ایسا کرنے کے لیے خصوصی طور پر کہا نہ گیا ہو ۔ پس تھامپسن اقبال کے لیے کچھ نہ کر سکتا تھا۔ اس نے صرف یہی جواب دیا کہ اگر عہدوں کے تعین کے لیے حکومت ہند کا مشورہ طلب کیا گیا تو وہ اقبال کی درخواست کا خیال رکھے گا ۔ سو اقبال کو لاہور ہی رہنا پڑا ، کیونکہ آئندہ سال یعنی ۱۹۲۶ء میں صوبائی کونسل کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا یا کل ہند مسلم سیاسیاست کے میدان میںایک اہم سیاسی شخصیت کی حیثیت سے اُبھرنا ان کے مقدر میں تھا ۔ اقبال کی آمدنی کے ذرائع محدود تھے۔ دولت اکٹھی کرنا یا اپنی زندگی کو آسائشوں کے ذریعے آرام دہ بنانا ان کی فطرت کے خلاف تھا۔ وکالت میںکام بھی اتنا لیتے تھے، جس کے معاوضے سے ان کے ماہ دو ماہ کے اخراجات پورے ہو سکیں مہینے میں کم از کم پانچ سو روپے تک کا کام مل جائے تو مزید نہ لیتے تھے، اوراگر کوئی موکل آ پہنچتا تو اسے اگلے ماہ آنے کو کہتے ۔ پیشہ وکالت کے اخلاقی پہلو کو ہمیشہ ملحوظ رکھتے ۔ ایک مرتبہ غالباً پٹنہ میں عدالت عالیہ کے سامنے کوئی اہم مقدمہ زیر بحث تھا۔ اس مقدمے میں ایک طرف سے سی ۔ آر ۔ داس اور دوسری طرف سے پنڈت موتی لعل نہرو اور عبداللہ سہروردی وغیرہ پیش ہوئے ۔ اس مقدمے میںبعض مسودات فارسی یا عربی میں تھے ،ا ور چند لفظوں کی تشریح متنازعہ فیہ امر بن گیا ۔ سی۔ آر ۔ داس وکیل سرکار تھے ۔ چنانچہ انہوں نے حکومت سے اجازت لے کر اقبال کو لاہور سے اس غرض کے لیے بلوایا کہ وہ ان الفاظ کی تشریح عدالت کے سامنے پیش کریں۔ ایک ہزار روپیہ روزانہ ان کی فیس منظور ہوئی، بلکہ عدالت نے انہیں کہا کہ وہ بہار میں ایک دو ماہ تک جتنی مدت چاہیں مقدمے کی تیاری کے سلسلے میں قیام کر سکتے ہیں ۔ نیز اگر کتب یا حوالے تلاش کرنے کے لیے لاہور یا کلکتے جانا پڑے تو آمد و رفت کے اخراجات بھی حکومت ادا کرے گی ۔ پٹنہ میں سی ۔ آر۔ داس اقبال کو لینے ریلوے اسٹیشن پر پہنچے اور انہیں ایک مہنگے ہوٹل میں اتارا ۔ ایک دن کے وقفے کے بعد سی ۔ آر ۔ داس انہیں ملنے آئے ۔ اقبال نے انہیںبتایا کہ متنازعہ الفاظ کی تشریح کے متعلق انہوں نے تیاری کر لی ہے اور اسی دن اپنا نقطۂ نظر عدالت کے سامنے پیش کر کے جلد واپس لاہور جانا چاہتے ہیں ۔ سی ۔ آر ۔ داس نے انہیں کہا کہ یہ مقدمہ حکومت کا ہے اور اس میں اس قدر جلد اپنی رائے دینے کی ضرورت نہیں، بلکہ انہیں چاہیے کہ اطمینان سے اپنے کاغذات تیار کریں ، کیونکہ اس سلسلے میں دو ماہ کی مدت تک وہاں قیام کر سکتے ہیں۔ جس کے لیے انہیں ایک ہزار روپیہ روزانہ ملتا رہے گا ۔ مگر اقبال کا اصرار تھا کہ ان کی تیاری مکمل ہے اور وہ جلد از جلد اپنا بیان عدالت کے سامنے دینا چاہتے ہیں۔ چنانچہ اگلے روز انہوں نے اپنے بیان کو قطعی صورت دے دی اور اسے عدالت کے سپرد کر دیا ۔ بیان عدالت میں پیش کرنے کے بعد جب لاہور واپس جانا چاہا تو بنک بند ہوچکے تھے، اور ان کی فیس نقد کی صورت میں عمال حکومت کے پاس موجود نہ تھی ۔ اگر وہ ایک دن کے لیے مزید ٹھہر جاتے تو انہیں ایک ہزار روپیہ اور مل جاتا ، لیکن انہوں نے اس لیے واپسی پر اصرار کیا کہ ان کا کام ختم ہو چکا ہے ۔ چنانچہ عمال حکومت نے اِدھر اُدھر سے نقد روپیہ جمع کر کے اقبال کی فیس انہیں ادا کر دی اور وہ پہلی ٹرین سے واپس لاہور روانہ ہو گئے ۔ اسی طرح ان کی سادہ زندگی اور فقیرانہ طبیعت کے متعلق مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے بھی ایک واقعہ کا ذکر کیا ہے ۔ تحریر کرتے ہیں( ’’آتش فشاں ‘‘ لاہور شمارہ نومبر ۱۹۷۹ء صفحات ۶۲ ۔۶۳): ایک مرتبہ کا واقعہ سُن لیجیے جس سے اِس نائٹ اور بیرسٹر کی طبیعت کا آپ اندازہ کر سکیں گے۔ پنجاب کے ایک دولت مند رئیس نے ایک قانونی مشورہ کے لیے اقبال، سر فضل حسین مرحوم اور ایک دوا اور مشہور قانون دان اصحاب کو اپنے ہاں بلایا اور اپنی عالیشان کوٹھی میں ان کے قیام کا انتظام کیا۔ رات کو جس وقت اقبال اپنے کمرے میں آرام کرنے کے لیے گئے تو ہر طرف عیش و تنعم کے سامان دیکھ کر اپنے نیچے نہایت نرم اور قیمتی بستر پا کر معاً ان کے دل میں خیال آیا کہ جس رسول پاکؐ کی جوتیوں کے صدقے میں آج ہم کو یہ مرتبے نصیب ہوئے اُس نے بوریے پر سو سو کر زندگی گزاری تھی ۔ یہ خیال آنا تھا کہ آنسوئوں کی جھڑی بندھ گئی ۔ اس بستر پر لیٹنا ان کے لیے نا ممکن ہو گیا ۔ اٹھے اور برابر غسل خانے میںجا کر ایک کرسی پر بیٹھ گئے اور مسلسل رونا شروع کر دیا ۔ جب ذرا دل کو قرار آیا تو اپنے ملازم کو بلا کراپنا بستر کھلوایا اور ایک چار پائی اس غسل خانہ میں بچھوائی اور جب تک وہاں مقیم رہے غسل خانے میں ہی سوتے رہے۔ سو پیشہ وکالت اقبال کے لیے کوئی معقول آمدنی کا ذریعہ نہ تھا ، ساتھ مختلف یونیورسٹیوں کے لیے پرچے بناتے اور دیکھتے تھے، تب کہیں جا کر اخراجات پورے ہوتے تھے ۔ بعد میں کتب کی اشاعت سے بھی کچھ آمدنی ہو جاتی تھی۔ آمدنی کی بے قاعدگی یا خرچ کی تنگی کے سبب بیوی نے کئی بار ملازمت اختیار کرنے کے لیے کہا لیکن انہوں نے مسکرا کر بات ٹال دی۔ کسی امیر گھرانے سے تعلق نہ تھا۔ بڑے بھائی کی اعانت میسر نہ ہوتی تو تعلیم بھی حاصل نہ کر سکتے تھے ۔ ہندوستان میں غریب ترین نائٹ (سر کے خطاب یافتہ کو نائٹ کہا جاتا تھا) کے طور پر مشہور تھے ۔ وکالت چمکانے کے لیے احباب نے مشورہ دیا کہ حکام کی دعوتیں کیا کریں ۔ مرزا جلال الدین تحریر کرتے ہیں: ہم نے کئی مرتبہ ڈاکٹر صاحب کو مشورہ دیا کہ وہ کبھی کبھی کھانے پر حکام کو اپنے یہا ں مدعو کرلیا کریں ۔ انگریز کو رام کرنے کا بہترین طریقہ اکل وشرب کی دعوت ہے…مگر ڈاکٹر صاحب کے نزدیک ہمارے مشورے قابل قبول نہ ہوتے ۔ وہ یہی جواب دیتے کہ وہ ایسی تقریبات پر روپیہ ضائع کرنا پسند نہیں کرتے ، کیونکہ انگریز کو رام کرنے کا سوال ہی ا ن کی دلچسپیوں کے دائر ے سے باہر تھا۔۴۸ عظیم حسین شکایتاً اپنے والد کی بائیو گرافی میں لکھتے ہیں کہ سرفضل حسین نے اقبال کی زندگی مالی طور پر کا میاب بنانے کے لیے بارہا کوششیں کیں لیکن اقبال نے اُن مواقع سے فائدہ نہ اٹھایا۔ اُن کوششوں کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے: ۱۔ ۱۹۲۴ء میں سرفضل حسین نے سر میلکم ہیلی (گورنر پنجاب )سے سفارش کی کہ اقبا ل کو ہائی کوٹ کا جج بنا دیا جائے۔ مگر ابھی معاملہ زیر غور تھاکہ اقبال نے حکومت پر بے لگا م تنقید کر کے سرکاری حلقوں کی ہمدردیا ں کھودیں۔ ۲۔ ۱۹۲۷ء میں مستقبل میں آنے والی دستوری اصلاحات کے سلسلے میں مسلمانوں کے مطالبات وزیر ہند کے سامنے پیش کرنے کے لیے ایک مسلم وفد کو انگلستان جاناتھا۔ سر فضل حسین نے اقبال سے اس وفد کی قیادت کرنے کی درخواست کی لیکن انہوں نے جانے سے انکار کردیا۔ ۳۔ ۳۲-۱۹۳۱ء کی گول میز کانفرنسوں سے واپسی پر چونکہ اقبال نے حکومت برطانیہ پر شدید نکتہ چینی کی تھی ، اس لیے سر فضل حسین کی کوششوں کے باوجود حکومت ہند نے انہیں فیڈرل سٹر کچر کمیٹی کارکن مقرر کرنے یا جمعیت اقوام (لیگ آ ف نیشنز)میں ہندوستانی وفد کے رکن کی حیثیت سے بھیجنے سے انکار کردیا۔ اسی طرح وائسرائے نے سر فضل حسین کی کوششوں کے باوجود اقبال کو پبلک سروس کمیشن کا ممبر بنانے سے انکار کردیا۔ ۴۔ ۱۹۳۳ء میں فضل حسین نے تجویز کیا کہ اقبال کو حکومت ہند کے ایجنٹ کے طور پر جنوبی افریقہ بھیج دیا جائے ، مگر اقبال نے یہ عہدہ قبول کرنے سے انکار کردیا کہ ان کی بیوی پردہ کرتی تھیں، اور مخلوط محفلوں میں شریک نہ ہوسکتی تھیں۔۵۰ اقبال کی تمام زندگی معاشی تنگی ہی میں گزری ۔ آخری چند سالوں میں علالت کے سبب وکالت چھوٹ گئی تھی ۔ بیوی فوت ہوچکی تھی اور گھر کے اخراجات کے علاوہ دو نابالغ بچوں کی نگہداشت اور تعلیم کے اخراجات بھی برداشت کرنے پڑتے تھے۔ سر فضل حسین نے میاں امیرالدین کو تحریر کیا کہ میں نے سنا ہے اقبال بیما ر ہیں اور مالی مشکلات میں مبتلا ہیں۔ مہربانی کر کے مجھے مطلع کیجیے کہ ان کی صحت مالی حالت اور پیشۂ وکالت سے آمدنی کی کیا صورت ہے۔ میاں امیر الدین نے اُنہیں جواب دیا کہ اقبال وکالت ترک کر چکے ہیں۔ اُن کی صحت اور مالی حالت خراب ہے اور اُن کی آواز بڑی سرعت کے ساتھ بیٹھتی چلی جارہی ہے۔ عظیم حسین ، اقبال کی نا کام دنیا دارانہ زندگی پرتبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : درحقیقت ڈاکٹر اقبال سیاست دا ن نہ تھے۔وہ تو سیاسی فلسفی یا آئیڈلسٹ تھے اور یہ نہ سمجھ سکے کہ سیاسیات حالات کے ساتھ مصالحت کاایک کھیل ہے وہ کوئی بلند عہدہ حاصل کرنے یا سیاسی لیڈر بننے میں اس لیے ناکام رہے کہ ایک معاملات کی سمجھ بوجھ رکھنے والے انسان کی بجائے وہ محض شاعر اور مفکر تھے۔۵۱ خیر یہ تو اقبال کی ناکام زندگی کے متعلق عظیم حسین کی رائے تھی ۔محمد احمد خان کا سوال غور طلب ہے ۔ کیا انگریز کے ہوا خواہوں اور سرکار کے نیاز مندوں کی زندگی کا بھی یہی حال رہا ہے ؟ …مگر اس کے باوجود نکتہ چین اور معترضین یہی کہتے رہے کہ ا قبال برطانیہ کا ہوا خواہ ، انگریز کا نیازمند اور امپریلزم کاایجنٹ ہے ۔ واہ رے سرکا ر کے اقبال ۔۵۲ ایسا سوچنے والے ایک نہیں کئی تھے۔ مسلم ہند کے برگزیدہ عالم مولانا حسین احمد مدنی بھی تمام عمر اقبا ل کو غلط فہمیوں کا شکار اور ’’ساحرین برطانیہ کے سحر میں مبتلا سمجھتے رہے ۔۵۳ البتہ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کی رائے مختلف تھی۔ وہ تحریر کرتے ہیں: انگریزی سیاست سے ان کو خیال اور عمل دونوں میں سخت نفرت تھی۔ بارگاہ حکومت سے وہ کوسوں دور بھاگتے تھے۔سرکار اور اس کے پرستار دونوں سے سخت بدگمان تھے اور ان کی ذات کو اپنے مقاصد میں حارج سمجھتے تھے۔ سیاست میں ان کا نصب العین محض کامل آزادی ہی نہ تھابلکہ وہ آزاد ہندوستان میں دار الاسلام کو اپنا حقیقی مقصود بنائے ہوئے تھے۔ صرف یہی وجہ ہے کہ انہوں نے عملی سیاسیات میں ان لوگوں کے ساتھ مجبوراً تعاون کیا جو برٹش گورنمنٹ کے زیر سایہ ہندو راج کے قیام کی مخالفت کررہے تھے گو مقاصد کے اعتبار سے ان میں اور اس طبقے میں کوئی رابطہ نہ تھا۔ مگر صرف اس مصلحت نے ان کو اِس طبقے کے ساتھ جوڑ رکھا تھاکہ جب تک مسلمان نوجوانوں میںدار السلام کانصب العین ایک آتش فروزاں کی طرح بھڑک نہ اٹھے وہ اس کے لیے سرفرد شانہ جدوجہد پر آمادہ نہ ہوں، اس وقت تک کم از کم انقلاب کے رخ کو بالکل دوسری جانب پلٹ جانے سے روکے رکھا جائے۔ اس بنا پر انہوں نے ایک طرف اپنی شاعری سے نوجوانان اسلام کے دلوں میں وہ روح پھونکنے کی کوشش کی ، جس سے سب لوگ واقف ہیں اور دوسری طرف عملی سیاسیات میں وہ روش اختیار کی۔ جس کے اصل مقصود سے چند خاص آدمیوں کے سوا کوئی واقف نہیں اور جس کے بعض ظاہری پہلوؤں کی وجہ سے وہ خود اپنے بہترین عقیدت مند معترضین کے طعنے سنتے رہے۔۵۴ اقبا ل کے خلاف دوسرا بڑا الزام یہ تھا کہ وہ ایک متعصّب فرقہ پرست تھے۔یہ الزام ان کی شاعری او رسیاست دونوں پر لگایا گیا۔دلیل یہ تھی کہ قیام انگلستان کے دوران میں جب اقبا ل ذہنی و قلبی انقلاب سے گزر ے اور ان کی شاعری نے کلّی طور پر اسلام کا رُخ اختیار کیا تو وہ اس دور ہی سے ایک متعصّب فرقہ پرست بن گئے تھے۔ گویا اسلامی عصبیت قبول کرتے ہی ان کے دل میں ہندوؤں کے خلاف تعصّب نے گھر بنا لیا تھا۔ اگرچہ تعصب اور عصبیت کاآپس میں لفظی تعلق ہے لیکن دونوں اصطلاحیں اپنے مفہوم میں لازم و ملزوم نہیں ۔ اقبال ایک خط میں عصبیت اور تعصب میں امتیاز کے متعلق تحریر کرتے ہیں: عصبیّت او ر چیز ہے او رتعصّب اور چیز ہے ۔ عصبیت کی جڑ حیاتی ہے او رتعصّب کی نفسیاتی ۔ تعصب ایک بیماری ہے جس کا علاج اطباء روحانی اور تعلیم سے ہوسکتا ہے۔ عصبیت زندگی کا ایک خاصہ ہے ، جس کی پرورش اور تربیت ضروری ہے ۔ اسلام میں انفرادی اور اجتماعی عصبیت دونوں کے حدود مقر ر ہیں۔ انہی کا نام شریعت ہے ۔ میرے عقیدے کی روسے بلکہ ہر مسلمان کے عقیدے کی روسے ان حدود کے اندررہنا باعث فلاح ہے اور ان سے تجاوز کرنا بربادی۵۵۔ خطبۂ الہ آباد میں ایک مقام پر فرماتے ہیں : فرقہ پرستی کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ جو فرقہ دوسرے فرقوں کے لیے بد خواہی کے جذبات رکھتاہو۔ وہ نیچ اور کمینہ فطرت ہے۔ میں دوسرے فرقوں میں رسوم ، قوانین ، مذہبی اور معاشرتی اداروں کا بے حد احترام کرتاہوں اور یہی نہیں بلکہ قرآنی تعلیمات کے مطابق ضرورت پڑنے پر ان کی عبادت گاہوںکی حفاظت کر نا میرا فرض ہے ، اس کے باوجود مجھے اس فرقے سے محبت ہے جو میری زندگی او ر کردار کا سرچشمہ ہے او رجس نے مجھے اپنا مذہب، ادب، فکر اور تمد ّن دے کرمیری تشکیل اس صورت میںکی ہے جیساکہ میں ہوں اور اس طرح اپنے سارے ماضی کی تعمیر نو کرکے اسے میرے شعور میں ایک زندہ و فعال عنصر بنا دیا ہے۔ ۵۶ اقبال کے دوستوں میں مسلمان بھی تھے اور ہندو اور سکھ بھی ۔ مہاراجہ کشن پرشاد سے تمام عمران کے گہرے روابط قائم رہے۔ یہاں تک کہ وہ اقبال سے اپنی بیٹیوں کی شادی بیاہ کے معاملات میں مشورہ بھی کرتے تھے۔ مہاراجہ کشن پرشاد کے نام ایک خط میں اقبال تحریر کرتے ہیں: مجھے جو خلوص سرکار سے ہے، اس کا راز معلوم کرنا مشکل نہیں ۔ یہ راز مضمر ہے اس دل میں ، جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بخشا ہے ، سر کار کی قبائے امارت سے میرے دل کو مسرت ہے ۔ مگر میری نگاہ اس سے پرے جاتی ہے اور اس چیز پر جاٹھہرتی ہے جو اس قبامیں پوشیدہ ہے۔۵۷ اسی طرح سوامی رام تیر تھ کے ساتھ ان کی زندگی بھر مخلصانہ تعلقات قائم رہے ، اور ان کی وفات پر اقبال نے ایک دل آویز نظم لکھی ۔ پنڈت شیونارائن شمیم اپنی نظموں کی اصلاح ان سے لیتے تھے۔ سریتج بہادر سپرو کے وہ مدّاح تھے ۔ اور نہرو خاندان ، بالخصوص پنڈت جواہر لعل نہرو سے تو واقعی محبت کرتے تھے۔راقم نے اپنی آنکھوں سے انہیں پنڈت جواہر لعل نہرو سے شفقت کا اظہار کرتے دیکھا ہے۔ شاید اُس کی وجہ یہ تھی کہ نوجوان پنڈت جواہر لعل نہرو کی وسیع النظری ، آزاد خیالی او ر اعتدال پسندی کی بنا پر اقبال نے ان کی ذات کے ساتھ بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں، یا ممکن ہے محبت و شفقت کا ایک پہلو یہ بھی ہوکہ پنڈت جواہر لعل نہرو اور ان کے خاندان کا تعلق اقبال کی طرح وادی کشمیر سے تھا۔ سکھوں میں سرجوگندرسنگھ اور امراؤسنگھ شیر گل سے بہت قریبی مراسم تھے۔ اور راجکماری بامباکی اس لیے عزت کرتے تھے کہ وہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پوتی تھیں۔ گھر کے نجی ماحول میں اقبال نے راقم کی ابتدائی تعلیم کے لیے اسے ایک ہندو استاد جناب ماسٹر تاراچند کے سپرد کر رکھا تھا، جن پرانہیں بہت اعتماد تھا۔ زندگی کے آخری چارپانچ سالوں میں اقبال کے معالج ایک ہندو ڈاکٹر جمعیت سنگھ تھے۔ اور اقبال کی وفات کے بعد جب تک وہ زندہ رہے ، بغیر کسی معاوضے کے خاندان اقبال کی خدمت کرتے رہے۔ میکلوڈ روڈ والی رہائش گاہ ایک بوسیدہ کوٹھی تھی ، جس کا ایک سو تیس روپے کرایہ ادا کرتے تھے۔ کسی نے سوال کیا کہ اتنے گراں کرائے میں تو بہت نفیس کوٹھی مل سکتی ہے جواب دیا: ٹھیک ہے ، مگر میں یہاں سے جانا نہیں چاہتا۔ بات دراصل یوں ہے کہ یہ کوٹھی دو ہندو یتیم بچوں کی وراثت ہے۔ میرے چلے جانے سے ان کو بہت تکلیف ہوگی۔ اتنا کرایہ شاید اور کوئی نہ دے‘‘۔۵۸ یہ حقیقت ہے کہ اقبال کو اپنی دنیا دارانہ زندگی میں جسٹس سر شادی لعل جیسے متعصّب ہندو کے ہاتھوں کچھ نقصان پہنچا، لیکن اس قسم کا نقصان ، ذہنی کوفت یا اذیت تو انہیں بعض علماء اور مسلم حاسدین بھی باقاعدہ پہنچاتے تھے۔ جہاں تک اقبال کی اپنی زندگی کا تعلق ہے۔ ایسی کوئی شہادت موجود نہیں جو یہ ثابت کرے کہ ان کے ہاتھوں محض تعصب کی بنا پر کسی ہندو یا سکھ کو کوئی گزند پہنچی ہو۔خیریہ تو اقبال سے کسی نہ کسی قسم کا تعلق رکھنے والے ہندو یا سکھ افراد کی باتیں ہیں۔ انہیں ہندووں سے من حیث القوم یا فرقہ بھی کوئی تعصب دشمنی یا عناد نہ تھا، بلکہ ان کی ترقی او رکا میابی پر خوش ہوتے تھے ۔ سر فرانسس ینگ ہسبنڈ کے نام ایک خط میں تحریر کرتے ہیں: براہ کرم یہ نہ سمجھیے کہ مجھے ہندووں سے کوئی تعصب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حالیہ سالو ں میں ایثار وجرأ ت کی جو اسپرٹ انہوں نے دکھائی ہے ، اس کی میں بڑی قدر کرتاہوں ۔ انہوں نے زندگی کے میدان میں ممتاز افراد پیدا کیے ہیں اور معاشی اور معاشرتی راستوں پر تیزی سے گامزن ہیں۔۵۹ اس کے علاوہ ہندوؤں او رسکھوں کے مذہبی اوتاروں اور بانیوں سے انہیں دلی عقیدت تھی۔ رام چندر جی کی مدح میں نظم لکھی اور انہیں امام ہند ، چراغ ہدایت او رملک سرشت کہا۔ اسی طرح باباگورونانگ کو پیغامبر توحید و حق ، توحید پرست اور نور ابراہیم کہہ کر خطاب کیا ۔ گو تم بدھ کو بھی پیغامبر کا مرتبہ دیا۔ رام چندر جی کی مدح میں نظم تو بالآخر کفر کے فتوے پر منتج ہوئی ۔ ’’رامائن ‘‘ اور ’’گیتا‘‘ کا منظوم اردو ترجمہ کرناچاہتے تھے۔ مثنوی ’’اسرارخودی‘‘کے پہلے ایڈیشن کے ساتھ منسلک دیباچے کے مطالعے سے واضح ہوتاہے کہ وہ ہندو مذہب کے دشمن کبھی بھی نہ تھے۔ بلکہ اُنہوںنے ہندو ادبیات اور مابعدالطبیعیات کاعمیق مطالعہ کیا تھااور وشوامتریا بھر تری ہری کے علاوہ سری کرشن اور راما نج ایسی عظیم ہستیوں سے تو نہ صرف عقیدت تھی بلکہ ایک طرح کی محبت تھی ۔اقبال جس اسلام پر ایمان رکھتے تھے ا س میں تعصب کا شائبہ تک بھی نہ تھا۔ جگن ناتھ آزاد نے ان کے عقیدۂ اسلام پر بڑے فاضلانہ انداز میں روشنی ڈالی ہے ۔ لکھتے ہیں: ترک عمل کا فلسفہ …جسے اقبال نے جابجا غیر اسلامی تصّوف کا نام دیا ہے، ضروری نہیں کہ یہ فلسفہ شری شنکر اچاریہ ہی نے پیش کیا ہو۔ جب اس خیال سے محی الدین ابن عربی اندلسی قرآن حکیم کی تفسیر کرتے ہیں تو اقبال اسے بھی غیر اسلامی قرار دیتے ہیں۔ اس تمیز میں ہندومسلمان کی وہ قید نہیں جو عصر حاضر کے اس ترقی یافتہ دور میں ہم نے اپنے اوپر عائد کررکھی ہے۔ اقبال کے یہاں لفظ اسلام اپنے حقیقی معنوں میں استعمال ہوا ہے او ران معنی میں استعمال نہیں ہواجس میں آج کی سیاست اسے استعمال کررہی ہے۔ اقبال کے سارے کلام میں اسلام سے مراد امن وسلامتی اور صالح ذوق ، جدوجہد و عمل کی تلقین ہے اور یہی سبب ہے کہ جہاں آپ نے شری شنکر ، شیخ اکبر اور خواجہ حافظ کے خیالات کو غیراسلامی کہا ہے ، وہاں سری کرشن او ررامانج کے افکار کوغیر اسلامی نہیں کہا بلکہ ان افکار کی تائید کی ہے او رانہیں برقرار رکھنے کی تلقین کی ہے:۶۰ اقبال نے خود کہاہے: اسلام اور مسلم میرے لیے خاص اصطلاحات ہیں ،جن کو میرے خیالات سمجھنے کے لیے اچھی طرح سمجھ لینا ضروری ہے۔ ۶۱ اقبال کے ہاں مذہب کا تصو ّر ، ہندوؤں یا قدیم یونانیوں اور مصریوں کے مذہب کی طرح قومی ہے نہ یہودیوں کے مذہب کی طرح نسلی ، نہ عیسائیوں کے مذہب کی طرح نجی ، ذاتی یا انفرادی ۔ ان کا تصور اسلام خالصتاً انسانی ہے بالفاظ دیگر وہ اسلام کو ہیبت اجتماعیۂ انسانیہ کا ایک اصول سمجھتے تھے۔ اور مسلمانوں کو وہ جماعت جو اس اصول کی علمبردارہو۔لیکن انہیں متعصّب فرقہ پرست ثابت کرنے کے لیے معترضین کتنی دور کی کوڑی لائے ؟ اس کی ایک مثال محمداحمد خان دیتے ہیں: ڈاکٹر سچد انند اپنی انگریزی تصنیف ’’اقبال بحیثیت شاعر او راس کا پیغام ‘‘میں تحریر کرتے ہیں کہ نظم ’’ہندوستاں ہمارا‘‘ اس لیے قوم پرستی کے جذبات سے خالی ہے کہ اس میں اقبال نے فارسی کے الفاظ استعمال کیے ہیں او رنظم ’’نیاشوالہ ‘‘ میں انہوں نے برہمن کی بت پرستی پر طنز کرکے ہندوؤں کے خلاف اپنے تعصّب کا اظہار کیا ہے ۔حالانکہ اقبال کے ہاں فارسی کوئی مذہبی زبان نہ تھی اور ’’نیا شوالۂ‘‘ میںوہ برہمن کے بت او رواعظ کے خدا دونوں سے بیزارمعلوم ہوتے ہیں ۔دراصل اقبال کی شخصیت پہلو دار توتھی ، مُعمانہ تھی۔ لیکن ہندوستان میں اسے معما بنادیاگیا ۔ ہندوؤں نے انہیں متعصب مسلم قوم پرست سمجھا اور مسلمانوں کے بعض حلقوں نے انہیں کافر گردانا ۔ شاید اسی احساس کے تحت اقبال اپنے متعلق یہ کہنے پرمجبور ہوئے: زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا اور کافر یہ سمجھتا ہے، مسلمان ہوں ہیں۶۲ بہرکیف ان میں اسلامی عصبیت ضرور تھی او راپنی جماعت یا فرقے سے وہ محبت کرتے تھے، لیکن دوسروں سے نفرت نہیں۔ ان کی آرزوتھی کہ ہندو او رمسلمان دونوں اپنا اپنا قومی تشخص قائم رکھتے ہوئے ترقی کریں ۔ مثنوی ’’اسرارخودی‘‘میں پیش کردہ نقطۂ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے مہاراجہ کشن پرشاد کو تحریرکیا: میں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کی گذشتہ دماغی تاریخ او رموجودہ حالت پر بہت غور کیا ہے، جس سے مجھے یقین ہوگیا ہے کہ ان دونوں قوموں کے اطباء کو اپنے مریض کا اصل مرض اب تک معلوم نہیں ہو سکا۔ میرا عقیدہ ہے کہ ان کا اصل مرض قوائے حیات کی ناتوانی اور ضعف ہے او ریہ ضعف زیادہ تر ایک خاص قسم کے لٹریچر کا نتیجہ ہے جو ایشیا کی قوموں کی بدنصیبی سے ان میں پیدا ہوگیا…اب حالات حاضرہ اس امر کے مقتضی ہیں کہ اس نقطۂ خیال کی اصلاح کی جائے۔ ۶۳ اقبال نے مسلم ریاست کا تصور اس لیے پیش نہیں کیا تھا کہ وہ ہندوؤں سے کوئی بغض یا عناد رکھتے تھے وہ برصغیر کے سیاسی حالات کے ذاتی مشاہد ے اور تجربے سے اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ دونوں مذہبی فرقوں میں اشتراک اقتدار کا کوئی قابل قبول سمجھوتا ہو سکنا ممکن نہیں۔دوبھائیوں میں اگر اتفاق نہ ہو تو وراثت تقسیم کرنا پڑتی ہے ۔ یہ انسان کی خاندانی یا اجتماعی زندگی کا خاصہ ہے۔ مسلم ریاست کے تصور سے قبل مہا سبھائی لیڈروں نے ہندوؤں کو مسلمانوں سے بدظن کرنے کے لیے مشہور کررکھاتھاکہ اگر برصغیر کے شمال مغرب میں مسلم اکثریتی صوبوں کا بلاک بن گیا تو وہاں کے مسلمان مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک سے ملکر ہندوستان پر دباؤ ڈالیں گے اور ماضی کی طرح ممکن ہے پھر ہندوستان پر حملہ کردیں۔لیکن آج سے نصف صدی پیشتر اقبا ل کو احساس تھاکہ ہندو لیڈروں کا اندیشہ بے بنیاد ہے اور اگر ہندوستان کو کسی نظریاتی یاعسکری حملے کا خطرہ ہے تو مسلم ممالک سے نہیں بلکہ وسطی ایشیا یا سوویٹ روس کی جانب سے ہے،جو زاروں کے عہد سے جنوبی سمندروں کے گرم پانیوں تک پہنچنے کا آرزو مند رہاہے ۔ اسی خیال کے پیش نظر مسلم ریاست کا تصور پیش کرتے وقت اقبال نے واضح کیا کہ ہندوستان کے نقطۂ نظر سے اس کا مطلب اندرونی تو ازن قوت کے باعث ، امن اور سلامتی ہوگا اور جہاں تک بیرونی حملے کا تعلق ہے ، ہندوؤں او رمسلمانوں کی مشترک بری، فضائی اور بحری افواج برصغیر کے دفاع کے لیے اس کی سرحدوں پر متعین کی جاسکتی ہیں۔ اگر اقبال ایک متعصب فرقہ پرست تھے یا ہندوؤں کے دشمن تھے تو برصغیر کے تحفظ کے لیے مشترکہ دفاع کا تصور پیش کرنے کی انہیں کیا ضرورت تھی ۔ تیسرا الزام یہ ہے کہ وہ ایک بے عمل او رمایوس انسان تھے۔ اس الزا م کی دو شقیں ہیں۔ ۱۔ اقبال بنیادی طور پر شاعر و مفکر تھے اس لیے ان کی سیاست بے عملی کی سیاست تھی۔دراصل وہ سیاست دان نہ تھے۔ ۲۔ مسلم ریاست کا تصور اقبال کی ذہنی مایوسی کی پیداوار تھا۔ جہاں تک اس الزام کی پہلی شق کا تعلق ہے ، وہ سیاست دا ن کے اس تصوّر پر قائم ہے جو ہندوستان میں عموماً مقبول رہاہے۔ عملی سیاست میں اس کی دوتصویریں ہیں۔ ایک تو یہ کہ جلسوں میں دھواں دھار تقریریں کرے، احتجاجی جلوسوں یا مظاہروں میں شریک ہو۔ اخباروں میں بیانات داغے ، حکومت کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کر ے یا ان کی مخالفت کرے۔عدم تعاون ، سول نافرمانی ، ترک موالات، عدم تشدد کے ذریعے اپنے مطالبات منوائے۔ مارکھائے گرفتار ہو، سزا یا ب ہو یا نظر بندکردیا جائے،جیل میں بھوک ہڑتال کرے وغیرہ ۔ دوسری تصویر یہ ہے کہ جلسوں میں تقریریں کرے۔ اخباروں میں بیانات دے، کبھی حکومت پر تنقید کرے لیکن کبھی اس کی تعریف بھی کردے، روپیہ خرچ کرکے پارٹی بنائے، انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے اسمبلی کی نشستیں قابو کرے اور وہاں یاتو کسی سیاسی جماعت سے ساز باز کر کے یا حکومت کے ساتھ سازش کرکے کوئی نہ کوئی اہم منصب حاصل کرلے۔ اقبال کی سیاست چونکہ ان دونو ںتصویروں میں کسی ایک کے ساتھ بھی مطابقت نہ رکھتی تھی اور مزید برآں چونکہ گوشہ نشینی بھی ا ن کے مزاج یا ان کی افتاد طبع کا ایک وصف تھی ، ا س لیے معترضین نے انہیں نہ صرف بے عمل ہونے کا طعنہ دیا بلکہ یہ فیصلہ بھی صادر کردیا کہ وہ سرے سے سیاست دان ہی نہ تھے۔ اقبال کی گوشہ نشینی کی عادت سے کسی کو بھی انکار نہیں۔ ان سے جب پوچھا گیا ۔ کہ آپ اشعار تو بڑے جوشیلے کہتے ہیں، لیکن عملی جدوجہد نہیں کرتے توان کا جواب تھاشعر کہتے وقت میں عالم علوی میں ہوتا ہو ں لیکن ویسے میرا تعلق عالم اسفل سے ہے۔ اس لیے میرے اشعار او رمیرے عمل میں کیونکر مطابقت ہوسکتی ہے۶۴۔ جب مولانا محمد علی نے طنزاً کہا کہ میا ں اقبال! ہم تو تمہارے اشعار پڑھ کر جیل چلے جاتے ہیںلیکن تم ویسے کے ویسے ہی گھرمیں بیٹھے حقہ گڑگڑاتے رہتے ہو۔ تو جواب دیا : قوال گاتاہے ، اور سننے والے وجد میں آکر ہوحق کرتے ہیں، ناچتے ہیں، بے ہوش ہوجاتے ہیں ، لیکن اگر یہی کیفیتیں قوال پر بھی طاری ہونے لگیں تو قوالی ہی ختم ہوجائے ۶۵۔گھر سے باہر قدم رکھنا ان کے لیے ایک عذاب ہوتا تھا، لیکن ان سب باتوں کے باوجو دانہوں نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ یا سیاسی استحکا م کی خاطر عملی سیاسیات میں حصّہ لیا، یعنی عزلت نشین اقبال کو اپنی افتاد طبع کے خلاف اگر کوئی سیاسی ہنگاموں میں کھینچ لانے کا محرک ہواتو مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ یا ان کے سیاسی استحکا م کا جذبہ تھا۔ ۱۹۲۶ء سے لیکر ۱۹۳۴ء تک انہوں نے برصغیر کی مسلم سیاسیات میں عملی جدوجہد کی اور اس کے بعد علالت کے دور میں بھی جو ان کی زندگی کے بقیہ چاربرس تک مسلسل طاری رہا، بے عملی کے طعنوں سے بے پروا وہ بستر مرگ پر لیٹے لیٹے بلکہ آخری دم تک مسلم قائدین کو اسلامی ریاست کی تجویز قبول کرلینے پر آمادہ کرتے رہے اور جب کسی نے ان کی خدمات کو سراہنے کی کوشش کی تو عجزو انکسار سے فقط یہی کہا: میں نے اسلام کے لیے کیاکیا؟میری خدمتِ اسلامی توبس اس قدر ہے جیسے کوئی شخص فرط محبت میں سوتے ہوئے بچے کو بوسہ دے۔۶۶ سید نذیر نیازی اس ضمن میں تحریر کرتے ہیں: انہیں اپنی قوم سے بے عملی کے طعنے سننے پڑتے ، حالانکہ ا ن کے نکتہ چین اس امر کو فراموش کردیتے کہ ان کی فکر بھی ایک طرح کا عمل ہے اور اگر عمل کے معنی ہیں نصب العین حیات کے لیے ترغیبات او رترہیبات دنیوی کے باوجود ایک خاص قسم کی سیرت و کردار کی بالا رادہ پرورش ،توحضرت علامہ کسی صاحب عمل سے پیچھے نہ تھے۶۷۔ الزام کی دوسری شق سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ اقبال چونکہ ہندومسلم مفاہمت سے مایوس ہوچکے تھے، اس لیے مایوسی کے عالم میں مسلم ریاست کا تصورپیش کیا۔ یعنی اگر کوئی قابل قبول ہندومسلم سمجھوتا ہو جاتاتو مسلم ریاست وجود میں لانے کی ضرورت پیش نہ آتی ، لہٰذا مسلم ریاست کا تصوّر کسی نظریاتی اساس پر قا ئم نہیں بلکہ ایک شاعرکی مایوسی اور ناامیدی کی پیداوار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر بات کا منفی پہلو نکالا جاسکتاہے۔ اور اس کا انحصار معترض کی اپنی ذہنیت پر ہے کہ وہ کس حد تک بیمار ہے جولوگ فکر اقبال سے بخوبی شناسا ہیں انہیں علم ہے کہ اقبال قنوطیت کے قائل نہ تھے بلکہ رجائیت پسند تھے اور ان کے ہاں مستقبل یا تقدیر کی کوئی متعین صورت نہیں ہے ، صرف امکانات ہیں جو ہوسکتاہے وقوع میں آئیں اور ہوسکتاہے کہ نہ آئیں۔ اقبا ل کا عقیدہ تھاکہ ہندوستان کے شمال مغرب میں مسلم اکثریتی صوبے ایک دوسرے کے ساتھ ملحق ہیں او ران کو خدا ے حکیم و علیم وخبیر نے بلامصلحت نہیں بلکہ کسی مصلحت کے لیے یکجا رکھا ہے ، سوانہوں نے مسلم ریاست کے لیے ایک فکری یانظریاتی اساس بھی ترتیب دی ۔ یہ سلسلۂ ۱۹۰۷ء سے لے کر ان کی وفات تک جاری رہا۔ مدعایہ تھاکہ اگر بالآخر مسلم ریاست وجود میں آتی ہے تو اس کے لیے فکری یا نظریاتی اساس پہلے ہی سے موجود ہو۔ گویا انہوں نے اس کے وجود میں آنے کے امکان کی بناپر ا سکے لیے تقریباً تیس برس کی مدت میں نظریاتی اساس فراہم کردی تھی۔ تیس برس یا اقبال کی نصف عمر پر پھیلا ہوا یہ تخلیقی اور تعمیر ی عمل کیاان کی قنوطیت ، مایوسی یا نا امیدی کانتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے ؟ اس بحث کا ایک پہلو اور بھی ہے ۔ اقبال کے معترضین بالخصوص پنجاب کے ہندوپریس نے ان پر ہمیشہ یہ الزا م لگایا کہ اقبال ہی وہ خوفناک مسلمان ہے جو ہر مرحلے پر ہندو مسلم مفاہمت میں رخنہ انداز ہوتاہے ۔ اگر اس الزا م کو لحظہ بھر کے لیے درست بھی تسلیم کرلیاجائے تو بھی نتیجہ کیا برآمد ہوتاہے؟یہی کہ وہ کسی صورت میں بھی ہندو مسلم مفاہمت کے خواہشمند نہ تھے۔ ان کا نصب العین مختلف تھا یا وہ ابتداہی سے مسلمانوں کو مسلم ریاست کی طرف لے جانے کے لیے فکری اور عملی جدوجہد میں مصروف تھے ۔ پس دونوں صورتوں میں اقبال کے نقطۂ نظرسے مسلم ریاست کے قیام میںمایوسی یا ناامیدی کاکوئی پہلو نہیں نکلتا۔ ہندوستان میں او رانگلستان کے بعض حلقوں میں اقبال کے خطبۂ الہ آباد پرتبصرے جاری رہے۔ ۱۹۳۱ء کے چند ابتدائی مہینوں میں زور شور کچھ زیادہ ہی تھا، لیکن ۱۹۳۲ء تک بات آئی گئی ہو گئی۔ ۲۱اپریل ۱۹۳۸ء کو اقبال نے وفات پائی ۔ ان کی وفات سے تقریباً دوسال بعد ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کومسلم لیگ نے قراردار لاہور (جیسے بعد میں قراردار پاکستان کا نام دیاگیا)منظور کی اور اقبال کا خطبۂ الہ آباد پھر موضوع بحث بن گیا۔ اسے کئی اداروں نے دوبارہ شائع کیا اور لاکھوں کی تعداد میں تقسیم ہوا۔ اقبال کی وفات کے بعد اس نئی بحث میں چند پرانے سوال اٹھائے گئے جو اقبال کی زندگی میں بھی زیر بحث آئے تھے، لیکن بعض سوال نئے تھے۔ سوال یہ تھے: ۱۔ کیا اقبال نے ہندوستان کے وفاق کے اندر مسلم ریاست کے قیام کی تجویز پیش کی تھی یا وہ اسے ایک آزاد اور مقتدر مسلم مملکت کی صورت میں قائم دیکھنا چاہتے تھے۔ ۲۔ اقبال نے خود مختار مسلم ریاست کی تجویز پیش کی تھی لیکن بعد میں اسکی لغویت کو محسوس کرتے ہوئے اس سے انحرا ف کیا۔ ۳۔ اقبال تنہا مسلم ریاست کے تصّور کے خالق نہ تھے بلکہ ان سے قبل کئی ہندو ، مسلم انگریز یا دیگر شخصیتوں نے فرقہ وارانہ مسئلے کے حل کے لیے اسی قسم کی تجاویز پیش کررکھی تھیں او راقبال ان شخصیات میں سے ایک تھے۔ یہ سوال قیام پاکستان کے بعد بالخصوص پاکستان میں اٹھایاگیا۔ اس کا تعلق بظاہر تو علمی تحقیق سے تھا، لیکن جیسا کہ واضح کیاجائے گا، اس کے پس منظر میں بعض مخصوص سیاسی مصلحتیں بھی برسرعمل تھیں۔ مسلم لیگ نے قراردار لاہور میں چونکہ برصغیر کے شمال مغرب او رمشرق کے مسلم اکثریتی خطوں میں آزاد اور مقتدر مسلم ریاست یاریاستوں کے قیام کا مطالبہ کیا تھاا س لیے اس کی تعبیر دس سال قبل مسلم لیگ ہی کے پلیٹ فارم سے اقبال کے خطبۂ الہ آباد کی روشنی میں کی گئی۔ہندو لیڈروں میں ڈ اکٹر راجندر پرشاد نے خطبۂ الہ آباد کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنی انگریزی تصنیف ’’منقسم ہندوستان ‘‘میں تحریر کیا کہ اقبال نے تو ہندوستان کے وفاق کے اندر مسلم ریاست کے قیام کی تجویز پیش کی تھی ۶۸۔ یہی موقف آر۔ کوپ لینڈ نے بھی اپنی تصنیف ’’ہندوستانی سیاست ۱۹۳۶ء تا۱۹۴۲ء ‘‘ (انگریزی)میں اختیار کیا۔۶۹ ہندولیڈروں اور ان کے نقطۂ نظر کے حامی انگریزوں نے یہ موقف اس لیے اختیا رکیا تھا تاکہ ثابت کیا جاسکے کہ مسلم لیگ نے پہلے خود ہی مسلم اکثریتی ریاستوں کے قیام کا مطالبہ ہندوستان کے وفاق کے اندر کیا تھا اور اب بغیر کسی وجہ کے آزاد اور مقتدر پاکستان کا مطالبہ کیا جارہا ہے ۔گویا مسلم لیگ کے مطالبوں میں تضا د تھا یا مسلم سیاسی رہنماؤں کو خود معلوم نہ تھا کہ وہ کیاچاہتے ہیں اور کیا نہیں چاہتے ، اس لیے ایک ہی سانس میں کبھی کچھ مطالبہ کرتے ہیںاور کبھی کچھ۔ہندو لیڈروں اور ان کے انگریزحامیوں نے ایک اور غلط فہمی پھیلانے کی کوشش کی اوروہ یہ تھی کہ اقبال نے گو برصغیر میں خود مختار مسلم ریاست کے قیام کی تجویز پیش کی تھی ، مگر بعد میں اس کی لغویت کا احساس کرتے ہوئے اس تجویز کو واپس لے لیا تھایا اس سے منحرف ہوگئے تھے۔ یہ من گھڑت افسانہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں بنگالی زبان کے پروفیسر اخبا ر’’مانچسٹر گارڈین ‘‘ کے نامہ نگار اور ہندو کانگرس کے زبردست حامی ایڈورڈٹامسن کے ذہن کی اختراع تھا۔ اس نے کتاب بعنوان ’’ہندوستان کو آزادی کے لیے تیار کرو۔‘‘(انگریزی) میں جو لندن سے ۱۹۴۰ء میں شائع ہوئی ، تحریر کیا : چند سال سے ہندوستان کے ایک حصّے کو قطع کر کے مسلم ریاست بنانے کے لیے ہلچل مچی ہوئی ہے۔ اس ہنگامے کی ابتداء کس نے کی ، یہ معاملہ قدرے متنازع فیہ ہے۔ عام طور پر اس کا محرک ایک شاعرسر محمد اقبال کو قرار دیا جاتاہے۔ آبزرور، میں ایک مرتبہ میںنے لکھا تھا کہ انہوں نے پاکستان منصوبے کی حمایت کی تھی ۔ اقبال میرے ایک دوست تھے او رانہوں نے میرے غلط تصور کی اصلاح کردی ۔ پہلے انھوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ میرے وسیع ، غیر منظم اور فاقہ کش ملک میں طوائف الملوکی برپا ہوتی نظر آتی ہے۔ پھر انہوں نے فرمایا کہ پاکستان کا منصوبہ برطانوی حکومت کے لیے تباہ کن ہے ۔ہندو فرقے کے لیے تباہ کن ہے اور مسلم فرقے کے لیے تبا کن ہے آخرمیں انہوں نے کہا ، لیکن میں مسلم لیگ کا صدر ہوں اس لیے میرا فرض ہے کہ اس تجویز کی حمایت کروں۷۰۔ دوسال بعد یعنی ۱۹۴۲ء میں اسی مصنفّ نے ایک اور کتاب بعنوان ’’عصر حاضر کے ہندوستان میں اخلاقی تخیلات‘‘(انگریزی) شائع کی،جس میں لکھا: اقبال بیک وقت ایک فلسفی ، شاعر، عالم دین او رسیاستدان تھے ۔ انہیں اپنے انتقال سے کچھ عرصہ پہلے معلوم ہوگیا تھا کہ وہ اس دنیا سے رخصت ہورہے ہیں، مجھ کو ایک خط میں نہایت دل شکستگی اور رنج و افسوس کے ساتھ لکھا تھا کہ میرے وسیع ، غیر منظم اور فاقہ کش ملک میں طوائر الملوکی برپا ہوتی نظر آتی ہے۷۱۔ قطع نظر اس کے کہ یہ جھوٹ اقبال کی وفات کے دو یاچار سال بعد بولا گیا جبکہ اقبا ل خود اس کی تردید کرنے کے لیے موجود نہ تھے، ان تحریروں میں سے ایک میں توایڈورڈٹامسن یہ دعوے کرتاہے کہ اقبال نے اسے ایک ملاقات میں یہ بات کہی اور دوسری میں ان کے ایک خط کا حوالہ دیتاہے جو اس نے اپنی کتاب میں شائع نہیں کیا۔ علاوہ ازیں پہلی تحریرمیں وہ بیا ن کرتاہے کہ گفتگو کے دوران میں اقبال نے اسے آخر میں کہا: لیکن میں مسلم لیگ کا صدر ہوں اس لیے میرا فرض ہے کہ اس تجویز کی حمایت کروں۔ اقبال تو صرف ایک بار مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے تھے ۔ یعنی دسمبر ۱۹۳۰ء میں جب انہوں نے مسلم لیگ کے اجلاس الہ آباد میں اپنا خطبہ پڑ ھاتھا۔ اس وقت مسلم لیگ کا نصب العین پاکستان نہ تھا، بلکہ چودہ نکات تھے اور مسلم ریاست کے قیا م کی جو تجویز اقبا ل نے تب پیش کی وہ ان کی ذاتی تجویز تھی۔ لہٰذا وہ اپنی مرضی کے خلاف پاکستان کے قیام کی تجویز کی حمایت کرنے پر کیونکر مجبور ہوسکتے تھے۔ خطبۂ الہ آباد کے بعد جب اقبا ل ستمبر ۱۹۳۱ء میں دوسری گول میز کا نفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے تو اسی ایڈورڈ ٹامسن نے ’’لندن ٹائمز ‘‘مورّخہ ۳ اکتوبر ۱۹۳۱ء میں ’’پا ن اسلامی سازش ‘‘ کے زیر عنوان ایک مراصلہ میں خطبہ ٔ الہ آباد میں اقبال کی پیش کردہ مسلم ریاست کے قیام کی تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: جو کوئی بھی یہ کہتا ہے کہ ہندوؤں کا کیس (جو نہایت بری طرح سے پیش کیا جارہاہے) ہمدردانہ غور کا مستحق ہے، اس پرمسلمانوں کے مخالف ہونے کی مہر لگ جاتی ہے ۔ لہٰذا میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں اس جمہوریت کی تعریف کرتاہوں جو آغاخان کو ہندومت کے مقابلے میں اسلام میں نظر آتی ہے اورمیرا خیال ہے وہ اس سے بھی آگے بڑھ کریہ واضح کرتے کہ انسانی اخوت کی تعلیم کو روبہ عمل لانے میں اسلام عیسائیت پر بھی فوقیت رکھتاہے ۔ (اگر ان کا اخلاق آڑے نہ آتا) میں ہندوستان کے شمال مغرب میں مسلمانوں کے فرقہ وارصوبوں کے قیام کی مخالفت نہیں کررہا، لیکن سر محمد اقبال تو ان کی کنفیڈریشن ہندوستان کی فیڈریشن کے ’’اندریا اس کے باہر‘‘قائم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ذرا نقشہ پر نگاہ ڈالیے کہ بقیہ ہندوستان کے لیے کس قسم کی قابل دفاع سرحد رہ جاتی ہے ۷۲۔ اس کے جواب میں اقبال کا ایک خط بعنوان ’’شمال مغربی مسلم صوبے ‘‘ لنڈن ٹائمز ‘‘ مورّخہ ۱۲اکتوبر ۱۹۳۱ء میں شائع ہوا ۔ انہوں نے تحریر کیا: ’’آپ کے ۳ اکتوبر کے پرچے میں ڈاکٹر ای ۔ ٹامسن نے میرے صدارتی خطبے کا ، جو میں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے گذشتہ دسمبر کے اجلاس میں پڑھا تھا، مندرجہ ذیل حصّہ سیاق وسباق سے علیٰحدہ کرکے ’’پان اسلامی سازش‘‘ کا ثبوت فراہم کرنے کی غرض سے پیش کیاہے: میری خواہش ہے کہ پنجاب ، صوبہ شمال مغربی سرحد ، سندھ اور بلوچستان کو یکجا کرکے ایک واحد ریاست بنا دی جائے، خود مختار حکومت ، برطانوی سلطنت کے اندر ملے یا برطانوی سلطنت سے باہر ، مجھے تو یہی نظر آتاہے کہ شامل مغربی ہندمیں ایک مستحکم و متحدہ مسلم ریاست کی تشکیل ، مسلمانو ں، کم از کم شمال مغربی کے مسلمانوں کے لیے بالآخر مقدر ہوچکی ہے۔ کیامیں ڈاکٹر ٹامسن کو یہ بتا سکتاہوں کہ میں نے برطانوی سلطنت سے باہر مسلم ریاست کا مطالبہ پیش نہیں کیا ہے، بلکہ دھند لے مستقل میں ان زبردست قوتوں کی امکانی کارفرمائی کے متعلق یہ ایک تخمینہ ہے جو برصغیر ہند کے مقدر کی اس وقت صورت گری کر رہی ہیں۔ کوئی ہندوستانی مسلمان ، جو عقل کا کوئی شائبہ رکھتاہو، عملی سیاست کے ایک منصوبے کی حیثیت سے برطانوی دولت مشترکہ سے باہر شمال مغربی ہند میں مسلم ریاست یا ریاستوں کے سلسلے کو قائم کرنے کا خیال نہیں کررہاہے ۔ میں ہندوستان کے ایسے صوبہ جات میں از سر نو تقسیم کا حامی ہوں جس میں کسی ایک فرقہ کی موّثر اکثریت ہو، جس کی وکالت نہرورپورٹ اور سائمن رپورٹ نے کی ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ مسلم صوبوں کے متعلق میری تجویز، اسی تخیل کو آگے بڑھاتی ہے۔ ہندوستان کی سرحد پر مطمئن اور منظم مسلم صوبوں کا ایک سلسلہ سطح مرتضع ایشیا کی بھوکی نسلوں کے خلاف ہندوستان کے لیے اور برطانوی سلطنت کے لیے ایک فصیل ثابت ہوگا۷۳۔ سواقبال نے اپنی زندگی میں ایڈورڈٹامسن کی شر انگیزی کی تردید کی تھی ، جب اس نے ان کی مسلم ریاست کے قیام کی تجویز کر پان اسلامی سازش قرار دیا تھا۔ بہرحال ان سب باتوں کے باوجود پنڈت جواہر لعل نہرو نے اپنی انگریزی تصنیف ’’ہندوستان کی دریافت‘‘، ۷۴ ڈاکٹر امبیدکرنے اپنی انگریز ی تصنیف ’’پاکستان پرخیالات ‘‘۷۵ یا دیگر ہندو مصنفین نے اپنی اپنی کتابو ںمیں ایڈورڈٹامسن کی علمی دیانت داری پر انحصار کرتے ہوئے اقبال کے متعلق اسی جھوٹ کو بار با دہرایاہے۔ واضح رہے کہ یہ سب کتب اقبال کی وفات کے بعد شائع ہوئیں، جب وہ ان کی تردید نہ کرسکتے تھے۔ مسلمانوں میں چوہدری رحمت علی نے اقبال کے متعلق اس جھوٹ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ۔ چوہدری رحمت علی پاکستان کی اسکیم اور اصطلاح کے موجد بیان کیے جاتے ہیں ۔ اور وہ کیمبرج میں پاکستان نیشنل موومنٹ کے بانی تھے۔ وہ اپنی انگریزی تصنیف ’’پاکستان ‘‘۷۶میں جو ۱۹۴۷ء میں شائع ہوئی ، تحریر کرتے ہیں کہ ۱۹۱۵ء میں پہلی بار بزم شبلی کی بنیاد رکھتے ہوئے انہوں نے اپنے سیاسی نظریات کے اظہار کے سلسلے میں کہاتھا کہ شمالی ہندمسلم ہے او رہم اسے مسلم ہی رکھیں گے صرف یہی نہیں بلکہ ہم اسے ایک مسلم مملکت بنائیں گے۔۷۷ اقبال کے خطبۂ الہ آباد پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں کہ اقبال کے ہاں مسلم ریاست کا تصور ایک علیٰحدہ یا آزا د و مقتدر مسلم مملکت کی صورت میں نہ تھابلکہ وہ اسے انڈین فیڈریشن ہی کے اندر بڑے صوبے یاوحدت کی شکل میں دیکھنا چاہتے تھے۷۸۔ مگر عملی طور پران کی تجویز بیکا رثابت ہوئی ۔مسلم سیاستدانوں نے اس کی مخالفت کی اور اقبال نے خود بھی اس تجویز سے انحراف کیا۔۷۹ اس مرحلے پر یہ معلو م کرنے کے لیے کہ آیا اقبال نے ہندوستان کے وفاق کے اندر مسلم ریاست کے قیام کی تجویز پیش کی تھی یا وہ اسے ایک آزاد مقتدر اسلامی مملکت کی صورت میں دیکھنا چاہتے تھے، خطبۂ الہ آباد کا تجزیہ کرنا مناسب ہے۔اس تجزیے کے ساتھ ضروری ہے کہ خطبے کے فوری بعد اس پر اخباری یا دیگر نوعیت کے تبصروں کونگاہ میں رکھا جائے۔ مزید برآں خطبے کے بعد اقبال تقریباآٹھ برس زندہ رہے ۔اور اس مدت میں انہوں نے وقتًا فوقتًا خطبے کی جو تعبیر از خود پیش کی ، اسے بھی نگاہوں کے سامنے رکھنالازم ہے۔ اقبال کی اپنی تعبیر کی روشنی میں یہ حقیقت بھی واضح ہو جائے گی کہ انہوںنے اپنی تجویز سے انحراف کیا تھا یا نہیں ۔ یا ان کی تجویز نے ارتقائی منازل سے گزرکر بالآخر کیا صورت اختیار کی ۔ خطبۂ الہ آباد میں ٹھوس دلائل کی بنیاد پر جو نظریہ پیش کیا گیا وہ اس زمانے میں ایک ایسا انقلابی نظریہ تھا جو دور رس نتائج کا حامل ہوسکتا تھا۔ خطبے سے پیشتر مسلم سیاسیات کے چار اہم مراحل گزر چکے تھے ۔ تجاویز دہلی رد کی جاچکی تھیں۔ مولانا حسرت موہانی کی تجویز کہ شمال مغربی مسلم اکثریتی صوبوں کے ادغام سے ایک مسلم اکثریتی صوبہ بنا کر اسے ہندوستان کے وفاق میں ایک وحدت کے طور پر شامل کرلیا جائے، نہرو کمیٹی نے ابتداء ہی میں مسترد کردی تھی۔نہرورپورٹ میں جناح ترمیمات کا بھی یہی حشر ہوا تھا۔ گو چودہ نکات میدان سیاست میں موجود تھے،لیکن ان کی بنیا د پر ہندو مسلم مفاہمت ہونے کے امکانات کم تھے اور ایسی صورت حالات میں مسلمانوں کو اپنے لیے کوئی علیٰحدہ سیاسی لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت تھی ۔ جس کے لیے کسی نئے نصب العین کا تعین لازمی تھا۔ ہندو لیڈ روں کی ہٹ دھرمی کے سبب مسلم قائدین کی وفاقی مرکز میں کوئی دلچسپی نہ رہی تھی او روہ مسلم اکثریتی صوبو ںکے لیے زیادہ سے زیادہ اٹانومی یا خود مختاری حاصل کرنے کے درپے تھے۔ اسی ذہنی پس منظر کے ساتھ اقبال نے خطبہ آلہ آباد میں چودہ نکات کی صورت میں پیش کردہ مسلم مطالبات سے ایک قدم آگے جاتے ہوئے پنجاب ، صوبہ سرحد ، سند ھ اور بلوچستان پرمشتمل مسلم اکثریتی علاقے کے لیے صوبہ کی بجائے ریاست یا سٹیٹ کا لفظ استعمال کیا ۔ اس کے ساتھ ہی فرمایاکہ ایسی متحدہ مسلم ریاست برطانوی سلطنت کے اندر یا برطانوی سلطنت سے باہر خود مختار حکومت حاصل کر سکتی ہے ظاہر ہے یہ تجویز پیش کرتے وقت بھی اقبا ل کو توقع تھی کہ مستقبل میں کسی قسم کی ہندو مسلم مفاہمت کی صورت میں مجوزہ مسلم ریاست برطانوی سلطنت یا ہندوستان کے وفاق کے اندر خود مختار حکومت حاصل کرسکے گی ، لیکن ایسی صورت میں تومسلم ریاست ہندوستان کے ساتھ صرف کسی ایسی فیڈرل ہئیت ہی میں مل سکتی تھی، جس سے اس کی خود مختاری متاثر نہ ہو۔ سو خطبۂ الہ آباد میں اقبال نے ایک ایسی خود مختار مسلم ریاست کے قیام کی تجویز پیش کی جوکسی قابل قبول ہندومسلم مفاہمت کی بنیادوں پر تو ہندوستان کے وفاق کے اندر قائم کی جا سکتی تھی لیکن ایسی مفاہمت کی عدم موجودگی میں ایک آزاد اور مقتدر مسلم مملکت کی صورت میں علیحدہ طورپر وجود میں لائی جاسکتی تھی ۔ پس ابتداء میں ان کا نصب العین ایک خود مختا رمسلم ریاست کا قیام تھا۔ یہ ریاست اگر علاقہ یا آبادی کے اعتبار سے غیر منظم ہوتو اس میں سے انبالہ ڈویژن اور بعض ایسے اضلاع کو ، جن میں غیر مسلموں کی اکثریت تھی، خارج کرکے اس کی وسعت کو کم اور مسلمانو ںکی اکثریت کو غالب بنایا جاسکتاتھا۔ آبادیوں کے تبادلے کی ضرروت نہ تھی ، کیونکہ اپنی حدود کے اندر یہ ریاست غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت بہتر طور پر کر سکتی تھی ۔ ہندوستان کے نقطۂ نظر سے ایسی مسلم ریاست کا قیا م اس کے اندورونی تواز ن قوت کا باعث بن سکتاتھا او ریوں وہ ہندوؤں او رمسلمانوں میں باہمی امن اور سلامتی کے جذبات کو فروغ دے سکتی تھی ۔ اسی طرح مسلم ریاست ہندوستان کے دفاع کی خاطر غیر جانبدارانہ ہندومسلم افواج کی تشکیل پر خوشی سے رضامند ہو سکتی تھی۔ خیرا نگریز اور ہندو پریس نے خطبۂ الہ آباد میں پیش کردہ مسلم ریاست کے قیام کی تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے قابل اعتراض ،رجعت پسند اور ناقابل عمل قرار دیا ۔ وزیر اعظم برطانیہ نے اس پر برہمی کا اظہار کیا ۔ ڈاکٹر مونجے نے پہلی گول میز کا نفرنس کی اقلیتوں کی سب کمیٹی میںاس کی مخالفت کی اور ایڈورڈٹامسن نے اسے پان اسلامی سازش قراردیا۔ اقبال نے اپنی تجویز کی وضاحت کے سلسلے میں پہلی بار اپنے ایک خط محررہ ۱۱جنوری ۱۹۳۱ء بنام سید نذیر نیازی میں فرمایا کہ مجوزہ اسلامی ریاست ایک نصب العین ہے ۔ اس میں آبادیوں کے تبادلے کی ضرورت نہیں ۔ اس ایک یا متعدد اسلامی ریاستوں میں جوشمال مغربی ہند میں اس اسکیم کے مطابق وجود میںآئیںگی۔ ہندو اقلیت کے حقوق کا پورا پورا تحفظ کیاجائے گا۔ پھر دوسری گول میز کا نفرنس کے دوران میں انگلستان میں ایڈورڈٹامسن کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے ’لندن ٹائمز ‘مورّخہ ۱۲ اکتوبر ۱۹۳۱ء میںاپنے مراسلے میں تحریر کیا کہ میں نے برطانوی سلطنت یا دولت مشترکہ سے باہر مسلم ریاست کو قائم کرنے کا منصوبہ پیش نہیں کیا۔ ۲۱؍مارچ ۱۹۳۲ء کو آل پارٹیز مسلم کانفرنس کے اجلاس لاہور کے صدارتی خطبے میں ارشاد کیاکہ میں نے خطبۂ الہ آباد میں آل انڈیا فیڈریشن کے تصور کے خلاف اپنی آواز بلند کی تھی۔۸۰ ہندو مہاسبھائی لیڈروں ڈاکٹر مونجے اور پنڈت مدن موہن مالویہ کے ایک نمائندے ایس وی للت کا ایک خط محررہ ۲۸؍مئی ۱۹۳۲ء اقبا ل کو بمبئی سے موصو ل ہوا۔ جس میں للت نے انہیں لکھا: میں آپ کو بتانا چاہتاہوں کہ میں نے ہندوستان کے شمال مغربی بارڈر پر چار مسلم صوبوں کے ادغام کے متعلق آپ کی اسکیم کی حمایت کرنے کی اجازت ڈاکٹر مونجے سے انتہائی پرائیویٹ طورپر حاصل کرلی ہے ہم آپ کی اصطلاح ’’مسلم سٹیٹ‘‘ سے اتفاق نہیں کرتے، لیکن انہی معانی کا اظہار ’’مسلم پراونس‘‘کے عنوان سے بھی کیا جاسکتاہے…مہربانی کر کے یہ نوٹ کرلیجیے کہ فی الحال مونجے اعلانیہ طورپر آپ کی تجویز کی حمایت نہیں کریں گے۔ یہ مرحلہ بعد میں آئے گا ۔ فی الحال انہوں نے مجھے بعض امور پر آپ سے خفیہ بات چیت کرنے کا اختیا ردیا ہے۔ اسی اختیار کے تحت میں چند اہم ہندو اور مسلم سیاسی جماعتوں کے قائدین کی آراء بھی معلوم کرکے انہیں اپنی کوششوں کی تفصیل پیش کروں گا اور اس کے بعد وہ کوئی مناسب قدم اٹھائیںگے۔میں یہاں آپ کو اس حقیقت سے آگاہ کردوں کہ مولانا شوکت علی نے میر ی مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ آپ کا جواب آنے پر کہ موجودہ حالات میں آپ ایسے سمجھوتے کو کیا اہمیت دیتے ہیں، بھائی پر مانند ، ڈاکٹر چیت رام اور دیگر اکابرین سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کروں گا۔ کیونکہ ڈاکٹر مونجے کو کوئی مناسب قدم اٹھانے کے لیے کہنے سے پیشتر ان اصحاب کی اجازت لینا اشد ضروری ہے کہ ان باتوں کی رپورٹ مسٹراین۔ سی۔ کلکار کو فراہم کردی گئی ہے، لیکن ابھی تک پنڈت مالویہ کو نہیں۔مگر آپ اطمینان رکھیے ، پنڈت جی ہر قیمت پر مفاہمت کرنا چاہتے ہیں۸۱۔ اقبال نے ایس ۔ وی ۔ للت کو کیا جواب دیا ؟یہ تو معلوم نہیں ہوسکا ، مگر انہوں نے مولانا شوکت علی سے اس سلسلے میں ہندو مہاسبھائی لیڈروں سے بات چیت کرنے کے لیے ضرورکہا ، چنانچہ اپنے ایک خط محررہ ۸جون ۱۹۳۲ء بنام مولانا محمد عرفان خان ، میں تحریر کرتے ہیں: کچھ روز ہوئے میں نے ان (مولاناشوکت علی)کی خدمت میں لکھاتھاکہ ایک ہندو بزرگ مسٹرللت کا خط میرے پاس آیاتھا۔ اس کا مضمون یہ تھاکہ مونجے تمہاری اسکیم کو جو تم نے لیگ کے صدارتی ایڈریس میں پیش کی تھی، تسلیم کرتے ہیں۔ پنڈت مالوی سے بھی مشورہ کرنے جارہاہوں ۔ وہ بھی ہندو مسلمانوں کی صلح کی خاطر اس کو تسلیم کرلیں گے ، گو اس وقت اعلانیہ طورپر اس اسکیم کو تسلیم کرنا مصلحت نہیں ہے یہ خط بصیغہ راز تھا او راس میں یہ بھی لکھا تھا کہ مولانا شوکت علی صاحب سے بھی گفتگو کی ہے وہ بھی صلح پر آمادہ ہیں۔ اسکیم جس کی طرف اشارہ کیاہے آپ سمجھ گئے ہوں گے ۔ یعنی شمالی ہندوستان میں مسلم صوبوں کا ایک ہوجانا۸۲۔ ہندوستان کے وفاق کے اندر خود مختار مسلم ریاست یا صوبے کے قیام کی بنا پر ہندومسلم مفاہمت کے سلسلے میں مولانا شوکت علی جیسے مسلم قائدین اور ہندو مہا سبھائی لیڈروں میں خفیہ مذاکرات جاری رہے۔ اسی دوران اقبال تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے انگلستان چلے گئے اور کانفرنس میں اپنی واحد تقریر کے دوران میں انہوں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ ہندوستان کے لیے کوئی مرکزی حکومت نہ ہو اور صوبے خود مختار او رکلی طور پرآزاد ڈومینین ہوں جن کا براہ راست تعلق وزیر ہندسے لندن میں ہو۔ ۲۴نومبر ۱۹۳۲ء کو لندن میں نیشنل لیگ کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا: چارپانچ سال ہوئے بحیثیت صدر آل انڈیا مسلم لیگ میں نے فرقہ وارانہ مسئلے کے ممکنہ حل کے طور پر مغربی ہند میں ایک وسیع مسلم ریاست کے قیام کی تجویز پیش کی تھی ۔اگرچہ یہ تجویز مسلمانان ہند کے مطالبات میں شامل نہ تھی ، لیکن میری ذاتی رائے اب بھی یہی ہے کہ صرف یہی ایک ممکنہ حل اس مسئلے کا ہے ۔ میں اتنی دیر انتظار کرنے کو تیار ہوں ۔جب تک تجربہ اس تجویز کی معقولیت یا غیر معقولیت ثابت کرکے نہیں دکھا دیتا۸۳۔ تیسری گول میز کانفرنس میں شریک مسلم مندوبین کے رویّے پر پنڈت جواہر لعل نہرو نے سخت تنقید کی ۔ اقبال نے اپنے جوابی بیان مورّخہ ۶دسمبر ۱۹۳۳ء میں فرمایا کہ ہندوستان کے مسئلے کا واحد حل یہی ہے کہ ملک کو مذہبی تاریخی او رتمدنی میلانات کی بنیادو ں پر تقسیم کر دیا جائے۔۸۴ انہی ایام میں چوہدری رحمت علی نے اپنا انگریز ی پمفلٹ ’’اب اور کبھی نہیں ‘‘کیمبرج سے شائع کیا ،جس میں انہوں نے شمال مغربی ہندمیں مسلم اکثریتی صوبوں اور کشمیر پر مشتمل ایک علیٰحدہ فیڈریشن کے قیام کا مطالبہ کیا اور اس مسلم ریاست کا نام پاکستان رکھا۔ چوہدری رحمت علی نے کیمبرج میں پاکستان کے حصول کے لیے پاکستان نیشنل موومنٹ بھی قائم کی ۔ یہاں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ اقبال کے مسلم ریاست کے قیام کے تصور اور چوہدری رحمت علی کی پاکستان اسکیم میں فرق کیاتھا۔ اقبال نے مسلم ریاست کے قیا م کی تجویز ہندوستان میںایک ذمہّ دار مسلم سیاسی شخصیت کی حیثیت سے آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے پیش کی تھی ۔چوہدری رحمت علی نے ایک مسلم طالب علم کی حیثیت سے انہی مسلم اکثریتی صوبو ںاور کشمیر پر مشتمل ریاست کا نام پاکستان تجویز کرکے اپنا پمفلٹ انگلستان سے شائع کرایا۔ اقبا ل کی خود مختار مسلم ریاست کسی قابل قبول ہندو مسلم مفاہمت کی بنیادو ں پر ہندوستان کے وفاق ، برطانوی سلطنت یا برطانوی دولت مشترکہ کے اندر قائم ہوسکتی تھی اور اس کا علیٰحدہ طور پر ایک آزاد مملکت کی حیثیت سے قائم ہونے کا امکان صرف اسی صورت میں تھا جب ہندو مسلم مفاہمت کی کوئی امید نہ رہے، لیکن چوہدری رحمت علی کی پاکستان اسکیم کا مقصد شمال مغربی ہند کے مسلم اکثریتی صوبوں اور کشمیر پر مشتمل ایک علیٰحدہ فیڈریشن قائم کرنا تھا۔ اقبال کی مسلم ریاست کے قیام کی تجویز میں آبادیوں کے تبادلوں کی ضرورت نہ تھی مگر چوہدری رحمت علی کے تصورپاکستان میں آبادیوںکا تبادلہ لازمی تھا۔ ۱۹۳۲ء میں فرقہ وارانہ ایوارڈ کا اعلان ہوا۔ صوبہ سرحد میں دیگر صوبوں کی طرح دستوری اصلاحات کا نفاذ ہوا ۔ پھر سندھ کو بمبئی سے علیٰحدہ صوبہ بنا کر اس میں بھی دستوی اصلاحات نافذ کی گئیں ۔ اب بھی توقع تھی کہ نئے دستور کے نفاذ سے پیشتر یا اس کے ساتھ ہندوؤں او رمسلمانوں میں کوئی نہ کوئی سمجھوتاہوجائے گا۔ اس سلسلے میں ۱۹۳۵ء تک کوششیں جاری ہیں۔ انہی سالوں یعنی ۱۹۳۳ء او ر۱۹۳۴ء میں اقبال نے ایڈورڈٹامسن کے نام نو خطوط تحریر کیے جو حال ہی میں شائع ہوئے ہیں۸۵۔ان خطوط میں انہوں نے سیاسیات سے اپنے تعلق اور مسلم ریاست کے قیام کی تجویز کے بارے میں اپنے نظریات کی وضاحت کی ہے۔ ایک خط محررہ ۲۰ ؍جون ۱۹۳۳ء میں تحریر کرتے ہیں: آپ اطمینان رکھیے، خالص سیاسیاست میں مجھے کو ئی دلچسپی نہیں ۔ میری دلچسپی دراصل اسلام بحیثیت ایک اخلاقی نظا م میں ہے ، جس نے مجھے سیاسیات کی طرف دھکیل دیا ۔ مجھے محسوس ہوا کہ ہندو نیشنلزم بالآخر الحاد کی سمت لے جائے گا، اور میرے علم کے مطابق مسلمان اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ ہونے کے سبب اس نام نہاد نیشنلزم کے سیلاب میں تنکو ن کی طرح بہ جائیں گے۔ ا ن حالات میں میرا فرض تھا کہ آگے بڑھوں اور نئی نسل کے سامنے اسلامی تعلیمات کے حقیقی معافی رکھ دوں میں خوش ہوں کہ انہوں نے میری بات سن لی ہے او رانگریزوں نے بھی کچھ حد تک اس حقیقت کو تسلیم کرلیاہے کہ ہندوستانی مسلمان ایک علیٰحدہ قوم ہیں اور انہیں اپنے اصولوں کے مطابق آزادانہ ترقی کرنے کے لیے مواقع ملنے چاہئیں۔ یہ میرا انعام ہے گو اس انعام کوحاصل کرنے میں مجھے مالی طورپر شدید نقصان اٹھانا پڑا، کیونکہ ہندوستان سے دو برس کی مد ّ ت تک لگاتا رعدم موجودگی کے سبب وکالت کے کام میں میری جو تھوڑی بہت پریکٹس تھی وہ تباہ ہوگئی۔ میں محسوس کرتاہوں کہ میں نے اپنے بچوں کے ساتھ ناانصافی کی ہے ، مگر ایک مسلمان کے لیے اسلام کی خدمت اپنی ذات یا اولا د کی خدمت پر مقدم ہے ۔ مستقبل میں اسلام اور انگلستان دونوں کو مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا۔افسوس ہے کہ اسلام کے پاس کوئی لیڈر نہیں اور انگریز سیاستدان بات سمجھنے میں دیر لگاتے ہیں ۔ بہرحال آپ دیکھیں گے کہ سیاسیات میں میری دلچسپی میری اپنی قائم کردہ حدود سے تجاوز نہ کرے گی ۔ نئے دستور کے تحت آہندہ کسی کو نسل یا اسمبلی کے انتخابات میں امیدوار کی حیثیت سے میرا کھڑے ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۸۶۔ اپنے ایک او رخط محررہ ۴ مارچ ۱۹۳۴ء میں تحریر کرتے ہیں: آپ نے مجھے اس اسکیم کا حامی قرار دیا ہے جو’’پاکستان ‘‘کے نام سے موسو م ہے ’’پاکستان ‘‘ میری اسکیم نہیں ہے۔ جو تجویز میں نے اپنے خطبے میں پیش کی تھی وہ ایک مسلم صوبے کے قیام کی تجویز تھی۔ یعنی شمال مغربی ہند میں ایک ایسے صوبے کی تشکیل جہاں مسلمانوں کی واضح اکثریت ہو۔ میری اسکیم کے مطابق یہ نیا صوبہ آئندہ کی انڈین فیڈریشن کا حصّہ ہوگا۔ لیکن پاکستان اسکیم مسلم صوبوں کی ایک علیٰحدہ فیڈریشن کے قیام کی سفارش کرتی ہے، جس کا براہ راست تعلق انگلستان سے ایک علیحدہ ڈومینین کی صورت میں ہوگا۔ یہ اسکیم کیمبرج میں بنائی گئی اور اس اسکیم کے موجدوں کا خیا ل ہے کہ گول میز کانفرنس کے مسلم مندوبین نے مسلم قوم کو ہندو یا انڈین نیشنلز م کی بھنیٹ چڑھا دیاہے۸۷۔ پھر ۲۶؍جولائی ۱۹۳۴ء کے خط میں تحریر کرتے ہیں : مسلم کانفرنس کے صدر کی حیثیت سے سندھ کی علیٰحدگی کی حمایت کرنا میرا فرض تھا ۔ ذاتی طور پر میرا ہمیشہ یہ عقیدہ رہا ہے کہ ہندو ستان کے شمال مغرب میں تینوں صوبوں کا ادغام انگلستان اور اسلام کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوگا۔ آپ کو علم ہے کہ جمہوریت پر میرا اعتقاد نہیں ہے لیکن جمہوریت کی طرف قدم (میری رائے میں مہلک قدم )بہرحال اٹھایا جاچکاہے ۔ اب ہمیں معاشی تباہ حالی ، سیاسی عدم استحکام اور ہندوؤں کے انتشار کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ کیونکہ اس وسیع ، غیر منظم اور فاقہ کش ملک میں جمہوریت کے انعقاد سے ایسے ہی نتائج برآمد ہوں گے۔ آپ کہتے ہیں کہ مغرب کے حالات مخدوش ہیں۔ میں بخوبی سمجھتا ہوں ، مگر ہندوستان کا آتش فشاں پہاڑ تو تھوڑا عرصہ ہوا پھٹ چکا ۔ گو اس نے کسی کو نقصا ن نہیں پہنچایا ۔ اب یہاں صورت حال یہ ہے کہ شہری ہندو آپس میں لڑ رہے ہیں اور دیہات کے غریب لوگو ں کو سمجھ نہیں آتی کہ ملک میں کیا ہورہا ہے ۔مسلمان ان سے نسبتاً زیادہ متّحد ہیں مگر ان کے لیڈر بحیثیت مجموعی ، خالصتًا درمیانے درجے کے ہیں ، جومستقبل میں مشرق اور مغرب کے تعلقات کی نوعیت کے متعلق کوئی جامع اعتقاد نہیں رکھتے۔ اگر میں ان دوگول میز کانفرنسوں کے بارے میں ، جن میں میں شریک ہواہوں ، اپنے تاثرات ریکارڈ کروں تو مجھے اپنے ہم وطنوں او رہم مذہبوں اور اس کے ساتھ ہی آپ کے ہم وطنوں کے متعلق ، جن میں سے بعض نے اپنی بصیرت کے باوجود کم حوصلگی اور سوچ کے فقدان کا ثبوت دیا، نہایت ناخوشگوار باتیں کہنا پڑیں گی ۔ مجھے یقین واثق ہے کہ انگلستان کی موجودہ حکمران پارٹی ہندوستان کا مسئلہ حل کرنے میں نا کا م رہی ہے ۔ مگر یہ خیالات تو محض ایک شاعر کے ہیںاو رشاعر، جیسے کہ آپ کو علم ہے ، بے عمل خوابیں دیکھنے والے سمجھے جاتے ہیں۔ یعنی بالکل بیکار لوگ۸۸۔ ان خطوط کی روشنی میں ایڈورڈٹامسن کی دو کتابوں میں اقبال کے متعلق ریمارکس سے اس کی علمی اور اخلاقی دیانت داری کا بخوبی انداز ہ کیاجاسکتاہے۔ مثلاً اقبال اسے تحریر کرتے ہیں کہ ہندوستان جیسے وسیع،غیر منظم اور فاقہ کش ملک میں جمہوریت کا انعقاد ، معاشی تباہ حالی، سیاسی عدم استحکام اور ہندوؤں کے انتشار پر منتج ہوگا ،مگر وہ اقبال کے منہ میں یہ الفاظ ڈالتاہے کہ میرے وسیع ، غیر منظم اور فاقہ کش ملک میں طوائف الملو کی برپا ہوتی نظر آتی ہے۔ اقبا ل اسے لکھتے ہیں کہ ذاتی طورپر میرا ہمیشہ سے یہ عقیدہ رہا ہے کہ ہندوستان کے شمال مغرب میں مسلم اکثریتی صوبو ںکا ادغا م انگلستان ، ہندوستان اور اسلام کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوگا، لیکن وہ اقبال کے منہ میں یہ الفاظ ڈالتا ہے کہ پاکستان کامنصوبہ برطانوی حکومت کے لیے تباہ کن ہے۔ ہندو فرقے کے لیے تباہ کن ہے اور مسلم فرقہ کے لیے تباہ کن ہے ۔ اقبال اسے لکھتے ہیں کہ مسلم کانفرنس کے صدر کی حیثیت سے سندھ کی علیحدگی کی حمایت کرنا میرا فرض تھا، مگر وہ ان کے منہ میں یہ الفاظ ڈالتاہے کہ میں مسلم لیگ کا صدر ہوں اس لیے میرا فرض ہے کہ منصوبۂ پاکستان کی حمایت کروں ۔ بہر حال انہی ایا م میں مسلم ریاست کے قیام کی تجویز کی وضاحت کے سلسلے میں انہوں نے راغب احسن کو بھی لکھا اور فرمایاکہ میری تجویز پاکستان اسکیم سے مختلف ہے ۔ راغب احسن کے نام ایک خط محررہ ۶ ؍مارچ ۱۹۳۴ء میں ارشاد ہوتاہے: میری تجویز انڈین فیڈریشن کے اندر ایک مسلم صوبے کی تخلیق ہے،لیکن پاکستان اسکیم انڈین فیڈریشن سے باہر ہندوستان کے شمال مغرب میں مسلم صوبوں کی ایک علیحدہ فیڈریشن قائم کرنے کی سفارش کرتی ہے۔ جس کاتعلق براہ راست انگلستان سے ہوگا۸۹۔ ہندوؤں نے نہ توچودہ نکات کی صورت میں مسلمانوں کے مطالبات تسلیم کیے اور نہ ہندوستان کے وفاق کے اندر خود مختار مسلم ریاست یا صوبے کی بنا پر ہندو مسلم مفاہمت کے لیے کوششوں کا کوئی خاطر خو اہ نتیجہ برآمد ہوا۔ ۴مارچ ۱۹۳۴ء کو محمد علی جناح ، انگلستان سے واپسی کے بعد، آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔ اگلے سال یعنی ۱۹۳۵ء میں جب گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کی صورت میں نیا دستور نافذ ہوا تو اس کے تحت منعقد انتخابات میں ہندوسیاسی جماعتوں نے بھرپور حصہ لیا۔ ۱۹۳۷ء میں بیشتر صوبوں میں کانگرس کی وزارتیں قائم ہوئیں ۔ اس دور میں ان صوبوں میں ہندو حکمرانوں نے سیاسی طاقت کے نشے میں جو تکبر کا سلوک مسلم اقلیتوں سے روا رکھا۔ اس کی بنا پر ہندو مسلم تعلقات مزید خراب ہو گئے اور مفاہمت کی ساری امیدیں خاک میں مل گئیں ۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ مسلمانوں کی سیاسی تنظیم نو کی جائے تاکہ وہ اپنے نصب العین کے حصول کی خاطر علیحدہ سیاسی پروگرام بنائیں۔ اس ذہنی پس منظر کے ساتھ محمد علی جناح کے ہاتھوں مسلم لیگ کا احیاء عمل میں آیااور بدلے ہوئے حالات کے تحت مسلم ریاست کے متعلق اقبال نے بھی اپنا موقف مختلف انداز میں پیش کیا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے ایک خط بنام محمدعلی جناح محررہ ۲۸مئی ۱۹۳۷ء میں فرمایا: برصغیر میں شریعت اسلام کانفاد اور ارتقاء اتنی دیر تک ممکن نہیں جب تک کہ یہاں ایک آزاد مسلم ریاست یاریاستیں وجود میں نہ لائی جائیں۔ کئی برسوں سے یہی میرا عقیدہ رہاہے…کیاآپ کے خیال میں اس مطالبے کا وقت آن نہیں پہنچا؟۹۰ پھر اپنے ایک خط محررہ ۲۱جون ۱۹۳۷ء میں محمدعلی جناح کو لکھا : ہندوستان میں صرف آپ ہی ایک مسلمان ہیںجن کی جانب صحیح راہنمائی کے لیے ملت اسلامیہ کو رجوع کرنے کا حق حاصل ہے ۔ ہندوستان میں قیام امن اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے غلبے اور تسلط سے بچانے کی واحد ترکیب وہی ہے جس کا میں نے اوپر ذکر کیاہے۔ یعنی مسلم صوبوں کی ایک علیحدہ فیڈریشن میں اسلامی اصلاحات کا نفاذ۔ شمال مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمانوں کو ہندوستان یا بیرون ہندوستان کی دوسری اقوام کی طرح حق خود اختیاری سے کیونکر محروم رکھا جا سکتا ہے۹۱۔ سو اقبال ہندوستان کے وفاق کے اندر خود مختار مسلم ریاست یا صوبے کے قیام کی تجویز سے آگے نکل کر اب شمال مغربی اور شمال مشرقی ہندوستان میں مسلم اکثریتی صوبوں پرمشتمل ایک ایسی علیحدہ فیڈریشن کی تخلیق کاذکر کر رہے تھے جو نہ صرف آزاد اور مقتدر ریاست کی صورت ہی میں وجود میں لائی جاسکتی تھی بلکہ اس میں اسلامی اصطلاحات یا اسلامی شریعت نافذ کرکے اسے حقیقی معنوں میں اسلامی مملکت بھی بناناتھا۔ اقبال کے خطوط بنام جناح کا پس منظر بیان کرتے ہوئے محمد علی جناح تحریر کرتے ہیں: ان کے خیالات اور میرے اپنے خیالات میں ہم آہنگی تھی، اور ہندوستان کے دستوری مسائل کے محتاط مطالعے اور تجربے کے دوران ، ان کے خیالات نے بالآخر مجھے انہی نتائج پر پہنچادیا جن پر اقبال خود پہنچے تھے۔ رفتہ رفتہ انہی خیالات کا اظہار مسلمانان ہند کے متحدہ مطالبے کے طور پر آل انڈیا مسلم لیگ کی قرارداد لاہور میں جو عام طور پر قرار داد پاکستان کے نام سے مشہور ہے ، کیا گیا۹۲۔ ایک اور مقام پر محمد علی جناح اقبال کے تصور مسلم ریاست کے متعلق ارشاد کرتے ہیں: ایک عظیم شاعر اور مفکر ہوتے ہوئے وہ کسی سیاستدان سے کم نہ تھے ۔ اسلام کے اصولوں پر ان کے پختہ عقیدے اور ایمان کی بدولت وہ اُن چند ہستیوں میں سے ایک تھے جس نے ہندوستان کے شمال مشرقی خطوں، جو مسلمانوں کے تاریخی اوطان ہیں، میں ایک اسلامی ریاست کے ممکنہ انعقاد پر غور کیا ۹۳۔ یہ بات واقعی دلچسپ ہے کہ اقبال نے نہ صرف برصغیر میں مسلم ریاست کو وجود میں لانے کی خاطر عملی طور پر سیاسی جدوجہد میں حصہ لیا بلکہ مسلمانوں کی نیشنلیٹی اور ایک جدید اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے لیے بنیادی اصول بھی وضع کر دئیے ۔ مثلاً اُن کے نزدیک مسلم قومیت اور وطنیت کی بنیاد مسلمانوں کے ایمان یا عقیدے پر استوار ہے نہ کہ اشتراک لسان ، نسل یا علاقہ پر ۔ اسی طرح اُن کی جدید اسلامی ریاست کا ماڈل بھی مختصراً مندرجہ ذیل اصولوں پر قائم ہے: ۱۔ جمہوریت اسلام کی اصل پاکیزگی کی طرف رجوع ہے۔ ۲ ۔ اسلام کا اصل مقصد روحانی جمہوریت کا قیام ہے۔ ۳ ۔ ریاست قانون کی حاکمیت اور حقوق بشر کے تحفظ کی ضمانت دے۔ ۴۔ پارلیمنٹ صرف شوریٰ ہی نہیں بلکہ اسلامی قانون سازی کے معاملہ میں تعبیر اور نفاذ کے اعتبار سے اجماع کی ہئیت میں کلی طور پر با اختیار ادارہ ہے۔ ۵۔ صرف پارلیمنٹ کو اجتہاد کا عمل جاری رکھنے کا اختیار ہے۔ ۶ ۔ مسلم اکثریتی ریاست میں مخلوط انتخابات کا نظام رائج کیا جا سکتا ہے۔ ۷ ۔ مذہبی امور کے شعبے کو ریاست کے دیگر شعبوں سے الگ کرنا دین اور سیاست کی علیحدگی نہیں۔ ۸ ۔ اسلامی تعزیرات (حدود) کا سختی سے اطلاق کرنے کی ضرورت نہیں۔ ۹ ۔ کثرت ازدواج کی قرآنی اجازت کی تحدید اور خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق پارلیمنٹ قانون سازی کر سکتی ہے۔ ۱۰۔ اراضی کی ملکیت کی حد اس قدر مقرر کر دی جائے جو جاگیردار بذات خود زیر کاشت لا سکے۔ ایگریکلچرل انکم ٹیکس عام انکم ٹیکس کی شرع کے مطابق نافذ کیا جائے۔بے زمین کاشتکاروں کو سرکاری اراضی آسان قسطوں پر دی جائے۔ ۱۱۔ قرآنی احکام کہ ’’امیروں کی دولت میں غریبوں کا حصہ ہے‘‘ اور ’’جو ضرورت سے زاید ہے وہ دے دیا جائے‘‘ کے تحت مزدوروں کی کم از کم اجرت ، پنشن ، طبّی اخراجات، رہائش، بچوں کی تعلیم وغیرہ کا بندوبست کے سلسلے میں قانون سازی کی جا سکتی ہے۔ ۱۲۔ اسلامی فلاحی قوانین (زکوٰۃ، عشر وغیرہ) اور خصوصی طور پر اسلامی قانون وراثت سختی سے نافذ کئے جائیں۔ ۱۳۔ ریاست فلاح عامہ کے خاطر ہر وہ قدم اٹھا سکنے کی مجاز ہے جس کی شریعت کے ساتھ مطابقت بذریعہ اجتہاد پارلیمنٹ (بطور اجماع) کر دے۔ اس بات پر تو بحث کی گنجائش نہیں کہ چوہدری رحمت علی نے خطبۂ الہ آباد کے بعد اپنی پاکستان اسکیم پیش کی اور بقول اقبال مسلم ریاست کے قیام کے متعلق ان کی تجویز چوہدری رحمت علی کی پاکستان اسکیم سے مختلف تھی۔ مگر خواجہ عبدالرحیم مرحوم کے نام ان کے کیمبرج سے تحریر کردہ سوسے زائد خطوط ۹۴، راقم کی نظر سے گزرے ہیں۔ ان خطوط کے مطالعے سے عیاں ہوتاہے کہ چوہدری رحمت علی بظاہر اقبال سے عقیدت کادم بھرتے تھے، لیکن دراصل انہیں پسندیدگی کی نگاہ سے نہ دیکھتے تھے۔ انہیں شاید اس بات کا قلق تھا کہ مسلم ریاست کے قیام کی تجویز کے سلسلے میں اقبال نے ان پر سبقت کیوں لے رکھی تھی ۔ مثلًا خط محررہ ۱۴ اکتوبر ۱۹۳۵ء میں تحریر کرتے ہیں: ہم میں سے کسی کو بھی ڈاکٹر صاحب کی اس خدمت سے انکارنہیں ہوسکتا جو انہوںنے اسلام کی کی ہے ، لیکن تحریک پاکستان کو ان کے حلقۂ خاص کے رشید صاحب جیسے ممبر کا انکی بتانا (یعنی اقبال سے منسوب کرنا)، اہمیت سے معر ّا نہیں۔معلوم ہوتاہے کہ ڈاکٹر صاحب اپنے حلقہ خاص میں اگر اس خیال کو اپنی زبان سے ظاہر نہیں فرماتے تو کم از کم اس کی تردید بھی نہیں کرتے اور اب جبکہ تین سال کی محنت و خطرات کے بعد اس تحریک کانام پاکستان کے سلسلے میں لوگوں کی زبان پر آنے لگاہے تو غالباً حضرت کے قلب کے لیے یہ چنداں ناگوار نہیں کہ ہم سب کو اس کے تعلق سے محروم کرتے ہوئے اس کا نیک وبد کریڈٹ خو د ہی حاصل کریں۔ آپ کو یاد ہوں گے میرے وہ الفاظ کہ میں تحریک پاکستان کی ممبری کے لیے بھی آپ کو اس وقت تک قبول نہ کروں ، جب تک کہ آپ اس ’سری ‘سے دستبردار نہ ہوجائیں۔ معلوم ہوتاہے کہ اب آپ آواز کی تکلیف کی وجہ سے مایوس ہو بیٹھے ہیں۔ دیگر تمناؤں سے، اس لیے ہم عاجزوں کی طرف دست درازی فرمارہے ہیں۔ اگر میں نے انہیں اس سرقہ کا مجرم پایاتومجھے کتاب میں ان تمام گفتگوؤں کا خلاصہ درج کرنا ہوگا جو اس سلسلے میں حضرت کی درد ناک کمزوریوں کی داستان ہیں۔ میں یہ عرض کروں گا کہ یہ پہلو اپنے تک ہی محدود رکھیے یا یاران غار تک باہر نہ جانے دیں۔ اقبال کے خلاف چوہدری رحمت علی کے بغض کا اظہار کئی خطوط میں نظر آتاہے ۔مثلا ً ایک خط محررہ ۳ فروری ۱۹۳۳ء میں اقبال کے تخیل او رعمل میں تضاد کو ’’درد ناک ‘‘کہتے ہیں۔ پھر ایک دوسرے خط محررہ ۱۱اپریل ۱۹۳۳ء میں خواجہ عبدالرحیم سے شکایت کرتے ہیں کہ ’’میکلوڈروڈ کے مست ‘‘ (یعنی اقبال) کی جانب سے ایک لفظ بھی موصول نہیں ہوا۔ گویااقبال نے چوہدری رحمت علی کو وہ اہمیت نہیں دی جس کے وہ اپنے آپ کو مستحق سمجھتے تھے۔ ان خطوط کے مطالعے سے یہ بھی ظاہر ہوتاہے کہ پاکستان اسکیم کے موجد تنہا چوہدری رحمت علی ہی نہ تھے ، بلکہ خواجہ عبدالرحیم بھی اس مشق میں ان کے ساتھ برابر کے شریک تھے۔ اس کا اعتراف انہوں نے ایک خط محررہ یکم نومبر ۱۹۳۳ء میں یوں کیاہے : کیمبرج اور لندن میں اسلامی صحبت کے اندر جہاں کبھی بھی اسلامیت ہے وہ آپ کے اس آئیڈیل کے ساتھ ہے جس کا خواب آپ نے اور میں نے باہم ۱۹۳۱ء میں کیمبرج میںدیکھا تھا۔ ان کے اس خط کے بارے میں خواجہ عبدالرحیم مرحوم کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک انگریزی نوٹ ہے ، جس میں فرماتے ہیں : اعتراف کیا ہے کہ وہ اور میں دونوں اس تصور کے خالق ہیں، مگر چونکہ خواجہ عبدالرحیم سرکاری ملازم تھے، اس لیے وہ پس پردہ رہے ۔ کیمبرج میں خواجہ عبدالرحیم کے علاوہ چوہدری رحمت علی کے ہم خیال چند اور مسلم طلبہ بھی تھے۔ یہ لوگ مل کر پاکستان نیشنل موومنٹ کے لیے کا م کرتے تھے، لیکن معلوم ہوتاہے کہ پاکستان نیشنل موومنٹ کیمبرج تک ہی محدود رہی۔ اس کا نام کبھی مسلم ہند میں سننے میںنہ آیا ۔ غالباً اسی سبب اپنے ایک خط محررہ ۱۵؍ستمبر ۱۹۳۳ء میں چوہدری رحمت علی ، خواجہ عبدالرحیم کو لکھتے ہیں کہ آئند ہ اس تحریک کا نظام تاسیسی نازی اصول پر ہوگا ۔ چوہدری رحمت علی کی پاکستان نیشنل موومنٹ ہندوستان سے باہر ہی رہی۔ البتہ ۱۹۴۰ء میں قرارداد لاہور کے بعد مسلم لیگ نے محمد علی جناح کی زیر قیادت تحریک پاکستان چلائی، جو بالآخر پاکستان کے قیام پر منتج ہوئی۔ قیام پاکستان سے چند ماہ پیشتر ، معلوم ہوتاہے کہ چوہدری رحمت علی، محمد علی جناح کی قیادت سے بددل ہوگئے تھے۔ یہ وہ مرحلہ تھا جب مسلم لیگ نے کیبنٹ مشن پلان قبول کیا ۔ کے۔ کے عزیز اپنی انگریزی کتاب ’’رحمت علی اور اس کی مکمل تحریریں‘‘( جلداوّل) کے دیباچے میںتحریر کرتے ہیں کہ چوہدری رحمت علی نے غصے میں آکر محمد علی جناح کے خلاف ایک کتابچہ تحریرکیا اور اس میں ان پر اس قسم کے ذاتی حملے کیے کہ پمفلٹ کو پڑھنا مشکل ہے ۔یہ کتابچہ بعنوان ’’عظیم غداری ۔ ملت کو کس طرح بچایاجائے‘‘۔ (انگریزی) حال ہی میں بک ٹریڈز لاہور کی طرف سے چوہدری رحمت علی کی تصنیف ’’پاکستان ‘‘ (انگریزی) کے پاکستانی ایڈیشن میں شامل کر کے شائع کیا گیا ہے ۔پاکستان کے قیام کے بعد چوہدری رحمت علی پاکستان آئے اور یہاں رہائش اختیار کرنے کے لیے جیل روڈ لاہور پرانہوں نے ایک کوٹھی بھی کرائے پر لی،لیکن کسی نے بھی ان کا خیرمقدم نہ کیا ، بلکہ خفیہ پولیس ان پر نگاہ رکھتی تھی، یا ان کا پیچھا کرتی تھی۔سو وہ یہاں سے واپس کیمبرج چلے گئے۔ اس مختصر جائزے سے ظاہر ہے کہ چوہدری رحمت علی بیچارے بڑے خودسر مگرمایوس انسان تھے۔ وہ پاکستان اسکیم کے موجد کی حیثیت سے کیمبرج میں بیٹھے پاکستان نیشنل موومنٹ چلاتے رہے اور ہندوستان آکر مسلمانوں کی عملی سیاسیات میں کبھی حصہ نہ لیا۔ اس کے باوجود انہیں ساری عمر یہی گمان رہا کہ اقبال نے ان کی پاکستان اسکیم چرالی ہے اور تحریک پاکستان کو کامیابی کے ساتھ چلانے یا پاکستان حاصل کرنے کا سہرا غلط طورپر محمد علی جناح کے سر باندھ دیاگیاہے۔ ایک سوال جس کی وضاحت یہاں کردینا ضروری ہے کہ اقبال سمیت بعض دیگر سیاسی قائدین نے چوہدری رحمت علی کی پاکستان اسکیم سے لاتعلقی کا اظہار کرنے کی ضرورت کیوں مایوس کی؟بات دراصل یہ ہے کہ اس مرحلے پر مسلم قائدین صدق دلی کے ساتھ ہندومسلم مفاہمت کے لیے کوشاں تھے اور اپنے آپ پر علیحدگی پسندی کی تہمت لگوانا نہ چاہتے تھے۔ علاوہ ازیں یہ تجویز کہ ہندوستا ن کے وفاق کے اندر مسلم اکثریتی صوبوں کو زیادہ سے زیادہ اٹانومی دی جائے یا بقول اقبال برصغیر کے شمال مغربی مسلم اکثریتی صوبوں کے ادغام پر مشتمل مسلم ریاست کو اس وفاق کے اندر خود مختار بنادیاجائے، ٹھوس دلائل پر مبنی ایک معقول مطالبہ تھا، مگر اس مرحلے پر چوہدری رحمت علی کی پاکستان اسکیم ایک معقول مطالبہ کو نامعقول بناسکتی تھی ۔ یہ وجہ ہے کہ ۳۳-۱۹۳۲ء میں جب پہلی بار انہوں نے پاکستان اسکیم کے متعلق اپنا کتابچہ برٹش پارلیمنٹ کے ممبران میں تقسیم کیاتو بقول سارنسن، لارڈ لائیڈاور ونسٹن چرچل نے ان کی اسکیم کو سراہا، ۹۵مگر جب عبداللہ یوسف علی ، سرظفر خان اور خلیفہ شجاع الدین سے پاکستان کے متعلق جائنٹ پارلیمنٹری سلیکٹ کمیٹی کے سامنے اظہار خیال کرنے کو کہا گیا تو انہوں نے صاف صاف بتا دیا کہ یہ ایک’’خوفناک‘‘او ر’’غیر عملی‘‘ اسکیم ہے، جس کا موجد کوئی طالب علم ہے اور اسے کسی بھی ذمہ دارقائد یا سیاسی جماعت کی حمایت حاصل نہیں۔۹۶ ۱۹۳۷ء تک چودھری رحمت علی نے پاکستان کے علاوہ اپنی اسکیم میں دو مزید آزاد مسلم ریاستوں یعنی بنگ آسام اور عثمانستان کااضافہ کردیا ۔ پھر۱۹۴۰ء کے بعد وہ اور آگے بڑھے اور برصغیر کے مسلم اقلیتی صوبوںمیں بھی آزاد مسلم ریاستیںمثلاً صدیقستان اور فاروقسان ، حیدرستان ، معینستان ، ماپلستان ، سفیستان ، نثار ستان وغیرہ قائم کرتے چلے گئے ، حتیٰ کہ سمندروں اور جزیروں کے نام تک تبدیل کردیے ، یا ان کی تعداد میں اضافہ کردیا۔ ظاہر ہے وہ برصغیر کے مسلمانوں کے معقول اور جائز مطالبے کو ایسی صورت دینے کے در پر تھے جسے سراسر نامعقول اور ناجائز سمجھا جانے لگے او رجسے نہ تو ہندو قبول کرنے کو تیار ہوں ، نہ انگریز۔ یعنی ان کی پاکستان اسکیم سے مراد کسی معقول بنیاد پر تقسیم ہند نہ تھی ، بلکہ ہندوستان کی ’بلقانائزیشن ‘(یاچھوٹے چھوٹے ٹکٹرے کردینا)تھی جس کے سبب مسلمانوں کا جائز مطالبہ بھی مسترد کیا جاسکتاتھا یا ان کے سیاسی مفاد کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا تھا۔ اسی بنا پر اقبال نے مسلم ریاست کے قیام سے متعلق اپنی تجویز کو چوہدری رحمت علی کی پاکستان اسکیم سے مختلف قرار دیا۔ بعداز ں مارچ ۱۹۴۰ء میں جب قرارداد لاہور منظور ہوئی تو اس میں بھی پاکستان کا ذکر نہ تھا، بلکہ محمد علی جناح نے آل نڈیا مسلم لیگ کے اجلاس دہلی بتاریخ ۲۴؍ اپریل ۱۹۴۳ء میں واضح طورپر فرمایا: میرا خیال ہے کہ آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ جب ہم نے قرارداد لاہور منظور کی تو ہم نے اس میں لفظ پاکستان استعمال نہ کیاتھا۔ یہ لفظ ہمیں کس نے دیا؟ (شور : ہندوؤں نے)میں آپ کو بتاتا چلوں کہ یہ انہی کی غلطی تھی ۔ وہ قراردار لاہور کو پاکستان کہہ کرمعتوب قرار دینے لگے۔انہیں مسلم تحریک کے متعلق کوئی واقفیت نہ تھی۔ سوانہوں نے یہ لفظ ہم پر ٹھونسا۔ گویا کتے کوگالی دو اورپھر اسے پھانسی پر چڑھا دو۔ آپ خوب جانتے ہیںکہ لفظ پاکستان دراصل ہندو اوربرٹش پریس کے بعض حلقوں نے ہمارے سروں پر تھوپا ہے…اب میں اپنے ہندو اور انگریز دوستوں سے کہتاہوں کہ ہمیں ایک طویل اصطلاح (قراردار لاہور عام طورپر مشہور بہ پاکستان )کے بجائے ایک لفظ دینے کا شکریہ ( مرحبا مرحبا)۹۷۔ چورہدی رحمت علی کی پاکستان اسکیم کے متعلق محمدعلی جناح کا رد عمل کیا تھا؟ فرینک مور ایسن تحریر کرتا ہے: میں نے جب کبھی رحمت علی کا نام جناح کے سامنے لیا تو انہوں نے ایک مخصوص انداز میں اپنے ابرو اوپر اٹھا دیے ۔گویاوہ رحمت علی کے تصور پاکستان کو ایچ ۔ جی۔ ویلز کا ڈراؤنا خواب نہیں تو کم ازکم والٹ ڈزنی کا ڈریم لینڈ ضرور سمجھتے ہیں ۔اور میرا خیال ہے کہ (رحمت علی کے بارے میں) ان کا احساس کچھ ایسی حقارت کاتھا، جس کا اظہار پیشہ ور کھلاڑی ایک اناڑی کی غلطی پر کرتاہے جو ترپ کو محفوظ رکھے بغیر ہاتھ کے تمام پتے دکھا دے۹۸۔ چودھری رحمت علی کی پاکستان اسکیم کے بارے میں انگلستان میں عجیب وغریب خیالات کا اظہار کیا گیا ۔مثلا بعض حلقوں میں اسکیم اس لیے بدنام تھی کہ اس کے ذریعے مسلمانوں کی پرانی خواہش کی تکمیل یعنی اسلامی ایمپائر قائم کرنے کا پروگرام تھا۹۹ ۔بعضوں کو شبہ تھا کہ اس اسکیم کا تعلق مستقبل کی افغان پالیسی سے ہے اور قیام پاکستان کے بعد ہندوستان پر سودیٹ روس کی امداد کے ساتھ افغانستان حملہ کرے گا۱۰۰۔ ۳۶-۱۹۳۵ء میں اسکیم کو بعض حلقے اسے لیے برا سمجھتے تھے کہ یوں برصغیر میں مستقل طور پر بدامنی اور تباہی کا دور دورہ ہوگا۔۱۰۱ بہرحال ڈبلیو ۔ سی۔ سمتھ کی رائے میں پاکستان اسکیم کو حکومت برطانیہ کی حمایت حاصل تھی اور کیمبرج یونیورسٹی کا ایک ’’طالب علم‘‘ جو وہاں بیٹھا تحریک پاکستان چلا رہاتھا، انڈیا آفس کا تنخواہ دارتھا۔۱۰۲ ان سب باتوں کی بنا پر ظاہر ہے کہ کوئی بھی ذمہ دار مسلم سیاسی لیڈر چودھری رحمت علی کی پاکستان اسکیم کا حامی نہ تھا۔ یہ واضح کیاجاچکاہے کہ چوہدری رحمت علی کا رویہ اقبال کی طرف منافقانہ تھا۔ وہ اقبال کو شاید انگریزی حکومت کا کارندہ سمجھتے تھے اور بعد میں انہوںنے محمد علی جناح پر بھی قوم سے غداری کا الزام لگایا ، لیکن کیاوہ خود واقعی دیوانے مستانے آدمی تھے ،یا ان کی دیوانگی بامقصد تھی؟ اس کا جواب تو ان کا کوئی سوانح نگارہی دے سکتاہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اقبال سے قبل فرقہ وارانہ مسئلے کے حل کے لیے کئی انگریز ہندو او رمسلم برگزیدہ ہستیوں نے مسلم ریاست کے قیام یاتقسیم ہند کی تجاویز پیش کر رکھی تھیں۔ قراردار لاہور منظور ہونے اور بالخصوص قیام پاکستان کے بعد اس موضوع پر علمی تحقیق کی گئی او رثابت کرکے دکھایاگیا کہ اقبال ان ہستیوں میں محض ایک ہستی تھے، جنہوں نے دوسروں کی طرح تقسیم ہند کی تجویز پیش کی، لیکن اس تحقیق کے پس پشت کیا سیاسی مصلحتیں برسر عمل تھیں؟ یہ واضح کیا جاچکاہے کہ اقبال بالآخر اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ ہندوستان کے شمال مغربی او رشمال مشرقی مسلم اکثریتی صوبو ںپر مشتمل ایک ایسی علیحدہ آزاد ومقتدر فیڈریشن بنائی جائے جس میں اسلامی اصلاحات یا اسلامی شریعت کا نفاذ ہو۔ گویا اقبال کے ذہن میں مجوزہ آزاد و مقتدر مسلم ریاست کا تصو ّر بطور ایک اسلامی مملکت کے تھا ۔ محمد علی جناح کے بیان کے مطابق اقبال کے خیالات نے محمد علی جناح کو بھی انہی نتائج پر پہنچا دیاجن پر وہ خود پہنچے تھے۔ اوررفتہ رفتہ انہی خیالات کا اظہار مسلمانان ہند کے متحدہ مطالبے کے طورپر مسلم لیگ کی قرارد ار لاہور میں کیا گیا ۔ پس ظاہر ہے اقبال اس مسلم ریاست کو اسلامی ریاست کی صورت میں دیکھنا چاہتے تھے۔ اور اس بات کا احساس محمدعلی جناح کوبھی تھا، جو ان سے متفق تھے۔ بعدازاں بقول محمد علی جناح اس اسلامی ریاست کے تصور کو مسلمانان ہند کے متحدہ نصب العین کے طور پر مسلم لیگ کی قرار داد لاہور پیش کیاگیا۔ حصول پاکستان کے ایک سال بعد محمد علی جناح تو وفات پاگئے ۔ ان کے بعد گو لیاقت علی خان کے دور میں قرارد اد مقاصد منظورکی گئی ، لیکن مسلم لیگی یا دیگرسیاسی لیڈروں میںسے بیشتر اس اعلان کے باوجو د کہ پاکستان ایک اسلامی ری پبلک ہے، پاکستان کواسلامی مملکت ہر گزنہ بنانا چاہتے تھے۔ ان حالات میں ایسی تحقیق جو اقبال کو ان انگریز ، ہندو یا مسلم ہستیوں میں سے ایک شمار کرے، جنہوں نے تقسیم ہند کی تجاویز پیش کی تھیں، مصلحت کے تحت نہایت مناسب تھی۔ ایم۔ اے ۔ ایچ۔ اصفہانی نے جب یہ لکھاکہ یہ کہنا کہ اقبال مسلم ریاست کے تصور کے خالق تھے، تاریخ کو مسنح کرنا ہے ، تو آخر ان کا ذہن کس بات کی غمازی کررہا تھا؟ نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں اسلامی عصبیت کی بجائے علاقائی تعصب کو فروغ حاصل ہوا۔ سیاستدان ناکارہ ثابت ہوئے تو بیوروکریسی نے اقتدار سنبھالا اور بیورو کریسی کی نا اہلی کے سبب فوج اقتدار میں آئی۔ انتخابات ہوئے تو غیر اسلامی نظریات کے حامل یاعلاقائی تعصب کے بل بوتے پراپنی سیاسی دکان چمکانے والے سیاستدانوں نے بالآخر ایک پاکستان کے دو ٹکڑے کر دیے۔اقبال نے غلاموں کو اسلامی اتحاد کا سبق دے کر آزادی کا رستہ دکھایا تھا۔ وہ برصغیر میں اس اسلامی انقلاب کے داعی تھے، جو بالآخر پاکستان کے قیام پر منتج ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ قیام پاکستان جدید عالم اسلام میں احیاے اسلام کی بنا پر پہلا اسلامی انقلاب تھا، لیکن اس کی تکمیل نہ ہوسکی۔ پاکستان میں علاقائی تعصب کے فروغ کے نتیجے میں اقبال کو جو اس اسلامی انقلاب کے شاعر و مفکر تھے، محض ایک پنجابی شاعر قرار دے کر پنجاب کے پنجرے میں بند کردیا گیا۔ اقبال کو شاید اپنے گناہ کی سزا کا علم تھا۔ اسی لیے وہ فرماگئے: تیرا گناہ ہے اقبال مجلس آرائی اگرچہ تو ہے مثال زمانہ کم پیوند! جو کوکنار کے خوگر تھے ان غریبوں کو تری نوا نے دیا ذوق جذبہ ہائے بلند! تڑپ رہے ہیں فضا ہائے نیلگوں کے لیے وہ پرشکستہ کہ صحن سرا میں تھے خورسند! تری سزا ہے نوائے سحر سے محرومی مقام شوق و سرور و نظر سے محرومی اقبال کو یہ صلہ تو پاکستان کی طرف سے ملاجو اس کے قائم کردہ اسلامی ریاست کے معیار پر پورا نہ اتر سکا ، لیکن اقبال کو ہندوستان سے بھی نسبت تھی، کیونکہ بیسیویںصدی کے عالم اسلام کو ایک ہزار سال بعد تجدید دین کے ذریعے انقلاب کا پیغام دینے والے اس ’’برہمن زادے‘‘ یا ’’کافرہندی‘‘ کا تعلق اسی سر زمین سے تھا، تو ہندوستان میں اسے ایک ایسا متعصب مسلم قوم پرست قرار دیاگیا، جس نے اپنے افکار کے ذریعے بھارت ماتاکے ٹکڑے کرنے کی ترغیب دی تھی ۔ لہذا ہندوستان میں اس کا نام تک لینا جرم کے متراوف تصور کیاگیا۔ بہر حال ۱۹۷۷ء میں حالات نے پلٹا کھایا ۔ ولادت اقبال کی صد سالہ تقریبات کے بعد ہندوستان میںاقبال شناسی کے سلسلے میں کاوش و تحقیق کا نیا دورشروع ہوا۔ اسی طرح پاکستان میں بھی تجدید دین یا احیائے اسلام کے نئے جذبہ کے تحت اقبال کو پنجاب کے پنجرے سے آزاد کرکے اسے اس کا صحیح مقام دلانے کی خاطر کوششیںجاری ہوئیں۔ اسی دوران میں ایران میں انقلاب آیا اور علی شریعتی اور دیگر اہل علم کی اقبال سے متعلق تحریروں کے سبب اسے تعظیماً ایران کے اسلامی انقلاب کے مفکروں کی صف میں کھڑا کردیاگیا۔ مآخذ باب ۱۷ ۱۔ ’’کتاب الہند‘‘ازالبیرونی،انگریزی ترجمہ ای۔زخاؤ،جلد اوّل ، صفحات ۱۷ ، ۹ ۷ ۱ ۲۔ ’’منتخب التوایخ‘‘از ملا ّ بدایونی ، انگریزی ترجمہ ڈبلیو ۔ ایچ ۔ لو، جلد دو م صفحہ ۳۷۵۔ ۳۔ ’’ارتقائے پاکستان ‘‘ از شریف الدین پیرزادہ (انگریزی)صفحات ۳۷ تا ۱۲۰۔ ۴۔ ایضاً ، دیباچہ ۵۔ ’’پاکستان کے لیے جدوجہد ‘‘از اشتیاق حسین قریشی (انگریزی)،صفحات۱۱۷ تا ۱۱۹۔ ۶۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ ، حصّہ دوم ، صفحہ۲۳۰۔ ۷۔ ’’سرسید احمدخان کے اصلاحی اور مذہبی تصورات ‘‘از جے ۔ایم ۔ایس بلجان ، (انگریزی)،صفحات ۷۵،۷۶ ۸۔ ’’شاہراہ پاکستان‘‘از چوہدری خلیق الزمان(انگریزی)،صفحہ۲۳۸۔ ۹۔ ایم۔ اے۔ ایچ۔ اصفہانی کا خط ایڈیٹر کے نام ’’پاکستان ٹائمز‘‘مورخہ ۷مئی ۱۹۶۷ئ(انگریزی) ۱۰۔ ’’اقبال کا سیاسی کارنامہ ‘‘، صفحات ۹۱۳، ۹۱۴۔ ۱۱۔ ’’صاف گو مسٹر جناح‘‘(انگریزی)، صفحہ ۵۲۔ خطبۂ الہ آباد کے سلسلے میں خط وکتابت کے لیے دیکھے ’’اقبال کے چند نادر خطوط‘‘ از بشیر ا حمد ڈار‘‘۔صحیفہ’’اقبال نمبر، حصّہ دوم ، صفحات ۱ تا ۱۰۔ ۱۲۔ ’’نقوش ‘‘اقبال نمبر ،ستمبر ۱۹۷۷ء ، صفحات ۴۹۹ تا ۵۰۴۔ ۱۳۔ ’’صاف گو مسٹر جناح‘‘ (انگریزی)، صفحہ ۵۲ ۱۴۔ ’’نقوش‘‘ اقبال نمبر، ستمبر ۱۹۷۷ئ، صفحات ۴۹۹تا ۵۰۴۔ ۱۵۔ ایضاً ، صفحہ ۵۰۳ ۱۶۔ ’’اقبال کی تقریریں او ربیانات ‘‘مرتّبہ اے۔ آر۔ طارق (انگریزی)، صفحہ ۳۱ ۱۷۔ ’’سرگزشت اقبال‘‘ از عبدالسلام خورشید ، صفحات ۳۲۳،۳۲۴۔ ۱۸۔ ایضاً ، صفحات ۳۲۴، ۳۲۵ ۱۹۔ ایضاً ، صفحات ۳۲۶، ۳۲۷ ۲۰۔ ایضاً ، صفحہ ۳۲۸ ۲۱۔ اقبال کا خط محررہ ۱۱جنوری ۱۹۳۰ء بنام سید نذیر نیازی ۔ ’’فنون‘‘ ، اقبال نمبر، دسمبر ۱۹۷۷ء ، صفحہ ۱۵۔ ۲۲۔ ’’سرگزشتِ اقبال ‘‘ازعبدالسلام خورشید ،صفحہ ۳۲۸۔ شریف الدین پیرزادہ کی انگریزی تصنیف ’’ارتقائے پاکستان‘‘ میں بھائی پر مانند ، پروفیسر جی ۔ آر ۔ابھیانکر اور نواب سرذوالفقار علی خان کی تقسیم ہند کے متعلق تجاویز کا ذکر موجود نہیں۔ یہ اسکیمیں بھی اقبال کی اسکیم سے پہلے پیش کی گئی تھیں۔ ۲۳۔ ’’فنون‘‘ اقبا ل نمبر، دسمبر ۱۹۷۷ء ، صفحہ ۱۵۔ ۲۴۔ ’’سرگزشت اقبا ل‘‘ ازعبدالسلام خورشید ، صفحہ ۳۲۹۔ ۲۵۔ ایضاً ، صفحہ ۳۲۹ ۲۶۔ ایضاً ، صفحہ ۳۳۰۔ ۲۷۔ ’’رواداد اقلیتی سب کمیٹی پہلی گول میز کانفرنس‘‘ (انگریزی)، صفحات ۴۳، ۴۴۔ ۲۸۔ ایضاً ، صفحات ۶۰،۶۱۔ ۲۹۔ ’’مکتوبات اقبال‘‘مرتبہ سید نذیر نیازی، صفحات ۵۴،۶۴،۶۶، ۶۷۔ ۳۰۔ ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘ مطبوعہ ۱۹۴۳ء (انگریزی)، صفحات ۲۱ تا ۲۳۔ ۳۱۔ ’’سرگزشت اقبال‘‘ ازعبدالسلام خورشید ، صفحات ۳۳۰، ۳۳۱۔ ۳۲۔ ’’مکتوبات اقبال‘‘ مرتبہ سید نذیر نیازی، صفحہ ۶۷۔ ۳۳۔ ’’سرگزشتِ اقبال ‘‘از عبد السلام خورشید ،صفحہ۳۳۱۔ ۳۴۔ ’’مکتوبات اقبال ‘‘مرتبہ سید نذیر نیازی، صفحہ۵۵ ۳۵۔ صفحات، ۶۱۴ تا ۶۹۰ ۳۶۔ ’’سرودِرفتہ‘‘صفحات ۱۸۱تا۱۹۱ ۳۷۔ ایضاً ، صفحات ۱۷۶، ۱۷۷ ۳۸۔ ’’باقیات اقبال ‘‘مرتبہ محمد عبداللہ قریشی ، صفحہ ۲۰۶ ۳۹۔ ’’سرودِ رفتہ‘‘مرتبہ غلام رسول مہر و صادق علی دلاوری ، صفحات ۵۵تا ۵۷ ۴۰۔ ایضاً ،صفحات ۱۳۹،۲۰۰ ۴۱۔ ’’علا ّمہ اقبال یورپ میں اور دیگر مضامین‘‘از سعید اختر درانی (قلمی مسودہ) ۴۲۔ ’’فضل حسین ایک سیاسی بائیو گرافی‘‘ (انگریزی) صفحہ ۳۱۹۔ ۴۳۔ صفحات ۲۷۴، ۲۷۵۔ ۴۴۔ ’’آثار اقبال ‘‘مرتبہ غلام دستگیر رشید ، حیددآباد دکن ، صفحات ۲۲، ۲۳ ۴۵۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ چراغ حسن حسرت ، صفحہ ۲۹ ۴۶۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطا ء اللہ، حصّہ دوم ، صفحات ۱۲۶،۱۲۷ ۴۷۔ ’’افکار‘‘ نومبر ۱۹۸۱ء ، مضمون ’’علامہ اقبال کا ایک غیر مطبوعہ خط’’از سلیم الدین قریشی ۴۸۔ ’’ملفوظاتِ اقبال ‘‘ مرتبہ محمود نظامی ، صفحہ ۷۹ ۴۹۔ ’’فضل حسین ایک سیاسی بائیوگرافی‘‘ (انگریزی) ، صفحات ۳۱۹،۳۲۱ ۵۰۔ ’’جوہر اقبال‘‘مرتبہ انجمن اتحاد جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی ، صفحات ۳۸،۳۹ ۵۱۔ ’’فضل حسین ایک سیاسی بائیوگرافی‘‘ (انگریزی)، صفحات ۳۲۰، ۳۲۱ ۵۲۔ ’’اقبال کا سیاسی کارنامہ‘‘، صفحہ ۶۵۴ ۵۳۔ ’’متحدہ قومیت اور اسلام ‘‘از مولاناحسین احمد مدنی ، صفحہ ۹ ۵۴۔ ’’جوہر اقبال ‘‘مرتبہ انجمن اتحاد جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی ، صفحات ۴۰،۴۱ ۵۵۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ، حصّہ دوم ، صفحات ۲۳۹،۲۴۰ ۵۶۔ ’’اقبال کی تقریریں اوربیانات ‘‘مرتبہ اے۔ آر۔ طارق (انگریزی)، صفحہ ۱۰ ۵۷۔ ’’اقبال نامہ ‘‘مرتبہ شیخ عطاء اللہ، حصّہ دوم، صفحہ ۱۸۱ ۵۸۔ ’’ملفوظات اقبال ‘‘ مرتبہ محمود نظامی صفحہ ۲۰۸ ۵۹۔ ’’اقبال کی تقریریں اور بیانات ‘‘مرتبہ شاملو (انگریزی)،صفحہ ۱۶۸ ۶۰۔ ’’اقبال اور تصوف ‘‘مرتبہ آل احمد سرور ۔ سری نگر ، صفحہ ۶۹ ۶۱۔ ’اُردو ‘‘اقبال نمبر، طبع جدید، صفحہ۱۹۶ ۶۲۔ ’’اقبال کاسیاسی کارنامہ ‘‘، صفحات ۶۶۰، ۶۶۱ ۶۳۔ ’’صحیفہ ‘‘اقبال نمبر، حصّہ اول ، صفحہ ۱۶۶ ۶۴۔ ’’اردو ‘‘ اقبال نمبر، طبع جدید، صفحہ ۱۹۵ ۶۵۔ ’’آثار اقبال ‘‘ مرتبہ غلام دستگیر رشید، حیدرآباددکن ،صفحہ ۲۸ ۶۶۔ ’’اردو ‘‘ اقبال نمبر ، طبع جدید ، صفحہ ۲۳۵ ۶۷۔ ایضاً ، صفحات،۳۱۴ تا ۳۱۶ ۶۸۔ صفحات ۲۰۴ تا ۲۰۶ ۶۹۔ صفحات ۱۹۸،۱۹۹ ۷۰۔ صفحات ۵۸، ۵۹ ۷۱۔ اقتباس کے لیے دیکھے ’’اقبال کے آخر ی دوسال ‘‘ از عاشق حسین بٹالوی ، صفحہ ۵۵۸یا ’’اقبال کا سیاسی کارنامہ‘‘ از محمد احمد خان ، صفحات ، ۸۳۱، ۸۳۳ ۷۲۔ ’’اقبال کے خطوط اور تحریریں ‘‘مرتبہ بی ۔اے۔ ڈار (انگریزی) ، صفحات ۱۱۷، ۱۱۸ ۷۳۔ ایضاً، صفحات ۱۱۹، ۱۲۰ ۷۴۔ صفحہ ۶۹۸ ۷۵۔ صفحہ ۳۲۶ ۷۶۔ چوہدری رحمت علی دیباچے میں فرماتے ہیں کہ یہ اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن ہے او ر اس سے پیشتر دو ایڈیشن ۱۹۳۵ء اور ۱۹۳۹ء میں سائیکلو اسٹائل صورت میں پاکستان نیشنل موومنٹ کے کارکنان کی خاطر چھاپے گئے تھے۔ ۷۷۔ ’’پاکستان ‘‘(انگریزی) صفحہ ۲۱۴ ۷۸۔ ایضاً ، صفحہ ۲۱۹ ۷۹۔ ایضاً، صفحہ ۲۲۱۔ اس سلسلے میں وہ اپنی ۱۹۴۷ء میں چھپی ہوئی انگریزی تصنیف ’’پاکستان ‘‘ میں ڈاکٹر امبیدکرکی انگریزی تصنیف ’’پاکستان پر خیالات‘‘ (طباعت ۱۹۴۱ئ) کے حوالے سے ملک برکت علی کی تقریر کا ایک اقتباس پیش کرتے ہیں، جس میں ان کے ساتھ الفاظ منسوب کیے گئے ہیں کہ میں یہ کہنے میں خوشی محسوس کرتا ہوں کہ سرمحمد اقبال اپنی اس تجویز (مسلم ریاست کا قیام)سے منحرف ہوگئے ہیں اور اگر وہ اس تجویز سے اس بناء پر انحراف نہ بھی کرتے کہ کوئی معقول شخص ایسی تجویز پیش نہیں کرسکتا ، تو میں خو داس تجویز کو پورے زور کے ساتھ او ربغیر کسی تامل کے رد کردیتا۔ اب پہلی غور طلب بات تو یہ ہے کہ یہ سب تصانیف اقبا ل کی وفات کے بعد شائع ہوئیں جب وہ ان کی تردید نہ کرسکتے تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اقبال کا ایسا کوئی بیان یا تحریر ریکارڈ پر موجود نہیں جس سے واقعی یہ ثابت ہو سکے کہ انہوں نے کسی مرحلے پر اپنی تجویز سے انحراف کیاتھا بلکہ ان کے تمام بیانات اس کے برعکس ہیں ۔ تیسری بات یہ ہے کہ اگر ملک برکت علی نے اپنے کسی بیان میں یہ الفاظ کہے بھی تھے تو ۱۹۴۱ء میں یعنی اقبال کی وفات سے تین برس اور قرار داد لاہور کے منظور ہونے کے ایک برس بعد ان کا ذکر کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ ۸۰۔ ’’اقبال کی تقریریں اور بیانات ‘‘مرتبہ اے۔ آر۔ طارق (انگریزی)،صفحہ ۳۸ ۸۱۔ اصل انگریزی خط علامہ اقبا ل میوزیم میں محفوظ ہے ۔ ۸۲۔ ’’انوار اقبال ‘‘مرتبہ بشیر احمد ڈار صفحات ۲۰۸،۲۰۹ ۸۳۔ ’’اقبال کے خطوط اور تحریریں‘‘ مرتبہ بی۔اے۔ڈار (انگریزی)صفحہ ۷۵، پاکستان یا تقسیم ہند‘‘(انگریزی) ، صفحہ ۳۲۹ ۸۴۔ ’’اقبال کی تقریریں اور بیانات ‘‘مرتبہ اے۔ آر۔ طارق (انگریزی) صفحہ ۱۱۶ ۸۵۔ ’’اقبال ۔ ان کے سیاسی نظریات چوراہے پر‘‘مرتبہ اے۔ حسن علی گڑھ (انگریزی) ۸۶۔ ایضاً ، صفحہ ۷۲ ۸۷۔ ایضاً، صفحہ ۸۰ ۸۸۔ ایضاً، صفحات ۸۱،۸۲ ۸۹۔ روزنامہ ’’جنگ‘‘ اقبال ایڈیشن ۲۱؍اپریل ۱۹۸۲ء ۹۰۔ ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام ‘‘مطبوعہ ۱۹۴۳ء (انگریزی)،صفحات ۱۷،۱۸ ۹۱۔ ایضاً ، صفحات ۱۸، ۱۹،۲۳ ۹۲۔ ایضاً ، دیکھیے دیباچہ صفحات ۴، ۵ ۹۳۔ ’’مسٹر جناح کی تقریریں اور تحریریں‘‘مرتبہ جمیل الدین احمد، جلد دوم (انگریزی)، صفحات ۱۴۶، ۱۴۷ ۹۴۔ یہ خطوط غیر مطبوعہ ہیں اور جناب خواجہ طارق رحیم بیرسٹر کی تجویل میں ہیں۔ ۹۵۔ ’’ہندوستان کے متعلق میرے تاثرات ‘‘از آر۔ ڈبلیو ۔ سارنسن(انگریزی)صفحہ۱۱۰ ۹۶۔ شہادت کی تفصیل جوجائنٹ کمیٹی برائے ہندوستانی دستوری اصلاحات کے روبرو پیش کی گئی۔ سیشن ۳۳-۱۹۳۲ء (انگریزی) رومن پانچ ۔ ۱۱سی ، صفحہ ۱۴۹۶ ۔ ۹۷۔ ’’جناح کی تقریریں اور تحریریں ‘‘مرتبہ جمیل الدین احمد، جلد اوّل (انگریزی) ، صفحات ۵۵۵۔۵۵۶ ۹۸۔ ’’ایک عہد کا شاہد ۔ ہندوستان ۱۹۲۰ء سے لے کر آج تک ‘‘، لند ن۱۹۷۳ء ایڈیشن (انگریزی)، صفحہ۸۰ ۹۹۔ ’’پاکستان پر خیالات ‘‘از ڈاکٹر امبیدکر (انگریزی)، صفحہ ۱۸، ’’درون ہند ‘‘از خالدہ ادیب خانم (انگریزی) ، صفحہ ۳۵۵ ۱۰۰۔ ’’مسئلہ ہندوستان کے اہم حقائق ‘‘از ڈچز آف ایتھا ل ایم پی لندن۱۹۳۳ء صفحات ۲۵، ۲۶ ۱۰۱۔ ’’پارلیمانی بحیثں‘‘ ۳۰۱، ایچ۔سی۔ڈیب۵(۸)۱۹۳۵ء انگریزی،صفحہ ۱۰۳۴نیز دیکھیے۔ جے۔کوٹمین میگنا برٹینیکا (انگریزی)،صفحات ۳۲۱، ۳۲۲ ۱۰۲۔ ’’جدید اسلام ہندوستان میں‘‘ (انگریزی)، صفحات ۲۵۴، ۳۲۷ باب ۱۸ گول میز کانفرنسیں لند ن میں پہلی گول میز کانفرنس ۱۹؍ جنوری ۱۹۳۱ء کو اختتام پذیر ہوئی اور اس کے ساتھ ہی وزیراعظم برطانیہ کے اعلان کے ذریعے دوسری گول میز کانفرنس میں کانگرس کی شمولیت کے لیے رستہ ہموار کردیا گیا۔ پہلی گول میز کانفرنس کے تحت کل آٹھ سب کمیٹیاں بنائی گئیں، لیکن ہندو مسلم اختلافات کے سبب اقلیتو ںکے حقوق کے تحفظات کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ ہوسکا۔ البتہ بحیثیت مجموعیٔ کاروائی میں آئندہ طرز حکومت کے سلسلے میں جن اصولوں پر غور کیاگیاوہ یہ تھے: طرز حکومت وفاقی ہوگاجس میں برطانوی ہند کے صوبوں کے ساتھ دیسی ریاستیں بھی شریک ہوں گی اور یہ کہ صوبائی اور مرکزی حکومتوں کو دفاع و امور خارجہ کے علاوہ باقی تمام اختیارات دے دیے جائیں گے۔ یہ ذکر کیاجاچکا ہے کہ پہلی گول میز کانفرنس کے سولہ مسلم مندوبین میں قابل ذکر مولانا محمد علی جوہر ، سر آغا خان ، محمد علی جناح ،سر محمد شفیع یا مولوی فضل الحق ہی تھے۔ اقبا ل کو شرکت کی دعوت نہ دی گئی تھی، لیکن لندن میں مولانا محمد علی کی اچانک وفات اورمحمد علی جناح کے وہا ںرہائش پذیر ہونے کے فیصلے کے سبب کل ہند مسلم سیاسیات میں قیادت کا بحران پیدا ہونے کا اندیشہ تھا۔ اقبال کی مولانا محمد علی کے بارے میں یہ رائے تھی: محمد علی مرحوم کا خاتمہ بخیر ہوا۔ اگرچہ میں ان کی سیاست کاکبھی بھی مداح نہ تھا، لیکن ان کی اسلامی سادگی او رآخری سالوں میں اپنی بعض آرا کے بدل لینے میں جس امانت و دیانت کا انہوں نے ثبوت دیا، بہت احترام کرتاہوں ۱۔ اب مولاناشوکت علی ہی ایک ایسے مسلم قائد باقی رہ گئے تھے جو ہندو لیڈروں کے ساتھ کسی نہ کسی سمجھوتے کے لیے بات چیت کرنے کے اہل تھے۔ جہاں تک اقبال کا تعلق ہے، وہ بقول ان کے کل ہند مسلم سیاسیات کی دلدل میں دھکیل دیے گئے تھے او رایسے پھنسے تھے کہ اب نکلنا مشکل تھا۔ مارچ ۱۹۳۱ء میں گاندھی ارون معاہدے کے تحت انگریزی حکومت نے سول نافرمانی کی تحریک میں گرفتار شدگان کو رہا کرنے کی ہامی بھرلی اور کانگرس نے سول نافرمانی کی مہم ختم کردی۔ اگلے ماہ ارون کی جگہ ولنگڈن ہندوستان کاوائسرائے بن کر آیا۔ انہی ایام میں ہندو مسلم مفاہمت کی ایک اور کوشش کی گئی۔ مسلم لیگ تو انتشار کا شکار تھی، اس لیے اپنی اہمیت کھو چکی تھی۔ البتہ آل انڈیا مسلم کانفرنس کی کچھ نہ کچھ اہمیت تھی، چنانچہ اس کا اجلاس دہلی میں طلب کیا گیا۔ اقبال ۳؍اپریل ۱۹۳۱ء کو آل انڈیا مسلم کانفرنس کے اجلاس میں شرکت کے لیے دہلی پہنچے اور وہاں انہو ںنے پانچ دن قرول باغ میں شیخ غلام علی صابر کے ہاں قیام کیا۔۲ مہاتما گاندھی آل انذیا مسلم کانفرنس کے قائدین سے ملے، لیکن مسلم مطالبات تسلیم کرنے سے انہوں نے اس لیے انکار کردیا کہ وہ متفقہ نہ تھے، یعنی کانگرسی مسلم لیڈران مطالبات سے اتفاق نہ کرتے تھے۔ ان حالات میں مولانا شوکت علی کو خیا ل آیا کہ کیوں نہ مسلم نیشنلسٹ پارٹی کے لیڈروں سے بات چیت کر جائے اور اختلافات کے خاتمے کے لیے کوئی فارمولا تلاش کیا جائے۔ آل انڈیا مسلم کانفرنس اور مسلم نیشنلسٹ پارٹی کے لیڈروں میں چودہ نکات میں سے تیرہ پر تو قریب قریب اتفاق تھا۔ ان کے مابین اگر کوئی نزاعی مسئلہ تھا تو جداگانہ یا مخلوط انتخاب کا تھا۔ لیکن اس مسئلے سے قطع نظر بظاہر گفت و شنید حوصلہ افزا معلوم ہوئی ۔ چنانچہ مولانا شوکت کی تحریک پر نواب صاحب بھوپال حمید اللہ خان نے آل انڈیا مسلم کانفرنس اور مسلم نیشنلسٹ پارٹی کے ، قائدین کو بھوپال مدعو کیا۔ بھوپال روانہ ہونے سے بیشتر ۳مئی ۱۹۳۱ء کو جداگانہ انتخاب اور دیگر مسلم مطالبات کی حمایت میں مسلمانانِ لاہور کا ایک عظیم الشان جلسہ بیرون موچی دروازہ زیر صدارت اقبال منعقد ہوا۔ اقبا ل نے اپنی افتتاحی تقریر میں واضح کیا کہ یہ جلسہ متعدد جلسوں کے سلسلے کی پہلی کڑی ہے جو اس نازک زمانے میں مسلمانوں کو بیدار کرنے کے بعد ان میں روح حیات پھونکنے کے لئے کیے جائیں گے۔ تاکہ وہ سیاسیات کے میدان عمل میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں ۔ آپ نے فرمایا: گاندھی جی نے مسلم کانفرنس دہلی کے متعلق کہا تھا کہ مسلمانوں کا مطالبہ متحدہ نہیں ۔ لیکن وہ حق بجانب نہ تھے۔ میں اس صحبت میں موجود تھا اور میں نے کہا تھا کہ ہندووں کا ایک طبقہ جدا گانہ انتخاب مانگتاہے،دوسرا مخلوط انتخاب کا حامی ہے اورتیسرا سوشل ڈیموکریسی چاہتا ہے ۔ جب ہندووں میں اس قدر اختلاف ہے تو مسلمانوں کے معمولی اختلاف پر ایک بہانہ بنا لینا اگر منافقت نہیں تو کیا ہیــ…پہلے معلوم کرنا چاہیٔے کہ قوم پرستی کا مفہوم کیا ہے ۔ نیشنلزم کا جو تجربہ یورپ میں ہوا اس کا نتیجہ بے دینی اور لامذہبی کے سوا کچھ نہیں نکلا۔ وہی ہندوستان میں ہورہا ہے۔ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ حکم موجود ہے جس میں فرمایا گیا تھا کہ آج میں نسل، ذات پا ت اور برادری کے تمام امتیازات کو پاؤں کے نیچے کچلتا ہوں۔ تم سب مسلمان ہو اور یہی تمہارا صحیح نام ہے۔ ہندوستان میں جس قدر اقوام ہیں ، سب چاہتی ہیں کہ ان کی خصوصیات باقی رہیں۔ اس لیے مسلمان بھی یہی چاہتے ہیں۔ مسلمان دوسروں پر حکومت نہیں چاہتے اور نہ یہ چاہتے ہیں کہ دوسرے ان پرحکمران ہوں اور وہ ان کے غلام بنے رہیں… میں مسلمان نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ قومیت کا صحیح تخیل معلوم کریں…مسلم نوجوانوں سے کہتا ہو ںکہ منظم ہوجائیں ، اور یہ کوششیں اس لیے ہیں کہ آپ گونڈیا بھیل نہ بن جائیں ،ابھی آپ کو ایک شدید جنگ میں قربانیاں دینا ہیںاور وہ سرمایہ داری کی لعنت کے خلاف جنگ ہے ۔اس لیے آپ کو چاہیے کہ اس کے لیے بھی ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار رہیں۔ اگر کوئی یہ خیال کرتاہے کہ کوئی دوسری قوم یا انگریز ا سکی دستگیر ی کرے گاتو وہ بدبخت ہے۔ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوجاؤ ورنہ تمہیںکوئی حق نہیں کہ زندہ رہو۳۔ اقبال ۱۰ مئی ۱۹۳۱ء کو مع غلام رسول مہر بھوپا ل پہنچے ۔ انہیں سرکاری قیام گاہ ًقصرراحت منزل میں ٹھہرایاگیا۔ وہ دو دن بھوپال میں ٹھہرے ، جہاں انہوں نے نواب حمید اللہ خان سے ملاقات کے علاوہ آل انڈیا مسلم کانفرنس او رمسلم نیشنلسٹ پارٹی کے راہنماؤں کی گفت و شنید میں حصّہ لیا،۴ لیکن ان قائدین میں اختلاف کی خلیج سکڑنے کی بجائے بڑھتی چلی گئی اور دوسری گول میز کانفرنس کے انعقاد سے پیشتر ہندو مسلم مفاہمت کی جو کوشش کی گئی تھی ، با رآور ثابت نہ ہوئی اس کوشش کے متعلق اقبا ل، مولانا شوکت علی، سرمحمد شفیع اور شروانی کے دستخطوں سے ایک بیان ۱۲مئی ۱۹۳۱ء کوشائع ہوا۔۵ پھر ۱۳ مئی ۱۹۳۱ء کو جب اقبال او رنواب محمد اسمعیل خان بھوپال سے واپسی پر دہلی سے گزر ے تو ریلوے اسٹیشن پر اخبار’’ اسٹیٹسمین‘‘ کے نمائندے کو انہوں نے اسی سلسلے میں ایک انٹرویو بھی دیا۶ ، مگر اقبال کے بیان مورّخہ ۱۵مئی ۱۹۳۱ء سے واضح ہوگیا کہ مسلم نیشنلسٹ پارٹی کے رہنماؤں او رآل انڈیا مسلم کانفرنس کے قائد ین میں اتفاق رائے نہ ہوسکا۔ اقبال نے اپنے بیا ن میں کہا : اگر ڈاکٹر انصاری اور مسٹر شعیب نے بھوپال کانفرنس کے غیر مباحث کو بمنزلہ عارضی میثاق پیش کیا ہے تو انہوں نے یقینا نہ صرف ان لوگوں کے ساتھ ، جن کے ساتھ انہوں نے گفت وشنید کی بلکہ تمام مسلم قوم کے ساتھ برائی کی۔ میں اسے کامل طور پر واضح کرنا چاہتا ہوںکہ عارضی میثاق کی قسم کی کوئی چیز حاضرین جلسے کے خیال میں بھی نہیں آئی تھی ۔ اس جلسے میں اس سے زیادہ کو ئی کاروائی نہیں ہوئی کہ نام نہاد مسلم نیشنلسٹوں کو انتخابات کے متعلق آل انڈیا مسلم کانفرنس کے فیصلوں کے قریب تر لانے کے لیے بعض تجاویز پیش کی گئیں تاکہ لوگ پھر کامل مسلم قوم میں شامل ہونے کے قابل ہوسکیں ، جس نے جدا گانہ انتخاب کے بدستور بحال رکھنے کا ایسا فیصلہ صادر کیا ہے جس میں کسی قسم کے مغالطے کی گنجائش باقی نہیں رہتی …ایسی تجاویز کو گاندھی جی کے پا س بھاگے بھاگے لے جانے ، جن پر کسی قسم کی بحث بھی نہیں ہوئی اورانہیں عارضی میثاق کے نام سے تعبیر کرنے سے شبہ پیدا ہوتاہے کہ بھوپال کانفرنس کو پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کیاجارہا ہے ۔ اگرا سکی کوئی حقیقت ہے تو مجھے کامل یقین ہے کہ بھوپال یا شملہ میں دوسرا جلسہ کرنا نہ صرف مفید نہ ہوگا بلکہ لازمی طور پر مسلمانان ہند کے مفاد کے لیے ضرررساں ہوگا ۷ ۔ کانگرسی مسلم لیڈروں اور دیگر مسلم قائدین کے مابین جدا گانہ یا مخلوط انتخاب کے مسئلے پر اختلاف ختم نہ کیا جاسکا اور ادھر ہندو مسلم سیاسی مفاہمت کی بھی کوئی صورت نہ نکلی ۔ اسی دوران میں یعنی اپریل ۱۹۳۱ء سے ہندوستان کے متعدد مقامات پر ہندو مسلم فسادات شروع ہوگئے۔ بنارس، آگرہ ، مرزا پور اور کانپور فسادات سے بری طرح متاثرہوئے۔ سب سے بڑا فساد کانپور میں ہوا جہاں مسلمانوں کو گھر گھر قتل کیاگیا۔ ان کے گھروں پر مٹی کا تیل ڈال کر جلایاگیا۔ اور بعض مساجد بھی مسمار کردی گئیں۔ مظلومین کانپور کی مالی امداد کے لیے اقبال نے دیگر مسلم قائدین کے ہمراہ۱۴ جولائی ۱۹۳۱ء کو اخبارات میں پنجاب ، سرحد اور سند ھ کے مسلمانوں سے کانپور مسلم ریلیف فنڈ میں چندہ دینے کی پرُ زور اپیل کی۔ انہوں نے فرمایا: بنارس ، آگرہ اور مرزا پور کے بعدکانپور میں مسلمانوں کاقتل عام ہندوستان کے مسلمانوں کو چیلنج تھاکہ وہ ایک ایک کرکے اس ملک سے نابود کردیے جائیں گے، اور کوئی ان کی امداد کرنے والانہ ہوگا…پوربیوں نے انگریزوں سے غدرمیں وہ کچھ نہ کیا تھا جو اس شہر میں دوسرے ہندوؤں نے مسلمانوں سے کیا ہے ۔ جس طرح جنگلی جانوروں کے ایک گلے میں گھس کر شکاریوں کاگروہ بے تحاشا بندوقیں چلانا شروع کرتاہے، اسی طرح کانپور میںہوا۔ مسلمانوں کے ہزارہا مکانات جلادیے گئے…پیشہ وروں کے آلات بڑے بڑے ہتھوڑوں سے کوٹ کوٹ کر بیکار کر دیے گئے … بیکس مسلمانوں کو مارا ہی نہیں گیا بلکہ ان پر تیل ڈال کر ان کو جلایا بھی گیا، اور بعض جگہ تو سسکتے ہوئے زندہ آدمی جلا دیے گئے … کئی گھروں اور مساجدمیں اب تک خون کے چھینٹے ا ن درد ناک حوادث کی یاد دلا رہے ہیں جن میں غریب مسلمانوں کو مارمار کر ان کے سر پھوڑدیے گئے…تیس مسجدیں کلّی طور پر یاجزوی طور پر توڑ دی گئیں…کئی جگہ قرآن مجید کی بھی بے حرمتی کی گئی۸ ۔ کانپور کے مسلم کش فساد نے اقبال پر گہرا اثر چھوڑا ۔ وہ نہ صرف ہندو مسلم اتحاد کے متعلق ایک بار پھر مایوسی کا شکار ہوئے بلکہ سنجیدگی سے یہ بھی سوچنے لگے کہ اگر آئندہ گول میز کانفرنس میں حکومت برطانیہ نے ہندو اکثریت کوخوش کرنے کے لیے مسلمانو ںکو نظر انداز کیا تو مسلمان سودیٹ یونین یا اشتراکیت کی طرف مائل ہونے میں حق بجانب ہوں گے۔ اسی ذہنی پس منظر کے ساتھ انہوں نے اپنے ایک خط محرّرہ ۳۰ جولائی۱۹۳۱ء بنام سر فرانسنس ینگ ہسبنڈمیںتحریرکیا: برطانیہ نے اگلی گول میز کانفرنس میں فرقہ وارانہ اختلافات سے کوئی ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تو یہ دونوں ملکوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوگی۔ اگرسیاسی اقتدار ہندو کے سپرد محض اس لیے کردیاگیاکہ اسے حاکم بنانے سے برطانیہ کوکوئی مادی مفاد حاصل ہوسکتاہے تومسلمان سوراجی یااینگلوسواراجی حکومت کے خلاف دہی حربے استعمال میں لانے پر مجبور ہوجائیں گے۔ جو گاندھی نے حکومت برطانیہ کے خلاف برتے تھے۔ اس کے علاوہ اس کا یہ نتیجہ بھی نکل سکتاہے کہ پورا مسلم ایشیاء روسی کمیونزم سے ہم آغوش ہونے پرمجبو ر ہوجائے…میں نہیں سمجھتا کہ روسی طبعاً غیر مذہبی لوگ ہیں ، بلکہ اس کے برعکس میرے خیال میں ان میں مضبوط مذہبی رجحانات موجود ہیں اور روسی ذہن کی موجودہ منفی کیفیت غیر معیّنہ عرصے تک جاری نہیں رہے گی، کیونکہ کوئی معاشرتی نظام لا مذہبی بنیاد پر قائم نہیں رہ سکتا۔ جونہی اس ملک میں حالات پرسُکون ہوئے اور لوگوں کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنے کا موقع ملا تو اس نظام کے لیے کوئی مثبت بنیاد تلاش کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ بالشوزم میںاگر خدا کے تصور کااضافہ کردیا جائے تو وہ اسلام کے بہت حد تک مماثل ہوجاتاہے، اس لیے مجھے اس بات پر حیرت نہ ہوگی اگر مستقبل میں اسلام روس پر حاوی ہوجائے یاروس اسلام پر چھا جائے۔ نتیجے کا انحصار ، میر ے خیال میں کافی حد تک اس پوزیشن پر ہوگاجو ہندی مسلمانوں کو نئے آئین کے تحت ملے گی۹۔ انہی ایام میں لاہور میں مغلپورہ انجنیئرنگ کالج کے انگریز پرنسپل کی اسلام دشمنی کے سبب مسلم طلبہ نے ہنگامہ کھڑا کردیا۔ مسلم طلبہ کا ایک وفد پرنسپل کے سامنے اپنی چند شکایات لے کر گیا تھا،لیکن اس نے شکایت کا ازالہ کرنے کی بجائے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بعض ایسے کلمات منہ سے نکالے جن سے مسلم طلبہ مشتعل ہوگئے۔ اسی کیفیت میں وہ اخبارات کے دفاتر میں پہنچے اور اقبال یادیگر سیاسی قائدین سے بھی ملے اور پھر جلسوں اور احتجاجی جلوسوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، کئی مسلم انجمنوں اور اخباروں نے پرنسپل کے رویّے کے خلاف آواز بلند کی ۔اسی سلسلے میں ۳جون ۱۹۳۱ء کو ایک جلسہ موچی دروازے کے بیرون باغ میں زیر صدارت اقبال منعقد ہوا۔ اقبال نے صدارتی خطبہ میں فرمایا: چونکہ مسلمان منتشر ہیں اس لیے یہاں کی ہر قوم مسلمانوں سے عناد رکھتی ہے۔یہ صورت حال قابل افسوس ہے۔ تم آج تک اپنی مصیبت کے علاج کے لیے ہزارو ں تدبیر یں کر چکے ہو اب ایک تدبیر محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی آزماؤ ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : اتحاد امتی حجتہ قاطعۃ۔ ایک دفعہ اتحاد کرکے دیکھو۔اگرچہ اب تک کی تمام تدابیر نا کام ثابت ہوچکی ہیں ،لیکن حضرت محمد مصطفیٰؐ کا بتلایا ہوایہ نسخۂ شفا کبھی ناکام نہیں ہوگا۱۰۔ پنجاب کی انگریز حکومت نے مغلپورہ انجینئرنگ کالج کے معاملے کے بارے میں ایک تحقیقاتی کمیشن مقرر کیا ، لیکن اسے مسلمانانِ لاہور نے قابل اعتماد نہ سمجھا اور متحد ہوکر احتجاج جاری رکھا۔ اس پر حکومت نے ان کے مطالبات مان لیے او رایک نیا تحقیقاتی کمیشن مقرر کیاگیا۔ اس موقع پر ایک او رجلسہ ۳جولائی ۱۹۳۱ء کو زیر صدارت مولانا داؤدغزنوی باغ بیرون موچی دروازے میں منعقد ہوا۔ جلسے میں مولانا داؤد غزنوی نے ایک قراردار پیش کی ۔ اقبال نے قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے کہا: سب سے پہلے جلسے میں تقریر کرتے ہوئے میں نے عرض کیا تھاکہ مسلمانوں کا اتحاد حضورؐ کے مطابق برہا نِ قاطع ہے ۔آپ نے اس امر میں خلوص نیت سے عمل کیااو ر اس کا نتیجہ آپ نے دیکھ لیا۔ مسلمانوں کے سامنے عنقریب بہت بڑے امور پیش ہونے والے ہیں ، جن کا تعلق آپ کی اجتماعی زندگی سے ہے۔ ان کا تقاضا ہے کہ اسی طرح سے ثابت قدم رہیں اور میری دعا ہے کہ خدا تعالیٰ آپ کو اسی طرح اتحاد نصیب کرے جس طرح قرون اولیٰ کے مسلمانوں کو نصیب ہوا تھا۱۱۔ بالآخر اقبال او رمولانا داؤد غزنوی کے مشورے سے احتجاجی جلسوں او ر جلوسوں کاخاتمہ ہوا اور کمیشن کے سامنے پرنسپل کے رویّے کے خلاف شہادتیں قلمبند کرانے پر اصرار کیاگیا، مگر اسی دوران میں پرنسپل نے مسلم طلبہ سے معافی مانگ لی اور معاملہ رفع دفع ہوگیا۔ انہی مہینوں میں ریاست جموں او رکشمیر میں حالات نے سنگین صورت اختیار کرلی او رتحریک کشمیر کی ابتداء ہوئی۔ایک عرصے سے ڈوگرہ شاہی نے مسلمانوں پر عرصہ ٔ حیات تنگ کررکھاتھااو ران کی بد حالی دیکھی نہ جاتی تھی۔ کشمیر ی مسلمانوں میں بے چینی تو پہلے ہی سے موجود تھی مگر ۱۹۳۱ء میں دو واقعات کے سبب وہ غصّے میں آپے سے باہر ہوگئے۔ پہلا واقعہ تو یوں پیش آیاکہ مسلمان کسی جگہ نماز کے لیے اکٹھے ہوئے ۔امام خطبہ پڑھنا چاہتا تھاکہ ایک ہندو پولیس افسر نے اسے خطبہ پڑھنے سے روک دیا۔ کچھ مدت بعد دوسرا واقعہ یہ پیش آیاکہ جموں سنٹرل جیل میں کسی ہندو سپاہی نے قرآن مجید کو زمین پر پٹک دیا۔ اس پر سری نگر کی خانقاہ معلی میںصوبہ سرحد کے عبد القدیر خان نے ایک جوشیلی تقریر میں احتجاج کیا، لیکن اسے پولیس پکڑکر لے گئی۔ ۱۳جولائی ۱۹۳۱ء کو عبدالقدیر خان کا مقدمہ عدالت میں پیش کیاگیا اورباہر ہزاروں کی تعداد میں مسلمان جمع تھے۔ ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے گولی چلادی۔ جس سے اکیس مسلمان شہید ہوگئے ۔ اس کے بعد کشمیر کے مختلف شہروں میں مسلمانوں نے احتجاجی مظاہرے شروع کردیے جنہیں سختی سے دبادیا گیا۔ بالآخر مظاہروں نے ہندومسلم فسادات کی صورت اختیا رکرلی۔ حالات مہاراجہ ہری سنگھ کے قابو سے باہر ہوگئے او راس نے برطانوی فوج کی امداد طلب کرلی۔۱۲ کشمیر ی مسلمانوں کی تعلیمی حالت پہلے ہی سے نہایت پست تھی۔ سرکاری ملازمتوں کے دروازے ان پر بند تھے۔ مذہبی آزادی مفقود تھی۔بیشتر مساجد ریاستی حکومت کی تحویل میں تھیں، اخباروں ،جلسوں او رجلوسوں پر پابندیاں عاید تھیں ۔ او راب انہیں گرفتار کرکے جیلوں میں ٹھونسا جارہا تھا۔ چوہدری غلام عباس اور شیخ محمد عبداللہ جیسے امن پسند کشمیری راہنماؤں او رکئی دیگر کارکنان کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔ ریاست میں مارشل لا نافذ تھا۔ جگہ جگہ ٹکٹکیاں نصب کی گئی تھیں ، جن پر کشمیر ی مسلمانوں کو باند ھ کر کوڑے لگائے جاتے تھے۱۳۔ کشمیریوں کی بے بسی سے بالخصوص پنجاب کے مسلمان متاثر ہو ئے بغیر نہ رہ سکے۔ چنانچہ مجلس احرار نے ہزاروں کی تعداد میں رضا کاروں کے جتھے بنابناکر ریاست میں بھیجنے شروع کردیے اور انہوں نے کشمیر کی تما م جیلیں بھر دیں ۔ مسلماناںِ کشمیر کی حمایت کی خاطر جولائی ۱۹۳۱ء کے آخری ہفتے میں آل انڈیاکشمیر کمیٹی قائم کی گئی۔ مرزا بشیر الدین محمود (امیر جماعت احمدیہ قادیان ) صدر بنے اور اقبال کمیٹی کے ایک سرگرم رکن تھے۔ کشمیر کمیٹی کے مقاصد میں کشمیری مسلمانوں کے حق میں رائے عامہ منظم کرنا ، آئینی ذرایع سے ریاست کے اند راصلاحات نافذ کرانا ، شہیدوں کے ورثا اورزخمیوں کو مالی امداد مہیا کرنا اور گرفتار شدگان کی رہائی کے لیے قانونی امداد بہم پہنچانا شامل تھے۔ مسلمانا ن کشمیر پر مظالم کے خلاف احتجاج کے طور پر ۱۴ اگست ۱۹۳۱ ء کو ہندوستان بھر میں یوم کشمیر منانے کا فیصلہ ہوا۔ اقبال نے چند مسلم قائدین کی معیت میں یوم کشمیر منانے کے لیے لاہور سے یہ اپیل شائع کی: مسلمانو! پے درپے حملے کر کے تمھارے دشمن کو اب یہ گمان ہوگیا ہے کہ مسلما ن ایک مردہ قوم ہے، اس گمان کو غلط ثابت کرنے کے لیے آپ کا یہ فرض ہے کہ یوم کشمیر کو کامیاب بنائیں اور دشمن پر عملًاثابت کر دیں کہ آپ ظلم و تعدی کو برداشت کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہیں۱۴۔ ۱۴اگست ۱۹۳۱ء کو مسلماناں لاہور نے یوم کشمیر منانے کی خاطر ایک عظیم الشان جلوس نکالا۔ جلوس کے اختتام پر اقبال کی زیر صدار ت ایک جلسہ عام منقعد ہوا۔ تلاوت قرآن کریم کے بعد ، انہوں نے اپنی صدارتی تقریر میں فرمایا: پہلے پنجاب اور ہندوستان کے مسلمان کشمیر کے حالات سے بہت کم دلچسپی لیتے تھے، بلکہ وہ لوگ جو کشمیر سے یہا ںآئے وہ بھی اس کی تاریخ سے پوری طرح واقفیت نہیں رکھتے تھے۔ اب جو مظالم کشمیرمیں برپا کیے گئے،انہوں نے اہل پنجاب کو بھی بیدار کردیا ہے …مسلمانوں نے جو عرصے سے اپنے جائز حقوق کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے تھے۔ اب منظم طریق پر مطالبات پیش کرنے کی کوشش کی تو حکومت کشمیر اور ہندو اخبارات نے بے بنیاد خبریں اڑا کر اسے فرقہ وارانہ فساد قراردے دیا…حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کی تحریک کا اثر اہل کشمیر پر بھی ہونا لازمی تھا۔ چنانچہ وہ بھی اپنے پڑوسیوں کی حالت سے متاثر ہوکربیدار ہوگئے۔ زمانہ خود لوگوں کو بیدار کررہاہے۔ اور کشمیرمیں عرصے سے جو مظالم برپا ہیں ، ان کی موجودگی میں ضروری تھا کہ وہاں کی رعایا بھی اپنے جائز حقوق کا مطالبہ کرتی …تاریخ گواہ ہے کہ جو لوگ تلوار سے کسی ملک کو فتح کرتے ہیں ، ان کی حکومت بھی رعایا کی خوشنودی کے بغیر نہیں چل سکتی ۔ بادشاہی خریدنے سے نہیں چل سکتی۔ اس لیے ہر ملک کے حکا م کے لیے ضروری ہے کہ رعایا کی رضا جوئی حاصل کریں ۱۵۔ اسی جلسے میں سید محسن شاہ نے اپنی تقریر میں بتایاکہ ہندو اخبار ان مسلم قائدین کے متعلق جومسلمانان کشمیر کی حمایت کرتے ہیں ، مختلف قسم کی جھوٹی افواہیں پھیلا رہے ہیں ۔انہوں نے ایک اخبار ’’کیسری‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا : یہ اخبار لکھتا ہے کہ اقبال کشمیر کے وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں ۔ اور سید محسن شاہ جج بننے کے آرزو مند ہیں ۔ اس پر اقبال نے مداخلت کرتے ہوئے جلسہ عام پر واضح کیا کہ وہ ایسے حاکم کی وزارت پر لعنت بھیجتے ہیں ۱۶ ۔ہندووں کے انگریزی اخبار ’’ٹریبیون ‘‘ میں بھی اسی قسم کی غلط بیانی سے کا م لیا گیا۔ اس کے ۲۶ اگست ۱۹۳۱ ء کے پرچے میں مسٹر راگھون کا ایک مضمون شائع ہوا جس میں اس نے اقبال کا نا م لیے بغیر شرارتاً تحریر کیا کہ بعض شخصیتوں کی نیتوں کا حال اس سے واضح ہے کہ شورشِ کشمیر کے دوران برطانوی ہند کے ایک ممتاز لیڈر نے کشمیر کی وزارت میں کوئی عہدہ حاصل کرنے کے لیے درخواست دی ہے۔ اس پر مدیر ’’انقلاب‘‘ نے اقبا ل سے استفسار کیا کہ یہ ممتاز لیڈر کون ہوسکتا ہے۔ انہوں نے فرمایا: میں نہیں کہہ سکتا کہ کس سے مراد ہے، لیکن چونکہ پہلے بھی ایک ہندو اخبار میرا نام لے چکا ہے او رممکن ہے کہ مسٹر راگھون کے اس فقرے سے بھی کسی کو غلط فہمی ہو۔ اس لیے میں اپنے متعلق نہایت زور سے اس افواہ کی تردید کرتاہوں ۔ میں نے یوم کشمیر کے جلسے میں صاف صاف کہہ دیا تھاکہ میں ایسی وزارت پر لعنت بھیجتا ہوں ۔ میں نے تو اس وزارت سے بڑی بڑی چیزوں کے لیے کبھی کسی سے درخواست نہیں کی۔ علاوہ بریں میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کاممبر ہوں ، جو کشمیر کے نظام حکومت میں اصلاحات چاہتی ہے۔ میرے نزدیک اس کمیٹی کا ممبر ہونے کی حالت میں کوئی ایسی حرکت کرنا دیانت و امانت کے خلاف ہے۱۷ ۔ اقبال نے مظلومین کشمیر کی امداد کے لیے چندہ کی رقوم جمع کر کے ریاست میں بھجوائیںاور اپنے جاننے والے بعض نامور وکلا کو قانونی امداد کے سلسلے میں کشمیر بھیجا، لیکن ریاستی حکا م نے یاتو انہیں حدود ریاست سے خارج کردیا یاداخلے پر پابندی عائدکردی ۔ اقبال کے لیے بھی کشمیر میں داخلہ ممنوع تھا اور یہ پابندی اخیر عمر تک عائد رہی۔ لہٰذا وہ اپنی خواہش کے مطابق مرنے سے پہلے وادی کشمیر نہ دیکھ سکے ۔ اقبال ہی کی کوششوں سے گلانسی کمیشن کاتقر ر ہوا،جس نے تحقیقات کے بعد اپنی رپورٹ میںکئی قسم کی اصلاحات کی سفارش کی۱۸۔ ۱۹۳۱ء میں دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے وائسراے نے اقبال کو بقول عظیم حسین ، سر فضل حسین کے ایماء پر نامزد کیاتھا۔۱۹؎ انگریزی حکومت نے مختلف مندوبین کو دعوت نامے ۴ اگست ۱۹۳۱ء کو جاری کردیے تھے۔ ۲۶؍ستمبر ۱۹۳۱ء کو لندن پہنچنا لازمی تھاتاکہ اکتوبر ۱۹۳۱ء میں دوسری گول میز کانفرنس کا آغاز ہو سکے۔ انگلستان روانہ ہونے سے پیشتر اقبال نے ۲۶؍اگست ۱۹۳۱ء کو ایک خط سردار بیگم کے نام تحریر کرکے میاں امیرالدین کے حوالے کیا۔ یہ خط حال ہی میں میاں امیر الدین کے ریکارڈ سے ان کے پوتے اور منیرہ بیگم کے فرزند یوسف صلاح الدین نے دریافت کیا اور ان ہی کی تحویل میں ہے ۔ اقبال اس خط میں لکھتے ہیں: والدۂ جاوید کو بعد سلام علیک کے واضح ہوکہ چونکہ میں گول میز کانفرنس کے سلسلے میں ولایت جانے والا ہوں اور زندگی کا کوئی اعتبار نہیں اس واسطے یہ تحریر لکھتاہوں کہ صورت حال سے تم کو آگاہی رہے، اگرچہ پہلے بھی تم کو کل حالات معلوم ہیں۔ (۱) عرصہ دو تین سا ل کا ہوا جب میں درد گردہ کی وجہ سے بیمار ہوگیاتھا اور زندگی کی امید منقطع ہوگئی تھی ، لیکن خدا تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے مجھے صحت عطا کی۔ اس بیماری کے بعد میرے خیالات میں بڑا تغیر ہوااور چند روزہ زندگی کی حقیقت مجھ پر واضح ہوگئی۔ صحت یابی کے بعد میں نے مبلغ دس ہزارروپیہ جاوید کے نام ہبہ کرکے پنجاب نیشنل بنک لاہورمیں اس کے نام جمع کرادیا او رچندماہ ہوئے اس ہبہ میں پانچ ہزار کااور اضافہ کردیا۔ یعنی پانچ ہزارروپیہ مزید ہبہ کرکے اس کے نام اسی بنک میں جمع کرا دیا۔ اس رقم کے علاوہ پانچ ہزار روپیہ میں نے منیرہ بیگم کے نام ہبہ کرکے پنجاب نیشنل بنک لاہور میں جمع کرا دیا۔ کل پندرہ ہزار روپیہ جاوید کے نام اور پانچ ہزار منیرہ بیگم کے نام بنک مذکورہ میں جمع ہے۔ جب تک میں زندہ ہوں میں ان کا گارڈین ہوں۔ میر ی زندگی کے بعد تم ا ن دونوں کی گاڑدین ہوگی۔ بنک کی رسیدات تمہارے پا س ہیں۔ (۲) مندرجہ بالا رقوم کے علاوہ میں نے دس ہزار روپیہ تمہارے نا م ہبہ کردیا تھا۔ یہ روپیہ سنٹرل کواپرٹیو بنک لاہور میں میرے اور تمہارے نام سے جمع ہے۔ لیکن میرانام محض اس لیے درج کیاگیاتھاکہ اگر تمہارے لیے کوئی جائداد خرید کرنے کی ضرورت پڑے تو بنک سے اس کے نکالنے میں آسانی ہو ۔ حقیقت میں یہ روپیہ تمہارا ہے اور مجھے اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اس دس ہزار کی رقم کے علاوہ مبلغ پندرہ سو روپیہ بھی اسی بنک میں میرے اورتمہارے نام سے جمع ہے ۔ یہ روپیہ تمہارے بعض زیورات کی فروخت سے حاصل ہوا تھا۔ یہ بھی تمہاری ملکیت ہے اور مجھے اس سے کوئی تعلق نہیںہے۔ میرا نام اس رقم کے سلسلے میں محض مذکورہ بالاسہولت کی غرض سے درج کیا گیاتھا۔ (۳) مبلغ آٹھ ہزارروپیہ خالصتاً میرے نام سنٹرل کو آپرٹیو بنک لاہور میں جمع ہے اس روپیہ میں کچھ روپیہ میں اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔ (۴) مبلغ دو ہزارروپیہ کے قریب منشی طاہر الدین کے پا س ہے کچھ اور روپیہ آنے والاہے۔ جس کو وہی وصول کریں گے۔اس روپے میں سے انکم ٹیکس اداکرناہے اوربعض اور اخراجات جو میری عدم موجودگی میں لاحق ہوں ۔ مثلاً کرایہ کوٹھی اور ملازمین کی تنخواہیں وغیرہ ، اس کے علاوہ گھر کے اخراجات ، گھر کے اخراجات کے لیے کچھ روپیہ تمہارے پا س بھی موجودہے۔ (۵) ’’جاوید نامہ ‘‘ میں نے چھپنے کے لیے دے دیا ہے۔ اور اس کے متعلق ضروری ہدایات منشی طاہر الدین اور چوہدری محمد حسین صاحب کو دے دی ہیں۔ چونکہ یہ کتاب جاوید کے نام پر لکھی گئی ہے اس واسطے وہی اس کا مالک ہے ۔ اس کی تمام آمدنی ، اخراجات اشاعت و طباعت نکال کر اسی کی ملکیت ہے۔ (۶) میں نے زبانی کہا تھا کہ تمہارا حق مہر میں نے پندرہ ہزار روپیہ باندھ دیا ہے۔ وقت نکا ح کوئی رقم مقررنہ کی گئی تھی ، لیکن اب میں اپنی مرضی سے تمہاراحق مہر مبلغ پندرہ ہزارمقرر کرتاہوں ۔ اوراس تحریر میں یہ بھی لکھ دیتاہوںکہ تمہارا اطمینان ہوجائے۔ شرعاً یہ روپیہ مجھ پر قرض ہے او رتم اس رقم کو میری ہر قسم کی جائداد منقولہ یا غیر منقولہ سے وصول کرسکتی ہو۔ شرع شریف کی روسے تم کو میری ہر قسم کی جائداد پر قابض و متصرف رہنے کا حق ہے جب تک مذکورہ بالا رقم تم کو وصول نہ ہوجائے۔ (۷) باقی خدا کے فضل و کرم سے خیریت ہے ۔ میں تم سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ میر ی عدم موجودگی میں تم بچوں کی تربیت سے غافل نہ رہوگی۔ اور بحیثیت ان کی ماں ہونے کے جو فرائض تم پرعائد ہوتے ہیں، ان کو ادا کروگی۔ محمد اقبال بیر سٹر لاہور ۲۶اگست ۱۹۳۱ئ۔ یہ خط سردار بیگم کو اقبال کی ناگہانی موت کے موقع پر دیا جانا تھا، لیکن چونکہ ایس صورت پیدا نہ ہوئی، یہ خط میاں امیر الدین کے پرانے ریکارڈ میں پڑا رہا اور کسی کا خیال اس کی طرف نہ گیا۔ اقبا ل کا ارادہ تھا کہ سفر یورپ کے لیے یکم ستمبر ۱۹۳۱ء کو لاہور سے روانہ ہوکر ۵ستمبر ۱۹۳۱ء کو بمبئی پہنچیں گے۔ اسی سفر کے دوران میں وہ ممالک اسلامیہ کی سیاحت کرنے کے بھی آرزومند تھے۔۲۰ مفتی اعظم فلسطین سید امین الحسینی نے انہیں دسمبر ۱۹۳۱ء میں بیت المقدس (یروشلم) میں منعقد ہونے والے مؤتمر اسلامی میں شرکت کے لیے دعوت نامہ بھیج رکھا تھا۔ اسی طرح مارکونی ، صدر اکادمی دانشوران روم کی طرف سے دعوت نامہ موصول ہواکہ روم آکر تقریر کریں ۔ چند روز بعد انگلستان سے سرفرانسس ینگ ہسبنڈ ، صدر ادبی انجمن انڈیا سوسائٹی نے اس خواہش کا اظہار کیاکہ اقبال انڈیا سوسائٹی کی نائب صدارت قبول کرلیں۔۲۱ لیکن لاہور سے چلنے سے چند گھنٹے قبل اقبال کو بخار ہوگیا اس لیے ۵ ستمبر ۱۹۳۱ء کو رورانگی ملتوی کرنا پڑی ۔ آخرکار وہ ۸؍ ستمبر ۱۹۳۱ ء کو لاہور سے روانہ ہوئے ۔ علی بخش بمبئی تک ان کے ساتھ رہا۲۲۔ لاہورریلوے اسٹیشن پر انہیں رخصت کرنے کے لیے احباب جمع تھے۔ اقبال نے کچھ دیر سر عبداللہ ہارون سے جو انہیں اتفاقاً مل گئے، سیاسی مسائل پر بات چیت کی۔پھر عبدالمجید سالک کی فرمایش پر ’’انقلاب ‘‘ کے لیے یہ پیغا م دیا: کوئی ایسا دستور اساسی جو مسلمانو ںکے لیے اجتماعی حیثیت سے موت کا پیغام ہو ، ہرگزہرگز قبول نہیں کیا جاسکتا۔ ہندوستان کی آزادی ہندوستان کی قوموں کے ہاتھ میںہے۔ اگرچہ ہندوستان کی آب و ہوا میں کوئی سمجھوتا ہندی اقوا م کے درمیا ن نہیں ہوسکا حالانکہ کم ازکم مسلمانوں نے اپنے بعض ضروری اقتصادی اور اجتماعی مقاصد کو نظر انداز کرکے گذشتہ دس سال میں اس کے لیے کوشش بھی کی ہے۔ تاہم میرا خیال ہے کہ انگلستان کی فضا اور برطانوی مدّبرین کا ’’جینیسں ‘‘ شاید اس گتھی کو سلجھاسکے جس کو ہندوستانی مدّبرین نہیں سلجھا سکے ۔ آخر میں مَیں اپنے ہندو بھائیو ںاور خصوصًا ہندو اخبارنویسو ں سے صرف یہ کہنا چاہتاہوں کہ ؎ سخن درشت مگو در طریق یاری کوش کہ صحبت من و تو درجہا ں خدا ساز است۲۳ ۹ستمبر ۱۹۳۱ء کو صبح ساڑھے سات بجے وہ دہلی پہنچے ۔ اسٹیشن پر تقریبًا تین ہزار افراد جمع تھے۔ بعض تو صبح چھ بجے سے منتظر کھڑے تھے۔ مولانا سید احمد ، امام جامع مسجد دہلی ، مولانا مظہر الدین مدیر سہ روز ہ ’’الامان‘‘ ، حاجی محمد یوسف ، سیکرٹری خلافت کمیٹی ،نواب ابو الحسن خان اور سیّد نذیر نیازی کے علاوہ صوبہ مسلم کانفرنس دہلی ، سنٹرل مسلم یوتھ لیگ ،انجمن رفیق المسلمین ، انجمن اتحاد و ترقی و انجمن تیموریہ کے ارکان اور محمد علی اسکو ل کے طلبہ و اساتذہ موجو دتھے ۔ اقبال کو متعدد سپاس نامے پیش کیے گئے، لیکن وقت کی قلت کے سبب انہوں نے تمام سپاسناموں کو سننے سے معذوری کا اظہار کیا۔فرمایاکہ دوران سفر خودپڑھ لیں گے۔ صرف مولانا سید احمد امام جامع مسجد دہلی نے صوبہ مسلم کانفرنس کی طرف سے سپاسنامہ پڑ ھ کر سنایا جس پر اراکین کانفرنس کے دستخط تھے۔ سپاسنامے کے جواب میں اقبال نے تقریر کرتے ہوئے کہا: جہاں تک سیاسی مسائل کا تعلق ہے میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ نہ میرے ساتھ کوئی پرائیویٹ سیکرٹری ہے ، جو میر ے لیے ضروری مواد فراہم کرے ۔ نہ میرے پا س سیاسی لٹریچر کا کوئی پلندہ ہے جس پر میں اپنی بحثوں کی اساس قائم کروں ، بلکہ میرے پا س حق وصداقت کی ایک جامع کتاب (قرآن مجید ) ہے جس کی روشنی میں مَیں مسلمانا ں ہند کے حقوق کی ترجمانی کرنے کی کوشش کروں گا۔ گذشتہ دس سال سے ہم اپنے اقتصادی و سیاسی فوائد کو پس پشت ڈا ل کر کانگرس اور ہندوؤں کے ساتھ اتحاد کی کوشش کرتے رہے ، لیکن اس میں ہم کو برابر نا کامی کا مُنہ دیکھنا پڑا۔ لہٰذا اب اگر لندن میں بھی فرقہ وار اتحاد کی کوئی قابل اطمینان صورت نہ نکلی اور مکمل پراونشنل اٹانومی نہ دی گئی اور مرکزی حکومت میں ان کا کافی خیال نہ کیا گیا تو مسلمانانِ ہند کو اجتماعی زندگی پر انفرادی زندگی قربان کر نا پڑے گی۔ (نعرہ اللہ اکبر ) اور مجھے یقین ہے کہ اگر بنگال او رپنجاب کی اکثر یت اور مسلمانو ںکے دیگر مطالبات کو تسلیم نہ کیاگیا تو جو دستوراساسی بھی ہندوستان کو دیا جائے گا، مسلمانان ہند ا سکے پرخچے اڑ ا دیں گے۔ (نعرہ اللہ اکبر ) سن رسیدہ نسل نے نوجوانوں کو اپنی جانشینی کے لیے تیار کر نے کا کا م جیسا چاہیے تھا ہرگز نہیں کیا، لہذا میں نوجوانوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ قرآن پاک کی تعلیمات اور اسوۂ حسنہ کو پیش نظر رکھیں او راگر ان کو زندہ رہناہے تو وہ ان قربانیوں کے لیے تیار رہیںجو ہمیشہ سے زیادہ ا ن کو آئندہ دینی ہوں گی(نعرہ اللہ اکبر)۲۴۔ اقبال ۱۰ ستمبر ۱۹۳۱ ء کو بمبئی پہنچے او رخلافت ہاؤس میں قیام کیا ۔ اسی روز سہ پہر کے وقت عطیّہ فیضی نے ان کے اعزاز میں ایوان رفعت کے وسیع لان میں چائے پارٹی کا اہتمام کیا ، جس میں بمبئی کے اہل علم و فن بھی مدعو تھے۔ اقبال دیر سے آئے اور عطیّہ فیضی سے ہنسی مذاق کی باتیں کرتے رہے ۔ چائے سے فراغت کے بعد انہیں مہمانوں کے لیے کوئی پیغام دینے کی فرمائش کی گئی ۔ اقبال نے کھڑے ہوکر چھوٹی سی تقریر کی اور پھر اپنا یہ شعر پڑھ کر بیٹھ گئے: چناں بزی کہ اگر مرِگ ماست مرِگ دوام خدا زکردۂ خود شرمسار تر گر دو! لوگوں نے اصرار کیا کہ ترجمہ کیا جائے ۔ اس پر انہوں نے وہیں شعر کا انگریزی ترجمہ تحریر کروا دیا کہ زندگی ایسی خوبصورتی سے گزاروکہ اگر موت ہی سب کا انجام ہے تو خدا کو تمہاری زندگی ختم کرنے پر بجائے خودشرمندگی اٹھانی پڑے ۔ اس کے بعد مہانوں کو کوٹھی کے ایوان میں لے جایاگیا،جہاں رقص وسرود کی محفل آراستہ کی گئی تھی۔ کچھ دیر سازوں پر موسیقی کی دھنیں بجتی رہیں۔ اقبال بڑے عرصے کے بعد عطیّہ فیضی کی معیت میں ان کی حاضرجوابی سے مخطوظ ہورہے تھے۔ اتنے میں کسی رقاصہ نے رقص کرنا شروع کیا اور ہر کوئی اس کے کمالات دیکھنے میں محو ہوگیا۔ اقبال نے کاغذ کا کی پرزہ منگوایا او راس پر یہ اشعار لکھ کر عطیہ فیضی کے ہاتھ میں تھما دیے: ترسم کہ تومی رانی زورق بسر آب اندر زادی بہ حجاب اندر میری بہ حجاب اندر برکِشت و خیاباں پیچ بر کوہ و بیاباں پیچ برقے کہ بخود پیچد میرد بہ سحاب اندر ایں صورت دلآ دیزے از زخمۂ مطرب نیست مہجور جناں حورے نالد بہ رباب اندر چند لمحوں بعد ایک اور کاغذ کے پرزے پر یہ مزاحیہ مصرع اور عبارت تحریر کرکے عطیہ فیضی کو پیش کی: عالم جوش جنوں میں ہے روا کیا کیا کچھ کہیے کیا حکم ہے ؟ دیوانہ بنوں یا نہ بنوں محمد اقبال بمبئی ۱۰ستمبر ۱۹۳۱ء ۲۵ ایوان رفعت پہنچنے سے بیشتر وہ سردار صلاح الدین سلجوقی قونصل افغانستان مقیم بمبئی کے ہاں کھانے پر گئے تھے اور ان کے اور مرزا طلعت یزدی کے ساتھ شعر و شاعری کی پر لطف محفل میں شریک ہوئے تھے ۔ ۱۲ستمبر ۱۹۳۱ ء کو وہ ملوجا نامی جہاز کے ذریعے انگستان رونہ ہوگئے ۔ روانگی سے چند گھنٹے قبل ’’بمبئی کرانکل‘‘ کے نمائندہ خصوصی نے ان کا انٹرویولیا۔ یہ انٹرویوخاصا دلچسپ ہے ۔ اقبا ل نے گفتگو کی ابتداء میں واضح کیا کہ وہ کسی فرقے یا قوم کے متعلق تعصب نہیں رکھتے بلکہ صرف یہی چاہتے ہیں کہ ہندوستانی پر امن رہیں اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہر فرقے کو اپنی تہذیب او رانفرادیت بر قرار رکھنے کا موقع دیا جائے۔ انہیں سوال کیاگیاکہ پا ن اسلامزم کے متعلق ان کا تصو ّر کیاہے ، جواب دیا کہ یہ اصطلاح ایک فرانسیسی صحافی کی اختراع ہے اور اس نے جن معانی میںاسے استعمال کیا ہے، ایسا پا ن اسلامزم سوائے اس کے تخیل کے اور کہیں بھی موجود نہیں۔فرانسیسی صحافی اس اصطلاح کے ذریعے ایک ایسا ہوّاکھڑا کرنا چاہتاتھا جو اس کے خیال کے مطابق دنیائے اسلام میں موجود تھا۔ یہ اصطلاح اسی طرح وضع کی گئی جیسے چینیوں یا جاپانیوں کے لیے خوف یا نفرت پیدا کرنے کی خاطر اصطلاح ’’زرد خطرہ ‘‘بنائی گئی تھی۔ مقصد یہ تھا کہ اسلامی ممالک میں یورپی جارجیت کو جائز قرار دیا جاسکے۔بعد میں اس اصطلاح کو ایک قسم کی سازش کے طور پر ظاہر کیاگیا جو قسطنطنیہ میں تیار کی جارہی تھی یعنی یہ کہ مسلمانان عالم تمام مسلم ریاستوں کے اتحاد کا ایک ایسا منصوبہ بنارہے ہیں جو یورپ کے خلاف ہوگا۔ بہرحال اس اصطلاح کے استعمال کا ایک او رطریقہ بھی ہے ۔جو قرآنی تعلیمات سے مطابقت رکھتاہے ۔ اس اعتبار سے پا ن اسلامزم کا کوئی سیاسی مقصد نہیں ،بلکہ اتحاد انسانی کے لیے ایک معاشرتی تجربہ ہے ۔ ان معانی میں پا ن اسلامزم سے مراد دراصل اتحاد انسانی ہے اور اس کے لیے لفظ ’’پان‘‘ استعمال کرنے کی بھی ضرورت نہیں ، کیونکہ اصطلاح اسلام بجائے خودکا فی ہے سوال کیاگیا کہ وہ برطانوی استعمارکو مذہبی سمجھتے ہیں ۔ جواب دیا کہ تمام ریاستیں جو استحصال کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، غیر مذہبی ہیں ۔ سوال کیاگیاسر فرانسس ینگ ہسبنڈ کے نا م ایک خط میں انہوں نے ا س خیال کا اظہار کیا تھا کہ بالشوزم میں اگر خدا کے تصور کا اضافہ کردیا جائے تو وہ اسلام ہوگا، کیا وہ اب بھی اس نظریے کے حامی ہیں ۔ جواب دیاکہ اسلام ایک سوشلسٹ مذہب ہے۔ قرآن مجید انفرادی ملکیت اور مکمل اشتراکیت کے بین بین نظام قائم کرنے کی تعلیم دیتاہے۔ ان کی ذاتی رائے میں جدید انسان کا ضمیر ایسے نظاموں میں جنہیں امپر یلزم اور بالشوزم کہاجاتاہے،بنیادی تبدیلیاں لائے گا۔ علاقائی سلطنتوں کے دن اب گزر چکے ہیں ۔ اسی طرح بالشوزم بھی مکمل اشتراکیت کی ہیئت میں زیرّ ترمیم ہے۔ سوال کیاگیا کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاعر اقبال پرسیاستدان اقبال سبقت لے گیاہے، اس لیے اس کا رویہّ اس کی شاعری کی تعلیمات سے ہم آہنگ نہیں رہا۔ جواب دیا گیاکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے تصور قومیت میں تبدیلی رونما ہوئی ہے۔طالب علمی کے زمانے میں وہ کٹرنیشنلسٹ تھے، لیکن اب نہیں رہے ۔ یہ تبدیلی پختگی فکر کے سبب آئی۔ سوال کیا گیاکہ کیا وہ شاہی نظام کے حق میں ہیں۔ جواب دیاکہ وہ شاہی نظام قائم رکھنے کے حق میں نہیں ہیں ، مگر جمہوریت کے بھی دل سے قائل نہیں۔ وہ جمہوریت کو محض اس لیے برداشت کرتے ہیں کہ اس کا کوئی نعم البدل نہیںہے۔ سوال کیاگیاکہ ان کے خیال میں سیاست دا ن بننے کی بجائے اگر وہ شاعرہی رہتے تو ملک کے لیے زیادہ فائد ہ مند نہ ہوتے ۔ جواب دیا کہ وہ اب بھی ادبیات میں خاصی دلچسپی لیتے ہیں اور ان کا بیشتر وقت اسی میں صرف ہوتا ہے۔ سوال کیاگیا کہ وہ ہر کسی سے کہیں زیادہ ایسی کانفرنسوں اور جمعیت اقوام جیسے اداروں کا پول کھولنے میں اپنی آواز بلند کرتے رہے ہیں ، لیکن اس کے باوجود گول میز ؛کانفرنس کے نتائج سے اپنی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ اس تضاد کی کیاوضاحت کی جاسکتی ہے۔ اقبال نے جواب دینے کی بجائے اپنی آنکھیں جھپکیں اور اپنے مستقل ساتھی حُقّے کی طرف رجوع کیا۔ سوال کیا گیا کہ وہ نیشنلزم کے مخالف کیوں ہیں ۔جواب دیا گیا کہ وہ اسے اسلام کے ارفع اصولوں کے خلاف سمجھتے ہیں،کیونکہ اسلام نے دنیا میں پہلی بار نسل انسانی کو اتحاد او رروحانی ہم آہنگی کا سبق دیا تھا۔ سوال کیا گیا کہ عرب ممالک کے وفاق کے وجود میں آنے کے کیا امکانات ہیں ۔ جواب دیاکہ وہ عرب ریاستوں کے وفاق پر یقین رکھتے ہیں۔ اگرچہ اس کی راہ میں بعض بہت بڑی مشکلات حائل ہیں، لہٰذا وہ مستقبل میں ایسے وفاق کے وجود میں آنے کے متعلق کوئی پیش گوئی نہیں کرسکتے ۔فرمایاکہ ان کی نظر میں موجودہ زمانے میں اسلام ہی ایک مثبت نظام حیات ہے، جسے مسلمان غوروفکر کے بعد عہد حاضر کے جدید تقاضوں کے مطابق نافذ کر سکتے ہیں۔ ان کے خیال میں ہندی مسلمان نے مستقبل میں اسلام کی سربلندی کے لیے ایک نہایت اہم کردار اداکرنا ہے۔ پس اسلام کے احیاء کا انحصار زیادہ تر نئی نسل پر ہے، جس نے اسلام کے بنیادی اصولوں پر قائم رہ کرزیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کی ہے۔ علما ء کو چاہیے کہ ان سیاسی اور معاشی مسائل کو پوری طرح سمجھنے کی کوشش کریں جو اسلام کو درپیش ہیں۔کیونکہ ماضی کے متعلق ان کا علم مسلمانوں کی تعمیر نو کے لیے نہایت مفید او رکارآمد ثابت ہوسکتاہے۔سوال کیاگیاکہ کیاوہ اسلامی ممالک کی سیاحت کریں گے۔ جواب دیا کہ انگلستان سے واپسی پر مصر جائیں گے اور جتنے مسلم ممالک کی سیاحت ممکن ہوسکی کریں گے تاکہ ان کے حالات کا مطالعہ کرکے ایک کتاب بعنوان ’’جدید دنیائے اسلام‘‘ تحریر کی جاسکے۔۲۶ ۲۱ستمبر ۱۹۳۱ء کو اقبال نے حکیم طاہر الدین موجد دلروز کے نام ’’ملوجا ‘‘ جہاز سے ایک خط تحریرکیا جس میں سفر کے تمام حالات بڑی وضاحت سے بیان کیے ۔فرمایا: بمبئی پہنچتے ہی سردار صلاح الدین سلجوتی قونصل افغانستان مقیم بمبئی نے دعوت دی۔ اِن کے ہاں پُر لطف محفل رہی۔ سردار موصوف فارسی اور عربی ادبیات پر پورا عبور رکھتے ہیں ۔ عربی کی جدید شاعری سے بھی باخبر۔فارسی میں خاقانی کے بڑے معترف ہیں۔علوم دینی میںبھی کافی دسترس رکھتے ہیں۔ ہرات کے قاضی رہ چکے ہیں۔ ان کے دولت کدہ پر مرزا طلعت یزدی نے ، جو بمبئی میں دس سال سے مقیم ہیں ،ایرانی لہجے میں اپنے اشعار سنائے جو آپ کی نظر سے گزرچکے ہوں گے۔ اسی شام عطیہ بیگم صاحبہ کے ہاں سماع کی صحبت رہی، جہاں اہل ہوس بارنہیں پاسکتے : بر سماع راست ہرتن چیر نیست طعمۂ ہر مرغکی انجیر نیست! ۱۲ ستمبر کو ایک بجے کے قریب بمبئی سے روانہ ہوئے ،’’ملوجا‘‘ جہاز کی وسعت کا حال علی بخش سے سنیے ۱۶ ۔کی شام کو عد ن پہنچے ۔ عدن یہ اسی سرزمین کا ٹکڑا ہے جس کی نسبت حالی مرحوم فر ما گئے ہیں۔ عرب کچھ نہ تھا اک جزیرہ نما تھا میرا مقصد ساحل پر جانے کا نہ تھا، مگر ہمارے شہر کے ایک نوجوان شیخ عبد اللہ نامی یہاں وکالت کرتے ہیں۔وہ جہاز پر آئے او ر باصرار اپنے ساتھ لے گئے ۔ کشتی پر سوار ہوکر ساحل پر اترے او روہاںسے موٹر پر سوار ہو کر شیخ صاحب موصوف کے مکان پر پہنچے ۔ وہاں مرغ پلاؤ ، کباب ،قورمہ سب کچھ حاضر تھا۔ کھانے کے بعد یمن کی سیاہ و تلخ و خوشگوار کافی کا دور چلا، آغا فکری ایرانی اور ایک اور ایرانی سوداگر سے ملاقات ہوئی ۔ آغافکری نہایت ہوشیار اور مستعد نوجوان ہیں۔ یمنی کافی کی تجارت کرتے ہیں۔ بے انتہا لسان ہیں۔ رخصت کے وقت انہوں نے مجھے ایک دانہ عقیق یمنی کا بطور یادگارکے عنایت فرمایا۔ ۲۲سال ہوئے، جب میںنے عد ن دیکھا تھا،اس وقت کچھ نہ تھا۔ اب ایک باررونق شہر ہے اور ترقی کررہاہے۔ حضرموت کے عرب یہاں ساہوکار ہیں۔پنجابی بھی بہت سے ہیں۔ خاص کر سندھ کے دکاندار ۔ مسلمانوں میں سومالی قوم نہایت ہوشیار او رمحنتی ہے ۔شیخ عبداللہ سے معلوم ہوا کہ ان میں سے بعض آٹھ آٹھ دس دس زبانیں بلاتکلف بولتے ہیں۔ عدن میں عرب نوجوانوں کا ایک لٹریری کلب بھی ہے ، مگرچونکہ رات کا وقت تھا کلب مذکور کے ممبروں سے ملاقات نہ ہوسکی۔ غرضیکہ رات کے ساڑھے دس بجے شیخ عبداللہ کے مکان سے رخصت ہوکرتقریبًا گیارہ بجے اپنے جہا زپر پہنچے۔ جہاز ساڑھے گیارہ بجے رات روانہ ہوا۔ ۲۰ستمبر کو تقر بیًا ۳بجے شب پورٹ سعید مقام ہوا۔ یہ جگہ بھی بے انتہا ترقی کر گئی ہے ۔ میں تو سو چکا تھا، مگر ایک مصری ڈاکٹر سلیمان نے آجگایا۔ میں اُٹھا اور ا ن سے ملاقات کی ۔ اتنے میں اور مصری نوجوا ن جو وہاں کے شبان المسلمین کے ممبر تھے۔ ملاقات کو آئے ان نوجوانوں سے مل کر طبیعت بہت خوش ہوئی۔ ایک مصری کرنل کی لڑکی بھی ملنے کے لیے آئی۔ یہ ہمارے جہاز میں انگلستان جارہی ہے تاکہ علم نباتات کے مطالعے کی تکمیل کرے۔ پہلے چاربرس وہاں رہ آئی ہے۔ انگریزی خوب بولتی ہے۔عام طور پر اہل مصر فرانسیسی لہجے میں انگریزی بولتے ہیں ۔ اس لڑکی کا لہجہ بالکل انگریزی تھا۔ لطفی بے نے، جو قاہرہ کے ایک مشہور بیرسٹر ہیں، ڈاکٹر سلیمان کی زبانی سلام بھیجا اور واپسی پر قاہرہ آنے کی دعوت دی۔’’رنپورہ ‘‘ جہاز پر، جس میں میرا سفر پہلے قرارپایاتھا، لطفی بے تشریف لائے تھے، مگر افسوس کہ میں حالات کی وجہ سے سفر نہ کرسکا۔ آپ یہ سن کر تعجب کریں گے کہ مصر کے مسلمان عام طور پر یہ سمجھتے ہیںکہ مسلمانان ہند ہندوستان کی آزادی کی راہ میں روڑا اٹکارہے ہیں ۔ یہ پراپیگنڈا دیگر ممالک میں بھی کیا گیا ہے۔ پورٹ سعید پر تقریبًا ہرمسلما ن نوجوان نے مجھ سے سوال کیا لیکن یہ معلوم ہوتا ہے کہ اب ا ن کی آنکھوں سے رفتہ رفتہ حجاب اٹھ رہاہے میں نے ان کو ایک طویل لکچر دیا اور بتایاکہ ہندوستان کا پولٹیکل پرابلم کس طرح مسلمانان ہند پر موثر ہوتاہے۔ میری گفتگو سننے کے بعدایسا معلو م ہوتاتھا کہ ا نکی طبیعت سے ایک بہت بڑا بوجھ اتر گیا ہے۔ تقریر کے بعض حصّے انہوں نے نوٹ بھی کرلیے تھے…جہا زتقریبًا ساڑھے چھ بجے صبح روانہ ہوااور مصری جوان صبح تک میرے کیبن میں بیٹھے رہے ۔ واپسی پر انہوں نے ساحل سے مصری سگرٹوں کے دوڈبے ہدیۃً ارسال کیے۔ بمبئی سے لے کر اس وقت تک جہاز ’’ملوجا‘‘ بحر روم کی موجوں کو چیرتا ہوا چل رہا ہے۔ سمندر بالکل خاموش ہے۔ طوفان کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ موسم بھی نہایت خوشگوار رہا۔ البتہ بحر احمر میں گرمی تھی ۔ یہ سمند ر عصائے کلیم کا ضرب خوردہ ہے۔ گرم مزاج کیوں نہ ہو۔ چاروں طرف جہاں تک نگاہ کام کرتی ہے، سمندر ہے، گویا قدرت الہٰی نے آسمان کے نیلگوں خیمے کو الٹ کر زمین پر بچھا دیا ہے۔ سفر کی مختصر روئیداد تو میں نے لکھ دی ہے۔ سویز کنال کے متعلق لکھنا بھول گیا۔ شاید ۱۹ ستمبر کو ہم سویز کنال میں داخل ہوئے۔ فراعنۂ مصر، قدیم ایرانیوں ، مسلمانوں اور اہل فرنگ نے اپنے اپنے عروج وقوت کے زمانے میں اس نہر کے مٹے ہوئے نقوش کو ابھارکر اس سے فائدہ اٹھایا ، لیکن مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب اس حیرت انگیز کنال کی اہمیّت یعنی تجارتی اہمیت کا خاتمہ قریب ہے۔ سیاسی اعتبار سے صلح و جنگ کے زمانے میں ہر قوم کے جہاز اس میں سے گز ر سکتے ہیں ۔ سویز کنال کے بیشتر حصص انگریزی تصّرف میں ہیں اور یہ غالباً اسمعیٰل پاشاخدیو مصر کی عیش پرستی کا نتیجہ ہے، کیونکہ اس نے اپنے تمام حصص انگریزوں کے ہاتھ بیچ دیے تھے۔ قریباً ڈھائی کروڑ پونڈ کی لاگت سے ایشیا اور یورپ کے سمندروں کو ملانے والی یہ آبی سڑک تیار ہوئی تھی۔ لیکن اب جیسا کہ میں نے اوپر لکھا ہے، شاید اس کی وہ اہمیت نہ رہے ، جو اسے پہلے حاصل تھی۔ پرواز کی وسعت و ترقی اور وسط ایشیا اور وسط یورپ میں ریلوے کی تعمیر سے دنیا کے دوبڑے حصوں میں جدید تجارتی رستوں کا کھل جانا ، ایک نئی مگر خشک کنال کو معرض وجود میں لانے والا ہے۔ جس سے تجارتی اور سیاسی دنیا میں بھی ایک عظیم الشان انقلاب پیدا ہوگا۔ اگر آئندہ بیس پچیس سال میں ایسا ہوگیا تو طاقتور کمزور اور کمزور طاقت ور ہوجائیں گے۔ جہاز کی روزمرّہ کی زندگی کی داستان نہایت مختصر ہے۔ میں اپنی قدیم عادت کے مطابق آفتاب نکلنے سے پہلے ہی تلاوت سے فارغ ہو جاتا ہوں۔ اس کے بعد دیگر حوائج سے فراغت پاتے پاتے بریک فاسٹ کا وقت آجاتاہے۔ بریک فاسٹ کے بعد عرشۂ جہاز پر ہم سفروں سے گفتگو یا گول میز کانفرنس پر جس کی خبریں لاسلکی کے ذریعے سے ہر روز جہاز پر پہنچ جاتی ہیں۔ بحث و مباحثہ یا گزشتہ سال کی رپورٹوں کا مطالعہ۔ ہاں کبھی شعر وشاعری بھی ہوجاتی ہے۔ سید علی امام کو عربی ، فارسی اور اردو کے بے شمار اشعار یاد ہیں اور پڑھتے بھی خوب ہیں ’’ الولد سرُ‘ لا بیہ‘‘۔ ان کے والد ماجد مولانا نواب امداد امام ادبیات اردو میں ایک خاص پایہ رکھتے تھے۔ جہاز پر میں نے گوشت کھانا بالکل ترک کردیا ہے۔ وطن میں بھی کم کھاتا تھا۔ مگر یہاں تو صرف سبزی ، ترکاری، مچھلی اور انڈے پر گزران ہے۔ ایک تو گوشت کی طرف رغبت بہت کم ہے ، دوسرے ذبیحہ بھی مشتبہ ہے ، البتہ غیر مشتبہ ذبیحہ بھی کبھی کبھی مل جاتا ہے۔ وہ اس طرح کہ سر علی امام کی بیگم صاحبہ، کہ نیک نفسی اور شرافت کا مجسّمہ ہیں۔ اپنے شوہرکے ہمراہ ہیں۔ ذبیحہ کے متعلق خاص طور پر محتاط ہیں۔ اپنا باورچی ساتھ لائی ہیں۔ ان کی عنایت سے غیر مشتبہ ذبیحہ اور مغلئی کھانا قریبًا قریبًا ہر روز ہماری میز تک پہنچ جاتاہے۔ اگرچہ اس میں میرا حصّہ بالمعموم سبزی اور چاول تک محدود رہتاہے۔ آپ کہیں گے کہ میں سب کچھ لکھ گیا مگر ہم سفروں کے متعلق اب تک خاموش ہوں۔ ہمارے جہاز میں کچھ زیادہ مسافر نہیں۔ گول میز کانفرنس کے ہندو اور مسلمان نمائندے شاید سات ، آٹھ ہیں۔ راجہ نرندر ناتھ صاحب بھی اسی جہاز پر ہیں، چار مسلمان نمائندے ہیں اور چاروں ’’مغرب زدہ‘‘۔ مغرب زدہ مسلمان کی اصطلاح جو شاید ’’معارف‘‘ نے وضع کی تھی، نہایت پرُ لطف ہے۔ لیکن مسلمانوں کے اس مغرب زدہ قافلے کی کیفیت یہ ہے کہ اس میں دوحافظ قرآن ہیں، یعنی نواب صاحب چتھاری اور خان بہادرحا فظ ہدایت حسین، مقدم الذکر ہر روز ورد کرتے ہیں اور سنا ہے کہ ہرسال تراویح بھی پڑھاتے ہیں۔ سید علی امام صاحب کی مغرب زدگی کی کیفیت یہ ہے کہ ایک روز صبح کے وقت عرشّہ جہاز پر کھڑ ے تھے۔ میں بھی ان کے ہمراہ تھا۔ میل و فرسنگ کا حساب کرکے کہنے لگے: دیکھو بھائی اقبال اس وقت ہمارا جہاز ساحل مدینہ کے سامنے سے گزر رہا ہے۔ یہ فقرہ ابھی پورے طور پر ان کے منہ سے نکلا بھی نہ تھا کہ آنسوؤں نے الفاظ پر سبقت کی۔ ان کی آنکھ نمناک ہوگئی اور بے اختیار ہو کر بولے: بلغ سلامی روضتہ فیھا النبی المحترم ۔ ا نکے قلب کی اس کیفیت نے مجھے بے انتہا متاثر کیا۔ باقی رہا میں مغرب زدہ بھی ہوں اور مشرق زدہ بھی۔ البتہ مشرقی ضرب میرے لیے زیادہ کاری ثابت ہوئی۔ باقی ہم سفروں میں مسٹر جسٹس سہروردی، شیخ مشیر حسین قدوائی اور اودھ کے دو نوجوان تعلقدار ہیں۔ قدوائی صاحب نہایت پُر جوش پان اسلامسٹ ہیں۔ تبلیغی فرائض سے کبھی غافل نہیں رہتے اور اودھ کے دو تعلقداروں میں ایک عربی خوب بولتے ہیں۔ دوسرے سمجھ لیتے ہیںمگر بول نہیں سکتے ان دونوں نوجوانوں کے والد مدتوں کربلاے معّلی میں مقیم رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عربی بول اور سمجھ سکتے ہیں۔ یہ ہے اس مغرب زدہ قافلے کی مختصر کیفیت۲۷ ۔ پورٹ سعید میں چند گھنٹے قیام کے دوران میں حکیم محمد صدیق ناڑو نے رائٹر کے نمائندے کی حیثیت سے اقبال سے ملاقات کی۔ انہوں نے مصری نوجوانوں کی موجودگی میں فرمایا: ہندووں کو فکر لگی رہتی ہے کہ مسلمان افغان ، بلوچ اور سرحد کے مسلمانوں کی مدد سے ہندوستان پر قبضہ کرلیں گے، لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ اگر مصر آزاد ہوجائے، تو مصری اپنا ملک ترکوں کو اس وجہ سے حوالے کردیں گے کہ ترک مسلمان ہیں؟ نیز کانگرس کا عدم تشدّد محض انگریزی سنگینوں کے سامنے ہے ۔ ورنہ مرزا پور، کانپور اور سری نگر وغیرہ کے حالات سے ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے مقابلے کے لیے تشدد ہے۲۸۔ بعد میں انہوں نے بیان بھی دیا جس میں ارشاد کیا: مصری لوگوں کو شبہ ہے کہ ہندی مسلمان آزادی کے راستے میں کانٹا ہیں۔ اس میں ذرا صداقت نہیں۔ اگر مصری اصحاب کے دلوں میں یہ خیال بیٹھ گیا ہے تو اس لیے کہ ان اصحاب نے ہندوستان کی سیاست سمجھنے کی تکلیف گوار نہیں فرمائی۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ مصری اخبارات کے مندوبین ہندوستان آکر مطالعہ کریں۔ ہندوستان میں مصری مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ مصری مسلمانوں نے قرآن ، اللہ اور اسلام کوخیر باد کہہ دیا۔ حالانکہ یہ ایک شرارت ہے ۲۹۔ اقبال ۲۷ ستِمبر ۱۹۳۱ء کو لندن پہنچ گئے۔ اور راقم کے نام تار بھیجا۔ میں بخیریت لندن پہنچ گیا ہوں۔ ’’جاوید نامہ‘‘ چھپوانے میں عجلت سے کام لیا جائے۔۳۰ لندن میںان کا قیام ۱۱۳۔اے سینٹ جیمز کورٹ بکنگھم گیٹ ایس ڈبلیو نمبر۱ میں تھا۔ یکم اکتوبر ۱۹۳۱ء کو غلام رسول مہر بھی ا ن سے آملے۔ گول میز کانفرنس کے اجلاس سینٹ جیمز پیلس میں ہوتے تھے۔ جو قریب ہی تھا ۔ اقبال تقربیًا تیئس سال بعد یورپ آئے تھے۔ اور اس دوران میں مغربی دنیا میں خاصا تغیر آچکا تھا۔ یورپ میں بالخصوص اٹلی اور جرمنی نئی قوتوں کی صورت میں ابھر رہے تھے۔ چین میں انقلاب کے آثار پیدا ہو چکے تھے اورجمعیت اقوام ایک قطعی غیر مؤثر ادارہ بن کررہ گئی تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد جمعیت اقوام اس غرض سے وجود میں لائی گئی تھی کہ اقوام عالم کے قضیوں کا فیصلہ کرے۔ ان میں مفاہمت اور امن کی فضا پیدا کرے اور مستقبل میں جنگوں کو روکے۔ اس کا پہلا اجلاس جنیوا (سؤٹزر لینڈ) میں ۱۹۲۰ء میں ہوا۔ امریکہ اس کا رکن بننے پر رضا مند نہ ہوا۔ رفتہ رفتہ جمعیت اقوام نے نوآبادیاتی قوتوں کی ایک ایسی کلب کی صورت اختیار کرلی جو مغلوب اقوام کے استحصال کو جاری رکھنے کے لیے استعمال کی جانے لگی۔ ۱۹۳۰ء میں عالمی معاشی بحران کے سبب امریکہ اور یورپ کی اقوام اپنے اپنے معاشی مسائل سلجھانے میں مصروف ہوگئیں اور جمعیت اقوام میں بین الاقوامی مسائل کے حل کی طرف توجہ دینے والا کو ئی نہ رہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جمعیت اقوام جنگوں کی روک تھام کرنے میں ناکام ہوگئی۔ ۱۹۳۱ء میں مشرق کی اہم ترین صنعتی طاقت جاپان نے مانچوریہ پر حملہ کردیا۔ اور جب چین نے مداخلت کی استدعا کی تو جمعیت اقوام کچھ نہ کر سکتی۔ اس کے بعد ۱۹۳۵ء میں اٹلی نے ایبے سینیا پر قبضہ جمالیا تو تب بھی جمعیت اقوام بیکار ثابت ہوئی۔ بالآخر ۱۹۳۹ء میں جرمنی اور جاپان کے ہاتھوں دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوا، لیکن اس سے قبل جمعیت اقوام نزع کے عالم میں پہنچ چکی تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر مسولینی نے اٹلی میں فاشسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی اور رفتہ رفتہ اس کے قائد اعلیٰ کے طور پر اس نے پارلیمانی جمہوریت کو کالعدم قرار دے کر اقتدار خود سنبھال لیا۔ ۱۹۲۲ء میں وہ ایک فاتح کی طرح روم میں مارچ کرتا ہوا داخل ہوا اور اٹلی کا وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ ۱۹۲۵ء میں اس نے تمام اختیارات اپنے ہاتھوں میں لے لیے اور اٹھارہ برس کی مدت تک اٹلی پر ایک آمر کی حیثیت سے حکومت کی۔ اس دوران میں اس نے نوآبادیاتی طاقتوں کی نقل کرتے ہوئے اٹلی کے لیے ایک ایمپائر تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس مقصد کی تکمیل کی خاطر کمزور ممالک پر غاصبانہ قبضے کا عمل شروع ہوا۔ ۱۹۳۹ء میں البانیہ پر قبضہ ہو اور ٹیونس، مالٹا اور کارسیکا پر اٹلی کی حکمرانی کے حق میں دعویٰ کیا گیا۔ بالآخر ۱۹۳۹ء ہی میں مسولنیی جرمنی کے آمر ہٹلر سے معاہدہ کرکے دوسری جنگ عظیم میں کود پڑا۔ ہٹلر کے دماغ میں اس خیال نے کہ جرمن قوم دنیا کی تمام اقوام میں غالب قوم کی حیثیت سے فضیلت کی حامل ہے، ایک خبط کی صورت اختیار کرلی۔ اس نے جرمنی میں نیشنل، سوشلسٹ جرمن ورکرز یا نازی پارٹی قائم کرکے پہلی مرتبہ ۱۹۲۳ء میں اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی، مگر گرفتار ہوا۔ جیل سے رہائی کے بعد اس نے نازی پارٹی میں نئی روح پھونکی۔ ۱۹۳۲ء تک نازی پارٹی جرمنی میں سب سے زیادہ طاقتور پارٹی بن چکی تھی۔ نازی پارٹی کی مضبوطی کے سبب ہٹلر ۳۰ جنوری ۱۹۳۳ء کو جرمنی کا چانسلر مقرر کیا گیا۔ چانسلر بنتے ہی اس نے جرمن ری پبلک کا خاتمہ کردیا اور اپنے سیاسی مخالفین کو یا تو جیلوں میں ٹھونس دیا یا قتل کروادیا۔ ہٹلر نے بارہ سال کی مدت تک جرمنی میں ایک آمرکی حیثیت سے حکومت کی۔ اس دوران اس نے فیکٹریوں میں جنگی سازوسامان کی پیداوار پر زور دے کر جرمن افواج کی تشکیل نو کی اور رفتہ رفتہ جرمنی کو ایک بے مثال عسکری قوت بنادیا۔ اس مرحلے پر یورپی اقوام جنگ کی خواہشمند نہ تھیں، اس لیے ۱۹۳۶ء میں جرمنی نے جب رائین لینڈ پر قبضہ کرلیا تو فرانس خاموش رہا۔ مارچ ۱۹۳۸ء میں جرمن فوجیں آسٹریا میں داخل ہوگئیں اکتوبر ۱۹۳۸ء میں سوڈیٹن لینڈ اور پھر چیکوسلواکیہ پر قبضہ کر لیا گیا۔ ستمبر ۱۹۳۹ء میں پولینڈ پر حملہ ہوا۔ بالآخر ہٹلر کے ہاتھوں یورپ میں دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوا، جو آج تک کی انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ ہولناک جنگ قرار دی گئی ہے۔ اسی دور میں چین میں ماوزے تنگ کی زیر قیادت چینی کمیونسٹوں کی طاقت میں اضافہ ہوا۔ چین ۱۹۱۲ء سے چیانگ کائی شیک کی کاؤمن ٹینگ یا نیشلسٹ پارٹی کے زیر اثر ری پبلک بن چکا تھا۔ چیانگ کائی شیک کی افواج نے نان کنگ میں اپنی حکومت قائم کررکھی تھی۔ ۱۹۳۷ء میں چیانگ کائی شیک اور اس کی افواج نے چینی کمیونسٹوں کو پیچھے دھکیلا اور وہ پہاڑوں کی طرف بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔ مائوز ے تنگ نے منتشر چینی کمیونسٹوں کو اکٹھا کیا اور پھر اس کی قیادت میںچینی کمیونسٹوں کے دَل کے دَل پہاڑوں کے نہایت دشوار گزار اور انتہائی خطرناک رستوں سے گزرتے ہوئے شمال مغربی چین کے علاقے میں جا پہنچے۔ مائوزے تنگ کی زیر قیادت لاکھوں چینی کمیونسٹوں کے اس طویل سفر یا معجزے کو لانگ مارچ کا نام دیا گیا۔ اسی لانگ مارچ کی بدولت مائوزے تنگ چینیوں کے ایک عظیم قائد کی حیثیت سے ابھرا اور دنیا توقع کرنے لگی کہ عنقریب سرمایہ داری کے خلاف ایک اور جنگ ہونے والی ہے یا پرانے چین کی کوکھ سے ایک نیا چین پیدا ہونے والاہے۔ اقبال کی دوربین نگاہ یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی اور وہ محسوس کررہے تھے کہ نظام عالم کسی نئی تشکیل کا محتاج ہے، مگر اس جدید تشکیل میں اسلام نے کیا کردار ادا کرنا ہے؟ یہ سوال ان کے ذہن میں باربار ابھرتا تھا۔ اور غالبًا اسی سوال کے جواب کی خاطر انہوں نے چند سال بعد اپنے ایک خط محررّہ ۱۵جنوری ۱۹۳۴ء بنام سید سلیمان ندوی میں تحریر کیا: دنیا اس وقت عجیب کشمکش میں ہے جمہوریت فنا ہو رہی ہے اور اس کی جگہ ڈکٹیٹر شپ قائم ہورہی ہے۔ جرمنی میں مادی قوت کی پرستش کی تعلیم دی جارہی ہے۔ سرمایہ داری کے خلاف پھر ایک جہاد عظیم ہورہا ہے۔ تہذیب و تمدن (بالخصوص یورپ میں) بھی حالت نزع میں ہے۔ غرض کہ نظام عالم ایک نئی تشکیل کا محتاج ہے ۔ ان حالات میں آپ کے خیال میں اسلام اس جدید تشکیل کا کہاں تک ممد ہوسکتاہے ۳۱ ۔ تیئس سال بعد یورپ کے سفر نے کئی پرانی یادیں بھی تازہ کردی تھیں۔ ۱۹۰۸ء میں جب اقبال واپس لاہور آئے تو شدید ذہنی کشمکش میں مبتلا تھے۔ پہلی بیوی سے کشیدگی کی ناگوار صورتِ حالات، والد اور بھائی کی مفاہمت کے لیے کوششوں کے باوجود، بدستور قائم تھی۔ مالی مشکلات یا فراہمی روزگار کا مسئلہ بھی تھا۔ سو ازدواجی بے سکونی اور مالی مشکلات کے سبب اضطراب کی اس کیفیت میں ہندوستان میں توعطیہ فیضی جیسی حاضر دماغ خاتون نے اپنی ہمدردانہ توجہ کے ذریعے انہیں جذباتی سہارا فراہم کیا لیکن اس دور میں ان کی خط وکتابت جرمنی میں ایما ویگے ناست سے بھی جاری تھی۔ ۱۹۳۱ء میں لندن پہنچنے پر اقبال نے اپنے کسی پرانے جرمن دوست سے ایماویگے ناست کا پتا معلوم کیا اور انہیں اپنے ایک خط مورّخہ ۱۵ اکتوبر ۱۹۳۱ء میں تحریر کیا: براہ کرم مجھے خط لکھیے اور ان سارے برسوں کے دوران میں اپنی مصروفیات اور حالات سے مطلع کیجیے۔ مجھے آپ کا جواب پاکرمسرت ہوگی فی الحال ہمیں کافی عرصہ لندن میں رکنا پڑے گا اور جب لندن کی گول میز کانفرنس ختم ہوجائے گی تو اس کے بعد میرا ارادہ برلن کے رستے روم جانے کا ہے۔ جہاں مجھے کچھ روز ٹھہرنے اور چند پرانے دوستوں سے ملاقات کرنے کا موقع ملے گا۔ اتنے سال کے بعد آپ سے مل کر مجھے بے اندازہ خوشی ہوگی۔ مجھے اطلاع دیجیے کہ کیا ابھی کچھ دیر آپ بائیڈل برگ ہی میں قیام رکھیں گی ۳۲۔ ایماویگے ناست کا جواب آنے پر انہیں اپنے خط مورخّہ ۲۰ اکتوبر ۱۹۳۱ء میں تحریر کیا: مجھے یہ معلوم کرکے بڑی مسرت ہوئی کہ کئی مصائب کا سامنا کرنے کے باوجود آپ اپنی زندگی خندہ پیشانی سے بسر کر رہی ہیں۔ میں ہائیڈل برگ میں ان ایام کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا جب آپ نے مجھے گوئٹے کا فاؤسٹ پڑھایا تھا۔ اور ہر طرح سے میری امداد کی تھی۔ وہ واقعی بڑے خوشگوار دن تھے۔ آپ کے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اپنے وقت پر اختیار حاصل نہیں۔ اس لیے میں پوری کوشش کروں گا کہ ہائیڈ ل برگ پہنچوں اور آپ کو ایک بار پھر اسی جگہ ملوں۔ مجھے دریائے نیکر اب تک یاد ہے، جس کے کنارے پر ہم دونوں اکثر ٹہلا کرتے تھے، لیکن میں وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ میرا خیال ہے میں کچھ مدت تک آپ کو بتا سکو ں گا کہ روم جاتے ہوئے جرمنی آنا میرے لیے ممکن ہے یا نہیں۔ مجھے روم سے دعوت نامہ موصول ہوا ہے اور میںہندوستان جانے سے بیشتر وہاں پہنچنے کا خواہشمند ہوں۔ میرے لیے یہ بتا دینا ضروری نہیںکہ میرے دل میں آپ سے ملنے اور ان بیتے ہوئے خوشگوار ایّام کی یاد کو تازہ کرنے کی کس قدر تمنا ہے،جو افسوس ہے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گزر گئے ۳۴ ۔ لیکن اقبال اپنے پروگرام میں تبدیلی کے سبب ہائیڈل برگ نہ جاسکے۔ چنانچہ انہوں نے ایماویگے ناست کو اپنے خط محرّرہ ۱۹؍ نومبر ۱۹۳۱ء میں اطلاع دی: میں ہائیڈل برگ میں آپ سے ملنے کے لیے چشم براہ تھا، لیکن نہایت افسوس سے بتانا چاہتا ہوں کہ میرے پروگرام میں اچانک ردّوبدل کی مجبوری کے سبب اب میرے لیے جرمنی میں سے گزر کر جانا ممکن نہ ہوسکے گا، بلکہ سیدھا روم پہنچنا پڑے گا، جہاں سائنیور مارکونی نے مجھے مدعو کر رکھا ہے اور وہاں سے ۷ دسمبر کو بین الاقوامی مسلم کانفرنس میں شرکت کے لیے یروشلم جاؤں گا۔ مجھے زندگی میں آپ سے ایک بار پھر مل کر اور پرانی وابستگیوں کی یاد تازہ کرکے بے حد مسرت ہوتی، مگر بد قسمتی سے فی الحال ایسا ممکن نہیں۔ بہرحال امکان ہے کہ میں اگلے سال پھر یورپ آؤں گا۔اگر ایسا ہو سکا تو میں ہائیڈل برگ میں ضرور آپ سے ملنے کے لیے آئوں گا۳۴ ۔ اقبال لندن میں دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے تھے، لیکن وہاں پہنچتے ہی مرجع علم و ادب بھی بن گئے۔ سو انگلستان میں ان کے مشاغل کو دوحصّوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ یعنی دوسری گول میز کانفرنس کے سلسلے میں ان کی مصروفیات او رعلم و ادب کی محفلوں یا ان کے اعزاز میں دی گئی دعوتوں میں ان کی شمولیت۔ جہاں تک دوسری گول میز کانفرنس کا تعلق ہے، اقبال چونکہ مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخاب برقرار رکھنے کے حامی تھے، اس لیے زیادہ تر اقلیتی سب کمیٹی کی کارروائیوں میں حصّہ لیتے رہے۔ اس سب کمیٹی کا پہلا اجلاس ۲۸ ستمبر ۱۹۳۱ء کو ہوا۔ اجلاس میں مہاتما گاندھی کا اصرار تھا کہ مسلم نیشنلسٹ پارٹی کے لیڈر ڈاکٹر انصاری کو بلوایا جائے اور اگر انصاری نے مسلم مطالبات کی حمایت نہ کی تو وہ ان کا ساتھ دیں گے۔ مسلم نمائندوں کا موقف یہ تھا کہ مہاتما گاندھی اگر چاہیں تو ڈاکٹر انصاری کو اپنے طور پر بلالیں، جو انہیں قابل قبول نہ تھا۔ لہٰذا اس اعتبار سے پہلا اجلاس بے فائدہ رہا اور اسے دو دن کے لیے ملتوی کردیا گیا تاکہ مختلف فرقوں کے نمائندے آپس میں غیر رسمی بات چیت کر کے معاملہ طے کرسکیں۔ ۳۰؍ستمبر کو اقلیتی سب کمیٹی کا دوسرا اجلاس ہوا، لیکن مہاتما گاندھی کی تجویز پر مزید گفت و شنید کی خاطر وہ بھی آٹھ دن کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔ اس وقفے میں پرائیویٹ طور پر مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں یا دیگر فرقوں کے مابین مصالحت کی بات چیت ہوتی رہی، مگر ایسی تمام کوششیں بارآور ثابت نہ ہوئیں۔ بالآخر ۸ اکتوبر ۱۹۳۱ء کو اقلیتی سب کمیٹی کے اجلاس میں مہاتما گاندھی نے افسوس کا اظہار کیا کہ مصالحتی گفتگو نا کام رہی ہے۔ اور اس کے ساتھ تجویز پیش کی گئی کہ اقلیتی سب کمیٹی کو غیر معین عرصے کے لیے ملتوی کردیا جائے۔ بعد ازاں سر محمد شفیع نے اپنی تقریر میں مہاتما گاندھی کی تجویز کی مخالفت کی، کیونکہ ان کی رائے میں فرقہ وارانہ مسائل کے حل کے بغیر کسی قسم کے دستور کا بننا ممکن نہ تھا۔ آخر میں وزیر اعظم برطانیہ نے اپنی تقریر میں واضح کیا کہ اقلیتی سب کمیٹی کا اجلاس جاری رہے گا، لیکن اس کی تاریخ اور وقت کو ان کی فرصت پر چھوڑ دیا جائے۔ اقبال نے مسلم مطالبات کے متعلق اپنی تقریر لکھ تو رکھی تھی، لیکن اسے کسی اجلاس میں پڑھنے کی نوبت ہی نہ آئی۔ اس مدت میں مختلف قسم کی تجاوز پیش کی گئیں اور ان میں سے بعض کی تفصیل لندن کے اخبارات میں بھی شائع ہوئی۔ لیکن فرقہ وارانہ مسئلے کے کسی قابل قبول حل کے متعلق فریقین میں کوئی خاطر خواہ تصفیہ نہ ہو سکا اور اجلاس کسی نتیجے پر پہنچے بغیر برخاست ہوا۔ اس سلسلے میں اقبال کا خط محّررہ ۳؍ نومبر ۱۹۳۱ء بنام عبداللہ چغتائی قابل توجہ ہے، فرماتے ہیں: یہ دن بہت مصروفیت کے گزرے۔ مینارٹی کمیٹی کی میٹنگ تین دفعہ ہوئی اور تینوں دفعہ پرائیویٹ گفتگوئے مصالحت کے لیے ملتوی ہوگئی۔ پرائیویٹ گفتگو بہت ہوئی مگر اب تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ ہندو اور سکھ مسلمانوں کے مطالبات کی مخالفت پر اڑے ہوئے ہیں۔ اب مینارٹی کمیٹی کی میٹنگ جس کا میں ممبر ہوں۔ شاید ۱۱نومبر کو ہو اس میں بھی کچھ نہ ہو سکے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ مینارٹی کمیٹی کا کام محض مصالحت کی کوشش ہے۔ یہ کوشش کی گئی ، جس کا نتیجہ اس وقت تک کچھ نہیں ہوا ۳۵۔ ۱۶ نومبر ۱۹۳۱ء کو فیڈرل اسٹرکچر کمیٹی کے اجلاس کے متعلق مسلم نمائندوں کا خیال تھا کہ چونکہ کوئی فرقہ وارانہ تصفیہ نہیں ہوسکا اور مسلم مندوبین فرقہ وارانہ تصفیے کے بغیر دستور پر بحث میں شرکت کے لیے تیار نہ تھے، اس لیے حکومت برطانیہ اس معاملے میں اپنے مسلک کا اعلان کردے گی۔ مگر اس اجلاس میں انہوں نے محسوس کیاکہ حکومت برطانیہ مباحث کو آگے بڑھانا چاہتی ہے ۔اب سوال پیدا ہوا کہ اجلاس کی کاروائی میں حصّہ لیا جائے یا نہ لیا جائے۔ اس مرحلے پر مسلم نمائندوں کا آپس میں اختلاف ہوگیا۔ اقبال کا موقف تھا کہ مسلم وفد آئندہ دستور کے متعلق بحث سے قطعی لاتعلق رہے، بلکہ اجلاس سے علیحدگی کا اعلان کردے۔ اصولی طور پر سر محمد شفیع اور محمد علی جناح نے ان کی رائے سے اتفاق کیا، لیکن وہ کانفرنس کو ختم کرنے کا الزام اپنے سر نہیں لینا چاہتے تھے اور چاہتے تھے کہ مسلم وفد کی طرف سے یہ اعلان کیا جائے کہ مرکز کی ذمہ داری کے معاملات کے متعلق بحث جاری رکھی جائے مگر مسلمان ایسے کسی دستور کو قبول نہیں کریں گے جس میں ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے ہوں۔ اقبال اس فیصلے کے خلاف تھے۔ مسلم وفد میں کسی نے بھی اقبال کا ساتھ نہ دیا۔ اس لیے وہ بہت دل برداشتہ ہوئے اور ۱۶ ؍نومبر ۱۹۳۱ء کو مسلم وفد کے رسمی سر برا ہ آغا خان کو ایک خط کے ذریعے مطلع کر دیا کہ وہ وفد سے علیٰحدہ ہوگئے ہیں۔ چند دنوں بعد انہوں نے سیکرٹری آف اسٹیٹ کو بھی اطلاع دی کہ ان کا لندن میں ٹھہرنا بے کار ہے اور وہ ۲۱ نومبر ۱۹۱۳ء کو چلے جائیں گے ۳۶۔ دوسری گول میز کانفرنس کے ریکا رڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال نے مباحث میں کوئی عملی حصّہ نہ لیا بلکہ اقلیتی سب کمیٹی کے اجلاسوں میں خاموش بیٹھے رہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ خاموش نہ بیٹھتے تو کیا کرتے، کیونکہ اقلیتی سب کمیٹی کے اجلاس تو ہر دفعہ ملتوی ہوتے رہے، یہاں تک کہ انہیں اپنی لکھی ہوئی تقریر بھی پڑھنے کا موقع نہ ملا۔ فرقہ دارانہ مصالحت کے لیے پرائیویٹ گفت وشنید میں انہوں نے کچھ حد تک حصّہ لیا، مگر یہ ایک بیکار مشق سے زیادہ نہ تھا۔ اور بہرحال اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ برطانوی حکام سے غیر رسمی طور پر انہوں نے ریاست حیدر آباد کو ڈومینین اسٹیٹس دلوانے کی بات چیت کی، مگر سر اکبر حیدری نے ان کی تجو یز کی مخالفت کی، جس کے سبب، بقول عظیم حسین، اقبال سر اکبر حیدری سے جھگڑ پڑے۔ کانفرنس کے آخری مراحل میں اقبال کا دیگر مسلم مندوبین سے اختلاف ہوگیا، کیونکہ وہ فرقہ وارانہ مصالحت کی عدم موجودگی میں مرکزی ذمہ داریوں کے مسئلے پر بحث میں حصّہ لینے کے خلاف تھے۔ دیگر مسلم مندوبین نے گواصولی طور پر ان کی رائے سے اتفاق کیا، لیکن جب اجلاس میں پہنچے تو ایسا اعلان کرنے کی بجائے مصلحتًا خاموش رہے جس کا اقبال نے برُا منایا اور دل برداشتگی کے عالم میں وفد سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔ بحیثیت مجموعی اقبال دوسری گول میز کانفرنس کی کاروائی سے مایوس تھے۔ علاوہ ازیں مسلم وفد کے بعض اراکین کے کردار سے بھی انہیں مایوسی ہوئی۔ سر فضل حسین، جس کے ایما پر وائسرائے نے اقبال کو دوسری گول میز کانفرنس میں شریک ہونے کے لیے نامزد کیا تھا، اقبال کے کردار سے مایوس تھے اور انڈین پبلک سروس کمیشن کی خالی اسامی کے لیے وہ اقبال کے تقرر کے متعلق سوچ رہے تھے۔ ان کی ذاتی ڈائری کا اندراج مورّخہ ۲۵؍ نومبر ۱۹۳۱ء ملاحظہ ہو: میں اقبال کے اس منصب پر تقّرر کے لیے آخر تک پورا زور لگاتا اگر اس بیوقوف نے بذریعہ تاریہ اعلان نہ کیا ہوتا کہ اس نے گول میز کانفرنس سے استعفا دے دیا ہے جبکہ دوسروں نے ایسا نہیں کیا۳۷ ۔ انگلستان میں قیام کے دوران میں اقبال کی دیگر مصروفیات کی تفصیل یہ ہے؛ یکم اکتوبر ۱۹۳۱ء کو سرسیموئیل ہور وزیر ہند ان سے اُن کی رہائش گاہ پر ملنے آئے اور ہندوستان کے دستور میں مسلمانوں کی پوزیشن کے متعلق گفتگو کی۔ ۷ ؍اکتوبر ۱۹۳۱ء کو وہ ایران کے سابق وزیر اعظم سید ضیاء الدین طباطبائی کی دعوت میں شریک ہوئے۔ سید ضیا ء الدین طباطبائی ۱۹۲۱ء میں احمد شاہ قاچار کے عہد میں ایران کے وزیر اعظم رہ چکے تھے۔ جب رضا خان، (بعد میں رضا شاہ پہلوی) وزیر جنگ تھے، لیکن رضا خان سے اختلاف کے سبب انہوں نے وزارت عظمٰی سے استعفا دے دیا اور سوئٹزر لینڈ میں آباد ہوگئے۔ سید ضیاء الدین طباطبائی نو زبانیں بول سکتے تھے۔ سید جمال الدین افغانی کے حامی اور اتحاد عالم اسلامیہ کے پرجوش مبلغ تھے۔ وہ بھی اقبال کی طرح بیت المقدس میں منعقدہ مؤ تمر اسلامی میں شریک ہوئے۔ لندن میں صرف چند دن کے لیے آئے ہوئے تھے۔ اقبال نے انہیں ’’جاوید نامہ‘‘ کے بعض حصّے پڑھ کر سنائے، جنہیں سُن کر انہوں نے تعجب کا اظہار کیا کہ ایسے اشعار پہلے کبھی نہ سُنے تھے۔ ۸ اکتوبر ۱۹۳۱ء کو اقبال نے عراق کے سفارت خانے میں دعوت طعام میں شرکت کی۔ ۹ اکتوبر ۱۹۳۱ء کو البانیہ کے سفیر کی دعوت میں شریک ہوئے۔ اسی روز ’’سیٹر ڈے ریویو‘‘ کے مدیر پنکھرڈ نے انہیں چائے پر بلایا۔ اس موقع پر برطانوی پریس کے لوگوں سے انہوں نے مختصر سی تقریر میں فرمایا: انگریزوں کو بحر مردار کے مالی ذخائر اور دوسرے معاملات کا خیال ترک کرکے اخلاقی حیثیت سے اہل فلسطین کے ساتھ انصاف کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں سب سے پہلا کام یہ ہے کہ بلفور کا اعلان منسوخ کردیا جائے۳۸۔ ۱۰؍اکتوبر ۱۹۳۱ء کو سر ظفر اللہ خان نے انہیں اور دیگر مسلم مندوبین کوشفیع ریستوران میں ایک پُر تکلف دعوت دی۔ یہ ریستوران امرتسر کے ایک باشندے محمد شفیع کی ملکیت تھا اور یہاں عمدہ دیسی کھانے کھلائے گئے۔ اگلے روز مولانا فرزند علی، امام لندن مسجد نے اقبال اور ان کے رفقا کو مسجد فضل میں بلوایا اور ان کا تعارف چند انگریز نو مسلموں سے کرایا گیا۔ ۱۳ اکتوبر ۱۹۳۱ء کو سرڈینی سن راس انہیں ملنے کے لیے آئے اور اقبال کے ساتھ دنیا ئے اسلام میں مذہبی تحریکوں بالخصوص بہائیت کے متعلق بات چیت کرتے رہے، وہ اگلے روز دوبارہ ملاقات کے لیے آئے کیونکہ اس موضوع پر لیکچر دینے کے لیے انہوں نے دو ایک روز میں امریکہ جانا تھا۔ ۱۴؍ اکتوبر ۱۹۳۱ء کو اقبال کے اعزاز میں نو مسلم بیرونٹ ما وام فاطمتہ العابد نے رٹز ہوٹل میں ایک دعوت دی جس میں وہ شریک ہوئے۔ ۱۶ اکتوبر ۱۹۳۱ء کو غازی رؤف بے انہیں ملنے کے لیے آئے اور تین گھنٹے تک اس کے ساتھ باتیں کرتے رہے ۔ رؤف بے نے ترکی کی آزادی کی جنگ میں حصّہ لیا تھا، لیکن مصطفٰے کمال سے اختلاف کی بنا پر ۱۹۲۴ء میں جلاوطن کردیے گئے۔ اسی دن اقبال نے افغان قونصل خانے میں سردار احمد علی خان، وزیر مختار کی عظیم الشان دعوت میں شرکت کی جو محمد نادر شاہ کی تاجپوشی کی سالگرہ کے موقع پر دی گئی تھی۔ انہی دنوں میں سے کسی دن کیمبرج سے چوہدری رحمت علی، خواجہ عبدالرحیم اور دیگر مسلم طلبہ انہیں ملنے کے لیے آئے۔ بقول خواجہ عبدالرحیم، انہوں نے اقبال کو بتایا کہ شمال مغربی ہند میں ان کی تجویز کردہ مسلم ریاست کا نام ’’پاکستان‘‘ رکھا گیا ہے اور یہ لفظ مرکب ہے ۔ کشمیر سمیت تین مسلم اکثریتی صوبوں کے ناموں کے پہلے حروف کا اور بلوچستان کے ’’تان‘‘ کا ۳۹ ۔اقبال اس روز کچھ علیل تھے اور بستر پر دراز تھے۔ انہوں نے طلبہ سے کہا کہ ’’پاکستان‘‘ کے مختلف حروف کو علیحدہ علیحدہ گتے کے ٹکڑوں پر تحریر کرکے ان کے بستر کے اردگرد رکھ جائیں تاکہ وہ اس نام پر غور کرسکیں۔ طلبہ نے ان کے حکم کی تعمیل کردی اور چلے آئے۔۲۰ اکتوبر ۱۹۳۱ء کو سروجنی نائیڈو کی وساطت سے اسلامی ممالک کی سیاح خاتوں روزیٹہ فاربیز نے انہیں گھر بلوایا اور قرآنی تعلیمات کے متعلق ان سے سوال پوچھے۔ اس کے بعد وہ لیڈی ہاٹوگ کی دعوت میں شرکت کے لیے چلے گئے۔ ۲۱؍اکتوبر ۱۹۳۱ء کو کرنل فیرر اور دو ایک روز بعد پروفیسر گب انہیں ملنے کے لیے آئے اور انہوں نے اقبال کو لندن یونیورسٹی میں لکچر دینے کی دعوت دی، لیکن مصروفیت کے سبب دعوت قبول نہ کی گئی۔ کرنل فیرر سے ہندوستان میں اسلامی تحریکات اور پروفیسر گب سے افریقہ میں اسلامی تحریکات کے موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ ۲۳؍اکتوبر ۱۹۳۱ء کوسعید شامل، اقبال سے ملنے کے لیے آئے۔ سعید شامل شمالی قفقا زمیں روسی کمیونسٹوں کے خلاف اپنے علاقوں کی آزادی کے لیے لڑ چکے تھے۔ وہ ان مسلم علاقوں پر روس کے مظالم کا ذکر کرتے رہے۔ ان کا مستقل قیام وارسا (پولینڈ) میں تھا اور وہ اشتراکیوں کے سخت مخالف تھے۔ اقبال نے انہیں بتایا کہ روسی اشتراکیت یورپی امپیریلزم کے خاتمے کے لیے ایک کارآمد عنصر ثابت ہوسکتی ہے، اس لیے مسلمانوں کو ایسی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے کہ اس کی مخالفت نہ کی جائے، لیکن سعید شامل نے ان سے اتفاق نہ کیا اور کہا کہ روسی اشتراکیت بظاہر یورپی امپیریلزم سے بہتر معلوم ہوتی ہے مگر درحقیقت وہ بجائے خود ایک قسم کا امپیریلزم ہے۔ اقبال ان سے یہی کہتے رہے کہ مسلمانوں کی روسی اشتراکیت کی مخالفت سے یورپی امپیریلزم فائدہ اٹھائے گا۔ اس لیے یورپ کی اقتصادی برتری اور دیگر امراض کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے اس کا وجود ضروری ہے۔ اسی شام انہوں نے نواب احمد سعید خان چھتاری کی مسلم مندوبین کے لیے دعوت چائے میں شرکت کی۔ لندن میں اقبال کا تعارف نیشنل لیگ آف انگلینڈ کی صدرمس مارگریٹ فارقوہرسن سے ہو چکا تھا۔مس فارقوہرسن مسلمانوں کی ہمدرد تھیں اور ان کی نیشنل لیگ کا مقصد سلطنت برطانیہ کے مسلمانان عالم سے خوشگوار تعلقات قائم کرنا اور ان کے ساتھ زیادتیوں کے مداوا کی کوشش کرنا تھا۔ ۲۷؍اکتوبر ۱۹۳۱ء کو انہوں نے اقبال اور مولانا شوکت علی کی دعوت کی جس میں اپنے ہم خیال لوگوں کو مدعو کیا ۔ دعوت سے فراغت کے بعد اقبال چند ساتھیوں کے ساتھ قواکر زہال پہنچے اور قواکر مرد اور عورتوں کو دعا میں مشغول دیکھا۔ ۴ نومبر ۱۹۳۱ء کو پانچ بجے شام اقبال نے لندن میں انڈیا سوسائٹی کے علمی اجتماع سے خطاب کیا۔ انڈیا سوسائٹی کے صدر سر فرانسس ینگ ہسبنڈ نے حاضرین سے ان کا تعارف کرایا۔ اقبال نے اپنی تقریر میں واضح کیا کہ ان کی شاعری میں بعض فلسفیانہ خیالات موجود ہیں، لیکن ان کا کوئی منظم فلسفۂ نہیں ہے۔ وہ انسان کے درخشاں مستقبل پر پختہ یقین رکھتے ہیں اور ان کے عقیدے کے مطابق انسان نظام کائنات میں ایک مستقل عنصر کی حیثیت حاصل کرنے کی صلاحیتں رکھتا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے اشعار میں سے بعض کی تشریح کی اور اپنی شاعری کے اسلوب کی وضاحت کی۔ پھر فارسی کی چند تصانیف کا ذکر کیا اور آخر میں اپنی تازہ تصنیف ’’جاوید نامہ‘‘ (جو ان دنوں زیر طباعت تھی) کے موضوع کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ تقریر کے اختتام پر انہوں نے انسانی خودی یا انا کے بارے میں چند سوالات کے جواب دیے۔ رات کے کھانے کے لیے لارڈ اور لیڈی ارون کے ہاں گئے۔ ۴۰ ۱۸نومبر ۱۹۳۱ء کو اقبال ایک دن کے لیے کیمبرج گئے۔ غلام رسول مہر اور مولانا شفیع دائودی ان کے ساتھ تھے، اسٹیشن پر چوہدری رحمت علی، خواجہ عبدالرحیم اور متعدد دیگر اصحاب استقبال کے لیے موجود تھے۔ پانچ بجے شام ان کے اعزاز میں یونیورسٹی آمرز ہوٹل میں دعوتِ چائے کا اہتمام کیاگیاتھا۔ جس میں پروفیسر نکلسن اور پروفیسر لیوی سمیت یونیورسٹی کے کئی اساتذہ موجود تھے۔ مصر کے ڈاکٹر سلیمان نے ، جو انٹرنیشنل مسلم ایسوسی ایشن کیمبرج کے صدر تھے، اقبال کا تعارف دیگر مہمانوں سے کرایا۔ مجمع سے پروفیسر سورلے، پروفیسر نکلسن اور پروفیسر لیوی نے خطاب کیا۔ آخر میں اقبال نے تقریر کی۔ انہوں نے اپنے میزبانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا کہ محفل میں پروفیسر براؤن اور پروفیسر میک ٹیگرٹ موجود نہیں۔ پھر فرمایا: کانفرنس کے کام میں میری شرکت بلاواسطہ نہیں بالواسطہ ہے۔ یہاں ہندوستان کی مختلف قوموں کی تقدیروں کا فیصلہ ہورہا تھا۔ میں نے ضروری سمجھا کہ اس کام میں شریک ہوکر میں بھی اپنے رفقا کاروں کا ہاتھ بٹاؤں جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ باہمی گفتگوؤں میں ہم کسی فیصلے پر نہیں پہنچ سکے اور ہم میں اتحاد نہیںہوسکا میں ان نوجوانوں کو جو کیمبرج میں اس وقت تعلیم پارہے ہیں۔ چند نصیحتیں کرنا چاہتا ہوں۔ کیمبرج وہ سر چشمۂ علم و فضل ہے جس نے یورپی تہذیب و تمدن کی ترکیب میں سب سے زیادہ حصّہ لیا ہے۔ میں نوجوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ دہریت اور مادیت سے بچیں۔ اہل یورپ کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے مذہب و حکومت کو علیحدہ علیحدہ کر دیا اور اس سے انکی تہذیب روحِ اخلاق سے محروم ہرگئی اور اس کا رُخ دہر یا نہ مادیت کی طرف پھر گیامیرا عقیدہ ہے کہ انسانی انا کائنات کا مرکز ہے۔ یہ اوّلین نقطۂ نظر ہے۔ فلسفی کثرت سے وحدت کی طرف آئے۔ صحیح راستہ یہ ہے کہ وحدت سے کثرت کی طرف جائیں۔ میں نے آج سے پچیس برس پیشتر اس تہذیب کی خرابیاں دیکھی تھیں تو اس کے انجام کے متعلق بعض پیش گوئیاں کی تھیں اگرچہ میں خود بھی ان کا مطلب نہیں سمجھتا تھا۔ یہ ۱۹۰۷ء کی بات ہے ۔ اس سے چھ سال بعد یعنی ۱۹۱۴ء میں میری پیش گوئیاں حرف بحرف پوری ہوگئیں۔ ۱۹۱۴ء کی جنگ یورپ دراصل اہل یورپ کی اسی غلطی کا نتیجہ تھی، جس کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں۔ یعنی مذہب و حکومت کی علیحدگی او ردہر یانہ مادیت کا ظہور بالشوزم مذہب و حکومت کی علیحدگی کا طبعی نتیجہ ہے۔میں نوجوانوں کو نصیحت کرتاہوں کہ وہ مادیت سے بچیں ۔ چند روز قبل انگریز خواتین کے ایک بہت بڑے مجمع میںمجھ سے کہا گیا کہ میں عورتوں کوکوئی نصیحت کروں۔میں نے انہیں کہا تھا کہ انگریز خواتین کا سب سے پہلا اور سب سے زیادہ اہم فرض یہ ہے کہ وہ آئندہ نسل کو دہریانہ مادیت کے چنگل سے بچائیں۔ مذہب بے حد ضروری چیز ہے۔ مذہب عرفان و ایقان کا نام ہے۴۱۔ اقبال کے لندن کو خیر باد کہنے سے قبل۶نومبر ۱۹۳۱ء کو ہوٹل والڈورف میں اقبال لٹریری ایسوسی ایشن نے اقبال کے اعزاز میں ایک عظیم الشان ٹی پارٹی کا اہتمام کیا۔ جس میں تقریبًا چار سو شخصیات کو مدعو کیا گیا۔ دوسری گول میز کانفرنس کے تمام اراکین اس دعوت میں موجود تھے۔ مہاتماگاندھی ، سر تیج بہادر سپرو ، سروجنی نائیڈو، آغاخان، محمد علی جناح، سر عمر حیات ٹوانہ، سرمحمد شفیع ، سر ظفر اللہ خان، مولانا شوکت علی، سر اکبر حیدری ، سر میرزا اسماعیل، سر داراجل سنگھ وغیرہ سب آئے تھے۔ بہت سے انگریز مہمان بھی تھے۔ خواتین کی خاصی تعداد تھی۔ اکابر علم و فضل بھی مدعوتھے اور لندن، کیمبرج اور آکسفورڈ میں زیر تعلیم ہندو مسلم طلبہ ، نیز غیر ہندو ستانی طلبہ بھی شریک تھے۔ مسلم طلبہ میں چوہدری رحمت علی اور خواجہ عبدالرحیم پیش پیش تھے۔ مہمانوں کا استقبال ایک بڑے کمرے میں کیا گیا تھا۔جہاں ہر آنے والے مہمان سے اقبال کا تعارف سر عمر حیات ٹوانہ کراتے تھے۔چائے کا انتظام دو بڑے ہال کمروں میں کیا گیا تھا۔ چائے سے فراغت کے بعد جلسے کی کارروائی شروع ہوئی۔ سرعبدالقادر نے صدارت کے فرائض انجام دیے۔ بعد ازاں پروفیسر نکلسن نے تقریر کی انہوں نے واضح کیاکہ اقبال اپنے کلام کے ذریعے ایک خاص پیغام دینا چاہتے ہیں۔ جس میں روحانیت کا پہلو غالب ہے اور یہ پیغام دہریانہ مادیت کے خلاف ہے ۔ ابتداء میں لوگوں نے گمان کیا کہ اقبال نطشے کے افکار کو فارسی جامہ پہناکر پیش کررہے ہیں، مگر جس کسی نے بھی ان کے اشعار کا بغور مطالعہ کیا ہے اس پر یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ان کی تعلیمات مختلف ہیں۔ پروفیسر نکلسن کی تقریر کے بعد نیاز محمد خان سیکرٹری اقبال لٹریری ایسوسی ایشن نے اقبال کی خدمت میں سپاسنا مہ پیش کیا۔ ایڈریس کے خاتمے پر اقبال نے میزبانوں اور مہانوں کا شکریہ ادا کرنے کے بعد بتایا کہ طالب علمی کے زمانے میں جب وہ انگلستان آئے تھے تو انہوں نے کیامحسوس کیا تھا، وہ کس قسم کے خیالات لے کر وطن واپس گئے۔ انہیں مشرقی ادبیات میں روح پیدا کرنے کے لیے کوئی نیا سرمایۂ حیات فراہم کرنے کا خیال کیونکر آیا اور انہوں نے فارسی زبان میں اشعار کہنے کیوں شروع کیے۔ اس تقریر کا بیشتر حصّہ اس کتاب کے دوسرے حصّے میں پیش کیا جاچکاہے۔ باقی حصّہ مندرجہ ذیل ہے : میں نے جو خیالات ظاہر کیے تھے، ان پر ابتدا میں بہت سے اعتراض ہوئے ۔ حتیٰ کہ میری نسبت کہا گیا کہ میں دہریت کی تبلیغ کرتاہوں ۔ اور یہ اعتراض مسیحی کلیسا کے ایک رئیس کی طرف سے کیا گیا۔ سائنس کے مقابلے میں یورپی ادبیات کی کمزوری اور انحطاط کا مجھے جو احساس ہوا، اسے میں نے مختلف اشعار کے روپ میں پیش کیا ہے۔ مثًلا عشق ناپید وخرد مے گزدش صورت مار گرچہ در کاسۂ زر لعل روانے دارد میں مکرّر آپ حضرا ت کا شکریہ ادا کرتاہوں اور خوش ہوں کہ اگرچہ میرے ساتھ رفقار کی کوئی فوج نہیں ہے ، تاہم رفقاء کی ایک کثیر جماعت میرے سامنے ہے۔ آپ اپنی تعداد بڑھائیے ۔ میں آپ کو وہی نصیحت کرتاہوں جو میں نے اپنے فرزند (جاوید اقبال) کو کی ہے ۔ یعنی کم خورو کم خواب و کم گفتار باش گرِد خود گر دندہ چوں پُرکار باش اور آپ کے سامنے وہی بات دہراتاہوں جو میں نے صوفیوں سے کہی ہے زمن گو صوفیان باصفارا خدا جویان معنی آشنا را غلام ہمت آں خود پرستم کہ بانورِ خودی بیند خداراً۴۲ بعد میں شیخ نور محمد اور عبد اللہ یوسف علی نے بھی اقبال کی شاعری و فکر کے متعلق تقاریر کیں۔ آخر میں سروجنی نائیڈو نے ایک نہایت دلکش تقریر کی۔ پھر آغاخان کی تقریر کے ساتھ تقریب اختتام پذیر ہوئی۔۴۳ ۲۱؍نومبر ۱۹۳۱ء کو نوبجے صبح اقبال مع غلام رسول مہر وکٹوریہ اسٹیشن لندن سے روم روانہ ہوئے۔ انہیں رخصت کرنے کے لیے چند اصحاب آئے ہوئے تھے۔ دو بجے کے قریب فرانس کی بندرگاہ بولون سے وہ پلمین ریل کار میں سوار ہوئے اور چار بجے پیرس کے اسٹیشن گاردی نورد پہنچے۔ یہاں اقبال کے تارکی وجہ سے امراؤسنگھ شیر گل استقبال کے لیے موجود تھے۔ پھر گاڑی گاردی لیاں اسٹیشن پر رکی۔ اس مقام پر اقبال شیدائی انہیں ملنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ سو کچھ وقت اس کی معیت میں گزارنے کے بعد تقریبًا پانچ بجے شام اقبال اور غلام رسول مہر کی ٹرین پیرس سے روانہ ہوئی ۔ شب اور۲۲ نومبر ۱۹۳۱ء کا پورا دن سفرمیں گزرا۔ رات کے تقریبًا آٹھ بجے گاڑی روم پہنچی ۔ اسٹیشن پر اقبال کے دوست ڈاکٹر سکارپا (قونصل جنرل اٹلی مقیم بمبئی ) اور اٹلی کی رائل اکادمی کی طرف سے روم یونیورسٹی میں فلسفے کے پروفیسر ایرسٹاکو استقبال کے لیے موجود تھے۔ انہوں نے اقبال اور غلام رسول مہر کو موٹر کار میں لے جا کر ایک اعلیٰ ہوٹل میں ٹھہرایا۔ رات کا کھانا ڈاکٹر سکارپا کے ساتھ کھایاگیا۔ ۲۳؍نومبر ۱۹۳۱ء کو ڈاکٹر سکارپا صبح آئے اور اقبال کو بعض اہل علم سے ملوانے کے لیے ساتھ لے گئے ۔ واپسی پر تقربیًا ایک بجے رائل اکادمی کے نائب صدر فالمیکی انہیں ملنے کے لیے ہوٹل میں آئے او ر دو گھنٹے تک باتیں کرتے رہے ۔ تین بجے ایک فاضل اطالوی خاتون اقبال سے ملاقات کے لیے آئیں۔ شام کو ایک اطالوی بینکر کی بیوی آئیں جوہندوستان کے علاوہ وسط ایشیا کے مختلف حصّوں کی سیاحت کر چکی تھیں ۔ پھر وزارت خارجہ کا ایک اہم رکن ملاقات کے لیے آیا۔ ۲۴؍ نومبر ۱۹۳۱ء کی صبح تاریخی مقامات کی سیر کے لیے مخصوص تھی۔ سو اطالوی محکمہ آثارِقدیمہ کا ایک افسر اور ایک جرمن خاتون جو انگریزی جانتی تھی ، اقبال اور غلام رسول مہر کو ہوٹل سے لے کولسیزیم یاایلفی تھٹیر پہنچے ۔ آثار قدیمہ کے ماہر نے بتایاکہ اس تماشا گاہ میں جہاں انسانوں اور درندوں کی لڑائی کرائی جاتی تھی۔ پچاس ہزار افراد کے بیٹھنے کا انتظام تھا۔اقبال نے غلام رسول مہر سے مخاطب ہو کر کہا کہ دیکھو ایک طرف قدیم رومی بادشاہ تھے، جنہوں نے ایک عظیم الشان عمارت اس غرض سے بنوائی کہ پچاس ہزار آدمی اس میں بیٹھ کر انسانوں اور درندوں کی لڑائی کا تماشا دیکھیں اور دوسری طرف لاہور کی شاہی مسجد اس غرض کے لیے تعمیر کی گئی تھی کہ ایک لاکھ بندگان خدا جمع ہو کر مساوات، اخوت او رمحبت کے سچے اور مخلصانہ جذبات کا مظاہر ہ کریں۔ اسی ایک مثال کو سامنے رکھ کر اندازہ کیجیے کہ اسلام کیسی برکات و حسنات کا سرچشمہ ہے ۔ یہاں کچھ وقت گزارنے کے بعد قیصر اگسٹن کے بابِ فتح سے گزرتے ہوئے وہ فورم میں داخل ہوئے۔ پھر سپلیٹن کے حصّے دیکھے اور تقربیًا اڑھائی گھنٹوں کے بعد لوٹے۔ کچھ دیر ہوٹل میں آرام کرکے کٹیا کومب دیکھنے کے لیے چلے گئے۔ یہ زمین دوز پُر پیچ رستے میلوں تک پھیلے ہوئے ہیں اور ان کے غاروں یا کئی منزلوں کے تہ خانوں میں رومی دور کے عیسائی ولیوں یا راہبوں کے جسمانی پنجر اور کھوپڑیاں ترتیب سے رکھی ہیں۔ اس منظر کو دیکھ کر اقبال کے دل پر بہت اثر ہوا۔ فرمایا: مذہب بھی کیا عجیب چیز ہے ۔ کوئی دوسری قوت ، عقید ے اور ایمان کی قوت کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔ یہ جو کچھ ہو ا مذہبی عقائد کے جوش میں ہوا۔ عقیدہ اصلاً غلط بھی ہو، لیکن مذہب کے رنگ میں دل پر قبضہ کر لیتاہے تو انسان کے قوائے عمل میں عجیب و غریب حرارت پیدا کردیتا ہے ۴۴۔ کٹیا کومب کی زمین دوزی اور تاریکی پر بھی اقبال نے اظہار رائے کرتے ہوئے کہا: اسلام سے قبل ہر مذہب کا رجحان تیرگی ، ظلمت، اخفااور اسرار کی طرف تھا۔ اسلام پہلا مذہب ہے جس نے سورج کی روشنی میں خدائے واحد و قہار کی پرستش کی اور مذہب کو مستوری اور اخفا سے باہر نکالا۔ اور یہ حقیقت اسلام کی عبادت گاہوں اور ماقبل اسلام کی عبادت گاہوں پر سرسری نگاہ ڈالنے سے بھی آشکارا ہوجاتی ہے۔ شام کو پانچ بجے اٹلی کے معروف عالم پروفیسر جنٹیلی انہیں ملنے کے لیے آئے اور تقریبًا ایک گھنٹے تک مختلف مسائل پر باتیں ہوتی رہیں ۔ مترجم کے فرائض ڈاکٹر سکارپا نے انجام دیے۔ زیر بحث مسائل تھے: کسی قوم کی تعمیر و تربیت میں شعر و موسیقی کا حصّہ ، روم کے آثار قدیمہ کے متعلق اقبال کے تاثرات اوریورپی تہذیب کامستقبل۔ ڈاکٹر سکار پانے اطالوی اخباروں اوررسالوں میں اشاعت کے لیے اقبال پر اپنے مضمون میں ان کے بعض اشعار کے علاوہ نظم سسلی کا ترجمہ بھی اطالوی زبان میں کررکھاتھا۔ پروفیسر جنٹیلی چونکہ خود سسلی کے رہنے والے تھے، اس لیے انہوں نے ڈاکٹر سکارپاسے ترجمے کی ایک نقل حاصل کی۔ بعد ازاں اقبال نے ان کے ساتھ جاکر اس محکمے کے مختلف شعبوں کا معائنہ کیاجہاں پروفیسر جنٹیلی کی زیر نگرانی انسائیکلوپیڈیا اطالیہ کی ترتیب دی جارہی تھی۔ ۲۵؍نومبر ۱۹۳۱ء کو تین بجے اقبال او رغلام رسول مہر افغانستان کے سابق شاہ امان اللہ خا ن کے مکان پر انہیں ملنے کے لیے گئے ۔ یہ ملاقات تقریباً تین گھنٹے تک جاری رہی اور اس میں امان اللہ خان نے بتایا کہ کن حالات کے تحت انہیں افغانستان چھوڑنا پڑا۔ پھر افغانستان کے مستقبل کے بارے میں باتیں ہوتی رہیں۔ ۲۶؍ نومبر ۱۹۳۱ء کو اقبال نے اٹلی کی رائل اکادمی میں لیکچر دیا۔ اس جلسے میں روم کے تمام اہل علم، دانشور اور یونیورسٹی کے پروفیسر مدعو تھے ۔ نیز روم کی بعض اہم شخصیات اور کئی خواتین و حضرات نے شرکت کی۔ اس لیکچر کے نوٹس جو اقبال نے اپنے ہاتھ سے لکھے تھے، اقبال کے خطوط اور تحریریںمرتبہ بی۔اے ڈار (انگریزی)، صفحات ۸۰ تا ۸۶ پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ ۲۷ نومبر ۱۹۳۱ء کی صبح کو شاہ امان اللہ اقبال سے ملاقات کے لیے ان کے ہوٹل میں آئے اور تقریباًٍٍٍٍٍٍٍٍٍ دو گھنٹے تک ان کے ساتھ مختلف موضوعات پر باتیں کرتے رہے۔ اقبال نے انہیں رخصت کرتے وقت فرمایا: پیرما گفت جہاں بر روشے محکم نیست از خوش و ناحوش او قطع نظر باید کرد اسی دن مسولینی نے اقبال کو مدعو کر رکھا تھا۔ مسولینی سے اقبال کی ملاقات کے متعلق مختلف روایتیں مشہور ہیں۔ ایک روایت تو غلام رسول مہر کی ہے۔ اِن کے بیان کے مطابق ڈاکٹر سکارپا مترجم کی حیثیت سے اقبال کے ساتھ گئے۔ مسولینی نہایت تپاک سے ملا، مگر ملاقات زیادہ طویل نہ تھی۔ اقبال کی تصانیف کے متعلق گفتگو ہوئی۔ مسولینی نے پیشکش کی کہ اقبال حکومت اطالیہ کے خرچ پر لیبیا جائیں۔ اور دیکھیں کہ عربوں کی فلاح و بہبود کے لیے کیا کچھ کیاجارہاہے ۔ اور پھر اس مشاہدے کے بعد مشورہ دیں کہ حکومت اطالیہ کو مزید کیا کچھ کرنا چاہئیے ،لیکن اقبال نے فرصت نہ ہونے کا عذر کرکے اس پیشکش کو رد کر دیا ۔ دوسری روایت سرما لکم ڈارلنگ کی ہے جس نے ۱۹۳۴ء میں اقبا ل سے لاہورمیں ملاقات کی تھی اور بقول اس کے اقبال نے مسولینی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ مسولینی سے اُن کی ملاقات ایک وسییع و عریض ہال میں ہوئی۔ جو اس کا دفتر تھا۔ ہال کے ایک سرے پر اونچے پلیٹ فارم پر رکھے ہوئے بڑے سے بینر کے پیچھے ایک شاندار کرسی پر مسولینی بیٹھا کا م میں مصروف تھا۔ اقبال کو اس حد تک پہنچنے کے لیے خاصا فاصلہ طے کرنا پڑا ، لیکن اس نے آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا کہ کو ن آرہاہے ۔ جب وہ پلیٹ فارم کے قریب پہنچے تو اس نے نظریں اٹھائیںا وران کی طرف بڑھ کر پر تپاک طریقے سے مصافحہ کیا۔ یہ ملاقات تقربیًا چالیس منٹ تک جاری رہی۔ مسولینی نے اقبال سے اٹلی کے متعلق ان کے تاثرات معلوم کرنے چاہے۔ اقبال نے کچھ پس وپیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی رائے میں اطالوی لوگ ایرانیوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔ وہ بڑے خوب رو، فن پرست اور ذہین و فطین ہیںاور ان کا عظیم الشان ماضی تہذیب و تمدن کی کئی صدیوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ مگر ان میں خون نہیںہے، اس پر مسولینی نے انتہائی تعجب کا اظہار کیا۔ اقبال نے سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ایرانیوں کو ایک فائدہ حاصل ہے جو بد قسمتی سے اطالویوں کو حاصل نہیں اور وہ یہ ہے کہ ایرانیوں کے اردگرد توانا قومیں ترک، افغان اور کُرد آباد ہیں ، جن سے تازہ خون حاصل کیا جا سکتا ہے، لیکن اطالویوں کے لیے ایسی صورت موجود نہیں۔ مسولینی نے پوچھا کہ پھر اطالویوں کو کیا کرناچاہیٔے۔ اقبا ل نے جواب دیاکہ یورپ سے مُنہ موڑ کر مشرق کا رُخ کرو۔ یورپ کا اخلاق روبہ تنزل ہے، لیکن مشرق کی ہواتازہ ہے اور اس میں سانس لیناچاہیے۔ بعد ازاں مسولینی نے اقبال کو خط لکھ کر پوچھا کہ اٹلی میں آباد مسلمانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کوئی تجویز پیش کریں ۔ اقبال نے مشورہ دیا کہ روم میں ایک مسجد تعمیر کی جائے اورسلرنومیں علماء کی ایک کانفرنس بلوانے کا اہتمام کیا جائے کیونکہ سلر نو کو مسلم حلقے ایک قدیم اسلامی شہر تصّور کرتے ہیں۔ مسولینی سے ملاقات کے اختتام پر جب اقبال قصر وینس سے باہر نکلے تو انہیں صحافیوں نے گھیر لیا اور پوچھا کہ ڈوچے کے متعلق ان کی کیا رائے ہے۔ اس پر اقبال نے جواب دیا کہ وہ اس خوف سے اپنی رائے کا اظہار کرنا مناسب نہیں سمجھتے کہ کہیں پوپ اسے ناپسندنہ کرے، لیکن صحافیوں نے انہیں نہ چھوڑا۔ بالآخر اقبال نے بہ عالم مجبوری اپنی رائے کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ ’’آپ کا دوچے ایک لوتھر ہے مگر بغیر انجیل کے‘‘۔ تیسری روایت فقیر سید وحید الدین نے اپنی تصنیف میں پیش کی ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں: انہیں (اٹلی میں) مسولینی سے ملنے کا بھی اتفاق ہوا۔ یہ ساری کیفیت میںنے خود ان کی زبانی سنی ہے ۔ انہوں نے خود مسولینی سے ملنے کی خواہش ظاہر نہیں کی تھی، بلکہ جن دنوں وہ روما میں مقیم تھے، مسولینی نے اپنے سٹاف کے آدمی کے ذریعے انہیں کہلابھیجا کہ میں آپ سے ملنا چاہتاہوں ۔ ڈاکٹر صاحب نے دعوت قبول کرلی اور مسولینی سے ملنے تشریف لے گئے۔ وہ ایک بڑے وسیع کمرے میں میز کے قریب بیٹھا ہوا تھا۔ میز پر کا غذوں کا انبار تھا ۔ ڈاکٹر صاحب کمرے میں داخل ہوئے تو وہ پیشوائی کے لیے بڑھا۔ اس کا قدزیادہ اونچا نہیں تھا۔ لیکن بازو بھرے ہوئے تھے۔ سینہ کشادہ اور آنکھیں شکرے کی آنکھوں کی طرح چمکیلی تھیں۔ رسمی مزاج پُرسی کے بعد اس نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا: میری فاشسٹ تحریک کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے انہو ںنے جواب دیا:آپ نے ڈسپلن کے اس اصول کابڑا حصّہ اپنالیا ہے جسے اسلام انسانی نظام حیات کے لیے بہت ضروری سمجھتا ہے، لیکن اگر آپ اسلام کے نظریۂ حیات کو پوری طرح اپنالیں تو سارا یورپ آپ کے تابع ہوگا۔ لیکن یہ ایسی بات نہیں تھی کہ مسولینی کے ذہین میں آسانی سے آجاتی۔ ڈاکٹر صاحب نے مسولینی کو یہ مشورہ دیا کہ یورپ سے اپنا مُنہ موڑ لو(یعنی یہ کہ یورپ جس معاشرہ کی ترقی کا داعی ہے تم اس کی تقلید سے اجتناب کرو) مسولینی نے ڈاکٹر صاحب سے دریافت کیا کہ میں دنیا کے مسلمانوں کی ہمدردیاں کس طرح حاصل کرسکتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا: مفت تعلیم اور رہائش کا انتظام کر کے زیادہ سے زیادہ مسلمان طلبہ کو اٹلی بلوائیے۔مسولینی نے ڈاکٹر صاحب سے کوئی اچھوتا مشورہ بھی طلب کیا۔ انہوں نے کہا: ہر شہر کی آبادی مقرر کر کے اُسے حد سے نہ بڑھنے دو۔ اس سے زیادہ بسنے والوں کو نئی بستیاں مہیا کی جائیں ۔ مسولینی نے حیران ہوکر کہا: اس میں کیا مصلحت ہے ؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ شہر کی آبادی جس قدر بڑھتی جاتی ہے۔ اس کی تہذیبی و اقتصادی توانائی کم ہوتی جاتی ہے۔ اور ثقافتی توانائی کی جگہ محرکات شرلے لیتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا: یہ میرا ذاتی نظریہ نہیں ہے بلکہ میرے پیغمبرؐ نے آج سے تیرہ سو سال قبل یہ مصلحت آمیز ہدایت فرمائی تھی کہ جب مدینہ منورہ کی آبادی ایک حد سے تجاوز کرجائے تو مزید لوگو ںکو آبا د ہونے کی اجازت دینے کی بجائے دوسرا شہر آباد کیا جائے۔ یہ حدیث سُنتے ہی مسولینی کرسی سے کھڑا ہوگیا۔ اور دونوں ہاتھ میز پر زور سے مار کر کہا : کتنا اُچھوتا خیال ہے۴۵۔ ان تینوں رواتیو ںمیںسے کون سی درست ہے؟ یہ بتانا تو ممکن نہیں مگر اس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ اقبال ملاقات کے وقت واقعی مسولینی کی شخصیت سے متاثر ہوئے تھے۔ آل احمد سرور کے نام اپنے ایک خط محررّہ ۱۲ مارچ ۱۹۳۷ء میں فرماتے ہیں: مسولینی کے متعلق جو کچھ میں نے لکھا ہے، اس میں آپ کو تناقص نظر آتاہے ۔ آپ درست فرماتے ہیں لیکن اگر اس بندۂ خدا میں ڈیول (شیطان) اور سینٹ (ولی) دونوں کی خصوصیات جمع ہوں۔ تو اس کا میں کیاعلاج کروں ۔ مسولینی سے اگر کبھی آپ کی ملاقات ہو تو آپ اس بات کی تصدیق کریں گے کہ اس کی نگاہ میں ایک نا ممکن البیان تیزی ہے، جس کوشعاع آفتاب سے ہی تعبیر کرسکتے ہیں۔ کم از کم مجھے اس قسم کا احساس ہوا۴۶۔ اقبال نے مسولینی کی نگاہ کی جس ناممکن البیان تیزی کا ذکر کیاہے۔ وہ دراصل ذہنی طور پر بیمار مجرموں یا قاتلوں کی نگاہوں میں محسوس کی جاسکتی ہے۔ ایسی تیزی انتہائی بے چینی کی علامت ہوتی ہے اور اس نا ممکن البیان بے چینی ہی کے عالم میں کسی بڑے جرم یا قتل کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔بہرحال جب اقبال،مسولینی سے ملے تو وہ اپنے عُروج پر تھا اور اپنی قوم کا نجات دہندہ سمجھا جاتاتھا۔ اس نے اطالوی قوم میں زندگی کی نئی روح پھونکی تھی اور اس کے جوش خطابت کے سبب نوجوانوں کے سینے آرزوئوں سے تنے ہوئے تھے۔ ہر کوئی کسی نہ کسی تعمیر ی کام میں مصروف تھا ۔ ملک تیزی سے ترقی کی طرف رواںتھا اور اقبال کو یقین تھاکہ اطالوی نوجوانوں کی گرم جوشی ان کے عمل کی شگفتگی اور جذبات کی بلندی مسولینی ہی کے فیض نظر یا کرامت کا نتیجہ ہے ، مگر ۱۹۳۵ء میں جب مسولینی نے ایبے سینیا پر حملہ کر کے اس چھوٹے سے نادار ملک پر قبضہ کرلیاتووہ ان کی نگاہوں میں گرگیااور اقبال اسے بھیڑیے کی قسم کا درندہ تصّور کرنے لگے ۔ مسولینی کے قتل کے بعد جس کسی نے بھی شہر میلان میں اس کی لاش کو الٹا لٹکتے ہوئے دیکھا ہے وہ نہیں جان سکتا کہ یہی مسولینی جو بالآخر اطالوی قوم کی تباہی و بربادی کا باعث بنا، چند سال قبل اس قوم کے نجات دہندہ کی حیثیت سے پرستش کیاجاتاتھا۔ اقبال اپنی زندگی میں بعض سیاسی شخصیات سے ایسے ہی متاثر ہوئے تھے ۔ گو بعد میں انہیں کسی نہ کسی بنا پر مایوس ہونا پڑا۔ اسی طرح شاہ امان اللہ خان سے توقعات وابستہ کیں کہ وہ افغانستان میں نئی روح پھونکیں گے، لیکن امان اللہ کو اپنے ملک سے فرار ہونا پڑا۔ اسی طرح محمد نادر شاہ سے توقعات وابستہ کیں کہ وہ افغانستان کے اسلامی تشخص کو اُجاگر کریں گے، مگر نادر شاہ کو کابل میں قتل کردیا گیا۔ ترکی کے مصطفٰے کمال اور ایران کے رضا شاہ پہلوی سے بھی اقبال وقتی طورپر متاثر ہوئے ، لیکن بالآخر وہ ان دونوں سے ناامید اور مایوس ہوئے اور اسی نا امیدی اور مایوسی کے عالم میں فرمایا: مری نوا سے گربیان لالہ چاک ہوا نسیم صبح چمن کی تلاش میں ہے ابھی نہ مصطفٰے نہ رضا شاہ میں نمود اس کی کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی مری خودی بھی سزا کی ہے مستحق لیکن زمانہ دارورسن کی تلاش میں ہے ابھی ۲۷نومبر ۱۹۳۱ء ہی کے دن روم کے بعض اخباروں میں اقبال کی تصویر یں یا ان کی شاعری وفکر پر مضامین شائع ہوئے نظم سسلی کے چند حصّوں کا اطالوی ترجمہ بھی اقبال کے رائل اکادمی میں لکچر کے اقتباسات کے ساتھ چھپا۔ سسلی کی ایک متمول خاتون اقبال کو کئی مرتبہ ملنے کے لیے آئیں اور انہیں سسلی میں اپنے محل میں ایک ماہ کے لیے قیام کرنے پر مجبور کرتی رہیں تاکہ وہ انہیں اسلامی تمدن کے آثار دکھا سکیں ، لیکن اقبال نے وقت کی قلت کے سبب یہ دعوت قبول نہ کی ۔ اقبال کو لندن میں طالب علمی کے زمانے سے جاننے والی نیپلز کی بیرونس یا کاؤئٹس کارنیوالے بھی روم میں انہیں بارہا ملنے کے لیے آئیں۔ بعض اصحاب کا خیال ہے کہ کاو ئنٹس کا رنیوائے ہی نے مسولینی سے اقبا ل کی ملاقات کرائی تھی۔کائونٹس کارنیوالے اقبال کے اعزاز میں دعوت دینا چا ہتی تھیں ۔ اقبال نے یہ دعوت اس شرط پر قبول کرلی کہ وہ ا س میں روم کی حسین ترین خواتین کو مدعو کریں گی۔ یہ عظیم الشان دعوت ۲۷ نومبر ۱۹۳۱ء کی شب کو انہوں نے روم میں اپنے ویلا میں دی۴۷ ۔اس سے پیشتر شام کو نیپلز سے اٹلی کی اسمبلی کے ایک رکن بیرن رابرٹوریکاڈی اقبال سے ملاقات کے لیے ہوٹل میں آئے۔ او ر انہیں نیپلز آنے کی دعوت دی تاکہ وہ پمپئی کے کھنڈر اور آتش فشاں ماؤنٹ ویسوویس دکھا سکیں۔ اقبال نے ان کے اصرار پر دعوت قبول کرلی ۔ چنانچہ ۲۸نومبر۱۹۳۱ء کی صبح کواقبال اور غلام رسول مہر نیپلز پہنچے ۔ بیرن ریکاڑدی کے بیٹے نے ان کا استقبال کیا۔ وہاں سے پمپئی گئے اور دو گھنٹے تک کھنڈروں کی سیرکرتے رہے۔ تیز بارش کے باعث ماؤنٹ ویسودیس کی چوٹی پر نہ جاسکے۔ شام کو نیپلزکا میوزیم دیکھا۔ پھر بیرن ریکاڑوی کے مکان پر پہنچے جو اقبال کے استقبال کی خاطر روم سے نیپلز آگئے تھے۔ رات کا کھانا بیرن ریکارڈی کے ساتھ کھایا۔ بعدازاں ریکارڈی انہیں اسٹیشن تک چھوڑنے کے لیے آئے اور ۲۸؍نومبر ۱۹۳۱ء کو ساڑھے گیارہ بجے رات اقبال اور غلام رسول مہر نیپلز سے روانہ ہو کر اگلے روز برنڈزی پہنچے۔ ۲۹ نومبر ۱۹۳۱ء کو سہ پہر کے وقت بارش اور تندوتیز ہوا میں اقبال، غلام رسول مہر اور مولانا شفیع داؤدی (جو انہیں یہاں آملے تھے) ’’وکٹوریہ ‘‘نامی جہاز کے ذریعے برنڈزی سے اسکندریہ (مصر) روانہ ہوئے اور دو دن کے سمندری سفر کے بعد یکم دسمبر۱۹۳۱ء کو صبح نو بجے اسکندریہ پہنچے۔ بندر گاہ پر پرنس عمر طوسون کے خاص آدمی جمعیۃ الشبان المسلمین کے چند ار کان، صدیق محمد ناڑو، مولانا شوکت علی ، اور دیگر اصحاب جو ان کی آمد سے قبل روم سے سیدھے یہاں پہنچ چکے تھے ،ان کے استقبال کے لیے موجود تھے ۔ شبان المسلمین کے ارکان کے ہاتھوں میں جھنڈے تھے۔ انہوں نے استقبال میں نعرے بلند کیے اور اخباری نمائندوں نے اقبال او ران کے رفقا کی تصویریں کھینچیں ۔ وہاں سے سب پرنس عمر طوسون کی موٹروں میں سوار ہوکر پہلے تو شاہی محل گئے ، جہاں انہوں نے شاہ فواد کے ملاقاتیوں کی کتاب پر دستخط کیے اور پھر پرنس عمر طوسون کی رہائش گاہ پرپہنچ کر کچھ دیر آرام کیا۔ پرنس عمر طوسون خود اسکندریہ میں موجود نہ تھے ۔ لیکن مہمانوں کی دیکھ بھال کاساراانتظام انہی کا تھا۔ آرام کرنے کے بعد اقبال نے اسکندریہ شہر کی سیر کی۔ شبان المسلمین کے دفتر میں گئے ۔ بعض اہل علم سے ملے اور اخباروں کے لیے انٹرویو دیا۔ پھر تین بجے بذریعہ ریل قاہرہ کے لیے روانہ ہوئے اور چھ بجے شام قاہرہ پہنچے ۔ اسٹیشن پر شبان المسلمین کے ارکان، چند ممبر پارلیمنٹ، اخبارات و رسائل کے مدیر، قاہرہ میں مقیم ہندوستانی مسلمان اور جامعہ ازہر کے ہندوستانی طلبہ ان کے استقبال کے لیے پہنچے ہوئے تھے ۔ قاہرہ میں اقبال کا قیام میٹروپولٹین ہوٹل میں تھا۔ لیکن اس رات کا کھانا انہوں نے ڈاکٹر عبدالحمید سعید بے ممبر پارلیمنٹ کے ہاں کھایا، جہاں شیخ الازہر مفتی ازہر محمد علی پاشا، سابق وزیر اوقاف اور دیگراکابرین سے اُن کی ملاقات ہوئی ۔ اخباری نمائندوں نے اقبال کو شبان مصر کے لیے کوئی پیغام دینے کو کہا، فرمایاکہ نوجوانان مصر سے میری آرزدہے کہ پیغمبرؐ اسلام علیہ الصلوۃ والسلام کے وفادار رہیں۔ رات کے گیا رہ بجے واپس ہوٹل آئے۔ اقبال نے محسوس کیاکہ مصرمیں عام تاثر یہی ہے کہ ہندوستان کی جدو جہد آزادی میں مسلمان روڑے اٹکا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے قیام کے دورا ن میں اس غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کی اور مصری صحافیوں کو ہندی مسلمانوں کی جداگانہ سیاسی حیثیت یا ان کے سیاسی موقف سے آگاہ کیا ۔ مصر کی کئی اہم علمی شخصیتیں اقبال کی آمد کی منتظر تھیں۔ چنانچہ ان میںسے مشہور وکیل اور فلسفے پر متعدد کتب کے مصنف لطفی بے جمعہ نے قاہرہ میں اپنا بیشتر وقت اقبال کے ساتھ گزارا۔ ۲؍ دسمبر ۱۹۳۱ء کی صبح کو محمد صدیق ناڑو، محمود احمد عرفانی اور ماسٹر امام دین کار میں اقبال کو آثار قدیمہ کی سیر کرانے لے گئے ۔ انہوں نے قاہر ہ سے دس میل کے فاصلے پر اہرام مصر کی سیر کی، دریائے نیل کے کنارے خوبصورت باغات میں گھومے ۔ یہا ںکئی نئی عمارتیں تعمیر ہورہی تھیں۔ جنہیں دیکھتے ہوئے وہ آگے بڑھ گئے۔ ہرم اکبر ، ہرم اوسط اور ہرم اصغر دیکھے ۔ اہرام سے کچھ فاصلے پر ابو لہول دیکھا۔ واپسی پر قصر العینی گئے۔ یہ ایک بہت بڑا ہسپتال ہے جو علامہ بدرالدین عینی کے نام سے موسوم ہے ۔ اس علاقے کے بازاروں میں پھرے۔ دوپہر کا کھانا شا م کے تاجرمحی الدین الحضی کے مکان پر کھایاجہاںوہ شام میں فرانسیسی استعمار کے خلاف برسوں جہاد کرنے والے شامی مجاہد ڈاکٹر عبدالرحمن شہبندر سے ملے۔ ڈاکٹر شہبندر کو اقبال نے ہندوستان کے صحیح حالات سے روشناس کرایا ۔ بعدا زاں عرب ممالک کے حالات اور عربوں کے مستقبل کے مسائل زیر بحث آئے۔ ساڑے تین بجے واپس ہوٹل پہنچے جہاں کئی حضرات کو منتظر پایا اور جن سے ملاقات کی گئی ۔ اسی دوران میں اقبال سے ملاقات کے لیے مصر کے مشہور صاحب طریقت بزرگ سید محمد ماضی ابو العزائم اپنے دو صاحبزادوں کے ساتھ تشریف لائے۔ اقبال انہیں یوں ہوٹل میں دیکھ کر سخت پریشان ہوئے۔ کہاکہ حضرت آپ نے تکلیف کیوں کی ، میں خود زیارت کے لیے حاضر ہوجاتا۔ انہوں نے فرمایا: خواجہ دوجہاں حضور ؐ کا ارشاد ہے کہ جس نے دین سے تمسک کیاہو اس کی زیارت کو جاؤ گے۔ تو مجھے خوشی ہوگی، لہٰذا میں اس ارشاد کی تعمیل میں چلا آیاہوں تاکہ میرے آقا مجھ سے خوش ہوں۔ اقبال اُن کی بات سُن کر بیتاب ہوگئے اور انہیں چپ سی لگ گئی۔ سید العزائم دیر تک بیٹھے نصیحتیں کرتے رہے اور اقبال خاموشی سے سنتے رہے۔ جب وہ چلے گئے تو اقبال سے نہ رہا گیا آنسوو ں کاسیلاب بے اختیار آنکھوں سے بہ نکلا۔ فرمایا: ایسا زمانہ بھی آگیا ہے کہ لوگ مجھ جیسے گناہ گار کو متمسک بالدین سمجھ کر حضور خواجۂ دو جہا ںؐ کے ارشاد کے اتباع میں بغرض خوشنودیِ آنحضرؐت ملنے آتے ہیں۔ کچھ دیر کے بعد پروفیسر علی بے عبدالرزاق ملاقات کے لیے آئے۔ انہوں نے اپنی کسی تصنیف میں مذہب او رسیاست کی علیحدگی کے مسئلے پر بحث کی تھی۔ جس پر علمائے ازہر نے ان کے خلاف فتویٰ دے رکھا تھا۔ اقبال نے انہیں اس مسئلے پر اپنا نقطۂ نظر واضح کیا اور ایسی علیحدٰگی کے نقصانات کی تفصیل بیان کی۔ اسی دوران میں مصطفٰے نحاس پاشا رئیس حزب الوفد کا ٹیلی فون آیا کہ وہ اقبال کے منتظر ہیں ۔ چنانچہ اقبال انہیں ملنے کے لیے بیت الامہ چلے گئے۔ مصطفٰے نحاس پاشا نہایت خلوص سے پیش آئے۔ ملاقات کے وقت انہوں نے اقبال کا تعارف وفد پارٹی کے دیگر ارکان اور نحاس وزارت کے چند وزراء سے بھی کرایا۔ گفتگو زیادہ تر مصری اور ہندوستانی سیاست کے متعلق ہوئی۔ بعدا زا ںاقبال، احمد ذکی پاشا شیخ العروبہ کے مکان پر گئے جو دریائے نیل کے کنارے واقع تھا اور رات کا کھانا ان کے ساتھ کھایا۔ گفتگو مسئلہ فلسطین اور مؤ تمر اسلامی کو کا میاب بنانے کے بارے میں ہوئی۔ ۳؍ دسمبر ا۱۹۳ء کو دوپہر کے کھانے کی دعوت مرزا مہدی بے ایرانی کے ہاں تھی۔ مولانا شوکت علی، مولانا شفیع داؤدی ، شیخ ازہر اور دیگر اصحاب بھی مدعو تھے۔ چار بجے انہوں نے احمد ذکی پاشاکے گھر چائے کی پارٹی میں شرکت کی۔ پانچ بجے محمود پاشا عبدالرزاق کے یہاں تشریف لے گئے جہاں محمود پاشا رئیس حزب الاحرار، محمد علی پاشا، ڈاکٹر محمد حسین ہیکل مدیر ’’السیاستہ‘‘ اور دیگر اہل علم سے ملاقات ہوئی۔ ابھی یہیں بیٹھے تھے کہ سید ابو العزائم کے فرزند کار لے کر پہنچ گئے اور بتایاکہ ان کے والد نے یاد فرمایا ہے۔ سو اقبال وہاں سے سید ابو العزائم کے مکان پر تشریف لے گئے۔ یہاں ان کے مریدوں کی خاصی تعداد موجود تھی۔ سید ابوالعزائم نے معمول کے مطابق اپنے ناصحانہ انداز میں کہا کہ جب مسلمانوں کی تعداد صرف چند لاکھ تھی تو دنیا کی عظیم سلطنتیں ان کے قدم چومتی تھیں اور آج جب وہ چالیس کروڑ ہیں، تو ہر جگہ کفار ان پر مسلّط ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اسلام چھوڑ دیا اور اس کی روح سے کنارہ کش ہوگئے۔ پھر اقبال کے دل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس دل میں اسلام کی محبت اور رسول ؐ کی خاص شیفتگی نظر آتی ہے۔ سید ابو العزائم کے اشارے پر ایک مرید نہایت دلکش مصری لہجے میں سورۃً فتح سنانے لگا۔ جب اقبال جانے کے لیے اٹھے تو سید ابو العزائم کے مریدوں نے حضرت اقبال زندہ باد کے نعروں سے انہیں رخصت کیا ۔ ۴؍ دسمبر ۱۹۳۱ء کو اقبال قاہرہ کا میوزیم دیکھنے کے لیے تشریف لے گئے۔ پہلے فراعنہ کے عہد کے آثار اور توت اخ آمون کے مقبرے سے برآمد کردہ نوادر دیکھے۔ حضرت موسٰی علیہ سلام کے دور کے فرعو ن کی ، جو سمندر میں غرق ہوا تھا، لاش کی ممی بھی موجود تھی۔ لیکن قبطیوں کے اعتراض کے پیش نظر ا ن ایام میں اس کی نمائش نہ کی گئی تھی۔ پھر عربی دور کے میوزیم کو دیکھنے کے لیے گئے ، جس میں اسلامی تمدن کی یادگاریں موجود تھیں ۔ اِن نوادر میں امام غزالی ؒ کا قلمدان اور عثمانی سلاطین محمد فاتح، سلیمان اعظم اور ملیم یلدرم کی شمشیریں بھی تھیں۔ میوزیم سے واپس آکر چاربجے شام جمعیتہ الرابطہ الہندیہ کی طرف سے چائے کی پارٹی میں شریک ہوئے۔ تقریب میں صدیق محمد ناڑو اور محمود احمد عرفانی نے اقبال کو سپاسنامہ پیش کیااو رلطفی بے جمعہ اور منیر الحضی نے خطاب کیا ، اقبال نے اپنی جوابی تقریر میں اراکین جمعیت کا شکریہ ادا کیا ۔ اور مصر و ہندوستان کے مابین تعلقات کو مضبوط بنانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ بعد میں سات بجے شام اقبال شبان المسلمین کے ارکان سے خطاب کرنے کے لیے شبان المسلمین کے دفتر پہنچے۔ ہال اہل علم سے کچھا کھچ بھرا ہواتھا۔ اقبال کی تقریر انگریزی میں تھی۔ رات کے کھانے کی دعوت محمد علی پاشا کے ہاں تھی ۔اقبال نے ان سے مختلف موضوعات پر گفتگو کی جن میں مسئلہ سود ، قرون اولیٰ کی اسلامی فتوحات، دور جدید میں مسلمانوں کے زوال کے اسباب اور ہندوستان کی سیاسیات نمایاں تھی۔ ۵؍ دسمبر ۱۹۳۱ء کی صبح کو سید ابو العزائم نے اپنی کار مع ڈرائیور بھیج دی تاکہ اقبال فسطاط (مصر کا قدیم اسلامی دارالخلافہ) دیکھ آئیں۔ سو اقبال اور غلام رسول مہر ، شیخ محمود احمد عرفانی کی معیت میں فسطاط پہنچے اور سب سے پہلے جامعہ عمرو ابن العاص دیکھی ۔ اس مسجد میں ایک مقام پر صحابہ کرامؓ میں سے کسی ایک بزرگ ہستی نے نماز ادا کی تھی جس کے سبب لوگوں نے اس جگہ کو چاٹ چاٹ کر گڑھے بنا دیے تھے۔ مسجد کے صرف دوستون سلامت رہ گئے تھے مگر چونکہ بعض ضعیف الاعتقاد لوگوں نے مشہور کررکھاتھاکہ مسجد کے باقی تمام ستونوں نے تو اسلام قبول کرلیا لیکن یہ دوستون کافر رہ گئے اس لیے نماز کے بعد ہر نمازی ان ستونوں کو جوتے لگایا کرتاتھا۔ یہا ںتک کہ حکومت مصر کو ان کی حفاظت کے لیے آہنی جنگلا لگانا پڑا۔ مسجد کے شمال میں عیسائی بادشاہوں کے محلوں یا گرجوں کے کھنڈر تھے۔ او ر جنوب میں فسطاط شہر آباد تھا۔ گواب وہ صرف کھنڈر ہی کی صورت میں باقی ہے۔ فسطاط سے کچھ فاصلے پر پرانے قبرستان میں مملوک سلاطین اور خدیو خاندان کے افراد کی قبریں تھیں۔ اقبال نے قبروں پر فاتحہ پڑھی اور پھرامام شافعیؒ کے مزار پر پہنچے ۔ مزار مربع کمرے پر قُبّہ کے ساتھ تعمیر کیاگیا تھا۔ دیواروں پر نقش و نگار تھے۔ تربت زمین سے تقربیًا چھ فٹ اونچی تھی ۔ اور اس پر سبز غلاف چڑھا ہواتھا ۔ اردگرد جالی لگی تھی ۔ اقبال جالی کے باہر بیٹھ گئے ۔ اور دیر تک قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہے ۔ بعد ازاں بانی خاندان خدیو کے قلعے اور تاریخی مساجد کی زیارت کرتے ہوئے جامعہ ازہر پہنچے۔ جامعہ ازہر کے منتظم محمد خالد حسینن بے ان کا انتظار کررہے تھے۔ اقبال نے کچھ دیر طلبہ کے ساتھ بیٹھ کر تفسیر، حدیث ، اور منطق کے درس سنے ۔ جامعہ کا نیا حصّہ بھی دیکھا جہاں طلبہ کو علوم جدیدہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ نیز طبیعیات، کیمیا وغیرہ کے شعبوں کا معائنہ کیا ۔ جامعہ کے ایک استاد نے اقبال کی شان میں قصیدہ لکھ رکھا تھا، جو انہیں پڑھ کر سنایا گیا ۔ اس پر تمام طلبہ نے ’’دکتور اقبال زندہ باد‘‘ اور’’ شاعر ہندی زندہ باد‘‘ کے نعرے لگائے۔ پھراقبال، شیخ الازہر شیخ مصطفی المراغی سے ملنے گئے جو اپنے دفتر میں ان کے منتظر تھے۔ اقبا ل نے جامعہ کے متعلق اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ راستہ وہی ہے گو قافلہ بدل گیا ہے ۔ اس لیے اگر آپ موجودہ قافلے کی، وقت کے جدید تقاضوں کے مطابق ضروریات کا خیال نہ کریں گے، تو مقصد کی تحصیل میں ہر گز کامیابی نہ ہوگی۔ جامعہ ازہر سے ماسٹر محمد رمضان کے گھر آئے اور کھانا کھایا۔ پھر سید ابو العزائم کے مکان پر پہنچے اور کچھ دیر ان کی صحبت سے فیض یاب ہوئے۔ بعدا زاں ہوٹل پہنچ کر سامان ریلوے اسٹیشن بھجوایا اور خود ڈاکٹر شہبندر کے ہاں چائے کی دعوت میں شرکت کے لیے گئے۔ یہاں کئی شامی مجاہدین ان سے ملاقات کے منتظر تھے۔ نیز احمد ذکی پاشا ، علی بے عبد الرزاق ، لطفی بے جمعہ،، ڈاکٹر منصور فہمی، منیر الحضی، احمد جمال پاشا الغزی وغیرہ اصحاب بھی موجود تھے۔ چائے سے فراغت کے بعد سیدھے ریلوے اسٹیشن پہنچے۔ اسٹیشن پرکئی مصری اور ہندوستانی اصحاب انہیں الوداع کہنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔پورے چھ بجے ریل فلسطین کے لیے روانہ ہوئی۔ اور اقبال مصریوں کی محبت و شفقت کا ایک انمٹ نقش اپنے دل میں لے کر رخصت ہوگئے۔ ۴۸ اقبال اور غلام رسول مہر کی ٹرین بہنا، رزقازق اور اسما عیلیہ میں ٹھہرتی ہوئی تین گھنٹوں کے بعد قنطرہ پہنچی ۔ اسمٰعیلیہ کے اسٹیشن پر پنجابی مسلمانوں کا ایک گروہ اقبال کے خیر مقدم کے لیے موجود تھا۔ جب گاڑی چلی تو انہوں نے زندہ بادکے نعرو ںسے اقبال کو رخصت کیا۔ قنطرہ کے مقام پر ٹرین بدلنا پڑی ۔ یہا ںسے گاڑی خان یونس، غزہ او رمجدل کے ریگستانی علاقے سے گزر کر لد پہنچی۔ لدمیں انہوں نے پھر ٹرین بدلی اور اب گاڑی بحر روم کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے پہاڑی علاقہ کی طرف مڑ گئی ۔ ۶؍دسمبر۱۹۳۱ء کو صبح ساڑھے نو بجے اقبال بیت المقدس (یروشلم) پہنچے ۔ بارش جاری تھی۔ اسٹیشن پر ان کے استقبال کے لیے مفتی سید امین الحسینی، مولانا شوکت علی اور مؤتمر اسلامی کے منتظمین موجود تھے۔ مؤتمر اسلامی کے اجلاس حرم مقدس کے متصل روضتہ المعارف کی عمارت میں منعقد ہورہے تھے۔ اس لیے مندوبین کو اس کے قریب مختلف ہوٹلوں میں ٹھہرایاگیا۔ بعض حضرات پیلس ہوٹل (فندق بلاس)میں مقیم ہوئے ۔ بعض جن میں مولانا شوکت علی، مولانا شفیع دائودی اور رئوف پاشا شامل تھے، روضۃ المعارف ہی میں ٹھہرے۔ اقبال اور غلام رسول مہر کا قیام گرینڈ ہوٹل (فندق مرقص)میں تھا۔ ۶دسمبر ۱۹۳۱ء تک بیشتر مندوب بیت المقدس پہنچ گئے تھے۔ یہ مؤتمر مفتی سید امین الحسینی اور ان کے رفقاء کی طرف سے اتحاد اسلامی کے نصب العین کی تحصیل کی خاطر منعقد کی گئی تھی اور اس کی دعوت کسی اسلامی حکومت نے نہ دی تھی ۔ اس مؤتمر میں بیشتر اسلامی ممالک اور تقریبًا ہر اہم اسلامی خطے کے نمائندوں نے شرکت کی ۔ مراکش، ریف، الجزائر ، تونس ، نائجیریا، سوڈان ،مصر، طرابلس ، شام، عراق ، شرق اردن ، فلسطین ، حجاز ، یمن ، حضرموت، ایران ، ترکی، چینی، ترکستان ، روسی ترکستان، بخارا ، قفقاز ، ایرال ، اورال، یوگوسلاویہ، ہندوستان ، سیلون او رجاوا کے مسلم نمائندے شرکت کے لیے جمع ہوئے تھے۔ ان میں ارباب علم ، اہل سیاست اور بزرگان دین بھی تھے اور مجاہدین حریت بھی۔ مؤتمر کاتعارفی اجلاس ۶؍ دسمبر ۱۹۳۱ء کو شام چار بجے روضتہ المعارف کے وسیع و عریض ہال میں ہوا۔ اس وقت خوب بارش ہو رہی تھی۔ اجلاس کی کارروائی ایک گھنٹے تک جاری رہی ۔جس میں مندوبین کو ایک دوسرے سے متعارف کرایا گیا۔ کارروائی کے اختتام پر دیگر مندوبین کے ساتھ اقبال بھی رضا کاروں کی معیت میں مسجد اقصٰی کی طرف روانہ ہوئے۔ رضا کارمل کر عربی زبان میں قومی نغمے گاتے جارہے تھے۔ رستے میں مولانا محمد علی جوہر کی قبر پر اقبال رک گئے۔ فاتحہ پڑھی ا ورپھر مسجد اقصٰے پہنچے ۔ مغرب کی نماز وہیں ادا کی ۔ نماز کے بعد مسجد اقضٰے میں محفل اسراء منعقد ہوئی جس میں قرآن کریم کی تلاوت اور نعت خوانی کی گئی ، چند اصحاب نے آیات اسراء کی تفسیر بیان کی۔ محفل کے اختتام تک نماز عشاء کا وقت ہوگیاتھا اور مسجد اس وقت پوری طرح بھر چکی تھی۔ سب نے نماز عشاء پڑھی۔ فراغت کے بعد مفتی سید امین الحسینی نے اپنا افتتاحی خطبہ پڑھتے ہوئے فرمایا: اس مؤتمر کے انعقاد کا مقصد ہے کہ ہم کسی امت یا دین پر درازدستی کرنا چاہتے ہیں نہ ہی ہم کسی سے مخا صمت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ بلکہ ہمارا مقصد تو یہ ہے کہ مسلمان یک جان اور یک آہنگ ہوکر اپنے مصالح کے لیے جدوجہد کریں۴۹۔ بعد ازاں انہوں نے مؤتمر کے مقاصد کی تفصیل یوں بیان کی: ۱۔ مسلمانوں کے اتحاد و تعاون کے لیے جدوجہد ۲۔ صحیح اسلامی اخوّت کا نشوونما ۳۔ مسلمانوں کو اجتماعی اسلامی فرائض کی طرف متوجہ کرنا، اور ۴۔ دین اسلام کو عوارض سے بچانا، عقاید کو الحاد سے محفوظ رکھنا اور اسلامی تمدن کی اشاعت کرنا۔ ان کے بعد اقبال سمیت بعض مندوبین نے مختصر تقاریر کیں اور داعیان مؤتمر کی مساعی کا شکریہ ادا کیا ۔ آخر میں مصر کے ڈاکٹر عبدالحمیدسعید بے نے برکت مقام کے پیش نظر اراکین سے التماس کی کہ سب کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ سے عہد کریں کہ وہ مقاماتِ مقدسہ کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں تک قربان کردیں گے۔ اس پر سب نے کھڑے ہو کر عہد کیا اور اللہ اکبر کے فلک شگاف نعروں کے ساتھ یہ تقریب رات کے دس بجے اختتام پذیرہوئی۔ ۷ دسمبر ۱۹۳۱ء کو مؤتمر کا اجلاس شروع ہو ا ۔ عارضی صدر اور سیکرٹریوں کے انتخاب کے لیے اہل عرب کے اصول پر عمل کیاگیا۔ یعنی مجمع میں سب سے معمر شخص صدر منتخب ہوئے ۔ اور سب سے کم عمر دومندوب، سیکرٹریوں کے طورپر چنے گئے۔ مفتی سید امین الاحسینی کو مستقل صدر کی حیثیت سے اتفاق رائے سے منتخب کیا گیا۔ اقبال ، محمد علی پاشا(مصر)سید ضیاء الدین طباطبائی (ایران)اور سید محمد زبارہ (یمن ) نائب صدر منتخب ہوئے ۔ پھر سیکرٹریوں کا انتخاب عمل میں آیا۔ انتخابات سے فراغت کے بعد دنیائے اسلام سے مبارکباد کے تار اور پیغامات پڑھ کر سنائے گئے۔ بعدا زاں مولانا شوکت علی کی تجویز پر عمل کرتے ہوئے سات کمیٹیوں کا تقرر ہوا جنہیں خصوصی مسا ئل کے بارے میں رپورٹیں اور قراردادیں ترتیب دینے کی ہدایات کی گئیں۔ وہ کمیٹیاں یہ تھیں : حجاز ریلوے کمیٹی، مسجد اقصٰے کمیٹی، نشر و اشاعت کمیٹی ، تبلیغ دین کمیٹی، اماکن المقدسہ کمیٹی ،قانون اساسی کمیٹی اور مالی کمیٹی۔ اقبال نے مؤتمر کے اجلاسوں میں ۷دسمبر ۱۹۳۱ء سے لے کر ۱۴دسمبر ۱۹۳۱ء تک شرکت کی اور اس دوران میں پانچ کمیٹیوں کی رپورٹوں یا پیش کردہ قراردادوں پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ مثلاً حجاز ریلوے کمیٹی کی سفارش تھی کہ حجاز ریلوے وقف اسلامی ہے اور اسے مختلف غیر اسلامی حکومتوں کے قبضے سے نکال کر ایک بین الاقوامی مسلم مجلس انتظامہ کی تحویل میں لانے کے لیے اقدامات کرنے چاہیںٔ۔ مسجداقصٰی کمیٹی کی سفارش تھی کہ بیت المقدس میں تعلیم کے لیے ایک ایسی یونیورسٹی قائم کی جائے۔ جو تمام عالم اسلام کے مسلم طلبہ کو غیر ملکی یونیورسٹیوں سے بے نیاز کردے ۔ اقبال کو اس یونیورسٹی کے قیام سے اختلاف تھا۔ وہ کسی ایسی قدیم طرز کی یونیورسٹی کے قیام کے خلاف تھے۔ جس میں صرف علوم و ینیہ کی تعلیم دی جائے۔ ان کی رائے میں ایسی یونیورسٹی میں جدید و قدیم دونوں قسم کے علوم کی دور جدید کے تقاضوں کے مطابق تعلیم دینا ضروری تھا۔ دوم ، ان کے خیال میں تجویز نا قابل عمل تھی کیونکہ یہ تو قع نہ رکھی جا سکتی تھی کہ عالم اسلام کے تمام مسلم طلبہ تعلیم کی خاطر صرف اس یونیورسٹی کی طرف رجوع کریں گے۔ سو ان کی نظر میں تعلیمی اعتبار سے بیت المقدس کووہ اہمیت حاصل نہ تھی جو مدینہ منورہ، قاہرہ، تہران اور دمشق کو حاصل تھی ۔ نیز بیت المقدس میں صیہونی خطرہ بھی تھا جو شہر کے امن و سکو ن کو ختم کر سکتا تھا۔ مالی کمیٹی کی سفارشات زیادہ تر روپیہ اکٹھا کرنے کے لیے وسائل کے متعلق تھیں۔ نشر و اشاعت کمیٹی کے تجاویز عربی اور دیگر زبانوں میں رسائل کے اجراء اخبارات میں مضامین کی اشاعت، کتب کی تالیف اور لیکچروں کے اہتمام وغیرہ کے متعلق تھیں ۔ اماکن المقدسہ کمیٹی کی تجاویز یہ تھیں : تمام عالم اسلام میں یہودیوں کے مال کابائیکاٹ کر نا۔ فلسطینی مسلمانوں کوصیہونی قرضوں سے نجات دلانے کے لیے فلسطین میں زرعی بنک کا قیام عمل میں لانا۔ عالم اسلام کو صیہونی خطرے کی شدت سے آگاہ کرنا۔ فلسطین میں یہودیوں کی آمد اور دیوار گر یہ کمیشن کی سفارشات کی مخالفت کرنا وغیرہ ۔ ان کمیٹیوں کی رپورٹوں او رقراردادوں کے علاوہ اسلام کے دیگر مسائل پر بھی بحشیں ہوئیں اور ان کے حل کی تدبیر پر غور کیا گیا۔ اس زمانے میں دنیا ئے اسلام کے بیشتر ملکوں پر یورپی نو آبادیاتی طاقتوں یا سوویٹ روس کا تسلّط تھا ۔ اس لیے مراکش، الجزائر اور تیونس کے مندوبین نے تو فرانسیسی حکا م کی چیرہ دستیوں کی تفصیل بیا ن کی او رروسی تر کستان کے نمائندگان نے اشتراکی روس کے ظلم وستم کی داستانیں سنائیں۔ بیت المقدس میں اپنے قیام کے دوران میں اقبال نے مسلم یتیموں اور معذوروں کی درس گاہ دار الاتیام اور اس کے مختلف شعبوں کا معائنہ کیا اور فلسطینی بوائے اسکاؤٹوں کے عربی قومی گیت سنے۔ایک شب مسلم طلبہ نے فتح ِاندلس کے موضوع پر ڈارمہ پیش کیا۔جسے دیکھ کر اقبال بہت خوش ہوئے۔ حاضرین نے اصرار کیا کہ اقبا ل بھی اپنے اشعار سنائیں۔ سوموقع کی مناسبت سے انہوں نے طارق فاتح اندلس سے متعلق اپنے چند فارسی اشعار سنائے جن کا عربی ترجمہ ایک عراقی مجتہد نے کیا۔ بیت المقدس میں عربوں اور یہودیوں کے تعلقات نہایت کشیدہ تھے۔ حکومت برطانیہ صیہونیوں کی امداد کررہی تھی اور ان کی بے پناہ دولت کے سبب مقامی فلسطینی غریب مسلمان ان کامقابلہ نہ کرسکتے تھے۔ ساحلی مقامات اور دیگر مراکز پر قبضے کے بعد فلسطین کی تجارت و زراعت پر یہودی بڑی سرعت کے ساتھ حاوی ہوتے چلے جارہے تھے۔یہودیوں نے مؤتمر کی بھی مخالفت کی لیکن مفتی سید امین الحسینی کی ہمت سے مؤتمر نہ صرف منعقد ہوئی بلکہ کامیاب بھی رہی۔ اقبال نے بیت المقدس میں مختلف مقاماتِ مقدسہ کی زیارت میں کچھ وقت گزارا۔ جبل زیتون جہاں ایک روایت کے مطابق حضرت عیسٰی نے وعظ کیا تھا، حضرت مریم ؑکا روضہ، بستان جسمانیہ جہاں حضرت عیسٰی کو گرفتار کردیا گیا، حضرت زکریا ؑاور حضرت داؤد علیہ السلام کے فرزند کی قبریں، بیت المقدس شہر کے دروازے اور دیگر مقامات کی زیارت کی۔اقبال نے ۱۴ دسمبر ۱۹۳۱ء تک مؤتمر کے اجلاسوں میں شرکت کی۔ قانون اساسی کمیٹی اور تبلیغ دین کمیٹی کے اجلاسوں میں شریک نہ ہو سکے، کیونکہ وہ ان کی روانگی کے بعد منعقد ہوئے۔ ۱۴؍دسمبر۱۹۳۱ء کی شام کو انہوں نے مؤتمر کے مندوبین سے الواداعی خطاب کیا۔ خطبہ انگریزی میں تھا لیکن اس کا عربی ترجمہ ساتھ ساتھ عبدالرحمن عزام کرتے گئے ۔ اقبال نے فرمایا: افسوس کہ میں مؤتمر کے اختتام تک نہیں ٹھہر سکتا اور مجھے اس کا بھی افسوس ہے کہ عربی زبان پر پوری قدرت نہ ہونے کے سبب مباحث میں بھی زیادہ حصّہ نہ لے سکا ۔ میری آرزو ہے کہ ایک مرتبہ پھر مقامات مقدسۂ اسلامیہ فلسطین کی زیارت کروں جو انبیاء کی سرزمین ہے میں آپ لوگوں کو اس روحِ اخوّت و مودّت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں جس کا مظاہر ہ مسلسل ہوتا رہا۔ ہم پر واجب ہے کہ اپنے نوجوانوں کو سلامتی کی راہ پر چلائیں۔ اسلام کو اس وقت دو طرف سے خطرہ ہے ۔ ایک الحادمادی کی طرف کی طرف سے اور دوسرا وطنی قومیت کی طرف سے۔ ہمار ا فرض ہے کہ ان دونوں خطروں کا مقابلہ کریں اور میرا یقین ہے کہ اسلام کی روح ان دونوں خطروںکو شکست دے سکتی ہے ۔ وطنی قومیت یا وطنیت بجائے خودبُری چیز نہیں ، لیکن اگر اس میں خاص اعتدال ملحوظ نہ رکھا جائے۔ او رافراط و تفریط ہو جائے تو اس میں بھی دہر یت اور مادہ پرستی کے پیدا ہونے کے امکانات موجود ہیں۔ میں آپ کو نصیحت کرتاہوں کہ آپ دل سے مسلمان بنیں مجھے اسلام کے دشمنوںٔ سے نہیں، بلکہ خود مسلمانوں سے اندیشہ ہے۔ آنحضرت ؐکی ایک نہایت پیاری حدیث یاد آئی ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ انا خطیکم من الانبیا وانتم خطی من الامم میں جب کبھی سوچتاہوں شرم وندامت سے میری گردن جھک جاتی ہے کہ کیاہم مسلمان آج اس قابل ہیں کہ رسول اللہ ؐ ہم پر فخر کریں، ہاں ، جب ہم اس نور کواپنے دلوں میں زندہ کر لیں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم میں داخل کیاتھا تو اس وقت اس قابل ہوسکیں گے کہ حضوؐر ہم پر فخر کریں۔ مؤتمر کی ذمہ داریاں بہت بڑی ہیں۔ اس کے سامنے اہم کام ہیں۔ خاص طور پر حجاز ریلوے کی واپسی اور جامعہ اسلامیہ کا قیام۔ لیکن اگر ہم اسلام و اخوّ ت کی سچی روح سے معمور ہو کر کام کریں گے تو اپنے مقاصد حاصل کرلیں گے ۔ اپنے وطنوں کو واپس جاؤ تو روحِ اخوت کو ہر جگہ پھیلا دو او راپنے نوجوانوں پر خاص توجہ دو ۔ ہمارا مستقبل خاص انہی کی مساعی پر موقوف ہے۔ میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہو ں کہ عرب کے نوجوانوں میں میں نے وہ روح دیکھی ہے جو اٹلی کے نوجوانوں کے سواکہیں نہیں دیکھی۔ عربی نوجوان بلندی مرتبت کی روحِ صادق سے معمور ہیں۔ میرا عقیدہ ہے کہ اسلام کا مستقبل عرب کے مستقبل کے ساتھ وابستہ ہے اور عرب کا مستقبل عرب کے اتحاد پر موقوف ہے ۔ جب عرب متحد ہوجائیںگے تو اسلام کا میاب ہو جائے گا۔ ہم سب پر واجب ہے کہ اس باب میں ساری قوتیںصرف کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کامیابی عطا کرے گا۔ عرب کے اتحاد کے متعلق اقبال نے ’’جاوید نامہ ‘‘ میں مہدی سوڈانی کے منہ سے اپنے عقیدے کا اظہار پہلے ہی کردیا تھا، گو اقبال کی یہ تصنیف ابھی زیر طباعت تھی: گفت اے روحِ عرب بیدار شو چوں نیاگاں خالقِ اعصار شو اے فواد! اے فیصل! اے ابن سعود تا کجا بر خویش پیچیدن چو دود! زندہ کن درسینہ آں سوز ے کہ رفت در جہاں باز آور آں روزے کہ رفت خاک بطحا! خالدؓے دیگر بزاے نغمۂ توحید را دیگر سرائے! اے نخیلِ دشتِ تو بالندہ تر برنخیزداز تو فاروؓقے وگر! اے جہانِ مومنانِ مشک فام از تومی آید مرا بوے دوام! زندگانی تا کَجا بے ذوقِ سیر تاکجا تقدیرِ تو در دستِ غیر! بر مقام خود نیائی تا بکے استخوانم دریمے نالد چونے! از بلا ترسی؟ حدیث مصطفٰےؐ است مرد را روزِ بلا روزِ صفا است لیکن فلسطین میں قیام کے دوران میں وہ فلسطینی عرب کے جوش و خروش سے یقینا متاثر ہوئے چنانچہ بعد میں انہوںنے فرمایا: زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے تری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں فرنگ کی رگِ جاں پنچۂ یہود میں ہے! سنا ہے میں نے غلامی میں اُمتوں کی نجات! خودی کی پرورش و لذّتِ نمود میں ہے! ۱۵؍ دسمبر ۱۹۳۱ء کی صبح کو اقبال اور غلام رسول مہر بیت المقد س سے روانہ ہوئے۔ مفتی سید امین الحسینی، سید ضیاء الدین طباطبائی، سعید شامل او ردیگر اصحاب انہیں الوداع کہنے کے لیے اسٹیشن پر آئے ۔ چھ بجے شام گاڑی قنطرہ پہنچی، وہاں سے ڈاکٹر سلیمان کی کا ر میں بیٹھ کر پورٹ سعید گئے۔ سفر کے دوران میں اقبال کی طبیعت ناساز ہوگئی، تاہم ڈاکٹر سلیمان کے علاج سے وہ اگلے روز ٹھیک ہوگئے۔ پورٹ سعید میں ۱۶؍ دسمبر ۱۹۳۱ء کی رات کا کھانا انہوں نے ڈاکٹر سلیمان اور ان کی جرمن بیگم کے ساتھ کھایا۔ ۱۷؍دسمبر ۱۹۳۱ء کی شب صدیق محمد ناڑو کی دعوت میں شریک تھے اور وہیں اطلاع ملی کہ جہا زبندر گاہ پر لگ گیا ہے ۔ سواسی رات تقریبًا بارہ بجے ’’پلسنا ‘‘نامی جہاز میں سوار ہوگئے۔ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۳۱ء کو صبح چار بجے جہاز پورٹ سعید سے روانہ ہوا۔ اس جہاز میں مہاتماگاندھی ہندوستان جارہے تھے۔ اُن کے علاوہ دیگر معروف شخصیتیں بھی اسی جہاز میں سفر کررہی تھیں۔ مثلا حیدر آباد دکن کے شہزادہ اعظم جاہ، شہزادہ معظم جاہ اور ان دونوں کی بیگمات، شہزادی درشہوار اور شہزادی نیلو فر، ان کی والدہ معزول سلطان ترکی عبدالمجید خان کی بیگم اور بیگم اکبر حیدری وغیرہ۔ عدن کی بندرگاہ پر جہاز چند گھنٹوں کے لیے رکا اور اقبال گھنٹہ بھر سیر کے لیے اترے۔ ۲۸؍ دسمبر ۱۹۳۱ء کی صبح کو جہاز بمبئی پہنچ گیا۔ اقبال کے استقبال کے لیے مولانا محمد عرفان اور خلافت کمیٹی کے بعض ارکان بندگاہ پر موجود تھے۔ دس بجے کے قریب اقبال خلافت ہاؤس پہنچے ۔ عطیہ فیضی نے اس مرتبہ بھی اُن کے اعزاز میں ایوان رفعت میں دعوت کا اہتمام کررکھاتھا۔ اقبال نے دن بھر تو خلافت ہاؤس میں آرام کیا، لیکن شام کو آدھے گھنٹے کے لیے ایوان رفعت میں تشریف لے گئے۔ وہاں سے ریلوے اسٹیشن پہنچے۔ ریل ساڑھے سات بجے بمبئی سے روانہ ہو ئی۔ چند احباب نے انہیں رخصت کیا۔ روانگی سے قبل اخبارات کے لیے صوبہ سرحد میں آئینی اصلاحات اور صوبائی خودمختاری کے حصول کے بارے میں ایک بیان دیا۔ ۲۹؍ دسمبر ۱۹۳۱ء کی شام کو گاڑی دہلی اسٹیشن پر پہنچی ۔ یہاں حافظ محمد صدیق ملتانی ریئس دہلی نے کھانے کا انتظام کر رکھا تھا اور بڑی تعداد میں لوگ استقبال کے لیے موجود تھے۔ اسٹیشن پر اقبال کو سپاسنامہ پیش کیا گیااور وہیں انہوں نے کھانا کھایا۔ ٹرین دہلی سے روانہ ہو کر رات چار بجے لدھیانے اسٹیشن پر رکی ۔ یہاں بھی اقبال کے عقیدت مند پھولوں کے ہار لے کر پہنچے ہوئے تھے۔ اقبال اس وقت سو رہے تھے، اس لیے انہیں بیدار نہ کیا گیا ۔ امرتسر کے اسٹیشن پر بھی یہی کیفیت دیکھنے میں آئی۔ ۳۰ دسمبر ۱۹۳۱ء کو صبح آٹھ بجے گاڑی لاہور پہنچی۔ اسٹیشن پر ہجوم اس قدر زیادہ تھا کہ سپاسنامہ پیش کرنے والے اسے پڑھ بھی نہ سکے۔ بے شمار لوگوں نے اقبال کو پھولوں کے ہاروں سے لاد دیا اور اسی حالت میں گھر پہنچے۔۵۰ یکم جنوری ۱۹۳۲ء کو روز نامہ ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ کے نمائندے نے ان سے گھر پر ملاقات کی اور سفر فلسطین کے متعلق سوالات پوچھے۔ اقبال نے کہا: سفر فلسطین میری زندگی کا نہایت دلچسپ واقعہ ثابت ہواہے۔ فلسطین کے زمانۂ قیام میں متعدد اسلامی ممالک کے نمائندوں سے ملاقات ہوئی۔ شام کے نوجوان عربوں سے مل کر میں خاص طور پر متاثر ہوا۔ ان نوجوانانِ اسلام میں اس قسم کے خلوص و دیانت کی جھلک پائی جاتی تھی۔ جیسی میں نے اطالیہ میں فاشسٹ نوجوانوں کے علاوہ کسی میں نہیں دیکھی۔ میںنے اسلام، عیسائیت ، اور صیہونیت کے بعض مشترکہ مقامات مقدسہ کی زیارت کی۔خصوصًا حضرت عیسٰی کے مقام ولادت سے میں بہت متاثر ہوا۔ مجھے یقین ہے کہ فلسطین کو یہودیوں کا وطن بنانے کی اسکیم بالآخر ناکام رہے گی۔ مؤتمر شاندار طریق سے کامیاب رہی ۔ اس عظیم الشان اجتماع میں اکثر اسلامی ممالک نے نمایندے شریک ہوئے اور اسلامی اخوّت اور ممالک اسلامی کہ آزادی کے مسائل پر مندوبین نے بے حد جوش و خروش کا اظہار کیا۔ میں بہت سی سب کمیٹیوں کا رکن تھا۔ جو بعض تجاویز پر بحث کرنے کے لیے مقرر کرگئی تھیں …ایک سب کمیٹی میں میں نے یروشلم میں قدیم جامع ازہر کی طرز پرایک اسلامی یونیورسٹی کے قیام کی مخالفت کی او راس بات پر زور دیا کہ مجوزّہ یونیورسٹی بالکل جدید طرز پر قائم کی جائے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ غلط فہمی کیونکر پیدا ہوگئی کہ میں یروشلم میں کسی قسم کی یونیورسٹی کے قیام کا حامی نہیں ہوں۔ رائٹر نے ایک تاربھیج دیا تھا جس کا مفہوم یہی تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ میری یہ پرُزور خواہش ہے کہ عربی زبان بولنے والے لوگ صرف ایک ہی نہیں بلکہ کئی یونیورسٹیا ں قائم کرکے علوم جدیدہ کو زبانِ عربی میں تبدیل کرلیں۵۱۔ نمائندہ مذکورہ کو گول میز کانفرنس کے متعلق سوالات کا جواب دیتے ہوئے اقبال نے واضح کیا: میں نے کانفرنس سے استعفا نہیں دیا بلکہ صرف مسلم وفد سے علیحدٰگی اختیار کی تھی۔ اور میں نے یہ بات آل انڈیا مسلم کانفرنس کے فیصلے کے ماتحت کی تھی…مسلمانوں کے لیے جداگانہ طریقِ انتخاب، صوبہ سرحد اور سند ھ کے مسائل پر عملی طور پر بحث و تمحیص ختم ہوچکی ہے دارالعوام میں وزیر اعظم اور سرسیمول ہور نے ان کے متعلق واضح بیا ن دے دیا ہے ۔ اب جس مسئلہ کا تصفیہ باقی ہے ۔ وہ پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کی آئینی اکثریت کا مسئلہ ہے۔ جن ایّام میں اقبال واپس آئے، ہندوستان کے حالات پھرسے خراب ہوچکے تھے۔ فرقہ وارانہ مسئلے کے حل کے متعلق دوسری گول میزکانفرنس کی ناکامی کے سبب مسلم ہند کاسیاسی مستقبل غیر یقینی تھا۔ کانگرس انگریزی حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک چلانے کے درپے تھی۔ صوبہ سرحد میں عبدالغفار خان او ران کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب (جن کی سرخ پوش جماعت اگست ۱۹۳۰ء سے کانگرس کے ساتھ وابستہ ہوچکی تھی)جیلوں میں بند تھے او ران کے حامیوں کی ایجی ٹیشن کو سختی سے دبایا جارہاتھا ۔ ادھر تحریک کشمیر بھی اپنے زوروں پر تھی اورکشمیری مسلمان ریاستی حُکام کے ظلم کے دور سے گزررہے تھے۔ اسی طرح ریاست الورمیں بھی مسلمانو ںپر تشدد کا دور دورہ تھا۔ مسلمانان الور کی بعض پرانی شکایتیں تھیں: مثلاً مساجد پر ریاستی حکّام کا قبضہ تھا۔ اسکولوں میں ۱۹۱۰ء سے اردو اور فارسی کی تعلیم ممنوع تھی، مذہبی تعلیم پر پابندیاں عائد تھیں اور ملازمتوں میں مسلمانوں کو بہت کم حصّہ دیا جاتاتھا۔ ان شکایتوں کے ازالے کے لیے مسلمانان الور نے ایک جماعت انجمن خدام الاسلام قائم کررکھی تھی۔ مہاراجہ الور نے اس پر پابندی لگا دی ۔ مسلمانو ںنے احتجاجی جلوس نکالے اور ریاستی نے ان حکّام پر فائرنگ کی ۔ حالات اس قدر بگڑے کہ مسلمانوںنے ریاست سے ہجر ت شروع کردی ، اور ریاستی حُکام مہاجرین کی جائدادیں ضبط کرنے لگے۔ مسلم کانفرنس کے اجلاس منعقدہ ۲۲ مارچ ۱۹۳۱ء میں طے پایا تھاکہ مسلمانان الور کی شکایت مہاراجہ الور کے سامنے رکھنے کے لیے ایک وفد مولانا شفیع داؤدی کی قیادت میں بھیجا جائے، لیکن مہاراجہ نے وفد کو ملاقات تک کی اجازت نہ دی۔ جون ۱۹۳۲ء میں مہاراجہ کے طرز عمل کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے مسلم کانفرنس نے مطالبہ کیا کہ حالات کی تحقیقات کے لیے ایک غیر جانبدار کمیٹی مقرر کی جائے، مگر مہاراجہ نے کوئی پروانہ کی۔ بعدازاں اس سلسلے میں مسلم کانفرنس کی طرف سے ایک یادداشت وائسرائے ہند کو پیش کی گئی جس میں مہاراجہ کے مظالم کی تفصیل درج تھی۔ بالآخر مہاراجہ کو گدی سے اترنا پڑا ۵۲۔ چونکہ ان دنوں مسلمانوں کے حقوق سے متعلق ضروری تحریکات کی سب سے بڑی کفیل مسلم کانفرنس تھی، اس لیے ایسے تمام مسائل پر غور وفکر کرنے کی خاطر اس سیاسی تنظیم کی مجلس عاملہ کے اجلاس اکثر دہلی یا شملہ میں ہوتے رہتے تھے۔ سفر سے واپس آتے ہی اقبال کو بحیثیت ممبر مجلس عاملہ ان اجلاسوں میں شریک ہونا پڑا۔ علاوہ ازیں وہ اسی سال یعنی ۱۹۳۲ء میں آل انڈیا مسلم کانفرنس کے صدر بھی منتخب ہوئے۔ دراصل آل انڈیا مسلم کانفرنس بحیثیت آل پارٹیز مسلم کانفرنس ۱۹۲۸ء میں قائم ہوئی تھی او راقبا ل اس کے بانیوں میں سے تھے۔ ابتداً کانفرنس میں مختلف مسلم سیاسی جماعتوں کے ارکان اکٹھے ہوئے تھے۔ لیکن یہ محض وقتی کانفرنس نہ رہی بلکہ اس نے ایک منظم سیاسی ادارے کی صورت اختیار کرلی اور ۱۹۳۴ء تک مسلم سیاست میں نہایت اہم اور فعال کردار ادا کیا ۔ اس زمانے میں مسلم لیگ عالم انتشار میں تھی۔ خلافت کمیٹی نہ ہونے کے برابر تھی۔دیگر مسلم سیاسی جماعتیں گو کیثر التعداد تھیں لیکن انفرادی طور پر غیر مؤثر تھیں اور ان میں سے بعض مثلًا مسلم نیشنلسٹ پارٹی یاجمعیت العلماء ہند تو مسلمانوں کی ترجمان نہ تھیں بلکہ کانگرس کی ہمنوا تھیں۔مسلم کانفرنس کی ایک باقاعدہ مجلس عاملہ تھی، ایگزیکٹو بورڈ تھا اور اس کی شاخیں بھی مختلف صوبوں میں پھیلی ہوئی تھیں ۔ اقبال کانفرنس کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے ۸ جنوری ۱۹۳۲ء کی صبح کو دہلی پہنچے۔سید نذیر نیازی شام تک ان کی خدمت میں رہے او روہ اسی رات واپس لاہور چلے آئے ۵۳۔ا سی طرح پھر ۳۰ جنوری ۱۹۳۲ء کو دہلی جانے کے لیے تیار ہوئے ، لیکن چونکہ نقرس کی تکلیف بڑھ جانے کے سبب گرگابی نہ پہنی جاتی تھی ، اس لیے غلام رسول مہر کی وساطت سے ورکنگ کمیٹی اور سیٹھ عبداللہ ہارون کی خدمت میں معذرت کردی۵۴ ۔ فروری ۱۹۳۲ء میں اقبال کی معروف تصنیف’’ جاوید نامہ‘‘ شائع ہوئی۔ اس کا تصوّر ۱۹۲۷ء سے ان کے ذہن میں تھا، لیکن لکھنے کا کام ۱۹۲۹ء میں شروع کیاگیا۵۵ ۔اس کے موضوع کے متعلق انہوں نے خود ہی گذشتہ سا ل لندن میں انڈیا سوسائٹی کی تقریب میں ارشاد کیا تھاکہ یہ حقیقت میں ایشیا کی ’’ڈیوائن کامیڈی‘‘ ہے ۔ اس کا اسلوب یہ ہے کہ شاعر مختلف سیّاروں کی سیر کرتا ہوا مختلف مشاہیر کی روحوں سے مل کر باتیں کرتا ہے ۔ پھر جنت میں جاتاہے اور آخر میں خدا کے روبرو پہنچتا ہے۔ اس تصنیف میں دور حاضر کے تما م جماعتی، اقتصادی ، سیاسی ، مذہبی اخلاقی اور اصلاحی مسائل زیر بحث آگئے ہیں۔ روداد میں دو شخصیتیں یورپ کی ہیں۔ اوّل کچنر اور دوم نطشے، باقی ساری شخصیتیں ایشیا کی ہیں۔ اس معراج نامے یا آسمانی ڈرامے میں اقبال کی خضر طریق یا رفیق سفرمولانا رومی ہیں۵۶۔ فروری ۱۹۳۲ء ہی میں ہندوستان کے اخباروں میں خبر شائع ہوئی کہ ترکی میں مصطفی کمال نے ترکی زبان میں قرآن کریم کی تلاوت او رادائیگی نما ز کے متعلق ایک حکم نافذ کردیاہے۔ اس خبر نے مسلمانان ہند میں بے چینی پھیلا دی او رسوال یہ پیدا ہوا کہ آیا مسلمان عربی کے علاوہ بھی کسی زبان میں نماز ادا کر سکتے ہیں ۔ اس سلسلے میں ایک اخباری نمائندہ اقبال سے بھی ملا اور ان کا انٹرویو ویکلی اخبار ’’لائٹ‘‘ (انگریزی)مورخہ ۱۶فروری ۱۹۳۲ء میں شائع ہوا۔ اقبال سے سوال پوچھا گیا کہ کیا مصطفی کمال کے نافذ کردہ قانون کی تاریخ اسلام میں کوئی مثال یا سند موجود ہے؟ اقبال نے جواب دیا کہ ایک مرحلے پر امام ابو حنیفہؒ نے فتویٰ دیا تھاکہ ہر مسلمان اپنی زبان میں نماز ادا کرسکتاہے، مگربعد میں بستر مرگ پر انہوں نے اپنا فتویٰ منسوخ کر دیا۔ ابن طومارت نے بھی جنہیں مغربی افریقہ کے مہدی کے لقب سے پکارا جاتاہے۔ اسی قسم کا قانون نافذ کیا تھا۔ لہٰذا جب ا ن کے مریدوں نے اندلس (اسپین)میں اقتدار حاصل کیا تو وہ بر بر زبان میں اذان دیاکرتے تھے۔ اقبال کی رائے میں مصطفٰے کمال کا یہ فعل ترقی پسندانہ نہ تھا ، بلکہ رجعت پسندانہ تھا۔ زمانۂ قدیم کے تمام مذاہب نیشنل یا قومی ہوتے تھے۔ اس لیے ترکی زبان میں نماز پڑھوانے سے مراد یہی تھی کہ اسلام کو اس کی انسانی سطح سے گرا کر قومی سطح پر لے آیا جائے یا اسلام کو قبل از اسلام زمانے کے قدیم انسانو ںکی نگاہ سے دیکھا جائے۔ اقبال نے فرمایاکہ ان کے ذاتی عقیدے کے مطابق عربی چونکہ وحی کی زبان ہے ، اس لیے نماز جو فرائض میں شامل ہے، لازمی طور پر عربی زبان ہی میں ادا کی جانی چاہییٔ۔ البتہ ایسی عبادت کے متعلق جو فرائض میں شامل نہیں۔ علماء اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیںکہ وہ اپنی زبان میں کی جاسکتی ہے یا نہیں۵۷۔ فروری ۱۹۳۲ء کے آخر میں نواب بھوپال نے اقبال کو دہلی بلوایا۔ بات یہ تھی کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں نواب بھوپال سے مدد طلب کی تھی اور نواب بھوپال اس بارے میںاقبال سے مشورہ کرنا چاہتے تھے۔ بعض اقبا ل شناسوں کی رائے میں اقبال اسی سلسلے میں جولائی ۱۹۳۱ء میں بھی بھوپال تشریف لے گئے تھے اور اقبال ہی کی کوششوں سے قضیۂ کشمیر کو سلجھانے کی خاطر گلانسی کمیشن کا تقرر ہوا۔ لیکن راقم کو اس سلسلے میں اقبال کے جولائی ۱۹۳۱ء میں فی الواقع بھوپال پہنچنے یا گلانسی کمیشن کے تقرر کے متعلق ان کی مساعی کا کو ئی واضح ثبوت نہیں مل سکا۔ یہ درست ہے کہ جولائی ۱۹۳۱ء میں اقبال نے بھوپال جانے کا قصد کیا تھا، جیسا کہ ان کے خطوط بنام غلام رسول مہر محرّرہ لاہور ۱۰؍ جولائی۱۹۳۱ء اور شملہ ۲۳ ؍ جولائی ۱۹۳۱ء سے ظاہر ہوتا ہے۵۸۔لیکن ان تحریروں سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ۲۶؍جولائی ۱۹۳۱ء کو کشمیر کے معاملات سے متعلق شملے میں مشورت ہونا تھی (غالباً حکومت ہند سے) اور فراغت کے بعد انہوں نے ۲۷؍جولائی ۱۹۳۱ء کو لاہور پہنچنا تھا بعد ازاں لاہور سے غلام رسول مہر کے ساتھ بھوپال جانے کاارادہ تھا۔ مگر کیا وہ واقعی بھوپال گئے؟ اس کے متعلق کچھ نہیں کہاجاسکتا۔ بہرحال اگر وہ گئے بھی تو مسئلہ کشمیر کے متعلق نواب بھوپال کی وساطت سے مہاراجہ ہری سنگھ کے ساتھ گفتگو ئے مصالحت کامیاب نہ ہوئی ۔ اسی سلسلے میں نواب بھوپال کے بلانے پر وہ دہلی جاناتو ضرور چاہتے تھے لیکن راقم کی علالت کے باعث جانہ سکے۔ اور اپنے ایک خط محرّرہ ۲۹فروری ۱۹۳۲ء بنام غلام رسول مہر فرمایا: میں تو آج دہلی جانے کے لیے تیار ہوگیاتھا۔ مگر جاوید کابخار بدستور ہے۔ رات بھی اسے ایک سو پانچ ہوگیاتھا۔ آج ڈاکٹر صاحب نے دیکھا ہے ، ان کو شبہہ ہے کہ بخار معیادی ہے۔ پختہ پتا کل صبح کے معائنے سے ہوگا۔ اس تشویش کی حالت میں میرے لیے سفر کرنا مشکل ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بھی یہ ہی مشورہ دیا ہے۔ آپ میری طرف سے ہزہائی نس کی خدمت میں معذرت کریں کہ میں ان کے حکم کی تعمیل میں سفر کے لیے تیار تھا، مگر مذکورہ بالا نا گہانی افتاد کی وجہ سے رک گیا۔ زیادہ کیا عرض کروں ۔ بہت مشّوش ہوں۵۹۔ سو اقبال دہلی نہ گئے او راگر گئے تو غلام رسول مہر ہی گئے۔ یہاں یہ واضح کر دینا بھی مناسب ہوگا کہ گلانسی کمیشن کے تقرر کے وقت اقبال مسلم کانفرنس کے صدر منتخب ہوچکے تھے اور مسلم کانفرنس کو گلانسی کمیشن کی تشکیل پر اعتراض تھا۔ جہاں تک راقم کی علالت کا تعلق ہے ڈاکٹر یار محمد خان کے معائنے پر وہ میعادی بخار ہی نکلا۔ راقم کی یادداشت کے مطابق بخار گیارہ یا ممکن ہے زیادہ دنوں تک بدستور رہا اور اس کے سبب اقبال اور سردار بیگم کو بڑی تشویش رہی ۔ راقم کے سرہانے روپوں کے نوٹ رکھے جاتے اور کھیلنے کے لیے سردار بیگم نوا شرفیاں دیتیں جو راقم کی ولادت کے موقع پر اقبال کے مختلف احباب سے بطور تحفہ ملی تھیں۔ سردار بیگم کاخیال تھاکہ اگر بیمار بچے کو کھیلنے کے لیے روپے اور اشرفیاں دی جائیں تو وہ جلد صحت یا ب ہوجاتا ہے ۔ اقبال اس سے باربار پوچھتے کہ کہیں درد تو نہیں ہورہا اور اگر راقم انکار سے سرہلاتا تو کہتے کہ منہ سے بولو بیٹا!سرمت ہلاؤ۔ جب راقم صحت یاب ہوکر بستر سے اٹھا تو بسبب کمزوری اس سے چلانہ جاتا تھا۔ راقم سردار بیگم اور تایا زادہ بہن وسیمہ بیگم کاجوان دنوں یہیں مقیم تھیں، سہارا لے کر چلتا تھا۔ تب راقم کی عمر تقربیاً ساڑھے سات برس اور منیر ہ بیگم کی عمر تقربیًا ڈیڑھ برس تھی۔ راقم جب اپنی یادداشت کو پیچھے لے جانے کی کوشش کرتا ہے تو اس میں اس ابتدائی دور کی صرف چند جھلکیاں نظر آتی ہیں، گویہ سب نقوش بہت دھندلے سے ہیں۔ مثلاً اکتوبر ۱۹۲۹ء میں پہلی بار سکول جانا، غالبًا انہی ایام میں مولانا محمد علی کا اقبال کو ملنے کے لیے آنا اور ا ن سے انتہائی بے تکلفی سے باتیںکرنا، یا گھر میں منیرہ بیگم کاپیدا ہونا ۔ گھر میں کھانا سردار بیگم ہی پکاتیں، گو وسیمہ بیگم او رمائی رحمت بی بھی ان کی مدد کرتی تھیں۔ منیرہ بیگم کی دیکھ بھال قریب ہی نو مسلموں کے محلے کی لڑکیاں کیاکرتیںجو سردار بیگم یا وسیمہ بیگم سے قرآن مجید پڑھنے یا سینا پرونا سیکھنے کے لیے آتیں او رگھر کے کام کاج میں ہاتھ بھی بٹاتیں ۔ ہمسایوں میں ایک تو بیوی صاحبہ تھیں جو سردار بیگم سے اکثر ملنے کے لیے آتیں اور جن کے چھوٹے فرزند معین کے ساتھ راقم کھیلا کرتا تھا۔ دو ایک او رخواتین بھی تھیں جو آیا کرتیں ، لیکن راقم نے سردار بیگم کو شاذو نادر ہی گھر سے باہر قدم رکھتے دیکھا ہے۔ راقم کابیشتر وقت سردار بیگم کے ساتھ گزرتاتھا۔ کبھی کبھار ان کے ساتھ موچی دروازے کے اندر ان کی پھوپھی (جنہوں نے سردار بیگم کو ماں کی طرح پالاپوسا تھا)اور بڑے بھائی خواجہ عبدالغنی کے گھر جاتا، جن سے وہ بہت محبت کرتی تھیں۔ سردار بیگم ہی نے خواجہ عبدالغنی کی شادی کرائی لیکن ان کے ہاں کوئی اولادنہ تھی۔ خواجہ عبدالغنی قالینوں کا بیوپار کرتے تھے اور بسا اوقات گرمیوں میں ڈلہوزی یا شاید مسوری غالیچے بیچنے کے لیے جاتے ۔ راقم سے بہت محبت کرتے تھے اور راقم بھی ان سے بے حد مانوس تھا۔ اقبال کی میکلوڈ روڈ والی رہائش گاہ، جس میں راقم کا بچپن گزرا، کی بغل میں ایک قبرستان ہوا کرتا تھا، جس کا اب نام و نشان نہیں رہا۔ راقم نو مسلموں کے محلے کے بچوں یا پڑوسیوں کے دو ایک لڑکوں کے ساتھ اسی قبرستان میں کھیلا کرتاتھا۔ بسا اوقات کوٹھی کے بالمقابل دالان میں کرکٹ کھیلا جاتا یا چھت پر چڑھ کر پتنگیں اڑ ائی جاتیں۔ گھر میں اقبال کے ملاقاتیوں کا تانتا بندھا رہا۔ علی بخش او ررحماں انہیں اقبال سے ملواتے ۔ منشی خانے میں مؤکلّوں سے منشی طاہر الدین نبٹتے ۔ باہر کے مہمان خانے میں شیخ مختار احمد رہتے تھے، جو پنجاب سول سکریٹریٹ میں ملازم ہوگئے۔ وہ چند سال یہیں مقیم رہے، مگر شادی کے بعد انہیں سرکاری کوارٹروں میں رہائش کے لیے جگہ مل گئی۔ وسیمہ بیگم بھی شادی کے بعد اپنے شوہر کے ساتھ سیالکوٹ میں رہنے لگیں۔ فیروز شوفر، اقبال کو کار میںعدالت عالیہ لے جاتا، وکالت کے سلسلے میں وہ بسا اوقات لاہور سے باہر بھی جایا کرتے تھے۔ سرداربیگم پرانی وضع کی خاتون تھیں۔ نماز پڑھتیں ، روزے رکھتیں اور رمضان میںباقاعدہ قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتیں، لیکن ضیعف الاعتقاد بھی تھیں، جن بھوت سایہ، جادو وغیرہ سے بہت ڈرتی تھیں۔ راقم کی سالگرہ پرہمیشہ بکرے کی قربانی دیاکرتیں۔ کھانا بھی اسے اپنے ہاتھ سے کھلاتیں، کیونکہ انہیں یہی فکر دامنگیررہتا کہ راقم جب کبھی خود کھانا کھائے تو پیٹ بھر کر نہیںکھاتا۔ سو راقم آٹھ نو برس کا ہوگیا مگر اپنے ہاتھ سے کھانا کھانے کی عادت نہ پڑی۔ اقبال اور سردار بیگم کی اس بات پر بارہا تکرار ہوئی۔ اقبال کا احتجاج تھاکہ راقم جوان ہوکر بھی اپنے ہاتھ سے کھانا نہ کھا سکا تو کیا ہوگا، لیکن سردار بیگم پر ان کی بات کا کوئی اثر نہ ہوا۔ البتہ ایک تبدیلی ضرور آئی اور وہ یہ تھی رات کو خشکہ چاول کھاتے وقت راقم کی پلیٹ کے قریب بطور احتیاط چمچہ رکھ دیا جاتا، گو کھانا وہ خود کھلاتیں۔ اقبال کی عادت تھی کہ وہ ہمیشہ دبے پاؤں زنا نے میں آیا کرتے تھے، اس طرح کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے پاتی ۔ خیر جب بھی سردار بیگم راقم کو کھانا کھلا رہی ہوتیں تو ان کا دھیان باہر ہی رہتا اور جونہی وہ اقبال کے قدموں کی ہلکی سی آہٹ بھی سنتیں تو اپنا ہاتھ پھرتی سے کھینچ کر چمچہ راقم کے آگے رکھ دیتیں اور راقم خود کھانے میں مشغول ہوجاتا۔ راقم بچپن میں بے حد شریر تھا اور پڑھائی میں بھی کوئی دلچسپی نہ لیتا۔ اس لیے سردار بیگم سے مارکھانا اس کا معمول بن چکا تھا۔ وہ کھانے میں تو بلاشبہ سونے کا نوالہ دیتیں،لیکن دیکھتیں قہر کی نظر سے راقم کو یاد نہیںکہ انہوں نے اس پر کبھی ایسی شفقت یا محبت کا اظہار کیا ہو ، جس کی توقع بچے اپنی ماؤں سے رکھتے ہیں ۔ البتہ راقم کی شنید کے مطابق وہ جب کبھی بھی اسے پیار کرتیں تو سوتے کے عالم میں تاکہ راقم کو پتانہ چلے۔ شاید اسی سبب بچپن میں راقم کے ذہن میں بعض اوقات یہ خیال گزرتا کہ اس کی ماں دراصل حقیقی ماں نہیں بلکہ سوتیلی ماں ہے۔ مگر کسی اور کو جرأت نہ تھی کہ راقم کو ہاتھ لگا سکے ۔ اگر اقبال بھی کبھی راقم کی کسی شرارت پر اسے مارنے کے لیے ہاتھ اٹھاتے تو سردار بیگم بیچ میں آکھڑی ہوتیں اور انہیں روک دیتیں ۔ ایک دفعہ کاذکر ہے کہ راقم کسی کو بتائے بغیر چپکے سے چند لڑکوں کی معیت میں کوٹھی کے قریب ایک سینما گھر میں فلم دیکھنے کے لیے گھس گیا۔ رات کے نوبجنے کو آئے لیکن فلم ختم نہ ہوئی اور اس لیے راقم گھر نہ پہنچا۔ گھر والے سخت پریشان تھے کہ کہاں غائب ہوگیااور سب سے زیادہ پریشانی سردار بیگم کے بعد اقبال کو تھی۔ کوئی ساڑھے نو بجے کے قریب جب راقم چھپتے چھپاتے گھر پہنچا تو دیکھا کہ ہر طرف افراتفری کا عالم طاری ہے۔ راقم کے دیر سے گھر پہنچنے کی خبر بجلی کی طرح کوند گئی، اور آناً فاناً وہ اقبال کے حضور میں کھڑا تھا۔ اقبال غُصّے کے شدت سے کانپ رہے تھے۔ انہوں نے راقم کو مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا ہی تھاکہ سردار بیگم بیچ میں آ کھڑی ہوئیں۔ اب ایک طرف اقبال تھے اور دوسری طرف راقم۔ وہ غصّے کے عالم میں اسے مارنے کے لیے ایک ہاتھ اٹھاتے لیکن سردار بیگم لپک کر ان کا ہاتھ پکڑلیتیں۔ راقم خوف کے مارے ان کی ٹانگو ں سے چمٹا ہوا تھا۔ یہ مشق کوئی تین چار منٹ تک جاری رہی۔ حتیٰ کہ سردار بیگم کو سراسیمگی کے عالم میں یوں اُچک اُچک کر ان کے ہاتھ پکڑتے دیکھ کر اقبا ل کو ہنسی آگئی۔ بہر حا ل راقم نے اقبال سے بہت کم مار کھائی ہے۔ اس کے لیے ان کی جھڑک ہی کافی ہوا کرتی۔ گرمیوں میں دوپہر کے وقت دھوپ میں ننگے پاؤں پھرنے ، نوکروں کو بُرا بھلا کہنے یا جھوٹ بولنے پر راقم کو کئی بار کوسا گیا۔ اقبال جب کبھی بہت برہم ہوتے تو ان کے منہ سے ہمیشہ یہی الفاظ نکلتے ’’احمق آدمی ۔ بیوقوف‘‘۔غصہ کے عالم میں بعض اوقات پنجابی یا اردو کی بجائے انگریزی بولنے لگتے تھے۔ راقم نے ایک دو مرتبہ اُن سے جوتے بھی کھائے ہیں۔ لیکن جب جوتے سے مارتے تو تلے کی طرف سے نہیں بلکہ نرم چمڑے والی طرف سے مارتے۔ راقم کو بچپن میں روز ایک آنہ خرچ کرنے کو ملتا تھا اور اُسے خرچ کر چکنے کے بعد خواہ وہ سردار بیگم کی کتنی ہی منتیں کرتا اُسے مزید کچھ نہ ملتا ۔ ایک دفعہ کوئی مٹھائی بیچنے والا گھر کے سامنے سے گزرا مٹھائی دیکھ کر راقم للچا گیا۔ لیکن جیب خالی تھی۔ خوانچہ فروش نے خوش خبری سنائی کہ وہ پیتل کے کسی معمولی ٹکڑے کے عوض بھی مٹھائی دے سکتا ہے۔ پھر کیا تھا ۔ راقم سائے کی طرح اقبال کے کمرے میں گھسا ۔ بڑے ٹیبل فین کے پیچھے لگا ہوا پیتل کا پرزہ اتار کر خوانچہ فروش کو دیا اور مٹھائی لے لی۔ مگر شامت اعمال سے فیروز شوفر نے یہ کاروائی دیکھ لی اور اقبال سے شکایت کر دی۔ راقم کو اُن کے کمرے میں طلب کیا گیا ۔ وہ اپنی آرام کرسی پر نیم دراز تھے ۔ راقم کو دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور دو تین تھپڑ اس کی گردن پر جما دئیے۔ گرمیوں کی ایک شام راقم آنکھوں پر دوپٹہ باندھے سردار بیگم کو پکڑنے کے لیے زنانہ دالان میں اُن کے پیچھے پیچھے بھاگ رہا تھا کہ ٹھوکر لگی اور منہ کے بل گر پڑا ، جس کے باعث نچلا ہونٹ اندر سے کٹ گیا اور خون جاری ہو گیا ۔ اتفاق سے عین اُسی لمحہ اقبال زنانے میں داخل ہوئے اور راقم کے منہ سے خون بہتا دیکھ کر اچانک بے ہوش ہو گئے ۔ اسی طرح گرمیوں کی ایک شب جب راقم سویا ہواتھا تو بڑے زور کی آندھی چلی ۔ جس کے سبب کوٹھی کی دیال سنگھ کالج والی دیوار زنانے صحن میں سونے والوں پر آ گری اور ہر طرف کہرام مچ گیا ۔ نتیجہ میں سردار بیگم ، راقم اور چند اور خواتین زخمی ہو گئیں۔ گھر میں کسی قسم کا شور مچانے کی اجازت نہ تھی۔ اگر راقم اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ باہر دالان میں کرکٹ کھیل رہا ہوتا تو حکم ملتا کہ یہاں مت کھیلو اور راقم منہ لٹکائے وہاں سے چل دیتا ۔ مگر بعض اوقات اقبال خود بھی کھیل میں شریک ہو جایا کرتے۔ ایک دفعہ وہ اندر بیٹھے تھے راقم نے ہٹ جو لگائی تو گیند دروازے کا شیشہ توڑتی اُن کے کمرے میں جا گری ۔ اس روز سے اُسے کرکٹ کھیلنے کی ممانعت کر دی گئی۔ بسا اوقات کھلی بہار میں جب راقم کو ٹھے پر پتنگ اڑارہا ہوتا تو وہ دبے پاؤں اوپر آجاتے اور اس کے ہاتھ سے پتنگ لے کر خود اڑانے لگتے ، لیکن گذشتہ چند سالوں سے اقبال کی نجی یا خانگی زندگی کی حیثیت ثانوی ہوگئی تھی۔ وہ یاتو لاہور سے باہر ہو تے یا اگر گھر پر ہوتے تو ان کے ملاقاتیوں کا سلسلۂ نہ تھمتا تھا۔ ناشتا، دوپہر کا کھانا، شام کی چائے یارات کی چائے طشتری میں لگ کر ان کے کمرے میں جاتی تھی اور علی بخش انہیں کھلاتا تھا، لیکن لوگ تب بھی ان کا پیچھا نہ چھوڑتے تھے۔ ۶؍مارچ ۱۹۳۲ء کو لاہور کی ایک علمی مجلس اسلامک ریسرچ سوسائٹی نے اقبال کی زندگی میںپہلی بار وائی ۔ ایم۔ سی۔ اے ہال میں یوم اقبال منایا جس میں بعض اصحاب نے تقرریں کیں یا مقالے پڑھے۔ اس سے اگلے روز یعنی ۷مارچ۱۹۳۲ء کی شام کو اقبال کے اعزاز میں لاہور کے ریستوران ’’لورینگز‘‘ میں دعوتِ چائے دی گئی جس میں شہر کے معززّین نے شرکت کی۶۰۔ ۱۹۳۲ء ہی میں اقبال آل انڈیا مسلم کانفرنس کے صدر منتخب ہوئے اور ۲۱؍مارچ ۱۹۳۲ء کو مسلم کانفرنس کے افتتاحی اجلاس منعقدہ بیرون دہلی دروازہ لاہور میں انہوں نے اپنا معروف خطبۂ صدارت پڑھا۔ یہ معرکۃ الآرا خطبہ اقبال کی دوسری اہم سیاسی دستاویز ہے، جسے برصغیر کی مسلم سیاسیات کا کوئی بھی طالب علم نظر انداز نہیں کر سکتا ۶۱۔ خطبہ کی ابتداء میں انہوں نے حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا: میں آپ کا ممنون ہوںکہ اس نازک مرحلے پر آپ نے مجھ پر اعتماد کیاہے ، لیکن میں یقینا آپ کوایسا شخص منتخب کرنے پر مبارک باد پیش نہیں کرسکتا جو ایک بصیر آئیڈیلسٹ کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ شاید آپ نے سوچا ہوکہ اس مرحلے پر کسی صاحب بصیرت کی ضرورت ہے، کیونکہ اگر بصیرت نہ ہوتو قومیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔ پھرارشاد کیا: جہاں تک ہماری پالیسی کے بنیادی اصولوں کا تعلق ہے ، میں آپ کے روبرو کوئی تازہ چیز پیش نہیں کر رہا ۔ اُن کے متعلق میں پہلے ہی اپنے خیالات کا اظہار آل انڈیا مسلم لیگ کے خطبہ میں کر چکا ہوں۔ خطبے میں دوسری گول میز کانفرنس کی کارروائیو ںکی تفصیل بیان کی گئی۔ برطانوی حکومت کی سیاسی پالیسی پر تنقید ہوئی او رمہاتما گاندھی یا کانگرس کے مسلمانوں کے ساتھ مخالفانہ روّیے پر تبصرہ کرتے ہوئے فیڈرل سنٹرکی تشکیل میں عدم دلچسپی کا اظہار کیاگیا۔ پھر صوبہ سرحد میں انگریزی حکومت کی سخت گیری اور کشمیر میں مسلمانوں پر تشدد کا ذکر کرتے ہوئے اقبال نے فرمایا: یہ سب مظاہر، آنے والے اس طوفان کا پیش خیمہ ہیں جو ممکن ہے تمام ہندوستان بلکہ پورے ایشیاء کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔ یہ اس سیاسی تہذیب کا ناگزیر نتیجہ ہے۔یہ اس سیاسی تہذیب کا ناگزیر نتیجہ ہے جس نے انسان کو ایک ایسی شے سمجھ رکھا ہے ۔ جو صرف استحصال کے قابل ہو او رجسے ایک شخصیت تصور کرکے تہذیبی طاقتوں کے ذریعے نشوونما کے مواقع فراہم نہ کیے جائیں۔ ایشیا کی اقوام مغرب کی مروّجہ استحصالی معیشت کے خلاف، جسے مشرق پر مسلط کیاگیاہے، یقینا اٹھ کھڑی ہوںگی۔ ایشیا جدید مغربی سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی غیر منضبط انفرادیت کو سمجھنے سے قاصرہے۔ مگر جس دین کی تم نمائندگی کرتے ہو وہ فرد کی قدروقیمت کو تسلیم کرتا ہے اور اسے ایک ایسے نظم و ضبط کے تحت لاتاہے کہ وہ اپنا سب کچھ خداوند تعالیٰ اور انسان کی خدمت میں صرف کردے۔ اس کے امکانات ابھی اختتام پذیر نہیں ہوئے، بلکہ وہ اب بھی ایک ایسی نئی دنیا تخلیق کر سکتاہے جس میں انسان کی معاشرتی حیثیت کا تعیّن نہ تو ذات پات و نسل و رنگ سے ہوتاہے۔ نہ اس دولت سے جو وہ کماتاہے ، بلکہ اس طرز زندگی سے ہوتاہے جو وہ بسر کرتا ہے۔ایک ایسی نئی دنیا ، جس میں غریب امیر پر ٹیکس عائد کرتا ہے، جہا ںانسانی معاشرہ مساوات شکم پر نہیں بلکہ مساواتِ ارواح پر مبنی ہے ، جہاں ایک اچھوت کسی شہزادی سے شادی کر سکتاہے ، جہاں ذاتی ملکیت ایک امانت کی حیثیت رکھتی ہے اور جہاں سرمائے کو ایسے ارتکاز کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ حقیقی سرمایہ پیدا کرنے والے طبقے پر غالب آجائے۔ لیکن تمہارے دین کی یہ عظیم الشان بلند نظری علماء و فقہا کے فرسودہ ادہام میں جکڑی ہوئی ہے اور آزادی کی طلبگار ہے۔روحانی اعتبار سے ہم خیالات و جذبات کے ایک ایسے زندان میں محبوس ہیں جو گذشتہ صدیوں میں ہم نے اپنے گر د خود تعمیر کر رکھا ہے ۔ اورہم بوڑھوں کے لیے یہ بھی شرم کا مقام ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو ان معاشی ، سیاسی بلکہ مذہبی بحرانوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہ بنا سکے جو عصر حاضر میں آنے والے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ساری قوم کی موجودہ ذہنیت کو یکسربدل دیا جائے۔ تاکہ وہ پھر نئی آرزووں ، نئی تمناؤں اور نئے نصب العین کی امنگ محسوس کرنے لگے ۔ جو سبق گزشتہ تجربے نے تمہیں سکھایاہے وہ دل میں اتر جانا چاہیے پس کسی فریق سے توقعات وابستہ مت کرو۔ اگر تم اپنے نصب العین کی تحصیل ہوتے دیکھنا چاہتے ہوتو اپنی خودی صرف اپنی ذات پر مرتکزکرو۔ اور اس کی تپش سے اپنی خاک کوپختہ بناؤ۔ مسولینی کا قول تھاکہ جس کے پاس لوہا ہے اس کے پاس روٹی ہے ۔ میں کہتا ہوں کہ جو خود لوہا ہے اس کے پاس سب کچھ ہے سو سخت بن جاؤ اور سخت کوشی اختیار کرو۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی کا یہی اصل راز ہے ۔ ہمارا واضح نصب العین یہ ہے کہ آنے والے دستور میں اسلام کے لیے ایسا مقام اور ایسی حیثیت حاصل کریں کہ وہ اس ملک میںاپنی تقدیر کے منشا کو پورا کرنے کے مواقع پا سکے ۔ اس نصب العین کی روشنی میں لازم ہے کہ قوم کی ترقی پسند طاقتوں کو بیدار کیا جائے او ر اس کی خوابیدہ قوتوں کو منظم کیاجائے ۔ شعلۂ حیات دوسروں سے مستعار نہیں لیا جاسکتا، وہ صرف اپنی روح کے آتش کدہ ہی میں روشن کیا جاسکتا ہے۔ اقبال نے مستقبل میں مسلمانو ں کے سیاسی پروگرام کے سلسلے میں ایک پنج نکاتی لائحہ عمل پیش کیا۔ اس لائحہ عمل کا پہلا نکتہ یہ تھا کہ متفرق سیاسی جماعتوں میں بٹنے کی بجائے مسلمانانِ ہند کی طرفِ ایک سیاسی تنظیم ہو جس کی شاخیں ملک کے سارے صوبوں اور اضلاع میں قائم کی جائیں ۔ اس کا نام خواہ کچھ بھی ہولیکن اس کے آئین میں اتنی گنجائش ضرور ہونی چاہیے کہ ہر دبستان خیال کے حامی اس کی رکنیت اختیار کر سکیں اور کسی بھی دبستان خیال کے حامیو ںکے لیے ممکن ہوکہ وہ اس میں برسراقتدار آکر اپنی صواب دید، نظریات یا طریق کا رکے مطابق قوم کی رہنمائی کے لیے پالیسی مرتب کرسکیں ۔ دوسرا نکتہ یہ تھاکہ مرکزی تنظیم کم از کم پچاس لاکھ روپے قومی فنڈ کے لیے جمع کرے۔ تیسرا نکتہ یہ تھاکہ مرکزی تنظیم کی رہنمائی میں یوتھ لیگیں اور قومی رضا کاروں کے دستے منظم کیے جائیں۔ ان کے فرائض میں خدمتِ خلق، رسوم و رواجات کی اصلاح، قوم کی تجارتی تنظیم اور شہروں ، قصبوں اور دیہات میں معاشی پروپیگنڈا شامل ہو ں۔ چوتھانکتہ یہ تھاکہ برصغیر کے تمام بڑے شہروں میں مردوں اور عورتوں پر مشتمل الگ الگ ثقافتی ادارے قائم کیے جائیں۔ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہ ہو، بلکہ ان کا فرض نوجوان نسل پر صرف یہ واضح کرنا ہوکہ اسلام بنی نوع انسان کی مذہبی اور تمدنی تاریخ میں اب تک کیاکچھ کر چکاہے اور مستقبل میں اس نے کیا کرنا ہے ۔ پانچواں نکتہ یہ تھاکہ علماء کی ایک مجلس قائم کی جائے جس میں ایسے وکلاء بھی شامل ہوں، جنہوں نے ماڈرن جورس پروڈنس کی تعلیم حاصل کر رکھی ہو۔ اس تجویز کا مقصد اسلامی قانون کا تحفّظ اس کی توسیع اور وقت کے جدید تقاضوں کے مطابق اس کی تعمیر نو تھا۔ اس مجلس کوایسی آئینی حیثیت حاصل ہونی چاہیے کہ مسلمانوں کے شخصی قانون کو متاثر کرنے والا کوئی بھی مسودئہ قانون اس کی منظوری کے بغیر قانون سازاداروں میں پیش نہ کیا جا سکے۔ اس سلسلہ میں اقبال نے فرمایا: مسلمانانِ ہند کے لیے اس تجویز کی خالص عملی قدروقیمت سے قطعِ نظر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جدید مسلم اور غیر مسلم دنیا کو ابھی اسلام کے قانونی اَدب کی لامتناہی قدروقیمت دریافت کرنا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام ، جس کے اخلاقی معیار ایک عرصے سے انسان کے معاشی طریق کار کی نگرانی سے دست بردار ہوچکے ہیں ، اس کی افادیت سے آگاہ ہوناہے۔ آل انڈیا مسلم کانفرنس نے اپنے دو روزہ اجلاس زیر صدارت اقبال میں کئی قراردادیں منظور کیں۔ مثلاً یہ کہ مرکزی حکومت کی ملازمتوں میں مسلمانوں کو ایک تہائی حصّہ او رفوج میں پچاس فیصد ملازمتیں دی جائیں ، یہ کہ مسلمان گذشتہ دو گول میزکانفرنسوں کے نتا ئج سے مطمئن نہیں اور فر قہ وارانہ مسئلے کے متعلق حکومت برطانیہ جلد از جلد اپنے فیصلے کا اعلان کرے۔ اگر یہ اعلان اواخر جون ۱۹۳۲ء تک نہ ہوا تو مسلم کانفرنس کے ایگزیکٹیو بورڈ کا ایک اجلاس ۳جولائی ۱۹۳۲ء کو راست اقدام کا پروگرام طے کرنے کے لیے منعقد کیاجائے، یہ کہ برطانوی ہندکے تمام صوبوں میں صوبجاتی خود مختاری کافی الفور نفاذ کردیا جائے ، یہ کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے گلانسی کمیشن کے مسلمان اراکین کو مسلم جماعت سے مشورہ کرکے مقرر کیا جائے۔ وغیرہ وغیرہ۶۲ ۔ پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کے حق اکثریت کو بروے کارلانے کا مطالبہ مسلم لیگ اور مسلم کانفرنس کئی بار اپنی قراردادوں میں کرچکی تھیں۔ اقبال اس مطالبے کے زبردست حامی تھے۔ لہٰذا انہوں نے اپنے خطبۂ صدارت میں نہ صرف اس مطالبے کو دہرایا بلکہ مسلم مطالبات کی عدم منظوری کی صورت میں راست اقدام کی دھمکی بھی دی۔ ہندو اور سکھ اس مطالبے کے سخت مخالف تھے، اس لیے اقبال کے خطبے کے بعد انہوں نے اس معاملے کے خلاف اپنی پروپیگنڈا مہم تیز کر دی ۔ اس کے جواب میں اقبال نے چند رفقا کے ساتھ ۲۰ اپریل ۱۹۳۲ء کو ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں فرمایا: ہم گذشتہ کئی ہفتوں سے نہایت غور کے ساتھ دیکھ رہے ہیں کہ پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کی قطعی اکثریت کے اہم اور جائزمطالبے کے خلاف ایک نہایت ہی زہر یلا پروپیگنڈا جاری ہے ۔ہم اس امر کا فیصلہ دُنیا پر چھوڑ دیتے ہیںکہ جس حالت میں ہندو اور سکھ مسلمانوں سے یہ خواہش رکھتے ہیںکہ وہ چھ صوبجات اور مرکز میں اپنے آپ کو عظیم ہندو اکثر یت کے حوالے کردیں ، وہ پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت کی شدید مخالفت کرکے ہندوستان بھرکی ہندو اکثریت کی نیک نیتی کانقش کس حد تک بٹھا سکیں گے اور مسلمانوں کے قلوب میں ان کی طرف سے کس حد تک اعتماد پیدا ہوگا…۶۳۔ ۸جون ۱۹۳۲ء کو مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کا اجلاس شملہ میں منعقد ہوا۔ اقبال نے اس کی صدارت کی او رچند قراردادیں ریاست الور کے متعلق اور صوبوں کو مالی خود مختاری دیے جانے کے بارے میں منظور کی گئیں۔ ۶۴اسی ماہ میں پنجاب یونیورسٹی میں تاریخ کے ایک انگریز پروفیسر نے ہندوؤں کے زیر اثر آکر تجویز پیش کی کہ اسلامی تاریخ کو بی۔ اے کے پاس کورس سے حذف کرایا جائے۔ سینٹ کے مسلم ممبران کی مخالفت کے باوجود یہ تجویز ایک ووٹ کی اکثریت سے منظور ہوئی۔ اس پر پنجاب کے مسلمان بڑے مضطرب ہوئے او رمتعدد جلسوں میں اس فیصلے کی شدید مذمت کی گئی ۔ اس ضمن میں ایک جلسہ زیر اہتمام اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ باغ بیرون موچی دروازہ میں ۱۱جون ۱۹۳۲ء کو منعقد ہوا، جس کی صدارت اقبال نے کی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں ارشاد کیا: میرا آج تک یہی خیال تھاکہ مسلمان نوجوانوں کے دلوں پر غفلت کے گہرے پردے پڑے ہوئے ہیں اور وہ تمدّن و تاریخ اسلام سے ایسے ہی ناواقف ہیں۔ جیسے کوئی غیر مسلم۔ چند ماہ ہوئے مجھے مصر اور فلسطین جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ وہاں کے واقعات سے مجھے یقین ہوگیا کہ غفلت کے پردے اٹھ چکے ہیں۔ فلسطین کی مؤتمر اسلامی میں میں نے دیکھا کہ وہاں کے نوجوان مقرریّن کی ڈاڑھیاں منڈی ہوئی تھیں۔ اور وہ کوٹ پتلون میں ملبوس نظر آرہے تھے، انہیں علم و فضل اور جوشِ عمل کے اعتبار سے علماء کرام پر فوقیت حاصل تھی۔ مسٹربروس کی تجویز ہے کہ اسے( تاریخ اسلامی کو) پاس کورس سے خارج کیا جائے۔ پاس کورس میں طلبہ کی زیادہ تعداد ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کورس سے اسلامی تاریخ کو خارج کرنے کی تجویزپیش کی گئی ہے۔ عقل انسانی جب شرارت پر اتر آئے تو اپنے اندرونی جذبات اور محرکات سے کا م لے کر اپنے مقصد کی تکمیل پر متوجہ ہوجاتی ہے…مسٹر بروس کا استدلا ل یہ ہے کہ ہندوستان کے لوگوں کو ہندوستان کی تاریخ پڑھنا چاہیے میرے نزدیک یہ دعویٰ غلط ہے کہ کسی قوم کی تاریخ کو اس قوم کی تاریخ نہ سمجھا جائے، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ تاریخ اجتماعی حیثیت سے انسانی روح کی ایک حرکت ہے ۔ روح انسانی کا کوئی ماحول نہیں بلکہ تمام عالم اس کا ماحول ہے ۔ اگر اسے کسی قوم کی ملکیّت سمجھا جائے تو یہ تنگ نظری کا ثبوت ہے جب میں اٹلی گیاتو مجھے ایک شخص پرنس کیتانی ملا۔ وہ اسلامی تاریخ کا بہت دلدادہ ہے ۔ اس نے تاریخ پر اتنی کتابیں لکھی ہیں اور اس قدر روپیہ خرچ کیا ہے کہ کوئی اسلامی سلطنت اس کے ترجمے کا بندوبست بھی نہیں کر سکتی ۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو اسلامی تاریخ میں دلچسپی کیوں ہے توانہوں نے کہاکہ اسلامی تاریخ عورتوں کو مرد بنادیتی ہے…۶۵ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے کہ مسلم کانفرنس کے اجلاس منعقدہ ۲۲/۲۱ مارچ ۱۹۳۲ء میں ایک قراردادیہ منظور کی گئی تھی کہ اگر حکومت برطانیہ نے فرقہ وارانہ فیصلے کا اعلان اواخر جون تک نہ کیا تو مسلم کانفرنس کا ایگزیکٹو بورڈ ایک جلسہ ۳جولائی ۱۹۳۲ء کومنعقد کرکے راست اقدام کا پروگرام طے کرے گا۔ اقبال نے بحیثیت صدر مسلم کانفرنس مجلس عاملہ کے بعض ممبران سے مشورہ کے بعدا س جلسے کو جولائی کے آخر تک ملتوی کر دیا۔ اس پر مختلف حلقوں میں بڑی لے دے ہوئی ، اور اقبال پر الزام لگایا گیاکہ ان کا رویہ ڈکٹیٹرانہ تھا یا انہوں نے شملہ (یعنی انگریزی حکومت) کے اشارے پر اجلاس ملتوی کردیا ۔ نتیجہ میں ۴؍جولائی ۱۹۳۲ء کو الہٰ آباد میں مسلم کانفرنس کے بعض مقتدر اراکین نے ایک اجلاس عام منعقد کیا، جس میں اقبال کے اعلان التوا کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ نیز مولانا حسرت موہانی اور چند دیگر زعماء نے تجویز پیش کی کہ مسلم کانفرنس کے اندر ایک نئی جماعت بنائی جائے۔ بجائے اس کے کہ اقبال اپنے خلاف اس احتجاجی جلسے یانئی جماعت سازی کے فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ، انہوں نے اپنے بیان مورخہ ۶جولائی ۱۹۳۲ء میں مولانا حسرت موہانی کی تجویز کوسراہتے ہوئے نئی جماعت کا خیرمقدم کیا اور واضح کیا کہ یہ طرز عمل ان کی اپنی تجویز کے عین مطابق ہے جو انہو ںنے مسلم کانفرنس کے خطبہ ٔ صدارت میں پیش کی تھی، یعنی مسلمانوں کی واحد سیاسی تنظیم کے آئین میں اتنی گنجائش ہوکہ اس میں ہر سیاسی مکتب فکر کو برسراقتدار آنے کا موقع مل سکے۔ اقبال نے واضح کیا کہ جلسہ آمرانہ طور پر ملتوی نہیں کیا گیا، بلکہ مجلس عاملہ کے اجلاس میں، جس میں وہ خود شریک نہ تھے، مولانا شفیع داؤدی کو بحیثیت سیکرٹری جنرل اختیار دیاگیا تھاکہ اگر فرقہ وارانہ فیصلے کا اعلان ۳جولائی ۱۹۳۲ء تک نہ ہوا تو وہ اپنے طورپر ایگزیکٹو بورڈ کا جلسہ ملتوی کرسکتے ہیں۔ اقبال نے فرمایا : اگر فرقہ وارانہ فیصلہ مسلمانوں کے موافق نہ ہوتو مسلمانو ںکایہ فرض ہے کہ وہ حکومت سے لڑیں ، لیکن میںیہ مشورہ انہیں نہ دوں گاکہ وہ کسی قسم کاراست اقدام محض اس لیے شروع کردیں کہ حکومت ایک مقررہ مدّت کے اندر فرقہ وارانہ فیصلے کااعلان نہ کرنے کے جرم کا ارتکاب کررہی ہے۔ واقعات کے اس کھلم کھلا اظہار کے بعد مسلمان یہ اندازہ کریں گے کہ ایگزیکٹو بورڈ کے جلسے کے ملتوی کرنے کا جو مشورہ میں نے دیا تھا، وہ کہاں تک شملہ کے چشم و ابرد کے اشاروں سے متّاثر تھا۔ اپنی خانگی اور پبلک زندگی میں میں نے دوسرے شخص کے ضمیر کی پیروی کبھی نہیںکی۔ ایسے وقت جب کہ جماعت کے بہت ہی اہم مفادات کی بازی لگی ہوئی ہے، اس آدمی کو جو دوسروں کے ضمیر کی پیروی کرتا ہے میں اسلام اور انسانیت کا غداّر سمجھتا ہوں ۔ میں اس امر کو اچھی طرح واضح کردوں کہ جن لوگوں نے التواء کی خواہش کی تھی، ان کے رویّے کی یہ تعبیر نہ کی جانی چاہیٔے کہ وہ قرارداد لاہور پر عمل کرنے کے لیے (اگر اس پر عمل کرنے کی ضرورت لاحق ہو) تو، دوسروں سے پیچھے رہیںگے۔ جب تک یہ ضرورت لاحق نہ ہو، جماعت کوچاہیے کہ اپنی طاقتوں کو محفوظ رکھے۔ دانائی یہ نہیں کہ اپنی توانائی کو غیر اہم مسائل پر صرف کیاجائے ، بلکہ اس کو ان معاملات پر خرچ کرنے کے لیے محفوظ رکھا جائے جو واقعتا اہمیت رکھتے ہیں ۶۶۔ اسی دوران میں مولاناشفیع داؤدی نے اپنے عہدے سے استعفاد ے دیا۔ چند دنوں بعد نئی جماعت کے بانیوں نے اقبال سے ملاقات کی اور ان کی رائے کی تائید کی کہ اس مرحلے پر بورڈ کا اجلاس ملتوی کرنا مناسب تھا۔ اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے عبدالمجید سالک تحریر کرتے ہیں: یہ طوفان بہت جلد تھم گیا اور اس نئی جماعت کے بعض لیڈرو ںنے خود علاّمہ اقبال سے ملاقات کرکے عرض کیاکہ موجودہ حالات میں مجلس عاملہ کے اجلاس کا التواء ہی مناسب تھا۔ اور برطانوی حکومت نے چونکہ ہندوستانی جماعتوں کی درخواست پر فرقہ وارانہ مسئلے کا حل کرنے کی ذمے داری لی ہے ، اس لیے ہم کو اس کے فیصلے تک انتظار کرناچاہیے۔ غرض علامہ اقبال کے خلوص اور ان کی شخصیت کے اثر نے کانفرنس کو اختلاف کی نذرنہ ہونے دیا اور آخر میں سبھی ان سے متفق ہوگئے ۶۷۔ ۱۹؍جولائی ۱۹۳۲ء کو اقبال عید میلادالنبی کی تقریب میں حصّہ لینے کے لیے جالندھر گئے۔ وہاں کے لوگوں نے ایک عظیم الشان جلوس نکالا۔ بعد میں جلسہ ہوا۔ جس میں اقبال نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے متعلق ایک ایسی جامع تقریر کی کہ اہل جالندھر کے ایمان تازہ ہوگئے۔ پھر ان کے اعزاز میں چائے پارٹی ہوئی او رسپاسنامہ پیش کیاگیا۔ شام کو واپس لاہور پہنچے ۶۸۔ دوسری گول میز کانفرنس میں سکھوں نے اقلتیو ںکے ترتیب دیے ہوئے ایک میثاق کی مخالفت کی تھی ۔ انہیں خدشہ تھاکہ فرقہ وارانہ فیصلے میں ان کے حقوق کا تحفّظ نہ ہوگا، اس لیے وہ اس ضمن میں بہت سے بیانات وغیرہ شائع کررہے تھے۔ وہ فرقہ وارانہ فیصلے کے اعلان کے مواقع پر احتجاجی مظاہروں کا پروگرام بھی بنا رہے تھے۔ جس کا مقصد مسلمانوں کے مفاد کو نقصان پہنچاناتھا۔ اقبال نے ان کے طرز عمل کے متعلق ایک بیان ۲۵؍جولائی ۱۹۳۲ء کو جاری کیا جس میں مسلمانوں کے مؤقف کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: مسلمانانِ ہند جس قدر اپنی جماعت کے مفادات کو محفوظ کرنے کے لیے مضطرب ہیں اتنے ہی وہ ملک کی دستوری ترقی کے لیے بے چین ہیں۔ مرکز میں اور ان صوبوں میں جہاں وہ نہایت ہی حقیرا قلیت میں ہیں، اکثریتی حکومت کے اصولوں کو وہ تسلیم کرتے ہیں ، بشر طیکہ ان کو اس جائز اور متوازی فائدے سے محروم نہ کردیا جائے، جو انہیں بعض دیگرصوبوں کے اندر اکثریت میں ہونے کی وجہ سے حاصل ہے۶۹۔ اقبال کے بیان پر سکھ مسلم مفاہمت کی کوششوں کا آغاز ہوا۔ ۲۹؍ جولائی ۱۹۳۲ء کو ان کے پرانے دوست سردار جو گندر سنگھ نے انہیں ایک نوٹ تحریر کیا، جس میں وہ پنجاب کی کونسل میں مسلمانوں کو صرف ایک نشست کی اکثریت دینے کو تیار تھے۔ اقبال نے یہ تجویز مسترد کردی اورا نہیں لکھا کہ وہ کونسل میں مسلمانوں کے لیے کم از کم اکیاون فیصد نشستیں چاہتے ہیں ۔ ۷۰ بعد از اں سردار جوگندر سنگھ نے ایک بالکل ہی مختلف اسکیم انہیں روانہ کی، لیکن اقبال نے اسے بھی یہ کہہ کر رد کردیا کہ پنجاب کونسل میں مسلمانوں کی واضح اکثریت ہونی چاہیے، اور اس اصول کو پیشِ نظر رکھے بغیر کسی بھی اسکیم پر غور کرنا یا مذاکرات کرنابالکل بیکار ہے۔ اگرچہ سردارجوگندر سنگھ کے اپنے کہنے کے مطابق یہ تمام خط وکتابت پرائیویٹ تھی ۔ انہوں نے خودہی اسے اپنے بیان مورّخہ ۴؍ اگست ۱۹۳۲ء کے ساتھ اخباروں میں شائع کردیا۔ بہرحال سکھ مسلم مفاہمت کے لیے شملے میں بھی گفت وشنید جاری تھی ، مگر چونکہ اس گفت وشنید کے ذریعے سکھوں کا اصل مقصد برطانوی حکومت کے فرقہ وارانہ فیصلے کے اعلان کا مزید التوا تھا۔ اس لیے ۷اگست ۱۹۳۲ء کو مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کا ایک اجلاس دہلی میں زیرِ صدارت اقبال منعقد ہوا، جس میں قرار پایا کہ مسلم لیڈر سکھوں سے اپنی گفت وشنید کو اس وقت تک ملتوی رکھیں جب تک حکومت فرقہ وارانہ فیصلہ کا اعلان نہ کردیے ۔ اسی اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ حکومت برطانیہ جلد از جلد فرقہ وارانہ فیصلہ کا اعلان کرے۔ نیز یہ قرارداد بھی منظور کی گئی کہ اگر مسلمانوں کے کم سے کم مطالبات بھی تسلیم نہ کیے گئے تو مجلسِ عاملہ کی مندرجہ ذیل اشخاص پر مشتمل کمیٹی آئندہ کے لیے قومی لائحہ عمل ترتیب دے کر مجلس عاملہ کو پیش کرے گی: اقبال (صدر) مولانا مظہرالدین ، مولانا حسرت موہانی ، سیدحبیب، غلام رسول مہر، حسن ریاض اور ذاکرعلی۷۱ ارکان مسلم کانفرنس کی قرارداد کے بموجب اقبال نے سکھوں سے مفاہمت کی بات چیت میں حصّہ لینے سے انکارکردیا اور اپنے بیان مورّخہ ۱۰؍ اگست ۱۹۳۲ء میں اپنے طرز عمل کی وضاحت مجلس عاملہ کے فیصلے کی روشنی میں پیش کی۷۲ ۔ پس سکھ مسلم مفاہمت کی گفت وشنید بھی ناکام رہی ۔ ۱۶؍ اگست ۱۹۳۲ء کو وزیر اعظم برطانیہ نے فرقہ وارانہ فیصلے کا اعلان کیا، جس کے سبب سارے برصغیر میں بحث و نزاع کا ہنگامہ برپا ہوگیا۔ ۱۷؍اگست ۱۹۳۲ء کو مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں ، جو زیرصدارت اقبال منعقد ہوا، ایک قرار داد کشمیر ایجی ٹیشن کے سلسلے میں احرار کی قید و بند پر احتجاج اور ان کی رہائی کے بارے میں منظور کی گئی۔مگر تحریک کشمیر جاری رہی ۷۳۔ ۲۳؍اگست۱۹۳۲ء کو مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کا ایک اور اجلاس زیر صدارت اقبال دہلی میں منعقد ہوا جس میں فرقہ وارانہ فیصلے کے متعلق ایک قرارداد منظور کی گئی۔ ۲۴؍اگست ۱۹۳۲ء کو اقبال نے اس قرار داد کی تائید میں ایک اہم بیان جاری کیا جس میں فرقہ وارانہ فیصلے پر اپنے اعتراضات کی وضاحت کی۔ ان کا پہلا اعتراض یہ تھاکہ پنجاب کونسل میں مسلمانوں کو واضح اکثریت نہیں دی گئی اور سکھوں کو زیادہ پاسنگ دیاگیاہے ۔اس کے علاوہ بعض نشستوں کی مشترکہ انتخاب کے ذریعے حاصل کرنے کی پابندی عائد کی گئی ہے ۔ دوسرا اعتراض یہ تھا کہ بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت کے باوجود ان کا حق مارکر یورپین جماعت کو پاسنگ دیا گیاہے ۔تیسرا اعتراض یہ تھا کہ بنگال، پنجاب اور سرحد میں غیر مسلم اقلیتوں کو زیادہ پاسنگ دیا گیا ہے، جبکہ ہندو اکثریتی صوبوں میں مسلم اقلیت کو اس قدر پاسنگ نہیں دیا گیا تھا۔ فرقہ وارانہ فیصلے میں مسلمانوں کے نقصا ن کی تلافی کے لیے اقبال نے دو تجاویز پیش کیں: اول یہ کہ بنگال میں دوایوانی مقننّہ بنائی جائے اور بالائی ایوان میں مسلمانو ںکو ان کی آبادی کے تناسب سے نشستیں دی جائیں۔ نیز کابینہ دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس کے سامنے ذمہ دار ہو۔ یوں بنگال میں مسلمانوں کو ایک مضبوط اکثریت حاصل ہوسکتی تھی اور دوم، صوبوں کو حقیقی اختیارات زیادہ سے زیادہ دیے جائیںاو رمرکز کو صرف چند برائے نام اختیارات حاصل ہوں ۷۴۔ فرقہ وارانہ فیصلے میں اچھوتوں کو جداگانہ نیابت دیے جانے کے خلاف مہاتما گاندھی نے ۲۰؍ستمبر ۱۹۳۲ء سے مرن برت رکھا، لیکن مرن برت رکھنے سے قبل اسی سلسلے میں انہوں نے وزیر ہند اور وزیر اعظم برطانیہ سے خط و کتابت بھی کی تھی،جوگاندھی وزیراعظم مراسلت کے عنوان سے اخباروں میں شائع ہوئی۔ اقبال نے اس مراسلت پر تبصرہ اپنے اخباری بیان مورخہ ۱۳ستمبر ۱۹۳۲ء میں کیا۔ فرمایا : یہ خطوط شخصی نفسیات کے دلچسپ مظہر ہیں اور اپنی نوعیت کے لحاظ سے مجھے ایسی تحریروں سے بہت کم سابقہ پڑاہے۔ خطوط میں مجھے جو چیز سب سے نمایاں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ مسٹر گاندھی کے نزدیک ہندو مذہب کی صداقت اخلاقی اور مذہبی مسائل پر مشتمل ہے۔ ذاتی طور پر میں ان خیالات کا بے حد مداح ہوں ، لیکن باوجود اس امر کے ہندو اخبارات نے میرے متعلق بدگمانیاں پھیلانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ، لیکن میرا ہمیشہ یہی خیال رہا ہے کہ سیاسی مسائل بالخصوص ہندوستان میں مذہبی اور اخلاقی معاملات کے مقابلے میںبالکل بے حقیقت ہوکررہ جاتے ہیں۔میرے لیے یہ چیز کوئی تعجب انگیز نہیں کہ ہندوستان کی متحدہ قومیّت کے تخیل کے علمبردار اور ہندوستانی اقلیتوں میں فرقہ وارانہ بیداری (جو سیاسی طاقت کے انتقال کا لازمی نتیجہ ہے )کے اشد ترین مخالف نے نہایت دلیری سے بالخصوص ہندوقومیت کے تحفظ کے مسئلے کی حمایت کو نہایت ضروری خیال کیا۔ یہ صورت حالات مسلمانوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے کہ وہ مہاتما جو ملک کی تمام اکثریتوں کو متحدّہ قومیت ہندمیں جذب ہوجانے کی تلقین کیا کرتا تھا، آج اسے ایک ایسے فرقہ واراعلان میں ہندو قوم کا انتشار نظر آرہا ہے جس کے ذریعے سے مجالس وضع آئیں میں ان لوگوں کو محدود نمائندگی حاصل ہونے کاامکان ہے جو خود مہاتما گاندھی کے نزدیک صدیوں تک ہندووں کی اونچی جاتیوں کے تختۂ مشق بنے رہے ہیں۔ اگر اچھوتوں کے لیے جدا گانہ انتخاب کے یہ معنی ہیں کہ ہندو قوم کے فنا ہونے کا اندیشہ ہے تو مخلوط انتخاب کا مطلب یہ ہوگا کہ جو اقلیتیں اسے اختیار کریں گی وہ صفحۂ ہستی سے نابود ہوجائیں گی۔ میرے خیال میں مہاتما گاندھی کی روش سے یہ صاف ظاہر ہوگیا ہے کہ جس اقلیّت کو اپنے جدا گانہ وجود کے برقرار رکھنے کی ضرورت ہوگی اسے جداگانہ انتخاب سے دستبردار نہیں ہونا چاہییٔ۔ جہاں تک گاندھی جی کی خود کشی کی دھمکی کا تعلق ہے ، مذہب اسلام نے خود کشی کو خواہ وہ کسی حالت میں بھی ہو، نامردی کا ثبوت قرار دیا ہے۔ معاذ اللہ اگر اسلامیان ہند بھی ذات پات کی تمیز کے پابند ہوتے اور ان میں بھی اچھوت طبقے کا ایک جم غفیر موجود ہوتا اور وہ بھی ہندو جاتی کی اُونچی ذاتوں کی طرح ان کے ساتھ وہی سلوک کرتے جو اُونچے گھرانے کی ہندو، نیچ ذاتوں کے ساتھ سالہا سال سے کرتے چلے آرہے ہیں ، اور گر مجھے بھی وہی طرز عمل اختیار کرنا پڑتا جو گاندھی جی نے اختیار کیاہے، تو میں حکومت برطانیہ کو دھمکی دینے کی بجائے اپنی قوم کو دھمکی دیتا اور بجائے اس کے کہ اچھوتوں کو حاصل شدہ تحفّظ سے محروم کرنے کی کوشش کرتا، میں اپنی قوم کو اس بات پرمجبور کرتاکہ وہ ایک خاص مدت کے اندر اچھوت اقوام کے ساتھ مذہبی اور معاشرتی اعتبار سے کامل مساوات کے ساتھ پیش آئے۔ اگر ہندو جاتی کو واقعی اچھوت اقوام کی بہتری مقصود ہے تو وہ یقینا گاندھی جی کے حلف کو اسی روشنی میں ملے گی۷۵۔ بہرحال اچھوتوں کے جدا گانہ حق نیابت کے بارے میں حکومت برطانیہ نے فرقہ وارانہ فیصلے میں میثاق پونا کے تحت تبدیلی کردی۔ میثاق پونا کے متعلق اقبال نے اپنے بیان موّرخہ ۲۸ ستمبر ۱۹۳۲ء میں صاف کہہ دیا کہ اس کی رد سے نہ تو اچھوتوں کی جداگانہ نیابت میں فرق آیاہے اور نہ انہیں ہندو دھرم سے کوئی قرب حاصل ہواہے۷۶۔ چونکہ ہندو اور مسلمان دونوں فرقہ وارانہ فیصلے سے غیر مطمئن تھے، اس لیے مولانا شوکت علی کو سوجھی کہ اس موقع پر ہندومسلم مفاہمت کی ایک اور کوشش کی جائے۔ چنانچہ انہوں نے شیخ عبدالمجید سندھی کے ساتھ مل کرمولانا ابوالکلام آزاد اور پنڈت مدن موہن مالویہ سے بمبئی میں گفت وشنید کا آغاز کیا۔ اس گفت وشنید کی خبر اخبارات میں شائع ہوئی اور اقبال نے بحیثیت صدر مسلم کانفرنس اپنے بعض رفقاء کے ساتھ ۶ اکتوبر ۱۹۳۲ء کو ایک مشترکہ بیان جاری کیا،جس میں فرمایا: مسلمانانِ ہند اکثریت والی قوم کے ساتھ اتحاد کے لیے ہمیشہ بیتاب رہے ہیں اور اس حقیقت سے ہر وہ شخص باخبر رہا ہے ، جو گذشتہ دس سال میں ان کو ششوں کا مطالعہ کرتارہا ہے، جو مستحکم بنیادوں پر فرقہ وارانہ اتحاد و موافقت پیدا کرنے کے لیے کی گئی ہیں۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ جداگانہ او ر مخلوط انتخاب کا مسئلہ چھیڑنا قطعی نامناسب ہے ، کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ ہماری قوم اس نازک وقت میں اس تحفظ کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ۔ تاہم ہم ان واضح تجاویز پر غور و خوض کرنے کے خلاف نہیں جو دوسری قوم کے رہنما ضروری متعلقہ مسائل کو سمجھتے ہوئے پیش کریں ۔ لیکن ہم اس امر کو اچھی طرح واضح کردینا چاہتے ہیں کہ یہ واضح تجاویز اکثریت والی قوم کی طرف سے پیش ہونی ضروری ہیں ۷۷۔ ابھی یہ مذاکرات جاری تھے کہ مولانا شوکت علی اور شیخ عبدالمجید سندھی نے اعلان کیاکہ مسلم لیڈروں کی ایک کانفرنس ۱۵ اکتوبر ۱۹۳۲ء کو لکھنؤ میں ہوگی۔ اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت اقبال کو بھی بھیجی گئی۔ جواب میں انہوں نے اپنے تار مورخہ ۸اکتوبر ۱۹۳۲ء میں تحریر کیا: باہمی سمجھوتے کی کوشش قابل ستائش ہے ، لیکن ہندوؤں کی طرف سے قطعی تجاویز پیش ہوئے بغیر مسلمان رہنماؤں کی کانفرنس منعقد کرنا نقصان رساں ہے ۔ افسوس ہے کہ ان حالات میں میں شریک نہیں ہوسکتا۔ میری درخواست ہے کہ آپ کانفرنس کی تجویز پر نظر ثانی فرمائیں۷۸۔ ۸ اکتوبر ۱۹۳۲ء کو اسی موضوع پر اقبال نے ایک اخباری بیان بھی جاری کیا، جس میں ایسے ہی تاروں اور ان کے جوابات کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: ہندو لیڈروں کی طرف سے قطعی تجاویز کی عدم موجودگی میں، میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ہمیں اس کانفرنس میں کس چیز پر بحث کرنے کے لیے بلایا جارہا ہے ۔ مسلمانانِ ہند نے دوسرے فرقوںسے مفاہمت کے لیے ہمیشہ اپنی آمادگی کا اظہار کیا ہے، لیکن جو طریقہ اس وقت اختیار کیاجارہاہے، وہ ہندوؤں سے معاملات کرنے کا طریقہ تو نہیں ہے بلکہ اس سے ہماری اپنی صفوں میں افتراق پیدا ہوگاجسے ہم نے بڑ ی مشکلوںسے دور کیا ہے۔ طریقۂ انتخاب کے سوال کو معمولی قراردینا اور اس کو دوبار چھیڑنا، باوجود یکہ مسلم جماعت نے اس بارے میں اپنا واضح فیصلہ دے دیاہے، جیساکہ مسلم کانفرنس اور مسلم لیگ کی قراردادوں سے ظاہر ہوتاہے، ایک بہت ہی غیر دانشمندانہ طریقہ ہے۔ میں سمجھتا ہو ںکہ مجوزّہ کانفرنس اسلام اور ہندوستان کے مفاد کے لیے مضر اور بالکلیہ تضیع اوقات کا باعث ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس کانفرنس کے داعیان اپنے موقف پر نظر ثانی کریں گے ۷۹۔ ۱۶اکتوبر ۱۹۳۲ء کو مجوزّہ کانفرنس لکھنؤ میں منعقد ہوئی، مگر اس میں یہی قرارداد منظور ہوسکی کہ مسلمان مسئلہ انتخاب پر تبھی غور کر سکتے ہیںجبکہ اِن کے دیگر تیرہ مطالبات اکثریتی فرقہ تسلیم کرلے۔ پھر ہندووں اور سکھوں سے مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے ارکان نے ہندو اور سکھ لیڈروں سے گفت و شنید کی ۔ لیکن ہندو مسلم مفاہمت یا سکھ مفاہمت کی یہ کوشش بھی ناکام رہی ۔اقبال نے لکھنؤ کانفرنس کی قراردادپر اپنے بیان مورخہّ ۱۷ اکتوبر ۱۹۳۲ء میں تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ قرارداد عملاً اسی موقف کو دہراتی ہے جوفرقہ وارانہ گفت وشنید کے متعلق میں نے اختیار کیا تھا، یعنی یہ کہ قطعی تجاویز اکثریتی فرقے کی جانب سے سامنے آنی چاہئیں…اب ہندووں کی باری ہے کہ وہ بتائیں کہ آیا وہ گفت وشنید کرنے کے لیے تیار ہیں ۸۰۔ عظیم حسین کے بیان کے مطابق ان کے والد فضل حسین نے حکومت کو پھر مشورہ دیا کہ اقبال کو تیسری گول میز کانفرنس میںشرکت کے لیے بھیجاجائے ، لیکن پچھلے سال کے تجربے کی بنا پر انگریزی حکومت اقبال کو آئند ہ گول میز کانفرنس میں بھیجنے کے لیے اگر رضامند ہوئی تو سرد مہری کے ساتھ۔۸۱ سرظفر اللہ خان تحریرکرتے ہیںکہ انگریزی حکومت کوانہوں نے اقبال کی نامزدگی کے متعلق مشورہ دیا تھاکیونکہ ان ایام میں فضل حسین رخصت پر تھے اور ان کی جگہ سر ظفر اللہ خان وائسرائے کی کونسل کے قائم مقام ممبر تھے۔ انگریزی حکومت کا اعتراض تھاکہ دوسری گول میز کانفرنس کے دوران میں اقبال خاموش رہے اورکانفرنس کی کارروائیوں میں انہوں نے عملی طورپر کوئی حصّہ نہ لیا۔ مگر بالآخر حکومت برطانیہ نے سرظفر اللہ خان کا مشورہ قبول کیا۸۲۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال نے دوسری گول میز کانفرنس کی کارروائیوں پر شدید تنقید کی تھی اور مسلم کانفرنس کے صدر کی حیثیت سے وہ انگریزی حکومت کے روّیے کی بھی مذمت کرتے رہتے تھے، اس لیے انگریزی حکومت انہیں خوش دلی سے تو آئندہ گول میز کانفرنس کارکن نامزد نہ کرسکتی تھی، مگر اقبال کو مسلم ہند کی سیاسیات میںجو اہمیت حاصل ہوچکی تھی اسے نظر انداز کرنا بھی ممکن نہ تھا۔ لہٰذا حکومت برطانیہ کو بادل نخواستہ انہیں کانفرنس کارکن نامزد کرنا پڑا۔ تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے روانہ ہونے سے پیشتر اقبال نے اپنے سیاسی موقف کی تشریح کے سلسلے میں ایک نہایت اہم خط ’’ہمدم‘‘لکھنؤ کے ایڈیٹر کے نام تحریر کیا۔جس میں فرمایا: ’ہمدم ‘ نے مسلمانوں کو ہمیشہ بے لاگ مشورہ دیا ہے جس کے لیے تمام ملک آپ کا شکر گزار ہے ۔مجھے خوب یاد ہے کہ ہندووں اور مسلمانوں میں مفاہمت کرانے کے لیے دوبارہ کوشش کرنے کی تجویز آپ ہی کی تھی۔ میں نے آپ کی خدمت میں عرض بھی کیاتھا کہ شاید ایسی مفاہمت کاموقع پونا کے سمجھوتے کے بعد آجائے۔ میرے ذہن میں ا س وقت یہ بات تھی کہ شاید اکثریت کوئی تجاویز مسلمانوں کے سامنے پیش کرے۔ مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوا۔پنڈت مد ن موہن مالوی صاحب نے بھی وہی طریقہ اختیار کیا جو دہلی میں اس سے پہلے مہاتما گاندھی نے اختیار کیاتھا۔ بہر حال آپ نے مسٹر محمد علی جناح کا تار پڑھ لیا ہوگا۔ وہ بھی اس بات سے متفق ہیں کہ مفاہمت کی تجاویز ہندووں کی طرف سے پیش ہونی چاہییں خواہ ان کی اساس مخلوط انتخاب کا اصول ہی کیوں نہ ہو۔ میرا عقیدہ یہ ہے کہ لکھنؤ کانفرنس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان اپنے مطالبات میں جن کا اعادہ کئی بار کر چکے ہیں۔ از خود ترمیم کر دیں اور بالخصوص اصول انتخاب میں موجودہ حالات میں ایسا کرنا انتہا درجے کی سیاسی کمزروی کی دلیل ہے ۔ اس کے علاوہ ایسا کرنے سے مسلمانوں میں انتشار اور افتراق کادروازہ کھل جائے گا۔ اور جو اتحاد خیال انہوں نے بڑی مشکل سے حاصل کیا ہے ضائع ہوجائے گا۔ اس سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتاکہ حکومت کے تصفیے میں اور کچھ ہونہ ہو پنجاب کے اندر مسلمانوں کی اکثریت پانچ سات کی زیادتی کے ساتھ ہوجاتی ہے ۔صوبہ سرحد کو آیندہ نظام میں مساوات کا درجہ ملتا ہے۔ سند ھ کی علیحدگی کے امکانات بھی قریب تر آگئے ہیں، اور اس کے ساتھ ہی جداگانہ انتخاب بھی قائم رہا ہے جو میری ناقص رائے میں مسلمانوں کے تمام مطالبات کی اساس ہے۔ جداگانہ انتخابات کو غیر مشروط طورپر رکھ کر حکومت نے مسلمانوں کو موقع دیا ہے کہ وہ اپنا مستقبل آپ منتخب کرلیں۔ چاہیں تو اکثریت میں جذب ہوجائیںاور چاہیں تو کم از کم بعض حصص ملک میں اپنی جداگانہ ہستی کو برقرار رکھ کر اپنے پاؤںپر کھڑے ہوجائیں۔ اگر آج مسلمانوں نے قبل ازوقت جداگانہ انتخاب سے دستبرداری کرلی تو آئندہ کا مورّخ ان کے ہندوستان میں سیاسی اعتبار سے مٹ جانے کے لیے حکومت برطانیہ کو ہرگز مطعون نہ کرے گا،بلکہ خود مسلمانوں کو اس بات کامجرم قرار دے گاکہ جمہوری نظام میں بحیثیت اقلیت انہوں نے اپنی بربادی اپنے ہاتھو ںمول لی ۔ تاسّف کا مقام ہے کہ ہمارے بعض لیڈر جن میں بعض علمائے دین بھی شامل ہیں ، مسئلہ انتخاب کو محض نمائندگی کا طریق کار تصور کرتے ہیں او ر بس جہا ں تک میں نے مسلمانانِ ہند کی گذشتہ تاریخ او رایشیائی اقوام کے موجودہ امیال و عواطف اور مغربی اقوام کی سیاسی ریشہ دوانیوں پر غور کیا ہے مجھے اس بات کا کا مل یقین ہے کہ ابھی ایک عرصے تک مسلمانانِ ہند کامستقبل جداگانہ انتخاب سے وابستہ ہے۔ میرے نزدیک جداگانہ انتخاب قومیت کے مغربی تصّور سے بھی (قومیت کا مغربی تخیل ایک روحانی بیماری ہے) متناقض نہیں اور اس کے باوجود ہندی اقوام میں اتحاد اور یک جہتی پیدا ہوسکتی ہے ۔ خود یورپ میں بھی اس مقصد کا اب خاتمہ سمجھنا چاہیے۔ لیکن یہ ممکن ہے کہ مشرقی اقوام یورپ کا اترا ہو الباس پہن لیں اور انہی مصائب سے دو چار ہوں جن سے یورپ دوچار ہوچکا ہے اورہورہاہے ۔ خاص اس امرکے متعلق میں اپنے خیالات کااظہار ذرا تفصیل کے ساتھ عرض کرتا مگر کل شام یورپ جارہاہوں اور جانے سے پہلے ابھی بہت سے کام باقی ہیں۔ اس واسطے ا ن چند سطورپر کفایت کرتاہوں ۔ مختصراً یہ کہ مفاہمت کی تجاویز مسلمانوں کی طرف سے پیش کرانا، خصوصاًجب کہ مسلمانو ںکے مطالبات ایک مدت سے سب کو معلوم ہیں، خلوص اور حب الوطنی کے نیک جذبات کا ثبوت نہیں بلکہ ایک سیاسی حیلہ ہے ، جس کا مقصود یہ ہے کہ اکثریت ، جس کا فرض ہے کہ اقلیتوں کا اعتماد حاصل کرے، بھی اس کے لیے تیار نہیں۔ موجودہ حالت میں فرقہ وار مسائل کی بحث کو از سر نو چھیڑنا نہ مسلمانوں کی خدمت ہے نہ ملک کی ۸۳۔ ۱۷ اکتوبر ۱۹۳۲ء کو اقبال نے ادارۂ معارف اسلامیہ کی بنیاد رکھی اور چند دیگر اہل علم حضرات کی معیت میں اس کے اغراض و مقاصد، توسیع کے منصوبے اور طریق عمل وغیرہ کے بارے میں ایک تفصیلی بیان دیا۔ اس بیان کا تمہیدی حصّہ قابل غور ہے ۔ فرماتے ہیں: عہد حاضر میں اسلام اور تمدّن اسلامی ہر نزدیک و بعید خطے میں ایک عظیم انقلابی کیفیت سے دوچارہے ۔ ترکی کا اجتہادی اقدام ، ایران کا دور تجدد مصر کا جوش اصلاح، افغانستان کا مغربی تو غل ، غرض عالم اسلام کے جس نقطہ ٔ مدنیت پر نظر ڈالیے حیات کا ایک ہنگامہ زار برپا ہے۔ ممالک اسلامیہ کے یہ تمام ترتغیرات خفی اور جلی ہندوستانی مسلمانوں کے لیے جہاں ایک نوید زندگی کی شادابیوں سے لبریز ہیں وہاں درحقیقت ایک پیام بیداری کی حیثیت بھی رکھتے ہیں ۔ یہ پیغام بیداری کیا ہے ؟ خالص علمی نقطۂ نظر سے اس کا اور اس کے معنوی اثرات کا تجزیہ کیجیے تو بھی ہماری نگاہوں کو اکثر اہم نتائج سے دوچارہ ہونے کا موقع ملتاہے، جن میں سے ایک، کم از کم تاریخی اعتبار ہی سے سہی ، ماضیات اسلام کا تحفظ بھی ہے یعنی اخلاقی ، معاشرتی تمدنی نقاط پر اپنی دماغی قوتوں کو صرف کرنے کے علاوہ جس حد تک ہندوستانی مسلمانوں اور عام مسلمانوں کی قدیم تاریخ کا تعلق ہے۔ ازبس ضروری ہے کہ اس مفید سلسلے کی طرف بہترین توجہات منعطف کی جائیں کیونکہ مسلمانوں کو موجودہ دور جمود سے نکالنے اور ان میں ایک معنوی بیداری کی روح پھونکنے کے لیے اس سے بڑ ھ کر کوئی تدبیر نہیں ہوسکتی۸۴۔ تیسری گول میز کانفرنس ۱۷ نومبر ۱۹۳۲ء کو شروع ہونا تھی ، لیکن اقبال ایک ماہ قبل یعنی ۱۷ اکتوبر کو یورپ روانہ ہوئے۔ خیال تھاکہ لندن پہنچنے سے پیشتریورپ کے بعض علمی مراکز میں چند روز قیا م کریں گے۔ چونکہ ان کی روانگی کی اطلاع اہل لاہور سے پوشیدہ رکھی گئی تھی اس لیے احباب اور اعزّہ ہی لاہور اسٹیشن پر الوداع کہنے کے لیے آئے۔ سید امجد علی مسلم وفد کے آنریری سیکرٹری کی حیثیت سے، اقبال کے ہم سفر تھے۔ فرنٹیر میل کی روانگی سے قبل انہوں نے اخبارات کے لیے اپنے بیان میں فرمایاکہ وہ مسلمانوں سے توقع رکھتے ہیں کہ اس حکمت عملی پر سختی سے کاربند رہیں گے۔ جو آل انڈیا مسلم کانفرنس اور آل انڈیا مسلم لیگ کی قراردوادو ںمیں درج ہے۔ پھر ارشاد کیا : میں سمجھتا ہوں کہ میں ا س سے بہتر اور کچھ نہیں کہہ سکتاکہ مسلمانوں کو قرآن کریم کے بیان کردہ اصول عمل یاد دلاؤں۔ جب تو نے ایک طریق عمل اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ تو فی الفور عمل شروع کردے اور اللہ پر بھروسا رکھ۸۵۔ بمبئی پہنچنے پر صلاح الدین سلجوقی، افغان قونصل نے اقبال کااستقبال کیا اور انہیں اپنے ساتھ لے گئے۔ بمبئی میں مختصر قیا م کے دوران میں اقبال نے کچھ وقت عطیّہ بیگم او ران کے شوہر فیضی رحمین کے ساتھ گزارا۔ پھر سید امجد علی کے ہمراہ کونٹے روسو نامی بحری جہاز کے ذریعے یورپ روانہ ہوگئے۔ جہاز معمول کے مطابق عدن کے مقام پر ٹھہرا ، لیکن اقبال طبیعت کی ناسازی کے سبب نیچے نہ اترے بلکہ اپنے کیبن ہی میں آرام کرتے رہے ۔ بالآخر جہاز اٹلی کی بندر گاہ وینس پہنچا اور وہاں سے اقبال ریل کے ذریعے پیرس روانہ ہوئے۔ پیرس میںسردار امراؤ سنگھ شیر گل نے ان کا خیر مقدم کیا اور ایک سادے سے ہوٹل میں ٹھہرایا۔ اس زمانے میں سردار امراؤ سنگھ شیر گل اپنی ہنگیرین بیوی اور بیٹیوں (امرتا اور اندرا) کے ساتھ پیرس ہی میں رہائش پذیر تھے۔ اقبال ان سب سے ملے اور سردار امراؤ سنگھ شیر گل اور سید امجد علی کے ساتھ نپولین کامزار دیکھنے کے لیے گئے۔ اگلے روز معروف فرانسیسی مستشرق لوئی میسنیوں سے ملاقات کی اور چند گھنٹے ان کے ساتھ تبادلہ خیالات کیا ۔ فرانسیسی فلسفی ، برگساں سے بھی ملنے کا ارادہ تھا، لیکن معلوم ہوا کہ وہ چند دنوں کے لیے پیرس سے باہر کسی گاؤں میں گئے ہوئے ہیں۔ اس لیے طے پایا کہ گول میز کانفرنس سے واپسی پر ا ن سے ملاقات کریں گے۔ پیرس میں چند روز قیام کے بعد اقبال اور سید امجد علی بذریعہ ریل لندن پہنچے ۔ وکٹوریہ اسٹیشن پر انگریز نو مسلم خالد شیلڈ ریک نے ان کا استقبال کیا، اور اقبال کو مشہور برطانوی سیاست دان جان برائیٹ کی تقاریر کامجموعہ پیش کیا۔ خالد شیلڈریک نے اقبال سے درخواست کی کہ گو ل میز کانفرنس کے مباحث میں حصّہ لینے سے پیشتر وہ اس کتاب کوضرور پڑھ لیں۔ جان برائٹ وہی شخص تھا،جس نے ۱۸۵۷ء میں برطانوی پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہاتھاکہ برطانیہ کو ہندوستان سے نکلنے سے قبل وہاں کم از کم پانچ آزاد ریاستیں قائم کرنی پڑیں گی۔ بقول سید امجد علی اقبال نے رات بھر میں وہ کتاب پڑھ لی۸۶۔ تیسری گول میز کانفرنس میں کانگرس کی طرف سے کوئی شریک نہ ہوا۔ محمد علی جناح کو شرکت کے لیے نامز د نہ کیا گیا تھا، اس لیے وہ بھی موجود نہ تھے، البتہ قیام لندن کے دوران میں اقبال نے ان سے کئی ملاقاتیں کیں۔اقبال نے اس کانفرنس میں بھی محض ایک تماشائی کی حیثیت سے شرکت کی اور اس کی کارروائیو ںمیں سرگرمی سے حصّہ نہ لیا۔ انہیں اینگلو انڈین فرقے کی تعلیمی کمیٹی کا ممبر بنایاگیا،لیکن اس کمیٹی کے کسی بھی اجلاس میں وہ شریک نہ ہوئے۔ بات دراصل یہ تھی کہ تیسری گول میز کانفرنس کے بیشتر مباحث کل ہند وفاق یا مرکزی حکومت سے متعلقہ امور کے بارے میں تھے اور اقبال وفاق میں کوئی دلچسپی نہ رکھتے تھے، بلکہ وہ تو مرکز ی حکومت کے قیام ہی کے خلاف تھے۔ ان کا نظریہ یہ تھاکہ صوبوں کو مکمل خودی مختاری دے دی جائے اور ہر صوبے کا تعلق براہ راست لندن میں وزیر ہند سے ہو۔ اس سلسلے میں انہوں نے ساری کانفرنس کے دوران میں صرف ایک تقریر کی اور ا س میں جان برائیٹ کے اقوال کو اپنے مؤقف کی تائید میں اس لیے پیش کیاکہ برطانوی زعماء اُن کی تجویز سے سیخ پانہ ہوجائیں ، بلکہ اسے اپنے ایک پرانے سیاستدان اور پارلیمینٹیرین کی بلند کی ہوئی آواز کی بازگشت تصور کریں۸۷۔ اس کانفرنس کے دوران میں چوہدری رحمت علی اور کیمبرج کے دیگر مسلم طلبہ نے بھی پاکستان اسکیم سے متعلق انگریزی پمفلٹ ’’اب او رکبھی نہیں‘‘ مندوبین میں تقسیم کیا۔ اچھوتوں کے لیڈر ڈاکٹر امبید کر تیسری گول میز کانفرنس میں بحیثیت مندوب کے شریک تھے۔وہ اپنی انگریزی تصنیف ’’پاکستان یا تقسیم ہند‘‘میں اقبال کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اگر ایک مشترکہ مرکزی حکومت کی مخالفت کو پاکستانی اسکیم کاخصوصی اور بنیادی پہلو قرار دیا جائے تو گول میز کانفرنس کا ایک ہی رکن ایسا نظر آتاہے ، جس نے اس اسکیم کا نام لیے بغیر اس کی تائید کی اور وہ تھا سر محمد اقبال، جس نے گول میز کانفرنس میں اس رائے کا اظہار کیاکہ ہندوستان کے لیے کوئی مرکزی حکومت نہ ہواور یہ کہ صوبے خودمختار اور آزاد ڈومینین ہوں جن کا براہ راست تعلق وزیر ہند سے لندن میں ہو۸۸۔ ۲۴؍نومبر۱۹۳۲ء کومس فارقوہرسن نے نیشنل لیگ آف انگلینڈکی جانب سے اقبال کو ایک استقبالیہ دیا۔ اس تقریب میں گول میز کانفرنس کے ہندو او رمسلم مندوبین او ربرطانیہ کی بعض مقتدر شخصیات موجود تھیں ۔ مس فارقوہرسن نے اقبال کا تعارف کراتے ہوئے کہا: ہم انہیںغیر معمولی صفات کا حامل پاتے ہیں ۔ وہ اپنی شاعرانہ بصیرت سے مستقبل میںدور تک دیکھ سکنے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔ ایک فلسفی کی دقّت نظر اور عمیق فکر سے وہ انسانی مسائل میں پنہاں اصولوں کو بے نقاب کرسکتے ہیںاور پھر ان میں عملی انسان کی وہ صلاحیتیں بھی موجود ہیں، جن کے سبب وہ گول میز کانفرنس کے رکن بنائے گئے ۸۹۔ اس کے بعد لارڈ لیمنگٹن نے ان کی شعری تخلیقات کی تعریف کی اور دنیائے اسلام کی بیداری کے سلسلے میں اقبال کی خدمات کو سراہا۔ پھر انہوں نے اقبال کو حاضرین سے خطاب کر نے کی دعوت دی۔ اقبال نے اپنی مختصر سی تقریر میں واضح کیاکہ وہ سب حکومت برطانیہ کے تعاون سے ہندوستان کے لیے آئین وضع کرنے کی خاطراکٹھے ہوئے ہیں۔ انہیں پایدار آئین بنانا چاہییٔ۔ جو ناکام نہ ہو۔ ہندوستان ایک بہت بڑا ملک ہے ، جس میں مختلف مذاہب اور زبانوں کے لوگ ہزاروں سا ل سے رہتے چلے آئے ہیں۔ ضروری ہے کہ کانفرنس کے مقاصد کی وضاحت کردی جائے ۔ باہمی اعتماد ہونا چاہییٔ، کیونکہ اعتماد ہی سے اعتماد پیدا ہوتاہے۔ کانفرنس میں خیر سگالی کی فضا پائی جاتی ہے۔ مسلمانوں میں جرأت ہے او رانہوں نے برطانیہ کے ساتھ ہمیشہ پرخلوص او روفاشعاری کے تعلقا ت استوار رکھے ہیں۔ لہٰذا انہیں توقع ہے کہ آخری فیصلہ کرتے وقت مسلمانوں کی خواہشات کا خیال اور ان کے مطالبات کا تحفظّ کیا جائے گا۔ بعدا ز اں ۱۵؍ستمبر ۱۹۳۲ء کو اقبال نے نیشنل لیگ آف انگلینڈ کے ایک اور اجلاس سے خطاب کیا۔ یہ اجلاس کمیٹی روم نمبر،۱ میں منعقد ہوا اور اس میں برطانوی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اراکین ، غیر ملکی سفیر اور مسلم وفد کے دیگر ممبر ان موجود تھے۔ اقبال نے اپنی تقرر میں فرمایا: مسلمانانِ ہند کے مطالبات کے پیچھے جو اصول کارفرما ہے۔ وہ اتنا سادہ ہے کہ برطانوی عوام اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیںگے۔ آپ کو معلوم ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی سات کروڑ سے اوپر ہے۔ اس آبادی کا نصف حصہ پورے ملک میں بکھرا ہوا ہے۔ تاہم اس کا بڑا حصّہ نسبتاً گتھا ہوا ہے۔ بالخصوص ان صوبوں میں جو مغربی ہند کے علاقے میں واقع ہیں۔ بنگال میںمسلمانوں کی آبادی ۵۷ فیصد ہے۔ سندھ میں تقریبًا ۷۳فیصد اور صوبہ سرحد میں تقریبًا ۹۵فیصد ہے ۔مسلمانوں کا موقف یہ ہے کہ بحیثیت ا ن لوگوں کے جوایک مخصوص تاریخی روایت اور یک جہتی کی نمائندگی کرتے ہیں،جو ہندوستان کی کسی دوسری جماعت میں نہیں پائی جاتیں، وہ اپنی زندگی آپ گزارنا چاہتے ہیں ۔ اور اپنے تمدّنی خطوط پر ترقی کرنا چاہتے ہیں یہی وہ اصول ہے جو اُن کے مطالبات کے پس پردہ کارفرما ہے ۔ یہ مطالبات آل انڈیا مسلم کانفرنس او رآل انڈیا مسلم لیگ کی قراردادوں کی شکل میں پیش کیے گئے ہیں۔ اس کے بعد ا قبال نے چودہ نکات کی روشنی میں مسلمانوں کے مطالبات کی وضاحت کی او ر تقریر کے آخر میںفرمایا: چار پانچ سال ہوئے بحیثیت صدرآل انڈیا مسلم لیگ میں نے فرقہ وارانہ مسئلہ کے ممکنہ حل کے طورپر مغربی ہند میں ایک وسیع مسلم ریاست کے قیام کی تجویز پیش کی تھی۔ اگرچہ یہ تجویز مسلمانا نِ ہند کے مطالبات میں شامل نہ تھی، لیکن میری ذاتی رائے اب بھی یہی ہے کہ صرف یہی ایک ممکنہ حل اس مسئلے کا ہے ۔ میں اتنی دیر انتظار کرنے کو تیار ہوں۔ جب تک تحربہ اس تجویز کی معقولیت یا غیر معقولیت ثابت کرکے نہیںدکھا دیتا۔ یہ درست ہے کہ اقبال کی تجویز کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہ دیکھا گیا ، لیکن غالباً اسی کا نوٹس لیتے ہوئے کو ٹمین نے ۱۹۳۲ء میں تحریرکیا: ایک مضبوط اور متحد ہندوستان کو وجود میں لانا… روزبروز ناممکن ہوتا چلاجارہاہے اور معلوم ہوتاہے کہ اس کی جگہ شمال اور شمال مغرب میں ایک ایسی طاقتور مسلم ریاست قائم ہوجائے گی جس کی نگاہیں یقینا ہندوستان کی طرف سے ہٹ کر بقیہ دنیائے اسلام کی طرف مڑ ی ہوں گی جس کے کنارہ پر یہ ریاست واقع ہوگی۹۰۔ بہرحال بقول اقبال، لارڈ لو تھیان نے ان کی تجویز سے متاثر ہوکر اتنا ضرور کہاکہ گو ان کی اسکیم ہندوستان کے مسئلے کاواحد حل ہے ، لیکن اسے بارآور ہونے میں پچیس برس درکار ہوںگے۹۱۔ قیام لندن کے دوران میں اقبال نے ارسطاطلین سوسائٹی کے اجلاس میں انگریزی میں اپنافلسفیانہ مقالہ ’’کیامذہب ممکن ہے ‘‘پڑھا ۔ اس مقالے کے لیے دعوت انہیں لاہورہی میں موصول ہوگئی تھی اور انہوں نے یورپ روانگی سے قبل اسے ایک ماہ کی مدت میں تحریر کی تھا۔ اب یہ مقالہ اقبال کی انگریزی تصنیف ’’ تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ ‘‘میں شامل ہے۔ انگلستان سے رخصت ہونے سے پیشتر اقبال کے ایک انٹرویو کی روئیداد’’ لورپول پوسٹ‘‘ میں مشرق میں خواتین کا مقام کے عنوان سے شائع ہوئی۔ دراصل موضوع گفتگو اسلام میں عورتوں کے حقوق تھا۔ اقبال نے اس انٹرویو میں مسلم خواتین میں پردے کے رواج کی حمایت میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ نیز فرمایا کہ تعدادازدواج کی اسلام میں محض اجازت ہے اور یہ فرض نہیں ۔ سو اسلام کا آئیڈیل ایک ہی شادی ہے۔ مزید فرمایاکہ اسلامی قانون کے مطابق ایک مسلم ملک کی حکومت ایسے کسی بھی اختیاری حکم کومنسوخ کرسکتی ہے، جب وہ کسی نہ کسی انداز میں معاشرتی زندگی کی تباہی کا باعث بننے لگے۔ اس کے علاوہ اسلامی قانون کے تحت ہر عورت خواہ وہ کنواری ہو، شادی شدہ ہومطلقہ ہو یا بیوہ ہو اپنے حقوق کے تحفّظ کی خاطر اپنی جائداد کی دیکھ بھال خو دکرنے کا حق رکھتی ہے۔ وہ اپنا کاروبار خود چلاسکتی ہے۔عدالتوں میں قانونی چارہ جوئی کااختیار رکھتی ہے اور بعض مفتیوں کے فتاویٰ کے مطابق وہ خلیفہ (سربراہ مملکت ) بھی منتخب کی جاسکتی ہے۔ واضح رہے کہ اس زمانے میں انگلستان کے قانون کے تحت عورتیں قانونی طورپر معذور لوگوں یعنی پاگلوں اور نابالغوں کے زمرے میں آتی تھیں۔ اس لیے وہ نہ تو اپنی جائداد کی نگہداشت خود کرسکتی تھیں، نہ کوئی کاروبار خود چلاسکتی تھیںاور نہ انہیں عدالتوں میں کسی قسم کی قانونی چارہ جوئی کرنے کا حق حاصل تھاکیونکہ قانون کی نگاہ میں ان کی حیثیت ویسے ہی تھی جیسے پاگلوں یا نا بالغوں کی ہوتی ہے ۔ اقبال نے واضح کیا کہ مسلمان خاوند پر اپنی بیوی کی مہر کی ادائیگی کے علاوہ اس کے نان و نفقہ کی کفالت کی ذمہ داری ہے اور اپنے ان حقوق کے حصول خاطر بیوی اس کی تمام جائداد پر کلّی طورپر قابض رہنے کا حق رکھتی ہے پھرفرمایا کہ جس طرح مسلم خاوند کو طلاق کا حق دیا گیاہے ۔ اسی طرح بیوی کو بھی خلع کاحق حاصل ہے وہ نکاح کے وقت اگر چاہے تو یہ حق اپنے بھائی والد یا کسی اجنبی شخص کو بھی بطور مختار تفویض کر سکتی ہے۹۲۔ تیسری گول میز کانفرنس ۲۴ دسمبر ۱۹۳۲ء کو اختتام پذیر ہوئی تاہم اقبال ۳۰ دسمبر ۱۹۳۲ء تک لندن ہی میں مقیم رہے۔ لندن میں انہوں نے سردار بیگم کے لیے چند زیورات خریدکیے جو ایک گلوبند اور دوتین انگشتریوں پر مشتمل تھے۔ راقم نے بھی انہیں قیام ِ لندن کے دوران ایک خط لکھاتھاجس میں اس خواہش کا اظہار کیا گیا تھاکہ وہ واپسی پر اس کے لیے ایک گراما فون باجا لیکر آئیں۔ اقبال راقم کے لیے گراما فون لے کر تونہ آئے لیکن راقم کا انہیں انگلستان میں لکھا ہوا خط ان کی نظم ’’جاوید کے نام ‘‘ کی شان نزول کا باعث بنا: دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر اٹھا نہ شیشہ گران ِفرنگ کے احساں سفالِ ہند سے مینا و جام پیدا کر میں شاخ تاک ہوں مری غزل ہے مرا ثمر مرے ثمر سے مئے لالہ فام پیدا کر مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر ۲۹دسمبر ۱۹۳۲ء کو راقم کے نام اقبال کے خط سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ انگلستان سے اسپین، جرمنی اور آسٹریا جاناچاہتے تھے۔ انہوں نے لندن میں اپنی قیام گاہ کوئین اینزمینشنز سینٹ جیمزپارک ایس ڈبلیو سے ایما ویگے ناست کو تحریر کیا کہ وہ ۱۸ جنوری ۱۹۳۳ء کو رات کے ساڑھے دس بجے ہائیڈل برگ پہنچیں گے اور بائرشرہوف ہوٹل میں ٹھہریں گے اور یہ کہ ہائیڈل برگ میں ان کے قیام کا واحد مقصد ایما ویگے ناست سے اتنے سالوں کے بعد دوبارہ ملنا تھا۔ مگر ایماویگے ناست کے نام ان کے میڈرڈ (اسپین)سے تحریر کردہ خط مورخہ ۲۱جنوری ۱۹۳۳ء سے ظاہر ہوتاہے کہ انہیں جرمنی اور آسٹریا جانے کا پروگرام منسوخ کرنا پڑ ا کیونکہ وہ ونیس (اٹلی )سے ۱۰فروری ۱۹۳۳ء کو ہندوستان روانہ ہونے والے جہاز کو نٹے وردی سے واپس جانا چاہتے تھے۔ بہرحال اقبال کو باوجود اپنی تمام تر خواہش کے زندگی بھر دوبارہ جرمنی جانے اور ایماویگے ناست سے ملنے کاموقع نہ مل سکا۹۳۔وہ ۳۰ دسمبر ۱۹۳۲ء کو لندن سے دوبارہ پیرس پہنچے ۔ پیرس میں اقبال کی توجہ کا مرکز دراصل صرف دو شخصیتیں تھیں۔ اوّل لوئی میسنیوں اور دوم برگساں ۔ لوئی میسنیوں نے منصور حلاج پر تحقیق کا کا م کیا تھا اور حلاج کی ’’کتاب الطواسین‘‘ کے عربی متن کو ایک مدلل مقدمے اور مفید حواشی کے ساتھ ۱۹۱۳ء میں شائع کیا تھا۔ اقبال سے ان کا تعارف اسی تصنیف کے سبب ہوا اور اسی تصنیف کو پڑ ھ کر اقبال کا حلاج کے متعلق نظر یہ بدل گیا۔ ان کی آپس میں خط و کتابت شروع ہوئی ۔ میسنیوں کے بیان کے مطابق اقبال نے انہیں اپنے ایک خط محررہ ۱۸فروری ۱۹۳۲ء میں لکھا تھاکہ وہ پیرس آکر ان سے ملیں گے۔ اور ساتھ اپنی تازہ تصنیف ’’جاوید نامہ ‘‘ کا ایک نسخہ بھی ارسال کیا تھا۔ میسنیوں تحریر کرتے ہیں کہ پیرس میں اقبال سے ان کی ملاقات یکم نومبر ۱۹۳۲ء کو ہوئی اور گفتگو کا محور زیادہ تر حلا ج تھا، جس کی شخصیت کو وہ بہت زیادہ ا ہمیت دیتے تھے۔ اس ملاقات کے وقت سید امجد علی و سردار امراؤ سنگھ شیر گل بھی اقبال کے ساتھ تھے جس کمرے میںیہ لوگ بیٹھے وہ غالبًا میسنیوں کا کتب خانہ تھا، کیونکہ ہر طرف کتابوں کے انبار لگے تھے۔ میسنیوں اس ملاقات کے متعلق اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اقبال سے کئی صدیاں پیشتر ہندوستان کے کچھ مسلمان مفکر ین نے وحد ت الوجودی صوفیہ (دبستان ابن العربی) کے خلاف اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے ۔ وحدت الوجود کانظریہ صوفیہ کی فنائے اخروی کے متعلق ہندو تفکرات کی تمام کائنات ہے۔ دبستان شہودیہ علی ہمدانی سے شروع ہوکر سرہندی اور شاہ ولی اللہ دہلوی تک ہے۔اقبال نے پیرس میں میرے ساتھ ملاقات کے دوران میں اس بات کا اقرار کیاتھا کہ وہ وحدت الوجودی نہیں بلکہ وحدت الشہودی ہیں۔‘‘۹۴ برگساں میں اقبال کی دلچسپی اس لیے تھی کہ ان کا تصور واقعیت زمان کچھ حد تک اقبال کے کیمبرج میں طالب علمی کے زمانے میں اس موضوع پر تحریر کیے ہوئے ایک مقالے میں پیش کردہ استدلال سے مطابقت رکھتاتھا، جو انہوں نے اپنے استاد میک ٹیگرٹ کی منطقی نکتہ چینی کے سبب ناقص سمجھ کو ضا ئع کردیاتھا۔ اقبال شاید برگساں سے مل کر انہیں اس نظریہ پر اعتراضات سے روشناس کرانا چاہتے تھے۔ پیرس میں برگساں سے ان کی ملاقات کی تاریخ کا تعین کرنا ممکن نہیں۔ غالبًا یہ ملاقات جنوری ۱۹۳۳ء کے پہلے ہفتے کے کسی دن ہوئی ہوگی ۔ ان ایام میں برگساں بہت ضعیف ہوچکے تھے، اور کئی بیماریوں کے سبب دوپہیوں والی کرسی کے بغیر حرکت نہ کرسکتے تھے۔ لوگوں سے ملنا جلنا بھی ترک کر رکھاتھا، لیکن اقبال کے اشتیاق ملاقات کی بنا پر اُنہیں خاص طور پر نوازا۔ یہ ملاقات تقربیاً دوگھنٹے تک جاری رہی،اور برگساں کے نظریہ واقعیت زمان پرخوب بحث ہوئی ۔ گفتگو کے دوران میں اقبال نے ان کے روبرو اللہ تعالیٰ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بیان کی ۔’’ لاتسبو االدھر ان الدھرہواللہ‘‘جسے سن کر برگساں بہت متاثر ہوئے اور باربار اقبال سے پوچھتے کہ کیا یہ قول واقعی درست ہے ۔ اس ملاقات میں گفتگو شاید سردار امراؤ سنگھ شیر گل کے توسط سے ہوئی اور انہوں نے اس کی تفصیل بھی قلم بند کی ، مگر ایسے برے طریق سے کہ بعد میں ان سے خود اپنی تحریر کا پڑھنا مشکل ہوگیا۔ سو بدقسمتی سے اس گفتگو کاریکارڈ محفوظ نہ کیا جاسکا ۔ اقبا ل نے برگسا ں سے ملاقات کا ذکر مختلف شخصیتوں سے اپنے خطوط میں کیا ہے ۔مثلاسرولیم روتھن سٹائن کو ۱۹۳۳ء میں تحریر کرتے ہیں: پیرس میں برگساں سے میری ملاقات ہوئی اور فلسفیانہ مسائل پر بے حد دلچسپ باتیں ہوئیں۔ برگساں نے کہا برکلے کے فلسفے کا حاصل یہ ہے : ادراک میں مادہ بہ تمام و کمال منکشف ہو جاتا ہے، لیکن ذہن کے معاملے میں ایسا نہیں ہوتا۔ برکلے کے افکار پیش کرنے کا ایک اور انداز ہے ۔ ہماری گفتگو دو گھنٹے جاری رہی، برگساں بوڑھے ہوگئے ہیں اور بہت بیمار ہیں۔ لوگوں سے ملناجلنا ترک کررکھا ہے،لیکن مجھ سے ملاقات کے لیے انہوں نے از راہ کرم خاص طورپر وقت نکالا۔ بد قسمتی سے جو دوست ان کے ساتھ تھے،اور گفتگو قلمبند کر رہے تھے، بعد میں اپنا لکھا ہو اخود بھی نہ پڑھ سکے ۹۵۔ لارڈ لوتھیان کے نام اپنے ایک خط محرّرہ ۱۷ مارچ ۱۹۳۳ء میں اسی ملاقات کے بارے میں لکھتے ہیں: پیرس میں قیام کے دوران میں میری برگساں سے ملاقات ہوئی۔ جدید فلسفہ اور تمدن پر ہماری گفتگو تقریبًا دو گھنٹے تک جاری رہی۔ کچھ وقت ہم نے برکلے پر تبادلۂ خیال کیا ،جس کے فلسفے پر بعض فرانسیسی فلاسفروں نے بعض نہایت دلچسپ مشاہدات پیش کیے ہیں۹۶۔ ایڈورڈٹامسن کے نام اپنے ایک خط محررہ ۲۹ جولائی ۱۹۳۳ء میں تحریر کرتے ہیں: میں نے اپنے لیکچر ’’کیامذہب ممکن ہے‘‘ میں جدید نفسیات کی زبان میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہمارا تصورف کیاہے ۔ پروفیسر برگساں نے ،جنہوں نے میرا یہ لیکچر پڑھا تھا،ملاقات پر میرے سامنے اعتراف کیاکہ ان کا اپنا فلسفہ بھی اسی سمت حرکت کر رہا ہے۹۷۔ سید نذیر نیازی اپنی تصنیف ’’اقبال کے حضور میں ‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ انہوںنے اقبال سے پوچھا : جب آپ نے برگساں سے ملاقات کی او رگفتگو ہوئی تو کیا اس کی کوئی یادداشت بھی لی گئی تھی؟ فرمایا : امراؤسنگھ میرے ساتھ تھے۔ گفتگو بھی انہی کے توسط سے ہوتی رہی اور انہی نے اسے قلمبند بھی کیامگر اس بری طرح سے کہ بعد میں انہیں خود بھی اپنی تحریر کا پڑھنا مشکل ہو گیا۔ آپ نے مزید ارشاد فرمایا: اس گفتگو میں برکلے کے متعلق بھی خوب خوب باتیں ہوئیں۔ برکلے کی اہمیت موجودہ زمانے میں بہت بڑ ھ گئی ہے۔ پھر فرمایا : اس گفتگو کا ملخص مشہور فن کا ر…(یہاں مراد غالبًا سردار امراؤسنگھ شیر گل کی بیٹی امرتا شیر گل سے ہے) کو بھیج دیاگیاتھا ۔ معلوم نہیں وہ کہیں موجود بھی ہے یا ضائع ہوگیا۔ سید نذیر نیازی کے سوال پر کہ اقبال نے برگساں سے اپنے نظریۂ زمان کا ذکر بھی کیاتھا، انہوں نے فرمایا: ہاں ، اس کا ذکر آیا تھا اور برگساں کو بھی بڑا افسوس تھاکہ میں نے اسے کیوں ضائع کردیا۹۸۔ اقبال کی پیرس سے میڈرڈ (اسپین )روانگی کی تاریخ کابھی حتمی طور پر تعین کرنا مشکل ہے ، لیکن عین ممکن ہے کہ وہ ۵ یا ۶ ؍جنوری ۱۹۳۳ء کو پیرس سے میڈرڈ پہنچے ہوں اور ۲۶؍ جنوری ۱۹۳۳ء کو واپس پیرس آگئے ہوں۔پس اسپین میں ان کا قیا م تقریبًا تین ہفتوں کا تھا۔۹۹میڈرڈ میں ان کے ہمراہ ایک دبلی پتلی انگریز لڑکی بھی تھی ، جو ان کے پرائیویٹ سیکرٹری یا شاید مترجم کے فرائض انجام دے رہی تھی اور جسے میڈرڈ کے اخباری نمائندوں نے غلطی سے اقبال کی بیٹی سمجھا۔ اس لڑکی کاذکر میڈرڈ کی اخباری رپورٹ میں یا عطیہّ فیضی کے نام اقبال کے ایک خط محررہ ۲۹؍مئی ۱۹۳۳ء میں آتا ہے عطیہ فیضی کو لکھتے ہیں: اسپین میں میری پرائیویٹ سیکرٹری کا،جو ایک انگریز لڑکی تھی رویہّ مجھ سے اچانک بدل گیااور وہ پرائیویٹ سیکرٹری کی بجائے ایک مرید کی طرح میری خدمت کرنے لگی۔میںنے اس کے روّیے میں اس اچانک تبدیلی کی وجہ پوچھی ۔ اس نے وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ اس پر منکشف ہو ا ہے کہ میں کوئی آسمانی مخلوق ہوں۔ اب میرے لیے یہ تو ممکن نہیں کہ میں اپنے تاثرکی تشریح مثبت طورپر کر سکوں۔ البتہ منفی طور پر ضرور کرسکتاہوں اور وہ یہ کہ میں احمق نہیں ہوں۱۰۰۔ اس انگریز لڑکی کو اقبال نے کب او رکہاں اپنی لیڈی سیکرٹری کے طور پر منتخب کیا؟ یار لوگوں نے اقبال سے منسوب کرکے اس پر بھی افسانہ گھڑ رکھاہے ۔ مثلاً چوہدری خاقان حسین کابیان ملاحظہ ہو: ایک دن آپ (اقبال)نے سفراسپین کا ایک اچھوتا واقعہ سنایا، جس کے پس منظر کا شاید ہی کسی کو علم ہو۔ فرمانے لگے کہ لندن کے قیام کے دوران وہ نواب بھوپال سے ملنے گئے تو انہوں نے فرمایا اقبال اسپین کیوں نہیں جاتے ، میں نے عرض کیا: اگر میں بھی نواب بھوپال ہوتاتو اب تک ہوآیا ہوتا۔ بات آئی گئی ہوگئی ۔ دوسرے روز مجھے میرے ہوٹل میں نواب صاحب بھوپال کا ایک چیک چھ ہزار روپے کا ملا ۔ میں سمجھ گیا کہ یہ سفر کے لیے ہے۔ چنانچہ میں نے اخبار میں ایک سیکرٹری کی ضرورت کا اشتہار دیااور ایک موزوں لیڈی سیکرٹری کا انتخاب کر کے اسے سفر کی تفصیلات بتائیں اور یہ ہدایت کی کہ روانگی سے اختتامِ سفر تک وہ مجھ سے کوئی گفتگو نہیں کرے گی۔ چیک کی ساری رقم میں نے اس کے حوالے کردی اور سفر کے لیے روانہ ہوگیا۔ وہ اس قدر کارگزار سیکرٹری ثابت ہوئی کہ مجھے سفرمیں کہیں کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ اس نے میری رہائش، قیام کا بہت ہی اچھا انتظام کیا۔ اس سیکرٹری کے بارے میں ایک قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ علامہ اقبال کی عادات اور مزاج سے واقف ہونے کے بعد اس نے اچانک اپنا رویہ تبدیل کرلیا، اور پرائیویٹ سیکرٹری سے بڑھ کر ’’مرید‘‘کی طرح آپ کی خدمت گزاری میں مصروف ہوگئی۔ جب علامہ نے اس اچانک تبدیلی کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا: آپ مجھے کوئی آسمانی مخلوق ،معلوم ہوتے ہیں۱۰۱۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ چوہدری خاقان حسین مذکور سے اقبال کا کیا خاص تعلق تھاکہ صرف انہیں ہی سفر اسپین کے متعلق ایک ایسا اچھوتا واقعہ سنانے کے قابل سمجھا ، جس کے پس منظر کا علم کسی اور کونہ تھا۔ اقبال کے خطوط سے ظاہر ہوتاہے کہ ان کا ارادہ تو لاہور ہی سے اسپین جانے کاتھا۔ اس لیے لندن میں نواب بھوپال کے کہنے یا ان کے چھ ہزار روپے کا چیک دینے پر اسپین کیوں جاتے ۔ پھر اس سفر کے لیے انہیں خصوصی طورپر لیڈی سیکرٹری منتخب کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ بہرحال یہ بتانا مشکل ہے کہ آیا متذکرہ انگریز لڑکی لندن ہی سے اقبال کے یورپی سفر میں ان کے ہمراہ گئی یاپیرس میں ان کی ہمسفر بنی یا میڈرڈ میں ان سے ملی۔راقم کی رائے میں انگریز لڑکی کا تعلق برٹش انٹیلی جینس سے تھا۔ ہوسکتاہے کہ وہ لندن ہی سے اقبال کے ہمراہ آئی ہو۔ لیکن سید امجد علی اس کا ذکر نہیں کرتے، اگرچہ وہ اقبال کے ساتھ لندن سے پیرس پہنچے تھے۔ عین ممکن ہے کہ پیرس یا میڈرڈ میں وہ ان سے اتفاقیہ ملی ہو اور یہ معلوم کرنے کے بعد کہ وہ اسپین جارہے ہیں یا ہسپانوی زبان سے ناواقف ہیں،اس نے ان کے پرائیویٹ سیکرٹری یا مترجم کے فرائض انجام دینے کی حامی بھرلی ہو۔ ان ایام میں سفر یورپ کے دوران میںایک سیاح کو ہر قسم کے لوگ مل سکتے تھے، اور اقبال آخر سیاح ہی تو تھے۔ ایک واقعہ جوانہوں نے کئی احباب کو سنایایہ تھاکہ جس ٹرین کے ذریعے وہ پیرس سے لندن جارہے تھے اس میں ان کے کمپارٹمنٹ میں دو قمار باز بھی سوار تھے، جنہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے چند سادہ لوح مسافروں سے بیس پاؤنڈ کی رقم ہتھیالی۔ اقبال ا ن کی چالوں کا بغور مطالعہ کرتے رہے۔ جب قمار بازوں نے انہیں بھی تاش کھیلنے کے لیے کہا تو اقبال نے دعوت قبول کرلی اور لندن پہنچنے تک ان سے بیس پاؤنڈ جیت لیے۔ جب وہ گاڑی سے نیچے اتر ے تو دونوں قمار بازان سے ہارے ہوئے بیس پاؤنڈ واپس لینے کی غرض سے ان کی خوشامد کرنے لگے اور انہوں نے ہندوستانیوں کی سخاوت اور فیاضی کی خوب خوب تعریفیں کیں۔ مگر اقبا ل نے انہیں ڈرایا کہ وہ کھیل میں دھوکے بازی سے کا م لیتے رہے ہیں اور ان کی رپورٹ ابھی پولیس کو کی جائے گی۔ یہ سن کر وہ فوراً وہاں سے کھسک گئے ۱۰۲۔ برٹش انٹیلی جینس کو اقبا ل کے سفر ہسپانیہ میں دلچسپی ہوسکتی تھی ۔وہ گذشتہ سال اٹلی جاکر مسولنیی سے مل چکے تھے۔ اس مرتبہ ان کا ارادہ صرف اسپین جانے کا نہ تھا بلکہ وہ جرمنی اور آسٹریا بھی تھے۔ جس طرح مسولینی اٹلی کے سیاہ و سفید کا مالک تھا، اسی طرح ہٹلر بھی جنوری ۱۹۳۲ء میں جرمنی کا چانسلر بن گیا تھا ۔ اسپین کا اٹلی کے فاشسٹوں اور جرمنی کے نازیوں سے رابطہ تھا۔ اسپین میںاقبال کی صدر جمہوریہ سے ملاقات کا امکان بھی تھا۔اس کے بعد اگر وہ جرمنی جاتے تو عین ممکن ہے کہ ہٹلر سے بھی ملتے ۔ ہندوستان کی ایک اہم مسلم سیاسی شخصیت کی یورپ میں ایسے لوگوں سے ملاقاتوں کی روئیداد برٹش انٹیلی جنس کے ریکارڈ کے لیے اشد ضروری تھی ۔بہرحال میڈرڈ میں انگریزلڑکی کے رویے میںاچانک تبدیلی سے اقبال کو پہلی بار یہ شبہ ہوا کہ اس کا تعلق کسی خفیہ برٹش ایجنسی سے ہے۔ اقبال نے اس مرتبہ سفر یورپ کے دوران میں فرانس اور اسپین دیکھنے پر ہی اکتفا کیا اور اپنی منشا کے مطابق جرمنی اور آسٹریا نہ گئے ۔ خصوصًا جرمنی میں تو جنوری ۱۹۳۳ء میں ہٹلر کے اقتدا رمیں آجانے کے سبب بڑی گہماگہمی تھی۔ ممکن ہے اس خیال کے پیش نظر کہ برٹش انٹیلی جنیس یورپ میں ان کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھے ہوئے ہے ، انہوں نے جرمنی یا آسٹریا جانے کاارادہ ترک کردیا ہو۔ میڈرڈ میں اقبال کے میزبان دراصل پروفیسر آسین پیلاکیوس تھے، جنہوں نے دانتے کی ’’ڈیوائن کا میڈ ی‘‘ او راسلام پرایک کتاب تحریر کی تھی او راقبال کو قیام لندن کے دوران میں میڈرڈ آکر یونیورسٹی میں لکچر دینے کی دعوت دی تھی۔ میڈرڈ پہنچتے ہی اقبال کی ملاقات اسپین کے وزیر تعلیم سے ہوئی۔ چند روز میڈرڈ ٹھہرنے کے بعد وہ اندلس (جنوبی اسپین )تشریف لے گئے ۔ واپسی پر پھر کچھ دن میڈرڈ میں قیام کیا اور وہاں ان پروفیسروں اور دانشوروں سے ملاقات کی جو عربی مکتبۂ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ یاجن کا موضوع تحقیق، اسلامی تمدن تھا۔ میڈرڈہی میں وہ عرب محقق محمود خضیری سے ملے جو اس زمانے میں وہاں فقۂ اسلام پر تحقیق کررہے تھے۔ چند سال بعد جب انہیں عبداللہ چغتائی سے معلوم ہوا کہ محمود خضیری، نصیر الد ین طوسی پر ایک مقالہ تحریر کررہے ہیں تو اقبال نے انہیں مشورہ یا کہ وہ طوسی کی اقلیدس اور ان کے معاصرین کی تحریروں کا بغور مطالعہ کریں، کیونکہ اس تحقیق سے انہیں معلوم ہوگاکہ مسلم ریاضی دان قرون وسطیٰ ہی میں اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ ہوسکتا ہے مکان کے ابعادتین سے زیادہ ہوں۔۱۰۳ ۲۴ جنوری ۱۹۳۳ء کو اقبال نے اسپین او رفلسفۂ اسلام کے موضوع پر میڈرڈ یونیورسٹی کی نئی عمارت میں لکچر دیا۔ اجلاس کی صدارت پروفیسر آسین پیلاکیوس نے کی اورانہی نے اقبال کا تعارف حاضرین جلسہ سے کرایا۔ اجلاس کی روئیداد میڈرڈ کے اخبار ’الدیبیت ‘میں شائع ہوئی۔۱۰۴ اقبال نے قرطبہ ، غرناطہ، اشبیلیہ اور طلیطلہ کی سیر کی اور حدیقۃ الزہرہ (وہ محل جو عبد الرحمن اول نے اپنی چہیتی بیوی زہرہ کے لیے ایک پہاڑ پر تعمیر کرایا تھا) کے کھنڈر بھی دیکھے ، لیکن جو عمارت آنکھوں سے ان کے دل کی گہرائیوں میں اتر گئی، وہ مسجد قرطبہ تھی۔ جس طرح مسولینی سے اقبال کی ملاقات کے متعلق کئی کہانیاں مشہور ہیں ، اسی طرح مسجد قرطبہ میں اقبا ل کے تحیۃ المسجد کے نفل ادا کرنے کے بارے میں بھی مختلف روایتیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قرطبہ میں اس مسجد کی زیارت نے اقبال کو جذبات کی ایک ایسی رفعت تک پہنچادیا جو انہیں پہلے کبھی نصیب نہ ہوئی تھی۔ اس تجربے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے غلام رسول مہر کو تحریر کیا : مرنے سے پہلے قرطبہ ضرور دیکھو۱۰۵۔ پھر راقم کو بھی ایک تصویر ی کارڈ قرطبہ سے ارسال کیا اور لکھا:میں خدا کاشکر گزار ہوں کہ اس مسجد کو دیکھنے کے لیے زندہ رہا۔ یہ مسجد تمام دنیاکی مساجد سے بہتر ہے ۔ خدا کرے کہ تم جوان ہوکر اس عمارت کے انوار سے اپنی آنکھیں روشن کرو۱۰۶ ۔اقبال کی یہ دعا بیالیس سال کے بعد پوری ہوئی جب راقم اگست ۱۹۷۵ء میں سیاحت ہسپانیہ کے دوران میں قرطبہ پہنچااور نہ صرف مسجد قرطبہ کی زیارت کی بلکہ محراب کے سامنے اس مقام کو بھی تعظیماً چھوا جہاں شاید کھڑے ہوکر اقبال نے نماز ادا کی تھی۔ اقبال غالباً پہلے مسلمان تھے جنہوں نے مسجد قرطبہ کے کلیسا میں منتقل کیے جانے کے کئی صدیوں بعد جنوری ۱۹۳۳ء میں یہاں پہلی بار دو رکعت نماز اداکی۔ بہرحال ان کے نماز ادا کرنے کے متعلق جو مختلف روایتیں مشہور ہیں ، ان میں سے چند یہ ہیں : عبدالمجید سالک تحریر کرتے ہیں کہ اقبال مسجد کی شان و شوکت سے اسے قدر متاثر ہوئے کہ ا ن کا دل بے اختیا رنماز پڑھنے کو چاہا، چنانچہ انہوں نے گائیڈ سے پوچھا ۔ وہ کہنے لگا کہ میں بڑے پادری سے پوچھ کرآتاہوں ۔ ادھر وہ پوچھنے گیا۔ ادھر اقبا ل نے نیت باندھ لی اور اس کے واپس آنے سے پیشتر اداے نماز سے فارغ ہوگئے ۱۰۷ ۔سید امجد علی دعوٰی کرتے ہیں کہ اقبال نے انہیں ایک خط میں تحریرکیا تھاکہ انہوں نے ادائیگی نماز سے قبل وہاں اذان بھی دی تھی۱۰۸۔غالباً اسی دعو ے کو ذہن میں رکھتے ہوئے فقیر سید وحید الدین ، لکھتے ہیں کہ اقبال نے تقریباً سات سو سال بعد مسجد قرطبہ میں اذان دی اور نماز پڑھی ۱۰۹۔ سرما لکم ڈارلنگ بیان کرتے ہیں: اقبال نے مجھے اپنے قیام اسپین کی بڑی خوشگوارکہانی سنائی ۔ انہوں نے بتایا کہ وہ قرطبہ کی شاندار مسجد دیکھنے گئے تھے،جو اب کلیسا میں تبدیل ہوچکی ہے ۔ انہوں نے گائیڈ سے اس جگہ نماز ادا کرنے کی اجاز ت طلب کی، کیونکہ یہ کسی زمانے میں مسجد رہ چکی تھی۔ گائیڈ نے کہا کہ کلیسا کے راہب اس پر خوش نہ ہوں گے۔ لیکن انہوں نے اس کی پروارنہ کی اور مصلیٰ بچھا دیا۔ اتنے میں ایک پادری احتجاج کے لیے وہاں آنکلا۔ اقبال نے گائیڈسے کہا۔ پادری سے کہہ دو کہ ایک بار مدینہ میں عیسائیوں کا ایک وفد کچھ مطالبات لے کر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبویؐ میں انہیں ٹھہرایا تھا۔ جب عبادت کا وقت آیا تو عیسائی متردد تھے کہ آیا وہ مسجد میں اپنے عقید ے کے مطابق عبادت کرسکیں گے ۔ جب سرور کائناؐت کو اس کا علم ہوا تو آ پؐ نے انہیں بخوشی عبادت کی اجازت مرحمت فرمائی۔ جب ہمارے نبی ؐ نے عیسائیوں کو اپنی مسجد میں عبادت کی اجازت دے دی تھی تو میں اس جگہ جو کسی وقت مسجد تھی ، کیا نماز نہیںادا کر سکتا؟پادری سے اس کا جواب بن نہ پڑا اور اقبال نے نماز شروع کردی ۔ جب اقبال نے نماز ختم کی تو کیا دیکھتے ہیںکہ اس کلیسا کے تمام پادری اس منظر کو دیکھنے کے لیے جمع ہوچکے ہیں ، بلکہ ان میں سے ایک نے تو اس منظر کی تصویر بھی لے لی۔ اس کے بعد اقبال نے کہا: غالباً میں واحد مسلمان تھا، جس نے گذشتہ چارسوسال میں یہاں پہلی بار نماز اداکی ۱۱۰۔ اسی سلسلے میں ایک مضمون روزنا مہ ’’جنگ‘‘روالپنڈی موّرخہ ۲۱اپریل ۱۹۷۴ء میں محمود الرحمن نے امتیاز محمد خان کے حوالے سے شائع کی ہے جس میں ارشاد کرتے ہیں کہ قیام لندن ہی سے اقبال کا ارادہ مسجد قرطبہ کی زیارت او رکسی نہ کسی طرح وہاں نماز ادا کرنے کا تھا ۔مگر مسجد گرجابنائی جاچکی تھی اور وہاں اذان و نماز دونوں کی ممانعت تھی۔ اس لیے انہوں نے اپنے استاد پروفیسر آرنلڈ کی طرف رجوع کیا۔ (واضح رہے کہ آرنلڈ دوسال قبل یعنی ۱۹۳۰ ء میں فوت ہوچکے تھے) او رآرنلڈ کی کوشش سے انہیں مسجد قرطبہ میں نماز ادا کرنے کی اجازت اس شرط پر ملی کہ جب وہ مسجد کے اندر داخل ہو جائیں تو دروازہ بند کردیا جائے اور اس پر قفل لگا یا دیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ آگے یوں چلتی ہے: اقبال حسب قرارداد مسجد میں داخل ہوئے تو آپ نے آواز کی پوری شدت سے اذان دی۔ اقبال کہتے ہیں : میں اس جذبے ، سرور اور کیفیت کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا ، جو اس وقت مجھ پر طاری تھا۔ سالہا سال کے بعد مسجد کے اندر پہلی مرتبہ اللہ اکبر کی آواز محراب و منبر سے ٹکرا ٹکرا کر گونج رہی تھی ۔ اذان سے فارغ ہونے کے بعد اقبال نے مصلیٰ بچھایا اور نماز ادا کرنے لگے۔ دوران نماز ان پر اس قدر رقت طاری ہوئی کہ: سجدے میں گرتے ہی میں بے ہوش ہوگیا ۔ اسی دوران عالم رویا میں دیکھا کہ ایک بزرگ تشریف لائے ہیں اور مجھے مخاطب کر کے کہہ رہے ہیں ۔ اقبال تم نے میری مثنوی کابغور مطالعہ نہیں کیا۔ اسے مسلسل پڑھتے رہواور میرا پیغام دوسروں تک پہنچاؤ۔ اور جب اقبال ہوش میں آئے تو دل کا سکون او راطمینان حاصل ہوچکاتھا۱۱۱۔ ان روایتوں میں حقیقت کتنی اور افسانہ کتنا ہے ، اس کا اندازہ اقبال کے دو بیانات سے کیاجاسکتاہے۔ جب وہ لاہور واپس پہنچے اور اسٹیشن سے نکل کر گھر تشریف لائے تو بعض احباب ان کے ساتھ تھے اور موضوع گفتگو سیاحت ہسپانیہ تھی ۔ قرطبہ کی عدیم المثال مسجد کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا: میری رائے میں اس سے زیادہ خوبصورت اور شاندار مسجد روئے زمین پر تعمیر نہیں ہوئی۔ عیسائیوں نے بعد فتح قرطبہ اس مسجد میں جابجا چھوٹے چھوٹے گرجے بنا دیے تھے۔ جنہیں اب صاف کرکے مسجد کو اصل حالت میں لانے کی تجویز یں کی جارہی ہیں۔ میں نے ناظم آثار قدیمہ کی معیت میں جاکر بہ اجازت خاص ا س مسجد میں نماز ادا کی ۔ قرطبہ پر عیسائیوں کے تسلط کے بعد جسے کم وبیش ساڑھے چارسو برس گزر چکے ہیں۔ اس اسلامی عبادت گاہ میں یہ پہلی اسلامی نماز تھی ۱۱۲۔ پھر عبدالرشید طارق سے گفتگو کے دوران میں انہوں نے اسپین میں مسلمانوں کی تاریخی عمارات کاذکر کرتے ہوئے ارشاد کیا : میں نے ہسپانیہ میں مسلمانوں کے تاریخی مقامات کا معائنہ کیا۔ مسجد قرطبہ میں ، جس کی فضا صدیوں سے بے اذان پڑی ہے، حکام کی اجازت لے کر نماز ادا کی ۔ سجدے میں گر کر خدا کے حضور گڑگڑایا کہ اللہ اللہ ! یہ وہ سرزمین ہے جہاںمسلمانوں نے سینکڑوں برس حکومت کی، یونیورسٹیاں قائم کیں اور یورپ کو علم و فضل سکھایا۔ جن کے دبدبے سے شیروں کے دل دہلتے تھے اور جن کے احسان کے نیچے آج تمام فرنگستان دباہوا ہے ۔ آج میں اسی قوم کا ایک فرد انہی کی تعمیر کردہ مسجد میں اغیار کی اجازت لے کر نماز پڑھ رہاہوں۱۱۳۔ سوظاہرہے اقبال حکومت ہسپانیہ کی اجازت خاص کے تحت ناظم آثار قدیمہ کی معیت میں مسجد میں نماز ادا کرنے کی خاطر گئے تھے، اس لیے مصلیٰ ساتھ لے کر گئے اور عین ممکن ہے کہ یہ انتظام انہوں نے قیام میڈرڈ کے دورا ن میں پروفیسر آسین پیلاکیوس یا وزیر تعلیم حکومت ہسپانیہ کے ذریعے کرایا ہو۔ ان کے ہمراہ فوٹو گرافر بھی تھے۔ جنہوں نے نماز کی ادائیگی کے دوران اور بعد میں ان کی کئی تصویر یں مسجد کے اندر کھینچیں ، جو کئی بار اخباروں میں شائع ہوچکی ہیں اور خاصی مقبول ہیں۔حکومت ہسپانیہ نے شاید اپنے ملک کے پراپیگنڈے کی خاطر انہیں یہ اجازت خاص دی تھی ، لیکن جس کسی نے بھی مسجد قرطبہ کی زیارت کی ہے ، اس نے دیکھا ہو گا کہ مسجد کے ادر اس کے لاتعداد ستونوں کے درمیان جگہ گھیرگھیر کر بیسیوں چھوٹے چھوٹے گرجے بنائے گئے ہیں جو ابھی تک صاف نہیں کیے گئے۔ البتہ مسجد کا خوبصورت ترین حصّہ محراب والا حصّہ ہے جو ستونوں سمیت تمام کا تمام سنہری ہے ، کیونکہ اس پر سونے کا جڑاؤ کا م کیا گیا ہے او روہ اب تک اپنی اصلی شکل میں محفوظ ہے۔مسجد سے باہر اس کے عالی شان مینار واحد پر جو اذان کے لیے مخصوص تھا،اب گھنٹا آویزاں ہے اور رومن کیتھولک عقیدے کے مطابق دن میں خاص خاص وقتوں پر اسے بجایاجاتاہے۔ مسجد قرطبہ اپنے عہد میں دیگر مساجد یا مسلمانوں کی عام عبادت گاہوں کی طرح خوب روشن او رتابندہ عبادت گاہ تھی ۔ (چراغ جلانے کے لیے تیل کا خرچ ۲۱۴ من اور موم بتیاں جلانے کے لیے ۲/۱-۳ من مو م اور ۲۴سیرسوت سال بھر میں صرف ہوتاتھا)، لیکن اب عیسائیوں کی عبادت گاہوں کی طرح اس کی فضا تیرہ و تار ہے اوراس کے اندر بیٹھے ہوئے بھاری آرگن کی کرخت موسیقی کے پس منظر میں اس کی ویرانی اور کس مپرسی سے خوف آتاہے۔ رات کو مسجد کے تمام دروازے بند کردیے جاتے ہیں۔ راقم نے رات کو مسجد قرطبہ کے گرد طواف کیا اور مخصوص وقفوں کے بعد انتہائی تاریکی میں مینار سے آویزاں گھنٹے کو بجتے سنا تو یوں محسوس ہوا گویا وہ ایک آسیب زدہ عمارت ہے مسجد کی شان وشوکت اور حسن و جما ل اور اُسی کے ساتھ اس کی ویرانی ، کس مپرسی اور تیرہ و تارفضا کا منظر، ایک بار دیکھ کر کوئی بھی فراموش نہیں کرسکتا۔ راقم سفر ہسپانیہ سے واپسی پر عمرہ کی غرض سے مکہ معظمہ گیا اور مدینہ منورہ کی بھی زیارت کی ، لیکن مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی روشنیوں ، رونقوں اور اذانوں میں مسجد قرطبہ کا تیرہ و تار منظر نگاہوں کے سامنے سے نہ ہٹتا تھا۔ خیر یہ ہوسکتاہے کہ اقبال کے مسجد میں نماز ادا کرنے پر کسی پادری نے اعتراض کیا ہو اور اقبال نے اسے مدینہ میں عیسائیوں کے وفد کی آمد والی بات سنائی ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ جب وہ وہاں نماز ادا کررہے ہوں یا ان کی تصویریں اتر رہی ہوں تو پادریوں کا ایک غول اس منظر کو دیکھنے کے لیے آکھڑا ہوا ہو۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ اقبال نے اپنی دعائیہ نظم: ہے یہی میری نماز، ہے یہی میرا وضو میری نواؤں میں ہے میرے جگر کا لہو مسجد قرطبہ میں بیٹھ کر لکھی تھی۔ اقبال نے اندلس میں مسلمانوں کے فن تعمیرکے جو عظیم شاہکار دیکھے ، ان کے متعلق مختلف شخصیتوں سے اپنے اثرات کا ذکر کیا ہے ۔ مثلا شیخ محمد اکرا م کے نام اپنے ایک خط محررہ ۲۷مارچ ۱۹۳۳ء میں لکھا: میں اپنی سیاحت اندلس سے بے حد لذت گیر ہوا۔ وہاں دوسری نظموں کے علاوہ ایک نظم مسجد قرطبہ پر لکھی جو کسی وقت شائع ہوگی۔ الحمراء کا تو مجھ پر کچھ زیادہ اثرنہ ہوا، لیکن مسجد کی زیارت نے مجھے جذبات کی ایسی رفعت تک پہنچا دیا جو مجھے پہلے کبھی نصیب نہ ہوئی تھی۱۱۴۔ پروفیسر حمید احمد خان تحریرکرتے ہیں کہ اقبال نے اسلامی فن تعمیر کی قوت و ہیبت کا ذکر کرتے ہوئے مسجد قرطبہ کے حوالے سے فرمایا: اندلس کی بعض عمارتوں میں بھی اسلامی فن تعمیر کی اس خاص کیفیت کی جھلک نظر آئی ہے ۔ لیکن جو ں جوں قومی زندگی کے قواء شل ہوتے گئے تعمیر ات کے اسلامی انداز میں ضعف آتاگیا۔ وہاں کی تین عمارتوں میں مجھے ایک خاص فرق نظر آیا ۔ قصر زہر ا دیووں کاکارنامہ معلوم ہوتاہے ۔ مسجد قرطبہ مہذب دیووں کا ۔ مگر الحمراء محض انسانوںکا …میں الحمراء کے ایوانو ں میں جابجا گھومتا پھرامگر جدھر نظر اٹھتی تھی دیوار پر ’’ہوا لغالب ‘‘لکھا ہوا نظر آتاتھا۔ میں نے دل میں کہا : یہاں تو ہر طرف خد ا ہی غالب ہے ، کہیں انسان نظر آئے تو بات بھی ہو۱۱۵۔ جیسے کہ ذکر کیا جا چکا ہے، اقبال ۲۶؍جنوری ۱۹۳۳ء کو واپس پیرس پہنچے۔ ان کے ایک خط بنام غلام رسول مہر محررّہ یکم فروری ۱۹۳۳ء ، سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال شیدائی سے انہیں روز نامہ ’’انقلاب‘‘ کے بہت سے پچھلے پرچے پیرس میں پڑھنے کے لیے مل گئے اور یوں وہ ہندوستان کے سیاسی حالات سے باخبر ہوئے ۱۱۶ ۔ بالآخر وہ اپنے پروگرام کے مطابق ۱۰؍ فروری ۱۹۳۳ء کو وینس سے بحری جہاز کو نٹے وردی پر سوار ہوئے اور ۲۲ ؍ فروری ۱۹۳۳ء کو بمبئی پہنچے۔ کسٹمز سے نکلتے وقت ڈیوٹی ادا کرنے کی خاطر سردار بیگم کے زیورات کا ڈبا سوٹ کیس سے نکال کر اپنے ہاتھ میںپکڑ رکھا تھا ۔ کسی ساتھی نے مشورہ دیا کہ کم از کم انگشتریاں تو انگلیوں میں پہن لیجیے، کچھ ادا نہ کرنا پڑے گا۔ مگر وہ نہ مانے اور تمام زیورات پر جو بھی ٹیکس لگا، ادا کر کے باہر آئے۔ بمبئی میں ’’خلافت ‘‘ کے نامہ نگار کو سیاحتِ ہسپانیہ کے متعلق اقبال نے ایک انٹرویو بھی دیا جس کے دوران فرمایا: میں اپنے تاثرات کا اظہار الفاظ میں نہیں کر سکتا ۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ جس طرح یہودیوں کے لیے ارض موعودہ فلسطین ہے، اسی طرح عربوں کے لیے غالباً اسپین کی سرزمین موعودہ ہے ۔ اس قدر خوبصورت اس درجہ پُر فضا اور ایسا آرام دہ ملک ۱۱۷۔ ایک اور موقع پر سفر اندلس کے متعلق فرمایا: میں نے قرطبہ ، غرناطہ ، اشبیلہ ، طلیطلہ اور میڈرڈ کی سیاحت کی اور قرطبہ کی تاریخی مسجد اور غرناطہ کے قصر الحمراء کے علاوہ میں نے مدینۃ الزہرا کے کھنڈر بھی دیکھے۔ یہ مشہور عالم قصر عبدالرحمن اوّل نے اپنی چہیتی بیوی زہرا کے لیے ایک پہاڑ پر تعمیر کرایا تھا۔ آج کل یہاں کھدائی کا کام جاری ہے ۔بارہویں صدی عیسوی میں ایک مسلمان موجدنے سب سے پہلے اس جگہ پر ایک ہوائی جہاز کا مظاہر ہ کیا تھا ۱۱۸۔ ۲۵ فروری ۱۹۳۳ء کو اقبال فرنٹیرٔ میل سے لاہور پہنچے ۔ اسٹیشن پر راقم سمیت لاتعداد لوگ ان کے خیر مقدم کے لیے موجود تھے۔۱۱۹پلیٹ فارم پر جمعیۃ الاسلام کی طرف سے خوا جہ فیروز الدین بیرسٹر نے سپاسنامہ پیش کیا اور تیسری گول میز کا نفرنس میں مسلمانانِ ہند کے حقوق کی ترجمانی کے سلسلے میں ان کی خدمات کو سراہا۔ مزید واضح کیا کہ مسلمانوں کا سیاسی نظام ابھی تک اس بات کا متقاضی ہے کہ اقبال اس کی تکمیل کے لیے قائدانہ امداد فرماتے رہیں ۔ جواب میں اقبال نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ارشاد کیا: آپ میری سابقہ زندگی سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اول سے لے کر اب تک میری زندگی کا مطمح نظریہ رہاہے کہ مسلمان اپنی موجودہ پستی کی حالت سے نکل کر بلندی پر پہنچ جائیں اور ان میں جو کمزوریاں اور اختلافات رونما ہوگئے ہیں وہ دور ہوجائیں ۔ جہاں تک مجھ سے ہو سکا میں نے گول میز کانفرنس میں اسلامی حقوق کے تحفّظ کی پوری پوری کوشش کی ہے ا ور کوئی ایسا لفظ نہیں کہاجس سے مسلمانوں کے حقوق کو نقصا ن پہنچنے کا احتمال ہو … خدا کے لیے آپ اپنے تمام اختلافات کو خواہ سیاسی ہوں یا مذہبی بالکل مٹا دیں اور ایک ہو جائیں۱۲۰۔ اسٹیشن سے نکل کر اقبال احباب کے ہمراہ گھر آئے، لیکن گفتگو زیادہ تر سیاحت ہسپانیہ کے متعلق ہی ہوئی ۔باربار مسجد قرطبہ کا ذکر فرماتے رہے یوں معلوم ہوتاتھاگویا مسجد قرطبہ ہمیشہ کے لیے ان کے دل میں رچ بس گئی ہے۔ مآخذ باب ۱۸ ۱۔ اقبال نامہ مرتبہ شیخ عطا ء اللہ ،حصہ اوّل (خط محرّرہ یکم فروری ۱۹۳۱ء بنا م عباس علی خان لمعہ )، صفحہ ۲۶۸۔ محمد دین تاثیر اور سید عبدالواحد معینی کی رائے میں لمعہ کے نام اقبال کے خطوط جعلی ہیں۔ دیکھیے ’’نیرنگ خیال ‘‘تاثیر، نمبر جنوری ۱۹۷۰ء ، صفحہ ۷۴۔ ’’نقش اقبال ‘‘ از سید عبدالواحد معینی ، صفحہ ۱۸۴ء ۲۔ مکتوبات اقبال مرتبہ سید نذیر نیازی، صفحہ ۵۰ ۳۔ گفتار اقبال مرتبہ محمد رفیق افضل، صفحات ۱۱۶تا۱۱۸ ۴۔ اقبال اور بھوپال ’’از صہبا لکھنوی ، صفحات ۴۲تا ۴۹۔ صہبالکھنوی تحریر کرتے ہیں کہ چند ماہ بعد اقبال دوبارہ بھوپال گئے تھے اور دوسرا دورہ بھی اسی سلسلے میں تھا۔ لیکن اس کی تفصیل کے متعلق کوئی بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی ۔ پروفیسر عبدالقوی دسنوی فرماتے ہیں کہ جولائی ۱۹۳۱ء میں اقبال دوبارہ بھوپال گئے تھے، کیونکہ مہاراجہ ہری سنگھ نے ریاست کشمیر کا مسئلہ حل کرانے کی خاطر بھوپال سے مدد طلب کی تھی نواب بھوپال نے اس مسئلے کے حل کے سلسلے میں اقبال کو مشورے کے لیے بھوپال بلوایاتھا مگر دوسری مرتبہ اقبال نے بھوپال میں کہاں قیام کیا یا کتنے روز ٹھہرے یہ انہیں معلوم نہیں ہوسکا۔ ’’اقبال اور دار الاقبال بھوپال‘‘از عبدالقوی دسنوی بحوالہ سیفیہ یاد گار اقبال ’’جلد ہفتم ، سیفیہ کالج بھوپال ، صفحہ ۱۰۸۔ ڈاکٹر صابر آفاقی کے بیان کے مطابق اقبال ۲۱جولائی ۱۹۳۱ء کے بعد بھوپال اور دہلی گئے ، لیکن انکی نواب بھوپال سے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے بارے میں ملاقاتوں کانتیجہ کچھ نہ نکلا۔ اقبال اورکشمیر ، صفحات ۸۳، ۸۴ نیز دیکھیے ’’انوار اقبال ‘‘ مرتبہ بشیر احمد ڈار، صفحات ۹۶،۹۷ ۵۔ گفتار اقبال مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۱۱۸، ۱۱۹ ۶۔ ایضاً ، صفحات ۱۱۹، ۱۲۰ ۷۔ ایضاً صفحات ۱۲۰ تا ۱۲۱ ۸۔ ایضاً ، صفحات۱۲۵تا۱۲۹ ۹۔ ’’اقبال کی تقریریں اور بیانات‘‘مرتبہ لطیف احمد شیروانی (انگریزی)، صفحہ ۲۰۷ ۱۰۔ ’’گفتار اقبال‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحہ ۱۱۲، انگریز پرنسپل کانام وٹیکر تھااو راس نے مسلم طلبہ کے احتجاج کے باوجود کالج کے ایک مسلم پروفیسر صدیقی کو برطرف کردیا تھا۔ دیکھیے ’’انواراقبال ‘‘ مرتّبہ بشیر احمد ڈار۔ صفحہ ۹۶ ۱۱۔ ایضاً، صفحہ ۱۲۴ ۱۲۔ اقبال اور کشمیر از صابر آفاقی، صفحات ۷۸، ۷۹، ’’آئینہ اقبال‘‘ مرتبہ محمد عبد اللہ قریشی، صفحہ ۲۲۴ ۱۳۔ ’’آئینہ اقبال ‘‘مرتبہ محمد عبد اللہ قریشی ، صفحات ۲۲۵، ۲۲۶ ۱۴۔ ’’گفتار اقبال‘‘مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحہ ۱۲۹، نیز دیکھیے ’’آئینہ اقبال‘‘ ۔ مرتبہ محمد عبداللہ قریشی، صفحات ۲۲۴ تا ۲۲۶، ’’اقبال اور کشمیر ‘‘از صابر آفاقی ، صفحات ۷۹، ۸۰ ۱۵۔ ’’گفتار اقبال ‘‘مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۱۳۰ تا ۱۳۱ ۱۶۔ ایضاً، صفحہ ۱۳۲ ۱۷۔ ایضاً ، صفحہ ۱۳۳ ۱۸۔ ایضاً، صفحہ ۱۳۲۔ نیز دیکھیے ’’آئینہ اقبال‘‘ مرتبہ محمدعبد اللہ قریشی ، صفحہ ۲۲۵۔۱۹۳۷ء کی گرمیوں میں اقبال راقم کو اپنے ساتھ وادی کشمیر لے جانا چاہتے تھے، لیکن کشمیر میں ان کے داخلے پر پابندی اٹھانے کے متعلق خط وکتابت شروع کی گئی اور خاصی مدت کے بعدجو اب موصول ہوا کہ پابندی اٹھالی گئی ہے، یا وہ کشمیر میں داخل ہوسکتے ہیں۔ مگر تب تک راقم کی تعطیلات گرما ختم ہوچکی تھیں اور موسم بھی بدل چکا تھا اس لیے کشمیر جانا ممکن نہ ہوسکا۔ اگلے موسم گرما کے آغاز سے بیشتر اقبال رحلت فرما گـئـے۔ اس سلسلے میں جو خط و کتابت ریاست کشمیر کے حکام سے ہوئی وہ اقبال میوزیم میں محفوظ ہے ۔ ۱۹۔ ’’فضل حسین ایک سیاسی بائیوگرافی‘‘انگریزی ، صفحہ ۳۱۹۔ محمد احمد خان تحریر کرتے ہیں کہ عظیم حسین نے جن الفاظ میں اس نامزدگی کا ذکر کیا ہے اس سے یہ تاثر پیدا ہوتاہے ۔ کہ محض سر فضل حسین کی سفارش کی بنا پر وائسرائے نے اقبال کو نامزد کر کے اعزاز بخشا تھا۔ حالانکہ ایسی بات نہ تھی، کیونکہ اقبال ہندوستان کی مسلم ریاست میں ایک خاص مکتب فکر کی نمائندگی کررہے تھے۔ ’’اقبال کاسیاسی کارنامہ ‘‘ ، صفحات ۲۷۹ تا ۲۸۱۔ ۲۰۔ ’’سفر نامہ اقبال ‘‘ از محمد حمزہ فاروقی ، صفحہ ۱۰،’’ مکتوبات اقبا ل‘‘مرتبہ سید نذیر نیازی صفحہ ۷۳ ۲۱۔ ’’سفر نامہ اقبال ‘‘ از محمد حمزہ فاروقی ، صفحات ۱۰،۱۱ ۲۲۔ ’’مکتوبات اقبال ‘‘ مرتبہ سید نذیر نیازی ، صفحہ ۷۶ ۲۳۔ ’’سفرنامۂ اقبال ‘‘ از محمدحمزہ فاروقی ، صفحہ ۱۲، ’’گفتارِاقبال ‘‘ مرتبہّ محمد رفیق افضل ، صفحات ۱۳۵ تا ۱۳۷۔ ۲۴۔ ’’سفر نامۂ اقبال ‘‘ازمحمد حمزہ فاروقی ، صفحات ۱۳، ۱۴، ’’گفتار اقبال ‘‘ مرتبہ محمدّ رفیق افضل ، صفحات ۱۳۵ تا۱۳۷ ۲۵۔ ’’سفر نامۂ اقبال ‘‘از محمد حمزہ فاروقی ، صفحات ۱۷ تا ۱۹ ۲۶۔ ’’اقبال کے خطوط اور تحریریں ‘‘ مرتبہ بی ۔اے۔ ڈار(انگریزی)، صفحات ۵۴ تا ۶۲ ۲۷۔ ’’گفتار اقبال ‘‘مرتبہ محمد رفیق افضل، صفحات ۱۳۸ تا ۱۴۴ ۲۸۔ ایضاً ، صفحہ ۱۳۷ ۲۹۔ ایضاً ، صفحات ۱۳۷، ۱۳۸ ۳۰۔ سفر نامۂ اقبال از محمد حمزہ فاروقی ، صفحات ۲۹، ۳۰ ۳۱۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطا اللہ، حصّہ اوّل ، صفحہ ۱۸۱ ۳۲۔ اصل خط انگریزی میں ہے ، دیکھیے ’’علامہ اقبال کے غیر مطبوعہ خطوط مس ایمادیگے ناسٹ کے نام ترجمہ ڈاکٹر سعید اختر درانی ،’’ نوائے وقت‘‘ خصوصی اشاعت ۲۲ نومبر ۱۹۸۳ء ۔ ۳۳۔ اس خط کی فوٹو کا پی راقم کو شیخ نسیم حسن وکیل برادر ممتاز حسن مرحوم نے دی ۔ اصل خط انگریزی میں ہے ۔ اردو ترجمہ راقم نے کیا۔نیز دیکھیے ’’علامہ اقبال کے غیر مطبوعہ خطوط مس ایماویگے ناسٹ کے نام‘‘ ترجمہ ڈاکٹر سعید اختر درانی ،’’ نوائیـ وقت ‘‘ خصوصی اشاعت ۲۲ نومبر ۱۹۸۳ء مزید دیکھیے ’’اقبال یورپ میں ‘‘ از ڈاکٹر سعید اختر درانی ۔ ۳۴۔ اصل خط انگریزی میں تحریر کیاگیا۔ راقم کے پاس فوٹوکاپی ہے اور اردو ترجمہ بھی راقم نے کیا۔ نیز دیکھیے ’’نوائے وقت ‘‘ خصوصی اشاعت ۲۲ نومبر ۱۹۸۳ء ۔ ان خطوط میں انداز خطاب اس طرح ہے: مائی ڈیرٔ فرالین ویگے ناسٹ یا مائی ڈیرمِس ویگے ناسٹ۔ ان خطوط کے مطالعے سے ظاہر ہوتاہے کہ اقبال جرمن زبان بھولتے جارہے تھے۔ محمد امان اللہ ہو بہم کی رائے میں اقبال کی ایما ویگے ناسٹ سے وابستگی عقیدت و احترام کی بنیا د پر تھی او ریہ دوستی غیر جذباتی نوعیت کی تھی۔ مثلاً خطوط میں اقبال انہیں تعظیم کے القاب یا ’’آپ‘‘ کہہ کر خطاب کرتے ہیں اور بے تکلفی کا لہجہ ’’تم‘‘ یا ’’تو‘‘ کبھی اختیار نہیں کرتے ۔ اسی طرح ایماویگے ناسٹ انہیں ڈاکٹر یا پروفیسر اقبال کہتی تھیں ، دیکھیے روزنامہ ’’ڈان ‘‘ مورخّہ ۸مئی ۱۹۸۲ء (انگریزی )۔ اقبال نے واپس لاہور پہنچ کر ایما ویگـ ناسٹ کو ایک او رخط تحریر کیا اور جرمنی نہ پہنچ سکنے کی معذرت کی۔ فرمایا: ’’ان دنوں کی یا د جب ہم گوئٹے کا ’’فاؤسٹ‘‘ ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ ہمیشہ ایک غم انگیز مسّرت کے ساتھ میرے دل میں آتی رہتی ہے۔ آپ چاہتی ہیں کہ میں آپ کو بتاؤں کہ ان تمام سال ہاسال کے دوران میں میں کیا کرتا او رسوچتا رہاہوـ ں تو سنیے ، میں نے بہت کچھ لکھا ہے اور وہ تمام چیزیں جو میں نے بطور شاعری اور فلسفے کے لکھی ہیں، وہ میں نے شائع کردی ہیں۔ تاہم میرے ذہن نے ہمیشہ ایک کمی سی محسوس کی ہے اور خو دکو اپنے اس ہندی گردونواح میں تنہا سا پاتا ہوں۔ جوں جوں میری عمر بڑھ رہی ہے ا س تنہائی کا احساس بھی فزوں تر ہوتاجاتاہے ، لیکن سوائے تسلیم و رضا کے ہمارے لیے اور کوئی چارہ کار نہیں او رمیں نے بھی پوری تسکین دل کے ساتھ اپنی قسمت کو قبول کیا ہے ۔ یہ بات باعثِ تاسف ہے کہ میں جرمن زبان کے ساتھ اپنا رابطہ قائم نہ رکھ سکوں گا، لیکن میں ہمیشہ آپ کے خطوط کو جرمن لغت کی مدد سے پڑ ھنے او رسمجھنے کے قابل ہوجاتاہوں بجائے اس کے کہ کسی اور سے ان کا ترجمہ کرواؤں، اپنے خطوط کسی اور کو دکھانا اچھا نہیں ہوتا۔ مجھے چاہے آپ کا خط ختم کرنے میں تین دن لگیں پھر بھی میں کوشش کرتاہوں کہ اسے بجائے خود لغت کی مدد سے سمجھ پاؤں ،لیکن میں نہیں چاہتا کہ یہ کسی اور کو دکھاؤں…مجھے امید ہے کہ میں دوبارہ یورپ آؤں گا …جرمنی میرے لیے ایک طرح سے دوسرا روحانی وطن ہے۔میںنے اس ملک میں بہت کچھ سیکھا اور بہت کچھ سوچا۔ یہاں تک کہ گوئٹے کے وطن نے میری روح کے اندر ایک دائمی گھر حاصل کرلیا ہے‘‘۔ ۳۵۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطا ء اللہ، حصّہ دوم ، صفحات ۳۳۸، ۳۳۹، ’’سفر نامۂ اقبال ’’از محمد حمزہ فاروقی صفحات ، ۷۳ تا ۱۰۶۔ ۳۶۔ ’’سفر نامۂ اقبال ‘‘ محمد حمزہ فاروقی ، صفحات ۱۰۶ تا ۱۰۸۔ اقبال کا موقف اصولی طورپر درست تھا کیونکہ ۱۹نومبر ۱۹۳۱ء کو آل انڈیا مسلم کانفرنس دہلی کی مجلس عاملہ کی قرارداد میں اس مؤقف کی توثیق کی گئی تھی۔ اقبال کے خط بنام سر آغاخان محررّہ ۱۶ نومبر ۱۹۳۱ء کے لیے دیکھیے ’’اقبال کے خطوط اور تحریریں‘‘ مرتبہ بی اے ڈار (انگریزی) ، صفحات ۸، ۹ نیز دیکھیے ’’گفتار ِاقبال‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل، صفحات ۲۵۵ تا ۲۶۱، ’’اقبال کا سیاسی نامہ ‘‘از محمد احمد خان، صفحات ۳۱۰، ۳۱۱ ۳۷۔ ’’میاں فضل حسین کی ڈائری اور نوٹس ‘‘مرتبہ وحید احمد۔ ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان (انگریزی )صفحات ۶۹، ۷۰ ۳۸۔ ’’سفرنامہ اقبال‘‘ از محمد حمزہ فاروقی ، صفحات ۳۰تا ۳۳ ۳۹۔ ایضاً ، صفحات ۳۳ تا ۴۹۔کیمبرج کے مسلم طلبہ کی اقبال سے ملاقات اورلفظ ’’پاکستان ‘‘ کے متعلق معلومات خواجہ عبدالرحیم نے اپنی زندگی میں راقم کو فراہم کی تھیں ۔ ۴۰۔ ایضاً ، صفحات ۵۴ تا ۶۳۔’’ گفتار اقبال ‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ، ۲۳۹ تا ۲۴۵۔ ۴۱۔ ’’سفر نامہ اقبال ‘‘ از محمد حمزہ فاروقی ، صفحات ۵۰ تا ۵۲۔ عورتوں کے جس اجتماع میں انگریز خواتین کو اقبال نے پیغام دیا وہ لیڈی لارنس کاایٹ ہوم تھا۔ ’’گفتار اقبال ‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل، صفحہ۲۵۲ ۴۲۔ ’’گفتار اقبال ‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل، صفحہ ۲۵۱ ۴۳۔ ایضاً، صفحات ۲۴۵ تا ۲۵۱ ۴۴۔ ’’سفر نامہ اقبال ‘‘ از محمد حمزہ فاروقی ، صفحات ۱۱۳ تا ۱۳۱، ’’گفتار اقبال‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۲۶۱ تا ۲۶۵۔’’سیاحتِ اقبال‘‘ مرتبہ، حق نواز ، صفحات ۱۴۴ تا ۱۵۵۔ اقبال کے بعض سوانح نگاروں نے ان کے سفر اٹلی کو ۱۹۳۲ء میں یعنی تیسری گول میز کانفرنس سے فراغت کے بعد بیان کیاہے جو غلط ہے ۔ مثلاً ملاحظہ ہو۔ ’’ذکر اقبال‘‘ از عبدالمجید سالک ، صفحہ ۱۸۲،’’سرگزشت اقبال ‘‘از عبدالسلام خورشید ، صفحہ ۴۱۹ ۴۵۔ ’’روزگارِ فقیر ‘‘ جلد اول ، صفحات ۴۸، ۴۹ ۴۶۔ ’’اقبال نامہ ‘‘مرتبہ شیخ عطاء اللہ، حصّہ دوم ، صفحہ ۳۱۴ ۴۷۔ ’’اقبال کے چند جواہرریزے ‘‘از عبدالحمید ، صفحہ ۵۱۔ متذکرہ نیپلزکی بیرونس یہی کا ؤنٹس کارنیوالے تھیں۔ ۴۸۔ ’’سفر نامۂ اقبال ‘‘ از محمد حمزہ فاروقی ، صفحہ ۱۶۱۔ ایضًا ، صفحات ۱۵۶ تا ۱۸۶۔ پہلی جنگ عظیم سے قبل فلسطین عثمانی سلطنتِ ترکیہ کا حصہّ تھا۔لیکن پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر جمعیت اقوام نے اسے برطانیہ کی تحویل میں دے دیا ۔ حکومت برطانیہ نے صیہونی تحریک کو اعلان باالغور کے ذریعے ۱۹۲۷ء میں تسلیم کر لیا ، جس کا مطلب یہ تھا کہ فلسطین میں یہودیوں کا وطن قائم کیاجائے گا۔ سو ۱۹۱۷ء سے دنیا کے مختلف ممالک سے یہودی فلسطین میں آکر آباد ہونے لگـے۔۱۹۲۵ء میں فلسطین میں یہودیوںکی آبادی ایک لاکھ آٹھ ہزار تھی، لیکن ۱۹۴۸ء تک ان کی تعداد سات لاکھ تک پہنچ گئی ۔ فلسطینی عربوں کا مطالبہ تھا کہ فلسطین میں ایک آزاد عرب ریاست قائم کی جائے۔ اس لیے ا نہوں نے صیہونی تحریک کی مخالفت کی او رجوں جوںفلسطین میں یہودیوں کی آبادی میں اضافہ ہوتاگیاان کے اور فلسطینی عربوں کے درمیان فسادات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ بہرحال یہودیوں نے اپنی بے پنا ہ دولت اور لا تعداد وسائل کے بل بوتے پر فلسطین کے کچھ حصّے میں اپنی حکومت قائم کرلی ۔ بالآخر ۱۹۴۷ء میں اقوام متحد ہ نے قرارداد منظور کی کہ فلسطین کو دوحصّوں میں تقسیم کردیا جائیـ۔ ایک عربوں کے لیے اور دوسرا یہودیوں کے لیے۔ مزید برآں اس قرار داد کے تحت بیت المقدس (یروشلم) کو اقوام متحدہ کے تحت ایک بین الاقوامی زون قرار دیا گیا تھا ، لیکن اس قرار دا د کو نہ تو عربوں نے قبول کیا اور نہ یہودیوں نے۔ ۱۹۴۸ء میں حکومت برطانیہ نے یہ علاقہ چھوڑا اور اسی سال یہودی ریاست اسرائیل نے اپنی آزادی کا اعلان کردیا۔ فلسطین کا تنازع ابھی تک ختم نہیں ہوا۔ بلکہ کئی مراحل سے گزر کر اب انتہائی خطرناک صورت اختیار کر چکا ہیں۔ ۵۰۔ ’’سفر نامہ اقبال‘‘ از محمد حمزہ فاروقی ، صفحات ۱۸۷ تا ۱۸۹ ۵۱۔ ’’گفتار اقبال‘‘مرتبہ محمدرفیق افضل ، صفحات ۱۴۵ تا ۱۴۷ ۵۲۔ ’’اقبال کا سیاسی کا رنامہ ‘‘از محمد احمد خان ، صفحات ۴۲۳،۴۲۴ ۵۳۔ ’’مکتوبات اقبال ‘‘مرتبہ سید نذیر نیازی صفحات۷۹، ۸۰ ۵۴۔ ’’انوار اقبال ‘‘مرتبہ بشیر احمد ڈار ، صفحات ۹۸، ۹۹ ۵۵۔ ’’مکتوباتِ اقبال ‘‘ مرتبہ سید نذیر نیازی ، صفحہ ۳۱۔اقبال چوہدری محمد حسین کی نظر میں مرتبہ محمد حنیف شاہد ، صفحہ ۲۰۳ ۵۶۔ ’’گفتار اقبال‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحہ ۲۴۴ ۵۷۔ ’’حیات اقبال ‘‘از مسعود الحسن جلد اوّل (انگریزی)صفحات ۲۹۴ تا ۲۹۵ ۵۸۔ ’’انواراقبال ‘‘ مرتبہ بشیر احمد ڈار ، صفحات ۹۶، ۹۷ ۵۹۔ ایضاً، صفحہ ۹۹ ۶۰۔ ’’حیات اقبال ‘‘ از مسعود الحسن، جلد اوّل (انگریزی)، صفحات ۲۹۵، ۲۹۶ ۶۱۔ ’’اقبال کی تقریریں اور بیانات ‘‘ مرتبہ اے۔ آر۔ طارق (انگریزی )، صفحات ۳۳ تا ۵۵ ۶۲۔ ’’اقبال کا سیاسی کارنامہ ‘‘ از محمد احمد خان، صفحات ۳۳۹ تا ۴۱۸ ۶۳۔ ’’گفتار اقبال ‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۱۵۲ تا ۱۵۴ ۶۴۔ ’’اقبال کا سیاسی کارنامہ ‘‘ ازمحمد احمد خان ، صفحات ۳۴۸، ۳۴۹ ۶۵۔ ’’گفتار اقبال‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۱۵۲ تا ۱۵۴ ۶۶۔ ’’اقبال کا سیاسی کارنامہ ‘‘ از محمد احمد خان ، صفحہ۱ ۳۵ ۶۷۔ ’’ذکر اقبال‘‘صفحات ۱۶۶، ۱۶۷ ۶۸۔ ایضاً ، صفحہ ۱۷۷ ۶۹۔ ’’اقبال کی تقریریں اور بیانات‘‘ مرتبہ شاملو (انگریزی)، صفحہ ۱۷۸ ۷۰۔ ایضاً، صفحات ۱۷۸، ۱۷۹ ۷۱۔ ’’اقبال کا سیاسی کارنامہ ‘‘ از محمد احمد خان ، صفحات ۳۵۵، ۳۵۶، ’’ذکر اقبال‘‘ا ز عبدالمجید سالک، صفحات ۱۶۸، ۱۶۹ ۷۲۔ ’’اقبال کی تقریریںاور بیانات‘‘مرتبہ شاملو (انگریزی)، صفحہ۱۸۰ ۷۳۔ ’’اقبال کا سیاسی کارنامہ‘‘ از محمد احمد خان ، صفحہ ۴۲۰ ۷۴۔ ’’اقبال کی تقریریں اور بیانات ‘‘مرتبہ شاملو(انگریزی)، صفحات ۱۸۲ تا ۱۸۵ ۷۵۔ ’’گفتار اقبال‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۵۵ا تا ۱۵۷ ۷۶۔ ’’ایضاً ، صفحات ۱۵۷، ۱۵۸ ۷۷۔ ایضاً ، صفحہ ۱۵۹ ۷۸۔ ایضاً ، صفحات ۵۹ا، ۱۶۰۔ اسی قسم کے مضمون کا ایک تارشیخ عبدالمجید سندھی کے تار کے جواب میں ارسال کیاگیا۔ ایضاً ، صفحہ ۱۶۰۔ اسی دوران میں ڈاکٹر انصاری نے اقبال کو ایک تار بھیجا جس مین تجویز پیش کی کہ جس طرح اچھوتوں کی شکایات کا ازالہ ہوگیا ہے اسی طرح مسلمانوںکے مطالبات بھی مانے جاسکتے ہیں۔ لہٰذا ہندو مسلم اور سکھ مسئلہ حل کرنے کے لیے ایک مشترکہ کانفرنس منعقد کی جائے ۔ اقبال نے اپنے تار مورخہّ ۱۰ اکتوبر۱۹۳۲ء میں انہیں بھی یہی جواب دیاکہ جس قسم کی کانفرنس وہ چاہتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اکثریت کی طرف سے مفاہمت کی معین تجاویز پیش کی جائیں۔ ایضًا ، صفحات ۱۶۰، ۱۶۱۔ لکھنؤ کانفرنس سے اقبال کی علیٰحدگی کو مضر قرار دیتے ہوئے جو تار سردارسلیمان قاسم مٹھانے انہیں ۱۱؍ا کتوبر ۱۹۳۲ء کو ارسال کیا ۔ اس کا جواب بھی ایسے ہی الفاظ میں دیاگیا۔ ایضًا، صفحہ ۱۶۱ ۷۹۔ ’’اقبال کا سیاسی کارنامہ ‘‘ از محمد احمد خا ن صفحات ۳۷۰، ۳۷۱، بحوالہ’’ اقبال کی تقریریں اور بیانات‘‘ مرتبہ شاملو، صفحات ۱۸۶،۱۸۷ ۸۰۔ ایضاً ،صفحہ ۳۷۳، بحوالہ ایضاً، صفحات ۱۸۷،۱۸۸ ۸۱۔ ’’فضل حسین ، ایک سیاسی بائیوگرافی ‘‘(انگریزی)، ۳۱۹ ۸۲۔ تحدیث نعمت از چوہدری ظفراللہ خان ۔ طبع ۱۹۷۱ئ، صفحہ ۳۱۴ ۸۳۔ گفتاراقبال مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۱۶۲تا ۱۶۵ ۸۴۔ ایضاً ،صفحات ۱۶۹ تا ۱۷۲ فٹ نوٹ۔ اس ادارے کے لیے نظام حیداآباد دکن نے تین سال کے لیے دو ہزار روپیہ سالانہ کی امداد منظور کی ۔ دیکھیے اقبال ریویو اقبال کادمی حیددآباد ، خصوصی اشاعت اپریل تا جون ۱۹۸۴ء ، صفحات ۲۰تا ۲۹ ۸۵۔ ایضاً ، صفحہ ۱۶۲ ۸۶۔ ’’تیسری گول میز کانفرنس اور اقبال‘‘ از رحیم بخش شاہین ۔’’ اقبال ریویو‘‘۔ جولائی اکتوبر ۱۹۷۷ء صفحات ۸۷تا ۹۳ ۸۷۔ ’’اقبال اکا سیاسی کارنامہ‘‘ از محمد احمد خان ،صفحات ۳۸۱ تا ۳۸۳ ۸۸۔ طبع ۱۹۴۵ئ، صفحہ ۳۲۹ ۸۹۔ ’’اقبال کے خطوط اور تحریریں‘‘ مرتبہ بی۔ اے۔ ڈار (انگریزی ِ)، صفحات ۶۹تا ۷۶ ۹۰۔ ’’تقدیر ساز سال (یعنی ہندوستان ۱۹۲۶ء سے لے کر ۱۹۳۲ء تک)‘‘(انگریزی)، صفحات ۲۳۸ تا ۲۴۰ ۹۱۔ اقبال کے خطوط جناح کے نام (انگریزی)طبع ۱۹۴۳ء ، صفحہ ۲۱، پچیس کی بجائے پندرہ برس بعد پاکستان قائم ہوگیا۔ ۹۲۔ اقبال کے خطوط اور تحریریں مرتبہ بی۔ اے۔ ڈار (انگریزی)صفحات ۶۳ تا ۶۷ اردو ترجمہ ’’آئینہ اقبال ‘‘مرتبہ محمد عبداللہ قریشی ، صفحات ۱۳، ۱۴ ۹۳۔ ’’انوار اقبال مرتبہ بشیر احمد ڈار ، صفحات ۱۰۰، ۱۰۱، نیز دیکھیے ’’علامہ اقبال کے غیرمطبوعہ خطوط مس ویگے ناسٹ کے نام ’’ترجمہ ڈاکٹر سعید اختر درانی ، ’’نوائے وقت ، ۲۲نومبر ۱۹۸۳ء ہفتہ وارخصوصی اشاعت ۹۴۔ ملاحظہ ہو مضمون: حکیم الامت علامہ اقبال ، فرانسیسی مستشرق ماسینوں کی نظر میں ’’از محمد اکرام چغتائی‘‘، نوائے وقت ۴ نومبر ۱۹۸۰ء ۹۵۔ اقبال کے خطوط اور تحریریں‘‘ مرتبہ بی۔اے۔ ڈار (انگریزی)صفحہ ۱۰۳ء نیز دیکھیے ’’اقبال ریویو‘‘ جولائی اکتوبر ۱۹۷۷ء ، صفحہ ۱۰۵ ۹۶۔ ’’خطوط اقبال ‘‘مرتبہ رفیع الدین ہاشمی، صفحہ ۲۲۵ ۹۷۔ ’’اقبال ۔ ان کے سیاسی نظریا ت چورا ہے پر ‘‘مرتبہ اے۔ حسن علی گڑھ (انگریزی ) صفحہ ۷۴ ۹۸۔ صفحات ۲۰۵، ۲۰۶ ۹۹۔ ’’خطوط اقبال‘‘ ، مرتبہ رفیع الدین ہاشمی ، صفحہ ۲۲۴ ۱۰۰۔ ’’اقبا ل کے خطوط اور تحریریں‘‘مرتبہ بی۔اے۔ ڈار (انگریزی)، صفحات ۱۰، ۱۱، ۷۸ ۱۰۱۔ ’’یاد اقبال ‘‘ از صابر کلوروی صفحات ۱۸، ۱۹۔یہی من گھڑت روایت ’’اقبال اور بھوپال‘‘، از صہبا لکھنوی میں بھی درج ہے ، لیکن اس میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ ۱۰۲۔ ایضاً ، صفحہ ۱۸۔ دیکھیے ’’ملفوظات اقبال ‘‘ مرتبہ ابو اللیث صدیقی ، صفحات ۲۶۹ تا ۲۷۰ ۱۰۳۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ، حصّہ دوم ، صفحات ۳۴۳، ۳۴۴، ’’انوار اقبال ‘‘مرتبہ ٔ بشیر احمد ڈار صفحہ۱۰۳، خطوط اقبال ’’مرتبہ رفیع الدین ہاشمی، صفحہ ۲۲۶ ۱۰۴۔ ’’اقبال کے خطوط اور تحریریں ‘‘مرتبہ بی۔ اے۔ ڈار (انگریزی)، صفحات ۷۷ تا ۷۹ ۱۰۵۔ گفتار اقبال مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحہ ۱۶۵ء ۱۰۶۔ ’’خطوط اقبال ‘‘ مرتبہ رفیع الدین ہاشمی ، صفحہ ۲۲۳ ۱۰۷۔ ’’ذکر اقبال‘‘ ، صفحہ ۱۸۲ ۱۰۸۔ ’’سر گذشت اقبال ‘‘ از عبدالسلام خورشید، صفحہ ۴۱۹ ۱۰۹۔ ’’روزگارِ فقیر ‘‘ جلد اوّل ، صفحہ ۱۴۸ ۱۱۰۔ ’’نوائے وقت ‘‘ ۱۰ مئی ۱۹۵۹ء ،مضمون : لندن میں یوم اقبال ۱۱۱۔ یاد اقبال ‘‘ از صابر کلوروی ، صفحہ ۱۹۔’’ اقبال ریویو‘‘ جولائی۔ اکتوبر ۱۹۷۷ء ، صفحات ۱۱۰،۱۱۱ ’’اوراق گم گشتہ‘‘ مرتبہ رحیم بخش شاہین ، صفحات ۳۳۲ تا ۳۳۴ ۱۱۲۔ ’’آئینہ اقبال‘‘ مرتبہ محمد عبداللہ قریشی ، صفحات ۱۸۔۱۹ ۱۱۳۔ ’’ملفوظات اقبال ‘‘مرتبہ ابو اللیث صدیقی ، صفحہ ۲۷۴ ۱۱۴۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ، جلد دوم ، صفحات ۳۲۱، ۳۲۲ ۱۱۵۔ ’’ملفوظات اقبال ‘‘ مرتبہ ابو اللیث صدیقی ، صفحات ۱۵۷، ۱۵۸ ۱۱۶۔ ’’انوار اقبال ‘‘مرتبہ بشیر احمد ڈار صفحات ۱۰۱ ۔ ۱۰۲ ۱۱۷۔ ’’آئینہ اقبال‘‘ مرتبہ محمد عبداللہ قریشی ، صفحہ ۱۵ ۱۱۸۔ ’’اقبال ریویو‘‘جولائی، اکتوبر ۱۹۷۷ئ، صفحہ ۱۲۳، بحوالہ ’’حرف اقبال ‘‘ ، صفحات ۱۹۳،۱۹۴ ۱۱۹۔ ان میں قابل ذکر شخصیات کے ناموں کی تفصیل کے لیے دیکھیے ’’آئینہ اقبال مرتبہ محمد عبداللہ قریشی ، صفحات ۱۷، ۱۸، ۱۹ ۱۲۰۔ ایضاً ، صفحات ۱۷، ۱۸،’’گفتار اقبال ‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۱۶۶، ۱۶۷ باب ۱۹ افغانستان لاہور پہنچنے سے اگلے روز یعنی ۲۶فروری ۱۹۳۳ء کو اقبال نے گول میز کانفرنسوں کی بحثوں کی روشنی میں ہندوستان کے آئندہ دستور کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ایک اخباری بیا ن میں فرمایا: جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے ،ان کا فرض ہے کہ وہ آنے والے انتخابات کے لیے اپنے آپ کو منظم کریں اور ایسے تمام اسباب کا سد باب کریں جن کے سے ان کے اندر فرقہ وارانہ اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔ مجوزہ دستور واضح طور پر اقلیتوں کے اصول کو تسلیم کرتاہے۔ ۱ یکم مارچ ۱۹۳۳ء کو اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے اقبا ل کے اعزا زمیں ٹاؤن ہال لاہور کے باہر باغ میں دعوتِ چائے دی گئی ، جس میں شہر کے معززین نے شرکت کی ۔ اقبال نے ارکان انسٹی ٹیوٹ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا : میںنے اپنی زندگی کے گذشتہ پنیتش سال اسلام اور موجودہ تہذیب و تمدن کی تطبیق کی تدابیر کے غور و فکر میں بسر کردیے ہیں اور اس عرصے میں یہی میری زندگی کا مقصد دحید رہاہے…میری رائے میں اس (مسئلے )کو یوں پیش کرنا چاہیے کہ موجودہ تمدن کو کس طرح اسلام کے قریب تر لایا جائے۔۲ ۱۸ مارچ ۱۹۳۳ء کو اقبال ، ڈاکٹر انصاری کی دعوت پر جامعہ ملّیہ میں رؤف بے کے دو خطبوں کی صدارت کے لیے دہلی پہنچے۔ رؤف بے ایک ترک سیاستدان اور دنیائے اسلام کے ایک بطل جلیل کی حیثیت سے پیرس سے دہلی مدعو کیے گئے تھے تاکہ جامعہ ملیّہ کے توسیعی خطبات کے سلسلے کا آغا ز کرسکیں۔ اقبال اسٹیشن سے سید ھے دار الاسلام ، ڈاکٹر انصاری کے گھر تشریف لے گئے۔ شام کو ڈاکٹر انصاری ، رؤف بے ، ذاکر حسین اور دیگر احباب کی معیت میں جامعہ ملّیہ پہنچے ۔ اجلاس کا اہتمام محمد علی ہال میں کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر انصاری نے جلسے کا افتتاح کیا اور اقبال کو کرسی صدارت پر بیٹھنے کی درخواست کی۔ رؤف بے نے وطنیت اور اتحاد اسلامی کے موضوع پر اپنا خطبہ پڑھا۔ بعد ازاں اقبال نے بحیثیت صدر جلسہ انگریزی میں ایک طویل تقریر کی۔ اس تقریر میں انہوں نے عالم اسلام کی تازہ بیداری ، انقلاب ترکی ، مسئلہ اجتہاد ، خلافت او ر اتحاد اسلامی (مغربی اصطلاح کے مطابق پان اسلامزم )ایسے موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ آخر میں اپنی معروف نظم مسجد قرطبہ (جو اس وقت تک غیر مطبوعہ تھی) کا آخری بند سنایا جس میں ان اشعار کی تاثیر کے باعث اہل محفل پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوگئی: روح مسلماں میں ہے آج وہی اضطراب راز خدائی ہے یہ کہہ نہیں سکتی زباں ! دیکھیے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا ایک روز کے وقفے کے بعد یعنی ۲۰مارچ ۱۹۳۳ء کو رؤف بے کے دوسرے توسیعی لکچر کے لیے اجلاس کی صدارت پھر اقبال نے کی۔ اس مرتبہ ان کا موضوع خطبہ تھا ’’جنگ عظیم ‘‘۔ خطبے کے اختتام پر اقبال نے کوئی تقریر تو نہ کی ، البتہ اتنا ضرور فرمایا کہ رؤف بے کی تقریر میں انہیں صرف ایک لطیفے کا اضافہ کرنا ہے، جس کا کسی زمانے میں یورپ میں بڑ ا چرچا تھا۔ لطیفہ یہ تھا: ایک روز کسی نے شیطان کو دیکھا، بڑے اطمینان سے آرام کرسی پر بیٹھا سگار پی رہا ہے اس نے جوشیطان کو اس حال میں دیکھا ، بڑا متعجب ہوا۔ کہنے لگا ۔ حضرت یہ کیا بات ہے؟ آپ اس اطمینا ن سے بیٹھے سگار پی رہے ہیں۔ اب دنیا میں فتنہ و فساد کون پھیلائیـ گا۔ اس نے کہا : فکر نہ کیجئے، میں نے یہ خد مت بر طانوی کابینہ کے سپرد کر رکھی ہے ۔ ۳ اس پر محفل میں بڑے زور کا قہقہہ بلند ہوا او رجلسہ برخاست ہوگیا۔مارچ ۱۹۳۳ء ہی میں حکومت برطانیہ نے ہندوستان کے آئند ہ دستور کاخاکہ قرطاس ابیض (وائٹ پیپر )کی صورت میں شائع کردیا۔ اس دستاویز پر ہندوستان بھر کے سیاستدانوں نے کڑی نکتہ چینی کی ۔اقبال نے بھی اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک بیان ۲۰؍مارچ ۱۹۳۳ء کوجاری،کیا، جس کے اہم نکات مندرجہ ذیل تھے: ۱۔ وفاقی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں تین سوپچھتر نشستوں میں سے مسلمانوں کو صرف بیاسی نشستیں دی گئی ہیں۔ گویا ۸ء ۲۱ فیصد نشستیں مسلمانوں کو مل رہی ہیں ۔ اس کے برعکس ہندوستانی ریاستوں کو ۳۰ء ۳۳ فیصد نشستیں عطا کی گئی ہیں ،حالانکہ ان کو اصولاً ۸ئ۲۱ فیصد نشستیں ملنی چاہیے تھیں۔ ریاستیںنہ تو اقلیتیں ہیں اور نہ ان کے مفادات کو کوئی خطرہ لاحق ہے، لیکن قرطاس ابیض میں مسلمانوں کی حق تلفی کرکے ریاستوں کو پاسنگ عطا کیا گیا ہے۔ ۲۔ وفاقی پارلیمنٹ میں نو نشستیں خواتین کو دی گئی ہیں۔ خواتین کے ان حلقہ ہائے انتخابات میں رائے دہندوں کی بڑی اکثریت غیر مسلم رہے گی، اس لیے کسی مسلم خاتون کا انتخاب عملاً ناممکن ہے۔ ۳۔ پارلیمنٹ کے ایوان بالا کا انتخاب واحد قابل انتقال رائے دہی صوبجاتی کونسل کے اراکین کریںگے۔ اس کی وجہ سے مخلوط انتخاب کا اصول رائج ہوجاتاہے۔ ۴۔ صوبوں میں وزراء کو کم اختیارات دیے گئے ہیں اور گورنروں کو زیادہ۔ ۵۔ مسلمانوں کے شخصی قانون کے لیے مناسب تحفظات نہیں رکھے گئے ۔ ۶۔ بلوچستان سے متعلق اسکیم سے نہ تو بلوچی مطمئن ہوں گے اور نہ عام مسلمان۔ ۴ ۲۱؍ مارچ ۱۹۳۳ء کو اقبال دہلی سے واپس لاہور آئے ، لیکن ۵ا پریل ۱۹۳۳ء کی صبح کو انہیں پھر دہلی جاناپڑا ۔ کیونکہ ۶اپریل ۱۹۳۳ء کو مسئلہ تعلیم پر وائسرائے کے ہاں کانفرنس میں اقبال کو مدعو کیاگیاتھا، اور وہ ا س لیے کہ تیسری گول میزکانفرنس کے دوران لندن میں انہیں اینگلو انڈین فرقہ کی تعلیمی کمیٹی کا رکن بنایاگیاتھا۔ بہرحال ۵ اپریل ۱۹۳۳ء ہی کی شام کو ذاکر حسین کی صدارت میں انہوں نے جامعہ ملّیہ میں ’’لندن سے غرناطہ تک ‘‘ کے موضوع پرا یک لکچر دیا ۔۵ اگلے روز اقبال پھر طلبہ سے خطاب کرنے کے لیے جامعہ ملّیہ گئـے ۔ مولانا اسلم جیراجپوری نے ان کا خیر مقدم کیا اور اپنی تقریر کے دوران میں فرمایا کہ اقبال ہمارے مدۃ العمر کے محبوب ہیں۔ انہوں نے شعر کہنا کیا شروع کیے، ہمارے دل میں گھر کر لیا ۔ ہم اپنی محبت کا اظہار ا ن کے استاد ہی کی زبا ن میں کریں گے۔ تخلص داغ ہے اور عاشقوں کے دل میں رہتے ہیں ان کا گھر بھی عشاق کا دل ہے او روہ ہم سب کے محبوب ہیں ۔اقبال نے ان کا شکریہ ادا کیا اور طلبہ سے خطاب کیا۔ بعدازاں طلبہ سے بات چیت کی اور ان کی بیاضوں پر دستخط کرتے رہے۔ اقبال ۷؍اپریل ۱۹۳۳ء کو لاہور روانہ ہوگئے۔ ۱۵؍ اپریل ۱۹۳۳ء کو ادارۂ معارف اسلامیہ کا اجلاس زیر صدارت اقبال ہیلی ہال پنجاب یونیورسٹی میں منعقد ہوا۔ اقبال نے اپنے خطبۂ صدارت کے دوران فرمایا: وقت کا تقاضا یہ ہے کہ اب ہم فقہی جزئیات کی چھا ن بین کے بجائے ان اہم شعبہ ہائیـ علم کی طرف متوجہ ہوںجو ہنوز محتاج تحقیق ہیں۔ ریاضیات ، عمرانیات ، طب اور طبیعیات میں مسلمانوں کے شاندار کارنامے ابھی تک دنیا کے مختلف کتب خانوں میں مستور و پنہا ں ہیں ، جن کے احیاء کی سخت ضرورت ہے ۔۔۔ یورپ کے علماء بیسویں صدی میں جن نظریات و انکشافات کو اپنے لیے نئی چیز سمجھتے ہیں۔ ان پر عرب علماء و فضلا صدیوں پہلے سیر حاصل بحثیں کرچکے ہیں۔ آئن سٹائن کا نظریہ ٔ اضافیت یورپ کے نزدیک نیا ہو تو ہو، لیکن علمائـ اسلام کی کتابوں میں صد ہا سال پہلے اس کے مبادی زیر بحث آچکے ہیں۔ برگساں کے فلسفۂ امتیازی کو سمجھنے کے لیے ابن خلدون کے افکار و خیالات کا مطالعہ کرنے کی اشد ضرورت ہے …۶ مئی ۱۹۳۳ء میں چینی ترکستان میں یورش کی خبر یں ہندوستان کے اخبارات میں شائع ہوئیں۔ اقبال عالم اسلام کے ہر معاملے میں دلچسپی رکھتے تھے، اس لیے ان خبروں کو پڑھ کر وہ وسطی ایشیا میں ایک اور مسلم مملکت کے قیام کا خواب دیکھنے لگے۔ اس ضمن میں ۱۶ مئی ۱۹۳۳ء کو انہوں نے ایک بیان جاری کیا جس میں چینی ترکستان کے حالات پرتبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: ترکستان ایک وسیع ملک ہے جو تین حصوں میں بٹا ہو اہے۔ان میں سے ایک حصّہ پرروس ، دوسرے پر افغانستان اور تیسرے پر چین کی حکومت ہے۔ ۱۹۱۴ء میں چینی ترکستان میں چینی مجسٹریٹوں کے تقرر اور ملک کی کل مسلم آبادی پر چینی زبان کے جبری نفاذ کے سبب بڑی بے چینی پھیلی تھی، لیکن حالات قابو سے باہر نہ ہوئے ، جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے، اس ملک میں۱۹۳۰ء میںایک سترہ سالہ نوجوان مسلم لڑکے ، ماچائونگ ینگ کی زیر قیادت جدید انقلاب کا آغاز ہوا ۔ ستروں ہارڈت مہم کے مسٹر پٹرواس نوجوان مسلم جرنیل سے ترکستان میں مل چکے ہیں۔ ۱۹۳۲ء میں انہوں نے انگلستان کی سنٹرل ایشین سوسائٹی میں ایک لکچر کے ذریعے اپنے تاثرات بیان کیے تھے۔ اس سال ماچاؤنگ ینگ نے ایک شہر ہامی کا محاصرہ کررکھا تھا۔ محصور چینی افواج سے صلح گفت وشنید کے لیے مسٹر پٹرو کی خدمات سے فائدہ اٹھایا گیا۔ شہرمیں محصور چینی جرنیل اور چینی ِدفاعی کونسل نے مسٹر پٹرو کا خیر مقدم کیا۔ مسٹر پٹرو کا خیال تھا کہ وہ ان سے محاصرہ کرنے والی افواج کی مضبوطی یا ان کے ارادوں کے متعلق سوالات پوچھیں گے، مگر ان کی حیرانی کی کوئی حد نہ رہی جب چینی جرنیل نے صرف یہی ایک سوال پوچھا : کیا یہ سچ ہے کہ ماچاؤنگ ینگ صرف بیس برس کا ہے؟ اس جو اب پرکہ مابیس برس سے بھی کم عمر کا ہے ، چینی جرنیل نے دفاعی قونصل سے، جوشہر اس کے حوالے کردینا چاہتا تھا، خطاب کرتے ہوئے کہا: میںاکیا سی برس کا ہوں اور ایک طویل عرصے سے میرے بال سفید ہوچکے ہیں۔ میرا پڑپوتا بھی اس دودھ پیتے بچے سے عمر میں بڑا ہے۔ ان حالات میں تم مجھ سے یہ توقع کیونکر رکھ سکتے ہو کہ میںا س شہر کو اس بچے کے حوالے کردوں گا۔ بوڑھا جرنیل اپنے الفاظ پر قائم رہا اور بڑے استقلال کے ساتھ بھوک اور دیگر مصائب برداشت کرتا رہا ، حتی کہ اسے چینی حکومت کی طرف سے کمک مل گئی ۔ ایک زبر دست معرکے میں ما بری طرح زخمی ہوا اور اس نے کانسومیں پنا ہ لی ۔ نتیجتاً لڑ ائی رک گئی ، لیکن کچھ مدت کے بعد پھر شروع ہوگئی۔ کیا موجود ہ یورش کی قیادت بھی ما کررہاہے؟ اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ مگر مسٹر پٹرو نے جو معلومات اس کے بارے میں فراہم کی ہیں، ان سے تویہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سر زمین جس نے چنگیز ، تیمور اور بابر پیدا کیے ، اب بھی بہترین قسم کے عسکری جینیس پیدا کرنے کی اہلیت رکھتی ہے ۔ میری رائے میں اس یورش کا اصل سبب مذہبی تعصب نہیں، گو ایسی تحریک کے دوران میں قائدین ہر قسم کے انسانی جذبات کو اپنی اغراض کے حصول کی خاطر اکساسکتے ہیں۔ میرے خیال میں اس کے اسباب زیادہ تر اقتصادی ہیں۔ علاوہ ازیں آج کل دنیا میں نسلی امتیاز کی بھی بڑی اہمیت ہے ، اگرچہ میں اس انداز فکر کو جدید تمدن پرایک بہت بد نما دھبہ سمجھتا ہوں ۔ مجھے خدشہ ہے کہ ایشیا ء میں نسلی امتیاز کے مسئلے کا ابھرنا کئی نہایت خطرناک نتائج کا پیش خیمہ بن سکتاہے۔ اسلام کی زیادہ تر کوشش بحیثیت مذہب یہی رہی ہے کہ اس مسئلے کو سلجھایا جائے اور اگر جدید ایشیا اس انجام سے بچنا چاہے جس کا سامنا یورپ کو کرنا پڑ رہاہے، تو سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ تعلیمات اسلامی کو اپنائے اور نسلی بنیادوں پر سوچنے کی بجائے اسلامی بنیادوں پر سوچنے کی کوشش کرے۔ میرا یہ اندیشہ کہ چینی ترکستان کا انقلاب ممکن ہے پان تورانی تحریک کی صورت اختیار کر لے، وسطی ایشیا میں رائج انداز فکر پر مبنی ہے۔ ابھی چند روز ہوئے افغانستان کے معروف ماہنامۂ’’ کابل ‘‘میں ایران کے ڈاکٹر افشار کا ایک مضمون شائع ہوا تھاجس میں افغانستان کو عظیم تر ایران کا حصّہ تصورکرتے ہوئے مصنّف نے دعوت دی تھی کہ تورانی تحریک کے فتنے کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ ایران کا ساتھ دے۔ بہرحال اگر چینی ترکستان کاانقلاب کا میاب ہوا تو اس کا اثر یقینا افغانی اور روسی ترکستان پر بھی پڑے گا…انقلاب کی کا میابی کا یہ مطلب بھی ہوگاکہ چینی ترکستان میں صدیو ں پرانے چینی استعمار سے نجات حاصل کرکے یہاں ایک ایسی خوشحال اور مضبوط مسلم مملکت وجود میں آجائے گی جس کی ننانوے فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہوگی۔ پس ہندوستان اور روس کے درمیان ایک اور مسلم مملکت کا قیام بالشوزم کی ملحدانہ مادّیت کو ہمارے ملک کی حدود سے اور بھی پرے دھکیل دے گا۔۷ ریاست کشمیر کے حالات ابھی تک نہیں سدھرے تھے۔ گلانسی کمیشن کی سفارشات پر عمل ہونا ابھی شروع نہ ہوا تھاکہ کشمیری مسلمان دھڑے بندی کی نذر ہوگئے ۔ اور دو تین سیاسی پارٹیوں میں بٹ گئے۔ حکومت کشمیر نے مختلف سیاسی پارٹیو ںکے لیڈروں کو پھر گرفتار کر لیا۔ نتیجتاً احتجاجی مظاہرے ہوئے اور کشمیر میں ایک بار پھر تشدد اور سخت گیری کے دور دورے کا آغاز ہوگیا۔ دوسری طرف آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے حالات بھی دگر گوں ہوچکے تھے۔ اس تنظیم کے پہلے صدر مرزا بشیر الدین محمود ، امیر جماعت احمدیہ قادیان ، مقرر ہوئے تھے۔ خیال تھاکہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی محض ایک عارضی تنظیم ہے او رجونہی کشمیری مسلمانوں کے مطالبات تسلیم کرلیے گئے یا ریاست کشمیر میں امن و امان قائم ہوگیا تو اس کی ضرورت نہ رہے گی۔ اس لیے کشمیر کمیٹی کے لیے کسی باقاعدہ دستور وضع کرنے کی طرف توجہ نہ دی گئی، او ردستور کی عدم موجودگی میں ظاہر ہے، صدر کو وسیع اختیارات حاصل تھے۔ کشمیر کمیٹی کے ارکان میں احمدی بھی تھے اور ان کے مخالفین بھی۔ احمدیوں پر الزام لگا کہ وہ کشمیر کمیٹی کو اپنے عقید ے کی نشر واشاعت کی خاطر استعمال کررہے ہیں،اور اس کے ذریعے ان کا اصل مقصد کشمیری مسلمانوں کو احمدی بنانا ہے ، اس کے علاوہ ریاست کشمیر کے حالات سے یہ بھی ظاہر ہوگیا کہ کشمیر کمیٹی کو بحیثیت ایک تنظیم کے ابھی کچھ مدت تک قائم رکھنا پڑے گا۔ چنانچہ کشمیر کمیٹی کے بعض ارکان نے تجویز پیش کی کہ تنظیم کے لیے ایک دستور بنایا جائے تاکہ ہر کا م اس کے مطابق انجام دیا جاسکے ۔ احمدی ارکا ن کو یہ بات ناگوار گزری کیونکہ ان کی دانست میںدستور بنانے کا مقصد ان کے امیرکے لامحدود اختیارات کو محدود کرنا تھا۔ بالآخر ایسے ہی اختلافات کے نتیجے میں مرزا بشیر الدین محمود کشمیر کمیٹی کی صدارت سے مستعفی ہوگئے، اگرچہ ان کی جماعت کے باقی افراد بدستور کمیٹی کے رکن رہے۔ مرزا بشیرالدین محمود کی جگہ اقبال کو کشمیر کمیٹی کا قائم مقام صدر چنا گیا۔ بحیثیت صدر انہوںنے ریاست کشمیر کے حالات پر ایک بیان ۷جون ۱۹۳۳ء کو جاری کی جس میں کشمیر ی مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ آپس میں متحد رہیں اور ساری ریاست کے مسلمانو ںکے لیے صرف ایک ہی سیاسی تنظیم قائم رکھیں:۸ کشمیر کمیٹی کے دستور کے طورپر اقبا ل نے ایک مسودّہ مرتّب کرایا، لیکن جب اسے کمیٹی کے اجلاس میں پیش کیاگیا تو احمدی ممبران نے اس کی مخالفت کی۔ دوران بحث اقبال نے محسوس کیا کہ احمدیوں کے نزدیک کشمیر کمیٹی یا مسلمانوں کی کسی بھی تنظیم کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ وہ اپنے عقیدے کے مطابق اگر کسی وفاداری کے پابند ہیںتو وہ ان کی امیر کے ساتھ وفاداری ہے۔ سو احمدی حضرات بظاہر کشمیر کمیٹی کو قائم رکھتے ہوئے اسے اندر سے دو حصوں میں تقسیم کرنے کے درپے تھے۔ یہ صورت اقبال کے لیے ناقابل قبول تھی لہٰذا انہوں نے کشمیر کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا اور اپنے بیا ن مورّخہ ۲۰ جون ۱۹۳۳ء میں واضح کیا: بدقسمتی سے کمیٹی میں بعض ارکان کسی وفاداری کے پابند نہیں سوائے اپنے مذہبی فرقے کے امیر کے ساتھ وفاداری کے۔ اس کی وضاحت حال ہی میں ایک احمدی وکیل نے اپنے پبلک بیان میں بھی کردی ہے جو میر پور کے لوگوں کے کیس کررہاتھا۔ اس نے صاف اعتراف کیا ہے کہ وہ کسی کشمیر کمیٹی کو تسلیم نہیں کرتا اور وہ یا اس کے ساتھی جو کچھ بھی کرتے ہیں، صرف اپنے امیر کے حکم پر کرتے ہیں… بہرحال اگر مسلماناِن ہند اپنے کشمیری بھائیوں کی امداد او ررہنمائی کرنا چاہتے ہیں تو ایک اور کشمیر کمیٹی بنا سکتے ہیں۔۹ اقبال کی تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مسلمانوں کے ایک نمائندہ اجلاس میں پرانی کشمیر کمیٹی توڑ دی گئی اور ایک نئی آل انڈیا کشمیر کمیٹی وجود میں لائی گئی ۔ اقبال نے نئی کشمیر کمیٹی کی صدارت قبول کرلی ۔ ملک برکت علی ایڈوکیٹ اس کے سیکرٹری مقرر کیے گئے چنانچہ مظلومین کشمیر کی مالی امداد کے لیے اقبال نے ملک برکت علی کی معیّت میں ایک اپیل ۳۰؍جون ۱۹۳۳ء کو شائع کی جس میں ارشاد کیا: موجودہ زمانے میں ہندوستان کے اندر تحریک خلافت کے بعد تحریک کشمیر ایک ایسی تحریک ہے جس سے خالص اسلامی جذبات کو عملی مظاہر ے کا موقع ملا۔ اور جس نے قوم کے تن مردہ میں حیات کی لہر ایک دفعہ پھر دوڑادی …اہل خطہ (کشمیر) ملّت اسلامیہ ہند کا جزو لاینفک ہیں اور ان کی تقدیر کو اپنی تقدیر نہ سمجھنا تمام ملّت کو تباہی وبربادی کے حوالے کردینا ہے ۔ اگر مسلمانوں کو ہندوستان میں فی الحقیقت ایک مضبوط و مستحکم قوم بننا ہے۔ تو ان نکتوں کو ہر وقت ذہن میں رکھنا ہوگا۔ اوّل یہ کہ شمال مغربی سرحدی صوبہ کو مستثنیٰ کرتے ہوئے حدود ہندوستان کے اندر جغرافیائی اعتبار سے کشمیر ہی وہ حصّہ ہے جو مذہبی اور کلچرل حیثیت سے خالصتاً اسلامی ہے اور ایسا اسلامی کہ اسلام نے وہاں جبر واکراہ سے گھر پیدا نہیں کیا بلکہ یہ بارآور پودا حضرت شاہ ہمدان جیسے نیک و کامل بزرگان دین کے پا ک ہاتھوں کا لگا یا ہوا ہے اور انہی کی مساعی تبلیغ دین کا نتیجہ ہے جنہوں نے گھر بار اور وطن محض اس لیے ترک کیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہو ئے پیغام سے ان دیا ر و ممالک کے بسنے والوں کو بہرہ ور کریں اور الحمد للہ کہ وہ بدرجۂ اتم کا میاب ہوئے۔ دوسری بات جسے مسلمانانِ ہند کبھی نظرانداز نہیں کرسکتے یہ ہے کہ ان کی تمام قوم میں سب سے بڑھ کر اگر صناعی و ہنر مندی او رتجارت کو بخوبی چلانے کے جوہر نمایاں طورپر کسی طبقے میں موجود ہیں تو وہ یہی اہل خطّہ کا گروہ ہے۔ افسوس ہے کہ اہل کشمیر کی زبوں حالی انہیں اپنی قوم کا مفید عنصر بننے کے راستے میں مانع آرہی ہے بلکہ اقوام عالم کی اس نوع کی ترقی ان کی خدمات سے محروم ہے ۔ ورنہ اگر ان کی زندگی بھی زندہ قوموں کی زندگی ہوتو صنّاعی اور ہنر مندی کے طبعی جوہر ہندوستان کی اقتصادی حالت کو بدل دینے میں ممد ثابت ہوں۔ بہرحال اہل خطّہ قومیّت اسلامیہ ٔ ہند کے جسم کا بہترین حصّہ ہیں اور اگر وہ حصہ درد ومصیبت میں مبتلا ہے تو ہونہیں سکتا کہ باقی افرادِملت فراغت کی نیند سوئیں۔۱۰ جولائی ۱۹۳۳ء میں حکومت کشمیر نے اعلان کیاکہ گلانسی کمیشن کی تمام سفارشات پر عمل کیا جائے گا۔ اقبال نے اس اعلان کا خیرمقدم کرتے ہوئے اپنے بیان مورّخہ ۳اگست ۱۹۳۳ء میں تجویز پیش کی کہ کشمیری مسلمانوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے حکومت کشمیر میرپور اور بارامولا کے سیاسی کارکنان کے خلاف دائر کردہ فوجداری مقدمات واپس لے۔۱۱ اسی دوران میں احمد یوں نے’’ تحریک کشمیر‘‘کے نام سے ایک نئی جماعت قائم کی او ر اقبال کو اس کی صدارت قبول کرنے کے لیے کہا ۔ اقبال نے جواب دیا کہ اس معاملے میں حتمی فیصلہ کرنے سے پیشتر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ارکان سے مشورہ لینا ہو گا۔ اقبال کے جواب سے احمدیوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وہ خود اصولی طورپر صدارت قبول کرنے کے لیے تیا رہیں۔ اس پر اقبال نے ان کی پیشکش کو رد کرتے ہوئے اپنے بیان مورّخہ ۲ اکتوبر ۱۹۳۳ء میں فرمایا کہ جن وجوہات کے پس منظر میں پرانی آل انڈیا کشمیر کمیٹی توڑ کر نئی کشمیر کمیٹی بنائی گئی تھی ، وہ بدستور قائم ہیں۔ آپ نے ارشاد کیا: قادیانی ہیڈکوارٹرز کی طرف سے ابھی تک ایسا کوئی واضح اعلان جاری نہیں ہواکہ اگر قادیانی حضرات مسلمانو ں کی کسی سیاسی تنظیم میں شامل ہو ںگے تو ان کی وفاداریاں منقسم نہیں ہوں گی۔ دوسری طرف واقعاتی طور پر یہ ظاہر ہوگیا ہے کہ جسے قادیانی پریس ’’تحریک کشمیر ‘‘کے نا م سے پکارتا ہے اور جس میں بقول قادیانی اخبار ’’الفضل ‘‘ مسلمانوں کو محض اخلاقی طورپر شامل ہونے کی اجازت دی گئی ہے ایک ایسی تنظیم ہے جس کے مقاصد او رمحرکا ت آل انڈیا کشمیر کمیٹی سے مختلف ہیں۔۱۲ بہرحال کشمیر کے اندر مسلمانوں کو متحد رکھنا مشکل ہوگیا تھا۔ وہ مختلف دھڑوں یا سیاسی گروہوں میں بٹ گئے تھے۔ شیخ عبداللہ نے ان کے اختلافات دور کرنے کی خاطر تمام کارکنوں کی ایک کانفرنس سری نگر میں بلانے کا اہتمام کیا اورا نہوں نے اقبال کو بھی کانفرنس میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ اقبال خود تو نہ جاسکے مگر انہوں نے اپنے ایک خط محرّرہ ۱۲ اکتوبر ۱۹۳۳ء میں شیخ عبداللہ کو لکھا: سنا ہے مختلف جماعتیں بن گئی ہیں۔ اور ان کا باہمی اختلاف آپ کے مقاصد کی تکمیل میں بہت بڑی رکا وٹ ہوگا۔ ہم آہنگی ہی ایک ایسی چیز ہے جو تما م سیاسی و تمدنی مشکلات کا علاج ہے ۔ ہندی مسلمانو ںکے کام اب تک محض اس وجہ سے بگڑے رہے کہ یہ قوم ہم آہنگ نہ ہوسکی اور اس کے افراد اوربالخصوص علماء اور وں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بنے رہے، بلکہ اس وقت بھی ہیں۔۱۳ اس کے باوجود کشمیر کمیٹی میں مسلمانوں اور احمدیوں کے تنازعہ میں سر فضل حسین نے احمدیوں کا ساتھ دیا اور الٹا اقبال پر یہ الزا م لگایا کہ وہ اپنی سیاسی اغراض کے حصول کی خاطر مسلم یک جہتی پر اندر سے وار کررہے ہیں،۱۴ اقبال ریاست کشمیر کے مسلمانوں پر ظلم وتشدد کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے رہے ۔ فروری ۱۹۳۴ء میں اس ضمن میں انہوں نے وائسرائے کو تار دیا ۔ بعد ازاں ’’لندن ٹائمز‘‘ اور جمعیت اقوام کے نام برقیے روزانہ کیے کہ ریاستی حکام سیاسی کارکنان کو سزائے بیدزنی دے رہے ہیں اور انہیں اس انسانیت سوز سزا دینے سے روکا جائے۔۱۵ یہ ذکر کیاجاچکا ہے کہ فرقہ وارانہ مفاہمت کے لیے کل ہند بنیادوں پر آخری کوشش مولانا شوکت علی نے کی تھی جو نا کام رہی ۔ لیکن صوبائی سطح پر ایسی کوششیں بہرحال جاری تھیں۔ اور اس سلسلے میں مئی ۱۹۳۳ء میں پنجاب میں سر فضل حسین ، راجہ نریندرناتھ اور سردار جوگندر سنگھ نے ملکر ایک فرقہ وارانہ فارمولا تیا رکیا ۔ فارمولے کے بنیادی نکات یہ تھے: ۱۔ صوبے میں ہندو، مسلم اور سکھ فرقوں کی آبادی کی پوری نمائندگی رجسٹررائے دہندگان میں کی جائے۔ ۲۔ طریق انتخاب مشترکہ ہو اور ایک رکنی حلقہ ہائے انتخاب کی تقسیم علاقہ واراور آبادی کی بنیاد پر ہو۔ ۳۔ ہر فرقے کو وہ حلقۂ انتخاب دیا جائے جہاں اس کے رائے دہندوں کا فیصد سب سے زیادہ ہو۔ ۴۔ نشستوں کا تعین حلقہ ہائے انتخاب تک محدود ہو۔ ۵۔ نشستوں کا تعین کسی خاص مدت تک کے لیے نہ کیا جائے۔۱۶ ہندوؤں اور سکھوں کے ممتاز لیڈروں نے اس فارمولے کی شدید مخالفت کی ۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے۔ اس کے خلاف اقبال اور ان کے بعض رفقاء نے آواز بلند کی او راس سلسلے میں بقول عظیم حسین انہوں نے پنجاب صوبائی مسلم لیگ او رپنجاب صوبائی مسلم کانفرنس کا ایک مشترکہ اجلاس طلب کرکے اس میں پنجاب فارمولے کی مذمت کی۔۱۷ عظیم حسین بیان کرتے ہیں کہ پنجاب فارمولا ان کے والد سر فضل حسین کے ذہن کی پیدا وار تھا اور اقبال کے متعلق یہ افواہ بھی گرم تھی کہ وہ کہیں سے پچھتر ہزار روپیہ حاصل کرکے صوبے کا (انگریزی) اخبار ’’ایسٹرن ٹائمز‘‘ خرید رہے ہیں تا کہ اس میں مشترکہ انتخاب کے اس فارمولے کے خلاف باقاعدہ مہم چلائی جاسکے۔ ۱۸ اقبال کے’’ ایسٹرن ٹائمز‘‘خرید نے کے متعلق افواہ کا ذکر سر شہاب الدین کے ایک خط بنام سر فضل حسین محررہ ۴؍ مئی ۱۹۳۳ء میں ملتا ہے ۔ جس میں لکھا ہے : میں سمجھتا ہو ںکہ ڈاکٹر اقبال ، مولوی فیروز الدین مالک ’’ایسٹرن ٹائمز‘‘سے اس اخبار کواپنی تحویل میں لینے کے لیے گفت و شنید کر رہے ہیں …چند دن ہوئے سردار حبیب اللہ میرے پاس آئے اور انہوں نے تجویز پیش کی کہ اگر ہم کہیں سے پچیس ہزار روپیہ اس اخبار کو چلانے کی خاطر اکٹھا کر لیں۔ تو یہ اخبار اقبال کی بجا ئے ہمیں مل سکتاہے ۔ کل ایک ریٹائرڈ مسلم سب جج مجھے ملنے آیا ۔ گفتگو کے دوران اس نے مجھے بتلایا کہ صرف ڈاکٹر اقبال ہی مسلم قوم کے قابل اعتماد اورمقبول لیڈر ہیں اور ان کے خلاف کسی اور کی بات سننے کے لیے کوئی تیار نہ ہوگا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ ڈاکٹراقبال کے علاوہ مسلمانوں کے تما م نام نہاد لیڈر خود غرض ہیں اور ان کا پنجاب کے مسلمانوں میں کوئی اثر و رسوخ نہیں ہے اور اگر ڈاکٹر اقبال مشترکہ انتخاب کے مخالف ہیں تو کوئی بھی انہیں قبول کرنے کو تیا رنہ ہوگا۔۱۹ عظیم حسین مزید تحریر کرتے ہیں کہ اقبال نے پنجاب فارمولے کے خلاف لندن میں سر آغاخان اور دیگر مسلم شخصیتوں کے نام تار بھی ارسال کیے اور جب اقبال کے زیر اثر آغا خان نے فارمولے پر تنقید کی تو سر فضل حسین نے اپنے ایک خط محرّرہ ۱۵جون ۱۹۳۳ء میں انہیں لکھا: آپ سوال کریں گے کہ اگر معاملہ اتنا صاف اور سیدھا ہے تو لاہور کے بعض حلقوں میں اتنی بے چینی کیوں پائی جاتی ہے اور اقبال لندن میں اور اخبارات کو تار کیوں بھیج رہے ہیں؟ بات یہ ہے کہ ہندوستانی سیاست میں انگریزی سیاست کی نقل اتاری جاتی ہے اور سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی سازش کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتیں۔ آنے والے انتخابات کے پیش نظر لاہور کے بعض لوگوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ سیاسی اصلاحات کے تحت بڑے بڑے زمینداروں یا اُن اشخاص نے جو اپنے پیشیوں میں نمایا ں حیثیت کے مالک ہیں ، یا پھر ممتاز خاندانو ں کے افراد نے فائدے اٹھائے ہیں اور یہ کہ شہر کے لوگ پیچھے دھکیل دیے گئے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ظفر اللہ خان جیسے گمنام آدمی کو آگے بڑھا کر میں نے اچھانہیں کیا ہے اسی لیے ان لوگوں نے اس مخالفت کی شکل اختیار کی ہے مجھے کوئی شبہ نہیں کہ یہ لوگ گمراہ ہوگئے ہیںاور کچھ زیادہ دن نہیں گزریں گے کہ انہیں پتا چل جائے گا کہ وہ ان مفادات کی خدمت نہیں کر رہے ہیںجو انہیںدل سے عزیز ہیں اور جہاں تک اقبال کا تعلق ہے یہ لوگ ان کے نادان دوست ہیں ، جو دانا دشمن سے بدتر ثابت ہوں گے۔۲۰ اس خط کی عبارت سے عظیم حسین یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ اقبال تو ایک سادہ لوح شخص تھے ، جن کی اپنی کوئی رائے نہ تھی۔ چنانچہ اپنے چند شہری دوستوں کے درغلانے پر اقبال نے پنجاب فارمولے کی مخالفت کی ، لیکن جب سر فضل حسین نے انہیں ایک خط میں فارمولے کی وضاحت کی یا اس کی تائید میں دلائل پیش کیے تو فارمولے کے متعلق اقبال کا رویّہ بدل گیا۲۱۔ بہرحال عظیم حسین کایہ کہنا کہ اقبال نے پنجاب فارمولے کی مخالفت ترک کردی تھی محض غلط بیانی ہے کیونکہ اقبا ل کے ایک اخباری بیان مورخہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۳۳ء سے ظاہر ہوتاہے کہ وہ شروع سے آخر تک فارمولے کے سخت مخالف تھے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں : یہ فارمولا پنجاب کے مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے۔ اس کے برعکس مختلف فرقوں کے مابین اَن دیکھے تنازعات کے سلسلے کا یہ ایک سرچشمہ بن جائے گا۔…یہ اسکیم (پنجاب فارمولا) شہری اور دیہاتی آبادیوں کے نقطۂ نظر سے نہایت قابل اعتراض ہے ۔ جب اس کو رو بہ عمل لایا جاہے گا۔ تو اس سے وہ دیہاتی طبقے بھی واجبی نمائندگی سے محروم ہوجائیں گے۔ جن کی اپنے حلقہ ہائے انتخاب میں اکثریت ہے۔ اس کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے اور ان تمام ممکنہ تنازعات کا جواس کی وجہ سے پیدا ہوں گے اندازہ لگانے کے بعد ، میرا یہ پختہ خیال ہے کہ یہ اسکیم ہر فرقے کے بہترین مفادات کے لیے نقصان رساں ہے۔۲۲ پنجاب فارمولے کے متعلق اقبال کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے محمد احمد خان تحریر کرتے ہیں: اس بیان سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ ڈاکٹر اقبال شروع سے آخر تک فضل حسین کے مجوزہ فارمولے کے خلاف تھے ۔ اس فارمولے سے متعلق اقبال کا یہ ردِّ عمل ان کے سابقہ طرزِ عمل بلکہ ان کے پورے سیاسی رول کے عین مطابق ہے ۔ ہم برابر یہی دیکھتے آ رہے ہیں کہ انہوں نے ہر موقع پر مشترکہ انتخاب کی مخالفت کی اور جداگانہ انتخاب کی ہر مرحلے پر حمایت کی اور اس کو مسلمانانِ ہند کے مطالبات کی اساس قرار دیا۔ ان کے نزدیک یہ محض نمائندگی کا ایک طریقہ کار نہ تھا ، بلکہ مسلمانوں کے جداگانہ قومی وجود کو برقرار رکھنے کا واحد وسیلہ تھا ۔ ۲۳ ہندوستان کے شمال مغرب میں سرحدی قبائل کے ساتھ انگریزی فوجیں عموماً برسر پیکار رہتی تھیں اور یہ جنگ کسی نہ کسی صورت میں قیا م پاکستان تک جاری رہی ۔ چونکہ یہ قبائل مسلمان تھے، اس لیے ہندوستان کے مسلمانوں کوان کے ساتھ ہمدردی تھی۔ اگست ۱۹۳۳ء میں انہیں زیر کرنے کی خاطر ان کی چھوٹی چھوٹی پہاڑی بستیو ںپر بے پناہ بمباری کی گئی۔ اس بمباری کے خلاف ہندوستان کے بعض شہروں میں مسلمانوں نے احتجاج کیا۔ لاہور میں بھی ایک احتجاجی جلسہ منعقد کرنے کا اہتمام کیاگیاتھا، لیکن یہ ملتوی ہوا۔ اس کے باوجود مسلمانوں کا مطالبہ انگریزی حکومت تک پہنچانے کی خاطر اقبال نے ۱۱اگست ۹۳۳اء کو ایک تار وائسرائے کو دیا، جس میں تحریر کیا کہ مسلمان پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ بمباری فوراً بند کردی جائے۔ اور امور متنازعہ کے تصفیے کے لیے پر امن طریقہ برتا جائے۔۲۴ اقبال نے سر فضل حسین کی سیاست کو کبھی بھی پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا اور ابتدائی دور ہی سے ان کے آپس میں اختلافات پیدا ہوگئے تھے، جو وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ وسیع ہوتے چلے گئے۔ ستمبر ۱۹۳۳ء میں سر فضل حسین نے کونسل آف سٹیٹ میں ایک بیان دیا جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو ہندوستان سے باہر مسلم ممالک کے مسلمانوںکے ساتھ اسلامی اخوت کی بنیادوں پر کسی قسم کا قومی رشتہ استوار کرنے سے روکا جائے۔ اور ان پر واضح کیا جائے کہ وہ صرف ہندوستانی ہیں اور اپنے آپ کو ہندوستانی سمجھتے ہوئے انہیںاپنے قدموں پر کھڑا ہونا چاہیے۔ نیز انہوں نے فرمایاکہ سیاسی طورپر پان اسلامزم کا کہیں بھی کوئی وجود نہیں اور اس کی بنا پر ہندی مسلمانوں کو ہندوستانی قوم کی حیثیت سے اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کے متعلق سوچنا چاہیئے ۔ اقبال سر فضل حسین کا مدعا خوب سمجھتے تھے، اس لیے انہوں نے بظاہر سرفضل حسین کے بیا ن کی وضاحت کی صورت میں اپنے ایک اخباری بیان مورخّہ ۱۹ ستمبر ۱۹۳۳ء میں الفاظ کچھ ایسی ترتیب سے استعمال کیے کہ سر فضل حسین کے بیان کی تائید کرتے ہوئے درحقیقت اس کی تردید کر دی ۔ آپ نے ارشادکیا: سر فضل حسین نے بالکل درست کہاکہ سیاسی طورپر پان اسلامز م کا کبھی بھی کوئی وجود نہ تھا اور اگر اس کا کوئی وجود تھابھی تو صرف ان لوگوں کے تخیل میں جنہوں نے یہ اصطلاح وضع کی یا شاید ترکی کے سلطان عبدالحمید خان کے ہاتھوں میں ایک سیاسی چاپلوسی کے ہتھیار کے طورپر ، یہاں تک جمال الدین افغانی نے بھی جن کا نام اس تحریک سے وابستہ کیاجاتا ہے ، جسے پا ن اسلامی تحریک کہتے ہیں، کبھی ایک سیاسی مملکت کی ہیٔت میں مسلمانوں کے اتّحاد کا خواب نہیں دیکھا۔ علاوہ ازیں کسی بھی اسلامی زبان ۔ عربی فارسی یا ترکی۔ میںایسا کوئی لفظ موجو د نہیں جو پا ن اسلامزم سے مطابقت رکھتا ہو، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اسلام بحیثیت ایک معاشرے کے یا انسانی نسلوں قوموں اور مذہبوں کی یگانگت کے حصول کے لیے ، ایک عملی اسکیم کے نسلی قومی یا جغرافیائی حدود کو تسلیم نہیں کرتا۔ پس ایسے انسا ن دوستی کے آئیڈیل کے اعتبار سے ’’پان اسلامزم ‘‘ یا صرف ’’اسلام ‘‘کا وجود یقینا ہے او ر ہمیشہ رہے گا۔ سر فضل حسین کا ہندی مسلمانوں کو یہ مشورہ کہ وہ ہندوستانی قوم کی حیثیت سے اپنے قدموں پر کھڑے ہوں، بالکل بجاہے اور بلاشبہ اسے مسلمان خوب سمجھتے اور پسند کرتے ہیں۔ مسلمانان ہندکو ، جو ایشیا کے دیگر ممالک کے تمام مسلمانوں سے تعداد میں زیادہ ہیں، اپنے آپ کو اسلام کا سب سے اہم معاون سمجھنا چاہیے او رایشیا کی دیگر مسلم اقوام کی طرح انہیں اپنی اجتماعی ذات میں ڈوب کر اپنے منتشر وسائلِ حیات کو اکٹھا کرنا چاہییٔ، تاکہ وہ سر فضل حسین کے مشورے کے عین مطابق اپنے قدموں پر کھڑے ہو سکیں۔۲۵ اس بیا ن کے تقریبا ایک ہفتے بعد یعنی ۲۸ ستمبر ۱۹۳۳ء کو اقبال نے اصطلاح پان اسلامزم کی مزید تشریح کے سلسلے میں ایک اور بیان دینا ضروری سمجھا، کیونکہ بقول ان کے ، بعض اشخاص کے دلوں میں ابھی تک غلط فہمیاں موجود تھیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ لفظ’’پان اسلامزم ‘‘ فرانسیسی صحافت کی اختراع ہے او ریہ لفظ ایسی مفروضہ سازش کے لیے استعمال کیا گیا تھا جو اس کے وضع کرنے والوں کے خیال کے مطابق مسلم ممالک یورپ کے خلاف کر رہے تھے۔ پان اسلامزم کا ہوّا کھڑا کرنے والوں کا منشا یہ تھاکہ اس کی آڑ میں یورپ کی چیرہ دستیاں جو مسلم ممالک میں جارہی تھیں، جائز قرار دی جائیں۔ اقبال نے فرمایا: سرفضل حسین نے جب یہ کہاکہ پا ن اسلامزم اگر کبھی موجود بھی تھا تو اب اس کی راکھ بھی اڑ چکی ہے لیکن گزشتہ دوہفتوں میں ہندوستانی اخبارات میں اس لفظ کو کئی معنی پہنائے گئے ہیں۔ اس لیے یہ بتا دینا ضروری ہے کہ پان اسلامزم سے اسلام کی عالمگیر سلطنت بہت مختلف ہے۔ اسلام ایک عالمگیر سلطنت کا یقینا منتظر ہے جو نسلی امتیازات سے بالاتر ہوگی اور جس میں شخصی اور مطلق العنان بادشاہتوں او رسرمایہ داروں کی گنجائش نہ ہوگی۔ دنیا کا تجربہ خود ایسی سلطنت پیدا کردے گا۔ غیر مسلموں کی نگاہ میں شاید یہ محض خواب ہو لیکن مسلمانوں کا یہ ایمان ہے۔ ایک مقامی ہندواخبار نے ہندوستان کے مسلمانوں کی باہمی اتحاد کی خواہش کا نام پا ن اسلامزم رکھاہے۔ یہ ایک اصطلا ح کا غلط استعمال ہے ، لیکن مسلمانوں کو اس بات کا اعلان کردینے میں ہرگز پس و پیش نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو منجملہ دیگر ہندوستانی اقوام کے ایک علیحٰدہ قوم خیال کرتے ہیں اور ایسا رہنے کے خواہشمند ہیں وہ اپنے آپ کو علیحدہ معاشرتی جماعت کی حیثیت سے قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ اور ایک علیحدہ اقلیت کی حیثیت سے اپنے حقوق کی حفاظت چاہتے ہیں۔ جو مسلمان قوم پرست کہلاتے ہیں ، انہوںنے بھی کبھی یہ نہیں کہا کہ مسلمانوں کواپنی علیٰحدہ تمدنی حیثیت چھوڑ دینا چاہیے اور اپنی قسمت کو ایسی طاقتوں کے رحم پر چھوڑدینا چاہیے جو ان کی علیحٰدہ ہستی مٹا دیں۔ اگر کوئی مسلمان سیاسی لیڈر اس کے برعکس خیال کرتاہے تو ا س نے اپنی قوم کے جذبات کا صحیح اندازہ نہیں کیا۔۲۶ اقبال کے ایک خط محررّہ ۲۹ مئی ۱۹۳۳ء بنا م عطیّہ فیضی سے معلوم ہوتاہے کہ ان کی خط و کتابت مفتی سید امین الحینی سے جاری تھی اور اقبال نے انہیں وسط اکتوبر ۱۹۳۳ء میں ہندوستان آنے کا مشورہ دیا تھا۔ مفتی سید امین الحسینی نے ان کے کہنے کے مطابق انہی ایام میں ہندوستان کا دورہ کیا اور اقبال نے مسئلہ فلسطین اور دیگر امور کے لیے چند ے کی فراہمی کے سلسلے میں ہر ممکن طریق سے ان کی امداد کی ۔ ۲۷ اس سے قبل ذکر کیاجاچکا ہے کہ افغانستان کے نادر شاہ سے اقبا ل کے دیرنیہ تعلقات تھے۔ اقبال نادر شاہ کو اس زمانے سے جانتے تھے، جب وہ جرنیل محمد نادر خان کی حیثیت سے پیرس میں افغانستان کے سفیر تھے۔ نادر شاہ بقول اقبال نصف پنجابی تھے، کیونکہ ان کی والدہ کی جائے ولادت لاہور تھی اور وہ لاہور ہی میں رہائش پذیر رہیں ۲۸ ۔ نادر شاہ خود بھی ڈیرہ دون کے پڑھے ہوئے تھے اور اردو بڑی اچھی بولتے تھے ۲۹ ،بلکہ اقبال کے ساتھ اردو ہی میں بات چیت کرتے تھے۔اقبال کی ملاقات نادر شاہ سے کب ہوئی ؟ اس کے متعلق وثوق سے کچھ نہیں کہاجاسکتا۔ البتہ یہ بات مشہور ہے کہ وہ پہلی مرتبہ ۱۹۲۹ء میں ایک دوسرے سے لاہور ریلوے اسٹیشن پر ملے، جب نادر شاہ افغانستان جاتے ہوئے یہاں رکے تھے۔ نادر شاہ کا قد زیادہ لمبا نہ تھا اور ویسے بھی وہ دبلے پتلے سے تھے۔ بیا ن کیا جاتاہے کہ نادرشاہ نے اقبال کو دیکھ کرکہا کہ میں تو سمجھتا تھاکہ آپ ایک لمبی چوڑی داڑھی والے بزرگ ہوں گے۔ اس پر اقبال نے جواب دیاکہ میراخیال بھی یہ تھا کہ آپ کوئی قوی ہیکل قسم کے پہلوان ہوںگے، بہر حال نہ تو شاعر اسلام ، نادرشاہ کی توقع کے مطابق نکلا اورنہ ہی غازیٔ اسلام کی صورت اس ذہنی تصویر سے مطابقت رکھتی تھی جو اقبال نے بنا رکھی تھی۔ اس کے بعد ایک روایت تویہ ہے کہ اقبال، نادرشاہ کو ایک طرف لے گئے اور انہیں بتایاکہ میں نے زندگی بھر میں دس ہزار کی ایک پونجی جمع کررکھی ہے ، میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنی مہم کے لیے اسے چندے کے طور پر قبول فرمالیں۔ نادرشاہ کو اگرچہ روپے کی ضرورت تھی، مگر انہوںنے اقبال کی پونجی لینے سے معذرت کردی۔ جب اقبال نے اصرار کیا تو یہ طے پایا کہ اقبال یہ روپیہ اپنے پاس رکھیں اور نادر شاہ کو جب اشد ضرورت پڑے گی وہ منگوالیں گے۔ نادرشاہ کو اس روپے کی ضرورت نہ پڑی۳۰۔دوسری روایت یہ ہے کہ گاڑی کی روانگی سے قبل اقبا ل نے نادر شاہ کو علیحٰدگی میں لے جا کر کہا : تم ایک بڑی مہم سر کرنے جارہے ہو۔ میں ایک فقیر آدمی ہو ں۔صرف دعاؤں ہی سے تمہاری خدمت کر سکتاہوں ۔ اتفاق سے اس وقت میرے پا س پانچ ہزار روپے موجود ہیں ۔ اگر یہ حقیر سی رقم تمہارے کسی کا م آسکے تو مجھے خوشی ہوگی۔ اس پر نادر شاہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انہوں نے فقیر کی اس دین کو نیک شگون سمجھتے ہوئے بڑے احترام سے قبول کرلیا۳۱ ۔ خدا جانے یہ روایتیں کہاں تک درست ہیں ۔ نادرشاہ نے افغانستان کی تباہ حالی کے متعلق ہندوستانیوں سے ہر قسم کی امدادو اعانت کی اپیل کر رکھی تھی اور راقم کی معلومات کے مطابق تو اقبال نے انہیں اپنی جیب سے پانچ سو روپے کی رقم پیش کی تھی جو انہوں نے اس وقت لوٹا دی۔ بعدمیں اقبا ل نے کئی طریقوں سے ان کی امداد جاری رکھی۔ نادرخان ہلال احمر فنڈ کھولا اور مالی امداد فراہم کرنے کے لیے سرمایہ اکٹھا کرنے کی غرض سے جلسے بھی منعقد کیے۔ یہ سب اس لیے کیاگیاکہ اقبال کے نزدیک افغانستان کی سا لمیت اور آزادی مسلمانانِ ہند اور وسطی ایشیا کی بقا کے لیے اشد ضروری تھی۔۳۲ ستمبر ۱۹۳۳ء میں نادر شاہ نے تعلیمی امور کے بارے میں مشورے کے لیے اقبال، سیدراس مسعود اور سید سلیمان ندوی کو افغانستان آنے کی دعوت دی ۔ تعلیمی مقاصد کے حصول کے سلسلے میں ہندوستان سے ان تین شخصیتوں کا انتخاب نہایت موز وں تھا، کیونکہ ان مین ایک تو مفکر تھا، دوسرا منتظم امور تعلیمی اور تیسرا عالم ۔ افغان قونصل جنرل کی خواہش تھی کہ وہ تینوں ۱۳اکتوبر ۱۹۳۳ء کو جشن استقلال کے موقع پر کا بل پہنچیں ، مگر اس قدر جلد پاسپورٹ تیار ہونے کا امکان نہ تھا۔ بالآخر ۱۷اکتوبر ۱۹۳۳ء کو اقبال اور سید راس مسعود کے پاسپورٹ مل گئے اور ان دونوں نے ۲۰اکتوبر ۱۹۳۳ء کولاہور سے پشاور روانگی کا پروگرام بنالیا۔ روانگی سے قبل ۱۹اکتوبر ۱۹۳۳ء کو اقبال نے ایک بیان میں اپنے سفر افغانستان کے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: تعلیم یافتہ افغانستان ، ہندوستان کا بہترین دوست ہوسکتاہے ۔ کابل میں ایک نئی یونیورسٹی کا قیام اور ہندوستان کی مغربی سرحد پر اسلامیہ کا لج پشاور کو ایک دوسری یونیورسٹی میں منتقل کرنے کی اسکیم ہندوستان او رافغانستان کے درمیان علاقے میں آباد ہوشیار افغان قبائل کی فلاح و بہبود کے لیے بہت زیادہ ممد ثابت ہوگی۔ شاہ افغانستان نے ہمیں اس لیے دعوت دی ہے کہ ہم وہاں وزیر تعلیم کو کابل میں یونیورسٹی کے قیام کے سلسلے میں مشورہ دیں۔ ہم نے اس دعوت کو قبول کرنااپنا فرض سمجھا۔ کابل میں شائع ہونے والے مختلف رسالوں سے پتا چلتاہے کہ افغانوں کی نئی نسل نئے علو م کی تحصیل اور انہیں اپنے دین و تمدن کے سانچے میں ڈھالنے کی بے حد خواہشمند ہے۔افغان فطرتاً بہت خلیق لوگ ہیں اور ہندوستانیوں کی حیثیت سے ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی ترقی میں ان کا ہاتھ بٹائیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ افغانوں میں ایک نئی بیداری پیدا ہورہی ہے اور ہمیں امید ہے کہ ہندوستان کے اندر تعلیمی تجربے کی روشنی میں ہم انہیں تعلیمی مسائل میں مفید مشورہ دے سکیں گے۔ میرے ذاتی خیال میں خالص سیکولر تعلیم سے خصوصًا مسلم ممالک میں اچھے نتائج درآمد نہیں ہوئے۔ بہر حا ل کسی نظام تعلیم کو قطعی نہیں کہا جا سکتا۔ ہر ملک کی اپنی ضروریا ت ہوتی ہیں اور ان ضروریات کی روشنی ہی میں اس کے نظا م تعلیم کا تعیّن کیاجاسکتاہے۔۳۳ اقبال اور سید راس مسعود پشاور میں ٹھہرتے ہوئے ۲۳اکتو بر ۱۹۳۳ء کو کا بل پہنچے اور انہیں کابل کی نئی آباد ی دارالامان کے شاہی مہما ن خانے میں ٹھہرایاگیا۔ سید راس مسعود کے ہمراہ پروفیسر ہادی حسن بطور سیکرٹری آئے تھے اوراقبال کے ساتھ سیکرٹری کی حیثیت سے غلام رسول خا ن بیرسٹر آئے تھے۳۴ ۔ علی بخش بھی ان کی خدمت کے لیے ہمراہ تھا۔ دو تین روز میں تعلیمی معاملات کے متعلق مشورے کے سلسلے میں چند اجلاس ہوئے جن میں اقبال سید راس مسعود اور حکومت افغانستان کے بعض سر کردہ نمائندوںے شرکت کی اور سید راس مسعود نے تمام کارروائی کے نوٹس بھی لیے، لیکن بد قسمتی سے ان حضرات کی تجاویز کا کوئی ریکارڈموجود نہیں ۔ کا بل میونسپلٹی نے ان کے لیے ایک دعوت چائے کا اہتمام کیا۳۵۔اقبال ، سرور خا ن گویا کی معیت میں بابر کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لیے بھی گئے ۔ بابر کا مقبرہ کابل سے باہر ایک ویران سی پہاڑی کے دامن میں ہے۔ چھوٹی سی عمارت ہے اور قبر پر ایک بے گنبد سقف سی کھڑی کی ہوئی ہے ۳۶ ۔ بعد ازاں اقبال اور سید راس مسعود کی ایک ملاقات نادرشاہ سے قصردلکشا میں ہوئی۔ اس ملاقات کے متعلق بیان کیا جاتاہے کہ اقبال نے نادر شاہ کو قرآن کریم کی ایک جلد تحفے کے طور پر دی۔ اسی دوران میں عصر کی نماز کا وقت آگیا او رنادر شاہ نے اقبال سے امامت کی درخواست کی مگر بقول ظہیر الدین ، اقبال نے کہا کہ : نادر! میں نے اپنی عمر کسی شاہ عادل کی اقتدا میں نماز پڑھنے کی تمنّا میں گزار دی ہے۔ آج جب کہ خدانے فقیر کی اس مراد کے پورا کرنے کے اسباب مہیا کردیے ہیں تو کیا تو مجھے اس نعمت سے محروم کرنا چاہتاہے ؟ آج میں تیری اقتدا میں نماز پڑھوں گا۔ امامت تجھ کو کرنی ہوگی۔۳۷ ۲۶ اکتوبر ۱۹۳۳ء کی رات کو سید سلیمان ندوی ان سے آملے۔ اس شب سردار ہاشم خان صدر اعظم کے ہاں کھانا تھا۔ سید سلیمان ندوی تحریر کرتے ہیں کہ سردار ہاشم خان ہندوستانی مہمانوں کو کھانے کے کمرے میں لے گئے۔ کھانا میزوں پر لگاتھا اور ہرچیز یورپین طریقے سے آراستہ تھی۔ میز پر مختلف قسم کی باتیں شروع ہوئیں۔ سرور خان گویا نے سید سلیمان ندوی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مولانا پوچھ رہے ہیں کہ افغانستان کے ارباب کمال کے حالات تورسالہ ’’کابل‘‘ میں شائع ہوتے رہتے ہیں ، لیکن جس شخص نے سب سے پہلے اہل کا بل کو اسلام کی دعوت دی ، اس کا ذکر ابھی تک نہیں کیاگیا۔ سب نے پوچھاکہ وہ کون بزرگ تھے؟ سید سلیمان ندوی نے بتایا، خراسا ن کے مقاتل بن حیان ، بعد ازاں سردار فیض محمد خان وزیر خارجہ نے افغانستان کی تاریخ پر گفتگو شروع کی اور پنجاب کی قدیم سلطنتوں اور افغانستان کے تعلقات کا ذ کر بڑی تفصیل کے ساتھ کیا۔ سید راس مسعود نے اپنے جاپان کے سفروں کی روئیدادسنائی او راقبال نے فلسفہ و سیاست کے مختلف پہلوؤں پر بحث کی ۔ ۳۸ کھانے سے فارغ ہوکر مہمان ملاقات کے پہلے کمرے میں اکٹھے ہوئے اورچائے، کافی، سگریٹ وغیرہ سے ان کی تواضع کی گئی ۔ سردار ہاشم خان نے دریافت کیا کہ گانا سننے میں کوئی حرج تو نہیں ہے ۔سید سلیمان ندوی نے فرمایا کہ بلاساز کوئی مضائقہ نہیں ، لیکن سردار ہاشم خا ن نے لفظ ساز کو سمجھے بغیرار شاد کیا۔ ہمارے یہاں رنڈی منڈی نہیں ہوتی، مردگاتے ہیں۔ اقبال نے ان کی تائید کی۔ اسی اثنا میں گویوں کا ایک دستہ آداب بجالا کر قالین پر بیٹھ گیا اور نغمہ طرازی شروع کی ۔ انہوں نے حافظ اور بیدل کی غزلیں سنائیں۔ رات کے گیارہ بجے تک محفل سماع گرم رہی۔ ۲۷ اکتوبر ۱۹۳۳ء جمعہ کا دن تھا۔ نادر شاہ معمول کے مطابق مختلف مسجدوں میں نماز جمعہ ادا کرنے جایا کرتے تھے، مگر اس روز شہر کی سب سے بڑی جامع مسجد پل خشتی میں نماز پڑھنے آرہے تھے۔ اقبال اپنے رفقا سمیت اسی مسجد میں نماز ادا کرنے کے لیے گئے۔ نمازی مسجد کے صدر دروازے سے لے کر محراب تک بھرے ہوئے تھے اور غریب مسلمانوں کی کمی نہ تھی ۔ منبر پر ایک مولوی فارسی میں وعظ فرما رہے تھے، مہمانوں کو مقصورہ یعنی مسجد کے اُس حفاظتی حصّے میں لے جایاگیاجوبادشاہ کے نماز پڑھنے کے لیے مخصوص تھا۔ تھوڑی دیر بعد نادر شاہ نہایت سادگی کے ساتھ مقصورہ میں داخل ہوئے اور مہمانوں سے مصافحہ کیا۔وعظ کے اختتام پر اذان کے بعد جب سب سنتیں پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو خطیب نے عربی زبان میں خطبہ شروع کیا۔ آخر میں جب خطیب نے شاہ غازی و مجاہد شاہ نادر خان کا نا م لیا تو نادر شاہ نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر تواضع کے طورپر اپنے سر کو جھکا دیا۔ خطبے کے بعد دوگانہ جمعہ اور اس کے بعد حسب معمول سنتیں ادا ہوئیں۔ دعاکے بعد نادر شاہ نے مہمانوں سے کہاکہ میں نے ابھی تک کھانا نہیںکھایا ہے اور اگر آپ لوگ پسندفرمائیںتو میرے ساتھ چل کر کھانا تناول کریں مگر دیگر ضروری کاموں کے سبب سب نے معذرت چاہی اور اس کے بعد نادر شاہ ان سے مل کر رخصت ہوئے۔ واپسی پر اقبال اور سید سلیمان ندوی کے ساتھ کار میں ایک اور شخص بیٹھ گئے جن سے چینی ترکستان کے متعلق باتیں ہوتی رہیں۔گفتگو کے دوران اقبال نے فرمایا: یورپ نے اپنی اس نئی ترقی میں اپنا سارا زور بحری طاقت پر صرف کیا اور ہر قسم کی تجارتی آمدورفت اور سیرو سیاحت کے راستے دریائی رکھے اور اپنے انہی جہازوں کے ذریعے سے مشرق کو مغرب سے ملادیا، لیکن اب یہ نظر آرہا ہے کہ ان بحری راستوں کی یہ حیثیت جلد فنا ہوجائے گی ۔ اب آئندہ مشرق وسطیٰ (سنٹرل ایشیا ) کا راستہ مشرق و مغرب کو ملائے گا اور تری کی بجائے خشکی کاراستہ اہمیت حاصل کرے گا۔ تجارتی قافلے اب موٹروں اور لاریوں ہوائی جہازوں اور ریلوں کے ذریعے مشرق و مغرب میں آئیں جائیں گے اور چونکہ یہ پورا راستہ اسلامی ملکوں سے ہوکر گزرے گا، اس لئے اس انقلاب سے ان اسلامی ملکوں میں عظیم الشان اقتصادی وسیاسی انقلاب رونماہوگا، اور اس وقت پہلے کی طرح پھر افغانستان کو دنیا کی شاہراہ بننے کا موقع ملے گا۔ اس لیے ابھی سے اس کی تیاری کرنی چاہیے ۔۳۹ کھانا سب نے دارالامان پہنچ کر سردار فیض محمدخان ، اللہ نواز خان اور سرور خان گویا کے ساتھ کھایا۔ چاربجے شام مجدّدی سلسلے کے روحانی پیشوا ملاشورباز ارنورالمشائخ سے ملاقات کا وقت مقرر تھا۔ مّلا شور بازار کا اصلی نا م فضل عمر تھا اور کابل شہر ، قبائل اور فوج میں بکثرت ان کے مرید تھے۔۱۹۱۸ء کی جنگ افغانستان میں وہ جرنیل محمد نادر خان کے ساتھ شریک جہاد رہ چکے تھے ،لیکن جب امان اللہ خان نے اصلاحات کے اجراء کے معاملے میں حد اعتدال سے تجاوز کیا تو وہ افغانستان چھوڑ کر ہندوستان آ گئے۔ محمد نادر خان کی کامیابی کے بعد وہ واپس افغانستان گئے اور انہیں وزیر عدالت مقرر کیاگیا۔ انہوںنے کچھ عرصے تک وزارت عدل کا کام انجا م دیا لیکن پھر اسے اپنی درویشی یا صوفیانہ مسلک کے خلاف تصور کرتے ہوئے عملاً اس سے دست کش ہوگئے۔ اقبال کے ساتھ سید سلیمان ندوی بھی انہیں ملنے کے لیے ان کی قیا م گاہ پر تشریف لے گئے۔ ملا شور بازار ایک بار اقبال سے لاہور میں مل چکے تھے۔ ان کا مکان ایک تنگ گلی کے اندر تھا اور ہر قسم کے تزک و احتشام اور ظاہری آراستگی سے خالی تھا۔ باہر نشست گاہ بھی نہ تھی۔ زنانہ مکان تھا۔ جہاں پردہ گرا کر ان لوگوں کو اندر جانے کی اجازت ملی۔انہیں ایک لمبے کمرے میں لے جایا گیا، جس میں ایک طرف ایک پلنگ اور باقی زمین پر سادہ فرش بچھا تھا۔ پلنگ پر ملاشور بازار تشریف رکھتے تھے۔ اقبال اور سید سلیمان ندوی فرش پر جاکر بیٹھ گئے۔ ملا شور بازار کے پاؤں میں کوئی تکلیف تھی، جس کے سبب وہ چلنے سے معذور تھے۔ ہندوستان کے حالات او ر افغانستان میں بچہ سقّہ کے ہنگامے کے متعلق باتیں ہوتی رہیں۔ چائے نوشی کے بعد انہوں نے اقبال کو خشک میوے(بادام اور انجیریں)تحفے کے طور پرپیش کیے۔ ملا شور بازار کی قیام گاہ سے اقبال اور سید سلیمان ندوی ، اللہ نواز خان کے مکان پر گئے، جہاں افغانستان میں مقیم برصغیر کے تقریبًاڈیڑھ سو باشندوں نے ان کے اعزاز میں دعوت چائے کا انتظام کررکھاتھا۔ سید راس مسعود وہیں پہنچ گئے۔ یہ دعوت باغ میں دی گئی تھی ، کسی نے باغ کا فوار ہ کھول دیا۔ چونکہ خاصی سردی تھی اور سید راس مسعود کو زکام تھا، اس لیے ان کے کہنے پر وہ بند کردیا گیا۔ اس موقع پر سردار فیض محمد خان نے برجستہ یہ شعر پڑھا: گوہر شہوار می سازو نثارِ قدمت ورنہ از فوارّہ مقصود دگر کے دارد آب پہلامصرع کسی اور شاعر کاتھا، لیکن دوسرا مصرع ان کا اپنا تھا۔ اقبال نے احباب کے اصرار پر پہلے مصرع میں تبدیلی کردی۔ مگر سید سلیمان ندوی کو پورا مصرع یادنہ رہ سکا۔ فرماتے ہیں کہ شاید یوںتھا ؎ …می شمارد قدر احسانِ شما ورنہ از فوارہ مقصودِ دگر کے دارد آب چائے سے فراغت کے بعد تصویریں اتاری گئیں اور تقریریں ہوئیں۔ میزبانوں کی طرف سے مولانا محمد بشیر نے مہمانوں کا خیر مقدم کیا اور انہیں مدعو کرنے پر حکومت افغانستان کا شکریہ ادا کیا۔ نیز ہندوستان کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ مایوسی کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ مصیبت کے بعد راحت آتی ہے۔مہمانوں کی طرف سے سیّد سلیمان ندوی نے تقریر کی اور کہاکہ تاریخ میں ہندوستان نے افغانستان کے معاملے میں کئی دفعہ گناہ کا ارتکاب کیاہے اور اب وقت ہے کہ ہمارے بھائی اپنے حسن خدمت سے ان گناہوں کا کفارہ ادا کریں۔ اس کے بعد اقبال نے ایک مختصر سی تقریر کی اور اسی پر جلسہ برخاست ہوا۔ ۲۸ اکتوبر ۱۹۳۳ء کو سردار محمد ہاشم خان صدر اعظم مہمانوں کو ملنے کے لیے شاہی مہمان خانے میں آئے اور دیر تک باتیں کرتے رہے۔ سید راس مسعود نے معدنیات اور سڑکوں کی تعمیر کی اہمیت کا ذکر کیااور اسی طرح اقبال نے بھی افغانستان میں سڑکوں کی تعمیر پر زور دیا اور فرمایاکہ آئندہ تجارتی آمدورفت کے سلسلے میں وسطیٰ ایشیا اور افغانستان کی مرکزیت یقینی ہے ۔ سردار محمد ہاشم خان نے کھانا ان کے ساتھ کھایا۔ سردار فیض محمد خان وزیر خارجہ اور اللہ نواز خان تقربیًا ہر روز انہیں ملنے کے لیے آتے تھے اور افغانستان کے انتظامی و تعلیمی امور پر گفتگو ہوتی تھی۔ اقبال اور سید راس مسعود تو ایک مرتبہ اکٹھے نادر شاہ سے قصر دلکشا میں مل آئے تھے۔ سیدسلیمان ندوی بھی ان سے ملاقات کی خاطر قصر دلکشا گئے ۔ نادرشاہ نے زیادہ گفتگو اردو میں کی اور انہیں یہ بھی بتایا کہ وہ ’’معارف ‘‘ کو ہمیشہ پڑھتے ہیں۔ سید سلیمان ندوی نے مسئلہ تعلیم کے متعلق انہیں اپنے خیالات سے آگاہ کیا اور نوجوان افغانوں میں مذہبی شیفتگی و پابندی کے فروغ کے سلسلے میں کابل میں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ جیسی درسگاہ کے قیام کا مشورہ دیا۔ نادر شاہ نے آخر میں ان سے گذارش کی کہ وہ ہنددستان جاکر مسلمانوں کو یہ پیغام پہنچا دیں کہ آج ہم کو اور ان کو اتفاق اور اتحاد کی سب سے زیادہ ضرورت ہے اور ایک دوسرے پر نکتہ چینی کی بجائے ایک دوسرے کی حالت کو درست کرنے میں معاونت کی جائے تو بہتر ہے۔ پھر فرمایا: میری کوشش ہے کہ افغانستان میں دین و دنیا کو جمع کردوں اور ایک ایسے اسلامی ملک کا نمونہ پیش کروں ، جس میں قدیم اسلام اور جدید تمدن کے محاسن یکجا ہوں …میں دین و ملّت کا خاد م ہوں اور افغانستان کو صرف افغانوں کا ملک نہیں بلکہ مسلمانوں کا ملک سمجھتا ہوں اور چاہتاہوں کہ ہمارے مسلمان بھائی بھی اس کو اپنا ملک سمجھیں…میرے بھائیوں کو کہہ دیجییٔ گا کہ دنیا میں ایک نئے انقلاب کا مواد تیار ہورہا ہے۔ ضرورت ہے کہ مسلمان اپنی تعدادی ، اقتصادی اور تعلیمی استعداداس کے لیے پہلے سے تیار کرلیں۴۰۔ سید سلیمان ندوی، نادر شاہ کی شخصیت کے بارے میںاپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ نہایت شیریں اخلاق ، منکسر مزاج ، پُر محبت او ررقیق القلب تھے۔ اور ان کی آنکھیں مولانا محمد علی کی طرح اشکباری کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی تھیں۔۴۱ اسی روز یعنی ۲۸ اکتوبر ۱۹۳۳ء کو چار بجے شام شاہ محمود خان وزیر جنگ کے ہاں چائے کی دعوت تھی، جس میں چیدہ چیدہ حضرات بلائے گئے تھے ۔ چائے پر مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔ سید سلیمان ندوی نے افغانستان میں مذہبی عربی تعلیم کے متعلق اپنی اسکیم کا ذکر تفصیل کے ساتھ کیا۔ ساڑھے سات بجے رات کابل کی انجمن ادبی یا یہاں کی رائل اکادمی نے ان کے اعزاز میںکابل ہوٹل میں ڈنر کا انتظام کیا ہوا تھا ۔ سو سب کابل ہوٹل پہنچے۔ ادبی انجمن سے منسلک کابل کے ارباب علم ، اہل قلم اور تعلیم یافتہ نوجوان یہاں موجود تھے۔ انجمن کے سیکرٹری شہزادہ احمد علی خان درانی تھے جو اسلامیہ کالج لاہور کے تعلیم یافتہ تھے اور شاہی سیکرٹیریٹ میں ایک معزز عہدے پر فائز تھے۔ یہی انجمن ماہنامہ ’’کابل‘‘ بقول سید سلیمان ندوی، بہت آب و تاب سے شائع کرتی تھی۔اوراقبال کے قیام کا بل کے دوران میں اس ماہنامے میں ایک نظم بعنوا ن’’پیام اقبال بملّت کوہسار ‘‘بھی چھپی تھی۔۴۲ جب سارے مہمان تشریف لے آئے تو صدر انجمن نے فارسی میںخطبۂ استقبالیہ پڑھا، جس میں ہندوستان کے فضلاء اور سخنوروں کی تعریف و توصیف کے بعد اقبال کی علمی خدمات کا تذکرہ ان الفاظ میں کیاگیاتھا: ان کے قیمتی آثار و تالیفات جن میں سے ہر ایک نے اخلاق ، سعی وعمل ، اجتماع ، جذبات شرق ودوستی او راحساساتِ اسلام پرستی کی ، اہل ایشیاکے جسموں میں روح پھونکی ہے۔ ۴۳ خطبٔہ استقبالیہ کے بعد افغانستان کے معروف شاعر عبداللہ خان نے مہانوں کے اعزاز میں ایک طویل نظم پڑھی، جس میں بہت سے اشعار اقبال سے متعلق تھے۔۴۴ پھر مہمانو ں کی طرف سے پروفیسر ہادی حسن نے فارسی میں تقریر کی۔ بعدازاں سید راس مسعود اٹھے اور اپنی برجستہ تقریر میں سید سلیمان ندوی کا بحیثیت عالم ذکر کرنے کے بعد اقبال کے متعلق فرمایا: میرے معزز دوست علامہ اقبال اس گروہ کے نمائندے ہیں،جس نے قدیم و جدید عناصر کو ملاکر ان سے ایک روح پر ورمعجون تیار کیا ہے ۔ میں نہ تو علماء کی جماعت سے ہوں اور نہ ہی شعر اء کے فرقہ سے، بلکہ میں نے اپنی تعلیم کا دور زیادہ تر یورپ کے ممالک میں ختم کیا ہے، لیکن میرادل ان دونوں گروہوں کی عظمت ِ احترام سے سرشار اور لبریزہے…افغانستان کے نوجوانوں کو چاہیے کہ سفید بال والوں کی عزت و احترام کا ہروقت خیال رکھیں، ایسانہ ہوکہ اختلاف رائے سے ان کی قومی وحدت میں رخنہ پیدا ہوجائے۔ تاریخ شہادت دیتی ہے کہ مسلمانوں کے تمام نقصانات آپس میںنفاق اور تفرقہ کا نتیجہ رہے ہیں۔۴۵ سید سلیمان ندوی نے اپنی جوابی تقریر میںارشاد کیا: سیاسی حالات ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں اور سیاسی تعلقات ٹوٹتے اور جڑتے رہتے ہیں،لیکن علمی اور ادبی تعلقات دائم اور برقرار رہتے ہیں، سلطان محمود غزنوی کی تلوار عرصہ ہوا کہ ٹوٹ گئی اور اس کی فتوحات کے اوراق صدیوں میںبکھر گئے لیکن حکیم سنائی غزنوی کا قلم اب تک باقی اور موجود ہے اور ان کی ادبی فتوحات کے اوراق کا شیرازہ اب تک منتشر نہیں ہواہے…اہل سیاست کو ان کی شعبدہ بازیوں میں مصروف رہنے دیجیے ۔ اور آئیے کہ ہم علم وفن کے نام سے پیمان محبت و دوستی کو تازہ اور عہد رفاقت و آشنائی کو مستحکم کریں اور ہم دونوں اپنے اپنے وطن کے اندر رہ کر علم و ادب کے ایک جدید مشرق کی تعمیر میں دوش بدوش کا م کریں۔۴۶ سید سلیمان ندوی کے بعد اقبال نے تقریر کی جو بہت پر اثر ثابت ہوئی ،فرمایا: میرا عقیدہ ہے کہ آرٹ یعنی ادبیات یا شاعری یا مصوّری یا موسیقی یا معماری ، ان میں سے ہر ایک زندگی کا معاون اور خدمت گار ہے۔ اسی بنا پر میں آرٹ کو ایجاد و اختراع سمجھتا ہوں نہ کہ محض آلۂ تفریح۔ شاعر قوم کی زندگی کی بنیاد کو آباد بھی کر سکتا ہے اور برباد بھی ۔ اس وقت جبکہ حکومت یہ کوشش کررہی ہے کہ موجودہ زمانے میں افغانستان کی تاریخ ایک نئی زندگی کے میدان میں داخل ہوتو اس ملک کے شعراء پر لاز م ہے کہ وہ نوجوان قوم کے سچے رہنما بنیں۔ زندگی کی عظمت اوربزرگی کی بجائے موت کو زیادہ بڑھا کر نہ دکھائیں، کیونکہ جب آرٹ موت کا نقشہ کھینچتا ہے ، اور اس کو بڑھا چڑھا کر دکھاتاہے۔ تو اس وقت و ہ سخت خوفناک اور برباد کن ہوجاتا ہے۔ اور جو حسن قوت سے خالی ہووہ محض پیام موت ہے: دلبری بے قاہری جادوگری است دلبری باقاہری پیغمبری است …شعر کا کمال بعض اوقات لوگوں پر برا اثر مرتب کرتاہے ۔ کسی قوم کی زندگی کی موقوف علیہ چیزیںمحض شکل و صورت نہیں ہیں۔ بلکہ جو چیز حقیقتًا قوم کی زندگی کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ وہ تخیل ہے جس کو شاعر قوم کے سامنے پیش کرتاہے اور وہ بلند نظریات ہیں ۔ جن کو وہ اپنی قوم میں پیدا کرنا چاہتا ہے۔ قومیں شعراء کی دستگیری سے پیدا ہوتی ہیں اور اہل سیاست کی پامردی سے نشوونما پا کر مرجاتی ہیں۔ پس میری خواہش یہ ہے کہ افغانستان کے شعراء اور انشاپرداز اپنے ہم عصروں میں ایسی روح پھونکیں جس سے وہ اپنے آپ کو پہچان سکیں۔ جو قوم ترقی کے راستے پر چل رہی ہے ، اس کی انانیت خاص تربیت کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے، مگر وہ تربیت جس کا خمیر احتیاط کے ساتھ اٹھایا جائے۔ پس اس انجمن کا کا م یہ ہے کہ نوجوانوں کے افکار کو ادبیات کے ذریعے سے متشکل کرے اور ان کو ایسی روحانی صحت بخشے کہ وہ بالآخر اپنی خودی کو پاکر اور قابلیت بہم پہنچاکر پکار اٹھیں: دودستہ تیغم و گردوں برہنہ ساخت مرا فساں کشیدہ بروئے زمانہ آخت مرا من آن جہان خیالم کہ فطرت ازلی جہان بلبل و گل راشکست و ساخت مرا نفس بہ سینہ گدازم کہ طائر حرمم تواں ز گرمئی آواز من شناخت مرا میں ایک نکتہ اور بھی کہنا چاہتاہوں ۔ مسولینی نے ایک اچھا نظریہ قائم کیاہے کہ اٹلی کو چاہیے کہ اپنی نجات حاصل کرنے کے لیے ایک کروڑپتی کو پیدا کرے جو اس ملک کے گریبان کو اینگلو سیکسن اقوام کے قرضے سے نجات دلاسکے یا کسی دوسرے دانتے کو پیدا کرے جونئی جنت پیش کرے ، یا کسی نئے کولمبس کو پیدا کرے جو ایک نئے براعظم کا پتا لگائے، اگر آپ مجھ سے دریافت کریں تو میں کہوں گا کہ افغانستان کو ایسے مرد کی ضرورت ہے جو اس ملک کو قبائلی زندگی سے نکال کر وحدت ملی کی زندگی سے آشنا کرسکے۔ ۴۷ تقریروں کے بعد کھانا کھایاگیا۔ کھانے سے فراغت کے بعد مجلس کچھ مدت تک قائم رہی۔ مہمانوں کی تواضع بھنے ہوئے بادام اور پستے سے کی گئی ۔ چائے کے دور چلے جو بمطابق رواج پہلی پیالی میٹھی او رپھر دوسری پیالیاں بے شکر یا تلخ پر مشتمل تھیں۔ اقبال کا حقّہ ا ن کا رفیق سفر تھا او روہ اسے دعوت میں بھی اپنے ساتھ لائے ہوئے تھے۔ رات گئے دارالامان واپس آئے۔ ۲۹ اکتوبر ۱۹۳۳ء کی شام کو اقبال دوسری او رآخری بار سردار فیض محمد خان وزیر خارجہ کی معیت میں نادر شاہ سے ملنے کے لیے قصر دلکشا گئے۔ اس ملاقات پر کیا گفتگو ہوئی؟ اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ اقبال کے رفقاء کابل سے اٹھارہ میل دور پغمان کی سیر کے لیے چلے گئے۔ رات کو کئی لو گ رخصتانہ ملاقات کے لیے آئے۔ کیونکہ اگلے روز اقبال ، سید راس مسعود اور سید سلیمان ندوی کی کابل سے غزنین کو روانگی تھی۔۴۸ سو ۳۰ اکتوبر ۱۹۳۳ء کو صبح آٹھ بجے وہ سرور خا ن گویا کی معیت میں غزنین روانہ ہوئے۔ حکومت افغانستان نے مہمانوں کے قیا م و انتظا م کے لیے متوقع رہائش گاہوں میں احکا م بھجوا رکھے تھے۔ سواری اور بار برداری کے لیے دو موٹروں اور دولاریوں کابندوبست کیاگیاتھا۔ ایک موٹر میں اقبال، سید سلیمان ندوی اور غلام رسول بیرسٹر اور دوسری میں سید راس مسعود، پروفیسر ہادی حسن، سرور خان گویا اور عبدالمجید نمائندہ سفارت خانہ افغانستان دہلی سوار تھے۔ ایک لاری کھانے کے ساما ن اور کھانا پکانے او رکھلانے والے ملازموں کے لیے تھی اور دوسری لاری میں مہمانوں کا سامان و اسباب تھا۔ اس کے علاوہ مہمانوں کی حفاظت کے لیے دس بارہ سپاہی او ران کے افسر بھی انہی لاریوں پر سوار تھے۔ کابل سے غزنین بیاسی میل ہے۔ راستہ بہت حد تک صاف تھا اور سٹرکیں اچھی حالت میں تھیں ۔ زمین زیادہ تر ہموار تھی۔ گو دور دور پہاڑبھی نظر آتے تھے۔ موٹریںایک بجے دوپہر غزنین پہنچ گئیں۔ مہمانوں کو سرکاری مہمان خانے میں اتارا گیا، لیکن پہلے سب بازار کی سیر کو گئے اور مسلم ، ہندو او رسکھ دکانداروں سے ملے۔ واپس آکر کھانا کھایا۔ کچھ دیر آرام کیا ۔ اور پھر چاربجے شام غز نین کے مزارات اور بقیہّ عمارات کی زیارت کو نکلے۔ پرانا غزنین جسے علأ الدین جہانسوز نے جلا کر خاک سیاہ کردیا تھا، اس کا اب نا م ونشان بھی باقی نہیں۔ علاء الدین نے غرنین پر قبضے کے بعد قتل عام کا حکم دیاتھا او رشہر کو آگ لگادی تھی۔ شہر سات دن تک لگا تا ر جلتا رہا۔ تاریخ کی کتب میں درج ہے کہ جب شہر میں قتل عام ہورہا تھا اور عمارتیں جل کر خاک ہورہی تھیں تو علاء الدین جو تیغ زن کے ساتھ سخنور بھی تھا، مجلس عشرت میں بیٹھا قوالوں کی زبان سے اپنا فخریہ سن رہا تھا: جہاں داند کہ من شاہ جہانم چراغ دودۂ عباسیانم علاء الدین حسین بن حسینم کہ دائم باد ملک خاندانم نیاغزنین احمد شاہ ابدالی کے جانشین تیمور شاہ نے تعمیر کرایاتھا، جو دراصل مٹی کا ایک بلند حصار ہے، جس کے اندر موجودہ شہر آباد ہے ۔ قدیم غزنین جوسلطان محمود کا پایۂ تخت تھا، اس سے چند میل دورہے۔ موجودہ شہر کی دوسری سمت غزنین کا پراناقبرستان او ربعض کھنڈرہیں۔ شاہی عمارتوں میں صرف چند مینار کھڑے نظر آتے ہیں۔ مزارات میں جو باقی رہ گئے ہیں وہ حکیم سنائی،سلطان محمود ، سلطان مسعود، سلطان ابراہیم ، حکیم بہلول دانا اور غالباً بعض دوسرے بزرگوں کے ہیں۔غزنین کے آثار قدیمہ کی سیر کے واسطے سرور خان گویانے ایک نوے سالہ بزرگ ملاقربان کو بلایاجو غزنین کے کونے کونے او رگوشے گوشے سے واقف تھے اور بقول سید سلیمان ندوی، اس خضر کی رہنمائی میں وہ قدیم غزنین کی سیر کو نکلے۔۴۹ اقبال ، حکیم سنائی کے مزار کی زیارت کے لیے بے تاب تھے۔ اس لیے وہ رفقا سمیت مہمان خانے سے پیدل ہی نکل کھڑے ہوئے۔ مقبرہ قریب ہی ایک چھوٹے سے احاطے کے اندر تھا۔ قبر پختہ تھی اور اوپر گنبد تھا۔ اندر جانے کے لیے ایک چھوٹا سا دروازہ تھا۔ سب اندر داخل ہوئے اور مسنون دعا پڑھی۔ سید سلیمان ندوی تحریر کرتے ہیں: حکیم سنائی کی جلالتِ شان سے کون واقف نہیں۔ ہم سب اس منظر سے متاثر تھے،مگر ہم میں سب سے زیادہ اثر ڈاکٹر اقبال پر تھا۔ وہ حکیم ممدوح کے سرہانے کھڑے ہو کر بے اختیار ہوگئے او ردیر تک زور زور سے روتے رہے۔۵۰ سید سلیمان ندوی کے بیان کے مطابق فقیروں کے جھونپڑے سے نکل کر قافلے نے قریب کھڑی موٹروں میں بادشاہوں کے محل یعنی سلطان محمود کے مزار کا رُخ کیا ۔ رستے میں ملا قربان کی نشاندہی پر مختلف ٹیلوں پر انہوں نے بہلول دانا ، سلطان ابراہیم اور سلطان محمود کے والد سلطان سبکتگین کے مزار دیکھے۔ سلطان محمود کا مزار ایک چھوٹے سے باغ میںہے۔ سب اندر داخل ہوئے۔ سید سلیمان ندوی تحریر کرتے ہیں: اندر داخل ہوئے تو سلطان کی قبرنظر آئی ۔ آہ! یہ اس سلطان کی قبر ہے جو دیوار چین سے لیکرسومنات گجرات تک کے ملکوں پر فرمانرواتھا۔ جس کی ہیبت و جلالت سے بڑے بڑے گردن کش سر اطاعت جھکا دیتے تھے…آج وہ سلطان کس بیکسی وبیچارگی کے عالم میں ایک سنسان باغ کے اندر یکہ وتنہا بسترِ خاک پر دراز ہے۔۵۱ سلطان محمود کے مزار سے واپسی پر اقبال کو لاہور کی مناسبت سے حضرت علی ہجویریؒ یعنی حضرت داتا گنج بخش کے والد ماجد کے مزا رکی تلاش ہوئی۔ مّلا قربان نے بتایا کہ انہیں مزار کا علم ہے۔ چنانچہ اقبال کی ہدایت پر مّلا قربان نے قدیم غزنین کے ویرانوں میں قبر تلاش کی اور اقبال دعائے مسنونہ پڑھ کر وہاں سے لوٹے ۔ بعد ازاں مّلا قربان سب کو مجذوب فقیرلائے خوار کی تربت پر لے گئے جو بازار کی ایک گلی کے اندر تھی۔ لائے خوارکے متعلق مشہور ہے کہ اس نے حکیم سنائی کو دیکھ کر حقارت سے کہاتھاکہ سنائی سے بڑھ کربے وقوف کون ہوگا جو اپنے ہی جیسے انسانوں کی مدح و ستائش میں خرافات نظم کرتاہے اور ان کو جا کر سناتاہے۔ مجذوب کے اس فقرے سے حکیم سنائی بے حد متاثر ہوئے اور توبہ کی ۔ شام کو ان سب مقامات کی زیارت کے بعد اقبال اور ان کے رفقا مہمان خانے میں پہنچے ۔ سردی خاصی تھی اس لیے انگیٹھیاں جلانی پڑیں۔ رات بقول سید سلیمان ندوی، سلطان محمود کے غزنین میں بسر کی۔ ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۳۳ء کو صبح آٹھ بجے غزنین سے آگے روانہ ہوئے او رنوے میل کا فاصلہ طے کرکے گیارہ بجے دوپہر کو مقر پہنچے۔ افغانوں کے نزدیک مقر دراصل پرانا تاریخی شہرب بیہق ہے۔ مقامی سرکاری افسروں کو مہمانوں کی آمد کی اطلاع پہلے ہی سے تھی۔سو جونہی موٹریں رکیں، انہیںاعزازی سلامی دی گئی۔ سرکاری مہمان خانہ کی دومنزلہ عمارت میں کھانا کھایا او رکچھ دیر آرام کیا۔ اس کے بعد ایک بجے موٹروں نے قلات غلزئی کی سمت حرکت کی اور چار بجے شام وہاں پہنچے۔ تیز ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ کیونکہ قلات غلزئی کابل سے دوہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ رات مہمان خانہ میںکٹی۔ یکم نومبر ۱۹۳۳ء کو صبح آٹھ بجے ناشتا کے بعد پھر سفر شروع ہوا۔ سردی کا وہی عالم تھا۔ تقربیًا بارہ بجے قندھار پہنچے ۔ یہاں موسم نسبتًا گرم تھا۔ شاہی قیا م گاہ میں اترے شہرکے بعض ممتاز افراد ملاقات کے لیے آئے۔ ان میں قابل ذکر عبدالحیٔ خان تھے جو قندھار میں وزارت خارجہ افغانستان کے نمائندے ، یہاں کی ادبی انجمن کے ناظم اور پشتو رسالہ ’’طلو ع افغان‘‘ کے مدیر تھے۔ وہ سندھ اور کراچی میں مقیم رہ چکے تھے۔ اس لیے اردو خاصی روانی سے بولتے تھے۔ وہ اس تحریک کے ، کہ افغانوں کی قومی زبان پشتوکو ترقی دے کر تعلیمی، علمی وسرکاری زبان بنایا جائے، علمبردار تھے۔ انہوں نے آتے ہی اقبال کے ساتھ اس موضوع پر بحث شروع کی۔ اقبال نے زبانوں کی نشوونما اور ترقی کے اصولوں پر اظہار خیال کیا اور اس بات پر زور دیا کہ زبان ایک قوم کے مختلف افراد کی باہم پیوستگی کا سب سے ضروری اور موثرذریعہ ہے لیکن اگر اس تحریک سے قوم میں اتحاد کی بجائے اختلاف رونما ہونے کا اندیشہ ہوتو وہ پیوستگی کا پیغام ہونے کی جگہ نزاعات اور اختلافات کا ترانۂ جنگ ہے۔ ابھی گفتگو جاری تھی کہ گورنر قندھار اپنے عملے سمیت مہمانوں کی ملاقات کے لیے تشریف لائے اور دیر تک مختلف امورپر باتیں کرتے رہے۔ چاربجے شام کے قریب جب ملنے والے رخصت ہوگئے تو وہ قندھار کی سیر کے لیے نکلے ۔ خرقہ شریف کی زیارت گاہ اور احمد شاہ ابدالی کا مقبرہ قریب ہی تھا۔ اس لیے قیام گاہ سے پیدل ہی روانہ ہوئے اور موٹروں کو مقبرے کے دروازے پر لے جانے کی ہدایت کی ۔ پہلے خرقہ شریف کی زیارت کی۔ اس کے متعلق مشہور ہے کہ یہاں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ملبوس اقدس ہے۔ غالباً احمد شاہ ابدالی بخارا سے حاصل کرکے بڑے ادب و احترام سے اپنے دارالسلطنت لایا تھا اور اس نے قصر شاہی کے پا س ہی اس کے لیے خصوصی عمارت تعمیر کرائی تھی۔ یہاں سے فراغت کے بعد سلطان احمد شاہ ابدالی کے مقبرے پر گئے۔ احمد شاہ ابدالی دیندار، انصاف پسند ا ورپُرجوش مجاہد تھے اور تاریخ اسلام کے آخری حصے میں اس کی شخصیت بہت نمایاں ہے۔ قبر پر عظیم الشان مقبرہ اس کے بڑے فرزند تیمور شاہ نے بنوایا۔ افغانوں میں اس مقبرے کا اس قدر احترام تھاکہ خونی مجرم بھی اگر بھاگ کر اس میں پناہ لیتا تو امان پاتا۔ قبر کے سرہانے قدرے بلندی پر قرآن مجید کا وہ نسخہ رکھا تھاجو خاص احمد شاہ ابدالی کی تلاوت کا تھا۔ مقبرے سے نکل کر وہ سب موٹروں پر سوار ہوئے اور قندھار کا سب سے دلکش طبعی منظر ازغنداب دیکھنے کے لیے روانہ ہوئے۔ موٹریں ایک پہاڑ ی پر چڑھیںاور تنگ تر مقام پر پہنچ کر رک گئیں۔ یہاں سے اترکر پیدل چلے اور پھر ایک کشادہ مقام پر آگئے۔ اب وہ قندھار کے سب سے بلند مقام پر کھڑے تھے۔ نیچے میدان میں دریاے ارغنداب بہہ رہاتھا،جس کے تھوڑے فاصلے پر دو تین ندیاں بہہ رہی تھیں۔ ان کے کناروں کے برابر تیس میل تک انار اور دوسرے میووں کے باغ درباغ کاسلسلہ نگاہ کے سامنے تھا۔ اس بلندی کے قریب ہی باباولی قندھاری کامزار ہے جہاں پر سب نے فاتحہ پڑھی ۔ واپسی پر ایک اونچی پہاڑی دیکھی جس کی قدرتی شکل ایسی تھی ۔ جیسے سیکڑوں گز لمبا چوڑا ہاتھی سامنے بیٹھا ہوا۔ پہاڑی سے اترکر قندھار کی دوسری سمت میں گئے اور ایک اور پہاڑی پر پہنچے جس کی چوٹی پر بابر نے اپنی ہندی فتوحات کا کتبہ نصب کرایاتھا۔ حکومت افغانستان نے اس پہاڑی تک سٹرک بنادی ہے اور دامن سے پہاڑی کی چوٹی تک پہنچنے کے لیے پتھر کاٹ کر زینے بنائے گئے ہیں۔ جن کی تعداد چالیس مشہور ہے، اس لیے اسے چہل زینہ کہاجاتاہے ۔ صرف سید سلیمان ندوی اور پروفیسر ہادی حسن پہاڑی پر چڑھے۔ ۵۲ چہل زینہ سے واپسی پر مغرب کا وقت ہوگیاتھا۔ انہوں نے سڑک کے ساتھ اس کے پہلو بہ پہلو پتلی سی نہریں ہر طرف رواں دیکھیں ۔ سید سلیمان ندوی تحریر کرتے ہیں: اسلامیت کایہ کس درجہ پر ُاثر منظر تھا کہ ہر راہرو، ہر مسافر ، ہر دکاندار ، جس کا جہاں موقع تھا اس نہرِرواں پر بیٹھ کر وضو کررہاتھا، اور چادر بچھا بچھا کر اگر جماعت کی صورت نہ تھی تو تنہا کھڑا روبقبلہ نماز ادا کررہاتھا۔ بیچ بیچ میں ایسے چبوترے بھی ملے، جن پر نماز باجماعت ادا ہورہی تھی ۔آباد مسجدیں بھی ملیں۔بازار پر گزر ہواتو دیکھا کہ دکاندار سے لے کر خریدار تک نہر پر وضو کررہاتھایا مصروف نماز تھاکوئی اپنی دکان ہی پر اور کوئی دکان سے نیچے کپڑا بچھا کر کھڑا تھا۔ یہ روح پر ور نظارہ قندھار کے سوا اس ملک میں مجھ کو اور کہیں نظر نہیں آیا۔۵۳ سیدراس مسعود کو واپسی کی سخت جلدی تھی اور وہ رات ہی کو قندھار سے رخصت ہو کر چمن پہنچنا چاہتے تھے تاکہ کوئٹہ سے دوپہر کی گاڑی پکڑ کر جلد سے جلد علی گڑھ پہنچ جائیں۔ اتفاق سے قندھار میں انگریز ی حکومت ہند کی طرف سے قونصل سیّد صدیق حسن تھے، جو اقبال کے پرانے دوست سیدغلام بھیک نیرنگ کے بھائی تھے۔ وہ عصر کے وقت انہیں ملنے آئے اور سید راس مسعود نے ان سے اپنے سفر کی مشکل کے حل کرنے میں مدد چاہی ۔ سید صدیق حسن نے ان کی مشکل آسان کردی۔ سو سید راس مسعود اپنے شبینہ سفر پر روانہ ہوگئے اور باقی رفقاء نے رات قندھار ہی میں گزاری۔ ۲؍نومبر ۱۹۳۳ء کو صبح آٹھ بجے ناشتے سے فارغ ہوئے اور روانگی سے قبل گورنر قندھار نے خشک میووں اور قندھاری انار کے ٹوکرے مہمانوں کو تحفے طور پر بھیجے ۔ نو بجے کے قریب قندھار سے چمن کی طرف روانہ ہوئے ۔بارہ بجے قلعہ ٔ جدید پہنچے ، جو افغانستان کی آخری چوکی تھی۔ دوپہر کا کھانا یہیں کھایا۔ یہاں سرور خان گویا اور دیگر شاہی ملازمین نے اقبال اور ان کے رفقا کو الوداع کہی اور موٹریں چند منٹ کے اندر افغانستان کی سرحد کو پار کر کے انگریزی علاقے میں داخل ہوگئیں۔ چمن میں اقبال اور ان کے رفقا کے آنے کی خبر پہنچ چکی تھی۔ چنانچہ شہر کے دروازے پر ہی مسلمانوں نے ان کا استقبال کیا اور ایک ریستوران میں لاکر بیٹھایا۔ اہالیان شہر کا تقاضا تھاکہ اقبال اور سید سلیمان ندوی ایک شب چمن میں قیا م کریں اور مسلمانوں کے سامنے تقریریں کریں ، لیکن ان حضرات نے معذرت کی۔ریستوران میں مختلف خیال کے مسلمان جمع تھے،جو سیاسیات کی مختلف راہوں سے آشنا تھے۔ وہ اقبال اورسید سلیمان ندوی سے طرح طرح کے سوالات کرتے رہے۔ اگرچہ چمن سے ریل شروع ہو جاتی ہے لیکن انہوںنے ایک دن بچانے کی خاطر چمن سے کوئٹے تک موٹروں پر سفر کیا۔ وہ چاربجے شام چمن سے روانہ ہوئے۔ رستہ پہاڑی نشیب وفراز کے سبب بڑا دشوار گزار تھا اور موٹر کے پہیے خود بخود پھسلے جاتے تھے، ڈارئیور موٹر کو بے تکان دوڑارہاتھاتاکہ رات ہونے سے قبل وہ دشوار راہ کے خطروں سے باہر ہوجائے۔ اس جلدی پر بھی شام ہو ہی گئی۔ سیّد سلیمان ندوی کچھ خوفزدہ سے تھے اور اقبال نے روحانیت کے ذاتی مشاہدات و تجارب اور ایک سچے پیر کی تلاش پر گفتگو شروع کردی۔ انہوں نے مختلف شیوخ اور بزرگان سلاسل کی باتیں کرتے ہوئے اپنے آغازِ زندگی اور طالب علمی کے عہد کا ذکر چھیڑا ۔ پھر اپنے والد ماجد کاتذکرہ کیا اور ان کی زندگی کے واقعات بیان کرتے رہے۔ پہاڑی رستہ اب ختم ہوچکاتھا اور میدان میں سے گزر رہے تھے۔ رات کی تاریکی خوب پھیل چکی تھی اور بجلی کے چراغوں کی روشنی دور سے قطاروقطار نظر آنے لگی تھی ۔ چند لمحوں بعد وہ کوئٹہ میں تھے۔ کوئٹہ میںخاصی سردی تھی۔ انہیں ڈاک بنگلہ میں اتارا گیا ۔ کھانا یہیں کھایا او ررات ڈاک بنگلے میں بسر کی۔ ۳؍نومبر ۱۹۳۳ء کو کوئٹہ ریلوے اسٹیشن سے گیارہ بجے صبح کی گاڑی پکڑی ۔ ریل دن بھر اور رات بھر چلتی رہی۔ ۴نومبر ۱۹۳۳ء کو بارہ بجے صبح ملتان پہنچے ۔ یہاں تک سید سلیمان ندوی اور اقبال کا ساتھ رہا۔ سید سلیمان ندوی ملتان ٹھہر گئے۔ ۵۴ اقبال ملتان سے لاہور کی گاڑی میں بیٹھے اور اسی روز رات کو اپنے گھر پہنچ گئے۔ افغانستان کے نادر شاہ اور دیگر زعما نے انہیں بہت سے تحفے دیے تھے۔ سروے ، انگور ، انار اور خشک میووں کی پیٹیوں کے علاوہ افغانی پتھر کی بنی ہوئی اشیا،قالین اور خدا جانے کیا کیا کچھ ساتھ لائے تھے۔ راقم کے لیے نادر شاہ نے ایک سونے کی گھڑی بھیجی تھی ۔ کابل سے سردوں ، انگوروں ، اناروں ا ورخشک میووں کی پیٹیاں تو ان کے لیے کئی سالوں تک آتی رہیں۔ ۶؍نومبر ۱۹۳۳ء کو اقبال نے سید راس مسعود اور سید سلیمان ندوی کی معیت میں سفر افغانستان کے متعلق ایک اخباری بیان دیا جس میں فرمایا: حکومت افغانستان کا ارادہ ہے کہ سارے محکمۂ تعلیم کو جدید طریقوں پر ازسر نو ترتیب دیاجائے اور ساتھ ساتھ افغانستان اور ہمسایہ ممالک کے درمیا ن والی سڑکوں کی مرمت کی جائے۔ نئی یونیورسٹی بتدریج ترقی کررہی ہے اور اس کے لیے پہلے ہی ایک خوبصورت اور وسیع محل مخصوص کردیاگیاہے۔ سب سے پہلے میڈیکل شعبہ قائم کیاگیااور اس میں اعلیٰ تعلیم شروع ہوگئی ہے۔ دوسرا شعبہ جس کا قیا م زیر غور ہے وہ سول انجینرنگ کاہوگا…افغانستان آج ایک متحد ملک ہے ، جہاں ہر طرف بیداری کے آثار پائے جاتے ہیں اور حکام کافی سوچ و بچا رکے بعد نئے پروگرام بنارہے ہیں۔ افغانستان سے ہم اس یقین کے ساتھ واپس ہوئے ہیں کہ اگر موجودہ حُکام کو دس سال تک اپنا کا م جاری رکھنے کا موقع مل جائے تو بلاشک و شبہ افغانستان کا مستقبل روشن ہے۔۵۵ اس بیان کے اگلے ہی روز یعنی ۷نومبر ۱۹۳۳ء کو یہ المناک خبر ہندوستان پہنچی کہ نادر شاہ کو کا بل میں قتل کردیاگیاہے۔ یہ کسی شخص کی انتقامی حرکت تھی ۔ افغانستان پر امن رہا اور نادرشاہ کے فرزند محمدظاہر شاہ کو بادشاہ تسلیم کرلیاگیا۔ اقبال نادرشاہ سے محبت کرتے تھے، اس لیے انہیں نادر شاہ کی اچانک موت کا بے حد صدمہ ہوا۔ انہوں نے ۱۵نومبر ۱۹۳۳ء کو محمد ظاہر شاہ اور وزیر اعظم افغانستان کے نام تعزیتی پیغامات بھیجے ۔ محمد ظاہر شاہ کو تحریر کیا: اعلیٰ حضرت محمد نادرشاہ کے قتل کی خبرسے مجھے ذاتی حیثیت سے بے حد صدمہ پہنچا ہے۔ اعلیٰ حضرت شہید کی خدمت میں گذشتہ کئی سال سے مجھے نیاز حاصل تھا او رمیں ان کی شفقت اور محبتّ کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ شہید کی روح کو اعلیٰ علیین میں جگہ دے اور آپ کے لیے اس جلیل القدر شہید کی یادہمیشہ موجب رہنمائی ہو۔۵۶ افغانستان کے اس مختصر دورے کے متعلق سید سلیمان ندوی نے تو اپنے تاثرات سیر افغانستان میں قلمبند کیے ، جب کہ اقبال نے افغانستان کی چند روزہ سیاحت پراپنے شاعرانہ جذبات کا اظہار اپنی تالیف ’’مسافر‘‘ میں کیاجو ۱۹۳۴ء میں شائع ہوئی۔ یہ فارسی مثنوی ، ایک غزل کے سوا ، زیادہ تر مثنوی معنوی کی بحر میں ہے اور بقول سیّد سلیمان ندوی خیبر و سرحد و کا بل و غزنین و قندھار کے عبرت انگیز مناظر و مقابر پر شاعرا قبال کے آنسو ہیں اور بابر، سلطا ن محمود، حکیم سنائی اور احمد شاہ درانی کی خاموش تربتوں کی زبان حال سے سوال و جواب ہیں۔ اس کا آغاز نادر شاہ کے مناقب سے اور اختتام محمدظاہر شاہ سے اظہار توقعات پر ہے۔۵۷ افغانستان سے واپس آتے ہی اقبال ایک بار پھر مسلمانانِ ہند کے معاملات کی طرف متوجہ ہوئے ۔ انہیں فلسطین کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر خصوصاً بڑی تشویش تھی ۔ نوآبادیات کے نائب وزیر نے حکومت برطانیہ کی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے اعلان کیا تھاکہ فلسطین میں یہودیوں کی قومی حکومت قائم کردی جائے گی۔ اس پر اقبال نے ۶؍نومبر ۱۹۳۳ء کو وائسرائے کے نام اپنے برقیے میں تحریر کیا: فلسطین کی صورت حال نے مسلمانان ہند میں زبردست ہیجان و اضطراب پیدا کردیا ہے نائب وزیر نوآبادیات کی تقریر نے مسلمانوں کے شبہات کو زیادہ عمیق بنا دیاہے کہ برطانیہ کی یہ پالیسی ہے کہ عربوں کے مفاد کے خلاف عمل پیرا ہوکر فلسطین میں یہودیوں کی حکومت قائم کردی جائے۔ نائب وزیر نوآبادیات نے برطانیہ کی جوپالیسی بیان کی ہے ، وہ صریحاً مخالفانہ ہے۔ فلسطین میں حال ہی میں جو واقعات رونما ہوئے ہیںوہ اس امر کے مقتضی ہیں کہ فوراً تحقیقات کی جائے اور فلسطین میں یہودیوں کا داخلہ جلد از جلد روک دیا جائے۔ برطانیہ کے بہترین مفاد کا اقتضایہ ہے کہ ’’اعلا ن بالفور‘‘ کو واپس لیا جائے۔ مسلمانوں کو توقع ہے کہ وائسرائے اس ناز ک صورت حالات کی طرف ملک معظم کی حکومت کی توجہ دلائیں گے اور برطانیہ اور مسلمانوں کے تعلقات کو کشیدہ ہونے سے بچالیں گے۔۵۸ اسی طرح ۲۲نومبر ۱۹۳۳ء کو ایک تار نیشنل لیگ لندن کے صدر کو ارسال کیا جس میں لکھا : مسلمانوں کے درمیان مسئلہ فلسطین پر بہت جوش پایاجاتاہے، اور ناخوشگوار نتائج رونما ہونے کا خطرہ ہے ۔ امید کی جاتی ہے کہ آپ مزید نقل و حرکت روکنے میں کا میاب ہوںگے اور مسلمانوں اور انگلستان کے درمیان کشیدگی پیدانہ ہونے دیں گے۔۵۹ لیکن جب انہیں یہ اطلاع ملی کہ جدّے سے مکے کے درمیان ریلوے لائن بنائے جانے کا امکان ہے ، تو اپنے ایک بیان مورخہ ۱۲؍نومبر ۱۹۳۳ء میں خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایاکہ ایک ہندوستانی اسلامی کمپنی کا جدّہ اور مکہّ کے درمیان ریلوئے لائن بنانے کا کام اپنے ذمے لینا بڑی مسرت کی بات ہے اور اس کمپنی کی کا میابی عربوں اور ہندوستانی مسلمانوں کے لیے بے حد فائدہ کا موجب ہوگی۶۰۔مگر یہ اسکیم کا میاب نہ ہوئی۔ ۴؍دسمبر ۱۹۳۳ء کو پنجاب یونیورسٹی نے اقبال کو ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری عطاکی۔ اوائل دسمبر ۱۹۳۳ء میں پنڈت جواہر لعل نہرو نے ایک بیان میں گول میز کانفرنسوں میں مسلم وفد کے ارکان کے روّیے پر شدید نکتہ چینی کی۔ انہیں انٹی نیشنلسٹ کہا اور الزا م لگایا کہ مہاتما گاندھی تو سارے مسلم مطالبات تسلیم کرنے کے لیے تیار تھے، بشرطیکہ مسلمان ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں ان کی حمایت کریں ، لیکن مسلمانوں نے ہندوؤں کے خلاف محض تعصّب کی بنا پر یہ شرط قبول نہ کی، اقبال نے اپنے اخباری بیان مورخہ ۶؍دسمبر ۱۹۳۳ء میں اُن کے ہر ایک الزا م کا جواب دیا اور مہاتما گاندھی کاپول کھول کر رکھ دیا۔ اقبال نے واضح کیا کہ ہندو وفد کے ارکان اور اقبال کے سامنے سر آغاخان نے مہاتما گاندھی کو یقین دلایا تھاکہ اگر ہندو یا کانگرس مسلمانوں کے مطالبات تسلیم کرلیں تو ساری کی ساری مسلم قوم سیاسی جدوجہد میں مہاتما گاندھی کے پیچھے چلنے کو تیار ہوگی، لیکن مہاتما گاندھی نے صرف اتنا جواب دیاکہ وہ اپنی ذاتی حیثیت سے مسلم مطالبات کو تسلیم کریں گے اور بغیر کسی گارنٹی دینے کے کوشش کریں گے کہ کانگرس بھی ان مطالبات کو تسلیم کرے۔ اس پر انہیں اقبا ل نے مسز سروجنی نائیڈو کے سامنے کہا تھا کہ کانگرس کی ایگزیکٹو کو تار دے کر ان کی طرف سے ہاں حاصل کی جا سکتی ہے، مگر مہاتما گاندھی کا جواب تھا کہ اس معاملے میں کانگرس ان کو اپنا ایجنٹ یا وکیل بنانے کے لیے تیا رنہ ہوگی۔ مہاتما گاندھی کانگرس توکیاوفد کے ہندو اور سکھ ارکان کو بھی جو لندن میں موجود تھے، اپنا قائل نہ کرسکے ۔ بعد میں انہوں نے ایک اور نہایت غیر منصفانہ شرط عائد کرنے کی کو شش کی اور وہ یہ تھی کہ مسلمان اچھوتوں کے علیٰحدہ نیابت کے مطالبے کی مخالفت کریں۔ مسلم وفد کے ارکا ن کا موقف یہ تھاکہ جب مسلمان اپنے لیے جداگانہ انتخاب بر قرار رکھنا چا ہتے ہیں تو وہ اچھوتوں کے ایسے ہی مطالبے کی مخالفت کیونکر کرسکتے ہیں ، لیکن اس کے باوجو دانہوں نے مہاتما گاندھی کو یقین دلایا کہ اگر اچھوتوں اور مہاتماگاندھی کے مابین اس معاملے میں کسی مفاہمت کے ہونے کا امکا ن ہواتو مسلمان اس میں دخل اندازنہ ہوںگے۔ اقبال نے کہاکہ پنڈت جواہر لعل نہرو کی قیادت میں ہندو یا کانگرس اگر آج بھی مسلم مطالبات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوتو ساری کی ساری مسلم قوم ہندوستان کی آزادی کی جدو جہد میں ان کے پیچھے چلے گی۔ انہوں نے آخر میں فرمایا: آخر میں میَں ایک سیدھا سا سوال پنڈت جواہر لعل سے کرنا چاہتا ہوں ۔ ہندوستان کا مسئلہ کیسے حل ہوسکتاہے، جبکہ اکثریتی فرقہ نہ تو آٹھ کروڑ انسانوں پر مشتمل اقلیتی فرقے کے حقوق کے لیے کم سے کم تحفّظات دینے کو تیار ہے اور نہ اس معاملے میں تیسرے فریق کا فیصلہ قبول کرتا ہے، لیکن لگاتار ایک ایسے نیشنلزم کی رٹ لگائے جارہاہے۔جو صرف اسی کے لیے فائدہ مند ثابت ہوسکتاہے؟ ایسی صورت سے نپٹنے کے لیے تو صرف دو ہی رستے ہیں : یاتوہندوستان میں اکثریتی فرقہ مشرق میں برطانوی استعمار کے ایجنٹ کی حیثیت سے دائمی طورپرکا م انجام دیتا رہے یاملک کو مذہبی تاریخی اور تمدّنی وابستگیوں کے اعتبار سے تقسیم کردیا جائے تا کہ جدید شکل میں فرقہ وارانہ یا انتخاب کے مسئلے کا خاتمہ ہو سکے۔ ۶۱ اقبال عموماً علیل رہنے لگے تھے اور ان کی آنکھو ںمیں موتیا اترنے کے آثار بھی پیدا ہورہے تھے۶۲۔ گذشتہ آٹھ برس سے وہ عملی سیاسیات میں الجھے رہے۔ لیکن مسلم سیاست کا افسوسناک پہلویہ تھا کہ اقبا ل اپنی خواہش کے مطابق مسلمانوں کی مختلف سیاسی تنظیموں میں اتحاد یا نظم و ضبط پیدا کرنے میں ناکا م رہے۔ شاید اسی سبب وہ مسلم کانفرنس کی صدارت سے سبکدوش ہوگئے۔ پچھلے دوسالوں میںطویل مدت کے لیے گول میز کانفرنسوں میں شمولیت کے سلسلے میں ہندوستان سے باہر بھی رہنا پڑا ۔ جس کے سبب ان کی جو تھوڑی بہت پریکٹس تھی وہ تباہ ہوگئی اور انہیں مالی نقصان اٹھانا پڑا۔۶۳راقم کی یادداشت کے مطابق غالبًا انہیں ایام میں ایک مرتبہ اقبال اور سردار بیگم کا آپس میں خرچ کے معاملے پر جھگڑا بھی ہوا۔ شام کا وقت تھا۔ راقم خدا جانے کس غرض سے اقبال کے کمرے میں داخل ہوا۔ دیکھاکہ سردار بیگم بیٹھی رو رہی ہیں اور ان سے نہایت تلخ لہجے میں کہہ رہی ہیں کہ میں اس گھر میں سارا دن غلاموں کی طر ح کام کرتی ہوں ، لیکن ایسا کب تک چلے گا۔ راقم کو وہاں ٹھہرنے کی اجازت نہ ملی۔ بہرحال سردار بیگم کے مطالبات جائزتھے ۔ وہ چاہتی تھیں کہ اقبال یاتو کوئی ملازمت کرلیں یا دل جمعی کے ساتھ وکالت کریں،تاکہ مستقل آمدنی کی صورت پیدا ہو۔ اس زمانے میں اگر کوئی راقم سے پوچھ بیٹھتاکہ تمہارے والد کیا کا م کرتے ہیں تو اس کے پاس کوئی جواب نہ ہوتا تھا۔ سردار بیگم کی یہ خواہش بھی تھی کہ کرائے کا گھر چھوڑ کر اپنا گھر تعمیر کرلیں اور اس میں رہائش اختیار کریں، لیکن اقبال کے پاس ان مطالبات کے جواب میں ایک کھسیانی سی مسکراہٹ کے سوا کچھ نہ تھا۔ مسلمانوں کا جماعتی انتشار وافتراق ختم ہونے میں نہ آتاتھا، اور اس کے باعث اقبا ل بے حد آزردہ اور دل شکستہ ہوگئے تھے۔ غالبًا اسی ذہنی پس منظر کے ساتھ انہوں نے اپنے ایک خط محر رّ ہ ۱۷ ستمبر ۱۹۳۳ء میں سید سلیمان ندوی کو لکھا : میں خود مسلمانوں کے انتشار سے بے حد درد مندہوں اور گذشتہ پانچ چار سال کے تجربے نے مجھے سخت افسردہ کر دیا ہے۔۶۴ اسی طرح جب عبدالماجد دریابادی نے ان سے پٹنہ اور کانپور میں ہونے والے قومی اجتماعات میں شمولیت کے بارے میں پوچھا تو اپنے خط محررہ ۲۴ ؍ ستمبر ۱۹۳۳ء میں انہیں جواب دیا: گذشتہ چارپانچ سال کے تجربے نے مجھے درد مند کر دیا ہے، اس لیے جلسوں میں میرے واسطے کوئی کشش باقی نہیں رہی ۔ میں کہیں نہیںجارہا۔ نہ پٹنہ ، نہ کانپور۔۶۵ بہرحال ان کی آزردگی یا دل شکستگی مسلم سیاست کے باعث تھی، فلسفہ و شاعری سے نہ تھی۔ نومبر۱۹۳۳ء میں انہوں نے روڈز لیکچرز کی دعوت قبول کرلی تھی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں اپنی پسند کے کسی فلسفیانہ موضوع پر لکچر دینے کی یہ دعوت انہیں لارڈ لوتھیان نے روڈز ٹرسٹینر کی طرف سے دی تھی۔ اقبال کا خیال تھاکہ اس بہانے انہیں اپنے پسندیدہ موضوع ’’فلسفہ اسلام کی تاریخ میں زمان و مکاں ‘‘پر تحقیق کرنے کا موقع مل جائے گا اور وہ دنیا کو دکھا سکیں گے کہ آئن سٹائن کا نظریہ مغرب کے لیے کوئی نئی بات ہو تو ہو،مسلم صوفی اور ریاضی دان قرون وسطیٰ ہی سے اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ مکان کے ابعادتین سے زیادہ ہوسکتے ہیں ۔ اسی سلسلے میں اقبال اپنے ایک خط محررّہ ۸ نومبر ۱۹۳۳ء بنام سیّد نذیرنیازی میں فرماتے ہیں : روڈزلکچرز کا موضوع زمان ومکاں فلسفہ اسلام کی تاریخ میں ہوگا۔ میں نے دعوت قبول کرلی ہے ،مگر ابھی یقینا نہیں کہہ سکتا کہ ۱۹۳۴ء میں جاؤں گا یا ۱۹۳۵ء میں ۔ مضمون مشکل اور دقیق سا ہے۔ وقت لکھنے کے لیے بہت کم ہے۔ بہرحال جو کچھ ہوگا کیا جائے گا۔۶۶ اقبال نے اپنی ناسازی طبع کے باوجود اس موضوع پر تحقیق کا کا م شروع کردیاتھا۔بقول عبدالمجید سالک ان کی علمی مصروفیتوں کا یہ عالم تھاکہ اس زمانے میں انہوں نے سید سلیمان ندوی اور دیگر احباب کو جو خطوط لکھے، ان سب میں زمان و مکاں کے متعلق مختلف کتابوں کا سراغ لگانے کی استدعا کی گئی اورملک بھر میں زمان ومکاں کے بارے میں اکابراسلام کی کتب کا تجسّس جاری رہا۔ کیونکہ ہر حال میں ان کا مقصد یہ تھا کہ ہر شعبۂ علم میں مسلمانوں کی برتری ثابت کی جائے ۶۷ ۔ لیکن دشمنانِ اقبال اب تک ان کی روڈز لیکچرز میں خصوصی دلچسپی سے یہی پہلو نکالنے کے قابل ہوسکے ہیں کہ وہ اس دعوت نامے کو حاصل کرنے کے لیے محض اس لیے بیتاب تھے کہ انگلستان یا آکسفورڈیونیورسٹی کا ایک چکر لگ جائے گا۔ خیرآئندہ دوبرسوں میں شدید علالت کے باعث اقبال کویہ دعوت منسوخ کرنا پڑی اور اس موضوع پر قلم اٹھانے کی نوبت نہیں آئی۔ سید نذیر نیازی تحریر کرتے ہیں : اللہ کو کچھ ایسا ہی منظور تھا،ورنہ اسلامی بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ انسان کی تاریخ فکر میں ایک بیش بہا اضافہ ہوجاتا۔ تاریخ فلسفہ کے لحاظ سے تویہ مسئلہ جیسا اہم ہے، ظاہر ہے۔ لیکن اسلامی فکر بلکہ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ خالص اسلامی نقطۂ نظر سے اس کی اہمیت بڑ ھ جاتی ہے۔ چنانچہ خطبات (خطبہ پنجم)میں ایک جگہ حضرت علامّہ نے لکھا ہے کہ زمان و مکاں کا مسئلہ مسلمانوں کے لیے موت و حیات کا مسئلہ ہے او رپھر اپنے اس خیال کی تھوزی سی وضاحت بھی کردی ہے ۔ لہٰذا یہ مضمون ذرا تفصیل سے بیان ہوجاتا اور مفکرین اسلام کے گوناگوں خیالات و نظریات بھی سامنے آجاتے تو کیا خوب ہوتا۔۶۸ جہاں تک شاعری کا تعلق ہے ’’جاوید نامہ ‘‘ کی تکمیل کے بعد اقبال کے دل ودماغ ، بقول ان کے نچڑگئے تھے، اس لیے وقتی طور پر نہ فارسی میں کچھ کہنا ممکن تھا اور نہ اردو میں اور ویسے بھی فارسی کو چھوڑ کر اردو میں کہنا ان کی نگاہ میں سنگ مرمر کی بجائے گارے کی عمارت بناناتھا، مگر اس کے باوجود مناسب ماحول میں ان کا میلان اردو کی طرف ہوسکتا تھا اور ہوا۔ غالبًا انہی ایّام میں محمد دین تاثیر اور چنداحباب ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور رسالہ’’کارواں ‘‘کے لیے غیر مطبوعہ اردو کلا م کا مطالبہ شروع کیا۔ اقبال پہلے تو انہیں ٹالتے رہے مگر ان کے اصرار سے مجبور پر کر محمد دین تاثیر سے کہا تم اس وفد کے سرغنہ ہواور شاعرہو۔ اپنے اشعار سناؤ، شاید طبیعت کو بہانہ مل جائے۔ محمد دین تاثیر نے جی کڑا کر کے ایک مطلع پڑھا۔ پھر دوسرا اقبال نے اس مصرع: تم کو اپنی زندگی کا آسرا سمجھاتھامیں کو دہرایا۔ محمددین تاثیر نے آخری شعر پڑھا: زلف آوارہ گریباں چاک ا ے مستِ شباب تیری صورت سے تجھے درد آشنا سمجھا تھامیں اقبال کو شعر پسندآیا۔ فرمایا:زمین اچھی ہے خدا کا قافیہ کیوں چھوڑ دیا؟ اس کے بعد خاموش ہوگئے اور سرجھکا لیا۔ پھر بولے ۔ اگر قافیہ بدل دیا جائے تو؟ محمد دین تاثیر نے جواب دیا۔ تو بہتر ہوگا۔ فرمایا، لو سنو: عرصۂ محشر میں میری خوب رسوائی ہوئی داورِ محشر کو اپنا رازداں سمجھا تھامیں محمد دین تاثیر لکھتے ہیں : یہ شعر کہہ کر علامہ کچھ رکے ، دوتین منٹ تک اور پھر یہ حالت تھی کہ میں نقل نہیں کرچکتاتھاکہ ایک اور شعر تیار ہوتا۔ دوسرا شعر’’جاوید نامہ ‘‘ کی کیفیات کا حامل تھا : مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں جوں جوں شعرہوتے جاتے ،علامہ کی حالت بدلتی جاتی۔ بستر ہی میں اٹھ کر پاؤں کے بل بیٹھ گئے آواز میں لرز ش سی آگئی۔ جھوم جھوم کرداہنے ہاتھ کی سبابہ اٹھا کر انشاد کر تے تھے اور اس شعر پر: تھی وہ اک درماندہ رہرو کی صدائے دردناک جس کو آواز رحیلِ کارواں سمجھا تھا میں وہ بھی رورہے تھے او رہم بھی ! نہ جانے یہ غز ل کتنی لمبی ہوجاتی مگر یہ سلسلۂ فیضان ایک اجنبی ملاقاتی کی آمد سے منقطع ہوگیا۔۶۹ کتنی انوکھی اور حیرت کی بات ہے کہ یہی شخص جو بستر میں اٹھ کر پاؤں کے بل بیٹھ جاتا، جھوم جھوم کر داہنے ہاتھ کی سبابہ اٹھا کر انشاد کرتا اور شعر کہتے ہوئے روتا چلا جاتا، اسلامی تمدّن کی برتری ثابت کرنے کے لیے زمان و مکاں کے مشکل اور دقیق مسئلے پر تحقیق کے لیے بیتاب تھا یا مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کی خاطر اپنی گوشہ نشینی سے نکل کر لاہور سے دہلی ، شملہ یا لندن کی نہ صرف خاک چھانتا بلکہ ایک ایک نکتے کی خاطر لڑتا جھگڑتا تھا، جس کی تشویش ، آزردگی یا دل شکستگی کا باعث خرچ کی تنگی یا آمدنی کا فقدان نہ تھا، بلکہ مسلمانوں کا انتشار اور افتراق تھا، لیکن اس کے باوجود وہ ہمت نہ ہارتا تھا۔ مآخذ باب ۱۹ ۱۔ ’’اقبال کی تقریریں، تحریریں او ربیانات‘‘ مرتبہ لطیف احمد شیروانی (انگریزی)، صفحہ ۲۲۵۔اسی تاریخ کو انہوں نے اپنے سفر یورپ کے متعلق بھی بیان دیاتھا۔ ایضاً، صفحہ ۲۲۶۔غالباً انہی موضوعات پرا یک بیان ۲۷ فروری ۱۹۳۳ء کو نمائندہ مسلم نیوز سروس کودیاگیا۔ دیکھیے’’ گفتار اقبال‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۱۶۷،۱۶۸ ۲۔ ’’گفتار اقبال‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل، صفحات ۱۶۸،۱۶۹ ۳۔ مکتوبات اقبال‘‘مرتبہ سیدنذیر نیازی، صفحات ۹۳ تا۱۰۱ ۴۔ ’’اقبال کی تقریریں ، تحریریں او ربیانات‘‘مرتبہ لطیف احمد شیروانی (انگریزی)، صفحات ۲۲۷، ۲۲۸، ’’اقبال کاسیاسی کارنامہ ‘‘ازمحمد احمد خان ، صفحات ۳۹۹، ۴۰۰ ۵۔ ’’مکتوبات اقبال ‘‘ مرتبہ سید نذیر نیازی ، صفحات ۱۰۹ تا ۱۱۱، ’’ذکر اقبال ‘‘میں عبدالمجید سالک نے ان سب واقعات کو ۱۹۳۲ء میں جگہ دی ہے جو غلط ہے ، دیکھے صفحہ ۱۷۶ ۶۔ ’’گفتار اقبال ‘‘مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۱۷۰ تا ۱۷۳ ۷۔ ’’اقبال کی تقریریں ، تحریریں اوربیانات ‘‘مرتبہ لطیف احمد شیروانی (انگریزی)، صفحہ۲۲۸تا ۲۳۰ ۸۔ ایضاً، صفحات ۲۳۰، ۲۳۱ ۹۔ ایضاً، صفحات ۲۳۱، ۲۳۲ ۱۰۔ ’’گفتار اقبال‘‘مرتبہ محمدرفیق افضل،صفحات ۱۷۳ تا ۱۷۷ ۱۱۔ ’’اقبال کی تقریریں ،تحریریں اور بیانات‘‘ مرتبہ لطیف احمد شیروانی (انگریزی )، صفحہ ۲۳۵ ۱۲۔ ایضاً ، صفحات ۲۳۴، ۲۳۵ ۱۳۔ ’’سرگزشتِ اقبال‘‘ از عبدالسلام خورشید ، صفحات ۲۳۳، ۲۳۴ بحوالہ ’’شیر کشمیر ‘‘ صفحات ۱۴۱، ۱۴۲ ۱۴۔ ’’میاں فضل حسین کے خطوط ‘‘ مرتبہ وحید احمد (انگریزی)دیکھیے خط بنام سر ظفر اللہ خان، مورخہ ۲۶جون ۱۹۳۳ء جس میں اقبال پر الزام لگایا ہے کہ وہ اور دیگر مسلم لیڈر اپنی سیاسی غراض کے حصول کی خاطر مسلمانوں میں مذہبی فرقہ پرستی کو ہوا دے رہے ہیں۔ نیز دیکھیے خط بنام سر ظفر اللہ خان مورخہ ۳جولائی ۱۹۳۳ء جس میں اقبال پر الزا م لگایا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے اتحاد اور یک جہتی کو اندر سے توڑنے کی کوشش کررہے ہیں ، صفحات ۳۱۰، ۳۱۱، ۳۱۷ ۱۵۔ ’’گفتار اقبال‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۱۸۲، ۱۸۳ ۱۶۔ ’’اقبال کا سیاسی کارنامہ‘‘از محمد احمدخان ، صفحات ۴۰۰، ۴۰۱ بحوالہ’’ فضل حسین ، ایک سیاسی بائیوگرافی‘‘ از عظیم حسین (انگریزی)، صفحہ ۲۸۰ ۱۷۔ ایضاً، صفحہ ۲۸۲ ۱۸۔ ایضاً ، صفحہ ۲۸۲ ۱۹۔ ’’میاں فضل حسین کے خطوط‘‘مرتبہ وحیداحمد (انگریزی)، صفحات ۲۸۰، ۲۸۱ ۲۰۔ ’’فضل حسین ایک سیاسی بائیوگرافی ‘‘(انگریزی)۔ صفحہ ۲۸۵۔ نیز دیکھیے ’’اقبال کا سیاسی کارنامہ‘‘ از محمد احمد خان ، صفحات ۴۰۲، ۴۰۳ ۲۱۔ ’’فضل حسین ایک سیاسی بائیوگرافی‘‘ (انگریزی)، صفحہ ۲۶۳ ۲۲۔ ’’اقبال کی تقریریں ، تحریریں اور بیانات ‘‘مرتبہ لطیف احمد شیروانی (انگریزی)، صفحات۲۳۶،۲۳۷، ’’اقبال کا سیاسی کار نامہ ‘‘از محمداحمد خان ، صفحہ۴۰۴ ۲۳۔ ’’اقبال کا سیاسی کارنامہ‘‘ از محمد احمد خان ، صفحہ ۴۰۵ ۲۴۔ ’’گفتار اقبال ‘‘مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحہ۱۷۷ ۲۵۔ ’’اقبال کی تقریریں ، تحریریں اوربیانات ‘‘مرتبہ لطیف احمدشیروانی (انگریزی)صفحات ۲۳۷،۲۳۸ ۲۶۔ ’’گفتار اقبال‘‘مرتبہ محمد رفیق افضل، صفحات ۱۷۷ تا ۱۷۹ ۲۷۔ ’’اقبال کے خطوط اور تحریریں ‘‘مرتبہ بی۔ اے۔ ڈار(انگریزی)، صفحہ۱۰۔ ’’انواراقبال‘‘مرتبہ بشیر احمد ڈار ، صفحہ ۱۰۸ ۲۸۔ ایضاً۔ صفحات ۳۱، ۳۲ ۲۹۔ ’’سیر افغانستان‘‘ازسیدسلیمان ندوی، صفحات ۶۲،۶۳، نیز دیکھیے’’ ملفوظات اقبال‘‘ مرتبہ ابواللیث صدیقی ، صفحات ۱۴۶، ۱۴۷ ۳۰۔ ’’سرگذشت اقبال ‘‘۔ از عبدالسلام خورشید ، صفحہ ۴۴۲ ۳۱۔ ’’یاداقبال‘‘ از صابر کلوروی ، صفحہ ۲۰ ۳۲۔ ’’اقبال کے خطوط اور تحریریں‘‘مرتبہ بی۔ اے۔ ڈار (انگریزی)، صفحہ ۳۰ ۳۳۔ ’’اقبال کی تقریریں ، تحریریں اور بیانات ‘‘مرتبہ لطیف احمد شروانی ، (انگریزی)، صفحہ ۲۳۸۔ ۳۴۔ ’’اقبال ریویو‘‘ جنوری ۱۹۷۶ء ، مضمون’’علامہ اقبال کا سفر افغانستان‘‘ از اختر راہی صفحہ ۳۱ ۔ ۳۵۔ ’’سیر افغانستان ‘‘ از سید سلیمان ندوی ، صفحہ۸۷۔ ۳۶۔ ’’صحیفہ ‘‘اقبال نمبر، حصّہ دوم نومبر ، دسمبر ۱۹۷۷ء مضمون ’’علامہ اقبال مزار بابر پر‘‘ ڈاکٹر عبدالغنی، صفحہ ۲۴ ۳۷۔ ’’اقبال ریویو‘‘ جنوری ۱۹۷۶ئ، صفحہ ۳۹، بحوالہ ’’اقبال کی کہانی ‘‘ ازظہیرالدین ، صفحات ۹۶،۹۷ ۳۸۔ ’’سیر افغانستان ‘‘، صفحات ۳۱ تا ۳۸ ۳۹۔ ایضاً ، صفحات ۴۰ تا ۴۸، ۴۵ تا ۵۶ ۴۰۔ ایضاً، صفحات ۵۸ تا ۶۲ ۴۱۔ ایضاً صفحہ ۶۳ ۴۲۔ نظم کے متن کے لیے دیکھیے ’’اقبال ریویو‘‘ جنوری ۱۹۷۶ء ، صفحات ۴۴ ، ۴۵ بحوالہ ’’اسلامی تعلیم‘‘اقبال نمبر، صفحہ ۵ ۴۳۔ ’’سیر افغانستان ‘‘ازسید سلیمان ندوی ، صفحات ۶۸، ۶۹ ۴۴۔ ایضاً صفحات ۷۱ تا ۷۳ ۴۵۔ ایضاً صفحہ ۷۴ ۴۶۔ ایضاً ، صفحات ۷۸ تا۸۰ ۴۷۔ ایضاً صفحات ۸۲ تا ۸۴، ’’مقالاتِ اقبال ‘‘مرتبہ سید عبدالواحد معینی ، صفحات ۲۱۸تا ۲۲۰ ۴۸۔ ایضاً ، صفحات ۱۰۹، ۱۱۵، ۱۱۶ ۴۹۔ ایضاً ، صفحات ۱۱۶تا ۱۲۷ ۵۰۔ ایضاً ، صفحہ۱۲۹ ۵۱۔ ایضاً صفحات ۱۲۹، ۱۳۱ تا ۱۳۴ ۵۲۔ ایضاً صفحات ۱۳۴ تا ۱۵۸ ۵۳۔ ایضاً ، صفحہ۱۵۹ ۵۴۔ ایضاً، صفحات ۱۶۰ تا۱۸۵ ۵۵۔ ’’اقبال کی تقریریں ، تحریریں او ربیانات ‘‘مرتبہ لطیف احمد شروانی ، صفحات ۲۳۹، ۲۴۰ ۵۶۔ ’’گفتارِ اقبال ‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ، ۱۸۰، ۲۸۱ ۵۷۔ ’’سیرافغانستان ‘‘ صفحہ ۲۰۳ ۵۸۔ ’’گفتارِ اقبال‘‘مرتبّہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۱۷۹، ۱۸۰ ۵۹۔ ایضاً ، صفحہ ۱۸۲ ۶۰۔ ایضاً، صفحہ ۱۸۰ ۶۱۔ ’’اقبال کی تقریریں ، تحریریں اور بیانات‘‘ لطیف احمد شروانی (انگریزی)، صفحہ ۲۴۳ ۶۲۔ ’’ذکر اقبال‘‘ از عبدالمجیدسالک، صفحہ ۱۸۴ ۶۳۔ ’’اقبال ۔ ان کے سیاسی نظریات چوراہے پر ‘‘مرتبہ اے۔ حسن علی گڑھ (انگریزی)صفحہ۷۲ ۶۴۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ ،حصّہ اوّل ، صفحہ ۱۶۹ ۶۵۔ ایضاً ، صفحہ ۲۴۳ ۶۶۔ ’’مکتوباتِ اقبال‘‘ ، صفحات ۱۱۸، ۱۱۹ ۶۷۔ ’’ذکر اقبال ‘‘ صفحات ۱۸۴، ۱۸۵ ۶۸۔ ’’مکتوبات اقبال ‘‘ صفحہ ۱۱۹ ۶۹۔ ’’ملفوظاتِ اقبال ‘‘ مرتبہ ابواللیث صدیقی ، صفحات ۱۲۶تا ۱۲۹ باب: ۲۰ علالت ۱۹۳۴ء کاسال علالت کے آغاز اور دیگر مصائب کے سبب ایک لحاظ سے اقبال کی سیاسی زندگی کے عملی طورپر خاتمے کا سال ہے۔ لیکن بقول محمد احمد خان ،بستر علالت پر لیٹے لیٹے انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے مستقبل کی تاریخ سازی میں جوکام انجام دیا۔اسے اس خطۂ زمین کے مسلمانوں کا مورّخ نظر انداز نہیں کر سکتا۔ ۱ انہوں نے گزشتہ برس لندن میں تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے دوران میں محمد علی جناح سے کئی ملاقاتیں کیں۔ تیسری گول میز کانفرنس میں محمد علی جناح کو مدعو نہیں کیاگیاتھا، کیونکہ حکومت برطانیہ کے خیال میں وہ اس وقت برصغیر کی سیاست میں کوئی خاص اثر نہ رکھتے تھے اور نہ کسی اہم گروہ کی نمائندگی کا دعویٰ کرسکتے تھے۲ ۔سرظفر اللہ خان اپنی کتاب ’’تحدیث نعمت‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ انہوں نے بحیثیت قائم مقام ممبر وائسرائے کونسل محمد علی جناح کا نام تیسری گول میز کانفرنس میں شمولیت کے لیے تجویز کیا تھا، لیکن وزیر ہند نے ان سے اختلاف کیا اور محمد علی جناح کے متعلق لکھا: وہ ہر بات پر تنقید تو بہت کڑی کرتے ہیں لیکن کوئی اثباتی حل پیش نہیں کرتے۔ اب انہوں نے مستقل طورپر لندن میں رہائش اختیار کرلی ہے ۔ ہندوستان کے معاملات کے ساتھ ان کا براہ راست تعلق نہیں رہا۔۳ اقبال نے اپنی ملاقاتوں میں محمد علی جناح پر واضح کیا کہ مسلمانوں کی سیاسی تنظیم اورآئندہ کے سیاسی پروگرام ترتیب دینے کے لیے ان کا ہندوستان واپس آنا اشد ضروری ہے ۔اسی طرح دیگر مسلم قائدین بھی وقتاً فوقتاً ان کی واپسی پر اصرارکرتے تھے۔ بالآخر محمد علی جناح نے ہندوستان واپس آنے کا مصمّم ارادہ کرلیا۔ وہ دسمبر ۱۹۳۳ء کے آخر ی ہفتے میں بمبئی پہنچے اور ۴مارچ ۱۹۳۴ء کو مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے اور یوں ان کے ہاتھوں لیگ کا احیاء عمل میں آیا۔ اقبا ل مسلم سیاسی لیڈروں کے نفاق اور فتنہ تراشیوں یا مسلم عوام کے انتشار سے بڑے برگشتہ خاطر تھے۔ برصغیر میں ملت اسلامیہ کی ہم آہنگی، سا لمیت یا اس کی اساسی تنظیم کے نصب العین کی تحصیل کے لیے ان کی کوششیں اب تک کامیابی سے ہم کنارنہ ہوسکی تھیں۔ اس دور میں برصغیر میں مسلم سیاسی جماعتوں کی تعداد بیس سے اوپر جاچکی تھی اور ہر مسلم سیاسی جماعت کا مسلک دوسری جماعت سے مختلف تھا۔ خلافت کمیٹی کے رہنماؤں کا آپس میں اختلاف تھا۔ اس لیے یہ سیاسی جماعت دو حصوں میں منقسم تھی ۔ جمعیت العلماء ہند، کانگرس کی ہمنوا تھی اور اس کا خالصتاً مسلم سیاست سے کوئی تعلق نہ تھا۔ نیشنلسٹ مسلم پارٹی کا مقصد بھی مسلمانوں کو کانگرس کے دام میں لانا تھا او ریہ سیاسی جماعت بالآخر کانگرس میں مدغم ہوگئی۔ پنجاب کی مجلس احرار جمعیت العلمائے ہند سے وابستہ تھی ۔ کشمیر ایجی ٹیشن کے دنوں میں پنجاب میں اسے مقبولیت حاصل ہوئی ۔ لیکن بعدمیں اس جماعت پر لکھنؤ میں شیعہ سنّی فساد کروانے کی ذمہ داری ڈ الی گئی ۔ خان عبدالغفار خان نے صوبہ سرحدمیں ایک سیاسی جماعت خدائی خدمت گار قائم کررکھی تھی اور یہ بھی مجلس احرار کی طرح جمعیت العلمائے ہند اور نیشنلسٹ مسلم پارٹی کے زیر اثر تھی یا کانگرس کی ہمنوا تھی ۔ لکھنؤ میں کانگرس کی شہ پر شیعہ مسلمانوں نے شیعہ پولیٹیکل کانفرنس قائم کررکھی تھی ، جو شیعہ مسلمانوں کے لیے علیحدہ نمائندگی کی طلب گار تھی ۔ بلوچستان میں علاقائی بنیادوں پر وطن پارٹی قائم تھی ۔ کشمیر میں بھی مسلمان مختلف دھڑوں یا سیاسی گروہوں میں بٹے ہوئے تھے او رشیخ محمد عبداللہ کی جموں اور کشمیر مسلم کانفرنس بالآخر کانگرس کی ہمنوا بن کر ابھری ۔ عنایت اللہ مشرقی نے پنجاب میں خاکسار پارٹی کی بنیاد رکھی جو ایک نیم عسکری قسم کی تنظیم تھی ۔ ان مسلم سیاسی جماعتوں کے علاوہ کئی اور علاقائی یافرقہ وارانہ بنیاد پر جماعتیں بھی موجود تھیں ۔ مثلاً کلکتے میں مومن کانفرنس ، بنگال میں مسلم کاشتکاروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مولوی فضل حق کی مسلم پرجا پارٹی اور اس کے برعکس پنجاب میں زمینداروں کے حقوق کے لیے سر فضل حسین کی یونینسٹ پارٹی دیگر مسلم سیاسی جماعتوں کا یہاں ذکر کرنا غیرضرروی ہے ،مگر اس کی تعداد سے ظاہر ہے کہ اس دور کے مسلم سیاسی رہنماؤں کے ذہنی انتشار کی کیا کیفیت تھی اور ایسی صورت میں مسلم عوام ا ن سے کیاتوقع رکھ سکتے تھے۔اقبال نے مسلم کانفرنس کے اجلاس لاہور مورّخہ ۲۱مارچ ۱۹۳۲ء میں اپنے صدارتی خطبے میں درست کہاتھا: وہ لوگ جنہیں مسلمانوں کی سیاسی قیادت حاصل ہے اور جو مسلمانوں کی سیاسی کشمکش میں ان کی رہنمائی کررہے ہیں ، ابھی تک ان کے ذہنوں میں انتشار ہے…گو مسلم عوام میں قربانی کے جذبے کا فقدان نہیں ہے ۔پچھلے چند سالوں کے واقعات شاہد ہیںکہ قوم کی رہنمائی کسی قابلِ قبول اصول کے ماتحت نہیں کی جاتی جس کا نتیجہ خود ہماری سیاسی جماعتوں کے اندر اختلاف او ر تضاد کی صورت میں رونماہوتاہے۔ ۴ مستقبل میں اس مسئلے کے حل کی خاطر اقبال نے اپنے خطبے میں کئی تجاویز پیش کیں اور ان میں سب سے اہم تجویز یہ تھی کہ مسلمانوں کی صرف ایک سیاسی تنظیم ہو جس کی شاخیں ملک کے سارے صوبوں اور ضلعوں میں پھیلا دی جائیں۔ اس کا نام خواہ کچھ بھی ہو، لیکن اس کے آئین میں اتنی لچک ضرور ہوکہ ہرسیاسی مکتبۂ فکر کے حامی اس کی رکنیت اختیار کرسکیں اور کسی بھی مکتبۂ فکر کے حامیوں کے لیے ممکن ہوکہ وہ اپنے اثر ورسوخ سے اس میں برسراقتدار آکر اپنی صوابدید، نظریے یاطریق کا ر کے مطابق قو م کی رہنمائی کے لیے پالیسی مرتب کرسکیں ، لیکن ایسی سیاسی تنظیم کو وجود میں لانا اقبال کے بس میں نہ تھا۔ یہ کا م قدرت نے مستقبل قریب میں محمد علی جناح کے ہاتھو ںآل انڈیا مسلم لیگ کے احیاء کے ذریعے کروانا تھا۔ راقم کے بچپن میں رمضان کا مہینہ سردیوں میں آیا کرتا اور عید بھی سردیوں ہی میں آتی تھی۔ رمضان کا مہینہ خوب اہتمام سے منایا جاتا ۔ سردار بیگم اور گھر میں موجود تمام خواتین اور ملازم باقاعدہ روزے رکھتے ۔ قرآن مجید کی تلاوت ہوتی اور نمازیں پڑھی جاتیں۔ راقم کو سحری کے وقت اٹھنے اور سحری کھانے کابے حد شوق تھا اور ایک آدھ بار اقبال کے ساتھ سحری کا کھانا بھی یاد پڑتاہے ۔ جب عیدکا چاند دکھائی دیتاتو گھر میں بڑی چہل پہل ہوجاتی ۔ راقم عموماً اقبال کو عید کا چاند دکھایا کرتاتھا۔ اگرچہ راقم کو نہانے سے شدید چڑ تھی ، لیکن اس شب گرم پانی سے سردار بیگم اسے نہلاتیں اور وہ بڑے شوق سے نہاتا، نئے کپڑے اور جوتوں کانیا جوڑاسرہانے رکھ کر سوتا ۔ صبح اٹھ کر نئے کپڑے پہنے جاتے، عیدی ملتی ، کمخواب کی ایک اچکن جس کے نقرئی بٹن تھے، سردار بیگم راقم کو عید کے موقع پر پہناتیں۔ سرپر تلے کی گول ٹوپی ہوتی اور کلائی پر باندھنے کے لیے ایک سنہری گھڑی بھی دی جاتی جو افغانستان کے بادشاہ نادر شاہ نے راقم کے لیے بطور تحفہ بھیجی تھی ۔ سج دھج کر راقم اقبال کے ساتھ عید کی نماز پڑھنے موٹرکار میں جاتا۔ ان کی انگلی پکڑے ہوئے بادشاہی مسجد میں داخل ہوتا او ران کے ساتھ کھڑے ہوکر نمازادا کرتا۔ علی بخش ، شیخ مختار احمد یا چوہدری محمد حسین بھی ساتھ ہوتے۔ نماز سے فارغ ہوکر بارودخانے میں میا ںنظا م الدین اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے بعد گھر واپسی ہوتی ۔ اقبال اپنے والدکی تقلید کرتے ہوئے عید کے روز سوّیوں پر دہی ڈال کر کھاتے ۔ سارا دن انہیں ملنے والوں کا تانتا بندھا رہتا اور راقم کا دن گھر کی پچھلی طرف شاہ ابو المعالیؒ کے مزارسے ملحق میدان میں لگے ہوئے میلے پر کھاتے پیتے ، ہنستے کھیلتے گزر جاتا۔ رات آتی تو سردار بیگم سنہری گھڑی اور اچکن اتروا لیتیں اور پھر اگلی عید تک راقم کو ان کا انتظار کرنا پڑتا۔ ۱۹۳۴ء میں عید الفطر ۱۰ جنوری کو آئی۔ اقبال ، چوہدری محمد حسین ، علی بخش اور راقم کے ساتھ موٹرکار میں بیٹھ کر حسب معمول بادشاہی مسجد میں نماز ادا کرنے کی غرض سے گئے۔ اس روز خوب سردی تھی اور ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ۔ اقبال نے شلوار اور اچکن پہن رکھی تھی ، سر پر ٹوپی تھی لیکن پاؤں میں موزے شاید باریک تھے۔ مسجد کے یخ بستہ فرش پر جوتوں کے بغیر چلنے سے انہیں سردی سی محسوس ہوئی۔ گھر واپس پہنچ کر سوّیوں پر دہی ڈال کر کھایا۔ اگلے روز انفلواینز ا ہوگیا، جو مختلف دوائیں کھانے کے باوجود دو تین ہفتوں تک جاری رہا ۔ پھر ایک شب تین چار گھنٹے کھانسی کا دورہ پڑا۔ علاج کیاگیا۔ چند دنوں بعد انفلواینزا اور کھانسی کی شکا یت تو دور ہوگئی لیکن گلا بیٹھ گیا اور ایسا بیٹھا کہ ایلوپیتھک ، یونانی اور ریڈیائی علاج ہونے کے باوجود تکلیف رفع نہ ہوئی۔ اقبال کو دیگر عارضوں کے ساتھ یہ عارضہ آخری دم تک رہا، جس کے نتیجے میں کھل کر یا بلند آواز سے بول نہ سکتے تھے۔ اس لیے سیاسی جلسوں میں تقریروں کاسلسلہ بند ہوگیا۔ جہاں تک وکالت کے کام کاتعلق ہے، اسے تو پہلے ہی ان کی سیاست میں دلچسپی اور گول میز کانفرنسوں میں شمولیت کے سبب ہندوستان سے طویل عرصوں کے لیے غیرحاضری سے شدید نقصان پہنچ چکاتھااور اگر وہ اس سال سے اسے از سر نو شروع کرنے کاارادہ رکھتے بھی تھے تو بھی ایسے ارادے کی تکمیل کے اب امکانات ختم ہوچکے تھے۔ صحت کے نقطۂ نظر سے اقبال اگرچہ اپنے سرخ وسپید چہرے کی بدولت ہمیشہ تندرست و توانا دکھائی دیتے تھے ، مگر انہیں جوانی ہی سے مختلف قسم کے عوارض نے آگھیرا تھا۔ مزاج بلغمی تھا۔ تبخیر معدہ کی تکلیف رہتی ۔ پھر مدت تک درد گردہ کی شکایت رہی ۔ یہ مرض انہیں اپنی والدہ سے ورثے میں ملاتھا۵۔ احباب کے مشورے سے حکیم نابینا کاعلاج کرایا، جس سے بہت فائدہ ہوا۔ اس کے بعد درد نقرس کا عارضہ لاحق ہوگیا۔ اس کے دورے پڑتے تو لگاتار کئی راتیں کرب او ربے چینی کے عالم میںتڑپتے گزر جاتیں۔ ترش چیز یں کھانے کی عادت کے سبب گلا اکثر خراب رہتا۔ تمباکو نوشی سے کھانسی کی شکایت بھی تھی، جس نے رفتہ رفتہ دمۂ قلبی کی صورت اختیار کرلی ۔ کھانستے کھانستے بے ہوش ہوجایاکرتے ۔ ایک آنکھ بچپن ہی سے تقریباً بیکارتھی، لیکن اب ان کی دوسری آنکھ میں بھی موتیا اترنے لگا۔ آخر کا ربحیثیت مجموعی کمزوری اور ضعف کے باعث دل بڑھ گیا اور وہ پوری طرح خون پمپ کرنے کے قابل بھی نہ رہا، جس کے نتیجے میں معمولی محنت کرنے سے ان کا دم پھول جاتا۔ علاج کے معاملے میں بڑی بے پرواطبیعت پائی تھی ۔ بدذائقہ دواپینے سے یاناگوار شے کھانے سے انکار کرتے تھے۔ ملنے والوں میں سے کسی نے کوئی ٹوٹکا بتادیا تو اسے بھی استعمال میں لے آتے ۔ پرہیز کی پابندی سے کتراتے اور ایک طریق علاج میں دوسرا اور دوسرے میں تیسرا داخل کردیتے ۔ ایلوپیتھک طریق علاج کے اس لیے خلاف تھے کہ ڈاکٹروں کی دوائیں بدذائقہ ہوتی ہیں اور انہیں تجویز کرتے وقت مریض کی نفاست طبع کو ملحوظ نہیں رکھاجاتا، لیکن ایک بار جب حکیم نابینا نے انہیں آواز کے لیے چڑے کا مغز یاخرگوش کامغز کھانے کو کہاتو نذیر نیازی کو تحریر کیا: پرندوں او رنرخوگوش کامغز میں نے آج تک استعمال نہیں کیا…مغز خرگوش کاکھانا میرے لیے ناممکنات سے ہے…خرگوش کا مغز یاچڑے کا مغز کھانابہت مشکل معلوم ہوتا ہے۔ حکیم صاحب قبلہ کی خدمت میں عرض کیجیے کہ ان کی جگہ کوئی اور دوا تجویز فرمائیں۔۶ پھر نذیر نیازی سے پوچھا کہ کیا حکیم نابینا اپنے طبی ذوق کی گہرائیوں سے آواز کی خاطر کوئی ایسی اکسیر ایجاد کرسکتے ہیں، جو بہت جلد اور نمایاں اثر کرے؟ یعنی کیا خرگوش نر کے دماغ کاجوہر کسی کیمیاوی طریق مثلاً عرق یا ماء اللحم کی صورت میں تیا رکیاجاسکتاہے۔ نذیر نیازی لکھتے ہیں: آواز کے لیے (انہیں )اکسیر کی طلب تھی اور اصرار یہ تھاکہ حکیم صاحب اسے اپنے طبی ذوق کی گہرائیوں سے پیدا کریں ۔ یہ اس لیے کہ حضرت علامہ کے نزدیک زندگی سرتا سر ایجاد ہے۔ اس میں خلاقی ہے طباعی ہے۔ یہ اس کا اپنا ذوق ہے جو ا سکی رہنمائی کرتا اور اس کو منز ل مقصود تک لے جاتاہے ۔ حضرت علامہ کے نزدیک اس قسم کی اکسیر کی ایجاد ناممکن نہیں تھی۔ حکیم صاحب مسکرائے۔ فرمایا اللہ ڈاکٹر صاحب کو صحت د ے ہم تو اپنی دانست میں جو دوا بھیجتے ہیں، اکسیر ہی سمجھ کر بھیجتے ہیں ۔ اب کے پھر دواؤں میں تھوڑا بہت ردّوبدل کردیاگیا۔ رہا دماغ خرگوش کا معاملہ سواس سلسلے میں کسی کیمیاوی طریق پر عمل نہیں ہو سکا۔۷ کسی کا مجرب یا آزمودہ نسخہ یا ٹوٹکا استعمال میں لانے کے بارے میں دو ایک مثالیں ملاحظہ ہوں، نذیر نیازی کو اپنے ایک خط مورّخہ ۱۶ جولائی ۱۹۳۴ء میں لکھتے ہیں: مجھ کو بعض تجربہ کارلوگوں نے ہدایت دی ہے کہ گلے کے دونوں طرف جونک لگوائی جائے۔ جراحوں کا ایک پراناخاندان لاہور میں ہے وہ کہتے ہیں کہ ا ن کے پاس ایک لیپ ہے جو اس مرض کے مریضوں کے گلے پر لگایا جاتاہے ۔ میں نے ان سے لیپ کے اجزا دریافت کیے تومعلوم ہواکہ چار قسم کے گوندوں سے بنا ہے، جن کے اثر سے بلغم جل کر کافور ہو جاتی ہے ۔ جراح کا یہی خیال ہے کہ آواز کی خرابی نزلے کی وجہ سے ہے۔ وہ دعویٰ کرتاہے کہ پانچ روز تک متواتر لگانے سے آواز میں بے حد ترقی ہوگی، بلکہ ممکن ہے کہ بالکل اچھی ہو جائے او ر پھر کسی دوا لگانے یا کھانے کی ضرورت نہ رہے ۔ غرضیکہ اس کو بہت دعویٰ اس پر ہے ۔ شہر کے لوگ جو ہمارے ہمدرد ہیں مجبو ر کررہے ہیں ۔ میںنے سب کو یہی جواب دیا ہے کہ حکیم صاحب کے مشورے کے بغیر کچھ نہ ہوگا۔۸ نذیر نیازی تحریر کرتے ہیں کہ حکیم نابینا نے لیپ لگانے پر کوئی اعتراض نہ کیا، البتہ جونکیں لگوانے سے سختی سے منع کردیا۔ نیز فرما یا کہ اقبال سے کہیے تسلی رکھیں او رلوگوں کے چٹکلوں کو زیادہ اہمیت نہ دیں۔ خیر جراح کا لیپ استعمال کیا گیا، لیکن اس سے بھی کوئی فائدہ نہ ہوا۔۹ ۱۸ ستمبر ۱۹۳۴ء کو نذیر نیازی کے نام خط میں تحریر کیا: ایک شخص جو خود اس بیماری کا مریض رہ چکاہے ، عراق میں اسے ایک ترک طبیب نے تمباکو میں چرس رکھ کر پلائی تھی او ر اس کے ساتھ لپٹن چائے جس میں شکر کی جگہ گڑ ڈالاجائے۔ اس نسخے سے اسے فائدہ ہوا اور تین چارروز کے عرصے میں اس کی آواز صاف ہوگئی۔ کہتاہے شرطیہ علاج کرتاہوں۔آپ حکیم صاحب سے اس کا ذکر کریں کہ آیا چرس کا استعمال آواز کے لیے مفید ہے۔۱۰ بقول نذیر نیازی ، چرس او رگڑ اور لپٹن کی چائے کاسن کر حکیم نابینا نے کہاکہ معاذ اللہ میں ہرگز اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ مزید فرمایاکہ ڈاکٹر صاحب بڑے سادہ مزاج ہیں ، ہر ٹوٹکے پر اعتبار کرلیتے ہیں۔ ان کی بد پرہیزی کی ایک مثال پیش خدمت ہے۔ ۲۳؍جون ۱۹۳۴ء کے خط میں نذیر نیازی کو تحریر کر تے ہیں کہ تجربے سے معلوم ہوا، دہی او ر لسّی کاگلے پر اچھا اثر نہیں ہوتا۔ اسی طرح فالودے کا اثر بھی اچھا نہیں ہوتا لیکن اس سے اگلے ہی روز اپنے خط میں انہیں لکھا: دوسرے ہفتے کی دوا نے ، پہلے ہفتے سے ترقی جو آواز میں ہوئی تھی ، کوئی اضافہ نہیں کیابلکہ ترقی معکوس میں ہوئی۔ اس کے وجوہ جہاں تک سوچ سکتاہوں ، تین ہوسکتے ہیں : (۱) میںنے دہی کھایااور لسّی بھی پی۔ (۲) فالودہ پیا (برف ڈال کر) (۳) آپ نے پچھلے خط میں لکھا تھاکہ دوا کی مقدار دگنی کردی گئی ہے۔ شاید ڈوس (خوراک) کے بڑھ جانے کی وجہ سے آواز نے ترقی معکوس کی۔ ۱۱ خیر گلے کا عارضہ لاحق ہونے کے تقریباً تین ماہ بعد یعنی اپریل ۱۹۳۴ء میں جب نذیر نیازی دہلی سے لاہور پہنچ کر اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہیں علیل پاکر گھبراگئے۔ اسی تکلیف کی بنا پر اقبا ل جامعہ ملیّہ میں ترکی رہنما بہجت وہبی کے توسیعی خطبات میں کسی ایک کی صدارت کی خاطر دہلی نہ جاسکے تھے، گو اس حالت میں بھی جامعۂ ملیّہ کو ایک ایسا ادارۂ طبع ونشر قائم کرنے کا مشورہ دیا جو بقول نذیر نیازی ، عصر حاضر کے جدید افکار ا ور رجحانات کے پیش نظر مطبوعات کے ذریعے اسلام کی ترجمانی نئے علمی تقاضوں کے علاوہ اس کے عمرانی، تہذیبی اور ثقافتی پہلوؤں کا لحاظ رکھتے ہوئے اس طرح کرے کہ عالم اسلام میں ذہناً اور عملاً جو انتشار پھیل رہا ہے اس کا ازالہ ہوجائے ، لیکن اس اندازمیں کہ قدیم و جدید کی غلط بحث کو سر اٹھانے کاموقع نہ ملے۔۱۲ نذیر نیازی کو بتایاگیا کہ سینے وغیر ہ کے ایکس ریز فوٹو کی بنیاد پر ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ دل کے اوپر کی طرف ایک نئی گروتھ (رسولی) ہورہی ہے۔ جس کے دباؤسے ووکل کارڈ (آلۂ صوت) متاثر ہوتی ہے۔ ان کے نزدیک اس بیماری کا علاج یاتو ریڈیم سے ہوگا یا ایکس ریز سے اوریہ دونوں علاج یورپ ہی میں ہوسکتے تھے۔ اس لیے انہیں لندن یا وی آنا (آسٹریا ) چلے جانا چاہیٔے تاکہ علاج مذکور سے گروتھ کی نشوونما روکی جاسکے یا اسے ایکس ریزیا ریڈیم سے تحلیل کیاجا سکے ۔ ان کی رائے میں اگر گروتھ کی طرف توجہ نہ کی گئی تو زندگی خطرے میں پڑ جائے گی، کیونکہ ممکن ہے یہ گروتھ بڑھ کر پھیپھڑوں پر بھی اپنا دباؤ ڈالے۔ نذیر نیا زی نے عرض کیا کہ حکیم نابینا کے علاج سے اقبال کی دردگردہ رفع ہوئی تھی، اس لیے اس معاملے میں بھی کیوں نہ ان سے رجوع کیاجائے ۔ اقبال کا ذاتی رجحان طب ہی کی طرف تھا۔ اور ویسے بھی انہیں یقین تھا کہ ایلوپیتھک طریق علاج کو دوسرے طریقوں پر وہ برتری حاصل نہیں جس کا عموماًدعویٰ کیاجاتاہے ۔ پس انہیں نذیر نیازی کی تجویز پسند آئی او رحکیم نابینا کا علاج شروع ہوا۔ حکیم نابینا نے اقبال کو دہلی آنے کے لیے کہا۔ نتیجتاً وہ ۱۱؍جون ۱۹۳۴ء کو دہلی پہنچے ۔ حکیم نابینا نے بڑی توجہ اور ہمدردی سے ان کا حال سنا۔ پھر نبض دیکھی ، نسخہ تجویز کیا ، دوائیں منگوائیں اور ضروری ہدایات دیں۔ ۱۲جون ۱۹۳۴ء کو اقبال واپس لاہور آگئے۔ ۱۳ حکیم نابینا کے علاج سے چند ماہ میں ان کی عام صحت تو خاصی بہتر ہوگئی لیکن آواز میں کوئی خاص افاقہ نہ ہوا۔ اُدھر ان کے عارضے کے متعلق ڈاکٹروں کا آپس میں اختلاف راے بڑھتا چلاگیا۔ چھ سات ماہ گزرنے کے بعد بالآخر ڈاکٹر اس نتیجے پر پہنچے کہ گروتھ، ٹیومریا رسولی کی تھیوری غلط ہے ، کیونکہ اگر ایسی صورت حال ہوتی توان کی عام صحت اس قدر جلد ترقی نہیں کرسکتی تھی بلکہ روز بروز بدتر ہوتی چلی جاتی۔ سواب اُن کے خیال میں اقبال کا مرض صرف شاہرگ کا پھیلاؤ یا ورم تھا جو خون کے سمی مادوں یا نفس کے زیادہ استعمال کے سبب پیدا ہوسکتا تھااور یہ عارضہ بعض پہلوانوں اور گویوں کوبھی لاحق ہوتا ہے ۔ پس مرض خطرناک تو نہ تھامگر آواز کے نارمل حالت میں عود کر آنے کے امکانات کم تھے، اس لیے علاج کی یہی ایک صورت تھی کہ موجودہ آواز پر اکتفا کیاجائے اور شاہرگ کے پھیلاؤ کو دواؤں کے ذریعے روکنے کی کوشش کی جائے۔ ۱۴ اسی دوران میں اقبا ل کو جنوبی افریقہ کے مسلمانوں کی طرف سے دعوت موصول ہوئی کہ اُن کے ملک کا دورہ کریں۔ اسی طرح ان کے بعض قدردان انہیں جرمنی میں دیکھنا چاہتے تھے اور ترکی کے بعض حلقے انہیں وہاں بلانے کے آرزو مند تھے ، لیکن اقبال کو اپنی علالت کے سبب بیرون ملک جانے کے تمام منصوبے ترک کرنے پڑے ۔۱۵ نذیر نیازی کی وساطت سے جامعۂ ملّیہ کے ساتھ اپنے انگریزی خطبات مع اردو ترجمہ از نذیر نیازی اور زیر کتابت شعری تصانیف ’’مسافر ‘‘ اور ’’بال جبرل‘‘ کی طباعت و اشاعت کے سلسلے میں بھی بات چیت ہوئی ، مگر ا س کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ آواز کی اچانک خرابی اقبال کے لیے ایک نفسیاتی دھچکا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ اس مصیبت سے جتنی جلد ممکن ہوسکتا ہے، چھٹکارا حاصل ہوا وروہ معمول کے مطابق اپنی مصروفیات کی طرف متوجہ ہوں۔ ڈاکٹروں ، حکیموں ا ورجراحوں کے علاج نے ان پر مایوسی کی کیفیت طاری کردی تھی۔ غالباً اسی سبب وہ ٹوٹکوں یا چٹکلوں پر اتر آئے تھے یا کسی معجزے کے منتظر تھے۔ بیماری کے باعث ملکی سیاست میں ان کی دلچسپی کچھ محدود سی ہوگئی، لیکن بالکل ختم نہ ہوئی۔ اس زمانے کے اخبارات بالخصوص ’’انقلاب ‘‘ میں ان کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اہم مسائل پر وہ اپنی رائے کا اظہار ضرور کرتے تھے مثلاً کشمیر میں ایجی ٹیشن ہنوز جاری تھی اور ریاستی پولیس سیاسی مظاہرین کو وحشیانہ سزائے بیدزنی دینے یا ان پر گولی چلانے سے باز نہ آتی تھی۔ اس سلسلے میں اقبال نے ۲۲فروری ۱۹۳۴ء کو نہ صرف وائسرائے کو تار بھیجا بلکہ ۳مارچ ۱۹۳۴ء کوایسی انسانیت سوز سزاؤں کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے جمعیتِ اقوام کے نام ایک برقی پیغام بھی ’’لندن ٹائمز ‘‘میں شائع کرایا۔۱۶ ۲۴ مئی ۱۹۳۴ء کو کمیونل ایوارڈ (فرقہ وارانہ فیصلہ ) کے متعلق انہوں نے نمائند ہ ایسوسی اٹیڈپریس کو بیان دیتے ہوئے فرمایا کہ کانگرس کو کمیونل ایوارڈ کی مخالفت نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کے بجائے ہندو مسلم رہنماوں کو باہمی سمجھوتے کے لیے مشترکہ جدوجہد کرنی چاہیے ۔ ان ایام میں کانگرس کے اندر سوشلسٹ پارٹی بن چکی تھی اور پنڈت جواہر لعل نہرو بھی سوشلزم کے حامی سمجھے جاتے تھے، بہرحال سوشلسٹ پارٹی کو پٹنہ میں شکست ہوئی ۔ اس خیال سے کہ شاید سوشلسٹ پارٹی کے لبرل ہندو لیڈر کانگرسی سوراجی یا مہاسبھائی ہندو لیڈروں کے مقابلے میں مسلم رہنماؤں کے ساتھ زیادہ آسانی سے سمجھوتا کرلیں، اقبال نے ان کے خیالات سے ہمدردی کااظہار کرتے ہوئے کہا: امیروں کے خلاف ملک میں عام جذبہ پیدا ہوگیاہے وہ محسوس کررہے ہیں کہ نازک مرحلوں پر امیر طبقہ ہمیشہ ان سے غداری کرتاہے۔ جو حکومتیں کبھی سرمایہ پرستی کی پوجاکرتی تھیں آج مزدوروں اور کسانو ںکے رحم پر جی رہی ہیں۔ سب طرف بے چینی کی چنگاریاں سلگ رہی ہیں اور کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ وہ کس وقت ایسی خطرناک صورت اختیار کرلیں کہ ایک زبر دست آگ بن کر دنیا کے موجودہ نظام کو بھسم کردیں ۔ جب ساری دنیا میں مساوات کی لہر چل رہی ہے تو ہندوستان کب تک اس کے اثر سے خالی رہ سکتا ہے ؟ یہاں کے غریبوں میں اب بیداری پیدا ہورہی ہے …سوشلسٹ خیالات محض روسی پروپیگنڈا ہی کی وجہ سے نہیں پھیل رہے ہیں، بلکہ اور بہت سے اسباب ایسے پیدا ہوگئے ہیں جن سے ملک کی اقتصادی حالت میں تبدیلی کاہونا لازمی ہے۔ سوشلسٹ پارٹی کو اگرچہ پٹنہ میں شکست ہوئی ہے لیکن ان کے سامنے مستقبل ہے۔ گو اس کا انحصار زیادہ تر کانگریس سے علیحدگی پر ہے۔۱۷ کانگرس نے اپنے بعد کے ایک اجلاس میں کمیونل ایوارڈ کے متعلق رائے کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیاکہ وہ اسے نہ تو منظور کرتی ہے او رنہ مسترد۔ اس پر ۱۹جون ۱۹۳۴ء کو اقبال نے کانگرس کے رویے پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے بیان میں واضح کیاکہ یہ تاثر دیتے ہوئے کہ کمیونل ایوارڈ پر ہندوستان میں اختلاف رائے ہے کانگرس نے اعلان کیا ہے کہ وہ اسے نہ تو قبو ل کرتی ہے اور نہ مسترد کرتی ہے ۔ حالانکہ کمیونل ایوارڈ ایک ایسا فیصلہ ہے جو وزیر اعظم برطانیہ نے انہی لوگوں کے ایماء پر صادر کیاہے جو اب اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اقبال نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ اگرچہ کمیونل ایوارڈ ان کے تمام مطالبات پورے نہیں کرتا ، وہ اسے قبول کرلیں کیونکہ عملی تقاضوں کے پیش نظر انہیں صرف یہی راستہ اختیار کرنا چاہیے۔۱۸ ۲۹جون ۱۹۳۴ء کی شام کو اقبال سرہند تشریف لے گئے اور شیخ احمد (حضرت مجدّد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ) کی بارگاہ میں حاضر ہوئے ۔ ۳۰جون ۱۹۳۴ء کو واپس لاہور آگئے۔ چوہدری محمد حسین ، حکیم طاہر الدین ، علی بخش اور راقم ان کے ہمرا ہ تھے۔ غلام بھیک نیرنگ ، ان کے پرانے دوست ، انبالے سے سر ہند پہنچے اور انہوں نے اقبال کے ساتھ مزار پر حاضری دی۔ راقم کو خوب یاد ہے کہ وہ ان کی انگلی پکڑے مزار میں داخل ہوا۔ گنبد کے تیرہ وتار مگر پروقار ماحول نے اس پر ایک ہیبت سی طاری کردی تھی۔ اقبال تربت کے قریب فرش پر بیٹھ گئے اور راقم کو بھی پاس بٹھا لیا۔ پھر انہوں نے قرآن مجید کا ایک پارہ کھولا اور دیر تک تلاوت کرتے رہے ۔ اس وقت وہاںاور کوئی موجود نہ تھا۔ گنبد کی خاموش اور تاریک فضا میں ان کی رندھی ہوئی مدھم آواز گونج رہی تھی ۔ راقم نے دیکھا کہ ان کی انکھوں سے آنسوو اُمڈکر رخسارو ںپر ڈھلک آئے ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی ؒکے مزار پر حاضری دینے کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ راقم کی پیدائش پراقبال نے عہد کیاتھاکہ وہ اسے ساتھ لے کر بارگاہ میں حاضر ہوں گے۔ دوسری وجہ کے متعلق انہوں نے نذیر نیازی کواپنے ایک خط موّرخہ ۲۹ ؍جون ۱۹۳۴ء میں تحریر کیا: چند روز ہوئے صبح کی نماز کے بعد میری آنکھ لگ گئی ۔ خواب میں کسی نے مندرجہ ذیل پیغام دیا: ہم نے جو خواب تمہارے او رشکیب ارسلان (شام کے معروف دروزی رہنما، اتحاد ممالک اسلامیہ اوراحیائے اسلام کے بہت بڑے داعی)کے متعلق دیکھاتھا،وہ سرہند بھیج دیا ہے ۔ ہمیں یقین ہے کہ خدا تعالیٰ تم پر بہت بڑا فضل کرنے والا ہے ۔ پیغام دینے والا معلوم نہیں ہوسکا کون ہے۔ اس خواب کی بنا پر وہاں کی حاضری ضروری ہے۔۱۹ اقبال کو سرزمین سر ہند بہت پسند آئی اور اس کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے نذیر نیاز ی کو بعد کے خطوط میں تحریرکیا: نہایت عمدہ اور پُر فضا جگہ ہے۔ ان شاء اللہ پھر بھی جاؤںگا…مزار نے میرے دل پر بڑا اثر کیا ہے۔ بڑی پاکیزہ جگہ ہے ۔پانی اس کاسرداور شیریں ہے۔ شہر کے کھنڈرات دیکھ کر مجھے مصرکا قدیم شہر فسطاط یاد آگیاجس کی بنا حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے رکھی تھی۔ اگر سرہند کی کھدائی ہوتو معلوم نہیں اس زمانے کی تہذیب و تمدن کے کیاکیاانکشافات ہوں۔ یہ شہر فرخ سیر کے زمانے میں بحال تھا ا ور موجودہ لاہور سے آبادی وسعت کے لحاظ سے دگنی تھی۔۲۰ سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی بھی ایک نہایت اہم مسئلہ تھاجس پر اُن دنوں اقبال نے اظہارخیال کرنا ضروری سمجھا۔ ۱۹۲۵ء میں انگریزی حکومت نے مسلمانوں کے مطالبے پر ملازمتوں کی ایک خاص تعداد کو فرقہ وار توازن درست کرنے کے لیے مقرر کیاتھا، لیکن یہ پالیسی موّثر ثابت نہ ہوئی اور عدم تواز ن بدستور رہا۔ ۱۹۳۴ء کے وسط میں مرکزی حکومت نے قرارداد پاس کی کہ براہ راست پُر ہونے والی اسامیوں میں پچیس فیصد نیابت مسلمانوں کو دی جائے او راگر مقابلے کے امتحان کے ذریعے پر ہونے والی آسامیوں میں مسلمانوں کاتناسب کم رہ جائے تو اس کمی کو بذریعہ نامزدگی پُرکیاجائے۔ اقبال نے مسلم کانفرنس کے سیکرٹری حاجی رحیم بخش کے ہمراہ اپنے ایک بیان مورخہ ۷جولائی ۱۹۳۴ء میں اس قرار داد پر تبصرہ کرتے ہوئے مطالبہ کیاکہ یہ تناسب پچیس فیصد کی بجائے تینتیس فیصد ہونا چاہییٔ، کیونکہ مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کے لیے تینتیس فیصد نیابت ہی طے ہوئی ہے ،بلکہ ملازمتوں میں پرانی کمی کو دور کرنے کے لیے نئی اسامیوں میں مسلمانوں کاتناسب اس سے بھی زیادہ ہونا چاہیے ۔ پھر ۹؍جولائی ۱۹۳۴ء کوانہوں نے ایک او ربیان دیا جس کا ماحصل یہ تھا کہ صوبائی حکومتیں بھی مرکزی حکومت کی اس قرارداد کی تائید کریں۔ نیز قرار داد پر صحیح طریقے سے عمل درآمد کروانے کی خاطر ایک موّثر مشینری وجود میں لائی جائے۔ ۲۱ ۱۴جولائی ۱۹۳۴ء کو اقبال نے بحیثیت صدر، انجمن حمایت اسلام کے دفتر میں اس کی جنرل کونسل کے اجلاس میں شرکت کی اور آنریری سیکرٹری نے ان کی تحریر شدہ تقریر ممبران کے سامنے پڑھی ۔ اس تقریر میں اقبال نے انجمن کے ارباب بست و کشاد کی توجہ تیس اہم امور کی طرف مبذول کرائی۔ا وّل یہ کہ انجمن کے کالج او راسکولوں میں مسلم نوجوانوں کے لیے دینی اور اخلاقی تعلیم کابندوبست کیاجائے۔ دوم یہ کہ مسلم لڑکیوں کی تعلیم کے لیے انجمن اپنا نصاب تجویز کرے اور اس کے مطابق ایک امتحان لینے والا ادارہ ان کا سالانہ امتحان لے کر خود ہی اسناد تقسیم کیاکرے ۔ رفتہ رفتہ اس امتحان لینے والے ادارے کو مسلم خواتین کی آزاد یونیورسٹی کی صورت میں منتقل کر دیا جائے، بلکہ لڑکیوں کا مجوزّہ صنعتی اسکول بھی اسی یونیورسٹی کی ایک شاخ قرار پائے ۔سوم یہ کہ اسلامیہ کا لج کے انتظام کے لیے ایک ایسا پرنسپل مقررکیا جائے جو علم و فضل کے علاوہ صاحب اثر و بارسوخ ہو ، مسلمانوں کی آرزووں سے ہمدردی رکھتا ہو۔ اور ان کے بچوں کو ان تمام امور میں تربیت دے سکے جو ملک کے آئندہ سیاسی تغیرّات کی وجہ سے قومی زندگی کے لیے اب بے انتہا ضروری ہوگئے ہیں ۲۲ ۔انہوں نے ۳۰اگست ۱۹۳۴ء کو پھر انجمن کی جنرل کرنسل کے سالانہ بجٹ سے متعلق اجلاس کی صدارت کی۔ اگست ۱۹۳۴ء میں اقبال کی پریشانیوں میں ایک اور پریشانی کا اضافہ ہوگیا۔ یہ سردار بیگم کی ناگفتہ بہ حالت تھی ۔ سردار بیگم ، جن کی عمر تب تقریباً چالیس برس تھی، ۲۳ چند سالوں سے علیل تھیں۔ ان کا جگر اور تلی دونوں بڑھ گئے تھے اور ایک مدت سے ڈاکٹر ان کا علاج کررہے تھے ، لیکن کوئی فائدہ نہ ہوتاتھا۔ ڈاکٹروں کی تشخیص تھی کہ ان کے خون میں سرخ ذرات نہیں رہے یا ان کی بہت کمی ہوگئی ہے۔ اقبال نے ان کا علاج بھی حکیم نابینا سے کرانا شروع کردیا۔ اپنی صحت اور سردار بیگم کی علالت کی پریشانیاں تو بدستور رہیں، مگر بعض ایسے خانگی امور بھی تھے جو مدت سے ٹل رہے تھے اور جو ان کی فوری توجہ کے مستحق تھے۔ سو اسی ماہ انہوں نے راقم کی بنک میں جمع شدہ رقم میں کچھ رقم اپنی طرف سے ڈال کر ، سردار بیگم کی خواہش کے مطابق ، نیلامی میںایک قطعہ اراضی میوروڈ (حال علامہ اقبال روڈ)پر خرید کیاتاکہ اس پر کوٹھی تعمیر کی جاسکے ۔ کوٹھی کی تعمیر پر سردار بیگم کی روزمرّہ خرچ سے بچائی ہوئی رقم ، ان کے زیورات کی فروخت سے حاصل کردہ رقم اور بنک میں ان کے نام جمع شدہ رقم استعمال کی گئی ۔ کوٹھی کی تعمیر کے لیے اقبال نے اپنے بھائی شیخ عطا محمد کو سیالکوٹ سے بلوایا اور ان کی زیر نگرانی ایک ٹھیکے دار کے ذریعے نومبر ۱۹۳۴ء کے دوسرے یا تیسرے ہفتے میں ’’جاوید منزل‘‘ کی تعمیر شروع ہوئی۔اقبال کوکوٹھی کی تعمیر کے لیے مزید روپوں کی ضرورت تھی اور ان کی خواہش تھی کہ اگر جامعۂ ملّیہ ان کے خطبات کی طباعت پر رضا مند ہوجائے توا نہیں اس ایڈیشن کی رقم یکمشت اور فوراً ادا کردی جائے۔ ’’بال جبریل‘‘ کی کتابت ہی کے دوران میں اس کے پہلے ایڈیشن کی فروخت کا انتظام ہوگیاتھا،لیکن جامعۂ ملّیہ کی اپنی مالی مشکلات کے باعث یہ مسئلہ اقبال کے حسب منشا طے نہ ہوگا۔ ’’جاوید منزل ‘‘ کی تعمیر پانچ ماہ بعد یعنی اپریل ۱۹۳۵ء میں مکمل ہوئی او راقبال مع اہل و عیال ۲۰مئی ۱۹۳۵ء کواس میں منتقل ہوئے۔ چونکہ قطعۂ اراضی راقم کی عطا کردہ رقوم سے خریدا گیا تھا اور کوٹھی کی تعمیر پر سردار بیگم کا رپیہ استعمال ہواتھا، اس لیے ابتدا میں زمین اور کوٹھی اقبال اور سردار بیگم دونوں کی ملکیت تھیں، مگر سردار بیگم کی وفات سے دوروز قبل دونو ںنے یہ جائداد راقم کے نام کردی ۔ اب اس مکان میں اقبال اور سردار بیگم کی حیثیت محض کرایہ داروں کی تھی اور اقبال ہر ماہ کی اکیس تاریخ کو ’’جاوید منزل ‘‘ کے ان کمروںکا جو ان کے زیر استعمال تھے، کرایہ راقم کو ادا کرتے تھے۔ ستمبر ۱۹۳۴ء میں مثنوی ’’مسافر‘‘ شائع ہوئی اور اس سے ایک ماہ پیشتر اقبال نے اس وقت تک کی شائع شدہ اپنی تمام کتب کا حق تضیف بھی راقم کے نام کرکے دستاویز رجسٹری کرادی ۲۴۔اقبال کے گوشوارہ آمدنی سے ظاہر ہوتاہے کہ گلے کی خرابی کے عارضے کے بعد کے سالوں میںان کی آمدنی بحیثیت مجموعی کم ہوگئی ۔ وکالت سے آمدنی بہت ہی تھوڑی رہ گئی۔ ان کی انکم ٹیکس فائل کے مطابق ۱۹۳۵ء سے وکالت تو بالکل بند ہوچکی تھی اور اس شعبے سے آمدنی صفر تھی ۔ یہی صورت ان کی وفات تک قائم رہی ۔ گزارہ یونیورسٹیوں کے امتحانات کے پرچوں سے آمدنی ، رائلٹی یا کتابوں کی فروخت پر تھا، یا اس پانچ صد روپے ماہوا ر وظیفے پر جو نواب بھوپال نے مقرر کررکھا تھا۔ اس کے علاوہ گوشوارو ںمیں بنک کے منافع سے بھی دو تین صد روپے سالانہ آمدنی ہوتی تھی۔ یہاں یہ بتادینا ضروری ہے کہ اقبال کی آمدنی کانقشہ ۲۵-۱۹۲۴ء تک اسی کتاب کے سابقہ صفحات پر میں دیا گیا ہے ۔ باقی حصّہ ان کے سال وفات تک درج ذیل ہے:- مالی سال آمدنی ٹیکس ۲۶-۱۹۲۵ ۵۳۳۸روپے ۱۶۶روپے ۲۷-۱۹۲۶ء ۱۲۰۶۲روپے ۵۶۵روپے ۲۸-۱۹۲۷ء ۹۳۶۲روپے ۲۹۲روپے ۲۹-۱۹۲۸ء ۱۵۶۷۹روپے ۷۳۴روپے ۳۰-۱۹۲۹ء ۱۳۴۱۰روپے ۶۲۸روپے ۳۱-۱۹۳۰ء ۱۶۸۹۴روپے ۱۴۰۷روپے ۳۲-۱۹۳۱ء ۳۷۵۶روپے ۱۴۶روپے ۳۳-۱۹۳۲ء ۴۶۵۷روپے ۱۸۱روپے ۳۴-۱۹۳۳ء ۴۱۰۶روپے ۱۶۰روپے ۳۵-۱۹۳۴ء ۴۶۰۹روپے ۱۶۸روپے ۳۶-۱۹۳۵ء ۷۸۶۰روپے ۳۹۹روپے ۳۷-۱۹۳۶ء ۱۶۰۶۵روپے ۱۴۵۰روپے ۳۸-۱۹۳۷ء ۸۰۶۲روپے ۴۰۹ روپے صفدر محمود تحریر کرتے ہیں: اس سال (حیات اقبال کے آخری سال ) کی آمدنی ۸۰۶۲روپے تشخیص کی گئی۔ بیماری کے باوجود اس سال پرچوں سے ۵۴۹ روپے آمدنی ہوئی تھی ۔ ممکن ہے علامہ اقبال کو آخری برسوں میں بیماری کے اخراجات کے سبب کچھ دقت کا سامنا کرنا پڑا ہو…فنی نقطۂ نظر سے انکم ٹیکس کے فیصلوں کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتاہے کہ بعض اوقات ہندوانکم ٹیکس افسران اپنے اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھاکر علامہ اقبال سے زیادتی بھی کرتے رہے اور ایسے فیصلوں کی قانونی بنیادیں اس قدر کمزور ہیں کہ اگر علامہ اقبال مرحوم نے اپیل کی ہوتی تو یقینا ان کو فائدہ ہوتا۔ انکم ٹیکس سال ۳۶-۱۹۳۵ء کے فیصلے میں افسر نے خود تسلیم کیاہے کہ علا ّمہ اقبال صاحب کافی عرصے سے علیل ہیں اس کے باوجود ان کی بیان کردہ آمدنی میں ۱۴۰ روپے کا اضافہ کرکے انہیں وہ تمام اخراجات بھی نہ دیے گئے ہیں جو بہرحال ان کا استحقاق تھا۔ ۳۲-۱۹۳۱ء میں بھی کئی جائز اخراجات تسلیم نہ کیے گئے۔ نتیجے کے طور پر وہ آمدنی میں شامل ہوئے ۔ اور ٹیکس بڑھ گیا، لیکن آپ نے کوئی احتجاج نہ کیا۔ ۲۷ ستمبر ۱۹۳۴ء ہی میں انہوں نے علی گڑھ یونیورسٹی میں ایک خدا دشمن مجلس کے وجود کے متعلق سنا، جس نے وطینت اور اشتراکیت کے آڑ لے کر اسلامیت کے خلاف ایک زبر دست محاذقائم کررکھاتھا۔ اقبا ل کویہ سن کر اس قدر رنج ہواکہ تمام رات بے خواب گزری اور صبح کی نماز میں گریہ وزاری کی کوئی حد نہ رہی۔۲۸ نذیر نیازی تحریر کرتے ہیں کہ یہ مجلس اگرچہ توڑدی گئی اور اس کے منتظمین کو علی گڑھ یونیورسٹی سے نکال دیا گیا، مگریہ امر کہ یہ سب کچھ مسلمانوں کے مدرستہ العلوم میں ہوا، اقبال کے لیے بڑا تکلیف دہ تھا۔(جناب مختار مسعود کی رائے میں ایسی کسی خدا دشمن مجلس کا ذکر علی گڑھ کے حالات سے متعلق کتابوںمیں نہیں ملتا۔ لہٰذا اس معاملہ میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے) ۲۹ ۵دسمبر ۱۹۳۴ء کو سرتیج بہادر سپرو اقبال کو ملنے آئے ۔ سریتج ہندوؤں کے ایک لبرل لیڈر تھے، اور سپرو ہونے کے ناتے سے اقبال کے ہم ذات ، نیز اردو اورفارسی ادب کے اسکالرہونے کے سبب اقبال کے مداح اور عقیدت مند تھے۔ اقبال بھی ان کی بڑی تعظیم کرتے تھے۔ ان دنوں وہ حکیم نابینا کے زیر علاج تھے اور انہیں ان کی دوا سے فائدہ پہنچا تھا، اس لیے اقبال سے حکیم نابینا کے کمالات کا ذکر کرتے رہے ۔ ۳۰ علی گڑھ یونیورسٹی کے حالات کے پیش نظر دسمبر ۱۹۳۴ء کے آخر ی حصّے میں اقبال دو ایک روز کے لیے علی گڑھ تشریف لے گئے۔ واپسی پر دہلی رکے اور حکیم نابینا سے سردار بیگم کی علالت کے بارے میں مشورہ کیا ۔ ۲۵ دسمبر ۱۹۳۴ء کی صبح لاہور پہنچے۔ ۳۱ سردار بیگم کی طویل علالت کے سبب گھر کے ماحول پر افسردگی سی چھائی رہتی۔ سردار بیگم کا تو بیشتر وقت بسترِ علالت ہی پر پڑے گزرتا۔ اس لیے وہ منیرہ او رراقم کی صحیح دیکھ بھال نہ کرسکتی تھیں۔ منیرہ کی عمر تب تقربیاً ساڑھے چاربرس تھی اور راقم کی ساڑھے دس برس ۔ منیرہ کو محلے کی لڑکیاں سارا دن گود میں اٹھائے لیے پھرتیں ،لیکن وہ کسی سے نہ بہلتی تھی اور دن بھر منہ آسمان کی طرف اٹھا کر روتی رہتی ، جس سے سردار بیگم بہت کڑھتیں۔ اصل میں منیرہ کو ماں کی توجہ یا محبت کی ضرورت تھی جو بد قسمتی سے اسے میسر نہ آئی۔سردار بیگم اسے پانچ برس سے کم عمر کی چھوڑ کر فوت ہوئیں۔ لہٰذا بڑی ہونے پر اسے ماں کی صورت بھی یادنہ تھی ۔ اقبال بھی صاحب فراش تھے اور راقم کو یاد پڑتا ہے کہ اس نے انہیں بسا اوقات شدید پریشانی اور بے بسی کے عالم میں دیکھا تھا ۔ ابھی کل ہی کی تو بات معلوم ہوتی ہے، جب وہ گرمیوں کے موسم میں دریائے راوی کنارے میاں نظا م الدین کے آموں کے باغات میں راقم کو ساتھ لے کر جاتے۔ ایک بڑے حوض کے قریب محفل جمتی ۔ نل کے ٹھنڈے پانی سے بھرے ہوئے حوض میں صبح ہی سے ڈھیروں چوسنے والے آم ڈال دیے جاتے ۔ اقبا ل کی پسندیدہ قسم ٹیپو آم تھا جس کانام انہوںنے خودہی رکھاتھا۔ راقم کپڑے اتارکر حوض میں اتر جاتا اور ڈبکی لگا کر آم نکالتا۔خود بھی کھاتا اور انہیں بھی پیش کرتا۔ میاں نظا م الدین ، میاں امیر الدین ،میاں صلاح الدین ، ایم اسلم ، محمد دین تاثیر ، چوہدری محمد حسین اور ماسٹر عبداللہ چغتائی موجود ہوتے ۔ سینکڑوں کی تعداد میں آم کھائے جاتے اور ان سب کے قہقہوں کی گونج دریائے راوی کے کنارے دور دورتک سنی جاتی۔ مگر اب اقبال کے ہنستے کھیلتے گھر پر بیماریو ںکا سا یہ آپڑا تھا۔ گذشتہ چند سالوں میں راقم کی تکلیفوں سے ان کے چہرے پر دو مرتبہ تشویش کے آثار ضرور نظر آئے۔ ایک دفعہ جب راقم کو میعادی بخار چڑھا تھا او ردوسری دفعہ جب راقم کی گردن کی دائیں طرف ایک گلٹی سی نمودار ہوئی تھی، جسے ڈاکٹر یعقوب بیگ نے آپریشن کر کے نکالاتھا۔ اقبا ل راقم کو خود ریلوے روڈ پر واقع ڈاکٹر یعقوب بیگ کے کلینک میں لے گئے تھے اور آپریشن کے دوران شدید پریشانی کے عالم میں ان کے دفتر میں بیٹھے رہے۔ ماں اور باپ دونوں کو بستر علالت پر پڑے دیکھ کر بعض اوقات راقم اور منیرہ ایک دوسرے کو سہمی ہوئی نظروں سے دیکھتے ۔ دونوں کی عمرمیں چھ برس کا فرق تھا ۔ اس لیے ایک دوسرے کے لیے اجنبی تھے، کیونکہ آپس میں کھیل بھی نہ سکتے تھے۔ منیرہ توایک نہایت ہی تنہا بچی تھی، کیونکہ اس کے ساتھ کھیلنے والا کوئی نہ تھا۔ سردار بیگم کا علاج صرف ایلو پیتھک یا یونانی طریق ہی سے نہ ہوتا تھا ۔ جس طرح اقبال اپنے عارضے کے لیے ٹوٹکے یا چٹکلے استعمال میں لانے سے گریز نہ کرتے، اسی طرح سردار بیگم کی جاننے والی بیوی صاحبہ اور ان کی خادمہ رحمت بی ا ن کی بیماری کو رفع کرنے کی خاطر کوئی نہ کوئی جادو ٹونا کرتی رہتی تھیں۔ یہ شاید اس نسل کی مسلمان عورتوں پر ہندو تہذیب کا اثر تھا۔ راقم کے میعادی بخار کے ایّام میں بھی ایک مرتبہ رحمت بی نے اپنی چادر میں سے کالے بکرے کی سری نکال کر اس کے سامنے رکھ دی تھی اور راقم کو اسے چھونے کے لیے کہا تھا۔ راقم نے حکم کی تعمیل کردی۔ پھر رحمت بی نے سری کا منہ کھول کر اس کی زبان پر ایک پیسہ رکھا اور راقم کی قمیض اترواکر اس میں سری کو لپیٹا ۔ بعد میں غالباً کسی عامل سے اس پر کچھ پڑھوایاگیا او ربالآخر وہ اسے صبح سویرے بازار میں کسی اندھے فقیر کی جھولی میں ڈال آئی تھیں۔ نوسال کی عمر میں راقم کو سیکرڈہارٹ اسکول سے اٹھواکر ایک سال کے لیے انار کلی بازار کے قریب سینٹ فرانسس اسکول میں ڈالا گیا۔ جہاں ماسٹر تارا چند اسے پڑھاتے تھے۔ اس اسکول سے پرائمری کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ ۱۹۳۴ء میں سنٹرل ماڈل اسکول میں پانچویں جماعت میں داخل ہوا۔ جنوری ۱۹۳۵ء میں اقبال کا معروف اردو مجموعۂ کلام ’’بال جبریل ‘‘ لاہور سے شائع ہوا۔ پہلے انہوں نے اس تصنیف کانام ’’نشان منزل ‘‘ تجویز کیاتھا، بعد میں اس کی جگہ ’’بال جبریل ‘‘ رکھا۔۳۲ نومبر ۱۹۳۴ء سے سرراس مسعود بھوپال میں وزیر تعلیم و صحت و امور عامہ کے فرائض انجام دے رہے تھے، انہوں نے گلے کی تکلیف کے بارے میں اقبال کو بھوپال آکر بجلی کا علاج کرانے کی دعوت دی ۔ اقبال کے بعض دیگر احباب نے بھی انہیں یہی مشورہ دیاتھا۔ بھوپال کے حمید یہ ہسپتال میںاس وقت بجلی کے علاج سے متعلق جدید ترین مشینیں نصب کی گئی تھیں۔ بالآخر سرراس مسعود کے اصرار پراقبال نے بھوپال جاکر بجلی کا علاج کرانے کا ارادہ کرہی لیا۔ ان ہی ایا م میں ترکی کی مشہور صحافیہ خالدہ ادیب خانم جو ترکی کی انجمن اتحاد و ترقی کی رکن اور مصطفیٰ کمال پاشا کی شریک کا ررہ چکی تھیں، لیکن اس وقت پیرس میں جلاوطنی کی زندگی بسر کررہی تھیں، ڈاکٹر انصاری کی دعوت پر جامعہ ملّیہ میں توسیعی خطبات دینے کی غرض سے دہلی آئی ہوئی تھیں۔ جامعۂ ملّیہ کی فرمایش تھی کہ اقبال دہلی آکر ان کے کسی خطبے کی صدارت کریں۔ اقبال نے بوجہ علالت معذوری کا اظہار کردیا۔ اس دوران میں خالدہ ادیب خانم کے چند لکچر جامعۂ ملّیہ میں ہوئے جن کا ہندوستان کے اخبارات میں خوب چرچا بھی ہوا، کیونکہ ان کا زاویہ نگاہ خالصتاً سیکولر تھا۔ اقبال کی رائے ان کے متعلق یہ تھی کہ مشرق کی روحانیت اور مغرب کی مادّیت کے متعلق جن خیالات کا اظہار خالدہ ادیب خانم نے اپنے لکچروں میں کیا ہے ، ان سے معلوم ہوتاہے کہ ان کی نگاہ بہت محدود ہے۔۳۳ بہرحال بھوپال جانے کی غرض سے اقبال ، علی بخش کے ساتھ ۲۹ ؍جنوری ۱۹۳۵ء کو لاہور سے روانہ ہوئے اور ۳۰ جنوری ۱۹۳۵ء کی صبح دہلی پہنچے ۔ دن بھر قیام سردار صلاح الدین سلجوقی کے ہاں افغان قونصل خانے میں رہا۔ شام کو جامعۂ ملیّہ میں خالدہ ادیب خانم سے بات چیت ضرورہوئی ، مگر ان کے خیالات پر کوئی تبصرہ نہ کیا۔ بعد میں رات کی گاڑی سے بھوپال روانہ ہوگئے اور ۳۱ جنو ری ۱۹۳۵ء کی صبح وہاں پہنچے ۔ اسٹیشن پر سرراس مسعود، ان کے پرسنل سیکرٹری ممنون حسن خا ن اور نواب بھوپال کے ملٹری سیکرٹری کرنل اقبال محمد خان استقبال کے لیے موجود تھے۔ ممنون حسن خان فرماتے ہیں: جب گاڑی آئی تو ایک صاحب افغانی ٹوپی ، شلوار او رپنجابی کوٹ میں ملبوس پلیٹ فارم پر اترے ۔ سرراس مسعود کی نظر ان پر پڑی تو اس تیزی سے آگے بڑھے اور ان کے منہ کے اس قدربو سے لیے کہ لوگ حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگے۔۳۴ اقبال کا قیام سر راس مسعود کی رہائش گاہ ’’ریاض منزل ‘‘ میں تھا۔ جب وہاں پہنچے تو بیگم امت المسعود نے ان کا خیر مقدم کیا۔ ممنون حسن خان کو اقبال کی پیشی میں مقرر کیاگیاتھاتاکہ کسی چیز کی ضرورت ہوتو اقبال انہیں اطلاع دیں۔ ممنون حسن خان کہتے ہیں: کھانے کے بعد علامہ اقبال کاکمرہ دیکھنے گیاتو مجھے حیرت ہوئی کہ وہ بستر جو سرراس مسعود نے اپنے مہمان عزیز کے لیے بچھوایا تھا، اسے ان کے ملازم (علی بخش ) نے اٹھا دیاتھا اور اس کی جگہ اقبال کا معمولی بستر لگا دیاتھا۔ میںنے جب دریافت کیاتو ملازم نے بتایاکہ اقبال ہمیشہ اپنے بستر پر ہی سوتے ہیں۔میں نے دیکھاکہ علامہ اقبال کے بستر پر دو کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ ایک مثنوی مولانا روم اور دوسری دیوان غالب۔ ملازم نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب سفرمیں زیادہ تر ان کتابوں کو ساتھ رکھتے ہیں۔ ان کے پلنگ کے قریب ہی ایک پنجابی حقہ رکھا ہواتھا۔ ۳۵ دوسرے دن اقبال ، سر راس مسعود کے ساتھ نواب بھوپال کو ملنے گئے اور قصر سلطانی میں ان کی معیت میں کچھ وقت گزارا۔ گفتگو اقبال کی بیماری اور علاج کے بارے میں ہوتی رہی یا قرآن مجید سے متعلق ان کی مجوز ہ تصنیف پر۔ فارغ ہوکروہ حمیدیہ ہسپتال پہنچے جہاں خصوصی طبی معائنوں کاسلسلہ شروع ہوا۔ ڈاکٹر عبدالباسط ان کے معالج تھے۔ ۵؍فروری ۱۹۳۵ء سے بنفشی شعاعوں کے غسل سے ان کے علاج کا پہلا کورس شروع ہوا، جو ۶ مارچ ۱۹۳۵ء تک جاری رہا۔ ’’ریاض منزل‘‘ میں اقبال کا بیشتر وقت مطالعہ یا اشعار لکھنے میں صرف ہوتا۔’’ضرب کلیم ‘‘ میں شامل سات نظمیں یہیں تحریر کی گئی تھیں۔ روز صبح بجلی کے علاج کے لیے حمیدیہ ہسپتال جاتے ۔ واپس آکر دوپہر کے کھانے کے بعد اپنے کمرے میں لکھتے پڑھتے رہتے یا آرام کرتے او رہر شام سرراس مسعود اور بیگم امت المسعود کے ساتھ موٹرکار میں سیرو تفریح کے لیے نکل جاتے۔ بیگم امت المسعود جو اپنے عظیم شوہر کی طر ح اقبال کی قدرشناس اور ان کی ذات سے عقیدت اور محبت رکھتی تھیں، ’’ریاض منزل ‘‘ کے شب وروز کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ اقبال، سرراس مسعود کو اکثر کہاکرتے کہ تمہارا دماغ انگریز کا اور دل سچے مسلمان کا ہے ۔ سر راس مسعود نے جن کی رگ رگ میں ظرافت بھری ہوئی تھی، ایک بار جواب دیا: اقبال غنیمت ہے کہ میرا دماغ مسلمان کا اور دل انگریز کا نہیں ایک دن بیگم امت المسعود اوراقبال کے درمیان بحث چھڑ گئی کہ لڑکے لڑکیوں کی شادی سے قبل فریقین میں محبت اور پیار کی کسی نہ کسی حد تک آمیزش ہونی چاہییٔ یانہیں۔اقبال نے کہا:شادی کابنیادی مقصد صالح،توانااورخوش شکل اولاد پیداکرنا ہے اور رومان کا اس میں کوئی دخل نہیں ہونا چاہییٔ ۔ بیگم امت المسعود بولیں: آج کل والدین لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے اپنی پسند او رمرضی کے رشتوں کاجس طرح انتخاب کرتے ہیں ، اس کے متعلق آپ کی کیارائے ہے؟اقبال نے جواب دیا: عموماً ان تمام ضروری باتوں کو پیش نظر رکھ کر ہی رشتے طے کرتے ہیں۔ ۳۶ اقبال ۷؍مارچ ۱۹۳۵ء کو بھوپال سے روانہ ہوکر ۸؍مارچ ۱۹۳۵ء کو دہلی پہنچے ۔ حسب معمول افغان قونصل خانے میں قیام فرمایا۔ اگلے روز صبح حکیم نابینا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نبض دکھائی۔ نیز سردار بیگم کی علالت کے متعلق مشورہ کیا ۔ رات کو واپس لاہور روانہ ہوئے اور ۱۰؍مارچ ۱۹۳۵ء کی صبح لاہور پہنچے۔ لاہور پہنچنے پر انہوں نے دیکھا کہ سردار بیگم کی حالت پہلے سے کہیں زیادہ خراب ہوچکی ہے۔ ان کا جگر اس قدر بڑھ گیا تھاکہ اس پہلو پر جس طرف جگر ہے ، لیٹنا یا سونا ناممکن ہوگیا تھا۔ شدید کھانسی کے دورے پڑتے تھے۔ پائوں پر ورم تھا اورنہایت کمزور او رلاغر ہوگئی تھیں۔ اپنی بیماری سے بے پروا وہ اقبال کی علالت کے بارے میں فکر مند رہتی تھیں۔مئی ۱۹۳۵ء کے ابتدائی دنوں میں ان کی حالت مزید تشویش ناک ہو گئی۔معدے میں پانی بھر گیا،ران پر ایک خوفناک پھوڑا نکلا جس کا آپریشن کیاگیا۔ ۲۰مئی ۱۹۳۵ء کو جب وہ نئے گھر ’’جاوید منزل ‘‘ میں منتقل ہوئیں تو بیماری کی حالت میں گاڑی میں وہاں لائی گئیں۔ انہیں چارپائی پر اندر لایاگیا۔ذکر کیاجا چکاہے کہ اراضی اور مکان دونوں سردار بیگم او راقبال کی ملکیت تھے،لیکن شایداقبال کو احساس ہوگیاتھاکہ سردار بیگم کا آخری وقت آن پہنچا ہے اس لیے ۲۱؍ مئی۱۹۳۵ء کو وہ کچھ کاغذات ہاتھ میںاٹھائے اندر تشریف لائے اور سردار بیگم سے کہا کہ ’’جاوید منزل ‘‘ راقم کے نام ہبہ کردو۔ مگر سردار بیگم نہ مانتی تھیں۔ وہ کہتی تھیں کہ مجھے کیا معلوم یہ لڑکا بڑا ہوکر کیسا نکلے ۔میں جلد صحت یا ب ہوجاؤںگی، آپ فکر نہ کریں ۔ اقبال نے انہیں آگاہ کیا کہ زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اس پر انہوں نے خاموشی سے ہبہ نامہ پر دستخط کردیئے۔ یوں اس تاریخ سے ’’جاوید نامہ ‘‘ راقم کے نام منتقل ہوئی ۔ اور اقبال نے ایک کرایہ نامہ بھی تیار کرایا جس کی رو سے وہ راقم کے کرایہ دار کی حیثیت سے اس مکان میں رہنے لگے۔ ۲۳مئی ۱۹۳۵ء کو سردار بیگم پر صبح ہی سے غشی کا عالم طاری تھا، کوئی پانچ بجے شا م کے قریب جب راقم ان کے پا س گیاتو وہ بستر پر بیہوش پڑی تھیں۔ راقم نے ان کے حلق میں شہد ٹپکایا او رروتے ہوئے کہا اماں جان، میری طرف دیکھو۔ انہوں نے لحظہ بھرکے لیے آنکھیں کھولیں، راقم کی طرف دیکھا اور پھر آنکھیں بند کرلیں ۔ چند لمحوں بعد اسی حالت میں انہوںنے داعی اجل کو لبیک کہا۔ جب ان کی تجہیز و تکفین کی تیاریاں ہونے لگی ۔ تو راقم ننھی منیرہ کا ہاتھ پکڑے روتے ہوئے اقبال کے کمرے کی طرف گیا۔ وہ حسب معمول اپنی چارپائی پرنیم دراز تھے۔ راقم اور منیرہ ان کے دروازے تک پہنچ کر ٹھٹک سے گئے ۔ یوں روتے کھڑ ا دیکھ کر انہوںنے انگلی کے اشارے سے دونوں کو قریب آنے کے لیے کہا اور جب ہم قریب پہنچے تو ایک پہلو میں راقم کو اور دوسرے میں منیرہ کو بٹھا لیا ۔ پھر اپنے ہاتھ پیار سے دونوں کے کندھوں پر رکھ کر قدرے کر ختگی سے راقم سے گویا ہوئے: تمہیں یوں نہ رونا چاہیے ، تم تو مرد ہو اور مرد رویا نہیں کرتے ۔ اس کے بعد اپنی زندگی میں پہلی بار انہوں نے راقم اور منیرہ کی پیشانیوں کو باری باری چوما۔ سردار بیگم کو ’’جاوید منزل ‘‘ کے نزدیک بیبیا ںپاک دامن کے قبر ستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ اقبال ، راقم او راقبال کے چند احباب جنازے میں شریک تھے۔ انہیں دفناتے وقت اقبال انتہائی پریشانی کے عالم میں قریب کی ایک پختہ قبر کے تھڑے پر دونوں ہاتھوں سے سر کو تھامے بیٹھے رہے۔ ان کے سنگ مزار پر حاجی دین محمدکاتب کے ہاتھ کا لکھا ہوا اقبال کا درج ذیل قطعۂ تاریخ کندہ ہے: راہی سوئے فردوس ہوئی مادرجاوید لالے کا خیاباں ہے مرا سینہ پرداغ ہے موت سے مومن کی نگہ روشن و بیدار اقبال نے تاریخ کہی ’’سرمۂ مازاغ‘‘۳۷ ۱۳۵۴ھ سرداربیگم کی بے وقت موت نے اقبال کو پژمردہ سا کردیا۔ وہ انہیں وصیت کرگئی تھیں کہ بچوں کو ایک دن کے لیے بھی اپنے سے جُدا نہ کرنا ۳۸۔اس لیے وہ دونوں کابے حد خیال رکھنے لگے تھے۔ اس سے پیشتر ،جہاں تک راقم کی ذات کا تعلق ہے، انہوں نے اسے شاذ ہی کوئی ایسا موقع دیا ہوگا،جس سے وہ ان کی محبت یا الفت کا اندازہ کرسکتا۔ والدین بچوں کو پیار سے بھینچتے ہیں، گلے لگاتے ہیں یاچومتے ہیں، مگر اقبال کے خدوخال سے راقم کو کبھی اس قسم کی شفقت پدری کا احساس نہ ہوا۔ بظاہر وہ کم گو اور سرومہر سے دکھائی دیتے تھے۔اگر راقم کو گھر میں منہ اٹھائے ادھر اُدھر بھاگتے دیکھ کر مسکراتے تو مربیانہ انداز سے، لیکن اکثر اوقات تو راقم انہیں اپنی آرام کرسی پر بیٹھے یا چارپائی پر دراز آنکھیں بند کیے خیالات میں مستغرق پاتا۔ اب تو منیرہ نے بھی لڑکیوں کے اسلامیہ اسکو ل جانا شروع کردیاتھا۔ خیر نیا حکم جاری ہواکہ بچے ان سے مل کر اسکول جایا کریں ۔ جانے سے پہلے او رآنے کے بعد وہ دونوں کی پیشانیوں پر بوسہ دیا کرتے ، مگر رفتہ رفتہ ا س بوسے میں معمول کی جھلک دکھائی دینے لگی ۔ گویا وہ بچوں کو محض اس لیے چومتے ہیں کہ کہیں وہ یہ تصّور نہ کرنے لگیں کہ ماں کی عدم موجودگی میں انہیں باپ کی محبت میسر نہیںہے۔ بچوں بالخصوص منیرہ کی نگہداشت کے لیے کوئی معقول انتظام نہ تھا۔ سرداربیگم کے رشتے داروں میں سے تو صرف ان کے بھائی خواجہ عبدالغنی تھے جو راقم او رمنیرہ سے بہت محبت رکھتے تھے، لیکن وہ اپنے کاروبار کے سلسلے میں زیادہ تر لاہور سے باہر رہتے اور تھوڑے عرصے کے لیے لاہور آتے تھے۔ اقبال کی رشتہ دار خواتین کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ کر لاہور آ کے منیرہ کے پاس رہنا آسان نہیں تھا۔ پھر بھی کوئی نہ کوئی ان میں سے مخصوص مدت کے لیے آ کر ٹھہرتی ۔ شیخ عطامحمد اور ان کی اہلیہ آجاتیں۔ نیز اقبال کی چھوٹی بہنوں کریم بی یا زینب بی میں سے کوئی ایک آکر رہتیں۔ کچھ عرصہ کے لیے شیخ عطامحمد کے بیٹے امتیاز احمد اور ان کی اہلیہ یہاں مقیم رہے، مگر یہ بندوبست چونکہ عارضی ہوتااور مستقل نہ تھا،اس لیے منیرہ کسی سے صحیح طور پر مانوس نہ ہوتی تھی۔ البتہ منیرہ کو اقبال کا قرب حاصل تھااور وہ رات کو عموماً انہی کے بستر میں سوجایا کرتی۔ اس کی ہر خواہش بغیر کسی حیل و حجت کے پوری کردی جاتی او راگر راقم کبھی اسے جھڑکتایا اس پر ہاتھ اٹھاتا تو اس کی شامت آجاتی ۔ انہیں بہن بھائی کے جھگڑے سے بہت رنج ہوتا تھا۔ وہ اپنے احباب سے اکثر مایوسا نہ انداز میں کہا کرتے کہ یہ دونوں آپس میں لڑتے رہتے ہیں اور مجھ سے دیکھا نہیں جاتا او راحباب کے کہنے کے باوجود کہ جس گھر میں بچے ہوں، وہاں لڑائی جھگڑا ہوا ہی کرتا ہے، ان کی تسلی نہ ہوتی ۔ راقم سے بارہاجل کر کہا کرتے : تمہارا دل پتھر کا ہے۔ تم بڑے سنگدل ہو۔ اتنا نہیں جانتے کہ اس بہن کے سوا تمہارا دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ سرراس مسعود کو اقبال کی ذہنی او رمالی پریشانیوں کا بخوبی علم تھا او روہ خاموشی سے ان کی امداد کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔ وہ اقبال کی خاطر کسی ایسے مستقل وظیفے کی فراہمی کے لیے تگ ودو میں مصروف تھے جس سے انہیں اپنی مالی پریشانیوں سے نجات مل جائے اور وہ یکسوئی کے ساتھ اپنا تخلیقی کام جاری رکھ سکیں۔ اقبال نے انہیں اپنے ایک خط مورخہ ۱۲ مئی ۱۹۳۵ء میں تحریر کیا : میری خواہش ہے کہ اعلیٰ حضرت (نواب بھوپال ) خود مجھے اپنی ریاست سے پنشن منظور کردیں تاکہ میں اس قابل ہوجاؤں کہ قرآن پر اپنی کتاب لکھ سکوں ۔ میں آپ کو یقین دلاتاہوں کہ یہ ایک بے نظیر کتاب ہوگی او ران کے نام او رشہرت کوبقائے دوام بخشے گی۔یہ جدید اسلام کے لیے ایک بہت بڑی خدمت ہوگی اور میں شیخی نہیں بگھار رہا ہوں جب یہ کہتا ہوں کہ میں ہی وہ واحد شخص ہوں جو اس کو کرسکتا ہوں۔۳۹ سرراس مسعود کی کوششیں بالآخر کامیا ب ہوئیں اور انہوں نے اسی ماہ کے آخر میں اقبال کو اطلاع دی کہ نواب بھوپال نے ان کے لیے پانچ سو روپے ماہوار تاحیات وظیفہ مقرر کردیا ہے اقبال نے انہیں اپنے ایک دوسرے خط مورخہ ۳۰ مئی ۱۹۳۵ء میں جواب دیا: میں کس زبان سے اعلیٰ حضرت کا شکریہ ادا کروں ۔ انہوںنے ایسے وقت میں میری دستگیری فرمائی جب کہ چاروں طرف سے میں آلام ومصائب میں محصور تھا…باقی آپ کا شکریہ کیا ادا کروں ۔ مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی سادات کی آبائی میراث ہے ۔ بالخصوص آپ کے خاندان کی۔۴۰ لیکن سرراس مسعود ابھی مطمئن نہ ہوئے تھے۔ وہ کوشاں تھے کہ بھوپال کے علاوہ حیدرآباد ، بہاولپور او رآغاخان بھی اقبال کے لیے وظیفے مقرر کریں، تاکہ وہ قرآن مجید پر عہد حاضر کی روشنی میں اپنے خیالات آسودگی سے قلم بند کرسکیں۔ اس سلسلے میں اقبال نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے ایک خط مورخہ ۱۱دسمبر ۱۹۳۵ء میں تحریر کیا۔ آپ کو معلوم ہے کہ اعلیٰ حضرت نواب صاحب بھوپال نے جو رقم میرے لیے مقرر فرمائی ہے ، وہ میرے لیے کا فی ہے ۔ اور اگر کافی نہ بھی ہوتو میں کوئی امیرانہ زندگی کا عادی نہیں۔ بہترین مسلمانوں نے سادہ اور درویشانہ زندگی بسر کی ہے، ضرورت سے زیادہ کی ہوس کرنا روپیہ کا لالچ ہے جو کسی طرح بھی کسی مسلمان کے شایانِ شان نہیں ہے ۔ آپ کو میرے اس خط سے یقینا کوئی تعجب نہ ہوگا کیونکہ جن بزرگوں کی آپ اولاد ہیں اور جو ہم سب کے لیے زندگی کا نمونہ ہیں، ان کا شیوہ ہمیشہ سادگی اور قناعت رہاہے۔۴۱ مصائب و آلام اور طرح طرح کی الجھنوں کے باوجود اقبال ان مہینوں میں بھی اپنی علمی و شعری کاوشوں ، مسلمانوں کی شیرازہ بندی او ران کے سیا سی مسائل کے حل کے لیے وقت نکالتے رہے۔ انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس کی خاطر انہوں نے نواب بھوپال کو صدارت کے لیے لاہور بلوانے کی کوشش کی ۴۲۔ ’’زبور عجم ‘‘ مع اردو ترجمہ (جو حواشی کی شکل میں تھا)کی اشاعت کا ارادہ کیا۔۴۳’’صوراسرافیل ‘‘ (جو ۱۹۳۶ء میں ’’ضرب کلیم ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی)کے لیے اشعار کی تخلیق کا سلسلہ جاری رکھا اور اسی طرح انہی ایام میں احمدیت کی تردید میں اپنا پہلا انگریزی بیان بعنوان ’’قادیانیت او رصحیح العقیدہ مسلمان ‘‘تحریر کیا۔ یہ بیان برصغیر کے مختلف انگریزی اخباروں مثلاً ’’ایسٹرن ٹائمز ‘‘، ’’ٹریبیون‘‘ ، ’’سٹار آف انڈیا‘‘ کلکتہ ، دکن ٹائمز‘‘وغیرہ میں شائع ہوا۔ اس کے علاوہ اردو اخباروں میں اس کاترجمہ بھی چھپا۔ ۱۴ مئی ۱۹۳۵ء کو ’’سٹیٹسمین ‘‘ نے اسے شائع کیا اور ساتھ اس پر لیڈنگ آرٹیکل بھی لکھا۔ قادیانیت اور صحیح العقیدہ مسلمان میں مختصراً اقبال کا استدلال یہ تھاکہ مسلمانوں کی ملّی وحدت کی بنیادیں مذہبی تصور پر استوار ہیں۔ اگر ان میں کوئی ایسا گروہ پیدا ہو جواپنی اساس ایک نئی نبوت پر رکھتے ہوئے یہ اعلان کرے کہ تمام مسلمان جو اس کا موقف قبول نہیں کرتے وہ کافر ہیں، تو قدرتی طورپر ہر مسلمان ایسے گروہ کو ملّت اسلامیہ کے استحکام کے لیے ایک خطرہ قراردے گا اوریہ بات اس لیے بھی جائز ہوگی کہ مسلم معاشرے کو ختم نبوت کا عقیدہ ہی سا لمیت کا تحفظ فراہم کرتاہے۔ اقبال کے نزدیک قبل از اسلام مجوسیت کے جدید احیاء نے جن دو تحریکوں کو جنم دیا ، ان میں ایک بہائیت ہے اور دوسری قادیانیت۔ بہائیت اس اعتبار سے زیادہ دیانت پر مبنی ہے کہ وہ اسلام سے اعلانیہ علیحدگی کا رستہ اختیار کرتی ہے ،لیکن قادیانیت اسلام کے بعض اہم ظواہر کو برقرار رکھتے ہوئے اس کی روح اور نصب العین سے انحراف کرتی ہے ۔ اقبال کے بیان کے مطابق بروز ’’حلول ‘‘اور’’ ظل‘‘ کی اصلاحات مسلم ایران میں اسلام سے منحرف تحریکوں نے اختراع کیں اور مسیح موعود کی اصطلاح بھی مسلم دینی شعور کی تخلیق نہیںہے۔ آخر میں فرماتے ہیںکہ ہندوستان کے حاکموں کے لیے بہترین راستہ یہی ہے کہ قادیانیوں کو ایک علیٰحدہ مذہبی فرقہ قرار دے دیں۔۴۴ اس بیان پر احمدی اخباروں نے کئی اعتراض کیے او راقبال پر مختلف قسم کے الزام لگائے۔ ہفتہ وار ’’لائیٹ‘‘ کے نمائندے نے ان کی توجہ ایک اور احمدی ہفتہ وار’’ سن رائز‘‘ کی طرف مبذول کراتے ہوئے سوال کیا کہ اس اخبارکے مطابق انہوںنے اپنے کسی گذشتہ خطبے میں احمدیت کے متعلق مختلف رائے کا اظہار کیاتھا۔ سوان کے اب کے بیان اور اس خطبے میں تناقص کیوں ہے؟ اقبال کا جواب تھا کہ وہ یہ تسلیم کرنے سے انکار نہیں کرسکتے کہ اب سے ربع صدی پیشتر انہیں اس تحریک سے اچھے نتائج کی توقع تھی ، لیکن کسی مذہبی تحریک کی اصل روح ایک دن میں ظاہر نہیں ہوجاتی ، بلکہ اپنے مکمل اظہار کے لیے کئی عشرے لیتی ہے ، اس تحریک کے دوگرہوں کے درمیان اندرونی اختلافات بھی اس حقیقت کا ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ جو لوگ بانی تحریک کے ساتھ ذاتی رابطہ رکھتے تھے، انہیں یہ معلوم نہ تھاکہ آگے چل کر تحریک نے کیاصورت اختیار کرنا ہے۔ درخت کو جڑ سے نہیں، اس کے پھل سے پہچانا جاتاہے ۔ پس اگر ان کے رویے میں کوئی تناقص ہے تو یہ بھی ایک زندہ اور سوچنے والے انسان کا حق ہے کہ وہ اپنی رائے بدل لے۔ بقول ایمرسن صرف پتھر ر ہی اپنے آپ کو نہیں بدلتے۔۴۵ اقبال نے ’’سٹیٹسمین‘‘ کے لیڈنگ آرٹیکل میں اپنے بیان پر تبصرے کا جواب ایک خط کے ذریعے دیا جو ۱۰جون ۱۹۳۵ء کو ’’سٹیٹسمین ‘‘ میں شائع ہوا جواب کے اہم نکات یہ تھے۔ اوّل یہ کہ برصغیر کے مسلمانوںکی طرف سے کسی رسمی عرض داشت کی وصولی کا انتظار کیے بغیرانگریزی حکومت کا فرض ہے کہ وہ مسلمانوں اور احمدیوں کے عقائد میں بنیادی اختلاف کا انتظامی طورپر نوٹس لے، جیسے کہ سکھوں کو ۱۹۱۹ء تک انتظامی اعتبار سے ایک علیحدہ سیاسی یونٹ نہ سمجھا جاتا تھا ، مگر بعد میں بغیر ان کی طرف سے کسی عرض داشت کی وصولی کے انہیں ایسا تصوّر کیا گیا ،باوجود اس کے کہ ہائی کورٹ لاہور کے فیصلے کی روسے سکھ کوئی علیٰحدہ مذہبی فرقہ نہیں بلکہ ہندو تھے ۔ دوم یہ کہ احمدیوں کے سامنے صرف دو ہی راستے تھے یا تو بہائیوں کی طرح مسلمانوں سے اپنے آپ کو خود مذہبًا الگ کرلیں یا مسئلہ ختم نبوت کے متعلق اپنی تمام تاویلات مسترد کرکے اسلامی موقف قبول کریں۔ آخر دائرہ اسلام میں رہتے ہوئے ان کا اسلام کے منافی تاویلات اپنانے میں اور کیا مقصد ہوسکتا تھا ۔ سوائے اس کے کہ سیاسی فائدہ اٹھایاجائے ۔سو م یہ کہ (اوریہ نکتہ خصوصی اہمیت رکھتاتھا )احمدیوں کو علیحدہ مذہبی فرقہ قرار دینے میں اگر انگریزی حکومت نے مسلمانوں کا مطالبہ تسلیم نہ کیا تو مسلمانان برصغیر یہ شک کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ انگریزی حکومت جان بوجھ کر اس مذہبی فرقے کو اس وقت تک مسلمانوں سے الگ نہ کرے گی جب تک کہ احمدیوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوجاتا، کیونکہ فی الحال احمدی اپنی تعداد میں کمی کے سبب پنجاب میں سیاسی طورپر مسلمانوں ، ہندوؤں او رسکھوں کے علاوہ ایک چوتھا مذہبی فرقہ بننے کے قابل نہ تھے، لیکن اگر ان کی تعداد میں اضافہ ہوگیا تو وہ پنجاب میں مسلمانوں کی تھوڑی سی اکثریت کو صوبائی لیجسلیچر میں شدید نقصان پہنچاسکتے تھے ۔پس اگر انگریزی حکومت ۱۹۱۹ء میں سکھوں سے کسی رسمی عرضداشت کی وصولی کا انتظار کیے بغیر انہیں ہندوئوں سے الگ مذہبی فرقہ تسلیم کرسکتی ہے تو اس ضمن میں اسے احمدیوں کی طرف سے کسی رسمی عرضداشت کی وصولی کا انتظار کیوں ہے۔۴۶ پندرہ روزہ اخبار’’ اسلام ‘‘ کے نمائندے نے اقبال کی توجہ مرزا بشیر الدین محمود کے ایک خطبہ جمعہ کی طرف دلائی جس میں ان پر الزام لگایا گیاتھاکہ وہ انگریزی حکومت سے احمدیوں کو مسلمانوں کے حوالے کر دینے کامطالبہ کررہے ہیں ، جیسے رومیوں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو یہود کے حوالے کردیا اور انہوں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو سولی پر چڑھا دیا تھا۔ اقبال نے اپنے جواب مورّخہ ۲۲جون ۱۹۳۵ء میں جو اس اخبار میں شائع ہوا، واضح کیا کہ ان کے گذشتہ بیان میں ایسا کئی فقرہ موجودنہ تھا ، البتہ انہوں نے یہ کہاتھا کہ انگریزی حکومت میں مسلمانوں کو اتنی آزادی بھی حاصل نہیں جتنی یہود کو رومی سلطنت میں حاصل تھی ، کیونکہ رومی اس بات کے پابندتھے کہ یہود کی مجلس امور مذہبی میں جو فیصلہ ہوگا وہ دیکھیں گے کہ اس کی تعمیل قطعی طورپر ہوجاتی ہے۔۴۷ ’’طلوع اسلام‘‘ بابت اکتوبر ۱۹۳۵ء میں نذیر نیازی نے بھی اس مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے اقبال کی بعض تحریروں کے اقتباسات پیش کیے جن میں انہوں نے نبو ّت کے دواجزاپر بحث کی تھی ۔ یعنی نبوت روحانیت کے ایک خاص مقام کی حیثیت سے اور نبوت ایک ایسے ادارے کی حیثیت سے جو نئی اخلاقی فضا تخلیق کرکے انسانوں میں سیاسی اور معاشرتی تغیر کا سبب بنے ۔ بقول اقبال اگر دونوں اجزا موجود ہوں تو وہ نبوت ہوگی او راگر صرف پہلا جزو موجود ہو،تو تصوف یا ولایت۔ اقبال نے تحریر کیا : ختم نبوت کے معنی یہ ہیںکہ کوئی شخص بعداسلام اگر یہ دعویٰ کرے کہ مجھ میں ہر دواجزا نبوت کے موجود ہیں یعنی یہ کہ مجھے الہام وغیرہ ہوتاہے اور میری جماعت میں داخل نہ ہونے والا کافرہے تووہ شخص کا ذب ہے۔ ۴۸ بالآخر احمدیوں کی حمایت میں پنڈت جواہر لعل نہروبھی اس بحث میں کود پڑے اور انہوں نے اپنے تین انگریز ی مضامین بعنوان ’’اتحاد اسلام‘‘اقبال کے مضمون پر تبصرہ میں جو کلکتے کے رسالے ’’ماڈرن ریویو‘‘ میں نومبر ۱۹۳۵ء میں شائع ہوئے ، اقبال کے نظریات کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ اقبال نے ان کے مضامین کا ایک نہایت جامع جواب بعنوان’’اسلام اور احمدیت‘‘ تحریر کیا جو ’’اسلام‘‘مورخہ ۲۲جنوری ۱۹۳۶ء میں شائع ہوا ۔ اس طویل جوابی مضمون میں بھی ، جو کئی بار چھپ چکا ہے، انہوں نے مسئلہ ختم نبوت کے متعلق مسلمانوں کے موقف کی وضاحت کی ۔ نیز ثابت کیا کہ مسلمانوں کے تنزل کا اصل سبب ملائیت ، تصوف اور مطلق العنان سلطنت ایسی منفی قوتیں تھیں۔ پھر جدید ترکی میں سیکولر قسم کی اصلاحات کی مدافعت میں تحریر کیا کہ وہ اسلام کے منافی نہیں ہیں ۔ آخر میں پنڈت جواہر لعل نہرو کے اس ریمارک کے جواب میں کہ ان کے خیال میں سرآغاخان بھی صحیح العقیدہ مسلمان نہیں سمجھے جاتے ، اقبال نے آغا خان ہی کی ایک تقریرکا حوالہ دیا جس میں انہوں نے اپنے مریدوں کو ہدایت کی تھی کہ تم سب مسلمان ہواور مسلمانوں کے ساتھ ہی رہ سکتے ہو۔ لہٰذا اپنے بچوں کے اسلامی نا م رکھو۔ مسلمانوں کے ساتھ مل کو مساجد میں نماز ادا کرو، روزے باقاعدہ رکھو، اسلامی شریعت کے اصولوں کے مطابق شادیاں کرو اور سب مسلمانوں کو اپنے بھائی سمجھو۔ اس مضمون کا پورا احاطہ کرنا تویہاں ممکن نہیں لیکن اقبال کا درج ذیل نکتہ یقینا خصوصی اہمیت کا حامل ہے : ظاہر ہے کہ ایک ہندوستانی قوم پرست (یعنی پنڈت نہرو) جس کے سیاسی آئیڈیلزم نے اس کی حقیقت کو پرکھنے کی حس کا خاتمہ کررکھاہے، یہ برداشت نہیں کرسکتاکہ شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کے دل میںحق خود ارادیت کا جذبہ پیدا ہو۔ میرے نزدیک اس کی یہ سوچ غلط ہے کہ ہندوستانی نیشنلزم کے فروغ کے لیے واحد راستہ یہی ہے کہ مختلف ثقافتی وحدتوںکو مکمل طورپر کچل دیا جائے۔ ۴۹ بالآخر اپنے خط بنام پنڈت جواہر لعل نہرو مورخہ ۱۲؍جون ۱۹۳۶ء میں اقبال نے احمدیوں کے سیاسی رویے کا تجزیہ کرتے ہوئے تحریرکیا ۔میرے ذہن میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ احمدی اسلام اور ہندوستان دونوں کے غدار ہیں۔۵۰ گذشتہ سالوں میں احمدی تحریک کے بارے میں اقبال کا نظریہ کیا تھا؟ احمدیت کی تردید کی ضرورت انہیں کیوں پڑی یا اس تحریک کے خلاف ان کے بیانات کس پس منظر میں دیے گئے ؟احمدیوں نے ان پر کیا کیا اعتراض کیے یا کیا کیا الزام لگائے ؟ ان تمام سوالات پر علیٰحدہ بحث آگے چل کی جائے گی۔ ۱۹۳۵ء میں گورنمنٹ آف انڈیا بل جب برطانوی پارلمینٹ میں زیر بحث آیا تو اس میں کمیونل ایوارڈ کی وہ دفعہ شامل نہ کی گئی تھی جس میں درج تھا کہ مجالس قانون ساز متعلقہ اقوا م (ہندواور مسلمان) کی منشا کے بغیر کوئی ترمیم نہ کریںگی۔ اس پراقبال نے سیٹھ عبداللہ ہارون ، مولانا شفیع داؤدی اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ مل کر یکے بعد دیگرے دوبیان ۳جولائی ۱۹۳۵ء اور ۱۸جولائی ۱۹۳۵ء کو جاری کیے اور مطالبہ کیا کہ کمیونل ایوارڈ کو عہد کے مطابق ، دس برس کی مدت کے لیے بعینہٖ برقرار رکھا جائے اور اس کے بعد جو بھی تبدیلی عمل میں لائی جائے ، اس میں مسلم قوم کی منشا دریافت کی جائے او ربین الاقوامی رضامندی معلوم کرنے کے لیے طریق کا روضع کیاجائے۔ مثلادس سال بعد جو صوبہ کمیونل ایورڈ کی ترمیم کا طالب ہو، وہ جداگانہ انتخا ب اور مخلوط انتخاب کے سوال پر ایک ایک انتخاب عام (ریفرینڈم )کرائے او ربعد میں جو نئی مجلس آئین ساز مرتب ہو، اس کے اندر اسی سال کادوبارہ فیصلہ رائے شماری کے ذریعے کیاجائے اور مسلم قوم کی تین چوتھائی اکثریت کی حمایت ترمیم کے حق میں حاصل کرنا ضروری اور لازمی تصو ّر کیاجائے۔ ان بیانات کا مدعا یہ تھا کہ دس برس کی مدت گزر جانے کے بعد کمیونل ایوارڈ کا اگر کوئی نعم البدل ہو گا تو وہ ہندو اور مسلم اقوام کے درمیا ن، ایک مستند بین الاقوامی راضی نامہ ہوگا۔ ۵۱ جولائی ۱۹۳۵ء میں لاہور کے حالات خاصے تشویشناک ہوگئے کیونکہ مسجد شہید گنج کے قضییٔ نے خطرناک صورت اختیار کرلی تھی۔ گذشتہ دو ایک ماہ میں پنجاب کے مختلف حصو ںسے سکھوں کے جتھے لاہور پہنچ رہے تھے۔ ۴ اور ۵ جولائی ۱۹۳۵ء کی ایک رات کو سکھوں نے مسجد کا انہدام شروع کردیا ۔ یہ صورت حال دیکھ کر مسلمان ، نظم وضبط برقرار نہ رکھ سکے اور مسجد تک پہنچنے کی کوشش کرتے رہے ۔ لاہورمیں مارشل نافذ کردیا گیا اور فوج کے باربار گولی چلانے سے متعدد مسلمان شہید یا زخمی ہوئے ۔ مسجد شہید گنج کا مسئلہ آخری دم تک اقبال کی توجہ کامرکز بنا رہا ، لیکن مسجد پر سکھوں کا قبضہ بدستور رہا اور وہ واگزارنہ ہوسکی ۔ برقی علاج کا دوسرا کورس پورا کرنے کی خاطر اقبال کو پھر بھوپال جاناتھا۔ سو وہ ۱۵جولائی ۱۹۳۵ء کو مع علی بخش اور راقم لاہور سے روانہ ہوئے۔ راقم کو اس لیے ہمراہ لے گئے کہ کہیں ان کی عدم موجودگی میں وہ منیرہ سے لڑتانہ رہے ۔ ۱۶؍جولائی ۱۹۳۵ء کی صبح دہلی پہنچے اور اقبال راقم کوساتھ لیے تمام دن تاریخی مقامات کی سیر کرتے رہے ۔ پہلے لال قلعہ لے گئے۔ پھر نظام الدین اولیا ء گئے ۔ ہمایوں کا مقبرہ دیکھا اور بالآخر نئی دہلی سے ہوتے ہوئے قطب مینار پہنچے ۔ راقم کا دل قطب مینار کے اوپر چڑھنے کو چاہا اور انہیں بھی ساتھ آنے کو کہا ، لیکن وہ بولے کہ تم جاؤ۔ میں اتنی بلندی پر نہیں چڑھ سکتا اور جب اوپر پہنچو تو نیچے کی طرف مت دیکھنا ، کہیں دہشت سے گرنہ پڑو۔ اسی رات گاڑی پر سوار ہو کر بھوپال روانہ ہوگئے۔ معلوم ہوتا تھا، بڑا لمبا سفرہے۔ رات کو علی بخش راقم کو اوپر کی بر تھ پر سلا دیتا اور اقبال نیچے کی برتھ پر سوتے ۔ ناشتا ، دوپہر اور رات کا کھانا وہیں منگوا کر کھایا گیا۔ ۷جولائی ۱۹۳۵ء کوجب بھوپال پہنچے تو اسٹیشن پر شعیب قریشی او رچند دیگر اصحاب استقبال کے لیے موجود تھے۔موٹر کارپر سب لوگ شیش محل لے جائے گئے، جہا ںاقبال کی رہائش کا انتظام کیا گیا تھا۔ شیش محل ایک پرانی وضع کی نہایت وسیع و عریض عمارت تھی ۔ شمعدانوں ، جھاڑوں، غالیچوں او ردیگر ساز وسامان سے لدے ہوئے اتنے بڑے بڑے کمرے اور برآمدے تھے کہ راقم کو رات کے وقت ان میں سے گزرتے ہوئے خوف آیاکرتا۔ بھوپال پہنچنے کے بعد اگلے روز حمید یہ ہسپتال میں ڈاکٹر عبدالباسط کی نگرانی میں اقبال کا معائنہ ہوا اور برقی علاج کا کورس شروع ہو گیا۔ وہ روز صبح حمیدیہ ہسپتال جاتے اور دوپہر کو واپس آتے۔ راقم کو ایک اسکول میں داخل کرادیا گیااور اسے پڑھانے کے لیے ایک استاد علی حسین بھی شیش محل آیاکرتے۔ شیش محل میں اقبال عموماً راقم کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھاتے ، اس کے بعد وہ اپنے کمرے میں لکھ پڑھ کر وقت گزارتے یا آرام کرتے۔ شیش محل میں انہوں نے پانچ نظمیں تخلیق کیں جو ’’ضرب کلیم ‘‘ میں شامل ہیں۔ شام کو انہیں ملنے کے لیے بہت سے لوگ آجاتے۔ رات کا کاکھانا عموماً باہر ہوتا، لیکن اگر شیش محل میں کھانا کھاتے تو راقم کو بھی ساتھ میز پر بٹھالیتے اور سکھایا کرتے کہ چمچہ اس طرح پکڑنا چاہیے اور کانٹایوں ۔ راقم فطرتاً کچھ شرمیلاواقع ہواتھا، اس لیے جب کبھی انہیں وہاں لوگ ملنے آتے یا وہ لوگوں کے ہاں جاتے تو اسے ہمیشہ کہاکرتے کہ لوگوں کے سامنے خاموش بیٹھے رہنے کی بجائے ان سے بات چیت کرناچاہییٔ۔ بہرحال راقم کا وقت زیادہ تر ان کی نگاہوں کے سامنے گزرتا تھا یاڈاکٹر عبدالباسط کے بچو ں کے ساتھ کھیلتے ہوئے ۔ ڈاکٹر عبدالباسط شیش محل کے تقریباً سامنے قدسیہ محل میں رہتے تھے۔ ان کے گھر کے قریب بھوپال کامشہور جھیل نما تالاب تھا اور ساتھ ایک وسیع میدا ن بھی تھا۔ جسے کھرنی والامیدان کہتے تھے۔ راقم ان کے بچوں کے ساتھ اسی تالاب کے کنارے کھیلاکرتا۔ اسی طرح ہر دوسرے تیسرے روز راقم، اقبال کے ساتھ سرراس مسعود کے ہاں ’’ریاض منزل‘‘ بھی جاتاتھا۔ وہ راقم کی زندگی میں دوسری ایسی شخصیت تھے، جو انہیں اقبال کہہ کر پکارتے تھے۔ سر راس مسعود قد میں علامہ اقبال سے بہت اونچے، قوی ہیکل اور گورے چٹے بزرگ تھے۔ راقم سے ہر وقت مذاق کرتے رہتے۔ اقبال اور راقم ہفتہ میں دو تین بار رات کو کھانا سرراس مسعود اور بیگم امت المسعود کے ساتھ ’’ریاض منزل ‘ ‘ میں کھاتے۔ اکثر اوقات اورجگہوں پر بھی کھانے پر بلائے جاتے ۔ ایک مرتبہ کسی کھانے سے واپسی پر موٹر کا ر میں اقبال کے ساتھ ایک ادھیڑ عمر کی فربہ سی ہنس مکھ خاتون بیٹھی تھیں ۔ وہ راقم کے ساتھ نہایت شفقت کے ساتھ پیش آئیں ۔ بعد میںاقبال نے اسے بتایا کہ وہ ہندوستان کی معروف شاعرہ سروجنی نائیڈو تھیں۔ اسی طرح ایک شام بیگم بھوپال کے ہاں چائے پر راقم کواپنے ساتھ لے گئے، کیونکہ بیگم بھوپال نے کہہ رکھاتھا کہ اسے بھی ساتھ لائیں۔ سرراس مسعود بھی ان کے ہمراہ گئے۔ جب دونوں بزرگوں نے بیگم بھوپال کو جھک کر فرشی سلام کیاتو راقم اپنی ہنسی ضبط نہ کر سکا ۔ انہی ایام میں محمد دین تاثیر نے راقم کے پڑھنے کے لیے ’’الف لیلہ‘‘ کا ایک اردو نسخہ بھیجا تھا جسے راقم بڑے شوق سے ہر رات سونے سے پہلے پڑھا کرتا۔ ۲۸ اگست ۱۹۳۵ء کو برقی علاج کا کورس ختم ہونے پر اقبال بھوپال سے روانہ ہوئے اور اگلے روز دہلی پہنچے ۔ حکیم نابینا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نبض دکھائی۔ باقی وقت ریلوے اسٹیشن پر قیام کیا۔ رات کو گاڑی پکڑی اور ۳۰ اگست ۱۹۳۵ء کی صبح واپس لاہور پہنچ گئے۔ برقی علاج سے بھی اقبال کی تکلیف میں کوئی خاطر خواہ افاقہ نہ ہواتھا ۔ اسی دوران میں ان کے ایک دوست وی آناسے ذیابیطس کا علاج کراکے واپس آئے۔ انہوں نے وی آنامیں اپنے معالج سے اقبال کے عارضے کا ذکر کیا اور انہیں بتایاگیا کہ اگر وہ مریض وی آناآجائے تو بالکل تندرست ہوسکتاہے ۔ اس پر اقبال نے بھوپال کے ڈاکٹر رحمن اور ڈاکٹر عبدالباسط کی وساطت سے اپنے سینے کے ایکس ریز اور دیگر رپورٹیں دی آنا بھجوائیں، مگر اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ اقبال نے وی آنا جانے کا ارادہ اس لیے ترک کردیا کہ ا ن کے نزدیک اس عمر میں اپنے علاج پر کثیر رقم صرف کرنا بچوں کا حق مارنے کے مترادف تھا۔ چنانچہ اپنی صحت کی مکمل طورپر بحالی کے سلسلے میں مایوسی اور ناامید ی کے عالم میں انہوں نے یہی مناسب سمجھاکہ وصیت نامے کے ذریعے بچوں کے لیے گارڈین مقرر کردیے جائیں جو ان کی وفات کے بعد نابالغان کی ذات او رجائداد کی دیکھ بھال کرسکیں۔ یہ وصیّت نامہ جو ۱۳ اکتوبر ۱۹۳۵ء کو تحریر کیا گیاجو حسب ذیل ہے: منکہ ڈاکٹر سرمحمد اقبال بیرسٹرایٹ لا ٔ لاہور کا ہوں ۔ اس وقت بہ قائمی ہوش وحواس خمسہ خود اقرار کرتاہوں او رلکھ دیتاہوں کہ چونکہ میری ہر دو اولاد نا بالغان ہیں اور زندگی کا کوئی اعتبار نہیں ہے ، اور من مقر کی صحت بھی اچھی نہیں رہتی ، اس لیے میں وصیت کرتاہوں کہ میری وفات کے بعد اگرمیری اولاد مذکورہ نابالغ رہیں تو ان کی جائداد اور ذات کے ولی مندرجہ ذیل ہوںگے۔ ۱۔ خواجہ عبدالغنی ، ماموں حقیقی نابالغان ۲۔ شیخ اعجاز احمد ، سب جج برادر زادہ من مقر ۳۔چوہدری محمد حسین ایم اے سپر نٹنڈنٹ پریس برانچ لاہور ۴۔ منشی طاہر الدین ، جو کئی سال سے میرے کلارک رہے ہیں او ران کی شرافت و دیانت پر مجھے پورا اعتمادہے۔ اس وصیّت کی روسے میں ان جملہ حضرات کو نابالغان کی ذات و جائداد کا ولی مقرر کرتا ہوں۔ تمام امور متعلقہ ذات و جائداد نابالغان کا انتظام اولیاء مذکورہ کثرت رائے سے کیاکریں گے، لیکن جب میرا پسر جاوید اقبال بالغ ہوجائے تو وہ اپنی ہمشیرہ منیرہ کی ذات و جائداد کا ولی ہوگا اور اس کی جائداد و ذات کے متعلقہ انتظامات خود بطور ولی کرے گا۔ اگر ان اولیاء مقرر کردہ میں سے کوئی دستبردار ہوجائے، یا فوت ہوجائے یا کسی دیگر وجہ سے کام کرنے کے ناقابل ہوجائے۔ تو اس صورت میں باقی اولیا ء کو اختیار ہوگا کہ کثرت رائے سے اس کا جانشین مقرر کرلیں۔ اگر کسی معاملہ میں اولیا ئے مذکورہ کی رائے مساوی ہو تو صدر انجمن حمایت اسلام لاہور کی رائے جس فریق کے ساتھ ہو، اسی پر عمل کیاجائے گا او ر اسی کے مطابق فیصلہ ہوگا۔ اس وقت جو ملکیت کی چیزیں ہیں ، مندرجہ ذیل ہیں: کتب فلسفہ ولٹریچر وغیرہ ۔ ان میں سے چند کتب یعنی اپنی تصنیف کردہ کتب کے مطبوعہ نسخے معہ مسودات ،مثنوی مولانا روم ، فارسی و انگریزی ، مرتبہ ڈاکٹر نکلسن، دیوان مرزا عبدالقادر بیدل قلمی ، مراۃ المثنوی (مولانا روم ، مطبوعہ حیدرآباد)اپنے پڑھنے کا قرآن شریف باقی اور مسودات وکاغذات میں نے جاوید کو بطور یادگا ردے دیے ہیں ۔ باقی کتب مطبوعہ انگریز ی وغیرہ میری وفات کے بعد اسلامیہ کالج لاہور کی لائبریری میں رکھ دی جائیں۔ باقی میرا اسباب مثلاً دوقالین برنگ سرخ و دری و صوفہ و کرسیاں و بکس اور پہننے کے کپڑے ہیں ، ان کی نسبت میری وصیت یہ ہے کہ میری وفا ت کے بعد میرے پہننے کے تما م کپڑے غربامیں تقسیم کر دیے جائیں۔ محمد اقبال بیرسٹرایٹ لا ، لاہور ۔ بقلم خود ۱۳ اکتوبر ۱۹۳۵ء مکرر آنکہ: اگر نابالغان کے فائد ے کی خاطر یا جائداد کے انتظام یاکسی اور جائداد کی خرید و غیرہ کے لیے اولیاء کو روپے کی ضرورت ہوتو وہ کثرت رائے سے بینک سے روپیہ نکالنے کے متعلق فیصلہ کریں۔ دیگر میرے مذہبی اوردینی عقائد سب کو معلوم ہیں ۔ میں عقائد دینی میں سلف کا پیرو ہوں۔ نظری اعتبار سے فقہی معاملات میں غیر مقلدّ ہوں۔ عملی اعتبار سے حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کا مقلدّ ہوں۔ بچوں کی شادی بیاہ کے معاملے میں میرے ورثا کا اوراولیا ء مقرر کردہ کا فرض ہے کہ وہ اس بات کا پورا لحاظ کریں او ررشتہ ناطہ میں شرافت اور دینداری کو علم و دولت اور ظاہر ی وجاہت پر مقدم سمجھیں محمد اقبال بیرسٹر ۱۳ اکتوبر ۱۹۳۵ئ۵۲ ۲۵ اکتوبر ۱۹۳۵ء کو اقبال مع چوہدری محمد حسین ، راجہ حسن اختر ، نذیر نیا زی ، علی بخش او رراقم مولانا حالی کے صد سالہ جشن ولادت کی تقریبات میں شرکت کے لیے پانی پت پہنچے اوردودن وہیں قیا م کیا۔ سرراس مسعود بھی بھوپال سے تشریف لائے۔ نیز ہندوستان کے مختلف حصوں سے مولانا حالی کے بے شمار شیدائی پانی پت پہنچے ہوئے تھے۔ اقبال نے پانی پت پہنچتے ہی حضرت شاہ بو علی قلند ر کے مزار پر حاضری دی ۔ اگلے روز یعنی ۲۶ ؍اکتوبر ۱۹۳۵ء کو نواب بھوپال کی زیر صدارت حالی مسلم اسکول میں تلاوت قرآن مجید سے جلسے کا آغاز ہوا۔ مولانا حالی کے فرزند خواجہ سجاد حسین نے سپاس نامہ پڑھا۔ حفیظ جالندھری نے اپنی نظم سنائی ۔ اس کے بعد خواجہ غلام السیدین نے اعلان کیا کہ گلے کی خرابی کے سبب اقبال اپنے اشعار خود نہ سنائیںگے۔ بلکہ کوئی اور صاحب ا ن کے اشعار سنائیں گے۔ اقبال سے درخواست کی گئی کہ شعر خوانی کے دوران وہ ڈائس پر تشریف لے آئیں ان کے اس موقع پرلکھے ہوئے اشعا رجو انہوںنے پہلے ہی خواجہ سجاد حسین کو بھیج رکھے تھے، حالی مسلم اسکو ل کے ایک استاد نے خوش اسلوبی کے ساتھ پڑ کر سنائے: مزاج ناقہ رامانند عرفیؔ نیک می بینم چو محمل راگراں بینم حدی راتیز تر خوا نم۵۳ اس کے بعد جمیل نقوی ، غلام السیدین او رڈاکٹر ذاکر حسین نے مولانا حالی سے متعلق اپنے اپنے مقالات پڑھے۔ پھر سر راس مسعود کا تحریر کردہ ’’مسدس حالی‘‘ صدی ایڈیشن کا دیپاچہ پڑھا گیا ۔ آخر میں نواب بھوپال نے خطبہ صدارت پڑھا اور جلسہ اختتام پذیر ہوا۔ اقبال حبس صوت کے سبب نہ تو اپنے اشعار خود پڑھ سکے اور نہ تعریفی کلمات کے جواب میں بطور تشکر ہی کچھ کہا جو نواب بھوپال اور دیگر حضرات نے ان کی شان میں کہے تھے۔ جلسے کے اختتام پر سب لوگ مزا رحالی پر فاتحہ پڑھنے کے لیے گئے۔ شام کے اجلاس میں اقبال ضعف و اضمحلال کے باعث شریک نہ ہوئے او راگلے روز یعنی ۲۷؍اکتوبر ۱۹۳۵ء واپس لاہور پہنچ گئے۔ اقبال نے اپنی علالت اور دیگر وجوہ کے پیش نظر ۲۲ ؍نومبر ۱۹۳۵ء کو انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل سے استدعاکی تھی کہ صدارت انجمن سے ان کا استعفاقبول کرلیاجائے، لیکن جنرل کونسل نے اپنے اجلاس مورخہ ۱۵؍ دسمبر ۱۹۳۵ کو انجمن کا مفاد سامنے رکھتے ہوئے ان کا استعفا نامنظور کیا اور چھ افراد پر مشتمل ایک وفد اقبال کی خدمت میں بھیجا گیا تاکہ وہ اپنا استعفا واپس لے لیں۔ ۵۴ جنوری ۱۹۳۶ء کے ابتدائی ہفتوں میں اقبال اپنے مضمون ’’اسلام اور احمدیت‘‘ کی تکمیل میں مصروف تھے، اس لیے بھوپال جانے کا ارادہ ملتوی کردیا ۵۵۔ ۱۶ فروری ۱۹۳۶ء کو ایڈیٹر اخبار’’لائیٹ‘‘ نے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ کی موت کو بہانہ بناکر اپنے افتتاحیہ کالم میں اقبال کی ذات پر حملہ کیا۵۶۔اس کا پس منظر یہ ہے کہ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ احمدی عقیدہ رکھتے تھے اور انجمن حمایت اسلام کے ایک اہم رکن تھے۔ چونکہ اس زمانے میں احراری قادیانی نزاع نے پنجاب بھر کے مسلمانوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کررکھی تھی، اس لیے اقبال نے بحیثیت صدر انجمن کو مشورہ دیا کہ اسے احمدیت کے متعلق اپنی پالیسی غیر مشتبہ الفاظ میں واضح کردینی چائیے۔ چنانچہ ۲فرروی ۱۹۳۶ء کو انجمن کی جنرل کونسل نے زیر صدارت خلیفہ فضل حسین عبدالمجید کی تحریک پر ایک قرار داد پیش کی، جس میں ختم نبوت کے مسئلے پر انجمن کے موقف کی وضاحت کی گئی تھی۔ اس سے پیشتر اسی موضوع پر انجمن کی طرف سے ایک اعلان اس مضمون کا بھی تیار کیا گیا تھاجو بعد میں اخبارات میں شائع ہوا کہ عقائد نبوّت، وحی اور خاتمیت میں انجمن عامۃ المسلمین کی ہم نوا ہے اور کونسل اس امر کا اعلان ضروری سمجھتی ہے کہ مسئلہ ختم نبوت اسلام کا ایک اساسی اصول ہے اور حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی کسی رنگ میں نہیں آسکتا۔ پس انجمن کا مسلک یہی ہے اور ایسا ہی رہے گا۔ شیخ اکبر علی وکیل اور مولانا احمد علی نے قرار داد کی تائید کی۔ پھر انجمن کے ریکا رڈ کے مطابق ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ نے نہ صرف قرار داد کی تائید کی۔بلکہ ارشاد فرمایا: جس صاحب کوجنرل کونسل کا رکن منتخب کرنا ہواس سے پہلے اس اعلان (جو اخبارات میں شائع ہوا) کے مطابق ختم نبوت کے عقیدے کاعہد لیا جائے کہ وہ اسی مسلک پرکار بند ہے اور رہے گا۔ اس کے بعد ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین نے سیکرٹری انجمن کی حیثیت سے صدر انجمن (یعنی اقبال) کے مطالبے کی وضاحت کرتے ہوئے مندرجہ ذیل الفاظ میں قرار داد کی تائید کی: صدر محترم نے یہ محسوس کیا ہے کہ انجمن دن بدن مسلمانوں میں اپنا وقار کھو رہی ہے ۔ جب تک احمدیت کے متعلق انجمن کی پالیسی غیر مشتبہ الفاظ میں واضح طورپر پبلک کے سامنے نہ کی جائے تب تک مسلمان مطمئن نہیں ہوسکتے اور ایک بڑی بات جس پر کہ مسلمانوں میں ہیجان تھا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ الصلوٰۃ و السلام کے بعد کوئی نبی کسی رنگ میں آسکتاہے یانہیں اس ریزولیوشن میں اس کو واضح طورپر بیان کردیا گیا ہے۔ اس مرحلے پر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ جوش میں آکر اٹھ کھڑے ہوئے اور چلا کربولے: جناب ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین صاحب نے جو تشریح کی وہ غلط ہے بلکہ مجازی رنگ میں نبی آسکتا ہے۔ مولوی غلام محی الدین ایڈووکیٹ نے انہیں ٹوکتے ہوئے کہا: انجمن عامۃالمسلمین پر اپنی جنرل کونسل کے ذریعے واضح کرنا چاہتی ہے کہ انجمن عامتہ المسلمین کے ساتھ ہے۔ مرزا صاحب کو اختلاف پیدا نہیں کرنا چاہیے۔اصول مندرجہ بالا کے علاوہ ان کا کوئی عقیدہ ہے تو وہ اسے اپنے تیٔں رکھیں اور انجمن میں ذریعۂ اختلاف نہ بنائیںاور میں اس اعلان کی پرزور تائید کرتا ہوں۔ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ غصے میں میٹنگ سے واک آوٹ کرگئے۔ نودن کے بعد ان پر فالج کا حملہ ہوا اور ۱۱؍فروری ۱۹۳۶ء کو رات کے گیارہ بجے فوت ہوگئے۔ انجمن کی اس کارروائی کے متعلق اخبار’’لائیٹ‘‘ کے ایڈیٹر نے تحریر کیا کہ ڈاکٹر مرزایعقوب بیگ کی موت کا باعث انجمن کا وہ اعلان تھا جو اقبال کے مطالبے پر جنرل کونسل نے احمدیت کے بارے میں ۲فروری ۱۹۳۶ء کو تیار کرکے اپنے اخبار ’’حمایت اسلام ‘‘ مورخہ ۶؍فروری ۱۹۳۶ء میں شائع کیا۔ مزید لکھا کہ اقبال نے انہیں کافر کہاتھا اور انجمن سے مطالبہ کیا تھا کہ جب تک ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ کو انجمن کی رکنیت سے الگ نہیں کیا جاتا، وہ صدارت قبول نہ کریں گے۔ بعد ازاں ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین نے کونسل میں محولہ بالا اعلان کی بابت قرارداد پاس کرتے وقت ان کے خلاف متشددانہ رویہ اختیار کیا۔ چنانچہ وہ اپنی طبعی موت نہیں مرے بلکہ وہ انجمن سے حق کے لیے جہاد کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ اس کے بعد ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ کی خدمات کاذکر کرتے ہوئے ایڈیٹر نے اقبال کے بارے میں تحریرکیا: ایک بہترین صبح کو ڈاکٹر محمد اقبال نے یہ خیال کیا کہ مرزا یعقوب بیگ کافرہے۔ چنانچہ ڈاکٹر اقبال نے انجمن حمایت اسلام کو چیلنج بھیج دیا کہ مرزا یعقوب بیگ کو الگ کردیاجائے،جیسا کہ وہ اس احسان فراموش اور بے ضمیر کتوں کی جماعت میں بوجہ اپنی شرافت کے رہنے کے قابل نہ تھا، خدا نے اس کو اپنی طرف بلالیا ۔ ہم ڈاکٹر محمّد اقبال اور اس کے رہزن گروہ کو مبارک باد دیتے ہیںکہ اب گندہ آدمی دنیا میں نہیں رہا اور ڈاکٹر صاحب انجمن کی کرسی صدارت کوزینت بخشیں۔ سیکرٹری انجمن خلیفہ شجاع الدین کے متعلق لکھا: ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین کی بابت یہ رپورٹ ملی ہے کہ انہوں نے خاص طور پر جنرل کونسل میں متشددانہ رویہ اختیار کیا ہے اور جونہی کہ وہ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ اس میٹنگ سے باہر آئے ان پر فالج گرا اور ۱۱فروری ۱۹۳۶ء کو رات کے گیارہ بجے مرگئے۔ پس ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ اسلام کے شہید ہیں۔ اقبال نے ’’لائیٹ ‘‘ کے لگائے گئے الزامات کا نوٹس نہ لیا۔ البتہ ہفت روزہ ’’حمایت اسلام‘‘نے جنرل کونسل کی کارروائی کی تفصیل پیش کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ سراسر غلط ہے کہ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ جو نہی میٹنگ سے باہر نکلے اور مرگئے۔ پس شہید اسلام ہیں۔ دراصل کونسل کا اجلاس ۲فروری ۱۹۳۶ء کو منعقد ہواتھا اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ ۱۱فروری۱۹۳۶ء کو فوت ہوئے اور یہ بھی ایک کھلا ہوا دروغ ہے کہ اقبال نے مرزا یعقوب بیگ کو کافرکہا۔ ’’حمایت اسلام‘‘نے تحریرکیا : کارروائی پڑھنے کے بعد ذرا معقولیت سے کام لیں کہ مرزا یعقوب بیگ کو کونسا جہاد کرنا پڑا اورجناب آنریری سیکرٹری انجمن نے کون سے پتھر مارے ہیں اور جناب صدر محترم نے کونسا اورکب یہ مطالبہ کیا ہے کہ ڈاکٹر یعقوب بیگ کافر تھے اور ان کا اخراج انجمن کے لیے نہایت لازمی ہے۔ باقی وہ مرض فالج کے حملے سے فوت ہوگئے ہیں۔ آپ ان کوستّر شہدا کا مرتبہ دے سکتے ہیں اور ان کی شان میں سارا قرآن لکھ سکتے ہیں۔ قلم کاغذ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ جہاں تک ان کے چندے اور خدمات کا ذکر ہے نہ انجمن ان کی منکر ہے ، نہ ہی کسی کو شبہ ہے ۔ اگر انہوں نے نیک نیتی اور خلوص سے چندے دیے اور خدمت کی ہے تو اس کا بہترین اجر خدا کے ہاں پائیںگے۔ جناب صدر انجمن یا سیکرٹری انجمن کے خلاف بے بنیاد اتہامات یا اراکین انجمن کے متعلق تہذیب سے گرے ہوئے الفاظ کا استعمال مرزایعقوب بیگ صاحب کی شان میں کوئی اضافہ نہیں کرسکتے۔ برقی علاج کا تیسرا کورس پورا کرنے کے لیے اقبال ۲۹فروری ۱۹۳۶ء کو لاہور سے بھوپال روانہ ہوئے۔ علی بخش اس سفر میں بھی ہمراہ تھا۔ یکم مارچ ۱۹۳۶ء کو دہلی پہنچے اور دن بھر کے لیے وہیں رکے رہے۔ قیام بمطابق معمول کچھ ریلوے اسٹیشن پر اور کچھ سردار صلاح الدین سلجوتی کے ساتھ افغان قونصل خانے میں رہا۔ ۲مارچ ۱۹۳۶ء کو بھوپال پہنچے اور شیش محل میں ٹھہرے۔ اگلے ہی روز ڈاکٹر رحمن اور ڈاکٹر عبدالباسط نے ان کا تفصیلی معائنہ کیا اور بجلی کے علاج کا تیسرا کورس شروع ہوگیا۔ بھوپال میں اس مرتبہ بھی ان کا روزمرہ کا معمول وہی پرانا تھا۔ صبح کا بیشتر حصّہ حمیدیہ ہسپتال میں گزرتا ، دوپہر کو مطالعہ اور آرام فرماتے ۔ شام کو ہوا خوری کے لیے بھوپال کی معروف تفریح گاہوں کملاپتی پارک ، یادگار سلطانی وغیرہ کی طرف نکل جاتے اور رات کو سرراس مسعود کے ہاں تشریف لے جاتے ، جہاں گیارہ بارہ بجے تک محفل جمی رہتی یا شیش محل میں کھانا کھا لیتے حبس صوت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی ا ب عادت سی پڑ گئی تھی۔ گلے کے بیٹھ جانے کے متعلق پہلی سی بے چینی نہ رہی تھی۔ آواز میں ترقی کے بارے میں مایوس تھے۔ ۳اپریل ۱۹۳۶ء کی رات کو شیش محل میں سورہے تھے کہ سر سید احمد خان کو خواب میں دیکھا ۔ وہ پوچھتے ہیں : تم کب سے بیمار ہو!جواب دیا : دوسال سے اوپر مدت گزر گئی ۔فرمایا : حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کرو۔ اسی وقت ان کی آنکھ کھل گئی اور حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نذرانۂ عقیدت پیش کرنے کی خاطر اشعار ان کی زبان پر جاری ہوگئے۔ اسی عرض داشت نے بالآخر ان کی مثنوی’’پس چہ باید کردا ے اقوام شرق‘‘ کی صورت اختیار کی ۔ ۵۷ سر سید کو خواب میں دیکھنے کا ذکر انہوں نے سرراس مسعود کے نا م اپنے ایک خط مورّخہ ۲۹جون ۱۹۳۶ء میں بھی کیا ہے ۔ فرماتے ہیں: ۳؍اپریل کی شب کو جب میں بھوپال میں تھا میں نے تمہارے دادا کو خواب میں دیکھا۔ مجھ سے فرمایا کہ اپنی علالت کے متعلق حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کر۔ میں اسی وقت بیدار ہوگیا اور کچھ شعر عرض داشت کے طور پر فارسی زبان میں لکھے۔ کل ساٹھ شعر ہوئے۔ لاہور آکر خیال ہوا کہ یہ چھوٹی نظم ہے اگر کسی زیادہ بڑی مثنوی کا آخری حصّہ ہو جائے توخوب ہو ۔ الحمداللہ کہ یہ مثنوی بھی اب ختم ہوگئی ۔ مجھ کو اس مثنوی کا گمان بھی نہ تھا ۔ بہر حا ل اس کا نام ہوگا۔ ’’پس چہ باید کرداے اقوام شرق۔۵۸ ۸؍اپریل ۱۹۳۶ء کوبر قی علاج کا آخری کورس ختم ہوا او راقبال اسی روز بھوپال سے روانہ ہوکر ۹اپریل ۱۹۳۶کو لاہور واپس پہنچ گئے ۔ سردار بیگم کی وفات کے بعد گھر کاسارا نظام تہ وبالاہوچکا تھا۔ رشتہ دار خواتین تھوڑے تھوڑے عرصے کے لیے آکر منیرہ کے پاس رہتیں، لیکن اس کی تربیت اور دیکھ بھال کا کوئی مستقل بندوبست نہ ہوسکا تھا۔ اسی طرح راقم بھی جو جی میں آئے کرتا او راسے ٹوکنے والا کوئی نہ تھا،مارچ ۱۹۳۶ء میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا ۔ سالانہ امتحان سر پر آیا ہوا تھا، مگر اسے کوئی پروا نہ تھی ۔ اگر کوئی شوق تھا تو کہانیو ںکی کتابیںپڑھنے کا ۔ باغ و بہار (قصہ چہار درویش)،حاتم طائی ، طلسم ہوشربااور عبدالحلیم شرر کے سب ناول پڑ ھ ڈالے تھے مگر الف لیلہ نے اسے اس قدر مسحور کر دیا تھا کہ امتحان کی تیاری کے بجائے رات گئے تک الف لیلہ پڑھتا رہتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ راقم ساتویں جماعت کے امتحان میں فیل ہوگیا ۔ بھوپال سے واپسی پر جب اقبال کو یہ معلو م ہوا کہ راقم الف لیلہ میں منہمک ہونے کی وجہ سے فیل ہواہے توخفا نہ ہوئے۔ صرف اتنا کہا کہ اگر تم امتحان میں پا س ہوجانے کے بعد الف لیلہ پڑھتے تو اور بھی لطف آتا۔ گھر کے نظام کو صحیح طور پر چلانے او ربچوں کی اخلاقی اور دینی تربیت کے لیے انہیں کسی ایسی خاتوں کی تلاش تھی جو بیوہ اور بے اولادہو، ادھیڑ عمر کی ہو، کسی شریف گھرانے کی ہو ، دینی اوراخلاقی تعلیم دے سکتی ہویعنی قرآن مجید اردو پڑ ھا سکتی ہو اور اگر عربی فارسی بھی جانے تو اور بھی بہتر تھا، سینا پرونا وغیرہ جانتی ہو او رکھانا پکانا بھی سکھا سکتی ہو ۔اس سلسلے میں انہوں نے پچھلے سال’’ تہذیب نسواں‘‘ میں اشتہار بھی دیا اور خواجہ غلام السیدین کو خط تحریر کیا کہ علی گڑ ھ میں کسی ایسی استانی کے متعلق دریافت کریں، ۵۹ لیکن کوئی خاطر خواہ انتطام نہ ہوسکا۔ لاہور کی ایک خاتون کو چند ہفتوں کے لیے تجرباتی طور پرگھر کا چارج دیا گیا، مگر منیرہ ان سے قطعی مانوس نہ ہوئی ۔ لہٰذا انہیں رخصت کردیاگیا، ایک نوجوان خاتون جو خاصی تعلیم یافتہ اور دینی تعلیم بھی رکھتی تھیں، اس شرط پر اتالیقی قبول کرنے پر تیار ہوئیں کہ اقبال ان سے نکاح کرلیں ،لیکن چونکہ اقبال کے لیے یہ ممکن نہ تھا، اس لیے ان سے گفت وشنید بند کر ناپڑی ۔۶۰دراصل اس قسم کی کسی مسلم خاتوں کا ملنا محال تھا ،لہٰذا کسی یورپین خاتون کی خدمات حاصل کرنے کی کوششیں شروع کی گئیں۔ لاہور پہنچنے کے بعد ۱۲اپریل ۱۹۳۶ء کو اقبال نے آخری بار انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی اور ان کی تازہ ترین اردو نظم بعنوان ’’نغمہ سرمدی ‘‘(جو لا الہٰ الا اللہ کے عنوان سے ’’ضرب کلیم‘‘ میں شامل ہے )مسلمان مردوں اور عورتوں کے ایک بہت بڑے اجتماع کے سامنے پڑھی گئی۔ ۶۱عبدالحمید سالک تحریر کرتے ہیں: علا ّمہ اقبال ۱۹۳۶ء میں آخر ی دفعہ انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں تشریف لائے۔ ان کی وہ آواز بیٹھ چکی تھی ، جس کے شیریں نغمے سالہاسال تک فرزندان توحید کے لیے فردوس گوش رہے تھے۔ سٹیج پر ایک کرسی بچھا کر اس پر علامہ اقبال بٹھا دیے گئے تاکہ مسلمان ان کی زیارت سے شادکام ہوں اور علا ّمہ اقبال کے ارشاد پر محمد صدیق اور محمد امین نے ان کے وہ چند اشعار گا کر سنائے جن کا مطلع ہے: خودی کا سرّ نہاں لآ الہٰ الا اللہ خودی ہے تیغ فساں لآالہٰ الا اللہ‘‘۶۲ اپریل ۱۹۳۶ء تک تحریک بازیابی مسجد شہید گنج وقتی طور پر معطل ہو گئی تھی۔ شہید گنج کے مسئلے کاپس منظر یہ تھا کہ لنڈے بازار کے قریب شاہجہاں کے عہد میں لاہور کے کوتوال عبداللہ خان نے اسے تعمیر کیا اور اس میں باقاعدہ نماز اداہونے لگی۔اس مسجد کے نزدیک سکھوں کا ایک مقدس بزرگ تاروسنگھ مغل صوبہ دار نوا ب معین الملک کے ہاتھوں مارا گیا۔سکھوں نے اس کی یاد میں اس مقام پر سمادھ تعمیر کرلی اور اس کا نام شہید گنج رکھ دیا۔ بعد میں جب پنجاب میں سکھوں کا راج آیاتو انہوں نے سمادھ کے قرب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسجد پربھی قبضہ جمالیا ۔ چنانچہ اس تمام رقبے پر کئی سالوں سے سکھ متولّی قابض چلے آتے تھے۔ مارچ ۱۹۳۵ء میں انگریزی حکومت نے یہ رقبہ گردوارہ پر بند ھک کمیٹی کے سپرد کردیا جو قانون کی روسے سکھوں کے اوقاف کی نگران تھی۔ کمیٹی نے مسجد کو مسمار کرنا چاہا کیونکہ سکھوں کا دعویٰ تھاکہ مسجد پر ان کا قانونی حق ہے ۔ مسلمانوں کا موقف یہ تھا کہ ایک دفعہ جہاں مسجدبن جائے، اسے منہدم نہیں کیا جاسکتا۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کا ایک وفد گورنر پنجاب سے ملا ۔ابھی بات چیت جاری تھی کہ پولیس اور فوج کے پہرے میں ۴؍جولائی ۱۹۳۵ء کی رات کو سکھوں نے مسجد کا انہدام شروع کردیا ۔ اس پر مسلمان جوش میں آگئے۶۳ ۔۱۴؍جولائی ۱۹۳۵ء کو بیرون موچی دروازہ باغ میں مجلس اتحاد ملّت کے زیر اہتمام ایک بہت بڑا جلسہ منعقد ہوا جس میں سول نافرمانی کی تیاری کا اعلان کیاگیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مجلس احرارنے اس جلسے میں شرکت سے انکار کردیا ، جس کے سبب اس کی مقبولیت اور ہر دلعزیزی جو اُسے تحریک کشمیر اور بعد میں تحریک ختم نبو ّت کے دوران میں حاصل ہوئی تھی، ختم ہوگئی۔ مجلس اتحاد ملت کے لیڈروں اور کارکنوں کو راتوں رات گرفتار کر لیاگیااور جب مسلمانوں کے احتجاجی جلوسوں کا سلسلہ شروع ہواتو انگریزی حکومت نے مارشل لاء نافذ کر دیا ۔ مسلمان جوق در جوق مسجد تک پہنچنے کے لیے بڑھتے تھے اور فوج ان پر گولی چلاتی تھی۔ بیسیوں شہید اور سیکڑوں زخمی ہوئے ۔ ان دنوں اقبال بھوپال میں تھے۔ ۲۹؍اگست ۱۹۳۵ء کو دہلی پہنچے ۔ ریلوے اسٹیشن پر ہی قیام تھا ۔ مشہور کانگرسی لیڈر ڈاکٹر سید محمود ملنے آئے۔ مسجد شہید گنج کے انہدام کے متعلق گفتگو ہوئی ، فرمایا : آپ مسلمانوں سے مایوس کیوں ہیں؟ آپ نہیں جانتے حکومت اور حکومت کے طرف داروں نے انہیں کس طرح دبارکھا ہے ۔ ورنہ شاید اس ایک مسجد کے بدلے میں کیاکچھ ہوجاتا۔ مسلمانوں میں قربانی کا بڑا مادّہ ہے ۔ مشکل صرف یہ ہے کہ ان کی صفیں منظم نہیں ، نہ کوئی ایسا صاحب نظر اور اولوالعزم انسان ہے جو ان کی رہنمائی کرے۔ ۶۴ جب اقبال لاہور آئے تو بظاہر معاملہ سرد پڑ چکاتھا، لیکن اندراندر آگ سلگ رہی تھی۔ہزاروں رضاکار جیلوں میں ٹھونسے گئے تھے اور یہ سلسلہ سارا سال جاری رہا۔بالآخر بعض مسلمانوں نے محمد علی جناح کو لاہور بلوایاتاکہ وہ کوئی مفاہمت کرادیں۔ محمد علی جناح ۲۱فروری ۱۹۳۶ء کو لاہور پہنچے اور اتفاق سے تب بھی اقبال لاہور میں موجود نہ تھے ، بلکہ برقی علاج کی خاطر بھوپال گئے ہوئے تھے ۔محمد علی جناح تقربیاً دو ہفتے لاہور میں مقیم رہے اور اس دوران میں انہوں نے تحریک شہید گنج کے قائد ین سکھ لیڈروں اور گورنر پنجاب وغیرہ سے ملاقاتیں کیں اور فریقین کوکوئی معقول سمجھوتا کرنے کا مشورہ دیا۔ آخر کا ر محمد علی جناح نے شہید گنج مصالحتی بورڈ قائم کیا جس میں پنجاب کی دیگر شخصیات کے ساتھ اقبال کو ان کی عدم موجودگی میں ممبر نا مزد کردیا گیا ۔ تمام سیاسی قیدی رہا ہوئے اور اس طرح محمد علی جناح کی کوششوں سے پنجاب میں وقتی طورپر صلح وامن کی فضا پیدا ہوگئی ، مگر پچھلے برس جب تک تحریک زوروں پر تھی تو شہید گنج لیگل ڈیفنس کمیٹی کے ذریعے مسلمانوں کی طرف سے مسجد کی بازیابی کی خاطر ڈسٹرکٹ جج لاہور کی عدالت میں ایک دعو ی بھی دائر کیا گیا تھا ، جس کی پیروی ملک برکت علی ایڈووکیٹ اور دیگر وکلا کر رہے تھے۔ شہید گنج مصالحتی بورڈ تو بیکار ثابت ہوا، تاہم ہر مسلمان بے تابی سے فیصلے کا منتظر تھا۔ بالآخر ڈسٹرکٹ جج لاہور نے ۲۵؍مئی ۱۹۳۶ء کو مسلمانوں کا یہ دعویٰ خارج کردیا اور مسجد پر سکھوں کا قبضہ بحال رکھتے ہوئے فیصلے میں لکھا کہ مسجد بھی عام غیر منقولہ جائداد کی طرح فریقِ ثانی کے قبضۂ مخالفانہ میں جاکر اپنی اصل حیثیت کھو بیٹھتی ہے ۔ بہر حال اقبال کے مشورے سے ڈسٹرکٹ جج کے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کردی گئی، اس لیے معاملہ مزید ایک سال تک لٹک گیا۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء میں مسلمانوں کاصوبائی خود مختاری کا مطالبہ کچھ حد تک تسلیم کرلیا گیا تھا اور اس آئین کے تحت جو اختیارات صوبوں کودیے گئے، ان میں صوبائی خود مختار ی کے اصول کی چند نمایاں خصوصیا ت موجود تھیں۔ گورنروں کو صرف ایمر جنسی اختیار ات سونپے گئے تھے۔ اسی طرح مرکزی وفاقی حکومت بر ٹش انڈیا کے صوبوں او رہندوستانی ریاستوں کے نمائندوں پر مشتمل تھی ۔ اگرچہ اہم شعبہ جات مثلا ً دفاع ، خارجی امور وغیرہ گورنر جنرل کے کنٹرول میں تھے۔ صوبہ سرحد میں آئینی اصلاحات پہلے ہی سے نافذ ہوچکی تھیں اور پھر سندھ کو بھی بمبئی سے علیٰحدہ کرکے ایک الگ صوبہ بنادیاگیا۔ یہ وہ زمانہ تھاجب مسلمانوں میں سیاسی انتشار اپنی انتہاکو پہنچ چکاتھا اور وہ مختلف سیاسی گروہوں اور ٹولیوں میں بٹے ہوئے تھے۔ کُل ہندبنیادو ںپر ان کی واحد نمائندہ سیاسی تنظیم کوئی بھی نہ تھی ۔ دوسری طرف مسلم اکثریتی صوبوں یعنی پنجاب ، بنگال ،سندھ اور سرحد (بلوچستان میں نئی اصلاحات ابھی نافذ نہ ہوئی تھیں)کے مسلم لیڈروں میں صوبائیت یا علاقائیت کا رجحان زور پکڑ رہاتھا۔ پوزیشن یہ تھی کہ پنجاب اور بنگال دونوں صوبوں میں مسلما ن اپنی تھوڑی سی اکثریت کے بل بوتے پر مستحکم وزارتیں نہ بناسکتے تھے۔ سند ھ میں صورت حال قدرے بہتر تھی ، لیکن یہاں بھی اگر مسلمانوں میں اتحاد نہ رہے تو وزارت ختم ہوسکتی تھی۔ صرف صوبہ سر حد کی اسمبلی میں مسلمانوں کو نشستوں کی واضح بر تری حاصل تھی اور وہاں مضبوط مسلم وزارت تشکیل دی جاسکتی تھی۔ غالباًانہی حالات کے پیش نظر پنجاب، بنگال او ر سندھ کے صوبائی مسلم لیڈروں نے اپنی اپنی غیر فرقہ وارانہ سیاسی جماعتیں بنا کر اُن کے ٹکٹ پر انتخابات لڑنے کا قصد کیا تاکہ یوں صوبائی اسمبلیوں میں وہ اپنااقتدار قائم رکھ سکیں ۔ البتہ صوبہ سرحد میں عبدالغفار خان کی پارٹی خدائی خدمت گار کانگرس کی ہمنوا تھی ، اس لیے وہاں انہیں کسی غیر فرقہ وارانہ سیاسی جماعت قائم کرنے کی ضرورت نہ پڑی ۔ محمد احمد خان کی رائے میں بالخصوص مسلم اکثریتی صوبوں میں صوبائی دائرے کے اندر غیرفرقہ وارانہ جماعتیں بنانے کا رجحان افسوسناک بھی تھا اور خطرناک بھی ، اس لیے کہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت صوبائی خودمختاری برصغیرکی پوری ملت اسلامیہ کے متحدہ مطالبے اور مشترکہ جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہوئی تھی ۔ اس کے بعد اگر مسلمان متحدنہ رہیں اور وہ صوبوں میں بٹ کر غیر فرقہ وارانہ سیاسی جماعتیں بنالیں تو جو کچھ انہو ںنے حاصل کیا تھا اس کے ضائع ہوجانے کا خطرہ تھا۔ اس کے علاوہ ۱۹۳۵ء کے ایکٹ کے تحت صوبائی اسمبلیوں کے اراکین ہی کے ووٹوں سے مرکزی یا وفاقی اسمبلی کے ممبروں کا انتخاب ہونا تھا۔ ان حالات میں وہ مرکزی اسمبلی میں خالصتًا مسلم نقطۂ نظر پیش کرنے والے مسلم نمائندوں کو کیونکر بھیج سکتے تھے۔۶۵ محمد احمد خان تحریر کرتے ہیں: یہ رجحان صوبوں کے ہندوؤں میںپیدا نہ ہواتھا۔ انہوں نے اس امر کی کوشش نہیں کی تھی کہ صوبائی سطح پر غیرفرقہ وارانہ جماعتیں بنائیں او ران کے ذریعے انتخاب لڑیں۔۶۶ محمد علی جناح جب سے انگلستان سے واپس آئے تھے، بحیثیت صدر مسلم لیگ کو برصغیر میں مسلمانوں کی واحد متحدہ جماعت بنانے کے لیے جدوجہد کررہے تھے۔ ۱۹۳۷ء میں نئے آئین کے تحت چونکہ عام انتخابات ہونے والے تھے، اس لیے انہوں نے ۱۰؍اپریل ۱۹۳۶ء کو بمبئی میں مسلم لیگ کاسالانہ اجلاس طلب کیااور اس میں مسلم لیگ کے علاوہ مختلف مسلم سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کوبھی مدعو کیا۔ اس اجلاس میں مسلم لیگ کی تاریخ میں پہلی بار اسے عوامی جماعت بنانے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ نیز طے پایا کہ صوبائی انتخابات میں حصّہ لیا جائے اور انہیں اختیار دیا گیا کہ مختلف مسلم سیاسی جماعتوں کے لیڈروں سے مشورہ کرکے اس بورڈ کے لیے ممبر نامز د کردیں اور مختلف صوبوں میں بورڈ کی شاخیں قائم کریں۔ اس کے بعد محمد علی جناح نے مختلف صوبوں کے دورے شروع کیے ۔ وہ ۲۹اپریل ۱۹۳۶ء کولاہور پہنچے۔سب سے پہلے پنجاب کی یونینسٹ پارٹی کے بانی سر فضل حسین کے گھر گئے ،لیکن سر فضل حسین نے ان کی ایک نہ سنی۔ دراصل وہ محمد علی جنا ح کے متعلق اچھی رائے نہ رکھتے تھے۔ اپنی ڈائری مورخہ پیر ۲؍مارچ ۱۹۳۶ء کے اندراج میں تحریر کرتے ہیں: جناح آپے سے باہر ہورہے ہیں۔ آغا خان کے خلاف اور میرے خلاف اور کانفرنس کے خلاف یہ امر افسوسناک ہے ۔ وہ اپنی ساری زندگی ایسے ہی رہے ہیں۔ اس لیے کانگرس یا مسلم لیگ یا کانفرنس گول میز کسی کے ساتھ بھی نباہ نہ کرسکے۔ آج تک کوئی سیاسی جماعت نہ بنا سکے۔ بمبئی میں ان کا کوئی رسوخ نہ تھا اور انہیں اب بھی وہاں کو ئی لیڈر تسلیم نہیں کرتا۔ میرا خیال ہے ۔ مجھے ان سے آئند ہ اچھی طرح ملنے کی ضرورت نہیںہے۔۶۷ ۶؍مئی ۱۹۳۶ء کی شام کو جناح اقبال سے ملنے ’’جاوید منزل ‘‘ آئے ۔ فاطمہ جناح ساتھ تھیں۔ راقم کو خوب یا دہے، ان کے آنے سے پیشتر اقبال نے اسے خاص طورپربلوا کر کہا تھاکہ ایک مہمان آرہے ہیں اورجب وہ آکر بیٹھ جائیں تو راقم کمرے میں داخل ہو اور ان سے آٹوگراف لینے کی استدعا کرے۔ چنا نچہ جب مہمان تشریف لے آئے تو راقم اقبال کے حکم کی تعمیل میں کمرے میں داخل ہوا۔ اقبال کے پاس ایک طویل قامت دبلے پتلے مگر نہایت خوش پوش شخص بیٹھے تھے۔ ان کی آنکھوں میں بڑی پھرتی تھی اور ان کے ساتھ سفید کپڑوں میں ملبوس ایک دبلی پتلی خاتون بھی تھیں۔ اقبال نے ان سے راقم کا تعارف کرایا اور راقم نے آٹوگراف کی کتاب او رقلم بڑھا دیے۔ مہمان نے انگریزی میں اس سے پوچھا : کیا تم بھی شعر کہتے ہو؟ راقم نے جواب دیا : جی نہیں ، فرمایا : پھر تم بڑے ہوکر کیا کروگے؟ راقم خاموش رہا ۔ اس پر وہ ہنستے ہوئے اقبال سے مخاطب ہوئے، کوئی جوا ب نہیں دیتا ۔ اقبال نے جواب دیا : وہ جواب نہیں دے گا ، کیونکہ وہ اس دن کا منتظر ہے جب آپ اسے بتائیں گے کہ اسے کیاکرنا ہے۔ محمد علی جناح نے انہیں مسلم لیگ مرکزی پارلیمانی بورڈ کا کارکن بننے کی دعوت دی جو اقبال نے اپنی علالت اوردیگر ذاتی آلام و مصائب کے باوجود قبول کرلی، کیونکہ ان کے نزدیک مسلمانوں کے ملّی اتحاد کی تحصیل کے لیے ضروری تھاکہ برصغیر میں ان کی صرف ایک سیاسی تنظیم ہو۔ لاہور میں قیام کے دوران میں محمد علی جناح مجلس اتحاد ملت احرار کے رہنماؤں سے بھی ملے اور وہ بھی تعاون پر رضامند ہوگئے۔ایک ہفتہ لاہور میں ٹھہرنے کے بعد محمد علی جناح راولپنڈی ہوتے ہوئے کشمیر چلے گئے ۔ ۸ ؍ مئی ۱۹۳۶ء کو اقبال اور چودہ دیگر صوبائی مسلم رہنمائوں نے مسلمانان پنجاب کے نام مسلم لیگ اور محمد علی جناح کی حمایت میں اپیل کی او رساتھ ہی یونینسٹ پارٹی کے متعلق انہیں خبر دار کیا : آپ لوگوںپر مخفی نہ رہے کہ اس صوبے میں نام نہاد یونینسٹ پارٹی بھی انتخابات میں حصّہ لے رہی ہے۔ آپ لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ لوگ مسلمانان پنجاب کی وحدت کو دیہاتی اور قصباتی تقسیم کے نا پاک اور غیر اسلامی حربے سے پارہ پارہ کرنے کے ذمے دار ہیں اور یہی لوگ ہیں جنہوں نے اسلام کی عالمگیر اخوت کو اقتصادی مفاد کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھانے سے بھی دریغ نہ کیا ۔ افسوس!کہ یہ لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ اسلام دنیا میں مادی بنیادوں پر انسانیت کے بکھرے ٹکڑوں کو جوڑ نے نہیں آیا بلکہ آرا اور افکار کی یک جہتی پر انسانیت کے قصرِ رفیع کو استوار کرنے کے لیے آیا تھا…ہم ایک لمحے کے لیے بھی اسلام کے بلند ترین مقاصد کو پس پشت ڈال کر اپنی خود غرضیوں او رجاہ پرستیوں کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے غیر مسلموں کے ہاتھ اپنے اصولوں کوفروخت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ سنٹرل پارلیمنٹری بورڈ کا منشا صرف یہ ہے کہ قابل مسلمان صوبائی اسمبلیوں میں بھیجے جائیں اور سنٹرل لیجسیلچرز متحدہ آواز سے مسلمانوں کے حقوق کی کماحقہ ، حفاظت کرسکیں۔۶۸ ۱۲؍مئی ۱۹۳۶ء کو میا ںعبدالعزیز بیرسٹر کے مکان پر مسلم لیگ کا اجلاس ہوا، جس میں اقبال بھی موجود تھے۔ اس اجلاس میں پنجاب مسلم لیگ کی از سر نو تنظیم کے سلسلے میں عہدے داروں کا تقرر کیا گیا ۔ اقبال دوبار صدر اور غلام رسول بیرسٹر سیکرٹری مقرر ہوئے ۔ ۲۱؍اپریل ۱۹۳۶ء کو محمد علی جناح نے سرینگرسے مرکزی پارلیمانی بورڈ کے اراکین کے ناموں کااعلان کیا، جن میں اقبال کا نام بھی شامل تھا۔ چونکہ تمام ممبران میں سے تین نشستیں مجلس اتحاّد ملت اور چار مجلس احرار کودی گئیں، اس لیے مولانا ظفر علی خان، صدر مجلس اتحاد ملت مطمئن نہ تھے، ۲۸مئی ۱۹۳۶ء کو اقبال کی زیر صدارت ’’جاوید منزل ‘‘میں مسلم لیگ کا اجلاس ہوا جس میں مرکزی پارلیمانی بورڈ کے پنجابی ممبروں نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنے کے لیے اقبال کی زیر صدارت صوبائی مسلم لیگ پارلیمانی بورڈ قائم کیا گیا۔ ۶ ؍جون۱۹۳۶ء کو محمد علی جناح سری نگر سے واپس لاہور پہنچے اور ۸؍جون ۱۹۳۶ء کو برکت علی اسلامیہ ہال میں مسلم لیگ کونسل اور مرکزی پارلیمانی بورڈ کے اجلاس کی صدارت کی۔ اس اجلاس میں مسلم لیگ کا انتخابی منشور منظور کیا گیا اور اسی اجلاس میں مجلس اتحاد ملّت کے لیڈر مرکزی پارلیمانی بورڈ سے مستعفی ہوگئے۔ یہ خبرسن کر سر فضل حسین بڑے خوش ہوئے او رانہوں نے اپنے ایک خط بنام سر سکندر حیات میں تحریر کیا : جناح کو اپنے مقصد میں کا میابی نہیں ہوسکی۔ ہم نے اس کے بورڈ میں شامل ہونے سے انکار کیا ۔ اتحاد ملت نے بھی انکار کردیا۔ باقی رہ گئے احرار ۔وہ شامل ہوں یانہ ہوں ۔ ان کا روّیہ ہمارے متعلق یکساں رہے گا۔ البتہ اقبال، شجاع ، تاج الدین ، برکت علی جیسے چند متفرق شہری باشندے اس بورڈ سے کچھ لے مرنے کی آرزو میں دوڑ دھوپ کر رہے ہیں۔۶۹ ۹؍جون ۱۹۳۶ء کو محمد علی جنا ح کے نام اپنے ایک خط میں اقبال نے اصرار کیا کہ وہ بورڈ سے متعلق اپنے بیان میں مسلمانانِ برصغیر کو خبر دار کریں کہ اگر مسلم لیگ کی موجودہ اسکیم کو اختیار نہ کیا گیاتو گزشتہ پندرہ برس میں جو کچھ بھی انہوں نے سیاسی طور پر حاصل کیا ہے اسے گنوا بیٹھیں گے، بلکہ اپنا شیرازہ اپنے ہاتھو ںسے درہم برہم کردیں گے ۔ نیز فرمایا کہ مرکزی اسمبلی کے لیے بالواسطہ انتخاب نے مسلمانوں کے لیے لازمی کردیاہے کہ صوبائی اسمبلیوں کے مسلم اراکین ایک کل ہند مسلم پالیسی اور پروگرام کے پابند ہوں تاکہ وہ مرکزی اسمبلی میں صرف ایسے نمائندے بھیجیں جو وہاں ہندوستان کی دوسری بڑی قوم کے نمائندوں کی حیثیت سے خالصتًا مسلم نقطۂ نظر پیش کرسکیں۔۷۰ سر فضل حسین تو سر سکندر حیات کو پنجاب میں محمد علی جناح کی ناکامی کی خبر سنا رہے تھے،لیکن سر سکندر حیات یونینسٹ پارٹی میں ان کے خلاف خفیہ سازشوں میں مصروف تھے اور ساتھ ہی اقبال یا محمد علی جناح سے ساز باز بھی کررہے تھے۔ اقبال کو امید تھی کہ شاید وہ مسلم لیگ میں آجائیں او ر اسی پس منظر میں انہوں نے محمد علی جناح کوایک خط مورخہ ۲۵جون ۱۹۳۶ء تحریر کیا ، مگر بقول عاشق حسین بٹالوی ، اقبال کو ان کے متعلق خوش فہمی تھی۔ وہ مسلم لیگ میں شامل ہونے پر تیار نہ تھے، بلکہ وہ تو ہوا کا رخ دیکھ رہے تھے یا سر فضل حسین کی موت کا بیتابی سے انتظار کر رہے تھے ۷۱ ۔۹؍جولائی ۱۹۳۶ء کو سر فضل حسین نے لاہور میں وفات پائی او رسر سکندر حیات کو یونینسٹ پارٹی کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ اقبال کے لیے علالت کے سبب صوبائی پارلیمانی بورڈ کے ہر اجلاس میں شریک ہونا ممکن نہ رہا تھا۔ اس لیے انہوں نے ۱۳اگست ۱۹۳۶ء کو صوبائی پارلیمانی بورڈ کی صدارت سے استعفا دے دیا ، اگرچہ وہ صوبائی مسلم لیگ کے صدر بدستور رہے ۔ پنجاب میں انتخابی مہم کے آغاز سے پیشتر مجلس احرار بھی مسلم لیگ کو چھوڑ چکی تھی۔ بہرحال انتخابی مہم شروع کرنے کے لیے اقبال نے محمد علی جناح کو لاہور بلوایا۔ وہ ۹؍اکتوبر ۱۹۳۶ء کو تشریف لائے۔ ۱۱؍اکتوبر ۱۹۳۶ء کی شام کو دہلی دروازے کے باغ میں مسلم لیگ کا جلسہ ہوا۔ صدارت اقبال کو کرنا تھی لیکن بوجہ نا سازی طبع نہ کرسکے۔ محمد علی جناح نے یونینسٹ پارٹی کے خلاف بڑی دھواں دار تقریر کی، مگر بقول عاشق حسین بٹالوی جلسہ نہایت مختصر اور بے رونق تھا۔ اور حاضر ین کی تعداد مشکل سے ہزار ڈیڑھ ہزار کے قریب تھی۔۷۲ مسلم لیگ مسلم حلقوں سے کل سات امید وار کھڑے کرسکی جن میں سے صرف دو کامیاب ہوئے ، ایک ملک برکت علی اور دوسرے راجہ غضنفر علی ۔ راجہ غضنفر علی تویونینسٹ پارٹی میں چلے گئے اور ملک برکت علی اکیلے رہ گئے۔ جولائی ۱۹۳۶ء میں ’’ضرب کلیم ‘‘ لاہور سے شائع ہوئی اور دوماہ بعد یعنی ستمبر ۱۹۳۶ء میں فارسی مثنوی ’’پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ کی اشاعت ہوئی ۔جولائی ۱۹۳۶ء ہی میں جنوبی ہند میں اونچی ذات کے ہندوؤں کے روّیے سے تنگ آکر اچھوت بڑی تعداد میں مسلمان ہونے لگے او ران سے متعلق خبریں مصر کے اخبارو ںمیں چھپیں۔ اس پر جامعہ ازہر کے شیخ محمد مصطفٰے المراغی نے اقبال کو خط لکھا کہ تبلیغ اسلام کی مہم چلانے کی خاطر وہ مصری علماء کا ایک وفد ہندوستان بھیجنے کوتیار ہیں ۔اقبال نے جواب دیا کہ اچھوتوں میں تبلیغ اسلام کی غرض سے مصری علما کی جماعت کو ہندوستان بھیجنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ کا م ہندوستان کے علماء انجام دے سکتے ہیں۔ ا سکے علاوہ اگر مصر سے علماء کا وفد آیا تو اس کے سبب ہندو مسلم تعلقات پر ناخوشگوار اثر پڑنے کا اندیشہ ہے بہرحال چونکہ خط و کتابت مسلم اخبارات میں شائع ہوئی اس لیے ہندو پریس نے اقبال کے خلا ف زہر اُ گلا۔ ۷۳ ۱۱؍اکتوبر ۱۹۳۶ء کو اقبال بارود خانے میں محمد دین تاثیر اور کرسٹابل جارج کی شادی میں شریک ہوئے، علی بخش اور راقم بھی ان کے ہمراہ تھے۔ فریقین کا نکا ح نامہ اقبال نے خود تحریرکیا ۔ اس کی دو شقیں جو اس زمانے میں بڑی عجیب و غریب سمجھی گئیں، درج ذیل ہیں: بربنائے اقرار متذکرہ بالا اور نکاح مجوزہ محمد دین تاثیر مذکور اقرا ر کرتاہے کہ جب تک اس کا نکاح کرسٹابل جارج مذکور سے قائم رہے گا ، وہ کسی بھی عورت سے نکاح ثانی نہیں کرے گا، خواہ اس کا کوئی بھی مذہب کیوں نہ ہو(یعنی فریقین کی شادی ، ’’مونا گمس‘‘ہوگی)۔ بربنائے اقرار متذکرہ بالا اور نکاح مجوزّہ محمد دین تاثیر مذکور شرع اسلامی کے تحت اپنا حق طلاق کرسٹابل جارج مذکور کو تفویض کرتاہے۔ ۷۴ نومبر ۱۹۳۶ء میں ماہنامہ ’’الحکیم ‘‘ کے نمائندے اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے او ران سے ضبط تولید کے مسئلے پر اظہار خیال کرنے کو کہا ۔ فرمایا: شریعت اسلامی نے اجتماعی مسائل میں مصالح امت کو نظر انداز نہیں کیا اور اس کے تصفیے کو اہل علم پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ حالات و مقتضائے وقت کے مطابق ان کا فیصلہ کرلیں ۔ اس لیے اگر حظ نفس مقصود نہ ہو ، حقیقی ضرورت موجود ہو اور فریقین رضا مند ہوں تو جہاں تک میرا علم میری رہنمائی کرتاہے۔ (ضبط تولید)شرعًا قابل اعتراض نہیں ہے ۔ اصول شرعی سے یہ معلوم ہوتاہے کہ کوئی خاوند اپنی بیوی کو اگر وہ اولاد کی خواہش مند نہ ہو،اولاد پیدا کرنے پر باکراہ مجبور نہیں کرسکتا۔۷۵ اب احمدیت کی تردید میں اقبال کی تحریروں کے پس منظر پر بحث کی جاسکتی ہے ۔ ظاہر ہے ان تحریروںکے سبب اقبا ل احمدیوں کے غیظ و غضب کا نشانہ بنے۔ ان کی وفات کے پندرہ سولہ برس بعد، فسادات پنجاب کے سلسلے میں انکوائری کمیشن کے سامنے شہادت دیتے ہوئے ایک احمدی گواہ نے اپنے بیان میں کہا کہ اقبال نے مرزا غلام احمد کی بیعت کی تھی اور ۱۹۳۰ء سے ۱۹۳۱ء تک اس بیعت کے پابند رہے ، لیکن ا س کے بعد کشمیر کمیٹی میں مرزا بشیر الدین محمود اور اقبال کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے جس کے نتیجے میں انہوں نے احمد یت کے خلاف بیانات دینے شروع کردیے ۔ جرح کے دوران گواہ نے پہلے تو کہا کہ یہ بیعت ۱۸۹۳ء یا ۱۸۹۴ء میں ہوئی تھی۔ پھر کہا کہ ۱۸۹۷ء میں ہوئی تھی۔ بعد ازاں گواہ نے اپنی شہادت کے کسی اور حصّہ میں بتایا کہ اقبال ۱۹۳۰ء تک مرزا غلا م احمد کو مجد د مانتے رہے ۔پھر کہا کہ اس نے اپنے بیان میں یہ کہیں بھی نہیں کہا کہ اقبا ل احمدی تھے۷۶۔ اسی طرح بعض احمد ی حلقوں کی طرف سے یہ مشہور کرنے کی کوشش کی گئی کہ اقبال کا احمدیت کے ساتھ گہرا تعلق رہاہے ۔ ان کے خاندان کے کئی افراد نے احمدیت کو قبول کیا ۔ ا ن کے والد احمدی تھے۔ ان کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد احمدی تھے اور ان کے بھتیجے شیخ اعجاز احمد احمدی ہیں۔ جنہیں اقبال نے وصیّت نامے میں اپنے نابالغ بچوں کے اولیا ء کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ پس اگربعد میں وہ احمدیت کے خلا ف ہوگئے تو اس کی وجوہات ذاتی اور سیاسی تھیں۔۷۷ اقبال کی زندگی میں ان کے احمد ی نقادو ںنے ان کے متعلق یہ باتیں نہ کہی تھیں، جس سے معلوم ہوتاہے کہ وہ بعد کی سوچ بچار کا نتیجہ ہیں ۔ بہرحال اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ اقبال نے اپنی زندگی کے کسی بھی مرحلے پر مرزا غلام احمد کی بیعت کی یا احمدیت کے ساتھ ان کا گہرا تعلق رہا۔ اسی طرح یہ کہنا بھی درست نہیں کہ ان کے والد شیخ نورمحمد احمدی تھے،البتہ ان کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد نے اپنی زندگی کے ایک حصّے میں احمد ی مسلک قبول کیا اور کچھ مدت تک جماعت احمدیہ میں شامل رہے ، مگر بقول ان کے فرزند شیخ مختا ر احمد اور دختران عنایت بیگم و وسیمہ بیگم کے انہوں نے بعد ازاں احمدیت کو ترک کرکے جماعت سے رشتہ توڑ لیاتھا۔ شیخ عطا محمد ، اقبال کی وفات کے تقریبا دوسال بعد ۲۲دسمبر۱۹۴۰ء کوسیالکوٹ میں فوت ہوئے اور انہیں امام صاحب کے معروف قبرستان میں دفنا دیا گیا۔ ان کے جنازے میں راقم بھی شریک تھا۔ نماز جنازہ شہر کے ایک سنی امام مولوی سکندر خان نے پڑھائی ۔ البتہ شیخ اعجازاحمد اور ان کے چند احمدی احباب نے غالباً شیخ عطا محمد کے گذشتہ یا مفروضہ عقیدے کے پیش نظر علیحدہ نماز جنازہ پڑھی۔ شیخ عطا محمد کی اولاد میں صرف شیخ اعجاز احمد احمدی عقیدہ رکھتے ہیں۔ اقبال نے وصیت نامے میں ان کا نام برادر زادہ ہونے کی حیثیت سے اور ان کی صالحیت کی بنا پر اپنے نابالغ بچوں کے اولیاء کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ یہ وصیت نامہ انہوں نے احمدیت کے خلاف اپنا پہلا بیان دینے کے پانچ ماہ بعد لکھا ، لیکن تقریبا دوسال بعد وہ شیخ اعجاز احمد کی جگہ سر راس مسعود کو گارڈین نا مزد کرنا چاہتے تھے، جیسا کہ ان کے ایک خط مورخہ ۱۰؍جون ۱۹۳۷ء بنام سر راس مسعود سے ظاہر ہوتاہے ۔ دیگر اولیاء کا ذکر کرنے کے بعد تحریر کرتے ہیں: نمبر ۳ شیخ اعجاز احمد میرا بڑا بھتیجا ہے ، نہایت صالح آدمی ہے ، مگر افسوس کہ دینی عقائد کی روسے قادیانی ہے ۔ تم کو معلو م ہے کہ آیا ایسا عقیدہ رکھنے والا آدمی مسلمان بچوں کا گارڈین ہو سکتا ہے یانہیں ۔ اس کے علاوہ وہ خود بہت عیال دار ہے او رعام طور پر لاہور سے باہر رہتا ہے ۔ میں چاہتا ہو ںکہ اس کی جگہ تم کو گارڈین مقرر کروں مجھے امید ہے کہ تمہیں اس پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔۷۸ مگر سر راس مسعود نے لاہور سے دور ہونے کے سبب یہ ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس لیے اقبال کو وصیت نامے میں تبدیلی کرنے کی ضرورت نہ پڑی ۔ اقبال کے خاندان میں صرف شیخ اعجاز احمد ہی کو اپنے دادا شیخ نور محمد کی صفات ورثے میں ملی تھیں۔ وہ ان کی طرح اصول کے پکے ّ ، عالی ظرف ، بردبار ، مخالفوں یا ناحق ایذا پہنچانے والوں کو معاف کرنے والے سادہ، نیک، شفیق، حلیم او رصلح کن طبیعت کے مالک تھے۔ اسی سبب اقبال نے قطع نظر ان کے دینی عقاید کے انہیں ’’صالح آدمی‘‘ قرار دیا۔ شیخ اعجاز احمد کی صالحیت کی ایک مثال یہ ہے کہ انہوں نے کسی پر اپنا عقیدہ ٹھونسنے کی کوشش نہیں کی۔لہٰذا ان کی اولاد میں سے ، جو دوبیٹوں اور تین بیٹیوں پر مشتمل ہے ، کوئی بھی ان کے عقیدے یا مسلک کا حامی نہیں ، بلکہ ختم نبوت کے مسئلے پر ان سب کا موقف وہی ہے جو مسلمانوں کا موقف ہے، دوسری مثال ان کی صالحیت کی یہ ہے کہ اقبال کے نابالغ بچو ںکے ولی کی حیثیت سے انہوں نے اپنے فرائض نہایت دیانتداری او رخوش اسلوبی سے انجام دیے اور راقم اور منیرہ ان کا یہ احسان کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتے۔ اب ا س سوال کا جواب دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ختم نبوت کے مسئلے کے متعلق ابتداء ہی سے اقبال کا اپنا ذاتی موقف کیاتھا۔ اس ضمن میں سب سے پہلے راقم ، اقبال کی نظم بعنوان ’’اسلامیہ کالج کاخطاب پنجاب کے مسلمانوں سے ‘‘ کا حوالہ دینا چاہتا ہے۔ یہ نظم انجمن حمایت اسلامیہ کے سالانہ اجلاس منعقدہ ۲۲؍فروری ۱۹۰۲ء میں پڑھی گئی۔ اس نظم کے نویں بندمیں سرور کائناؐت کی توصیف کی گئی ہے اور درج ذیل شعر میں اقبال فرماتے ہیں: اے کہ بعد از تو نبوت شد بہ ہر مفہوم شرک بزم را روشن زنورِ شمعِ عرفاں کردۂٖ۷۹ اس شعر کو نظم میں شامل کرنے سے صاف ظاہر ہے کہ اس زمانے میں عقیدۂ ختم نبوت کے بارے میں احمدیت نے جو الجھاؤ پیدا کردیا تھااور جس کے باعث مسلمانوں کے ذہن مضطرب تھے ، اس کی تردید مقصود تھی۔ ورنہ کسی بھی مفہوم میں ختم نبوت کے عقیدے کو تسلیم نہ کرنا اقبال کے نزدیک شرک فی النبوّت کیوں قرار پاتا۔ اس کے بعد اقبال کی ایک نظم بعنوان خط منظوم، پیغام بیعت کے جواب میں خصوصی توجہ کی مستحق ہے۔ یہ نظم ’’مخزن ‘‘بابت مئی ۱۹۰۲ء میں اور پھر محمد دین فوق کے اخبار ’’پنجۂ فولاد ‘‘، مورخہ ۱۱جون ۱۹۰۲ء میں شائع ہوئی۔ اس نظم کے عنوان ہی سے ظاہر ہوتاہے کہ بقول محمد عبداللہ قریشی ، اقبال پر بھی احمدیت قبول کرنے کے لیے ڈورے ڈالے گئے۸۰۔ اس نظم کو احمدی ہفت روزہ ’’الحکم ‘‘قادیان نے اپنی ۱۰؍،۱۷؍، اور ۲۴؍جنوری ۱۹۰۳ء کی اشاعت میں نقل کیا اور ساتھ ہی مرزا غلام احمد کے ایک مخلص مرید سید حامد شاہ کی طرف سے اس کا منظوم جواب بھی شائع کیا ۔ محمد عبداللہ قریشی کی رائے میں چونکہ سید حامد شاہ ، مولانا سید میر حسن کے عزیزوں میں سے تھے اور اقبال کے دوست اور ہم محلہ تھے، اس لیے عین ممکن ہے کہ اس قرب کی وجہ سے اُنہوں ہی نے اقبال کو مرزا غلام احمد کی بیعت کے لیے لکھا ہو، جس کا جواب اقبال نے اس نظم کے ذریعے دیا۸۱ ۔اس نظم کے مطالعے سے عیاں ہے کہ وہ احمدیت کو ملتّ اسلامیہ میں ایک علیٰحدگی پسند تحریک سمجھ کر ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے، کیونکہ مسلمانوں کے اتحاد کو برقرار رکھنا ان کے ایمان کا لازمی جزو تھا، فرماتے ہیں: پردۂ میم میں رہے کوئی اس بہلاوے کو جانتا ہوں میں تنکے چن چن کے باغ الفت کے آشیانہ بنا رہا ہوں میں ایک دانہ پہ ہے نظر تیری اور خرمن کو دیکھتا ہوں میں تو جدائی پہ جان دیتا ہے وصل کی راہ سوچتا ہوں میں بھائیوں میں بگاڑ ہو جس سے اس عبادت کو کیا سراہوں میں مرگِ اغیار پہ خوشی ہے تجھے اور آنسو بہا رہا ہوں میں میرے رونے پر ہنس رہا ہے تو تیرے ہنسنے کو رو رہا ہوں میں۸۲ ان کی انگلستان سے واپسی کے چند برس بعد اخبار ’’الحکم ‘‘ قادیان مو رخہ ۲۸؍اگست ۱۹۱۰ء میں ایک خبر شائع ہوئی کہ شیخ یعقوب علی تراب کی نواسی کا نکا ح بعد از نماز مغرب پانچ سو روپے حق مہر پر ڈاکٹر محمد اقبال سے ہوا ۔ اقبا ل کے احباب و اعزہ کو تعجب ہوا کہ انہوں نے قادیان جاکر احمدیوں سے رشتہ ناطہ جوڑلیا ، جن کے عقائد کے وہ خلاف تھے۔ اقبال کو اس بے سروپاخبر کی تردید چھپوانا پڑی، جو ’’پیسہ اخبار ‘‘ مورّخہ ۱۵؍ستمبر ۱۹۱۰ء میں شائع ہوئی فرمایا: اس عبارت سے میرے اکثر احباب کو غلط فہمی ہوئی او رانہوںنے مجھ سے زبانی اور بذریعۂ خطوط استفسار کیا ہے۔ سب حضرات کی آگاہی کے لیے بذریعہ آپ کے اخبار کے اس امر کا اعلان کرتاہوں کہ مجھے اس معاملے سے کو ئی سروکارنہیںہے۔ جن ڈاکٹر محمد اقبال صاحب کا ذکر ایڈیٹر صاحب ’’الحکم‘‘ نے کیا ہے وہ کوئی اور صاحب ہوںگے۔۸۳ احمدی اخبار ’’الفضل ‘‘ مورّخہ ۹؍اکتوبر ۱۹۱۵ء میں ایک مضمون بعنوان جناب ڈاکٹر شیخ محمد اقبال صاحب کی رائے اختلاف جماعت احمدیہ کے بار ے میں شائع ہوا۔ یہ مضمون سیّد انعام اللہ شاہ سیالکوٹی کاتحریر کردہ تھا اور احمدیوں میں قادیان پارٹی اور لاہور پارٹی کے اختلاف سے متعلق تھا۔ اس مضمون میں اقبال سے یہ کلمہ منسوب کیا گیا کہ عقائد کے لحاظ سے قادیان والے سچے ہیں، لیکن مجھے لاہوروالوں سے ہمدردی ہے۔ اقبال کو اس کی بھی تردید بذریعہ خط بنام ایڈیٹرکرنا پڑی۔ جو ’پیغا م صلح‘ مورّخہ ۱۳ نومبر ۱۹۱۵ء میں شائع ہوئی، اپنی پوزیشن کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا: اختلاف سلسلۂ احمدیہ کے متعلق وہی شخص رائے دے سکتاہے جو مرزا صاحب مرحوم کی تصانیف سے پوری آگاہی رکھتا ہو اور یہ آگاہی مجھے حاصل نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ یہ بات بدیہی ہے کہ ایک غیر احمدی مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی کے آنے کا قائل نہ ہو ، وہ کس طرح یہ بات کہہ سکتاہے کہ عقائد کے لحاظ سے قادیان والے سچّے ہیں۔۸۴ بہرحال ختم نبوت اور دیگر متعلقہ مسائل پر وقتاً فوقتا ؛اقبال نے اپنے خیالات کا اظہا ر بعد کی تحریروں اور منظومات میں بھی کیا ہے، جن سے احمدی عقائد کی تردید ہوتی ہے ۔ مندرجہ بالا مثالوں سے یہ واضح کرنا مقصود تھاکہ ۱۹۳۵ء ہی میں پہلی بار انہوںنے ختم نبوت کے مسئلے پر احمدی عقائد کواپنی تنقید کا نشانہ نہیں بنایا بلکہ گزشتہ کئی برسوں سے وہ ان کی تردید کرتے چلے آرہے تھے۔ فرق اتنا تھاکہ ۱۹۳۵ء سے پیشتر انہوں نے اس سلسلے میں کبھی مناظرانہ رویّہ اختیار نہ کیا تھا۔ اقبال نے عالم دین ہونے کا دعویٰ کبھی نہیں کیا نہ ہی وہ مسلمانوں میں موجودہ مختلف فرقوں کے دینی اختلافات پر کسی رائے کااظہار کرناپسند کرتے تھے ، کیونکہ ان کانصب العین منتشر ملّت اسلامیہ میں اتفاق کے فروغ کے ذریعہ اتحاد و یگانگت کو وجود میں لانا تھا۔ ان کے نزدیک ملائیت ان منفی قوتوں میں سے ایک تھی جو مسلمانوں کے ’’من حیث الملّت تنزل‘‘ کا باعث بنی۔ ملائیت سے وہ مناظرہ منسوب کرتے تھے اور مناظرہ ملّت اسلامیہ میں اتفاق کا نہیں بلکہ نفاق اور انتشار کاسبب بنتاتھا۔ اس ضمن میں ۱۹۰۴ء میں ان کے تحریر کردہ مضمون بعنوان ’’قومی زندگی ‘‘کی مثال دی جا سکتی ہے، جس میںاس وقت کے مسلم معاشرے کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایا: مولوی صاحبان کی یہ حالت ہے کہ اگر کسی شہر میں وہ جمع ہوجائیں تو حیات مسیح یا آیات ناسخ و منسوخ پر بحث کرنے کے لیے باہمی نامہ دپیام ہوتے ہیں اور اگر بحث چھڑ جائے اور بالعموم بحث چھڑجاتی ہے تو ایسی جوتیوں میں دال بٹتی ہے کہ خدا کی پناہ۔ پرانا علم و فضل جو علمائے اسلام کا خاصہ تھا نام کو نہیں ۔ ہاں مسلمان کافروں کی ایک فہرست ہے کہ اپنے دست خاص سے اُس میں روز بروز اضافہ کرتے رہتے ہیں۔۸۵ سو ۱۹۳۵ء سے پیشتر انہوں نے ختم نبوت اور متعلقہ مسائل پر کبھی احمدیوں سے مناظرہ کرنے کا قصد نہ کیا تھا۔ آخر اس کی وجہ کیا ہوسکتی ہے اس کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ۱۹۰۲ء سے بھی پیچھے جانے کی ضرورت ہے۔ اقبال کی ولادت سے پیشتر مرزا غلام احمد سرکاری ملازمت کے سلسلے میں چاریا پانچ برس سیالکوٹ میں مقیم رہے اور اس زمانے میں وہ عیسائی مشنریو ںاور آریہ سماجیوں کے اسلام پر پے در پے حملوں کا جواب دیتے اور ان سے مناظرہ کیا کرتے تھے۔ اسی سبب ایک عالم دین کی حیثیت سے سیالکوٹ کے لوگ ان کی تعظیم کرتے تھے اور وہاں کے دیگر علماء و فضلا مثلا مولانا غلام حسن ، مولانا سیّد میر حسن وغیرہ کے ساتھ ا ن کے دوستانہ مراسم تھے۔ جہاں تک اقبال کے والد شیخ نور محمد کاتعلق ہے، وہ چونکہ مولانا غلام حسن اور مولانا سیّد میر حسن کے خاص دوستوں اور ہم نشینوں میں سے تھے، اس لیے مرزا غلام احمد کو جانتے تھے۔ سید تقی شاہ فرزند مولانا سید میر حسن فرماتے ہیں کہ جب عیسائی مشنریوں کے ساتھ مرزا غلام احمد کے مناظر ے ہوا کرتے تو مولانا سید میرحسن کو ثالث بنایا جاتا تھا ۸۶ ۔بہرحال مرزا غلام احمد سیالکوٹ سے رخصت ہوگئے ۔ خاصی مدت کے بعد انہوں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور ایک دوسال بعد پھر سیالکوٹ تشریف لے آئے۔ یہ اقبا ل کی طالبعلمی کا دور تھا۔ سیالکوٹ میں مرزا غلام احمد کا قیام اقبال کے گھر کے قریب تھا۔ اس لیے اقبال انہیں گلیوں میں آتے جاتے دیکھتے تھے۔ سیالکوٹ کے علماء نے مرزا غلا م احمد کے دعو یٰ نبوت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ۔ چنانچہ شہر کے لوگوں میں ا ن کی مخالفت روز بروز بڑھنے لگی۔ اس مرحلے پر مولانا سید میر حسن نے سر سید احمد خان کو ایک خط لکھا اور مرزا غلام احمد کی نبّوت کے بارے میں ان کی رائے پوچھی ۔ سر سیّد نے انہیں اپنے خط محر ّرہ ۹؍دسمبر ۱۸۹۱ء میں جواب دیا: مرزا غلا م احمد صاحب قادیانی کے کیوں لوگ پیچھے پڑے ہیں ۔ اگر ان کے نزدیک ان کو الہام ہوتاہے تو بہتر ، ہم کو اس سے کیا فائدہ ۔ نہ ہمارے دین کے کا م کا نہ دنیا کے ۔ ان کا الہام ان کو مبارک ہے۔ اگر انہیں ہوتاہے اور صرف ان کے توہمات اور خلل دماغ کانتیجہ ہے تو ہم کو اس سے کیا نقصان ہے ، وہ جو ہوں سو ہو ں۔ اپنے لیے ہیں۔میں سنتا ہوں آدمی نیک بخت اور نمازی پرہیز گارہیں۔یہی ان کی بزرگداشت کو کافی ہے۔ جھگڑا اور تکرار کس بات کا ہے ۔ ان کی تصانیف میں نے دیکھیں۔ وہ اس قسم کی ہیں جیسا کہ ان کا الہام نہ دین کے کام کا نہ دنیا کے کام کا۔ مولوی حکیم نور الدین کی کوئی تحریر میں نے آج تک نہیں دیکھی۔ دینیات میں کسی کا الہام جب تک اس کو شارع تسلیم نہ کرلیا جائے کسی کا م کانہیں۔۸۷ اسی طرح سر سیّد نے اپنے ایک خط مورخہ ۱۴نومبر ۱۸۹۲ء بنام سید عبدالغنی ، برادرِ اصغر مولانا سید میر حسن اور والد سیّد نذیر نیازی میں مرزا غلا م احمد کی نبّوت کے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا: مرزا صاحب کی نسبت زیادہ کدو کاوش کرنی بے فائدہ ہے ۔ ایک بزرگ زاہد نیک بخت آدمی ہیں، جو کچھ بھی خیالات ان کے ہوگئے ہوں ،بہت سے نیک آدمی ہیں جن کو اس قسم کے خیالات پیدا ہو چکے ہیں۔ ہم کو اُن سے نہ کچھ فائدہ ہے نہ کچھ نقصان۔ اُن کی عزت اور ان کا ادب کرنا بسبب ان کی بزرگی اور نیکی لازم ہے۔ ان کے خیالات کی صداقت و غیر صداقت سے بحث محض بے فائدہ ہے ۔ ہمارے لیے مفید اعمال ہیں۔ ان کے اچھے ہونے پر کوشش کرنی چاہییٔ ۔۸۸ سرسیّد نے مرزا غلام احمد کے بارے میں جو مشورہ مولانا سید میر حسن اور سید عبد الغنی کو دیا، وہ مختصراً یہی تھاکہ ان کے خیالات کی صداقت و غیر صداقت کے بارے میں ان سے جھگڑا ، تکرار یا مناظرہ کرنا بے سود ہے۔ وہ جو کچھ بھی ہیں اپنے لیے ہیں اور ان کی بزرگی اور نیکی کے سبب ان کا احترام کرنا چاہیے ۔ اب اقبال کے والد شیخ نور محمد جو خود بڑے دین دار اور پارسا مسلمان تھے، ہر دنیوی یا دینی معاملے میں مولانا سید میر حسن سے رجوع کیاکرتے تھے اور اقبال انہیں اپنا استاد اور مرشد تسلیم کرتے ہوئے ان کی رائے کو بڑی اہمیت دیتے تھے ، اسی طرح سید عبد الغنی کو بھی چچا جان کہتے اور ان کی بے حد عزّت کرتے تھے، تو عین ممکن ہے کہ اس ضمن میں سرسید کے مشورے اور مولانا سیّد میر حسن کے جذبات واحساسات سے شیخ نور محمد اور اقبال دونوں آگاہ ہوں۔ ویسے بھی اقبال ایک لحاظ سے سر سید کے مکتبۂ فکر سے وابستہ تھے۔ پس اقبال کے احمدیوں کے ساتھ ان مسائل پر جھگڑا ، تکرار یا مناظرہ نہ کرنے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے ۔ دوسری وجہ کا تذکرہ اقبال نے خود کیاہے او روہ یہ ہے کہ ربع صدی پیشتر انہیں تحریک احمدیہ سے اچھے نتائج کی توقع تھی ، اس لیے اس کے خلاف زبان نہ کھولی ۔بالفاظ دیگر انہیں امید تھی کہ قطع نظر احمدیوں کے عقائد کے ہوسکتاہے وہ مسلمانوں کے اتحاد و یگانگت اور ان کی فلاح وبہبود کے لیے دیگر مسلم رہنماؤں کے ساتھ ملکر کام کریں۔ اور کچھ عرصہ تک ایسا ہوتا بھی رہا ۔دو ایک احمدی انجمن حمایت اسلام کی مجلس انتطامیہ کے رکن رہے ۔ احمدی مقررین انجمن کے جلسوں میں تقریریں کرنے کے لیے مدعو کیے جاتے ۔ اسی طرح مسلم لیگ اور مسلم کانفرنس میں احمدیوں کی شمولیت پر کسی نے اعتراض نہیں کیاتھا اور سرظفر اللہ خان تو ایک سال مسلم لیگ کے صدر بھی رہے۔ پنجاب کونسل کے انتخابات میں احمدیان قادیان اور لاہور نے اپنے اپنے ووٹ اقبال کے حق میں ڈالے تھے۔ پس مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کی خاطر اقبال ان سے تعاون کرتے تھے۔ کئی احمدی (قادیان پارٹی اور لاہور پارٹی کے)ان کے قریبی دوست رہے۔ وہ ان کے ساتھ جلسوں میںشریک ہوتے اور ان کے ساتھ مل جل کر علمی یا ملکی مسائل پر اپنے خیالات کااظہار بھی کرتے تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے بعض فقہی معاملات میں مولانا حکیم نور الدین (سلسلہ احمدیہ کے جانشین اوّل )کی رائے بھی لی۔ وہ مولانا حکیم نور الدین کی عزّت کرتے تھے ، کیونکہ وہ مولانا سید میر حسن کے بے تکلف دوستوں میں سے تھے۔ کیایہ کہنا درست ہے کہ ۱۹۳۵ء سے قبل اقبال بقول خود تحریک احمدیہ سے اچھے نتائج کی توقع رکھتے ہوئے ، قطع نظر احمدیوں کے عقائد کے ، انہیں دائرہ اسلام سے خارج نہ سمجھتے تھے، بلکہ مسلمانوں ہی کا ایک فرقہ تصو ّر کرتے تھے؟ شیخ اعجازاحمد کے نزدیک اس سوال کا جواب ہے ’’ہاں‘‘ اور اس ضمن میں انہوں نے اپنا ایک تحقیقی نوٹ تیا ر کرکے راقم کے مطالعے کے لیے بھیجا ہے جو قابل غور ہے۔ وہ راقم کے نا م اپنے ایک خط میں فرماتے ہیں کہ جو کچھ انہوںنے اس نوٹ میں لکھا ہے اسے ان کی ذاتی رائے سمجھا جائے ،نہ کہ جماعت احمدیہ کی ۔ ان کے دلائل درج ذیل ہیں: ۱۔ اقبال نے ۱۹۰۰ء میں ایک انگریزی مقالہ بعنوان ’’نظریۂ توحیدمطلق ‘‘پیش کردہ شیخ عبد الکریم الجیلی ‘‘ تحریر کیا تھا جو بمبئی کے رسالہ ’’انڈین انٹیی کیوری ‘‘میں شائع ہوا۸۹ ۔اس مقالے میں بانی سلسلۂ احمدیہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ مرزا غلام احمد قادیانی موجودہ دور کے ہندی مسلمانوں میںغالباً سب سے عظیم دینی مفکر ہیں۔ ۲۔ ۱۹۰۹ء میں بعض فقہی مسائل کے حل کے سلسلے میں اقبال نے مولانا حکیم نور الدین سے رجوع کیا اور اقبال کے سوالات مع مولانا حکیم نورالدین کے جوابات اخبار ’’الحکم‘‘قادیان مورّخہ ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۰۹ء میں شائع ہوئے ۔۹۰ ۳۔ ۱۹۱۰ء میں انہوں نے ایک انگریزی مقالہ بعنوان ’’مسلم کمیونٹی ‘‘ (جس کے بیشتر حصّے کا ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے اردو میں’’ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر ‘‘کے عنوان کے تحت کیا) ایم۔ اے۔او کا لج علی گڑھ کے اسٹریچی ہال میں پڑھا تھا۔۹۱اس مقالے میںانہوں نے جماعت احمدیہ کاذکر کرتے ہوئے کہا تھاکہ پنجاب میں اسلامی سیر ت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جسے فرقہ قادیانی کہتے ہیں۔ ۴۔ ۱۹۱۱ء میں اقبال نے اپنے فرزند اکبر آفتاب اقبال کو ، جو سیالکوٹ کے ایک مشن اسکول میں تعلیم حاصل کررہے تھے، قادیان بھیج کر وہاں کے تعلیم الاسلام اسکو ل میں داخل کرایا ۔ ۵۔ ۱۹۱۳ء میں اقبال کو ایک ذاتی معاملے میں شرعی فتویٰ کی ضرورت پڑی ۔ ذاتی معاملہ یہ تھا کہ اقبال کاسردار بیگم سے نکاح ۱۹۱۰ء میں ہوا، لیکن رخصتی نہ ہوئی تھی بلکہ وہ دل میں انہیں طلاق دینے کا ارادہ کرچکے تھے ، مگر تین سال بعد یعنی ۱۹۱۳ء میں وہ سردار بیگم کو گھر لانے کے لیے تیا رہوگئے۔اب مشکل یہ تھی کہ چونکہ انہوں نے ایک مرحلے پر دل میں طلاق دینے کا ارادہ کر لیا تھا، اس لیے شبہ تھا کہ کہیں طلاق وارد نہ ہوچکی ہو۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لیے اقبال نے مرزا جلال الدین کو مولانا حکیم نورالدین کے پاس قادیان بھیجا کہ مسئلہ پوچھ آئو۔ مولانا حکیم نور الدین نے کہا کہ شرعاً طلاق واقع نہیں ہوئی ، لیکن اگر شبہ ہے تو نکاح کی تجدید کرلی جائے ۔ اس پر سردار بیگم سے از سرنو نکاح پڑھایا۔۹۲ ۶۔ ۴ ؍مارچ ۱۹۲۷ء کو اسلامیہ کالج کے حبیبیہ ہال میں مرزا بشیر الدین محمود (سلسلۂ احمدیہ کے دوسرے جانشین )نے ’’مذہب اور سائنس‘‘ کے موضوع پر اقبا ل کے زیر صدارت لیکچر دیا ۔ بعد میںاقبال نے اپنے صدارتی خطبہ میں قرآن مجید کی آیات سے ان کے استنباط کی خصوصی طورپر تعریف کی۔۹۳ ۷۔ ۵؍ستمبر ۱۹۳۰ء کو اقبال نے مرزا بشیر الدین محمود کے سیکرٹری کو ایک خط میں لکھا کہ چونکہ آپ کی جماعت منظم ہے او رنیز بہت سے مستعد آدمی اس جماعت میں موجود ہیں۔ آپ بہت مفید کا م مسلمانوں کے لیے انجام دے سکیں گے۔ اس خط کا عکس ’’تاریخ احمدیت ‘‘ جلد ششم صفحہ ۴۶۵ پر شائع شدہ ہے۔ ۸۔ ۲۵؍جولائی ۱۹۳۱ء کو نواب سر ذوالفقار علی خان کی کوٹھی واقع شملہ میں ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں اقبال ، مرزا بشیر الدین محمود اور دیگر مسلم رہنما جمع ہوئے اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی قائم کی گئی۔ اجلاس میں موجود سب اکابرین نے کمیٹی کا رکن بننا منظور کرلیا۔ مرزا بشیر الدین محمود کو اقبال ہی کی تجویز پر کمیٹی کی صدارت کی پیشکش کی گئی ، کیونکہ بقول اقبال ، ان کے پاس وسائل بھی تھے او ر مخلص اور کام کرنے والے کارکن بھی۔۹۴ ۹۔ دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے جب اقبال انگلستان گئے تو۱۱؍اکتوبر ۱۹۳۱ء کو مولوی فرزند علی امام احمدیہ مسجدلندن نے انہیں اور ان کے رفقا کو مسجد کی ایک تقریب میں مدعو کیا ۔ غلام رسول مہر ، اقبال کے ساتھ گئے روزنامہ ’’انقلاب ‘‘میں چھپی ہوئی تفصیل کے مطابق اقبال نو مسلم انگریزوں کی زبان سے قرآن مجید سن کر خوش ہوئے۔ وہ خصوصی طورپر ایک نو مسلم انگریز نوجوان عبدالرحمن یارڈی کے حسن قرأت او رصحیح تلفظ سے محظوظ ہوئے۔ نیزایک چھ سالہ انگریزبچی نے جب سورۂ فاتحہ پڑھ کر سنائی تو اقبا ل نے اسے ایک پاؤنڈ انعام دیا اورپھر مولوی فرزند علی کا شکریہ ادا کیا جن کی توجہ سے انہیں یہ موقع نصیب ہواتھا۔۹۵ ۱۰۔ ۷؍اپریل ۱۹۳۲ء کو انہوں نے چوہدری محمد احسن کے نام اپنے خط میں لکھا: ’’باقی رہی تحریک احمدیت۔ سو میرے نزدیک لاہور کی جماعت میں بہت سے ایسے افراد ہیں جن کو میں غیرت مند مسلمان جانتا ہو ںاور ان کی اشاعت اسلام کی مساعی میں ان کا ہمدر د ہوں ، کسی جماعت میں شریک ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ آپ کوخود کرنا چاہیے ۔ اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے کئی طریقے ہیں ، جن طریقوں پر اس وقت تک عمل ہوا ، ان کے علاوہ اور طریق بھی ہوسکتے ہیں۔ میر ے عقیدہ ناقص میں جو طریق مرزا صاحب (مرزا غلام احمد ) نے اختیار کیا وہ زمانۂ حال کی طبایع کے لیے موزوں نہیں ہے۔ ہاں اشاعتِ اسلام کا جو ش جو ان کی جماعت کے اکثر افراد میں پایا جاتاہے ، قابلِ قدر ہے۔۹۶ ۱۱۔ انجمن حمایت اسلام کے ساتھ تقریبًا تمام عمر اقبال کی وابستگی رہی۔ وہ اس کی مجلس انتظامیہ کے رکن بھی رہے اور صدر بھی۔ مجلس انتظامیہ میں دو ایک احمدی رکن بھی ہوتے تھے او رانجمن کے جلسوں میں احمدی مقررین بھی آکر تقریریں کرتے تھے۔محاذ آرائی سے قبل اقبال نے کبھی ان باتوں پر اعتراض نہ کیا تھا۔ اسی طرح مسلم لیگ اور مسلم کانفرنس میںاحمدیوں کی شمولیت پر بھی اقبال کی طرف سے کبھی اعتراض نہ ہوا ، بلکہ ایک سال تو سرظفر اللہ خان مسلم لیگ کے صدر رہے، مگر اقبال نے کوئی مخالفت یا احتجاج نہ کیا۔ ۱۲۔ ۱۹۲۶ء کی پنجاب کونسل کے انتخابات میں سر ظفر اللہ خان ایک مسلم حلقے سے منتخب ہوئے۔ اسی سا ل اقبال بھی پنجاب کونسل کے ممبر منتخب ہوئے تھے۔ کونسل میں دونوں نے سر فضل حسین کی قائم کردہ یونینسٹ پارٹی کی رکنیت اختیار کی۔ اقبال کی طرف سے سر ظفر اللہ خا ن کے ایک مسلم حلقے سے منتخب ہونے پر کوئی اعتراض نہ ہوا۔ شیخ اعجاز احمد اپنے نوٹ میں تحریر کرتے ہیں : مندرجہ بالا حقائق اس بات کا بیّن ثبوت ہیں کہ ۱۹۳۵ء کے آغا ز تک اقبال کے نزدیک احمدی دائرہ اسلام سے خارج نہ تھے۔ مسلمانوں کے مفاد کی نگہداشت کی تحریکوں میں علا ّمہ نہ صرف ان سے تعاون کرتے تھے بلکہ تحریک آزادی کشمیر میں جماعت احمدیہ کے امام کو تحریک کی قیادت بہ اصرار سونپی تھی ۔ ان دنو ںتو تعصّب کا دور دورہ ہے ، لیکن ایک زمانہ آئے گا جب تعصّب کی گھٹا چھٹ جائے گی اور محقق حضرات ضرور اس بات کی چھان بین کریں گے کہ احمدی جماعت جو، بقول علاّمہ اقبال اسلامی سیر ت کا ٹھیٹھ نمونہ تھی، ۱۹۳۵ء میں ایکا ایکی کیوں علا ّمہ کی رائے میں ، دائر ہ اسلام سے یکسر خارج ہوگئی۔ اب تک کی گئی بحث سے دو باتیں صاف عیاں ہیں۔ ایک یہ کہ ۱۹۳۵ء سے قبل بھی اقبال ختم نبوت اور دیگر متعلقہ مسائل پر احمدی عقائد کو کبھی نہ کبھی اپنی تنقید کا نشانہ بناتے رہتے تھے۔ دوسری یہ کہ ۱۹۳۵ء سے قبل اقبال احمدیوں کو، قطع نظر ان کے عقائد کے، مسلمانوں ہی کا ایک فرقہ سمجھتے تھے اورجماعت احمدیہ کو دائرہ اسلام سے خارج قرار نہ دیتے تھے۔ احمدیت کے متعلق اپنے گذشتہ رویّے کا ان کے پاس یہی جواب تھا کہ وہ اس تحریک سے اچھے نتائج کی توقع رکھتے تھے یا یہ کہ انہیں بحیثیت ایک زندہ اور سوچنے والے انسا ن کے احمدیت کے بارے میں اپنی رائے تبدیل کرلینے کا حق حاصل تھا۔ ۱۹۳۵ء میں اقبال نے احمدیت کے متعلق اپنی رائے کیوں تبدیل کی ؟ شیخ اعجاز احمد کے نزدیک اس کی وجوہات کچھ تو سیاسی تھیں اور کچھ ذاتی ۔ پیشتر اس کے کہ راقم اپنا تجزیہ پیش کرے،اس زمانے کے واقعات کے متعلق شیخ اعجازاحمد کے ذاتی علم، یا دداشت اور تحقیق پر مبنی ان کے نقطۂ نظر کو سمجھنا ضروری ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ کشمیر کمیٹی کے قیام اور اس کی صدارت جماعت احمدیہ کے امام کے سپرد کیے جانے کا مجلس احرار کے قائدین کوبڑا قلق تھا۔ مجلس احرار کانگرس سے ساز باز کرنے کے سبب مسلمانوں میں مقبولیت کھو چکی تھی ۔ پس اپنی ساکھ دوبارہ قائم کرنے کے لیے وہ بھی کشمیر ی مسلمانوں کی تحریک آزادی کی حمایت میں آگے بڑھی ، لیکن کشمیر ی لیڈر اور عوام احراریوں کو گھاس نہ ڈالتے تھے ۔ اس سلسلے میں احراری لیڈ ر چوہدری افضل حق اپنی تصنیف ’’تاریخ احرار‘‘ میں تحریر کرتے ہیں : اس دوران میںکشمیر پھر دیوار گریہ بن گیا۔ سرینگر نے خون شہدا کے باعث کربلا کی سی صورت پیش کی ۔ابھی ہماری (یعنی احراریوںکی) سست فکری کسی منزل پر نہ پہنچی تھی کہ کچھ عافیت کوش مسلمان شملے کی بلندیوں سے بادل کی طرح گرجے (کشمیر کمیٹی کے قیام کی طرف اشارہ ہے) ان خانٔہ بربادرؤسا اور امرا(یہ اشارہ برصغیر کے ان مسلم رہنماؤں بشمول اقبال کی طرف ہے جو شملہ کانفرنس میں شامل تھے)نے یہ غضب ڈھایا کہ مرزا بشیر محمود کو اپنا قائد تسلیم کرلیا ۔ جمعیت العلماء نے ستم یہ کیا کہ ا س بشیر کمیٹی سے تعاون کا اعلان کردیا۔۹۷ تحریک آزادی کشمیر کوکامیاب بنانے کی غرض سے کشمیر کمیٹی اور مجلس احرار کے درمیان کوئی سمجھوتا کرانے کی کوشش کی گئی ۔اس سلسلے میں سر سکندر حیات کے مکان پر ایک میٹنگ بھی ہوئی جس میں دیگر لوگوں کے علاوہ مرزا بشیر الدین محمود اور چوہدری افضل حق، شریک ہوئے ۔باتوں باتوں میں چوہدری افضل حق جوش میں آگئے۔ اس واقعے کا ذکر وہ اپنی تصنیف ’’تاریخ احرار‘‘ میں کرتے ہوئے لکھتے ہیں: میں نے کہا مرزا صاحب کوئی الیکشن ایسا نہیں گزرا، جس میں مرزائیوں نے میرے خلاف ایڑی چوٹی کا زور نہ لگایاہو…ہمارا بھی خدا کے فضل سے فیصلہ ہے کہ اس جماعت کو مٹا کر چھوڑیں گے۔۹۸ شیخ اعجازاحمد کاا ستدلال یہ ہے کہ کشمیر کے مسلمانو ںکی امداد کو پس پشت ڈالتے ہوئے احراریوں کا اوّلیں مشن یہ قرار پایاکہ چونکہ جماعت احمدیہ نے ہر الیکشن میں چوہدری افضل حق کی مخالفت کی ہے، اس لیے اس جماعت کومٹا دیاجائے اور کشمیر کمیٹی کو ختم کرکے کشمیریوں کی امداد کے لیے برصغیر کے مسلمانوں کی تحریک کی قیادت ا پنے ہاتھ میں لے لی جائے۔ اقبال کو چونکہ عام مسلمانوں میں مقبولیت حاصل تھی اور وہ کشمیر کمیٹی کے رکن بھی تھے ، اس لیے احراریوں کے نزدیک یہ ضروری تھا کہ کسی طرح اقبال اور جماعت احمدیہ کے تعاون میں رخنہ اندازی کی جائے۔ اس غرض کو حاصل کرنے کے لیے پہلے تو اپنی روایتی شورہ پشتی سے اقبال کو ڈرانے کی کوشش کی گئی۔ اس زمانے میں اقبال مسلم کانفرنس کے صدر تھے۔ ۲۱؍مارچ ۱۹۳۲ء کو مسلم کانفرنس کے افتتاحی اجلاس منعقدہ بیرون دہلی دروازہ لاہور میں انہوں نے اپنا معروف خطبۂ صدارت پڑھا جس میں کشمیری مسلمانوں کی تحریک آزادی اور کشمیر کمیٹی کے مساعی کاذکر بھی کیا گیا تھا۔ اگلے روزجب اقبال مسلم کانفرنس کے اجلاس میں شرکت کے لیے آئے تو احراریوں نے ان کے پنڈال میں داخل ہوتے ہی غنڈہ گردی کا مظاہر ہ کیا ۔ اس مظاہرے کی رپورٹ ’’انڈین اینول رجسٹر ‘‘مورخہ ۲۲؍مارچ ۱۹۳۲ء (انگریزی)میں ان الفاظ میں درج ہے: آج کانفرنس کاآخری اجلاس شورہ پشتی کے مظاہروں کی نذر ہوگیا ۔ اجلاس کی کارروائی دو گھنٹے تاخیر سے شروع ہوئی اور جو نہی سر محمد اقبال پنڈال میں داخل ہوئے، ان کے ساتھ احراریوں کے ایک بڑے گروہ نے بھی داخل ہونے کی کوشش کی ، جنہیں روک دیا گیا۔ اس پر کانفرنس کے والنٹریوں اور احراریوں میں گیٹ پر باقاعدہ رسہ کشی شروع ہوگئی۔ جس کے نتیجے میں باہم لاٹھیاں چلیں اور خشت باری ہوئی۔ بالآخر پولیس نے مداخلت کر کے مظاہرین کو منتشر کردیا، لیکن جونہی پولیس ہٹی شورہ پشتی پھر شروع ہوگئی اور کانفرنس کی کارروائی بغیر کسی بحث و تقاریر کے جلد جلد ریزولوشن پاس کرنے کی شکل میں تبدیل ہوگئی اور تمام ریزولوشنز انتہائی عجلت کے ساتھ اس صورت حال میں پاس ہوئے کہ پنڈال کے باہر مجمع (احراریوں کا)پنڈال میں بزور داخل ہونے کے لیے کوشاں تھا اور مختلف قسم کے نعرے لگارہاتھا۔ شیخ اعجازاحمد فرماتے ہیں کہ اقبال کے خلاف شورہ پشتی کے اس مظاہرے کے ذریعے جس سے ان پر یہ ظاہر کرنا مقصود تھاکہ عام مسلمانوں میں آپ کی مقبولیت کے باوجود آپ پر خشت باری بھی کرائی جاسکتی ہے،احراریو ںنے ان کے ساتھ مفاہمت کی طرح ڈالی ۔ اس ضمن میں مجلس احرار کا ایک ماہنامہ لکھتاہے: حضرت امیر شریعت (سیّد عطا اللہ شاہ بخاری)ڈاکٹر اقبال کو مرشد اور ڈاکٹر اقبال ، حضرت شاہ صاحب کو پیرجی کہا کرتے تھے۔ کشمیر کمیٹی کے سلسلے میںان دونوں کے درمیان چوہدری افضل حق کی معیت میںکئی ملاقاتیں ہوئیں اور طے پایا کہ بشیر الدین محمود احمد اور عبدالرحیم دردکو اگر ان کی موجودہ ذمّہ داری سے نہ ہٹایاگیاتو کشمیر کے تیس لاکھ مظلوم مسلمان کفرو ارتداد کاشکار ہوجائیںگے۔ لہٰذا بہتر ہے کہ تحریک آزادیٔ کشمیر کی باگ ڈور مجلس احرار کے سپرد کردی جائے۔۹۹ سید عطاء اللہ شاہ بخاری او رچوہدری افضل حق کی اقبال کے ساتھ ملاقاتوں میں جو فیصلہ کیاگیا اس کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں ۴ مئی ۱۹۳۳ء کے ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ میں ایک خبر شائع کرائی گئی کہ کشمیر کمیٹی کے ارکان نے صدر کمیٹی کو ایک درخواست بھیجی ہے کہ آئندہ کشمیر کمیٹی کا صدر غیر قادیانی مسلمان ہونا چاہئیے۔ اس خبرکی اشاعت کے بعد اقبال اور دس دیگر اراکین کشمیر کمیٹی کے دستخطوں سے مرزا بشیر الدین محمود کو ایک خط موصول ہوا کہ پندرہ دنو ںکے اندر کشمیر کمیٹی کا اجلاس عہدہ داران کمیٹی کے انتخاب کے لیے بلایا جائے۔ انہوں نے ۷مئی ۱۹۳۳ء کو کشمیر کمیٹی کا اجلاس بلوایا اور انتخاب عہد ہ داران کے لیے راستہ صاف کرنے کی غرض سے اپنا استعفاپیش کردیا، جس پر اقبا ل کو ان کی جگہ عارضی صدر کشمیر کمیٹی منتخب کیا گیا۔ پس احراریوں نے اس چال سے مرزا بشیرالدین محمود کو کشمیر کمیٹی کی صدارت سے علیٰحدہ کیا۔ بہرحال اقبال کے ساتھ سید عطا اللہ شاہ بخاری اور چوہدری افضل حق کی ملاقاتو ںکایہ نتیجہ بھی نکلا کہ اقبا ل مجلس احرار کی ہر طرح حوصلہ افزائی کرنے لگے۔ اس کا اعتراف چوہدری افضل حق نے اپنی تصنیف ’’تاریخ احرار‘‘ میں بھی کیا ہے ۔ فرماتے ہیں: میں اس پیدا شدہ صورت حال سے گھبرا گیا او رلاہور پہنچا ۔ میں نے دیکھا کہ مولانا داؤد غزنوی تانگے پر سوار پریشان جارہے ہیں ۔ پوچھا کدھر کا عز م ہے ۔ کہا کہ مرزا کی قیادت مسلمانوںکی تباہی کا باعث ہوگی ۔ میں شہر کے علماء سے ملکر ان کی قیادت کے خلاف اعلان کرنا چاہتا ہوں…اسی دن یا اگلے دن علا ّمہ ڈاکٹر سر محمد اقبا ل کی صدارت میں محمڈن ہال میں عمائدین شہر کا جلسہ تھا، جس میں کشمیر کی اوس پڑی قسمت زیر غور تھی۔ مولانا ظفر علی خان، غالباً مولانا داؤد غزنوی بھی او رمیں بھی محمڈن ہال گئے۔ خیال یہ تھاکہ کوئی تدبیر لڑا کر مرزا بشیر کی کمیٹی کے مقابلے میں احرار کے حق میں اُن لوگوں کی تائید حاصل کی جائے ۔ باقی حاضرین طبقۂ اولیٰ سے متعلق تھے۔ وہ احرار کے نام پر حقارت سے منہ بسورتے تھے ، مگر ڈاکٹر صاحب احرار کو آگے بڑھانے پر بضد تھے ۔ بہرحال ہم بہ زوری و بہ زاری ا ن کا اعلان اپنے حق میں کروانے میں کا میاب ہوگئے۔ بس تھوڑی سی کھڑے ہونے کی جگہ ملی تھی۔ بیٹھنے اور پاؤں پسار کر ساری جگہ پر قبضہ کرنے کے لیے ہمت درکار تھی۔۱۰۰ مزید لکھتے ہیں : علا ّمہ سر محمد اقبال کشمیر کمیٹی کے ضرور ممبر ہوگئے تھے، لیکن یہ کیفیت اضطراری تھی۔ وہ فوراً سنبھل کر کشمیر کمیٹی کی تخریب میں لگ گئے اور احرار کی تنظیم کی ہر طرح حوصلہ افزائی کرنے لگے۔۱۰۱ بقول شیخ اعجاز احمد ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے مجلس احرار کی تحریک احمدیت کی مخالفت میں خالصتًا سیاسی عوامل کارفرما تھے ۔احراریوں نے نہرو رپورٹ کی تائید یا کانگرس کی حمایت کے سبب مسلمانو ںمیں اپنی مقبولیت کھو دی تھی اور اس مقبولیت کو دوبارہ حاصل کرنے کی خاطر احمدیت کی مخالفت کرنا ایک آسان اور کارگر ہتھیار تھا۔ اس کے علاوہ مولانا ظفر علی خان کامقصد یوں مسلمانوں سے مالی منفعت حاصل کرنا بھی تھا۱۰۲ ۔مزید برآں سر سکندر حیات کے مکان پر جو میٹنگ ہوئی تھی اس میں چوہدری افضل حق نے برملا کہہ دیا تھا کہ چونکہ احمدیوں نے ہر الیکشن میں ان کی مخالفت کی ہے اس لیے و ہ اس جماعت کو مٹا دینے کا فیصلہ کر چکے ہیں ۔پس احرار ی اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے ہر حربے سے کام لے رہے تھے۔ اقبال کو استعمال کرکے ان سے احمدیت کے خلاف بیان دلوانا بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ اس کی تائید عبدالمجید سالک کے بیان سے بھی ہوتی ہے ۔ وہ اقبال کے احمدیوں کے خلاف پہلے بیان کے پس منظر کے سلسلے میں تحریر کرتے ہیں: ۱۹۳۵ء میں مولانا ظفر علی خان او رمجلس احرار نے احمدیت اور احمدیوں کے خلاف ایک عام تحریک کا آغاز کیا…خدا جانے علا ّمہ اقبال نے کس عقیدت مند کی درخواست پر ایک مضمون لکھ دیا، جس میں بتایا کہ اس فرقے کی بنیادہی غلطی پر ہے ۔ اس کے علاوہ بعض اور علمی نکات بیان کیے اور آخر میں حکومت کو یہ مشورہ دیا کہ اس فرقے کو ایک علیٰحدہ جماعت تسلیم کرے۔۱۰۳ شیخ اعجاز احمد اپنے نوٹ میں لکھتے ہیں کہ عبدالمجید سالک کو خوب علم تھا کہ اقبال کے یہ عقیدت مند بزرگ کون تھے ، لیکن انہوں نے ’خدا جانے‘ کے الفاظ سے اُن کی پردہ پوشی کر دی ہے ۔ اس زمانے میں اقبال کے مصاحبوں میں دو ایک عقیدت مند ایسے بھی تھے جنہیں سلسلۂ احمدیہ سے ذاتی عناد تھا اور اس کی تائید میں ناقابل تردید شہادت اُن کے پاس موجود ہے۔ شیخ اعجاز احمدمزید لکھتے ہیں: سخت کلامی عام طورپر علا ّمہ اقبال کا شیوہ نہ تھا ۔ تعلیم کے لیے انگلستان جاتے ہوئے حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے مزار پر دعا کی تھی کہ میری زبان قلم سے کسی کا دل نہ دکھے اور حتی الامکان وہ ایسا کرنے سے احتراز کرتے تھے ۔ سوائے اس کے کہ کبھی مقطع میں سخن گسترانہ بات آپڑے ۔ سلسلۂ احمدیہ کے خلاف ۱۹۳۵ء کے بیانات میں اتنی شدّت اور تلخی شاید نہ ہوتی اگر ایک ذاتی معاملے میں ان کا احساس محرومی کارفرما نہ ہوتا اور اس مرتبہ تو ان کے احساس ناکامی کے شدید ہونے کی وجہ بھی تھی ، کیونکہ دوچار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیاوالا معاملہ ہواتھا۔ ۱۹۳۲ء میں سرفضل حسین وائسرائے ہند کی کونسل کے رکن چارماہ کی رخصت پر گئے ، ان کی جگہ علا ّمہ کے تقرر کاذکر اخبارات میں آیا، لیکن وزیر ہند نے چوہدری ظفر اللہ خان کو مقرر کردیا۔ سر فضل حسین کی تقرری کی میعاد اپریل ، ۱۹۳۵ء میں ختم ہونے والی تھی، چونکہ چوہدری ظفر اللہ خان عارضی طورپر چار ماہ ان کی جگہ کام کر چکے تھے اس لیے ان کا نام بھی مستقل تقرری کے سلسلے میں لیا جارہاتھا۔ ان کی تقرری کے خلاف احراریوں اور روزنامہ ’’زمیندار ‘‘نے زبر دست پراپیگنڈا شروع کررکھا تھا۔’’زمیندار ‘‘ نے ایک کھلا خط زیر عنوان ’’مکتوب مفتوح بنام نائب السلطنت کشورِ ہند شائع کیا جس میں لکھا کہ چوہدری ظفر اللہ خان قادیانی ہیں اور قادیانیت ہر گز اسلام کا کوئی فرقہ نہیں ، بلکہ بالکل علیٰحدہ مذہب ہے، اس لیے سر فضل حسین کی جگہ ان کو نہ مقرر کیاجائے ، بلکہ اور کسی ایسے جلیل القدر مسلمان کو یہ منصب رفیع سپرد کیا جائے جو مسلمانانِ ہند کے اعتماد کا حامل ہو۱۰۴ ۔اس ضمن میں علامّہ اقبال کانام بھی لیا جارہا تھا۔ علا ّمہ کے معتقد صحافی میاں محمد شفیع (م۔ش)کی روایت ہے کہ جن دنوں میاں فضل حسین کے جانشین کے تقر ّر کا معاملہ زیر غور تھا، لارڈ ولنگڈن وائسرائے ہند نے ایک ملاقات میں علا ّمہ کو یہ کہہ کر کہ اب ہم اکثر ملتے رہیں گے، سر فضل حسین کی جگہ ان کے تقرر کی طرف اشارہ بھی کردیاتھا۔ ممکن ہے احراریوں اور ’’زمیندار‘‘ کے پراپیگنڈا سے متاثر ہوکر لارڈ ولنگڈن نے وزیر ہند سے علا ّمہ کے تقرر کی سفارش کی ہو اور انہیں اپنی سفارش کے منظور ہوجانے کا یقین بھی ہو ، لیکن وزیر ہند نے اتفاق نہ کیا ہو۔ واللہ اعلم۔ آخرکار اکتوبر ۱۹۳۴ء میں چودھری ظفر اللہ خان کے تقرر کا اعلان ہو گیا اور مئی ۱۹۳۵ء میں انہوں نے چارج بھی لے لیا ۔ پھر احراریوں اور علامہ کے حاشیہ نشینوں کو علامہ کو بھڑکانے کا اچھا موقع ہاتھ آ گیا ۔ چوہدری ظفر اللہ خان کا تقرر وزیر ہند نے کیا۔ اس میں جماعت احمدیہ کا کوئی ہاتھ نہ تھا۔ علا ّمہ اقبال کو اللہ تعالیٰ نے اور تو کئی نعمتوں سے نوازا تھا ، لیکن مالی فراغت اور آسودگی کبھی نصیب نہ ہوئی ۔ زندگی کے آخری آٹھ دس سالوں میں کچھ تو ان کی علالت کے باعث اور کچھ سیاست میں پڑ جانے کی وجہ سے آمدنی او ربھی محدود ہوگئی۔بس لشٹم پشٹم گزر ہوتی تھی، تلی میں آیا،گلی میں کھایاوالا حال تھا۔ وہ خود تو بڑے قناعت پسند اور تہی کیسہ و خور سند رہنے والے تھے، لیکن آٹے دال کا بھاؤ تو گھر داری کاانتظام کرنے والی خاتون خانہ کو معلوم ہوتاہے، وہ گاہے گاہے اس بات پر ان سے الجھتی رہتی تھیں کہ یا تو ڈھنگ سے وکالت کریں یا کہیں ملازمت کر لیں۔علا ّمہ اقبال دل سے ملازمت کو پسند نہ کرتے تھے ، لیکن حالات سے مجبور ہو کرچاہتے تھے کہ اگر کوئی مناسب انتظام ہو سکے تو ملازمت کرلیں، لیکن کوئی مناسب انتظام نہ ہوسکا۔ احمدیت کے خلاف محاذآرائی کے دنوں میں اخبار کے ایک نمائندے نے ان کی ۱۹۱۰ء والی علی گڑھ کی تقریر کے حوالے سے ان سے دریافت کیاکہ آپ تو اس فرقے کو اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ سمجھتے تھے ۔ علا ّمہ نے جواب میں اعتراف کیا کہ پچیس سال پہلے انہیں اس تحریک سے اچھے نتائج برآمد ہونے کی امیدیں تھیں، لیکن انہیں اس وقت شکوک پیدا ہوئے جب بانی اسلام کی نبّوت سے برتر ایک نئی نبّوت کا دعویٰ کیاگیا۔۱۰۵ بانی سلسلۂ احمدیہ نے کبھی حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسیلم کی نبو ّت سے برتر نبوت کا دعویٰ نہیں کیا۔ نہ کوئی احمدی بانی سلسلۂ احمدیہ کو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے برتر یقین کرتاہے ۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم میں خاتم النبیین کہاگیاہے او رانہیں خاتم النبیین تسلیم کرنا ہر احمد ی کاجز و ایمان ہے۔حضور رسالت مآبؐ کی نبو ّت سے برتر نبوت کے دعوے کی تہمت احراریوں اور علا ّمہ کے حاشیہ نشینوں نے ان کے عشق رسوؐل کو ایکس پلائٹ کرتے ہوئے ان کو احمدیت کے خلاف بھڑکانے کے لیے تراشی اور علاّمہ نے اسے درست باور کرلیا۔ اپنی خدا داد عقل و دانش کے ساتھ علا ّمہ میں بچوں والی معصومیت او ربھولپن بھی تھا۔ وہ سنی سنائی بات کا بغیر تحقیق کیے یقین کرلیتے ۔ اس کی ایک مثال جس نے انہیں بڑی مشکل سے دوچار کیا مولانا سالک کی ’’ذکر اقبال ‘‘میں بیان کی گئی ہے، (صفحات ۶۷ تا ۷۰) یعنی اقبال کاسردار بیگم سے ۱۹۱۰ء میں نکاح کرنا ، لیکن ان کے بارے میں بعض گمنام خطوں پریقین کرتے ہوئے انہیں گھر نہ لانا۔پھر اپنی غلطی پر پشیمان ہو کر تین سال بعد از سرِ نو نکاح کرکے انہیں گھر لانا۔ ۱۹۲۲ء میں کسی حاشیہ نشین نے گپ ہانکی کہ روس کی سلطنت کا صدر اب ایک مسلمان محمد استالین مقرر ہوا ہے۔ علا ّمہ نے باور کرلیا اور بڑے شوق سے یہ خبر اپنے بھائی کو خط میں لکھی۱۰۶ ۔۱۹۲۶ء میں کسی ملنے والے سے سُنا کہ البانیہ میں مسلمانوں نے نماز سے پہلے وضو کرنا غیر ضروری قرار دے دیاہے، دوسرے نے ترکی میں نماز میں تبدیلیوں کی خبرسنائی۔ تیسرے نے کہا مصر میں بھی ایسی تحریک جاری ہے۔علا ّمہ ان خبروں سے دل گرفتہ ہوئے اور بڑے افسوس سے سلیمان ندوی کے نام ایک خط میں ان کا ذکر کیا ۔ انہوں نے جواباً اطمینان دلایا کہ خبریں غلط اور بے اصل ہیں ۱۰۷ ۔ معلوم ہوتاہے اسی طرح کسی عقیدت مند حاشیہ نشین نے احمدیت سے اپنے عناد کا مظاہر کرتے ہوئے کہہ د یا ہوگا کہ احمدی بانی سلسلۂ احمدیہ کو (نعوذ باللہ)حضور رسالت مآبؐ سے برتر مانتے ہیں۔ علا ّمہ نے اس افترا کو سچ سمجھ لیا ، حالانکہ اس کی تحقیق کچھ مشکل نہ تھی اور تحقیق کے لیے گھر سے باہر جانے کی بھی ضرورت نہ تھی۔ اسی طرح ایک معتقد نے جو آخری ایا م میں ان کے بہت قریب تھے غلط قصّہ گھڑا کہ جماعت احمدیہ میں ہر کوئی شامل ہوسکتاہے، خواہ اس کے عقائد کچھ بھی ہوں شرط صرف یہ ہے کہ وہ احمدیوں کے خلیفہ کی بیعت کرلے ۱۰۸۔ غرضیکہ ان دنوں احمدیت کے خلاف ایسی ایسی بے بنیاد اور بے سروپاباتیں ان کے حضور بیا ن کی جاتیں اور باور کرلی جاتیں۔ اس کے متعلق سوائے اس کے اور کیا کہا جائے: غیروں سے کہاتم نے غیروں سے سنا تم نے کچھ ہم سے کہاہوتاکچھ ہم سے سنا ہوتا اگرچہ شیخ اعجاز احمد فرماتے ہیں کہ اقبال اور احمدیت کے موضوع پر جو کچھ بھی انہوں نے تحریر کیا وہ ان کی ذاتی رائے ہے جو اس زمانے کے واقعات کے متعلق ان کے ذاتی علم ، یا د داشت اور تحقیق پر مبنی ہے، لیکن تقریبا اسی قسم کی رائے کااظہار احمدی حلقوں ، سر فضل حسین یا ان کے فرزند عظیم حسین نے بھی اپنی تحریروں میں کیاہے۱۰۹۔پس اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو معلوم ہوگاکہ احمدیت کی طرف اقبال کے روّیے میں تبدیلی کے متعلق احمدی یا یونینسٹ حلقے صرف یہی نقطۂ نظر پیش کرسکتے تھے کہ اس کا سبب اقبال کی سیاسی اور ذاتی اغراض تھیں۔ سوال یہ ہے کہ اس تبدیلی کے متعلق اقبال کا اپنانقطۂ نظر کیاتھا اور وہ قبول کیاجا سکتاہے یانہیں؟ ایک نکتہ جسے پوری طرح سمجھے بغیر بحث کو آگے نہیں بڑھایا جاسکتا، یہ ہے کہ اقبال نے کبھی بھی سیاست کو دین سے الگ تصو ّر نہ کیا۔ ان کے سوانح حیات کے مطالعہ سے عیاں ہے کہ وہ سیکولر سیاست کے قائل نہ تھے اور نہ کبھی اس میں ملو ّث ہوئے۔ ان کے ہاں سیاست سے مراد مسلمانان برصغیر کے مفادات کابہر صورت تحفظ تھا۔ ملت اسلامیہ کے اتحاد ، یگانگت، یک جہتی اور سا لمیت کی خاطر وہ اپنا سب کچھ قربان کردینے کو تیار تھے اوریہ جذبہ شروع سے لے کر آخر تک ان کے دل و دماغ پر حاوی رہا۔ پس اقبال کے ضمن میں جب سیاست کی اصطلاح استعمال کی جائے تو اس کے معانی ہوں گے مسلمانانِ برصغیر کے مفادات کاتحفظ ، کیونکہ یہی تمام عمر اقبال کی سب سے اہم سیاسی غرض رہی۔ اس مرحلے پر سوال پیدا ہوتاہے کہ ۱۹۳۵ء سے قبل ختم نبو ّت کے مسئلے پر احمدی عقائد کو اپنی تنقید کا نشانہ بنانے کے باوجود اقبال کے جماعت احمدیہ کو دائرہ اسلام سے خارج قرار نہ دینے میں کیاسیاسی مصلحت تھی؟ بالفاظ دیگر اگر بقول اقبال، انہیں تحریک احمدیہ سے اچھے نتائج کی توقع تھی ، تو وہ اچھے نتائج کیاہوسکتے تھے۔ برّ صغیر کے بیشتر علماء نے تو ابتداء ہی سے مرزا غلام احمد کے دعویٰ نبوت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیاتھااور اسی طرح ختم نبو ّت اور دیگر متعلقہ مسائل کے بارے میں بھی احمدی عقائد پر شدید اعتراضات کے باعث ان کا مطالبہ تھا کہ احمدیوں کو ایک علیحدہ مذہبی فرقہ قرار دے دیا جائے۔ علاوہ ازیں عام مسلمان بھی احمدیوں کو غیر مسلم سمجھنے لگے تھے۔ بقول سید شمس الحسن ۱۹۳۱ء میں جب سر ظفر اللہ خان کو مسلم لیگ کا صدر بنایا گیا تو دہلی کے مسلمانوں نے شدید احتجاج او رمظاہرہ کیا کیونکہ وہ سر ظفر اللہ خان کو احمدی ہونے کی وجہ سے غیرمسلم سمجھتے تھے۔ چنانچہ مزید مظاہروں کے خوف سے لیگ کا سالانہ اجلاس فتح پوری سکول ہال کے بجائے سید نواب علی نامی ایک ٹھیکے دار کے گھر میں منعقد کیاگیا۔۱۱۰ یہ سب حقایق اقبال کے علم میں تھے، لیکن اس کے باوجود وہ خاموش کیوں رہے ۔ اس کاجواب یہ ہے کہ اقبال سر سید کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔اور چونکہ سر سید احمد خان مولانا سید میر حسن اور اقبال کے والد شیخ نو ر محمد کے نزدیک احمدیوں سے متنازعہ مسائل پر جھگڑا ، تکرار یا مناظرہ کرنا ملت اسلامیہ میں مزید انتشار کا سبب بن سکتا تھا، اس لیے اقبال نے کم از کم مولانا سید میر حسن (وفات ۱۹۲۹ئ) یا شیخ نور محمد (وفات ۱۹۳۰ئ) کی زندگی میں احمدیوں سے کسی بھی قسم کا مناظرہ کرنے سے احتراز کیا ، گو وہ ان مسائل سے متعلق ،جب بھی موقع ملا، احمدی عقائد کو ناقص قرار دیتے ہوئے اپنے موقف کی وضاحت کرتے رہے۔ تحریک احمدیہ ایک عرصے سے دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے ، یعنی احمدیانِ قادیان اور احمدیان لاہور ۔ احمد یان قادیان بانی سلسلۂ احمدیہ کو بنی اور مسیح موعو د تسلیم کرتے ہیں ۔ عام مسلمانو ں کو جو ان کا موقف قبول نہ کریں، کافر سمجھتے ہیں اور ان کی نماز جناز ہ میں شریک نہیں ہوتے ، نہ ان کے ساتھ رشتے ناطے کرتے ہیں۔ احمد یان لاہور بانی سلسلۂ احمدیہ کو مجدّد مانتے ہیں اور عام مسلمانوں کی ، جو ان کا موقف قبول نہ کریں ، تکفیر کے قائل نہیں ہیں۔ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے قیام سے پیشتر چونکہ تحریک کی دونوں شاخوں سے تعلق رکھنے والے احمدی، مسلمانان برصغیر کی تعلیمی ،معاشرتی اور سیاسی ترقی کے لیے جدوجہد میں شامل تھے، اس لیے بھی اقبال نے ان پر کوئی اعتراض نہ کیا۔ یہی وہ دور تھا جب احمدی انجمن حمایت اسلام کی مجلس انتظامیہ کے رکن رہے ، انجمن کے اجلاسوں میں بحیثیت مقرر مدعو کیے گئے ۔مسلم لیگ یامسلم کانفرنس ایسی مسلم سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کی یا سرظفر اللہ خان ایک مسلم حلقے سے منتخب ہوکر پنجاب کونسل کے ممبر بنے اور بعد میں مسلم لیگ کے صدر چنے گئے۔ اقبال کو تحریک احمدیہ سے کس قسم کے اچھے نتائج کی توقع تھی کہ انہوں نے ۱۹۰۰ء میں بانی سلسلۂ احمدیہ کے متعلق فرمایا کہ وہ موجودہ دور کے ہندی مسلمانوں میں غالباً سب سے عظیم دینی مفکر ہیں یا ۱۹۱۰ء میں فرمایا کہ فرقہ قادیانی اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ ہے یا ۱۹۳۲ء میںتحریر کیا کہ ’’اشاعت اسلام کا جوش جو جماعت احمدیہ کے اکثر افراد میں پایا جاتاہے ، قابل قدر ہے ‘‘۔ توقع یہی ہوسکتی تھی کہ تحریک احمدیہ جب سن بلوغ تک پہنچے گی، تو ممکن ہے عامتہ المسلمین کی تکفیر کے جوش و خروش سے نکل کر انہی میں واپس آجائے ، انہی کی فلاح و بہود کو اپنا شعار بنائے اور اس کے رہنما بھی آغا خان کی طرح اپنی جاعت کے اراکین کو ہدایت دیں کہ تم مسلمان ہو، مسلمانو ںہی کے ساتھ مل کر رہو اور سب مسلمانو ںکواپنے بھائی سمجھو۔ اپنے کردار کو اسلامی سیرت کا نمونہ بناکر دنیا کے سامنے پیش کرو تاکہ اشاعت اسلام کے لیے تمہارے جوش سے ہر کوئی متاثر ہو۔ بہرحال اس خوش فہمی کاوجود بھی اقبال کی ملّت اسلامیہ کے ساتھ گہری وابستگی اور ناقابل بیان محبت کاآئینہ دار تھا۔ آل انڈیا کشمیر کمیٹی میں اقبال کو تحریک احمدیہ کے ارکان کے ساتھ کام کرتے وقت کس قسم کا تجربہ حاصل ہوا؟ کشمیر کمیٹی کے صدر مرزا بشیر الدین محمود مقرر کیے گئے تھے اور سیکرٹری عبد الرحیم درد(یعنی دونوں اہم عہدے احمدیوں کو سونپے گئے تھے)ان کے علاوہ کمیٹی کے دیگر ارکان مسلمان بھی تھے اور احمدی بھی ۔ جولائی ۱۹۳۱ء میں کمیٹی قائم کرتے وقت چونکہ خیال تھا کہ یہ ایک عارضی تنظیم ہے ، لہٰذا اس کے لیے کسی قسم کا دستور وضع کرنے یا قواعد و ضوابط مرتب کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی ۔صدر اور سیکرٹری کو وسیع اختیارت حاصل تھے۔ دو ایک برس میں احمدی ارکان پر الزام لگاکہ وہ کشمیر کمیٹی کو احمدیت کی تبلیغ کی خاطر استعمال کررہے ہیں اور اس کے ذریعے ان کا اصل مقصد کشمیری مسلمانوں کو احمدی بنانا ہے اب شیخ اعجاز احمد کے نزدیک یہ سب احمدیو ںکے خلاف احراریوں کا پراپیگنڈا تھا اور ان کے دباؤ یا ڈرانے دھمکانے کے پیش نظر اقبال جیسی شخصیت نے بھی اس الزا م کو درست تسلیم کرلیا۔ سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا جماعت احمدیہ کے ممبران اپنے عقیدے کی نشرواشاعت یا تبلیغ میں جوش و خروش کے اظہار کی وجہ سے مشہور یا بدنام نہیں ہیں؟ اگر واقعی ایسا ہے تو اس تہمت پر یقین کرنے والے حق بجانب بھی سمجھے جا سکتے تھے۔ بہرحال کشمیر کمیٹی کے بعض ارکان نے، جن میں اقبال بھی شامل تھے، تجویز پیش کی کہ چونکہ کمیٹی کو بحیثیت ایک تنظیم ابھی کچھ مدت تک قائم رکھنا پڑے گا، اس لیے اس کی خاطر دستور اور قواعد و ضوابط وضع کرلینے چاہیئں تاکہ ہر کا م ان کے مطابق انجام دیا جا سکے اور کسی کو کسی کے خلاف شکایت کرنے کا موقع نہ ملے۔ احمدی ارکان کو یہ تجویز منظور نہ تھی ، کیونکہ ان کی دانست میں اس کا مقصد ان کے امیر کے لامحدود اختیارات کو محدود کرنا تھا۔ پس اس مرحلے پر مرزا بشیر الدین محمود کمیٹی کی صدارت سے مستعفی ہوگئے، لیکن شیخ اعجاز احمد کے نزدیک یہ حقیقت نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ احراریوں نے اقبال کے ساتھ سازش کرکے فیصلے کیا تھا کہ مرزا بشیر الدین محمود کو کشمیر کمیٹی کی صدارت سے علیٰحدہ کیا جائے چنانچہ اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ ‘‘ میں خبر شائع کرائی گئی کہ کشمیر کمیٹی کاصدر غیر قادیانی مسلمان ہونا چاہیے او ر اس کے بعد مرزا بشیر الدین محمود کو کمیٹی کا اجلاس برائے انتخاب عہدہ داران بلانے کے لیے تحریر کیا گیا ۔انہوں نے وہ اجلاس بلوایا اور انتخاب عہدہ داران کے لیے رستہ صاف کرنے کی غرض سے اپنا استعفا پیش کردیا ۔ یہاں بھی ایک سوا ل پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ کیا کشمیری مسلمانوں میں احمدی عقیدے کی تبلیغ کے الزام کو ثابت کرنے کے لیے احمدی ارکان نے کوئی قد م اٹھایا؟ جواب ہے:نہیں ۔ اس کی نوبت ہی نہ آئی کیونکہ مرزا بشیر الدین محمود نے اپنا استعفا پیش کردیا تھا۔ مرزا بشیر الدین محمود کی جگہ اقبال کو کشمیر کمیٹی کا قائم مقام صدر منتخب کیاگیا، اور جب اقبا ل نے کمیٹی کے دستور کا مسو ّدہ تیار کرکے اجلاس میں پیش کیاتو احمدی ارکان نے ان کی مخالفت کی، بلکہ دورا ن بحث اقبال پر واضح کردیا کہ احمدیوں کے نزدیک کشمیر کمیٹی یا مسلمانوں کی کسی بھی تنظیم کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ وہ اپنے عقیدے کے مطابق کسی وفاداری کے پابند ہیں تو صرف ان کی امیر کے ساتھ وفاداری ہے ۔یعنی وہ مسلمانوں کی اکثریت کی بنا پر وضع کیے ہوئے کسی دستور کے پابند نہیں ہوسکتے ، بلکہ وہ تو وہی کریں گے جو ان کے امیر کا حکم ہوگا۔ بالفاظ دیگر احمدی بظاہر کشمیر کمیٹی کو قائم رکھتے ہوئے اسے اندر سے دو حصو ں یعنی مسلمانوں اور احمدیو ںمیں تقسیم کرنے کے درپے تھے۔ یہ صورت حال اقبال کے لیے ناقابل قبول تھی،اس لیے انہوں نے کشمیر کمیٹی سے استعفا دے دیا اور مسلمانوں کو مشور ہ دیا کہ اگر مسلمانانِ ہند اپنے کشمیر ی بھائیوں کی امداد اور رہنمائی کرنا چاہتے ہیں تو کوئی اور کشمیر کمیٹی بنائیں جو صرف مسلمانوں پر مشتمل ہو،لیکن شیخ اعجاز احمد فرماتے ہیں کہ اقبا ل احراریوں کے ایماء پر کشمیر کمیٹی کی تخریب میں مصروف ہوگئے اور احراریوں کی حوصلہ افزائی کرنے لگے۔ خیر یہ بحث تو بعد میں کی جائے گی کہ اقبال کی نگاہ میں احراریوں کی حیثیت کیاتھی اور اگرانہوں نے ان کی حوصلہ افزائی کی بھی تو وہ کس اضطراری کیفیت یامصلحت کے تحت کی ۔ یہاں اتنا بتا دیناکافی ہے کہ بعد میں احمدیوں نے ’’تحریک کشمیر ‘‘کے نا م سے ایک نئی جماعت قائم کی اور اقبال کو اس کی صدارت پیش کی لیکن اقبال نے اس پیش کش کو ٹھکراتے ہوئے اپنے ایک بیان مور خہ ۲اکتوبر ۱۹۳۳ء میں فرمایا: قادیانی ہیڈ کو ارٹرز کی طرف سے ابھی تک ایسا کوئی واضح اعلان جاری نہیں ہوا کہ اگر قادیانی حضرات مسلمانوں کی کسی سیاسی تنظیم میں شامل ہوں گے تو ان کی وفاداریاں منقسم نہیں ہوںگی۔ دوسری طرف واقعاتی طورپر یہ ظاہر ہوگیاہے کہ جسے قادیانی پر یس ’’تحریک کشمیر ‘‘ کے نام سے پکارتا ہے اور جس میں بقول قادیانی اخبار’’الفضل ‘‘ مسلمانو ںکو محض اخلاقی طورپر شامل ہونے کی اجازت دی گئی ہے ، ایک ایسی تنظیم ہے جس کے مقاصد او رمحرکاتّ آل انڈیا کشمیر کمیٹی سے مختلف ہیں۔۱۱۱ شیخ اعجاز احمد فرماتے ہیں کہ احمدیت کے خلاف محاذ آرائی کے ایا م میں جب اقبال سے یہ سوال کیاگیاکہ آپ تو اس فرقے کو ’’اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ ‘‘سمجھتے تھے، تو جواب میں انہوں نے اعتراف کیاکہ پچیس برس پیشتر انہیں اس تحریک سے اچھے نتائج برآمد ہونے کی توقعات تھیں لیکن انہیں اس وقت شکوک پیدا ہوئے جب بانی اسلام کی نبوت سے برتر ایک نئی نبوت کا دعویٰ کیاگیا۔ اس کے بعد شیخ اعجاز احمد فرماتے ہیں کہ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے برتر نبوت کے دعوے کی تہمت احراریوں اور اقبال کے حاشیہ نشینوں نے انہیں احمدیت کے خلاف بھڑکانے کے لیے تراشی تھی ، لیکن افسوس ہے شیخ اعجاز احمد نے اس ضمن میں اقبال کا پورا فقرہ درج نہیں کیا۔ اقبال فرماتے ہیں: ذاتی طور پر مجھے اس تحریک کے متعلق اس وقت شبہات پیدا ہوئے جب ایک نئی نبوت کا دعویٰ کیا گیا، جو بانی اسلام کی نبوت سے بھی برتر تھی او رتمام عالم اسلام کے کافر ہونے کا اعلان کیا گیا ۔ بعد از اں میرے شبہات نے اس وقت مکمل بغاوت کی صورت اختیار کرلی جب میں نے اپنے کانوں سے اس تحریک کے ایک رکن کو پیغمبر اسلام کے بارے میں نہایت نازیبا زبان استعمال کرتے ہوئے سنا۔۱۱۲ پس یہ محض احراریوں یا حاشیہ نشینو ںکے بھڑکانے کا نتیجہ نہ تھا۔ اقبال کے اپنے کان بھی تو تھے جنہیں وہ سننے کے لیے استعمال میں لاتے تھے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ممکن ہے بقول شیخ اعجا ز احمد ، بانی سلسلۂ احمدیہ نے کبھی حضور رسالت مآب ؐکی نبوت سے برتر نبوت کا دعویٰ نہ کیا ہو اور نہ کوئی احمدی ، بانی سلسلۂ احمدیہ کو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے برتر یقین کرتا ہو، مگر کسی بھی مفہوم میں ختم نبوت کے عقیدے کو تسلیم نہ کرنے میں یہی توقباحت ہے کہ یوں بعد کی نئی نبوت کی برتری کے اظہار کی طرح ڈالی جاسکتی ہے یاایسے منفی انداز فکر کے لیے دروازہ کھل جانے کا امکان ہے۔ عین ممکن ہے کہ شیخ اعجاز احمد یا دیگر احمدیوں کاعقیدہ وہی ہو جو انہوں نے بیان کیا ہے ، لیکن جس بدبخت کی باتوں کو اقبال نے انپے کانوں سے سنا، وہ بھی تو اپنے آپ کو تحریک احمدیہ کارکن ہی سمجھتا تھا۔ شیخ اعجاز احمد کا خیال ہے کہ اقبال اپنی خدا داد عقل و دانش کے ساتھ ساتھ بچوں کی طرح معصوم اور بھولے بھالے تھے۔ سنی سنائی بات کا بغیر تحقیق کے یقین کرلیتے۔ اس ضمن میں انہوں نے اقبال کے بھولپن کی تین مثالیں پیش کی ہیں،جن کا ذکر اوپر کیاجا چکاہے ان کا استدلال یہ ہے کہ تحریک احمدیہ کے عقائد کے متعلق بھی انہوں نے سنی سنائی باتوں کا بغیر تحقیق کیے یقین کرلیاتھا۔ راقم کی رائے میں ایک ایسا شخص جو ہندو رہنمائوں یا انگریز حاکموں کی سیاسی چالوں کو پوری طرح سمجھتاہو ، جن کی یخ بستہ منطق نے واضح کیاہو کہ مسلمانوں کی عافیت اسی میں ہے کہ وہ علیٰحدہ نیابت کے مطالبے کو کسی قیمت پر بھی نہ چھوڑیں ، جو ایک تجربہ کار وکیل کی حیثیت سے انفرادی یا اجتماعی لین دین کے معاملات میں اپنی فلسفہ دانی یا شاعرانہ تخیل کے باوجود عملی اور کاروباری قسم کا آدمی ہو، اس سے ایسی معصومیت یابھولپن کی توقع رکھنا یا یہ سمجھنا کہ اس نے سنی سنائی باتوں پر یقین کرکے احمدیت کے خلاف بلاوجہ شور مچا دیا، قرین قیاس معلوم نہیں ہوتا۔اعجاز احمد ، اقبال کے تمام سوانح حیات میںغالباً یہی تین مثالیں ان کے بھولپن کی پیش کرسکتے تھے، مگر راقم کے نزدیک یہ مثالیں اقبال کے بھولپن کو ثابت کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔مثلاً سرداربیگم کے ساتھ نکاح کے بعد بعض گمنام خطوں پر انکا یقین کرلینا اور پھر اپنی غلطی پر پشیماں ہونا ، ان کا بھولپن ظاہر نہیں کرتا بلکہ ذہنی اضطراب یا بے چینی کی کیفیت کی طرف اشارہ کرتاہے ،کیونکہ ان کی پہلی شادی ناکام رہی تھی اور وہ دوسری بار ضرورت سے زیادہ محتاط ہونے کی کوشش کررہے تھے ۔ پھر یہ کہنا کہ کسی کی گپ پر اعتبار کرتے ہوئے انہوں نے یقین کرلیا کہ روس کانیا صدر محمد استالین مسلمان ہے ، اس سلسلے میں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ وسط ایشیا کے مسلمانوں کو مرعوب کرنے کے لیے یاا نہیں اپنا مطیع رکھنے کی خاطر شروع میں روسی کمیونسٹوں نے اسی قسم کا پراپیگنڈا کیاتھااور عین ممکن ہے کہ یہ پراپیگنڈا سرحدیں عبور کرکے برصغیر میں بھی پہنچا ہو۔ اقبال نے غالباً اسی پراپیگنڈے سے متاثر ہو کر اپنے بڑے بھائی کو یہ خوشخبری سنائی ہو ، لیکن بعد میں تحقیق پر یہ خبر غلط ثابت ہوئی۔ اسی طرح اس زمانے میں مغربی پریس دنیائے اسلام کی اس قسم کی غلط خبروں کی تشہیر بطور پالیسی کیا کرتا تھا کہ کسی ملک کے مسلمانوں نے نماز سے پہلے وضو اڑا دیا، یا کسی مسلم ملک میں نماز میں تبدیلیاں کر دی گئیں یا ایسی تحریک دیگر مسلم ممالک میں بھی جاری ہے۔ اس پراپیگنڈے کا مقصد دنیائے اسلام کے حصّے بخرے کر نا یا اس میں انتشار پھیلانا تھا اور اس قسم کاطرز عمل آج بھی یہود نواز مغربی پریس اختیارکرلیتاہے ۔ اس اعتبار سے ایسی خبروں سے اقبال کا دل گرفتہ ہونا ان کے بھولپن یا معصومیت کا ثبوت فراہم نہیں کرتا بلکہ ملت اسلامیہ کے متعلق ان کی فکرمندی کی طرف اشارہ کرتاہے ۔ ظاہر ہے کشمیر کمیٹی میں اقبال اپنے ذاتی تجربے کی بنا پر احمدیوں سے مایوس ہوئے تھے۔ البتہ یہ کہا جاسکتاہے کہ احمدیوں کے مخالفین نے جن میں احراری بھی شامل تھے، اس موقع سے فائد ہ اٹھاتے ہوئے اقبال کوان کے عقائد کے متعلق بے سروپا باتیںیا غلط قصے گھڑ کر سنائے ہوں۔ شیخ اعجازاحمد سمجھتے ہیں کہ کشمیر کمیٹی کے قیام کے دوران میں اقبال اور جماعت احمدیہ کے تعاون میں احراری رخنہ انداز ہوئے اور انہوں نے اقبال کو ڈرا دھمکا کر اپنے ساتھ مفاہمت کرنے کی راہ ہموار کی۔ پس اسی مفاہمت کے پس منظر میں اقبال اور احراریوں کی سازش کے ذریعے مرزا بشیر الدین محمود کو کشمیر کمیٹی کی صدارت سے الگ کیاگیا اور بعد میں اقبال مجلس احرار کی ہر طرح حوصلہ افزائی کرنے لگے۔ بقول ان کے ،احراریوں نے احمدی عقائد کے متعلق بے بنیاد باتیں تراش کر اقبال کے عشق رسولؐ کو ایکس پلائیٹ کرتے ہوئے انہیں احمدیت کے خلاف بھڑکایا او ر اقبال نے بغیر تحقیق کیے ان کی باتوں کو درست تسلیم کرلیا۔ اس مرحلے پر دو سوال پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ کیا اس معاملے میں اقبال اپنی ذاتی رائے قائم کرنے کے قابل نہ رہے تھے کہ ان کی موم کی نا ک کو احراری یاحاشیہ نشین جس طرف چاہتے موڑ سکتے تھے؟ اور دوسرا یہ کہ اقبال کے نزدیک احراریوں کی حیثیت درحقیقت کیا تھی؟ پہلے سوال کاجواب تو کشمیر کمیٹی میں احمدیو ںکے ساتھ ملکر کام کرنے میں اقبال کاذاتی تجربہ تھا اور اس ضمن میں ان کے بیانات سے ظاہر ہوتاہے کہ وہ احمدیوں سے مایوس ہوئے تھے ۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اقبال احمدیوں سے من حیث الجماعت ۱۹۳۳ء میں مایوس ہوئے ، لیکن انہوںنے تحریک احمدیہ کے خلاف اپنا پہلا بیان دو سال بعد ۱۹۳۵ء میں جاری کیا۔ احراریوں کی جماعت احمدیہ سے پرانی عداوت تھی اور جب اقبال کشمیر کمیٹی میں احمدیو ںسے مایوس ہوئے تو عین ممکن ہے کہ احراریوں نے احمدیوں کے خلاف ان سے مفاہمت کرنے کی کوشش کی ہو کیونکہ یہ صورت حال دونوں فریقوں کو ایک دوسرے کے قریب تر لانے کا ذریعہ بنتی تھی ، مگر اس صورت حال کے صحیح تجزیے کے لیے تین چار دیگر امور بھی ذہن میں رکھنے چاہئیں ، جنہوں نے مستقبل میں بالخصوص پنجاب کی مسلم سیاست پر اثر انداز ہوناتھا ۔ یہ امور تھے:کمیونل ایوارڈ، محمد علی جناح کے ہاتھوں ۱۹۳۴ء میں مسلم لیگ کا احیائ، ۱۹۳۵ء کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت صوبائی خود مختاری کامسئلہ ، سر فضل حسین کی یونینسٹ پارٹی کا پروگرام اور پنجاب میں مسلم اکثریت کو بروے کارلانے کے سلسلے میں درپیش خطرات ، ان امو ر کے پس منظر میں محمد علی جناح ، اقبال اور پنجاب کے دیگر مسلم لیگی رہنماؤں احراریوں ، یونینسٹوں اور احمدیوں کے سیاسی عزائم نے ۱۹۳۵ء تک جو شکل اختیار کی، ان کی روشنی ہی میں اقبال کے تحریک احمدیہ کے خلاف بیانات کو پوری طرح سمجھا جاسکتاہے۔ دوسرے سوال کاجواب یہ ہے کہ اقبال اور مجلس احرار کے نظریات میں ہمیشہ فرق رہا۔ مجلس احرار خلافت کمیٹی کی کوکھ سے نکلی تھی اور نظریات کے اعتبار سے جمعیت العلماء ہند کی طرح نیشنلسٹ مسلمانوں کی جماعت اور کانگرس کی ہم نوا تھی ۔ احراری قائدین نے عام طور پر اقبال اور ان کے نظریات کی مخالفت کی تحریک کشمیر اور بعد میں احمدیوں کے خلاف تحریک کے دوران میں احراریوں کو پنجاب میں کچھ مقبولیت حاصل ہوئی، مگر تحریک مسجد شہید گنج کے دوران میں مجلس احرار نے خاموشی اختیار کر کے مسلمانان پنجاب کی ہمدردیاں کھو دیں۔ مجلس احرار پارلیمانی سیاسی جماعت کبھی بھی نہ بن سکی ۔ وہ محض ایک ہنگامی سیاسی جماعت کے طور پر ابھری تھی او راسی شکل میں ختم ہوگئی۔ کشمیر کمیٹی کے قیام کے دوران میں ممکن ہے اقبال نے احراری رہنماؤں سے مفاہمت کرنے کے بعد ان کی حوصلہ افزائی کی ہو۔اسی طرح بعد میں انہوں نے مجلس اتحاد ملت کے لیڈروں سے بھی وابستگی قائم رکھی،لیکن اقبال کا اصل مقصد ایسی ہنگامی سیاسی جماعتوں کا مسلم لیگ کے ساتھ اتحاد کراناتھا تاکہ پنجاب میں انہیں یونینسٹ پارٹی کے مقابلے میں کھڑا کیا جا سکے ۔ احراری لیڈر جو شیلے مقرر ہونے کے سبب عوام میں مقبول تھے اور انہیں پنجاب کے مسلمانوں میں مسلم لیگ کو عوامی جماعت بنانے کی غرض سے استعمال میں لایا جا سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور میں محمد علی جناح کوجب یونینسٹ پارٹی کے لیڈر سر فضل حسین نے ٹکا سا جواب دے دیا تو وہ اقبال سے مشورے کے بعد مجلس اتحاد ملت اور پھر مجلس احرار کے قائدین سے ملے اور ان قائدین نے کچھ پس و پیش کے بعد مسلم لیگ میں شامل ہونے کی حامی بھرلی ۔ مگریہ تعلق زیادہ مد ّت تک قائم نہ رہ سکا۔ مجلس اتحاد ملّت کے لیڈر پہلے اور مجلس احرار کے لیڈر کچھ مدت بعد اپنی اپنی اغراض حاصل نہ ہوسکنے کے سبب مسلم لیگ سے علیحدہ ہوگئے۔ بہرحال مجلس احرار ہمیشہ نیشنلسٹ مسلمانوں کی جماعت ہی رہی اور جمعیت العلما ء ہند اور کانگرس کی حمایت کرتی رہی ۔ اقبال نے جس طرح تحریک احمدیہ کے عقائد کے خلاف اپنے خیالات کابرملا اظہار کیا۔اسی طرح مولانا حسین احمد مدنی کے نظریۂ قومیت کے خلاف اظہار رائے کرتے ہوئے کمال جرأت اور بے باکی سے فرمایاتھا: حقیقت یہ ہے کہ مولانا حسین احمد مدنی اور ان کے ہم خیال قومیت کے بارے میں جو نظریہ رکھتے ہیں، وہ ایک لحاظ سے اسی طرح ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے سے انکار کرنے میں قادیانیوں کاہے۔ دوسرے الفاظ میں قومیت کے علم بردار یہ چاہتے ہیں کہ موجودہ زمانے کی ضروریات کے پیش نظر مسلمانوں کو ہر زمان ومکاں کے لیے قانون الٰہی کے ساتھ نئی پوزیشن اختیار کرنی چاہیے ۔ جس طرح قادیانی ایک نئی نبوت کی اختراع سے قادیانیوں کو فکر ونظر کی ایک نئی راہ اختیار کرنے کو کہتے ہیں ،جس سے بالآخر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم المرسلین ہونے سے انکار کی منزل آجاتی ہے ۔ بظاہر قومیت کایہ تصور ایک سیاسی نظریہ ہے اور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے سے قادیانیوں کا انکار ایک دینی مسئلہ ہے ، لیکن ان دونوں کے درمیان ایک گہرا داخلی تعلق ہے جس کو واضح طورپر اس وقت پیش کیاجاسکے گا جب کوئی خداداد بصیرت سے بہرہ ور مسلمان مورّخ ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ مرتبّ کرے گااور اس میں بعض بظاہر جاندارفرقوں کے مذہبی فکر کو خاص طورپر پیش نظر رکھے گا۔۱۱۳ سو اقبال نے اپنی وفات سے قبل واضح کردیا کہ ان کے نزدیک قومیت کے بارے میں مولانا حسین احمد مدنی کے نظریے پر ایمان رکھنے والوں اور احمدیوں کے عقائد کے درمیان کس قسم کا گہرا داخلی تعلق ہے۔ اگر وہ احراریو ںیا ان کی قسم کے دیگر سیاسی گروہوں یا ٹولوں کی شورہ پشتی سے خائف ہوتے تو کبھی ایسے خیالات کا اظہا رنہ کرتے۔ بعد کے حالات سے واضح ہے کہ مسلمانوں کے لیے علیحدہ ریاست کے قیام کے سلسلے میں پنجاب میں جس طرح یونینسٹ پارٹی نے مخالفت کی، اسی طرح مجلس احرار نے بھی کی ۔ پس اقبا ل کی نگاہ میں احراریوں کی جو حیثیت تھی، اس سے ظاہر ہے کہ وہ محض ان کے ڈرانے دھمکانے یا اکسانے بھڑکانے سے احمدیت کے مخالف نہ ہو ئے تھے ، بلکہ ایسا سوچنا اصل حقائق سے چشم پوشی کرنے کے مترادف ہے ۔ اصل سوال یہ ہے کہ اگر اقبا ل، احمدیوں سے ۱۹۳۳ء میں مایوس ہوگئے تھے تو انہوں نے دو برس انتظار کے بعد ۱۹۳۵ء میں احمدیت کے متعلق اپنی تبدیلی رائے کا برملا اظہار کیوں کیا؟۔ ایک طبقۂ فکر کی رائے ہے کہ جب احمدیوں کے سیاسی عزائم واضح طور پر سامنے آگئے تو اقبال نے احمدیت سے بیزاری کا اعلان کردیا۔ ۱۱۴آخر احمدیوں کے کوئی سیاسی عزائم تھے تو کیا تھے؟بالفاظ دیگر اگر اقبال نے عامتہ المسلمین کے لیے تحریک احمدیہ کے سیاسی عزائم سے کوئی خطرہ محسوس کیاتو وہ کیاتھا؟ یہاں یہ واضح کردینا مناسب ہوگاکہ برصغیر میں سیاسی بیداری کے دور میں بھی تحریک احمدیہ انگریزی حکومت کی اطاعت اور وفاداری کا دم بھرتی تھی ۔ اپنے ابتدائی ایا م ہی میں اس نے جہاد کی حرمت کا اعلان کررکھا تھا اور اس سے مراد یہ لی گئی تھی کہ احمدیوں کے نزدیک انگریز کے ساتھ وفاداری کو اس قدر اہمیت حاصل تھی کہ اس کے خلاف سیاسی آزادی کے لیے جدو جہد کرنا بھی حرام قرار دیاگیا تھا۔ تحریک احمدیہ کاتعلق خالصتاً پنجاب کی سرزمین سے تھا۔ پنجاب میں غیر مسلموں کے مقابلے میں مسلمانوں کی اکثریت تھوڑی سی تھی اور اس اکثریت کے بل بوتے پر یہاں کسی مستحکم مسلم وزارت تشکیل دینے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔البتہ اگر مسلمانو ںمیں اتحاد برقرار رکھا جاسکتا تو وہ مخلوط وزارت قائم کر سکتے تھے۔ چنانچہ پنجاب میں سر فضل حسین نے غیر فرقہ وارانہ سیاسی جماعت یونینسٹ پارٹی قائم کررکھی تھی۔ سر فضل حسین کے والد کے بانی تحریک احمدیہ سے خاندانی مراسم تھے۔ جب سرفضل حسین انگلستان سے اپنی تعلیم کی تکمیل کے بعد واپس تشریف لائے تو ان کے والد انہیں ساتھ لے کر مرزا غلام احمد کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے لیے دعا کی درخواست کی ۱۱۵۔بعد میں ۱۹۲۶ء میں جب سر ظفر اللہ خان پنجاب کی کونسل کے لیے منتخب ہوئے تو مرزا بشیر الدین محمود (سلسلۂ احمدیہ کے دوسرے جانشین)نے انہیں ہدایت کی کہ کونسل میں اور سیاسی میدان عمل میں سر فضل حسین کے ساتھ پور اتعاون کیا جائے ۱۱۶۔سر ظفر اللہ خان فرماتے ہیں : میں تو پہلے ہی میاں صاحب کا مداح اور ممنون احسان تھا اس لیے حضور کے ارشاد کی تعمیل میرے لیے آسان تھی۔ ۱۱۷ سو پنجاب میں جماعت احمدیہ نے سیاسی میدان عمل میں سر فضل حسین کی یونینسٹ پارٹی کے ساتھ تعاون کے ذریعے اپنی سیاسی زندگی کی ابتداء کی ۔ سر ظفر اللہ خان نے مرزا بشیر الدین محمود کی ہدایت کے تحت یونینسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور یہ تعلق آخر تک قائم رہا۔ سر فضل حسین کے بارے میں ان کے فرزند عظیم حسین کی تحریر کردہ کتاب کے مطالعے سے ظاہر ہوتاہے کہ وہ اپنی رائے سے اختلاف کرنے والوں کو قطعی پسند نہ کرتے تھے اور اپنے اردگرد صرف ایسے لوگوں کو دیکھنے کے خواہشمند تھے ، جوان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہیں یا ان کی رائے سے اتفاق کرتے رہیں۔ سر ظفر اللہ خان بھی اسی سبب ان کے منظور نظر تھے ۔ ان کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ایک خط محررّہ یکم دسمبر ۱۹۳۰ئٔ میں فرماتے ہیں : ظفر اللہ ایک اچھا خاموش شخص ہے جو اپنے آپ کو آگے کرنے کی خواہش نہیںرکھتااورہروہ کام کرنے کے لیے تیارہے جواسے کرنے کو کہا جائے۔۱۱۸ اس زمانے میں احمدی، مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے سلسلے میں تعلیمی اور دیگر اداروں میں تو ان کے ساتھ تعاون کرتے تھے ، مگر برصغیر کی مسلم سیاسیات میں صرف اسی حد تک حصّہ لیتے جس حد تک سر فضل حسین یایونینسٹ پارٹی کے مفادات اجازت دیتے تھے۔ پس اگر انہو ںنے مسلم کانفرنس میں شمولیت اختیار کی تو سر فضل حسین کے اشارے پر اور اگر سر ظفر اللہ خا ن مسلم لیگ کے صدر بنے تو لیگ کے متعلق سر فضل حسین کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر ۔ اس سلسلے میں سید شمس الحسن کا تجزیہ بھی قابل غور ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ سر محمد شفیع کی وائسراے کی ایگز یکٹو کونسل میں مصروفیات اور بعد میں ان کی علالت اور بے وقت موت نے لیگ کو تباہی کے گڑھے کے کنارے پر لاکھڑا کیا۔ اس مرحلے پر سر فضل حسین اور ان کے حامیو ں نے فیصلہ کیا کہ لیگ ہمیشہ کے لیے ختم کرکے مسلم کانفرنس کے لیے میدان صاف کیا جائے۔ پس دہلی میں لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ ۲۶ و ۲۷؍دسمبر ۱۹۳۱ء کو اُنہوںنے اپنا وار کیا۔ پہلے تو اجلاس کی صدارت کے لیے سر فضل حسین نے سر ظفر اللہ خان کو منتخب کر وایا اور پھر انہیں لیگ کا صدر بنوادیا۔ لیگ کی صدارت کے لیے سر ظفر اللہ خان کے انتخاب کے خلاف مسلمانانِ دہلی نے شدید احتجاج اور مظاہرہ کیا ، کیونکہ وہ انہیں مسلمان نہ سمجھتے تھے ۔ مزید مظاہروں کے خوف سے اجلاس مقرر کردہ جگہ یعنی فتح پوری اسکول ہال کے بجائے ایک ٹھیکے دار خان صاحب سید نواب علی کے مکان پر منعقدکیا گیا ۔اس اجلاس میں صرف چند ارکان شامل ہوئے ۔ لیگ کو آل انڈیا مسلم کانفرنس میں ضم کرکے ایک نئی تنظیم قائم کرنے کی خاطر سر ظفر اللہ خان کی زیر صدارت ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ اس صورت حال کے متعلق سید شمس الحسن نے محمد علی جناح کو لندن کے پتے پر خط تحریر کیا اور انہوں نے ہدایت کی کہ مسلم لیگ کو ہر قیمت پر بچایاجائے ۔ بہرحال بعض اصحاب کی رخنہ اندازی کے سبب کمیٹی کوئی نئی سیاسی تنظیم قائم نہ کرسکی اور اس کے اجلاس ملتوی ہوتے ر ہے۔ پھر حالات نے بھی مدد کی۔ جون ۱۹۳۲ء میں سرظفر اللہ خان وائسراے کی ایگزیکٹو کونسل کے رکن بنا دیے گئے۔ پس وہ لیگ کی صدارت سے مستعفی ہوئے اور یوں مسلم لیگ ان کے ہاتھو ں اپنی موت سے بچ گئی۔ ۱۱۹ سوال پیدا ہوتاہے کہ جماعت احمدیہ کو ، جو اصلاً ایک مذہبی جماعت تھی ،سیاسی وابستگی پید ا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟۔ جواب ہے: سیاسی قوت حاصل کیے بغیر کوئی بھی مذہبی تحریک نہ تو اپنا الگ تشخص برقرار رکھ سکتی ہے اور نہ اس کے اراکین کی تعداد میں اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ جماعت احمدیہ نے یونینسٹ پارٹی کے ساتھ تعلق کس سیاسی مصلحت کے تحت قائم کیا تھا، اس سوال کا جواب بڑا آسان ہے ۔ اول یہ کہ یونینسٹ پارٹی ایک غیر فرقہ وارانہ سیاسی جماعت تھی ۔ یعنی باوجود اس کے کہ اس میں مسلمانوں کی اکثریت تھی ، وہ اصولاً ایک سیکولر پارٹی تھی، جس میں احمدی بحیثیت ایک مذہبی فرقے کے مسلمانوں میں رہتے ہوئے بھی انہیں اندر سے تقسیم کرکے اپنی تعدا د میں خاطر خواہ اضافہ ہونے تک اپنی علیٰحدہ حیثیت برقرار رکھ سکتے تھے۔ دوم یہ کہ یونینسٹ پارٹی انگریزی حکومت کی اطاعت کادم بھرتی تھی اور اس کے ذریعے احمدی (جو عقیدتاً ) انگریزی حکومت کے وفادار تھے بظاہر عامتہ المسلمین میں شمار ہوتے ہوئے وہ مناصب حاصل کر سکتے تھے، جو مسلمانوں کے لیے مخصوص تھے۔ بہرحال اس زمانے میں مسلم لیگ یا مسلم کانفرنس جیسی سیاسی جماعتیں عوامی نہ تھیں اور جو عوامی تھیں وہ مجلس احرار کی طرح محض ہنگامی جماعتیں تھیں پس مجلس احرار یا علماء کے احتجاج کے زیر اثر اگرچہ عامتہ المسلمین میں احمدیوں کو ان کے عقائد کے سبب معتوب قرار دیاجانے لگا تھا، پھر بھی بیشتر مسلم سیاسی رہنماؤں نے جماعت احمدیہ کی سیاسی مصلحت پر نکتہ چینی کرنا ضروری خیال نہ کیا۔ بہرحال گول میز کانفرنسوں ، کمیونل ایوارڈ (فرقہ وارانہ فیصلہ )اور گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء کے تحت صوبائی خود مختاری کے حصول کے امکانات نے پنجاب میں مسلم سیاست کا رخ بدل دیا۔ صوبائی خود مختاری مسلمانان برصغیر کے متحدہ مطالبے کے نتیجے میں حاصل ہوئی تھی ۔ پنجاب ایک مسلم اکثریتی صوبہ تھا لیکن اس میں سر فضل حسین اور اُن کے حامیو ں نے صوبائی اسمبلی میں اپنا اقتدار قائم رکھنے کی خاطر غیر فرقہ وارانہ یونینسٹ پارٹی بناکر اس کے ٹکٹ پرا نتخابات لڑنے کا قصد کررکھاتھا۔ دوسری طرف محمد علی جنا ح اور اقبال کی کوشش یہ تھی کہ مسلم لیگ کو مسلمانوں کی واحد متحدہ جماعت بنادیاجائے تاکہ صوبائی اسمبلیوں کے مسلم اراکین ایک کل ہند مسلم پالیسی اور پروگرام کے پابند ہو ں اور وہ مرکزی اسمبلی میں صرف ایسے نمائندے بھیجیں جو وہاں ہندوستان کی دوسری بڑی قوم کے نمائندوں کی حیثیت سے خالصتاً مسلم نقطۂ نظرپیش کر سکیں ۔ ان حالات میں ظاہر ہے پنجاب میں کسی نہ کسی مرحلے پر مسلم لیگ کا مقابلہ یونینسٹ پارٹی سے ہوناتھا۔ اسی دور میں کشمیر کمیٹی میں اقبال کو خالصتاً احمدی قیادت میں کا م کرنے کا تجربہ حاصل ہوا ۔ کشمیر کمیٹی ایک عارضی تنظیم کی صورت میں عجلت میں بنائی گئی تھی۔ اس کا نہ تو کوئی دستور تھا اور نہ قواعد و ضوابط۔ جب احمدی ارکان پر الزام لگا کہ وہ کشمیر کمیٹی کو کشمیر میں احمدیت کی تبلیغ کی خاطر استعمال کررہے ہیں ، تو اس قسم کے الزامات کے تدارک کے لیے تجویز پیش کی گئی کہ کشمیر کمیٹی کے لیے دستور اور قواعد و ضوابط وضع کرلیے جائیں تاکہ کسی کو کسی کے خلاف شکایت کرنے کاموقع مل نہ سکے، لیکن بجائے اس کے کہ الزام کو غلط ثابت کرنے کے لیے قدم اٹھایا جاتا، احمدیوں نے اس تجویز کو اپنے امیر کے لامحدود اختیارات کو محدود کرنے کے لیے ایک چال تصو ر کیا اور مرزا بشیر الدین محمود نے کشمیر کمیٹی سے استعفادے دیا۔ جب اقبال کشمیر کمیٹی کے قائم مقام صدر منتخب ہوئے تو احمدی اراکین نے ان کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کردیا اور بقول اقبال ان پر واضح کردیاکہ احمدیو ں کے نزدیک کشمیر کمیٹی یامسلمانوں کی کسی بھی تنظیم کی کوئی اہمیت نہیں اور ان کے عقید ے کے مطابق اگر وہ کسی وفاداری کے پابند ہیں تو صرف ان کی امیر کے ساتھ وفاداری ہے۔ پس اقبال پر یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ احمدی اگر مسلمانوں کی کسی سیاسی تنطیم میں شامل ہوں گے تو ان کی وفاداریاں یقینا منقسم ہوں گی۔ یعنی ان کی اوّلیں وفاداری اپنی جماعت کے ساتھ ہوگی نہ کہ ملت اسلامیہ کے ساتھ ۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلمانو ںمیں اور بالخصوص پنجاب کے مسلمانوں میں اتحاد کی اشد ضرورت تھی ۔ بعد ازاں اقبال کے کان میں کسی احمدی کے منہ سے نکلی ہوئی دو ایک ناخوشگوار باتیں پڑیں جن کے سبب وہ جماعت احمدیہ سے بیزار ہوگئے۔ یہ سب ۱۹۳۳ء میں ہوا، لیکن اقبال نے احمدیت کے خلاف اپنا پہلا بیان ۱۹۳۵ء میں جاری کیا ۔ اس کی وجہ کیاتھی؟ شیخ اعجاز احمد کاخیال ہے کہ ۱۹۳۵ء میں احراریو ں نے احمدیوں کے خلاف ایک عام تحریک چلا رکھی تھی ۔ چنانچہ احراریو ں یا اپنے کسی احمدیت کے مخالف حاشیہ نشین کے بھڑکانے پر اقبال نے بھی احمدیت کے خلاف مضمون داغ دیا۔ اس ضمن میں وہ اپنے بیان کی تائید میں عبدالمجید سالک کا حوالہ پیش کرتے ہیں، مگر راقم کی رائے میں شیخ اعجاز احمد اور عبدالمجید سالک دونوں کا استدلال درست نہیں ۔ اقبال نے احمدیت کی تردید میںاپنا پہلا بیان کسی کے اکسانے پر محض اتفاقی یا حادثاتی طور پر نہیں دیاتھا، بلکہ اس کے چند اہم محرکات تھے جن کا تعلق پنجاب میں مسلم سیاست کے مستقبل سے تھا۔ علاوہ ازیں یہ بیان گورنر پنجاب سر ہربرٹ ایمرسن کی تقریر کے جواب میں دیاگیا جس میں اس نے احمدیت کے خلاف احرار کی ایجی ٹیشن کا حوالہ دیتے ہوئے مسلمانوں کو رواداری کا درس دیاتھا۔ ایمرسن نے انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ اجلاس کے موقع پر اپنے خطبے میں احمدیت کے خلاف مجلس احرار کے مظاہر وں کا ذکر کرتے ہوئے نہ صرف مسلمانو ںکورواداری کی تلقین کی تھی، بلکہ مسلمانوں کے باہمی نفاق پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مسلمانانِ پنجاب کومشورہ دیا تھا کہ وہ اپنی قوم میں کوئی بلند پایہ لیڈرپیدا کریں ۔ پس تحریک احمدیہ کے خلاف اقبال کا پہلا بیان’’قادیانیت او رصحیح العقیدہ مسلمان‘‘ اسی کے جواب میں جاری کیا گیا۔ اس بیان کے مطالعے سے ظاہر ہوتاہے کہ اقبال نے ایمرسن کے درس رواداری کو مسلمانوں کے تمد ّنی نقطۂ نظر سے بے خبری قراردیا اور فرمایاکہ انگریزی حکومت کو اس بات سے غرض نہیں کہ مسلمانوںکا اتحاد برقرار رہتاہے یانہیں کیونکہ اس کا مفاد تو صرف اسی میں ہے کہ نئے مذہب کا جوبانی بھی ابھرے ، وہ برطانیہ کا وفادار رہے۔ اس ضمن میں اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کی خاطر انہوں نے اکبر الہٰ آبادی کادرج ذیل شعر بھی پیش کیا: گورنمنٹ کی خیر یارو مناؤ ’’اناالحق‘‘ کہو اور پھانسی نہ پاؤ اقبال نے مزید کہا کہ یہ کہا ںکا انصاف ہے کہ اسلام کے باغی گروہ کو تو اپنے اشتعال انگیز عقائد کی تبلیغ جاری رکھنے کی آزادی ہولیکن اگر ملّت اسلامیہ کوئی دفاعی تدبیر اختیار کرے تو اسے رواداری کا سبق دیا جائے۔ اگر انگریزی حکومت اس گروہ کی خصوصی خدمات کے سبب اسے پسند کرتی ہے تو اسے ا س کی خدمات کا جو بھی چاہے صلہ دے سکتی ہے، مگر یہ زیادتی ہے کہ مسلمانو ں سے یہ توقع رکھی جائے کہ وہ اپنے معاشرے کی سا لمیت کے تحفظ کے لیے فکر مند نہ ہوں۔۱۲۰ مسلمانوں کے باہمی نفاق کودور کرنے اور انہیں اپنی قوم میں کوئی بلند پایہ لیڈر پیداکرنے کے لیے ایمرسن کے مشورے کے بارے میں اقبال نے اپنے اسی بیان میں فرمایا: مسلمانانِ پنجاب کوا تحاد کی تلقین کرنے پر حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے میں حکومت کو خود اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے کا مشورہ دوں گا ۔ میں پوچھتا ہوں کہ شہری اور دیہاتی مسلمان کی جو تفریق قائم ہو چکی ہے اور جس تفریق نے مسلمانوں کو دو متحارب گروہوں میں تقسیم کر دیا ہے، وہ کس نے قائم کی ہے؟ اس تفریق نے دیہاتی مسلمانوں کو بھی کئی ٹولیوں میں بانٹ رکھا ہے ۔ جو ایک دوسری کے خلاف مسلسل بر سر پیکار رہتی ہیں۔ سر ہر برٹ ایمرسن نے پنجاب کے مسلمانوں میں لیڈر شپ کے فقدان پر افسوس کا اظہار کیا ہے ۔ اے کاش سر ہربرٹ ایمرسن کو اس بات کا احساس ہوتا کہ پنجاب میں شہری اور دیہاتی کی تفریق حکومت نے خود ہی پیدا کی ہے اور اسے خود غرض اور طالع آزما سیاسی مہم جوئوں کے ذریعے قائم رکھا جا رہا ہے۔ جن کی نگاہیں پنجاب میں اتحاد اسلام کے بجائے اپنی ذاتی اغراض کی تحصیل پر مرتکز ہیں ۔ اسی سبب مسلمانان پنجاب کوئی بلند پایہ لیڈر پیدا کرنے کی صلاحت سے محروم ہو چکے ہیں۔ اس صورت حال کو دیکھ کر میں تو یہ سمجھنے پر مجبور ہو گیا ہوں کہ حکومت نے یہ طرز عمل شاید اختیار ہی اس لیے کیا تھا کہ پنجاب میں کوئی حقیقی لیڈر پیدا نہ ہو سکے۔ سر ہربرٹ ایمرسن نے تو مسلمانوں میں حقیقی لیڈر شپ کے فقدان پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اس کے برعکس میں اس بات پر افسوس کا اظہار کرتا ہوں کہ حکومت نے جان بوجھ کر ایسا طرز عمل اور پالیسی اختیار کر رکھی ہے جس نے اس صوبہ میں اصلی اور پائیدار لیڈر شپ کے پیدا ہونے کی تمام امیدوں کا قلع قمع کر دیا ہے۔ ۱۲۱ اپریل ۱۹۳۵ء میں سر فضل حسین وائسراے کی ایگزکٹو کونسل سے ریٹائر ہوکر واپس لاہور پہنچے اور اپنی صحت کی خرابی کے باوجود انہوں نے پنجاب میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء کے تحت یونینسٹ پارٹی کے ٹکٹ پر انتخابات لڑنے اور مسلم لیگ کا مقابلہ کرنے کے لیے یونینسٹ پارٹی کی نتظیم نو کا ارادہ کیا ۔ سر فضل حسین نے شہری اور دیہاتی کا امتیاز پیدا کرکے پنجاب میں شہری مسلم قیادت پنپ سکنے کے تما م راستے بند کردیے تھے۔ اب وہ خود تو بستر مرگ پر لیٹے تھے ، لیکن مستقبل میں پنجاب میں صحیح الخیال مسلم لیڈر شپ پیدا ہونے کے امکانات کا خاتمہ ہوچکاتھا۔ اقبال نے ان کے کردار پر بھی اسی قسم کا تبصرہ کرتے ہوئے ایک بیان میں فرمایا: یہ کس قدر افسوسناک امر ہے کہ پنجاب میں شہری دیہاتی کا جو جھگڑا چل رہاہے، اسے سر فضل حسین کی امداد حاصل ہے ۔ فضل حسین کو ابتدا میں قیادت کامنصب اس لیے حاصل نہیں ہواتھا کہ وہ دیہاتی تھے، بلکہ اس لیے کہ وہ صوبے میں مسلمانوں کے لیڈر تھے ۔ لیکن انہوں نے قیادت حاصل کرنے کے بعد جان بوجھ کر شہری دیہاتی جھگڑے کو تیز کرنا شروع کردیا، تاکہ اس طرح ان کا منصب بحال رہے ۔ اس جھگڑے سے فائدہ اٹھا کر انہوں نے بعض ایسے ناکارہ اور تیسرے درجے کے آدمیوں کو اپنا رفیق منتخب کیا جو حکومت کے قطعاً اہل نہ تھے اور جن میں اتنی صلاحیت بھی نہ تھی کہ وہ اس اقتداراور وقار کو برقرار رکھ سکیں جو وزارت کالازمہ ہوتاہے نتیجہ یہ ہوا کہ تیسرے درجے کے لوگ جو اپنے موجودہ عروج کے لیے فضل حسین کے ممنون ہیں، خود ادنیٰ صلاحیت کے مالک ہونے کے باعث فضل حسین کو گویا ایک فوق البشر سمجھنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ حکومت کے بعض کارندوں نے بھی اس پالیسی کی حمایت کی، کیونکہ اس طرح وہ ۱۹۱۹ء کی اصلاحات کا زور توڑنے میں کا میاب ہوسکتے تھے۔ ان تمام اسباب و محرّکات کا نتیجہ یہ نکلا کہ جہاں تک مسلمانو ںکاتعلق ہے ان میں صحیح لیڈر شپ مفقود ہوچکی ہے اورسیاسی میدان چند حد درجہ نالائق مقدر آزماؤں کے قبضے میں چلا گیاہے۔۱۲۲ اقبال کے نزدیک شمال مغربی ہند کے مسلمانو ںکے سیاسی مستقبل کی بہتری کے لیے پنجاب کے مسلمانوں نے نہایت اہم کردار ادا کرناتھا، بلکہ اس خطّے کے مسلمانوں کو اپنے تحفّظ کی خاطر جو لڑائیاں آئندہ لڑنا تھیں، وہ پنجاب کے میدانو ںہی میں لڑی جانا تھیں ۔ اس خیال کا اظہار اقبال نے اپنے ایک خط مورخہ ۲۷ستمبر ۱۹۳۶ء بنام بابائے اردو مولوی عبدالحق میں یوں کیا ہے: مسلمانو ںکو اپنے تحفّظ کے لیے جو لڑائیاں آئندہ لڑنا پڑیں گی، ان کا میدان پنجاب ہوگا۔ پنجابیوں کو اس میں بڑی بڑی دقتیں پیش آئیں گی، کیونکہ اسلامی زمانے میں یہاں کے مسلمانوں کی مناسب تربیت نہیں کی گئی، مگر اس کا کیا علاج کہ آئندہ رزم گاہ یہی سرزمین معلوم ہوتی ہے۔۱۲۳ سو پنجاب کے مسلمانوں میں اتحاد کی اشدضرورت تھی اور ان کی دینی تعلیم وتربیت کے لیے اقبال کی انتہائی کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طرح ہندوستان بھر کے علماء کو پنجاب میں آبادہونے کی ترغیب دی جائے، لیکن اس اتحاد کو سیاسی طور پر توڑنے کی ذمہ داری اقبال کی رائے میں سر فضل حسین اور ان کی یونینسٹ پارٹی پر عائدہوتی تھی، جسے مغلوب کرنے کے لیے پنجاب کے مسلمانو ں کو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع کرنے اورمسلم لیگ کو ایک عوامی سیاسی تنظیم کی صورت میں مضبوط بنانے کی ضرورت تھی۔ دوسری طرف مذہبی طورپر اس اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی ذمے داری اقبال کے نزدیک جماعت احمدیہ پر عائد ہوتی تھی۔ اقبال کو احساس تھا کہ فی الحال احمدی اپنی تعداد میں کمی کے سبب پنجاب میں سیاسی طور پر مسلمانوں، ہندوئوں اور سکھوں کے علاوہ ایک چوتھا مذہبی فرقہ بننے کے قابل نہ تھے، لیکن انہیں خدشہ تھاکہ اگر ان کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوگیا تو وہ انگریزی حکومت کے اشارے پر یا یونینسٹ پارٹی کے اثر ورسوخ کے ذریعے مسلمانوں کی تھوڑی سی اکثریت کو صوبائی لیجسلیچر میں شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں، بلکہ صوبے میں مسلمانوں کی اکثریت کو(جنہیں وہ من حیث الملت کا فر سمجھتے تھے)اقلیّت میں تبدیل کرسکتے ہیں ۔ چنانچہ جب پنڈت جواہر لعل نہرو احمدیوں کی حمایت میں اس بحث میں کودے تو اقبال نے اسی خدشے کے پیش نظر صاف صاف کہہ دیا کہ پنڈت جواہر لعل نہرو برداشت نہیں کرسکتے کہ شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کے دل میں حق خودارادیت کا جذبہ پیدا ہو۔ یہاں ایک اور بات بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ ۱۹۳۵ء میں کوئی گمان بھی نہ کرسکتا تھاکہ بارہ برس بعد انگریز برصغیر سے رخصت ہوجائے گا اور مسلمانوں کے وطن کی صورت میں اقبال کی خواہش کے مطابق محمد علی جناح کے ہاتھوں شمال مغربی ہند میں ایک مقتدر اور آزاد مسلم مملکت قائم ہوجائے گی۔ اس مرحلے پر صوبہ سرحد ، سندھ یا بلوچستان میں مسلم لیگ اکثریت کو بروئے کار لانے میں بظاہر کوئی خطرہ درپیش نہ تھا ،لیکن انگریز کی مضبوط ایڑی کے نیچے پنجاب کی صورت حال مختلف تھی،اس لیے اقبال کو یہی فکر دامنگیرتھا کہ مسلمانانِ پنجاب کے سیاسی اور مذہبی اتحاد کو نقصان پہنچانے والے عناصر کی نشاندہی کرکے ان کا قلع قمع کیا جائے۔ سو یونینسٹ پارٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے تو انہوں نے سیاسی طریق کار اپنانے کی تلقین کی ، مگر تحریک احمدیہ کے عقائد کو باطل ثابت کرنے یا احمدیوں کو مسلمانو ںسے علیٰحدہ مذہبی فرقہ قرار دینے کی خاطر اقبال کو مناظر انہ رویّہ اختیار کرنا پڑا ، جو ان کے مزاج سے مطابقت نہ رکھتاتھا اور شاید اسی سبب اقبال نے پنڈت جواہر لعل نہرو کو تحریر کیا کہ دینیات میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں، لیکن احمدیوں کے ساتھ ان کے اپنے میدان میں نبرو آزما ہونے کے لیے انہیں اس موضوع سے تھوڑی بہت مدد لینا پڑی ۔۱۲۴ شیخ اعجازاحمد ، احمدی حلقوں ، سر فضل حسین یا عظیم حسین کے خیال میں اقبال نے احمدیت کی مخالفت اپنی سیاسی اغراض کے حصول کی خاطر کی تھی، لیکن اوپر واضح کیاجا چکاہے کہ اقبال کی سب سے اہم سیاسی غرض مسلمانان برصغیر کے مفادات کا تحفّظ تھی ۔ نظریاتی اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک شرک سب سے بڑا گناہ ہے ، کیونکہ مشرک اللہ تعالیٰ کی توحید ، یکتائیت اور خودی کو تسلیم کرنے سے انکار کرتاہے اور اس کی پاداش میں دوزخ میں جھونکا جاتاہے، لیکن اقبال کے ہاں امت محمدیہ یا ملّتِ اسلامیہ کے اتحاد ، یگانگت، یک جہتی او رسا لمیت کو پارہ پارہ کرنے والا تو اس کی اجتماعی خودی کا منکر ہے لہٰذا ایسا گنہگار ہے جسے دوزخ بھی قبول کرنے کوتیار نہیں۔ کیا اقبال نے اپنی کسی ذاتی غرض کی تحصیل کی خاطر یا احساس محرومی کے سبب تحریک احمدیہ کی مخالفت کی تھی؟ شیخ اعجازاحمدیہ تحریر کرتے ہیں کہ اس زمانے میں چونکہ انگریزی حکومت نے اقبال کے بجائے سر ظفر اللہ خان کو مستقل طور پر وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کا رکن مقرر کر دیا تھا، اس لیے اقبال نے تحریک احمدیہ کی مخالفت میں بیان جاری کرنے شروع کر دیے ۔ یہ عذر کچھ اسی قسم کا ہے جو ہندو اخبار ’’ٹریبیون‘‘ نے اقبال کے خطبۂ الہ آباد ۱۹۳۰ء کے موقع پر پیش کیاتھا۔ یعنی اقبال نے برصغیر میں علیٰحدہ مسلم ریاست کا تصو ّر انتقاماً دیا، کیونکہ حکومت برطانیہ نے انہیں پہلی گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے مدعو نہ کیا تھا۔ اقبال کو اگر انگریز ی حکومت کی ملازمت ہی کرناتھی تو سر فضل حسین سے بنا کر رکھتے یا ان کی یونینسٹ پارٹی سے آخری دم تک وابستگی قائم رکھتے۔انگریز حکمران سر فضل حسین پر بہت اعتماد کرتے تھے، اس لیے ۱۹۳۲ ء میںجب وہ چارماہ کی رخصت پر گئے توسر فضل حسین کی سفارش پر ہی سر ظفر اللہ خان کو عارضی طور پر وائسرائے کی کونسل کا رکن مقرر کیا گیا۱۲۵۔ اسی طرح جب اکتوبر ۱۹۳۴ء میں مستقل طور پر سر ظفر اللہ خان کے اس منصب پر تقرر کا اعلان ہوا تواسے بھی سر فضل حسین کی کوششوں کانتیجہ سمجھا گیا ۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور مولانا ظفر علی خان کے ’’زمیندار، ویکلی میل‘‘اور’ مجاہد‘ میں تندوتیز بیانات یا احراریوں کی ایجی ٹیشن صرف سرظفر اللہ خان کے تقرریااحمدیوں کے خلاف ہی نہ تھی بلکہ سر فضل حسین اور یونینسٹ پارٹی کے خلاف بھی تھی۔ یہ علیٰحدہ بات ہے کہ اسی اثنا میں سر ہربرٹ ایمرسن کے خطبے کے جواب کی صورت میں اقبال کو بھی یونینسٹ احمدی گٹھ جوڑ پر کھل کرتبصرہ کرنے کا موقع ملا اور انہوں نے احمدیت کی تردید کے ساتھ ساتھ سر فضل حسین کے کردار پر بھی کڑی نکتہ چینی کی۔ سر فضل حسین پر الزام لگایا گیا کہ وہ انگریز حاکموں کے اشارے پر شہری دیہاتی تفریق کے ساتھ احمدیوں کو آگے بڑھا کر پنجاب میں مسلمانوں کے اتحاد پر ضرب کاری لگا رہے ہیں۔ سرفضل حسین وائسرائے کی کونسل میں سر ظفر اللہ خان کے تقرر پر مسلمانوں میں اضطراب سے بخوبی آگاہ تھے ۔ انہوں نے اپنے ایک خط مورخہ ۲۴؍ستمبر ۱۹۳۴ء بنام سر ظفر اللہ خان میں اس اضطراب کی وجوہات بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کی ہیں ، لیکن ساتھ ہی تحریر کیا: اب انہوں نے اپنی تمام تر توجہ میری طرف مبذول کرلی ہے اور کہتے ہیں کہ زیادہ عرصے تک اونچے منصب پر فائز رہنے کے سبب میں مسلم رائے عامہ سے بے پروا ہو گیا ہوں اور میں نے آمرانہ رویہ اختیار کرلیا ہے خیر مجھے توقع ہے کہ اب تک آپ کے تقرر کا فیصلہ ہو چکا ہو گا۔ گو میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ تقرر کے اعلان سے مخالفت ختم ہوجائے گی، بلکہ کچھ بڑھ ہی جائے گی۔ بہرحال میں دیکھوں گا کہ اس کے خاتمے کے لیے کیا قدم اٹھانے چاہئیں۔ ۱۲۶ اقبال کی اگر وائسراے کی کونسل کی رکنیت میں دلچسپی تھی تو سر فضل حسین کی ڈائری یا خطوط میں اس کا کہیں ذکر ملتایا عظیم حسین کی تصنیف میں اس کی طرف کوئی اشارہ ہوتا ۔ دراصل عظیم حسین کا تو گلہ ہی یہی ہے کہ ان کے والد سر فضل حسین ، اقبال کو انگریزی حکومت میں کسی بلند عہدے پر فائزکروانے کے لیے باربار کوشش کرتے تھے ،مگر اقبال ہربار انگریزی حکومت پر نکتہ چینی کرکے حکومتی حلقوں کا اعتماد کھو دیتے ۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ انگریز حکمران اتنے کمزور نہیں تھے کہ احراریوں کی ایجی ٹیشن پر یا سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور مولاناظفر علی خان کے اخبارات میں اقبال کا نام لینے پر انہیں وائسراے کی ایگزیکٹو کونسل کا رکن مقرر کردیتے ۔ یہ درست ہے کہ اس منصب پر سر ظفر اللہ خان کی متوقع تقرری کے خلاف ’زمیندار‘ اور دیگر اخباروں میں سخت احتجاج ہورہاتھا اور کہا جارہاتھا کہ ایک احمدی کے بجائے کسی جلیل القدر مسلمان کویہ منصب دیاجائے، اور اس ضمن میں اقبال کا نا م بھی لیاجارہاتھا، لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذکرنا کہ اقبال اس منصب کے لیے امیدوار تھے ، درست نہیں ۔ انگریزحکمرانوں کو اس قسم کے تقرر کرتے وقت سب سے پہلے ایسے لوگوں کی تلاش ہوتی تھی جو ان کے اطاعت گذار اور وفا دار ہوں ، نہ کہ ان کے نقاد ۔ اس لیے یہ بات پنجاب میں ہر کوئی جانتا تھا کہ وائسراے کی کونسل کی رکنیت کے لیے اسی شخص کا تقر ّر ہوگا جو انگریز حاکموں کی توقعات کے مطابق سر فضل حسین کا صحیح جانشین ہو، جسے سر فضل حسین یا انہی کی طرح کی کسی شخصیت کی حمایت حاصل ہو اور اگر یہ محسوس کیاجاتا کہ مسلم ایجی ٹیشن کے سبب سر ظفر اللہ خان کا تقر ّر مناسب نہ رہے گا تو اس منصب کے لیے سر فضل حسین کو کسی اور جانشین کی سفارش کرنے کے لیے کہا جاتا ، لیکن اقبال جیسی شخصیت کے تقرر کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا،جس نے کئی بار انگریزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اس ضمن میں شیخ اعجاز احمد ، میاں محمد شفیع (م۔ش)کے بیان کوسند کے طور پر پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جن ایّام میں سر فضل حسین کے جانشین کے تقر ّر کا معاملہ زیر غور تھا، وائسرائے لارڈولنگڈن نے ایک ملاقات میں اقبال کو یہ کہہ کر کہ اب ہم اکثر ملتے رہیں گے ، سرفضل حسین کی جگہ ان کے تقرر کی طرف اشارہ بھی کردیا تھا۔ راقم کو اس روایت کی صحت پرکئی اعتراض ہیں ۔ اوّل یہ کہ ۱۹۳۴ء یا ۱۹۳۵ء میں میاں محمد شفیع (م۔ش ) سے اقبال کے کسی قسم کے روابط قائم نہ ہوئے تھے، بلکہ اس زمانے میں وہ میاں محمد شفیع (م ۔ ش) کو جانتے تک بھی نہ تھے۔ دوم یہ کہ ان دوسالوں میں ایسی کوئی شہادت راقم کی نظر سے نہیں گزری جس سے ثابت ہوسکے کہ اقبال کی لارڈ ولنگڈن سے ملاقات ہوئی توکہاں ہوئی تھی۔ سو م یہ کہ جس روایت کا شنید پر انحصار ہو اور جس کی تائید کسی واقف حال ہمعصر شخصیت کے بیان یا کسی معتبر تحریری ذریعے سے نہ ہوتی ہو، وہ تحقیقی نقطۂ نظر سے قابل اعتماد نہیں سمجھی جاسکتی ۔ مئی ۱۹۳۵ء میں جب احمدیت کے خلاف اقبال نے اپناپہلا بیان جاری کیا تو گلے کاعارضہ لاحق ہوئے ڈیڑھ برس کی مدت گزر چکی تھی ۔ بھوپال سے برقی علاج کا پہلا کورس مکمل کرکے واپس لاہور آئے تھے۔ آواز بہت نحیف تھی ۔ صحت مسلسل گررہی تھی اور مستقل طور پرصاحب فراش ہوچکے تھے بلکہ انہی ایاّم میں سردار بیگم کی تشویش ناک بیماری ،پھر ناگہانی موت اورنابالغ بچوں کی نگہداشت وغیرہ ایسے مصائب و آلام نے انہیں بالکل نڈھال کردیا تھا۔ آواز کی خرابی کے سبب تقریبا ڈیڑھ برس سے وکالت بھی چھوٹ چکی تھی ۔ یہ درست ہے کہ اقبال کو مالی فراغت یا آسودگی کبھی نصیب نہ ہوئی ، لیکن ۱۹۳۴ء اور ۱۹۳۵ء میں تو بوجہ علالت وہ اس قابل ہی نہ رہے تھے کہ وائسراے کی کونسل کی رکنیت قبول کرتے۔ اسی زمانے میں سرفضل حسین نے اپنے ایک خط مورخہ ۲مئی ۱۹۳۴ء بنام میاں امیر الدین میں تحریر کیا: اقبال کا کیا حال ہے ، کچھ عرصہ ہوا میں نے سنا تھا کہ وہ علیل ہیں اور مالی مشکلات سے دوچار ۔ مجھے بڑی مسرت ہوگی اگر آپ مجھے بصیغۂ راز اطلاع دیں کہ صحیح پوزیشن کیا ہے ۔ میں کالج کے ایّام سے ان کا بڑا مداح رہاہوںاور ایک بارپھر ان کی امداد کی کوشش کرنا چاہتاہوں ۔ اگر مجھے معلوم ہوسکے کہ صحت اور مالی اعتبار سے وہ کس حال میں ہیں اور اگر واقعی پریکٹس کررہے ہیں تو فی الحال اس سے آمدنی کی کیاصورت ہے۔ ۱۲۷ میاں امیر الدین نے انہیں جواب دیا کہ اقبال علالت کے سبب ایک مدت سے وکالت ترک کرچکے ہیں۔ ان کی صحت اور مالی حالت دونوں خراب ہیں اور ان کی آواز بڑی سرعت کے ساتھ بیٹھی چلی جارہی ہے ۱۲۸۔اس حالت میں یہ کہنا کہ اقبال وائسراے کی ایگزیکٹو کونسل کی رکنیت کے امیدوار تھے یا اس منصب پر تقرری کے خواب دیکھ رہے تھے اور جب ان کی بجائے یہ منصب وزیر ہند نے سر ظفر اللہ خان کو سونپ دیا تو وہ انتقاماً احمدیت کی مخالفت میں بیانات جاری کرنے لگے ،اصل حقائق سے بے خبری ہے یا انہیں تعصب کی عینک سے دیکھنے والوں کی آنکھ سے دیکھنا ہے۔ ۱۲۹ مآخذ باب ۲۰ ۱۔ ’’اقبال کا سیاسی کا رنامہ ‘‘، صفحہ ۴۴۹ ۲۔ ’’محمد علی جنا ح‘‘از بولائتھو(انگریزی)، صفحات ۱۵۹، ۱۶۰۔ ۳۔ ۱۹۷۱ء ایڈیشن ، صفحہ ۳۱۴۔ ۴۔ ’’اقبال کی تقریریں اوربیانات ‘‘مرتبہ اے۔ آر۔ طارق (انگریزی)، صفحات ۵۰، ۵۱۔ آل انڈیامسلم کانفرنس میدان میں نہ رہی تھی اور مسلم لیگ ایک مردہ سیاسی جماعت ہوکر رہ گئی تھی ۔ ۵۔ ’’روزگارِ فقیر ‘‘از فقیر سید وحید الدین ، جلد دوم ، صفحہ ۔۶۰۷۔ ۶۔ ’’مکتوبات ِ اقبال‘‘ ، صفحہ ۲۱۰۔ ۷۔ ایضاً ، صفحات ۲۱۵ تا ۲۱۷۔ ۸۔ ایضاً ، صفحہ ۱۷۳۔ ۹۔ ایضاً ، صفحہ ۱۷۷۔ جس جراّح کاذکر کیا گیاہے وہ لاہور میں فلیمنگ روڈ پر محمد عاشق جراح تھے ۔ اقبال ان کے بڑے معتقد تھے اور گھر میں کسی کو پھوڑا پھنسی نکلتا تو انہی کا علاج ہوتا یاوہی چیرپھاڑ کرتے تھے۔ اقبال نے انہیں ایک سند بھی دی تھی ، جس میں اُن کے متعلق تحریر کیاتھا کہ وہ فن جراحی میں فوق العادۃ دسترس کے مالک ہیں۔ دیکھیے ’’انوار اقبال‘‘، مرتبہ بشیر احمد ڈار ، صفحہ۱۳۔ ۱۰۔ ’’مکتوبات اقبال ‘‘، صفحات ۱۹۹، ۲۰۰۔ ۱۱۔ ایضاً ، صفحات ۱۵۵ تا ۱۵۶۔ ۱۲۔ ایضاً ، صفحات ۱۲۶ تا ۱۲۹۔ ۱۳۔ ایضاً ، صفحات ۱۳۰ تا ۱۴۲۔ ۱۴۔ ایضاً ، صفحات ۱۶۵ تا ۱۶۹۔ ۱۵۔ ایضاً ، صفحات ۱۵۲،۱۵۳۔ ۱۶۔ ’’گفتار اقبال ‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۱۸۲،۱۸۳۔ ۱۷۔ ’’اوراق گم گشتہ‘‘ مرتبّہ رحیم بخش شاہین ، صفحات ۴۴، ۴۵ بحوالہ ہفت روزہ ’’منادی ‘‘ مورخہّ یکم جون ۱۹۳۴ئ۔ ۱۸۔ ’’اقبال کی تقریریں تحریریں اور بیانات ‘‘مرتبہ لطیف احمد شیروانی (انگریزی) صفحات ۲۴۳،۲۴۴۔ ۱۹۔ ’’مکتوبات اقبال ‘‘صفحات۱۶۱۔ ۲۰۔ ایضاً ، صفحات ۱۶۲،۱۶۴۔ ۲۱۔ ’’گفتار اقبال ‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۱۸۵تا ۱۸۸۔ ۲۲۔ ’’اقبال اور انجمن حمایت اسلام ‘‘مرتبہ محمد حنیف شاہد ، صفحات ۱۲۶ تا ۱۲۹۔ ۲۳۔ ’’مکتوباتِ اقبال ‘‘ مرتبہ سید نذیر نیازی ، صفحہ ۲۳۔نیز دیکھیے ، صفحات ۱۹۲ ، ۱۹۳،۲۱۷، ۲۱۸،۲۲۰۔ ۲۴۔ ایضاً ، صفحات ۱۹۷، ۱۹۸۔ ۲۵۔ ’’انوار اقبال ‘‘مرتبہ بشیر احمد ڈار ، صفحہ ۲۴۵ خط بنام خواجہ عبدالرحیم ، مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۳۲ء میں لکھتے ہیں کہ ان کے خیال میں سود ہر صورت میں حرام ہے ، مگر یہ آئیڈیل صورت سوسائٹی کی ہے۔ شاہ عبد العزیز کا فتویٰ ہے کہ بینک سے سو دلینا جائز ہے۔ اسی فتویٰ کی بنا پر اقبال بینک کا سود منافع سمجھ کر لینے میں کوئی مضائقہ نہ سمجھتے تھے۔ مولانا شبلی کی رائے بھی یہی تھی کہ بینک کا سود منافع ہے اور اسے لے لینے میں کوئی حرج نہیں۔ ۲۶۔ ’’صحیفہ‘‘ اقبال نمبر حصّہ اوّل مرتبہ ڈاکٹر وحید قریشی ، دیکھے مضمون ، ’’علا ّمہ اقبال کا گوشوارۂ آمدنی‘‘(انکم ٹیکس ریکارڈ کی روشنی میں )از صفدر محمود ، صفحات ۱۷ تا ۲۱۔ ۲۷۔ ایضاً ، صفحہ ۲۲۔ ۲۸۔ ’’مکتوبات اقبال ‘‘مرتبہ سید نذیر نیازی، صفحہ ۲۰۲۔ ۲۹۔ ایضاً ، صفحہ ۲۰۳۔ اقبال کی مسلمانوں کے ساتھ من حیث القوم ہمدردی ، دیانت او رامانت کے سبب ان کے سب عقیدت مند ان کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کردیتے تھے ۔ مثلاً ۱۹۳۴ء کے پنجاب کونسل کے انتخابات میں میاں عبدالعزیز اور سیّدامجد علی دونوں ایک ہی حلقے سے کھڑے ہوگئے۔ دونوں نے سوچا کہ آپس میں محاذآرائی کے بجائے اقبال او رملک فیروز خان نون بطور ثالث فیصلہ کریں کہ ان دو میں سے کونسا کھڑا رہے اور کون اپنا نام واپس لے لے۔ ثالثوں نے فیصلہ میاں عبدالعزیز کے حق میں دیا اور سیدّامجد علی نے اسے بخوشی قبول کرلیا۔ ’’گفتار اقبال ‘‘مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحہ۱۸۹۔ ۳۰۔ ’’مکتوبات اقبال‘‘ مرتبہ سید نذیر نیازی، صفحہ۲۳۳۔ ۳۱۔ ایضاً، صفحہ ۲۳۴۔ ۳۲۔ ایضاً، صفحہ ۱۸۷۔ ۳۳۔ ایضاً، صفحہ ۲۵۰۔ ۳۴۔ ’’اقبال اور بھوپال ‘‘ از صہبا لکھنوی ، صفحہ۵۴۔ ۳۵۔ ایضاً، صفحہ ۵۵۔ ۳۶۔ ’’روزگارِ فقیر ‘‘از محمد فقیر سیّدوحید الدین ،جلد اوّل ، صفحات ۱۵۴، ۱۵۶۔ ۳۷۔ ’’باقیاتِ اقبال ‘‘مرتبہ محمد عبد اللہ قریشی ، صفحہ ۴۹۵۔ ۳۸۔ ’’اقبال نامے‘‘ مرتبہ اخلاق اثر، بھوپال ، صفحہ ۵۵۔ ۳۹۔ ایضاً، صفحہ ۴۸۔ ۴۰۔ ایضاً ، صفحات ۵۳، ۵۴۔ اس سلسلے میں نواب بھوپال کا جو خط موصول ہوا تھا، اسے اقبال نے فریم میں لگوا کر رکھاتھا، لیکن ان کی وفات کے بعد فریم کا شیشہ ٹوٹنے کے سبب وہ خط ضائع ہوگیا ۔ ایضاً صفحہ۵۶۔ ۴۱۔ ’’اقبال نامہ ‘‘مرتبہ شیخ عطاء اللہ، جلد اوّل ، صفحہ ۳۷۴۔ ۴۲۔ ایضاً ، صفحہ ۳۵۴۔ ۴۳۔ ’’مکتوبات اقبال ‘‘ مرتبہ سید نذیر نیازی، صفحہ ۲۷۰۔ یہ کبھی بھی شائع نہ ہوا۔ ۴۴۔ بیان کے انگریزی متن کے لیے دیکھے ’’اقبال کی تقریریں اور بیانات ‘‘ مرتبہ اے۔ آر۔ طارق (انگریزی)، صفحات ۹۱ تا۹۸۔ ۴۵۔ ایضاً ، صفحات ۹۹تا ۱۰۴۔ ۴۶۔ ایضاً ، صفحات ۱۰۵ تا ۱۰۸۔ ۴۷۔ ’’اقبال کی تقریریں ، تحریریں اور بیانات ‘‘مرتبہ لطیف احمد شیروانی (انگریزی)، صفحات ۱۷۴ تا ۱۷۶۔ ۴۸۔ ’’انوارِ اقبال ‘‘مرتبہ بشیر احمد ڈار ، صفحات ۴۵، ۴۶ ۴۹۔ ’’اسلام اور احمدیت ‘‘ کے انگریزی متن کے لیے دیکھے’’اقبال کی تقریریں تحریریں اور بیانات ‘‘مرتبہ لطیف احمد شیروانی (انگریزی)، صفحات ۱۷۶ تا ۱۹۹۔ اقتباس صفحہ ۱۷۷ سے لیا گیاہے ۔ ۵۰۔ ایضاً ، صفحہ ۲۰۰ ۵۱۔ ’’گفتار اقبال ‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۱۹۱تا ۲۰۲۔ ۵۲۔ ’’روزگارِ فقیر ‘‘ از فقیر سید وحید الدین ،جلد دوم ، صفحات ۵۶ تا ۵۹۔ اس وصیّت میں ملکیت کی جن چیزوں کاذکر کیا گیاہے، وہ تمام کی تمام علا ّمہ اقبال میوزیم میں موجود ہیں۔ سوائے ان کتب کے جو اسلامیہ کالج لاہور کی لائبریری کودی گئیں۔ اقبال کی ایک یادداشت کی کتاب کے پہلے صفحے پر انہوں نے تحریر کررکھا ہے کہ ’’جاوید اقبال کو لازم ہے کہ بالغ ہونے پر اس تمام تحریر کو جو اس کتاب میں درج ہے ، بغور پڑھ لے۔ محمد اقبال ۱۰؍جون ۱۹۳۵ء ۔ اسی کتاب میں ۱۷؍اکتوبر ۱۹۳۵ء کے اندراج میں اپنی وصیّت کاذکر کرتے ہیں اور پھر فرماتے ہیں کہ ’’باقی جاوید کو میری عام وصیت یہی ہے کہ وہ دنیا میں شرافت اور خاموشی کے ساتھ اپنی عمر بسر کرے…جولوگ میرے احباب ہیں ان کا احترام ہمیشہ ملحوظ رکھے اور ان سے اپنے معاملات میں مشورہ کرلیا کرے۔ ۵۳۔ ’’خطوط اقبال‘‘ مرتبہ رفیع الدین ہاشمی ، صفحات ۲۳۸ تا ۲۴۰ ۔ مولانا حالی کے صد سالہ جشن ولادت کی پوری روداد کے لیے دیکھیے ’’اقبال اوربھوپال ‘‘از صہبا لکھنوی ، صفحات ۱۰۹ تا ۱۴۳ ۵۴۔ ’’اقبال اور انجمن حمایت اسلام ‘‘ از محمد حنیف شاہد، صفحات ۱۳۰ تا ۱۳۱۔ ۵۵۔ ’’مکتوبات اقبال ‘‘ مرتبہ سید نذیر نیازی ، صفحہ ۳۱۵۔ ۵۶۔ ’’اقبال اور انجمن حمایت اسلام ‘‘ از محمد حنیف شاہد ، صفحات ۱۳۱تا ۱۳۶۔ ۵۷۔ ’’اقبال نامہ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ ،حصّہ اوّل ، خط بنام پروفیسر صلاح الدین محمد الیاس برنی مورخہ ۱۳؍جون ۱۹۳۶ئ، صفحہ ۴۱۴۔ ۵۸۔ ’’اقبال نامے ‘‘ مرتبہ اخلاق اثر ،بھوپال، صفحہ۶۵۔ ۵۹۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطا ء اللہ، حصّہ اوّل ، صفحات ۳۱۳، ۳۱۴۔ ۶۰۔ ایضاً ، صفحہ ۳۱۷۔ ۶۱۔ ’’اقبال اور انجمن حمایت اسلام ‘‘ از محمد حنیف شاہد، صفحات ۸۹، ۹۰۔ ۶۲۔ ’’ذکر اقبال‘‘، صفحہ ۱۹۸۔ ۶۳۔ عبدالسلام خورشید تحریر کرتے ہیں کہ ۸؍ جولائی ۱۹۳۶ء کی رات سکھوں نے مسجد گرانا شروع کی تھی۔’’سرگذشت اقبال‘‘صفحہ ۵۰۴نیز دیکھیے ’’مفکر پاکستان‘‘از محمد حنیف شاہد ، صفحہ ۳۵۷۔ ۶۴۔ ’’مکتوبات اقبال‘‘ مرتبہ سید نذیر نیازی ، صفحہ ۲۸۸۔ ۶۵۔ ’’اقبال کا سیاسی کا رنامہ‘‘، صفحہ ۴۵۳۔ ۶۶۔ ایضاً ، صفحہ ۴۵۷۔ ۶۷۔ ’’میاں فضل حسین کی ڈائری اور نوٹس ‘‘مرتبہ ڈاکٹر وحید احمد (انگریزی)، صفحہ ۲۰۱۔ ۶۸۔ ’’گفتار اقبال ‘‘مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۲۰۲ تا ۲۰۶۔ ۶۹۔ ’’فضل حسین ایک سیاسی بائیوگرافی ‘‘از عظیم حسین (انگریزی)، صفحہ۳۰۹۔ ۷۰۔ ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام ‘‘ناشر محمد اشرف (انگریزی )، صفحات ۷،۸۔ ۷۱۔ ’’اقبال کے آخری دوسال‘‘ صفحہ ۳۲۴۔ ۷۲۔ ایضاً ، صفحہ۳۵۲۔ ۷۳۔ ’’اقبال اور انجمن حمایت اسلام ‘‘ از محمد حنیف شاہد ، صفحات ۱۳۶ تا ۱۴۱۔ ۷۴۔ ’صحیفہ‘ اقبال نمبر ، حصّہ اوّل مرتبہ ڈاکٹر وحید قریشی ، صفحات ۲۳۶، ۲۳۷’’روزگار فقیر‘‘از فقیر سید وحید الدین ،جلد اوّل ، صفحات ۲۷ تا ۳۰۔ ۷۵۔ ’’صحیفہ‘‘اقبال نمبر، حصّہ اوّل مرتبہ ڈاکٹر وحید قریشی ، صفحہ ۲۲۸۔ ۷۶۔ مضمون ’’قادیانیت اور علامہ اقبال‘‘۔’’نوائے وقت ‘‘مورخہ ۱۳اپریل ۱۹۵۴ء ۔ ۷۷۔ دیکھیے کتابچہ مشتملبر چودہ صفحات بعنوان ’’احمدیت علا ّمہ اقبا ل کی نظر میں‘‘ مرتبہ عبد المالک خان ناظر اصلاح و ارشاد صدر انجمن احمدیہ پاکستان ربوہ۔ نیز دیکھے اس کتابچہ پر تبصرہ ہفت روزہ ’’چٹان ‘‘ مورّخہ ۲۷مئی ۱۹۷۴ء ، صفحات ۷ا ، ۲۴، ۲۵۔ ۷۸۔ ’’اقبال نامے ‘‘مرتبہ اخلاق اثر بھوپال ، صفحات ۷۶، ۷۷۔ یہ خط ’’اقبال نامہ ’’مرتبہ شیخ عطاء اللہ، حصّہ اوّل ، صفحات ۳۸۶،۳۸۷ پر بھی موجود ہے، لیکن علامہ اقبال کے خط کی فوٹو کاپی کے مطابق عبارت یوں ہے :’’تم کو معلوم ہے کہ قادیانیوں کے عقیدے کے مطابق تمام مسلمان کافر ہیں۔ اس واسطے یہ امر شرعاً مشتبہ ہے کہ ایسا عقیدہ رکھنے والا آدمی مسلمان بچوں کا گارڈین ہوسکتاہے یانہیں۔ دیکھے ڈاکٹر وحید عشرت کامقالہ ’’قصہ ایک خط کا‘‘ ’’اقبالیات‘‘ جلد ۲۸ شمارہ ۲؍جولائی ۱۹۸۷ئ۔ ۷۹۔ ’’باقیات اقبال ‘‘ مرتبہ محمد عبداللہ قریشی ، صفحہ ۱۲۹۔ ۸۰۔ ’’معاصرین اقبال کی نظر میں‘‘، صفحہ ۲۳۲۔ ۸۱۔ ایضاً، صفحات ۲۳۲تا ۲۴۱۔ ۸۲۔ ’’باقیاتِ اقبال ‘‘ مرتبہ محمد عبداللہ قریشی، صفحہ ۱۶۳ تا ۱۶۵۔ ۸۳۔ ’’معاصرین اقبال کی نظر میں‘‘ مرتبہ محمد عبداللہ قریشی ، صفحات ۲۳۱، ۲۳۲، ۲۴۱، ۲۴۲۔ ۸۴۔ ’’خطوط اقبال ‘‘ مرتبّہ رفیع الدین ہاشمی ، صفحات ۱۲۴ تا ۱۲۶۔ ۸۵۔ ’’زندہ رود‘‘ از جاوید اقبال، جلد دوم ، صفحات ۱۸۳، ۱۸۴۔ ۸۶۔ ’’روایات اقبا ل‘‘مرتبہ محمد عبد اللہ چغتائی ، صفحہ۴۵۔ ۸۷۔ خط کے اقتباس کے لیے دیکھیے مضمون ’’سرسید احمد خان ،شمس العلماء مولوی میر حسن ، سیالکوٹی اور مرزا غلا م احمد قادیانی ‘‘ از کلیم اختر ہفت روزہ ’’چٹان ‘‘ مورخہ ۱۷نومبر ۱۹۷۵ء ،صفحہ ۲۷۔ ۸۸۔ ایضاً ، صفحہ ۳۱۔ ۸۹۔ ’’اقبال کی تقریریں، تحریریں اور بیانات ‘‘مرتبہ لطیف احمد شیروانی ، (انگریزی)صفحہ ۷۳۔ ۹۰۔ ماہنامہ’’الفرقان‘‘ربوہ بابت اگست ۱۹۷۵ئ، صفحات ۲۹، ۳۰۔ ۹۱۔ مقالہ کا اصل انگریزی مسوّدہ علا ّمہ اقبال میوزیم میں محفوظ ہے جس میں یہ فقرہ درج ہے۔ ۹۲۔ ’’روایات اقبال ‘‘ مرتبہ محمد عبد اللہ چغتائی ، صفحہ ۱۲۶۔ ۹۳۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ قادیان موّرخہ ۱۵مارچ ۱۹۲۷ء نیزدیکھے ’’اقبال اور انجمن حمایت اسلام ’’از محمد حنیف شاہد ، صفحات ۱۰۹، ۱۱۰۔ اس تفصیل میںاقبال کے تعریفی کلمات کا ذکر نہیںہے۔ ۹۴۔ ’’تاریخ احمدیت ‘‘ جلد ۶ صفحہ ۴۹۷۔ ۹۵۔ ’’سفر نامہ اقبال ‘‘ از محمد حمزہ فاروقی ، صفحات ۳۳ تا ۴۹۔نیز دیکھیے روزنامہ ’’انقلاب ‘‘ مورخہ ۲۹؍ اکتوبر ۱۹۳۱ء ۔ ۹۶۔ ’’اقبال نامہ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ، حصّہ دوم صفحہ ۲۳۲۔ ۹۷۔ صفحہ ۳۷کتاب مذکورہ ۔ ۹۸۔ ایضاً ، صفحات ۷۵،۷۶۔ ۹۹۔ رسالہ’’تبصرہ ‘‘بابت اکتوبر ۱۹۶۵ئ۔’’ تاریخ احمدیت‘‘ ، جلد ششم ، صفحہ ۶۰۸۔(حاشیہ)۔ ۱۰۰۔ صفحہ ۳۸کتاب مذکور۔ ۱۰۱۔ ایضاً صفحہ ۱۶۳۔ ۱۰۲۔ روزنامہ ’’زمیندار ‘‘مورخہ ۱۲؍اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۳۸ کالم اوّل۔ ۱۰۳۔ ’’ذکر اقبال ‘‘ ، صفحہ ۲۱۰۔ ۱۰۴۔ روزنامہ ’’زمیندار ‘‘ مورخہ ۲۸؍ اگست ۱۹۳۴ئ۔ ۱۰۵۔ ’’اقبال کے خیالات و افکار ‘‘ مرتبہ سید عبد الواحد معینی (انگریزی)، صفحہ ۲۹۷۔ ۱۰۶۔ ’’زندہ رود ‘‘ از جاوید اقبال جلد دوم ، صفحہ ۲۲۴۔ ۱۰۷۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ، حصّہ اوّل ، صفحہ ۱۴۴۔ ۱۰۸۔ ’’اقبال کے حضور ‘‘ از سیّد نیازی ،جلد اوّل ، صفحات ۱،۳۔ ۱۰۹۔ دیکھییٔ کتابچہ ’’احمدیت علا ّمہ اقبال کی نظر میں ‘‘مرتبہ عبدالمالک خان ، صفحہ ۱۴، میاں فضل حسین کے خطوط ‘‘ مرتبہ ڈاکٹر وحید احمد (انگریزی)، صفحات ۳۱۰، ۳۱۱،’’فضل حسین ایک سیاسی بائیوگرافی‘‘ از عظیم حسین ، صفحہ ۳۱۴۔ ۱۱۰۔ ’’صاف گو مسٹر جنا ح‘‘ (انگریزی)، صفحہ ۵۳۔ ۱۱۱۔ ’’اقبال کی تقریریں، تحریریں اور بیانات ‘‘مرتبہ لطیف احمد شروانی (انگریزی)، صفحات ۲۳۴،۲۳۵۔ ۱۱۲۔ ’’اقبال کی تقریریں اور بیانات ‘‘مرتبّہ اے آر طارق (انگریزی)، صفحہ ۱۰۱۔ ۱۱۳۔ ایضاً ، صفحہ ۲۴۵۔ ۱۱۴۔ ’’خطوط اقبال ‘‘ مرتبہ رفیع الدین ہاشمی صفحہ ۱۲۴، ’’اقبال اور قادیانی ‘‘ از نعیم آسی ،’’ اقبال اور قادیانیت ‘‘از شورش کاشمیری ، اقبال نے انہیں اپنے مقالے مسلم کمیونٹی ‘‘ کے انگریزی مسودے کے حاشیے میں ذہناً ’’میگین ‘‘ قرار دیا ہے۔ ۱۱۵۔ ’’تحدیث نعمت ‘‘ از سر ظفراللہ خان ، صفحہ ۱۰۔ ۱۱۶۔ ایضاً ، صفحہ ۲۳۷۔ ۱۱۷۔ ایضاً ، صفحہ ۲۳۷۔ ۱۱۸۔ ’’میاں فضل حسین کے خطوط‘‘ مرتبہ ڈاکٹر وحید احمد (انگریزی)، صفحہ ۱۱۰۔ ۱۱۹۔ ’’صاف گو مسٹر جناح ‘ ‘ (انگریزی)صفحا ت ۵۳، ۵۴۔ ۱۲۰۔ ’’اقبال کی تقریریں اوربیانات ‘‘مرتبہ اے۔ آر۔ طارق (انگریزی)صفحات۹۵، ۹۶۔ ۱۲۱۔ ایضاً ، صفحہ ۹۷۔ ۱۲۲۔ ’’فضل حسین ایک سیاسی بائیوگرافی‘‘از عظیم حسین (انگریزی)، ۳۱۵، نیز دیکھیے ، اقبال کے آخری دو سال‘‘ از عاشق حسین بٹالوی ، صفحات ۲۷۰، ۲۷۱۔ ۱۲۳۔ ’’اقبال نامہ‘‘ مرتّبہ شیخ عطا اللہ ، حصّہ دوم ، صفحہ ۷۹۔ ۱۲۴۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کے نام خط مو رخہ ۲۱؍جولائی ۱۹۳۶ء ، دیکھیے ’’اقبال کی تقریریں ، تحریریں اور بیانات ‘‘مرتبہ لطیف احمد شیروانی ،(انگریزی)، صفحہ ۲۰۰۔ ۱۲۵۔ ’’فضل حسین ایک سیاسی بیاگرافی ‘‘از عظیم حسین (انگریزی)، صفحہ ۳۱۳،۳۱۴، ’’میاں فضل حسین کی ڈائری اور نوٹس ‘‘مرتبہ ڈاکٹر وحیدا حمد (انگریزی)، اندراجات ڈائری مورّخہ ۱۷مئی و ۲۲مئی ۱۹۳۲ء ، صفحات ۱۳۸ تا ۱۴۰۔ ۱۲۶۔ ’’فضل حسین ایک سیاسی بائیوگرافی‘‘از عظیم حسین (انگریزی)، صفحہ ۳۱۴، ’’میاں فضل حسین کی ڈائری اور نوٹس‘‘مرتبہ ڈاکٹر وحید احمد (انگریزی)، صفحہ ۱۵۴۔ ۱۲۷۔ ’’فضل حسین ایک سیاسی بائیوگرافی ‘‘از عظیم حسین (انگریزی)،صفحہ ۳۲۰۔ ۱۲۸۔ ایضاً ، صفحہ ۳۲۰۔ ۱۲۹۔ احمدیوں کو چونکہ ہند واور سکھ ، مسلمان سمجھتے تھے اس لیے قیام پاکستان پر احمدیوں نے بھی دیگر مسلمانوں کی طرح مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے پاکستان میں پناہ لی اور قادیان کے بجائے سرگودھا کے نزدیک ربوہ کو اپنا مرکز بنایا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران ۱۹۷۴ء میں آئین کی ترمیم کے ذریعے انہیں غیر مسلم یا ایک علیٰحدہ مذہبی فرقہ قرار دے دیا گیا اور ۱۹۸۴ء میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے تعزیرات پاکستان میں ایک ترمیم کے ذریعے ان کے لیے اسلامی اصطلاحات کا استعمال جرم قراردے دیا۔ باب :۲۱ آخری ایّا م اقبال کی حالت روز بروز بگڑتی چلی جارہی تھی۔ ۱۹۳۷ء میں حکیم نابینا کا علا ج جاری رہا۔ سید نذیر نیازی کے دہلی سے لاہور چلے آنے کے بعد کچھ مدت تک تو اقبال کے برادر نسبتی خواجہ عبدالغنی جو دہلی میں مقیم تھے ، حکیم نابینا سے دوائیں لے کر بھیجتے رہے ۔ بعد ازاں اقبال کے بھتیجے شیخ اعجازاحمد بھی دہلی پہنچ گئے اور دوائیں بھجوانے کا اہتمام کرنے لگے۔ اقبال براہ راست خط و کتابت کے ذریعے حکیم نابینا کو اپنے عوارض کی تفصیل بتا تے رہتے تھے ۔ اسی اثناء میں انہوں نے دو ایک مرتبہ دہلی کا سفر بھی کیا اور حکیم نابینا سے مل کر علاج کے متعلق اپنی تسلی کرلی، مگر دہلی سے ادویات کا سلسلہ تب ٹوٹا جب حکیم نابینا ، نظام کی ملازمت اختیار کرکے حیدرآباد تشریف لے گئے تھے۔ پھر بھی کچھ عرصہ تک ڈاکٹر مظفر الدین قریشی پروفیسر عثمانیہ یونیورسٹی کے توسّط سے دوائیں لاہور پہنچتی رہیں،لیکن ۱۹۳۸ء کے آغاز سے یہ سلسلہ قطعی طور پر منقطع ہوگیااور اس کی اصل وجہ حکیم نابینا کی اپنی ضعیف العمری تھی ۔ سو علاج مقامی ڈاکٹروں اور طبیبوں کے ہاتھ میں چلاگیا۔ ۱ اقبال اپنے علاج معالجے کے بارے میں بڑا تردّد کرتے تھے، کیونکہ وہ زندگی کو اللہ تعالیٰ کی نعمت سمجھتے ہوئے ہر لحظہ اس کے طلب گار تھے۔ان کے تردد کا حقیقی متحرک زندگی کے لیے حرص یا موت کاخوف نہ تھا۔ دراصل وہ اس غرض سے صحت یاب اور تندوست ہونے کی خواہش رکھتے تھے تاکہ ان ارادوں کی تکمیل کر سکیں جو اسلامی فقہ کی تشکیل جدید یا تعلیمات قرآنی کے متعلق ان کے دل میں پیدا ہوچکے تھے۔ مزید براں انہیں یہ احساس بھی تھا کہ یہ کام ان کے سوا اور کوئی انجام نہیں دے سکتا، جیسے کہ انہوں نے سرراس مسعود کو تحریر کیا تھاکہ میں شیخی نہیں بگھار رہا ہوں۔ جب یہ کہتا ہوں کہ دنیائے اسلام میں مَیں ہی وہ واحد شخص ہوں جو اس کو کر سکتاہوں۔۲ سیّد نذیر نیازی تحریرکرتے ہیں: یہ حالات تھے جن میں اگر کوئی انہیں دیکھتا جیسا کہ دیکھنے والے دیکھتے ہیں ، تو اسے معلوم ہوجاتاہے کہ حضرت علامہ ایک زند ہ انسان ہیں او راس لیے زندگی سے انہیں جو ذوق و شوق ہے، اس میں کوئی اضمحلال پیدا نہیں ہوا۔ نہ طرح طرح کے عوارض اور مرض کی روز افزوں شدت سے ان پر یا س و ناامیدی کی کوئی کیفیت طاری ہوئی نہ اس سے گھبرا کر انہوں نے کسی تلخی اورافسردگی کا اظہار کیا۔ وہ ہر لحظہ ’’زندہ ‘‘تھے او راس سے کہیں بڑھ کر یہ کہ ان کا دل زندہ تھا۔ دوران علالت میں بھی ان کے افکار میں وہی تازگی ، جذبات میں وہی نزاکت اور طبیعت میں وہی شگفتگی قائم رہی جو شروع ہی سے ان کے اندر چلی آرہی تھی۔مگر پھران سب باتوں کے باوجود اس زمانے میں ان کا بدن جس طرح ایک لا علاج بیماری کی نذرہورہاتھا، ویسے ہی دوسری بیماری نے جس کا علا ج ممکن بھی تھا اور مطلوب بھی، ان کے دل و دماغ کو پریشان کررکھاتھا۔ اس بیماری کا تعلق ان کے جسد خاکی سے نہیں تھا ، بلکہ اس جسد سے (ملی اسلامی) جس کا وہ خود بھی ایک حصّہ تھے۔ اور جس کے علاج کی فکر انہیں شب وروز دامنگیر رہتی تھی ۔ یہ شعر انہوں نے علالت ہی میں کہا تھا: دلِ مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ اللہ اکبر!یہ کیا دل تھا او رکیا دماغ کہ جسے یہ کہہ کربھی ، مجھے فکر جہاں کیوں ہو ۔ سارے جہان کی فکر تھی۔ ۳ مختلف نوع کے عوارض کے سبب ملک سے باہر جاکرلکچر دینے کے تمام ارادے منسوخ کیے جاچکے تھے۔ جنوری ۱۹۳۷ء کے اوائل میں لاہورمیں انتخابات کی گرم بازاری تھی اور پنجاب میں تو اس سلسلے میں دوتین قتل کی وارداتیں بھی ہوچکی تھیں۔ اقبال نے آنکھوں کا معائنہ کرایا اور چونکہ موتیا اترنے کے آثار تھے، اس لیے ڈاکٹر نے لکھنا پڑھنا بندکروا دیا۔ اب صرف ایک قصد باقی رہ گیاتھا، جس کا اظہار انہوں نے اپنے ایک خط محر ّرہ ۱۵؍جنوری ۱۹۳۷ء بنام سرراس مسعود میں یوں کیا ہے: ان شاء اللہ امید کہ سال (آئندہ )حج بھی کروں گا اور دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضری بھی دوں گااور وہاں سے ایک ایسا تحفہ لاؤں گا کہ مسلمانان ہند یاد کریںگے۔ ۴ یہ تحفہ کیا ہونا تھا؟ ان کی کتاب ’’ارمغان حجاز‘‘ جو انہوںنے اپنی زندگی کے آخری ایّام میں مرتب کی اور جو ان کے انتقال کے بعد نومبر ۱۹۳۸ء میں شائع ہوئی۔ کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے چوہدری محمد حسین تحریر کرتے ہیں: دیار حبیبؐ اور روضہ حبیبؐ کی زیارت کا شوق برسوں سے روح اقبال کو جذب کیے ہوئے تھا۔ دن بھر میں بہت کم لمحے ایسے گزرتے ہوںگے۔ کہ محمدؐ (فداہ روحی)کی باتوں سے وہ دل غافل ہوتاہو۔۱۹۳۵ء اور ۱۹۳۶ء میں آکر یہ شوق اس مقام پر پہنچا جسے عشق و شغف کی انتہائی منازل کہنا چاہیے ۔ عقل و فلسفہ سب عشق محمدؐ کے تابع ہوچکے تھے…کئی سال حج کے موقع پر حجاز جانے کی تیاریاں ہوئیں، لیکن طویل علالت کی وجہ سے حالات نے مساعدت نہ کی پچھلے سال انہی دنوں دسمبر۱۹۳۷ء میں ایک جہازران کمپنی سے بہت طویل خط و کتابت ہوئی،لیکن چند دن کے بعد علالت نے پھر وہ صور ت اختیار کر لی کہ روانگی نہ ہوسکی۔ چونکہ نیت پختہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دفعہ حاضر ضرور ہونا ہے اور وہاں معروضات بھی ضرور پیش کرنی ہیں ، اور ملّت کی نمائندگی کرنی ہے، اس لیے ان معروضات کی تحریر و تسوید شروع ہوگئی۔ اور اضطراری طورپر شروع ہوگئی او رچونکہ مدینہ جانے سے پہلے مکہ یعنی خدا کے گھر بھی جانا تھا اور دونوں گھروں میں حاضری اور پیش کش گزارنے کے بعد وہاں سے قوم و ملّت کے لیے تحفے لانا تھے۔ اس لیے تصنیف نے یہ صورت اختیار کی کہ پہلے حضور حق گزارشات پیش ہوں اور اس کے بعد حضوؐر رسالت اور پھرحضور ملّت…اگر اقبال کو حجاز جانانصیب ہوتا اور وہاں یا وہاں سے آکر ارمغان لکھتے تو خداجانے کیا چیز ہوتی۔ لیکن یہ بھی خیال آتاہے کہ جو چیز حجاز کے شوق اور اس کے عشق میں زبان سے نکل گئی ہے شاید یہی بہترین تھی اور اس سے بہتر دوسری صورت میں نہ ہوتی۔۵ پچھلے باب میں ذکر کیاجا چکاہے کہ جامعۂ ازہر کے شیخ محمد مصطفیٰ المراغی اچھوتوں میں تبلیغ اسلام کی مہم جاری کرنے کی خاطر مصری علماء کا ایک وفد ہندوستان بھیجنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن باوجود اس کے کہ اقبال نے انہیں تحریر کر دیا تھاکہ یہ کا م ہندوستان کے علماء انجام دے سکتے ہیں ، علمائے مصر کا وفد ۱۱ دسمبر ۱۹۳۶ء کو بمبئی پہنچ گیا اور ۳۰؍ دسمبر ۱۹۳۶ء سے دہلی میں چند یوم گزارنے کے بعد اوائل جنوری ۱۹۳۷ء میں لاہور آیا ، وفد کے معتمد شیخ حبیب احمد آفندی او رنائب معتمد شیخ صلاح الدین التجار (جوانگریزی زبان سے شناساتھے) اہم مسلم شخصیتوں اور تبلیغی انجمنوں کے ذریعے اچھوتوں میں تبلیغ اسلام کی خاطر مناسب مواقع پیدا کرنے کے سلسلے میں معلومات جمع کرتے رہے ۔ وفد کے اراکین نے اقبال سے بھی ملاقات کی ، مگر اقبال نے ان کی توجہ عالم اسلام کے حقیقی مسائل کی طرف مبذول کرائی اور ان پر واضح کیا کہ یہ مسائل محض تبلیغ اسلام کے ذریعے حل نہیں کیے جاسکتے ۶ ۔ ۲۷؍جنوری ۱۹۳۷ء کی دوپہر کو اقبال نے مصری وفد کے اعزاز میں اسپنسر ہوٹل ۶منٹگمری روڈ لاہور میں ایک دعوت طعام بھی دی جس میں دیگر شخصیات کے ساتھ راقم بھی شریک تھا۔ کھانے کے بعد شرکائے دعوت کا گروپ فوٹو لیاگیا۔ اس فوٹو میں اقبال کی صورت دیکھ کر انداز ہ ہوجاتاہے کہ ان دنوں وہ کس قدر نحیف اور کمزور ہوگئے تھے۔ یہ غالباً زندگی میں ان کی آخری تصویر تھی۔ وفد مارچ ۱۹۳۷ئٔ میں واپس مصر چلاگیا۔ ۱۵فروری ۱۹۳۷ء کو انجمن ارود پنجاب کی طرف سے لاہور کے وائی۔ ایم ۔سی ۔ اے ہال میں یوم غالب منایا گیا۔ اس موقع پر انجمن کے سیکرٹری میا ں بشیر احمد ، مدیر’’ہمایوں ‘‘ نے اقبال کا ارسال کردہ تحریری پیغام پڑ ھ کر سنایا۔ پیغام تھا: مرزا آپ کو اپنے فارسی کلام کی طرف دعوت دیتے ہیں…اگر آپ اسے قبول کرنے کا فیصلہ کرلیں تو ان کے فارسی کلام کی حقیقت اور ان کی تعلیم کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کے لیے دو باتوں کا جاننا ضروری ہے ۔ اوّل یہ کہ عالم شعر میں میرز ا عبدالقادر بیدل اور مرزا غالب کا آپس میں تعلق ہے۔ دوم یہ کہ میرزا بیدل کا فلسفہ حیات غالب کے دل و دماغ پر موّثر کہا ںتک ہوا اور مرزا غالب اس فلسفۂ حیات کو سمجھنے میں کس حد تک کا میاب ہوئے۔ مجھ کو یقین ہے کہ اگر آج کل کے وہ نوجوان جو فارسی ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں ، اس نقطۂ نگاہ سے مرزاغالب کے فارسی کلام کا مطالعہ کریں تو بہت فائدہ اٹھائیںگے۔۷ چودھری محمد حسین کے بیان سے ظاہر ہوتاہے کہ اس زمانے میں اقبال کے ہاں عقل و فلسفہ سب عشق رسولؐ کے تابع ہوچکے تھے۔ اسی عالم میں مندرجہ ذیل رباعی کہی گئی: تو غنی از ہر دو عالم من فقیر روز محشر عذر ہائے من پذیر در حسابم را تو بینی ناگزیر از نگاہ مصطفٰے پنہاں بگیر رباعی غالباً ’’ارمغان حجاز‘‘ میں شامل ہوناتھی، لیکن عین ممکن ہے اقبال نے اسے اپنے بعض احباب کے سامنے پڑھا ہو۔ چنانچہ مولوی ابراہیم سب جج گوجرانوالا نے یہ رباعی محمد رمضان انگلش ماسٹر گورنمنٹ ہائی اسکول ڈیرہ غازی خان کے روبرو پڑھی ۔ محمد رمضان صوفی مزاج کے آدمی تھے۔ رباعی نے ان کے دل پر اس قدر گہر ا اثر کیا کہ سنتے ہی اچانک گر پڑے ، چوٹ کھائی اور بے ہوش ہوگئے۔ بعد ازاں اقبال کی خدمت میں خط تحریر کیا، جس میں التجا کی کہ رباعی انہیں بخش دی جائے تاکہ مرنے کے بعد یہ رباعی ان کے ماتھے پر لکھ کرانہیں دفن کیا جائے۔ اقبال نے انہیں رباعی عطا کرتے ہوئے اپنے ایک خط مورّخہ ۱۹؍فروری ۱۹۳۷ء میں تحریر کیا: شعر کسی کی ملکیت نہیں۔آپ بلا تکلف ، وہ رباعی جو آپ کو پسند آگئی ہے۔ اپنے نام سے مشہور کریں مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۸ اقبال نے اس رباعی کے بجائے اسی موضوع سے متعلق ایک اور رباعی کہی جو ’’ارمغان حجاز‘‘میں موجود ہے: بہ پایاں چو رسد ایں عالم پیر شود بے پردہ ہر پوشیدہ تقدیر مکن رسوا حضور خواجہؐ مارا حساب من ز چشم اونہاں گیر اسی دور میں کسی نے خط میں تحریر کیا کہ خواب میں رسول اللہ کی سخت جلالی رنگ میں زیارت نصیب ہوئی ہے ۔ اس کی تعبیر کیا ہوسکتی ہے؟ اقبال نے جواباً فرمایا: عام مسلمانوں کی طرح میرا بھی یہ عقیدہ ہے کہ حضوؐر رسالت مآب کی زیارت خیر و برکت کا باعث ہے ۔ گذشتہ دس پندرہ سال میں لوگو ںنے مجھ سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے حضور رسالت مآبؐ کو جلالی رنگ میں یا سپاہیانہ لباس میں خواب میں دیکھا ہے۔ میرے خیال میں یہ علامت احیائے اسلام کی ہے۔ ۹ فروری ۱۹۳۷ء میں انتخابات کے نتائج بھی نکل آئے۔ پنجاب میں یونینسٹ پارٹی خاصی اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوئی۔ مسلم لیگ کے صرف دو امیدوار کامیاب ہوئے ۔ ملک برکت علی اور راجہ غضنفر علی خان۔ان میں سے راجہ غضنفر علی خان نے کا میاب ہوتے ہی یونینسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ نتیجتاً پنجاب میں یونینسٹ پارٹی ہی نے سر سکندر حیات کی سرکردگی میں مخلوط کابینہ ترتیب دی ۔ اقبال صاحب فراش تھے اور آنکھوں میں موتیا بھی اتر رہاتھا، لیکن اس کے باوجود انتخابات کے نتائج سے مایوس نہ ہوئے، بلکہ صوبائی مسلم لیگ کی تنظیم اور مقامی شاخوں کے قیام کا کا م جاری رکھا۔ انتخابات میں ہندوستان بھر کے ہندو اکثریتی صوبوں میں کانگرس نے نمایاں کامیابی حاصل کی ، اگرچہ مسلمانوں کے حلقہ ہائے انتخاب میں اسے خاطر خواہ کامیابی نصیب نہ ہوئی ۔ بہرحال کانگرس نے فتح وقوت کے نشے سے سرشار ہوکر دہلی میں ۱۹؍مارچ ۱۹۳۷ء کو اپنے آٹھ سو کامیاب ممبران کی ایک آل انڈیا نیشنل کنونشن منعقد کی۔ اس کنونشن میں مسلمانو ں کو کانگرس میں شامل کرنے کے لیے پنڈت جواہر لعل نہرو نے بڑے جوش وخروش سے تجویز پیش کی کہ ہندوقائدین سے بات چیت کرنے کی بجائے مسلم عوام سے براہ راست رابطہ قائم کرنا چاہیے ۔ یوں پنڈت جواہر لعل نہرو کی تجویز کے مطابق کانگرس کی تحریک رابطۂ مسلم عوام کا آغاز ہوا۔ اقبال کو اس بات کا احساس تھا کہ ہندوستان میں مسلمان اس مرکزیت سے محروم ہیں ، جو ہندوؤں کو کانگرس کی انتخابات میں کا میابی کے سبب حاصل ہوگئی تھی۔ مسلم اکثریتی صوبوں میں کسی آل انڈیا مسلم سیاسی تنظیم کے بجائے ہر صوبے میں علیٰحدہ علیٰحدہ غیر فرقہ وارانہ جماعتیں، برسر اقتدار تھیں جن کا آپس میں کوئی تعلق واسطہ نہ تھا اور مسلم اقلیتی صوبوں میں تو ویسے ہی مسلمانو ںکو کوئی سیاسی اہمیت حاصل نہ تھی ۔ ہندو لیڈروں کو توقع تھی کہ مسلم اقلیتی اور مسلم اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کی منتشر ٹولیاں بالآخر کانگرس میں جذب ہوجائیں گی۔ اسی اندیشے کے پیش نظر اقبال نے محمد علی جناح کو اپنے ایک خط محر ّرہ ۲۰مارچ ۱۹۳۷ء میں مشورہ دیا: مجھے توقع ہے کہ آپ نے پنڈت جواہر لعل نہرو کا وہ خطبہ ملا حظہ فرما لیا ہو گا ، جو انہوںنے آل انڈیا نیشنل کنونشن میں دیا ہے او ر اس خطبے میں مسلمانانِ ہند کے بارے میں جس پالیسی کا اعلان کیا گیا، اسے بھی آپ نے بخوبی سمجھ لیا ہوگا۔ آپ یقینا اس بات سے بھی آگا ہ ہوںگے کہ نئے آئین نے ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے کم از کم ایک ایسا نادر موقع فراہم کردیا ہے کہ وہ ہندوستان اور مسلم ایشیامیں رونما ہونے والے سیاسی حالات کے پیش نظر، اپنی قومی تنظیم کر سکیں ۔ اگرچہ ہم ملک کی دیگر ترقی پسند جماعتوں کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار ہیں ، لیکن ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہ کرنا چاہیے کہ ایشیا میں اسلام کی اخلاقی اور سیاسی قوت کے مستقبل کاانحصار بہت بڑی حد تک خود ہندی مسلمانو ںکی مکمل قومی تنظیم پر ہے۔ اس لیے میری رائے میں آل انڈیا نیشنل کنونشن کو ایک موثر جواب دینا بے حد ضروری ہے۔ آپ کو چاہیے کہ فوراً دہلی میں ایک آل انڈیا مسلم کنونشن ۱۰کا انعقاد کریں ، جس میں شرکت کے لیے نئی صوبائی اسمبلیو ںکے ممبرو ںکے علاوہ دیگر اہم مسلم قائدین بھی مدعو کیے جائیں۔ اس کنونشن میں آپ پوری وضاحت او رپورے زور کے ساتھ یہ حقیقت بیان کریں کہ ہندی مسلمانوں کا ایک جداگانہ سیاسی ہستی کی حیثیت سے کیا سیاسی مطمح نظر ہے۔ یہ امر بے حد ضروری ہے کہ اندرون اور بیرون ہند کی ساری دنیا کو بتا دیا جائے کہ ملک میں صرف اقتصادی مسئلہ ہی تنہا ایک مسئلہ نہیں ہے ، بلکہ مسلم نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو مسلمانان ہند کے لیے ان کے کلچر کا مسئلہ کہیں زیا دہ اہم ہے۔ بہر حال کلچر کا مسئلہ اقتصادی مسئلہ سے کسی طرح بھی کم اہم نہیں ہے۔ اگر اس قسم کا کنونشن منعقد ہوسکے تو اس کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ یوں ان مسلم ممبروں کی نیتوں کا بھی امتحان ہوجائے گا، جنہوں نے مسلمانانِ ہند کے اغراض ومقاصد کے خلاف اپنی الگ جماعتیں بنا رکھی ہیں۔ دوسری طرف ہندوؤں پر بھی یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوجائے گی کہ باریک سے باریک سیاسی چال بھی مسلمانوں کو فریب نہیں دے سکتی اور وہ اپنی جدا گانہ کلچرل ہستی کو کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کرسکتے۔ میں چند روز میں دہلی آرہاہوں اور امید رکھتا ہوں کہ اس اہم موضوع پر آپ سے زبانی گفتگو ہوگی۔۱۱ اقبال غالباً اپریل ۱۹۳۷ء کے پہلے ہفتے میں حکیم نابینا کو نبض دکھانے کی خاطر دہلی گئے۔ افغان قونصل صلاح الدین سلجوقی کے ہاں قیا م کیا ، لیکن محمد علی جناح سے ملاقات نہ ہوسکی۔ واپس لاہورآئے تو کانگرس کی نیشنل کنونشن ابھی تک ان کے ذہن پر چھائی ہوئی تھی۔ چنانچہ اپنے ایک خط مورخہ ۲۲؍ اپریل ۱۹۳۷ء میں انہوں نے محمد علی جناح کو تحریر کیا : مجھے معلو م نہیں کہ میرا وہ خط جو میں نے دو ہفتے ہوئے لکھا تھا آپ تک پہنچا بھی ہے یا نہیں۔ میں نے وہ خط آپ کو نئی دہلی کے پتے پر بھیجا تھا اور جب میں نے دہلی پہنچ کر دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ آپ وہاں سے جاچکے ہیں۔ اُس خط میں میں نے تجویز پیش کی تھی کہ ہمیں فوراً دہلی میں آل انڈیا مسلم کنونشن منعقد کرکے حکومت اور ہندوؤں کو ایک بار پھر مسلمانان ہند کی پالیسی سے آگاہ کردینا چاہیے۔ حالات نازک صورت اختیار کر تے چلے جارہے ہیں اور بعض ایسے وجوہ سے ، جن کی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں ، پنجاب کے مسلمانو ں کا رجحان بڑ ی سرعت کے ساتھ کانگرس کی طرف بڑھتا چلا جارہا ہے اس لیے میں آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ جلد از جلد غور فرما کر میری تجویز کے بارے میں فیصلہ کریں ۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس تو آئندہ اگست تک ملتوی ہوچکا ہے، لیکن حالات ایسے ہیں کہ مزید انتظار کیے بغیر مسلمانو ں کی قومی پالیسی کا دوبارہ اعلان کردینا بے حد ضروری ہے ۔ اگر کنونشن کے انعقاد سے پیشتر چند اہم مسلم لیڈر ملک کا دورہ کرلیں تو کنونشن یقیناکامیاب رہے گی۔ مہربانی کر کے میرے اس خط کا جواب جتنی جلد ممکن ہوسکے دیں۔۱۲ کانگرس نے اپنی واضح اکثریت والے صوبوں میں بالآخر وزارتیں بنائیں اور ساتھ ہی پنڈت جواہر لعل نہرو کی قیادت میں تحریک رابطۂ مسلم عوام بڑے زور شور سے شروع کی گئی۔ تحریک کا مقصد یہ تھا کہ مسلم قائدین کو نظر انداز کرکے ملک بھر میں مسلم عوام تک کانگرس کا پیغام پہنچایا جائے اور انہیں کسی نہ کسی طرح کا نگرس کے دام میں لایا جائے۔ مئی ۱۹۳۷ء میںتحریک رابطہ مسلم عوام پنجاب میں داخل ہوئی۔ یہاں مرکزی اسمبلی کی ایک خالی نشست کے لیے ضمنی انتخاب میں مولانا ظفر علی خان کھڑے ہوئے ،لیکن کا نگرس نے ان کے مقابلے میں ایک غیر معروف شخض میا ںعبد العزیز کو کھڑا کر دیا۔ اقبال نے اس امیدوا ر کے والد سے بارہا کہا کہ اپنے بیٹے کو مولانا ظفر علی خان کے مقابلے سے دستبردار کرائے۔ چنانچہ معاملہ ایک ایسے ثالثی بورڈ کے سامنے پیش ہواجس کے اقبال بھی رکن تھے۔ بالآخر میاں عبد العزیز دستبردار ہوئے اور مولانا ظفر علی خان اس نشست کے لیے بلامقابلہ منتخب ہوگئے۔ اقبال کو اس بات کا بھی احساس تھا کہ مسلم لیگ ابھی تک حقیقی معنوں میں مسلم عوام کے ساتھ رابطہ قائم کر نے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ لہٰذا وہ اسے جلد از جلد ایک عوامی تنظیم بنانے کے خواہش مند تھے۔ عاشق حسین بٹالوی تحریر کرتے ہیں کہ اس ضمن میں اقبال کی زیر ہدایت صوبائی مسلم لیگ کے ایک اجلاس منعقدہ ۲۵اپریل ۱۹۳۷ء میں ملک زمان مہدی خان کی قیادت میں ایک کمیٹی بنائی گئی جس کے ذمے پنجاب میں مسلم لیگ کی ضلع وار اور مقامی شاخیں قائم کرنے اور مسلم عوام کے ساتھ لیگ کا ربط و ضبط بڑھانے کا کام سونپا گیا۔ کمیٹی نے مئی کے پہلے ہفتے میں اپنی اسکیم مرتب کی ، جسے اقبال نے منظور کیا ۔ چنانچہ مئی کے دوسرے ہفتے سے صوبائی مسلم لیگ کے کارکنان نے پنجاب کا دورہ شروع کیا ۔۱۳ کانگرس پنجاب میں اپنی مہم کی کامیابی کی خاطر ہر حربہ استعمال کر رہی تھی ۔ مثلاً اگر اقبال نے بعض مسلم نوجوانوں کو یہ مشورہ دیا کہ اسلام کے اقتصادی پہلوؤں کے متعلق پُرجوش ذہنی انہماک پیدا کرنے کے لیے ایک مسلم انڈیا سوسائٹی قائم کی جائے ، تو افواہ اڑا دی گئی کہ اقبال آل انڈیا مسلم لیگ کے بجائے کوئی دوسری جماعت بنانے کے آزرو مند ہیں۔ یہ غلط فہمی دور کرنے کی خاطر اقبال کو اپنا بیان مورخہ ۷؍مئی ۱۹۳۷ء جاری کرنا پڑا جس میں واضح کیا: آل انڈیا مسلم لیگ کو توڑنے کا خیال میرے دماغ سے اس قدر بعید ہے جس قدر کہ ممکن ہوسکتاہے ۔ مسلم لیگ مسلمانان ہند کی سب سے پرانی سیاسی جماعت ہے جسے تمام مسلمانوں کا مکمل اعتماد حاصل ہونا چاہیے۔ خصوصاً اس وقت جب کہ اس کی عنان قیادت مسٹر محمد علی جناح ایسے رہنما کے ہاتھ میں ہے، جنہیں تمام مسلمانوں کا اعتماد حاصل ہے۔۱۴ کانگرس کی رابطہ مسلم عوام مہم کا اصل جواب تو یہی تھا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کو نہ صرف صحیح معنوں میں ایک عوامی تنظیم بنا دیاجائے بلکہ اس کے ذریعے مسلمانوں کے معاشی مسائل کا حل بھی پیش کیاجائے ۔ ان امور کے بارے میں اقبال کی رائے صاف اور واضح تھی اور اس کا دوٹوک اظہار انہوں نے محمد علی جناح کے نام اپنے ایک خط مو ّرخہ ۲۸مئی ۱۹۳۷ء میںکیا۔ انہوں نے فرمایا: لیگ کو آخرکاریہ فیصلہ کرنا ہی پڑے گا کہ کیا وہ ہندوستان کے مسلمانوں کے اونچے طبقے کی نمائندہ بنی رہے گی یا مسلم عوام کی نمائندگی کا حق ادا کرے گی۔ جنہوں نے اب تک بجا طور پر اس میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ جہاں تک میری ذاتی رائے کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی سیاسی جماعت جو عامۃ المسلمین کی بہبودی کی ضامن نہ ہو، عوام کے لیے باعث کشش نہیں ہوسکتی ۔ نئے آئین کے تحت اعلیٰ اسامیاں تو امیروں کے بیٹوں کو مل جاتی ہیں اور چھوٹی وزیروں کے دوستوں یا رشتہ داروں کی نذر ہوجاتی ہیں۔ دیگر معاملات میں بھی ہماری سیاسی تنظیموں نے عامۃ المسلمین کی اصلاح حال کی طرف کوئی توجہ نہیں کی۔ روٹی کا مسئلہ روزبروز شدید تر ہوتاچلا جارہاہے ۔ مسلمان محسوس کررہاہے کہ گذشتہ دوسو سال سے اس کی حالت مسلسل گرتی چلی جارہی ہے۔عام طورپر وہ سمجھتا ہے کہ اس کے افلاس کی وجہ ہندو کی ساہوکاری یا سرمایہ داری ہے، مگر اسے یہ احساس ابھی نہیں ہوا کہ اس کے افلاس میں غیر ملکی حکومت بھی برابر کی حصّہ دار ہے ۔ بہرحال ایک نہ ایک دن یہ احساس بھی ضرور پیدا ہوگا۔ جواہر لعل کی دہریہ سوشلزم مسلمانوں پر اثر انداز نہیں ہوسکتی ۔ لہٰذا سوال پیدا ہوتاہے کہ مسلمانوں کو افلاس سے کیونکر نجات دلائی جاسکتی ہے؟لیگ کا تمام مستقبل اس امر پر موقوف ہے کہ وہ یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے کیا کوشش کرتی ہے۔ اگر لیگ مسلمانوں کو افلاس سے چھٹکارا دلانے کا وعدہ نہیں کرتی تو مجھے یقین ہے کہ مسلم عوام پہلے کی طرح اب بھی اس سے بے تعلق رہیں گے۔ خوش قسمتی سے اسلامی قانون کے نفاذ اور وقت کے جدید تقاضوں کی روشنی میں اس کے ارتقاء کے ذریعے ایسے تمام مسائل حل کیے جاسکتے ہیں ۔ شریعت اسلامیہ کے طویل او ر عمیق مطالعے سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اسلامی قانون کو معقول طریق پر سمجھا اور نافذ کیا جائے تو کم از کم ہر شخص کی بنیادی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں۔ لیکن شریعت اسلامیہ کا نفاذ اور ارتقاء اس ملک میں اتنی دیر تک ممکن نہیں۔ جب تک کہ ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستیں وجود میں نہ لائی جائیں۔ سال ہاسال سے یہی میرا پختہ عقیدہ رہاہے ، اور میں اب بھی اسی عقیدے کو مسلمانوں کے افلاس اور ہندوستان کے امن کا بہترین حل سمجھتا ہوں۔ اگرہندوستان میں ایسا کرنا نا ممکن ہے تو پھر صرف ایک ہی راہ رہ جاتی ہے اور وہ باہمی خانہ جنگی ہے، جوفی الحقیقت ہندو مسلم فسادات کی صورت میں کئی سالوںسے جاری ہے ۔ مجھے اندیشہ ہے کہ ملک کے بعض حصوں مثلاً شمال مغربی ہند میں فلسطین جیسی صورت حال پیدا ہو جائے گی ۔ ہندو سیاست میں جواہر لعل کی سوشلزم کا ورود بجائے خود ہندوؤں میں کشت و خو ن کا موجب ہو سکتا ہے۔سوشل ڈیماکریسی اور برہمینت کے درمیان وجہ نزاع، براہمنیت اور بدھ مت کے درمیان وجہ نزاع سے مختلف نہیں۔آیا سوشلزم کا حشر ہندوستان میں بدھ مت کا ساہوگایانہیں، میں اس کے متعلق تو کوئی پیش گوئی نہیں کرسکتا، البتہ میرے ذہن میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ ہندو دھرم کا سوشل ڈیماکریسی اختیار کرلینا خود ہند ودھرم کا خاتمہ ہے۔ اسلام کے لیے سوشل ڈیماکریسی کی کسی موزوں شکل میں ترویج جب اسے شریعت کی تائید حاصل ہو، درحقیقت کوئی انقلاب نہیں بلکہ اسلام کی اصل پاکیزگی کی طرف رجوع کرناہوگا۔ اس لیے مسائل حاضرہ کا حل مسلمانوں کے لیے ہندوؤں سے کہیں زیا دہ آسان ہے۔ لیکن جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں مسلم ہند میں ان مسائل کے حل بآسانی رائج کرنے کی خاطر ملک کی تقسیم کے ذریعے ایک یا زائد مسلم ریاستوں کا قیام اشد ضروری ہے۔ کیا آپ کی رائے میں اس مطالبے کا وقت آن نہیں پہنچا؟ شاید جواہر لعل کی دہر یہ سوشلزم کا آپ کے پاس یہ بہترین جواب ہے۔۱۵ ۱۹؍ مئی ۱۹۳۷ء کو اقبال کے بردار نسبتی خواجہ عبدالغنی کا انتقال ہوگیا۔ خواجہ عبدالغنی کواقبال نے اپنی وصیت میں راقم اور منیرہ کا گارڈین مقرر کیا تھا۔ ان کی ناگہانی موت سے اقبال بے حد پریشان ہوئے اور اپنے ایک خط مورخہ ۳؍جون ۱۹۳۷ء میں انہوں نے سرراس مسعود کو لکھا: نہایت نیک اور مخلص انسان تھا۔ میرے دونوں بچوں سے بہت محبت رکھتا تھا اور مجھے اس پر بھروسا تھا۔ اس کی ناگہانی موت نے مجھ کو بے حد پریشان کیا ہے۔ ماں کی طرف سے ان دونوں بچوں کا یہی بازو تھا۔ باپ کی طرف سے جو رشتہ دار اُن کے ہیں ان سے کسی قسم کی کوئی توقع نہیں ہے۔ اگرچہ میں نے تمام عمر اپنے مقدور سے زیادہ ان کی خدمت کی ہے۔ اس ساری پریشانی میں ایک خیال مجھے تسکین دیتارہا اور وہ یہ کہ جو میری زندگی میں ان بچوں کا محافظ پرورش کرنے والاہے ، وہی میرے بعد بھی ان کی حفاظت اور پرورش کرے گا۔ اس کے علاوہ میں اپنے حقیقی عزیزوں سے زیادہ تم پر بھروسا رکھتاہوں ۔ خدا تعالیٰ تم کو عمر نوح عطا کرے او رمیں اپنی زندگی میں تم کو اس سے بھی زیادہ بااقبال دیکھوں۔۱۶ انہی ایام میں اقبال نے راقم اور بالخصوص منیرہ کی نگہداشت کی خاطر اور گھر کے عام انتظام کے لیے پروفیسر رشید احمد صدیقی او رچند دیگر احباب کے ذریعے علی گڑھ سے ایک جرمن خاتون کوبلوانے کا فیصلہ کیا جو اردو بول سکتی تھیں اور اسلامی معاشرت سے واقف تھیں ۔ ان کا نام مسز ڈورس احمد تھا ۔ وہ علی گڑھ کے ایک پروفیسر کی بیوی کی بہن تھیںاور کچھ مدت سے علی گڑھ ہی میں مقیم تھیں۔ اقبال کے دل میں اپنی معذوری کے باوجود حج کے لیے جانے کی خواہش روزبروز بڑھتی چلی جارہی تھی۔ اس خواہش کا اظہار انہوں نے اپنے ایک خط بنام سر اکبر حیدری مورخہ ۱۳؍جون ۱۹۳۷ء میں ان الفاظ میں کیاہے: میں یورپ سے سیر ہوچکاہوں او روہاں کی شدید سردی نے ایک معذورشخص کی سی زندگی میرا مقدّر کردی ہے ، جسے میں گذشتہ تین سال سے بسرکررہا ہوں۔ بعض احباب نے علاج کے لیے جرمنی اور آسٹریا جانے کا مشورہ دیا ہے، لیکن میں سمجھتاہوں کہ وہاں کے اخراجات میری استطاعت سے باہرہوں گے۔ مزید برآں یہ بات میرے بچو ںکے ساتھ زیادتی کے مترادف ہوگی کہ عمر کے ان ڈھلتے ہوئے سالوں میں، جب کہ میری زندگی کا کا م عملاً انجام کو پہنچ چکاہے، میں اپنی ذات پر اس قدر خرچ کروں۔ ایک ہی خواہش جوہنوز میرے جی میں خلش پیدا کرتی ہے، یہ رہ گئی ہے کہ اگر ممکن ہوسکے تو حج کے لیے مکہ جاؤں اور وہان سے اس ہستیؐ کی تربت پر حاضری دوں جس کا ذات الہٰی سے بے پایاں شغف میرے لیے وجہ تسکین اور سر چشمۂ الہام رہاہے۔ میری جذباتی زندگی کا سانچا کچھ ایسا واقع ہواہے کہ انفرادی انسانی شعور کی ابدیت پر مضبوط یقین رکھے بغیر ایک لمحہ بھی زندہ رہنا میرے لیے ممکن نہیں ۔ یہ یقین مجھے پیغمبراسلام کی ذات گرامی سے حاصل ہواہے ۔ میرا ذرہ ذرہ آنحضوؐر کی احسان مندی کے جذبات سے لبریز ہے او رمیری روح ایک ایسے بھرپور اظہار کی طالب ہے جوصرف آنحضوؐر کے روضہ مقدس پر ہی ممکن ہے ۔ اگر خد انے مجھے توفیق بخشی تو میرا حج اظہا رتشکر کی ایک شکل ہوگی۔۱۷ اسی طرح عبداللہ چغتائی کو بھی اپنے ایک خط مورخہ ۱۳؍جون ۱۹۳۷ء میں تحریر کیا: بحیثیت مجموعی ایک دائم المریض کی زندگی بسر کررہاہوں ۔ تاہم صابر اور شاکر ہوں ۔ انشاء اللہ جب موت آئے گی تو مجھے متبسم پائے گی۔ قصد تو یہ تھا کہ زندگی کے باقی دن جرمنی اور اٹلی میں گزاروں ، مگر بچو ں کی تربیت کس پر چھوڑوں ، خصوصًا جب کہ میں ان کی مرحوم ماں سے یہ عہد کر چکاہوں کہ جب تک یہ بالغ نہ ہوجائیںان کو اپنی نظر سے اوجھل نہ کروں۔ ان حالات میں یورپ کا سفر او روہاں کی اقامت ناممکن نہیں تو محال ضرور ہے۔ اگر توفیق الٰہی شامل حال رہی تو زیادہ سے زیادہ مکّہ ہوتاہوا ممکن ہے مدینہ تک پہنچ سکوں ۔ اب مجھ ایسے گنہگار کے لیے آستان رسالتؐ کے سوا او رکہاں جائے پناہ ہے۔۱۸ مسلم اقلیتی صوبوں میں کانگرس نے اپنی وزارتیں ترتیب دیتے وقت یہ اصول وضع کیا تھا کہ کسی غیر کانگرسی کو وزارت میں نہیں لیا جائے گا، مگر بعد میں صوبۂ سرحد میں کا نگرسیوں کے ساتھ چند غیر کانگرسی اراکین شامل کرکے ایک کانگرسی وزارت بنائی گئی۔ پس کا نگرس کے روّیے سے ظاہر تھا کہ وہ مسلم اکثریتی صوبوں میں بھی کسی نہ کسی طرح اقتدار پر متمکن ہونے کی کوشش کرے گی او راس مقصد کی تحصیل کے لیے اپنے ہی بنائے ہوئے اصولوں کو پاؤ ں تلے روندنے سے باز نہیں رہے گی۔ مسلمان اکثریتی اور اقلیتی صوبوں میں بدستور انتشار کاشکارتھے۔ ان کے سامنے کوئی واضح نصب العین نہ تھا۔ اسی صورت حال کے پیش نظر اقبال باربار محمد علی جناح کو تحریر کرتے تھے اور اپنے خدشات کا اظہار ان کے سامنے کرتے تھے۔ مثلا اپنے ایک خط مورخہ ۲۱؍جون ۱۹۳۷ء میں انہیں لکھا: میں جانتاہوں کہ آپ ایک انتہائی مصروف شخص ہیں لیکن مجھے امید ہے کہ میرے باربارلکھنے پر آپ برا نہ منائیں گے۔دراصل اس وقت مسلم قوم کواس طوفان بلا میں جو شمال مغربی ہند اور شاید ملک کے گوشے گوشے سے اٹھنے والا ہے،صرف آپ ہی کی ذات گرامی سے رہنمائی کی توقع ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم فی الحقیقت خانہ جنگی میں مبتلا ہیں،اوراگر فوج اور پولیس موجود نہ ہو تو یہ خانہ جنگی چشم زدن میں عالمگیر ہوجائے۔ گزشتہ چند ماہ سے ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات کا ایک سلسلہ قائم ہوگیاہے۔ صرف شمال مغربی ہند میں ، ان تین ماہ میں کم از کم تین فرقہ وارانہ فسادات رونما ہوچکے ہیں ۔ ہندوؤں او ر سکھوں کی طرف سے توہین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کم ا ز کم چار وارداتیں پیش آچکی ہیں ۔توہین رسول کی ان چاروارداتوں میں مجرم قتل کردیا گیا۔ سندھ میں قرآن مجید کے نذر آتش کرنے کے واقعات بھی پیش آئے ہیں ۔ صورتِ حال کا نظرِ غائر سے مطالعہ کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچاہوںکہ ان واقعات کے اسباب نہ مذہبی ہیں نہ معاشی ، بلکہ خالصاً سیاسی ہیں۔ ہندوؤں اور سکھوں کا مقصد مسلم اکثریتی صوبوں میں بھی مسلمانو ںپرخوف و ہراس طاری کرنا ہے ۔ آئین کی کیفیت کچھ ایسی ہے کہ مسلم اکثریتی صوبوں میں بھی مسلمانوں کا انحصار تمام تر غیر مسلموں پر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان صوبوں میں مسلم وزارت کوئی مناسب کارروائی نہیں کرسکتی، بلکہ اسے تومسلمانوں ہی کے ساتھ ناانصافی برتنی پڑتی ہے ۔ تاکہ وہ لوگ جن کی امداد سے وزارت قائم ہے، خوش رہ سکیں اور دوسروں پر ظاہر کیاجا سکے کہ وزارت قطعی طورپر غیر متعصب ہے ۔ پس ظاہر ہے کہ ہمارے پاس اس آئین کو رد کرنے کے لیے خاص وجوہ ہیں۔ مجھے تو ایسے معلوم ہوتاہے کہ یہ آئین ہندوؤں ہی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے وضع کیا گیاہے ۔ ان صوبوں میں جہاں ہندوآبادی کی اکثریت ہے، ہندوؤں کو حکومت میں قطعی اکثریت حاصل ہے اور وہ مسلمانوں کو بالکل نظر انداز کر سکتے ہیں۔برخلاف اس کے مسلم اکثریت کے صوبوں میں مسلمانوں کو ہندوؤں کا دست نگر رکھا گیا ہے۔ اب میرے ذہن میں ذرہ بھر بھی شک نہیں رہا کہ یہ آئین ہندی مسلمانوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ مزید براں یہ اس معاشی تنگ دستی کا علاج بھی پیش نہیں کرتا جو مسلمانوں میں شدید تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ صرف ایک چیز جو کمیونل ایوارڈ (فرقہ وارانہ فیصلہ) نے مسلمانوں کی دی ہے وہ ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی ہستی کا اعتراف ہے، لیکن کسی قوم کی سیاسی ہستی کا اعتراف جو اس کی معاشی پسماندگی کا کوئی حل تجویز نہ کرتا ہو اور نہ کر سکے ، اس کے لیے بے سود ہے۔ کانگرس کے صدر نے تو غیر مبہم الفاظ میں مسلمانوں کی جداگانہ سیاسی حیثیت ہی سے انکار کر دیا ہے۔ ہندوئوں کی دوسری سیاسی جماعت یعنی ہندو مہا سبھا، جسے میں ہندو عوام کی حقیقی نمائندہ سمجھتا ہوں، بار ہا اعلان کیا ہے کہ ہندو اور مسلمانوں کی متحدہ قومیت کا وجود ہندوستان میں ناقابل قبول ہے۔ ان حالات میں ظاہر ہے ہندوستان میں امن نسلی ، مذہبی اور لسانی میلانات کی بنا پر ملک کی تقسیم مکرر ہی پر موقوف ہے۔ اکثر برطانوی مدبر بھی اس بات کو محسوس کرتے ہیں اور ہندو مسلم فسادات جو اس آئین کے جلو میں پوری تیزی سے رونما ہو رہے ہیں یقینا ان پر یہ حقیقت ناقابل تردید طور پر واضح کر دیں گے ۔ مجھے یاد ہے انگلستان سے میری روانگی کے وقت لارڈ لوتھیان نے مجھ سے کہا تھا کہ ہندوستان کی مشکلات کا حل تو تمہاری اسکیم میں موجود ہے، لیکن اس کے بار آور ہونے کے لیے پچیس سال کی مدت درکار ہو گی۔ پنجاب کے بعض مسلمان تو پہلے ہی شما ل مغربی ہند کی ایک مسلم کانفرنس کے انعقاد کی تجویز پر غور کررہے ہیں او ریہ خیال پھیلتا چلا جارہاہے ۔ میں اس امر میں آپ کا ہم خیال ہوں کہ ہماری قوم ابھی تک نظم و ضبط سے محروم ہے اور شاید ایسی کا نفرنس کے انعقاد کے لیے ابھی وقت سازگار نہیں۔ لیکن میں محسوس کرتاہو ںکہ آپ کواپنے خطبے میں کم از کم اس طریق عمل کی طرف اشارہ ضرور کردینا چاہیے، جوشمال مغربی ہند کے مسلمانوں کو انجام کا ر مجبوراً اختیار کرنا ہی پڑے گا۔ میرے خیال میں نیا آئین ہندوستان کو ایک ہی وفاق میں مربوط کرلینے کی تجویز کی بنا پر حد درجہ یاس انگیز ہے۔ ہندوستان میں قیام امن اور مسلمانو ںکو غیر مسلموں کے غلبے اور تسلط سے بچانے کی واحد ترکیب دہی ہے جس کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے ۔ یعنی مسلم صوبوں پر مشتمل ایک جداگانہ وفاق کا قیام۔ شمال مغربی ہند اور بنگال کے مسلمانوں کو ہندوستان اور بیرون ہندوستان کی دیگر اقوام کی طرح حق خود اختیاری سے کیونکر محروم کیا جاسکتاہے۔ میری ذاتی رائے تویہ ہے کہ شمال مغربی ہند اور بنگال کے مسلمانوں کو فی الحال مسلم اقلیت کے صوبوں کو نظر انداز کردینا چاہیے ۔ مسلم اکثریت اور مسلم اقلیت کے صوبوں کا بہترین مفاد اس طریق سے وابستہ ہے ۔ لہٰذا لیگ کا آئندہ اجلاس کسی مسلم اقلیت کے صوبے میں منعقد کرنے کے بجائے پنجاب میں منعقد کرنا بہتر ہوگا۔ لاہور میں اگست کا مہینہ تکلیف دہ ہوتاہے۔ میری رائے میں آپ کو لاہور میں وسط اکتوبر میں جب موسم خوشگوار ہوجاتاہے، لیگ کے اجلاس کے انعقاد کے امکان پر غور کرنا چاہیئے ۱۹پنجاب میں آل انڈیا مسلم لیگ سے دلچسپی بڑی تیز ی سے بڑ ھ رہی ہے ، اور لیگ کے آئندہ اجلاس کا لاہور میں انعقاد پنجابی مسلمانو ں کی سیاسی بیداری کے لیے از حد مفید ہوگا۔ ۲۰ جولائی ۱۹۳۷ء کے اوائل میں اقبال نے گرمیو ںکے چند ماہ کشمیر میں گزارنے کا ارادہ کیا۔ خیال تھا کہ موسم گرما کی تعطیلات کے لیے راقم کا اسکول بند ہونے پر( راقم ان ایاّم میں سنٹرل ماڈل سکول میں پڑھتا تھا ) ۱۲جولائی ۱۹۳۷ء کے بعد سری نگر روانہ ہوا جائے۔ اقبال کے ایک عقید تمند سید مراتب علی نے سفر کے لیے اپنی اسٹیشن ویگن جس میں سا ت آٹھ آدمی بیٹھ سکتے تھے، دینے کا وعدہ کیاتھا ۲۱، لیکن کشمیر میں اقبال کا داخلہ تحریک کشمیر کے ایّام سے ممنوع تھا ۔ چنانچہ ریاستی حکام سے اس سلسلے میں اجازت حاصل کرنے کے لیے خط و کتابت کی گئی ۔ پہلے تو خاصی مدت تک اقبال کو کوئی جواب موصول نہ ہوا،مگر بالآخر جب ریاستی حکام نے سفر کشمیر کی اجازت دی، تو موسم گرما گزر چکا تھا۔یو ںوہ زندگی میں آخری بار اپنے آبائی وطن کی زیارت کرنے سے بھی محروم رہے۔ اسلامی علوم کے احیاء اور تعلیمات کی وقت کے جدید تقاضو ںکے مطابق تعبیر کے سلسلے میں اقبال کی بہت سی تمناؤں میں سے ایک تمنا یہ بھی تھی کہ کسی مسلم یونیورسٹی کے اندر یا کسی پر سکون مقام پر ایک چھوٹی سی بستی کی صورت میں ایسا ادارہ قائم کیا جائے ، جس میں بہترین دل و دماغ کے مسلم نوجوان خالص اسلامی ماحول میں اسلامی ریاضیات ، طبیعیات ، کیمیا،تاریخ ، فقہ اور دینیات کی تعلیم حاصل کرکے علوم جدیدہ کا علوم قدیمہ سے تعلق دریافت کر سکیں اور یوں نہ صرف ان میں جدید مذہبی ، سیاسی اقتصادی ، قانونی ، علمی ، سائنسی اور فنی مسائل کی اہمیت کو سمجھنے کا احساس بیدار کردیا جائے بلکہ ان میں مسلمانان عالم کی ہر شعبے میں صحیح رہنمائی کی اہلیت بھی پیدا ہوجائے۔ اس خواہش کا اظہار اقبال نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں شعبۂ علوم اسلامیہ کی تشکیل کے زمانے میں کیاتھا اور اپنا ایک منصوبہ بھی نوٹ کی صورت میں تحریر کر کے مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی خدمت میں بھیجا تھا، لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ بہرحال ایک دردمند اور مخلص مسلم زمیندار چوہدری نیاز علی خان کو خیال آیا کہ موضع جمال پور نزد پٹھان کوٹ میں خدمت دین کے لیے ایک ایسا ہی ادارہ قائم کیاجائے ۔ وہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا مدعا بیان کیا ۔ اقبال نے ان کے سامنے اپنی دیرینہ اسکیم کا ذکر کیا ۔ چنانچہ ۱۹۳۶ء میں انہوں نے ایک قطعہ اراضی تعلیم قرآن کے لیے وقف کردیا اور اس میں ضروری عمارات یعنی مسجد ، مکتب ، کتب خانہ، دارالاقامت رہائشی مکانات وغیرہ کی تعمیر شروع کردی ۔ جنوری ۱۹۳۷ء کے اوّائل میں جب مصری علماء کا وفد لاہور پہنچا اور اقبال سے ملا تو وفد کی اس خواہش کے اظہار پر کہ وہ ہندوستان کے اسلامی اداروں کی مناسب طریق پر امداد کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں مشورہ دیا گیا کہ اس کا ایک طریق یہ ہے کہ وہ جامعہ ازہر مصطفٰے المراغی کو ایک خط اقبا ل کی طرف سے لکھا جائے اور انہیں اس ادارے کی خاطر ایک ایسا روشن خیال اور قابل مصری عالم اپنے خرچ سے مقرر کرنے کے لیے فرمایش کی جائے جو انگریزی خواں بھی ہو اور حالات حاضرہ یا علوم جدیدہ سے خوب واقفیت بھی رکھتا ہو۔ چنانچہ چوہدری نیاز علی خان نے اپریل ۱۹۳۷ء میں ایک خط مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کو تحریر کیا جس میں عرض کی کہ وہ مجوزہ خط کا ڈرافٹ عربی میںتحریر فرمادیں۲۲ ۔اسی طرح انہوں نے اقبا ل کو بھی خط تحریر کیا اور اپنے ادارے کے متعلق مزید گفتگو کرنے کے لیے ملنے کی خواہش ظاہر کی ،اقبال نے انہیں اپنے خط مورخہ ۲۰جولائی ۱۹۳۷ء میں لکھا: آپ ضرور تشریف لائیں۔ میں ادارے کے متعلق گفتگو کروں گا۔ اسلام کے لیے اس ملک میں نازک زمانہ آرہاہے، جن لوگوں کو کچھ احساس ہے ان کا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش اس ملک میں کریں ۔ ان شاء اللہ آپ کا ادارہ اس مقصد کو باحسن وجوہ پورا کرے گا۔ علماء میں مداہنت آگئی ہے۔ یہ گروہ حق کہنے سے بھی ڈرتاہے۔ صوفیہ اسلام سے بے پروااور حکام کے تصرف میں ہیں۔ اخبار نویس اور آج کل کے تعلیم یافتہ لیڈر خود غرض ہیں اور ذاتی منفعت و عزت کے سوا کوئی مقصد ان کی زندگی کا نہیں عوام میں جذبہ موجود ہے ، مگر ان کا کوئی بے غرض رہنما نہیں ہے۔ ۲۳ اگست ۱۹۳۷ء کے اوائل میں چودھری نیاز علی خان پھر اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں مولانا مودودی کا عربی میں تیار کردہ ابتدائی مسودۂ خط بنام شیخ مصطفے المراغی دکھایا۔ اقبال نے اسے پسند فرمایا اور بالآخر ۱۵؍ اگست ۱۹۳۷ء کو عربی میں تحریر کردہ یہی خط اقبال کے نام سے شیخ مصطفی المراغی کو ارسال کیا گیا۔ خط کامندرجہ ذیل حصّہ قابل توجہ ہے: ہم نے ارادہ کیاہے کہ ہم پنجاب کی ایک بستی میں ایک اہم ادارے کی بنیاد رکھیں کہ اب تک کسی اور نے ایسا ادارہ قائم نہیں کیا اور انشاء اللہ اسے اسلامی دینی اداروں میں بہت اونچی حیثیت حاصل ہوگی ۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ کچھ ایسے لوگوں کو ، جو جدید علوم سے بہرہ ور ہوں ، کچھ ایسے لوگوں کے ساتھ یکجا کردیں جنہیں دینی علوم میں مہارت حاصل ہو۔ جن میں اعلیٰ درجے کی ذہنی صلاحیت پائی جاتی ہو اور جو اپنا وقت دین اسلام کی خدمت میں لگانے کو تیار ہوں اور ہم اِن لوگوں کے لیے نئی تہذیب او رجدید تمدّن کے شور و شغب سے دور ایک دارالاقامت بنادیں جو ان کے لیے ایک اسلامی علمی مرکز کا کام دے اور اس میں ہم ان کے لیے ایک لائبریری ترتیب دیں جس میں وہ تمام قدیم و جدید کتب موجود ہو ںجن کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ مزید برآں ان کے لیے ایک کامل اور صالح گائیڈ(رہبر) کاتقرر کیاجائے، جسے قرآن حکیم پر بصیرت تامہ حاصل ہو اور جو دنیائے جدید کے احوال و حوادث سے بھی باخبر ہو، تا کہ وہ ان لوگو ں کو کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روح سمجھا سکے اور فلسفہ و حکمت اور اقتصادیات و سیاسیات کے شعبوں میں فکر اسلامی کی تجدید کے سلسلے میں انہیں مدد دے سکے تاکہ یہ لوگ اپنے علم اور قلم سے اسلامی تمدن کے احیاء کے لیے کوشاں ہوسکیں۔ آپ جیسے فاضل شخص کے سامنے اس تجویز کی اہمیت واضح کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ چنانچہ میں آپ سے درخواست کرتاہوں کہ آپ ازراہ کرم ایک روشن دماغ مصری عالم کو جامعہ ازہر کے خرچ پر بھجوانے کا بندوبست فرمائیں تاکہ وہ اس کا م میں ہمیں مدد دے سکے ۔ لازم ہے کہ یہ شخص علوم شرعیہ نیز تاریخ تمدن اسلامی میں کامل دستگاہ رکھتاہو اور یہ بھی لازم ہے کہ اسے انگریزی زبان پر قدرت حاصل ہو۔۲۴ شیخ مصطفی المراغی کے جوابی مکتوب مورخہ ۲۱؍اگست ۱۹۳۷ء سے ظاہر ہوتاہے کہ جامعۂ ازہر میں اقبال کے حسب منشا کوئی ایسا مصری عالم نہ تھا، جسے جامعۂ ازہر کی طرف سے ہندوستان روانہ کیا جاسکتا۔ ۲۵ بعد ازاں بقول چوہدری نیاز علی خان ، اس سلسلے میں چونکہ ان کی خط و کتابت مولانا مودودی سے جاری تھی، اس لیے اقبال کی نظر بھی آخر مولانا مودودی ہی پر پڑی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مولانا مودودی ۱۹۳۷ء کے آخری حصّے میں حیدرآباد دکن سے پٹھان کوٹ میں اس ادارے کا موقع محل دیکھنے کی خاطر تشریف لائے اور اقبال کی خدمت میں حاضر ہو کرتین صحبتوں میں ان سے مفصل گفتگو کے بعد اس کا نام ’’دارالسلام ‘‘ تجویز کیا اور نقل مکانی کرنے کا فیصلہ بھی کرلیا ۲۶، مگر چوہدری نیاز علی خان کا قائم کردہ ادار ہ بھی اقبال کی توقعات پر پورا نہ اتر سکا۔ وہ خود لکھتے ہیں کہ اس ادارے کے متعلق اقبال کے کیا کیا بلند ارادے تھے، ان کا اب اپنی بے بضاعتی کے پیش نظر ذکر کرنا بھی زیب نہیں دیتا۲۷۔دراصل اقبال کے حسب منشا تمدن اسلام کے احیاء کے لیے ادارہ آج تک دنیائے اسلام کے کسی بھی ملک میں وجود میں نہیں لایاجاسکا۔ جولائی ۱۹۳۷ء ہی میں فلسطین سے متعلق حکومت برطانیہ کے مقرر کردہ رائل کمیشن کی رپورٹ شائع ہوئی جس میں تقسیم فلسطین کی تجویز پیش کی گئی تھی ۔ اقبا ل اس تجویز سے بے حد مضطرب تھے اورچاہتے تھے کہ مسلم لیگ فی الفور لاہور میں ایک جلسہ عام منعقد کرے ، جس میں اس تجویز کے خلاف احتجاج کیا جائے۔ اُنہوں نے رائل کمیشن کی تجویز تقسیم فلسطین کے خلاف ایک زبردست بیان انگریزی میں تیار کیا ۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کا بیان لیگ کے جلسہ عام میں پڑھ کر سنایا جائے۔ چنانچہ ۲۶ ؍جولائی ۱۹۳۷ء کو مسلم لیگ کا جلسۂ عام زیر صدارت ملک برکت علی موچی دروازے کے باغ میں منعقد ہوا۔ جلسے میں غلام رسول خان نے اقبال کے بیان کا اردو ترجمہ پڑھ کر سنایا اور تقسیم فلسطین کے متعلق حکومت برطانیہ کے رویے کی مذمت کی گئی۔ اقبال نے اپنی زندگی کے آخری سال کی اس اہم تحریر میں واضح کیا: مجھے نہایت افسوس ہے کہ میں اس جلسۂ عام میں جو مسلمانان لاہور آج فلسطین رپورٹ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی غرض سے منعقد کررہے ہیں، شمولیت سے قاصر ہوں ۔ لیکن میں مسلمانوں کو یقین دلانا چاہتاہوں کہ عربوں کے ساتھ جو ناانصافی برتی گئی ہے۔ مجھے اس کا ایسا ہی شدید احساس ہے جیسا مشرق قریب کی صورت حالات سے واقف کسی بھی شخص کو ہوسکتاہے ، مجھے قوی امید ہے کہ اہل برطانیہ کو اب بھی اس وعدہ کے ایفا پر مائل کیاجاسکتاہے جو انگلستان کی طرف سے عربوں سے کیاگیا تھا۔ قضیۂ فلسطین ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا شدید اثر تمام دنیائے اسلام پر ہوگا۔ مسئلہ فلسطین کو اگر اس کے تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو فلسطین ایک خالص اسلامی مسئلہ ہے ۔ بنی اسرائیل کی تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو فلسطین میں مسئلہ یہود کاتیرہ صدیاں ہوئیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے یروشلم میں داخلے سے قبل خاتمہ ہوچکا تھا۔ فلسطین سے یہودیوں کاجبری اخراج کبھی بھی عمل میں نہیں آیابلکہ …یہود اپنی مرضی اور ارادے سے اس ملک سے باہر پھیل گئے اور ان کے مقدس صحائف کا غالب حصّہ فلسطین سے باہر ہی مرتب و مدوّن ہوا۔ مسئلہ فلسطین کبھی بھی عیسائیوں کامسئلہ نہیں رہا…بالفرض اگریہ اعتراف بھی کر لیاجائے کہ حروب صلیبیہ فلسطین کو عیسائیوں کامسئلہ بنانے کی کوشش تھی تو اس کوشش کو صلاح الدین کی فتوحات نے ناکام بنادیا۔ لہٰذا میںفلسطین کو خالص اسلامی مسئلہ سمجھتا ہوں ۔ مشرق ومغرب کے اسلامی ممالک سے متعلق برطانوی سامراجی ارادے کبھی بھی اس طرح سے بے نقاب نہ ہوئے تھے جیسے رائل کمیشن رپورٹ نے انہیں رسوا کردیا ہے ، فلسطین میںیہود کے لیے ایک قومی وطن کا قیام تو محض ایک حیلہ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ برطانوی امپیریلزم مسلمانوں کے مقامات مقدسہ میں مستقل انتداب اور سیادت کی شکل میں اپنے لیے ایک مقام کی متلاشی ہے۔ بقول ایک ممبر پارلیمنٹ کے یہ ایک خطرناک تجربہ ہے اور اس سے برطانیہ کو بحیرۂ روم میں جو مشکلات درپیش ہیں، رفع نہ ہوسکیں گی، بلکہ ان مشکلات کو رفع کرنے کے بجائے یہ تجویز برطانوی شہنشاہیت کے لیے بہت سے نئے مصائب کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ عربوں کو جس جس طریقہ سے تنگ کرکے اپنی ارض مقدس ، جس پر مسجد عمر رضی اللہ عنہ قائم ہے ، فروخت کرنے پر مجبور کیاگیاہے، ایک طرف تو مارشل لاء جاری کردینے کی سخت دھمکیاںہیں اور دوسری طرف عربوں کی قومی فیاضی اور ان کی روایتی مہمان نوازی کے جذبات لطیف کو برانگیختہ کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔ یہ طرز عمل گویااس بات کاثبوت ہے کہ برطانوی تدبر کا اب دیوالیہ نکل چکاہے ۔ یہودیوں کو زرخیز اراضی کی پیش کش کر کے اور عربوں کو پتھر یلی زمین کے ساتھ کچھ نقد رقم دے کر راضی کرنے کی کوشش قطعاً کسی سیاسی ہوش مندی کا ثبوت نہیں ہے۔ یہ تو ایک ادنیٰ درجے کی حقیر سود ا بازی ہے۔ جو یقینا اس عظیم الشان قوم کے لیے موجب ننگ اور باعث شرم ہے جس کے نام پر عربوں سے آزادی کا وعدہ کیاگیاتھا اور یہ وعدہ بھی کیاگیاتھا کہ ان کے درمیان ایک مشترکہ ومتحدہ وفاق قائم کردیا جائے گا۔ میں اس مختصر سے بیان میں رائل کمیشن کے تمام پہلوؤں پر تفصیلی بحث کرنے سے معذور ہوں، تاہم یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اسلامی ایشیا کو زمانہ حال کی تاریخ سے بعض بے حد اہم سبق ضرور سیکھنا چاہیئں۔ تجربے نے یہ بات روز روشن کی طرح واضح کردی ہے کہ مشرق قریب کے لوگوں کی سیاسی زندگی کی بقا صرف اس راز میں مضمر ہے کہ ترکوں اور عربو ںکا اتحاد جلد از جلد قائم ہوجانا چاہیے ۔ مجھے افسوس ہے کہ ترکوں کو عالم اسلام سے جدا کردینے کی سازشیں بدستور جاری ہیں۔ گاہے گاہے اس قسم کی خبریں بھی سننے میں آجاتی ہیں کہ ترک اسلام سے منحرف ہورہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سے بڑا جھوٹ شایدہی کبھی بولا گیاہوگا۔ اس نوع کے شرارت انگیز اور فتنہ پرور پراپیگنڈے کاشکار بالعموم وہی لوگ ہوتے ہیں، جنہوںنے اسلامی فقہ اور اسلامی اصول قانون کے افکارکی تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا ۔ یہ عرب ہی تھے جن کے مذہبی شعور نے اسلام کو جنم دیا تھا ۔ جس نے آگے چل کر ایشیا کی مختلف قوموں کو متحدو مربوط کرنے میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی تھی، اس لیے عربوں کو چاہیے کہ وہ ان نتائج کو ہرگزفراموش نہ کریں ۔ جو محض اس وجہ سے پیدا ہوئے تھے کہ انہوں نے ابتلا اور مصیبت کے وقت ترکوں کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ دوسرا سبق یاد رکھنے کے قابل یہ ہے کہ عربوں کو چاہیے کہ اپنے مسائل پر غور وفکر کرتے وقت عرب ممالک کے بادشاہوں کے مشوروں پرا عتماد نہ کریں ، کیونکہ بحالاتِ موجودہ ان بادشاہوں کی حیثیت ہرگز اس قابل نہیںہے کہ وہ محض اپنے ضمیر اور ایمان کی روشنی میں فلسطین کے متعلق کسی صحیح فیصلے یا کسی صائب نتیجے پر پہنچ سکیں ۔ تیسرا سبق یہ ہے کہ آج مسئلہ فلسطین کے بارے میں ایشیا کے تمام آزاد اسلامی ممالک کی حمیّت و غیرت کا امتحان ہے خواہ وہ ممالک عرب میں ہیں یاغیر عرب۔ منصبِ خلافت کی تنسیخ کے بعد عالم اسلام کے لیے یہ پہلا بین الاقوامی مسئلہ ہے جس کی نوعیت بیک وقت مذہبی اور سیاسی ہے اور جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے زمانے کی طاقتیں اور تاریخ کے تقاضے آزاد اسلامی ممالک کو پکار رہے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ یہی مسئلہ آگے چل کر ایشیا کے آزاد اسلامی ممالک کو اس اینگلوفرانسیسی ادارے سے ، جسے غلطی سے جمعیت اقوام کانام دے دیا گیاہے ، اس قدر بدگمان اور برگشتہ کردے کہ وہ اپنے تحفظ کے لیے اقوام مشرق کی ایک علیحدہ جمعیت۲۸قائم کرنے کے امکانات پر غور کرنے کے لیے مجبور ہوجائیں۔۲۹ مسئلہ فلسطین کے بارے میں اقبال نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے دو مکتوب مورخہ ۲۰؍جولائی ۱۹۳۷ء اور ۶؍ستمبر ۱۹۳۷ء نیشنل لیگ آف انگلینڈ کی مس فارقوہرسن کو بھی تحریر کیے ، ان خطوط سے واضح ہوتاہے کہ مسلمانانِ لاہور کے علاوہ دہلی میں تقریبا پچاس ہزار مسلمانوں کے اجتماع نے تقسیم فلسطین کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی اور کانپور میں اسی سلسلے میں کئی مسلمانوں کی گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں ۔ ۳۰ ۲۸؍ اپریل ۱۹۳۷ء کو اقبال اپنی زندگی میں آخری بار انجمن حمایت اسلام کے صدر منتخب ہوئے تھے، لیکن تقریبا تین ماہ بعد یعنی ۲۱؍ جولائی ۱۹۳۷ء کو بوجہ خرابی صحت صدارت سے سبکدوش ہوگئے۔ ۳۱ جولائی ۱۹۳۷ء کے آخری ہفتے میں جرمن خاتون مسنر ڈورس احمد ، علی گڑھ سے لاہور تشریف لائیں۳۲۔ریلوے اسٹیشن پر ان کا استقبال کرنے کے لیے میاں محمد شفیع ، علی بخش اور منیرہ موجود تھے ۔ وہ میاں محمدشفیع اور منیرہ کے ساتھ تانگے پر ’’جاوید منزل ‘‘ تشریف لائیں اور وہاں پہنچتے ہی اقبال سے ملیں جو معمول کے مطابق تہبند اور بنیان پہننے کے بجاے ان کی تعظیم کی خاطر شلوار اور قمیض زیب تن کیے صوفے پر بیٹھے ان کے منتظر تھے ۔ اقبال نے انہیں گھر کے انتظام اور منیرہ و راقم کی نگہداشت کی ذمہ داریاں سونپیں اور یوں مسز ڈورس احمد نے ’’جاوید منزل‘‘ میں مستقل رہائش اختیارکی۔۳۳ ۳۰؍جولائی ۱۹۳۷ء کو راس مسعود فوت ہوگئے ۔ اُن کے انتقال کی خبر اقبال نے اخباروں میں پڑھی۔ یہ صدمہ ان کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ سر راس مسعود کی موت کا انہیں یقین نہ آتا تھا۔ مفصل حالات سے آگاہی کے لیے ان کے پرائیویٹ سیکر ٹری ممنون حسن خان کو تار اور خط ارسال کیے۔جب خبر کی سرکاری تصدیق ہوگئی تو سخت پریشانی کے عالم میں لیڈی امت المسعود کوتحریرکیا : میں آپ کو صبرو شکر کی تلقین کیونکر کروں جب کہ میرا دل تقدیر کی شکاتیو ںسے خود لبریز ہے۔ مرحوم سے جو میرے قلبی تعلقات تھے ان کا حال آپ کو اچھی طرح معلوم ہے ۔ اس بنا پر میں صرف یہی کہہ سکتاہوں کہ جب تک زند ہ ہو ںآپ کے دکھ درد میں شریک ہوں۔ غالباً مرحوم کے دوستوں میں سے کوئی بھی ایسانہ ہوگا جس کے دل میں مرحوم نے اپنی دل نوازی ، بلند نظری اور سیر چشمی کا گہرا نقش نہ چھوڑا ہو۔ مسعود اپنے باپ داداکے تمام اوصاف کا جامع تھا۔ اس نے قدرت سے داداکادل اور باپ کا دماغ پایاتھا اور جب تک جیا ، اس دل ودماغ سے ملک و ملت کی خدمت کرتارہا ۔ خدا تعالیٰ اسے غریق رحمت کرے۔۳۴ سرراس مسعود کی میّت علی گڑھ لائی گئی اور وہیں انہیں دفن کیا گیا۔ کتبہ مزار کے لیے رباعی ارسال کرتے ہوئے اقبال نے اپنے ایک خط مورخہ ۷؍اگست ۱۹۳۷ء بنام ممنون حسن خان میں تحریر کیا: مسعود مرحوم کے کتبۂ مزار کے لیے میں نے مندرجہ ذیل رباعی انتخاب کی ہے: نہ پیوستم دریں بستاں سر اول زبند ایں و آں آزادہ رفتم چو بادِ صبح گردیدم دمے چند گلاں را آب و رنگے دادہ رفتم یہ رباعی میں نے اپنے کتبہ مزار کے لیے لکھی تھی لیکن تقدیر الٰہی یہ تھی کہ مسعود مرحوم مجھ سے پہلے اس دنیا سے رخصت ہوجائے ، حالانکہ عمر کے اعتبار سے مجھ کو ان سے پہلے جانا چاہیے تھا۔ اس کے علاوہ رباعی کا مضمون مجھ سے زیادہ اُن کی زندگی اور موت پر صادق آتاہے ، لیکن اگر صرف ایک ہی مطلع ان کے سنگ مزار پر لکھنا ہوتو مندرجہ ذیل شعر میرے خیال میں بہتر ہوگا: اے برادر من ترا از زندگی دادم نشاں خواب رامرگِ سبک داں مرگ را خوابِ گراں باقی خیریت ہے۔ مسعود کا غم باقی رہے گاجب تک میں باقی ہوں‘‘۔۳۵ ۱۹۳۷ء کے آخری چند مہینوں میں اقبال نے مسلم طلبہ کے نام دو پیغام بھیجے ۔ پہلا پیغام ۱۹؍ستمبر ۱۹۳۷ء کو پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے زیر اہتمام اسلامیہ کا لج کے حبیبیہ ہال میں طلبہ کے ایک جلسہ میں پڑھا گیا ۔ اس پیغام میں مسلم طلبہ کو محمد علی جناح کی زیر قیادت آل انڈیا مسلم لیگ کے جھنڈے تلے ایک محاذ پر جمع ہونے اور مستقبل کا بوجھ اور ذمہ داریاں اپنے کندھوں پراٹھانے کی تلقین کی گئی تھی ۳۶۔دوسرا پیغام آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس کلکتہ کی صدارت قبول کرنے کی درخواست کے جواب میں انگریزی کے ایک خط کی صورت میں دیا گیا۔ یہ خط مسز ڈورس احمد سے لکھوایا گیا ۳۷ ،اور اس کااردو ترجمہ ’’انقلاب ‘‘ مورخہ ۹؍ اکتوبر ۱۹۳۷ء میں شائع ہوا۔ اس پیغام میںا پنی مسلسل علالت اور کمزوری نظر کے پیش نظر صدارت قبول کرنے سے معذرت کی گئی تھی ، لیکن اس امید کا اظہار کیاگیا تھا کہ مسلمانوں کی نوجوان نسل اس نازک سیاسی دور کی اہمیت کو سمجھے گی، جس میں سے مسلمانانِ ہند گزر ر ہے ہیں ۔ آخر میں فرمایا: مخالف قوتوں سے ہرگز مت ڈرو۔ جد وجہد جاری رکھو، کیونکہ جدوجہد ہی میں زندگی کا راز مضمرہے۔ ۳۸ مسلسل علالت کے سبب اقبال تعلیمات قرآنی یافقۂ اسلامی کی تدوین نو کے بارے میں اپنی کتاب بھی تحریر نہ کرسکے۔ اس سلسلے میں انہوں نے انگریزی میں اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی بعض تحریریں ، جنہیں ان کی تصنیف کا خاکہ یا پلان سمجھنا چاہیے ، میاں محمد شفیع کو دیں۔یہ نوٹس، بقول میاں محمد شفیع ۱۹۳۵ء میں تحریر کیے گئے تھے، اور اقبال انہیں کتابی شکل میں ڈکٹیٹ کرانا چاہتے تھے، مگر اب صرف اس تصنیف کے خاکے ہی کے طور پر محفوظ ہیں۔ ۳۹ اقبال کی بصارت کی کمزوری کے سبب ان کے احباب یا اعزہ و اقارب ہی انہیںروزانہ اخبار یا خطوط پڑھ کر سنایا کرتے اور اقبال انہی سے خطوط کے جوابات اپنے اشعار یا دیگر نثری مضامین بھی لکھواتے تھے۔ میاں محمد شفیع اور سید نذیر نیازی کے سپرد یہی کا م تھا ، لیکن ان کی عدم موجودگی میں بعض اوقات مسز ڈورس احمد یا راقم بھی یہ خدمت انجام دینے کے لیے حاضر ہوتے ۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتاکہ جو کوئی بھی پاس بیٹھا ہوتا اس سے پڑھوایا لکھوالیتے ۔ مثلاً ایک عقیدت مند نصر اللہ خان ، جو ان دنوں ’’زمیندار ‘‘ سے وابستہ تھے، کبھی کبھار ان کی خدمت میں حاضرہوکر ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ یا ’’ٹریبیون ‘‘ کے لیڈزپڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ نصر اللہ خان اپنے کسی دہریے دوست کو ساتھ لے کر اقبال کے پاس پہنچے اور عرض کی کہ یہ خدا کو نہیں مانتے انہیں سمجھائیے۔ اس پر اقبال کی رگ ظرافت پھڑک اٹھی۔ مسکراتے ہوئے فرمایا کہ جسکو اللہ نہ سمجھا سکا اس کو میں کیا سمجھاسکوں گا۔ ۴۰ ’’جاوید منزل ‘‘ میں اقبال کی زندگی سے متعلق چند یادیں راقم کے ذہن میں محفوظ ہیں۴۱ ۔اس زمانے میں علی بخش کے علاوہ رحمن اور دیوان علی بھی گھر کا کام کاج کرتے تھے۔ عبدالمجید خانساماں کھانا پکاتا تھا او ررحمت بی ، منیرہ کی دیکھ بھال کے لیے مامورتھیں ۔ رحمن کے سپرد مالی کاکام بھی تھا۔ سودا سلف علی بخش لاتا اور رحمن بھی اس کا ہاتھ بٹاتا۔ اس کے علاوہ علی بخش ، رحمن اور دیوان علی باری باری اقبال کے پاؤں، پیٹھ یا شانے دابتے تھے، علی بخش منیرہ کو تانگے پر اسکول چھوڑنے یا لینے جاتا۔ راقم علیحدہ تانگے پر اسکول جایاکرتا۔ ان دنوں موٹرکار بہت کم استعمال میں لائی جاتی تھی ۔ دیوان علی اچھا خاصا گا لیتاتھا ۔ کبھی کبھار اقبال کو ہارمونیم کے ساتھ خواجہ غلا م فرید ، سلطان باہو ، بلھے شاہ اور دیگر شعرا ء کا کلام سنایا کرتا۔ آخری ایا م میں اقبال کی خدمت میں اکثر و بیشتر موجود رہنے والے عقیدت مند میاں محمد شفیع، سیّد نذیر نیازی ، چوہدری محمد حسین ، حکیم محمد حسن قرشی ، راجہ حسن اختر اور ڈاکٹر عبدالحمید تھے۔ ڈاکٹر جمعیت سنگھ بھی بسا اوقات انہیں دیکھنے کے لیے آجاتے ۔ بعض اوقات راجہ حسن اختر اپنے ساتھ سّجاد سرور نیازی کو لاتے اور سجاد سرور نیا زی ، اقبال کو غالب ، حالی یا ان کا اپنا کلام ہارمونیم کے ساتھ گا کر سناتے ۔ اسی طرح کبھی کبھار اقبال کی فرمائش پر فقیر نجم الدین ان کی خدمت میں حاضر ہوتے اور انہیں ستار یا شاید طائوس بجا کر سناتے ۔ انہی ایام میں ایک عرب بھی روزانہ اقبال سے ملنے آیا کرتے تھے۔ جو انہیں قرآن مجید پڑھ کر سناتے ۔ راقم نے بھی ان سے چند ماہ قرآن مجید پڑھا ہے ، وہ نہایت خوش الحان تھے۔ اقبال جب کبھی ان سے قرآن مجید سنتے ، راقم کو بلوابھیجتے اور اپنے پاس بٹھا لیتے ۔ ایک بار انہوں نے سورۂ مزمل پڑھی،تواقبال اتنا روئے کہ تکیہ آنسوؤں سے تر ہوگیا۔ جب وہ ختم کرچکے تو انہوں نے سر اٹھا کر راقم کی طرف دیکھا اور مرتعش لہجے میں بولے: تمہیں یوں قرآن پڑھنا چاہیے ۔ اسی طرح راقم کو ایک مرتبہ مسدس حالی پڑھنے کے لیے کہا ، اور خاص طورپر وہ بند…جب قریب بیٹھے ہوئے میاں محمد شفیع نے دہرایا : وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا تواقبال سنتے ہی آبدیدہ ہوگئے۔ راقم نے سردار بیگم کی وفات پر انہیں آنسو بہاتے نہ دیکھا تھا، مگر قرآن مجید سنتے وقت ، اپنا کوئی شعر پڑھتے وقت یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک کسی کی نوک زبان پر آتے ہی ان کی آنکھیں امنڈآیا کرتیں۔ سردیوں میں تو اقبال اپنے کمرے میں سوتے ،لیکن گرمیوں میں باہر دالان میں سویا کرتے ۔ راقم کی چارپائی ان کے قریب ہوا کرتی ۔ پنکھا لگانا پسند نہ کرتے تھے۔ رات گئے تک وہ جاگتے رہتے ، کیونکہ انہیں عموماً رات کو تکلیف ہوتی تھی۔ اورجب شعر کی آمد ہوتی تو ان کی طبیعت اور بھی زیادہ بے چین ہوجایا کرتی ۔ چہرے کا رنگ بدل جاتا، بستر پر کروٹیں بدلتے، کبھی اٹھ کر بیٹھ جاتے اور کبھی گھٹنوں میں سردے دیتے ۔بسااوقات وہ رات کے دو یا تین بجے علی بخش کو تالی بجاکر بلاتے اور اسے اپنی بیاض اور قلم دوات لانے کو کہتے۔ جب وہ لے آتاتو بیاض پر اشعار لکھ دیتے ۔ اشعار لکھ چکنے کے بعد ان کے چہرے پر آہستہ آہستہ سکون کے آثار نمودار ہوجاتے اور وہ آرام سے لیٹ جایاکرتے ۔ بعض اوقات تو علی بخش کو اس غرض کے لیے بھی بلواتے کہ پائنتی پر پڑی چادر ان کے اوپر ڈال دے۔اقبال کی عادت سر کے نیچے بازو رکھ کے بستر پر ایک طرف سونے کی تھی۔ اس حالت میں ان کا ایک پاؤں عموماً ہلتا رہتا، جس سے دیکھنے والا یہ اندازہ کرسکتا کہ وہ ابھی سوئے نہیں ، بلکہ کچھ سوچ رہے ہیں۔ مگر جب وہ گہری نیند سوجاتے تو خراٹے لیا کرتے جس کے سبب نہایت بھیانک قسم کی آوازیں نکلتیں ۔ کئی بار ان کے خراٹوں سے راقم ڈر جایا کرتا۔ ان ایام میں راقم نے اقبال کو بیسیوں مرتبہ خود بخود مسکراتے یا روتے دیکھا ہے۔ جب کبھی تنہائی میں بیٹھے اپنا یاکسی اور کا کوئی شعر گنگناتے تو ان کا بے جان سا ہاتھ عجیب تغافل کے عالم میں اٹھتا اور ہوا میں گھوم کر اپنی جگہ پر آگرتا۔ ساتھ ہی ان کے سر کو ہلکی سی جنبش ہوجاتی ۔ صبح کی نماز بہت کم چھوڑتے تھے۔ گرمیو ںمیںدالان میں رکھے ہوئے تخت پوش ہی پر نیت باندھ لیتے۔ دھوتی اور بنیان زیب تن ہوتی اور سر پر تولیہ رکھ لیتے ۔ سردیوں میں دھوتی اور قمیض پردھسّا اوڑھ لیا کرتے۔ ان کے کمرے کی حالت پریشان سی رہتی تھی۔ دیواریں گرد و غبار سے اٹی ہوتیں۔ بستر ان کی اپنی دھوتی اور بنیان کی طرح میلا ہوجاتامگر انہیں بدلوانے کا خیال نہ آتا۔ منہ دھونے اور نہانے سے گھبراتے اور اگر کبھی مجبوراً باہر جانا پڑجاتا مثلاً دانتوں کے ڈاکٹر کے پاس ، تو کپڑے بدلتے وقت سرد آہیں بھرا کرتے۔ وہ فطرتاً سست تھے۔ اس لیے اگر کہیں وقت کی پابندی ہوتی تو انہیں عموماً دیر ہوجایاکرتی ۔ ویسے چارپائی پر نیم دراز پڑے رہنے میں بڑے مطمئن تھے۔ بارہا دوپہر کاکھانا کسی کتاب میں منہمک ہونے کے سبب بھول جایا کرتے اورجب وہ کتاب ختم ہوجاتی تو علی بخش کو بلوا کر معصومانہ انداز میں پوچھتے : کیوں بھئی ! میں نے کھاناکھالیاہے؟ شام کو’’جاوید منزل ‘‘ کے دالان ہی میں دو تین چکر پیدل لگالیا کرتے۔ سردار بیگم کی وفات کے بعد اقبال شاید صرف ایک بار زنانہ میں آئے اور وہ بھی اس وقت جب راقم کو بخار ہوگیاتھا۔ انہیں تب پہلی بار معلوم ہوا کہ زنانہ حصے میں کمرو ںکی تعداد کتنی ہے۔ وہ یہ دیکھ کر بھی خوش ہوئے کہ ایک کمرے میں سردار بیگم کی بہت بڑی تصویر لگی ہوئی ہے۔ اسی طرح سردار بیگم کی وفات کے بعد اقبال نے خضاب لگانابھی ترک کردیاتھا۔ ایک دن راقم نے انہیں از سر نوخضاب لگانے کو کہاتو مسکرا کر بولے : میں اب بوڑھا ہوچکاہوں۔ راقم نے دوبارہ کہا: لیکن ہم سب تو آپ کو جوان دیکھنا چاہتے ہیں ۔ چنانچہ شاید اس خیال سے کہ بچے ان کے سفید بالوں کو دیکھ کر انہیں ضعیف سمجھنے لگے ہیں ، انہوں نے پھر سے خضاب لگانا شروع کردیا۔ مگر چند ماہ بعد پھر چھوڑ دیا اور راقم کو ہمت نہ پڑی کہ انہیں دوبارہ شروع کرنے کے لیے کہے۔ آخری چند سالوں میں غالباً رمضان کے مہنیے میں ایک بار ایک چور ’’جاوید منزل‘‘ میں گھس آیا، لیکن سحری کے وقت ملازموں نے اسے پکڑلیا۔ اس زمانے میں شیخ عطا محمد کے منجھلے فرزند شیخ امتیاز احمد اپنے اہل و عیال سمیت یہاں مقیم تھے۔ شیخ امتیازاحمد نے چو رکو تین چار تھپڑ رسید کیے اور اس کی شلوار کی جیبو ںمیں سے چوری کی ہوئی اشیاء جو کہ معمولی سی تھیں اور جن میں راقم کی کھلونا پستول بھی تھی، برآمد کرلیں، انہوں نے چورکو رسّی سے باندھ رکھاتھا اور تھانے میں اطلاع بھی بھجوادی تھی۔ چور ایک دبلا پتلا نحیف اور مسکین سا نوجوان تھا، جو اقبال کی خواب گاہ سمیت گھر کے تمام کمروں میں پھرتا رہاتھا۔ جب اقبال کو یہ سب معلوم ہوا تو چور کی حالت پر ترس کھا کر حکم دیا کہ اسے روٹی کھلوا کر چھوڑدیا جائے ۔ چنانچہ اسے سحری کے وقت پکے ہوئے پراٹھے اور سالن کھلوایا گیا ۔ اتنے میں پولیس آگئی اور چور کو پکڑ کر لے گئی۔ مسز ڈورس احمد کے گھر میں آنے سے ’’جاوید منزل‘‘ کے سب مکینوں کی گھر یلو زندگی میں ایک ترتیب سی آگئی۔ اِن کے اصرار پر کچھ مدت کے لیے اقبال بھی بچوں کے ساتھ کم ازکم دوپہر کاکھانا کھانے والے کمرے میں کھانے لگے۔راقم اور منیرہ کو احساس ہواکہ سب ایک خاندان کے رکن ہیں۔ منیرہ چند ہی دنوں میں مسنر ڈورس احمد سے مانوس ہوگئی۔ ان کی خواہش کے مطابق ہر کوئی انہیں ’’آپا جان‘‘ کہتا تھا۔ منیرہ اور آپا جان ہر شام اقبال کے پاس بیٹھا کر تیں۔ اقبال راقم اور منیرہ کو بچپن ہی سے ببّا اور ببّی کہہ کر بلاتے تھے۔ وہ جرمن زبان سے بھی شناسا تھے۔ اس لیے کبھی کبھی آپا جان سے جرمن میں گفتگو کرتے اور منیرہ سے بھی کہتے کہ جرمن زبان سیکھو، جرمن عورتیں بڑی دلیر ہوتی ہیں۔ منیرہ اُن دنوں جرمن زبان کے چند فقرے سیکھ گئی تھی۔ اس لیے وہ بھی ان سے جرمن میں بات چیت کرنے کی کوشش کرتی اور خوب ہنسی مذاق ہوتا۔ آپا جان ، راقم اور منیرہ کے ساتھ شام کو بعض اوقات گھر کے عقب میں ریلوے کالونی میں سیر کے لیے نکل جاتیں۔ انہو ںنے لان میں بیڈمنٹن کورٹ بھی بنوا رکھا تھا اور راقم اور منیرہ کی شامیں آپا جان کے ساتھ بیڈمنٹن کھیلتے گزرتیں۔ ہرماہ گھر کے اخراجات کے لیے رقم منشی طاہر الدین آپا جان کودے جایا کرتے ، کیونکہ آمدنی اور خرچ کا حساب وہی رکھتے تھے۔ راقم کو خوب یاد ہے کہ وفات سے چند ہفتے پیشتر ایک شام اقبال نے منشی طاہر الدین کو بلوایا او رانہیں ٹین کی تین چار صندوقچیاں کھولنے کو کہا ، جن میں مختلف قسم کے مسووات، تصویریں ، خطوط اور کاغذوں کے پرزے وغیرہ رکھے ہوئے تھے۔ اس وقت ان کے کمرے میںاور کوئی موجود نہ تھا۔ منشی طاہر الدین صندوقچیوں میں سے ہرکاغذ نکال کر اس کی تفصیل انہیں بتاتے جاتے اور پھر اسے اقبال کی منشا کے مطابق یاتو سنبھال کر ایک طرف رکھ لیتے یا سامنے انگیٹھی میں جلتی ہوئی آگ میں پھینک دیتے تھے۔ راقم اتفاق سے کمرے میں داخل ہوا اور انگیٹھی میں مختلف قسم کے کاغذات وغیرہ کو جلتے ہوئے پایا۔ پس وہی مسودات اور کاغذات بچے جو اقبال محفوظ رکھنا چاہتے تھے۴۲ ۔باقی سب تصویروں سمیت نذرآتش کردیے گئے۔ راقم کو مصوری سے بھی دلچسپی تھی، لیکن اقبال کو راقم کے اس شوق کا علم نہ تھا۔ ایک مرتبہ راقم نے ایک تصویر بنائی جو اتفاق سے اچھی خاصی بن گئی ۔ ان دنوں شیخ عطامحمد سیالکوٹ سے لاہور آئے ہوئے تھے اور جاوید منزل میں مقیم تھے۔ شیخ عطامحمد نے جب راقم کی بنائی ہوئی تصور دیکھی تو بہت خوش ہوئے۔ فوراً تصویر ہاتھ میں لے کر اقبال کو دکھانے کے لیے ان کے کمرے کی طرف چلے۔ راقم بھی ان کے پیچھے پیچھے گیا۔ اقبال کو پہلے تو یقین نہ آیا کہ تصویر راقم نے بنائی ہے، لیکن جب یقین آگیا کہ تصویر راقم نے بنائی ہے ،تو راقم کی حوصلہ افزائی کرنے لگے۔ کچھ مدت کے بعدانہوں نے اپنے احباب کے ذریعے فرانس، اطالیہ اور انگلستان سے راقم کے لیے خاص طور پر آرٹ کی کتابیں منگوائیں۔ انہیں خیال تھاکہ دنیا کے بہتر ین مصوّروں کے شاہکار دیکھ کر راقم کامصوّری کے لیے شوق بڑھے گا، مگر ایسا نہ ہوا۔ مصو ّری کے شاہکار دیکھ کر راقم نے اس خیال سے ہمت ہاردی کہ اگروہ ساری عمر بھی کوشش کرے تو ایسی خوب صورت تصویریں نہیں بنا سکتا۔ اقبال کی بڑی خواہش تھی کہ راقم تقریر کرنا سیکھے۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ راقم کشتی لڑا کرے۔ چنانچہ اس سلسلے میں راقم کے لیے گھر کے عقب میں ایک اکھاڑا بھی کھدوا دیا گیا تھا۔ وہ اکثر کہا کرتے کہ اکھاڑے کی مٹی میں ڈنڈ پیلنا یا لنگوٹ باندھ کر لیٹ رہنا صحت کے لیے نہایت مفید ہے۔ پھر بڑی عید کے رو زراقم کو ہمیشہ تلقین کیا کرتے کہ بکرے کے ذبح ہوتے وقت وہاں موجود ہو لیکن ان کا اپنا یہ حال تھاکہ کسی کا خون بہتے نہ دیکھ سکتے تھے۔ اقبال میں قوت برداشت کی انتہا تھی مگر جب ایک مرتبہ کسی سے ناراض ہوجاتے تو پھر ساری عمر اس کا چہرہ دیکھنے کے روادار نہ ہوتے ۔ انہیں کبوتر بازی کا شوق بھی رہ چکاتھا ۔ آخری عمر میں ان کی خواہش تھی کہ گھرکی چھت پر ایک وسیع پنجرہ بنوایا جائے جس میں لاتعداد کبوتر چھوڑ دیے جائیں اور ان کی چارپائی ہروقت کبوتروں کے درمیان رہا کرے۔ انہیں یقین تھاکہ کبوترو ںکے پروں کی ہوا صحت کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے۔ آخری ایام میں انہیں انگریزی لباس سے نفرت ہوگئی تھی ۔ راقم کو ہمیشہ شلوار اور اچکن پہننے کی تلقین کرتے ۔ منیرہ بھی اگر اپنے بالوں کو دوحصو ّں میں گوندھتی تو ناپسند کرتے اور کہتے : اپنے بال اس طرح مت گوندھا کرو۔ یہ یہودیوں کا طریقہ ہے اور اگر راقم کبھی غلطی سے قمیض یا شلوار کے لیے بڑھیا قسم کا کپڑا خرید لاتا تو بہت خفا ہوتے اور کہتے: تم اپنے آپ کو کسی رئیس کا بیٹا سمجھتے ہو، تمہاری طبیعت میں امارت کی بو ہے اور اگر تم نے اپنے یہ انداز نہ چھوڑے تو تمہیں کھدر کے کپڑے پہنوا دوں گا۔ راقم کے لیے بارہ آنے گز سے زائد قمیض کا کپڑا خریدنا یا آٹھ روپے سے زائد کے بوٹ خریدنا جرم تھا جس کی سزا کافی کڑی تھی ،لیکن اگر انہیں کبھی یہ معلوم ہوجاتا کہ راقم آج پلنگ پر سونے کے بجائے زمین پر سویا ہے یا اسے کبھی نماز پڑھتے دیکھنے کا اتفاق ہوجاتا، تو بے حد متاثر ہوتے۔ اپنی زندگی میں صرف دوبار انہوں نے راقم کوسنیما دیکھنے کی اجازت دی۔ دونوں انگریزی فلمیں تھیں۔ایک میں فرانسیسی ادیب ایمائیل ذولا کے حالات زندگی کی تفصیل تھی اور دوسری نپولین کی فتوحات کے متعلق تھی۔اقبال دنیا بھر کے جری سپہ سالاروں سے عقیدت رکھتے تھے۔ راقم کو اکثر فاروق اعظمؓ ، حضرت علیؓ ، خالدبن ولیدؓ اور طارقؓ کی باتیں سنایا کرتے۔ ایک دفعہ انہوں نے راقم کوبتایا کہ نپولین کے اجداد سر زمین عرب سے آئے تھے اور واسکوڈے گاما کو عربوں ہی نے ہندوستان کا راستہ دکھایا تھا۔ آخری ایام میں اقبال کی نظربے حد کمزور ہوگئی تھی۔ اس لیے راقم انہیں کبھی کبھار صبح اخبار پڑھ کر سناتاتھا ۔ اگر کسی لفظ کا تلفظ غلط ادا ہوجاتاتو بہت خفا ہوتے ۔ اسی طرح رات کو راقم انہی کی کوئی غزل گا کر بھی سنایاکرتا۔ ان دنوں راقم کو ان کی صرف ایک غزل یاد تھی: گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر اقبال کے سامنے وہ غزل پڑھنا راقم کے لیے ایک عذاب ہوا کرتا۔ اگر کوئی شعر غلط پڑھا جاتا تو بہت ناراض ہوتے اور کہتے: شعر پڑھ رہے ہو یا نثر! انہیں لوگ گھرہی پر ملنے آتے تھے۔ ہر شام احباب کی محفل جمتی جو رات گئے تک قائم رہتی ۔ ان کی چارپائی کے گر دکرسیا ں رکھی ہوتیں اور لوگ ان پر آکر بیٹھ جاتے۔ وہ چارپائی پر لیٹے یا گاؤتکیے کا سہارا لیے ان سے باتیں کرتے رہتے اور ساتھ ساتھ حقہ بھی پیتے جاتے ۔ گفتگو نہایت سنجیدہ موضوعات پر ہوتی یا کبھی کبھی علی بخش کی چوہدری محمد حسین کے ساتھ نوک جھوک سے محظوظ ہوتے ۔ چوہدری محمد حسین بلا ناغہ شام کو ان کے پاس آیا کرتے، بالعموم اس وقت جب اقبال تنہا ہوتے۔ اقبال ، چودھری محمد حسین کو اپنا تازہ کلام سناتے ۔ ایک پرانے لیمپ کی ماندسی روشنی میں چودھری محمد حسین فارسی یا عربی لغت کی موٹی موٹی جلدوں کے صفحے الٹتے : اشعار میں مضمون کی یک جہتی ، الفاظ کی صحت یا جذبات کی ہم آہنگی پر بحث و تمحیص ہوتی ، اتنے میں اور لوگ بھی آجاتے ۔ بعض اوقات اسلام ، فلسفہ یاسیاسیات پر گفتگو ہوتی یا ہنسی مذاق کی باتیں ہوتیں۔ چودھری محمد حسین بہت کھل کر ہنستے تھے اور ان کے قہقہوں کی آواز اکثر اقبال کے کمرے میں گونجاکرتی ۔ چودھری محمد حسین اچھے کھانے کے نہ صرف شوقین تھے، بلکہ خوب کھاتے تھے۔ اقبال مرّغن کھانے خود تو نہ کھاسکتے تھے، مگر بعض اوقات بریانی قورمہ ، مرغ مسلم اور کباب خاص طورپر بنوانے کا حکم دیتے اور اپنے روبرو چوہدری محمد حسین ، حکیم محمد حسن قرشی یا دیگر احباب کو کھلواتے اور انہیں کھاتے دیکھ کر خوش ہوتے۔ چوہدری محمد حسین کو اقبال کی طرح آموں سے بڑی رغبت تھی۔ گرمیوں کے موسم میں اقبال کے لیے ہندوستان کے مختلف علاقوں سے آموں کے ٹوکرے آیا کرتے اور اُن سے چوہدری محمد حسین کی تواضع کی جاتی ۔ سردیوں کے موسم میں شاہ افغانستان کی بھیجی ہوئی سردوں ، انگوروں اور خشک میووں کی پیٹیاں آیاکرتیںاور ان میووں کو کھاتے وقت گفتگو برصغیر کی حدوں سے نکل کرمشرق وسطیٰ تک پہنچ جاتی ۔ قندھار، غزنی، کا بل، تہران اور تبریز سے ان پھلوں کا ذکر اقبال اور چوہدری محمد حسین کو سلاطین ، اساتذہ اور صوفیائے کرام تک لے جاتا۔ غرضیکہ عجب سماں بندھتا۔ بات کہاں سے چلتی اور کہا ںپہنچ جاتی۔ پھر علی بخش سے مذاق ہونے لگتا اور چودھری محمد حسین کبھی اس کی خضاب زدہ مونچھوں پر پھبتی کستے، کبھی اسے بیاہ رچانے کو کہتے اور کبھی اسے سرکار سے مربعے دلوانے کی حامی بھرتے ۔ ایک عرصے تک علی بخش کی مونچھوں کے رنگ کے تعین کے سلسلے میں بحث جاری رہی۔ اقبال کی رائے میں اس کی مونچھوں کا رنگ ’’مونچھئی ‘‘تھا ۔ انہی ایام میں چودہدی محمد حسین نے ایک نیلے رنگ کا اوورکوٹ بھی سلوایا تھا جو عرصے تک موضوع مذاق بنارہا۔ اقبال رات کاکھانانہ کھاتے تھے۔ صرف کشمیری چائے پینے پر اکتفا کرتے یا کبھی کبھار آپا جان کا تیار کردہ شوربایا یخنی پی لیتے ۔ رات گئے تک علی بخش، رحمن ، دیوان علی یامیاں محمد شیخ ان کے پاؤں اور شانے دباتے اور اگر راقم کبھی دبانے کے لیے بیٹھتا تو منع کردیتے ۔ کہتے : تم ابھی چھوٹے ہو۔ تھک جاؤگے۔ راقم کو خاص طورپر حکم تھاکہ جب بھی اقبال کے پاس لوگ بیٹھے ہوں اور کوئی علمی بحث و مباحثہ ہورہاہوتو راقم وہاں ضرور موجود رہے۔ مگر راقم کو ان باتوں سے کوئی دلچسپی نہ ہوا کرتی ، کیونکہ وہ اس کی سمجھ سے بالاتر ہوتیں۔ سووہ عموماً موقع پاکر وہاں سے کھسک جایا کرتا، جس سے انہیں بہت رنج ہوتا اور وہ اپنے احباب سے شکایتاً کہتے : یہ لڑکانہ جانے کیوں میرے پاس بیٹھنے سے گریز کرتاہے ۔ دراصل اب وہ تنہائی بھی محسوس کرنے لگے تھے اور اکثر اوقات افسردگی سے کہا کرتے : سارادن یہاں مسافروں کی طرح پڑا رہتاہوں ، میرے پاس آکر کوئی نہیں بیٹھتا۔ اُن ایام میں دو ایک بار اقبال کے پرانے دوست میاں شاہ نواز بھی انہیں ملنے کی خاطر آئے۔ میاں شاہ نواز مفلوج تھے اور موٹر کار کی پچھلی سیٹ ہی پر بیٹھے رہتے ۔ ان کی آمد پر یا تو اقبال ان کے ساتھ جاکر بیٹھ جاتے یااقبال کی چارپائی ان کے قریب رکھ دی جاتی اور یوں دونوں کچھ دیر آپس میں باتیں کرکے پرانی یادیں تازہ کرلیتے ۔ اس زمانے میں میاں شاہ نواز نے اقبال سے دیرینہ تعلقات کی بنا پر اور ایک چچا کی حیثیت سے راقم کو اپنی اراضی میں سے دس مربعے عطا کیے جن کی قیمت روپوں کی صورت میں ان کی وفات کے کئی برس بعد بیگم شاہنواز نے راقم کے انکار کے باوجود اسے ادا کردی۔ آخری ایام میں اقبال کو اکثر دم کشی کی تکلیف ہو جاتی تھی۔ بعض اوقات جب ایسے دورے پڑتے تو ضعف اور نقاہت کے سبب ان پر غشی کا عالم طاری ہوجاتا اور ہوش میںآجانے کے بعد چند لمحوں تک ایک قسم کی مدہوشی کی کیفیت چھائی رہتی ۔ راقم نے انہیں دوبارایسی ہی حالت میں دیکھا ہے۔ ایک بار راقم نے یوں محسوس کیاجیسے وہ میرزا اسد اللہ خان غالب کے ساتھ کسی مسئلے پر بحث کررہے ہو ںاور دوسری بار انہیں مولانا جلال الدین رومی کے ساتھ اسی انداز میں محو گفتگو پایا۔راقم نے اقبال کی وفات کے بعد اپنے ان مشاہدات کا ذکر چودھری محمد حسین سے کیا تھا ، لیکن انہوں نے ایسے مشاہدات کی تشہیر منع کردی۔ ان کی رائے میں اس قسم کی ذہنی کیفیات اقبال کی بیماری یا علالت کے سبب ان پرطاری ہوتی تھیں اور ان کا کسی قسم کی روحانیت سے قطعی کوئی تعلق نہ تھا، بلکہ ایسی کیفیات اقبال کی تعلیمات کے برعکس اور منافی تھیں۔ مسز ڈورس احمد نے اقبال سے متعلق ایک کتابچے میں اپنے ذاتی تاثرّات قلمبند کیے ہیں، جن میں سے بعض خاصے دلچسپ ہیں۴۳۔مثلا ً وہ فرماتی ہیں کہ ان کے آنے پر منیرہ لڑکیوں کے اسلامیہ ا سکول میں پڑھتی تھی۔ انجمن حمایت اسلام کی زیر نگرانی قائم شدہ اس اسکول میں شہر کے غریب مسلمانوں کی بیٹیاں اور یتیم بچیاں تعلیم حاصل کرتی تھیں۔ یہ اسکو ل جاوید منزل سے خاصا دور تھا اور پھر اسکول کی حالت اچھی نہ ہونے کے سبب منیرہ کے بالوں میں جوئیں بھی پڑ گئیں۔ آخر کار مسز ڈورس احمد کی تحریک پر اسے اس اسکول سے اٹھوا کر قریب ہی لڑکیوں کے ایک عیسائی مشنری اسکول (کنیرٔڈاسکول )میں داخل کروادیاگیا۔ مگر جب مسز ڈورس احمد کو پتا چلا کہ اس اسکول میں داخل ہر بچی کے لیے عیسائی مذہبی تعلیم کی جماعتوں میں شامل ہو کر انجیل کے سبق لینا لازمی ہے تو وہ فوراً یہ بات اقبال کے نوٹس میں لائیں۔ اقبال نے جواب دیا کہ انہیں منیرہ کے ایسی کلاسوں میں شامل ہونے پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ یوں اس کے علم میں اضافہ ہوگا اوراقبال نے خود بھی انجیل کا گہرا مطالعہ کر رکھا ہے۔ البتہ فرمایاکہ اس کے لیے گھر پر قرآن مجید اور ابتدائی اسلامی دینیات پڑھوانے کا انتظام کردیا جائے اور چوہدری محمد حسین کی وساطت سے ایسا انتظام کروادیاگیا۔ ایک شام منیرہ اور مسز ڈورس احمد حسب معمول اقبال کے کمرے میں بیٹھی تھیں۔ منیرہ نے ان سے کہا: آپا جان مہربانی کر کے کہے ٔ لاالہٰ الہ اللہ ۔ مسز ڈورس احمد نے یہ الفاظ دہرائے ۔ اس پر منیرہ نے تالیاں بجاتے ہوئے شور مچادیا : آپ نے کلمہ پڑھ لیا ۔ آپ مسلمان ہوگئیں۔ پھر تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بولی : میں نے آپ کا نام فاطمہ رکھ دیاہے۔ منیرہ کی اس شرارت سے اقبال بے حد محظوظ ہوئے۔ مسز ڈورس احمد تحریر کرتی ہیں کہ منیرہ ابھی سات برس کی تھی کہ اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد نے اس کے لیے سیالکوٹ سے برقع سلوا کر بھجوایا اور ہدایت کی کہ چونکہ اب وہ جوان ہورہی ہے اس لیے گھر سے باہر نکلتے وقت برقع پہنا کرے۔ مسز ڈورس احمد سخت پریشا ن ہوئیں۔ برقع ہاتھ میں پکڑے اقبال کے پاس پہنچیں او رکہا کہ وہ کسی حالت میں بھی اسے منیرہ کو نہ پہنائیں گی۔ اس وقت راقم بھی وہیں موجود تھا۔ اقبال نے کہا مجھے آپ سے اتفاق ہے ۔ منیرہ بے شک برقع نہ پہنے۔ دیہات اور قصبوں میں تو عورتیں عموماً چادر اوڑھتی ہیں ۔ میری والدہ بھی کبھی گھر سے باہر نکلتی تھیں تو چادر اوڑھ لیا کرتی تھیں۔ مگر جب منیرہ بڑی ہوگی تو شاید زمانہ بالکل بدل جائے۔ سو ہمیں یہ فیصلہ اسی پر چھوڑ دینا چاہیے ۔ مسز ڈورس احمد لکھتی ہیں کہ اقبال اپنے بڑے بھائی شیخ عطا محمد کا بے حد احترام کرتے تھے اور کبھی ان کے سامنے نہ بولتے تھے ، لیکن اگر کسی بات پر ان سے اختلاف ہوجاتا تو ان کو ناراض کیے بغیر خاموشی سے کرتے وہی تھے، جو ان کے خیال کے مطابق درست ہوتا۔ اقبال کی چھوٹی بہن زینب بی کی ضعیف الاعتقادی کے متعلق مسز ڈورس احمد بیان کرتی ہیں کہ اقبال کے انتقال سے چند ہفتے پیشتر وہ انہیں دیکھنے کے لیے جاوید منزل آئیں اور چند روز یہیں قیام کیا۔ زنیب بی نے اصرار کیا کہ ان کے جاننے والے ایک عامل کوبلوایا جائے ،کیونکہ انہیں یقین تھاکہ اس کے عمل سے اقبال کی تکلیفیں دور ہوجائیں گی مسز ڈورس احمد نے اجازت دے دی ، عامل آیا اور اس نے چند اشیا طلب کیں۔ چنانچہ زینب بی نے علی بخش کو ہدایت کی کہ تین گز سیاہ رنگ کا کپڑا، مختلف قسم کی دالیں شکر ،سرسو ںکا تیل ، آٹا اور ایک کالا مرغ خرید کر لائے ۔ علی بخش باقی اشیا تو آسانی سے خریدلایا ۔ البتہ اسے کالامرغ خرید کرتے وقت ذرا دقت پیش آئی ۔ بہرحال جب تمام اشیا جمع ہوگئیں تو زینب بی نے مسز ڈورس احمد سے کہا کہ عامل کی خواہش کے مطابق اب کالے مرغ کو ساری رات اقبال کی خواب گاہ میں رکھنے کا بندوبست کیا جائے۔ اقبال کی حالت کے پیش نظر مسز ڈورس احمد نے ایسی اجازت دینے سے انکار کردیا ۔ آخر کار دونوں میں بے حد بحث کے بعد یہ طے پایاکہ علی بخش صبح چار بجے کالے مرغ کو ہاتھ میںاٹھائے اور اس کی چونچ کو انگلیوںمیں دبائے اقبال کی خواب گاہ میں پھرا لائے ۔ علی بخش نے ایسا ہی کیا ۔ خوش قسمتی سے اقبال اس وقت گہری نیند سورہے تھے اور انہیں پتا بھی نہ چلا۔ اس کے بعد کالے مرغ سمیت تمام اشیاء عامل کو دے دی گئیں جو کچھ دیر اپنا عمل پڑھنے کے بعد انہیں لے کررفو چکر ہوگیا۔ مسز ڈورس احمد تحریر کرتی ہیں کہ اقبال نے ان سے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ ان کی وفات کے بعد اتنی مدت منیرہ اور راقم کے پاس ضرور رہیں جب تک کہ وہ بڑے نہیں ہوجاتے، کیونکہ ان کے آنے سے بچوں کو ایک بار پھر صحیح معنوں میں گھر کا سکون نصیب ہوا تھا۔ پس اقبال کے انتقال کے بعد مسزڈورس احمد تقریباً پچیس برس تک جاوید منزل میں مقیم رہیں اوربعدازاں واپس برلن (جرمنی) چلی گئیں۔ پنجاب میں صوبائی مسلم لیگ کے کارکن دو محازوں پر اپنی سیاسی جنگ لڑ رہے تھے۔ ایک طرف تو انہیں یونینسٹ پارٹی کے خلاف تقریریں کرنا پڑتیں،جس نے گزشتہ کئی برسوں سے پنجابی مسلمانو ں کو سیاسی بیداری سے محروم کررکھا تھا اور دوسری طرف کانگرس کواپنے حملوں کانشانہ بنانا پڑتا۔ کانگرس کی یلغار کے سامنے سر سکندر حیات کی اپنی یونینسٹ پارٹی یامخلوط وزارت کا بھی زیادہ دیر تک قائم رہنا ممکن نہ تھا۔ سر سکندر حیات کو اس بات کا احساس تھا کہ ان کی غیر فرقہ وارانہ علاقائی جماعت کے ہندو ممبر اگر کانگرس کے ساتھ مل جائیں تو یونینسٹ پارٹی کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ اسی طرح اگر سرحد یا دو ایک مسلم اکثریتی صوبوں کی طرح ان کی جماعت کے مسلم ممبران میں سے چند کانگرس کی حمایت کرنے لگیں تو بھی یونینسٹ پارٹی کا خاتمہ ہوسکتاہے ۔ اسی خدشے کے پیش نظر یونینسٹ پارٹی کے بعض مسلم لیڈروں نے اپنی توجہ محمد علی جناح کی طرف مبذول کی اور اپنی جماعت کے بچاؤ کی خاطر ۱۵؍اکتوبر ۱۹۳۷ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لکھنؤ میں شریک ہونے کا قصد کیا۔ اقبال کی خواہش تھی کہ مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں سے محمد علی جناح مسئلہ فلسطین پر ایک مناسب قرارداد منظور کروائیں اور ساتھ ہی مسلم عوام سے رابطہ پیدا کرنے کی خاطر کوئی ایسی راہ اختیار کی جائے، جس سے لیگ کو مسلم عوام میں ہر دلعزیزی حاصل ہوسکے،وہ خود تو اپنی علالت کے سبب اجلاس میں شرکت نہ کرسکتے تھے ، اسلیے انہوں نے اپنے ایک خط مورخہ ۷؍ اکتوبر ۱۹۳۷ء بنام محمد علی جناح میں تحریر کیا : پنجاب سے ایک بہت بڑی جمعیت مسلم لیگ کے اجلاس میں شرکت کے لیے لکھنؤ پہنچ رہی ہے۔ یونینسٹ مسلم نمائندے بھی سر سکندر حیات کی زیر قیادت اجلاس میں شریک ہونے کی تیاریاں کررہے ہیں… لیگ کونسل کی خالی نشستوں کے لیے میں اٹھائیس آدمیو ںکی فہرست تیار کرکے مسٹر غلام رسول کو دے دوں گا۔ وہ یہ فہرست آپ کو دکھائیں گے۔ مجھے امید ہے کہ آپ بڑے غور سے ان کا انتحاب کریں گے۔ ہمارے آدمی ۱۳؍تاریخ کو لاہور سے روانہ ہوں گے۔مسئلہ فلسطین نے مسلمانوں کو مضطرب کررکھا ہے۔لیگ کے مقاصد کی خاطر مسلم عوام سے رابطہ پیدا کرنے کا ہمارے لیے یہ ایک نادر موقع ہے ۔ مجھے امید ہے کہ لیگ اس مسئلہ پر ایک مناسب قرارداد ہی منظور نہیں کرے گی، بلکہ لیڈوو ںکی ایک غیر رسمی کانفرنس میں کوئی ایسی راہ عمل بھی متعین کی جائے گی، جس میں مسلم عوام بڑی تعداد میں شامل ہوسکیں ۴۴۔یوں ایک طرف تو لیگ کو ہر دلعزیزی حاصل ہوگی اور دوسری طرف شاید فلسطین کے عربوں کو بھی کچھ فائدہ پہنچ سکے ۔ ذاتی طور پر میں کسی ایسے امر کی خاطر جس کا اثر ہندوستان اور اسلام دونو ںپر پڑتا ہو جیل جانے کے لیے تیار ہوں ۔ ایشیا کے دروازے پر ایک ایسی مغربی چھاؤنی کا قیام اسلام اور ہندوستان دونوں کے لیے پرخطرہے۔۴۵ لیگ کے اجلاس منعقدہ لکھنؤ میں سرسکندر حیات اور ان کے رفقا شریک تو ہوئے اور سکندر جناح میثاق بھی وجود میں آیا، جس کے مطابق سرسکندر حیات نے عہد کیا کہ یونینسٹ پارٹی کے ان تمام مسلم ممبران کو جوا بھی تک مسلم لیگ کے ممبر نہیں تھے، مسلم لیگ میں شامل ہو جانے کی ہدایت کردی جائیگی، مگر سر سکندرحیات کی نیت درست نہ تھی ۔ وہ دو رخی چال چلنا چاہتے تھے، یعنی کانگرس کے وارکو مسلم لیگ کی ڈھال پر روکا جائے اور ساتھ ہی صوبائی مسلم لیگ کو یونینسٹ پارٹی کے کنٹرول میں لاکر اپنے آلہ کار کے طور استعمال کیاجائے۔ میثاق کی شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے ۲۲؍اکتوبر ۱۹۳۷ء کو اقبال کے حسب الحکم غلام رسول خان سیکرٹری صوبائی مسلم لیگ نے سر سکندر حیات کی خدمت میں مسلم لیگ کی رکنیت کے فارم اس درخواست کے ساتھ ارسال کیے کہ یونینسٹ پارٹی کے مسلم ممبران سے ان پر دستخط کروالیے جائیں۔مگر سر سکندر حیات نے انہیں فارموں پر دستخط کرنے سے منع کردیا ۴۶۔اس پر اقبال نے اپنے خط مورخہ ۳۰ ؍ اکتوبر ۱۹۳۷ء بنام محمد علی جناح میں تحریر کیا : عام افواہ ہے کہ یونینسٹ پارٹی کا ایک حصّہ لیگ کے حلف نامے پر دستخط کرنے کو تیار نہیں ہے۔ سر سکندر حیات اور ان کی جماعت نے اب تک اس پر دستخط نہیں کیے اور مجھے آج صبح معلوم ہواہے کہ وہ لیگ کے آئند ہ اجلاس تک اسی طرح ٹال مٹول کرتے رہیں گے۔ خود یونینسٹ پارٹی کے ایک رکن نے مجھے بتایا ہے کہ یونینسٹ پارٹی کا اصل مقصد یہ ہے کہ اس قسم کے ہتھکنڈوں سے صوبائی مسلم لیگ کی سرگرمیوں کو ٹھنڈا کر دیا جائے ۔ بہرحال میں چند دنوں تک آپ کو پورے کوائف سے مطلع کروں گا، اور پھر آپ کی رائے درکار ہوگی کہ آئندہ ہم کس طرح کا م جاری رکھیں ۔ مجھے امید ہے کہ لاہور میں لیگ کے اجلاس کے انعقاد سے بیشتر آپ کم ازکم دو ہفتوں کے لیے پنجاب کا دورہ کر سکیںگے۔۴۷ ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو سر سکندر حیات اپنے چند رفقا سمیت اقبال سے ملنے آئے، اور اس ملاقات میں مسلم لیگ اور یونینسٹ پارٹی کے باہمی اختلافات پر گفتگو ہوئی ۔ سکندر جناح میثاق کے متعلق سر سکندر حیات کا موقف یہ تھا کہ محمد علی جناح اس بات پر رضا مندہوگئے تھے کہ صوبائی مسلم لیگ پارلیمانی بورڈ، یونینسٹ پارٹی کی نگرانی میں کا م کرے اور اس بنا پر ان کا مطالبہ تھاکہ بورڈ کے ممبران میں یونینسٹ پارٹی کی اکثریت ہونی چاہیے ۔ اس کے علاوہ وہ صوبائی مسلم لیگ کے تمام عہدے داروں بالخصوص سیکرٹری کو بدلنے کے درپے تھے اور لیگ کی آمدنی اور خرچ کو بھی یونینسٹ پارٹی کے کنٹرول میں لانا چاہتے تھے ۔ اقبال نے ان سے اتفاق نہ کیا، بلکہ اپنے ایک خط مورخہ یکم نومبر ۱۹۳۷ء میں محمد علی جناح سے پوچھا : سرسکندر حیات خان اپنی جماعت کے چند اراکین کے ساتھ کل مجھ سے ملنے آئے تھے اور ہمارے درمیان لیگ اور یونینسٹ پارٹی کے باہمی اختلافات پردیرتک گفتگو ہوتی رہی۔ دونوں فریقوں کی طرف سے اخباری بیانات شائع ہوچکے ہیں،جس میں ہر فریق نے سکندر جناح میثاق کے بارے میں اپنی اپنی تاویل پیش کی ہے۔ اس سے بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں ہیں۔ جیسا کہ میں پہلے آپ کو لکھ چکا ہوں، میں چند دنوں تک آپ کو ان تمام بیانات کی نقول بھیج دوں گا۔ فی الحال میں اتنا عرض کرتا ہوں کہ مہربانی فرما کر مجھے فی الفور اس معاہدے کی نقل ارسال کر دیجئے جس پر سر سکندر کے دستخط ثبت ہیں اور جو میری اطلاع کے مطابق آپ کے پاس موجود ہے۔ ایک اور امر جو وضاحت طلب ہے یہ ہے: کیا آپ نے اس بات پر رضا مندی کا اظہار کیا تھا کہ صوبائی لیگ کا پارلیمانی بورڈ یونینسٹ پارٹی کے کنٹرول میں چلا جائے، سر سکندر ۔ مجھ سے کہتے ہیں کہ آپ اس ضمن میں اپنی منظوری دے چکے ہیں اور اسی بنا پر وہ اصرار کرتے ہیں کہ بورڈ کے ارکان میں یونینسٹ پارٹی کی اکثریت ہونی چاہیے ۔ جہاں تک میرا خیال ہے سکندر جناح میثاق میں ایسی کوئی شق موجود نہیں۔ مہربانی کرکے اس خط کا جواب جلد از جلد عنایت فرمائیے۔ ہمارے آدمی بدستور صوبے کے دورے میں مصروف ہیں اور جگہ جگہ مسلم لیگ کی شاخیں قائم کی جارہی ہیں۔ گزشتہ رات ہم نے لاہور میں ایک بہت بڑا کا میاب جلسہ کیا۔ جلسوں کا یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔۴۸ اقبال کے یونینسٹ پارٹی کے بانی سرفضل حسین سے تعلقات ان کی ہٹ دھرمی، انگریز کے ساتھ ذلّت آمیز وفاداری ،مسلمانوں کے بجائے احمدیوں کو ترجیح دینے یا انہیں زندگی میں آگے بڑھانے اور پنجاب میں اپنی لیڈری کابھرم قائم رکھنے کی خاطرمسلم لیگ یا محمد علی جناح کی مخالفت کے باعث خراب ہوئے تھے ، اسی طرح سر عبدالقادر کی ابن الوقتی اور سر کار پرستی کے سبب اقبال ان سے دور ہٹ گئے اور اگر ان کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق رہاتو محض رسمی تھا۔ سر عبدالقادر بھی ساری عمر پبلک پلیٹ فارم پرمنافقانہ طورپر اقبال سے دوستی کادم بھرتے رہے، مگر اپنے خاص حلقۂ احباب میں یا ہندوؤں کے ساتھ گفتگو کرتے وقت اقبال کے متعلق کذب گوئی سے کام لینے یا ان کے خلاف بہتان تراشنے سے باز نہ آتے تھے۔ اس کی ایک مثال گوپال متل نے اپنی تصنیف ’’لاہور کا جو ذکر کیا ‘‘ میں پیش کی ہے، جو قابل توجہ ہے ۔ وہ سر عبد القادر سے اپنی ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ایک ملاقات میں انہوں نے ڈاکٹر اقبال کی زندگی او ران کی شاعری کے پس منظر پر روشنی ڈالی اور ایسے کئی نکات بیان فرمائے جو شارحین اقبال کی نگاہوں سے اس وقت بھی مخفی تھے،اور اب بھی۔مثال کے طور پر اقبال کے اس قطعے کو جس کا آخری شعر یہ ہے: مگر سرکار نے کیا خوب کونسل ہال بنوایا کوئی تکیہ نہ تھا اس شہر میں سرمایہ داروں کا عام طور پر جمہوری نظام کافکری استرداد قرار دیا جانا ہے ، حالانکہ یہ قطعہ انہوں نے کونسل کے انتخاب میں شکست کھانے کے بعد لکھا تھااور انتخاب میں ان کا کھڑا ہونا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ فکری سطح پر انتخابات اور جمہوریت کے مخالف نہیں تھے(کونسل کے انتخاب میں اقبال کا شکست کھانا سراسر جھوٹ ہے ۔ انہوں نے صرف ایک مرتبہ پنجاب کونسل کا انتخاب لڑا اور اس میں کا میاب ہوئے۔ راقم) اسی طرح اقوام متحدہ (مصنف کی مراد غالباً جمعیت اقوام سے ہے۔ راقم )کے متعلق ان کا ایک فارسی قطعہ ہے جس کے آخری دو مصرعے ہیں: من ازیں بیش ندانم کہ کفن دزدے چند بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند اس پر بھی شارحین اقبال نے استدلال کی ایک عمارت کھڑی کرلی ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس انجمن میں ہندوستانی نمائندہ نامزد ہونے کے لیے اقبال نے بڑی ہی کوشش کی تھی۔قرعۂ فال ان کی بجائے سر عبدالقادر کے نام نکلا تو انہیں اس پر کفن چوروں کی انجمن کا گمان گزرنے لگا(حیات اقبال کے مطالعے سے ظاہر ہوتاہے کہ اقبال نے جمعیتِ اقوام میں ہندوستانی نمائندہ نامزدہونے کے لیے اپنی زندگی کے کسی بھی حصّے میں کبھی کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا تھا۔ راقم)ا ن کے اس شعر: جو بے نماز کبھی پڑھتے ہیں نماز اقبال بلا کے دیر سے مجھ کو امام کرتے ہیں کے پیچھے بھی ایک حکایت ہے۔ یہ نماز لندن میں پڑھی گئی تھی۔ اقبال امامت کی آس لگائے بیٹھے تھے، لیکن یہ آئی سرعبدالقادر کے حصّے میں (راقم کے خیال میں اقبال نے زندگی بھر میں شاید کبھی بھی نماز کی امامت نہیں کی۔ اس لیے اس ضمن میں ان کا سر عبدالقادر کو اپنا رقیب سمجھنا بے معنی ہے)اقبال کے دو ترانے بہت مشہور ہیں، ایک وطنی اور ایک ملّی: سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا اور چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا مسلم ہیں ہم وطن ہیں سارا جہاں ہمارا ان دونو ں ترانوں کی نظریاتی اہمیت پر بہت کچھ لکھا گیاہے، لیکن سر عبدالقادر کاارشاد تھا کہ یہ دونو ں ہی ترا نے فرمائشی تھے۔ پہلا ترانہ انہوں نے قوم پرستوں کی فرمائش پر لکھا تھا اور اس کا پہلا مصرع جرمن قومی ترانے کا لفظی ترجمہ ہے ۔ صرف جرمنی کی جگہ ہندوستان کا لفظ رکھ دیا گیا ہے۔ اس ترانے کو شہرت ہوئی تو ملّت پرست دوستوں کی طرف سے ترانۂ ملّی کے تقاضے شروع ہوئے ۔ اقبال نے انہیں بھی پورا کردیا۔(متذکرہ تاویل پیش کرنے سے غالباً یہ ثابت کرنا مقصود تھاکہ اقبال تو محض ایک فرمائشی شاعر تھا، جس قسم کا تقاضاہوتا تھا، اسی قسم کے اشعار کہہ دیتا تھا۔ یعنی اس کا اپنا کوئی موقف نہ تھا۔ راقم)‘‘۴۹ نواب سر ذوالفقار علی خان سے بھی ان کی وفات سے پیشتر اقبال کے تعلقات قریب قریب ختم ہوچکے تھے۔ پرانے احباب میں سے مرزا جلال الدین سمیت صرف چند باقی رہ گئے تھے، جو ان کے زاویۂ نگاہ میں تغیرّ کے سبب شاذو نادر ملنے آتے تھے۔ دراصل آخری عمر میں اقبال اپنے سیاسی نظریات کے معاملے میں بہت زیادہ حساس ہوگئے تھے۔ وہ ملّتِ اسلامیہ کی تمدنی یک جہتی ، ہندی مسلمانوں کے اتحاد و مستقبل ، مسلم لیگ کے ساتھ ان کی وابستگی کی اشد ضرورت یا محمد علی جنا ح کی قیادت اور مشن کی کامیابی کے بارے میں کسی قسم کے اختلاف رائے کو قبول یا برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ سو یکم نومبر ۱۹۳۷ء سے لے کر ۹؍نومبر ۱۹۳۷ء تک اقبال کی سر سکندر حیات اور ان کے رفقاء کے ساتھ کئی ملاقاتیں ہوئیں، مگر باہمی مصالحت کی کوئی صورت نہ بنی۔ اقبال ، سر سکندر حیات کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہ دیکھتے تھے او ران کی شاطرانہ سیاست کے سبب ان پر اعتماد بھی نہ کرتے تھے۔ بالآخر اقبال کو یقین ہوگیا کہ سر سکندر حیات اور ان کے احباب صوبائی مسلم لیگ میں شریک ہونانہیں بلکہ اس پر قابض ہونا چاہتے ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے اپنے ایک خط مورخہ ۱۰؍نومبر ۱۹۳۷ء بنام محمد علی جناح میں تحریر کیا: سر سکندر اور ان کے احباب سے کئی ملاقاتوں کے بعد میں قطعی طورپر اس نتیجے پر پہنچاہوں کہ سرسکندر مسلم لیگ اور صوبائی پارلیمانی بورڈ پر مکمل قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نے ان کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا اس میں درج ہے کہ پارلیمانی بورڈ کی از سر نو تشکیل کی جائے گی اور اس میں یونینسٹ پارٹی کے آدمیوں کو اکثریت حاصل ہوگی۔ میں نے کچھ مدت ہوئی آپ کو تحریر کرکے پوچھا تھاکہ واقعی آپ پارلیمانی بورڈ میں یونینسٹ پارٹی کو اکثریت دینے کا وعدہ کر چکے ہیں؟ اب تک آپ نے اس سوال کا جواب نہیں دیا ۔ مجھے ذاتی طورپر سر سکندر کی خواہش کو قبول کرنے میں کوئی عذر نہیں ،لیکن مشکل یہ ہے کہ وہ اس معاہدے کی شرائط سے بھی آگے جانا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ لیگ کے تمام عہدہ داروںمیں ان کے حسب منشا ردوبدل کیا جائے۔ خصوصاً وہ موجودہ سیکرٹری (غلام رسول خان)کی برطرفی کامطالبہ کررہے ہیں ، حالانکہ سیکرٹری نے لیگ کے لیے بہت کا م کیا ہے۔ سرسکندر کی یہ بھی خواہش ہے کہ لیگ کا سار فنڈ اور حساب کتاب ان کے آدمیوں کی تحویل میں دے دیاجائے۔ اس تمام کارروائی سے میرے خیال کے مطابق ،ان کا مقصد یہ ہے کہ لیگ پر قابض ہوکر اسے ختم کردیا جائے میں صوبے کی رائے عامہ کوجانتے ہوئے لیگ کی باگ ڈور سر سکندر اور ان کے احباب کے حوالے کردینے کی ذمہ داری لینے پر بالکل تیار نہیں ہوں ۔ سکندر جناح میثاق نے پنجاب میں مسلم لیگ کو سخت نقصان پہنچایا ہے او راگر یونینسٹ پارٹی کے موجودہ ہتھکنڈے جاری رہے تو مزید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ یونینسٹ پارٹی کے ممبروں نے ابھی تک مسلم لیگ کے حلف نامے پر دستخط نہیں کیے اور جہاں تک مجھے علم ہے وہ دستخط کرنا بھی نہیں چاہتے ۔ وہ مسلم لیگ کا آئند ہ اجلاس لاہور میں فروری کے بجائے اپریل میں منعقد کروانا چاہتے ہیں۔ میرے خیال میں اس لیت و لعل سے ان کا مقصد یہ ہے کہ رفتہ رفتہ صوبے میں ان کی زمیندارہ لیگ کے پاؤں جم جائیں۔ شاید آپ کو معلوم نہ ہوکہ لکھنؤ سے واپس آکر سر سکندر نے پنجاب میں ایک زمیندارہ لیگ قائم کی ہے اور اب اس زمیندارہ لیگ کی شاخیں صوبے کے طول و عرض میں پھیلائی جارہی ہیں۔ براہ کرم مجھے اطلاع دیجییٔ کہ ان حالات ہمیں کرنا چاہیے۔۵۰ اقبال کی رائے میں سکندر جناح میثاق صوبائی لیگ کے لیے ایک نقصان دہ معاہدہ تھا۔ یہی رائے صوبائی لیگ کے دیگر قائدین کی تھی۔ مثلاً ملک برکت علی کے خیال میں اگر محمد علی جناح ، سر سکندر حیات سے مفاہمت نہ کرتے تو بھی پنجاب میں مسلم لیگ کو عوامی سیاسی تنظیم بنانے کی خاطر یونینسٹ پارٹی کے خلاف جدو جہد جاری رہتی۔ وہ فرماتے ہیں: یہ صحیح ہے کہ لیگ کی مالی حالت سخت مخدوش تھی۔ دیہاتی آبادی کو یہ کہہ کر کہ لیگ شہری مسلمانوں کی ایک جماعت ہے، ہم سے بد گمان کیا گیا تھا۔ مسلم لیگ کے مقابلے میں زمیندارہ لیگ قائم کر کے گاؤں کے لوگوں کو بہکانے کی کوششیں بھی شروع ہوگئی تھیں، لیکن ان سب باتو ںکے باوجو دکانگرس کی یلغار سے شہری اور دیہاتی مسلمان دونوں پریشان ہورہے تھے اور ان کی پریشانی کا مداوا صرف مسلم لیگ کے پاس تھا ۔ مسٹر جناح کو انجام کار یونینسٹ پارٹی کے خلاف لڑنا ہی پڑا، اگرچہ یہ لڑائی چھ سال بعد ہوئی او رمیری رائے میں نامناسب موقع پر نامناسب اسباب اور نامناسب حالات میں ہوئی ۔ تاہم یہ سب کچھ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ سکندر جناح پیکٹ ایک غلط اور نقصان دہ معاہدہ تھا۔۵۱ یہ قابل اعتراض معاہدہ کیوں کیا گیا؟ عاشق حسین بٹالوی اس سوال کا جواب دیتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: میری ذاتی رائے ہے کہ مسٹر جنا ح اس وقت دو مختلف محاذو ںپر لڑنا قرین مصلحت نہیں سمجھتے تھے ۔ کانگر س اس شدت سے مسلمانوں کی قومی جمعیت تہس نہس کر نے پر تلی ہوئی تھی اور اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھاکہ ہم اپنے گھر کے اندرونی اختلافات کو کسی نہ کسی طرح طے کرکے ایک متحدہ محاذ قائم کر لیتے۔ مسٹر جناح نے یہی کیا۔۵۲ عاشق حسین بٹالوی مزید لکھتے ہیں کہ اقبال کی ہدایت کے مطابق سکندر جناح میثاق کے قضییٔ سے آنکھیں بند کرکے کارکنان صوبائی مسلم لیگ نے اپنی مہم جاری رکھی۔ لیگ کا سرمایہ ختم ہو چکاتھا، اس لیے لیگ کا دفتر غلام رسول خان بیرسٹر کے گھر پر قائم کیاگیا۔ سر مایہ کی کمی اور دیگر نامناسب حالات میں جس جاں فشانی کے ساتھ کارکنان لیگ نے پنجاب کے مختلف اضلاع میں اپنا کام جاری رکھا، وہ یہاں کے مسلمانوں کی اجتماعی سیاسی زندگی میں ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔۵۳ دسمبر ۱۹۳۷ء کے آغاز ہی سے اقبال نے حج پر جانے کے لیے مختلف جہازران کمپنیوں سے خط و کتابت شروع کردی، لیکن ان کی صحت خراب سے خراب تر ہوتی جارہی تھی اور اب کسی قسم کا سفر کرنا ان کے لیے ممکن نہ رہاتھا۔ بینائی تقریبا ختم ہوچکی تھی ۔ڈاکٹر متھر اداس نے معائنہ کیا۔ ان کا خیال تھاکہ مارچ ۱۹۳۸ء تک ممکن ہے، آنکھ آپریشن کے لائق ہوجائے ، لیکن بعد میں دمے کے شدید دوروں کے پیش نظر آپریشن ملتوی کرنا پڑا۔ ایک دن حج پر جانے کی باتیں کرتے ہوئے کہنے لگے کہ عراق ہو کر بھی لوگ حجاز جاتے ہیں ، مگر دریافت کروانے پر معلوم ہوا کہ اس راستے میں اور دشواریاں ہیں۔ قریب ہی ان کی بہن زینب بی بیٹھی تھیں۔ بولیں: عام صحت کی خرابی کے علاوہ آپ کی آنکھوں میں پانی بھی تو اتر رہاہے ، ایسی حالت میں حج کا سفر کس طرح کرسکتے ہیں۔ اللہ خیر سے رکھے۔ اگلے سال آپریشن کے بعد چلے جائیے گا۔ اس پر بڑے درد انگیز لہجے میں فرمایا:آنکھوں کا کیاہے۔ آخر اندھے بھی تو حج کرہی آتے ہیں۔ اتنا کہنے کے بعد آنکھو ںسے آنسوؤں کی لڑیا ں جاری ہوگئیں ، گویا کہہ رہے ہوں: نسیما جانبِ بطحا گذر کن زاحوالم محمدؐ را خبر کن۵۴ دسمبر ۱۹۳۷ء ہی میں انٹر کالجیٹ مسلم برادر ہڈکے زیر اہتمام لاہور میں یوم اقبال کی تقریب منانے کی تیاریاں ہونے لگیں۔اِس موقع پر سرسکندرحیات نے اپنے ایک اخباری بیان مورخہ ۵؍دسمبر ۱۹۳۷ء میں ہندوستانیوں کو بالعموم اور پنجابیوں کو بالخصوص یوم اقبال کی تقریب کو ایک مقدس مذہبی فریضہ سمجھ کر ا س میں سرگرمی سے حصّہ لینے کی تلقین کرتے ہوئے کہا: اس سلسلے میں یہ تجویز پیش کرتاہوں کہ جس جس شہر میں یوم اقبال منایا جائے ، وہاں کے باشندوں کو چاہیے کہ وہ شاعر اعظم کی خدمت میں ایک تھیلی نذرکریں۔ اس تجویز پر عمل کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اقبال کمیٹی کو چاہییٔ کہ امپیر یل بنک آف انڈیا میں یوم اقبال فنڈ کے نام سے حساب کھول دے ۔ اقبال کے نیاز مندوں اور ان کی شاعری کے مدّاحوں کا فرض ہے کہ وہ جملہ رقوم براہ راست بنک کو ارسال کردیں جو انجام کار ہمارے محبوب شاعر کی خدمت میں پیش کی جائیںگی۔ ۵۵ اقبال نے اپنی زندگی میں یوم اقبال کی تقریب منانے کے بارے میں رضا مندی کا اظہار اس لیے کیا تھاکہ نوجوانان ملت میں ان کے افکار ونظریات کی تشہیر ہوتا کہ وہ مستقبل میں عالم اسلام کی رہنمائی کرتے ہوئے اس نئے اسلامی معاشرے کو وجود میں لاسکیں جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا۔ مگر سر سکندر حیات نے اسے ’’شاعر اعظم‘‘کی ذاتی ضروریات کے لیے روپیہ اکٹھا کرنے کا ایک ذریعہ قرار دیتے ہوئے دراصل اقبال کی غریبی کا مذاق اڑایا ۔ پس اقبال نے فوراً ان کی تجویز کے جواب میں ایک بیان مورخہ ۱۰دسمبر ۱۹۳۷ء کو جاری کیا جس میں فرمایا: سرسکندرحیات خان نے انٹرکالجیٹ مسلم برادرہڈکے نام اپنے پیغام میں میرے متعلق جن پر خلوص جذبات کااظہار کیاہے میں ان کا ممنون ہوں ، لیکن میں ان کی پیش کردہ تجویز کہ میرے کلام اور افکار میں دلچسپی رکھنے والے سب مل کر مجھے تھیلی پیش کریں، کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں ۔ میں سمجھتاہوں کہ موجودہ حالات میں قوم کی اجتماعی ضروریات اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کے مقابلے میں ایک شخص کی انفرادی ضرورت کو ئی حیثیت نہیں رکھتی، اگرچہ اس شخص کی شاعری نے کئی انسانوں کی روح کو جلا ہی کیوں نہ بخشی ہو۔ فرد اور اس کی احتیاج بہر حال ختم ہوجانے والی چیز ہے ، لیکن قو م اور اس کی احتیاج ہمیشہ باقی رہے گی۔ آج وقت کی سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ اسلامی علو م کی جدیدطریقوں کے مطابق تحقیق کے لیے لاہور کے اسلامیہ کالج میں ایک شعبہ قائم کیا جائے ۔ اسلامی تاریخ ، دینیات ، فقہ اور تصوّف کے بارے میںمروّجہ لاعلمی اور جہالت سے ، جس قدر فائدہ غرض مند لوگوں نے پنجاب میں اٹھایا ہے، اس کی مثال ہندوستان بھر میں کہیں نہیں ملتی ۔ اب وقت آگیا ہے کہ اسلامی فکر او رطرز حیات کا بغور مطالعہ کرکے عوام کو بتایا جائے کہ اسلام کا اصل مقصد کیا ہے اور مسلم ہند میں اُسے کس طرح تہ بہ تہ پردوں میں چھپا کر اسلام کی روح کو مسخ کردیا گیا۔ اب فوری طور پر ان پردوں کو ہٹانے کی ضرروت ہے تاکہ نئی نسل کے نوجوان اسلام کی حقیقی شکل و صورت سے آگاہ ہوکر اپنے ضمیر کا اظہار قدرتی آزادی کے ساتھ کرسکیں۔ ایسا شعبہ صرف مسلمانوں ہی کے لیے نہیں بلکہ غیر مسلموں کے لیے بھی مفید ثابت ہوسکتاہے ، کیونکہ اسلام اگر ایشیا کے باشندوں کی زندگی میں ایک اہم عنصر کی حیثیت سے کار فرمارہاہے تو اس نے بنی نوع انسان کے ذہنی اور مذہبی ارتقا میںبھی بڑا نمایاں حصہ لیاہے۔ مجھے امید ہے کہ میری تجویز کو وزیر اعلیٰ پسند فرمائیںگے اور اپنے اثر ورسوخ سے اسے کامیاب بنانے کی کوشش کریںگے۔ تاہم میں ایک سو روپے کی حقیر رقم اس مجوزّہ فنڈ کی نذر کرتاہوں۔۵۶ سر سکندر حیات ، اقبال کی خواہش کیونکر پوری کرسکتے تھے، اوّل تو انہیں اسلام یا اُس کے تمدن میں کوئی دلچسپی نہ تھی اور دوم وہ ایک ایسی علاقائی سیاسی تنظیم کے مسلم لیڈر تھے جو غیر فرقہ وارانہ تھی۔ پس اقبال کے جوابی بیان نے انہیں لاجواب کردیا۔ ۱۹۳۸ ء کے آغاز تک دنیا کے حالات میں اس قدر تغیر آچکا تھاکہ ایک بار پھر عالمگیر جنگ چھڑجانے کے امکانات پیدا ہورہے تھے۔ ادارۂ جمعیت اقوام نوآبادیاتی طاقتوں کی حمایت یا برطانیہ اور فرانس کے مفادات کے تحفظ کے لیے مخصوص ہوچکا تھااور چونکہ اسے جرمنی یا اٹلی جیسی یورپی طاقتیں اور جاپان کوئی اہمیت نہ دیتے تھے، اس لیے آئندہ کسی جنگ کو روکنا اس کے بس میں نہ رہاتھا،بلکہ غالب امکان تھاکہ مستقبل قریب میں یہ ادارہ ٹوٹ جائے گا۵۷۔پسماندہ اقوام بھی اس ادارے سے بدگمان اور برگشتہ تھیں، کیونکہ یہ ادارہ انہیں نو آبادیاتی طاقتوں کے استعمار اور استحصال سے کسی قسم کا تحفظ فراہم کرنے کے قابل نہ تھا۔ ۱۹۳۷ء میں حکومت برطانیہ کی قائم کردہ پیل کمیشن کی تقسیم فلسطین کے متعلق رپورٹ کے بارے میں عرب اس ادارے کے ذریعے کچھ بھی نہ کر سکتے تھے اور بے بس تھے۔ جرمنی میں ہٹلر کی آمرانہ حکومت قائم تھی، نازی اسٹیٹ کا اوّلین مقصد جرمنوں کے اتحاد کو وجود میں لانا تھا۔ ۱۹۳۳ء میں نازی جرمنی اداراہ جمعیت اقوام سے علیٰحدہ ہوگیا۔ ۱۹۳۵ء میں فرانس کا ہتھیایا ہوا سارلینڈ کا جرمن علاقہ جرمنی میں دوبارہ شامل کر لیا گیا۔ اسی سال جرمنی نے عسکری طورپر اپنے آپ کو مضبوط بنانے کا حق برطانیہ او رفرانس سے تسلیم کروایا۔۱۹۳۶ء میں جرمنی اور اٹلی کے درمیان عسکری معاہدہ وجود میں آیا اور بعد ازاں جرمنی اور اٹلی نے اسی قسم کا معاہدہ جاپان کے ساتھ بھی کیا۔ ۱۹۳۷ء میںہٹلر نے مستقبل میںاپنی عسکری پالیسی کا خاکہ تیار کیا اور فروری ۱۹۳۸ء میں جرمن فوجیں آسٹریا پر قابض ہوگئیں۔ بعد ازاں چیکوسلوا کیا بھی نازی جرمنی کا حصّہ بنادیاگیا۔ اٹلی میں فاشی پارٹی کے لیڈر مسولینی نے اپنی آمرانہ حکومت قائم کررکھی تھی۔ مسولینی بھی پسماندہ ممالک پر قبضے کی پالیسی پر کا ربند تھا۔ ۱۹۳۵ء میں اطالوی فوجیں ایبے سینیا پر قابض ہوگئیں۔ اور ادارۂ جمعیت اقوام اٹلی کو نہ روک سکا۔بعدازاں ۱۹۳۶ء میں ہسپانوی خانہ جنگی میں اٹلی نے جنرل فرانکو کا ساتھ دیا اور اسے عسکری امداد فراہم کی ۔اسی سال جرمنی اور جاپان سے عسکری معاہدے کیے گئے۔ ۳۰-۱۹۲۹ء کے شدید معاشی بد حالی کے دور میں جاپانیوں میں اس نظریے کو تقویت حاصل ہوئی کہ عسکری فتوحات کے بغیر جاپان اپنے معاشی مسائل حل نہیں کر سکتا۔ جمعیت اقوام کے اجلاسوں میں چین اور جاپان دونوں نے کوشش کی تھی کہ ادارے کے چارٹر میں نسلی برابری کی شق کا اضافہ کردیاجائے، لیکن مغربی سیاستدانوں کی مخالفت کے سبب ایسا نہ ہوسکا۔ جاپان کی معاشی ابتری اور سیاست دانو ں کی پے درپے ناکامیوں کی وجہ سے عوام کی نگاہیں فوج کی طرف اٹھنے لگیںچنانچہ فوج پر سیاسی لیڈروں کا کنٹرول نہ رہا۔ ۱۹۳۱ء میں جاپانی فوج از خود مانچوریا پر قابض ہوگئی اور سولین حکومت اس کا کچھ نہ بگاڑ سکی ۔ ۱۹۳۳ء میں فوج ہی کے زیر اثر جاپان ادارۂ جمعیت اقوام سے علیٰحدہ ہوگیا۔ بعدازاں مشرقی ایشیا میں جاپان نے ایک نئے نظام کے قیام کے لیے اپنی کوششیں تیز تر کردیں۔ ۱۹۳۴ء میںجاپان کی طرف سے وضاحت کی گئی کہ چین کے متعلق اس کی پالیسی پر وہ کسی کی مداخلت برداشت نہ کرے گا ۔ ۱۹۳۶ء میں جاپان نے جرمنی اور اٹلی کے ساتھ عسکری معاہدے کیے۔ ۱۹۳۷ء میں جاپانی فوجوں نے چین پر حملہ کردیا اور نانکنگ ، ہانکاؤ اور کانٹن پر قابض ہوگئیں۔ بعدا زاں جرمنی اور اٹلی نے جاپان کوایشیا کے نئے نظام کالیڈر تسلیم کرلیا اور کسی بھی طاقت کے ساتھ جنگ کی صورت میں ایک دوسرے کی عسکری امداد کا عہد کیا ۔ اقبال کو یقین تھا کہ روحانی عقائد او راخلاقی اقدار سے عاری سائنس اور ٹیکنالوجی کی بنیادوں پر قائم مادیّت پرست جدید مغربی تہذیب بالآخر اپنے خنجرسے (یعنی اپنی ہی سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعہ )آپ ہی خود کشی کرے گی۔ ایسی خودکشی کے لیے کتنی عالمی جنگیں درکارتھیں! اس کے متعلق تو انہوں نے کوئی پیش گوئی نہ کی تھی۔ بہرحال ایک عالمی جنگ اقبال کی زندگی میں گزر چکی تھی اور دوسری کے وہ منتظر تھے۔ روز پوچھا کرتے کہ جنگ شروع ہوئی ہے کہ نہیں۔ اقبال جدیدیت سے نہیں مغربیت سے برگشتہ تھے۔ کیونکہ انہیں اس کی بقا کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی ۔ اسی پس منظر میں انہوں نے یکم جنوری ۱۹۳۸ء کو نئے سال کا پیغام دیا جو آل انڈیا ریڈیو لاہور سے نشر کیا گیا۔ آپ نے فرمایا: عہد حاضر علم ودانش اور سیاسی ختراعات میں اپنی بے مثال ترقی پر بجا طور پر متفخر ہے۔ آج زمان و مکاں کی تمام وسعتیں سمٹ رہی ہیں اور انسان قدرت کے راز افشا کرکے ا سکی قوتوں کو اپنے مقاصد کی خاطر استعمال کرنے میںحیرت انگیز کامیابیاں حاصل کررہا ہے، لیکن تمام ترقی کے باوجود اس زمانے میں ملوکیت کے جبرواستبداد نے ڈیماکریسی، (جمہوریت)،نیشنلزم(قوم پرستی)، کمیونزم (اشتراکیت)،فاشیزم (فسطائیت) اور نہ جانے کیا کیانقاب اوڑھ رکھے ہیں۔ ان نقابوں کی آڑمیں دنیا کے کونے کونے میں قدر حریت اور شرف انسانیت کی ایسی مٹی پلید ہورہی ہے کہ تاریخ عالم کا کوئی تاریک سے تاریک ورق بھی اس کی مثال پیش نہیں کرسکتا۔ نام نہاد سیاستدان جنہیں قیادت عوام اور انتظام حکومت کی ذمہ داری سونپی گئی تھی ، قتل و غارت اور ظلم و استبداد کے شیاطین ثابت ہوئے ہیں اور ان حاکموں نے جن کا فرض ایسی اقدار کی سر بلندی اور تحفظ تھا، جو اعلیٰ انسانیت کی تشکیل و تعمیر کا سبب بنتی ہیں…اپنے اپنے مخصوص گروہوں کے طمع اور حرص کی خاطر لاکھوں انسانوں کا خون بہایا ہے او ر کروڑوں کو اپنا محکوم بنالیا ہے۔ پسماندہ اقوام کے ممالک پر قابض ہوکر انہوں نے ان سے ان کا مذہب، اخلاقی اقدار، تمدنی روایات اور ادب سب کچھ چھین لیا ہے…سال نو کی آمد کی خوشیوں میں جب میری نگاہ دنیا پرپڑتی ہے تو میں محسوس کرتا ہوں کہ خواہ ایبے سینیا ہویا فلسطین ، ہسپانیہ ہو یا چین، انسان کے ہر ارضی گھر پر غم و اندوہ کے بادل چھائے ہیں اور سیکڑوں بلکہ ہزاروں انسان روز بڑی بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیے جاتے ہیں ۔ سائنس کی تیار کی ہوئی تباہی کی مشینیں انسانی تمد ّن کے حاصل کردہ عظیم شاہکاروں کونیست ونابود کرتی چلی جارہی ہیں۔وہ حکومتیں جو بجائے خود اس آگ اور خون کے ڈرامے میں ملوّث نہیں ، معاشی طورپر کمزور اقوام کا خون چوس رہی ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے گویا قیامت آگئی ہے ،جس میں ہر کسی کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے اور افراتفری کے عالم میں انسانی ہمددری یا اخوت کی کوئی بھی آواز سنائی نہیں دیتی۔ مفکرین عالم حیرت سے انگشت بدنداں ہیں کہ کیا تہذیب حاضر کی ترقی و ارتقا کے خاتمے کا وقت آن پہنچا ہے ، جو باہمی نفرت کے سبب انسان ، انسان کی تباہی و بربادی کے درپے ہے، اور بالآخر اس دنیا میں انسانی بود و باش کو ناممکن بنادیاجائے گا۔ یاد رکھو، اس دنیا میں انسان کی بقا انسانیت کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھنے ہی سے ممکن ہے… سو صرف ایک ہی قسم کا اتحاد قابل اعتمادہے اور اس اتحادکی بنا ہے اخوتِ انسانی، جو نسل ، قومیت، رنگ او رزبان سے بالاتر ہو۔ جب تک اس نام نہاد ڈیما کریسی ، لعنتی نیشنلزم اور ذلتّ آمیز امپیریلزم کاقلع قمع نہیں کیا جاتا، جب تک انسان اپنے اعمال کے ذریعے یہ مظاہرہ نہیں کرتے کہ ان کے عقیدے کے مطابق ساری دنیا خدا وند تعالیٰ کا ایک واحد خاندان ہے ، جب تک نسل ، رنگ او رعلاقائی قومیتوں کے امتیازات قطعی طورپر مٹا نہیں دیے جاتے ، اس دنیا میں انسانوں کو کبھی بھی خوشی، مسرّت اور اطمینان کی زندگی نصیب نہ ہوگی اور آزادی ، مساوات اور اخو ّت کے حسین تخیل کو کبھی بھی حقیقت کاجامہ نہ پہنایاجا سکے گا،پس ہمیں نئے سال کی ابتداء اس دعا سے کرنا چاہیے کہ خداو ندکریم دنیا کے حاکموں کو انسانیت اور نوع انسان کی محبت عطا فرمائے۔۵۸ ۹؍جنوری ۱۹۳۸ء کو انٹر کالجیٹ مسلم برادرہڈکے زیر اہتمام مینارڈ ہال ، لاہور میں بڑے تزک و احتشام کے ساتھ یو م اقبال منایاگیا۔ برصغیر کے دیگر بڑے شہروں میں بھی ایسی تقریبات منعقد ہوئیں اور مختلف اخباروں یا رسالوںنے اقبال نمبر شائع کیے ۔ لاہور کی تقریب میں جہا ں راقم بھی موجود تھا، اقبال کے فکرو شاعری پر کئی مقالات پڑھے گئے اور ہجوم اس قدر تھا کہ ہال سے باہر برآمدوں میں بھی لوگ کھڑے تھے۔ راقم خواجہ غلام السیّدین کے ہمراہ موٹر کار میں بیٹھ کر ماڈل ٹاؤن میں ان کے بعض عزیزوں یا دوستوں کوملنے چلاگیا۔گھر میں کسی کو خبر نہ تھی ۔ شام کو واپسی ہوئی تو اقبال کو شدید پریشانی میں مبتلا پایا۔ انہیں گمان تھاکہ راقم کہیں کھو گیا ہے یا اسے کسی نے اغوا کرلیا ہے ۔ بہرحال راقم کو خواجہ غلام السید ین کی معیّت میں زندہ و سلامت دیکھ کر ان کی جان میں جان آئی۔ اقبال اپنی حیات میں یوم اقبال کی تقریبات منائے جانے پر خاصے مطمئن تھے۔چنانچہ ایک خط میں انہوں نے اپنے تاثرات ان الفاظ میں بیان کیے ہیں: وہ تقریب جسے یوم اقبال کے نام سے موسو م کیاجاتاہے ، اس میں میرے لیے صرف یہ خیال باعث طمانیت قلب ہے کہ جس زمین میں مَیں نے اپنا بیج پھینکا تھا وہ زمین شور نہیں۔۵۹ ۱۰؍جنوری ۱۹۳۸ء کو نظام حیدرآباد دکن کے صدر اعظم سر اکبر حیدری نے غالباً سر سکندر حیات کے گذشتہ بیان سے متاثر ہو کر، ایک ہزار روپے کا چیک اقبال کو ارسال کیا اور ساتھ تحریر کیا کہ یہ رقم شاہی تو شہ خانے سے ، جس کا انتظام ان کے ذمّے ہے، بطور تواضع بھیجی جارہی ہے۔ اس پر اقبال سخت برہم ہوئے ۔ چیک لوٹا دیا گیا اور سر اکبر حیدری کے نام درج ذیل اشعار بھی لکھے جو ارمغان حجاز میں شامل ہیں: تھا یہ اللہ کا فرماں کہ شکوہ پرویز! دو قلندر کو کہ ہیں اس میں ملوکانہ صفات مجھ سے فرمایا کہ لے اور شہنشاہی کر حسنِ تدبیر سے دے آنی وفانی کو ثبات میں تو اس بار امانت کو اٹھاتا سر دوش کامِ درویش میں ہر تلخ ہے مانند نبات غیرت فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول جب کہا اُس نے یہ ہے میری خدائی کی زکات شروع شروع میں سر فضل حسین او رسر عبدالقادر کی طرح سر اکبر حیدری سے بھی اقبال کے تعلقات بڑے دوستانہ تھے، لیکن گول میز کانفرنسوں کے دوران میں ، سیاسی اختلافات کی بنا پر ان تعلقات نے محض رسمی صورت اختیار کرلی تھی۔ بہرحال اقبال کے نقطۂ نظر سے اس تکلیف دہ واقعہ نے تعلقات کی رسمی عمارت کو بھی منہدم کردیا۔ نظر حیدرآبادی کی تحقیق کے مطابق اس حادثے کے پس منظر میں شاہی توشہ خانے کے ایک ہندو منتظم کی نا اہلی اور غلط کاری کے سوا کچھ نہیں تھا، جس نے عمدا ًیا ناواقفیت کی بنا پر چیک کے ساتھ دفتر ی زبان میں ایک خشک اور سپاٹ سا مراسلہ بھی سراکبر حیدری کی جانب سے اقبال کی خدمت میں روانہ کردیا۔ بقول ان کے : لیکن اس نااہلی اور غلط کاری نے اکبر حیدری کے متعلق اقبال سے ایک ایسا غیر فانی قطعہ کہلوادیا،جس کی وجہ سے اکبر حیدری کی شخصیّت ملک میں مشتبہ ہوکر رہ گئی۔ ۶۰ جنوری ۱۹۳۸ء کی ایک شام لارڈ لوتھیا ن اقبال سے ملنے آئے۔ وہ اقبال کے مداحوں میں سے تھے اور برصغیر میں مسلم ریاست کے قیام کے متعلق اقبال کی تجویز کو ہندوستان کے فرقہ وارانہ مسئلے کا مناسب حل خیال کرتے تھے۔ انہی کی کوششوں سے ۱۹۳۴ء میں اقبال کے انگریزی خطبات کادوسرا ایڈیشن آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیاتھا اورانہی کی وساطت سے اقبال کو آکسفورڈ یونیورسٹی میں روڈز لیکچروں کی دعوت دی گئی تھی۔ اقبال نے اپنے لیکچروں کے لیے مسلم فکر میں زمان و مکاں کا تصو ّر موضوع چناتھا، مگر اپنی مسلسل علالت کے سبب وہ اس ارادے کی تکمیل نہ کرسکے۔۱۹۳۸ء میں لارڈ لوتھیان ہندوستان کا دورہ کررہے تھے اور اسی دوران میں انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کانووکیشن سے بھی خطاب کیا۔ ۸جنوری ۱۹۳۸ء کو مولانا حسین احمد مدنی نے دہلی کے ایک جلسے میں اپنی تقریر میں فرمایاکہ موجودہ زمانے میں قومیں اوطان سے بنتی ہیں اور یہ کہ انگلستان میں بسنے والے سب ایک قوم سمجھے جاتے ہیں ، حالانکہ ان میں یہودی بھی ہیں ، عیسائی بھی، پروٹسٹینٹ بھی اور کیتھولک بھی۔ نیزا مریکہ ، جاپان اور فرانس وغیرہ میں بھی یہی حال ہے ۶۱۔اس تقریر کی تفصیل دہلی اور لاہور کے اخباروں میں شائع ہوئی اور اقبال کی نظروں سے بھی گزری ۔ اقبال ایک عرصے سے مغرب کے اس غیر اسلامی نظریۂ وطینت کے خلاف جہاد کرتے رہے تھے، اس لیے انہیں مولانا حسین احمد مدنی جیسے عالم دین کی زبان سے یہ الفاظ سن کر بے حد صدمہ پہنچا ۔ چنانچہ اسی پس منظر میں ۲۸؍جنوری ۱۹۳۸ء کو سید نذیر نیازی سے کہا کہ درج ذیل تین شعر درج بیاض کردیں : عجم ہنوز نداند رموزِ دیں ورنہ ز دیوبند حسین احمد ایں چہ بوالعجبی است سرود بر سرِ منبر کہ ملّت از وطن است چہ بے خبرز مقام محمد عربی است بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر بہ اونرسیدی تمام بولہبی است۶۲ اس قطعہ اشعار کے متعلق سیّد نذیر نیازی بیان کرتے ہیں : اس کی (اخباروں میں ) اشاعت پر ایک ہنگامہ برپا ہوگیا …معترضین نے اس قطعہ پر قطعے لکھے۔ اخبارو ں میں مضامین شائع ہوئے۔ پمفلٹ چھاپے گئے، لیکن آج یہ سب باتیں یاد سے محو ہوچکی ہیں ، نہ کسی کو قطعات کا علم ہے نہ مضامین اور پمفلٹوں کا ۔ ان قطعوں اور پمفلٹوں میں کوئی جان تھی نہ روح۔ برعکس اس کے حضرت علا ّمہ نے ایک حق بات کہی تھی ۔ اور حق اپنی جگہ پر آج بھی قائم ہے ۔ مخالفین سمجھتے تھے کہ حضرت علا ّمہ نے ایک ایسے عالم دین ، پابند کتاب و سنت اور پیشوائے مذہب کی شان میں گستاخی کی ہے جس کے درس کتاب و سنت سے مدرسہ دیوبند فیض یاب ہورہا ہے، لیکن یہی تو امر تھا جس کی طرف حضرت علا ّمہ اشارہ کررہے تھے کہ کیا غضب ہے جغرافی قومیت کے اس تصو ّر کو جو مادّیت پرستی پر مبنی اور مغرب سے آیا ہے ، مولانا کی حمایت حاصل ہے۔ حالانکہ کتاب وسنت میں اس کی کوئی سند ہے نہ عالم اسلام نے کبھی اسے تسلیم کیا ۔ حضرت علا ّمہ کو مولانا کا احترام تھا اور احتراماً ہی انہوں نے شکایت بھی کی ۔ انہیں تعجب تھا، مولانا نے ایک ایسی بات کیسے کہہ دی جس سے اسلام کے نظام اجتماع و عمران کی نفی ہوتی ہے۔ ۶۳ ۲۶جنوری ۱۹۳۸ء کو پنجاب ہائی کورٹ نے مسجد شہید گنج کے متعلق مسلمانوں کی اپیل خارج کردی ۔ فل پنچ کے دو ججوں ینگ اور بھڈے نے تو ڈسٹرکٹ جج کے موقف سے اتفاق کیا لیکن تیسرے جج دین محمد نے ان کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے اپنا فیصلہ علیٰحدہ دیا۔ قانو نی طورپر اقبال ، دین محمد کے اختلافی فیصلے کو درست سمجھتے تھے، لیکن بقول ان کے قانون کے پردے میں حکومت پنجاب ایک سیاسی کھیل کھیل رہی تھی جس کا مقصد مسلمانوں کے مقابلے میں سکھوںکو مضبوط کرنا تھا۔۶۴ ہائی کورٹ کے فیصلے سے مسلمانوں میں بڑا اضطراب پھیلا اور لاہور میں احتجاجی جلوس نکلنے شروع ہوگئے۔ سر سکندر حیات کو خوف تھا کہ کہیں حالات بے قابونہ ہوجائیں ۔ وہ خود تو مصلحتاً مسلم عوام کے سامنے نہ آنا چاہتے تھے، لیکن انہوں نے کوشش کی کہ کسی نہ کسی طرح اقبال سے ایک اخباری بیان جاری کرادیاجائے کہ ابھی پریوی کونسل میں اپیل کا مرحلہ باقی ہے، لہٰذا مسلمانو ںکوپریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے نو اب مظفر علی خان کی قیادت میں اپنے چند معتمد رفقائے کا راقبال کی طرف بھیجے ۔ راقم کی یادداشت کے مطابق یہ حضرات اقبال سے ملاقات کی خاطر گو ل کمرے میں داخل ہوئے اورجب انہوں نے اپنے آنے کا مدعا بیان کیا، تو اقبال نے ان کی مرضی کے مطابق اخباری بیان جاری کرنے سے انکار کردیا ، بلکہ غصّے میں اٹھ کر اپنی خواب گاہ میں تشریف لے گئے اور اندر سے دروازہ مقفل کرلیا۔ وہ اتنی دیر خواب گاہ میں بند رہے جب تک کہ نواب مظفر علی خان اور ان کے ساتھی رخصت نہ ہوگئے۶۵ ۔اس کے باوجود ان یونینسٹ لیڈروں نے اخباروں میںخبر شائع کرا دی کہ اقبال کے ہاں ان کے اجتماع میں پریوی کونسل میں اپیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔اس پر اقبال کو اپناتردید ی بیان جاری کرناپڑا۔۶۶ ۳۰؍جنوری ۱۹۳۸ء کو آل انڈیامسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے اجلاس دہلی میں فیصلہ کیا گیا کہ یکم فروری ۱۹۳۸ء کو سارے ہندوستان میں یوم مسجد شہیدگنج منایا جائے۔ نیز اس مسئلے کے حل کے لیے آئندہ کے طرز عمل پر غور کرنے کی خاطر لیگ کے ایک خصوصی اجلاس کا انعقاد کیا جائے ۔ اقبال کو چونکہ یقین تھا کہ قانون کی رو سے مسجد بارہ سال کے بعد بھی قبضہ ٔ مخالفانہ میں رہ کر اپنا تقدس نہیں کھوتی ، انہوں نے تنہا مسلم لیگی ممبر ملک برکت علی سے کہا کہ پنجاب اسمبلی میں تحفظ مساجد کا مسودہ قانون پیش کریں جس کا مقصد یہ ہو کہ مساجد کو رائج الوقت قانون سے مستثنیٰ قرار دیا جائے اور اس کا اطلاق ماضی پر بھی ہو۔ بقول عاشق حسین بٹالوی اس مسوود قانون کا پورا خاکہ اقبال نے تجویز کیاتھا۔ البتہ عبارت ملک برکت علی کی تھی۶۷،لیکن سر سکندر حیات کے مشورے پر گورنرپنجاب نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال میںلاتے ہوئے اس بل کو اسمبلی میںپیش کرنے کی اجازت نہ دی۔ پس یہ بل اسمبلی میں پیش نہ کیا جاسکا۔۶۸ جنوری ۱۹۳۸ء کے آخری حصّے میں ایک دن پنڈت جواہر لعل نہرو بھی اقبال سے ملنے جاوید منزل میں تشریف لائے۔ وہ ڈاکٹر محمد عالم بیرسٹر کے مقدمہ ازالہ حیثیت عرفی برخلاف ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ وغیرہ میں شہادت دینے کی خاطر بطور گواہ لاہور آئے تھے اور میاں افتخار الدین کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ اس وقت تک ہندو اورمسلم قائدین کے درمیان خلیج اسقدر وسیع ہوچکی تھی کہ اس ملاقات کے مختلف پہلوؤں کو بھی متنازعہ فیہ بنادیاگیا۔ مثلاً پہلا اہم سوال یہ اٹھایا گیا کہ اقبال نے انہیں پیغام بھیج کر بلوایاتھا یا وہ خود اقبال سے ملاقات کے لیے آئے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو نے اپنی انگریزی تصیف ’’ہندوستان کی دریافت ‘‘میں اس واقعے کاذکر یوںکیا ہے: رحلت سے چندماہ قبل جب کہ وہ صاحب فراش تھے انہوںنے مجھے یاد فرمایا اور میں نہایت خوشی سے ارشاد کی تعمیل میں ان کی خدمت میںحاضر ہوا ۔ میں نے محسوس کیا کہ اختلافات کے باوجود ہمارے درمیان کس قدر باہمی اشتراک موجود تھا اور مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ ان جیسی شخصیت کیساتھ کام کرنا کتنا آسان ہے ۔ وہ اس وقت پرانی یادیں تازہ کررہے تھے، اورگفتگو مختلف موضوعات پر ہوتی رہی۔ جس میں میں نے خود بہت کم حصّہ لیا اور زیادہ تر انہی کی باتیں سنتا رہا۔ میں ان کی شاعری کا مداح ہوں اور مجھے یہ معلوم کرکے بے حد مسرت ہوئی کہ وہ بھی مجھے پسند فرماتے ہیں اور میرے متعلق اچھی رائے رکھتے ہیں۔۶۹ اس سلسلے میں سید نذیر نیازی تحریر کرتے ہیں: میں نے اقبال سے موقع پاکر عرض کیا : پنڈت جی سے ملاقات کیسی رہی ؟ فرمایا ایک روز ڈاکٹر چکرورتی آئے تھے۔ کہنے لگے ، پنڈت جی سے جب کبھی ذکر آیاانہوں نے آپ سے بڑی عقیدت کا اظہار کیا ۔ وہ آج لاہور آرہے ہیں میرا جی چاہتاہے ان کی آپ سے ملاقات ہوجائے۔ آپ کو اعتراض تو نہیں ہوگا۔ میںنے کہا اس میں اعتراض کی کیا بات ہے۔ آپ کو جب موقع ملے انہیں یہاں لے آئیے۔ لیکن دومسئلے ہیں : ایک ہندوستان کی آزادی ، دوسرا آزادی کی اس جدوجہد میں مسلمانوں کاحصّہ ، پنڈت جی ان دونوں مسئلوں پرغور کرکے آئیں…ڈاکٹر صاحب اس روزشام کو پھرآئے، کہنے لگے پنڈت جی کو آج فرصت ہے ہم لوگ آٹھ بجے حاضر ہوجائیںگے۔ میںنے کہا بسرو چشم تشریف لائیے۔۷۰ بہرحال پنڈت جواہر لعل نہرو کے استقبال کے لیے اقبال نے راقم اورمیاں محمد شفیع کو برآمدے میں منتظر کھڑے رہنے کا حکم دیا ۔ پنڈت جواہرلعل نہرو تقربیا آٹھ بجے شام تشریف لائے۔ ان کے ساتھ ایک او رصاحب بھی تھے اور شاید دو ایک خواتین اور ان کے میزبان میاں اور بیگم افتخار الدین ، پنڈت جواہر لعل نہرو راقم سے بڑی محبت اور شفقت سے پیش آئے اور کمر میں ہاتھ ڈالے اسے اپنے ساتھ اندر لے گئے۔ اقبال اپنی خواب گاہ میں بستر پر نیم درازتھے۔ کمرے میں مہمانوں کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں رکھ دی گئی تھیں لیکن پنڈت جواہر لعل نہرو اور اُن کے ساتھی کرسیوں پر نہ بیٹھے بلکہ تعظیماً فرش پر بچھے ہوئے غالیچے پر بیٹھے۔ اس ملاقات کے متعلق دوسرا اہم سوال یہ اٹھایا گیا کہ دونوں کی آپس میں کیاگفتگو ہوئی۔ اس ضمن میں را جہ حسن اختر اور میاں فیروز الدین کے حوالے سے عاشق حسین بٹالوی تحریر کرتے ہیں کہ اس زمانے میں پنڈت جواہر لعل نہرو سمجھتے تھے ، ہندوستان کے تما م مصائب کا حل سوشلزم ہے ، لیکن کانگرس کے دیگر لیڈرو ںمیں کوئی بھی ان کا ہم خیال نہ تھا۔ اقبال نے ان سے پوچھا کہ سوشلزم کے بارے میں کانگرس کے کتنے لیڈران کے ہم خیال تھے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو نے جواب دیا کہ تقریبا چھ ۔ اس پر اقبال نے کہا کہ اگر ان کے ہم خیالوں کی تعداد اس قدر قلیل ہے تو وہ دس کروڑ مسلمانوںکو کانگرس میں شامل ہوجانے کا مشورہ کیونکر دے سکتے ہیں۔ بعدازاں ہندو مسلم کشیدگی کا ذکر چھڑا تو اقبال نے ان پر واضح کیا کہ مغربی ایشیا دراصل مسلم ایشیا ہے او رآئندہ سیاسیات عالم میں اس خطّے کی اہمیت بہت بڑھ جائے گی، لہٰذا اگربرصغیر میں ہندوؤں نے مسلمانوںسے اچھا سلوک نہ کیا یا انہیں ناراض کر لیا تو مغربی ایشیا کے مسلم ممالک کے ساتھ ان کے تعلقات خراب ہوجائیں گے۔ پس ہندوؤں کا فائدہ اسی میں ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ تعلقات خوشگوار رکھیں۔ عاشق حسین بٹالوی مزید لکھتے ہیں: ابھی ان دو عظیم المرتبت انسانو ںکے ساتھ گفتگو جاری تھی کہ یکا یک میاں افتخار الدین بیچ میں بول اٹھے کہ : ڈاکٹر صاحب آپ مسلمانوں کے لیڈر کیوں نہیں بن جاتے ۔ مسلمان مسٹر جناح سے زیادہ آپ کی عزت کرتے ہیں۔ اگر آپ مسلمانوں کی طرف سے کانگرس کے ساتھ بات چیت کریں تو نتیجہ بہتر نکلے گا۔ ڈاکٹر صاحب لیٹے ہوئے تھے۔ یہ سنتے ہی غصّے میں آگئے اور اٹھ کر بیٹھ گئے اور انگریزی میں کہنے لگے : اچھا تو یہ چال ہے کہ آپ مجھے بہلا پھسلا کر مسٹر جناح کے مقابلے میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ میں آپ کوبتادینا چاہتاہو ں کہ مسٹرجناح ہی مسلمانوں کے اصل لیڈرہیں اور میں ان کا ایک معمولی سپاہی ہوں ۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب بالکل خاموش ہوگئے اور کمرے میں تکد ّر آمیز سکوت طاری ہوگیا۔پنڈت نہرو نے فوراً محسوس کرلیا کہ میاں افتخار الدین کے دخل در معقولات نے ڈاکٹر صاحب کو ناراض کردیا اور اب مزید گفتگو جاری رکھنا بے سود ہے ۔ چنانچہ وہ اجازت لے کر رخصت ہوگئے۔۷۱ اس ملاقات کے متعلق سیّد نذیر نیا زی ، عاشق حسین بٹالوی کی تحریر کردہ تفصیل کو کلی طور پر درست نہیں سمجھتے ۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوںنے اپنی تصنیف ’’اقبال کے حضور میں ‘‘ میں پنڈت جواہر لعل نہرو کی اس ملاقات کو صرف اقبال کے ارشادات تک محدود رکھا ہے۔ یعنی اس گفتگو تک جو اقبال نے خود ان سے فرمائی ۔ بات دراصل یہ ہے کہ ملاقات کے وقت اقبال کے احباب میں سے کوئی بھی وہاں موجود نہ تھا۔ یہاں تک کہ میا ںمحمد شفیع بھی جن کا قیام جاوید منزل میں تھا ، اس وقت کمرے میں موجود نہ تھے۔ اسی طرح سید نذیر نیازی ان ایام میں سیالکوٹ گئے ہوئے تھے، پس ان میں سے کوئی بھی شریک گفتگو نہ ہوا اور میاں فیروز الدین کے وہاں موجود ہونے کاتو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ البتہ پنڈت جواہر لعل نہرو کے چلے جانے کے بعد چودھری محمد حسین ، راجہ حسن اختر اور حکیم محمد حسن قرشی بمطابق معمول تشریف لائے اور میاں محمد شفیع کے ساتھ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوکر ان سے ملاقات کی تفصیل سنتے رہے ۔ سید نذیر نیازی نے ۲۴؍جنوری ۱۹۳۸ء کے اندراج میں ملاقات کے متعلق اقبال کے ارشاد ات قلم بند کیے ہیں۔ بقول ان کے دونو ں سیاسیات حاضرہ پر تبصرہ کرتے رہے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کا موقف تھا کہ اگر مسلمان بلاقید شرائط کانگرس کا ساتھ دیں گے تو آزادی کی منزل جلد طے ہوجائے گی۔ لیکن اقبال کا تقاضا تھاکہ ہندوستان کی آزادی کے لیے کوئی تحریک کامیابی سے چل سکتی ہے تو جب ہی کہ اقلیتوں کو اکثریت پراعتماد ہوا ور تصفیہ حقوق کامسئلہ طے ہو جائے، یعنی مسلمانوں کے مطالبات مان لیے جائیں او ر کانگرس ان سے مفاہمت کرلے۔ ۷۲ بہرحال اقبال کی اس بات کا پنڈت جواہر لعل نہرو نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ خاموش سناکیے ۔ اقبال کی رائے میں پنڈت جواہر لعل نہرو کو یقین تھا کہ حکومت برطانیہ اور کانگرس میں چونکہ بالآخر کوئی نہ کوئی سمجھوتہ ہو جائے گا اس لیے مسلمانوں کو نظر انداز کیا جا سکتاہے ۔ اقبال نے ان پر واضح کرنے کی کوشش کی کہ ہندوئوں اور مسلمانوں میں مفاہمت کے بغیر چارہ نہیں اور یہ کہ مسلمان بھی ہندوؤںکی طرح انگریزوں کے اقتدار سے نالاں ہیں اور شہنشاہیت دشمنی میں ممکن ہے ہندوئوں سے کچھ آگے ہی ہوں۔ اس مرحلے پر میاں افتخار الدین کہنے لگے: بات ہے بھی یہی جو آپ کہتے ہیں ۔ مسلمان بھی آزادی وطن کے ایسے ہی خواہش مند ہیں جیسے ہندو ۔ وہ بھی شہنشا ہیت کے ایسے ہی دشمن ہیں جیسے کوئی اور ۔ آپ حق کی بات کیوں نہیں کہہ دیتے ۔ مسلمانوں پر آپ ہی کا اثر ہے ۔ جناح کی کون سنتاہے۔۷۳ سید نذیر نیازی کی تحریر کے مطابق اقبال نے انہیں جواب دیا: میاں صاحب! اس امر سے تو شاید آپ کو بھی انکار نہیں ہوگا کہ مسلمانو ںکا اتحاد ضروری ہے …پھرجب اتحاد ایک امر ضروری ہے او رجناح کی قیادت سے تھوڑا بہت اتحاد پیدا ہوگیاہے تو اسے کیا اس لیے ختم کردیا جائے کہ ہندو نہیں چاہتے مسلمان بحیثیت ایک قوم کے متحد ہوجائیں۔ معاف کیجیے میں اس کے لیے تیار نہیں۔۷۴ بقول سید نذیر نیازی اس پر میا ںافتخار الدین نے بات آگے نہ بڑھائی اور چند لمحوں کی مزید نشست کے بعد وہ لوگ چلے گئے۔ لاہور میں اس ملاقات کا خاصا چرچا تھا اوریہ بھی سننے میں آیا کہ اقبال نے پنڈت جواہر لعل نہرو کو محب وطن اور محمد علی جناح کو سیا ستدان کہا ہے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو نے اپنی انگریزی تصنیف ’’ہندوستان کی دریافت ‘‘میں اقبال کے ان الفاظ کو اس طرح پیش کیا ہے کہ محمد علی جناح پر ان کی برتری کاپہلو نکلے ۔۷۵ بقول سید نذیر نیا زی ، اقبال نے تویہ الفاظ پنڈت جواہر لعل نہرو پر محمدعلی جناح کی برتری ثابت کرنے کے لیے استعمال کیے تھے۔ اسی تاریخ کے اندراج میں سید نذیر نیازی لکھتے ہیں: شام ہورہی تھی ۔ میاں بشیر احمد (مدیر ہمایوں ) آگئے ۔ حضرت علا ّمہ کا مزاج پوچھا اور بات چیت کرنے لگے۔ انہوںنے کہا : میں نے سنا ہے، آپ نے پنڈت جی سے فرمایا تھاکہ پنڈت جی بات اصل میں یہ ہے کہ آپ تو محب وطن ہیں ، لیکن جناح قانون دان یا شاید جناح سیاستدان ہیں آپ محب وطن…حضرت علامہ نے فرمایا…میں نے تو ایک سیدھی سادی بات کہی تھی او ر وہ یہ کہ جناح سیاست دان ہیں لیکن پنڈت جی محب وطن۔ اس سے یہ کہاں ثابت ہوتاہے کہ جناح میں حب الوطنی کی کمی ہے ،یا یہ کہ پنڈت نہرو بہت بڑے سیاست دان ہیں۔ میرا کہنا تویہ تھاکہ پنڈت نہرو کی نظر حقائق پر نہیں جیسا کہ ایک سیاستدان کی ہونی چاہییٔ۔ وہ جذبات کی رو میں بہ رہے ہیں، گو بسبب حب الوطنی ۔ لیکن یہ امر سیاست کے منافی ہے ۔ برعکس اس کے جناح سیاستدان ہیں، ان کا مزاج قانونی ہے اور وہ خوب سمجھتے ہیں کہ ہندوستان کا مسئلہ کیا ہے۔ یہ بھی کہ ہندوؤں اور انگریزوں میں جو کشمکش جاری ہے اس کی حقیقی نوعیت کیا ہے وہ یہ نہیں کہہ رہے کہ حبّ الوطنی کے جوش میں واقعات سے آنکھیں بند کر لیں وہی تو حقیقت میں محب الوطن ہیں۔۷۶ پنڈت جواہر لعل نہروکی اقبال سے ملاقات کا مقصد ہندو مسلم مفاہمت کے سلسلے میں کوئی بات چیت کرنا قطعی نہ تھا۔ اقبال نے سیاسی اختلافات کے باوجود پنڈت جواہر لعل نہرو کو ہمیشہ پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا۔ ویسے بھی اقبال مدت سے علیل تھے اور پنڈت جواہر لعل نہرو لاہور میں موجود ہونے کے سبب ان کی مزاج پرسی کے لیے آسکتے تھے ۔ اس لیے یہ بحث بیکار ہے کہ ملاقات میں پہل کس کی طرف سے ہوئی۔ راقم کے خیال میں تو ان کو آپس میں ملانے کی تحریک شاید ڈاکٹر چکرورتی نے کی تھی۔ عین ممکن ہے کہ جس طرح انہوں نے اقبال کو پنڈت جواہر لعل نہروسے ملاقات کرنے پر رضا مند کیا ، اسی طرح انہوں نے پنڈت جواہر لعل نہرو سے بھی ذکر کیا ہو کہ اقبال ان سے ملاقات کے خواہش مند ہیں۔ بہرحال ملاقات کے دوران میں جو باتیں ہوئیں وہ بھی مختلف موضوعات پر سرسری نوعیت کی تھیں اور انہیں کوئی سیاسی اہمیت حاصل نہ تھی ۔ البتہ عاشق حسین بٹالوی اور سید نذیر نیازی جیسے مورّخین نے راجہ حسن اختر یا اقبال کے حوالے سے اس ملاقات میں اقبال اور محمد علی جناح کے متعلق جو باتیں میاں افتخار الدین سے منسوب کی ہیں ، ان کی بیگم افتخار الدین سختی سے تردید کرچکی ہیں۔ بیگم افتخار الدین اس موقع پر خود موجود تھیں ۔ وہ فرماتی ہیں کہ اقبال کی علالت کے پیش نظر پنڈت جواہر لعل نہرو اور ان کے سب ساتھی خاموشی سے ان کی باتیں سنتے رہے اور میاں افتخار الدین نے گفتگو میں کوئی حصّہ لیا نہ وہ باتیں کیں جو ان سے منسوب کی گئی ہیں ۔۷۷ ذکر کیا جاچکاہے کہ مسجد شہید گنج کا مسئلہ حل کرنے کی خاطر آل انڈیا مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے اجلاس دہلی میں فیصلہ کیاگیا تھا کہ مستقبل کے طرز عمل پر غور کرنے کے لیے لیگ کا ایک خصوصی اجلاس بلوایا جائے ۔ اس کے ساتھ ہی آل انڈیا مسلم لیگ کی کوشش تھی کہ نئے آئین کے تحت کونسل کے اراکین او رمندوبین کے انتخابات ۳۱؍مارچ ۱۹۳۸ء تک عمل میں لائے جائیں تاکہ صوبائی لیگیں مجوزّہ خصوصی اجلاس میں شریک ہو سکیں۔ سو فروری ۱۹۳۸ء میںاسی مقصد کے لیے پنجاب مسلم لیگ کے الحاق کی درخواست طلب کی گئی،لیکن پنجاب مسلم لیگ نے ۳۱؍مارچ ۱۹۳۸ء کوبہت قریب خیال کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ آئین جدید کا نفاد خصوصی اجلاس کے بعد کیا جائے۔ ۷۸ اقبال اپنی علالت کے سبب صوبائی مسلم لیگ کی کارروائیوں میں عملی طور پر کوئی حصّہ نہ لے سکتے تھے ۔ وہ تو صرف مشورہ ہی دے سکتے تھے۔ عملی طور پر صوبائی لیگ کی صدارت کے فرائض زمان مہدی خان انجام دیتے رہے ، مگر فروری ۱۹۳۸ء میں صوبائی لیگ کی مالی مشکلات کے پیش نظر نواب شاہ نواز خان ممدوٹ کو صدر بنا لیاگیا ۔ خصوصی اجلاس کے مقام اور تاریخ کا تعین ابھی باقی تھا۔ اقبال کی خواہش تھی کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس بہار کی تعطیلات میں لاہور میںہوتاکہ پنجاب کے مسلم عوام سے رابطہ کی تحریک کا آغا زپور ے شدومد کے ساتھ کیا جاسکے، لیکن نواب شاہ نواز خان ممدوٹ نے بحیثیت صدر صوبائی مسلم لیگ محمد علی جناح کو مشورہ دیا کہ مسلم لیگ او رتحریک شہید گنج کے بہترین مفاد میں لیگ کا خصوصی اجلاس لاہور میں نہیں ہوناچاہیے ۔ چنانچہ لیگ کونسل نے اپنے اجلاس میں طے کیاکہ آل انڈیامسلم لیگ کا خصوصی اجلاس کلکتے میں ۱۸؍اور ۱۹؍ اپریل ۱۹۳۸ء کو منعقد کیا جائے۔ مسجد شہید گنج کے قضیئے کا حل اب ممکن نہ تھا۔ سر سکندر حیا ت اور ان کے ساتھی معاملے کو لٹکانے کے لیے پریوی کونسل میں اپیل کے حامی تھے،مگر عام مسلمانوں کو اس میں دلچسپی نہ تھی صوبائی مسلم لیگ کی قیادت پر اب زیادہ تر سر سکندر حیات کے آدمی یایونینسٹ پارٹی کے مسلم اراکین قبضہ کے لیے پر تول رہے تھے۔ البتہ ملک برکت علی اور ان کا گروپ ان کے خلاف تھے۔ اقبال کی کوششوں کے باوجود سر سکندر حیات او ریونینسٹ پارٹی کے کسی بھی مسلم ممبر نے اب تک مسلم لیگ کے حلف نامے پر دستخط نہ کیے تھے، ان کا موقف یہ تھا کہ سکندر جناح پیکٹ کے تحت وہ یونینسٹ پارٹی کی سیاسی حیثیت برقرار رکھتے ہوئے صوبائی مسلم لیگ کی قیادت حاصل کرنے کے مجاز تھے۔ اقبال جب ان سے قطعی مایوس ہوگئے تو انہوں نے سوچا کہ پنجاب کے مسلم عوام کوحقیقی پوزیشن سے آگاہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں انہوں نے فروری ۱۹۳۸ء میں اخبارات میں اشاعت کے لیے ایک بیان تحریر کروایا اور اس کی ایک نقل محمد علی جناح کو ارسال کی لیکن محمد علی جناح نے مشورہ دیا کہ سر سکندر حیات اور اُس کی پارٹی سے اس مرحلے پر ٹکر لینا درست نہیں ، اس لیے یہ بیان شائع نہ کیا جائے۔ اقبال نے محمد علی جناح کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے وہ بیان جاری نہ کیا۔ یہ اقبال کے پارٹی ڈسپلن کے احترام کی ایک نہایت عمدہ مثال ہے ۔ یعنی باوجود اس کے کہ وہ سمجھتے تھے کہ یونینسٹ پارٹی کے مسلم لیڈروں کے منافقت آمیز روّیے کی قلعی کھول دینا چاہیے، انہوں نے صدر آل انڈیا مسلم لیگ کے حکم کی تعمیل میں ایسا نہ کیا۔ اقبال کا یہ معرکۃ الآرا بیان جس کی اشاعت محمدعلی جناح کے کہنے پر روک دی گئی ،اقبال کی آخری سیاسی تحریر ہے ۔ اصل بیان انگریزی میں تحریر کیاگیا۔ اس کا اردو ترجمہ درج ذیل ہے: ۱۴؍ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو آنریبل سر سکندرحیات خا ن نے پنجاب میں یونینسٹ پارٹی کے قائد کی حیثیت سے آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے اجلاس لکھنؤ میں یہ اعلان کیا تھا کہ پنجاب واپس جانے کے بعد وہ اپنی جماعت کا ایک خصوصی اجلاس بلوائیںگے او راس میں اپنی جماعت کے مسلم ممبران کو ، جو اس وقت مسلم لیگ کے رکن نہ ہوں، لیگ کے دستور پر دستخط کرنے اور اس میں شامل ہونے کا مشورہ دیں گے۔ یہ ارکا ن لیگ کے مرکز ی اور صوبائی بورڈوں کے قواعد وضوابط کے پابند رہیں گے اور اسمبلی کے وہ مسلم ارکان جو مسلم لیگ کا ٹکٹ قبول کرلیںگے، اسمبلی کے اندر مسلم لیگ پارٹی قائم کریں گے اور یہ مسلم لیگ پارٹی لیگ کی پالیسی اور پروگرام کے بنیادی اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کسی اور پارٹی سے اتحاد کرنے یا موجودہ اتحاد کو برقرار رکھنے کی مجاز ہوگی۔ نام نہاد سکندر جنا ح پیکٹ کا اہم حصہ صرف یہی ہے ا ور اس پیکٹ کی باقی شقوں سے ہمیں فی الحال کو ئی واسطہ نہیں ۔ جب مذکورہ بیان اخباروں میں شائع ہوا تو مجھے حقیقتاً بڑی مسرت ہوئی کیونکہ میں نے محسوس کیا کہ یونینسٹ پارٹی کے قیام سے مسلمانوں میں جو انتشار پیدا ہوگیا تھا، وہ اب دور ہوجائے گا اور مسلمان ایک متحد قوم بن جائیں گے۔ لہٰذا میں نے غلام رسول کو ہدایت کی کہ سر سکندر کو پنجاب صوبائی مسلم لیگ کے تقریبا نوے رکنیت کے فارم ارسال کردیںتاکہ وہ ان پر یونینسٹ پارٹی کے مسلم ممبروں سے دستخط کروالیں۔ چنانچہ یہ فارم اکتوبر ۱۹۳۷ء کے تیسرے ہفتے میں انہیں بھجوادیے گئے ، لیکن ہمیں ان کے متعلق کو ئی جواب موصول نہ ہوا ۔ یاد دہانی کرائی گئی ۔ مگر اس کا جواب نہ آیا ۔ تا حال سر سکندر حیات نے ایک فارم بھی دستخط کرواکے واپس نہیں بھیجا ۔ مجھے ملک برکت علی ایم ایل اے نے اطلاع دی ہے کہ یہ مسئلہ ۳۰جنوری ۱۹۳۸ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے اجلاس دہلی میں زیر بحث آیاتھا اور وہاں یونینسٹ پارٹی کے ایک ذمہ دار رکن نے بیان کیا تھا کہ رکنیت کے فارموں پر مسلم ارکان کے دستخط حاصل کر لیے گئے ہیں اور دستخط کرنے والوں نے یہ عہد کیا ہے کہ وہ سکندر جناح معاہدے کے مطابق لیگ کے رکن بننے پر آمادہ ہیں۔ یہاں اصل صورت حال کے متعلق یہ وضاحت کردینا ضروری معلوم ہوتاہے کہ سر سکندر کا دعویٰ ہے کہ تحریری معاہدے کے علاوہ جس کا اہم حصّہ اوپر نقل کیا جا چکا ہے، ان کے اور مسٹر جناح کے درمیان زبانی افہام وتفہیم بھی ہوئی تھی۔ یہ امر لیگ کونسل کے اجلاس میں بحث کے دوران مسٹر ایم اے جناح کے نوٹس میں بھی لایا گیا اور ملک برکت علی ایم ایل اے نے مجھے بتایاہے کہ مسٹر ایم اے جناح نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ سکندر جناح معاہدے کی تحریری شقوں کے علاوہ کسی بھی زبانی معاہدے کا وجود نہیں ۔اس معاہدے کی مختلف تاویلوں کے سبب عوام میں مسلم لیگ کی طرف یونینسٹ پارٹی کے روّیے کے متعلق سخت تشویش پیدا ہوگئی ہے۔ تذبذب کی یہ کیفیت تقریباچارماہ سے طاری ہے او راب وقت آگیاہے کہ مسلم عوام کوحقیقی صورت حال سے آگاہ کیاجائے۔ لکھنؤ میں عہد کرنے کے باوجو د اب تک معاہدہ لکھنؤ کی شرائط کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ سو پنجاب کے مسلم عوام کی آگاہی کی خاطر میں یہ اعلان کرتاہوں کہ یونینسٹ پارٹی اور مسلم لیگ ایک دوسرے سے علیٰحدہ ہوچکے ہیں اور اب یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ سکند ر جناح پیکٹ کے بعد یونینسٹ پراٹی کے مسلم ارکان اپنے آپ کو مسلم لیگ میں مدغم کردیں گے۔ یہاں مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مسلم لیگ کاد روازہ ہر اس مسلما ن کے لیے کھلا ہے جو لیگ کے دستور پر دستخط کرنے کو تیار ہو او رمیں نہایت مسر ّت سے اعلان کرتاہوں کہ اس وقت تک اسمبلی کے متعدد مسلم ارکان نے لیگ کے دستور پر دستخط کردیے ہیں۔۷۹ پنجاب پروونشل مسلم لیگ نے اپنے الحاق کی درخواست بھیج رکھی تھی لیکن ۵؍ اپریل ۱۹۳۸ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے دفتر سے اطلاع موصول ہوئی کہ بعض تکنیکل وجوہ کے پیش نظر اس کا الحاق آل انڈیا مسلم لیگ سے نہیں ہوسکتا۔ اس پر اقبال سے مشورے کے بعد غلام رسول خان نے ۱۲؍اپریل ۱۹۳۸ء کو پنجاب مسلم لیگ کونسل کا اجلاس بلوا کر آل انڈیا مسلم لیگ کے اعتراضات رفع کیے اور الحاق کی نئی درخواست دہلی روانہ کردی گئی۔ بالآخر آل انڈیامسلم لیگ کے اجلاس بتاریخ ۱۸؍ اور۱۹؍ اپریل ۱۹۳۸ء میں شرکت کے لیے پنجاب کا مسلم لیگی گروپ کلکتہ پہنچا او راپنے الحاق کی نئی درخواست کی منظوری کے لیے تگ ودو کرنے لگا۔ معلوم ہوتاہے اس وقت آل انڈیا مسلم لیگ کی پالیسی یہی تھی کہ سر سکندر حیات اور ان کے آدمیو ںکو لیگ کونسل میں داخل کیاجائے اوروہی پنجاب میں مسلم لیگ کی جیسی شاخیں چاہیں قائم کریں۔ الحاق کی نئی درخواست کی منظوری یا نامنظوری کے متعلق تو کوئی ہدایت جاری نہ کی گئی، البتہ محمد علی جناح کے حکم کے مطابق پنجاب میں ایک نئی صوبائی مسلم لیگ قائم کی گئی جسے مرتب کرنے کے لیے انہوں نے سر سکندر حیات کی زیر قیادت ان کے سمیت پینتیس افراد پر مشتمل ایک انتظامیہ کمیٹی مقرر کی ۔ اس کمیٹی میں شامل پچیس افراد کا تعلق تو یونینسٹ پارٹی کے ساتھ تھا اور اقبال سمیت دس افراد مسلم لیگی گروپ سے لیے گئے۔ مسلم لیگی گروپ اس فیصلے سے مطمئن نہ تھا۔ یہ لوگ ۲۱؍اپریل ۱۹۳۸ء کو صبح نو بجے کلکتہ سے لاہور پہنچے اور ریلوے اسٹیشن پر ہی انہوں نے خبر سن لی کہ اقبال فوت ہو گئے۔۸۰ عاشق حسین بٹالوی کی تصنیف ’’اقبال کے آخری دوسال‘‘ کے مطالعے سے یہ تاثر قائم ہوتاہے کہ پنجاب میں سرسکندر حیات کی یونینسٹ پارٹی کی صوبائی مسلم لیگ کے ساتھ تصادم کے سلسلے میں محمد علی جناح کی پالیسی پر اقبال کو اعتراض تھا اور اگر اقبال زندہ رہتے تو عین ممکن ہے کہ ان کے محمد علی جناح کے ساتھ اختلافات زیادہ نمایاں صورت اختیار کرجاتے ۸۱۔عاشق حسین بٹالوی کی رائے میں نوابزادہ لیاقت علی خان پنجاب میں سر سکندر حیات اور ان کی یونیسٹ پارٹی کی ہمیشہ امداد کرتے تھے اور ان کے بڑے بھائی نواب زادہ سجاد علی خان پنجاب اسمبلی کے ممبر اور یونینسٹ پارٹی کے رکن تھے۔ پس آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس کلکتہ میں پنجاب مسلم لیگ کے الحاق کی نئی درخواست پر اسی سبب غور نہ کیا گیا، بلکہ محمد علی جناح نے ایک نئی صوبائی مسلم لیگ کو وجود میں لانے کی ہدایت کی ، جس میں سر سکندر حیات کی زیر قیادت چونتیس افراد پر مشتمل ایک انتظامیہ کمیٹی قائم ہوئی اور اس کمیٹی میں مسلم لیگی گروپ کے صرف دس افراد شامل کیے گئے ، باقی تمام افراد کا تعلق یونینسٹ پارٹی سے تھا۔ محمد احمد خان ، عاشق حسین بٹالوی ہی کی تصنیف پر انحصار کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: یہ تھی مسلم لیگ ا وریونینسٹ پارٹی کی باہمی آویزش کی داستان ، جس میں اقبال نے اپنی زندگی کے آخری لمحات تک بھر پور حصّہ لیا، غور سے دیکھییٔ تو یہ آویزش دو سیاسی جماعتوں کی لڑائی نہ تھی بلکہ یہ وسیع النظری کا تنگ نظری کے خلاف جہاد تھا۔ یہ ملّت کی وہ جنگ تھی، جو علاقائیت کے خلاف پنجاب میں لڑی گئی تھی اور جس کی کمان اقبال جیسے بے سروساماں مردِ قلندر نے سر فضل حسین اور سر سکندر حیات خان جیسے مقتدر چوگان بازان سیاست کے مقابلے میں کی تھی، اب یہ بھی سن لیجیے کہ پنجاب میں اس طرح مسلم لیگ کے محاذ کو یونینسٹ پارٹی جیسی بااختیار جماعت کے مقابلے میں مضبوط اور مستحکم کرنے او راس معاہد ے میں اپنی جان لڑادینے کا اقبال کو کیا صلہ ملا…اسی صوبائی مسلم لیگ کے صدر ابھی کچھ ہی دن قبل تک خود حضرت علا ّمہ تھے اور اس کے عہددار اور کارکن ان کے وہ معتمد علیہ رفقاء کارتھے ، جنہوں نے نہایت کٹھن او رصبر آزما حالات میں اس ننھے اور کمزور پودے کو اپنے خو ن جگر سے سینچا اور اس کو ایک تناور درخت بنا دیا تھا اور اب بھی وہ ان ہی کی سر پرستی ، ہدایات ورہنمائی میں اس کو بار آور بنانے کے لیے اپنا خون پسینہ ایک کررہے تھے۔ لیکن اس صوبائی لیگ کو کالعدم قرار دے دیا گیا تھا اور وجہ اس کی یہ بتائی گئی تھی کہ اس کے اندر چند دستوری اسقام پائے جاتے تھے۔ علا ّمہ مرحوم کو اس اطلاع سے بے حد رنج ہوا ، پھر بھی وہ ہمت ہارنے والوں میںسے نہیں تھے ۔ وہ مرض الموت میں مبتلا تھے،لیکن بستر مرگ پر لیٹے لیٹے انہوں نے ۱۴؍اپریل ۱۹۳۸ء کو اپنے رفقا ء کو حکم دیا کہ کلکتہ جاکر اپنی جنگ خو دلڑو۔ یہا ںگھر میں بیٹھے رہنے سے کچھ نہ ہوگا۔ ا ن کے اس حکم کی تعمیل میں ایک وفد کلکتے جانے کے لیے تیار ہوگیا، جہاں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس ۱۸؍۱۹؍اور ۲۰؍اپریل کو ہورہاتھا۔ روانگی سے قبل ا س وفد کے اراکین ایک مرتبہ پھر علا ّمہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ تو علامہ نے ان سے فرمایا : ضرور جاؤ او راپنے حق کے لیے آخر تک لڑو۔ ملک برکت علی رکن وفد نے اپنے اس خدشے کا اظہار کیا کہ نئی درخواست الحاق بھی نامنظور ہوجائے گی، تو علاّمہ قدرے جو ش میں آگئے اور فرمایا : کچھ فکر نہیں۔ درخواست منظور ہویا نامنظو ر ، جس اصول پر ہم نے اب تک کا م کیا آئند ہ بھی جاری رہے گا۔ الغرض اس طرح ہمت و جرأت دلا کر انہوں نے اس وفد کو کلکتے روانہ کیا ۔ مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں اس وفد نے شرکت کی او روہاں ایک ناکام جنگ لڑنے کے بعد جب ۲۱؍اپریل ۱۹۳۸ء کو یہ وفد لاہور لوٹا تو اقبال اس دنیا سے رخصت ہوچکے تھے۔۸۲ یہ حقیقت ہے کہ یونینسٹ پارٹی کے خلاف جو قدم اقبال ۱۹۳۸ء میں اٹھانا چاہتے تھے، وہ محمد علی جناح کو بالآخر چھ سال بعد یعنی ۱۹۴۴ء میں اٹھانا پڑا۔ سوال یہ ہے کہ اگر اقبا ل کے فروری ۱۹۳۸ء کے بیا ن کی اشاعت کے ذریعے پنجاب میں مسلم لیگ کی یونینسٹ پارٹی کے ساتھ جنگ چھ برس قبل یعنی ۱۹۳۸ء ہی میں ہو جاتی تو اس کے کیا نتائج نکلتے؟ کیا اس مرحلے پر یونینسٹ پارٹی تنہا یا کانگرس کے ساتھ مل کر سیاسی طورپر کمزور صوبائی مسلم لیگ کا خاتمہ کردیتی!یا کیا یہ کہنا درست ہے کہ اس صورت میں ممکن ہے صوبائی لیگ زیا دہ مستحکم ہوجاتی اور پنجاب کی تقسیم اس طرح نہ ہوتی جس طرح فی الواقع ہوئی؟ ان سوالات کے جواب کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنے کے لیے دراصل جس مواد پر انحصار کرنے کی ضرورت ہے ، وہ ہے محمد علی جنا ح کے خطوط اقبال کے نام جو محفوظ نہ رکھے گئے اور صوبائی مسلم لیگ کی کارروائیوں کا ۱۹۳۶ء سے لے کر ۱۹۳۸ء تک کا مکمل ریکارڈ، جس تک راقم کی رسائی نہیں ہوسکی ۔ بہرحال یہ بھی حقیقت ہے کہ اس زمانے میں پنجاب میں صوبائی مسلم لیگ کی باگ ڈور ایسی پیشہ ور شخصیات کے ہاتھو ںمیں تھی، جو زیادہ تر شہری مسلمان تھے او رجن کے پاس وسائل یاوقت کی کمی تھی۔ انہوںنے اس ابتدائی دور میں بلاشبہ اپنی بساط کے مطابق صوبائی لیگ کی خدمت بڑی جاں فشانی سے کی ، لیکن ان کا دائرہ اثر محدود تھا۔ اسی بنا پر آل انڈیا مسلم لیگ کی پالیسی یہ تھی کہ کسی نہ کسی طرح یونینسٹ پارٹی کے مسلم اراکین کو صوبائی لیگ سے وابستہ کردیا جائے ، کیونکہ ان میں سے بیشتر زمیندار تھے،دیہات میں خاصا اثر ورسوخ رکھتے تھے،دولت مند تھے اور ان کے وسائل کواستعمال میں لاکر کارکنان لیگ پنجاب کے شہریوں اور دیہاتیوں میں یکساں طور پر مسلم لیگ کو مقبول بنا سکتے تھے ۔سو اگر اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ۱۹۳۸ء میں مسلم لیگ ابھی پنجاب کے مسلمانو ںمیں صحیح معنو ںمیں عوامی جماعت نہ بنی تھی۔ لہٰذا اس مرحلے پر سیاسی مصلحت کے تحت یونینسٹ پارٹی کے مسلم اراکین کے ہاتھو ںمیں صوبائی لیگ کی باگ ڈور دینا ایک دانشمندانہ فیصلہ تھا، اگرچہ یو ںپرانے لیگیوں کی حق تلفی ہوئی یاانہیں قربانی دینا پڑی ۔ محمد علی جناح کا نصب العین یہی رہاہے کہ پنجاب میں جب مسلم لیگ عوامی جماعت بن جائے گی تو اس وقت یونینسٹ پارٹی سے ٹکر لے کر اسے پچھاڑنا آسان ہوگااور اقبال کی وفات کے چھ سال بعد یعنی ۱۹۴۴ء میں یہی ہوا۔ یونینسٹ پارٹی کی مسلم لیگ کے ساتھ جنگ میں یونینسٹ پارٹی کا نام ونشان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مٹ گیا ، لیکن ان سالوں کی سیاسی کشمکش سے یہ نتیجہ اخذ کرناکہ پنجاب کی سیاست کے متعلق اقبال اور محمد علی جناح کے آپس میں اختلافات تھے ، یا ان کے راستے جداجدا ہوچکے تھے، درست نہیں۔اقبال کو محمد علی جناح کی سیاسی بصیرت اور اخلاقی دیانت داری پر پورا اعتماد تھا اور اسی اعتماد کی بنا پر وہ اپنے آپ کو ان کا معمولی سپاہی تصور کرتے تھے۔ نیز ان کے حکم کی تکمیل میں انہو ں نے سر سکندر حیات کے خلاف اپنا فروری ۱۹۳۸ء کا بیان جاری نہ کیا تھااور محمد علی جناح بھی ہر مرحلے پر اقبال کی رائے سے اتفاق کرتے تھے۔ البتہ ان دونوں کے سیاسی انداز فکر میں وقت کے تعین کا فرق ضرور رہا۔ میاں محمد شفیع جوبقول ان کے اقبال کے دور صدرات میں پنجاب مسلم لیگ کے پبلسٹی سیکرٹری تھے، فرماتے ہیں: مجھے اب تک یاد ہے کہ قائد اعظم نے حضرت علا ّمہ کو ایک خط کے جواب میں لکھا تھا؛ آپ کا سیاسیات ہند کا تجزیہ بالکل درست ہے ۔ میں آپ سے لفظاً لفظاً متفق ہوں ۔ میں آپ کو یقین دلاتاہوں کہ وقت آنے پر آپ کے فرمودات کے مطابق مسلمانانِ ہند کے لیے ان کے سیاسی چارٹر کا مطالبہ آ ل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے پیش کیا جائے گا۔وقت کا تعین آپ مجھ پر چھوڑدیں۔ میں آپ کوقطعاً مایوس نہ کروں گا۔۸۳ میاں محمد شفیع کے بیان کی تصدیق محمد علی جناح کے پرائیویٹ سیکرٹری جناب مطلوب الحسن سید کی تحریر سے ہوتی ہے۔ وہ اپنی انگریزی تصنیف ’’محمد علی جناح ‘‘(ایک سیاسی مطالعہ)میں ۱۹۴۰ء میں قرارد اد لاہور یا قرار داد پاکستان کے منظور کیے جانے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ محمد علی جناح نے ا ن سے فرمایا: اقبال اب ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن اگر وہ زندہ ہوتے تو یہ معلو م کرکے خوش ہوتے کہ ہم نے بعینہٖ وہی کیا جو وہ ہم سے کروانا چاہتے تھے۔۸۴ فروری ۱۹۳۸ء میں مولانا حسین احمد مدنی کے متعلق لکھے ہوئے اقبال کے قطعے پر ہنگامہ جاری رہا۔ اخباروں میں مضامین پر مضامین چھپ رہے تھے۔ مولانا حسین احمد مدنی کے طرف داروں نے اقبال پر دیگر الزامات کے ساتھ یہ الزام بھی لگایا تھاکہ انہوںنے اپنی سیاسی اغراض کے حصول یا آل انڈیا مسلم لیگ کے پراپیگنڈے کی خاطر مولانا حسین احمد مدنی کی شان میں گستاخی کی ہے ۔ اسی اثنا میں ایک صاحب طالوت نے خط وکتابت کے ذریعے اقبال اور مولاناحسین احمد مدنی کے درمیان اختلافات یا غلط فہمی دور کرانے کی کوشش کی۔ اقبال نے انہیں اپنے ایک خط مورخہ ۱۸؍فروری ۱۹۳۸ء میں تحریر کیا : جواقتباسات آپ نے ان (مولانا حسین احمد مدنی )کے خط سے درج کیے ہیں، اُن سے یہ معلوم ہوتاہے کہ مولوی صاحب نے فرمایاکہ آج کل قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ اگر ان کا مقصود ان الفاظ سے صرف ایک امر واقعہ کو بیان کرنا ہے تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا، کیونکہ فرنگی سیاست کا یہ نظریہ ایشیا میں بھی مقبول ہورہاہے۔ البتہ اگران کا یہ مقصد تھاکہ ہندی مسلمان بھی ان نظریے کو قبول کرلیں، تو پھر بحث کی گنجائش رہ جاتی ہے، کیونکہ کسی نظریے کو اختیار کرنے سے پہلے یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ آیا وہ اسلام کے مطابق ہے یا منافی ۔ اس خیال سے کہ بحث تلخ اور طویل نہ ہونے پائے اس بات کا صاف ہوجانا ضروری ہے کہ مولانا کا مقصود ان الفاظ سے کیا تھا۔ ان کا جوجواب آئے وہ آپ مجھے روانہ کردیجیے۔ مولوی صاحب کو میری طرف سے یقین دلائیے کہ میں ان کے احترام میں کسی اور مسلمان سے پیچھے نہیں ہوں ۔ البتہ اگر مذکورہ بالا ارشاد سے ان کا مقصد وہی ہے جو میں نے اوپر لکھا ہے تو ان کے مشورے کو اپنے ایمان اور دیانت کی روسے اسلام کی روح اور اس کے اساسی اصولوں کے خلاف جانتاہوں ۔ میرے نزدیک ایسا مشورہ مولوی صاحب کے شایان شان نہیں اور وہ مسلمانان ہند کی گمراہی کا باعث ہوگا۔ اگر مولوی صاحب نے میری تحریرو ںکو پڑھنے کی کبھی تکلیف گوارافرمائی ہے تو انہیں معلوم ہوگیاہوگا کہ میں نے اپنی عمر کا نصف حصہ اسلامی قومیت اور ملّت کے اسلامی نقطۂ نظرکی تشریح و توضیح میں گزار ا ہے ۔ محض اس وجہ سے کہ مجھ کو ایشیا کے لیے او ر خصوصاًاسلام کے لیے فرنگی سیاست کا یہ نظریہ ایک خطرہ عظیم محسوس ہوتاتھا، کسی سیاسی جماعت کا پروپیگنڈا کرنا نہ میرا اس سے پہلے مقصد تھا نہ آج مقصود ہے۔ بلکہ وہ شخص جو دین کو سیاسی پروپیگنڈے کا پردہ بناتاہے ، میرے نزدیک لعنتی ہے۔۸۵ لیکن پیشتر اس کے کہ اختلاف یا غلط فہی دور ہوسکے ، مولانا حسین احمد مدنی نے اس بحث کے سلسلے میں اپنا ایک خط بیان کی صورت میں اخبار ’’انصاری‘‘ میں شائع کرا دیا ۔ اس بیان میں مولانا حسین احمد مدنی نے اپنی گذشتہ تقریر کی وضاحت کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ انہوں نے کہا تھا موجودہ زمانے میں قومیں اوطان سے بنتی ہیں ۔ نسل یا مذہب سے نہیں بنتیں۔ انہوں نے یہ ہر گز نہیں کہا تھا کہ مذہب و ملت کا دارو مدار وطنیت پر ہے۔ بالفاظ دیگر مولانا حسین مدنی نے قوم اور ملت کی لفظی بحث چھیڑ دی اور بیا ن کیا کہ ’’قوم ‘‘ تو وطن ہی سے بنتی ہے ، البتہ ’’ملت ‘‘ وطن سے نہیں بنتی ۔ لہٰذا ا ن کا فرمان کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں ، قابل اعتراض نہ تھا۔۸۶ اقبال نے مولانا حسین احمد مدنی کے بیان کے جواب میں ایک مدلل مضمون تحریر کیاجو اخبار ’’احسان ‘‘مورخہ ۹؍مارچ ۱۹۳۸ء میں شائع ہوا۔ اس زمانے میں اقبال شدید طور پر علیل تھے او رخود لکھنے پڑھنے سے معذور تھے ۔سو یہ بیان کیسے لکھا گیا؟ سید نذیر نیازی تحریر کرتے ہیں: دم کشی ، احتباس صوت ، ضعف اور نقاہت کیسے کیسے عوارض تھے۔ اس حالت میں بیا ن لکھوانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ آخر طے پایا کہ حضرت علا ّمہ دو ایک نشستوں میں سارا مضمون چوہدری صاحب (چوہدری محمد حسین)کو سمجھا دیں۔چودھری صاحب اسے قلم بند کرکے لے آئیں او رہم سب جمع ہو جائیں۔حضرت علامہ مضمون سنیں اورہم بھی سنتے جائیں۔ جہاں کہیںضروری ہو، مناسب ترمیم ہوجائے۔ البتہ اس امر کا بالخصوص التزام رہے کہ حضرت علامہ جن الفاظ میں اظہار مطلب فرما رہے ہیں ، حتیٰ الوسع انہی کا استعمال کیاجائے تاکہ بیا ن اپنی آخری شکل میں مرتب ہوجائے۔۸۷ اقبال نے اپنے جوابی مضمون میں واضح کیا کہ حال کی عربی فارسی اور ترکی زبانو ںمیں لفظ ’’ملت ‘‘ قوم کے معنوں میں بھی مستعمل ہے اور انہوں نے اپنی تحریروں میں بالعموم ملّت بمعنی قوم ہی استعمال کیا ہے ۔ اقبال نے فرمایا کہ مولانا حسین احمد مدنی پر اعتراض کی گنجائش اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب ہندی مسلمانوں کو قومیّت کا جدید فرنگی نظریہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا جائے ۔ اقبال کے نزدیک یورپ کی ملوکانہ اغراض اس امر کی متقاضی تھیں کہ اسلام کی وحدت دینی کو پارہ پارہ کرنے کے لیے اس سے بہتر اور کوئی حربہ نہ تھا کہ اسلامی ممالک میں فرنگی نظریۂ قومیت کی اشاعت کی جائے ۔ چنانچہ یورپی سیاست دانوں کی یہ تدبیر جنگ عظیم میں کامیاب بھی ہوگئی ۔ اقبال کے ہاں اسلام محض انسان کی اخلاقی اصلاح ہی کا داعی نہیں ، بلکہ عالم بشریت کی اجتماعی زندگی میں ایک تدریجی مگر اساسی انقلاب بھی چاہتا ہے جو اس کے قومی اور نسلی نقطۂ نظر کو یکسر بدل کر اس میں خالص انسانی ضمیر کی تخلیق کرے ۔ پس ان کا اصل مقصد تمام فطری امتیازات کے باوجود عالم بشریت کو متحدد ومنظم کرنا ہے ۔ اقبال نے تحریر کیا: مولانا حسین احمد مدنی عالم دین ہیں اور جو نظریہ انہوں نے قوم کے سامنے پیش کیا ہے، امت محمدؐیہ کے لیے اس کے خطرناک عواقب سے وہ بے خبر نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے لفظ قوم استعمال کیا یا لفظ ملت، ہر اس لفظ سے اس جماعت کی تعبیر کرنا جو ان کے تصور میں امت محمدؐیہ ہے او راس کی اساس وطن قرار دینا ایک نہایت دل شکن اور افسوسنا ک امرہے…آپ نے سوچانہیں کہ آپ اس توضیح سے دو غلط اور خطرناک نظریے مسلمانوں کے سامنے پیش کررہے ہیں۔ ایک یہ کہ مسلمان بحیثیت قوم اور ہو سکتے ہیں اور بحیثیت ملّت اور ۔ دوسرا یہ کہ ازروئے قوم چونکہ وہ ہندوستانی ہیں ، اس لیے مذہب کو علیٰحدہ چھوڑ کر انہیں باقی اقوام کی قومیت یا ہندوستانیت میں جذب ہونا چاہیے…یعنی یہ کہ مذہب اور سیا ست جداجدا چیزیں ہیں۔ اس ملک میں رہنا ہے تومذہب کو محض انفرادی اور پرائیوٹ سمجھو اور اس کو افراد تک ہی محدود رکھو۔ سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کو کوئی دوسری علیحدہ قوم نہ تصور کرو اور اکثریت میں مدغم ہوجاؤ… مولانا نے یہ فرض کرکے کہ مجھے قوم اور ملت کے معنی میں فرق معلوم نہیں اور شعر لکھنے سے پہلے جہاں میں نے مولانا کی تقریرکی اخباری رپورٹ کی تحقیق نہ کی ، وہاں قاموس کی ورق گردانی بھی نہ کر سکا ، مجھے عربی زبان سے بے بہرہ ہونے کا طعنہ دیا ہے۔ یہ طعنہ سر آنکھوں پر، لیکن کیا ہی اچھا ہوتا اگر میری خاطر نہیں تو عامۃ المسلمین کی خاطر قاموس سے گزر کر قرآن حکیم کی طرف رجوع کرلیتے اور اس خطرناک اور غیر اسلامی نظریے کو مسلمانوں کے سامنے رکھنے سے پیشتر خدائے پاک کی نازل کردہ وحی سے بھی استشہاد فرماتے۔ مجھے تسلیم ہے کہ میں عالم دین نہیں ، نہ عربی زبان کا ادیب: قلندر جزدو حرف لا الہٰ کچھ بھی نہیں رکھتا فقیہ شہر قاروں ہے لغت ہائے جحازی کا لیکن آپ کو کون سی چیز مانع آئی کہ آپ نے صرف قاموس پر اکتفاکی ۔ کیا قرآن پاک میں سیکڑوں جگہ لفظ قوم استعمال نہیں ہوا؟ کیا قرآن میں ملّت کا لفظ متعدد بار نہیں آیا ! آیات قرآن میں قوم وملت سے کیا مراد ہے اورکیا جماعت محمدؐیہ کے لیے ان الفاظ کے علاوہ لفظ امت بھی آیا ہے یا نہیں! کیا ان الفاظ کے معانی میں اس قدر اختلاف ہے کہ ایک ہی قوم اس اختلاف معافی کی بنا پر ایسی مختلف حیثیتیں رکھے کہ دینی یا شرعی اعتبار سے تو وہ نو امیس الہٰیہ کی پابند ہو، اور ملکی و وطنی اعتبار سے کسی ایسے دستور العمل کی پابند ہو جو ملّی دستور العمل سے مختلف بھی ہو سکتاہے…قرآن کریم میں مسلمانوں کے لیے امت کے سوا اور کوئی لفظ نہیں آیا… قوم رجال کی جماعت کا نام ہے (بقول مولانا حسین احمد مدنی)لغوی اعتبار سے عورتیں قوم میں شامل نہیں لیکن بقول اقبا ل قرآن حکیم میں جہاں قوم موسیٰ اور قوم عاد کے الفاظ آئے ہیں وہاں ظاہر ہے کہ عورتیں اس کے مفہوم میں شامل ہیں اور یہ جماعت باعتبار قبیلہ، نسل، رنگ ، زبان ، وطن اور اخلاق ہزار رنگ میں پیدا ہو سکتی ہے ، لیکن ملّت سب جماعتوں کو تراش کر ایک نیا اور مشترک گروہ بنائے گی۔ گویا ملّت یا امّت جاذب ہے اقوام کی، خود ان میں جذب نہیں ہوسکتی …امت مسلمہ جس دین فطرت کی حامل ہے اس کا نام دین قیم ہے۔ دین قیم کے الفاظ میں ایک عجیب و غریب لطیفۂ قرآنی مخفی ہے، اور وہ یہ کہ صرف دین ہی مقوم ہے اس گروہ کے امور معاشی ومعاوی کا جو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی اس نظام کے سپرد کردے۔ بالفاظ دیگر یہ کہ قرآن کی رو سے حقیقی تمدنی یا سیاسی معنوں میں قوم دین اسلام سے ہی تقویم پاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن صاف صاف اس حقیقت کا اعلان کرتاہے کہ کوئی دستور العمل جو غیر اسلامی ہو نامقبول و مردود ہے۔ ایک اور لطیفہ بھی مسلمانو ںکے لیے قابل غور ہے کہ اگر ’’وطنیت ‘ ‘ کا جذبہ ایسا ہی اہم اور قابل قدر تھا تو رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے بعض اقارب اور ہم نسلوںاور ہم قوموں کو آپ سے پرخاش کیوں ہوئی؟ کیوں نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کو محض ایک ہمہ گیر معمولی ملّت سمجھ کر بلحاظ قوم یا قومیت ابو جہل اور ابولہب کو اپنا بنائے رکھا اور ان کی دلجوئی کرتے رہے؟ بلکہ کیوں نہ عرب کے سیاسی امور میں ان کے ساتھ رشتۂ قومیت وطنی قائم رکھا ! اگر اسلام سے مطلق، مطلق آزادی مراد تھی تو آزادی کانصب العین تو قریش مکہ کا بھی تھا۔ مگر افسوس آپ اس نکتہ پر غور نہیں فرماتے کہ پیغمبر خدا کے نزدیک اسلام سے دین قیم اور امّت مسلمہ کی آزادی مقصود تھی ان کو چھوڑنا، ان کو کسی دوسری ہیّت اجتماعیہ کے تابع رکھ کر کوئی اور آزادی چاہنا بے معنی تھا…محمدؐ (فداہ امی و ابی)کی قوم آپ کی بعثت سے پہلے قوم تھی اور آزاد تھی۔ لیکن جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت بننے لگی تو اب قوم کی حیثیت ثانوی رہ گئی ۔جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت میں آگئے وہ خواہ ان کی قوم میں سے تھے یا دیگر اقوام سے وہ سب امت مسلمہ یا ملت محمدؐیہ بن گئے۔ پہلے وہ ملک و نسب کے گرفتار تھے ،ا ب ملک و نسب ان کا گرفتارہوگیا…حضوؐر رسالت مآب کے لیے یہ راہ بہت آسان تھی کہ آپ ابولہب یا ابوجہل یا کفار مکہ سے یہ فرماتے کہ تم اپنی بت پرستی پر قائم رہو، مگر اس نسلی اور وطنی اشتراک کی بنا پر جو تمہارے ہمارے درمیان موجود ہے، ایک وحدت عربیہ قائم کی جاسکتی ہے۔ اگر حضوؐر ، نعوذ باللہ ، یہ راہ اختیار کرتے تو اس میں شک نہیں کہ یہ ایک وطن دوست کی راہ ہوتی ، لیکن بنی آخر الزمان کی راہ نہ ہوتی…مسلمان ہونے کی حیثیت سے انگریزکی غلامی کے بند توڑنا اور اس کے اقتدار کا خاتمہ کرنا ہمار ا فرض ہے او ر اس آزادی سے ہمارا مقصد یہی نہیں کہ ہم آزاد ہو جائیں، بلکہ ہمارا اوّل مقصد یہ ہے کہ اسلام قائم رہے اور مسلمان طاقتور بن جائے۔ اس لیے مسلمان کسی ایسی حکومت کے قیام میں مددگار نہیں ہو سکتا جس کی بنیادیں اُنہی اصولوں پر ہوں جن پر انگریزی حکومت قائم ہے۔ ایک باطل کو مٹا کر دوسرے باطل کو قائم کرنا چہ معنی دارد ؟ ہم تو چاہتے ہیں کہ ہندوستان کلیتہ نہیں تو ایک بڑی حد تک دار الاسلام بن جائے لیکن اگر آزادی ہند کا نتیجہ یہ ہوکہ جیسا دار الکفر ہے ویسا ہی رہے، یا اس سے بھی بدتر بن جائے تومسلمان ایسی آزادی وطن پر ہزار مرتبہ لعنت بھیجتا ہے۔۸۸ اس پُر مغز مقالے کے ذریعے اقبال نے اپنے سیاسی فکر کے مرکز یعنی’’ مسلم قومیت‘‘ کے اصول کی وضاحت کی اور ساتھ یہ بھی واضح کردیاکہ مسلمانان عالم کی عملی سیاست کا محور یہی اصول ہونا چاہیے۔ اسی دوران میں جنا ب طالوت نے اقبال کی ہدایت کے بموجب مولانا حسین احمد مدنی سے استفسار کیا کہ ’’قومیں اوطان سے بنتی ہیں‘‘ سے ان کی مراد ایک امر واقعہ کو بیا ن کرنا ہے یا مشورہ دینا ہے ۔ اس پر مولانا حسین احمد مدنی نے انہیں جواب دیا کہ یہ موجودہ زمانے کی جاری ہونے والی ذہنیت کی خبر ہے ۔ انشا نہیں ہے ، اور اس فقرے کو مشورہ سمجھ لینا غلطی ہے ۔ طالوت صاحب نے مولانا حسین احمد مدنی کے اس خط کی نقل اقبال کو بھجوائی اور اقبال نے اسے پڑھنے کے بعد ’’روزنامہ احسان‘‘ مورخہ ۲۸؍مارچ ۱۹۳۸ء میں ایک بیان جاری کیا جس میں مولانا حسین احمد مدنی کے خط کے اقتباس کے حوالے سے تحریر فرمایا: مولانا اس بات سے صاف انکار کرتے ہیں کہ انہوں نے مسلمانانِ ہند کو جدید نظریہ قومیت اختیار کر نے کا مشور ہ دیا۔ لہٰذامیں اس بات کا اعلان ضروری سمجھتاہوں کہ مجھ کو مولانا کے اس اعتراف کے بعد کسی قسم کا کوئی حق ان پر اعتراض کرنے کا نہیں رہتا۔ میں مولانا کے ان عقیدت مندوں کے جوش عقیدت کی قدر کرتاہوں جنہوںنے ایک دینی امر کی توضیح کے سائے میں پرائیویٹ خطوط اور پبلک تحریروں میں گالیاں دیں ۔ خدا تعالیٰ ان کو مولانا کی صحبت سے زیادہ مستفید کرے۔ نیز ان کو یقین دلاتاہوں کہ مولانا کی حمیت دینی کے احترام میں ان کے کسی عقیدت مندسے پیچھے نہیںہوں۔۸۹ یہ اقبال کی طرف سے بحث کے اختتام کا اعلان تھا، جسے مولانا حسین احمد مدنی کے معتقدین نے اقبال کا معافی نامہ قرار دیا۹۰۔ بعض مورخ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ جب بحث ختم ہوچکی تھی تو’’ارمغان حجاز‘‘ کی اشاعت کے وقت مولانا حسین احمد مدنی سے متعلق قطعۂ اشعار کو اس میں کیوں شامل کیا گیا؟ ان کے نزدیک اگراقبال ’’ارمغان حجاز‘‘ کی ترتیب اپنی زندگی میں کرتے تو شاید وہ تین اشعار درج نہ کرتے ، جن میں مولانا حسین احمد مدنی پر چوٹ کی گئی تھی ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اقبال کی وفات کے چند ماہ بعد مولانا حسین احمد مدنی نے ’’متحدہ قومیّت اور اسلام‘‘ کے نام سے ایک کتابچہ شائع کیا ، جس میں اقبال کو ’’ساحرین برطانیہ کے سحر میں مبتلا‘‘ قراردیا اور انہیں ’’کودک نادان‘‘ کے لقب سے نوازا۔ نیز اس کتابچے میں انہوں نے اپنے سابقہ موقف سے انحراف کرتے ہوئے لکھا کہ مسلمانان ہند کو قومیت متحّدہ میں شریک ہونے کا مشورہ دینے کو وہ خلاف دیانت یا ناجائز نہیں سمجھتے یہاں تک کہ انہو ںنے اس مشورے کو اسلامی تعلیمات کی رو سے جائز ثابت کرنے کے لیے اپنی علمیت کا پورا زور صرف کیا ۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ اقبا ل کی وفات کے بعد نومبر ۱۹۳۸ء میں ’’ارمغان حجاز‘‘کی ترتیب دیتے وقت چوہدری محمد حسین نے مولانا حسین احمد مدنی سے متعلق اشعار اس میں شامل کرنا ضروری خیال کیا او روہ اشعار آج تک شائع ہوتے چلے آرہے ہیں۔ اس ضمن میں محمد احمد خان تحریر فرماتے ہیں: اگر حضرت علا ّمہ نے ان کے اخراج کی ہدایت نہ فرمائی اور ان کے انتقال کے بعد یہ اشعار شائع ہوتے رہے تو یہ کوئی غلط کاری نہ تھی ۔ کیونکہ ، مولانا مدنی آخر دم تک متحدہ قومیت کا دم بھرتے رہے اور اپنے اسی موقف کو صحیح ثابت کرنے کے لیے انہوں نے ’’متحدہ قومیت اور اسلام ‘‘ نامی کتابچہ تحریر فرمایاتھا۔ اگر علا ّمہ اقبال مرحوم زند ہ ہوتے اور ان کے افکار و نظریا ت کا مطالعہ فرماتے جو مولانا نے اپنی خود نوشت سوانح حیات اور اس کتابچے میں ظاہر کیے ہیں تو یقین سے کہاجاسکتاہے کہ وہ ان اشعار کو واپس لینا تو کجا ان سے زیادہ سخت الفاظ میںاپنے جذبات و احساسات کا اظہار فرماتے۔۹۱ جب مولانا حسین احمد مدنی نے اقبال کی رحلت کے بعد انہیں اپنے کتابچے میں طنز ، تعریض اور تضحیک کا نشانہ بنانے سے گریز نہ کیا تو ان کے معتقدین کیونکر چُپ بیٹھے رہ سکتے تھے ۔ انہوںنے مرنے کے بعد بھی اقبال کو نہ بخشا۔ مثال کے طور پر مولانا نجم الدین اصلاحی مرتّب مکتوبات شیخ الاسلام (مولانا حسین احمد مدنی )جلد سوم میں اقبال کے خلاف اپنے دل کا غبار نکالتے ہوئے ارشاد کرتے ہیں: ہم ڈاکٹر صاحب مرحوم کو ایک شاعر اور فلسفی سے زیادہ حیثیت دینے کو شرعی جرم سمجھتے ہیں ، کیونکہ ہم نے ان کے کلام کو بغور پڑھاہے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ مرحوم کے جہاں سیکڑوں اور ہزاروں اشعار مفید ہیں وہیں ان کے کتنے اشعار ایسے ہیں ، جن میں کھلے بندوں اسلام اور اسلامی فلسفہ پر ان کی زد پڑتی ہے…پاکستان میں قانون سازی کا اصول فکر اقبال کی روشنی میں تو ہو سکتا ہے، کیونکہ پاکستان جس اسلام کے نام پر بنا ہے وہ مرحوم ہی کے فلسفے کا دوسرا نام ہے۔۹۲ مولانا نجم الدین اصلاحی کا یہ فقرہ کہ پاکستان جس اسلام کے نام پر بنا ہے، وہ اقبال ہی کے فلسفے کا دوسرا نام ہے، غور طلب ہے ۔ آخر اقبال کا تصور اسلام کیا ہے؟ مختصر اً یہی کہ ایک نیا مسلم معاشرہ وجود میں لایا جائے جو اجتہادی نقطۂ نظر سے قرآن وسنت کی روشنی میں وقت کے جدید تقاضوںکے مطابق اپنے تمام مسائل حل کرنے کی اہلیت رکھتاہو۔ علمائے پاک وہند نے ہمیشہ اس قسم کی اجتہادی آزادی کو شبہے کی نگاہ سے دیکھا ہے ۔ مگر یہاں اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ اس ضمن میں علماء کا نقطۂ نظر درست ہے یا غلط۔ بات جو واقعی عجیب و غریب ہے، یہ ہے کہ ایسے علماء مسلمانوں کے قومیّت متحدہ میں جذب ہو جانے اور یوں ہندوستان کی سیکولر یا لادین ریاست قبول کرلینے کو تو اسلامی تعلیمات کی روسے جائز سمجھتے ہیں ، مگر پاکستان میں وہ ایسا روایتی نظام اسلام نافذ کرنے کے درپے ہیں جس کا آج کے متغیر زمانے میں نفاذ مشکل ہے ۔ ممکن ہے وہ ایسے نظام کے نفاذ کی پاکستان میں ناکامی سے یہ ثابت کرناچاہتے ہوںکہ مولانا حسین احمد مدنی کا موقف درست تھا اور اقبال کا غلط۔ اس مرحلے پر ایک نکتے کی وضاحت ضروری ہے ۔ برصغیر میں مسلم اقتدار کے خاتمے کے بعد تجدید دین کی خاطر سید احمد بریلوی کی تحریک جسے بعض اوقات ’’وہابی ‘‘ تحریک بھی کہا جاتاہے اور یورپی کلچر کے فروغ کے سبب نئے نظریات کی یلغار کی روک تھام کے لیے سر سید کی ’’علی گڑھ‘‘ تحریک کے زمانے سے مسلمانو ںمیں اسلام کے بارے میں تین مختلف زاویہ ہائے نگاہ موجود ہیں۔ روایتی ، اصلاحی اور عوامی ۔ اسلام کے بارے میں سر سید کا اندازِ فکر اصلاحی تھا اور اقبال چونکہ سر سید کے مکتبۂ فکر سے متاثر تھے اس لیے وہ بھی اصلاحی اسلام کے داعی تھے، یعنی برصغیر میں اپنی تجویز کردہ آزاد مسلم ریاست میں ایسے اسلامی قوانین کے نفاذ کے حامی تھے، جن کی تعبیر سیاسی، معاشی ، معاشرتی یا تمدنی اعتبار سے وقت کے جدید تقاضوں اور قوم کی بدلتی ہوئی ضروریات کے مطابق کی گئی ہو۔ مگر برصغیر کے اکثر و بیشتر علماء قومیّت متحدہ پر ایمان رکھنے کے ساتھ ساتھ اسلامی قوانین کی صرف روایتی تعبیر ہی کو قابل قبول سمجھتے تھے اور ان کے نزدیک اصلاحی انداز فکر بدعت کے سوا او رکچھ نہ تھا۔ اقبال نے ایسے علماء کے متعلق نہایت سخت الفاظ استعمال کیے ہیں ، مثلا ’’پاکستان ٹائمز‘‘ میگزین سیکشن ، مورّخہ ۷؍ستمبر ۱۹۸۱ء میں نواب بہادلپور کے نا م ان کے ستمبر ۱۹۳۷ء میں تحریرکردہ ایک خط کا اقتباس ملاحظہ ہو: میں نے اپنی زندگی کے گذشتہ تیس برس اسلام کے بنیادی اصولوں اور اس کے تمدّن کی صحیح وضاحت کرنے میں صرف کیے ہیں ، لیکن اب جب کہ میں بوڑھا ہوچکاہو ں اور میری استعدادیں تھک گئی ہیں تو مجھے اس دردناک حقیقت کا احساس ہورہاہے کہ سیاسیات ہند میں بعض ایسی نئی قوتیں برسر عمل ہیں ، جو ہندوستان میں اسلام او راس کے تمدّن کے مستقبل پر بری طرح سے اثر انداز ہوںگی… جن علمائے اسلام نے سیاسیات ہند میں حصہ لیا ہے ان کے کردار سے عیاں ہے کہ انہیں ہندوستان میں مسلمانوں کی پوزیشن کا قطعی تصور نہیں ہے ، بلکہ وہ علماء جو دوسروں سے زیادہ علم رکھتے ہیںحقیقت میں ان سے کہیں زیادہ احمق ثابت ہوئے ہیں ۔ جہا ں تک غریب مسلم عوام کا تعلق ہے ان میں بھاری اکثریت آج بھی ان پڑھ اور ضعیف الاعتقاد ہے ۔ وہ نہ تو عربی زبان جانتے ہیں اور نہ قرآن مجید پڑھ کر سمجھ سکتے ہیں ۔ مگر جن کے اعتقاد کے مطابق دراصل زندہ یا مردہ پیر ان کی شفاعت کا باعث ہیں ۔ لہٰذا ان کے ہاں پیری مرید ی یا قبرپرستی مقبول ہے او رصوفیہ کرام یا پیروںفقیروں کے مزاروں پر چادریں چڑھانا یا خانقاہوں پر منتیںماننا ان کا معمول ہے ۔ ایک مسلم نیشنلسٹ مصلح کی حیثیت سے اقبال نے اپنی شعری تخلیقات اور نثری تحریروں میں بارہا روایتی اسلام کے داعی، ’’مُلا‘‘ او رعوامی اسلام کے حامی پیر کو اپنی تضحیک کا نشانہ بنایا ہے۔ معتر ض اس حد تک تو کہنے میں شاید حق بجانب ہوں کہ اقبال نے اصلاحی طریق فکر کواہمیت دے کر جس اجتہادی آزادی کی راہ دکھلائی ہے ، اس پر ان کے بعدآنے والے شتر بے مہار کی طرح ان کی اپنی مقرر کردہ حدود سے بھی بہت آگے نکل سکتے ہیں۔ ممکن ہے اسی سبب اصلاحی انداز فکر کو روایتی اسلام طرح طرح کے خوف دلا کر تقلید کی زنجیروں میں جکڑے رکھنا چاہتا ہے۔ بہرحال بعض ایسے مخصوص حلقوں میں اقبال پردشنام طراز ی کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اقبال کے کا غذات میں پائے گئے دو ایک گمنام خطوط سے ظاہر ہوتاہے کہ ان کے نظریاتی مخالف آخری دم تک ان پر کیچڑا چھالتے اور انہیں مختلف قسم کے القاب سے نواز تے رہے ۔ اگر آج بھی اقبال کے کسی ایسے نظریاتی دشمن کو کریدکر دیکھا جائے تو اس کی کھال کے نیچے سے وہی کانگرسی ذہنیت رکھنے والا ضدی عالم دین ، متفرق لبادے اوڑھ کر سامنے آنے والاپرانانیشنلسٹ مسلمان ، دہریہ سوشلسٹ یا کمیونسٹ ، علاقائی یا فرقہ وارانہ تعصب کا مریض یا احمد ی نکلے گا۔ اقبا ل کے ہاں زندگی کی بہت اہمیت تھی ۔ سید نذیرنیازی کا مشاہدہ درست ہے کہ وہ ایک زندہ انسان تھے اور ان کا فکری ارتقاء تا دم مرگ جاری رہا۹۳۔ وہ زندہ رہنے کی زبردست خواہش اس لیے رکھتے تھے کہ احیائے اسلام کے ضمن میں اپنا وہ کام مکمل کر سکیںجس کے متعلق اُنہیںیقین تھا کہ صرف وہی اُسے انجام دے سکتے ہیں۔ وہ خود بھی اپنے بارے میں فرما گئے ہیںکہ ایک زندہ سوچنے والے انسان کا حق ہے کہ وہ اپنا نظریہ تبدیل کرلے اور بقول ایمرسن صرف پتھر ہی اپنے آپ کو نہیں بدلتے۹۴۔ایسے مفکرین کی دنیا میں مثالیں موجود ہیں جن کی ارضی زندگی کے اختتام پرہی فیصلہ کیا جا سکا کہ ان کے افکار و نظریات کی حتمی شکل کیا تھی ۔ اقبال اپنی حیات کے مختلف ادوار میں سے گزرتے وقت اپنے نظریات بھی بدلتے چلے گئے گویا جس طرح ان کی جسمانی زندگی نے تغیر و تبدل کی منازل طے کیں، اسی طرح ان کی ذہنی زندگی بھی ارتقائی کیفیات میں سے گزرتی رہی۔ اسی بنا پر بعض محقق ان کے خیالات میں تناقض یا تضاد پاتے ہیں ، لیکن اقبال کے افکار میں تضادات یا تو ان کے فکری ارتقاء کے مراحل کے حوالے سے دور کیے جاسکتے ہیں یا وہ حیات ہی کے متضاد حقائق کی عکاسی کرتے ہیں اور اس قسم کے تناقض کا جذباتی طورپر احساس تو ممکن ہے گو عقلی طورپر اس کا ادراک شاید مشکل ہو۔ اس سے قبل کہ اس امر کی طرف توجہ مبذول کی جائے کہ رحلت کے وقت اقبال کے افکار و نظریات کی حتمی صورت کیاتھی، اس سوال کا جواب دینا ضروری ہے کہ کیا اقبال شاعر تھے، فلسفی تھے، ماہر دینیات تھے ۔ آخر وہ اپنی نظرمیں کیا تھے؟ اقبال نے اپنے آپ کو کبھی حقیقی معنوں میں شاعر نہیں سمجھا ۔ ان کے پاس فن شاعری کی باریکیوں کی طرف توجہ کرنے کے لیے وقت نہ تھا۔ وہ شاعری کو اظہار خیال کا محض ایک ذریعہ سمجھتے تھے۔ انہوں نے خود ہی اپنی شاعری کے متعلق فرمایا ہے: مقصود صرف یہ ہے کہ خیالات میں انقلاب پیدا ہو اور بس۔ اس بات کو مدّنظر رکھ کر جن خیالات کو مفید سمجھتاہوں ان کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتاہوں ۔ کیاعجب کہ آئندہ نسلیں مجھے شاعر تصو ّر نہ کریں۔۹۵ اقبال صحیح معنوں میں فلسفی بھی نہ تھے، کیونکہ انہوں نے کوئی مربوط فلسفیانہ نظام پیچھے نہیں چھوڑا، بلکہ فلسفے کو زندگی کے مادی اور روحانی پہلوؤں کے مطالعہ کے لیے ایک حربے کے طور پر استعمال کیا۔وہ خود فرماتے ہیں: میری کوئی فلسفیانہ تعلیمات نہیں ہیں۔ بلکہ میں تو نظام ہائے فلسفہ کو حقارت کی نظر سے دیکھتاہوں ، نہ مجھے ان اصولو ںاو رنتائج پر اعتماد ہے جو فلسفے نے پیش کررکھے ہیں۔ خالص روحانی حقائق کی تفہیم کے سلسلہ میں انسانی عقل کو جتنا معتوب میں نے گرداناہے، شاید ہی کسی نے گردانا ہو۔ بلاشبہ میں ان باتوں کو ذکر کرتاہوں، جن میں عموماً فلسفی دلچسپی لیتے ہیں۔ لیکن میرے یہاں ان کا تعلق زندگی کے عملی مشاہدے اور تجربے سے ہے۔ فکری یا فلسفیانہ استدلال سے نہیں۔۹۶ اسی طرح اسلا م میں گہری دلچسپی رکھنے کے باوجود اقبال نے کبھی عالم دین ہونے کا دعویٰ بھی نہ کیا۔ احمدیوں کے عقائد پر تبصرے کے سلسلے میں انہوں نے پنڈت جواہر لعل نہرو کو تحریر کیا کہ وہ دینیات کے موضوع میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ البتہ احمدیوں کے ساتھ ان کے اپنے اکھاڑے میں نبرد آزما ہونے کے لیے انہوں نے اس موضوع سے تھوڑی سی شناسائی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۹۷۔مولانا حسین احمد مدنی کے ساتھ وطنی قومیت یا اسلامی قومیت کی بحث کے دوران بھی انہوں نے اپنے جوابی مضمون میں واضح کردیا : مجھے تسلیم ہے کہ میں عالم دین نہیں، نہ عربی زبان کا ادیب: قلندر جز ود حرف لا الہٰ کچھ بھی نہیں رکھتا فقیہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا ۹۸ پس اگر بقول خود ان کے وہ شاعر تھے، نہ فلسفی ، نہ عالم دین، توآخر کیاتھے! انہیں ان کے اپنے نقطۂ نظر سے دیکھاجائے تو ان کا خاتمہ ایک عاشق رسول ؐکی حیثیت سے ہوا ، جس نے اسی عشق کی نسبت سے امت محمد یہ یا ملت اسلامیہ کے تحفظ اور احیاء کے عمل کو جاری و ساری رکھنے کی کوشش میں اپنی تمام عمر صرف کردی ۔ شاعری ،فلسفہ ،دینیات ، تصوف وغیرہ توان کے نزدیک نصب العین کی وضاحت کی خاطر محض ذرائع تھے،مگر ان سب باتوں کے باوجود اقبال مظاہرالٰہی میں سے تھے۔ ایسے نوابغ روز گار خداوندتعالیٰ کی طرف سے ہدیے کے طورپر ہی انسانوں میں نموودار ہوتے ہیں اور آرڈر دے کر نہیں بنوائے جاسکتے۔ اقبال کے تصو ّر اسلام کا اہم ترین پہلوکیا تھا؟ انہوں نے مذاہب عالم کی ارتقائی تاریخ کے مطالعے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مذہب اپنے اوائلی دور میں قومی تھا۔ جیسے کہ ہندوؤں، قدیم یونانیوں یا مصریوں کے مذاہب سے ظاہر ہے۔ بعد میں نسلی قرار پایا، جیسے کہ یہودیو ںکے مذہب سے واضح ہے۔ عیسائیت نے تعلیم دی کہ مذہب نجی ، ذاتی یا انفرادی معاملہ ہے ۔ بالآخر اسلام ہی نے اس حقیقت کو آشکار کیا کہ مذہب قومی ہے ، نہ نسلی نہ ذاتی بلکہ خالصتاً انسانی ہے۔ اقبال فرماتے ہیں: اسلا م اصطلاح کے مفہوم قدیم کے مطابق ایک مذہب نہیں ، بلکہ یہ تو ایک روّیہ ہے۔ ایسی آزادی کا روّیہ جو کا ئنات کے ساتھ حریفانہ کشا کش کی ترغیب دیتا ہے۔ دراصل یہ دنیا ئے قدیم کے تمام تصورّات کے خلاف ایک احتجاج ہے۔ مختصراً اسلام انسان کا حقیقی انکشاف ہے۔ ۹۹ پس اقبال اسلام کو ہیئت اجتماعیہ انسانیہ کا ایک اصول یا انسانی اتحاد کو وجود میں لانے کے لیے ایک عملی تحریک تصور کرتے تھے۔ اور ’’مسلم ‘‘ سے ان کی مراد تھی وہ مرد مومن جو ’’لااکراہ فی الدین ‘‘ کی روشنی میں اپنی مثالی شخصیت اور بلند کرداری کے ذریعے ساری انسانیت کو مرعوب کرکے اپنے عقیدے کی طر ف لے آئے ۔ اقبا ل نے ایسے ہی یکتا افراد پر مشتمل ایک نئے مسلم معا شرے کا خواب دیکھا تھا اور ان کی تمام شعری تخلیقات یا نثری کا وشیں اسی نئے معاشرے کو حقیقی طورپر وجود میں لانے کی خاطر عملی تجاویز قرار دی جاسکتی ہیں۔ فکر اقبال میں کئی موضوع ایسے ہیں جن پر دفترکے دفتر لکھے جاسکتے ہیں۔ مگر اس مرحلے پر ان کے افکار و نظریات کی حتمی صورت یا خدوخال کا تعین کرتے وقت انتہائی اختصار سے کام لیا جائے گا ۔ اقبال کے ہاں دین اسلام تمدن اسلام سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا ان کے نزدیک تجدید دین، احیائے تمدن کے بغیر ممکن نہیں۔ ان کے خیال میں دینیات کے شعبے میں روایتی علم الکلام چونکہ یونانی فلسفے کی بنیادوں پر ترتیب دیا گیا تھا، اس اعتبار سے فرسودہ تھا اور مسلما نوںکی جدید نسل اس سے استفادہ نہ کر سکتی تھی۔ پس ضروری تھا کہ جدید سائنس کی تحقیقات کی بنیاد پر ایک نئے علم الکلام کو تشکیل دیا جائے ، کیونکہ ان کے نزدیک جدید سائنس کے دریافت شدہ اصولوں کو آیات قرآنی سے ہر لحاظ سے مطابقت تھی اورمسلمانوں کی نئی نسل کے لیے ایسا ترتیب دیا ہوا علم الکلام ان کے قلوب میں ایمان کی جڑیں زیادہ مضبوط کرسکتا تھا۱۰۰۔اس ضمن میں سرسید کی کوشش اس لیے کا میا ب نہ ہوئی کیونکہ انہوں نے معتزلی طریق کا ر اختیار کیا جو بجائے خود یونان کے فرسود ہ نظام عقلیت کی پیداوار تھا، لیکن سرسید پر تبصرہ کرنے کے باوجود اقبال ان کی شخصیت سے بے حد متاثر تھے۔ اپنے ایک خط مورخہ ۲۷؍فروری ۱۹۳۶ء بنام ڈاکٹر ظفر الحسن میں تحریر کرتے ہیں : اگرچہ ہمارے عظیم شاعر حالی نے سر سّید احمد خان کے سوانح حیات بڑی تفصیل سے تحریر کیے ہیں لیکن مسلمانان ایشیا ابھی تک ان کی ذہنی کاوش کو پوری طرح سمجھنے کے قابل نہیں ہوسکے۔ اس حقیقت کا مجھ پر انکشاف ہوا ہے کہ سر سید کی نگاہ ایسے وسیع و عریض امور پر جمی ہوئی تھی جن کا تعلق مسلمانان ایشیا کے مذہب اور سیا ست سے تھا۔ پس مسلم ایشیا نے ابھی تک ان کی شخصیت کی حقیقی عظمت کا اندازہ نہیں کیا ۔۱۰۱ بہر حال اقبا ل کی منشا کے مطابق خصوصاً دینیات کے شعبے میں اس نئے انداز فکر کو عملی طورپر بروئے کا ر لانے کے سلسلے میں کسی بھی مسلم ملک میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اسی طرح باوجود اس کے کہ محکومی کے دو رمیں اقبال اجتہاد سے گریزاں تھے ، انہیں مسلمانوں کے مستقبل میں آنے والے سیاسی آزادی کے دورمیں فقہ اسلامی کی تدوین نو کی ضرورت کا احساس تھا۔ اس ضمن میں ۱۹۰۴ء سے لے کر وفات تک اجتہاد ان کی دلچسپی کا مرکز بنا رہا۔ اجتہاد کے معاملے میں انہوں نے اس قسم کی وسعت نظرکا مظاہرہ کیا ہے اور فقہ میں قرآن و سنت کی حدود میں رہتے ہوئے ایسی انقلابی تعبیریں ان کے ذہن میں تھیں، جنہیں قبول کرنے کے لیے اب تک نہ تو تقلید پسند اور تنگ نظر علماء تیار ہیں ، نہ مسلم قوم ۔ اقبال کا موقف تھا کہ ارکا ن دین میں تغیر و تبدل ممکن نہیں، لیکن بیشتر فروعی فقہی مسائل میں فقہ کے قدیم مکاتب فکر کی اندھا دھند تقلید کے بجائے اجتہاد کی نہ صرف گنجائش ہے ، بلکہ اشد ضرورت ہے ۔ اسلام میں مرد اور عورت کی قانونی مساوات کے سلسلے میں ان کے نظریات بھی اچھوتے تھے۔ اس بارے میں حال ہی میں انڈیا آفس لائبریری اور ریکارڈز لندن میں محفوظ ان کی ایک انگریزی تحریر راقم کی نظرسے گزری ہے، جس میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ایک مسلم عورت جس کا کسی مخصوص اسلامی فرقے سے تعلق ہو، محض کسی مسلم مرد کے عقد میں آنے سے اپنے خاوند کے فرقے کے قانون کی تابع نہیں ہوسکتی۔ اگر بیوی کو یوں اپنی شخصیت خاوند کی شخصیت میں جذب کرنے کوکہا جائے تو یہ ایک لطیف قسم کا اکراہ (مجبوری)ہوگا، جسے اسلامی قانون کسی صورت یا شکل میں تسلیم نہیں کرتا، کیونکہ ایسا فعل قرآن مجید کے واضح حکم ’’لااکراہ فی الدین ‘‘ کے خلاف ہوگا۔ پھر فرماتے ہیں کہ ایک یہودی یا عیسائی عورت بھی اگر کسی مسلم شوہر سے شادی کرے (جو شرعاًجائزہے)تو اسلامی قانون کے مطابق ، محض اس کے عقد میں آنے کے سبب وہ خاوند کے مذہبی قانون کی تابع نہیں ہوجاتی۱۰۲ ۔اقبال اپنی تحریروں میں یہاں تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ ان کے نزدیک مسلمانوں کی ہر نسل گذشتہ نسلوں کی فقہی تعبیر یا اجماع کی پابندی نہیں۔بالفاظ دیگر وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کی ہر نئی نسل فقہی مسائل کا حل وقت کے جدید تقاضوں اور اپنی بدلتی ہوئی ضروریات کو مدنظر رکھ کر کرے ۔ اقبال یہ حق جدید جورس پروڈنس کے ماہر اور اسلامی فقہ کے اصولوں سے شناسا و کلا اور ججوں (یا قاضیو ں)کو دیتے ہیں ۔ اس سلسلے میں وہ جس جرأ ت فکر یا تحریک پر اصرار کرتے ہیں یا جس لبرل از م کی طرف مسلمانانِ جدید کو لے جانا چاہتے ہیں ، اسے ابھی تک کوئی بھی قبول کرنے پر رضامند نہیں ہوا۔ دراصل وہ خود اس موضوع پرایک کتاب لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے، لیکن یہ کا م ان کی رحلت کے سبب ادھورا رہ گیا۔ احیائے تمدّن اسلام کے لیے جس طرح دینیات کے شعبے میں نئے علم الکلام اور قانون کے شعبے میں نئی فقہ کی تشکیل کی ضرورت تھی، اسی طرح تعلیم کے شعبے میں بھی انقلابی تبدیلیاں درکارتھیں ۔ اس میدان میں اقبال قدیم اور جدید کا امتزاج چاہتے تھے۔ وہ بر ّصغیر کے مفکروں میں پہلی شخصیت تھے جس نے جدیدیت اور مغربیت میں امتیاز واضح کیا۔ وہ بنیادی طورپر مغربیت کے مخالف تھے ، لیکن جدید یت یا تجدید کے ہمیشہ قائل رہے ۔ ان کے نزدیک علم کی تحصیل کے لیے خدا وند تعالیٰ نے انسان کو تین ذرائع سے نوازا ہے۔ عقل ، حواس خمسہ اور عرفان۔ عقل سے حاصل کردہ علم کی نوعیت فکر ی ہے اور اس کا ماہر عالم کہلاتاہے ۔ حواس خمسہ سے حاصل کردہ علم کا انحصار مشاہدے یا تجربے پر ہے اور اس کا دوسرا نام حکمت یا سائنس ہے ۔ حکمت یا سائنس کے ماہر کو روایتی اندا زمیں حکیم کہا جاتاہے۔ عرفان کے ذریعے سے حاصل کردہ علم دراصل معرفت کہلاتا ہے اور اس کے ماہر کو لوگ عارف کہہ کرپکارتے ہیں۔ اقبال کے خیال میں محض دینی علو م کی تجدید سے مسلمانوں کے تمدنی احیا کا امکان نہ تھا۔ اس لیے وہ ایسے دارالعلوم کے قیام کے خواہشمند تھے ، جہاں مسلم طلبہ کو قدیم علوم کے ساتھ ساتھ جدید علو م بالخصوص سائنس اور ٹیکنالو جی کی تعلیم بھی دی جائے ۔ اقبال کی رائے میں مسلمان جدید سائنس کے موجد تھے اور اس میدان میں ترقی کرنا ان کے لیے اشد ضروری تھا تاکہ دنیا ئے اسلام میں تحقیق ، تخلیق، اختراع اور ایجاد کا سلسلہ ایک بار پھر شروع کیاجاسکے ۔ تربیت کے معاملے میں اقبال جدید مسلم یونیورسٹوں کے اخلاقی معیار کو کچھ اس طرح متعین کرنا چاہتے تھے کہ وہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے کوایک نظر دیکھتے ہی کہا جاسکے کہ وہ اسلامی شخصیت او رکردار کا مالک ہے۔ اقبال ائمہ مساجد اور واعظین سے بھی توقع رکھتے تھے کہ دینی علوم سے شناسا ہونے کے علاوہ وہ ادبیات اور جدید علوم سے بھی واقفیت رکھتے ہوں۔ اقبال نے اپنی تحریرو ںکے ذریعے شعر وادب کی خصوصیتوںکے بارے میں تنقید کاایک اسلامی معیار متعین کیا نیز اسلامی آرٹ (فن) کے متعلق بھی اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا : کسی قوم کی روحانی صحت کا انحصار اس امر پر موقوف ہے کہ اس کے شاعرو ں اور فنکاروں کو کس قسم کی آمد ہوتی ہے …جہاں تک تاریخ تمد ن اسلامی کا تعلق ہے ، میری دانست میں ماسوا فن تعمیر کے اسلامی آرٹ (موسیقی،مصو ری اور شاعری تک)نے ابھی وجود میں آنا ہے۔۱۰۳ اقبال نے اسلام کی اقتصادی یا معاشی تعلیمات کے متعلق بھی ذاتی اجتہاد کے ذریعے ایک رائے قائم کر رکھی تھی، جس کا اظہار وقتاً فوقتاً وہ اپنی شعری تخلیقات یا نثری تحریروں میں فرماتے رہے۔اگر اقبال کے معاشی نظریات کا احاطہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ کارل مارکس کی تاریخ انسانی کی مادی تعبیر کو سراسر غلط تصو ّر کرتے تھے۔ ان کے نزدیک بالشویک کمیونسٹ یا سوشلسٹ عقیدہ رکھنا دائرہ اسلام سے خارج ہونے کے مترادف ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ ملوکیت ، مذہبی پیشوا ئیت ، جاگیرداری اور سرمایہ داری کے بھی مخالف تھے او رایسی اجارہ داریو ںکو تعلیمات قرآنی کے برعکس سمجھتے تھے۔ ان کے تصور ریاست سے عیاں ہے کہ ان کے نزدیک اسلامی نظام جمہوریت میں کسی ایک مخصوص طبقے کی حکمرانی کی، خواہ وہ جاگیرداروں یا سرمایہ داروںپر مشتمل ہو، خواہ مزدورں یا کاشتکاروں پر گنجائش نہ تھی ۔ ان کی رائے میں اسلام کا مقصد ایک ایسے متواز ن معاشی نظام کا انعقاد تھا جس میں کوئی ایک دوسرے کے استحصال کا باعث نہ بن سکے۔ اسی بنا پر اسلام کیپٹلزم (سرمایہ داری )اور سوشلوم (اشتراکیت )دونوں کو انسانی فکر کی انتہا پسندی کے مظاہر سمجھتے ہوئے انہیں انسانی زندگی کے لیے ناقص وفاسد قراردیتاہے اور انسانی مساوات واخو ّت کے نصب ا لعین کے حصول کی خاطر اپنا معاشی نظام ’’اقتصاد‘‘ کی بنیادوں پر استوار کرتاہے ، جس سے مراد ہے اعتدال کے ذریعے سرمایہ اور محنت کا صحیح توازن برقرار رکھنا ۔ اقبال ذاتی ملکیت کے بنیادی انسانی حق کو وقف کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے یہ سمجھتے ہیںکہ اسلام کسی فردکواس قدرمال اکٹھا کرنے کی اجازت نہیں دیتاکہ وہ حقیقی پیداکاروں کو مغلوب کرلے۔پس اگرچہ اقبال سرمایہ داری کے مخالف تھے، وہ معاشی نظام سے سرمائے کی قوت کو قطعی طور پر خارج کرنے کے حق میں نہ تھے، بلکہ ان کے نزدیک اس قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھنے کے لیے قرآنی تجاویز پر عمل کرنا ضروری تھا۔ اس ضمن میں وہ ایسے قوانین کانفاذ چاہتے تھے۔ جن سے اجتماعی حقوق نظر انداز کرکے دولت خزانہ کرنا (اکتناز)ناجائز وسائل معیشت سے مال اکٹھا کرنا(احتکار)سود لینا (ربا)یاسٹہ لگانا (قمار)حرام وممنوع قرار دیے جاسکیں۔ نیز ان کے نزدیک قانون وراثت کا نفاذ اور زکوۃٰ ، صدقہ اور عشر کی وصولی کا اہتمام کرنا ضروری تھا۔ اقبال کی رائے میں زمین کا اصل مالک خدا ہے اور انسان ایک امین کی حیثیت میں اس سے رزق حاصل کرسکتاہے ۔ ان کے نزدیک اراضی کی ذاتی ملکیت کی اجازت صرف اس حد تک دی جاسکتی ہے جو زمیندار بجائے خود زیر کاشت لاسکے۔ اسی طرح حکومت کی تحویل میں اراضی میں سے نصف کاشت کارو ںمیں اقساط کی صورت میں فروخت کردینے کے حق میں تھے۔ مزید برآں زرعی آمدنی پر اسی تناسب سے ٹیکس وصول کرنے کے حامی تھے ، جس طرح انکم ٹیکس وصول کیا جاتاہے اور جس طرح ایک متعین حد تک آمدنی والے انکم ٹیکس کی ادائیگی سے مستثنیٰ قرار دیے جاتے ہیں۔ اسی تناسب سے وہ چاہتے تھے کہ چھوٹے زمینداروں کو مالیہ یا لگان معاف کردیاجائے ۔ اقبال کو مزدوروں اور کاشت کارو ںکی مشکلات کا پورا احساس تھا اور ان کے اغراض و مقاصد کے ساتھ دلی ہمدردی رکھتے تھے ۔ لیکن انہو ںنے ہمیشہ یہی تلقین کی کہ بحیثیت مسلمانوں کے اپنی حقیقت اور مقام کوپہچانیں ، قرآن کی اقتصادی تعلیمات پر نظر غائر ڈالیں اور کوئی ایسا طریق عمل یانصب العین اختیار نہ کریں جو قرآنی تعلیم کے منافی ہوپس وہ کیپٹلسٹ اور سوشلسٹ دونو ںقسم کے استعمار کے تو مخالف تھے ، لیکن’’مخلوط معیشت ‘‘ کے اصول پر مبنی اسلامی معاشی جمہوریت کے قیام کے خواہشمند تھے۔ یعنی ایسی معیشت جس میں مخصوص صنعتوں پر مشتمل پبلک سیکٹر میں سرمایہ لگانے کا اہتمام حکومت خود کرے۔ (بجائے قومیانے یاغصب کی پالیسی اختیار کرنے کے )اور ساتھ نجی کوشش کو بھی ایک متعین حدتک قبول کیاجائے۔ نیز اقتصاد یادولت کی مساویانہ تقسیم کے تصو ّر کو صحیح طور پر بروئے گار لانے کی خاطر اراضی کی حد ملکیت ’’خود کاشت‘‘ کے اصول پر مقرر کرنے کے حامی تھے۔۱۰۴ طرزحکومت کے متعلق بھی اقبال کے نظریات قابل توجہ ہیں۔ وہ ہر قسم کی موروثیت یاآمریت کے مخالف تھے، کیونکہ ان کے نزدیک ایسے نظام اللہ کی مطلق حاکمیت کے تصو ّر یا اسلامی تعلیمات کے منافی تھے۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں اموی دور کو عرب امپیریلزم یا آمریت کا عہد قرار دیا ہے ۔ جمہوری طرز حکومت پر ایک مفکر کی حیثیت سے ان کا اعتراض خالصتاً اخلاقی اور اصولی تھا، کیونکہ اس میں انتخاب کی بنیاد ووٹروں کی گنتی پر رکھی جاتی ہے اور اس گنتی میں ایک صحیح یامناسب امید وار محض ایک ووٹ کم پڑنے سے کسی غلط یا غیر مناسب امیدوار کے مقابلے میں شکست کھا سکتاہے ۔ جمہوری نظام کے اس سقم کا اعتراف ہر سیاسی مفکر نے کیاہے۔ اسی طرح وہ برصغیر میں ایسے جمہوری نظام کے انعقاد کے بھی خلاف تھے۔ جس سے مسلمان من حیث القوم ایک اقلیت میں منتقل کر دیے جائیں۔ پھر انہیں یہ خدشہ بھی تھا کہ کسی بھی پس ماند ہ ملک میں ، جس کے عوام زیادہ تر ان پڑھ ، غیر منظم اور فاقہ کش ہوں وہاں جمہوریت کا تعارف سیاسی ابتری، معاشی تباہی ، قومی انتشار اور ملک کے ٹوٹنے کاسبب بس سکتاہے لیکن کسی بہتر طرز حکومت کی عدم موجودگی میںیا اس کے نعم البدل کی عدم موجوگی میں اقبال جمہوری طرز حکومت ہی کو موزوں طریق سمجھتے تھے۔ اپنی زندگی میں انہوں نے صوبائی کونسل کے انتخابات میں حصّہ لیا اور کامیاب ہوئے ۔ صوبائی مسلم لیگ کے سیکرٹری اور صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ۔ ۱۹۳۰ء میں آل انڈیامسلم لیگ کے صدر اور ۱۹۳۲ء میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس کے صدر رہے ۔ صوبائی مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے ان کی سیاسی زندگی میں بعض ایسے مراحل بھی آئے، جب انہوں نے محمد علی جناح سے پنجاب کی یونینسٹ پارٹی کے منافقانہ کردار کے مسئلے پر اختلاف کیا، لیکن محمد علی جناح کے حکم بحیثیت صدر آل انڈیامسلم لیگ کی تعمیل کرتے ہوئے اس پارٹی کے خلاف اپنا بیان فروری ۱۹۳۸ء کو اشاعت عام سے روک لیا اور یوںپارٹی ڈسپلن کی ایک نادر مثال قائم کی ۔ اس مرحلے پر یہ بتادینا ضروری ہے کہ اقبال نہ تو مغرب کے سیکولر جمہوری نظام کے حامی تھے، نہ آج کے دور میں اسلام کے روایتی تصو ّر ریاست (یعنی خلافت)کو کوئی اہمیت دیتے تھے ان کے ذہن میں جو دستوری خاکہ تھا اسے جمہوریت کی بنیاد پر ایک جدید اسلامی دستور کا خاکہ سمجھا جاسکتاہے۔ وہ سنّی ممالک کے جمہوری دساتیر میں مجالس آئین ساز کے اندر ’’ولایت فقیہ ‘‘ کے مستقل قیام کے حق میں نہ تھے ۔ ان کے خیال میں مجالس آئین ساز سے باہر نامزدگی کے اصول پر علما کے بورڈ یا ان پر مشتمل کونسل کو وجود میں لایا جاسکتاہے، جن کے اسلامی آئین سازی کے متعلق مشوروں سے منتخب اسمبلیوں کے اراکین استفادہ کرسکتے ہیں۔ مگر اقبال اس طریق کار کو بھی صرف عارضی طور پر اختیار کرنے کی تجویز پیش کرتے ہیں ۔ ان کی رائے میں بہتر صورت یہی ہے کہ مجلس آئین ساز میں ، جسے اقبال اجماعِ ملّت کا اسٹیٹس دینا چاہتے تھے، ایسے وکلا منتخب ہوکر آئیں جو جدید جورس پروڈنس سے شناسائی کے ساتھ ساتھ فقۂ اسلامی کے اصولوں سے بھی واقفیت رکھتے ہو ںتاکہ قانون سازی کا کا م وقت کے جدید تقاضوں اور قوم کی بدلتی ہوئی ضروریات کے مطابق انجام دیا جاسکے ۔ اقبال کے ہاں اسلام کا تصو ّر شوکت کے بغیر نا مکمل ہے۔اسی بنا پر وہ برصغیر میں اسلام کو صحیح معنوں میں آزاد اور مسلمانوں کو طاقت ور دیکھنا جاہتے تھے۔ انہوں نے برصغیر کے منتشر مسلمانوں کے سامنے مسلم قومیت کا اصول رکھا اور اسی اصول کی بنیاد پر ہی ان کے لیے شمال مغرب میں ایک علیٰحدہ مسلم ریاست کے قیام کی تجویز پیش کی ، گویہ تجویز ، مختلف فکری مراحل میں سے گزری ۱۰۵، لیکن جیسے کہ اقبال کے خطوط بنا م محمد علی جنا ح سے ظاہر ہوتاہے اس کی حتمی شکل یہی تھی کہ مسلم اکثریتی صوبوں کے وفاق پر مشتمل ایک ایسی آزاد و مقتدر معاشی جمہوریت قائم کی جائے ۔ جسے شریعت اسلامیہ کی تائید حاصل ہو ، بالفاظ دیگر اقبال برصغیر میں آزاد مقتدر مسلم ریاست کو ایک جدید اسلامی ریاست کی صورت میں قائم دیکھنا چاہتے تھے ، کیونکہ ایسی ہی ریاست میں وہ نیا مسلم معاشرہ نشوونما پاسکتاتھا ، جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا اور جس کے افراد کو مستقبل میں مسلمانوں کی قیادت اور رہبری کے فرائض انجام دینا تھے۔ مگرا قبال کے نزدیک برصغیر میں آزاد مقتدر جدید اسلامی ریاست کا قیام بجائے خود آخر ی مقصد نہ تھا ، بلکہ یہ بھی محض ایک ذریعہ تھا اسلامستان کو وجود میں لانے کا ۔ اقبال کا خیال تھاکہ ہندی مسلمان مادی طورپر تو شاید عالم اسلام کی کوئی مدد کرنے کے قابل نہ ہوں ۔ لیکن ذہنی طور پر یقیناً ان کی خدمت کر سکتے ہیں ۔ اسی سبب اقبال ان سے توقع رکھتے تھے کہ وہ مسلم ممالک کے اتحاد کو وجود میں لانے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے ۔ اقبال سید جمال الدین افغانی کے بڑے مداح تھے اورانہیں زمانۂ حال کامجدّد سمجھتے تھے ۔ چنانچہ فرماتے ہیں: زمانۂ حال میں میرے نزدیک اگر کوئی شخص مجدد کہلانے کا مستحق ہے تو وہ صرف جمال الدین افغانی ہے ۔ مصر و ایران و ترکی و ہند کے مسلمانوں کی تاریخ جب کوئی لکھے گا تو اسے پہلے عبدالوہاب نجدی او ربعد میں جمال الدین افغانی کا ذکر کرنا ہوگا ۔ موّخر الذکر ہی اصل میں مؤسس ہے ۔ زمانۂ حال کے مسلمانو ںکی نشاۃ ثانیہ کا۔ اگر قوم نے ان کو عام طورپر مجدد نہیں کہا یا انہوں نے خود اس کا دعویٰ نہیں کیا تو اس سے ان کے کام کی اہمیت میں کوئی فرق اہل بصیرت کے نزدیک نہیں آتا۔ ۱۰۶ سیّد جمال الدین افغانی کے تصو ّر اتحاد ممالک اسلامیہ کو آگے بڑھاتے ہوئے اقبال کی رائے تھی کہ اولاً ہر مسلم ملک کو اپنے قدموں پر کھڑاہونا چاہیے، اوراپنے آپ کو انفرادی طور پر مستحکم او رمضبوط بنانا چاہیے ۔ تاہم ہر ایک کا نصب العین یہی ہونا چاہیے کہ بالآخر آزاد مسلم ریاستوں کے ایک زند ہ خاندان کی طرح سب متحد ہوجائیں ، اقبال کے نزدیک اسلام نہ تو نیشنلزم ہے ، نہ امپیریلزم ، بلکہ ایک طرح کی جمعیت اقوام یا دول مشترکہ ہے۔ اقبال کے خیال میں مسلم ممالک کا اتحاد تین صوبوں میں وجود میں لایا جا سکتاہے۔ پہلی صورت تمام مسلم ممالک پر مشتمل ایک عالمگیر اسلامی مملکت ہے جسے آج کے زمانے میں وجود میں لانا ممکن نہیں ۔ دوسری صورت مسلم ممالک پر مشتمل فیڈریشن یا کنفیڈریشن ہے، اور اسے بھی وجود میں لانا شاید محال ہو۔ تیسری صورت انفرادی مسلم ممالک کا ایک دوسرے کے ساتھ تمدنی ، اقتصادی اور عسکری معاہدوں میں منسلک ہونا ہے۔ یہ صورت زیادہ قرین قیاس ہے اور اسی اصول کی بنا پر رفتہ رفتہ تما م آزاد و مقتدر مسلم ریاستیں ایک دوسری کے قریب لائی جاسکتی ہیں ۔ اقبال کی رائے میں مسلم ممالک کا اتحاد دو صورتوں میں ختم ہوسکتاہے ۔ اس خاتمے کی ایک صورت تویہ ہے کہ کسی ملک کے مسلمان ہی اپنے ایمان سے منحرف ہوکر کوئی اورعقیدہ قبول کرلیں اور دوسری صورت یہ ہے کہ جب ایک مسلم ملک دوسرے مسلم ملک پر حملہ کردے ۔اقبال کو یقین تھا کہ رفتہ رفتہ ایسی صورت حالات پیدا ہو رہی ہے کہ عالم اسلام کا اتحاد کسی نہ کسی ہئیت میں بالآخر ایک سیاسی یا جغرافیائی حقیقت بن جائے گا۔ بہرحال اس اعتبار سے بھی اقبال آئندہ یا مستقبل کے مفکر تصو ّر کیے جائیںگے، کیونکہ عام اسلام کے اتحاد کی جو تصویر ان کی نگاہوں کے سامنے ابھری تھی ، ابھی تک اس کے دھندلے سے آثار بھی نمودار نہیں ہوئے او ر سب کچھ گردو غبار میں اٹا ہوا دکھا ئی دیتاہے۔ یہ سب تو فکر اقبال کے خالصتاً اسلامی پہلو تھے ، لیکن چونکہ اقبال کے ہاں اسلام دراصل انسان کا انکشاف ہے ، اس لیے ان کے فکر کے انسانی پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اقبال کا پیغام خودی صرف مسلمانو ںہی کے لیے وقف نہ تھا، بلکہ ہندوؤں او ران سب اقوام کے لیے بھی تھا جو پسماندہ تھیں یا مغربی نوآبادتی اور استعماری قوتوں کے سیاسی و اقتصادی استحصال کا شکار تھیں۔ اس ضمن میں ان کی تصانیف میں سے سب سے اہم ’’پس چہ باید کرداے اقوام شرق‘‘ ہے۔ اقبال نے پسماندہ اقوام کی جدوجہد آزادی کی ہر مرحلے پر حمایت کی ۔ انہیں خود اعتمادی اور اپنی حقیقت کو پہچاننے کا سبق دیا۔ انہیں اپنے اپنے وسائل کو بروئے کار لا کر مستحکم ہونے، مغربی طاقتوں پر انحصار نہ کرنے اور آپس میں اتحاد قائم رکھنے یا ایک دوسرے کے ساتھ اختلافات کی صورت میں جنگ وجدل کے بجائے پر امن گفت و شنید کے ذرائع اختیار کرکے اختلافات مٹانے کی تلقین کی۔ اقبال کا خیال تھا کہ متموّل مغربی اقوام کے سیاسی واقتصاد ی استحصال سے محفوظ رہنے کی خاطر ممکن ہے پسماندہ اقوام کو کسی نہ کسی مرحلے پر اپنی ایک علیٰحدہ ’’جمعیت اقوام ‘‘ وجود میں لانے کی ضرورت پڑے ۔ چنانچہ اس سلسلے میں انہوںنے تجویز کیا کہ جغرافیائی طورپر تہران کو ایسی مرکزیت حاصل ہے جہاں ایسا ادارہ قائم کیا جاسکتاہے۔ اقبال کیپٹلسٹ اور سوشل امپیریلزم دونوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ ان کے خیال میں یورپی اقوام نے ایک اعلیٰ کلچر کی بنیاد رکھی مگر ان کا عمل چونکہ اس کلچر کے مقتضیات کے خلاف تھا اس لیے غالب امکان تھا کہ یہ کلچر عالمی جنگو ںمیں بیکارہوکر فنا ہوجائے گا۱۰۷۔اقبال نے اپنی شعری تخلیقات اور نثری تحریروں میں مغرب کی نوآبادتی اور استعماری اقوام کو باربار متنبہ کیا کہ وہ احترام آدمیت کے اصول کو اپنا ئیں، ورنہ ان کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ ان کی نگاہ میں مغرب کا جدید انسان معذوری کی کیفیت میں ہے چنانچہ فرماتے ہیں: جدید انسان اپنے تنقیدی فلسفوں اور سائنسی علوم میں اختصاص کے سبب بڑی ناگفتہ بہ حالت میں ہے۔ اس کی نیچر پرستی نے تو بے شک اسے یہ صلا حیت بخشی کہ قوائے فطرت کی تسخیر کرے مگر اپنے مستقبل میں اس کے اعتماد کا جذبہ چھین کر … پس اپنی ذہنی سرگرمیوں کے نتائج سے مغلوب ہونے کے سبب جدید انسان کی روح مردہ ہوچکی ہے۔ یعنی وہ اپنے ضمیر اور باطن سے ہاتھ دھوبیٹھا ہے ، خیالات اور نظریات کی جہت میںاس کا وجود اپنی ذات سے متصادم ہے او ر اقتصادی وسیاسی سطح پر وہ دوسروں سے مصروف پیکار ہے۔ اس میں اتنی سکت نہیں کہ اپنی بے رحم انانیت اور ناقابل تسکین جوع زر پر قابو حاصل کرسکے۔ اسی بنا پر زندگی کے اعلیٰ مراتب کے لیے اس کی جدوجہد بتدریج ختم ہو رہی ہے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ وہ درحقیقت زندگی ہی سے بیزار ہو چکا ہے۔۱۰۸ اسی سلسلے میں اقبال نے اپنے تصور شیطان میں چندا چھوتے خیالات کااظہار کیا او رواضح کیا ہے کہ شیطان سیاسی و اقتصادی سطح پر عالمی قائدین یاسیاستدانوں سے کیا کا م لیتاہے اور کس طرح انہیں استعمال کرکے انسان کے ہاتھوںانسان کا خون بہاتا ہے۱۰۹ ۔اقبال نے اپنی وفات سے چند ماہ پیشتر نئے سال کے لیے اپنے آخری پیغام میں واضح کردیا تھا کہ اس دنیا میں انسان کی بقا انسانیت کے احترام کوملحوظ رکھنے ہی سے ممکن ہے اور صرف وہی اتحاد قابل اعتماد ہے ، جس کی بنیاد اخوت انسانی پر رکھی گئی ہو۔ انہوں نے فرمایا تھاکہ جب تک نسل ، رنگ اور علاقائی قومیتوں کے امتیازات قطعی طور پر مٹا نہیں دیے جاتے، اس دنیا میں انسانو ںکو کبھی بھی خوشی مسرت اور اطمینان کی زندگی نصیب نہ ہوگی اور آزادی ، مساوات او راخو ّت کے حسین تخیل کو کبھی بھی حقیقت کا جامہ نہ پہنایا جاسکے گا۔ انہوں نے یہ پیغام اس دعا پر ختم کیا تھاکہ خداوند کریم عالمی لیڈروں کو انسانیت اور نوع انسان کی محبت عطا فرمائے۔ عجیب بات ہے کہ اس ضمن میں اقبال کے خیالات کی بازگشت آج کی دنیا کے لبرل مفکروں کے ہاں بھی سنائی دینے لگی ہے۔ اقبال کی وفات سے لے کر اب تک دوسری عالمی جنگ سے گزرنے کے بعد نوآبادتی سلطنتوں کی جگہ نئی پسماندہ آزاد قومی ریاستوں نے لے لی ہے ، جو ترقی کی تحصیل کے لیے کوشاں ہیں اور یہی سمجھتی ہیں کہ انسانی ترقی صرف عقلیت ، سائنس، ٹیکنالوجی اور سرمایہ دارانہ نظام یا مارکسی نظا م کو اپنا نے ہی سے حاصل کی جاسکتی ہے ۔ سوسائنس، ٹیکنالوجی ، دولت اور قوت کے مغربی تصورات سے ساری دنیا نے اثر قبول کیا اور انہی مغربی تصورات کی تشہیر کے سبب پسماندہ معاشروں نے اپنے مستقبل کی شبیہ عصر حاضر کے ترقی یا فتہ معاشروں کی تصویر کے مطابق ترتیب دی ۔ نیز یہ یقین کر لیا گیا کہ انسانی ترقی کی تحصیل کے لیے صرف دو ہی طریقے ہیں یعنی سرمایہ دارانہ نظا م یا مارکسی نظام۔ مگر رفتہ رفتہ ترقی پذیر ممالک بالخصوص تیل پیدا کرنے والے ممالک میں ٹیکنالوجی کی آزادی یا معاشی خود مختاری کے لیے تحریک او رمغربی ممالک کی ترقی کے متعلق منافقانہ پالیسیوں (جن کے باعث ان کے اندر اور باہر ایک مشکل صورت حالات کا پیدا ہوجانا نا گزیر تھا )نے مغربی مفکر وں کو مجبور کیا کہ وہ ترقی کے بارے میں اپنے نظریات کا ازسر نوجائزہ لیں ۔مغرب میں اس نئے انداز فکر کے فروغ کاسبب تیل کا بحران ، عالمی افراط زر اور مختلف ٹیکنیکل اداروں کی رپورٹیں تھیں جن میں ، ماہرین کی تحقیقات کے مطابق ، دنیا بھر کے ذخائر قوت اکیسویں صدی کے اختتام سے پیشتر یقینی طور پر ختم ہو جانے کے احتمال کا اظہار کیا گیاتھا۔ ماہرین اس نتیجے پر بھی پہنچے تھے کہ اگر دنیا کی آبادی میں اضافے کی رفتار کا یہی عالم رہاتو آنے والی صدی کے اختتام تک وسائل خوراک کے ناپیدہوجانے کی وجہ سے دنیا بھر کو فاقہ کشی کا سامنا کرنے کا امکان تھا۔ پس تیل کے بحران ، عالمی افراط زر ، آبادی کے بلاقید پھیلاؤ اور آئندہ صدی کے اختتام سے پیشتر دنیا کے ذخائر قوت او روسائل خوراک کے خاتمے کے احتمال نے کئی مغربی مفکرین کو یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ ترقی کی تحصیل کے جدید طریق، سرمایہ دارانہ نظا م یا مارکسی نظام انسان کے اپنی تقدیر پرقادر ہونے کے رستے میں حائل ہیں ۔ بعض اشتراکی مصنفین سوویٹ روس کی کا رکردگی پر سخت برہم ہوئے کیونکہ ان کی نگاہ میں سوویٹ انقلاب نے بھی آج تک اپنی تمام تر توجہ انسانیت کی فلاح وبہبود کے بجائے صرف مغرب کی صنعتی اور ٹیکنالوجی کی برتری کوتوڑنے کی طرف مبذول کی، جس میں اسے کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ان مفکرین کو سوویٹ روس اور امریکہ ایک ہی عقیدے کے پابند نظر آتے ہیں جسے’’ صنعتیت ‘‘ یا ’’تکنالوجیت ‘‘کا نام دیا جاسکتاہے۔ مارکسی مصنّف ہربرٹ مارکوس کی رائے میں مشرق و مغرب دونوں میں سیاستدانو ںکا ایک ایسا گروہ حکمران ہے جس کا منتہاے نظر لبرل یا سوشلسٹ انقلاب نہیں بلکہ اپنی اپنی سوپر اسٹیٹ کی طاقت میں اضافہ کرنا ہے ۔ اشترا کی فلسفی میکسی ملین روبل کے نزدیک اگر مارکس آج دوبارہ زندہ ہوجائے اور دیکھے کہ مارکسی ممالک میں کیا ہورہاہے تو وہ اپنے آپ کو مارکسی کہنا چھوڑ دے گا۔ ان آزاد خیال مفکرین کی رائے میں سرمایہ دارانہ نظام اور مارکسی نظام دونوں عالمی طور پر پسماندگی کو دور کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کے خیال میں آج دنیا کی سیاسیات ، قوت و اقتدار کی سیاسیات ہیں۔ انسانی ترقی کی سیاسیات نہیں اور نظم دنیا کا تواز ن اعتماد کے بجائے ایک دوسرے سے خوف و ہراس پر قائم ہے۔ ہتھیاروں کے حصول کی دوڑنے دنیا میں ہر جگہ ایسی صورت پیدا کردی ہے ، جس میں حیات کش ٹیکنالوجی کی تخلیق کو حیات بخش ٹیکنالوجی کی تخلیق پر ترجیح دی جاتی ہے اور ہر ملک اپنی آمدنی کا بیشتر حصّہ اسی مقصد کے حصول کی خاطر صرف کرتاہے ۔ جنگی ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ کے پس منظر میں دنیا افراط زر ، آبادی کے مسلسل پھیلائو اور پسماندگی کی نہایت دردناک تصویر بن کر رہ گئی ہے اور دنیا کے انتہائی ترقی یافتہ ممالک میں اب کسی کے پاس بھی پیش کرنے کے لیے ایسی کوئی معاشی تنظیم نہیں رہی جو انسان میں اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے نیا عزم پیدا کردے۔ حالیہ عالمی اقتصادی بحران پر قابو پانے کے لیے بعض مغربی مفکرین نے اخلاقیات پر مبنی ایک نئے عالمی اقتصادی نظام کے قیام کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ان کی رائے میں نوعِ انسان کی جھوٹی تفریقوں سے شدید نقصان پہنچا ہے مثلا گورے اور کالے کی تمیز ، کیپٹلسٹ اور سوشلسٹ کی تمیز یا ترقی یافتہ اور پسماندہ کی تمیز وغیرہ سراسر غلط اور انسانیت کے لیے مضر ثابت ہوچکی ہیں ۔ پس آئندہ صدی میں انسانیت کو اقتصادی بحران اور تباہی سے بچانے کے لیے یا انسانیت کی بقا کی خاطر ضروری ہے کہ ہر ملک اپنی آبادی کی منصوبہ بندی اپنے وسائل کے مطابق کرے اور اپنے وسائل کو پورے طور پر استعمال میں لائے۔ انسان میں اپنے آپ کو بدلے ہوئے حالات کے مطابق ڈھالنے کی اہلیت ہے او راسی طرح وہ تغیر سے پیدا شدہ نئے مسائل کو حل کرنے کی تخلیقی قوت بھی رکھتاہے او راگر وہ دنیا میں کھانے کے لیے ایک منہ کا اضافہ کرتاہے تو اپنے ساتھ ذہن ، ہاتھ اورپاؤںبھی لاتاہے۔ انسان بنیادی طورپر منفر داور تخلیقی ہے او راس کی صحیح تربیت ایجاد و اختراع کا سبب بنتی ہے، جس کے ذریعے مختلف قسم کے بحرانوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ مگر ذہن کی تربیت کے لیے بھی ذرائع او ران کی تنظیم کی ضرورت ہے۔ ان مفکرین کے نزدیک سب انسان اس اعتبار سے پسماندہ ہیں کہ اپنی اپنی بقا کی خاطر ان کو اقتصادی طور پر ایک دوسرے پر انحصار کرنا پڑتاہے ۔ اس لیے آئندہ صدی میں انسانیت کا اتحاد یا یک جہتی ہی اس کی بقا کی ضامن ہوسکتی ہے ، ورنہ تمام انسانیت کی تباہی یقینی ہے۔ اس سلسلے میں ٹافلر جیسے امریکی مفکریہ تجویز پیش کرتے ہیںکہ عالمی اقتصادی بحرانوں پرنگاہ رکھنے اور ان کے مضر اثرات کو روکنے کے لیے فوری طور پر ایک بین الاقوامی تنظیم قائم کی جائے تا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ا ورترقی پذیر ممالک یکساں طورپر ایک دوسرے سے مشورے کے ذریعے منفی عالمی اقتصادی قوتوں کا مقابلہ کرسکیں۔ اقبال کی بصیرت کا کمال ہے کہ آج دنیا بھر کے آزاد خیال مفکرین او راقتصادی ماہرین بھی اپنے تجربات کی روشنی میں انہی نتائج پر پہنچے ہیں جن کا ذکر اقبال کی شعری تخلیقات اور نثری کاوشوں میں کئی مقامات پر ملتاہے ۔ انسانیت کی بقا کی خاطر انسانی اتحاد و یک جہتی کو وجود میں لانے کی ضرورت یا احترام آدمیت کے اخلاقی اصول پر مبنی ایک نئے عالمی اقتصادی نظام کے قیام کا احساس اقبال کو نہیں تھا تو اور کسے تھا؟خیریہ بحث تو بحیثیت مجموعی فکر اقبال کی دنیوی جہت سے متعلق تھی،اب مختصراً ان کے آفاقی ، الہٰیاتی اور اخلاقی افکار کی حتمی شکل کا جائزہ لینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اقبال کے تصو ّر انفرادی اور اجتماعی خودی پر بہت کچھ لکھاگیا ہے، کیونکہ یہی ان کے فکر کا محور ہے ، لیکن اس مسئلے پر اقبال کے نظریات کی حتمی شکل وہی رہی جو ان کی مثنویوں ، ’’اسرارخودی‘‘اور ’’رموز بیخودی‘‘ میں ملتی ہے ۔ اقبال کے ہاں طاقتور انسانی شخصیت کی بہت اہمیت ہے ، بلکہ وہ انسان ہی کے متعلق سوچتے ہوئے خدا تک پہنچے تھے ۔ فرماتے ہیں: کمزور اپنے آپ کو خدا میں گم کرتے ہیں ۔ طاقتور اسے اپنے اندر ڈھونڈ نکالتے ہیں۔۱۱۰ اقبال کا مردمومن یا انسان کا مل دراصل ایک طاقتور انسانی شخصیت ہی ہے اور ان کے عشق رسولؐ کا راز بھی یہی تھا کہ وہ آنحضوؐر کو انسان کا مل تصور کرتے تھے ۔ ایک واقعہ مشہور ہے : اقبال سے فلسفے کے کسی انگریز پروفیسر نے پوچھا کہ آپ کے پاس خدا کا وجود ثابت کرنے کے لیے کونسی دلیل ہے ! جواب دیا:فقط یہی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایاہے ۔ اسی بنا پر اقبال اپنے تصور ات کے عالم میں خدا سے تو گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں ، مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں ایسے گرفتار ہیں کہ ان کے منہ سے آنحضوؐر کی مدح و ستایش اور احترام ہی کے الفاظ نکلتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک جو اخلاقی خصوصیات خودی کو مستحکم کرتی ہیں وہ ہیں عشق ، حریت، جرأت اور فقر۔ بقول اقبال ایسی خصوصیات کی حامل شخصیت اپنے اندر نفسیاتی تناؤ اور بیداری شعور کی کیفیات کی بنا پر مسلسل بے چینی ، بے تابی اور بے قرار ی کے عالم میں رہتی ہے اور اس عالم میں رہنے کے سبب تخلیقی عمل کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مستقبل کا مسلم معاشرہ ایسی ہی منفرد شخصیات پر مشتمل ہو سکتا ہے۔ لیکن جو منفی صورت انسانی شخصیت کی تباہی کا باعث بنتی ہے وہ ہے جمود۔ جمود ہی سے کسی معاشرے میں نفرت ، خوف، بدعنوانی ، بزدلی ، گدائی ، نقالی ، بے ضمیری،خوشامداور موقع پرستی فروغ پاتی ہیں۔ جوبالآخر قوموں کے زوال و انحطاط یا غلامی و محکومی کا باعث بنتی ہیں۔ مستحکم شخصیت کے لیے اقبال نے شاہین کی تشبیہ اس لیے استعمال کی ہے کہ بقول ان کے : شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ تشبیہ نہیں ہے ۔ اس جانور میں اسلامی فقرکے تمام خصوصیات پائے جاتے ہیں: ۱۔ خوددار و غیرت مندہے کہ اور کے ہاتھ کا مارا ہوا شکارنہیں کھاتا۔ ۲۔ بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا۔ ۳۔ بلند پرواز ہے ۔ ۴۔ خلوت پسند ہے ۔ ۵۔ تیز نگاہ ہے۔۱۱۱ پس اقبال کاپیچ و تاب کھاتاہوا بے تاب اور بے چین انسان دراصل ایک تخلیقی فعلیت ہے اور وہ اپنی قوتوں ، اپنے گرد ونواح کی قوتوں اور ان کے ساتھ ہی کائنات کی تقدیر متشکل کرسکتاہے ۔ مزید برآں اس بتدریج تغیر پذیر سلسلۂ عمل میں وہ خدا کا معاون او ر ہمکار بننے کی اہلیت رکھتاہے اور چونکہ وہ ایک بہتر اور خوب تر عالم کا تصو ّر کرسکتاہے، اس لیے موجود کو مطلوب میں بدلنے کی قدرت بھی رکھتاہے۔ اقبال کے ہا ںخداخودی مطلق ہے او ر چونکہ وہ انسان سے خدا تک پہنچے ہیں۔ اس لیے خدا بھی ان کے نزدیک ایک شخصیت ہے جو کائنات وحیات کی طرح متحرک ہے ۔ خو دی مطلق اپنی تخلیقی فعلیت کے ممکنات میں جو اس کے وجودکے اندر مضمر ہے لامتناہی ہے، مگر اس کی لامحدودیت مادے کی طرح وسیع ہونے کے بجائے روح کی طرح عمیق ہے۱۱۲۔اقبال کے نزدیک خودی مطلق کا تخلیقی عمل وحدتوں یاخودیوں کی تشکیل کی صورت میں ہوتاہے۔جن کی حقیقت فقط خودی مطلق کا انکشاف ذات ہے۔ پس کا ئنات کا ہر جوہر خودی ہی کی پست وبالاصورت ہے، گو ذات انسانی میں وہ اپنے معراج کمال کو پہنچ جاتی ہے۔ اقبال کے نزدیک کائنات بے حس و حرکت او رناقابل تغیر ّ و تبد ّل نہیں بلکہ اس میں مزید اضافے کے ذریعے وسعت کی گنجائش ہے ۔ پس وہ ناتمام ہے۔ خدا ، کا ئنات اورحیات سے متعلق اقبا ل کے نظریات ان کے انتقال تک کسی بنیادی تغیر سے نہیں گزر ے ، البتہ بعض اقبال شناس سمجھتے ہیں کہ انہوں نے تصو ّف کے بارے میںاپنانظریہ بدل لیاتھااور وہ وحدت شہود کی منزل سے گزر کر پھر واپس وحدت وجود والی پوزیشن پرآگئے تھے۔ جگن ناتھ آزاد یہی رائے رکھتے ہیں او رتحریر کرتے ہیں کہ ۱۹۲۲ء کے بعد اقبال دوبارہ وحدت وجود کے قائل ہوگئے تھے اور اس کے کچھ اشارے ’’پیام مشرق‘‘ میں ملتے ہیں۔ نیز ’’زبورعجم ‘‘ کی اکثر غزلوں میں اوّل سے آخرتک اورمثنوی ’’گلشن راز جدید‘‘ میں وحدت وجود کی تلقین کی گئی ہے ۱۱۳۔یہی خیال مولانا صباح الدین عبدالرحمن مدیر ’’معارف‘‘ کا ہے۔سید نذیر نیازی اپنی تصنیف’’دانائے راز‘‘میں اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ اقبال کبھی بھی وحدت وجود کے گرداب میں نہ پھنسے تھے اور نہ آخر الامر اس کے قائل ہوئے۱۱۴ ۔راقم کی رائے میں یہ دونو ںنظریے درست نہیں ۔ اقبال اپنی ابتدائی زندگی میں کچھ مدت تک وحدت وجود کے قائل ضروررہے لیکن بعد میں اس مسلک کو چھوڑ کر تصوف کا وہ مسلک قبول کیاجو خالصتاً اسلامی ہے او رجس میں روحانی تربیت کے وقت ’’من وتو‘‘ کا امتیا زبہر صورت قائم رہتاہے ۔ اقبال کے ہاں عشق سے مرادہے: اپنے اندر سمو لینے یا جذب کرلینے کی خواہش او راس کی اعلیٰ ترین صورت کسی آئیڈیل کی تخلیق او راس کی تحصیل کے لیے تگ ودو ہے ۔ بقولِ اقبال عشق ، عاشق اور معشوق دونوں کو انفرادیت کی خصوصیت بخشتاہے۔ پس سب سے یکتا شخصیت کو حاصل کرنے کے لیے جستجو نہ صرف عبدکو یکتائیت عطاکرتی ہے، بلکہ ساتھ ہی معبود کی یکتائیت کی تصدیق بھی کرتی ہے ۔ وہ اپنے ایک خط بنام ظفر احمد صدیقی مورخہ ۱۲؍ دسمبر ۱۹۳۶ء میں اپنے مسلک کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جب احکام الٰہی خودی میں اس حد تک سرایت کر جائیں کہ خودی کے پرائیویٹ امیال وعواطف باقی نہ رہیں اور صرف رضائے الہٰی اس کا مقصود ہوجائے توزندگی کی اس کیفیت کو بعض اکابرصوفیۂ اسلام نے فنا کہاہے، بعض نے اسی کا نام بقا رکھاہے ۔ لیکن ہندی اور ایرانی صوفیہ میں سے اکثر نے مسئلہ فنا کی تفسیر فلسفہ ویدانت اور بدھ مت کے زیر اثر کی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اس وقت عملی اعتبار سے ناکارٔہ محض ہے۔ میرے عقیدے کی روسے یہ تفسیر بغداد کی تباہی سے بھی زیادہ خطرناک تھی اور ایک معنی میں میری تمام تحریریں اس تفسیر کے خلاف ایک قسم کی بغاوت ہے۔۱۱۵ بعض اہل نظر ابن العربی کے مسلکِ توحید وجودی کو بھی اسلامی تصو ّف کانام دیتے ہیں،مگر اقبال کے آخری دور کے اشعار میں جو بظاہر وجودی تصو ّرات نظر آتے ہیں تو یہ سب محض سطحی مشابہتیں ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال نے وحدت وجود کو رد کرنے کے بعد نہ تو وحدتِ شہود کے مسلک کو اپنا یا اور نہ وحدت وجود کے مسلک کی طرف لوٹے۔ وحدت وجود میں تو قطرہ سمندر میں گر کر فنا ہوجاتاہے اور وحدت الشہود میں خدا تک رسائی کا امکان ہی نہیں۔ مگر اقبال کے ہاں خودیِ مطلق اور خودی مقید میں ’’من و تو ‘‘ کا امتیا زاستغراقی کیفیت کے باوجود قائم رہتاہے۔ جیسے آفتاب کی ضیا میں موم بتی کی روشنی یا سمندر کے پانی میں موتی۔ یہ کیفیت وحدت وجود کی نہیں ۔ گو اس سے سطحی مشابہت رکھتی ہے ، اس لیے یہ کہنا کہ اقبال اپنی تخلیقی زندگی کے آخری دور میں دوبارہ وحدت وجود کے قائل ہوگئے تھے، درست نہیں ۔ ویسے بھی اقبال میں جب کبھی کوئی فکری تبدیلی رونماہوئی وہ ارتقائی صورت میںایک منزل سے اگلی منزل کی طرف تو ضرور بڑھ گئے ، مگر ان کی حرکت دائرے کی صورت میں کبھی نہ ہوئی۔ یعنی وہ رد کی ہوئی پوزیشن پر کبھی نہ لوٹے۔ عشق و عقل ، جبر و اختیار ، حیات بعد موت اور زمان و مکاں کے متعلق بھی اقبال کے نظریات کی حتمی صورت میں کوئی نمایاں تبدیلی رونما نہ ہوئی ۔ وہ عشق یا عرفان کو عقل ہی کی ایک اعلیٰ شکل سمجھتے تھے۔ جبر واختیار کے مسئلے کے بارے میںان کا موقف ہمیشہ یہی رہاکہ جس حد تک انسان کو اختیار ہے وہ کلی ہے ۔ یعنی اگر انسان کے سامنے دوراستے ہو ںتو خدا بھی اس کے لیے ان میں سے ایک منتخب نہیں کر سکتا۔ حیات بعد موت کے متعلق انہوں نے اپنا موقف سیّد نذیر نیازی کے نام ایک خط مورخہ ۱۹؍اگست ۱۹۳۱ء میں یو ںواضح کیاہے: میرے نزدیک حیات بعد الممات انسانی کوشش اورفضل الٰہی پرمنحصر ہے ۔ بچوں کے لیے بعثت زیادہ آسان ہے کیونکہ بعثت کا مفہوم ہے ایک نئے نظام زمانی کے ساتھ توافق کرنے کا: بچوں کے لیے یہ زیادہ آسان ہے، کیونکہ ہمارا نظا م زمانی ان کی فطرت میں پورے طور پر راسخ نہیں ہوتا۔ خودی کا نہایت گہرا تعلق نظام زمانی سے ہے ۔ مرنے والوں سے اس زندگی میں اتحاد ممکن نہیں، بعینہٖ اسی طرح جس طرح ہم آپس میں ملتے جلتے ہیں۔ مگر یہ اتحاد زیادہ تر کملا یا کا مل انسانوں سے ہوتاہے ، کیونکہ خودی کی زندگی بعداز موت یقینی ہے ۔ اس کے علاوہ وہ گذشتہ تجربات کا اعادہ کرسکتے ہیں۔ عوام سے یہ امر محال ہے ، خواہ وہ بعد از مرگ زندہ بھی ہوں۔ بعثت ثانیہ مظہر حیات ہے ۔ اس میں انسانی کوشش کو بھی ایک حد تک دخل ہے ۔ اس کو انسانی کا مرانی بھی کہہ سکتے ہیں ۔ ابدی موت اور زندگی خاص قسم کے اعمال سے متعین ہوتی ہے۔ میرے نزدیک اگرکو ئی شخص ابدی موت کا خواہش مند ہوتو وہ اسے حاصل کرسکتاہے۔ علی ہذا لقیاس دوزخ اور جنت بھی زندگی کے مظاہر ہیں اور ان کی نوعیت کی تعیین اسی مرحلے پر منحصر ہے جو زندہ شے نے حاصل کیا ہو۔ اس زندہ شے کے لیے دوزخ اور جنت ہے یہا ںتک کہ پودوں اور حیوانوں کے لیے بھی ۔ مگر اس دوزخ و جنت کی نوعیت کی تعیین حیوانی زندگی اورنباتی زندگی کے اسٹیج پر منحصر ہے۔ یہی حال بچو ںکی زندگی کا ہے ۔ زندگی کے مدارج بے شمار ہیں ۔ اس ضمن میں بہت سے امور عقل انسانی سے باہر ہیں۔ ان کے متعلق بصیرت و ایمان اور ذرائع سے پیدا ہوتاہے ۔ ان ذرائع کا تعلق فلسفے سے نہیں ہے۔ ۱۱۶ انہیں زمان و مکاں کے موضوع سے بے حد دلچسپی تھی اور یہ دلچسپی وفات تک قائم رہی۔ اس سلسلے میں سید نذیر نیاز ی ، اقبال کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں کہ کیمبرج میں طالب علمی کے دورمیں انہوں نے زمانے کی حقیقت پر ایک مقالہ تحریر کیاتھاجو ان کے استاد میک ٹیگرٹ نے ناپسند کیااور اقبال نے دل برداشتہ ہو کر اسے تلف کردیا، لیکن کچھ عرصے کے بعد جب برگساں نے اسی موضوع پر اسی قسم کا اظہار خیال کیااو راس کے نظریے کی تشہیر ہونے لگی تو میک ٹیگرٹ کو بڑا دکھ ہوا،اس لیے کہ برگساں نے بھی کم وبیش وہی نظریہ قائم کیا تھا، جسے پہلے اقبال اپنے مقالے میں پیش کرچکے تھے۱۱۷۔اقبال کے نزدیک زمان و مکان کے بارے میں آئن سٹائن اور برگساں کے نظریات اہل یورپ کے لیے تو ممکن ہے نئے ہوں لیکن عالم اسلام کے لیے یہ نیا مسئلہ نہ تھا ۔ وہ فرماتے ہیں کہ اسلامی الہٰیات ، حدیث و قرآن اور فلسفے کا مطالعہ کیا جائے تو ان کی بات کی تصدیق ہوجائے گی ۔ بہرحال اقبال اس مسئلے پر جس تفصیل سے اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتے تھے۔ اس کاانہیں موقع نہ ملا۔ زمان ومکاں کے مسئلے کو وہ مسلمانوں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ کیوں سمجھتے تھے ، اس کی وضاحت بھی انہوں نے کہیں نہیں فرمائی اور اس ضمن میں محض قیاس آرائی ہی کی جاسکتی ہے۔۱۱۸ مارچ ۱۹۳۸ء کے دوسرے ہفتے میں راقم نے سنٹرل ماڈل اسکول سے آٹھویں جماعت کا امتحان دیا اور اقبال کی رحلت سے قبل نتیجہ نکل آیا۔ راقم امتحان میں کامیاب ہوا اور سائنس کے موضوع میں اوّل آیا۔ اقبال بے حد خوش ہوئے اور فرمایاکہ اگر راقم نے اگلی جماعتوں میں سائنس میں اپنی دلچسپی قائم رکھتے ہوئے میڈیکل ڈاکٹر بننے کا قصد کیا تو اسے اعلیٰ تعلیم کی تحصیل کی خاطر دی آنا(آسٹریا)بھیجیں گے ۔ اقبال نے ایک وصیّت نامہ تو ۱۳؍اکتوبر ۱۹۳۵ء کو لکھا تھا جو رجسٹرار کے دفتر میں رجسٹر کرایاگیا، لیکن اس کے چار یوم بعد یعنی ۱۷؍اکتوبر ۱۹۳۵ء کو ایک اور تحریر اپنی یادداشت کی کتاب میں درج کی جس میں خصوصی طور پر راقم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: جاوید کومیری عام وصیّت یہی ہے کہ وہ دنیا میں شرافت اور خاموشی کے ساتھ اپنی عمر بسر کرے ۔ اپنے رشتے داروں کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھتے۔ میرے بڑے بھائی کی اولاد سب اس سے بڑی ہے، ان کا احترام کرے اور اگر ان کی طرف سے کبھی سختی بھی ہوتو برداشت کرے۔ دیگر رشتے داروں کو اگر اس سے مدد کی ضرورت ہو اور اس میں ان کی مدد کی توفیق ہو تو اس سے کبھی دریغ نہ کرے ۔ جو لوگ میرے احباب ہیں ان کا ہمیشہ احترام ملحوظ رکھے اور ان سے اپنے معاملات میں مشورہ کر لیا کرے۔ باقی دینی معاملات میں میںصرف اس قدر کہنا چاہتا ہوں کہ میں اپنے عقائد میں بعض جزوی مسائل کے سوا جو ارکان دین میں سے نہیں ہیں، سلف صالحین کاپیرو ہوں اور یہی راہ بعدکامل تحقیق کے محفوظ معلوم ہوتی ہے ۔ جاوید کوبھی میرا یہی مشورہ ہے کہ وہ اس راہ پر گامزن رہے اور اس بد قسمت ملک ہندوستان میں مسلمانوں کی غلامی نے جو دینی عقائد کے نئے فرقے مختص کر لیے ہیں، ان سے احتراز کرے۔ بعض فرقوں کی طرف لوگ محض اس واسطے مائل ہوتے ہیں کہ ان فرقوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنے سے دنیوی فائدہ ہے ۔ میرے خیال میں بڑا بدبخت ہے وہ انسان جو صحیح دینی عقائد کو مادی منافع کی خاطر قربان کردے۔ غرض یہ ہے کہ طریقہ حضرات اہل سنت محفوظ ہے اور اسی پر گامزن رہنا چاہیے اور ائمہ اہل بیت کے ساتھ محبت اور عقیدت رکھنی چاہیے۔۱۱۹ وسط مارچ ۱۹۳۸ء سے اقبال کی حالت تشویش انگیز ہوتی چلی گئی۔ وہ ایلوپتھک دوائیں پسند نہ کرتے تھے اور ان سے انہیںکوئی فائدہ بھی نہ ہوتا تھا۔ دمے کے دورے پڑتے تھے۔ شانے اور کمر کا درد بدستور تھا۔ قلب ،گردے اور جگر سب ماؤف ہوچکے تھے ۔ نیند آتی نہ تھی اور مسلسل بے خوابی کا عالم طاری تھا۔ وقت کاٹنا مشکل سے مشکل تر ہوتاجارہاتھا۔ پاس بیٹھے احباب سے کہتے کہ باتیں کیے جائیں ۔کبھی دیوان علی سے بلھے شاہ کی کوئی کافی ، ہدایت اللہ کی سی حرفی یا یوسف زلیخا سنتے اور کبھی سید نذیر نیازی کو تاریخ اسلام کا کوئی واقعہ بیان کرنے یا کوئی ایسا افسانہ سنانے کی ہدایت کر تے جس میں بغداد ، قاہرہ ، غرناطہ یا قرطبہ کا ذکر آتا ہو۔ افسانہ سنتے سنتے سو جاتے۔ مگر پھر اچانک بے چینی سے جاگ اٹھتے ۔ فرماتے نیند نہیں آتی۔ وقت کیوں نہیں گزرتا۔ کھانسی کا دورہ پڑتا۔ بعض اوقات کھانستے کھانستے غشی کی کیفیت طاری ہوجاتی۔ ایک دفعہ تو بے خبری میں پلنگ سے فرش پر گر گئے ۔ انہی ایام میں دمے کے پے درپے دوروں کے بعد نیم بیہوشی کے عالم میں راقم نے انہیں دومرتبہ اپنی خوابگاہ میں مرزا اسد اللہ خان غالب اور مولانا جلال الدین رومی سے باتیں کرتے سنا تھا ۔ دونوں مرتبہ علی بخش کو بلوا کر پوچھا کہ میرزا غالب (یا مولانا رومی )ابھی اٹھ کر گئے ہیں ۔ دیکھنا کہیں چلے تونہیں گئے اور علی بخش کے اس جواب پر کہ یہاں تو کوئی بھی نہیں تھا، فرمایا۔ چلو ٹھیک ہے ۔ چند ہفتے گزرنے کے بعد پاؤں متورم ہوگئے۔ یہ سب علامتیں اچھی نہ تھیں۔ ۱۹؍اپریل، ۱۹۳۸ء کو بلغم میں خون آنے لگا تھا اور نبض خفیف ہوگئی تھی۔ حکیم محمد حسن فرشی اور ڈاکٹر جمعیت سنگھ نے انہیں دیکھ کر تشویش کا اظہار کیا ۔ تاہم ان کے حواس بالکل صحیح و سالم تھے اور بظاہر حالت میں کوئی خاص تغیر معلوم نہ ہوتا تھا۔ ان کی اب بھی یہی خواہش تھی کہ پنجابی مسلمانوں کی مذہبی تعلیم و تربیت کے لیے کسی نہ کسی طرح علمائے ہند میں سے چند ایک کو پنجاب میں بودوباش اختیار کرنے پر رضا مند کیا جائے۔ غالباً اسی بنا پر ۱۸؍اپریل ۱۹۳۸ء کو درج ذیل خط سیّد نذیر نیازی نے مولانا مودودی کے نام تحریر کیا : کچھ دن ہوئے سید محمد شاہ صاحب سے معلوم ہواتھا کہ آپ جمال پور تشریف لے آئے ہیںا ورعنقریب لاہور بھی آئیں گے ۔ اس وقت سے برابر آپ کا انتظار ہے۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ اگر آپ کا ارادہ فی الواقعی لاہور آنے کا ہے تو جلدی تشریف لائیے تاکہ ملاقات ہوجائے۔ میری اپنی طرف سے یہ گزارش ہے کہ ڈاکٹر صاحب قبلہ کی حالت نہایت تشویشنا ک ہے۔ ایک لمحے کا بھی بھروسا نہیں (مگر اس بات کو صرف اپنی ذات تک محدود رکھیے گا کسی سے ذکر نہ کیجیے گا) لہٰذا بہتر یہی ہو گا کہ آپ جس قدر ہوسکے جلدی تشریف لے آئیں۔ ڈاکٹر صاحب کی صحت کے لیے دعا فرمائیے۔۱۲۰ مگر یہ ملاقات نہ ہوسکی ۔ ۱۹؍اپریل ۱۹۳۸ء کو اقبال نے غالباً اپنا آخری خط سر راس مسعود کے سیکرٹری ممنوں حسن خان کے نام تحریر کروایا جس میں فرمایا کہ دمے کے متواتر دوروں نے انہیں زندگی سے تقریباً مایوس کردیا ہے ا وریہ کہ آنکھوں کا آپریشن مارچ ۱۹۳۸ء میں ہونے والا تھا، مگر دمے کی وجہ سے اسے ستمبر ۱۹۳۸ء تک ملتوی کرنا پڑا ۔۱۲۱ ۲۰؍اپریل ۱۹۳۸ء کی صبح کو ان کی طبیعت کچھ سنبھل گئی تھی ۔ انہوں نے معمول کے مطابق دلیے کے ساتھ چائے کی پیالی پی ۔ میاں محمدؐشفیع سے اخبار پڑھوا کر سنے اور رشید حجّام سے شیو بنوائی۔ دوپہر کو ڈاک میں جنوبی افریقہ کے کسی اخبار میں تراشے وصول ہوئے، خبر یہ تھی کہ وہاںکے مسلمانوں نے نماز جمعہ کے بعد اقبال ، مصطفی کمال اور محمد علی جناح کی صحت اور عمردرازی کے لیے دعا کی ہے ۔ کوئی ساڑھے چار بجے بیرن فان و التھائم انہیں ملنے کے لیے آگئے۔ بیرن فان والتھائیم نے جرمنی میں اقبال کی طالب علمی کے زمانے میں ان کے ساتھ کچھ وقت گزارا تھا اور اب وہ جرمنی کے ناز ی لیڈر ہٹلر کے نمائندے کی حیثیت سے ہندوستان اور افغانستان کا سفر کرکے شاید ان ممالک کے حالات کا جائزہ لے رہے تھے۔ ہندوستان کا دورہ مکمل کرچکنے کے بعد وہ کابل جارہے تھے ۔ اقبا ل اور بیرن فان والتھائم دونوں تقریبا ڈیڑھ گھنٹے تک ہائیڈل برگ یا میونخ میں اپنی لینڈ لیڈی، احباب او راساتذہ کی باتیں کرتے رہے۔ پھر اقبال نے انہیں سفر افغانستان کے متعلق معلومات فراہم کیں ۔ جب بیرن فان والتھائم جانے لگے تو اقبال نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ مصافحہ کرکے انہیں رخصت کیا۔ شام کی فضا میں موسم بہار کے سبب پھولوں کی مہک تھی اس لیے پلنگ خوابگاہ سے اٹھواکر دالان میں بچھوایا اور گھنٹہ بھر کے لیے وہیں لیٹے رہے پھر جب خنکی بڑھ گئی تو پلنگ گول کمرے میں لانے کا حکم دیا ۔ گول کمرے میں ساڑھے سات سالہ منیرہ آپا جان کے ساتھ ان کے پاس گئی۔ منیرہ ان کے بستر میں گھس کر ان سے لپٹ گئی او ر ہنسی مذاق کی باتیں کرنے لگی۔ منیرہ عموماً دن میں تین بار اقبال کے کمرے میں جاتی تھی۔ صبح اسکول جانے سے پہلے ، دوپہر کواسکول سے واپس آنے پر اور شام کو سونے سے قبل۔ لیکن اس شام وہ ان کے پہلو سے نہ اٹھتی تھی۔ دو تین بار آپا جان نے اسے چلنے کے لیے کہا، مگر وہ نہ مانی۔ یہی کہتی رہی۔ بس تھوڑی دیر اور ۔ اس پر اقبال نے مسکراتے ہوئے آپا جان سے انگریزی میں کہا، اسے اس کی حس آگاہ کررہی ہے کہ شاید باپ سے یہ آخری ملاقات ہے۔ منیرہ اور آپا جان کے اندر چلے جانے کے بعد فاطمہ بیگم، پرنسپل اسلامیہ کا لج برائے خواتین گھنٹے آدھ گھنٹے کے لیے آبیٹھیں اور ان سے کالج میں درس قرآن کے انتظامات کے متعلق باتیں کرتی رہیں۔ رات کو آٹھ ساڑھے آٹھ بجے چوہدری محمد حسین ، سید نذیر نیازی ، سید سلامت اللہ شاہ ، حکیم محمد حسن قرشی اور راجہ حسن اختر آگئے ۔ ان ایام میں میاں محمد شفیع اور ڈاکٹر عبدالقیوم توجاوید منزل میں ہی مقیم تھے۔ اقبال کے بلغم میں ابھی تک خون آرہاتھا اور اسی بنا پر چوہدری محمد حسین نے ڈاکٹر وں کے ایک بورڈ کی میٹنگ کا انتظام جاوید منزل میں کیاتھا۔ اس زمانے کے معروف ڈاکٹر کرنل امیر چند ، الٰہی بخش ، محمد یوسف، یار محمد، جمعیت سنگھ وغیرہ سبھی موجود تھے اور انہوں نے مل کر اقبال کا معائنہ کیا۔ گھر میں ہر کوئی ہراساں دکھائی دیتاتھا، کیونکہ ڈاکٹر و ںنے کہہ دیا تھا کہ اگر رات خیریت سے گزر گئی تو اگلے روز نیاطریق علاج شروع کیا جائے گا۔ کوٹھی کے صحن میں مختلف جگہوں پر اقبال کے اصحاب دو دو تین تین کی ٹولیو ںمیں کھڑے باہم سر گوشیاں کررہے تھے۔ اقبال سے ڈاکٹر وں کی رائے مخفی رکھی گئی، لیکن وہ بڑے تیز فہم تھے۔ احباب کا بکھرا ہوا شیرازہ دیکھ کر انہیںیقین ہوگیاتھا کہ ان کی موت کا وقت قریب آپہنچا ہے۔ چند یوم پیشتر جب کسی نے ان کی صحت کے بارے میں تشویش کا اظہار کیاتھا تو فرمایا: میں موت سے نہیں ڈرتا۔ بعدازاں اپنا یہ شعر پڑھا تھا: نشانِ مرد مومن با تو گویم چوں مرگ آید تبسم برلب اوست پس اس رات وہ ضرورت سے زیادہ ہشاش بشاش نظر آتے تھے۔ راقم کو ئی نو بجے کے قریب گو ل کمرے میں داخل ہوا تو پہچان نہ سکے ۔ پوچھا :کون ہے ؟ راقم نے جواب دیا: جاوید ۔ ہنس پڑے ، فرمایا: جاوید بن کر دکھاؤ تو جانیں ۔ پھراپنے قریب بیٹھے ہوئے چوہدری محمد حسین سے مخاطب ہوکر فرمایا: چوہدری صاحب !اسے ’’جاوید نامہ ‘‘ کے آخر میں وہ دعا ’’خطاب بہ جاوید‘‘ ضرور پڑھوا دیجیے گا۔ اتنے میں علی بخش اندر داخل ہوا۔ اسے اپنے پاس بیٹھنے کے لیے کہا۔ علی بخش نے بلند آواز سے رونا شروع کردیا ۔ چوہدری محمد حسین نے اسے حوصلہ رکھنے کی تلقین کی ۔فرمایا آخر چالیس برس کی رفاقت ہے ، اسے رو لینے دیں ۔ رات کے گیارہ بجے اقبال کو نیند آگئی ۔ چوہدری محمد حسین ، حکیم محمد حسن قرشی ، سیدّنذیر نیازی اور سیدّسلامت اللہ شاہ خاموشی سے اٹھ کر چلے گئے ۔ البتہ میاں محمد شفیع او رڈاکٹر عبدالقیوم کے علاوہ راجہ حسن اختر نے اس رات جاوید منزل ہی میں قیام کیا اور باہر دالان میں چارپائی بچھا کر لیٹ گئے۔ راقم بھی حسب معمول اپنے کمرے میں جاکر سورہا۔ اقبال کوئی گھنٹے بھر کے لیے سوئے ہوں گے کہ شانوں میں شدید درد کے باعث بیدار ہوگئے۔ ڈاکٹر عبدالقیوم اور میاں محمد شفیع نے خواب آور دوا دینے کی کوشش کی ، مگر انہوں نے انکار کردیا۔ فرمایا: دوا میں افیون کے اجزا ہیں اور میں بے ہوشی کے عالم میں مرنا نہیں چاہتا۔ علی بخش اور میاں محمد شفیع ان کے شانے اور کمر دبانے لگے تاکہ درد کی شد ت کم ہو، لیکن تین بجے رات تک ان کی حالت غیرہوگئی۔ میاں محمد شفیع ، حکیم محمد حسن قرشی کو بلانے ان کے گھر گئے، مگر ان تک رسائی نہ ہوسکی اور ناکام واپس آگئے۔ اقبال درد سے نڈھال تھے۔ میاں محمد شفیع کو دیکھ کر فرمایا: افسوس قرشی صاحب بھی نہیں پہنچ سکے ۔تقریبا پونے پانچ بجے راجہ حسن اختر اٹھ کر اندر آئے ۔ انہیں بھی حکیم محمد حسن قرشی کو بلانے کے لیے کہا ۔ وہ بولے : حکیم صاحب رات بہت دیر سے گئے تھے اور اس وقت انہیں بیدار کرنا شاید مناسب نہ ہو۔ اسی پراقبال نے یہ قطعہ پڑھا: سرود رفتہ باز آید کہ ناید نسمیے از حجاز آید کہ ناید سر آمد روزگار ایں فقیرے وگر دانائے راز آید کہ ناید راجہ حسن اختر قطعہ کا مطلب سمجھتے ہی حکیم محمد حسن قرشی کو لانے کے لیے روانہ ہوگئے۔ اقبال کے کہنے پر ان کا پلنگ گول کمرے سے ان کی خواب گاہ میں پہنچا دیا گیا۔ انہوں نے فروٹ سالٹ کا گلاس پیا۔ صبح کے پانچ بجنے میں کچھ منٹ باقی تھے۔ اذانیں ہورہی تھیں سب کا خیال تھا کہ فکر کی رات کٹ گئی ۔ ڈاکٹر عبدالقیوم او رمیاں محمد شفیع صبح کی نماز ادا کرنے کی خاطر قریب کی مسجد میں پہنچ گئے تھے اور صرف علی بخش ہی اقبال کے پاس رہ گیا تھا۔ اسی اثنا ء میں اچانک اقبال نے اپنے دونوں ہاتھ دل پر رکھے اور ان کے منہ سے ’’ہائے ‘‘ کا لفظ نکلا۔ علی بخش نے فوراً آگے بڑھ کر انہیں شانوں سے اپنے بازؤوں میں تھام لیا۔ فرمایا: دل میں شدید درد ہے اور قبل اس کے کہ علی بخش کچھ کرسکے، انہوں نے ’’اللہ ‘‘کہا او ران کا سر ایک طرف ڈھلک گیا۔ ۲۱؍اپریل ۱۹۳۸ء کو پانچ بجکر چودہ منٹ صبح کی اذانوں کی گونج میں اقبال نے اپنے دیرینہ ملازم کی گود میں اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی ۔ طلوعِ آفتاب کے بعد جب راقم اور منیرہ نے ان کے دروازے کی دہلیز پر کھڑے ہوکر ڈرتے ڈرتے اندر جھانکا توخواب گاہ میں کوئی بھی نہ تھا ۔ کھڑکیا ںکھلی تھیں اور وہ پلنگ پر سیدھے لیٹے تھے۔ انہیں گردن تک سفید چادر نے ڈھانپ رکھا تھا، جو کبھی کبھار ہوا کے جھونکوں سے ہل جاتی تھی۔ ان کی آنکھیں بند تھیں، چہرہ قبلہ کی طرف تھا، مونچھوں کے با ل سفید ہوچکے تھے اور سر کے بالوں کے کناروں پر راقم کے کہنے سے آخری بار لگائے ہوئے خضاب کی ہلکی سی سیاہی موجود تھی۔ چوہدری محمد حسین اور اقبال کے دیگر احباب صبح ہی آگئے اور اقبال کی تجہیز و تکفین سے متعلق مسائل پر غور کرنے لگے ۔ سب سے اوّل مسئلہ یہ تھا کہ تدفین کہاں ہو۔ چوہدری محمد حسین کی تجویز تھی کہ انہیں شاہی مسجد کے کسی حجرہ میں دفن کیا جائے۔ چنانچہ وہ اور میاں نظام الدین ، میاں امیر الدین ، سید محسن شاہ ، خلیفہ شجاع الدین ، خان سعادت علی خان ، مولانا غلام رسول مہر اور عبدالمجید سالک شاہی مسجد گئے اور حجروں کے معاینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ مسجد کے جنوب مشرقی مینار کے زیر سایہ سیڑھیاں کی بائیں جانب کے خالی قطعۂ زمین کو مدفن کے طور پر استعمال کیاجائے۔ اس کے لیے حکومت ہند کے محکمہ آثار قدیمہ(جس کاصدر دفتر دہلی میں تھا) کی منظوری لینا ضروری تھا۔ سو اس ضمن میں پنجاب کے وزیر سر سکندر حیات سے رابطہ قائم کیا گیا جو ان دنوں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں شرکت کے لیے کلکتے گئے ہوئے تھے۔ سر سکندر حیات نے مجوزّہ مقام تدفین سے اتفاق نہ کرتے ہوئے اسلامیہ کالج ریلوے رو ڈکی گراؤنڈ کی متبادل تجویز پیش کی۔ مجوزّہ مقام تدفین پر یونینسٹ پارٹی کے ہندو اور سکھ وزراء بھی معترض تھے ۔ البتہ مسلم وزراء نے سر سکندر حیات کی تجویز کی تائیدکی ۔ بعض حلقوں کی طرف سے مسجد نیلا گنبد کے سا منے خالی پلاٹ کو مدفن بنانے کی تجویز بھی پیش کی گئی ، مگر اقبا ل کے احباب نے ان تجاویز کو کوئی اہمیت نہ دی اور اپنے فیصلے پر اڑے رہے ۔ بعد از اں ان میں سے پانچ افراد پر مشتمل ایک وفد نے پنجاب کے گورنر سر ہنری کریک سے ملاقات کی، جس نے دوپہر تک مجوزہ قطعۂ زمین کے لیے دہلی سے اجازت دلا دی اور اس سلسلے میں چار بجے تک تمام کاغذی کارروائی بھی مکمل کر لی گئی۔ اقبال کی رحلت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی ۔ اخباروں کے ضمیمے چھپے۔ سرکاری دفاتر، اسکول، کالج، عدالتیں ، اسلامی ادارے سب بند ہوگئے او رلوگ ہجوم در ہجوم جاوید منزل کا رُخ کرنے لگے۔ ہزاروں لوگو ںنے باری باری اقبال کے چہرے کی آخری زیارت کی او رگزرتے چلے گئے ۔ وہ سامنے گول کمرے میں سے ان کی خواب گاہ میں داخل ہو کر بغلی غسل خانے سے باہر نکلتے تھے۔ یہ تانتا شام تک بندھا رہا۔ پانچ بجے شام جاوید منزل سے جنازہ اٹھا ۔ جنازے کے ساتھ لمبے لمبے بانس مضبوطی سے باندھ دیے گئے تاکہ زیادہ سے زیادہ مسلمان کندھا دے سکیں۔ جنازے کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں پنجاب کے ہر شعبہ زندگی کے لوگ بلاامتیاز مذہب و ملّت شامل تھے۔ وزرائے حکومت ، حکام ، اعلیٰ عدالتوں کے جج، وکلا ، کالجوں کے پروفیسر ، اساتذہ ، طلبہ ، شعرا ، ادبا صحافی ، مشائخ ، علماء ، تجار صناع غرضیکہ عام فرزندان اسلام باچشم گریاں کلمۂ شہادت کاورد کرتے جا رہے تھے۔ جنازے پرکئی پھولوں کی چادریں چڑھا ئی گئیں اور پیدل اور سوار پولیس ، سرخ پوش رضا کار، نیلی پوش والنیٹر ، خاکساروں کے جیش ، کامریڈ مسلم جیش ، الہلا ل پارٹی ا ور کئی جیوش اپنی اپنی وردیاں پہنے جناز ے کے ہمراہ تھے راقم کو اب تک یاد ہے ، وہ جنازے کے جلوس میں سب سے آخر میں تھا۔ جناز ہ قلعہ گوجر سنگھ اور فلیمنگ روڈ سے ہوتا ہوا اسلامیہ کالج کی وسیع و عریض گراؤنڈ میں پہنچا، جہاں نماز جنازہ کی ادائیگی کے لیے تقریباً بیس ہزار مسلمان موجود تھے ۔اتنے میں شور ہوا کہ نماز جنازہ بادشاہی مسجد میں پڑھی جائے گی تاکہ شہر کے لوگ بھی شریک ہو سکیں ۔لوگوں نے افراتفری میں جنازہ اٹھایا اور مجمع بدحواسی کے عالم میں ریلوے روڈ کی طرف بڑھا ۔ عاشق حسین بٹالوی اپنی کتاب ’’چند یادیں، چند تاثرات‘‘ میں فرماتے ہیں کہ جسٹس دین محمدنے سخت غصے میں کہا کہ یہ کیا بیہودگی ہے ۔ وہاں نماز دوبارہ بھی تو پڑھی جا سکتی ہے، لیکن ہنگامے میں اُن کی کسی نے نہ سنی ۔ عاشق حسین بٹالوی لکھتے ہیں: بخشی سرٹیک چند… اقبال کی عظمت پہچاننے میں کسی مسلمان سے پیچھے نہ تھے۔ مجھ سے کہنے لگے۔ تمہیں تو اقبال کو دفن کرنا بھی نہیں آتا ۔ تم اس کی قدر کیا پہچانو گے۱۲۲۔ بعدازاں جب جنازہ برانڈر تھ روڈ سے دہلی دروازے تک پہنچا تو اس کے ساتھ سوگواروں کی تعداد کو ئی پچاس ساٹھ ہزار تک پہنچ گئی۔ سات بجے کے بعد جنازہ شاہی مسجد پہنچا ۔ آٹھ بجے شب شاہی مسجد کے صحن میں مولانا غلام مرشد نے نماز جنازہ پڑھائی ۔ بعد ازاں میّت کو مقام تدفین کے قریب لاکر رکھ دیا گیا، کیونکہ اقبا ل کے برادر اکبر شیخ عطا محمد اور چند دیگر اعزہ نے ابھی سیالکوٹ سے پہنچنا تھا۔ وہ لوگ تقریبا ساڑھے نوبجے رات وہاں پہنچے اور شیخ عطامحمد نے آخری بار اقبال کے چہرے کادیدار کیا۔ پونے دس بجے کی قریب اس عاشق رسولؐ اور داعی احیائے اسلام کے جسم کوتابوت میںرکھ کر سپرد خاک کر دیاگیا۔ مزار اقبال کی تعمیر کے لیے ۱۹۳۸ء ہی سے چوہدری محمد حسین کی زیر صدارت مرکزی مجلس اقبال قائم ہوگئی تھی ، مگر آٹھ سال تک تعمیر مزار کاکام شروع نہ ہوسکااور اس مدت میں کچی قبر پر ایک پختہ تعویذ ہی اقبال کا مدفن تھا۔ بہرحال مزار کی تعمیر کا آغاز ۱۹۴۶ء کے اواخر میں ہوا۔ اور چار سال بعد ۱۹۵۰ء میں اس کی تکمیل ہوئی ۔ اس پر خرچ آنے والی رقم خاصانِ بارگاہ اقبال نے فراہم کی اور عطیات کے لیے اپیل نہ کی گئی ۔ خاکہ تعمیر مزار حکومت افغانستان نے اپنے اطالوی ماہر سے بنوا کر بھیجا، جو مرکزی مجلس اقبال نے اس لیے نامنظور کر دیا کہ نہ صرف انداز تعمیر غیر اسلامی نوعیت کا تھا بلکہ اطالوی کیتھولک روایت کے مطابق تربت پر اقبال کے مجسمّے کوہاتھ باندھے ہوئے لٹایا گیا۔ بعد ازاں حیدرآباد دکن کے نواب زین یار جنگ نے خاکہ تیار کیا ، مگر اس خاکے میں نسوانی حد تک نفاست تھی اور مزار کے اندر تربت یوں دکھائی دیتی تھی جیسے کسی منقش سنہری پنجرے میں بلبل قید کردی گئی ہو۔ چوہدری محمد حسین نے نواب زین یار جنگ کو لاہور بلوایا اور انہیں ساتھ لے کر موقع پر گئے ۔ پھر شاہی مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر فرمایا : دیکھیے ! نواب صاحب ایک طرف مسجد ہے جو مسلمانوں کی دینی طاقت کی مظہر ہے اور دوسری طرف قلعہ ہے جوان کی دنیوی قوت کا مظہر ہے۔ ان تعمیرات کے درمیان مزار اقبال تبھی بھلا لگے گا جب وہ سادگی اور مضبوطی کی خصوصیات کا حامل ہو۔ نیزاقبال کی شخصیّت میں بھی تویہی خصوصیات نمایاں تھیں۔ اس پر نواب زین یار جنگ نے موجودہ مزار کا خاکہ تیار کیا۔ تعمیر کا ٹھیکہ چوہدری فتح محمد نے لیا ۔ محمد سلیمان چیف انجینرٔاور میاں بشیر احمد اوورسیر نے بلامعاوضہ رہنمائی اور نگرانی کی خدمات انجام دیں ۔ تعمیر میں استعمال ہونے والا سنگ سرخ اور سنگ مرمر ریاست دھولپور(انڈیا )سے حاصل کیا گیا اور اس پتھر کو دہلی ، آگر ہ او رمکرانہ کے کاریگروں نے تراشا۔ مزار کے اندر کندہ قرآنی آیات اور اشعار اقبال چوہدری محمد حسین کا انتخاب ہیں۔ آیات الٰہی کی خطاطی حافظ محمد یوسف سدیدی (اب مرحوم )نے کی ہے اور اشعار اقبال کی محمد اقبال ابن پروین رقم نے ۔ لوح مزار پر ، چبوترے اور تعویذ کے لیے سنگ لاجور د حکومت افغانستان کی طرف سے ہدیہ ہے ۔ لوح مزار کی عبارتیں افغانستان ہی سے کندہ شدہ آئی تھیں ۔ خیر یہ تو ذکر تھا اس نشان کا جہاں اقبال کا جسم دفن کیا گیا، لیکن اُس کی روح کی بیتابی ، بے چینی اور بے قراری آج بھی اقبا ل کے رازداروں کے سینوں میں شعلہ کی طرح لپکتی ہے۔ مآخذ باب ۲۱ ۱۔ ’’مکتوبات اقبال ‘‘ مرتبہ سید نذیر نیازی ، صفحات ۳۶۵،۳۶۶ ۲۔ ’’اقبال نامے‘‘ مرتبہ اخلاق اثر، بھوپال ، صفحہ ۴۸ ۳۔ ’’مکتوبات اقبال‘‘ ، صفحات ۳۶۸، ۳۷۲ ۴۔ ’’اقبال نامے‘‘مرتبّہ اخلاق اثر ، بھوپال، صفحہ ۷۰ ۵۔ ’’اقبال چوہدری محمد حسین کی نظر میں‘‘ مرتبہ محمد حنیف شاہد، صفحات ۲۱۹تا ۲۲۲۔ ۶۔ ’’مکتوبات اقبال ‘‘مرتبّہ سید نذیر نیازی، صفحات ۳۶۰، ۳۶۱ ۷۔ ’’گفتار اقبال‘‘مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحہ ۶۰۷ ۸۔ ’’انوار اقبال‘‘ مرتبہ بشیر احمد ڈار ، صفحات ۲۲۲، ۲۲۳ ۹۔ ایضاً ، صفحہ ۲۱۶ ۱۰۔ محمد علی جناح نے آل انڈیامسلم کنونشن اپریل ۱۹۴۶ء میں دہلی میں منعقد کی ۔ ۱۱۔ ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘ ناشر شیخ محمد اشرف(انگریزی)، صفحات ۱۱ تا ۱۳ ۱۲۔ ’’اقبا ل کے خطوط جناح کے نام ‘‘ ناشر شیخ محمد اشرف (انگریزی)، صفحات ۱۳، ۱۴ ۱۳۔ ’’اقبال کے آخری دو سال‘‘ ، صفحات ۴۱۴تا۴۱۶ ۱۴۔ ’’گفتار اقبال ‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحہ ۶۰۸ ۱۵۔ ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام ‘‘ ناشر شیخ محمد اشرف (انگریزی)، صفحات ۱۴تا ۱۸ ۱۶۔ ’’اقبال نامے‘‘ مرتبہ اخلاق اثر ،بھوپال ، صفحہ ۷۲۔۷۳ ۱۷۔ ’’خطوط اقبال ‘‘مرتبہ رفیع الدین ہاشمی ، صفحات ۲۷۶تا ۲۷۸۔ اصل خط کا انگریزی متن بھی ساتھ موجود ہے ۔ ۱۸۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ ،شیخ عطا اللہ، حصّہ دوم ، صفحات ۳۴۰، ۳۴۱ ۱۹۔ بالآخر لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس ۲۳؍مارچ ۱۹۴۰ء میں منعقد ہوا، جس میں قرارداد پاکستان منظور کی گئی۔ ۲۰۔ ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام ‘‘۔ناشر شیخ محمد اشرف(انگریزی)، صفحات ۱۸تا ۲۳۔ ۲۱۔ ’’اقبال نامہ‘‘ مرتبہ شیخ عطا اللہ ، حصّہ اوّل ، صفحہ۲۲۳۔ ۲۲۔ ’’اقبال ، دارالاسلام اور مودودی‘‘ از اسعد گیلانی ، صفحات ۱۳۸ تا ۱۴۰ ۔اس سلسلے میں راقم نے رفیع الدین ہاشمی کی تحقیق سے استفادہ کیاہے جس کے لیے وہ ان کا شکر گزار ہے۔ ۲۳۔ ’’اقبال نامہ‘‘ مرتّبہ شیخ عطا اللہ، حصّہ اوّل ، صفحات ۲۴۹ ، ۲۵۰۔ ۲۴۔ ’’خطوط اقبال ‘‘ مرتبہ رفیع الدین ہاشمی، صفحات ۶۸۴، ۶۸۶۔ ۲۵۔ ایضاً ، اصل خط کا عربی متن مع اردو ترجمہ ، صفحات ۲۴۹، ۲۵۰۔ ۲۶۔ ’’صحیفہ‘‘ اقبال نمبر (حصّہ اوّل )مرتبہ ڈاکٹر وحید قریشی ، صفحات ۲۲۹، ۲۳۰۔سید نور محمد قادری کی رائے میںاقبال کی زندگی میں مولانا مودودی سے ملاقات نہ ہوئی ۔ خط بنام راقم ۔ لیکن دیکھیے مولانا مودودی کا مکتوب بنام ڈاکٹر سید ظفر الحسن ، مورخہ ۲۲جون ۱۹۳۸ء جسے رسالہ ’’المعارف ‘‘ خصوصی شمارہ (۲)اپریل مئی ۱۹۸۵ء ادارہ ثقافت اسلامیہ ۲کلب روڈ لاہور نے نقل کیا ہے، صفحہ ۲۴۹۔ مولانا مودودی تحریر کرتے ہیں کہ اکتوبر ۱۹۳۷ء میں وہ اقبال سے لاہور میں ملے تھے اور مسلمانو ںکے مسائل کے متعلق ان سے مفصل گفتگو ہوئی تھی۔ ۲۷۔ ایضاً ، صفحہ ۲۳۰ ۲۸۔ اقبال کے ذہن میں جمعیت اقوام مشرق کا تصو ّر پہلے ہی سے موجود تھا۔ دیکھیے ’’ضرب کلیم‘‘میں شامل اشعار جو بھوپال میں قیام کے دوران میں تحریر کیے گئے ؎ پانی بھی مسخرّ ہے، ہوا بھی ہے مسخرّ کیا ہو جو نگاہِ فلکِ پیر بدل جائے دیکھا ہے ملوکیّتِ افرنگ نے جو خواب ممکن ہے کہ اس خواب کی تعبیر بد ل جائے تہران ہو گر عالمِ مشرق کا جینیوا! شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے ۲۹۔ ’’اقبال کے آخری دو سال ‘‘ از ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی ، صفحات ۴۱۷تا ۴۲۳۔ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی کے مطابق اقبال کے بیان کا انگریز ی متن صرف اخبار ’’نیو ٹائمز ‘‘میں شائع ہوا تھا۔ نیز دیکھیے ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطا اللہ، حصّہ اوّل ، صفحات ۴۵۱ تا ۲۵۶۔بیان کے اصل انگریزی متن کے لیے دیکھیے ’’اقبال کی تقریریں ، تحریریں اور بیانات‘‘ مرتبہ لطیف احمد شیروانی (انگریزی) ، صفحات ۲۴۵تا ۲۴۷۔ ۳۰۔ ’’اقبال کی تقریریں ، تحریریں اور بیانات ‘‘مرتبہ لطیف احمد شیروانی(انگریزی)، صفحات ۲۴۴، ۲۴۵، ۲۴۸۔ ۳۱۔ ’’گفتارِ اقبال ‘‘مرتبہ محمد رفیق افضل ، صفحہ ۲۰۹۔ ’’اقبال اور انجمن حمایت اسلام ‘‘ از محمد حنیف شاہد ، صفحات ۱۴۲، ۱۴۳۔ ۳۲۔ ’’اقبال ،جیسے کہ میں انہیں جانتی تھی ‘‘از مسز ڈورس احمد (انگریزی) مطبوعہ ،اقبال اکادمی پاکستان، ۲۰۰۱ء ، انہوں نے تحریر کیاہے کہ وہ مئی ۱۹۳۷ء کی ایک تپتی ہوئی صبح لاہور پہنچی تھیں۔ لیکن یہ درست نہیں۔ ۳۳۔ ایضاً ۔ ۳۴۔ ’’اقبال نامے ‘‘مرتبہ اخلاق اثر، بھوپال، صفحہ ۷۹۔ ۳۵۔ ایضاً ، صفحہ ۹۷۔ ۳۶۔ ’’گفتار اقبال ‘‘مرتبّہ محمد رفیق افضل ، صفحات ۲۰۹، ۲۱۰۔ ۳۷۔ ’’اقبال جیسے کہ میں انہیں جانتی تھی‘‘ از مسز ڈورس احمد (انگریزی)، مطبوعہ ،اقبال اکادمی پاکستان، ۲۰۰۱ء ۔ ۳۸۔ ’’گفتار اقبال ‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل، صفحات ۲۱۰تا ۲۱۱۔ ۳۹۔ ’’اقبال کے خطوط اور تحریریں ‘‘مرتبہ بی۔ اے۔ ڈار (انگریزی)، صفحات ۸۶تا ۹۳۔ ۱۹۳۳ء کتابت کی غلطی ہے ۔ صحیح ۱۹۳۵ء ہے ۔ ۴۰۔ ’’انوار اقبال‘‘ مرتبّہ بشیر احمد ڈار، صفحہ ۲۱۴۔ ۴۱۔ ا ن میں بیشتر یادیں راقم کے مضمون ’’اقبال ، ایک باپ کی حیثیت سے‘‘ میں قلم بند کر دی گئی تھیں ۔ دیکھیٔ مئے لالہ فام ‘‘از جاوید اقبال ، صفحات ۱۶۳تا ۱۸۹۔ ۴۲۔ اب یہ مسودات او رکاغذات علا ّمہ اقبال میوزیم میں محفوظ ہیں۔ ۴۳۔ ’’اقبال جیسے کہ میں انہیں جانتی تھی‘‘۔(انگریزی) مطبوعہ ،اقبال اکادمی پاکستان، ۲۰۰۱ء ۔ ۴۴۔ اقبال کی خواہش کے مطابق محمد علی جناح نے اپنے خطبۂ صدارت میں مسئلہ فلسطین کا ذکر خوب زور دار الفاظ میں کیا۔ دیکھیے ’’جناح کی تقریریں ‘‘مرتبہ جمیل الدین احمد، جلد اوّل (انگریزی)، صفحہ۳۸۔ ۴۵۔ ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام ‘‘۔ناشر شیخ محمد اشرف(انگریزی)، صفحات ۲۴تا ۲۶۔ ۴۶۔ ’’اقبال کے آخری دوسال ‘‘از ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی ، صفحات ۵۱۵، ۵۱۶۔ ۴۷۔ ’’اقبال کے خطوط جنا ح کے نام ‘‘۔ناشر شیخ محمد اشرف (انگریزی)، صفحات ۲۷، ۲۸۔ ۴۸۔ ایضاً ، صفحات۲۸، ۲۹ ۴۹۔ ’’لاہور کاجو ذکر کیا ‘‘از گوپال متل ناشر مکتبہ تحریک انصاری مارکیٹ دریا گنج ، دہلی ۱۹۷۱ء صفحات ۱۵۱ تا ۱۵۳۔ اس تصنیف کی طرف راقم کی توجہ رفیع الدین ہاشمی نے مبذول کرائی ۔ محمد علی جنا ح اور مسلم لیگ کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کے سبب آخری ایام میں اقبال کے تعلقات عبدالمجید سالک، غلام رسول مہر اور مولانا ظفر علی خان سے بھی ختم ہوگئے تھے۔ ۵۰۔ ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام ‘‘ ۔ناشر شیخ محمد اشرف (انگریزی)، صفحات ۲۹تا ۳۱۔ ۵۱۔ ’’اقبال کے آخری دوسال ‘‘از ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی ، صفحہ ۵۳۱۔ ۵۲۔ ایضاً ، صفحہ ۵۲۹۔ ۵۳۔ ایضاً ، صفحہ ۵۳۱ تا ۵۴۰۔ ۵۴۔ ’’روزگارِفقیر‘‘ از فقیر سید وحید الدین ،جلد دوم ، صفحات ۲۰۳تا۲۰۵۔ ۵۵۔ ’’اقبال کے آخری دو سال‘‘ از ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی ، صفحات ۵۴۱، ۵۴۲ ۵۶۔ اصل بیان کے انگریزی متن کے لیے دیکھیے ’’اقبال کی تقریریں، تحریریں او ربیانات ، مرتبہ ، لطیف احمد شیروانی (انگریزی)، صفحات ۲۴۸، ۲۴۹، اسی مقصد یعنی مسلمانوں کے تمدنی احیاء کے سلسلہ میں ۱۹۱۱ء میں اقبال نے اپنے ترانہ ملّی کے گراموفون ریکارڈوں کی فروخت سے رایلٹی کا ایک مخصوص حصّہ پانچ سال کی مدت تک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی فنڈ کے لیے وقف کردیاتھا۔ اس زمانۂ میں فی ریکارڈ قیمت تین روپے تھی ۔ دیکھیے مضمون اقبال سے متعلق دو نادر مسودات از ریاض حسین (انگریزی)’’اقبال ریویو‘‘ اپریل ۱۹۸۴ء صفحات ۶۳تا ۷۵، ۵۷۔ غالباً ، اس طرف اقبال نے ’’ضرب کلیم‘‘ میں اپنی نظم جمعیت اقوام میں اشارہ کیا ہے: بیچاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے ڈر ہے خبر بد نہ مرے منہ سے نکل جائے تقدیر تو مبرم نظر آتی ہے و لیکن پیران کلیسا کی دعا یہ ہے کہ ٹل جائے ممکن ہے کہ یہ داشتۂ پیرک افزنگ ابلیس کے تعویذ سے کچھ روز سنبھل جائے ۵۸۔ ’’اقبال کی تقریریں ، تحریریں اور بیانات ‘‘مرتبہ لطیف احمد شیروانی (انگریزی)، صفحات ۲۴۹تا ۲۵۱۔ ۵۹۔ ’’سرگزشتِ اقبال ‘‘از عبدالسلام خورشید ، صفحہ ۵۲۸۔ ڈاکٹر سید عبداللطیف کے نام مکتوب کا اقتباس ۔ ۶۰۔ ’’اقبال اور حیدرآباد ‘‘ صفحات ۲۱۲، ۲۱۳۔ ۶۱۔ ’’متحدہ قومیت اور اسلام‘‘از مولانا حسین احمد مدنی ، صفحہ ۴۔ نیز دیکھیے ’’مفکر پاکستان‘‘ از محمد حنیف شاہد ، صفحہ ۳۶۵۔ ۶۲۔ ’’اقبا ل کے حضور ‘‘، صفحات ۱۲۵، ۱۲۶۔ اقبال نے اس سلسلے میں مزید اشعار بھی کہے دیکھیے اسی کتاب کے صفحات ۱۶۶، ۱۷۴: ندانی نکتۂ دینِ عرب را کہ گوئی صبحِ روشن تیرہ شب را اگر قوم از وطن بودے، محمدؐ ندادے دعوتِ دیں بولہب را او ر حق را بفریبد کہ نبی رابفریبد آں شیخ …کہ خود را مدنی خواند ۶۳۔ ایضاً ، صفحہ ۱۲۶۔ ۶۴۔ ایضاً ، صفحہ ۱۲۳۔ ۶۵۔ راقم خود اس واقعہ کاشاہد ہے ۔ تائید کے لیے ملاحظہ ہو۔ ’’اقبال کے آخری دوسال‘‘ از ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی ، صفحات ، ۵۸۳، ۵۸۴۔ ۶۶۔ ’’سرگزشت اقبال ‘‘از عبد السلام خورشید ،صفحہ ۵۰۹۔ ۶۷۔ ’’اقبال کے آخری دوسال ، ’’صفحہ ۵۹۰۔ ۶۸۔ ایضاً ، صفحہ ۵۹۶۔ ۶۹۔ کتاب ہذا کا ۱۹۵۶ء ایڈیشن ، صفحہ ۳۵۵۔ ۷۰۔ ’’اقبال کے حضور‘‘ ، صفحہ ۹۵۔ ۷۱۔ ’’اقبال کے آخری دوسال ‘‘، صفحات ۵۴۸ تا۵۵۰۔ ۷۲۔ ایضاً ، صفحات ۹۵ تا ۱۰۷۔ ۷۳۔ ایضاً، صفحہ ۱۰۲۔ ۷۴۔ ایضا، صفحہ ۱۰۲۔ ۷۵۔ کتاب ہذا کا ۱۹۵۶ء ایڈیشن، صفحہ ۳۵۵۔ ۷۶۔ ’’اقبال کے حضور‘‘ ، صفحہ ۱۰۳۔ ۷۷۔ اس بارے میں بیگم افتخار الدین تردیدی بیان اخباروں میں شائع کراچکی ہیں اور انہوں نے راقم کو زبانی بھی یہی بتایاہے۔ ۷۸۔ ’’اقبال کے آخری دوسال ‘‘از ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی ، صفحات ۶۰۵، ۶۰۹۔ ۷۹۔ ’’اقبال کے خطوط اور تحریریں ‘‘مرتبہ بی۔ اے۔ ڈار (انگریزی)، صفحات ۱۱۲تا ۱۱۴ ۔ نیزدیکھیے ’’اقبال کے آخری دوسال ‘‘از ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی، صفحات ۵۹۲ تا ۵۹۶، ۶۱۰تا ۶۲۳۔ ۸۰۔ ایضاً، صفحات ۶۲۳ تا ۶۴۵۔ ۸۱۔ ایضاً، صفحات ۶۱۷ تا ۶۴۵۔ ۸۲۔ ’’اقبال کاسیاسی کارنامہ ‘‘، صفحات ۵۶۱، ۵۶۲۔ ۸۳۔ مضمون ’’پاکستان ، علا ّمہ اقبال او رقائد اعظم‘‘ ، ’’نوائے وقت ‘‘ لاہور مورّخہ ۲۷ ؍مارچ ۹۸۴اء ۸۴۔ صفحہ ۳۲۹ کتاب ہذا ۔ ۸۵۔ ’’انوار اقبال ‘‘ مرتبہ بشیر احمد ڈار ، صفحات ۱۶۷، ۱۶۸۔ ۸۶۔ ’’مکتوبات شیخ الاسلام ‘‘جلد سوم مرتبہ مولانا نجم الدین اصلاحی ، صفحات ۱۲۴، ۱۲۵،نظریہ قومیت مولانا حسین احمد مدنی اور علامہ اقبال، مرتبہ طالوت ،صفحات ۲۱،۲۲۔ اقبال کا سیاسی کارنامہ ‘‘از محمد احمد خان ، صفحات ۵۷۲، ۵۷۳۔ ۸۷۔ ’’اقبال کے حضور ‘‘، صفحہ۲۱۵۔ ۸۸۔ اقتباسات مضمون ’’جغرافیائی حدود اور مسلمان‘‘ ۔’’مقالات اقبال ‘‘مرتبہ سید عبدالواحد معینی ، صفحات ۲۲۱ تا ۲۳۸۔ ۸۹۔ ’’انوار اقبال ‘‘ مرتبہ بشیر احمد ڈار ، صفحات ۱۶۸ تا ۱۷۰۔ ۹۰۔ ’’اقبال کے دینی اور سیاسی افکار از سید نور محمد قادری ، صفحہ ۱۲۷۔ ۹۱۔ ’’اقبال کے سیاسی کارنامہ ‘‘ صفحات ۶۰۲،۶۰۳۔ ۹۲۔ کتاب ہذا کا ایڈیشن جون ۱۹۶۶ء مکتبہ دینیہ دیوبند ضلع سہارنپور ، صفحہ ۱۴۱۔ ۹۳۔ ’’مکتوبات اقبال ‘‘ صفحہ ۳۶۴۔ ۹۴۔ ’’اقبال کی تقریریں، تحریریں اوربیانات ‘‘ مرتبہ اے۔ آر۔ طارق (انگریزی)، صفحہ ۱۰۲۔ ۹۵۔ ’’اقبال نامہ ‘‘مرتبہ شیخ عطاء اللہ، حصّہ اوّل ، صفحہ ۱۰۸۔ ۹۶۔ ’’مقالات اقبال کانگریس ‘‘۱۹۸۳ء جلد دوم (انگریزی)مضمون ’’اقبال کا فلسفہ حیات‘‘ از جگن ناتھ آزاد میں حوالہ تصنیف ’’نامور مسلمان‘‘ (انگریزی) مدراس ۱۹۳۶ء ، صفحہ ۹۸۔ ۹۷۔ ’’اقبال کے خیالات و افکار ‘‘مرتبّہ سید عبدالواحد (انگریزی)، صفحہ ۳۰۶۔ ۹۸۔ ’’مقالاتِ اقبال ‘‘ مرتبّہ سید عبد الواحد معینی (انگریزی)، صفحہ ۲۲۸۔ ۹۹۔ ’’اقبال ریویو‘‘ ۔مجلہ اقبال اکادمی پاکستان لاہور،شمارہ اپریل ۱۹۸۳ء مضمون ’’اقبال کی ایک نایاب تحریر’’(انگریزی)جو لاہور کے رسالہ اورئینٹ ‘‘کے شمارہ جون اگست ۱۹۲۵ء میں شائع ہوئی ، صفحہ ۴۰۔ اقبا ل نے ایک تقریر میں واضح طور پر کہاتھا کہ مسلمانوں میں ایمان کی دوشقیں ہیں۔ اول ، اعتقاد فی التوحید ورسالت اور دوسرا ان کی اپنی معاشرت ، تمدن ، سیاست وغیرہ کا علم۔ ان دونوں کی موجودگی میں ایک آدمی مسلمان بن سکتاہے۔ اگرچہ شق اوّل اصل اصول اسلام ہے، مگر دوسری کی نفی یا عدم موجودگی اگر نقصِ ایمان نہ بھی مانی جائے تو بھی اس میں کلام نہیں کہ اس کے بغیر کامل مسلمان ہونے کا دعویٰ نہیں ہو سکتا۔ سو وہ اسلام اور اس کے تمدن کو ایک سمجھتے تھے اور لازم و ملزوم ۔ دیکھیے اقبال کی تقریر مجوزہ علی گڑھ محمڈن یونیورسٹی کے موضوع پر جلسہ بزم اردو ۱۹؍فروری ۱۹۱۱ء ’’اقبال سے متعلق دونادر مسودات ‘‘از ریاض حسین (انگریزی واردو )’’اقبال ریویو‘‘ اپریل ۱۹۸۴ء صفحہ ۶۹۔ ۱۰۰۔ اس سلسلے میں ملاحظہ ہو ایک کتاب ’’اقبال کا علم کلام ‘‘ از سید علی عباس جلالپوری ۔ کتاب غلطیوں سے بھرپور ہے۔ معلوم ہوتاہے کہ مصنف نے نہ تو اقبال کے نظریات کو صحیح طور پر سمجھنے کی کوشش کی ہے اور نہ مسلم فلاسفہ و صوفیہ کے افکار کو ۔ ۱۰۱۔ فوٹو کاپی راقم کے پاس موجود ہے ۔ ۱۰۲۔ فوٹو کاپی مسو ّدہ انگریزی نمبر آر /۱/۲۹/۱۰۳۲خط مورخہ ، اپریل ۱۹۳۷ء بنام میوائیل برائے حقوق دلانے نازلی رفیقہ بیگم جبخیرہ ۔ ۱۰۳۔ ’’اقبال کے خطباب ‘’مرتبہ شاہد حسین رزاقی (انگریزی)، صفحات ۲۸۳، ۲۸۴۔ ۱۰۴۔ تفصیل کے لیے دیکھیے راقم کا مضمون ’’اقبال کے معاشی تصورات‘‘ ، ’’مئے لالہ فام‘‘ ایڈیشن ۱۹۷۲ء صفحات ۲۶۰ تا۳۰۰۔ اقبال انشورنس کے حق میں تھے او رمسلمانو ںمیں اسے عام کرنے کی خاطر انہوں نے مسلم انشورنس کمپنی سے وابستگی پیدا کی ۔ ۱۰۵۔ ۱۹۳۳ء میں تقسیم ہند کے سلسلے میں خیری برادران کی تجویز کی حمایت کی ۔ ایک خط مورخہ ۱۹؍مارچ ۱۹۳۳ء میں ڈاکٹر ظفر الحسن کو تحریر کیا۔ خیری صاحب تو اس تجویز کو فراموش کرچکے ہیں، مگر اقبال کا عقیدہ ہے کہ مسلمانوں میں سے خاصی تعداد اسے قبول کرے گی، نیز وہ اپنے خاص احباب کو ہم خیال بنانے کی کوشش ترک نہ کریں اور مایوس نہ ہوں ۔ خط کی فوٹو کاپی راقم کے پاس موجود ہے۔ ۱۰۶۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ، حصہ دوم ، صفحات ۲۳۱، ۲۳۲۔ ۱۰۷۔ ایضاً ، صفحات ۳۴۸، ۳۴۹۔ ۱۰۸۔ ’’اقبال کی تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ ‘‘ترجمہ اردو از سید نذیر نیازی ، صفحات ، ۲۸۷ تا ۲۹۰۔ ۱۰۹۔ مزید مطالعے کے لیے دیکھیے راقم کے دو مضمون ’’اقبال کا تصور شیطان ‘‘، ’’میٔ لالہ فام ‘‘ ایڈیشن ۱۹۷۲ء ، صفحات ۱۴۱تا۱۸۷۔ اس موضوع پر ڈاکٹر این میری شمل اور پروفیسر بوسانی کے مضامین بھی پڑھنے کے لائق ہیں۔ نیز راقم کا مضمون ’’اقبال اور رومی کا تصور شیطان‘‘، (انگریزی) جو قونیہ (ترکی )میں مولانا جلال الدین رومی کے جشن ولادت پر پڑھا گیا۔ ۱۱۰۔ ’’اقبال ریویو‘‘ اقبال اکادمی پاکستان ،لاہور،اپریل ۱۹۸۳ء مضمون ’’اقبال کی ایک نایاب تحریر‘‘(انگریزی)جولاہورکے رسالہ’’اورئینٹ ‘‘کے شمارہ جون اگست ۱۹۲۵ء میں شائع ہوا، صفحہ ۴۰۔ ۱۱۱۔ ’’انوار اقبال‘‘ مرتبّہ بشیر احمد ڈار ۲۱۹،۲۲۰۔ ۱۱۲۔ اس بحث کے سلسلے میں مزید مطالعے کے لیے دیکھیے کتاب ’’اقبال کاتصو ّر خدا ‘‘از ایس۔ ایم۔ رشید، لندن ۱۹۸۱ء (انگریزی) مصنّف اقبا ل کو ایک مذہبی مفکر کے طور پرتسلیم نہیں کرتا۔ اس کی رائے میں اقبال کے ہاں خدا مقید اور محدود ہے اور انہوں نے مغربی سائنس اور فلسفے کا مطالعہ کرکے اپنی طرف سے جو نتائج نکالے ہیں، وہ غلط ہیں۔ مصنّف کے خیال میں اقبال نے مغربی سائنس اور فلسفے کا محض سطحی مطالعہ کیا تھا اور اس کی گہرائی تک نہ پہنچ سکے تھے ۔اسی طرح انہوں نے اپنے محدود خدا کے تصو ّر کو قرآن مجید کے خدا اور مسلم فلاسفہ کے نظریات سے منسلک کرنے کی کوشش کی ، لیکن اس کوشش میں وہ ناکام رہے ، مصنّف کے خیال میں اقبال کا خدا دراصل وہی پرانا وجودی صوفیہ کا ہمہ اوستی خداہے۔ ۱۱۳۔ ’’اقبال اور تصوف ‘ ‘مرتبہ آل احمد سرور ۔ اقبال انسٹی ٹیوٹ کشمیر یونیورسٹی سرینگر،صفحات ۷۸، ۸۹، ۸۱۔ ۱۱۴۔ دیکھیے کتاب ہذا کے صفحات ۴۲۸، ۴۵۱۔ ۱۱۵۔ ’’انوار اقبال ‘‘ ،مرتبہ بشیر احمد ڈار ، صفحہ ۲۱۸۔ ۱۱۶۔ ’’مکتوبات اقبا ل ‘‘ ، صفحات ۷۳، ۷۴۔ بقول سید نذیر نیازی اقبال نے انہیں بتایا کہ ان کی اہلیہ مرحومہ سردار بیگم بعثت ثانیہ حاصل کرچکی ہیں۔ دیکھیے ’’اقبال کے حضور ‘‘صفحہ ۲۰۲۔ ۱۱۷۔ ’’اقبال کے حضور ‘‘،صفحات ۶۶، ۶۷ ۱۱۸۔ اس مسئلے پر مزید مطالعے کے لیے دیکھیے ’’اقبال کا تصو ّر زمان و مکاں اور دوسرے مضامین‘‘ از ڈاکٹر رضی الدین صدیقی ایڈیشن ۱۹۷۳ء ۔ مقالہ ’’اقبال کاتصور زماں (تدریجی ارتقا)‘‘ از مولانا شبیر احمد خان غوری ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ۔ مقالہ ’’آئن سٹائن اور برگساں کے نظریات زماں اور اقبال ‘‘ازجگن ناتھ آزاد ۔ ’’اقبال اور مغرب‘‘مرتبہ آل احمد سرور۔ سری نگر ۔ مقالہ’’ محمد اقبال کے فکر میں زماں اور ابدیت ‘‘از این میری شمل (انگریزی)۔ کارروائی بین الاقوامی کانگرس برائے مذاہب، ماربرگ ۱۹۶۱ء ’’بال جبریل‘‘ از این میری شمل (انگریزی)۔’’ اقبال کے نظام فلسفہ میں خدا انسان ا ور کائنات کا مقام ‘‘ازجمیلہ خاتون (انگریزی)، مقالہ ’’محمد اقبال کے مذہبی فلسفے میں زمان کا تصور ‘‘ از بوسانی (انگریزی )رسالہ ’’ڈی ولٹ ڈیس اسلام ‘‘جلد سوم، لیڈن ۱۹۵۴ء مقالہ ’’اقبال کے ہاں زماں کی نوعیت ‘‘از ایم۔ ایم۔ شریف (انگریزی) ’’اقبال ریویو‘‘اکتوبر ۱۹۶۰ء مقالہ’’ زماں کے متفرق تصورات پر اقبال کا تبصرہ اور ان کا اپنا تصو ّر زماں از رفعت حسن (انگریزی) ’’اقبال ریویو‘‘اپریل ۱۹۸۴ء ۔ ۱۱۹۔ یہ تحریر راقم کے پاس موجود ہے۔ ۱۲۰۔ راقم کو اس خط کی فوٹو کاپی رفیع الدین ہاشمی سے ملی۔ اب اس خط کاعکس ’’وثائق مودودی‘‘ (صفحہ۹۵)میں بھی شامل ہے۔ ۱۲۱۔ ’’اقبال نامہ ‘‘مرتبہ شیخ عطاء ، اللہ حصّہ اوّل ، صفحہ ۳۲۵۔ ۱۲۲۔ صفحہ ۵۵۵۔