اقبال شاعرِ فردا غلام صابر اقبال اکادمی پاکستان جملہ حقوق محفوظ ناشر محمدسہیل عمر ناظم اقبال اکادمی پاکستان (حکومتِ پاکستان، وزارت ثقافت ) چھٹی منزل ، ایوان اقبال ، لاہور Tel: [+92-42] 6314-510 [+92-42] 9203-573 Fax: [+92-42] 631-4496 Email: director@iap.gov.pk Website: www.allamaiqbal.com ISBN 969-416-359-5 طبع اول : ۱۹۹۶ء طبع دوم : ۱۹۹۷ء طبع سوم : ۲۰۰۶ء (اکادمی ایڈیشن) طبع چہارم : ۲۰۱۰ء تعداد : ۵۰۰ قیمت : ۔؍۲۰۰روپے مطبع : شرکت پرنٹنگ پریس، لاہور محل فروخت : ۱۱۶ میکلوڈ روڈ ، لاہور، فون نمبر ۷۳۵۷۲۱۴ انتساب رفیقۂ حیات لئیق النساء بیگم غلام صابر کوپن ہیگن پیش لفظ اقبال۔ شاعرِ فردا کا پہلا ایڈیشن فروری ۱۹۹۶ء میں شائع ہو ا۔ پاکستان میں لاہور سے اور بیرون ملک ڈنمارک اور لندن میں اہلِ ادب اور ملت کا درد رکھنے والے حضرات نے اس کتاب کو بہت پسند کیا ۔ دوستوں نے اس جذبہ کو بھی سراہا کہ کتاب کی فروخت سے حاصل شدہ آمدنی پاکستان میں فروغِ تعلیم پر خرچ کی جائے گی۔ کچھ احباب نے کتابیں خود بھی خریدیں اور دوسروں کو بھی دیں اور ساری حاصل شدہ رقم پاکستان ایجوکیشنل سوسائٹی لاہور کو براہ راست ارسال کر دی ۔ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن چند ترامیم کے ساتھ ۱۹۹۷ء میں شائع ہوا۔ اس ایڈیشن میں ایک اہم حصہ بعنوان ’’اقبال کے خطوط قائد اعظم کے نام ‘‘ شامل کر دیا گیا جو اہلِ نظرحضرات نے بہت پسند کیا ۔اس کتاب کا تیسرا نظر ثانی شدہ ایڈیشن ۲۰۰۶ء میں شائع ہوا۔ امید ہے اقبال۔ شاعرِ فردا کا چوتھا ایڈیشن بھی ادبی حلقوں میں پسند کیا جائے گا اور یہ کتاب فکرِ اقبال کی ترویج اور علم کی شمعیں روشن کرنے کی لگن پیدا کرنے میں ممد ثابت ہوگی ۔ غلام صابر ترتیب ٭ تعارف ……… از ڈاکٹر وحید عشرت ۷ ٭ عرضِ مصنف ……… غلام صابر ۱۳ تشریحات ٭ طلوعِ اسلام ۱۹ ٭ ابلیس کی مجلس شوریٰ ۳۴ ٭ مسجدِقُرطبہ ۴۷ ٭ نظم ’’ساقی نامہ‘‘ ۶۰ ٭ نظم ’’آوازِ غیب‘‘ ۷۳ ٭ نظم ’’تن بہ تقدیر‘‘ ۷۶ ٭ پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن ۷۸ ٭ اَنَا الحق ۸۰ ٭ لا الہٰ اِلاَّ اللہ ۸۴ ٭ حضورِ ملّت از ارمغان حجاز (فارسی) ۸۷ مکتوبات ٭ اقبال کے خطوط قائد اعظمؒ کے نام ۹۱ فکریات ٭ اقبال: ’’من نوائے شاعر فرداستم‘‘ ۱۱۱ ٭ اقبال کا نظریہ حرکت و عمل ۱۱۵ ٭ اقبال کا تصور حیات بعد الموت ۱۲۵ ٭ شاعر ۱۲۹ ٭ اقبال کی ’’دعا‘‘ ۱۳۲ ٭ علامہ اقبالؒ اور دنیائے انسانیت ۱۳۷ ٭ اقبالؒ اور کشمیر (اپنے دل گرفتہ کشمیری بھائیوں کی نذر) ۱۴۶ ٭ اقبال اور عیدالاضحی ۱۴۹ ٭ فکرِ اسلامی کی تشکیلِ نو ۱۵۲ ٭ کوپن ہیگن کی ایک یاد گار محفل ۱۵۸ تعارف محبت سیلابِ تُند جولاں کی طرح ہوتی ہے ۔ اس کے اظہار کا کوئی پیمانہ نہیں، وہ ہر روپ میں اور ہر آن اپنا اظہار کرتی ہے۔ پھر اگر محبت کی اساس علم و آگہی اور حقیقت کے عرفان پر ہو تو وہ محبت پائیدار ہوتی ہے اور اس میں آفاقی اور کائناتی آہنگ آجاتا ہے۔ ایسی محبت اپنے اظہار کے کئی راستے تراش لیتی ہے۔ جناب غلام صابر کی حکیم اُلامّت علامہ سر ڈاکٹر محمد اقبال سے محبت کو مٹ منٹ (Commitment)کی حدتک ہے۔ وہ سچّے عاشقِ اقبال ہیں۔ اسکینڈی نیویا میں ڈنمارک کی کوئی محفل ایسی نہیں جہاں ان کی آواز میں اقبال کا سوز دروں نہ پہنچا ہو۔ خوش الحان غلام صابر سے کلامِ اقبال سن کر میرے جسم میں زندگی بوند بوند اترنے لگی۔ میری روح کی گہرائیوں میں ایک تازگی کا احساس رقص کرنے لگا، اور یوں محسوس ہوا کہ غلام صابر کی آواز میں اقبال کے فکر و شعور کی آگہی کے سارے ہی عناصر موجود ہیں۔ اقبال اسلامی دنیا کے ان خوش قسمت مفّکروں میں سے ہیں جو لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں۔ ان کا پیغام لوگوں کی رگوں میں خون بن کر گردش کر رہا ہے۔ اقبال برصغیر کی مسلم علمی روایت اور شاعری کا تکملہ اور نکتۂ کمال ہے۔ جس طرح حضرت قائد اعظم محمد علی جناح برصغیر میں مسلم سیاست کا نکتۂ عروج ہیں، ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس سچ کی بنیاد پر سیاست کو بڑھایا تھا،قائد اعظم سچ کی اس سیاست کا بیسویں صدی میں عملی نمونہ تھے۔ دنیا نے یہی سنا کہ جھوٹ کا نام سیاست ہے۔ قائد اعظم نے اپنے نبیؐ آخر الزّمانؐ کے تتبع میں بتایا کہ سیاست سچ کا نام ہے اور سچ بھی سیاست ہوسکتا ہے۔ اس طرح اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کو مسلم قومیت کا نکتہ اتصال دے کر انھیں ایک قوم بنا دیا، قوم رسول ہاشمی جس کا دستور قرآن حکیم ہے جو خدا کا آخری پیغام ہے ۔ اقبال کی شاعری، اقبال کی نثر اور اقبال کے نظرئیے کی یہی فینٹسی ہے جو اُن کے ہر قاری اور سامع کے رگ و پے میں اتر جاتی ہے، اور وہ دیوانہ وار رقص کرنے لگتا ہے، اور وہ احیائے اسلام کی تحریک کا داعی بن جاتا ہے جس کا مقصد، مدعا اور نظریہ آج کے دور میں ایک جدید اسلامی جمہوری معاشرہ کی تشکیل و تعمیر بن جاتا ہے تاکہ مسلمان پھر دنیا کی امامت کا بارِ امانت اٹھا سکیں جو خلیفۃ اللّٰہہونے کی حیثیت سے مسلمانوں کو ہی سزا وار ہے۔ اقبال کا پیغام مسلمانوں کے لیے اس دور میں صورِ اسرافیل ہے ایک نغمہ اُمید ہے ایک لائحہ عمل ہے جو ہر مسلمان کے لیے اپنے اندر کشش رکھتا ہے ۔ اقبال کے خوابوں کی سر زمین پاکستان ہے۔ اقبال نے مسلمانوں کی ارضی مرکزیت قائم کرنے اور اسلام کو ایک جدید دنیا پر واضح کرنے کے لیے پاکستان کا خواب دیکھا تھا اور حضرت قائد اعظم کو مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے تجویز کیا تھا۔ آپ کے لیے شاید یہ امر حیرت انگیز ہو کہ قائد اعظم کا سب سے پہلے خطاب علامہ اقبال کو دیا گیا جو علامہ اقبال نے اپنی بجائے قائد اعظم محمد علی جناح کے لیے پسند کیا، چنانچہ میاں فیروز جنہوں نے سب سے پہلے قائداعظم کا محمد علی جناح کے لیے نعرہ لگایا۔ علامہ اقبال کے قریبی عزیز تھے اور اغلباً بات یہ ہے کہ علامہ اقبال نے یہ کام از خود خاموشی اور راز داری سے سر انجام دیا تاکہ محمد علی جناح ؒ جیسی عظیم ہستی پر مسلمانوں کا اجماع ہوسکے اور وہ انہیں اپنابیسویں صدی میں قائدِ اعظم مان لیں۔ جو شخص اقبال سے محبت رکھتا ہے وہ پاکستان سے بُغض نہیں رکھ سکتا اور جو پاکستان سے محبت رکھتا ہے وہ اقبال کو محبوب تر رکھتا ہے ۔ ہمارے دوست جناب غلام صابر کی پاکستان سے محبت عشق کا درجہ رکھتی ہے ۔ انہوں نے تحریک پاکستان کو پروان چڑھتے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا۔ ۱۴؍ اگست کے دن وہ ٹونک کی ریاست میں مرحوم اختر شیرانی کے مہمان تھے ۔ ٹونک محفوظ تھا مگر ہر طر ف مسلمانوں کا قتلِ عام ان کے لیے بہت تلخ تجربہ ہے جو ان کے شعور پر مرتسم ہے۔ ٹونک سے دلی کے راستے مسلمانوں کے لُٹے پٹے قافلوں کے ساتھ آپ جب پاکستان آئے تو سجدۂ شکر بجالائے ۔ جناب غلام صابر کا سفر زندگی بڑا تلخ ہے آپ اپنی تقدیر کے خُود ہی معمار رہے ہیں سیلف میڈ شخصیت ۔ آپ ۱۰ فروری ۱۹۲۵ء کو مراد آباد میںپیدا ہوئے۔ جو یوپی میں مسلمانوں کا گڑھ تھا، جہاں کے امرود بہت مشہور ہیں اور جہاں قرآنِ حکیم کے حفّاظ بہت بڑی تعداد میں ہوا کرتے تھے بلکہ کوئی گھر حافظ قرآن سے خالی نہ تھا۔ آپ کے والد گرامی شیخ علی احمد مرحوم صاحب طرز بزرگ اور چشتیہ صابر یہ خاندان سے وابستہ تھے ۔ ہم عصر بزرگوں میں مقبول اور بلند مقام رکھتے تھے ۔ دوسرے پڑھے لکھے مسلمانوں کی طرح فارسی اور اردو ادب سے گہرا شغف تھا۔ان کی تربیت سے غلام صابر کے اندر ایک خاص دینی ذوق پیدا ہوا۔ غلام صابر شروع سے ہی ادبی ذوق کے مالک تھے ۔ اوائل عمری میں ہی شعر و شاعری میں دلچسپی لیتے تھے۔ اقبال کے مطالعہ کا شوق انہیں بچپن سے تھا ان کے علاوہ جگر مراد آبادی سے وہ بڑے متاثر ہیں۔ اقبال کے کلام کی ہر سو اُن دنوں دھوم مچی ہوئی تھی، لہٰذا کلامِ اقبال اردو اور فارسی کا ذرا گہرائی میں اتر کر مطالعہ کیا۔ کلامِ اقبال خوش الحانی سے گانے کا شوق انہیں اسی زمانے میں ہوا۔ غلام صابر نے ابتدائی تعلیم جو اردو اور فارسی پر مشتمل تھی، ایک عظیم درویش اور بزرگ مولانا مجیب الحق مرحوم سے حاصل کی جو مراد آباد میںہر طبقہ خیال کے لوگوں کے نزدیک قابل احترام تھے۔ وہ ایک لائق استاد تھے علم و ادب کا ذوق ان کی ہی عطا ہے۔ آخری عمر میں گوشہ نشین ہوگئے تھے ۔ غلام صابر صاحب کے والد گرامی سے ایک خصوصی تعلق خاطر تھا لہٰذا پیار کا ایک سلسلہ قائم تھا۔ اردو اور فارسی کے علاوہ انگریزی بھی صابر صاحب کو انہوں نے ہی پڑھائی۔ بارہ سال کی عمر میں آپ ہیویٹ مسلم ہائی سکول مراد آباد میں ساتویں جماعت میں داخل ہوئے ۔ ۱۹۴۰ء میں الٰہ آباد یونیورسٹی سے میٹرک پاس کیا۔ میٹرک کے بعد میری طرح انہیں بھی مالی مشکلات کے باعث تعلیم کا سلسلہ ترک کرنا پڑا مگر شوق کے راستے کس نے روکے ہیں۔ دیواریں چڑھتے سورج کی کرنیں کب روک سکتی ہیں۔ ایک طویل وقفے کے بعد ۱۹۵۲ء میں آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کیا ۔ یہ دس بارہ سال کی ساری زندگی ایک المناک داستان ہے جس کا بیان یہاں بے محل ہوگا۔ آپ نے اپنے کیرئیر کا آغاز قومی ائیر لائن پی ۔آئی ۔اے سے کیا ۔ اپنی عمر عزیز کا زیادہ عرصہ آپ نے لاہور میں گزارا ۔ دسمبر ۱۹۷۶ء میں آپ کو راولپنڈی سے کوپن ہیگن ڈنمارک ٹرانسفر کر دیا گیا اور آپ ۱۹۸۰ء تک وہیں رہے۔ پھر آپ نے پی ۔آئی ۔ اے سے قبل از وقت ریٹائر منٹ لے لی اور ڈنمارک کی ایک ائیر لائن میں ملازمت اختیار کر لی ۔ آپ نے ۱۸ سال ڈنمارک میں قیام کا عرصہ ہوائی سروس کی نذر کر دیا اور ۱۹۹۲ ء کو ڈنمارک میںائیر لائن کی سروس سے بھی سبکدوش ہوگئے اور وہیں مستقل رہائش اختیار کر لی اور مطالعہ کی طرف دوبارہ رجوع کیا۔ آپ نے اقبال کی فکر کے تقاضے پورے کرنے کے لیے فلسفے کا مطالعہ شروع کیا۔ میری فلسفے پر کتب فلسفہ کیا ہے؟ اور زمان و مکاں کا مطالعہ ان کے سمند شوق کو ایڑ لگانے کا باعث بنا چنانچہ انہوں نے فلسفے کی کتب جمع کرنے اور انہیں پڑھنے کا سلسلہ شروع کیا ۔ جس کے نتیجے میں انہیں احساس ہوا کہ یورپ کی فضائوں میں پروان چڑھنے والی پاکستانی نسل کو بالخصوص اور جنوبی ایشیاء کے دیگر ممالک کے انسانوں کو بالعموم اقبال کی تعلیمات سے آگاہ کیا جائے، آسان ، سلیس اور سادہ زبان میں۔ کیونکہ وہ دقیق مفاہیم اور گنجلک مسائل کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔ انہیں سادہ اور عام فہم زبان میں ہی فکرِ اقبال سے روشناس کرایا جاسکتا ہے۔ اس خیال کے آتے ہی جناب غلام صابر صاحب نے اپنی خوش الحانی کا جادو جگا نا شروع کر دیا اور ڈنمارک (سکینڈی نیویا) کی ہر محفل میں اقبال کا اردو اور فارسی کلام پڑھنا شروع کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ اقبال کی تعلیمات کی طرف کھچے چلے آنے لگے، اور غلام صابر صاحب سے مطالبہ کرنے لگے کہ وہ انہیں اقبال کی ان نظموں اور غزلوں کے مطالب سے آگاہ کریں۔ چنانچہ انہوں نے ڈنمارک‘ سویڈن اور ناروے کے اخبارات ماہنامہ شاہین کوپن ہیگن، پندرہ روزہ وقارکوپن ہیگن منزل سویڈن میں مقالات لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان مقالات کی تحریر سے انہوں نے نہ صرف اپنی علمی پیاس بجھانے کا موقع فراہم کیا بلکہ فکرِ اقبال کی روشنی میں مغربی مفکرین اور فلاسفہ کا مطالعہ کرکے اقبال سے گہری آشنائی پیدا کی۔ انہوں نے ڈنمارک میں اخبارات کے ذریعے افکارِ اقبال کی تشہیر ‘ خصوصاً بیرون ملک بسنے والے اپنی قوم کے نوجوانوں میں عقابی روح بیدار کرنے کا عزم کیا اور اب بھی اپنی بساط کے مطابق انتھک کام کر رہے ہیں۔ ڈنمارک کے پڑھے لکھے طبقے نے ان کی بہت حوصلہ افزائی کی ہے۔ اقبال سے ان کا عشق اس قدر ہے کہ جب بھی اقبال کے اشعار انہیں یاد آتے ہیں تو ان کے دل کے تار چھڑ جاتے ہیں اور انہیں گُنگُنانے لگتے ہیں۔ اگر کبھی تنہا ہوتے ہیں تو ایک ایک شعر اور مصرعے کو سینکڑوں مرتبہ اور گھنٹوں دہراتے رہتے ہیں، کبھی سرور و سرمستی میں ڈوب جاتے ہیں او رکبھی یادِ رفتگاں میں کھو جاتے ہیں اور آنکھوں سے موتیوں کی جھڑی شروع ہو جاتی ہے ۔ دوستوں کی محفل ہو تو کلام اقبال سے خود بھی تڑپتے ہیں اور اوروں کو بھی تڑپاتے ہیں ۔ اقبال کی یہ کتنی خوش بختی ہے کہ انہیں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے چاہنے اور پیار کرنے والے بے شمار لوگ دنیا بھر میں موجود ہیں، جوان کے پیغام کو سمجھنے اس کی تشریح و تعبیر کرنے اور اپنے لیے زندگی کرنے کا درس اور روشنی لینے کے لیے رجوع کرتے ہیں۔ اقبال نے درست ہی کہا تھا کہ وہ اپنی کشتِ ویران سے ناامید نہیں، بس ایک نم کی ضرورت ہے ورنہ امّتِ مُسلِمہ کی یہ مٹی بڑی زرخیز ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب، افغانستان میں مجاہدین کا روس کو پارہ پارہ کر دینا ، مجاہدین کشمیر کا بھارتی استبداد سے ٹکرانا، عسکریت کے بل پر سوشلزم کا ڈھونگ رچانے والے روس کا تاش کے پتوں کی طرح بکھر جانا، اور وسط ایشیا میں اسلامی ریاستوں کا دوبارہ ظہور‘ فکر اقبال کا ہی کرشمہ ہیں اور سب سے بڑھ کر جنوبی ایشیا میں ایک آزاد مسلم مملکت پاکستان کا وجود جس سے یہ سارے برگ وبار پھوٹے ہیں، اقبال کے ہی نالہ نیم شبی کا اعجاز ہے۔ اقبال کی ٹھوکر سے ہی دیوارِ برلن گری اور ہنگری، پولینڈ، چیکو سلاواکیہ، رومانیہ اور بلغاریہ اشتراکی استعماریت سے آزاد ہوئے ۔ اس وقت پوری دنیا میں احیائے اسلام کی جو تحریک برپا ہے، جسے مغرب بنیاد پرستی کہہ کر کچل دینا چاہتا ہے، اقبال کے ہی نغمۂ جاوید سے متحرک ہوئی ہے۔ تحریکِ اسلامی کے لیے اقبال کا کلام منشور کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ایران کے ممتاز شاعر ملک الشعراء بہار نے کوئی غلط نہیں کہا تھا کہ : قرنِ حاضر خاصۂ اقبال گشت یعنی موجودہ زمانہ اقبال کا ہے۔ شاعری ‘ فکر ‘ فلسفے اور اسلامی فقہ و سماجیات کی تدوین و تشریح میں فکرِ اقبال عصر حاضر میں کلیدی درجہ رکھتا ہے اور اسی سے دنیا میں اسلامی انقلاب رستخیز ہوگا اور غلام صابر صاحب جیسے عاشقِ اقبال اس سحر کی بنیاد ہوں گے، کیونکہ ان کے دم سے ہی فکرِ اقبال کا سلسلہ جاری و ساری ہے ۔ ڈاکٹر وحید عشرت عرضِ مصنف کیوں چمن میں بے صدا مثل رمِ شبنم ہے تو لب کُشا ہو جا ، سردوِ بربطِ عالم ہے تو اقبال ؒ حکیم ا لاُمت اقبال کا یہی شعر ہے جس نے مُرغِ چمن بن کر مجھے نغموں پر اکسایا ۔ فلسفۂ مغرب کو خشک اور بے رنگ و بوپا کر جب میں نے اقبال کی آنکھوں سے کائنات کو دیکھا‘ تو خالقِ کائنات کی عظمت اور بزرگی نگاہوں میں نور بن کر چمکنے لگی۔ کائنات کی رنگا رنگی اور اس کی غایت اور مقصدیت میری روح کو مسرور کرنے لگی اور میرا دل پکار اٹھا۔ سینہ ہے تیرا امیں اُس کے پیامِ ناز کا جو نظامِ دہر میں پیدا بھی ہے ، پنہاں بھی ہے اپنے دل کو ٹٹولا تو ایک دبی چنگاری پائی اور خواہش پیدا ہوئی کہ یہ چنگاری بھڑک اٹھے، اور اتنی روشن ہو جائے کہ ملّتِ اسلامیہ کے ہر نوجوان کے دل میں علم اور محبت کی شمع جلا دے ۔ اس خواہش نے جب اظہار کے لیے راستے تراشے تو قلم کو جنبش ہونے لگی اور میں نے لکھنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ چنانچہ ماہنامہ شاہین کوپن ہیگن میں راقم الحروف کا سلسلہ مضامین میری اسی اُمنگ کا آئینہ دار تھا۔ ان مضامین کو اب کتابی شکل دے کر یورپ میں نوجوانوں کے لیے افکارِ اقبال کو روشناس کرنے کی غرض سے پیش کیا جارہا ہے ۔ اس مجموعہ میں اقبالیات سے متعلقہ وہ مضامین بھی شامل کر دیئے گئے ہیں جو ماہنامہ شاہین کے علاوہ کوپن ہیگن سے شائع ہونے والے ہفت روزہ وقار اور سویڈن کے جریدے منزل میں شائع ہوئے ہیں ۔ جن حضرات نے بیرون ملک کلامِ اقبال کے حوالے سے راقم الحروف کی پذیرائی اور ہمّت افزائی کی ہے میں ان تمام حضرات کا تہہ دل سے ممنون ہوں۔ ان میں سے چند دوستوں کے نام یہ ہیں : محمد آصف خواجہ صاحب مدیر شاہین کوپن ہیگن ڈنمارک ‘ ذوالفقار حسین صاحب مدیر پندرہ روزہ وقار کوپن ہیگن ۔ ڈنمارک ‘ جمیل احسن صاحب مدیر منزل سویڈن ‘ ترغیب بلند نقوی صاحب صدر بزم ادب کو پن ہیگن ڈنمارک، بزم فکر نو، بزم ادب، ادارہ شاہین کے جملہ احباب اور ڈنمارک میں رہنے والے دیگر شیدایان اقبال ۔ کوتاہی ہوگی اگر پاکستان میں رہائش پذیر احباب کا تذکرہ نہ کروں جو پاکستان میں اقبالیات کے فروغ و نشرو اشاعت میں رات دن کوشاں ہیں ۔ جن صاحبان نے اس راہ میں میری رہنمائی فرمائی ہے اور جن مقتدر ہستیوں سے میں نے اکتساب فیض کیا ہے ان میں سر فہرست پروفیسر مرزا محمد منور صاحب سابق ناظم اقبال اکادمی ‘ لاہور اور ڈاکٹر وحید عشرت صاحب نائب ناظم، اقبال اکادمی، لاہور ہیں۔ ان دونوں حضرات کے اسماء گرامی محتاج و تعارف نہیں ہیں۔ البتہ میں اتنا ضرور کہوں گا کہ اقبالیات سے میری دلچسپی نے مجھے ڈاکٹر وحید عشرت تک پہنچنے کا موقع فراہم کیا اور ان کے توسط سے ہی مجھے محترم پروفیسر مرزا محمد منور کی خدمت میں باریابی نصیب ہوئی ۔ ان صاحبان کے چمن زار ادب سے مجھے فیض یاب ہونے کا شرف حاصل ہے۔ پروفیسر مرزا محمد منور سے میں کہتا ہوں کہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہتا ہوں مجھے اپنا مرید بنالیں مگر وہ راضی نہیں ہوتے۔ جہاں تک ڈاکٹر وحید عشرت کا تعلق ہے میں ان کو فلسفے میں اپنا استاد سمجھتا ہوں کیونکہ میں نے فلسفے کی ابجد ان سے ہی سیکھی ۔ انہوں نے میرے تجسّس اور علم کی لگن کا بروقت اندازہ لگایا، اور صحیح سمت میں میری رہنمائی فرمائی ۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر وحید عشرت نے اپنی تصانیف اور مقالات کے ذریعے میرے لیے مشرقی اور مغربی مفکرین و ماہرین اقبالیات کی کتابوں کے مطالعہ کا ذریعہ فراہم کیا۔ ان سے ہی مجھے اقبال کو سمجھنے کا شعور ملا ۔ مجھ میں اور ڈاکٹر وحید عشرت میں جو قدر مشترک ہے وہ اقبال سے محبت ہے، اور دوسچے عاشق آپس میں رقیب نہیں ہوتے ‘ بلکہ رفیق ہوتے ہیں ۔ مجھے ان مقالات میں کوئی دعویٰ علم نہیں، میری کوشش کا مقصد سلیس اور عام فہم زبان میں اقبال کا پیغام عام کرنا ہے۔ یہ میری زندگی کا اہم مقصد ہے اور دوستوں کا تعاون شامل حال رہا تو یہ سلسلہ تازیست جاری رہے گا۔ اور اس کا بھی مقصد اقبال کے الفاظ میں صرف اس قدر ہے کہ........ سوئے قطار می کشم ناقۂ بے زمام را میں ۱۰ فروری ۱۹۲۵ء کو بمقام مراد آباد‘ یوپی، انڈیا میں پیدا ہوا۔ میرے والد صاحب مرحوم شیخ علی احمد صاحبِ طرز بزرگ، خاندان چشتیہ صابریہ سے وابستہ تھے۔ اپنے ہمعصر بزرگوں میں مخصوص مقام رکھتے تھے ۔ اردو اور فارسی ادب کے دلدادہ تھے ۔ میں اوائل عمر میں جگر مراد آبادی سے مثاثر ہوا۔ چند برس ہی گذرے تھے کہ برصغیر کے سیاسی حالات مسلمانوں کے حق میں دگرگوں ہوتے نظر آئے ۔ شعر و شاعری جو اسکول کے زمانے ہی سے شروع کر دی تھی اس کو خیر باد کہہ کر کلامِ اقبال کا مطالعہ شروع کیا، جس کے ذریعے نگاہوں کے سامنے ایک جہانِ نو آباد پایا۔ برصغیر کے حالات مسلمانوں کے لیے خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے ۔ آخر کار ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کی رات آئی ۔ اس رات میں ریاست ٹونک میں مرحو م اختر شیرانی کا مہمان تھا۔ صبح ہوئی تو قرب و جوار میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہو چکا تھا ۔ ریاست ٹونک البتہ محفوظ تھی ۔ کئی دن گزرنے کے بعد جب حالات کے پرسکون ہونے کی کوئی اُمید نظر نہ آئی تو واپسی کا سفر اختیار کیا ۔ ٹونک سے دلی تک اس سفر میں جو کچھ دیکھا او رجو گزری وہ ایک الگ دلدوز داستان ہے۔ بہرحال کسی نہ کسی طرح پاکستان کی سر زمین پر پہنچ کر سجدۂ شکر ادا کیا ۔ میں نے ابتدائی تعلیم اردو اور فارسی میں مراد آباد کے ایک عظیم درویش اور بزرگ مولانا مجیب الحق سے حاصل کی۔ موصوف مراد آباد کے علمی اور ادبی حلقوں میں مسلمانوں اور ہندو دونوں میں یکساں لائقِ تکریم سمجھے جاتے تھے۔ وہ ایک قابل استاد تھے ۔ میرے بچپن کا زمانہ ان کی عمر کا آخری دور تھا جبکہ وہ تقریباً گوشہ نشین ہوچکے تھے ، آپ میرے والد صاحب کے رفیق دوست تھے اور اسی ناطے مجھے بہت پیار کرتے تھے۔ انہوں نے مجھے فارسی کے علاوہ انگریزی زبان سے بھی روشناس کرایا اور اس قابل کر دیا کہ بارہ سال کی عمر میں مجھے مراد آباد کے ہیویٹ مسلم ہائی سکول میں ساتویں کلاس میں بہ آسانی داخلہ مل گیا، جہاں سے میں نے الٰہ آباد یونی ورسٹی بورڈ سے ۱۹۴۰ء میں میٹرک پاس کیا۔ بوجوہ عارضی طور پر باقاعدہ تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنا پڑا لیکن علم حاصل کرنے کی لگن ختم نہ ہوئی ۔ تقسیم ہند سے قبل اور فوراً بعد طوفان انگیز دور سے گزرنا پڑا لیکن مطالعے کا سلسلہ جاری رہا۔ بالآخر پنجاب یونیورسٹی سے ۱۹۵۲ء میں بی اے کی سند حاصل کی ۔ پاکستان میں آکر میں شروع دن سے ہی قومی ائیر لائن سے منسلک ہوگیا۔ زیادہ حصہ بلکہ عمر کا بیشتر حصہ لاہور اور راولپنڈی میں میں گزرا۔دسمبر ۱۹۷۶ء میں راولپنڈی سے کوپن ہیگن ٹرانسفر ہوا ۔ یہ عارضی پوسٹنگ تھی ۔ جہاں صرف تین سال رہنا تھا لیکن مدت میں کچھ توسیع ہوگئی اور ۱۹۸۰ء کے اختتام تک یہاں رہنا پڑا ‘ دسمبر ۱۹۸۰ء میں پی آئی اے سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کر ڈنمارک میں مستقل رہائش اختیار کر لی اور یہاں ایک دوسری ائیر لائن میں شامل ہوگیا۔ اپنی اس طویل ائیر لائن سروس کے آخری سولہ سال ڈنمارک میں بحیثیت سیلز مینجر گزارے ۔ اور ڈنمارک کے قانون کے مطابق ۱۹۹۲ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوگیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے میری مدد کی اور مجھے اپنی علمی پیاس بجھانے کا موقع فراہم کیا۔ آج کل میں اقبال کے فلسفے کی روشنی میں مغربی مفکرین اور فلسفیوں کا مطالعہ کر رہا ہوں اور ساتھ ہی ساتھ ڈنمارک میں اخبارات کے ذریعے افکارِ اقبال کی تشہیر ‘ خصوصاً بیرون ملک بسنے والے اپنی قوم کے نوجوانوں میں عقابی روح بیدار کرنے کا عزم لیے ہوئے، اپنی بساط کے مطابق انتھک کام کرنے کی سعی کر رہا ہوں۔ اللہ کا شکر ہے کہ یہاں کے پڑھے لکھے طبقے نے میری بڑی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اقبال کے اشعار یاد آتے ہیںتو دل کے تار چھیڑ جاتے ہیںاور میں گنگنانے لگتا ہوں۔ اگر تنہا ہوتا ہوں تو کبھی کبھی ایک شعر کو سینکڑوں مرتبہ اور گھنٹوں بار بار پڑھتا رہتا ہوں ‘ کبھی سرور و مستی میں ڈوب جاتا ہوں اور کبھی یادرفتگان کا جھونکا آتا ہے تو آنکھوں سے موتی ٹپکنے لگتے ہیں ۔ اگر دوستوں کی محفل ہے تو کلامِ اقبال سے خود بھی لطف اندوز ہوتا ہوں اور احباب کو بھی تڑپا تڑپا دیتا ہوں۔ میری یہی تڑپ میرے ان مضامین میں نمایاں ہے جو اس کتاب کی صورت اپنے قارئین کی نذر کر رہا ہوں۔ اقبالیات کے بازار میں یہ افکار سوت کی اٹی ہی سہی لیکن یہ بھی کیا کم ہے کہ میں بھی فکرِ اقبال کی تعبیر و تشریح کرنے والے حضرت علامہ کے عشاق میں شامل ہوں ۔ یہی میرا سرمایۂ حیات اور یہی میری کمائی ہے۔ غلام صابر تشریحات طلوعِ اسلام اقبال کی نظم ’طلوعِ اسلام‘ ان کی طویل اور بے مثال نظموں میں سے ایک ہے جن کی طوالت قاری کے ذہن پر ذرّہ برابر بار نہیں محسوس ہوتی ۔ زیرِ عنوان نظم کا انداز والہانہ اور مضامین پیغمبرانہ ہیں، نظم کا ہر شعر اپنے اندر ایک مکمل مضمون سمیٹے ہوئے ہے۔ انگریز کی حکمرانی کے دور میں اللہ تعالیٰ نے ایک محکوم اور غلام قوم کو ایسا جیالا اور بیدار مغز سپوت عطا فرمایا، جس پر امت مسلمہ جتنا بھی فخر کرے کم ہے۔ اس نے سوئی ہوئی قوم کو جھنجھوڑ ڈالا اور اس کو ایک منظم قافلہ کی شکل دی، پھر خود اس قافلہ کا حدی خوان بن کر افقِ مشرق پر نمودار ہوا۔ ستارے جب ماند پڑنا شروع ہوتے ہیں تو صبح کی آمد ہوتی ہے۔ اقبال اس نظم میں صبح نو کی نوید اس طرح دیتے ہیں ۔ دلیلِ صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی افق سے آفتاب ابھرا گیا دورِ گراں خوابی عروقِ مُردۂ مشرق میں خونِ زندگی دوڑا سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی اقبال کہتے ہیں کہ بیداری کی صبح کا سورج طلوع ہوچکا ہے اور اقوامِ مشرق میں زندگی پھر عود کر آئی ہے ۔ یہ وہ راز ہے جس کو فلسفہ اور حکمت کے دنیاوی راز داں سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ اس فلسفے کو اقبال اس طرح سمجھاتے ہیں ۔ مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی عطا مومن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے شکوہِ ترکمانی ذہنِ ہندی نُطقِ اعرابی کہتے ہیں کہ جس طرح سیپ کو طوفان سطحِ آب پر لا کر قطرۂ نیساں سے فیض یاب ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے، جس کے نتیجے میں موتی وجود میں آتا ہے اسی طرح طوفانِ مغرب نے مشرقیوں کو نیند سے بیدار کیا ہے اور یوں بارگاہ حق سے مومن کو اپنی کھوئی ہوئی عظمت و شوکت پھر سے عطا ہونے والی ہے، اس کا کھویا ہوا سرمایۂ عرفان، بہادری، علم، حکمت، فصاحت اور بلاغت جیسے اوصاف اللہ تعالیٰ پھر مسلم قوم کو عطا کرے گا۔ اثر کچھ خواب کا غنچوں میں باقی ہے تو اے بلبل نوارا تلخ تر می زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی تڑپ صحنِ چمن میں آشیاں میں شاخساروں میں جدا پارے سے ہوسکتی نہیں تقدیرِ سیمابی ارشاد ہوتا ہے کہ اے بلبل اگرچہ چمن میں اب تک غنودگی چھائی ہوئی ہے، کلیاں ابھی بھی ادھ کھلی ہیں اور گلشن حیات میں اگر ابھی تک ترے نغمے کم اثر دکھائی دیتے ہیں تو اپنی آواز میں تلخی اور نشتر جیسی چُبھن پیدا کر تاکہ اہلِ چمن کو نہ صرف بیدار کر دے بلکہ ان کو بے چین کر دے اور تڑپا کر رکھ دے۔ تو خود اپنے آشیانے میں بے کل ہو جا اور صحنِ چمن میں ہر طرف تڑپتا دکھائی دے تاکہ چمن کا بوٹا بوٹا اور ڈالی ڈالی لرزنے لگے اور ہر طرف اہل چمن تڑپتے نظر آئیں ۔ اگر پارے سے بے قراری جدا نہیں ہوسکتی تو قلبِ مومن سے بھی ناشکیبائی الگ نہیں ہوسکتی ۔ یہ کیسے ممکن ہے.....کہ وہ چشم پاک بیں کیوں زینت ِ برگستواں دیکھے نظر آتی ہے جس کو مردِ غازی کی جگر تابی مردِ مومن کی نگۂ آرزو زرہ بکتر اور فوجی لباس کی زیب و زینت سے بے نیاز ہے‘ اس کی نظر اگر کہیں رکتی ہے تو غازی کے جگر سے نکلی ہوئی آتشِ شوق کی ضَو سے ٹکرا کر، جس سے وہ نگۂ پاکباز نُور کی روشنی حاصل کرتی ہے۔ اسی لیے اقبال زور دے کر کہتے ہیں ۔ ضمیرِ لالہ میں روشن چراغِ آرزو کردے چمن کے ذرّے ذرّے کو شہیدِ جُستجو کر دے نظم کے دوسرے بند میں اقبال اپنے مخصوص انداز میں پوری امتِ مسلمہ کو اچھے مستقبل کی خوشخبری دیتے ہیں، وہ آنے والے دور کی تصویر اس طرح پیش کرتے ہیں ۔ سرشکِ چشم مُسلم میں ہے نیساںکا اثر پیدا خلیل ؑ اللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گُہر پیدا کتابِ ملّتِ بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا اقبال کہتے ہیں کہ میں وہ آنسو دیکھ رہا ہوں جو چشمِ مُسلم میں ڈبڈبا رہا ہے کہ وہ گر کر ابرِنیساں کے قطرے کی طرح موتی بن جائے گا۔ ملّتِ ابراہیمی جو اس وقت بکھری ہوئی ہے ایک بار پھر اکٹھی ہو کر یکجان ہو جائے گی ۔ شاخِ ہاشمی جو خُشک ہو چکی تھی اس میں اب کونپلیں پھوٹتی دکھائی دے رہی ہیں، جو پیش خیمہ ہے اس حقیقت کا کہ یہ ٹہنی ایک مرتبہ پھر ہرے بھرے پتے اور میوئوں سے لد جائے گی ۔ مایوسی اقبال کے پاس سے ہو کر نہیں گزری ۔ خلافتِ عثمانیہ کی جو تباہی مسلم دشمن طاقتوں کی سازشوں کے سبب ہوئی اس کے زخم ابھی ہرے تھے، مگر اس مایوس کُن سانحہ کو اقبال کس طرح مُثبت انداز میں پیش کرتے ہیں ۔ فرماتے ہیں : اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا اس شعر میں اقبال نے ایک قانونِ قدرت جامع الفاظ میں واضح کیا ہے اور مثال دیتے ہیں کہ ہر صبح جو ہماری نظروں کے سامنے نمودار ہوتی ہے وہ لاکھوں ستاروں کے فنا ہونے کے بعد ظہور میں آتی ہے۔ اس خیال کو اقبال نے اپنی ایک اور نظم ’’ستارہ ‘‘ میں اس طرح بیان کیا ہے۔ اجل ہے لاکھوں ستاروں کی اِک ولادتِ مہر فنا کی نیند مئے زندگی کی مستی ہے زیرِ عنوان نظم کے سلسلے کا اگلا شعر ہے : جہاں بانی سے ہے دشوار تر کارِ جہاں بینی جگر خوں ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا فرماتے ہیں اس جہان میں حکمرانی کرنا اتنا مشکل کام نہیں جتنا دنیا کو سمجھنا ہے ۔ دوسر ے الفاظ میں حکومت مشکل کام نہیں، حِکمت مشکل ہے، حِکمت کو دل کی نظر چاہیے اور دل میں بینائی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب جگر خون خون ہو جائے ۔ اس کے بعد نظم میں اقبال کا مشہور و معروف وہ شعر آتا ہے جو موجودہ پوری صدی میں زبان زد خاص و عام رہا ہے: ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا کتنا گہرا تخیل ہے جو ایک شعر میں کس قدر سادہ الفاظ میں ادا کیا گیا ہے، یہ کمال، اللہ تعالیٰ نے صرف اقبال کو ہی عطا کیا ہے۔ اسی فلسفیانہ نکتہ کو انتہائی خوبصورت انداز میں علامہ نے اپنے ایک فارسی شعر میںپیش کیا ہے، ملاحظہ ہو: عمر ہا در کعبۂ و بت خانہ می نالد حیات تا زبزمِ عشق یک دانائے راز آید بروں اس شعر میںاقبال اپنے تخیل کی وضاحت کرتے ہیں کہ زندگی کو دربدر بھٹکتے اور دنیا کے عبادت کدوں میں روتے روتے صدیاں گزر جاتی ہیں تب کہیں جا کر فطرت کا ایک راز داں پیدا ہوتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتاتے ہیںکہ یہ مردِ دانا پیدا کہاں ہوتا ہے، فرماتے ہیں یہ بزمِ عشق ہے جہاں یہ پروانہ ملتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ دیوانہ ہے ‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ دانائے راز ہوتا ہے، وہ تو زندگی کو بھی زندگی سے آشنا کر جاتا ہے‘ وہ فنا کو بقا سے ہمکنار کر دیتا ہے۔ اس نظم میں اشعار کا جو سلسلہ اب شروع ہوتا ہے وہ ایک تلاطم ہے جہاں نغمے موج در موج اٹھ کر فضا کو مخمور لیے دیتے ہیں اور اہلِ دل کے جنون کو دو آتشہ کر دیتے ہیں ۔ ارشاد ہوتا ہے : نوا پیرا ہو اے بُلبل کہ ہو تیرے ترنم سے کبوتر کے تنِ نازک میں شاھیں کا جگر پیدا ترے سینے میں ہے پُوشیدہ رازِ زندگی کہہ دے مُسلماں سے حدیثِ سوز و سازِ زندگی کہہ دے اقبال نے اپنی شہرۂ آفاق تخلیق ’’شکوہ‘‘ میں کہا ہے ۔ ایک بُلبل ہے کہ ہے مَحوِ ترنم اب تک اس کے سینے میںہے نغموں کا تلاطُم اب تک جس طرح مندرجہ بالا شعر میں اقبال اپنے آپ سے مخاطب ہیں، اسی طرح زیر عنوان نظم میں ’نوا پیرا ہو اے بُلبُل‘ سے مراد خود ان کی ذات سے خطاب ہے۔ ہمارا یہ خوش الحان بُلبُل (اقبال) نغمہ سرا ہوتا ہے، مخاطب بھی وہ خود ہے کہ اے بُلبُل تو اپنے ترنم سے کبوتر کے نازک جسم میں شاہین کا جگر پیدا کر دے ۔ اقبال ایسے ہی اپنے ایک فارسی شعر میں خدا کے حضور اس کے جلال کی اس طرح قسم کھاتے ہیں کہ سننے والے کا دل کانپ اٹھتا ہے ۔ شعر ہے: بجلالِ تو کہ در دِل دگر آرزو نَدارَم بجز ایں دعا کہ بخشی بہ کبوتراں عقابی! ترجمہ ....’’اے پروردگار عالم مجھے تیرے جلال کی قسم ہے کہ میرے دل میں قطعاً کوئی اور آرزو نہیںہے، سوائے ایک تمنا کے کہ اے باری تعالیٰ تو ان کبوتروں کو عقابی شان عطا کر دے۔‘‘ کچھ ایسے ہی جذبات کا عالم ہے کہ اقبال تمہید کے طور پر پہلے خود اپنے آپ سے مخاطب ہوتے ہیں کہ: ترے سینے میں ہے پوشیدہ رازِ زندگی کہہ دے مسلماں سے حدیثِ سوزو ساز زندگی کہہ دے اور پھر روئے سخن پورے زور شور کے ساتھ مسلم قوم کی طرف ہوتا ہے ‘ فرماتے ہیں ۔ خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تو زباں تو ہے یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوبِ گماں تو ہے اقبال مُسلم قوم سے مخاطب ہیں اور تلقین کر رہے ہیں کہ تیرے مسائل کا حل یقینِ مُحکم میں پوشیدہ ہے۔ تیرا عمل اسی وقت بار آور ثابت ہوگا جب تو تذبذب اور بے یقینی کے بھنور سے نکل کر اپنے اندر ایمان اور یقین کی قوت پیدا کرے، پھر تیرا ہاتھ اللہ کا ہاتھ ہوگا اور تیری زبان ترجمان قدرت ہو جائے گی اور جب تجھے یہ مرتبہ باری تعالیٰ نے عطا کر دیا تب تیری منزل اس نیلے آسمان اور ستاروں سے کہیں آگے ہوگی۔بقول اقبال : پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مُسلماں کی ستارے جس کی گرد راہ ہوں، وہ کارواں تو ہے یہ بات معراجِ مصطفی ؐ کے بعد کسی دلیل کی محتاج نہیں کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں انسان کی رسائی کائنات معلوم سے آگے کہاں تک ہے یہ تو بتانا ممکن نہیں لیکن اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ایسے مقامات بھی اس کی زد میں ہیں جہاں سے اگر ایک قدم آگے جبرئیل بھی جائیں تو ان کے پر جلنے لگتے ہیں، وہ مقام بھی ہے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے جسدِ خاکی کے ساتھ بقیدِ حیات ہیں اور وہ جگہ بھی ہے جہاں شُہدا قیامت تک جاگزیں رہیں گے۔ جن کے متعلق قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ انہیں مردہ مت کہو، وہ زندہ ہیں، وہ کھاتے ہیں اور پیتے ہیں ۔ انسان کی رسائی، ستاروں سے آگے ثابت کرنے کے بعد اقبال اس کا مقام اس دنیائے فانی میں بھی اس طرح واضح کرتے ہیں : مکاں فانی ، مکیں آنی ، ازل تیرا ، ابد تیرا خدا کا آخری پیغام ہے تو ، جاوداں تو ہے حِنا بندِ عروسِ لالہ ہے خونِ جگر تیرا تری نسبت براہیمی ہے ، معمارِ جہاں تو ہے فرماتے ہیں یہ دنیا فانی ہے اور اس کی ہر چیز فنا ہونے والی ہے، لیکن تو روز ازل میں پیدا کیا گیا ہے اور تیرا غلغلہ ابد تک باقی رہے گا ۔ تو ہی روزِ میثاق کا ہیرو تھا اور روزِ جزا تجھے باری تعالیٰ کی طرف سے ایوارڈ دیا جائے گا‘ تو انعامات سے نوازا جائے گا‘ تو ہی اس جہانِ رنگ و بو کی رونق ہے، تو نے ہی یہاں زندگی کا درس دیا ہے‘ تو زندۂ جاوید ہے اور تیری ذات اس دنیا میں خدائے بزرگ و برتر کا آخری پیغام ہے، تو گُلِ لالہ کی رنگت ہے، جس کی دلکشی تیرے خونِ جگر کا عطیہ ہے کہ تو ملّتِ ابراہیمی کا چشم و چراغ ہے۔اس کے بعد اقبال کہتے ہیں: تری فطرت امیں ہے ممکناتِ زندگانی کی جہاں کے جوہرِ مضمر کا گویا امتحاں تو ہے اس شعر میں ممکناتِ زندگانی کی اصطلاح اپنے اندر قُدرت کے پوشیدہ رازوں کا خزانہ سمیٹے ہوئے ہے، جس کا امین فطرتِ مُسلمہ کو بتایا گیا ہے۔ حقیقتاً اس دنیا کے بے شمار خزانے باری تعالیٰ نے ہمارے احاطۂ تسخیر میں رکھے ہیں۔ شاہ بھیک علیہ الرحمتہ کا شمار ہندوستان کے ممتاز صوفی شاعروں میں ہوتا ہے ۔ ہندی زبان میں ان کا ایک شعر اس حقیقت کا ترجمان ہے، فرماتے ہیں : بھیکا ! بھوکا کو نہیں سب کی گٹھری لال گرہ کھول جانت نہیں اس بن بھئے کنگال رسول پاکؐ کی ذات میں انسانیت کی مکمل تصویر ہمارے سامنے ہے ‘ معجزۂ معراج حقیقتاً انسانیت کی معراج ہے ۔ زیرِ نظر نظم کے اگلے شعر میں اقبال اسی طرف اشارہ کرتے ہیں : جہانِ آب و گِل سے عالمِ جاوید کی خاطر نبوّت ساتھ جس کو لے گئی وہ ارمغاں تو ہے انسان کو ایسا بے مثال خراجِ عقیدت آج تک کسی نے پیش نہیں کیا، جیسا کہ اقبال اس شعر میں کہہ گئے کہ اس مٹی اور پانی سے بنی دنیا سے شب ِ معراج حضورِ حق میں جب نبوّت کو شرف باریابی ملا تو وہ اپنے میزبان کے لیے جو خوبصورت تحفہ ساتھ لے گئی تھی ‘ وہ اے انسان تو ہی تو تھا ۔اور پھر فرماتے ہیں: سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا، شجاعت کا لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا یہ تیسرے بند کا آخری شعر ہے جس میں ایک مضمون کو سمیٹا گیا ہے اور ساتھ ہی ایک دوسرے عنوان کی ابتدا کی جاتی ہے ۔ اس شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ تو اپنے اندر اسلام کے بتائے ہوئے اوصاف حمیدہ پیدا کر اور اعلیٰ عِلم و ہنر سے اپنی ذات کو مُتّصِف کر، تاکہ تجھے دنیا کی قیادت سونپی جائے ۔ کیونکہ: یہی مقصودِ فطرت ہے ، یہی رمزِ مسلمانی اُخُوّت کی جہانگیری ، محبت کی فراوانی فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مسلمان کو پیدا کرکے یہ راز بتا دیا ہے کہ اس کی تکوین عین مقصودِ فطرت ہے ۔ انسان اگر مسلمان بن جائے تو یہ محبتوں کا سرچشمہ ہے، ساری دنیا میں انسانی رشتوں کی استواری اور بھائی چارہ اس کے دم سے ایک زمانے میں برپا ہوا، اور یہ اب بھی ممکن ہے۔ رَبِّ ذُوالجلال نے ایسے اوصاف اس کی فطرت میں ودیعت کیے ہیں جن کو بروئے کار لا کر وہ ہر زمانے میں اپنا مقام پیدا کر سکتا ہے۔ لہٰذا اے مسلمان تجھے چاہیے: بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملّت میں گم ہو جا نہ تورانی رہے باقی ، نہ ایرانی ، نہ افغانی آگے چل کر اقبال فرماتے ہیں : گمان آباد ہستی میں یقیں مردِ مُسلماں کا بیاباں کی شبِ تاریک میں قندیلِ رہبانی ارشاد ہوتا ہے کہ یہ دنیا گمان آباد ہے۔ یہاں لوگ تذبذب اور اندیشوں کے شکار ہیں۔ لیکن مرد ِ مومن کا یقین کامل ایک بیابان میں رات کی تاریکیوں کے لیے ایک چراغ کی مانند ہے۔ اسی نے دنیا میں اُخُوّت کی شمعیں جلائیں اور چہار دانگِ عالم میں جہالت کی تاریکیوں کو نیست و نابود کرکے رکھ دیا : مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے وہ کیا تھا ، زورِ حیدرؓ ، فقر بوذرؓ ، صدقِ سلمانیؓ یہ قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی شجاعت، ان کا فقر، ان کا صدق، ان کا یقین محکم، ان کا عدل، ان کی انسان دوستی ہی تھی کہ دنیا میں قیصر و کِسریٰ جیسی بڑی طاقتوں کے محلّات میں ان کے نام سے زلزلہ آجاتا تھا ۔ یہ انسانیت کے علمبردار اور حریّت کے پروانے کس شان سے چلے تھے: ہوئے احرارِ ملّت جادہ پیما کس تجمّل سے تماشائی شگافِ در سے ہیں صدیوں کے زِندانی اس شعر میں اقبال بتا رہے ہیں کہ کاروانِ ملت کس شان سے رواں دواں تھا۔ یوں سمجھئے کہ ایک شخص شان ِ ملکوتی لیے اپنے پورے جاہ و حشم اور کمالِ حُسن کے ساتھ ایک قید خانے کے سامنے سے گزر رہا ہے، اور قیدی سلاخوں کے پیچھے سے حسرت اور تعجب کی تصویر بنے ہوئے اس آزادی کے متوالے کو دیکھ رہے ہیں۔ اس طرح قرون اولیٰ کے سرفروشوں کے کارنامے صفحہ تاریخِ عالم پر ثبت ہیں۔ دنیا کی آنکھ دیکھ رہی ہے لیکن ان کے ذہن تعصّب کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ وہ زندگی کی مثبت قدروں سے محروم ہیں۔ جبکہ: ثباتِ زندگی ایمانِ محکم سے ہے دنیا میں اقبال فرماتے ہیں: جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا تو کر لیتا ہے یہ بال و پرِ رُوحُ الامیں پیدا یہ زیر عنوان نظم کے چوتھے بند کا آخری شعر ہے‘ جس میں بتایاجارہا ہے کہ انسان کے اندر یقین اور ایمان کے اوصاف اجاگر ہوتے ہیں تو یہ پیکر خاکی پرواز میں جبرئیل ؑ کا ہمرکاب ہو جاتا ہے ۔ جیسا کہ اقبال کا انداز ہے ۔ اب اس کا خامۂ فکر اس گتھی کو سلجھانے کی طرف مائل ہوتا ہے کہ : غلامی میں نہ کام آتی ہیںشمشیریں نہ تدبیریں جو ہو ذوقِ یقیں پیدا ، تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں انسان کے اندر بے پناہ قوتیں اور صلاحیتیں موجود ہیں، جن کو بروئے کار لانے کے لیے دل میں ایمان، یقین اور لگن پیدا کرے، پھر اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق غیبی امداد اس کے شاملِ حال ہوگی، اور غلامی کی زنجیریں (خواہ غلامی ذہنی ہو یا مادی) خود بخود کٹتی چلی جائیں گی اور انسان مردِ مُومِن کہلانے کا مستحق ہوگا ۔ جس کی تعریف علامہ اقبال اس طرح کرتے ہیں: کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زورِ بازو کا نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں مومن کی فراست اور اس کے بازو کی قوت کا احاطہ انسان کی عقل نہیں کر سکتی ۔ قلعہ خیبر کا دروازہ جس کو ایک فوج ظفر موج نہ ہلاسکی تھی صرف ایک ا نسان حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے گوشت اور پوست کے ہاتھوں سے اکھاڑ کر پھینک دیا تھا۔ کیا انسانی ذہن اس مومنِ کامل کی قوّتِ بازو کا اندازہ کرسکتا ہے ؟ مردِ مومن کی نظر میں وہ اثر ہوتا ہے کہ اگر ایک چور پر اس کی نظر پڑے تو وہ ولی بن جائے ۔ مُسلم قوم کی تاریخ شاہد ہے کہ ایسے ہی لوگوں نے قوموں کی تقدیریں بدل ڈالی ہیںغرضیکہ : ولائت ، پادشاہی ، علمِ اشیا کی جہانگیری یہ سب کیا ہیں ، فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں اگر دل میں ایمان ہے اور یقین کی دولت میسرہے تو ایسا انسان ولی بھی ہوسکتا ہے، حاکم بھی بن سکتا ہے، فلاسفر، سائنسدان اور موجِد بھی ہوسکتا ہے۔ دنیا کے تمام عُلُوم، فنون، ہنر اور مابعدالطبیعیات و الہٰیات کا درجۂ کمال صرف ایک نکتہ میں پوشیدہ ہے اور وہ ہے انسان کا ایمانِ کامل جو ملّتِ ابراہیمی کا طرۂ امتیاز ہے لیکن اقبال کہتے ہیں : براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے ہوس چُھپ چُھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں تمیزِ بندۂ و آقا فسادِ آدمیّت ہے حذر اے چیرہ دستاں! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں مشکل یہ ہے کہ اس دنیا میں قدم قدم پر ایمان کو متزلزل کرنے والے بُت موجود ہیں۔ جو کبھی نظروں کے سامنے ہوتے ہیں اور کبھی دلوں میں گھر بنائے ہوئے ہوتے ہیں ۔ اقبال بتا تے ہیں کہ اکثر فساد کے پس منظر میں یہی بُت کار فرما ہوتے ہیں ۔ چھوٹے اور بڑے کا فرق فسادِ انسانیت ہے۔ اسلام نے آقا اور غلام کے امتیاز کو سختی کے ساتھ مٹایا ہے۔ جس کی زندہ مثال روحِ نماز ہے، جہاں آقا اور غلام ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں اور جہاں محمود اور ایاز کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ مندرجہ بالا اشعار کے آخری مصرع میں اہل ثروت اور حکمران طبقہ کو خبردار کیا جاتا ہے کہ کمزور پر ظلم نہ کرو اور ان کی حق تلفی نہ کرو، ورنہ یاد رکھو کہ خدا کی پکڑ بڑی سخت ہے اور یہ بھی یاد رکھو کہ : حقیقت ایک ہے ہر شے کی خاکی ہو کہ نوری ہو لہو خورشید کا ٹپکے ، اگر ذرّے کا دل چیریں انسان ہو یا فرشتہ، دنیا کی کوئی شے ہو یا کائنات کا کوئی عنصر، حقیقت سب کی ایک ہے۔ اگر انسان غور کرے تو آسمان کے سورج اور زمین کے ایک ادنیٰ ذرے میں ربط پالے گا۔ اس شعر میں اقبال صوفیا کے ایک مکتبِ فکر کی ترجمانی کر گئے ہیں۔ دنیاوی لحاظ سے اس شعر میں ایٹمی طاقت کی پیشن گوئی موجود ہے۔ یہ شعر اس وقت لکھا گیا تھا جب ذرّے کا دل چیر کر ایٹم کا دھماکہ کرنے کا تصور بھی ہم نہیں کرسکتے تھے ۔ یوں سائنس نے اس شعر کی تصدیق ۲۰ سال بعد کی ۔اس کے بعد اقبال پھر زیر عنوان مضمون کی طرف پلٹتے ہیں : یقیں محکم ، عمل پیہم ، محبت فاتحِ عالم جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں فرماتے ہیں کہ زندگی طالب ہے مسلسل جدوجہد کی ، جس کے بغیر انسان کچھ حاصل نہیں کرسکتا۔ پختہ یقین کے ساتھ جدوجہدِ پیہم کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے۔ یہی ایک کامیاب زندگی کے ہتھیار ہیں۔ البتہ محبت ان ہتھیاروں کو جِلا بخشتی ہے اور آب دیتی ہے۔ حق تو یہ ہے کہ دلوں کی اگر تسخیر ہوسکتی ہے تو صرف اور صرف محبت کے ذریعہ سے۔ لکھتے لکھتے اقبال پر جب وجدانی کیفیت طاری ہوتی ہے تو وہ اکثر اپنے جذبات کے اظہار کے لیے فارسی زبان استعمال کرتے ہیں ۔ چنانچہ اس بند کا آخری شعر اسی رو میں فارسی زبان میں کہہ گئے ہیں … … ملاحظہ ہو: چہ باید مرد را طبعِ بلندے ، مشربِ نابے دلِ گرمے ، نگاہِ پاک بینے ، جانِ بیتابے ترجمہ : ایک انسان کو (مکمل انسان بننے کے لیے ) ضرورت ہے اعلیٰ ظرف اور خالص عقیدے کی ( اس کے سینے میں سوزِ عشق سے ) تپتا ہوا دل ہو‘ اس کی نظر پاک اور روح مُضطرِب اور بے چین ہو ۔ اس شعر میں اقبال ایک سچے مسلمان بلکہ کہنا چاہیے ایک آئیڈیل انسان کے اجزائے ترکیبی بتاگئے ہیں وہ کہتے ہیں، ایک مکمل انسان کے لیے جو اوصاف انتہائی ضروری ہیں وہ یہ ہیں کہ وہ بلند ہمت اور اعلیٰ خیالات کا حامل ہو، اس کا عقیدہ اتنا پختہ اور خالص ہو کہ وہ سوائے اللہ کے کسی کے آگے نہ جھکے اور اللہ کی ذات اور صفات میں کسی کی شرکت اس کے وہم و گمان میں نہ آئے ۔ اس کا دل عشق کی حرارت سے گرم ہو، ایمان ایسا پختہ ہو کہ اس کی نظر ہمیشہ پاک شے کی متلاشی ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے اندر پارے جیسی تڑپ اور بے قراری ہو تاکہ وہ عالمِ رنگ و بُو پر قَناعَت نہ کر پائے۔ اپنی مندرجہ ذیل بالا نظم کے اگلے دو بندوں میں اقبال ایسے ہی انسانوں کی مثالیں دے کر ان کی صفوں میں شامل ہونے کے طریقے بتاتے ہوئے فرماتے ہیں: عقابی شان سے جھپٹے تھے جو ، بے بال و پر نکلے ستارے شام کے خونِ شفق میں ڈوب کر نکلے ہوئے مدفونِ دریا زیرِ دریا تیرنے والے طمانچے موج کے کھاتے تھے جو ، بن کر گُہر، نکلے غبار رہگذر ہیں ، کیمیا پر ناز تھا جن کو جبینیں خاک پر رکھتے تھے جو ، اکسیر گر نکلے قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی شان بیان کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں کہ وہ بے بال پر تھے لیکن شاہینوں کی طرح جھپٹتے تھے۔ وہ تاریکیوں کو منور کرنے والے ایسے ستاروں کی مانند تھے جو شام کے وقت سُرخ شفق میں ڈوب کر نکلتے ہیں اور آسمان کی تاریکیوں میں نُور بکھیر دیتے ہیں۔ دولت کے سمندر میں تیرنے والوں کی مثال ایسی ہے جیسے زیرِ آب پانی میں رہنے والی مچھلیاں اور دوسرے آبی جانور، جو کہ وہیں مر جاتے ہیں اور فنا ہو جاتے ہیں، لیکن صدف کا حال ان سے مختلف ہے۔ وہ طوفانی موجوں کے تھپیڑے اس وقت تک کھاتی ہے جب تک وہ ابرِ نیساں کے قطرے سے اپنی تڑپ کی تسکین نہیں کر لیتی اور پھر موتی اگلتی ہے، وہی موتی جس کے لیے اقبال نے کہا تھا : کی ترک تگ و دو قطرے نے تو آبروئے گوہر بھی ملی آوارگیِ فطرت بھی گئی اور کشمکشِ دریا بھی گئی گویا قطرے کی تڑپ اور صدف کی تڑپ نے مل کر گہر پیدا کیا۔ اسی لیے اقبال خُدا سے یہ دعا کرتے ہیں کہ : تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے دلِ مرتضٰیؓ سوزِ صدیقؓ دے وہ لوگ جو اپنی پیشانیاں خاک پر رکھتے تھے مگر سینوں میں عشق کی تڑپ ہوتی تھی وہ کیمیا گر تھے، کامیابیاں ان کے قدم چوما کرتی تھیں۔ ہمارا نرم رو قاصد پیامِ زندگی لایا خبر دیتی تھیں جن کو بجلیاں وہ بے خبر نکلے زمیں سے نوریانِ آسماں پرواز کہتے تھے یہ خاکی زندہ تر پائندہ تر تابندہ تر نکلے ہمارے پیغمبرؐ نے دنیا کو زندگی کا پیغام دیا، باوجود یکہ دنیا والوں میں دولتِ دنیا کی کمی نہ تھی لیکن وہ زندگی کی حقیقی مسرتوں سے ناآشنا تھے ۔ اقبال کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی شان یہ تھی کہ آسمان پر فرشتے بھی ان کی زندگی سے بھر پور رَوش پر عش عش کر اٹھتے تھے: جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے اس دنیا میں اگر جینے کا سلیقہ ہے تو اہل ایمان کو جنھیں کبھی فنا نہیں اور دنیا کبھی ایسے لوگوں سے خالی نہیں رہی۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسا کہ سورج جو مکمل غروب کبھی نہیں ہوتا۔ بلکہ اگر ایک جگہ نظروں سے غائب ہوتاہے تو دوسری جگہ پوری آب و تاب کے ساتھ اپنی کرنوں سے زندگی کی ضیا پاشیاں کرتا ہوا نمودار ہوتاہے۔ اقبال اس کے بعد کہتے ہیں کہ ملت کی تعمیر کے لیے افرادِ ملت کو زیورِ یقین سے آراستہ ہونا ناگزیر ہے، ارشاد ہوتا ہے! یقین افراد کا سرمایہ تعمیر ملت ہے یہی قوت ہے جو صورت گرِ تقدیر ملت ہے ہمارا یقین ہی ملت مسلمہ کا بیش بہا سرمایہ ہے اور یہی قوت ہماری قوم کی تقدیر بدلنے کی طاقت رکھتی ہے۔ اقبال اس امر پر زور دیتے ہیں کہ ہم اپنی حقیقت کو پہچانیں، فرماتے ہیں۔ تو رازِ کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا خودی کا راز داں ہو جا خدا کا ترجماں ہو جا کہتے ہیں تو اگر اپنے آپ کو پہچان جائے تو خدا کو پہچان سکتا ہے اور پھر تیرا راستہ سیدھا اور آسان ہو جائے گا کیونکہ جب تو اپنا راز پہچان گیا تو خدا کا رازداں بن گیا اور جب خدا کا راز دان بن گیا تو پھر خدا کا ترجمان ہونے کا تجھ کو مرتبہ حاصل ہو گیا البتہ اس راہ میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ ہے انسانی ہوس! ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انساں کو اخوت کا بیاں ہو جا محبت کی زباں ہو جا یہ ہندی وہ خراسانی یہ افغانی وہ تورانی تو اے شرمندئہ ساحل اچھل کر بے کراں ہو جا غبار آلودئہ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے تو اے مُرغِ حرم اڑنے سے پہلے پَر فشاں ہو جا اقبال فرماتے ہیں کہ دنیا میں بنی نوع انسان ایک اکائی تھی لیکن اس کو لالچ اور ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہوسِ زر اور ہوسِ جاہ کو چھوڑ کر، محبت اور بھائی چارے کی فضا قائم کریں، تاکہ ہمارا تعلق نہ کسی طبقہ سے رہے، نہ کسی نسب، نہ کسی برادری سے اور نہ کسی خاص خطۂ زمین سے رہے۔ مندرجہ بالا آخری شعر میں مُرغِ حر م سے اقبال کی مراد مردِ مومن یا ’’شاہین‘‘ ہے جس کے پَر رنگ و نسب کے غبار سے بوجھل ہوگئے ہیں اقبال کہتے ہیں کہ تو ذرا اپنے پروں سے اس رنگ و نسل کی گرد کو جھاڑ دے، تو پھر تو سبک خرام ہو جائے گا اور پہلے کی طرح بلندیوں کی طرف پرواز کرنا تجھ کو سہل ہو جائے گا۔ اس عظیم مقصد کو حاصل کرنے کا گر بتاتے ہوئے حکیم الامت فرماتے ہیں : خودی میں ڈوب جا غافل! یہ سرِّ زندگانی ہے نکل کر حلقۂ شام و سحر سے جاوِداں ہو جا مصافِ زندگی میں سیرتِ فولاد پیدا کر شبستانِ محبت میں حریر و پرنیاں ہو جا جیسا کہ اس بند کے ابتدائی شعر میں اقبال نے کہا ہے وہ یہاں ایک بار پھر تلقین کرتے ہیں کہ تو اپنی ذات میں گم ہو کر اپنی خودی کو پہچان کہ بس یہی زندگی کا راز ہے تو اگر سمجھے تو تیری ذات کی نہ صبح ہے نہ شام‘ موت تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی البتہ اس دنیا میں جینے کا چلن سیکھ‘ تجھ کو چاہیے کہ کار زارِ حیات میں فولاد کی طرح سخت کوش ہو اور چمنِ محبت میں قدم رکھے تو دیبا اور ریشم کی طرح ملائم اور نرم خو ہو جا۔اور : گزر جا بن کے سیلِ تُند رَو کوہ و بیاباں سے گُلستاں راہ میں آئے تو جُوئے نغمہ خواں ہو جا اگر تیرے راستہ میں پہاڑ اور بیاباں آئیں تو طوفان کی طرح ان میں سے گزرتا چلا جا، اور اگر راستے میں گلستان آجائے تو لہراتی بل کھاتی ندی‘ نغمے کنگناتی نہر بن کر خراماں خراماں چل تاکہ تیرے وجود سے گلستان میں بہار آئے ۔حقیقت تو یہ ہے …! تیرے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر سازِ فطرت میں نوا کوئی ابھی تک آدمی صید زبونِ شہر یاری ہے قیامت ہے کہ انساں نوعِ انساں کا شکاری ہے اقبال کہتے ہیں کہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی ایک انسان اپنی ہی جنس انسان کا استحصال کر رہا ہے۔ آج ترّقی یافتہ قومیں حقوقِ انسانی کا راگ الاپتے نہیں تھکتیں اور جمہوریت کی علمبرداری کا دعویٰ کرتی ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ جس طرح گذشتہ دور کے مُطلقُ العَنا ن بادشاہ عام انسانوں کا خون چوس کر اپنی مملکت کو مستحکم کرتے تھے بالکل اس طرح آج ترقی یافتہ اقوام دیگر پسماندہ قوموں کو مختلف حیلے اور بہانے سے اپنا محکوم اور خوشہ چیں بنا کر رکھنا چاہتی ہیں، یہ جمہوریت نہیں بلکہ جمہوریت کے رُوپ میں ایک وسیع تر اور منظم بادشاہت ہے ۔لیکن ان کو خبر نہیں کہ : نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی یہ صنّاعی مگر جُھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے مغرب کی چمک دمک جس سے آنکھیں چندھیا جاتی ہیں، اس کی مثال ایسی ہے جیسے شیشے کو ہیرے کی طرح تراش کر اور پالش کرکے اس میں ہیرے جیسی چمک دمک پیدا کر دی جائے، لیکن بہرحال یہ ناپائدار اور جھوٹی خوبصورتی ہوگی ۔ اہلِ مغرب کو اپنے علم و حکمت پر ناز تھا، لیکن اب یہی ان کا علم، سائنس اور ٹیکنالوجی ان کی ہوسِ اقتدار کے ہتھیار بن چکے ہیں جن کے ذریعے کمزور اقوام کا استحصال کیا جارہا ہے اور ایک طرح سے ان کو اپنا باج گزار بنایا جا رہا ہے، مگر: تدبّر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا جہاں میں جس تمّدن کی بنا سرمایہ داری ہے اقبال کہتے ہیں کہ جس حکومت اور معاشرے کی بنیاد ہی سرمایہ دارانہ نظام پر استوار ہو، اس میں استحکام پیدا نہیں ہوسکتا خواہ اس کے قوانین کتنی ہی دیدہ ریزی اور علمی غور و فکر کے بعد بنائے جائیں ۔ اس نظم کے اختتام کے قریب اقبال کا روئے سخن پھر فردِ ملّت کی جانب ہوتا ہے جہاں بڑے سادہ الفاظ میں انتہائی خوبصورتی کے ساتھ درس دے رہیں کہ: عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے، نہ ناری ہے خروش آموزِ بُلبُل ہو ، گرہ غنچے کی وا کر دے کہ تو اس گلستاں کے واسطے بادِ بہاری ہے اقبال نے ایک دوسرے مقام پر یہ بات اس طرح بیان کی ہے نوارا تلخ ترمی زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی یعنی اگر اہلِ چمن کے اندر اپنے نغموں کا اثر کم دیکھے تو اپنی آواز میں تلخی بڑھا دے۔ بالکل اسی انداز میں اس شعر میں ’خروش آموزِ بُلبُل ‘کہہ کر تلقین کر رہے ہیں کہ گو تیر ے رب نے تجھے گلستانِ عالم کے لیے بادِ بہاری بنا کر بھیجا ہے، لیکن وقت کا تقاضا ہے کہ تو مرغانِ چمن کو زمانے کی تلخ حقیقتوں سے روشناس کر دے تاکہ ان کی نوا میں وہ اثر پیدا ہو کہ گلشن کی ہر کلی کِھل جائے اور ایک مرتبہ پھر اس چمن میں بہار آجائے ۔ اس نظم کے باقی تمام اشعار فارسی زبان میں ہیں، جن میں ایک ایک شعر اپنے اندر ایک ایک مضمون سمیٹے ہوئے ہے۔ ان اشعار میں بے مثال استعارات استعمال کئے گئے ہیں جن کے ذریعہ بات دل میں اتر جاتی اور رُوح کو سرشار کر دیتی ہے۔ مضمون کی طوالت کے پیش نظر اختصار کے ساتھ صرف اشعار کا مفہوم پیش کیا جاتا ہے ۔ اقبال فرماتے ہیں کہ ایک مدت کے بعد ’’پھر اٹھی ایشیا کے دل سے چنگاری محبت کی۔‘‘ بہار کی آمد ہے، ملّت کی نشاۃِ ثانیہ کے آثار ہویدا ہیں، ایسا لگتا ہے کہ صحرا میں ابرِ بہاری نے خیمہ لگا لیا ہے، پہاڑوں سے آبشاروں کے نغمے پھوٹ رہے ہیں اور طائرانِ چمن سے بلبل کی صدا بلند ہوئی ہے، جس نے بدرو حنین کے شہیدوں کی یاد دلوں میں تازہ کر دی ہے۔ یہ انہی شہداء کا تصّرف ہے کہ چمنِ خلیل کی خشک شاخیں ہمارے شہیدوں کے خون سے سیراب ہو کر پھوٹنے لگی ہیں اور بالآخر بازارِ محبت میں ہمارا کھرا سکّہ ہی کام آیا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ ان شہیدوں کی لحد پر اپنے اشعار کے ذریعہ عقیدت کے سرخ پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتا ہوں کہ ان کے خون ہی نے میری ملّت کے شجر کی آبیاری کی ہے۔ اقبال کے الفاظ میں : سرِ خاکِ شہیدے برگہاے لالہ می پاشم کہ خونش بانہالِ مِلّتِ ما سازگار آمد ابلیس کی مجلسِ شوریٰ اقبال کی زیر عنوان نظم کا شمار بھی ان کی انتہائی فکر انگیز اور اعلیٰ ترین نظموں میں ہوتا ہے۔ یہ ان کی شاعری کے تیسرے دور کی تصنیف ہے جو ۱۹۳۶ء میں لکھی گئی ۔ حضرت علامہ اقبال نے ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء کو وفات پائی اس طرح یہ نظم ملّتِ اسلامیہ کے لیے ان کا دم ِ واپسیں کا آخری پیغام تھا۔ اس نظم کے الفاظ انتہائی سادہ اور خوبصورت ہیں لیکن ان میں اعلیٰ اقدار کی حامل اِخلاقیات، معاشرت، تمدن اور سیاسیات کے اہم نکات مضمر ہیں جو کہ ہمیں دعوتِ فکر دیتے ہیں ۔ نظم کا منظر کچھ اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ ابلیس متفکر سا بیٹھا ہوا اپنے اردگرد موجود پانچ مشیروں سے اہم مسائل پر تبادلۂ خیالات کر رہا ہے۔ بحث کا آغاز کرتے ہوئے ابلیس اپنے مشیروں سے کہتا ہے کہ میں نے تو انسان کو ایسے راستوں پر ڈال دیا تھا کہ عالم بالا میں فرشتوں کی ابنِ آدم سے وابستہ امیدوں پر پانی پھر گیا تھا اور میری کوششوں سے اس دنیا کا نظام بدل گیا تھا جو کہ میری تمنائوں کے عین مطابق بڑی خوبی سے چل رہا تھا لیکن۔ اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز جس نے اس کا نام رکھا تھا جہانِ کاف و نوں ابلیس اپنے کارنامے مشیروں کو گنواتا ہے: میں نے دکھلایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب میں نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں میں نے ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر کا میں نے منعم کو دیا سرمایہ داری کا جنوں لہٰذا کون کرسکتا ہے اس کی آتشِ سُوزاں کو سَرد جس کے ہنگاموں میں ہو ا،بلیس کا سوزِ دَرُوں جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند کون کر سکتا ہے اُس نخلِ کُہن کو سرنگوں! ابلیس کہتا ہے کہ یہ ناممکن ہے کہ جو آگ میں نے اس دنیا میں لگائی ہے اس کو سرد کیا جاسکے۔ میں نے اپنی کوششوں سے یہاں فساد کا ایسا درخت لگا دیا ہے جس کی جڑیں بہت مضبوط ہیں اور اس پرانے درخت کی میں مسلسل آبیاری کرتا ہوں تاکہ یہ ہمیشہ ہرا بھرا رہے۔ابلیس کی تقریر کے بعد پہلا مشیر تائید کرتا ہے اور کہتا ہے : اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام پُختہ تَر اس سے ہوئے خوئے غلامی میں عوام ہے ازل سے ان غریبوں کے مقدر میں سجود ان کی فطرت کا تقاضا ہے نمازِ بے قیام پہلا مشیر کہتا ہے اس امر میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں قائم کردہ ابلیسی نظام بہت پختہ ہے جس کی وجہ سے عوام الناس سہل پسند اور ایسے بے حس ہوگئے ہیں کہ ان میں عزت و وقار سے جینے کی تمنا مفقود ہوچکی ہے ۔ ان کے دلوں میں : آرزو اوّل تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں ہو کہیں پیدا تو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام یہ ہماری سعیٔ پیہم کی کرامت ہے کہ آج صوفی و مُلّا مُلوکیّت کے بندے ہیں تمام یہ ابلیس کے قائم کردہ نظام کی کرامت ہے کہ عام آدمی کے دل میں اول تو آرزو جنم ہی نہیں لیتی اور اگر آرزو کہیں پیدا بھی ہوتی ہے تو وہ ناپختہ ہونے کی وجہ سے جلد ہی ناپید ہو جاتی ہے۔ اس لیے اس نظام کی بدولت کیا صوفی اور کیا ملاّ سب کے سب ذہنی طور پر غلام ہیں، ہمارا یہ نظام سرمایہ داروں ، جاگیرداروں، سرداروں اور آمروں کے ذریعہ دائم و قائم ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے : طبعِ مشرق کے لیے موزوں یہی افیون تھی ورنہ قوّالی سے کچھ کمتر نہیں عِلمِ کلام موجودہ زمانے کے صوفی اور ملاّ نظام سرمایہ داری کی پیداوار ہیں، ان کی تعلیم عام آدمی کے لیے افیون کا کام کرتی ہے اور ذہن کو خوابیدہ رکھتی ہے۔ جس طرح قوّال سے سامع مست اور بے خود ہو جاتا ہے، اس طرح واعظِ، قوم میں چونکہ’’پختہ خیالی‘‘ نہیں اور برقِ طبعی نہ رہی ، لہٰذا اس کی تمام تر لفاظی اور زورِ بیان کے باوجود عام ذہن قوّالی ہی کی طرح مسکن اثر قبول کرتا ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔ پھر: ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا کُند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغِ بے نیام مومن میں تو دم خم باقی نہیں رہا ۔ وہ ناامید اور مایوس ہوچکا ہے، چونکہ اب اس کے ایک پیشوا نے یہ فتویٰ بھی دے دیا ہے : ہے جہاد اس دور میں مردِ مسلماں پر حرام! دوسرا مشیر کہتا ہے : خیر ہے سلطانیٔ جمہور کا غُوغا ، کہ شَر تو جہاں کے تازہ فتنوں سے نہیں ہے باخبر! دوسرا مشیر جواب دیتا ہے … ہوں … ہوں! ہوں ، مگر میری جہاں بینی بتاتی ہے مجھے جو ملوکیت کا اِک پردہ ہو ، کیا اس سے خطر! حقیقت یہ ہے کہ مغرب کا جمہوری نظام ایک پردہ ہے جس کے پیچھے ملوکیّت کار فرما ہے، لہٰذا ابلیسی نظام کو کوئی خطر ہ نہیں اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتا ہے : ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس جب ذرا آدم ہو ا ہے خود شناس و خود نگر کاروبار شہر یاری کی حقیقت اور ہے یہ وجودِ میر و سلطاں پر نہیں ہے منحصر مجلس ملّت ہو یا پرویز کا دربار ہو ہے وہ سلطاں غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر اس کا کہنا ہے کہ : نظام بادشاہی (ملوکیت) کو جمہوری لباس ہم نے پہنایا ہے اور ایسا اس وقت کیا گیا جب ہم نے دیکھا کہ انسان کا شعور بیدار ہو رہا ہے، اور کاروبار شیطانی میں خلل پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ ہماری پلاننگ ہی یہ رہی ہے کہ حکومت یا کاروبار شاہی کے لیے ضرور ی نہیں کہ کوئی بادشاہ یا امیر تخت شاہی پر بیٹھ کر ہی حکومت کرے۔ کسی بھی ملک کی جمہوری پارلیمنٹ ہو یا کسی شہنشاہ کا دربار، بس یہ سمجھ لیجئے کہ بادشاہ وہ ہے جس کی نظر دوسروں کی کھیتی پر ہو مثال کے طور پر: تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام چہرہ روشن ، اندروں چنگیز سے تاریک تر اس موقع پر پہنچ کر ابلیس کا تیسرا مشیر بحث میں حصہ لیتے ہوئے اپنا سلسلہ کلام یوں شروع کرتا ہے …! رُوح سلطانی رہے باقی تو پھر کیا اِضطراب ہے مگر کیا اس یہودی کی شرارت کا جواب؟ ابلیس کی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں دنیا کے انسانوں پر گرما گرم بحث ہو رہی ہے۔ شیطان کا تیسرا مشیر اپنا سلسلہ کلام شروع کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہمیں فکر کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ۔ ہم نے ملوکیت کے چہرے پر جمہوریت کا نقاب چڑھا دیا ہے۔ البتہ قومِ یہود ہمارے مشن کے لیے باعثِ تشویش ہے۔ وہ کہتا ہے ۔ کیا بتائوں کیا ہے کافر کی نگاہِ پردہ سوز مشرق و مغرب کی قوموں کے لیے روزِ حساب اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا طبیعت کا فساد توڑ دی بندوں نے آقائوں کے خیموں کی طناب! ان اشعار میں انقلاب ِ روس کی طرف اشارہ ہے۔ روس میں کمیونسٹ انقلاب کا بانی لینن تھا اور کارل مارکس اس کمیونزم کی تحریک کا بانی تھا جو مشہور زمانہ کتاب Das Capitalکا مصنف تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ یہودی نژاد تھا۔ اس حقیقت کا انکشاف اس سے قبل شعر میں یہ کہہ کر کیا گیا ہے۔ ہے مگر کیا اِس یہودی کی شرارت کا جواب؟ تیسرے مشیر کے خدشات کی چوتھا مشیر تردید کرتے ہوئے گویا ہوتا ہے۔ توڑ اس کا رومتہ الکبریٰ کے ایوانوں میں دیکھ آلِ سیزر کو دکھایا ہم نے پھر سیزر کا خواب یہاں ایک دوسرا تاریخی حوالہ دیا گیا ہے۔ رومتہ الکبریٰ میں آلِ سیزر کا خواب مسولینی کی توسیع پسندی ہے۔ یہ دور ۳۳۔۱۹۳۲ء سے متعلقہ ہے۔ جسے انقلابِ روس کا ردِّ عمل بتلایا جاتا ہے۔تیسرا مشیر اس بات سے مطمئن نہیں ہوتا اور جواب دیتا ہے کہ میں تو اس کی عاقبت بینی کا کچھ قائل نہیں جس نے افرنگی سیاست کو کیا یُوں بے حجاب اس شعر میں تیسرا مشیر بڑے پتے کی بات کہہ گیا ہے۔ کیونکہ اہلِ فرنگ کی سیاست کے بے نقاب ہونے سے سویا ہوا انسان بیدار ہوگیا ہے۔ تیسرے اور چوتھے مشیر کی گفتگو کو پانچواں مشیر اس طرح آگے بڑھاتا ہے: اے ترے سوزِ نفس سے کارِ عالم اُستوار! تونے جب چاہا کیا ہر پردگی کو آشکار آب و گِل تیری حرارت سے جہانِ سوز و ساز ابلۂ جنت تری تعلیم سے دانائے کار تجھ سے بڑھ کر فطرتِ آدم کا وہ محرم نہیں سادہ دل بندوں میں جو مشہور ہے پروردگار وہ کہتا ہے کہ اے میرے آقا (ابلیس) تیرے دم سے دنیا کا کاروبار بڑی خوبی سے چل رہا ہے دنیا کی رونقیں تیری تدبیروں کی بدولت قائم ہیں۔ تو نے جنت کے احمقوں کو اپنی حکمت عملی سے عقل کا غلام بنا دیا ہے جس کی وجہ سے ان کی نظروں سے حقیقت اوجھل ہوگئی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ فطرتِ آدم کو اگر کوئی سمجھ سکا ہے تو وہ صرف تو ہے ۔ لیکن اے میرے آقا !زمانہ بڑی تیزی سے بدل رہا ہے۔ اور اب تو یہ عالم ہے کہ یہ مُشتِ خاک (انسان) آسمانوں میں محوِ پرواز ہے، مجھے تو مستقبل کی فکر دامن گیر ہے۔ کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ : فتنۂ فردا کی ہیبت کا یہ عالم ہے کہ آج کاپنتے ہیں کوہسار و مرغزار و جوئبار میرے آقا ! وہ جہاں زیر و زبر ہونے کو ہے جس جہاں کا ہے فقط تیری سیادت پر مدار وہ کہتا ہے کہ کل جو فتنہ برپا ہونے والا ہے، اس کو میں دیکھ رہا ہوں۔ اس آمد آمد کی ہیبت سے اس دنیا کی ہر شے لرزہ براندام ہے۔ یہ کارخانۂ دنیا جو تیری قیادت اور سرداری میں بہ احسن و خوبی چل رہا تھا اب ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ درہم برہم ہو جائے گا۔ اس مرحلہ پر ابلیس جھرجھری لیتا ہے اور اپنے مشیروں سے مخاطب ہو کر کہتا ہے: ہے مرے دستِ تصّرف میں جہانِ رنگ و بو کیا زمیں، کیا مہر و مہ ، کیا آسمانِ تُو بتُو دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا غرب و شرق میں نے جب گرما دیا اقوامِ یورپ کا لہو کیا اِمامانِ سیاست ، کیا کلیسا کے شیوخ سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہُو اقبال کی تمام دوسری نظموں کی طرح اس نظم کا حاصل کلام پوری آب وتاب کے ساتھ نظم کے آخری حصے میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ ابلیس بحث سمیٹتے ہوئے موجود ابلیسی نظام پر سرسری نظر ڈالتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے زمین کے باسیوں کے ساتھ ساتھ چاند ، سورج اور آسمان کے ستاروں کو بھی اپنی گرفت میں لے رکھا ہے ۔ میرے اندر یہ قدرت ہے کہ جب بھی چاہوں اس دنیا میں خون کے دریا بہادوں۔ میں انسانوں کو پاگل کرسکتا ہوں۔ (بوسنیا، افغانستان ، صومالیہ ، ہیٹی ، فلسطین اور کشمیر کی زندہ مثالیں ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں)۔ ابلیس کہتا ہے کہ انسان کی فطرت میں دیوانگی کا عنصر موجود ہے اور اس چنگاری کو بھڑکانا میرے ہاتھ میں ہے۔ کیونکہ : دستِ فطرت نے کیا ہے جن گریبانوں کو چاک مزدکی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کر اشتراکی کوچہ گرد یہ پریشاں روزگار آشفتہ مغز آشفتہ مو یہاں مزد کی منطق کا تاریخی حوالہ دے کر اشتراکی نظامِ حکومت کو سمجھایا جا رہا ہے کہ یہ نظم مزدکیت کا چربہ ہے ، مزدکیت بھی دیوانگی تھی اور اشتراکیت بھی ایک بدحواسی ہے، یہ منشتر دماغوں کے انتشار کو نظم و ضبط کا جامہ پہنانے کی ایک ناکام کوشش تھی ۔ جو اَب اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے۔ مزدک نے بھی نوشیرواں کے دورِ حکومت میں اسلام کے چند انسانیت نواز اصولوں کو مسخ کرکے اشتراکیت جیسا فتنہ برپا کیا تھا جس کا حکومتِ وقت نے سخت نوٹس لیا اور مزدک کو قتل کروا دیا۔ ابلیس کہہ چکا ہے کہ مجھے موجودہ جمہوری نظام سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ یہ بھی ایک قسم کی ملوکیت اور بادشاہت ہے، جس کا چہرہ روشن ہے مگر اندروں چنگیز سے تاریک تر ہے ۔ اور نہ ہی مجھے اشتراکی نظام سے کوئی خوف ہے، کہ یہ تو دیوانوں کا ٹولہ ہے جو اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے ۔ لیکن : ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس امت سے ہے جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو شیطان کہتا ہے کہ اگر مجھے کوئی خطرہ ہے تو صرف اُمّتِ محمدیہؐ سے ہے جو بظاہر اس وقت ایک خاک کا ڈھیر دکھائی دیتی ہے لیکن اس جلی ہوئی راکھ میں مجھے ایک چنگاری نظر آرہی ہے، یہ آرزو کی چنگاری ہے جو اس کے اندر سُلگ رہی ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ یہ چنگاری بھڑک کر شُعلہ نہ بن جائے اور ایسا نہ ہو کہ میرے تعمیر کردہ نظام کی عمارت اس آگ میں جل کر بھسم ہو جائے۔وہ کہتا ہے: خال خال اس قوم میں اب تک نظرآتے ہیں وہ کرتے ہیں اشکِ سحر گاہی سے جو ظالم وضُو شیطان کہتا ہے کہ اُمّتِ مسلمہ میں اب بھی ایسے ظالم موجود ہیں جو راسخ العقیدہ لوگ ہیں۔ ان کے دل میں شرارِ آرزو، انہیں بے چین کئے رکھتا ہے اور وہ کچھ کر گزرنے کے لیے تڑپتے رہتے ہیں ۔یہ باعمل لوگ راتوں کو بارگاہ ِ ایزدی میں گریہ و زاری کرتے کرتے صبح کر دیتے ہیں یہی وہ فتنہ ہے جس نے مجھے بے چین کر رکھا ہے اور : جانتا ہے جس پہ روشن باطنِ ایّام ہے مزدکیّت فتنۂ فردا نہیں اسلام ہے شیطان اب کُھل کر بات کہہ دیتا ہے کہ دنیا کے نشیب و فراز سے آگاہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ابلیسی نظام کو خطرہ نہ مزدکیت سے ہے نہ اشتراکیت سے اور نہ مغربی جمہوری نظام سے ہے۔ اگر اس کو خطرہ ہے تو صرف اور صرف اسلام سے ہے۔ اقبال جو بات موجودہ صدی کے شروع میں کہہ گئے آج اس کی سچائی منظر عام پر آچکی ہے۔ مزدکیت اور اشتراکیت تو کب کی فنا ہو چکیںانہوں نے اسلام سے ٹکر لی اور اپنے انجام کو پہنچیں۔ رہی مغربی جمہوریت، وہ اسلام کے نام سے لرزہ براندام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ساری دنیا میں اسلام کے خلاف بھر پور مہم جاری ہے۔ شیطان کو جو خطرہ اسلام کے بنیاد ی (قرآنی) اصولوں سے تھا وہ آج دنیا کے شیطانی دماغوں کے ذریعہ اظہار میں آرہا ہے۔ جمہوریت کے علمبردار اسلام کو اپنے لیے خطرے کا باعث سمجھتے ہیں اسی لیے اسلام کے ساتھ ساتھ تخریب کاری (Terrorism) اور بنیاد پرستی (Fundamentalism) کے بیہودہ الفاظ چسپاں کئے جا رہے ہیں اب Islamic Terrorism اور Fundamentalismکا پروپیگنڈہ بڑے پیمانے پر ساری دنیا میں ٹی وی، ریڈیو اور اخبارات و رسائل کے ذریعے کیا جا رہا ہے، اور ذہنوں میں یہ بات بسائی جا رہی ہے کہ بنیاد پرستی اور تخریب کاری لازم و ملزوم ہیں۔ اور یہ یہودی ہو یا ہندو اگر بنیاد پرست نہیں ہے تو وہ لامذہب ہوگا، ہر مذہب کے کچھ بنیادی اصول ہیں جس طرح ایک درخت بغیر اپنی جڑ کے قائم نہیں رہ سکتا اور کوئی عمارت بغیر بنیاد کے قائم نہیں رہ سکتی اسی طرح کوئی مذہب بغیر بنیادی اصولوں کے قائم نہیں رہ سکتا۔ وقت آن پہنچا ہے کہ ہمارے علماء ، مشائخ، رہنمایان قوم اور دنیائے اسلام کی حکومتیں وقت کی نزاکت کا احساس کریں، اور اپنے باہمی اختلافات ایک طرف کرکے اس شیطانی پراپیگنڈے کو روکنے کا بندوبست کریں جو عوام الناس کے ذہنوں کو آہستہ آہستہ زہر آلودہ (Slow Poisoning) کر رہا ہے۔ اہل مغرب پر تو یہ زہر اثر کر چکا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری قوم کے افراد اس شیطانی پروپیگنڈے کا شکار ہو جائیں ۔ ابلیس اپنی مجلس شوریٰ میں قبل ازیں اُمّتِ مُسلمہ کی کج روی پر مسرت کا اظہار کر چکا ہے اور یہ بھی بتا چکا ہے کہ دنیا میں شیطانی نظام بڑی مضبوط بنیادوں پر استوار ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اس بات کی نشاندہی بھی کرچکا ہے کہ اگر اسے کوئی خطرہ ہے تو صرف اسلام سے اور اسلام کے جاں نثاروں سے ہے کیونکہ ان لوگوں میں سے بعض کے دلوں میں ابھی عشق کی چنگاری سلگتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے ۔ ابلیس کے الفاظ میں مسلمان گو کہ ایک خاک کا ڈھیر بن چکا ہے لیکن اس خاک میں اب بھی شرارِ آرزو موجود ہے۔ جانتا ہوں میں یہ اُمَّت حاملِ قرآں نہیں ہے وہی سرمایہ داری بندئہ مومن کا دیں اور جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں بے یدِ بیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں ابلیس کہتا ہے کہ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ مشرق جو اس دین کا گہوارہ تھا، وہ اب نور محمدیؐ سے محروم ہوچکا ہے۔ ان کو (اہل مشرق کو ) قرآن سے دور کا واسطہ بھی نہیں رہا۔ جہاں تک دین کا سوال ہے تو ان کا دین اور ایمان صرف پیسہ ہے۔ اب سرمایہ داری بندئہ مومن کا دین بن چکی ہے۔یہاں ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے، مشرقی ممالک کے رہنمایانِ قوم اور دین کے علمبردار ایسے ہی ہیں جس طرح موسیٰ بے عصا اور بغیر ید بیضا ہو: عصرِ حاضر کے تقاضائوں سے ہے لیکن یہ خوف ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبرؐ کہیں ابلیس کہتا ہے کہ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات سے مجھے خدشہ لاحق ہے، اور ڈر صرف اس بات کا ہے کہ کہیں سویا ہوا مسلمان بیدار نہ ہو جائے، اور ایسانہ ہو کہ پھر اس پر اپنے دین کا اصل راز آشکار ہو جائے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ابلیس کے نظام کے لیے تباہ کن ہوگا: الخدر ! آئینِ پیغمبرؐ سے سو بار الخدر حافظِ ناموسِ زَن ، مرد آزما ، مرد آفریں ابلیس کہتا ہے کہ میں ایک بار نہیں، بلکہ سو پناہ مانگتا ہوں کہ کہیں اس امت پر آئینِ محمدیؐ آشکار نہ ہو جائے۔ میں تو عورت کی عزت و عفت اور ناموس کی حفاظت کا تصور ہی مرد کے ذہن سے غائب کر چکا ہوں۔ اگر پیغمبرؐ کے بتائے ہوئے اصول سے مرد کا شعور بیدار ہو گیا او ر وہ عورت کا محافظ بن گیا تو میرے نظام کی ساری عمارت ہی زمین بوس ہو جائے گی، کیونکہ پھر ایسا مردِ جری ، جو بہادر ، مردِمومن، مرد آزما اور مرد آفریں ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے عورت کو معاشرے میں جو بلند مقام دیا ہے کسی دوسرے مذہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ اقبال نے اس نظم کے اختتامیہ کے قریب آکر ایسے خوبصورت اور وجد آفریں انداز میں شرعِ پیغمبر کے اصول بیان کرنا شروع کئے ہیں کہ انسان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ آج کے دور میں مغرب میں عورت کی عزت و ناموس کا جنازہ نکل ہی چکا ہے، مشرقی اقوام جو آئین پیغمبرؐ کی محافظ تھیں ، ان میں بھی صرف مرد ہی کے حصہ میں عزت آئی ہے اس کی عقل اور توانائی عورت کو محکُوم بنانے میں صرف ہوتی ہے۔ حالانکہ مرد کو اپنے افرادِ خانہ کے لیے تلاشِ معاش کی ذمہ داری سونپی تھی ۔ اور قوم وملّت کی حفاظت کا فریضہ اس پر عائد کیا تھا۔ قُدرت نے جفاکشی اور کسبِ معاش کو مرد کی سرشت کا حصہ بنایا تھا اور انتظامی صلاحیتیں (Administrative Talents) اس کو عطا کی تھیں اور اس کو اس دنیا میں آئینِ خداوندی اور شرعِ پیغمبرؐ نافذ کرنا تھی ، افسوس کہ وہ خود گم ہوگیا، کاش کہ آج کا مرد اپنا مقام سمجھ سکے ۔ اقبال کے قلم سے آئینِ محمدیہؐ کا لفظ نکلتے ہی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی اور ہی عالم میں پہنچ گئے تھے اور اسی عالم میں صفحہ قرطاس پر شرعِ پیغمبرؒ کے موتی بکھیرتے چلے جارہے ہیں ، فرماتے ہیں : موت کا پیغام ہر نوعِ غلامی کے لیے نے کوئی فغفور و خاقاں ،نے فقیرِ رہ نشیں اقبال کہتے ہیں کہ آئین پیغمبرؐ غلامی کی موت ہے خواہ وہ کسی قسم کی بھی غلامی کیوں نہ ہو اسلام نے مساوات کا ایسا درس دیا ہے کہ معاشرے میں نہ بادشاہ کے لیے کوئی مقام ہے اور نہ فقیر کے لیے کوئی جگہ ہے۔ وہاں تو نہ کوئی بندہ ہے اور نہ کوئی بندہ نواز ۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب دینِ محمدیؐ کا مکمل نفاذ ہوا، تو بندہ و صاحب ومحتاج و غنی ایک ہوئے ، حد تو یہ ہے کہ زکوٰۃ لینے والا کوئی نہ تھا۔ آئین پیغمبریؐ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے اقبال مزید کہتے ہیں ۔ کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک و صاف منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب بادشاہوں کی نہیں ، اللہ کی ہے یہ زمیں اسلام سرمایہ داری کی اجازت دیتا ہے لیکن سرمایہ اندوزی کی اپنے اندر کوئی گنجائش نہیں رکھتا۔ دین جس طرح جسم کو گندگی سے پاک رکھنے کی تلقین کرتا ہے بالکل اسی طرح دولت کو سُود اور ناجائز منافع خوری کی آلُودگی سے پاک کرتا ہے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کے ذریعے دولت کی مزید تطہیر ہوتی ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ اگر اللہ نے کسی کو دولت دی ہے تو وہ اس کا مالک ہرگز نہیں بن جاتا، بلکہ اس کو جاننا چاہیے کہ مالک صرف اللہ ہے اور بندہ فقط دولت کا امین ہے۔ اسی طرح زمین کسی انسان کی ملکیت نہیں ہو سکتی ۔ اس کا مالک بھی صرف اللہ ہے۔ چنانچہ زمینداری اور جاگیرداری کا یہ کہہ کر قلع قمع کر دیتا ہے کہ ’’بادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمیں۔‘‘ اقبال اپنے ایک اور خوبصورت فارسی شعر میں اس مضمون کو اس طرح بیان کرتے ہیں : رزق خود را از زمیں بردن رو است ایں متاعِ بندئہ و مِلکِ خداست (یہ جائز ہے کہ انسان اپنی روزی زمین سے حاصل کرے کہ یہ اس کا سرمایہ ہے لیکن زمین کا حقیقی مالک خدا ہی ہے۔) حضرت علامہ اقبالؒ نے اسلام کے بتائے ہوئے اقتصادیات ، اخلاقیات ، سیاسیات اور نظریہ عدل کے زرِّین اصول اس نظم میں بیان کر کے مِلّت کا درد رکھنے والے اہلِ دانش اور اہلِ قلم کے لیے فکر کی راہیں کھول دی ہیں۔ اقبال منفی پہلو بدلتے ہیں۔ حقیقت میں ان کا منفی اندازِ سخن بھی مثبت اثر رکھتا ہے بلکہ ذہن پر اس کا ردِّ عمل مثبت سمت میں کہیں زیادہ شدید ہوتا ہے۔ ملاحظہ کیجئے ابلیس کی طرف سے کہے ہوئے یہ اشعار ۔ چشمِ عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئیں تو خُوب یہ غنیمت ہے کہ خُود مُومِن ہے محرومِ یقیں ہے یہی بہتر الہٰیات میں اُلجھا رہے یہ کتابُ اللہ کی تاویلات میں اُلجھا رہے ان اشعار میں آئین پیغمبرؐ کی عالمگیر افادیت کا اظہار کیا گیا ہے۔ آئین پیغمبرؐ حقیقتاً قانون ِ فطرت ہے ۔ یہ صرف مُسلم اُمَّہ کے لیے وقف نہیں۔ یہ تو اپنے اندر دکھی انسانیت کے درد کا مداوا لیے ہوئے ہے، البتہ شیطانی قوتوں کے لیے یہ زہر ہے۔ چنانچہ طاغوتی طاقتوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ مومن تذبذب میں پھنسا ہوا ہاتھ پیر مارتا رہے، اور اس کے دل میں یقین کی شمع کبھی روشن نہ ہونے پائے۔ بس اس کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ مُسلمان کے گھر میں پیدا ہو ا تھا اور وہ مُسلمان ہے ۔ اگر کسی طرح علم کی کچھ دولت اس کے حصہ میں آ بھی جائے تو وہ قیل و قال اور فلسفہ الہٰیات میں اُلجھا رہے۔ وہ قرآنِ پاک کی تاویلات اپنے ناقص اور ناپُختہ ذہن کے مطابق کرتا رہے، غرضیکہ کسی طرح بھی عملی دنیا سے اس کا سرو کار نہ ہونے پائے۔ شیطان چاہتا ہے کہ مسلمان کو کسی طرح بھی یقین کی دولت ملنے نہ پائے اور وہ عمل سے دور ہی رہے ورنہ ابلیس کا جادُو بے اثر ہو کر رہ جائے گا۔ وہ کہتا ہے کہ یہ مسلمان وہ لوگ ہیں کہ انہیں اگر ایمان اور یقین کی دولت مل جائے تو دنیا میں ان کی تکبیریں تہلکہ مچا دیں: توڑ ڈالیں جس کی تکبیریں طلسمِ ششِ جہات اس لیے : ہو نہ روشن اس خدا اندیش کی تاریک رات یعنی اگر ان مسلمانوں کی تاریک راتوں میں روشنی کی کوئی کرن آگئی تو یہ لوگ اقوامِ عالم کو اپنے فکرو عمل سے بیدار کر دیں گے۔ لہٰذا اس قوم کے لیے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ اس کے افراد اس قسم کی بحثوں میں الجھے رہیں : اِبن مریم مرگیا یازندئہ جاوید ہے ہیں صفاتِ ذات حق، حق سے جُدا یا عَینِ ذات؟ آنے والے سے مسیحِ ناصری مقصود ہے یا مجدّد جس میں ہوں فرزندِ مریم کی صفات؟ ہیں کلامُ اللہ کے الفاظ حادث یا قدیم اُمّتِ مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات؟ اس وقت حکیم الامت علامہ اقبال کا ہاتھ قوم کی نبض پر ہے اور وہ ایک ایک کرکے ہمارے امراض گنوا رہے ہیں جن کی وجہ سے ابلیسی نظام اس دنیا میں اب تک کامیاب رہا ہے اور آئندہ بھی اگر قومِ شیاطین کو کچھ امید نظر آتی ہے تو ان ہی ابلیسی نظریات کے ذریعہ ممکن ہے جن کی وجہ سے امتِ مسلمہ فرقوں میں بٹ چکی ہے اس لیے وہ (شیطان) اپنی تقریر کے دوران مشیروں سے سوالیہ انداز میں کہتا ہے : کیا مسلماں کے لیے کافی نہیں اس دور میں یہ اِلٰہیات کے ترشے ہوئے لات و منات؟ اقبال کے قلم کی منفی کاٹ مسلسل اُمّت کے امراض کی نشاندہی کر رہی ہے کہ مسلمان نے اپنے دل میں طرح طرح کے بت بسا رکھے ہیں جن کی وجہ سے ذاتِ مطلق کا ادراک اس کے ذہن سے محو ہو چکا ہے۔ حقیقتاً مسلم اُمّہ کی بقا کا انحصار صرف اس امر پر ہے کہ وہ اپنی کوتاہ نگاہی دور کرے اور دین کو اس کی اصل شکل میں پہچاننے کی کوشش کرے اور یہ صرف اس وقت ممکن ہوگا جبکہ وہ توہمات اور فضول رسومات کو چھوڑ دے۔ تاکہ وہ فرقہ پرستی کی لعنت سے نجات حاصل کرسکے۔ اگر ہم ذہنی غلامی سے چھٹکارا حاصل نہ کرسکے تو اس عالمِ رنگ و بُو میں ہم کوئی مقام پیدا نہیں کرسکیں گے ۔ ابلیس اپنی خواہش کا اعادہ کرتے ہوئے اپنے مشیروں سے کہتا ہے کہ : تم اسے بیگانہ رکھوّ عالمِ کردار سے تابساطِ زندگی میںاس کے سب مُہرے ہوں مات وہ کہتا ہے کہ خیر اس میں ہے کہ مسلمان اپنی خیالی دنیا میں مگن رہے، اور وہ عملی زندگی سے یکسر دور رہے تاکہ دنیا میں ہر جگہ اس کو شکست کا منہ دیکھنا پڑے۔ وہ زندگی بھر غلام رہے اور اس کو غلامی میں ہی عافیت کا احساس ہو، اس کی نظرمیں یہ دنیا بالکل بے ثبات ہو، تاکہ وہ ہمیشہ محکوم رہے اور کہیں بھی حکومت میں اس کا کوئی عمل دخل نہ ہو پائے ۔ خیر اسی میں ہے ، قیامت تک رہے مومن غلام چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہانِ بے ثبات شیطان اپنے مشیروں سے کہتا ہے کہ مسلمان کو اس کے خوابوں کی جَنّت سے باہر نہ آنے دو تم اس کے دل میں یہ بات راسخ کر دو کہ یہ دنیا ناپائدار ہے اور وہ اس دنیا کو اور اس کے نظام کو دیگر اقوام کے لیے چھوڑے رکھے، خود و ہ گوشہ نشین ہو کر اللہ کو یاد کرتا رہے تاکہ مرتے ہی وہ سیدھا جَنّت میں چلا جائے، پس اس طرح قیامت تک مسلمان غلام ہی رہے گا۔ ہے وہی شعرو تصوُّف اس کے حق میں خُوب تر جو چُھپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات ابلیس کہتا ہے کہ مسلمان کے لیے ایسی شاعری اور ایسا ہی تصوّف بہترین راستہ ہے جس کی وجہ سے وہ اس دنیا کو ہیچ سمجھنے لگے اور حقیقی حیاتِ دُنیوی کا شعور اس کے اندر بیدار نہ ہوسکے۔ مطلب یہ ہے کہ مسلمان کی شاعری گُل و بُلبُل اور لب و رخسار تک محدود رہے، اور اس کا تصوّف ایسا تصوّف ہو جس کے ذریعے وہ خلوت میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرتا رہے، اور تسبیح کے دانے گنتا رہے اور اس طرح وہ عملی دنیا سے دور سے دور تر ہوتا چلا جائے، نہ تو اس کا حیات افروز انقلابی شاعری سے کوئی لگائو ہونے پائے اور نہ ہی اس کا تصوّف اس میں وہ کردار کی عظمت پیدا کرسکے جس کے ذریعے ہمارے اسلاف نے لاکھوں بندگانِ خدا کو مشرف بہ اسلام کیا تھا۔ آخری مرحلہ پر ابلیس ایک مرتبہ پھر اپنی پہلی بات کو دہراتا ہے: ہر نفس ڈرتا ہوں اس اُمّت کی بیداری سے میں ہے حقیقت جس کے دیں کی اِحتسابِ کائنات وہ اپنے مشیروں کو ہوشیار رہنے کی تلقین کرتے ہوئے کہتا ہے کہ خیال رکھو، یہ اُمّت بیدار ہونے نہ پائے، کیونکہ اس کو اگر اپنے دین کا صحیح علم او رادارک ہوگیا تو پھر یہ دنیا تو کیا ساری کائنات اس کے تصُّرف میں ہوگی اور یہی بات میرے لیے انتہائی باعث تشویش ہے۔ اس کا حل بس ایک نکتہ میں پوشیدہ ہے کہ : مست رکھّو ذکر و فکرِ صبح گاہی میں اسے پُختہ تر کر دو مِزاجِ خانقاہی میں اسے مندرجہ بالاشعر زیرِ عنوان نظم کا آخری شعر ہے ۔ کہنے کو یہ چند خوبصورت الفاظ کا مجموعہ ہے اور ایک بہترین شعر ہے، بظاہر یہ شعر اُمّتِ مُسلمہ کے ایک مرض کی تشخیص کر رہا ہے، حقیقتاً یہ اُمّت کے جسم میں ایک پھوڑے کی نشاندہی کرتا ہے، جس کا اگر بروقت اور فوری علاج نہ کیا گیا تو یہ ناسُور بن جائے گا اور پھر لاعلاج ہوگا۔ حکیم الاُمّت علامہ اقبال اس مرض سے نجات کی دوا بھی تجویز کرتے ہیں، جو وہی نسخۂ کیمیا ہے کہ جو رسول عربیؐ غارِ حرا سے اپنے ساتھ لائے تھے۔ دراصل حقیقت یہ ہے کہ یہی نسخۂ کیمیا اُمّت کے تمام امراض کاشافی اور مکمل علاج ہے۔ اقبال کے الفاظ ہیں: ایں کتابِ زندہ قرآن حکیم حکمتِ اُو لایزال است و قدیم (قرآن حکیم و ہ زندہ کتاب ہے جس کی حکمت قدیم بھی ہے اور اس کو کبھی زوال نہیںہوگا)۔ نسخۂ اسرارِ تکوینِ حیات بے ثبات از قُوّتش گیرد ثبات (اس کے اندر زندگی کے وجود میں آنے کے راز پوشیدہ ہیں، اس کے اندر اس قدر قوّت اور طاقت ہے کہ بے ثبات کو ثبات مل جاتا ہے)۔ قرآن پاک کی یہی قوّت ملّت کے جسم کے لیے وہ طاقت فراہم کرتی ہے جو ہر مرض سے نجات کے لیے زبردست قوُّتِ مُدافِعَت ( Resistance Power) جسدِ مُسلم کو فراہم کرتی ہے۔ خ خ خ مسجدِ قُرطُبہ عشق فقیہِ حرم، عشق امیرِ جُنود عشق ہے ابن السّبیل اس کے ہزاروں مقام زیرِ عنوان شعر اقبالؒ کی مشہور نظم ’مسجد قُرطبہ‘ کا ہے۔ یہ نظم ہسپانیہ (Spain) کے مقام قُرطبہ میں اقبال نے ۱۹۳۳ء میں لکھی ۔ سپین کی مسجد قُرطبہ مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا ایک جیتا جاگتا شاہکار ہے۔ یوں تو اقبال کو یورپ میں ہر جگہ مسلمانوں کی تہذیب و عظمت کے اثرات اور نشانیاں نظر آئیں جن کا انہوں نے کئی جگہ اپنے اشعار میں ذکر کیا ہے۔ لیکن جس وقت انہوں نے مسجدِ قُرطبہ میں قدم رکھا تو ان پر وجدکی کیفیت طاری ہوگئی۔ سب سے پہلے انہوں نے چاہا کہ بارگاہِ ایزدی میں سر بسجود ہو کر طارق کے سواروں کی یاد تازہ کریں ۔ چنانچہ انہوں نے قرطبہ کے نگہبان سے کہا کہ میں یہاں اذان دینا چاہتا ہوں ۔ اس نے جواب دیا کہ ٹھہر جائیے میں یہاں کے بڑے پادری سے اجازت لے کر آتا ہوں وہ چند لمحے بھی انتظار نہ کرسکے اور جب نگہبان بڑے پادری سے اجازت لے کر آیا اقبال دو رکعت نفل نماز ادا کر چکے تھے۔ ان کے رخسار سجدے کی حالت میں بہتے ہوئے آنسوئوں میں دُھل چکے تھے ۔ اقبال خود اعتراف کرتے ہیں کہ ’’مسجد کی زیارت نے مجھے جذبات کی ایسی رفعت پر پہنچا دیا جو مجھے پہلے کبھی بھی نصیب نہیں ہوئی تھی‘‘ انہوں نے ’مسجدِقُرطبہ ‘ تخلیق کی۔ اس نظم کے متعلق بالکل درست کہا گیا ہے کہ اگر اقبال اپنی زندگی میں صرف ’مسجد قُرطبہ‘ ہی لکھتے تب بھی یہ نظم ان کو ’اقبال ‘ کہلانے کے لیے کافی تھی ۔ اقبال کی کتاب بالِ جبریلکی نظم ’مسجدِ قرطبہ‘ کا پہلا بند ان اشعار سے شروع ہوتا ہے ۔ سلسلۂ روز و شب نقش گرِ حادثات سلسلۂ روز و شب اصلِ حیات و ممات سلسلۂ روز و شب تارِ حریر دو رنگ جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات یہاں اقبال کہتے ہیں کہ ’سلسلۂ روز شب‘ کے تحت عملِ تخلیق جاری و ساری ہے۔ یہیں سے زندگی کے سوتے پھوٹ رہے ہیں اور ہم ذاتِ باری کی صفات کا مشاہدہ اپنی آنکھوں اور اپنے احساسات کے ذریعہ کرسکتے ہیں۔ قرآنِ پاک بھی یہی تعلیم دیتا ہے کہ دن اور رات اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں ۔ مندرجہ بالا اشعار کے پہلے مصرعہ میں ’نقش گرِ حادثات، کی اصطلاح عملِ تخلیق کے لیے استعمال کی گئی ہے۔ یہی نظریہ فرانس کے مشہور فرانس کے مشہور فلسفی برگساں نے اپنایا ہے۔ دوسرے شعر میں رات اور دن کو دو رنگ کے ریشمی دھاگوں سے تشبیہ دی گئی جو ذاتِ الٰہی کی صفات کے اِظہار کا ایک انوکھا اور بے انتہاخوبصورت انداز ہے، اور ساتھ ہی ریشم کے باریک دھاگے کی کمزوری کا اشارہ ہے، جس سے دنیا کی بے ثباتی ظاہر ہوتی ہے۔ اسی طرح پہلے بند میں زندگی ، اس کی گہماگہمی ، اس کے نشیب و فراز ، لوگوں کے کارہائے نمایاں وغیرہ وغیرہ غرضیکہ ہر شے کم معیار اور فنا والی بتائی گئی ہے ۔ اس بند کے آخری دو اشعار میں کہا گیا ہے :۔ آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہُنر کارِ جہاں بے ثبات!کارِ جہاں بے ثبات! اَوّل و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا نقشِ کُہن ہو کہ نَو، منزلِ آخر فنا حقیقت یہ ہے کہ اس نظم کا پہلا بند اس وقت یعنی ۱۹۳۳ء تک کے مُروّجہ تخلیقی نظریہ کی عکاسی ہے اور ساتھ ہی فلسفۂ زمان و مکان میں عملِ تخلیق کے سلسلہ میں اقبال کے نظریہ کا یہ بند پیش لفظ (IntroductionیاForeword) ہے ۔ اس پیش لفظ کے بعد اقبال نظریۂ تخلیق کی گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں۔ اقبال سے پہلے گزرے ہوئے ممتاز شُعرا جن میں حافظ شیرازی، شیخ سعدی وغیرہ شامل ہیں بلکہ اکثر صوفیائے کرام بھی اس نظریہ سے متاثر رہے ہیں جو اوپر دیئے ہوئے اشعار میں نمایاں ہے۔ البتہ صوفی شاعر مولانا رومی نے اس نقطۂ نظر سے انحراف کی ابتدا کی اور اقبال نے نہ صرف اس مسلک کو آگے بڑھایا بلکہ انتہائی مدلّل اور بااثر طریقہ سے ’’فنا‘‘ کو زندگی کی ایک منزل ثابت کیا اور دنیا کی ’’بے ثباتی ‘‘ کو حادثاتِ زمانہ قرار دے کر بقائے دوام سے ہمکنار کر دیا۔ اسی نظم کے دوسرے بند میں بے ثبات دنیا کے نقوش میں (خواہ وہ نقشِ کہن ہو کہ نَو) اقبال حیاتِ دوام دیکھ رہے ۔ وہ فکر کی ان بلندیوں پر ہیں کہ جو منزِل عشق ہے اور رہ گزر عام نہیں، فرماتے ہیں :۔ ہے مگر اس نقش میں رنگ ثباتِ دوام جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ عشق ہے اصلِ حیات ، موت ہے اُس پر حرام ان دو اشعار میں جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور جو انداز اختیار کیا گیا ہے اس قدر پرجوش اور معنی خیز ہے کہ بغیر کسی تشریح کے بات دل میں اتر جاتی ہے۔ خاص طور ان اشعار میں ’’مگر ‘‘’’عشق‘‘اور اصطلاح’’مرد خدا‘‘کو استعمال کرکے اقبال نے موت کو زندگی سے بدل دیا ہے،اور ان دو اشعار میں ایسی روح پھونک دی ہے جس نے فضا کو زندگی کے نغموں سے بھر دیا ہے،یہ اقبال کے دو اشعار نہیں بلکہ زندگی کا ایک ساز ہے جسے نغمے بکھیرنے کے لیے صرف ایک مضراب چاہیے،اور وہ ہے اقبال کے ’’مردِ خدا‘‘کا عشق۔ اس بند میں آگے چل کر اقبال کہتے ہیں کہ زمانے کی رَو سیلاب ہے، لیکن عشق خود ایک سیلاب ہے اور ایسا سیلاب دنیا کے مادی سیلابوں کو تھام لیتا ہے۔عشق کی دنیا میں اقبال چلے جار ہے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ زمانہ حاضر کے سوا عشق کی دنیا میں اور بھی زمانے ہیں جن کا تقویم (جنتری) میں کوئی نام نہیں، جہاں نہ ماضی جیسی کوئی چیز ہے اور نہ مستقبل کا کوئی تصور ‘ اقبال کے الفاظ میں : عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام یہ نظم لکھتے وقت اقبال جس مقام پر تھے اس کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں، البتہ آپ کچھ اندازہ ان کے مندرجہ ذیل اشعار سے کرسکتے ہیں جو بالکل واضح اور صاف الفاظ میں ’’عشق‘‘ کی تصویر کی ایک جھلک پیش کرتے ہیں : عشق دمِ جبرئیل ، عشق دلِ مصطفیؐ عشق خدا کا رسولؐ ، عشق خدا کا کلام عشق فقیہِ حرم ، عشق امیرِ جُنود عشق ہے ابن السّبیل ، اس کے ہزاروں مقام عشق کے مضراب سے نغمۂ تارِ حیات عشق سے نورِ حیات ، عشق سے نارِ حیات ان اشعار میں اقبال عشق و مستی کی سرشاری میں جو بات کہہ گئے ہیں، میں تو یہ کہوں گا کہ وہ شاہراہ عشق پر اپنے مُرشد رومی سے بھی آگے نکل گئے ہیں، جنہوں نے یہ کہا تھا کہ ’’میں عشق کا فلسفہ لوگوں کو سمجھاتا رہتا ہوں لیکن جب میرے اپنے اوپر یہ کیفیت طاری ہوتی ہے تو مجھے اپنے آپ پر ہنسی آتی ہے۔‘‘ مندرجہ بالا اشعار میں اقبال نے ’’عشق‘‘ کو دمِ جبرئیل اور دلِ مصطفیؐ کہا ہے اور ساتھ ہی اس کو خدا کا رسولؐ اور خدا کا کلام بتایا ہے۔ دیکھئے کس انداز سے ایک شعر میں اقبال کیسی گہری بات کہہ گئے ہیں ۔ انہوں نے خدا، جبرئیل اور مصطفیؐ کو عشق کے رشتہ سے منسلک کرکے ہمیں مقامِ عشق سے آگاہ کیا ہے۔ حقیقت میں ہم وہ نہیں دیکھ سکتے جو اقبال کی چشمِ بصیرت دیکھ سکتی ہے۔ اسی لیے وضاحت کے لیے وہ ہمیں مزید بتاتے ہیں کہ اس دنیا میں عشق ہی ہمیں فقیہ دین کی شکل میں نظر آتا ہے اور عشق ہی میدان ِ کار زار میں امیرِ سپاہ ہوتا ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ صرف یہی نہیں بلکہ عشق کے ہزاروں مقام ہیں اور ہر مقام کے لیے ہزارہا راہیں موجود ہیں، ان میں ہر راہ ایک شاہراہ عشق ہے ، وہ یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ نورِ حیات بھی عشق کا طفیل ہے اور گر مئی حیات بھی عشق ہی کا ایک عطیہ ہے۔ اقبال زیر عنوان نظم کے تیسرے بند میں بھی وجدانی کیفیت میں ڈوبے ہوئے، عشق و مستی سے سرشار، شاہراہِ عشق پر افکار کے موتی بکھیرتے چلے جارہے ہیں ۔ وہ مسجد قُرطبہ کو کیف و سرور کے عالم میں حرمِ قُرطبہ کہہ کر خطاب کرتے ہیں۔ اے حرمِ قُرطبہ!عشق سے تیرا وجود عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بُود رنگ ہو یا خِشت و سنگ، چنگ ہو یا حَرف و صّوت معجزئہ فن کی ہے خُونِ جگر سے نَمود قطرئہ خونِ جِگر سل کو بناتا ہے دِل خونِ جگر سے صدا سوز و سرور و سرود فرماتے ہیں کہ اے مسجدِ قُرطبہ تو مقّد س ہے ، تیرے تقّدُس اور وجود کو زمانہ نہ مٹا سکا۔ تو قائم و دائم ہے۔ تجھے عشق نے دوام بخشا ہے، کہ عشق بذاتِ خود سراپا دوام ہے۔ فنِ تعمیر ہو مصّوری ہو یا رنگوں کی خوشنما آویزش ہو۔ شاعری ہو یا موسیقی، بہرحال اس کا کمال خونِ جگر کی بدولت ہے، یہ خونِ جگر کا قطرہ ہی ہوتا ہے جو پتھر کو پگھلا دیتا ہے، خونِ جگر ہی کی بدولت کائنات میں نغمگی ہے اور سوز مستی کی آبیاری بھی خونِ جگر ہی کرتا ہے ۔ اقبال مسجد قُرطبہ کی فضائوں سے مسحوُر ہو کر پھر نغمہ سرا ہوتے ہیں۔ تیری فضا دل فروز میری نوا سینہ سُوز تُجھ سے دلوں کا حضور مجھ سے دلوں کی کَشود اے مسجد قرطبہ تیرے دیدار سے دل منور ہو جاتے ہیں اور میری شاعری دلوں میں سوزِ عشق پیدا کرتی ہے، اور اے مسجد قرطبہ تیرا وجود اہلِ طلب کوحضوریٔ قلب بخشتا ہے، جبکہ میری گفتار ذہنوں کو اجاگر کرتی ہے اور دلوں میں کشادگی و وسعتِ نظر کا باعث ہوتی ہے۔ دیکھئے اب مردِ خدا اور مسلمان کا ناطہ مسجد قُرطبہ کے توسُّط سے اقبال تک قائم ہوگیا تو بات آگے بڑھتی ہے، اور پھر انسان، مردِ مومن اور فرشتے کلام کی زد میں آجاتے ہیں چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : عرش معلّٰی سے کم سینہ آدم نہیں گرچہ کفِ خاک کی حد ہے سپہر کَبُود پیکرِ نوری کو ہے سجدہ میسر تو کیا اس کو میسر نہیں سوز و گدازِ سَجُود یہاں ایک نکتہ غور طلب ہے کہ اقبال نے لفظ ’’آدم ‘‘ استعمال کیا ہے یعنی سینۂ آدم ، سینۂ مسلم نہیں، یہ ان کی وسعتِ نظر کا کھلا ثبوت ہے۔ مندرجہ بالا پہلے شعر میں اقبال فرماتے ہیں کہ کفِ خاکی (انسان) کے تخیل کی پرواز محدود ہے اور اس کی نظر نیلے آسمان سے آگے نہیں جاسکتی لیکن جو دل عشق کے نور سے منور ہوسکا اس کا مرتبہ عرشِ معلّٰی سے کم نہیں۔ ایسا دل خدا کا گھر ہوتا ہے، دوسرے شعر میں ارشاد ہوتا ہے کہ یوں تو فرشتے بھی بارگاہِ ایزدی میں سجدہ ریز ہوتے ہیں لیکن وہ سجدے کی حقیقی لذَّت سے ناآشنا ہیں ۔ جو لذَّت اور سرور مردِ مُومن کو سجدے میں نصیب ہوتا ہے وہ عشق کی تڑپ اور رِفعت قلبی کی بدولت ہے اور فرشتہ اس سوزِ جگر کی لذّت سے محروم ہے۔ لذّتِ سوز جگر پوچھئے پروانے سے تیسرے بند کا اختتام اس شعر پر ہوتا ہے شوق مری لَے میں ہے ، شوق مری نَے میں ہے نغمۂ اللہ ہُو ، میرے رَگ و پے میں ہے اقبال اپنے اشعار میں عشق کی جگہ اکثر ’’شوق‘‘ کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس لفظ کی روح میں عشق کی لگن کے ساتھ ساتھ دُھن، جوش ، امنگ ، محبت کی فراوانی ، شدّتِ اشتیاق اور وہ ترنّم پایا جاتا ہے جو سازِ دل کے لیے مِضراب کا کام کر جاتا ہے ۔ اس شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ عشق میرے رگ و ریشہ میں بسا ہوا ہے، عشق ہی میری شاعری ہے اور نغمۂ اللہ ہو میری ذات کا ایک حصہ ہے ۔ اپنی نظم کے چوتھے بند میں اقبال پھر مسجد قرطبہ کو ایک نئے انداز سے مخاطب کرتے ہیں فرماتے ہیں: تیرا جلال و جمال ، مردِ خدا کی دلیل وہ بھی جلیل و جمیل تو بھی جلیل و جمیل تیری بنا پائیدار ، تیرے ستوں بے شمار شام کے صحرا میں ہو جیسے ہُجومِ نخیل پہلے شعر میں مسجدِ قُرطبہ کو اس مردِ خدا کی پہچان بتایا ہے جس کے قوی اور پُر جلال ہاتھوں نے اس کی تعمیر کی اور جس کے حسین تخیل کی مسجد قُرطبہ ایک حَسین تصویر ہے اور اس مردِ خدا کی ایک زندئہ جاوید ترجمان ہے۔ دوسرے شعر میںارشاد ہوتا ہے کہ اے مسجد قُرطبہ! تیری بنیادیں مضبوط ہیں، کیونکہ ان کو نسبت ہے ایک مردِ آہن کے مضبوط اور پُرعزم ہاتھ سے، اور اے مسجد قُرطبہ! تیرے ستونوں کا ہجوم اتنا حَسین اور دِلکش ہے جیسے صحرا میں لہلہاتے قطار در قطار بیشمار کھجور کے درخت ہوں۔ اے مسجد قرطبہ! تیرے در و بام پر وادیٔ اَیمن کا نُور تیرا مِنارِ بُلند جلوئہ گہِ جبرئیل مٹ نہیں سکتا کبھی مردِ مسلماں کہ ہے اس کی اذانوں سے فاش سرِّ کلیم ؑ و خلیل ؑ اس کی زمیں بے حدود ، اس کا افق بے ثُغور اس کے سمندر کی موج ، دجلہ و دنیوب و نیل اقبال نغمہ سراہیں اور جذب و مستی کے عالم میں اس مردِ خدا کو جس نے مسجدِ قُرطبہ تخلیق کی مرد مسلمان کے نام سے موسوم کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ مردِ مسلمان کبھی مٹ نہیں سکتا اس کی اذان رہتی دنیا تک موسیٰ کلیم ؑ اللہ اور ابراہیم خلیل ؑ اللہ کی زندگیوں کے رموز آشکار کرتی رہے گی مرد مسلمان کے لیے نہ کوئی زمین مخصوص ہے نہ کوئی آسمان ، سارے دریا، سمندر اور فضائیں اس کے احاطہ تسخیر میں ہیں۔ اقبال مردِ مسلمان کے اوصاف بیان کرتے چلے جار ہے ہیں : اس کے زمانے عجیب ، اُس کے فسانے غریب عہدِ کُہن کو دیا اس نے پیامِ رحیل ساقیٔ اربابِ ذوق، فارسِ میدانِ شوق بادہ ہے اس کا رحیق، تیغ ہے اس کی اصیل فرماتے ہیں کہ اس کی، یعنی مردِ مسلمان کی داستانیں عجیب و غریب ہیں، اور اس کے زمانے بھی نرالے ہیں، وہ جب چاہے پرانے اور فرسُودہ زمانے کو رُخصت کرکے نئے دور کا آغاز کر سکتا ہے۔ یہ اسی کا طفیل تھا کہ جس نے عہد کہن کو جو کہ ایک تاریک زمانہ تھا موجودہ روشن اور ترقی یافتہ دور میں بدل دیا۔ وہ اہلِ دل اور اہلِ ذوق لوگوں کے مشرب کا ساقی ہے، اور میدانِ عشق کا شہ سوار ہے۔ اس کی شرابِ عشق آلودگی سے پاک صاف و شفّاف اور خالص ہے، اس مردِ مسلمان کی تلوار اس کی شرافتِ نفس ہے، یہ مردِ مسلمان ، مردِ خدا ، مردِ مومن درحقیقت کیا ہے : مرد سپاہی ہے وہ ، اس کی زِرہ لا اِلہٰ سایہ شمشیر میں اس کی پنہ لا اِلہٰ مسجد قُرطبہ کے پانچویں بند میںاقبال کے تصوّر میں طارق کے بہادر سپاہی ہیں۔ ان کے جذبہ عمل اور عشق کی تخلیق کا شاہکار مسجد قُرطبہ نظروں کے سامنے ہے ۔ اقبال اسی مرد سپاہی سے مُخاطِب ہیں، اور اب اس کو بندئہ مومن ، رموزِ باطن کا مظہر قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں : تجھ سے ہوا آشکار بندئہ مومن کا راز اس کے دنوں کی تپِش اس کی شبوں کا گداز اُس کا مقامِ بلند ، اُس کا خیالِ عظیم اس کا سُرور اُس کا شوق ، اس کا نیاز اس کا ناز ہاتھ ہے اللہ کا ، بندئہ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں ، کار کُشا ، کار ساز مندرجہ بالا اشعار میں بندئہ مومن، جس کو اس نظم میں اب تک مردِ مُسلمان مردِ خدا اور مردِ سپاہی کہا گیا ہے، کی صفات بیان کرتے کرتے اقبال اس کو انتہائی بلندیوں پر لے گئے ہیں۔ جب وہ کہتے ہیں کہ بندئہ مومن کا ہاتھ اللہ کا ہاتھ ہے، جو کہ ہر مقام پر کارساز اور غالب ہے، وہ عُقد ہ کُشا ہے اور ہر گام پر کامیابی اس کا مُقَدّر ہے۔ یہاں اللہ کا ہاتھ (یدُ اللہ) سے ایک حدیث شریف کی طرف اشارہ ہے۔ (جس کا اقتباس درج ذیل ہے) یہ حدیث قدسی ہے ۔ اس حدیثِ پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’میرا بندہ فرائض کی ادائیگی کے ذریعے) میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ مجھے محبوب ہو جاتا ہے اور وہ جب میرا محبوب بن جاتا ہے تومیں اس کا کان بن جاتا ہوں، جس سے وہ سنتا ہے، اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پائوں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور ( اس کی محبوبیت اور نزدیکی اس کو اس قدر بلند کر دیتی ہے کہ ) کہ وہ مجھ سے سوال کرے تو اس کا سوال پورا کردوں اور جو مانگے اسے دے دوں اور اگر مجھ سے پناہ طلب کرے تو اسے (آفات اور مہلکات سے ) پناہ دے دوں۔‘‘اس کے بعد اقبال فرماتے ہیں ۔ خاکی و نُوری نہاد ، بندئہ مولاصفات ہر دو جہاں سے غنی اس کا دلِ بے نیاز اس کی امیدیں قلیل ، اس کے مقاصد جلیل اس کی ادا دلفریب ، اس کی نِگہ دلنواز اس خاک کے پتلے (انسان) کی سرِشت نوری ہے، اور اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی صفات سے نوازا ہے۔ بندے کو جب مقامِ محبوبیت عطا ہوتا ہے تو وہ شان و شوکت دنیا سے بے نیاز ہو جاتا ہے وہ حقیقی معنوں میں غنی ہوتا ہے اور دنیا کی ہر شے اس کے لیے کم مایہ ہوتی ہے البتہ اس کی اپنی ذات لوگوں کے لیے بے بہا نعمت ہوتی ہے ایسا انسان ہر دلعزیز ہوتا ہے اس کی ذات سے بندگانِ خدا کو فیض حاصل ہوتا ہے اس کی نگاہِ پاکباز دلوں کو منور کرتی ہے اس کی ہر ادا دلفریب ہوتی ہے ، وہ گرمیٔ محفل ہوتا ہے اور اگر میدان کار زار میں ہو تو ایک باتدبیر اور بہادر سپاہی کے جوہر دکھاتا ہے ۔ قبل ازیں ایک اور مقام پر ایسے اِنسان کی تعریف اس طرح بیان کرتے ہیں : جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں، وہ طُوفان زیر نظر نظم میں اقبال ایسے مرد مومن کو یوں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں ۔ کعبۂ اربابِ فن ! سطوَتِ دینِ مُبیں تُجھ سے حَرم مَرتَبَت اُندلسیوں کی زمیں ہے تہہ گردوں اگر حُسن میں تیری نظیر قلب ِ مسلماں میں ہے ، اور نہیں ہے کہیں اقبال یہاں مسجد قُرطبہ کو کعبۂ ارباب فن کہہ کر خطاب کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ تُو اِسلام کی شان اور دَبدَبہ کا نشان ہے تیرے وجود سے اسپین کی سر زمین متبرک اور لائق احترام ہے، اگر حُسن میں تیرا کوئی ثانی ہے تو صرف قلب مومن ہے۔ قلبِ مسلمان کا تصور ذہن میں آتے ہی اقبال کی نظر کے سامنے ایک مرتبہ پھر عربی شہسوار گھوم جاتے ہیں وہ وارفتگی کے عالم میں یوں گویا ہوتے ہیں : آہ وہ مردانِ حق!وہ عَربی شہسوار حاملِ خُلقِ عظیم ، صاحبِ صِدق و یقیں جن کی حکومت سے ہے فاش یہ رمزِ غریب سلطنتِ اہلِ دِل فقر ہے ، شاہی نہیں ان اشعار میں اقبال قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ کر گئے ہیں کہ وہ سرزمین عرب کے جانباز متوالے مردانِ حق و صداقت تھے، وہ بلند حوصلہ اور اعلیٰ ترین اِخلاق کے حامل تھے، ان کے دورِ حکومت نے یہ ثابت کر دیا کہ راست باز اور قلبِ صادق رکھنے والے حکمرانوں کی کامیابی کا راز دنیاوی دولت و ثروت نہیں ہوتی، وہ تو فقر کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں جو کہ ایسی بے بہانعمت ہے، جس کے سامنے دنیا کے تمام خزانے ریت کا ڈھیر ہیں، وہ لوگ انسانیت کے ایسے پیکر تھے۔ جن کی نگاہوں نے کی تَربیّتِ شرق و غرب ظُلمتِ یورپ میں تھی جن کی خرد راہ بیں جن کے لہو کے طفیل آج بھی ہیں اندلسی خوش دل و گرم اِختلاط ، سادہ و روشن جبیں ان کے علم و حکمت سے مشرق سے لے کر مغرب تک کے ممالک فیض یاب ہوئے۔خصوصاً مغربی ممالک جو تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے تھے، علم کی روشنی سے منور ہوگئے، اخلاقیات اور انسانیت کے دورِ حاضر کے خود ساختہ علمبردار ان ہی درویش طِینَت انسانوں کے قدموں کے طفیل آج مُعلّم اخلاقیات بنے، انسانیت کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن وہ نور عرفان سے عاری ہیں ۔ مُسلمان اگرچہ اب اسپین سے رخصت ہوچکا ہے، لیکن اہلِ سپین میں خوش اخلاقی ، دلنوازی اور ان کا حُسن ان ہی لوگوں کے خُون کے طفیل ہے، سر زمینِ اسپین کی شیریں زبانی، ادب، شعر، مصوری اُن ہی زِیرک اور خود شناس انسانوں کی مرہونِ منّت ہے اور: آج بھی اس دیس میں عام ہے چشمِ غزال اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دِل نَشیں اقبال کی حُسن شناس نگاہیں اسپین کی غزالہ چشم ماہ سیمائوں کے تیرِ نگاہ سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں اور وہ پکار اٹھے ’’اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دل نشیں۔ ‘‘ وہ سر زمین سپین کی رنگا رنگ فضائوں میں کھوئے ہوئے ہیں۔ نسیمِ حجاز کا ایک ہلکا سا جھونکا ان کے مشّامِ جان کو مُعَطّر کر جاتا ہے اور اقبال گنگنانے لگتے ہیں ۔ بوئے یمن آج بھی اس کی ہوائوں میں ہے رنگِ حجاز آج بھی اس کی نوائوں میں ہے اقبال سرشاری کے عالم میں ہیں، ان کے قدموں تلے سر زمینِ اُندلس (اسپین ) ہے۔ ایسے میں اقبال اپنا دل تھام لیتے ہیں اور سسکیاں بھرتے ہوئے کہتے ہیں ۔ دیدئہ انجم میں ہے تیری زمیں ، آسماں آہ کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں کون سی وادی میں ہے ،کون سی منزل میں ہے عشقِ بلاخیز کا قافلۂ سخت جاں! اے سر زمین اندلس! تیری عظمت کی تو ستارے بھی گواہی دے رہے ہیں، پھر کیوں صدیوں سے تیری فضائیں مسلمان کی اذان سے محروم ہیں۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ وہ سخت جان (جفاکش مرد مومن) کہیں موجود نہ ہو ۔ یقینا وہ اپنے قافلہ کے ساتھ عشق کے بھڑکتے شعلوں کی لپیٹ میں باطل کو جھلساتا ہوا کسی نہ کسی وادی سے گزر رہا ہوگا۔ اس کا رواں کا ظہور تقدیر الٰہی ہے، جسے کوئی طاقت نہیں روک سکتی ۔ جب سے مسلمان یورپ سے رخصت ہوا ہے اس وقت سے اب تک زمانہ بہت رنگ بدل چکا ہے، اور دنیا بڑے بڑے انقلابات دیکھ چکی ہے، جس کا نقشہ اقبال اس طرح کھینچتے ہیں: دیکھ چکا المنی ، شورشِ اصلاحِ دیں جس نے نہ چھوڑے کہیں نقشِ کُہن کے نشاں حرفِ غلط بن گئی عصمتِ پیرِ کُنِشت اور ہوئی فکر کی کشتیٔ نازک رواں چشمِ فرانسیس بھی دیکھ چکی اِنقلاب جس سے دگرگوں ہوا مغربیوں کا جہاں مِلّتِ رومی نژاد کہنہ پرستی سے پِیر لَذّتِ تجدید سے وہ بھی ہوئی پھر جواں دنیا کے مختلف ممالک اور خصوصاً مغربی ملکوں میں اسلام کے زرّیں اصولوں کی نقالی کر کے جو انقلابات برپا کے گئے، ان میں ظاہری چمک دمک وقتی تھی، جو مدھم پڑتی جا رہی ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے جس طرح پیتل کے زیور پر سونے کی ملمع کاری (پالش) جو وقت کے دھارے کے آگے ماند پڑتے پڑتے غائب ہوا چاہتی ہے، اور ظُلمَت کی تِیرگی ان کا مقدر ہے ۔ مندرجہ بالا اشعار میں اقبال انتہائی خوبصورتی کے ساتھ یورپ کی ہزار سالہ تاریخ بیان کر گئے ہیں۔ اسلام کے بَلاخیز ترقیاتی سیلاب کو رُوکنے کے لیے یُورپ کی مختلف اقوام نے مذہب اور قومیّت کے تصوّر کو نئے رنگوں میں پیش کیا، انہوں نے اپنی اپنی قوم کو نئے اصلاحی قوانین دے کر اُبھار ا اور انقلابات برپا کئے ۔ لوتھر کی مذہبی اصلاحات نے (Catholic Church) جرمنی میں پرانی عیسائیت کو جدید خطوط پر اُستوار کیا جس کی وجہ سے فرسُودہ عقائد کو نئی جَہت ملی اور عیسائیت میں اِجتہاد کی بنا پڑی ۔ اس طرح فرانس میں انقلاب (Revolution) برپا ہوا ۔ فرانسیسی قوم نے اسلام سے مساوات کا سبق لیا، جس کو دوسرے مغربی ممالک نے بھی اپنایا ۔ اس طرح مذہبی عقائد اور سیاسیات میں ہمہ گیر انقلاب آیا۔ صدیوں پرانا تاریکیوں میں ڈوبا ہوا یورپ، تہذیبِ جدید کی روشنی سے چمکنے لگا اور مسلمانوں کے قدموں کے طفیل ترقی کی راہ پر گامزن ہوا۔ بدقسمتی سے یورپی اقوام، تمدنی ترقی کی چمک دمک میں کھو گئیں اور وہ انسانی اقدار سے اتنی دور نکل گئے کہ اب بھٹکے ہوئے راہی کی طرح خیالی صحرائوں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ ان کی نائو کھلے سمندروں میں منڈلا رہی ہے اور کنارے کا دور تک سُراغ نہیں ملتا ان کی تمام تر ترقی اور تہذیبِ جدید اقبال کے الفاظ میں ’’زرِ کم عیار‘‘ ہے ۔ دوسری طرف ملّتِ اسلامیہ ایک اضطراب سے دو چار ہے یہ وہی قلبِ مضطرب ہے … ’’نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا ‘‘ اقبال مسلمان کی نشاۃِ ثانیہ کو اپنے باطن کی نظروں کے سامنے دیکھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں: رُوحِ مسلماں میں ہے آج وہی اِضطراب رازِ خدائی ہے یہ ، کہہ نہیں سکتی زباں دیکھیے اس بحر کی تہ سے اُچھلتا ہے کیا گُنبدِ نِیلو فَری رنگ بدلتا ہے کیا! اقبال نہ کہتے ہوئے بھی راز کی بات کہہ گئے ہیں۔ باوجود ان الفاظ کے کہ ’’راز خدائی ہے یہ کہہ نہیں سکتی زباں ‘‘ اقبال کہتے جارہے ہیں کہ میں آسمانوں کے بدلتے ہوئے رنگ دیکھ رہا ہوں، جدھر سے عشاق کا کاروانِ سخت جان آرہا ہے، وہ عشق کے سمندر میں غُوطہ زن ہیں، طُوفان کی لہریں ان کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گی ۔ اقبال اس بحر کے غواص ہیں، وہ سمندر کی تہ میں موجود موتیو ں کی نشاندہی کر رہے ہیں جسے ہم دیکھ نہیں سکتے۔ ہماری مادی نظریں تو صر ف سمندر کی سطح سے ٹکرا کر واپس آجاتی ہیں۔ اس وَجدانی کیفیت میں اقبال یورپ کی تاریخ کی ورق گردانی کرنے کے بعد آنے والے انقلاب کی پیش گوئی کر گئے ہیں۔ نظموں میں اقبال کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے وہ ایک مخصوص ماحول پیدا کرتے ہیں، پھر کوئی منظر پیش کرتے ہیں تاکہ سامِع کے منتشر ذہن کو یکجا کرکے سمت کا تعین کریں، پھر اپنے زُورِ بیاں اور دِلنشین اندازِ خطابت سے، قلب میں حرارت اور توانائی پیدا کرتے ہیں، تاکہ بات سمجھنے کی اور اس کو قبول کرنے کی خواہش پیدا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کی بات دل میں اتر جاتی ہے۔ چنانچہ اپنی نظم مسجد قُرطبہ میں ’’روز و شب‘‘ اور قانون ِ قدرت کے تحت رونما ہونے والے تغیّرات سے کلام شروع کرکے مسلمانوں کی یورپ میں آمد اور مغربی اقوام کی بیداری میں اَمّتِ مُسلِمَہ کے کردارِ جلیلہ کو بیان کیا گیا اور اب ایک رُومان انگیز منظر اس طرح پیش کرتے ہیں: وادیٔ کہسار میں غرقِ شفق ہے سحاب لعلِ بدخشاں کے ڈھیر چُھوڑ گیا آفتاب سادہ و پُرسوز ہے دُخترِ دَہقاں کا گیت کشتیٔ دل کے لیے سیل ہے عہدِ شباب ایک پہاڑ کی وادی ہے جہاں بادل شفق میں ڈوبے ہوئے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ جاتے وقت آفتاب یا قُوت اورزمّرد کے ڈھیر پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ ایک پُرسوز گیت کی آواز فضائوں کو مسحور کر رہی ہے، ایک دوشیزہ اپنی سادہ اور پُر درد آواز میں کھیت کے کنارے گارہی ہے ، اس کسان کی لڑکی کی آواز میں جو درد پِنہاں ہے وہ عَہدِ رفتہ کی یاد دلا رہا ہے ، اقبال کسی اور عالم میں محو ہیں اور بیان کرتے جارہے ہیں۔ آبِ روانِ کبیر!تیرے کنارے کوئی دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب عالمِ نو ہے ابھی پردئہ تقدیر میں میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب مسجد قُرطبہ دریائے داد الکبیر کے کنارے واقع ہے ۔ اقبال مخاطب ہیں دریا کے پانیوں سے، لیکن ان کی باطنی نگاہیں اُمّتِ مُسلِمَہ کی حیاتِ نو کا جائزہ لے رہی ہیں، وہ خود عشق کی اس منزل میں ہیں جس کی بقول ان کے ’’تقویم‘‘ میں ’’اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام‘‘۔ اقبال دیکھ رہے ہیں کہ جو نیا دور آنے والا ہے اس کی صُبح نمودار ہو چکی ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر میں کُھل کر اس دور کا حال بیان کر دوں تو مغربی ایوانوں میں زلزلہ آجائے گا۔ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ، انقلاب پھر آئے گا، چونکہ انقلاب قوموں کی زندگی کا ایک حصّہ ہوتا ہے، اقبال کہتے ہیں ۔ جس میں نہ ہو اِنقلاب، موت ہے وہ زندگی رُوحِ اُمَم کی حیات، کشمکشِ اِنقلاب اُمتوں کی زندگی کا راز جذبۂ انقلاب میں پنہاں ہے۔ جن قوموں میں کشمکشِ انقلاب کا جذبہ ختم ہوگیا وہ دنیا سے ہمیشہ کے لیے مِٹ گئیں، اس ضمن میں ایک اہم نکتہ اگلے شعر میں بیان کیا جاتا ہے: صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب قانُونِ قُدرت کے تحت قضا ء و قدر مصروفِ کار ہیں، لیکن مملکت میں احکامِ الٰہی کا نفوذ انسان کے ہاتھ سے ہوتا ہے۔ البتہ وہی انسان اور وہی قوم اس عمل کو سر انجام دینے کی اہل ہوتی ہے جو اپنا احتساب خود کرے۔ جو قومیں اپنے ہر عمل پر کڑی نظر رکھتی ہیں، وہ جَچے تُلے اور صحیح قدم اٹھاتی ہیں اور ہمیشہ اقوامِ عالم میں نمایاں رہتی ہیں ۔ اقبال اس شعر میں نظم و ضبط ، دیانت، صداقت اور جفاکشی کا زبردست درس دے گئے ہیں، جو کامیاب قوموں کا طُرّئہ اِمتیاز ہے، اس نظم کے آخری شعر میں ارشاد ہوتا ہے: نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر انسان کا کوئی آرٹ ، کوئی ہنر، کوئی کارنامہ درجہ کمال کو نہیں پہنچ سکتا، جب تک اس عمل میں خون جگر کی آمیزش نہ ہو ۔ یہ شعر حاصلِ نظم ہے اس میں سخت کوشی، جہدِ مسلسل ، مقصد کی لگن اور عشق کی اہمیت پر زور دے کر قوم کو آنے والے دور کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ اقبال اس سے قبل اشعار میں نشانِ راہ متعین کر چکے ہیں اور منزل کی نشان دہی کر چکے ہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ وہی قومیں دنیا میں سر بلند ہوتی ہیں جو اپنے گلشنِ اقدار کی آبیاری خود اپنے خونِ جگر سے کرتی ہیں ۔ نظم ’’ساقی نامہ‘‘ زندگی کے متعلق اقبالؒ کا کہنا ہے کہ یہ ایک ندی کی طرح ہے جو ہمیشہ رواں دواں رہتی ہے۔ اس کی ابتداء ہماری نظروں سے اوجھل او راس کی انتہاء بھی ہمیں دکھائی نہیں دیتی۔ اپنی مشہور نظم ’’خضر راہ‘‘ میں انہوں نے زندگی کے لیے کہا تھا : تو اسے پیمانۂ اِمروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی اقبال کی نظم ’’ساقی نامہ‘‘ بال جبریل میں ننانوے (99) اشعار پر پھیلی ہوئی ہے۔ اپنی اس طویل نظم میں اقبال زندگی کی حقیقت بیان کرنے کے سلسلہ میں ایک پہاڑی ندی کی مثال پیش کرتے ہیں، جس کے وجود سے بنجر پہاڑوں کی گھاٹیاں جنت کا نظارہ پیش کر رہی ہیں۔ فرماتے ہیں : ہُوا خیمہ زن کاروانِ بہار اِرم بن گیا دامنِ کُوہسار اس ابتدائی شعر کے بعد زندگی کی حقیقتوں سے پردے اٹھنا شروع ہوتے ہیں : گُل و نرگس و سَوسن و نسترن شہیدِ ازل لالہ خونیں کفن جہاں چُھپ گیا پردئہ رنگ میں لہو کی ہے گردش رگِ سنگ میں فضا نیلی نیلی، ہوا میں سرور ٹھہرتے نہیں آشیاں میں طیوُر ایسے حَسین اور زندگی سے بھر پور مناظر میں کاروانِ حیات رواں دواں ہے، جس کے ذریعہ قدم قدم پر ہمیں زندگی کا درس مل رہا ہے اور دیکھئے جو ئے کہستاں کس طرح ہمیں زندہ رہنے کا چلن بتا رہی ہے : وہ جوئے کُہستاں اُچکتی ہوئی اَٹکتی، لچکتی، سرکتی ہوئی اُچھلتی، پِھسلتی، سنبھلتی ہوئی بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی ان دو اشعار میں بڑے انوکھے انداز سے ہمیں زندگی کے نشیب و فراز سے آگاہ کیا گیا ہے، مگر ساتھ ہی زندگی کا دوسرا رخ بھی دیکھئے کہ یہی گنگناتی ، لہراتی اور بل کھاتی ندی، جو سنگلاخ وادیوں میں زندگی بکھیرتی ہوئی آرہی ہے، اگر کہیں اس کے راستے میں کوئی رُکاوٹ آجائے تو اس کا انداز کیا ہوتا ہے : رُکے جب تو سِل چیر دیتی ہے یہ پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ ندی کی یہ روش اور اس کا یہ انداز ہمیں زندہ رہنے کا طریقہ بتا رہے ہیں، اور یہ پہاڑی ندی ہمیں …… ’’سناتی ہے یہ زندگی کا پیام ‘‘ ’’خضرِ راہ ‘‘ میں اقبال نے یہی کہا کہ : زندگانی کی حقیقت کُوہکن کے دل سے پُوچھ جوئے شیر و تیشۂ و سنگِ گراں ہے زندگی اس نظم میں آگے چل کر اقبال فرماتے ہیں کہ زمانہ بدل چکا ہے،، فاران اور طُورِ سینا کے جِگر پھٹ چکے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پھر کوئی موسیٰ ؑ تجلی طُور کا منتظر ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ ایسے عالم میں مجھے موسیٰ ؑ نظر نہیں آرہا ، دیکھتا ہوں کہ مسلمان توحید اور الہٰیات کے معاملے میں بظاہر بڑا گرم جوش ہے، مگر اس کے دل میں اب بھی بتوں کا بسیرا ہے: مسلماں ہے توحید میں گرم جوش مگر دل ابھی تک ہے زُنّار پوش تمدن، تصوّف ، شریعت ، کلام بتانِ عجم کے پجاری تمام حقیقت خرافات میں کھو گئی یہ اُمّت روایات میں کھو گئی علماء وقت کا یہ عالم ہے کہ : لُبھاتا ہے دل کو کلامِ خطیب مگر لذّتِ شوق سے بے نصیب! بیاں اُس کا مَنطِق سے سلجھا ہوا لُغت کے بکھیڑوں میں اُلجھا ہوا اور ہمارے پیروں کا کیا حال ہے ؟ وہ صوفی کہ تھا خدمتِ حق میں مرد محبت میں یکتا ، حمیّت میں فرد عجم کے خیالات میں کُھو گیا یہ سالِک مقامات میں کھو گیا بجھی عشق کی آگ ، اندھیر ہے مسلماں نہیں ، راکھ کا ڈھیر ہے اقبال اپنی نظم میں یہاں پہنچ کر حق تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ علامہ اقبال ؒ جب بھی اپنے رب کا ذکر چھیڑتے ہیں یا رسولِ پاکؐ کا نام ان کی زبان پر آتا ہے تو پھر وہ کسی اور ہی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں ۔ جذب و مستی کی کیفیت سے دو چار ہوتے ہی ان کے افکار کاسمندر ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے اور تخیّلات کا وہ طوفان اُمڈ آتا ہے کہ قلم رُکنے کا نام نہیں لیتا۔ کچھ ایسی ہی کیفیت اُن پر طاری ہوگئی تھی جس وقت دل سے ایک آہ سرد نکلی ہوگی اور ان کے منہ سے نکلا ہوگا۔ شرابِ کُہن پھر پلا ساقیا وہی جام گردش میں لا ساقیا! ( اس شعر میں قرآنی آیت کے الفاظ اَلَستُ بِربِّکُم کی طرف اشارہ ہے) اپنے اللہ ، اپنے ساقی کو یاد کرتے ہی وہ مئے الست ، سے سرشار ہو چکے تھے ۔ چنانچہ وجد کے عالم میں ایک سو اشعار کہہ گئے ۔ شعر و فلسفہ کی دنیا میں ایسی نظیر نہیں ملتی ۔ وہ ’’شراب ِ کہن پھر پلا ساقیا‘‘ کہتے ہی بے قرار ہوگئے گویا ہاتھ اوپر اٹھا کر اپنے رب سے کہہ رہے ہوں گے کہ یا اللہ : مجھے عشق کے پر لگا کر اُڑا مری خاک جگنو بنا کر اُڑا اور اے اللہ عقل کو غلامی کی گرفت سے آزاد کر دے ! خرد کو غلامی سے آزاد کر جوانوں کو پیروں کا اُستاد کر ہری شاخِ ملّت ترے نم سے ہے نفس اس بدن میں ترے دم سے ہے آخری شعر میں قرآنِ کریم کی ’’سورۃ حجر کی آیت ۲۹ ‘‘کی طرف اشارہ ہے اور مراد یہ ہے کہ انسانی روح کا رشتہ، ذات باری سے ہے، اور اسی ذریعہ سے کشتِ ملّت کی آبیاری ہو رہی ہے۔ جس کی وجہ سے یہ شاخِ ابراہیمی ؑ ہمیشہ ہری بھری رہے گی ۔ اس مقام پر آکر اقبال مِلّت کے جوانوں کے لیے دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ تو انہیں : تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے دلِ مرتضیٰؓ سوزِ صدیقؓ دے جگر سے وہی تیر پھر پار کر تمنّا کو سینوں میں بیدار کر ترے آسمانوں کے تاروں کی خیر زمینوں کے شب زندہ داروں کی خیر جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے مرا عشق ، میری نظر بخش دے جب اقبال جیسا دُعا کرنے والا ہمارے لیے دُعا کرے تو پھر کیوں نہ ایسی دُعا کو قبولیّت کا شرف حاصل ہو۔ لیکن اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے رب کی نظرِ کرم کے لیے اپنے آپ کو مستحق بنائیں اور صحیح راستے پر گامزن ہو جائیں، کہ صراطِ مستقیم ہی ہمیں منزل تک پہنچاسکتی ہے۔ بارگاہ ربُّ العزت میں اقبال کی دعا کا سلسلہ جاری ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ اے اللہ! میری قوم کی کشتی بھنور میں پھنس کر رہ گئی ہے، تو اسے ڈوبنے سے بچا لے : مری نائو گرداب سے پار کر یہ ثابت ہے تو اس کو سیّار کر فرماتے ہیں کہ قوم کی کشتی گرداب سے نکالنے کے لیے میں اپنی متاعِ حیات کا نذرانہ پیش کرتا ہوں ، اپنی پونجی (متاع) کی تفصیل اس طرح بیان کرتے ہیں! مرے دیدئہ تَر کی بے خوابیاں مرے دل کی پُوشیدہ بے تابیاں مرے نالۂ نیم شب کا نیاز مری خلوَت و انجمن کا گداز اُمنگیں مری ، آرزوئیں مری اُمیدیں مری ، جستجوئیں مری میری راتیں جو کہ گریہ و زاری میں گزرتی ہیں، میرے پاس ایک دلِ بے تاب ہے ، جب رات ڈھلتی ہے تو میں تیرے حضور آنسوئوں کا نذرانہ پیش کرتا ہوں اور اپنی تمنائیں اور دلی آرزوئیں تجھ سے بیان کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ : مری فطرت آئینۂ روزگار غزالانِ افکار کا مُرغزار مرا دل، مری رزم گاہِ حیات گمانوں کے لشکر، یقیں کا ثبات فرماتے ہیں کہ میری فطرت آئینے کی مانند ہے ، اسی لیے میری فکر، دنیا ئے علم و حِکمت کے لیے ایک چمنستان تخیل آباد کئے ہوئے ہے اور میرا دل جہادِ زندگی کا میدان کار زار ہے، جس میں ایک طرف گمانوں کے لشکر فروکش ہیں اور دوسری طرف عزم اور یقینِ محکم کے قلعہ کی ناقابلِ تسخیر دیواریں ہیں۔ بس اے اللہ : یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر میرے قافلے میں لُٹاد ے اسے لُٹا دے ، ٹِھکانے لگا دے اسے! قوم کے لیے ایک بیش بہا پونجی کا نذرانہ پیش کرنے کے بعد، اقبال موضوعِ حیات پر ایک بار پھر فکر انگیز روشنی ڈالتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے : دما دم رواں ہے یمِ زندگی ہر اک شے سے پیدا رمِ زندگی اسی سے ہوئی ہے بدن کی نمود کہ شُعلے میں پُوشیدہ ہے موجِ دُود ایک بار پھر اقبال کہہ رہے ہیں کہ زندگی ایک ہمشیہ بہتے ہوئے دریا کی مانند ہے اور دنیا کی ہر شے حرکت میں ہے ۔ زندگی اصل وجود ہے ، حتّٰی کہ ہمارا جسم بھی زندگی کے ذریعہ وجود میں آیا ، آگ کے شُعلے کے اندر پوشیدہ دھوئیں کی موجودگی ہمیں آگ میں زندگی کا پتہ دیتی ہے۔ درختوں میں اور پتھر میں زندگی کا وجود، آج سائنس کی دنیا نے تسلیم کر لیا ہے ، البتہ ہمیں یہ راز، اسلام نے ڈیڑھ ہزار سال قبل بتا دیا تھا۔ اس عنوان پر سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے اقبال اگلے اشعار میں زندگی کی مزید تشریح کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ہماری نظروں کو کہیں کہ یہ زندگی حرکت کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور کہیں ٹھہری ہوئی نظر آتی ہے مگر یہ موجود ہر جگہ ہے۔ اقبال کے الفاظ میں : یہ ثابت بھی ہے اور سیّار بھی عناصر کے پھندوں سے بیزار بھی یہاں پہنچ کر اقبال کا اندازِ کلام عارفانہ ہو جاتا ہے، اور ان کے اشعار تصوّف کا رنگ اختیار کر لیتے ہیں، مگر اہم نکتہ یہ ہے کہ وَحدَتُ الوَجُود سے انتہائی بامعنی گریز کرتے ہوئے نظریہ وحدتُ الشّہود کی بھر پور انداز میں ترجمانی کی گئی ہے۔ ملاحظہ ہو : یہ وحدت ہے، کثرت میں ہر دم اسیر مگر ہر کہیں بے چگوُں ، بے نظیر یہ عالم ، یہ بُت خانۂ شش جہات اسی نے تراشا ہے یہ سُومنات اس کے بعد کھل کر کہہ دیتے ہیں ’’کہ تو میں نہیں اور میں تو نہیں ‘‘ اور بات کو اس طرح واضح کرتے ہیں : من و تو سے ہے انجمن آفریں مگر عینِ محفل میں خلوَت نشیں میں اور تو اگر جدا نہ ہوتے، تو بزم جہان کی یہ محفل برپا نہ ہوتی ۔ محفل میں شمع، پروانے کو تیری موجودگی کا پتہ دیتی ہے۔ شمع کا گداز اور پروانے کا سوز تجھی سے ہے، لیکن پھر بھی تو…’’مگر عینِ محفل میں خلوَت نشیں ‘‘ اس کے باوجود کہ وہ عینِ محفل میں خلوَت نشیں ہے: چمک اس کی بجلی میں ، تارے میں ہے یہ چاندی میں، سونے میں، پارے میں ہے اسی کے بیاباں ، اس کے بَبُول اسی کے ہیں کانٹے، اسی کے ہیں پُھول اقبال مفسر قرآن بھی ہیں۔ حقیقت (Ultimate Reality) کو سمجھنے کے لیے جو جو نشانیاں قرآن پاک میں ہمیں بتائی گئی ہیں وہ ایک ایک کرکے اقبال نے اپنے خوبصورت اشعار کے ذریعہ ہمارے دل کی گہرائیوں تک پہنچا دی ہیں۔ اب فرماتے ہیں : فریبِ نظر ہے سکون و ثبات تڑپتا ہے ہر ذرّئہ کائنات ٹھہرتا نہیں کاروانِ وجود کہ ہر لحظہ ہے تازہ شانِ وجود اقبال کہتے ہیں کہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ حرکت میں ہے ۔ یہ سکون اور ثبات جو ہمیں نظر آتا ہے، یہ سراسر ہمارا فریبِ نظر اور آنکھوں کا دھوکہ ہے ۔ ان دو اشعار میں اقبال نے تقریباً ایک صدی قبل وہ بات بیان کر دی جس کا انکشاف سائنس داں اور ماہرِ فلکیات اب کر رہے ہیں ۔ ذرّہ (Atom) اپنے اندر حرکت مسلسل رکھتا ہے ۔ یہ ایک صدی قبل بچہ بچہ جان چکا ہے اور ماہرِ فلکیات نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ دو نئی کہکشائیں یکے بعد دیگرے وجود میں آئی ہیں۔ اس کے علاوہ آئے دن نئے نئے سیّارے اور ستارے فضائے بسیط میں دریافت ہوتے رہتے ہیں ۔یہ تمام مُنہ بُولتے ثبوت ہیں ’’کہ ہر لحظہ ہے تازہ شان وجود‘‘۔ نادان لوگ ہی زندگی کو بے ثبات سمجھتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کی شاخ سوکھتی کبھی نہیں ، ہاں یہ ضرور ہے کہ پھول کُملاتے بھی ہیں اور ٹُوٹ کر گرتے بھی رہتے ہیں، لیکن اسی شاخ سے نئے اور ترو تازہ پھول پھوٹتے بھی رہتے ہیں: گُل اس شاخ سے ٹوٹتے بھی رہے اسی شاخ سے پُھوٹتے بھی رہے سمجھتے ہیں ناداں اُسے بے ثبات اُبھرتا ہے مِٹ مِٹ کے نقشِ حیات یہ سمجھنا کہ موت زندگی کو فنا کر دیتی ہے بہت بڑی نادانی ہے ۔ نقشِ حیات تو مٹ نہیں سکتا ۔ گومٹتا نظر آتا ہے، مگر یہ مٹ مٹ کر ابھرتا رہتا ہے، اس کی رفتا ر بڑی تیز ہے : بڑی تیز جولاں ، بڑی زُود رس ازل سے ابد تک رَمِ یک نفس زمانہ کہ زنجیرِ ایّام ہے دموں کے الٹ پھیر کا نام ہے اب دیکھئے کہ زمانے کو ’’دموں کے اُلٹ پھیر‘‘ کا نام دے کر اقبال کس انداز سے خودی کو انسانی زندگی کا حصہ بتاتے ہیں ، فرماتے ہیں : یہ موجِ نفس کیا ہے ؟ تلوار ہے خودی کیا ہے ، تلوار کی دھار ہے موجِ نفس (دموں کا اُلٹ پھیر ) کی حقیقت جاننے کے لیے ایسا سمجھ لیجئے کہ زندگی اگر ایک تلوار ہے، توخودی اس تلوار کی دھار ہے۔ جس طرح ایک تلوار بغیر دھار کے بیکارِ محض ہے، اسی طرح خودی کے بغیر انسانی زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی : خُودی کیا ہے ، رازِ درونِ حیات خودی کیا ہیِ بیداریٔ کائنات دراصل خودی زندگی کا پُوشیدہ راز ہے اور اسی کی بدولت کائنات کی حقیقتیں انسان پر واضح ہوتی ہیں : خودی جلوہ بدمست و خلوَت پسند سمندر ہے اک بُوند پانی میں بند بزمِ جہاں کی رونقیں اور دلفریبیاں خودی کے دم قدم سے ہیں، لیکن خودی اپنی تمام تر خو د نمائی کے باوجود خلوَت پسند ہے، وہ ہمیں نظر نہیں آتی لیکن پھر بھی ایک سمندر ہے، اور سمندر ہوتے ہوئے وہ ایک بُوند پانی میں روپوش ہے ۔ مگر پھر بھی حال یہ ہے : اندھیرے اُجالے میں ہے تابناک من و تُو میں پیدا، من و تُو سے پاک ازل اِس کے پیچھے ، اَبد سامنے نہ حد اِس کے پیچھے نہ حد سامنے خودی کے بیان میں واضح رہے کہ خودی یا اَنائے صغیر حصہ ہے اَنائے کبیر کا، جس کا اظہار شمس و قمر میں اور روئے زمین پر ہر جگہ ، ہر ہر لمحہ ہو رہا ہے، البتہ دیکھنے کے لیے دیدئہ بینا درکار ہے۔ زمانے کے اندر خودی کے ازل کی نہ کوئی حد ہے اور نہ اس کے ابد کی کوئی حد ہے… بس یہ تو : زمانے کے دریا میں بہتی ہوئی ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی تجسّس کی راہیں بدلتی ہوئی دما دم نگاہیں بدلتی ہوئی خودی، زندگی کی آغوش میں (دریائے حیات میں ) بہتی چلی جار ہی ہے۔ وہ زمانے کے نشیب و فراز دیکھتی اور اس کے ستم جھیلتی ہوئی ہر دم ہوائوں کے بدلتے ہوئے رُخ کے مطابق اپنی سمتیں بدلتی ہوئی چلی جا رہی ہے : سُبک اس کے ہاتھوں میں سنگِ گِراں پہاڑ اس کی ضَربُوں سے رِیگِ رَواں یہ درست ہے کہ بڑے بڑے پتھر اس کے راستے میں آتے ہیں لیکن وہ ہلکے پتوں کی طرح اس کی موجوں میں لڑھکتے چلے جاتے ہیں، اور یہ پہاڑوں کے جگر چیرتی ہوئی اس کے پتھروں کو ریزہ ریزہ کرکے ریت کے ڈھیر بناتی ہوئی چلی جاتی ہے۔ خودی کی وُسعت اور سفر کا حال یوں بیان ہوتا ہے : سفر اس کا انجام و آغاز ہے یہی اس کی تقویم کا راز ہے کِرن چاند میںہے، شرر سنگ میں یہ بے رنگ ہے، ڈوب کر رنگ میں اقبال اس سے قبل زمانہ کو زنجیرِ ایّام کہہ چکے ہیں ۔ وہ زندگی اور خودی کا باہمی رَبط، تلوار اور اس کی دھار سے مُشابہت دے کر سمجھا بھی چکے ہیں ۔ یہاں وہ خودی کا سفر زمانے کے اندر اس طرح بتاتے ہیں کہ جو اُس کا انجام ہے وہ آغاز بھی ہے اور یہی راز ہے اس کی تقویم کا ، خُلاصہ یہ ہے کہ خودی کی انتہا نہیں اور اسے فنا نہیں۔ کہیں وہ چاند میں کرن بن کر نظر آتی ہے اور کبھی پتھر سے چنگاری بن کر نمودار ہوتی ہے۔ خودی کے ہزاروں رنگ ہیں پھر بھی یہ خود بے رنگ ہے ۔ خودی کا نشیمن کہاں ہے ؟ … خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے فلک جس طرح آنکھ کے تلِ میں ہے فرماتے ہیں کہ خودی تیرے دل میں رہتی ہے ۔ یہ بتانے کے لیے آخر اتنی عظیم الشّان چیز ایک چھوٹے سے دل میں کس طرح سما سکتی ہے اور جیسا کہ وہ پہلے کہہ چکے ہیں کہ یہ ایک قطرئہ آب میں سمندر ہے جو روپوش ہے، یہاں وہ زندہ مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ بالکل اسی طرح ممکن ہے جیسا کہ آسمان اور اس میں کروڑوں ستارے بہ یک وقت آنکھ کے چُھوٹے سے تل میں اتر آتے ہیں ۔ آخری بند اس نظم کا حاصلِ کلام ہے، جو کہ ہمیں تعمیرِخُودی کا دَرس دیتا ہے، جس پر اگر ہم عمل پیرا ہو جائیں تو دنیا ہمارے قدموں کے نیچے ہو اور آخرت میں نہ ہمیں کوئی رنج ہو نہ خوف ۔ اس کے لیے اقبال کہتے ہیں : خودی کے نگہباں کو ہے زہرِ ناب وہ ناں جس سے جاتی رہے اس کی آب ایسی روزی کہ جس سے انسان کی عزتِ نفس مجروح ہو خودی کی موت ہے اور بقولِ اقبال ’’اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘‘ … اور یہاں وہ کہتے ہیں : وہی ناں ہے اس کے لیے اَرجمند رہے جس سے دنیا میں گردن بُلَند تیری خودی کی صحت کے لیے وُہی لقمہ بہتر ہے جس سے تو دنیا میں گردن بلند کر کے چل سکے۔ خودی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بیش بہا نعمت ہے اور اس کی حفاظت تیرا ذمہ ہے، جس کے لیے تجھے چاہیے کہ …… فرو فالِ محمود سے در گزر خودی کو نِگہ رکھ، ایازی نہ کر شاہانہ شان و شوکت کے آگے خودی سرنگوں نہیں ہوسکتی ۔ اقبال کہتے ہیں کہ تو محمود بھی بن سکتا ہے بشرطیکہ تونے اپنی خودی کی حفاظت کی ، تو ایاز نہ بن کہ تو کسی سے کمتر نہیں ہے۔ تیرا معبود وہی ایک ہونا چاہیے جو رَبِّ کائنات ہے، اسی کو سجدہ کرنا زیب دیتا ہے… کیونکہ: وہی سجدہ ہے لائقِ اہتمام کہ ہو جس سے ہر سجدہ تجھ پر حرام اقبال نے ایک دوسری جگہ اس بات کو یوں بھی کہا ہے : وہ ایک سجدہ جسے توگراں سمجھتا ہے ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات اگلے اشعار ملاحظہ ہوں جو اس دنیا کے پرکشش مگر فانی گوشوں کی نشاندہی کرتے ہیں : یہ عالم ، یہ ہنگامۂ رنگ و صَوت یہ عالم کہ ہے زیر فرمانِ مَوت یہ عالم ، یہ بُت خانۂ چشم و گُوش جہاں زندگی ہے فقط خُورد و نُوش فرماتے ہیں کہ دنیا کی یہ مدہوش کن رنگینیاں اور کانوں کی لُبھاتی ہوئی نغمگیں آوازیں ، یہ سب تیری آنکھ اور کانوں کے لیے تراشیدہ بُت ہیں، جن کے سبب یہاں زندگی لذّتِ کام و دہن اور تسکینِ نفس سے آگے نہیں بڑھتی ۔ اس کے علاوہ اگر کچھ ہے تو موت ہے۔ البتہ جس نے اپنی خودی کی نگہبانی کی اس کے لیے یہ دنیا اس کی راہ میں ایک منزل ہے اور وہ بھی پہلی منزل : خودی کی یہ ہے منزلِ اوّلیں مسافر! یہ تیرا نشیمن نہیں خودی کی یہ پہلی منزل ہے اور یہ دنیا ایک مسافر خانہ ۔ نگہبانِ خودی کی یہ منزل اس کا گھر نہیں ہوسکتی ۔ اقبال کہتے ہیں کہ تُو اس جہان کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ جہان تیرے لیے بنایا گیا ہے : تری آگ اس خاکداں سے نہیں جہاں تجھ سے ہے ، تو جہاں سے نہیں تیری منزل اس سے کہیں دور، بہت آگے ہے، لہٰذا تجھ کو لازم ہے کہ: بڑھے جا یہ کوہِ گراں توڑ کر طلسمِ زمان و مکاں توڑ کر اس جہان میں تجھے بڑی منزلوں سے گزرنا پڑے گا، لیکن تیرے آگے پہاڑ بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا … تو … ’’بڑھے جا یہ کوہ گراں توڑ کر ‘‘ پہاڑوں کو اپنی ٹھوکر سے ریزہ ریزہ کرکے تو زمان و مکان کی سرحدیں پھلانگتا چلا جا ۔ کہ : خودی شیرِ مولا، جہاں اس کا صید زمیں اس کی صید، آسماں اس کا صید فرماتے ہیں کہ تیری خودی مانند شیر ہے اور شیر بھی خدا کا شیر، کہ اس عالم کی ہر شے اس کی دسترس میں ہے، حتیٰ کہ زمین ، فضائیں اور سمندر بھی اس کے لیے مسخّر کر دیئے گئے ۔ نہ صرف یہ زمین، اُس کے سمندر ، اور اُس کی فضائیں تُو تسخیر کر سکتا ہے، بلکہ ان کے علاوہ : جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود کہ خالی نہیں ہے ضمیرِ وجود ہر اِک منتظر تیری یلغار کا تری شوخیٔ فکر و کردار کا اقبال نے ایک اور جگہ یہی بات یوں کہی ہے : یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آرہی ہے دما دم صدائے کُن فیکُون یہاں اہم درس یہ دیا جا رہا ہے کہ ہم اپنی خدا داد صلاحیتوں کو بَرُو ئے کار لا کر تحقیق (Research) کے میدانوں میں نکلیں ۔ ہمارے لیے صرف یہ دنیا ہی نہیں بلکہ اور بہت سے جہان منتظر ہیں، کہ ہم آگے آئیں اور قدرت کے پوشیدہ رازوں سے پردے اُٹھائیں۔ اقبال تکوینِ کائنات کا مقصد اظہارِ نمودِ خُودی بتاتے ہوئے گویا ہیں : یہ ہے مقصدِ گردش روزگار کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار فرماتے ہیں کہ یہ دنیا تیرے لیے بنائی گئی ہے ، ’’جہاں تجھ سے ہے، تو جہاں سے نہیں‘‘ وہ کہتے ہیں کہ اس کی تکوین کا مقصد خودی کا تجھ پر آشکار کرنا ہے۔ تجھے اللہ پاک نے اپنا نائب بنا کر یہاں بھیجا ہے اور : تو ہے فاتحِ عالمِ خُوب و زِشت تجھے کیا بتائوں تری سر نَوِشت انسان کو نیکی اور بدی پر قادر بنایا گیا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ تو دنیائے نیک و بد کا فاتح ہے، اپنا مقام پہچان ، یہ کام تیرا ہے کہ تو خود کو پہچانے اور یہ تیرے بس میں ہے ، میں اگر تیری سرنوشت بتانے کی کوشش بھی کروں تو ناممکن : حقیقت پہ ہے جامۂ حرف تنگ حقیقت ہے آئینہ، گفتار زنگ علامہؒ کہتے ہیں کہ میں وہ الفاظ کہاں سے لائوں کہ تیرے اُوپر تیری اپنی حقیقت واضح کر سکوں ۔ اصل بات تو یہ ہے کہ حقیقت آئینہ کی طرح روشن ہے، اتنی روشن کہ الفاظ اس کے آئینہ کو گدلا کر دیتے ہیں، میری طاقتِ گفتار، تیری خودی کی حقیقت بیان کرنے سے قاصر ہے اور میری حالت یہ ہے کہ : فروزاں ہے سینے میں شمعِ نَفس مگر تابِ گُفتار کہتی ہے بَس میں چاہتا ہوں کہ بتا دوں ، میرے سینے میں ایک آگ بھڑک رہی ہے، لیکن میری طاقتِ گفتار جواب دے چکی ہے … اور … اگر یک سرموئے برتر پرم فروغِ تجلی بسوزد پرم ترجمہ : اگر میں اس مقام سے ایک بال کی موٹائی برابر بھی آگے اڑنا چاہوں تو (ذاتِ مطلق کی ) تجلّی میرے بال و پر جلا کر راکھ کر دے گی ۔ خ خ خ نظم ’’آوازِ غیب ‘‘ نکلی تو لبِ اقبال سے ہے، کیا جانیئے کس کی ہے یہ صدا پیغامِ سکوں پہنچا بھی گئی ، دل محفل کا تڑپا بھی گئی ارمغانِ حجاز (اردو) میں اقبال کی ایک چھوٹی سی نظم ہے جس کا عنوان ہے آوازِ غیب۔ قبل ازیں کئی مرتبہ میں ان اشعار پر سرسری نظر ڈالتا ہوا گزر گیا تھا ۔ کل رات میرے دوست محمد آصف خواجہ، مدیر شاہین کا فون آیا کہ اگلے شمارہ کے لیے وہ میرے مضمون کے منتظر ہیں۔ میں نے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا کہ آئندہ فکرِ اقبال پر شاہین کے لیے کیا لکھنا ہے۔ چنانچہ فوراً کلیات اقبال اٹھا کر کھولی تو میری نظروں کے سامنے اقبال کی نظم ’’آواز غیب‘‘ تھی ۔ تب احساس ہوا کہ اقبال پر یہ اشعار یقینا غیب سے اترے ہوں گے۔ میں نے اشعار پڑھنا شروع کیے۔ بار بار پڑھے، پڑھتا رہا ، پڑھتا رہا اور فکرِ اقبال میں ڈوبتا چلا گیا، یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی ۔ جس کیفیت سے میں کل شب دو چار ہوا، الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا ۔ رات کافی گزر چکی تھی ۔ سونا مناسب سمجھا ۔ صبح اٹھا تو پتہ چلا کہ میں نیم غنودگی میں اس نظم کا یہ شعر گنگنا رہا تھا : اب تک ہے رواں گرچہ لہو تیری رگوں میں نے گرمئی افکار ، نہ اندیشۂ بیباک! کوشش کرتا ہوں کہ قارئینِ شاہین تک اقبال پر غیب سے نازل ہونے والا پیغام پہنچا سکوں ۔ ملاحظہ ہو …… آواز غیب ! آتی ہے دمِ صبح ، صدا عرشِ بریں سے کُھویا گیا کس طرح تیرا جوہرِ ادراک کس طرح ہوا کُند تیرا نشترِ تحقیق؟ ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک اقبال کے ذریعہ غیب سے ملّت کے واسطے پیغام دیا جا رہا ہے کہ اے مسلمان! تیری بلند پروازیٔ تخیل کو کیا ہوا ۔ تو اپنے ہوش و خرد کہاں گنوا بیٹھا، تیرے علومِ قُدسیہ کیا ہوئے ۔ تیرا فلسفہ ، تیرا علمِ ہندسہ ، تیرا علمِ فلکیات جن کے ذریعہ تو ستاروں سے آگے کی خبر لاتا تھا ، یہ سب کچھ تونے کہاں اور کیوں کھو دیا ۔ کیا تجھے معلوم نہیں کہ: تو ظاہر و باطن کی خلافت کا سزاوار کیا شُعلہ بھی ہوتا ہے غلامِ خس و خاشاک؟ اے غافل، تجھے مالک کون و مکاں نے اپنا خلیفہ بنا کر اس دنیائے آب و گلِ میں بھیجا تھا ۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تیری آگ (آتشِ شوق ) کو اس دنیا کے خس و خاشاک ٹھنڈا کر دیں۔ تیری فرمانروائی یہاں ظاہر و باطن پر تھی اور ہے ، تجھے انسانی دلوں کو بھی مسخر کرنا ہے۔ مادی قوتوں کو بھی اپنے تصّرف میں لانا ہے، اور تسخیرِ کائنات پر تجھ کو قادر کیا گیا ہے۔ پھر آخر وجہ کیا ہے کہ: مہر و مہ و انجم نہیں محکوم ترے کیوں کیوں تیری نگاہوں سے لرزتے نہیں افلاک آ!میں تجھے بتلادوں : اب تک ہے رواں گرچہ ُلہو تیری رگوں میں نے گرمئی افکار ، نہ اَندیشہ بیباک! اقبال کہتے ہیں کہ تیری آتشِ عشق سرد پڑگئی ہے۔ تیری رگوں میں خُون تو دوڑ رہا ہے، لیکن اس کے اندر وہ گرمی نہیں جو تجھے تجسّس کی دولت دے اور حصول علم و تسخیر کائنات کے لیے بے چین رکھے۔ اے فرزندِ مسلم!علم تیری میراث تھی، جسے لٹیرے چھینے لیے جا رہے ہیں۔ دوڑ اور چھین لے ان سے اپنا سرمایہ پدری، اور لگا ٹھوکر اپنے سمندِ فکر کو کیونکہ ’’جو ہچکچا کے رہ گیا سو رہ گیا ادھر ، جس نے لگائی ایڑ وہ خندق کے پار تھا‘‘۔ البتہ ایک راز کی بات سنتا جا : روشن تو وہ ہوتی ہے، جہاں بیں نہیں ہوتی جس آنکھ کے پردوں میں نہیں ہے نِگَہِ پاک بظاہر یہ بڑا سادہ اور خُوبصورت شعر ہے لیکن یہ اپنے اندر سمندر کی گہرائیاں سمیٹے ہوئے ہے۔ نگاہِ پاک سے اقبال کی مراد پاکیزگی کردار اور راست بینی ہے۔ ایک اور جگہ اقبال اس نکتہ کو اس طرح سمجھاتے ہیں: خرد نے کہہ بھی دیا لا الہٰ تو کیا حاصل دِل و نِگاہ مُسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں اقبال ایک دوسری جگہ اپنے فارسی شعر میں وضاحت کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی کھوئی ہوئی علم و تحقیق کی دولت حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو کس سانچے میں ڈھالنا ہوگا۔ فرماتے ہیں: چہ باید مرد را طبعِ بلندے ، مشربے نابے دلِ گرمے، نگاہِ پاک بینے، جانِ بیتابے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی سوچ اور ہمّت بلند رکھے، اس کا عقیدہ خالص، (یعنی پختہ اور شرک سے پاک) اس کے دل میں حرارت (ایمان کی گرمی ) ہو، نظر اس کی پاکیزہ ہو، اور اس کی جان (ہر وقت اپنی کھوئی ہوئی دولت حاصل کرنے کے لیے ) بے چین رہے۔ نظم کے آخری شعر میں اقبال فرماتے ہیں : باقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیری اے کُشتۂ سُلطانی و مُلّائی و پیری! ہم نے دولتِ دنیا و دین اور خزانہ علم و حکمت اس وجہ سے گنوا دیا کہ ہمار ا آئینہ ضمیر دھندلا گیا ، جس کی وجہ ہماری بدعملی اور ذہنی غلامی تھی ۔ ہم نااہل حکمرانوں کی اندھی تقلید کرتے رہے ہیں … اور خود ساختہ پیروں کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں اور سب سے بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ اپنی کم علمی کی بنا پر ہم مفاد پرست اور کوتاہ ظرف مُلّا کے دام میں گرفتار ہیں ۔ خ خ خ نظم ’’تن بہ تقدیر ‘‘ آج اقبال کا نعرئہ مستانہ نظر پڑا ، جسے پڑھ کر دل تڑپ گیا، نوجوان نسل کے لیے یہ دو اشعار نشانِ راہ کا درجہ رکھتے ہیں۔ اقبالؒ فرماتے ہیں : نہیں مقام کی خوگر طبیعتِ آزاد ہوائے سیر مثالِ نسیم پیدا کر ہزار چشمہ تیرے سنگِ راہ سے پُھوٹے خودی میں ڈوب کے ضربِ کلیم پیدا کر اقبال ان اشعار میں کہہ رہے ہیں کہ اے فَرزندِ مسلم تو فطرتاً آزاد ہے ، حرکت تیری سرشت میں داخل ہے، اور تیری دنیا بڑی وسیع ہے، تجھے زیب نہیں دیتا کہ تو ایک جگہ بیٹھ کر جو کچھ ہو رہا ہے اس کو بس دیکھتا رہے۔ تجھے چاہیے کہ ’’رخت بردوش ہوائے چمنستاں ہو جا‘‘یعنی مثالِ نسیم سحرگاہی اپنے چمن کی خوشبو، فضائوں میں پھیلا دے اور دنیا کو پیغام زندگی دے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تجھے وہ قدرت اور توانائی بخشی ہے کہ تو اگر صحرا میں نکل جائے تو تیرے قدموں کے نیچے سے زندگی کے چشمے پھوٹتے چلے جائیں، اور لق و دق صحرا ایک نخلستان بن جائے ۔ یوں تو اقبال کا کلام، عمل پیہم اور جہد مسلسل کی تلقین سے بھرا پڑا ہے۔ میں یہاں ضرب کلیم ہی کی چھوٹی سی نظم بعنوان ’’تن بہ تقدیر ‘‘ کرتا ہوں۔ یہ نظم صرف تین اشعار پر مشتمل ہے ۔ پہلا شعر ہے ۔ اسی قرآں میں ہے اب ترکِ جہاں کی تعلیم جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر قرآنِ پاک نے زندگی کاد رس دیا تھا، زندہ رہنے کے لیے حرکت و عمل کی تَلقِین کی تھی اور تسخیرِ کائنات ہمارا مقدر تھی، لیکن خدا ہدایت دے ہمارے پیرانِ حرم کو جنہوں نے قوم کو سلائے رکھنے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔ وہ اسی قرآن کی رو سے ہمیں رُہبانیت سکھا رہے ہیں۔ قرآنِ پاک نے ہماری تعمیر کے لیے صبر اور شکر جیسے عمل سے بھر پور الفاظ استعمال کئے ہیں، لیکن ہم بدقسمتی سے ان کا مطلب عمل سے دوری اور ’’ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ‘‘ رہنا سمجھتے ہیں ۔اقبال کہتے ہیں : ’’تن بہ تقدیر ‘‘ ہے آج ان کے عمل کا انداز تھی نہاں جن کے ارادوں میں خدا کی تقدیر وہ لوگ، جنہوں نے دنیا کو جینے کا سلیقہ دیا، جن کے دم قدم سے جہالت کی تاریکیوں میں علم و عرفان کے چراغ روشن ہوئے ، اور جنہوں نے عملی طور پر یہ ثابت کر دکھایا تھا کہ انسان کو خدائے تعالیٰ نے اپنی تقدیر خود رقم کرنے کا اہل بنایا ہے، افسوس آج اُسی قوم کے فرزند دستِ نگر ہیں اقوامِ مغرب کے اور اس دامِ فریب میںگرفتار ہیں کہ ان کی تقدیر میں اسی طرح لکھا تھا، اور اب حالت یہ ہے کہ: تھا جو نا خُوب ، بتدریج وہی خُوب ہوا کہ غُلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر ہم مادی طور پر غیر اقوام کے غلام ہوچکے ہیںاور ذہنی طور پر اپنے خداوندانِ مکتب کے غلام ہیں جو کہ ’’سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا‘‘ اور جب ہم خود اچھے اور بُرے کی تمیز کھو بیٹھے تو جو بنیادی طور پر برائیاں تھیں اب ان میں ہمیں کوئی برائی نظر نہیں آتی، کیونکہ غُلامی میں قوموں کے ضمیر بد ل جاتے ہیں۔ آپ کو اندازہ ہوا ہوگا کہ تین اشعار پر مشتمل یہ چھوٹی سی نظم گو کہ منفی انداز میں لکھی گئی ہے لیکن اپنے اندر زبردست مثبت اثر رکھتی ہے ۔ یہ اعجاز ہے ہمارے حکیم ُ ا لاُمّت کا جو اپنے کلام سے اُمّتِ مُسلمہ کو جگا کر چلا گیا اور اب دشمنان قوم اگر چاہیںبھی تو پھر بھی یہ ملت سو نہیں پائے گی ۔ اس قوم میں خواب ِ غفلت سے بیدار کرنے والے پیدا ہوتے رہیں گے اور ایک دن پھر ایسا آئے گا کہ تاریکیاں غائب ہو جائیں گی اور آفتاب صداقت کا نُور دنیا کو منور کر دے گا ۔ بقول اقبال : شب گریزاں ہُوگی آخر جلوئہ خُورشد سے یہ چمن معمُور ہو گا نغمۂ توحید سے خ خ خ پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن اقبال کے کلام کی خصوصیت یہ ہے کہ ہر ہر لفظ ان کے دل سے نکلتا ہے اور ملّت کے افراد کے دل میں اتر جاتا ہے۔ الفاظ کا خوبصورت انتخاب ، اشعار کی شکل میں ان کی بندش ، اس میں اقبال کے خون جگر کی آمیزش اور ان اشعار کے ساز میں پوشیدہ نغمے در حقیقت فضائوں کے تار چھیڑ دیتے ہیں اور انسان بے خود ہو کر جُھوم اٹھتا ہے ۔ اقبال کے بہت ہی خوبصورت تین اشعار قارئین کی تسکینِ ذوق کے لیے پیش کرتا ہوں ۔ پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کُوہ و دَمن مُجھ کو پھر نغموں پہ اُکسانے لگا مُرغِ چمن پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار اُودے اُودے ، نیلے نیلے ، پیلے پیلے ، پیرہن حُسنِ بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لیے ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن یہ اشعار لکھتے وقت میری آنکھوں کے سامنے وہ منظر پھر گیا ۔ جبکہ تین ماہ قبل میں پاکستان میں وادی سوات کے دلفریب مقام ’’کالام ‘‘ میں قدرت کی رنگینیوں میں محو، اقبال کی دنیا میں پہنچ گیا اور بے ساختہ گنگنانے لگا : حُسنِ بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لیے ہُوں اگر شہروں سے بَن پیارے تو شہر اچھے کہ بَن اقبال کے اشعار کی اثر آفرینی وہاں محسوس کی ، معلوم ہوتا تھا کہ اس سر سبز وادی کی فضائیں، دریائے سوات کے پانی کی نغمگیں لہریں ، برف پوش اور خُوبصورت پہاڑوں کی چُوٹیاں اور ہرے بھرے لہلہاتے درخت، سب میرے ساتھ گا رہے ہیں، اور یہ سب مل کر مجھ کو’’ حقیقت ‘‘ کے بہت قریب لے گئے۔ آج بھی، جب وہ منظر یاد آتا ہے تو ایک ہلکا سا جُھونکا، خُوش گوار ٹَھنڈک لیے قلب و جگر کو سیراب کر جاتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ غزل شاعری کی وہ صِنف ہے جس کے اندر ضروری نہیں کہ ایک شعر کا عنوان دوسرے شعر سے مطابقت رکھے بلکہ غزل کی خوبی یہ ہے کہ اس کے ہر شعر کا تخیل اپنے اندر ایک مکمل مضمون سموئے ہوئے ہو ۔ زیرِ عُنوان نظم کے ابتدائی اشعار میں اقبال ہمیں وادیٔ حُسن لایزال کی جھلک دکھا گئے ہیں۔ انہوں نے سوچا کہ کہیں ہم اس حُسن کی وادی میں گم ہو کر نہ رہ جائیں اور ہم یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ بس یہی حاصل زندگی ہے ۔ چنانچہ وہ ہمیں زندگی کے اہم ترین راز کی طرف متوجہ کرتے ہیں، کیونکہ بقول ان کے ’’سرِّ آدم ہے ضمیرِ کُن فکاں ہے زندگی ‘‘۔ اس مقام پر اقبال فرماتے ہیں: اپنے مَن میں ڈُوب کر پاجا سُراغِ زِندگی تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن ، اپنا تو بَن یہ بھی ہوسکتا تھا کہ اپنے من میں ڈوب کر ہمارا بھی وہی حشر ہوتا جو منصور حلاج کا ہوا تھا۔ اس لیے اقبال چاہتے ہیں کہ دنیا میں رہتے ہوئے ہم اپنی خودی کی نگہبانی کریں اور اسے ’’حقیقت‘‘ میں گم ہو کر فنا ہونے سے بچائیں ، دوسری طرف اپنی خودی کو آلائش دنیوی سے بچا کر اس کی حفاظت کریں ، کہ خودی کے اندر، یا ’’من کی دنیا ‘‘ میں وہ سب کچھ موجود ہے جس کی تمنّا کے لیے روحِ انسانی ہمیشہ بے تاب رہی ہے ، اس میں تمنا کی بے پایاں دولت ہے ، اس کے اندر سُوز ہے، گداز ہے اور اس میں زندگی کی حقیقی مسرتیں اور لذتیں پوشیدہ ہیں۔ اقبال کہتے ہیں کہ من کی دنیا میں ڈوب کر ہی زندگی کا سراغ ملتا ہے اور انسان کو پتہ چلتا ہے کہ : من کی دنیا!من کی دنیا سوز و مستی، جذب و شوق تن کی دنیا!تن کی دنیا سود و سودا، مکرو فن مَن کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں تَن کی دولت چھائوں ہے، آتا ہے دھن ، جاتا ہے دھن خ خ خ انا الحق اقبال نے اپنی مشہور فارسی تصنیف ارمغانِ حجاز میں بڑے خوبصورت انداز میں ’’اناالحق‘‘ کے فلسفے کی حقیقت بیان کی ہے۔ اس سلسلے میں علامہ اقبال کی نظم ’’اناالحق‘‘ سے ماخوذ اشعار مع ان کا ترجمہ اور تشریح پیش کر تا ہوں۔ اناالحق جُز مقامِ کِبریا نیست سزائے اُوچلیپا ہست یا نیست (ترجمہ ) : اناالحق مقام کبریا کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ (سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص اناالحق کہے) تو سولی پر چڑھایا جائے کہ نہیں؟ دراصل اناالحق کہنا صرف باری تعالیٰ کو زیب دیتا ہے، لیکن پھر بھی بندگانِ خدا میں بعض سالکوں اور ملحدین کی زبان سے اناالحق اداہوا ہے۔ جہاں تک سزا کا تعلق ہے، سالک کے نصیب میں دار آئی اور ملحد کو براہ راست عذابِ الٰہی نے آلیا ۔ یہ دونوں الگ الگ فردِ واحِد تھے ۔ ان مثالوں سے جو حقیقت سامنے آئی وہ اقبال کی زبان میں سنیے ۔ اگر فردے بگوید سرزنش بہ اگر قومے بگوید ناروا نیست (ترجمہ ) : اگر ایک فرد اناالحق کہے تو وہ سزا کا مستحق ہے لیکن اگر ایک قوم ایسا کہے تو درست ہے ۔ جہاں تک فرد کا تعلق ہے، تو اس کی سزا کا فیصلہ اوپر ہوچکا ہے لیکن یہ دعویٰ کہ ایک قوم کو اناالحق زیب دیتا ہے، دلیل کا محتاج ہے۔ اقبال اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ بہ آں ملت اناالحق ساز گار است کہ از خونش نمِ ہر شاخسار است نہاں اندر جلالِ اُو جمالے کہ اُو را نُہ سپہر آئینہ دار است (ترجمہ ) : انا الحق کہنا اس ملت کو زیب دیتا ہے جو اپنے خون سے (باغ اور درختوں کی ) ہر ہر شاخ کو سیراب کرے ( اور وہ ایسی قوم ہو) جس کے جلال میں حُسن کا جمال پوشیدہ ہو۔ ایسی ملّت کی جو لا نگاہ (نو آسمان ) یعنی ساری کائنات ہے۔ انسان خدائے بزرگ و برتر کا نائب ہے اور صفاتِ خداوندی سے اس کو نوازا گیا ہے۔ اگر وہ بھر پور انداز میں اپنی ذمہ داریاں محسوس کرے اور اپنی خداداد صلاحتیں نوع انسانی کی بہبود کے لیے بروئے کار لائے تو یقینا ایسے افراد سے جو ملّت جنم لے گی وہ خود کو انا الحق کہہ سکتی ہے۔ ایسی ملت کا وجود انسانیت کے لیے رحمت ہی رحمت ہے اس کے جلال میں بھی جمال پوشیدہ ہوتا ہے۔ اس کی طرف سے اگر سزا بھی دی جائے تو سزا پانے والے کو سزا میں لذّت نصیب ہوتی ہے ایسی ہی قوم دنیا میں تمام قوموں کی امامت کرتی ہے۔ جیسا کہ اقبال فرماتے ہیں ۔ میانِ اُمّتاں والا مقام است کہ آں اُمّت دوگیتی را امام است نیا ساید ز کارِ آفرینش کہ خواب و خستگی ، بَروے حرام است ترجمہ : ایسی امّت تمام امّتوں میں اعلیٰ مقام رکھتی ہے اور وہ دونوں جہانوں کی اِمامت اور قیادت کرتی ہے۔ وہ (ہمہ وقت )تخلیقی عمل میں مصروف رہتی ہے اور نیند اور تھکان اس پر حرام ہیں ۔ مندرجہ بالا آخری مصرعے میں اقبال کا اشارہ قرآن پاک کی آیت مبارکہ کی طرف ہے جس میں ارشادِ باری تعالیٰ سے (سورۃ البقرہ۔ اقتباس آیت نمبر ۲۵۵) ترجمہ : وہ نہ سوتا ہے نہ اسے اونگھ لگتی ہے ‘‘۔ یہ اوصاف خداوندی ہیں کہ نہ اس کو نیند آتی ہے اور نہ اونگھ (جو کہ تکان کی علامت ہے) لہٰذا جو امت ان اوصاف کی حامل ہوگئی اللہ کی نیابت اور قوموں کی امامت کی مستحق ہوگی ۔ اقبال ایسی قوم کی نشانیاں اس طرح بیان کرتے ہیں ۔ وجودش شُعلہ از سوزِ دردن است چُوخَس او را جہانِ چند و چون است کند شرحِ انا الحق ہِمّتِ او پئے ہر کُن کی می گوید َیکُوْن است (ترجمہ ) : ایسی امت کا وجود ایک شعلہ ہے، جو اس کی ذات میں پوشیدہ آتش کا حصہ ہے، اور اس جہان کی تمام بے ثبات اشیاء اس کے آگے خس و خاشاک کی مانند ہیں۔ ’’وہ جب کُن کہتی ہے تو نتیجہ اس کا( یقینا)یَکُوْن ہوتا ہے۔‘‘ یعنی ایسی قوم جو ارادہ کرتی ہے اور جو کام شروع کرتی ہے وہ ہر حال میں اسے پاپۂ تکمیل تک پہنچاتی ہے۔ اگلے بند میں ایسی امّت کے مزید اوصاف بیان ہوتے ہیں ۔ پرد در وُسعتِ گردوں یگانہ نِگاہِ اُو بہ شاخِ آشیانہ مہ و انجم گرفتارِ کمندش بدستِ اُوست تقدیرِ زَمانہ (ترجمہ ) : آسمانوں کی بلندیوں میں اس کی پرواز بے مثال ہوتی ہے۔ (وہ فضائوں میں گم نہیں ہوتی اور اپنے وجود کا تشخص برقرار رکھتی ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ وہ خود اپنا آشیانہ گم کر بیٹھے ) اس کی نظر اپنے آشیانہ پر (جمی ) رہتی ہے۔ ایسی قوم چاند اور ستاروں پر اپنی کمند ڈالتی ہے اور زمانے کی تقدیر اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ نہ صرف اپنی تقدیر خود رقم کرتی ہے، بلکہ دوسری قوموں کی تقدیریں بھی اپنی تدبیر سے بدل دیتی ہے۔ آخری دو بندوں میں اقبال مِن حیثُ القَوم اہلِ اَنا الحق کی جمالی صفات اپنے مخصوص دل نشیں انداز میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ بباغاں عندلیبے خُوش صفیرے بہ راغاں جرّہ بازے زُود گیرے امیرِ اُو بہ سلطانی فقیرے فقیرِ اُو بہ درویشی امیر ے (ترجمہ ) : وہ باغوں میں خوش آواز بلبل ہے، اور پہاڑوں میں (اپنے شکار پر جھپٹنے والا ) شاہین ہے۔ ایسی قوم کے امیر بادشاہی میں فقیر اور اس کے فقیر درویشی میں امیر ہوتے ۔ اپنے ایک اردو شعر میں اقبال ایسے افراد کے لیے یوں گویا ہیں ۔ جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفاں چنانچہ تلقین کرتے ہوئے مضمون کا اختتام کرتے ہیں ۔ بجامِ نَو کُہن مے از سُبو ریز فروغِ خویش را بَر کاخ و کُو ریز اگر خواہی ثمر از شاخِ منصور بہ دل لَا غالِبَ اِلاَّ اللہ فروُ ریز ترجمہ : اپنے نئے جام میں پرانی شراب انڈیل اور اپنی روشنی سے محل اور کوچے منور کر دے (یعنی اپنے عمل سے قرونِ اولیٰ کے مسلمان کی یاد تازہ کر دے) اگر تو شاخِ منصور سے پھل حاصل کرنا چاہتا ہے تو اپنے دل پر لَاغالِبَ اِلا اللہ نقش کر دے۔ یہ شعر حاصلِ عُنوان ہے جس میں اقبال اپنی قوم کو ایک بار پھر بتاتے ہیں کہ تیری منزل کے حصول کا راز اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلنے میں مضمر ہے۔ اپنی نظم ’’طلوعِ اسلام‘‘ میں بھی یہی درس اقبال اس طرح دیتے ہیں۔ سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شُجاعت کا لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی اِمامَت کا خ خ خ لَا اِلٰہَ اِلاّ اللّٰہ اقبال کی مشہور کتاب ضرب کلیم کی ایک نظم بہ عنوان لا اِلٰہَ الاّ اللّٰہ جس قدر اہم ہے اس کا اندازہ سطحی طور پر نظم کو دیکھ کر نہیں لگایا جاسکتا ۔ اگر کسی اچھے گلوکار سے اس کو سُنا جائے تو وقتی طور پر سُرور و کیف سے انسان ہمکنار ہوسکتا ہے، لیکن یہ کیفیت عارضی ہوگی ۔ یہ مختصر سی نظم اپنے اندر بحرِ بیکراں سمیٹے ہوئے ہے جس میں طُوفان بھی چُھپے ہوئے ہیں اور آغوشِ صدف میںمَحوِ خواب ،گُہر بھی موجود ہیں ، جہان سکونِ قلبی کی نعمتیں ہیں ۔ اس نظم کے اشعار اور انداز کا مختصر مفہوم پیش کرتا ہوں خودی کا سّرِ نہاں لَا اِلٰہَ اِلاّ اللّٰہ خودی ہے تیغ ، فَساں لا اِلٰہَ اِلاّ اللّٰہ اقبال کے ہاں خودی انسانی رُوح کا جزو لاینفک ہے ۔ قرآنِ پاک میں انسانی روح کو امرِ ربی کہا گیا ہے۔ اسی لیے اقبال یہاں خودی کو لَا اِلٰہ اِلاّ اللّٰہ بتاتے ہیں ۔ خودی کی اس سے مختصر اور اس سے زیادہ جامع تعریف کہیں اور نہیں ملتی ۔ دوسرے مصرعہ میں بتایا جا رہا ہے کہ اگر خُودی کو تیغ کہا جائے تب بھی بات لَا اِلٰہ اِلاّ اللّٰہ تک پہنچتی ہے، کیونکہ تیغ یا تلوار کو بہرحالِ فَساں (سان یا پتھر جس پر تلوار کی دھار تیز کی جاتی ہے ) کی ضرورت ہے۔ دوسرے الفاظ میں تلوارفَساں کے بغیر بیکار ہو جاتی ہے۔ اگلے شعر میں اقبال فرماتے ہیں یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے صنم کدہ ہے جہاں، لَا اِلٰہَ اِلاّ اللّٰہ اقبال کہتے ہیں کہ دورِ حاضر میں ہر طرف بُت پرستی ہے، کوئی پتھر کے بُت پُوج رہا ہے، کسی کے ذہن میں دولت کے بُت بستے ہیں ، کوئی دل میں غیر اللہ کو بسائے ہوئے ہے، کوئی جُھوٹے پیروں، وَلِیُّوں اور شُعبدہ بازوں کو اپنا نجات دہندہ بنائے ہوئے ہے اور کوئی قبروں کا پُجاری ہے۔ غرضیکہ سارا جہاں اس وقت ایک بُت خانہ بنا ہوا ہے جس کے لیے ایک ابراہیم ؑ جیسے انسان کی ضرورت ہے جس نے اپنے باپ آذر کے تراشے ہوئے بتوں کی بھی پروا نہ کی اور عبادت گاہ کو انسان کے تراشیدہ بتوں سے پاک کر دیا ۔ آج بھی ہو جو براہیم ؑ کا ایماں پیدا آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا اب ملّت کو مخاطب کرکے بتا جا رہا ہے کیا ہے تُو نے متاعِ غرور کا سودا فریبِ سود و زیاں ، لَا اِلٰہَ اِلاّ اللّٰہ یہ مال و دولت دنیا، یہ رشتۂ و پیوند بُتانِ وہم گماں، لَا اِلٰہَ اِلاّ اللّٰہ فرماتے ہیں کہ تونے اپنی غیرت اور عزت نفس کو بیچ ڈالا ہے اور یہ نہ سوچا کہ دنیا کا فائدہ اور نقصان سراسر فریب ہے، اگر حقیقی دولت درکار تھی تو وہ لَا اِلٰہَ اِلاّ اللّٰہ میں پوشیدہ تھی، تو نے اپنی خودی کا سودا کرکے دنیا کی دولت خرید لی، اور یہ نہ جانا کہ تو نے ایک بیش بہا چیز بیچ کر اپنے آپ کو کنگال کر ڈالا۔ اقبال کہتے ہیں دنیا کی دولت ہو یا تمہارے دوست اور اقربا، اگر یہ تمہیں اللہ سے بیگانہ کر دیں تو یہی بُتانِ وہم و گُمان ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ، اللہ کے سوا ہر شے کا وجود فانی ہے جس کی حقیقت کچھ نہیں ، یہ سب ہمارے ذہن کے تراشے ہوئے بت ہیں اور ہم اللہ کو چھوڑ کر ان بتوں کی پرستش میں لگے ہوئے اپنی عمرِ عزیز کو ضائع کر رہے ہیں۔ اس نظم کا اگلا شعر بھی پہلے شعر کی طرح اپنے اندر معانی کا سمندر لیے ہوئے ہے : خِرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زُنّاری نہ ہے زماں، نہ مکاں! لَا اِلٰہَ اِلاّ اللّٰہ زمان و مکان ( Time and Space) کی حقیقت کو پانے کے لیے الہٰیات کے مغربی فلسفی اپنی تمام تر ذہنی و عقلی صلاحیتوں کو بَرُوئے کار لا کر بھی بالآخر اس حیرت کدہ میں گم ہوگئے ہیں، بس یوں سمجھئے کہ جو حیثیت مندر کے پجاری کے لیے جنیو (زُنّار) کی ہے بعینہ وہی لَا اِلٰہَ اِلاّ اللّٰہ کے راز سے ناآشنا ،دنیا کے عقلی لحاظ سے نارسا ذہنوں کی ہے۔ اگر عقل اپنے ساتھ عشق کو لے کر نہ چلے تو نورِ عرفان عقل کے پردے میں پنہاں ہو جاتا ہے، اور ہُوش میں آنا حجاب رُوئے جاناں، ہو جاتا ہے۔ یہ نَغمہ فصلِ گُل و لا لہ کا نہیں پابند بہار ہو کہ خزاں، لَا اِلٰہَ اِلاّ اللّٰہ نغمہ لَا اِلٰہَ اِلاّ اللّٰہ وہ مدہوش کن نغمہ ہے کہ جب یہ دل سے نکل کر کسی کی چشم بصیرت میں سرایت کرتا ہے، تو پھر اس مادی دنیا میں بہار ہو، یا خزاں کا موسم ہو، اس کے لیے بہار ہی بہار ہے، جہاں ہر طرف پھول کھلے ہوئے ہیں، طیور نغمہ سراہیںاور شجر و حجر نوا پیرا ہیں … ’’ لَا اِلٰہَ اِلاّ اللّٰہ …… لَا اِلٰہَ اِلاّ اللّٰہ ‘‘ اگرچہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں مجھے ہے حُکمِ اذاں، لَا اِلٰہَ اِلاّ اللّٰہ ہُوا کرے ، اگر لوگ اپنی آستینوں میں بُت چھپائے ہوئے ہیں یا ان کے ذہنوں میں خود تراشیدہ بتوں کا بسیرا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ میں اذان کہوں اور کلمہ حق بلند کروں ۔ چنانچہ جو لوگ آستینوں میں بُت چھپائے ہوئے ہیں وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ ہاتھ اُٹھا کر اللہ اکبر کہنے پر مجبور ہوں گے، نتیجتاً ان کی بغلوں میں دبے ہوئے بت گر جائیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ دن ضرور آئے گا کہ میری بات قوم کے دل کو لگے گی اور لوگ انپے ذہنوں میں بسے ہوئے بتوں کو باہر نکال کر اپنے دل میں لَا اِلٰہَ اِلاّ اللّٰہ کو بسا لیں گے ۔ پھر دلوں کو یاد آجائے گا پیغامِ سجود پھر جبیں خاکِ حرم سے آشناہو جائے گی خ خ خ حضورِ مِلَّتْ ( ارمغانِ حجاز ، فارسی) مجو از من کلامِ عارفانہ کہ من دارم سرشتِ عاشقانہ سرشکِ لالہ گوُں را اندریں باغ بفیشانم چو شبنم دانہ دانہ! ترجمہ : مجھ سے عارفانہ کلام کی اُمید نہ رکھ، کیونکہ میری فطرت عاشقانہ ہے۔ میں اپنے خون کے آنسو (ملّت کے) باغ میں شبنم کی طرح قطرہ قطرہ ٹپکا رہا ہوں۔ اقبال نے کبھی اپنے بڑے شاعر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ یہاں بھی وہ کہہ رہے ہیں کہ نہ میں صوفی ہوں ، نہ ملاّ، جو معرفت الٰہی کی گفتگو سننے والے کو مبہُوت کر دیتے ہیں ، لیکن اسے عمل سے بے نیاز کر دیتے ہیں۔ اقبال کہتے ہیں کہ میں تو اُمّتِ مُسلِمَہ کے باغِ حیات میں اپنے خونِ جگر کے قطروں سے آبیاری کر رہا ہوں تاکہ میری ملّت کے سمن زار میں پھر سے بہار آجائے ۔ اس وقت اقبال کا مخاطب فردِ ملّت ہے جس کو وہ ملّت کے مقدر کا ستارہ کہا کرتے ہیں، ارشاد ہوتا ہے: بمنزل کوش مانندِ مہِ نَو دریں نیلی فضا ہر دم فزوں شَو مقامِ خویش اگر خواہی دریں دیر بحق دل بند و راہِ مصطفیؐ رو ترجمہ : ماہ نو کی طرح اپنی منزل کی طرف چلنے کی کوشش کر اور اس نیلی فضا میں ہر دم آگے ہی بڑھتا چلا جا ۔ اگر تو (واقعی اس دنیا میں اپنا مقام حاصل کرنا چاہتا ہے، تواس کا صرف ایک ہی راستہ ہے) اللہ تعالیٰ سے دل لگا اور رسول پاکؐ کے راستے پر چل۔ چونکہ فرد ملّت کی اکائی ہے اور وہ معمارِ ملّت بھی ہے، اس لیے اقبال کہتے ہیں کہ اگر فرد اپنا راستہ رسول اکرمؐ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق اختیار کر ے اور اللہ کے علاوہ کسی اور سے امید وابستہ نہ کرے تو وہ یقینا ایک دن ماہِ تمام بن کر اُفقِ ملّت پر چمکے گا۔ افرادِ ملت کو اپنی منزل پر پہنچنے کے لیے اور اقوام عالم میں اپنا مقام پیدا کرنے کے سلسلے میں جس منزل سے گزرنا ہوگا، اقبال اس کو انتہائی خوبصورت اور دل نشیں انداز میں اس طرح بیان کرتے ہیں۔ بروں از سینہ کش تکبیرِ خُود را بخاکِ خویش زن اکسیرِ خُود را خودی را گیر و مُحکم گِیر و خوش زی مدہ در دستِ کس تقدیرِ خُود را (ترجمہ ) : اپنی تکبیر سینے سے باہر نکال اور اپنی اس اکسیر کو اپنی خاک پر ڈال، خودی کو پکڑ اور مضبوط پکڑ اور زندگی خوش رہ کر گزار (بس) تو اپنی تقدیر کسی اور کے ہاتھ میں نہ دے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ اکبر صرف زبان سے نہ کہہ، بلکہ اس کو دل کی گہرائیوں سے باہر لا اور جب تو ایسا کرے گا، تو تیری تکبیر اکسیر بن جائے گی اور وہ تجھے کُندن بنا دے گی۔ نعرئہ تکبیر اگر کہتے وقت دل زبان کا ساتھ دے تو پھر ایسی تکبیر میں وہ قوّت پیدا ہو جاتی ہے کہ قیصر و کِسریٰ کے درو دیوار لرز اٹھتے ہیں۔ ورنہ …… تو عرب ہو یا عجم ہو ترا لاَ الٰہ اِلاَّ لُغتِ غریب جب تک ترا دِل نہ دے گواہی ایسا انسان، جس نے یہ راز پا لیا اس کی زندگی حزن و ملال سے مُبرّا ہو جائے گی۔ اس کو نہ کوئی غم ہوگا اور نہ کسی کا خوف ۔ اقبال کہتے ہیں کہ اپنی خودی کو مضبوطی سے پکڑے رکھ اور اس کی حفاظت کر، جس کا طریقہ یہ ہے کہ سوائے اللہ کے کسی سے کوئی امید وابستہ نہ کر اور تو اپنی تقدیر خود رقم کر کہ بلاشبہ تو اس پر قادر ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس دنیا میں کسی ساقی کا محتاج نہ رہ … کیونکہ مے بھی تو، مینا بھی تو، ساقی بھی تو، محفل بھی تو اور تو کسی رہبر کی تلاش میں مارا مارا نہ پھر …… کیونکہ: راہ تُو ، رہ رَو بھی تُو ، رہبر بھی تُو، منزل بھی تُو خ خ خ مکتوبات اقبال ؒ کے خطوط قائد اعظمؒ کے نام اقبالؒنے جب اپنے سنِ شُعور میں قدم رکھا تو دیکھا کہ ہندوستان (برصغیر پاک و ہند) بدترین غلامی کے دور سے گزر رہا تھا ۔ اس برصغیر کی اقوام میں مسلمان دوسری بڑی اکثریت تھی لیکن ہندئووں نے انہیں ملچھ (پلید) کا درجہ دے رکھا تھا ۔ حکومت انگریز کی تھی ۔ دفاتر میں خال خال کوئی مسلمان نظر آتا تھا وہ بھی کلرک کی کرسی پر ، اعلیٰ ملازمتوں کے دروازے مسلمانوں پر یکسر بند تھے اور تجارت پر مکمل طور پر ہندو کا کنٹرول تھا ۔ انگریز نے مسلمانوں کو اس حالت میں ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی پاداش میں پہنچایا تھا جسے انگریز نے غدر کہا ۔ جیسا کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی اور اس سے پہلے نواب سراج الدولہ کی پلاسی کی لڑائی اور سلطان ٹیپو شہید کی جنگوں سے پتہ چلتا ہے انگریز کے خلاف آزادی کی جنگ کا آغاز مسلمانوں نے کیا اور انہوں نے ہی قربانیاں دیں، ہندوئوں نے انگریز کے مخبر کا کردار ادا کیا اور نواب سراج الدولہ اور سلطان ٹیپو شہید کے خلاف سازشیں کرکے انگریز کے اقتدار کو مستحکم کیا۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ میں بحیثیت قوم ہندوئوں نے شرکت نہ کی، خود کو الگ تھلگ رکھا اور جب مسلمانوں پر انگریز کا عتاب نازل ہوا تو انگریز کے ساتھ مل کر اقتدار میں شرکت کر لی اور مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا۔ اس جنگ آزادی میں مسلمانوں نے بے انتہا قربانیاں دیں اور برطانیہ جیسی بڑی طاقت کے دانت کھٹے کر دئیے۔ لیکن اپنوں اور ہندوئوں کی سازشوں کی وجہ سے شکست کا مُنہ دیکھنا پڑا۔ مسلمانوں کے پسپائی اختیار کرنے کے بعد ہندوستان کے گوشہ گوشہ سے محب وطن مسلمانوںکو چُن چُن کر سرِ عام پھانسیاں دی گئیں اور کوشش یہ کی گئی کہ مسلمان یہاں پھر کبھی سر نہ ا ٹھائے ۔ لیکن مسلمان دنیا سے مٹ جانے کے لیے پیدا نہیں ہوا۔ قدرت کا کرشمہ دیکھئے کہ ہندوستان کا مُسلمان جب من حیث القوم خاک کا ڈھیر ہو گیا تو اس خاکستر سے ایک ایسی چنگاری نے جنم لیا جسے دنیا نے اقبال کا نام دیا۔ اللہ نے اسے علم کے ساتھ ساتھ بے مثال نورِ بصیرت سے سرفراز کیا اور ایک ایسا دل عطا کیا جو ملّت کے درد سے پُر تھا۔ اقبال کی مردم شناس نظر نے محمد علی جناحؒ کی قائدانہ صلاحیتوں کا بروقت اندازہ کیا اور انہیں قوم کی رہنمائی کے لیے آمادہ کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اقبال اور دیگر مسلم زُعما کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو انگریزوں کی غلامی سے نکالنے کی بھر پور جِدوجُہد کی۔ انہوں نے مسلمان قوم کی علیحدہ شناخت قائم رکھنے پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا جو برِّصغیر میں مسلمان کی بقاکے لیے انتہائی ضروری تھا۔ مسلم قومِیّت پر اقبال کا ایسا پُختہ اور غیر متزلزل یقین تھا کہ انہوں نے بڑے بڑے مسلمان گروہوں اور اعلیٰ پایہ کے علماء کی ناراضگی کی بھی پروا نہ کی ۔ اس مقالے میں اقبال کی زندگی کے آخری ایّام کے وہ خطوط ہیں جو انہوں نے اپنی بیماری کے دوران (مئی ۱۹۳۶ء اور نومبر ۱۹۳۷ء کے درمیانی عرصہ میں ) قائد اعظم محمد علی جناح کے نام لکھے تھے ۔ ان خطوط سے اس زمانے کے سیاسی حالات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مسلم ہندوستان کے مسائل پر علامہ اقبال کی نظر کتنی گہری تھی ۔ قائد اعظم اور ان کے درمیان کس قدر باہمی ربط اور ہم آہنگی تھی، اور صرف یہ دو دماغ مل کر انگریز اور ہندو کے بڑے بڑے سیاسی دماغوں سے اس طرح ٹکر لے رہے تھے ۔ اقبال کے خطوط قائد اعظم کے نام (Letters of Iqbal to Jinnah) قائد اعظم کی حیات میں محمد شریف طُوسی نے ان کے کاغذات میں سے تلاش کرکے نکالے اور اسی وقت شائع بھی کر دئیے گئے ۔ ذیل میں دئیے گئے خطوط کا اردو ترجمہ محمد جہانگیر عالم نے کیا، جو کہ ۱۹۷۷ء میں شائع ہوا۔ اس سے قبل حیدر آباد دکن سے عبدالرحمن کا ترجمہ شائع ہوچکا ہے۔ اقبال کے قائدا عظم کے نام یہ خطوط کتنی اہمیت کے حامل ہیں اس کا اندازہ قائد اعظم کے ان الفاظ سے کیا جاسکتا ہے جو انہوں نے اس کتابچہ کے پیش لفظ میں تحریر کیے ہیں ۔ وہ فرماتے ہیں: یہ کتابچہ ان خطوط پر مشتمل ہے جو اسلام کے قومی شاعر ، فلسفی اور عارف ڈاکٹر سر محمد اقبال مرحوم نے میرے نام مئی ۱۹۳۶ء سے نومبر ۱۹۳۷ء کے درمیان عرصہ میں اپنی وفات سے کچھ ماہ قبل تحریر کیے۔ یہ دور جو جون ۱۹۳۶ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کے قیام اور اکتوبر ۱۹۳۷ء میں لکھنؤ کے تاریخی اجلاس کے دوران پر محیط ہے، مسلم ہندوستان کی تاریخ میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ جس دور کا قائد اعظم نے اُوپر تذکرہ کیا ہے وہ مُسلمانوں کی سخت آزمائش کا زمانہ تھا ۔ ہندوستان کے تقریباً ہر صوبہ میں مسلمانوں کی ایک یا ایک سے زیادہ الگ الگ تنظیمیں تھیں جن میں باہمی کوئی ربط نہ تھا۔ دوسری طرف کانگریس، جو سب سے بڑی اور منظم جماعت تھی، مسلمانوں کے جذبۂ قومیت کو غلط راستہ پر ڈالنے کے لیے نہایت عیّارانہ طور پر مسلم رابطہ عوام، کے نعرے کے ذریعے مسلمانوں کی تنظیموں کو کانگریس سے الحاق پر آمادہ کرنے میں سرگرم تھی، پنجاب کی ایک پرانی سیاسی اور مذہبی جماعت احرار (مجلسِ احرارِ اسلام) اور ایک نوزائیدہ جماعت مجلس اتحاد ملّت جو نیلی پوش کے نام سے مشہور ہوئی اقبال کی توجہ کا مرکز رہیں۔ احرار تو بعد میں پاکستان دشمنی کی حد تک کانگریس کے ساتھ چلے گئے تھے ۔ یہ مسلمانوں کی بدنصیبی تھی کہ اس جماعت کے بانی اراکین چودھری افضل حق ، سید عطاء اللہ شاہ بخاری ، مولانا حبیب الرحمن اور مولانا مظہر علی اظہر جیسی قد آور شخصیات ہندو کی عیاری کا شکار ہوگئیں ۔ مجلسِ اتحادِ ملّت البتہ زیادہ دیر زندہ نہ رہ سکی اور اس کے سرگرم اور فعال ارکان جن میں مولانا ظفر علی خاں بھی شامل تھے جلد ہی قائد اعظم اور علامہ اقبال کے قابلِ اعتماد ساتھیوں میں شامل ہوگئے ۔ مولانا ظفر علی خاں تحریکِ آزادی کے نڈر، بیباک، جری سپاہی اور میدانِ صحافت کے شہسوار تھے۔ علامہ اقبال نے ان کے لیے فرمایا تھا : ’’مصطفی کمال کی تلوار نے ترکوں کو جگانے کے لیے جو کام کیا، ظفر علی خاں کے قلم نے وہی کام ہندوستان کے مسلمانوں کو جھنجھوڑنے کے لیے کیا ہے۔‘‘ علامہ اقبال نے ۱۹۳۰ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کی۔یہ اجلاس الہٰ آباد میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک علیحدہ ریاست کا تصور پہلی مرتبہ پیش کیا۔ یہ صر ف ایک تخیل یا تجویز کی حد تک بات نہیں تھی، بلکہ علامہ نے بڑے واضح طریقے سے دلائل دیتے ہوئے ثابت کیا کہ اہلِ ہند کے مسلمانوں کی بقا کے لیے یہی واحد راستہ ہے۔ ایسی مسلم ریاست کے حصول کے لیے علامہ اقبال نے اس وقت مسلمانوں میں ایک ذہین ترین انسان کی ،جو چوٹی کا قانون داں تھا، کی نشاندہی کی جسے کسی قیمت پر خریدا نہیں جاسکتا تھا، وہ تھے محمد علی جناح جو اس دور میں مسلمانوں کی صحیح رہنمائی کرسکتے تھے۔ ایک دن اقبال کے گھر چند احباب جمع تھے کہ قائد اعظم کی قابلیت اور دیانت کا ذکر چھڑ گیا۔ تو علامہ اقبال نے کہا ’’مسٹر جناح کو خدائے تعالیٰ نے ایک ایسی خوبی عطا کی ہے جو آج ہندوستان کے کسی مسلمان میں مجھے نظر نہیں آتی۔‘‘ ایک صاحب نے سوال کیا کہ وہ خوبی کونسی ہے۔ اس پر علامہؒ نے انگریز ی میں کہا : "He is incorruptible and unpurchaseable" (وہ نہ تو بدعنوان ہے اور نہ اسے خریدا جاسکتا ہے) قانون ہند مجریہ ۱۹۳۵ء اور کیمونل ایوارڈ نے مسلمانوں کی قیادت کو بے چین کر رکھاتھا۔ مسلمانوں کے پاس اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے ایک ہی راستہ تھا کہ وہ متحد ہو کر اپنی حیثیت منوائیں ۔ اس لیے قائد اعظم نے علامہ اقبال کے مشورے سے مسلم لیگ کی تنظیم نو کا اعلان کیا اور ۲۱ مئی ۱۹۳۶ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا مرکزی پارلیمانی بورڈ تشکیل دیا جس کے ممبران کی تعداد ۵۶ تھی۔ اس سلسلے میں علامہ اقبال نے اخبارات میں اشاعت کے لیے ایک مسوّدہ قائد اعظم کو روانہ کیا جس کا تذکرہ ۹ جون ۱۹۳۶ء قائد اعظم کے نام ان کے مندرجہ ذیل خط میں موجود ہے : لاہور ۹ جون ۱۹۳۶ء محترم جناح صاحب میں اپنا مسّودہ ارسالِ خدمت کر رہا ہوں۔ کل کے ایسٹرن ٹائمز کا ایک تراشہ بھی ہمراہ ہے، یہ گورداسپور کے ایک قابل وکیل کا خط ہے۔ مجھے امید ہے کہ بورڈ کی طرف سے جاری شدہ بیان میں تمام سکیم کی پوری تفصیل ہوگی، اور سکیم پر اب تک کیے گئے اعتراضات کا شافی جواب بھی ہوگا۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی موجودہ حیثیت کا ہندوئوں اور حکومت دونوں سے متعلق اس میں برملا اور واضح ذکر ہونا چاہیے۔ اس بیان میں یہ انتباہ بھی ہو کہ اگر ہندوستان کے مسلمانوں نے موجود سکیم کو اختیار نہ کیا تو نہ صرف یہ کہ جو کچھ گزشتہ پندرہ برسوں میں انہوں نے حاصل کیا ہے ضائع کر بیٹھیں گے بلکہ خود اپنے ہاتھوں سے اپنے قومی شیرازے کو پارہ پارہ کرکے اپنے ہی نقصان کا باعث ہوں گے۔ آپ کا محمد اقبال ’’مکرر آنکہ : میں نہایت ممنون ہوں گا اگر اخبارات کو روانہ کرنے سے قبل آپ یہ بیان مجھے بھی ارسال کر دیں ۔ ’’دوسری بات جس کا ذکر اس بیان میں ہونا چاہیے یہ ہے : (۱) مرکزی اسمبلی کے لیے بالواسطہ طریق انتخاب نے یہ قطعی طور پر ضروری کر دیا ہے کہ جو اراکین صوبائی اسمبلیوں کے لیے منتخب کیے جائیں وہ ایک کل ہند مُسلم پالیسی اور پروگرام کے پابند ہوں تاکہ وہ مرکزی اسمبلی میں ایسے مسلمان نمائندے منتخب کریں جو اس بات کا عہد کریں کہ مرکزی اسمبلی میں مسلم ہندوستان کے ان مخصوص مرکزی مسائل کی تائید و حمایت کریں گے جو ہندوستان کی دوسری بڑی قوم کی حیثیت سے مسلمانوں سے متعلق ہوں ۔ جو لوگ اس وقت صوبائی پالیسی اور پروگرام کے حامی ہیں، وہی لوگ مرکزی اسمبلی کے لیے بالواسطہ طریق انتخاب کو دستور میں شامل کروانے کے ذمہ دار ہیں۔ بِلاشُبہ ایک غیر ملکی حکومت کا مفاد اسی میں ہے۔ اب جبکہ قوم اس مصیبت (بالواسطہ انتخاب) سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اور اس نے انتخاب کے لیے ایک کل ہند سکیم (یعنی مسلم لیگ کی سکیم) تیار کر لی ہے جس کی پابندی تمام صوبائی امیدوار کریں گے، تو وہی لوگ پھر غیر ملکی حکومت کے اشارے پر مصروف عمل ہیں کہ قوم کو اپنی شیرازہ بندی کی کوششوں میں ناکام کریں ۔‘‘ ۲۔ ’’اسلامی اوقاف کا قانون جیسا کہ شہید گنج سے ظاہر ہوا، اور اسلامی ثقافت ، زبان، مساجد اور قانونِ شریعت سے متعلق مسائل پر بھی بیان میں توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ (نوٹ : علامہ کے خط میں’’سکیم ‘‘ کا لفظ کئی بار آیا ہے اس سے مراد آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی بورڈ کا منشور ہے جو مسلمانوں کی آئندہ سرگرمیوں کا مرکز رہا ) سر سکندر حیات، پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے پہلے، پنجاب کی سیاست میں نمایاں حیثیت رکھتے تھے اور جس پارٹی سے منسلک تھے وہ یونینسٹ پارٹی تھی جس کے ممبران ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی۔ اس پارٹی میں پنجاب کے بااثر مسلمان بھی شامل تھے۔ ۱۹۳۶ء میں سر فضل حسین کی وفات کے بعد سر سکندر حیات پارٹی کے لیڈر منتخب ہوئے، پارٹی کے سیکرٹری میاں احمد یار خاں دولتانہ تھے جو پنجاب کی ایک اہم شخصیت تھے ۔علامہ اقبال نے بڑی دانشمندی سے یونینسٹ پارٹی کے چیدہ چیدہ مسلمان ممبران کو وقت کی نزاکت کا احساس دلایا اور یہ حقیقت اُن کے دلنشیں کرا دی کہ ان کی بقا اہلِ ہند کے مسلمانوں کی اجتماعی بقا سے وابستہ ہے۔ اقبال نے بڑی کاوش اور تگ و دو کے بعد جب اپنے ہم نوا ذہن یونینسٹ پارٹی سے یکجا کر لیے تو قائد اعظم کو مندرجہ ذیل لکھا : ’’لاہور ۲۵ جون ۱۹۳۶ء محترم جناح صاحب ’’سر سکندر حیات دو ایک روز ہوئے لاہور سے روانہ ہوچکے ہیں میرے خیال میں وہ بمبئی میں آپ سے مل کر بعض اہم امور پر گفتگو کریں گے۔ کل شام دولتانہ مجھ سے ملنے کے لیے آئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ یونینسٹ پارٹی کے مسلمان اراکین مندرجہ ذیل اعلان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ’’کہ ان تمام امور میں جو مُسلمانوں سے بحیثیت ایک کُل ہند اقلیت سے متعلق ہیں وہ مسلم لیگ کے فیصلے کے پابند ہوں گے اور صوبائی اسمبلی میں کسی غیر مسلم جماعت کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کریں گے ۔ بشرطیکہ (صوبائی ) مسلم لیگ بھی حسب ذیل اعلان کرے کہ : ۔ وہ اراکین اسمبلی جو مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہو کر صوبائی اسمبلی میں آئیں گے وہ صرف اس جماعت یا فریق کے ساتھ تعاون کریں گے جس میں مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی ۔ ازراہ کرم اپنی اولین فرصت میں مُطلع فرمائیے کہ اس تجویز کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔ سر سکندر حیات سے جو گفتگو ہو اس کے نتیجہ سے بھی مطلع فرمائیے ۔ اگر آپ انہیں قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ان کا ہمارے ساتھ شامل ہو جانا کچھ بعید نہیں ۔ امید ہے کہ آپ بخیریت ہوں گے۔ آپ کا مخلص محمد اقبال علامہ اقبال کی کوششوں سے سر سکندر حیات اور مسٹر جناح کے درمیان بات چیت کے بعد باہمی اشتراک کی بنیاد رکھ دی گئی اور ایک معاہدہ’جناح سکندر پیکٹ‘ کے نام سے تشکیل پایا۔ قانونِ ہند ۱۹۳۵ء کے نتیجہ میں ہندوستان میں جو الیکشن ۳۷۔۱۹۳۶ء میں کرائے گئے ان میں کانگریس کو بڑے پیمانہ پر کامیابی ہوئی جس نے کانگریس کے قائد ین کو اس حد تک پاگل کر دیا کہ انہوں نے مسلمانوں کے جداگانہ سیاسی وجود کو ماننے سے انکار کر دیا۔ پنڈت جواہر لال نہرو جو تقسیم ہند کے بعد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم ہوئے انہوں نے ۱۹ مارچ ۱۹۳۷ء کو آل انڈیا نیشنل کنوینشن دہلی میں منعقد کی اور صاف طور سے اس امر کا اعلان کیا کہ کانگریس ہی ہندوستان کی واحد نمائندہ سیاسی جماعت ہے جو ہندوستان میں بسنے والی تمام قوموں کی نمائندگی کا حق رکھتی ہے ۔ علامہ اقبال نے اس صورتِ حال کا بروقت اور سختی سے نوٹس لیا اور دوسرے ہی دن مندرجہ ذیل خط قائدِ اعظم کے لیے سپرد ڈاک کر دیا : ’’لاہور ۲۰ مارچ ۱۹۳۷ء محترم جناح صاحب میرا خیال ہے کہ آپ نے پنڈت جواہر لال نہرو کا وہ خطبہ جو انہوں نے آل انڈیا نیشنلکنوینشن میں دیا ہے، پڑھا ہوگا اور اس کے بین السطور جو پالیسی کارفرما ہے اس کو آپ نے بخوبی محسوس کر لیا ہوگا۔ جہاں تک اس کا تعلق ہندوستان کے مسلمانوں سے ہے، میں سمجھتا ہوں آپ بخوبی آگاہ ہیں کہ نئے دستور نے ہندوستان کے مسلمانوں کو کم از کم اس بات کا ایک نادر موقعہ دیا ہے کہ وہ ہندوستان اور مسلم ایشیا کی آئندہ سیاسی ترقی کے پیش نظر اپنی قومی تنظیم کرسکیں۔ اگرچہ ہم ملک کی دیگر ترقی پسند جماعتوں کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں، تاہم ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ ایشیا میں اسلام کی اخلاقی اور سیاسی طاقت کے مستقبل کا انحصار بہت حد تک ہندوستان کے مسلمانوں کی مکمل تنظیم پر ہے۔ اس لیے میری تجویز ہے کہ آل انڈیا نیشنل کنوینشن کو ایک مُوثرٔ جواب دیا جائے ۔ آپ جلد از جلد دہلی میں ایک آل انڈیا ِمسلم کنوینشن منعقد کریں، جس میں شرکت کے لیے نئی صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کے علاوہ دوسرے مقتدر مسلم رہنمائوں کو بھی مدعو کریں۔ اس کنوینشن میں پوری قوت اور قطعی وضاحت کے ساتھ بیان کردیں کہ سیاسی مطمح نظر کی حیثیت سے مسلمانانِ ہند ملک میں جداگانہ سیاسی وجود رکھتے ہیں۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ اندرون اور بیرون ہند کی دنیا کو بتا دیا جائے کہ ملک میں صرف اقتصادی مسئلہ ہی تنہا ایک مسئلہ نہیں ہے۔ اسلامی نقطۂ نگاہ سے ثقافتی مسئلہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے اپنے اندر زیادہ اہم نتائج رکھتا ہے اور کسی صورت سے بھی یہ اقتصادی مسئلہ سے کم اہمیت نہیں رکھتا ہے۔ اگر آپ ایسی کنوینشن منعقد کر سکیں تو پھر ایسے مسلم اراکین اسمبلی کی حیثیتوں کا امتحان ہو جائے گا جنہوں نے مسلمانانِ ہند کی اُمنگوں اور مَقاصد کے خِلاف جماعتیں قائم کر رکھی ہیں، مزید برآں اس سے ہندوئوں پر یہ عیاں ہو جائے گا کہ کوئی سیاسی حربہ خواہ کیسا ہی عیارانہ کیوں نہ ہو پھر بھی مسلمانانِ ہند اپنے ثقافتی وجود کو کسی طور پر نظر انداز نہیں کرسکتے۔ میں چند روز تک دہلی آرہا ہوں ۔ اس مسئلہ پر آپ سے گفتگو ہوگی۔ میرا قیام افغانی سفارت خانہ میں ہوگا۔ اگر آپ کو فرصت ہو تو وہیں ہماری مُلاقات ہونی چاہیے ۔ ازراہِ کرم اس خط کے جواب میں چند سطور جلد از جلد تحریر فرمائیے ۔‘‘ آپ کا مخلص اقبال بار ایٹ لاء ’’مکرر آنکہ : معاف فرمائیے میں نے یہ خط آشوبِ چَشم کی وجہ سے ایک دوست سے لکھوایا ہے۔‘‘ مندرجہ بالا خط میں علامہ اقبال نے قائد اعظم کو پنڈت جواہر لال نہرو کے نیشنل کنوینشن سے پیدا شُدہ حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک آل انڈیا مسلم کنوینشن کے انعقاد پر زور دیا، جس کے ذریعے ہندوستان اور بیرون ہندوستان کی ساری دنیا کو بتایا جائے کہ مسلمانانِ ہند اس ملک میں جداگانہ سیاسی وجود رکھتے ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ قائد اعظم دنیا کو باور کرائیں کہ اس ملک میں اقتصادی مسئلہ ہی تنہا ایک مسئلہ نہیں ہے بلکہ اسلامی نقطۂ نگاہ سے ثقافتی مسئلہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے زیادہ اہم ہے اور یہ مسئلہ کسی صورت بھی اقتصادی مسئلہ سے کم اہمیت کا حامل نہیں ۔ اس سلسلہ میں ۲۲ اپریل ۱۹۳۷ء کو علامہ نے قائد اعظم کو ایک خط لکھا اس میں آل انڈیا مسلم کنوینشن کے جلد از جلد انعقاد کی سفارش کی گئی ۔ خط کا متن درج ذیل ہے : ’’لاہور ۲۲ اپریل ۱۹۳۷ء ’’محترم جناح صاحب دو ہفتے ہوئے میں نے آپ کو خط لکھا تھا، معلوم نہیں وہ آپ کو ملایا نہیں۔ میں نے وہ خط آپ کو دہلی کے پتہ پر لکھا تھا اور پھر جب میں دہلی گیا تو معلوم ہوا کہ آپ وہاں سے پہلے ہی رُخصت ہوچکے ہیں۔ میں نے اس خط میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ ہمیں فوراً ایک آل انڈیا مسلم کنوینشن(کسی بھی مقام پر) مثلاً دہلی میں منعقد کرکے حکومت اور ہندوئوں کو ایک بار پھر مسلمانانِ ہند کی پالیسی سے آگاہ کر دینا چاہیے ۔ چونکہ صورتِ حال نازک ہوتی جارہی ہے اور پنجاب کے مسلمانوں کا رحجان بعض ایسے وجوہ کی بنا پر جن کی تفصیل بتانا ( اس وقت ) غیر ضروری ہے، کانگرس کی طرف بڑھتا جا رہا ہے۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ اس معاملہ پر فوری غور فرما کر فیصلہ کریں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس اگست تک ملتوی ہوچکا ہے، لیکن حالات کا تقاضا ہے کہ فوری طور پر مسلم پالیسی کا اعلان مکرر ہو ۔ اگرکنوینشن کے انعقاد سے پہلے مقتدر مسلمان لیڈروں کا ایک دورہ بھی ہو جائے توکنوینشن یقینا بہت کامیاب رہے گا۔ براہِ نوازش اس خط کا جواب اپنی اولین فرصت میں عنایت فرمائیے۔‘‘ آپ کا مخلص محمد اقبال بارایٹ لاء مندرجہ بالا دو خطوط سے اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ علامہ اقبال مسلمانوں کے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کے لیے کتنے بے چین تھے۔ نہرو اپنی سکیم رابطہ عوام کے ذریعہ مسلمانوں کو دھوکا دے کر ان کے لیے ایک الگ مملکت بنانے سے باز رکھنے کی سازش میں سب کچھ کر گزرنا چاہتا تھا۔ اس کے علاوہ مسجد شہید گنج کے سانحہ سے متاثر ہونے والے لوگوں کے زخم خوردہ دلوں کو بھی مرہم کی ضرورت تھی اور اُمّتِ مسلمہ کے یے سب سے بڑا مسئلہ فلسطین ، علاّمہ کو پریشان کئے ہوئے تھا۔ ان مسائل پر نہ صرف ان کی گہری نظر تھی بلکہ وہ عملاً سب کچھ کر رہے تھے، جس کی اس وقت مسلمانوں کو ضرورت تھی ۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی روٹی کا مسئلہ ان کے لیے اتنا اہم تھا کہ وہ بار بار مسٹر جناح کو اس طرف متوجہ کر رہے تھے ۔ اس سلسلہ میں انہوں نے مسلم لیگ کے پروگرام اور دستور میں مسٹر جناح کو کچھ تبدیلیوں کا مسودہ دیا جس سے قائداعظم نے پورا پورا اتفاق کیا۔ علاّمہ اقبال نے قائد اعظم کو ۲۸ مئی ۱۹۳۷ء کو ایک بڑا تفصیلی خط لکھا جس کا بغور مطالعہ کیا جائے تو علاّمہ کے ذہن کا صحیح سمت رحجان صاف نظر آتا ہے ۔ خاص طور سے قائدِ اعظم کے لیے اس خط نے ان کی منزل کا تعّین کر دیا ۔ مکمل خط ملاحظہ ہو : ’’لاہور ۲۸مئی ۱۹۳۷ء محترم جناح صاحب آپ کے نوازش نامہ کا شکریہ جو مجھے اس اثنا میں ملا۔ مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ مسلم لیگ کے دستور اور پروگرام میں جن تبدیلیوں کے متعلق میں نے تحریر کیا تھا وہ آپ کے پیش نظر رہیں گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانانِ ہند کی نازک صورت حال کا آپ کو پورا پورا احساس ہے ۔ مسلم لیگ کو آخر کار یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کے بالائی طبقوں کی ایک جماعت بنی رہے گی یا مسلم جمہور کی جنہوں نے اب تک بعض معقول وجوہ کی بنا پر اس (مسلم لیگ) میں کوئی دلچسپی نہیں لی ۔ میرا ذاتی خیال یہی ہے کہ کوئی سیاسی تنظیم جو عام مسلمانوں کی حالت سدھارنے کی ضامن نہ ہو، ہمارے عوام کے لیے باعث کشش نہیں ہوسکتی ۔ ’’نئے دستور کے تحت اعلیٰ ملازمتیں تو بالائی طبقوں کے بچوں کے لیے مختص ہیں، اور ادنیٰ ملازمتیں وزراء کے اعزا اور احباب کی نذر ہو جاتی ہیں، دیگر امور میں بھی ہمارے سیاسی اداروں نے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کی طرف کبھی غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ روٹی کا مسئلہ روز بروز نازک ہو تا جارہا ہے۔ مسلمان محسوس کر رہے ہیں کہ گذشتہ دو سو سال سے وہ برابر تنزل کی طرف جارہے ہیں ۔ عام خیال یہ ہے کہ اس غربت کی وجہ ہندو کی ساہو کاری (سود خوری) اور سرمایہ داری ہے۔ یہ احساس کہ اس میں غیرملکی حکومت بھی برابر کی شریک ہے ابھی پوری طرح نہیں ابھرا، لیکن آخر کو ایسا ہو کر رہے گا۔ جواہر لال نہرو کی بے دین اشتراکیت مسلمانوں میں کوئی تاثر پیدا نہ کر سکے گی ۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کا علاج کیا ہے۔ مسلم لیگ کا سارا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے کیا کوشش کرتی ہے۔ اگر مسلم لیگ نے ( اس ضمن میں) کوئی وعدہ نہ کیا تو مجھے یقین ہے کہ مسلم عوام پہلے کی طرح اس سے بے تعلق رہیں گے۔ خوش قسمتی سے اسلامی قانون کے نفاذ میں اس کا حل موجود ہے اور موجود نظریات کی روشنی میں (اس میں) مزید ترقی کا امکان ہے۔ اسلامی قانون کے طویل و عمیق مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر اس نظام قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے تو ہر شخص کے لیے کم از کم حقِّ معاش محفوظ ہو جاتا ہے۔ لیکن شریعت اسلام کا نفاذ اور ارتقاء ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر اس ملک میں ناممکن ہے۔ سالہا سال سے یہی میرا عقیدہ رہا ہے اور اب بھی میرا ایمان ہے کہ مسلمانوں کی غربت (روٹی کا مسئلہ ) اور ہندوستان میں امن و امان کا قیام اسی سے حل ہوسکتا ہے۔ اگر ہندوستان میں یہ ممکن نہیں ہے تو پھر دوسرا متبادل (راستہ) صرف خانہ جنگی ہے جو فی الحقیقت ہندو مسلم فسادات کی شکل میں کچھ عرصہ سے جاری ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ ملک کے بعض حصوں مثلاً شمال مغربی ہندوستان میں فلسطین ( کی داستان) دہرائی جائے گی ۔ جواہر لال نہرو کی اشتراکیّت کا ہندوئوں کی ہیئت سیاسیہ کے ساتھ پیوند بھی خود ہندوئوں کے آپس میں خون خرابہ کا باعث ہوگا۔ اشتراکی جمہوریت اور برہمنیت کے درمیان وجہ نزاع برہمنیت اور بدھ مت کے درمیان وجہ نزاع سے مختلف نہیں ہے۔ آیا اشتراکیّت کا حشر ہندوستان میں بدھ مت کا سا ہوگا یا نہیں ؟ میں اس بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کرسکتا لیکن میرے ذہن میں یہ بات صاف ہے کہ اگر ہندو دھر م اشتراکی جمہوریّت اختیار کر لیتا ہے تو خود ہندو دھرم ختم ہو جاتا ہے۔ اسلام کے لیے اشتراکی جمہوریّت کو مناسب تبدیلیوں اور اسلام کے اصول شریعت کے ساتھ اختیار کر لینا کوئی انقلاب نہیں، بلکہ اسلام کی حقیقی پاکیزگی کی طرف رجوع ہوگا۔ موجودہ مسائل کا حل مسلمانوں کے لیے ہندوئوں سے کہیں زیادہ آسان ہے، لیکن جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے، مسلم ہندوستان کے ان مسائل کا حل آسان طور پر کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ملک کو ایک یا ایک سے زیادہ مسلم ریاستوں میں تقسیم کیا جائے جہاں پر مسلمانوں کی واضح اکثریت ہو۔ کیا آپ کی رائے میں اس مطالبہ کا وقت نہیں آپہنچا؟ شاید جواہر لال کی بے دین اشتراکیت کا آپ کے پاس یہ ایک بہترین جواب ہے ۔ ’بہرحال میں نے اپنے خیالات پیش کر دیے ہیں اس امید پر کہ آپ اپنے خُطبہ مُسلِم لیگ کے آئندہ اجلاس کے مباحث میں ان پر سنجیدگی سے توجہ دیں گے۔ مسلم ہندوستان کو امید ہے کہ اس نازک دور میں آپ کی فراست موجودہ مشکلات کا کوئی حل تجویز کرسکے گی۔ آپ کا مخلص محمد اقبال ’’مکرر آنکہ: اس خط کے موضوع پر میرا ارادہ تھا کہ آپ کے نام اخبارات میں ایک کھلا خط شائع کرائوں مگر غور و فکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ موجودہ وقت ایسے اقدام کے لیے موزوں نہیں۔‘‘ علاّمہ اقبال کی زندگی کے آخری ایّام میں ہندوستان کے سیاسی افق پر ایک طوفان برپا تھا۔ علاّمہ بسترِ علالت پر اپنی صحت اور اپنی جان کی پروانہ کرتے ہوئے مسلسل مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ ہندوستان میں خانہ جنگی کی کیفیت تھی، اور ہندو مسلم فسادات کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ سیاست کو مذہب کا رنگ دے کر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی جا رہی تھی ۔علاّمہ نے قائد اعظم کو اپنے خط میں لکھا کہ ان حالات کے اسباب نہ مذہبی ہیں اور نہ اقتصادی بلکہ خاص سیاسی ہیں ۔ چنانچہ علامہ نے ان کا حل بھی سیاست ہی میں پایا اور قائد اعظم کو اس سلسلے میں اپنی تجاویز یکے بعد دیگرے دو خطوط کے ذریعے پیش کیں۔ یہ خطوط مورخہ ۲۱ جون ۱۹۳۷ء اور ۶ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو لکھے گئے ۔ ان کا مکمل متن حسب ذیل ہے : ’’لاہور ۲۱ جون ۱۹۳۷ء محترم جناح صاحب (صیغہء راز) کل آپ کا نوازش نامہ ملا۔ بہت بہت شکریہ!میں جانتا ہوں کہ آپ بہت مصروف آدمی ہیں، مگر مجھے توقع ہے کہ میرے بار بار خط لکھنے کو آپ بار خاطر نہ خیال کریں گے۔ اس وقت جو طوفان شمال مغربی ہندوستان اور شاید پورے ہندوستان میں برپا ہونے والا ہے، اس میں صرف آپ ہی کی ذاتِ گرامی سے قوم محفوظ رہنمائی کی توقع کا حق رکھتی ہے ۔ میں عرض کرتا ہوں کہ ہم فی الحقیقت خانہ جنگی کی حالت ہی میں ہیں اگرفوج اور پولیس نہ ہو تو یہ (خانہ جنگی ) دیکھتے ہی دیکھتے پھیل جائے۔ گذشتہ چند ماہ سے ہندو مسلم فسادات کا ایک سلسلہ قائم ہو چکا ہے۔ صرف شمال مغربی ہندوستان میں گزشتہ تین ماہ میں کم از کم تین (فرقہ وارانہ ) فسادات ہو چکے ہیں اور کم از کم چار وارداتیں ہندوئوں اور سکھوں کی طرف سے توہینِ رسالت کی ہوچکی ہیں۔ ان چاروں مواقع پر رسولؐ کی اہانت کرنے والوں کو قتل کر دیا گیا ہے۔ سندھ میں قرآنِ مجید کو نذر آتش کرنے کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔ میں نے تمام صورتِ حال کا اچھی طرح سے جائز ہ لیا ہے، اور مجھے یقین ہے کہ ان حالات کے اسباب نہ مذہبی ہیں اور نہ اقتصادی، بلکہ خاص سیاسی ہیں۔ یعنی مسلم اکثریتی صوبوں میں بھی ہندوئوں اور سکھوں کامقصد مسلمانوں پر خُوف و ہراس طاری کرنا ہے۔ نیا دستور کچھ اس قسم کا ہے کہ مسلم اکثریتی صوبوں میں بھی مسلمانوں کو غیر مسلموں کے رحم و کرم چھوڑ دیا گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم وزارتیں کوئی مناسب کارروائی نہیں کر سکتیں بلکہ انہیں خُود مسلمانوں سے ناانصافی برتنا پڑتی ہے تاکہ وہ لوگ جن پر وزارت کا انحصار ہے خوش رہ سکیں، اور ظاہر کیا جاسکے کہ وزارت قطعی طور پر غیر جانبدار ہے۔ لہٰذا یہ واضح ہے کہ ہمارے پاس اس دستور کو دور کرنے کے لیے خاص وجوہ موجود ہیں۔ مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نیا دستور ہندوئوں کی خوشنودی کے لیے وضع کیا گیا ہے۔ ہندو اکثریتی صوبوں میں ہندوئوں کو قطعی اکثریت حاصل ہے اور وہ مسلمانوں کو بالکل نظر انداز کر سکتے ہیں۔ مسلم اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کو کاملاً ہندوئوں پر انحصار کرنے کے لیے مجبور کر دیا گیا ہے۔ میرے ذہن میں ذرا بھی شک و شبہ نہیں کہ یہ دستور ہندوستانی مسلمانوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ علاوہ ازیں یہ اقتصادی مسئلہ کا بھی حل نہیں ہے جو مسلمانوں کے لیے بہت زیادہ جانکاہ بن چکا ہے ۔ ’’کیمونل ایوارڈ ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی وجود کو صرف تسلیم کرتا ہے، لیکن کسی قوم کے سیاسی وجود کا ایسا اعتراف جو اس کی اقتصادی پسماندگی کا کوئی حل تجویز نہ کرتا ہو اور نہ کرسکے اس کے لیے بے سود ہے، کانگرس کے صدر نے تو غیر مبہم الفاظ میں مسلمانوں کے جداگانہ سیاسی وجود سے ہی انکار کر دیا ہے۔ ہندوئوں کی دوسری سیاسی جماعت یعنی مہاسبھا نے جسے میں ہندو عوام کی حقیقی نمائندہ سمجھتا ہوں بار ہا اعلان کیا ہے کہ ہندوستان میں ایک متحدہ ہندو مسلم قوم کا وجود ناممکن ہے۔ ان حالات کے پیش نظر، بد یہی حل یہ ہے کہ ہندوستان میں قیام امن کے لیے ملک کی از سرِ نو تقسیم کی جائے ۔ جس کی بنیاد نسلی مذہبی اور لِسانی اشتراک پر ہو۔ بہت سے برطانوی مُدَبّرین بھی ایسا ہی محسوس کر تے ہیں۔ اس دستور کے جلو میں جو ہندو مسلم فسادات چلے آرہے ہیں وہ ان کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں کہ ملک کی حقیقی صورت حال کیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ انگلستان سے روانگی سے قبل لارڈلوتھیان نے مجھے کہا کہ میری سکیم میں ہندوستان کے مصائب کا واحد ممکن حل ہے۔ لیکن اس پر عمل درآمد کے لیے ۲۵ سال درکار ہیں۔ پنجاب کے کچھ مسلمان شمال مغربی ہندوستان میںمسلم کانفرنس کے انعقاد کی تجویز پیش کر رہے ہیں اور یہ تجویز تیزی سے مقبولیت اختیار کر رہی ہے۔ مجھے آپ سے اتفاق ہے کہ ہماری قوم ابھی اتنی زیادہ منظم نہیں ہوئی اور نہ ہی ان میں اتنا نظم و ضبط ہے، اور شاید ایسی کانفرنس کے انعقاد کا ابھی موزوں وقت بھی نہیں۔ لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ آپ کو اپنے خطبہ میں کم از کم اس طریق عمل کی طرف اشارہ ضرور کر دینا چاہیے جو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالآخر اختیار کرنا پڑے گا۔ میرے خیال میں تو نئے دستور میںہندوستان بھر کو ایک ہی وفاق میں مربوط رکھنے کی تجویز بالکل بے کار ہے۔ مسلم صوبوں کے ایک جداگانہ وفاق کا قیام اس طریق پر جس کا میں نے اُوپر ذکر کیا ہے صرف واحد راستہ ہے۔ جس سے ہندوستان میں امن و امان قائم ہو گا اور مسلمانوں کو غیر مَسلِموں کے تسلط سے بچایا جا سکے گا کیوں نہ شمال اور مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمانوں کو علیحدہ اقوام تصور کیا جائے جنہیں ہندوستان اور بیرون ہندوستان کی دوسری اقوام کی طرح حق خود اختیاری حاصل ہو۔ ذاتی طور پر میرا خیا ل ہے کہ شمال مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمانوں کو فی الحال مُسلم اقلیّت کے صوبوں کو نظر انداز کر دینا چاہیے۔ مسلم اکثریّت اور مسلم اقلیّت کے صوبوں کا بہترین مفاد اسی طریق کو اختیار کر نے میں ہے ۔ اس لیے مسلم لیگ کا آئندہ اجلاس کسی مسلم اقلیت کے صوبہ کی بجائے پنجاب میں منعقد کرنا بہتر ہوگا۔ لاہور میں اگست کا مہینہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے آپ لاہور میں وسط اکتوبر میں جب موسم خوش گوار ہو جاتا ہے، مسلم لیگ کے اجلاس کے انعقاد کے بارے میں غور فرمائیں۔ پنجاب میں آل انڈیا مسلم لیگ سے دلچسپی بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے اور لاہور میں مسلم لیگ کے آئندہ اجلاس کا انعقاد پنجاب کے مسلمانوں میں ایک نئی سیاسی بیداری کا باعث ہوگا۔ آپ کا مخلص محمد اقبال، بار ایٹ لاء لاہور ۶ ا؍کتوبر ۱۹۳۷ء محترم جناح صاحب مسلم لیگ کے لکھنؤ اجلاس میں پنجاب سے خاصی تعداد کی شرکت کی توقع ہے۔ یونینسٹ مسلمان بھی سر سکندر حیات کی قیادت میں شرکت کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں۔ آج کل ہم ایک پُر آشوب دور سے گزر رہے ہیں اور ہندوستانی مسلمان امید کرتے ہیں کہ آپ اپنے خطبے میں جُملہ امور میں جن کا تعلق قوم کے مستقبل سے ہے ان کی کامل اور واضح ترین راہنمائی فرمائیں گے۔ میری تجویز ہے کہ مسلم لیگ ایک مناسب قرار داد کی صورت میں کیمونل ایوارڈ سے متعلق اپنی پالیسی کا اعلان یا مکرر وضاحت کردے۔ پنجاب، نیز یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ سندھ میں بھی بعض فریب خوردہ مسلمان اس فیصلہ کو اس طرح تبدیل کرنے کے لیے تیار ہیں کہ یہ ہندوئوں کے حق میں زیادہ مفید ہو جائے۔ ایسے لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہندوئوں کو خوش کرکے وہ اپنا اقتدار بحال رکھ سکیں گے۔ ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ برطانوی حکومت ہندوئوں کو خوش کرنا چاہتی ہے جو کیمونل ایوارڈ گڑ بڑ کرانے کو خوش آمدید کہیں گے ۔ لہٰذا وہ (برطانوی حکومت) کوشش کر رہی ہے کہ اپنے مسلم ایجنٹوں کے ذریعے اس میں گڑ بڑ کرائے۔ مسلم لیگ کونسل کی خالی نشتوں کے لیے میں ۲۸ افراد کی فہرست تیار کروں گا، مسٹر غلام رسول آپ کو وہ فہرست دکھادیں ۔ مجھے امید ہے کہ یہ انتخاب پورے غوروخوض سے کیا جائے گا۔ ہمارے آدمی ۱۳ تاریخ کو لاہور سے روانہ ہوں گے۔ مسئلہ فلسطین نے مسلمانوں کو مضطرب کر رکھا ہے ۔ مُسلم لیگ کے مقاصد کے لیے عوام سے رابطہ پیدا کرنے کا ہمارے لیے یہ نادر موقع ہے ۔ مجھے امید ہے کہ مسلم لیگ اس مسئلہ پر ایک زور دار قرار داد ہی منظور نہیں کرے گی بلکہ لیڈروں کی ایک غیر رسمی کانفرنس میں کوئی ایسا لائحہ عمل بھی تیار کیا جائے گا جس میں مسلمان عوام بڑی تعداد میں شامل ہوسکیں ۔ اس سے ( ایک طرف تو ) مسلم لیگ کو مقبولیت حاصل ہوگی ۔ اور (دوسری طرف) شاید فلسطین کے عربوں کو فائدہ پہنچ جائے ۔ ذاتی طور پر میں کسی ایسے امر کے لیے جس کا اثر ہندوستان اور اسلام دونوں پر پڑتا ہو جیل جانے کے لیے تیار ہوں۔ مشرق کے عین دروازہ پر ایک مغربی چھائونی کا قیام (اسلام اور ہندوستان ) دونوں کے لیے پُر خطر ہے ۔ بہترین تمنّائوں کے ساتھ آپ کا مخلص محمد اقبال بار ایٹ لاء ’’مکرر آنکہ : مسلم لیگ یہ قرار داد پاس کرے کہ کوئی صوبہ دوسری اقوام کے ساتھ کیمونل ایوارڈ سے متعلق کوئی سمجھوتہ کرنے کا مجاز نہ ہوگا۔ یہ ایک کُل ہند مسئلہ ہے اور صرف مُسلم لیگ ہی کو اس کا فیصلہ کرنا چاہیے ۔ ممکن ہے آپ ایک قدم آگے بڑھ کر کہیں کہ موجودہ فضا کسی فرقہ وارانہ سمجھوتہ کے لیے مناسب نہیں۔‘‘ پنجاب کی یونینسٹ پارٹی جس کے سربراہ سر سکندر حیات تھے، اور جیسا پہلے عرض کیا جا چکا ہے اس پارٹی کے ممبران میں ہندو بھی شامل تھے ۔ اس پارٹی کے چند اہم مسلمان ممبران سے علامہ کا مسلسل رابطہ تھا، اور وہ یہ دیکھ رہے تھے کہ جناح سکندر معاہدہ کے باوجود لوگ اس بارے میں اختلافی بیانات دے رہے تھے کہ سر سکندر حیات نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ وہ اپنی پارٹی کے مسلم اراکین کو ہدایت کریں گے کہ وہ مسلم لیگ کے ممبر بن جائیں اور مسلم لیگ کے قواعد و ضوابط کی پابندی کریں۔ اس اعلان کا فائدہ یہ ہوا کہ پنجاب کے وزیر اعظم ان کے ساتھیوں کی شمولیت سے مسلم لیگ واحد مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کے طور پر ابھر آئی تھی۔ لیکن یونینسٹ پارٹی کے ممبران کی طرف سے کچھ غیر ذمہ دارانہ بیانات پر علاّمہ اقبال کو کچھ خدشات لاحق ہوئے جن کا اظہار انہوں نے اپنے خطوط میں قائد اعظم سے کیا اور ان سے چند نکات پر وضاحت طلب کی ۔ قارئین کے واسطے علاّمہ کے دو خطوط کا مکمل متن پیش ہے : ’’لاہور یکم نومبر ۱۹۳۷ء محترم جناح صاحب سر سکندر حیات خاں اپنی پارٹی کے چند اراکین کے ہمرا ہ کل مجھے ملے۔ ہمارے درمیان دیر تک مسلم لیگ اور یونینسٹ پارٹی کے باہمی اختلافات پر گفتگو ہوتی رہی ۔ دونوں فریقوں کی طرف سے اخبارات کو بیانات جاری کر دئیے گئے ہیں۔ ہر ایک فریق جناح سکندر معاہدہ کے بارے میں اپنی اپنی تاویل کرتا ہے۔ اس سے بہت زیادہ غلط فہمی پیدا ہوگئی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے آپ کو لکھا تھا کہ میں یہ سارے بیانات چند روز میں آپ کو ارسال کر وں گا۔ سرِدست میری درخواست ہے کہ آپ مجھے اس سمجھوتہ کی ایک نقل جس پر سر سکندر کے دستخط ہیں اور جو میرے علم کے مطابق آپ کے پاس ہے جلد بھجوا دیجئے ۔ آپ سے یہ بھی معلوم کرنا ہے کہ آیا آپ صوبائی پارلیمانی بورڈ کو یونینسٹ پارٹی کے اختیار میں دینے پر رضا مند ہوگئے تھے۔ سر سکندکا مجھ سے یہ کہنا ہے کہ آپ اس پر راضی ہوگئے ہیں لہٰذا ان کا مطالبہ ہے کہ یونینسٹ پارٹی کی بورڈ میں اکثریت ہونی چاہیے۔ جہاں تک میرا خیال ہے ، جناح سکندر معاہدہ میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ براہ کرام !اس خط کا جواب جلد از جلدعنایت فرمائیے ۔ ہمارے آدمی ملک کا دورہ کر رہے ہیں اور مختلف مقامات پر مسلم لیگ ( کی شاخیں) قائم کر رہے ہیں گزشتہ رات لاہور میں ہم نے ایک خاصہ کامیاب جلسہ کیا ہے۔ اب یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ آپ کا مخلص محمد اقبال ْْبار ایٹ لاء لاہور ۱۰ نومبر ۱۹۳۷ء محترم جناح صاحب سر سکندر اور ان کے احباب سے متعدد گفتگوئوں کے بعد اب میری قطعی رائے ہے کہ سر سکندر اس سے کم کسی چیز کے خواہش مند نہیں کہ مسلم لیگ اور صوبائی پارلیمانی بورڈ پر اُن کا مکمل قبضہ ہو۔ آپ کے ساتھ ان کے معاہدہ میں یہ مذکور ہے کہ پارلیمانی بورڈ کی نئے سرے سے تشکیل کی جائے گی اور اس میں یونینسٹ پارٹی کو اکثریت حاصل ہو گی ۔ سر سکندر کہتے ہیں کہ آپ نے بورڈ میں اُن کی اکثریت تسلیم کر لی ہے ۔ میں نے پچھلے دنوں آپ سے خط لکھ کر دریافت کیا تھا کہ کیا واقعی آپ نے پارلیمانی بورڈ میں یونینسٹ اکثریت منظور کر لی ہے؟ ابھی تک آپ نے مجھے اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں دی ۔ ذاتی طور پر مجھے انہیں وہ کچھ دینے میں کوئی مضائقہ نظر نہیں آتا جس کے وہ خواہش مند ہیں، لیکن جب وہ مسلم لیگ کے عہدیداروں میں مکمل رد و بدل کا مطالبہ کرتے ہیں تو منشائے معاہدہ سے تجاوز کرجاتے ہیں، بالخصوص سیکرٹری ( کی علیحدگی کا مطالبہ) حالانکہ انہوں نے مسلم لیگ کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ مسلم لیگ کی مالیات پر بھی ان ہی کے آدمیوں کا اختیار ہو ۔ میرے خیال میں تو وہ اس طرح مسلم لیگ پر قبضہ کرکے اسے ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ صوبے کی رائے پوری جان پہچان رکھتے ہوئے، میں مسلم لیگ کو سر سکندر اور اس کے احباب کے حوالے کر دینے کی ذمہ داری نہیں لے سکتا ۔ معاہدے کے باعث پنجاب مسلم لیگ کے وقار کو سخت نقصان پہنچا ہے اور یونینسٹوں کے ہتھکنڈے اسے اور بھی نقصان پہنچائیں گے ۔ انہوں نے ابھی تک مسلم لیگ کے منشور پر دستخط نہیں کیے اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ کرنا بھی نہیں چاہتے ۔ لاہور میں مسلم لیگ کا اجلاس، وہ فروری کی بجائے اپریل میں چاہتے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ وہ صوبہ میں اپنی زمین دارہ لیگ کے قیام و استحکام کے لیے مہلت چاہتے ہیں ۔ شاید آپ کو معلوم ہوگا کہ لکھنئو سے واپسی پر سر سکندر نے ایک زمیندارہ لیگ قائم کی ہے جس کی شاخیں اب صوبہ بھر میں قائم کی جارہی ہیں۔ اندریں حالات براہ کرم مجھے مطلع فرمائیے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ اگر ہوسکے تو بذریعہ تار اپنی رائے سے مطلع فرمائیے وگرنہ فوری ایک مفصل خط تحریر فرمائے۔ آپ کا مخلص محمد اقبال ْْبار ایٹ لاء ان خطوط کے بعد علامہ اقبال کی صحت دن بدن بگڑتی چلی گئی افسوس وہ زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکے یا شاید ان کے سپر د اللہ نے بس یہی کام کیا تھا کہ وہ دنیا کے نقشے پر ایک بڑی اسلامی مَملِکت پاکستان کے وجود کا تصور پیش کریں اور اپنے افکار کے ذریعے ایک صحیح مسلم معاشرے کی تعمیر کا خاکہ ہمیں دے جائیں۔ اقبال کے متذکرہ خطوط سے نظریہ پاکستان بڑے واضح طور پر ہمارے سامنے آجاتا ہے ۔ پاکستان کی آئیڈیالوجی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی تعمیر کے سلسلہ میں بھی علامہ نے ہمارے لیے صحیح راستہ کا تعین کر دیا ہے، وہ تعمیر پاکستان کے لیے دو پہلو پر وقتاً فوقتاً اظہار خیال کرتے رہتے تھے۔ ان میں ایک معاشی پہلو اور دوسرا ثقافتی پہلو ہے۔ وہ کہتے ہیں : جہاں بانی سے ہے دُشوار تر کارِ جہاں بینی جگر خوں ہو تو چشمِ دل میںہوتی ہے نظر پیدا اقبال فرماتے تھے کہ مسلمان کی روٹی کا مسئلہ اپنی جگہ مُسَلِّم، لیکن اس سے بھی زیادہ اہم ثقافتی پہلو ہے۔ وہ کہتے تھے کہ مسلمان کسی طرح بھی نہرو کی اشتراکی دہریّت کی طرف نہیں آسکتا۔ اس کی روٹی کے مسئلے کا حل قیام پاکستان میں مضمر ہے جہاں برصغیر کے مسلمان ایک علاقہ میں اپنی مرکزیت قائم کر سکیں گے اور اپنے ثقافتی اور معاشی استحکام کے ذریعہ اپنے اندر وہ اہلیت پیدا کریں گے جس سے عصر جدید میں اسلام کے سیاسی، معاشی ، عمرانی ، اور اخلاقی نظام کا احیا ہو سکے گا، اور مسلمان پوری دنیا کے لیے پاکستان کو ایک ماڈل بنا سکیں ۔ اپنی اس تحریک کو اقبال نے دو خطوط پر چلایا ، سیاسی خطوط پر مسلم لیگ کو مستحکم کیا اور اس کے پلیٹ فارم سے ایک نئی مملکت کا نقشہ پیش کیا ۔ اس تحریک کے لیے قائد اعظم جیسی قیادت کو بروئے کار لا کر اسے تقویت پہنچائی، دوسری طرف ایک ایسا ادارہ Institutionقائم کرنے کی کوشش کی جو اسلام میں عصرِ جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگِ اجتہاد کے ذریعے نئی تاویلات کرے، تاکہ مجوزہ اسلامی ریاست کے لیے پورا نظام حیات متشکل ہو کر سامنے آجائے ۔ ایسے ادارے کے لیے علاّمہ نے مختلف علماء کو دعوت دی جن میںمولانا انور شاہ کشمیری اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی شامل تھے ۔ یہ تو اتفاق تھا کہ علاّمہ وفات پاگئے اور انہیں پاکستان دیکھنا نصیب نہ ہوا اور ان کی اجتہادی کوششوں کے نتیجے میں وجود میں آنے والی فقہ بھی مرّتب نہ ہوسکی، جس کا انہوں نے زندگی میں کئی بار اظہار بھی کیا تھا کہ وہ اسلامی فقہہ پر ایک کتاب لکھنا چاہتے ہیں ۔ جس میں اسلامی نظامِ حیات کے خدّوخال واضح کرسکیں ۔ اقبال زندہ ہوتے تو وہ علماء کے ذریعے اپنی اجتہادی کوششوں سے مُجوّزَہ اسلامی نظام حیات تیار کرتے، اور قائد اعظم کی قیادت میں بننے والی اسلامی ریاست پاکستان کو آج کے عصری تقاضوں کے مطابق ماڈرن اسلامی ریاست بنا کر پیش کرتے۔ پھر قائد اعظم بھی فوت ہوگئے اور ہماری سیاست انتشار کا شکار ہوگئی جس سے ابھی تک ہم نکل نہیں پائے ۔ بہرحال ہمارے پاس قائد اعظم کی امانت پاکستان ہے اور مفکر پاکستان علامہ اقبالؒ کا بتایا ہوا اجہتاد کا راستہ ، جس پر چل کر ہم اب بھی اپنی کھوئی منزل کا سراغ پاسکتے ہیں ۔ راستہ خار دار اور کٹھن سہی لیکن ناممکن نہیں ہے ۔ ہمیں اپنی بقا کے لیے اپنی Idiologyکی حفاظت کرنا ہوگی، جو قومیں اپنی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت نہیں کر پاتیں وہ دنیا سے معدوم ہو جاتی ہیں ۔ پاکستان متوسط اور عام آدمی نے بنایا تھا اور اب تک اس کے خون جگر سے اس چمن کی آبیاری ہوتی رہی ہے۔ ہمارے دشمنوں کی یہ کوشش ہے کہ اس طبقہ کے خون کا آخری قطرئہ بھی پاکستان اور اسلام کا نام لے کر نچوڑ لیا جائے اور یوں اس ملک کا نام و نشان دنیا سے مٹ جائے۔ لیکن انہیں معلوم نہیں کہ ’’پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔‘‘ پاکستان کے جس طبقہ نے یہ ملک بنایا تھا وہی متوسط اور غریب خاندانوں کا اہلِ علم طبقہ اس کی نظریاتی اقدار کی حفاظت بھی کرے گا۔ بقول اقبال جو کی روٹی کھانے والے کو اللہ بازوئے حیدر بھی عطا کرتا ہے۔ اپنی قوم کے غریب مگر غیور اور بہادر لوگوں کے لیے اقبال اپنے آقا(ﷺ) کے حضور دعا کرتے ہیں : کرم اے شہِؐ عرب و عجم کہ کھڑے ہیں منتظرِ کرم وہ گدا کہ تونے عطا کیا ہے، جنہیں دماغِ سکندری خ خ خ فکریات اقبال: ’’من نوائے شاعرِ فرداستم‘‘ اقبال پاکستان کے مشہور شہر سیالکوٹ میں ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد محترم کا نام شیخ نور محمد تھا۔ حصولِ علم اور تحقیق کی منازل سے گزرتے ہوئے وہ علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال کہلائے اور آج دنیائے علم و ادب میں اقبال کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کا تعلق کشمیر کے ایک برہمن خاندان سے تھا۔ ان کے آباء واجداد تقریباً اڑھائی سو سال قبل مشرف بہ اسلام ہوئے تھے ۔ کسے معلوم تھا کہ یہ ننھا ستارہ ایک دن آفتاب بن کر دنیائے ادب کے افق پر چمکے گا اور خون مسلم کی تپش بن جائے گا۔ اقبال کا زمانہ ۱۸۷۷ء تا ۱۹۳۸ء پر محیط ہے۔ شاعری ان کے لیے ایک خدا داد عطیہ تھا۔ جس کے ذریعے ایک پسماندہ قوم کو غلامی سے نکال کر آزادی کی نعمت سے ہمکنار کرنا مقصد باری تعالیٰ تھا۔ پاکستانی قوم علامہ اقبالؒ کی مرہونِ منت ہے کہ انہوں نے ہندی مسلمانوں کی نجات کا راستہ تلاش کیا۔ اقبال نے ایک مردہ قوم کو زندگی کا درس دیا۔ اس کو اپنی حقیقت سے آگاہ کیا اور بالآخر ۱۹۳۰ء میںہندی مسلمانوں کے لیے جداگانہ مملکت کا نظریہ پیش کیا جو ۱۹۴۰ء میں قرار داد لاہور کی شکل میں برصغیر میں بسنے والوں کے سامنے آیا۔ حکیم الامّت علاّمہ اقبالؒ کا خواب ایک شیر دل مجاہد اور غازی محمد علی جناح لے کر آگے بڑھے اور اس کو ۱۴؍ اگست ۱۹۴۷ء کو تعبیر سے ہمکنار کیا۔ قوم نے محمد علی جناح کو قائدِ اعظم کا خطاب دے کر اپنی عقیدت کا نذرانہ پیش کیا۔ اقبال کا مشن ابھی باقی ہے ۔ میں یہاں اقبال کی سوانحِ حیات سے صرف نظر کرتے ہوئے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ انہوں نے ہوش سنبھالتے ہی مسلمانوں کی زبوں حالی اور ان کا سیاسی انحطاط دیکھا۔ جس کا ان کو شدت سے احساس ہوا ۔ وہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ اپنے گردو پیش اور دنیائے سیاست کا بغور مطالعہ کرتے رہے اور بالآخر ایک درد بھرا دل لے کر میدانِ عمل میں اترے۔ انہوں نے شاعری کو اپنے خیالات اور افکار کا ذریعہ بنایا۔ وہ بیسویں صدی کے ایک جدید شاعر، مفکر اور فلسفی مانے جاتے ہیں ۔ ان کی بیس سے زیادہ تصانیف ہیں، جو اردو اور فارسی زبانوں میں ہیں۔ ان کے علاوہ ان کے انگریزی کے خطبات ہیں اور اب ان کے خطوط قائد اعظم اور دوسرے رہنمایان قوم کو لکھے ہوئے بھی شائع ہو چکے ہیں ۔ عالمِ انسانیت کا عظیم محسن ، علاّمہ محمد اقبال ۲۱؍ اپریل ۱۹۳۸ء کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا ۔ اقبال نہ صرف مسلم قوم کا سرمایہ ہے بلکہ آج کی مختلف فرقوں ، نسلوں اور قوموں میں بٹی ہوئی انسانیت کو اس نے وحدت کا درس دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے متعلق اس کا کہنا، کہ اس ادارے کو جمعیت اقوام کی بجائے جمعیت آدم ہونا چاہیے۔ اقبال نے جو کہا، وہ ہو کر رہے گا، اور انسان کو ایک دن ایک مرکز پر جمع ہونا پڑے گا۔ آج انسان اور انسانی دماغ کو مشین نے اپنی گرفت میں جکڑا ہوا ہے، انسانی قدریں اس کا ساتھ چھوڑ چکی ہیں ۔ بس خال خال کہیں ایسا انسان نظر آجاتا ہے جو حیرت میں ڈوبا ہوا اس مشینی دور کا تماشا دیکھ رہا ہے۔ انسان دشمن مشین نے انسان کا قد چھوٹا کر دیا ہے، بقول جگر مراد آبادی’’ گھٹ گئے انسان بڑھ گئے سائے ‘‘ اس مشینی دور کے تحفوں میں انسان کو بے شمار عوارض نے آن گھیرا ہے جن میں مختلف قسم کے جسمانی، اخلاقی اور فکری عوارض شامل ہیں۔ آج مواصلاتی نظام اور تیز ذرائع آمدروفت کے باعث کرئہ ارض پر بسنے والے انسانی خاندان کے لیے، اقبال کے پاس ایک بڑا توانا پیغام موجود ہے ۔ انہوں نے اپنی ایک فارسی نظم مرغدین میں ایسے سماج کا نقشہ دکھایا ہے جہاں لوگ عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق زندگی کی مسرتوں سے ہم کنار ہیں، وہاں اسلام کی اعلیٰ قدروں کے مطابق معاشرہ پروان چڑھ رہا ہے۔ وہاں پر کوئی کسی کا محتاج نہیں، لوگ صحت مند ، توانا اور محنتی ہیں ، وہاں فاضل پیداوار کے ذریعے ماحول کو تباہ نہیں کیا جاتا، جیسا کہ آج مغربی ممالک میں کیا جارہا ہے ۔ اقبال صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ پوری نوع انسانی کا شعور رکھتے ہیں۔ اور چاہتے ہیں کہ پُوری انسانیّت انصاف اور عدل کے تقاضوں اور اخلاقی قدروں کے مطابق زندگی کی برکتوں سے فیض یاب ہو۔ ایسے نظام کی اساس وہ عقیدئہ توحید کو قرار دیتے ہیں جس کے ذریعہ وہ وحدتِ انسانیت کا نظریہ اخذکرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نوعِ انسانی کا آغاز حوا اور آدم سے ہوا، لہٰذا تمام انسان اولادِ آدم ہُونے کے ناطے سے آپس میں بھائی بھائی ہیں، کسی ایک کو کسی دوسرے پر فَوقیت نہیں، سوائے تقویٰ کے۔ کسی انسان ، کسی قوم، کسی ملت ، اور کسی نسل کو حق نہیں پہنچتا کہ دوسروں کو اپنا غلام بنائے اور اپنے مقاصد کے لیے آلۂ کار کے طور پر استعمال کرے ۔ اقبال احترامِ انسانیت کے علمبردار ہیں۔ ایک واقعہ قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش کرتا ہوں ۔ ایک ملاقات میں پروفیسر محمد منور سابق ناظم اقبال اکادمی نے مجھے بتایا کہ مارچ ۱۹۸۶ء میں ایران کے شہر تہران میں اقبال کانگریس منعقد ہوئی تھی جس میں پاکستان کی طرف سے انہوں نے بھی شرکت کی ۔ اقبال کانگریس کے افتتاحی اجلاس کی صدارت آیت اللہ خامنہ ای، اس وقت کے صدر ایران نے کی تھی، جو آج کل ایران کے مرجع تقلید یعنی روحانی سربراہ ہیں۔ انہوں نے اس اجلاس میں ڈیڑھ گھنٹہ تقریر کی جس کے دوران میں وہ مسلسل اقبال کے اشعار سناتے رہے ۔ اپنی تقریر میں موصوف نے انکشاف کیا کہ انقلابِ ایران کی منصوبہ بندی کے وقت یہ ضرورت پیش آئی کہ کسی ایسے مفکر یا شاعر کو تلاش کیا جائے جو ایرانی قوم کا لہو گرما سکے۔ چنانچہ قدماء سے لے کر اس صدی تک تمام شعرا کا کلام چھان ڈالا گیا لیکن کسی کا کلام اس قابل نہ پایا گیا جو یہ مقصد حل کر سکے ۔ بالآخر اقبال کے کلام کا مطالعہ کیا گیا ، پتہ چلا کہ اقبال کو تو شاید پہلے سے معلوم تھا کہ ایران میں احیائے دین کے واسطے اس کی ضرورت پڑے گی ۔ ایرانیوں نے دیکھا کہ اقبال کے کلام میں وہ آتش موجود ہے جو شیطانی دنیا کے کاخ و کو جُھلسا کر رکھ دے گی ۔ چنانچہ اہلِ ایران نے کلامِ اقبال کا بھر پور استعمال کیا جس کا نتیجہ آج دنیا کے سامنے ہے ۔ موجودہ صدی کا ممتاز ایرانی شاعر بہار جس کو شہنشاہِ ایران نے ملک الشعراء کا خطاب دیا تھا، اقبال کے بلند مرتبے کا اتنا معترف تھا کہ اس نے تسلیم کیا ہے : ’’عصرِ حاضر خاصۂ اقبال گشت ‘‘ حقیقت یہ ہے کہ موجود دور بلکہ آنے والے دور کے لیے کلامِ اقبال مشعلِ راہ ہے۔ اس نے ہمیں قرآنِ کریم کے اصل مفہوم سے روشناس کیا ہے۔ ایران کے انقلابی مصلح اور مفکر ڈاکٹر علی شریعتی نے بھی اقبال کو ’’علی ؓ گونہ‘‘ کہا یعنی علی نما ۔ یہ کسی ایرانی مفکر کی طرف سے بہت بڑا خطاب یا اعزاز ہے جو کسی کو دیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر علی شریعتی کے مطابق اقبال مُصِلح قرنِ آخر ہیں اور عصرِ جدید میں اقبال اسلام کے سب سے بڑے مفکر ، صورت گر اور معمار ہیں ۔ ما و اقبال اور اقبال مصلح قر ن آخر کے نام سے انہوں نے اقبال پر کتب بھی تحریر کیں، جس میں اقبال کو مستقبل کا شاعر قرار دیا ۔ اور مسلمانوں کو ان کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دیا ۔ یہی ڈاکٹر علی شریعتی جو ایرانیوں کا آئیڈیل روحانی اور انقلابی مصلح تھا ۔ امام خمینی کی زیر قیادت انقلاب برپا کرنے والے ایرانیوں کا تعارف کنندہ ہو ،اور اس نے ایرانی انقلابیوں میں روحِ اقبال پھونک دی۔ چنانچہ ملوکیت پسند ایرانی، اقبال کے انقلابی ترانے گاتے ہوئے شاہ ایران کا تختہ الٹ کر اسلامی انقلاب کے پیامبر بن گئے ۔ انقلابِ ایران نے دنیا بھر کے مُسلِم حریّت پسندوں کا اقبال کو آئیڈیل بنا دیا ہے۔ اور یوں اقبال مسلمانوں کا ماضی اور حال ہی نہیں مستقبل بھی بن گئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی رہنمائی کے لیے انیسویں صدی میں ایک رہبر پیدا کیا جو اکیسویں صدی میں آنے والے لوگوں کے لیے نشان راہ دکھا گیا ۔ اقبال اپنے متعلق خود کہتا ہے : ’’من نوائے شاعرِ فردا ستم ‘‘ خ خ خ اقبال کا نظریہ حرکت و عمل ’’پوشیدہ قرار میں اجل ہے۔‘‘ اقبال جدید مسلم دنیا کے وہ ممتاز فلسفی ہیں جنہوں نے مابعدالطبیعیات (Metaphysics) اور زمان و مکان (Time and Space) جیسے دقیق فلسفے کا تجزیہ کیا اور اسے نئی جہت عطا کی۔ مغربی فلسفی (Henri Bergson) اقبال کے وقت کا بہت مشہور مفکر تھا اور فلسفے میں (Authority) مانا جاتا تھا۔ برگساں فرانس کا باشندہ تھا ۔ اس کے نزدیک تغیّر حرکت اور عملِ تخلیق بغیر کسی مقصد کے ہیں۔ اس کے برخلاف اقبال نے ثابت کیا کہ تغیّر اور عمل تخلیق بامقصد ہیں۔ اقبال نے اپنا نظریہ واضح کرنے کے لیے اپنے یورپ کے قیام سے واپسی کے دوران برگساں سے پیرس میں ملاقات کی ۔ اس وقت وہ بیمار تھا، لیکن اس نے اقبال سے اپنی پہیوں والی کرسی پر بیٹھ کر ملاقات کی۔ موضوع فلسفہ زمان و مکان تھا جس وقت اقبال نے رسول پاک ﷺ کا نام مبارک لئے بغیر ایک حدیث کا جملہ (Time and Space) کے موضوع پر اس کو سُنایا تو بیمار برگسان اپنی کرسی پر کھڑا ہوگیا اور پوچھنے لگا کہ کس کا قول ہے؟ اقبال اپنی برگسان سے ملاقات پر بڑے مطمئن واپس آئے ۔ فلسفۂ مغرب انگشت بدنداں ہے جب اقبال کہتے ہیں کہ اسلام کا تصوّرِ حیات جامد نہیں بلکہ متحرک ہے او ر زندگی ایک سادہ کاغذ پر لکیر کی طرح جامد نہیں بلکہ رواں دواں ہے۔ انہوں نے اپنی اردو اور فارسی زبان کی شاعری اور خطبات سے بڑے مدلل اور دلنشین انداز میں یہ واضح کیا ہے کہ اسلام کا تصورِ حیات جامد نہیں بلکہ متحرک ہے۔ اقبال نے اپنی ایک اردو نظم ’’چاند اور تارے‘‘ میں اس مضمون پر کیا خوب لکھا ہے، چند اشعار ملاحظہ ہوں : بیتاب ہے اس جہاں کی ہر شے کہتے ہیں جسے سکوں ، نہیں ہے رہتے ہیں سِتم کشِ سفر سب تارے ، انساں ، شجر ، حجر سب جنبش سے ہے زندگی جہاں کی یہ رسم قدیم ہے یہاں کی اس رہ میں مقام بے محل ہے پوشیدہ قرار میں اَجل ہے چلنے والے نکل گئے ہیں جو ٹھہرے ذرا ، کُچل گئے ہیں انجام ہے اس خرام کا حُسن آغاز ہے عشق اِنتہا حُسن اس نظم میں، اقبال کیسے پیارے انداز میں دو چیزیں ہمارے دل میں اتار گئے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ حیات جامد تصور نہیں بلکہ ہر لمحہ متحرک ہے، اور یہ کہ حقیقت میں جمود کا مطلب موت ہے۔ (پوشیدہ قرار میں اجل ہے) دوسری بات اس نظم کے آخری شعر میں بڑے حکیمانہ اور خوبصورت طریقے سے بیان کی ہے۔ اقبال نے حرکت (یہاں مراد حرکتِ آدم ہے) کو محرک کہہ کر بڑے عالمانہ اور شاعرانہ انداز میں حُسنِ مطلق تک پہنچا کر حیات دوام سے ہمکنار کر دیا، یہی حرکت ہے جس کا ’’آغاز ہے عشق انتہا حُسن۔‘‘ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ جمود کا مطلب موت ہے۔ قرآن پاک حرکت اور عمل کی تعلیم دیتا ہے۔ نماز کیا ہے؟ حرکت ہی تو ہے۔ حج، زکوٰۃ روزہ، کیا یہ سب بغیر حرکت اور عملی جدوجہد کے ممکن ہیں ؟ رسول ؐ پاک فرماتے ہیں ’’میری امت کے عالم بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہیں، افسوس کہ اس فرمانِ رسولؐ کی روح پر غور نہیں کیا جاتا صرف الفاظ کو دہرایا جاتا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ ہمارا درجہ تو رسولؐ پاک نے پیغمبروں کے برابر بتایا ہے، اور خوشی سے پھولے نہیں سماتے ان جامع الفاظ کے حقیقی مفہوم اور روحِ کلام پر اگر غور کیا جائے تو انبیاء کرام جیسی جدوجہد انتھک سعی و حرکت اور اِشاعتِ دین کی خاطر بادیہ نوردی اختیار کرکے میدان ِ عمل میں کود پڑنا، مقصودِ ارشاد نبی پاکؐ ہے۔ اب ذرا اقبال کی چشمِ بصیرت کی رسائی دیکھیں ۔ وہ فرماتے ہیں۔ ’’اسلام نے خُو ب سمجھ لیا تھا کہ انسا ن ہمیشہ سہاروں پر زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ اس کے شعور ِ ذات کی تکمیل یوں ہوگی کہ وہ خود اپنے وسائل سے کام لینا سیکھے ۔‘‘ ہمارے بزرگوں نے جبرو قدر کا صحیح مطلب سمجھا۔ انہوں نے دنیا میں اسلام کو سربلند کیا اور خود بھی زندہ جاوید ہو گئے لیکن ہم نے اپنی کم ہمتی اور کم علمی کی بنا پر تسلیم و رضا وار جبر و قدر کو گڈ مڈ کرکے بُزدلی کا شیوہ اختیار کر لیا۔ علاّمہ اقبال نے جاوید نامہ میںہماری جبرو قدر کی روش کو اس طرح بیان فرمایا ۔ جبرِ خالد عالمے برہم زند جبرِ ما بیخ و بُن ما برکند (ترجمہ ) : خالد کے جبر نے دنیا کو تہہ و بالا کر ڈالا۔ ہمارے جبر نے ہماری اپنی بنیادیں ہلا دیں ۔ آج اُمّتِ مُسلمہ بے عملی کا شکار ہے۔ باوجود یکہ ان میں عابد، زاہد اور متقی لوگوں کی کمی نہیں۔ لیکن اقبال کہتے ہیں کہ تحقیق کا جنگل شیر دل انسانوں سے خالی ہے، فرماتے ہیں: شیر مردوں سے ہوا بیشۂ تحقیق تہی رہ گئے صوفی و ملاّ کے غلام اے ساقی عشق کی تیغِ جگر دار اڑا لی کس نے علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی اہلِ علم حضرات اور اہلِ بصیرت افراد، علما کی موشگافیوں اور فروعات پر مباحث کے باعث گوشہ نشین ہوگئے، اور عوام تصوّف کے سکونی نظریہ سے اثر لے کر جمود کا شکار ہوگئے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ قوم زندگی کی تڑپ سے محروم ہوگئی ہم خدا کو مانتے ہیں، لیکن ہمارے سینے توحید کی تڑپ سے خالی ہیں۔ اقبال کہتے ہیں کہ کبھی توحید ایک زندہ قوت تھی لیکن آج زندہ قوّت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی آج کیا ہے ، فقط اک مسئلۂ علمِ کلام میں نے اے میر سپہ ! تیری سپہ دیکھی ہے قُل ھُو اللہ کی شمشیر سے خالی ہیں نیام لیکن اقبال نہ خود مایوس ہوتے ہیں نہ دوسروں کو مایوس ہونے دیتے ہیں۔ وہ جدوجہد اور عمل کا درس دیتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ عزم اُو خلاّقِ تقدیر خداست (اس کا، یعنی مومن کا عزم خالق ہے تقدیر الٰہی کا) جواب شکوہ کے آخری بند میں اقبال ہمارے جمود کو توڑ کے ہمیں حرکت اور عمل پر آمادہ کرتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے، اللہ کی طرف سے اقبال کہتے ہیں ۔ عقل ہے تیری سپر عشق ہے شمشیر تری میرے درویش ! خلافت ہے جہانگیر تری ماسِویَ اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری تُو مُسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لَوح و قلم تیرے ہیں اقبال تلقین کرتے ہیں ۔ مسلم استی سینہ را از آرزو آباد دار ہر زماں پیشِ نظر لایخلفُ المعیاد دار ترجمہ : اپنے سینے کوآرزووں سے آباد رکھو اور ہر وقت اپنے سامنے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد رکھو کہ وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ ( انَّ اللّٰہَ لَایُخلِفُ المِیعَادْ بے شک اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا) قرآنِ پاک ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ خدا ان لوگوں کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں، اور قرآنِ پاک شاہد بھی ہے، جس میں متعدد واقعات کا تذکرہ کرکے مثالیں دی گئیں، کہیں طوفان کے ذریعے بے یقین قوم کو غرق کرکے نوح کو سر بلند کیا، کہیں اپنے آپ کو خدا کہلوانے والے جابر اور قومی حکمران فرعون کو اس کی فوج کے ساتھ دریائے نیل میںغرق کرکے حضرت موسیٰ ؑ کو فتح یاب کیا اور کہیں ادنی پرندے ابابیل سے دیو ہیکل دشمنِ دین کے ہاتھیوں کو پسپا کیا۔ رسولِ پاکؐ کی ذات مبارک اور ان کے چند بے سرو ساماں جاں نثاروں کے ذریعے بے شمار فتوحات کے واقعات کون جھٹلا سکتا ہے۔ اللہ نے ہر جگہ اپنا وعدہ پورا کیا ہے۔ شرط صرف اتنی ہے کہ ہم یقینِ کامل کے ساتھ منزل کا تعین کرکے قدم بڑھائیں، پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنا وعدہ پورا کرتا ہے۔ اقبال مندرجہ بالا آیتِ کریمہ کا مفہوم اس طرح ہمارے دلوں میں اتارتے ہیں : ترا تَن رُوح سے ناآشنا ہے عجب کیا ! آہ تیری نارسا ہے تنِ بے رُوح سے بیزار ہے حق خدائے زِندَہ زِندوُں کا خدا ہے اپنے خط میں، اقبال لکھتے ہیں کہ جب ’’قوم میں طاقت اور توانائی مفقُود ہو جاتی ہے، جیسا کہ تاتاری یورش کے بعد مسلمانوں میں مفقود ہوگئی تھی، تو پھر اس قوم کا نقطۂ نگاہ بدل جاتا ہے۔ اس کے نزدیک ناتوانی حسین و جمیل شے ہو جاتی ہے اور ترکِ دنیا موجب تسکین ۔‘‘ جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ جمود کا دوسرا نام موت ہے، اس کے برعکس حرکت اصل زندگی ہے او ر اقبال نے زندگی کی جو حِکمَت پیش کی ہے، اس میں انفرادی حرکت کے نتیجے میں اجتماعی معنویت کا مثبت پہلو مقصود ہے۔ یہ اَسلُوبِ کلام نہ صرف اقبال کے زمانے کے مشرقی اورمغربی ادب میں مفقود ہے بلکہ دنیائے ادب و فلسفہ کی تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔اقبال اگر ہم سے کہتے ہیں کہ: ملّت کے ساتھ رابطۂ اُستوار رکھ پیوستہ رَہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ! تو اس میں اجتماعی مفاد اور مثبت معنویت مُضمِر ہے اور اگر وہ قوم کے فرد کو پکار کر حرکت پر اُکستاتے ہیں تو انداز بیان دیکھئے ۔ فرماتے ہیں : مثل بو قید ہے غنچے میں ، پریشاں ہو جا رخت بردوش ہوائے چمنستاں ہو جا ہے تنک مایہ تو ذرّے سے بیاباں ہو جا نغمۂ موج سے ہنگامۂ طوفاں ہو جا! ان اشعار میں بھی ملّت کی تعمیر فرد کے ساتھ ساتھ کی جارہی ہے۔ اگر قوم کا فرد فعال ہو جائے اور عملی جِدوجُہد پر کمر بستہ ہو جائے، تو ملّت کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ مندرجہ بالا اشعار کے علاوہ اقبال کے اردو اور فارسی کلام میں اسی ہمہ گیر نظرئیے کا جگہ جگہ درس ملتا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک فارسی شعر میں اس اجتماعی نظریہ اثبات کو ایسی خوبصورتی اور دلنواز انداز سے بیان کیا ہے کہ جب میری پہلی نظر اس شعر پر پڑی تو میں تڑپ اٹھا ۔ ایک کیف کا عالم تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اقبال میرے سامنے ہیں انہوں نے اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکال کر میرے دل کا نشانہ بنایا ہے۔ جس سے لہو ٹپک رہا ہے اور اقبال مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ یہ تیرا لہو نہیں ہے یہ میرا خونِ جگر ہے۔ تو اسے میری قوم کے نوجوان کو دکھا کر خوابِ غفلت سے بیدار کر، اور بتا کہ قافلۂ جہاں کُوچ کرکے کہاں سے کہاں پہنچ چکا مگر تو ابھی تک ’’محو نالۂ جرسِ کا رواں ‘‘ ہے علامہ اقبال کے اس فارسی شعر کی کاٹ اور جگر سوزی کوئی صاحبِ دل محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا، فرماتے ہیں : نَغمہ کُجا و من کُجا سازِ سُخن بہانہ ایست سوئے قطار می کشم ناقہ بے زمام را! ترجمہ : میں کہاں اور موسیقی کہاں میری شاعری ایک بہانہ ہے، میں تو ایک بے لگام اونٹنی (مسلم قوم) کو قطار میں لانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اقبال کے اعجاز کا کمال ہے کے لیلائے قوم کے لیے لفظ ’’ناقہ ‘‘ استعمال کیا گیا ہے ۔ اس ایک لفظ نے ’’بے زمام‘‘ کے ساتھ مل کر شعر کو ایسی جلا بخشی ہے کہ خیالات کی ضُو، نظروں کے راستے ذہن کو اجاگر کرتی ہوئی دل کو تڑپا جاتی ہے۔ مندرجہ بالا شعر میں اجتماعی معنویت کے ساتھ ساتھ فردِ ملّت کو نظم و ضبط کا درس بھی دیا گیا ہے اور اس میں حرکت و عمل کا مثبت سبق بھی موجود ہے۔ اس شعر میں لیلائے قوم کے لیے لفظ ناقہ کا استعمال، اقبال کی قادرُ الکلامی کا کام ہے بلکہ اس لفظ کے انتخاب سے ان کے دل میں اپنی قوم سے بے پناہ محبت کا اظہار ہوتا ہے۔اقبال کی اپنی قوم سے یہی بے کراں محبت تھی کہ جس نے برّصغیر میں قوم کے بچے ، بوڑھے، جوان ہر ہر دل کو جھنجھوڑ ڈالا تھا، خوابِ خرگوش میں مبتلا افرادِ ملت کو بیدار کرکے، ان کو باہمی محبت و اُخوَّت کا درس دیا، انہیں حرکت و عمل پر آمادہ کیا۔ اور ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اقبال کی چھوٹی سے ہم خیال جماعت نے قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں وہ کارنامہ انجام دیا کہ دنیا کا نقشہ بدل ڈالا ۔ مگر افسوس کہ پاکستان حاصل کرنے کے بعد ہم پھر سوگئے ۔ ہمارے دشمن ہمیشہ کی طرح تاک میں تھے کہ کس وقت یہ قوم غفلت کا شکار ہو اور کب ہم شب خُون ماریں ، چنانچہ اس وقت ہم پر ہر طرف سے بھر پور وار کئے جار ہے ہیں ، لیکن ’’پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا‘‘ اقبال اپنے کلام کے ذریعے ہم سے کہہ رہے ہیں : وقتِ فُرصت ہے کہاں ، کام ابھی باقی ہے نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے اقبال حرکت و عمل کا وہی درس دیتے ہیں جو قرآنِ پاک نے دیا اور جس پر عمل کرکے رسول پاک ﷺ نے دنیا میں جہالت کو علم کے نور سے روشن کیا ۔ جس کے نتیجے میں ایسی قوم وجود میں آئی جس نے دنیا کی اِمامت کی ، یہ وہی قوم تھی کہ بقول اقبال ’’کچل ڈالا تھا جس نے پائوں میں تاجِ سر دارا۔‘‘ علامہ اقبال نے اپنے کلام میں خُونِ جگر کی آمیزش سے جو گُل کاری کی ہے ، رہتی دنیا تک اس کی اثر آفرینی کم نہیں ہوگی ۔ وہ اپنے کلام کے متعلق خود کہتے ہیں : مصرعۂ من قطرئہ خونِ مَن اَست ’’میرے شعر کا ہر مصرعہ میرے خون کا ایک قطرہ ہے۔‘‘ اقبال بقائے ملّت کے لیے دعا کرتے ہیں تو ہماری طرح نہیں کہ بغیر ہلے جلے ہاتھ اٹھالیے اور بارگاہ الٰہی میں، غیب سے امداد اور داد رسی کی التجائیں شروع کر دیں، بلکہ وہ اللہ کے حضور اگر کچھ مانگتے ہیں تو اپنے شاہنیوں کے لیے ’’بال و پَر‘‘ اور ’’نورِ بصیرت‘‘ تاکہ وہ عملی جِدوجُہد کرکے اللہ تعالیٰ کے اس وسیع دستر خوان سے جو دوست اور دشمن سب کے لیے یکساں قابل دَسترس ہے اپنا حصہ حاصل کرسکیں ۔ اقبال اگر دعا بھی کرتے ہیں تو اس قلندرانہ انداز سے کہ آنکھوں سے چشمۂ اشک رواں ہے ، بارگاہ رب العزت میں ہاتھ اٹھے ہوئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اے باری تعالیٰ! میں تجھ سے اپنے لیے کچھ نہیں مانگتا، اے ربِّ ذُوالجلال تیرے جلا ل کی قسم، میرے دل میں کوئی آرزو نہیں، سوائے اس کے تو اپنے کرم سے میری قوم کے نوجوانوں کو، جو کبوتروں کی طرح بھولے بھالے اور سادہ لوح ہیں، شاہین جیسی طاقت اور شان عطا کر دے ۔ وہ آنسوئوں کے نذرانے کے ساتھ لرزتے ہونٹوں سے دعا کرتے ہیں ۔ بجلا لِ تو کہ در دل دِگر آرزو نَدارَم بجز ایں دعا کہ بخشی بہ کبوتراں عقابے! (تیرے جلا ل کی قسم میرے دل میں کوئی آرزو نہیں۔ سوائے اس دعا کے کہ اے اللہ !تو کبوتروں کو عقابی شان عطا کردے) اقبال اچھی طرح جانتے تھے اور ہمیں بتاگئے ہیں کہ ہماری فلاح کے نقیب صرف عقاب صفت جوان ہیں کیونکہ : عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں نظر آتی ہے اُس کو اپنی منزل آسمانوں میں اقبال فرماتے ہیں کہ یہی قانون قدرت ہے کہ بارگاہ الٰہی سے وہی نوازا جاتا ہے جو صرف اس سے (یعنی اللہ سے ) مانگے اور جو مانگنے کا طریقہ ہے اس طرح مانگے، یعنی پہلے عملی جدوجہد اور پھر درگاہ رب العزت کی طرف یقینِ کامل کے ساتھ رجوع، بقول اقبال یہی آئین قُدرت ہے ، یہی اسلوبِ فطرت ہے جو ہے راہِ عمل میں گامزن ، محبوبِ فطرت ہے تقسیمِ ہند سے کافی عرصہ قبل کا ایک واقعہ ہے کہ ایک انگریز نواز اخبار نے ایک کارٹون شائع کیا، جس میں ایک عورت کو دکھایا گیا جس کی آنکھ پر پٹی باندھ کر مہاتما گاندھی، اس کو ایک پہاڑی کے اوپر ہاتھ پکڑے آگے لے جارہے تھے ۔ پہاڑی کی چڑھائی ختم ہوتے ہی نیچے ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا ،گویا مہاتما گاندھی ہندوستان کو موت کی طرف لے جارہے تھے۔ مولانا ظفر علی خان جیسا حساس اور ملک و قوم کا ہمدرد بھلا یہ کیسے برداشت کرتا، فوراً ایک شخص کو وہ اخبار دے کر علامہ اقبال کی خدمت میں روانہ کیا۔ اقبال نے اس کارٹون کے نیچے دو اشعار لکھ دیئے جن سے کارٹون کا مطلب ہی بدل گیا ۔ یہ اشعار کارٹون کے ساتھ مل کر نظریہ حرکت و عمل کی ایک منہ بولتی تصویر بن گئے ۔ اشعار یہ تھے : میارا بزم بر ساحل کہ آنجا نوائے زندگانی نرم خیز است بہ دریا غلت و باموجش دَر آویز حیاتِ جاودان اندر ستیز است ’’دریا کے ساحل پر بز م سجا کر نہ بیٹھو، کیونکہ وہاں تو زندگی کے نغموں کی دھنیں بڑی دھیمی ہیں۔ دریا میں کود جائو، اور اس کی موجوں سے لڑو، تم دیکھو گے کہ جدوجہد میں ہی دائمی زندگی پُوشیدہ ہے۔‘‘ آپ نے دیکھا کہ اقبال نے کس طرح اپنے اشعار سے موت کو زندگی میں بدل دیا ۔ یہی ہے اقبال کے درسِ حرکت و عمل کا انوکھا انداز ۔ آج کل اُمّتِ مُسلِمَہ اپنی بے عملی کی وجہ سے ہر طرف سے اغیار کی عیّاریوں کا شکار ہے اور سخت انتشار میں مبتلا ہے۔ دراصل یہ ابتلا اور مصائب ہمیں جھنجوڑ کر خوابِ غفلت سے بیدار کر رہے ہیں۔ لہٰذا جتنی بھی جلد ہم متحد ہو کر راہ عمل پر گامزن ہو گئے کامیابی کا مقام حاصل کرسکیں گے۔ اس وقت طاغوتی طاقتوں میں سے ایک بڑی طاقت کا حشر تو ہم دیکھ ہی رہے ہیں اور یہ دن دوسروں کے لیے بھی دور نہیں ‘ آثار نظر آنے لگے ہیں اقبال کے الفاظ ہیں ۔ رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عُنّابی ہے یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے اقبال ۱۹۰۷ء میں پیشین گوئی کرچکے ہیں : نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے ، وہ شیر پھر ہُوشیار ہوگا دیارِ مغرب کے رہنے والو ! خُدا کی بستی دکاں نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو ، وہ اب زرِ کم عَیار ہوگا تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ، ناپائدار ہوگا نظریۂ وحدۃ الوجود کی بحث سے قطع نظر، جس طرح فلسفۂ زمان و مکان کی رو سے کائنات ایک وحدت ہے، ملّت اسلامیہ بھی ایک چھوٹی اکائی (یونٹ) یا وَحدت ہے۔ اقبال اس وَحدت کی بقا کے لیے فردِ ملت کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ فرد کی صیقل گری میں حقیقتاً ملت کے قلب کی جلا کرنا ان کا مقصود ہے، کیونکہ ’’ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ‘‘ قوم کی مثبت اجتماعی معنوعیت اسی راز میں پوشیدہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعاً وَّلَا تَفَرَّقُوْا (سورۃ آل عمران۳:۱۰۳ ) ترجمہ : سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑلو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔‘‘ مندرجہ بالا حکم خدا تعالیٰ کا ہے جس سے روگردانی دراصل ہماری بربادی اور تباہی ہے اقبال اس نکتہ کو یوں بیان کرتے ہیں ۔ مُنفعت ایک ہے اس قوم کی ، نقصان بھی ایک ایک ہی سب کا نبیؐ ، دین بھی، ایمان بھی ایک حرمِ پاک بھی ، اللہ بھی ، قرآن بھی ایک کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں یہ ایک تسلیم شُدہ حقیقت ہے کہ انسان اس وقت تک کچھ پاتا نہیں جب تک کچھ کُھونے کے لیے تیار نہ ہو۔ کسی پیاری چیز کو صرف چاہنا ہی اس کو حاصل کرنے کے لیے کافی نہیں ہوتا بلکہ اس کے حاصل کرنے کے لیے کچھ کُھونا پڑتا ہے، کچھ تج دینا پڑتا ہے بقولِ اقبال ۔ عطارؔ ہو، رومیؔ ہو، رازیؔ ہو، غزالیؔ ہو کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی اقبال عمل اور جِدوجُہد کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مومن کا عزم تقدیر الٰہی کا خالق ہے وہ کہتے ہیں! ’تن بہ تقدیر‘ ہے آج اُن کے عمل کا انداز تھی نہاں جن کے ارادوں میں خُدا کی تقدیر دراصل فرد کی مثال مکان میں ایک اینٹ جیسی ہے، جس سے ملّت کی تعمیر ہوتی ہے۔ ملّت کی عمارت کی شان اور مضبوطی کا انحصار افراد کی وَحدتِ نظر، وحدتِ فکر، وحدتِ عمل، ان کی یکسانیت اور ربط ِ باہم پر ہے۔ ملّت کا ہر فرد تسبیح کا ایک دانہ ہے وہ اس مالا کا ایک موتی ہے جس کی شان اس کے محبوب کے گُلو سے وابستہ ہے ، اقبال کہتے ہیں کہ اپنی حقیقت کو پہچانئے، یہ ہماری دکھوں کا مداوا ہے اور یہی وقت کی پکار۔ اپنی اصلیّت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو قطرہ ہے ، لیکن مثالِ بحرِ بے پایاں بھی ہے سینہ ہے تیرا اَمیں اس کے پیامِ ناز کا جو نظامِ دہر میں پیدا بھی ہے ، پنہاں بھی ہے اس گلشن عالم میں رنگ و بُو پر قناعت کرنا اور چند خوشنما پھول چُن کر سمجھ لینا کہ ہم نے گوہرِ مقصود پالیا، ایک بڑا دھوکا ہے۔ اقبال ؒ کہتے ہیں کہ اگر پھولوں سے تو اپنا دامن بھر بھی لے تب بھی بے عمل ہو کر بیٹھ جانا تیری بدنصیبی ہوگی۔ تیرے واسطے تو اس چمن میں تیری تنگ دامانی کا علاج بھی موجود ہے : تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا ورنہ گلشن میں علاجِ تنگیٔ داماں بھی ہے اقبالؒ یہیں بس نہیں کرتے، بلکہ وہ کہتے ہیں کہ اس روئے زمین کے چمن زار سے آگے بھی تیرے لیے خالقِ کائنات نے نت نئی دنیائیں اور نئے نئے چمن سجا رکھے ہیں : فضا تری مہ و پرویں سے ہے ذرا آگے قدم اُٹھا ، یہ مقام آسماں سے دُور نہیں خ خ خ اقبال کا تصورِ حیات بعد الموت چکبست نے کہا : زندگی کیا ہے ، عناصر کا ظہور ترتیب موت کیا ہے ، انہی اجزا کا پریشاں ہونا چکبست کے خیال میں موت بذات خود کوئی چیز نہیں، یہ انسان کے اجزائے ترکیبی کا منشتر ہونا ہے ، ان کا فنا ہونا نہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ انسان مرنے کے بعد فنا نہیں ہوتا بلکہ موت صرف اس کے جسدِ خاکی تک محدود رہتی ہے۔ اقبال کہتے ہیں : فرشتہ موت کا چُھوتا ہے گو بدن تیرا تیرے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے! ایک اور مزے کی بات اقبال نے اپنی مشہور تصنیف جاوید نامہ میں کہی ہے۔ بندئہ حق ضیغم و آہوست مرگ یک مقام از صد مقامِ اوست مرگ! یعنی مومن موت کا شکار نہیں ہوتا بلکہ موت خود مومن کا شکار ہے ، بندئہ مومن شیر کی مانند ہے اور مو ت اس کے واسطے ہرن ہے، دوسرے مصرع میں کہتے ہیں کہ موت زندگی کی بے شمار منزلوں میں سے صرف ایک منزل ہے۔ مولانا رومی نے کہا تھا کہ موت ایک سفر ہے عالمِ سفلی سے عالم علوی کی طرف ۔ اقبال یہ بات اس طرح بیان کرتے ہیں ۔ نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمانِ غیُور موت کیا شے ہے ، فقط عالمِ معنی کا سفر پروفیسر محمد منورIqbal on Life After Death میں بیان کرتے ہیں : موت ہمارا پیدائشی حق ہے، جسے ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ اس کو حاصل کرنے کے لیے انسان کو کسی خاص عمر تک پہنچنے کی ضرورت نہیں۔ ایک انسان پیدا ہونے کے فوراً بعد بھی مرسکتا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ طبعی عمر کو پہنچنے کے باوجود عرصہ دراز تک موت کی لَذّت سے ہمکنار نہیں ہو پاتا۔ لیکن ایک بات اٹل ہے کہ انسان کو موت سے مفر نہیں ۔ یوں تو انسان کو موت کوئی اچھی چیز نہیں لگتی، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کبھی کبھی آدمی موت کو دعوت دیتا ہے اور اسے گلے لگانے کی خواہش کرتا ہے۔ وہ ایسا کرنے میں خوشی اس وقت محسوس کرتا ہے جب کہ اس کے پیشِ نظر کوئی عظیم مقصد ہو۔ ایسی موت کو قربانی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ آخرت کی شادکامی اور کامرانی کا باعث بنتی ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کسی مصیبت یا شدید مایوسی سے مغلوب ہو کر خود ہی اپنی زندگی ختم کر دیتا ہے۔ ایسی موت کو خود کشی کہا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں اقبال مومن کی پہچان بتاتے ہیں ۔ نشانِ مر د حق دیگر چہ گُویَم چو مرگ آید تبسّم بَر لَبِ اُدست ترجمہ : (مومن کی نشانی یہ ہے کہ جب موت آئے تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہو) ظاہر ہے یہ بات اس وقت ممکن ہے جبکہ انسان حیات بعد الموت پر پُختہ یقین رکھتا ہو۔ یہ ایسی حقیقت ہے جس کو قرآن پاک نے متعدد بار مختلف طریقوں سے باور کر ایا ہے، لیکن چونکہ ہم زندگی کا تصور جسم کے بغیر نہیں کر سکتے اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرما دیا کہ تم اس حیات کا شعور نہیںکر سکتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں ان کی نسبت یوں مت کہو کہ وہ مردہ ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم اس (حیات) کا شعور نہیں رکھتے۔،، (سورۃ البقر آیت ۱۵۴) آپ نے دیکھا کہ یہاں قرآن نے موت کا لفظ تک استعمال نہیں کیا۔ اقبال کہتے ہیں ۔ موت ، تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے زندگی ایک ابدی حقیقت ہے ۔ اس دنیا میں زندگی کو اللہ تعالیٰ نے ایسا فعال بنایا ہے اور اس کو وہ قُوّتِ ظہُور اور قوّت نَمو بخشی ہے، جس کی شہادت ذرہ ذرہ دے رہا ہے۔ بقول اقبال : دَما دَم رَواں ہے یمِ زِندگی ہر اک شے سے پیدا رمِ زندگی اقبال نے ایک اور بہت پیاری بات کہی ہے، ملاحظہ ہو۔ زندگی محبوب ایسی دیدئہ قُدرت میں ہے ذوقِ حفظِ زندگی ہر چیز کی فِطرت میں ہے موت کے ہاتھوں سے مٹ سکتا اگر نقشِ حیات عام یوں اُس کو نہ کر دیتا نظامِ کائنات قرآن پاک میں تخلیقِ آدم کے دوران اللہ تعالیٰ فرشتوں کو مخاطب کرکے فرماتا ہے۔ ’’جب میں اس کو پوری طرح درست کردوں اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک دوں تب گر پڑنا اس کے لیے سجدے میں۔،، (سورۃ الحجر آیت ۲۹) پس ثابت ہوا کہ روحِ انسانی کوئی خیالی یا تصوّری شے نہیں ہے بلکہ یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے، چونکہ اللہ تعالیٰ دائم و قائم اور ہمیشہ باقی رہنے والی ذات ہے، اور روحِ انسانی روحِ کل کا ایک حصہ ہے اس لیے اگر کُل کو فنا نہیں تو جُز بھی لافانی ہے۔ دوسرے الفاظ میں انسان کو فنا نہیں ہے۔ دراصل روح ہماری شخصیت کا حصہ ہے۔ مرنے کے بعد بھی ہمارا تشخص روح کے ساتھ وابستہ رہتا ہے، اور ہمارا اثاثہ ہمارے نامۂ اعمال کی شکل میں ہمارے ساتھ ہوتا ہے، اس لیے اقبال نے عظمتِ کردار کو زندگی میں انتہائی اہمیت دی ہے۔ اس دنیا کی زندگی کے لیے اقبال کہتے ہیں ۔ برتر از اندیشۂ سُود و زِیاں ہے زندگی ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی تو اسے پیمانۂ اِمروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں پیہم رواں ہر دم جواں ہے زندگی سورۃ مریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اور انسان کہتا ہے کہ جب مرجائوں گا تو کیا زندہ کرکے نکالا جائوں گا؟ کیا انسان یاد نہیں کرتا کہ ہم نے اس کو پہلے بھی تو پیدا کیا تھا اور وہ (پہلے ) کوئی چیز بھی نہ تھا۔‘‘ ( ۶۶: ۱۹) موت مکمل نیستی ہرگز نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو بقول پروفیسر محمد منور ’’ہر انسان کی یہ خواہش نہ ہوتی کہ اس کے مرنے کے بعد بھی اس کا نام باقی رہے ‘ وہ کوئی ایسا کارنامہ کر جائے کہ لوگ اسے مدتوں یاد رکھیں ۔ انسان کبھی کوئی نئی ایجاد کرتا ہے، کبھی کوئی مثالی پینٹنگ یانادر تصویرِ بناتا ہے ‘ کبھی شاعر یا مُغنّی بن کر دنیا میں نام پیدا کرتا ہے اور اگر کچھ بھی نہ کر سکے تو کم سے کم اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد ایسی ہو کہ اس کا نام دنیا میں قائم رہے۔ ’’انسان کو زندگی بعد الموت میں ہمیشہ سے یقین رہا ہے۔ شاہانِ قدیم نے مرنے سے پہلے اپنے لیے اہرامِ مصر بنوائے۔ ان میں سے بعض نے پہاڑوں کے اندر اپنی بعد مرگ رہائش کے لیے عالیشان مرقد بنوائے، جن کے اندر ان کے ساتھ ساتھ ان کے خزانے بھی دفن کئے گئے ۔ اس کے علاوہ ان کے مرغوب کھانے بھی ساتھ رکھ دیئے جاتے تھے اور ان کی تنہائی دُور کرنے کے لیے ان کے قریب ترین اور وفادار ملازموں کو بھی ان کے ساتھ ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ ’’ہندو مذہب میں بھی زندگی بعد الموت کا تصور انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ باوجودیکہ ۶۰۰ صدی قبلِ مسیح، ہندو روح کی منتقلی میں مُبہم سا یقین رکھتے تھے اور اُس وقت بھی آج کل کی طرح وہ مردہ جسم کو جلا دیا کرتے تھے۔ لیکن ہندوستان پر بدھ مذہب کی ہزار سالہ حکومت کے زیر اثر رہ کر ان کا Transmigration پر یقین ہوگیا اور اب یہ عقیدہ ان کے مذہب کا اہم جزو ہے ۔‘‘ انسان کو صرف پیدا کرنا پھر مار ڈالنا اور ناپید کر دینا مقصودِ الٰہی ہرگز نہیں ہو سکتا۔ موت انسان کو فنا یا بالکل ناپید نہیں کر سکتی ۔ خدا تعالیٰ کا کوئی عملِ تخلیق مقصدیّت سے خالی نہیں ہوسکتا۔اسی لیے اقبال نے تلقین کی ہے کہ زندگی میں بھرپور کردار ادا کرو۔ کیونکہ زندگی تکوینِ آدم کا راز ہے اور یہ ’’کُن فَیَکُون‘‘ کی زندئہ جاوید حقیقت ہے۔ فرماتے ہیں : اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زِندوں میں ہے سرِّ آدم ہے ضمیرِ کُن فکاں ہے زندگی زندگی ایک حقیقت ہے اور موت زندگی کے بے شمار منزلوں میں سے صرف ایک منزل ہے۔ دنیا کا کوئی مذہب ایسا نہیں کہ جو حیات بعد الموت پر یقین نہ رکھتا ہو۔ اقبال فرماتے ہیں کہ لوگ غفلت کے مارے ہوئے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ زندگی موت پر ختم ہو جاتی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جسے ہم شامِ زندگی کہتے ہیں وہ ہماری دائمی زندگی کی ابتدا ہے۔ موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی ہے یہ شامِ زندگی صبحِ دوامِ زندگی خ خ خ شاعر بانگ درا میں اقبال کی نظم ’’شاعر ‘‘ صرف تین اشعار پر مشتمل ہے ۔ اتنی مختصر ہونے کے باوجود یہ نظم موجودہ دور کے شاعر کے واسطے مشعلِ راہ کا درجہ رکھتی ہے۔ پہلے شعر میں حکیم الامتؒ کہتے ہیں : قوم گویا جسم ہے ، افراد ہیں اعضائے قوم منزلِ صنعت کے رہ پیما ہیں دست و پائے قوم اقبال نے اپنے کلام میں متعدد مقامات پر معاشرے میں فرد کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ اس شعر میں بھی وہ فرماتے ہیں کہ ملّت یا قوم ایک جسم کے مانند ہے، جس کے اعضا افراد ِ قوم ہوتے ہیں ۔ انہیں افراد میں وہ لوگ ہیں جو صنعت و حرفت میں اپنا مقام رکھتے ہیں، وہ ملک اور قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ اور افرادِ قوم میں وہ لوگ نمایاں حیثیت رکھتے ہیں جن کے متعلق اقبال کہتے ہیں : محفلِ نظمِ حکومت ، چہرئہ زیبائے قوم شاعرِ رنگیں نوا ہے دیدئہ بینائے قوم فرماتے ہیں کہ : ’’ حکومت میں برسرِ اقتدار لوگوں کی جماعت یا پارلیمینٹ قوم کے چہرے کی زینت ہیں۔ جس طرح انسان کا چہرہ اس کی شخصیت کا عکاّس ہوتا ہے اسی طرح برسراقتدار طبقہ پوری قوم کے اطوار و عادات اور اخلاقیات کی نمائندگی کرتا ہے۔ افرادِ قوم کے اندر شاعر بھی ہوتا ہے جس کا وجود قو م کے جسم میں آنکھ کی مانند ہوتا ہے یہ آنکھ دیدئہ بینا ہوتی ہے جو کھلی رہتی ہے اور دُور بیں ہوتی ہے۔ یہ قوم کے درد لیے ہوتی ہے اور اتنی حساس ہوتی ہے کہ : مبتلائے درد کوئی عُضو ہو روتی ہے آنکھ کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ علامہ اقبالؒ کا مقصودِ حیات ’’آدم گری ‘‘ اور علم و حکمت کی اشاعت تھا، جس کا ذریعہ انہوں نے شعر کو بنایا اور شعر بغیر سوز کے بے اثر ہوتا ہے۔ اس سوز کے لیے جس آتش کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہے آتشِ عشق، جو کہ صاحبِ کردار اور منفرد بندوں کے لیے مخصوص ہوتا ہے اور وہی اس کے اہل بھی ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ معاشرے کا سرمایہ ہوتے ہیں اور صحیح معنوں میں انسانیت کے علمبردار بھی۔ اقبال حقیقتِ شعر اور شاعر کے متعلق یُوں اظہار خیال کرتے ہیں : شعر را مقصود اگر آدم گری است شاعری ہم وارثِ پیغمبری است (ترجمہ ) : اگر شعر کا اصل مقصد حیوان ناطق کو آدمی بنانا ہے تو ایسا شاعر پیغمبری کا وارث ہے) اقبال معاشرے کے لیے شاعر کا مقام اس انداز سے بیان کرتے ہیں : ’’شاعر اندر سینۂ مِلّت چو دل ملّتے بے شاعرے انبارِگِل‘‘ (ترجمہ) : شاعر کی حیثیت ملّت کے سینے میں دل کی طرح ہے اور جو قوم ’’ایسے ‘‘ شاعر سے محروم ہے وہ ایک مٹی کا ڈھیر ہے ) ہماری موجودہ نسل کے شُعرا کے لیے اقبال کی شاعری مشعل راہ ہے۔ ان پر بھٹکی ہوئی انسانیّت کی رہنمائی کے لیے بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، جس سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے ان کو اپنا وہ کردار بروئے کار لانا پڑے گا جو بقول اقبال ان کو پیغمبری کی وراثت کا حق دار بنا دے‘ اسی وقت ان کے اندر وہ سوز پیدا ہوگا اور ان کے شعر میں وہ تپش ہوگی جو سننے والے کے دل کو تڑپا دے گی ۔ ایسے شعر کی صفت اقبال کے مُرشدِ طریقت مولانا روم نے جس انداز سے بیان کی ہے وہ اقبال نے اپنے ایک شعر میں اس طرح بیان کی ہے: گُفت آں شعرے کہ آتش اندر وست اصلِ او از گرمئی اللہ ھوست (ترجمہ) ’’اگر کسی شعر کے اندر آگ موجود ہے تو وہ صرف ’’اللہ ھو‘‘ کی گرمی کی بدولت ہے۔‘‘) سخن میں گرمی ’اللہ ھو‘ (عشق ذات) سے جنم لیتی ہے ۔ لہٰذا سخنور کے لیے ضروری ہے کہ وہ صاحبِ کردار ہو اور مئے عشق سے سرشار ، بقول اقبال : مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ عشق ہے اصلِ حیات، موت ہے اس پر حرام ایسے ادیب اور شاعر جن میں جذبہ عشق و خدمتِ ملّت کی فراوانی ہو قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں، اور ایسے ہی لوگ قوم کی زبان، قوم کا ذہن ، اور ملت کے سینے میں دل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے : اہلِ زمیں کو نُسخۂ زندگیٔ دوام ہے خونِ جگر سے تربیت پاتی ہے جو سخنوری گُلشنِ دہر میں اگر جوئے مئے سخن نہ ہو پھول نہ ہو، کلی نہ ہو، سبزہ نہ ہو ، چمن نہ ہو خ خ خ اقبال کی ’’دُعا‘‘ قارئین منزل سویڈن کے لیے تحفۂ اقبال کی تلاش میں آج جو کتاب ہاتھ میں آئی وہ اقبال کی کتاب زبورِ عجمہے۔ اس نظم کے حصہ اوّل کا عنوان ہے ’’بحضور حق تعالیٰ ‘‘ اور ابتدا ایک اتنہائی خوبصورت ’’دعا‘‘ سے ہوتی ہے۔ اس ’’دعا‘‘ کے چند اشعار اور ان کا اردو ترجمہ پیش کرتا ہوں : اقبال بارگاہ ایزدی میں دعا گو ہوتے ہیں :۔ یارب درونِ سینہ دل باخبر بدہ در بادہ نشۂ را نگرم، آں نظر بدہ (ترجمہ) : اے میرے مالک! مجھے دلِ آگاہ دے (اور) مجھے ایسی (تیز) نظر عطا فرما کہ میں شراب کے اندر (چھپا ہوا) نشہ دیکھ سکوں ۔ اقبال کہہ رہے ہیں کہ مجھے شرابِ عشق سے فیضیاب کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں سرور و مستی مجھے نصیب ہوئی، لیکن اے اللہ میری تجھ سے التجا ہے کہ تو مجھے وہ نظر بھی عطا کر جس کے ذریعے میں اس شراب کے اندر چھپے ہوئے نشہ کا دیدار کرسکوں (مراد معرفت الٰہی سے ہے) اقبال اپنے مالک کے حضور دستِ سوال دراز کئے ہوئے مزید دعا گو ہیں : سلیم، مرا بجوئے تنک مایۂ مپیچ جولا نگہے بوا دی و کوہ و کمر بدہ (ترجمہ ) : میں سیلاب ہوں مجھے ایک معمولی ندی سے منسلک نہ کر۔ (بلکہ) مجھے پہاڑوں ، وادیوں اور میدانوں کو اپنی لپیٹ میں لینے دے ۔ اقبال نے اس شعر میں اپنے لیے ایک ہمہ گیر دعا کی ہے۔ وہ اپنے لیے وُسعتوں اور ہمہ گیری کے تمنائی ہیں۔ اقبال کی یہ دعا بھی مستجاب بارگاہِ ایزدی ہوئی ہے۔ آج نہ صرف دنیائے اسلام میں،بلکہ دیگر اقوامِ مغرب و مشرق کی درسگاہوں میں فلسفۂ اقبال پر ریسرچ کے لیے دروازے کھلے ہیں۔ وہاں کی لائبریریوں میں اقبال کی تصانیف اور ان پر دنیا کے نامور مفکروں کی تحریر کر دہ کتب موجود ہیں ۔ اس نظم کے اگلے شعر میں اقبال فرماتے ہیں : سازی اگر حریف یمِ بیکراں مرا بااِضطراب موج، سکونِ گُہر بدئہ (ترجمہ) : اگر تو نے مجھے ایک بیکراں سمندر کا حریف بنا ہی دیا ہے (تو) مجھے میری موجوں کے اضطراب کے ساتھ ساتھ سکون گہر بھی نصیب فرما۔ اقبال اپنے اللہ سے کہہ رہے ہیں کہ تونے اپنے کرم سے مجھے سمندر جیسی وسعتیں عطا کی ہیں، میرا اضطراب بھی کسی طرح سمندر کی موجوں سے کم بیتاب نہیں۔ باوجود یکہ سمندری سطح پر موجوں کا اضطراب ہے، لیکن اس کے اندر ایک قطرئہ آب (شکمِ صدف میں ) پُرسکون ہے۔ اے میرے پروردگار اگر تو نے مجھے سمندر کی موجوں جیسا اضطراب عطا فرمایا ہے تو ساتھ ہی ساتھ میرے دل کو صدف میں ایک موتی کی طرح (جو کہ حقیقت میں ایک قطرئہ آب ہے) سکون سے بھی فیضیاب فرما دے، تاکہ میرے دل کو بھی آوارگی اور کشمکش دریا سے نجات ملے۔ کیونکہ…… کی ترک تگ و دو قطرے نے تو آبروئے گوہر بھی مِلی آوارگی فطرت بھی گئی اور کشمکش دریا بھی گئی اقبال کی دعا کا رخ اب قوم کے نوجوان کی طرف ہوتا ہے۔ ارشاد فرماتے ہیں : شاہینِ من بہ صید پلنگاں گذاشتی ہمت بلند و چنگل ازیں تیز تر بدہ ترجمہ : تونے میرے شاہینوں کو چیتوں کا شکار کرنے کے لیے چھوڑا ہے۔ اے میرے مالک ، ان کی ہمتیں بلند کر اور ان کے پنجے اور تیز کر دے ۔ اقبال کے اس شعر کو بھی شرفِ قبولیت عطا ہوا ہے۔ افغانستان میں شاہینوں نے روسی چیتوں کو مار بھگایا ہے، اور ہمیں ذات باری سے امید واثق ہے کہ افغانستان کی طرح بوسنیا، چیچنیا اور کشمیر میں بھی انشاء اللہ اقبال کے شاہینوں کو فتح نصیب ہوگی ۔ اقبال کے ساتھ ساتھ ہم بھی دعا گو ہیں کہ اے باری تعالیٰ تو نے جب اپنے نہتے نام لیوائوں کو ظالم چیتوں سے لڑوا ہی دیا ہے، تو اے قادر مطلق ، ہمارے شاہینوں کے پنجوں کو تیز تر کر دے ، ان کو طاقت اور ہمّت عطا فرما کہ وہ ظالموں کو عبرتناک شکست دے سکیں۔ اپنی نظم کے آخری شعر میں اقبال دعا کرتے ہیں : خاکم بہ نورِ نغمۂ دائود ؑ بر فروز ہر ذرّئہ مرا پر و بالِ شرر بدئہ (ترجمہ) : میری خاک کو دائو دی نغموں سے چمکا دے … اور (اس خاک کے ) ہر ذرہ کو چنگاری بنا کر ہر طرف اڑا دے ۔ اقبال فرماتے ہیں کہ اے باری تعالیٰ میری نغموں میںد ائود علیہ السلام کی آواز جیسا سوز اور اثر پیدا کر دے جو مجھ سُوختہ جاں کی خاک کے ذرات کو چمکتی ہوئی چنگاریاں بنا دے، اے اللہ! ان چنگاریوں کو دنیا میں ہر طرف بکھیر دے تاکہ یہ میری قوم کے لوگوں کے دلوں میں آتشِ عشق فروزاں کر دیں۔ حقیقتاً خاکِ اقبال کی یہ چنگاریاں ان کے اشعار کے روپ میں ہر طرف دلوں میں آگ لگا رہی ہیں۔ مندرجہ بالا عنوان کی دوسری نظموں سے چند اشعار منتخب کئے ہیں۔ دیکھئے تخیل اقبال کی پرواز آپ کو کہاں کہاں لے جاتی ہے ۔ اقبال فرماتے ہیں : عشقِ شور انگیز راہر جادہ در کوئے تو بُرد بر تلاشِ خود چہ می نازد کہ رہ سوئے تو بُرد عشق کا جنون جس راہ پر بھی چلا اسے (وہ راستہ) تیرے درتک لے گیا (یہی وجہ ہے کہ) عشق کو اپنی تلاش پر ایسا ناز ہے کہ اس کا اختیار کردہ راستہ تجھ تک اسے لے گیا۔ اقبال کہتے ہیں کہ عشق کی شوریدہ سری اور اس کا جنون اپنے محبوب کو حاصل کرنے کے سلسلہ میں کبھی غلط راستہ کا انتخاب نہیں کرتا۔ اگر جذبہ صادق ہو تو عشق راہ راست سے بھٹکنے نہیں دیتا اور بالآخر عاشق اپنی منزل پالیتا ہے۔ یہ تجربہ اقبال نے اپنی ذات پر کیا اور اسے من و عن درست پایا ۔ اقبال چاہتے تھے کہ جو چشم بصیرت اللہ نے انہیں بخشی تھی وہ ان کی قوم کے نوجوان کو بھی میسر آجائے ۔ اسی لیے وہ اللہ کے حضور اپنی قوم کے نوجوانوں کے لیے دعا کرتے ہیں : زبادئہ کہ بخاکِ من آتشے آمیخت پیالۂ بہ جوانانِ نونیاز آور ترجمہ : وہ بادہ( شرابِ عشق )جس نے میری خاک میں آگ بھر دی ہے (اے خدا)اس شراب کا پیالہ( میری قوم کے) نئے نیاز مند نوجوانوں کو بھی عطا کر دے۔ اقبال نے دوسرے مصرع میں جوانوں کے لیے جو صفت استعمال کی ہے یعنی ’’نونیاز‘‘ فقط یہ ایک لفظ ہی اپنے اندر ایک مضمون سموئے ہوئے ہے۔ نیاز کے معنی خواہش کے بھی ہوتے ہیں، اور نوجوانوں میں نئی نئی خواہشات کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے ۔ یہ امنگیں یا خواہشات اگر مثبت راہ اختیار کرلیں اور پھر انہیں تائید ایزدی بھی حاصل ہو تو یہ انسان کی تکمیل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ تعمیرِ ملّت کے واسطے اقبال کی ہمیشہ دلی خواہش رہی کہ نوجوانانِ قوم اپنی صلاحیتوں کو اُجاگر کریں اور وہ علم و عرفان کی شمعیں روشن کرکے دنیا میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں ۔ البتہ یہ اس وقت ممکن ہے جب دل میں عشق کی حرارت موجود ہو، بقول اقبال ’’کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی‘‘ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی قوم کے نوجوانوں کے لیے اللہ سے اپنے شعر میں جذبہ عشق عطا کرنے کی دعا کر رہے ہیں ۔ ایسے ہی وہ کبھی اپنے ر ب سے کہتے ہیں کہ اے خدا ’’ان شاہین بچوں کو بال و پر دے ‘‘ اور کبھی ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی پُرنم آنکھوں کے ساتھ ہاتھ پھیلائے ہوئے اپنی قوم کے نوجوان کے لیے التجا کر رہے ہیں کہ یار ب ان سیدھے سادھے نازک جسم کبوتروں میں شاہین کا جگر پیدا کر دے اور کہیں کہہ رہے ہیں : اے کہ زمن فزودئہ گرمئی آہ و نالہ را زندہ کُن از صدائے منِ خاکِ ہزار سالہ را ترجمہ : ( اے خدا) تو نے میری گریہ و زاری میں (بے پناہ) اضافہ کر دیا ہے۔ (اب) مری صدا سے ملّت اسلامیہ میں، جو ایک ہزار سال سے خاک کا ایک ڈھیر بن چکی ہے، نئی زندگی پیدا کر دے ۔ فرماتے ہیں کہ اے باری تعالیٰ تو نے مجھے عشق کی دولت سے نوازا ہے۔ جس کی گرمی مجھے رات دن تڑپاتی رہتی ہے۔ اے خدا میری آہ زاری میں ایسا اثر پیدا کر جو میری ہزار سال سے سوئی ہوئی قوم کو بیدار کر دے۔ میرے مالک ! غنچۂ دل گرفتہ را از نفسم گرہ کُشای تازہ کن از نسیمِ من داغِ درونِ لالہ را ترجمہ : میرے سانسوں کے ذریعے اس غمگین کلی کے دل کی گرہ کھول دے اور میرے (سانس کی) نسیم سے (باغ ملت کے ) گلِ لالہ کے دل کا داغ پھر تازہ کر دے ۔ فرماتے ہیں کہ تیرے چمن کی کلیاں کملا گئی ہیں، انہیں کوئی غم کھائے جا رہا ہے۔ میرے رب! تو میری آواز میں وہ اثر پیدا کر کہ یہ کلیاں کھِل جائیں اور پُھول بن جائیں، ان گُلِ لالہ کے داغوں کو میرے نغمے سیراب کرتے رہیں، اور اس چمن میں پھر سے بہار آجائے ۔ تو اپنے در سے اس فقیر کو مایوس نہ کر …… خواجۂ من نگاہ دار آبروئے گدائے خِویش آنکہ زجوئے دیگراں پُر نکُنَد پیالہ را ترجمہ : اے میرے آقا! تو اپنے فقیر کی آبرو کی حفاظت فرما۔ (تیرے در کا یہ فقیر ) اپنا کاسہ کسی غیر کی ندی سے نہیں بھرنا چاہتا۔ اقبال وہ مرد درویش ہے جو ایسی یکتائے روز گار ہستی کا غلام ہے جس کی ٹھوکر میں اپنے وقت کی پرشکوہ اور پر جلال سلطنتوں کی بے پایاں دولت تھی، جو اگر چاہتا تو اپنے واسطے سونے ۱ور چاندی کے محل بنوا سکتا تھا، لیکن دنیا سے رخصت ہوتے وقت اُن(ﷺ) کا کل سرمایہ سات دینار تھے اور وہ سات دینار بھی رسول ﷺ نے اپنی آنکھیں بند ہونے سے پہلے غریبوں میںتقسیم کروا دئیے ، وہ جب اس دنیا سے رخصت ہو رہے تھے تو ان کے پاس اللہ کے نام کے سوا کچھ نہ تھا۔ زندگی میں انھوں نے جب بھی کچھ طلب کیا تو اپنے اللہ سے ۔ یہ ان کا فیض ہے اور انھی کی قدموں کی خاک کا طفیل ہے کہ دنیا میں جس کو بھی نظر بینا عطا ہوئی، اس کا ہاتھ اگر پھیلا تو صرف اپنے رب کے آگے ۔ اقبال کا شمار ایسے ہی نابغہ روزگار لوگوں میں ہوتا ہے ۔ اقبال اپنی قوم کی حالتِ زار پر ہمہ وقت بے قرار رہتے تھے، لیکن امداد کے لیے ان کی نظریں صرف اللہ کی طرف اُٹھتی تھیں۔ زندگی میں کبھی نہ ان کی زبان سے سنا گیا اور نہ کہیں ان کے کلام میں اس بات کا شائبہ ملتا ہے کہ ان کی مفلوک الحال قوم کو سنبھالنے کے لیے کسی بڑی طاقت کی امدا د یا سرپرستی کی ضرورت ہے، انھوں نے ہمیشہ اپنے قُوّتِ بازو اور اپنے اللہ پر بھروسا کرنے کی تلقین کی۔ کاش یہ بات ہمارے رہنمایانِ قوم کے دلوں میں جگہ پاسکے کہ ہماری نجات اور ہمارے دکھوں کا مداوا اسی نکتے میں پوشیدہ ہے۔ خ خ خ علامہ اقبالؒ اور دنیائے انسانیت علامہ اقبالؒ کے کلام میں جگہ جگہ ہمیں اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ قرآن پوری عالمِ انسانیت کی اصلاح کے لیے نازل ہوا تھا اور اس نے دیکھتی آنکھوں دنیا کی کا یا پلٹ دی۔ قرآنکسی خاص قوم ، ملک یا نسل کے لیے نازل نہیں ہوا بلکہ یہ عالم انسانیت کے لیے ہدایت ابدی ہے، جس کا صاف اظہار قرآنی الفاظ ’’ھُو الناس ‘‘ اور ’’یَا اَیُّھاَ النَّاس‘‘میں ہوتا ہے اور ہمیں بتا دیا گیا ہے کہ تمام انسان آدم کی نسل ہیں اور سب کی روح کا منبع ایک ہے، یعنی سب کے سب ایک ہی سرچشمۂ حیات سے روحانی طور پر منسلک ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن پاک کا موضوع ہی انسانیت ہے۔ اگر دیکھا جائے تو قرآن کے سارے مضامین ، قوانین ، احکامات ، ممنُوعات ، تذکرئہ اقوام سابقہ ، غرضیکہ تمام کے تمام جس ایک مرکز پر آکر منتج ہوتے ہیں وہ ہے تعمیر انسانیت ۔ قرآن پاک کی صرف ایک ہی آیت پر اگر آپ غور کریں تو قرآن کی عالمگیری (Universality)واضح ہو جاتی ہے۔ سورۃ الاعراف کی آیت ۱۵۸میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’(اے رسول ) آپ کہہ دیجئے کہ اے (دنیا بھر کے ) انسانو !میں تم سب کی طرف اس اللہ کا بھیجا ہوا (پیغمبر ) ہوں جس کی بادشاہی تمام آسمانوں اور زمینوں میں ہے۔‘‘ پاکستان کے مشہور دانشور ، مفکر ، پروفیسر محمد منور جو بحر اقبالیات کے غواص ہیں اپنی کتاب بُرہانِ اقبال میں بعنوان جہانِ اقبال ، جہانِ قُرآن لکھتے ہیں : ’’یہ حکمت (حکمتِ قرآنی ) ہم سب کے لیے ہے۔ اس لیے کہ اصلِ آدم ایک ہے۔ مادی اعتبار سے بھی سب ایک مٹی سے پیدا ہوئے ہیں اور روحانی اعتبار سے بھی ایک ‘ کہ ایک ہی ’’نفخ روح‘‘ کے مالک ہیں۔‘‘منٹگمری واٹ لکھتے ہیں : ’’موجودہ دنیا مادی اعتبار سے ایک ہوچکی ہے ۔ اب وُہی مذہب باعث کشش ہوسکتا ہے جس کے پاس پوری دنیا کے لیے پیغام ہو۔ اگر ہم اسلام کو اس زاویہ نظر سے دیکھیں تو یہ ساری دنیا کا مذہب قرار پانے کے قابل ہے ۔‘‘ خُطبات اقبال کے مترجم سید نذیر نیازی نے تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ کے حاشیہ میں اس ضمن میں شیخ سعدی کے نہایت بامعنی دو اشعار لکھے ہیں جن میں وحدت انسانی کی بہترین مثال پیش کی گئی ہے۔ شیخ سعدی کہتے ہیں ۔ ’’بنی آدم اعضائے یک دیگر اند کہ در آفرنیش ز یک جوہر اند چو عضوے بدرد آورد روزگار دگر عضوہا را نماند قرار‘‘ ترجمہ : بنی نوع انسان باہم ایک دوسرے کے اعضا ہیں۔ ان کی تخلیق ایک ہی جوہر سے ہوئی ہے۔ اگر جسم کے کسی ایک عضو کو تکلیف پہنچے تو دوسرے اعضا بھی بے قرار ہو جاتے ہیں ۔ قرآن پاک کی سورۃ النساء کی پہلی آیت کے مطابق تمام انسانوں کونفسِ واحد سے پیدا کیا گیا ہے۔ اقبال نے وحدتِ مبداء حیات پر اپنے مقالہ ’’اسلامی ثقافت کی روح‘‘ میں بڑی بسیط فلسفیانہ تشریح کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ قوموں کے اندر یہ احساس راسخ ہونے میں کچھ وقت درکار ہوتا ہے کہ زندگی ایک وحدتِ نامیہ ہے۔ اس موضوع کا ایک اقتباس پیش ہے : ’’یوں بھی اس تصور کا نشوو نما اس امر پر موقوف ہے کہ اقوام و اُمم احوالِ عالم کی اصل رو میں داخل ہو جائیں۔ اسلامی فتوحات کی رفتار چونکہ بڑی تیز تھی اس لیے مسلمانوں کو یہ موقع جلد ہی میسر آگیا ۔اس میں کوئی شک نہیں اسلام سے بہت پہلے عیسائیت نے بھی انسان کو مساوات کا سبق دیا، لیکن یہ امر کہ نوع انسانی ایک جسم نامی ہے، مسیحی روما کی سمجھ میں کبھی نہیں آیا۔ فلنٹ (Flint) کہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ جو بات کسی عیسائی ، یا دولت رُوما کے کسی مصنف کے حق میں بالخصوص کہی جاسکتی ہے یہ کہ اس کے ذہن میں وحدتِ انسانی کا ایک مجرد تصور موجود تھا۔ مگر پھر رُومی عہد سے لے کر اب تک بھی تو صورت حالات کچھ ایسی ہے کہ یہ تصور یورپ کے دل و دماغ میں جاگزیں نہیں ہوسکا ۔ برعکس اس کے وطنی قومیّت کے نشوو نما سے جس کا سارا زور نام نہاد قومی خصائص پر ہے، وسیع انسانیت کا جو عنصر مغربی ادب اور فن میں کام کر رہا تھا برابر دب رہا ہے۔ لیکن اس سے کس قدر مختلف ہے عالم اسلام کی تاریخ! یہاں وحدتِ انسانی کا خیال نہ تو محض کوئی فلسفیانہ تصور تھا، نہ شاعرانہ خواب بلکہ روز مرہ زندگی کا ایک زندہ اور قائم عنصر جو چپکے چپکے اور غیر محسوس طریق پر اپنا کام کرتا رہا۔‘‘ اقبال لکھتے ہیں کہ پہلے عیسائیت نے بھی گو کہ مساوات کا سبق دیا مگر رومی دنیا یہ نہ سمجھ سکی کہ اس کا اظہار ریاست اور معاشرے میں کس طرح ہوگا لیکن مسلمانوں نے عملاً دنیا کو ایسا کرکے دکھا دیا ۔ اقبالؒ وحدت ِ مبداء حیات کو تعلیمات قرآن کا سنگ بنیاد بتاتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ رنگ و خون کا رشتہ زمین سے پیوستگی ہے۔ گویا یہ ایک قیدِ مقامی ہے۔ اپنے ایک خطبہ میں ، جس کا عنوان ہے الاجہتاد فی الاسلام اقبال فرماتے ہیں : ’’اتحادِ انسانی کے لیے کسی خالص نفسیاتی اساس کی جستجو جب ہی کامیاب ہو سکتی ہے جب اس حقیقت کا ادراک ہو جائے کہ نوعِ انسان ایک ہے اور اس کی زندگی کا مبداء اصلاً روحانی (ہے) پھر یہی ادراک ہے جس سے نئی نئی وفاداریوں کی تخلیق ہوتی ہے اور جس کی بدولت ہم ان کو رسوم و ظواہر کا سہارا لیے بغیر بھی قائم اور برقرار رکھ سکتے ہیں ۔‘‘ اقبالؒ نے ایک جگہ کچھ اس طرح کہا ہے کہ کسی نلکی میں سے پہلے ہوا نکال کر ہی اس میں دوسری ہوا داخل کی جاسکتی ہے۔ دین محمدیؐ کا ظہور اس وقت ہوا جبکہ دنیا کو نئی زندگی درکار تھی ۔ چار ہزار برس پہلے کی تہذیبوں کے آثار دنیا میں کہیں کہیں کھنڈرات کی شکل میں نظر آتے تھے۔ ایسے وقت میں انسانیت کو کسی ایسی تہذیب کی ضرورت تھی جو بھٹکتی ہوئی انسانیت کی رہنمائی کرسکے۔ مَشیّتِ ایزدی نے اس کے لیے سر زمین عرب کا انتخاب کیا جو اس وقت یکسر کسی پرانی تہذیب کے اثر سے پاک تھی ۔ بقول اقبالؒ …… ’’یہ بھی ایک طبعی امر تھا کہ اسلام کا ظہور ایک ایسی سادہ مزاج قوم میں ہوتا جو قدیم تہذیبوں کے اثرات سے یکسر پاک اور ایک ایسی سر زمین میں آباد تھی جہان تین براعظم آپس میں مل جاتے ہیں۔ اس نئی تہذیب نے اتحاد عالم کی بنا اصولِ توحید پر رکھی۔‘‘ اسلامی مساوات کے زَرّیں اصول ہی نے جمہوریت کو جنم دیا۔ وہ سلطانی جمہوریت ہی تھی جو مُحسنِ انسانیتؐ کے دورِ حکومت سے لے کر خلافت راشدہ کے زمانے تک جلوہ گر رہی ہے۔ البتہ وہ اس جمہوریت سے بالکل مختلف تھی جس کا بقول اقبال ’’چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر‘‘ ہے۔ فی زمانہ جمہوری ممالک میں زمامِ حکومت اہلِ ثروت کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں اہلِ اقتدار لوگوں کو زندگی کی تمام آسائشیں حکومت کے خزانے سے فراہم ہوتی ہے ۔ اس کے برخلاف اسلامی جمہوریت میں حکمران اپنی ذات پر اور اپنے بال بچوںپر سرکاری خزانے کا پیسہ خرچ کرنا حرام سمجھتا ہے۔ اسلامی جمہوریت کے سب سے پہلے سربراہ رسول اکرم ؐ کے گھر اکثر کئی کئی روز تک چولہا نہیں جلتا تھا۔ ان کی پیش کردہ جمہوری حکومت میںان کے بعد وہ وقت بھی آیا جب کہ لوگ پیسہ ہاتھ میں لیے پھرتے تھے تاکہ کسی غریب کی مدد کرسکیں، لیکن کوئی حاجت مند زکوٰۃ لینے والا انہیں نہیں ملتا تھا ۔ آج کے دور کی جمہوری حکومت کے لیے اقبال نے کہا تھا : جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گِنا کرتے ہیں ، تولا نہیں کرتے اگر ہم قرآنی تعلیمات پر غور کریں تو انسان کو تول کر ہی اسکی قدر پہچانی جاسکتی ہے۔ جس کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی اس کا تقویٰ انصاف کی ترازو پر تولا جاتا ہے اور دنیا میں بھی میزان انسانیت اس کی ترازو ہے ۔ اسی لیے اقبالؒ اپنے لیے اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ میرے دل میں انسانیت کے واسطے وہ جذبہ اور محبت پیدا کر دے کہ اگر تیرے اس چمن زار انسانی کے پھول کی ایک پتی کو بھی صدمہ پہنچے تو میری آنکھوں سے آنسو ٹپک جائیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اے میرے مالک میری تمنا ہے کہ میرے دل میںانسانی ہمدردی کے سوا کوئی لگن باقی نہ رہے ۔ دراصل اقبال یہ دعا ہمیں سکھلا رہے ہیں کہ ہم اپنے اندر انسانی ہمدردی کا جذبہ پیدا کریں اور ہمیشہ اپنے رب سے یہی دعا کریں کہ : ۔ صدمہ آجائے ہوا سے گُل کی پتّی کو اگر اشک بن کر میری آنکھوں سے ٹپک جائے اثر دل میں ہو سُوزِ محبت کا وہ چھوٹا سا شرر نور سے جس کے ملے رازِ حقیقت کی خبر شاہدِ قُدرت کا آئینہ ہو ، میرا دل نہ ہو سر میں جُز ہمدردیٔ انساں کوئی سودا نہ ہو اقوامِ متحدہ کی موجود صورت گری، کارکردگی اور افادیت کے معیار سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ چند بڑے اور طاقت ور ملکوں کی گرفت میں ہے ۔ اگر ان چند ممالک میں سے کسی مجوزہ قرار داد سے کسی ایک کے مفاد پر زک پڑتی ہے تو ایسی قرار داد پیش ہی نہیں ہوگی اور اگر دنیا کے دبائو میں آکر پیش کر بھی دی گئی تو فوراً ویٹو کر دی جائے گی ۔ اس سلسلے میں اقبالؒ بیسویں صدی کے شروع ہی میں کہہ گئے تھے کہ دنیا میں مختلف قوموں کے نمائندے جنیوا میں ایک جگہ جمع تو ہو جاتے ہیں لیکن قومتیوں کا تصور جو ان کے اپنے اپنے وطنوں کی زمین سے پیوستہ ہے، ان کو ذہنی طور پر یکجا نہیں ہونے دیتا، اور ان کی نگاہوں سے وحدتِ انسانی پوشیدہ رہتی ہے۔ اس لیے چھوٹے اور کمزور ممالک اقوام متحدہ کی افادیت سے محروم رہتے ہیں۔ اقوام متحدہ (UNO) کی اصلاح کا راز علامہ اقبال کی مندرجہ ذیل نظم میں موجود ہے جو صرف تین اشعار پر مشتمل ہے : مکہ اور جنیوا اس دور میں اقوام کی صُحبت بھی ہُوئی عام پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدتِ آدم تفریقِ مِلل حِکمتِ افرنگ کا مقصُود اسلام کا مقصُود فقط مِلّت آدم مکّے نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام جمعیّتِ اقوام کہ جمعیتِ آدم! بال جبریل میں اقبال کی ایک نظم ہے جس کا عنوان ہے ’’فرشتے آدم ؑ کو جنت سے رخصت کرتے ہیں ۔‘‘ اس نظم کے ذریعہ مجھے اپنی قوم کے تعلیم یافتہ اور زیر تعلیم نوجوانوں کو انسانیت سے متعلق اقبال کا نظریہ بتلانا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ نو عمر اور نوخیز ذہنوں کو جلا بخشے گا اور انہیں معلوم ہوگا کہ بیسویں صدی کے اس آفاقی مفکر نے انسانی عظمت کو کیسے دل نشین انداز میں بیان کیا ہے۔ اس نظم میں صرف پانچ اشعار ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ آدم کی سرشت میں ایک عظیم اور گراں بہا جوہر ہے، جس کے ذریعے اس کے اوپر فطرت کے پوشیدہ اسرار منکشف ہوسکتے ہیں ۔ ان اشعار کے بعد ایک دوسری نظم ہے جس کا عنوان ہے’’روحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے۔‘‘ پہلی نظم میں جس انسانی صلاحیت کی نشاندہی کی گئی ہے دوسری نظم میں اس صلاحیت کو بروئے کار لانے کا طریقہ اور اس کے نتیجے میں اعلیٰ انسانی مقاصد کی تکمیل کے نکات مضمر ہیں۔ ملاحظہ ہو پہلی نظم : ’’فرشتے آدم ؑ کوجنت سے رخصت کرتے ہیں ‘‘ عطا ہوئی ہے تجھے روز و شب کی بیتابی خبر نہیں کہ تو خاکی ہے یا کہ سیمابی آدم کو دنیا کے لیے رخصت کرتے وقت فرشتے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے انسان! تیرے اندر اللہ نے ایسی سیمابی صفت رکھ دی ہے جو تجھے دنیا میں بے چین کئے رکھے گی ۔ یوں لگتا ہے کہ تو مٹی سے نہیں بلکہ پارے سے بنایا گیا ہے … سنا ہے ، خاک سے تیری نمود ہے لیکن تری سرشت میں ہے کوکبی و مہتابی اللہ تعالیٰ نے بظاہر تجھے مٹی سے بنایا ہے لیکن تیری سرشت کی تعمیر میں ایسی صفات شامل کر دی ہیں کہ تو آفاقی مخلوق نظر آتا ہے ۔ ہم تیرے اندر ستاروں کی چمک اور چاند کا نور دیکھتے ہیں ۔ جمال اپنا اگر خواب میں بھی تُو دیکھے ہزار ہوش سے خوشتر تری شکر خوابی تو اگر اپنا حُسن خواب میں دیکھ لے تو خود حیران ہوگا کہ تیری کھلی آنکھ عالم بیداری میں بھی وہ حُسن نہ دیکھے گی، جس کا نظارہ تو عالم خواب میں کرے گا۔ یہاں یہ نکتہ بیان کیا گیا کہ انسان کی کھلی آنکھیں اللہ تعالیٰ کی روشن نشانیاں نہیں دیکھ پاتیں، لیکن بعض اللہ کے بندے عالم بیداری میں حُسنِ فِطرت سے بہرہ ور ہوتے ہیں اور عالم رویا میں بھی ( ان کی مادی آنکھیں سوئی ہوتی ہیں)ان پر اسرار خداوندی منکشف ہوا کرتے ہیں ۔ فرشتہ کہتا ہے کہ حقیقتاً … گراں بہا ہے ترا گریۂ سحرگاہی اسی سے ہے ترے نخلِ کُہن کی شادابی وہ کہتا ہے کہ اللہ نے تجھے تڑپ اور آہِ سحر گاہی جیسی نعمتوں سے نوازا ہے اور یہی وہ جوہر ہے جو تجھے کبھی عطار ، کبھی رومی ، اور کبھی منصور بنائے گا …… اور …… تری نوا سے ہے بے پردہ زندگی کا ظہور کہ تیرے ساز کی فطرت نے کی ہے مِضرابی اس نظم کا آخری شعر حاصلِ نظم ہے ، اتنا خوبصورت اور بلندی فکر لیے ہوئے کہ پڑھ کر انسان بے خود ہو جاتا ہے اور جُھوم اٹھتا ہے۔ اس شعر کی اثر آفرینی بتاتی ہے کہ یہ بات یا تو کوئی فرشتہ کہہ سکتا ہے یا یہ ایک الہام ہے جو اقبال کی زبان سے ادا ہوا ہے۔ اس شعر میں جنّت سے رُخصت کرتے وقت فرشتے آدم سے کہتے ہیں کہ اے انسان! اللہ نے تجھے دل بے تاب اور سیمابی سرشت کے علاوہ ایک گراں بہا لُطق عطا کیا ہے تاکہ دنیا میں جا کر تیری آواز قدرت کے پوشیدہ راز کھولے، اللہ نے تجھے ایسا ساز بنایا ہے جس کی مِضراب دستِ قدرت میں ہے یہی وجہ ہے کہ تیرے نغمے شجرِنَوعِ انسانی کو سیراب کریں گے اور زندگی کے پوشیدہ راز تیرے وجود سے منکشف ہوں گے۔ اقبال جاوید نامہ میں کہتے ہیں : آدمیت احترام آدمی با خبر شو از مقام آدمی ترجمہ : انسان کا احترام کرنا اور اس کے مقام و مرتبے کو جاننا ہی انسانیت ہے، لہٰذا انسان کو اپنے مقام اور مرتبے سے آگاہی حاصل کرنا چاہیے ۔ اس شعر میں اقبال نے خود را بشناس یعنی خُودی کا درس دیا ہے ۔ مندرجہ ذیل بالا نظم کے بعد دیکھئے کس طرح جنّت سے رخصت ہونے کے بعد زمین پر ’’روح ِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے۔‘‘زمین کہتی ہے : کھول آنکھ ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ اس جلوئہ بے پردہ کو پردوں میں چُھپا دیکھ ایّامِ جدائی کے ستم دیکھ جفا دیکھ بے تاب نہ ہو معرکۂ بیم و رجا دیکھ! جس طرح ہم کسی نئے گھر میں جائیں تو گھر کی ہر چیز دیکھنے کا اشتیاق ہوتا ہے اور اہلِ خانہ بھی گھر اور اپنے گھر کی خاص خاص اشیاء ہمیں دکھاتے ہیں ۔ اسی طرح زمین، آدم سے کہتی ہے کہ تو اس دنیا میں آیا ہے تو خالقِ کائنات کی صنّاعی کا مطالعہ کر ، دیکھ تیرے پائوں تلے زمین ہے، اور ذرا اوپر نظر کر اور آسمان بھی دیکھ، اور یہ بھی دیکھ کہ درمیان میں ایک فضائے بسیط پھیلی ہوئی ہے، دیکھ سورج مشرق سے طلوع ہو کر تجھے کیا پیغام دے رہا ہے ۔ تیرے خالق اور محبوبِ حقیقی کی یہ واضح نشانیاں ہیں ، تو جس کی جدائی کے لیے غمگین ہے اس کا جلوہ ہر چہار سو ہے ۔ مجھے معلوم ہے کہ اس کی جدائی کا غم تیرے لیے تکلیف دہ ہے لیکن میرا مشورہ ہے کہ تو اب اس دنیا میں آہی گیا ہے تو یہاں کی زندگی میں رنج و غم ، خوشی ، اُمید و بیم ، وغیرہ جو کہ دنیوی زندگی کا حِصّہ ہیں ، ان سے دل برداشتہ نہ ہو ۔ تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ : ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل یہ گھٹائیں یہ گنبدِ افلاک ، یہ خاموش فضائیں یہ کوہ، یہ صحرا ، یہ سمندر ، یہ ہوائیں تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں آئینۂ ایّام میں آج اپنی ادا دیکھ! اے انسان !تجھے اللہ نے اپنا نائب بنا کر زمین پر بھیجا ہے ، لہٰذا یہ بادل یہ گھٹائیں تیرے ہی لیے ہیں کہ یہ تیرے واسطے زمین کو سیراب کرکے تیری زندگی کے لیے رزق ، سبزہ زار اور چمن فراہم کرتی ہیں۔ یہ خاموش فضائیں اور اجرامِ فلکی تجھے دعوتِ فکر دیتے ہیں ۔ یہ سب بھی تیرے حیطہء تصرّف میں ہیں۔ تو جب عالمِ بالا میں رہتا تھا تو وہاں فرشتوں کے کارنامے دیکھ کر حیران ہوتا تھا ۔ وہاں دن ہوتا تھا اور نہ رات کا کوئی تصور تھا لیکن اس دنیا میں ہر دن کے بعد رات ہے اور ہر رات کے بعد ایک روشن دن نمودار ہوتا ہے ۔ یہ شب و روز اور ان میں رونما ہونے والے حوداث تیرے لیے آئینے کی مانند ہیں، تو ان میں اپنے ہر عمل کا عکس اور نتیجہ دیکھ سکتا ہے۔ کل تک تو فرشتوں کے عمل دیکھا کرتا تھا لیکن آج فرشتے اور سارا عالم تجھے دیکھ رہا ہے، زمانہ تیرے اشارئہ اَبرو کا منتظر ہے : سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے ناپید ترے بحر تخیل کے کنارے پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے تعمیر خودی کر اثرِ آہِ رسا دیکھ تجھے جو صلاحیتیں اللہ تعالیٰ نے ودیعت کی ہیں اگر تونے ان سے کام لیا تو یقین جان ’’یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں۔‘‘دنیا تیرے اشاروں پر چلے گی اور آسمان کے ستارے بھی تجھے حیرانی سے دیکھا کریں گے ۔ اللہ نے تجھے بے پایاں قوّتِ فکر کا مالِک بنایا ہے اور تیرے لیے ستاروں سے بھی آگے جہانوں تک رسائی ممکن ہے ۔ تیرا تخیّل ایک ناپیدا کنار سمندر ہے اور تو ایک ’’قطرہ ہے لیکن مثال بحر بے پایاں بھی ہے۔‘‘ البتہ تجھے اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے اپنی خودی کی تعمیر کرنا ہوگی تُو دیکھے گا کہ تیرا نالہء بے باک کس طرح آسمان چیرتا ہوا نکل جاتا ہے۔ روحِ ارضی تجھ سے پکار پکار کر کہہ رہی ہے …… خورشیدِ جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہُنر میں جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوسِ نظر میں جنّت تری پنہاں ہے ترے خونِ جگر میں اے پیکر گِل کوششِ پیہم کی جزا دیکھ تیرے اندر وہ چنگاری موجود ہے کہ جو شرار آرزو ہے، اس چنگاری سے آفتاب جیسی شعاعیں نکل رہی ہیں، جو تیرے لیے نئی دنیا آباد کر رہی ہے ۔ تو اپنی جنت کا آپ خالق ہے۔ جن کو جنت بنی بنائی مل گئی ہو جیسے فرشتے جو معصوم ہیں اور بخشے ہوئے ہیں، وہ تیرے آگے کوئی حیثیت نہیں رکھتے ۔ تجھے اللہ نے وہ قوتیں عطا کی ہیں کہ تو اپنے خون ِ جگر سے اپنے لیے جنت پیدا کر سکتا ہے۔ تو کہ ایک خاک کا پتلا ہے لیکن تیری سخت کوشی اور عملِ پیہم اس دنیا میں جنتیں تخلیق کرے گے۔ اللہ نے ازل سے تیرے اندر یہ اوصاف رکھے ہیں کیو نکہ : نالندہ ترے عُود کا ہر تار ازل سے تُو جنسِ محبت کا خریدار ازل سے تُو پیرِ صنم خانۂ اسرار ازل سے محنت کش و خُوں ریز و کم آزار ازل سے ہے راکبِ تقدیر جہاں تیری رضا دیکھ! اے انسان تیرے ساز کے تاروں کی موسیقی ازل سے فضائوں میں گونج رہی ہے، تو محبتوں کا سوداگر ہے اور جب سے کائنات وجود میں آئی ہے تو قدرت کا راز داں رہا ہے، تو جفاکش ہے، اپنا خُون دے سکتا ہے لیکن کسی کا دل نہیں دکھا سکتا ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تیرے یہی اوصاف ہیں جن کے ذریعے تو اس دنیا میں لوگوں کی تقدیریں بدل سکتا ہے ۔ اقبال نے ایک اور جگہ کیا خوب کہا ہے : ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر سازِ فطرت میں نوا کوئی خ خ خ اقبال اور کشمیر (اپنے دل گرفتہ کشمیری بھائیوں کی نذر) پانی ترے چشموں کا تڑپتا ہوا سیماب مُرغانِ سحر تیری فضائوں میں ہیں بیتاب جنت ِ کشمیر آج خون میں غوطہ زن ہے۔ یہ وہی خون ہے کہ جو اقبال کی رگوں میں رواں تھا، جو ان کی آنکھوں میں اشک بن بن کر صفحۂ قرطاس پر ٹپکتا رہا اور اقبال کے شعروںمیں ڈھل گیا ۔ کشمیری ایک مدت سے ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں ۔ ڈوگرہ راج میں کشمیر کے باشندوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے گئے ۔ اس نے اقبال کو بے چین کئے رکھا ۔ تقسیمِ ہند کے بعد ہندو نے جبراً کشمیر پر قبضہ کرکے آج تک جو ستم سادہ دل کشمیریوں پر ڈھائے ہیں، اور جس طرح ان کی نسل ختم کی جارہی ہے ، دنیائے انسانیت کا مُردہ ضمیر اس سے بے خبر آنکھیں موندے ہوئے ہے۔ لیکن شاباش ہے ان لوگوں پر جو پہاڑ جیسی طاقت کے سامنے سینہ سپر اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، اور قابلِ صد احترام اور لائق صد ہزار ستائش ہیں وہ مائیں جن کے لختِ جگر اس جلتی ہوئی آتشِ نمرود کو اپنے لہو سے ٹھنڈا کر رہے ہیں۔ ان جیالوں کا لہو ہر گز رائیگاں نہیں جائے گا اور انشاء اللہ وہ دن جلد آئے گا جس دن کشمیری قوم سُرخرو ہو کر آزادی کی نعمت سے ہمکنار ہوگی۔ حضرت علاّمہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے کبھی قوم کو مایوس نہیں کیا اور کشمیر تو ان کے اجداد کی سر زمین ہے۔ باشندگانِ کشمیر کے لیے وہ اپنے جذبات کا اظہار اس طرح کرتے ہیں : گرم ہو جاتا ہے جب محکُوم قوموں کا لہُو تھرتھراتا ہے جہانِ چار سوئے و رنگ و بُو اقبال زندہ قوموں کا نشان یہ بتاتے ہیں کہ ایسی قومیں اپنی تقدیر خود رقم کرتی ہیں، فرماتے ہیں : نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا کہ صبح و شام بدلتی ہیں اُن کی تقدیریں زندہ قوم کی تقدیریں ان کے ارادوں میں پوشیدہ ہوتی ہیں۔ اہلِ کشمیر ایسی ہی ایک زندہ قوم ہیں، وہ اپنی شام اسیری کو صبحِ آزادی میں بدلنے پر قادر ہیں، کہ وہ بہادر ہیں اور پُختہ عزم کے مالک ہیں۔ اقبال ان کے لیے کہتے ہیں : کمال صدق و مروت ہے زندگی ان کی معاف کرتی ہے فطرت بھی ان کی تقصیریں قلندرانہ ادائیں سکندرانہ جلال یہ اُمتیں ہیں جہاں میں برہنہ شمشیریں اقبال فرماتے ہیں کہ کشمیری صِدق و صفا اور مُروّت و اخوت کا پیکر ہیں ، و ہ ایسی قوم ہیں جن کے افراد نیک ارادوں کے مالک ہوتے ہیں اور چونکہ وہ نیکی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیںاس لیے اگر کہیں کوئی غلطی بھی کر دیتے ہیںتو اللہ ان پر کرم کرتا ہے، اور ان کو اپنی غلطی کا خمیازہ نہیں اٹھانا پڑتا۔ اقبال بتاتے ہیں کہ ایسے لوگوں کی شناخت یہ ہوتی ہے کہ وہ بہ یک وقت جلال و جمال کا حسین امتزاج ہوتے ہیں۔ وہ شاہانہ جلا ل کے مالک ہوتے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ ان کے اندر قلندرانہ جمال بھی ہوتا ہے ۔ ان کا ظاہر و باطن و یکساں ہوتا ہے، بالکل اسی طرح جیسا کہ ایک ننگی تلوار ……! خودی سے مردِ خود آگاہ کا جمال و جلال کہ یہ کتاب ہے ، باقی تمام تفسیریں مردِ خود آگاہ کے جلال و جمال کا سرچشمہ خودی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ تمام اعلیٰ اقدار صرف ایک خودی کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ بس یوں سمجھئے کہ خودی ایک کتا ب ہے ۔ جس کے اندر انسانیت کے مختلف عنوانات ہیں، اور ساتھ ہی ان کی تفسیریں بھی کتاب خودی میں موجود ہیں۔ انسان کی مسرتوں میں یومِ عید کی خوشی اور شان و شوکت کا اپنا ایک مقام ہے ، لیکن اقبال کہتے ہیں ۔ شکوہِ عید کا منکر نہیں ہوں میں لیکن قبولِ حق ہیں فقط مردِ حُر کی تکبیریں فرماتے ہیں عید بے شک ایک شاندار تہوار ہے، جس سے انکار کی گنجائش نہیں ۔ عید کی زائد تکبیریں اللہ تعالیٰ کی واحدنیت کا پرشکوہ اعلان ہوتی ہیں ۔ لیکن جہاں تک قبولیّت کا تعلق ہے، صرف مرد حُر کی تکبیریں قبول ِ باری تعالیٰ ہوتی ہیں کیونکہ وہ ایک آزادی کے متوالے کے دل کی گہرائیوں سے نکلتی ہیں ۔ اس نظم کے آخری شعر میں اقبال ایک بڑے پتے کی بات کہہ گئے ہیں …… کہ حکیم میری نوائوں کا راز کیا جانے ورائے عقل ہیں اہلِ جنوں کی تدبیریں فرماتے ہیں کہ میری نوائوں میں جوراز پوشیدہ ہیں وہ دنیا کے عقلاء اور فلسفیوں کی سمجھ سے بالاتر ہیں۔ میری بات اگر کوئی سمجھ سکتا ہے تو وہ مردِ خُود آگاہ ہے کیونکہ اس کو خدا کی طرف سے نُورِ بصیرت ملا ہوتا ہے ۔ اہل کشمیر کو اللہ نے خود آگہی کی دولت سے نوازا ہے۔ آج دنیا والے دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح شہباز چیتوں پر جھپٹتے ہیں اور ایک مردِ مجاہد کو اس کی خود آگاہی کس طرح اپنی جان سے بے نیاز کرکے فولاد بنا دیتی ہے کہ وہ بغیر زرہ بکتر کے میدانِ کا ر زار میں کُو د پڑتا ہے، بقول اقبال : خود آگاہی نے سکھلا دی ہے جس کو تن فرامُوشی حرام آئی ہے اُس مردِمجاہد پر زِرہ پُوشی آج کشمیر کے نہتے عوام دنیا کی ایک مضبوط طاقت سے نبرد آزما ہیں اور وہ دن دور نہیں جب ان جاں فروشوں کو اللہ تعالیٰ آزادی سے ہمکنار کرے گا۔ خ خ خ اقبال اورعید الاضحٰی ترے سینے میں ہے پوشیدہ رازِ زندگی کہہ دے مُسلماں سے حدیثِ سوز و سازِ زندگی کہہ دے (اقبال) اسلامی معاشرے میں دو خاص تہوار عیدین، یعنی عید الفطر اور عید الاضحٰی، باہمی بھائی چارے، مظاہرئہ یکجہتی اور اپنے اللہ کے حکم پر غیر متزلزل ثابت قدمی سے عمل کرنے کی عظیم ترین مثال ہیں ۔ آج کا موضوعِ سخن عیدالاضحٰی ہے جس کو عُرفِ عام میں بقر عید کہتے ہیں ۔ ہم میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ یہ دن اور خصوصاً قربانی کی رسم ارکان اسلام کا ایک اہم رکن ہے فرق صرف اتنا ہے کہ قربانی ہم صرف ایک جانور ذبح کرنے کی رسم کو سمجھ بیٹھے ہیں، اسے معاشرے کی رسم یا زیادہ سے زیادہ رسم ِ خلیل ؑ اللہ کہتے ہیں … بس نہ اس سے پہلے کچھ اور نہ اس کے بعد، کبھی اس امر پر غور کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بارہا اس عمل کو دُہرانے کے پیچھے کیا فلسفہ کار فرما ہے۔ ہم اذان بھی رسماً دیتے ہیں اور نماز بھی کم و بیش رسماً ہی ادا کرتے ہیں، لیکن ہم کبھی اِن اعمالِ کبیرہ کی روح تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے بقول اقبال ؒ : ’’رہ گئی رسمِ اذاں رُوحِ بلالی نہ رہی‘‘ وہ راستہ جو ہمیں ہماری ذات کے ذریعے خدا تک پہنچا سکتا تھا اسے ہم گم کر چکے ہیں اگر انسان کے دل میں علم اور عمل صالح کے ذریعے محبت ِ الٰہی کا جذبہ جنم پاجائے تو اس محبت کا ارتقاء اس کو ایسی بلندیوں پر لے جاتا ہے جہاں اس کے آئینہ ء ضمیر کو جلا میسر ہوتی ہے۔ ’’محبت فاتحِ عالم‘‘ ہے لیکن اس کا اصل مقام تک پہنچنا صرف اس وقت ممکن ہے جبکہ انسان پہلے اپنی ذات پر فتح پالے۔ (میں نے ذات Selfhoodکے لیے استعمال کیا ہے) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کی رضا کے لیے اپنے لخت جگر کی قربانی پیش کرکے انسانیت کے لیے یہ ممکن کر دکھایا ہے۔ یہ غنیمت ہے کہ ہم رسمِ ابراہیمی ادا کرتے ہیں خدا کرے اس کے طفیل جذبہ ٔ ابراہیمی اور صدقِ خلیل بھی ہمیں عطا ہو جائے اور خدا ہمارے دلوں کو محبتوں اور عشق کی دولت سے نواز دے۔ صدقِ خلیل ؑ بھی ہے عشق صبر حسینؓ بھی ہے عشق معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق ایک مغربی مفکر شلر (Schiller) نے کہا تھا کہ انسان اندرونی طور پر اور بیرونی طور پر بِکھر چکا ہے، اور ہر شخص کی یہ خواہش بھی ہے کہ وہ اپنی ذات کے ٹوٹے پھوٹے ٹکڑوں (Splinters) کو جوڑ کر یکجا کرے وہ کہتا ہے کہ وقت کا بنیادی سوال یہ ہے کہ ہم کس طرح انسانی فِطرت کے اتحاد (Unity) کو تشکیل دیں، شلر کا جواب ابراہیم ؑ کے عمل میں موجود ہے۔ ایک اور مغربی مفکر مارک سی ٹیلر Mark . C.Taylorنے اپنی کتاب Journey to Selfhood Hegel and Kierkegaard) میں جرمنی کے مشہور فلسفی Hegelاور ڈنمارک کے مشہور فلسفی Kierkegaardپر اسی عنوان سے تبصرہ کیا ہے وہ لکھتا ہے کہ ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے کی قربانی پیش کرکے اپنے خدا پر ایمان کے بُلَند ترین مرتبہ پر فائز ہونے کا اظہار کیا۔ اس نے اپنے اللہ کے حکم پر اپنی سماجی و ابستگی اور نسل منقطع کرنے پر آمادگی کا مظاہرہ کیا تھا، جو کہ ایک غیر معمولی عمل تھا۔ ہیگل (Hegel) نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ابراہیم ؑ کی محبت (عشق الٰہی ) اس کی اپنی طاقت کا حصار عبور کر گئی۔ مطلب یہ ہے کہ اس نے (ابراہیم ؑ) اپنی ذات کی نفی کر دی تھی۔ اس کا راستہ اپنے بیٹے کی محبت بھی نہ روک سکی اور اس نے یہ پروا بھی نہ کی کہ وہ اپنی نسل کشی کر رہا ہے، حالانکہ اس کی خواہش تھی کہ اس کے بعد بھی اس کا نام اور اس کی نسل اس دنیا میں باقی رہے۔ وہ کہتا ہے کہ ابراہیم ؑ کی اپنی آرزو اور اپنے بیٹے کی محبت کی وجہ سے اس کی ہمت جواب دے سکتی تھی مگر ایسا نہیں ہوا یہ عمل جو ابراہیم ؑ نے کر دکھایا ایک Practicalثبوت ہے کہ کس طرح اپنے آقا کے بعد ہر شے کی نفی ممکن ہے اور اسی میں تعمیر خود ی کا راز مضمر ہے ہیگل کے الفاظ ہیں ۔ (The spirit of self maintenance in strict oppositon to everything.) بقول اقبالؒ خودی کا سِرّ نہاں لا الٰہ اِلا اللہ‘‘ کلمہ توحید میں لفظ ’’لا‘‘ ہر شے کی نفی مکمل طور پر کر جاتا ہے اور اگر ہمارے دل میں اتر جائے تو یہی توحید کا سر چشمہ ہے، جس کا درس ابراہیم ؑ خلیل اللہ نے ہمیں اپنے عمل کے ذریعے دیا، اور جس کی ’’یاد‘‘ ہم ہر سال تازہ کرتے ہیں ۔ قربانی سُنّتِ ابراہیمی ہے، یہ ایک رسم نہیں ہے۔ قربانی ہمیں اپنے رب کے علاوہ دنیا کی ہر چیز سے بے نیاز ہونے کا درس دیتی ہے۔ اس کے ذریعے ہماری خودی کی تعمیر ہوتی ہے اور ہمیں اللہ کا قُرب نصیب ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کا عمل ایک ایسی Exerciseتھی جس کے ذریعہ حضرت ابراہیم ؑ نے انائے کبیر (اللہ ) کے ساتھ انائے صغیر (ذات انسانی ) کی مکمل ہم آہنگی پیدا کر کے اپنی ذات کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو یکجا کیا اور انسانیت کی شیرازہ بندی کا راستہ دنیا کو دکھلایا، جس کی گواہی، آج صفا و مروا کی پہاڑیاں اور ہمیشہ ابلنے والا چشمۂ ’’زمزم‘‘ زبانِ حال سے دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے اپنے کلام میں متعدد جگہ مِلّتِ مُسلِمَہ کو یاد دلایا ہے کہ وہ حقیقت میں ملت ابراہیمی ہے، جیسا کہ اس شعر میں : حِنا بندِ عُروس لالہ ہے خونِ جگر تیرا تری نسبت براہیمی ہے ، معمار جہاں تُو ہے حضرت ابراہیم ؑ کا عمل ہمارے لیے نشانِ راہ کا درجہ رکھتا ہے۔ ملّت ابراہیمی کے پہلے فرد اور ابراہیم ؑ کے فرزند ارجمند اسمعیل ؑ کی رضائے حق میں خود سپردگی اور ثابت قدمی کی مثال تاریخ انسانی میں ان سے پہلے نہیں ملتی۔ اگر ان کا یقین مکمل اور محکم نہ ہوتا تو وہ ابراہیم ؑ کے ارادے کو بھی متزلزل کرسکتے تھے ۔ وہ اپنے والد سے کہہ سکتے تھے کہ آپ انسان ہیں اور انسانی خواب بہرحال خواب ہے، ہوسکتا ہے کہ مشیّتِ ایزدی وہ نہ ہو کہ جو آپ نے اپنے خواب سے تعبیر کی ہے ، لیکن واہ رے پسر ابراہیم ؑ! صد آفریں ہے تیرے یقین ، صبر اور استقامت پر کہ تونے اپنے باپ کے سچے نبی ہونے کی شہادت خود باپ کے ہاتھوں اپنے ہی حلقوم پر چھری چلوا کر دی اور دنیا کو قربانی کا مفہوم بتلا دیا ۔ یہ ہے ایمان اور یقین کا وہ درجہ جس کے لیے اقبال ہم سے کہتے ہیں کہ : ’’یقیں پیدا کر اے غافل کہ مَغلُوبِ گماں تو ہے ‘‘ خ خ خ فکرِ اسلامی کی تشکیلِ نو دل زندہ و بیدار اگر ہو تو بتدریج بندے کو عطا کرتے ہیں چشمِ نگراں اور احوال و مقامات پہ موقوف ہے سب کچھ ہر لحظہ ہے سالک کا زماں اور مکاں اور الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن مُلاّ کی اذاں اور، مجاہد کی اذاں اور پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں کرگس کا جہاں اور ہے ، شاہیں کا جہاں اور اس نظم میں ملّت مُسلِمَہ کے لیے اقبال کی فکر کا محور یا مرکز، پوری آب و تاب سے جلوہ گر ہے۔ نظم کا تخیل اپنے عنوان پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ دینِ اسلام اپنی اصل میں دینِ فطرت ہے اور قرآن عالمگیر ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ اسلام کا تصورِ ہدایت پوری عالمِ انسانیت کے لیے ہے۔ اس کے برعکس، دوسرے مذاہب کی مخاطب پوری انسانیت نہیںتھی بلکہ ایک خاص وقت میں ایک خاص مقام پر بسنے والا ایک مخصوص افرادی گروہ تھا۔ اسلام کے بنیادی اصول آفاقی اور عالمگیر ہیں۔ قرآنی وحی کسی ایک مقام یا کسی مخصوص نسل اور قوم کے لیے محدود نہیں۔ اس سلسلہ میں حضرت علامہ اقبال فرماتے ہیں : ’’درحقیقت قرآن میں لفظ وحی جس انداز میں استعمال ہوا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن اسے زندگی کی آفاقی ملکیت قرار دیتا ہے۔ اگرچہ زندگی کے مختلف ارتقائی مراحل میں وہ فطرت اور کردار کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے۔‘‘ علامہ اقبال نے اس سلسلہ میں بان یونیورسٹی کے ہارٹن (Horten of Bon University) کا بھی ایک حوالہ دیا ہے۔ اس مستشرق نے اسلامی فلسفہ اور الہٰیات کا مطالعہ کرتے ہوئے رائے قائم کی ہے کہ …… ’’اسلام کی روح بڑی وسیع ہے ۔ اتنی وسیع کہ اس کی کوئی حدود نہیں۔ لا دینی افکار سے قطع نظر کر لیا جائے تو اس نے گردو پیش کی اقوام کی ہر اُس فکر کو جذب کر لیا جو اس قابل تھی کہ اسے جذب کر لیا جائے اور پھر اس کو اپنے مخصوص انداز میں نشو و نما دیا۔‘‘ کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں ڈھونڈنے والے کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں قرآن مُسلمان سے کہتا ہے کہ تخلیق کو اپنا دستور العمل بنائے ۔ علامہ اقبال نے کہا ہے کہ یہ گمراہ کن اور غلط نظریہ ہے کہ اسلامی قانون جامد یا مزید نشوو نما کے قابل نہیں ۔ انہوں نے اپنے ایک انگریزی خطبہ میں ’’الاجہتاد فی اسلام‘‘ کے زیر عنوان بڑے واضح انداز میں اس پر بحث کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ابتدائے اسلام سے لے کر عباسی دور کے برسراقتدار آنے تک قرآن کے سوا مسلمانوں کے پاس کوئی تحریری ضابطۂ قانون اور دستور نہیں تھا۔ اس کے بعد دسویں سے گیارھویں صدی عیسوی تک ’’عالم اسلام میں فقہ اور قانون کے کم از کم انیس مذاہب کا ظہور ہو چکا تھا ۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ فقہائے متقدین نے ایک بڑھتے ہوئے تمدن کی ضروریات کے پیش نظر، کتنی سعی اور جدوجہد سے کام لیا۔ بات یہ ہے کہ فتوحات میں توسیع اور اضافے کے ساتھ ساتھ جب عالم اسلام کے مطمح نظر میں بھی وسعت پیدا ہوئی تو اس سے فقہائے متقدمین کو بھی ہر معاملے میں وُسعتِ نظر سے کام لینا پڑا۔ وہ مجبور ہوگئے کہ جو قومیں اسلام قبول کر رہی ہیںان کے عادات و خصائل اور مقامی حالات کا مطالعہ کریں۔‘‘ احوال و مقامات پہ موقوف ہے سب کچھ ہر لحظہ ہے سالِک کا زماں اور مکاں اور اقبال ہمارے عُلماء کو بتلا رہے ہیں کہ فُقہائے متقدمین اور بزرگانِ دین کی پیروی کرنے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ان کے اِجتہاد کو منجمد کرکے رکھ دیں، بلکہ وہ مقدس ہستیاں اپنے عمل سے ہمیں یہ درس دے گئی ہیں کہ کس طرح احوال و مقامات اور اپنے گردو پیش کے تقاضوں کے مطابق قرآنِ پاک کے دیئے ہوئے بنیادی اصولوں کی نفی کئے بغیر اپنا راستہ متعین کرتے رہیں اور فکرِ اسلامی کو منجمد نہ ہونے دیں ۔ الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن مُلّا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور اجتہاد کے بارے میں اقبال کا پورا ایک باب ہے، جس کا سرسری انداز میں اوپر تذکرہ ہوچکا ہے۔ اس شعر میںاقبال بتلا رہے ہیں کہ آپ صرف اذان ہی کو لے لیں۔ کسی مسجد سے اگر آپ کے کان میں اذان کی آواز آئے گی تو اس کے الفاظ تو اللہ کی بڑائی بیان کرتے ہوں گے اور مُؤذن آپ کو نماز کے لیے اور فلاح کا راستہ اختیار کرنے کی دعوت دے رہا ہوگا لیکن فی زمانہ اکثر جب مسجد میں قدم رکھیں گے تو ایک خاص مسلک کے لوگ وہاں پائیں گے اور ممبر پر خطیب ایک مخصوص گروہ اور فرقہ کی نمائندگی کرتا دکھائی دے گا۔ اس کے برعکس ایک مردِ مجاہد جس کو اقبال کی زبان میںمردِ مسلمان اور شاہین کہا گیا ہے جب وہ اذان کی آوازبلند کر تا ہے تو مومن کے رگ و ریشے میں خون آگ بن کر دوڑنے لگتا ہے۔ مجاہد کی آواز سراسر اللہ کی وحدانیّت اور اتحاد مِلّت کا پیغام دیتی ہے گو کہ وہی الفاظ ہیں اور معنی بھی وہی ہیں لیکن دونوں کا اثر جدا جدا۔ آگے چل کر اقبال فرماتے ہیں : پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں کرگس کا جہاں اور ہے ، شاہیں کا جہاں اور اقبال خود کہتے ہیں کہ دیکھئے! اوپر فضائوں میں ایک مُردار خور گِدھ (کرگس ) بھی پرواز کر رہا ہے اور وہیں ایک شاہین بھی محو پرواز ہے ۔ دونوں کی فضائیں ایک ہیں اور آسمان بھی ایک، لیکن کرگس کی دنیا اور ہے اور شاہین کی دنیا کچھ اور ۔ کرگس کی نگاہیں کسی مرے ہوئے یا کسی دوسرے کے مارے ہوئے مردار کو اور بدبودار جانور کا گوشت زمین میں تلاش کر رہی ہیں، لیکن شاہین کی نظر جہانِ زندہ میں اپنا شکار ڈھونڈ رہی ہے۔ افسوس ، صد افسوس ، کہ شاہیں نہ بنا تو دیکھے نہ تری آنکھ نے فطرت کے اشارات اقبال نے اس امر پر بہت زور دیا ہے کہ قرآن ہمیں اشارات اور بنیاد فراہم کرتا ہے۔ یہی بنیادی تصورِ وحی اقبال ہمیں سمجھانا چاہتے ہیں کہ وحی ہمیں اصول اور بنیاد فراہم کرتی ہے، جس کے ذریعے ہم اپنے گردو پیش اور زمانے کے حالات کے پیشِ نظر زندگی کے قوانین مرّتب کرسکتے ہیں۔ وحی الٰہی (قرآنِ پاک ) کا ارشاد ہے : اِنْ ھُوَ اِلاَّ ذِکْرُٗ لِّلعٰلَمِیْن (سورۃ یوسف آیت ۱۰۴) ترجمہ: ’’یہ قرآن تو تمام عالم کے لیے نصیحت ہے ۔‘‘ اسی طرح باری تعالیٰ سورۃ القلم کی آیت ۵۲ میں قرآن کو تمام عالم کے لیے ’’نصیحت ‘‘ فرماتے ہیں ۔ ساتھ ہی قرآن پاک کی مندرجہ ذیل آیت دیکھئے کہ ہمیں کیا سبق دے رہی ہے : ’’(اے نبی )ہم نے سب انسانوں کے لیے یہ کتاب برحق تم پر نازل کر دی ہے ۔‘‘ (سورۃ الزمر آیت ۴۱) جب قرآن تمام عالم انسانیت کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ٹھہرا، تو پھر دین اسلام پر کسی فرقہ کی اجارہ داری کا جواز باقی نہیں رہتا ۔ اُمّتِ مُسلِمَہ پر فُقہاء متقدین کا بڑا احسان ہے کہ انہوں نے اپنے عمل سے ہمیں اجتہاد کا راستہ بتلا دیا ہے۔ اقبالؒ کہتے ہیں کہ جب ہم اسلامی قوانین کے چار مُسلِّمَہ مآخذوں اور ان سے پیدا شدہ اختلافات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں تسلیم شدہ مذاہب فِقہ میں سختی اور تشدد کا کہیں نشان نہیں ملتا ۔ صرف یہی نہیں بلکہ مزید ارتقا کا امکان صاف صاف نظروں کے سامنے آجاتا ہے ۔ اجتہاد کا دروازہ کسی امام نے بند نہیں کیا ۔ اقبال رحمتہ اللہ علیہ اپنے متذکرہ انگریزی خطبہ میں فرماتے ہیں : ’’جب ہم قرآن میں فقہی اصولوں کی بنیاد پر غور کرتے ہیں تو ہمیں صاف صاف معلوم ہوتا ہے کہ انسانی فکر و عمل کی راہیں بند کرنا تو درکنار خود ان اصولوں کی بے پایانی فکرِ انسانی کے لیے مہمیز کا کام دیتی ہے ۔‘‘ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل حدیث پاک ہماری رہنمائی کرتی ہے : ’’حضرت معاذ ؓ کو جب یمن کا حاکم مقرر کیا گیا تو ان کی روانگی کے وقت رسولِ پاک ﷺ نے ان سے دریافت کیا کہ ’’اے معاذ معاملات کا فیصلہ کیسے کرو گے ؟‘‘ حضرت معاذ ؓ نے کہا ’’یا رسول اللہ !اللہ کی کتاب کے مطابق۔‘‘ آپ ؐ نے فرمایا ’’اگر کتاب اللہ سے تمہاری رہنمائی نہ ہو ، تو ؟‘‘ حضرت معاذ ؓ نے جوا ب دیا ’’تو رسول اللہ کی سنّت کے مطابق ۔‘‘ آپ ؐ نے پھر فرمایا ’’اور اگر سُنّتِ رسولؐ سے بھی رہنمائی میّسر نہ آئے تو ؟‘‘ حضرت معاذ ؓ نے جواب دیا ۔’’پھر میں خود ہی کوئی رائے دینے کی کوشش کروں گا۔‘‘ قرآنکا یہ تقاضا ہے کہ ہم عمل اختیار اور فکر دینی کو متحرک رکھیں اور اسے جامد نہ ہونے دیں۔ اقبال نے کیا خُوب کہا ہے : اے کہ می نازی بہ قرآنِ عظیم تاکُجا در حجرہ مے باشی مقیم درجہاں اسرارِ دیں را فاش کُن نکتۂ شرعِ مبیں را فاش کُن ترجمہ : تم کو ناز ہے کہ تمہارے پاس قرآنِ عظیم ( کی دولت ہے ) (میں تم سے پوچھتا ہوں ) آخر کب تک تم اپنے اپنے حجروں میںبند پڑے رہو گے۔ (تم اپنے اپنے حصار سے باہر نکلو اور ) اس دنیا میں دینِ حق کے پوشیدہ رازوں کو عام کر دو، اور شریعتِ اسلامی کے نکات کھول کھول کر (دنیا کے سامنے ) بیان کرو ۔ قرآن دنیائے انسانیت کے لیے آخری وحی ہے۔ قبل ازیں متذکرہ آیات قرآنی سے واضح ہے کہ وحی ساری دنیا کے انسانوں کو تمام دینوی معاملات میں ہدایت کی بنیاد فراہم کرتی ہے، اور بنیادی اصول ہمیشہ چند اور مختصر طور پر بیان ہوتے ہیں، تاکہ کثرت الفاظ کی وجہ سے بنیادی اصولوں میں کوئی ابہام نہ ہو پائے ۔ ہماری بدقسمتی یہ رہی ہے کہ ہم نے فروعی اور جزوی معاملات کو بنیادی اصولوں کے ساتھ گڈ مڈ کر دیا ورنہ قرآن ایک صاف شفاف چشمۂ حیات ہے کہ جو ہمارے لیے فکر کی بنیاد فراہم کرتا ہے، افسوس کہ… ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا یہ ضروری ہے کہ جُزوی اور فروعی معاملات زمانے کے بدلتے ہوئے حالات اور مقامات کے ساتھ بدلتے رہیں، ورنہ حیاتِ مسلم اور ارتقاء انسانیت منجمد ہو کر رہ جائیں گے۔ اقبال نے اپنی زندگی میںاُمّت مسلمہ پر آنے والے دور کا اندازہ کر لیا تھا ۔ انہوں نے مسلمانوں کی انتہائی پستی کا دور اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اسی لیے انہوں نے علماء دین اور اہلِ دانش کو یہ پیغام دیا کہ آپ لوگ دین کو متحرک رکھئے ۔ انہوں نے کہا کہ آپ اس چشمۂ حیات کو رواں دواں رہنے دیں اور اس کے آبِ حیات میں آمیزش نہ ہونے دیں۔ فقہائے متقدمین کو اقبالؒ اس طرح خراجِ تحسین دیتے ہیں : فقہائے متقد مین نے اسی اصل سے سراغ پا کر متعدد فقہی نظام کھڑے کر دیئے اور تاریخ اسلام کا طالب علم خوب جانتا ہے کہ معاشرتی اور سیاسی قوت کے اعتبار سے اسلام کی نصف کامیابی اور غلبہ انہی فقہاء کی قائدانہ ذہانت پر منحصر تھا۔‘‘ اکثر علماء اپنے اپنے فقہی مذہب کی قطعیّت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اقبالؒیہ بھی اچھی طرح جانتے تھے اس لیے انہوں نے کہا : ’’اپنی تمام جامعیّت کے باوجود فقہی نظام آخر کار انفرادی تشریحات ہیں اور اس لحاظ سے حرفِ آخر ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتے ۔‘‘ اقبال ؒ نے اپنا زاویہ نگاہ بڑے مُدّبرانہ، فلسفیانہ اور کمالِ فن کے ساتھ ذہن مسلم کے سامنے پیش کیا اور ان کے ہم عصر بڑے بڑے جیَّد علماء نے ان کی رائے سے اتفاق کیا تھا۔ اقبالؒ نے ثابت کر دیا ہے کہ ہر زمانے میں اور ہر مقام پر مسلمان قرآن کے بنیادی اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے گردو پیش کے احوال کی روشنی میں اپنے واسطے قوانین مرتب کرسکتے ہیں ۔ اقبال فیصلہ کن بیان دیتے ہیں : ’’میرے خیال میں موجودہ نسل کے آزاد خیال مسلمانوں کا یہ دعویٰ بالکل جائز اور درست ہے کہ انہیں اپنے تجربات اور زندگی کے بدلے ہوئے حالات کی روشنی میں، فقہ کے بنیادی اصولوں کی تشریح جدید کا حق حاصل ہے۔ قرآن کی یہ تعلیم، کہ زندگی ارتقاء پذیر تخلیق ِ مسلسل کا نام ہے، اس بات کو ضروری قرار دیتی ہے کہ ہر نسل کو اپنے مسائل خود ہی سلجھانے کی اجازت ہونی چاہیے ۔ متقدمین کا کام نئی نسلوں کی رہبری تو ہوسکتا ہے ، لیکن اس کام کو ان کے راستے کی رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔‘‘ ہمارے دین کی عمارت بڑی پختہ ہے ۔ یہ انتہا مضبوط بنیادوں پر قائم ہے ۔ اس عمارت کی تزئین ، رنگ و روغن اور گُل کاری ہمارے اَسلاف نے اپنے خُونِ جگر سے کی ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کی شان اور دلفریبی کو قائم رکھیں ۔ اٹھ کہ خورشید کا سامانِ سفر تازہ کریں نفسِ سوختۂ شام و سحر تازہ کریں خ خ خ کوپن ہیگن کی ایک یادگار محفل بزم فکر نونے کوپن ہیگن میں پاکستانیوں کا جمود توڑا اور یومِ آزادی کی ایک محفل برپا کر ڈالی۔ اس خوبصورت محفل میں، راقم الحروف کو بھی مدعو کیا گیا اور یومِ آزاد ی کے حوالے سے اقبال کا کلام سنانے کی فرمائش کی گئی ۔ دراصل جب پاکستان کا ذکر آتا ہے تو علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ و ہ دنیائے ادب میں چوٹی کے شاعر ، مایہ ناز ادیب ایک اور مفکر بلکہ ایک انقلابی مفکر اور ایک عظیم فلسفی کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔ مغربی زبانوں میں ان کی متعدد اردو فارسی تصانیف کے ترجمے ہوچکے ہیں ۔ یورپ میں اقبال فائونڈیش Iqbal Foundation Europeعرصہ سے قائم ہو چکی ہے ۔ اس ادارے کے تحت بلجیم اور جرمنی میں اقبال پر ریسرچ سینٹرز این میری شمل Anne Marie Schimelکی سرگردگی میں سر گرمِ عمل ہیں ۔ یہ دنیا کی مشہور و معروف ادبی خاتون جرمنی میں رہتی ہیں ۔ ڈنمارک میں راقم الحروف انپے پاکستانی بھائیوں کو اور خصوصاً نوجوان طبقہ کو اقبال کے کلام کے انقلاب آفریں نظریات سے روشناس کرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بزمِ فکر نوکی نشت میں جب اقبال کا ذکر چھڑا تو راقم الحروف نے قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کا اقبالؒ کے حضور خراجِ عقیدت ان کے اپنے الفاظ میں پیش کیا تھا جو قارئین کی دلچسپی کے لیے نقل کرتا ہوں۔ قرار داد پاکستان ۱۹۴۰ء کی منظوری کے بعد ایک دن قائد اعظمؒ نے اپنے سیکرٹری سیّد مطلُوب الحسن سے گفتگو کے دوران فرمایا … ’’اگرچہ اقبالؒ آج ہم میں نہیں ہیں لیکن اگر وہ زندہ ہوتے ) تو یہ جان کر کتنے خوش ہوتے کہ ہم نے بعینہٖ وہی کیا جس کی وہ ہم سے خواہش کرتے تھے۔‘‘ ایک اور موقعہ پر قائد اعظم ؒ نے فرمایا ’’کارلائل نے شیکسپئر کی عظمت کا ذکر کرتے ہوئے ایک انگریز کا ذکر کیا کہ اسے جب شیکسپئر اور دولت برطانیہ میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا اختیار دیا گیا تو اس نے کہا کہ میںشیکسپئر کو کسی قیمت پر نہ دوں گا۔‘‘ قائد اعظم نے فرمایا کہ ’’گو میرے پاس سلطنت نہیں ہے لیکن اگر سلطنت مل جائے اور اقبالؒ اور سلطنت میں کسی ایک کو منتخب کرنے کی نوبت آئے تو اقبالؒ کو منتخب کروں گا۔‘‘ اقبالؒ کا ایک خواب تو پاکستان بننے کی شکل میں پورا ہوچکا اب دیکھئے کہ اقبالؒ مسلمان قوم کے نوجوان کا کیا معیار دیکھنا چاہتے تھے اور اس معیار پر ہم کہاں تک پورے اترتے ہیں ۔ ’’خطاب بہ نوجوانانِ اسلام ‘‘ (اقبال ؒ) کبھی اے نوجواں مُسلم! تدّبر بھی کیا تو نے وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں کچل ڈالا تھا جس نے پائوں میں تاجِ سرِدارا گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے کہ مُنعِم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے جہاں گیر و جہاں دارو جہاں بان و جہاں آرا تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہونہیں سکتی کہ تو گُفتار وہ کردار، تو ثابت وہ سیّارا گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی ثُریّا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا مگر وہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آبا کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا خ خ خ