’’علامّہ اقبال کی [طویل]نظمیں… سب کی سب شاعرانہ محاسن سے مالا مال ہیں ۔ لیکن بعض نظمیں جو دوسری نظموں کے مقابلے میں قدرے طویل بھی ہیں ، خاص اہمیت بھی رکھتی ہیں ۔ ان نظموں میں بھی ’’ شکوہ‘‘ ’’جوابِ شکوہ‘‘ ’’ والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ ’’ شمع اور شاعر’’ خضر ِ راہ‘‘ ’’ طلوعِ اسلام‘‘ ’’ ذوق و شوق‘‘ ’’مسجد قرطبہ‘‘’’ ساقی نامہ‘‘ اور ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ ‘‘ خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں۔ ان کی حیثیت اقبال کے جسدِ شعری میں دل کی سی ہے ۔اور ان کے فکر و فن کی جملہ لطافتیں ان میں اس طرح یکجا ہوگئی ہیں کہ اقبال کا قاری اگر ان کے بقیہ اردو کلام سے بے نیاز بھی گزر جائے تو بھی ان نظموں کے ذریعے اقبال کی عظمتِ شاعرانہ کا پورا اندازہ لگاسکتا ہے۔ ‘‘ ڈاکٹر فرمان فتح پوری m… m… m ترتیب پیش لفظ خواجہ محمد ذکریا دیباچہ رفیع الدین ہاشمی r پس منظر نظموں کا سیاسی ، تاریخی اور تہذیبی پس منظر r فکری و فنّی مطالعہ شکوہ ۱۹۱۱ئ جواب شکوہ ۱۹۱۲ء شمع اور شاعر ۱۹۱۲ء والدہ مرحومہ کی یاد میں ۱۹۱۴ء خضرِ راہ ۱۹۲۱ء طلوعِ اسلام ۱۹۲۳ء ذوق و شوق ۱۹۳۱ء مسجدقرطبہ ۱۹۳۳ء ساقی نامہ ۱۹۳۵ء ابلیس کی مجلس شوریٰ ۱۹۳۶ء r ضمیمے ۱۔ حیات نامۂ اقبال ۲۔ تصانیفِ اقبال پیش لفظ (طبع دوم) اقبال کی طویل نظمیں ہاشمی صاحب کی ایک اہم تصنیف ہے جوپہلی بار ۱۹۷۴ء میں طبع ہوئی تھی۔ اب یہ ترمیم و اضافے کے بعددوبارہ شائع ہورہی ہے۔ علامّہ اقبال کو طویل نظمیں لکھنے میں خصوصی مہارت حاصل تھی۔ بانگِ درا‘ بالِ جبریل‘ اور ارمغانِ حجاز کی طویل نظمیں اپنی گوناگوں فکری اور فنی خصوصیات کی بنا پر اقبالیات کے قارئین کے لیے باعثِ کشش ثابت ہو ئی ہیں ، بلکہ ماہرین بھی اکثر‘ اقبال کی کسی طویل نظم ہی کو ان کی بہترین نظم قرار دیتے ہیں۔ ان میں اس بات پر تو اختلاف راے ہو سکتا ہے کہ بہترین نظم ’خضرراہ‘ ہے یا’شمع اور شاعر‘، ’ذوق و شوق‘ ہے یا’ مسجد قرطبہ‘، ’ساقی نامہ‘ ہے یا ’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘… مگر پسندبالعموم کسی طویل نظم تک محدود ہو تی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر طویل نظم میں اقبال نے اپنے افکار کے بہترین عناصر یکجا کر دیے ہیں اور فن کی ان بلندیوں تک رسائی حاصل کی ہے جہاں شاعری پیغمبری کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔ اقبال کے طالب علم کے لیے ان نظموں کا مطالعہ ناگزیر ہے مگر یہ نظمیں مختلف قسم کی دِقّتوں کی وجہ سے طلبہ پر پوری طرح آشکار نہیں ہو پاتیں ۔ ان نظموں میں جہاں افکار کی نزاکتیں اِشکال کا باعث بنتی ہیں، وہیں بعض ایسے اشارے مبہم رہ جاتے ہیں جو آج سے نصف صدی پہلے کے قاری کے لیے واضح تھے مگر آج وہ ماضی کی دھند میں چھپ گئے ہیں۔ اندریں حالات ایک ایسی کتاب کی شدید ضرورت تھی جس میں ہر نظم کا تاریخی پس منظر ، اس میں بیان کردہ واقعات کی تفصیلات اور فنی باریکیاں شرح و بسط سے قلم بند کی گئی ہوں۔ ہاشمی صاحب ان دِقّتوں سے بخوبی عہدہ برآ ہوئے ہیں۔انھوں نے ہر نظم کا پس منظر اور فنی تجزیہ بڑی وضاحت اور جامعیّت سے تحریر کیا ہے۔ اس طرح ایک ایسی کتاب وجود میں آئی ہے جو اقبالیات کے طلبہ کے لیے ایک نعمت غیر مترقّبہ ہے۔ ہاشمی صاحب نے اقبالیات کے جملہ پہلوؤں کادِقّتِ نظر سے مطالعہ کر رکھا ہے، اس لیے ان کی نظر ان نظموں کے تمام پہلوؤں پر پڑی ہے اور کوئی گوشہ تشنہ نہیں رہا۔ ہاشمی صاحب خوش قسمتی سے ایک باذوق اور محنتی محقق ہونے کے علاوہ ایک راست فکر نقادبھی ہیں، اس لیے انھوں نے ان نظموں کو صحیح تناظر میں پیش کیا ہے اور فکرِ اقبال کا سلسلہ ترکستان کی بجاے کعبے سے ملایا ہے: خاکِ یثرب از دو عالم خوش تر است اے خنک شہرے کہ آں جا دلبر است انھوں نے اقبال کے خیالات کو غلط سانچوں میں ڈھالنے کی کوشش نہیں کی،اس لیے ان شاء اللہ تعالیٰ طلبہ اس سے صحیح راہ نمائی حاصل کریں گے اور فکری انتشار کا شکار نہیں ہوںگے۔ نظرثانی شدہ یہ اشاعت ، جس میں پہلی اشاعت پر قابلِ قدر اضافے کیے گئے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بعض تسامحات کی تصحیح بھی کی گئی ہے، موجودہ شکل میں اقبالیات کے تما م سنجیدہ طلبہ کے لیے ایک اہم اور ناگزیر تصنیف کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ شعبۂ اردو خواجہ محمد زکریا پنجاب یونی ورسٹی ‘اورینٹل کالج‘ لاہور یکم جنوری ۱۹۸۰ء دیباچہ راقم نے یہ کتاب ۱۹۷۰ء میں لکھی تھی مگر اس کی اشاعت چار برس بعد دسمبر ۱۹۷۴ء میں ممکن ہو سکی۔ اس کے دیباچے میں ، میں نے لکھا تھا: ’’ کلام اقبال اور ان کی بعض نظموں کی شرحیں اور خلاصے بازار میں دستیاب ہیں۔ ایک خاص نقطۂ نظر سے‘ ان میں سے بعض کی افادیت سے انکار نہیں مگر یہ شرحیں نظموں کے تنقیدی مطالعے کی ضرورت کو پورا کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ میرے نزدیک نظموں کے تاریخی و سیاسی پس منظر، تہذیبی و ثقافتی عوامل اور فنی محاسن کی نشان دہی کے بغیر ،ان کا صحیح مطالعہ ممکن نہیں جبکہ مذکورہ شرحیں اس پہلو سے قطع نظر صرف لفظی و معنوی تشریح پر زوردیتی ہیں۔ ’’ زیر نظر کتاب اقبال اور ان کی طویل نظموں کو سمجھنے اور سمجھانے کی ایسی کوشش ہے جو ایک طالب علم نے طالب علموں کے لیے کی ہے اور اسی لیے اس میں تشریح کا انداز بھی نظر آئے گا۔ البتہ یہ بات ملحوظِ خاطر رہی کہ مطالعہ مربوط، منضبط اور متوازن ہو ، غیر متعلق بحث نہ کی جائے اور نہ کوئی اہم پہلو رہ جائے۔ ’’ سیاسی اور تاریخی پس منظرکا طویل حصہ ایک طرح سے ( سواے’والدہ مرحومہ کی یادمیں‘کے) تمام نظموں کا پس منظر ہے ۔ اس کے باوجودکہ ہر نظم کے شروع میں اس کا پس منظر بھی شامل کر دیا گیاہے، کسی بھی نظم کا مطالعہ کرتے ہوئے ابتدائی طویل پس منظر پر نگاہ ڈال لینا مفید رہے گا‘‘۔ اس کتاب کی پذیرائی ، بفضلہ تعالیٰ میری توقع سے کہیں بڑ ھ کر ہوئی۔ اردو کے ممتاز اور سربر آوردہ عالموں اور نقادوں نے اس کاوش کو سراہا اور تحسینی کلمات سے نوازا ( جو اس کتاب کی ایک سابقہ اشاعت میں چھپ چکے ہیں۔) ان میں سے سید نذیر نیازی، پروفیسر طاہر فاروقی ، پروفیسر سید وقار عظیم، پروفیسر عبد الحمید صدیقی ، جناب ماہر القادری اور پروفیسر افتخار احمد صدیقی دنیاے فانی سے رخصت ہو چکے ہیں۔ میں ان کی مغفرت اور ان کی درجات کی بلندی کے لیے دعاگو ہوں۔ اقبال کی طویل نظمیںکی تالیف و ترتیب کی ابتدائی تحریک ڈاکٹر سید معین الرحمن صاحب کی مشاورت سے ہوئی تھی۔محترم ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب نے طبع اول کی اشاعت میں دلچسپی لی اور طبع دوم پر ایک تقریظ بھی لکھی ۔ ان کے علاوہ بھی متعدد اہلِ علم‘ احباب اور طالب علموں نے مشوروں سے نوازا میں ان سب کی توجّہ اور اعانت کا دلی طور پر ممنون ہوں۔ طبع دوم میں نظرثانی کے ساتھ، ایک طویل نظم ’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘ کا اضافہ کیا گیا تھا، اب زیر نظر اشاعت کے موقع پر از سرِ نو ترامیم و اضافے کیے گئے ہیں ۔ امید ہے موجودہ شکل میں اس کتاب سے بہتر استفادہ کیا جا سکے گا۔ رفیع الدین ہاشمی یکم اپریل ۲۰۰۴ء وزٹنگ پروفیسر‘ شعبۂ اردو یونی ورسٹی اورینٹل کالج لاہور نظموں کا سیاسی، تاریخی اور تہذیبی پس منظر علامّہ اقبال نے زیر مطالعہ طویل نظمیں ۱۹۱۲ء سے ۱۹۳۶ء تک کے عرصے میں مختلف اوقات میں لکھیں۔بقول مولوی عبدالحق ،یہ نظمیں ’’ظاہری اور معنوی دونوں حیثیتوں سے ان کی شاعری کے بہترین نمونے ہیں۔ ان میں اقبال کی شاعری کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔‘‘ نظموں کی بہتر تفہیم اور مطالعے کے لیے سب سے پہلے یہ معلوم کرنا مناسب ہو گا کہ ان کا پس منظر کیا ہے اور یہ نظمیں لکھتے ہوئے شاعر کی نظر کن حالات و عوامل اور اثرات پر تھی۔ اس سلسلے میں ہمیں عالم اسلام کی مختصر تاریخ خصوصاً بیسویں صدی کے پہلے دو تین عشروں کے سیاسی ، تاریخی اور تہذیبی پس منظر پر ایک نگاہ ڈالنی ہوگی۔ اس پس منظر کا مطالعہ تین دائروں میں کیا جا سکتا ہے: ۱۔ دنیاے اسلام خصوصاً سلطنت عثمانیہ ، مشرقِ وسطیٰ ، ایران اور ہندستان کی سیاسی صورتِ حال۔ ۲۔ وہ تہذیبی و ثقافتی رجحانات ، اثرات اور عوامل جو مسلم دنیا کی سیاست پر بھر پور طریقے سے اثرانداز ہوئے۔ ۳۔ صہیونی تاریخ اور یہودی اثرات کا مختصر تذکرہ جس نے مشرقِ وسطیٰ میں سیاسی اور جغرافیائی تبدیلیوں کے ذریعے مسلم مفاد کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ سیاسی صورت حال: سب سے پہلے ہم مشرق وسطیٰ اور سلطنت عثمانیہ کی صورت حال کا تاریخی جائزہ لیں گے کیونکہ اقبال کی طویل نظموں کے پس منظر میں عالم اسلام کے اس مرکزی خطے کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ ترکوں کی سلطنت عثمانیہ کی بنیاد ۱۳ ویں صدی عیسوی میں رکھی گئی۔ اس کا بانی عثمان اول (۱۲۸۸ئ۔۱۳۲۶ئ)تسلیم کیا جاتا ہے۔ سلطنت عثمانیہ ایک مضبوط اور ابھرتی ہوئی طاقت تھی اس لیے ترکی سے ملحقہ علاقے ۱۵ویں صدی میں رفتہ رفتہ اس کے سامنے سرنگوں ہو تے چلے گئے اور مختلف یورپی علاقے سلطنت عثمانیہ کا حصہ بن گئے۔ سلطان محمد فاتح (۱۴۵۱ئ-۱۴۸۱ئ) کے ہاتھوں ۲۹ مئی ۱۴۵۳ء کو قسطنطنیہ فتح ہوا اور بازنطینی سلطنت ختم ہو گئی۔ اس تاریخی شہر کی فتح سلطنت عثمانیہ بلکہ پوری اسلامی تاریخ میں ایک غیر معمولی او ر یادگار واقعہ ہے۔ اس فتح سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیش گوئی پوری ہوگئی کہ :’’ خدا نے مجھے قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کی کنجیاں دے دی ہیں‘‘۔ ایران کے شاہانِ اکاسرہ کی بادشاہت تو خلفاے راشدین کے دور ہی میں ختم ہو گئی تھی، اب قیصر کی حکومت بھی ختم ہوئی۔آں حضورؐ نے قسطنطنیہ (موجودہ: استامبول یا استنبول)کی فاتح فوجوں کو مغفرت کی بشارت دی تھی۔ محمد فاتح ہی کے عہد میں بوسنیامفتوح ہو کر سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ بن گیا (۱۴۶۳ئ)محمد فاتح ۱۴۸۱ء کے آغاز میں کسی اور بڑی مہم کے لیے فوجیں جمع کر رہا تھا مگر یکایک اسی برس ۳ مئی کو اس کا انتقال ہو گیا۔ معروف یورپی مؤرخ لین پول لکھتا ہے کہ اس طرح محمد فاتح کی موت سے، یورپ تباہی سے بچ گیا۔ (بحوالہبوسنیا: جغرافیہ، تاریخ ، داستانِ جہاد: ص ۸۰) سلطان سلیم اول کے آٹھ سالہ مختصر دورِ حکومت ( ۱۵۱۲ئ- ۱۵۲۰ئ) میں عثمانی فتوحات کا دائر ہ او ر وسیع ہو گیا اور مصر ، شام ، ایران اور حجاز بھی ترکوں کے زیرنگیں آگئے۔ سلیمانِ اعظم یا سلیمانِ عالی شان(Sulaiman The Magnificient)کے دور (۱۵۲۰ئ- ۱۵۶۹ئ) میں مشرق و مغرب کے بہت سے علاقے( عراق، یمن ، عدن ، تیونس، الجزائر، ہنگری اور یوگو سلاویہ وغیرہ) فتح ہوئے اور ترکوں کی بحری قو ّت انتہائی عروج پر پہنچ گئی۔ سلیمان کے امیر البحر خیر الدین باربروسا نے بحیرۂ روم کے کئی جزیرے یورپی حکومتوں سے چھین لیے اور ان کے متحدہ بحری بیڑے کو پریویسیا کی جنگ ( ۱۵۳۸ئ)میں شکست دی۔ اس نے فرانس کے شہر طولون پر بھی قبضہ کر لیا۔ سلیمان کی وفات پر سلطنت عثمانیہ کی حدیں ایک طرف دریاے ڈینیوب سے خلیج فارس تک اور دوسری طرف وسطِ ایشیا کے یوکرینی علاقے سے طرابلس اور الجزائر تک پھیل چکی تھیں۔ اس کے علاوہ بحیرۂ روم ، بحرِ ابیض ، بحرِ احمر اور بحرِہند (کے کچھ حصوں) میں واقع تجارتی شاہراہوں پر بھی اس کا مکمل کنٹرول تھا۔ ۱۶۸۳ء میں وی آنا کی تسخیر میں ناکامی‘ عثمانی زوال کا نقطۂ آغاز تھا۔ عثمانیوں نے پہلی بار ویانا کامحاصرہ ۱۵۲۹ء میںسلیمان اعظم کی سرکردگی میں کیا تھا مگر موسم کی شدت کے سبب سلیمان کو محاصرہ ختم کرکے واپس آنا پڑا۔ ۱۶۸۳ء میں دوسری بار وی آناکا محاصرہ کرکے انھیں ایک طرح سے یورپ کا دروازہ کھولنے کا موقع مل رہا تھا۔ مگر اب ان میں کوئی سلیمانِ اعظم نہ تھا بلکہ ان کی بدقسمتی کہ عثمان کا صدر اعظم قرہ مصطفی جیسا حریص، لالچی اور بدنیت شخص تھا۔ وہ حملہ کرکے بآسانی ویاناکوفتح کرسکتاتھا کیونکہ محصورین کی نصف آبادی فرار ہو چکی تھی لیکن و ہ منتظر رہا کہ اہلِ ویانا ہتھیار ڈال دیں تاکہ شہر کی تمام دولت پر وہ تنہا قبضہ کرلے۔ حملے کی صورت میں فوج کو مالِ غنیمت سے حصہ دینا لازم تھا۔ اس اثنا میں شاہ ِپولینڈ کمک لے کر ترکی لشکر کے عقب میں پہنچ گیا۔ ترکوں کو شکستِ فاش ہوئی اور ایک طرح سے ان کی کمر ٹوٹ گئی۔ اس کے بعد وہ یورپ کی مسیحی قو ّت کے مقابلے میں پسپا ہی ہوتے چلے گئے۔ (بوسنیا: جغرافیہ، تاریخ ، داستان جہاد، ص ۱۱۶) ۱۶۹۹ء میں معاہدۂ کارلوٹز کی رو سے ہنگری ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اس کے بعد ان کی حکومت بتدریج کمزور او ر سلطنت محدود ہو تی چلی گئی۔ حتیّٰ کہ انیسویں صدی کے وسط تک ترکی کو The sick man of Europe ’’یورپ کا مردبیمار‘‘ کہا جانے لگا۔ زارِروس نکولاس اول نے ایک بار برطانوی نمایندے سے بات چیت کے دوران میں تجویز پیش کی کہ ’’ مردِ بیمار کی وفات سے پہلے ہی ہمیں اس کی جائیداد مناسب طریقے سے آپس میں تقسیم کر لینی چاہیے ‘‘۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یورپی طاقتوں کی نظروں میں سلطنتِ عثمانیہ کی کیا وقعت رہ گئی تھی۔ اس سلطنت میں شامل بعض علاقائی حکومتیں رفتہ رفتہ خود مختار ہوتی گئیں ، مگر ان کی آزادنہ حیثیت ایسی نہ تھی کہ وہ اپنی آزادی برقرار رکھ سکتیں‘ نتیجہ یہ کہ وہ مغرب کے استعماری عزائم کا نشانہ بن گئیں۔ چنانچہ برطانیہ نے ۱۸۱۵ء میں مالٹا پر اور ۱۸۷۸ء میں قبرص پر اپنا تسلط جمایا۔ ۱۸۸۳ء سے مصر پر بھی عملاً اسی کی حکمرانی تھی۔ سوڈان لارڈ کچنر کی کمان میں ۱۸۹۸ء میں فتح ہوا۔ فرانس نے الجزائر،تیونس اور مراکش پر قبضہ کر لیا۔ نو آبادیات کے معاملے میں اٹلی دوسری یورپی طاقتوں سے پیچھے تھا ۔ افریقہ کی ساحلی حکومتوں میںاب صرف طرابلس باقی رہ گیا تھا، اٹلی کو یہی غنیمت معلوم ہوا۔ ۲۹ ستمبر ۱۹۱۱ء کو اس نے طرابلس پر حملہ کر دیا اور ساتھ ہی جزائر دوازدگانہ (Dodecaness) اور روڈز(Rhodes)پر بھی قبضہ کر لیا۔ غازی انور پاشا بھیس بدل کر طرابلس پہنچے ۔ مقامی عربوں اور قبائلیوں کو فوجی تربیت دے کر منظم کیا۔ انھوں نے اطالویوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ زیادہ تر اسلحہ انھی سے چھینا اور انھیں ساحلِ طرابلس سے آگے نہ بڑھنے دیا۔ اسی اثنا میں جنگِ بلقان کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ اس لیے صلح نامہ لوزان (۱۸ اکتوبر ۱۹۱۲ئ)کی رو سے ترکوں کو مجبوراً طرابلس سے دستبردار ہونا پڑا۔ سلطنتِ عثمانیہ داخلی طور پر بھی شدید خلفشار کا شکار تھی۔ ۱۹۰۸ء میں نوجوان ترکوں کی بغاوت کے نتیجے میں سلطان عبدالحمید ثانی دستوری اصلاحات کرنے پر مجبور ہو گیا۔ ۱۹۰۹ء میں اسے معزول کر دیا گیا۔ اب اقتدار نوجوان ترکوں کے ہاتھ میں چلا گیامگر وہ آپس میں بھی متحد نہ تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جنگ ہاے بلقان میں ترکوں کو ہزیمت اٹھانی پڑی اور سلطنت کے بہت سے حصے ان کے ہاتھ سے نکل گئے۔ ترکی اس غیر متوقع شکست سے استعماریوں پر اس کی کمزوری واضح ہوگئی اور ترکوں کا رہا سہا وقار بھی ختم ہو گیا۔ ۱۹۱۴ء میں جنگِ عظیم کا آغاز ہو ا تو یورپ میں صرف مشرقی یونان ترکی کے قبضے میں تھا۔ سلطنت عثمانیہ غیر جانب دار رہنا چاہتی تھی مگر حالات کے دباؤ سے مجبور ہو کر اسے جنگ میں شریک ہونا پڑا۔ نوجوان ترکوں کا ایک گروہ ، جس کی قیادت غازی انورپاشا کے ہاتھ میں تھی، جرمنی سے اتحاد کا زبردست حامی تھا۔ وجہ یہ تھی کہ جرمنی روس کا مخالف تھا اور روس سلطنت عثمانیہ کا قدیم دشمن تھا ۔ بہر حال جب ترکوں نے جرمنی کی حمایت کا فیصلہ کر لیا تو اتحادیوں( برطانیہ، روس، فرانس) نے اکتوبر ۱۹۱۴ء میں ترکی کے خلاف باقاعدہ اعلانِ جنگ کر دیا۔ نوجوان ترکوں نے سلطان عبدالحمید ثانی کی مخالفت کے باوجود شاہ حسین کو ۱۹۰۸ء میں مکہ کا شریف (گورنر) مقرر کیا تھا۔ انگریزوں نے کرنل لارنس المعروف بہ ’’ لارنس آف عریبیا‘‘ کو ممالکِ عربیہ بھیجا۔ اس کا مشن یہ تھا کہ عربوں اور ترکوں کے درمیان افتراق پیدا کیا جائے۔ لارنس نے کمال حسن و خوبی سے اپنا مشن پوراکیا۔ ایک طرف تو انگریزوں نے عربوں کے اندر قوم پرستی کے جذبات بھڑکائے، دوسری طرف شاہ حسین کو حجاز کی بادشاہت کا سہانا خواب دکھایا۔ ان کی یہ کوششیں رنگ لائیں اور شاہ حسین نے ۱۰ جون ۱۹۱۶ء کو ترکوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر دیا۔ عین اسی زمانے میں ( ۱۶ مئی ۱۹۱۶ء کو) اتحادیوں کے درمیان ایک خفیہ معاہدے ( موسوم بہ :The Sykes Picot Agreement)کی روسے طے پایا کہ جنگ کے خاتمے پر ممالکِ عربیہ کو آپس میں تقسیم کر لیا جائے۔ حسین کو اس معاہدے کا پتا چل گیا۔ ترکوں نے بھی اسے انگریزوں کے فریب کارانہ عزائم کی طرف متوجّہ کیا۔ اور غیرتِ ملی کا واسطہ دے کر اسے علاحدگی سے روکنے کی کوشش کی مگر اقتدار کی ہوس نے شاہ حسین کو اندھا کر دیا تھا۔ اس نے اکتوبر ۱۹۱۶ء میں اپنے شاہِ حجاز ہونے کا اعلان کر دیا۔ انگریزوں نے اس کی مستقل بادشاہت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرلیا ۔ حسین کے بیٹے فیصل نے کرنل لارنس کی مدد سے شام سے بھی ترکوں کو نکال دیا۔ اگلے سال شام اور فلسطین کے اہم مقامات پر انگریزی قبضہ مکمل ہو گیا۔ سب سے بڑا حادثہ یہ ہوا کہ بیت المقدس مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا۔ ۱۰ دسمبر ۱۹۱۷ء کو جنر ل ارل ایلن بی فاتحانہ بیت المقدس میں داخل ہوا اور اس نے فخریہ اعلان کیا کہ ’’ آج کروسیڈ(صلیبی جنگوں)کا خاتمہ ہوا‘‘۔ صلاح الدین ایوبی کی فتح یروشلم (۱۱۸۷ئ) کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ بیت المقدس دوبارہ عیسائیوں کے قبضے میں چلاگیا تھا۔ اس اندوہناک حادثے پر ہندستان کے مسلمانوں میں صف ماتم بچھ گئی۔ اکتوبر ۱۹۱۸ء کے آخر تک حجاز، شام ، لبنان ، عراق اور عرب کے تمام علاقے ترکوں کے ہاتھ سے نکل کر اتحادیوں ، خصوصاً انگریزوں کے قبضے میں آگئے۔ انجمن اتحاد و ترقی کے اہم لیڈر (انور پاشا، جمال پاشااور طلعت پاشا وغیرہ)بددل ہو کر ترکی سے باہر چلے گئے۔ ملک میں اور زیادہ مایوسی ، بددلی اور انتشار پھیل گیا۔ تاہم سمرنا میں یونانیوں کی بے دریغ قتل و غارت اور لوٹ مارکے ردّ ِ عمل میں‘ ترکوں میں ایک بار پھر جوش و خروش پیدا ہوا ، وہ پلٹ کر دیوانہ وار لڑے اور سمرنا سے یونانیوں کو نکال باہر کیا۔ درۂ دانیال پر بھی ان کا قبضہ بحال ہو گیا۔ اقتدارِ حکومت مصطفی کمال اور عصمت انونو کے ہاتھ میں آگیا۔ ان لوگوں ، خاص طور پر کمال اتاترک کا مزاج لادینی تھا۔ اس لیے انھوں نے پہلے تو خلافت کو غیر مؤثر کر دیا اور پھر ۱۹۲۴ء میں چھے سو سالہ قدیم عثمانی خلافت اچانک ختم کرکے ترکی کو ’’جمہوریہ ‘‘قرار دیا۔ جنگِ عظیم کے خاتمے (۱۹۱۸ئ)پر انگریزوں کے وعدے کے مطابق ممالک عربیہ پر شاہ حسین کا حق تھا مگر ایک وسیع اور متحدہ عرب ریاست کاوجود مغربیوں کے استعمارانہ عزائم کی تکمیل میں رکاوٹ بن سکتا تھا ‘ اس لیے انگریز اپنے وعدوں سے منحرف ہو گئے اور ممالک عربیہ کی بندر بانٹ اس طرح کی گئی: ۱۔ لبنان اور شام کو فرانس کی تحویل میں دے دیا گیا۔ ۲۔ برطانیہ کی زیر نگرانی شاہ حسین کے ایک بیٹے فیصل کو اگست ۱۹۲۱ء میں عراق کا بادشاہ مقرر کیا گیا۔ فیصل کو پہلے شام کا بادشاہ بنایا گیا تھا مگر فرانسیسیوں نے اسے وہاں سے نکال دیاتھا۔ ۳۔ دریاے اردن کے مشرقی کنارے پر ایک چھوٹی سی ریاست شرق اردن کے نام پر قائم کرکے حسن کے دوسرے بیٹے امیر عبداللہ کو اس کا بادشاہ مقرر کیا گیا( اپریل ۱۹۲۱ئ)۔ ۴۔ حجاز میں شاہ حسین کی بادشاہت تسلیم کرلی گئی۔ (قسمت کی ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیے کہ کچھ عرصے کے بعد شاہ حسین حجاز سے جلا وطن کر دیا گیا ۔ اس کا بیٹا علی تخت پر بیٹھا۔ مگر ابن سعود نے اس سے حکومت چھین لی اور علی کو بھی حجاز سے نکلنا پڑا۔آرم سٹرانگ اپنی کتاب Lord of Arabiaمیں لکھتا ہے کہ حسین کے بیٹوں نے شاہ سعود کے مقابلے میں انگریزوں سے مدد کی درخواست کی تھی مگر وہ شاہ حسین سے اکتا چکے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ۱۹۲۵ء تک حجاز کے پورے علاقے پر ابن سعودکا قبضہ ہو گیا۔ ) ۵۔ فلسطین پر براہِ راست برطانوی تسلط قائم ہو گیا تاکہ اسے یہودیوں کاقومی وطن بنانے میں آسانی ہو۔ ۱۹۱۷ء میں اعلانِ بالفور کے ذریعے ( تفصیل آیندہ صفحات میں) برطانیہ اس کا وعدہ کر چکا تھا‘اس صورت حال پر عربوں نے احتجاج کیا مگر بے سود۔ دنیاے اسلام کے باقی حصوں میں ایران اور ہندستان کو نسبتاً زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ ایران سے ملحقہ روس کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ وہ ایران کی طرف اپنی سرحدوں کی توسیع کرکے خلیج فارس کے گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرے۔ مگر برطانیہ ‘روس کی ہر ایسی کوشش میں سدّ ِر اہ بنا رہا ۔ انیسویں صدی میں روسی برطانوی کشمکش کو ایرانی علاقے کی سیاسی صورتِ حال میں ایک اہم عامل کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ روس اور برطانیہ کا دباؤ اور سازشیں جاری رہیں اور ان دو پاٹوں کے درمیان ایران پستا چلا گیا۔ ۱۹۰۷ء میں انھوں نے ایک معاہدے کے ذریعے ایران کو دو دائروں میں تقسیم کر لیا۔ اس کے تحت شمالی ایران روسی حلقۂ اثر میں آگیا اور جنوبی ایران اور خلیج فارس پر برطانوی تفو ّق تسلیم کر لیا گیا۔ اس سے ایران میں ناراضی اور اضطراب کی ایک شدیدلہر دوڑ گئی۔ ۱۹۰۸ء میں تیل کی دریافت سے ایران کی اہمیت بڑ ھ گئی۔ ایران نے عالم مایوسی میں جرمنی کی طرف دیکھا۔جرمنی نے روس سے ساز باز کرکے ایران میں اپنے اثرات کے نفوذ کی کوشش شروع کردی۔ ۱۹ اگست ۱۹۱۱ء کو سینٹ پیٹرزبرگ میں روس اور جرمنی کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کی رو سے جرمنی نے ایران میں روس کے حلقۂ اثر کو تسلیم کر لیا۔ جواباً جرمنی کو اپنی بغداد ریلوے شمالی ایران تک بڑھانے کے حقوق مل گئے۔ ۱۹۱۴ء میں جنگِ عظیم کا آغاز ہوا تو ایران کا سولہ سالہ شاہ احمد نوعمری کے باعث کوئی اقدام کرنے سے قاصر تھا۔ ایرانی فوج غیر ملکی افسروں کے ماتحت تھی۔ روس اور برطانیہ کے کچھ فوجی دستے ایران میں قیام پذیر تھے۔ اس بے بسی کے عالم میں اور غیر ملکی دباؤ کی وجہ سے بھی جنگ میں کسی فریق کی حمایت اس کے لیے بے معنی بات تھی‘ چنانچہ اس نے غیر جانب دار رہنے کا اعلان کر دیا۔ مگر بڑی طاقتوں نے اپنی اپنی ضروریات اور مفادات کے مطابق سرزمین ایران کو میدانِ جنگ کے طور پر استعمال کیا۔ ۱۹۱۹ء میں برطانیہ نے ایران کو اپنا (Protectorate)بنانا چاہا مگر ایرانی پارلیمنٹ نے شدت سے اس کی مخالفت کی ۔ ایران کا ردّعمل اس قدر شدید تھا کہ برطانوی فوجوں کو ۱۹۲۱ء میں ایران سے مکمل طور پر نکل جانا پڑا۔ اگلے سال ایران نے روس سے دوستی کا ایک معاہدہ کیا۔ یوں ایران نے سات سال کے بعد ( جنگِ عظیم کے آغاز سے ۱۹۲۱ء تک ) قدرے اطمینان کا سانس لیا۔ سات سالہ لڑائیوں ، قبائلی بغاوتوں ، بیرونی دباو اور داخلی طوائف الملوکی کے بعد اب اسے آزادی ملی تھی۔ فروری ۱۹۲۱ء میں ایرانی فوج کے ایک افسر رضاخان نے برطانوی افسروں کی مدد سے حکومت پر قبضہ کر لیا۔ وہ پہلے وزیر جنگ اور سپہ سالارِ اعلیٰ بنا‘ پھر اس نے احمد شاہ قاچار کو معزول کرکے ۱۳ دسمبر ۱۹۳۵ء کو ایران کی بادشاہت سنبھال لی۔ ادھر ہندستان میں ۱۸۵۷ء کی ناکام جنگِ آزادی کے اثرات مسلمانوں کے لیے خاصے نقصان دہ بلکہ تباہ کن ثابت ہوئے۔ وہ انگریزوں کے انتقام کا خصوصی نشانہ بنے۔ انھیں ہر میدان میں ہندوؤں کے مقابلے میں نظر انداز کیاگیا اور وہ ایک عرصے تک ایک مؤثراقلیت بھی نہ بن سکے۔ دیوبند، ندوہ اور علی گڑ ھ کی کوششوں کے نتیجے میں بیسویں صدی کے آغاز میں مسلم بیداری کے کچھ آثار نظر آنے لگے۔ ۱۹۰۶ء میں ڈھاکا میں مسلم لیگ قائم ہوئی‘ مگر یہ ایک بے جان سی تنظیم تھی۔ بحیثیتِ مجموعی مسلمان ملک کے سیاسی دھارے اور جدوجہد میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ ۱۹۰۶ء میں جداگانہ انتخاب کا نفاذ مسلمانوں کے لیے مفید ثابت ہوا مگر بہت سے دوسرے عوامل ان کے خلاف تھے۔ اسی زمانے میں مسلمان علی گڑھ میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کے کوشاں تھے مگر حکومت لیت و لعل سے کام لے رہی تھی۔ ۱۹۱۳ء میں جلیانوالہ باغ کے سانحے سے ملک میں عمو می اضطراب پھیل گیا۔ کان پور میں مسجد کے جزوی انہدام کا واقعہ اور احتجاج کرنے والوں کی شہادت نے جلتی پر تیل کا کام کیا‘ اس کی تفصیل یوں ہے کہ کان پور میں مچھلی بازار کے موڑ پر ایک مسجد واقع تھی۔ جولائی ۱۹۱۳ء میں حکام نے موڑسیدھا کرنے کے بہانے مسجد کا ایک حصہ گرادیامگر سڑک کے درمیان واقع ایک مندر کو گرانے سے صرف نظر کیا۔ انگریزوں کے اس امتیازی سلوک پر مسلمانوں میں اشتعال پھیل گیا ، احتجاج ہوا، گرفتاریاں ہوئیں۔ کئی مسلمان فائرنگ سے شہید ہو گئے۔ بعد میں جا کر قضیہ طے ہوا ۔ مولانا شبلی نعمانی نے اس سانحے سے متاثر ہو کر دو درد انگیز نظمیں لکھیں۔ ایک: علماے زندانی اور دوسری: ہم کشتگان معرکۂ کان پور ہیں۔شہدا میں بچے بھی شامل تھے۔ شبلی نے بچوں کی شہادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا : عجب کیا ہے جو نو خیزوں نے سب سے پہلے جانیںدیں کہ یہ بچے ہیں ان کو جلد سوجانے کی عادت ہے اس کے علاوہ طرابلس پر اٹلی کا حملہ اور جنگ ہاے بلقان کا آغاز بھی ایسے واقعات تھے جنھوں نے مسلمانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔مولانا ابوالکلام آزادکے الہلال اور مولانا ظفر علی خان کے زمیندارنے ان واقعات پر نہایت درد انگیز مضامین اور جذباتی نظمیں شائع کیں جس ملک بھر میں ترکوں کی حمایت میں ایک زبردست تحریک شروع ہو گئی۔ ڈاکٹر مختار احمد انصاری کی قیادت میں ایک طبی وفد ترکی بھیجا گیا۔ لاکھوں روپے کا چندہ بھی جمع کرکے روانہ کیا گیا۔ ہندی مجاہدین لڑائی میں حصہ لینے کے لیے بلقان جانا چاہتے تھے مگر انگریزوں نے اس کی اجازت نہ دی۔ جن علما نے ترکوں کی امدادی مہم میں بڑ ھ چڑ ھ کر حصہ لیا ، ان میں شیخ الہند مولانا محمود حسن ؒ پیش پیش تھے۔ آپ نے ہندستان سے ایک خطیر رقم جمع کرکے ترکی بھجوائی۔ جب آپ حجاز پہنچے تو شاہ حسین نے آپ سے ترکوں کی تکفیر کے فتوے پر دستخط لینا چاہے اور آپ کے انکار پر کئی ساتھیوں سمیت آپ کو انگریزوں کے حوالے کردیاجنھوں نے آپ کو مالٹا میں نظر بند کر دیا۔ اگرچہ ہندستان کبھی عثمانیہ خلافت کے ماتحت نہیں رہا ، تاہم خلافت سے مسلمانوں کو ایک جذباتی تعلق ضرور تھا۔ چنانچہ خلافت اور مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لیے آل انڈیا مجلس ِ خلافت قائم ہوئی۔ مسلمان خطیبوں نے اپنی جذباتی تقریروں سے مسلمانوں کے دلوں میں ایک آگ لگادی۔ خانہ نشین عورتوں نے اپنے زیورات تک امدادی فنڈ میں دے دیے۔ علی برادران اس مہم میں پیش پیش تھے۔ ان کی والدہ ’’ بی اماں‘‘ بھی تحریک خلافت کی مؤید تھیں : بولیں اماں محمد علی کی جان بیٹا خلافت پہ دے دو سے پورا ملک گونج رہا تھا۔ محمد علی جوہر کی قیادت میں ایک وفد برطانیہ گیا مگر ناکام واپس آیا۔ اسی اثنا میں ہجرت کی تحریک اٹھ کھڑی ہوئی۔ ہندستان کو ’’ دارالحرب‘‘ قرار دیا گیا۔ چنانچہ ہزاروں مسلمان اپنی جایدادیں ہندوؤں کے ہاتھ اونے پونے بیچ کر افغانستان کی طرف جانے لگے۔ افغانوں نے شروع میں تومہاجرین کو خوش آمدید کہا مگر ان کے وسائل محدود تھے اس لیے جلد ہی مسلمانوں کے خستہ حال و پریشاں روزگار قافلے واپس آنے لگے۔ مسلمانوں کو اپنے غیر دانش مندانہ اور جذباتی اقدام کی وجہ سے سخت نقصان ہوا۔ اب عدم تعاون اور ترک موالات کا منصوبہ تیار کیا گیا۔ ولایتی مال کا بایکاٹ شروع ہوا اور سول نافرمانی کی تحریک چل پڑی۔ محمد علی جوہر اور دوسرے لیڈر جیل میں تھے اس لیے تحریک کی قیادت گاندھی نے سنبھال لی۔ وہ عدم تشدّد کے قائل تھے۔ جب بعض جگہ تشدّد کے واقعات پیش آئے تو انھوں نے اچانک تحریک ختم کرنے کا اعلان کر دیا ( ۱۹۲۲ئ)۔ ادھر ترکوں نے خلافت کا خاتمہ کر لیا تھا ( ۱۹۲۴ئ)۔ یہ صورت حال مسلمانوں کے لیے شدید ذہنی صدمے کا باعث ہوئی۔ ان کی حالت اس گم کردہ راہ مسافر کی سی تھی جسے اپنی منزل کا پتا نہ ہو۔ یہ سب کچھ نتیجہ تھا مسلم راہ نماؤں کے جذباتی اور غیر دانش مندانہ فیصلوں کا ۔ خلافت ، ہجرت اور ترک موالات کی تحریکوں میں بنیادی خرابی یہ تھی کہ یہ تحریکیں بلاسوچے سمجھے‘ محض وقتی جوش و جذبے کی بنیاد پر شروع کی گئی تھیں۔ نہ منظم منصوبہ بندی کی گئی اور نہ اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ مستقبل کی امکانی صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کی کیا شکل ہوگی۔ ۱۹۲۸ء کی آل پارٹیز کانفرنس کے نتیجے میں نہرو رپورٹ مسلمانوں کے لیے مایوس کن ثابت ہوئی۔ اسی طرح ۱۹۳۰ء اور ۱۹۳۱ء کی گول میز کانفرنسیں بھی بے سود ثابت ہوئیں۔ ٭تہذیبی اور ثقافتی رجحانات و عوامل: یورپ کی استعماری طاقتوں ، خصوصاً برطانیہ نے نہایت دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے بہت پہلے سے‘ علمی ، تہذیبی اور ثقافتی سطح پر بھی مسلمانو ں کی جڑیں کھوکھلی کرنا شروع کردی تھیں۔ انیسویں صدی میں انھوں نے قاہرہ، بیروت ، دمشق ، استامبول اور کئی دوسرے مقامات پر ایسے تعلیمی اور تحقیقی ادارے قائم کیے جنھیں مسلمانوں کے اندر مغربی تہذیب اور نظریات کے نفوذ کا ذریعہ بنایا گیا۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے عرب قومیّت اور تورانی قومیّت کی عصبیت کو ہو ا دی ۔ چنانچہ عربوں کی قوم پرستی اور ترکوں کی قومی تحریک کا (جسے نوجوان ترکوںYoung Turks کی تحریک کا نام دیا جاتا ہے ) آغاز کرنے والے بیشتر لوگ یہودی اور عیسائی تھے۔ عرب قوم پرستی کی تحریک پانچ عیسائی نوجوانو ں نے شروع کی تھی جو بیروت کے پروٹسٹنٹ کالج کے تعلیم یافتہ تھے۔ انھوں نے بطورِ خاص مسلمانوں کو بھی اپنی تحریک میں شامل کیا تاکہ ان کے ذریعے مسلمانوں کے اندر نفوذ کرنے میں کامیابی ہو۔ ان مقامی عیسائیوں کو بیرونی مشنریوں کا تعاون حاصل تھا۔ اس تحریک کے نتیجے میں عرب قوم پرستی کے زہریلے اثرات نے اپنا رنگ دکھایا اور عربوں کے اندر ترکوں کے خلاف نفرت و بغاوت کے جذبات پیدا ہونے لگے۔ دوسری طرف تورانی قوم پرستی کے فروغ کے لیے ترکی میں ’’ انجمن اتحاد و ترقی‘‘ (Committee of Union and Progress)قائم کی گئی ، جس میں مسلمانوں کے ساتھ یہودی اور عیسائی بھی شامل تھے۔ بظاہر اس کا مقصد سلطنت کو انتشار سے بچانا اور اسے مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا تھا مگر اس تحریک نے عثمانی خلافت کے اسلامی تشخص کو بہت نقصان پہنچایا کیونکہ انجمن کی بنیاد لادینیت پر تھی اور اس کے افکار کا سرچشمہ یورپ تھا۔ معروف یورپی مصنّف لنگزاسکی (Lenczowski)اعتراف کرتا ہے:The Young Turks drew its inspiration from the West.اس سے ترک قوم پرستی کو لادینی بنیادوں پر فروغ حاصل ہوا۔ ۱۹۰۸ء میں انجمن برسر اقتدار آئی۔ اگلے برس سلطان عبدالحمید ثانی کو معزول کر کے سلطان کے اختیارات محدود کر دیے گئے۔ مزید برآں نوجوان ترکوں نے سلطان کی مخالفت کے باوجود حسین کو شریف مکّہ مقرر کیا جس نے بعد میں ترکوں سے غداری کرکے انگریزوں کے سامراجی عزائم کا ساتھ دیا۔’’ نوجوان ترک‘‘ اپنے بلند بانگ اور انقلابی دعووں میں پورے نہ اترسکے۔ البتہ اس کا ایک منفی نتیجہ یہ ہوا کہ ترکی کے داخلی انتشار سے بیرونی دشمنوں نے فائدہ اٹھایا ۔ کئی اہم علاقے ترکی کے ہاتھ سے نکل گئے اور بعض حصوں پر اس کی گرفت کمزور پڑ گئی۔دولتِ عثمانیہکے مصنّف محمد عزیر لکھتے ہیں :’’انجمن کے ممبروں میں ترکوں کے علاوہ عیسائیوں اور یہودیوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ ‘‘ چنانچہ انجمن پر عیسائی اوریہودی پوری طرح حاوی تھے۔ ان کے اثرات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ نوجوان ترکوں نے ۱۹۱۳ء میں جو وزارت بنائی‘ اس میں تین یہودی نژاد وزیر بھی شامل تھے۔ ۱۹۰۲ء میں سلطان عبدالحمید (م: ۱۰ فروری ۱۹۱۸ئ) نے سلطنتِ عثمانیہ (میں شامل فلسطین) کے اندر یہودی آباد کاری کی پرکشش درخواست کو ٹھکراتے ہوئے کہا تھا:’’ ڈاکٹر ہرتسل کو بتا دو کہ وہ فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کی تمام کوششیں ختم کر دے۔ جب تک عثمانی سلطنت کا ایک غیور فرد بھی زندہ ہے‘ اسے فلسطین نہیں مل سکتا۔‘‘ ۱۹۱۴ء میں ان تین وزیروں نے ایک قانون پاس کر وادیاکہ یہودیوں کو فلسطین میں جایداد بنانے کی اجازت مل گئی۔ ۱۹۲۴ء میں چھے سو سالہ قدیم عثمانی سلطنت کے باضابطہ خاتمے کا اعلان ہوا۔ نئے ’’جمہوریہ ترکی‘‘ کی بنیاد ترکی قومیّت اور لادینیت ( سیکولر ازم) پر رکھی گئی۔ خلافت کے خاتمے کے ایک ماہ بعد شرعی عدالتوں کو ختم کردیا گیا اور پھر بتدریج ایسے اقدامات کیے گئے جن کا مقصد ترکی کا رشتہ ایشیائی، عربی اور اسلامی روایات سے ختم کرنا تھا۔ مثلاً عربی میں اذان کی ممانعت، عربی کے بجاے لاطینی رسم الخط کا اجرا، جمعہ کے بجاے اتوار کی تعطیل، ہجری کے بجاے عیسوی سنہ کا رواج،مردوں کے لیے ترکی ٹوپی پہننے اور عورتوں کے لیے پردہ کرنے پر قانونی پابندی۔ اسی پر بس نہیں‘ ترکی زبان سے عربی الفاظ خارج کرنے کی مہم چلائی گئی۔ نئے انقرہ کی تعمیرات میں ایک مسجد بھی نہیں بنائی گئی۔ اس طرح کے تمام اقدامات کا مقصد مذہب اور مشرقی روایات سے رشتہ منقطع کرکے‘ ترکی کو ایک جدید لادینی اور مغرب زدہ (Westernised)قوم میں تبدیل کرنا تھا۔ باباے اردو مولوی عبدالحق اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’عجیب بات یہ ہے کہ اس عہد کے مسلمانوں میںاصلاح کے جتنے مد ّعی پیدا ہوئے‘ انھوں نے یہی کیا۔ مصطفی کمال پاشا اتاترک نے تو انتہا کردی۔ مغرب کی تقلید میں رہنا سہنا، کھانا پینا، لباس ، ناچ رنگ، شراب خوری اور دوسری خرافات کو اپنا شعار بنا لیا۔ یہاں تک کہ مدارس سے مذہبی تعلیم خارج کر دی اور اپنی زبان کا قدیم رسم الخط بھی بدل کر رومن کر دیا۔ ترکی اخبار نویسوں کا وفد دلی آیا تھا‘ وہ باربار بڑے فخر سے اپنے آپ کو یورپین نیشن کہتا تھا۔ دلی کے مسلمانوں کی خواہش تھی کہ جمعہ کے روز جامع مسجد میں تشریف لائیں‘ لیکن انھوں نے یہ درخواست قبول نہ فرمائی۔ خاص کوشش سے ان کے پروگرام میں مسلم یونی ورسٹی علی گڑ ھ کا معائنہ بھی رکھا گیا مگر وہاں تشریف نہیں لے گئے اور ہندو یونی ورسٹی بنارس کو ( جو ان کے پروگرام میں نہیں تھی) اپنے قدوم سے مشرف فرمایا۔ امان اللہ خان [شاہِ افغانستان] کو اصلاح کی سوجھی تو اس نے بھی اصلاح لباس ہی سے شروع کی۔ لوگوں کو اور خاص کر مولویوں کو جبراً کوٹ، پتلون اور ہیٹ پہننے کا حکم دیا۔ حکم کی خلاف ورزی پر سزادی جاتی تھی‘‘۔ ( چند ہم عصر: ص ۲۷۶) ترکی میں تو انجمن اتحاد و ترقی نے یہ ’’ خدمت‘‘ انجام دی ، ادھر عربوں کی بغاوت میں بھی قوم پرستی ہی کی تحریک کام کررہی تھی۔ عرب دانش ورمیر شکیب ارسلان کے نزدیک عربوں کی بغاوت کا سب سے اہم سبب تورانی سیاست تھی، جس پر انجمن اتحاد و ترقی انقلاب کے بعد چلنا چاہتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اسی پالیسی کے باعث عربوں اور ترکوں کے درمیان منافرت کی خلیج وسیع ہوتی گئی ۔عرب قوم پرستی کے مہلک نتائج یوں ظاہر ہوئے کہ: ۱۔ عرب دنیا کے غیر عرب‘ مسلمانوں سے کٹ کر الگ ہو گئے۔ ۲۔ استعماری طاقتوں نے جنگِ عظیم کے بعد ممالک عربیہ کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹ کر ان کی متحدہ قو ّت کو کمزور کر دیا۔ ۳۔ یہودیوں اور عیسائیوں نے عرب نیشنلزم کی تحریک کو ایک منظم منصوبے کے تحت اور سائنٹی فک بنیادوں پر استوار کیا۔ استعماری طاقتوں نے لبنان میں عیسائیوں کو ایک مصنوعی اکثریت فراہم کر دی اور برطانیہ یہودیوں کو اپنی نگرانی میں فلسطین میں جمع کر کے ان کی آباد کاری کرانے لگا۔ بیروت عربوں پر ثقافتی یلغار کا مرکز قرار پایا۔ ۱۸۶۶ء میں وہاںامریکی یونی ورسٹی قائم کی گئی تھی اور جیسا کہ بعد کی تاریخ سے ثابت ہو تا ہے ، عربوں کے اندر لا دینیت، سوشلزم اور اباحیت کی تحریکوں کوبیروت ہی سے فکری غذا فراہم ہوتی رہی ہے۔ یہ سب کچھ عرب قوم پرستی کی وجہ سے ہوا مگر افسوس کہ عرب اس عبرت ناک صورتِ حال سے کوئی سبق سیکھنے کے بجاے آج بھی انتشار و افتراق کا شکار ہیں۔ یہودیوں سے ذلت آمیز شکست کھانے کے بعد بھی، وہ اسلامی اور دینی بنیادوں پر متحد ہونے کے بجاے شامیوں،کویتیوں، عراقیوں، مصریوں ، اردنیوں اور لبنانیوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایران میں پہلوی خاندان کے بانی رضاشاہ پہلوی نے اصلاح و ترقی کے نام پر مذہبی شعائر کے خلاف ایک مہم شروع کی تھی۔ بعض مصنّفین اسے ’’ ایرانی اتاترک‘‘ کا نام دیتے ہیں کیونکہ رضا شاہ بھی لادینیت کا علمبردار تھا۔مولوی عبدالحق نے اس کی جابرانہ پالیسیوں کا ذکر ایک جگہ بڑے دلچسپ انداز میں کیا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’رضاشاہ پہلوی شاہِ ایران [اتاترک] سے بھی دو قدم آگے بڑ ھ گئے۔ انھوں نے لباس کے بارے میں اسی قسم کی سختیاں کیں[جس طرح اتاترک نے کی تھیں] اور پردے کی مخالفت ہی نہیں کی بلکہ بے پردگی کو جبراً رائج کیا۔ مشہدکے علما نے اس سے اختلاف کیا تو وہاں کے مینا ر پر مشین گنیں چڑھا دی گئیں اور صرف چند گھنٹوں کی مہلت دی کہ اگر اتنے عرصے میں حکم کی تعمیل نہ کی تو شہر کو اڑا دیا جائے گا‘ مجبور ہو کر سرِ تسلیم خم کرنا پڑا۔ اس کے بعد گورنر نے ایک بڑا جلسہ برپا کیا اور تمام حکام اور شرفا کو حکم دیا کہ وہ اپنی بیویوں سمیت حاضر ہوں۔ ایک صاحب تنہا آئے کیونکہ ان کی بیوی نے بھرے جلسے میں بے پردہ جانا گوارا نہ کیا۔ انھیں حکم دیا گیا کہ جاؤ بیوی کو ساتھ لے کر آؤ۔ وہ گئے اور اس نیک بخت کو ساتھ لے کر آئے۔ اس کی یہ سزاتجویز کی گئی کہ وہ تمام حاضرینِ جلسہ سے فرداً فرداً ہاتھ ملائے‘‘۔ (چند ہم عصر: ص ۲۷۶۔ ۲۷۷) مشرق وسطیٰ سے دور‘ ہندستان میں ذہنی و تہذیبی رجحانات کے پس منظر میں کچھ اور عوامل کام کررہے تھے۔ ہندستانی مسلمان، مغلوں کے زوال اور انگریزوں کے تسلط کی وجہ سے ذہنی لحاظ سے بہت پس ماندہ تھے۔ بھارت کے معروف دانش ور اور سابق وائس چانسلر علی گڑ ھ مسلم یونی ورسٹی ، سیدحامد نے ۱۹۴۱ء میں علی گڑ ھ سے ایم اے انگریزی کیا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ جس وقت میں علی گڑھ میں داخل ہوا، یہ تصو ّرذہنوں پر چھایا ہوا تھا کہ انگریز ہمارے آقا ہیں اور ہم ان کی رعایا ہیں… اگر کوئی طالب علم انگریز وں کے خلاف رجحانات رکھتا تو اسے اچھوت سمجھا جاتا اور لوگ اس کا کمرا بچا کے گزرتے تھے۔ ( ملاقاتیں: ص ۱۷) انگریزوں نے سیاسی غلبے کے ساتھ ہندستانیوں خصوصاً مسلمانوں کو ذہنی ، تہذیبی ، تعلیمی اور مذہبی لحاظ سے بھی غلام بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا، چنانچہ ایک طرف مسیحی مشنریوں کی آمد اور دوسری طرف مغربی علوم و عقلیات کی چکا چوند نے مسلمانوں کو ذہنی طور پر ڈگمگا دیا۔ سہارے کے لیے مختلف تعلیمی اور ثقافتی ادارے قائم کیے گئے، مثلاً: دارالعلوم دیوبند،ندوہ اور علی گڑھ، مگر یہ سب دور جدید کے چیلنج کا کما حقہ‘جواب نہیں دے سکے۔ سر سید تحریک سے جدید علم الکلام کی بنیاد ضرورپڑی ،مگر یہ اسلام بہت معذرت خواہانہ (Apologetic) قسم کا تھا۔ سرسیّد تحریک، قابل ِ قدر تعلیمی خدمات کے باوجود‘ یورپی استیلا اور سائنسی و عقلی فکر کے سامنے معذرت خواہانہ اسلام پیش کرتی تھی جو عصر جدید کے مسائل کا سامنا کرکے ان کا حل تلاش کرنے کے بجاے ان سے آنکھیں چراتا تھا۔ سر سیّد نے اسلام کے بعض مبادیات کے بارے میں عذرپیش کیے اور اسلامی مابعد الطبیعیّات کی جو تاویلات کیں ، اس کے اثرات مرزا غلام احمد قادیانی اور غلام احمد پرویز کی شکل میں سامنے آئے۔ علی گڑ ھ تحریک نے مسلمانوں کو لکھنا پڑ ھتا تو سکھا دیا مگر اس تعلیم کے ذریعے ان میں اسلام کی انقلابی روح پیدا نہ ہو سکی۔ بلکہ متعلّمین علی گڑ ھ میں الحادی رجحانات کی ایسی ہوا چلی کہ یونی ورسٹی میں مذہب مخالف اور انٹی گاڈ(Anti God) انجمنیں بننے لگیں۔خود سرسیّد آخر عمر میں اپنی تحریک کے نتائج سے مایوسی کا اظہار کرنے لگے تھے۔ ہندو، مسلمانوں کو اس بے جان حالت میں بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ آریہ سماج جیسی تحریکیں اس حد تک چلی گئیں کہ ہندستان میں رہنے کا حق صرف ہندوؤں کو ہے۔ آریہ سماجیوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت و تعصّب کی ایسی فتنہ انگیز فضا پیدا کر دی کہ ہند، مسلم تہذیب وتمدن کے تمام نقوش محو کر دینے کے درپے ہوگئے۔ ۱۹۰۶ء میں انتہا پسند ہندوؤں نے فرقہ پرست جماعت ’’ ہندو مہا سبھا ‘‘ قائم کی۔ غرض مسلمان ایک طرف ہندوؤں کے تعصّب اور دشمنی کا شکار تھے ، دوسری طرف انگریز بھی انھیں کوئی حیثیت نہیں دیتے تھے۔ وہ خود کوئی جرأت مندانہ اقدام کرنے سے قاصر تھے کیونکہ غلامی نے ان کے اندر موجود بچی کھچی اسلامی انقلابی روح ختم کر دی تھی: تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر مسلمانانِ ہند کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ تھی کہ وہ ایک ایسی دانش مند، مستقل مزاج اور مخلص قیادت سے محروم تھے جو توازنِ فکر و عقل کے ساتھ حالات کا گہرا مطالعہ کرتی اور پھر اپنی بصیرت کی بنا پر ان کے لیے کوئی سود مند راہِ عمل تجویز کرتی۔ کچھ عرصے کے بعد جو بری بھلی قیادت سامنے آئی وہ قوم پرستی کے سراب کا شکار ہو کر رہ گئی۔ ٭صہیونی اثرات و عوامل: صہیونی تحریک اور اس کی سر گرمیوں کو بھی مسلم دنیا ،خصوصاً مشرقِ وسطیٰ کی صورت حال میں ایک اہم عامل کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ یہودیوں نے بین الاقوامی سطح پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے The Protocols of the Learned Elders of Zionکی صورت میں ایک بھیانک سازش تیار کی جس کی روشنی میں ۱۸۹۷ء کی بین الاقوامی صہیونی کا نفرنس میں طے پایا کہ فلسطین میں یہودی ریاست قائم کی جائے۔ فلسطین اس وقت تک سلطنت عثمانیہ میں شامل تھا۔ ۱۹۰۲ء میں تیوڈورہرتسل Theodor Herzlکی قیادت میں یہودیوں کا ایک وفد سلطان عبدالحمید ثانی سے ملا اور پیش کش کی اگر سلطان یہودیوں کو فلسطین میں آباد کاری کی اجازت دے تو اس کے عوض وہ ترکی کے تمام بیرونی قرضے ادا کر دیں گے۔ اگر چہ بیرونی قرضے سلطان کے لیے ایک بڑا پریشان کن مالی مسئلہ تھا مگر سلطان کے نزدیک مالی مشکلات کے مقابلے میں غیرتِ ملی کا سوال زیادہ اہم تھا۔ اس لیے اس نے یہودیوں کی پیش کش کوحقارت کے ساتھ ٹھکر ادیا، اور جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے، سلطان نے یہودی لیڈر ہرتسل کو ٹکا سا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جب تک عثمانیہ سلطنت کا ایک فرد بھی زندہ ہے ، تمھیں فلسطین نہیں مل سکتا۔ اس پر یہودی بہت برافروختہ ہوئے ۔ بلکہ ایک یہودی لیڈر حاخام فرح آفندی تو جاتے جاتے سلطان کو یہ دھمکی بھی دے گیا کہ ہم تم سے نمٹ لیں گے۔ چنانچہ انتقاماً وہ سلطان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہوگئے۔نوجوان ترکوں کی انجمن اتحاد و ترقی بھی سلطان کو معزول کرنا چاہتی تھی۔ اب انجمن کو بااثر یہودیوں کی تائید و حمایت بھی حاصل ہو گئی۔ کمال اتاترک کا ایک یورپی سوانح نگار لکھتا ہے: ’’ انجمن اتحاد و ترقی نے فری میسن کے طریقِ کار اور ان کے دفاتر کا خوب خوب استعمال کیا‘‘۔ بہرحال سلطنت عثمانیہ اور سلطان کے خلاف یہودیوں کی انتقامی سازشیں جاری رہیں۔ ان کی پہلی کامیابی وہ تھی جب انجمن اتحاد و ترقی کی وزارت کے ذریعے ۱۹۱۴ء میں ایک ایسا قانون پاس کرایا گیا ،جس کے ذریعے انھیں فلسطین میں زمینیں اور جایدادیں خریدنے کی اجازت مل گئی۔ انھوں نے فلسطین کی زرخیز زمینیں خریدنا شروع کر دیں۔ اس کے باوجود وہ سمجھتے تھے کہ بڑی طاقتوں کا سہارا لیے بغیر وہ اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ چنانچہ پہلے تو انھوں نے جرمنی سے معاہدہ کرنے کی کوشش کی ‘پھر انھیں محسوس ہوا کہ برطانیہ اس معاملے میں زیادہ مفید ثابت ہوگا۔ ۱۹۱۶ء میں ’’ عالمی صہیونی تنظیم‘‘ نے ایک میمورنڈم کے ذریعے برطانیہ سے درخواست کی کہ وہ اپنے سیاسی و عسکری مفادات کے پیشِ نظر صہیونیت کی پشت پناہی کرے۔برطانیہ نے اس درخواست کو اعلانِ بالفور( دسمبر ۱۹۱۷ئ) کی شکل میں پذیرائی بخشی۔ جس میں کہا گیا تھا :’’ ہز میجسٹی کی حکومت فلسطین میں یہود کے لیے ان کے قومی وطن کے قیام کے حق میں ہے اور برطانیہ اس مقصد کے حصول کے لیے اپنی پوری پو ری کوشش کر ے گا‘‘۔ اس اعلان کو جنگِ عظیم اول کے تمام اتحادیوں کی توثیق حاصل تھی۔ اعلان بالفور نے ساری دنیا میں منتشر یہودیوں کی مشترک سیاسی تحریک ’’صہیونیت‘‘ کے لیے ایک ایسا سنگِ بنیاد فراہم کر دیا جس کے ذ ریعے وہ فلسطین میں بتدریج قوّت و اقتدار حاصل کرتے چلے گئے۔ اس کے عوض دنیا بھر کے یہودیوں نے برطانیہ کو اپنی پوری تائید خصوصاً مالی اعانت فراہم کری، بلکہ امریکہ کو بھی اتحادیوں کی حمایت میں جنگ میں کھینچ لانے کی خدمت یہودیوں نے انجام دی۔ جنگِ عظیم کے خاتمے پر فلسطین کو برطانیہ نے اپنی نگرانی میں لے لیا تھا، جس مجلس اقوام (League of Nations)کے بارے میں اقبال نے کہا تھا: بہرِ تقسیمِ قبور، انجمنے ساختہ اند اس نے برطانیہ کو ۲۴ جولائی ۱۹۲۳ء کو وہاں حکومت قائم کرنے کی اجازت دے دی۔ یہ برطانوی اقتداردراصل ایک یہودی حکومت کے مترادف تھا۔ مختلف شعبوں اور کلیدی اسامیوں پر ایسے یہودی انگریز متعیّن کیے گئے جنھوں نے عربوں کو دبایا اور یہودیوں کو ہر شعبۂ زندگی میں آگے لانے کی بھرپورکوشش کی۔ عربی کی جگہ عبرانی سرکاری زبان بنادی گئی۔ ایک جیوش ایجنسی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ غرض ایسے اقدامات کیے گئے جن سے فلسطین میں یہودی حکومت کے قیام کے لیے فضا اور حالات سازگار ہوتے گئے۔ دوسر ی طرف یہودی اکابر کی کوشش رہی کہ دنیا کے مختلف خطوں میں بکھرے ہوئے یہودی فلسطین میں آبادکاری کریں جس کے نتیجے میں ۱۹۳۳ء تک وہ ۵۴۵ مربع میل پر قابض ہو چکے تھے حالانکہ ۱۹۱۴ء میں ان کے پاس صرف ۱۷۷ مربع میل رقبہ تھا۔ ۲۸ اپریل ۱۹۴۷ء کو مسئلہ فلسطین اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں پیش ہوا۔ اقوام متحدہ میں روسی مندوب گرومیکو نے یہودیوں کے حق میں اور عربو ں کے خلاف زبردست تقریر کی۔ سات ماہ کے بحث مباحثے کے بعد فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی قرارداد منظور کر لی گئی۔ اس قرارداد کی روشنی میں یہودیوں کے لیے فلسطین میں اپنی ریاست قائم کرنا آسان ہو گیا۔ چنانچہ ۱۵ مئی ۱۹۴۸ء کو انھوں نے ’’ اسرائیل‘‘ کے قیام کا اعلان کر دیا۔ ۳ مارچ ۱۹۴۹ء کو اسے برطانیہ، امریکہ اور روس کی تائید سے اقوام متحدہ کا ممبر بنا لیا گیا۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ نام نہاد اسرائیل کو سب سے پہلے جس ملک نے باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا، وہ سوشلسٹ روس تھا جسے فلسطینیوں کا سب سے بڑا حمایتی سمجھا جاتا تھا۔ یہودی مفادات کی حمایت و پیش رفت اور نام نہاد اسرائیل کی ترقی و استحکام میں امریکہ بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا۔ بلکہ اب تو یہ بات واضح ہو چکی ہے اسرائیل کا وجود امریکی پشت پناہی کا مرہونِ منت ہے ۔ امریکہ ہر سال اسے ایک خطیر امدادی رقم فراہم کرتا ہے۔ نیز وہ اسرائیلی مفادات کے تحفظ اور عربوں کی مخالفت میں اقوام متحدہ میں بیسیوں بار ویٹو کا ’’ حق‘‘ استعمال کر چکا ہے۔ حاشیہ ۱۔ یہ اقدامات چونکہ آمریت کے سائے میں جابرانہ طریقے سے کیے گئے اور اس انتہا پسندی میں عوام کی مرضی کو دخل نہ تھا‘ اس لیے کمالی دورکے خاتمے پر اس کا ردّ ِ عمل سامنے آیا۔ ۱۹۵۰ء کے بعد سے ترکی میں اسلامی و دینی رجحانات بڑی شدت سے زور پکڑتے گئے۔ ایک امریکی کے بقول:’’ اسلام کے اثرات کا یہ عالم ہے کہ لادین ترکی میں ہر سطح کے سیاسی راہ نما دیہاتی ووٹ حاصل کرنے کے لیے مجبور ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اپنے آپ کو اسلام سے ہم آہنگ اور اس کا وفادار ثابت کر دکھائیں‘‘۔ عدنان میندریس کے دور میں عربی میں اذان دینے کی اجازت مل گئی ۔ نئی مساجد کی تعمیر شروع ہوئی۔ حج بیت اللہ کے لیے زیادہ سہولتیں دی جانے لگیں۔ استامبول یونی ورسٹی میں شعبۂ اسلامیات قائم ہوا۔ پرائمری سکولوں میں اسلامی تعلیم لازم قرار پائی اور یوں پچاس کے عشرے میں مذہب ایک قو ّت بن کر ابھرنے لگا۔ اس پر سیکولر حلقوں خصوصاً فوج کی تشویش بڑ ھنے لگی۔ بدقسمتی سے عدنان میندریس کی آمرانہ پالیسیوں کی وجہ سے بعض طبقے ان کی حکومت کے خلاف ہوگئے۔ چنانچہ ۱۹۶۰ء میں جنرل جمال گرسل نے جمہوریت کی بساط لپیٹ دی اور میندریس اور اس کے دو وزیروں کو پھانسی دے دی گئی۔ ۱۹۶۱ء میں مذہبی رجحانات کی حامل جسٹس پارٹی قائم ہوئی۔ اس پر پابندی لگی توکچھ عرصے بعد ملی سلامت پارٹی وجود میں آئی۔ پھر رفاہ پارٹی، اور اس کے بعد سعادت پارٹی… یہ سب اسلامیت کی علمبردار جماعتیں تھیں‘ اس لیے یکے بعد دیگرے فوج کے عتاب کا نشانہ بنتی اورپابندیوں کا شکار ہوتی رہیں۔ نجم الدین اربکان کو وزیراعظم کے طور پرایک سال بھی کام کرنے نہیں دیا گیا۔ سیکولر عناصر کی انتہا پسندی اس درجے کو پہنچ گئی کہ اکیسویں صدی کے آغاز میں یونی ورسٹی طالبات کے لیے سکارف ( حجاب) اوڑھنا ممنوع قرار دے دیا گیا۔ ایک خاتون رکن اسمبلی کو سکارف اوڑھنے پر اصرار کی پاداش میں نہ صرف اسمبلی کی رکنیت سے محرو م کر دیا گیا بلکہ اس کی شہریت بھی ختم کردی گئی۔ ملک میں ایسی نامعقول پابندیوں کا ردّعمل اتنا شدید ہوا کہ ۲۰۰۳ء کے انتخابات میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کو( جو سعادت پارٹی ہی کا ایک حصہ یا اس کا ایک فارورڈ بلاک تھا ) زبردست کامیابی حاصل ہوئی اور اب وہی برسرِ اقتدار ہے۔ شکوہ ٭تعارف اور پس منظر ’’شکوہ‘‘ انجمن ِ حمایت ِ اسلام لاہور کے چھبیسویں سالانہ جلسے میں پڑ ھی گئی جو اپریل ۱۹۱۱ء میں ریواز ہوسٹل، اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں منعقد ہوا تھا۔اس اجلاس کی صدارت فقیر سیّد افتخار الدین نے کی تھی۔ ایک شاعر کی حیثیت سے علامّہ اقبال کی شہرت و مقبولیت میں انجمن کے جلسوں کو بڑا دخل ہے۔ ان جلسوں میں نظمیں پڑ ھنے کی ابتدا انھوں نے ۱۹۰۰ء میں کی( ’نالۂ یتیم‘)۔ ۱۹۰۱ء میں’یتیم کا خطاب ہلالِ عیدسے‘ ، ۱۹۰۲ء میں ’اسلامیہ کالج کا خطاب پنجاب سے‘، ۱۹۰۳ء میں ’ ابر گوہر بار‘( فریادِ امت) اور ۱۹۰۴ء میں ’تصویردرد‘ پڑ ھی گئی۔ ۱۹۰۵ء میں اقبال کوئی نظم نہ پڑ سکے اور اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ چلے گئے۔ ۱۹۰۸ء میں یورپ سے واپسی کے بعد اقبال نے انجمن کے سالانہ جلسے میں ’شکوہ‘ پڑھی۔ اس جلسے میں علامّہ کے والد محترم شیخ نور محمد بھی موجودتھے۔ انجمن کے جلسوں کے لیے اقبال جو نظم لکھتے، بالعموم اسے پہلے سے چھپوالیا جاتا ۔ نظموں کی یہ مطبوعہ کاپیاں جلسوں میں فروخت کی جاتیں اور اس کی آمدنی انجمن کو چندے کے طور پر دے دی جاتی مگر’’شکوہ‘‘ پڑھنے سے پیشتر طبع نہیں کرائی گئی تھی ۔ جلسے میں نظم پڑ ھنے سے پہلے اقبالؒ نے ایک قطعہ سنایا اور اس کے بعد ’ شکوہ‘ خلاف ِمعمول تحت اللفظ پڑ ھنا شروع کی ۔ سامعین نے ترنم سے سنانے پر اصرا ر کیا کیونکہ اس سے پہلے وہ اپنی نظمیں ترنّم ہی سے پڑ ھا کرتے تھے۔ اقبال نے جواب دیا: ’’ یہ اسی طرح سنائی جائے گی کیونکہ میں بہتر جانتا ہوں کہ نظم پڑ ھنے کا کون سا طریقہ موزوں ہے‘‘۔ چنانچہ تحت اللفظ پڑ ھی گئی مگر بقول غلام رسول مہر: انداز اس درجہ دل آویز تھا کہ جن خوش نصیبوں نے سنی ، وہ زندگی کے آخری لمحوں تک اسے نہ بھولیں گے۔ (سرودِرفتہ: ص ۶)اس نظم کی جو کاپی اقبال اپنے قلم سے لکھ کر لائے تھے، اس کے لیے متعدد اصحاب نے مختلف رقوم پیش کیں ۔ نواب ذوالفقار علی خاں نے ایک سو روپے کی پیش کش کی اور رقم ادا کرکے اصل نظم انجمن کو دے دی۔ علامّہ اقبال جب نظم پڑ ھ چکے تو ان کے ایک بڑے مد ّاح اور قدر شناس خواجہ صمد آگے بڑھے اور جوش مسرت میں اپنا قیمتی دوشالا ان کے شانوں پر ڈال دیا۔ اقبال نے یہ دوشالا اسی وقت انجمن کے منتظمین کو دے دیا۔ اس کے بعد یہ یادگار اور متبرک دوشالا اس مجمع ِ عام میں نیلام کیا گیا اور سب سے بڑی بولی ختم ہونے پر جو رقم وصول ہوئی ، وہ انجمن حمایت اسلام کی تحویل میں دے دی گئی۔ ( روزگار فقیر اول : ص ۱۲۳) اقبال نے انجمن کے جلسے میں شکوہ جس شکل میں پڑ ھی تھی، بانگِ درا میں شامل کرتے وقت اس میں کئی مقامات پر تبدیلی کی گئی۔ مثلاً: تیرھویں بند کے چوتھے مصرعے کی ابتدائی صورت یہ تھی: تیرے قرآن کو سینے سے لگایا ہم نے سترھویں بند کا پانچواں مصرع ابتدائی شکل میں اس طر ح تھا: طعنِ اغیار ہے ، رسوائی و ناداری ہے پچیسویں بند کا پانچواں مصرع ابتدائی شکل میں اس طرح تھا: پھر پتنگوں کو مذاقِ تپش اندوزی دے بانگِ دراکی اشاعت سے پہلے، یہ نظم مختلف رسالوں، مثلاً:پنجاب ریویو، مخزن، تمدن اورادیبمیں شائع ہوئی تھی۔ متعدد زبانوں ( انگریزی، عربی ، بنگالی، پنجابی) میں اس کے بہت سے تراجم بھی شائع ہوچکے ہیں ۔ ایک آرٹسٹ ضرار احمد کاظمی نے نظم کو مصور کرکے علامّہ کی خدمت میں پیش کیا جسے انھوں نے بہت پسندکیا اور مصور کے نام ایک مکتوب میں اس کی تعریف کی۔ ’’ شکوہ‘‘ کی تالیف ( اوائل ۱۹۱۱ئ) کے زمانے میں سلطنت عثمانیہ کے بہت سے علاقے براہِ راست برطانوی تسلط میں تھے۔ ایران پر عملاً روسی ، برطانوی اور کسی حد تک جرمن اثرات کی حکمرانی تھی۔ ادھر عرب نیشنلزم کے اثرات تیزی سے پھیل رہے تھے۔ لارنس آف عریبیا جیسے لوگ بڑی سرگرمی سے اس کے لیے کام کر رہے تھے اور عرب ، ترکوں کے خلاف آمادۂ بغاوت تھے۔ نوجوان ترکوں کی تحریک کے زیر اثرترکی میں لادینیت اور تورانی قوم پرستی فروغ پار ہی تھی ۔ اندرونی خلفشار کے علاوہ بیرونی طاقتیں عثمانی سلطنت کے لیے نت نئے مسائل کھڑ ے کر رہی تھیں۔ صہیونی ‘ سلطنتِ عثمانیہ کی بر بادی اور خاتمے کے لیے سازشوں میں مصروف تھے۔ ہندی مسلمان یا تو کانگریس کے حاشیہ بردار تھے یا ان میں ( الا ماشاء اللہ)Yours most obedient servantقسم کے رہنما پائے جاتے تھے جو مغرب سے بے حد مرعوب تھے اور سر سیّد تحریک کے زیر اثر وہ اسلام کے بارے میں معذرت خواہانہ اندازِ فکر رکھتے تھے۔ملک پر انگریزوں کی سیاسی گرفت خاصی مضبوط تھی۔ ہندو ؤں کے دباؤ کی وجہ سے ۱۹۱۱ء میں تقسیم بنگال کی تنسیخ سے مسلمانوں کو بے حد صدمہ ہوا اور ان کے اندر مایوسی کچھ اور بڑ ھ گئی۔ فکری جائزہ موضوع کے اعتبار سے’’ شکوہ‘‘ بارگاہِ الٰہی میں دورِ حاضر کے مسلمانوں کی ایک فریاد ہے کہ ہم تیرے نام لیوا ہونے کے باوجود دنیا میں ذلیل و رسوا ہیںاور یہ شکوہ بھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت تو ہم ہیں :’’کچھ بھی ہیں لیکن تیرے محبوب کی امت میں ہیں‘‘ (آغا حشر کاشمیری )مگر انعامات و نوازشات کی بارش غیر مسلموں پر ہورہی ہے۔ گویا علامّہ اقبالؒ نے اس نظم میں عام مسلمانوں کے لاشعوری احساسات کی ترجمانی کی ہے۔ معروف دانش ور ،نقاد اور شاعر سلیم احمد(م: ۱۹۸۳ئ) کے الفاظ میں:’’ ایک طرف ان کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ خدا اور اس کے محبوبؐ کی سب سے چہیتی امت ہیں اور اس لیے خدا کی ساری نعمتوں کی سزاوار، اور دوسری طرف یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ان کا مکمل زوال ہو چکا ہے۔ عقیدے اور حقیقت کے اس ٹکراؤ سے مسلمانوں کا وہ مخصوص المیہ پیدا ہوتا ہے جو ’’ شکوہ‘‘ کاموضوع ہے‘‘۔ (اقبال:ایک شاعر‘ ص ۸۹)اقبال کے اپنے الفاظ میں:’’ وہی بات جو لوگوں کے دلوں میں تھی،ظاہر کر دی گئی‘‘۔ سلسلۂ فکر و خیال کی ترتیب کے مطابق نظم کو مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ہم اس کا مطالعہ و تجزیہ کریں گے: ۱۔ تمہید: اظہارِ شکوہ کی توجیہ بند ۱-۲ ۲۔ امت مسلمہ کا کارنامہ بند ۳-۱۳ ۳۔ مسلمانوں کی حالتِ زبوں بند ۱۴-۱۹ ۴۔ حالتِ زبوں کی وجہ کیا ہے؟ بند ۲۰- ۲۳ ۵۔ کیفیتِ یاس و بیم بند ۲۴-۲۶ ۶۔ دعائیہ اختتام بند ۲۷-۳۱ ٭اظہارِ شکوہ کی توجیہ: نظم کے پہلے دو بند تمہیدی ہیں جن میں اظہارِ شکوہ کی توجیہ بیان کی گئی ہے۔ یہ مسلمانوں کی موجودہ بدحالی اور پستی پر اقبال کے ردّ ِ عمل کا اظہار ہے۔ ان کے خیال میں مسلمان انحطاط کی اس کیفیت کو پہنچ چکے ہیں کہ اس پر خاموش رہنا نہ صرف اپنی ذات بلکہ ملک کے اجتماعی مفادسے بھی غداری کے مترادف ہے۔اس موقع پر قصۂ درد سنانا اگرچہ خلافِ ادب ہے اور نالہ و فریاد کایہ انداز گستاخی کی ذیل میں آتا ہے ، مگر ہم ایسا کرنے پر مجبور ہیں…… خدا مجھے معاف کرے کہ میں ( تسلیم و رضا کا روّیہ اختیار کرنے کے بجاے) اس سے شکوہ کرنے چلاہوں…… کسی لمبے چوڑے پس منظریا غیر ضروری طول طویل تمہید کے بغیر باری تعالیٰ سے براہِ راست گفت گو ، اس اسلامی تصو ّر پر مبنی ہے کہ بندہ اپنے خدا سے بلا واسطہ ہم کلام ہوسکتا ہے۔ قرآن حکیم میں فرمایا:وَقَالَ رَبُّکُمْ اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (سورۃ المومن:۴۰)تمھارا رب کہتاہے: مجھے پکارو، میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا۔ واضح رہے کہ جملہ مذاہب میں یہ انفرادیت صرف اسلام ہی کو حاصل ہے۔ ورنہ ہندو مت اور نصرانیت میں پروہت اور پادری بندے اور خدا کے درمیان واسطہ بنتے ہیں۔ علامّہ اقبال اس روّیے پر احتجاج کرتے ہیں: کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو بدقسمتی سے مسلمانوں کے ہاں بھی اب ایک ایسا طبقہ پیدا ہو گیا ہے جو بندے اور خدا کے درمیان توسّل کا دعویٰ کرکے مذہبی اجارہ داری کے غیر اسلامی تصو ر کو فروغ دے رہا ہے۔ عابد علی عابد کہتے ہیں:’’ اقبال ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پڑ ھنے والوں کو اس طرزِ تخاطب سے آشنا کرنا چاہتا ہے… اقبال نے شکوے کے پہلے دو بندوں ہی میں بات یا موضوعِ سخن کو اس منزل تک پہنچا دیا کہ بعد کی شکوہ سرائی اور گلہ مندی بالکل مو زوں اور مناسب معلوم ہوتی ہے‘‘۔ ( شکوہ، جوابِ شکوہ: ص ۱۱) ٭امت ِ مسلمہ کا کارنامہ: تیسرے بند سے نظم کے اصل موضوع پر اظہارِ خیال کا آغاز ہوتا ہے۔ ۱۳ویں بند تک اقبال نے امت ِ مسلمہ کے عظیم الشان کارناموں کا تذکرہ کرکے دنیا میں اس کی حیثیت و اہمیت کو اجاگر کیا ہے ۔ سب سے پہلے ( بند ۳ تا ۵) دنیا کی حالت اور تاریخ کا منظر پیش کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ : ا: خدا کی ذات ازل ہی سے جملہ سچائیوں سمیت موجود تھی۔ ب: بڑی بڑی قومیں (سلجوقی، تورانی، ساسانی، یونانی، یہودی ، نصرانی ) دنیا پر چھائی ہوئی تھیں اور ان میں سے بعض کی عظیم الشان سلطنتیں بھی قائم تھیں۔ ج:لوگ شجر و حجر کو معبود بناکر شرک اور گمراہی و ضلالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہے تھے ۔ گویا یہ پس منظر ہے امت ِ مسلمہ کے بے نظیر کارناموں کا اور اس سے تاریخ کی اسٹیج پر مسلمانوں کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے۔ اور اب ( بند ۶ تا ۱۳) ان کارناموں کا مفصل بیان ہوتا ہے۔ اقبال بتاتے ہیں کہ ساری دنیا میں یہ شرف صرف مسلمانو ں کو حاصل ہے کہ انھوں نے خدا کے پیغام کو دنیا کے دور دراز کونوں تک پہنچا دیا ۔ روم و ایران کی فتح ان کا حیرت انگیز کارنامہ تھا۔ ان کی محنت و کاوش اور ہمت کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا میں ہر طرف جَآئَ الْحَقُّ وَ زَہَقَ الْبَاطِلُکا سماںنظر آنے لگا۔ نظم کے اس حصے میں اقبال نے تاریخ اسلام کے جن ادوار و واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے ، مختصراً ان کی وضاحت ضروری ہے: ’’دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں‘‘ کا اشارہ سلطنت عثمانیہ کے اس دور کی طرف ہے۔جب مسلمانوں کی سلطنت یونان، البانیہ، بلغاریہ، ہنگری اور آسٹریا تک پھیلی ہوئی تھی۔ پھر اس زمانے کا تصو ّر کیجیے جب اٹلی کے کچھ حصوں اور سپین پر بھی مسلمانوں کی حکومت تھی۔ یورپ کے ان علاقوں میں جہاں آج کلیساؤں میں ناقوس بجتے ہیں ، کبھی ہماری اذانیں گونجتی تھیں۔ اسی طرح افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں کا علاقہ مصر، لیبیا، تیونس، الجزائر ، مراکش وغیرہ بھی مسلم سلطنت میں شامل تھا ۔ ’’شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہاںداروں کی‘‘ کی عملی تفسیر اس واقعے میں ملتی ہے جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلم وفد کے قائد ربعی بن عامر‘ ایرانی سپہ سالار رستم سے گفت و شنید کے لیے اس کے دربار میں گئے تو ایرانیوں نے مسلمانوں کو مرعوب کرنے کے لیے دربار کو بڑے سازوسامان سے سجا رکھا تھا۔ ربعی اپنے نیزے سے قیمتی قالین کو چھیدتے ہوئے درباری ہیبت سے بے پروا ہو کر تخت کے قریب جا پہنچے اورنیزہ زمین پر مارا جو قالین کو چھیدتا ہوا زمین میںگڑ گیا۔ ساتویں بند میں بت فروشی اور بت شکنی کی تلمیح سلطان محمود غزنوی کے عظیم الشان تاریخی کارنامے فتح سومنات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ محمود نے ہندو پجاریوں کی رشوت کو ٹھکراتے ہوئے سومنات کے بت کو پاش پاش کر دیا اور کہا:’’ میں بت فروش کی بجاے بت شکن کہلانا پسند کروں گا‘‘۔ ایاز محمود کا چہیتا غلام تھا۔ درِ خیبر اکھاڑنے کا واقعہ ( بند ۹) دورِ نبویؐ میں پیش آیا ۔ خیبر یہودیوں کا قلعہ تھا جو حضورؐ کی سرکردگی میں حضرت علیؓ کے ہاتھوں فتح ہوا۔ ’’ شہر قیصر‘‘ سے مراد قسطنطنیہ (موجودہ نام استامبول)ہے جو مسلمانوں نے سلطان محمد فاتح کی سرکر دگی میں ۱۴۵۳ء میں فتح کیا ۔ ایران کے مجوسی آگ کی پوجا کرتے تھے ۔ مسلمانوں نے ایران کو فتح کرکے مجوسیت کا خاتمہ کیا اور آتش کدۂ ایران کو ٹھنڈا کر دیا۔ بحر ظلمات سے مراد بحر اوقیانوس (Atlantic) ہے ۔’’ بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے‘‘ یہ اشارہ ہے اس معروف واقعے کی طرف جب ایک مسلمان مجاہد عقبہ بن نافع نے افریقہ کے آخری سرے تک پہنچ کر اپنے گھوڑے کو بحر اوقیانوس میں ڈال دیا اور بڑی حسرت سے کہا:’’ خدیااگر یہ بحر ذخّار درمیان میں حائل نہ ہوتا تو تیرے راستے میں جہاد کرتا ہوا اسی طرح آگے بڑ ھتا ہو ا چلا جاتا‘‘۔ یہ جگہ مراکش میں شرف العقاب کے نام سے موسوم ہے۔ ٭مسلمانوں کی حالتِ زبوں: امت ِ مسلمہ کے درخشندہ ماضی کی جھلکیاں دکھاتے ہوئے سلسلۂ خیال مسلمانوں کی موجودہ حالت کی طرف مڑ جاتا ہے ۔ یہاں اقبال نے دوسری قوموں سے ان کا موازنہ کرکے ان کی موجودہ حالت زبوں کو نمایاں کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ دنیا میں مسلمان ہر جگہ ہی غیر مسلموں کے مقابلے میں حقیر، ذلیل اور رسوا ہیں۔ دوسری قومیں ان پر خند ہ زن ہیں ۔ نظم کے اس حصے میں صحیح معنوں میں گلے اور شکو ے کا رنگ پایا جاتاہے۔ اقبال نے مسلمانوں کی بے بسی و بے چارگی کا واسطہ دے کر خداسے پوچھا ہے کہ توحید کے نام لیواوں پر پہلے جیسا لطف وکرم کیوں نہیں؟۔اس کے ساتھ ہی شاعر نے ایک طرح کی تنبیہ بھی کی ہے کہ اگریہ سلسلہ جاری رہا تو دنیا توحید کے نام لیواوں سے خالی ہوجائے گی اور ڈھونڈے سے بھی ایسے عشاقانِ توحید کا سراغ نہیں ملے گا۔ ٭حالتِ زبوں کی وجہ کیا ہے؟ اب ( آغاز بند ۲۰) اقبال اس حالت زبوں کا سبب دریافت کرتے ہیں۔ مسلمان آج بھی خداکے نام لیوا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار ہیں۔ آج بھی ان کے دلوں میں اسلام کے بارے میں ایک زبردست جوش و جذبہ اور کیفیت عشق موجود ہے ۔ اقبال متاسف ہیں کہ اس کے باوجودعنایات خداوندی سے محروم ہیں۔ نظم کے اس حصے میں ( بند ۲۰- ۲۳) میں اقبال نے بہت سی تلمیحات استعمال کی ہیں۔ لیلیٰ ، قیس، دشت و جبل، شورِ سلاسل، اور دیوانہ نظارۂ محمل کی تراکیب و تلمیحات مشہور تاریخی کردار قبیلۂ بنو عامر کے قیس مجنوں سے متعلق ہیں۔ روایت ہے کہ قیس بنی عامر لیلیٰ کے عشق میں دیوانہ ہو کر نجد کے صحراوں میں کی خاک چھانتا پھرتاتھا۔شاعری میں بکثرت استعمال کے سبب ان تلمیحات کے مفاہیم و معانی میں بہت گہرائی اور وسعت پیدا ہو چکی ہے۔ اقبال کے بعض شارحین نے ’’ نجد کے دشت و جبل میں رمِ آہو بھی وہی‘‘ میں ’’ رمِ آہو‘‘ سے صفا مروہ کی سعی مراد لی ہے جو حج کا ایک رکن ہے۔ حضرت سلمان فارسیؓ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی تھے۔ اویس قرنی ؒ مشہور تابعی ہیں جنھیں اگرچہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب نہ ہوسکی ، مگر آپؐ سے غایت درجہ محبت و شیفتگی رکھتے تھے ۔ ۳۷ھ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ہونے والی ایک جنگ میں شہید ہوئے۔ حضرت بلالؓ حبشی آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے برگزیدہ صحابی اور مؤذن رسولؐ تھے۔ شدید ترین دورِ ابتلا میں بھی ان کے پاے ثبات میں لغزش نہیں آئی اور وہ توحید پر قائم رہے۔ کفار انھیں دوپہر کے وقت تپتی ریت پر لٹا کر سینے پر بھاری پتھر رکھ دیتے اور ترک اسلام پر زور دیتے مگر وہ اس حالت میں بھی اَحَدٌ اَحَدٌپکار تے رہتے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عشق تھا۔ فاران، سعودی عرب میں واقع ایک پہاڑ کا نام ہے۔ ’’ سرِفاراں پہ کیا دین کو کامل تونے‘‘ سے مراد ہے کہ دین کی تکمیل خطۂ عرب میں ہوئی۔ اشارہ ہے قرآن حکیم کی اس آیت کی طرف جس میں فرمایا گیا: اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (سورۃ المائدہ: ۳)آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پرتمام کر دی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔ ٭کیفیت ِیاس و بیم: ۲۴ ویں بند سے اقبال کا لہجہ مائل بہ یاس ہے۔ یہ دوبند ( ۲۴، ۲۵) دراصل نظم کے اس حصے کا تتمّہ ہیں جس میں مسلمانوں کی حالتِ زبوں کو بیان کیا گیا ہے۔ یہاں شاعر نے مسلمانوں کی بدحالی ، بے چارگی اور بے بسی کاذکر ایک مایوسانہ انداز میں کیا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہاںامید و بیم کی ایک کیفیت(بند ۲۶) بھی موجود ہے ۔ شاعر معتر ف ہے کہ مایوسی اور تاریکی کے اس دور میں بھی مسلمانوں کے دلوں میں ایمانی حرارت کی دبی دبی چنگاریاں سلگ رہی ہیں اور وہ اسلامی نشاتِ ثانیہ کے لیے بے چین و مضطرب ہیں۔ اب اس حصے سے نظم خاتمے کی طرف چلتی ہے۔ ٭دعائیہ اختتام یاس و بیم کی اس صورت حال کا نتیجہ غیر یقینی ہے۔ مگر اقبال کی خواہش یہ ہے کہ دورِ حاضر کے مسلمانوں کے دل پھر دینی جوش و جذبے سے لبریز ہو جائیں۔ کوہ ِ طور پر تجلیاتِ الٰہی پھر نازل ہوں کیونکہ طور، نورِ خدا کی آگ میں جلنے کے لیے بے تاب ہے یعنی مسلمان اسلامی شوکت و عروج کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ ( طور جزیرہ نماسینا میں واقع ایک سلسلۂ کوہ کی ایک اونچی پہاڑی کا نام ہے جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام، اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوتے تھے۔) نظم کے آخری حصے میں شاعر کی یہ آرزو ایک دعا کی شکل میں ڈھل جاتی ہے ۔ دعا کا یہ سلسلۂ خیال ۲۷ ویں شعر سے شروع ہو کر نظم کے آخری شعر تک چلتا ہے۔ امت ِ مسلمہ کو جن مسائل و مشکلات کا سامنا ہے ، اقبال ان کے حل کے لیے دعا گو ہیں۔ ’’ امت ِ مرحوم‘‘ کی ترکیب بہت معنی خیز ہے۔ مراد یہ ہے کہ مسلمان بحیثیت ایک قوم کے مردہ ہو چکے ہیں ۔ ان کی حیثیت سلیمان علیہ السلام کے مقابلے میں ’’ مورِ بے مایہ ‘‘ کی سی ہے۔ شاعر کی آرزو ہے کہ یہ کم حیثیت اور فرومایہ قوم انگڑائی لے کر اٹھ کھڑی ہو اور کارگہِ دنیا میں ترقی یافتہ اقوام جیسا بلند مقام حاصل کر لے۔ ( قرآن پاک کی سورۃ النمل میں حضرت سلیمان علیہ السلام اور چیونٹی کا قصہ مذکور ہے۔ ) ہند کے ’’ دیر نشینوں‘‘ سے مراد یہ ہے کہ ہندی مسلمانوں نے اپنے بہت سے معاملات و معمولات اور ثقافت و تمدن میں ہندوؤں کے طور طریقوں اور رسوم و رواج کو اپنا لیا ہے۔ اقبال نے نظم کے اس آخری حصے میں یہ دعا ضرور کی ہے کہ مسلمانوں کا مستقبل روشن اور خوش آیند ہو اور ہونا چاہیے مگر یہ نہیں کہا کہ ’’ ہوگا‘‘۔ یعنی تیقن کے ساتھ امید نہیں دلائی کہ فی الواقع سنہرا مستقبل ان کا منتظر ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ’’ شکوہ‘‘ کا دور دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے انتہائی پُر آشوب زمانہ تھا اور مستقبل کے بارے میں کسی طرح کی حتمی پیش گوئی مشکل تھی۔ مجموعی طور پر حالات مایوس کن تھے ۔ چند ماہ بعد ہی ستمبر ۱۹۱۱ء میں اٹلی نے طرابلس پر حملہ کرکے مسلمانوں کو ایک اور چرکا لگایا۔ اسی مایوسی کے پیش نظر اقبال کو خدا سے’’ شکوہ‘‘ کرنا پڑا ۔ مایوسی کا ایک انداز یہ ہے کہ : اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں داغ جو سینے میں رکھتے ہوں وہ لالے ہی نہیں یعنی مسلمانوں میں درد مند اہل دل شا ذ ہیں اور احیاے اسلام کی پکار پر کوئی توجّہ ہی نہیں دیتا۔ اس حصے میں اقبال نے ’’ بلبلِ تنہا‘‘ کا تذکرہ بھی کیا ہے جو اب تک محوِ ترنم ہے ، وہ اپنی ’’ بانگِ درا‘‘ سے اہل چمن کے دلوں کو چاک کر دینا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ بلبل سے مراد اقبال کی اپنی ذات ہے ۔ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ اس عالم یاس میں بھی ، مسلم نشأتِ ثانیہ اور احیاے دین کے لیے مجھ سے جو خدمت ہو سکتی ہے، اسے بجالا نے کے لیے کوشاں ہوں۔ اگرچہ میں تنہا ہوں اور کوئی شخص میری آوازپر کان نہیں دھرتا : کاش گلشن میں سمجھتا کوئی فریاد اس کی فنی تجزیہ ’’شکوہ‘‘ مسدس ترکیب بند ہیئت کے ۳۱ بندوں پر مشتمل ہے۔ بحر کا نام بحر رمل مثمن مخبون مقطوع ہے۔ بحر کے ارکان یہ ہیں: فَاعِلَاتُنْ فَعِلَاتُنْ فَعِلَاتُنْ فِعْلُنْ اقبال کی طویل نظموں میں ’’شکوہ‘‘ ایک منفر د مقام رکھتی ہے۔ یہ پہلی طویل نظم ہے جس میں اقبال نے مسلمانوں کے دورِ عظمت و شوکت اور ان کی مو جودہ زبوں حالی کو ایک ساتھ نہایت فن کارانہ انداز میں بیان کیا ہے ۔انداز شکوے کا ہے اور شکوہ بھی اللہ سے۔ اردو کا شعری سرمایہ اس انداز سے بالکل ناآشنا تھا۔ بقول ماہر القادری: اک نئی طرز، نئے باب کا آغاز کیا شکوہ اللہ کا، اللہ سے بصد ناز کیا شاعر نے نظم کا آغاز بہت سلیقے اور ہنر مندی سے کیا ہے ۔ اصل موضوع پر آنے سے پہلے اقبال نے اظہارِ شکوہ کی توجیہ پہلے دو بندوںمیں کر دی ہے تاکہ ایک نیا اور نادر موضوع اچانک سامنے آنے پر قاری کو جھٹکامحسوس نہ ہو۔ ٭لہجے کا تنوع: کسی برگزیدہ اور برتر ہستی کے سامنے شکوہ کرنے والا اپنی معروضات پیش کرتے ہوئے ،حسب ِ ضرورت مختلف انداز اختیار کرتا ہے۔ چنانچہ اقبال کے شکوے کا لہجہ بھی متنوع ہے۔ کہیں عجز و نیاز مندی ہے ، کہیں اپنی غیرت و انا کا احساس ہے،کہیں تندی و تلخی اور جوش ہے ، کہیں تاسف و مایوسی کا لہجہ ہے اور کہیں زاری و دعا کا انداز ہے۔ ٭نفسیاتی حربے: اقبال کے فن کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے نظم میں بعض مقامات پر نفسیاتی حربوں سے کام لیتے ہوئے ایک ہی بیان سے دہرا کام لیا ہے۔ ۱۵ ویں بند کے آخری شعر سے نظم کا وہ حصہ شروع ہوتا ہے، جہاں شاعر خدا سے اس کی بے اعتنائی اور بے نیازی کا گلہ شکوہ کررہا ہے۔ اس کے ساتھ وہ کہتا ہے: خندہ زن کفر ہے، احساس تجھے ہے کہ نہیں ؟ اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں؟ ______ پھر نہ کہنا ہوئی توحید سے خالی دنیا ______ ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے ______ کیا ترے نام پر مرنے کا عوض خواری ہے؟ اس طعن آمیز انداز سے مخاطب کی انا اور غیرت کو جھنجھوڑ کر یہ احساس دلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ میرا نہیں، تمھارا مسئلہ ہے۔ نفسیاتی حربے کی ایک اور مثال یہ ہے کہ بند ۱۶-۲۲ میں شاعر بظاہر خدا سے بے اعتنائی کا سبب پوچھ رہا ہے مگر بیان اور سوال کا انداز ایسا ہے کہ شکوہ کرنے والے کی اپنی کمزوریاں ظاہر ہو رہی ہیں، مثلاً :’’کیوں مسلمانوں میں ہے دولتِ دنیا نایاب؟‘‘کہتے ہوئے شکوہ کرنے والے کا حریص اورلالچی ہونا ثابت ہورہا ہے۔ اسی طرح:’’طعن ِ اغیار ہے، رسوائی ہے ، ناداری ہے‘‘سے پتا چلتا ہے کہ شاکی کو اپنی بد اعمالیوں اور خامیوں کا احساس نہیں اور نہ اٍس پر وہ شرمندہ ہے۔ اس کے لیے تو صرف لوگوں کی اٹھتی ہوئی انگلیاں وجہِ تکلیف بن رہی ہیں۔ شاکی کی ذہنی کیفیت اس سے بھی واضح ہوتی ہے کہ ایک طرف تو اسے غیروں کے خزانے معمور ہونے پر کوئی شکایت نہیں۔ ’’یہ شکایت نہیں ، ہیں ان کے خزانے معمور‘‘اور دوسری طرف وہ اپنے دل میں دولتِ دنیا کی حرص بھی رکھتا ہے ’’کیوں مسلمانوں میں ہے دولتِ دنیا نایاب‘‘۔ یہ اندازِ بیان دراصل مسلمانوں کے دل میں احساسِ زیاں اور غیرت ملی پیدا کرنے کی فن کارانہ کوشش ہے۔ نفسیاتی حربے کی ایک مثال ۲۲ ویں بند میں ملتی ہے۔ پہلے چار مصرعوں میں شاکی نے دبے دبے الفاظ میں اپنی کوتاہی کا اعتراف کیا ہے۔ مگر وہ اس اعتراف کا علانیہ اظہار نہیں کرتا اور کرے بھی تو کیسے؟ اس طرح تو اس کا اپنا موقف کمزور ہوگا۔ لہٰذا وہ اپنی کمزوری سے توجّہ دوسری طرف منعطف کرانے کے لیے فوراً ( نفسیاتی حربے سے کام لیتے ہوئے) مخاطب کو طعنہ دیتا ہے کہ تم غیروں سے شناسائی رکھنے والے ہر جائی ہو۔ ٭ تغزل: اقبال بھی دیگر ہم عصر شعرا کی طرح ابتدا میں ایک غزل گو شاعر تھے اور داغؔ سے باقاعدہ اصلاح لیتے تھے ۔ رفتہ رفتہ ان کی طبیعت غزل سے ہٹ کر نظم کی طرف مائل ہو تی گئی۔ فنی اعتبار سے غزل اور نظم میں واضح فرق ہے ۔ مگر اقبال نے غزل گوئی سے دست کش ہونے کے باوجود غزل کی روح کو اپنی نظموں میں بھی برقرار رکھا۔ اقبال کی طبیعت کا شاعرانہ مزاج جسے غزل اور تغزل کے ساتھ ایک فطری مناسبت اورطبعی لگاؤ ہے، اس نظم میں بار بار اپنی جھلک دکھاتا ہے ۔ بعض مقامات پر اس کا اظہار بہت بھر پور ہے: تیری محفل بھی گئی، چاہنے والے بھی گئے شب کی آہیں بھی گئیں، صبح کے نالے بھی گئے دل تجھے دے بھی گئے، اپنا صلہ لے بھی گئے آکے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے آئے عشاق ، گئے وعدۂ فردا لے کر اب انھیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر بعض اشعار کو اگر نظم کے سیاق و سباق سے الگ کرکے دیکھا جائے تو وہ خالص غزل کے اشعار معلوم ہوتے ہیں: کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے بات کہنے کی نہیں، تو بھی تو ہرجائی ہے بادہ کش غیر ہیں گلشن میں لب ِ جُو بیٹھے سنتے ہیں جام بکف نغمۂ کوکو بیٹھے وادیِ نجد میں وہ شورِ سلاسل نہ رہا قیس دیوانۂ نظارۂ محمل نہ رہا ٭ایجاز و بلاغت: ’’شکوہ‘‘ کے بعض حصے ، اشعار اور مصرعے ایجاز و بلاغت کا شاہ کار ہیں ۔ تاریخ کے طول طویل ادوار، اہم واقعات و روایات اور مختلف کرداروں کی تفصیلی خصوصیات کو بڑ ے بلیغ انداز میں نہایت ہی اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، چند مثالیں: دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں تو ہی کہہ دے کہ اکھاڑا درِ خیبر کس نے؟ شہر قیصر کا جو تھا اس کو کیا سُر کِس نے؟ بحرِ ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے ______ ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز ______ مور بے مایہ کو ہم دوشِ سلیماں ؑکر دے ٭چند محسناتِ شعر: ’’ شکوہ‘‘ ہمہ پہلو حسن زبان و بیان کا شاہکار ہے۔ انتخاب الفاظ، بندش تراکیب، صنعت گری ، حسن تشبیہ و استعارہ ، مناسب بحر، موزوں قوافی ، وسعت معانی اور زبان و بیان کی خوبیوں کے سبب نظم اس قدر دل کش اور جذبہ انگیز ہے کہ قاری کے دل کو متاثر و متحرک کیے بغیر نہیں رہتی ۔ مسلمانوں کی بدحالی و پستی کو حالیؔ نے بھی اپنی مسدس میں بیان کیا ہے مگر اقبال کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے تذکرے کا سپاٹ انداز اختیار کرنے کے بجاے شکوہ کا جدید انداز اختیار کیا ہے۔ اس جدتِ بیان نے ’’ شکوہ‘‘ کو ایک یادگار نظم بنادیا ہے۔ عابد علی عابد لکھتے ہیں : ’’ اقبال کی طویل نظموں میں ’’ شکوہ‘‘ کئی طرح سے اہم اور معنی خیز ہے ۔ اس کی ساخت یا تشکیل میں اقبال نے پہلی بار اس صنعت گری کی ایک جھلک دکھائی ہے جسے بعد کی نظموں میں عروجِ کمال پر پہنچنا تھا ۔ دوسرے یہ کہ اس نظم میں محسنات شعر کا استعمال ایسی چابک دستی اور ہنر مندی سے ہوا ہے کہ پڑ ھنے والے کی توجّہ بیشتر مطالب ہی پر مرکوز رہتی ہے‘‘۔ (شکوہ، جوابِ شکوہ: ص۷) الف:صنعت گری: ۱: صنعت مراعاۃ النظیر: ( ایسے الفاظ کا استعمال جن کو آپس میں سواے تضاد کے کوئی اور نسبت ہو ) : نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں ہم نوا، میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں سازِ خاموش ہیں فریاد سے معمور ہیں ہم نالہ آتاہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم ۲۔ صنعتِ ترافق: ( جس مصرع کو چاہیں پہلے پڑ ھیں اور معنی میں کوئی فرق نہ آئے): نقش، توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے ۳۔ صنعت ترصیع: ( دو مصرعوں کے تمام یا زیادہ الفاظ کا ہم قافیہ ہونا) : کس نے ٹھنڈا کیا آتش کدۂ ایراں کو کس نے پھر زندہ کیا تذکرۂ یزداں کو ۴: صنعت تلمیح: ( کسی مشہور واقعے ، کہانی ، انسان ، آیتِ قرآنی یافنی اصطلاح وغیرہ کی طرف اشارہ کرنا) : ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمودو ایاز نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز ۵۔ صنعت طباق ایجابی: ( دو ایسے الفاظ کا استعمال جو معنی کے اعتبار سے ایک دوسر ے کی ضد ہوں ) : آئے عشاق، گئے وعدۂ فردا لے کر اب انھیں ڈھونڈھ چراغِ رخِ زیبا لے کر قوم اپنی جو زرو مالِ جہاں پر مرتی بت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں کرتی ب: تصویر کاری: تصویر کاری (Imagery)کی بہت سے مثالیں زیر مطالعہ نظم میں موجود ہیں : آگیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز قبلہ رو ہو کے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز عہدِ گل ختم ہوا ، ٹوٹ گیا سازِ چمن اُڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پردازِ چمن ایک بلبل ہے کہ ہے محوِ ترنم اب تک اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک ج: تشبیہ:’’شکوہ‘‘ میں متعدد خوب صورت تشبیہیں ملتی ہیں مثلاً: نظم کے ۲۷ ویں بند کے پہلے شعر میں، اقبال نے امت ِ مسلمہ کو ’’ مورِ بے مایہ ‘‘ سے تشبیہ دی ہے جو حد درجہ بلیغ ہے ۔ فی الواقع مسلمانوں کی حالت اس بے کس چیونٹی کی سی ہو چکی ہے جسے دنیا کی ہر قوم اور ہر گروہ جب چاہے ، روندتا اور مسلتا ہوا گزر جائے۔ مسلمان چیونٹی کی مانند کوئی مزاحمت یا روک ٹوک نہیں کرسکتے۔ غرض ’’شکوہ‘‘ اقبال کے ابتدائی دور کی نظم ہونے کے باو جود فنی خوبیوں اور شعری محاسن سے مالا مال ہے۔ عابد علی عابد اس کی وجہ یہ بناتے ہیں کہ ’’ اقبال ؒ کو آغازِ کار ہی میں ایسے ایسے اساتذہ کی صحبت میسر آئی جو مشرق کے اسلوب انتقاد کے ماہر تھے اور علوم شعری کے راز دار تھے۔ چنانچہ انھی کے فیضان سے اقبالؒ کو معانی، بیان اور بدیع کے تمام اسرار و رموز سے کامل آگاہی ہو گئی اور اس کی یہی بصیرت تھی جو آخر ہر شعری کاوش میں صنعت گری کا روپ دھار کر نمودار ہوئی… اقبال کے کلا م میں صنعت گری کا وہ اسلوب مخصوص بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے جو مشرقی علوم شعر ہی سے منسوب ہے اور مغربی رنگ بھی جھلکتا ہے۔ کہیں کہیں دونوں میں ایسا امتزاج پیدا ہو گیا ہے کہ باید و شاید۔ (شکوہ ، جوابِ شکوہ: ص۲۳-۲۴) شکوہ کا ردّ ِ عمل ’’شکوہ ‘‘بالکل انوکھی قسم کی نظم تھی، اس لیے ملک کے طول و عرض میں نہایت وسیع پیمانے پر مقبول ہوئی۔ علامّہ اقبال نے ایک موقع پر بتایا کہ کئی ہزار خطوط اس کی تعریف میں آچکے ہیں(روداد ستائیسواں سالانہ جلسہ انجمن، ۱۶ اپریل ۱۹۱۲ء ص:’’ب‘‘ بحوالہ: اقبال اور انجمن حمایت اسلام، ص ۸۳) عوام و خواص کی توجّہ کا مرکز بنتے ہی بہت جلد اس کا ردّ ِ عمل سامنے آیا: دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے (سب سے اہم ردّ ِ عمل تو خود اقبال کا تھا۔ جوابِ شکوہ کی شکل میں)عوام کا تأثر بالعموم پسندیدگی کا تھا، تاہم بعض حلقوں نے اسے خدا کے حضور گستاخی قرار دیا۔ ردّ ِ عمل کے دونوں پہلوؤں کو مختلف شعرا نے منظوم صورت میں پیش کیا۔ جو نظمیں لکھی گئیں ، ان کی کسی قدر تفصیل ڈاکٹر سید قمقام حسین جعفری کے مضمون ’’ شکوہ اور جوابِ شکوہ‘‘ (ادبی دنیا : اپریل مئی ۱۹۷۱ئ) میں دیکھی جا سکتی ہے۔ تمام جوابی نظموں کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ امت ِ مسلمہ مذہب سے رو گردانی کے سبب موجودہ حالتِ زار کو پہنچی ہے۔ اب اصلاحِ احوال کی صورت یہی ہے کہ وہ اپنے اعمال و کردار کو درست کرے۔ شکوہ اور واسوخت اردو کے قدیم واسوخت ، حالی کی مسدّس ’’ مد و جزر اسلام‘‘ اور اقبال کا ’’شکوہ‘‘ مسدس ہیئت میں لکھے گئے ہیں، تاہم ہیئت کی یکسانیت سے قطع نظر تینوں میں واضح فرق نظر آتا ہے۔ واسوخت اور ’’ شکوہ‘‘ میں ظاہری مماثلت بہت نمایاں ہے۔ لب و لہجے اور تنظیم و ترتیب کے اعتبار سے بھی شکوہ میں واسوخت کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ سر عبدالقادر لکھتے ہیں:’’ہم شکوۂ اقبال کو واسوخت ہی قرار دے سکتے ہیں ۔ ہر چند کہ اقبال کا مخاطب محبوبِ حقیقی ہے اور ان کی شکوہ سنجی، حدود و قیود سے بہت ہی کم آگے بڑھی ہے لیکن نظم کے بناؤسنگار کے اعتبار سے واسوخت سے قریب ہے‘‘۔( نذر اقبال: ص ۱۴۹) سرعبدالقادر نے آگے چل کر بعض مثالوں کے حوالے سے میرؔ کے واسوخت اور ’’شکوہ‘‘ کی باہمی مماثلت دریافت کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’مجازی اور حقیقی محبوب کے اختلاف کے باوجود، مذکورہ بالا اشعار میں میرؔ اور اقبال کی لَے مل جاتی ہے۔ معنوی اعتبار سے وہ ایک دوسرے کے ضمیمے نظر آتے ہیں۔(نذر اقبال:ص ۱۵۳) اس میں شبہہ نہیں کہ میرؔ کے واسوخت اور ’’شکوہ‘‘ کے بعض مصرعوں، اشعار اور کئی بندوں میں میرؔ اور اقبالؔ کے ہاں یکسانیت کا احساس ہوتا ہے ۔ ( ممکن ہے کہ شکوہ کی تشکیل و تحریر کے زمانے میں میرؔ کی واسوخت غیر شعوری طور پر اقبال کے ذہن پر اثر انداز ہوئی ہو۔ بہر حال اکابرِ ادب کے ہاں اس طرح کی مماثلتوں کا پایاجانا انوکھی بات نہیں) تاہم معنوی اعتبار سے ان میں نمایاں فرق ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ میرؔ محبوب مجازی سے نہایت بے تکلفانہ انداز میں مخاطب ہوئے ہیں، قدرے تلخ و ترش لہجے میں اس سے برہمی کا اظہار کرتے ہیں اور پھر اس سے علاحدگی اختیار کرنے کی دھمکی بھی دیتے ہیں ۔ اقبال کے لیے یہ لہجہ اپنانا مشکل تھا۔ ان کا خطاب ذاتِ باری تعالیٰ سے ہے اس لیے ’’ شکوہ‘‘ میں انھوں نے احترام و تقدیس کی ایک خاص سطح برقرار رکھی ہے ۔ مزید برآں میرؔ کی واسوخت ایک لحاظ سے شخصی جذبات و احساسات کا اظہار ہے ( یہ الگ بات ہے کہ ان کی تعمیم بھی کی جا سکتی ہے) اور اس کی نوعیت ایک ذاتی واسوخت کی ہے۔ برعکس اس کے ’’ شکوہ‘‘ کا موضوع اجتماعی ہے۔ یہ کسی ایک فرد کی شخصی سوچ کے بجاے پوری امت ِ مسلمہ کے ذہن کی عکاسی ہے۔ ’’شکوہ‘‘ کی ہیئت روایتی ہے تاہم اپنی معنوی انفرادیت اور اسلوب کی ندرت کے اعتبار سے قدیم ادب میں ایسی شاعری کی مثال نہیں ملتی۔ ’’شکوہ‘‘ ایک اعتبار سے امت ِ مسلمہ کا مرثیہ ہے اور یہ امر قابلِ توجّہ ہے کہ ’’شکوہ‘‘ کے لیے اقبالؔ نے مسلمہ طور پر اردو مرثیے کی روایتی ہیئت (مسدس) کا انتخاب کیا۔ حواشی ۱۔ سلجوقی ، ترکمانوں کے ایک سربرآوردہ قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ سلجوقیوں نے اسلام قبول کر لیا تو انھیں بہت عروج حاصل ہوا ۔ عباسیوں کے زوال کے بعد سلجوقیوں نے ممالکِ اسلامیہ کے بیشتر حصے کو ایک مرکز پر جمع کیا۔ ان کا دورِحکومت گیارھویں سے تیرھویں صدی عیسوی تک پھیلا ہوا ہے۔ طغرل، الپ ارسلان ، ملک شاہ ، محمد اور سنجر نامور حکمران گزرے ہیںجو سلاجقۂ عظام کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کی حکومت دریاے سیحون سے دریاے فرات تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس علاقے میں سلجوقیوں کے عہد میں کامل امن و امان رہا۔ اسلامی دنیا نے علمی اعتبارسے اس عہد میں بہت ترقی کی۔ اس زمانے کے اکابر علم و ادب میں غزالی، رومی ، عمر خیام ، عبدالقادر جیلانی ، انوری، نظامی ، خاقانی ، زمخشری اور جریری شامل ہیں۔ ۲۔ ساسانی خاندان نے ۲۲۶ء سے ۶۵۱ء تک ایران پر حکومت کی۔ نوشیرواں عادل، خسرو پرویز اور بہرام گور اسی خاندان کے بادشاہ تھے۔ آخری فرماں روا یزدجر سوم کے عہد میں مسلمانوں نے ایران فتح کرکے ساسانیوں کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ جوابِ شکوہ ٭تعارف اور پس منظر انجمن حمایت اسلام لاہور کے جلسے میں ’’ شکوہ‘‘ پڑ ھی گئی تو وسیع پیمانے پر اس کی اشاعت ہوئی۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ ’’شکوہ‘‘ کا انداز اور لہجہ قدرے گستاخانہ ہے۔چنانچہ اس کی تلافی کے لیے، اور یوں بھی شکوہ ایک طرح کا سوال تھا جس کا جواب اقبالؔ ہی کے ذمے تھا، ڈیڑھ سال بعد انھوں نے ’’جوابِ شکوہ ‘‘لکھی۔ یہ ۳۰ نومبر ۱۹۱۲ء کو ایک جلسۂ عام ( بہ سلسلہ امدادِ مجروحینِ بلقان) میں پڑ ھی گئی جو نمازِ مغرب کے بعد باغ بیرون موچی دروازہ منعقد ہوا تھا۔ میاں عطاء الرحمن کی روایت ہے کہ جب اقبال کے مد ّاحوں کوخبر ملی کہ انھوں نے ’’شکوہ‘‘ کا جواب لکھا ہے تو اس خبر سے ہر طرف جوش امید پھیل گیا اور شاید اسی سے فائدہ اٹھانے کی غرض سے مولانا ظفر علی خاں زمیندار والوں نے موچی دروازے کے باہر باغ میں ایک عظیم الشان جلسے کا اہتمام کیا اور اعلان ہوا کہ اس میں اقبال کی نظم ہوگی ۔ شایقین کا ایک جمّ غفیر باغ کے پنڈال میں جمع ہوا ۔ میں خود اس جلسے میں موجود تھا۔ اقبال نے نظم پڑھی۔ہر طرف سے بے پناہ داد ملی۔ ایک ایک شعر نیلام کیا گیا اور ایک گراں قدر رقم بلقان فنڈ کے لیے جمع ہو گئی۔ ( سیارہ ،اقبال نمبر :۱۹۷۷ئ،ص ۱۰۹) ’’شکوہ‘‘ کی طرح زیر مطالعہ نظم کے ترجمے بھی کئی زبانوں میں ملتے ہیں۔ ضرار احمد کاظمی آرٹسٹ نے اس نظم کو بھی مصور کیاتھا۔ نظرثانی میں اس کے بعض اشعار میں ترمیم کی گئی اور کئی بند نظم سے خارج کر دیے گئے۔ بعض بندوں کی ترتیب بھی بدل دی۔ سرود رفتہ میں چارخارج شدہ بند ملتے ہیں۔ ’’ جوابِ شکوہ‘‘ اور ’’ شکوہ‘‘ کے درمیان ڈیڑ ھ سال کا وقفہ ہے۔ یہ عرصہ دنیا کے مسلمانوں کے لیے نئے مصائب اور نئی پریشانیاں ساتھ لایاتھا۔ جنگ ہاے بلقان (۱۳- ۱۹۱۲ئ) اور کان پور میں شہادتِ مسجد کے دردناک واقعات نے ہندی مسلمانوں کو افسردہ اور دل گرفتہ کر دیا تھا۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے : یورپ کی مسیحی طاقتیں ترکی کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کا زیادہ سے زیادہ حصہ خصوصاً ترکی کا یورپی علاقہ جو صدیوں سے عثمانیوں کی مسلم سلطنت کا حصہ تھا ،اس سے چھین لینا چاہتی تھیں۔ اکتوبر ۱۹۱۲ء میں بلقانی ریاستوں ( بلغاریہ، یونان، سرویااور مونٹی نگرو) نے ترکی پر حملہ کر دیا۔در پردہ برطانیہ ان کی پشت پناہی کر رہا تھا۔ بلقانی ریاستوں کی تقریباً تین لاکھ متحدہ فوج کے مقابلے میں ترکی سپاہیوں کی تعداد ایک لاکھ تھی۔ مزید برآں بلقانی فوجیں تربیت و تنظیم کے اعتبار سے بھی ترکوں پر فائق تھیں۔ اس نازک موقع پر ترکی فوج کے یہودی اور عیسائی سپاہیوں نے میدانِ جنگ سے راہِ فرار اختیار کی۔ان کی غداری سے ترکوں کی پوزیشن اور بھی کمزور ہو گئی۔ بلقانی فوجیں ترکوں کو پے در پے شکست دیتی ہوئی ۸ نومبر کو سالونیکا پر قابض ہو گئیں۔ جلد ہی انھوں نے بحیرہ ایجین کے تمام عثمانی جزیروں پربھی قبضہ کر لیا۔ ۳۰ مئی کو صلح نامۂ لندن پر دستخط ہوئے جس کی رو سے ترکی کو اینوس اور میڈیا کے درمیانی خطے کے مغربی جانب سب علاقے چھوڑنے پڑے۔ بحیرۂ ایجین کے جزائر سے بھی دستبردار ہونا پڑا۔ اسی اثنا میں مال غنیمت کی تقسیم پر بلقانی اتحادیوں کے درمیان جھگڑا ہو گیا۔ ترکی نے موقع غنیمت جان کر ادرنہ، ڈیموٹیکا اور قرق کلیسا واپس لے لیے۔ تاہم اس جنگ میں سلطنت عثمانیہ کا کم و بیش ساڑھے پانچ لاکھ مربع میل رقبہ اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اس سارے عرصے میں جنگِ بلقان کی مختلف لڑائیوں اور معرکوں کی تفصیل ہندستانی اخبارات میں شائع ہوتی رہیں ۔ ہندی مسلمان اپنے ترک بھائیوں کی شکست پر بہت مضطرب ہوئے۔ ترکوں کی مدد کے لیے چندہ جمع کرنے کی مہمیں چلائی گئیں۔ ( جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے ’’جوابِ شکوہ‘‘ کے موقع پر انجمن حمایتِ اسلام کے جلسے میں جو رقم جمع ہوئی، وہ بھی بلقان فنڈ میں دے دی گئی۔) شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ نے ڈیڑھ لاکھ کی خطیر رقم جمع کرکے بھیجی ۔ مدد حاصل کرنے کے لیے ترکی سے ہلال احمر کا ایک وفد یہاں آیا۔ مولانا ظفر علی خاں نے ترکی کا دورہ کیا۔ ہندستان سے ہزاروں مسلمان ترکوں کے شانہ بشانہ لڑائی کے لیے ترکی جانا چاہتے تھے مگر انگریزوں نے اجازت نہ دی۔ البتہ مولانا محمد علی جوہرؒ نے ڈاکٹر مختار احمد انصاری کی قیادت میں ایک طبی وفد ترکی بھیجا جو خاصی رقم بھی ساتھ لے کر گیا۔ فکری جائزہ یہ نظم درحقیقت’’شکوہ‘‘ کا جواب ہے۔ ’’ شکوہ‘‘ میں مسلمانوں کی حالتِ زبوں بیان کی گئی تھی اور اس کی وجہ پوچھی گئی تھی۔ پھر وہاں مایوسی اور دل شکستگی کی ایک کیفیت تھی، ’’جوابِ شکوہ‘‘ اس کیفیت کی توجیہ ہے اور ’’ شکوہ‘‘ میں اٹھائے جانے والے سوالات کے جوابات دیے گئے ہیں۔ ’’ جوابِ شکوہ‘‘ میں اسلامی تاریخ کے بعض واقعات اور جنگِ بلقان کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں۔ نظم کے موضوعات و مباحث کا مطالعہ و تجزیہ کرتے ہوئے ہم آسانی کی خاطر اسے ذیل کے عنوانات میں تقسیم کریں گے: ۱: شکوہ کی اثر انگیزی بند: ۱-۵ ۲: جوابِ شکوہ کی تمہید بند: ۶ ۳: حالت زار کے حقیقی اسباب بند ۷- ۱۷ ۴: اسلاف سے موازنہ بند: ۱۸- ۲۵ ۵: پرامید مستقبل بند: ۲۶- ۳۱ ۶: دعوتِ عمل بند: ۳۲- ۳۶ ٭تمہید، شکوہ کی اثر انگیزی: انسان نے اللہ تعالیٰ سے جو شکوہ کیا تھا ،پہلے پانچ بندوں میں ( جو نظم کا تمہیدی حصہ ہے) اس کا ردّ ِ عمل اور اثرانگیزی بیان کی گئی ہے۔ اقبال بتاتے ہیں کہ میرا نالۂ بے باک اس قدر بھر پور اور پر تاثیر تھا کہ آسمانوں پر بھی اس کی بازگشت سنی گئی۔ آسمانوں اور اس کے باسیوں (فرشتے، چاند، ستارے، کہکشاں وغیرہ) میں میرے گستاخانہ شکوے سے ایک کھلبلی مچ گئی اور یہ ان کا موضوع سخن ٹھہرا۔ چونکہ عام حالات میں ایک انسان سے یہ توقع نہیں ہوسکتی کہ وہ اللہ کے سامنے ایسی گستاخی کی جرأت کرے ، اس لیے اہل آسمان حیران تھے کہ کون نادان خدا کے حضور شوخی کا مرتکب ہورہا ہے مگر جلد ہی انھیں معلوم ہو گیا کہ یہ حرکت کرنے والے حضرتِ انسان ہیں۔ فرشتوں کو اس بات کا افسوس تھا کہ پستی کایہ مکین بات کرنے کا سلیقہ بھی نہیں جانتا۔ انسان کے متعلق فرشتوں کا یہ طرز فکر بعینہٖ وہی ہے جو تخلیق آدم ؑکے وقت تھا، جب فرشتے انسان کی نیابتِ الہٰی پر حیران ہوئے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ خلیفہ دنیا میں فتنہ و فساد اور خوں ریزی کا مرتکب ہوگا۔ جہاں تک شوخی و گستاخی کا تعلق ہے، اس ضمن میں عابد علی عابد کہتے ہیں: ’’علامّہ مرحوم سے بہت پہلے صوفیہ اپنی شطحیات( صوفیوں کی لاف زنی) میں اس سے زیادہ گستاخانہ انداز تخاطب اختیار کر چکے ہیں‘‘۔ ( شکوہ، جوابِ شکوہ: ص ۵۶) بہر حال انسان کے نعرۂ مستانہ کا اثر یہ ضرور ہوا کہ خود اللہ تعالیٰ نے ’’شکوہ‘‘ کے حسنِ ادا کو سراہا اور پھر اس کا جواب مرحمت فرمایا: شکر شکوے کو کیا حسنِ ادا سے تونے ہم سخن کردیا بندوں کو خدا سے تو نے ٭جوابِ شکوہ کی تمہید: چھٹے بند میں خدا کی طرف ’’ شکوہ‘‘ کا حوالہ دے کر جواب دیا گیا ہے۔’’شکوہ‘‘ میں شاعر نے مسلمانوں کی بدحالی و بے چارگی کا سبب خدا کے عدم لطف و کرم کو قرار دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم تو عنایات و مدارات کرنے پر تلے بیٹھے ہیں ، کوئی سائل ہے اور نہ امیدوار لطف و کرم یعنی طلب صادق موجود نہیں، ورنہ انسان کی ہر آرزو پوری ہو سکتی ہے ۔ اگر مسلمان اپنی نیت میں اخلاص اور عمل میں کھرا پن پیدا کریں تو خاکستر سے بھی ایک نیا جہان پیدا ہو سکتا ہے۔’’ شان کئی‘‘سے مراد کیانی خاندان کے بادشاہوں جیسی عظمت اور شان و شوکت ہے۔ اس خاندان نے ایک طویل عرصے تک ایرانِ قدیم پر حکومت کی ۔ آخری مصرعے: ’’ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں‘‘میں اشارہ ہے کولمبس ایسے باہمی اور مہم جو لوگوں کی طرف ہے۔ کولمبس نے محض اپنی مہم جوئی کی بدولت ایک نئی دنیا یعنی براعظم امریکا دریافت کیا۔ یہ بند اللہ کے جوابِ شکوہ کی تمہید ہے۔ ٭حالت زار کے حقیقی اسباب: اب ( بند ۷- ۱۷) مسلمانوں کی حالت زبوں کے حقیقی اسباب کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ اقبال کے نزدیک اس کا بنیادی سبب مذہب سے بے اعتنائی ہے ، جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی صفوں میں فکری اعتبار سے الحاد و کفر اور لادینیت کی تحریکیں پروان چڑ ھ رہی ہیں۔ وہ اپنے فرائض ادا کرنے سے جی چراتے ہیں اور ان کے اندر مذہب کی حقیقی روح ختم ہو گئی ہے۔ ’’شکوہ‘‘ میں مسلمانوں نے دہائی دی تھی کہ ہم نے باطل کو صفحۂ ہستی سے نیست و نابو د کرکے قرآنی تعلیمات پھیلانے اور کعبۃ اللہ کو آباد کرنے کی عظیم الشان خدمت انجام دی ہے ۔ یہاں ( ۱۱ ویں بند ) میں اس دعوے کی تردید کی جارہی ہے۔ استفہامیہ انداز کی وجہ سے تردید کا رنگ طنزیہ ہے۔ درحقیقت نظم کے اس حصے میں اقبال ؒ نے امت ِ مسلمہ کی فکری و اعتقادی گمراہیوں ، کج رویوں اور عملی کمزوریوں کو بڑے مؤ ثر اندازمیں بے نقاب کیا ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کی صدیوں کی غلامی اور اس کے زیر اثر پروان چڑ ھنے والی ذہنی حالت کا کچا چٹھا کھولا ہے اور ایک ہمدردڈاکٹر کی طرح اس کا آپریشن کیا ہے۔ یہ مسلم دورِ انحطاط کا مرثیہ ہے۔ خاتمے پر جب اقبال یہ کہتے ہیں: تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟ تو پڑ ھنے اور سننے والا تڑپ کر رہ جاتا ہے۔ اس حصے میں اقبال نے ابراہیم علیہ السلام اور آزر کی تلمیحات استعمال کی ہیں ۔ آزر ، حضرت ابراہیم ؑ کے باپ تھے جو قرآن حکیم کے مطابق بت پرست تھے( سورۃ الانعام: ۷۴) اور عام روایت کے مطابق بت گر بھی۔ ( یہ لفظ ’’ذ‘‘ کے بجاے ’’ز‘‘ سے لکھنا صحیح ہے کیونکہ قرآن پاک میں ’’ز‘‘ سے مرقوم ہے)۔ نویں بند میں:’’کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے‘‘سے تہجد اور سحر خیزی کی اہمیت جتلا نا مقصود ہے۔ قرآن پاک میں ہے: اِنَّ نَاشِئَۃَ اللَّیْلِ ہِیَ اَشَدُّ وَطْأً وَ اَقْوَمُ قِیْلًا (سورۃ المزمل: ۶)بلاشبہہ شب کا اٹھنا نفس کو خوب ہی روندنے والا ہے اور نہایت ہی درست ہے اس وقت کا ذکر۔ اقبال مہاراجا سرکشن پرشاد کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:’’ صبح چار بجے ، کبھی تین بجے اٹھتا ہوں ۔ پھر اس کے بعد نہیں سوتا۔ اس وقت عبادتِ الہٰی میں بہت لذت حاصل ہوتی ہے‘‘ ۔دراصل سحر خیزی اقبال کا معمول تھا اور وہ دیارفرنگ میں بھی اس معمول پر قائم رہے : نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحر خیزی امت ِ مسلمہ میں سحر خیزی سے عمومی غفلت پائی جاتی ہے۔ اس لیے وہ کم نصیب اور محروم ہے : ’’کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی‘‘ اور ۱۱ ویں بند میں :’’ہاتھ پر ہاتھ دھر ے منتظر فردا ہو‘‘کا معنی خیز اشارہ تقدیر و توکل کے اس ناقص تصو ّر کی طرف ہے، جس نے مسلمانوں کو بے عمل بنا دیا اور وہ ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ رہے۔ خانقاہی تصو ّف انسان کو عضو معطل بناتا ہے، اس لیے اقبال اس کے سخت خلاف ہیں: کہ رسم خانقاہی ہے فقط اندوہ و دل گیری ٭اسلاف سے موازنہ: مسلمانوں کی زبوں حالی کے سلسلۂ بیان میں ان کی انفرادی و اجتماعی خامیوں کو مزید اجاگر کرنے کے لیے نظم کے اگلے حصے ( بند: ۱۸- ۱۹) میں اقبال ؔنے مسلمانوں کے اسلاف کا ذکر چھیڑا ہے ۔ ان کے نزدیک ہمارے اسلاف اپنے اخلاق و کردار، علم و فضل اور گفتار و کردار کے اعتبار سے اس قدر بلند مرتبت اور عظیم تھے کہ ہمارے او ر ان کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے۔ بند ۲۳- ۲۴ میں اقبال نے جدید تعلیم اور اس کے زیر اثر پیدا ہونے والی معاشرتی اور مجلسی خرابیوں پر تنقید کی ہے ۔یہ صورت حال منطقی ہے۔ توجیہ یہ کی ہے کہ اگر بیٹا نکھٹو ہو تو میراث سے عاق کر دیا جاتا ہے ۔ مسلمانوں کے ساتھ یہی کچھ ہوا ہے۔ ان کی موجودہ حالت کا اسلاف سے موازنہ کرتے ہوئے ایک شعر میں نتیجے کو بڑی خوب صورتی سے بیان کر دیا ہے: وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر آخری ( ۲۵ واں بند) ایک انتباہ ہے مسلمانوں کے لیے۔ یہاں اقبال نے قدرت کے تکوینی نظام کی طرف اشارہ کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ دورِجدید نے دنیا کی ہرقوم کو آزمایش کے پل صراط پر لا کھڑا کیا ہے ۔ اسے بخیر و عافیت عبور کرنے کے لیے قومی بیداری اور اجتماعی کردار کی ضرورت ہے۔ جو قوم عہد ِ نو کے تقاضوں کا ساتھ نہیں دے سکتی ، زمانہ اسے برق بن کر بھسم کر دیتا ہے اور امت ِ مسلمہ بھی اس آزمایش سے دو چار ہے۔ اس سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہونے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مسلمان اپنے ایمان میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سی پختگی ، عزم اور یقین پیدا کریں، تاکہ زمانے کی برق و آتش زنی ان کے لیے گل وگلزار ثابت ہو۔ ٭پر امید مستقبل: ’’شکوہ‘‘ مسلمانوں کے انحطاط کا مرثیہ تھا ’’ جوابِ شکوہ‘‘ میں ان کی پستی اور حالت زبوں کومزید تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اس سے دلوں میں مایوسی کی کیفیت پیدا ہونا قدرتی ہے۔ اس کیفیتِ یاس کو زائل کرنے کے لیے اقبال مسلمانوں کو اطمینان دلاتے ہیں کہ ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ رہنا مردانگی نہیں ۔ بند ۲۶- ۳۱ میں انھوں نے مختلف مثالوں اور تاریخی واقعات کے ذریعے اس امر پر زور دیا ہے کہ : باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا جس دور میں اقبال نے یہ نظم لکھی، عالم اسلام میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جو مسلمانوں کے لیے بظاہر مایوس کن تھے، مثلاً: ۱۳- ۱۹۱۲ء میں ریاست ہاے بلقان نے ترکی پر حملہ کر دیا:(ہے جو ہنگامہ بپا یورش بلغاری کا) اور ترکی کو پے در پے ہزیمت اٹھانی پڑی۔ اسی طرح ایران بھی غیر ملکی طاقتوں کی گرفت میں تھا۔ چند سال پہلے روس اور برطانیہ نے ایک معاہدہ کرکے ایران میں اپنے اپنے حلقہ ہاے اثر متعیّن کر لیے تھے۔ اب ایران پر روسی دباؤ بڑھتا جارہا تھا۔ اقبال نے مسلمانوں کی ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو اس صورت حال سے دل شکستہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ قوموں کی تاریخ میں نشیب و فراز تو آتے رہتے ہیں۔ یہ نتیجہ اقبال نے تاریخ سے اخذ کیا ہے اور اس کے لیے ان کے پاس کچھ وجوہات ہیں: ۱۔ اسلام دوسرے مذاہب سے اور مسلمان دوسری اقوام سے مختلف حیثیت کے مالک ہیں۔ اسلامی تحریک کے پس منظر میں سیکڑوں برس کی جدو جہد ، کشمکش اور طاقتور عوامل کارفرما ہیں۔ ’’پھل ہے یہ سیکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا‘‘سے مراد ہے کہ نخل اسلام کی نشوونما اور ارتقا میں ان بے شمار فرزندان توحید کی کوششوں کو دخل ہے جنھوں نے علوم و فنون، حکومت و سیادت اور جنگ و جدل کے میدان میں مستحکم روایات قائم کیں اور تاریخ میں اَن مٹ اور یادگار نقوش چھوڑے ۔ ۲۔پھر عصر حاضر میں یورپ کی تباہی کا سبب قوم پرستی(Nationalism)کی لعنت ہے مگر اسلام کے نزدیک قوم پرستی کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ملت اسلامیہ خود کو کسی ایک جغرافیائی خطے یالسانی اور نسلی گروہ تک محدود نہیں سمجھتی اس کے نزدیک:’’ہر ملک ، ملک ماست کہ ملک خداے ماست‘‘۔ ۳-ملت اسلامیہ کو فنا ہو جانے کا اس لیے بھی کوئی خطرہ نہیں کہ اس کے پاس جذبۂ عشق ( بانگِ درا) جیسی قیمتی متاع ہے اوردوسری قومیں اس سے محروم ہیں۔ ۴۔ بسااوقات انسان کی ظاہر بین نگاہیں احوال وواقعات کی تہ میں چھپے ہوئے حقیقی عوامل کا پتا لگانے سے قاصر رہتی ہیں۔ کسی مسلم علاقے پر کوئی آفت ٹوٹتی ہے تو مسلمان سمجھتے ہیں کہ شاید وہ نیست و نابود ہو رہے ہیں۔ اقبال کے نزدیک یہ عین ممکن ہے کہ ظاہر ی آفت ان کے لیے کسی وقت باعثِ رحمت ثابت ہو۔ اس کا پس منظر یوں ہے کہ ۶۱۶ھ میں چنگیز کی فوجوں نے سمرقند، بخارا اور ماوراء النہر کے علاقوں کو روند ڈالا، شہر اجڑ گئے اور شہروں کے شہر پیوندِ زمین ہوگئے۔ پھر ایک زمانے میں تاتاریوں نے ہلاکوخان کی سر کردگی میں بغداد پر حملہ کرکے اسے تباہ کر دیا مگر خدا کی شان کہ ہلاکو خان کے بیٹے اباقاخان نے ایک مسلمان بزرگ خواجہ شمس الدین کو اپنا وزیر اعظم اور اپنے بیٹے کا اتالیق مقرر کیا۔ جب اس کا یہ بیٹا نکودارخان بادشاہ بنا تو اس نے اسلام قبول کر لیا اور اپنا نام احمد خان رکھا۔ پھر اس کے جانشینوں میں غازان خان اسلام لایاتو اس کے ساتھ دس ہزار تاتاری بھی مشرف بہ اسلام ہوئے اور اسلام کو ایران کا شاہی مذہب قرار دیا گیا۔ تاتاریوں کے اسلام لانے سے مسلمانوں کی بڑی دھاک بیٹھ گئی ۔ مغلیہ خاندان نے جو تاتاریوں کی نسل سے تھے، ہندستان میں مسلم عظمت و سطوت کے ان مٹ نشانات یادگار چھوڑے:’’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘‘ کا اشارہ اسی طرف ہے۔ ۵۔مسلمانوں پر جو قیامتیں ٹوٹ رہی ہیں، وہ ایک طرف ان کے ایمان کی آزمایش ہے تو دوسر ی طرف ان کے جذبۂ عمل کے لیے مہمیز۔ یہ مصائب و آفات انھیں خوابِ غفلت سے جھنجوڑنے کا باعث ہوں گے اور وہ ایک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ دشمن کے مقابلِ صف آرا ہوں گے۔ ان وجوہات کی بنا پر اقبال مسلمانوں کے درخشاں مستقبل کے بارے میں بہت پرامید ہیں ۔ کہتے ہیں: رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنّابی ہے یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے مسلمان عالم مایوسی میں سر چھپاتا پھرتا تھا مگر اقبال کے نزدیک یہ ہمت ہار کر بیٹھ رہنے کا نہیں ، میدانِ عمل میں نکلنے کا وقت ہے۔ وہ مسلمانوں کو ان کے اہم فرض کی طرف متوجّہ کرتے ہیں: وقت فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے ٭دعوتِ عمل: درخشاں مستقبل سامنے ہے اور مقصد زندگی( نورِ توحید کا اتمام) بھی واضح، چنانچہ اب اقبال مسلمان کو دعوت عمل دیتے ہیں۔ ( بند ۳۲- ۳۶) اقبال کی پکار یہ ہے کہ اے مسلمانو! ہماری قو ّت کا راز جذبۂ عشق میں پوشیدہ ہے ، جس کا سرچشمہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے۔ بند ۳۳- ۳۴ میں اقبال نے اس حقیقت پر زور دیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی ہی باعث ِ کون و مکاں ہے ۔ اشارہ ہے اس قول کی طرف جو حدیث ِ قدسی کے طور پر معروف ہے: لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ… اگر آپؐ نہ ہوتے تو میں افلاک کو تخلیق نہ کرتا۔ اس لیے اے مسلمانو! تم بھی رسول خداؐ کا پیغام اطراف عالم میں پھیلانے کی بھرپورکوشش کرو۔ ۳۴ ویں بند کے آخری شعر کی تلمیح قرآن پاک کی سورۃ اَلَمْ نَشْرَحْ سے لی گئی ہے ۔معنی ہے :’’اے نبیؐ، ہم نے تیرے ذکر کو رفعت و بلندی بخشی…‘‘۔ اقبال کی اس دعوتِ عمل کا مرکزی نکتہ چونکہ عشق رسولؐ ہے ، اس لیے نظم کے آخری حصے میں جذبۂ عشق سے سرشار وہی والہانہ کیفیت موجود ہے جو آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرکرتے ہوئے اقبال پر عموماً طاری ہوتی تھی۔ مؤذّنِ رسول حضرت بلالؓ ،عشق رسولؐ کا ایک مثالی پیکر تھے اور ان کا تعلق افریقہ کی سرزمینِ حبش سے تھا۔ اس لیے تذکرۂ حبّ ِ رسولؐ کے ضمن میں بلالی دنیا( حبش) کا ذکر بھی آیا ہے۔ ’’کالی دنیا‘‘ کاکنایہ حبش (Ethopia) کے لیے ہے ۔ اس بند ( ۳۵) میں یہ اشارہ بھی ہے کہ سر زمین افریقہ میں لوگ جوق در جوق حلقہ بگوشِ اسلام ہورہے ہیں۔ آخری بند میں حق کے لیے جد وجہدوعمل پر زور دیتے ہوئے لڑائی کے ہتھیاروں کی نشان دہی بھی کی ہے۔ اقبال کے نزدیک راہِ حق کے مجاہدوں کو عقل و عشق کے اسلحے سے لیس ہونا چاہیے۔ ان کا مقصود خلافت ِ الہٰی ہے ۔ ان کا سب سے بڑا ہتھیار ’’حبّ ِ رسولؐ ‘‘ہے:’’کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں‘‘کا مفہوم ہے کہ اگر مسلمان آپؐ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کرکے صحیح معنوں میں مسلمان بن جائے تو پھر تقدیر بھی اس کے سامنے سر نگوں ہو جائے گی۔ یہ دنیا ہی نہیں، پوری کائنات اس کے تصرف میں ہوگی۔ یعنی: ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ غالب و کارآفریں ، کارکشا ، کارساز فنی تجزیہ ’’جوابِ شکوہ‘‘ مسدس ترکیب بند کی ہیئت میں ۳۶ بندوں پر مشتمل ہے۔ یہ بحرِ رمل مثمن مخبون مقطوع میں ہے۔ بحر کے ارکان یہ ہیں:فَاعِلَاْتُنْ فَعِلَاْتُنْ فَعِلَاتُنْ فِعْلُن اس نظم کے فنی پہلو کی توصیف میں بھارت کے معروف نقاد ڈاکٹر عبدالمغنی لکھتے ہیں: ’’شاعری کی زبان و بیان کا استعمال اس ملی نظم میں اس شان سے ہواہے جس کا اظہار کسی بھی انسانی موضوع کی فنی نقش گری میں ہو سکتا ہے۔ ’ جوابِ شکوہ‘ ایک بڑی کامیاب ، حسین ، پر اثر اور اہم شاعرانہ تخلیق ہے ، جس کے ارتعاشات ’خضرراہ‘ اور ’طلوعِ اسلام‘سے آگے بڑ ھ کر ’ ساقی نامہ‘ ،’ذوق و شوق‘ اور ’ مسجد قرطبہ‘ کے مصرعوں اور شعروں میں محسوس کیے جائیں گے‘‘۔ ٭انداز اور لہجہ: نظم کا انداز دوسر ی طویل نظموں کے برعکس براہِ راست خطاب کا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمان امت یا بحیثیت مجموعی امتِ مسلمہ کو خطاب کرتے ہوئے ’’ شکوہ ‘‘ کا جواب دیا گیا ہے۔ براہِ راست انداز تخاطب کی وجہ سے نظم میں علامتی اور ایمائی رنگ بہت ہی معمولی ہے اور اسی لیے’’ شمع اور شاعر‘‘ جیسی نظم کے برعکس ’’ جوابِ شکوہ‘‘ میں تغزل کا پہلو تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ ۳۶بندوں کی طویل نظم میں صرف ۲،۳ بند ایسے ہیں جن میں تغزل کی جھلک ملتی ہے۔ نظم کا لہجہ اول تا آخر یکساں نہیں ہے۔ بعض حصوں میں لہجہ دھیما اور فہمایش کا ہے۔ جہاں مسلمانوں کی فکری اور عملی گمراہیوں کی نشان دہی کی گئی ہے ، وہاں تنقیدی لہجہ ہے۔ کہیں اس تنقیدی لہجے میںطنزیہ رنگ بھی جھلکتا ہے ۔ خصوصاً بند ۱۱ اور ۱۴ میں، جہاں استفہامیہ انداز میں ان خوبیوں کو، جنھیں ’’ شکوہ‘‘ میں مسلمان نے اپنے کارناموں (credit)کے طور پر پیش کیا تھا ، شاعر مسلمان کی خامیاں(dis-credits)بنا کر پیش کرتا ہے۔ بعض حصوں ( بند ۱۳،۱۵،۱۶،۲۰)میں تاسف کا لہجہ پایا جاتا ہے ۔ اسی طرح جہاں اللہ تعالیٰ’’جوابِ شکوہ‘‘ کا آغاز کرتے ہیں تو اس سے ایک شان جلالی ٹپکتی ہے۔ ۲۶ویں بند سے شروع ہونے والے حصے میں مایوس اور غم زدہ مسلمانوں کو تسلی و اطمینان دلانے اور پریشان کن حالات میں ان کی ڈھارس بندھانے والا لہجہ ملتا ہے۔ ۳۲ ویں بند سے آخر تک جہاں اقبالؔ مسلمانوں کو دعوتِ عمل دیتے ہیں ، نظم کا لہجہ قدرے پرجوش ہے ۔ مگر یہاں جوش و خروش کی وہ کیفیت نہیں جو مثلاً’’ طلوعِ اسلام‘‘ کے آخری حصے میں پائی جاتی ہے، اسے دھیمے جو ش سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ٭ڈرامائی کیفیت: نظم کے پہلے پانچ چھے بندوں میں اہل آسماں پر ’’ شکوہ‘‘ کا ردّ ِ عمل دکھایا گیا ہے۔ یہاں ایک طرح کی ڈرامائی کیفیت موجودہے۔ شاعر نے پیرگردوں ،‘ سیاروں، چاند ، کہکشاں اور فرشتوں کی زبانی اس ڈرامے کے مختصر مکالمے کہلوائے ہیں۔ ان مکالموں اور گفتگو کا تحیر اور استفہامیہ انداز ڈرامائیت کو بڑ ھا دیتا ہے۔ ڈرامے کے کلائمکس پر ایک آواز آتی ہے ، جو اہل ِ آسماں کے سوالات کا جواب ، ایک طویل مکالمے کی صورت میں دیتی ہے۔ یہ آواز اس ڈرامے کا آخری اور سب سے اہم کردار ہے۔ ٭دیگر فنی محاسن: اندازِ بیان ، لہجے اور ڈرامائی کیفیت کی خوبیوں کے علاوہ ’’ جوابِ شکوہ‘‘ بعض ایسے فنی محاسن سے مزین ہے جو اسے حسن ِ بیان کا شاہ کار بناتی ہے۔ چند پہلوملاحظہ ہوں: الف: حسن بیان : جس سے ’’ شکوہ‘‘ کیا جائے، جواب میں اس کی طرف سے بالعموم عذر و معذرت پیش کی جاتی ہے مگر ’’ جوابِ شکوہ‘‘ کاحسن بیان ملاحظہ ہو کہ اس میں ’’ شکوہ‘‘ کرنے والے پر اس کا شکوہ لوٹا دیا گیا ہے۔ گویا شکوہ کرنے والے کا منہ بند کردیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں خصوصاً مندرجہ ذیل اشعار اور مصرعے قابلِ ملاحظہ ہیں۔ ان میں پوشیدہ طنز کی کاٹ اور اثر انگیزی کا جواب نہیں : شور ہے ہوگئے دنیا سے مسلماں نابود ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود؟ وضع میں تم ہو نصارا تو تمدن میں ہنود یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟ ایک جگہ موجود ہ مسلمانوں کا موازنہ ان کے اسلاف سے کیا ہے۔ یہ شعر ایجازو جامعیّت کا ایک خوبصورت نمونہ ہے: وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر مسلمانوں کے شکوے کے جواب میں یہ ایک شعر ہی کافی ہوتا کیونکہ استدلال لاجواب ہے: باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو پھر پسر قابلِ میراثِ پدر کیوں کر ہو ب: تصویر کاری اور تشبیہ کی مثالیں ’’ جواب ِشکوہ ‘‘ میں بہت منفرد ہیں: کشتی ِ حق کا زمانے میں سہارا تو ہے عصرنو رات ہے، دھندلا سا ستارا تو ہے نخل اسلام نمونہ ہے برومندی کا پھل ہے یہ سیکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا ج: چند نئی تراکیب جو ’’ جوابِ شکوہ‘‘ میں ملتی ہیں : صہیلِ فرسِ اعدا، مردمِ چشمِ زمیں، غیریک بانگِ درا، برق طبعی، شعلہ مقالی، قدسی الاصل، داناے رموزِ کم وغیرہ۔ د:صنعت گری کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں: ۱ ۔ صنعت تلمیح: تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا ______ رفعت ِ شانِ رفعنا لک ذکرک دیکھے ______ ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے ۲۔ صنعت طباق:(دو ایسے الفاظ کا استعمال جو معنی کے اعتبار سے ایک دوسرے کی ضدہوں): منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک ایک ہی سب کا نبیؐ ، دین بھی ایمان بھی ایک ۳۔ صنعت مراعاۃ النظیر: حرم پاک بھی ،اللہ بھی،قرآن بھی ایک کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک ۴۔ صنعت ترافق: ( جس مصرع کو چاہیں ، پہلے پڑ ھیں معنی میں کوئی فرق نہیں آتا): غافل آداب سے، سُکّانِ زمیں کیسے ہیں؟ شوخ و گستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں؟ ۵۔ صنعت ترصیع: (دو مصرعوں کے زیادہ یا تمام الفاظ کا ہم قافیہ ہونا): سیکڑوںنخل ہیں ، کاہیدہ بھی بالیدہ بھی ہیں سیکڑوں بطن چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں ۶۔ صنعت تاکید الذم بما یشبہ المدح : (ہجو یا مذمت کی تاکید ایسے لفظوں سے جو مدح سے مشابہت رکھتے ہوں): ان کو تہذیب نے ہر بند سے آزاد کیا لاکے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا ۷۔ صنعت اطراد:(جس کی مدح یا مذمت کی جائے ،اس کے نام کے ساتھ اس کے باپ کا نام بھی مذکور ہو) : بت شکن اٹھ گئے باقی جو رہے بت گر ہیں تھا براہیم پدر اور پسر آزر ہیں _______ ’’جوابِ شکوہ‘‘ فکرو خیال کی جدت کے ساتھ فنی اعتبار سے بھی اقبالؔ کا حسین و جمیل تخلیقی پیکر ہے۔ تاثرکی شدت اور گہرائی نظم کے ہر حصے میں موجود ہے ۔ اختتام خصوصاً بہت بامعنی ، بلیغ اور بے نظیر ہے۔ آخری شعر : کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں پوری نظم کا حاصل ہے۔ امت ِ مسلمہ کے شکوے کے جواب میں صرف یہی شعر ہی کافی ہو سکتا تھا۔ والدہ مرحومہ کی یاد میں ٭تعارف اور پس منظر یہ نظم علامّہ اقبال نے اپنی والدہ ماجدہ کی وفات پر ان کی یاد میں لکھی تھی۔ اسے مرثیہ بھی کہا جاتا ہے۔ اولین شکل میںاس کے گیارہ بند اور ۸۹ اشعار تھے۔ بانگِ درا کی ترتیب کے وقت علامّہ نے نظم کے متعدد اشعار حذف کر دیے اور چند شعروں کا اضافہ بھی کیا۔ بندوں کی ترتیب بھی بدل دی۔ موجود شکل میں نظم کل تیرہ بندوں کے چھیاسی اشعار پر مشتمل ہے۔ پروفیسر حمید احمد خاں اور پروفیسر اسلوب احمد انصاری نے اشارہ کیا ہے کہ یہ نظم لکھتے وقت اقبال کے تحت الشعور میں انگریزی شاعر ولیم کوپر کی نظم on the Receipt of My Mother's Picture out of Norfolkضرور ہوگی۔ کیونکہ ’’ والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ کے بعض حصے کوپر کی نظم کی یاد دلاتے ہیں۔ علامّہ اقبال کی والدہ کا نام امام بی بی تھا۔ وہ ایک نیک دل، متقی اور سمجھ دار خاتون تھیں۔ ان کی پرہیز گاری کا یہ عالم تھا کہ علامّہ کے والد شیخ نور محمد جس زمانے میں سیالکوٹ کے ڈپٹی وزیر علی بلگرامی کی ملازمت میں پارچہ دوزی کا کام کرتے تھے، والدۂ علامّہ اپنے شوہر کی اس تنخواہ سے مجتنب رہتیں کیونکہ ان کے خیال میں ڈپٹی وزیر علی کی آمدنی کا غالب حصہ شرعاً جائز نہ تھا۔ چنانچہ کچھ عرصے کے بعدشیخ صاحب نے ملازمت ترک کر دی۔ گھر میں انھیں ’’ بے جی ‘‘ کہا جاتا تھا۔ وہ بالکل ان پڑ ھ تھیں مگر ان کی معاملہ فہمی، ملنساری اور حسن سلوک کے باعث پورا محلہ ان کا گرویدہ تھا۔ اکثر عورتیں ان کے پاس اپنے زیورات بطور امانت رکھواجاتیں۔ برادری کے گھرانوں میں اگر کوئی جھگڑا اٹھ کھڑا ہوتا تو ’’بے جی‘‘ کو سب لوگ منصف ٹھہراتے اور وہ خوش اسلوبی سے کوئی فیصلہ کر دیتیں۔ بے جی غریبوں کی مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہتیں۔ بعض غریب عورتوں کی خفیہ مدد کرتیں ۔ غریب گھرانوں کی مدد کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ محلے برادری کے غریب مگر شریف گھرانوں کی دس بارہ سال کی عمر کی تین چار لڑکیاں اپنے گھر لے آتیں اور ان کی کفیل ہوجاتیں۔ تین چار سال تک ان کی پوری تربیت کرکے اپنی بیٹیوں کی طرح کسی مناسب جگہ ان کی شادی کردیتیں۔ اقبال کو اپنی والدہ سے غیر معمولی انس اوربے حد لگاؤ تھا۔ والدہ بھی اقبال کو بہت چاہتی تھیں۔ زیر نظر مرثیے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب اقبال یورپ گئے تو والدہ ان کی بخیرت واپسی کے لیے دعا گو رہتیں اور انھیں اقبال کے خط کا ہمیشہ انتظار رہتا۔ ان کا انتقال ۷۸سال کی عمر میں ۹ نومبر ۱۹۱۴ء کو سیالکوٹ میں ہوا۔ قبر،امام صاحب کے مقبرے کے پاس واقع ہے۔ ان کی وفات پر لسان العصر اکبر الٰہ آبادی نے ایک قطعہ لکھا جس کے چند شعر یہ ہیں: مادرِ مرحومۂ اقبال جنت کو گئیں چشم تر ہے آنسوؤں سے ، قلب ہے اندوہ گیں اکبرؔ اس غم میں شریکِ حضرتِ اقبال ہے سال رحلت کا یہاں منظور اسے فی الحال ہے واقعی مخدومۂ ملت تھیں وہ نیکو صفات رحلتِ مخدومہ سے پیداہے تاریخ وفات ۱۳۳۳ ہجری فارسی میں اکبر کا ایک اور قطعہ ٔ تاریخ وفات مرحومہ کے لوحِ مزار پر کندہ ہے۔ والدہ مرحومہ کی وفات پر اقبال کو سخت صدمہ ہوا اور وہ مہینوں دل گرفتہ رہے۔ مہاراجا کشن پرشاد کے نام ۲۳ نومبر ۱۹۱۴ء کے خط میں لکھتے ہیں: ’’ اس حادثے نے میرے دل و دماغ میں ایک شدید تغیّر پیدا کر دیا ہے ۔ میرے لیے دنیا کے معاملات میں دلچسپی لینا اور دنیا میں بڑ ھنے کی خواہش کرنا صرف مرحومہ کے دم سے وابستہ تھا۔ اب یہ حالت ہے کہ موت کا انتظارہے۔ دنیا میں موت سب انسانوں تک پہنچتی ہے اور کبھی کبھی انسان بھی موت تک جا پہنچتا ہے۔ میرے قلب کی موجود ہ کیفیت یہ ہے کہ وہ تو مجھ تک پہنچتی نہیں ، کسی طرح میں اس تک پہنچ جاؤں‘‘۔ ( صحیفہ: اقبال نمبراول،۱۹۷۳ئ، ص ۱۳۲) شیخ نور محمد کو بھی اپنی رفیقہ ٔ حیات کی جدائی کا قلق تھا۔ ایک روایت کے مطابق انھوں نے بھی اس موقع پر دس بارہ اشعار کی ایک نظم لکھی تھی… اقبالؔ نے زیر مطالعہ نظم کاتب سے خوش خط لکھوا کر اپنے والد ماجد کو بھیجی جسے وہ اکثر پڑ ھا کرتے تھے۔ فکری جائزہ نظم (یا مرثیے) کااصل موضوع والدہ ماجدہ کی وفات پر رنج و غم کا اظہار ہے ۔ اس اظہا ر کے دو پہلو ہیں: ۱۔ فلسفۂ حیات و ممات اور جبر و قدر ۲۔ والدہ سے وابستہ یادیں اور ان کی وفات کا ردّ ِ عمل پہلے موضوع کا تعلق فکر سے ہے اور دوسرے کا جذبات و احساسات سے۔ پروفیسر سید وقار عظیم کے خیال میں اردو میں اقبال کی شائد یہ واحد نظم ہے جس میں وہ پڑ ھنے والے کو فکر اور جذبہ دونوں کے دام میں اسیر نظر آتے ہیں‘‘۔ ( اقبال: شاعر و فلسفی، ص ۳۲۲) ٭فلسفۂ جبر و قدر: موت کے تصو ّر سے اور خاص طورپر اُس وقت ،جب انسان کی کسی عزیز ہستی کو موت اچک کر لے گئی ہو، قلب ِحسّاس پر تقدیر کی برتری اور تقدیر کے مقابلے میں انسان کی بے بسی اور بے چارگی کا نقش ابھرنا ایک قدرتی بات ہے۔ چنانچہ نظم کا آغاز ہی فلسفۂ جبر وقدر سے ہوتا ہے: ذرہ ذرہ دہر کا زندانیِ تقدیر ہے پہلے بند میں بتایا گیاہے کہ سورج اور چاند ستارے، سبزہ و گل اور بلبل غرض دنیا کی ہر شے فطرت کے جابرانہ قوانین میں جکڑی ہوئی ہے اور قدرت کے تکوینی نظام میں ایک معمولی پرزے کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کرنے پر مجبور ہے۔ پروفیسر اسلوب احمد انصاری کا خیال ہے کہ یہ ’’دل دوز مرثیہ‘‘ علامّہ اقبال نے جبریت یا لزوم(determinism)کی کیفیت میں کہا ہے۔ یہاں اقبال کے لیے پوری کائنات اور اس کے اندر محصور زندگی ’’ زندانی ِ تقدیر‘‘ معلوم ہوتی ہے۔ پہلے بند میں لفظ ’’ مجبور‘‘ یا ’’ مجبوری‘‘ پانچ بار استعمال کیا گیا ہے۔ اپنی ماں کی وفات کے ردّ ِ عمل میں وہ غم و اندوہ کی شدید کیفیت سے دو چار ہوئے اور سمجھنے لگے کہ انسانی کی آزادی اور قو ّت ارادی محض ایک فریب ہے‘‘۔ ( اقبال کی منتخب نظمیں اور غزلیں: ص ۵۴) ٭انسانی ذہن پر فلسفۂ جبر کا ردّ ِ عمل: تقدیر کے مقابلے میں اپنی بے چارگی پر رنج و غم کا احساس اور اس پر آنسو بہانا انسان کا فطری ردّ ِ عمل ہے۔ مگر ( دوسر ے بند میں ) اقبال کہتے ہیں کہ چونکہ جبر و قدر مشیتِ ایزدی ہے اس لیے گریہ و زاری اور ماتم مناسب ہے۔ آلامِ انسانی کے اس راز کو پالینے کے بعد ، کہ رقص عیش و غم کا یہ سلسلہ خدا کے نظام کائنات کا ایک لازمی حصہ ہے ، میں زندگی میں انسان کے بے بسی و بے چارگی پر افسوس کرتا ہوں اور نہ کسی ردّ ِ عمل کا اظہار کرتا ہوں۔ لیکن والدہ کی وفات ایسا سانحہ ہے کہ اس پر خود کو گریۂ پیہم سے بچانا اور خاموش رہنا میرے لیے ممکن نہیں۔ یہاں (دوسرے بند کے آخر ی شعر میں ) اقبال نے یہ حقیقت بیان کی ہے کہ انسان جس قدر بھی صابروشاکر کیوں نہ واقع ہوا ہو، زندگی میں کسی نہ کسی موقع پر اس کی قو ّتِ برداشت جواب دے جاتی ہے اور وہ بے اختیار آنسو بہانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ایسے عالم میں زندگی کے سارے فلسفے ، ساری حکمتیں اور محکم ضوابط دکھی دل کے ردّ ِ عمل کو روکنے میں ناکام ثابت ہوتے ہیں اور والدہ مرحومہ کی وفات پر مجھ پر بھی یہی کچھ بیت رہی ہے۔ خود اقبال ہی کے بقول: دلے کہ عاشق و صابر بود مگر سنگ است ز عشق تابہ صبوری ہزار فرسنگ است ٭گریہ وزاری کا مثبت پہلو: گریہ و زاری کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس سے زندگی کی بنیاد مضبوط اور مستحکم ہوتی ہے۔ روح کی آلودگی اور داخلی بے قرار ی ختم ہونے سے قلب کو ایک گونہ طمانیت اور استحکام نصیب ہوتا ہے اور انسان ایک نئے ولولے اور عزم کے ساتھ زمانے کی سختیوں سے نبرد آزماہونے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ نفسیات دان بھی یہ کہتے ہیں کہ رونے سے انسان کا تزکیۂ نفس (Katharsis)ہو جاتا ہے۔ اقبال نے اسے ایک مصرعے میں پیش کیا ہے: موجِ دودِ آہ سے روشن ہے آئینہ مرا ٭والدہ اور بچے کا باہمی تعلق: والدہ کی یاد میں بہائے جانے والے آنسوؤں نے دل کے بوجھ کو ہلکا کر دیا ہے۔ سارا میل کچیل آنسوؤں میں تحلیل ہو کر آنکھوں کے راستے خارج ہوگیا ہے۔ اب وہ خود کو بالکل ہلکا پھلکا اور معصوم بچے کی مانند محسوس کرتا ہے۔ شفیق والدہ کی یاد، شاعر کو ماضی کے دریچوں میں لے گئی ہے۔ جب وہ چھوٹا ساتھا توماں اس ننھی سی جان کو اپنی گود میں لے کر پیار کرتی اور دودھ پلاتی تھی۔ اب وہ ایک نئی اور مختلف دنیا میں زندگی بسر کر رہا ہے جو علم و ادب اور شعروسخن کی دنیا ہے اور ایک عالم اس کی شاعری پر سر دھنتا ہے۔ ماضی اور حال کی ان کیفیات میں اس زبردست تضاد کے باوجود ، اقبالؔ کے خیال میں ایک عمر رسید ہ بزرگ یا عالم و فاضل شخص بھی جب اپنی والدہ کا تصو ّر کرتا ہے تواس کی حیثیت ایک طفل سادہ کی رہ جاتی ہے جو صحبت ِ مادر کے فردوس میں بے تکلف خندہ زن ہوتا ہے۔ ( یہ مضمون تیسرے بند کے تیسرے شعر کے آخر تک بیان ہوا ہے۔) والدہ اور بھائی سے وابستہ یادیں: والدہ کو یاد کرتے ہوئے گزرے ہوئے زمانے سے متعلق حالات و واقعات کا یادآنا ، سلسلۂ خیال کا حصہ ہے۔ اقبال ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک کے دور کو یاد کرتے ہیں جب وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ میں مقیم تھے۔ اس زمانے میں امام بی بی مرحومہ ، اقبال کی سلامتی کے لیے فکر مندر ہتیں، راتوںکو اٹھ اٹھ کر ان کی بخیریت واپسی کے لیے دعائیں مانگتیں اور انھیں ہمیشہ اقبال کے خط کا انتظار رہتا۔ یہاں اقبال اپنی والدہ کی عظمت کے اعتراف میں بتاتے ہیں کہ میری تعلیم و تربیت، میری عظیم والدہ کے ہاتھوں ہوئی ، جن کی مثالی زندگی ہمارے لیے ایک سبق تھی۔ مگر افسوس کہ جب مجھے والدہ کی خدمت کا موقع ملا تو وہ دنیا سے رخصت ہو گئیں، البتہ بڑے بھائی شیخ عطا محمد نے ایک حد تک والدہ کی خدمت کی اور اب والدہ کی وفات پر وہ بھی بچوں کی طرح بلک بلک کر روتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ والدہ نے اپنے پیار ، شفقت اورخدمت کے ذریعے اپنی محبت کا جوبیج ہمارے دلوں میں بویا تھا، غم کا پانی ملنے پر اب وہ ایک پو دے کی صورت اختیار کر گیا ہے اور الفت کا تناور درخت بنتا جارہا ہے۔ ٭فلسفۂ حیات و ممات: والدہ سے وابستہ پرانی باتوں کو یاد کرتے ہوئے شاعر کو تقدیر اور موت کی بے رحمی کا خیال آتا ہے۔ چنانچہ (چھٹے بند سے) سلسلۂ خیال زندگی اور موت کے فلسفے کی طر ف مڑ جاتا ہے ۔ مرثیے کے آغاز میں بھی اقبال نے فلسفۂ جبر و قدر پر اظہارِ خیال کیا تھا، مگر یہاں موت اور تقدیر کے جبر کا احساس نسبتاً شدید اور تلخ ہے۔ کہتے ہیں دنیا میں جبر و مشیت کا پھندا اس قدر شدید ہے کہ کسی چیز کو اس سے مفر نہیں۔ قدرت نے انسانوں کی تباہی کے لیے مختلف عناصر ( بجلیاں، زلزلے، آلام و مصائب، قحط وغیرہ) کو مامور رکھا ہے۔ ویرانہ ہو یا گلشن، محل ہو یا جھونپڑی وہ اپنا کام کرجاتے ہیں۔ بے چارہ انسان اس پر آہ بھرنے کے سوا اور کیا کر سکتا ہے نہ مجالِ شکوہ اور نہ طاقت ِ گفتار، غرض زندگی گلا گھونٹ دینے والے طوق کے سوا کچھ نہیں ۔ لیکن تصو یر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ کائنات کے اندر موت کے مقابلے میں زندگی کا بھی بہر حال ایک مقام اور مرتبہ ہے۔ دنیا کی ساری رنگینیاں اور رعنائیاں، زندگی اور موت کی کشمکش سے ہی قائم ہیں، چنانچہ بند نمبر ۷ میں اقبال اسی دوسرے رخ کو پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جبر و قدر کی یہ حکمرانی دائمی نہیں بلکہ عارضی ہے، موت مستقلاً زندگی پر غالب نہیں آ سکتی کیونکہ اگر موت کو زندگی پر برتری ہوتی تو پھر زندگی کا نام و نشان بھی نظر نہ آتا اور یہ کارخانۂ کائنات نہ چل سکتا۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اصلاً زندگی اس قدر محبوب ہے کہ اس نے زندگی کو مغلوب نہیں ، غالب بنا یا ہے۔ انسان کو زندگی کے مقابلے میں موت اس لیے غالب نظر آتی ہے کہ اس کی ظاہر بین نگاہیں اصل حقیقت تک پہنچنے سے قاصر رہتی ہیں۔ موت تو ایک عارضی کیفیت کا نام ہے، جس طرح انسان لمحہ بھر کے لیے نیند کرکے پھر اٹھ کھڑا ہوتا ہے: موت اک ماندگی کا وقفہ ہے یعنی آگے چلیں گے دم لے کر ( میرؔ) آٹھویں بند کے آخر میں اقبال دنیا کی بے ثباتی اور زندگی کی ناپایداری کی ایک توجیہ پیش کرتے ہیں ۔ ان کے خیال میں فطرت ایک بااختیار خلّاق کی حیثیت رکھتی ہے جسے بناو اور بگاڑ پر پوری قدر ت حاصل ہے۔ فطرت کو خوب سے خوب تر کی جستجو رہتی ہے ، اس لیے وہ اپنے بنائے ہوئے نقوش خود ہی مٹاتی رہتی ہے تاکہ اس تخریب سے تعمیر کا ایک نیا اور مطلوبہ پہلو برآمد ہو سکے۔ اس طرح موت اور تخریب کا جواز یہ ہے کہ اس سے حیات ِنو کی ایک بہتر بنیاد فراہم ہو تی ہے۔ اوپر شاعر نے موت کو ایک عارضی کیفیت قرار دیا ہے، اب اس سلسلۂ خیال کو ایک مثال کے ذریعہ آگے بڑ ھاتے ہیں ، نویں بند کو چھوڑ کر دسویں بند میں اقبال نے ایک بیج کی مثال دی ہے جو تہِ خاک دبا پڑا ہے ۔ ظاہر ی طور پر وہ مردہ حالت میں ہے مگر درحقیقت وہ ایک نئی اور بہتر شکل میں زمین پر نمودار ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس مردہ دانے میں بھی زندگی کا شعلہ مستور ہے اور اسی کے بل بوتے پر وہ زندگی کی تجدید میں مصروف ہے، لہٰذا زندگی کو موت سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ فلسفۂ حیات و ممات سے متعلق یہ سلسلۂ خیال دسویں بند کے اختتام تک چلتا ہے۔ ٭عظمت انسان: اس کے درمیان ( نویں بند میں ) اقبال نے نظامِ کائنات میں انسان کے مقام اور اس کی عظمت کے بارے میں اظہارِ خیال کیا ہے۔ آغاز، آسمان میں چمکتے ہوئے ستاروں کے ذکر سے ہوتا ہے۔ اقبال کے خیال میں ستارے اپنی تمام تر آب و تاب، چمک دمک اور طوالت ِ عمر کے باوجود قدرت کے تکوینی نظام کے بے بس کارندے ہیں اور نہ جانے کب سے ایک محدود دائرے کے اندر اپنا مقررہ فرض ادا کر رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں انسان کے مقاصد کہیں زیادہ پاکیزہ تر،اس کی نگاہ کہیں زیادہ دور رس اور وسیع اور اس لامحدود کائنات میں اس کا مرتبہ کہیں زیادہ بلند ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ نظامِ کائنات میں انسان کا مقام ایسا ہی ہے ، جیسے نظامِ شمسی میں سورج کا مرتبہ، اس لیے موت انسان کو فنا نہیں کر سکتی۔ ٭غم و اندوہ کا ردّ ِ عمل: گیارھویں بند میں اقبال نے انسانی قلب و ذہن پر رنج و غم کے ردّ ِ عمل کا اظہار کیا ہے۔ کہتے ہیں لوگوں کا خیال ہے کہ موت کے زہر کا کوئی تریاق نہیں۔ البتہ زخمِ فرقت کے لیے وقت مرہمِ شفا کی حیثیت رکھتا ہے مگر اقبال کو اس سے اتفاق نہیں ہے۔ ان کاذاتی تجربہ یہ ہے کہ جب انسان کسی شدید مصیبت سے دوچار ہو اور مصیبت بھی نا گہاں ہو تو صبر و ضبط انسان کے اختیار میں نہیں رہتا۔ اس کی آنکھیں خون کا سرشک آباد بن جاتی ہیں۔ البتہ ایسے عالم میں انسان کے لیے تسکین کا صرف ایک پہلو ہوتا ہے ( اور یہ وہی پہلو ہے جس کی طر ف اقبال نے نظم کے آغاز میں ذکر کیا تھا ) کہ موت کسی دائمی کیفیت کا نام نہیں بلکہ یہ ایک عارضی حالت ہے۔ انسان مرتا ہے لیکن فنا کبھی نہیں ہوتا اور نہ ہو سکتا ہے۔ تسکین کا دوسرا پہلو یہ ہے جس طرح ہر رات کی سحر ہوتی ہے ( اور صبح کے وقت طائرانِ سرمست کی نوا نیند کی ماتی دنیا کو عروسِ زندگی سے ہم کنار کردیتی ہے ) اسی طرح موت کے وقفۂ ماندگی کے بعد انسان پھر بیدار ہو کر اٹھ کھڑا ہوگا۔ یہ اس کی زندگی کی نئی سحر ہوگی اوراس طرح وہ ایک نئے دور کا آغاز کرے گا… ( یہ بات بارھویں بند کے آخر تک بیان ہوئی ہے۔) ٭والدہ کے لیے دعا: نظم خاتمے کے قریب ہے، سلسلۂ خیال والدہ مرحومہ کی جانب مڑ جاتا ہے ۔ ابتدا میں شاعر نے والدہ کی رحلت پر جس بے قراری ، اضطراب او ر بے چینی کا اظہار کیا، وہ والدہ سے محبت رکھنے والے ایک مغموم و متأسف بچے کے درد و کرب اور تڑپ کا بے تابانہ اظہار تھا۔ لیکن فلسفۂ حیات و ممات پر غورو خوض کے بعد، شاعر نے جو نتیجہ اخذ کیا، وہ ایک پختہ کار مسلمان کی سوچ ہے۔ اقبال نے والدہ کی جدائی کے دردو غم کو اپنی ذات میں اسی طرح سمو لیا ہے کہ اب جدائی ایک مقدس اور پاکیزہ کیفیت بن گئی ہے: جیسے کعبے میں دعاؤں سے فضا معمور ہے یوں کہنا چاہئے کہ اقبال نے غم کا ترفّع ( sublimation) حاصل کر لیا ہے ۔ وہ والدہ کی وفات اور جدائی پر اس لیے بھی متأسف نہیں کہ موت کے بعد آخرت بھی زندگی ہی کی ایک شکل ہے۔ بلکہ حقیقی اور ابدی زندگی تو وہی ہے۔ آخری تین اشعار دعائیہ ہیں۔ اقبال دعا گو ہیں کہ جس طرح زندگی میں والدۂ ماجدہ ایک مہتاب کی مانند تھی جن سے سب لوگ اکتسابِ فیض کرتے تھے ، خدا کرے کہ ان کی قبر بھی نور سے معمور ہو اور خدا ان کی لحد پر بھی اپنی رحمت کا نزول فرماتا رہے۔ ’’ سبزۂ نورُستہ ‘‘ (تروتازہ اور نیا اگا ہوا سبزہ )خداکی رحمت کی علامت ہے۔ فنّی تجزیہ ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ درحقیقت ایک مرثیہ ہے۔ اس کی ہیئت ترکیب بندکی ہے۔ مرثیہ بحر رمل مثمن محذوف الآخر میں ہے۔ بحر کے ارکان یہ ہیں: فَاعِلَاتُنْ فَاعِلَاتُنْ فَاعِلَاتُنْ فَاعِلُنْ ٭لہجے کا تنوع: ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں ‘‘ ایک مرثیہ ہونے کی بنا پر اپنے موضوع کی مناسبت سے معتدل، نرم اور دھیما لہجہ رکھتا ہے۔ جن مقامات پر انسان کی بے بسی ، قدرت کی جبریت اور زندگی کی بے ثباتی کا ذکر ہوا ہے، وہاں لہجے کا سخت اور پرجوش ہونا ممکن ہی نہیں۔ جن حصوں میں شاعر نے والدہ سے وابستہ یادِرفتہ کو آواز دی ہے، وہاں اس کے لہجے میں در د و کرب اور حسرت و حرماں نصیبی کی ایک خاموش لہر محسوس ہوتی ہے۔ اس حسرت بھری خاموشی کو دھیمے پن سے بڑی مناسبت ہے۔ شاعر کے جذبات کے اتار چڑ ھاو نے بھی اس کے دھیمے لہجے کا ساتھ دیا ہے۔ پھر الفاظ کے انتخاب، تراکیب کی بندش اور مصرعوں کی تراش سے بھی یہی بات آشکارا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں: زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم صحبت ِ مادر میں طفلِ سادہ رہ جاتے ہیں ہم یاد سے تیری، دلِ درد آشنا معمور ہے جیسے کعبے میں دعاؤں سے فضا معمورہے آسماں تیر ی لحد پر شبنم افشانی کرے سبزہ نورُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے اس لہجے میں شاعر کے دل کا درد ، خستگی اور حرماں نصیبی گھل مل گئے ہیں۔ مرثیے میں بعض مقامات ایسے بھی ہیں جہاں شاعر کا لہجہ، مرثیے کے مجموعی لہجے سے قدرے مختلف ہے۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں شاعر نے فلسفۂ جبر و اختیار اور حیات و ممات پر غورو خوض کے بعد اپنے مثبت نتائج پیش کیے ہیں۔ یہ نتائج یاس و نامرادی اور افسردگی کے بجاے تعمیری نقطۂ نظر کے مظہر ہیں ، اس لیے ایسے مقامات پر شاعر کے ہاں جوش و خروش تو نہیں ، البتہ زندگی کی ایک شان اور گرم جوشی کا لہجہ ملتا ہے، مثلاً : شعلہ یہ کم تر ہے گردوں کے شراروں سے بھی کیا؟ کم بہا ہے آفتاب اپنا ستاروں سے بھی کیا؟ ______ موت ، تجدید مذاقِ زندگی کا نام ہے خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے ______ سینۂ بلبل کے زنداں سے سرود آزاد ہے سیکڑوں نغموں سے بادِ صبح دم آباد ہے اس لہجے میں ایک طرح کی حرکت اور زندگی کی حرارت ملتی ہے۔ ٭سوز و گداز: زیر ِمطالعہ مرثیہ اپنے تأثر کے اعتبار سے اقبال کے تمام مرثیوں میں ایک جداگانہ حیثیت رکھتا ہے ۔ غلام رسول مہر کے بقول اس کے اشعار ’’اتنے پر تاثیر ہیں کہ الفاظ میں ان کی کیفیت بیان نہیں ہو سکتی۔ غالباً یہ مرثیہ شعر و ادب کی پوری تاریخ میں بالکل یگانہ حیثیت رکھتا ہے اور شاید ہی کوئی دوسری زبان اس قسم کی نظم پیش کرسکے۔‘‘ (مطالبِ بانگِ درا: ص۲۷۹) اس انفرادیت اور اثر انگیزی کا سبب اس کا وہ سوز و گداز ہے جس سے نظم کے کسی قاری کا غیر متاثر رہنا ممکن نہیں۔ علامّہ اقبال نے اس کی ایک نقل اپنے والد محترم شیخ نور محمد کو بھیجی تھی۔ روایت ہے کہ مرثیہ پڑھتے ہوئے اس کے سوز وگداز سے ان پر گریہ طاری ہو جاتا اور وہ دیر تک روتے رہتے۔ مرثیے میں یہ سوز و گداز اس وجہ سے پیدا ہوا کہ اقبال کے پیش نظر ایک جذباتی موضوع تھا۔ ایک ایسے موضوع پر شعر کہتے ہوئے، جس کا انسان کے جذبات سے گہرا تعلق ہو، سوز وگداز کا پیداہونا ایک فطری امر ہے۔ ٭فارسیّت: یہ مرثیہ بھی اقبال کی ان نظموں میں سے ہے جن پر فارسی کا غالب اثر ہے۔ بحیثیت ِ مجموعی پوری نظم پر ایک نظر دوڑانے سے یہی احساس ہوتا ہے۔ مصرعوں کی تراش اور تراکیب کی بناوٹ بھی اسی پر شاہد ہے۔ بعض مصرعے ایک آدھ حرف یا لفظوں کے سوا فارسی میں ہیں: پردۂ مجبوری و بیچارگی تدبیر ہے ______ علم و حکمت رہزنِ سامانِ اشک و آہ ہے ______ خفتگانِ لالہ زار و کوہسار و رود بار ______ مثلِ ایوانِ سحر مرقد فروزاں ہو ترا ٭حسن ِ بیان کے چند پہلو: فنی اعتبار سے یہ مرثیہ حسن بیا ن کا ایسا خوب صورت نمونہ ہے جس کی مثال اردو شاعری میں شاید ہی ملے گی۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی نے ’’ والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :’’ فن کا کمال ہی یہ ہے کہ فن کے سارے وسائل کام میں لائے گئے ہوں لیکن ان میں ایک بھی توجّہ پر بار نہ ہو‘‘۔ زیر مطالعہ نظم میں زبان و بیان اور صنائع بدائع کے وسائل غیر شعوری طور پر استعمال کیے گئے ہیں۔ حسن بیان کے چندپہلو ملاحظہ ہوں: الف: تشبیہات: یاد سے تیری دلِ درد آشنا معمور ہے جیسے کعبے میں دعاؤں سے فضا معمور ہے ______ تجھ کو مثلِ طفلکِ بے دست و پا روتا ہے وہ ب: صنعتِ گری: ۱: صنعتِ مراعاۃ النظیر: آسماں مجبور ہے ، شمس و قمر مجبور ہیں انجمِ سیماب پا رفتار پر مجبور ہیں ______ زلزلے ہیں، بجلیاں ہیں ، قحط ہیں ، آلام ہیں کیسی کیسی دخترانِ مادرِ ایّام ہیں ۲۔ صنعتِ طباق ایجابی : (دو ایسے الفاظ کا استعمال جو معنی کے اعتبارسے ایک دوسرے کی ضد ہوں) : علم کی سنجیدہ گفتاری ، بڑھاپے کا شعور دنیوی اعزاز کی شوکت، جوانی کا غرور ۳۔ صنعتِ تجنیس مضارع: ( دو ایسے متجانس الفاظ کا استعمال جن میں صر ف قریب المخرج یا متحد المخرج حرف کا اختلاف ہو۔) جانتا ہو ں آہ! میں آلامِ انسانی کا راز ہے نواے شکوہ سے خالی مری فطرت کا ساز ۴۔ صنعتِ ترافق: ( جس مصرع کو چاہیں ،پہلے پڑ ھیں اور معنی میں کوئی فرق نہ آئے): دفترِ ہستی میں تھی زرّیں ورق تیری حیات تھی سراپا دین و دنیا کا سبق تیری حیات ۵۔ صنعتِ ایہام تضاد: مثلِ ایوانِ سحر مرقد فروزاں ہو ترا نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا ج:نئی اور خوب صورت تراکیب : دخترانِ مادرِ ایام۔ ماتم خانہ برنا و پیر۔ مایہ دار اشکِ عنابی ۔ طوقِ گلو افشار ۔ تجدیدِ مذاقِ زندگی ۔ سبزۂ نورُستہ۔ د ۔ قافیوں کی تکر ار اور نغمگی : دل مرا حیراں نہیں، خنداں نہیں ، گریاں نہیں ______ خفتگانِ لالہ زار و کوہسار و رود بار ہ ۔ محاکات: زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم صحبت ِ مادر میں طفل سادہ رہ جاتے ہیں ہم ______ مرثیے کا اختتام دعائیہ ہے۔ اقبال ایک مفکر و فلسفی کی نظر سے زندگی و موت اور جبر و قدر کے مسئلے پر اظہارِ خیال کرتے ہیں اور ساتھ ہی دنیا میں اپنی عزیز ترین ہستی ماں کی یاد میں مغموم اور مجبور انسان کی طرح آنکھوں کے سرشک آباد سے آنسو بھی بہاتے ہیں۔ بقول پروفیسر سیّد وقار عظیم یہاں :’’اقبال کی شخصیت دو مختلف اندازوں میں جلوہ گر ہوئی۔ ایک شخصیت تو اقبال کی وہی فلسفیانہ شخصیت ہے۔ جس کی بدولت اقبال کو اردو شاعری میں ایک منفرد حیثیت ملی ہے۔ اور دوسری شخصیت اس مجبور و مغموم انسان کی ہے جو ماں کی یاد میں آنسو بہاتے وقت یہ بھو ل جاتا ہے کہ وہ ایک مفکر اور فلسفی بھی ہے‘‘۔ ( اقبال، شاعر اور فلسفی: ص ۱۶۳؟ ۱۶۴) آخر میں والدہ ٔ مرحومہ کو خدا کے سپرد کرتے ہوئے اقبال دست بدعا ہیں کہ باری تعالیٰ مرحومہ کی قبر کو نور سے بھر دے اور اس پر اپنی رحمت کی شبنم افشانی کرتا رہے۔ غالباُ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ جدا ہونے والی کسی عزیز ہستی کے بارے میں، پسماندگان کی دعا اور خواہش اس سے مختلف نہیں ہو تی ۔ یہاں اقبال کا طرز فکر اور پیرایۂ اظہار ایک سچے مومن اور راسخ العقیدہ مسلمان کا ہے۔ ……………… خضر راہ ٭تعارف اور پس منظر ’’خضر ِراہ‘‘ علامّہ اقبال نے انجمن حمایت ِاسلام لاہور کے ۳۷ ویں سالانہ جلسے، منعقدہ ۱۶ اپریل ۱۹۲۲ئ، میں ترنم سے پڑ ھ کر سنائی ۔ یہ جلسہ اسلامیہ ہائی سکو ل شیراں والا گیٹ میں منعقد ہوا تھا۔ چودھری محمد علی بتاتے ہیں: ’’ جلسے سے چند روز قبل ان کی طبیعت ناساز تھی، مگر عین جلسے کے دن ان کی طبیعت سنبھل گئی۔ جلسے میں تشریف لائے۔ اگرچہ بوجہ نقاہت مسند پر بیٹھ کر نظم ’ خضر راہ ‘ سنائی لیکن آواز میں وہی سوزر اور لہجے میں وہی تاثیر تھی‘‘۔ ( سیارہ : اقبال نمبر۱۹۶۳ئ: ص۳۰) ’’خضرراہ‘‘ کو اقبال نے نہایت دردر انگیز لَے میں پڑ ھا تھا۔ غلام رسول مہر کا بیان ہے کہ :’’ یہ نظم سننے کے لیے بے شمار آدمی جمع ہو گئے تھے… پورا مجمع بیس ہزار سے کم نہ ہوگا۔ بعض اشعار پر اقبال خودبھی بے اختیار روئے اور مجمع بھی اشک بار ہو گیا۔ بیان کیا جاتاہے کہ اقبال پر جتنی رقت ’’ خضر راہ ‘‘ پڑ ھنے کے دوران میں طاری ہوئی ،اتنی کسی نظم کے دوران میں نہ ہوئی ‘‘۔ ( مطالب بانگِ درا: ص ۳۰۶) بعض دوسری نظموںکے برعکس ’’ خضرراہ‘‘پہلے سے شائع نہیں کی گئی۔ اقبال کے پاس نظم کا ایک قلمی نسخہ موجود تھا، تاہم نظم کا زیادہ ترحصہ انھوں نے حافظے کی مدد سے زبانی سنایا۔ نظم کی ابتدائی شکل میں چھٹے بند کا چوتھا شعر: نوعِ انسانی کے لیے سب سے بڑی لعنت یہ ہے شاہ راہِ فطرت اللہ میں یہ ہے غارت گری بانگِ درا کی ترتیب کے وقت اقبال نے اس شعر کو نظم سے حذف کر دیا۔ ’’صحرا نوردی‘‘ کے تحت تیسرا شعر ، ابتدائی صورت میں یوں تھا: ریت کے ٹیلے پہ وہ آہو کا بے پروا خرام وہ گداے بے برگ و ساماں ، وہ سفر بے سنگ و میل ’’زندگی ‘‘ کے تحت آخری شعر( یہ گھڑی محشر کی ہے …) ’’ خضر راہ‘‘ کے ابتدائی متن میں موجود نہیں تھا۔یہ ایک اور نظم ’’ کلاہِ لالہ رنگ‘‘ کاآخری شعر تھا۔ بعد میں نظم کو متروک قرار دے کر یہ شعر ’’ خضر راہ ‘‘ میں شامل کر دیا گیا۔ ’’خضرراہ‘‘ اقبال نے ۱۹۲۲ء میں لکھی۔ اس زمانے میں دنیاے اسلام کی حالت بد سے بد تر ہو چکی تھی۔ جنگ ِ عظیم دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے تباہی و مصیبت کا پیغام لائی تھی۔ سلطنت ِ عثمانیہ بکھر گئی تھی، عرب دنیا مختلف ٹکڑ وں میں بٹ چکی تھی، جن پر استعماری طاقتوں کے کٹھ پتلی شاہ حسین اور اس کے بیٹے دادِ حکمرانی دے رہے تھے۔ اعلانِ بالفور (۱۹۱۷ئ) کے ذریعے برطانیہ نے یہودیوں کو فلسطین میں صہیونی ریاست کے قیام کے لیے بنیاد فراہم کر دی تھی۔ ترکی کا اندرونی خلفشار بڑ ھ گیا تھا۔ مصطفی کمال اور ان کے ساتھیوں نے انقرہ میں متوازی حکومت قائم کر لی تھی۔ براے نام خلافت چند دنو ں کی مہمان نظر آتی تھی۔ بیرونی دباؤ بھی کم نہ تھا۔ ادھر ہندستان میں مسلمانوں کی حالت بہت قابلِ رحم تھی کیونکہ بہت سے لوگ تحریک ہجرت کی بے نظمی او رراہ نمائوں کی بے تدبیری کا نتیجہ بھگت رہے تھے۔ ۱۹۱۹ء میں جلیانوالہ باغ امرتسر کے الم ناک سانحے میں جنرل ڈائر کی وحشیانہ فائرنگ سے سیکڑوں افراد ہلاک ہو گئے اور پنجاب میں مارشل لا نافذ ہو ا، اس سے ہندستانیوں کی مشکلا ت میں اور اضافہ ہوا۔ فکری جائزہ زیر مطالعہ نظم میں اقبال نے، مختلف مسائل اپنے خیالات کے اظہار کے لیے خضر کے روایتی کردار کا سہارا لیا ہے۔ ٭خضر کی شخصیت: خضر کی شخصیت کے بارے میں تاریخی اور ادبی روایات معروف تو ہیں مگر مستند نہیں اور ان کی روشنی میں کسی واضح نتیجے تک پہنچنا ممکن نہیں۔ قرآن و حدیث میں خضر کا تذکرہ موجود ہے اور یہ ماخذ زیادہ یقینی ، مستند اور معتبر ہے۔ قرآن پاک کی سورۃ الکہف میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ایک واقعہ بیان ہوا ہے۔ اس واقعے کا تعلق اس دور سے ہے جب مصر میں بنی اسرائیل پر فرعون کے مظالم کا سلسلہ جاری تھا۔ قرآن پاک کے مطابق یہ واقعہ اس طرح ہے: ’’ (ذرا ان کو وہ قصہ سناؤ جو موسیٰ ؑ کو پیش آیا تھا )جبکہ موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا تھاکہ’’میں اپنا سفر ختم نہ کروں گا جب تک کہ دونوں دریاوں کے سنگم پر نہ پہنچ جاؤں، ورنہ میں ایک زمانۂ دراز تک چلتا ہی رہوںگا‘‘۔ پس جب وہ ان کے سنگم پر پہنچے[غالباً موسیٰ ؑ کا یہ سفر سوڈان کی جانب تھا اور مجمع البحرین سے مراد وہ مقام ہے جہاں موجودہ شہر خرطوم کے قریب دریاے نیل کی دو بڑی شاخیں البحرالابیض اور البحر الارزق آکر ملتی ہیں۔ سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ: تفیہم القرآن، جلد سوم، ص ۳۵]تو اپنی مچھلی سے غافل ہو گئے اور وہ نکل کر اس طرح دریا میں چلی گئی جیسے کہ کوئی سرنگ لگی ہو۔ آگے جاکر موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا:’’ لاؤ ہمارا ناشتا، آج کے سفر میں تو ہم بری طرح تھک گئے ہیں‘‘۔ خادم نے کہا: ’’آپ نے دیکھایہ کیا ہوا؟جب ہم اس چٹان کے پاس ٹھہرے تھے، اس وقت مجھے مچھلی کا خیال نہ رہا اور شیطان نے مجھ کو ایسا غافل کر دیا کہ میں اس کاذکر (آپ سے کرنا) بھول گیا۔ مچھلی تو عجیب طریقے سے نکل کر دریا میں چلی گئی‘‘۔ موسیٰ نے کہا’’اس کی تو ہمیں تلاش تھی‘‘۔ چنانچہ وہ دونوں اپنے نقش قدم پر پھرواپس ہوئے اور وہاں انھوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا، جسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا اور اپنی طرف سے ایک خاص علم عطا کیا تھا۔ ’’ موسیٰ نے اس سے کہا:’’ کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں تاکہ آپ مجھے بھی اس دانش کی تعلیم دیں جو آپ کو سکھائی گئی ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا:’’ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے اور جس چیز کی آپ کو خبر نہ ہو، آخر آپ اس پر صبر کربھی کیسے سکتے ہیں۔‘‘ موسیٰ نے کہا:’’ ان شاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں کسی معاملے میں آپ کی نافرمانی نہ کروں گا۔ ‘‘ اس نے کہا:’’ اچھا ، اگر آپ میرے ساتھ چلتے ہیں تو مجھ سے کوئی بات نہ پوچھیں، جب تک کہ میں خود اس کا آپ سے ذکر نہ کروں‘‘۔ اب وہ دونوں روانہ ہوئے۔ یہاں تک کہ وہ ایک کشتی میں سوار ہوگئے تو اس شخص نے کشتی میں شگاف ڈال دیا۔ موسیٰ نے کہا :’’آپ نے اس میں شگاف ڈال دیا تاکہ سب کشتی والوں کو ڈبودیں؟ یہ تو آپ نے ایک سخت حرکت کر ڈالی‘‘۔ اس نے کہا:’’ میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے ‘‘؟ موسیٰ نے کہا:’’بھول چوک پر مجھے نہ پکڑیے ، میرے معاملے میں آپ ذرا سختی سے کام نہ لیں‘‘۔ ’’ پھر وہ دونوں چلے۔ یہاں تک کہ ان کو ایک لڑکا ملا اور اس شخص نے اسے قتل کردیا۔ موسیٰ نے کہا:’’ آپ نے ایک بے گناہ کی جان لے لی، حالانکہ اس نے کسی کا خون نہ کیا تھا۔ یہ کام تو آپ نے بہت ہی برا کیا‘‘ ۔اس نے کہا:’’ میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے‘‘۔ موسیٰ نے کہا:’’ اس کے بعد اگر میں آپ سے کچھ پوچھوں تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھیں۔ لیجیے، اب تو میری طر ف سے آپ کو عذر مل گیا‘‘۔ ’’ پھر وہ آگے چلے، یہاں تک کہ ایک بستی میں پہنچے اور وہاں کے لوگوں سے کھانا مانگا۔ مگر انھوں نے ان دونوں کی ضیافت سے انکار کر دیا۔ وہاں انھوں نے ایک دیوار دیکھی جو گراچاہتی تھی۔ اس شخص نے اس دیوار کو پھر قائم کر دیا۔ موسیٰ نے کہا: ’’ اگر آپ چاہتے تو اس کام کی اجرت لے سکتے تھے‘‘۔ اس نے کہا: ’’ بس ، میرا تمھارا ساتھ ختم ہوا۔اب میں تمھیں ان باتوں کی حقیقت بتاتاہوں ، جن پر تم صبر نہ کر سکے۔ اس کشتی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ چند غریب آدمیوں کی تھی جو دریا میں محنت مزدوری کرتے تھے۔ میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں کیونکہ آگے ایک ایسے بادشاہ کا علاقہ تھا جو ہر کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا۔ رہا وہ لڑکا تو اس کے والدین مومن تھے، ہمیں ا ندیشہ ہوا کہ یہ لڑکا اپنی سرکشی اور کفر سے ان کو تنگ کرے گا۔ اس لیے ہم نے چاہا کہ ان کا رب اس کے بدلے ان کو ایسی اولاد دے جو اخلاق میں بھی اس سے بہتر ہو اور جس سے صلہ رحمی بھی زیادہ متوقع ہو اور اس دیوار کا معاملہ یہ ہے کہ یہ دو یتیم لڑکوں کی ہے جو اس شہر میں رہتے ہیں۔ اس دیوار کے نیچے ان بچوں کے لیے ایک خزانہ مدفون ہے اور ان کاباپ ایک نیک آدمی تھا، اس لیے تمھارے رب نے چاہا کہ یہ دونوں بچے بالغ ہو ں اور اپنا خزانہ نکال لیں۔ یہ تمھارے رب کی رحمت کی بنا پر کیا گیا ہے۔ میں نے کچھ اپنے اختیار سے نہیں کر دیا ہے۔ یہ ہے حقیقت ان باتوں کی جن پر تم صبر نہ کر سکے‘‘۔ ( سورۃ الکہف: ۶۰۔۸۲ ترجمہ قرآنِ مجید از سیّد ابوالاعلیٰ مودودی: ص۷۶۹۔۷۷۳) اس واقعے میں محض ایک ’’ بندے ‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے اس کا نام نہیں بتایا گیا مگر معتبر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کانام خضر ہے۔ قرآن پاک کے بیان کردہ مندرجہ بالا واقعے کے مطابق حضرت خضرؑ کے بارے میں یہ وضاحت نہیں ملتی کہ وہ انسان تھے یا کوئی غیرانسانی مخلوق؟ البتہ یہ ضرور پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں عقل و دانش کی غیر معمولی صلاحیت عنایت کی تھی۔ اسی لیے حضرت موسیٰ ؑ بھی دانش کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ان کے پاس پہنچے۔ علما کا رجحان یہ ہے کہ خضر ایک غیر انسانی شخصیت ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے تفویض کردہ امور و افعال کی انجام دہی کے لیے مقرر ہے۔ بھولے بھٹکوں کی راہنمائی بھی ان میں سے ایک کام ہو سکتا ہے۔ ٭صحرا نوردی اور گردشِ پیہم: خضر سے شاعر کا پہلا سوال یہ ہے : چھوڑ کر آبادیاں، رہتا ہے تو صحرا نورد زندگی تیری ہے بے روز و شب و فردا و دوش یعنی خضر کو صحرا نوردی اس قدر عزیز کیوں ہے؟ دراصل اقبال طبعاً صحرائیت اور بدویت پسند ہیں اور اپنی اس پسندیدگی کے اظہار و بیان کے لیے ایک سوال کی صورت میں وجہ جواز پیدا کی ہے۔ صحرا نوردی کا اقبال کے بنیادی فلسفے سے گہرا تعلق ہے۔ اقبال کی شاعری کی بنیاد ان کا انقلابی فکر ہے ۔ ان کے نزدیک فرد کی بقا، قوموں کی تعمیر و ترقی اور تسخیرِ کائنات کے لیے محنت ِ پیہم، جہدِ مسلسل، کشمکش و معرکہ آرائی، سعی و عمل اور سخت جانی و سخت کوشی کی خصوصیات بہت ضروری ہیں۔ چونکہ ان اوصاف کی پختگی میں صحرانوردی سے مدد ملتی ہے، اس لیے انھیں صحرا نوردی عزیز ہے۔ جب انسان صحر ا نوردی کے لیے نکل کھڑا ہوتا ہے تو وہ ایسے ذوق و شوق سے آشنا اور ایسی لذت سے ہم کنار ہوتا ہے جو اسے راحت و اطمینان اور عیش کوشی کی زندگی میں کبھی نصیب نہیں ہو سکتی۔ صحرا نوردی کو پرکشش بنانے کے لیے اقبال اب ایک پر لطف صحرائی منظر کی تفصیل پیش کرتے ہیں۔ اس منظر کا نقشہ یہ ہے: صحرا میں کسی نخلستان کے آس پاس کوئی قافلہ اترا ہوا ہے۔ یہ قافلہ ہماری دنیا کے لوازمات سے بے پروا اور سفر کے دنیاوی پیمانوں سے بے نیاز ہے۔ نخلستان کے چشمے پر اہل کرواں کا جمگھٹا دیکھ کر جنت کے کوثر و تسنیم اور سلسبیل کی یاد تازہ ہوتی ہے جس کے گرد مومنین ساقی ِ کوثر کے ہاتھوں آبِ حیات پینے کے لیے بے تاب ہوں گے۔ نخلستان کے گرد، دور دور تک ریت کے ٹیلے بکھرے ہوئے ہیں اور ان پر آہوانِ صحرائی ایک شانِ بے نیازی اور اندازِ دل ربائی کے ساتھ محو خرام ہیں اور اب شام ہو گئی ہے۔ صحرا میں چاروں طرف کامل سکوت چھایا ہوا ہے۔ ایسے میں غروبِ آفتاب کامنظر کس قدر دل فریب و دل آویز ہے۔ سیکڑوں سال پہلے غروبِ آفتاب کا ایسا ہی منظر حضرت ابراہیم ؑ کے لیے بصیرت افروزی اور خداشناسی کا پیغام لایاتھا۔ (قرآن پاک کی سورۃ الانعام میں یہ واقعہ تفصیل سے مذکور ہے) اسی صحرا میں شام کے وقت جب آفتاب بالکل غروب ہونے کو ہے ، ایک قافلہ اپنا سامانِ سفر تازہ کرنے کے بعد اگلی منزل کے لیے روانہ ہو رہاہے۔ فضاے دشت میں بانگ ِ رحیل بلند ہو رہی ہے ۔ رات ڈھل رہی ہے۔ صبح صادق قریب ہے۔ مشرق سے ستارۂ سحری نمودار ہوا ہے۔ اس کی نمود میں ایسا حسن ، رعنائی اور لطافت ہے کہ بامِ گردوں سے جبریلِ امین جھانکتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ ان حسین مناظر اور پاکیزہ کیفیات کی دل آویزی میں کچھ ایسی کشش ہے کہ محبت کے سودائی ،مادّی زندگی کی آلودگیوں سے فرار ہو کر ویرانوں (بالفاظ دیگر دل فریب صحراؤں) کی تلاش میں سر گرداں رہتے ہیں۔ بدویت کا ایسا بھر پور مرقع پیش کرنے کے بعد وہ قاری کو اس نتیجے تک لے آتے ہیں کہ کسی کو اس صحرا نوردی پر تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ انسانی زندگی اسی صحرا نوردی ، تگاپوے دمادم، سخت جانی اور سرگرانی سے عبارت ہے اور حیاتِ انسانی کاوجود انھی خصوصیات کا مرہونِ منت ہے۔ مگر اس سے قطع نظر اقبال کی صحرائیت پسندی کے کچھ اور وجوہ بھی ہیں : ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری کا کہنا بالکل بجا ہے:’’ اقبال دشت ِ حجاز پر مٹا ہوا ہے‘‘ عبدالسلام ندوی کے خیال میں اس کا سبب یہ ہے کہ دورِ اول کے مسلمانوں کا اصلی مولدومنشا ہی صحراے عرب ہے… عرب کی سادہ، صحرائی اور بدویانہ زندگی ہی نے دورِ اول کے مسلمانوں میں فاتحانہ اخلاق پیدا کیے تھے… پھر یہ کہ صحرائی زندگی میں …تکلف و تصنع کا شائبہ بھی نہیں ہوتا۔ اس لیے اخلاق ، مذہب اور معاشرت سب اپنی اصلی حالت پر قائم رہتے ہیںاور فطرت کا جو منشاہے ، وہ پورا ہوتا رہتا ہے… صحرا نشین آدمی میں قو ّتِ برداشت بہت زیادہ ہوتی ہے اور قناعت پسندی کے سبب اس کی ضروریات اور مطالبے نسبتاً بہت کم ہوتے ہیں۔ کسی بڑے شہر کے باسی یک متمدن انسان میں وہ جوش و لولہ نہیں ہوتاجو عام طورپرصحرا نشینوں میں پایا جاتا ہے: فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی یا بندۂ صحرائی یا مردِ کہستانی صحرا کی بے سروسامانی اور خود دارانہ زندگی کا نام اقبال کی اصطلاح میں ’’ فقر‘‘ ہے ۔ فقر کی بدولت صحرائی علاقوں سے مجدد ، رفارمر اور پیغمبر اٹھتے رہے ہیں۔ اقبال روحانی اور جسمانی قو ّتوں کے حصول کے لیے صحرائیت و بدویت کو ضروری سمجھتے ہیں ۔ یہی قو ّت دین و دنیا کی سعادتوں کا سنگ بنیاد ہے۔ ( اقبال کامل: ص ۲۸۱- ۲۸۲) پروفیسر آسی ضیائی کے خیال میں اقبال کی بدویت پسندی کا ایک اہم نفسیاتی سبب ان کے ’’اس ردّ ِ عمل میں دیکھا جا سکتا ہے جو ان کے ذہن میں فرنگی تہذیب کے خلاف پیدا ہوا۔ چونکہ یورپ کی سائنسی اور علمی سرگرمیوں کے سوا، انھیں یورپ کی ہر چیز سے تنفّر ہو گیا تھا، اس یورپ کی تمدنی زندگی کی سطحیت ، تصنع اور عافیت سوزی بھی بری طرح کھٹکنے لگی اور انھوں نے محسوس کیا کہ تمدن کی اس انتہا پر پہنچنے کے بعد انسان کے لیے تباہی ہی تباہی ہے جس سے پناہ، صحرا و کوہساری کے پرسکون ماحول میں مل سکتی ہے۔ ( کلام اقبال کا بے لاگ تجزیہ: ص ۱۶۹۔۱۷۰) اقبال خودکو ’’لالۂ صحرایم‘‘ کہتے ہیں۔ انھیں لالۂ صحرا سے خاص انس ہے۔ وہ بار بار اس کی خوبیوں کا ذکر کرتے ہیں ۔ یہ بھی ان کی بدویت پسندی کی دلیل ہے۔ ٭زندگی کی حقیقت: شاعر کا دوسرا سوال انسانی زندگی کی حقیقت و ماہیت کے بارے میں ہے۔ انسانی زندگی کی حقیقت اس وقت تک معلوم نہیں ہوسکتی جب تک اس کائنا ت اور دنیاکی تخلیق کی اصل غرض و غایت کا پتا نہ چلے۔ کائنات اور انسان کے بارے میں دو نظریے اہم اور قابلِ لحاظ ہیں: ایک نظریے کے مطابق کائنا ت کی تخلیق محض اتفاقی ہے۔ کائنات کی تمام چیزیں جن میں ہماری دنیا اور اس کے باسی بھی شامل ہیں خود بخود وجود میں آگئی ہیں۔ اور ان کی خلقت کا سبب مادّے کے سوا کوئی اور شے نہیں۔ ڈاکٹر یوسف حسین خاں نے اسے حیات و کائنات کی ’’ فطری توجیہ‘‘ کا نا م دیا ہے۔ قدیم ملوکیت اور شاہی نظام، تہذیب ِ مغرب اور سرمایہ داری ، مارکسی فکر اور کمیونزم … سب اسی نظریے کی پیداو ار ہیں۔ اقبال کے خیال میں ان سب نظاموں نے انسانیت کو دہکتے ہوئے جہنم کے کنار ے پہنچا دیا ( علامّہ اقبال کا یکم جنوری ۱۹۳۸ء کا نشری پیغام: حرفِ اقبال، ص ۲۲۴- ۲۲۵) دوسرے گروہ نے انسان کو لاچار و بے بس ، مجبور ، عاجز اور مسکین قرار دیا۔ زندگی ایک وبال ٹھہری۔ ارسطو کا قول ہے: ’’پیدا نہ ہونا سب سے اچھا ہے اور موت زندگی سے بہتر ہے‘‘۔ رواقیت (Stoicism) کے نظریات پیدا ہوئے ۔حکما و رواقیّین کے نزدیک انسان کا خود اپنے آپ کو قتل کرنا کوئی برا کام نہیں تھابلکہ ایک ایسا باعزت فعل تھا کہ لوگ جلسے کرکے ان میں خودکشیاں کیا کرتے تھے۔ حد یہ ہے کہ افلاطون جیسا حکیم بھی اسے کوئی معصیت نہیں سمجھتا تھا۔ ( سید ابوالاعلیٰ مودودی: الجہادفی الاسلام: ص ۱۹) شوپن ہار کے فلسفے کاخلاصہ یہ ہے کہ دنیا ایک خراب آباد یا زندوں کی دوزخ ہے۔ تیاگ، رہبانیت، ترکِ دنیا اور عجمی تصو ّف کو انھی بنیادوں پر فروغ ہوا۔ یہ نظریہ دنیا میں امن و سلامتی اور خوش حالی کا موجب نہیں ہو سکتا۔ حیات و کائنات کے بارے میں دوسرا نظریہ اسلام کا ہے ۔ جس کے مطابق اس کائنات کو ایک بلند و برتر ہستی نے ،جور ب العالمین ہے،تفریح طبع کی خاطر نہیں بلکہ ایک خاص مقصد کے پیش ِ نظر تخلیق فرمایا ہے۔ کائنات کا نظام اس کے مقررہ اصولوں کے مطابق چل رہا ہے۔ کائنات کی کوئی شے رب العالمین کے حکم سے سر مو انحراف نہیں کر سکتی۔ اس نظام میں انسان کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ دیگر مخلوقات کو اس کی خدمت کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ انسان قدرت کے مخفی خزانو ںکو اپنے کام میں لاتے ہوئے زندگی کونہ صرف بہتر اور خوش حال بناسکتا ہے بلکہ اسے ایسا کرنے کی تاکیدکی گئی ہے۔ مگر اس کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ وہ چند اصولوں اور قوانین کی پابندی کرے ۔ احکام و فرائض کا خیال رکھے اور اوامر و نواہی کو بجالائے۔ ان کے بارے میں وہ جوا ب دہ ہے ۔ یہی تصو ّرآخرت ہے۔ جواب دہی کی پابندی انسان پر اس لیے عائد کی گئی کہ اس کی سر گرمیوں میں تواز ن قائم رہے۔ اسی کو ’’ فلاح و کامرانی‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ مختصر اً، اس قرآنی فکر کو ہم تین پہلوؤں میں تقسیم کر سکتے ہیں: ۱۔ انسانی شرف و فضیلت اور عظمت آدم ۲۔ انسانی زندگی میں عمل و حرکت کی اہمیت اور اس کی قو ّت تعمیر و تسخیر( خودی) ۳۔ زندگی کی ناپایداری اور امتحان گاہ( تصو ّرِآخرت) جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے اقبال کے نزدیک انسانی زندگی ا ور اس کے شرف کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کے اندر جرأت و بے باکی ، وسیع النظری، بلندہمتی، استقلال اور ’’گرم دم جستجو‘‘ ’’ نرم دم گفتگو‘‘ جیسی خصوصیات و کیفیات پیدا ہوں ۔ وہ امروز و فردا کے چکر میں الجھے نہ سود و زیاں کے اندیشے میں مبتلا ہو۔ یہ سب باتیں اس لیے ضروری ہیں کہ انسان کے لیے کارِجہاں بہت دراز ہے۔ اس مصرعے: ’’جاوداں، پیہم دواں، ہردم جواں ہے زندگی‘‘ کی تشریح اقبال کے ہاں جابجا ملتی ہے: ستار وں سے آگے جہاں او ر بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں ہر لحظہ نیا طور ، نئی برق تجلی اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا حیات ذوقِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں زندگی کے اسی تحرک میں سرِّآدم مضمر ہے۔ یہ سر آدم کیا ہے؟ تسخیر و تعمیرکائنات کی وہ قوّت جو انسانی زندگی میں پنہاں ہے ۔یہ قو ّت اسی صورت پیدا ہو سکتی ہے کہ انسان اپنے اندر خدا کی ودیعت کر دہ خفتہ صلاحیتوں کو بیدار کرے۔ یہ دوسری چیز ہے جس پر نظم کے اس حصے میں اقبال نے زور دیا ہے۔ ۲۔ تسخیر و تعمیر کائنات، فکر اقبال کا ایک اہم پہلو ہے جو براہِ راست قرآ ن پاک سے ماخوذ ہے۔ دراصل انسان کو کائنات کی مخلوقات پر جو فضیلت عطاکی گئی ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی پوری صلاحیت اور استعداد کو بروے کار لاکر زندگی کو اسلامی معیاروں کے مطابق بہتر اور حسین بنانے کے لیے پیہم جدوجہد کرے اور اسی کا نام جہاد ہے ۔ اسلام میں جہاد پر جس قدر زور دیا گیا ہے، وہ محتاج بیان نہیں ہے۔ زیر مطالعہ نظم میں اقبال نے انسان کی قو ّتِ تعمیر و تسخیر کے ذکر کو انتہائی مربوط شکل میں پیش کیا ہے۔ ۳۔حیات و کائنات کا تیسراپہلو یہ ہے کہ دنیا ایک ناپایدار چیز ہے اور یہ انسان کے لیے دارالامتحان ہے۔ اس سلسلے میں قرآنی فکر کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان اس دنیا میں غیر ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اس کے اعمال کاحسا ب لیا جائے گا اور ہر ایک کو اس کے کیے کا بدلہ ملے گا۔ زندگی کے اس تیسرے پہلو کو اقبال نے صرف ایک شعر میں بیان کر دیا ہے: قلزم ہستی سے تو ابھرا ہے مانندِ حباب اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی اقبال چاہتے ہیں کہ انسان دنیا کی اس آزمایش گاہ سے، جو اس کے لیے دارالامتحان ہے ، کندن بن کر نکلے۔ امتحان کی اس تیاری کے لیے وہ انسان کو باربار اس کے امتیازوشرف کا احساس دلاتے، اس کے ذوقِ عمل و جدوجہد کو ابھارتے اور خاتمے پر ایک بار پھر اسے آزمایش کے لیے تیار ہونے کی ہدایت کرتے ہیں: یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصۂ محشر میں ہے پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے اس شعر کی تنبیہ نما نصیحت کا مخاطب بحیثیت مجموعی بنی نوع انسان اور ضمناً ہندی مسلمان ہے۔ ۲۲- ۱۹۲۱ء میں عالم اسلام کے سیاسی و تہذیبی حالات کا مطالعہ کیاجائے تو ’’ یہ گھڑی محشر کی ہے‘‘ کی صداقت سمجھ میں آتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان ابھی تک غفلت کی نیند سور ہا ہے۔ ٭قدیم ملوکیت وشہنشاہیت: اقبال ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت پر یقین رکھتے تھے۔ اقبال تمہیداً سلطانی و حاکمیت کے اس بنیادی اصول اور انسانی برہمنیت کے مختصر تذکرے کے بعد خواجگی کی قدیم صورت ( شہنشاہیت اور ملوکیت) کے بیان کی طرف آتے ہیں۔ قدیم ملوکیت کی بنیاد ہوس کے ’’پنجۂ خونیں‘‘ اور جبر و استبداد پر استوار تھی۔ وضاحت کے لیے اقبال نے ’’رمز آیہ اِنَّ الْمَلُوْکَ‘‘کہہ کر قرآنی تلمیح کاسہارا لیا ہے۔ سورۃ النمل میں آتا ہے: اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً اَفْسَدُوْہَا وَ جَعَلُوْا اَعِزَۃَّ اَہْلِہَا اَذِلَّۃٌ (سورۃالنمل: ۳۴)بادشاہ جب کسی ملک میں گھس آتے ہیں تو اسے خراب اور اس کے عزت والوں کو ذلیل کردیتے ہیں۔ علامّہ اقبال، قرآنی تلمیح کے حوالے سے جو کچھ کہنا چاہتے ہیں، مولانا مودودی نے بہت عمدہ پیراے میں اس کی وضاحت کی ہے۔ مذکورہ قرآنی آیت کی تشریح کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں: ’’ اس ایک فقرے میں امپیریلزم اور اس کے اثرات و نتائج پر مکمل تبصرہ کر دیا گیا ہے۔ بادشاہوں کی ملک گیری اور فاتح قوموں پر دست درازی کبھی اصلاح اور خیر خواہی کے لیے نہیں ہوتی ۔ اس کی غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ دوسری قوم کو خدانے جو رزق دیا ہے اور جو وسائل و ذرائع عطا کیے ہیں ، اس سے وہ خو د متمتع ہو ں اور اس قوم کو اتنا بے بس کر دیں کہ وہ کبھی ان کے مقابلے میں اپنا سر اٹھا کر اپنا حصہ نہ مانگ سکے ۔ اس غرض کے لیے وہ اس کی خوش حالی اور طاقت اور عزت کے تمام ذرائع ختم کر دیتے ہیں۔ اس کے جن لوگوں میں بھی اپنی خودی کا دم داعیہ ہوتا ہے، انھیں کچل کر رکھ دیتے ہیں۔ اس کے افراد میں غلامی، خوشامد ، ایک دوسرے کی کاٹ ، ایک دوسرے کی جاسوسی ، فاتح کی نقالی ، اپنی تہذیب کی تحقیر، فاتح تہذیب کی تعظیم اور ایسے ہی دوسرے کمینہ اوصاف پیدا کردیتے ہیں اور انھیں بتدریج اس بات کا خوگر بنا دیتے ہیں کہ وہ اپنی کسی مقدس سے مقدس چیز کو بیچ دینے میں تأمّل نہ کریں اور اجرت پر ہر ذلیل سے ذلیل خدمت انجام دینے کے لیے تیار ہو جائیں‘‘۔ (تفہیم القرآن:حصہ سوم: ص ۵۷۳) ملوکیت کی انھی چالبازیوں اور مکاریوں کو اقبال نے جادو گری، ساحری، سازِ دلبری اور طلسم ِ سامری کا نام دیا ہے۔ سراج الدین پال کے نام ایک خط میں ’’ حکمران کی ساحری‘‘ کی تشریح وہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:’’ انحطاط کا سب سے بڑا جادو یہ ہے کہ یہ اپنے صید پر ایسا اثرڈالتا ہے ، جس سے انحطاط کا مسحور اپنے قاتل کو اپنا مربی تصو ّر کرنے لگ جاتا ہے ۔ یہی حال اس وقت مسلمانوں کا ہے‘‘۔ مطلق العنان حکمرانوں نے ہر دور میں بے بس اور کمزور انسانوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ فراعنۂ مصر ، تیمور ، چنگیز خان ، ہلاکو خان اور قدیم شاہانِ روم اس کی ادنیٰ مثالیں ہیں۔ دنیا کی کوئی قوم ملوکانہ چنگیزیت سے محفوظ نہیں رہی۔ بقول اقبالؔ: ازو ایمن نہ رومی نے حجازی است! شخصی حکومتوں میں بادشاہ اپنے سحر کو قائم رکھنے کے لیے اشرفیوں اور جاگیروں کی تقسیم اور لکھ ہزاری مناصب اور خلعتوں کے عطا ایسے حربوں سے کام لیتے تھے جبکہ جدید دور میں تمغے ، اعزازات اور اونچے مناصب اسی مقصد کو پورا کرتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں ’’سازِدلبری‘‘ کی حیثیت رکھتی ہیں: شیاطینِ ملوکیت کی آنکھوں میں ہے وہ جادو کہ خود نخچیر کے دل میں ہو پیدا ذوق ِ نخچیری ان ’’ساز ہاے دلبری ‘‘کو انسان کے حلقۂ گردن میں ڈال کر اسے رسوا کیا گیا۔ حالانکہ وہ فطرتاً آزاد پیدا کیا گیاہے۔ اس عالم میں ملوکیت کے لیے جبر و استبداد کا کھیل جاری رکھنا مشکل نہیں ہوتا : خواجگی میں کوئی مشکل نہیں رہتی باقی پختہ ہو جاتے ہیں جب خوے غلامی میں غلام تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جبر و استبداد کایہ سلسلہ جب ایک خاص حد سے آگے بڑ ھ جاتا ہے توفطرت مداخلت کرکے ظالم کا ہاتھ روک دیتی ہے اور اسی قوم سے کوئی ایسافر د پیدا ہوتا ہے یا کوئی ایسی تحریک اٹھ کھڑی ہوتی ہے جو استبداد کا تختہ الٹ کر ملوکیت کو اس کی قبر میں دفن کر دیتی ہے: خونِ اسرائیل آجاتا ہے آخر جوش میں توڑ دیتا ہے کوئی موسیٰ طلسمِ سامری فراعنۂ مصر‘ قیصرانِ روم ‘ اکاسرۂ ایران ‘ شاہانِ یونان اور دنیا کے دوسرے جابر حکمرانوں اور شخصی ملو کیتوں کا زوال اسی شعر کی ادنیٰ تفسیر ہے۔ اس شعر میں جو تلمیحات استعمال ہوئی ہیں‘ ان کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت موسیٰ فرعون کے گھرانے میں پرورش پا کر جوان ہوئے ۔ ایک روز شہر میں گھوم رہے تھے کہ ایک جگہ انھوں نے ایک اسرائیلی اور قبطی کو دست و گریبان دیکھا۔ قبطی حکمران قوم سے تعلق رکھتا تھا اور اسرائیلی رعایاتھے۔ فرعون کی سلطنت میں ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جاتے تھے ۔ حضرتِ موسیٰ ؑ یہ منظر دیکھ کر اپنے جذبات پر قابونہ رکھ سکے اور انھوں نے اسرائیلی کو پٹتا دیکھ کر اس کے مد ِ ّ مقابل قبطی کو ایک زوردار گھونسا رسید کیا‘جس سے وہ موقع ہی پرہلاک ہو گیا: ’’خونِ اسرائیل آجاتا ہے آخر جوش میں‘‘کا ایک اشارہ تو اسی واقعے کی طرف ہو سکتا ہے۔ دوسرے مصرعے میں ’’ طلسم سامری‘‘ کی تلمیح استعمال کی گئی ہے۔ یہ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ جب حضرت موسیٰؑ بنی اسرائیل کو لے کر جزیرہ نماے سینا میں پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو چالیس شب و روز کے لیے کوہِ طور پر طلب کیا ۔ آپ کی غیر حاضری میں ’’سامری‘‘ نامی ایک شخص نے سونے کو پگھلا کر ایک بچھڑے کی شکل بنائی ۔ یہ بچھڑا زندہ بیلوں کی سی آواز نکالتا تھا۔ بنی اسرائیل اس بچھڑے کی پرستش کرنے لگے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے واپسی پر یہ ماجرا دیکھا تو انھیں سخت غصہ آیا۔ انھوں نے اپنی قوم کو لعنت و ملامت کی۔ سامری کا معاشرتی مقاطعہ کیا گیا یا وہ کوڑھ ایسی بیماری میں مبتلا ہو گیا۔ ٭جمہوریت: پانچویں صدی عیسوی میں رومن امپائر کا نظام درہم برہم ہو گیا۔ یورپ کی تمدنی و سیاسی اور معاشی وحدت بالکل پارہ پارہ ہو گئی۔ یورپ چھوٹے چھوٹے اجزا میں بٹ گیا اور نظام جاگیر داری (Feudal System)کا آغاز ہوا۔ کلیسا نے نوخیز نظامِ جاگیرداری سے موافقت کر لی (اور اس کا پشت پناہ بن گیا۔ یہ گویا ملوکیت کی نئی شکل تھی) پھر نشأت ثانیہ (Renaissance)کی ہمہ گیر تحریک سے یہ جمود ٹوٹا۔ خیالات‘ معلومات اور ترقی یافتہ طریقوں سے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ کلیسا اور جاگیرداری کے خلاف کشمکش شروع ہوگئی۔ ان دونوں کے خلاف قوم پرستی کا بت تراشا گیا۔ دین و سیاست میں تفریق پیدا ہوئی۔ اخلاقی اقدار کمزور ہو گئیں۔ زندگی کے ہر شعبے اور راہِ عمل میں مکمل آزادی کا پرچار ہونے لگا۔ یہی خیالات جدید جمہوریت کی بنیاد بنے۔ جدید مغربی جمہوریت کو اقبال نے اسی لیے قدیم ملوکیت کی نئی شکل قرار دیا کہ نتائج کے اعتبارسے یہ بھی قیصریت سے مختلف نہ تھی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مغرب میں دین و اخلاق کو سیاست سے بے دخل کر دیا گیا۔ تحریک نشأت ثانیہ کی انتہا پسندی کا نتیجہ یہ ہوا کہ میکاولی جیسے لوگوں نے کھلم کھلا کہا کہ سیاست میں اخلاقی اصولوں کا لحاظ رکھنا ضروری نہیں (اسی لیے علامّہ نے میکاولی کو ’’ مرسلے از حضرتِ شیطان‘‘ کہا ہے) اقبالؔ نے ’’ خضر راہ‘‘ میں دین و سیاست کی علاحدگی سے پیدا ہونے والے مفاسد کا ذکر اگرچہ بہت ہی اختصار کے ساتھ کیا ہے‘ مگر اس سلسلے میں اقبال کے نقطۂ نظر کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں : نظامِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی اور سیاست اگر’’لا دیں‘‘ ہو تووہ زہرِ ہلاہل سے بھی بڑ ھ کرخطرناک ہو گی۔ جمہوریت کااستبدادی نظام ‘ جسے اقبال نے ایک جگہ ’’دیو بے زنجیر‘‘ کہا ہے ‘ نتائج کے لحاظ سے ملوکیت اور شہنشاہی کے نظام سے بھی بد تر اور سخت گیر ثابت ہوا۔ اقبال کے نزدیک مغرب کے ظاہر و باطن میں واضح تفاوت ہے ۔ پیشانی پر رعایات‘ حقوق اور حمہوریت کے سائن بورڈلگے ہیں، قیامِ امن ‘ خوش حالی‘ ترقی اور آزادی کے فروغ کے لیے انجمنیں اور مجالس بنائی جاتی ہیں مگر جمہوری قبا میں ملبوس یہ ’’ دیو استبداد‘‘ اپنے پنجۂ ہوس سے کمزور قوموں کا شکار کھیلنے کے لیے ہر وقت آمادہ رہتا ہے۔ ’’ سرمایہ و محنت‘‘ کے عنوان کے تحت اقبال کہتے ہیں : نسل ‘ قومیّت‘ کلیسا‘ سلطنت‘ تہذیب‘ رنگ خواجگی نے خوب چن چن کر بنائے مسکرات اس بلیغ شعر میں اقبال نے مغربی جمہوریت اور سامراجی نظام کے تلخ ثمرات (دین وسیاست کی علاحدگی ‘ نو آبادیاتی نظام ‘ نسلی امتیاز اور نیشنلزم کی لعنتوں) کی نشان دہی کی ہے۔ آگے بڑ ھنے سے پہلے عام قاری کی ایک ذہنی خلش دور کرنا ضرور ی ہے۔ جمہوریت بظاہر کوئی بری شے نہیں تو پھر اقبال باربار مغربی جمہوریت کی برائیاں کیوں گنواتے ہیں اور اس کی مذمت کیوں کرتے ہیں؟ مغربی جمہوریت کی بنیاد اس اصول پر ہے کہ حاکمیت کا اختیار عوام کو ہے اور کثرتِ راے سے وہ جو فیصلہ چاہیں ‘ کر سکتے ہیں، یعنی حق و صداقت اور خوب و ناخوب میں تمیز کرنا عوام کا کام ہے ۔ گویا انھیں مادر پدر آزادی میسر ہوتی ہے۔ مگر انسانی معاملات اور مسائل بہت پیچیدہ ہیں اور اس کے مقابلے میں انسان کا علم محدود ہے ۔ اس کی ظاہر بیں نظریں ہر معاملے کی تہ اور اس میں پوشیدہ نتائج و اثرات تک نہیں پہنچ پاتیں۔ بسا اوقات وہ ’’جمہوری حق‘‘ کے بل بوتے پر ایسی حرکت کر بیٹھتا ہے جس میں اسے اپنا فائدہ نظر آتا ہے مگر وہ اس کے لیے کسی گڑ ھے میں گرنے کے مترادف ہوتی ہے، مثلاً: یہ جمہوریت ہی کا کرشمہ ہے کہ برطانیہ میں ہم جنسیت (Homo-sexuality)کو جائز ٹھہرایا گیا ہے اور اس کے لیے باقاعدہ قانونی تحفظ موجود ہے اور اب امریکہ کی بعض ریاستوں میںہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی جواز مل گیا ہے۔ اسی طرح شراب نوشی طبی لحاظ سے صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ امریکی حکومت نے ۱۹۳۳ء میں شراب کی خرید و فروخت ‘ درآمد و برآمد‘ ساخت و پرداخت اور استعمال پر پابندی لگادی تھی، مگر امریکہ کے ’’ جمہور‘‘ نے شراب کی بندش کے قانون کو منسوخ کر ا دیا۔ وجہ کیا ہے؟ معاشرے میں اہل الراے ‘ فہمیدہ‘ جہاں دیدہ اور ملکی مسائل پر گہری نظر اور وقیع راے رکھنے والے لوگ ان لوگوں کے مقابلے میں اقلیت میں ہوتے ہیں جن کی اپنی کوئی راے نہیں ہوتی اور جنھیں کسی بھی فوری جذبے ‘ٖ اشتعال‘ لالچ ‘ خوف، ظاہر ی نفعے یا پرو پیگنڈے کے زور سے کسی ناجائز بات کے حق میں ہموار کرنا آسان ہوتا ہے۔ ’’ معیار‘‘ کو نظر انداز کرکے محض’’گنتی‘‘ کی بنیا د پر کیے جانے والے فیصلے بسا اوقات قوموں کو گمراہ کرتے ہیں ۔ رائج الوقت جمہوریت کے اصول (One man one vote)کی رو سے تو قائد اعظم یا علامّہ اقبال جیسا صاحب ِ فہم و بصیرت شخص اور ایک ان پڑھ دیہاتی برابر کی حیثیت رکھتے ہیں ان کی راے (ووٹ) کا وزن برابر ہے مگر دونوں کی تعلیم ‘ فہم و عقل‘ بصیرت و دانائی اور شعور و دانش میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ان پڑھ دیہاتی بھی بطور انسان بلاشبہہ واجب الاحترام ہے مگر دستور و قانون‘ اور دانش و حکمرانی کے امور و معاملات بہرحال اسے نہیں سونپے جاسکتے خواہ وہ کتنی ہی کثیر تعداد میں ووٹ کیوں نہ لے لے۔ اس لیے محض کثرت ‘ کوئی پایدار بنیاد نہیں ہے۔ہٹلر کثرتِ راے والی جمہوریت کے خلاف یہ دلیل دیا کرتا تھا کہ اگر سو گدھے ایک طرف ہوں اور ایک انسان دوسری طرف… تو ایک انسان کی بات صائب سمجھی جائے گی‘ نہ کہ ( جمہوریت پر عمل کرتے ہوئے ) سو گدھوں کی بات لائقِ ترجیح ہوگی۔ اقبال نے بھی یہی بات کہی ہے: گریز از طرز جمہوری غلامِ پختہ کارے شو کہ از مغزِ دو صد خر ‘ فکر انسانی نمی آید ٭سرمایہ داری: یورپ میں سرمایہ داری.ٗ تحریک نشأت ثانیہ ‘ لبرل ازم اور روشن خیالی کے پس منظر میں ابھر ی تھی۔ مگر سرمایہ داروں نے اپنے طرزِ عمل سے ثابت کر دیا کہ ان کی روشن خیالی دراصل خود غرضی تھی۔ انھوں نے صنعتی انقلاب کے فوائد لوٹنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ معاشیات کا باوا آدم، آدم سمتھ آزاد معیشت کا سب سے بڑا وکیل تھا مگر اسے بھی تسلیم کرنا پڑ ا ۔ کہ کاروباری لوگ جب کہیں باہم جمع ہوتے ہیں تو ان کی صحبت پبلک کے خلاف سازش پر اور قیمتیں چڑ ھانے کے لیے کسی قرارداد ہی پر ختم ہوتی ہیں۔حد یہ ہے کہ تقریبات میں بھی مل بیٹھنے کا جو موقع مل جاتا ہے ‘ اس کو بھی یہ حضرات اس جرم سے خالی نہیں جانے دیتے۔ صنعتی انقلاب اور مشینوں کے فروغ سے دستی کاری گری کا خاتمہ ہوا اوربے روز گاری بڑھی۔’’بے روزگاری کسی ایک مسئلے کا نام نہیں ہے بلکہ وہ انسان کی مادّی ‘ روحانی ‘ اخلاقی اور تمدنی زندگی کے بے شمار پیچیدہ مسائل کا مورثِ اعلیٰ ہے‘‘۔ اس بے روز گاری کے سبب سودا چکانے کی ساری طاقت سرمایہ دار کے ہاتھوں میں جمع ہو گئی۔ افلاس اور خستہ حالی سے تنگ آکر مزدوروںکو کم اجرتوں پر بہت زیادہ وقت اور محنت کرنے پر راضی ہونا پڑا۔ وہ جانوروں کی طرح کام کرنے لگے۔ تنگ و تاریک مکانات میں رہنے لگے۔ ان کی صحتیں تباہ اور ذہنیتیں پست ہو گئیں۔ اخلاق بری طرح بگڑنے لگے۔ ( اسلام اور جدید معاشی نظریات: ص ۲۹- ۳۳) اقبال کہتے ہیں کہ سرمایہ دار، صدیوں سے مزدور کا استحصال کرتا چلا آرہا ہے۔ ’’ساحرِالموط‘‘ کا اشارہ حسن بن صباح ( م: ۱۱۲۴ئ) کی طرف ہے۔ یہاں اقبال واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ایک سرمایہ دار بھی حسن بن صباح ہی کی طرح مزدور کا استحصال کرتا ہے اور مزدور کے لیے اس کے ظلم و استحصال سے بچ نکلنا اتنا ہی مشکل ہے جس قدر کسی باطنی یافدائی کے لیے حسن بن صباح کے چنگل سے نکل بھاگنا۔ یہاں اقبالؔ نے مزدور کی سادگی اور سرمایہ دار کی مکاری او ر حیلہ سازی کی طرف بلیغ اشارے کیے ہیں۔ اب نانِ جویں کو ترسنے والا مزدور مظلومیت کی تصویر بنا مایوسی کے عالم میں کھڑا ہے ، اقبالؔ اسے نوید سناتے ہیں: اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے اور: آفتابِ تازہ پیدا بطن گیتی سے ہوا یہاں اقبال کا اشارہ ۱۹۱۷ء کے روسی انقلاب کی طرف ہے۔ چونکہ دعویٰ یہ کیا جارہا تھا کہ اب روس میں مزدوروں کی حکومت قائم ہو گئی ہے، ا س لیے اقبال مزدور سے مخاطب ہوتے ہیں کہ ’’ تیرے دور‘‘ کا آغاز ہو چکاہے۔ بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں دنیا پر سرمایہ دارانہ نظام مسلط تھا اور ہر جگہ مزدوروں کا استحصال ہو رہا تھا، اس لیے روس میں’’ مزدوروں کی حکومت‘‘ قائم ہونے کا تاثر پھیلا اور سرمایہ داری اور مغربی سامراج کے جبر و استبدادکے مقابلے میں روسی انقلاب کو بالعموم سراہا گیا۔ اقبال نے بھی اسی تاثر کے تحت مزدور کو ’’آفتاب تازہ ‘‘ کی نوید سنائی، تاہم ابھی روسی اشتراکیت کے حقیقی خدوخال سامنے نہیں آئے تھے اور بعد میں جب اس کے بھیانک چہر ے سے نقاب ہٹی تو اقبال یہ کہنے پر مجبور ہوئے: زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا طریقِ کوہ کن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی بنابریں یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ اقبال نے روسی انقلاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا کہ مستقبل میں یہ انقلاب مزدوروں کے لیے مفید ثابت ہوگا مگر یہ کہنا درست نہیں ( جیسا کہ اقبال کے بعض مفسّروں کو غلط فہمی ہوئی ہے) کہ یہاں اقبال نے اشتراکی انقلاب کی تحسین و توصیف کی ہے یا انھوں نے مزدوروں کو اشتراکیت اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔ ( یوں بھی یہ بات اقبال کے بنیادی افکا ر سے مطابقت نہیں رکھتی۔ معاً بعد اگلی ہی نظم میں اقبال نے ’’ طلوعِ اشتراکیت‘‘ کی نہیں ’’ طلوعِ اسلام‘‘ کی نویدسنائی ہے۔) ٭عالم اسلام: ’’دنیاے اسلام‘‘ کے تحت اقبال نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے، اس کا پس منظر عالم اسلام کی وہ صورت حال ہے جس کاذکر ابتدا میں کیاگیا ہے۔ خضر سے شاعر کا سوال ہے: بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفیٰ خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمانِ سخت کوش جواب میں خضر کہتے ہیں: کیا سناتا ہے مجھے ترک و عرب کی داستاں مجھ سے کچھ پنہاں نہیں اسلامیوں کا سوز و ساز اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال عربوں اور ترکوں کی باہمی آویزش کے اسباب و علل اور نتائج و عواقب سے نہ صرف آگاہ تھے بلکہ اس کے بارے میں انھیں سخت تشویش تھی۔ پہلے شعر میں ’’ہاشمی ‘‘سے مراد مکہ کا شریف ( یعنی حکمران) حسین ہے۔ علامّہ کو اس بات کا سخت قلق تھا کہ عربوں نے ترکوں کے خلاف بغاوت کرکے ان کے خونِ ناحق سے ہاتھ رنگے۔ مغربیوں نے بھی پہلے جنگِ بلقان اور پھر جنگِ عظیم میں ترکوں کی قتل و غارت گری کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا: ہو گیا مانندِ آب ارزاں مسلماں کا لہو ’’کلاہ ِلالہ رنگ‘‘ سے مراد خلافت ہے ۔ اس زمانے ( ۱۹۲۲ئ) میں ’’ نوجوان ترکوں ‘‘ خاص طور پر کمال اتاترک اور اس کے ہم خیال ساتھیوں نے ’’ خلافت‘‘ کے ادارے کو عضوِمعطل بنا کر رکھ دیا تھا۔ ان کے تیور بتارہے تھے کہ وہ خلافت کو، جوپہلے ہی براے نام تھی ‘ زیادہ دنوں تک برداشت نہیں کریں گے۔ خلافت کی اس بے وقعتی پر اقبال ہی نہیں، ہندستان کے تمام زعما اور درد مند مسلمان بے چین تھے۔ تحریک خلافت اسی بے چینی ‘ ملی احساس اور درد مندانہ تڑپ کا نتیجہ تھی۔ اس اضطراب کے نتیجے میں ہندستان سے سیدامیر علی اور سر آغا خاں نے ترک لیڈروں کو خط لکھا کہ دنیا بھر کے مسلمان، خلیفہ کی موجودہ غیر موثر حیثیت سے مطمئن نہیں لہٰذا خلافت کو پورے اختیارات کے ساتھ بحال کیا جائے۔ مگر اتاترک نے ۱۹۲۴ء میں خلافت کی بساط لپیٹ دی۔ اقبال کے نزدیک حکمت مغرب ( عیارانہ ڈپلومیسی یا سیاسی چال بازی) زوال مسلم کا ایک سبب ہے اور دوسری وجہ خود مسلمانوں کا اپنے مذہب و اخلاق سے انحراف ہے۔ اقبال مسلمانوں کی اس حالت زار پر سخت متاسف ‘ بے چین اور مضطرب ہیں۔ وہ پھر اسی سنہرے دور کے منتظر ہیں جب دنیا کے ایک بڑے حصے پر اسلام کی حاکمیت قائم تھی۔ مگر اس کی واپسی کے لیے ضروری ہے کہ اس وقت دنیا میں مسلمانوں نے اپنا جو (Image) بنا رکھا ہے ‘ اسے تبدیل کیا جائے مغربی تہذیب کی نقالی ‘ یورپ کی ذہنی غلامی اور اسلام کے بارے میں معذرت خواہانہ فرومایگی اسی کے مظاہر ہیں۔ یہ سب باتیں ’’ زمین و آسمانِ مستعار‘‘ کے ذیل میں آتی ہیں۔ جب تک مسلمان اسے پھونک نہیں ڈالتا اس وقت تک ’’ جہانِ نو‘‘ تعمیر ہونا ممکن نہیں ۔ نظم کے اس حصے میں اقبال نے فارسی کو فلسفۂ خودی کی طرف متوجہ کیا ہے۔ پھر مسلمانوں کی سربلندی ‘ دین کے تحفظ اور نظامِ اسلامی کے قیام کے لیے اتحادِ اسلامی ناگزیر ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کا باہمی اتحاد فکرِ اقبال کا اہم پہلو ہے۔ اس کی بنیاد اسلام ہے نہ کہ وطن ‘ نسل ‘ رنگ یا زبان ۔ فکر اقبال کا یہ پہلو‘ قرآنی تعلیمات سے ماخوذ ہے: وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا َتفَرَّقُوْا( آل عمران: ۱۰۳)سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ ہُمُ الْبَیِّنٰتُ (آل عمران: ۱۰۵) کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے۔ علامّہ اقبال نے مسلمانوں کو ’’بتانِ رنگ و بو‘‘ کو توڑنے کا مشورہ دیا اس لیے کہ یورپ میں نسلی اور وطنی امتیاز کی بنیاد پر فروغ پانے والی قوم پرستی کے مہلک نتائج وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے۔ جناب وحید احمد کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’ اس زمانے میں سب سے بڑا دشمن‘ اسلام اور اسلامیوں کا، نسلی امتیاز و ملکی قومیّت کا خیال ہے۔ پندرہ برس ہوئے جب میں نے پہلے پہل اس کا احساس کیا، اس وقت میں یورپ میں تھا اور اس احساس نے میرے خیالات میں انقلابِ عظیم پیدا کر دیا‘‘۔ ( انوار اقبال: ص ۱۷۶) عرب ترک آویزش کا سبب عصر نو کا یہی فتنہ ہے جس سے عرب دھوکا کھا گئے، مگر انھوں نے ابھی تک اس سے سبق نہیںسیکھا۔ اپنی داستانِ عبرت آج تقریباً ایک صدی بعد بھی عربوں کو متحد نہیں کر سکی۔ علامّہ اقبال کا یہ شعر عربوں کی موجودہ حالت کی تفسیر ہے: نسل اگر مسلم کی ‘ مذہب پر مقد م ہو گئی اڑ گیا دنیاسے تو مانندِ خاکِ رہ گزر یہ شعر اور اس بند کا آخر ی شعر: اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہشیار باش اے گرفتارِ ابوبکرؓ و علیؓ ہشیار باش اسی آیت کریمہ ( وَ لَا تَفَرَّقُوْا…)کی تشریح ہے ۔ سیاسی اور بین الاقوامی سطح سے قطع نظر ‘ مسلمان دین و شریعت کی فروعی باتوں اور معمولی مسائل پر آپس میں الجھے ہوئے ہیں۔ مناظر ہ بازی اور شغلِ تکفیر مولویوں کا شیوہ بن چکا ہے ۔ ان کا سارا زور ایسے مسائل پر صرف ہو رہا ہے کہ حضراتِ صحابہؓ میں سیدنا ابوبکرؓ افضل تھے یا سیدنا علیؓ؟ اقبال مسلمانوں کو اس غلط روش سے محترز اور ہوشیار رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔آخری بند اختتامیہ ہے۔ خضر نے اس سے پہلے اس بات کی نشان دہی کی ہے کہ عالم اسلام کے لیے سب سے بڑا فتنہ مغرب کی سرمایہ دارانہ تہذیب اور فرنگی سامراج ہے جس نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سیاسی و اقتصادی اور ذہنی طور پر مسلمانوں کو تباہ کیاہے۔ دوسری طرف مغرب نے سائنسی ترقی کے سبب اپنی ہلاکت کا سامان خود مہیا کر لیا ہے۔ اب صورت حال بدل رہی ہے ۔ صیاد خود اپنے ہی دام میں الجھنے والا ہے۔ وہ زمانہ بہت قریب ہے جب سرمایہ دارانہ تہذیب اپنی موت آپ مرجائے گی۔ استعارے کی زبان میں یہ بات یوں بیان کی ہے: تو نے دیکھا سطوتِ رفتارِ دریا کا عروج موجِ مضطر کس طرح بنتی ہے اب زنجیر دیکھ اس سے پہلے ’’شمع اور شاعر‘‘ میں اقبال کہہ چکے ہیں: دیکھ لو گے سطوتِ رفتارِ دریا کا مآل موجِ مضطر ہی اسے زنجیرِ پا ہو جائے گی اقبال کو یقین ِ کامل ہے کہ دنیا کی امامت کا منصب یورپی تہذیب کی خود کشی کے سبب خالی ہونے والا ہے ۔ مسلمان اپنی خاکستر سے ایک جہانِ نو تخلیق کرکے اس منصب کو سنبھالیں گے۔اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر وہ صراطِ مستقیم پر چلتے رہے تو یقیناً دنیا میں انھیں غلبہ و اقتدار حاصل ہو کر رہے گا۔ اَنْتُمْ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (سورہ آل عمران: ۱۳۹)غلبہ و اقتدار تمھیں ہی حاصل ہوگا اگر تم مومن ہو۔ اور اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَاد (سورہ آل عمران :۹) اللہ تعالیٰ اپناوعدہ کبھی خلاف نہیں کرتا۔ ہر زماں پیش نظر لا یخلف المیعاد دار میں اسی آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے۔ فنی تجزیہ ’’خضرراہ‘‘ ترکیب بند ہیئت کے گیارہ بندوں پر مشتمل ہے۔ یہ نظم بحر رمل مثمن محذوف الآخر میں ہے۔ بحر کا وزن اور ارکان یہ ہیں: فَاعِلَاتُنْ فَاعِلَاتُنْ فَاعِلَاتُنْ فَاعِلْنَ ٭نظم میں خضر کی کردار کی اہمیت: ’’ خضرراہ‘‘ میں حیات انسانی اور دورِ حاضر کے چند مسائل پر بحث کی گئی ہے ۔ اقبالؔ نے نظم کے آغاز ہی میں خضر کے سامنے چند سوالات پیش کر کے قاری کی دلچسپی اور تجسس کو ابھارا ہے۔ سوالات کا خاتمہ اس شعر پر ہوتا ہے: آگ ہے ‘ اولادِ ابراہیم ہے ‘ نمرود ہے کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے اب خضر سے جوابات سننے کا اشتیاق تمام حسیات کو سمیٹ کر سماعت کے مرکز پر لے آتا ہے اور قاری کویوں معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی بہت بڑا پیغمبر یا فلسفی‘ کائنات اور زندگی کے اہم گوشوں کو بے نقاب کرنے کے لیے اسٹیج پر آ کھڑا ہوا ہے۔ نظم میں یہ ڈرامائی کیفیت جس نے بیان کو زیادہ مؤثر‘ با وزن اور بھر پور بنا دیا ہے ‘ صرف اس لیے پیدا ہوئی ہے کہ شاعر نے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے خضر کے کردار کو ذریعہ یا واسطہ بنایا ہے۔ اگر اقبال زیر بحث مسائل پر سیدھے سادے طریقے سے ( بزبانِ خویش) اظہارِ خیال کر دیتے ( اور خضر کا کردار معرض گفتگو میں نہ لاتے ) تو ایک طرف تو نظم بالکل سپاٹ رہ جاتی اور دوسری طرف ان کے افکار و خیالات میں پیغمبرانہ فرمان کی وہ شان پیدا نہ ہوتی جو ہمیں نظم کی موجودہ صورت میں ملتی ہے۔ کیونکہ پہلی صورت میں اقبال جن خیالات کا اظہار کرتے وہ ایک انسان کا نتیجۂ فکر ہوتے ( جس کا علم بھی محدود ہے اور نظر بھی ) مگر موجودہ صورت میں خیالات ایک ایسی ہستی( خضر ) کے ہیں جو ’’ چشم ِ جہاں بیں ‘‘ ہے اور جس کے علم کا یہ حال ہے کہ : علم موسیٰ ؑ بھی ہے تیرے سامنے حیرت فروش نظم میں اقبال نے اپنے افکار و خیالات کو جس تیقن ‘ اعتماد اور زورد ار طریقے سے پیش کیا ہے‘ اس کا سبب خضر کا کردار ہے اور نظم میں خضر کے کردار کی یہی اہمیت ہے۔ مگر اس اہمیت کا ایک سبب اور بھی ہے ۔ نظم کے ابتدا میں ایک پر اسرار کیفیت طاری ہے جیسے ابھی ہمارے سامنے کسی طلسماتی دنیا کے اوراق کھلنے والے ہیں۔ یہاں قاری کی ذہنی کیفیت روایتی داستان سننے والے سامع سے مختلف نہیں۔ وہ پورے اشتیاق ‘دلچسپی اور انہماک کے ساتھ نظم کی طرف متوجّہ ہو جاتا ہے۔ اس کا سبب بھی خضر کا کردار ہے۔ اگر اقبال خضر کے کردار کا سہار ا نہ لیتے تو نظم کی طر ف قاری کو یوں متوجّہ کرنا اور اس کے لیے نظم میں اس درجہ انہماک پیدا کرنا ممکن نہ تھا۔ ٭ڈرامائی کیفیت: ’’خضرراہ‘‘ میں اقبال جو باتیں کہنا چاہتے ہیں ‘ قارئین ( یا سامعین ) کے لیے انھیں زیادہ باوزن اور مؤثر بنانے کی خاطر انھوں نے خضر کے کردار کا سہارا لیا ہے اور اس طرح نظم میں ایک ڈرامائی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ ڈرامے کا پہلا سین ساحلِ دریا کا وہ منظر ہے جہاں شاعر دلِ مضطرب کے ساتھ محو نظارہ ہے۔ پورے ماحول پر ایک گہراسکوت چھایا ہوا ہے۔ جس کا حیرت افزا تأثر قاری میں تجسس پیدا کرتا ہے۔ وہ گہرے سکوت کے اس سمندر میں چھپے ہوئے کسی طوفان کا منتظر ہے‘ یہاں تک کہ خضر اسٹیج پر نمودار ہو کر مکالمے کی ابتدا کرتا ہے: …… اے جویاے اسرارِ ازل چشم دل وا ہو تو ہے تقدیر عالم بے حجاب جواباً شاعر خضر سے مختلف سوالات پوچھنا شروع کرتا ہے۔ اس کے پاس سوالات کی ایک طویل فہرست ہے۔ شاعر کے ’’ جہانِ اضطراب‘‘ میں ایسی شدت ہے کہ وہ ایک سوال کرکے اس کے جواب کا انتظار نہیں کر سکتا بلکہ بیک وقت سارے سوالات خضر کے سامنے پیش کر دیتا ہے۔ ڈرامے کا باقی حصہ خضر کے طویل جواب پر مشتمل ہے۔ شاعر نے جس ترتیب کے ساتھ خضر کے سامنے حیات و کائنات اور بین الاقوامی سیاست کے بارے میں سوالات پیش کیے ہیں‘ وہ اسی ترتیب سے ان کے تفصیلی جوابات دیتے چلے جاتے ہیں ۔ حتیٰ کہ خضر کے جوابات کے دوران میں نظم کے اختتام تک شاعر کوئی مزید سوال نہیں کرتا۔ خضر کے جوابات اتنے جامع‘ مفصل اور شافی و کافی ہیں کہ شاعر کا ہمہ پہلو اضطراب پوری طرح رفع ہو جاتا ہے اور اسے مزید کوئی سوال حل کرنے کی حاجت نہیں رہتی۔ اس ڈرامائی کیفیت نے شاعر کے بیان کو زیادہ جاندار اور مؤثر بنا دیا ہے۔ ٭نظم کا دھیما لہجہ: بحیثیت مجموعی نظم کا لہجہ نرم ‘ ملائم اور دھیما ہے۔ پہلے بند کا سکوت افزا منظر اور الفاظ کی نرمی‘ لہجے کا دھیما پن ظاہر کر رہی ہے۔ اس حصے میں شاعر کے محتاط لہجے سے گویا’’ سرھانے میرؔ کے آہستہ بولو‘‘ والی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ اس کے بعد کم و بیش پوری نظم کے لہجے میں نرمی اور دھیما پن غالب ہے۔ اگر کہیں لا شعوری طور پر پُرجوش کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے تو (ہرچند کہ اس کے معقول اسباب ہوتے ہیں) شاعر اسے دوبارہ مدھم کر دیتا ہے‘ مثلاً: دوسرے ہی بند میں جہاں شاعر‘ خضر کے سامنے مختلف سوالات پیش کر رہا ہے‘ اس کے لہجے سے شدت اور جوش جھلکتا ہے: فطرتِ اسکندری اب تک ہے گرمِ ناو نوش _______ بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفی خاک و خوں میں مل رہاہے ترکمانِ سخت کوش یہاں شاعر جن واقعات کی طرف اشارہ کر رہا ہے، وہ اس کے لیے شدید رنج و غم اور اضطراب کا باعث ہیں‘ اس لیے اس کے لب ولہجے میں قدرے گرمی و جوش کا پیدا ہونا فطری ہے ۔ پھر اس گرمی و جوش میں سوز وگداز بھی شامل ہے۔ ’’ صحر ا نوردی‘‘ کے حصے میں لہجہ دھیما اور نرم ہے۔’’ زندگی‘‘ چونکہ شاعر کے نزدیک’’ گردشِ پیہم‘‘ اور ’’ پیہم دواں ہر دم جواں‘‘ ہے جس میں انسان کو ’’ تیشہ و سنگِ گراں‘‘ سے سابقہ پیش آتا ہے اور اس کی ’’ قو ّتِ تسخیر‘‘ کی آزمایش بھی ہوتی ہے‘ اس لیے نظم کے اس حصے میں قدرے جوش و خروش پیدا ہو گیا ہے مگر دوسرے ہی بند میں شاعر نے : تا بدخشاں پھر وہی لعلِ گراں پیدا کرے اور : سوے گردوں نالہ ٔ شب گیر کا بھیجے سفیر رات کے تاروں میں اپنے رازداں پیدا کرے کہہ کر پُرجوش لب و لہجے (Tone)کو مدھم کر دیا ہے۔ یہ مدّ و جزر اور اتار چڑھاؤ نظم کے باقی حصوں میں بھی موجودہے ۔ بحیثیت مجموعی نظم پر دھیما پن غالب ہے۔ اختتام بھی ناصحانہ ہے اور نصیحت نرم لہجے میں ہی کی جاتی ہے۔ لہجے کی نرمی اور دھیمے پن کا سبب ’’ خضر راہ‘‘ کے کرداروں ( شاعر اور خضر )کی حیثیت اور ان کا مقام و مرتبہ بھی ہے۔ شاعر کی حیثیت ایسے جویاے حق انسان کی ہے جو کائنات کے ان اسرار و رموز اور بین الاقوامی مسائل اور پیچیدگیوں کا حل چاہتا ہے جو اس کے ذہن کو الجھائے ہوئے ہیں۔ گویا خضر کے سامنے اس کی حیثیت ایک طالب علم کی ہے اور ظاہر ہے کہ طالب علم کا لہجہ جوش و خروش اور تندی و تیزی کا نہیں ‘ بلکہ نرمی اور ملائمت کا اور مؤدبانہ ہوتا ہے۔ دوسری طرف خضرؑ ایک صاحب علم اور صاحب نظر بزرگ ہیں۔ اس لیے ’’ اسرارِازل‘‘ کے لہجے میں نرمی او ر دھیما پن ‘ مقامِِ استاد کے تقاضے کے عین مطابق ہے۔ جہاں ان کا لہجہ قدرے پرجوش ہوتا ہے ‘ وہ بالکل ایسے ہے جیسے ایک استاد کوئی عالمگیرسچائی بیان کر رہا ہوتو دلائل و براہین کے ساتھ اس کے جذبات بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ ’’ خضر راہ‘‘ میں لہجے کی نرمی اور دھیمے پن کے ساتھ بیان کی متانت اور سنجیدگی بھی پائی جاتی ہے۔ اقبال نے سید سلیمان ندوی کے نام ایک خط میں وضاحت کی ہے کہ لہجے میں دھیمے پن اور بیان میں متانت کا سبب خضر کا وہ کردار ہے جس کا تصو ّر ہم سورۃ الکہف کے مطالعے سے حاصل کرتے ہیں ۔ (اقبال نامہ‘ اول: ص ۱۱۹) ٭رنگِ تغزل: ’’خضرراہ‘‘ اگرچہ ایک نظم ہے جس میں حیات و کائنات کے حقائق و ٹھوس مسائل کو موضوعِ سخن بنایاگیا ہے مگر چونکہ اقبال کے مزاج میں شعریت اور تغزل رچابسا ہے‘ اس لیے غزلوں کے علاوہ ان کی بیشتر نظموں میں بھی تغزل کا رنگ نمایاں ہے۔ ’’خضر راہ‘‘ کے بعض حصوں اور شعروں میں ہمیں اقبال کا یہی رنگِ تغزل نظر آتا ہے: ریت کے ٹیلے پہ وہ آہو کا بے پروا خرام وہ حضر بے برگ و ساماں‘ و ہ سفرِ بے سنگ و میل تازہ ویرانے کی سوداے محبت کو تلاش اور آبادی میں تو‘ زنجیریِ کشت و نخیل برتر از اندیشۂ سود و زیاں ہے زندگی ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی جادوے محمود کی تاثیر سے چشم ایاز دیکھتی ہے حلقۂ گردن میں سازِ دلبری ہو گئی رسوا ‘ زمانے میں کلاہِ لالہ رنگ جو سراپا ناز تھے ‘ ہیں آج مجبورِ نیاز اور اس طرح کے بہت سے دوسرے اشعار اس رنگِ تغزل کا پتا دیتے ہیں جو اقبال کی شاعری کا ایک نمایاں وصف ہے اور جو کسی طر ح چھپائے نہیں چھپتا۔ ’’ خضرراہ‘‘ میں تغزل کی یہ روح جابجا آشکارا ہے۔ ٭دیگر فنی محاسن: ’’ خضر راہ‘‘ اگرچہ اس دور میں لکھی گئی جب اقبال کی شاعری فنی ارتقا کے ان مدارج پر نہیں پہنچی تھی جہاںاقبال نے ’’ مسجد قرطبہ‘‘ ’’ ذوق و شوق‘‘ اور ’’ساقی نامہ‘‘ ایسے شاہ کار تخلیق کیے‘ اس کے باوجود ’’ خضرراہ‘‘ میں اقبال کی فنی انفرادیت نمایاں ہے۔فنی محاسن کے چند نمایاں پہلو ملاحظہ ہوں: الف: نادر تراکیب: قلزمِ ہستی‘ شہیدِ جستجو‘ پیکِ جہاں پیما‘ نقدِ حیات ‘ تگا پوے دمادم‘ ضمیر کن فکاں‘ شمشیرِ بے زنہار‘ سازِ دلبری‘شاخِ آہو‘ شاخِ نبات‘ اعرابی والا گہر وغیرہ۔ ب: تشبیہا ت: جس کی پیری میں ہے مانند سحر رنگ شباب _______ قلزمِ ہستی سے تو ابھرا ہے مانند حباب _______ غنچہ ساں غافل ترے دامن میں شبنم کب تلک _______ ہو گیا مانند آب ارزاں مسلماں کا لہو! جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفلِ شیرخوار موج مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مستِ خواب ج:۔مرصّع کاری:اقبال نے شعوری طور پر لفظی صنعت گری کی طرف کبھی توجّہ نہیں دی کیونکہ انھیں اپنے بقول:’’ فن کی باریکیوں کی طرف توجّہ دینے کے لیے وقت نہیں ملا‘‘۔ تاہم ان کے کلام میں صنائع بدائع کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے جو اقبال کی غیر شعوری فنی مہارت کا شاہ کار ہے۔ ’’ خضرراہ‘‘ سے چند مثالیں: ۱۔صنعتِ تلمیح: بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفی خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمانِ سخت کوش _______ زندگانی کی حقیقت کوہ کن کے دل سے پوچھ جوے شیر و تیشہ و سنگِ گراں ہے زندگی _______ ساحرِ الموط نے تجھ کو دیا برگِ حشیش _______ وہ سکوتِ شامِ صحرا میں غروبِ آفتاب جس سے روشن تر ہوئی چشم جہاں بینِ خلیل _______ آ بتاؤں تجھ کو رمز آیۂ اِنّ الملوک ۲۔ صنعتِ تجنیس محرف:( دو الفاظ کا حروف کی تعدا د ترتیب کے اعتبار سے مشابہ ہونا لیکن اعرب کے لحاظ سے مختلف ہونا) : خام ہے جب تک تو ہے مٹی کا اک انبار ہے تو پختہ ہو جائے تو ہے شمشیرِ بے زنہار تو ۳۔ صنعتِ ملمّع:( کلام میں ایک سے زیادہ زبانیں جمع کرنا۔ ایک مصرع اردو‘ دوسرا فارسی میں۔) ملک ہاتھوں سے گیا ‘ ملت کی آنکھیں کھل گئیں حق ترا چشمے عطا کردست غافل درنگر ۴۔ صنعت مراعاۃ النظیر: آگ ہے ‘ اولادِ ابراہیم ہے ‘ نمرود ہے کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے ۵۔ صنعت ترافق: ( جس مصرعے کو چاہیں ‘ پہلے پڑ ھیں،معنی میں کوئی فرق نہ آئے) : رات کے افسوں کے طائر آشیانوں میں اسیر انجم کم ضو گرفتارِ طلسم ماہ تاب د: محاکات: ’’خضر راہ‘‘ میں محاکات یا تصویر کاری کی بہت خوب صورت مثالیں ملتی ہیں۔ امیجری کا ایک عمدہ نمونہ نظم کاپہلا بند ہے جس میں شاعر کو دریا کے ساحل پر ٹہلتا ہوادکھایا گیا ہے۔ یہاں الفاظ کا انتخاب اور تشبیہات کا استعمال بھی پرسکوت تصویر کے عین مطابق ہے۔ جناب غلام رسول مہرؔکے بقول:’’ خضر راہ‘‘ کا موضوع منظر کشی نہ تھا‘ تاہم جہاں کہیں اتفاقیہ موقع آگیا ہے‘ وہاں اس کمال کی کرشمہ فرمائیاں بھی دیدنی ہیں‘ مثلاً: ابتدا میں رات کے وقت ساحل دریا کی کیفیت ملاحظہ ہو: شب سکوت افزا ‘ ہو ا آسودہ ‘ دریا نرم سیر تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویر آب جیسے گہوارے میں سوجاتا ہے طفل شیر خوار موج مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مست خواب رات کے افسوں سے طائر آشیانوں میں اسیر انجم کم ضو گرفتارِ طلسم ماہ تاب دیکھیے تین شعروں میں صر ف چند چیزیں پیش کی ہیں لیکن زمین سے آسمان تک پورے ماحول کی مکمل تصویر لفظوں میں اتار دی ۔ پھر منظر کی مناسبت سے الفاظ چنے‘‘۔ ( مکاتیب اقبال بنام گرامی: ص ۲۰۹- ۲۱۰)دوسر ی خوب صورت تصویر ’’ صحرا نوردی‘‘ کے تحت صحرائی منظر ہے۔ اسی طرح آخری بند میں ایک منظر: آفتابِ تازہ پیدا بطنِ گیتی سے ہوا آسماں ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک توڑ ڈالیں فطرتِ انساں نے زنجیریں تمام دوریِ جنت سے روتی چشمِ آدم کب تلک فنی محاسن کے یہی وسیلے’’ خضر راہ‘‘ کے حسن و دل کشی میں اضافہ کرتے ہیں اور اسی سے وہ رنگیں بیانی پیدا ہوتی ہے جس کے بارے میں اقبال نے کہاہے : شاعرِ رنگیں نوا ہے دیدۂ بیناے قوم مولانا غلام رسول مہر لکھتے ہیں: ’’ خضرراہ‘‘ یقیناً ایک بے مثال نظم ہے۔ اس میں اقبال کی شاعری نئی اوج گاہوں پر پہنچ گئی [ ہے] … اس کے اکثر اشعار کی مثال کلامِ اقبال کے سوا اردو یا کسی دوسری زبان کی قومی شاعری میں نہیں مل سکتی‘‘۔ ( مکاتیب اقبال بنام گرامی: ص ۱۲۵) طلوعِ اسلام ٭تعارف اور پس منظر بانگِ دراکی یہ آخری نظم انجمن حمایت اسلام کے اڑتیسویں سالانہ اجلاس منعقدہ مارچ ۱۹۲۳ء میں پڑ ھی گئی۔ اس سلسلے میں قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ ’’ طلوعِ اسلام‘‘ آخری طویل نظم ہے جو اقبال نے انجمن کے جلسے میں خود پڑ ھ کر سنائی۔ بانگِ درا کی ترتیب کے وقت ‘ بہت سی دوسری نظموں کے برعکس ،اس نظم کو بغیر کسی ترمیم کے مجموعے میں شامل کیا گیا۔ ’’خضرراہ ‘‘ کے آخری حصے میں اقبال نے مسلمانوں کے روشن اور پر امید مستقبل کی جو نوید سنائی دی’’ طلوعِ اسلام‘‘ اس کا تتمہ ہے۔ ۱۹۲۳ء کی صورت حال گذشتہ سال کے مقابلے میں حوصلہ افزا اور اطمینان بخش تھی۔ ترکوں کو یونانیوں کے خلاف جوابی کارروائیوں میں خاصی کامیابی حاصل ہو رہی تھی۔ یہاں تک کہ ستمبر ۱۹۲۲ء میں انھوں نے عصمت پاشا کی سر کر دگی میں سمرنا پر قبضہ کر لیا۔ اس فتح پر ہندی مسلمانوں نے زبردست خوشیاں منائیں اور مساجد میں گھی کے چراغ جلائے۔ ترکوں کو مشرقی یونان اور اَدَرْنہ بھی واپس مل گئے۔ ایران بھی انقلابی تبدیلیوں کی طرف گامزن تھا۔ مصر سے برطانوی پروٹیکٹوریٹ ختم ہوا اور سعد زاغلول پاشا کی قیادت میں مصر نے آزادی کا اعلان کر دیا۔ مراکش میں ہسپانوی فوج کے مقابلے میں مجاہد ریف عبدالکریم کا پلہ بھاری تھا۔ ہندستان میں تحریک ِ ترکِ موالات زوروں پر تھی‘ جس کے متاثرین میں اسی فیصد مسلمان تھے۔ بیداری کی اس لہر نے ہندی مسلمانوں کے جذبات میں زبردست ہل چل مچادی تھی۔ غرض یوں معلوم ہوتا تھا کہ تمام مسلمان ممالک سامراجیت اور غلامی کا جوا اپنے کندھوں سے اتار پھینکنے کے لیے انگڑائی لے کر بیدار ہو رہے ہیں۔ علامّہ اقبال اس کیفیت سے بے خبر نہ تھے۔ ’’ طلوعِ اسلام‘‘ اسی کیفیت کا پر جوش اور فن کارانہ اظہار ہے۔ غلام رسول مہرؔ کے بقول یہ نظم ’’ سراسر احیاے اسلامیت کے پرمسرت جذبات سے لبریز ہے‘‘۔ فکری جائزہ نظم میں کل نو بند ہیں ۔ نظم کے مطالب و مباحث کو مندرجہ ذیل عنوانات کے تحت تقسیم کیا جاسکتا ہے: ۱۔ جہانِ نوکی نوید ۲۔ کائنات میں مقامِِ مسلم ۳۔ مسلمان کا کردار اور اس کی خصوصیات ۴۔ جنگِ عظیم کے نتائج اور اثرات پر تبصرہ ۵۔ مغرب سے مایوسی ۶۔ انسانیت کا مستقبل: مسلمان ۷۔ روشن مستقبل ٭جہانِ نو کی نوید: آغاز ‘عالمِ اسلام کے موجودہ حالات اور نت نئی رونما ہونے والی تبدیلیوں پر تبصرے سے ہوتا ہے۔ عالمِ اسلام پر جنگِ عظیم اول ( ۱۹۱۴ء تا ۱۹۱۸ئ) کا مثبت اثر یہ ہوا ہے کہ مسلمان طویل خواب سے بیدار ہو رہے ہیں ۔ طوفانِ مغرب نے انھیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ستاروں کی تنک تابی صبح نو کا پیام دے رہی ہے۔ احیاے اسلام کے لیے مسلمانوں میں جو تڑپ اور لگن پیدا ہو رہی ہے‘ اسے دیکھ کر اندازہ لگایاجا سکتا ہے کہ وہ ایک بار پھر اقوامِ عالم کی رہنمائی کے منصب پر فائز ہوں گے اور ساری دنیا کی فکر ی‘ تہذیبی اور سیاسی رہنمائی کا فریضہ انجام دیں گے۔ یہ جہانِ نو کی نوید ہے۔ یہاں علامّہ اقبال عالمِ اسلام کے عظیم ترین حادثے عرب ترک آویزش کی طرف اشارہ کررہے ہیں جس کے نتیجے میں : الف: عربوں نے ترکوں کو بڑے پیمانے پر تہ تیغ کیا۔ ب: باہمی انتشار و افتراق سے مسلمانوں کی وحدت پارہ پارہ ہو گئی۔ ج: وہ دنیا میں رسوا اور ذلیل ہو گئے۔ مگر اب تاریخ کے سٹیج پر منظر بدل رہا ہے۔ اگرچہ امت ِ خلیل اللہ زمانے میں رسوا ہوچکی ہے لیکن اب ا س دریا سے تابدار موتی پیدا ہوں گے کیونکہ امت ’’ آہِ سحر گاہی‘‘ کی حقیقت سے آگاہ ہو چکی ہے۔’’سرشکِ چشمِ مسلم‘‘ سے مراد دینی جذبہ و جوش اور احیاے اسلام کے لیے ایک ولولہ ‘سوز و تڑپ اور لگن ہے۔ اقبال کے خیال میں اب مسلمانوں کا مستقبل بہت تابناک ہے ۔ اگرچہ خلافت ِ عثمانی کا خاتمہ ہو گیا مگر ترک ایک نئے سفر اور نئی منزل کی طرف گامزن ہیں۔ باہمی اختلافات کے بھیانک نتائج سامنے آنے پر ملت ِ اسلامیہ کے دل میں اتحاد و اتفاق کی اہمیت کا احساس پیدا ہو رہا ہے۔ شاخِ ہاشمی سے پھوٹنے والے نئے برگ و بار اسی احساس کا سرچشمہ ہیں۔ نظم کے دوسرے بندمیں جہانِ نو کی یہ نو ید ‘ دراصل ان سوالات کا جواب ہے جو شاعر کے دل میں ’’خضر راہ‘‘ لکھتے وقت پیدا ہوئے تھے اور وہ عالم اسلام کی پریشان حالی کو دیکھ کر بے چین اور مضطرب ہو رہا تھا۔ ’’ خضر راہ‘‘ میں شاعر کہتا ہے: ؎ لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل ؑ خشت بنیادِ کلیسا بن گئی خاکِ حجاز ہو گئی رسوا زمانے میں کلاہِ لالہ رنگ جو سراپا ناز تھے ‘ ہیں آج مجبورِ نیاز یہ ایک طرح کا سوال بھی ہے اور شاعر کی دلی تڑپ اور درد و کرب کا اظہار بھی۔ ’’طلوعِ اسلام‘‘ میں اس کا جواب یوں ملتا ہے: سرشکِ چشمِ مسلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا خلیل ؑ اللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گہر پیدا ’’ خضر راہ‘‘ میں سوال : بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفی خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمانِ سخت کوش ’’طلوعِ اسلام‘‘ میں جواب: اگرعثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے؟ کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا ’’خضر راہ ‘‘ میں سوال: حکمتِ مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز ’’طلوعِ اسلام‘‘ میں جواب: کتابِ ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا اسی طرح او ر بہت سے ایسے سوالوں کا جواب بھی ہمیں ’’ طلوعِ اسلام‘‘ میں ملتا ہے جو ’’ خضر راہ‘‘ میں اٹھائے گئے تھے۔ شاعر نے مسلمانوں کو جہانِ نو کی نوید سنائی لیکن وہ جہا نِ نو کی منزل تک تبھی پہنچیں گے جب جہد و عمل کے راستے پر ان کا سفر مسلسل جاری رہے گا۔ چنانچہ ایک طرف تو اقبال دست بدعا ہیں کہ مسلمانوں کے دل میں ’’ چراغِ آرزو‘‘ روشن ہو جائے اور ملت اسلامیہ کا ایک ایک فرد حصولِ مقصد کی خاطر سر بکف میدانِ جہاد میں نکل آئے( پہلے بند کا آخری شعر) … دوسری طرف وہ اس توقع کا اظہار کرتے ہیں کہ شاید میری نحیف آواز مسلمانوں کے لیے بانگِ درا ثابت ہو۔ ٭کائنا ت میں مقامِ مسلم: شاعر مسلمانوں کو ان کے روشن مستقبل کی نوید سنا کر انھیں جہد و عمل پر اکسا رہا ہے۔ اس لیے وہ یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہے کہ کائنات میں مقامِ مسلم کیا ہے؟ اول : مسلمان خداے لم یزل کا خلیفہ اور نائب ہے اور اس ابراہیمی نسبت کی وجہ سے دنیا کی تہذیب و تعمیر اس کا فریضہ ہے۔ دوم :مسلمان کو کائنات میں ’’مقصودِ فطرت‘‘ ہونے کے سبب جاودانی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے جہد عمل کی کوئی انتہا نہیں۔ سوم :اللہ نے اسے نیابتِ الٰہی کے بلند درجے پر فائز کیا ہے تو یہ ایک آزمایش بھی ہے۔ کائنات کے مختلف النوع امکانات کو بروے کار لانا اس کے فرائض میں داخل ہے۔ چہارم: اس مقام و مرتبے کا تقاضا یہ ہے کہ اب اسے نہ صرف ایک ملت کی حیثیت سے اپنی بقا و تحفظ کی فکر کرنی ہے بلکہ ایشیا کی پاسبانی کا فریضہ بھی انجام دینا ہے۔ نظم کے تیسر ے بند میں ’’ کائنات میں مقامِ مسلم‘‘ کے یہی چار پہلو بیان کیے گئے ہیں۔ پیامِ مشرق میں یہی بات یوںبیان کی گئی ہے: ضمیر کن فکاں غیر از تو کس نیست نشان بے نشان غیر از تو کس نیست قدم بے باک تر نہِ در رہِ زیست بہ پہناے جہاں غیر از تو کس نیست ٭مسلمان کا کردار۔ اہم خصوصیات: مسلمان اگر اپنے مرتبے و منصب کا شعوری احساس رکھتا ہے تو پھر ان عظیم ذمہ داریوں سے عہدہ برآہونے کے لیے‘ جن کے تصو ّر سے زمین اور پہاڑ لرز گئے تھے اور انھوں نے خلافت کا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیا تھا‘ مسلمان کو اپنے عمل و کردار میں وہ پختگی اور مضبوطی پیدا کرنا ہوگی ‘ جو اس بوجھ کو اٹھانے کے لیے ضروری ہے۔ اقبال کے نزدیک مسلمان کو اپنے عمل و کردار کے ذریعے خود کو اس منصب کا اہل ثابت کرنا ہوگا۔ بنیادی طور پر دنیا کی امامت کے لیے صداقت‘ عدالت اور شجاعت کی تین خصوصیات ضروری ہیں۔ مگر خلوصِ عمل اور کردار کی پختگی کے لیے اقبال نے چند اور خصوصیات کو بھی لازمی قرار دیا ہے۔ سب سے پہلی اور ضروری چیز ایمان ہے: گماں آباد ہستی میں یقیں مردِ مسلماں کا _______ جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا _______ جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہے زنجیریں اور: یقیں محکم ‘ عمل پیہم‘ محبت فاتحِ عالم یہاں ’’ یقیں ‘‘ سے مراد ایمان ہے۔ خدا ‘ رسولؐ‘ کتب ِ سماوی‘ جزا و سزا‘ اور ان مبادیات پر ایمان جو اسلام کی اساس ہیں۔ قرآن حکیم کے نزدیک دنیا میں سربلند ی کے لیے ایمان کی شرط لازمی ہے۔وَاَنْتُمْالْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(سورہ آل عمران: ۱۳۹) اورتم ہی غالب رہوگے اگر تم مومن ( صاحب ایمان ) ہو۔ اس ایمان و ایقان کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان میں کردار کی بعض خوبیاں پیدا ہوں ۔ علامّہ اقبال کہتے ہیں کہ’’ جب تک انسان اپنے عمل کے اعتبارسے اَلْخَلْقُ عِیَالُ اللّٰہِکے اصول کا قائل نہ ہو جائے گا‘ جب تک جغرافیائی وطن پرستی اور رنگ و نسل کے اعتبارات کو نہ مٹایا جائے گا ‘ اس وقت تک انسان اس دنیا میں فلاح و سعادت کی زندگی بسر نہ کر سکے گا اور اخو ّت‘ حریت اور مساوات کے شاندار الفاظ شرمندۂ معنی نہ ہو ں گے‘‘۔ (سال نو کا پیغام: مشمولہ: حرف اقبال ،ص۲۱۹ص ۲۲۴۔ ۲۲۵) مسلمانوں کو اپنے کردار میں زورِحیدرؓ ‘ فقرِ بوذرؓ اور صدقِ سلمانی ؓ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ دورِ حاضر کے فتنوں سے نبرد آزما ہونے اور دنیا میں ظلم و استبداد اور چنگیزیت کی بیخ کنی کے لیے ’’سیرتِ فولاد‘‘ کا ہونا ضروری ہے جو صرف انھی صفات کے ذریعے پیدا ہو سکتی ہے۔ مسلمان میں ’’ پرواز شاہین ِ قہستانی‘‘ بھی زورِحید ر کے بغیر نہیں پیدا ہو سکتی ۔ کبھی ’’سیلِ تند رو‘‘ کی ضرورت ہوتی اور کبھی ’’جوے نغمہ خواں‘‘ کی: ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن چوتھا ‘ پانچو اں اور ساتواں بند انھی نکات کی تفسیر ہے کہ اگر مسلمان ذوقِ یقیں‘ محبت فاتحِ عالم اور عمل پیہم کی صفات کو اپنا لے تو پھر ’’ ولایت‘ بادشاہی اور علم ِ اشیا کی جہانگیری‘‘ اس کے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتیں۔ پھر وہ صرف ایک ’’نگاہ ‘‘سے ایک دنیا کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ وہ پوری دنیا کی نگاہوں کا مرکز بن سکتا ہے۔ جہادِ زندگانی میں مسلمان کی حیثیت نہ صرف یہ کہ فاتح عالم کی ہوگی ‘ بلکہ یہ انگارۂ خاکی ‘ روح الامیں کی ہمسری کادعویٰ بھی کر سکے گا مگرشرط وہی ہے کہ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ… ورنہ اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌفطرت کی تعزیریں بہت سخت ہیں: ’’حذراپے چیرہ دستاں، سخت ہیں فطرت کی تعزیریں۔‘‘ ٭جنگِ عظیم کے نتائج و اثرات پر تبصرہ : چھٹے بند میں جنگِ عظیم ( اول ) کے واقعات کے آئینے میں اس کے نتائج اور خصوصاً عالم اسلام پر اس کے اثرات پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ جیسا کہ اس سے پہلے ذکر آچکا ہے‘ پہلے پہل یونانیوں نے برطانیہ کی مدد سے ترکوں سے ان کے بہت سے علاقے چھین لیے مگر ۱۹۲۲ء میں پانسا پلٹا‘پہلے تو سقاریا کی جنگ میں یونانی ‘ ترکوں کے ہاتھوں پٹ گئے ۔ سمرنا کی فتح سے ان کے حوصلے بہت بڑ ھ گئے۔ یہاں ترکوں اور یونانیوں کے درمیان برپا ہونے والے انھی معرکوں کی طرف اشارہ ہے۔ ’’ ہوئے مدفونِ دریا زیردریا تیرنے والے‘‘ کا اشارہ ان یونانیوں کی طرف ہے جنھوں نے آب دوزوں کے ذریعے جنگ میں حصہ لیا۔ ڈاکٹر ریاض الحسن کا خیال ہے کہ اس مصرعے میں اقبال کا اشارہ لارڈ کچنر کی طرف ہے ۔ کچنر ‘ جنگِ عظیم اول میں برطانیہ کا وزیر جنگ تھا۔ مذاکرات کے لیے‘ ایک آب دوز کے ذریعے ‘ روس جارہا تھا کہ جرمنوں نے حملہ کر کے اس کی آب دوز غرق کر دی۔ ( قومی زبان کراچی: نومبر ۱۹۸۰ئ) کیمیا پر ناز کرنے والے یونانی جدید ترین اسلحے اور جنگی سازو سامان سے لیس تھے۔ ترکوں کے پاس اسلحہ کم اور ناقص تھا‘ مگر ان کے عزم و ہمت ‘ جرأت و شجاعت اور ولولۂ تازہ نے انھیں مفتوح سے فاتح بنا دیا۔ اقبال نے ’’ خضر راہ‘‘ میں شریف مکہ کی غداری کا ذکر کیا تھا: بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفی یہاں دوبارہ اس کا تذکرہ ہوا ہے کہ ’’ پیرحرم‘‘ ( شریف مکہ) کی غداری کے سبب حرم رسوا ہوا۔ اس بند کے آخری شعر میں اقبال نے ایک بار پھر ایمان و ایقان کو تعمیر ملت کے لیے ناگزیر قرار دیا ہے کہ ملت کی تقدیر اسی سے وابستہ ہے اور یہی اس کی اصل قو ّت ہے۔ ٭مغرب سے مایوسی: عالمِ اسلام خصوصاً ترکی کے حالات سے اقبال کی نظر دوسرے یورپی ملکوں کی طرف جاتی ہے‘ جہاں دنیا کی پہلی خوفناک جنگ لڑی گئی۔ اس کا سبب مختلف یورپی اقوام کی خودغرضیاں‘ مفاد پرستیاں اور نوآبادیاتی حسد اور ہوس تھی۔ اس جنگ نے تباہی و بربادی ‘ خون آشامی اور ہلاکت آفرینی کا فقید المثال نمونہ پیش کیا۔ اقبال کا حساس اور درد مند دل انسان کی مظلومیت پر تڑپ اٹھا۔ چنانچہ اس نے آٹھویں بند کے پہلے چار شعروں میں مختلف پہلوؤں سے مغرب پر تنقید کی ہے: ۱۔ یورپ کا نو آبادیاتی نظام شہریاری، جس کے ذریعے یورپ نے اپنے سامراجی نظام کو مستحکم کیا‘ ایک لعنت ہے۔ ۲۔ یورپ کا سرمایہ دارانہ نظام دراصل سامراجیت کی بدترین شکل ہے۔ ۳۔ مغرب کی جدید تہذیب کی ظاہر ی چمک دمک جھوٹے نگوں کی طرح اور سراب کی مانند ہے۔ ۴۔ مغربی عقلیت نے سائنسی ترقی کی مگرنتیجہ دنیا کی عالم گیر تباہی کی شکل میں سامنے آیا اور روحانیت بھی ختم ہو گئی۔ مغرب کا نو آبادیاتی نظام ہو یا سرمایہ داری‘ مغربی تہذیب ہو یا عقلیت… بحیثیت مجموعی مغرب‘ اقبال کی تنقید کا ہدف ہے۔ وہ مغرب سے کس حد تک مایوس تھے‘ اس کا اندازہ ان کے یکم جنوری ۱۹۳۸ء کے ریڈیائی پیغام سے ہوتا ہے‘ کہتے ہیں: ’’ ملوکیت کے جبر و استبدا نے جمہوریت ‘ قومیّت‘ اشتراکیت‘ فسطائیت‘ اور نہ جانے کیا کیا نقاب اوڑ ھ رکھے ہیں۔ ان نقابوں کی آڑ میں دنیا بھر میں قدرِ حریت اور شرفِ انسانیت کی ایسی مٹی پلید ہور رہی ہے کہ تاریخِ عالم کا کوئی تاریک سے تاریک صفحہ بھی اس کی مثال پیش نہیں کر سکتا۔ جن نام نہاد مدبروں کو انسانوں کی قیادت اور حکومت سپرد کی گئی ہے ‘ وہ خون ریزی ‘ سفاکی اور [استبداد] کے عفریت ثابت ہوئے۔ انھوں نے ملوکیت اور استعمار کے جوش میں لاکھوں کروڑوں مظلوم بندگانِ خدا کو ہلاک و پامال کر ڈالا۔ انھوں نے کمزور قوموں پر تسلط حاصل کرنے کے بعد ان کے اخلاق‘ ان کے مذاہب ‘ ان کی معاشرتی روایات‘ ان کے ادب اور ان کے اموال پر دستِ تطاول دراز کیا۔ پھر ان میں تفرقہ ڈال کر ان بد بختوں کو خوں ریزی اور برادر کشی میں مصروف کر دیا‘‘۔ ( حرفِ اقبال: ص۲۱۷۔۲۱۸) ٭انسانیت کا مستقبل، مسلمان: مغرب سے مکمل مایوسی کے بعد اقبال کی نظر میں انسانیت کا مستقبل مسلمان سے وابستہ ہے۔ ان کے نزدیک مسلمان اس گلستان ( دنیا ) کا بلبل ہے۔ اس کا گیت گلستان کے لیے بادِبہاری کا حکم رکھتا ہے۔ وہ بلبل کو گیت کی لَے بلند کرنے اور پرجوش آواز میں گیت گانے کے لیے اکساتے ہیں ۔ ان کے نزدیک مسلمان کے لیے محض نام کا مسلمان ہونا کوئی قابلِ لحاظ بات نہیں ‘ آخرت میں قسمت کا فیصلہ عمل و کردار سے ہوگا۔ یعنی:مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِہِ وَ مَنْ اَسَآئَ فَعَلَیْہَا(سورۃ حم السجدہ: ۴۶)جس شخص نے کوئی نیک کام کیا تو (اس کا اجر) اس کے لیے ہے اور جس نے برا کیا تو اس ( برائی ) کا وبال اسی کے اوپر ہوگا۔ ٭روشن مستقبل پر اظہارِ مسرت: ترکوں کی فتح عالم اسلام کے لیے ایک بہت بڑا سہارا(Asset) تھی ۔ یوں معلوم ہوتا تھا‘ جیسے عالمِ اسلام انگڑ ائی لے کر بیدار ہو رہا ہے۔ ترکوں کی فتح گویا مسلم نشأت ثانیہ کی طرف پہلا قدم تھا: سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے ‘ وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا دوسری طرف دنیا کی امامت کے دعوے دار‘ یورپ کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہو چکاٖ تھا۔ یورپ کی نام نہاد تہذیب نے دنیا کو تباہی و بربادی اور بربریت و دہشت گردی کے سوا کچھ نہ دیا۔ اقبال کے سال نو کے پیغام( یکم جنوری ۱۹۳۸ئ) سے انداز ہ ہوتا ہے کہ وہ مغرب سے قطعی مایوس تھے۔ منطقی طور پر انھوںنے قرار دیا کہ اب اسلام ہی بنی نوع انسان کے مسائل حل کر سکتا ہے۔ چنانچہ ’’ طلوعِ اسلام‘‘ کے آخری بند میں اقبال نے اس پر بڑ ے جوش و خروش کے ساتھ خوشی اور مسرت کا اظہار کیا ہے ۔ یہاں ملت اسلامیہ کی پوری تاریخ ان کے سامنے ہے۔ ’’خواجۂ بدر و حنین‘‘ اور ’’شاخِ خلیل ‘‘ؑ کی تلمیحات سے مسلمانوں کے شان دار ماضی کی طرف بڑ ے لطیف اشارے کیے ہیں۔ وہ ان شہیدوں کو نہیں بھولے جنھوں نے ہر نازک موقع پر قوم کی سربلندی اور دین کے تحفظ کی خاطر اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا۔ اقبال کے نزدیک جب تک ملت کی تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں ‘ دنیا کی کوئی طاقت اسے نیست و نابود نہیں کر سکتی۔ یہاں اقبال نے حافظ شیرازی کا ایک فارسی شعر نقل کیا ہے: بیا ساقی نواے مرغ زار از شاخسار آمد بہار آمد‘ نگار آمد‘ نگار آمد‘ قرار آمد یہ شعر ایک ایسی کیفیت کی ترجمانی کرتا ہے ‘ جب کوئی شخص‘ مسرت کے انتہائی جذبات سے لبریز دل کے ساتھ‘ دوستوںکا ہاتھ پکڑ کر خوشی کے عالم میں رقص کرنے لگتا ہے۔ فنی تجزیہ ’’ طلوعِ اسلام‘‘ ترکیب بند ہیئت میں کل نو بندوں پر مشتمل ہے۔ نظم کی بحر کا نام ہزج مثمن ہے ۔ بحر کا وزن اور ارکان یہ ہیں:مَفَاعِیْلُنْ مَفَاعِیْلُنْ مَفَاعِیْلُنْ مَفَاعِیْلُنْ ٭براہِ راست خطاب: اقبال نے اپنی بعض دوسری طویل نظموں‘ مثلاً :’’ ذوق و شوق‘‘ یا ’’ مسجد قرطبہ‘‘ کے برعکس ’’ طلوعِ اسلام‘‘ میں تخاطب کا بلاواسطہ اور براہِ راست طریقہ اختیار کیا ہے۔ یہ نظم ایک ایسے دور میں لکھی گئی جب بحیثیت ِ مجموعی عالمِ اسلام کے حالات میں خوش گوار تبدیلیاں پیدا ہو رہی تھیں ۔ اس سبب سے اقبال کے جذبات میں تلاطم برپا تھا۔وہ مسلم دنیا کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے‘ مسلمانوں کو دعوتِ جہد و عمل دیتے ہیں اور روشن مستقبل کی خوش خبری سناتے ہیں۔ یہاں انھوں نے براہِ راست خطاب کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ’’ طلوعِ اسلام‘‘ میں رمز و ایما کا وہ بلند معیار نہیں ملتا جو اقبالؔ کی بعض دوسری نظموں میں پایا جاتا ہے۔ جہاں فکر اور سوچ کم اور تلقین و اظہار زیادہ ہو اور وہ بھی براہِ راست‘ تو ظاہر ہے کہ بات’’ درحدیثِ دیگراں‘‘ کے بجاے بلا واسطہ اور وضاحت سے کہی جائے گی۔ ٭متنوع لہجہ: نظم کا آغاز بڑ ے نرم اور دھیمے لہجے میں ہوتا ہے۔ پہلے مصرعے میں ’’ ستاروں کی تنک تابی‘‘ کی ترکیب نرمی ‘ سبک روی‘ گداز اور گھلاوٹ کا احساس پید ا کر رہی ہے‘ دوسرے مصرعے اور پھر دوسرے شعر تک پہنچتے پہنچتے شاعر کے لب و لہجے میں گرمی ‘ جوش اور ولولہ پیدا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ جوں جوں آگے بڑ ھتے جائیں ‘ لب و لہجے کی تیزی و تندی میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ طوفانِ مغرب، تلاطم ہاے دریا، شکوہِ ترکمانی، نوارا تلخ تر می زن، تقدیر سیمابی کی تراکیب گواہی دے رہی ہیں کہ شاعر اپنے بیان کے اظہار میں قو ّت اور شدت سے کام لینا ضروری سمجھتا ہے ۔ یہاں تک کہ پہلے بند کے ختم ہوتے ہوتے شاعر ’’چراغِ آرزو روشن کرنے‘‘ اور شہیدِ جستجو کی منزل تک پہنچ جاتا ہے۔ دوسرے بند کے آغاز میں شاعر کا لہجہ پھر قدر ے نرم ہو جاتا ہے۔ مگر بند کے اختتام پر ’’سوزو سازِ زندگی‘‘ کے ذکر سے بیان میں پھر وہی گرمی اور وہی جوش پیدا ہو جاتا ہے۔ لب و لہجے کا یہ اختلاف پوری نظم میں موجود ہے۔ اظہارِ بیان کبھی تو بہت پر جوش اور ولولہ خیز ہوتا ہے اور کبھی اس میں نرمی ‘ دھیما پن‘ اور گھلاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ اقبال کبھی مسلمان کو براہِ راست ‘ جہد و عمل اور حرکت پر اکساتے ہیں اور کبھی ناصحانہ ‘ واعظانہ اور مشفقانہ لہجہ اختیار کرتے ہیں۔ جب وہ دنیا کی مختلف قوموں کے حالات پر تبصرہ کرتے ہیں تو ان کا اندازبیان تجزیاتی ہوتا ہے اور انسان کی زبوں حالی کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے اشعارسے سوزو گداز اور درد مندی ٹپکتی ہے۔ اندازِ بیان کی اس رنگینی اور لب و لہجے کے تنوع نے نظم کو اس کائنات کی طرح خوب صورت اور رنگین و دل کش بنا دیا ہے جس کی وسعتوں میں کہیں پہاڑ نظر آتے ہیں‘کہیں میدان اور کہیں دریا‘ کہیں بلند و بالا اور تناور درخت ہیں اور کہیں چھوٹے چھوٹے نرم و نازک پودے ‘ کہیں پھلوں سے لدے پھندے درخت جھومتے ہیں اور کہیں رنگارنگ پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو فضا کو معطر کر رہی ہے۔ مگر جیسا کہ اوپر بھی ذکر آچکا ہے‘ لب و لہجے کے تنوع کے باوجود ‘ بیان میں جوش و خروش اور مسرت و سرمستی کی کیفیت زیادہ نمایاں نظر آتی ہے۔ اقبال کے سامنے وہ ’’ عالمِ نو‘‘ طلوع ہورہا تھا کہ صدیوں سے’’ زندانی‘‘مسلمان ’’ شگافِ در‘‘ سے اس کے منتظر تھے۔ یہ بات بھی کچھ کم مسرت خیز نہیںتھی کہ مستقبل مسلمانوں کا ہے۔ ایک ایسے عظیم الشان موقع بر جب تاریخ ایک نازک موڑ مڑ کر ایک نئے اور نسبتاًروشن دور میں داخل ہورہی تھی‘ شاعر کے لہجے میں سرمستی کی کیفیت پیدا ہو جانا عین فطری ہے۔ نظم کا آخری بند جو شدتِ جذبات کے تحت اقبال نے فارسی میں لکھا ‘ جوش و خروش اور مسرت و سرمستی کا بھر پور اظہار ہے۔ یہ بند ایک طرح سے نظم کا کلایمکس ہے ۔ نظم کا خاتمہ بڑا دل نشین ہے۔ ٭تحسین فطرت: بانگِ درا میں اقبال ایک مفکر سے زیادہ فن کار‘ شاعر اور مصور نظر آتے ہیں۔ ’’طلوعِ اسلام‘‘ میں انھوں نے حسن فطرت اور اس کے مظاہر و اجزا کے تذکرے اور تحسین کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا ۔ نظم کا آغاز ہی ’ ’صبح روشن ‘‘ ’’ستاروں کی تنک تابی‘‘ ’’افق‘‘ اور ’’ آفتاب‘‘ سے ہوتا ہے۔ آگے چلیں تو فطرت کے ان تمام خارجی مظاہر کا تذکرہ ملے گا‘ جن پر اقبال شیدا و فریفتہ ہیں‘ مثلاً :طوفان اور تلاطم ہاے دریا‘ لالہ‘ دریا اور گہر ‘ انجم ‘ نرگس‘ شاہین‘ عروسِ لالہ‘ پروازِشاہینِ قہستانی ‘ قندیلِ رہبانی‘ خورشید‘ عقابی شان‘ستارے شام کے ‘ خونِ شفق‘ طمانچے موج کے ‘ بیکراں ہو جا‘ پر فشاں‘ سیلِ تند رو‘جوے نغمہ خواں‘ صداے آبشاراں‘ فرازِ کوہ‘ خیلِ نغمہ پردازاں ‘ برگ ہاے لالہ وغیرہ۔ یہ الفاظ اور تراکیب اقبال کے ہاں مخصوص علامتوں کی نمایندگی کرتی ہیں۔ اقبال نے ایک طرف ان کے ذریعے اپنا ما فی الضمیرکمال خوبی اور بلاغت کے ساتھ ادا کر دیا اور دوسری طرف فطرت کے حسن کو خراج عقیدت بھی پیش کیا اور یوں تحسینِ فطرت کے ذوق کو تسکین بہم پہنچائی جو ابتدائی دور سے ان کی گھٹی میںپڑا تھا۔ ’’ طلوعِ اسلام‘‘ کا یہ پہلوکہ وہ فکر کے ساتھ ساتھ تحسین فطرت کے ذوق کی آبیاری بھی کرتے جاتے ہیں‘ اقبالؔ کی رومانوی طبع پر بھی دلالت کرتا ہے۔ ٭غنائیت: ’’ طلوعِ اسلام‘‘ کی بحر رواں دواں ‘ شگفتہ اور غنائیت سے بھر پور ہے۔ نظم کو پڑ ھتے ہوئے ایک طرح کی نغمگی کا احسا س ہو تا ہے۔ ردیف و قوافی کی موزونیت ‘ غنائیت کے لطف کو دوبالا کرتی ہے۔ تکرارِ لفظی بھی غنائیت کا اہم عنصر ہے۔ چند مثالیں: نہ تورانی رہے باقی ‘ نہ ایرانی نہ افغانی بیا ساقی نواے مرغ زار از شاخسار آمد بہا ر آمد‘ نگار آمد ‘ نگار آمد‘ قرار آمد _______ جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے ‘ اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے ٭بلاغت: ’’ طلوعِ اسلام‘‘ کا زمانۂ تصنیف بانگِ درا کا دورِ اختتام ہے۔ اس دور میں اقبال کے ہاں وہ پختگی آچکی تھی جس کی حقیقی شکل بالِ جبریل کی نظموں میں نظر آتی ہے مگر اس کی ابتدائی جھلکیاں ’’ طلوعِ اسلام ‘‘ میں بھی موجود ہیں۔ یہاں انھوں نے تاریخ اسلام اور مختلف زمانوں اور علاقوں کے مسلمانوں کی قومی خصوصیات اور شخصی خوبیوں کی طرف بڑے بلیغ اشارے کیے ہیں۔ بعض اشعار تو بلاغت و جامعیّت کا شاہ کار ہیں، مثلاً: عطا مومن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے شکوہِ ترکمانی‘ ذہن ہندی‘ نطقِ اعرابی _______ حقیقت ایک ہے ہر شے کی‘ خاکی ہو کہ نوری ہو لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں _______ اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا ٭حسنِ بیان کے دیگر پہلو: ہر بڑے شاعر کی طرح اقبالؔ کی ہر نظم میں ‘ خواہ اس کا موضوع کچھ ہو‘ جدید اور حسین پیرایۂ بیان ملتا ہے۔ حسن بیان کے چند پہلو ملاحظہ ہوں: الف: نادر تراکیب: ’’ طلوعِ اسلام‘‘ میں بہت سے ایسے الفاظ اور تراکیب ملتی ہیں جو اقبال نے اس نظم میں پہلی بار استعمال کی ہیں یا اگر انھیں پہلے برتا بھی ہے تو’’ طلوعِ اسلام‘‘ میں انھیں ایک نئے انداز‘ نئی آب و تاب اور نرالے انداز سے پیش کیا ہے۔نادر تراکیب کی ایجاد میں غالبؔ کو کبھی چیلنج نہیں کیا گیا۔ مگر ڈاکٹر یوسف حسین خاں کا خیال ہے کہ اقبال نے اپنے کلام میں زندگی کی نسبت جس قدر ترکیبیں اور تشبیہیں استعمال کی ہیں ‘ ان کی مثال فارسی اور اردو کے کسی دوسرے شاعر کے یہاں نہیں ملتی۔ ( روحِ اقبال: ص ۱۳۹) ’’طلوعِ اسلام‘‘ کی چند نادر اور نئی تراکیب ملاحظہ ہوں: جولاں گہِ اطلس‘ نطقِ اعرابی‘ کتابِ ملت بیضا‘ خونِ صد ہزار انجم‘ بال و پرِ روح الامیں‘ گماں آباد ہستی‘ محبت فاتح عالم‘ صید زبونِ شہر یاری‘ قبایانِ تتاری۔ ب: تشبیہات: جہاں تک تشبیہوں کا تعلق ہے ‘ ڈاکٹر یوسف حسین خاں کہتے ہیں: ’’اقبال تشبیہوں کا بادشاہ ہے اور تشبیہ حسنِ کلام کا زیور ہے۔ اقبال مضمون کی طرفگی اور حسن کو اپنی تشبیہوں سے دوبالا کر دیتا ہے‘‘۔ چند مثالیں: ؎ گماں آباد ہستی میں یقین مردِ مسلماں کا بیاباں کی شبِ تاریک میں قندیلِ رہبانی _______ جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے ‘ اُدھر ڈوبے ادھر نکلے ج: صنائع بدائع: ۱۔ صنعتِ ترافق: ( جس مصرع کوچاہیں پہلے پڑ ھیں ‘معنی میں کوئی فرق نہ آئے): ترے سینے میں ہے پوشیدہ رازِ زندگی، کہ دے مسلماں سے حدیثِ سوز و سازِ زندگی، کہ دے ۲۔ صنعتِ تضمین: اثر کچھ خواب کا غنچوں میں باقی ہے تو اے بلبل ’’نورا تلخ ترمی زن چوں ذوقِ نغمہ کم یابی‘‘ ۳۔ صنعتِ تلمیح: مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے وہ کیا تھا ؟ زورِ حیدرؓ ، فقرِ بوذرؓ ، صدقِ سلمانیؓ ۴۔ صنعتِ مراعات النظیر: غبار آلودۂ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے تو اے مرغِ چمن اڑنے سے پہلے پرفشاں ہو جا ۵۔ صنعتِ اشتقاق: ( ایک ہی ماخذ اور ایک ہی اصل کے چند الفاظ کا استعمال): جہاں بانی سے ہے دشوار تر کارِ جہاں بینی جگر خوں ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا د: محاکات: ڈاکٹر یوسف حسین خاں کے بقول:’’ شاعر انہ تصویر کشی کے بے شمار اعلیٰ نمونے اقبال کے کلا م میں موجود ہیں۔ وہ لفظوں کے طلسم سے ایسی تصویر کھینچتا ہے اور تخیل کے وموقلم سے اس میں ایسی رنگ آمیزی کرتا ہے کہ حقیقت جیتی جاگتی شکل میں سامنے آجاتی ہے۔( روحِ اقبال: ص ۱۱۹)’’طلوعِ اسلام‘‘ میں محاکات کی خوب صورت مثالیں موجود ہیں۔ چندمثالیں ملاحظہ ہوں: گزر جا بن کے سیلِ تند رو کوہ و بیاباں سے گلستاں راہ میں آئے تو جوے نغمہ خواں ہو جا _______ ہوئے احرارِ ملت جادہ پیما کس تجمّل سے تماشائی شگافِ در سے ہیں صدیوں کے زندانی ’’طلوعِ اسلام‘‘ بانگِ دار کی طویل نظموں میں اس اعتبار سے منفر د ہے کہ اس میں اقبال کے افکار زیادہ پختہ اور خوب صورت انداز میں سامنے آئے ہیں ۔ فنی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس کے بعض حصے نہایت سادہ اور عام فہم ہیں اور بعض حصے بے حد بلیغ اور گہرے مفاہیم و معانی کے حامل ہیں۔ معروف نقاد کلیم الدین احمد کے الفاظ میں: ’’ اقبال کا مخصوص رنگ[ طلوعِ اسلام کے] ہر شعر میں جلوہ گر ہے۔ خیالات کا فلسفیانہ عمق‘ ان کی صداقت بے پناہ‘ طرزِ ادا کی شان و شوکت… ہر شعر مؤثر ہے اور اس کا اثر جوش آور ہے۔ دلِ مردہ میں روحِ زندگی دوڑجاتی ہے اور ترقی کا جذبہ موجزن ہوتا ہے‘خصوصاً نوجوان قارئین تو بے چین ہوجاتے ہیں‘‘۔ ……………… ذوق و شوق ٭تعارف اور پس منظر علامّہ اقبال ؒ دوسری گول میز کانفرنس ( منعقدہ لندن ۷ ستمبر تا یکم دسمبر ۱۹۳۱ئ) میں مسلم لیگ کے نمایندے کی حیثیت سے شریک ہوئے تھے۔ ابھی کانفرنس ختم نہیں ہوئی تھی کہ وہ ۲۱ نومبر کو لندن سے واپس روانہ ہوگئے۔ اٹلی میں چندروزہ قیام کے دوران میں مسولینی اور سابق شاہِ افغانستان امان اللہ خان سے ملاقات کی ۔ پھر مصر سے ہوتے ہوئے ۶ دسمبر کو بیت المقدس پہنچے۔جہاں انھیں مؤتمر عالمِ اسلامی کے اجلاس میں شریک ہونا تھا۔ اس اجلاس میں وہ ہندی مسلمانوں کے نمایندے کی حیثیت سے مدّعو تھے۔ غلام رسول مہرؔ اس سفر میںاقبال کے ہمراہ تھے۔ اقبال نے مؤتمر کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کیا۔ مؤتمر کے چار نائب صدور منتخب ہوئے ،ان میں علامّہ اقبالؔ بھی شامل تھے۔ وہ ۱۵دسمبر تک بیت المقدس میں مقیم رہے اور مؤتمر کی کارروائیوں میں حصہ لیتے رہے۔ اس دوران میں جب بھی موقع ملتا ‘ تاریخی مقامات دیکھنے نکل جاتے۔ روانگی سے ایک روز قبل ۱۴ دسمبر کی شام آپ نے انگریزی میں ایک مؤثر خطبہ دیا۔کانفرنس سے فارغ ہوکر فلسطین سے مصر پہنچے اور وہاں سے بذریعہ بحری جہاز ہندستان روانہ ہو گئے۔ ۳۰ دسمبر ۱۹۳۱ء کو لاہور پہنچے۔ فرمایا: میرایہ سفر زندگی کا نہایت دل چسپ واقعہ ثابت ہوا ہے۔ ’’ ذوق وشوق‘‘ اسی دل چسپ سفر کی یادگار ہے اور جیسا کہ اقبال نے خودتصریح کی ہے : ’’اس نظم کے اشعار میں سے اکثر فلسطین میں لکھے گئے‘‘۔ مؤتمرِ عالمِ اسلامی کے اجلاس میں شرکت کے موقع پر، مسلم ممالک کے متعدد وفود سے اقبالؔ کی ملاقات ہوئی۔ اجلاس میں مسلمانوں اور مسلم ممالک کے مسائل پر بحثیں ہوئیں ۔ مختلف تجاویز پیش ہوئیں اور کئی اہم امور طے پائے۔ اقبال بعض ملکوں کے وفود سے مل کر بے حد خوش ہوئے۔ فرمایا:’’ فلسطین کے زمانۂ قیام میں متعدد ممالک‘ مثلاً: مراکش‘ مصر‘ یمن ‘ شام ‘ عراق ‘ فرانس اور جاوا کے نمایندوں سے ملاقات ہوئی۔ شام کے نوجوان عربوں سے مل کر میں خاص طور پر متاثر ہوا۔ ان نوجوانانِ اسلام میں اس قسم کے خلوص و دیانت کی جھلک پائی جائی ہے جیسی میں نے اطالیہ کے فاشسٹ نوجوانوں میںدیکھی۔ کانفرنس کے دوران میں بعض موقعوں پر باہمی اختلاف کے مناظر بھی سامنے آئے۔ اس سلسلے میں علامّہ نے فرمایا کہ مقامی جماعتی اختلاف کے باوجود، مؤتمر شان دار طریق پر کامیاب ہوئی۔ اس اجتماع میں اکثر اسلامی ملکوں کے نمایندے شریک ہوئے اور اسلامی اخو ّت اور ممالک اسلامی کی آزادی کے مسائل پر مندوبین نے بے حد جوش و خروش کا اظہار کیا۔(مزید تفصیل کے لیے دیکھیے :سفرنامہ اقبال:ص ۱۶۰تا ۱۸۳) بہرحال کانفرنس میں شرکت‘ اسلامی وفود سے ملاقاتوں اور مقدس مقامات کی زیارت کے بعد علامّہ کے دل میں مسلم ممالک کی ترقی‘ احیاے اسلامی اور زیارتِ روضۂ اطہر کی تمناوآرزو کا از سرِ نو تازہ ہو نا قدرتی بات تھی۔ یہی اس نظم کا پس منظر ہے… اسی تمنا اور آرزوکے تحت انھوں نے اپنے جذبات و احساسات کو ’’ذوق و شوق‘‘ میں نظم کر دیا۔ یہ نظم ایک تواس ذوق و شوق کی آئینہ دار ہے ‘ جو اقبال کے دل میں آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے موجود تھا۔ دوسرے اس میں ملت اسلامیہ کے احیا کا ذوق و شوق ہے ‘ جس کے لیے اقبال عمر بھر تڑپتے رہے اور روشن مستقبل کے لیے پر امید بھی رہے۔ ابتدامیں نظم زیادہ طویل تھی‘ نظرثانی میں اقبال نے کم وبیش تین درجن اشعار قلم زد کردیے۔ فکری جائزہ یہ نظم سفرِ فلسطین کا حاصل تھی‘ اور ایک ایسا تحفہ جو اس سفر کے دوران میں علامّہ اقبال کے ہاتھ لگا۔ وطن واپسی پر انھوں نے یہ تحفہ ملت کے سامنے پیش کر دیا۔ نظم کے آغاز میں سعدیؒ کا شعر: دریغ آمدم زاں ہماں بوستاں تہی دست رفتن سوے دوستاں درج کرنے سے اسی مدعا کااظہار مقصود ہے۔ ٭تمہید: ’’ذوق و شوق‘‘ میں علامّہ نے اظہارِ خیال کے لیے تمہیدی طور پر ایک منظرِ فطرت کا سہارا لیا ہے۔ ’’ خضر راہ‘‘ کی طرح زیر مطالعہ نظم میں بھی انھوں نے ایک منظرِ فطرت کو اپنے حکیمانہ خیالات کی تمہید بنایا ہے۔ شاعر کے دل میں آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اطہر کی زیارت کی خواہش کروٹیں لے رہی ہے‘ اس لیے وہ خودکو عالم تصو ّر میں مدینۂ طیبہ کے آس پاس محسو س کرتا ہے۔ اس تصو ّراتی منظر کا نقشہ کچھ یوں ہے: مدینہ منور ہ کے قریب صحرا میں صبح کا سہانا وقت ہے۔ ٹیلوں کی اوٹ سے سورج نمودار ہوتا ہے تو اس کی نورانی کرنیں چاروں طرف یوں بکھر جاتی ہیں جیسے حسن ازل نے اپنا نقاب اتار دیا ہے۔رات کی بارش کے سبب نواحِ کاظمہ کی ریت ریشم کی مانند نرم ہو گئی ہے۔ درختوں کے پتے دھل کر پاک و صاف اور چمک دار ہو گئے ہیں ۔ فضا ہر طرح کی آلودگی سے مبرّا ہے۔ رات کے برسے ہوئے بادلوں کے چھوٹے چھوٹے رنگا رنگ ٹکڑے ادھر اُدھر دوڑتے پھر تے ہیں۔ کوہ اِضم کی پہاڑیوں کے پس منظر میں جب ان بدلیوں پر سورج کی نقرئی کرنیں پڑ تی ہیں تو ان کی رنگینی اور رعنائی میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ شاعر فطرت کی اس رنگینی میں کھویا ہواہے ۔ اچانک اسے صحرا میں کسی گزرے ہوئے کارواں کے نشاناتِ قیام نظر آتے ہیں۔ اس ایک لمحے میں شاعر کی نگاہِ تخیل کے سامنے تاریخ کی بساط پر سیکڑوں قافلے گزر جاتے ہیں۔ اقوامِ عالم کے عروج و زوال کے پس منظر میں اسے یوں احساس ہوتا ہے جیسے جبرئیل ؑ اسے غور و فکر کی دعوت دے رہے ہوں کہ اہلِ دل کے لیے یہی مقامِ عبرت ہے اور لمحۂ فکریہ بھی! اس بند میں لفظ ’’ کاظمہ‘‘ اور ’’ کوہِ اِضم‘ ‘ وضاحت طلب ہیں۔ کاظمہ مکہ کی جانب والے ایک راستے ‘ ایک مقام یا ایک چشمے کا نام ہے۔ یہ مدینے کے متعدد ناموں میں سے ایک نام ہے۔اِضم مضافاتِ مدینہ کے ایک پہاڑ یا وادی کا نام ہے۔ اقبال نے پہاڑ مراد لیا ہے۔ کاظمہ اور اِضم کے نام قصیدۂ بردہ کے اس شعر سے ماخو ذ ہیں: اَمْ ہَبَّتِ الرِّیْحُ مِنْ تِلْقَآئِ کَا ظِمَۃٍ اَوْ اَوْمَضَ الْبَرْقُ فِی الظَّلَمَآئِ مِنْ اِضَمٖ (کاظمہ کی جانب سے ہو ا چلی یا وادی ِاِضم سے اندھیری رات میں بجلی چمکی ہے۔) قصیدہ بردہ کے مصنّف امام محمد بن سعید بوصیری ( پیدایش: ۷ مارچ ۱۲۱۳ء ) ایک جامع الصفات بزرگ تھے۔ وہ حسّان بن ثابتؓ کے بعد عربی کے سب سے بڑے نعت گو سمجھے جاتے ہیں۔ ۱۶۵ اشعار کے اس قصیدے سے روحانی اور معجزانہ صفات بھی وابستہ کی جاتی ہیں۔ عربی ادب میں یہ قصیدہ ایک مسلمہ شاہ کار ہے۔ علامّہ اقبال کے بعض خطوط میں بھی امام بوصیری کا ذکر ملتا ہے( اقبال نامہ ‘اول: ص ۹۴ ا‘انوار اقبال: ص ۱۵۴) اردو میں قصیدۂ بردہ کے بہت سے ترجمے ہو چکے ہیں۔ ٭مسلم انحطاط کا پرسوز تذکرہ: عالمِ تصو ّر میں ‘ بیت المقدس اور دیگر مقاماتِ مقدسہ کی زیارت‘ ملت اسلامیہ کے احیاے نو پر بحث مباحثہ اور دنیا بھر سے آئے ہوئے مسلم نمایندوں سے ملاقاتیں اور احساسِ یگانگت شاعر کے ذہن میں تازہ ہے۔ اس کے سامنے پوری مسلم دنیا کی حالتِ زبوں اور مسلمانوں کی حالت ِ زار کا نقشہ کھنچ جاتا ہے اور اسے مسلمانوں کی بے حسی‘ غفلت‘ بے عملی اور پستی کا بڑی شدت سے احساس ہوتا ہے۔ دوسرے بند کے بیشتر شعروں میں اسی احساس کا مؤثر اور بھر پور اظہار ملتا ہے۔ اقبال کے نزدیک مسلم انحطاط ‘ اس درجے کو پہنچ چکا ہے کہ اب تقریباً زندگی کے ہر شعبے میں اسلاف کی روایات بالکل عنقا ہو چکی ہیں۔ ۱۔ ایک طرف تو خود مسلمان بے حس ہو چکے ہیں کہ اہلِ حرم نے اپنی آستینوں میں بت پال لیے ہیں۔ گیسوے دجلہ و فرات تاب دار ہے مگر بت شکنی کے لیے کوئی محمود غزنوی ہے اور نہ کوئی حسینؓ۔ مراد یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دین و عقائد میں غیر اسلام کی آمیزش کر لی ہے۔ ملحدانہ افکار و نظریات کو اختیار کرنا بالکل ایسا ہے جیسے اہلِ حرم‘ اپنے حرم کو سومنات کا مندر بنا لیں مگر مسلمانوں کی صفوں میں کوئی ایسا رہنما یا حکمران نہیں جو مسلمانوں کے ’’ اسلامی سومنات‘‘ کو پاش پاش کر دے۔ قافلۂ حجاز ( مسلمانوں) میں جور اہ نما اور حکمران موجود ہیں، ان کے اندر شہادتِ حق کا وہ داعیہ نہیں جس کی مثال امام حسینؓ نے پیش کی۔آج بھی مسلمان حکمران یزید کے سے بلکہ اس سے بھی بد تر افعال و اعمال کے مرتکب ہورہے ہیں مگر کلمۂ حق کہنے کے لیے کوئی شخص ’’ کربلا‘‘ میں نہیں نکلتا۔ ۲۔ پھر یہ صورتِ حال عالمِ اسلام کے کسی ایک حصے تک محدود نہیں بلکہ عرب و عجم دونوں اس انحطاط کا شکار ہیں ۔ایک طرف عربوں کے ہاں ان کے قومی کردار کی خصوصیات( سادگی‘ شجاعت‘ غیرت ‘ فقر اور مہمان نوازی وغیرہ) ختم ہوچکی ہوتی… (۱۹۳۵ء میں جزیرہ نماے عرب چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ چکا تھا اور بیشتر حصوں پر مغرب خصوصاً انگریزوں کے کٹھ پتلی حکمران دادِ بادشاہت دے رہے تھے۔) دوسری طرف عجم جو اپنے علم کی وسعت اور فکر کی بلندی کے سبب مسلمانوں کے لیے وجہِ افتخار اور دوسری قوموں کے لیے ماہ الامتیاز تھا ،افسوس کہ اس کے افکارِ عالیہ کو بھی گھن لگ چکا ہے۔ ۳۔ عرب و عجم کے اس انحطاط کا ایک عبرت انگیز ورق یہ ہے کہ پوری اسلامی دنیا میں جلوتیانِ مدرسہ(یعنی قدیم دینی مدارس کے تعلیم یافتہ) کو ر نگاہ اور مردہ ذوق ہیں۔بقول سید ابوالاعلیٰ مودودی:قدیم دینی مدارس کے تعلیم یافتہ علما عام طو رپر ’’جن مشاغل میں مشغول رہے ‘ وہ یہ تھے کہ چھوٹے چھوٹے مسائل پر مناظرہ بازیاں کیں‘ چھوٹے مسائل کو بڑے مسائل بنایا اور بڑے مسائل کو مسلمانوں کی نظروں سے اوجھل کر دیا۔ اختلافات کو مستقل فرقوں کی بنیاد بنایااور فرقہ بندی کو جھگڑوں اور لڑائیوں کا اکھاڑا بنا کر رکھ دیا… آج یہ پوری میراث جھگڑوں اور مناظروں اور فرقہ بندیوں اور روز افزوں فتنوں کی لہلہاتی ہوئی فصل کے ساتھ ہمارے حصے میں آئی ہے۔‘‘ (مسلمانوں کا ماضی‘ حال اور مستقبل: ص ۱۱- ۱۲) اس طبقے میں دوربینی و جہاں بینی کی خصوصیات کے بجاے تنگ نظری اور تنگ دلی پائی جاتی ہے۔ یہی’’ کور نگاہی ‘‘ اور ’’ مردہ ذوقی‘‘ ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے علما کا یہ طبقہ جدید تہذیب و علوم کا چیلنج قبول نہیں کر سکا اور اس کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ اسی طرح خلوتیانِ مے کدہ بھی ملت کی زبوں حالی کا مداوا نہیں کر سکے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اسلام کے حقیقی تصو ّف کا چشمۂ صافی عجمی‘ ویدانتی‘ یونانی اور دیگر غیر اسلامی افکار و فلسفوں کی آمیزش سے گدلا ہو گیا اور اہلِ تصو ّف یا تو ذاتی نجات کی تلاش میں کھو گئے ‘ یا پیری مریدی کو رواج دیا۔ علامّہ اقبال نے مروجہ تصو ّف کے مسموم اثرات کو دیکھتے ہوئے بڑی شدت کے ساتھ اور مسلسل اس کی مخالفت کی۔ سید سلیمان ندویؒ کولکھتے ہیں: ’’تصو ّفِ [وجودی] سرزمین اسلام میں ایک اجنبی پودا ہے جس نے عجمیوں کی دماغی آب و ہوا میں پرورش پائی ہے(اقبال نامہ‘ اول: ص ۷۸)۔ دراصل اقبال ملت اسلامیہ کو ایک باعمل قوم بنانا چاہتے تھے جبکہ مروجہ تصو ّف انھیں دنیا سے فرار اور ترک دنیا کی تعلیم دیتا تھا۔ اقبال ’’خاک کی آغوش میں تسبیح ومناجات ‘‘کے بجاے ’’وسعتِ افلاک میں تکبیر مسلسل‘‘ کے قائل ہیں ۔ اس لیے ان کی تاکید ہے: نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دل گیری انھوںنے اس بند کے آخری دو شعروں میں اس صورتِ حال کا بنیادی سبب بھی بتا دیا ہے ۔ ان کے نزدیک عرب و عجم (جلوتیانِ مدرسہ اور خلوتیانِ مے کدہ یعنی جدید تعلیم یافتہ اور بحیثیت مجموعی پوری امت) کے انحطاط و زوال کی حقیقی و جہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت امام حسینؓ کا سا کردار نہیں اور نہ ان میں قربانی و شجاعت کا وہ جذبہ موجود ہے جس کانمونہ بد ر و حنین میں ان کے اسلاف نے پیش کیا تھا۔ اس کردا راو ر اس جذبے کو اقبال نے ’’عشق‘‘ کا نام دیا ہے۔ مسلمانوں میں جذبۂ عشق کے فقدان کے سبب شریعت ‘ تصو ّف اور دین داری کے تصو ّرات بدل گئے ہیں: شریعت ‘ تصو ّف ‘ تمدن ‘ کلام بتانِ عجم کے پجاری تمام ملت اسلامیہ کے انحطاط کے سبب شاعر شدید درد و کرب میں مبتلا ہے۔ رنج و غم کی تلخی نے اس کے شب و روز میں زہر بھر دیا ہے۔ چنانچہ مسلم انحطاط کے تذکرے میں اس نے تلخی اور درد و کرب اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سوزو گداز کا اظہار کیا ہے۔ یوں شاعر کا دلی کرب اور سوز و گداز پوری نظم میں وقتاً فوقتاً ابھر کر سامنے آتا ہے۔ اس کرب اور سو ز و گداز کا مقامِ آغاز یہ ہے کہ شاعر اپنی قوم کی حالت سے غیر مطمئن ہے۔ اس کی مستقل خواہش یہی رہی ہے کہ کھوئے ہوؤں کی جستجو کی جائے یعنی مسلمانوں کے دل میں نشأتِ ثانیہ اور احیاے ملت کی آرزو پیدا ہو۔ شاعر اسی آرزو کی نشو و نما کے لیے کوشاں ہے اور اس کوشش میں اپنا خونِ دل و جگر صرف کر دینا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں اس کی آرزو اور دعا ہے کہ ملت کی سربلندی کے لیے اس کی تڑپ ‘ بے چینی اور بے قرار ی نہ صرف یہ کہ قائم رہے بلکہ اس میں اضافہ ہوتا رہے کیونکہ جہادِزندگانی میں یہی چیز مہمیز کا کام کرتی ہے۔ ٭بحضور رسالت مآبؐ: اقبال سمجھتے ہیں کہ ملت اسلامیہ اپنی عظمت رفتہ کو پاسکتی ہے اور اس سلسلے میں میری کوششیں بھی کسی درجے میں کارآمد ہو سکتی ہیں، بشرطیکہ ملت اسلامیہ اپنی جدو جہد میں رسول کریمؐ کے اسوۂ حسنہ کو مشعلِ راہ بنائے۔ ۱۔ سب سے پہلے تو شاعر نے کائنات میں آں حضورؐ کی اصل حیثیت کا ذکر کیاہے۔ تیسرے بند کے پہلے شعر اور تیسرے بند کے پہلے تین مصرعوں کا مفہوم یہ ہے کہ آپؐ کی ذاتِ پاک ہی وجہِ تخلیقِ کائنات ہے۔ اس کا پس منظر یہ حدیث ہے کہ ’’ اگر آپ نہ ہوتے تو میں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا‘‘[تحقیقی طور پر یہ حدیث ثابت نہیں]۔ بقول مصحفی ؔ: سارے جہاں کا تجھ کو جانِ جہاں بنایا ۲۔ پھر عربوں ( ذرۂ ریگ) نے دنیا کی قوموں میں جو امتیازی حیثیت ( طلوعِ آفتاب) حاصل کی‘ بعض مسلمان حکمرانوں نے عظمت وصولت کا نقش لوگوں کے دلوں پر بٹھایا اور مسلم بزرگوں اور صوفیا نے عوام کے دلوں کو اپنے اخلاقِ حسنہ کے ذریعے مسخر کیا تو اس کی وجہ صرف اتباعِ رسول ؐ تھی۔ مسلم حکمرانوں کا جاہ و جلال اور بزرگانِ دین کا فقر اور ان کی اخلاقی برتری ایک طرح سے اسلام کی حقانیت اور جلال و جمالِ نبوی ؐکا مظہر ہے۔ یہ بات تیسرے بند کے اگلے تین مصرعوں میں کہی ہے۔ (اقبال نے یہاں بطورِ خاص سنجر و سلیم اور جنید و بایزید کا حوالہ دیا ہے۔ سنجر ( م: ۱۱۵۷ئ) سلجوقیوں کا آخری طاقت ور فرماں روا تھا۔ وہ بہت بہادر‘ فیاض اور عادل بادشاہ تھا۔ عمر بھر دشمنوں سے بر سرِ پیکاررہا۔ اس نے اپنے چالیس سالہ دورِ حکومت میں ۱۹ مرتبہ اپنے دشمنوں کو شکست فاش دی۔ سلیم نے صرف آٹھ سال حکومت کی لیکن اس قلیل مدّت میں اس نے دولتِ عثمانیہ کی مملکت کی حدود کی زبردست توسیع کی اور اپنے آپ کو ناقابلِ شکست اور آہنی قوتِ ارادی کا مالک ثابت کیا۔ سنجر اور سلیم دونوں کی شخصیّتیں جلالِ الٰہی کے مظہر کے طور پر اقبال کو متاثر کرتی ہیں۔‘‘ (اقبال کی تیرہ نظمیں: ص۱۵۷)جنید المعروف بہ جنید بغدادی(م: ۹۱۰ئ)ابتدائی عہد کے صوفیہ میں سے تھے۔ بایزید بسطامی ( م:۸۴۷ئ) وجودی مسلک کے صوفی گزرے ہیں۔ سلطان سلیمان اعظم کا تعارف صفحہ پر ملاحظہ کیجیے) ۳: مسلمان کے لیے انفرادی راہِ نجات اور اجتماعی نشأت ثانیہ کی صورت صرف یہ ہے کہ وہ اسوۂ حسنہ کی پیروی کریں۔ اس پیروی کا سرچشمہ آں حضورؐ سے محبت اور عقیدت ہونی چاہیے۔ ازروے فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:آں حضورؐ سے محبت کرنا ایک مسلمان کے ایمان کا جز ہے۔ آپؐ نے فرمایا: لَایُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہٖ وَ وَلِدِہٖ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ وہ اپنے والدین ‘ اپنی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑ ھ کر مجھ سے محبت نہ کرے۔ اس کے بغیر نہ تو ظاہری عبادت( نماز ،روزے) کا حقیقی مقصد حاصل ہو سکتا ہے اور نہ انسانی عقل کائنات کی بھول بھلیوں کے معمے کو حل کر سکتی ہے۔ دنیا میں چاروں طرف پھیلی ہوئی بے اطمینانی‘ ظلم و تعدّی اور تعصّب و جہالت کا خاتمہ بھی صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ انسان سارے انسانی فلسفوں اور نظاموں کو ( جو ’’ علم، نخیلِ بے رطب‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں) چھوڑ کر محسن انسانیتؐ کے اسوۂ حسنہ کو اپنائے اور اسی کی روشنی میں اپنی سمت ِ سفر متعیّن کرکے منزل مقصود کو پالے۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ اس نظم کے نعتیہ یا حمدیہ ہونے کے بارے میں شارحین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ یوسف سلیم چشتی ‘ غلام رسول مہر ‘ محمد عبدالرشید فاضل اور خواجہ محمد زکریا چوتھے بند:’’ لوح بھی تو‘ قلم بھی تو…‘‘ کا مشارٌ الیہ آں حضور ؐ کو قرار دیتے ہیں مگرپروفیسر اسلوب احمد انصاری‘ ڈاکٹر عبدالمغنی اور ڈاکٹر اسرار احمد کا خیال ہے کہ اس میں خطاب اللہ تعالیٰ کی طرف ہے۔ ٭عشق و فراق: نظم کے آخری پانچ اشعار میں اقبال نے اپنے نظریۂ عشق اور فلسفۂ فراق ووصال کے بعض پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا ہے: ۱۔ عشق کے مقابلے میں عقل ناقص ہے۔ انسان زندگی میں عقل پر کلی بھروسا کرے تو وہ اسے گمراہی کی طرف لے جائے گی ۔ اس کے برعکس اگر وہ عشق کو راہنماے زندگی بنائے تو وہ اسے بالآخر اصل حقیقت تک پہنچا دے گا۔ ارمغانِ حجاز میں کہتے ہیں: وہ پرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں عشق سیتا ہے انھیں بے سوزنِ تار و رفو عشق کی راہنمائی میں سفرِ زندگی طے کرتے ہوئے انسان کو آغاز سے انجام تک ہر ہر مرحلے میں ایک نرالی کیفیت اور قلبی لذت کا احساس ہوتا ہے۔ ’’ بمصطفیٰ برساں خویش را‘‘ کا ذریعہ بھی عشق ہے۔ ۲۔ عشق کو زندہ و تابندہ رکھنے کا ایک اہم ذریعہ’’ فراق‘‘ ہے۔ کائنات کا ہر ذرہ اس بات پر شاہد ہے کہ فراق اور دوری، ایک اہم محرک اور تخلیقی قو ّت ہے اور بقاو استحکامِ خودی اور عشق بھی اسی پر منحصر ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ اگر فراق کی مسلمہ اہمیت قلب و ذہن میں راسخ ہو تو وہ وصال کی ظاہری خوش نمائی اور وقتی فوائد کے باوجود کبھی اس کے قریب نہیں پھٹکے گا۔ اسے حوصلہ ہی نہ ہوگا کہ وہ کسی بہانے ترکِ فراق کرکے بے ادبی کا مرتکب ہو۔ اقبال ایک اور جگہ کہتے ہیں: تو نہ شناسی ہنوز شوق بمیرد ز وصل چیست حیاتِ دوام ؟ سوختنِ ناتمام نظم کوعشق و فراق کے موضوع پر ختم کرتے ہوئے، اقبالؒیہ حقیقت قارئین کے ذہن نشین کراتے ہیں کہ رسالت مآبؐ کی محبت‘ مسلم ممالک کی تعمیر و ترقی اور ملت اسلامیہ کی نشأتِ ثانیہ کا منبع و سرچشمہ عشق و فراق ہی ہو سکتاہے۔ فنی تجزیہ ’’ذوق و شوق‘‘ ترکیب بند ہیئت کے پانچ بندوں پر مشتمل ہے اور بحر رجز مثمن مطوّی مخبون میں ہے۔ بحر کے ارکان یہ ہیں: مُفْتَعِلُنُ مَفَاعِلُنُ مُفْتَعِلُنُ مَفَاعِلُنُ ٭موضوع اور وسیلۂ اظہار میں ہم آہنگی: ’’ذوق وشوق‘‘ میں شاعر نے موضوع کی مناسبت سے اظہارِ خیال کے مختلف وسیلے اختیار کیے ہیں۔ اس کی کوشش رہی ہے کہ وہ جس ماحول کوپیش کر رہا ہے ‘ اس کے وسیلہ ہاے اظہار‘ ماحول و موضوع سے ہم آہنگ ہوں۔ نظم کے آغاز میں شاعر سرزمین حجاز کا جو تخئیلی منظر پیش کرتا ہے ‘ پیش کش اور بیان کا انداز اور زبان کی نوعیت بھی اس سرزمین اور متعلقات سے مناسبت رکھتی ہے۔ نظم کے بعد کے حصے میں بھی یہی صورت ہے۔ کوہِ اِضم‘ برگِ نخیل‘ ریگِ نواحِ کاظمہ‘ بت کدۂ تصو ّرات‘ معنیِ دیریاب‘ صداے جبریل‘ قافلۂ حجاز‘ گیسوے دجلہ و فرات‘ صدقِ خلیل ؑ ‘ صبرِ حسینؓ ‘ ذرۂ ریگ‘ معرکۂ وجود‘ عشق تمام مصطفیٰ‘ عقل تمام بولہب اور دوسری بہت سی تراکیب، تلمیحات اور الفاظ بجاے خود بلیغ ہیں۔ ٭عربی اثرات: ’’ذوق و شوق‘‘ اقبال کے سفر فلسطین کی یادگار ہے، جیسا کہ انھوں نے خود وضاحت کی ہے کہ اس نظم کے بیشتر اشعار فلسطین میں لکھے گئے۔ وہ تقریباً ایک ہفتہ بیت المقدس میں مقیم رہے ‘ عربوں سے ملاقاتیں رہیں اور تبادلۂ خیالات ہوا۔ اس پس منظر میں لکھی جانے والی زیر مطالعہ نظم میں عربی ماحول اور عربی شعر و ادب کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔ اس ضمن میں پروفیسر محمد منور لکھتے ہیں: ’’ کلام اقبال پر عربی اثرات مختلف انداز میں ظہور پذیر ہوئے ہیں۔ کچھ باتیں صاف اور صریح ہیں‘ کچھ علامت بن گئی ہیں اور کچھ تصاویر خیالی ہیں۔ لطف وہاں آتا ہے جہاں وہ عرب کی ادبی روح کو اپنے شعروں میں سمو دیتے ہیں ۔ جہاں ان کی تشبیہیں ‘ استعارے اور تلمیحیںاور خیالی تصویریں قاری کے ذہن کو عربی ماحول کی طرف منتقل کر دیتی ہیں [ذوق و شوق] کا آغاز اپنی معنوی خوبی کو جبھی واضح کرتا ہے کہ اسے عربی ادب کے آئینے میں دیکھا جائے… کوہِ اِضم اور ریگِ نواحِ کاظمہ کے اندر مدینہ منورہ کی یاد مضمر ہے… وہ عالم خیال میں مدینہ منور ہ کی سیر و زیارت کر رہے تھے…ٹوٹی ہوئی طناب‘ بجھی ہوئی آگ اور گزر جانے والے قافلے عرب شعرا کے محبوب ترین مضمون ہیں… یہ مصرعے دیکھیے: قافلۂ حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں _______ نکلے تری تلاش میں قافلہ ہاے رنگ و بو _______ مجھ کو خبر نہ تھی کہ ہے علم ، نخیلِ بے رطب ’’نخیلِ بے رطب‘‘ ٹھیٹھ عربی پیرایۂ بیان ہے۔( میزانِ اقبال: ص ۲۶- ۳۲) آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات سے اقبال کو جو عشق تھا‘ اس کا ذکرکرتے ہوئے سر اکبر حیدری کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:’’ میرا ہر بنِ مو آپؐ کی احسان مندی کے جذبات سے لبریز ہے‘‘۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ آں حضور ؐ کی ذات شاعر اقبال کے لیے سب سے بڑا محرکِ تخلیق یا Source of Inspirationہے… حیات اقبال کی بکثرت روایات شاہد ہیں کہ آپ ؐ کا ذکر آتے ہی اقبال پر ایک عجیب بے خودی و سرشاری کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی، کچھ ایسی کیفیت کہ : جب نام ترا لیجیے تب چشم بھر آوے ٭سوز و گداز: فنی اعتبار سے نظم کی ایک بڑی خوبی اس کا انداز تغزل اور سوزو گداز ہے ’’ذوق وشوق‘‘ کا موضوع( عشق رسولؐ اور احیاے ملت اسلامیہ کی تڑپ) ہی ایسا ہے کہ اظہارِبیان میں سوز وگداز کاپیدا ہونا قدرتی بات ہے۔ عابد علی عابد کے خیال میں ’’سوزوگداز کا اظہار جس دل فریب پیرایے میں ’’ ذوق و شوق‘‘ میں ہوا ہے ‘ ویسا کسی اور نظم میں نہیں ہوا… خصوصیت سے نظم کے پہلے اور آخری بند میں‘‘۔ ٭ایجاز و بلاغت: زیر مطالعہ نظم اقبال کی چندان نظموں میں سے ہے جن میں اقبالؔ کا فن پورے عروج پر ہے۔ ’’ ذوق و شوق‘‘ ان کی شاعرانہ عظمت کا شاہ کار ہے۔ نظم پڑ ھتے ہوئے ہر ہر شعر میں ’’سمندر ہے اک بوند پانی میں بند‘‘ والی کیفیت نظر آتی ہے۔ نہایت وسیع مطالب و مفاہیم کو کمالِ فن سے ایک مختصر ترکیب ‘ ایک مصرعے یا شعر میں بیان کیا گیا ہے ۔ ایجاز و بلاغت کی چند خوب صورت مثالیں ملاحظہ ہوں: عشق تمام مصطفیٰ‘ عقل تمام بولہب _______ آگ بجھی ہوئی اِدھر، ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں _______ جلوتیانِ مدرسہ ، کور نگاہ و مردہ ذوق خلوتیانِ مے کدہ ‘ کم طلب و تہی کدو ٭محاکات: زیر مطالعہ نظم میں محاکات کی بڑی خوب صورت مثالیں ملتی ہیں۔ نظم کے پہلے بند میں سرزمین عرب کی جو منظر کشی کی ہے، وہ بجاے خود تصویر کاری کا اعلیٰ نمونہ ہے، لیکن مندرجہ ذیل اشعار خصوصاً اس کی بڑی عمدہ مثالیں ہیں: گرد سے پاک ہے ہوا برگِ نخیل دھل گئے ریگِ نواحِ کاظمہ نرم ہے مثلِ پرنیاں _______ آگ بجھی ہوئی ادھر‘ ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں ٭صنعت گری: ’’ ذوق و شوق‘‘ سے صنعت گری کی چند مثالیں ملاحظہ کیجیے : ۱۔ صنعتِ تلمیح: ریگِ نواحِ کاظمہ ‘ نرم ہے مثلِ پرنیاں _______ کیا نہیں اور غزنوی کارگہِ حیات میں _______ گرچہ ہے تاب دارا بھی گیسوے دجلہ و فرات ۲۔ صنعت تجنیس مضارع:( دو ایسے متجانس الفاظ کا استعمال جن میں صرف قریب المخرج یا متحد المخرج حرف کا اختلاف ہو): عشق کی ابتدا عجب‘ عشق کی انتہا عجب ۳۔ صنعت ترافق: ( جس مصرع کو چاہیں پہلے پڑ ھیں ‘ معنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا): صدقِ خلیل ؑ بھی ہے عشق‘ صبرِ حسینؓ بھی ہے عشق معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق _______ شوکتِ سنجر و سلیم‘ تیرے جلال کی نمو د فقرِ جنید و بایزید‘ تیرا جمالِ بے نقاب ۴۔ صنعت ترصیع: (دو مصرعوں کے زیادہ یا تمام الفاظ کا ہم قافیہ ہونا) : گرمیِ آرزو فراق‘ شورش ہاے ہو فراق موج کی جستجو فراق‘ قطرہ کی آبرو فراق ۵۔ صنعت مراعاۃ النظیر: لوح بھی تو‘ قلم بھی تو ‘ تیرا وجود الکتاب گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب فنی اعتبار سے ’’ ذوق و شوق‘‘ بڑی متناسب اور سڈول نظم ہے۔ اس کا ہر بند چھے اشعار پر مشتمل ہے جب کہ اقبال کی بیشتر طویل نظموں میں ہر بند کے شعروں کی تعدا د مختلف ہے۔ وسعت معانی اور بلاغت کے اعتبار سے اسے اقبالؒ کی دو چار بہترین نظموں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ ……………… شمع اور شاعر ٭تعارف اور پس منظر ’ شمع اور شاعر ‘فروری ۱۹۱۲ء میں لکھی گئی اور دو ماہ بعد انجمن حمایت اسلام کے ۲۷ ویں سالانہ اجلاس منعقدہ ۱۶ اپریل ۱۹۱۲ء میں پڑ ھی گئی۔ یہ اجلاس اسلامیہ کالج لاہور کے ریواز ہوسٹل کے صحن میں منعقد ہوا تھا۔ اول تو نظم خاصی طویل تھی، دوسرے انجمن کے دو بڑے سرپرستوں مرزاسلطان احمد اور فقیر سید افتخار الدین میں سے ہر ایک نے اصرار کیا کہ نظم اس کی صدارت میں پڑ ھی جائے۔ مجبوراً یہ فیصلہ ہوا کہ اقبالؔ اسے دو نشستوں میں پڑ ھ کر سنائیں گے۔ گذشتہ سال انجمن کے جلسے میں اقبال نے ’’شکوہ ‘‘سنائی تھی اور وہ بہت مقبول ہوئی تھی۔ شاید اسی لیے اس بار ان کی نظم سننے کے لیے تقریباً دس ہزار سامعین جمع ہو گئے تھے۔ شیخ عبدالشکور کا بیان ہے کہ یہ ’’ علامّہ کی بھرپور جوانی کا زمانہ تھا۔ سرخ و سفید رنگ، شان دار مونچھیں ، بڑے وجیہ اور جامہ زیب انسان تھے۔ سرخ ترک ٹوپی ان کے سر پر عجب بہار دکھاتی تھی‘‘۔ (بحوالہ: اقبال کے ہم نشین، مرتبہ:صابر کلوروی، ص: ۲۳۵) …پہلی نشست کی صدارت مرزا سلطان احمد نے کی ۔ اقبال نے نظم کا آغاز کرنے سے پہلے ایک مختصر تقریر کی۔ فرمایا: ’’ جو نظم پچھلے سال لکھی تھی، وہ شکوہ تھا اور اس میں خدا سے شکایت تھی اور بعض لوگوں نے اسے براخیال کیا اور یہ سمجھا کہ یہ بہت بڑی جسارت ہے… وہ اس قدر مقبول ہوئی کہ آج تک کئی ہزار خطوط اس کی تعریف میں میرے پاس آچکے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہی بات جو لوگوں کے دلوں میں تھی، وہ ظاہر کر دی گئی… میری آج کی نظم ایسی جامع ہے، جس میں مشکلات کی تصویر اور اس کے حل کرنے کا نسخہ درج ہوگا۔ اس کے لیے آپ اس کو دونوں حیثیتوں سے دیکھیں۔ ایک شاعرانہ پہلوسے ، دوسرے تجاویز نسخہ کے لحاظ سے اور اسی لیے عرض ہے کہ خدا کے واسطے تم توجّہ کرو اور اسلام کی عزت بڑ ھانے کے لیے پوری سرگرمی سے کام لو‘‘۔ ( روداد ستائیسواں سالانہ جلسہ انجمن حمایت اسلام: ص ۸۳۔۸۴ بحوالہ: اقبال اور انجمن حمایت اسلام ص) اس کے بعد انھوں نے نظم کے ابتدائی چھے بند سنائے۔ پہلی صدارت ختم ہوئی۔ دوسرے صدر کے کرسی نشین ہونے اور رسمی تقریرکرنے تک اقبالؔ کو آرام لینے کا موقع مل گیا۔ آخری چھے بند فقیر سید افتخارالدین کی صدارت میں سنائے۔ نظم سنانے سے پیشتر انھوں نے ایک قطعہ بھی سنایا جس میں جلسے کے دونوں صدور کا ذکر تھا۔ قطعہ یہ تھا: ہم نشینِ بے ریایم از رہِ اخلاص گفت اے کلامِ تو فروغِ دیدۂ برنا و پیر درمیانِ انجمن معشوقِ ہرجائی مباش گاہ با سلطان باشی، گاہ باشی با فقیر گفتمش اے ہم نشیں! معذور می دارم ترا در طلسمِ امتیازِ ظاہری ہستی اسیر من کہ شمع عشق را در بزمِ دل افروختم سوختم خود را و سامان دوئی ہم سوختم (مطالب بانگِ درا: ص ۲۳۴) اقبال یہ نظم ترنم سے سنا رہے تھے، جب وہ اس شعر پر پہنچے: در غمِ دیگر بسوز و دیگراں را ہم بسوز گفتمت روشن حدیثے گر تودانی دار گوش تو ان کے ایک مداح خواجہ عبدالصمد ککڑو نے بے اختیار ہو کر کہا: اقبال بارِد گر بخواں۔ اس پر اقبال نے بے ساختہ کہا: تاب ِ دگر بار سوختن ندارد۔ اقبال کے برجستہ جواب پر سامعین نے دل کھو ل کر داد دی اور خواجہ عبدالصمد ککڑو نے بے تاب ہو کر ، اقبال کا ہاتھ چوم لیا اور اس کے ساتھ ہی انجمن کو ایک ہزار روپے چندہ عطا کیا۔ (مطالب بانگِ درا: ص ۲۳۶) یہ نظم مولانا ظفر علی خاں نے اپنے پریس میں خاص اہتمام سے دس ہزار کی تعداد میں چھپوائی تھی اور آٹھ آنے فی کاپی قیمت رکھی گئی تھی۔ انھوں نے اعلان کیا تھا کہ اس کی فروخت سے جو پانچ ہزار روپیہ وصول ہوگا ،وہ ڈاکٹر اقبالؔ کو دے کر تبلیغ اسلام کے لیے جاپان بھیجا جائے گا۔ (سرودِ رفتہ: ص ۲۰۲)ا یک روایت یہ ہے کہ نظم کی ایک ایک کاپی پانچ پانچ روپے میں فروخت ہوئی۔ نظم کی ابتدائی شکل میں ساتویں بند کا پہلا شعر تھا: ملک ہاتھوں سے گیا ملت کی آنکھیں کھل گئیں سرمہ چشم دشت میں گردِ رمِ آہو ہوا بعد میں بانگِ درا کی ترتیب کے موقع پر اس شعر کو حذف کر دیا گیا۔ ۱۹۱۱ء کے خاتمے پر اور ۱۹۱۲ ء کے آغاز میں دنیاے اسلام کی دردناک صور ت حا ل ہر دردمند مسلمان کے دل کو رونا رلا رہی تھی۔ شکوہ (اوائل۱۹۱۱ئ) کے زمانے میں عالم اسلام جس افسوس ناک حالت سے دو چار تھا ’شمع اور شاعر‘ ( ۱۹۱۲ئ) تک پہنچتے پہنچتے ، اس میں اتنا اضافہ ہوا کہ ستمبر ۱۹۱۱ء میں اٹلی نے طرابلس پر حملہ کردیا۔ سلطنت عثمانیہ کے بہت سے علاقوں ( مصر، مالٹا، سوڈان، قبرص، الجزائر ، تیونس اور مراکش وغیرہ) پر تو برطانیہ اور فرانس نے پہلے ہی قبضہ کر لیا تھا، صرف طرابلس استعماری طاقتوں کے تسلط سے بچا ہوا تھا۔ اٹلی نے اپنے سابقہ اعلانات کو بالاے طاق رکھتے ہوئے، ۲۹ ستمبر ۱۹۱۱ء کو طرابلس پر ایک بھر پور حملہ کردیا۔ وہاں ترکوں کی بہت تھوڑی سی فوج مقیم تھی۔ ترکی سے مدد پہنچنا مشکل تھا کیونکہ مصر پر انگریزوں کا قبضہ تھا۔ سلطنت عثمانیہ کی بحریہ بھی کمزور تھی اس لیے سمندر کے راستے کمک پہنچانا بھی ممکن نہ تھا، تاہم غازی انور پاشا کسی نہ کسی طرح طرابلس پہنچ گئے۔ انور پاشا غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ان کی دعوتِ جہاد کا طریق ایسا دل نشین تھا کہ قبائلیوں کی صدیوں پرانی عداوت، اخو ّت و مؤدّت سے بدل گئی۔ مزید برآں انور پاشا نے انھیں ایسی عمدہ فوجی تربیت دی کہ عربوں نے اطالویوں سے بہت سا اسلحہ چھین لیا۔ جنگِ طرابلس کے واقعات اس دور کے اخبارات خصوصاً الہلال اور زمیندار میں شائع ہوتے رہتے تھے جس کے سبب ہندستانی مسلمانوں میں کافی جوش و خروش پیدا ہو گیا تھا۔ قبیلہ البراعصہ کے سردار شیخ عبداللہ کی گیارہ سالہ بیٹی ایک محاذ پر مجاہدین کو پانی پلاتی ہوئی شہید ہوگئی۔ اقبال کی نظم’’ فاطمہ بنت عبداللہ‘‘ اس ایمان افروز واقعے کی یادگار ہے۔ ’شمع اور شاعر ‘فروری ۱۹۱۲ء میں لکھی گئی۔ ان دنوں جنگِ طرابلس جاری تھی۔ اس جنگ کے حوالے سے اقبال نے انھی دنوں ایک اور نظم’’ حضور رسالت مآب ؐ میں ‘‘لکھی۔طرابلس کے واقعات کو سن سن کر مسلمانوں کے دلوں میں جو فکر و اضطراب پیدا ہو رہا تھا، ان دونوں نظموں میں اس کی واضح جھلک موجود ہے۔ فکری جائزہ شاعر، شدیدذہنی اضطراب اور درد و کرب کے عالم میں شمع کو دیکھتا ہے جو ایک استقلال کے ساتھ جل رہی ہے۔ اس کے گرد بے شمار پروانوں کا ہجوم ہے جنھیں شمع جلا کر خاک میں ملا رہی ہے۔ مگر پروانوں کا طواف اسی جوش و خروش سے جاری ہے اور ان کے عشق میں کمی کے آثار نظر نہیں آتے۔ یہ منظر دیکھ کر شاعر کا کرب و اضطراب دو چند ہو جاتا ہے ۔ اسے شدت سے احساس ہوتا ہے کہ : ۱۔ وہ تنہا ہے… ’’ لالۂ صحرا‘‘ اور ’’ نے نصیب ِ محفلے‘‘ کی ترکیبوں سے احساسِ تنہائی آشکارا ہے۔ اس زمانے کے خطوط بنام اکبر الٰہ آبادی سے اقبال کے اس احساسِ تنہائی کا کچھ اندازہ ہوتا ہے۔ لکھتے ہیں:’’ لاہور ایک بڑا شہر ہے لیکن میں اس ہجوم میں تنہا ہوں ۔ ایک فردِواحد بھی ایسا نہیں جس سے دل کھول کر اپنے جذبات کا اظہار کیا جاسکے‘‘۔ (اقبال نامہ، اوّل : ص ۳۵)ایک اور خط میں لکھتے ہی:’’لاہور کی بستی میں کوئی ہمدمِ دیرینہ نہیں… قومی جلسوں سے بھی پہلوتہی کرتا ہوں‘‘۔ (اقبال نامہ ، اوّل: ص ،۳۸) ۲۔ وہ اس ’’ سوزِ کلیم‘‘ اور دیوانگی سے محروم ہے جو پروانوں کے حصے میں آئی ہے۔ دراصل’ شمع اور شاعر‘ کے پہلے بند میں شاعر کی حیثیت عالم اسلام کے اس علامتی فرد کی ہے جو پوری امت ِ مسلمہ کی نمایندگی کر رہا ہے۔ شمع کے سامنے شاعر کا سوال اس امر کا اظہار ہے کہ امت ِ مسلمہ ان فرائض کو فراموش کر چکی ہے جو باری تعالیٰ نے اسے تفویض کیے تھے اور ان اوصاف سے محروم ہو گئی ہے جن کے بغیر اقوام عالم میں اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ گویا بالواسطہ یہ سوال کیا جارہا ہے کہ کیا احیاے امت اور مسلم نشاتِ ثانیہ کی کوئی صورت ہو سکتی ہے؟ نظم کا باقی حصہ ( شمع کی زبانی) اسی سوال کے جواب پر مشتمل ہے۔- ضمنا ً یہاں اس امر کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ اقبال کو ذاتی طور پر ’’ سوزِ کلیم‘‘ سے محرومی کا بڑی شدت سے احساس تھا۔ اسلام اور امت ِ مسلمہ کے لیے ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں مگر انھیں عمر بھر یہ احساس ستاتا رہا کہ وہ اپنی ملت کے لیے کچھ نہیں کر سکے۔ سید نذیر نیازی کا بیان ہے : ’’ وہ کہا کرتے: میں نے اسلام کے لیے کیا کیا؟ میری خدمت ِ اسلامی تو بس اتنی ہے جیسے کوئی شخص فرطِ محبت میں سوئے ہوئے بچے کو بوسہ دے‘‘۔( اقبال کا مطالعہ: ص ۱۵۵) شمع کی زبانی اقبال نے نظم کے اس حصے میں ملت اسلامیہ کے ماضی ، حال اور مستقبل پر مفصل بحث کی ہے۔ نظم کے موضوعات و مباحث کو ذیل کے عنوانات کے تحت تقسیم کیا جا سکتا ہے: ۱۔ قومی انحطاط ۲۔ مقامِ مسلم ۳۔ راہِ عمل ۴۔ روشن مستقبل ٭قومی انحطاط: اقبال کے نزدیک مسلم انحطاط کے اسباب یہ ہیں کہ: ۱۔ مسلمانوں کا انفرادی کردار ختم ہو چکا ہے ،وہ صرف نام کے مسلمان ہیں۔ اخلاقی پستی نے انھیں رسوا کر دیا ہے اور بے عملی کے سبب وہ تن آسانی کاشکار ہوگئے ہیں۔ ۲۔ مسلمانوں کے اندر ایسی باعمل قیادت کا فقدان ہے جو بھٹکتی ہوئی ملت کو اسلام کی منزل مقصود کی طرف لے جائے۔ قحط الرجال کا شکوہ اقبالؔ نے اور بھی کئی مقامات پر کیا ہے: تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی ۳۔ مسلمان آپس کے انتشار اور نفاق کا شکار ہو گئے ہیں۔ جب تک وہ متحد رہے۔ روئے زمین پر ان کا کوئی ہمسر و حریف نہ تھا لیکن باہمی نفاق کا شکار ہوتے ہی ان کی جمعیت ختم ہوگئی اور ساتھ ہی آبرو بھی گئی۔ ( اسی لیے اقبال نے آگے چل کر ’خضر ِ راہ‘ میں مسلم اتحاد کی اہمیت پر زور دیا ہے)۔ زوالِ مسلم کے اسباب گنوانے کے بعد اقبال مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کا ذکرکرتے ہیں تاکہ وہ پرشکوہ ماضی کا موازنہ اپنی موجودہ پستی اور ذلت سے کر سکیں ۔ اقبال نے قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی شان و شوکت کا اس طرح ذکر کیا ہے: غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرانشیں کیا تھے جہاںگیر و جہاں دارد، جہاں بان و جہاں آرا مگر اب ان کی کیفیت کیا ہے؟ کہتے ہیں: صفیں کج، دل پریشاں، سجدہ بے ذوق کہ جذبِ اندروں باقی نہیں ہے افرادِ ملت دینی جذبے سے محروم ہو چکے ہیں ، نہ شعلہ آشامی ہے اور نہ جگر سوزی، ان کی صفیں دیوانوں اور فرزانوں سے خالی ہو چکی ہیں۔ وہ فرقہ آرائی کی زنجیروں میں اسیر ہوچکے ہیں ۔ یہ وہ مقام ہے کہ جب اقبال اپنے مخاطب کے دل میں احساسِ زیاں بھی مفقود پاتے ہیں تو ان کے لہجے سے ایک گونہ مایوسی اور ناامیدی جھلکنے لگتی ہے۔ وہ اپنے نغمے کو بے موسم اور ترنم کو بے محل سمجھتے ہیں۔ در حقیقت یہ مسلمانوں کی اجتماعی بے حسی ، جمود اور قومی انحطاط پرشدید طنز ہے۔ بند ۲،۳،۴ کے آخری اشعار اس طنز کا شاعرانہ اظہار ہیں۔ ٭مقامِ مسلم: اقبال امت کو موجودہ پس ماندگی سے نکال کر دورِ عظمت و شکوہ کی طرف واپس لے جانا چاہتے ہیں مگر مسلمان اپنے حقیقی مقام سے بے خبر ہے، اس لیے وہ راہِ عمل متعیّن کرنے سے پہلے مسلمان کو اس کی اصلیت سے آگاہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ دورِ حاضر کے مسلمان کو ’’ مقامِ مسلم‘‘ کی طرف توجّہ دلاتے ہوئے خطاب کا آغاز اس مصرعے سے ہوتا ہے: آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا پھر اقبال اس ’’ دہقان‘‘ کو مختلف مثالوں اور علامتوں کے ذریعے سمجھاتے ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ کی محبوب ترین قوم ہو۔ تمھاری عظمت کا ثبوت یہ ہے کہ تم نے دنیا بھر سے حق کے لیے معرکہ آرائی کی ہے۔صحرا ہوں یا سمندر اور دریا ، تم نے ہر جگہ خدا کا نام لیا اور تلواروں کی چھاؤں میں بھی اللہ کا کلمہ بلند کیا۔ جب تم حق کی خاطر’’تیغ کیا چیز ہے؟ ہم توپ سے بھی لڑ جاتے تھے‘‘تو اب خاشاکِ غیر اللہ کو بھی شعلہ بن کر پھونک سکتے ہو۔ شرط صرف یہ ہے کہ اپنی حیثیت و حقیقت کو پہچانو… اور یہ حیثیت معمولی نہیں ہے بلکہ تم زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہو۔ اقبال اتنی بات کو ناکافی سمجھتے ہوئے ایک بار پھر مسلمان کو جھنجھوڑتے ہیں: اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو شاید وہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ دو ر کا مسلمان احساس کمتری کاشکار ہے۔ خود کو بے وقعت خیال کرتا ہے، اسے اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کا علم نہیں ۔وہ ’’ طلسم ہیچ مقداری‘‘ میں گرفتار ہے حالانکہ وہ بہت کچھ ہے ، بلکہ سب کچھ ہے۔ چاہے تو ہفت کشور بھی تسخیر کر سکتا ہے۔ اقبال کے نزدیک مسلمان اگر فی الواقع صاحب ایمان و عمل ہے تو وہ نہایت بلند مرتبت ہے اور عظمت کے ایسے بلند مقام پر فائز ہے کہ اس کا تصو ّر ہی محال ہے۔ ٭راہِ عمل: اقبال کی شاعری حرکت و عمل اور سوز و دردکی شاعری ہے۔ عالم اسلام کے مایوس کن حالات اور مسلمانوں کی بے حسی اور جمود کے باوجود ،وہ ایک باہمت رہنما کی طرح مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں پُر امید ہیں۔ پروفیسر محمد اکبر منیر کے نام ایک خط میں فرماتے ہیں: ’’ میرا مذہبی عقیدہ ہے کہ اتحاد ہوگا اور دنیا ایک بار پھر ایک دفعہ جلال اسلامی کا نظارہ دیکھے گی‘‘۔( اقبال نامہ، دوم: ص ۱۶۳)اور اس پر امید مستقبل کو روشن تر بنانے کے لیے وہ ایک ایسے راہِ عمل کی نشان دہی کرتے ہیں جو ان کے نزدیک مسلمانوں کے لیے واحد ذریعۂ نجات ہے۔ اقبال مسلمان کے دل میں منزل مقصود کی تڑپ تازہ کرتے ہیں ، مگر ان کے نزدیک مسلمان کے لیے رخت سفر کے طور پرسب سے زیادہ ضرور ی چیز ’ شرابِ خانہ ساز ‘ اور ’ نقد خودداری ‘ ہے۔ بند ۶ اور ۸ میں اقبال نے بار بار اس طرف توجّہ دلائی ہے۔ ’اپنی مے‘ ، ’شعلۂ تحقیق‘، ’ شاخِ کہن‘ سے دراصل وہ خود ی کا درس دینا چاہتے ہیں ۔ مسلمان جب تک اپنی خودی کا احساس نہیں کرے گا ، اس کی حفاظت و بقا اور اس کی تعمیر و استحکام کے لیے کوشاں نہیں ہوگا، منزل مقصود پر پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ ’’ خودی‘‘ کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان کسی معاملے میں بھی غیروں کا احسان مند نہ ہو اور ان کی تہذیب و تمدن اور معاشرت و ثقافت ہر شے سے بے نیاز ہو جائے۔ یاد رہے کہ ’’شمع اور شاعر ‘‘کا زمانہ وہ ہے ،جب اقبال کے ذہن میں نظریۂ خودی کے مختلف پہلوؤں پر غورو فکر جاری تھا ۔ اس دور کی شاعری میں تصو ّر خودی کی طرف اشارے ملتے ہیں۔ جلد ہی ۱۹۱۵ء میں انھوں نے نظریۂ خودی کو ایک مکمل اور منضبط فلسفے کی شکل میں پیش کیا ( اسرارِخودی) بند ۶ اور ۸ کے بعض اشعار میں واضح طور پر مغرب پر تنقید کی گئی ہے ، مثلاً : دل کے ہنگامے مے مغرب نے کر ڈالے خموش اس باب میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں کہ مغربی طاقتوں نے مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اقبال کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو خودی کی پوشیدہ قو ّت سے کام لیتے ہوئے خاکسترِ پروانہ سے تعمیرِ سحر کرنی چاہیے۔ گویااقبال سمجھتے ہیں کہ مسلم قوم کے خاکستر میں اب بھی ایسی چنگاریاں موجود ہیں جو ان کے سینوں میں نشاتِ ثانیہ کے لیے عزمِ نو کی آگ لگا سکتی ہیں۔ اس امکان کو ذہن میں رکھتے ہوئے وہ بار بار کہتے ہیں: خیمہ زن ہو وادیِ سینا میں مانندِ کلیم ______ ہے جنوں تیرا نیا، پیدا نیا ویرانہ کر ______ نغمہ پیرا ہو کہ یہ ہنگامِ خاموشی نہیں ______ ہاں اسی شاخِ کہن پر پھر بنالے آشیاں ______ لب کشا ہو جا سرودِ بربطِ عالم ہے تو گویا ’’شمع او رشاعر‘‘ میں مسلمانوں کے لیے راہِ عمل کا تعیّن کرتے ہوئے اقبال نے دو بنیادی امور کی طرف توجّہ دلائی ہے: ۱۔ خودی کا احساس ۔ ۲۔ تقلید مغرب سے اجتناب۔ مسلمان جب ان باتوں پر عمل پیرا ہوگا تو پھر وہ: ’’شعلہ بن کر پھونک دے خاشاکِ غیر اللہ کو‘‘ کا مجسم نمونہ بن جائے گا۔ ٭روشن مستقبل: اقبال نے مسلمانوں کے لیے ایک راہِ عمل تجویز کی ہے۔ پھر انھیں اس پر گامزن ہونے کی ترغیب بھی دی ہے۔ان کی تمنا ہے کہ خاکستر مسلم میں دبی ہو ئی چنگاریاں سلگ اٹھیں۔اور اقبال نے انھیں خوب خوب سلگانے بلکہ بھڑکانے کی کوشش کی ہے: (بعد مدت کے ترے رندوں کو پھر آیا ہے جوش) تو پھر آسماں کو نور سحر سے آئینہ پوش ہونے سے کوئی نہیں رو ک سکتا۔ ’’ جہانِ نوہورہا ہے پیدا‘‘ کی نوید دیتے ہوئے آخری بند میں علامّہ اقبال بڑے اعتماد ، جوش اور تیّقن کے ساتھ مسلمانوں کے روشن مستقبل پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں دو امور توجّہ طلب ہیں: اول یہ کہ روشن مستقبل کی نوید سناتے ہوئے ، اقبال تقلید مغرب سے احتراز کی تلقین ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک زوالِ مسلم کا بہت بڑا ( اور دو رِ حاضر میں غالباً سب سے بڑا) سبب ایک طرف مسلمانوں کی تقلید مغرب ( سادگی اپنی بھی دیکھ) اور دوسری جانب مغرب کی سیاست ( اوروں کی عیاری بھی دیکھ) ہے۔ اس موقع پر اگر مشرق وسطیٰ کے اندوہ ناک حالات کو ذہن میں تازہ کر لیا جائے، خصوصاً سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ، اسرائیل کا قیام اور ممالک عربیہ کی بندر بانٹ ، تو اقبالؔ کی تلقین کی اہمیت اور نمایاں ہو جاتی ہے۔ دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ اقبال روشن مستقبل کی منزل تک پہنچنے کے لیے اپنی آتش نوائی کو ضروری سمجھتے ہیں ۔ یہ آتش نوائی اور پیغام سروش قافلۂ حجاز کے لیے زادِ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ در اصل ’’ آتش نوائی‘‘ یا ’’ پیغام سروش‘‘ اور اسی طرح کی دوسری ترکیبیں ، علامات ہیں مسلم رہنماؤں کے لیے، یعنی جس طرح بھیڑوں کے کسی گلے کو ایک خاص مقام تک پہنچانے کے لیے کسی گڈریے کا ہونا ضروری ہے، اسی طرح روشن مستقبل تک پہنچنے کے لیے لازمی ہے کہ مسلمانوں میں ایسے باہمت دانش مند اور غیور رہنما موجود ہوں جو ان کی ڈولتی ہوئی کشتی کو کنار ے لگاسکیں۔ اس پہلو کی طرف اقبالؔ نے ’’ شمع اور شاعر‘‘ میں بار بار توجّہ دلائی ہے۔ نواپیرا، ترنم ، نغمہ، گرمِ نوا، آوازِ درا، گفتمت روشن حدیثے، پیغامِ سروش ، لب کشا ہو جا ، شبنم افشانی… یہ ساری ترکیبیں اور اشارے مسلم قیادت کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ گویا طلوعِ سحر اورجلوۂ خورشید کی تابانی کے لیے ضروری ہے کہ : الف: مسلمان تقلیدِ مغرب سے اجتناب کریں۔ ب: باعمل رہنما ان کی رہنمائی کریں۔ اس آخری بند میں اقبال اس شیر کی بیداری کی نوید سنا رہے ہیں جس نے کسی زمانے میں صحرا سے نکل کر روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا۔ آخری بند پڑ ھتے ہوئے یوں احساس ہوتا ہے ، جیسے اقبالؔ کہہ رہے ہوں : میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گااپنے درماندہ کارواں کو شرر فشاں ہوگی آہ میری، نفس مرا شعلہ بار ہوگا اقبال ملت اسلامیہ کے حالات پر افسردہ و پریشان ضرور تھے مگر مایوس اور دل شکستہ ہونے کے بجاے ہمیشہ پر امید رہے ۔ ان کے ایک قریبی رفیق سید نذیر نیازی لکھتے ہیں: ’’وہ [اسلام ]کے مستقبل یا اس کی تقدیر سے ایک لحظے کے لیے بھی مایوس نہیں ہوئے۔ عالم اسلام کے جدید رجحانات ظاہر اً کس قدر یاس انگیز ہیں لیکن ان کی رجائیت میں سرِ مو فرق نہیں آیا۔ اس اعتبارسے اللہ تعالیٰ نے انھیں ایک خاص بصیرت عطا کی تھی۔ لوگ ان کے پاس آتے اور بے چین ہو کر مادّیت و وطنیت کے اس سیلاب کی طرف اشارہ کرتے جو بلاد اسلامیہ میں ہر طرف پھیل رہا ہے۔ حضرت علامّہ فرماتے: تمھاری نگاہیں قشر[چھلکے یعنی ظاہر] پر ہیں ۔ اپنے ایمان کو مضبوط رکھو اور منتظر رہو کہ انسان کے اندرون ضمیر سے آخر کس چیز کا اظہار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عین اس وقت جب سیاست حاضرہ کی دسیسہ کاریوں سے عوام اور خواص تو کیا بڑے بڑے حجرہ نشین اور عبادت گزار بھی محفوظ نہ رہے۔ حضرت علامّہ کے پاے استقامت کو جنبش تک نہ ہوئی‘‘۔(اقبال کا مطالعہ: ص ۱۵۳۔ ۱۵۴) یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام کے افسوس ناک حالات پر دکھ درد کے اظہار اور آنسو بہانے کے باوجود وہ’’ شمع اور شاعر ‘‘کے دور سے لے کر مرض الموت تک مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں پر امید رہے۔ فنی تجزیہ شمع اور شاعر ترکیب بند ہیئت کے گیارہ بندوں پر مشتمل ہے۔ نظم بحر رمل مثمن محذوف الآخر میں ہے۔ بحر کا وزن اور ارکان یہ ہیں: فَاعِلَاتُنْ فَعِلَاتُنْ فَعِلَاتُنْ فَاعِلُنْ ٭فارسی حصہ ’شمع اور شاعر ‘کا پہلا بند فارسی میں ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب پوری نظم اردو میں کہی گئی ہے تو پھر صرف پہلا بند فارسی میں لکھنے کا کیا سبب تھا یا ضرورت؟ اس کا ایک جواب تو ناقدینِ اقبال یہ دیتے ہیں کہ شمع اور شاعر کا دور وہ ہے جب اقبالؔ اردو سے زیادہ فارسی کی طرف مائل تھے۔ چونکہ ان کی شاعری کا مخاطب پورا عالم اسلام تھا جہاں اردو سے زیادہ فارسی قابلِ فہم تھی، اس لیے وہ فارسی کو ذریعۂ اظہار بنا رہے تھے مگر یہ اس سوال کا مکمل جواب نہیں ہے۔ اصل یہ ہے کہ اقبال جیسے عظیم شاعر کے بارے میں جس کی قادر الکلامی فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں مسلّم ہے ، یہ سوال اٹھانا کہ اس نے ایک اردو نظم کے چند اشعار فارسی میں کیوں کہے ہیں، ایک ناقابلِ التفات اور غیر ضروری سی بات ہے۔ شاعر بسا اوقات اردو نظم میں کوئی ایک شعر یا مصرع فارسی کہہ جاتا ہے اور یہ بات معیوب نہیں سمجھی جاتی بلکہ یہ شاعر کے رجحانِ طبعی اور فنی اظہار کی ایک شکل ہوتی ہے۔’’ شمع اور شاعر‘‘ کے پہلے بند کے فارسی میں ہونے کا جواز بھی یہی ہے۔ پھریہ کہ شاعر اظہارِ جذبات میں بسا اوقات یہ محسوس کرتا ہے کہ زبان کی پابندی، اظہارِ جذبات میں رکاوٹ پیدا کر رہی ہے یا جذبے کو مکمل یا کسی مخصوص صورت میں پیش کرنے میں زبان مانع ہو رہی ہے اور وہ کسی دوسری زبان میں اسی جذبے کا زیادہ مکمل، بہتر اور جامع انداز میں اظہار کر سکتا ہے، اس صورت میں شاعر پر کسی ایک زبان میں شعر کہنے پر پابندی عائد نہیں کی جا سکتی ہے اور نہ اس کی کوئی نظم اس لیے قابلِ گرفت قرار دی جاسکتی ہے کہ اس نے دو زبانوں کو ذریعۂ اظہار بنایا ہے۔ اسی نظم کے چھٹے بند اور ’’ طلوعِ اسلام‘‘ کے آخری بند میں اقبال اسی صورت حال سے دوچارہیں۔ چھٹے بند کا یہ ایک شعر ( در غمِ دیگر……) اور ’’ طلوعِ اسلام‘‘ کا آخری بند، اردو نظموں میں فارسی ٹکڑے ہیں۔ سبب اس کا یہی ہے کہ شاعر ان مقامات پر محسوس کرتا ہے کہ اردو زبان اس کے جذبات کی شدت اور جو ش و و فور کا ساتھ نہیں دے سکتی اس لیے وہ فارسی کو اظہار کا ذریعہ بناتا ہے۔ ٭علامتی انداز: نظم کا انداز رمزیہ اور علامتی ہے۔ نظم کا نام’’ شمع اور شاعر ‘‘ ہے مگر اصل موضوع ملت اسلامیہ ہے۔ شاعر کا لفظ صرف عنوان میں آیا ہے نظم میں کہیں استعمال نہیں ہوا۔ مختلف افراد، طبقوں اور کیفیات و احوال کے لیے جو علامتیں اقبال نے استعمال کی ہیں، وہ شعریت سے بھرپور ہیں۔ شمع، سوز دل علامت ہے۔ ساقی، پھول، مے کش، موج، دہقان وغیرہ کی علامتیں مسلمان کے لیے اور قیس کی علامت مسلم رہنماؤں کے لیے استعمال ہوئی ہے۔ اقبال نے شاعری کی پرانی اور روایتی علامتوں کو نئے معنی و مطالب عطا کیے ہیں۔ ڈاکٹر یوسف حسین خاں کے الفاظ میں:’’ اقبال نے شمع اور شاعر میں ایمائی کیفیت کا کمال دکھایا ہے۔ سارامکالمہ کنائے کی زبان میں ہے۔ یہ نظم اقبال کے آرٹ کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتی ہے۔ شاعر اپنی ایمائی کیفیت سے سامع کو اپنی ذہنی بلندیوں کی سیر کراتا ہے‘‘۔ ( روح اقبال: ص۷۳-۷۴) ٭رنگِ تغزل: اقبال کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ نظم کے شاعر ہیں۔ ان کی نظموں کی تعدادغزلوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے اور ان کی شہرت کی بنیادیہی مختصر اور طویل نظمیں ہیں مگر ان کے کمال فن اور شاعرانہ مہارت کا ثبوت یہ ہے کہ ان کی نظموں میں بھر پور رنگ تغزل پایا جاتا ہے۔ اردو نظم میں رنگ تغزل کا یہ منفر د انداز کسی اور شاعر کے ہاں نہیں ملتا… ’’شمع اور شاعر‘‘ بحیثیت مجموعی رنگِ تغزل میں ڈوبی ہوئی ہے۔ بطور مثال چند اشعار ملاحظہ ہوں: در جہاں مثلِ چراغ لالۂ صحرا ستم نے نصیب محفلے، نے قسمتِ کاشانۂٖ ______ تھا جنھیں ذوقِ تماشا وہ تو رخصت ہوگئے لے کے اب تو وعدۂ دیدارِ عام آیا تو کیا ______ شمع محفل ہو کے تو جب سوز سے خالی رہا تیرے پروانے بھی اس لذت سے بیگانے رہے وہ جگر سوزی نہیں ، و ہ شعلہ آشامی نہیں فائدہ پھر کیا جو گردشمع پروانے رہے ______ خود تجلی کو تمنا جن کے نظاروں کی تھی وہ نگاہیں نا امیدِ نورِ ایمن ہوگئیں دیدۂ خونبار ہو منت کشِ گل زار کیوں؟ اشک ِ پیہم سے نگاہیں گل بدامن ہوگئیں ’’ شمع اور شاعر‘‘ میں اقبال نے غزل کی پرانی علامتیں اور الفاظ: ساقی ، مینا ، شمع ، پروانہ، تجلی ، ایمن ، اشک ، گل، راہبر، منزل ، بسمل ، صحرا وغیرہ ہی استعمال کیے ہیں مگر ان کے معانی و مفاہیم کو وسعت بخشی اور نیا مفہوم عطا کیا ہے۔ ٭نظم کا لب و لہجہ: ’’شمع اور شاعر‘‘ میں متعدد موضوعات پر اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔ اس لیے اس کے مختلف حصوں میں انداز بیان اور لب و لہجے کا فرق ہے۔ پہلا بند ایک سوال ہے ، اس کا لہجہ بھی سوالیہ ہے۔ بند ۲- ۵ میں اقبال نے ملی انحطاط کارونا رویا ہے، اس لیے اس حصے میں افسردگی ، تاسف ، غم و اندوہ اور رنج و الم کا رنگ غالب ہے۔ اگلے چا ربندوں میں علامّہ اقبال مسلمانوں کو ان کے اصل مقام سے آگاہ کرتے ہوئے بڑے راز دارانہ انداز میں فہمایش کر رہے ہیں جیسے کوئی شخص اپنی بھٹکی ہوئی مگر پھر تائب ہو کر راہِ راست پر آجانے والی اولاد کو نصیحت کرتا اور سمجھاتا ہے، اس لیے یہاں اقبال کا لہجہ مفکرانہ ، ناصحانہ اور حکیمانہ ہے۔ بند نمبر ۸ میں وہ مسلمانوں کو ایک راہِ عمل دکھا کر جدو جہد کی تاکید کر رہے ہیں، اس لیے اس حصے کا لہجہ ترغیب دینے اور اکسانے والا ہے۔ آخری حصے میں ( آخری بند اور چھٹا بندبھی) مسلمانوں کو نوید مسرت سنائی جارہی ہے ، اس لیے لہجہ بہت پرجوش ہے۔ نظم کے مختلف حصوں میں استعمال کیے جانے والے الفاظ اور ترکیبوں کا، نظم کے مختلف اور متنوع لہجوں سے، گہرا تعلق ہے، مثلاً: ناصحانہ اور حکیمانہ لہجے والے حصے کے الفاظ و تراکیب بھی نرم، دھیمے ،سبک اور شیریں ہیں ( گوہر ، شبنم، آنسو ، کاروانِ بو، مثل جو وغیرہ) اس کے برعکس پرجوش لہجے والے حصے کے الفاظ و تراکیب جوشیلے ، متحرک ، جاندار اور قو ّت و حرارت سے بھر پور ہیں( سیماب پا، موج مضطر، نالۂ صیاد، سطوتِ رفتارِ دریا، آتش نوائی، جلوۂ خورشید) افسردہ لہجے والے حصے کے الفاظ و تراکیب سے احساسِ محرومی، رنج و تأسّف اور مایوسی ٹپکتی ہے( ویرانے ، ٹوٹی ہوئی مینا، سامانِ شیون، بسمل ، بے حس، سوز سے خالی، ناامیدِ نورِ ایمن، احساس زیاں ، واے ناکامی، نذر برہمن ، آسودۂ دامانِ خرمن۔) ٭حسن شعر کے دیگر وسیلے: علامّہ اقبال سید سلیمان ندوی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’ میں نے کبھی اپنے آپ کو شاعر نہیں سمجھا… فن شاعری سے مجھے کبھی دلچسپی نہیں رہی۔ ہاں بعض مقاصد ِ خاص رکھتا ہوں جن کے بیان کے لیے اس ملک کے حالات و روایات کی رو سے میں نے نظم کا طریقہ اختیارکر لیا ہے۔‘‘( اقبال نامہ، اول: ص ۱۹۵)سید سلیمان ہی کو ایک اور خط میں لکھتے ہیں: ’’شاعری میں لٹریچر بحیثیت لٹریچر کے، کبھی میرا مطمح نظر نہیں رہا کہ فن کی باریکیوںکی طرف توجّہ کرنے کے لیے وقت نہیں۔ مقصود صرف یہ ہے کہ خیالات میں انقلاب پیدا ہو اور بس‘‘۔ (اقبال نامہ ، اوّل: ص ۱۰۸) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نے زبان و بیان کے حسن و جمال اور فنی لوازمات کی طرف کبھی سنجیدگی سے توجّہ نہیں کی۔ مگر اقبال کی اس بے نیازی کے باوجود ان کا کلام زبان و بیان کی جملہ خوبیوں سے بھر پور ہے۔ انھوں نے تراکیب سازی اور نادر تشبیہات و استعارات ، صنائع بدائع اور موزوں ردیف و قوافی کے استعمال میں متعدد وسیلوں سے کا م لیا ہے، چند پہلو ملاحظہ ہوں: الف : چند نادر تراکیب:شعلہ آشامی۔ نقد خود داری۔ پیمانہ بردارِ خمستانِ حجاز۔ سرود بربطِ عالم۔ سطوتِ رفتار ِدریا۔ دشت جنوں پرور۔ وغیرہ۔ ب: محاکات: امیجری کی چند مثالیں: آملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک ________ آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ صبح دم کوئی اگر بالاے بام آیا تو کیا ________ دیکھ لوگے سطوتِ رفتارِ دریا کا مآل موجِ مضطر ہی اسے زنجیر پا ہو جائے گی ج: صنائع بدائع: ۱۔ صنعت تلمیح: تنگ ہے صحرا ترا، محمل ہے بے لیلا ترا ۲۔ صنعت طباق ایجابی: ( دو ایسے الفاظ کا استعمال جو معنی کے اعتبار سے ایک دوسرے کی ضد ہوں): کعبہ پہلو میں ہے اور سودائیِ بت خانہ ہے کس قدر شوریدہ سر ہے شوقِ بے پروا ترا ۳۔ صنعت مراعاۃ النظیر: واے نادانی کہ تو محتاجِ ساقی ہو گیا مے بھی تو ، مینا بھی تو ، ساقی بھی تو، محفل بھی تو ۴۔ صنعت لزوم ما لایلزم: ( ایک امر یا چند ایسے امور کا جو ضروری نہ ہوں ، اہتمام کرنا): دیکھ آکر کوچۂ چاکِ گریباں میں کبھی قیس تو ، لیلا بھی تو، صحرا بھی تو، محمل بھی تو ۵۔ صنعت تفریق: گریہ ساماں میں کہ میرے دل میں ہے طوفان اشک شبنم افشاں تو کہ بزم گل میں ہو چرچا ترا ۶۔ صنعت جمع: ( کئی چیزوں کو ایک حکم کے تحت جمع کرنا) : آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا دانہ تو ، کھیتی بھی تو،باراں بھی تو ، حاصل بھی تو ۷۔ صنعت اشتقاق: ( ایک ہی ماخذ اور ایک اصل کے چندالفاظ کا استعمال): آہ کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے راہ تو، راہ رو بھی تو، رہبر بھی تو، منزل بھی تو بہ حیثیت مجموعی ’’ شمع اور شاعر‘‘ کے ذریعے اقبال نے، اپنی حالتِ زبوں پر نوحہ کناں مسلمانوں کو ایک خوش گوار مستقبل کی امید دلائی ہے۔ ’’ شکوہ‘‘ کے ذریعے ان کی ناگفتہ بہ حالت پر تند و تلخ شکایت کی گئی تھی، اس کا منطقی جواب تو ’’ جوابِ شکوہ‘‘ (نومبر ۱۹۱۲ئ) میں ملا مگر ’’ شمع اور شاعر‘‘ میں شکوہ کرنے والے کو امید دلائی گئی ہے کہ خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہو، نغمۂ توحید سے چمن معمور ہوا چاہتا ہے۔ علامّہ اقبال کے اپنے الفاظ میں ان کی یہ نظم ’’ایسی جامع ہے جس میں مشکلات کی تصویر اور اس کے حل کرنے کا نسخہ درج ہے۔‘‘ …………… مسجد قرطبہ ٭تعارف اور پس منظر علامّہ اقبال اکتو بر ۱۹۳۲ء میں تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن روانہ ہوئے۔ کانفرنس سے فارغ ہونے کے بعد پیرس ہوتے ہوئے جنوری ۱۹۳۳ء میں ہسپانیہ پہنچے۔ ہسپانیہ کے وزیر تعلیم پروفیسر آسن کی درخواست پر انھوںنے میڈرڈ یونی ورسٹی میں … The Intetllectual World of Islam and Spainکے موضوع پر لکچر دیا۔ اس سفر کے دوران میں‘ انھیں ہسپانیہ کے کئی دوسرے شہروں (طلیطلہ‘ قرطبہ‘ غرناطہ اور اشبیلیہ)کی سیاحت کا موقع ملا۔ ہسپانیہ صدیوں تک مسلم تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہا ہے ۔ اس لیے اقبال کو اس خطے سے خصوصی تعلق خاطر تھا۔ نظم ’’ ہسپانیہ‘‘میںکہتے ہیں: ہسپانیہ تو خون مسلماں کا امیں ہے مانند حرمِ پاک ہے تو میری نظر میں پوشیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں خاموش اذانیں ہیں تری باد سحر میں ہسپانیہ کے ۲۵ روزہ سفر کے بارے میں شیخ محمد اکرم کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’میں اپنی سیاحت اندلس سے بے حد لذت گیر ہوا۔ وہاں دوسری نظموںکے علاوہ ایک نظم مسجد قرطبہ پر بھی لکھی۔ الحمرا کا تو مجھ پر کچھ زیادہ اثر نہ ہوا لیکن مسجد کی زیارت نے مجھے جذبات کی ایسی رفعت تک پہنچا دیا جو مجھے پہلے کبھی نصیب نہ ہوئی تھی‘‘۔ ( اقبال نامہ‘ دوم: ص ۳۲۱) زیارتِ مسجد کا دل چسپ واقعہ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ اقبال مسجد میں پہنچے تو بے اختیار چاہا کہ مسجد میں تحیۃ المسجد کے نفل ادا کریں۔ عمارت کے نگران سے نفل ادا کرنے کی اجازت مانگی تو اس نے کہا:میں بڑے پادری سے پوچھ آؤں۔ اُدھر و ہ پوچھنے گیا، اِدھر علامّہ نے نیت باندھ لی اور اس کے واپس آنے سے پہلے ہی اداے نماز سے فارغ ہوگئے۔ (ذکرِ اقبال:ص ۱۸۵)بعض روایات کے مطابق اقبال نے مسجد میں اذان بھی کہی۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے:ڈاکٹر صدیق جاوید کا مضمون’’ اقبال مسجد قرطبہ میں‘‘۔ مشمولہ، اقبال، اقبال پر تحقیقی مقالے: ص ۱۱۵- ۱۴۴) بہرحال یہ نظم علامّہ کی زیارتِ مسجد قرطبہ( ۱۹۳۳ء ) کی یادگار ہے اور جیسا کہ خوداقبال نے وضاحت کی ہے : ’’ یہ ہسپانیہ کی سرزمین بالخصوص قرطبہ میں لکھی گئی‘‘۔ بالِ جبریل کی ایک اور نظم ’’ دعا‘‘ مسجد کے اندر لکھی گئی۔ قرطبہ اور مسجد قرطبہ قرطبہ(Cordova)اسپین کے صوبہ اندلوزیا(اندلس) کا معروف شہر ہے۔ مسلمانوں کے دورِ حکومت میں صدر مقام رہا۔ آج بھی اس کے قدیم حصے میں واقع دروازوں ‘ تنگ اور پر پیچ گلیوں ‘ برجوں اور فصیل کے باقی ماندہ حصوں کی صورت میں قرطبہ کی عظمتِ رفتہ کے نشانات باقی ہیں۔ سونے اور چاندی کے پانی سے نقش نگاری کی صنعت آج بھی قرطبہ میں زندہ ہے۔ قرطبہ کی تاریخ کئی سال قبل مسیح پرانی ہے۔ قرطبہ سب سے پہلے ۷۱۱ء میں مسلمانوں کے زیر تسلط آیا۔ عبدالرحمن اول ( ۷۵۶- ۷۸۸ئ) نے قرطبہ کو اپنی سلطنت کا دارالحکومت بنایا اور یہاں مسجد قرطبہ کی بنیاد رکھی۔ کسی زمانے میں یہاں سینٹ ونسٹ کا گرجا واقع تھا۔ مسلمانوں نے ۷۱۱ء میں اس کے ایک حصے کو مسجد بنا لیا تھا۔اب عبدالرحمن نے ایک لاکھ دینار کے عوض گرجے کا باقی حصہ خرید لیا اور یہاں مسجد تعمیر کی گئی۔ مسجد کا نقشہ عبدالرحمن الداخل (اول )نے خود ہی تیار کیا ۔ اور تعمیر میں پہلی اینٹ بھی بہ نفس نفیس خود ہی رکھی۔ وہ بلانا غہ تعمیر مسجد کی نگہداشت کرتا بلکہ ایک روایت کے مطابق وہ روزانہ کچھ وقت کے لیے خود بھی معماروں اور مزدوروں کے شانہ بشانہ کام کرتا تھا۔اس نے جگہ جگہ سے قیمتی پتھر اکٹھے کیے۔ سارا فرش سنگ مرمر کا بنوایا۔ چھت میں نقش و نگار بنوائے۔ دیواروں کو مزین کیا۔ستونوں کو آراستہ و پیراستہ کیا۔ لمبے چوڑے دروازے اور خوش نما اور خوش شکل محرابیں بنوائیں۔ صنّاع اور نقش بنانے والے دوردور سے منگوائے گئے اور انھیں ہدایت کی گئی کہ مسجد کی خوب صورتی میں کوئی دقیقہ باقی نہ رکھا جائے۔ اس کی تعمیر میں تقریباً ایک لاکھ دینار خرچ ہوئے۔ ہال کے صدر دروازے کے باہر ایک باغیچہ اور وضو کے لیے تالاب بھی بنایا گیا۔ عبدالرحمن اول کی وفات کے بعد اس کے لائق فرزند ہشام اول( ۷۸۸ئ- ۷۹۶ئ) نے مسجد قرطبہ کی تعمیر کاکام جاری رکھا۔وہ بھی اپنے والد کی طرح مزدوروں کے دوش بدوش تعمیر میں حصہ لیتا تھا۔ اس نے دوردور سے مختلف قسم کے پتھر اور مصالحے منگوائے۔ مجموعی طور پر اس نے ایک لاکھ ساٹھ ہزار دینار کی رقم مسجد کی تکمیل و زیبایش پر خرچ کی۔ عبدالرحمن دوم ( ۸۲۱ئ۔ ۸۵۲ئ) نے جنوب مشرق کی سمت مسجد کے رقبے میں توسیع کی۔ توسیع کے ساتھ ساتھ نقش و نگار کے ذریعے مسجد کے ظاہر ی حسن و زیبایش میں بھی اضافہ کیاگیا۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے اندلس کے شاہان اموی مسجد قرطبہ کی توسیع‘ اس کی شان و شوکت‘ زیب و زینت اور خوب صورتی میں اضافے کو اپنا دینی فرض سمجھتے تھے۔ عبدالرحمن ناصر ( وفات: ۹۴۱ئ) کے زمانے میں اس مسجد کی دل کشی اور حسن کا یہ عالم تھا کہ لوگ دور دور سے اس کی زیارت کو آتے تھے۔ الحکم ثانی نے ۱۵ اکتوبر ۹۴۱ء کو تخت نشین ہوتے ہی مسجد میں فوری توسیع کا حکم دیا۔ چنانچہ جنوب مشرقی سمت ہی میں عبدالرحمن دوم کی توسیع میں مزید اضافہ کیا گیا۔ یہ توسیع بھی قبلہ رخ تھی۔ مرکزی محراب بھی از سر نو بنائی گئی۔ یہی محراب آج کل زیارت گاہِ خاص و عام ہے۔ اس محراب کے ا وپر ایک چھوٹا سا گنبد بھی تعمیر کیا گیا۔ الحکم ثانی کی توسیع‘ فن تعمیر کے نقطۂ نظر اور ظاہری حسن و جمال کے لحاظ سے بھی‘ مسجد کی سابقہ توسیعات پر فوقیت رکھتی ہے۔ اس توسیع پر ہال میں بنائے گئے محرابوں کے سہاروں کے لیے نیلے اور سرخ رنگ کے پتھراستعمال کیے گئے تھے۔ آخری توسیع ۹۸۷ء اور ۹۹۰ء کے درمیان محمد بن ابی عامر ( المعروف :المنصور )کے عہد اقتدار میں ہوئی ہے۔ اس موقع پر جنوب مشرق کی سمت اضافے کی گنجایش نہیں تھی کیوں کہ دریا قریب تھا‘ اس لیے المنصور نے مسجد کی شمال مشرقی دیوار یں گرا کر نماز ہال کے رقبے میں اضافہ کیا۔ مسجد پہلے مستطیل شکل میں تھی‘ اب وہ مربع شکل اختیار کر گئی۔ صحن میں واقع باغیچے کے رقبے میں بھی توسیع ہو گئی۔ اس باغیچے میں وضو کے لیے حوض بنائے گئے تھے۔ پہاڑوں سے گرنے والی نہروں کے ذریعے ان میں پانی جمع ہوتا تھا۔ مسجد کامینار پہلی بار ہشام نے بنوایا تھا۔ عبدالرحمن ثانی کے دور میں صحن میں اضافے کی وجہ سے اسے گرا کر موجودہ چار منزلہ مینار تعمیر کیا گیا جو ۴۰ میٹر بلند اور چو گوشا ہے۔ یہ اپنے دور میں فن تعمیر کا ایک ایسا شاہ کار نمونہ تھا کہ مراکش کی بعض مساجد کے مینار اس کی نقل میں بنائے گے اور اشبیلیہ کا جیرالڈا بھی اسی طرز پر تعمیر کیا گیا۔ اب اس مینار میں مسیحیوں نے متعدد تبدیلیاں کی ہیں اور اس میں گھنٹیاں لٹکا کر ‘ اسے ’’ گرجا گھر مینار‘‘ (Cathedrea Tower) بنا لیا ہے۔ اصل مسجد میں ستونوں کی تعداد بارہ سو سے زائد تھی۔ تین چار سو کلیسا کی نذر ہو گئے‘ اب آٹھ سو سے کچھ زائد باقی ہیںمگر ان کا حسن و جمال اب بھی‘ دیکھنے والوں کو لبھاتا ہے۔ ان پر جس زاویے سے جدھر سے نظر دوڑائیں، ایک تناسب اور موزونیت کا احساس ہوتا ہے۔ قطار اندر قطار ستونوں اور محراب بر محراب کے سلسلے کو دیکھ کر بے اختیار علامّہ اقبال کا مصرع ذہن میں گونجتا ہے: شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجوم نخیل عیسائی تسلط کے بعد مسجد قرطبہ کے محرابوں اور دیواروں پر لکھی ہوئی آیات کو پلاسٹر سے چھپا دیا گیاتھا۔ یہ صورت حال کئی سو سال تک برقرار رہی۔ یہاں تک کہ یورپ میں نشأت ثانیہ کے دور کا آغاز ہوا ۔ جدید علوم کی روشنی پھیلی اور مذہبی تعصّب میں کمی ہوئی تو مسجد قرطبہ کو عیسائی راہبوںسے لے کر محکمہ آثار قدیمہ کے حوالے کیا گیا۔ انھوں نے پلاسٹر اتارا تو قرآنی آیات کے نقوش اسی آن بان اور حسن و جمال کے ساتھ دوبارہ نظر آنے لگے۔ چھتوں پر لکڑی کا کام بھی بدستور موجود ہے۔ یہی چیز ہے جسے اقبال نے ’’ رنگِ ثباتِ دوام ‘‘ کہا ہے۔ فکری جائزہ ’’ مسجد قرطبہ‘‘ کے مباحث کو مندرجہ ذیل عنوانات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ۱۔ کائنات کاتکوینی نظام ۲۔ نظریۂ فن ۳۔ نظریۂ عشق ۴۔ مسجد قرطبہ کا جلال و جمال ۵۔ مرد مومن ۶۔ مسلم ہسپانیہ کی عظمت و شکوہ ۷۔ اندلس میں احیاے اسلام ٭کائنات کا تکوینی نظام: ’’ مسجد قرطبہ‘‘ میں شاعر نے سب سے پہلے زمانے کی اصل حقیقت اور کائنات میں برپا ہونے والے انقلابات کی ماہیت پر روشنی ڈالی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس نے تمہیداً کائنات کے تکوینی نظام کو واضح کیا ہے۔ یہ سلسلۂ خیال پہلے بند میں منظم شکل میں مربوط اشعار کے ذریعے بیان ہوا ہے جسے ترتیب وار یوں بیان کیا جا سکتا ہے: ۱۔ اللہ تعالیٰ نے روز و شب کا سلسلہ ایک خاص ارادے کے تحت اور ایک خاص مقصد کے خاطر تخلیق کیا ہے۔ کائنات میں واقع ہونے والے تغیرات و حادثات کا اس تخلیق سے گہرا تعلق ہے۔ پیدایش‘ موت اور ہر نوعیت کی دیگر تبدیلیاں اس خدائی نظام کا حصہ اور اس کے جاری رہنے کا لازمی تقاضا ہیں۔ ۲۔ سلسلۂ روز و شب یعنی خدائی نظام کے جاری رہنے سے ہمیں ذات باری تعالیٰ کی صفات کا عرفان ہوتا ہے۔ کائنات کی رنگارنگ کیفیتیں اور نوع بہ نوع تبدیلیاں در حقیقت ذریعہ ہیں اس کو پہچاننے کا ۔ اسماے الہٰی ننانوے ہیں‘ مثلاً: علیم‘ خبیر‘ خالق‘ قادر‘ حی ‘ قیوم‘ سمیع وغیر ہ اور یہی اس کی صفات ہیں۔ ۳۔ خدا کی یہ کائنات‘ وسعت کے لحاظ سے بے حدو حساب اور لامتناہی ہے۔ اسی طرح اس کے اندر واقع ہونے والی تبدیلیاں اور انقلابات بھی لا محدود ہیں ۔یہ صورتِ حال کائنات کے غیر مختتم امکانات کو ظاہر کر تی ہے۔ یعنی انسان اپنے باطن میں پوشیدہ صلاحیتوں سے کام لے کر اور کائنات کے وسائل کے ذریعے‘ اصلاح ذات سے لے کر تسخیر کائنات تک کا کارنامہ انجام دے سکتا ہے اور یہ ’’ ساز ازل‘‘ ( تخلیق کائنات) کی تکمیل ہوگی۔ ۴۔فرد یاقوم کو یہ فریضہ انجام دیتے ہوئے خیال رکھنا ہوگا کہ زمانہ ایسا صیرفیِ کائنات ہے جو کھری اور کھوٹی چیز کو پر کھ کر الگ الگ کر دیتا ہے۔ یہاں صرف کھرے سکوں کا چلن ہے۔ زمانہ صرف اس فرد اور قوم کو بقا کی ضمانت دیتا ہے جو ہمیشہ اپنے اعمال و افعال کا جائزہ لیتی رہتی ہے: کرتی ہے جو ہر زماں‘ اپنے عمل کا حساب ۵۔ اگر اس معاملے میں ذرا بھی کوتاہی کی جائے تو زمانہ ایسا بے لاگ منصف ہے جو کسی سے رو رعایت نہیں کرتا۔ زمانے کے ہاتھوں ہر شے ہلاک اور فنا ہو جانے والی ہے اور یہ خدا کا تکوینی نظام ہے۔ اس مفہوم کو شاعر نے پہلے بند کے آخری شعر میں بہ تمام و کمال بڑی خوب صورتی سے بیان کیا ہے۔ ٭نظریۂ فن: ’’ اول وآخر فنا‘‘ کہہ کر شاعر نے قدرت کے تکوینی نظام کا جو قاعدہ کلیہ بیان کیا تھا‘ دوسرے بند کے پہلے شعر کے ذریعے اس میں ایک استثنائی صورت پیدا کی ہے کہ صرف وہ چیز فنا کی دست برد سے بچ سکتی ہے جس کی تخلیق میں کسی ’’ مردِ خدا‘‘ کا ہاتھ ہو۔ تیسرے بند کے دو اشعار ( نمبر ۲‘۳) اور نظم کا سب سے آخری شعر ‘ اسی سلسلۂ خیال کی کڑیاں ہیں۔ جس میں اقبال نے درحقیقت اپنے نظریۂ فن کی اہم ترین خصوصیت بیان کی ہے اور وہ یہ ہے کہ فن مصوری کا ہو یا سنگ تراشی‘ تعمیر ‘ موسیقی ‘ نغمہ اور شاعری کا ‘ محنت پیہم اور لگن کے بغیر اس میں پختگی پیدا ہو سکتی ہے اور نہ اسے بقاحاصل ہو سکتی ہے ۔ کسی بھی فنی نقش میں ’’رنگِ ثباتِ دوام‘‘ پیدا کرنے کے لیے بقول میرؔ:’’بڑی خوش سلیقگی سے جگر خوں‘‘ کرنا پڑ تا ہے۔ اقبال نے دوسرے مقامات پر بھی فنی تکمیل کے لیے خون جگر کی ضرورت و اہمیت پر زور دیا ہے: بے محنتِ پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا روشن شررِ تیشہ سے ہے خانۂ فرہاد ٭نظریۂ عشق: کسی نقش میں رنگ ثبات دوام کے لیے اقبال نے شرط یہ عائد کی تھی کہ اس کی تکمیل کسی مردِ خدا کے ہاتھوں انجام پائی ہو۔ اقبال کے ہاں مردخدا اور کیفیت ِ عشق لازم وملزوم ہیں‘ اسی لیے انھوں نے کہا: مردِ خدا کا عمل ‘ عشق سے صاحب فروغ اور یہاں سے سلسلۂ خیال کا رخ عشق کی طرف مڑ جاتا ہے۔ دوسر ے بند کے اختتام تک عشق کی اصلیت و حقیقت ‘ اس کی مختلف کیفیتوں ‘ اس کی قو ّت‘ عظمت اور شان و شوکت کا بیان ہوا ہے۔ ’’مسجد قرطبہ ‘‘ میں اقبال نے ایک نئی جہت سے عشق کے تصو ّر کو اجاگر کیا ہے۔ ان کا نظریۂ عشق یہاں انتہائی کامل (saturated)صورت میں نظر آتا ہے۔ اس کے اہم پہلو یہ ہیں: ۱۔ ’’ مسجد قرطبہ‘‘ کے حوالے سے نظریۂ عشق کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ زمانے اور سلسلۂ روزو شب سے سلسلۂ خیال ملایا جائے تو ہم یوں کہیں گے کہ زمانہ، کائنات کی ہر شے کو فنا کر دینے والا ہے مگر عشق کو استثنا حاصل ہے۔ پہلے بند میں اقبال نے کہا تھا: ع ایک زمانے کی رو جس میں نہ دن ہے نہ رات اور: اول و آخر فنا ‘ باطن و ظاہر فنا مگر عشق کے پاس زمانے کی رو( جو فنا کا دوسرا نام ہے) کے زہر کا تریاق موجود ہے۔ اس لحاظ سے وہ سب سے بڑی حقیقت ہونے کے ساتھ ساتھ کائنات کی سب سے بڑی طاقت بھی ہے۔ الف۔ عشق کائنات کی سب سے بڑی سچائی ہے… جیسے :خدا کا کلام ب۔ عشق غیر فانی ہے… جیسے :دم جبرئیل ج۔ عشق کائنات کی مقدس ترین چیز ہے… جیسے: خدا کا رسولؐ د۔ عشق کائنات کی سب سے پاکیزہ شے ہے… جیسے :دل مصطفی ہ ۔ عشق ہی کائنات میں مقتدر اور حکمران ہے… جیسے: فقیہِ حرم اور امیرِ جنود و علیٰ ہٰذا القیاس۔ ۳۔ حیات و کائنات کی بقا کا انحصار عشق پر ہے۔ ظاہر ہے کہ جو چیز متذکرہ بالا خصوصیات کی حامل ہوگی‘ وہی کائنات کا مرکز و محور ہوگی۔ اسی سے زندگی کے نغمے پھوٹیں گے اور نور ونار حیات بھی اسی کے مرہون منّت ہوں گے۔ یہ عشق کی انتہائی اعلیٰ اور کامل ترین صورت ہے۔ یوں سمجھئے کہ عشق بجلی کی اس رو(Current)کی مانند ہے جس سے کائنات کا پوراکارخانہ چل رہا ہے۔ اگر عشق کی رو منقطع ہو جائے تو پوری کائنات یک بہ یک گہری تاریکی میں ڈوب جائے اور پورا کارخانہ رک جائے۔ اس سے عشق کی حقیقی قو ّت اور طاقت کا انداز لگایا جا سکتا ہے۔ ٭مسجد قرطبہ کا جلال و جمال: عشق کی قو ّت و اہمیت واضح کرنے کے بعد‘ کلام کا رخ نظم کے اصلی موضوع مسجد قرطبہ کی طر ف مڑ جاتا ہے ۔ مسجد قرطبہ کا، جذبۂ عشق سے بہت قریبی تعلق ہے بلکہ مسجد قرطبہ کی بنا ہی پر عشق پر استوار ہے: اے حرم قرطبہ عشق سے تیرا وجود یہاں ضمنی طور پر تین باتیں مذکور ہوئی ہیں: ا۔ نظریۂ فن جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ ب۔ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے او ر عظمت آدم کا اعتراف اور ج۔ شاعر کاذوق و شوق مؤخر الذکر دونوںپہلو عشق کی مختلف کیفیات ہیں ۔ ان کا سبب عشق ہے۔ تیسرے بند کے آخری پانچ شعر دراصل دوسرے بند کا تکملہ ہیں۔ چوتھے بند میں سلسلۂ خیال پھر مسجد قرطبہ کے وجود سے مربوط ہو جاتا ہے۔ تین اشعار میں اقبال نے مسجد کے جلال و جمال ‘ عظمت و شکوہ ‘ ظاہری حسن و زیبایش اور رعنائی کی طرف نہایت بلیغ انداز میں اشارہ کیا ہے۔ مسجد کے جلال و جمال کے بارے میں عابد علی عابد لکھتے ہیں: ’’ مسجد قرطبہ کی تعمیر میں جو فنی اور جمالیاتی نفاست ملحوظ رکھی گئی ہے ‘ اس کی تعریف میں مشرق و مغرب کے نقاد دفتر کے دفتر لکھ چکے ہیں… رات کے وقت مسجد قرطبہ میں دو ہزار فانوس جگمگ جگمگ کرتے تھے۔ ان فانوسوں کی کیفیت یہ تھی کہ دو بتیاں ایک دوسرے کے اوپر جلتی تھیں۔ ان کے پردوں پر طرح طرح کے نقش و نگار بنے ہوتے تھے جن سے چھن چھن کر روشنی نکلتی تھی۔ جن زنجیروں سے فانوس لٹکے رہتے تھے‘ ان میں کنول کے پھول یا کھجور کے پتے یا انار بنے ہوتے تھے۔ان پر آیاتِ قرآنی کنندہ ہوتی تھیں… چمڑے کے منقش پردے [جن پر] سنہرا روپہلا کام ہوتا تھا… مسجد کی دیواروں پر بھی لٹکادیے جاتے تھے۔ دیواروں کی پچی کاری کے ساتھ ان پردوں کی زیبایش مل کر دوہزار فانوس کی روشنی میں رات کو دل پر کیا اثر پیدا کرتی ہوگی‘ اس کا اندازہ خود ہی کر لیجیے۔ (ماہِ نو، اقبال نمبر: اپریل۱۹۷۰ء ‘ ص ۱۰۸) مسجد کے نادر الوجود ہونے کا اعتراف متعدد مسیحی مصنّفین ‘ دانش وروںاور فن کاروں نے کیا ہے مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ سولھویں اور سترھویں صدی عیسوی میں مسجد کے عین وسط میں ایک گرجا تعمیر کرکے مسجد کی حیثیت کو مسخ کر دیا گیا ۔ یہ گرجا بلاشبہہ بہت شان دار ہے۔ اس کے نقش و نگار ‘ بت اور تاریخی مناظر ‘ معماروں ‘ نقاشوں اور مصوروں کی مہارت اور فن کاری کا اچھا نمونہ ہیں۔ اس کی تعمیر و تزئین اور آرایش اور مصوری میں یورپ کے بہت سے ممالک کے نامور فن کاروں نے حصہ لیا اور سالہا سال بلکہ نسل در نسل محنت و جگر کاوی میں مشغول رہے ۔ یہ گرجا ۲۴۴ سال میں مکمل ہوا ۔چنانچہ اب یہ پوری عمارت عیسائیوں کے خیال میں‘ بنیادی طور پر کلیسا ہے ‘ نہ کہ مسجد۔ اس عمارت کا سرکاری نام ’’ قرطبہ کا مسجد گرجا‘‘(La Mezquita Catedral de Cordoba)ہے۔ مگریہ گرجا مسجد کے اندر مسجد کو توڑ کر کیسے اور کیوں بنایا گیا؟ اس کا پس منظر دل چسپ ہونے کے ساتھ عبرت انگیز بھی ہے۔ مسیحی حکمران شاہ فرنانڈو سوم کی افواج ۲۹ جون ۱۲۳۶ء کو قرطبہ پر قابض ہوئیں تو شہری اپنا سب کچھ چھوڑ چھا ڑ ‘ جان بچا کر بھاگ نکلے۔ فتح کے فوراً بعد‘ مسجد کے منارِ بلند پر صلیب چڑ ھادی گئی۔ ایک ہفتے کے بعد بشپ نے مسجد کو باضابطہ طور پر گرجے میں تبدیل کر دیا اور یہاں باقاعدگی کے ساتھ عبادت ہونے لگی۔ بعد کے زمانے میں مسجد کے اندر چھوٹے موٹے معبد بنائے جاتے رہے۔ سولھویں صد ی میں بشپ الانسومانرک نے مسجد کو کیتھیڈرل بنانے کا حکم دیا۔ چنانچہ مسجد کے وسطی حصے کی توڑ پھوڑ شروع کر دی گئی۔ یہ ایسی نامعقول حرکت تھی کہ خود مسیحی حلقوں کی طرف سے اس کی مخالفت ہوئی ‘ لیکن بشپ نے اس کی پروا نہیں کی۔ یہ کام میونسپل کونسل کی اجازت کے بغیر شروع کیا گیا تھا‘ اس لیے کونسل نے قرطبہ کے مجسٹریٹ کی تائید سے ایک حکم نامہ جاری کیا جس میں کہا گیا: مسجد کے کسی حصے کی تخریب یا اسے گرانے کی سزا موت ہوگی۔ لیکن پادری ’’ اوپر‘‘ جا کر بادشاہ ( چارلس پنجم)سے اجازت نامہ لے آئے۔( پادریوں نے یہی کہا ہوگا کہ ہم موروں کی چھوڑی ہوئی ایک مسجد میں گرجابنانا چاہتے ہیں‘ مگر ٹاؤن کونسل ہمیں روک رہی ہے) یہ ایک مذہبی معاملہ تھا ۔ بادشاہ نے موقع دیکھے بغیر اجازت دے دی، توڑ پھوڑ اور انہدام پھر جاری ہوگیا۔ تقریباً ایک سال بعد بادشاہ اشبیلیہ جاتے ہوئے قرطبہ سے گزرا تو اسے زندگی میں پہلی بار مسجد دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ( بعض روایات کے مطابق وہ گرجا دیکھنے یا اس کا افتتاح کرنے آیا تھا۔) اسے یہ سب کچھ دیکھ کر شدید صدمہ ہوا اور غصہ بھی آیا۔ اس نے مسجد ڈھانے والوں کے وحشیانہ پن کی مذمت کی اورکہا:’’اگر مجھے معلوم ہوتا کہ یہ مسجد ایسی نادر الوجودچیز ہے تو میں اس میں کسی تبدیلی کی ہرگز اجازت نہ دیتا۔‘‘پھر اس نے براہِ راست پادریوں کو مخاطب کیا: You have destroyed something irreplacable with a church, one can find everything. (تم نے ایک ایسی [ نادر الوجود] شے برباد کر ڈالی ہے‘ جس کا بدل ممکن نہیں ۔ اس کی جگہ گرجا تعمیر کیا ہے ۔ ایسے گرجے تو ہر جگہ مل جاتے ہیں۔ ایک اور کتاب میں یہ الفاظ ملتے ہیں:You have undone what is unique in the world.(تم نے ایک منفرد اور بے مثال شے توڑ پھوڑ دی ہے)۔ ڈاکٹر یوسف حسین خاں کے بقول:’’ مسجد قرطبہ ایک جلیل القدر قوم کی جفاکشی ‘ جاں بازی ‘ مہم جوئی‘ او ر بلند خیالی کی زندہ تصویر ہے ‘‘ ۔ ( روح اقبال:ص ۱۰۷) یہ ذکر تو آچکا ہے کہ علامّہ نے شیخ محمد اکرام کے نام ایک خط میں لکھا :’’ مسجد کی زیارت نے مجھے جذبات کی ایک ایسی رفعت تک پہنچا دیا، جو مجھے پہلے کبھی نصیب نہ ہوئی تھی‘‘۔ ایک اور موقع پر کسی نے علامّہ اقبال سے پوچھا کہ مسجد کو دیکھ کر آپ پر کیا اثر ہوا تھا؟ آپ نے کہا:It is a commentary on the Quran, written in stones.،یہ قرآن پاک کی ایسی تفسیر ہے جو پتھروں کے ذریعے لکھی گئی ہے۔ ( مقالات یوسف سلیم چشتی:ص ۳۶) علامّہ اقبال ایک پختہ فکر شاعر اور فلسفی تھے اوراس وقت ان کی عمر ۵۶ سال تھی۔ توقع نہیں کی جا سکتی کہ اس عمر میں وہ جذبات کی رو میں بہ گئے ہوں گے۔ اصل بات یہ ہے کہ مسجد کا جلال و جمال ہی اس قدر متاثر کرنے والا اور مرعوب کن تھا کہ اس نے اقبال کے جذبات میں ہل چل مچا دی۔ مسجد دیکھ کر واپس آئے تو قرطبہ ہی سے غلام رسول مہر کو لکھا: ’’ مرنے سے پہلے قرطبہ ضرور دیکھو‘‘۔ (گفتار اقبال:ص ۱۶۵)۔ اسی طرح بیٹے جاوید اقبال کے نام خط میں لکھتے ہیں :’’ میں خدا کا شکر گزار ہوں کہ میں اس مسجد کے دیکھنے کے لیے زندہ رہا۔ یہ مسجد ‘ دنیا کی تمام مساجد سے بہتر ہے۔ خدا کرے تم جوان ہو کر اس عمارت کے انوار سے اپنی آنکھیں روشن کرو‘‘۔ ( گفتارِ اقبال: ص ۱۶۵) خوش قسمتی سے راقم الحروف کو نومبر ۱۹۹۱ء میں مسجد قرطبہ کی زیارت کا موقع ملا۔اب یہ سرکاری محکمۂ آثارِ قدیمہ کی تحویل میں ہے۔ مسجد کے بیشتر دروازے مستقلاً بند رہتے تھے۔ ہم ۴۰۰ پسی تے ( تقریباً ایک سوروپے ) کا ٹکٹ لے کر اندر داخل ہوئے۔ میں نے زیارتِ مسجد کی جو رودادِ قلم بند کی تھی ‘ اس کا ایک حصہ ذیل میں درج کرتا ہوں: ’’ چند ہی قدم آگے بڑ ھے تو ستونوں اور محرابوں کا ایک جنگل اچانک سامنے آگیا۔ ایک ایسا سلسلہ جو دور تک چلا گیا تھا،جیسے لامتناہی ہو۔ یہ ایک ٹھٹکا دینے والا منظر تھا۔ میر ے قدم رک گئے۔ یہ منظر مرعوب و مبہوت کر دینے والا تھا اور اس نے مجھے پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ مسجدکے جلال وشکوہ سے ہیبت اور رعب کا احساس ہو رہا تھا۔ اس میں خوف کا عنصر نہ تھا‘بلکہ یہ اس تعجب پر مبنی تھا جو کسی نئی ‘ انتہائی انوکھی ‘ منفرد ‘ نادر و نایاب اور یگانہ و بے مثال شے کو دیکھ کر انسان پر طاری ہو تا ہے اور انسان سوچتا ہے کہ کیا روے زمین پر اور اس کائنات میں یہ کچھ بھی موجود ہے۔ چند لمحوں کے بعد ہم آگے بڑھے۔ ہماری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اگرچہ یہاں مسجد کی روایتی روشن فضا ناپید تھی اور نیم روشن ‘ نیم تاریک ماحول میں ایک الجھن اورایک گھٹن سی محسوس ہو رہی تھی تاہم قطار اندر قطار ستونوں اور ان کے اوپر سلسلہ در سلسلہ محرابوں کا دل کش نظارہ دامن دل کھینچ رہا تھا۔ اولین تاثر میں جلال و شکوہ غالب تھا ‘ اب آہستہ آہستہ جمال و زیبائی کا کرشمہ ظاہر ہونے لگا تھا۔ ذہن بے اختیار اقبال کے اشعار کی طرف منتقل ہو گیا: تیرا جلال و جمال ‘ مردِ خدا کی دلیل وہ بھی جلیل و جمیل ‘ تو بھی جلیل و جمیل تیری بنا پایدار‘ تیرے ستوں بے شمار شام کے صحرا میں ہو ‘ جیسے ہجوم نخیل اس قدر کامل مشابہت!… مسجد اور اس کے بنانے والوں کے ساتھ ساتھ اقبال کی شاعری اور فن کی عظمت کا احساس تاز ہ ہو گیا۔ ستونوں کے درمیان سے آگے بڑ ھتے ہوئے‘ معلوم ہو رہا تھا جیسے ہم کھجوروں کے کسی مسقف باغ میں گھوم رہے ہیں۔ ہمارا رخ‘ الحکم ثانی کے توسیع کردہ حصے میں واقع محراب کی طرف تھا۔ سر گھماکر دائیں دیکھتے‘ کبھی بائیں ‘ کبھی اونچی محرابی چھتوں پر نظر ڈالتے ۔ بعض حصوں کی چھتیں منقش لکڑی کی تھیں۔ خنکی اور ایک ناگوار باس کا احساس بدستور دامن گیر رہا۔ ستونوں کے اوپر چھت تک محراب در محراب کا سلسلہ ‘ صنّاعی اور فن تعمیر کا ایک انوکھا مظاہر ہ تھا۔ ستون انتہائی ٹھوس اور قیمتی پتھر کے تھے اور مسجد کے مختلف حصوں میں ان کی رنگت جدا جدا تھی۔ محرابوں کے نمونے بھی مختلف تھے۔ وسط میں پہنچے تو کلیساے کبیر نے راستہ روکا۔ خیر‘ ہم اس سے پہلو بچاتے ہوئے آگے بڑھے۔ پھر وہی باغ نخیل کا منظر… ستون قطار اندر قطار اورستونوں کے اوپر محراب بر محراب… مسجد کی اصل اور مرکزی محراب بھی نظر آنے لگی۔مگر ابھی وہ کچھ فاصلے پر تھی۔ ماحول کے سحر نے پھر ہمارے قدم روک لیے۔ ایک حصے کو دیکھتے ‘ کبھی دوسرے حصے کی طرف نظر دوڑاتے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر حصے کی منقش چھت پر بھی نظر ڈالتے ۔ بعض گنبدوں کے اندر بنی ہوئی محرابوں اور ان کے اطراف میں نقاشی و خطاطی اور پچی کاری کا کام اس باریک بینی و مہارت سے کیا گیا تھا کہ ایک ناظر کے لیے مبہوت ہوئے بغیر چارہ نہ تھا‘‘۔ (پوشیدہ تری خاک میں ‘ ص ۶۰۔۶۱ ) ٭ نظریۂ مرد مومن: مسجد قرطبہ اور مرد مومن میں جلال و جمال کی صفات مشترک ہیں ۔ چنانچہ اقبال کا سلسلۂ خیال مسجد سے مرد مومن کی طرف مڑ جاتا ہے۔ یہاں اقبال نے پہلے تو قرونِ اولیٰ کے ان مسلمانوں کا تذکرہ کیا ہے۔جو اقبال کے مثالی مرد مومن کا نمونہ تھے۔ ان مسلمانوں نے اپنی اولوالعزمی ‘ شجاعت اور بلند کرداری کی بدولت ایک دنیا کو مسخر کرکے مظلوم انسانیت کو امن و محبت اور خوش حالی کا پیغام دیاتھا۔ ان مسلمانوں نے اندلس میں علوم و فنون کو حیرت انگیز انداز میں ترقی عطا کی اور تمدن کی کایا پلٹ دی، حتیٰ کہ یورپ مختلف علوم و فنون میں مسلمانوں سے اکتساب کرنے لگا۔ اور پھر اقبال اپنے مثالی مردِ مومن یا مردِ کامل کی صفات کی طرف متوجّہ ہوتے ہیں۔ پانچواں بند تمام تر اقبال کے نظریۂ مرد مومن کی وضاحت پر مشتمل ہے۔ ’’ تجھ پر ہوا آشکار‘‘ کہہ کر اقبال نے سلسلۂ کلام میں بندۂ مومن کے تصو ّر کو مسجد قرطبہ سے از سرِ نو مربوط کر دیا ہے۔ اس طرح ’’ مسجد قرطبہ‘‘ میں مردِ مومن کے بیان کے دو حصے ہیں: ۱۔ پہلے حصے میں( جو پانچویں بند کے پہلے دو شعروں اور چھٹے بند کے صرف دوسرے شعر پر مشتمل ہے) بندۂ مومن کی عظمت کا اعتراف مسجد قرطبہ کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ مسجد کی بلندی ‘ وسعت‘ خوب صورتی ‘ روشنی‘ اور رعنائی ہی سے مومن کے جلال و جمال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ گویا اس کی شخصیت ‘ مسجد کی صورت میں منعکس ہے۔ دوسرے حصے میں (پانچویں بند کا بقیہ حصہ) مرد مومن کی بعض صفات اور اس کے کردار کے ایسے پہلوؤں کا ذکرکیا گیا ہے ، جن کا تذکرہ قرآن و حدیث اور اسلامی تاریخ میں ملتا ہے۔ اقبال ؒ کا تصو ّر مرد مومن ایک خالصتاً اسلامی نظریہ ہے‘ جس کی اساس قرآن و حدیث ہے اور یہ کہ نیٹشے کا مافوق الفطرت انسان یا الجیلی کا مرد ِکامل اقبال کے مردِ مومن سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ ٭مسلم ہسپانیہ کی عظمت و شکوہ: مرد مومن اور مسجد قرطبہ ‘ عظمت و رفعت میں ایک دوسرے سے کم نہیں ‘ اس لیے چھٹے بند کے پہلے دو شعروں میں اقبال نے ایک طرف’’ کعبۂ ارباب فن‘ سطوتِ دینِ مبیں‘‘ کہہ کر مسجد کی عظمت کو خراج تحسین پیش کیا اور دوسری طرف قلبِ مسلمان کو اس کی نظیر بنا کر مرد مومن کو جلال و جمال میں مسجد کے برابر درجہ عطا کیا ہے۔ لیکن نظم کے اس حصے میں شاعر کا سلسلۂ خیال اندلس کی حرم مرتبت زمین کی طرف مڑ گیا ہے۔ اقبالؔ نے چھٹے بند میں مسلم ہسپانیہ کی عظمت وشکوہ کا ذکر کیا ہے۔ یہ حصہ دراصل اقبال کے اس مصرع: مانند حرم پاک ہے تو میری نظر میں کی تشریح ہے اور اس کا بیان تین پہلوؤں سے ہوا ہے۔ سب سے پہلے ’’ حرم مرتبت اندلس‘‘ کے باسیوں اور عربی شہ سواروں اور ’’ مردان حق‘‘ کا ذکر ہوا ہے۔ جو ’’ حامل خلق عظیم ‘‘ اور ’’صاحب صدق و یقیں ‘‘ تھے۔ اندلس کی سرزمیں پر قدم رکھنے والا مسلمانوں کا سب سے پہلا گروہ عربی النسل لوگوں پر مشتمل تھا۔ یہ لوگ اپنے اخلاق و کردار اور ذاتی اوصاف کے اعتبار سے صحیح معنوں میں مسلمانوں کی نمایندگی کرتے تھے۔ مسلمانوں کے سپہ سالار طارق ابن زیاد نے ساحل اندلس پر اترتے ہی کشتیوں کو جلا دیا۔ یہ اولین اقدام ہی اس قدر حیران کن اور بظاہر ’’ احمقانہ ‘‘ تھا کہ صاحبان صدق ویقین کے سوا کوئی اور ایسا اقدام نہیں اٹھا سکتا تھا اور کسی دوسر ے گروہ کو جسے صدق و یقین کا عرفان حاصل نہ ہو‘ ایسے اقدام کی کو ئی توجیہ سمجھ بھی نہیں آسکتی۔ نظم’’ طارق کی دعا‘‘ میں اقبال نے ان ’’پراسرار بندوں‘‘ کی ایک ہلکی سی جھلک دکھائی ہے جو ذوق و شوق سے متصف تھے۔ پھر جولوگ ان غازیوں کے وارث بنے ‘ وہ حکمرانی کو اپنے لیے شاہی نہیں ‘ فقر سمجھتے تھے۔ سپین کے مسلم حکمرانوں سے بہت سی قابلِ اعتراض حرکات بھی سر زد ہوئیں ‘ لیکن بحیثیت مجموعی ان کا کردار اپنے دشمنوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ باعظمت اور بلند تھا۔ خصوصاً مسجد قرطبہ کی تعمیر میں حصہ لینے والے حکمرانوں کے کردار میں ہمیں ’’ خلق ِ عظیم ‘‘ کی بڑی روشن مثالیں ملتی ہیں۔ مسجد قرطبہ کی بنیاد عبدالرحمن الداخل نے رکھی۔ وہ جلاوطنی میں بے سروسامانی کے عالم میں وطن سے نکلا اور خانہ بدوش کی حیثیت سے صحراؤں اور بیابانوں کی خاک چھانتا پھرا۔ اس کے لیے اپنی جان بچانا مشکل ہو رہا تھا ‘ خطرات اور مشکلات چاروں طرف سے یورش کر رہے تھے۔ مگر اس نے پے در پے آزمایشوں کے باوجود کبھی حوصلہ نہ ہارا۔ آخرکار ایک عظیم الشان ملک کا حکمران بنا: صبح غربت میں اور چمکا ٹوٹا ہوا شام کا ستارا دشمن بھی اس کی دلیری و شجاعت‘ اولوالعزمی‘ عقل و فہم اور حکمت و تدبر کے معترف تھے۔ مؤرخین لکھتے ہیں : ایک بارخلیفہ المنصور کے دربار میں ذکر چھڑا کہ کون شخص ’’صقرِ قریش‘‘ (قریش کا شاہین) خطاب کا مستحق ہے۔ خلیفہ کو امید تھی کہ لوگ اس کا نام لیں گے‘مگر درباریوں نے کہا: انصاف کی نظرسے دیکھا جائے تو اس کا مستحق عبدالرحمن الدّاخل (اول) ہے۔ مسجد قرطبہ کی تعمیر و توسیع میں عبدالرحمن کے بیٹے ہشام کا بھی اہم حصہ ہے۔ وہ ایک عدل پرور‘ سخی اور سادگی پسند حکمران تھا۔ پرتکلف اور ریشمی لباس سے اسے نفرت تھی۔ جاہ وحشمت اور نام و نمود سے کوسوں دور بھاگتا تھا۔ حاجت مندوں کی حاجت روائی اور فریادیوں کی داد رسی کو مقدم جانتا تھا۔ ایک بار اپنے محل میں اضافے کی خاطر وہ زمین کا ایک ٹکڑا خریدنا چاہتا تھا۔ زمین کے مالک سے گفتگو کے دوران پتا چلا کہ ان کا ہمسایہ بھی اسی مکان کے خریدنے کی نیت رکھتا ہے مگر بادشاہ کی وجہ سے خاموش ہے۔ ہشام نے مکان کی خریداری کا ارادہ ترک کر دیا۔ اس کے دور میں ظلم و ستم کا خاتمہ ہو گیا۔ اور ہر طرف خوش حالی اور بے فکری کا دور دورہ ہو گیا۔ مؤرخ علامّہ مقری کا خیال ہے کہ ہشام اپنی عادات و اطوار کے لحاظ سے کسی طرح بھی عمر بن عبدالعزیز سے کم نہ تھا۔ نجی زندگی میں بھی متقی‘ عبادت گزار اور شریعت اسلامی کا سختی سے پابند تھا۔ مسجد میں آخری توسیع اور تکمیل ابن ابی عامر المنصور کے ہاتھوں انجام پائی۔ یہ وہ شخص تھا جس کے جامع کمالات ہونے پر مؤرخ متفق ہیں۔ اس نے اپنے ۲۶سالہ دورِ وزارت میں کم و بیش ۵۶ لڑائیاں لڑیں اور کبھی شکست نہیں کھائی۔ دشمن عیسائی اس کانام سن کر ہی کانپنے لگتے تھے۔ علما ،شاعروں اور ادیبوں کا بے حد قدر دان تھا۔ اس کی فیاضی اور عدل و انصاف کی بے شمار داستانیں مشہور ہیں۔ رات کو گشت کے ذریعے عوام کے حالات معلوم کرتا اور ان کی دادرسی کرتا ۔ اس نے بہت سی نئی عمارتیں‘ پل اور مساجد تعمیر کرائیں۔ جہاد کرتے ہوئے ہمیشہ اس نے شہادت کی آرزو کی مگر پوری نہ ہو سکی۔ اس کی مو ت ایک عظیم المرتبت ‘ باحوصلہ اور جری شخصیت کی موت تھی۔ یہ ان ’’ عربی شہ سواروں ‘‘ میں سے چند ایک کا ذکر ہے جوطارق کے صحرا نشینوں کے وارث اور اقبال کے صاحبان صد ق و صفا تھے اور ان کے کردار میں ’’ خلق ِ عظیم‘‘ کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔نظم ’’ ہسپانیہ‘‘ میں بھی اقبال نے انھی کے بارے میں کہا : روشن تھیں ستاروں کی طرح ان کی سنانیں خیمے تھے کبھی جن کے ترے کوہ و کمر میں یہ لوگ مسلم ہسپانیہ کی عظمت کے امین اور اس کے زندہ نشانات تھے۔ ۲۔ پھریہی لوگ تھے جنھوں نے مشرق و مغرب خصوصاً یورپ کو علم و فضل سے روشناس کرایا اور تمدنی آداب سکھائے ۔ ہسپانیہ کا مسلم دورِ حکومت‘ حکمت و روشنی کا ایک ایسا مینا ر تھا جس سے یورپ نے اپنی تاریکیوں کو منور کیا۔ یورپ پر اندلسی مسلمانوں کے احسانات سے تاریخیں بھری پڑ ی ہیں۔یورپ نے کانٹے ‘ چھری ‘نیپکن اور چمچوں کے استعمال سے لے کر طب ‘ جراحی‘ ریاضی ‘ تاریخ اور جغرافیے جیسے علوم و فنون تک ہسپانیہ کے مسلمانوں سے ہی سیکھے۔ مؤرخ لیبان مسلمانوں کے اعلیٰ طبیب اور جراح ہونے کا معترف ہے۔ اندلس کے معروف سرجن ابوالقاسم نے فن جراحی پر ایک یادگار کتاب لکھی تھی۔ یورپ کے عیسائی ‘ اسپین کی مسلم درس گاہوں میں اعلیٰ تعلیم کے لیے وظیفوں پر آیا کرتے تھے۔ مؤرخ ڈوزی کا بیان ہے کہ حکم کے زمانے میں اندلس میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو لکھ پڑ ھ نہ سکتا ہو جبکہ یورپ میں ایک خاص طبقے کے چند لوگوں کے سوا عام آدمی ان پڑ ھ تھے۔ قرطبہ یونی ورسٹی علوم و فنون کے مختلف شعبوں اور تعلیم کے بلند معیار کے سبب دنیا بھر میں مشہور تھی۔ موجودہ انگریزی ہندسوں‘ چینی اور شیشے کے ظروف ‘ انگریزی بالوں ‘ٹیڑھی مانگ‘ سنگار اور بعض خوشبویات تک کے لیے یورپ ہسپانیہ کامرہون منت ہے۔ شہروں کی صفائی ‘ پانی کی بہم رسانی کے لیے موزوں انتظام ‘ مکانات کی کشادگی اور ہوا کی ضرورت‘ سڑکو ں کی چوڑائی اور روشن دانوں کی اہمیت‘ غرض مدنی احساس(Civic Sense) کا سر چشمہ اور منبع بھی اندلسی مسلمان ہیں۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ شمالی سپین کی عیسائی ریاستیںاگرکوئی مسلم علاقہ فتح کر لیتیں تو وہاں کے عیسائی باشندے ان کے حق میں بد دعا کرتے تھے اور یہ آس لگا کر بیٹھ جاتے تھے کہ کب خدا ان ظالموں کے ہاتھ سے نجات دے کر پھر مسلمانوں کو حکمران بناتا ہے جن کے زیرسایہ ان کی آزادی‘ جان و مال‘ عزت و آبرو اور ان کی خانقاہیں اور گرجے محفوظ تھے۔ان سے معمو لی سا ٹیکس لیا جاتا تھا او ر وہ سکھ چین کی زندگی بسر کرتے تھے۔۱۹۳۲ء میں پیرس میں اقبال کی ملاقات فرانس کے عالم میسی نون سے ہوئی ۔ وہ شخص مسلمانوں کے زمانۂ اسپین پر تحقیق کر رہا تھا۔ اس نے دوران ملاقات میں، اقبال کے سامنے اعتراف کیا کہ یورپ پر مسلمانوں کے عظیم احسانات ہیں۔ انھوں نے تہذیبی اعتبارسے یورپ کوبیدار کیا اور تعلیم و معاشرت کے بہت سے شعبوں میں مغرب کی ترقی کے لیے نئے نئے مواقع عطا کیے۔ ہسپانیہ پر مسلمانوں کے دورِحکومت کے تہذیبی و تمدنی اثرات اس قدر دور رس‘ ہمہ پہلو اور گہرے تھے کہ صدیوں بعد آج بھی ‘ جب عیسائیوں نے کسی ایک مسلمان کو بھی زندہ نہیں چھوڑا‘ قتل کر دیایا پھر عیسائی بنا لیا اور مسلمانوں کے آثار و نشانات کو منہدم کر دیا‘ اسپین میں مسلم تمدن کی جھلکیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ علامّہ اقبال ؒ کے نزدیک اسپین کے موجودہ باشندوں کی خوش دلی‘سادگی ‘ اور گر م جوشی نسلی اثرات کا نتیجہ ہے۔ اسپین اور اس کے باشندوں میں اقبال کو بعض ایسی خصوصیات نظر آئیں جن کا تعلق حجاز و یمن سے ہے اور جنھیں دیکھ کر بے اختیار سپین کا مسلم دورِحکومت یادآجاتا ہے۔ ٭اندلس میں احیاے اسلامی ‘ اہمیت و امکانات: تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے کسی بھی مسلمان کے لیے اپنے دل کو ہسپانیہ میں احیاے اسلامی کی تمنا سے بچانا بہت مشکل ہے۔ خصوصاً اقبال جیسے درد مند مسلمان کے لیے جب وہ مسجد قرطبہ کے ایوانوں میں گھوم رہا ہو اور دریاے وادی الکبیر اپنی موجوں میں صدیوں پرانی ماضی کی پر شکوہ داستانیں سمیٹے، نگاہوں کے سامنے بہ رہا ہو ‘ شاعر کے گوشۂ دل میں احیاے اسلامی کے جذبات کا جنم لینا کچھ عجب نہیں۔ اسی کیفیت کے تحت شاعر کا یہ سلسلۂ خیال اندلس میں احیاے اسلامی کی طرف مڑ جاتا ہے ۔ یورپ کے متعدد انقلا بات کی تاریخ اقبال کے ذہن میں تازہ ہے‘ وہ اس پس منظر کے ساتھ ہسپانیہ میں احیاے اسلامی کے امکانات پر اظہارِ خیال کرتے ہیں۔ یہ سلسلۂ خیال نظم کے آخری دو بندوں میں جاری ہے۔ سلسلۂ خیال کے اس مرحلے پر خطاب کا رخ مسجد قرطبہ ( جو نظم کا اصل اور مرکزی موضوع ہے) کی طرف ہے۔ پہلے دو شعر شدید فکر و اضطراب اور بے مثال حسرت بھری تمنا کا مرقع ہیں۔ ہسپانیہ کی صدیوں سے بے اذان فضاکا ذکر کرتے ہوئے شاعر کا جگر کٹ رہا ہے‘ دل الم سے کباب ہے‘ احیاے اسلامی کی تمناایک سوال کا روپ دھار لیتی ہے: کون سی وادی میں ہے؟ کون سی منزل میں ہے؟ عشقِ بلاخیز کا قافلۂ سخت جاں اس شعر سے احیاے اسلامی کے لیے شاعر کی بے چینی ‘ فکر مندی اور اس کا اضطراب ٹپکا پڑ تا ہے۔ساتھ ہی وہ تجدید و احیا کے امکانات کا اندازہ لگا رہا ہے اور ان امکانات پر غور کرتے ہوئے یورپ کے مختلف انقلابات اس کی نگاہوں کے سامنے ہیں۔ علامّہ اقبال سمجھتے ہیں کہ اگر جرمنی میں پادری مارٹن لوتھر کی اصلاح مذہب کی تحریک(Reformation) کا میاب ہو سکتی ہے ۱؎ ‘ انقلاب فرانس (۱۴ جولائی ۱۷۸۹ئ) فرانسیسیوں کی کایاپلٹ سکتا ہے اور اٹلی کو مسولینی کی قیادت ۲؎ میں عظمت و برتری حاصل ہو سکتی ہے تو پھر ملت اسلامیہ کی نشأت ثانیہ بھی ممکن ہے۔ اس کے بعد وہ تجدید و احیا کے امکانات کی عملی صورت بھی بتاتے ہیں۔ یہ عملی صورت اقبال کے طویل غور و فکر کا نتیجہ ہے۔ تقریب یہ ہے کہ اقبال دریاے وادی الکبیر کے کنار ے کھڑے ہیں‘ احیاے اسلامی کی فکر میں ڈوبے ہوئے ہیں‘ غروب آفتا ب کا وقت قریب ہے‘ کوئی دیہاتی لڑ کی گیت گاتی چلی جار ہی ہے۔ اس کا گیت پر تاثیر اور آوازپرسوز ہے: سادہ و پرسوز ہے دختر دہقاں کا گیت کشتیِ دل کے لیے سیل ہے عہد شباب یہاں اس شعر کی حیثیت‘ ایک طرح کے جملۂ معترضہ کی ہے۔ ضمناً یہاں یہ بتانا مناسب ہو گا کہ مذکورہ بالا اور ماقبل شعر پڑ ھتے ہوئے ذہن میںولیم ورڈزورتھ کی نظم Solitary Reaper تازہ ہو جاتی ہے۔ مسلمانوں کی عظمت و شوکت‘ ان کا عبرت ناک زوال‘ یورپ پرمسلمانوں کے احسانات اور یورپ کی احسان فراموشیاں۔ ان سب چیزوں کی یاد اقبال کے قلب و ذہن کو جذبات کا محشرستان بنائے ہوئے ہے۔ بہر حال وہ مسلمانوں کے روشن مستقبل سے مایوس نہیں … دریاے وادی الکبیر کے کنارے کھڑے ہو کر ‘ و ہ ہسپانیہ میں ایک بار پھر احیاے اسلامی کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔ مگر ان کے خیال میں خواب کی تعبیر اسی وقت سامنے آسکتی ہے جب مسلمان زمانے کے میزان میں اپنے اعمال کاحساب کریں اور کشمکش ِ حیات میں اپنے آپ کو اپنے مطلوبہ مرتبے و مقام کا اہل ثابت کریں۔مولوی شمس تبریز خاں لکھتے ہیں:’’اقبال کا اس نظم میں سب سے بڑا فنی کمال یہ ہے کہ موضوع اگرچہ یاس انگیز و حسرت خیز اور یکسر قنوطی تھا لیکن اقبال نے اسے پورے طور پر رجائی انداز سے ٹچ(Touch)کیا ہے اور ان کا طرز استدلال(approach)مکمل طور سے خوش آیند و بشارت آمیز ہے‘‘۔ ( نقوش اقبال: ص ۱۸۳) نظم کے آخری تین اشعار ان خیالات کی بازگشت ہیں جو نظم کے سب سے پہلے بند میں بیان ہوئے ہیں ۔ یہ نظم کے موضوعات و مطالب کا حاصل ہیں۔ اور اس کے ساتھ ہی فکر اقبال کا غالباً اہم ترین نکتہ بھی…کہ: حیات جاوداں اندر ستیز است مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا یہی راز تھا ‘ مسجد قرطبہ کے جلال و جمال کی بنیاد بھی یہی ہے اور مسلم نشأت ثانیہ کے امکانات بھی اسی میں پوشیدہ ہیں۔ فنی تجزیہ ’’ مسجد قرطبہ‘‘ ترکیب بند ہیئت کے آٹھ بندو ں پر مشتمل ہے۔ بحر کانام منسرح مثمن مطوی موقوف مکسوف ہے۔ اس کا وزن اور ارکان یہ ہیں: مُفْتَعِلُنْ فَاعِلُنْ مُفْتَعِلُنْ فَاعِلَاتٌ دوسری طویل نظموں کے برعکس’’مسجد قرطبہ‘‘ کی انفرادیت یہ ہے کہ اقبال نے اس نظم میں حسن ظاہر ی اور پابندیِ روش کی خاطر ہر بند کے اشعار کی تعداد برابر ( سات سات ) رکھی ہے۔ نظم کا موضوع جس قدر عظیم اور رفیع الشان ہے ‘ اس کا فنی پیرایہ بھی اُسی قدر حسین و جمیل ہے۔’’ مسجد قرطبہ‘‘ کا تقدس ‘ اس کی رفعت و پاکیزگی اور جلال و جمال‘ اقبال کی اس نظم کی صورت میں مجسم ہو کر ہمارے سامنے آگیا ہے۔ اسے پڑ ھ کر قاری کے دل و دماغ پر مسجد قرطبہ کی شوکت و سطوت کا ایک نقش قائم ہوتا ہے۔ اور یہ نظم ایک ایسا معجزۂ فن معلوم ہوتی ہے جس کی تکمیل اقبال نے اپنے خون جگر کے ذریعے کی ہے۔ ٭ایجاز و بلاغت ’’ مسجد قرطبہ‘‘ ۱۹۳۳ء میں لکھی گئی۔ یہ دور، اقبال کے فکر و فن کی پختگی کا دور ہے، چنانچہ نظم اقبال کے فن کا ایک عظیم الشان شاہ کار ہے۔ پوری نظم اور نظم کا ہر بند اور ہر بند کا ایک ایک شعر ‘ ہر ہر مصرع اور ایک ایک ترکیب ایجاز و بلاغت اور جامعیّت کا حیرت انگیز نمونہ ہے۔ اس نظم میں اقبال نے بہت سے اہم نظریات پر اظہارِ خیال کیا ہے‘ مثلاً: نظریۂ عشق‘ نظریۂ فن ‘ مرد کامل وغیرہ، مگر کمال فن یہ ہے کہ بڑے اختصار کے ساتھ گنے چنے الفاظ کے ذریعے متعلقہ موضوع کو اس کی پوری جزئیات و تفصیلات سمیت بیان کر دیا گیا ہے۔ کائنات کے ازلی و ابدی حقائق ‘دنیا کی تاریخی صداقتوں اور زندگی کے نفسیاتی مسائل کو اس بلیغ انداز میں بیان کیا ہے کہ کہیں پیچیدگی اور الجھن کا احساس نہیں ہوتا۔ چند مثالیں: عشق دمِ جبرئیل‘ عشق دلِ مصطفی عشق خدا کا رسول‘ عشق خدا کا کلام _______ ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ _______ ظلمت یورپ میں تھی جن کی خرد راہ بیں _______ تیرا جلال و جمال ‘ مرد خدا کی دلیل _______ دیکھ چکا المنی شورشِ اصلاحِ دیں _______ اسی طرح کعبۂ ارباب فن ‘ حاملِ خلقِ عظیم‘ عصمتِ پیر کنشت‘ نقطۂ پرکارِ حق‘ اور قافلۂ سخت جاں جیسی ترکیبوں میں ایک جہانِ معنی پوشیدہ ہے۔ ٭تنوع: موضوع اور لب و لہجہ ‘ دونوں اعتبار سے ’’ مسجد قرطبہ‘‘ میں تنوع پایا جاتا ہے۔ بظاہر نظم کا موضوع قرطبہ کی عالی شان جامع مسجد ہے مگر جیسا کہ اس سے پہلے بیان ہوا‘ نظم میں اقبال نے بہت سے نظریات و موضوعات پر اظہارِ خیال کیا ہے‘ مثلاً : الف: نظریات زمان و مکاں‘ عشق ‘ فن اور مرد کامل ب: مسجد قرطبہ کی عظمت و رفعت اور حسن و پاکیزگی ج: یورپ کے بعض فکر ی اور سیاسی انقلابات د: مسلم ہسپانیہ کی عظمت اور یورپ پر مسلم تمدن کے اثرات ر: احیاے ملت اسلامیہ کے امکانات شاعر نے ضمنی طور پر بعض چھوٹے اور نسبتاً غیر اہم موضوعات پر بھی اظہارِ خیال کیا ہے۔ نظم کا لب و لہجہ بھی متنوع ہے۔ نظم کے پہلے بند کا لہجہ فلسفیانہ ہے۔ وہ حصے جن میں شاعر نے مسجد قرطبہ کی عظمت‘ مسلمانوں کی شوکت رفتہ اور اسپین کے مسلم حکمرانوں کا ذکر کیا ہے‘ تأسّف ‘ دردمندی اور سوزو گداز سے لبریز ہیں۔ جہاں مرد مومن کی صفات اور عشق کی تخلیقی قوّت کا بیان ہو اہے‘ وہاں شاعر نے ایک مفکر کا حکیمانہ لہجہ اختیار کیا ہے۔ آخری بند کے اس حصے میں ‘ جہاں شاعر مستقبل کا خواب دیکھ رہا ہے ‘ اس کا لہجہ قدرے پرجوش اور پیغمبرانہ ہے۔ ٭فارسیّت: ’’مسجد قرطبہ‘‘ ۱۹۳۳ء کی یادگار ہے۔ ایک سال پہلے جاوید نامہ منظر عام پر آئی تھی۔ اس سے پہلے ۱۹۲۷ء میں زبورعجم شائع ہوئی تھی۔ گویا یہ وہ دور تھا جب اقبال اپنے افکار و خیالات کا اظہار زیادہ تر فارسی میں کر رہے تھے‘ اسی لیے’’ مسجد قرطبہ‘‘ پر فارسی کا اثر نمایاں ہے۔ اسی زمانے کی نظم ’’ دعا‘‘ (ہے یہی میر ی نماز …)میں بھی فارسیت نمایاں ہے۔ اس سے بھی یہی انداز ہ ہوتا ہے۔ ’’ مسجد قرطبہ‘‘ کے بعض حصے مکمل فارسی میں ہیں‘ مثلاً: سلسلۂ روز و شب تارِ حریرِ دو رنگ _______ سلسلۂ روز و شب ‘ صیرفیِ کائنات کعبۂ اربابِ فن ‘ سطوتِ دینِ مبیں _______ ساقیِ اربابِ ذوق ‘ فارسِ میدانِ شوق _______ خوش دل و گرم اختلاط ‘ سادہ و روشن جبیں _______ خاکی و نوری نہاد ‘ بندۂ مولا صفات _______ او ربہت سے ایسے مصرعے بھی ہیں جن میں حرف‘ یا امدادی فعل یا ایک آدھ لفظ کے سوا پورا مصرع فارسی میں ہے‘ مثلاً: سلسلۂ روز و شب ‘ سازِ اول کی فغاں _______ تیرا منارِ بلند‘ جلوہ گہِ جبرئیل _______ عشقِ بلاخیز کا قافلۂ سخت جاں _______ ملت رومی نژاد کہنہ پرستی سے پیر _______ روحِ امم کی حیات‘ کشمکشِ انقلاب _______ ٭عربی اثرات: نظم کے اسلوب پر فارسی اثر کے باوجود’’ مسجد قرطبہ‘‘ کی فضا پر عربی شعر وادب کے اثرات غالب ہیں۔ ہسپانیہ کی فضا اور ماحول ایک لحاظ سے عربی تھا اس لیے نظم کا مزاج بھی عربی ہے۔ نظم کے بند‘ غزل کی صورت میں چلتے ہیں مگر ردیف موجود نہیں ۔ یہ خصوصیت عربی شاعری کی ہے۔ مسجد کے ستون دیکھ کر اقبال کو صحراے شام کے ’’ ہجومِ نخیل‘‘ یاد آتے ہیں۔ اس کے بلند مینار ’’ جلوہ گہِ جبریل ‘‘ معلوم ہوتے ہیں۔ انھیں اندلس کی ہواؤں میں آج بھی ’’ بوے یمن ‘‘ محسوس ہوتی ہے اور اس کی نواؤں میں اب بھی ’’ رنگِ حجاز جھلکتاہے۔ ’’کاس الکرام ‘‘ کی ترکیب ایک عرب شاعر کے اس شعر سے ماخوذ ہے: شَرِبْنَا وَ اَہْرَقْنَا عَلَی الْاَرْضِ جُرَعَۃً وَ لِلْاَرْضِ مِنْ کَأْسِ الْکِرَامِ نَصِیْب اسی طرح ’’تیرا جلال و جمال‘ مرد خدا کی دلیل‘‘ کا مفہوم اندلس کے ایک حکمران عبدالرحمن الناصر کے ایک شعر میں ملتا ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ ’’ کسی عمارت کا عالی شان ہونا اشارہ کرتا ہے اس امر کی جانب کہ اس کا بنانے والا عالی شان ہے‘‘۔ ٭غنائیت: ’’مسجد قرطبہ ‘‘میں بعض اشعار اور مصرعوں میں مختلف تراکیب ‘ الفاظ و حروف کی تکرار اور قوافی کے استعمال سے صوتی نغمگی اور خوش آہنگی پیدا ہو گئی ہے‘ مثلاً:’’اول و آخر فنا‘ باطن و ظاہر فنا‘‘میں ’’فنا ‘‘کی تکرار… آخر اور ظاہر کے قافیے اوران میں ’’ ر‘‘ کی آواز سے یا: عشق کے مضراب سے نغمۂ تارِ حیات عشق سے نورِ حیات‘ عشق سے نارِ حیات شعرمیں لفظ’’ حیات‘‘ کی تکرار اور ’’ ر‘‘ کا صوتی آہنگ یا ’’رنگ ہو یا خشت و سنگ ‘ چنگ ہو یا حرف و صوت‘‘میں ’’گ‘‘ کا اور’’تار حریر دو رنگ‘‘ میں ’’ ر‘‘ کا صوتی آہنگ۔اسی طرح: ’’اس کے زمانے عجیب‘ اس کے فسانے عجیب‘‘ میں زمانے ‘ اور فسانے کے قافیے اور باقی الفاظ کی تکرار۔ اس ضمن میں جگن ناتھ آزاد لکھتے ہیں: ’’ اس نظم کا ہر بند غیر مردّف اشعار پر مشتمل ہے اور ٹیپ کا ہر شعر مردّف ہے۔ یہ محض اتفاق کی بات ہے یا التزام ہے جو شاعر کے نغمہ آشنا احساس نے برقرار رکھا ہے‘‘۔ ٭دیگر محسنات نظم: الف: تشبیہات و استعارات: پروفیسر عابد علی عابد نے شمس العلما مولانا عبدالرحمن کے حوالے سے لکھا ہے کہ تشبیہ اور استعارہ اگر توضیح مطلب کا فریضہ ادا کرے تو کمالِ صنعت گری ہے۔ اقبال کے کلام میں اکثر و بیشتر تشبیہات و استعارات کے استعمال کا مقصد، محض آرایش کلام نہیں بلکہ توضیحِ معانی ہے۔ اقبال نے عشق کو دمِ جبرئیل‘ دلِ مصطفی ‘ خدا کا رسول ‘ خدا کا کلام ‘ فقیہ حرم اور امیر جنود قرار دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ استعارات صنعت گری کے عمدہ نمونے ہی نہیں بلکہ عشق کی اصلیت و حقیقت کو بھی بخوبی الم نشرح کرتے ہیں۔ ان استعارات کے ذریعے عشق کی ایسی وضاحت ہوتی ہے جو شاید کسی طویل تقریر یامضمون سے بھی نہ ہو سکے۔ دوسرا قابلِ ذکر پہلو یہ ہے کہ نظم کے پہلے بند میں اقبال نے سلسلۂ روزو شب کے لیے چند استعارے استعمال کیے ہیں‘ مثلاً: و ہ نقش گر حادثات ہے‘ صیرفیِ کائنات ہے‘ سازِ ازل کی فغاں ہے ، تارِحریر دورنگ ہے‘ زمانے کی رو ہے‘ وغیرہ۔ زمانہ ایک غیر مادّی اور تصوّراتی چیز ہے‘ مگر اقبال ان استعارت کے ذریعے زمانے کو ہمارے محسوساست و مشاہدات کے دائرے میں لے آئے ہیں۔ پروفیسر عابد علی عابد نے اسی پہلو کے بارے میں لکھا ہے: ’’جب وہ [اقبال] دقیق تعقلات‘ باریک تصو ّرات اور لطیف افکار و اسرار کی توضیح کرنا چاہتے ہیں تو ایسی ایسی خوب صورت تشبیہیں اور استعارے استعمال کرتے ہیں کہ ان دیکھی چیزیں، دیکھی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔‘‘ (شعرِاقبال:ص ۵۳۴) مثلاً:’’عرشِ معلّٰی سے کم، سینۂ آدم نہیں‘‘بھی اسی طرح کی ایک عمدہ مثال ہے۔ ب: صنائع بدائع: ’’ مسجد قرطبہ ‘‘ میں صنعتیں اتنی خوبی اور خوب صورتی سے استعمال ہوئی ہیں کہ ان کا وجودبالکل فطری معلوم ہوتا ہے اور نظم میں کسی بناوٹ یا تصنع کا شائبہ بھی محسوس نہیں ہوتا۔ چندمثالیں: ا: صنعت تلمیح: دیکھ چکا المنی ، شورشِ اصلاحِ دیں _______ چشم فرانسیس بھی دیکھ چکی انقلاب _______ حاملِ ’’خلقِ عظیم‘‘ صاحبِ صدق و یقیں _______ ہاتھ ہے اللہ کا‘ بندۂ مومن کا ہاتھ _______ ظلمتِ یورپ میں تھی جن کی خرد ‘ راہ بیں _______ ۲۔ صنعت ترافق:( جس مصرع کو چاہیں ‘ پہلے پڑ ھیں اور معنی میں کوئی فرق نہ آئے۔) بوے یمن آج بھی اس کی ہواؤں میں ہے رنگ حجاز آج بھی اس کی نواؤں میں ہے عشق کے مضراب سے ہے نغمۂ تارِ حیات عشق سے نورِحیات‘ عشق سے نارِ حیات ۳۔صنعتِ تجنیسِ لاحق: ( دو متجانس الفاظ میں ایک ایسے حرف کا مختلف ہونا جو قریب المخرج ہو۔) نرم دمِ گفتگو ، گرم دمِ جستجو رزم ہو یا بزم‘ پاک دل و پاک باز ۴۔ صنعت ردّ العجز علی الحشو: آنی و فانی ‘ تمام معجزہ ہاے ہنر کارِ جہاں بے ثبات‘ کارِ جہاں بے ثبات ۵: صنعت طباق ایجابی: ( دو ایسے الفاظ کا استعمال جو معنی کے اعتبارسے ایک دوسر ے کی ضد ہوں) : اوّل و آخر فنا ‘ باطن و ظاہر فنا! نقشِ کہن ہو کہ نو ‘ منزلِ آخر فنا! ج: محاکات: ’’مسجد قرطبہ‘‘ کے بعض اشعار محاکات کی بہت عمدہ مثال ہیں، مثلاً: تیری بنا پایدار ‘ تیرے ستوں بے شمار شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجومِ نخیل _______ اس کی زمیں بے حدود‘ اس کا افق بے ثغور اس کے سمندر کی موج‘ دجلہ و دینوب و نیل _______ نرم دمِ گفتگو ‘ گرم دمِ جستجو رزم ہو یا بزم ہو ‘ پاک دل و پاک باز _______ وادیِ کہسار میں غرقِ شفق ہے سحاب لعلِ بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب ٭مجموعی قدرو قیمت: جگن ناتھ آزاد نے اپنے ایک مضمون میں اقبال کی شاعری پر بحث کرتے ہوئے ان کی شاعری کے ذکر کو غزل کے بجاے نظم پر ختم کیا ہے اور اس ضمن میں ’’ مسجد قرطبہ‘‘ کے حوالے سے اقبال کے بے مثل اسلوب بیان اور نظم کی شعریت اور حسن و جمال کی بھرپور داد دی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ یہ نظم صرف اقبال ہی کا شاہ کار نہیں بلکہ ساری اردو شاعری کا شاہ کار ہے۔ اردو شاعری میں اس نظم کے سوا کچھ بھی نہ ہوتا تو بھی ہماری شاعری دنیا کی صف اول کی شاعری میں ایک ممتاز مقام حاصل کر سکتی تھی۔ ’’ مسجد قرطبہ‘‘ شعریت‘ رومانیت‘ حقیقت پسندی‘ رمزیت ‘ اور ایمائیت کا ایک ایسا حسین امتزاج ہے کہ ہماری ساری اردو شاعری روزِ اوّل سے آج تک اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ’’مجھے اپنی زندگی میں ۲۸۲۹۲۰ مربع فٹ کے رقبے میں بنی ہوئی اس عظیم الشان مسجد کو دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا اور تصو ّرمیں اس مسجد کے جلال و جمال کا اندازہ کرنا آسان بھی نہیں ہے… اگر مجھے کبھی ہسپانیہ کی اس مسجد کو دیکھنے کا موقع ملے ۳؎ تو شاید میںاس وقت بھی یہ فیصلہ نہ کر سکوں کہ ہسپانیہ کی مسجد قرطبہ زیادہ جلیل و جمیل ہے یا بالِ جبریل کی ’’مسجد قرطبہ۔‘‘ (نگار پاکستان‘ اقبال نمبر۱۹۶۲ئ: ص ۱۷۔۱۸) اقبال کی اس بے مثال فنی تخلیق کی داد‘ اردو کے بیشتر نام ور نقادوں نے دی ہے‘ مثلاً: مولانا صلاح الدین احمد لکھتے ہیں:’’شاعر نے یہ نغمے غرناطہ کی عطر بیز فضاؤں اور وادی الکبیر کی کیف انگیز ہواؤں میں خود ڈوب کر لکھے ہیں۔’’ مسجد قرطبہ‘‘ اقبال کی پختہ تر شاعر ی میں ایک امتیازی مقام رکھتی ہے اور اس کے بعض مقامات یقیناً دنیا کی عظیم ترین شاعری شمار کیے جا سکتے ہیں ‘‘۔ ( تصوّراتِ اقبال: ص ۳۲۳) ممتاز نقاد اور دانش ورسلیم احمد لکھتے ہیں:’’ اقبال کی مسجد قرطبہ ایک ہندی کی طرف سے عرب مسلمانوں کے لیے عقیدت اور محبت کے ان جذبات کی تخلیق ہے جو ہندی مسلمانوں کے دل کو عربوں کے لیے ہمیشہ آغوش عاشق کی طرح کشادہ رکھتے ہیں… [اسے ] ابدیت کی تاریخ میں ایک معجزۂ فن کا اضافہ ‘‘قرار دیا جا سکتا ہے۔ ( اقبال ایک شاعر: ص۱۰۰‘ ۱۰۵) مولوی شمس تبریز خان رقم طراز ہیں :اس نظم کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے آفاق اور دائرہ ٔ تخیل بہت ہمہ گیر اور محیط اور اس کا Canvasبہت وسیع اور اس کے پس منظر کا تاریخی شعور بہت طویل و عریض ہے اور تقریباً فتح اندلس سے لے کر زمانۂ حال تک کے تاریخی حوادث و انقلاب اور فکر و فلسفے کے اہم تحریکات کا ذکر آگیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اقبالؔکا نظریۂ حیات و کائنات‘ ان کا فلسفۂ خودی ‘ مرد مومن کا تخیل ‘ ایمان و عشق کے بارے میں واضح تصو ّرات ‘ ان کا فلسفۂ تاریخ ‘ ان کا نظریۂ شعر و ادب‘ فنون لطیفہ کے بارے میں ان کا طرز عمل ‘ زندگی کے تخلیقی و تحریکی عناصر اور ان کے علاوہ بہت سے واضح نظریات اس نظم میں آگئے ہیں اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسجد قرطبہ کے آئینے میں، ہم اقبال کی ہشت پہلو شخصیت کے خدو خال دیکھ سکتے ہیں اور ان سے مل سکتے ہیں‘‘۔ (نقوش اقبال: ص ۱۸۳- ۱۸۴) حواشی ۱۔ ۱۶ ویں صدی میں کلیسا ایک ایسا ادارہ بن چکا تھا جو مذہب کے نام پر ہر طرح کی جائز و ناجائز کارروائیاں کرنے کا عادی تھا۔ کلیسا عقل کا دشمن تھا اور کسی شخص کو اجازت نہیں تھی کہ وہ پوپ کی کسی بات پر اعتراض کر سکے۔ حتیٰ کہ پوپ نے نجات کے ایسے پروانے جاری کیے جو قیمتاً فروخت کیے جاتے تھے اور جن کے متعلق پوپ کا اعلان تھا کہ انھیں خریدنے والا جنتی ہوگا۔ یہ ایک طرح کی برہمنیت تھی جس کے خلاف سب سے پہلے جرمنی کے ایک عالم اور پادری ڈاکٹر مارٹن لوتھر نے علم احتجاج بلندکیا۔ عوام کے دلوں میں پاپائیت کے خلاف پہلے ہی نفرت موجود تھی‘ چنانچہ لوتھر کی تحریک بہت مقبول ہوئی اور پوپ کے مخالفین کا ایک مستقل فرقہ بن گیا جو پروٹسٹنٹ کہلانے لگے۔ عیسائی دنیا میں ان کی اکثریت ہے ۔پوپ کے پیروکار کیتھولک کہلاتے ہیں۔ ۲۔ مسولینی ۱۸۸۳ء میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوا۔ بڑے ہو کر اس نے اٹلی کی ترقی و عروج کے لیے ۱۹۱۹ء میں ایک تحریک چلائی جسے فاشزم کا نام دیا گیا ۔ فاشسٹ قومی مفاد کے لیے ہر قسم کی فوجی کارروائیوں ‘تشدّداور قو ّت کے استعمال پر یقین رکھتے تھے۔ مسولینی پہلے اٹلی کا وزیر اعظم بنا پھر آمر مطلق۔اس کی تحریک کے بہت سے منفی پہلو بھی تھے مگر اقبال فاشزم کی انقلابی روح سے متاثر تھے‘ جس کا اظہار انھوں نے بال جبریل کی نظم ’’مسولینی‘‘ میں کیا ہے۔ ۱۹۰۵ء میں یورپ جاتے ہوئے انھوں نے اٹلی کی انقلابی تحریک کو خراج عقیدت پیش کیا: ہرے رہو وطنِ مازنی کے میدانو! جہاز پر سے تمھیں سلام کرتے ہیں مسولینی نے دوسر ی جنگِ عظیم میں ہٹلر کا ساتھ دیا مگر شکست کھا کر ۱۹۴۵ء میں خود کشی کرلی۔ ۳۔ پروفیسر جگن ناتھ آزاد کو بعد ازاں ’’مسجد قرطبہ‘‘ اوراندلس میں مسلم دورِ حکمرانی کے دوسرے آثار دیکھنے کا متعدد بار موقع ملا۔ ساقی نامہ ٭تعارف اور پس منظر ’’ ساقی نامہ ‘‘ کا سال تصنیف ۱۹۳۵ء ہے۔ نظرثانی میں ‘ بعض مصرعوں اور اشعار میں ترمیم کی گئی‘ مثلاً: اس مصرعے: ’’تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے ‘‘ کی ابتدائی صورت یوں تھی: ’’ جوانوں کو جلنے کی توفیق دے۔‘‘ متعدد اشعار قلم زد کر دیے گئے‘ مثلاً: ابتدامیں چھٹے بند میں یہ اشعار بھی موجود تھے: خرد اس کے گھر کی پرانی کنیز خودی کی غلامی سے ناچیز ‘ چیز سرودِ جہاں کے بم و زیر یہ بجاتی ہے طنبورِ تقدیر یہ ترکی میں یہ مصطفی کمال پاشا کا دورِ حکومت تھا جس میں ترکی کی اسلامی اور مشرقی روایت کو ختم کیا جار ہا تھا۔ شرعی عدالتوں اور محکمۂ اوقاف کا خاتمہ‘ ترکی لباس اور پردے کی ممانعت‘ ہجری کی جگہ عیسوی سنہ اور عربی کی جگہ لاطینی رسم الخط کی ترویج اور ایسے ہی دوسرے اقدامات‘ اسلامی اور ملی نقطۂ نظرسے سخت مایوس کن تھے۔ ایران بھی ’’ جدیدیت ‘‘ اور لادینیت کی راہ پر گامزن تھا۔ رضا شاہ پہلوی بھی مصطفیٰ کمال کے نقش قدم پر چل رہا تھا، اگرچہ اس کی حکمت عملی کمال پاشا سے قدرے مختلف تھی ۔ اس نے سکولوں سے لازمی مذہبی تعلیم کا خاتمہ کر دیا۔ مشرقی لباس ممنوع قرار دیا۔ پردے کی بھی ممانعت کر دی گئی حتیٰ کہ اس کی بیوی اور صاحبزادی پردہ ترک کرکے برسرعام آگئیں۔ ہندی مسلمانوں پر تحریک خلافت کی ناکامی اور خلافت عثمانیہ کے خاتمے کی وجہ سے زبر دست مایوسی طاری تھی۔ ۱۹۲۸ء کی نہرو رپورٹ نے اس مایوسی میں اور بھی اضافہ کر دیا تھا۔ فکری جائزہ ساقی ناموں کی روایت کے مطابق‘ اس نظم کا آغاز بہا ر کے ایک خوب صورت اور حسین و جمیل منظر سے ہوتا ہے۔ شاعر نے ایک ایسے ماحول کا نقشہ کھینچا ہے جس میں گل و گلزار ‘ اشجار و طیّور اور جوے کہستاں… ہر شے فعّال اور متحرک و مستعد اورalive ہے اور اس پر خوشی و سرمستی کی کیفیت طاری ہے۔ پرندے وفور شوق و مسرت سے اپنے آشیانوں میں نچلے نہیں بیٹھ سکتے اور ندی کے جو ش و طغیانی کا یہ عالم ہے کہ وہ بلند و بالا پہاڑوں سے ٹکرا کر پتھروں کو چیر دینے پر تلی ہوئی ہے۔ یہ مناظر و کیفیات شاعر کے جذبات میں بھی جوش و خروش پیدا کر رہے ہیں۔ ولولہ انگیز منظر شاعر کو زندگی کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ محسوس ہورہا ہے ۔ ’’ ساقی نامہ‘‘ میں اقبال نے انھی دھڑکنوں اور زندگی کے پیام کو پیش کیا ہے۔ ساقی نامے کی روایت ہے کہ شاعر وقتاً فوقتاً ساقی کو مخاطب کرکے اس سے شراب کا جام طلب کرتا ہے۔ اقبال بھی اسی روایت کے تحت: ’’ ذرا دیکھ اسے ساقیِ لالہ فام‘‘ کہہ کر بہاریہ منظر سے اصل موضوع کی طرف گریز کرتے ہیں۔ گویا یہ خارجی ماحول سے داخلی کیفیات اور فکر و تخیّل کی طرف گریز ہے۔ ساقی سے جامِ مے طلب کرنے کے بعد ،وہ ایسے حقائق کی نقاب کشائی کرنے چلے ہیں جو اس وقت عام لوگوں سے مستور و مخفی ہیں۔ پہلا بند سراسر تمہیدی ہے۔ دوسرے بند سے نظم کے موضوعات پر گفتگو شروع ہوتی ہے۔ ’’ ساقی نامہ‘‘ کے مباحث کو ذیل کے عنوانات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: ۱۔ عالمی منظر پر ایک نگاہ بند ۲ اشعار: ۱۔۵ ۲۔مسلم انحطاط کا مرثیہ بند ۲ اشعار ۶۔۱۴ ۳۔احیاے ملت کے لیے ولولہ و عزم بند ۳ ۴۔زندگی، کشمکشِ انقلاب بند ۴- ۵ ۵۔ خودی کی قو ّت اور اس کے امکانات بند ۶ ۶۔ پرورش خودی کی تلقین بند ۷ ٭عالمی منظر پر ایک نگاہ: اقبال سب سے پہلے عالمی منظر پر نگاہ ڈالتے ہوئے بیداری کی اس لہر کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو دنیا کے مختلف خطّوں میں جنم لے رہی ہے۔ اس سلسلے میں: ۱۔ اقبال برطانوی امپریلزم کے زوال کی طرف توجّہ دلاتے ہیں۔ ایک زمانے میں یہ بات بہت مشہور تھی کہ ’’ سلطنت ِ برطانیہ میں سورج غروب نہیں ہوتا‘‘ مگر اب فرنگی اقبال کا سورج گہنا گیا ہے۔ یاد رہے کہ ’’ ساقی نامہ‘‘ کے دور میں برطانیہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت سمجھی جاتی تھی مگر اقبال کی پیمبرانہ بصیرت نے برطانیہ کے زوال کی پیش گوئی کی جس کی صداقت دوسری جنگِ عظیم کے بعد واضح ہوئی‘ جب ’’بڑوں ‘‘کی قطار میں برطانیہ کا نمبر تیسرا تھا اور آج شاید چوتھا یا پانچواں ہے۔ ۲۔ سرمایہ دارانہ نظام بڑ ی حد تک برطانوی امپیریلزم کی قسمت سے وابستہ تھا۔ برطانوی ’’امپائر ‘‘کا شیرازہ بکھر جانے کے بعد ‘سرمایہ داری (capitalism)بھی زوال پذیر ہوگئی۔ خصوصاً روس اور اس کے حاشیہ بردار مشرقی یورپ کے کمیونسٹ ممالک نے مغربی سرمایہ داری کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ ۳۔ مغرب میں علوم جدیدہ کی وجہ سے جو عام بیداری کی رو چلی‘ اس کے سبب مغرب میں شہنشاہیت بالکل ختم ہوگئی‘ اگر چہ برطانیہ ‘ ناروے ‘ سویڈن اور ڈنمارک میں رسمی نوعیت کی بادشاہت اب بھی قائم ہے۔ اسی طرح مشرق میں بھی مغربی علوم کی اشاعت سے آزادی اور جمہوریت کے تصو ّرات رواج پانے لگے اور بادشاہت کا تصو ّر کمزور ہوگیا۔ ۴۔ چینی قوم ایک لمبے عرصے سے خواب غفلت میں مدہوش پڑ ی تھی‘ اب وہ بھی انگڑائی لے کر بیدار ہو رہی ہے۔ آج کا چین اقبال کی پیش گوئی کی تعبیر ہے۔ یہ چند مثالیں اقبال نے اس حقیقت کو واضح کرنے لیے دی ہیں کہ فکری‘ذہنی اور سیاسی اعتبار سے دنیا میں ایک انقلابی انداز نظر جنم لے رہا ہے۔ پرانے افکار کی جگہ نئے معیارات و تصو ّرات لوگوں کے ذہنوں کو مسحور کر رہے ہیں۔ لہٰذا جو لوگ یاجو قوم نئے دور کے انقلابی تقاضوں کا ساتھ نہیں دے گی ‘ اسے فنا ہونے سے کوئی چیزنہیں روک سکتی: جس میں نہ ہو انقلاب ‘ موت ہے وہ زندگی ٭مسلم انحطاط کا مرثیہ: یہ صورت حال مسلمانوں سے بھی مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اپنے فکر و عمل میں بنیادی اور انقلابی تبدیلیاں پیدا کریں مگر افسوس کہ مسلمانوں کو اس کا احساس تک نہیں۔ یہاں اقبال نے دورِ حاضر کے مسلمانوں کے ہمہ پہلو انحطاط کا مکمل اور جامع نقشہ کھینچا ہے۔ جس میں امت ِ مسلمہ کے زوال کے وہ سارے اسباب گنوا دیے ہیں جو کئی صدیوں کی تاریخ پر محیط ہیں۔ اجتماعی بے عملی‘ غیر اسلامی تصو ّف‘ فقہی موشگافیاں ‘ عجمی اور یونانی تعلیمات‘ مفہوم سے زیادہ لغت پر زور اور غیر اسلامی روایات کی پیروی زوالِ مسلم کے اسباب ہیں۔ ’’ سالک‘‘ اور ’’مقامات‘‘ رائج الوقت تصو ّف کی خاص اصطلاحیں ہیں ۔ مسلمانوں کی جو عبرت ناک حالت اقبال نے نظم کے اس حصے میں بیان کی ہے ‘ اس کا نتیجہ انھوں نے، بجا طور پر، یہ پیش کیا ہے کہ مسلمان بظاہر چلتے پھر تے لاشے ہیں۔ درحقیقت یہ ایک قوم نہیں بلکہ راکھ کا ڈھیر ہے: بجھی عشق کی آگ ، اندھیر ہے مسلماں نہیں ‘ راکھ کا ڈھیر ہے ٭احیاے ملت کے لیے ولولہ و عزم نو: مسلم انحطاط کا دردناک بیان ایسا نہیں جو کسی مسلمان خصوصاً اقبال جیسے حساس فرزند ِ ملت کو متاثر نہ کرسکے۔ یہ بیان ایسا ہے جو اقبال کے الفاظ میں قلب کو گرما دینے اور روح کو تڑپا دینے والا ہے۔ چنانچہ نظم کے اگلے حصے( بند نمبر ۳) میں اسی جوش و ولولے اور سوز و تڑپ کا اظہار ملتا ہے اور اس کی بنیاد احیاے ملی کی شدید خواہش ہے۔ ساقی نامے کی روایت کے مطابق، شاعر نے پہلے ہی شعر میں ساقی کو مخاطب کرکے ’شراب کہن‘ طلب کی ہے۔ یہ سارا بند دعائیہ ہے اور انداز بیان سے ظاہر ہے کہ خطاب اللہ تعالیٰ سے ہے۔ ’شراب کہن‘ کا مفہوم حقیقی اسلامی جوش و جذبہ او راحیاے اسلام کی شدید خواہش ہے۔ خدا کے سامنے اس آرزو کا اظہار کرتے ہوئے شاعر دعا گو ہے کہ مسلمانوں کے دلوں کو حضرت ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا علی مرتضیٰ ؓ کے سے ایمان و یقین سے بھر دے۔ خود شاعر کا اپنا دل بھی ملی درد و سوز سے لبریز ہے۔ اس کے شب و روز اسی کرب و اضطراب اور کشمکش میں گزرتے ہیں کہ روے زمین پر امت کے عروج اور غلبۂ اسلام کی کوئی صورت نظر آئے: اسی کش مکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں کبھی سوز و سازِ رومی‘ کبھی پیچ و تابِ رازی پروفیسر محمد منوّر لکھتے ہیں:’’ حق یہ ہے کہ حضرت علامّہ کی زندگی کا بہت سا حصہ اسی اضطراب میں بسر ہو گیا کہ ملت کو کس طرح متحد کیا جائے‘ ملت کو کس طرح غلامی سے نجات دلائی جائے‘ ملت کس طرح اپنے پاؤں پردوبارہ کھڑی ہو ‘ کس طرح اپنا مقام پہچانے اور دنیا میں خدا کے آخری آئین کو نافذ کرکے‘ نوعِ انسانی کے لیے دنیا کو جنت عدن کا صحیح بدل بنا دے۔‘‘ ( ایقانِ اقبال: ص ۷۹) علامّہکے سوزو ساز ‘ بے تابیوں‘ بے خوابیوں اور نالہ ہاے نیم شب کا منبع ان کا جذبۂ عشق ہے۔ ان کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ یہ جذبۂ عشق جو ان کی زندگی کی سب سے قیمتی چیز اور ’’ متاعِ فقیر‘‘ ہے ‘ ملت کے نوجوانوں کو بخش دیا جائے۔ اکبر الہٰ آبادی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’ یہ آرزو رہتی ہے کہ کوئی قابل نوجوان جوذوقِ خداداد کے ساتھ قوّتِ عمل بھی رکھتا ہو ‘ مل جائے‘ جس کے دل میں اپنا اضطراب منتقل کر دوں‘‘۔ ( اقبال نامہ‘ دوم:ص ۴۹) اس مقدس امانت کو نوجوانوں تک پہنچا کر اقبال کو اطمینان ہوگا کہ حق بہ حق دار رسید اور یوں وہ کہہ سکیں گے کہ : شادم از زندگیِ خویش کہ کارے کردم ٭کائنات اور زندگی کا مشاہدہ: اب فلسفی شاعر کی نگاہ حیات و کائنات اور اس کے گوناگوں مظاہر اور متنوع پہلوؤں کی طرف اٹھتی ہے۔ وہ چشم تخیل سے زندگی کی ازلی و ابدی حقیقتوں کا مشاہدہ کرتا اور ان پر تنقیدی تبصرہ کرتا چلا جاتا ہے۔ دنیا کی ساری موجودات از قسم جمادات ‘ نباتات اور حیوانات اور پھر ان کی مختلف شکلوں انسان‘ چرند‘ پرند‘ شجر و حجر ‘ سونا چاندی ‘ جبریل وحور‘ ببول و پھول‘ کہساروبیاباں‘ دشت و کہسار‘ پست و بلند ‘ ثابت و سیار… اور دیگر مختلف عناصر کے باہمی تعلق‘ آپس کے عمل اور ردّ ِ عمل کے نتیجے میں یہ عظیم الشان حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ زندگی تحرک ‘ تسلسل اور تمو ّج کا دوسرا نام ہے اور زندگی جدو جہد ‘ کشمکش اور انقلاب ہی کے نتیجے میںقرار و استحکام اور نشوونما پاتی ہے۔ اقوام کی تشکیل و تنظیم بھی اسی جدوجہد کی مرہونِ منّت ہے: جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی روحِ امم کی حیات، کشمکشِ انقلاب نظم کے بند ۴- ۵ میں متعدد مثالوں اور مختلف انداز میں اقبال نے حیات و کائنات کے فلسفیانہ مشاہدے کا یہی نچوڑ پیش کیا ہے۔ یہ بات کہ سکون و ثبات ‘ فریب ِ نظر ہے اور حرکت و جدو جہد ہی اصل حقیقت ہے، اقبال کے فکری نظام کا اہم جز ہے: چلنے والے نکل گئے ہیں جو ٹھہرے ذرا کچل گئے ہیں اقبال نے اپنی شاعری اور فکر میں حرکت و تسلسل اور کش مکش کا یہ فلسفہ بڑے تواتر ‘ کثرت اور شد ّت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ شاید اس لیے کہ کائنات کا مزاج بھی حرکت و تسلسل اور آگے بڑ ھنے کا ہے: یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آرہی ہے دما دم صداے کن فیکوں ’’ساقی نامہ‘‘ کے ان دو بندوں میں اس فلسفے کو جتنے بہتر ‘ خوب صورت اور مکمل اندازمیں پیش کیا گیاہے‘ وہ شاید اقبال کی کسی اورنظم میں نہیں ملتا۔ یہ نتیجہ اقبال نے فطرت کے خارجی مطالعے سے اخذ کیاہے، اس سے آگے بڑھ کران کا مشاہدہ سائنسی میدان تک وسیع ہے۔ انسانی جسم کا حیاتیاتی (biological) مطالعہ بھی یہی کہتا ہے ’’اسی سے ہوئی ہے بدن کی نمود‘‘ اور عناصر کا کیمیائی (chemical) تجزیہ بھی ’’کہ شعلے میں پوشیدہ ہے موجِ دود‘‘ اس امر کی شہادت دے رہا ہے۔ ٭خودی کی قو ّت اور اس کے امکانات: معرکۂ زندگی ہمیں کیا درس دیتا ہے اور اس کی تلاطم خیز موجوں سے بحفاظت کنارے تک پہنچنے کے لیے کس شے کی ضرورت ہے؟ اقبال کے نزدیک صرف خودی کی کہ : خودی کیا ہے رازِ درونِ حیات اس راز سے آگاہی کے بغیر زندگی کے طویل سفر کو بامراد طے کرنا ممکن نہیں‘ چنانچہ زندگی کے تحر ک و تمو ّج کاپتا دینے کے بعد، اب بند ۶ میں اقبال ہمیں اس راز( خودی) سے آگاہ کرتے ہیں۔ کیونکہ(جیسا اقبال آگے چل کر بتاتے ہیں)معرکۂ زندگی کی غایت ہی یہ ہے کہ انسان کو خودی کا شعور حاصل ہو اور وہ اپنے اندرون میں موجود اس غیر معمولی قو ّت سے پوری طرح آگاہ ہو جائے: یہ ہے مقصد گردشِ روز گار کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار فلسفۂ خودی ‘ فکر اقبال کا اہم ترین باب ہے۔ اقبال نے اپنی نثری تحریروں میں بھی خودی کی حقیقت اور اس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ یہاں بھی زیر بحث موضوعات کی مناسبت سے خودی کی قو ّت اور اس کے پوشیدہ امکانات پر ایک نئے پیرایے میں اظہارِ خیال ملتا ہے۔ زیر مطالعہ نظم میں اقبالؔ نے خودی کی جو خصوصیات گنوائی ہیں‘ وہ مختصراً حسب ذیل ہیں: ۱۔ خودی میں ایٹم کی مانند طاقت و قو ّت کا زبردست اور لا محدود ذخیرہ پوشیدہ ہے۔ ۲۔ خودی ایک ازلی و ابدی حقیقت ہے جس کے آغاز و انجام کی کوئی انتہانہیں ۔ ۳۔ پتھر ہو یا چاند ‘ دنیا کی ہر شے میں خودی کا جلوہ دیکھا جاسکتا ہے۔ ۴۔ خودی کا مرکز و منبع انسانی دل ہے‘ یعنی ایک طرح کی داخلی کیفیت کا نام ہے۔ اقبال نے خودی کی جو صفات اور جن قو ّتوں کا بیان کیا ہے ‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خودی خدائی صفات ہی کا پرتو ہے۔ ٭پرورشِ خودی کی تلقین: خودی کی عظمت و اہمیت کو واضح کرنے کے بعد، اقبال اس کی پرورش کی تلقین کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک خودی‘ انسان کو فقر و استغنا اور غیر ت و خودد اری سکھاتی ہے۔ خودی کی وجہ سے انسان دنیا میں سر اٹھا کر چل سکتا ہے اور ’’ہزار سجدے ‘‘سے نجات پالیتا ہے۔ اقبال انسان کو تنبیہ کرتے ہیں کہ یہ دنیا ‘ یہ بت خانۂ شش جہات اس کی پہلی منزل ہے‘ منتہاے مقصود نہیں : اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں شاید تو خود بھی اپنی حقیقت سے واقف نہیں ۔ تجھے صرف دنیا ہی نہیں‘ پوری کائنات کو تسخیر کرنا ہے۔ کائنات کا ذرہ ذرہ تیرے لیے چشم براہ ہے کیوں کہ:’’تو ہے فاتحِ عالمِ خوب و زشت‘‘اقبال جب کہتے ہیں: یہ ہے مقصدِ گردشِ روزگار کہ تیر ی خودی تجھ پہ ہو آشکار تو شاید یہ فکر و تخیل کی وسعت اور بلندی کا انتہائی یعنی saturated درجہ ہے۔ چنانچہ اب شاعر سلسلۂ گفتگو کو قطع کرتا ہے۔ یوں کہنے کو تو وہ بہت کچھ کہہ سکتا ہے کیونکہ شاعر کے تخیل کا دھارا کچھ ایسی کیفیت کا حامل ہوتا ہے: نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے لیکن ضروری نہیں کہ الفاظ بھی اس دھارے کا ساتھ دے سکیں۔ نظم کے آخری تین اشعار میں اسی بات کا اظہار کیاگیا ہے۔ ایک طرف شاعر کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے کہ اس کے سینے میں شمعِ الہام فروزاں ہے‘ مگر ساتھ ہی اس نے اپنے عجز کا اظہار بھی کیا ہے کہ مزید تابِ گفتار نہیں ہے ۔ کیونکہ شیخ سعدی کے الفاظ میں اگر میں ( جبریل ؑ) بال برابر بھی آگے بڑ ھوں تو میرے پَر جل کر راکھ ہو جائیں گے۔ فنی تجزیہ ’’ ساقی نامہ‘‘ فنی اعتبارسے اقبال کی بہترین نظموں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ چھوٹی بحر کے سات بندوں پر مشتمل ہے۔ بحر کا نام بحر متقارب مثمن مقصودالآخر ہے جس کے ارکان یہ ہیں: فُعُوْلُن ْ فُعُوْلُنْ فُعُوْلُنْ فُعُوْل ٭روایتی انداز: فارسی اور ارود ساقی ناموں کی روایت کے تتبع میں ‘ اقبال نے زیر مطالعہ نظم میں ساقی نامے کی روایت کو برقرار رکھا ہے: الف۔نظم کا بہاریہ آغاز روایتی ہے۔ ب۔ روایتی انداز کے مطابق اقبال نے جگہ جگہ ساقیِ لالہ فام کو مخاطب کر کے اس سے جام گردش میں لانے کی درخواست کی ہے۔ ج۔ ساقی نامے کی روایت کے مطابق شاعر نے نظم میں مختلف موضوعات پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ د۔ اسی طرح نظم کی فنی ہیئت یعنی بحر کا اختصار‘ مختلف حصے( بند) اور ہر شعر کے مصرعوں کاباہم ہم قافیہ ہونا بھی ساقی نامے کی فنی روایت اور تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ ٭ایجاز و بلاغت: فنی ہیئت سے قطع نظر‘ بلاغت اور اختصا ر و جامعیّت ’’ ساقی نامہ‘‘ کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔ اس ایک نظم میں اقبال نے اپنے فکر و فلسفے کے تمام اہم اور بنیادی عناصر کمال ایجاز و بلاغت سے بیان کر دیے ہیں اور پھر ایک ایک جز کو جس بلیغ اور مکمل انداز میں یہاں پیش کیا ہے ‘ دوسرے مقامات پر ایسا بیان نہیں ملتا‘ اگر ملتا ہے تو بہت کم۔ فن کے نقطۂ نظر سے اس نظم کا ایک ایک حصہ ‘ ایک ایک شعر اور ہر ہر مصرع فصیح و بلیغ اور ایجاز و ایما کا شاہ کار ہے۔ مثلاً ایک شعر: ہوا اس طرح فاش رازِ فرنگ کہ حیرت میں ہے شیشہ بازِ فرنگ میں برٹش امپائر کے زوال کی تصویر اس خوبی سے کھینچ دی ہے کہ شاید ایک مؤرخ اس زوال کو سیکڑوں صفحوں میں بھی بیان نہ کر سکے۔ اسی طرح ایک اورشعر: تمدن ‘ تصو ّف ‘ شریعت ‘ کلام بتانِ عجم کے پجاری تمام میں امت ِ مسلمہ کے ہمہ پہلو انحطاط اور اس کی وجوہات کو جس اختصار اور بلاغت کے ساتھ بیان کیا ہے ‘ وہ اقبال کی معجز بیانی کا ثبوت ہے۔ اس شعر کے حوالے سے پروفیسریوسف سلیم چشتی لکھتے ہیں:’’دوسرے مصرع میں ایسا بلیغ اسلوب اختیار کیا ہے کہ ایک ہزار سال کی تاریخ دو لفظوں میں بیان کر دی۔ یعنی دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے‘‘۔ (شرح بال جبریل:ص۵۸۸) مسلمانانِ عالم کی موجودہ عبرت ناک حالت کا مرقع ایک شعر میں اس سے بہتر اورکیسے کھینچا جاسکتا ہے: بجھی عشق کی آگ ، اندھیر ہے مسلمان نہیں ‘ راکھ کا ڈھیر ہے زمانے کی حقیقت ایک شعر میں اس طرح بیان کیا ہے: زمانہ کہ زنجیر ایام ہے دموں کے الٹ پھیر کا نام ہے انسان، خودی اور زمان و مکاں کے باہمی ربط و تعلق پرایک جامع اور بلیغ تبصرہ دیکھئے: یہ ہے مقصدِ گردشِ روزگار کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار غرض پورا ’’ساقی نامہ‘‘ ہی ایجاز و بلاغت کی مثال اور اس لحاظ سے اقبال کا ایک نادر شاہ کار ہے۔ ٭روانی و تسلسل: شستہ‘ رواں ‘ چست اور پرجوش زبان ساقی ناموں کی روایت ہے۔زیر مطالعہ نظم ’’ ساقی نامہ‘‘ میں بلا کی روانی اور تسلسل پایا جاتا ہے۔ روایت ہے کہ علامّہ اقبال پر بعض اوقات اس تیزی کے ساتھ اشعار وارد ہوتے تھے کہ لکھنے والے کا قلم اس تیزی کا ساتھ نہیں دے سکتا تھا۔ لگتا ہے کہ ’’ ساقی نامہ ‘‘ بھی ایسی ہی کیفیت میں کہی ہوئی نظم ہے۔ روانی اور تسلسل کا احساس آغاز سے ہی ہو جاتا ہے۔ بہاریہ تمہید میں اقبال نے ندی کی تصویر کھینچی ہے : الجھتی ‘ پھسلتی ‘ سنبھلتی ہوئی بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی رکے جب تو سل چیر دیتی ہے یہ پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ جوئے کہستاں کی یہ کیفیت ’’ ساقی نامہ ‘‘ پر صادق آتی ہے سواے اس کے کہ نظم کی روانی کسی مقام پر نہیں رکتی۔ اس کا تسلسل اور بہاؤ اس قدر زوردار ہے کہ نظم کے خاتمے بر اگر ’’ تابِ گفتار‘‘ کی رکاوٹ نہ ہوتی تو شاید نظم آگے بھی چلتی۔ اقبال اس تسلسل اور روانی کو سعدی کے ایک شعر کے ذریعے روکتے ہیں۔ نظم کی اس الہامی روانی کی وجہ سے جوے کہستاں کی طرح یہ نظم بھی پہاڑوں کا دل چیر دینے کی تاثیر رکھتی ہے۔ یوں تو نظم کے ہر حصے اور ہر بند میںروانی اور تسلسل موجود ہے مگر تمہیدی بند کے پہلے حصے ‘ تیسرے بند کے آخری حصے ( جوانوں کو سوزِجگر بخش دے…تا آخر) اور چھٹے بند میں خودی کی طاقت اور صفات کے بیان میں یہ خصوصیت عروج پر ہے۔ اس روانی اور تسلسل کا ایک پہلو جوشِ بیان بھی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ خودی کی قوّت کا ذکر ہو رہا ہے۔ اقبال کے فلسفے میںیوں بھی قو ّت اور توانائی کو اہمیت حاصل ہے اور ذکر بھی خودی کا ہو رہا ہے جو طاقت و قو ّت اور حرکت و نمو کا منبع ہے۔ بقول مولانا عبدالسلام ندوی مرحوم:’’ اس نظم میں ڈاکٹر صاحب کا جوش بیان اپنے منتہاے کمال کو پہنچ گیا ہے اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ پر جوش الفاظ اور مست خیالات کا ایک سیلاب امنڈتا ہوا چلا آتا ہے‘‘۔ (اقبال کامل: ص ۱۳۱) ٭فنی محاسن کے مزیدچند پہلو: ’’ساقی نامہ‘‘گوناگوں فنی محاسن سے بھر پور ہے۔ چند پہلو ملاحظہ ہوں: الف: تصویر کاری: نظم کے آغاز ہی میں بہاریہ منظر کی ایک دل ربا تصویر ملتی ہے، مثلاً: اس شعر سے: فضا نیلی نیلی ہوا میں سرور ٹھہرتے نہیں آشیاں میں طیور موسم بہا ر کا ایک دل کش ماحول اور رومانوی فضا کا نقشہ سامنے آتا ہے۔ اگلے تین شعروں میں جوے کہستاں کی ایک اور خوب صورت تصویر سامنے آتی ہے۔ پانچویں اور چھٹے بند میں، جہاں خودی کی قو ّت اور صفات کا بیان ہواہے ‘امیجری کی خوب صورت مثالیں ملتی ہیں۔ یہاں خودی ایک طاقت اور قاہر قو ّت کی حیثیت سے ہر مدِّ مقابل کو مارتی ‘ گراتی اور پچھاڑتی جار ہی ہے۔ حتیٰ کہ پہاڑ بھی اس کی ضربوں سے ریگِ رواں بن جاتے ہیں اور موت اس کے سامنے آنے سے کتراتی او ر ادھر ادھر منہ چھپاتی پھرتی ہے: رہی زندگی موت کی گھات میں یہی چیز ہے جس کے متعلق ڈاکٹر یوسف حسین خاں نے کہا ہے کہ ’’ اقبال نہایت خوبی سے تجریدی تصو ّرات کو جان دار اور جیتی جاگتی شکل میں پیش کرتا ہے۔ اس کے افکار و تصوّرات محسوس استعاروں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں… وہ بے جان اشیا کو اس طرح محسوس شکل میں پیش کرتا ہے کہ گویا وہ ذی روح ہیں‘‘۔ ( روح اقبال: ص ۱۱۰‘ ۱۱۲) ب: نئی تراکیب:’’ساقی نامہ‘‘ میں بعض نادر ‘ نئی اور خوب صورت تراکیب ملتی ہیں، مثلاً: مے پردہ سوز‘ شیشہ بازِ فرنگ ‘ بت خانۂ چشم و گوش‘ فروفالِ محمود‘ فاتحِ عالم خوب و زشت‘ بت خانۂ شش جہات‘ غزالانِ افکار۔ ج: صنائع بدائع: اس نظم میں بھی ہمیں صنائع بدائع کی مثالیں بکثرت ملتی ہیں۔ چند مثالیں: ۱۔ صنعت تلمیح: تمدن ‘ تصو ّف ‘ شریعت ‘ کلام بتانِ عجم کے پجاری تمام ۲۔ صنعت ترافق ( اور صنعت ترصیع بھی): حقیقت خرافات میں کھوگئی یہ امت روایات میں کھو گئی ۳۔ صنعت مشاکلہ: دو چیزوں کو ایک ہی ُغہ مذکور ہونے کی مناسبت سے انھیں ایک ہی لفظ سے تعبیر کرنا): مرا دل ‘ مری رزم گاہِ حیات گمانوں کے لشکر ‘ یقیں کا ثبات ۴۔ صنعت تجنیس مضارع: ( دو ایسے متجانس الفاظ کا استعمال جن میں صرف قریب المخرج یا متحد المخرج حرف کا اختلاف ہو) : چمک اس کی بجلی میں ہے‘ تارے میں ہے یہ چاندی میں ‘ سونے میں ‘ پارے میں ہے ۵۔ صنعت عکس: ( کلام کے بعض اجزا کو مقد ّم اور مؤخّر کر کے پھر مؤخّرکو مقد ّم اور مقد ّم کومؤخّرلانا ): پسند اس کو تکرار کی خو نہیں کہ تو میں نہیں اور میں تو نہیں ٭مجموعی قدر و قیمت : بعض اصحاب نے زیر مطالعہ نظم کی مجموعی قدر و قیمت پر جچے تلے انداز میں تبصرہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں مولوی شمس تبریز خان لکھتے ہیں: ’’ساقی نامہ‘‘ اقبال کی منتخب نظموں میں شمار ہوتا ہے ۔ خیالات و افکار کی پختگی اور قطعیت تو اس میں نمایاں ہے، ادبی اور فنی لحاظ سے بھی اردو میں ایک منفرد شاہ کار کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ شاید اردو میں پہلا ’’ ساقی نامہ ‘‘ ہے جس میں اس روایت کی بنیاد ڈالی گئی ہے۔ اردو کے علاوہ خود فارسی میں بھی ظہوری وغیرہ کا ساقی نامہ‘ اپنی بہت محدود دنیا رکھتا ہے۔ لیکن اقبال کی عبقریت ِفکر کا کمال یہی ہے کہ وہ جس صنف سخن کو ہاتھ لگاتے ہیں‘ اسے بلند تر کر دیتے ہیں۔ اور لفظ و معنی کی دنیا میں اپنے جہانِ نو کی بنیاد رکھ دیتے ہیں۔ فارسی اور اردو میں میر حسنؔ اور نسیمؔ کی یا دوسر ی مثنویاں صرف بیانیہ حیثیت رکھتی ہیں اور واقعہ نگاری کے لیے مفید ہیں لیکن تفکر اور نازک خیالی کے لیے انھیں بیچ بیچ میں غزلیں لکھنا پڑ تی ہیں‘ اس کے برخلا ف اقبال ؔ نے مثنوی میں قصیدے اور غزل، دونوں کی روح بھی برقرار رکھی ہے اور مثنوی کو سیدھی اور سپاٹ ہونے سے بچا لیا ہے ۔ الفاظ کی روانی ‘ خیالات کی جولانی اور سیلانِ شعور(stream of consciousness)کی جو کیفیت ہے، وہ اقبال ؔ ہی کا حصہ ہے‘‘۔ ( نقوش اقبال: ص ۲۱۶- ۲۱۷) اس منفرد نظم پر پروفیسر اسلوب احمد انصاری کی راے بھی قابلِ توجّہ ہے۔اسلوب احمد انصاری لکھتے ہیں: ’’ اس پوری نظم میں اقبال کے مخصوص تصو ّرات یعنی خودی‘ عشق ‘ وقت اور ابدیّت کے حسیّاتی شعری تجسیم انتہائی مؤثر انداز میں پیش کی گئی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ آخر آخرمیں انداز بیان بہت زیادہ واضح اور قطعیت کا حامل نظر آتا ہے لیکن بہ حیثیت مجموعی زندگی کے حرکی تصو ّرکی عکاسی، روشن محاکات اور رواں دواں اور سبک بحروں کی وساطت سے حیرت انگیز بے ساختگی کے ساتھ کی گئی ہے۔‘‘( اقبال کی تیرہ نظمیں: ص ۱۸۵) …………… ابلیس کی مجلس شوریٰ ٭تعارف اور پس منظر: ابلیس کی مجلس شوریٰ ،آخری طویل نظم ہے جو علامّہ اقبال نے وفات سے دو بر س پہلے ۱۹۳۶ء میں لکھی۔ ۱۸۹۴ء سے‘ جب اقبال نے شعر گوئی کا آغاز کیا‘ان کے افکار و خیالات مسلسل ارتقا پذیر ہوتے رہے۔ زیر مطالعہ نظم میں افکار اقبال کی جلوہ گری کہیں زیادہ صائب‘ صمیم اور پختہ صورت میں نظر آتی ہے۔ ’’ ابلیس‘‘ یونانی لفظ diabolosسے بنا ہے۔ d کو حذف کر کے باقی حصے کو معرب کر لیا گیا ۔ معنی ہیں ’ دروغ گو‘ اور ’ فتنہ پرداز‘۔ ابلیس کے ایک لفظی معنی ’ انتہائی مایوس‘ کے بھی ہیں۔ ابلیس کے بارے میں عام طور پر غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ وہ خدا کے برگزیدہ فرشتوں میں سے تھا اور فرشتہ بھی عام یا معمولی نہیں بلکہ معلم الملکوت، مگرقرآنِ حکیم واضح طور پر اس کی تردید کرتا ہے۔ فرمایا:کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّہٖ ( سورۃ الکہف: ۵۰)وہ جنوں میں سے تھا اس لیے اپنے رب کے حکم کی اطاعت سے نکل گیا۔ فرشتے ،اللہ تعالیٰ کی نوری مخلوق ہیں مگر ابلیس ناری ہے۔ قرآن پاک میں ہے: خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ (سورہ اعراف: ۱۲)تو نے مجھے ( ابلیس کو ) آگ سے پیدا کیا۔ دوسرے جنات کی طرح ابلیس بھی آگ سے پیدا کیا گیا اور غالباً اسی وجہ سے تکبر و تفاخر اور سر کشی و طغیان ابلیس کی سرشت کابنیادی خاصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور عجز و اطاعت کے بجاے ابلیس نے انحراف و استکبار کا راستہ اختیار کیا ۔ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے میں، شایدآگ سے تخلیق پانے کے سبب، اس کی بنیادی سرشت ’’ سرکشی‘‘ مانع رہی: ئَ اَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًا ( سورہ بنی اسرائیل: ۶۱)کیا میں اس کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے بنایا ہے؟ اس ’’ کفر‘‘ (و کان من الکافرین)کے نتیجے میں وہ ’ شیطان رجیم‘ اور ’شیطان مردود‘ قرار پایا۔اس نے نوع انسانی کو بہکانے اور دل فریبیوں کے ذریعے گمراہ کرنے کی اجازت طلب کی۔ کہنے لگا : یا اللہ! اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں اس [بنی آدم]کی پوری نسل کی بیخ کنی کر ڈالوں۔بس تھوڑے ہی لوگ مجھ سے بچ سکیں گے۔( سورہ بنی اسرائیل:۶۲) اللہ تعالیٰ نے اسے اجازت دے دی۔ یہاں ایک اہم وضاحت ضروری ہے ۔ اور وہ یہ کہ قصّۂ آدم و ابلیس کے سلسلے میں دو غلط فہمیاں عام طور پر پائی جاتی ہیں: (۱) شیطان کے بہکاوے میںآ کر حو ّ ا ؑ نے آدم ؑکو بھی ممنوعہ پھل کھلادیا۔ اس غلط فہمی کی بنیاد بائبل کی ایک روایت پرہے،دنیامیں عورت کے اخلاقی ‘ قانونی اور معاشرتی مرتبے کو گرانے میں اس غلط بیانی کا بڑا حصہ ہے۔ قرآن پاک نے صراحت کے ساتھ اس کی تردیدکی ہے۔ سورۂ اعراف میں ہے کہ ابلیس نے بیک وقت آدم و حو ّا دونوں کو بہکایا۔ پھر سورہ طہٰ میں ہے کہ اس کی وسوسہ اندازی کا اصل رخ آدم کی طرف تھا۔ (۲)دوسری غلط فہمی یہ کہ ممنوعہ پھل کھا کر نافرمانی کا راستہ اختیار کرنے کی پاداش میں‘ آدمؑ کو جنت سے نکال کر دنیا میں بھیج دیا گیا۔ قرآن حکیم وضاحت کرتا ہے کہ جب آدم نے احساسِ ندامت کے سبب ،اللہ سے اپنی لغزش کی معافی طلب کی تو اللہ نے آدم کو معاف کر دیا اور یہ معاملہ یہاں ختم ہوا۔ اب اللہ نے آدم اور حو ّا دونوں کو جنت سے کوچ کر کے‘روے زمین پر جا بسنے کی ہدایت کی (تاکہ نسلِ آدم‘ زمین کو آباد کرے اور خلافت ِ ارضی کے ضمن میں اپنے فرائض انجام دینے کی سعی کرے۔) پس آدم و حو ّا کو بطورِ سزا زمین پر نہیں اتار ا گیا۔ یہ دنیا ان کے لیے دارالعذاب نہ تھی بلکہ آدم کو تو زمین کی خلافت ہی کے لیے پیدا کیا گیا تھا۔ زمین پر اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنا خلیفہ اور نبی بنا کر بھیجا۔( سورۃ البقرہ: ۳۷۔ ۳۸) ابلیس‘ اقبال کی شاعری میں ایک اہم کردار ہے۔ اقبال کی اردو اور فارسی شاعری میں بہت سی ایسی نظمیں ملتی ہیں جن کا براہِ راست موضو ع ابلیس ہے ۔ مستقل منظومات کے علاوہ متعدد مقامات پر ابلیس کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس سے ابلیس کی جو شخصیت یا حیثیت تشکیل پذیر ہوتی ہے‘ اس کا سب سے اہم پہلو وہی تکبر و سرکشی ہے۔ ( اگر چہ ابلیس اپنے اِستکبار کو مشیّتِ ایزدی قرار دیتا ہے)۔ ضرب کلیم کی نظم ’’ تقدیر ‘‘ میں ہے: حرفِ استکبار تیرے سامنے ممکن نہ تھا ہاں مگر تیری مشیّت میں نہ تھا میرا سجود ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ ۱۹۳۶ء میں لکھی گئی۔ یورپ کی استعماری طاقتوں نے پہلی جنگِ عظیم(۱۹۱۴ئ۔۱۹۸ئ) میں دنیا کو ہولناک تباہی و بربادی سے دو چارکیا تھا۔ اب وہی طاقتیں اپنی جوع الارض کی تسکین کے لیے ایک اور ہولناک جنگ کی تیاریوں میں مصروف تھیں۔ یورپ میں قوم پرستی کا جنون تاریخ کے بد ترین عفریت کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ جرمنی کا آمر مطلق ہٹلر اس گمراہ کن فلسفے کا علمبردار بنا ہوا تھا کہ جرمن دنیا کی بہترین نسل ہے اور غیر جرمنوں کو جرمنوں کا غلام بن کر رہنا چاہیے۔ ہٹلر کی اسلحہ ساز فیکٹریاں دن رات ہتھیاروں کی تیاری میں مصروف تھیں اورپورا ملک (جرمنی) ایک زبردست جنگی جنون میں مبتلا تھا۔ ہٹلر کے نازی ازم کے مقابلے میں اٹلی کا فاشسٹ آمر مسولینی بھی ،اطالویوں کو کم و بیش انھی خطوط پر لڑائی کے لیے تیاری کر رہا تھا۔ اس نے اگست ۱۹۳۵ء میں حبشہ پر حملہ کر دیا۔ (اقبال کی نظم ’’ابی سینا‘‘ اسی واقعے کی یادگار ہے۔) ادھر اشتراکیت کے اثرات روس سے باہر بھی پھیل چکے تھے اور دنیا میںجگہ جگہ اشتراکیت کے انقلابی اثرات ظاہر ہو رہے تھے۔ دنیا ایک خوفناک جنگ کے دہانے پر کھڑی تھی ( تین برس بعد ۱۹۳۹ء میں دوسری عالمی جنگ شروع ہو گئی۔) بیشتر مسلم ممالک پر استعماری طاقتوں کا قبضہ تھا۔ بعض ممالک بظاہر تو آزاد تھے مگر ذہنی اور تہذیبی طور پر وہ بھی مغرب کے مقابلے میں حد درجہ احساسِ کمتری اور شکست خوردگی کا شکار تھے۔ جمہوریہ ترکیہ کے صدر مصطفے ٰ کمال پاشا کے نزدیک تہذیب و ترقی کا تمام تر انحصار مذہب سے انحراف اور کوٹ پتلون اور ہیٹ کی ترویج میں مضمر تھا۔ اسلام کا انقلابی تصوّر‘ مسلم معاشرے کی نگاہوں سے اوجھل ہو چکا تھا۔ مسلمان عجمیّت و قومیّت کے لات و منات کے اسیر تھے۔ غلامانہ ذہنیت کی وجہ سے عبادات ( نماز ، روزہ، حج ، زکات اورجہاد وغیرہ)بھی ایک ظاہری گورکھ دھندا بن کر رہ گئی تھیں اور ان میں اسلامی روح کا فقدان تھا۔ فکری جائزہ مجلس شوریٰ کو دورِ جدید کی اصطلاح میں ’’ پارلیمنٹ‘‘ کانام دیا جاسکتا ہے۔ ’’ شوریٰ‘‘ کا تصو ّر قرآن حکیم سے ماخوذ ہے۔ فرمایا:وَ اَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ ( سورۃ الشورٰی: ۳۸)وہ اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں۔ دنیا کے مختلف نظاموں کی طر ح، ابلیسیّت کو بھی ایک مستقل نظام کی حیثیت حاصل ہے۔ اس نظام فکر کا سرچشمہ ابلیس کی ذات ہے۔ یہ نظام محض’’ فکر‘‘ تک محدود نہیں ‘ بلکہ دنیا کو اپنے فکر کے تابع رکھنے اور عملاً اپنے فکر کے فروغ و ترویج کے لیے ابلیس نے سیادت و حکمرانی کے اصول و قوانین وضع کر رکھے ہیں۔ اس کے ’’ مشیر‘‘ ابلیسی نظامِ حکومت کے صاحبِ راے ارکانِ حکومت میں شمار ہوتے ہیں۔ ابلیسی نظام حکومت کی پارلیمنٹ محض مشیروں پر مشتمل ہے۔ ابلیس اپنی حکمت عملی اور طریقۂ واردات (strategy) وضع کرنے کے لیے وقتافوقتاً اپنی پارلیمنٹ کا اجلا س منعقد کرتا اور اپنے مشیروں کو اپنی پالیسیوں کے مصالح سے آگاہ کرتا ہے تاکہ وہ پورے شرحِ صد ر اور دل جمعی کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرتے رہیں۔ زیر مطالعہ نظم در حقیقت ابلیسی پارلیمنٹ کے ایک اجلاس کی روداد پر مشتمل ہے جس میں ابلیسی نظام حکومت کو در پیش مسائل پر مباحثہ ہوتا ہے اور دنیا کی سیاسی و تہذیبی صورت حال‘ خاص طور پر مسلمان معاشرے کی موجودہ کیفیت زیر بحث آتی ہے اور اس کی روشنی میں ابلیس اپنے مشیروں کی مدد سے اپنے مستقبل کا لائحہ عمل متعیّن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ نظم کا تفصیلی مطالعہ ہم درج ذیل عنوات کے تحت کریں گے: ۱۔ ابلیس کے کارنامے( ابلیس کا افتتاحی خطاب) ۲۔ امت ِ مسلمہ کا نوحہ ( ابلیسی نظام کی کرامات) ۳۔ ابلیسی نظام کے لیے اصل خطرہ؟ (جمہوریت؟ اشتراکیت؟ یا اسلام؟) ۴۔ اسلامی نظام کی انفرادیت ۵۔ مستقبل کے لیے ابلیسی حکمت عملی ٭ابلیس کے کارنامے: ابلیسی پارلیمنٹ کا آغاز ابلیس کے افتتاحی خطاب سے ہوتا ہے۔ اس افتتاحی تقریر میں اس کا اِدّعائی لہجہ بہت نمایاں ہے۔ ’’ حرفِ استکبار‘‘ کی پاداش میں بارگاہِ خداوندی سے مردود قرار دیے جانے کے بعد‘ ابلیس کو دنیا میں ضلالت و گمراہی پھیلانے کی مہلت ملی تھی۔ اس موقع پر اس نے عہد کیا تھا: فَبِعِزَّتِکَ لَاَغْوِیَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ(سورہ ص ٓ: ۸۲)(اے رب) تیری عزت کی قسم میں ان سب لوگوں کو بہکا کر رہوں گا۔ وَ لَاُ ضِلَّنَّہُمْ وَ لَاُمَنِّیَنَّہُمْ وَ لَاٰمُرَنَّہُمْ فَلَیُبَتِّکُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَ لَاٰمُرَنَّہُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِ( سورۃ النسائ: ۱۱۹) میں انھیں بہکاؤں گا ۔ میں انھیں آرزؤں میں الجھاؤںگا۔ میں انھیں حکم دوں گا اور وہ میرے حکم سے جانوروں کے کان پھاڑیں گے اورمیں انھیں حکم دوں گااور وہ میرے حکم سے خدائی ساخت میں ردّو بدل کریں گے۔ افتتاحی خطاب کو ابلیس کے متذکرہ بالا عزم صمیم کے پس منظر میں دیکھیے تواندازہ ہو گا کہ اس کا اِدّعائی لہجہ ‘ کامل خود اعتمادی اور کامیابی و سرفرازی سے چھلک رہا ہے۔ ابلیس کے ’’میں ‘‘ کا آہنگ دو وجوہ سے بلند ہے: اول: اللہ تعالیٰ نے آدم کو زمین پر اپنا خلیفہ اور نائب بنا کر بھیجا تھا مگر آدم نیابتِ الہٰی کے فریضے سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ نہیں ہو سکا۔ دنیا میں ہر طرف فتنہ و فساد برپا ہے اور ظلم و ستم کی گرم بازاری ہے۔ چنانچہ خود’’ کارساز‘‘ ( اللہ تعالیٰ) کائنات کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ یہاں ابلیس طنزیہ انداز میں اللہ تعالیٰ( جسے وہ اپنا مدّ ِمقابل سمجھتا ہے) کی بالواسطہ شکست کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ دوم : منظقی طور پر ابلیس اسے اپنی کامرانی سمجھتا ہے اور اس کے ثبوت میں وہ اپنے متعدد ’’ کارنامے ‘‘ گنواتا ہے‘ مثلاً: الف: یورپی استعمار کا فروغ: یہ وہ دور تھا جب ایشیا ‘ افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ بالواسطہ یا بلا واسطہ فرنگی استعمار کے نو آبادیاتی پنجوں میں جکڑا ہوا تھا۔ ب: مذہب کی بالادستی کا خاتمہ: مشرق و مغرب میں فرد اور معاشرے پر مذہب کی مضبوط گرفت ختم ہو گئی تھی۔ یورپ میں مارٹن لوتھر کی تحریک اصلاح مذہب (Reformation) نے مسیحی کلیسا کی روایتی بالادستی پر کاری ضرب لگائی: کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو ادھر مسلم دنیا میں قوم پرستی اور دین و دنیا کی علاحدگی کے تصو ّرات کی وجہ سے’’ ایک مکمل ضابطۂ حیات‘‘ کے بجاے اسلام ‘ ذاتی زندگی میں ایک ’’ مذہب ‘‘ تک محدود ہو کر رہ گیا ۔ ج : تقدیر پرستی کی افیون: ابلیس نے مجبور و مظلوم لوگوں کو تقدیر پرستی کا سبق دے کر، انھیں اپنی حالت ِ زار پر قانع رہنے کا سبق دیا ہے: خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر پھر سلادیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری کرشمۂ ساحری انجام دینے میں، ابلیس استعماری حکمرانوں کے ایجنٹ کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ د: سرمایہ داری کا تسلّط: دنیا پر سرمایہ داری کا ظالمانہ نظام مسلّط کرنے میں بھی ابلیس کا ہاتھ ہے ۔ وہ سرمایہ داروںکو عوام کا خون چوسنے اور مزدوروں کے استحصال کے ذریعے زراندوزی کے نت نئے طریقے سکھاتا ہے۔ اس طرح سرمایہ دار آکاس بیل کی طرح دنیا کی معیشت پر مسلط ہے۔ افتتاحی تقریر کے آخری دو شعروں میں، ابلیس کے اِدّعائی لہجے میں مزید تیقن و تفاخر پیدا ہو جاتا ہے۔ یہاں ابلیس چیلنج دے رہا ہے کہ ابلیسی نظام کے’’ نخلِ کہن ‘‘ کو دنیا کی کوئی طاقت بھی سرنگوں نہیں کر سکتی کیونکہ اس کی شاخیں ( سرمایہ داری‘ یورپی استعماریت‘ تقدیر پرستی ‘ مذہب کا خاتمہ) ہماری کوششوں کی وجہ سے سربلند و سرفراز ہیں۔ اپنے مشیروں اور پیروکاروں کے سامنے ابلیسیّت کو ایک غالب و قاہر نظام کی حیثیت سے پیش کرتے ہوئے‘ ابلیس انھیں خود اعتمادی کا درس دے رہا ہے ۔درس یہ ہے کہ میری بھڑکائی ہوئی آتشِ سوزاں (ملوکیت‘ اشتراکیت‘ استعماریت‘ تقدیر پرستی‘ سرمایہ داری ‘ فتنہ و فساد‘ ظلم و استحصال‘ جنگوں کی ہلاکت خیزیوں وغیرہ) کے مقابلے میں دنیا کے مصلحین اور مذہب پرستوں کی کوششیں بے کار ہیں ۔ لہٰذا‘ اے میرے مشیرو! تم پورے اطمینان کے ساتھ مصروفِ عمل رہو‘ مستقبل تمھاراہے۔ ٭امت ِ مسلمہ کا نوحہ: اب پہلا مشیر تقریر کے لیے کھڑا ہوتا ہے۔ وہ ابلیس کے ’’ افکارِ عالیہ‘‘ کی صد فی صد تائید کرتے ہوئے ،پیرو مرشد کے کارناموں کو مزید تفصیل و توضیح کے ساتھ اور زیادہ بلند آہنگی سے پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرتا ہے۔ یوں تو ابلیس کے کارناموں کا دائرہ بہت وسیع ہے مگر پہلا مشیر بطورِ خاص، امت ِ مسلمہ کو گمراہی کے راستے پر ڈالنے کے ضمن میں ابلیس کی ’’کرامات ‘‘ کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔( اسے ہم پہلے مشیر اور بحیثیت مجموعی ابلیسی ذہنیت کی نفسیاتی کمزور ی بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ ابلیسیّت کی کامیابی میں سب سے زیادہ مزاحمت اسلام ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔) پہلے مشیر کی زبانی علامّہ اقبال نے مسلمانوں کی ذہنیت پر شدید تنقید کی ہے۔ تنقید کا انداز وہی ہے جو اس سے پہلے متعدد طویل نظموں خصوصاً ’شکوہ‘ ،’ جوابِ شکوہ‘ میں موجود ہے۔ یہاں حضرتِ علامّہ نے مسلمانوں کو زوال و انحطاط کے چند بنیادی اسباب و علل کی طرف متوجّہ کیا ہے۔ ا: غلامانہ ذہنیت: صدیوں کی سیاسی غلامی نے مسلمانوں کی آزاد فطرت کو مسخ کرکے انھیں فرنگیوں کا ذہنی غلام بنا دیا ہے۔ تمدن و معاشرت ‘ تعلیم و اقتصاد اور زبان و آداب میں انھوں نے فرنگیوں کی اطاعت کا قلاوہ خود اپنی گردن میں ڈال رکھا ہے۔ ’’خوے غلامی‘‘ نے ان کی حریت ِ فکر چھین لی ہے۔ ب: روحِ عبادات کا خاتمہ: مسلم معاشرے میں مذہب کے ظاہری ارکان ( نماز‘ روزہ‘ حج وغیرہ) کی پابندی کا اہتمام تو کچھ نہ کچھ موجود ہے مگر عبادات کی روح ختم ہوچکی ہے: تیرا امام بے حضور‘ تیری نماز بے سرور اذان تک ایک رسم بن کر رہ گئی ہے: رہ گئی رسم اذاں، روحِ بلالی نہ رہی دنیا کے لاکھوں مسلمان ہر سال حج بیت اللہ ادا کرتے ہیں مگر، الّا ما شاء اللہ بہت کم حاجیوں کی ذہنیت میں کوئی تبدیلی ہوتی ہے اور ان کے کردار میں کوئی انقلاب برپا ہوتا ہے۔ مسلم عوام کو اس افسوس ناک حالت سے قطعِ نظر، ان کے مذہبی رہنماؤں( صوفی و ملا) کی حالت اور بھی پست ہے۔ ’’ انبیا کے وارث‘‘ ہونے کے ناتے سے عوام کے اندر دین کی حقیقی روح خصوصاً اسلام کی انقلابی سپرٹ تازہ کرنا اور اس کے فروغ کے لیے کوشاں رہنا ان کی بنیادی ذمّے داری تھی مگر یہ خود دامِ ملوکیت کے اسیر ہو چکے ہیں۔ آخری دو شعروں میں : ’’کند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغ بے نیام‘‘ اور: ’’ہے جہاد اس دور میں مردِ مسلماں پرحرام‘‘ کا اشارہ سرسید مرحوم اور مولوی چراغ علی وغیرہ کے تصو ّرِ تنسیخِ جہادکی طرف ہے۔ اس تصو ّر نے مرزا غلام احمد قادیانی کے ہاں( قادیانی تحریک کے ایک بنیادی اصول کے طور پر ) نسبتاً واضح اور پختہ نظریے کی شکل اختیار کی۔ سرسید مرحوم اپنی قوم کے بے حد مخلص راہ نماتھے۔ انھوں نے حالات کے تقاضوں کے مطابق اور انگریزوں سے مفاہمت کی خاطر مناسب سمجھا کہ جہاد کو منسوخ قرار دیا جائے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ جہاد کے بغیر اسلام ایک انقلابی نظریے کے بجاے رہبانیت بن کر رہ جاتا ہے جسے اقبال نے ’’ روباہی‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ ج: تصو ّف کے منفی اثرات: اسلام کی انقلابی سپرٹ کو عجمی تصو ّف اور علم کلام کی موشگافیوں سے بھی خاصا نقصان پہنچاٖ ۔ علامّہ اقبال نے عجمی تصو ّف (رائج الوقت تصو ّف)کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت میں بہت کچھ کہا ہے۔ یہاں وہ اسے ’’افیون‘‘ قرار دیتے ہیں ۔ ’’ علم کلام‘‘ کاتعلق چونکہ زندگی کے غیر عملی ‘ خیالی اور تخیّلاتی مسائل سے ہے‘ اس لیے اقبال کے نزدیک یہ بھی ’’ قوالی ‘‘ کی طرح ایک قسم کا نشہ ہے۔ ’’قوالی‘‘ یہاں علامت ہے ‘ بے عملی‘ کاہلی اور تحریک کے بالمقابل جمودو سکون کی۔ آخری شعر میں ابلیس کے پہلے مشیر کا طنزیہ لہجہ توجّہ چاہتا ہے۔ وہ باور کرانا چاہتا ہے کہ تصو ّر جہاد کی تنسیخ سے‘ اسلام ابلیسیّت کے مقابلے میں اپنی پسپائی و شکست کا اعتراف کررہاہے۔ یوں ابلیس کے افتتاحی خطاب کی طرح پہلے مشیر کی تقریر بھی دنیا میں ابلیسیّت کی سر بلندی اور غلبے کا اعلان ہے۔ ٭ابلیسی نظام کے لیے حقیقی خطرہ؟ یہ بات تو ابلیس اور اس کی پارلیمنٹ کے لیے وجہ اطمینان ہے کہ مسلمانوں میں روح حریت و جہاد ختم ہو چکی ہے اور وہ مو جودہ عالمی سیاست پر اثرا نداز ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے، تاہم دوسرا مشیر پہلے مشیر کو سیاسیاتِ حاضرہ کے ایک تازہ فتنے (جمہوریت) کی طرف متوجّہ کرتا ہے کہ ابلیسی نظام کے مستقبل کے لیے ’ جمہوریت‘ تو ’’شر‘‘ ثابت نہ ہوگی؟ دوسرے مشیر کا استفسار ایک طرح سے’’ نکتۂ وضاحت‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ا: جمہوریت: جواباُ پہلا مشیر جمہوریت کی ماہیت پر روشنی ڈالتا ہے۔ جمہوریت کے بارے میں علامّہ اقبال کے نظریات بہت واضح ہیں۔ وہ جمہوریت کے بعض اچھے پہلوؤں کے معترف ہیں مگر مجموعی طور پر وہ اس کو ’’ ملوکیت کا ایک پردہ‘‘ سمجھتے ہیں۔ ’’ خضر راہ ‘‘ میں وہ جمہوریت کہ ایک ’’ دیو استبداد‘‘ قرار دے کر کہہ چکے ہیں: ہے وہی سازِ کہن‘ مغرب کا جمہوری نظام جس کے پردوں میں نہیں غیر از نواے قیصری یہاں وہ پہلے مشیر کی زبان سے کہلواتے ہیں کہ جمہوریت بھی ملوکیت ہی کا ایک روپ ہے۔ چونکہ عوام کسی قدر خود شناس ہو چکے ہیں اور بادشاہت کو ناپسند کر نے لگے ہیں ‘اس لیے ہم (ابلیسی سیاست) نے ملوکیت کو جمہوری لباس پہنا دیا ہے۔’’ کاروبار شہریاری ‘‘ ہی نے مغرب میں ’’ جمہوری نظام‘‘ کی شکل اختیار کر لی ہے‘ مگر اس کی روحِ باطنی، چنگیزیت سے لبریز ہے۔ یعنی: قتل و غارت‘ نو آبادیاتی تسلط اور کمزور قوموں کا معاشی استحصال۔ یہ امر قابلِ غور ہے کہ مغرب کے سرمایہ دارانہ ممالک کے علاوہ دنیا کے سوشلسٹ ممالک بھی خود کو ’’جمہوری‘‘ کہتے ہیں۔ ’’ یونائیٹڈ سوویٹ سوشلسٹ ری پبلک‘‘ (U.S.S.R.)ان کا سب سے بڑا علمبردار تھا۔ یہ ممالک جس نوع کی ’’ ری پبلک ‘‘ ہیں‘ وہ محتاج وضاحت نہیں۔ اسی لیے علامّہ اقبال نے ان سارے نام نہاد ’جمہوری‘ نظام ہاے حکومت کو ’چنگیزیت‘ قرار دیا ہے۔ جمہوریت کے بارے میں ان کایہ شعر ایک قولِ فیصل کی حیثیت رکھتا ہے : تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام چہرہ روشن ‘ اندروں چنگیز سے تاریک تر [جمہوریت کے سلسلے میں نظم ’’خضر راہ‘‘ کی ضمنی بحث،یہ عنوان: ’’جمہوریت‘‘ بھی دیکھیے۔] ب: اشتراکیت: اس موقع پر تیسرا مشیر کھڑا ہوتا ہے۔ وہ بھی اس خیال کا مؤید ہے کہ ایسا جمہوری نظام ( جس میں روح ملوکیت کارفرما ہو) ہمارے لیے کسی خطرے کا باعث نہیں ہو سکتا،تاہم و ہ پارلیمنٹ کی توجّہ اشتراکیت کی اس تحریک کی طرف مبذول کراتا ہے جومارکس کی سریع الاثر اور مقبولِ عام تعلیمات کی وجہ سے نہایت تیزی کے ساتھ دنیامیں پھیل رہی ہے۔ اس شعر سے : وہ کلیمِ بے تجلّی ‘ وہ مسیحِ بے صلیب نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ کارل مارکس ( ۱۸۱۸ئ- ۱۸۸۳ئ) کو اس کے پیروکاروں کے نزدیک ویسا ہی بلند مقام حاصل ہے جو یہودیوں کے نزدیک حضرت موسیٰ ؑ یا عیسائیوں کے نزدیک حضرت عیسیٰ ؑ کا ہو سکتا ہے۔ مزید برآں اس کی کتاب ’’ سرمایہ ‘‘ (Das Capital) اشتراکیوں کے لیے ’’ توریت‘‘ یا انجیل کی طرح مقدس ہے۔ ’’ یہودی کی شرارت کا جواب‘‘ او ر’’ طبیعت کا فساد ‘‘ کی تراکیب سے علامّہ اقبال نے اشتراکیت کے منفی رول کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یہودیوں کی فتنہ انگیزیوں اور ان کے سازشی ذہن کونگاہ میں رکھیے تو یہاں لفظ ’’ یہودی‘‘ معنی خیز ہے۔ تیسرے مشیر کی گفتگو ایک طرح کا سوال ہے کہ عالمی افق پراشتراکی قو ّت ‘ ابلیسی نظام کے لیے باعث خطرہ تو نہ بن جائے گی؟ چوتھے مشیر کے خیال میں مسولینی کی فسطائی تحریک‘ اشتراکیت کاتوڑ ثابت ہو سکتی ہے۔ (فاشزم ‘ قدیم قیصریت کے احیا کی تحریک تھی جس کا مقصد روم کی قدیم سلطنت کا دوبارہ قیام تھا۔ اٹلی کا حکمران مسولینی فاشزم کا راہ نما تھا۔) مگر تیسرا مشیرا س جواب سے مطمئن نہیں ہے کیونکہ فاشزم کی عاقبت نا اندیشی کے سبب افرنگی سیاست کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہوگیا ہے۔ یہ اشارہ ہے حبشہ پر مسولینی کے حملے ( اگست ۱۹۳۵ئ) کی طرف۔ اس جارحانہ اقدام سے مسولینی خاصا بدنام ہوا۔ دیگر یورپی استعمار پرستوں نے اطالوی جارحیت کی مذمت کی مگر مسولینی نے یہ کہہ کر کہ : میرے سوداے ملوکیت کو ٹھکراتے ہو تم تم نے کیا توڑے نہیں کمزور قوموں کے زجاج پردۂ تہذیب میں غارت گری‘ آدم کشی کل روا رکھی تھی تم نے ‘ میں روا رکھتا ہوں آج انھیں آئینہ دکھایا اور ان کا منہ بند کر دیا۔ پانچواں مشیر تقریر کے لیے کھڑا ہوتا ہے۔وہ اپنے پیر و مرشد کو اس کی غیرمعمولی صلاحیتوں پر زبردست خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔ اس کے نزدیک ابلیس‘ انسان‘ فرشتوں اور اللہ تعالیٰ تینوںکے مقابلے میں برتر و افضل ہے کیونکہ: ۱:آدم کو ابلیس ہی نے حکمت و دانائی کی تعلیم دی۔’ ابلہِ جنت‘ اور’ سادہ دل بندوں‘ کی تراکیب سے ابلیس کے مقابلے میں انسان کی حقارت ظاہر کرنا مقصود ہے۔ ۲۔ فرشتے تو بلا چون و چرا آدم کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے مگر ابلیس کی ’ غیرت‘ نے اس’ ذلت‘کو گوارا نہیں کیا ۔ فرشتے آج تک ابلیس کے فعل پر شرمسار ہیں۔ ۳۔ انسانی سرشت کیا ہے؟ اس کی طبعی کمزوریا ں کیا ہیں؟ اس سے ابلیس بھی اتناہی واقف ہے جتنا کہ خود پروردگارعالم۔ اسی لیے وہ انسان کی طبعی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اکثر و بیشتر اسے گمراہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ۴۔پھر یہ بھی ابلیس کا ’ کارنامہ ‘ ہے کہ یورپ کے تمام سیاست دان ( افرنگ کے ساحر) اس کے پیرو کار ہیں۔ تاہم پانچویں مشیر کے خیال میں ان کی سیاسی بصیرت لائقِ اعتنا نہیں کیونکہ سرمایہ داروں‘ جاگیرداروں اور بادشاہوں نے تاحال اشتراکی خطرے کی فتنہ انگیزی اور ہلاکت خیزی کا اندازہ نہیں لگایا‘ یعنی کارل مارکس کے افکار کو یورپی حکومتوں اور سیاست دانوں نے کوئی اہمیت نہیں دی ۔ بظاہر اس کی عسرت بھری زندگی ناکامی پر منتج ہوئی اور کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ یہ ’’ مشت ِ غبار‘‘ ۱۹۱۷ء میں روسی افق پر ایک عظیم انقلاب بن کر نمودار ہوگا۔ اور پھر انقلاب کی یہ لہر دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے دوسرے ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ ( ۱۹۳۶ء تک دنیا کے متعدد ممالک میں کمیونسٹ تحریک کو خاصا فروغ ملا تھا۔ اور اسی کے زیر اثر عین انھی دنوں ہندستان میں ادب کی ترقی پسند تحریک کی بنیادرکھی گئی۔) اپنی غیر معمولی بصیرت کی بنا پر علامّہ اقبال کے لیے جاگیردارانہ جبریّت اور سرمایہ دارانہ مظالم کے شدیدردّ ِ عمل کا اندازہ مشکل نہ تھا ۔ ( دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ و ایشیا اور بعد ازاں افریقہ میں وسیع پیمانے پر اشتراکی اثرات کا فروغ اس پرشاہد ہے۔)اسی حقیقت کے پیش نظر انھوں نے کمیونزم کے لیے ’’ فتنۂ فردا‘‘ ( اور مارکس کے لیے ’’ فتنہ گر‘‘) کی تراکیب استعمال کی ہیں۔ ’’ روحِ مزدک کا بروز‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ مارکس کی شخصیت مزدک ہی کی خصوصیات و صفات کے ساتھ اس کی ایک علامت (symbol) ہے۔(خیال ہے کہ مزدک قدیم ایران کا باشندہ اورعلامّہ اقبال کے الفاظ میں ’’اشتراکیت کا پہلا پیغمبر‘‘ تھا۔ اس کی تعلیم یہ تھی کہ تمام انسان مساوی ہیں اور تمام چیزیں اجتماعی ملکیت میں ہونی چاہییں۔ نوشیروانِ عادل نے اسے قتل کر کے اس کے پیروکاروں کا قلع قمع کر دیا تھا) چنانچہ زیر مطالعہ نظم میں جہاں جہاں اشتراکی لیڈروں اور اشتراکیت کا ذکر آیا ہے، اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ اشتراکیت کی’ فتنہ گری‘ ایک ’ یہودی‘ کی ’ شرارت‘ ہے جس کا مقصد ہر قبا کو تارتار کرکے روے زمین پر ’فساد‘ برپا کرنا ہے۔ اقبال کے ہاں اشتراکیت کے منفی رول(لا)کی تائیدمیں ایک اعتبارسے تحسینی انداز بھی ملتا ہے مگر بحیثیت مجموعی وہ مثبت اور تعمیری اندازِ فکر (الّا) سے مبرا ہے اس لیے حضرت علامّہ اشتراکیت کو بھی دورِ حاضر کے دوسرے فتنوں ( جمہوریت ‘سرمایہ داری ‘ فسطائیت)کی طرح ناقابلِ قبول قرار دیتے ہیں۔ آگے چل کر اقبال نے اشتراکیوں کا ذکر ( بزبانِ ابلیس) اس طرح کیاہے: کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد یہ پریشاں روزگار‘ آشفتہ مغز‘ آشفتہ ہو یہاں اقبال کا لہجہ حقارت آمیز ہے۔ اس شوسے اشتراکیت کی بے وقعتی ظاہر ہوتی ہے۔ یہاں علامّہ اقبال کی دور اندیشی بصیرت اور مستقبل شناسی کا اعتراف کر نا چاہیے کہ عالم انسانیت کے لیے اشتراکیت،مستقبل کا خطرہ نہیں تھی۔ ۷۲‘۷۳ سال ہی گزرے تھے کہ اشتراکی روس کی استعماری امپائر ختم ہو گئی۔ ابلیسی مشیروں کو رہ رہ کر اشتراکی خطرے کا احساس ہوتا ہے ۔ بہرحال وہ ابلیس جیسی بصیرت کے مالک نہیں، اس لیے مضطرب ہیں کہ ابلیسی نظام کو اشتراکیت سے زبردست خطرہ لاحق ہے ۔ اس کا شدید احساس پانچویں مشیر کی تقریر کے آخری حصے سے ہوتا ہے: میرے آقا ‘ وہ جہاں زیر و زبر ہونے کو ہے جس جہاں کا ہے فقط تیری سیادت پر مدار اس سے یہ اندازہ بھی ہوتاہے کہ مشیران ابلیس کے لیے ہر مشکل وقت میں اپنے پیر و مرشد سے رجوع کرنے کے سوا چارہ نہیں۔ متذکرہ بالا شعر، پانچویں مشیر کی طرف سے ابلیس کے حضور ایک اہم سوال ہے۔ اس موقع پر ابلیس ایک بار پھر پارلیمنٹ کے اسٹیج پر نمودار ہو کر تقریر کا آغاز کرتا ہے ۔ اس تقریر میں وہ مشیروں کے سوالات اور ان کے ذہنی خدشات کا جواب دیتا ہے۔ وہ انھیں بتاتا ہے کہ ابلیسی نظام کے لیے حقیقی خطرہ کیا ہے اور اس خطرے سے نبرد آزما ہونے کے لیے مستقبل میں ابلیسی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے؟ کسی تحریک کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے کارکن اپنے لیڈر کی قائدانہ صلاحیتوں پر عین الیقین کی حد تک ایمان رکھتے ہوں‘ ورنہ وہ شرح صدر کے ساتھ کام نہیں کرسکتے۔ ابلیس اپنی ساحرانہ شخصیت کا نقش اپنے مشیروں کے ذہنوں میں راسخ کرنے کے لیے سب سے پہلے اپنے ’’ دست ِتصر ّف‘‘ اور ’’ ایک ہو‘‘ کا ذکر کرتا ہے۔یہاں ابلیس خود کو ایک ایسی غیر معمولی شخصیت کے روپ میں پیش کرتا ہے جسے اپنی صلاحیتوں پر اعتماد ہی نہیں ‘ ناز بھی ہے۔ کرہ ٔ ارض اس کے لیے جادو کی چھڑی پر گھومنے والی گیند کی مانند ہے۔ وہ اہل مذہب اور اہل سیاست کو بیک وقت اپنی انگلیوں پر نچاسکتا ہے۔ فکر ابلیس کی پروردہ تہذیب ِ مغرب ‘ عصر حاضر کی ایک زبردست قو ّت ہے ۔ اگر کوئی اس تہذیب کو ختم کرنے کے درپے ہے تو ابلیس کا چیلنج ہے کہ وہ اس غلط فہمی کو اپنے ذہن سے نکال دے۔ اس طرح اپنے مشیروں کو نفسیاتی طور پر مرعوب کرنے کے بعد ‘ ابلیس تیسرے اور پانچویں مشیر کے اس خدشے کو نہایت تیقّن و اعتماد کے ساتھ اور بڑے دوٹوک انداز میں رد کردیتا ہے کہ اشتراکیت، ابلیسیّت کے لیے باعثِ فتنہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ افراد کے اندر ان کی وہبی صلاحیتوں کی بنا پر، ان کے ماحول کے نتیجے میں اور ان کے اکتسابات کے لحاظ سے ،جو فرق اور امتیازپایا جاتا ہے ( بہادر اوربزدل‘ ذہین اور غبی‘ طاقتور اور کمزور‘ امیر اور غریب وغیرہ) یہ فطرت کی طرف سے ایک گہری اور منظم منصوبہ بندی کے تحت ہے۔ ان مسائل کو اشتراکیت ( مزدکی منطق) کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا ۱؎ ۔ بالفاظ دیگر مدارج و امتیازات نظام فطرت کا منطقی نتیجہ ہیں۔ ان اختلافات اوردرجہ بندی کو ختم کرکے’’ مساواتِ کامل ‘‘قائم کرنا خام خیالی ہے۔اشتراکیت کی مساوات کے برعکس اسلام ’’عدل ‘‘ کا قائل ہے۔یعنی مختلف صلاحیتوں کے حامل افراد کو برابر سمجھ کر انھیں مساوی حقوق دینے کے بجاے، ان کی صلاحیتوں کے مطابق عادلانہ طریقے سے ان کی ضروریات کی تکمیل کی جائے۔ ابلیسی مشیروں کے دل میں اشتراکیت کا خوف جڑ پکڑ چکا ہے‘ اسے ان کے دلوںسے نکال دینے بلکہ بالکل ہی کھرچ دینے کے لیے ابلیس: کب ڈراسکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد یہ پریشاں روزگار‘ آشفتہ مغز‘ آشفتہ ہو ۲؎ کہہ کر یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ میرے نزدیک ان کی حیثیت پرکاہ کے برابر بھی نہیں ہے۔ اس شعر میں اشتراکیوں کے بارے میں ابلیس کا لہجہ خاصا تحقیر آمیز ہے۔ مشیروں کے لیے ’کوچہ گرد‘، ’پریشاں روزگار‘ اور ’آشفتہ مغز‘ کی تراکیب توجّہ طلب ہیں۔ ابلیس کے ہاں اشتراکی تحریک کی تمام تر انقلابی قو ّت کا جواب فقط ایک خندۂ استہزا ہے۔ مشیروں کو اشتراکیت کی طرف سے اطمینان دلانے کے بعد‘ ابلیس اصل خطرے کی نشان دہی کرتا ہے‘ اور وہ خطرہ ہے، اسلام‘ جو ابلیسیّت کا حقیقی مد مقابل بن سکتا ہے۔ پہلے مشیر نے وضاحت کی تھی کہ امت ِ مسلمہ کو صدیوں کی غلامی نے عضو ِ معطل بنا کر رکھ دیا ہے تو اب سوال یہ ہے کہ غلامانہ ذہنیت‘ جامد خیالات اور بے روح عبادات کی حامل قوم دنیا کے مستقبل پر کیوںکر اثرانداز ہوگی؟ ابلیس وضاحت کرتا ہے کہ مسلمان قرآنی تعلیمات سے انحراف کرتے ہوئے سرمایہ پرستی کو اپنادین قرار دے چکے ہیں اور ان کے مذہبی راہ نما اسلام کی روحانی قو ّت سے تہی دامن ہو چکے ہیں۔ تاہم تمام تر غلط اندیشیوں اور کج رویوں کے باوجود‘ ان کے اندر ایمان کی چنگاری موجود ہے: جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو فاطمہ بنت عبداللہ کے بارے میں اقبال نے کہا ہے: ’’ایسی چنگاری بھی یار ب ‘ اپنی خاکستر میں تھی‘‘گویا حضرت علامّہ امت ِ مسلمہ کے مستقبل سے مایوس نہ تھے: ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی اور تاریخ شاہد ہے کہ یہ ’’ شرار‘‘ وقتاً فوقتاً بھڑک اٹھتا ہے۔ تحریک پاکستان میں ’’ پاکستان کا مطلب کیا:’’ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ‘‘ مسلمانانِ ہند کا نعرہ بناتھا۔ ۱۹۶۵ء میں بھارت کے ساتھ جنگ میں ایمان ہی کی چنگاری نے پاکستانی افواج اور عوام کے دلوں میں ایک جوشِ جہاداور جذبۂ شجاعت کا الائو روشن کیا تھا۔ ۱۹۷۷ء میں اسی ’’ شرار ‘‘ نے تحریک نظام مصطفی کی شکل اختیار کی۔دوسری طرف عصر حاضر ایک ایسے نظام حیات کا متلاشی ہے جو اس کے جملہ پیچیدہ مسائل کو حل کر سکے اور یہ حل اسے صرف( شرع پیغمبر اسلامؐ) میں نظر آتا ہے ۔ گویا ان دو وجوہ سے: اول: مسلمانوں کے ہاں ایمان کی دبی ہوئی چنگاری موجود ہے جو بوقت ضرورت شعلۂ جوالہ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ دوم: دورِ حاضر تمام مادّی نظریات سے بیزار ہو کر‘ اسلام جیسے روحانی نظام کا متقاضی ہے۔) ابلیس کو مستقبل میں اسلامی غلبے کا زبردست خدشہ ہے۔ چنانچہ وہ مشیروں کو خبردار کرتا ہے کہ اسلام ایسے جامع نظریۂ حیات سے ہوشیار رہو کیونکہ اس کی سادہ تعلیمات میں بعض ایسی خوبیاں موجود ہیں جو اس کی مقبولیت کا سبب بن سکتی ہیں۔ ابلیس کی نظر میں اسلام کی انفرادیت اس میں ہے کہ : ۱۔ اسلام انسانیت کے نصف بہتر‘ عورت کی عصمت و ناموس کا محافظ ہے۔ ۲۔ شریعت محمدیہؐ انسانوں کو جرأت و شجاعت اور جواں مردی کا سبق دیتی ہے۔ ۳۔ اسلام ‘ غلامی کی لعنت کو ختم کر تا ہے۔ اس میں نہ تو تمیز بندہ و آقا کی گنجایش ہے اور نہ شہنشاہیت و ملوکیت کی : نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز ۴۔ معاشی مسائل کا خاطر خواہ حل اسلام کے پاس ہے۔ اس نے زر پرستی کو ختم کرکے دولت کے حصول اور انفاق کی حدو د متعیّن کر دی ہیں۔ زکات فرض کر دی اور صدقات پر اکسایا ہے تاکہ دولت گردش میں رہے: کس نہ گردد در جہاں‘ محتاج کس نکتۂ شرع مبیں این است و بس یعنی شریعت محمدیہؐ کی غرض و غایت یہ ہے کہ دنیا میں کوئی شخص کسی دوسرے کا محتاج نہ رہے۔ ۵۔ اسلام ’’بادشاہوں کے آسمانی حقوق‘‘ (divine rights of kings)کے نظریے پر کاری ضرب لگا کر اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ کا نظریہ پیش کرتا ہے جس کی رو سے کائنات کی ہر شے کا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ کائنات میں حاکمیت بھی اسی کی ہے اور ہر شے ملکیت بھی اسی کی ہے: سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے حکمراں ہے اک وہی‘ باقی بتانِ آزری ابلیس ،اور اس کے مشیروں کے لیے، ایسی پاکیزہ اور سادہ تعلیمات کا مقابلہ کرنا آسان نہیں۔ یہ غنیمت ہے ،اور ابلیس کے لیے یہ امر باعث اطمینان ہے ،کہ مومن ‘ اسلام کی روحانی قو ّت کی افادیت و اہمیت سے ناواقف اور غافل( محرومِ یقین) ہے۔ تاہم اس متوقع خطرے سے غفلت برتنا حماقت ہوگی۔ لہٰذا ابلیس اپنی حکمت عملی وضع کرتا ہے۔ ٭ابلیس کی حکمت ِ عملی: ابلیس مشیروں کو تلقین کرتا ہے کہ مسلمان غفلت و مدہوشی کی جس حالت میں گرفتار ہے بدستور اس میں مست رہے تو بہتر ہے۔ ایمانیات کے بجاے ’فروعات ‘اور ’محکمات ‘کے بجاے ’متشابہات‘ ہی میں الجھارہے ۔قرآنِ حکیم میں آتا ہے کہ آیاتِ الٰہی دو طرح کی ہیں ۔ ایک ’محکمات‘ جن کی زبان صاف ہے اورجو قرآن پاک کی اصل بنیاد ہیں اور دوسری’متشابہات‘ جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑ ھ ہے، وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ ’ متشابہات‘ ہی کے پیچھے پڑ ے رہتے ہیں(سورہ آل عمران: ۶) چنانچہ ابلیس مشیروں کے سامنے مندرجہ ذیل، متشابہات قسم کے، مسائل کی نشان دہی کرتا ہے جن میں امت ِ مسلمہ کو بآسانی الجھایا جا سکتا ہے: ۱۔ حیاتِ مسیح کا مسئلہ( آسمانوں پر حضرت عیسیٰ ؑ زندہ ہیں یا نہیں ؟ زندہ ہیں تو ان کی زندگی کی کیفیت کیا ہے؟) ۲۔ نزولِ مسیح کا مسئلہ (عیسٰی ؑ ابن مریم ہی نزول فرمائیں گے یا دنیا میں کوئی اور ایسا شخص پیدا ہو گا جس کے اندر ابن مریم کی صفات موجود ہوں گی؟) ۳۔ اللہ کی ذات و صفات کا باہمی تعلق کیا ہے؟ ۴۔ قرآن پاک کے الفاظ حادث ہیں یاقدیم؟ ۳؎ [اسے خلق ِ قرآن کا مسئلہ بھی کہتے ہیں‘ یعنی قرآن اللہ کی مخلوق ہے یا نہیں؟ اس فتنے کی وجہ سے عباسی دور میں علماے کرام کی کثیر تعداد آزمایش سے دو چار ہوئی۔ ان میں بہت سے لوگ ثابت قدم رہے جیسے امام احمد بن حنبل جنھیں کوڑے مارے گئے اور جیل میں ڈال دیا گیا۔ اس فتنے نے مسلمانوں کی وحدت فکر کو زبردست نقصان پہنچایا۔۳؎ ] یہ ہیں وہ چند’’لات و منات‘‘ جو مسلمان کو الجھانے کے لیے کافی ہیں۔ مزید برآں ابلیس اپنے مشیروں کو تاکید کرتا ہے کہ اسے خیالی شعرو ادب اور عجمی تصو ّف کی طرف راغب کرو تاکہ زندگی کے عملی مسائل اس کی نگاہوں سے اوجھل رہیںاور اس کے کردار و احوال میں کوئی مثبت تبدیلی پیدا نہ ہو۔ یہ امر قابلِ لحاظ ہے کہ ابلیس امت ِ مسلمہ کو بالکل ہی لامذہب و ملحد بنانے کے حق میں نہیں بلکہ وہ مذہب کی انقلابی روح ختم کرکے مسلمانوں کے نگاہوں سے ’’ تماشاے حیات‘‘ چھپانا چاہتا ہے۔ آخری شعر میں ابلیس اپنے مشیروں کو ’’ مزاج خانقاہی‘‘ کی ترویج و استحکام کی تلقین اسی لیے کر رہا ہے کہ اسلام کا انفعالی ایڈیشن ابلسیت کے فروغ کے لیے سازگار فضا مہیا کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ محض ’’ذکر و فکر ‘‘ سے تو ابلیسی طاقتوں کے خلاف مزاحمت میں کامیابی نہیں ہوسکتی ، چنانچہ اقبالؔ کی تلقین ہے: اے کہ اندر حجرہ ہا سازی سخن نعرۂ ’’لا‘‘ پیشِ نمرودے بزن اپنے مشیروں کے لیے ابلیس کا یہ لائحۂ عمل ایک لحاظ سے امت ِ مرحوم کا نوحہ ہے اور ایک اعتبار سے مسلمانوں کو حضرت علامّہ کی تنبیہ ہے جس میں مسلمانوں کے روز و شب کے آئینے میں، ان کی دکھتی رگوں کو چھیڑا گیا ہے مگر راہِ عمل بھی تجویز کی گئی ہے اور وہ ہے: بیداریِ عمل اور احتسابِ کائنات: صورتِ شمشیر ہے دست ِ قضا میں وہ قوم کرتی ہے جو ، ہر زماں اپنے عمل کا حساب کلام اقبال میں اس نظم کی انفرادیت و اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے سید ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں:’’ اقبال کی یہ نظم جس طرح مسلمانوں کو ایک انو کھے انداز میں مسلمانوں کی غفلتوں اور گمراہیوں پر تنبّہ کرتی ہے ‘ اس طرح عام انسانوں کو بھی یہ بتاتی ہے کہ جن فتنوں کو وہ اپنے لیے خیر سمجھ رہے ہیں‘ ان میں سے ہر ایک کی تہ میں انسانی کی بربادی کا سامان چھپا ہوا ہے اور اصل فلاح کسی اور چیز میں ہے جس سے ابلیس کانپ رہا ہے۔ اور ہر ممکن طریقے سے کوشش کر رہا ہے کہ نوع انسان کہیں اس آبِ حیات کا پتا نہ پا سکے‘‘۔ (بحوالہ، اقبال اور مودودیؒ: ص ۵۷۔۵۸) فنی تجزیہ ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ آٹھ بندوں پر مشتمل ہے۔ اس کی بحر کانام: ’’ رمل مثمن محذوف‘‘ ہے۔بحر کے ارکان یہ ہیں: فَاعِلَاتُنْ فَاعِلَاتُنْ فَاعِلَاتُنْ فَاعِلْنَ ٭تمثیلی انداز اور ڈرامائیت: زیر مطالعہ نظم ایک طرح کی تمثیل ہے۔ ابلیس اس تمثیل کا سب سے اہم کردار ہے۔ اس کے پانچ مشیر وں کی حیثیت تمثیل میں حصہ لینے والے کرداروں کی ہے۔ علامّہ اقبال نے بعض افکار و خیالات کو مؤثر طریقے سے پیش کرنے کے لیے کئی ڈرامائی وسیلوں سے کام لیا ہے۔ ان میں ابلیس اور اس کے پانچ مشیروں کے کردار ‘ ان کرداروں کا مکالمہ ‘ مجلس شوریٰ کا اسٹیج اور ایک مخصوص فضا… وہ ڈرامائی عناصر ہیں جن سے ایک خوب صورت تمثیل تشکیل پاتی ہے۔ اس ڈرامائیت نے نظم کی تاثیر اور معنویت کو بڑ ھا دیا ہے۔ زیر مطالعہ نظم میں اقبال نے عالمی سیاسی صورت حال ‘ جمہوریت اور اشتراکیت‘ فسطائیت اور امت ِ مسلمہ کے موضوعات پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ اگر وہ مجلس شوریٰ برپاکیے بغیر، بلا تمثیل ہی براہِ راست اظہارِ خیال کرتے تو نظم میں ایسی تاثیر پیدا نہ ہوتی ۔ نظم کے تمثیلی انداز اور ڈرامائیت نے اس کو خاص اہمیت عطا کی ہے۔ یہ امر معنی خیز ہے کہ علامّہ اقبال کی جن نظموں میں ابلیس کا ذکر آیا ہے، ان میں سے بیشتر میں ڈرامائی عناصر موجود ہیں۔ ٭تمثیلی کردار اور نظم کا لب و لہجہ: اس تمثیلی نظم کی تشکیل و تعمیر میں کئی کرداروں نے حصہ لیا ہے۔ نظم چھے مختلف کرداروں (ابلیس اور اس کے پانچ مشیروں) کے مکالموں پر مشتمل ہے۔ اس وجہ سے نظم کا لب و لہجہ یکساں نہیں ہے۔ ابلیس کی گفت گو میں ایک گونہ خود نمائی‘ خود پسندی ‘ خود اعتمادی ‘ تیقن اور کسی حد تک جوش موجودہے۔ وہ اپنے کارناموں کو ’’ میں ‘‘ کی تکرار سے زیادہ وزنی اور اپنے مشیروں کی نظر میں لائق صد تحسین بناتا ہے۔ اس کے افتتاحی اور اختتامی خطاب کے دوران میں، پارلیمنٹ ہال میں انتہائی خاموشی طاری ہے۔ اس خاموشی کا راز ابلیس کے شخصی جبروت‘وقار اور مشیروں کے دلوں میں اس کے لیے انتہائی تقدس و تکریم کے جذبات میں پوشیدہ ہے۔ مشیرانِ ابلیس میں سے، دوسروں کے مقابلے میں پہلے مشیر کا خطاب نسبتاً زیادہ پُراعتماد اور حکیمانہ بصیرت کاحامل ہے۔ امت ِ مسلمہ کی نفسیات اور جمہوریت کی حقیقی شکل کے بارے میں اس کے بصیرت افروز خیالات سے انداہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ ابلیس کا قریب ترین رفیق اور فہم و فراست میں ابلیس کے نائبین میں نمبر اول کی حیثیت رکھتا ہے۔اس کے لب و لہجے میں سنجیدگی اور ٹھہراؤ ہے۔ اس کے ہاں بے جا قسم کی خود نمائی نہیں‘ مگر ابلیسی نظام کی برتری اور فضیلت کا وہ صدقِ دل سے قائل ہے۔ پہلے مشیر کو ابلیسی نظام کے حقیقی معماروں میں شمارکرنا چاہیے۔ تمثیل میں دوسرے مشیر کا حصہ سب سے کم ہے۔ یہ خاموش طبع کردار پوری تمثیل میں صرف ایک موقعے پر لب کشائی کرتا ہے۔ اس کا مکالمہ جمہوریت کے بارے میں پہلے مشیر سے محض ایک سوال پر مشتمل ہے۔ چوتھے مشیر کی گفتگوبھی مختصر ہے۔ البتہ تیسرا اور پانچواں مشیر اپنا ما فی الضمیر قدرے وضاحت سے پیش کرتے ہیں۔ ان دونوں مشیروں کے مزاج اور انداز فکر میں خاصی ہم آہنگی ہے۔ دونوں عالمی سیاسی افق پر اشتراکیت کے ابھرتے ہوئے فتنے کو ابلیسی نظام کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں ۔ دونوں کی تشویش‘ان کے مکالموں سے (اب کیاہوگا؟‘‘ کے سے انداز میں) واضح ہو کر سامنے آتی ہے۔ تیسرا مشیر اشتراکی طریقِ کار کو ’’طبیعت کا فساد‘‘ اور پانچواں مشیر مارکس کو ’’ یہودی فتنہ گر‘‘ قرار دیتا ہے۔ اس طرح گویا دونوں ہی اشتراکیت کے منفی رول کا بطور خاص حوالہ دیتے ہیں‘ تاہم پانچواں مشیر نسبتاً زیادہ مضطرب و بے چین ہے۔ اس کے گفتگو کے آخری حصے: میرے آقا‘ وہ جہاں زیر و زبر ہونے کو ہے سے اس کی حد درجہ تشویش ظاہر ہوتی ہے۔ ابلیس کی ’’ حکمت و بصیرت‘‘ اس کے مشیروں کے لیے باعث تسکین و تمکین ہے۔ وہ اپنی خوب صورت افتتاحی تقریر کے ذریعے اپنے مشیروں کے تمام سوالات اور ان کے جملہ اضطراب و اضطرار کا کافی و شافی جواب فراہم کرتا ہے۔ ٭ایجاز و بلاغت: ’’ ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ کا دور وہ ہے جب فکر و فن کے اعتبار سے علامّہ اقبالؔ کی شاعری انتہائی عروج پر تھی۔ زیر مطالعہ نظم میں ان کی فنی مہارت کا ایک پہلو بعض اشعار ‘ مصرعوں اور متعدد تراکیب کا حسن ایجاز اور کمال بلاغت ہے۔ شعری فن کے ان وسیلوں پر ان کی گرفت اتنی کامل و محکم ہے کہ بعض ٹکڑے ’ در یابہ حباب اندر‘ جیسی کیفیت کے حامل نظر آتے ہیں‘ مثلاً :مغرب کے سرمایہ پرست جمہوری نظام پر اس سے بلیغ‘ جامع اور عمیق تبصرہ او ر کیا ہو سکتا ہے: چہرہ روشن‘ اندروں چنگیز سے تاریک تر اسی طرح ذیل کے اشعار اور مصرعے: میں نے دکھلایا فرنگی کو ملوکیّت کا خواب میں نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں _______ ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا _______ ہے مگر کیا اس یہودی کی شرارت کا جواب _______ نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب _______ کیا مسلماں کے لیے کافی نہیں اس دور میں یہ الٰہیّات کے ترشے ہوئے لات و منات اپنے اندر عالمی تاریخ کے نشیب و فراز ، امت ِ مسلمہ کی حالت ِ زبوںاور سیاسیات شرق و غرب کا ایک طویل اور وسیع پس منظر سموئے ہوئے ہیں۔ ٭صنعت گری: علامّہ اقبالؔ نے شعوری طور پر کبھی شعری صنعت گری کے لیے کاوش نہیں کی تاہم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں ہمیں صنعت گری کی خوب صورت مثالیں ملتی ہیں: ۱۔ صنعت مراعاۃ النظیر: جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند کو ن کر سکتا ہے اس نخلِ کہن کو سر نگوں ۲۔ صنعت طباق: ( دو ایسے الفاظ کا استعمال جو معنی کے اعتبار کے سے ایک دوسرے کی ضد ہوں): اس سے بڑھ کر او ر کیا ہوگا طبیعت کا فساد توڑدی بندوں نے آقاؤں کے خیموں کی طناب ۳۔ صنعت تلمیح: وہ کلیم بے تجلی‘ و ہ مسیحِ بے صلیب نیست پیغمبر و لیکن در بغل دار و کتاب توڑ اس کا رومت الکبرٰے کے ایوانوں میں دیکھ آل سیز ر کو دکھایا ہم نے پھر سیزر کا خواب ۴۔صنعت ترافق: ( جس مصرع کو چاہیں پہلے پڑ ھیں اور معنی میں کوئی فرق نہ آئے) : ہے یہی بہتر الٰہیات میں الجھا رہے یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھارہے ۵۔ صنعت تنسیق الصّفات: ( کسی موصوف کے متعدد اوصاف متواتر بیان کرنا): الحذر ‘ آئین پیغمبرؐ سے سوبار الحذر حافظِ ناموسِ زن‘ مرد آزما ‘ مرد آفریں صنعت ملمّع:(جب کلام میں دو زبانیں جمع کر دی جائیں ۔ یہاں پہلا مصرع اردو میں ہے اور دوسرافارسی میںہے): موت کا پیغام ہر نوعِ غلامی کے لیے نے کوئی فغفور و خاقاں ‘ نے فقیر رہ نشیں معروف اقبال شناس پروفیسر محمدمنوّر (م: ۷ فروری ۲۰۰۰ئ) اس نظم پر ایک مجموعی راے دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ میں نیم ڈرامائی آہنگ اور فن کارانہ پختہ کلامی کے ہمراہ ‘ اسلامی نظام کی بے نظیر اصولی‘ اجتماعی اور روحانی قوت کا برملا اظہار و اعلان ہے۔‘‘ حواشی ا۔ پروفیسر اسلوب احمد انصاری نے : ’’ دست فطرت نے کیا ہے جن گریبانوں کو چاک‘‘ کا یہ مفہوم اخذ کیا ہے :’’ جو انتشار اور افراتفری استعماریت کی پروردہ اور پرداختہ ہے اور جس کا جال سارے یورپ میں پھیلا ہوا ہے‘‘۔ ( اقبال کی تیرہ نظمیں: ص۲۴۸) راقم کے خیال میں یہ مفہوم درست نہیں ہے کیونکہ اس طرح تو مغرب کے استعمارانہ مظالم‘ خدائی منصوبہ متصو ّر ہوں گے اور ایک لحاظ سے یہ استعماریت کا جواز بھی ہوگا کہ ’’ دست فطرت‘‘ نے اس کا اہتمام کیاہے۔ ۲۔ پروفیسر اسلوب احمد انصاری نے زیر بحث شعر کے مصرع اوّل میں ’’ کب ‘‘ کے بجاے ’’ کیا‘‘ لکھا ہے… اور پھر اس شعر کو ابلیس کا ایک ’’سوال‘‘ قرار دیا ہے۔( اقبال کی تیرہ نظمیں: ص ۲۴۹)راقم کے نزدیک یہ شعر ایک سوال نہیں بلکہ پہلے مصرعے میں استفہام انکاری سے کام لیا گیا ہے۔ یعنی ابلیس مصر ہے کہ اشتراکی کوچہ گرد مجھے ہرگز نہیں ڈرا سکتے۔ o---oo---o کتابیات اقبال اور انجمن حمایتِ اسلام : محمد حنیف شاہد۔ انجمن حمایت اسلام لاہور‘ ۱۹۷۶ء اقبال اور عبدالحق: ممتاز حسن۔ مجلس ترقی ادب لاہور‘ ۱۹۷۳ء اقبال اور مودودی‘ مرتب: ابو راشد فاروقی۔ مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور‘ ۱۹۸۰ء اقبال ایک شاعر: سلیم احمد۔قوسین لاہور‘ ۱۹۷۸ء اقبال پر تحقیقی مقالے : ڈاکٹر صدیق جاوید۔ بزمِ اقبال‘ لاہور‘ ۱۹۸۸ء اقبال‘ شاعر اور فلسفی: سید وقار عظیم۔ تصنیفات لاہور‘۱۹۶۸ء اقبال کا مطالعہ اور دوسرے مضامین: سید نذیر نیازی۔ کتب خانہ پنجاب لاہور‘ ۱۹۶۸ء اقبال کامل: عبدالسلام ندوی۔ مطبع معارف اعظم گڑ ھ‘ ۱۹۶۴ء اقبال کی تیرہ نظمیں: اسلوب احمد انصاری۔مجلس ترقی ادب‘ لاہور‘ ۱۹۷۷ء اقبال کی منتخب نظمیں و غزلیں: اسلوب احمد انصاری۔ غالب اکیڈمی دہلی‘ ۱۹۹۴ء اقبال کے ہم نشین ‘ مرتب :صابر کلوروی۔ مکتبہ خلیل لاہور‘۱۹۸۵ء اقبال نامہ ، اول: مرتبہ شیخ عطاء اللہ ۔ شیخ محمد اشرف لاہور‘ [۱۹۴۴ئ] الجہادفی الاسلام: سید ابوالاعلیٰ مودودی۔ مکتبہ اسلامی دہلی‘ ۱۹۶۵ء انوار اقبال‘ مرتب: بشیر احمد ڈار۔ اقبال اکادمی پاکستان کراچی‘ ۱۹۶۷ء ایقان اقبال: پروفیسر محمد منور۔ ایوان ادب کراچی‘ ۱۹۷۷ء اسلام اور جدید معاشی نظریات: سید ابوالاعلیٰ مودودی۔ اسلامک پبلی کیشنز ‘ لاہور ‘ ۱۹۶۶ء تاریخ اندلس: عبدالقوی ضیا۔ حیدرآباد‘ ۱۹۶۴ء تفہیم القرآن ‘ سوم: سیدابوالاعلیٰ مودودی۔ مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی‘ ۱۹۶۵ء چند ہم عصر: مولوی عبدالحق ۔ سندھ اردو اکیڈمی کراچی‘ ۱۹۶۱ء خطوط اقبال‘ مرتب : رفیع الدین ہاشمی۔ مکتبہ خیابانِ ادب لاہور‘ ۱۹۷۶ء حرف اقبال‘ مترجم: لطیف احمد شیروانی۔علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی اسلام آباد،۱۹۴۸ء دولت عثمانیہ ‘ دوم: ڈاکٹر محمد عزیر۔ دارالمصنّفین اعظم گڑ ھ‘ ۱۹۴۳ء ذکر اقبال: عبدالمجید سالک۔ بزم اقبال لاہور‘ ۱۹۵۵ء روح اقبال: ڈاکٹر یوسف حسین خاں۔ آئینۂ ادب لاہور‘ ۱۹۶۳ء روزگار فقیر‘ اول: فقیر سید وحید الدین ۔ لائن آرٹ پریس کراچی‘ ۱۹۶۴ء سرود رفتہ ‘ مرتبین: غلام رسول مہر‘ صادق علی دلاوری۔ کتب منزل ‘ لاہور‘ ۱۹۵۹ء سفرنامہ اقبال: محمد حمزہ فاروقی ۔ مکتبہ معیار کراچی‘ ۱۹۷۳ء شرح قصید ہ بردہ، مترجم: علی محسن صدیقی ۔ مکتبہ اسحاقیہ کراچی، ۱۹۶۸ء شعر اقبال: عابد علی عابد۔ بزم اقبال لاہور‘ ۱۹۶۴ء شکوہ‘ جوابِ شکوہ: عابد علی عابد۔آئینہ ادب لاہور‘ ۱۹۷۰ء کلام اقبال کا بے لاگ تجزیہ: پروفیسر آسی ضیائی: خدمت لمیٹڈ‘ لاہور: ۱۹۵۷ء کلیات اقبال‘ اردو: اقبال۔ شیخ غلام علی اینڈسنز لاہور‘ ۱۹۷۳ء کلیات اقبال‘ فارسی: اقبال۔ شیخ غلام علی اینڈسنز لاہور‘ ۱۹۷۳ء گفتارِ اقبال‘ مرتب: محمد رفیق افضل۔ ادارہ تحقیقات پاکستان‘ پنجاب یونیورسٹی لاہور‘ ۱۹۶۹ء مسلمانوں کا ماضی ‘ حال اور مستقبل: سید ابوالاعلیٰ مودودی۔ مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی لاہور‘ ۱۹۶۷ء مطالعۂ تلمیحات و اشارات اقبال: ڈاکٹر اکبر حسین قریشی۔ انجمن ترقی اردو ہند علی گڑ ھ‘ ۱۹۷۰ء مقالات یوسف سلیم چشتی ‘ مرتبہ: اختر النسائ۔ بزم اقبال لاہور‘ ۱۹۹۹ء مکاتیب اقبال بنام گرامی‘ مرتب : محمد عبداللہ قریشی۔ اقبال اکادمی کراچی‘ ۱۹۶۹ء ملاقاتیں: سید عبدالباری۔ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو سٹڈیز نئی دہلی‘ ۲۰۰۳ء ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ‘ اول : ثروت صولت۔ اسلامک پبلی کیشنز‘ لاہور: ۱۹۷۰ء ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ ‘ دوم : ثروت صولت۔ اسلامک پبلی کیشنز‘ لاہور: ۱۹۶۸ء میزانِ اقبال: پروفیسر محمد منور۔ یونی ورسٹی بک ڈپولاہور‘ ۱۹۷۲ء نذر اقبال: شیخ عبدالقادر ‘ مرتب: محمد حنیف شاہد۔ بزم اقبال لاہور‘ ۱۹۷۳ء نقوش اقبال: ابوالحسن علی ندوی۔[اردو ترجمہ: مولوی شمس تبریز خاں] مجلس نشریات اسلام کراچی‘ ۱۹۷۶ء ماہِ نو، اقبال نمبر: کراچی، اپریل ۱۹۷۰ء نگارِں پاکستان، اقبال نمبر: کراچی، سالنامہ ۱۹۲۲ء oo--ooo--oo ضمیمے آئندہ صفحات میں علامّہ اقبال کی زندگی کے بعض اہم واقعات کے ذکر کے ساتھ ان کی جملہ تصانیف کی فہرست دی جا رہی ہے۔ توقع ہے کہ اقبال کے عمومی مطالعے میں یہ بنیادی معلومات مفید اور معاون ثابت ہوں گی۔ (مو ّلف) ضمیمہ:۱ حیات نامہ اقبال ۱۸۷۷ء ۹نومبرo ولادتِ اقبال‘ سیالکوٹ (۱) ۱۸۹۱ء o سکاچ مشن ہائی سکول سے مڈل سکول متحان پاس کیا ۱۸۹۲ء o باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز ہوا۔ ۱۸۹۳ء o سکاچ مشن ہائی سکول سیالکوٹ سے میٹرک کا امتحان پاس درجہ اوّل میں پاس کیا۔ ۴ مئیo کریم بی بی (والدہ آفتاب اقبال) سے شادی ہو گئی۔ ۱۸۹۵ء o سکاچ مشن کالج سیالکوٹ سے انٹر میڈیٹ کا امتحان درجہ دوم میں پاس کیا۔ ۱۸۹۸ء o گورنمنٹ کالج لاہور سے بی۔ اے کا امتحان درجہ دوم میں پاس کیا۔ ۱۸۹۹ء o ایم۔ اے فلسفہ کا امتحان درجہ سوم میں پاس کیا۔ ۱۳ مئی o اورنیٹل کالج لاہور میں میکلوڈ عریبک ریڈر مقرر ہوئے۔ ۱۹۰۱ء یکم جنوریo اسلامیہ کالج لاہور میں چھ ماہ کے لیے انگریزی کے استاد مقرر ہوئے۔ ۱۹۰۲ء ۳ اکتوبرo گورنمنٹ کالج لاہور میں چھ ماہ کے لیے انگریزی کے استاد مقرر ہوئے۔ ۱۹۰۳ء ۳جونo گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے۔ ۱۹۰۵ء یکم ستمبرo اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ روانہ ہوئے۔ ۱۹۰۷ء o کیمبرج سے بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔میونخ یونی ورسٹی (جرمنی) نے پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری عطا کی۔ ۱۹۰۸ء یکم جولائیo لنکنز ان سے لندن سے بیرسٹری کی سند حاصل کی۔ ۲۷ جولائی o یورپ سے واپس لاہور پہنچے۔ ۱۹۱۱ء اپریلo انجمن حمایت ِ اسلام کے سالانہ جلسے میں نظم ’’شکوہ‘‘ پڑھی۔ o علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں انگریزی خطبہ The Muslim Community ‘ اردو نام: ’’ملت بیضا‘‘ پر ایک عمرانی نظم ؟؟؟ کیا۔ ۱۹۱۲ء ۱۶ اپریلo انجمن حمایت ِ اسلام کے سالانہ جلسے میں نظم ’’شمع اور شاعر‘‘ پڑھی۔ ۳۰ نومبرo جلسۂ عام منعقدہ بیرونِ موچی دروازہ میں نظم ’’جوابِ شکوہ‘‘ پڑھی۔ ۱۹۱۴ء o سردار بیگم (والدۂ جاوید اقبال) سے شادی ہوئی۔ ۹ نومبرo والدہ امام بی بی سیالکوٹ میں فوت ہو گئیں۔ دسمبر o مختار بیگم (لدھیانہ )سے شادی ہوئی۔ ۱۹۲۲ء ۱۶ اپریلo انجمن حمایت ِ اسلام کے جلسے میں نظم ’’خضر راہ‘‘ پیش کی۔ ۱۹۲۳ء یکم جنوریo حکومت کی طرف سے ’’سر‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ ۳۰ مارچo انجمن حمایت ِ اسلام کے جلسے میں نظم ’’طلوعِ اسلام‘‘ پیش کی۔ ۱۹۲۶ء ۲۳ نومبرo مجلس قانون ساز پنجاب کے ممبر منتخب ہوئے۔ ۱۹۲۸ء جنوریo مدراس‘ بنگلور‘ میسور اور حیدرآباد دکن میں منعقدہ جلسوں میں انگریزی میں خطبات پیش کیے۔ ۱۹۳۰ء ۲۹ دسمبرo کل ہند مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الٰہ آباد میں ایک علاحدہ مسلم مملکت کا تصو ّر پیش کیا۔ ۱۹۳۱ء نومبرo لندن میں منعقدہ دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت ککی۔ ۲۸ نومبرo روم میں اٹلی کے آمر مسولینی سے ملاقات کی۔ ۷ دسمبرo بیت المقدس میں منعقدہ موتمر عالمِ اسلامی میں شریک ہوئے۔ ۱۹۳۲ء نومبرo لندن میں تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت ۔ ۱۹۳۳ء جنوریo پیرس میں معروف فلسفی برگساں سے ملاقات کی۔ o ہسپانیہ کا سفر… مسجد قرطبہ کی زیارت۔ اکتوبر‘ نومبرo سر راس مسعود اور سید سلیمان ندوی کی معیّت میں افغانستان کا سفر۔ ۴ دسمبرo پنجاب یونی ورسٹی نے ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔ ۱۹۳۴ء ۱۰ جنوریo عید الفطر کے موقع پر سویوں میں دہی ملا کر کھائیں‘ گلا بیٹھ گیا۔ طویل علالت کا آغاز ہوا۔ ۱۹۳۵ء o برقی علاج کے لیے کئی بار بھوپال کا سفر کیا۔ o اپنے ذاتی نو تعمیر شدہ مکان ’’جاوید منزل‘‘ میں منتقل ہو گئے۔ ۲۳ مئی o اہلیہ (والدۂ جاوید اقبال) کا انتقال ۔ ۲۹ جون o سرہند شریف کا سفر‘ جاوید اقبال بھی ہمراہ تھے۔ ۱۹۳۶ء o پنجاب مسلم لیگ کے صدر مقرر ہوئے۔ ۱۹۳۸ء ۲۱ اپریلo صبح پانچ بجے جاوید منزل میں مالک حقیقی سے جا ملے۔ ضمیمہ:۲ تصانیف اقبال صرف اوّلین اشاعتوں کے سنین دیے جا رہے ہیں شاعری فارسی: ٭اسرارِخودی ۱۹۱۵ء ٭رموز بے خودی ۱۹۱۸ء ٭پیامِ مشرق ۱۹۲۳ء ٭زبورِ عجم ۱۹۲۷ء ٭جاوید نامہ ۱۹۳۲ء ٭مسافر ۱۹۳۴ء ٭مثنوی پس چہ باید کرد‘ اے اقوامِ شرق ۱۹۳۶ء اردو: ٭بانگ ِ درا ۱۹۲۴ء ٭بالِ جبریل ۱۹۳۴ء ٭ضربِ کلیم ۱۹۳۶ء فارس‘ اردو: ٭ارمغانِ حجاز ۱۹۳۸ء نثر اردو: ٭ علم الاقتصاد لاہور‘ ۱۹۰۴ء ٭مقالاتِ اقبال منرتبہ: سید عبدالواحد معینی لاہور‘ ۱۹۶۳ء تصدق حسین تاج کے مرتبہ مجموعے ’’مضامینِ اقبال‘‘ (حیدر آباد دکن‘ ۱۹۴۳ئ) کے تمام اردو مقالات و مضامین اس مجموعے میں شامل ہیں۔ ٭گفتارِ اقبال مرتبہ: محمد رفیق افضل لاہور‘ ۱۹۶۹ء ٭شاد اقبال مرتبہ: محی الدین قادری زور حیدر آباد دکن‘ ۱۹۴۲ء ٭اقبال نامہ‘ اوّل مرتبہ: شیخ عطاء اللہ لاہور‘ ۱۹۴۵ء ٭اقبال نامہ‘ دوم مرتبہ:شیخ عطاء الہ لاہور‘ ۱۹۵۱ء ٭مکاتیب ِ اقبال بنام محمد نیاز الدین خاں مرحوم لاہور‘ ۱۹۵۴ء ٭مکتوباتِ اقبال مرتبہ: نذیر نیازی کراچی‘ ۱۹۵۷ء ٭انوارِ اقبال مرتبہ: بشیر احمد ڈار کراچی‘۱۹۶۷ء ٭مکاتیب ِ اقبال بنام گرام محمد عبداللہ قریشی کراچی‘۱۹۶۹ء ٭خطوطِ اقبال مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی لاہور‘ ۱۹۷۶ء ٭مکاتیب ِ اقبال بنام بیگم گرامی مرتبہ:حمید اللہ شاہ ہاشمی فیصل آباد‘۱۹۷۸ء ٭اقبال‘ جہانِ دیگر مرتبہ: محمد فریدالحق ایڈووکیٹ کراچی‘۱۹۸۳ء ٭نگار شات اقبال مرتبہ: زیب النسائ لاہور‘۱۹۹۳ء انگریزی: ٭The Development of Metapny sics in Persia لندن‘۱۹۰۸ء ٭The Reconstruction of Religious Thought in Islam لندن‘ ۱۹۳۴ء پہلا ایڈیشن لاہور سے ۱۹۳۰ء میں چھپا۔ اس میں چھے خطبات شامل تھے۔ ٭Thoughts and Reflections of Iqbal مرتبہ: ایس اے واحد لاہور‘ ۱۹۶۴ء ٭Stray Reilections مرتبہ: جاوید اقبال‘ لاہور‘ ۱۹۶۱ء ٭Speeches, Writings and Statements of Iqbal ر تبہ لطیف احمد شیروانی لاہور‘۱۹۷۷ء اقبال کی وہ تمام انگریزی تحریریں اور تقاریر‘ جو قبل ازیں مختلف مجموعوں کی صورت میں اشاعت پزیر ہوتی رہی ہیں‘ اس مجموعے میں یکجا کر دی گئی ہیں۔ ٭Letters of Iqbal مرتبہ: بشیر احمد ڈار لاہور‘ ۱۹۷۸ء