تصانیفِ اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اقبال اکادمی پاکستان جملہ حقوق محفوظ ناشر: اقبال اکادمی پاکستان (حکومتِ پاکستان، وزارتِ ثقافت ) چھٹی منزل ، ایوان اقبال ، لاہور Tel: [+92-42] 36314-510 [+92-42] 99203-573 Fax: [+92-42] 3631-4496 Email: director@iap.gov.pk Website: www.allamaiqbal.com ISBN 978-969-416-420-5 طبع اوّل: ۹؍نومبر۱۹۸۲ء طبع دوم: ۲۰۰۱ء طبع سوم (نظرثانی اور اضافوں کے ساتھ): ۲۰۱۰ء تعداد: ۵۰۰ قیمت: ۔؍۴۵۰؍ روپے مطبع: شرکت پرنٹنگ پریس، لاہور محل فروخت :۱۱۶، میکلورڈ روڈ، لاہور، فون: ۳۷۳۵۷۲۱۴ دادا مرحوم عالم شاہ قریشی (م: ۳؍جون ۱۹۶۹ئ) کی یاد میں ء پنجاب یونی ورسٹی لاہور نے اس مقالے پر مؤلف کو ۱۹۸۱ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کی۔ مقالہ ڈاکٹر وحید قریشی کی راہ نمائی میں تحریر کیا گیاتھا ، اور پروفیسر جگن ناتھ آزاد اور ڈاکٹر شمس الدین صدیقی بیرونی ممتحن تھے۔ ء ترتیب ء تقدیم رشید حسن خاں ۱۳ ء دیباچہ:طبع سوم مؤلف ۱۵ ء دیباچہ:طبع دوم مؤلف ۲۳ ء حرفِ آغاز :دیباچہ طبع اوّل مؤلف ۳۱ باب ۱: اُردو کلام کے مجموعے ۳۷ باب ۲: فارسی کلام کے مجموعے ۸۹ باب ۳: مکاتیب کے مجموعے ۲۱۳ باب ۴: مستقل نثری تصانیف ۲۸۳ باب ۵: متفرق نثری مجموعے ۳۲۹ باب ۶: ملفوظات کے مجموعے ۳۸۳ باب ۷: اقبال کی مرتبہ درسی کتابیں ۴۰۷ ظ ضمیمے ۴۳۳ ظ کتابیات ۵۰۳ ظ اشاریہ ۵۱۵ تفصیل ابواب ۱ - اُردو کلام کے مجموعے (الف) اُردو میں شعر گوئی ۳۸ (ب) اُردو کلام کے مجموعے: ۵۲ بانگِ درا ، ۳ ستمبر ۱۹۲۴ئ ۵۲ بالِ جبریل ،جنوری ۱۹۳۵ئ ۵۹ ضربِ کلیم ، جولائی ۱۹۳۶ئ ۶۵ ارمغانِ حجاز (اُردو) [ نومبر ۱۹۳۸ئ] ۶۸ (ج) کلیاتِ اقبال، اُردو ۷۱ ۲ - فارسی کلام کے مجموعے (الف) اقبال کی فارسی گوئی ۹۰ (ب) فارسی کلام کے مجموعے: ۱۰۲ اسرارِ خودی ، ۱۲ ستمبر ۱۹۱۵ء ۱۰۲ رموزِ بے خودی ، ۱۰ اپریل ۱۹۱۸ء ۱۲۰ اسرار و رموز (یکجا) ، ۱۹۲۳ء ۱۲۵ پیام مشرق ، ۵ - ۹ مئی ۱۹۲۳ء ۱۴۸ زبورِ عجم ، جون ۱۹۲۷ء ۱۶۳ جاوید نامہ ، فروری ۱۹۳۲ء ۱۷۰ مسافر، ۱۹۳۴ء ۱۷۶ مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوام شرق ، اکتوبر ۱۹۳۶ء ۱۷۸ مثنوی پس چہ باید کرد --- مع مسافر ، ۱۹۳۶ئ ۱۸۰ ارمغانِ حجاز [نومبر ۱۹۳۸ئ] ۱۸۲ (ج) کلیاتِ اقبال، فارسی ۱۸۵ ۳ - مکاتیب کے مجموعے (الف) اقبال کی خطوط نویسی ۲۱۴ (ب) مکاتیب کے مستقل مجموعے ۲۲۱ شاد اقبال ، ۱۹۴۲ئ ۲۲۱ اقبال بنام شاد، ۱۹۸۶ئ ۲۲۵ اقبال نامہ ، اول [۱۹۴۴ئ] ۲۲۵ اقبال نامہ ، دوم ، ۱۹۵۱ئ ۲۳۳ اقبال نامہ [یک جلدی اشاعت] ۲۳۹ مکاتیبِ اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خاں مرحوم،۱۹۵۴ئ،۱۹۸۶ئ،۱۹۹۵ئ،۲۰۰۶ئ ۲۴۰ مکتوباتِ اقبال ، ستمبر ۱۹۵۷ء ۲۴۳ انوارِ اقبال ، مارچ ۱۹۶۷ئ ۲۴۷ مکاتیبِ اقبال بنام گرامی ، اپریل ۱۹۶۹ء ۲۵۵ خطوطِ اقبال ، ۱۹۷۶ء ۲۵۷ خطوطِ اقبال بنام بیگم گرامی ، جنوری ۱۹۷۸ئ ۲۶۰ اقبال: جہانِ دیگر، ۱۹۸۶ئ ۲۶۲ مکتوباتِ اقبال بنام چودھری محمد حسین، ۱۹۹۸ئ ۲۶۳ Letters of Iqbal to Jinnah ، ۱۹۴۳ئ ۲۶۳ Iqbal's Letters to Attiya Begum ، فروری ۱۹۴۷ئ ۲۶۵ Letters and Writings of Iqbal، نومبر ۱۹۶۷ء ۲۶۶ Letters of Iqbal ، ۱۹۷۸ئ ۲۶۸ تکراری مجموعے (روح مکاتیبِ اقبال۔ اقبال نامے۔ مکاتیبِ سر محمد اقبال بنام سید سلیمان ندوی۔ علامہ اقبال کے ۱۰۱ شاہکار خطوط) ۲۷۳ (ج) کلیاتِ مکاتیبِ اقبال ۲۷۶ کلیاتِ مکاتیبِ اقبال (مظفر حسین برنی) ۲۸۰ ۴ - مستقل نثری تصانیف (الف) اقبال کی نثر نویسی ۲۸۴ (ب) نثری تصانیف ۲۹۱ علم الاقتصاد [نومبر ۱۹۰۴ء ] ۲۹۱ The Development of Metaphysics in Persia، ۱۹۰۸ئ ۳۰۳ Six Lectures ، مئی ۱۹۳۰ء ۳۱۴ The Reconstruction of Religious Thought in Islam ، مئی ۱۹۳۴ئ ۳۲۰ (ج) نثری تصانیف کی تدوینِ نو ۳۲۴ ۵ - متفرق نثری مجموعے (الف) اقبال کی مضمون نویسی ۳۳۰ (ب) نثری مجموعے ۳۳۲ مضامینِ اقبال ، ۱۹۴۳ء ۳۳۳ مقالاتِ اقبال ، مئی ۱۹۶۳ء ۳۳۷ اقبال کے نثری افکار ، مارچ ۱۹۷۷ء ۳۴۴ گفتارِ اقبال ، جنوری ۱۹۶۹ء ۳۵۲ انوارِ اقبال، مارچ ۱۹۶۷ئ ۳۵۵ Speeches and Statements of Iqbal ، (شاملو) مارچ ۱۹۴۵ء ۳۵۶ Speeches, Writings and Statements of Iqbal ،۱۹۷۷ء ۳۶۰ Thoughts and Reflections of Iqbal ، مئی ۱۹۶۴ئ ۳۶۳ Speeches and Statements of Iqbal، (اے آر طارق) ۱۹۷۷ئ ۳۶۶ Mementos of Iqbal ، ۱۹۷۵ء ۳۶۷ Discourses of Iqbal ، ۱۹۷۹ئ ۳۶۸ Stray Reflections ، جون ۱۹۶۱ء ۳۷۰ تاریخ تصوف، ۱۹۸۵ئ ۳۷۴ Bedil in the Light of Bergson، ۱۹۸۸ئ ۳۷۵ (ج) متفرق نثر پاروں کی تدوینِ نو ۳۷۷ ۶ - ملفوظات کے مجموعے (الف) ملفوظاتِ اقبال ۳۸۴ (ب) ملفوظات کے مجموعے ۳۸۸ اقبال کے حضور ، جولائی ۱۹۷۱ء ۳۸۸ ملفوظات [اقبال]، اوّل: س ن۔ دوم ۱۹۴۹ئ، سوم: ۱۹۷۷ئ ۳۸۹ اقبال علیہ الرحمۃ کے چند جواہر ریزے ، ۱۹۴۷ء ۳۹۵ روز گارِ فقیر ، [اول] ، ۱۹۵۰ء ۳۹۶ روز گارِ فقیر ، دوم ، ۱۹۶۴ء ۳۹۸ اقبال کے ہم صفیر [۱۹۷۷ئ] ۳۹۹ اقبال کے ہم نشین ۳۹۹ مجالسِ اقبال ۴۰۱ (ج) ملفوظاتِ اقبال کی تدوینِ نو ۴۰۳ ۷ - اقبال کی مرتّبہ درسی کتابیں (الف) اقبال بحیثیتِ معلم ۴۰۸ (ب) درسی کتابیں ۴۱۱ اُردو کورس ، چھٹی جماعت کے لیے ۴۱۱ اُردو کورس ، ساتویں جماعت کے لیے ۴۱۲ اُردو کورس ، آٹھویں جماعت کے لیے ۴۱۳ اُردو کورس ، پانچویں جماعت کے لیے ۴۱۵ آئینۂ عجم ، ۱۹۲۷ء ۴۱۷ تاریخِ ہند ، ۱۹۱۳ء ۴۱۹ ژ ضمیمے (۱) تصانیف اقبال کے کتابیاتی کوائف ۴۳۴ (۲) انگریزی اشارات بسلسلہ دیباچہ ’’پیام مشرق‘‘ (ایک غیر مطبوعہ تحریر) ۴۷۶ (۳) The Muslim Community (ایک نایاب مضمون کا مکمل متن) ۴۸۱ ژ کتابیات الف - کتابیں ۵۰۵ ب - رسائل و اخبارات ۵۱۱ ج - مسودات اور قلمی بیاضیں ۵۱۳ د - غیر مطبوعہ خطوط اور یادداشتیں وغیرہ ۵۱۴ و - غیر مطبوعہ تحقیقی مقالے ۵۱۴ ژ اشاریہ ۵۱۵ ژ عکسی نقول ۱ - سرِورق ’’بانگِ درا‘‘ ، طبع اول ۵۴ ۲ - سرِورق ’’ اسرارِ خودی‘‘ ، طبع دوم ۱۱۰ ۳ - مکتوب بنام راغب احسن (مصغر) اور مکتوب بنام مولوی صالح محمد (جزوی مصغر) ۴۳۲ ۴ - سرِورق ’’ علم الاقتصاد ‘‘ ، طبع اول ۲۹۴ ۵ - Development کے دو نسخوں کے سرورق ۳۰۸،۳۰۹ ۶- سرِورق ’’ اقبال نامہ ‘‘ اوّل ۴۳۱ ۷ - سرِورق ’’ اُردو کورس ، پانچویں جماعت کے لیے ‘‘ ۴۱۴ ۸- سرِورق تاریخ ہند (نسخۂ اکادمی) ۴۲۴ ۹- سرِورق تاریخ ہند (نسخۂ کفایت) ۴۲۶ ۱۰- سرِورق تاریخ ہند (نسخۂ سنجرپور) ۴۲۷ ۱۱- سرِورقHistory of India ۴۲۹ ژ…ژ…ژ ٍتقدیم مکتوبِ رشید حسن خاں (ایک اقتباس) صاحب!میں نے آپ کی اس کتاب کو جی لگا کر اور نظر جما کر از اوّل تا آخر پڑھا اور کسی طرح کے تکلف کے بغیر یہ عرض کرتا ہوں کہ اسے قدرِ اوّل کاکام پایا۔ آپ نے جزئیات پر جس طرح توجہ مبذول کی ہے اور اس سلسلے میں جس اہتمام کو ملحوظ رکھا ہے، اب وہ کم یاب ہے۔ ایک خاص بات یہ بھی ہے [کہ] متن کے تقابل کے سلسلے میں آپ نے املا کے متعلقات پر پوری طرح توجہ کی ہے۔ اور [یہ] پہلو ایسا ہے جو اَب تک محرومِ توجہ رہا ہے۔ جس دیدہ ریزی اور باریک بینی کے ساتھ آپ نے ایک ایک لفظ، ایک ایک حرف اور رموزِ اوقاف پر نظر ڈالی ہے، وہ ایک مثال کی حیثیت سے پیش کیے جانے کے قابل ہے۔ مثال کے طور پر صفحہ ۳۴ [زیرنظر اڈیشن میں صفحہ۶۴، ۶۵]پر ؓ اور ۔ ؑ کے اضافوں پر جس طرح آپ نے نظر رکھی ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ حسینؓ اور حسینؑ میں بہت بڑا معنوی فرق ہے جس کی طرف عام آدمی کی توجہ عموماً مبذول نہیں ہوپاتی (بہت سے خواص کا بھی یہی احوال ہے) یا مثلاً صفحہ۴۹ [زیرنظر اڈیشن میں صفحہ۷۹]پر املا سے متعلق جو بحث کی گئی ہے، وہ ہمارے مرتبین کے پڑھنے کی چیز ہے، یا مثلاً صفحہ۵۱ [زیر نظر اڈیشن میں صفحہ۸۱]پر جن چھوٹی چھوٹی جزئیات کی نشان دہی کی گئی ہے (مثلاً ’’ناپائدار‘‘ اور ’’ناپایدار‘‘ یا دروازہ اور دروازے) ان کی حیثیت جس قدر اہم ہے، اسی قدر لوگ ان سے ناآشنا ہیں اور ان کو قابلِ اعتنا نہیں سمجھتے یا مثلاً اسرار و رموز کے مختلف اڈیشنوں کا جس طرح تقابلی مطالعہ کیا گیا ہے اور ایک ایک حرف اور حرکت اور علامت کا تعین کیا گیا ہے، اس کی مثال آپ کی اس کتاب سے پہلے مجھے تو کہیں ملتی نہیں یا مثلاً صفحہ۲۳۸ [زیرنظر اڈیشن میں صفحہ۲۴۶]پر ’’محمدؐ اقبال‘‘ اور ’’محمد اقبال‘‘ کے نازک فرق کو ملحوظ رکھا۔ غرض کہ آپ کی یہ کتاب تدوین کے طلبہ کے لیے خاص حیثیت رکھتی ہے ( اقبالیات کے ذخیرے میں اضافہ تو خیر ہیئی[کذا])۔ میں اگر اس کتاب کے مطالعے سے محروم رہتا تو مجھے بڑا افسوس ہوتا۔ اسی پر تأسف ہے کہ اب تک کیوں نہیں اسے پڑھ سکا تھا اور آپ کا بطور خاص ممنون ہوں کہ آپ کی کرم فرمائی نے مجھے اس کے مطالعے کا موقع بخشا۔ مجھے آپ کی اس تجویز سے مکمل اتفاق ہے جو ص۲۷۵ [زیرنظر اڈیشن میں ص ۲۷۹] پر آپ نے پیش کی ہے لیکن اس میں شک ہے کہ کوئی اللّٰہ کا بندہ اس کام کو انجام دینا پسند کرے گا! تحقیقی اور تدوینی کام یوں بھی بہت اچھے اب نہیں ہوپارہے ہیں۔ اس لیے کہ جس انہماک کی ضرورت ہوتی ہے، ان کے لیے، وہ عنقا ہوگیا ہے۔ لوگ ’’کثیر المقاصد‘‘ ہوتے جارہے ہیں اور تحقیق شرک کو قبول کرتی نہیں۔ پھر بھی عرضِ تمنا کرتے رہنا چاہیے، شاید آجائے کوئی آبلہ پا۔ بنام رفیع الدین ہاشمی رشید حسن خاں دہلی، ۲۰؍مارچ ۱۹۸۴ء ئ……ئ……ء دیباچہ (طبع سوم) زیرنظر کتاب کا دوسرا اڈیشن دس برس پہلے تیار ہوا تھا۔ (تاریخ دیباچہ طبع دوم: ۱۴؍جولائی ۲۰۰۰ئ، سنہ اشاعت: ۲۰۰۱ئ، مگر عملاً یہ اگست ۲۰۰۲ء میں منظر عام پر آیا)۔ دس برسوں میں موضوع زیربحث کے سلسلے میں جو کچھ پیش رفت ہوئی، ذیل میں باب وار اس کا مختصر ذکر کیا جارہا ہے: ۱،۲- اُردو اور فارسی کلام کے مجموعے ہم نے طبعِ دوم کے دیباچے میں لکھا تھا کہ کلامِ اقبال کے ’’حقوقِ اشاعت کے محفوظ‘‘ ہونے کی پابندی ختم ہونے کے بعد، اب بازار میں کلیاتِ اقبال، اُردو کی نوع بنوع اشاعتوں کی بھرمار ہے۔ آٹھ سال کے عرصے میں رفتہ رفتہ اس بھرمار میں اضافہ ہوتا گیا اور اب اُردو کلیات کا ایک سیلاب آچکا ہے۔ سیلاب کی زد میں آنے والی ہر شے ’’سیلاب زدہ‘‘ ہوجاتی ہے چنانچہ اقبال کے ان نوع بنوع کلیات میں صحتِ متن کا حال بدستور پتلا ہے۔ البتہ اقبال اکادمی پاکستان لاہور کا شائع کردہ اڈیشن ۲۰۰۷ء صحیح ترین نسخہ ہے۔ اس کی ساتویں اشاعت، ۲۰۰۴ء میں صفحہ ۵۷/۷۳ کی غلطی بدستور موجود تھی۔ ایک اور غلطی بالِ جبریل کی اوّلین اشاعت ہی سے تصحیح طلب چلی آرہی ہے۔ ص۳۵/۳۵۹ کی پہلی سطر میں ’’نومبر‘‘ کے بجاے ’’۳۰؍اکتوبر‘‘ صحیح ہے۔ اب ان دونوں اغلاط کی تصحیح ہوگئی ہے۔ کلیاتِ اقبال اُردو کے ضمن میں ہم نے اپنے ایک مضمون ’’کلامِ اقبال کی تدوین‘‘ (مشمولہ: اقبالیات: تفہیم و تجزیہ، لاہور [۲۰۰۵ئ]) میں جو گزارشات پیش کی تھیں، وہ قابل غور ہیں۔ اس کے ساتھ ہی جناب رشید حسن خاں کا مضمون’’کلامِ اقبال کی تدوین‘‘ بھی توجہ چاہتا ہے۔ انھوں نے کلامِ اقبال کا ایک تحقیقی اڈیشن مرتب کرنے کے حق میں نہایت وزنی دلائل دیے ہیں۔ ان کا یہ مضمون کم و بیش ۱۵برس پہلے چھپا تھا اور جب انھوں نے محسوس کیا کہ ان کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی ہے تو موصوف نے ڈاکٹر خلیق انجم کی تجویز و تحریک پر خود ایسا ایک تحقیقی اڈیشن مرتب کرنے کا بیڑا اُٹھایا اور راقم کو بھی شریکِ کارکرلیا۔ ہم نے مجوزہ تحقیقی اڈیشن کی کچھ تفصیلات بھی طے کرلی تھیں۔ خیال تھا کہ ۲۰۰۵ء کا موسمِ خزاں (نومبر) شروع ہوتے ہی عملاً کام کا آغاز ہوجائے گا مگر ہم دونوں کی خرابیِ صحت آڑے آئی،۱؎ کام میں تعطل پیدا ہوا تاآنکہ ۲۶؍فروری ۲۰۰۶ء کو خاں صاحب خالقِ حقیقی سے جاملے اور ہمارا یہ منصوبہ دھرے کا دھرا رہ گیا: آں قدح بشکست و آں ساقی نماند۔ محبی ڈاکٹر خلیق انجم بدستور خواہاں ہیں کہ میں اس منصوبے کو انجام دوں___ و بید اللہ التوفیق۔ اس عرصے میں ایک عجیب و غریب اور نامعقول حرکت بانگِ درا مکمل کے نام سے سامنے آئی ہے جسے کسی بشیر احمد نے مرتب کیا اور دنیا پبلی کیشنز دہلی نے شائع کرنے کا ’’کارنامہ‘‘ انجام دیا ہے۔ بشیر احمد نے کیا یہ ہے کہ ۱۹۲۴ء تک علامہ اقبال کا سارا متروک کلام بانگ درا میں شامل کرکے بانگِ درا کی (اقبال کی قائم کردہ) ترتیب کو بدل ڈالا ہے۔ اس حرکت کے ذریعے انھوں نے بزعم خویش بانگِ درا کو ’’مکمل‘‘ کردیا ہے جسے ان کے خیال میں اقبال ’’ادھوری‘‘ چھوڑ گئے تھے۔ یہ متروک کلام انھیں سارے کا سارا، باقیات کلامِ اقبال کے مجموعوں خصوصاً صابر کلوروی مرحوم کے مرتبہ کلیاتِ باقیاتِ شعرِ اقبال سے تیار شدہ مل گیا(یہ مجموعہ اقبال اکادمی پاکستان لاہور سے اشاعت پذیر ہونے کے بعد دہلی سے بھی چھپ چکا ہے)۔ علامہ اقبال نے اپنے کلام کا کچھ حصہ تلف کر دیا تھا اور ۱۹۲۴ء میں بانگِ درا شائع کرتے وقت بہت سا شائع شدہ کلام بھی قلم زد کردیا تھا۔ اس متروک کلام کو الگ سے شائع کرنا اقبال کے ذہنی ارتقاکو سمجھنے کے لیے علمی طور پر تو مفید ہوسکتا ہے مگر اسے متداول کلام میں دوبارہ ملا کر ’’مکمل‘‘ اقبال کو پیش کرنا انتہائی بدذوقی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے گندم کے ڈھیر سے نکالے ہوئے بھوسے،روڑوں اور کنکر پتھر کو دوبارہ اسی ڈھیر میں ملا دیا جائے اور اعلان کیا جائے کہ ہم نے گندم کے ڈھیر کو ’’مکمل‘‘ کردیا ہے۔ جو تماشا بشیر احمد صاحب نے کیا ہے، اگر ہم اپنے علمی اور ادبی ذخیرے کو اسی طرح ’’مرتب‘‘ اور ’’مکمل‘‘ کرنا شروع کردیں تو سارا ادب ’’کہاں کی اینٹ کہاں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘ کے مصداق ’’چوں چوں کا مربہ‘‘ بن کر رہ جائے گا۔ اقبال کے متروک کلام کو ان کے اصل کلام کے چشمۂ صافی میں ملانا ایک نامعقول حرکت ہے اور یہ علامہ اقبال کی رسوائی کے مترادف ہے۔ خدا، بشیر احمد صاحب کو توفیق نہ دے کہ وہ بالِ جبریل ۱- اس کی کچھ تفصیل راقم کے نام رشید حسن خاں کے متعدد خطوں میں ملتی ہے۔ یہ خطوط مکاتیب رشید حسن خاں بنام رفیع الدین ہاشمی کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں۔ ناشر: ادبیات لاہور، ۲۰۰۹ئ۔ اور ضربِ کلیم وغیرہ بھی اسی طرح ’’مکمل‘‘ کرکے شائع کریں۔ کلیاتِ اقبال، فارسیکا کوئی دوسرا اڈیشن، تاحال سامنے نہیں آیا۔ غلام علی اڈیشن گراں قیمت ہے اور اس کا حجم اور ضخامت بھی زیادہ ہے۔ اگر کوئی ناشر اسی ہندی [برعظیم ہندوپاکستان میں رائج] نستعلیق خط اور املا میں فارسی کلیات شائع کرے تو نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت کے (بچے کھچے فارسی) قارئین کی ضرورت بھی پوری ہوگی اور وہ نامانوس املا میں طبع شدہ ایرانی کلیات (اکادمی اڈیشن، کاتب: امیر فلسفی) کو باَمرِ مجبوری پڑھنے کی مشقت سے بچ جانے پر آسودگی محسوس کریں گے۔ ۳- مکاتیب کے مجموعے اس عرصے میں دو تین چیزیں سامنے آئی ہیں، اوّل: اقبال نامہ کا یک جلدی اڈیشن (مرتب: مختار مسعود) دوم: مکاتیب اقبال بنام نیاز کا نیا اڈیشن (مرتب: عبداللہ شاہ ہاشمی) سوم: اقبال نامے کا نیا اڈیشن (مرتب: ڈاکٹر اخلاق اثر)۔ ان تینوں کتابوں کا تعارف، تیسرے باب میں اپنے محل پر دیا جارہا ہے۔ زیرنظر کتاب کے دیباچۂ طبع دوم میں ہم نے خطوطِ اقبال کی تحقیقی تدوین کا ذکر کیا تھا، باوجودیکہ کلیاتِ مکاتیب اقبال اس وقت اقبال کے نثری متون کی سب سے مقبول کتاب ہے، مذکورہ بالا ضرورت باقی ہے بلکہ کلیاتِ مکاتیب کے موجودہ غیر اطمینان بخش معیار ترتیب و تدوین کے پیش نظر، اس ضرورت کی اہمیت دو چند ہوگئی ہے۔ یہ کام ذوقِ تحقیق رکھنے والے کسی اقبال شناس کا منتظر ہے: ع اک آبلہ پا وادیِ پُرخار میں آئے کلیاتِ مکاتیب اقبال (مرتب: سیّد مظفر حسین برنی) پر تعارفی نوٹ، اسی تیسرے باب کے آخر میں (ص۲۸۰-۲۸۲) ملاحظہ کیجیے۔ اس طرح اقبال کے متفرق خطوط خاصی تعداد میں سامنے آئے ہیں۔ رسائل و جرائد میں شائع شدہ ایسے غیر مطبوعہ خطوط کی مجموعی تعداد ایک سیکڑے سے متجاوز ہوگی ۔مزید برآں خطوط اقبال کے بعض اہم ذخیرے بھی سامنے آئے ہیں جو مختلف کتابوں میں شامل ہیں، مثلاً: اوّل: سید شکیل احمد کے دریافت کردہ ذخیرۂ مکاتیب میں سات خطوط شامل ہیں (اقبال ریویو، حیدرآباد دکن، جنوری ۱۹۸۴ئ)۔ ان میں اکبر حیدری کے نام ۳خطوط اس اعتبار سے اہم ہیں کہ ان کا موضوع اقبال کے بڑے بیٹے آفتاب اقبال ہیں۔ آفتاب قدرتی طور پر ہمیشہ اپنی والدہ کے طرف دار رہے، جن سے اقبال کے تعلقات اچھے نہیں تھے لیکن ان خطوں سے پہلی بار یہ اندازہ ہوتا ہے کہ والد کے ساتھ آفتاب اقبال کا اپنا رویہ بھی حد درجہ نامناسب اور تکلیف دہ تھا اور اس نے اپنی حرکتوں سے اقبال کو بہت ذہنی اذیت پہنچائی۔ اقبال کہتے ہیں کہ وہ ہمیں nasty قسم کے خطوط لکھتا رہا اور جو کچھ وہ کرتا ہے (آفتاب اقبال، سر اکبر حیدری سے مالی اعانت کے حصول کے لیے کوشش و کاوش) وہ اس کی black mailing scheme کا حصہ ہے۔ (اقبال نئی تحقیق، ص۵۴) ۲؍فروری ۱۹۳۷ء کے خط میں لکھتے ہیں کہ ان برسوں میں اس کا رویہ اس قدر تکلیف دہ رہا کہ میں بیان نہیں کرسکتا۔ وہ میرے لیے a constant source of pain (ایک مستقل دردِ سر بنا) رہا ہے۔ (ایضاً، ص۵۵) اس ذخیرۂ مکاتیب کے قدرے مفصل تعارف کے لیے دیکھیے: راقم کا تبصرہ در اقبالیاتی جائزے (ص۵۵-۵۷)۔ دوم: شیخ اعجاز احمد کی تصنیف مظلوم اقبال (۱۹۸۵ئ) میں ۱۰۳، ایسے خطوط شامل ہیں جو اقبال نے افرادِ خاندان (شیخ نور محمد، شیخ عطا محمد، شیخ اعجاز احمد اور شیخ مختار احمد) کے نام لکھے تھے۔ شیخ اعجاز احمد نے انھیں ضروری صراحتوں کے ساتھ مربوط و مسلسل انداز میں مرتب کرکے پیش کیا ہے۔ زیادہ تر خطوط روز مرہ زندگی کے اُمور و معاملات سے متعلق ہیں تاہم بعض خطوط سے اقبال کی شخصیت، ذہن اور ملت کے مستقبل کے بارے میں ان کی رجائیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ مرتبِ خطوط نے کہیں کہیں بعض الفاظ حذف کردیے ہیں۔ سوانحی اعتبار سے یہ ذخیرہ اہم ہے۔ (مظلوم اقبال کے خطوط کا نسبتاً تفصیلی تعارف، دیکھیے راقم کی کتاب: ۱۹۸۵ء کا اقبالیاتی ادب، ص۱۴-۱۵) سوم: ڈاکٹر سعید اختر درانی نے اقبال کی جرمن ٹیوٹر مس ایما ویگے ناسٹ کے ۲۷ (انگریزی=۱۰ اور جرمن=۱۷) خطوط اپنی کتاب اقبال یورپ میں (۱۹۸۵ئ) میں شائع کیے تھے۔ کتاب کے دوسرے اڈیشن (۱۹۹۹ئ) میں خطوں کو مزید بہتر انداز میں اور اقبال کے دست نوشت عکوس اور ان کی نقلِ حرفی کو اُردو ترجمے کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔ ان کا زمانۂ تحریر اکتوبر ۱۹۰۷ء سے ۱۹۳۳ء تک کا ہے مگر ۱۱؍اکتوبر ۱۹۱۹ء کے بعد سے ۱۴؍اکتوبر ۱۹۳۱ء تک کے درمیانی عرصے کا کوئی خط موجود نہیں ہے۔ اقبال کی شخصیت، ان کی نفسیات اور رومانوی افتادِ طبع کو سمجھنے کے لیے یہ خطوط ایک بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ویگے ناسٹ اور اس کے حوالے سے جرمنی کی یاد ان کے ذہن سے کبھی محو نہ ہوسکی۔ (مزید تفصیل دیکھیے: ۱۹۸۵ء کا اقبالیاتی ادب، ص۱۱-۱۴)۔ چہارم: عبدالعزیز مالواڈہ (م: ۲۸؍جنوری ۱۹۷۱ئ) کا ذخیرۂ مکاتیب (نوادر، ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، ۱۹۸۵ئ) ۱۹ اُردو اور انگریزی خطوں اور پانچ دعوتی رقعات پر مشتمل ہے۔ یہ اس اعتبار سے اہم ہے کہ اقبال، مالواڈہ کو اپنے ’’بہترین دوستوں‘‘ میں شمار کرتے تھے اور ان کے دل پر مالواڈہ کے پُرخلوص خطوں کا، گہرا نقش موجود تھا۔ ان خطوں سے دونوں کے بے تکلفانہ باہمی روابط کی نوعیت سامنے آتی ہے۔ (مزید دیکھے: ۱۹۸۵ء کا اقبالیاتی ادب، ص۷۵)۔ پنجم: نوادرات (فہرست اقبال نمائش: عجائب گھر لاہور، ۱۹۸۲ئ) میں ڈاکٹر ظفرالحسن (اور ڈاکٹر سیّد عبداللطیف) کے نام، اقبال کے چند اہم دست نوشت خطوط شامل ہیں۔ ششم: اقبال ریویو (حیدرآباد دکن، اپریل ۲۰۰۶ئ) میں اقبال کے بعض حیدرآبادی معاصرین (علامہ عبداللہ عمادی، ابو ظفر عبدالواحد، غلام دستگیر رشید اور ڈاکٹر سید عبداللطیف) کے نام مطبوعہ اور غیر مطبوعہ مکاتیب یکجا شائع کیے گئے ہیں۔ ان برسوں میں اقبال اکادمی پاکستان کے اُردو مجلے اقبالیات میں علامہ کے متعدد غیر مطبوعہ خطوط شائع ہوتے رہے ہیں۔ ۱۹۸۵ء میں اقبال کے ۹غیر مطبوعہ خطوط دریافت ہوئے تھے۔ (تفصیل دیکھے: ۱۹۸۶ء کا اقبالیاتی ادب، ص۱۸-۲۳) اسی طرح مزید ۱۲غیر مطبوعہ خطوں کی دریافت کی تفصیل کے لیے دیکھیے: اقبالیاتی ادب کے تین سال ۱۹۸۷ئ-۱۹۸۹ئ، ص۲۷-۲۸)۔ ڈاکٹر صابر کلوروی گذشتہ تین دہائیوں سے اقبال کے غیر مدوّن خطوط کو یکجا کرکے ایک نیا مجموعہ شائع کرنے کا عزم کیے ہوئے تھے۔ انھوں نے لکھا تھا: ’’راقم الحروف بھی تقریباً پونے دوصد خطوط پر مشتمل ایک نیا مجموعۂ مکاتیب مرتب کررہا ہے۔‘‘ (دیباچہ: اشاریہ مکاتیب اقبال،ص ’’ص،ض‘‘) افسوس ہے وہ ۲۲؍ مارچ ۲۰۰۸ء کو انتقال کرگئے اور ان کا یہ منصوبہ تشنۂ تکمیل رہ گیا۔ باب۴: مستقل نثری تصانیف کسی کتاب کا نئی، بہتر اور تحقیقی تدوین کے ساتھ کوئی نیا اڈیشن سامنے نہیں آیا۔ علم الاقتصاد اور ڈاکٹریٹ کے مقالے Development کی تحقیقی تدوین بطور ایک علمی ضرورت بدستور باقی ہے۔ باب۵: متفرق نثری مجموعے بعض مجموعوں کی (بلاترمیم و اضافہ) اشاعتِ مکرر عمل میں آئی، البتہ Stray Reflections اس عرصے میں تین بار اضافوں، تبدیلیوں اور نئی ترتیب و تدوین کے ساتھ چھپی ہے۔ زیر نظر اڈیشن میں ان سب کا ذکر، اپنے محل پر کر دیا گیا ہے۔ باب۶: ملفوظات کے مجموعے اس عرصے میں شائع شدہ پروفیسر جعفر بلوچ کا مرتبہ ملفوظاتی مجموعہ مجالسِ اقبال (۲۰۰۲ئ) ملفوظاتی سلسلے کی ایک اور کڑی ہے جس کا ذکر، اپنے محل پر کیا جارہا ہے۔ اسی طرح ماقبل کے دو مجموعوں اقبال کے ہم صفیر (۱۹۷۷ئ) اور اقبال کے ہم نشین (۱۹۸۵ئ) کا جائزہ تصانیفِ اقبال کے سابق اڈیشن (۲۰۰۱ئ) میں شامل نہیں ہوسکا تھا، زیر نظر اشاعت میں دونوں مجموعوں کا تذکرہ بھی شامل کیا گیا ہے۔ مجالسِ اقبال کے علاوہ، اس عرصے میں مختلف رسائل و جرائد میں ملفوظاتی مضامین شائع ہوئے ہیں۔ یادداشتوں پر مبنی شذرات اور کچھ ملفوظات بعض آپ بیتیوں کے ذریعے منظر عام پر آئے ہیں۔ اس نوع کی تحریریں، اقبال کی شخصیت اور ان کی فکر کو سمجھنے کے لیے خاص اہمیت رکھتی ہیں، اس لیے ملفوظاتِ اقبال پر تحقیق اور اُن کا تجزیاتی مطالعہ، بدستور توجہ طلب ہے۔ باب۷: اقبال کی مرتبہ درسی کتابیں اس سلسلے میں ایک اہم دریافت اقبال سے منسوب تاریخ ہند کے نسخۂ کفایت کے ناقص الآخر اور بعد ازاں مکمل نسخے کی ہے، جن کا اجمالی ذکر باب ۷ میں کیا جارہا ہے۔ اس کی تفصیل بعنوان ’’تاریخ ہند: چند تصریحات‘‘ مشمولہ راقم کی کتاب اقبالیات: تفہیم و تجزیہ (اقبال اکادمی لاہور [۲۰۰۵ئ]) میں پیش کی گئی ہے۔ متذکرہ مضمون میں نسخۂ کفایت ناقص الآخر کا ذکر تھا، خوش قسمتی سے بعد ازاں نسخۂ کفایت، مکمل صورت میں دستیاب ہوگیا۔ اس سلسلے میں اس اڈیشن کا سراغ عزیز دوست ملک حق نواز خاں (پیرزئی، ضلع اٹک) نے لگایا۔ نسخۂ کفایت (مکمل) کا یہ نایاب نسخہ انیس شاہ جیلانی صاحب کی ملکیت ہے، اسی سے استفادہ کیا گیا ہے۔ میں ان دونوں حضرات کا شکرگزار ہوں۔ بحیثیت مجموعی اقبال کی مرتبہ درسی کتابوں پر تحقیقِ مزید کی ضرورت ہے اور ہم پُرامید ہیں کہ مستقبل کے محققین اقبالیات، کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی موقع پر یا کسی سند کے لیے ہی سہی، اس اہم کام کی طرف متوجہ ہوں گے۔ طبع دوم کے دیباچے میں راقم نے عرض کیا تھا کہ: ۱- ’’تصانیف اقبال پر تحقیق ایک وسیع موضوع ہے۔ سطور بالا میں جو کچھ کہا گیا ہے اس کی حیثیت فقط چند اشارات کی ہے اور وہ بھی شاید نامکمل۔‘‘ (ص’’ و‘‘) ۲- ’’راقم الحروف کے لیے یہ احساس (جو مبنی بر حقیقت ہے) سوہانِ روح ہے کہ ۱۹،۲۰ برس پہلے متونِ اقبال کی جن غلطیوں کی نشان دہی کی گئی تھی وہ متون انھی غلطیوں سمیت بدستور چھپ رہے ہیں۔‘‘ (ص: ’’و-ز‘‘) آج نو برس بعد مجھے اپنے مندرجہ بالا بیانات میں کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ صورتِ حالات برقرار اور بدستور ہے۔ اگرچہ کلامِ اقبال کے بعض ناشرین (اور ان میں اقبال اکادمی پاکستان لاہور پیش پیش ہے) کوشش کرتے ہیں کہ نیا اڈیشن شائع کرتے وقت متن کی معلوم اغلاط درست کرلی جائیں لیکن بیشتر ناشرینِ کلامِ اقبال نے جس نسخے (غلام علی اڈیشن ۱۹۷۳ئ) کو بنیاد بنایا، اس میں جن اغلاط کی نشان دہی برسوں پہلے کی گئی تھی، بیشتر اب بھی بدستور موجود ہیں۔ اس سے قطعِ نظر اقبال کے فارسی اور اُردو کلام میں اب بھی کہیں نہ کہیں کوئی ایسا مقام سامنے آجاتا ہے جو تحقیقِ مزید اور درحقیقت فارسی اور اُردو کلام کے تحقیقی اڈیشنوں کی ضرورت کا احساس تازہ کرتا ہے۔ زیر نظر اڈیشن مشینی کتابت پر پیش کیا جارہا ہے۔ نظرثانی میں، اس موقع پر متن میں کہیں کہیں ترامیم کی گئی ہیں اور معدودے چند اضافے بھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ زیرنظر کتاب کے بعض حصے آج [۲۹سال بعد] ازسرِنولکھنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ اس بات کا قائل ہونے کے باوجود کہ قلم کار، خصوصاً تحقیق کار کو تادمِ آخر اپنے موضوع سے جُڑے رہنا چاہیے، اور قارئین کو متعلقہ موضوع پر تازہ ترین معلومات و تحقیقات سے آگاہ رکھنا چاہیے۔ بعض وجوہ سے اب میرے لیے ایسا ممکن نہیں چنانچہ میں یہ کام مستقبل کے محققینِ اقبالیات کے سپرد کرتا ہوں۔ امیدِ واثق ہے کہ وہ نہ صرف اس تحقیق کو آگے بڑھائیں گے بلکہ راقم کی زیرنظر ناتمام کاوش کو، کہیں زیادہ بہتر اور برتر معیار پر انجام پذیر کرنے کی کوشش کریں گے۔ زیرنظر اڈیشن کی تیاری کے سلسلے میں مَیں بہت سے دوستوں اور عزیزوں کا شکرگزار ہوں جنھوں نے وقتاً فوقتاً بعض غلطیوںاور کمیوں کی طرف توجہ دلائی اور بعض نے عملاً تعاونِ علمی فراہم کرکے اس کام کو آسان بنایا۔ ان میں جناب رشید حسن خاں مرحوم، ملک حق نواز خاں، پروفیسر تحسین فراقی اور ڈاکٹر سعید اختر درانی شامل ہیں۔ محمد شاہد حنیف نے اس مقالے کو بڑی مہارت سے کمپوز کیا۔ شاگردِ عزیز قاسم محمود احمد نے آخری پروفوں کی تیاری میں مدد بہم پہنچائی اور کتاب کا اشاریہ بھی تیار کیا۔ مَیں اقبال اکادمی پاکستان کے جملہ کارپردازان کا بھی سپاس گزار ہوں۔ یہ کام ان کے تعاون کے بغیر انجام پذیر ہونا ممکن نہ تھا۔ بالخصوص ناظمِ اکادمی جناب محمد سہیل عمر صاحب، ناظمِ طباعت فرخ دانیال صاحب اور عملۂ کتب خانہ۔ و بید اللّٰہ التوفیق۔ رفیع الدین ہاشمی ۲۱؍ ستمبر۲۰۱۰ئ rdhashmi@yahoo.com ئ……ئ……ء دیباچہ (طبع دوم) تصانیفِ اقبال کا زیر نظر تجزیہ جون ۱۹۸۰ء میں مرتب کیا گیا تھا۔ اڑھائی برس بعد ۹؍نومبر ۱۹۸۲ء کو اس کی اشاعت عمل میں آئی۔ ۱۹، ۲۰ برسوں میں ’’پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بَہ چکا ہے‘‘ اور قافلہ ٔ اقبالیات اپنے راستے کی بہت سی منزلیں طے کر چکا ہے ، اس کے باوجود اس تجزیے کی افادیت اور اس کی اشاعتِ مکرر کا جواز موجود ہے۔ راقم نے زیر نظر تجزیے میں تصانیفِ اقبال کے ضمن میں جس بنیادی نکتے (صحتِ متن اور تحقیقی تدوین) پر زور دیا تھا ، اس عرصے میں اقبالیاتی تحقیق کاروں کی کچھ نہ کچھ توجہ اس طرف مبذول ہوئی ہے۔ (یہ دعویٰ نہیں کہ یہ توجہ محض راقم کی تصنیف کا نتیجہ ہے۔ ) بیس برسوں میں علامہ اقبال کے اُردو اور فارسی کلیات اور مختلف شعری مجموعوں کے متعدد متون سامنے آئے۔ انگریزی اور اُردو نثر کے بہت سے نئے مجموعے مرتب ہوئے ، چند مجموعوں کی تحقیقی تدوین بھی عمل میں آئی اور بعض مجموعوں کے علاوہ، سابقہ مطبوعات کے گوناگوں اڈیشن بھی شائع ہوئے ہیں ---- یہاں ان سب کا تفصیلی جائزہ ممکن نہیں ہے۔ (یہ کام اسی طرح کے ایک اور تحقیقی مقالے کا موضوع ہے)۔ سردست اس عرصے میں ہونے والے چند نمایاں اور اہم کاموں ، نیز موجودہ صورتِ حال کے بارے میں، باب وار چند اشارے اور تصریحات پیش کی جا رہی ہیں : ۱،۲۔ اُردو اور فارسی کلام کے مجموعے :کلام اقبال کی اشاعت کے ضمن میں اس عرصے کی ایک بڑی اہم پیش رفت یہ ہے کہ ۲۱؍ اپریل ۱۹۸۸ء کو (اقبال کی پچاسویں برسی پر) کاپی رائٹ ایکٹ کی رو سے کلام اقبال کے ’’حقوق اشاعت محفوظ‘‘ کی پابندی ختم ہو گئی تو متعدد ناشرین نے اُردو کلیات اور اُردو کے مختلف شعری مجموعے شائع کرنا شروع کر دیے۔ تجارتی مسابقت کی وجہ سے یہ مجموعے نسبتاً ارزاں قیمت پر دستیاب ہونے لگے۔ کلام اقبال کی وسیع تر اشاعت کے نقطۂ نظر سے تو یہ ایک خوش آئند امر تھا مگر اس صورتِ حال کا ایک منفی پہلو بھی سامنے آیا کہ بعض غیر ذمہ دار ناشرین نے کلام اقبال میں من مانی تحریفات کر ڈالیں۔ ایک ناشر نے تو بڑا ستم ڈھایا۔ بانگ درا کا دیباچہ اڑا دیا، کلام اقبال کی ترتیب بدل ڈالی ، ادوار کی حد بندی ختم کر دی، لاپروائی کی انتہا یہ کہ کلام کا کچھ حصہ کلیات اُردو سے حذف کر دیا۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے :اقبالیاتی ادب کے تین سال : ص ۳۴ ، ۳۵)۔ اس عرصے میں کلام اقبال کے جس قدر نسخے شائع ہوئے ، ان میں سے اقبال اکادمی پاکستان کا تیار اور شائع کردہ کلیات (=نسخۂ اکادمی) فائق اور بہتر ہے کیونکہ اس میں صحتِ متن و املا کی مقدور بھر کوشش کی گئی ہے۔ تاحال اس میں متن کی صرف ایک غلطی کا علم ہو سکا ہے۔ صفحہ ۵۷؍۷۳ کی آخری سطر میں ’’ فراق انگیز ‘‘ کے بجاے ’’ فراق آمیز ‘‘ درست ہے۔دراصل یہ غلطی شیخ غلام علی اڈیشن کی ہے۔ نسخۂ اکادمی کی اشاعت دوم (۱۹۹۴ئ) پر ’’ عوامی اڈیشن‘‘ اور ’’ اغلاط سے پاک نسخہ کے ’’ الفاظ درج ہیں۔ اشاعت سوم ( ۱۹۹۵ئ) میں بھی یہی صورت برقرار ہے مگر چہارم (۱۹۹۷ئ) سے ’’عوامی اڈیشن‘‘ اور ’’ اغلاط سے پاک نسخہ‘‘کے الفاظ حذف کر دیے گئے ہیں، تاہم صفحہ ۵۷؍۷۳ کی غلطی بدستور موجود ہے۔ نسخۂ اکادمی کا پہلا خصوصی اڈیشن (جسے ڈی لکس اڈیشن کا نام بھی دیا گیا ہے ) سب سے پہلے شائع کیا گیا تھا۔ نسخہ اکادمی کی تین مختلف طرح کی اشاعتیں عمل میں آئیں : ۱ - عوامی اڈیشن ۱۹۹۴ء ، ۱۹۹۵ء ، ۱۹۹۷ء اور ۲۰۰۰ء ۲ - خصوصی (ڈی لکس) اڈیشن ۱۹۹۰ء ۳ - سپر ڈی لکس اڈیشن ۱۹۹۴ء ان اشاعتوں کے سنین میں کچھ بے قاعدگی اور الجھائو ہے اور عام قاری چکرا جاتا ہے۔ ان کے ابتدائی صفحات میں کئی بار تبدیلیاں کی گئیں (تفصیل کے لیے دیکھیے: راقم کا مضمون ’’ کلام اقبال کی تدوین ‘‘ پر استدراک ‘‘ مطبوعہسیارہ ، لاہور ، اقبال نمبر۱۹۹۲ئ، نیز مشمولہ : تدوین۔ تحقیق اور روایت از رشید حسن خاں ، دہلی ۱۹۹۹ئ)۔ بہر حال ان تینوں اشاعتوں میں ۱۹۹۰ء کا خصوصی اڈیشن نہایت حسین اور دیدہ زیب ہے۔ رشید حسن خاں کے بقول : ’’ اس کے صفحات کے حواشی ، ایسی گل کاری اور رنگ آمیزی سے مزین ہیں کہ کچھ دیر کے لیے تو محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آنکھوں کی روشنی بڑھ گئی ہو‘‘۔ نسخۂ اکادمی کی خطاطی تنویر رقم نے کی ہے اور رنگین و خوش نماجَدْوَل ذوالفقار احمد کی تیار کردہ ہے۔ کلام اقبال کا ایسا دیدہ زیب اڈیشن کبھی شائع نہیں ہوا۔ تدوین کے ضمن میں ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ بال جبریل اور ارمغان حجاز کے آغاز میں منظومات اور دیگر مشمولات کی فہرستوں کا اضافہ کر دیا گیا ہے، مگر قابلِ اعتراض بات یہ ہے کہ نسخۂ اکادمی میں ، ترتیبِ کلام کی وہ اصل صورت بحال نہیں ہو سکی جو خود حضرت علامہ نے قائم کی تھی۔ غالباً اس لیے کہ نسخۂ اکادمی کی تیاری میں غلام علی اڈیشن پیش نظر رہا ، جس میں پہلی بار قطعاتِ اقبال کو ’’ رباعیات ‘‘ کے تحت یکجا کرنے کی بدعت اختیار کی گئی۔ نسخۂ اکادمی میں ایک اور کمی اشاریے کی ہے۔ اگرچہ بتایا گیا ہے کہ اشاریے اور حواشی کو ایک مستقل جلد کی صورت دی گئی ہے مگر تاحال یہ جلد شائع نہیںہوئی۔ (جب شائع ہو گی ، تب بھی اس الگ جلد کی افادیت وہ نہ ہو گی جو کلیات سے منسلک اشاریے اور حواشی کی ہو سکتی ہے۔) نسخۂ اکادمی میں بانگ درا اور بال جبریل کا قلم نسبتاً خفی ہے ، جب کہ ضرب کلیم اور ارمغان حجاز نسبتاً جلی قلم میں کتابت کیے گئے ہیں۔ اس کی لِمْ اپنی فہم ناقص سے بالاتر ہے۔ قلم یکساں ہوتا تو کلیات کے حسن و جمال اور دیدہ زیبی میں اضافہ ہوتا۔ فارسی کلیات کے ڈی لکس اور سپر ڈی لکس اڈیشنوں کی کتابت ایران کے نامور خطاط امیر فلسفی کی ہے۔ یہ اُسلوبِ کتابت سراسر ایرانی ہے اور برعظیم (بنگلہ دیش ، پاکستان اور بھارت) کے بیشتر فارسی قارئین کے لیے نامانوس اور اجنبی ہے اور اُلجھن میں مبتلا کرتا ہے۔ اس نظام میں غنہ آوازیں نہیں ہیں اور یاے معروف و مجہول اور واوِ معروف و مجہول کی تفریق روا نہیں رکھی گئی ، جس کی وجہ سے صرف معروف آوازیں رہ گئی ہیں۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے : نسخۂ اکادمی پر جناب رشید حسن خاں کا مضمون اور اس پر راقم کا استدراک، محولہ بالا)۔ نسخۂ اکادمی اپنی بعض کمیوں کے باوجود صحت متن کے لحاظ سے کلیات اُردو کا سب سے معتبر اور اطمینان بخش نسخہ ہے۔ اگرچہ بازار میں کلام اقبال کے نوع بنوع نسخوں اور اشاعتوں کی بھرمار ہے مگر ’’ ہمیں اعتراف کر لینا چاہیے کہ اقبال کو بہت کچھ ماننے کے باوجود ان کے کلام کا کوئی تحقیقی اڈیشن اب تک مرتب نہیں ہو پایا ہے‘‘۔(رشید حسن خاں) ۳ - مکاتیب کے مجموعے : اس عرصے میں اقبال کے خطوں کے کئی مجموعے چھپے ہیں ، جیسے :مولانا راغب احسن کے نام خطوط اقبال : جہان دیگر مرتبہ : محمد فرید الحق (کراچی، ۱۹۸۳ئ) یا اقبال بنام شاد مرتبہ : محمدعبداللہ قریشی (لاہور ، ۱۹۸۶ئ) جس میں شاد اقبال اور صحیفہ اکتوبر ۱۹۷۳ء میں مطبوعہ خطوط کو یکجا کر کے انھیں از سر نو مرتب کیا گیا ہے۔بیسیوں نئے (اور بعض غیر مطبوعہ) خطوط بعض اصحاب کی کاوشوں سے سامنے آئے ہیں۔ سب سے اہم اضافہ ایک تو ڈاکٹر سعید اختر درانی نے اور دوسرا ثاقف نفیس نے کیا۔ جرمن ٹیوٹر ایماویگے ناسٹ کے نام ، اقبال کے جرمن اور انگریزی خطوط ،جرمن نو مسلم محمد امان ہوبوہوم کی تحویل میں تھے جنھیں درانی صاحب بڑی کاوش و محنت سے اُردو ترجمے اور حواشی کے ساتھ مدون کر کے سامنے لائے ہیں۔ (اقبال یورپ میں طبع دوم ، ۱۹۹۹ئ) چودھری محمد حسین کے نام ۲۶ اُردو + ایک انگریزی=۲۷ غیر مطبوعہ خطوط اقبال کا ایک اہم ذخیرہ ، ان کے پوتے ثاقف نفیس نے اپنے ایم اے اُردو کے مقالے (۱۹۸۴ئ)کے ذریعے منکشف کیا ۔ اب یہ ذخیرہ مکتوبات اقبال بنام چودھری محمد حسین کے نام سے شائع ہوگیا ہے (لاہور ، ۱۹۹۸ئ)[مگر مجموعہ صرف ۲۰خطوں پر مشتمل ہے، ۷طویل خط شامل نہیں کیے گئے]۔ خطوط پر بحث و تحقیق کے سلسلے میں ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار صاحب ،ڈاکٹر صابر کلوروی ، ڈاکٹر تحسین فراقی ، ڈاکٹر اخلاق اثر ، ڈاکٹر اکبر رحمانی ، ماسٹر اختر ، کمال احمد صدیقی اور ڈاکٹر وحید عشرت وغیرہ کے مقالات اور کتابیں اہمیت رکھتی ہیں۔ لمعہ حیدر آبادی اور ممنون حسن خاں کے نام خطوط پر بحث نے بہت طول کھینچا اور نئے سے نئے نکات سامنے آئے (حوالوں کے لیے دیکھیے : اقبال کی اُردو نثر از زیب النساء ، اقبال اکادمی پاکستان لاہور ، ۱۹۹۷ئ) خطوطِ اقبال کے ضمن میں ایک خوش آئند امر یہ ہے کہ کلام اقبال کے برعکس ، خطوط اقبال کی تحقیقی تدوین پر خاصی توجہ دی گئی ہے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی نے اقبال نامہ اول کی تحقیقی تدوین کی ہے (یہ نسخہ اقبال اکادمی پاکستان سے عنقریب شائع ہو گا)۔ مزید برآں ایم فل اقبالیات کے حسب ذیل تحقیقی مقالات کی شکل میں بھی خطوط پر مفید کام ہوا ہے : ۱ - مکاتیب اقبال بنام خان نیاز الدین خاں: تعلیقات و حواشی، ۱۹۹۳ء ، از عبداللہ شاہ ہاشمی ۲ - اقبال جہان دیگر: تعلیقات و حواشی ، ۱۹۹۷ء از محمد صدیق ظفر [حجازی] ۳ - انوار اقبال (خطوط - ترتیب و تحشیہ) ۱۹۹۸ء از زیب النساء ان مقالوں کو تدوین خطوط کے ضمن میں اچھی پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے۔ راقم الحروف نے ۱۹۷۶ء میں کلیات مکاتیب اقبال کی ایک جامع تدوین کی تجویز پیش کی تھی ( خطوط اقبال ، ص ۲۶)۔ پھر زیر نظر تجزیے (۱۹۸۰ئ، ۱۹۸۲ئ) میں مکرر عرض کیا تھا کہ خطوط اقبال کا یہ عظیم الشان ذخیرہ کلیات مکاتیب اقبال کی شکل میں زیادہ توجہ اور دِقّتِ نظر کے ساتھ مرتب و مدون کیے جانے کا محتاج ہے اور اس ضمن میں چند تجاویز بھی پیش کی تھیں (ص ۲۷۱ تا ۲۷۶)۔ کئی برس بعد سید مظفر حسین برنی نے اس کام کا بیڑا اٹھایا ، اور اب ان کی مرتبہ کلیات مکاتیب اقبال چار جلدوں میں شائع ہو چکی ہے۔ (تیسری جلد پر ڈاکٹر تحسین فراقی کا تبصرہ مشمولہ اقبال : چند نئے مباحث شدت کے ساتھ خطوط اقبال کی تحقیقی تدوین کی ضرورت کا احساس دلاتا ہے۔ ۴- مستقل نثری تصانیف : پروفیسر محمد سعید شیخ نے اقبال کی انگریزی نثر کی مشکل ترین کتاب یعنی انگریزی خطبات (Reconstruction) کو برسوں کی محنت کے بعد ایک قابل رشک معیار پر مرتب کیا ہے (۱۹۸۶ئ)۔متن کی صحت ،حوالوں کی تلاش و تصحیح ، اقتباسات کی تعیین ، اشعار کی تخریج اور حواشی و تعلیقات کے کام میں انھوں نے جیسی دیدہ ریزی اور دقتِ نظر سے کام لیا ہے ، ویسی محنت و کاوش اقبال کے کسی اور متن کی تدوین پر نہیں کی گئی۔ یہ ایک معیاری و مثالی تحقیقی اڈیشن ہے ، جسے اقبالیات کے تدوینی کاموں میں نشانِ راہ بنایا جا سکتا ہے (تفصیلی جائزہ دیکھیے: ۱۹۸۶ء کا اقبالیاتی ادب، ص ۲۳ تا ۲۷)۔ اقبال کے تحقیقی مقالے Development کے اصل مسوّدے کی باز یافت ڈاکٹر سعید اختر دُرّانی نے کی ہے۔ (انھوں نے اس مقالے کی ایک مکمل نقل نومبر ۱۹۸۳ء میں پنجاب یونی ورسٹی لاہور کی دوسری عالمی اقبال کانگرس کے موقع پر ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کے ذریعے اقبال میوزیم لاہور کو دی تھی)۔ مذکورہ اولین مسوّدے میں ، بعد ازاں اقبال نے چند تبدیلیاں کیں اور مقالے کی اشاعت کے موقع پر اس کے کچھ حصے حذف کر دیے۔ ڈاکٹر درانی نے اس متن کی ترامیم اور محذوفات پر ایک سیر حاصل مضمون میں روشنی ڈالی ہے۔ (دیکھیے :اقبال یورپ میں طبع دوم ۱۹۹۹ئ)۔ ایک اور اچھی تدوین ، اقبال کے ایک نو دریافت انگریزی مضمون Bedil in the Light of Bergson کی صورت میں سامنے آئی (۱۹۸۶ئ)۔ ڈاکٹر تحسین فراقی نے اقبال میوزیم سے اس غیر مطبوعہ مقالے کا دست نوشت مسوّدہ تلاش کر کے دِقّتِ نظر سے اسے پڑھا ، پھر متن کو اُردو ترجمے، حواشی اور ایک عالمانہ مقدمے کے ساتھ مطالعۂ بیدل ، برگساں کی نظر میں کے نام سے شائع کردیا۔ علامہ نے The Problem of Time in Muslim Philosophy کے نام سے ایک طویل مضمون لکھا تھا ، اس کے معدوم متن کا صرف ایک ہی ورق دستیاب ہوا ، اسے بھی فراقی صاحب نے ترجمے اور توضیحات کے ساتھ ۱۹۸۷ء میں شائع کیا۔ (سیارہ خاص نمبر ۲۴)۔ اقبال کی موعودہ تصنیف ’’ تاریخ تصوف‘‘ کے دو ابواب کا مسودہ صابر کلوروی کو دستیاب ہوا ، جسے انھوں نے تاریخِ تصوف کے نام سے بعض حواشی کے ساتھ مرتب کر کے ۱۹۸۵ء میں شائع کیا۔ ۵ - متفرق نثری مجموعے : اقبال کے غیر مدون نثر پاروں کا ایک مجموعہ نگارشاتِ اقبال (مرتبہ زیب النسائ) ۱۹۹۳ء میں شائع ہوا۔ اقبال کے نثری ذخیرے کی تحقیقی تدوین کے سلسلے میں ایک اچھی اور کامیاب کوشش اختر النساء کے ایم فل اقبالیات کے تحقیقی مقالے بعنوان گفتار اقبال: متن کا تحقیقی مطالعہ(۱۹۹۶ئ) میں نظر آتی ہے۔ دیگر مجموعوں پر بھی اسی انداز میں تحقیق کی ضرورت ہے۔ ۶ - ملفوظات کے مجموعے : اقبال کے ’’ ملفوظات ‘‘ ان کے سماعی متن کے ذیل میں آتے ہیں۔اس عرصے میں اقبال پر بعض سوانحی کتابوں میں ان کے ملفوظات پر مشتمل خاصا مواد یکجا ہو کر سامنے آیا ہے۔ رسائل و جرائد میں بھی بیسیوں ملفوظاتی مضامین اور انٹرویو شائع ہوتے رہے۔ ایسے ملفوظاتی مضامین کا ایک عمدہ مجموعہ صابر کلوروی نے اقبال کے ہم نشین کے نام سے مرتب کیا تھا (۱۹۸۵ئ)۔ ملفوظات کے تحقیقی اور تجزیاتی مطالعے کی ایک کوشش طالب حسین اشرف نے ایم فل کے تحقیقی مقالے بعنوان ملفوظات اقبال: تحقیق و تجزیہ (۱۹۹۳ئ) کی صورت میں کی ہے مگر یہ موضوع پوری طرح ان کی گرفت میں نہیں آ سکا۔ ملفوظات پر تحقیق کی ضرورت تاحال باقی ہے۔ ۷ - اقبال کی مرتبہ درسی کتابیں : ڈاکٹر ملک حسن اختر نے اس موضوع پر کچھ مزید معلومات فراہم کی تھیں اور ایک مضمون میں راقم کی فراہم کردہ معلومات پر بعض اعتراضات کیے تھے (ماہ نو، لاہور ، اپریل ۱۹۸۳ئ۔ یہ مضمون ان کے مجموعہ مضامین : اقبال ایک تحقیقی مطالعہ، لاہور ، ۱۹۸۸ء میں بھی شامل ہے۔) راقم نے جواباً اپنے وضاحتی مضمون: ’’اقبال کی مرتبہ درسی کتابیں‘‘ (ماہ نو لاہور،اگست ۱۹۸۳ئ) میں ضروری توضیحات اور تصریحات پیش کیں۔ محمد بشیر چودھری نے ۱۹۹۴ء میں درسی کتابوں کے تجزیے پر ایم فل کا تحقیقی مقالہ مرتب کیا ، بعنوان : علامہ اقبال کی مرتبہ نصابی کتب : ایک تجزیہ ۔ ----------------------- تصانیفِ اقبال پر تحقیق ایک وسیع موضوع ہے۔ سطور بالا میںجو کچھ کہا گیا ، اس کی حیثیت فقط چند اشارات کی ہے اور وہ بھی شاید نا مکمل۔ اقبالیات کے زیر بحث شعبے میں جو پیش رفت ہوئی ہے ، اس سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کو مزید معلومات اور حوالوں کے لیے اقبال کی اُردو نثر (زیب النساء ، لاہور ۱۹۹۷ئ) کے علاوہ راقم کی بعض تالیفات : ۱۹۸۵ء کا اقبالیاتی ادب، ۱۹۸۶ء کا اقبالیاتی ادب، اقبالیاتی جائزے اور اقبالیاتی ادب کے تین سال کے متعلقہ حصے دیکھنے چاہییں۔ مزید برآں ڈاکٹر محمد ریاض کے مضمون ’’ اقبال کے اُردو فارسی کلیات کی اشاعت‘‘ (برکاتِ اقبال، لاہور، ۱۹۸۳ء ، ص ۲۴۷ تا ۲۵۳) اور راقم کے ایک مضمون : ’’تصانیفِ اقبال کا اشاعتی معیار‘‘ (سیارہ، لاہور۔ اقبال نمبر ۱۹۹۲ئ) کا مطالعہ بھی مفید ہو گا۔ راقم الحروف کے لیے یہ احساس (جو مبنی بر حقیقت ہے) سوہان روح ہے کہ ۱۹ ، ۲۰ برس پہلے متون اقبال کی جن غلطیوں کی نشان دہی کی گئی تھی ، وہ متون اب بھی انھی غلطیوں سمیت بدستور چھپ رہے ہیں۔ اس دوران میں اتفاقاً شیخ غلام علی اڈیشن کی چند ایک مزید اغلاط میرے علم میں آئیں۔ کلیات اُردو کی اغلاط کے لیے ’’تصریحات ‘‘ (ص ۵۴۳) میں نمبر ۶ دیکھیے۔ کلیات فارسی کے ضمن میں چند مثالیں ملاحظہ ہوں : صفحہ سطر غلط صحیح ۱۲۳ ۶ در ور(وائو ، رے) (یہ غلطی طبع اول سے چلی آ رہی ہے۔) ۵۱۲ ۲ پبش پیش ۹۰۳ ۳ جنیدؓ و بایزیدؓ جنیدؒ و بایزیدؒ کلیات اُردو ( غ ع اڈیشن) کے دیباچے (بعنوان : ’’اعتذار‘‘) میں محترم جاوید اقبال صاحب نے بتایا ہے کہ کتابت کا آخری مرحلہ اور صحت کلام کی ’’ سب سے کٹھن منزل‘‘ مولانا مہر کی ’’رہنمائی‘‘ میں انجام پائی۔ اس کے باوجود کلیات اُردو میں چند دلچسپ ’’غلطیاں‘‘ ملتی ہیں ، مثلاً: بانگ درا(ص ۱۷۶) کا ایک مصرع ہے : تیری میناے سخن میں ہے شرابِ شیراز مہر صاحب کہتے ہیں: ’’تیرے میناے سخن‘‘ درست ہے۔ ’’تیری‘‘ کتابت کی غلطی ہے (مطالب بانگ درا ، ص ۲۲۵) مگر شیخ غلام علی اڈیشن کی پروف خوانی میں انھوں نے یہ درستی نہیں کی۔ بال جبریل (ص۹۵) کا یہ مصرع : عشق کے مضراب سے نغمۂ تار حیات طبع اول سے اسی طرح چھپ رہا ہے۔ مہر صاحب فرماتے ہیں: ’’ کے ‘‘ کاتب کی غلطی ہے (مطالب بال جبریل ، ص ۱۱۹) مگر پروف خوانی میں انھوں نے اس غلطی کی تصحیح نہیں کی۔ بال جبریل(ص ۲۰) کا یہ مصرع : کر دے اسے اب چاند کی غاروں میں نظر بند طبع اول سے اسی طرح چھپ رہا ہے۔ مہر صاحب کے نزدیک ’’کی ‘‘ کتابت کی غلطی ہے (مطالب بال جبریل ،ص ۳۰) مگر کلیات شیخ غلام علی میں انھوں نے اسے درست نہیں کیا۔ اسرار و رموز (ص ۱۲۴) میں ایک مصرع ہے : شاید از سیل قہستاں برخوری یہ مصرع اسرار و رموز کے پہلے یکجا اڈیشن [۱۹۲۳ئ] سے اسی طرح چھپ رہا ہے۔ مہر صاحب لکھتے ہیں : ’’قہستان کاتب نے غلط لکھا ہے۔ یہاں کہستاں‘‘ ہونا چاہیے جو کوہستان کا محفّف ہے۔ قہستان، خراسان کا علاقہ ہے ، اسے سیل سے کوئی مناسبت نہیں‘‘۔ (مطالب اسرار و رموز، ص۲۳۰، ۲۳۱) مگر کلیات فارسی میں انھوں نے یہ غلطی بھی درست نہیں کی۔ ایسے متعدد امور تا حال تحقیق طلب ہیں۔ ----------------------- مجھے اعتراف کرنا چاہیے کہ طبع اول میں مجھ سے چند فاش غلطیاں سرزد ہوئیں۔ بعض اغلاط بعد ازاں دریافت ہوئیں۔ زیر نظر ، طبع دوم میں ایسی غلطیوں کی تصحیح کی کوشش کی گئی ہے۔ بعض اہم امور کی تصحیح و تصریح صفحہ ۵۴۳ پر کی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود ،ممکن ہے اب بھی،بعض اغلاط باقی ہوں۔ قارئین سے التماس ہے کہ نشان دہی کرکے ممنون فرمائیں۔ راقم کو اپنے کاموں کے ناتمام اور ناقص ہونے کا ہمیشہ احساس رہا ہے اور یہ کاوش بھی اس اعتراف کے ساتھ پیش ہے کہ : کارِ دنیا کسے تمام نہ کرد ----- السعی منی والا تمام من اللّٰہ۔ رفیع الدین ہاشمی ۱۴ جولائی ۲۰۰۰ئ صدر شعبۂ اُردو یونی ورسٹی اورینٹل کالج، لاہور ئ……ئ……ء حرفِ آغاز (دیباچہ، طبع اوّل) اُردو ادب میں، ’’اقبالیات‘‘ کی اصطلاح نسبتاً نئی ہے۔ علامہ اقبال کے شعری اور نثری مجموعے، ان کی شخصیت اور سوانح سے متعلق کتابیں، ان کے فکری و فنی ارتقا، ان کے سیاسی و مذہبی اور فلسفیانہ نظریات کے تحقیقی و تنقیدی مطالعے اور ان کی نظم و نثر کے توضیحی و تشریحی تجزیوں پر مبنی کتابیں، انتخاباتِ نظم و نثر، حتیٰ کہ رسائل و جرائد کے اقبال نمبر … یہ سب ’’اقبالیات‘‘ کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں۔ اس وسیع اور متنوّع ذخیرے کو دو واضح حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: ۱- اقبال کی تصانیفِ نظم و نثر۔ ۲- اقبال کے بارے میں سوانحی، تحقیقی، تنقیدی اور تشریحی کتب و مقالات۔ ’’اقبالیات‘‘ میں اوّل الذکر کی حیثیت بنیادی اور مؤخر الذکر کی نوعیت ثانوی ہے۔ ثانوی نوعیت کی تحریریں بے حد و حساب ہیں اور ان کی مقدار روز افزوں ہے، جبکہ اقبال کی اپنی تحریروں (Works by Iqbal) میں اضافہ ممکن نہیں۔ اُن کا کلامِ نظم و نثر، بالفاظِ دیگر، اقبال کا متن جتنا اور جیسا کچھ ہے، ’’اقبالیات‘‘ کے بنیادی ماخذ کے طور پر باقی رہے گا۔ زیرنظر مقالے میں، ’’اقبالیات‘‘ کے اسی بنیادی ماخذ یعنی علامہ اقبال کی نظم و نثر کا تحقیقی اور توضیحی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ جس خاکے (Synopsis) کی بنیاد پر پنجاب یونی ورسٹی نے اس موضوع پر تحقیق کی اجازت دی تھی، اُس میں مقالے کی نوعیت اور حدودِ کار کا تعین۔ّکرتے ہوئے واضح کیا گیا تھا کہ: ’’یہ جائزہ تحقیقی، تنقیدی اور توضیحی ہوگا۔ تصانیفِ اقبال پر بحیثیتِ کتاب تنقید بھی کی جائے گی، مگر اقبال کی شاعری اور افکار پر تنقید، مقالے کے دائرے میں شامل نہیں‘‘--- چنانچہ انھی حدود کے اندر رہتے ہوئے، اس مقالے میں: اوّل: جملہ شعری اور نثری مجموعوں کے بارے میں بنیادی معلومات فراہم کی گئی ہیں، یعنی ہر مجموعے کا مختصر پس منظر، اس کی ترتیب و تیاری، کتابت و طباعت، طبعِ اوّل کی تاریخِ اشاعت اور مابعد اشاعتوں کی تفصیل۔ مزید برآں بعض منظومات اور نثر پاروں کی تاریخِ تحریر بھی متعین۔ّ کی گئی ہے۔ ’’اقبالیات‘‘ کے جائزوں میں اس نوعیت کی کوئی مربوط تحقیقی کاوش موجود نہیں۔ اس مقالے میں بعض حقائق پہلی بار منظر عام پر آئے ہیں، اور کئی امور، جو ’’غلطی ہاے مضامین‘‘ کی حیثیت اختیار کرچکے تھے، ان کی تصحیح ہوگئی ہے۔ دوم: متن کے تحقیقی مطالعے میں مختلف مجموعوں کی اوّلین اشاعتوں کے بعد، دوسرے اور تیسرے اڈیشنوں میں کی جانے والی ترامیم، محذوفات، نیز ترتیبِ اشعار میں تقدیم و تاخیر کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔ اُمید ہے اقبال کے دور بہ دور ذہنی ارتقا کو سمجھنے میں اس سے مدد ملے گی۔ سوم: صحتِ متن پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے، ہر مجموعے کی اغلاطِ کتابت و املا کے ساتھ ساتھ اُن تصرفات کی نشان دہی بھی کردی گئی ہے، جو بعض مرتبین کے سہوِ نظر کے باعث، اقبال کے شعری و نثری متن میں راہ پاگئے ہیں۔ راقم کے نزدیک اقبال کے اصل متن سے سرِمو انحراف بھی روا نہیں، کیونکہ متن سے انحراف کے بعد، کی جانے والی تحقیق و تنقید: ’’تا ثریا مے رود دیوار کج‘‘ کا نقشہ پیش کرے گی۔ چہارم: اقبال کی بعض تحریروں کے بارے میں متعدد غلط فہمیاں مسلسل تکرار اور نقل در نقل کے سبب ’’مسلمہ حقائق‘‘ کی حیثیت اختیار کر گئی ہیں، مثلاً یہ کہ: (الف) ’’ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ خطبۂ علی گڑھ بعنوان Islam as a Moral and Political Ideal کا اُردو ترجمہ ہے… حالانکہ خطبۂ مذکورہ کا عنوان The Muslim Community ہے۔ (ب) ’’جناب رسالت مآبؐ کا ادبی تبصرہ‘‘ یا ’’رسولؐ، فنِ شعر کے مبصّر کی حیثیت میں‘‘ ایک اُردو مضمون ہے، جو علامہ اقبال سے درخواست کرکے لکھوایا گیا، حالانکہ اصل مضمون انگریزی میں تھا۔ اس کا عنوان تھا: Our Prophet's Criticism of Contemporary Arabian Poetry (ج) لندن کے مجلہ: Sociological Review میں شائع شدہ مضمون کا عنوان Islam and Khilafat تھا، حالانکہ مضمون کا عنوان تھا: Political Thought in Islam۔ زیرِ نظر مقالے میں اس نوعیت کی متعدد غلط فہمیوں کی تصحیح کرتے ہوئے امکانی حد تک، اقبال کی بیشتر تحریروں کا صحیح سیاق و سباق واضح کیا گیا ہے۔ پنجم: اقبال کی متفرق تحریروں کی تلاش و جستجو اور جمع و ترتیب کے نتیجے میں اب تک لگ بھگ دو درجن چھوٹے بڑے اُردو اور انگریزی مجموعے مدوّن کیے جاچکے ہیں۔ اس کے باوجود اقبال کی متعدد مطبوعہ تحریریں مرتبین کی نظروں سے اوجھل رہیں اور کسی مجموعے میں شامل نہ ہوسکیں۔ علاوہ ازیں بعض تحریریں تاحال پردۂ خفا میں تھیں، زیرِ نظر مقالے میں متعدد غیر مدوّن اور غیر مطبوعہ اشعار، خطوط اور متفرق تحریروں کی نشان دہی کردی گئی ہے۔ اس طرح یہ مطالعۂ نظم و نثرِ اقبال کی تکمیل کی جانب مزید ایک قدم ہے۔ یہ وضاحت ضروری ہے کہ متروک کلام کے مجموعوں (باقیاتِ اقبال، سرودِ رفتہ، نوادرِ اقبال، تبرکاتِ اقبال، اصلاحاتِ اقبال) کو اس مطالعے میں شامل نہیں کیا گیا۔ اس حصے کی تاریخی اہمیت سے انکار نہیں، مگر علامہ اقبال نے اسے اپنے مستقل متن سے خارج کردیا تھا۔ البتہ نثر کی صورت مختلف ہے۔ مستقل نثری تصانیف سے قطع نظر، اقبال کی زندگی میں اُن کے کسی مجموعۂ نثر کی ترتیب۔واشاعت کی نوبت نہیں آئی، گویا انھیں اپنی نثر کے انتخاب کا موقع نہیں ملا۔ اگر یہ مرحلہ پیش آتا، تو ممکن تھا کہ وہ متروک منظومات کی طرح اپنی بعض نگارشاتِ نثر کو بھی انتخاب میں شامل نہ کرتے، مگر ایسا نہیں ہوا۔ اب ہمارے لیے نثرِ اقبال کے کسی بھی حصے کو ’’متروک‘‘ قرار دینا ممکن نہیں، چنانچہ نثری آثار جس قدر بھی دستیاب ہوسکے، بہ تمام و کمال، زیر بحث آئے ہیں۔ زیرِ نظر کاوش کا ایک ثمر وہ ’’دریافتیں‘‘ بھی ہیں، جن کا مفصل تذکرہ مختلف ابواب میں اپنے محل پر دیکھا جاسکتا ہے۔ تاہم چند اجمالی اشارے یہاں بھی نامناسب نہ ہوں گے: (۱) اقبال کے ایک غیر مطبوعہ اور نایاب مضمون The Muslim Community کا اصل اور مکمل متن، جسے اب تک معدوم تصور کیا جاتا تھا۔ علامہ اقبال کے پاس بھی اس کی نقل محفوظ نہ تھی۔ یہ ۱۹۱۱ء کا خطبۂ علی گڑھ ہے۔ (ضمیمہ:۳ دیکھیے) (۲) وہ انگریزی اشارات (Notes) جن کی بنیاد پر پیامِ مشرق کا دیباچہ لکھا گیا۔ (ضمیمہ:۲) (۳) حکیم احمد شجاع کے اشتراک سے، علامہ اقبال کی مرتبہ ایک درسی کتاب: اُردو کورس، پانچویں جماعت کے لیے، جس کا ذکر اقبال کے کسی تذکرے، سوانح یا کتابیات میں نہیں ملتا، اس کا تعارف، آخری باب میں شامل ہے۔ (۴) شعری مجموعوں اور نثری تصانیف کی اوّلین اشاعتوں کا، امکانی حد تک حتمی تعین۔ّ۔ (ضمیمہ:۱) (۵) اسرارِ خودی، رموزِ بے خودی، بانگِ درا، پیامِ مشرق اور Reconstruction کی پہلی اشاعتوں کے بعد، دوسرے اور بعض صورتوں میں تیسرے اڈیشنوں کے متن میں کی جانے والی ترامیم و محذوفات کی تفصیل۔ اسرار و رموز کے ضمن میں ایک ناتمام سی تفصیل سرودِ رفتہ میں موجود ہے، مگر پیامِ مشرق، بانگِ درا اور Reconstruction کی ترامیم کی نشان دہی پہلی بار کی جارہی ہے۔ الغرض یہ مقالہ، نظم و نثرِ اقبال کو اصل اور مکمل تر شکل میں لانے کی تدابیر کے ضمن میں پہلی تحقیقی کاوش ہے، جس سے ’’اقبالیات‘‘ کی ایک محکم تر اساس مہیا ہوجانے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اس مقالے کی مدد سے اقبال کے مکمل ذخیرۂ نظم و نثر کو تحقیق کی روشنی میں پوری صحت و جامعیت کے ساتھ مرتب۔ّ و مدوّن کیا جاسکے گا اور اقبال کا مکمل اور معیاری متن سامنے آجانے سے اقبالیاتی تحقیق و تنقید کی سمت درست کرنے اور صحیح تر نتائج اخذ کرنے میں خاطر خواہ مدد مل سکے گی۔ اس مقالے کی تیاری و تکمیل استاذی ڈاکٹر وحید قریشی کی نگرانی میں ہوئی۔ اُن کی تحقیقی نکتہ رسی نے بہت سے مشکل اور حل طلب مسائل کو آسان بنایا۔ فی الحقیقت یہ کام ان کی راہ نمائی اور تاکید و توجہ ہی سے پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ اقبالی بزرگوں بشیر احمد ڈار مرحوم، شیخ محمد اشرف مرحوم، سیّد نذیر نیازی مرحوم، ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی، محمد عبداللہ قریشی، لطیف احمد شروانی اور شیخ نیاز احمد صاحبان نے متعدد بالمشافہہ ملاقاتوں میں، نیز بذریعہ مراسلت بعض قیمتی معلومات فراہم کیں۔ اسی طرح محترم ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی، ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، جناب مشفق خواجہ، ڈاکٹر سیّد معین الرحمن، ڈاکٹر آفتاب اصغر، ڈاکٹر انور سدید، ڈاکٹر سعید اختر درانی اور ڈاکٹر محمد ریاض صاحبان نے بھی مفید مشورے عطا کیے۔ بعض جرمن الفاظ و عبارات کی تفہیم محترم محمد کاظم صاحب کے ذریعے ممکن ہوئی۔ مختلف مراحل میں برادرم ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب کا ہمہ پہلو تعاون حاصل رہا۔ فراہمیِ کتب و لوازمہ میں علامہ اقبال میوزیم، اقبال اکادمی لائبریری، پنجاب یونی ورسٹی لائبریری، پشاور یونی ورسٹی لائبریری اور ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان لائبریری کے علاوہ لاہور اور بیرونِ لاہور کی مختلف کالج لائبریریوں سے مدد ملی۔ خاص طور پر اوّل الذکر تین اداروں کے ذمہ داران: مسعود الحسن کھوکھر صاحب، ڈاکٹر محمد معزالدین صاحب اور جمیل رضوی صاحب نے فراخ دلانہ تعاون کیا۔ بزرگوارم فضل حسین تبسم صاحب اور برادرم قاضی افضل حق قرشی نے بعض نادر نسخوں سے استفادے کی اجازت دی۔ بعض احباب خصوصاً ڈاکٹر معین الدین عقیل، فاروق اختر نجیب، عبدالجبار شاکر، صابرکلوروی، اختر راہی اور عبدالغنی فاروق نے تلاشِ کتب میں زحمت اُٹھائی۔ آخری مرحلے میں متفرق امور کی انجام دہی میں چودھری محمد ابراہیم صاحب، فاروق اعظم صاحب، عبداللہ شاہ، غلام نبی، ساجد بشیر اور فرحت بہن نے ہاتھ بٹایا۔ بعض دیگر اصحاب بھی براہِ راست یا بالواسطہ اس کام کی تکمیل میں معاون ثابت ہوئے۔ اس مقالے کی طباعت نہایت قلیل عرصے میں مکمل ہوئی۔ اس ضمن میں ڈائرکٹر اقبال اکادمی پاکستان [ڈاکٹر وحید قریشی]کی خصوصی توجہ کے ساتھ ساتھ، اکادمی کے [ناظم طباعت]فرخ دانیال صاحب اور حمایت اسلام پریس کے منتظم میاں محمد یعقوب صاحب اور کمپوزر محمد ابراہیم صاحب کی مساعی کو خاص دخل ہے۔ میں ان سب اصحاب اور اداروں کا تہِ دل سے سپاس گزار ہوں۔ اللہ اُنھیں جزاے خیر دے۔ میرے دادا مرحوم نہایت نیک نفس اور متدیّن انسان تھے۔ ان کی شفقت و محبت کے ساتھ ساتھ، میں ان کی روحانیت سے بھی مستفیض ہوا۔ اس کتاب کا انتساب اُنھی کے نام ہے۔ خدا اُنھیں غریقِ رحمت کرے۔ رفیع الدین ہاشمی ۴؍نومبر ۱۹۸۲ئ شعبۂ اُردو یونی ورسٹی اورینٹل کالج لاہور محترم سیّد نفیس رقم کا شکریہ واجب ہے۔ کتاب [طبع اوّل] کی پیشانی اور عناوینِ ابواب ان کے تحریر کردہ ہیں۔ جاوید نامہ، اوّل کے خوش نویس (پیر عبدالحمید) کی نشان دہی بھی اُنھوں نے کی۔ پیر عبدالحمید مرحوم کے ایک ہم عصر بزرگ اور خوش نویس جناب عنایت اللہ وارثی نے اس کی تصدیق کی ہے (بوساطت فاروق اختر نجیب صاحب)۔ علامات و رموز Speeches, Writings and Statements of Iqbal Speeches (شروانی) Speeches and Statements of Iqbal (مرتبہ: شاملو، ۱۹۴۴ئ) Speeches (اوّل) Speeches and Statements of Iqbal (مرتبہ: شاملو، ۱۹۴۸ئ) Speeches (دوم) Speeches and Statements of Iqbal (مرتبہ: اے آر طارق) Speeches (طارق) Thoughts and Reflections of Iqbal Thoughts Iqbal's Letters to Attiya Begum Letters to Atiya Letters and Writings of Iqbal Letters The Development of Metaphysics in Persia Development The Reconstruction of Religious Thought in Islam Reconstruction مکاتیبِ اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خاں مرحوم مکاتیبِ اقبال بنام نیاز شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور غ ع کلیاتِ مکاتیب اقبال (مظفر حسین برنی) کلیاتِ مکاتیب مترادفات [ ] قلّابین مواد(Matter) لوازمہ Transliteration نقلِ حرفی باب:۱ اُردو کلام کے مجموعے ز…ز…ز…ز (الف) اُردو میں شعر گوئی آغاز و محرکات علامہ اقبال کے آبا و اجداد کشمیری برہمن تھے، لیکن یہ حسنِ اتفاق معنی خیز ہے کہ اُن کا سلسلۂ۔نسب برہمنوں کی اس شاخ سے ملتا ہے، جس نے کشمیر کے ہر دل عزیز بادشاہ سلطان زین العابدین عرف بڈ شاہ (۱۴۲۱ئ-۱۴۶۹ئ) کے دور میں فارسی سیکھی اور اسلامی علوم کی طرف متوجہ ہوئی۔ قدیم برہمن روایات سے اس ’’انحراف‘‘ کی وجہ سے کشمیری برہمنوں نے انھیں از راہِ تعریض و تحقیر ’’سپرو‘‘ (یعنی جو سب سے پہلے پڑھنا شروع کرے) کا لقب دیا۔۱؎ بابالولِ حج، سپرو خاندان میں سب سے پہلے اسلام لائے۔ اُنھوں نے بابا نصر الدین کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوکر فقر و درویشی اختیار کی اور کشمیر کے مشہور مشائخ میں شمار ہوئے۔۲؎ فقر و درویشی اور روحانیت کا یہ رنگ، اقبال کے متعدد اجداد کے ہاں موجود تھا۔ اُن کے ایک جدّ، شیخ محمد رمضان نے فارسی تصوف پر متعدد کتابیں تالیف کیں۔۳؎ اقبال کے والد شیخ نور محمد طبعاً تصوّف سے لگاؤ رکھتے تھے۔ وہ آوان شریف (ضلع گجرات، پنجاب) کے ایک بزرگ قاضی سلطان محمود (م: ۱۹۱۹ئ) سے بیعت تھے۔ اقبال سنِ شعور کو پہنچے تو والد نے انھیں بھی قاضی صاحب سے بیعت کرادیا۔۴؎ صوفیہ اور اولیا سے اقبال کو ہمیشہ ایک گونہ عقیدت رہی۔وہ مختلف اوقات میں حضرت نظام الدین اولیا اور حضرت مجدّد الف ثانی کے مقابر پر حاضر ہوتے رہے۔ ۱- ملاحظہ کیجیے: (الف) انوارِ اقبال: ص۷۶ (ب) ادبیاتِ فارسی میں ہندوؤں کا حصہ: ص۱۰،۲۳۴ ۲- صحیفہ، اقبال نمبر، اوّل، اکتوبر ۱۹۷۳ئ:ص۴ ۳- تاریخ اقوامِ کشمیر: ص۳۲۳۔ بحوالہ زندہ رود [اوّل] ص۱۰ ۴- آئینہ، لاہور، اپریل ۱۹۶۵ئ:ص۴۴ تصوف اور روحانیت کا، انسان کے احساسات لطیف سے قریبی تعلق ہے، چنانچہ اقبال کے آبا و اجداد کا تصوّف اور ان کی روحانیت اور فقر، اقبال کی ذات میں اعلیٰ جذبات اور لطیف احساسات کی صورت میں متشکل ہوا۔ شیخ نور محمد نے باقاعدہ تعلیم نہیں پائی تھی، مگر صوفیہ اور علما کی صحبت نے ان کی طبیعت میں ایک نکھار اور جلا پیدا کردی تھی۔ عربی، فارسی اور دینی علوم کے فاضلِ اجل۔ّ علامہ سیّدمیرحسن سے ان کی گہری دوستی تھی۔ شیخ نور محمد اُردو اور فارسی کی کتابیں پڑھ لیتے تھے، کلامِ اقبال بھی اُن کے زیرمطالعہ رہتا۔ شعر سے انھیں فطری رغبت تھی اور کبھی کبھار خود بھی شعر کَہ لیا کرتے تھے۔۱؎ اقبال کو لڑکپن ہی سے شعر و شاعری سے طبعی مناسبت تھی۔ ان کی موزوں طبعی کے بارے میں شیخ عطا محمد کی اہلیہ راوی ہیں کہ وہ رات کے وقت بازار سے منظوم قصّے لاکر گھر میں لحن سے سنایا کرتے تھے۔ اکثر اوقات قصّہ پڑھتے پڑھتے اپنی طرف سے بھی کوئی فقرہ (مصرع) اس میں جڑ دیتے۔ ان کا یہ پیوند ایسا خوب صورت اور پُر اثر ہوتا کہ سب لوگ بے ساختہ داد دیتے۔ خیال رہے کہ اُس وقت اُن کی عمر بمشکل دس بارہ سال تھی۔۲؎ اقبال کے لڑکپن کے دوست سیّد تقی شاہ کا بیان ہے کہ ایک بار ہم نے کبوتر خریدے تو اقبال نے اس خوشی میں تُک بندی کی تھی۔ سیّد تقی شاہ نے مندرجہ ذیل پانچ مصرعے نقل کیے ہیں: دل میں آئی جو تقی کے ، تو کبوتر پالے جمع لا لا کے کیے لال ، ہرے ، مٹیالے ان میں ایسے ہیں جو ہیں پہروں کے اُڑنے والے اب یہ ہے حال کہ آنکھیں ہیں کہیں ، پائوں۔ کہیں پائوں کے نیچے ، نہ معلوم ، زمیں ہے کہ نہیں۳؎ یہ بالکل موزوں مصرعے ہیں، انھیں ’’تُک بندی‘‘ نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اُس زمانے میں اقبال، ۱- شیخ اعجاز احمد کا بیان ہے کہ والدۂ اقبال کی وفات پر اُنھوں نے دو نشستوں میں دس بارہ شعر قلم بند کرائے اور کوئی مصرع بھی وزن سے خارج نہ تھا۔ (روزگارِ فقیر، دوم:ص۲۱۶)۔ ۲- (الف) روایاتِ اقبال: ص۳۹۔ (ب) اقبال درونِ خانہ: ص۱۰ ۳- الزبیر، اقبال نمبر ۱۹۷۷ئ، نمبر۲:ص۱۱… مزید دیکھیے: داناے راز (نذیر نیازی) طبع اوّل: ص۶۸، نیازی صاحب نے صرف ایک شعر دیا ہے، وہ یوں ہے: جی میں آئی جو تقی کے، تو کبوتر پالے کوئی کالا، کوئی اسپید ہے، دو مٹیالے علامہ میر حسن کے حلقۂ تلامذہ میں شامل تھے۔ ان کے متعدد شاگرد راوی ۱؎ ہیں کہ میر حسن کو دیوانِ حافظ، مثنوی مولانا روم، سکندر نامہ نظامی اور قصائدِ عرفی بے حد پسند تھے۔ اُردو، فارسی، عربی اور پنجابی کے ہزاروں شعر اُن کے نوکِ زبان تھے۔ بات بات پر شعر پڑھنے کی عادت تھی۔ ان کے اندازِ تدریس میں یہ بات اہم تھی کہ عربی پڑھاتے تو موضوع کی مناسبت سے فارسی اور اُردو اساتذہ کے اشعار اور ہیر وارث شاہ کے اشعار سناتے۔ اپنے شاگردوں میں اقبال پر اُن کی خاص توجہ تھی۔ میٹرک کے امتحان کے بعد تو اُن کا بیشتر وقت شاہ صاحب کے ہاں گذرتا، گھر جاتے ہوئے مطالعے کے لیے کتابیں لے جاتے___ مختصر یہ کہ میر حسن کی شخصیت، ان کی صحبت اور اُن سے تلمذ۔ّ۔، اقبال کے ادبی اور شعری ذوق کی نشوونما کے لیے نہایت مفید ثابت ہوا۔ ان کی طبعی موزوں گوئی نے، جو ابتدا میں، منظوم قصے پڑھ کر سنانے میں راہِ اظہار پاتی رہی، اب باقاعدہ شعر گوئی کا راستہ اختیار کیا چنانچہ ابھی سکول میں زیر تعلیم تھے کہ شعر و شاعری کرنے لگے۔۲؎ ابتدائی مشق کے دنوں میں اُنھوں نے بعض غزلوں پر علامہ میر حسن سے اصلاح لی۔۳؎ تخلیقِ شعر کے پُر اسرار اور پیچیدہ عمل کے بارے میں مختلف نظریات پیش کیے گئے ہیں۔ اقبال کی شعر گوئی کے ضمن میں اُس مکتبِ فکر کا نظریہ قرینِ صواب معلوم ہوتا ہے جس نے شاعر کو ’’تلمیذالرحمن‘‘ کہا ہے۔ اقبال کے تخلیقی شعور میں شاعری کا وجدانی اور الہامی حوالہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اُن کے نزدیک فیضانِ الٰہی ایک آسمانی عطیہ ہے جس کی بنا پر ’’شاعرانہ طبیعت‘‘ رکھنے والا ایک شخص شعر کہنے پر مجبور ہوتا ہے۔ عوام میں اقبال کی مقبولیت و شہرت کا بڑا سبب اُن کا اُردو کلام تھا مگر ان کی ’’شاعرانہ طبیعت‘‘ اُردو کی نسبت فارسی کی طرف زیادہ مائل رہی۔ ۱۹۳۲ء تک فارسی کے پانچ مجموعوں کے مقابلے میں اُردو کا صرف ایک مجموعہ (بانگِ درا) شائع ہوا تھا۔ قدرتی طور پر اُردو کلام کے دل دادگان کو شکایت پیدا ہوئی۔ جب اُن سے کہا گیا کہ: ’’فارسی میں لکھنا بجا، مگر اُردو کا بھی تو آپ پر حق تھا‘‘… تو اُنھوں نے اپنی مجبوری ظاہر کرتے ہوئے کہا:۴؎ It comes to me in Persian۔ ۱- روایاتِ اقبال: ص۲۶،۵۵،۶۰ ۲- دیباچہ بانگِ درا: ص۱۰ ۳- روایاتِ اقبال: ص۱۳ ۴- روایت پروفیسر حمید احمد خاں: اقبال کی شخصیت اور شاعری، ص۴۵ نزولِ شعر کے موقع پر وہ محسوس کرتے جیسے وہ خود ایک پُراسرار کیفیت کی گرفت میں ہیں۔ اس کا اندازہ ان کے بعض بیانات سے لگایا جاسکتا ہے: (۱) جب مجھ پر شعر کہنے کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو مجھ پر بنے بنائے اور ڈھلے ڈھلائے شعر اُترنے لگتے ہیں اور میں انھیں بعینہٖ نقل کرلیتا ہوں۔ بارہا ایسا ہوا کہ میں نے ان اشعار میں کوئی ترمیم کرنا چاہی، لیکن میری ترمیم اصل اور ابتدائی نازل شدہ شعر کے مقابلے میں بالکل ہیچ نظر آئی اور میں نے شعر کو جوں کا توں برقرار رکھا۔ ۱؎ (۲) شعری تجربے کے دوران میں، میں نے اکثر اسے [شعر کو] غور و فکر کے ذریعے سمجھنے اور گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے، لیکن جیسے ہی میں اپنی کیفیت کا تجزیہ شروع کرتا ہوں، وہ روانی اور الہام کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے۔۲؎ اقبال پر نزولِ شعر سے متعلق اس طرح کی متعدد روایات و واقعات مؤیّد ہیں کہ فیضانِ الٰہی، اقبال کے ہاں تخلیقِ شعر کا اہم ترین محرّک ہے۔ علامہ اقبال نے ایک بار احمد شجاع پاشا سے کہا تھا: ’’تم اور میری شاعری ہم عمر ہو‘‘۔۳؎ احمد شجاع نے اپنا سالِ ولادت ۱۳۱۲ھ بتایا ہے جو عیسوی سنہ ۱۸۹۴-۱۸۹۵ء کے مطابق ہے۔ اس اعتبار سے ۱۸۹۴ء کو اقبال کی شاعری کا سالِ آغاز قرار دینا چاہیے، لیکن سر عبدالقادر کا یہ بیان زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے کہ ابھی سکول میں پڑھتے تھے کہ کلامِ موزوں زبان سے نکلنے لگا۔۴؎ ۱۸۹۴ء میں تو میٹرک کا امتحان دے کر وہ سکول سے رخصت ہوچکے تھے۔ گویا ۱۸۹۱ء یا ۱۸۹۲ء کو ان کی شعر گوئی کا سالِ آغاز قرار دینا صحیح تر ہوگا۔ ۱۸۹۴ء میں، اُن کے کلام میں اتنی پختگی آچکی تھی کہ وہ ادبی رسالوں میں چھپنے لگے تھے۔ داغ سے اقبال کے سلسلۂ تلمذ۔ّ۔۔ کا آغاز ۱۸۹۳ء میںہوا ۵؎ مگریہ ۱- ذکرِ اقبال:ص۲۴۵ ۲- روایت محمد دین تاثیر: ماہِ نو، اقبال نمبر۱۹۷۰ئ،ص۱۴۴-۱۴۵ ۳- خوں بہا: ص۱۹۷ ۴- دیباچہ بانگِ درا: ص۱۰ ۵- راقم نے ابتدا میں اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے میں لکھا تھا: ’’کوئی ایسی شہادت میسّر نہیں جس کی بنا پر حتمی تعیّن ہوسکے کہ داغ سے اقبال کا سلسلۂ تلمذ۔ّ۔ کب شروع ہوا۔ البتہ اُن کی ۱۸۹۳ء کی ایک غزل (مطبوعہ: زبان دہلی، نومبر۱۸۹۳ء بحوالہ: سرودِ رفتہ:ص ۱۴۳-۱۴۴) میں واضح طور پر داغ کا رنگ نمایاں ہے۔ اس زمانے کی ایک اور غزل کا یہ مقطع: (بقیہ آئندہ صفحے پر) سلسلہ ایک دو برس سے زیادہ جاری نہیں رہا۔ اقبال علمِ عروض اور متعلقہ علوم پر عبور حاصل کرچکے تھے، چنانچہ داغ نے بہت جلد کَہ دیا کہ کلام میں اصلاح کی گنجائش بہت کم ہے۔۱؎ اس طرح اُن سے تلمذ۔ّ۔ کا سلسلہ ختم ہوگیا، اُس وقت وہ انٹرمیڈیٹ میں زیر تعلیم تھے۔ داغ ایسے استاذِ فن کی یہ حوصلہ افزائی، اقبال جیسے نوخیز شاعر کے لیے ایک غیر معمولی بات تھی، جس نے انھیں اپنے فن پر زیادہ اعتماد بخشا۔ ۱۸۹۵ء میں لاہور پہنچ کر، اقبال گورنمنٹ کالج میں بی اے میں داخل ہوئے۔ پہلے کچھ عرصہ اندرون بھاٹی گیٹ مقیم رہے، ۱۸۹۶ء میں کالج کے کواڈرینگل (حال اقبال) ہوسٹل کے کمرہ نمبر ۱ میں اُٹھ آئے اور ۱۸۹۹ء تک، جب اُنھوں نے ایم اے فلسفہ کیا، یہیں مقیم رہے۔ ہوسٹل کا یہ تین سالہ قیام، اُن کی زندگی میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ان کا کمرہ، بہت جلد شعری و ادبی ذوق رکھنے والے طلبہ کی توجہ اور مجلس آرائی کا مرکز بن گیا۔ اقبال کے بعض دوست، شاعر ہونے کے ساتھ نقدِ شعر کا عمدہ ذوق بھی رکھتے تھے۔ غلام بھیک نیرنگ کو اقبال کی ذات میں ’’مستقبل کا غالب‘‘ نظر آیا اور اُنھوں نے کلامِ اقبال کو جمع و محفوظ کرنا شروع کردیا۔ اقبال کے مذاقِ سخن کے ارتقا میں ہوسٹل کی بے تکلفانہ شعری وادبی محفلوں۲؎ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ چند ماہ کے اندر وہ بعض دوستوں کے اصرار پر، لاہور کی ادبی محفلوں اور مشاعروں میں شریک ہونے لگے، جہاں بعض نامور شعرا اور ادب دوست اصحاب جمع ہوتے تھے۔ (بقیہ گذشتہ صفحہ) گرم ہم پر کبھی ہوتا ہے جو وہ بت، اقبال حضرتِ داغ کے اشعار سنا دیتے ہیں بھی اقبال پر داغ کے براہِ راست اثرات (اور ایک اعتبار سے اُن کے تلمذ۔ّ۔ کے اعتراف) کو ظاہر کرتا ہے‘‘۔ (ص:۶) مگر بعد میں راقم کو سر عبدالقادر کی ایک شہادت مل گئی۔ وہ اپنے مضمون ’’اقبال‘‘ (مطبوعہ: خدنگِ نظر مئی۱۹۰۲ئ) میں لکھتے ہیں: ’’امتحان انٹرنس پاس کرنے کے بعد اقبال نے جناب نواب فصیح الملک نواب مرزا خاں صاحب داغ دہلوی، استاد حضور نظام دکن خلداللہ ملکہ، سے بذریعہ خط کتابت تلمذ۔ّ۔ کی ٹھہرائی… جس سال حضرتِ داغ سے اصلاح لینے کا سلسلہ شروع ہوا، اِسی سال اقبال کی زندگی میں ایک اور واقعہ پیش آیا… یعنی اُن کی شادی ہوگئی‘‘۔ (بحوالہ: اقبال جادوگرِ ہندی نژاد: ص۱۴۰)۔ اقبال نے انٹرنس کا امتحان ۱۸۹۳ء میں پاس کیا اور اسی برس اُن کی شادی ہوئی۔ اس طرح داغ سے تلمذ۔ّ۔ کا سال (۱۸۹۳ئ) حتمی طور پر متعین ہوجاتا ہے۔ ۱- دیباچہ بانگِ درا : ص۱۱ ۲- تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے: غلام بھیک نیرنگ کا مضمون: مجلہ اقبال، اکتوبر ۱۹۵۷ئ۔ اقبال لاہور آئے تو اُسی برس حکیم شجاع الدّین محمد نے ’’اُردو بزمِ مشاعرہ‘‘ کی بنیاد رکھی۔ دسمبر ۱۸۹۵ء میں منعقدہ، بزم کے دوسرے مشاعرے میں اقبال پہلی بار شریک۱؎ ہوئے اور اپنی غزل پر دادِسخن پائی۔ اگرچہ اس وقت تک، بیسیوں غزلیں کہنے کے بعد، اُن کے اندر اپنی شاعرانہ صلاحیتوں پر اعتماد پیدا ہوچکا تھا۔ تاہم سیال۔کوٹ سے لاہور آنے کے بعد کسی پبلک مشاعرے میں یہ ان کی اوّلین شرکت تھی۔۲؎ اس میں مرزاا رشد گورگانی ایسے استاذِ فن نے اُن کے اس شعر کو بے حد سراہا: موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے اس حوصلہ افزائی سے اقبال، شعر گوئی میں اور زیادہ پُر اعتماد ہوگئے۔ اس زمانے میں لاہور کی اہم ترین ’’اُردو بزمِ مشاعرہ‘‘ کے علاوہ بعض چھوٹی انجمنیں بھی قائم تھیں۔ حکیم شجاع الدین محمد کے انتقال (۱۸۹۶ئ) پر دوسری انجمنیں زیادہ سرگرم ہوگئیںتو اقبال ان انجمنوں کے مشاعروں میں شریک ہونے لگے۔ ان میں کم و بیش ایک سو سامعین جمع ہوجاتے۔ یہ سب تعلیم یافتہ اور باذوق حضرات ہوتے تھے۔۳؎ ان پبلک مشاعروں کو اقبال کی شعر گوئی میں بہت دخل ہے۔ ان میں سے ’’انجمنِ اتحاد‘‘ کے مشاعروں کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ ان میں، ۱۸۹۸ء کے لگ بھگ، مختلف موضوعات و عنوانات پر نظم گوئی کا سلسلہ جاری ہوا اور اقبال کی بعض نظمیں مثلاً ہمالہ، دردِ عشق، موجِ دریا، انسان اور بزمِ قدرت وغیرہ ’’مشاعرۂ اتحاد‘‘ ہی کے زیر اثر لکھی گئیں۔ ان مشاعروں میں اقبال کے علاوہ بعض ایسے شعرا بھی شریک ہوتے تھے، جو کسی زمانے میں انجمنِ پنجاب کے مشاعروں میں شریک ہوکر متعدد منظومات پڑھ چکے تھے۔ مشاعرۂ اتحاد پر انجمنِ پنجاب کے اثرات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ۱۹۰۲ء میں انجمن کی نشاتِ ثانیہ کے موقع پر اسے ’’مرحوم انجمنِ پنجاب سے زیادہ بارونق‘‘ کردینے کا عزم ظاہر کیا گیا۔۴؎ ۱- حکیم احمد شجاع نے خوں بہا (ص:۱۹۶) میں اسے اپنے سنہ ولادت (۱۸۹۴ئ) کا واقعہ قرار دیا ہے (مگر اُن کی ایک اور، بعد کی، تحریر سے اس کی تردید ہوتی ہے (دیکھیے: نقوش نمبر ۱۰۸، ستمبر ۱۹۶۷ئ:ص۱۰)۔ ۲- محمد عبداللہ قریشی کا یہ بیان محلِ نظر ہے کہ: ’’اقبال پہلے پہل ۱۸۹۶ء کے کسی مشاعرے میں شریک ہوئے‘‘۔ (مجلہ اقبال، اکتوبر ۱۹۵۴ئ، ص۴۰) جیسا کہ اُوپر ذکر ہوا، اقبال نے پہلی مرتبہ دسمبر ۱۸۹۵ء میں بازار حکیماں کے دوسرے ’’اُردو بزم مشاعرہ‘‘ میں شرکت کی ( نقوش نمبر ۱۰۸، ستمبر ۱۹۶۷ئ، ص۱۰)۔ ۳- روایاتِ اقبال: ص۱۶۱ ۴- مجلہ اقبال، اکتوبر ۱۹۵۵ئ:ص۷۴ -۸۰ اس دور میں لاہور کی شعری محفلوں میں ناظم حسین لکھنوی اور مرزا ارشد گورگانی کے شاگردوں اور مدّاحوں کے درمیان معاصرانہ چشمک جاری تھی۔ انجمنِ اتحاد کے مشاعروں میں بھی اس کے مظاہرے دیکھنے میں آتے تھے۔۱؎ اگرچہ مرزا داغ سے سلسلۂ تلمذ۔ّ۔ کے حوالے سے اقبال، لکھنؤ کی نسبت دہلی سے زیادہ قریب تھے۔۲؎ تاہم اُنھوں نے یہ کہہ کر: اقبال لکھنؤ سے، نہ دلی سے ہے غرض ہم تو اسیر ہیں خمِ زلفِ کمال کے خود کو دونوں گروہوں کی نوک جھونک سے علاحدہ رکھا اور یہ ایک نیک فال تھی۔ اگر وہ اس چشمک میں شامل ہوجاتے تو لکھنویت اور دہلویت کی لسانی محاذ آرائی میں، خدشہ تھا کہ مستقبل میں ان کے شعری امکانات کو ضعف۔ُ پہنچتا۔ ’’اُردو بزمِ مشاعرہ‘‘ کا سلسلہ ختم ہوا تو حکیم شہباز دین کی بیٹھک میں ہر روز شام کو متعدد باذوق اصحابِ فکر و نظر، ادبا و شعرا اور اساتذہ و علما جمع ہونے لگے۔ اقبال ہمیشہ سے اس نوع کی مجالس کے دلدادہ تھے، اس لیے وہ باقاعدگی کے ساتھ بازار حکیماں کی ان نشستوں میں شریک ہوتے۔ ان محفلوں میں حکیم امین الدین، حکیم شہباز دین، سر عبدالقادر، سر شہاب الدین، خواجہ رحیم بخش، خواجہ کریم بخش، خواجہ امیر بخش، خلیفہ نظام الدین، شیخ گلاب دین، مولوی احمد دین، مولانا عبدالحکیم کلانوری، مولوی محمد حسن جالندھری، مفتی محمد عبداللہ ٹونکی، فقیر سیّد افتخار الدین، خان احمد حسین خاں، منشی محمد دین فوق، مولانا اصغر علی روحی اور سیّد محمد شاہ وکیل شامل ہوتے تھے۔ حکیم امین الدین ۱- تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے: محمد عبداللہ قریشی کا مضمون: ’’حیاتِ اقبال کی گم شدہ کڑیاں‘‘ (لاہور کے مشاعرے اور اقبال) قسط دوم، مجلہ اقبال اکتوبر ۱۹۵۵ئ: ص۷۲-۹۷ ۲- لاہور میں، مرزا ارشد گورگانی، دبستانِ دہلی کے سرگروہ تھے۔ کہا جاتا ہے کہ لاہور آنے پر اقبال کو ارشد سے تلمذ۔ّ۔ ہوا، مگر کچھ دنوں بعد داغ کے باقاعدہ شاگرد ہوگئے۔ لالہ سری رام، عبدالقادر سروری، محمد عبداللہ قریشی اور بعض دیگر مؤرخینِ ادب بھی اسی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ مگر ارشد سے تلمذ۔ّ۔ کی کوئی معاصر شہادت دستیاب نہیں۔ ڈاکٹر وحید قریشی نے اس مسئلے پر مفصل بحث کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ داغ سے اصلاح لینے کی پابندی ۱۸۹۴ء میں یعنی لاہور آنے سے قبل ہی، جاتی رہی تھی اس لیے لاہور پہنچ کر ارشد گورگانی سے تلمذ۔ّ۔ کی بات درست نہیں۔ (’’ولادتِ اقبال کے سلسلے کی ایک تائیدی دلیل‘‘: راوی اقبال نمبر، اپریل ۱۹۷۴ئ:ص۸۴) نہایت باذوق انسان اور متبحر عالم تھے۔ حکیم شہباز دین خود شاعر تھے اور اپنی علم دوستی اور ادب نوازی کے سبب، اُنھوں نے شورِ محشر کی اشاعت برقرار رکھی۔ سر عبدالقادر خوش ذوق ادیب تھے، بعد میں مخزن کے ذریعے اُنھوں نے اُردو زبان و ادب کے لیے ناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔ سرشہاب الدین کا مسدّسِ حالی کا منظوم پنجابی ترجمہ بہت مقبول ہوا۔ بخش برادران کے للی لاج (واقع محلہ تھڑیاں بھابڑیاں، بازار حکیماں) میں عرصۂ دراز تک علمی مجالس جمتی رہیں۔ ولایت سے واپسی پر اقبال بھی کئی برس تک ان میں شریک ہوئے۔۱؎ مولوی احمد دین وکیل نے سرگذشتِ الفاظ اور بعد ازاں، اقبال کی شاعری پر پہلی کتاب اقبال بھی لکھی۔ خان احمد حسین خاں، لاہور کی ادبی دنیا کی اہم شخصیت تھے۔ شورِ محشر اور بعد ازاں شبابِ اُردو کے مدیر رہے۔ مولوی محمد حسن جالندھری، مولانا عبدالحکیم کلانوری اور مفتی محمد عبداللہ ٹونکی اپنے دور کے جید علما اور قابل اساتذہ میں سے تھے۔ مفتی صاحب کے ناتواں جسم میں ’’علم و فضل کا اتنا ذخیرہ تھا کہ کوزے میں دریا بند ہونے کی مثل ان پر صادق آتی ہے‘‘۔۲؎ مولانا عبدالحکیم کلانوری، ’’قواعدِ فارسی کے علاوہ عروض، صنائع بدائع اور اِملا کے خصائص پر کئی رسالوں کے مصنف تھے۔ شام کی مجلسوں میں ان کے مخاطب زیادہ تر اقبال ہوتے اور شعر و شاعری کے ادبی محاسن پر گفتگو کرتے‘‘۔۳؎ ان جلسوں میں شریک متذکرہ بالا اصحاب کے علاوہ، باقی حضرات بھی علمی و ادبی اعتبار سے قابلِ لحاظ حیثیت کے مالک تھے۔ اقبال کے ذوقِ شعر کی تربیت میں ان ادبی صحبتوں کے اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ متذکرہ بالا اصحاب کے بارے میں حکیم احمد شجاع لکھتے ہیں کہ اس زمانے میں اقبال اپنا کلام پہلے ان بزرگوں کو سناتے اور پھر اسے کسی مجلسِ عام میں پڑھتے۔ ’’نالۂ یتیم‘‘، ’’ہلالِ عید‘‘ اور ’’تصویرِ درد‘‘ جیسی معروف نظمیں، انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں سنانے سے پہلے، انھی لوگوں کے سامنے پڑھی گئیں۔۴؎ ۱۸۹۹ء میں ایم اے کا امتحان پاس کرکے اقبال نے تعلیمی زندگی کو خیرباد کہا اور ہوسٹل چھوڑ دیا۔ حسنِ اتفاق سے انھی دنوں (اپریل میں) اُن کے مشفق استاد پروفیسر آرنلڈ نے اورینٹل کالج لاہور کے قائم مقام پرنسپل کا منصب سنبھالا۔ چند روز بعد ۱۳؍مئی کو اسی کالج میں میکلوڈ عریبک ریڈر ۱- اقبال ریویو، جنوری ۱۹۶۹ئ: ص۴۵ ۲- نقوش اقبال نمبردوم، دسمبر۱۹۷۷ئ: ص۵۵۸ ۳- نقوش، نمبر ۱۰۸، ستمبر۱۹۶۷ئ:ص۱۲ ۴- خوں بہا: ص۱۹۹-۲۰۰ کی حیثیت سے اقبال کا تقرر ہوگیا۔۱؎ اس مرحلے پر اُن کا حلقۂ احباب قدرتی طور پر اور بھی وسیع ہوگیا۔ اقبال کے جن دوستوں کا پہلے ذکر آچکا ہے، ان کے علاوہ منشی محبوب عالم، نادر کا کوروی اور منشی سراج الدین بھی ان کے حلقۂ احباب میں اہمیت رکھتے تھے۔ سوامی رام تیرتھ سے کالج کے زمانے ہی سے اُن کی دوستی تھی۔ اقبال نے اُن سے سنسکرت پڑھی اور بعد میں اسی واسطے سے ہندی اور ہندستانی فلسفوں کا مطالعہ کیا۔ ان کی شعر گوئی نے، جو ہوسٹل میں دوستوں کی بزم آرائیوں اور بازار حکیماں کی شعری محفلوں تک محدود تھی، اب اپنے اظہار کے لیے نئے اُفق کی طرف قدم بڑھائے۔ مگر ایک شاعر کی حیثیت سے اس وقت تک اقبال، عوام النّاس میں معروف نہیں ہوئے تھے۔ ۱۸۹۹ء سے ۱۹۰۵ء تک چھے برسوں میں، اقبال کی شاعری دو واسطوں سے، عوام کے سامنے متعارف ہوتی چلی گئی۔ اوّل: انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے۔ دوم: رسالہ مخزن۔ بیسویں صدی کی پہلی چوتھائی میں انجمن حمایت اسلام لاہور کے اسٹیج سے اُنھوں نے متعدد نظمیں پڑھیں مگر ابتدا میں کارپردازانِ انجمن بھی ان کی شاعرانہ حیثیت اور ان کی شاعری کی قدر و منزلت سے آگاہ نہ تھے۔ انجمن کے پندرھویں سالانہ جلسے (۱۴ فروری۱۹۰۰ئ) ۲؎ میں پہلی بار اقبال نے ’’نالۂ یتیم‘‘ سنائی۔ صدرِ اجلاس ڈپٹی نذیر احمد دہلوی نے اس کاوش کو ان الفاظ میں سراہا: میں نے ان کانوں سے انیس اور دبیر کے مرثیے سنے مگر جس پائے کی نظم آج سننے میں آئی اور جو اثر اس نے میرے دل پر کیا، وہ اس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔۳؎ یہ واقعہ اقبال کی ملک گیر شہرت کے لیے نقطۂ آغاز ثابت ہوا۔ آیندہ کئی برسوں تک اُنھوں نے انجمن کے سالانہ جلسوں میں اپنی منظومات سنا کر عوام و خواص سے بے پناہ خراج تحسین پایا۔ اس کی ایک صورت تو یہ ہوتی تھی کہ سامعین، اقبال کی نظمیں سن کر دل کھول کر چندہ دیتے۔ دوسرے یہ کہ وہ ہر جلسے کے موقع پر، منظوماتِ اقبال کے مطبوعہ نسخوں اور غیر مطبوعہ نقول کو گراں قدر رقوم کے عوض نہایت ۱- ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار: Journal of Research، پنجاب یونی ورسٹی لاہور، جولائی۱۹۷۷ء تا جنوری ۱۹۷۸ئ:ص۸۶-۸۷ ۲- عبدالمجید سالک (ذکرِ اقبال: ص۱۸) اور ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی (اقبال کی صحبت میں: ص۲۳) نے لکھا ہے کہ ’’نالۂ یتیم‘‘ ۱۸۹۹ء کے سالانہ جلسے میں پڑھی گئی مگر یہ درست نہیں ہے۔ ۳- اقبال اور انجمن حمایت اسلام: ص۷۰ پرجوش طریقے سے ہاتھوں ہاتھ لیتے۔ جن اکابر سے اقبال کو ان کے کلام پر داد ملی، اُن میں ڈپٹی نذیر احمد، مولانا حالی، مولانا شبلی، خواجہ حسن نظامی اور سر محمد ذوالفقار علی خاں کے نام نمایاں ہیں۔ ۲۳؍فروری ۱۹۰۲ء کو صدرِ اجلاس میاں نظام الدین سب جج راولپنڈی نے اقبال کو ’’ملک الشعرائ‘‘ قرار دیا۔۱؎ یوں انجمن کے جلسوں کے ذریعے اقبال کی شہرت کا دائرہ وسیع ہوتا گیا۔ انجمن حمایت اسلام لاہور، پنجاب کے مسلمانوں کا تعلیمی اور ملّی ادارہ تھا، لہٰذا اس کے پلیٹ فارم سے رسمی اور روایتی شاعری کے برعکس قومی اور ملّی منظومات ہی پیش کی جاتی تھیں۔ اقبال بھی ملّی شاعری کی طرف مائل و متوجہ ہوتے گئے۔ اُنھوں نے انجمن کے سالانہ جلسوں میں جو نظمیں پڑھیں ان میں ’نالۂ یتیم‘ (۱۹۰۰ئ) ’یتیم کا خطاب ہلال عید سے‘ (۱۹۰۱ئ)، ’اسلامیہ کالج کا خطاب پنجاب سے‘ (۱۹۰۲ئ) ’ابرِ گوہربار یا فریادِ امت‘ (۱۹۰۳ئ) ’تصویرِ درد‘ (۱۹۰۴ئ) ’شکوہ‘ (۱۹۱۱ئ) ’شمع و شاعر‘ (۱۹۱۲ئ) ’خضرِ راہ‘ (۱۹۲۲ئ) ’طلوعِ اسلام‘ (۱۹۲۳ئ) قومی، ملّی اور اسلامی موضوعات سے متعلق ہیں۔ اس نوع کی نظم نگاری میں زیادہ تر انجمن کے تقاضوں اور اقبال کے ملّی جذبات و احساسات کو دخل تھا۔ غزل کی رسمی شاعری کو خیرباد کَہ کر ایک نئی روش اختیار کرنا، اقبال کی ایک اجتہادی کاوش تھی۔ یوں تو اقبال کی متعدد غزلیں، اخبارات و جرائد میں چھپ چکی تھیں مگر مخزن کے پہلے شمارے (اپریل ۱۹۰۱ئ) میں ’’ہمالہ‘‘ کی اشاعت سے ’’نئے انداز کی نظموں اور غزلوں کی اشاعت کا سلسلہ جاری ہوگیا‘‘۔۲؎ ’’ہمالہ‘‘ کی اشاعت نوخیز شاعر کی شعر گوئی کی شاندار تمہید ثابت ہوئی۔ انگریزی شعروادب کے مطالعے کا سلسلہ، دورانِ تعلیم شروع ہوا تھا، اب گورنمنٹ کالج میں انگریزی کے اڈیشنل پروفیسر مقرر ہوئے تو اس مطالعے میں وسعت اور عمق پیدا ہوا، جس نے اُن کی شاعری پر باعتبارِ خیالات اور باعتبارِ فن، دونوں طرح گہرا اثر ڈالا۔ اس دور کی متعدد نظمیں کسی نہ کسی حیثیت میں بعض مغربی شعرا مثلاً ٹینی سن، لانگ فیلو، ایمرسن اور ولیم کوپر وغیرہ سے ماخوذ ہیں۔۳؎ بانگِ درا کی بہت سی ۱- رویداد سترھواں سالانہ جلسہ انجمن حمایت اسلام:ص۲۰۰ ۲- اُردو دائرہ معارفِ اسلامیہ: ج۳، ص۹ ۳- اقبال کے ذاتی ذخیرۂ کتب میں، جو بعد میں اسلامیہ کالج لاہور کو منتقل کردیا گیا، ورڈزورتھ، ٹینی سن، براؤننگ، شیلے اور تھامس گرے وغیرہ کے شعری مجموعے موجود ہیں، ان میں سے بیشتر انیسویں صدی کے مطبوعہ ہیں۔ قرینِ قیاس ہے کہ دورانِ تعلیم و تدریس، یہ سب اُن کے زیر مطالعہ رہے ہوں گے۔ نظموں پر، ’’ماخوذ‘‘ کی صراحت موجود نہیں مگر تشبیہوں، استعاروں اور تراکیب کے علاوہ اپنے اُسلوبِ فکر و بیان کے لحاظ سے بھی، یہ انگریزی شاعری سے متأثر معلوم ہوتی ہیں۔ ورڈز ورتھ سے اقبال کی اثر پذیری کا اندازہ ان کے اس اعتراف سے لگایا جاسکتا ہے: ]Wordsworth[ saved me from atheism in my student days. ۱؎ اسی لیے مظاہر فطرت کو اقبال کے دورِ اوّل کی شاعری میں خاص اہمیت حاصل ہے۔۲؎ وہ مخزن کے مستقل لکھنے والوں میں سے تھے اور اُنھوں نے سرعبدالقادر سے مستقلاً ’’نئے رنگ کی نظمیں‘‘ لکھ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ مغربی ادب کے مطالعے اور مخزن کے مقاصد و مزاج کے پیش نظر اگرچہ اُنھوں نے مغربی شعرا سے اثرات قبول کیے، تاہم مشرقیت کی روح، اقبال کے ہاں ہمیشہ غالب رہی۔ منشی محمد دین فوق، اقبال کے عزیز دوست تھے۔ وہ بھی اپنے اخبار پنجۂ فولاد کے لیے اقبال سے تازہ کلام کی فرمائش کرنے لگے۔ حقِ دوستی کے ساتھ، پنجۂ فولاد کے حلقۂ اشاعت میں وسعت کا خیال بھی فوق کے ذہن میں موجود ہوگا۔ بعض دیگر پرچے بھی تازہ کلام حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہوئے۔ اقبال سب کی فرمائشوں کی تعمیل سے قاصر تھے، تاہم اُن کا تازہ کلام مخزن میں اکثر و بیشتر اور پنجۂ فولاد میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتا تھا۔ مخزن میں کلامِ اقبال کے ساتھ اکثر سرعبدالقادر کے تعارفی نوٹ بھی شامل ہوتے۔ اس طرح مخزن نے اقبال کو ایک جدید نظم گو کی حیثیت سے متعارف کرانے میں مؤثر کردار ادا کیا۔ یوں انجمنِ پنجاب کی جدید شاعری کی تحریک کو، اقبال کی نظم گوئی سے، ایک بہتر سطح پر فروغ حاصل ہوا، کیونکہ منظوماتِ اقبال اپنے فکری عمق اور جمالیاتی حسن کی بدولت انجمنِ پنجاب کی قدیم منظومات سے نسبتاً زیادہ معیاری اور جاندار تھیں۔ بہر حال انجمن حمایت اسلام کے عوامی سٹیج اور مخزن کے مسلمہ ادبی مقام نے اقبال کو شہرتِ دوام عطا کی۔ ستمبر ۱۹۰۵ء میں اقبال اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ چلے گئے۔ شعر گوئی کے سلسلے میں اُس دور کا سب سے اہم واقعہ یہ ہے کہ سر عبدالقادر کی مخلصانہ کوششوں اور آرنلڈ کے دانش مندانہ فیصلے نے اقبال کو مجبور کیا کہ وہ ترکِ شعر کا اپنا ’’ارادۂ مصمم‘‘ ۳؎ تبدیل کردیں۔ اس زمانے میں یورپ کی فضا اور ۱- Stray Reflections: ص۵۴ ۲- مفصل بحث کے لیے ملاحظہ ہو: ڈاکٹر وزیر آغا کا مضمون ’’اقبال: فطرت پرستی کی ایک مثال‘‘ مشمولہ نظمِ جدید کی کروٹیں: ص۳۱-۴۰ ۳- دیباچہ بانگِ درا: ص۱۵ تہذیبی و ثقافتی اقدار کے براہ راست اور قریبی مطالعے نے اقبال کو ایک ذہنی انقلاب سے دوچار کیا۔ اس انقلاب کا اہم ترین پہلو، اُن کے قوم پرستانہ خیالات میں تبدیلی تھا۔ یہ تبدیلی ’’مغرب کی بہیمانہ زندگی اور قوم و نسل کی بنیاد پر جنگ و جدل کے خلاف ردِ عمل‘‘ ۱؎ کی مرہونِ منت تھی۔ معاشرتی اور مجلسی سطح پر نئے یورپی معاشرے، کیمبرج کے علمی ماحول، ہائیڈل برگ کی بے تکلف مجالس، جرمن خواتین اور عطیہ بیگم سے علمی مباحث نے اقبال کے قلب و ذہن پر مثبت اثرات مرتب کیے۔ یورپ کے خوب صورت قدرتی مناظر نے ان کی طبیعت پر نہایت خوش۔گوار اثر ڈالا۔ اس دور کی نظمیں تعداد میں زیادہ نہیں، مگر قیامِ یورپ کے اثرات سے ان نظموں میں، اقبال کی طبیعت کے مفکرانہ اور فلسفیانہ رُخ کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ ۱۹۰۸ء میں یورپ سے واپسی پر، چندے توقف کے بعد، اقبال نے لاہور میں وکالت شروع کی۔ اس مصروفیت سے بہت کم وقت بچتا تھا۔ انجمن کشمیری مسلمانان کے جنرل سیکرٹری۲؎ کی حیثیت سے بھی انھیں کچھ فرائض انجام دینے پڑتے تھے۔ تاہم ان کی طبیعت پر قیامِ یورپ کا ردِ عمل، اسی دور میں سامنے آیا اور وہ کسی قدر افسردگی، حرماں نصیبی، اندرونی اضطراب اور احساسِ تنہائی کی کیفیات سے دوچار ہوئے۔ یہ کیفیات بھی اقبال کے لیے تخلیقِ شعر کا محرک ثابت ہوئیں۔ یہ اقبال کی شخصیت کا اعجاز تھا کہ ان کی طبیعت نے عملاً کوئی منفی رُخ اختیار نہیں کیا۔ اُن کا خاصا وقت بے تکلف دوستوں کے ساتھ مجلس آرائی میں بسر ہوتا۔ زیادہ تر مجلس آرائی للّی لاج، اندرون بھاٹی دروازہ میں ہوتی، جس میں اقبال کے اکثر احباب شریک ہوتے اور اقبال اُن سے دادِ کلام وصول کرتے۔۳؎ لِلّی لاج کی محفلوں کے علاوہ اقبال کے متعدد دوست، اُن کے مکان واقع انار کلی، پر بھی آیا کرتے۔ برعظیم کے مختلف علاقوں سے انھیں بکثرت فرمائشیں موصول ہوتیں مگر وہ انھیں پورا کرنے سے قاصر تھے۔ البتہ انجمن حمایتِ اسلام کے جلسوں میں نظم گوئی کا جو سلسلہ، یورپ جانے پر منقطع ہوگیا تھا، دوبارہ شروع ہوا اور انجمن کے اسٹیج سے ۱۹۱۱ء میں ’’شکوہ‘‘ اور ۱۹۱۲ء میں ’’شمع و شاعر‘‘ پڑھی گئیں۔ اس دور میں، اقبال اپنے احباب میں سب سے زیادہ مولانا گرامی سے متاَثر و مستفید ہوئے۔ بعض اعتبار سے وہ اقبال کے ہم مزاج واقع ہوئے تھے۔ جب لاہور آتے تو مستقلاً اقبال کے ۱- ڈاکٹر وحید قریشی: پاکستان کی نظریاتی بنیادیں:ص۴۲ ۲- اقبال اور انجمنِ کشمیری مسلمانان: ادبی دنیا اقبال نمبر، دور ششم، شمارہ۲۴:ص۱۹۹ ۳- خواجہ عبدالوحید: اقبال ریویو، جنوری ۱۹۶۹ئ:ص۴۸ ہاں قیام کرتے۔ شب و روز دونوں میں علمی گفتگو رہتی، شعری رموز و نکات پر بحث ہوتی، ایک دوسرے کے اشعار نقد و انتقاد کی کسوٹی پر پرکھے جاتے، باہمی شعر گوئی اور مباحثوں کی ان نشستوں میں اقبال اور گرامی کئی کئی روز منہمک رہتے۔ مختصر یہ کہ گرامی کی شخصیت اور صحبت بھی، اقبال کی شعری تخلیق اور ان کے شاعرانہ ارتقا میں اہمیت رکھتی ہے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب وہ اپنی معرکہ آرا فارسی تصانیف اسرارِ خودی، رموزِ بے خودی، پیامِ مشرق اور زبورِ عجم کی تالیف و ترتیب میں مشغول تھے۔ اس زمانے میں اقبال نے سیّد سلیمان ندوی، مولانا حبیب الرحمن شروانی اور عبدالماجد دریا بادی سے بھی مشورہ۱؎ کیا لیکن زبان و محاورے کی باریکیوں اور شعری غوامض کے سلسلے میں وہ، گرامی کی رائے کو زیادہ صائب سمجھتے تھے۔۲؎ اب اقبال کی شاعری اس مرحلے تک آپہنچی تھی کہ انھیں کسی حوصلہ افزائی یا داد و تحسین کی ضرورت نہ تھی۔ ایک شاعر کی حیثیت سے وہ شہرت و نام وَری کی ہر تمنا سے بے نیاز ہوچکے تھے۔ ترنم سے پڑھنا تقریباً ترک کرچکے تھے۔ شعر سنانے کی فرمائش عموماً ٹال دیتے۔ اس دور میں، اُن کے ہاں بڑے تواتر اور تسلسل کے ساتھ یہ اظہار ملتا ہے کہ میں شاعر ہوں اور نہ مجھے فنِ شاعری سے کوئی دلچسپی ہے۔ وہ مذہبی اور اخلاقی مقاصد کو اوّلین اہمیت دینے لگے اور شاعری ثانوی حیثیت اختیار کرگئی۔ قارئین کے خیالات میں انقلاب پیدا کرنا، اقبال کی سخن گوئی کا مقصد ٹھہرا۔ نسبتاً بعد کے دور میں، اُن کے کلام میں شاعرانہ تخیل اور رنگینیِ بیان کی کمی کا شکوہ کیا گیا، تو فرمایا: جو پیغام میں دینا چاہتا ہوں، وہ اب میرے لیے بالکل واضح ہوگیا ہے۔ میں عربی شاعری کی روش پر بالکل صاف صاف اور سیدھی سیدھی باتیں کَہ رہا ہوں۔۳؎ مطلق شعر گوئی کو اُنھوں نے اپنے لیے ایک ’’تہمت‘‘ ۴؎ قرار دیا۔ اب اقبال کے لیے خصوصاً عمر کے آخری برسوں میں، سب سے بڑا محرکِ شعر وہ سوز و ساز، پیچ و تاب، دردمندی اور سب سے بڑھ کر وہ جذبۂ اضطراب تھا، جس سے اقبال کا دل و دماغ، مستقلاً دوچار رہا۔ بقول حکیم احمد شجاع: ۱- اقبال نامہ، اوّل: صفحات۵،۸۶ -۹۷، ۱۰۱، ۱۰۳ -۱۰۹، ۱۲۷، ۲۳۶ ۲- اقبال خود اس امر کے معترف تھے۔ گرامی سے مشوروں کے بارے میں تفصیلی بحث ملاحظہ کیجیے: مکاتیبِ اقبال بنام گرامی: ص۷۱-۸۱ ۳- روایت غلام رسول مہر: اقبال کی شخصیت اور شاعری: ص۷۶ ۴- زبورِ عجم میں ہے: نہ بینی خیر، ازاں مردِ فرو دست (ص۱۴۶) کہ بر من تہمتِ شعر و سخن بست (ص۱۴۶) ان کے چہرے پر اکثر فکر و تردّد کے آثار نظر آتے تھے اور کبھی کبھی، ان آثار میں اس درد و کرب کی گہری لکیریں بھی دکھائی دینے لگی تھیں، جنھیں وہ اپنے صبر و ضبط سے اپنے ہم نشینوں پر ظاہر نہ کرنا چاہتے تھے۔۱؎ اقبال کے ’’دنوں کی تپش‘‘ اور ’’شبوں کے گداز‘‘ کی غرض و غایت اسی ایک نکتے پر مرکوز ہوگئی تھی کہ نئی نسل کے ذہنوں کو اُن انقلاب انگیز خیالات سے منوّر کیا جائے، جو اُن کی شاعری کی اساس ہیں۔ دوست احباب کے ساتھ محفل آرائی اب بھی ہوتی تھی، ان محفلوں میں شعر و شاعری کے علاوہ علمی و ادبی اور سیاسی و معاشرتی مسائل زیر بحث آتے اور ظریفانہ خوش گپیاں بھی ہوتیں مگر اپنے وسیع حلقۂ احباب، اپنی تمام تر شہرت و مقبولیت اور غیر معمولی عزت و اکرام کے باوجود، ایک احساسِ تنہائی نے اُنھیں ہمیشہ ہی، خصوصاً عمر کے آخری برسوں میں، بے چین رکھا۔ ارمغانِ حجاز میں یہ تاَثر زیادہ شدت کے ساتھ موجود ہے۔ یہ ملّی احساس، سوز و اضطراب اور احساسِ تنہائی، اقبال کے آخری دور میں اُن کی شعر گوئی کا ایک اہم محرک رہا۔ اپنے ہم عصروں میں اقبال کو، اکبر کے طرزِ احساس نے متاثر کیا۔۲؎ اپنے خطوط میں وہ ذہنی اور فکری طور پر اکبر الٰہ آبادی کے ساتھ حد درجہ قریب و ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔ کسی اور ہم عصر کے ساتھ اقبال کی ایسی فکری یک جہتی اور نظریاتی یگانگت نظر نہیں آتی۔ ابتدائی دور میں ایک مختصر عرصے کے لیے اُنھوں نے اکبر کے اُسلوب کا تتبع بھی کیا، مگر اسے موزوں نہ پاکر جلد ترک کردیا۔ تاہم اقبال کی شاعری، اکبر ہی کے ندرتِ فکر کا ایک سنجیدہ اور نسبتاً عمیق نقش ہے۔ حالی کی درد مندی اور مقصدیت نے بھی اقبال کو متاَثر کیا تاہم حالی کی افسردگی اور کسی قدر مایوسی کے برعکس، اقبال کے ہاں رجائی لہجہ غالب ہے۔ اس طرح یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مغرب کے خلاف ایک مثبت ردِ عمل اور اسلامی نشاتِ ثانیہ کی آرزو، زندگی کے ہر دور میں، اقبال کی شعر گوئی کا سب سے بڑا محرک رہی۔ تخلیقِ شعر کے محرکات اور شعر گوئی کا جو پس منظر، اُوپر کی سطور میں بیان کیا گیا ہے، ان محرکات اور اس پس منظر میں اقبال کی شاعری جس طرح ارتقا پذیر ہوئی، اس کے نتیجے میں اُردو کلام کے تین مکمل (بانگِ درا، بالِ جبریل، ضربِ کلیم) اور ایک نصف شعری مجموعہ (ارمغانِ حجاز) تیار ہوا۔ آئندہ صفحات میں ان اُردو مجموعوں کی ترتیب و تدوین، طباعت و اشاعت اور صحتِ متن کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے گا۔ ۱- نقوش، نمبر ۱۰۸، ستمبر ۱۹۶۷ئ:ص۲۰ ۲- ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار لکھتے ہیں: ’’اکبر کا کلام معجز رقم بھی اقبال کے لیے محرکِ فکر (inspiration) کا کام دیتا تھا۔‘‘ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے: اکبر اور اقبال: ص۷ -۵۸ ئ……ئ……ء (ب) اُردو کلام کے مجموعے ژ بانگِ درا گذشتہ صفحات میں ذکر آچکا ہے کہ انجمن حمایت اسلام کے جلسوں اور مخزن کے ذریعے اقبال کی شاعرانہ شہرت، خوش بو بن کر پورے برعظیم میں پھیلی۔ اس کے نتیجے میں شائقین، اپنے اپنے طور پر، ان کا کلام جمع کرنے لگے۔۱؎ متعدد اصحاب کو اشاعتِ کلام کا خیال پیدا ہوا، مگر حقوقِ اشاعت کے معاملے میں اقبال خاصا سخت نقطۂ نظر رکھتے تھے۔۲؎ اس کی متعدد وجوہ تھیں: ایک تو یہ کہ بقولِ اقبال: ’’لوگ تجارتی اغراض کو ملحوظ رکھتے ہیں اور اس بات کی مطلق پروا نہیں کرتے کہ شعر غلط چھپا ہے یا صحیح؟‘‘ ۳؎ دوسرے یہ کہ علامہ اقبال اپنے کلام کی مکرر اشاعت سے پہلے اس پر نظر ثانی ضروری سمجھتے تھے۔ تیسرے یہ کہ ان کی گذر اوقات کا ایک اہم ذریعہ کتابوں کی رائلٹی تھا، خصوصاً آخری سالوں میں، ۴؎ اس لیے ہر کہ ومہ کو اشاعتِ کلام کی اجازت نہیں دی جاسکتی تھی۔ ۱- ملاحظہ کیجیے: (الف) باقیاتِ اقبال، طبع اوّل: ص۵،۷ (ب) روزگارِ فقیر، دوم: ص۲۱۵ (ج) نقشِ اقبال (عبدالواحد معینی): ص۷۰ ۲- محمد دین فوق کو ایک بار لکھا: ’’اگر کوئی میرا کلام میری اجازت کے بغیر چھاپے تو اس پر دعویٰ کردیا جائے۔‘‘ (انوارِ اقبال: ص۶۳) عبدالمجید سالک نے بلااجازت اقبال کی نظم شائع کی تو انھیں قانونی نوٹس بھیج دیا۔ (یارانِ کہن: ص۳۲-۳۳) مزید برآں شیخ اعجاز احمد کے دوست مشتاق صاحب کو اُردو کلام کا مجموعہ شائع کرنے کی اجازت نہیں ملی۔ (روزگارِ فقیر، دوم: ص۲۱۸)۔ ۳- انوارِ اقبال: ص۶۳ ۴- ۱۷-۱۹۱۶ء سے وفات تک، اقبال کو جو مجموعی آمدنی ہوئی، اس کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ وکالت کے بعد، ان کا سب سے بڑا ذریعۂ آمدنی کتابوں کی رائلٹی تھا۔ یہ رقم (-/۶۲۹۶۷ روپے) وکالت سے آمدنی کی رقم کے نصف سے کسی قدر زائد ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے: صفدر محمود کا مضمون ’’علامہ اقبال کا گوشوارۂ آمدنی‘‘: صحیفہ اقبال نمبر، حصہ اوّل، اکتوبر ۱۹۷۳ئ:ص۱۳تا ۵۱)۔ ترتیبِ اشعار کا خیال ۱۹۰۳ء ہی سے ان کے ذہن میں موجود تھا،۱؎ مگر جلد ولایت چلے گئے۔ واپسی پر تدریسی اور قانونی مشاغل میں، پھر اسرارِ خودی اور بعد ازاں رموزِ بے خودیکی ترتیب میں مصروف رہے۔ اس عرصے میں اُردو کلام کی اشاعت کے لیے اقبال کے احباب اور شائقین کا اصرار جاری رہا۔ عطیہ فیضی کے نام ۷؍اپریل ۱۹۱۰ء کے مکتوب میں لکھتے ہیں: I have been receiving letters from various parts of the country to bring out my poems in book form. ۲؎ تاہم ایک عرصے تک ترتیبِ کلام کے سلسلے میں عملی پیش رفت نہ ہوسکی۔ یہ امر بھی، کسی حد تک، باعثِ تاخیر ہوا کہ اُردو کلام کی مقدار کم تھی۔۳؎ ۱۹۲۱ء میں اقبال سنجیدگی سے اُردو کلام کی ترتیب کی طرف متوجہ ہوئے۔ مسوّدے کی تدوین میں چودھری محمد حسین نے بہت ہاتھ بٹایا۔۴؎ اور فروری ۱۹۲۴ء میں مسوّدہ کاتب کے حوالے کردیا گیا۔۵؎ متنِ کلام کی کتابت تو جولائی میں مکمل ہوگئی، مگر دیباچے کی کتابت اور طباعتِ کتاب میں کئی ہفتے صَرف ہوگئے۔۶؎ بالآخر ۳؍ستمبر ۱۹۲۴ئ۷؎ کو بانگِ درا کا پہلا اڈیشن۸؎ منظرِ عام پر آیا۔ یہاں یہ وضاحت مناسب ہوگی کہ فقیر سیّد وحید الدین نے Iqbal in Pictures میں بانگِ درا کے سرورق کا جو عکس دیا ہے، اس کے نیچے لکھا ہے: Title page of First Edition of 'Bang-i-Dara'۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ اس غلط فہمی کے ازالے کے لیے ہم طبع اوّل کا عکسِ سرورق دے رہے ہیں (دیکھیے آئندہ صفحہ)۔ ۱- اقبال نامہ، اوّل: ص۲۱ ۲- Letters to Atiya: ص۶۸ ۳- اقبال نامہ، اوّل: ص۲۱ ۴- اقبال کی صحبت میں: ص۱۲۹ ۵- مکاتیبِ اقبال بنام نیاز: ص۴۹ ۶- کتابِ مذکور: ص۵۰ ۷- میاں نظام الدین کو پیش کردہ نسخے پر ’’محمد اقبال ۳ستمبر ۱۹۲۴ئ‘‘ درج ہے (بحوالہ: اوراقِ گم گشتہ: ص۱۳۸) پروفیسر آرنلڈ کو پیش کردہ نسخے پر بھی یہی تاریخ درج ہے (روایت: علی سردار جعفری در: فکر اقبال مرتبہ عالم خوندمیری، مغنی تبسم، حیدرآباد، ۱۹۷۷ئ، ص۶۶) ۸- پہلے اڈیشن کی پرنٹ لائن میں ’’اشاعتِ اوّل‘‘ کے الفاظ درج نہیں اس لیے یہ ظاہر (بقیہ آئندہ صفحے پر) بانگِ درا طبع اوّل کا عکس بانگِ دراکی تدوین کے موقع پر، اقبال کے پاس اپنا پورا کلام محفوظ و موجود نہیں تھا۱؎ کیونکہ ریکارڈ رکھنا، اُن کے لیے خاصا مشکل تھا۔ مطبوعہ کلام کے علاوہ بہت سا غیر مطبوعہ کلام، اُن کے احباب اور شائقین کے پاس تھا۔۲؎ چنانچہ احباب کی بیاضوں سے مدد لی گئی۔ بانگِ درا کی اشاعت سے پہلے مولوی احمد دین کی تصنیف اقبال چھپ کر آگئی تھی جس میں اُردو کلام کا معتدبہ حصہ شامل تھا۔ اقبال نے اسے پسند نہیں کیاچنانچہ احمد دین صاحب نے کتاب ضائع کردی۔ ۱۹۲۴ء میں حیدر آباد دکن سے مولوی عبدالرزاق راشد نے کلیاتِ اقبال شائع کی۔ اس بلااجازت اور غیر قانونی اشاعت کے خلاف قانونی چارہ جوئی آسان نہ تھی کیونکہ دکن میں برطانوی قانونِ تحفظِ اشاعت لاگو نہ ہوتا تھا۔ بالآخر سر اکبر حیدری کے توسط سے کتاب کی فروخت، دکن تک محدود کردی گئی۔۳؎ بانگِ درا کی بیشتر نظمیں اور غزلیں، اخبارات و رسائل میں شائع ہوچکی تھیں۔ نظموں کے ابتدائی متن سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نے ترتیب کتاب کے وقت خاصی ترمیم و تنسیخ سے کام لیا۔ کئی مصرعوں اور اشعار کو بہتر بنایا۔ متعدد بند خارج کیے اور بعض نئے بندوں کا اضافہ کیا۔۴؎ ۱۹۰۱ء سے پہلے کی کوئی نظم یا غزل بانگِ درا میں شامل نہیں کی۔ زیادہ تر ترمیم و اصلاح ۱۹۰۸ء تک کے کلام میں کی گئی۔ اپنے تیسرے دور کے کلام میں اقبال نے نسبتاً کم ترمیم کی ہے۔ ترمیم و اصلاح کا یہ سلسلہ اُنھوں نے بانگِ درا کی ترتیب سے پہلے ہی شروع کردیا تھا۔ ’’شکوہ‘‘ مطبوعہ مرغوب ایجنسی لاہور کے نسخے کا متن، اِس نظم کے اوّلین متن سے مختلف ہے۔ سرورق پر وضاحت درج ہے کہ یہ نسخہ (بقیہ گذشتہ صفحہ) نہیں ہوتا کہ یہ نسخہ، پہلے اڈیشن کا ہے… اس کا کاغذ، وقت کے ساتھ خستہ ہوچکا ہے اور تَہ کرنے سے ٹوٹ جاتا ہے۔ اس کے اندر واٹر مارک میں یہ عبارت نظر آتی ہے: Rose Brand - Manufactured by Allah Diya and Sons, Lahore and Delhi۔ طبع اوّل کے کتابیاتی کوائف کے لیے ملاحظہ کیجیے: ضمیمہ نمبر۱ ۱- (الف) خطوطِ اقبال: ص۱۲۹ (ب) مکاتیبِ اقبال بنام نیاز: ص۸ ۲- (الف) باقیاتِ اقبال،طبع اوّل: ص۵ (ب) روزگارِ فقیر، دوم: ص۲۱۵ ۳- تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے: (الف) انوارِ اقبال: ص۳۱-۳۲ (ب) کلیاتِ اقبال کی سرگذشت از عبدالواحد معینی، مشمولہ: نقشِ اقبال: ص۶۵-۸۴ ۴- مفصل مطالعے کے لیے دیکھیے: اصلاحاتِ اقبال از محمد بشیر الحق دسنوی۔ ’’مصنف موصوف کی نظرثانی‘‘ کے بعد چھاپا گیا ہے۔ اس میں دو تین مقامات ایسے ہیں، جہاں اقبال نے بانگِ درا مرتب کرتے وقت پھر ترمیم کی۔ یہ سب ترامیم و اصلاحات، اقبال کے تنقیدی شعور اور انتخابی ذہن پر دلالت کرتی ہیں۔۱؎ پہلے اڈیشن کے سرورق پر ’’جملہ حقوق مع حق ترجمہ محفوظ‘‘ کے الفاظ درج ہیں۔ کلیاتِ اقبال (دکن) کے قضیے کے پس منظر میں یہ الفاظ اہم ہیں۔ دیباچہ، سر عبدالقادر نے لکھا کیونکہ بانگِ درا کی دیباچہ نویسی کے لیے، اقبال انھی کو سب سے زیادہ موزوں سمجھتے تھے۲؎ اور یہ بات ۱۹۱۰ء ہی سے ان کے ذہن میں موجود تھی۔۳؎ اشاعتِ اوّل میں کتابت یا املا کی متعدد اغلاط موجود ہیں، مثلاً: صفحہ سطر غلط صحیح ۵۴ ۳ مزرعۂ مزرعِ ۷۸ ۸ ستم کیلئے ستم کے، لیے ۱۲۲ ۳ تیری تری ۱۳۱ ۷ خجستہ کام خجستہ گام ۱۴۰ ۷ سعدی سُعدیٰ ۱۸۴ ۷ کیلئے دل تونے کے، لیے دل تونے ۱۸۸ ۵ آئینے آئنے ۱۸۹ ۳ آئینے آئنے ۲۴۶ ۵ زبان زباں ۲۷۷ ۴ دیبانتواں یافت دیبانتواں بافت دوسری بار بانگِ درا کو خطِ نسخ میں چھاپنے کی تجویز ہوئی۔ ڈاکٹر ذاکر حسین نے ۱۹۲۵ء میں ۱- بانگِ درا مرتب کرتے وقت اقبال نے اپنے کلام میں جو ترمیم و تنسیخ کی ہے، اس کے پیشِ نظر سر عبدالقادر کی یہ راے کتنی عجیب لگتی ہے کہ: ’’علامہ نے غالب کی طرح اشاعت کے لیے اپنے کلام کا انتخاب نہیں کیا تھا‘‘۔ (باقیاتِ اقبال، طبع اوّل: ص۷)۔ ۲- روایت عاشق حسین بٹالوی: چند یادیں، چند تاَثرات: ص۴۷ ۳- عطیہ بیگم کے نام ۷ ؍اپریل ۱۹۱۰ء کے خط میں اس امر کی طرف واضح اشارہ ملتا ہے۔ برلن سے دیوانِ غالب کا منقّش اڈیشن شائع کرنے کے بعد بانگِ درا کا ایسا ہی نسخہ چھاپنے کا ارادہ ظاہر کیا، مگر اقبال کا ذوق، نستعلیق کو نسخ پر قربان کرنے کے لیے تیار نہ تھا، اس لیے یہ تجویز روبعمل نہ آسکی۔۱؎ دو برس بعد، ستمبر ۱۹۲۶ء میں دوسرا اڈیشن نستعلیق ہی میں شائع ہوا۔۲؎ اس کے متن میں مندرجہ ذیل مقامات پر ترامیم ملتی ہیں: صفحہ سطر اشاعت اوّل اشاعت دوم ۶۷ ۴ تری ظلمت میں، میں۔َ روشن چراغاں… تری تاریک راتوں میں چراغاں… ۹۰ ۱ یعنی یہ لیلیٰ وہاں بے پردہ… لیلیِ معنی وہاں بے پردہ… ۹۱ ۱ آہ، اے بیتُ الحرام مذہبِ اہلِ سخن اے جہاں آباد، اے سرمایۂ بزمِ سخن ۹۱ ۲ یعنی خالی داغ سے… آہ، خالی داغ سے… ۱۶۳ ۳ یہ قمر جو ناظمِ عالم کا… چاند جو صورت گرِ ہستی کا… ۱۶۳ ۳ پہنے سونے کی قبا… پہنے سیمابی قبا… ۲۱۴ ۱۲ نگہتِ خوابیدہ… نکہتِ خوابیدہ… ۲۷۴ ۱۰ مگر فطرت تری رخشندہ اور… مگر فطرت تری افتندہ اور… متنِ کلام میں ص ۲۴۶ کی غلطی کی اصلاح ہوگئی ہے، باقی تمام اغلاطِ کتابت جوں کی توں موجود ہیں۔ مزید برآں مندرجہ ذیل نئی غلطیاں بھی روپذیر ہوگئی ہیں: صفحہ سطر غلط صحیح ۶۶ ۳ مصبیت مصیبت ۲۷۶ ۱۰ حمعیت جمعیتِ تیسرا اڈیشن چار سال کے وقفے سے ۱۹۳۰ء میں شائع ہوا۔ اس بار اقبال نے متن میں کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کی، صرف دیباچے میں، علامہ میر حسن کے بارے میں، حاشیے میں اس عبارت کا اضافہ کیا گیا ہے: ’’۲۵؍ستمبر ۱۹۲۹ء کو حضرت کا وصال ہوگیا ہے‘‘۔ اشاعتِ سوم کے ۱- مکتوباتِ اقبال: ص۴ ۲- اس اڈیشن میں دیباچے کے بعد اور متنِ کتاب سے پہلے، علامہ اقبال کی ایک تصویر بھی لگائی گئی ہے۔ پہلے اڈیشن کے برعکس اس اڈیشن کا کاغذ مضبوط اور پائدار ہے۔ کتابیاتی کوائف کے لیے ضمیمہ نمبر۱ ملاحظہ کیجیے۔ سلسلے میں سب سے زیادہ تعجب انگیز بات یہ ہے کہ اس میں، اشاعتِ دوم کی ترمیمات کو نظر انداز کردیا گیا۔ متن کے بغور مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ تیسرے اڈیشن کی کتابت کے لیے خوش۔نویس کو، دوسرے اڈیشن کے بجاے پہلا اڈیشن دے دیا گیا اور اسے جوں کا توں کتابت کراکے چھاپ دیا گیا۔ تیسرے اڈیشن کی تیاری اور طباعت کے موقع پر، دوسرے اڈیشن کی ترامیم نہ معلوم اُن کے ذہن سے کیوں محو ہوگئیں۔ بہرحال اشاعتِ دوم کی متذکرہ بالا آٹھ ترامیم، اشاعتِ سوم میں نظر نہیں آتیں۔ پہلے اور دوسرے اڈیشن کی بیشتر اغلاطِ کتابت بھی بدستور موجود ہیں۔ ص۱۳۱ کی غلطی درست کردی گئی ہے، مگر تین نئی اغلاط رونما ہوگئی ہیں: صفحہ سطر غلط صحیح ۵۵ ۶ ٹپکتی ہوں پٹکتی ہوں ۸۹ ۱۰ جہان آباد جہاں آباد ۲۷۷ ۳ خرمانتواں بافت خرمانتواں یافت علامہ اقبال کی وفات کے بعد اُن کے شعری مجموعوں کی اشاعت و طباعت چودھری محمد حسین ایم اے کی زیر نگرانی ہونے لگی۔ چنانچہ بانگِ درا کا چوتھا اڈیشن جون ۱۹۳۹ء میں چودھری صاحب کی نگرانی میں شائع ہوا۔ یہ اڈیشن اس اعتبار سے اہم ہے کہ اسی اڈیشن کی پلیٹیں محفوظ کرلی گئیں۔۱؎ اور کلیاتِ اقبال (فروری ۱۹۷۳ئ) کی اشاعت سے پہلے بانگِ درا کے تمام اڈیشن انھی پلیٹوں سے چھاپے گئے۔ خوش قسمتی سے اشاعتِ چہارم میں دوسری اشاعت کا متن اختیار کیا گیا۔ چنانچہ تیسری اشاعت کے موقع پر، جو آٹھ ترامیم نظر انداز ہوگئی تھیں، چوتھے اڈیشن میں، اُن کی بنیاد پر، متن صحیح صورت میں شائع ہوا… سواے ایک مقام کے، جہاں اشاعتِ دوم کی ترمیم (تری افتندہ اور…) کو اختیار نہیں کیا گیا بلکہ پہلے اڈیشن ہی کے متن (تری رخشندہ اور…) کو رہنے دیا گیا… خدا جانے کیوں؟ …اس اڈیشن میں صفحات ۵۴،۵۵،۷۸، ۸۹، ۱۲۲، ۱۸۴،۱۸۸،۱۸۹ اور ۲۴۶ کی غلطیاں بدستور موجود ہیں۔ صفحہ ۱۴۰ اور ۲۷۷ کی اغلاط درست کردی گئی ہیں مگر صفحہ ۱۰۲ پر ایک نئی غلطی رو پذیر ہوگئی ہے۔ ۱- اس لحاظ سے ڈاکٹر جاوید اقبال کا یہ بیان کہ: ’’کلام اقبال کے اب تک جتنے اڈیشن شائع ہوئے، وہ سب کے سب انھی پلیٹوں سے طبع ہوتے رہے ہیں، جنھیں حضرت علامہ مرحوم نے خود اپنی نگرانی میں تیار کروایا تھا‘‘ (دیباچہ کلیاتِ اقبال: صفحہ ۵) غلط فہمی پر مبنی ہے۔ سطر غلط صحیح ۳ ہفتاد دو ملت ہفتاد و دو ملت بعد کی اشاعتوں میں اسی چوتھے اڈیشن کی پلیٹوں کو حسب ضرورت سنگ سازی کے بعد، استعمال کیا جاتا رہا۔ ۱۹۳۹ء سے ۱۹۷۲ء تک بانگِ درا کوئی انتیس مرتبہ چھپی۔۱؎ جس میں ۱۹۴۹ء تک کی اشاعتیں، چودھری محمد حسین صاحب کی نگرانی میں ہوئیں، مگر اغلاطِ کتابت کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی، چنانچہ صفحات: ۷۸، ۸۹، ۱۲۲،۱۸۴،۱۸۸،۱۸۹ اور ۲۴۶ کی محولہ بالا اغلاط، بعد کے اڈیشنوں میں بھی بدستور موجود ہیں۔ البتہ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض اوقات کسی سنگ ساز نے بزعمِ خویش، کتابت کی ایک غلطی درست کرنے کی کوشش کی ہے، چنانچہ صفحہ ۲۸۳ پر ’’آئنۂ عارض‘‘ (صحیح) کو ’’آئینۂ عارض‘‘ (غلط) بنا دیا گیا۔ غالباً محض اس قیاس کی بنیاد پر کہ، اس نظم میں پانچ سات جگہ ’’آئینہ‘‘ ہے تو یہاں بھی ’’آئنہ‘‘ کے بجائے ’’آئینہ‘‘ ہونا چاہیے۔ ژ بالِ جبریل بانگِ دار کی اشاعت (۱۹۲۴ئ) کے بعد، مسلسل کئی برس تک، اقبال کی زیادہ تر توجہ فارسی کی طرف رہی۔۲؎ اس دوران میں بانگِ درا بار بار کثیر تعداد ۳؎ میں اشاعت پذیر ہوکر اُردو قارئین کے لیے تسکینِ ذوق کا سامان فراہم کرتی رہی، تاہم شائقین، نئے مجموعے کی اشاعت کے لیے مسلسل مصر اور منتظر رہے۔۴؎ اسی اصرار کے پیشِ نظر اقبال نے نیا اُردو مجموعہ مرتب کرلیا۔ قبل ازیں ۱۹۲۹ء میں پیامِ مشرق کا تیسرا اڈیشن مطبع جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں طبع ہوا تھا۔ اب جامعہ والے نیا اُردو شعری مجموعہ بھی چھاپنا چاہتے تھے۔ اقبال اس پر رضامند تھے۔ اُنھوں نے سیّد نذیر نیازی ۱- بعد کی اشاعتوں کے کتابیاتی کوائف کے لیے ملاحظہ کیجیے: ضمیمہ نمبر۱ ۲- یکے بعد دیگرے فارسی کے چار شعری مجموعے شائع ہوئے: (۱) زبورِ عجم: ۱۹۲۷ئ۔ (۲) جاوید نامہ: ۱۹۳۲ئ۔ (۳) مسافر: ۱۹۳۴ئ۔ (۴) مثنوی پس چہ باید کرد: ۱۹۳۶ئ۔ ۳- پہلی تین اشاعتوں کے نسخوں کی تعداد: اٹھارہ ہزار۔ ۴- مکتوباتِ اقبال: ص۱۶۳،۱۸۷ صاحب کو اختیار۱؎ دیا کہ وہ ناشر سے معاملہ طے کرلیں۔ اس اثنا میں ۹؍ستمبر ۱۹۳۴ء کو اُردو مجموعے کی کتابت شروع ہوگئی۔ نئے اُردو مجموعے کا نام نشانِ منزل۲؎ تجویز ہوا اور مسوّدے کے سرورق پر بھی یہی نام لکھا گیا مگر بعد میں اقبال نے محسوس کیا کہ بالِ جبریل زیادہ موزوں ہے، چنانچہ اُنھوں نے مسوّدے پر نشانِ منزل کو قلم زد کرکے بالِ جبریل لکھ دیا۳؎ …اشاعت کے سلسلے میں جامعہ ملیہ سے تو معاملہ طے نہ ہوسکا، البتہ تاج کمپنی لاہور سے معاہدہ ہوگیا۔ پہلے خیال تھا کہ مجموعہ ۱۹۳۴ء ہی میں چھپ جائے گا، اس لیے مسوّدے کی پرنٹ لائن میں ’’اشاعت اوّل: ۱۹۳۴ئ‘‘ کے الفاظ ملتے ہیں، مگر عملاً کتاب، جنوری ۱۹۳۵ء کے پہلے عشرے میں منظرِ عام پر آئی۔۴؎ تعدادِ اشاعت کے بارے میں مسوّدے میں اقبال کی تحریر میں ’’پانچ ہزار‘‘ کے الفاظ درج ہیں، پھر کسی نے پانچ کے گرد، دائرہ بناکر تین لکھ دیا،۵؎ مگر جیسا کہ طبع اوّل پر صراحت موجود ہے، کتاب دس ہزار کی تعداد میں چھاپی گئی۔ بانگِ درا کے برعکس بالِ جبریل، بغیر کسی تمہید کے شائع ہوئی۔ غالباً اقبال نے محسوس کیا کہ ان کی شاعری، فکر و فن کے اس معیار و مرحلے تک پہنچ چکی ہے کہ اب نئے مجموعے کے آغاز میں کسی پس منظر، تعارف یا توضیح کی ضرورت نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بالِ جبریل کے بعد کے کسی بھی شعری مجموعے میں کوئی نثری دیباچہ یا تمہید موجود نہیں۔ پہلے اڈیشن کی کتابت خاص اہتمام سے کرائی گئی۔ تاہم اس میں کتابت کی مندرجہ ذیل اغلاط نظر آتی ہیں: صفحہ سطر غلط صحیح ۸ ۹ خذف خزف ۱- مکتوباتِ اقبال: ص۱۵۳،۱۸۷ ۲- کتابِ مذکور: ص۱۸۷ ۳- ملاحظہ کیجیے: سرورق قلمی مسوّدہ بالِ جبریل نمبر A/M-1977-88 مخزونہ اقبال میوزیم، لاہور۔ ۴- مکتوباتِ اقبال ص۲۴۴۔ ۹؍جنوری ۱۹۳۵ء کے خط میں نذیر نیازی اطلاع دیتے ہیں کہ بال جبریل چھپ کر شائع ہوگئی ہے۔ (ایضاً، طبع اوّل، ص۲۴۲)۔ بیگم صاحبہ بھوپال کو پیش کردہ نسخے پر ۲۸؍جنوری ۱۹۳۵ء کی تاریخ درج ہے۔ (اقبال نامے از اخلاق اثر، ص۲۳) ۵- ملاحظہ کیجیے: سرورق قلمی مسوّدہ بالِ جبریل نمبر A/M-1977-88 مخزونہ اقبال میوزیم، لاہور۔ صفحہ سطر غلط صحیح ۱۹ ۳ لااِلٓہَ لَآ اِلٰہَ ۲۷ ۳ میرے مرے ۳۳ ۶ نو برگِ تو برگِ ۳۳ ۱۱ قرآن قرآں ۴۱ ۸ فرفاں فرقاں ۵۴ ۳ رو رو ہوکے رو روکے ۶۸ ۱۱ لَااِلٓہَ لٓاَ اِلٰہَ ۶۹ ۵ لاْ الٓہَ الاَ اللہ لآ اِلٰہ اِلاَّ اللہ ۷۶ ۳ میری مری ۹۴ ۴ آئینہ آئنہ ۹۷ ۱۲ میرے مرے ۹۹ ۷ لاَ اِلٓہَ لآالٰہ ۱۱۱ ۲ لاَ اِلٓہَ لآالٰہ ۱۳۴ ۹ دین دیں ۱۶۱ ۱ لللہ للہ ۲۰۹ حاشیہ غفران و لزومات غفران صفحہ ۳۷ پر پہلی غزل کے تمہیدی نوٹ میں اقبال نے لکھا ہے: ’’نومبر ۱۹۳۳ء میں مصنف کو حکیم سنائی غزنویؒ کے مزارِ مقدس کی زیارت نصیب ہوئی‘‘ حالانکہ یہ واقعہ ۳۰؍اکتوبر ۱۹۳۳ء کا ہے۔۱؎ اُنھوں نے یادداشت سے کام لیتے ہوئے نومبر لکھ دیا۔ صفحہ ۲۰۹ پر متنِ کلام میں ضرورتِ شعری کے تحت اقبال نے ’’لزومات‘‘ باندھا اور حاشیے میں بھی یہی لکھ دیا۔۲؎ ۱- سیرِ افغانستان: ص۱۱۶-۱۲۹ ۲- ظ۔ انصاری کا گمان ہے کہ اقبال نے مُعرّی کا مطالعہ انگریزی یا جرمن میں کیا ہوگا اور اس طرح کتاب کے (بقیہ آئندہ صفحے پر) بالِ جبریل، اقبال کا پہلا مجموعہ تھا، جو دس ہزار کی تعداد میں شائع ہوا۔ ان کی ملک گیر شہرت اور پہلے اُردو مجموعے بانگِ درا کی متعدد اشاعتوں کے پیشِ نظر، بالِ جبریل کے پہلے ہی اڈیشن کی کثیر تعداد میں اشاعت، ایک مناسب فیصلہ تھا۔ اشاعتِ اوّل کی فروخت کے سلسلے میں اہم بات یہ ہوئی کہ شیخ مبارک علی کے بجاے یہ کتاب تاج کمپنی کو دی گئی۔ غالباً شرح کمیشن میں تفاوت کے سبب ایسا ہوا مگر تاج کمپنی سے معاملات خوش اُسلوبی سے نہ چل سکے۔۱؎ چند ماہ بھی نہ گذرے تھے کہ اقبال نے نذیر نیازی کو لکھ دیا کہ اُن کے دوست، آئندہ کتابوں کے سول ایجنٹ بن سکتے ہیں۔۲؎ گویا علامہ، تاج کمپنی سے معاملہ طے کرکے مطمئن نہ تھے۔ اقبال کی زندگی میں، بالِ جبریل کا یہی اڈیشن شائع ہوسکا۔ دوسرا اڈیشن، ان کی وفات کے بعد مئی ۱۹۴۱ء میں چودھری محمد حسین کی نگرانی میں شائع ہوا۔ اس کی کتابت نسبتاً جلی ہے۔ طبع دوم میں اشاعتِ اوّل کے صفحات ۸،۳۳،۴۱،۵۴،۱۳۴ اور ۲۰۹ کی اغلاط درست کردی گئیں، مگر صفحات ۱۹، ۲۷،۶۸،۷۶، ۶۹،۹۴،۹۷،۹۹،۱۱۱ اور ۱۶۱ کی اغلاط بدستور موجود ہیں۔ مزید برآں اس اڈیشن میں حسبِ ذیل نئی غلطیاں بھی رُو پذیر ہوگئی ہیں: صفحہ سطر غلط صحیح ۳۷ ۳ ۳۳ھ ۳۳ء ۱۱۰ ۲ مقط فقط ۱۳۱ ۲ دنیوب دینوب ۱۳۶ حاشیہ فرطبہ کا قرطبہ کا ( بقیہ گذشتہ صفحہ) نام کے صحیح تلفظ اور املا (لزومیات) سے نا آشنا رہے ہوں گے (اقبال کی تلاش میں: ص۱۱۵) ۔ یہ گمان فقط ایک بے بنیاد قیاس آرائی ہے۔ اقبال نے عربی زبان و ادب کا وسیع مطالعہ کیا تھا اور ممکن نہیں کہ لزومیات کے صحیح تلفظ سے ناواقف ہوں۔ ۱- راقم کے استفسار پر سیّد نذیر نیازی، ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی اور شیخ نیاز احمد صاحبان نے بتایا کہ غالباً بالِ جبریل کے سول ایجنٹ نے مطبع سے ساز باز کرکے، کتاب زیادہ تعداد میں چھپوالی تھی اور یہی امر خرابیِ تعلقات کا سبب بنا۔ واللہ اعلم بالصّواب۔ ۲- مکتوباتِ اقبال: ص۲۱۹ صفحہ سطر غلط صحیح ۱۴۱ ۳ ولیکں ولیکن ۱۵۵ ۶ علمِ نخیل علم، نخیل ۱۶۹ ۱ آسمالوں آسمانوں پہلے اڈیشن کی طرح، اس اڈیشن میں بھی رموزِ اوقاف اور اعراب کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ صفحہ ۱۳۷ پر نظم کے تمہیدی نوٹ میں ’’ہسپانیہ کے ایک اور حکمران‘‘ کے الفاظ کو ’’ہسپانیہ کے ایک حکمران‘‘ سے تبدیل کردیا گیا ہے۔ راقم کے نزدیک یہ تبدیلی درست نہیں ہے۔ معتمد، ہسپانیہ (ہی کے ایک خطے اشبیلیہ) کا حکمران تھا۔ ہسپانیہ کے ’’ایک اور حکمران‘‘ (یوسف بن تاشفین) نے ہسپانیہ کا اقتدار حاصل کرنے کے بعد معتمد کو محبوس کردیا تھا۔ اگر یہاں سے ’’اور‘‘ نکال دیا جائے تو مفہوم یہ نکلتا ہے کہ معتمد (ہسپانیہ کے کسی خطے کا نہیں بلکہ) کوئی غیر ہسپانوی بادشاہ تھا، جسے ’’ہسپانیہ کے ایک حکمران‘‘ نے قید کردیا تھا۔ تمہیدی نوٹ میں متذکرہ تبدیلی، علامہ اقبال کی وفات کے بعد، اشاعت کا اہتمام کرنے والوں نے اپنی صواب دید پر کی، غالباً چودھری محمد حسین نے۔ بہرحال یہ تبدیلی درست نہیں ہے۔ دوسرے اڈیشن کی پلیٹیں محفوظ کرلی گئیں اور آٹھویں اڈیشن (جون ۱۹۵۱ئ) تک بالِ جبریل، انھی پلیٹوں سے طبع کی جاتی رہی، سنگ سازی میں کوتاہی کے سبب، بعد کے اڈیشنوں میں کہیں کہیں نقطے اُڑ گئے اور اغلاط رُو پذیر ہوگئی ہیں۔ مثلاً طبع ہفتم میں: صفحہ سطر غلط صحیح ۶۹ ۳ بلد بلند ۷۲ ۶ نہ سو نہ ہو ۱۴۱ ۳ ولیکں ولیکن نویں اڈیشن (نومبر ۱۹۵۴ئ) کی کتابت از سرِ نو کرائی گئی۔ صفحات کی تعداد، عنوانات اور کتابتِ متن کے انداز میں دوسرا اڈیشن ہی پیشِ نظر رہا، البتہ قلم قدرے جلی ہے۔ یہ کتابت ابنِپرویں رقم کی ہے۔ اس میں رموزِ اوقاف کی خامیاں بھی ہیں، مگر مجموعی طور پر، پہلے اور دوسرے اڈیشن کے مقابلے میں، زیر نظر اڈیشن میں رموزِ اوقاف اور اِعراب کا بہتر اہتمام کیا گیا ہے۔ دوسرے اڈیشن میں، کتابت کی جو اغلاط موجود تھیں، زیر نظر اڈیشن میں صفحات ۶۹،۱۱۰،۱۳۱،۱۳۶، ۱۴۱ اور ۱۶۹ کی غلطیاں درست کردی گئی ہیں مگر صفحات۱۹،۲۷،۳۷،۶۸،۷۶،۹۴،۹۷،۹۹،۱۱۱،۱۵۵ اور ۱۶۱ کی اغلاط بدستورموجود ہیں۔ اس اڈیشن میں مندرجہ ذیل نئی اغلاط رُو پذیر ہوگئی ہیں: صفحہ سطر غلط صحیح ۴۱ ۸ یٰس یٰسیں ۵۰ ۹ لا اِلٰہ لَآ اِلَہْ ۶۰ ۹ مرگِ حیات بے شرف مرگ، حیاتِ بے شرف ۸۰ ۱۰ لَا اِلٰہ لَآ اِلَہْ ۸۳ ۲ غِزالی غَزالی ۹۱ ۱ اَرَنِیْ اَرِنیْ ۱۰۱ ۴ غرقناک عرقناک ۱۱۱ ۶ آئینۂ آئنہ ۱۴۷ ۵ تزلّزل تزلزل ۱۵۱ ۹ طبلساں طیلساں ۱۵۹ ۶ اقوال اقول ۱۸۰ ۳ راز و زبوں زار و زبوں ۱۸۶ ۷ فایتِ غایتِ ۲۱۷ ۹ خواہی از خواہی ار اس اڈیشن میں بعض علامات کا اضافہ کیا گیا اور بعض میں تصرّف، اسی طرح کئی لفظوں کا اِملا بدل دیا گیا ہے، مثلاً: صفحہ سطر دوسرا اڈیشن نواں اڈیشن ۸۲ حاشیہ نطشہ نیٹشا ۸۳ ۸ اسد الّلٰہی اسدؓ اللّہی ۹۳ ۴ حسینؓ حسینؑ صفحہ سطر دوسرا اڈیشن نواں اڈیشن ۹۳ ۱۱ حیدر کرّار حیدرِؑ کرّار ۱۰۳ ۱۱ خلیلاں خلیلاںؑ ۱۵۲ ۱۱ حسینؓ حسینؑ ۱۵۴ ۱۵ جنید و بایزید جنیدؒ و بایزیدؒ ۱۶۲ ۲ سومے صوفے یہ اہتمام، کتابت کی، نسبتاً بہتر صورت کو ظاہر کرتا ہے، مگر حسین اور حیدر پر ’’ ؓ ‘‘کی علامت کو تبدیل کرنا، راقم کے نزدیک درست نہیں۔ یہ ایک طرح کی تحریف ہے جس کا حق، نہ تو کاتب کو ہے اور نہ ناشر کو۔ اس اڈیشن کی پلیٹوں کو محفوظ کرکے ۱۹۷۲ء تک انھی سے کام لیا جاتا رہا۔ حتیٰ کہ ۱۹۷۳ء میں بالِ جبریل کا تیسواں اڈیشن، کلیات (۱۹۷۳ئ) والی کتابت سے شائع کیا گیا اور تاحال کتاب، اِنھی پلیٹوں سے چھپ رہی ہے۔ ژ ضربِ کلیم بالِ جبریل کی اشاعت (جنوری ۱۹۳۵ئ) کے چند ماہ بعد ہی، اس قدر اُردو کلام جمع ہوگیا کہ علامہ اقبال نے ’’صورِ اسرافیل‘‘ کے نام سے تیسرے اُردو مجموعے کی تیاری شروع کردی۔ ۱۹۳۶ء کے اوائل میں مجموعہ مرتب ہوا، تو موضوع کی مناسبت سے اسے ’’صورِ اسرافیل‘‘ کے بجاے ضربِ کلیم کا نام دیا گیا۔ پہلے خیال تھا کہ مجموعہ اپریل ۱۹۳۶ء میں شائع ہوجائے گا،۱؎ مگر عملاً جولائی کے آخری دنوں میں ایسا ممکن ہوسکا۔۲؎ یہ اقبال کا پہلا مجموعہ ہے جس کے سرورق پر اُنھوں نے کتاب کے نام اور موضوع کی وضاحت کے لیے توضیحی الفاظ (’’اعلانِ جنگ دورِ حاضر کے خلاف‘‘) درج کیے بلکہ ایک قطعے سے اس کی مزید تشریح بھی کی۔ ضربِ کلیم کی اشاعتِ اوّل پر، طباعت کا ماہ و سال درج نہیں ہے۔ اس کی کتابت بالِ۔جبریل کے پہلے اڈیشن کی طرح قدرے خفی ہے۔ ایک علاحدہ کاغذ پر مندرجہ ذیل ’’غلط نامہ‘‘ چھاپ کر اُسے ۱- اقبال نامہ، دوم: ص۹۹ ۲- خطوطِ اقبال: ص۲۶۲۔ بیگم صاحبہ بھوپال ولی عہد شہزادی عابدہ سلطان اور ڈاکٹر عبدالباسط کو پیش کردہ نسخوں پر اقبال کے دستخطوں کے ساتھ یکم اگست ۱۹۳۶ء کی تاریخ درج ہے۔ (اقبال نامے، طبع سوم، ص۳۵-۳۶) فہرستِ مضامین سے پہلے، اندرونی سرورق کی پشت پر چسپاں کیا گیا ہے: صفحہ غلط صحیح ۲ نہ ہوسکے گا ہو نہ سکے گا ۴۴ مرحلہ راحلہ ۴۵ کمال و جنوں کمالِ جنوں ۶۴ تیرا ترا ۸۲ نشایش کشاکش ۹۴ سے ہے ۱۱۹ یوے بوئے ۱۲۱ مرزا میرزا ۱۲۲ سجد سجدہ ۱۲۳ نی نئی ۱۳۵ تشنگیٔ و کام دہن تشنگیِ کام و دہن مگر پہلے اڈیشن میں، کتابت کی مزید بہت سی اغلاط بھی موجود ہیں، مثلاً: صفحہ سطر غلط صحیح ۱۰ ۱۱ شعلہ ہے تیرے شعلہ ہے ترے ۱۱ ۳ زبو علیؓ چند زبوعلی چند ۱۳ ۱۲ مکاں مکان ۴۸ ۵ موسی موسیٰ ۵۵ ۱ جینوا جنیوا ۸۸ ۶ شہبازی شاہبازی ۹۱ ۱۰ آئینہِ آئنۂ ۱۰۳ ۶ تیری تری صفحہ سطر غلط صحیح ۱۱۷ ۱۰ دنیا دنیا ۱۱۹ ۹ ایں این ۱۲۷ ۹ باَئینہ بآئینہ ۱۳۵ ۳ کلیم اللٓہی کلیم اللّٰہی ۱۷۷ ۷ ید اللہی یداللّٰہی ۱۷۹ ۱۱ یقین یقیں اس اڈیشن پر خوش نویس کا نام درج نہیں، مگر اُسلوبِ کتابت سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتابت پرویں رقم کے بجاے کسی اور خوش نویس نے کی۔ اس کی تصدیق اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ: (الف) بعض الفاظ کے املا میں پہلی بار صحت کا خیال رکھا گیا ہے مثلاً: فقیہ (ص۱۸) کَہْ (ص۴۸)۔ پرویں رقم بالالتزام ’’فقیہہ‘‘ اور ’’کہہ‘‘ لکھتے تھے، حتیٰ کہ ضربِ کلیم کے دوسرے اڈیشن میں اُنھوں نے ان الفاظ کی پھر سے غلط کتابت کردی۔ (ب) عربی متن (آیات و تراکیب وغیرہ) کی کتابت نستعلیق میں ہے۔ پرویں رقم، عربی متن ہمیشہ نسخ میں لکھتے ہیں۔ (ج) اس اڈیشن میں بڑی تعداد میں کتابت کی اغلاط ملتی ہیں۔ پرویں رقم کے کتابت شدہ، کسی اڈیشن میں اغلاط کی اتنی کثرت نہیں۔ دوسرے اڈیشن جنوری ۱۹۴۱ء کی از سرِ نو کتابت کرائی گئی۔ کتاب پر خوش نویس کا نام درج نہیں مگر واضح طور پر یہ کتابت پرویں رقم کی ہے۔ صفحات کی تعداد اور منظومات کے آغاز و اختتام میں، پہلے اڈیشن کے صفحات نمبر کا تتبع کیاگیا ہے۔ اس اڈیشن کی تیاری اور طباعت چودھری محمد حسین کے زیرنگرانی عمل میں آئی۔ پہلے اڈیشن کی اکثر اغلاط درست کردی گئیں، تاہم صفحات ۵۵، ۹۱، ۱۰۳، ۱۳۵، ۱۷۱ اور ۱۷۷ کی اغلاط بدستور موجود ہیں۔ مزید برآں ایک نئی غلطی بھی نظر آتی ہے: صفحہ سطر غلط صحیح ۷۲ ۵ گذاری گدازی کتابت نسبتاً جلی ہے… اسی اڈیشن کی پلیٹیں محفوظ کرکے بعد کے اڈیشن چھاپے جاتے رہے۔ صفحہ ۷۲ کی غلطی کی تصحیح نہیں ہوسکی۔ ص۱۱۵ پر ایک نقطہ اُڑ جانے سے مزید ایک غلطی نمودار ہوگئی: غلط صحیح چشمِ تماشا یہ چشمِ تماشا پہ سترھواں اڈیشن (اگست ۱۹۷۴ئ) کلیات (۱۹۷۳ئ) والی کتابت سے چھاپا گیا اور بعدازاں یہی سلسلہ جاری ہے۔ ژ ارمغانِ حجاز (حصۂ اُردو) ضربِ کلیم ۱۹۳۶ء کے وسط میں شائع ہوئی اور اپریل ۱۹۳۸ء میں علامہ اقبال کا انتقال ہوگیا۔ وفات سے قبل، انھیں اپنے پونے دو برس کے کلام کو مرتب کرکے شائع کرنے کا موقع نہیں ملا۔ مقدارِ کلام بھی اتنی نہ تھی کہ ایک مکمل مجموعہ مرتب ہوتا۔ وفات کے بعد فارسی اور اُردو غیر مدوّن کلام جمع کرکے نومبر ۱۹۳۸ء میں ارمغانِ حجاز کے نام سے چھاپ دیا گیا۔ اقبال کی وفات کے بعد اُن کے شعری مجموعے چودھری محمد حسین کی زیر نگرانی شائع ہونے لگے تھے، اس لیے ارمغانِ حجاز کی ترتیب و تدوین بھی اُنھوں نے انجام دی اور کتابت بھی انھی کی نگرانی میں ہوئی۔ اقبال کو اتنی مہلت نہیں ملی کہ وہ ارمغانِ حجاز کا مسوّدہ کتابت کے لیے تیار کرتے، اس لیے یہ کتاب کسی کے نام بھی معنون نہیں کی گئی۔ انتساب کے سلسلے میں شیخ عطاء اللہ لکھتے ہیں: انھوں نے اپنی کتاب ارمغانِ حجاز بھی نواب صاحب [بھوپال] ہی کی نذر کرنے کا ارادہ کرلیا تھا، جس کی اطلاع اُنھوں نے سرسیّد راس مسعود کو دی تھی۔ سرراس مسعود، اقبال سے پہلے فوت ہوگئے اور ارمغانِ حجاز، اقبال کی وفات کے بعد شائع ہوئی۔ اس طرح اقبال کی اس خواہش و وعدہ کا، جواب ایک گونہ وصیت کا حکم رکھتا ہے، کسی کو علم نہ ہوا… [اب] اُمید ہے اقبال کی اس خواہش کی تعمیل کی جائے گی۔۱؎ مگر اس کی تعمیل نہیں ہوسکی اور ہوتی بھی کیسے؟ شیخ عطاء اللہ نے اقبال کی اس خواہش کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔ اقبال نے جو بات راس مسعود سے کہی، شیخ عطاء اللہ کو کس ذریعے سے اس کی اطلاع ملی؟ نواب بھوپال کے بارے میں اقبال نے کئی جگہ جذباتِ ممنونیت کا اظہار کیا ہے، اس لیے اس امکان کو قطعی طور پر تو رد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ارمغانِ حجاز نواب صاحب بھوپال کے نام مُعَنْوَن کرنا ۱- اقبال نامہ، اوّل:ص’’غ‘‘ چاہتے ہوں، تاہم کسی واضح شہادت کی عدم موجودگی میں، اسے اقبال کی ’’وصیت‘‘ قرار نہیں دیا جاسکتا، جس پر عمل درآمد کی توقع رکھی جائے۔ ضربِ کلیم کا انتساب بھی نواب بھوپال کے نام ہے اور یہ کچھ عجیب سا لگتا ہے کہ ایک کے بعد، دوسرا مجموعۂ کلام بھی انھی سے منسوب کردیا جائے۔ ارمغانِ حجاز کا تقریباً دو تہائی حصہ فارسی کلام پر مشتمل ہے۔ فی الوقت ہمارے پیشِ نظر صفحہ ۲۰۱ سے ۲۸۰ تک کا اُردو حصہ ہے۔ فارسی حصہ، دوسرے باب میں زیر بحث آئے گا۔ ارمغانِ حجاز کا پہلا اڈیشن، جیسا کہ اُوپر ذکر ہوا، نومبر۱۹۳۸ء میں شائع ہوا۔ کتابت پرویں رقم کی ہے اور اقبال کے شعری مجموعوں کی نسبت قدرے جلی ہے اور زیادہ احتیاط اور اہتمام سے کی گئی ہے، اسی لیے اس حصے میں کتابت کی دو غلطیاں ملتی ہیں: ص:۲۵۲ سطر: ا غلط: شیحِ حرم صحیح: شیخِ حرم ص:۲۲۳ سطر: ۰ا غلط: آشفتہ ہو صحیح: آشفتہ مو دوسرے اڈیشن (اگست ۱۹۴۴ئ) کے موقع پر غالباً پہلے اڈیشن کی ساری پلیٹیں محفوظ نہ رہ سکیں اس لیے بعض حصوں کی کتابت از سر نو کرائی گئی۔ آخری کاپی (ص۲۷۳-۲۸۰) کی کتابت پہلے ہی اڈیشن کے مطابق ہے، باقی اُردو حصے کی ساری کتابت نئی ہے۔ دوسرے اڈیشن میں کتابت کا سابقہ اُسلوب اختیار کیا گیا ہے، اس میں طبع اوّل کی ایک غلطی (ص۲۵۲) درست کر دی گئی ہے۔ ص۲۷۸ پر ’’حسین احمدؐ ‘‘ پر ’’۔ؐ‘‘ کی علامت بنانا درست نہیں ہے۔ بعد کے تمام اڈیشنوں میں اسی دوسرے اڈیشن کی پلیٹیں استعمال کی گئیں۔ البتہ آخری کاپی (ص۲۷۳-۲۸۰) کی جو پلیٹ پہلے اڈیشن سے محفوظ چلی آرہی تھی، وہ تیسرے اڈیشن کے موقع پر ضائع ہوگئی اور اسے از سر نو کتابت کرایا گیا۔ یوں تیسرے اڈیشن (نومبر ۱۹۴۶ئ)۱؎ سے اُردو حصے کی کتابت نئی ہوگئی۔ پہلے اڈیشن کی پہلی کاپی: ایک صفحہ اندرونی سرورق کتاب ایک صفحہ طبع اور تعدادِ اشاعت چار صفحے (الف-ب-ج-د) فہرست مضامین دو صفحے خالی پر مشتمل تھی۔ غالباً اس کی پلیٹ محفوط نہ رہ سکی۔ اشاعت دوم کے موقع پر اس کی از سر نو کتابت کا تردّد نہیں کیا گیا، چنانچہ بعد کے تمام اڈیشن، متنِ اشعار (حضورِ حق) سے شروع ہوتے ہیں۔ اس افسوس ناک ۱- راقم کو ارمغانِ حجاز کا کوئی ایسا نسخہ نہیں ملا، جس پر طبع سوم کی صراحت موجود ہو۔ البتہ ایک اڈیشن ایسا دستیاب ہوا، جس پر سالِ طباعت اور نہ مطبع کا اندراج ہے۔ میں نے اسے ہی تیسرا اڈیشن تصور کیا ہے۔ خامی کی طرف اشاعتِ کلامِ اقبال کے مہتمم چودھری محمد حسین اور نہ کسی اور کی توجہ گئی۔ صفحہ ۲۷۸ پر ’’حسین احمد‘‘ کے زیر عنوان تین اشعار کا ایک فارسی قطعہ ہے، جس کے بارے میں علامہ اقبال کے بعض قریبی ساتھیوں (خواجہ عبدالوحید اور ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی) کا خیال ہے کہ اگر ارمغانِ حجاز اقبال خود مرتب فرماتے، تو یہ قطعہ شامل نہ کرتے،۱؎ جب کہ بعض دیگر اصحاب کی راے اس کے برعکس ہے۔ متذکرہ فارسی قطعے کی، کتاب کے فارسی حصے کے بجاے اُردو حصے کے آخر میں شمولیت سے مترشح ہوتا ہے کہ چودھری محمد حسین بھی، اس معاملے میں پہلے تو متردّد رہے ، لیکن بعد میں، قطعے کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ئ……ئ……ء ۱- متذکرہ قطعے کے بارے میں خواجہ عبدالوحید لکھتے ہیں: ’’میرا خیال ہے کہ ارمغانِ حجاز اگر حضرت علامہ علیہ الرحمہ کی زندگی میں چھپتی تو یہ نظم اس میں شامل نہ ہوتی‘‘۔ (اقبال ریویو، جنوری ۱۹۶۹ئ: ص۶۷) اسی ضمن میں خواجہ عبدالوحید کا مضمون ’’صحافتی بددیانتی‘‘ (مشمولہ: اقبالیاتِ خواجہ، مرتب خواجہ عبدالرحمن طارق ص۱۰۸-۱۱۱) بھی لائقِ مطالعہ ہے، جس میں وہ لکھتے ہیں: ’’ان چند اصحاب میں سے، جو مرحوم کے آخری ایامِ حیات میں ان کے رفیقِ کار تھے، بعض اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ علامہ مرحوم کا ارادہ، ان اشعار کو اپنے مجموعہ کلام میں شائع کرنے کا ہرگز نہ تھا۔ ارمغانِ حجاز مرتب کرنے والوں میں سے کسی شخص کی شرارت پسندی سے ایسا ہوا ہے۔‘‘ (اقبالیاتِ خواجہ، ص۱۱۱) ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی کا خیال ہے کہ: ’’اسے شائع کرکے اچھا نہیں کیا۔ نظریہ اچھا ہے، سواے اس کے کہ حسین احمد کا نام آیا ہے‘‘ (راقم الحروف سے ایک گفتگو، ۹؍جون۱۹۷۹ئ)۔ اس سلسلے میں پروفیسر عمر حیات غوری کا مضمون دیکھیے: ’’اقبال کی ایک نظم: حسین احمد کا تحقیقی مطالعہ‘‘ (سیارہ لاہور، اکتوبر، نومبر۱۹۸۴ئ، ص۱۷۴-۱۷۹) (ج) کلیاتِ اقبال، اُردو کلامِ اقبال کی نئی کتابت کا جواز پیش کرتے ہوئے، ڈاکٹر جاوید اقبال، کلیاتِ اقبال (لاہور،۱۹۷۳ئ) کے آغاز میں ’’اعتذار‘‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں: کلامِ اقبال کے اب تک جتنے اڈیشن شائع ہوئے، وہ سب کے سب انھی پلیٹوں سے طبع ہوتے رہے، جنھیں حضرت علامہ مرحوم نے خود اپنی نگرانی میں تیار کروایا تھا۔ اس لحاظ سے یہ پلیٹیں حضرتِ علامہ کے دوسرے تبرکات کی طرح، عزت و حُرمت کا مقام رکھتی ہیں۔ اگرچہ کثرتِ استعمال کے باعث ان کی حالت ابتر ہوگئی ہے۔ انھیں ترک کرنے کا حوصلہ نہیں ہوتا تھا۔ ہر دفعہ انھیں سنگ سازی کے غازے سے مزیّن کرکے کام لیا جاتا رہا۔ لیکن اب ان کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ سنگ سازی بھی انھیں اس قابل نہیں بناسکتی کہ مزید طباعت کے لیے استعمال کی جاسکیں، اس لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ از سرِ نو کتابت کروا کے نئی پلیٹیں تیار کی جائیں۔۱؎ یہ بیان صحت طلب ہے۔ جہاں تک اُردو مجموعوں کا تعلق ہے، اقبال کی زندگی میں: (۱) بانگِ درا کے تین اڈیشن (۱۹۲۴ئ، ۱۹۲۶ء اور ۱۹۳۰ء میں) شائع ہوئے۔ چوتھے اڈیشن کی اشاعت علامہ کی وفات کے، سال بھر بعد، جون ۱۹۳۹ء میں ہوئی۔ اس کی کتابت اُن کی وفات سے بعد کی ہے اور اسی کتابت کی پلیٹوں کو محفوظ کرکے، بعد کے اڈیشن چھاپے جاتے رہے۔ کلیات کی اوّلین اشاعت سے قبل، بانگِ درا کا ۲۹ واں اڈیشن چھپا، اس کی کتابت جون ۱۹۳۹ء ہی کی ہے۔ ظاہر ہے اس کتابت کو اور نہ اس سے تیار شدہ بانگِ درا کی پلیٹوں کو، اقبال کے ’’تبرّک‘‘ میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ (۲) بالِ جبریل کا صرف پہلا اڈیشن (جنوری ۱۹۳۵ئ) علامہ اقبال کی زندگی میں شائع ہوا۔ نئی کتابت سے دوسرے اڈیشن (مئی ۱۹۴۱ئ) کی جو پلیٹیں تیار ہوئیں، وہ آٹھویں اڈیشن (جون ۱۹۵۱ئ) تک استعمال ہوتی رہیں۔ نویں اڈیشن (نومبر ۱۹۵۴ئ) کے لیے از سر نو کتابت کرائی گئی۔ ۱- کلیاتِ اقبال، اُردو : ص۵ کلیات کی اوّلین اشاعت سے قبل، بالِ جبریل کا ۱۸ واں اڈیشن (اپریل ۱۹۷۲ئ) نومبر ۱۹۵۴ء کی پلیٹوں سے طبع ہوا۔ (۳) ضربِ کلیم کا بھی صرف ایک اڈیشن (جولائی ۱۹۳۶ئ) علامہ کی زندگی میں چھپا۔ نئی کتابت سے دوسرے اڈیشن (۱۹۴۱ئ) کی تیار شدہ پلیٹیں، کلیات کی اشاعت تک زیرِاستعمال رہیں۔ ظاہر ہے یہ پلیٹیں ’’علامہ نے خود اپنی نگرانی میں تیار‘‘ نہیں کرائی تھیں۔ (۴) ارمغانِ حجاز کی کتابت و طباعت تو حضرتِ علامہ کی وفات کے بعد ہوئی۔ لہٰذا اقبال کی زندگی میں شائع شدہ اُن کے کسی اُردو مجموعے کے کسی اڈیشن کی پلیٹیں محفوظ نہ رہ سکیں۔ اس لیے ان معدوم ’’متبّرک پلیٹوں‘‘ کی عزت و حرمت کی بات محض غلط فہمی پر مبنی ہے اور فروری ۱۹۷۳ء سے پہلے، محض اس وجہ سے، ان پلیٹوں کو ترک نہ کرنے کا جواز نہیں بنتا۔ اس کے باوجود، کلامِ اقبال کی نئی خوب صورت کتابت، نسبتاً عمدہ طباعت اور ایک جدید معیاری اشاعت کا، نہ صرف کامل جواز موجود تھا، بلکہ اس کی اشد ضرورت بھی تھی۔ اقبال کے اُردو اور فارسی شعری مجموعوں کی، کلیات کی شکل میں اشاعت سے متعلق، شیخ نیاز احمد راوی ہیں: اس سلسلے میں متعدد صاحبُ الراے اصحاب سے راے لی گئی۔ ان میں مولانا غلام رسول مہر، پروفیسر حمید احمد خاں، مولانا حامد علی خاں، ڈاکٹر جاوید اقبال اور مرزا ہادی علی بیگ وامق ترابی وغیرہ شامل ہیں۔ ان سب اصحاب کے اجلاس ہمارے گھر منعقد ہوتے اور مختلف مسائل زیر بحث آتے… متعدد امور طے ہوئے… املاکے مسئلے پر بڑی بحث ہوئی۔ آخر یہ طے پایا کہ کسی لفظ کا جو املا، علامہ صاحب نے لکھا، اُسے برقرار رکھا جائے، البتہ مرحوم حمید احمد خاں کے اصرار پر لفظ ’’آذر‘‘ جہاں بھی آیا، اُسے ’’آزر‘‘ میں تبدیل کردیا گیا۔ باقی فیصلہ یہی تھا کہ املا، جیسے ہے، ویسے ہی رہنے دیا جائے۔۱؎ ڈاکٹر جاوید اقبال نے کتابت کے سلسلے میں مولانا مہر کی رہنمائی اور بعض مقامات کی تصحیح میں اُن کے تعاون کا ذکر کیا ہے۔۲؎ اس میں شبہہ نہیں کہ کلیات کی اشاعت کے لیے خاصا اہتمام کیا گیا اور بشکلِ موجودہ، کتابت کی حسن کاری، طباعت کی پاکیزگی اور نفاست کے لحاظ سے اسے، ایک معیاری اڈیشن کہا جاسکتا ہے۔ ۱- راقم الحروف سے گفتگو۔ لاہور، یکم جولائی ۱۹۷۹ئ۔ ۲- کلیاتِ اقبال: صفحہ ’’و‘‘۔ تاہم متن کی صحت، ترتیب وتدوین اور املا کے اعتبار سے چند امور توجہ طلب ہیں: (۱) بانگِ درا اور بالِ جبریل کا مسطر بارہ سطری، ضربِ کلیم کا چودہ سطری اور ارمغانِ حجاز کا دس سطری تھا۔ کلیات کے لیے سولہ سطری (یکساں) مسطر اختیار کیا گیا۔ اس طرح ایک صفحے پر زیادہ اشعار کی گنجائش پیدا ہوگئی اور چاروں مجموعوں کے کل ۸۲۶ صفحات کے مقابلے میں سارا اُردو کلام، کلیات کے ۶۷۴ صفحات میں سمٹ گیا، مگر اس سے کئی ایک نقائص پیدا ہوگئے، مثلاً: (الف) مختلف اڈیشنوں کے صفحات کی یکسانیت ختم ہوگئی۔ مثال کے طور پر بانگِ درا میں نظم ’’شمع و شاعر‘‘ صفحہ ۲۰۱ سے شروع ہوتی ہے، مگر کلیات میں صفحہ ۱۸۳ سے۔ بالِ جبریل میں نظم ’’ہسپانیہ‘‘ صفحہ ۱۴۰ پر ہے تو کلیات میں، بالِ جبریل کے صفحہ ۱۰۳-۱۰۴ پر۔ کلیات کی اشاعت سے پہلے، نظم یا اشعار کا حوالہ دیتے وقت، کتاب کے اڈیشن کی نشان دہی ضروری نہ تھی، مگر اب حوالے میں اڈیشن اور سالِ اشاعت کا التزام ضروری ہوگیا۔ (ب) بالِ جبریل کے متعدد قطعات؛ بعض منظومات اور غزلیات کے آخر میں درج تھے، کلیات میں انھیں ایک نئے عنوان ’’رباعیات‘‘ کے تحت جمع کردیا گیا ہے۔ (یہ نیا عنوان قائم کرنا بجاے خود قابلِ اعتراض ہے کیوںکہ اہلِ نقد کے نزدیک اقبال کے بیشتر قطعات کو ’’رباعیات‘‘ میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔) اور کہیں ان کا محل تبدیل کردیا گیا ہے۔ اس اجمال کی وضاحت، حسب ذیل مثالوں سے ہوگی: ۱- ’’غزلیات‘‘ کے آخر کے بیشتر قطعات (یا رباعیات) کا محل تبدیل کردیا گیا ہے۔ ۲- نظم ’’ہسپانیہ‘‘ کے آخر میں درج دو شعروں (کھلے جاتے ہیں… قدیم اڈیشن ص۱۴۱) کو ماقبل ’’رباعیات‘‘ کے حصے میں لے جایا گیا ہے۔ ۳- نظم ’’لالۂ صحرا‘‘ کے بعد، درج دو بلاعنوان شعروں (اقبال نے کل… قدیم ص ۱۶۵) پر ’’قطعہ‘‘ کا خود ساختہ عنوان لگا کر اُنھیں نظم ’’دعا‘‘ سے پہلے درج کردیا گیا ہے۔ (غ ع اڈیشن ص۹۰) ۴- نظم ’’روحِ ارضی…‘‘ (قدیم ص۱۷۸-۱۷۹) کے آخر کا قطعہ (فطرت مری مانند…) کتاب کے بالکل آخری صفحے (غ ع ص۱۷۰) پر لے جایا گیا ہے۔ ۵- ’’پیر و مرید‘‘ کے آخر کے دو شعروں (ترا تن روح سے…، قدیم، ص۱۹۱) کا تبادلہ کرکے اُنھیں بھی ’’رباعیات‘‘ کی ماتحتی میں دے دیا گیا ہے۔ ۶- ’’جبریل و ابلیس‘‘ کے آخر کا قطعہ (کل اپنے مریدوں … قدیم، ص۱۹۴) کتاب کے آخری صفحے (غ ع ، ص۱۷۰) پر لے جایا گیا ہے۔ اس طرح ترتیبِ کلام بدل گئی ہے۔ ترتیبِ کلیات کی مشاورتی کمیٹی نے علامہ کے املا کو جوں کا توں برقرار رکھنے پر اتفاق کیا، مگر ترتیبِ کلام میں یہ تبدیلی کیسے گوارا کرلی؟ یوں بھی یہ ’’رباعیات‘‘ نہیں، قطعات ہیں۔ (۲) کلیات میں ضربِ کلیم کے سرورق (ص ۴۶۳) پر کتاب کا ضمنی عنوان… ’’یعنی اعلانِ جنگ، دورِ حاضر کے خلاف…‘‘ اور یہ اشعار موجود نہیں ہیں: نہیں مقام کی خوگر طبیعتِ آزاد ہواے سیر، مثالِ نسیم پیدا کر ہزار چشمہ، ترے سنگِ راہ سے پھوٹے خودی میں ڈوب کے ضربِ کلیم پیدا کر ضمنی عنوان اور اشعار، کتاب کے صرف بیرونی سرورق پر درج تھے۔ کلیات کی کتابت میں اندرونی سرورق سے کتابت شروع کی گئی، اس لیے بیرونی سرورق کے اندراجات، نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ (۳) کلیات کی مشاورتی کمیٹی اور نہ مولانا مہر کی توجہ اس امر کی طرف گئی کہ بالِ جبریل اور ارمغانِ حجاز کے آغاز میں، منظومات، غزلیات اور قطعات وغیرہ کی فہرست موجود نہیں۔ کلیات میں ’’فہرست مضامین‘‘ مرتب کرکے شامل کرنا مشکل نہ تھا، مگر یہ فروگذاشت بدستور موجود رہی۔ فہرست کی عدم موجودگی سے کسی خاص نظم یا غزل کی تلاش میں خاصی دقت پیش آتی ہے۔ (۴) کلیات میں، متن کی صحت کے بارے میں ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں: ’’بار بار کی سنگ۔سازی کے باعث کچھ غلطیاں رُوپذیر ہوگئی تھیں، جنھیں اوّلین نسخوں سے مقابلہ کرکے درست کیا گیا۔‘‘ ۱؎ اُنھوں نے بعض مقامات کی تصحیح کے ضمن میں، مولانا مہر کی رہنمائی کا بھی ذکر کیا ہے۔ شیخ نیاز احمد کے مطابق: ’’کلیات کی کتابت کی تصحیح وغیرہ مہر صاحب نے کی اور صادق علی دلاوری نے بھی اس میں ہاتھ بٹایا‘‘،۲؎ چنانچہ کلیات سے پہلے کے اڈیشنوں کی مندرجہ ذیل اغلاط کی تصحیح ہوگئی ہے۔ ۱- کلیاتِ اقبال، اُردو: ص ’’و‘‘___ اوّلین نسخوں سے، صحتِ متن میں ایک حد تک مدد مل سکتی ہے مگر وہ ’’معیاری نسخے‘‘ بہرحال نہیں ہیں۔ ۲- راقم الحروف سے گفتگو: لاہور، یکم جولائی ۱۹۷۹ئ۔ صفحہ سطر غلط کلیات کا صفحہ سطر صحیح بانگِ درا ی ۸ دیدیجے ۱۳ ۱۳ دیدیجیے ۵۴ ۴ مزرعۂ ۶۱ ۱۱ مزرع ۵۵ ۶ ٹپکتی ۶۲ ۱۱ پٹکتی ۷۲ ۷ بیّا بانِ ۷۵ ۱۳ بیابانِ ۷۸ ۸ ستم کیلئے ۸۰ ۱۰ ستم کے، لیے ۹۰ ۱ لیلیٰ معنی ۸۹ ۹ لیلیِ معنی ۱۸۹ ۳ آئینے ۱۷۲ ۷ آئنے ۱۹۹ ۹ سرگزشتِ ۱۸۱ ۷ سرگذشتِ ۲۱۴ ۱۲ نگہتِ ۱۹۴ ۶ نکہتِ ۲۴۶ ۵ زبان ۲۲۰ ۳ زباں ۲۷۴ ۱۰ رخشندہ ۲۴۳ ۸ افتندہ ۲۸۳ ۳ آئینۂ ۱۵۱ ۳ آئنۂ بال جبریل ۸ ۹ خذف ۲۹۹ ۹ خزف ۳۷ ۳ ۳۳ھ ۳۱۴ ۲ ۱۹۳۳ء ۶۰ ۹ مرگِ حیات بے شرف ۳۳۱ ۱۳ مرگ، حیاتِ بے شرف ۹۱ ۱ ارِنیْ ۳۵۴ ۷ اَرِنِی ۹۴ ۷ آئینہ ۳۵۵ ۱۴ آئنہ ۱۰۱ ۴ غرقناک ۳۶۱ ۱۵ عرقناک صفحہ سطر غلط کلیات کا صفحہ سطر صحیح ۱۱۱ ۶ آئینۂ ۳۶۹ ۱۵ آئنۂ ۱۴۷ ۵ تزلّزل ۴۰۰ ۹ تزلزل ۱۵۱ ۹ طبلساں ۴۰۳ ۹ طیلساں ۱۵۹ ۷ قال و اقوال ۴۰۹ ۱۳ قال و اقول ۱۸۰ ۳ راز و زبوں ۴۲۶ ۳ زار و زبوں ۱۸۶ ۷ فایتِ ۴۳۱ ۵ غایتِ ۲۱۷ ۹ از ۴۵۶ ۵ ار ضربِ کلیم ۵۵ ۱ جینوا ۵۲۰ ۳ جنیوا ۹۱ ۱۰ آئینۂ ۵۵۵ ۱۲ آئنۂ ۱۳۵ ۳ کلیم اللٓہی ۵۹۶ ۵ کلیم اللہّٰی اوپر ہم نے، ڈاکٹر جاوید اقبال کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ متن کی تصحیح کے سلسلے میں، کلیات کو: ’’اوّلین نسخوں سے مقابلہ کرکے درست کیا گیا‘‘۔ اوّلین نسخوں سے موازنے میں کوئی حرج نہیں، مگر انھیں معیار بنانا اس لیے غلط ہے کہ اُن میں بھی، کثیر تعداد میں کتابت اور املا کی اغلاط موجود ہیں۔ اس کے سوا، اقبال نے اپنی کتابوں کے پہلے اڈیشنوں میں ترامیم بھی کیں۔ یوں بھی اُصولِ تحقیق کی رُو سے، اگر مصنف کی زندگی میں کسی کتاب کے متعدد اڈیشن چھپے ہوں تو، پہلے نہیں بلکہ آخری اڈیشن کے متن کو معیاری تسلیم کیا جائے گا۔ بہر حال اس قدر احتیاط کے باوجود کلیات میںمندرجہ ذیل نئی غلطیاں رو پذیر ہوگئی ہیں: صفحہ سطر صحیح کلیات کا صفحہ سطر غلط بانگِ درا ۴۲ ۹ جائے ۵۲ ۹ نہ جائے صفحہ سطر صحیح کلیات کا صفحہ سطر غلط ۵۹ ۸ پڑتی ہو ۶۵ ۱۲ پڑتی ہے ۲۲۶ ۱ مسلماں ۲۰۳ ۴ مسلمان بالِ جبریل ۱۵ ۴ غمزۂ ۳۰۳ ۵ غمرۂ ۴۷ ۵ فقیہ ۳۲۲ ۲ فقیہہ ۶۲ ۴ جدا ہو ۳۳۲ ۱۴ جدا ہوں ۷۹ ۳ بے ذوقِ نمود زندگی، موت ۳۴۵ ۱۰ بے ذوقِ نمودِ زندگی، موت ۸۶ ۱۱ چمن ۳۵۱ ۷ چُمن ۹۵ ۱ میری ۳۵۷ ۵ مری ۱۳۳ ۱ مبیں ۳۹۰ ۵ مبین ۱۳۵ ۴ لذتِ تجدید ۳۹۱ ۱۶ لذتِ تجدیدہ ۲۰۹ ۱۰ ابوالعلا معرّی عربی زبان کا مشہور شاعر ۴۴۸ [کلیات میں یہ الفاظ محذوف ہیں] ضربِ کلیم ۱۳ ۱۱ نگیں ۴۸۳ ۸ نگین ۵۷ ۷ بدخشان ۵۲۲ ۷ بدخشاں ۸۷ ۵ فقر کی تمامی ۵۵۰ ۲ فقر کی غلامی ۱۰۳ ۶ مسلماں ۵۶۷ ۶ مسلمان ۱۲۲ ۴ جمال و زیبائی ۵۸۵ ۱۰ جمالِ زیبائی ارمغانِ حجاز ۲۱۳ ۵ تمنّائوں ۶۴۷ ۵ تمنّاوں متن، املا اور کتابت کی مندرجہ بالا نئی اغلاط کے علاوہ، کلیات میں بعض پرانی اغلاط کی صحت نہیں ہوسکی۔ بعض غلطیاں جوں کی توں برقرار رہیں یا اُن میں ایسی تبدیلی کی گئی کہ غلطی کی صورت بدل گئی، مگر غلطی دور نہیں ہوسکی، مثلاً: صفحہ سطر غلط کلیات کا صفحہ سطر غلط صحیح بانگِ درا ۱۰۲ ۳ ہفتاد دوملت ۹۹ ۱۳ ہفتاد دوملت ہفتاد و دوملت ۱۸۸ ۵ آئینے ۱۷۱ ۹ آئینے آئنے بالِ جبریل ۲۷ ۳ میرے کام ۳۰۹ ۳ میرے کام مرے کام ۵۰ ۸ لا اِلٰہ ۳۲۴ ۵ لا اِلٰہ لَآ اِ لَہْ ۱۵۵ ۶ علمِ نخیل بے رطب ۴۰۶ ۶ علمِ نخیل بے رطب علم، نخیلِ بے رُطب ۲۱۰ ۶ سینما ۴۵۰ ۲ سینما سنیما ضربِ کلیم ۱۱۵ ۱۰ چشمِ تماشایہ ۵۷۹ ۵ چشمِ تماشہ یہ چشمِ تماشا پہ ۱۴۹ ۶ جینوا ۶۰۹ ۸ جینوا جنیوا اوپر کی سطور میں جن اُمور کی نشان دہی کی گئی ہے، ان میں سے بیشتر کا تعلق تدوین اور اغلاطِ کتابت سے ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بہت سی اغلاطِ کتابت، محض املا اور لفظوں کی لکھاوٹ میں غلط نگاری کا کرشمہ ہیں۔ ژ املا کا مسئلہ کلیاتِ اقبال کے اس جائزے میں املا کا مسئلہ بھی توجہ طلب ہے۔ بیشتر ترقی یافتہ زبانوں کے برعکس، اُردو املا کی معیاری صورت متعین نہیں ہوسکی۔ اس حقیقت سے انکار کرنا مشکل ہے کہ اُردو املا ابھی تک بے ضابطگی اور انتشار کا شکار ہے۔ بہت سے الفاظ کا غلط املا رائج ہے، متعدد لفظوں کی ایک سے زائد لکھاوٹیں چل رہی ہیں اور اعراب و توقیف نگاری کا تو خیر، ذکر ہی کیا۔ نام وَر اہلِ قلم کی تحریریں بھی ان عیوب سے مبرّا نہیں۔ اردو انجمنوں اور اداروں کی بے توفیقی ہے کہ اپنی کتابوں اور رسالوں میں بھی اپنے ہی اصولِ املا کی پابندی نہیں کرتے۔کاتبوں کو کھلی چھٹی ہے کہ املا میں وہ اپنی صواب دید کا آزادانہ استعمال کریں اور مصنّفین کی اسی فراخ دلی اور صحتِ املا سے اردو اداروں کی لاپروائی کے سبب، اُردو املا ابھی تک غلط نگاری کی گمراہی سے نجات نہیں پاسکی۔ زبان و بیان اور روز مرہ و محاورہ کے علاوہ، اساتذہ کا کلام، اس اعتبار سے بھی بطورِ مثال و استناد پیش کیا جاتا ہے کہ اُن کے ہاں کسی خاص لفظ کا املا کیا ہے؟ ہر چند کہ بعض حالتوں میں اسے سو فی صد صحیح شکل قرار دینا درست نہیں ہوتا، تاہم اس سے صحتِ املا میں مدد ضرور ملتی ہے۔ اس لیے اساتذہ کے کلام کی تدوین و کتابت میں متن کی تصحیح کے ساتھ صحتِ املا پر بھی توجہ دینا نہایت ضروری ہے۔ یہ کام مشکل ضرور ہے مگر اُردو زبان کی ترقی، اس کی سائنٹی فِک صورت متعین کرنے اور بحیثیتِ مجموعی اُردو کے مستقبل کے نقطۂ نظر سے، مشکل پسندی کے اس خارزار سے گریز، دانش مندانہ طرزِ عمل نہ ہوگا۔ علامہ اقبال کے دور میں اُردو املا سیّال حالت میںتھا۔ متعدد الفاظ کی قدیم املائی صورتیں رائج تھیں، البتہ بعض الفاظ، صورت بدل کر نئی شکل اختیار کرچکے تھے۔ بعض ہم عصر شعر ا و ادبا کی طرح اقبال کے ہاں بھی، املا میں بے ضابطگی اور بے قاعدگی کی مثالیں ملتی ہیں۔ اُنھوں نے اپنے کلام کی کتابت کے لیے عبدالمجید پرویں رقم کا انتخاب کیا جو اپنے دور کے بہترین کاتبوں۱؎ میں سے تھے، مگر کلام اقبال کا متن، صحتِ املا کے نقطۂ نظر سے بے توجہی کا شکار رہا، کیونکہ زمانے کی عام روش یہی تھی۔ پرویں رقم کے کتابت شدہ سارے مجموعوں میں املائی انتشار نظر آتا ہے۔ اِن، پرانے اڈیشنوں میں تو، املا کی غلط نگاری سے صرفِ نظر کیا جاسکتا ہے، مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ کلیاتِ اقبال (لاہور، ۱۹۷۳ئ) بھی، جس کی ’’جدید کتابت و طباعت‘‘ خوش خطی اور ظاہری حسن کاری کا اعلیٰ نمونہ ہے اور اسی لیے ڈاکٹر جاوید اقبال نے اسے ’’شاعرِ مشرق کے کلام کے شایانِ شان‘‘ قرار دیا ہے، صحتِ اِملا کے لحاظ سے ناقص ہے۔ فوٹو آفسٹ کے ذریعے طبع شدہ یہ اڈیشن، ایک مثالی اور ۱- اقبال ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’عبدالمجید کاتب بھی [کذا]، میرے نزدیک لاہور میں سب سے بہتر ہے‘‘۔ (خطوطِ اقبال بنام بیگم گرامی: ص۶۱)۔ تاہم علامہ سے منسوب یہ قول بے بنیاد ہے کہ: ’’پرویں رقم میرے اشعار کی کتابت نہیں کریں گے تو میں شاعری ترک کردوں گا‘‘۔ (روزنامہ جنگ لاہور، یکم اکتوبر ۱۹۸۱ئ:ص۲۳)۔ معیاری نسخے کی حیثیت سے پیش اور رائج کیا گیا ہے۱؎ اور آیندہ برس ہا برس تک، اسے حوالے کا نسخہ تصور کیا جائے گا۔ اس لیے اس نسخے میں صحتِ املا کا خصوصی اہتمام ضروری تھا۔ اس کے لیے جو دیدہ ریزی اور کاوش مطلوب تھی، کلیات کے صفحات اس سے خالی نظر آتے ہیں اور یہ سب اس کے باوجود ہے کہ: (الف) تصحیح کے لیے ڈاکٹر جاوید اقبال نے خاصی سرگردانی کی۔ (ب) صحت و تصحیح کا کام مولانا غلام رسول مہر کی نگرانی اور راہ نمائی میں انجام پایا۔ (ج) املا کے مسئلے پر مشاورتی کمیٹی (جس میں مولانا مہر، پروفیسر حمید احمد خاں، مولانا حامد علی۔خاں، مرزا ہادی علی بیگ وامق اور ڈاکٹر جاوید اقبال شامل تھے) نے خوب غور و خوض کیا۔ راقم کے خیال میں مشاورتی کمیٹی نے کلامِ اقبال میں، املا کے مسئلے اور اس کی نزاکت و اہمیت کا پوری طرح اِدراک نہیں کیا۔ یہ تو ذکر آچکا ہے کہ کلیات (۱۹۷۳ئ) کے املا میں مشاورتی کمیٹی کے اس فیصلے کی پابندی نہیں کی گئی کہ: مختلف الفاظ کا املا ’’جیسے ہے، ویسے ہی رہنے دیا جائے‘‘ ، بلکہ املا میں متعدد تصرّفات کیے گئے ہیں۔ بیشتر تصرّفات سے املا کی صورت درست اور بہتر ہوگئی ہے مگر بعض املائی تصرفات کے نتیجے میں صحیح املا کو غلط بنا دیا گیا ہے یا املا کی بہتر صورت کو ترک کردیا گیا ہے، مثلاً: ص: ۳۴ سطر: ۱۳ مجکو (طبع اوّل، ص۲۰ سطر۱: مجھ کو) صفحہ: ۲۳۱ سطر: ۱۴ ناپائداری ۳۲۲ ۲ فقیہہ ۳۲۸ ۶ پابرکاب ان الفاظ کی بہتر لکھاوٹ یوں ہونی چاہیے: مجھ کو۔ ناپایداری۔ فقیہ۔ پابہ رکاب۔ ’’مقامِ املا‘‘ سے ’’آساں گزرنے‘‘ کے نتیجے میں کئی خرابیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ اس ضمن میں چند پہلو لائقِ توجہ ہیں: ۱- ۱۹۷۵ء میں علی گڑھ (بھارت) سے، زیر بحث کلیات پر مبنی، ایک اڈیشن شائع کیا گیا ہے، اُن جملہ خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ، جو کلیات میں موجود ہیں، مگر اس کی ایک مزید خوبی یہ ہے کہ ہر صفحے کے اُوپر متعلقہ کتاب (بانگِ درا ، بالِ جبریل، ارمغانِ حجاز وغیرہ) کا نام بھی درج کیا گیا ہے۔ (۱) مرتبین نے تصرفِ املا کے سلسلے میں کوئی قاعدہ کلیہ وضع نہیں کیا، نہ مرّوجہ ضابطوں کی پابندی کی ہے، جس سے کاتب اور نگران کی بے احتیاطی ظاہر ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں املا میں یکسانیت پیدا نہیں ہوسکی، مثلاً: الف- اصولِ امالہ کے تحت بجاطور پر ستارہ کو ستارے (کلیات: ص۴۳۸) میں تبدیل کر دیا گیا، مگر کہیں اسی اصول کو نظر انداز کرتے ہوئے ذرہ کو ذرے نہیں بنایا گیا۔ (کلیات: ص۱۷۹، سطر۸) سینہ بدستور سینہ (کلیات: ص۲۷۸) اور قافلہ بدستور قافلہ (کلیات: ص۳۵۶) حالانکہ یہاں ذرے، سینے اور قافلے کا محل تھا۔ ب- ’’مجکو‘‘ کو بجاطور پر ’’مجھ کو‘‘ (کلیات: ص۱۳۹) میں بدل دیا گیا اور کہیں اس کے برعکس (کلیات: ص: ۳۴ سطر۱۳) ناپائدار کو ناپایدار (کلیات: ص۹۸) بنایا گیا لیکن اس کے برعکس ناپایداری کو ناپائداری (کلیات: ص۲۳۱) میں تبدیل کیا گیا۔ ندہی کو نہ دہی (کلیات: ص۳۱۲) اور بخرے کو بہ خرے (کلیات: ص۳۱۲) میں تبدیل کیا گیا مگر کہیں اس کے برعکس پابہ رکاب کو پابرکاب (کلیات: ص۳۲۸) کردیا گیا۔ ج- ایک ہی لفظ یا ایک جیسے الفاظ کے دو مختلف املائی نمونے ملتے ہیں۔ مثلاً: بے باک (ص: ۳۲۵) اور بیباک (ص: ۳۵۷ ٹھیرو (ص:۲۹) اور ٹھہر کر (ص:۳۲) ڈھونڈھ (ص: ۱۰۴) اور ڈھونڈ (ص:۱۰۷) وغیرہ۔ د- انجمن ترقیِ اُردو کی اصلاحِ رسمِ خط کمیٹی نے تجویز کیا تھا کہ: ’’فارسی لفظ بہ، نہ ، چہ، کہ، بے وغیرہ جو خود فارسی میں بھی کبھی دوسرے لفظ سے ملا کر اور کبھی الگ لکھے جاتے ہیں، اُردو عبارت میں الگ لکھے جائیں‘‘۔۱؎ مگر کلیات میں یہ کہیں الگ لکھے گئے ہیں (بہ دل، ص۱۰۶) اور کہیں ملاکر (بدست، ص۱۰۷، بکف ص۱۶۹) یہی حال سابقوں اور لاحقوں کا ہے مثلاً بیہوش (ص۲۸۹)، بیخبر (ص۲۶۵)، بیتاب (ص۱۷۱)، غزلخواں (ص۲۸۰)، ہوشمند (ص۲۸۴)، اس کے برعکس بے نظیر (ص۱۲۵)، بے باک (ص۳۲۵) وغیرہ۔ (۲) ’’سینکڑوں‘‘ میں نون غنہ اڑا دیا گیا ہے۔ یہ تصحیح درست ہے۔ اب کلیات میں یہ لفظ ہر جگہ یوں ہے: ’’سینکڑوں‘‘، اُصولِ کتابت کی رُو سے اس میں ’’ی‘‘ کے بعد ایک شوشہ قطعی زائد ۱- رسالہ اُردو ، جنوری ۱۹۴۴ئ۔ بحوالہ اُردو املا: ص۴۶۲۔ ہے۔ اس کا صحیح املا یوں ہونا چاہیے: سیکڑوں۔ املا کے سلسلے میں آج ہم بعض باتوں کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں، مگر کل متنِ اقبال کی یہ صورت سند مانی جائے گی، اس لیے اس میں ایک شوشے کا بھی فرق نہیں ہونا چاہیے۔ (۳) رموزِ اوقاف اور اِعراب، صحتِ املا میں اہمیت رکھتے ہیں۔ کلیات میں، کسی حد تک، اِعراب و رموزِ اوقاف کا اہتمام کیا گیا ہے، مگر کلیات کو ایک معیاری نسخہ اسی وقت قرار دیا جاسکتا ہے، جب اِعراب و اوقاف کا پورا اہتمام کیا جائے۔ صحتِ تلفظ سے غفلت اور عمومی تعلیمی و علمی معیار کے تنزل کے پیشِ نظر، بعض مقامات پر اعراب کا اہتمام ازبس ضروری ہے۔ چند مثالیں: صفحہ سطر کلیات کا املا مطلوبہ صورت ۲۶۸ ۱ برگستواں برگُستواں ۳۳۱ ۱۳ حیات بے شرف حیاتِ بے شرف ۳۳۲ ۲ درخت طور درختِ طور ۳۸۵ ۱ قرطبہ قُرطُبہ ۳۹۳ ۱ صورت شمشیر صورتِ شمشیر ۳۹۳ ۲ جوھر زماں جو، ہر زماں (۴) معروف طریقہ ہے کہ اسماے معرفہ (اشخاص، مقامات اور کتب وغیرہ) کے اُوپر لکیر (___) لگائی جاتی ہے اور شعرا کے تخلص پر یہ علامت ( ۔۔۔۔۔ؔ) بناتے ہیں۔ کلیات اس سلسلے میں شدید تضاد اور انتشار کا شکار ہے۔ تخلص کی علامت، شعرا کے ساتھ ساتھ قرآن پاککی سورتوں، حکمرانوں، کتابوں، مقامات اور بعض اکابر کے ناموں حتیٰ کہ بعض الفاظ پر بھی بنا دی گئی ہے۔ مگر اس ’’اُصول‘‘ کی پوری طرح پابندی بھی نہیں کی گئی۔ بعض مقامات پر شعرا کے تخلص، علامتِ تخلص (…ؔ) سے محروم ہیں اور کہیں تخلص پر لکیر (___) لگا دی گئی ہے۔ مناسب تھا کہ یکساں طریقہ اختیار کیا جاتا۔ (۵) بعض مقامات پر اسماے معرفہ جلی قلم سے لکھے گئے ہیں (صفحات: ۶۲۸، ۶۳۹، ۶۴۱، ۶۶۶) مگر بیشتر مقامات پر ان کے لیے عام قلم استعمال کیا گیا ہے۔ اسماے معرفہ عام قلم ہی سے لکھنا مناسب ہے البتہ اُن پر ایک لکیر بنا دی جائے۔ جیسے: یورپ۔ سکندر۔ دلی۔ کشاف۔ (۶) بہت سے الفاظ کے املا میں ہاے مخلوط اور ہاے ملفوظ کا امتیاز روا نہیں رکھا گیا حالانکہ قدیم طرزِ نگارش کے برعکس، اب ہاے مخلوط اور ہاے ملفوظ میں واضح امتیاز کو ایک مسلمہ قاعدے کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔ کلیات میں ایسے الفاظ: ھلا دو، مھرو وفا، ھراول، شھر، مرھم، ھمارا، ھلال وغیرہ کو اس طرح لکھنا چاہیے: ہلادو، مہرو وفا، ہراول، شہر، مرہم، ہمارا، ہلال وغیرہ۔ ژ اشاریہ کلیات کے آخر میں اٹھارہ صفحات کا ایک اشاریہ بھی شامل ہے۔ کسی بھی اہم نثری یا شعری مجموعے میں اشاریے کی ضرورت و افادیت محتاجِ بیان نہیں، بلکہ اب تو ہر کتاب کے ساتھ اشاریہ ناگزیر ہوتا جارہا ہے، مگر اشاریے کی غایت کیا ہونی چاہیے؟ اس کے مقاصد کیا ہوں؟ اور اسے کن اُصولوں اور ضوابط کی روشنی میں مرتب کیا جائے؟ تاکہ وہ حقیقی معنوں میں باعثِ افادیت ہوسکے۔ ان امور کے تعین۔ّکے بغیر، کوئی بھی اشاریہ، نہ تو عام قارئین اور نہ تحقیق کرنے والوں کے لیے سود مند ہوسکتا ہے۔ افسوس ہے کہ کلیات کا زیر مطالعہ اشاریہ کئی اعتبار سے سخت ناقص ہے اور اشاریے کی افادیت و معنویت کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ اس کی بنیادی خامی یہ ہے کہ اس میں خاصی رواروی، بے احتیاطی اور سرسری پن سے کام لیا گیا ہے۔ بحیثیت مجموعی یہ، صحت و استناد اور تحقیق و تدقیق کے کم سے کم مطلوبہ معیار سے بھی فروتر ہے۔ بعض مقامات پر تو مرتب، تدبّر و بصیرت کی معمولی صلاحیت سے بھی عاری نظر آتا ہے۔ چند پہلو ملاحظہ کیجیے: ۱؎ (۱) اشاریہ ساز، لفظوں کے معنی و مفہوم سے ناواقف ہے، مثلاً ’’خزف چینِ لبِ ساحل‘‘ (کلیات: ص۱۰۷) سے ملک چین کا حوالہ اخذ کیا گیا ہے۔ ’’خونِ اسرائیل آجاتا ہے آخر جو ش میں‘‘ (ص۲۶۱) سے ملک اسرائیل کا حوالہ اخذ کیا گیا ہے۔ ’’درِ خیبر‘‘ (ص ۱۶۵) اور ’’بڑھ کے خیبر سے ہے یہ معرکۂ دین و وطن‘‘ (ص۳۵۶) سے درۂ خیبر کا حوالہ اخذ کیا گیا ہے۔ ’’حیراں ہے بو علی، کہ میں آیا کہاں سے ہوں‘‘ (ص ۴۴۰) کا حوالہ بو علی سینا کے بجاے بو علی قلندر کے تحت دیا گیا ہے۔لفظ جاوید ۱- اشاریۂ کلیات کے اس جائزے میں پروفیسر محمد یونس حسرت کے تحقیقی مضمون ’’اشاریہ ہاے کلام اقبال‘‘ (برگِ گل، اقبال نمبر ۱۹۷۷ئ: ص۴۲۰-۴۴۱) سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ (۴۹۷ بمعنی ہمیشہ) کا حوالہ جاوید اقبال کے تحت درج کیا گیا ہے۔ترکانِ عثمانی (ص۳۵۲) کا حوالہ حضرت عثمانؓ کے تحت درج کیا گیا ہے۔ (۲) کلیات: ص۶۹۷ پر عنوان ’’اماکن‘‘ کے ساتھ قوسین میں لفظ ’’ممالک‘‘ لکھا گیا ہے۔ اماکن سے محض ممالک مراد لینا بالکل نیا لغت ہے۔ مزید تعجب کا باعث ہے کہ مرتب نے دریاؤں (راوی، گنگا، جیحوں، فرات، دینیوب) پہاڑوں (اضم، ہمالہ) شہروں (جدہ، پیرس، کوفہ، مدینہ، قرطبہ، علی گڑھ) عمارات (ریاض منزل، شیش محل) اور تعلیمی اداروں (کیمبرج یونی ورسٹی، گورنمنٹ کالج لاہور) کے حوالے بھی ’’ممالک‘‘ کی ذیل میں درج کیے ہیں۔ قرطبہ کے تحت، شہر قرطبہ اور مسجدِ قرطبہ کے حوالے یک جا درج کیے گئے ہیں۔ المانی اور وزیری کو شخصیات کے تحت درج کیا گیا ہے حالانکہ المانی، جرمنی یا جرمن باشندے کا مترادف ہے اور وزیری ایک قبیلے کا نام ہے۔ دلی کے زیادہ تر حوالے دلی کے تحت مگر چند ’’ایک جہاں آباد‘‘ کے تحت درج کیے گئے ہیں۔ (۳) اشاریہ نگار نے بعض اسما کے ساتھ، اُن کی حیثیت یا مقام و مرتبے کی صراحت کے لیے، واوین میں توضیحی الفاظ لکھ دیے ہیں، مثلاً: ۱- بہزاد (بت پرست) ۲- سٹنڈل (انگریز) ۳- قیصر(شہر کا نام) ۴- نیٹشا (جرمنی کا مشہور شاعر و فلسفی) یہ توضیحات، اشاریہ نگار کے فرائض میں شامل نہیں۔ مزید برآں ان میں سے بعض وضاحتیں (نمبر۱،۲،۳) غلط ہیں۔ اس کے برعکس جہاں وضاحت مطلوب تھی (مثلاً قرطبہ: شہر یا مسجد۔ شالامار: باغ یا محلہ اور علاقہ) وہاں توضیح نہیں کی گئی۔ (۴) ایسے دو یا دو سے زائد اسما کو (جو ایک ہی شخص، مقام، چیز یا کیفیت کو ظاہر کرتے ہیں، مثلاً موسیٰ، کلیم۔ حسین، شبیر۔ فردوس، جنت، بہشت۔ مومن، مسلمان۔ شاہین، شہباز۔ آفتاب، سورج۔ وغیرہ) جمع کردیا گیا ہے، یہ درست نہیں ہے۔ ہر نام کے حوالے الگ الگ ہونے چاہییں۔ البتہ آخر میں چلیپائی حوالوں (cross references) کا بھی ذکر ہونا چاہیے: مثلاً: موسیٰ کے تحت متعلقہ صفحات کے نمبر دے کر آخر میں لکھا جائے: مزید دیکھیے: کلیم۔ اسی طرح کلیم کے تحت صفحات کے نمبر دے کر آخر میں لکھا جائے: مزید دیکھیے: موسیٰ۔ (۵) بظاہر ملتے جلتے الفاظ کے حوالوں کو یک جا کردیا گیا ہے، حالانکہ ان کی نوعیت ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ ان میں سے بعض اسماے معرفہ، بعض اسماے ذات، بعض اسماے ظرفِ مکاں، بعض اسماے کیفیت اور بعض اسماے جمع ہیں، مثلاً: جہانگیر، جہانگیری۔ چنگیز، چنگیزی۔ ترک، ترکی۔ غلام، غلامی۔ شام، شامی۔ عشق، عاشقی۔ وطن، وطنیت۔ بُت، بُت کدہ۔ سرمایہ، سرمایہ دار۔ تصوف، صوفی۔ سلطنت، ملک، ملوکیت، حکومت۔ اس طرح کے حوالے الگ الگ درج ہونے چاہییں کیونکہ ان میں سے بعض شخصیات کے تحت آئیں گے، جیسے: جہانگیر، چنگیز۔ بعض موضوعات کے تحت آئیں گے، جیسے: تصوف، چنگیزی، ملوکیت، وطنیت اور بعض اماکن کے تحت جیسے: شام، ترکی۔ (۶) متعدد اہم شخصیات کے نام، عنوان کی فہرست میں شامل نہیں کیے گئے، مثلاً: سلیم (عثمانی فرماںروا۔ کلیات: ص۴۰۵) رام (ص۷۷۔ نظم کا موضوع ہی رام کی شخصیت ہے۔ اشاریے میں رام کے ساتھ واوین میں رام چندر جی بھی لکھنا چاہیے۔) غنی (ص۱۸۰۔ واوین میں کاشمیری کی صراحت کرنی چاہیے۔) شعیب (ص۳۸۰)۔ (۷) مرتب نے صرف ظاہری الفاظ کو پیشِ نظر رکھا ہے، مفہوم یا معنی پر غور نہیں کیا۔ مدیر مخزن (ص۱۲۶) عرب کے معمار (۱۳۶) پیر کنعان (۱۸۰) کلیمِ بے تجلّی اور مسیحِ بے صلیب (ص۶۵۰) کوہ کن (ص۷۶) پر غور کرکے انھیں علی الترتیب شیخ عبدالقادر، آنحضورؐ، حضرت یعقوب، کارل مارکس اور فرہاد کے تحت، اس صراحت کے ساتھ درج کرنا چاہیے تھا کہ یہ تراکیب متذکرہ شخصیات کے لیے ہیں۔ (۸)بعض عنوانات، اشاریے میں موجود ہیں مگر ان کے کئی حوالے چھوٹ گئے ہیں مثلاً: خودی: ص۳۵۱، ۵۹۴، ۶۲۸۔ خضر: ص۱۰۷۔ اسرافیل: ص۳۳۰، ۵۹۵۔ ترک: ۱۸۲۔ قیامت:ص۵۲۲۔ کَیْ: ص ۵۷۷۔ نرگس: ص۶۴، ۶۸، ۱۰۲، ۱۷۹، ۲۱۶، ۴۱۴۔ جہاد: ص۲۱۴۔ (۹) بعض اسما و الفاظ کے ساتھ ایسے صفحات نمبر درج کیے گئے ہیں، جن پر ان کا نام و نشان موجود نہیں مثلاً: کلیم: ۴۳۱، ۶۲۱۔ روم: ۱۶۲۔ حجاز: ۶۳۵۔ خودی: ۳۰۲، ۳۴۹، ۴۴۳، ۶۳۶، ۶۸۰۔ چشتی:۹۶۔ (۱۰) زیر مطالعہ اشاریے کا تیسرا حصہ بعنوان ’’موضوع‘‘ سب سے زیادہ ناقص ہے۔ مرتب نے بعض موضوعات منتخب کرلیے ہیں اور بعض چھوڑ دیے ہیں۔ اس ترک و اختیار کا معیار کیا ہے؟ فقط مرتب کی صواب دید۔ ایک طرف تو ’’سلامِ مغرب‘‘ اور ’’وزڈم آف دی ایسٹ‘‘ جیسے موضوع (جو در حقیقت موضوع کہلانے کے مستحق نہیں) قائم کیے گئے ہیں۔ دوسری طرف بے خودی، زمانہ، قلندر، فطرت، جنوں، جلال اور جمال ایسے اہم موضوعات کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ اس حصے میں اقبال کے شعری مجموعوں کے حوالے دیے گئے ہیں، حالانکہ متعلقہ صفحات پر اُن کا ذکر بحیثیت ’’کتاب‘‘ آیا ہے، نہ کہ بحیثیت ’’موضوع‘‘۔ بانگِ درا کے تحت درج شدہ چھے حوالوں میں سے پانچ حوالے (ص: ۵۳، ۱۲۵، ۱۵۹، ۱۷۰، ۲۰۶) قطعی غلط ہیں، کیونکہ ان کا تعلق کتاب بانگِ درا کے بجاے ’’بانگِ درا‘‘ کے لغوی معنی ’’گھنٹی کی آواز‘‘ سے ہے۔ مختصر یہ کہ اشاریۂ کلیات، مختلف النوع نقائص اور خامیوں سے پُر ہے۔ اس کے عیوب کا پلڑا، افادیت کے پہلو سے زیادہ وزنی ہے۔ اس اشاریے کی صحت و تصحیح کی نسبت، ایک نیا اشاریہ مرتب کرنا، زیادہ آسان ہوگا۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ اشاریہ گذشتہ کئی برس سے کلیات کے ساتھ چھپ رہا ہے، مگر کسی کو (بشمول ناشر، سول ایجنٹ، مرتب اور علماے اقبالیات) یہ احساس نہیں کہ بیرونِ ملک ہمارے علمی اور تحقیقی معیار کی کیا بھد اُڑ رہی ہے۔ ہمارے خیال میں اس اشاریے کو فی الفور، کلیات سے الگ کردینا چاہیے۔ کلیاتِ اقبال کی اشاریہ سازی کے لیے محض فنی تکنیک سے واقفیت کافی نہیں، اس کے لیے اقبالیات کے علم کے ساتھ ساتھ تھوڑی سی بصیرت بھی درکار ہے۔ یہ کام علماے اقبالیات کی نگرانی میں ہونا چاہیے، جو اشاریے کے مقاصد کے تعین۔ّکے ساتھ، اس کا پورا نقشہ خصوصاً موضوعات کی فہرست، مرتب کرے۔ پھر یہ کام کوئی تجربہ کار اور سلیقہ مند اشاریہ نگار انجام دے۔ کلیات کے اس مختصر سے جائزے ۱؎ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کلیات میں املا اور اس سے متعلق جملہ پہلوؤں کا مسئلہ انتشار اور تضادات کا شکار ہے۔ ادبی اور فنی لحاظ سے کلام اقبال کو اِستناد کا درجہ حاصل ہے (اور وقت گزرنے کے ساتھ، اقبال کی سند مستحکم ہوتی جائے گی۔) علامہ اقبال سے عقیدت و محبت اور ان کے کلام کی دل کشی کے سبب، ان کے اشعار، اُردو کے عام قاری ۱- یہاں صرف اُردو کلیات پیشِ نظر رہا ہے۔ اُردو اور فارسی املا کے بیشتر مسائل تو مشترک ہیں، بعض مخصوص فارسی الفاظ کے املا سے متعلق امور پر بحث، آیندہ ابواب میں کی جائے گی۔ کے وردِ زبان ہیں۔ آیندہ، کلامِ اقبال کے جتنے بھی نسخے چھپیں گے، ان میں، کاوش و محنت سے مرتب کیا جانے والا زیر بحث نسخۂ کلیات ہی نمونے کا کام دے گا اور اسی کی تقلید کی جائے گی۔۱؎ اس لیے نہایت ضروری ہے کہ اُن تمام امور کو، جن کی نشان دہی اوپر کی سطور میں کی جا چکی ہے، سنجیدگی سے زیر غور لاکر تدوین و املا کے حتمی قواعد و اُصول مرتب و منضبط کیے جائیں اور ان کی روشنی میں علماے اقبالیات کا ایک بورڈ، کلیات اُردو کا ایک مستند اور صحیح نسخہ تیار کرے، جسے معیاری نسخہ قرار دے کر رائج کیا جائے اور باقی تمام نسخے متروک قرار دے دیے جائیں۔ راقم کے ایک مضمون ’’کلامِ اقبال کی معیاری تدوین و اشاعت‘‘ (مشمولہ اقبالیات: تفہیم و تجزیہ،اقبال اکادمی پاکستان، لاہور [۲۰۰۵ئ]) سے زیر بحث مسئلے کی مزید وضاحت ہوتی ہے اور کچھ نئے نکات سامنے آتے ہیں۔ مذکورہ مضمون سے متعلقہ ایک پیرا ہم یہاں نقل کرتے ہیں: کسی خرابی کی اصلاح بروقت نہ کی جائے تو اس سے مزید خرابیاں جنم لیتی ہیں۔ راقم نے ۱۹۸۲ء میں نسخہ غ ع میں، ترتیب کلام میں تحریف، املا، کتابت اور لفظی غلطیوں کی نشان دہی کی تھی۔ مگر ناشر کی بے نیازی، بے اعتنائی اور تغافل خوب ہے کہ ابھی تک اُن کی اصلاح کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ ۱۹۹۰ء کے نسخہ اقبال اکادمی میں املا، کتابت اور لفظی اغلاط تو درست کردی گئیں مگر ترتیب کلام کو بدلنے کی جو بدعت، پہلی بار نسخہ غ ع میں اختیار کی گئی تھی، نسخہ اکادمی میں بھی اس کی پیروی کی گئی۔ نسخۂ اکادمی کے مقدمے میں کہا گیا ہے کہ ہم نے بالِ جبریل کی دو بیتیوں کو مناسب مقامات پر منتقل کردیا… حالانکہ یہ ’انتقال‘ تو نسخہ غ ع ہی میں ہوچکا تھا، آپ نے تو صرف اس کی پیروی کی ہے۔ پھر کہا گیا ہے کہ ’اس باب میں ہم نے معیاری رواج کو ترجیح دی‘۔ سوال یہ ہے کہ نسخہ غ ع کیسے ’معیاری رواج‘ ہوگیا؟ اور کیا علامہ اقبال کی قائم کردہ ترتیب کلام پر ’معیاری رواج‘ مقدم ہے؟ (ص۲۷۶) ۱- مثلاً بھارت میں مختلف ناشرین اسی کلیات کے عکسی اڈیشن شائع کررہے ہیں۔ پاکستانی ناشرین نے بھی اسی (غ ع ) اڈیشن کے مطابق ہی متعدد کلیات شائع کیے ہیں، حتیٰ کہ اقبال اکادمی پاکستان کے شائع کردہ کلیاتِ اقبال، اردو کی ترتیب میں بھی اسی (غ ع) اڈیشن کی تقلید کی گئی ہے۔ [یوں راقم نے ۱۹۸۰ء اور ۱۹۸۲ء میں جس خدشے کا اظہار کیا تھا، ۱۹۹۰ء میں وہ عملاً سامنے آگیا۔] تاہم اکادمی اڈیشن (جیسا کہ ہم دیباچے میں ذکر کرچکے ہیں) باعتبارِ متن صحیح نسخہ ہے۔ اس میں بانگِ درا کے اوّل تا آخر جملہ اڈیشنوں کی ایک غلطی کو اقبال کی ایک بیاض کی مدد سے درست کردیا گیا ہے۔ نظم’’… کی گود میں بلی دیکھ کر‘‘ کے پانچویں شعر میں ’’چھیڑ‘‘ درست ہے، نہ کہ ’’چڑھ‘‘۔ ئ……ئ……ء باب:۱ اُردو کلام کے مجموعے ز…ز…ز…ز (الف) اُردو میں شعر گوئی آغاز و محرکات علامہ اقبال کے آبا و اجداد کشمیری برہمن تھے، لیکن یہ حسنِ اتفاق معنی خیز ہے کہ اُن کا سلسلۂ۔نسب برہمنوں کی اس شاخ سے ملتا ہے، جس نے کشمیر کے ہر دل عزیز بادشاہ سلطان زین العابدین عرف بڈ شاہ (۱۴۲۱ئ-۱۴۶۹ئ) کے دور میں فارسی سیکھی اور اسلامی علوم کی طرف متوجہ ہوئی۔ قدیم برہمن روایات سے اس ’’انحراف‘‘ کی وجہ سے کشمیری برہمنوں نے انھیں از راہِ تعریض و تحقیر ’’سپرو‘‘ (یعنی جو سب سے پہلے پڑھنا شروع کرے) کا لقب دیا۔۱؎ بابالولِ حج، سپرو خاندان میں سب سے پہلے اسلام لائے۔ اُنھوں نے بابا نصر الدین کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوکر فقر و درویشی اختیار کی اور کشمیر کے مشہور مشائخ میں شمار ہوئے۔۲؎ فقر و درویشی اور روحانیت کا یہ رنگ، اقبال کے متعدد اجداد کے ہاں موجود تھا۔ اُن کے ایک جدّ، شیخ محمد رمضان نے فارسی تصوف پر متعدد کتابیں تالیف کیں۔۳؎ اقبال کے والد شیخ نور محمد طبعاً تصوّف سے لگاؤ رکھتے تھے۔ وہ آوان شریف (ضلع گجرات، پنجاب) کے ایک بزرگ قاضی سلطان محمود (م: ۱۹۱۹ئ) سے بیعت تھے۔ اقبال سنِ شعور کو پہنچے تو والد نے انھیں بھی قاضی صاحب سے بیعت کرادیا۔۴؎ صوفیہ اور اولیا سے اقبال کو ہمیشہ ایک گونہ عقیدت رہی۔وہ مختلف اوقات میں حضرت نظام الدین اولیا اور حضرت مجدّد الف ثانی کے مقابر پر حاضر ہوتے رہے۔ ۱- ملاحظہ کیجیے: (الف) انوارِ اقبال: ص۷۶ (ب) ادبیاتِ فارسی میں ہندوؤں کا حصہ: ص۱۰،۲۳۴ ۲- صحیفہ، اقبال نمبر، اوّل، اکتوبر ۱۹۷۳ئ:ص۴ ۳- تاریخ اقوامِ کشمیر: ص۳۲۳۔ بحوالہ زندہ رود [اوّل] ص۱۰ ۴- آئینہ، لاہور، اپریل ۱۹۶۵ئ:ص۴۴ تصوف اور روحانیت کا، انسان کے احساسات لطیف سے قریبی تعلق ہے، چنانچہ اقبال کے آبا و اجداد کا تصوّف اور ان کی روحانیت اور فقر، اقبال کی ذات میں اعلیٰ جذبات اور لطیف احساسات کی صورت میں متشکل ہوا۔ شیخ نور محمد نے باقاعدہ تعلیم نہیں پائی تھی، مگر صوفیہ اور علما کی صحبت نے ان کی طبیعت میں ایک نکھار اور جلا پیدا کردی تھی۔ عربی، فارسی اور دینی علوم کے فاضلِ اجل۔ّ علامہ سیّدمیرحسن سے ان کی گہری دوستی تھی۔ شیخ نور محمد اُردو اور فارسی کی کتابیں پڑھ لیتے تھے، کلامِ اقبال بھی اُن کے زیرمطالعہ رہتا۔ شعر سے انھیں فطری رغبت تھی اور کبھی کبھار خود بھی شعر کَہ لیا کرتے تھے۔۱؎ اقبال کو لڑکپن ہی سے شعر و شاعری سے طبعی مناسبت تھی۔ ان کی موزوں طبعی کے بارے میں شیخ عطا محمد کی اہلیہ راوی ہیں کہ وہ رات کے وقت بازار سے منظوم قصّے لاکر گھر میں لحن سے سنایا کرتے تھے۔ اکثر اوقات قصّہ پڑھتے پڑھتے اپنی طرف سے بھی کوئی فقرہ (مصرع) اس میں جڑ دیتے۔ ان کا یہ پیوند ایسا خوب صورت اور پُر اثر ہوتا کہ سب لوگ بے ساختہ داد دیتے۔ خیال رہے کہ اُس وقت اُن کی عمر بمشکل دس بارہ سال تھی۔۲؎ اقبال کے لڑکپن کے دوست سیّد تقی شاہ کا بیان ہے کہ ایک بار ہم نے کبوتر خریدے تو اقبال نے اس خوشی میں تُک بندی کی تھی۔ سیّد تقی شاہ نے مندرجہ ذیل پانچ مصرعے نقل کیے ہیں: دل میں آئی جو تقی کے ، تو کبوتر پالے جمع لا لا کے کیے لال ، ہرے ، مٹیالے ان میں ایسے ہیں جو ہیں پہروں کے اُڑنے والے اب یہ ہے حال کہ آنکھیں ہیں کہیں ، پائوں۔ کہیں پائوں کے نیچے ، نہ معلوم ، زمیں ہے کہ نہیں۳؎ یہ بالکل موزوں مصرعے ہیں، انھیں ’’تُک بندی‘‘ نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اُس زمانے میں اقبال، ۱- شیخ اعجاز احمد کا بیان ہے کہ والدۂ اقبال کی وفات پر اُنھوں نے دو نشستوں میں دس بارہ شعر قلم بند کرائے اور کوئی مصرع بھی وزن سے خارج نہ تھا۔ (روزگارِ فقیر، دوم:ص۲۱۶)۔ ۲- (الف) روایاتِ اقبال: ص۳۹۔ (ب) اقبال درونِ خانہ: ص۱۰ ۳- الزبیر، اقبال نمبر ۱۹۷۷ئ، نمبر۲:ص۱۱… مزید دیکھیے: داناے راز (نذیر نیازی) طبع اوّل: ص۶۸، نیازی صاحب نے صرف ایک شعر دیا ہے، وہ یوں ہے: جی میں آئی جو تقی کے، تو کبوتر پالے کوئی کالا، کوئی اسپید ہے، دو مٹیالے علامہ میر حسن کے حلقۂ تلامذہ میں شامل تھے۔ ان کے متعدد شاگرد راوی ۱؎ ہیں کہ میر حسن کو دیوانِ حافظ، مثنوی مولانا روم، سکندر نامہ نظامی اور قصائدِ عرفی بے حد پسند تھے۔ اُردو، فارسی، عربی اور پنجابی کے ہزاروں شعر اُن کے نوکِ زبان تھے۔ بات بات پر شعر پڑھنے کی عادت تھی۔ ان کے اندازِ تدریس میں یہ بات اہم تھی کہ عربی پڑھاتے تو موضوع کی مناسبت سے فارسی اور اُردو اساتذہ کے اشعار اور ہیر وارث شاہ کے اشعار سناتے۔ اپنے شاگردوں میں اقبال پر اُن کی خاص توجہ تھی۔ میٹرک کے امتحان کے بعد تو اُن کا بیشتر وقت شاہ صاحب کے ہاں گذرتا، گھر جاتے ہوئے مطالعے کے لیے کتابیں لے جاتے___ مختصر یہ کہ میر حسن کی شخصیت، ان کی صحبت اور اُن سے تلمذ۔ّ۔، اقبال کے ادبی اور شعری ذوق کی نشوونما کے لیے نہایت مفید ثابت ہوا۔ ان کی طبعی موزوں گوئی نے، جو ابتدا میں، منظوم قصے پڑھ کر سنانے میں راہِ اظہار پاتی رہی، اب باقاعدہ شعر گوئی کا راستہ اختیار کیا چنانچہ ابھی سکول میں زیر تعلیم تھے کہ شعر و شاعری کرنے لگے۔۲؎ ابتدائی مشق کے دنوں میں اُنھوں نے بعض غزلوں پر علامہ میر حسن سے اصلاح لی۔۳؎ تخلیقِ شعر کے پُر اسرار اور پیچیدہ عمل کے بارے میں مختلف نظریات پیش کیے گئے ہیں۔ اقبال کی شعر گوئی کے ضمن میں اُس مکتبِ فکر کا نظریہ قرینِ صواب معلوم ہوتا ہے جس نے شاعر کو ’’تلمیذالرحمن‘‘ کہا ہے۔ اقبال کے تخلیقی شعور میں شاعری کا وجدانی اور الہامی حوالہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اُن کے نزدیک فیضانِ الٰہی ایک آسمانی عطیہ ہے جس کی بنا پر ’’شاعرانہ طبیعت‘‘ رکھنے والا ایک شخص شعر کہنے پر مجبور ہوتا ہے۔ عوام میں اقبال کی مقبولیت و شہرت کا بڑا سبب اُن کا اُردو کلام تھا مگر ان کی ’’شاعرانہ طبیعت‘‘ اُردو کی نسبت فارسی کی طرف زیادہ مائل رہی۔ ۱۹۳۲ء تک فارسی کے پانچ مجموعوں کے مقابلے میں اُردو کا صرف ایک مجموعہ (بانگِ درا) شائع ہوا تھا۔ قدرتی طور پر اُردو کلام کے دل دادگان کو شکایت پیدا ہوئی۔ جب اُن سے کہا گیا کہ: ’’فارسی میں لکھنا بجا، مگر اُردو کا بھی تو آپ پر حق تھا‘‘… تو اُنھوں نے اپنی مجبوری ظاہر کرتے ہوئے کہا:۴؎ It comes to me in Persian۔ ۱- روایاتِ اقبال: ص۲۶،۵۵،۶۰ ۲- دیباچہ بانگِ درا: ص۱۰ ۳- روایاتِ اقبال: ص۱۳ ۴- روایت پروفیسر حمید احمد خاں: اقبال کی شخصیت اور شاعری، ص۴۵ نزولِ شعر کے موقع پر وہ محسوس کرتے جیسے وہ خود ایک پُراسرار کیفیت کی گرفت میں ہیں۔ اس کا اندازہ ان کے بعض بیانات سے لگایا جاسکتا ہے: (۱) جب مجھ پر شعر کہنے کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو مجھ پر بنے بنائے اور ڈھلے ڈھلائے شعر اُترنے لگتے ہیں اور میں انھیں بعینہٖ نقل کرلیتا ہوں۔ بارہا ایسا ہوا کہ میں نے ان اشعار میں کوئی ترمیم کرنا چاہی، لیکن میری ترمیم اصل اور ابتدائی نازل شدہ شعر کے مقابلے میں بالکل ہیچ نظر آئی اور میں نے شعر کو جوں کا توں برقرار رکھا۔ ۱؎ (۲) شعری تجربے کے دوران میں، میں نے اکثر اسے [شعر کو] غور و فکر کے ذریعے سمجھنے اور گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے، لیکن جیسے ہی میں اپنی کیفیت کا تجزیہ شروع کرتا ہوں، وہ روانی اور الہام کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے۔۲؎ اقبال پر نزولِ شعر سے متعلق اس طرح کی متعدد روایات و واقعات مؤیّد ہیں کہ فیضانِ الٰہی، اقبال کے ہاں تخلیقِ شعر کا اہم ترین محرّک ہے۔ علامہ اقبال نے ایک بار احمد شجاع پاشا سے کہا تھا: ’’تم اور میری شاعری ہم عمر ہو‘‘۔۳؎ احمد شجاع نے اپنا سالِ ولادت ۱۳۱۲ھ بتایا ہے جو عیسوی سنہ ۱۸۹۴-۱۸۹۵ء کے مطابق ہے۔ اس اعتبار سے ۱۸۹۴ء کو اقبال کی شاعری کا سالِ آغاز قرار دینا چاہیے، لیکن سر عبدالقادر کا یہ بیان زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے کہ ابھی سکول میں پڑھتے تھے کہ کلامِ موزوں زبان سے نکلنے لگا۔۴؎ ۱۸۹۴ء میں تو میٹرک کا امتحان دے کر وہ سکول سے رخصت ہوچکے تھے۔ گویا ۱۸۹۱ء یا ۱۸۹۲ء کو ان کی شعر گوئی کا سالِ آغاز قرار دینا صحیح تر ہوگا۔ ۱۸۹۴ء میں، اُن کے کلام میں اتنی پختگی آچکی تھی کہ وہ ادبی رسالوں میں چھپنے لگے تھے۔ داغ سے اقبال کے سلسلۂ تلمذ۔ّ۔۔ کا آغاز ۱۸۹۳ء میںہوا ۵؎ مگریہ ۱- ذکرِ اقبال:ص۲۴۵ ۲- روایت محمد دین تاثیر: ماہِ نو، اقبال نمبر۱۹۷۰ئ،ص۱۴۴-۱۴۵ ۳- خوں بہا: ص۱۹۷ ۴- دیباچہ بانگِ درا: ص۱۰ ۵- راقم نے ابتدا میں اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے میں لکھا تھا: ’’کوئی ایسی شہادت میسّر نہیں جس کی بنا پر حتمی تعیّن ہوسکے کہ داغ سے اقبال کا سلسلۂ تلمذ۔ّ۔ کب شروع ہوا۔ البتہ اُن کی ۱۸۹۳ء کی ایک غزل (مطبوعہ: زبان دہلی، نومبر۱۸۹۳ء بحوالہ: سرودِ رفتہ:ص ۱۴۳-۱۴۴) میں واضح طور پر داغ کا رنگ نمایاں ہے۔ اس زمانے کی ایک اور غزل کا یہ مقطع: (بقیہ آئندہ صفحے پر) سلسلہ ایک دو برس سے زیادہ جاری نہیں رہا۔ اقبال علمِ عروض اور متعلقہ علوم پر عبور حاصل کرچکے تھے، چنانچہ داغ نے بہت جلد کَہ دیا کہ کلام میں اصلاح کی گنجائش بہت کم ہے۔۱؎ اس طرح اُن سے تلمذ۔ّ۔ کا سلسلہ ختم ہوگیا، اُس وقت وہ انٹرمیڈیٹ میں زیر تعلیم تھے۔ داغ ایسے استاذِ فن کی یہ حوصلہ افزائی، اقبال جیسے نوخیز شاعر کے لیے ایک غیر معمولی بات تھی، جس نے انھیں اپنے فن پر زیادہ اعتماد بخشا۔ ۱۸۹۵ء میں لاہور پہنچ کر، اقبال گورنمنٹ کالج میں بی اے میں داخل ہوئے۔ پہلے کچھ عرصہ اندرون بھاٹی گیٹ مقیم رہے، ۱۸۹۶ء میں کالج کے کواڈرینگل (حال اقبال) ہوسٹل کے کمرہ نمبر ۱ میں اُٹھ آئے اور ۱۸۹۹ء تک، جب اُنھوں نے ایم اے فلسفہ کیا، یہیں مقیم رہے۔ ہوسٹل کا یہ تین سالہ قیام، اُن کی زندگی میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ان کا کمرہ، بہت جلد شعری و ادبی ذوق رکھنے والے طلبہ کی توجہ اور مجلس آرائی کا مرکز بن گیا۔ اقبال کے بعض دوست، شاعر ہونے کے ساتھ نقدِ شعر کا عمدہ ذوق بھی رکھتے تھے۔ غلام بھیک نیرنگ کو اقبال کی ذات میں ’’مستقبل کا غالب‘‘ نظر آیا اور اُنھوں نے کلامِ اقبال کو جمع و محفوظ کرنا شروع کردیا۔ اقبال کے مذاقِ سخن کے ارتقا میں ہوسٹل کی بے تکلفانہ شعری وادبی محفلوں۲؎ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ چند ماہ کے اندر وہ بعض دوستوں کے اصرار پر، لاہور کی ادبی محفلوں اور مشاعروں میں شریک ہونے لگے، جہاں بعض نامور شعرا اور ادب دوست اصحاب جمع ہوتے تھے۔ (بقیہ گذشتہ صفحہ) گرم ہم پر کبھی ہوتا ہے جو وہ بت، اقبال حضرتِ داغ کے اشعار سنا دیتے ہیں بھی اقبال پر داغ کے براہِ راست اثرات (اور ایک اعتبار سے اُن کے تلمذ۔ّ۔ کے اعتراف) کو ظاہر کرتا ہے‘‘۔ (ص:۶) مگر بعد میں راقم کو سر عبدالقادر کی ایک شہادت مل گئی۔ وہ اپنے مضمون ’’اقبال‘‘ (مطبوعہ: خدنگِ نظر مئی۱۹۰۲ئ) میں لکھتے ہیں: ’’امتحان انٹرنس پاس کرنے کے بعد اقبال نے جناب نواب فصیح الملک نواب مرزا خاں صاحب داغ دہلوی، استاد حضور نظام دکن خلداللہ ملکہ، سے بذریعہ خط کتابت تلمذ۔ّ۔ کی ٹھہرائی… جس سال حضرتِ داغ سے اصلاح لینے کا سلسلہ شروع ہوا، اِسی سال اقبال کی زندگی میں ایک اور واقعہ پیش آیا… یعنی اُن کی شادی ہوگئی‘‘۔ (بحوالہ: اقبال جادوگرِ ہندی نژاد: ص۱۴۰)۔ اقبال نے انٹرنس کا امتحان ۱۸۹۳ء میں پاس کیا اور اسی برس اُن کی شادی ہوئی۔ اس طرح داغ سے تلمذ۔ّ۔ کا سال (۱۸۹۳ئ) حتمی طور پر متعین ہوجاتا ہے۔ ۱- دیباچہ بانگِ درا : ص۱۱ ۲- تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے: غلام بھیک نیرنگ کا مضمون: مجلہ اقبال، اکتوبر ۱۹۵۷ئ۔ اقبال لاہور آئے تو اُسی برس حکیم شجاع الدّین محمد نے ’’اُردو بزمِ مشاعرہ‘‘ کی بنیاد رکھی۔ دسمبر ۱۸۹۵ء میں منعقدہ، بزم کے دوسرے مشاعرے میں اقبال پہلی بار شریک۱؎ ہوئے اور اپنی غزل پر دادِسخن پائی۔ اگرچہ اس وقت تک، بیسیوں غزلیں کہنے کے بعد، اُن کے اندر اپنی شاعرانہ صلاحیتوں پر اعتماد پیدا ہوچکا تھا۔ تاہم سیال۔کوٹ سے لاہور آنے کے بعد کسی پبلک مشاعرے میں یہ ان کی اوّلین شرکت تھی۔۲؎ اس میں مرزاا رشد گورگانی ایسے استاذِ فن نے اُن کے اس شعر کو بے حد سراہا: موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے اس حوصلہ افزائی سے اقبال، شعر گوئی میں اور زیادہ پُر اعتماد ہوگئے۔ اس زمانے میں لاہور کی اہم ترین ’’اُردو بزمِ مشاعرہ‘‘ کے علاوہ بعض چھوٹی انجمنیں بھی قائم تھیں۔ حکیم شجاع الدین محمد کے انتقال (۱۸۹۶ئ) پر دوسری انجمنیں زیادہ سرگرم ہوگئیںتو اقبال ان انجمنوں کے مشاعروں میں شریک ہونے لگے۔ ان میں کم و بیش ایک سو سامعین جمع ہوجاتے۔ یہ سب تعلیم یافتہ اور باذوق حضرات ہوتے تھے۔۳؎ ان پبلک مشاعروں کو اقبال کی شعر گوئی میں بہت دخل ہے۔ ان میں سے ’’انجمنِ اتحاد‘‘ کے مشاعروں کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ ان میں، ۱۸۹۸ء کے لگ بھگ، مختلف موضوعات و عنوانات پر نظم گوئی کا سلسلہ جاری ہوا اور اقبال کی بعض نظمیں مثلاً ہمالہ، دردِ عشق، موجِ دریا، انسان اور بزمِ قدرت وغیرہ ’’مشاعرۂ اتحاد‘‘ ہی کے زیر اثر لکھی گئیں۔ ان مشاعروں میں اقبال کے علاوہ بعض ایسے شعرا بھی شریک ہوتے تھے، جو کسی زمانے میں انجمنِ پنجاب کے مشاعروں میں شریک ہوکر متعدد منظومات پڑھ چکے تھے۔ مشاعرۂ اتحاد پر انجمنِ پنجاب کے اثرات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ۱۹۰۲ء میں انجمن کی نشاتِ ثانیہ کے موقع پر اسے ’’مرحوم انجمنِ پنجاب سے زیادہ بارونق‘‘ کردینے کا عزم ظاہر کیا گیا۔۴؎ ۱- حکیم احمد شجاع نے خوں بہا (ص:۱۹۶) میں اسے اپنے سنہ ولادت (۱۸۹۴ئ) کا واقعہ قرار دیا ہے (مگر اُن کی ایک اور، بعد کی، تحریر سے اس کی تردید ہوتی ہے (دیکھیے: نقوش نمبر ۱۰۸، ستمبر ۱۹۶۷ئ:ص۱۰)۔ ۲- محمد عبداللہ قریشی کا یہ بیان محلِ نظر ہے کہ: ’’اقبال پہلے پہل ۱۸۹۶ء کے کسی مشاعرے میں شریک ہوئے‘‘۔ (مجلہ اقبال، اکتوبر ۱۹۵۴ئ، ص۴۰) جیسا کہ اُوپر ذکر ہوا، اقبال نے پہلی مرتبہ دسمبر ۱۸۹۵ء میں بازار حکیماں کے دوسرے ’’اُردو بزم مشاعرہ‘‘ میں شرکت کی ( نقوش نمبر ۱۰۸، ستمبر ۱۹۶۷ئ، ص۱۰)۔ ۳- روایاتِ اقبال: ص۱۶۱ ۴- مجلہ اقبال، اکتوبر ۱۹۵۵ئ:ص۷۴ -۸۰ اس دور میں لاہور کی شعری محفلوں میں ناظم حسین لکھنوی اور مرزا ارشد گورگانی کے شاگردوں اور مدّاحوں کے درمیان معاصرانہ چشمک جاری تھی۔ انجمنِ اتحاد کے مشاعروں میں بھی اس کے مظاہرے دیکھنے میں آتے تھے۔۱؎ اگرچہ مرزا داغ سے سلسلۂ تلمذ۔ّ۔ کے حوالے سے اقبال، لکھنؤ کی نسبت دہلی سے زیادہ قریب تھے۔۲؎ تاہم اُنھوں نے یہ کہہ کر: اقبال لکھنؤ سے، نہ دلی سے ہے غرض ہم تو اسیر ہیں خمِ زلفِ کمال کے خود کو دونوں گروہوں کی نوک جھونک سے علاحدہ رکھا اور یہ ایک نیک فال تھی۔ اگر وہ اس چشمک میں شامل ہوجاتے تو لکھنویت اور دہلویت کی لسانی محاذ آرائی میں، خدشہ تھا کہ مستقبل میں ان کے شعری امکانات کو ضعف۔ُ پہنچتا۔ ’’اُردو بزمِ مشاعرہ‘‘ کا سلسلہ ختم ہوا تو حکیم شہباز دین کی بیٹھک میں ہر روز شام کو متعدد باذوق اصحابِ فکر و نظر، ادبا و شعرا اور اساتذہ و علما جمع ہونے لگے۔ اقبال ہمیشہ سے اس نوع کی مجالس کے دلدادہ تھے، اس لیے وہ باقاعدگی کے ساتھ بازار حکیماں کی ان نشستوں میں شریک ہوتے۔ ان محفلوں میں حکیم امین الدین، حکیم شہباز دین، سر عبدالقادر، سر شہاب الدین، خواجہ رحیم بخش، خواجہ کریم بخش، خواجہ امیر بخش، خلیفہ نظام الدین، شیخ گلاب دین، مولوی احمد دین، مولانا عبدالحکیم کلانوری، مولوی محمد حسن جالندھری، مفتی محمد عبداللہ ٹونکی، فقیر سیّد افتخار الدین، خان احمد حسین خاں، منشی محمد دین فوق، مولانا اصغر علی روحی اور سیّد محمد شاہ وکیل شامل ہوتے تھے۔ حکیم امین الدین ۱- تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے: محمد عبداللہ قریشی کا مضمون: ’’حیاتِ اقبال کی گم شدہ کڑیاں‘‘ (لاہور کے مشاعرے اور اقبال) قسط دوم، مجلہ اقبال اکتوبر ۱۹۵۵ئ: ص۷۲-۹۷ ۲- لاہور میں، مرزا ارشد گورگانی، دبستانِ دہلی کے سرگروہ تھے۔ کہا جاتا ہے کہ لاہور آنے پر اقبال کو ارشد سے تلمذ۔ّ۔ ہوا، مگر کچھ دنوں بعد داغ کے باقاعدہ شاگرد ہوگئے۔ لالہ سری رام، عبدالقادر سروری، محمد عبداللہ قریشی اور بعض دیگر مؤرخینِ ادب بھی اسی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ مگر ارشد سے تلمذ۔ّ۔ کی کوئی معاصر شہادت دستیاب نہیں۔ ڈاکٹر وحید قریشی نے اس مسئلے پر مفصل بحث کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ داغ سے اصلاح لینے کی پابندی ۱۸۹۴ء میں یعنی لاہور آنے سے قبل ہی، جاتی رہی تھی اس لیے لاہور پہنچ کر ارشد گورگانی سے تلمذ۔ّ۔ کی بات درست نہیں۔ (’’ولادتِ اقبال کے سلسلے کی ایک تائیدی دلیل‘‘: راوی اقبال نمبر، اپریل ۱۹۷۴ئ:ص۸۴) نہایت باذوق انسان اور متبحر عالم تھے۔ حکیم شہباز دین خود شاعر تھے اور اپنی علم دوستی اور ادب نوازی کے سبب، اُنھوں نے شورِ محشر کی اشاعت برقرار رکھی۔ سر عبدالقادر خوش ذوق ادیب تھے، بعد میں مخزن کے ذریعے اُنھوں نے اُردو زبان و ادب کے لیے ناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔ سرشہاب الدین کا مسدّسِ حالی کا منظوم پنجابی ترجمہ بہت مقبول ہوا۔ بخش برادران کے للی لاج (واقع محلہ تھڑیاں بھابڑیاں، بازار حکیماں) میں عرصۂ دراز تک علمی مجالس جمتی رہیں۔ ولایت سے واپسی پر اقبال بھی کئی برس تک ان میں شریک ہوئے۔۱؎ مولوی احمد دین وکیل نے سرگذشتِ الفاظ اور بعد ازاں، اقبال کی شاعری پر پہلی کتاب اقبال بھی لکھی۔ خان احمد حسین خاں، لاہور کی ادبی دنیا کی اہم شخصیت تھے۔ شورِ محشر اور بعد ازاں شبابِ اُردو کے مدیر رہے۔ مولوی محمد حسن جالندھری، مولانا عبدالحکیم کلانوری اور مفتی محمد عبداللہ ٹونکی اپنے دور کے جید علما اور قابل اساتذہ میں سے تھے۔ مفتی صاحب کے ناتواں جسم میں ’’علم و فضل کا اتنا ذخیرہ تھا کہ کوزے میں دریا بند ہونے کی مثل ان پر صادق آتی ہے‘‘۔۲؎ مولانا عبدالحکیم کلانوری، ’’قواعدِ فارسی کے علاوہ عروض، صنائع بدائع اور اِملا کے خصائص پر کئی رسالوں کے مصنف تھے۔ شام کی مجلسوں میں ان کے مخاطب زیادہ تر اقبال ہوتے اور شعر و شاعری کے ادبی محاسن پر گفتگو کرتے‘‘۔۳؎ ان جلسوں میں شریک متذکرہ بالا اصحاب کے علاوہ، باقی حضرات بھی علمی و ادبی اعتبار سے قابلِ لحاظ حیثیت کے مالک تھے۔ اقبال کے ذوقِ شعر کی تربیت میں ان ادبی صحبتوں کے اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ متذکرہ بالا اصحاب کے بارے میں حکیم احمد شجاع لکھتے ہیں کہ اس زمانے میں اقبال اپنا کلام پہلے ان بزرگوں کو سناتے اور پھر اسے کسی مجلسِ عام میں پڑھتے۔ ’’نالۂ یتیم‘‘، ’’ہلالِ عید‘‘ اور ’’تصویرِ درد‘‘ جیسی معروف نظمیں، انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں سنانے سے پہلے، انھی لوگوں کے سامنے پڑھی گئیں۔۴؎ ۱۸۹۹ء میں ایم اے کا امتحان پاس کرکے اقبال نے تعلیمی زندگی کو خیرباد کہا اور ہوسٹل چھوڑ دیا۔ حسنِ اتفاق سے انھی دنوں (اپریل میں) اُن کے مشفق استاد پروفیسر آرنلڈ نے اورینٹل کالج لاہور کے قائم مقام پرنسپل کا منصب سنبھالا۔ چند روز بعد ۱۳؍مئی کو اسی کالج میں میکلوڈ عریبک ریڈر ۱- اقبال ریویو، جنوری ۱۹۶۹ئ: ص۴۵ ۲- نقوش اقبال نمبردوم، دسمبر۱۹۷۷ئ: ص۵۵۸ ۳- نقوش، نمبر ۱۰۸، ستمبر۱۹۶۷ئ:ص۱۲ ۴- خوں بہا: ص۱۹۹-۲۰۰ کی حیثیت سے اقبال کا تقرر ہوگیا۔۱؎ اس مرحلے پر اُن کا حلقۂ احباب قدرتی طور پر اور بھی وسیع ہوگیا۔ اقبال کے جن دوستوں کا پہلے ذکر آچکا ہے، ان کے علاوہ منشی محبوب عالم، نادر کا کوروی اور منشی سراج الدین بھی ان کے حلقۂ احباب میں اہمیت رکھتے تھے۔ سوامی رام تیرتھ سے کالج کے زمانے ہی سے اُن کی دوستی تھی۔ اقبال نے اُن سے سنسکرت پڑھی اور بعد میں اسی واسطے سے ہندی اور ہندستانی فلسفوں کا مطالعہ کیا۔ ان کی شعر گوئی نے، جو ہوسٹل میں دوستوں کی بزم آرائیوں اور بازار حکیماں کی شعری محفلوں تک محدود تھی، اب اپنے اظہار کے لیے نئے اُفق کی طرف قدم بڑھائے۔ مگر ایک شاعر کی حیثیت سے اس وقت تک اقبال، عوام النّاس میں معروف نہیں ہوئے تھے۔ ۱۸۹۹ء سے ۱۹۰۵ء تک چھے برسوں میں، اقبال کی شاعری دو واسطوں سے، عوام کے سامنے متعارف ہوتی چلی گئی۔ اوّل: انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے۔ دوم: رسالہ مخزن۔ بیسویں صدی کی پہلی چوتھائی میں انجمن حمایت اسلام لاہور کے اسٹیج سے اُنھوں نے متعدد نظمیں پڑھیں مگر ابتدا میں کارپردازانِ انجمن بھی ان کی شاعرانہ حیثیت اور ان کی شاعری کی قدر و منزلت سے آگاہ نہ تھے۔ انجمن کے پندرھویں سالانہ جلسے (۱۴ فروری۱۹۰۰ئ) ۲؎ میں پہلی بار اقبال نے ’’نالۂ یتیم‘‘ سنائی۔ صدرِ اجلاس ڈپٹی نذیر احمد دہلوی نے اس کاوش کو ان الفاظ میں سراہا: میں نے ان کانوں سے انیس اور دبیر کے مرثیے سنے مگر جس پائے کی نظم آج سننے میں آئی اور جو اثر اس نے میرے دل پر کیا، وہ اس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔۳؎ یہ واقعہ اقبال کی ملک گیر شہرت کے لیے نقطۂ آغاز ثابت ہوا۔ آیندہ کئی برسوں تک اُنھوں نے انجمن کے سالانہ جلسوں میں اپنی منظومات سنا کر عوام و خواص سے بے پناہ خراج تحسین پایا۔ اس کی ایک صورت تو یہ ہوتی تھی کہ سامعین، اقبال کی نظمیں سن کر دل کھول کر چندہ دیتے۔ دوسرے یہ کہ وہ ہر جلسے کے موقع پر، منظوماتِ اقبال کے مطبوعہ نسخوں اور غیر مطبوعہ نقول کو گراں قدر رقوم کے عوض نہایت ۱- ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار: Journal of Research، پنجاب یونی ورسٹی لاہور، جولائی۱۹۷۷ء تا جنوری ۱۹۷۸ئ:ص۸۶-۸۷ ۲- عبدالمجید سالک (ذکرِ اقبال: ص۱۸) اور ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی (اقبال کی صحبت میں: ص۲۳) نے لکھا ہے کہ ’’نالۂ یتیم‘‘ ۱۸۹۹ء کے سالانہ جلسے میں پڑھی گئی مگر یہ درست نہیں ہے۔ ۳- اقبال اور انجمن حمایت اسلام: ص۷۰ پرجوش طریقے سے ہاتھوں ہاتھ لیتے۔ جن اکابر سے اقبال کو ان کے کلام پر داد ملی، اُن میں ڈپٹی نذیر احمد، مولانا حالی، مولانا شبلی، خواجہ حسن نظامی اور سر محمد ذوالفقار علی خاں کے نام نمایاں ہیں۔ ۲۳؍فروری ۱۹۰۲ء کو صدرِ اجلاس میاں نظام الدین سب جج راولپنڈی نے اقبال کو ’’ملک الشعرائ‘‘ قرار دیا۔۱؎ یوں انجمن کے جلسوں کے ذریعے اقبال کی شہرت کا دائرہ وسیع ہوتا گیا۔ انجمن حمایت اسلام لاہور، پنجاب کے مسلمانوں کا تعلیمی اور ملّی ادارہ تھا، لہٰذا اس کے پلیٹ فارم سے رسمی اور روایتی شاعری کے برعکس قومی اور ملّی منظومات ہی پیش کی جاتی تھیں۔ اقبال بھی ملّی شاعری کی طرف مائل و متوجہ ہوتے گئے۔ اُنھوں نے انجمن کے سالانہ جلسوں میں جو نظمیں پڑھیں ان میں ’نالۂ یتیم‘ (۱۹۰۰ئ) ’یتیم کا خطاب ہلال عید سے‘ (۱۹۰۱ئ)، ’اسلامیہ کالج کا خطاب پنجاب سے‘ (۱۹۰۲ئ) ’ابرِ گوہربار یا فریادِ امت‘ (۱۹۰۳ئ) ’تصویرِ درد‘ (۱۹۰۴ئ) ’شکوہ‘ (۱۹۱۱ئ) ’شمع و شاعر‘ (۱۹۱۲ئ) ’خضرِ راہ‘ (۱۹۲۲ئ) ’طلوعِ اسلام‘ (۱۹۲۳ئ) قومی، ملّی اور اسلامی موضوعات سے متعلق ہیں۔ اس نوع کی نظم نگاری میں زیادہ تر انجمن کے تقاضوں اور اقبال کے ملّی جذبات و احساسات کو دخل تھا۔ غزل کی رسمی شاعری کو خیرباد کَہ کر ایک نئی روش اختیار کرنا، اقبال کی ایک اجتہادی کاوش تھی۔ یوں تو اقبال کی متعدد غزلیں، اخبارات و جرائد میں چھپ چکی تھیں مگر مخزن کے پہلے شمارے (اپریل ۱۹۰۱ئ) میں ’’ہمالہ‘‘ کی اشاعت سے ’’نئے انداز کی نظموں اور غزلوں کی اشاعت کا سلسلہ جاری ہوگیا‘‘۔۲؎ ’’ہمالہ‘‘ کی اشاعت نوخیز شاعر کی شعر گوئی کی شاندار تمہید ثابت ہوئی۔ انگریزی شعروادب کے مطالعے کا سلسلہ، دورانِ تعلیم شروع ہوا تھا، اب گورنمنٹ کالج میں انگریزی کے اڈیشنل پروفیسر مقرر ہوئے تو اس مطالعے میں وسعت اور عمق پیدا ہوا، جس نے اُن کی شاعری پر باعتبارِ خیالات اور باعتبارِ فن، دونوں طرح گہرا اثر ڈالا۔ اس دور کی متعدد نظمیں کسی نہ کسی حیثیت میں بعض مغربی شعرا مثلاً ٹینی سن، لانگ فیلو، ایمرسن اور ولیم کوپر وغیرہ سے ماخوذ ہیں۔۳؎ بانگِ درا کی بہت سی ۱- رویداد سترھواں سالانہ جلسہ انجمن حمایت اسلام:ص۲۰۰ ۲- اُردو دائرہ معارفِ اسلامیہ: ج۳، ص۹ ۳- اقبال کے ذاتی ذخیرۂ کتب میں، جو بعد میں اسلامیہ کالج لاہور کو منتقل کردیا گیا، ورڈزورتھ، ٹینی سن، براؤننگ، شیلے اور تھامس گرے وغیرہ کے شعری مجموعے موجود ہیں، ان میں سے بیشتر انیسویں صدی کے مطبوعہ ہیں۔ قرینِ قیاس ہے کہ دورانِ تعلیم و تدریس، یہ سب اُن کے زیر مطالعہ رہے ہوں گے۔ نظموں پر، ’’ماخوذ‘‘ کی صراحت موجود نہیں مگر تشبیہوں، استعاروں اور تراکیب کے علاوہ اپنے اُسلوبِ فکر و بیان کے لحاظ سے بھی، یہ انگریزی شاعری سے متأثر معلوم ہوتی ہیں۔ ورڈز ورتھ سے اقبال کی اثر پذیری کا اندازہ ان کے اس اعتراف سے لگایا جاسکتا ہے: ]Wordsworth[ saved me from atheism in my student days. ۱؎ اسی لیے مظاہر فطرت کو اقبال کے دورِ اوّل کی شاعری میں خاص اہمیت حاصل ہے۔۲؎ وہ مخزن کے مستقل لکھنے والوں میں سے تھے اور اُنھوں نے سرعبدالقادر سے مستقلاً ’’نئے رنگ کی نظمیں‘‘ لکھ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ مغربی ادب کے مطالعے اور مخزن کے مقاصد و مزاج کے پیش نظر اگرچہ اُنھوں نے مغربی شعرا سے اثرات قبول کیے، تاہم مشرقیت کی روح، اقبال کے ہاں ہمیشہ غالب رہی۔ منشی محمد دین فوق، اقبال کے عزیز دوست تھے۔ وہ بھی اپنے اخبار پنجۂ فولاد کے لیے اقبال سے تازہ کلام کی فرمائش کرنے لگے۔ حقِ دوستی کے ساتھ، پنجۂ فولاد کے حلقۂ اشاعت میں وسعت کا خیال بھی فوق کے ذہن میں موجود ہوگا۔ بعض دیگر پرچے بھی تازہ کلام حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہوئے۔ اقبال سب کی فرمائشوں کی تعمیل سے قاصر تھے، تاہم اُن کا تازہ کلام مخزن میں اکثر و بیشتر اور پنجۂ فولاد میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتا تھا۔ مخزن میں کلامِ اقبال کے ساتھ اکثر سرعبدالقادر کے تعارفی نوٹ بھی شامل ہوتے۔ اس طرح مخزن نے اقبال کو ایک جدید نظم گو کی حیثیت سے متعارف کرانے میں مؤثر کردار ادا کیا۔ یوں انجمنِ پنجاب کی جدید شاعری کی تحریک کو، اقبال کی نظم گوئی سے، ایک بہتر سطح پر فروغ حاصل ہوا، کیونکہ منظوماتِ اقبال اپنے فکری عمق اور جمالیاتی حسن کی بدولت انجمنِ پنجاب کی قدیم منظومات سے نسبتاً زیادہ معیاری اور جاندار تھیں۔ بہر حال انجمن حمایت اسلام کے عوامی سٹیج اور مخزن کے مسلمہ ادبی مقام نے اقبال کو شہرتِ دوام عطا کی۔ ستمبر ۱۹۰۵ء میں اقبال اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ چلے گئے۔ شعر گوئی کے سلسلے میں اُس دور کا سب سے اہم واقعہ یہ ہے کہ سر عبدالقادر کی مخلصانہ کوششوں اور آرنلڈ کے دانش مندانہ فیصلے نے اقبال کو مجبور کیا کہ وہ ترکِ شعر کا اپنا ’’ارادۂ مصمم‘‘ ۳؎ تبدیل کردیں۔ اس زمانے میں یورپ کی فضا اور ۱- Stray Reflections: ص۵۴ ۲- مفصل بحث کے لیے ملاحظہ ہو: ڈاکٹر وزیر آغا کا مضمون ’’اقبال: فطرت پرستی کی ایک مثال‘‘ مشمولہ نظمِ جدید کی کروٹیں: ص۳۱-۴۰ ۳- دیباچہ بانگِ درا: ص۱۵ تہذیبی و ثقافتی اقدار کے براہ راست اور قریبی مطالعے نے اقبال کو ایک ذہنی انقلاب سے دوچار کیا۔ اس انقلاب کا اہم ترین پہلو، اُن کے قوم پرستانہ خیالات میں تبدیلی تھا۔ یہ تبدیلی ’’مغرب کی بہیمانہ زندگی اور قوم و نسل کی بنیاد پر جنگ و جدل کے خلاف ردِ عمل‘‘ ۱؎ کی مرہونِ منت تھی۔ معاشرتی اور مجلسی سطح پر نئے یورپی معاشرے، کیمبرج کے علمی ماحول، ہائیڈل برگ کی بے تکلف مجالس، جرمن خواتین اور عطیہ بیگم سے علمی مباحث نے اقبال کے قلب و ذہن پر مثبت اثرات مرتب کیے۔ یورپ کے خوب صورت قدرتی مناظر نے ان کی طبیعت پر نہایت خوش۔گوار اثر ڈالا۔ اس دور کی نظمیں تعداد میں زیادہ نہیں، مگر قیامِ یورپ کے اثرات سے ان نظموں میں، اقبال کی طبیعت کے مفکرانہ اور فلسفیانہ رُخ کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ ۱۹۰۸ء میں یورپ سے واپسی پر، چندے توقف کے بعد، اقبال نے لاہور میں وکالت شروع کی۔ اس مصروفیت سے بہت کم وقت بچتا تھا۔ انجمن کشمیری مسلمانان کے جنرل سیکرٹری۲؎ کی حیثیت سے بھی انھیں کچھ فرائض انجام دینے پڑتے تھے۔ تاہم ان کی طبیعت پر قیامِ یورپ کا ردِ عمل، اسی دور میں سامنے آیا اور وہ کسی قدر افسردگی، حرماں نصیبی، اندرونی اضطراب اور احساسِ تنہائی کی کیفیات سے دوچار ہوئے۔ یہ کیفیات بھی اقبال کے لیے تخلیقِ شعر کا محرک ثابت ہوئیں۔ یہ اقبال کی شخصیت کا اعجاز تھا کہ ان کی طبیعت نے عملاً کوئی منفی رُخ اختیار نہیں کیا۔ اُن کا خاصا وقت بے تکلف دوستوں کے ساتھ مجلس آرائی میں بسر ہوتا۔ زیادہ تر مجلس آرائی للّی لاج، اندرون بھاٹی دروازہ میں ہوتی، جس میں اقبال کے اکثر احباب شریک ہوتے اور اقبال اُن سے دادِ کلام وصول کرتے۔۳؎ لِلّی لاج کی محفلوں کے علاوہ اقبال کے متعدد دوست، اُن کے مکان واقع انار کلی، پر بھی آیا کرتے۔ برعظیم کے مختلف علاقوں سے انھیں بکثرت فرمائشیں موصول ہوتیں مگر وہ انھیں پورا کرنے سے قاصر تھے۔ البتہ انجمن حمایتِ اسلام کے جلسوں میں نظم گوئی کا جو سلسلہ، یورپ جانے پر منقطع ہوگیا تھا، دوبارہ شروع ہوا اور انجمن کے اسٹیج سے ۱۹۱۱ء میں ’’شکوہ‘‘ اور ۱۹۱۲ء میں ’’شمع و شاعر‘‘ پڑھی گئیں۔ اس دور میں، اقبال اپنے احباب میں سب سے زیادہ مولانا گرامی سے متاَثر و مستفید ہوئے۔ بعض اعتبار سے وہ اقبال کے ہم مزاج واقع ہوئے تھے۔ جب لاہور آتے تو مستقلاً اقبال کے ۱- ڈاکٹر وحید قریشی: پاکستان کی نظریاتی بنیادیں:ص۴۲ ۲- اقبال اور انجمنِ کشمیری مسلمانان: ادبی دنیا اقبال نمبر، دور ششم، شمارہ۲۴:ص۱۹۹ ۳- خواجہ عبدالوحید: اقبال ریویو، جنوری ۱۹۶۹ئ:ص۴۸ ہاں قیام کرتے۔ شب و روز دونوں میں علمی گفتگو رہتی، شعری رموز و نکات پر بحث ہوتی، ایک دوسرے کے اشعار نقد و انتقاد کی کسوٹی پر پرکھے جاتے، باہمی شعر گوئی اور مباحثوں کی ان نشستوں میں اقبال اور گرامی کئی کئی روز منہمک رہتے۔ مختصر یہ کہ گرامی کی شخصیت اور صحبت بھی، اقبال کی شعری تخلیق اور ان کے شاعرانہ ارتقا میں اہمیت رکھتی ہے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب وہ اپنی معرکہ آرا فارسی تصانیف اسرارِ خودی، رموزِ بے خودی، پیامِ مشرق اور زبورِ عجم کی تالیف و ترتیب میں مشغول تھے۔ اس زمانے میں اقبال نے سیّد سلیمان ندوی، مولانا حبیب الرحمن شروانی اور عبدالماجد دریا بادی سے بھی مشورہ۱؎ کیا لیکن زبان و محاورے کی باریکیوں اور شعری غوامض کے سلسلے میں وہ، گرامی کی رائے کو زیادہ صائب سمجھتے تھے۔۲؎ اب اقبال کی شاعری اس مرحلے تک آپہنچی تھی کہ انھیں کسی حوصلہ افزائی یا داد و تحسین کی ضرورت نہ تھی۔ ایک شاعر کی حیثیت سے وہ شہرت و نام وَری کی ہر تمنا سے بے نیاز ہوچکے تھے۔ ترنم سے پڑھنا تقریباً ترک کرچکے تھے۔ شعر سنانے کی فرمائش عموماً ٹال دیتے۔ اس دور میں، اُن کے ہاں بڑے تواتر اور تسلسل کے ساتھ یہ اظہار ملتا ہے کہ میں شاعر ہوں اور نہ مجھے فنِ شاعری سے کوئی دلچسپی ہے۔ وہ مذہبی اور اخلاقی مقاصد کو اوّلین اہمیت دینے لگے اور شاعری ثانوی حیثیت اختیار کرگئی۔ قارئین کے خیالات میں انقلاب پیدا کرنا، اقبال کی سخن گوئی کا مقصد ٹھہرا۔ نسبتاً بعد کے دور میں، اُن کے کلام میں شاعرانہ تخیل اور رنگینیِ بیان کی کمی کا شکوہ کیا گیا، تو فرمایا: جو پیغام میں دینا چاہتا ہوں، وہ اب میرے لیے بالکل واضح ہوگیا ہے۔ میں عربی شاعری کی روش پر بالکل صاف صاف اور سیدھی سیدھی باتیں کَہ رہا ہوں۔۳؎ مطلق شعر گوئی کو اُنھوں نے اپنے لیے ایک ’’تہمت‘‘ ۴؎ قرار دیا۔ اب اقبال کے لیے خصوصاً عمر کے آخری برسوں میں، سب سے بڑا محرکِ شعر وہ سوز و ساز، پیچ و تاب، دردمندی اور سب سے بڑھ کر وہ جذبۂ اضطراب تھا، جس سے اقبال کا دل و دماغ، مستقلاً دوچار رہا۔ بقول حکیم احمد شجاع: ۱- اقبال نامہ، اوّل: صفحات۵،۸۶ -۹۷، ۱۰۱، ۱۰۳ -۱۰۹، ۱۲۷، ۲۳۶ ۲- اقبال خود اس امر کے معترف تھے۔ گرامی سے مشوروں کے بارے میں تفصیلی بحث ملاحظہ کیجیے: مکاتیبِ اقبال بنام گرامی: ص۷۱-۸۱ ۳- روایت غلام رسول مہر: اقبال کی شخصیت اور شاعری: ص۷۶ ۴- زبورِ عجم میں ہے: نہ بینی خیر، ازاں مردِ فرو دست (ص۱۴۶) کہ بر من تہمتِ شعر و سخن بست (ص۱۴۶) ان کے چہرے پر اکثر فکر و تردّد کے آثار نظر آتے تھے اور کبھی کبھی، ان آثار میں اس درد و کرب کی گہری لکیریں بھی دکھائی دینے لگی تھیں، جنھیں وہ اپنے صبر و ضبط سے اپنے ہم نشینوں پر ظاہر نہ کرنا چاہتے تھے۔۱؎ اقبال کے ’’دنوں کی تپش‘‘ اور ’’شبوں کے گداز‘‘ کی غرض و غایت اسی ایک نکتے پر مرکوز ہوگئی تھی کہ نئی نسل کے ذہنوں کو اُن انقلاب انگیز خیالات سے منوّر کیا جائے، جو اُن کی شاعری کی اساس ہیں۔ دوست احباب کے ساتھ محفل آرائی اب بھی ہوتی تھی، ان محفلوں میں شعر و شاعری کے علاوہ علمی و ادبی اور سیاسی و معاشرتی مسائل زیر بحث آتے اور ظریفانہ خوش گپیاں بھی ہوتیں مگر اپنے وسیع حلقۂ احباب، اپنی تمام تر شہرت و مقبولیت اور غیر معمولی عزت و اکرام کے باوجود، ایک احساسِ تنہائی نے اُنھیں ہمیشہ ہی، خصوصاً عمر کے آخری برسوں میں، بے چین رکھا۔ ارمغانِ حجاز میں یہ تاَثر زیادہ شدت کے ساتھ موجود ہے۔ یہ ملّی احساس، سوز و اضطراب اور احساسِ تنہائی، اقبال کے آخری دور میں اُن کی شعر گوئی کا ایک اہم محرک رہا۔ اپنے ہم عصروں میں اقبال کو، اکبر کے طرزِ احساس نے متاثر کیا۔۲؎ اپنے خطوط میں وہ ذہنی اور فکری طور پر اکبر الٰہ آبادی کے ساتھ حد درجہ قریب و ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔ کسی اور ہم عصر کے ساتھ اقبال کی ایسی فکری یک جہتی اور نظریاتی یگانگت نظر نہیں آتی۔ ابتدائی دور میں ایک مختصر عرصے کے لیے اُنھوں نے اکبر کے اُسلوب کا تتبع بھی کیا، مگر اسے موزوں نہ پاکر جلد ترک کردیا۔ تاہم اقبال کی شاعری، اکبر ہی کے ندرتِ فکر کا ایک سنجیدہ اور نسبتاً عمیق نقش ہے۔ حالی کی درد مندی اور مقصدیت نے بھی اقبال کو متاَثر کیا تاہم حالی کی افسردگی اور کسی قدر مایوسی کے برعکس، اقبال کے ہاں رجائی لہجہ غالب ہے۔ اس طرح یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مغرب کے خلاف ایک مثبت ردِ عمل اور اسلامی نشاتِ ثانیہ کی آرزو، زندگی کے ہر دور میں، اقبال کی شعر گوئی کا سب سے بڑا محرک رہی۔ تخلیقِ شعر کے محرکات اور شعر گوئی کا جو پس منظر، اُوپر کی سطور میں بیان کیا گیا ہے، ان محرکات اور اس پس منظر میں اقبال کی شاعری جس طرح ارتقا پذیر ہوئی، اس کے نتیجے میں اُردو کلام کے تین مکمل (بانگِ درا، بالِ جبریل، ضربِ کلیم) اور ایک نصف شعری مجموعہ (ارمغانِ حجاز) تیار ہوا۔ آئندہ صفحات میں ان اُردو مجموعوں کی ترتیب و تدوین، طباعت و اشاعت اور صحتِ متن کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے گا۔ ۱- نقوش، نمبر ۱۰۸، ستمبر ۱۹۶۷ئ:ص۲۰ ۲- ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار لکھتے ہیں: ’’اکبر کا کلام معجز رقم بھی اقبال کے لیے محرکِ فکر (inspiration) کا کام دیتا تھا۔‘‘ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے: اکبر اور اقبال: ص۷ -۵۸ ئ……ئ……ء (ب) اُردو کلام کے مجموعے ژ بانگِ درا گذشتہ صفحات میں ذکر آچکا ہے کہ انجمن حمایت اسلام کے جلسوں اور مخزن کے ذریعے اقبال کی شاعرانہ شہرت، خوش بو بن کر پورے برعظیم میں پھیلی۔ اس کے نتیجے میں شائقین، اپنے اپنے طور پر، ان کا کلام جمع کرنے لگے۔۱؎ متعدد اصحاب کو اشاعتِ کلام کا خیال پیدا ہوا، مگر حقوقِ اشاعت کے معاملے میں اقبال خاصا سخت نقطۂ نظر رکھتے تھے۔۲؎ اس کی متعدد وجوہ تھیں: ایک تو یہ کہ بقولِ اقبال: ’’لوگ تجارتی اغراض کو ملحوظ رکھتے ہیں اور اس بات کی مطلق پروا نہیں کرتے کہ شعر غلط چھپا ہے یا صحیح؟‘‘ ۳؎ دوسرے یہ کہ علامہ اقبال اپنے کلام کی مکرر اشاعت سے پہلے اس پر نظر ثانی ضروری سمجھتے تھے۔ تیسرے یہ کہ ان کی گذر اوقات کا ایک اہم ذریعہ کتابوں کی رائلٹی تھا، خصوصاً آخری سالوں میں، ۴؎ اس لیے ہر کہ ومہ کو اشاعتِ کلام کی اجازت نہیں دی جاسکتی تھی۔ ۱- ملاحظہ کیجیے: (الف) باقیاتِ اقبال، طبع اوّل: ص۵،۷ (ب) روزگارِ فقیر، دوم: ص۲۱۵ (ج) نقشِ اقبال (عبدالواحد معینی): ص۷۰ ۲- محمد دین فوق کو ایک بار لکھا: ’’اگر کوئی میرا کلام میری اجازت کے بغیر چھاپے تو اس پر دعویٰ کردیا جائے۔‘‘ (انوارِ اقبال: ص۶۳) عبدالمجید سالک نے بلااجازت اقبال کی نظم شائع کی تو انھیں قانونی نوٹس بھیج دیا۔ (یارانِ کہن: ص۳۲-۳۳) مزید برآں شیخ اعجاز احمد کے دوست مشتاق صاحب کو اُردو کلام کا مجموعہ شائع کرنے کی اجازت نہیں ملی۔ (روزگارِ فقیر، دوم: ص۲۱۸)۔ ۳- انوارِ اقبال: ص۶۳ ۴- ۱۷-۱۹۱۶ء سے وفات تک، اقبال کو جو مجموعی آمدنی ہوئی، اس کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ وکالت کے بعد، ان کا سب سے بڑا ذریعۂ آمدنی کتابوں کی رائلٹی تھا۔ یہ رقم (-/۶۲۹۶۷ روپے) وکالت سے آمدنی کی رقم کے نصف سے کسی قدر زائد ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے: صفدر محمود کا مضمون ’’علامہ اقبال کا گوشوارۂ آمدنی‘‘: صحیفہ اقبال نمبر، حصہ اوّل، اکتوبر ۱۹۷۳ئ:ص۱۳تا ۵۱)۔ ترتیبِ اشعار کا خیال ۱۹۰۳ء ہی سے ان کے ذہن میں موجود تھا،۱؎ مگر جلد ولایت چلے گئے۔ واپسی پر تدریسی اور قانونی مشاغل میں، پھر اسرارِ خودی اور بعد ازاں رموزِ بے خودیکی ترتیب میں مصروف رہے۔ اس عرصے میں اُردو کلام کی اشاعت کے لیے اقبال کے احباب اور شائقین کا اصرار جاری رہا۔ عطیہ فیضی کے نام ۷؍اپریل ۱۹۱۰ء کے مکتوب میں لکھتے ہیں: I have been receiving letters from various parts of the country to bring out my poems in book form. ۲؎ تاہم ایک عرصے تک ترتیبِ کلام کے سلسلے میں عملی پیش رفت نہ ہوسکی۔ یہ امر بھی، کسی حد تک، باعثِ تاخیر ہوا کہ اُردو کلام کی مقدار کم تھی۔۳؎ ۱۹۲۱ء میں اقبال سنجیدگی سے اُردو کلام کی ترتیب کی طرف متوجہ ہوئے۔ مسوّدے کی تدوین میں چودھری محمد حسین نے بہت ہاتھ بٹایا۔۴؎ اور فروری ۱۹۲۴ء میں مسوّدہ کاتب کے حوالے کردیا گیا۔۵؎ متنِ کلام کی کتابت تو جولائی میں مکمل ہوگئی، مگر دیباچے کی کتابت اور طباعتِ کتاب میں کئی ہفتے صَرف ہوگئے۔۶؎ بالآخر ۳؍ستمبر ۱۹۲۴ئ۷؎ کو بانگِ درا کا پہلا اڈیشن۸؎ منظرِ عام پر آیا۔ یہاں یہ وضاحت مناسب ہوگی کہ فقیر سیّد وحید الدین نے Iqbal in Pictures میں بانگِ درا کے سرورق کا جو عکس دیا ہے، اس کے نیچے لکھا ہے: Title page of First Edition of 'Bang-i-Dara'۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ اس غلط فہمی کے ازالے کے لیے ہم طبع اوّل کا عکسِ سرورق دے رہے ہیں (دیکھیے آئندہ صفحہ)۔ ۱- اقبال نامہ، اوّل: ص۲۱ ۲- Letters to Atiya: ص۶۸ ۳- اقبال نامہ، اوّل: ص۲۱ ۴- اقبال کی صحبت میں: ص۱۲۹ ۵- مکاتیبِ اقبال بنام نیاز: ص۴۹ ۶- کتابِ مذکور: ص۵۰ ۷- میاں نظام الدین کو پیش کردہ نسخے پر ’’محمد اقبال ۳ستمبر ۱۹۲۴ئ‘‘ درج ہے (بحوالہ: اوراقِ گم گشتہ: ص۱۳۸) پروفیسر آرنلڈ کو پیش کردہ نسخے پر بھی یہی تاریخ درج ہے (روایت: علی سردار جعفری در: فکر اقبال مرتبہ عالم خوندمیری، مغنی تبسم، حیدرآباد، ۱۹۷۷ئ، ص۶۶) ۸- پہلے اڈیشن کی پرنٹ لائن میں ’’اشاعتِ اوّل‘‘ کے الفاظ درج نہیں اس لیے یہ ظاہر (بقیہ آئندہ صفحے پر) بانگِ درا طبع اوّل کا عکس بانگِ دراکی تدوین کے موقع پر، اقبال کے پاس اپنا پورا کلام محفوظ و موجود نہیں تھا۱؎ کیونکہ ریکارڈ رکھنا، اُن کے لیے خاصا مشکل تھا۔ مطبوعہ کلام کے علاوہ بہت سا غیر مطبوعہ کلام، اُن کے احباب اور شائقین کے پاس تھا۔۲؎ چنانچہ احباب کی بیاضوں سے مدد لی گئی۔ بانگِ درا کی اشاعت سے پہلے مولوی احمد دین کی تصنیف اقبال چھپ کر آگئی تھی جس میں اُردو کلام کا معتدبہ حصہ شامل تھا۔ اقبال نے اسے پسند نہیں کیاچنانچہ احمد دین صاحب نے کتاب ضائع کردی۔ ۱۹۲۴ء میں حیدر آباد دکن سے مولوی عبدالرزاق راشد نے کلیاتِ اقبال شائع کی۔ اس بلااجازت اور غیر قانونی اشاعت کے خلاف قانونی چارہ جوئی آسان نہ تھی کیونکہ دکن میں برطانوی قانونِ تحفظِ اشاعت لاگو نہ ہوتا تھا۔ بالآخر سر اکبر حیدری کے توسط سے کتاب کی فروخت، دکن تک محدود کردی گئی۔۳؎ بانگِ درا کی بیشتر نظمیں اور غزلیں، اخبارات و رسائل میں شائع ہوچکی تھیں۔ نظموں کے ابتدائی متن سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نے ترتیب کتاب کے وقت خاصی ترمیم و تنسیخ سے کام لیا۔ کئی مصرعوں اور اشعار کو بہتر بنایا۔ متعدد بند خارج کیے اور بعض نئے بندوں کا اضافہ کیا۔۴؎ ۱۹۰۱ء سے پہلے کی کوئی نظم یا غزل بانگِ درا میں شامل نہیں کی۔ زیادہ تر ترمیم و اصلاح ۱۹۰۸ء تک کے کلام میں کی گئی۔ اپنے تیسرے دور کے کلام میں اقبال نے نسبتاً کم ترمیم کی ہے۔ ترمیم و اصلاح کا یہ سلسلہ اُنھوں نے بانگِ درا کی ترتیب سے پہلے ہی شروع کردیا تھا۔ ’’شکوہ‘‘ مطبوعہ مرغوب ایجنسی لاہور کے نسخے کا متن، اِس نظم کے اوّلین متن سے مختلف ہے۔ سرورق پر وضاحت درج ہے کہ یہ نسخہ (بقیہ گذشتہ صفحہ) نہیں ہوتا کہ یہ نسخہ، پہلے اڈیشن کا ہے… اس کا کاغذ، وقت کے ساتھ خستہ ہوچکا ہے اور تَہ کرنے سے ٹوٹ جاتا ہے۔ اس کے اندر واٹر مارک میں یہ عبارت نظر آتی ہے: Rose Brand - Manufactured by Allah Diya and Sons, Lahore and Delhi۔ طبع اوّل کے کتابیاتی کوائف کے لیے ملاحظہ کیجیے: ضمیمہ نمبر۱ ۱- (الف) خطوطِ اقبال: ص۱۲۹ (ب) مکاتیبِ اقبال بنام نیاز: ص۸ ۲- (الف) باقیاتِ اقبال،طبع اوّل: ص۵ (ب) روزگارِ فقیر، دوم: ص۲۱۵ ۳- تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے: (الف) انوارِ اقبال: ص۳۱-۳۲ (ب) کلیاتِ اقبال کی سرگذشت از عبدالواحد معینی، مشمولہ: نقشِ اقبال: ص۶۵-۸۴ ۴- مفصل مطالعے کے لیے دیکھیے: اصلاحاتِ اقبال از محمد بشیر الحق دسنوی۔ ’’مصنف موصوف کی نظرثانی‘‘ کے بعد چھاپا گیا ہے۔ اس میں دو تین مقامات ایسے ہیں، جہاں اقبال نے بانگِ درا مرتب کرتے وقت پھر ترمیم کی۔ یہ سب ترامیم و اصلاحات، اقبال کے تنقیدی شعور اور انتخابی ذہن پر دلالت کرتی ہیں۔۱؎ پہلے اڈیشن کے سرورق پر ’’جملہ حقوق مع حق ترجمہ محفوظ‘‘ کے الفاظ درج ہیں۔ کلیاتِ اقبال (دکن) کے قضیے کے پس منظر میں یہ الفاظ اہم ہیں۔ دیباچہ، سر عبدالقادر نے لکھا کیونکہ بانگِ درا کی دیباچہ نویسی کے لیے، اقبال انھی کو سب سے زیادہ موزوں سمجھتے تھے۲؎ اور یہ بات ۱۹۱۰ء ہی سے ان کے ذہن میں موجود تھی۔۳؎ اشاعتِ اوّل میں کتابت یا املا کی متعدد اغلاط موجود ہیں، مثلاً: صفحہ سطر غلط صحیح ۵۴ ۳ مزرعۂ مزرعِ ۷۸ ۸ ستم کیلئے ستم کے، لیے ۱۲۲ ۳ تیری تری ۱۳۱ ۷ خجستہ کام خجستہ گام ۱۴۰ ۷ سعدی سُعدیٰ ۱۸۴ ۷ کیلئے دل تونے کے، لیے دل تونے ۱۸۸ ۵ آئینے آئنے ۱۸۹ ۳ آئینے آئنے ۲۴۶ ۵ زبان زباں ۲۷۷ ۴ دیبانتواں یافت دیبانتواں بافت دوسری بار بانگِ درا کو خطِ نسخ میں چھاپنے کی تجویز ہوئی۔ ڈاکٹر ذاکر حسین نے ۱۹۲۵ء میں ۱- بانگِ درا مرتب کرتے وقت اقبال نے اپنے کلام میں جو ترمیم و تنسیخ کی ہے، اس کے پیشِ نظر سر عبدالقادر کی یہ راے کتنی عجیب لگتی ہے کہ: ’’علامہ نے غالب کی طرح اشاعت کے لیے اپنے کلام کا انتخاب نہیں کیا تھا‘‘۔ (باقیاتِ اقبال، طبع اوّل: ص۷)۔ ۲- روایت عاشق حسین بٹالوی: چند یادیں، چند تاَثرات: ص۴۷ ۳- عطیہ بیگم کے نام ۷ ؍اپریل ۱۹۱۰ء کے خط میں اس امر کی طرف واضح اشارہ ملتا ہے۔ برلن سے دیوانِ غالب کا منقّش اڈیشن شائع کرنے کے بعد بانگِ درا کا ایسا ہی نسخہ چھاپنے کا ارادہ ظاہر کیا، مگر اقبال کا ذوق، نستعلیق کو نسخ پر قربان کرنے کے لیے تیار نہ تھا، اس لیے یہ تجویز روبعمل نہ آسکی۔۱؎ دو برس بعد، ستمبر ۱۹۲۶ء میں دوسرا اڈیشن نستعلیق ہی میں شائع ہوا۔۲؎ اس کے متن میں مندرجہ ذیل مقامات پر ترامیم ملتی ہیں: صفحہ سطر اشاعت اوّل اشاعت دوم ۶۷ ۴ تری ظلمت میں، میں۔َ روشن چراغاں… تری تاریک راتوں میں چراغاں… ۹۰ ۱ یعنی یہ لیلیٰ وہاں بے پردہ… لیلیِ معنی وہاں بے پردہ… ۹۱ ۱ آہ، اے بیتُ الحرام مذہبِ اہلِ سخن اے جہاں آباد، اے سرمایۂ بزمِ سخن ۹۱ ۲ یعنی خالی داغ سے… آہ، خالی داغ سے… ۱۶۳ ۳ یہ قمر جو ناظمِ عالم کا… چاند جو صورت گرِ ہستی کا… ۱۶۳ ۳ پہنے سونے کی قبا… پہنے سیمابی قبا… ۲۱۴ ۱۲ نگہتِ خوابیدہ… نکہتِ خوابیدہ… ۲۷۴ ۱۰ مگر فطرت تری رخشندہ اور… مگر فطرت تری افتندہ اور… متنِ کلام میں ص ۲۴۶ کی غلطی کی اصلاح ہوگئی ہے، باقی تمام اغلاطِ کتابت جوں کی توں موجود ہیں۔ مزید برآں مندرجہ ذیل نئی غلطیاں بھی روپذیر ہوگئی ہیں: صفحہ سطر غلط صحیح ۶۶ ۳ مصبیت مصیبت ۲۷۶ ۱۰ حمعیت جمعیتِ تیسرا اڈیشن چار سال کے وقفے سے ۱۹۳۰ء میں شائع ہوا۔ اس بار اقبال نے متن میں کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کی، صرف دیباچے میں، علامہ میر حسن کے بارے میں، حاشیے میں اس عبارت کا اضافہ کیا گیا ہے: ’’۲۵؍ستمبر ۱۹۲۹ء کو حضرت کا وصال ہوگیا ہے‘‘۔ اشاعتِ سوم کے ۱- مکتوباتِ اقبال: ص۴ ۲- اس اڈیشن میں دیباچے کے بعد اور متنِ کتاب سے پہلے، علامہ اقبال کی ایک تصویر بھی لگائی گئی ہے۔ پہلے اڈیشن کے برعکس اس اڈیشن کا کاغذ مضبوط اور پائدار ہے۔ کتابیاتی کوائف کے لیے ضمیمہ نمبر۱ ملاحظہ کیجیے۔ سلسلے میں سب سے زیادہ تعجب انگیز بات یہ ہے کہ اس میں، اشاعتِ دوم کی ترمیمات کو نظر انداز کردیا گیا۔ متن کے بغور مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ تیسرے اڈیشن کی کتابت کے لیے خوش۔نویس کو، دوسرے اڈیشن کے بجاے پہلا اڈیشن دے دیا گیا اور اسے جوں کا توں کتابت کراکے چھاپ دیا گیا۔ تیسرے اڈیشن کی تیاری اور طباعت کے موقع پر، دوسرے اڈیشن کی ترامیم نہ معلوم اُن کے ذہن سے کیوں محو ہوگئیں۔ بہرحال اشاعتِ دوم کی متذکرہ بالا آٹھ ترامیم، اشاعتِ سوم میں نظر نہیں آتیں۔ پہلے اور دوسرے اڈیشن کی بیشتر اغلاطِ کتابت بھی بدستور موجود ہیں۔ ص۱۳۱ کی غلطی درست کردی گئی ہے، مگر تین نئی اغلاط رونما ہوگئی ہیں: صفحہ سطر غلط صحیح ۵۵ ۶ ٹپکتی ہوں پٹکتی ہوں ۸۹ ۱۰ جہان آباد جہاں آباد ۲۷۷ ۳ خرمانتواں بافت خرمانتواں یافت علامہ اقبال کی وفات کے بعد اُن کے شعری مجموعوں کی اشاعت و طباعت چودھری محمد حسین ایم اے کی زیر نگرانی ہونے لگی۔ چنانچہ بانگِ درا کا چوتھا اڈیشن جون ۱۹۳۹ء میں چودھری صاحب کی نگرانی میں شائع ہوا۔ یہ اڈیشن اس اعتبار سے اہم ہے کہ اسی اڈیشن کی پلیٹیں محفوظ کرلی گئیں۔۱؎ اور کلیاتِ اقبال (فروری ۱۹۷۳ئ) کی اشاعت سے پہلے بانگِ درا کے تمام اڈیشن انھی پلیٹوں سے چھاپے گئے۔ خوش قسمتی سے اشاعتِ چہارم میں دوسری اشاعت کا متن اختیار کیا گیا۔ چنانچہ تیسری اشاعت کے موقع پر، جو آٹھ ترامیم نظر انداز ہوگئی تھیں، چوتھے اڈیشن میں، اُن کی بنیاد پر، متن صحیح صورت میں شائع ہوا… سواے ایک مقام کے، جہاں اشاعتِ دوم کی ترمیم (تری افتندہ اور…) کو اختیار نہیں کیا گیا بلکہ پہلے اڈیشن ہی کے متن (تری رخشندہ اور…) کو رہنے دیا گیا… خدا جانے کیوں؟ …اس اڈیشن میں صفحات ۵۴،۵۵،۷۸، ۸۹، ۱۲۲، ۱۸۴،۱۸۸،۱۸۹ اور ۲۴۶ کی غلطیاں بدستور موجود ہیں۔ صفحہ ۱۴۰ اور ۲۷۷ کی اغلاط درست کردی گئی ہیں مگر صفحہ ۱۰۲ پر ایک نئی غلطی رو پذیر ہوگئی ہے۔ ۱- اس لحاظ سے ڈاکٹر جاوید اقبال کا یہ بیان کہ: ’’کلام اقبال کے اب تک جتنے اڈیشن شائع ہوئے، وہ سب کے سب انھی پلیٹوں سے طبع ہوتے رہے ہیں، جنھیں حضرت علامہ مرحوم نے خود اپنی نگرانی میں تیار کروایا تھا‘‘ (دیباچہ کلیاتِ اقبال: صفحہ ۵) غلط فہمی پر مبنی ہے۔ سطر غلط صحیح ۳ ہفتاد دو ملت ہفتاد و دو ملت بعد کی اشاعتوں میں اسی چوتھے اڈیشن کی پلیٹوں کو حسب ضرورت سنگ سازی کے بعد، استعمال کیا جاتا رہا۔ ۱۹۳۹ء سے ۱۹۷۲ء تک بانگِ درا کوئی انتیس مرتبہ چھپی۔۱؎ جس میں ۱۹۴۹ء تک کی اشاعتیں، چودھری محمد حسین صاحب کی نگرانی میں ہوئیں، مگر اغلاطِ کتابت کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی، چنانچہ صفحات: ۷۸، ۸۹، ۱۲۲،۱۸۴،۱۸۸،۱۸۹ اور ۲۴۶ کی محولہ بالا اغلاط، بعد کے اڈیشنوں میں بھی بدستور موجود ہیں۔ البتہ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض اوقات کسی سنگ ساز نے بزعمِ خویش، کتابت کی ایک غلطی درست کرنے کی کوشش کی ہے، چنانچہ صفحہ ۲۸۳ پر ’’آئنۂ عارض‘‘ (صحیح) کو ’’آئینۂ عارض‘‘ (غلط) بنا دیا گیا۔ غالباً محض اس قیاس کی بنیاد پر کہ، اس نظم میں پانچ سات جگہ ’’آئینہ‘‘ ہے تو یہاں بھی ’’آئنہ‘‘ کے بجائے ’’آئینہ‘‘ ہونا چاہیے۔ ژ بالِ جبریل بانگِ دار کی اشاعت (۱۹۲۴ئ) کے بعد، مسلسل کئی برس تک، اقبال کی زیادہ تر توجہ فارسی کی طرف رہی۔۲؎ اس دوران میں بانگِ درا بار بار کثیر تعداد ۳؎ میں اشاعت پذیر ہوکر اُردو قارئین کے لیے تسکینِ ذوق کا سامان فراہم کرتی رہی، تاہم شائقین، نئے مجموعے کی اشاعت کے لیے مسلسل مصر اور منتظر رہے۔۴؎ اسی اصرار کے پیشِ نظر اقبال نے نیا اُردو مجموعہ مرتب کرلیا۔ قبل ازیں ۱۹۲۹ء میں پیامِ مشرق کا تیسرا اڈیشن مطبع جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں طبع ہوا تھا۔ اب جامعہ والے نیا اُردو شعری مجموعہ بھی چھاپنا چاہتے تھے۔ اقبال اس پر رضامند تھے۔ اُنھوں نے سیّد نذیر نیازی ۱- بعد کی اشاعتوں کے کتابیاتی کوائف کے لیے ملاحظہ کیجیے: ضمیمہ نمبر۱ ۲- یکے بعد دیگرے فارسی کے چار شعری مجموعے شائع ہوئے: (۱) زبورِ عجم: ۱۹۲۷ئ۔ (۲) جاوید نامہ: ۱۹۳۲ئ۔ (۳) مسافر: ۱۹۳۴ئ۔ (۴) مثنوی پس چہ باید کرد: ۱۹۳۶ئ۔ ۳- پہلی تین اشاعتوں کے نسخوں کی تعداد: اٹھارہ ہزار۔ ۴- مکتوباتِ اقبال: ص۱۶۳،۱۸۷ صاحب کو اختیار۱؎ دیا کہ وہ ناشر سے معاملہ طے کرلیں۔ اس اثنا میں ۹؍ستمبر ۱۹۳۴ء کو اُردو مجموعے کی کتابت شروع ہوگئی۔ نئے اُردو مجموعے کا نام نشانِ منزل۲؎ تجویز ہوا اور مسوّدے کے سرورق پر بھی یہی نام لکھا گیا مگر بعد میں اقبال نے محسوس کیا کہ بالِ جبریل زیادہ موزوں ہے، چنانچہ اُنھوں نے مسوّدے پر نشانِ منزل کو قلم زد کرکے بالِ جبریل لکھ دیا۳؎ …اشاعت کے سلسلے میں جامعہ ملیہ سے تو معاملہ طے نہ ہوسکا، البتہ تاج کمپنی لاہور سے معاہدہ ہوگیا۔ پہلے خیال تھا کہ مجموعہ ۱۹۳۴ء ہی میں چھپ جائے گا، اس لیے مسوّدے کی پرنٹ لائن میں ’’اشاعت اوّل: ۱۹۳۴ئ‘‘ کے الفاظ ملتے ہیں، مگر عملاً کتاب، جنوری ۱۹۳۵ء کے پہلے عشرے میں منظرِ عام پر آئی۔۴؎ تعدادِ اشاعت کے بارے میں مسوّدے میں اقبال کی تحریر میں ’’پانچ ہزار‘‘ کے الفاظ درج ہیں، پھر کسی نے پانچ کے گرد، دائرہ بناکر تین لکھ دیا،۵؎ مگر جیسا کہ طبع اوّل پر صراحت موجود ہے، کتاب دس ہزار کی تعداد میں چھاپی گئی۔ بانگِ درا کے برعکس بالِ جبریل، بغیر کسی تمہید کے شائع ہوئی۔ غالباً اقبال نے محسوس کیا کہ ان کی شاعری، فکر و فن کے اس معیار و مرحلے تک پہنچ چکی ہے کہ اب نئے مجموعے کے آغاز میں کسی پس منظر، تعارف یا توضیح کی ضرورت نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بالِ جبریل کے بعد کے کسی بھی شعری مجموعے میں کوئی نثری دیباچہ یا تمہید موجود نہیں۔ پہلے اڈیشن کی کتابت خاص اہتمام سے کرائی گئی۔ تاہم اس میں کتابت کی مندرجہ ذیل اغلاط نظر آتی ہیں: صفحہ سطر غلط صحیح ۸ ۹ خذف خزف ۱- مکتوباتِ اقبال: ص۱۵۳،۱۸۷ ۲- کتابِ مذکور: ص۱۸۷ ۳- ملاحظہ کیجیے: سرورق قلمی مسوّدہ بالِ جبریل نمبر A/M-1977-88 مخزونہ اقبال میوزیم، لاہور۔ ۴- مکتوباتِ اقبال ص۲۴۴۔ ۹؍جنوری ۱۹۳۵ء کے خط میں نذیر نیازی اطلاع دیتے ہیں کہ بال جبریل چھپ کر شائع ہوگئی ہے۔ (ایضاً، طبع اوّل، ص۲۴۲)۔ بیگم صاحبہ بھوپال کو پیش کردہ نسخے پر ۲۸؍جنوری ۱۹۳۵ء کی تاریخ درج ہے۔ (اقبال نامے از اخلاق اثر، ص۲۳) ۵- ملاحظہ کیجیے: سرورق قلمی مسوّدہ بالِ جبریل نمبر A/M-1977-88 مخزونہ اقبال میوزیم، لاہور۔ صفحہ سطر غلط صحیح ۱۹ ۳ لااِلٓہَ لَآ اِلٰہَ ۲۷ ۳ میرے مرے ۳۳ ۶ نو برگِ تو برگِ ۳۳ ۱۱ قرآن قرآں ۴۱ ۸ فرفاں فرقاں ۵۴ ۳ رو رو ہوکے رو روکے ۶۸ ۱۱ لَااِلٓہَ لٓاَ اِلٰہَ ۶۹ ۵ لاْ الٓہَ الاَ اللہ لآ اِلٰہ اِلاَّ اللہ ۷۶ ۳ میری مری ۹۴ ۴ آئینہ آئنہ ۹۷ ۱۲ میرے مرے ۹۹ ۷ لاَ اِلٓہَ لآالٰہ ۱۱۱ ۲ لاَ اِلٓہَ لآالٰہ ۱۳۴ ۹ دین دیں ۱۶۱ ۱ لللہ للہ ۲۰۹ حاشیہ غفران و لزومات غفران صفحہ ۳۷ پر پہلی غزل کے تمہیدی نوٹ میں اقبال نے لکھا ہے: ’’نومبر ۱۹۳۳ء میں مصنف کو حکیم سنائی غزنویؒ کے مزارِ مقدس کی زیارت نصیب ہوئی‘‘ حالانکہ یہ واقعہ ۳۰؍اکتوبر ۱۹۳۳ء کا ہے۔۱؎ اُنھوں نے یادداشت سے کام لیتے ہوئے نومبر لکھ دیا۔ صفحہ ۲۰۹ پر متنِ کلام میں ضرورتِ شعری کے تحت اقبال نے ’’لزومات‘‘ باندھا اور حاشیے میں بھی یہی لکھ دیا۔۲؎ ۱- سیرِ افغانستان: ص۱۱۶-۱۲۹ ۲- ظ۔ انصاری کا گمان ہے کہ اقبال نے مُعرّی کا مطالعہ انگریزی یا جرمن میں کیا ہوگا اور اس طرح کتاب کے (بقیہ آئندہ صفحے پر) بالِ جبریل، اقبال کا پہلا مجموعہ تھا، جو دس ہزار کی تعداد میں شائع ہوا۔ ان کی ملک گیر شہرت اور پہلے اُردو مجموعے بانگِ درا کی متعدد اشاعتوں کے پیشِ نظر، بالِ جبریل کے پہلے ہی اڈیشن کی کثیر تعداد میں اشاعت، ایک مناسب فیصلہ تھا۔ اشاعتِ اوّل کی فروخت کے سلسلے میں اہم بات یہ ہوئی کہ شیخ مبارک علی کے بجاے یہ کتاب تاج کمپنی کو دی گئی۔ غالباً شرح کمیشن میں تفاوت کے سبب ایسا ہوا مگر تاج کمپنی سے معاملات خوش اُسلوبی سے نہ چل سکے۔۱؎ چند ماہ بھی نہ گذرے تھے کہ اقبال نے نذیر نیازی کو لکھ دیا کہ اُن کے دوست، آئندہ کتابوں کے سول ایجنٹ بن سکتے ہیں۔۲؎ گویا علامہ، تاج کمپنی سے معاملہ طے کرکے مطمئن نہ تھے۔ اقبال کی زندگی میں، بالِ جبریل کا یہی اڈیشن شائع ہوسکا۔ دوسرا اڈیشن، ان کی وفات کے بعد مئی ۱۹۴۱ء میں چودھری محمد حسین کی نگرانی میں شائع ہوا۔ اس کی کتابت نسبتاً جلی ہے۔ طبع دوم میں اشاعتِ اوّل کے صفحات ۸،۳۳،۴۱،۵۴،۱۳۴ اور ۲۰۹ کی اغلاط درست کردی گئیں، مگر صفحات ۱۹، ۲۷،۶۸،۷۶، ۶۹،۹۴،۹۷،۹۹،۱۱۱ اور ۱۶۱ کی اغلاط بدستور موجود ہیں۔ مزید برآں اس اڈیشن میں حسبِ ذیل نئی غلطیاں بھی رُو پذیر ہوگئی ہیں: صفحہ سطر غلط صحیح ۳۷ ۳ ۳۳ھ ۳۳ء ۱۱۰ ۲ مقط فقط ۱۳۱ ۲ دنیوب دینوب ۱۳۶ حاشیہ فرطبہ کا قرطبہ کا ( بقیہ گذشتہ صفحہ) نام کے صحیح تلفظ اور املا (لزومیات) سے نا آشنا رہے ہوں گے (اقبال کی تلاش میں: ص۱۱۵) ۔ یہ گمان فقط ایک بے بنیاد قیاس آرائی ہے۔ اقبال نے عربی زبان و ادب کا وسیع مطالعہ کیا تھا اور ممکن نہیں کہ لزومیات کے صحیح تلفظ سے ناواقف ہوں۔ ۱- راقم کے استفسار پر سیّد نذیر نیازی، ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی اور شیخ نیاز احمد صاحبان نے بتایا کہ غالباً بالِ جبریل کے سول ایجنٹ نے مطبع سے ساز باز کرکے، کتاب زیادہ تعداد میں چھپوالی تھی اور یہی امر خرابیِ تعلقات کا سبب بنا۔ واللہ اعلم بالصّواب۔ ۲- مکتوباتِ اقبال: ص۲۱۹ صفحہ سطر غلط صحیح ۱۴۱ ۳ ولیکں ولیکن ۱۵۵ ۶ علمِ نخیل علم، نخیل ۱۶۹ ۱ آسمالوں آسمانوں پہلے اڈیشن کی طرح، اس اڈیشن میں بھی رموزِ اوقاف اور اعراب کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ صفحہ ۱۳۷ پر نظم کے تمہیدی نوٹ میں ’’ہسپانیہ کے ایک اور حکمران‘‘ کے الفاظ کو ’’ہسپانیہ کے ایک حکمران‘‘ سے تبدیل کردیا گیا ہے۔ راقم کے نزدیک یہ تبدیلی درست نہیں ہے۔ معتمد، ہسپانیہ (ہی کے ایک خطے اشبیلیہ) کا حکمران تھا۔ ہسپانیہ کے ’’ایک اور حکمران‘‘ (یوسف بن تاشفین) نے ہسپانیہ کا اقتدار حاصل کرنے کے بعد معتمد کو محبوس کردیا تھا۔ اگر یہاں سے ’’اور‘‘ نکال دیا جائے تو مفہوم یہ نکلتا ہے کہ معتمد (ہسپانیہ کے کسی خطے کا نہیں بلکہ) کوئی غیر ہسپانوی بادشاہ تھا، جسے ’’ہسپانیہ کے ایک حکمران‘‘ نے قید کردیا تھا۔ تمہیدی نوٹ میں متذکرہ تبدیلی، علامہ اقبال کی وفات کے بعد، اشاعت کا اہتمام کرنے والوں نے اپنی صواب دید پر کی، غالباً چودھری محمد حسین نے۔ بہرحال یہ تبدیلی درست نہیں ہے۔ دوسرے اڈیشن کی پلیٹیں محفوظ کرلی گئیں اور آٹھویں اڈیشن (جون ۱۹۵۱ئ) تک بالِ جبریل، انھی پلیٹوں سے طبع کی جاتی رہی، سنگ سازی میں کوتاہی کے سبب، بعد کے اڈیشنوں میں کہیں کہیں نقطے اُڑ گئے اور اغلاط رُو پذیر ہوگئی ہیں۔ مثلاً طبع ہفتم میں: صفحہ سطر غلط صحیح ۶۹ ۳ بلد بلند ۷۲ ۶ نہ سو نہ ہو ۱۴۱ ۳ ولیکں ولیکن نویں اڈیشن (نومبر ۱۹۵۴ئ) کی کتابت از سرِ نو کرائی گئی۔ صفحات کی تعداد، عنوانات اور کتابتِ متن کے انداز میں دوسرا اڈیشن ہی پیشِ نظر رہا، البتہ قلم قدرے جلی ہے۔ یہ کتابت ابنِپرویں رقم کی ہے۔ اس میں رموزِ اوقاف کی خامیاں بھی ہیں، مگر مجموعی طور پر، پہلے اور دوسرے اڈیشن کے مقابلے میں، زیر نظر اڈیشن میں رموزِ اوقاف اور اِعراب کا بہتر اہتمام کیا گیا ہے۔ دوسرے اڈیشن میں، کتابت کی جو اغلاط موجود تھیں، زیر نظر اڈیشن میں صفحات ۶۹،۱۱۰،۱۳۱،۱۳۶، ۱۴۱ اور ۱۶۹ کی غلطیاں درست کردی گئی ہیں مگر صفحات۱۹،۲۷،۳۷،۶۸،۷۶،۹۴،۹۷،۹۹،۱۱۱،۱۵۵ اور ۱۶۱ کی اغلاط بدستورموجود ہیں۔ اس اڈیشن میں مندرجہ ذیل نئی اغلاط رُو پذیر ہوگئی ہیں: صفحہ سطر غلط صحیح ۴۱ ۸ یٰس یٰسیں ۵۰ ۹ لا اِلٰہ لَآ اِلَہْ ۶۰ ۹ مرگِ حیات بے شرف مرگ، حیاتِ بے شرف ۸۰ ۱۰ لَا اِلٰہ لَآ اِلَہْ ۸۳ ۲ غِزالی غَزالی ۹۱ ۱ اَرَنِیْ اَرِنیْ ۱۰۱ ۴ غرقناک عرقناک ۱۱۱ ۶ آئینۂ آئنہ ۱۴۷ ۵ تزلّزل تزلزل ۱۵۱ ۹ طبلساں طیلساں ۱۵۹ ۶ اقوال اقول ۱۸۰ ۳ راز و زبوں زار و زبوں ۱۸۶ ۷ فایتِ غایتِ ۲۱۷ ۹ خواہی از خواہی ار اس اڈیشن میں بعض علامات کا اضافہ کیا گیا اور بعض میں تصرّف، اسی طرح کئی لفظوں کا اِملا بدل دیا گیا ہے، مثلاً: صفحہ سطر دوسرا اڈیشن نواں اڈیشن ۸۲ حاشیہ نطشہ نیٹشا ۸۳ ۸ اسد الّلٰہی اسدؓ اللّہی ۹۳ ۴ حسینؓ حسینؑ صفحہ سطر دوسرا اڈیشن نواں اڈیشن ۹۳ ۱۱ حیدر کرّار حیدرِؑ کرّار ۱۰۳ ۱۱ خلیلاں خلیلاںؑ ۱۵۲ ۱۱ حسینؓ حسینؑ ۱۵۴ ۱۵ جنید و بایزید جنیدؒ و بایزیدؒ ۱۶۲ ۲ سومے صوفے یہ اہتمام، کتابت کی، نسبتاً بہتر صورت کو ظاہر کرتا ہے، مگر حسین اور حیدر پر ’’ ؓ ‘‘کی علامت کو تبدیل کرنا، راقم کے نزدیک درست نہیں۔ یہ ایک طرح کی تحریف ہے جس کا حق، نہ تو کاتب کو ہے اور نہ ناشر کو۔ اس اڈیشن کی پلیٹوں کو محفوظ کرکے ۱۹۷۲ء تک انھی سے کام لیا جاتا رہا۔ حتیٰ کہ ۱۹۷۳ء میں بالِ جبریل کا تیسواں اڈیشن، کلیات (۱۹۷۳ئ) والی کتابت سے شائع کیا گیا اور تاحال کتاب، اِنھی پلیٹوں سے چھپ رہی ہے۔ ژ ضربِ کلیم بالِ جبریل کی اشاعت (جنوری ۱۹۳۵ئ) کے چند ماہ بعد ہی، اس قدر اُردو کلام جمع ہوگیا کہ علامہ اقبال نے ’’صورِ اسرافیل‘‘ کے نام سے تیسرے اُردو مجموعے کی تیاری شروع کردی۔ ۱۹۳۶ء کے اوائل میں مجموعہ مرتب ہوا، تو موضوع کی مناسبت سے اسے ’’صورِ اسرافیل‘‘ کے بجاے ضربِ کلیم کا نام دیا گیا۔ پہلے خیال تھا کہ مجموعہ اپریل ۱۹۳۶ء میں شائع ہوجائے گا،۱؎ مگر عملاً جولائی کے آخری دنوں میں ایسا ممکن ہوسکا۔۲؎ یہ اقبال کا پہلا مجموعہ ہے جس کے سرورق پر اُنھوں نے کتاب کے نام اور موضوع کی وضاحت کے لیے توضیحی الفاظ (’’اعلانِ جنگ دورِ حاضر کے خلاف‘‘) درج کیے بلکہ ایک قطعے سے اس کی مزید تشریح بھی کی۔ ضربِ کلیم کی اشاعتِ اوّل پر، طباعت کا ماہ و سال درج نہیں ہے۔ اس کی کتابت بالِ۔جبریل کے پہلے اڈیشن کی طرح قدرے خفی ہے۔ ایک علاحدہ کاغذ پر مندرجہ ذیل ’’غلط نامہ‘‘ چھاپ کر اُسے ۱- اقبال نامہ، دوم: ص۹۹ ۲- خطوطِ اقبال: ص۲۶۲۔ بیگم صاحبہ بھوپال ولی عہد شہزادی عابدہ سلطان اور ڈاکٹر عبدالباسط کو پیش کردہ نسخوں پر اقبال کے دستخطوں کے ساتھ یکم اگست ۱۹۳۶ء کی تاریخ درج ہے۔ (اقبال نامے، طبع سوم، ص۳۵-۳۶) فہرستِ مضامین سے پہلے، اندرونی سرورق کی پشت پر چسپاں کیا گیا ہے: صفحہ غلط صحیح ۲ نہ ہوسکے گا ہو نہ سکے گا ۴۴ مرحلہ راحلہ ۴۵ کمال و جنوں کمالِ جنوں ۶۴ تیرا ترا ۸۲ نشایش کشاکش ۹۴ سے ہے ۱۱۹ یوے بوئے ۱۲۱ مرزا میرزا ۱۲۲ سجد سجدہ ۱۲۳ نی نئی ۱۳۵ تشنگیٔ و کام دہن تشنگیِ کام و دہن مگر پہلے اڈیشن میں، کتابت کی مزید بہت سی اغلاط بھی موجود ہیں، مثلاً: صفحہ سطر غلط صحیح ۱۰ ۱۱ شعلہ ہے تیرے شعلہ ہے ترے ۱۱ ۳ زبو علیؓ چند زبوعلی چند ۱۳ ۱۲ مکاں مکان ۴۸ ۵ موسی موسیٰ ۵۵ ۱ جینوا جنیوا ۸۸ ۶ شہبازی شاہبازی ۹۱ ۱۰ آئینہِ آئنۂ ۱۰۳ ۶ تیری تری صفحہ سطر غلط صحیح ۱۱۷ ۱۰ دنیا دنیا ۱۱۹ ۹ ایں این ۱۲۷ ۹ باَئینہ بآئینہ ۱۳۵ ۳ کلیم اللٓہی کلیم اللّٰہی ۱۷۷ ۷ ید اللہی یداللّٰہی ۱۷۹ ۱۱ یقین یقیں اس اڈیشن پر خوش نویس کا نام درج نہیں، مگر اُسلوبِ کتابت سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتابت پرویں رقم کے بجاے کسی اور خوش نویس نے کی۔ اس کی تصدیق اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ: (الف) بعض الفاظ کے املا میں پہلی بار صحت کا خیال رکھا گیا ہے مثلاً: فقیہ (ص۱۸) کَہْ (ص۴۸)۔ پرویں رقم بالالتزام ’’فقیہہ‘‘ اور ’’کہہ‘‘ لکھتے تھے، حتیٰ کہ ضربِ کلیم کے دوسرے اڈیشن میں اُنھوں نے ان الفاظ کی پھر سے غلط کتابت کردی۔ (ب) عربی متن (آیات و تراکیب وغیرہ) کی کتابت نستعلیق میں ہے۔ پرویں رقم، عربی متن ہمیشہ نسخ میں لکھتے ہیں۔ (ج) اس اڈیشن میں بڑی تعداد میں کتابت کی اغلاط ملتی ہیں۔ پرویں رقم کے کتابت شدہ، کسی اڈیشن میں اغلاط کی اتنی کثرت نہیں۔ دوسرے اڈیشن جنوری ۱۹۴۱ء کی از سرِ نو کتابت کرائی گئی۔ کتاب پر خوش نویس کا نام درج نہیں مگر واضح طور پر یہ کتابت پرویں رقم کی ہے۔ صفحات کی تعداد اور منظومات کے آغاز و اختتام میں، پہلے اڈیشن کے صفحات نمبر کا تتبع کیاگیا ہے۔ اس اڈیشن کی تیاری اور طباعت چودھری محمد حسین کے زیرنگرانی عمل میں آئی۔ پہلے اڈیشن کی اکثر اغلاط درست کردی گئیں، تاہم صفحات ۵۵، ۹۱، ۱۰۳، ۱۳۵، ۱۷۱ اور ۱۷۷ کی اغلاط بدستور موجود ہیں۔ مزید برآں ایک نئی غلطی بھی نظر آتی ہے: صفحہ سطر غلط صحیح ۷۲ ۵ گذاری گدازی کتابت نسبتاً جلی ہے… اسی اڈیشن کی پلیٹیں محفوظ کرکے بعد کے اڈیشن چھاپے جاتے رہے۔ صفحہ ۷۲ کی غلطی کی تصحیح نہیں ہوسکی۔ ص۱۱۵ پر ایک نقطہ اُڑ جانے سے مزید ایک غلطی نمودار ہوگئی: غلط صحیح چشمِ تماشا یہ چشمِ تماشا پہ سترھواں اڈیشن (اگست ۱۹۷۴ئ) کلیات (۱۹۷۳ئ) والی کتابت سے چھاپا گیا اور بعدازاں یہی سلسلہ جاری ہے۔ ژ ارمغانِ حجاز (حصۂ اُردو) ضربِ کلیم ۱۹۳۶ء کے وسط میں شائع ہوئی اور اپریل ۱۹۳۸ء میں علامہ اقبال کا انتقال ہوگیا۔ وفات سے قبل، انھیں اپنے پونے دو برس کے کلام کو مرتب کرکے شائع کرنے کا موقع نہیں ملا۔ مقدارِ کلام بھی اتنی نہ تھی کہ ایک مکمل مجموعہ مرتب ہوتا۔ وفات کے بعد فارسی اور اُردو غیر مدوّن کلام جمع کرکے نومبر ۱۹۳۸ء میں ارمغانِ حجاز کے نام سے چھاپ دیا گیا۔ اقبال کی وفات کے بعد اُن کے شعری مجموعے چودھری محمد حسین کی زیر نگرانی شائع ہونے لگے تھے، اس لیے ارمغانِ حجاز کی ترتیب و تدوین بھی اُنھوں نے انجام دی اور کتابت بھی انھی کی نگرانی میں ہوئی۔ اقبال کو اتنی مہلت نہیں ملی کہ وہ ارمغانِ حجاز کا مسوّدہ کتابت کے لیے تیار کرتے، اس لیے یہ کتاب کسی کے نام بھی معنون نہیں کی گئی۔ انتساب کے سلسلے میں شیخ عطاء اللہ لکھتے ہیں: انھوں نے اپنی کتاب ارمغانِ حجاز بھی نواب صاحب [بھوپال] ہی کی نذر کرنے کا ارادہ کرلیا تھا، جس کی اطلاع اُنھوں نے سرسیّد راس مسعود کو دی تھی۔ سرراس مسعود، اقبال سے پہلے فوت ہوگئے اور ارمغانِ حجاز، اقبال کی وفات کے بعد شائع ہوئی۔ اس طرح اقبال کی اس خواہش و وعدہ کا، جواب ایک گونہ وصیت کا حکم رکھتا ہے، کسی کو علم نہ ہوا… [اب] اُمید ہے اقبال کی اس خواہش کی تعمیل کی جائے گی۔۱؎ مگر اس کی تعمیل نہیں ہوسکی اور ہوتی بھی کیسے؟ شیخ عطاء اللہ نے اقبال کی اس خواہش کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔ اقبال نے جو بات راس مسعود سے کہی، شیخ عطاء اللہ کو کس ذریعے سے اس کی اطلاع ملی؟ نواب بھوپال کے بارے میں اقبال نے کئی جگہ جذباتِ ممنونیت کا اظہار کیا ہے، اس لیے اس امکان کو قطعی طور پر تو رد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ارمغانِ حجاز نواب صاحب بھوپال کے نام مُعَنْوَن کرنا ۱- اقبال نامہ، اوّل:ص’’غ‘‘ چاہتے ہوں، تاہم کسی واضح شہادت کی عدم موجودگی میں، اسے اقبال کی ’’وصیت‘‘ قرار نہیں دیا جاسکتا، جس پر عمل درآمد کی توقع رکھی جائے۔ ضربِ کلیم کا انتساب بھی نواب بھوپال کے نام ہے اور یہ کچھ عجیب سا لگتا ہے کہ ایک کے بعد، دوسرا مجموعۂ کلام بھی انھی سے منسوب کردیا جائے۔ ارمغانِ حجاز کا تقریباً دو تہائی حصہ فارسی کلام پر مشتمل ہے۔ فی الوقت ہمارے پیشِ نظر صفحہ ۲۰۱ سے ۲۸۰ تک کا اُردو حصہ ہے۔ فارسی حصہ، دوسرے باب میں زیر بحث آئے گا۔ ارمغانِ حجاز کا پہلا اڈیشن، جیسا کہ اُوپر ذکر ہوا، نومبر۱۹۳۸ء میں شائع ہوا۔ کتابت پرویں رقم کی ہے اور اقبال کے شعری مجموعوں کی نسبت قدرے جلی ہے اور زیادہ احتیاط اور اہتمام سے کی گئی ہے، اسی لیے اس حصے میں کتابت کی دو غلطیاں ملتی ہیں: ص:۲۵۲ سطر: ا غلط: شیحِ حرم صحیح: شیخِ حرم ص:۲۲۳ سطر: ۰ا غلط: آشفتہ ہو صحیح: آشفتہ مو دوسرے اڈیشن (اگست ۱۹۴۴ئ) کے موقع پر غالباً پہلے اڈیشن کی ساری پلیٹیں محفوظ نہ رہ سکیں اس لیے بعض حصوں کی کتابت از سر نو کرائی گئی۔ آخری کاپی (ص۲۷۳-۲۸۰) کی کتابت پہلے ہی اڈیشن کے مطابق ہے، باقی اُردو حصے کی ساری کتابت نئی ہے۔ دوسرے اڈیشن میں کتابت کا سابقہ اُسلوب اختیار کیا گیا ہے، اس میں طبع اوّل کی ایک غلطی (ص۲۵۲) درست کر دی گئی ہے۔ ص۲۷۸ پر ’’حسین احمدؐ ‘‘ پر ’’۔ؐ‘‘ کی علامت بنانا درست نہیں ہے۔ بعد کے تمام اڈیشنوں میں اسی دوسرے اڈیشن کی پلیٹیں استعمال کی گئیں۔ البتہ آخری کاپی (ص۲۷۳-۲۸۰) کی جو پلیٹ پہلے اڈیشن سے محفوظ چلی آرہی تھی، وہ تیسرے اڈیشن کے موقع پر ضائع ہوگئی اور اسے از سر نو کتابت کرایا گیا۔ یوں تیسرے اڈیشن (نومبر ۱۹۴۶ئ)۱؎ سے اُردو حصے کی کتابت نئی ہوگئی۔ پہلے اڈیشن کی پہلی کاپی: ایک صفحہ اندرونی سرورق کتاب ایک صفحہ طبع اور تعدادِ اشاعت چار صفحے (الف-ب-ج-د) فہرست مضامین دو صفحے خالی پر مشتمل تھی۔ غالباً اس کی پلیٹ محفوط نہ رہ سکی۔ اشاعت دوم کے موقع پر اس کی از سر نو کتابت کا تردّد نہیں کیا گیا، چنانچہ بعد کے تمام اڈیشن، متنِ اشعار (حضورِ حق) سے شروع ہوتے ہیں۔ اس افسوس ناک ۱- راقم کو ارمغانِ حجاز کا کوئی ایسا نسخہ نہیں ملا، جس پر طبع سوم کی صراحت موجود ہو۔ البتہ ایک اڈیشن ایسا دستیاب ہوا، جس پر سالِ طباعت اور نہ مطبع کا اندراج ہے۔ میں نے اسے ہی تیسرا اڈیشن تصور کیا ہے۔ خامی کی طرف اشاعتِ کلامِ اقبال کے مہتمم چودھری محمد حسین اور نہ کسی اور کی توجہ گئی۔ صفحہ ۲۷۸ پر ’’حسین احمد‘‘ کے زیر عنوان تین اشعار کا ایک فارسی قطعہ ہے، جس کے بارے میں علامہ اقبال کے بعض قریبی ساتھیوں (خواجہ عبدالوحید اور ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی) کا خیال ہے کہ اگر ارمغانِ حجاز اقبال خود مرتب فرماتے، تو یہ قطعہ شامل نہ کرتے،۱؎ جب کہ بعض دیگر اصحاب کی راے اس کے برعکس ہے۔ متذکرہ فارسی قطعے کی، کتاب کے فارسی حصے کے بجاے اُردو حصے کے آخر میں شمولیت سے مترشح ہوتا ہے کہ چودھری محمد حسین بھی، اس معاملے میں پہلے تو متردّد رہے ، لیکن بعد میں، قطعے کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ئ……ئ……ء ۱- متذکرہ قطعے کے بارے میں خواجہ عبدالوحید لکھتے ہیں: ’’میرا خیال ہے کہ ارمغانِ حجاز اگر حضرت علامہ علیہ الرحمہ کی زندگی میں چھپتی تو یہ نظم اس میں شامل نہ ہوتی‘‘۔ (اقبال ریویو، جنوری ۱۹۶۹ئ: ص۶۷) اسی ضمن میں خواجہ عبدالوحید کا مضمون ’’صحافتی بددیانتی‘‘ (مشمولہ: اقبالیاتِ خواجہ، مرتب خواجہ عبدالرحمن طارق ص۱۰۸-۱۱۱) بھی لائقِ مطالعہ ہے، جس میں وہ لکھتے ہیں: ’’ان چند اصحاب میں سے، جو مرحوم کے آخری ایامِ حیات میں ان کے رفیقِ کار تھے، بعض اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ علامہ مرحوم کا ارادہ، ان اشعار کو اپنے مجموعہ کلام میں شائع کرنے کا ہرگز نہ تھا۔ ارمغانِ حجاز مرتب کرنے والوں میں سے کسی شخص کی شرارت پسندی سے ایسا ہوا ہے۔‘‘ (اقبالیاتِ خواجہ، ص۱۱۱) ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی کا خیال ہے کہ: ’’اسے شائع کرکے اچھا نہیں کیا۔ نظریہ اچھا ہے، سواے اس کے کہ حسین احمد کا نام آیا ہے‘‘ (راقم الحروف سے ایک گفتگو، ۹؍جون۱۹۷۹ئ)۔ اس سلسلے میں پروفیسر عمر حیات غوری کا مضمون دیکھیے: ’’اقبال کی ایک نظم: حسین احمد کا تحقیقی مطالعہ‘‘ (سیارہ لاہور، اکتوبر، نومبر۱۹۸۴ئ، ص۱۷۴-۱۷۹) (ج) کلیاتِ اقبال، اُردو کلامِ اقبال کی نئی کتابت کا جواز پیش کرتے ہوئے، ڈاکٹر جاوید اقبال، کلیاتِ اقبال (لاہور،۱۹۷۳ئ) کے آغاز میں ’’اعتذار‘‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں: کلامِ اقبال کے اب تک جتنے اڈیشن شائع ہوئے، وہ سب کے سب انھی پلیٹوں سے طبع ہوتے رہے، جنھیں حضرت علامہ مرحوم نے خود اپنی نگرانی میں تیار کروایا تھا۔ اس لحاظ سے یہ پلیٹیں حضرتِ علامہ کے دوسرے تبرکات کی طرح، عزت و حُرمت کا مقام رکھتی ہیں۔ اگرچہ کثرتِ استعمال کے باعث ان کی حالت ابتر ہوگئی ہے۔ انھیں ترک کرنے کا حوصلہ نہیں ہوتا تھا۔ ہر دفعہ انھیں سنگ سازی کے غازے سے مزیّن کرکے کام لیا جاتا رہا۔ لیکن اب ان کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ سنگ سازی بھی انھیں اس قابل نہیں بناسکتی کہ مزید طباعت کے لیے استعمال کی جاسکیں، اس لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ از سرِ نو کتابت کروا کے نئی پلیٹیں تیار کی جائیں۔۱؎ یہ بیان صحت طلب ہے۔ جہاں تک اُردو مجموعوں کا تعلق ہے، اقبال کی زندگی میں: (۱) بانگِ درا کے تین اڈیشن (۱۹۲۴ئ، ۱۹۲۶ء اور ۱۹۳۰ء میں) شائع ہوئے۔ چوتھے اڈیشن کی اشاعت علامہ کی وفات کے، سال بھر بعد، جون ۱۹۳۹ء میں ہوئی۔ اس کی کتابت اُن کی وفات سے بعد کی ہے اور اسی کتابت کی پلیٹوں کو محفوظ کرکے، بعد کے اڈیشن چھاپے جاتے رہے۔ کلیات کی اوّلین اشاعت سے قبل، بانگِ درا کا ۲۹ واں اڈیشن چھپا، اس کی کتابت جون ۱۹۳۹ء ہی کی ہے۔ ظاہر ہے اس کتابت کو اور نہ اس سے تیار شدہ بانگِ درا کی پلیٹوں کو، اقبال کے ’’تبرّک‘‘ میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ (۲) بالِ جبریل کا صرف پہلا اڈیشن (جنوری ۱۹۳۵ئ) علامہ اقبال کی زندگی میں شائع ہوا۔ نئی کتابت سے دوسرے اڈیشن (مئی ۱۹۴۱ئ) کی جو پلیٹیں تیار ہوئیں، وہ آٹھویں اڈیشن (جون ۱۹۵۱ئ) تک استعمال ہوتی رہیں۔ نویں اڈیشن (نومبر ۱۹۵۴ئ) کے لیے از سر نو کتابت کرائی گئی۔ ۱- کلیاتِ اقبال، اُردو : ص۵ کلیات کی اوّلین اشاعت سے قبل، بالِ جبریل کا ۱۸ واں اڈیشن (اپریل ۱۹۷۲ئ) نومبر ۱۹۵۴ء کی پلیٹوں سے طبع ہوا۔ (۳) ضربِ کلیم کا بھی صرف ایک اڈیشن (جولائی ۱۹۳۶ئ) علامہ کی زندگی میں چھپا۔ نئی کتابت سے دوسرے اڈیشن (۱۹۴۱ئ) کی تیار شدہ پلیٹیں، کلیات کی اشاعت تک زیرِاستعمال رہیں۔ ظاہر ہے یہ پلیٹیں ’’علامہ نے خود اپنی نگرانی میں تیار‘‘ نہیں کرائی تھیں۔ (۴) ارمغانِ حجاز کی کتابت و طباعت تو حضرتِ علامہ کی وفات کے بعد ہوئی۔ لہٰذا اقبال کی زندگی میں شائع شدہ اُن کے کسی اُردو مجموعے کے کسی اڈیشن کی پلیٹیں محفوظ نہ رہ سکیں۔ اس لیے ان معدوم ’’متبّرک پلیٹوں‘‘ کی عزت و حرمت کی بات محض غلط فہمی پر مبنی ہے اور فروری ۱۹۷۳ء سے پہلے، محض اس وجہ سے، ان پلیٹوں کو ترک نہ کرنے کا جواز نہیں بنتا۔ اس کے باوجود، کلامِ اقبال کی نئی خوب صورت کتابت، نسبتاً عمدہ طباعت اور ایک جدید معیاری اشاعت کا، نہ صرف کامل جواز موجود تھا، بلکہ اس کی اشد ضرورت بھی تھی۔ اقبال کے اُردو اور فارسی شعری مجموعوں کی، کلیات کی شکل میں اشاعت سے متعلق، شیخ نیاز احمد راوی ہیں: اس سلسلے میں متعدد صاحبُ الراے اصحاب سے راے لی گئی۔ ان میں مولانا غلام رسول مہر، پروفیسر حمید احمد خاں، مولانا حامد علی خاں، ڈاکٹر جاوید اقبال اور مرزا ہادی علی بیگ وامق ترابی وغیرہ شامل ہیں۔ ان سب اصحاب کے اجلاس ہمارے گھر منعقد ہوتے اور مختلف مسائل زیر بحث آتے… متعدد امور طے ہوئے… املاکے مسئلے پر بڑی بحث ہوئی۔ آخر یہ طے پایا کہ کسی لفظ کا جو املا، علامہ صاحب نے لکھا، اُسے برقرار رکھا جائے، البتہ مرحوم حمید احمد خاں کے اصرار پر لفظ ’’آذر‘‘ جہاں بھی آیا، اُسے ’’آزر‘‘ میں تبدیل کردیا گیا۔ باقی فیصلہ یہی تھا کہ املا، جیسے ہے، ویسے ہی رہنے دیا جائے۔۱؎ ڈاکٹر جاوید اقبال نے کتابت کے سلسلے میں مولانا مہر کی رہنمائی اور بعض مقامات کی تصحیح میں اُن کے تعاون کا ذکر کیا ہے۔۲؎ اس میں شبہہ نہیں کہ کلیات کی اشاعت کے لیے خاصا اہتمام کیا گیا اور بشکلِ موجودہ، کتابت کی حسن کاری، طباعت کی پاکیزگی اور نفاست کے لحاظ سے اسے، ایک معیاری اڈیشن کہا جاسکتا ہے۔ ۱- راقم الحروف سے گفتگو۔ لاہور، یکم جولائی ۱۹۷۹ئ۔ ۲- کلیاتِ اقبال: صفحہ ’’و‘‘۔ تاہم متن کی صحت، ترتیب وتدوین اور املا کے اعتبار سے چند امور توجہ طلب ہیں: (۱) بانگِ درا اور بالِ جبریل کا مسطر بارہ سطری، ضربِ کلیم کا چودہ سطری اور ارمغانِ حجاز کا دس سطری تھا۔ کلیات کے لیے سولہ سطری (یکساں) مسطر اختیار کیا گیا۔ اس طرح ایک صفحے پر زیادہ اشعار کی گنجائش پیدا ہوگئی اور چاروں مجموعوں کے کل ۸۲۶ صفحات کے مقابلے میں سارا اُردو کلام، کلیات کے ۶۷۴ صفحات میں سمٹ گیا، مگر اس سے کئی ایک نقائص پیدا ہوگئے، مثلاً: (الف) مختلف اڈیشنوں کے صفحات کی یکسانیت ختم ہوگئی۔ مثال کے طور پر بانگِ درا میں نظم ’’شمع و شاعر‘‘ صفحہ ۲۰۱ سے شروع ہوتی ہے، مگر کلیات میں صفحہ ۱۸۳ سے۔ بالِ جبریل میں نظم ’’ہسپانیہ‘‘ صفحہ ۱۴۰ پر ہے تو کلیات میں، بالِ جبریل کے صفحہ ۱۰۳-۱۰۴ پر۔ کلیات کی اشاعت سے پہلے، نظم یا اشعار کا حوالہ دیتے وقت، کتاب کے اڈیشن کی نشان دہی ضروری نہ تھی، مگر اب حوالے میں اڈیشن اور سالِ اشاعت کا التزام ضروری ہوگیا۔ (ب) بالِ جبریل کے متعدد قطعات؛ بعض منظومات اور غزلیات کے آخر میں درج تھے، کلیات میں انھیں ایک نئے عنوان ’’رباعیات‘‘ کے تحت جمع کردیا گیا ہے۔ (یہ نیا عنوان قائم کرنا بجاے خود قابلِ اعتراض ہے کیوںکہ اہلِ نقد کے نزدیک اقبال کے بیشتر قطعات کو ’’رباعیات‘‘ میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔) اور کہیں ان کا محل تبدیل کردیا گیا ہے۔ اس اجمال کی وضاحت، حسب ذیل مثالوں سے ہوگی: ۱- ’’غزلیات‘‘ کے آخر کے بیشتر قطعات (یا رباعیات) کا محل تبدیل کردیا گیا ہے۔ ۲- نظم ’’ہسپانیہ‘‘ کے آخر میں درج دو شعروں (کھلے جاتے ہیں… قدیم اڈیشن ص۱۴۱) کو ماقبل ’’رباعیات‘‘ کے حصے میں لے جایا گیا ہے۔ ۳- نظم ’’لالۂ صحرا‘‘ کے بعد، درج دو بلاعنوان شعروں (اقبال نے کل… قدیم ص ۱۶۵) پر ’’قطعہ‘‘ کا خود ساختہ عنوان لگا کر اُنھیں نظم ’’دعا‘‘ سے پہلے درج کردیا گیا ہے۔ (غ ع اڈیشن ص۹۰) ۴- نظم ’’روحِ ارضی…‘‘ (قدیم ص۱۷۸-۱۷۹) کے آخر کا قطعہ (فطرت مری مانند…) کتاب کے بالکل آخری صفحے (غ ع ص۱۷۰) پر لے جایا گیا ہے۔ ۵- ’’پیر و مرید‘‘ کے آخر کے دو شعروں (ترا تن روح سے…، قدیم، ص۱۹۱) کا تبادلہ کرکے اُنھیں بھی ’’رباعیات‘‘ کی ماتحتی میں دے دیا گیا ہے۔ ۶- ’’جبریل و ابلیس‘‘ کے آخر کا قطعہ (کل اپنے مریدوں … قدیم، ص۱۹۴) کتاب کے آخری صفحے (غ ع ، ص۱۷۰) پر لے جایا گیا ہے۔ اس طرح ترتیبِ کلام بدل گئی ہے۔ ترتیبِ کلیات کی مشاورتی کمیٹی نے علامہ کے املا کو جوں کا توں برقرار رکھنے پر اتفاق کیا، مگر ترتیبِ کلام میں یہ تبدیلی کیسے گوارا کرلی؟ یوں بھی یہ ’’رباعیات‘‘ نہیں، قطعات ہیں۔ (۲) کلیات میں ضربِ کلیم کے سرورق (ص ۴۶۳) پر کتاب کا ضمنی عنوان… ’’یعنی اعلانِ جنگ، دورِ حاضر کے خلاف…‘‘ اور یہ اشعار موجود نہیں ہیں: نہیں مقام کی خوگر طبیعتِ آزاد ہواے سیر، مثالِ نسیم پیدا کر ہزار چشمہ، ترے سنگِ راہ سے پھوٹے خودی میں ڈوب کے ضربِ کلیم پیدا کر ضمنی عنوان اور اشعار، کتاب کے صرف بیرونی سرورق پر درج تھے۔ کلیات کی کتابت میں اندرونی سرورق سے کتابت شروع کی گئی، اس لیے بیرونی سرورق کے اندراجات، نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ (۳) کلیات کی مشاورتی کمیٹی اور نہ مولانا مہر کی توجہ اس امر کی طرف گئی کہ بالِ جبریل اور ارمغانِ حجاز کے آغاز میں، منظومات، غزلیات اور قطعات وغیرہ کی فہرست موجود نہیں۔ کلیات میں ’’فہرست مضامین‘‘ مرتب کرکے شامل کرنا مشکل نہ تھا، مگر یہ فروگذاشت بدستور موجود رہی۔ فہرست کی عدم موجودگی سے کسی خاص نظم یا غزل کی تلاش میں خاصی دقت پیش آتی ہے۔ (۴) کلیات میں، متن کی صحت کے بارے میں ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں: ’’بار بار کی سنگ۔سازی کے باعث کچھ غلطیاں رُوپذیر ہوگئی تھیں، جنھیں اوّلین نسخوں سے مقابلہ کرکے درست کیا گیا۔‘‘ ۱؎ اُنھوں نے بعض مقامات کی تصحیح کے ضمن میں، مولانا مہر کی رہنمائی کا بھی ذکر کیا ہے۔ شیخ نیاز احمد کے مطابق: ’’کلیات کی کتابت کی تصحیح وغیرہ مہر صاحب نے کی اور صادق علی دلاوری نے بھی اس میں ہاتھ بٹایا‘‘،۲؎ چنانچہ کلیات سے پہلے کے اڈیشنوں کی مندرجہ ذیل اغلاط کی تصحیح ہوگئی ہے۔ ۱- کلیاتِ اقبال، اُردو: ص ’’و‘‘___ اوّلین نسخوں سے، صحتِ متن میں ایک حد تک مدد مل سکتی ہے مگر وہ ’’معیاری نسخے‘‘ بہرحال نہیں ہیں۔ ۲- راقم الحروف سے گفتگو: لاہور، یکم جولائی ۱۹۷۹ئ۔ صفحہ سطر غلط کلیات کا صفحہ سطر صحیح بانگِ درا ی ۸ دیدیجے ۱۳ ۱۳ دیدیجیے ۵۴ ۴ مزرعۂ ۶۱ ۱۱ مزرع ۵۵ ۶ ٹپکتی ۶۲ ۱۱ پٹکتی ۷۲ ۷ بیّا بانِ ۷۵ ۱۳ بیابانِ ۷۸ ۸ ستم کیلئے ۸۰ ۱۰ ستم کے، لیے ۹۰ ۱ لیلیٰ معنی ۸۹ ۹ لیلیِ معنی ۱۸۹ ۳ آئینے ۱۷۲ ۷ آئنے ۱۹۹ ۹ سرگزشتِ ۱۸۱ ۷ سرگذشتِ ۲۱۴ ۱۲ نگہتِ ۱۹۴ ۶ نکہتِ ۲۴۶ ۵ زبان ۲۲۰ ۳ زباں ۲۷۴ ۱۰ رخشندہ ۲۴۳ ۸ افتندہ ۲۸۳ ۳ آئینۂ ۱۵۱ ۳ آئنۂ بال جبریل ۸ ۹ خذف ۲۹۹ ۹ خزف ۳۷ ۳ ۳۳ھ ۳۱۴ ۲ ۱۹۳۳ء ۶۰ ۹ مرگِ حیات بے شرف ۳۳۱ ۱۳ مرگ، حیاتِ بے شرف ۹۱ ۱ ارِنیْ ۳۵۴ ۷ اَرِنِی ۹۴ ۷ آئینہ ۳۵۵ ۱۴ آئنہ ۱۰۱ ۴ غرقناک ۳۶۱ ۱۵ عرقناک صفحہ سطر غلط کلیات کا صفحہ سطر صحیح ۱۱۱ ۶ آئینۂ ۳۶۹ ۱۵ آئنۂ ۱۴۷ ۵ تزلّزل ۴۰۰ ۹ تزلزل ۱۵۱ ۹ طبلساں ۴۰۳ ۹ طیلساں ۱۵۹ ۷ قال و اقوال ۴۰۹ ۱۳ قال و اقول ۱۸۰ ۳ راز و زبوں ۴۲۶ ۳ زار و زبوں ۱۸۶ ۷ فایتِ ۴۳۱ ۵ غایتِ ۲۱۷ ۹ از ۴۵۶ ۵ ار ضربِ کلیم ۵۵ ۱ جینوا ۵۲۰ ۳ جنیوا ۹۱ ۱۰ آئینۂ ۵۵۵ ۱۲ آئنۂ ۱۳۵ ۳ کلیم اللٓہی ۵۹۶ ۵ کلیم اللہّٰی اوپر ہم نے، ڈاکٹر جاوید اقبال کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ متن کی تصحیح کے سلسلے میں، کلیات کو: ’’اوّلین نسخوں سے مقابلہ کرکے درست کیا گیا‘‘۔ اوّلین نسخوں سے موازنے میں کوئی حرج نہیں، مگر انھیں معیار بنانا اس لیے غلط ہے کہ اُن میں بھی، کثیر تعداد میں کتابت اور املا کی اغلاط موجود ہیں۔ اس کے سوا، اقبال نے اپنی کتابوں کے پہلے اڈیشنوں میں ترامیم بھی کیں۔ یوں بھی اُصولِ تحقیق کی رُو سے، اگر مصنف کی زندگی میں کسی کتاب کے متعدد اڈیشن چھپے ہوں تو، پہلے نہیں بلکہ آخری اڈیشن کے متن کو معیاری تسلیم کیا جائے گا۔ بہر حال اس قدر احتیاط کے باوجود کلیات میںمندرجہ ذیل نئی غلطیاں رو پذیر ہوگئی ہیں: صفحہ سطر صحیح کلیات کا صفحہ سطر غلط بانگِ درا ۴۲ ۹ جائے ۵۲ ۹ نہ جائے صفحہ سطر صحیح کلیات کا صفحہ سطر غلط ۵۹ ۸ پڑتی ہو ۶۵ ۱۲ پڑتی ہے ۲۲۶ ۱ مسلماں ۲۰۳ ۴ مسلمان بالِ جبریل ۱۵ ۴ غمزۂ ۳۰۳ ۵ غمرۂ ۴۷ ۵ فقیہ ۳۲۲ ۲ فقیہہ ۶۲ ۴ جدا ہو ۳۳۲ ۱۴ جدا ہوں ۷۹ ۳ بے ذوقِ نمود زندگی، موت ۳۴۵ ۱۰ بے ذوقِ نمودِ زندگی، موت ۸۶ ۱۱ چمن ۳۵۱ ۷ چُمن ۹۵ ۱ میری ۳۵۷ ۵ مری ۱۳۳ ۱ مبیں ۳۹۰ ۵ مبین ۱۳۵ ۴ لذتِ تجدید ۳۹۱ ۱۶ لذتِ تجدیدہ ۲۰۹ ۱۰ ابوالعلا معرّی عربی زبان کا مشہور شاعر ۴۴۸ [کلیات میں یہ الفاظ محذوف ہیں] ضربِ کلیم ۱۳ ۱۱ نگیں ۴۸۳ ۸ نگین ۵۷ ۷ بدخشان ۵۲۲ ۷ بدخشاں ۸۷ ۵ فقر کی تمامی ۵۵۰ ۲ فقر کی غلامی ۱۰۳ ۶ مسلماں ۵۶۷ ۶ مسلمان ۱۲۲ ۴ جمال و زیبائی ۵۸۵ ۱۰ جمالِ زیبائی ارمغانِ حجاز ۲۱۳ ۵ تمنّائوں ۶۴۷ ۵ تمنّاوں متن، املا اور کتابت کی مندرجہ بالا نئی اغلاط کے علاوہ، کلیات میں بعض پرانی اغلاط کی صحت نہیں ہوسکی۔ بعض غلطیاں جوں کی توں برقرار رہیں یا اُن میں ایسی تبدیلی کی گئی کہ غلطی کی صورت بدل گئی، مگر غلطی دور نہیں ہوسکی، مثلاً: صفحہ سطر غلط کلیات کا صفحہ سطر غلط صحیح بانگِ درا ۱۰۲ ۳ ہفتاد دوملت ۹۹ ۱۳ ہفتاد دوملت ہفتاد و دوملت ۱۸۸ ۵ آئینے ۱۷۱ ۹ آئینے آئنے بالِ جبریل ۲۷ ۳ میرے کام ۳۰۹ ۳ میرے کام مرے کام ۵۰ ۸ لا اِلٰہ ۳۲۴ ۵ لا اِلٰہ لَآ اِ لَہْ ۱۵۵ ۶ علمِ نخیل بے رطب ۴۰۶ ۶ علمِ نخیل بے رطب علم، نخیلِ بے رُطب ۲۱۰ ۶ سینما ۴۵۰ ۲ سینما سنیما ضربِ کلیم ۱۱۵ ۱۰ چشمِ تماشایہ ۵۷۹ ۵ چشمِ تماشہ یہ چشمِ تماشا پہ ۱۴۹ ۶ جینوا ۶۰۹ ۸ جینوا جنیوا اوپر کی سطور میں جن اُمور کی نشان دہی کی گئی ہے، ان میں سے بیشتر کا تعلق تدوین اور اغلاطِ کتابت سے ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بہت سی اغلاطِ کتابت، محض املا اور لفظوں کی لکھاوٹ میں غلط نگاری کا کرشمہ ہیں۔ ژ املا کا مسئلہ کلیاتِ اقبال کے اس جائزے میں املا کا مسئلہ بھی توجہ طلب ہے۔ بیشتر ترقی یافتہ زبانوں کے برعکس، اُردو املا کی معیاری صورت متعین نہیں ہوسکی۔ اس حقیقت سے انکار کرنا مشکل ہے کہ اُردو املا ابھی تک بے ضابطگی اور انتشار کا شکار ہے۔ بہت سے الفاظ کا غلط املا رائج ہے، متعدد لفظوں کی ایک سے زائد لکھاوٹیں چل رہی ہیں اور اعراب و توقیف نگاری کا تو خیر، ذکر ہی کیا۔ نام وَر اہلِ قلم کی تحریریں بھی ان عیوب سے مبرّا نہیں۔ اردو انجمنوں اور اداروں کی بے توفیقی ہے کہ اپنی کتابوں اور رسالوں میں بھی اپنے ہی اصولِ املا کی پابندی نہیں کرتے۔کاتبوں کو کھلی چھٹی ہے کہ املا میں وہ اپنی صواب دید کا آزادانہ استعمال کریں اور مصنّفین کی اسی فراخ دلی اور صحتِ املا سے اردو اداروں کی لاپروائی کے سبب، اُردو املا ابھی تک غلط نگاری کی گمراہی سے نجات نہیں پاسکی۔ زبان و بیان اور روز مرہ و محاورہ کے علاوہ، اساتذہ کا کلام، اس اعتبار سے بھی بطورِ مثال و استناد پیش کیا جاتا ہے کہ اُن کے ہاں کسی خاص لفظ کا املا کیا ہے؟ ہر چند کہ بعض حالتوں میں اسے سو فی صد صحیح شکل قرار دینا درست نہیں ہوتا، تاہم اس سے صحتِ املا میں مدد ضرور ملتی ہے۔ اس لیے اساتذہ کے کلام کی تدوین و کتابت میں متن کی تصحیح کے ساتھ صحتِ املا پر بھی توجہ دینا نہایت ضروری ہے۔ یہ کام مشکل ضرور ہے مگر اُردو زبان کی ترقی، اس کی سائنٹی فِک صورت متعین کرنے اور بحیثیتِ مجموعی اُردو کے مستقبل کے نقطۂ نظر سے، مشکل پسندی کے اس خارزار سے گریز، دانش مندانہ طرزِ عمل نہ ہوگا۔ علامہ اقبال کے دور میں اُردو املا سیّال حالت میںتھا۔ متعدد الفاظ کی قدیم املائی صورتیں رائج تھیں، البتہ بعض الفاظ، صورت بدل کر نئی شکل اختیار کرچکے تھے۔ بعض ہم عصر شعر ا و ادبا کی طرح اقبال کے ہاں بھی، املا میں بے ضابطگی اور بے قاعدگی کی مثالیں ملتی ہیں۔ اُنھوں نے اپنے کلام کی کتابت کے لیے عبدالمجید پرویں رقم کا انتخاب کیا جو اپنے دور کے بہترین کاتبوں۱؎ میں سے تھے، مگر کلام اقبال کا متن، صحتِ املا کے نقطۂ نظر سے بے توجہی کا شکار رہا، کیونکہ زمانے کی عام روش یہی تھی۔ پرویں رقم کے کتابت شدہ سارے مجموعوں میں املائی انتشار نظر آتا ہے۔ اِن، پرانے اڈیشنوں میں تو، املا کی غلط نگاری سے صرفِ نظر کیا جاسکتا ہے، مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ کلیاتِ اقبال (لاہور، ۱۹۷۳ئ) بھی، جس کی ’’جدید کتابت و طباعت‘‘ خوش خطی اور ظاہری حسن کاری کا اعلیٰ نمونہ ہے اور اسی لیے ڈاکٹر جاوید اقبال نے اسے ’’شاعرِ مشرق کے کلام کے شایانِ شان‘‘ قرار دیا ہے، صحتِ اِملا کے لحاظ سے ناقص ہے۔ فوٹو آفسٹ کے ذریعے طبع شدہ یہ اڈیشن، ایک مثالی اور ۱- اقبال ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’عبدالمجید کاتب بھی [کذا]، میرے نزدیک لاہور میں سب سے بہتر ہے‘‘۔ (خطوطِ اقبال بنام بیگم گرامی: ص۶۱)۔ تاہم علامہ سے منسوب یہ قول بے بنیاد ہے کہ: ’’پرویں رقم میرے اشعار کی کتابت نہیں کریں گے تو میں شاعری ترک کردوں گا‘‘۔ (روزنامہ جنگ لاہور، یکم اکتوبر ۱۹۸۱ئ:ص۲۳)۔ معیاری نسخے کی حیثیت سے پیش اور رائج کیا گیا ہے۱؎ اور آیندہ برس ہا برس تک، اسے حوالے کا نسخہ تصور کیا جائے گا۔ اس لیے اس نسخے میں صحتِ املا کا خصوصی اہتمام ضروری تھا۔ اس کے لیے جو دیدہ ریزی اور کاوش مطلوب تھی، کلیات کے صفحات اس سے خالی نظر آتے ہیں اور یہ سب اس کے باوجود ہے کہ: (الف) تصحیح کے لیے ڈاکٹر جاوید اقبال نے خاصی سرگردانی کی۔ (ب) صحت و تصحیح کا کام مولانا غلام رسول مہر کی نگرانی اور راہ نمائی میں انجام پایا۔ (ج) املا کے مسئلے پر مشاورتی کمیٹی (جس میں مولانا مہر، پروفیسر حمید احمد خاں، مولانا حامد علی۔خاں، مرزا ہادی علی بیگ وامق اور ڈاکٹر جاوید اقبال شامل تھے) نے خوب غور و خوض کیا۔ راقم کے خیال میں مشاورتی کمیٹی نے کلامِ اقبال میں، املا کے مسئلے اور اس کی نزاکت و اہمیت کا پوری طرح اِدراک نہیں کیا۔ یہ تو ذکر آچکا ہے کہ کلیات (۱۹۷۳ئ) کے املا میں مشاورتی کمیٹی کے اس فیصلے کی پابندی نہیں کی گئی کہ: مختلف الفاظ کا املا ’’جیسے ہے، ویسے ہی رہنے دیا جائے‘‘ ، بلکہ املا میں متعدد تصرّفات کیے گئے ہیں۔ بیشتر تصرّفات سے املا کی صورت درست اور بہتر ہوگئی ہے مگر بعض املائی تصرفات کے نتیجے میں صحیح املا کو غلط بنا دیا گیا ہے یا املا کی بہتر صورت کو ترک کردیا گیا ہے، مثلاً: ص: ۳۴ سطر: ۱۳ مجکو (طبع اوّل، ص۲۰ سطر۱: مجھ کو) صفحہ: ۲۳۱ سطر: ۱۴ ناپائداری ۳۲۲ ۲ فقیہہ ۳۲۸ ۶ پابرکاب ان الفاظ کی بہتر لکھاوٹ یوں ہونی چاہیے: مجھ کو۔ ناپایداری۔ فقیہ۔ پابہ رکاب۔ ’’مقامِ املا‘‘ سے ’’آساں گزرنے‘‘ کے نتیجے میں کئی خرابیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ اس ضمن میں چند پہلو لائقِ توجہ ہیں: ۱- ۱۹۷۵ء میں علی گڑھ (بھارت) سے، زیر بحث کلیات پر مبنی، ایک اڈیشن شائع کیا گیا ہے، اُن جملہ خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ، جو کلیات میں موجود ہیں، مگر اس کی ایک مزید خوبی یہ ہے کہ ہر صفحے کے اُوپر متعلقہ کتاب (بانگِ درا ، بالِ جبریل، ارمغانِ حجاز وغیرہ) کا نام بھی درج کیا گیا ہے۔ (۱) مرتبین نے تصرفِ املا کے سلسلے میں کوئی قاعدہ کلیہ وضع نہیں کیا، نہ مرّوجہ ضابطوں کی پابندی کی ہے، جس سے کاتب اور نگران کی بے احتیاطی ظاہر ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں املا میں یکسانیت پیدا نہیں ہوسکی، مثلاً: الف- اصولِ امالہ کے تحت بجاطور پر ستارہ کو ستارے (کلیات: ص۴۳۸) میں تبدیل کر دیا گیا، مگر کہیں اسی اصول کو نظر انداز کرتے ہوئے ذرہ کو ذرے نہیں بنایا گیا۔ (کلیات: ص۱۷۹، سطر۸) سینہ بدستور سینہ (کلیات: ص۲۷۸) اور قافلہ بدستور قافلہ (کلیات: ص۳۵۶) حالانکہ یہاں ذرے، سینے اور قافلے کا محل تھا۔ ب- ’’مجکو‘‘ کو بجاطور پر ’’مجھ کو‘‘ (کلیات: ص۱۳۹) میں بدل دیا گیا اور کہیں اس کے برعکس (کلیات: ص: ۳۴ سطر۱۳) ناپائدار کو ناپایدار (کلیات: ص۹۸) بنایا گیا لیکن اس کے برعکس ناپایداری کو ناپائداری (کلیات: ص۲۳۱) میں تبدیل کیا گیا۔ ندہی کو نہ دہی (کلیات: ص۳۱۲) اور بخرے کو بہ خرے (کلیات: ص۳۱۲) میں تبدیل کیا گیا مگر کہیں اس کے برعکس پابہ رکاب کو پابرکاب (کلیات: ص۳۲۸) کردیا گیا۔ ج- ایک ہی لفظ یا ایک جیسے الفاظ کے دو مختلف املائی نمونے ملتے ہیں۔ مثلاً: بے باک (ص: ۳۲۵) اور بیباک (ص: ۳۵۷ ٹھیرو (ص:۲۹) اور ٹھہر کر (ص:۳۲) ڈھونڈھ (ص: ۱۰۴) اور ڈھونڈ (ص:۱۰۷) وغیرہ۔ د- انجمن ترقیِ اُردو کی اصلاحِ رسمِ خط کمیٹی نے تجویز کیا تھا کہ: ’’فارسی لفظ بہ، نہ ، چہ، کہ، بے وغیرہ جو خود فارسی میں بھی کبھی دوسرے لفظ سے ملا کر اور کبھی الگ لکھے جاتے ہیں، اُردو عبارت میں الگ لکھے جائیں‘‘۔۱؎ مگر کلیات میں یہ کہیں الگ لکھے گئے ہیں (بہ دل، ص۱۰۶) اور کہیں ملاکر (بدست، ص۱۰۷، بکف ص۱۶۹) یہی حال سابقوں اور لاحقوں کا ہے مثلاً بیہوش (ص۲۸۹)، بیخبر (ص۲۶۵)، بیتاب (ص۱۷۱)، غزلخواں (ص۲۸۰)، ہوشمند (ص۲۸۴)، اس کے برعکس بے نظیر (ص۱۲۵)، بے باک (ص۳۲۵) وغیرہ۔ (۲) ’’سینکڑوں‘‘ میں نون غنہ اڑا دیا گیا ہے۔ یہ تصحیح درست ہے۔ اب کلیات میں یہ لفظ ہر جگہ یوں ہے: ’’سینکڑوں‘‘، اُصولِ کتابت کی رُو سے اس میں ’’ی‘‘ کے بعد ایک شوشہ قطعی زائد ۱- رسالہ اُردو ، جنوری ۱۹۴۴ئ۔ بحوالہ اُردو املا: ص۴۶۲۔ ہے۔ اس کا صحیح املا یوں ہونا چاہیے: سیکڑوں۔ املا کے سلسلے میں آج ہم بعض باتوں کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں، مگر کل متنِ اقبال کی یہ صورت سند مانی جائے گی، اس لیے اس میں ایک شوشے کا بھی فرق نہیں ہونا چاہیے۔ (۳) رموزِ اوقاف اور اِعراب، صحتِ املا میں اہمیت رکھتے ہیں۔ کلیات میں، کسی حد تک، اِعراب و رموزِ اوقاف کا اہتمام کیا گیا ہے، مگر کلیات کو ایک معیاری نسخہ اسی وقت قرار دیا جاسکتا ہے، جب اِعراب و اوقاف کا پورا اہتمام کیا جائے۔ صحتِ تلفظ سے غفلت اور عمومی تعلیمی و علمی معیار کے تنزل کے پیشِ نظر، بعض مقامات پر اعراب کا اہتمام ازبس ضروری ہے۔ چند مثالیں: صفحہ سطر کلیات کا املا مطلوبہ صورت ۲۶۸ ۱ برگستواں برگُستواں ۳۳۱ ۱۳ حیات بے شرف حیاتِ بے شرف ۳۳۲ ۲ درخت طور درختِ طور ۳۸۵ ۱ قرطبہ قُرطُبہ ۳۹۳ ۱ صورت شمشیر صورتِ شمشیر ۳۹۳ ۲ جوھر زماں جو، ہر زماں (۴) معروف طریقہ ہے کہ اسماے معرفہ (اشخاص، مقامات اور کتب وغیرہ) کے اُوپر لکیر (___) لگائی جاتی ہے اور شعرا کے تخلص پر یہ علامت ( ۔۔۔۔۔ؔ) بناتے ہیں۔ کلیات اس سلسلے میں شدید تضاد اور انتشار کا شکار ہے۔ تخلص کی علامت، شعرا کے ساتھ ساتھ قرآن پاککی سورتوں، حکمرانوں، کتابوں، مقامات اور بعض اکابر کے ناموں حتیٰ کہ بعض الفاظ پر بھی بنا دی گئی ہے۔ مگر اس ’’اُصول‘‘ کی پوری طرح پابندی بھی نہیں کی گئی۔ بعض مقامات پر شعرا کے تخلص، علامتِ تخلص (…ؔ) سے محروم ہیں اور کہیں تخلص پر لکیر (___) لگا دی گئی ہے۔ مناسب تھا کہ یکساں طریقہ اختیار کیا جاتا۔ (۵) بعض مقامات پر اسماے معرفہ جلی قلم سے لکھے گئے ہیں (صفحات: ۶۲۸، ۶۳۹، ۶۴۱، ۶۶۶) مگر بیشتر مقامات پر ان کے لیے عام قلم استعمال کیا گیا ہے۔ اسماے معرفہ عام قلم ہی سے لکھنا مناسب ہے البتہ اُن پر ایک لکیر بنا دی جائے۔ جیسے: یورپ۔ سکندر۔ دلی۔ کشاف۔ (۶) بہت سے الفاظ کے املا میں ہاے مخلوط اور ہاے ملفوظ کا امتیاز روا نہیں رکھا گیا حالانکہ قدیم طرزِ نگارش کے برعکس، اب ہاے مخلوط اور ہاے ملفوظ میں واضح امتیاز کو ایک مسلمہ قاعدے کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔ کلیات میں ایسے الفاظ: ھلا دو، مھرو وفا، ھراول، شھر، مرھم، ھمارا، ھلال وغیرہ کو اس طرح لکھنا چاہیے: ہلادو، مہرو وفا، ہراول، شہر، مرہم، ہمارا، ہلال وغیرہ۔ ژ اشاریہ کلیات کے آخر میں اٹھارہ صفحات کا ایک اشاریہ بھی شامل ہے۔ کسی بھی اہم نثری یا شعری مجموعے میں اشاریے کی ضرورت و افادیت محتاجِ بیان نہیں، بلکہ اب تو ہر کتاب کے ساتھ اشاریہ ناگزیر ہوتا جارہا ہے، مگر اشاریے کی غایت کیا ہونی چاہیے؟ اس کے مقاصد کیا ہوں؟ اور اسے کن اُصولوں اور ضوابط کی روشنی میں مرتب کیا جائے؟ تاکہ وہ حقیقی معنوں میں باعثِ افادیت ہوسکے۔ ان امور کے تعین۔ّکے بغیر، کوئی بھی اشاریہ، نہ تو عام قارئین اور نہ تحقیق کرنے والوں کے لیے سود مند ہوسکتا ہے۔ افسوس ہے کہ کلیات کا زیر مطالعہ اشاریہ کئی اعتبار سے سخت ناقص ہے اور اشاریے کی افادیت و معنویت کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ اس کی بنیادی خامی یہ ہے کہ اس میں خاصی رواروی، بے احتیاطی اور سرسری پن سے کام لیا گیا ہے۔ بحیثیت مجموعی یہ، صحت و استناد اور تحقیق و تدقیق کے کم سے کم مطلوبہ معیار سے بھی فروتر ہے۔ بعض مقامات پر تو مرتب، تدبّر و بصیرت کی معمولی صلاحیت سے بھی عاری نظر آتا ہے۔ چند پہلو ملاحظہ کیجیے: ۱؎ (۱) اشاریہ ساز، لفظوں کے معنی و مفہوم سے ناواقف ہے، مثلاً ’’خزف چینِ لبِ ساحل‘‘ (کلیات: ص۱۰۷) سے ملک چین کا حوالہ اخذ کیا گیا ہے۔ ’’خونِ اسرائیل آجاتا ہے آخر جو ش میں‘‘ (ص۲۶۱) سے ملک اسرائیل کا حوالہ اخذ کیا گیا ہے۔ ’’درِ خیبر‘‘ (ص ۱۶۵) اور ’’بڑھ کے خیبر سے ہے یہ معرکۂ دین و وطن‘‘ (ص۳۵۶) سے درۂ خیبر کا حوالہ اخذ کیا گیا ہے۔ ’’حیراں ہے بو علی، کہ میں آیا کہاں سے ہوں‘‘ (ص ۴۴۰) کا حوالہ بو علی سینا کے بجاے بو علی قلندر کے تحت دیا گیا ہے۔لفظ جاوید ۱- اشاریۂ کلیات کے اس جائزے میں پروفیسر محمد یونس حسرت کے تحقیقی مضمون ’’اشاریہ ہاے کلام اقبال‘‘ (برگِ گل، اقبال نمبر ۱۹۷۷ئ: ص۴۲۰-۴۴۱) سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ (۴۹۷ بمعنی ہمیشہ) کا حوالہ جاوید اقبال کے تحت درج کیا گیا ہے۔ترکانِ عثمانی (ص۳۵۲) کا حوالہ حضرت عثمانؓ کے تحت درج کیا گیا ہے۔ (۲) کلیات: ص۶۹۷ پر عنوان ’’اماکن‘‘ کے ساتھ قوسین میں لفظ ’’ممالک‘‘ لکھا گیا ہے۔ اماکن سے محض ممالک مراد لینا بالکل نیا لغت ہے۔ مزید تعجب کا باعث ہے کہ مرتب نے دریاؤں (راوی، گنگا، جیحوں، فرات، دینیوب) پہاڑوں (اضم، ہمالہ) شہروں (جدہ، پیرس، کوفہ، مدینہ، قرطبہ، علی گڑھ) عمارات (ریاض منزل، شیش محل) اور تعلیمی اداروں (کیمبرج یونی ورسٹی، گورنمنٹ کالج لاہور) کے حوالے بھی ’’ممالک‘‘ کی ذیل میں درج کیے ہیں۔ قرطبہ کے تحت، شہر قرطبہ اور مسجدِ قرطبہ کے حوالے یک جا درج کیے گئے ہیں۔ المانی اور وزیری کو شخصیات کے تحت درج کیا گیا ہے حالانکہ المانی، جرمنی یا جرمن باشندے کا مترادف ہے اور وزیری ایک قبیلے کا نام ہے۔ دلی کے زیادہ تر حوالے دلی کے تحت مگر چند ’’ایک جہاں آباد‘‘ کے تحت درج کیے گئے ہیں۔ (۳) اشاریہ نگار نے بعض اسما کے ساتھ، اُن کی حیثیت یا مقام و مرتبے کی صراحت کے لیے، واوین میں توضیحی الفاظ لکھ دیے ہیں، مثلاً: ۱- بہزاد (بت پرست) ۲- سٹنڈل (انگریز) ۳- قیصر(شہر کا نام) ۴- نیٹشا (جرمنی کا مشہور شاعر و فلسفی) یہ توضیحات، اشاریہ نگار کے فرائض میں شامل نہیں۔ مزید برآں ان میں سے بعض وضاحتیں (نمبر۱،۲،۳) غلط ہیں۔ اس کے برعکس جہاں وضاحت مطلوب تھی (مثلاً قرطبہ: شہر یا مسجد۔ شالامار: باغ یا محلہ اور علاقہ) وہاں توضیح نہیں کی گئی۔ (۴) ایسے دو یا دو سے زائد اسما کو (جو ایک ہی شخص، مقام، چیز یا کیفیت کو ظاہر کرتے ہیں، مثلاً موسیٰ، کلیم۔ حسین، شبیر۔ فردوس، جنت، بہشت۔ مومن، مسلمان۔ شاہین، شہباز۔ آفتاب، سورج۔ وغیرہ) جمع کردیا گیا ہے، یہ درست نہیں ہے۔ ہر نام کے حوالے الگ الگ ہونے چاہییں۔ البتہ آخر میں چلیپائی حوالوں (cross references) کا بھی ذکر ہونا چاہیے: مثلاً: موسیٰ کے تحت متعلقہ صفحات کے نمبر دے کر آخر میں لکھا جائے: مزید دیکھیے: کلیم۔ اسی طرح کلیم کے تحت صفحات کے نمبر دے کر آخر میں لکھا جائے: مزید دیکھیے: موسیٰ۔ (۵) بظاہر ملتے جلتے الفاظ کے حوالوں کو یک جا کردیا گیا ہے، حالانکہ ان کی نوعیت ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ ان میں سے بعض اسماے معرفہ، بعض اسماے ذات، بعض اسماے ظرفِ مکاں، بعض اسماے کیفیت اور بعض اسماے جمع ہیں، مثلاً: جہانگیر، جہانگیری۔ چنگیز، چنگیزی۔ ترک، ترکی۔ غلام، غلامی۔ شام، شامی۔ عشق، عاشقی۔ وطن، وطنیت۔ بُت، بُت کدہ۔ سرمایہ، سرمایہ دار۔ تصوف، صوفی۔ سلطنت، ملک، ملوکیت، حکومت۔ اس طرح کے حوالے الگ الگ درج ہونے چاہییں کیونکہ ان میں سے بعض شخصیات کے تحت آئیں گے، جیسے: جہانگیر، چنگیز۔ بعض موضوعات کے تحت آئیں گے، جیسے: تصوف، چنگیزی، ملوکیت، وطنیت اور بعض اماکن کے تحت جیسے: شام، ترکی۔ (۶) متعدد اہم شخصیات کے نام، عنوان کی فہرست میں شامل نہیں کیے گئے، مثلاً: سلیم (عثمانی فرماںروا۔ کلیات: ص۴۰۵) رام (ص۷۷۔ نظم کا موضوع ہی رام کی شخصیت ہے۔ اشاریے میں رام کے ساتھ واوین میں رام چندر جی بھی لکھنا چاہیے۔) غنی (ص۱۸۰۔ واوین میں کاشمیری کی صراحت کرنی چاہیے۔) شعیب (ص۳۸۰)۔ (۷) مرتب نے صرف ظاہری الفاظ کو پیشِ نظر رکھا ہے، مفہوم یا معنی پر غور نہیں کیا۔ مدیر مخزن (ص۱۲۶) عرب کے معمار (۱۳۶) پیر کنعان (۱۸۰) کلیمِ بے تجلّی اور مسیحِ بے صلیب (ص۶۵۰) کوہ کن (ص۷۶) پر غور کرکے انھیں علی الترتیب شیخ عبدالقادر، آنحضورؐ، حضرت یعقوب، کارل مارکس اور فرہاد کے تحت، اس صراحت کے ساتھ درج کرنا چاہیے تھا کہ یہ تراکیب متذکرہ شخصیات کے لیے ہیں۔ (۸)بعض عنوانات، اشاریے میں موجود ہیں مگر ان کے کئی حوالے چھوٹ گئے ہیں مثلاً: خودی: ص۳۵۱، ۵۹۴، ۶۲۸۔ خضر: ص۱۰۷۔ اسرافیل: ص۳۳۰، ۵۹۵۔ ترک: ۱۸۲۔ قیامت:ص۵۲۲۔ کَیْ: ص ۵۷۷۔ نرگس: ص۶۴، ۶۸، ۱۰۲، ۱۷۹، ۲۱۶، ۴۱۴۔ جہاد: ص۲۱۴۔ (۹) بعض اسما و الفاظ کے ساتھ ایسے صفحات نمبر درج کیے گئے ہیں، جن پر ان کا نام و نشان موجود نہیں مثلاً: کلیم: ۴۳۱، ۶۲۱۔ روم: ۱۶۲۔ حجاز: ۶۳۵۔ خودی: ۳۰۲، ۳۴۹، ۴۴۳، ۶۳۶، ۶۸۰۔ چشتی:۹۶۔ (۱۰) زیر مطالعہ اشاریے کا تیسرا حصہ بعنوان ’’موضوع‘‘ سب سے زیادہ ناقص ہے۔ مرتب نے بعض موضوعات منتخب کرلیے ہیں اور بعض چھوڑ دیے ہیں۔ اس ترک و اختیار کا معیار کیا ہے؟ فقط مرتب کی صواب دید۔ ایک طرف تو ’’سلامِ مغرب‘‘ اور ’’وزڈم آف دی ایسٹ‘‘ جیسے موضوع (جو در حقیقت موضوع کہلانے کے مستحق نہیں) قائم کیے گئے ہیں۔ دوسری طرف بے خودی، زمانہ، قلندر، فطرت، جنوں، جلال اور جمال ایسے اہم موضوعات کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ اس حصے میں اقبال کے شعری مجموعوں کے حوالے دیے گئے ہیں، حالانکہ متعلقہ صفحات پر اُن کا ذکر بحیثیت ’’کتاب‘‘ آیا ہے، نہ کہ بحیثیت ’’موضوع‘‘۔ بانگِ درا کے تحت درج شدہ چھے حوالوں میں سے پانچ حوالے (ص: ۵۳، ۱۲۵، ۱۵۹، ۱۷۰، ۲۰۶) قطعی غلط ہیں، کیونکہ ان کا تعلق کتاب بانگِ درا کے بجاے ’’بانگِ درا‘‘ کے لغوی معنی ’’گھنٹی کی آواز‘‘ سے ہے۔ مختصر یہ کہ اشاریۂ کلیات، مختلف النوع نقائص اور خامیوں سے پُر ہے۔ اس کے عیوب کا پلڑا، افادیت کے پہلو سے زیادہ وزنی ہے۔ اس اشاریے کی صحت و تصحیح کی نسبت، ایک نیا اشاریہ مرتب کرنا، زیادہ آسان ہوگا۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ اشاریہ گذشتہ کئی برس سے کلیات کے ساتھ چھپ رہا ہے، مگر کسی کو (بشمول ناشر، سول ایجنٹ، مرتب اور علماے اقبالیات) یہ احساس نہیں کہ بیرونِ ملک ہمارے علمی اور تحقیقی معیار کی کیا بھد اُڑ رہی ہے۔ ہمارے خیال میں اس اشاریے کو فی الفور، کلیات سے الگ کردینا چاہیے۔ کلیاتِ اقبال کی اشاریہ سازی کے لیے محض فنی تکنیک سے واقفیت کافی نہیں، اس کے لیے اقبالیات کے علم کے ساتھ ساتھ تھوڑی سی بصیرت بھی درکار ہے۔ یہ کام علماے اقبالیات کی نگرانی میں ہونا چاہیے، جو اشاریے کے مقاصد کے تعین۔ّکے ساتھ، اس کا پورا نقشہ خصوصاً موضوعات کی فہرست، مرتب کرے۔ پھر یہ کام کوئی تجربہ کار اور سلیقہ مند اشاریہ نگار انجام دے۔ کلیات کے اس مختصر سے جائزے ۱؎ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کلیات میں املا اور اس سے متعلق جملہ پہلوؤں کا مسئلہ انتشار اور تضادات کا شکار ہے۔ ادبی اور فنی لحاظ سے کلام اقبال کو اِستناد کا درجہ حاصل ہے (اور وقت گزرنے کے ساتھ، اقبال کی سند مستحکم ہوتی جائے گی۔) علامہ اقبال سے عقیدت و محبت اور ان کے کلام کی دل کشی کے سبب، ان کے اشعار، اُردو کے عام قاری ۱- یہاں صرف اُردو کلیات پیشِ نظر رہا ہے۔ اُردو اور فارسی املا کے بیشتر مسائل تو مشترک ہیں، بعض مخصوص فارسی الفاظ کے املا سے متعلق امور پر بحث، آیندہ ابواب میں کی جائے گی۔ کے وردِ زبان ہیں۔ آیندہ، کلامِ اقبال کے جتنے بھی نسخے چھپیں گے، ان میں، کاوش و محنت سے مرتب کیا جانے والا زیر بحث نسخۂ کلیات ہی نمونے کا کام دے گا اور اسی کی تقلید کی جائے گی۔۱؎ اس لیے نہایت ضروری ہے کہ اُن تمام امور کو، جن کی نشان دہی اوپر کی سطور میں کی جا چکی ہے، سنجیدگی سے زیر غور لاکر تدوین و املا کے حتمی قواعد و اُصول مرتب و منضبط کیے جائیں اور ان کی روشنی میں علماے اقبالیات کا ایک بورڈ، کلیات اُردو کا ایک مستند اور صحیح نسخہ تیار کرے، جسے معیاری نسخہ قرار دے کر رائج کیا جائے اور باقی تمام نسخے متروک قرار دے دیے جائیں۔ راقم کے ایک مضمون ’’کلامِ اقبال کی معیاری تدوین و اشاعت‘‘ (مشمولہ اقبالیات: تفہیم و تجزیہ،اقبال اکادمی پاکستان، لاہور [۲۰۰۵ئ]) سے زیر بحث مسئلے کی مزید وضاحت ہوتی ہے اور کچھ نئے نکات سامنے آتے ہیں۔ مذکورہ مضمون سے متعلقہ ایک پیرا ہم یہاں نقل کرتے ہیں: کسی خرابی کی اصلاح بروقت نہ کی جائے تو اس سے مزید خرابیاں جنم لیتی ہیں۔ راقم نے ۱۹۸۲ء میں نسخہ غ ع میں، ترتیب کلام میں تحریف، املا، کتابت اور لفظی غلطیوں کی نشان دہی کی تھی۔ مگر ناشر کی بے نیازی، بے اعتنائی اور تغافل خوب ہے کہ ابھی تک اُن کی اصلاح کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ ۱۹۹۰ء کے نسخہ اقبال اکادمی میں املا، کتابت اور لفظی اغلاط تو درست کردی گئیں مگر ترتیب کلام کو بدلنے کی جو بدعت، پہلی بار نسخہ غ ع میں اختیار کی گئی تھی، نسخہ اکادمی میں بھی اس کی پیروی کی گئی۔ نسخۂ اکادمی کے مقدمے میں کہا گیا ہے کہ ہم نے بالِ جبریل کی دو بیتیوں کو مناسب مقامات پر منتقل کردیا… حالانکہ یہ ’انتقال‘ تو نسخہ غ ع ہی میں ہوچکا تھا، آپ نے تو صرف اس کی پیروی کی ہے۔ پھر کہا گیا ہے کہ ’اس باب میں ہم نے معیاری رواج کو ترجیح دی‘۔ سوال یہ ہے کہ نسخہ غ ع کیسے ’معیاری رواج‘ ہوگیا؟ اور کیا علامہ اقبال کی قائم کردہ ترتیب کلام پر ’معیاری رواج‘ مقدم ہے؟ (ص۲۷۶) ۱- مثلاً بھارت میں مختلف ناشرین اسی کلیات کے عکسی اڈیشن شائع کررہے ہیں۔ پاکستانی ناشرین نے بھی اسی (غ ع ) اڈیشن کے مطابق ہی متعدد کلیات شائع کیے ہیں، حتیٰ کہ اقبال اکادمی پاکستان کے شائع کردہ کلیاتِ اقبال، اردو کی ترتیب میں بھی اسی (غ ع) اڈیشن کی تقلید کی گئی ہے۔ [یوں راقم نے ۱۹۸۰ء اور ۱۹۸۲ء میں جس خدشے کا اظہار کیا تھا، ۱۹۹۰ء میں وہ عملاً سامنے آگیا۔] تاہم اکادمی اڈیشن (جیسا کہ ہم دیباچے میں ذکر کرچکے ہیں) باعتبارِ متن صحیح نسخہ ہے۔ اس میں بانگِ درا کے اوّل تا آخر جملہ اڈیشنوں کی ایک غلطی کو اقبال کی ایک بیاض کی مدد سے درست کردیا گیا ہے۔ نظم’’… کی گود میں بلی دیکھ کر‘‘ کے پانچویں شعر میں ’’چھیڑ‘‘ درست ہے، نہ کہ ’’چڑھ‘‘۔ ئ……ئ……ء باب:۲ فارسی کلام کے مجموعے ز…ز…ز…ز (الف) اقبال کی فارسی گوئی قبل ازیں یہ ذکر آچکا ہے کہ اقبال کی عمومی شہرت کی بنیاد، ان کی اُردو شاعری تھی، تاہم ان کی شاعری پر مجموعی نظر ڈالیں، تو کمیّت و کیفیت، دونوں اعتبار سے اقبال کا فارسی کلام، ان کے اُردو کلام پر حاوی ہے۔۱؎ اقبال کی شاعری کا آغاز اُردو میں ہوا، مگر چند سال کے اندر، ان کے ہاں فارسی گوئی کا رجحان اس قدر ترقی کرگیا کہ ۱۹۳۴ء تک، اُردو کے ایک مجموعے (بانگِ درا ) کے مقابلے میں فارسی کی چھے کتابیں (اسرارِ خودی، رموزِ بے خودی، پیامِ مشرق، زبورِ عجم، جاوید نامہ اور مسافر) شائع ہوچکی تھیں۔ فارسی اقبال کی مادری زبان تھی اور نہ ملکی زبان، اس کے باوجود فارسی گوئی کی طرف اُن کے غیر معمولی میلان کی وجوہ کیا ہیں؟ ان کی فارسی گوئی کا آغاز کب ہوا؟ اور پھر ان کے اس شغف اور میلان میں کیوں کر اضافہ ہوتا گیا؟ یہ امور کسی قدر بحث طلب ہیں۔ شیخ عبدالقادر کا بیان ۲؎ ہے کہ قیامِ انگلستان کے زمانے میں ایک بار، کچھ دوستوں نے اقبال سے فارسی اشعار سنانے کی فرمائش کی۔ اقبال نے معذرت کی کہ اُنھوں نے ایک آدھ شعر کے سوا، کبھی فارسی میں کچھ کہنے کی کوشش نہیں کی، مگر یہی بات، اقبال کے لیے فارسی گوئی کا محرّک بن گئی اور اُنھوں نے دوستوں کی مذکورہ مجلس سے واپس آکر لیٹے لیٹے فارسی میں دو غزلیں کَہ ڈالیں۔ شیخ عبدالقادر نے اس واقعے سے جو نتیجہ (’’اقبال کی فارسی گوئی کی ابتدا‘‘) اخذ کیا ہے، وہ کسی اعتبار سے بھی صائب نہیں ہے۔ اقبال کی یہ بات کہ اُنھوں نے ایک آدھ شعر کے سوا کبھی فارسی میں شعر کہنے کی کوشش نہیں کی، محض ان کا تکلف اور انکسار تھا۔ قیام انگلستان کے زمانے تک، ان کے فارسی اشعار میں سے کم از کم ایک سو ہنوز محفوظ ۳؎ ہیں۔ درحقیقت ان کی فارسی گوئی کے نقطۂ آغاز کا حتمی تعین۔ّآسان نہیں ہے۔ ۱- اقبال، سب کے لیے: ص۴۰۰ ۲- دیباچہ، بانگِ درا : ص۱۶ ۳- اقبال اور فارسی شعرا: ص۱۵ اقبال کی فارسی گوئی میں، بہت سے امور کو دخل ہے: اقبال نے ابتدائی تعلیم روایتی طرز کی قدیم درس گاہوں میں حاصل کی تھی۔ ان کا زیادہ وقت مولوی میر حسن کے مکتب میں گزرا، جو مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی کے بقول: ’’عربی فارسی زبان دانی‘‘۱؎ کی درس گاہ تھی۔ میر حسن فارسی کے جیّد عالم تھے اور فارسی شعر و ادب کا رچا ہوا ذوق رکھتے تھے۔ ان کے ایک شاگرد ڈاکٹر جمشید علی راٹھور کا بیان ہے کہ: ذاتی طور پر انھیں خواجہ حافظ کا دیوان، مولانا روم کی مثنوی، نظامی کا سکندر نامہ اور عرفی کے قصائد زیادہ پسند تھے۔۲؎ انھیں ہزاروں اشعار نوکِ زبان تھے، بات بات پر شعر پڑھتے اور دوران تدریس برمحل اشعار سناتے۔۳؎ مکتب اور سکول کے اوقات کے بعد بھی، اقبال کا زیادہ تر وقت میر حسن کی صحبت میں گزرتا تھا، جنھوں نے اقبال کی طبیعت میں فارسی شاعری کا ذوق پختہ کردیا۔ اقبال ان سے اکتسابِ فیض کے معترف ہیں۔۴؎ اقبال کے بچپن کے ایک دوست ’’دینو‘‘ کا بیان ہے: اقبال کو فارسی زبان سے بہت زیادہ دل چسپی تھی۔ بارہ سال کی عمر میں اس نے گلستان و بوستان نہ صرف ازبر کرلی تھیں، بلکہ وہ ہمیں اپنی قوتِ حافظہ کی بدولت فارسی کی ان دونوں کتابوں سے سبق پڑھایا کرتا تھا… اقبال ہمیں اُردو اور فارسی کی نظمیں جھوم جھوم کر سنایا کرتا تھا۔۵؎ اس ماحول میں، اقبال نے فارسی میں مہارت پیدا کرنے کے لیے سخت محنت کی۔ ان کا اپنا بیان ہے: لوگوں کو تعجب ہوتا ہے کہ اقبال کو فارسی کیوں کر آگئی، جب کہ اس نے اسکول یا کالج میں یہ زبان نہیں پڑھی؟ انھیں یہ معلوم نہیں کہ میں نے فارسی زبان کی تحصیل کے لیے اسکول ہی کے زمانے میں کس قدر محنت اٹھائی اور کتنے اساتذہ سے استفادہ کیا۔۶؎ ۱- روایاتِ اقبال: ص۱۹۳ ۲- ایضاً: ص۵۵ ۳- ایضاً: ص۶۰ ۴- شاطر مدراسی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: مولوی سیّد میر حسن ’’بڑے بزرگ عالم اور شعر فہم ہیں۔ میں نے انھی سے اکتسابِ فیض کیا ہے۔‘‘ (خطوطِ اقبال: ص۷۳) ۵- امروز، ۲۲؍ اپریل ۱۹۴۹ئ۔ ۶- روایت: اسد ملتانی، اقبال نامہ، اوّل: ص۳۴۳ اقبال کے ابتدائی اشعار ہی میں اس محنت کے آثار موجود ہیں۔ دورِ طالب علمی کی نظم ’’فلاحِ قوم‘‘ (۱۸۹۶ئ) میں فارسیت کے ابتدائی آثار نظر آتے ہیں۔ ’’نالۂ یتیم‘‘ (۱۹۰۰ئ)، ’’یتیم کا خطاب، ہلال عید سے‘‘ (۱۹۰۱ئ) اور ’’اشکِ خوں‘‘ (۱۹۱۱ئ)۱؎ میں یہ اثر زیادہ گہرا ہوگیا ہے۔ سر عبدالقادر کو جنوری ۱۹۰۱ء کی نظم ’’ہمالہ‘‘ کے جن دو نمایاں پہلوؤں کا احساس ہوا، ان میں سے ایک اہم پہلو، نظم کی ’’فارسی بندشیں‘‘۲؎ تھا۔ ان اُردو نظموں میں متعدد فارسی مصرعے اور بعض جگہ پورے کے پورے فارسی شعر موجود ہیں۔ اوائل ۱۹۰۲ء کی نظم ’’اسلامیہ کالج کا خطاب مسلمانوں سے‘‘ میں واضح طور پر احساس ہوتا ہے کہ اقبال کے ہاں فارسی گوئی کا رجحان تیزی سے ترقی کررہا ہے۔ اس نظم کے ہر بند کا آخری شعر اور گیارہ اشعار پر مشتمل آخری پورا بند فارسی میں ہے۔اسی زمانے کی، منشی سراج الدین کو مرسلہ، ۲۳ اشعار کی ایک نظم ۳؎ کے سولہ اشعار فارسی میں ہیں اور بقیہ سات اُردو اشعار پر بھی فارسیت کا غلبہ ہے۔ کچھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ چھے اشعار لکھنے کے بعد، اُردو، اظہارِ خیال و جذبات میں مانع ہوئی، لہٰذا ساتویں شعر میں شاعر نے قافیہ بدل کر ’’فارسی میں نغمہ خواں‘‘ ۴؎ ہونے کا اعلان کیا، اس کے بعد اُردو کی نسبت فارسی میں زیادہ ’’شرحِ صدر‘‘ کے ساتھ اظہارِ جذبات کیا گیا ہے۔ اگرچہ اقبال کی شہرت کا باعث ان کی اُردو منظومات تھیں، تاہم ان کے فارسی کلام کے دل دادگان بھی کثیر تعداد میں موجود تھے، چنانچہ ۳۴ اشعار کی فارسی نظم ’’سپاس جناب امیر‘‘ شائع کرتے ہوئے مخزن (جنوری ۱۹۰۵ئ)۵؎ نے اقبال کے فارسی کلام کے لیے ’’احباب کے تقاضوں‘‘ اور ’’احباب کے اصرار‘‘ کا ذکر کیا۔ انگلستان جانے سے پہلے کی متعدد اُردو نظموں میں اِکا دُکا فارسی اشعار، مصرعے، فارسی بندشیں اور ترکیبیں اور بحیثیت مجموعی پختہ فارسی رنگ موجود ہے۔ ہمارا خیال ۱- چاروں نظموں کا متن ملاحظہ کیجیے: سرودِ رفتہ: صفحات نمبر علی الترتیب ۸،۹،۱۸ اور ۱۸۳ ۲- دیباچہ، بانگِ درا:ص۱۳ ۳- اقبال نامہ، اوّل: ص۱۶ تا۱۹ ۴- ع: ہوں بہ تبدیلِ قوافی، فارسی میں نغمہ خواں ۵- مخزن کا نوٹ: ’’ذیل کی نظم درج کرکے آج ہم ان احباب کے تقاضوں سے سبک دوش ہوتے ہیں، جو پروفیسر اقبال صاحب کے فارسی کلام کے لیے اکثر دفعہ اشتیاق ظاہر کیا کرتے ہیں۔ فارسی نظمیں عموماً مخزن میں درج نہیں ہوتیں، تاہم احباب کے اصرار سے ہم اسے ہدیۂ ناظرین کرتے ہیں‘‘۔ (ص۴۷) ہے کہ فارسی کی طرف اس میلان میں، مولانا گرامی سے ملاقاتوں اور اُن کی صحبتوں کے اثرات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ ۱۹۰۳ء میں اقبال کے ہاں گرامی کے قیام کی شہادت موجود ہے،۱؎ ممکن ہے تعلقات اور بھی قدیم ہوں اور مجلس آرائی ہوتی ہو۔ قیامِ انگلستان کے دوران میں، اپنے مقالے۲؎ کے سلسلے میں اُنھوں نے جو کتب بینی کی، اس سے اقبال کا فارسی ذوق اور بھی پختہ ہوگیا۔۳؎ عطیہ بیگم کو مُرسلہ، ایک فارسی غزل ۴؎ سے مترشّح ہے کہ وہ فارسی میں شعر کہنے لگے تھے، تاہم یہ ضرور ہے کہ ابھی شعوری طور پر اور سنجیدگی کے ساتھ وہ فارسی گوئی کی طرف متوجہ نہیں ہوئے تھے اور اسی لیے اُنھوں نے احباب کے سامنے فارسی اشعار سے معذوری ظاہر کی،۵؎ مگر اُسی روز ذرا سی توجہ سے اُنھوں نے فارسی میں دو غزلیں کَہ ڈالیں اور فارسی گوئی کے لیے ان کے اندر اعتماد بڑھا۔ یورپ سے واپسی پر، کبھی کبھار ہوشیار پور میں، فارسی کے قادرالکلام شاعر، مولانا گرامی سے شعر گوئی کی صحبتیں برپا ہوتی تھیں۔ سر عبدالقادر کی مذکورہ بالا، دوستوں کی مجلس کے بعد، یہ دوسرا موقع تھا کہ اقبال کے دل میں فارسی شعر گوئی کی خواہش پیدا ہوئی۔ عبدالعزیز مالواڈہ کا بیان ہے کہ ایک مشاعرے کے اختتام پر، جس میں مولانا گرامی نے فارسی اور اقبال نے اُردو اشعار سنائے تھے: ’’مجھے ڈاکٹر صاحب نے کہا: بھئی سنو، میں چاہتا ہوں کہ میں بھی فارسی میں شعر کہنے شروع کردوں‘‘۔۶؎ سیّد میر حسن ایسے فارسی کے جیّد عالم سے اقبال کے تلمذ۔ّ۔، فارسی کلاسیکی ادب کی باقاعدہ تحصیل اور پھر یورپ میں عربی اور فارسی کے قدیم علومِ تصوف و فلسفہ کے مطالعے کے پس منظر میں، فارسی گوئی کی طرف اقبال کی رغبت کو ان کی شعر گوئی کے ارتقا کی ایک کڑی سمجھنا چاہیے۔ میاں عبدالعزیز مالواڈہ کہتے ہیں: ۱- اقبال نامہ، اوّل: ص۹ ۲- Development ۳- دیباچہ، بانگِ درا : ص۱۶ ۴- اس غزل کا پہلا شعر ہے: اے گل ز خارِ آرزو آزاد چو رسیدۂِ تو ہم ز خاکِ ایں چمن مانندِ ما دمیدۂِ (Letters to Atiya: ص۱۳) ۵- دیباچہ، بانگِ درا : ص۱۶ ۶- نقوش، اقبال نمبر ۲، دسمبر۱۹۷۷ئ: ص۶۲۱ آخر یہ طے ہوا کہ آئندہ ڈاکٹر صاحب فارسی میں کَہ کر میرے پاس بھیج دیا کریں گے اور میں اس کلام کو گرامی صاحب کی اصلاح کے بعد، ان کو واپس کردیا کروں گا… اس طرح تین مرتبہ اقبال کے کلام پر گرامی صاحب نے جو اصلاح دی، وہ میں نے ڈاکٹر صاحب کو لاہور واپس کردی۔ پہلی دفعہ… گرامی صاحب نے کہا تھا: بھئی، یہ فارسی میں بھی خوب کہے گا۔ دوسری دفعہ کہنے لگے: بہت عمدہ۔ تیسری دفعہ اُنھوں نے کہا: آپ ان کو لکھیں کہ اب میرے پاس وہ اپنا کلام نہ بھیجیں، خود ہی نظر ثانی کرلیا کریں۔۱؎ اسی زمانے (۱۱-۱۹۱۰ئ) میں علامہ اقبال نے اسرارِ خودی لکھنا شروع کی۲؎… اسرارِ خودی کے دور (۱۵-۱۹۱۰ئ) میں اُردو گوئی کا سلسلہ بھی جاری رہا، مگر اس میں فارسی کا اثر بہت نمایاں ہے۔ پورے پورے فارسی اشعار اور فارسی شاعروں کے مصرعوں اور شعروں پر تضمینوں کا تناسب بڑھتا گیا۔ ایک طرف اسرارِ خودی میں، وہ حافظِ ’’صہبا گسار‘‘ سے بچنے کی تلقین کررہے تھے،۳؎ مگر دوسری طرف اُردو منظومات میں کسی بھی دوسرے فارسی شاعر کے مقابلے میں حافظ کے شعروں اور مصرعوں پر نسبتاً زیادہ تضمینیں کررہے تھے، شاید اس لیے کہ کئی سال پہلے، قیامِ انگلستان کے دوران میں اقبال، روحِ حافظ کو اپنی شعری شخصیت میں حلول کرتا۴؎ محسوس کرچکے تھے۔ اقبال کے اسبابِ فارسی گوئی کے ضمن میں، متذکرہ بالا امور کے علاوہ، اس امر کو بھی نمایاں دخل ہے، کہ ’’تنگناے اُردو‘‘، ان کے افکار و جذبات کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی۔ ایک بار، اس سوال کے جواب میں کہ: ’’فارسی میں لکھنے کا خیال آپ کو کس طرح آیا‘‘؟ کہنے لگے: ’’میں نے دیکھا تھا کہ فارسی میں میرے خیالات اچھی طرح ادا ہوسکتے ہیں‘‘۔۵؎ پھر یہ شہادت بھی موجود ہے کہ اسرارِ خودی ۱- نقوش، اقبال نمبر ۲، دسمبر ۱۹۷۷ئ: ص ۶۲۱-۶۲۲ ۲- گفتارِ اقبال: ص۲۵۰ ۳- ہوشیار از حافظِ صہبا گسار جامش از زہرِ اجل سرمایہ دار (اسرارِ خودی: طبع اوّل، ص۶۶) ۴- ڈاکٹر یوسف حسین خاں کو خلیفہ عبدالحکیم کے ایک مبہم بیان (فکرِ اقبال: ص۳۷۴) سے یہ تسامح ہوا کہ اقبال نے یہ بات خلیفہ صاحب سے کہی تھی۔ (حافظ اور اقبال: ص۱۲)۔ درحقیقت یہ بات اقبال نے ایک ملاقات کے دوران میں، عطیہ بیگم سے کہی تھی۔ دیکھیے : Letters to Atiya: ص۱۵۔ ۵- آثارِ اقبال: ص۵۰ پہلے پہل اُردو میں لکھنی شروع کی تھی، مگر دلی مطالب ظاہر کرنے میں مشکل پیش آئی، اس لیے فارسی اختیار کی۔۱؎ اقبال کی عمومی شہرت اُردو شاعر کی تھی۔ غالباً اس احساس کے تحت، کہ ان کی اوّلین شعری کتاب فارسی میں دیکھ کر، شائقین متعجب ہوں گے، اقبال نے اپنی فارسی گوئی کی یہ توجیہ پیش کی: طرزِ گفتارِ دری شیریں تر است اس شیرینی کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ دقیق خیالات کے اظہار کے لیے، اُردو کی نسبت، فارسی کا سرمایۂ الفاظ کہیں زیادہ ہے اور بقولِ اقبال: ’’فارسی میں کئی فقرے اور جملے سانچے میں ڈھلے ہوئے ایسے ملتے ہیں، جن کے مطابق اُردو میں فقرے ڈھالنے آسان نہیں‘‘۔۲؎ یہ بات اگرچہ اقبال نے اسرارِ خودی کی تکمیل (نومبر۱۹۱۴ئ) پر گرامی کو لکھی تھی کہ: ’’فارسی کی طرف زیادہ میلان ہوتا جاتا ہے اور وجہ یہ ہے کہ دل کا بخار اُردو میں نکال نہیں سکتا‘‘۳؎ ، تاہم کئی سال پہلے بھی، یہ بات اسی قدر صحیح تھی۔ خیالات کی بآسانی ترسیل کے علاوہ، فارسی کے وسیع حلقۂ اثر کا خیال بھی، اقبال کے ذہن میں تھا، کیونکہ برعظیم کے علاوہ بھی یہ ’’دنیا کے بہت سے حصوں میں سمجھی جاتی تھی‘‘۔۴؎ اوپر ذکر آچکا ہے کہ عبدالعزیز مالواڈہ کے توسط سے، اقبال نے مولانا گرامی کو فارسی اشعار دکھائے۔ اس ’’مشورۂ سخن‘‘ نے آگے چل کر باہمی استفادہ و اکتساب کی نسبتاً وسیع صورت اختیار کرلی۔ گرامی، جب بھی لاہور آتے تو اقبال کے ہاں قیام رہتا، شعر گوئی ہوتی اور شعری رموز و نکات پر بحث و مباحثہ بھی۔ اقبال، مولانا گرامی کی فارسی دانی اور قادر الکلامی کے قائل تھے اور اسی لیے خطوں میں بھی انھیں بار بار اپنے کلام پر تبصرہ و تنقید کی دعوت دیتے۔۵؎ گرامی کے نام ۱۳؍جولائی ۱۹۱۴ء کے خط میں اقبال اسرارِ خودی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: یہ مثنوی بالکل نئی ہے، لیکن آپ سے ملاقات ہو تو آپ کو اس کے اشعار سناؤں۔ مجھے یقین ہے، آپ اسے سن کر خوش ہوں گے۔ کہیے، ادھر آنے کا کب تک قصد ہے؟ میں ایک عرصے سے آپ کا منتظر ہوں۔ خدا را جلد آئیے، سب سے بڑا کام تو یہ ہے کہ آکر میری مثنوی سنیے اور اس میں مشورہ دیجیے۔‘‘۶؎ ۱- انوارِ اقبال: ص۱۵۶ ۲- آثارِ اقبال: ص۵۰ ۳- مکاتیبِ اقبال بنام گرامی: ص۹۹ ۴- دیباچہ، بانگِ درا : ص۱۶ ۵- مکاتیبِ اقبال بنام گرامی: ص۱۲۷، ۱۹۴،۱۹۹ وغیرہ۔ ۶- ایضاً :ص۹۸ اپنی منظومات اور شعری تصانیف کو آخری شکل دیتے ہوئے، اقبال نے گرامی کے علاوہ بعض دوسرے اہلِ علم معاصرین مثلاً سیّد سلیمان ندوی۱؎ اور حبیب الرحمن خاں شروانی۲؎ کے مشوروں اور تنقیدوں سے بھی فائدہ اٹھایا۔ ان کا اپنا مطالعہ بھی نہایت وسیع اور تنقیدی شعور بہت پختہ تھا۔ الفاظ و محاورات اور تراکیب کے استعمال اور ان کی تحقیق کے سلسلے میں قدیم اساتذہ کے کلام یا لغت سے استشہاد کرتے۔ لغت میں بالعموم بہارِ عجم کی سند مدِّنظر رہتی تھی۔۳؎ اقبال نے فارسی شعر و ادب کے وسیع مطالعے سے، جو ہمہ گیر اثرات قبول کیے، اس کے نتیجے میں تقریباً ستر کے قریب شعرا، ان کے کلام میں مذکور ہیں۔۴؎ مزید برآں فارسی شاعری کے مصرعوں اورشعروں پر تضمینوں، تراجم اور دیگر تاثرات قبول کرنے کے لحاظ سے، اقبال تمام اُردو شعرا میں سرِ فہرست ہیں۔۵؎ فارسی شاعری سے اقبال کی ہمہ گیر اثر پذیری میں حافظ اور رومی کے نام سب سے نمایاں ہیں۔ اسرارِ خودی میں اقبال نے حافظ پر شدید تنقید کی تھی: ’’کیونکہ ان کی شاعری نے مسلمانوں کے انحطاط میں، بطور ایک عنصر کے، کام کیا ہے‘‘،۶؎ مگر فنی اعتبار سے وہ حافظ کو بلند پایہ شاعر سمجھتے تھے۔۷؎ اور خود ان کے شاعرانہ سحر کے اسیر تھے۔ اسرارِ خودی(طبع اوّل) میں اُنھوں نے ’’ہوشیار از حافظِ صہبا گسار‘‘ سے آغاز کرتے ہوئے، حافظ پر جو کڑی تنقید کی، اس میں بھی وہ حافظ کے پیرایۂ بیان کے جادو سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ ان کا یہ مصرع: ’’از دو جام آشفتہ شد دستارِ او‘‘ حافظ کے مندرجہ ذیل شعر سے ماخوذ۸؎ہے: صوفیِ سر خوش ازیں دست کہ کج کرد کلاہ بدو جامِ دگر آشفتہ شود دستارش ۱- اقبال نامہ، اوّل:ص۸۵ ۲- ایضاً: ص۷ ۳- ایضاً: ص۸۹ تا۹۷ ۴- اقبال اور فارسی شعرا: ص۲۲ ۵- ایضاً: ص۴۰ ۶- مقالاتِ اقبال: ص۱۷۳ ۷- ایضاً: ص۱۶۶ ۸- حافظ اور اقبال: ص۱۳ اقبال کے فارسی کلام پر مجموعی حیثیت سے نظر ڈالیں، تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ حافظ کے حسنِ بیان، حسنِ اختراع، حسنِ ترکیب اور حسنِ آہنگ کا اثر علامہ اقبال پر تمام عمر رہا۔۱؎ ڈاکٹر یوسف حسین خاں لکھتے ہیں: اگرچہ شروع میں اقبال نے حافظ پر تنقید کی تھی، لیکن بعد میں اس نے محسوس کیا کہ اپنی مقصدیت کو مؤثر بنانے کے لیے حافظ کا پیرایۂ بیان اختیار کرنا ضروری ہے، چنانچہ اس نے حافظ کے طرز۔واُسلوب کا شعوری طور پر تتبع کیا۔۲؎ تتبّع شعوری ہو یا غیر شعوری، یہ امر مسلّم ہے کہ اقبال نے سبکِ ہندی کو نظر انداز کرکے، تقلیدِ حافظ میں، سبکِ عراقی کی پیروی اختیار کی اور ان کے اُسلوب و فن پر حافظ کے اثرات سے انکار ممکن نہیں۔ اقبال شعرِ حافظ کے فکری پہلو کو مسلمانوں کے لیے ضرر رساں سمجھنے کے باوجود، ایک اعلیٰ درجے کے شاعر کی حیثیت سے، ان کی عظمت کے معترف اور ان کی تعریف میں رطب اللسان رہے۔۳؎ پیامِ مشرق اور زبورِ عجم کی دو درجن سے زائد ہم طرح اور ہم زمین غزلوں اور مجموعی طور پر اقبال کی غزلوں میں حافظ کے رنگ و آہنگ، ان کے رموز و علائم اور ان کے استعاروں اور کنایوں کو دیکھیں تو اقبال کی اس بات میں کچھ زیادہ مبالغہ محسوس نہیں ہوتا کہ: تیری میناے سخن میں ہے شرابِ شیراز خلیفہ عبدالحکیم لکھتے ہیں: ’’اقبال کی فارسی غزلیں ایسی ہیں کہ اگر ان کو دیوانِ حافظ میں داخل کردیا جائے تو پڑھنے والے حافظ کے کلام سے اس کا امتیاز نہ کرسکیں گے‘‘۔۴؎ اس بات کو مبالغہ سمجھیں، تب بھی پروفیسر محمد منور کے مطابق، علامہ اقبال کے درجنوں اشعار کے ضمن میں ایسا کہنا بالکل درست ہوگا۔۵؎ ۱- پروفیسر محمد منور، علامہ اقبال کی فارسی غزل: ص۷ ۲- حافظ اور اقبال: ص۷ ۳- ملاحظہ کیجیے: (الف) مکاتیبِ اقبال بنام گرامی: ص۱۸۰ (ب) مقالات اقبال: ص۱۷۳ (ج) Stray Reflections: ص۱۱۹ ۴- فکر اقبال: ص۳۷۴ ۵- علامہ اقبال کی فارسی غزل: ص۷۶ فن، اُسلوب اور شاعرانہ پہلو سے قطعِ نظر، فکری اعتبار سے اقبال پر سب سے زیادہ اثر پیرِ روم کا ہے۔ یہ ذکر آچکا ہے کہ رومی کی مثنوی، علامہ میر حسن کی تین پسندیدہ کتابوں میں شامل تھی۔ رومی سے اقبال کے فکری تعلق میں میر حسن سے تلمذ۔ّ۔ ایک بنیادی عنصر ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اُنھوں نے اپنا مطالعہ؛ قرآن اور مثنوی۱؎ تک محدود کرلیا۔ مثنوی میں بھی انھیں قرآنی مطالب نظر آتے تھے: کو بہ حرفِ پہلوی قرآں نوشت جب وہ حیات و کائنات کی پیچیدہ گتھیوں کی نقاب کشائی کرتے ہیں تو اسرارِ حیات کے انکشاف کا سہرا اپنے مرشد، رومی کے سر باندھتے ہیں: ازو آموختم اسرارِ جاں من جاوید نامہ میں ان کا سفر، رومی ہی کی راہ نمائی میں طے ہوتا ہے اور آخر میں جاوید کو بھی ان کی یہی نصیحت ہے کہ: پیرِ رومی را رفیقِ راہ ساز تاخدا بخشد ترا سوز و گداز۲؎ سیّد وزیر الحسن عابدی کی یہ راے تو مبالغہ آمیز ہے: قرآن و حدیث کے معانیِ عالیہ بھی اقبال نے بنیادی طور پر، رومی ہی کے توسط سے لیے ہیں، بلکہ حکمتِ مغرب میں بھی انھیں جہاں کہیں کوئی نکتہ ایسا ملتا ہے، جو ضالۂ مومن کے تحت نظر آتا ہے، اُسے وہ رومی کی تصدیق و تائید سے قبول کرتے ہیں۔۳؎ تاہم اس میں شبہہ نہیں کہ اقبال، مرشدِ معنوی کی تعریف میں ہمیشہ رطب اللسان رہے۔ خطبات میں لکھتے ہیں: The world of to-day needs a Rumi to create an attitude of hope and to kindle the fire of enthusiasm for life. ۴؎ بعد ازاں یہ استفادہ، ذہنی اور فکری حدوں سے بڑھ کر، فنّی اثر پذیری تک پھیل گیا۔ ’’گلشنِ راز جدید‘‘ کے سوا، اقبال کی تمام مثنویاں، مثنویِ معنوی کی بحر میں ہیں۔ ’’پیامِ مشرق میں حافظ کے اثرات ۱- اقبال نامہ، دوم: ص۲۷-۲۸ ۲- جاوید نامہ: ص۲۰۸ ۳- اقبال کے شعری ماخذ، مثنوی رومی میں: ص۱۶-۱۷ ۴- Reconstruction: ص۹۷ غالب ہیں مگر زبورِ عجم میں رومی کی گونج نسبتاً قوی ہے۔ اقبال کی ان ہم زمین اور ہم طرح غزلوں کے علاوہ، جو رومی کی غزلوں کے تتبع میں کہی گئیں، پیامِ مشرق اور زبورِ عجم میں رومی کے لب و لہجے سے مماثل غزلوں کی تعداد بھی خاصی ہے۔ اقبال نے رومی کے زیر اثر ہی سادہ بیانی اور تمثیلی انداز اختیار کیا۔ شعراے سبکِ ہندی کی ریزہ کاری اور پیچیدگی کے برعکس، اقبال اپنے صریح اور روشن اُسلوب کی وجہ سے رومی سے قریب تر ہیں۔۱؎ اقبال کی فارسی گوئی کا شاہکار جاوید نامہ مثنوی معنوی کا رنگ و روپ رکھتا ہے۔۲؎ یہ کتاب اقبال کے اپنے الفاظ میں: ’’مثنوی مولانا روم کی طرز پر لکھی گئی ہے‘‘۔۳؎ اقبال کی فارسی گوئی پر سب سے زیادہ اثرات تو حافظ اور رومی ہی کے ہیں، تاہم ان کے ہاں نظیری، بیدل، غالب، عرفی، بابا فغانی، امیر خسرو، بابا طاہر عریاں، جامی، عطار، سعدی اور بہت سے دوسرے شعرا کے فکر و اُسلوب کی جھلکیاں بھی کسی نہ کسی شکل میں مل جاتی ہیں۔ فارسی گو شعرا کے ساتھ اقبال کے شاعرانہ اِرتباط کے ضمن میں ستر سے بھی زائد شعرا کی فہرست مرتب ہوتی ہے۔۴؎ اقبال نے اپنی فارسی گوئی کے ابتدائی دور میں فارسی شاعری کی کلاسیکی روایات کا تتبّع کیا اور اس میں بھی ان کی توجہ مثنوی اور غزل کی نسبتاً مقبولِ عام اصناف کی طرف رہی۔ اسرار و رموز اور پیامِ مشرق کا ایک حصہ، ہیئت اور اُسلوب، دونوں اعتبار سے خالصتاً کلاسیکی شاعری میں شمار ہوگا مگر معاً بعد اقبال کی جدّت و جولانیِ طبع نے ہیئت و اُسلوب کے نئے تجربات کا آغاز کیا۔ پیامِ مشرق کی متعدد نظمیں مثلاً ’فصلِ بہار‘، ’سرودِ انجم‘، ’کرمکِ شب تاب‘، ’حُدی‘ (نغمۂ ساربانِ حجاز) اور ’شبنم‘ ہیئتی تجربوں کے اعتبار سے ان کے اِبداعی ذہن کی عکاس ہیں۔ ’’نغمۂ بعل‘‘ (جاوید نامہ) صوت و آہنگ کا ایک نیا تجربہ ہے۔ یہ سلسلہ زبورِ عجم میں بھی جاری ہے… اقبال مغربی ۱- محمد اقبال: ص۲۸ ۲- اقبال، سب کے لیے: ص۴۵۲ ۳- اقبال نامہ، اوّل: ص۲۱۶ ۴- مفصل مطالعے کے لیے ملاحظہ کیجیے: (الف) علامہ اقبال کی فارسی غزل از پروفیسر محمد منور۔ (ب) اقبال کی فارسی شاعری کا تنقیدی جائزہ از عبدالشکور احسن۔ (ج) اقبال اور فارسی شعرا از ڈاکٹر محمد ریاض۔ ادب سے بھی گہری واقفیت رکھتے تھے۔ ممکن ہے، ان تجربات کا ذہنی پس منظر اقبال کا مغربی ادبیات کا وسیع مطالعہ ہو۔ ایرانیوں کے لیے یہ ابداعات بہرحال نئے تھے۔ ڈاکٹر عبدالشکور احسن لکھتے ہیں: ایران کی جدید شاعری میں ہیئت کے نئے نئے تجربے ہوئے ہیں، مگر ان کا زمانہ عام طور پر پیامِ مشرق اور زبورِ عجم کی طباعت سے بعد کا ہے۔۱؎ زبورِ عجم بظاہر غزلوں کا مجموعہ ہے، مگر اس میں بھی اقبال کی طبعی جدت اور اختراعی ذہن نے ایک نیا رنگ دکھایا ہے۔ وہ روایتی غزل کے برعکس بالعموم مقطع نہیں لکھتے۔۲؎ اُنھوں نے متعدد نئی تراکیب تخلیق کیں۔ روایتی غزل کے متداول الفاظ کے معانی میں توسیع کے ساتھ انھیں نئے مفاہیم بھی عطا کیے۔ بقول پروفیسر محمد منور: ’پرانے اشارے کو نئے مشار’‘ الیہ سے ہم کنار کیا اور پرانی رمز کو نیا مرموز دیا۔ ساتھ ہی کچھ نئی اشاریت بھی اختراع کی۔ کچھ مضمون پرانے ہی رہے، مگر اظہار کا پیرایہ نیا ہوگیا‘‘۔۳؎ بعض نئے اسما و اماکن مثلاً فرامرز، جہاں دوست اور مرغدین وغیرہ اقبال کی جودتِ طبع پر دلالت کرتے ہیں۔ پروفیسر آربری، علامہ اقبال کی فارسی شاعری کے انھی پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: Iqbal accepted the ghazal as he found it, with all its age-long rigidity of form and matter; and with the true touch of genius. He took it one stage forward. While remaining absolutely true to both pattern and image, he gave the form a new meaning by making it express his individual message. The ghazal had been put to a variety of derived uses by the old masters; the panegyrists had taken the love-motive and directed it to the patron-flattery; the mystics has used the language of human passion to express their devotion to God. Now for the first time the ancient form was made to clothe the body of a new philosophy. ۴؎ یہ اس لیے ممکن ہوسکا تھا کہ فارسی علوم اور شعر و ادب سے کسب و اکتساب کے جس سلسلے کا ۱- اقبال کی فارسی شاعری کا تنقیدی جائزہ: ص۴۸۹ ۲- مکاتیبِ اقبال بنام گرامی: ص۱۶۴۔ ’’مقطع لکھنے کی عادت ہی نہیں‘‘۔ ۳- علامہ اقبال کی فارسی غزل: ص۱۳۳ ۴- دیباچہ: Persian Psalms آغاز، سیال۔کوٹ میں مولوی غلام حسن صاحب کے مکتب سے ہوا تھا، وہ سکول اور کالج کی متعلّمی اورینٹل کالج کی معلمی، قیامِ یورپ اور پھر اقبال کی پیشہ ورانہ اور روزمرہ مصروفیات کے ایام میں بھی جاری رہا، بلکہ روز بروز اس کی حدود وسعت پذیر ہوتی رہیں، حتیٰ کہ ان کی قادر الکلامی اور مہارتِ زبان، نہ صرف اپنوں کے لیے باعثِ فخر ۱؎ ثابت ہوئی، بلکہ اہلِ ایران بھی اس پر متعجب ہوئے۔ غلام حسین صالحی علامی لکھتے ہیں: زبانِ اصلیِ او پارسی نبودہ تاچہ حد درتعبیرِ معانی و تشبیہات و استعاراتِ لطیف استادی و مہارت از خود نشان دادہ است کہ گوئی زبان مادری او پارسی است۔۲؎ حقیقت یہ ہے کہ فارسی شاعری میں اقبال کی نئی آواز منفرد اور ممتاز ہے۔ سادگی و سادہ بیانی اور کلاسیکی روایات کی پاس داری کے باوجود، ان کے بے باک انقلابی لہجے، تخیل کی رنگینی اور جولانی، فکری اور اُسلوبی اِبداعات، لفظی اور تراکیبی اختراعات، غنائیت اور ڈرامائیت نے شعرِ اقبال کو، فارسی شاعری کی تاریخ میں ایک ایسا مقام عطا کیا ہے کہ انھیں روایتی انداز کے لسانی اور شعری دبستانوں میں سے کسی ایک کے ساتھ مخصوص و منسلک نہیں کرسکتے۔ ایران کے معروف عالم اور دانش وَر ڈاکٹر حسین خطیبی کا خیال ہے کہ:’’ایں شاعر سبکی مخصوص بہ خود داشت کہ شاید مناسب باشد، آں را بنامِ شاعر سبکِ اقبال بخوانیم‘‘۔۳؎ کسی شاعر کے لیے ایک غیر زبان میں اظہارِ بیان کی ایسی قدرت و مہارت بہم پہنچالینا، کہ اہلِ زبان کو بھی اعتراف کرتے ہی بنے، ایک غیر معمولی بات ہے اور نہ صرف فارسی ادب کی تاریخ، بلکہ عالمی ادبیات میں بھی یہ ایک نادر مثال ہے۔ آئندہ صفحات میں ہم اقبال کے فارسی مجموعوں کی مختلف اشاعتوں پر تحقیقی نظر ڈالیں گے۔ ئ……ئ……ء ۱- حافظ اور اقبال: ص۳۵ ۲- یک چمنِ گل: ص۱۳-۱۴ ۳- رومیِ عصر: ص۱۵۵ (ب) فارسی کلام کے مجموعے ژ اسرارِ خودی عطیہ بیگم کے نام ۷؍جولائی۱۹۱۱ء کے مکتوب میں، علامہ اقبال رقم طراز ہیں: Father has asked me to write a Masnavi in Persian after Bu Ali Qalander's and inspite of the difficulty of the task, I have undertaken to do so. ۱؎ مگر محض اتنی سی بات مثنوی کا محرک نہ تھی۔ سہ سالہ قیامِ یورپ۲؎، سلطنتِ عثمانیہ کا بکھرتا ہوا شیرازہ، ملتِ اسلامیہ کا عمومی زوال و انحطاط اور ان سب کے نتیجے میں وہ ذہنی کرب و اضطراب، جو کسی حد تک ’’شکوہ‘‘ اور ’’شمع و شاعر‘‘ جیسی نظموں اور اس زمانے کے خطوط (بطورِ خاص مکاتیب بنام اکبر الٰہ آبادی۳؎) میں ظاہر ہوا، اسرارِ خودی کا اصل محرک ہے۔ والدِ اقبال کی تجویز کو البتہ فوری محرک قرار دیا جاسکتا ہے، ورنہ مہاراجا کشن پرشاد شاد کے نام ایک خط میں علامہ اقبال بتاتے ہیں کہ اُنھوں نے مثنوی از خود نہیں لکھی، بلکہ انھیں ’’اس کو لکھنے کی ہدایت ہوئی ہے‘‘۴؎ …یہ اشارہ ہے اس امر کی جانب کہ انھیں، مثنوی لکھنے پر قدرت نے مامور کیا ہے۔ اقبال نے اسرارِ خودی کا آغاز کب کیا؟ اس کی اوّلین اور قدیم ترین شہادت عطیہ بیگم کے نام اقبال کے متذکرہ بالا مکتوب (مؤرخہ: ۷جولائی۱۹۱۱ئ) میں موجود ہے۔ اس خط میں اُنھوں نے اسرارِ خودی کے چند اشعار درج کیے ہیں۔ ان میں سے ایک شعر جوں کا توں اور دو اشعار کسی قدر ترمیم کے ساتھ، مثنوی کے ابتدائی حصے میں موجود ہیں۔ مکتوب بنام عطیہ بیگم کا جو اقتباس اوپر نقل کیا گیا ہے، اس کے آخری جملے: I have undertaken to do so. ۱- Letters to Atiya: ص۷۳ ۲- وحید احمد کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’حقیقت یہ ہے کہ یورپ کی آب و ہوا نے مجھے مسلمان کردیا‘‘۔ انوارِ اقبال: ص۱۷۶ ۳- اقبال نامہ، دوم: ص۳۴-۷۷ ۴- صحیفہ، اقبال نمبر، اوّل ۱۹۷۳ئ:ص۱۶۸ سے مترشح ہوتا ہے کہ آغازِ کار کو کچھ زیادہ دن نہ گزرے تھے عین ممکن ہے۔ آغاز، جون، جولائی میں ہوا ہو۔ ۷؍جولائی۱۹۱۱ء سے پہلے،کسی تحریر یا خط میں مثنوی کا تذکرہ نہیں ملتا۔ بنابریں یہ بات یقینی معلوم ہوتی ہے، کہ اگر ہم کچھ پیچھے بھی چلیں تو، مثنوی کا آغاز ۱۹۱۱ء کے نصف اوّل میں ہوا ہوگا۔۱؎ غالباً ابتدائی حصہ لکھنے کے بعد، مثنوی نویسی کا سلسلہ تعطل کا شکار ہوگیا اور ڈیڑھ دو سال کے وقفے کے بعد، وہ ازسرِ نو مثنوی کی طرف متوجہ ہوئے۔ مولانا گرامی کو ۱۳؍جولائی ۱۹۱۴ء کے مکتوب میں لکھتے ہیں: ’’گذشتہ سال ایک مثنوی، فارسی میں لکھنی شروع کی تھی‘‘۔۲؎ یہاں ’’شروع کرنے‘‘ سے، یہی مراد لینا چاہیے کہ ۱۹۱۳ء میں اقبال، از سرِ نو مثنوی کی طرف متوجہ ہوئے۔ چنانچہ اس کا زیادہ تر حصہ ۱۹۱۳ء اور ۱۹۱۴ء میں لکھا گیا۔۳؎ تکمیل ۹؍فروری ۱۹۱۵ء کو ہوئی۔۴؎ معاً بعد، ۹؍نومبر کو والدۂ اقبال کی رحلت کا حادثہ پیش آیا۔ پھر دسمبر میں مختار بیگم سے عقدِ (ثالث) کی مصروفیات رہیں۔ علاوہ ازیں، یہ امر بھی سببِ تعویق ہوا کہ اشاعت سے قبل وہ مثنوی سے ہر طرح ’’مطمئن‘‘ ۵؎ ہونے کے لیے، مولانا گرامی سے مشورے کے خواہاں تھے۔۶؎ غالباً ان ایام میں مولانا گرامی لاہور نہ آسکے۔ خواجہ عزیز لکھنوی کو بھی مثنوی دکھانا چاہتے تھے، مگر لکھنؤ نہ جاسکے۔۷؎ ۱- ڈاکٹر محمد ریاض لکھتے ہیں: ’’اس کے آغاز کا ماہ و سال ہمیں معلوم نہیں، مگر قرائن بتاتے ہیں کہ پہلی جنگ عظیم کے شروع ہونے سے قبل، اس کا آغاز ہوچکا تھا۔‘‘ (اقبال اور فارسی شعرا: ص۳۹) مہینے کا تعین۔ّنہ سہی، سال کا تعین۔ّتویقینی طور پر ممکن ہے… اسی طرح ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کا یہ بیان بھی درست نہیں کہ: ’’۱۹۱۳ء سے اقبال اسرارِ خودی کی تحریر میں مصروف تھے‘‘۔ (سرگذشتِ اقبال: ص۱۲۴) ۲- مکاتیبِ اقبال بنام گرامی: ص۹۸۔ غالباً اسی بنا پر ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کو متذکرہ بالا تسامح ہوا۔ ۳- اقبال نامہ، اوّل: ص۲۲ ۴- مثنوی کی ایک بیاض (نمبرA/M. 1977. 201 ) میں، اقبال نے مثنوی کا جو سرورق بنایا ہے، اس پر ’’۹؍فروری ۱۵ء اِتمام یافت‘‘ کے الفاظ درج ہیں۔ ۲۳؍نومبر ۱۹۱۳ء کے ایک خط بنام شاد میں یہ الفاظ ملتے ہیں: فارسی مثنوی ختم ہوگئی ہے‘‘۔ (صحیفہ، اقبال نمبر، اوّل، ۱۹۷۳ئ: ص۱۳۲) ۔ بظاہر دونوں بیانات میں تضاد معلوم ہوتا ہے مگر ہمارا خیال ہے کہ مثنوی کا بڑا حصہ ۱۹۱۳ء میں ختم ہوگیا اور ۱۹۱۴ء میں اقبال اس پر نظرثانی کرتے رہے۔ ۵- صحیفہ، اقبال نمبر، اوّل، ۱۹۷۳ئ: ص۱۳۲ ۶- مکاتیبِ اقبال بنامِ گرامی: ص۹۸-۹۹ ۷- ایضاً: ص۱۰۵ اسرارِ خودی کی اشاعت (۱۹۱۵ئ) سے قبل، اس کے کئی حصے، مختلف جرائد میں شائع ہوتے رہے۔۱؎ ان حصوں کے متعدد اشعار کا متن، طبع اوّل سے خاصا مختلف ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال مثنوی پر نظرثانی کرتے ہوئے خود اپنے اشعار کی اصلاح کرتے رہے۔ مولانا گرامی سے خط کتابت کے ذریعے، مشورہ بھی ہوتا رہا۔۲؎ نظرثانی اور ترمیم و اصلاح کا یہ سلسلہ فروری ۱۹۱۵ئ۳؎ تک جاری رہا۔ اقبال نے مثنوی کا مسوّدہ کئی بار تیار کرایا۔ مثنوی میں بار بار اور بکثرت کی جانے والی ترامیم کا کچھ اندازہ، اسرارِ خودی کے ان تین قلمی نسخوں اور مسوّدوں سے کیا جاسکتا ہے، جو اقبال میوزیم لاہور میں محفوظ ہیں۔۴؎ مثنوی کا نام ابھی طے نہ ہوا تھا۔ شیخ عبدالقادر نے متعدد نام: اسرارِ حیات، پیامِ مشرق، پیامِ نو اور آئینِ نو تجویز کیے۔ نام کے سلسلے میں اقبال نے خواجہ حسن نظامی کو بھی طبع آزمائی کی دعوت دی۔۵؎ بالآخر یہ اوّلین شعری تصنیف اسرارِ خودی کے نام سے موسوم ہوئی۔ غالباً یہ نام، مثنوی کے اس مصرعے سے اخذ کیا گیا: ۱- ملاحظہ کیجیے: (الف) ہفت روزہ توحید، میرٹھ، یکم اگست ۱۹۱۳ئ۔ (ب) Letters to Atiya: ص۷۳ (ج) مولانا گرامی کو ایک خط میں اقبال نے مثنوی کے ابتدائی اشعار لکھ بھیجے تھے۔ ملاحظہ کیجیے: مکاتیبِ اقبال بنام گرامی: ص۱۰۵ ۲- مکاتیبِ اقبال بنام گرامی: ۱۰۵ ۳- اقبال نامہ، دوم: ص۳۶۸ ۴- اسرارِ خودی کے ان قلمی نسخوں اور مسوّدوں کی تفصیل اس طرح ہے: (الف) نمبر A/M-1977-198۔ یہ سب سے پہلا مسوّدہ معلوم ہوتا ہے۔ خاصی کانٹ چھانٹ کی گئی ہے۔ اس میں بہت سے متروک اشعار اور ترمیم شدہ اشعار بھی موجود ہیں۔ ’’ڈیڈی کیشن‘‘ کے زیر عنوان صرف پندرہ اشعار درج ہیں۔ (ب) نمبر A/M-1977-203۔ یہ مسوّدہ کسی خوش نویس نے لکھا ہے۔ پھر اس میں اقبال نے ترامیم و اضافے کیے ہیں۔ متروک اشعار تو کم ہیں، مگر ترمیم شدہ اور اضافہ شدہ اشعار کی تعداد خاصی ہے۔ یہ طبع اوّل کی ایک ابتدائی صورت معلوم ہوتی ہے۔ (ج) تیسرے مسوّدے پر حوالہ نمبر درج نہیں۔ کل ۱۰۶ صفحات ہیں۔ اس مسوّدے میں بھی خاصی کانٹ چھانٹ کی گئی ہے۔ ڈیڈی کیشن کے ساتھ یہ وضاحت درج ہے: ’’با اجازت جنابِ ممدوح‘‘۔ ۵- اقبال نامہ، دوم: ص۳۶۸۔ خواجہ حسن نظامی کا دعویٰ ہے کہ اسرار خودی کا نام ان کا تجویز کردہ ہے۔ (منادی، جون۱۹۵۰ئ- بحوالہ زندہ رود اوّل، ص۲۲۳) ہر چہ می بینی ز اسرارِ خودی است۱؎ آیندہ چند ماہ کتابت، کاپیوں کی تصحیح اور طباعت وغیرہ کے مراحل میں گزرے اور ۱۲ ستمبر ۱۹۱۵ئ۲؎ کو اسرارِ خودی کی اوّلین اشاعت عمل میں آئی۔ پیشہ ورانہ مصروفیت اور شاعرانہ افتادِ طبع کی بنا پر، مثنوی کی کتابت و طباعت کے ہفت خواں طے کرنا، اقبال کے لیے بہت مشکل تھا، چنانچہ یہ کام حکیم فقیر محمد چشتی نظامی کی نگرانی اور اہتمام میں انجام پایا،۳؎ بلکہ اس کے اخراجات بھی حکیم صاحب نے برداشت کیے۔۴؎ اس خدشے کے پیشِ نظر کہ، ممکن ہے مثنوی میں زیادہ لوگ دلچسپی نہ لیں، ارادتاً۵؎ اسے پانچ سو۶؎ کی قلیل تعداد میں چھپوایا گیا۔ منشی فضل الٰہی مرغوب رقم کی کتابت قدرے جلی ہے۔ مسطر چھے سطری ہے اور سائز ۱۲×۱۵س۔م، دیباچے کے صفحات نمبر کا شمار الف سے ل تک کیا گیا۔ صفحہ نمبر ۱ سے متنِ اشعار کا آغاز ہوتا ہے۔ دو رنگا سرورق، کاپیوں سے الگ چھاپا گیا۔ پھول اور پتیوں کی بیل والے حاشیے (Border) کا رنگ سرخ ہے، جبکہ سرورق کی عبارت سبز رنگ میں ہے۔ سب سے آخری صفحے (آخری سرورق) پر یہ عبارت درج ہے: ۱- اسرار و رموز: ص۱۲ ۲- شاد کے نام ۹؍ستمبر۱۹۱۵ء کے مکتوبِ اقبال میں مثنوی کا کوئی ذکر نہیں، پھر اس خط کے جواب کا انتظار کیے بغیر (۱۲؍ستمبر ۱۹۱۵ء کو) انھیں ایک اور خط لکھتے ہوئے، اقبال مثنوی ارسال کرنے کا ذکر کرتے ہیں۔ گویا یہ خط محض اسی لیے لکھا کہ مثنوی اُسی روز مطبع سے تیار ہوکر آئی۔ اگر کتاب ۱۰ یا ۱۱؍ستمبر کو تیار ہوجاتی تو ظاہر ہے ۱۰ یا ۱۱؍ستمبر کو خط لکھتے۔ اس بنا پر ہم نے تاریخ اشاعت ۱۲؍ستمبر متعین کی ہے۔ اس کی تائید، اقبال میوزیم لاہور میں محفوط، طبع اوّل کے اس مجلد نسخے سے ہوتی ہے، جس پر اقبال کے دستخط مع تاریخ (۱۵؍ستمبر ۱۹۱۵ئ) ثبت ہیں۔ غالباً دو تین روز کتاب کے مجلد ہونے میں لگے۔علامہ نے آرنلڈ کو اسرارِ خودی (اوّل) کا جو نسخہ پیش کیا، اس پر اقبال کے دستخطوں کے ساتھ ۱۵؍ستمبر ۱۹۱۵ء کی تاریخ درج ہے۔ یہ نسخہ کیمبرج یونی ورسٹی لائبریری (حوالہ نمبر۱- ۹۲ ڈی ۸۳۶ایس) میں محفوظ ہے۔ اس کا عکس دیکھیے: اقبال یورپ میں، طبع دوم ۱۹۹۹ئ: ص۳۷۲۔ ۳- ذکرِ اقبال: ص۸۵ ۴- انجمن: ص۴۷ ۵- انوارِ اقبال: ص۶۵-۶۶ ۶- سرورق اسرارِ خودی، طبع اوّل۔ اطلاع (بموجب ایکٹ ۱۹۱۴ء کاپی رائٹ مجریہ فروری ۱۹۱۴ئ) مثنوی ہٰذا کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ لہٰذا کوئی صاحب قصدِ طبع نہ کریں۔ مصنف اسرارِ خودی اگرچہ اس زمانے کے عام اشاعتی معیار کے مطابق تھی، تاہم اقبال، مثنوی کے معیارِ طباعت سے کچھ زیادہ مطمئن نہ تھے۔۱؎ طبع اوّل میں املا اور کتابت کی مندرجہ ذیل اغلاط موجود ہیں: صفحہ سطر غلط صحیح سرورق آخری طبع کردید طبع گردید ج ۱۰ مسحق مستحق ۱۰ ۲ پَے پَیٔ ۱۶ ۲ نگہت نکہت ۱۶ ۴ ببروں بیروں ۲۰ ۴ حیاتِ تعینات حیات و تعینات ۲۲ ۴ شیرین شیریں ۲۲ ۵ مصرع اول: پروانہا پروانہ ہا ۲۲ ۵ مصرعِ ثانی:پروانہا پروانہ ہا ۲۶ ۱ جلوہا جلوہ ہا ۲۶ ۲ تاب نمو تابِ نمو ۲۸ ۶ موسی موسیِ ۵۶ ۲ ماؤ او ماو او ۵۶ ۴ از حویش از خویش ۱- صحیفہ، اقبال نمبر، اوّل ۱۹۷۳ء :ص۱۵۳ صفحہ سطر غلط صحیح ۵۶ ۵ خون آشام خوں آشام ۵۶ ۶ نحس نَحسٍ ۵۸ ۱ ضعیفاں-خسراں ضعیفان-خسران ۷۸ ۱ دولتِ دولت ۷۸ ۲ ماوطیں ماء و طین ۷۸ ۳ لا اِلٰہ لا اِلَہ ۷۹ ۶ ہجرت آموز وطن ہجرت آموز و وطن ۸۱ ۱ الٓہی الٰہی ۸۱ ۳ لایبلی لایبلیٰ ۱۱۴ ۴ صحراؤ دشت صحرا ودشت ۱۱۵ ۴ آذر آزر ۱۱۶ ۵ ازرم ست از رم است ۱۱۹ ۱ طلاطم تلاطم ۱۳۰ ۱ آگۂ آگہی ۱۳۲ ۴ نغمہائے نغمہ ہاے ۱۴۳ ۵ جاوید نیست جاوید نیست ۱۴۸ ۶ بالاؤ بالاو ۱۵۵ ۲ ایں و آں این و آں ۱۵۵ ۵ آذرش آزرش افلاطون اور حافظ پر اقبال نے جو تنقید کی تھی، اس پر بہت سے لوگ معترض ہوئے۔ اخبارات و جرائد میں مباحثہ شروع ہوگیا۔ اقبال نے بھی اپنے موقف کی وضاحت کے لیے متعدد مضامین لکھے۔ اسرارِ خودی کے رد میں متعدد مثنویاں ۱؎ لکھی گئیں۔ اقبال کو اپنے مسلک کی صحت پر شبہہ ۲؎ نہ تھا، بایں ہمہ کچھ تو رفعِ شر کی خاطر اور کچھ والدِ ماجد کا دل رکھنے کے لیے،۳؎ اُنھوں نے اسرارِ خودی کے بعض حصے حذف کرنے کا فیصلہ کرلیا۔۴؎ مثنوی کا پہلا اڈیشن، ایک سال سے بھی کم عرصے میں ختم ہوگیا،۵؎ کیونکہ اوّل تو مثنوی صرف پانچ سو کی تعداد میں چھاپی گئی تھی، دوسرے یہ بھی زیادہ تر، احباب میں تقسیم ہوگئی۔۶؎ چنانچہ فوراً ہی دوسرے اڈیشن کی تیاری شروع ہوگئی۷؎۔ اپریل ۱۹۱۸ء میں یہ تیاری جاری تھی۔۸؎ تاہم اس کی اشاعت ۱۹۱۸ء کے نصف آخر میں ۹؎ عمل میں آئی۔ ۱- اسرارِ خودی کے رد میں لکھی جانے والی بعض مثنویاں یہ ہیں: (الف) رازِ بے خودیاز خان بہادر پیرزادہ مظفر احمد فضلی قریشی صدیقی نقشبندی آفاقی، ناشر: فضل حسین مطبع بلالی دہلی، ۱۹۱۸ئ، ص:۱۶+۱۱۲ (ب) لسان الغیب از مولانا حکیم فیروز الدین احمد طغرائی امرتسری، ناشر: منشی مولا بخش کشتہ، امرتسر، س۔ن، ص۳۱ (ج) فارسی مثنوی از میاں ملک محمد قادری ٹھیکیدار، جہلم بحوالہ: صحیفہ، اقبال نمبر، اوّل ۱۹۷۳ئ: ص۲۴۳-۲۴۵ (د) مثنوی سِرُّ الاسرار از ڈاکٹر معین الدین جمیل، مطبوعہ کراچی، ۱۹۶۲ئ: ص۸۴+۹۴+۱۸۲ ۲- اقبال کے ممدوح علما: ص۱۱۲ ۳- روزگارِ فقیر، دوم: ص۱۶۴ ۴- تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے: محمد عبداللہ قریشی کا مضمون: ’’معرکۂ اسرارِ خودی‘‘: مجلہ اقبال، اکتوبر ۱۹۵۳ء اور اپریل ۱۹۵۴ئ۔ ۵- انوارِ اقبال: ص۶۵ ۶- خطوطِ اقبال: ص۱۳۹ ۷- نیاز الدین خاں کے نام ۱۱؍ستمبر ۱۹۱۶ء کے مکتوب میں لکھتے ہیں: ’’پہلے حصے کی دوسری اڈیشن کا کاغذ کل خرید لیا ہے۔‘‘ مکاتیبِ اقبال بنام نیاز: ص۵ ۸- اقبال نامہ، اوّل: ص۸۰ ۹- اکبر الٰہ آبادی کے نام ایک خط (اقبال نامہ، اوّل: ص۵۳-۵۷) سے اندازہ ہوتا ہے کہ دوسرا اڈیشن ۱۱؍جون ۱۹۱۸ء تک نہ چھپا تھا۔ طبع دوم کے مندرجاتِ سرورق میں بھی ترمیم کی گئی ہے۔ کتاب کے نام کے ساتھ ’’یعنی حقائق حیاتِ فردیہ‘‘ کے الفاظ بڑھادیے گئے ہیں۔ (اس سرورق کا عکس آئندہ صفحے پر دیکھیے)۔ اس اڈیشن کا سب سے اہم پہلو وہ محذوفات و اضافات ہیں، جو علامہ اقبال نے اسرارِ خودی پر تبصروں اور تنقیدوں کی روشنی میں کیے۔ بعض ترامیم بھی کی گئیں، ان کی تفصیل حسبِ ذیل ہے: (الف) محذوفات: (۱) سرورق: پیشانی پر مندرج حدیثِ نبویؐ: اِنَّ مِنَ الشعرِ لحکمۃ (۲) بارہ صفحات کا دیباچہ۔۱؎ (۳) پیش کش بحضور سرسیّد علی امام کے اُنیس۲؎ اشعار میں سے ۸ (پہلے۵، اور آخری۳) اشعار۔ (۴) ایک شعر: روحِ نو می جوید اجسامِ کہن کمتر ز قُم نیست اعجازِ سخن۳؎ (اسرارِ خودی، طبع اوّل: ص۱۷) (۵) ایک شعر: زندگی محکم ز ایقاظِ خودی است کاہد از خوابِ خودی نیروے زیست (طبع اوّل: ص۲۷) ۱- یہ دیباچہ مقالاتِ اقبال (ص۱۵۳-۱۵۹) اور روزگارِ فقیر دوم (ص۴۴-۵۲) میں شامل ہے۔ مقالاتِ اقبال کے متن میں متعدد اغلاط موجود ہیں۔ ۲- انیس اشعار کا متن ملاحظہ کیجیے: سرودِ رفتہ (ص۶۸-۶۹) مرتبینِ سرودِ رفتہ کی یہ بات درست نہیں کہ یہ سب اُنیس اشعار دوسرے اڈیشن میں حذف کردیے گئے۔ عبدالمجید سالک بھی اسی غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں (ذکرِ اقبال: ص۹۵)۔ دراصل محذوف شعر صرف ۸ ہیں۔ باقی گیارہ شعروں کا محل بدل دیا گیا ہے۔ یہ ’’تمہید‘‘ کے حصے میں، چند صفحات آگے چل کر شعر : ’’برگرفتم پردہ… (طبع دوم: ص۱۵) کے بعد شامل ہیں۔ شعر۳ کے دوسرے مصرعے میں ’’دورۂ خوں‘‘ کو ’’گردشِ خوں‘‘ سے بدل دیا گیا۔ یہ گیارہ اشعار، مابعد اشاعتوں میں بھی موجود ہیں۔ ۳- مولانا مہر کی مرتب کردہ فہرست ’’حذف شدہ اشعار‘‘ (سرودِ رفتہ: ص۲۵۴) میں یہ شعر، شامل ہونے سے رہ گیا ہے۔ اسرارِ خودی طبع دوم کا عکس (۶) حافظ کے بارے میں ۱؎ ۳۵ اشعار، پہلا شعر یہ ہے: ہوشیار از حافظِ صہبا گسار جامش ز زہرِ اجل سرمایہ دار (طبع اوّل: ص۶۶-۷۲) (۷) چار اشعار: (۱) صورتِ منصور اگر خود بیں شوی ہمچو حق بالاتر از آئیں شوی (۲) سوزِ مضموں دفترِ منصور سوخت جلوہ رقصید و متاعِ طور سوخت (۳) رفت از تن روحِ گردوں تا زِ اُو از اجل بیگانہ ماند آوازِ اُو (۴) نعرہ اش در لب چو گویائی ندید سر بروں از قطرۂ خونش کشید۲؎ (طبع اوّل: ص۱۰۶-۱۰۷) (۸) ایک شعر: پختگی ہا جست و خود آگاہ شد زینتِ پہلوے بیت اللہ شد (طبع اوّل: ص۱۱۱) ایک شعر: نالہ شد در سینۂ بلبل طپید در حریم غنچہ خاموشی گزید (طبع اوّل: ص۲۴) ۱- متن کے لیے ملاحظہ کیجیے: (الف) سرودِ رفتہ:ص۷۰-۷۲ (ب) انوارِ اقبال: ص۳۱۴-۳۱۶ ۲- سرودِ رفتہ میں ’’خونش چکید‘‘ درست نہیں۔ (ص۲۵۴) (ب) اضافات: (۱) سرورق کی پیشانی پر ’’۷۸۶‘‘۔ (۲) سرورق پر مثنوی اسرارِ خودیکے الفاظ کے بعد ’’یعنی حقائق حیاتِ فردیہ‘‘۔ (۳) طبع دوم کا نیا دیباچہ۔۱؎ (۴) رومی کے تین اشعار: دی شیخ با چراغ… (طبع دوم: ص۲) کلیاتِ اقبال فارسی: ص۴۔ (۵) آغازِ مثنوی سے قبل، تسمیہ سے اوپر کی سطر میں: ’’ھُوَ‘‘ (طبع دوم: ص۵) (۶) نظیری کا شعر: نیست در خشک و تر… (طبع دوم: ص۵، کلیات: ص۵) (۷) گیارہ اشعار: از شعر نمبر ۱: بود نقشِ ہستیم… تاشعر نمبر ۲: قطرہ تاہم پایۂ … (طبع دوم: ص۱۵-۱۶، کلیات: ص۱۰-۱۱)۔ (۸) ایک شعر: چوں خودی آرد… (طبع دوم: ص۲۳، کلیات: ص۱۵) (۹) مکمل باب بعنوان: ’’در حقیقتِ شعر و اصلاحِ ادبیاتِ اسلامیہ‘‘ مع حواشی (طبع دوم: ص۵۵-۶۴، کلیات: ص۳۴-۳۹)۔ (۱۰) پانچ اشعار- از شعر نمبر ۱: گر نہ سازد… تاشعر نمبر ۵: درجہاں نتواں … (طبع دوم: ص۸۱، کلیات: ص۴۹) (۱۱) مولانا روم کا ایک شعر بہ تغیر الفاظ مع حاشیہ: در درونم سنگ… (طبع دوم: ص۱۰۱، کلیات: ص۶۱) (۱۲) ایک شعر مع حاشیہ: تا کجا در روز و شب… (طبع دوم: ص۱۲۲، کلیات: ص۷۲)۔ (۱۳) ایک شعر: کوہ آتش خیزکن… (طبع دوم: ص۱۲۹، کلیات: ص۷۶) ۱- مقالاتِ اقبال (ص ۱۹۳) میں منقول ہے، مگر اس میں متعدد اغلاط موجود ہیں۔ (۱۴) ایک شعر: باز ما را برہماں… (طبع دوم: ص۱۲۹، کلیات: ص۷۶) (۱۵) جملہ حواشی سواے دو مقامات کے: (۱) (طبع دوم: ص۷۹، کلیات: ص۴۸، حاشیہ نمبر۱) (۲) طبع دوم ص۱۱۲، کلیات: ص۶۷، حاشیہ نمبر۱) (۱۶) آخری صفحے پر کاپی رائٹ سے متعلق ’’اعلان‘‘ کے آخر میں، مصنف کے دستخط بہ حروف انگریزی مع ’’بیرسٹرایٹ لاء لاہور‘‘۔ (ج) ترامیم: دوسرے اڈیشن میں کئی طرح کی ترامیم کی گئی ہیں: (۱) مولانا غلام رسول مہر نے سرودِ رفتہ (ص ۲۴۸-۲۵۳) میں بہت سے ایسے مقامات کی نشان دہی کی ہے، جہاں اقبال نے اسرارِ خودی کے طبع دوم میں ترامیم کیں، تاہم ترامیم کی خاصی تعداد مہر صاحب سے نظر انداز ہوگئی۔ پھر مہر صاحب کے ترامیم نامے میں طبع دوم اور طبع سوم کی ترامیم مخلوط ہوگئی ہیں اور اس میں متعدد اغلاط بھی ہیں… (آیندہ سطور میں حسبِ موقع ان کی نشان دہی کی جائے گی) ذیل میں وہ تمام اشعار و مصاریع درج کیے جاتے ہیں، جن میں، طبعِ دوم کے موقع پر اصلاح کی گئی۔ علامت ’’م‘‘ سے مراد وہ ترامیم ہیں جن کی نشان دہی مہر صاحب کرچکے ہیں۔ ترمیم نمبر صفحہ کلیات صفحہ اسرار خودی، طبع اول صفحہ اسرار خودی، طبع دوم ۱ ۹ ۱۴ ع شمع شبخوں ریخت بر پروانہ ام ۱۲ ع شمع سوزاں تاخت بر پروانہ ام ۲ ع بادہ یورش کرد بر پیمانہ ام ع بادہ شبخوں ریخت بر پیمانہ ام ۳ ۱۴ ۲۵ ع جنبش از ما وام گیرد جام مے ۲۱ ع گردش از ما وام گیرد جام مے ۴ ۱۴ ۲۵ ع شکوہ سنجِ یورشِ دریا شود ۲۲ ع شکوہ سنجِ جوششِ دریا شود۱؎ م ۵ ۱۴ ۲۶ ع سبزہ چوں تابِ نمو از خویش یافت ۲۲ ع سبزہ چوں تابِ دمید از خویش یافت م ۶ ۱۶ ۳۰ ع نے گرفت از نیستاں آئینِ خویش ۲۵ ع نے بروں از نیستاں آباد شد م ۷ ع نغمہ زد از لذتِ تعیینِ خویش ع نغمہ از زندانِ او آزاد شد م ۸ ۱۶ ۳۰ ع چیست رازِ اختراعاتِ علوم ۲۶ ع چیست رازِ تازگیہائے علوم م ۹ ۱۹ ۳۵ ع از حسینانِ جہاں محبوب تر ۲۹ ع خوش تر و زیبا تر و محبوب تر ۱۰ ۲۰ ۳۸ ع جوں نبی دختر چہ را بے بردہ دید ۳۱ ع دخترک را چوں نبی بے پردہ دید م ۱۱ ۲۱ ۴۰ ع در تپیدِ متصل آرامِ من ۳۳ ع در تپیدِ دمبدم آرامِ من م ۱۲ ۴۳ ع جملہ اسقامِ تو از ناداری است ۳۶ ع خستگیہائے تو از ناداری است م ۱۳ ۲۳ ع اصلِ علت ہا ہمیں بیماری است ع اصلِ دردِ تو ہمیں بیماری است م ۱۴ ۲۶ ۵۰ ع غرق اندر قلزمِ افکارِ خویش ۴۱ ع غوطہ زن اندر یمِ افکارِ خویش م ۱- مہر صاحب نے اسے تیسرے اڈیشن کی اصلاح بتایا ہے (سرودِ رفتہ: ص۲۴۸، حاشیہ نمبر۳) حالاں کہ یہ دوسرے اڈیشن کی ترمیم ہے۔ مزید برآں مہر صاحب کے مطابق پہلے اڈیشن میں لفظ ’’جوشش‘‘ تھا، جسے دوسرے اڈیشن میں ’’یورش‘‘ بنا دیا گیا، مگر اصل صورت اس کے برعکس ہے، جیسا کہ ہم نے اوپر نشان دہی کی ہے۔ ۱۵ ۲۶ ۵۱ ع نامۂ آں صوفیٔ حق دستگاہ ۴۳ ع نامۂ آں بندۂ حق دستگاہ ۱۶ ۲۹ ۵۶ ع رنگِ سبعیّت پذیرد گوسفند ۴۶ ع خوئے گرگی۲؎ آفریند گوسفند م ۱۸ ۳۰ ۵۸ ع تازِ فیضِ نیّرے تاباں شوی ۴۸ ع تارِ نورِ آفتابے بر خوری م ۱۹ ۳۰ ۵۹ ع قومِ شیراز فتح پیہم خستہ بود ۴۹ ع خیل شیراز سخت کوشی خستہ بود م ۲۰ ع دل بذوقِ استراحت بستہ بود ع دل بذوقِ تن پرستی بستہ بود م ۲۱ ۳۱ ۵۹ ع آمدش ایں وعظِ خواب آور پسند ۴۹ ع آمدش ایں پندِ خواب آور پسند م ۲۲ ع گشت مسحور۳؎ از کلامِ گوسفند ع خورد از خامی فسونِ گوسفند م ۲۳ ۴۱ ۷۵ ع رقص پیرا در رگِ او خونِ اُو ۶۷ ع بر جہد اندر رگِ او خونِ اُو ۲۴ ۴۱ ۷۶ ع از حدودِ زندگی بیروں مرو ۶۸ ع از حدودِ مصطفی بیروں مرو ۲۵ ۴۶ ۸۷ ع پس بآلامِ جہاں سازیم ما ۷۶ ع پس بہ سوزِ ایں جہاں سازیم ما م ۲۶ ۴۷ ۸۸ ع در ریاضِ او چو بو آوارہ ام ۷۷ ع در خیابانش چو بو۔ُ آوارہ ام ۲۷ ۴۸ ۸۹ ع دیدہ اعمٰی گوشِ ناشنوا ازو ۷۸ ع چشم کور و گوشِ ناشنوا ازو م ۲۸ ۴۸ ۹۰ ع در جہاں ہر فتح از کرّاری است ۷۹ ع مرد کشور گیر از کرّاری است م ۲۹ ع ابروئے مرد از خودداری است ع گوہرش را آبرو خودداری است م ۳۰ ۴۹ ۹۲ ع در عمل مخفی است مضمونِ حیات ۸۰ ع در عمل پوشیدہ مضمونِ حیات م ۲- مہر صاحب نے اس لفظ کو ’’گرمی‘‘ لکھا ہے (سرودِ رفتہ: ص۲۵۱) جو درست نہیں۔ ۳- مہر صاحب نے اس لفظ کو ’’محور‘‘ لکھا ہے (سرودِ رفتہ: ص۱۵۱) جو درست نہیں۔ ۳۱ ع ذوقِ تخلیق است قانونِ حیات ۸۱ ع لذتِ تخلیق قانونِ حیات م ۳۲ ۴۹ ۹۳ ع ہمتش را از مہماتِ عظیم ۸۲ ع زورِ خود را از مہماتِ عظیم ۳۳ ۵۰ ۹۵ ع مدعی گر صاحبِ قوت بود ۸۴ ع مدعی گر مایہ دار از قوّت است م ۳۴ ع دعویش مستغنی از حجّت بود ع دعویِ او بے نیاز حجّت است م ۳۵ ۵۲ ۹۸ ع قلزمے در قطرۂ مضمر کنم ۸۶ ع گلشنے در غنچۂ مضمر کنم م ۳۶ ۵۸ ۱۱۲ ع غوطہ خوارِ قلزم بود و عدم ۹۶ ع سر فرو اندریمِ بود و عدم م ۳۷ ۶۰ ۱۱۶ ع صد شرار از سینۂ خارا برید ۱۰۰ ع ہم چو بحرِ آتش از کیں بردمید م ۳۸ ۶۱ ۱۱۹ ع از تو قلزم سائل طوفاں شود ۱۰۲ ع از تو قلزم گریۂ طوفاں کند م ۳۹ ع شکوہ سنجِ تنگیٔ داماں شود ع شکوہ ہا از تنگیٔ داماں کند م ۴۰ ۶۷ ۱۳۲ ع التہاب دل خسِ ادراک سوخت ۱۱۳ ع آتشِ دل خرمنِ ادراک سوخت ۴۱ ۶۹ ۱۳۶ ع شعلہ ہائے او مثالِ ژالہ سرد ۱۱۶ ع شعلۂ دارد مثالِ ژالہ سرد ۴۲ ۷۴ ۱۴۶ ع عصرِ نوکز جلوہ ہا آراست است ۱۲۴ ع عصرِ نو از جلوہ ہا آراستہ ۴۳ ع از غبارِ پائے ما برخاست است ع از غبارِ پائے ما برخاستہ ۴۴ ۷۶ ۱۴۹ ع ما پریشاں چوں ہجومِ اختریم ۱۲۸ ع ما پریشاں در جہاں چوں اختریم ۴۵ ۷۷ ۱۵۲ ع آفتاب از فیضِ او گردوں مقام ۱۳۰ ع آفتاب از سوزِ او گردوں مقام م ۴۶ ع برقہا محوِ طوافِ او مدام ع برقہا اندر طوافِ او مدام م ۴۷ ۷۸ ۱۵۴ ع در ہجومِ عالمے تنہا ستم ۱۳۲ ع درمیانِ محفلے تنہا ستم م (۲) بعض مقامات پر ترتیبِ اشعار و مصاریع میں تقدیم و تاخیر کی گئی ہے: (الف) طبع اوّل (ص۲۴) میںیہ شعر: خیزد انگیز…(کلیات: ص۱۳) اس بند کا آخری شعر تھا۔ طبع دوم (ص۲۰) میں اسے موجودہ جگہ لایا گیا۔ (ب) دو اشعار: ۱؎ آرزو را در دلِ خود… اور:آرزو جانِ جہاں… (کلیات: ص۱۶) طبع اوّل (ص۳۲) میں اس باب کے آخری شعر تھے، طبع دوم (ص۳۴) میں انھیں، باب کا شعر نمبر ۳ اور نمبر ۴ بنادیا گیا۔ (ج) طبع اوّل (ص۸۹) میں اس شعر: خاکِ پنجاب از دمِ او زندہ گشت صبحِ ما از مہرِ اُو تابندہ گشت (کلیات: ص۵۲) کے مصرعوں کی ترتیب، موجودہ صورت کے برعکس تھی۔ طبعِ دوم (ص ۸۶) میں یہ ترتیب قائم کی گئی۔ (۳) طبعِ اوّل (ص۶۲) میں ایک عنوان کی ابتدائی صورت یہ تھی: دربیان اینکہ افلاطونِ یونانی و حافظ شیرازی کہ تصوف و ادبیاتِ اقوامِ اسلامیہ تخیلاتِ ایشاں اثرِ عظیم پذیرفتہ برمسلکِ گوسفندی رفتہ اند و از ایشاں احتراز واجب است۔ طبع دوم (ص ۵۱) میں اسے موجودہ صورت دی گئی (کلیات ص۳۲) طبع اوّل میں کتابت کی متعدد اغلاط موجود تھیں۔ طبع دوم میں، سرورق کی عبارت میں ترمیم ہوگئی۔ دیباچہ بھی حذف کردیا گیا۔ طبع اوّل کی باقی اغلاط میں سے مندرجہ ذیل کی تصحیح ہوگئی: ۱- مہر صاحب ان اشعار کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’یہ شعر دوسرے اڈیشن کے وقت تازہ کہے گئے، پہلے میں موجود نہ تھے‘‘ (سرودِ رفتہ: ص ۲۴۹، حاشیہ نمبر۱) یہاں مہر صاحب کو سہو ہوا ہے۔ یہ دونوں اشعار طبع اوّل میں بھی موجود ہیں (ص۳۲) طبع دوم میں انھیں پیچھے لے جایا گیا ہے۔ صفحہ سطر طبع اوّل(غلط) صفحہ سطر طبع دوم(صحیح) ۱۰ ۲ پَے ۹ ۲ پیٔ ۱۲ ۲ دبدۂ ۱۰ ۶ دیدۂ ۱۶ ۴ یروں ۱۳ ۸ بیروں ۲۲ ۴ شیرین ۱۹ ۷ شیریں ۲۲ ۵ پروانہا ۱۹ ۸ پروانہ ہا ۲۶ ۱ جلوہا ۲۲ ۳ جلوہ ہا ۲۸ ۶ مُوسی ۲۴ ۸ مُوسَیِ ۵۶ ۴ از حویش ۴۶ ۶ از خویش ۵۸ ۱ خسراں ۴۷ ۷ خسران ۱۱۶ ۵ رم ست ۹۹ ۸ رم است ۱۴۳ ۵ نیست ۱۲۲ ۶ نیست ۱۵۵ ۲ ایں و آں ۱۳۳ ۱ این و آں تاہم طبع اوّل کی مندرجہ ذیل اغلاط طبع دوم میں بھی بدستور موجود ہیں: صفحہ سطر طبع اوّل(غلط) صفحہ سطر طبع دوم(غلط) ۱۶ ۲ نگہتِ ۱۳ ۶ نگہتِ ۵۶ ۲ مائو او ۴۶ ۴ مائو او ۵۶ ۵ خون آشام ۴۶ ۷ خون آشام ۵۶ ۶ نحسٌ ۴۶ ۸ نحسٌ ۵۸ ۱ ضعیفاں ۴۷ ۷ ضعیفاں ۷۸ ۱ دولتِ ۶۹ ۲ دولتِ ۷۸ ۲ مائوطیں ۶۹ ۳ مائوطیں ۷۸ ۳ لا اِلٰہ ۶۹ ۴ لا اِلٰہ صفحہ سطر طبع اوّل(غلط) صفحہ سطر طبع دوم(غلط) ۷۹ ۶ ہجرت آموز وطن ۷۰ ۵ ہجرت آموز وطن ۸۱ ۱ الٓہی ۷۱ ۵ الٓھی ۸۱ ۳ لایبلی ۷۲ ۱ لایبلی ۱۱۴ ۴ صحرائو دشت ۹۸ ۲ صحرائو دشت ۱۱۵ ۴ آذر ۹۸ ۸ آذر ۱۱۹ ۱ طلاطم ۱۰۲ ۱ طلاطم ۱۳۰ ۱ آگۂ ۱۱۱ ۵ آگۂٖ ۱۳۲ ۴ نغمہائے ۱۱۳ ۷ نغمہائے ۱۴۸ ۶ بالائو ۱۲۷ ۶ بالائو ۱۵۵ ۵ آذرش ۱۳۳ ۴ آذرش اس دوسرے اڈیشن میں مندرجہ ذیل نئی اغلاط بھی رو پذیر ہوگئی ہیں: صفحہ سطر غلط صحیح ۲ ۳ خدائو رستم خداو رستم ۱۶ ۶ نہ نُہْ ۱۷ ۸ خردہ خردۂ ۲۴ ۶ جانِ جہاں جانِ جہان ۲۵ ۲ پروار پرواز ۲۵ ۵ نفی نفیِ ۴۲ ۳ زنداں زندانِ ۴۶ ۶ کردں کردن ۶۴ ۲ خوبکر پاس خوبہ کرپاس ۶۷ ۲ زنداں گُل زندانِ گُل صفحہ سطر غلط صحیح ۷۰ حاشیہ الصلوۃ تنہٰی عن الفحشاء ان الصلوٰۃ تنہٰی عن الفحشاء ۷۱ حاشیہ تنالوالبر تنالوا البّر ۷۲ ۲ حکمران حکمراں ۷۲ حاشیہ لایبلی لا یبلیٰ ۷۹ ۶ چیں چین ۸۱ ۵ ترکیبِ تو ترکیبِ نو ۸۷ ۷ ماء وطین ماء وطیں ۹۵ ۵ مستیز مستنیر ۹۸ ۱ برخاک باخاک ۹۸ ۸ ابراہیمؓ ابراہیمؑ ۱۱۴ حاشیہ نمبر۱ اولہ اولا ۱۱۶ ۴ حُسِ حسْ ۱۳۲ ۳ شبِ یارا شبِ یلدا اسرارِ خودی کا تیسرا اڈیشن، رموزِ بے خودی کے دوسرے اڈیشن کے ساتھ ملا کر اسرار و رموز(یکجا) کی صورت میں شائع ہوا۔ اس لیے اس کا ذکر آگے چل کر اسرار و رموز (ہر دو یکجا) کے طبع اوّل کے جائزے میں ہوگا۔ ژ رموزِ بے خودی اسرارِ خودی کی تکمیل فروری ۱۹۱۵ء اور بعد ازاں اس کی اشاعت (۱۲؍ستمبر ۱۹۱۵ئ) ہی کے زمانے سے، اقبال کو حصہ دوم لکھنے کا خیال تھا،۱؎ بلکہ اس کے موضوعات و مضامین ان کے ذہن میں موجود تھے۔۲؎ اقبال سے منسوب عاشق حسین بٹالوی کا یہ قول کہ: …اسرارِ خودی پر عبدالرحمن بجنوری ۱- صحیفہ، اقبال نمبر، اوّل، ۱۹۷۳ئ: ص۱۵۳ ۲- اقبال نامہ، اوّل: ص۲۳ کا مضمون پڑھ کر مجھے احساس ہوا کہ رموزِ بے خودی کا لکھا جانا بے حد ضروری ہے‘‘۔۱؎ اس لیے غلط ہے کہ بجنوری نے صرف مثنوی اسرارِ خودی پر نہیں، بلکہ Iqbal - His Persian Masnavis کے زیر عنوان دونوں مثنویوں پر بحث کی تھی اور یہ مضمون رموزِ بے خودیکی اشاعت (۱۰؍اپریل ۱۹۱۸ئ) کے تین ماہ بعد رسالہ East and West (جولائی ۱۹۱۸ئ)میں شائع ہوا تھا۔۲؎ درحقیقت رموزِ بے خودی کوئی نیا منصوبہ نہ تھا، بلکہ اسرارِ خودی ہی کی توسیع تھی اور اسی کا تسلسلِ خیال، اسی لیے اقبال نے احباب کے نام خطوط میں جہاں بھی رموزِ بے خودی کا ذکر کیا، اسے اسرارِ خودی کا حصہ دوم قرار دیا۔۳؎ رموزِ بے خودی کا آغاز ۱۹۱۵ء کے آخری ایام یا ۱۹۱۶ء کے ابتدائی دنوں میں ہوا۔ اکثر حصے ۱۹۱۶ء اور ۱۹۱۷ء میں لکھے گئے ۴؎ اور تکمیل نومبر ۱۹۱۷ء میں ہوئی (۱۳ اور ۲۷؍نومبر کے درمیان)۔ بعد ازاں قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے سنسر کے محکمے کو دکھائی گئی۔ جو مسوّدہ سنسر کے لیے بھیجا گیا، وہ اقبال میوزیم، لاہور میں محفوظ ہے اور اس کے ہر صفحے پر سنسر کرنے والے افسر کے مخفف دستخط (initials) موجود ہیں۔ آخری صفحے پر پورے دستخط مع تاریخ اس طرح درج ہیں:۵؎ Aziz Abdul ۶؎ 25.12.17 ۱- چند یادیں، چند تأثرات: ص۴۷ ۲- بجنوری کے مضمون کا متن ملاحظہ کیجیے: Tributes to Iqbal، مرتب: محمد حنیف شاہد (ص۱۴۷- ۱۵۵)۔ اس ضمن میں ایک بیان جابر علی سیّد کا ہے جو محلِّ نظر ہے۔ (اقبال- ایک مطالعہ: ص۱۰۴) ۳- ملاحظہ کیجیے: (الف) شاد اقبال: ص۳ اور ۴۸ (ب) اقبال نامہ، اوّل: ص۲۳ اور ۷۹ (ج) اقبال نامہ، دوم: ص۵۳ (د) صحیفہ، اقبال نمبر، اوّل ۱۹۷۳ئ: ص۱۵۳ ۴- جن دنوں میں اقبال رموزِ بے خودی لکھ رہے تھے، خط کتابت کے ذریعے مولانا گرامی سے برابر مشورہ لیتے رہے۔ ملاحظہ کیجیے: مکاتیبِ اقبال بنام گرامی: صفحات ۱۱۰، ۱۱۴، ۱۱۶، ۱۱۸، ۱۱۹، ۱۲۳، ۱۲۵،۱۲۶،۱۳۱ اور۱۳۳۔ ۵- ملاحظہ کیجیے: مسوّدہ رموزِ بے خودی: نمبر A/M 1977-199مخزونہ اقبال میوزیم لاہور۔ ۶- عبدالعزیز، پریس برانچ میں officer -in-chargeتھے۔ بعدازاں انجمن حمایت اسلام کے آنریری سیکرٹری رہے۔ مزید دیکھیں حیاتِ اقبال کی گم شدہ کڑیاں: ص۱۵۶ بظاہر یہی لگتا ہے کہ محکمہ سنسر نے کوئی شعر نہیں کاٹا۔ البتہ بعض اشعار، معلوم ہوتا ہے، بعد میں خود اقبال نے قلمزد کردیے۔ اگر سنسر والے کوئی شعر کاٹتے تو احباب کے نام خطوط میں، جہاں وہ مثنوی کی تحریر و تصنیف، تکمیل و اختتام اور کتابت و طباعت وغیرہ کے بارے میں تازہ ترین صورتِ حال کی اطلاع بہم پہنچاتے رہتے تھے، اشعار کے قلمزد ہوجانے کا ذکر بھی کرتے۔ مولانا گرامی نے بطور تقریظ چند اشعار لکھ بھیجے، مگر اقبال کے خیال۱؎ میںیہ اشعار رموزِ بے خودی کی نسبت اسرارِ خودی کے لیے زیادہ مناسب تھے۔ توقع تھی کہ گرامی رموزِ بے خودی کے لیے نئی تقریظ لکھیں گے اور اس کے لیے اقبال منتظر بھی رہے۲؎ مگر گرامی بروقت تقریظ نہ لکھ سکے۔ اسی اثنا (دسمبر کے آخری ایام) میں مثنوی کتابت کے لیے دے دی گئی۔ تقریباً تین ماہ کتابت و طباعت کے مراحل میں گزر گئے، حتیٰ کہ اپریل ۱۹۱۸ء کے پہلے عشرے میں کتاب چھپ کر تیار ہوگئی۔۳؎ اور اپریل کے وسط میں، احباب کو اُس کے نسخے روانہ کیے گئے۔ رموزِ بے خودی کی اوّلین اشاعت کا اہتمام بھی حکیم فقیر محمد صاحب چشتی نظامی نے کیا۔ سرورق اور آخری صفحے کی بیل کا ڈیزائن بھی وہی ہے، تاہم رموزِ بے خودی کی بیل سرخ رنگ میں طبع کی گئی ہے۔ سرورق پر مثنوی کا پورا نام اس طرح درج ہے: ’’مثنوی رموزِ بے خودی یعنی اسرارِ حیات ملیہ اسلامیہ‘‘ ۴؎ آخری صفحے پر، سرخ بیل کے اندر یہ عبارت موجود ہے: اطلاع بموجب ایکٹ ۱۹۱۴ء کاپی رائٹ مجریہ فروری ۱۹۱۴ء مثنوی ہٰذا کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ (مصنف) دیباچے کے چودہ سطری مسطر کے دو صفحات پر صفحہ نمبر کا شمار نہیں کیا گیا۔ اگلے چھے صفحات (پیش کش بحضور ملتِ اسلامیہ) کو الف ب ج د ہ و سے شمار کیا گیا ہے۔ مثنوی صفحہ نمبر ۱ سے شروع ۱- مکاتیبِ اقبال بنام گرامی: ص۱۳۶ ۲- مکاتیبِ اقبال بنام نیاز: ص۱۱ ۳- شاد اقبال: ص۸۲ ۴- رموزِ بے خودیطبع اوّل کے سرورق کا عکس Iqbal in Pictures میں شامل ہے۔ ہوکر صفحہ نمبر ۱۳۹ پر ختم ہوتی ہے۔ بالکل آخری صفحہ خالی ہے۔ یہ علامہ اقبال کی پہلی کتاب ہے، جسے عبدالمجید [پرویں رقم] نے کتابت کیا۔طبع اوّل میں کتابت اور املا کی مندرجہ ذیل اغلاط موجود ہیں: صفحہ سطر غلط صحیح دیباچہ ص۱ ۵ اقوام کے حیات اقوام کی حیات دیباچہ ص۲ ۴ مضیوط مضبوط دیباچہ ص۲ ۵ دوتوں دونوں ۵ ۳ یا حیّ و یا حی ۹ ۵ پارہائے پارہ ہائے ۱۲ ۸ [حاشیہ] الرحْمٰنَ الرَّحْمٰنِ ۱۴ ۶ اندیشہا اندیشہ ہا ۱۸ ۳ چشمہائے چشمہ ہائے ۱۸ ۶ صدیقؓ را صدیقؓ صدیقؓ را صدیق ۲۹ حاشیہ کااللیث۔ّ کاللیث۔ّ ۳۴ ۳ حیلہ جوی حیلہ جو ۳۸ حاشیہ نمبر۲ یَاْمُرُکُمْ یَاْمُرُ ۴۱ ۷ ہُوَ اللّٰہُ ہُوَ اللّٰہ ۴۴ ۵ تازہ ار تکبیر تازہ از تکبیر ۴۸ حاشیہ آیہ شریفہ کا صحیح متن یہ ہے: اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ کُفْرًا وَّ اَحَلُّوْا قَوْمَھُمْ دَارَ الْبَوَارِ لاo جَھَنَّمَج یَصْلَوْنَھَاط وَ بِئْسَ الْقَرَارُo ۵۹ ۷ رحمۃُ الّلعالمیں رحمۃُ لّلعالمیں ۶۱ حاشیہ نمبر۱ فَتَقَطَّعُوْا… زُبْراً فَتَقَطَّعُوْآ… زُبُرًا حاشیہ نمبر۲ الداخِ… نکرا الدّاعِ … نُّکُرٍ صفحہ سطر غلط صحیح ۶۳ ۶ رازیؓ رازی ۸۷ حاشیہ نمبر۱ لتکونو لتکونوا ۸۷ حاشیہ نمبر۳ وماضل۔ّ ماضل۔ّ ۹۸ ۲ خویشتن ماز خویشتن باز ۱۰۳ حاشیہ نمبر۱ لباسکم لباسٌ لّکُم ۱۱۴ حاشیہ نمبر۱ غلط: کَانَ اَبُوْبَکْرُ صَدِّیقُ مِنَ النَّبِیؐ مَکَانَ اْلَوِزیْرُ فَکَانَ یَشَاورَہُ فِیْ جَمِیْعِ اُمُورِہٖ وَکَانَ ثَانِیُہ‘ فِیْ الاِسْلَامِ وَثَانِیْہ‘ فِی الغَارِ وَکَانَ ثانیُہ‘ فِی الْعَرِیْشِ یَوْمَ بَدْرٍ و کَانَ ثَانیْہ‘ فِی القَبْر وَلَمْ وَیَکُنْ رَسُوْلُ اللّٰہُ صَلّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم یقدم علیہ اَحَدًاط۵ (قول سعید ابن مسیب) صحیح: کَانَ اَبُوْبَکْرِ نِ الصِّدِّیقُ مِنَ النَّبِیِّ مَکَانَ الْوَزِیْرِ فَکَانَ یُشَاوِرہ‘ فِیْ جَمِیْعِ اُمُوْرِہٖ وَکَانَ ثَانِیَہ‘ فِی الاِسلَامِ وثَانِیَہ‘ فِی الغَارِ وَکَانَ ثَانِیَہ‘ فِی الْعَرِیْشِ یَوْمَ بَدْرٍ وَکَانَ ثَانِیَہ‘ فِی القَبْرِ وَلَمْ یَکُنْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَدِّمُ عَلَیْہِ اَحَدًاط۵ (قول سعید ابن مسیب) ۱۱۶ ۶ باللہ بہ اللہ ۱۲۱ ۸ مازَاغُ الْبَصَرِ مَا زَاغَ الْبَصَر ۱۲۸ حاشیہ غلط: لَا تَحْزَنُو وَلَا تَہِنُوْا اَنْتُم الْاَعْلَوْن صحیح: وَ لَا تَہِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ ۱۳۲ ۸ مناں منات ۱۳۳ ۸ نگہتے نکہتے ۱۳۷ ۴ آذر آزر رموزِ بے خودی کا ایک شعر اس طرح ہے: اہلِ حق را رمزِ توحید ازبر است در اتٰی الرَّحْمٰنَ عَبدا مضمر است مصرع ثانی میں عربی ترکیب،(طبع اوّل: ص۱۲) قرآن پاک (سورہ مریم: ۹۳) سے ماخوذ ہے، مگر اقبال نے یہ تصرّف کیا ہے کہ لفظ ’’اتیٰ‘‘ لکھاہے جو وزن پر پورا نہیں اُترتا۔ وزن میں ’’اَتِی‘‘ آتا ہے۔ بہرحال ’’اتٰی‘‘ لکھیں یا ’’اَتِی‘‘ دونوں صورتیں قرآن کے متن (ا۔ٰ۔تِی) سے مختلف ہیں۔ اس طرح یہاں موجودہ لفظ بے معنی ہوکر رہ گیا یہ شعر کی اہم خامی ہے۔ اقبال نے رموزِ بے خودی کے طبع دوم (اسرار و رموز یکجا، اوّل ۱۹۲۳ئ) میں بہت سی ترامیم کیں، مگر تعجب ہے کہ اس اہم فروگذاشت پر انھیں تنبّہ نہیں ہوسکا، جس کے نتیجے میں ایک اہم غلطی باقی رہ گئی۔ رموزِ بے خودی کی اشاعت کے بعد، علامہ اقبال اس کا تیسرا حصہ بھی لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے۔۱؎ ایک بار اُنھوں نے اس کے آغاز کی خبر دیتے ہوئے بتایا کہ ’’یہ ایک قسم کی نئی منطق الطیر ہوگی۲؎ اور اس کا نام اُنھوں نے ’’حیاتِ مستقبلۂ اسلامیہ‘‘ ۳؎ تجویز کیا تھا، مگر یہ موعودہ مثنوی کبھی طبع ہوکر منصۂ شہود پر نہ آسکی، ممکن ہے اس کے کچھ اشعار لکھ کر تلف کردیے گئے ہوں۔ رموزِ بے خودی کا دوسرا اڈیشن بطور اسرار و رموز (ہر دو یکجا) طبع اوّل شائع ہوا۔ ژ اسرار و رموز (یکجا) اسرارِ خودی کا دوسرا اڈیشن اور رموزِ بے خودی کا پہلا اڈیشن ختم ہونے پر دونوں مثنویوں کے نئے اڈیشنوں کی اشاعت کا مسئلہ درپیش ہوا، تو علامہ اقبال نے دونوں کی یکجا اشاعت کا فیصلہ کیا۔ اس موقع پر اُنھوں نے دونوں مثنویوں پر نظر ثانی کرکے بعض اشعار میں ترامیم کیں اور کئی اشعار کا اضافہ بھی کیا۔ اسرار و رموز (یکجا) کے طبع اوّل پر سالِ اشاعت درج نہیں، تاہم اس کی اشاعت کا سال ۱۹۲۳ء ہے۔۴؎ یہ اسرارِ خودی کی اشاعت سوم اور رموزِ بے خودی کی اشاعت دوم ہے۔ ۱- اقبال نامہ، دوم: ص۷۵ ۲- مکاتیبِ اقبال بنام گرامی: ص۱۲۴ ۳- شاد اقبال: ص۷۹ ۴- اس دور کی بعض کتابوں کے کوائف اس طرح ہیں: (بقیہ آئندہ صفحے پر) سرورق کے صفحہ نمبر ۳ پر چند سطری مختصر دیباچہ ہے۔ یہ دیباچہ علامہ اقبال کے کسی نثری مجموعے میں شامل نہیں، اس لیے اسے یہاں نقل کیا جاتا ہے: دیباچہ اس اڈیشن میں ناظرین کی سہولت کے لیے دونوں مثنویاں یعنی اسرارِ خودیاور رموزِ بے خودی یکجا شائع کی جاتی ہیں۔ معمولی لفظی ترمیم کے علاوہ، مطالب کی مزید تشریح کے لیے بعض جگہ اشعار کا بھی اضافہ ہے، جن کی مجموعی تعداد سوا سو ہوگی۔ ایک دو جگہ نئے عنوان بھی قائم کیے گئے ہیں، مگر کتاب کی ترتیب میں کوئی فرق نہیں۔ محمد اقبال اسرار و رموز (یکجا) میں متعدد اشعار حذف کردیے گئے، کئی حصوں میں ترمیم کی گئی اور بعض اشعار کا اضافہ بھی ہوا۔ تفصیل اس طرح ہے: (بقیہ گذشتہ صفحہ) کتاب پرنٹ لائن پیامِ مشرق طبع اوّل ۱۹۲۳ء در مطبع کریمی واقع لاہور باہتمام میر امیر بخش طبع گردید اسرار و رموز، یکجا ایضاً بانگِ درا طبع اوّل ۱۹۲۴ء کریمی پریس لاہور نزد کوتوالی قدیم باہتمام میر قدرت اللہ پرنٹر چھپی۔ پیامِ مشرق طبع دوم ۱۹۲۴ء میر امیر بخش صاحب مرحوم کے کریمی پریس لاہور میں باہتمام میر قدرت اللہ پرنٹر چھپی پیامِ مشرق، طبع اوّل اور اسرار و رموز یکجا کی پرنٹ لائن ایک ہی ہے۔ پیامِ مشرق طبع اوّل ۱۹۲۳ء میں شائع ہوئی، اس اعتبار سے قرینِ قیاس ہے کہ اسرار و رموز بھی اسی سال ۱۹۲۳ء میں چھپی ہوگی، کیونکہ اگر یہ اگلے برس (۱۹۲۴ئ) میں چھپتی تو اس کی پرنٹ لائن بھی بانگِ درا طبع اوّل اور پیامِ مشرق طبع دوم کی پرنٹ لائن کے مطابق ہوتی۔ غالباً میرا میر بخش ۱۹۲۳ء کے آخر میں (پیامِ مشرق اوّل اور اسرار و رموز، یکجا کی اشاعت کے بعد) فوت ہوگئے۔ اس لیے ۱۹۲۴ء میں شائع ہونے والی دونوں کتابوں کی پرنٹ لائن میں تبدیلی کردی گئی۔ (میر امیر بخش معروف ادیب اور محقق مشفق خواجہ (م:۲۰۰۵ئ) کے نانا تھے اور میر قدرت اللہ ان کے ماموں۔ ایک بار خواجہ صاحب نے راقم کو بتایا کہ میر قدرت اللہ کچھ عرصہ کریمی پریس کو چلاتے رہے، پھر انھوں نے پریس عنایت اللہ صاحب کو فروخت کردیا تھا۔ اُنھوں نے کچھ عرصے بعد پریس کا ساز و سامان بیچ دیا ،اس طرح کریمی پریس ختم ہوگیا۔) (ا) محذوفات: اسرارِ خودی، طبع دوم ۱- سرورق پر توضیحی عنوان: ’’حقائق حیاتِ فردیہ‘‘ ۲- دیباچہ ۱؎ ۳- آغازِ مثنوی سے پہلے، صفحے کی پیشانی پر لفظ: ’’ھُوْ‘‘ ۴- ص ۵۷ کا یہ شعر: طرفہ افسوں نقشِ او بر ما دمد خامہ اش کوہے بموئے می کشد ۵- ص۱۳۴ پر حقوقِ اشاعت سے متعلق ’’اعلان‘‘ (اسے گذشتہ صفحات میں نقل کیا جاچکا ہے)۔ رموزِ بے خودی: ۶- ص الف کا یہ شعر: اے بہ عشق دیگراں دل باختہ جلوہ ہائے خویش را نشناختہ (م) ۷- ص۲۴ کا یہ شعر: جانم از مظلومیِ او می تپد۲؎ اشکِ خوں از دیدۂ دل می چکد (م) ۸- ص۹۷ کے تین اشعار: سیلئے از دستِ مادر می خورد خویشتن را باز در مادر تند مزدِ روشستن زما در گیرد او چوں گل از بادِ سحر زرگیرد او چشم او ہر لحظہ بر اشیافتد از لبش ہر دم سوالے می چکد (م) ۹- ص ۱۱۴ کے حاشیے میں مندرج سعید ابن مسیب کا ایک قول (یہ قول ص ۱۲۴ پر نقل کیا جاچکا ہے)۔ ۱۰- ص۱۸۶ کا یہ شعر: ۱- مقالات اقبال (ص۱۹۳) میں منقول متن میں متعدد اغلاط موجود ہیں۔ ۲- اس شعر کے بارے میں مولانا مہر کی یہ وضاحت: ’’ایک مقام پر یہ شعر لکھا تھا، پھر قلم زد کردیا‘‘ (سرودِ رفتہ: ص۲۵۶) مبہم ہے۔ اُنھوں نے اس شعر کو ’’ترمیم شدہ شکل‘‘ کے زیر عنوان درج کیا ہے، مگر یہ نہیں واضح کیا کہ اس کی ابتدائی صورت کیا تھی۔ حقیقت میں یہ شعر طبع اوّل میں موجود تھا، مگر اسرار و رموز (یکجا) میں اسے حذف کردیا گیا۔ تابباغت۱؎ رنگِ خویش انداخت است احمرت را غیر اصفر ساخت است ۱۱- آخری صفحے پر حقوقِ اشاعت سے متعلق ’’اعلان‘‘ (یہ عبارت گذشتہ صفحات میں نقل کی جاچکی ہے)۔ (ب) اضافات: ۱- دیباچہ (گذشتہ صفحات میں نقل کیا جاچکا ہے)۔ ۲- اسرارِ خودی میں باب ’’الوقت سیف‘‘ کے پہلے بند کے بعد اٹھارہ اشعار کا ایک مکمل بند، جس کا سب سے پہلا شعر ہے: نکتۂ می گوئمت روشن چو دُر تا شناسی امتیازِ عبد و حُر اور آخری شعر: نغمۂ خاموش دارد سازِ وقت غوطہ در دل زن کہ بینی رازِ وقت (کلیات: ص۷۲-۷۴) ۳- ص۹۲ (رموزِ بے خودی) پر مولانا روم کا یہ شعر: جہد کن در… (کلیات: ص۸۰) ۴- ص ۱۱۱ کا عنوان: ’’محاورہ تیر و شمشیر… (کلیات: ص۹۷) ۵- ص۱۱۹-۱۲۰ پر ایک نئے عنوان: ’’در معنیِ ایں کہ مقصود رسالتِ محمدیہ تشکیل و تاسیس حریت و مساوات و اخوتِ بنی نوعِ آدم است‘‘ کے تحت ابتدائی سولہ اشعار… (کلیات: ص۱۰۳-۱۰۴) ۶- اسرار و رموز: ص۱۲۹ کا شعر نمبر ۴ (پیشِ پیغمبر …)، شعر نمبر ۵ (در ثنایش…)، ص۱۳۰ کے گیارہ اشعار (از: آں مقامش… تا مسلم استی…) اور ص۱۳۱ کے دو اشعار (می نگنجد… اور: دل بدست آور…) کل پندرہ اشعار (کلیات: ص۱۱۲-۱۱۳)۔ ۷- ص۱۲۹، ۱۳۰ کے حواشی (کلیات: ص۱۱۲-۱۱۳) ۸- ص ۱۳۳ کا عنوان: ۱- مولانا مہر نے ’’بباغش‘‘ لکھا ہے (سرودِ رفتہ: ص۲۵۸) مگر طبع اوّل میں ’’بباغت‘‘ ہے (اوّل: ص۱۲۰)۔ ’’در معنی ایں کہ وطن اساسِ ملت نیست‘‘ (کلیات: ص۱۱۵)۔ ۹- ۱۴۳-۱۴۴ پر ایک نئے عنوان: ’’در معنیِ ایں کہ در زمانۂ انحطاط تقلید از اجتہاد اَولیٰ تراست‘‘ کے تحت شعر نمبر ۲ (بزمِ اقوام کہن…) تاشعر ۱۶ (اے پریشاں محفل…) کل پندرہ اشعار۔ (کلیات: ص۱۲۴-۱۲۵) ۱۰- ص۱۵۲ پر دو اشعار: شعر نمبر ۵: مرشدِ رومی… اور: شعر نمبر ۶: مگسل از ختم الرسل… (کلیات: ص ۱۳۱-۱۳۲)۔ ۱۱- ص۱۵۵ کا شعر نمبر ۲: (گر نظر داری…) اور نمبر ۶ (فکرِ خامِ تو…) تا نمبر ۱۲ (سازِ خوابیدہ…) ص۱۵۶ کا شعر نمبر۱ (دمبدم مشکل…) کل نو، اشعار (کلیات: ص۱۳۴) ۱۲- ص۱۶۷ کا آخری شعر: قطرۂ کز… (کلیات: ص۱۴۴) ۱۳- ص۱۶۸ کا شعر نمبر ۱: (چوں بدریا…)، نمبر ۲ (چوں صبا…) اور نمبر ۴ (حرف چوں طائر…) (کلیات: ص۱۴۴) ۱۴- ص۱۶۸ کا حاشیہ نمبر۱ (کلیات:ص۱۴۴) ۱۵- ص۱۸۷ کے آخری دو اشعار: (۱) چوں نظر در پردہ ہائے… (۲) در جہاں مثل حباب… (کلیات: ص۱۶۱) ۱۶- ص۱۹۰ کے دو اشعار: (۱) امتِ او مثلِ او… (۲) نورِ حق را کس… (کلیات: ص۱۶۳) (ج) ترامیم: اسرار و رموز (یکجا) میں بعض اشعار و مصاریع کو ترمیم کے ذریعے، نئی صورت دی گئی۔ اس کی وضاحت ذیل کے گوشوارے سے ہوگی۔ جن ترامیم کی نشان دہی مولانا غلام رسول مہر نے کی، ان کے سامنے علامت ’’م‘‘ درج ہے۔ (گوشوارہ آئندہ صفحے پر) (د) تقدیم و تاخیر اسرار و رموز(یکجا) میں بعض مقامات پر ترتیب اشعار و مصاریع میں تقدیم و تاخیر کی گئی ہے۔ صفحہ کلیات صفحہ اسرار خودی، دوم صفحہ اسرار و رموز (یکجا) ۲۳ ۳۷ دو اشعار کی ترتیب اس طرح تھی: (۱) از سوالِ افلاس… (۲) از سوالِ آشفتہ… ۲۴ ترتیب الٹ دی گئی: (۱) از سوالِ آشفتہ… (۲) از سوالِ افلاس… صفحہ رموز بے خودی، اوّل صفحہ اسرار و رموز (یکجا) ب یہ شعر: اے نظر بر حسنِ تر… ترتیب کے اعتبار سے اس باب کا چھٹا شعر ہے۔ ۹۳ اس شعر کو باب کا تیسرا شعر بنا دیا گیا ہے۔ ۹ اس شعر کی یہ صورت ہے: گلستاں در دشت و در پیدا کند تازہ اندازِ نظر پیدا کند ۱۰۳ مصرعوں کو اُلٹ دیا گیا ہے: تازہ اندازِ نظر پیدا کند گلستاں در دشت و در پیدا کند ۶۳ اشعار کی ترتیب اس طرح تھی: (۱) فکر شاں ریسد… (۲) عہدِ حاضر فتنہ… ۱۴۳ دوسرے شعر کو باب: ’’در معنیِ ایں کہ در زمانۂ انحطاط‘‘ کا اوّلیں شعر بنا دیا گیا۔ ۶۳-۶۴ اشعار کی ترتیب یہ تھی: (۱) اے کہ از اسرارِ دیں… (۲) نقش بردل… ۱۴۴ دوسرے شعر کو اس باب کا سترہواں شعر بنا دیا گیا۔ ۷۸ اشعار کی ترتیب اس طرح تھی: (۱) گرچہ مثلِ بُو… ّ(۲) آتشِ او دم بخویش… ۱۵۵ دوسرے شعر کو باب ’’در معنی ایں کہ حیاتِ ملیہ مرکز‘‘… کا ساتواںشعر بنا دیا گیا۔ ۱۲۰-۱۲۱ اشعار کی ترتیب اس طرح تھی: ۱۸۶ پہلے شعر کو اس بند کا چوتھا شعر بنا دیا گیا۔ (۱) از خزانش خاکِ تو… (۲) علمِ غیر آموختی… اسرار و رموز (یکجا) کے زیرنظر پہلے اڈیشن میں اسرارِ خودی (طبع دوم) اور رموزِ بے خودی (طبع اوّل) کی مندرجہ ذیل اغلاط درست کردی گئی ہیں: اسرارِ خودی، دوم اسرار و رموز (یکجا) صفحہ سطر غلط صفحہ سطر صحیح ۱۶ ۶ نہٖ ۱۱ ۲ نُہٖ ۱۷ ۸ خردہ ۱۱ ۱۲ خردۂ ۲۴ ۲ جانِ جہاں ۱۶ ۵ جانِ جہانِ ۲۵ ۲ پروار ۱۶ ۱۰ پرواز ۲۵ ۵ نفی ۱۷ ۱ نفیِ ۴۲ ۳ زنداں ۲۸ ۲ زندانِ ۴۶ ۴ مائو او ۳۱ ۲ ماو او ۴۶ ۶ کردں ۳۱ ۴ کردن ۷ خون آشام ۳۱ ۵ خوں آشام ۴۷ ۷ ضعیفاں ۳۲ ۲ ضعیفان ۶۹ ۲ دولتِ ۴۷ ۲ دولت ۷۰ حاشیہ نمبر۱ الصلوۃ تنہی عن الفحشاء ۴۷ حاشیہ نمبر۱ ان الصّلوٰۃ تنہٰی عن الفحشاء صفحہ سطر غلط صفحہ سطر صحیح ۷۰ ۵ ہجرت آموز وطن ۴۸ ۲ ہجرت آموز و وطن ۷۱ ۵ الٓہی ۴۸ ۹ الٰہی ۷۲ ۱ لا یبلی ۴۹ ۱ لا یبلیٰ حاشیہ لا یبلیِ ۴۹ حاشیہ نمبر۱ لا یبلیٰ ۷۹ ۶ چیں ۵۴ ۱ چین ۸۱ ۵ ترکیبِ تو ۵۵ ۳ ترکیبِ نو ۸۷ ۷ مائوطیں ۵۹ ۴ ماء وطیں ۹۵ ۵ مستیز ۶۴ ۷ مستنیر ۹۸ ۱ برخاک ۶۶ ۵ باخاک ۹۸ ۸ ابراہیمؓ ۶۶ ۱۲ ابراہیمؑ ۱۱۶ ۴ حُسِ ۷۷ ۹ حس ۱۳۲ ۳ شبِ یارا ۸۹ ۷ شبِ یلدا رموز بے خودی،اوّل اسرار و رموز (یکجا) صفحہ سطر غلط صفحہ سطر صحیح دیباچہ ص۱ ۵ اقوام کے حیات دیباچہ ہی حذف کر دیا گیا ہے دیباچہ ص۲ ۴ مضیوط ایضاً دیباچہ ص۲ ۵ دوتوں ایضاً ۵ ۳ یا حّی و ۹۵ ۱۱ یآحَیُّ ۴۴ ۵ تازہ ار تکبیر ۱۲۸ ۱۰ تازہ از تکبیر ۶۱ حاشیہ نمبر۲ الداخ ۱۴۲ حاشیہ نمبر۲ الداعِ ۱۲۱ ۸ مازَاغُ ۱۸۶ ۱۲ مازَاغَ ۱۳۲ ۸ منات ۱۹۴ ۹ منات مگر مندرجہ ذیل اغلاط، اسرار و رموز (یکجا) میں بدستور موجود ہیں: اسرارِ خودی،دوم اسرا ر ورموز (یکجا) صفحہ سطر غلط صفحہ سطر غلط ۲ ۳ خدائو رستم ۲ ۹ خدائو رستم ۱۳ ۶ نگہتِ ۹ ۲ نگہتِ ۱۸ ۲ حیاتِ تعیّناتِ ۱۲ ۲ حیاتِ تعیّناتِ ۴۶ ۸ نحسٌ ۳۱ ۶ نحسٌ ۶۴ ۲ خوبکر پاسِ ۴۳ ۱ خوبکر پاسِ ۶۷ ۲ زنداں گل ۴۵ ۸ زنداں گلِ [مزید غلطی یہ کہ ’’ل‘‘ کو مکسور کردیا] ۶۹ ۳ مائوطیں ۴۷ ۳ مائوطیں ۶۹ ۴ لا اِلٰہ ۴۷ ۴ لا اِلٰہ ۷۱ حاشیہ تنالو البر ۴۸ حاشیہ نمبر۲ تنالو البر ۷۲ ۲ حکمران ۴۹ ۲ حکمران ۹۸ ۲ صحرائو دشت ۶۶ ۶ صحرائو دشت ۹۸ ۸ آذر ۶۶ ۱۲ آذر ۱۰۲ ۱ طلاطم ۶۸ ۱۱ طلاطم ۱۱۱ ۵ آگۂٖ ۷۴ ۸ آگئی(یہ بھی غلط ہے) ۱۱۳ ۷ نغمہائے ۷۵ ۱۱ نغمہائے ۱۱۴ حاشیہ نمبر۱ اولہ ۷۶ حاشیہ نمبر۱ اولہ ۱۲۷ ۶ بالائو ۸۶ ۶ بالائو ۱۳۳ ۴ آذرش ۹۰ ۴ آدرش (یعنی اس لفظ میں غلطی کی صورت بدل گئی ہے۔ ’’آذرش‘‘ اور ’’آدرش‘‘ دونوں غلط ہیں۔ صحیح ’’آزرش‘‘ ہے۔) رموزِ بے خودی،اوّل اسرا ر ورموز (یکجا) صفحہ سطر غلط صفحہ سطر غلط ۹ ۵ پارہائے ۱۰۳ ۴ پارہائے ۱۲ ۸ حاشیہ الرحْمٰنَ ۱۰۵ حاشیہ الرحْمٰنَ ۱۴ ۶ اندیشہا ۱۰۶ ۱۱ اندیشہا ۱۸ ۳ چشمہائے ۱۰۸ ۹ چشمہائے ۱۸ ۶ صدیقؓ را صدیقؓ ۱۰۹ ۳ صدیقؓ را صدیقؓ ۲۹ حاشیہ نمبر۱ کااللّیث ۱۱۶ حاشیہ نمبر۲ کااللّیث ۳۱ ۸ خداست ۱۱۸ ۴ خداست ۳۴ ۳ حیلہ جوی ۱۲۱ ۸ حیلہ جوئے (یہ بھی غلط ہے) ۳۸ حاشیہ نمبر۲ یَامُرُکُمْ ۱۲۴ حاشیہ نمبر۲ یَامُرُکُمْ ۴۸ حاشیہ آیہ شریفہ کا متن غلط ہے ۱۳۳ حاشیہ آیہ شریفہ کا متن بدستور غلط ہے ۵۹ ۷ رحمۃ اللعالمیں ۱۴۰ ۱۱ رحمۃ اللّعالمیں ۶۱ حاشیہ نمبر۱ فَتَقَطَّعُوْا… زُبْراً ۱۴۲ حاشیہ نمبر۱ بدستور غلط حاشیہ نکرا حاشیہ نکرا ۶۳ ۶ رازیؓ ۱۴۵ ۳ رازیؓ ۸۷ حاشیہ نمبر۱ لتکونو ۱۶۲ حاشیہ نمبر۳ لتکونو ۸۷ حاشیہ نمبر۳ وماضل۔ّ ۱۶۲ حاشیہ نمبر۳ وماضل۔ّ ۱۰۳ حاشیہ نمبر۱ لباسکم ۱۷۳ حاشیہ لباسکم صفحہ سطر غلط صفحہ سطر غلط ۱۱۶ ۶ باللہ ۱۸۳ ۶ باللہ ۱۲۱ ۸ زَاغُ البَصَرِ ۱۸۶ ۱۲ زَاغُ البَصَرَ [’’ر‘‘ پر زیر کی جگہ زبر بنائی گئی ہے مگر یہ بھی غلط ہے۔] اسرار و رموز (یکجا) میں مندرجہ ذیل نئی اغلاط رُوپذیر ہوگئی ہیں: صفحہ سطر غلط صحیح ۱۰ ۱۲ روی رومی ۱۶ ۷ موسیِٰ موسیِ ۳۳ ۴ گوہر شبری گوہر شیری ۳۳ ۶ جوہرِ آینہ جوہرِ آئینہ ۳۳ ۹ دلہائو قنہا دلہاو تنہا ۳۳ ۱۰ فرود فزود ۳۷ ۱۱ نیزد خیزد ۴۰ ۴ خستہ و ما خستۂ ما ۴۵ حاشیہ نمبر۱ حاشیے کا آخری حصہ ’’تلمیح ہے، آیۂ قرآنی کی طرف‘‘ چھوٹ گیا ہے۔ ۴۵ ۵ پدا پیدا ۵۳ ۵ رہزں رہزن ۹۰ ۱ ایں و آں این و آں(دوسرے اڈیشن میں اس غلطی کی اصلاح کردی گئی تھی، مگر زیر نظر اڈیشن میں یہ غلطی دوبارہ روپذیر ہوگئی ہے۔) صفحہ سطر غلط صحیح ۹۴ ۳ فرمود فرسود ۹۵ ۷ پاربنہ پارینہ ۹۸ ۸ ظاہرش ار قوم ظاہرش از قوم ۱۰۹ ۱۱ در گلت را خود در گلت خود را ۱۱۹ ۵ پاپائو سلطان پاپا و سلطان ۱۲۷ ۱۱ یزداں یزداں۷۲ ۱۳۰ حاشیہ والآدم واٰدَمَ ۱۴۴ ۱۰ قہستاں کہستاں ۱؎ ۱۴۸ ۷ شُترسوار اشتر سوار ۱۵۰ ۱۰ قدتنم درتنم ۱۵۶ ۱۲ سینہِ او سینہ او ۱۷۰ ۴ بگذارش بگذاردش ۱- یہ لفظ اس شعر میں آیا ہے: شاید از سیلِ قہستاں برخوری باز در آغوشِ طوفاں پروری غلام رسول مہر نے ’’قہستاں‘‘ کو کاتب کی غلطی قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ: ’’یہاں کہستاں ہونا چاہیے، کیونکہ قہستان(خراسان) کو سیل سے کوئی مناسبت نہیں۔ (مطالب اسرار و رموز: ۲۳۰-۲۳۱) مولانا مہر کی اصلاح قابلِ توجہ ہے، تاہم یہ غلطی کاتب کی نہیں۔ یہ شعر پہلی بار اسرار و رموز (۱۹۲۳ئ) میں شامل کیا گیا تھا۔ اس میں اور بعد کے تمام اڈیشنوں میں ’’قہستان‘‘ ہے۔ کلیاتِ اقبال، فارسی (لاہور، ۱۹۷۳ئ) کی کتابت مولانا مہر کی راہنمائی اور نگرانی میں ہوئی، اس میں بھی ’’قہستاں‘‘ ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر سیّد عبداللہ کا خیال ہے کہ: ’’علامہ نے کہستاں کو قہستاں لکھ کر اپنے لہجے اور ذوق کی خارا پسندی کا ثبوت دیا ہے۔‘‘ (مقدمہ، مقالاتِ اقبال : ص۱۴) در حقیقت یہاں ’’قہستاں‘‘ کا محل نہیں، ۱۹۲۳ء میں پہلی بار ’’کہستاں‘‘ کے بجاے غلطی سے ’’قہستاں‘‘ چھپ گیا۔ علامہ اقبال کی زندگی میں ۱۹۲۳ء میں مطبوعہ، یہ اسرار و رموز کا آخری اڈیشن تھا، بعد میں اس لفظ کی تصحیح نہیں ہوسکی۔ ممکن ہے، خود علامہ اقبال نے مسودے میں ’’قہستاں‘‘ لکھا ہو اور عجلت میں یہ بات ناممکن نہیں۔ اگر ایسا ہے تب بھی یہ غلطی ایسی واضح ہے کہ اسے تبدیل کرنا ضروری ہے، اسی لیے ہم نے اسے غلط قرار دیا ہے۔ اسرار و رموز ۱؎ کا دوسرا اڈیشن (اسرارِ خودی، طبع چہارم اور رموزِ بے خودی، طبع سوم) نسبتاً بڑی تقطیع پر شائع ہوا۔ سرورق پر نمبر لگانے والی مشین سے سالِ اشاعت 1928 درج کیاگیا ہے۔۲؎ بالعموم، شعری مجموعوں کی کتابت، عبدالمجید پرویں رقم کیا کرتے تھے، مگر اس اڈیشن کی کتابت ’’محمد حسن خوشنویس چوک متی لاہور‘‘ نے کی ہے۔ اسی زمانے میں مطبوعہ زبورِ عجم (۱۹۲۷ئ) کی کتابت بھی ایک اور خوش نویس (محمد صدیق) نے کی۔ کسی غیر معمولی سبب سے، کتابت پرویں رقم کے بجاے محمد حسن اور محمد صدیق سے کرائی گئی۔ ممکن ہے ان ایام میں منشی عبدالمجید، لاہور میں موجود نہ ہوں۔ اسرار و رموز کے اس اڈیشن کی تقطیع (۱۹×۱۴ س۔م) سابق اڈیشن سے قدرے بڑی ہے مگر بارہ سطری مسطر برقرار رکھا گیا ہے۔ مختلف ابواب کے آغاز و اختتام اور اشعار و حواشی کی ترتیب وغیرہ میں سابقہ اڈیشن کا اِتباع کیاگیا ہے۔ سرورق کی عبارت حسبِ سابق ہے، مگر سرورق کے اندر، سرورق کے صفحہ نمبر ۲ سے دیباچہ حذف کردیا گیا ہے اور اس جگہ بارِ اشاعت کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے: اسرارِ خودی: اشاعتِ چہارم رموزِ بے خودی: اشاعتِ سوم ۱۹۲۸ء کے اس اڈیشن میں طبع اوّل (یکجا، ۱۹۲۳ئ) کے حسب ذیل صفحات نمبر کی اصلاح ہوئی ہے۔ [وضاحت: ۹۲میں ۹ سے مراد ہے صفحہ نمبر اور ۲ سے مراد ہے سطر نمبر] ۱۰، ۱۲ ۳۳، ۴ ۳۳، ۶ ۳۳، ۹ ۳۳، ۱۰ ۳۷، ۱۱ ۴۴، ۱ ۴۵، ۵ ۴۸ ، حاشیہ نمبر۲ ۴۹ ۲ ۵۳، ۵ ۷۴، ۸ ۷۷، ۷ ۹۰، ۱ ۹۴، ۳ ۹۵، ۸ ۹۸، ۸ ۱۰۴، ۹ ۱۰۶ ، ۱۱ ۱۰۹ ۳ ۱۰۹ ۱۱ ۱۱۶ حاشیہ نمبر۲ ۱۲۱، ۸ ۱۴۲ ، حاشیہ نمبر۱ ۱۴۲ ، حاشیہ نمبر۲ ۱۴۸، ۷ ۱۵۰، ۱۰ ۱۵۶، ۱۲ ۱۶۲ ، حاشیہ نمبر۱ ۱۶۲ ، حاشیہ نمبر۲ ۱۷۰، ۴ ۱۸۶ ۱۲ (’’ر‘‘ کی زبر ہٹا دی ہے۔ اب اسے مضموم پڑھا جاسکتا ہے) ۱۹۱ ، حاشیہ نمبر۱ ۱۹۴ ، ۹ ۱۹۵ ، ۴ ۱۹۸ ، ۱ ۱- آئندہ سطور میں اسرار و رموز سے ’’اسرار و رموز (یکجا) مراد لیا جائے گا۔‘‘ ۲- مختلف کتب خانوں میں اس اڈیشن کے جو نسخے، راقم الحروف کی نظر سے گزرے، ان سب پر اسی طرح نمبر لگانے والی مشین سے سالِ اشاعت درج ہے۔ غالباً طباعت کے وقت سالِ اشاعت نہ لکھا جاسکا، اس لیے بعد میں یہ طریقہ اختیار کیا گیا۔ تاہم طبع اوّل (یکجا، ۱۹۲۳ئ) کے مندرجہ ذیل صفحات کی اغلاط (جن کی مفصل نشان دہی گذشتہ صفحات میں کی جاچکی ہے) ۱۹۲۸ء کے اس اڈیشن میں بھی بدستور موجود ہیں: ۲، ۴ ۱۲، ۲ ۱۶ ۷ (غلطی کی صورت بدل گئی ہے)، ۳۱، ۶ ۴۰، ۴ ۴۵، ۸ ۴۷، ۳ ۴۷، ۴ ۴۹ حاشیہ نمبر۱ (حاشیے کا آخری حصہ: ’’آیۂ قرآنی کی طرف‘‘ چھوٹ گیا ہے)، ۶۶، ۶ ۶۶، ۱۲ ۶۸، ۱۱ ۷۵، ۱۱ ۷۶ ، حاشیہ نمبر۱ ۸۶، ۶ ۹۰ ۴ (آذرش بھی غلط ہے)، ۱۰۳، ۴ ۱۰۵، ۲ ۱۰۵ ، حاشیہ ۱۰۸، ۹ ۱۱۸، ۴ ۱۱۹، ۵ ۱۲۴ ، حاشیہ نمبر۲ ۱۲۷، ۱۱ ۱۳۰ حاشیہ (و آدم بھی غلط ہے)، ۱۳۳ حاشیہ (آیہ شریفہ کا یہ متن بھی غلط ہے)، ۱۴۰ ۱۱ (غلطی کی نوعیت بدل گئی ہے)، ۱۴۲ ، حاشیہ نمبر۱ ۱۴۴، ۲ ۱۴۵، ۳ ۱۶۸ ، حاشیہ نمبر۲ ۱۷۳، حاشیہ ۱۸۳ ۶ (بہ للہ بھی غلط ہے)، ۱۹۷۔ ۱۰ اسرار و رموز کے اس اڈیشن (۱۹۲۸ئ) میں کچھ نئی اغلاط بھی رُو پذیر ہوگئی ہیں: صفحہ سطر غلط صحیح ۵ ۱۰ پہلا مصرع:گزشت گذشت ۶ ۲ پَئے پیٔ ۱۶ ۷ موسٰیِ موسیِ ۲۴ ۱۰ بے تحلی بے تجلّی ۳۷ ۹ حس حسنِ ۴۴ حاشیہ دورق زورق ۵۱ ۵ امکان امکاں ۵۲ ۲ سوزیم سازیم ۶۱ ۷ گامِ دل کامِ دل ۶۷ ۱۱ نار و ساماںِ ناز سامانِ ۷۵ حاشیہ نمبر۲ جُنیدی جُندی صفحہ سطر غلط صحیح ۷۵ حاشیہ نمبر۶ گزار گذار ۸۱ ۴ میل مثلِ ۸۱ ۵مصرع۲ شوی شدی ۸۳ ۴ نارِ حُر تارِ حُر ۱۵۱ ۲ رعنائے تو رعناے او ۱۶۶ ۴ پرست پراست ۱۷۰ ۱ ایں و آں این و آں ۱۷۱ ۷ بردارد اندازد ازو بردارد و اندازد او ۱۷۱ ۷ سرگزشت سرگذشت ۱۷۱ ۹ مصرع ثانی: سرگزشت سرگذشت ۱۷۱ ۱۰ سرگزشت سرگذشت متذکرہ بالا اڈیشن، علامہ اقبال کی زندگی میں اشاعت پذیر ہونے والا، اسرار و رموز کا آخری اڈیشن تھا۔ اگلا اڈیشن بارہ برس کے وقفے سے ۱۹۴۰ء میں چھپا۔ یہ اسرار و رموز (یکجا) کا تیسرا اڈیشن تھا۔ پہلے اور دوسرے اڈیشن میں سرورق کی پیشانی پر تسمیہ کے علامتی یا ابجدی اعداد ’’۷۸۶‘‘ درج کیے گئے تھے، اس اڈیشن میں، انھیں غالباً نادانستہ طور پر، ترک کردیا گیا۔ اقبال کی وفات کے بعد، شائع ہونے والے اس پہلے اڈیشن پر حقوقِ اشاعت سے متعلق یہ جملہ پہلی بار درج کیا گیا: ’’جملہ حقوق مع حق ترجمہ بحق جاوید اقبال خلف الصدق علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال علیہ الرحمتہ محفوظ ہیں‘‘۔ قلم قدرے جلی ہے تاہم ابواب کے آغاز و اختتام پر، اشعار و حواشی کی ترتیب وغیرہ میں سابقہ اڈیشن (۱۹۲۸ئ) ہی پیش نظر رہا ہے۔ ۱۹۴۰ء کے اس اڈیشن میں، طبع دوم (یکجا، ۱۹۲۸ئ) کے مندرجہ ذیل صفحات کی اغلاط کی تصحیح ہوگئی ہے: ۶، ۲ ۱۶، ۷ ۲۴، ۱۰ ۳۷، ۹ ۴۴، حاشیہ ۵۱، ۵ ۶۱، ۷ ۶۶، ۶ ۶۷، ۱۱ ۷۲، ۱ ۷۵، ۶ ۸۱، ۴ ۸۱، ۵ ۸۳، ۴ ۱۱۹، ۵ ۱۵۱، ۲ ۱۷۰، ۱ ۱۷۳، حاشیہ تاہم طبع دوم (یکجا، ۱۹۲۸ئ) کے مندرجہ ذیل صفحات کی اغلاط (جن کی مفصل نشان دہی گذشتہ صفحات میں کی جاچکی ہے) ۱۹۴۰ء کے اس اڈیشن میں بھی بدستور موجود ہیں: ۲، ۴ ۵، ۱۰ ۱۲، ۲ ۳۱، ۶ ۴۰، ۴ ۴۵، ۸ ۴۷، ۳ ۴۷، ۴ ۴۷، حاشیہ نمبر۱ ۵۲، ۲ ۶۶، ۱۲ ۶۸، ۱۱ ۷۵، حاشیہ ۷۵، ۱۱ ۷۶ ، حاشیہ نمبر۱ ۸۱، ۵ ۸۶، ۶ ۹۰، ۴ ۱۰۳، ۴ ۱۰۵، ۲ ۱۰۵، حاشیہ ۱۰۸، ۹ ۱۱۸، ۴ ۱۲۴ ، حاشیہ نمبر۲ ۱۲۵، ۱۱ ۱۳۰، حاشیہ ۱۳۳، حاشیہ ۱۴۰، ۱۱ ۱۴۵، ۳ ۱۴۶، ۴ ۱۶۶، ۴ ۱۶۸، حاشیہ نمبر۲ ۱۷۱(دو اغلاط)، ۷ ۱۷۱، ۹ ۱۷۱، ۱۰ ۱۹۷۔ ۱۰ ۱۹۴۰ء کے اس اڈیشن میں چند نئی اغلاط رُو پذیر ہوگئی ہیں: صفحہ سطر غلط صحیح ۵ ۹ رختِناز۱؎ رخت باز ۵ ۱۰ مصرع ثانی: گزشت گذشت ۹ حاشیہ نمبر۱ لیلے لیلیٰ ۷۵ ۶ گزار گذار ۷۶ حاشیہ نمبر۲ حاشیہ کا باقی حصہ [لا اُحبُّ الٰا فِلِیْن کی طرف ۱۲] غلطی سے حذف ہوگیا ہے۔ ۱۱۱ ۳ خوف خوف ۱۱۸ ۴ لا نَبَِّی لا نَبِیْ ۱۴۸ ۳ خواند خواہد ۱۵۶ ۱۲ سینۂ او پروریم سینہ او را پروریم ۱- غلام رسول مہر، مطالبِ اسرار و رموز: ص۴۲ یہ اغلاط، تعداد میں، سابقہ اشاعتوں کے مقابلے میں خاصی کم ہیں۔ جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خوش نویس اور نگرانِ اشاعت نے نسبتاً زیادہ تردد اور احتیاط سے کام لیا۔ اسرار و رموز کی آئندہ اشاعت ۱۹۴۸ء میں عمل میں آئی۔ یہ اسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی کی چوتھی یکجا اشاعت تھی۔ اس اڈیشن میں سرورق کے الفاظ تبدیل کردیے گئے۔ اب اس کی صورت یہ ہے: جملہ حقوق محفوظ اسرار و رموز اقبال سر ورق کے اندر (پشت پر) کتاب کے بارِ اشاعت سے متعلق مندرجہ ذیل کوائف درج ہیں: (زیر نگرانی اسرار و رموز (ہر دو یکجا) بار دوئم ۱۹۴۰ء چودھری محمد حسین اسرار و رموز (ہر دو یکجا) بار سوئم ۱۹۴۸ء ایم اے) (پانچ ہزار) یہ معلومات درست نہیں ہیں۔ اسرار و رموز (ہر دو یکجا) کی مختلف اشاعتوں کے بارے میں صحیح صورتِ حال اس طرح ہے: یکجا بار اوّل: ۱۹۲۳ئ، اسرارِ خودی اشاعت سوم، رموزِ بے خودی اشاعت دوم یکجا باردوم: ۱۹۲۸ئ، ایضاً، اشاعت چہارم، ایضاً، اشاعت سوم یکجا بار سوم: ۱۹۴۰ئ، ایضاً، اشاعت پنجم، ایضاً، اشاعت چہارم یکجا بار چہارم: ۱۹۴۸ئ، ایضاً، اشاعت ششم، ایضاً، اشاعت پنجم اس اڈیشن (۱۹۴۸ئ) میں سابقہ اڈیشن (۱۹۴۰ئ) کی مندرجہ ذیل صفحات کی غلطیوں کی تصحیح ہوگئی ہے: ۳۱، ۶ ۴۰، ۴ ۴۷، ۳ ۷۵، ۶ ۸۱، ۵ ۱۰۵، ۲ ۱۰۵، حاشیہ ۱۱۱۔ ۳ تاہم مندرجہ ذیل صفحات کی اغلاط بدستور موجود ہیں: ۲، ۴ ۵، (مصرع اوّل اور مصرع ثانی) ۹ ۹ ، حاشیہ نمبر۱ ۱۲، ۲ ۱۶، ۷ ۲۳، ۵ ۴۵، ۸ ۴۷، ۴ ۴۹ ، حاشیہ نمبر۱ ۵۲، ۲ ۶۶، ۱۲ ۶۸، ۱۱ ۷۵، ۱۱ ۷۶ ، حاشیہ نمبر۱ ۷۶ ، حاشیہ نمبر۲ ۸۶، ۶ ۹۰، ۴ ۱۰۳، ۴ ۱۰۸، ۹ ۱۱۸، ۹ ۱۱۸ دو اغلاط، ۴ ۱۲۴ ، حاشیہ نمبر۲ ۱۲۷، ۱۱ ۱۳۰، حاشیہ ۱۳۳، حاشیہ نمبر۱ ۱۴۰، ۱۱ ۱۴۵، ۳ ۱۴۸، ۳ ۱۴۸، ۱۱ ۱۵۶ (دو اغلاط)، ۱۲ ۱۶۶، ۴ ۱۶۸، حاشیہ نمبر۲ ۱۷۱ (دو اغلاط)، ۷ ۱۷۱، ۹ ۱۷۱، ۱۰ ۱۹۷۔ ۱۰ اس اڈیشن (۱۹۴۸ئ) میں مندرجہ ذیل نئی اغلاط رُو پذیر ہوگئی ہیں: صفحہ سطر غلط صحیح ۴ ۷ حاشیہ نمبر۱ محذوف ہے: ’’رامش گیری: نغمہ و سرور‘‘ ۵ ۱ حاشیہ نمبر۱ محذوف ہے: ’’نامِ صبح‘‘ ۹ ۸ حاشیہ نمبر۱ محذوف ہے: ’’طے: لیلیٰ کے قبیلے کا نام‘‘ ۴۵ ۳ سرخود سرخوش ۵۰ ۳ عنا گیرد عناں گیرد ۵۵ ۱۰ کیں کین ۷۶ ۱۱ تکرگ تگرگ ۸۱ ۹ ایں و آں این و آں ۸۵ حاشیہ نمبر۱ خَلَقْ خَلَقَ ۸۶ ۸ خاصعین خاضعیں ۸۶ حاشیہ نمبر۲ تنّزل۔ آیہ ننزّل۔ آیۃ ۹۸ ۲ کہکشاں کہکشان ۱۲۰ حاشیہ نمبر۱ اتَقْکُمْ اَتْقٰکُمْ ۱۲۲ ۹ صلح و کیںِ صلح و کینِ ۱۲۳ ۸ ناتواں ناتوانِ صفحہ سطر غلط صحیح ۱۲۴ ۵ دعوے دعوے۔ٰ ۱۴۲ ۷ محفلس محفلش ۱۵۶ ۱۲ شیریں شیرین ۱۸۶ ۱۲ الْبَصَرَ الْبَصَرُ ۱۹۶ ۹ بخشندۂٖ بخشیدۂٖ اس اڈیشن کی پلیٹوں کو محفوظ کرلیا گیا اور ۱۹۷۱ء تک اسرار و رموز انھی پلیٹوں سے طبع کی جاتی رہی (ان اڈیشنوں کی کتابیاتی تفصیل، ضمیمہ نمبر ۱ میں ملاحظہ کیجیے)۔ چنانچہ ان سب اڈیشنوں میں، ۱۹۴۸ء کے اڈیشن کی تمام اغلاط موجود ہیں۔ البتہ بکثرت طباعت سے، ان پلیٹوں میں خرابی کے سبب، ان اڈیشنوں میں کہیں کہیں نئی اغلاط رونما ہوگئی ہیں، مثلاً: صفحہ سطر غلط صحیح ۷۹ ۹ اختبار اعتبار ۸۴ ۲ بیی بینی ۸۷ ۱۱ کارش کارمش ۱۰۲ ۱۱ دمترے دفترے ۱۳۰ ۴ با است با امّت ۱۹۷۲ء میں، تمام شعری مجموعوں کی کتابت از سرِ نو کرائی گئی، چنانچہ اسرار و رموز کے بعد کے اڈیشن (۱۹۷۶ء و ما بعد) اسی نئی کتابت (از محمود اللہ صدیقی) سے طبع کیے گئے ہیں۔ ان اڈیشنوں کے محاسن و معائب پر، آئندہ صفحات میں کلیاتِ اقبال فارسی کے ضمن میں بحث ہوگی۔ ژ پیامِ مشرق علامہ اقبال رموزِ بے خودی کی تکمیل و طباعت (۱۰ اپریل ۱۹۱۸ئ) اور معًا بعد اسرارِ خودی کے دوسرے اڈیشن کی تیاری سے فارغ ہوئے تو فارسی گوئی کی طرف ان کا میلان زوروں پر تھا۔ اگرچہ گاہے گاہے، وہ اُردو میں بھی شعر کَہ لیتے تھے، مگر ’’دل کا بخار‘‘ ۱؎ نکالنے کے لیے اُردو کے مقابلے میں فارسی کو زیادہ موزوں پاتے تھے۔ یوں تو پیامِ مشرق کی ایک غزل اُنھوں نے ۱۹۱۵ئ۲؎ میں کہی تھی اور ممکن ہے، بعض دیگر غزلیات اسی دور میں، یا اُس سے بھی پہلے کہی ہوں، تاہم پیامِ مشرق کی طرف پوری توجہ، اُنھوں نے اسرارِ خودی، طبع دوم کی تکمیل کے بعد ہی، مبذول کی۔ ابتدا میں ان کا خیال تھا کہ اُردو اور فارسی منظومات کو ملا کر۳؎ ایک مجموعہ تیار کرلیا جائے (اکتوبر ۱۹۱۹ئ)، مگر بعد میں اُردو کلام کو مجوزہ مجموعے میں شامل کرنے کا ارادہ ترک کردیا۔ اس طرح دیوان فارسی کی ضخامت مجوزہ مجموعے کے محض ایک تہائی کے برابر بنتی تھی۔۴؎ تقریباً ساڑھے تین برس بعد، ۱۹۲۳ء کے اوائل میں، پیامِ مشرق کی اشاعت کا ڈول ڈالا گیا۔ اقبال چاہتے تھے کہ ان کے ذہن میں جو مزید ’’چند ضروری‘‘ نظمیں موجود ہیں، وہ بھی صفحۂ قرطاس پر منتقل ہوجائیں، تب مجموعہ شائع کیا جائے، مگر ان کے والدِ مکرم کا اصرار تھا کہ جتنا ہوچکا ہے، اسے شائع کردیا جائے۔۵؎ چنانچہ فروری۶؎ ہی سے اشاعت کی تیاری شروع ہوگئی، مارچ اور اپریل کتابت و طباعت کے مراحل۷؎ میں گزر گئے۔ پہلے متنِ کتاب (یعنی لالۂ طور سے آخر تک، ص نمبر۱ تا ۲۰۰) کی کتابت ہوئی، دیباچہ۸؎ اور پیش کش کے صفحات (الف تاع) بعد میں لکھے گئے۔۹؎ ۱- مکاتیبِ اقبال بنام گرامی: ص۹۹ ۲- ایضاً: ص۹۹ تا۱۰۰ ۳- اقبال نامہ، اوّل: ص۱۰۷ ۴- اقبال نامہ، دوم: ص۱۵۹ ۵- اقبال نامہ، اوّل: ص۲۳۴ [اس خط کا صحیح سالِ تحریر ۱۹۲۳ء ہے۔] ۶- اقبال نامہ، اوّل: ص۴۲۱-۴۲۲ ۷- اس عرصے میں، اقبال اپنے دوستوں کو پیامِ مشرق کے اشاعتی مراحل سے آگاہ کرتے رہے۔ (مکاتیبِ اقبال بنام گرامی: ص۲۲۷- شاد اقبال: ص۱۳۹)۔ ۸- اقبال میوزیم لاہور میں محفوظ ایک قلمی بیاض میں، اقبال کی اپنی تحریر میں وہ ابتدائی نکات ملتے ہیں، جس کی بنیاد پر اُنھوں نے پیامِ مشرق کا دیباچہ لکھا۔ یہ دست نوشت نکات انگریزی میں ہیں۔ اس غیر مطبوعہ تحریر کے لیے ملاحظہ کیجیے: ضمیمہ نمبر۲۔ ۹- انوارِ اقبال: ص۱۷۲ مہاراجا کشن پرشاد شاد کو ۱۸؍مئی ۱۹۲۳ء کے مکتوب میں لکھتے ہیں: ’’دو ہفتے سے علیل ہوں، حالتِ علالت میں پیامِ مشرق کی اشاعت ہوئی، میں نے پبلشر کو ایک نسخہ ارسال کرنے کا پہلے ہی لکھ رکھا تھا‘‘۔۱؎ گویا کتاب ۴؍مئی کے بعد کسی روز چھپ کر تیار ہوئی۔ اس اثنا میں شاد کو کتاب مل چکی تھی۔ اُنھوں نے اقبال کے نام ۱۴؍ مئی کے خط میں پیامِ مشرق کے بارے میں اپنی راے کا اظہار کیا۔ اگر شاد کو یہ کتاب دو روز بھی پہلے ملی ہو، یعنی ۱۲؍مئی کو، تو لاہور سے ۸ یا ۹ کو روانہ کی گئی ہوگی۔ گویا کتاب ۵ سے ۹؍مئی کے درمیان۲؎ کسی روز مطبع سے چھپ کر آئی۔ اوپر ذکر آچکا ہے کہ اسرارِ خودی کے دوسرے اڈیشن کی تکمیل و طباعت (۱۹۱۸ئ) کے بعد ہی، اقبال پیامِ مشرق کی طرف یکسوئی کے ساتھ متوجہ ہوئے۔ گویا پیامِ مشرق کا زیادہ تر حصہ ۱۹۱۸ء اور ۱۹۲۳ء کے درمیان لکھا گیا۔ اقبال میوزیم لاہور میں محفوظ، اقبال کی قلمی بیاضوں سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ ان بیاضوں میں پیامِ مشرق کی متعدد منظومات کے ساتھ ان کا زمانۂ تحریر درج ہے، ۳؎ مثلاً: پیامِ مشرق ص: ۲۵۹ نظم بوے گل ۱۹۱۸ء ۲۸۶ شاہین و ماہی مئی۱۹۲۲ء ۳۲۶ غزل (تیروسناں و خنجر…) جولائی۱۹۱۸ء ۳۵۷ پیام وسط اپریل۱۹۱۹ء ۱- شاد اقبال: ص۱۴۷ ۲- اس اعتبار سے پیامِ مشرق کی تاریخِ اشاعت کے بارے میں مندرجہ ذیل بیانات تصحیح طلب ہیں: (۱) محمد عبداللہ قریشی: ’’۱۹۲۲ئ…یہ سال پیامِ مشرق کی اشاعت کا ہے‘‘۔ (مکاتیبِ اقبال بنام گرامی:ص۶۹) (۲) ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار: پیامِ مشرق اپریل ۱۹۲۳ء کے آخر میں شائع ہوئی‘‘۔ (اقبال کا ذہنی ارتقا: ص۱۱۴)۔ (۳) عبدالمجید سالک: ’’یکم مئی [۱۹۲۳ئ] کو پیامِ مشرق شائع ہوگئی‘‘۔ (ذکرِ اقبال: ص۱۲۱)۔ (۴) ڈاکٹر عبدالسلام خورشید: ’’یہ کتاب یکم مئی ۱۹۲۳ء کو منظرِ عام پر آئی۔ (سرگذشتِ اقبال: ص۱۸۳)۔ ۳- بعض اشارات سے کئی نظموں کے پس منظر پر بھی روشنی پڑتی ہے مثلاً: علامہ اقبال نے صفحہ ۳۶۵ کی نظم ’’فلسفہ و سیاست‘‘ کے پہلے شعر کے دوسرے مصرعے پر نشان بنا کر حاشیے میں انگریزی کا یہ جملہ درج کیا ہے: Bradley's defination of metaphysics which suggested this half verse. رباعی نمبر ۱۴۸ تا ۱۵۱ کے ساتھ یہ نوٹ درج ہے: ’’رباعیاتِ بالا در نو بہار شملہ نوشتہ شد‘‘۔ مولانا سلیمان ندوی کے نام ۳؍اگست ۱۹۲۲ء کے خط پر مقامِ تحریر ’’شملہ نو بہار‘‘ درج ہے۔ گویا یہ رباعیات اگست ۱۹۲۲ء میں لکھی گئیں۔ پیامِ مشرق کی کتابت عبدالمجید (پرویں رقم) نے کی۔ متن کا مسطر بارہ سطری اور دیباچے (صفحہ الف تا ح=۸ صفحات) کا اکیس سطری ہے۔ رباعیات (لالۂ طور) کا مسطر آٹھ سطری (فی صفحہ: دو رباعیات) ہے۔ سب سے بڑی خامی یہ نظر آتی ہے کہ آغاز میں فہرستِ مضامین نہیں دی گئی۔ مزید برآں اس میں مندرجہ ذیل اغلاط بھی موجود ہیں: صفحہ سطر غلط صحیح ب ۱۴ افسانۂ افسانہ د ۱۹ بودن بوڈن ہ ۲۰ سوائے۱؎ سوا ۱۴ ۳ آذر آزر ۲۰ ۲ کلیساؤ کلیساو ۷۴ ۷ بند بیند ۸۵ ۱۰ آذرم آزرم ۸۹ ۹ نگہت نکہت ۱۰۳ ۹ کوہسار کہسار ۱۱۴ ۸ لالۂ خاک لالہ ز خاک ۱۱۷ ۴ مصرعۂِ مصرعِ ۱۱۹ ۵ لِلّٰلہ للہ ۱۲۷ ۹ فقیہہ فقیہ ۱۳۰ حاشیہ دوبند رو بند ۱- ممکن ہے، واضح طور پر اسے ’’غلطی‘‘ تسلیم نہ کیا جائے مگر یہ ’’سواے‘‘ کا محل، بہر حال نہیںہے۔ صفحہ سطر غلط صحیح ۱۴۳ ۸ فقیہہ فقیہِ ۱۴۳ ۹ بفتوئے بفتویِ ۱۵۸ ۱ زر زد ۱۶۳ ۱۰ درا در آ ۱۸۷ ۴ جام آورد جام آمد ۱۹۲ ۱ برد برو ۱۹۲ ۶ ظّلِ ہماؤ ظلِ۔ّ ہماو ۱۹۷ ۱ برناؤ پیر برناو پیر پیامِ مشرق منظر عام پر آتے ہی، دو ہفتے کے اندر نصف کے قریب فروخت ہوگئی۔۱؎ اس غیر معمولی مقبولیت کے پیشِ نظر اقبال نے ۱۹۲۳ء کی تعطیلاتِ گرما ہی میں دوسرا اڈیشن مرتب کرنا شروع کردیا (جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ: ’’غالباً جرمنی میں طبع ہوگی‘‘)۔۲؎ پہلا اڈیشن ۲؍فروری ۱۹۲۴ء تک ختم ہوگیا،۳؎ اس اثنا میں دوسرا اڈیشن مرتب ہوکر کتابت ہوچکا تھا۔ چنانچہ فروری ۱۹۲۴ء ہی میں یہ اڈیشن طباعت کے لیے پریس بھیج دیا گیا۴؎ اور مارچ کے پہلے ہفتے میں منظر عام پر آیا۔۵؎ یہ ذکر آچکا ہے کہ اقبال پہلے اڈیشن میں مزید کئی ’’ضروری‘‘ منظومات بھی شامل کرنا چاہتے تھے، مگر شیخ نور محمد کے اصرار پر، کتاب، اضافوں کے بغیر ہی، جلد شائع کرنی پڑی۔ اب دوسرے ۱- مکاتیبِ اقبال بنام نیاز: ص۴۵ ۲- انوارِ اقبال: ص۱۹۵ [ممکن ہے یہ خیال علامہ اقبال کو اس لیے آیا ہو کہ اسی زمانے میں ان کے اُردو کلام کا مجموعہ، مطبع کاویانی برلن سے چھاپنے کی تجویز سامنے آئی تھی۔ مکتوباتِ اقبال: ص۴] ۳- اقبال نامہ، دوم: ص۱۶۶ ۴- مکاتیبِ اقبال بنام نیاز: ص۴۹ ۵- اقبال نے میاں نظام الدین کو جو نسخہ ہدیہ کیا، اس پر ۲۷؍مارچ ۱۹۲۴ء کی تاریخ درج ہے (بحوالہ: اوراقِ گم گشتہ: ص۱۳۹) ۔ پروفیسر برائون کو پیش کردہ نسخے پر ۱۰؍مارچ ۱۹۲۴ء کی تاریخ درج ہے۔ عکس دیکھیے: اقبال یورپ میں طبع دوم۱۹۹۹ئ، ص۳۷۳ [پیامِ مشرق کی فروخت کے بارے میں عبدالمجید سالک کے دو متضاد بیانات ملتے ہیں: اوّل، پیامِ مشرق کا پہلا اڈیشن آٹھ نو ماہ کی مدت میں ختم ہوگیا (ذکرِ اقبال: ص۱۲۳)۔ دوم، بیگم گرامی کے نام ۱۵؍فروری ۱۹۲۵ء کے خط میں لکھتے ہیں: پیامِ مشرق کا پہلا اڈیشن جو ایک ہزار (بقیہ آئندہ صفحے پر) اڈیشن میں، انھوں نے اڑتالیس صفحات کا اضافہ کیا۔ متعدد اشعار اور حواشی حذف کردیے اور پہلے اڈیشن پر تبصروں اور بعض احباب کے مشوروں کی روشنی میں کئی اشعار میں ترامیم بھی کیں، جن کی تفصیل یہ ہے: (الف) محذوفات: (۱) طبع اوّل ، ص۱۱۰ کی نظم ’’حکایت‘‘ (طبع دوم: ص۱۴۶- ۱۴۷ بعنوان ’’حکمتِ فرنگ‘‘) کے یہ دو اشعار: بہ طرزِ نوی برکشد جاں ز تن کہ خود رابخود زندہ داند بدن خورد گر ادب پیک مرگ ازفرنگ بہ تاراجِ جانہا شود تیز چنگ (۲) طبع اوّل، ص۱۱۹ کی نظم ’’لسان العصر اکبر مرحوم‘‘۔۱؎ (۳) طبع اوّل ص۱۵ کا قطعہ: بگردوں فکرِ تو دارد رسائی ولے از خویشتن نا آشنائی یکے برخود کشا چوں دانہ چشمے کہ از زیرِ زمیں نخلے بر آئی (۴) صفحہ نمبر ۱۸ کے یہ اشعار (نمبر۳۰): برہمن شیخ را روزے چہ خوش گفت ز گل ریزد خدا نقشِ وجودم نمی دانم کہ ہمتائے ندارد ز بودش بود می کردد نبودم ولے از گِل تراشیدم مثالش بہاے عنصرِ خود را فزودم (بقیہ گذشتہ صفحہ) کی تعداد میں چھپا تھا،اب تک ختم نہیں ہوا، حالانکہ سال ڈیڑھ سال کی مدّت، اس کی طباعت پر گزر گئی۔‘‘ (خطوطِ اقبال بنام بیگم گرامی: ص۶۴) یہ بیان درست نہیں ہے۔ راقم کے خیال میں سالک کو اس غلط بیانی کی ’’ضرورت‘‘ اس لیے پیش آئی کہ بیگم گرامی، دیوانِ گرامی کی مقبولیت اور فروخت کے بارے میں کسی غلط فہمی میں نہ رہیں]۔ ۱- سرودِ رفتہ (ص۱۹۳) اور باقیاتِ اقبال (طبع سوم، ص۲۳۹) میں یہ نظم موجود ہے مگر: (الف) نظم کا عنوان ’’مرثیہ اکبر الٰہ آبادی‘‘ ہے۔ (ب) یہ شعر جو طبع اوّل میں نظم کا تیسرا شعر تھا، موجود نہیں ہے: گہے گریۂ او چو ابرِ بہارے گہے خندۂ او چو تیغِ اصیلے (ج) شعر نمبر ۵ میں ’’رُبایندۂ‘‘ کی جگہ ’’برافگندۂ‘‘ اور ’’بجانہا‘‘ کی جگہ ’’زمانہا‘‘ ہے۔ (۵) صفحہ نمبر ۶۴ کی رباعی نمبر ۲۲: بگو اے چارہ گر ایں شعلۂ چیست، کہ در خونم رواں مانند آب است نگہ در جستجو، جاں ناشکیب خرد حیران و دل در پیچ و تاب است (۶) صفحہ نمبر ۱۶۷ تا ۱۶۸ کی نظم ’’پیام‘‘ (کلیات: ص۳۵۷) کے مندرجہ ذیل دو اشعار: علم و حکمت اگرش خوئے سگی باز دہد آدمی زادۂِ دانا ز دواں خوار تر است خواجہ را قیمتِ عیش است اگر مُزدِ غلام بندہ آزاد تر و خواجہ گرفتار است (۷) مندرجہ ذیل حواشی: طبع اوّل، صفحہ نمبر ۱۱۰: (۲) ہور- سورج (۳) غاز-گیس (کلیات: ص۲۹۶، متعلق بسطر نمبر۶) صفحہ نمبر ۱۳۰ ۱- دو بند۔ نقاب۔ (کلیات: ص۳۱۵، متعلق بسطر نمبر ۱۲) صفحہ نمبر ۱۴۸: ۱- رہ و مقام موسیقی کی اصطلاحیں ہیں۔ (کلیات: ص۳۲۹، متعلق بسطر نمبر۵) صفحہ نمبر ۱۶۹: ۱- گوئٹے کا ہم وطن و ہم عصر شاعر تھا۔ (کلیات: ص۲۹۸، متعلق بسطر نمبر ۶) صفحہ نمبر ۱۷۷: ۱- مشہور و معروف جرمن فلسفی۔ (کلیات: ص۳۷۱، متعلق بسطر نمبر۱) صفحہ نمبر ۱۷۸: ۲- جرمن فلسفی ہیگل۔ (کلیات: ص۳۷۲، متعلق بسطر نمبر۱) صفحہ نمبر ۱۸۲: ۱- مولانا جلال الدین رومی۔ (کلیات: ص۳۷۶، متعلق بسطر نمبر۳) (ب) اضافات: (۱) طبع دوم میں دو صفحات کی ’’فہرست مطالب‘‘ (دونوں صفحات کا شمار نہیں کیا گیا)۔ (۲) ’’اشاعتِ دوم‘‘ عنوان کے تحت مندرجہ ذیل دیباچہ: ’’دوسری اشاعت میں متعدد نظموں، غزلوں اور رباعیات کا اضافہ ہے۔ بعض بعض جگہ لفظی ترمیم بھی ہے۔ کتاب کی ترتیب بحیثیتِ مجموعی وہی ہے، جو پہلے تھی‘‘۔ اقبال (ص:’’ن‘‘) (۳) مندرجہ ذیل نظمیں: سرودِ انجم طبع دوم، ص۱۱۲، کلیات: ص۲۶۸ نسیم صبح ایضاً، ص۱۱۶، ایضاً: ص۲۷۱ پندِ باز بابچۂ خویش ایضاً، ص۱۱۷، ایضاً: ص۲۷۲ کرمِ کتابی ایضاً، ص۱۱۹، ایضاً: ص۲۷۳ کبر و ناز ایضاً، ص۱۲۰، ایضاً: ص۲۷۴ کرمکِ شب تاب ایضاً، ص۱۲۲، ایضاً: ص۲۷۶ حدی ایضاً، ص۱۲۵، ایضاً: ص۲۷۹ قطرۂ آب ایضاً، ص۱۳۰، ایضاً: ص۲۸۲ تنہائی ایضاً، ص۱۳۶، ایضاً: ص۲۸۸ عشق ایضاً، ص۱۴۲، ایضاً: ص۲۹۲ حور و شاعر ایضاً، ص۱۴۷، ایضاً: ص۲۹۶ جوے آب ایضاً، ص۱۵۱، ایضاً: ص۲۹۹ (۴) مندرجہ ذیل رباعیات: رباعی نمبر ۱۸:تہی ازہائے… کلیات: ص۲۰۱ نمبر۲۴: رہے درسینۂ… ایضاً، ص۱۰۳ نمبر۳۰: بروں از… ایضاً، ص۲۰۵ نمبر ۷۶: بپاے خود… کلیات: ص۲۲۰ نمبر ۱۲۲: بہ سائے … ایضاً، ص۲۳۵ نمبر ۱۴۴: خرد کرپاس… ایضاً، ص۲۴۳ نمبر ۱۵۴: مشو نومید… ایضاً، ص۲۴۶ نمبر ۱۵۵: جہانِ رنگ و بو… ایضاً، ص۲۴۶ نمبر ۱۵۶: تو می گوئی کہ … ایضاً، ص۲۴۷ نمبر ۱۵۷: بساطم خالی از… ایضاً، ص۲۴۷ نمبر ۱۵۹: بحرف اندر نگیری… ایضاً، ص۲۴۸ نمبر ۱۶۰: بہر دل عشق… ایضاً، ص۲۴۸ نمبر۱۶۱: ہنوز از بندِ … ایضاً، ص۲۴۸ (۵) مندرجہ ذیل اشعار: طبع اوّل (ص ۱۰۰-۱۰۱) میںنظم ’’شبنم‘‘ (کلیات: ص۲۸۹) ’’برلالہ چکیدم‘‘ پر ختم ہوتی ہے۔ باقی اشعار، طبع دوم میں ایزاد کیے گئے۔ ایک شعر: بخاک ہند… کلیات: ص۳۱۶ ایک شعر: زخود رمیدہ… ایضاً، ص۳۱۶ ایک شعر: ملکِ جم… ایضاً، ص۳۲۹ ایک شعر: دانش اندوختہ … سے نظم کے اختتام تک ۴۱ اشعار کا اضافہ ایضاً، ص۳۵۸-۳۶۳ (۶) غزلیات از سوزِ سخن (کلیات: ص۳۴۱-۳۵۴) کا اضافہ بہ استثنا صفحہ نمبر ۳ کے ابتدائی اشعار: (۷) طبع اوّل (ص۲۰۰) کے آخری بلا عنوان دو اشعار کو طبع دوم (ص ۲۵۸) میں ’’آزادیِ بحر‘‘ کا عنوان دیا گیا (کلیات: ص۳۸۷)۔ (ج) ترامیم: ٍٍ (د) تقدیم و تاخیر: طبع دوم میں متعدد اشعار و مصاریع کی ترتیب تبدیل کردی گئی، اس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے: (۱) رباعی نمبر ۹۹ کے مصرعوں کو اس طرح تبدیل کیا گیا: طبع اوّل: ص۵۲ طبع دوم: ص۶۰ چساں گنجید دل اندر گلِ ما؟ چساں زاید تمنا در دلِ ما؟ چساں زاید تمنا در دلِ ما؟ چساں سوزد چراغِ منزل ما؟ بچشمِ ما کہ می بیند؟ چہ بیند بچشم ما کہ می بیند؟ چہ بیند؟ چساں سوزد چراغِ منزلِ ما؟ چساں گنجید دل اندر گلِ ما؟ (کلیات: ص۲۸۸) (۲) طبع اوّل کی رباعی نمبر ۱۴۴ [رگِ مسلم…] کو طبع دوم میں رباعی نمبر ۱۵۸ بنا دیا گیا۔ (۳) نظم ’’تسخیر فطرت‘‘ کے پہلے چار شعروں کی ترتیب میں اس طرح رد و بدل کیا گیا: طبع اوّل: ص۸۵ طبع دوم: ص۹۷ (۱) نعرہ زد… (۱) نعرہ زد… (۲) خبرے رفت… (۲) فطرت آشفت… (۳) آرزو بے خبر… (۳) خبرے رفت… (۴) فطرت آشفت… (۴) آرزو بے خبر… (۴) طبع اوّل کی نظم ’’حکایت‘‘ (ص ۱۱۰-۱۱۱، کلیات: ص۲۹۵-۲۹۶ بعنوان ’’حکمتِفرنگ‘‘) کا موجودہ آخری شعر [فرست ایں…] ابتدائی ترتیب کے مطابق نظم کا چھٹا شعر تھا۔ (۵) کلیات: ص۳۴۴ کے پہلے تین اشعار [از تب و تاب…] طبع اوّل (ص۱۶۳) میں غزل [درجہاں…/ کلیات: ص۳۴۰] کے بعد درج ہیں۔ (۶) نظم ’’زندگی و عمل‘‘ طبع اوّل (ص ۱۶۹) میں ’’پیام‘‘ اور ’’جمعیت الاقوام‘‘ کے درمیان میں تھی، مگر طبع دوم (ص۱۵۰) میں اسے ’’حور و شاعر‘‘ اور ’’الملک للہ‘‘ کے درمیان لے جایا گیا ہے۔ (۷) طبع اوّل (ص۲۰۰) کے آخری دو اشعار کو طبع دوم (ص ۲۵۸) میں ’’خردہ‘‘ سے پہلے لایا گیا (اور ’’آزادیِ بحر‘‘ کا عنوان دیا گیا)۔ (۸) نظموں کی ترتیب اس طرح تبدیل کردی گئی: طبع اوّل کی ترتیب: محاورہ علم و عشق، شبنم، لالہ، حکمت و شعر۔ طبع دوم کی ترتیب: کبر و ناز (طبع دوم کی نئی نظم) لالہ، حکمت و شعر… تنہائی، شبنم، عشق۔ دوسرے اڈیشن میں، طبع اوّل کی مندرجہ ذیل اغلاط کی تصحیح ہوگئی ہے: صفحہ سطر طبع اوّل (غلط) صفحہ سطر طبع دوم (صحیح) ب ۱۴ افسانۂ ج ۱۰ افسانہ ۷۴ ۷ بند ۸۲ ۷ بیند ۱۱۴ ۸ لالۂ خاک ۱۵۵ ۴ لالہ ز خاک ۱۱۷ ۴ مصرعۂ ۱۵۸ ۴ مصرع ۱۳۰ حاشیہ دو بند (صحیح: روبند) ۱۷۰ حاشیہ کی عبارت محذوف ہے ۱۵۸ ۱ زر ۱۹۸ ۱۱ زد ۱۸۷ ۴ جام آورد ۲۵۱ ۴ جام آمد ۱۹۷ ۱ برنائو پیر ۲۶۱ ۱ برنا و پیر تاہم طبع اوّل کے صفحات: د، ۱۹ ہ، ۲۰ ۱۴، ۳ ۲۰، ۲ ۸۵، ۱۰ ۸۹، ۹ ۱۰۳، ۹ ۱۱۹، ۵ ۱۲۷، ۹ ۱۴۳، ۸ ۱۴۳، ۹ ۱۶۳، ۱۰ ۱۹۲ اور ۱ ۱۹۲ ۶ کی اغلاط طبع دوم میں بھی علی الترتیب صفحات ح، ۱ ط، ۱۱ ۲۲، ۳ ۲۸، ۲ ۹۷، ۱۰ ۱۰۱، ۹ ۱۳۲، ۹ ۱۵۰، ۷ ۱۶۷، ۹ ۱۸۴، ۱ ۱۸۴، ۲ ۲۰۸، ۱۰ ۲۵۶اور ۱ ۲۵۶ پر بدستور موجود ہیں۔ ۶ اس اڈیشن میں مندرجہ ذیل نئی اغلاط رُو پذیر ہوگئی ہیں: صفحہ سطر غلط صحیح ۲ ۲ لِلّٰلہ ِللہ ۹ ۲ بالاؤ دوش بالا و دوش صفحہ سطر غلط صحیح ۱۸ ۶ جھانے جہانے ۲۸ ۷ نوبھاران نوبہاراں ۹۸ ۶ مازگان مایگاں ۱۱۴ ۶ ناؤ نوش نا و نوش ۱۱۷ ۶ گیرو زصید گیرد ز صید ۲۱۱ ۲ آذری آزری ۲۴۱ ۶ آذر آزر ۱۹۲۹ء کے ابتدائی مہینوں میں پیامِ مشرق کے تیسرے اڈیشن کی کتابت شروع ہوئی۔ اسی اثنا میں مطبع جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے مہتمم، محمد مجیب کی درخواست پر علامہ اقبال نے انھیں تیسرا اڈیشن شائع کرنے کی اجازت۱؎ دے دی۔ کتابت شدہ کاپیاں۲؎ دہلی روانہ کردی گئیں اور کتاب دہلی میں چھپ گئی۔ ۴۴۸ کتابیں لاہور پہنچنے کی اطلاع، اقبال نے ۲؍اگست کے مکتوب۳؎ میں دی۔ اس سے واضح ہے کہ تیسرا اڈیشن جولائی ۱۹۲۹ء کے آخر میں اشاعت پذیر ہوا۔ طبع سوم کی تقطیع، طبع دوم سے قدرے بڑی ہے۔ سرورق پر ’’مطبع جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی‘‘ کے الفاظ اور آخری صفحے پر ’’کتاب ہٰذا ملنے کا پتہ‘‘ کے تحت شیخ مبارک علی کا پتا درج ہے۔ اس اعلان کے علاوہ، نذیر نیازی کے نام علامہ کے ایک مکتوب۴؎ سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ جامعہ کی ذمہ داری، محض طباعت تک محدود تھی۔ طبع سوم کے کاغذ میں واٹر مارک میں یہ الفاظ پڑھے جاسکتے ہیں: World Cream Laid 5316 Norway یہ کاغذ پہلے اور دوسرے اڈیشن کے کاغذ سے نسبتاً دبیز ضرور ہے مگر ان تینوں اڈیشنوں کا کاغذ، شکن پڑنے سے ٹوٹ جاتا ہے۔ ۱- مکتوباتِ اقبال: ص۵ ۲- پرویں رقم کو بطورِ اجرتِ کتابت مبلغ ایک سو تیس روپے ادا کیے گئے۔ (صحیفہ، اقبال نمبر، اوّل، اکتوبر ۱۹۷۳ئ: ص۳۴)۔ ۳- مکتوباتِ اقبال:ص۱۲ ۴- ایضاً۔ طبع سوم کی کتابت بھی، عبدالمجید پرویں رقم نے کی۔ اس اڈیشن (۱۹۲۹ئ) میں طبع دوم کی حسب ذیل اغلاط کی تصحیح کردی گئی ہے: صفحات: ۱۸، ۶ ۲۸، ۷ ۹۸، ۶ ۱۱۷، ۶ ۱۳۲، ۹ ۱۵۰۔ ۷ تاہم مندرجہ ذیل غلطیاں بدستور موجود ہیں۔ صفحات: ۲ (فہرست مطالب)، ۲ ح، ۱ ط، ۱۱ ۸، ۲ ۲۲، ۳ ۲۸، ۲ ۹۷، ۱۰ ۱۰۱، ۹ ۱۱۴، ۶ ۱۶۷، ۹ ۱۸۴، ۱ ۲۰۸، ۲ ۲۰۸، ۱۰ ۲۱۱، ۲ ۲۴۱، ۶ ۲۵۶، ۱ ۲۵۶۔ ۲ طبع سوم میں مندرجہ ذیل نئی اغلاط روپذیر ہوگئی ہیں: صفحہ سطر غلط صحیح د ۷ موزون موزوں د ۱۰ بریا برپا ۲ ۴ رمزِ سیات رمزِ حیات ۳ ۸ رمن زمن ۱۷۸ ۶ سیمیاؤنیرنگ سیمیا و نیرنگ ۲۵۲ ۷ بگذارم بگدازم چوتھا اڈیشن ۱۹۴۲ء میں چودھری محمد حسین ایم اے کی نگرانی میں شائع ہوا۔ پرویں رقم سے اس کی ازسرِ نو کتابت کرائی گئی۔ خوش نویس نے ترتیب و تعدادِ صفحات اور عنوانات وغیرہ میں تیسرے اڈیشن کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ علامہ کے انتقال کے بعد، ان کی کتابوں میں کسی قسم کا ردّ و بدل نامناسب ہے۔ طبع چہارم میں، تیسرے اڈیشن کی مندرجہ ذیل اغلاط کی تصحیح ہوگئی ہے: صفحات: د، ۷ د، ۱۰ ح، ۱ ۲، ۴ ۳، ۸ ۱۱۷، ۶ ۲۰۸، ۱۰ ۲۵۲، ۷ ۲۵۶ تاہم ان اغلاط کی تصحیح نہیں ہوسکی: ۱ تاہم، مندرجہ ذیل صفحات کی غلطیاں دور نہیں ہوسکیں۔ صفحات: ۲ (فہرست مطالب)، ۲ ط، ۱۱ ۸، ۳ ۲۲، ۳ ۲۸، ۲ ۹۷، ۱۰ ۱۰۱، ۹ ۱۱۴، ۶ ۱۶۷، ۹ ۱۸۷، ۶ ۱۸۴، ۱ ۱۸۴ (ایک کھڑے زبر کا اضافہ کیا گیا ہے، مگر یہ املا بھی غلط ہے) ۲ ۲۱۱، ۲ ۲۴۱، ۶ ۲۵۶۔ ۶ طبع چہارم میں نئی غلطی صرف ایک ہے۔ فہرست مطالب (ص ۱،سطر۵) میں ۱۱ تا ۹۲ صحیح ہے، نہ کہ ۱۱ تا ۹۴۔ اس اڈیشن کی پلیٹیں محفوظ کرلی گئیں اور ۱۹۷۱ء تک طبع ہونے والے تمام اڈیشن انھی پلیٹوں سے طبع کیے جاتے رہے، تاہم بعد کے اڈیشنوں کو بغور دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعض صفحات کی پلیٹیں ضائع ہوگئیں، اس لیے ان حصوں کی دوبارہ کتابت کراکے نئی پلیٹیں تیار کی گئیں۔ تفصیل اس طرح ہے: ص نمبر۱ تا ۲۴۰ اور ص نمبر ۲۴۹ تا ۲۵۶ یہ صفحات بدستور طبع چہارم کی پلیٹوں سے طبع کیے جاتے رہے۔ کاپی الف: ص ۲۴۱ تا ۲۴۸ کاپی ب: ص ۲۵۷ تا ۲۶۴ ان صفحات کی از سرِ نو کتابت کرائی گئی اور نئی پلیٹیں تیار ہوئیں۔ مگر طبع ہفتم (۱۹۴۸ئ) کی آخری کاپی (ص۲۵۷-۲۶۴) طبع ششم کے بجاے طبع چہارم کے مطابق معلوم ہوتی ہے۔ نہ معلوم یہ کیوں کر ہوا؟ طبع پنجم کے موقع پر کاپی ’’ب‘‘ کی پلیٹیں گم ہونے کے سبب، اس کی از سر نو کتابت کرائی گئی تھی، ممکن ہے طبع ہفتم کے موقع پر گم شدہ پلیٹ مل جانے کی وجہ سے ساتواں اڈیشن اسی سے طبع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہو، مگر بعد کے اڈیشنوں میں کاپی ’’ب‘‘، ایک بار پھر طبعِ چہارم سے طبع کی گئی معلوم ہوتی ہے۔ ژ زبورِ عجم پیامِ مشرق (طبع اوّل، مئی ۱۹۲۳ئ) کی اشاعت کے بعد کا سارا فارسی کلام، علامہ اقبال نے پیامِ مشرق کے دوسرے اڈیشن (مارچ ۱۹۲۴ئ) میں شامل کردیا تھا۔ اس اثنا میں فارسی گوئی کا سلسلہ جاری رہا۔ جلد ہی اُنھوں نے محسوس کیا کہ کچھ عرصے بعد ایک نئے فارسی مجموعے کی ترتیب و تدوین ناگزیر ہوگی۔ جولائی ۱۹۲۴ء میں خان نیاز الدین خان کے نام۱؎ اور اگست ۱۹۲۴ء میں محمد سعید الدین جعفری کے نام۲؎ مکاتیب میں اُنھوں نے Songs of Modern David اور زبورِ جدید کے ناموں سے جس موعودہ کتاب کا تذکرہ کیا ہے، وہی بعد میں زبورِ عجم کے نام سے موسوم ہوئی۔ اس طرح یہ کہنا غلط نہیں کہ زبورِ عجم کا آغاز ۱۹۲۴ء ہی میں ہوگیا تھا، مگر اس کی تکمیل کم و بیش اڑھائی برس بعد جاکر ہوئی۔ ۲۶؍ جنوری ۱۹۲۷ء کے زمیندار میں یہ خبر شائع ہوئی: ’’نہایت مسرت کے ساتھ قارئین کرام کو یہ مژدہ سنایا جاتا ہے کہ علامہ اقبال کی تازہ تصنیف زبورِ عجم بالکل مکمل ہوگئی ہے اور سنا جاتا ہے کہ دو چار روز میں اس کی کتابت شروع ہوجائے گی‘‘۔ مولانا گرامی کے نام ۳۱؍جنوری ۱۹۲۷ء کے مکتوب میں لکھتے ہیں: ’’میری کتاب زبورِ عجم ختم ہوگئی ہے۔ ایک دو روز تک کاتب کے ہاتھ میں جائے گی اور پندرہ دن کے اندر اندر شائع ہوجائے گی‘‘،۳؎ مگر کتابت سے طباعت تک کا مرحلہ طے ہونے میں پندرہ دن کے بجاے کئی ماہ صرف ہوگئے اور کتاب جون کے تیسرے ہفتے میں طبع ہوکر منظر عام پر آئی۔۴؎ طبع اوّل کی کتابت خلافِ معمول پرویں رقم کے بجاے محمد صدیق (بعد ازاں الملقّب بہ ’’الماس رقم‘‘) نے کی۔ یہ کتابت نسبتاً خفی ہے۔ ہر صفحے پر چہار گوشہ بیل بوٹے بنائے گئے ہیں۔ صحتِ املا کے نقطۂ نظر سے، محمد صدیق کی خوش نویسی کے بعض پہلو بہت اچھے ہیں، مثلاً: اُنھوں نے واوِ عطف پر ہمزہ(ئ) کی علامت نہیں بنائی، یاے اضافت پر بھی ہمزہ بنانے سے احتراز کیا ہے، ’’فقیہ‘‘ کو ’’فقیہہ‘‘ نہیں لکھا، جب کہ پرویں رقم عام طور پر اس غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ محمد صدیق نے بعض الفاظ کو ملاکر لکھا ہے، مثلاً: ہیچکس، میکشاں (ص۱۹۳) یہ نامانوس انداز ہے۔ یہ ضرور ہے کہ پرویں رقم کی کتابت مجموعی حسن اور خوش نمائی میں، محمد صدیق کی کتابت پر فوقیت رکھتی ہے۔ ۱- مکاتیبِ اقبال بنام نیاز: ص۵۰ ۲- اوراقِ گم گشتہ: ص۱۱۸ ۳- مکاتیبِِِ اقبال بنام گرامی: ص۲۴۱ ۴- طبع اوّل پرماہ و سالِ طباعت درج نہیں ہے، مگر ۲۱؍ جون ۱۹۲۷ء کے انقلاب میں منشی طاہر الدین کی طرف سے زبورِ عجم کا ایک اشتہار شائع ہوا، جس میں بتایا گیا کہ ’’تازہ تصنیف چھپ کر تیار ہوگئی ہے‘‘۔زبورِ عجم کی بعد کی اشاعتوں میں بھی ’’طبع اوّل جون ۱۹۲۷ئ‘‘ درج ہے۔ اقبال نے میاں نظام الدین کو جو نسخہ پیش کیا، اُس پر ’’محمد اقبال ۲۹ جون ۲۷ئ‘‘ درج ہے (اوراقِ گم گشتہ: ص۱۳۸)۔ طبع اوّل کا کاغذ نسبتاً دبیز ہے۔ کاغذ کے واٹر مارک میں Super Fine کے الفاظ واضح نظر آتے ہیں۔ مزید برآں ایک ’’تاج‘‘ کا نشان بھی موجود ہے۔ اس نسخے کے حوض کا سائز (ساڑھے ۱۳×۹ س۔م) ہے، جو پرویں رقم کے کتابت شدہ نسخوں کے حوض (۱۷×۱۱ س م) سے نسبتاً چھوٹا ہے۔ زبورِ عجم کے پہلے اڈیشن میں کتابت کی مندرجہ ذیل اغلاط موجودہیں: صفحہ سطر غلط صحیح ۲۳ ۳ فبصِ فیضِ ۳۷ ۶ بنگاہے بنگاہِ ۴۳ ۷ صرفِ حرفِ ۴۵ ۶ آذری آزری ۱۷۰ ۳ مہر و ماہ مہر و مہ ۱۹۷ ۱۰ ایں این ۲۰۵ ۱۰ ہمیں ہمین ۲۱۰ ۵ بہ بر ۲۱۳ ۶ زدالش زدانش ۲۱۶ ۲ برون بروں ۲۱۸ ۱ نگاراند نگارند ۲۲۰ ۴ سرما ئہ سرمایہ ۲۲۸ ۳ چہ گوں است چہ گون است ۲۲۹ ۵ فرو آدر فرو آرد ۲۳۰ ۷ کمیں-ہمیں کمین-ہمین ۲۳۷ ۴ گماں-آں گمان-آن ۲۵۷ ۱ آذر آزر ۲۵۷ ۷ آذری آزری صفحہ نمبر ۴۰ (حصہ اوّل) پر غزل کا صحیح شمار نمبر ۲۳ ہے، نہ کہ ۳۳۔ یہ شمار نمبر ص۸۶ تک غلط ہی (۶۶)چلتا ہے، جہاں غزل کا شمار نمبر۶۶ درج کیا گیا ہے۔ درحقیقت کل غزلیں ۵۶ ہیں۔ پہلا اڈیشن چند برس میں ختم ہوگیا تھا۔ دوسرا اڈیشن، علامہ کی زندگی میں نہ چھپ۱؎ سکا بلکہ طبع اوّل کے پونے سترہ برس بعد اپریل ۱۹۴۴ء میں چودھری محمد حسین ایم اے کی نگرانی میں شائع ہوا۔ اس اڈیشن کی کتابت پرویں رقم نے کی ہے۔ جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے، صفحے کا حوض (۱۷×۱۱ س م) طبعِ اوّل کے حوض (ساڑھے ۱۳×۹ س۔م)سے بڑا ہے، تاہم ترتیبِ اشعار وغیرہ بالعموم طبع اوّل کے مطابق ہے۔ بعض جگہ ایک شعر طبع اوّل میں ایک صفحے پر ہے، تو طبع دوم میں اگلے صفحے پر ۔ اس طرح کا فرق دونوں اڈیشنوں کے صفحات۱۰،۱۱،۱۴،۱۵،۲۰،۲۱،۲۲،۲۳،۲۴،۲۵ وغیرہ پر موجود ہے۔ پرویں رقم نے حسبِ عادت یاے اضافت اور واوِ عطف پر ہمزہ (ئ) بنا دیا ہے، تاہم فقیہ کو اُنھوں نے بعینہٖ رہنے دیا ہے (ص: ۱۸۰، ۲۳۳) اور فقیہہ نہیں بنایا ہے۔ طبع دوم میں اس شعر کا اضافہ کیا گیا ہے: علمِ حاضر پیشِ آفل در سجود شک بیفزود و یقیں از دل ربود (ص:۲۵۴) اور اس کے ساتھ حاشیے میں وضاحت درج ہے:’’ زبورِ عجم طبع اوّل میں یہ شعر کاتب سے سہوًا حذف ہوگیا تھا۔ معلوم اس وقت ہوا جب کتاب تمام چھپ چکی، صرف اس شعر کے لیے کتاب کے ساتھ غلط نامہ کا شائع کرنا علامہ مرحوم نے مناسب نہ سمجھا (محمد حسین)‘‘۔ طبع دوم (اپریل ۱۹۴۴ئ) میں، طبع اوّل کے مندرجہ ذیل صفحات پر موجود غلطیوں کی تصحیح ہوگئی ہے: ۲۳، ۳ ۳۷، ۶ ۴۳، ۷ ۱۹۷، ۱۰ ۲۰۵، ۱۰ ۲۱۰، ۵ ۲۱۶، ۲ ۲۲۰، ۴ ۲۲۸، ۳ ۲۳۰، ۷ ۲۳۷۔ ۴ تاہم حسبِ ذیل صفحوں کی اغلاط بدستور طبع دوم میں بھی موجود ہیں: ۴۵، ۶ ۱۷۰، ۳ ۲۱۳، ۶ ۲۱۸، ۱ ۲۲۹، ۵ ۲۵۷، ۱ ۲۵۷۔ ۷ ۱- نذیر نیازی کے نام ۲ ؍مئی ۱۹۳۵ء کے مکتوب میں علامہ اقبال لکھتے ہیں: زبورِ عجم کی طباعت کا انتظام فوراً ہوسکتا ہے، مگر میرا ارادہ ہے زبورِ عجم، اب کے بمع [کذا] اُردو ترجمہ شائع ہو۔ (مکتوباتِ اقبال: ص۲۶۹-۲۷۰) مگر علامہ کی زندگی میں ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ اسی طرح غزلیات کے غلط شمار نمبر (ص۴۰تا ۸۶) بھی بدستور غلط ہیں۔ دوسرے اڈیشن میں کچھ نئی اغلاط روپذیر ہوگئی ہیں: صفحہ سطر غلط صحیح ۴۷ ۱ کازارِ کار زارِ ۵۰ ۳ کجاؤ تو کجا و تو ۱۹۷ ۳ ہنگامۂ ہنگامۂ ۲۶۲ ۲ رفتگان رفتگاں تیسرا اڈیشن ستمبر ۱۹۴۵ء میں شائع ہوا، جس پر غلطی سے ’’ستمبر۱۹۴۴ئ‘‘ درج ہے۔ سال طباعت کے اندراج میں یہ غلطی اس لیے یقینا ایک غلطی ہے کہ اوّل تو چار ماہ کے قلیل عرصے میں طبع دوم کے ایک ہزار چار سو نسخوں کا فروخت ہونا، قرینِ قیاس نہیں۔ اقبال کے کسی بھی مجموعے کے سلسلے میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ کسی کتاب کا دوسرا اڈیشن اور وہ بھی فارسی مجموعہ، اس حیرت انگیز بلکہ معجزانہ تیزی سے فروخت ہوا ہو۔ اگر ایک لمحے کے لیے یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ واقعی ایسا ہوا تو یہ امر پیشِ نظر رہے کہ طبع سوم کے صفحات ۴۹ تا ۲۰۰ کی طباعت نئی پلیٹوں سے ہوئی، جو از سرِ نو کتابت کے بعد تیار کی گئیں۔ ۱۵۲ صفحات کی کتابت، کاپیوں کی تصحیح، پھر طباعت، بعد ازاں کتاب کی منظر عام پر آمد، ان سب مراحل کا ایک نہایت قلیل وقت میں طے ہونا، قریب قریب ناممکن ہے۔ خیال رہے کہ زبورِ عجم کی طبع اوّل کے بارے میں جنوری ۱۹۲۷ء میں علامہ نے توقع ظاہر کی تھی کہ پندرہ روز کے بعد کتاب تیار ہوگی ۱؎ مگر عملاً چھ سات ماہ بعد (جولائی میں) ایسا ممکن ہوسکا۔ اس لحاظ سے یہ امر یقینی ہے کہ تیسرا اڈیشن ستمبر ۱۹۴۴ء میں نہیں، بلکہ ستمبر ۱۹۴۵ء میں شائع ہوا(اس پر ’’۱۹۴۴ئ‘‘ سہوِ کتابت ہے)۔ اس کے بعض حصے تو، طبع دوم کی پلیٹوں سے طبع کیے گئے، مگر چند حصوں کی کتابت نئی ہے۔ ان کی تفصیل اس طرح سے ہے: صفحہ نمبر ۱ تا نمبر ۴۸ اور صفحہ نمبر ۲۰۱ تا آخر: طبع دوم کی پلیٹوں سے طباعت کی گئی۔ صفحہ نمبر ۴۹ تا نمبر ۲۰۰: نئی کتابت۔ یہ کتابت بھی پرویں رقم کی ہے۔ ۱- مکاتیبِ اقبال بنام گرامی: ص۲۴۱ غالباً صفحات: ۴۹ تا ۲۰۰ کی پرانی پلیٹیں خراب، گم یا ضائع ہوگئیں، اس لیے ان صفحات کی از سرِنو کتابت کراکے، نئی پلیٹیں تیار کرائی گئیں۔ طبع سوم (ستمبر۱۹۴۵ئ) میں طبع دوم کی مندرجہ ذیل اغلاط کی تصحیح ہوگئی ہے: صفحات ۱۹۷ اور ۳ ۲۱۳ ۶ مزید برآں غزلوں کے شمار نمبر (ص۴۰ تا ۴۸، اور ۵۸ تا۶۴) کی بھی تصحیح کردی گئی ہے۔ تاہم طبع دوم کے مندرجہ ذیل صفحات کی اغلاط بدستور موجود ہیں: ۴۵، ۶ ۴۷، ۱ ۵۰، ۳ ۵۲، ۳ ۱۷۰، ۳ ۲۱۸، ۱ ۲۲۹، ۵ ۲۵۷، ۱ ۲۵۷ اور ۷ ۲۶۲ ۔غزلوں کے نمبر شمار ۲ (ص ۵۰ تا ۵۶ اور ص۶۶تا۸۶) بھی بدستور غلط ہیں۔ چوتھا اڈیشن ستمبر ۱۹۴۸ء میں شائع ہوا۔ اس میں صفحہ نمبر ۴۹ سے نمبر ۵۶ اور نمبر ۶۵ سے نمبر ۲۰۰ تک کی طباعت، طبع سوم کی پلیٹوں سے کی گئی، مگر باقی صفحات (نمبر ۱ تا ۴۸ اور نمبر ۵۷ تا نمبر ۶۴، اور ۲۰۱ تا آخر) کی از سرِ نو کتابت کرائی گئی۔ یہ کتابت واضح طور پر پرویں رقم کے بجاے کسی اور خوش نویس کی ہے۔ اس اڈیشن میں بھی طبع سوم کا ماہ و سالِ طباعت ستمبر ۱۹۴۴ء لکھا گیا ہے، جو درست نہیں۔ اس اڈیشن میں، طبع سوم کے مندرجہ ذیل صفحات کی غلطیوںکی تصحیح ہوگئی ہے: صفحات ۴۷ ، ۱ ۲۲۹ ۵ تاہم مندرجہ ذیل صفحات کی غلطیاں طبع چہارم میں بھی بدستور موجود ہیں: ۴۵، ۶ ۵۰، ۳ ۵۲، ۳ ۱۷۰، ۳ ۲۱۸، ۱ ۲۵۷، ۱ ۲۵۷ اور ۷ ۲۶۲۔ ۲ اسی طرح غزلوں کے شمار نمبر (ص ۵۰ تا ۵۶ اور ۶۶ تا ۸۶) بھی بدستور غلط ہیں۔ مزید برآں ص۴۳ پر بھی غزل کا نمبرشمار غلط ہے۔ اس اڈیشن میں چند نئی اغلاط بھی رو پذیر ہوگئی ہیں۔ ان کی تفصیل یہ ہے: صفحہ سطر غلط صحیح ۳۲ ۳ مغ بچّہ مغ بچۂ ۳۷ ۴ ہاو فتد آتش باو فتد ز آتش ۲۰۵ ۱۰ انگبیں۔ ہمیں انگبین۔ ہمین صفحہ سطر غلط صحیح ۲۰۸ ۷ مقالے مقامے ۲۰۹ ۳ درد درو ۲۱۸ ۹ مکیں کمیں ۲۲۴ ۴ غیربیں غیربین ۲۲۵ ۱۲ چساں چسان ۲۳۰ ۷ کمیں، ہمیں کمین، ہمین ۲۳۳ ۱۱ کمیں، چنیں کمین، چنین ۲۳۷ ۳ تخمیں تخمین پانچویں اڈیشن کا کوئی نسخہ راقم کو، تلاشِ بسیار کے باوجود، نہیں ملا۔ میرا خیال ہے کہ پانچواں اڈیشن وہی ہے، جسے غلطی سے طبعِ ششم شمار کیا گیا ہے۔ یہ بات ذیل کے تقابلی گوشوارے سے واضح ہوگی: طبع سوم و چہارم پر اندراج طبع ششم پر اندراج طبع اوّل جون ۱۹۲۷ء دو ہزار طبع اوّل جون ۱۹۲۷ء دو ہزار طبع دوم اپریل ۱۹۴۴ء ایک ہزار چار سو طبع دوم … طبع سوم ستمبر ۱۹۴۴ء دو ہزار طبع سوم اپریل ۱۹۴۴ء ایک ہزار چار سو طبع چہارم ۱۹۴۸ء پانچ ہزار طبع چہارم ستمبر ۱۹۴۵ء دو ہزار طبع پنجم ستمبر ۱۹۴۸ء پانچ ہزار طبع ششم جون ۱۹۵۸ء دو ہزار طبع سوم اور طبع چہارم میں، طبعِ سوم کا سالِ طباعت غلط طور پر ستمبر ۱۹۴۴ء درج کیا جاتا رہا۔ اب طبع پنجم کے موقع پر اس کی تصحیح کرکے، اسے ستمبر ۱۹۴۵ء بنادیا گیا، مگر اسے طبعِ چہارم قرار دیا گیا، جو بدیہی طور پر غلط ہے۔ (طبع چہارم پر ماہ و سال طباعت ستمبر ۱۹۴۸ء بالکل درست ہے ستمبر ۱۹۴۵ء کی اشاعت کو ’’چہارم‘‘ قرار دینے کے بعد یہ مسئلہ درپیش ہوا کہ ستمبر ۱۹۴۸ء کی اشاعت کو کس کھاتے میں ڈالا جائے؟ مہتممِ مطبع یا خوش نویس نے اس مسئلے کو ’’حل‘‘ کرنے کے لیے ایک اور ’’اشاعتِ پنجم‘‘ اختراع کی، جسے طبع چہارم کے سالِ طباعت سے جوڑ دیا گیا۔ اس تناقص (discrepancy) کا منہ بولتا ثبوت، خود طبع دوم کا گوشوارہ ہے، جس میں طبع دوم کے سامنے سالِ طباعت اور نہ تعدادِ کتب لکھی گئی ہے۔ بہرحال اس پانچویں اڈیشن (جون ۱۹۵۸ئ) کی کتابت و طباعت ہر اعتبار سے طبع چہارم (ستمبر ۱۹۴۸ئ) کے مطابق ہے۔ طبع چہارم کی یہ پلیٹیں محفوظ کرلی گئیں اور آٹھویں اڈیشن (ستمبر ۱۹۷۰ئ) تک کی طباعت انھی پلیٹوں سے ہوتی رہی۔ ان تمام اڈیشنوں میں، وہ سب اغلاط موجود ہیں، جن کی نشان دہی طبعِ چہارم کے ضمن میں کی جاچکی ہے۔ زبورِ عجم کا نواں اڈیشن(اگست ۱۹۷۴ئ) محمود اللہ صدیقی کی نئی کتابت سے تیار شدہ پلیٹوں سے طبع کیا گیا۔ ان کا جائزہ آیندہ صفحات میں کلیاتِ اقبال،فارسی کے ضمن میں لیا جائے گا۔ ژ جاوید نامہ زبورِ عجم کی تکمیل کے معاً بعد، ۱۹۲۷ء ہی میں، اقبال کے اس منصوبے کا آغاز ۱؎ ہوگیا تھا، جسے وہ ’’ڈیوائن کامیڈی کی طرح ایک اسلامی کامیڈی‘‘ ۲؎ سمجھتے تھے۔ بعد میں یہ کتاب جاوید نامہ سے موسوم ہوئی۔ یہ، اس اعتبار سے اقبال کی اہم ترین تصنیف ہے کہ وہ اسے اپنی ’’زندگی کا ماحصل‘‘۳؎ بنانے کے لیے کوشاں رہے۔ جاوید نامہ کی تکمیل اپریل ۱۹۳۱ء میں ہوئی۔۴؎ کتابت کے مرحلے میں کئی ماہ گزر گئے۔ اقبال کو توقع تھی کہ کتاب اکتوبر تک شائع ہوجائے گی،۵؎ مگر عملاً ۱- سیّد نذیر نیازی صاحب کا بیان ہے کہ ۱۹۲۷ء کے موسم گرما میں جب وہ ڈاکٹر عابد حسین کی معیت میں علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو علامہ نے اپنی بیاضِ اشعار سے چند ’’قطعات سنائے، جو آگے چل کر بہ حک و اضافہ، جاوید نامہ کا جواز بنے‘‘۔ (مکتوباتِ اقبال: ص۳۳) اس کی روشنی میں چودھری محمد حسین کا یہ بیان کہ اقبال نے: ’’۱۹۲۹ء کی ابتدا میں جاوید نامہ لکھنا شروع کیا‘‘۔ (اقبال، چودھری محمد حسین کی نظر میں: ص۲۰۳) محل نظر معلوم ہوتا ہے۔ ۲- مکتوبات اقبال: ص۳۳ ۳- جاوید نامہ کا ذکر کرتے ہوئے محمد جمیل کے نام ایک خط میں لکھا: I hope to make [it] my life work. (Letters of Iqbal: ص۱۱۹) ۴- اقبال نامہ، دوم: ص۳۸۸ ۵- مکتوباتِ اقبال: ص۷۳ فروری ۱۹۳۲ء کے اوائل میں۱؎ طبع ہوکرمنظرِ عام پر آئی۔ ابتدا میں علامہ اقبال جاوید نامہ کا ایک ’’دلچسپ دیباچہ‘‘۲؎ بھی لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے، مگر یہ ارادہ روبعمل نہ آسکا اور زبورِ عجم کے دو اشعار کو دیباچے کی صورت دے دی گئی: دیباچہ خیالِ من بتماشائے آسماں بود است بدوشِ ماہ و بآغوشِ کہکشاں بود است گماں مبر کہ ہمیں خاکداں نشیمنِ ماست کہ ہر ستارہ جہان است یا جہاں بود است اقبال جاوید نامہ طبعِ اوّل کی تقطیع اور مسطر وغیرہ وہی ہے، جو اقبال نے اپنی شعری تصانیف کے لیے ایک طرح سے مستقلاً مقرر کرلیا تھا۔ کتابت پیر عبدالحمید کی ہے۔ سنگ ساز غلام محی الدین تھے۔ ان کا نام فولڈ (پوٹ) میں درج ہے۔ طبع اوّل کا کاغذ دبیز اور پائدار ہے۔ آخر میں ایک علاحدہ کاغذ پر مندرجہ ذیل ’’غلط نامہ‘‘ شامل کیا گیا ہے: صفحہ نمبر شمار غلط صحیح ۱۴ شعر۲، مصرع ثانی بینی دیدن ۴۴ شعر۳، مصرع اوّل فطرت مطرب ۱۸۱ شعر۳، مصرع اوّل اے ایں ۱۸۵ شعر۵، مصرع اوّل مردِ مرد ۲۰۱ شعر۹، مصرع ثانی قصر فقر ۲۳۰ شعر۳، مصرع ثانی قاتلہ قافلہ ۲۳۵ شعر۹، مصرع اوّل لسجود سجود بیرونی سرورق کے صفحات کا شمار بھی، بطور الف ب کیا گیا ہے۔ ۶- اقبال نامہ، دوم: ص۳۹۷ ۷- اقبال نامہ، اوّل: ص۲۱۶ صفحہ ’’ج‘‘ پر اندرونی سرورق ہے۔ فہرست مضامین صفحہ ’’ہ‘‘ سے شروع ہوکر صفحہ ’’ی‘‘ پر ختم ہوتی ہے۔ ’’دیباچہ‘‘ (ص:ط) زبورِ عجم کے دو شعروں پر مشتمل ہے۔ متذکرہ بالا اغلاط نامے میں جن غلطیوں کی نشان دہی کی گئی ہے، ان کے علاوہ بھی طبع اوّل میں مندرجہ ذیل اغلاط موجود ہیں: صفحہ سطر غلط صحیح ز ۲۰ خونین خونیں ۱۰ ۳ ملایک ملائک ۲۵ ۵ بنگاہ بہ نگاہ ۳۲ ۸ کوران۔ اندران کوراں۔ اندراں ۳۷ ۱ خودگر خُوگر ۳۸ ۴ حایل حائل ۵۴ ۵ کلیم اللہی کلیم اللّٰہی ۵۸ ۴ کسراے کسرے۔ٰ ۶۴ ۳ کہستان کہستاں ۷۹ ۸ این ایں ۸۸ ۶ سوزِ دگر سوزے دگر ۹۱ ۲ شرق و غرب غرب و شرق ۱۰۳ ۹ صلوات صلٰوت ۱۰۵ ۱۲ درپے درپیٔ ۱۱۵ ۳ مکانِ دیگرے مکانے دیگرے ۱۱۶ ۶ برزماں برزمان ۱۱۸ ۱۲ چین۔زمین چیں۔ زمیں صفحہ سطر غلط صحیح ۱۱۹ ۸ درجہاں درجہان ۱۲۵ ۴ زابلیسی بابلیسی ۱۳۵ ۱۰ مصرعِ ثانی کو واوین میں لکھنا ضروری تھا۔ ۱۵۰ ۱۱ بگزر بگذر ۱۶۹ ۱۰ یعلمون یعلموں ۱۸۶ ۶ ہواس حواس ۲۲۲ ۳ مصرع اوّل: این ایں ۲۲۴ ۵ پے پیٔ ۲۳۴ ۱۱ صلواتِ صلٰوتِ ۲۳۵ ۵ صلوات صلٰوت ۲۴۰ ۹ طایفِ طائفِ ۲۴۳ ۸ اہلِ کیں اند اہلِ کیں اہلِ کین اند اہلِ کین جاوید نامہ کا دوسرا اڈیشن، چودھری محمد حسین کی زیر نگرانی ۱۹۴۷ء میں شائع ہوا۔ اس پر کاتب کا نام درج نہیں، مگر اندازِ کتابت پرویں رقم کا ہے۔ مسطر اور اشعار و منظومات کی ترتیب وغیرہ میں طبع اوّل کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔ سب سے اہم ترمیم یہ کی گئی کہ دو اشعار پر مشتمل دیباچہ حذف کردیا گیا۔ دوسرا اڈیشن چودھری محمد حسین صاحب کی نگرانی میں چھپا، اس لیے یہ تبدیلی انھی کے ایما پر ہوئی ہوگی۔ بظاہر اس کی کوئی توجیہ نہیں کی جاسکتی۔ راقم کے خیال میں یہ ترمیم قطعی بلا جواز ہے۔ طبع اوّل میں بیرونی سرورق کے دو صفحات کا شمار بطور الف ب کیا گیا تھا، مگر طبع دوم میں انھیں شمار نہیں کیا گیا، چنانچہ اب صفحہ الف، اندرونی سرورق بن گیا ہے، اور ب ج د خالی ہیں۔ فہرست مضامین ہ، و، ز، ح پر درج ہے۔ طبع اوّل کے ساتھ علاحدہ کاغذ پر، جو ’’غلط نامہ‘‘ لگایا گیا تھا، طبع دوم میں ان اغلاط کی تصحیح کردی گئی ہے۔ اس اڈیشن میں طبع اوّل کے مندرجہ ذیل صفحات کی اغلاط بھی درست کردی گئی ہیں: ز، ۲۰ ۱۰، ۳ ۱۶، ۹ ۲۵، ۵ ۳۲، ۸ ۳۳، ۱۱ ۳۷، ۱ ۳۸، ۴ ۵۴، ۵ ۵۸، ۴ ۶۴، ۳ ۷۹، ۸ ۸۸، ۶ ۹۱، ۲ ۱۱۵، ۳ ۱۱۶، ۶ ۱۱۸، ۱۲ ۱۱۹، ۸ ۱۸۲، ۶ ۲۲۲۔ ۳ تاہم مندرجہ ذیل صفحات کی غلطیوں کی تصحیح نہیں ہوسکی ہے: ۱۰۳، ۹ ۱۰۵، ۱۲ ۱۳۵، ۱۰ ۱۵۰، ۱۱ ۱۶۹، ۱۰ ۲۳۴، ۱۱ ۲۳۵، ۵ ۲۴۰ اور ۹ ۲۴۳۔ ۸ جاوید نامہ کے دوسرے اڈیشن میں مندرجہ ذیل نئی اغلاط رو پذیر ہوگئی ہیں: صفحہ سطر غلط صحیح ۴۶ ۱۱ تانہ بینی تابہ بینی ۱۰۸ ۷ ازپئے ازپیٔ ۱۳۳ حاشیہ × قفیز: تالاب ۱۳۷ ۱ زحیدریمؑ زحیدریمؓ ۱۵۱ ۱۰ آمکہ آنکہ/آں کہ طبع دوم کی پلیٹیں محفوظ کرلی گئیں اور ستمبر ۱۹۷۴ء تک تمام اڈیشن انھی پلیٹوں سے طبع کیے جاتے رہے، چنانچہ تیسرے اڈیشن اور بعد کے تمام اڈیشنوں میں طبع دوم کی اغلاط موجود ہیں۔ البتہ ص ۱۵۱ کی غلطی درست کردی گئی ہے۔ طبعِ دوم میں فہرست مضامین کے صفحات کی صحیح ترتیب (ہ۔و۔ز۔ح) کے بجاے، طباعت یا جلد بندی میں غلطی کے سبب، یہ ترتیب نظر آتی ہے: ز۔ح۔ہ۔و۔طبع چہارم میں یہ ترتیب درست ہے، مگر اندرونی سرورق صفحہ ج پر چلا گیا ہے۔ صفحات الف اور ب خالی ہیں۔ طبع پنجم، ششم اور ہفتم میں بھی یہی صورت ہے۔ جاوید نامہ کا آٹھواں (ستمبر ۱۹۷۴ئ) اور نواں اڈیشن (جون ۱۹۷۸ئ) محمود اللہ صدیقی کی کتابت سے تیار شدہ پلیٹوں سے طبع کیے گئے۔ ان کا جائزہ آئندہ صفحات میں کلیاتِ اقبال فارسی کے ضمن میں آئے گا۔ ۱۹۸۲ء میں اقبال اکادمی پاکستان نے ۲۷×۲۲س م کی تقطیع پر جاوید نامہ طبع اوّل کا عکسی اڈیشن شائع کیا۔ جسے ’’طبع خاص‘‘ ’’خاص اشاعت‘‘ اور ’’ڈی لکس اڈیشن‘‘ کے نام دیے گئے۔ اکادمی کے ناظم وحید قریشی نے دیباچے میں اشاعت کا تعارف، نیز طبع اوّل کی مکرر اشاعت کا جواز پیش کرتے ہوئے لکھا: طبع اوّل کی حیثیت نوادر میں سے ہے۔ یہ اڈیشن بہت کم یاب ہے۔ اسے دوبارہ شائع کرنے کا شرف اقبال اکادمی حاصل کررہی ہے… متن کتاب فوٹو آفسٹ کے ذریعے طبع اوّل سے چھاپا گیا ہے۔ بہت سے الفاظ و حروف کھردرے کاغذ اور اِمتدادِ زمانہ کے سبب جابجا سے ماند پڑگئے تھے جنھیں ری ٹچنگ سے اُجال کر دوبارہ بحال کیا گیا ہے… کتاب کے آخر میں غلط نامہ تھا، اسے بھی شامل متن کردیا ہے۔ بعض دوسری اغلاط کو بھی بخط کاتب درست کردیا ہے۔ یہ اشاعت مصور ہے۔ جمی انجینئر نے ڈاکٹر جاوید اقبال کی اقامت گاہ پر جاوید نامہ کے جملہ مناظر دیوار پر نقش کیے تھے۔ جاوید نامہ کی یہ دیواری تصویر کشی (Mural) اقبال اکیڈمی کی توجہ کا مرکز بنی اور اقبال اکیڈمی نے منصوبے کے تحت اس دیواری منظر نامے کی رنگین تصاویر تیار کرائیں اور پھر اس میں سے بعض حصے منتخب کرکے ٹراسپیئر نسیز میں منتقل کرائے۔ انتخاب تصاویر کا اہم فریضہ ڈاکٹر جاوید اقبال نے انجام دیا۔ اب یہ ۳۵تصاویر اس اشاعت خاص میں شامل ہیں۔ (دیباچہ) گذشتہ صفحات میں ہم نے طبع اوّل کی ۲۹؍اغلاط کی نشان دہی کی ہے۔ زیرنظر اڈیشن میں ان ۲۹؍اغلاط میں سے صرف چار غلطیوں کو درست کیا گیا ہے، باقی جوں کی توں موجود ہیں۔ اس اڈیشن کا کاغذ بہت عمدہ،پایدار اور دبیز ہے۔ وجہ غالباً یہ ہے کہ اس کی طباعت میر واجد علی کے ادارے واجد علیز لمیٹڈ لاہور کے مطبع میں ہوئی۔ طبع اوّل میں زبورِ عجم کے دو اشعار پر مشتمل دیباچہ شامل تھا جو بعد کے تمام اڈیشنوں میں حذف ہوگیا (دیباچے میں جو صورتِ حال بتائی گئی ہے وہ درست نہیں ہے۔ ) طبع اوّل کا یہ شعری دیباچہ زیرنظر اڈیشن میں بھی شامل کرلیا گیاہے۔ ابتدائی ۱۶صفحات کے شمار نمبر درج نہیں کیے گئے۔ سرورق اور دیباچہ وغیرہ کی کتابت جمیل قریشی تنویر رقم کی ہے۔ متنِ کلام چوکور ہلکے رنگین حاشیے سے مزین ہے۔ ژ مسافر ۱؎ اس مثنوی کا آغاز علامہ اقبال کے سفرِ افغانستان ۲؎ (۲۱ ؍اکتوبر تا ۲ نومبر ۱۹۳۳ئ) سے واپسی پر ہوا، مگر اس کی تکمیل میں کئی ماہ صرف ہوگئے۔ اگست ۱۹۳۴ء میں کتابت کا مرحلہ طے ہوا۔ اس زمانے میں بالِ جبریل اور مسافر کی اشاعت کے سلسلے میںمطبع جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے بات چیت ہورہی تھی۔ علامہ کا ارادہ تھا کہ مسافر ایک ہزار یا پندرہ سو کی تعداد میں چھاپی جائے اور دس نسخے خاص کاغذ پر طبع ۳؎ ہوں، مگر جامعہ والوں سے کوئی معاملہ طے نہ ہوسکا، اس لیے مثنوی صرف پانچ سو ۴؎ کی تعداد میں دبیز آرٹ پیپر پر چھاپی گئی۔ سیّد نذیر نیازی کے مطابق مثنوی کی محدود تعداد، احباب میں تقسیم کے لیے طبع کی گئی تھی۔۵؎ طبع اوّل کی تقطیع خلافِ معمول ساڑھے ۱۸×۱۲ س م ہے۔ کتابت پرویں رقم کی اور مسطر بارہ سطری ہے۔ سرورق کے مندرجات اس طرح ہیں: مسافر یعنے سیاحتِ چند روزہ افغانستان (اکتوبر ۳۳ئ) ۱۹۳۴ء مسافر کا پہلا اڈیشن نومبر ۱۹۳۴ئ۶؎ میں منظرِ عام پر آیا۔۷؎ ۱- موجودہ نسخوں میں ترتیب کے اعتبار سے پس چہ باید کرد پہلے اور مسافر بعد میں ہے، مگر ہم ترتیبِ زمانی کے پیشِ نظر مسافر کا ذکر پہلے کریں گے۔ ۲- تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے: (۱) سیرِ افغانستان از سیّد سلیمان ندوی۔ (۲) علامہ اقبال کا سفرِ افغانستان از اختر راہی۔ (اقبال ریویو، لاہور، جنوری ۱۹۷۶ئ)۔ ۳- مکتوباتِ اقبال: ص۱۹۰ ۴- مسافر، طبع دوم: ص۲ ۵- مکتوبات اقبال: ص۱۸۴،۱۹۱ ۶- محمد جمیل کے نام ۶؍ دسمبر ۱۹۳۴ء کے خط میں لکھتے ہیں: Musafir was published about a month or so ago(Letters of Iqbal: ص۱۲۴) ۷- فقیر سیّد وحید الدین نے Iqbal in Picturesمیں Title Page of First Edition of 'MUSAFIR'کے پیش عنوان، جو عکس دیا ہے، وہ اندرونی سرورق کا عکس ہے، نہ کہ بیرونی سرورق کا۔ مسافر کے پہلے اڈیشن میں مندرجہ ذیل اغلاط موجود ہیں: صفحہ سطر غلط صحیح ۸ ۲ صلواتِ صلوٰت ۱۱ ۱۱ عمر عَمرْو ۱۴ ۷ آذر آزر ۲۰ ۵ الصّلوات الصّلوٰت ۵۱ ۳ برناؤ پیر برنا و پیر ۵۴ ۱۲ عزّے عزّٰے ۵۷ ۱۰ صِبْغَۃُ اللہ صِبْغَۃَ اللہ دوسرا اڈیشن، تصانیفِ اقبال کی مروجہ تقطیع (۲۱×۱۷س م) پر ۱۹۳۶ء میں شائع کیا گیا، مگر اس کا مسطر بارہ سطری کے بجاے دس سطری ہے۔ کتابت نسبتاً خفی ہے اور اشاعت کا اہتمام سیّد نذیر نیازی (کتب خانہ طلوع اسلام لاہور) نے کیا۔ اس اڈیشن میں طبع اوّل کی مندرجہ ذیل اغلاط درست کردی گئیں: طبع اوّل طبع دوم صفحہ سطر غلط صفحہ سطر صحیح ۸ ۲ صلواتِ ۶ ۶ صلوٰتِ ۲۰ ۵ الصّلواتِ ۱۵ ۶ الصّلوٰت تاہم طبع اوّل کے صفحات ۱۱، ۱۱ ۱۴، ۷ ۵۱، ۳ ۵۴اور ۱۲ ۵۷ کی اغلاط طبع دوم میں بھی علی الترتیب صفحات ۱۰ ۹، ۳ ۱۱، ۳ ۳۸، ۱۰ ۴۱ اور ۳ ۴۳ پر بدستور موجود ہیں۔ ۷ طبع دوم میں مندرجہ ذیل نئی اغلاط روپذیر ہوگئی ہیں: صفحہ سطر غلط صحیح ۲۸ ۵ برار برآر ۳۸ ۲ ہمچوں ہمچو ۳۹ ۷ پنہاں پنہان مسافر کا یہ دوسرا اڈیشن ۱۹۳۶ء میں چھپا، اسی برس مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق کا پہلا اڈیشن بھی شائع ہوا۔ ان دونوں مثنویوں کی علاحدہ علاحدہ اشاعت (اور غالباً کچھ عرصے کے لیے فروخت) کے بعد، دونوں کو یکجا مجلد کرکے، جلد پر یہ عنوان لکھ دیا گیا: پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق مع مسافر۔ بعدازاں دونوں مثنویوں کی یکساں کتابت کرائی گئی، دونوں کے صفحات کا علاحدہ علاحدہ شمار کیا گیا، تاہم دونوں مثنویوں کو ’’ایک کتاب‘‘ کے طور پر شائع کرکے فروخت کیا جاتا رہا اور ان کی الگ الگ حیثیت ختم ہوگئی۔ مسافر کے تیسرے اڈیشن کا جائزہ اسی یکجا (پہلے) اڈیشن کے طور پر لیا جائے گا۔ ژ مثنوی پس چہ باید کرداے اقوامِ شرق علامہ اقبال، سر راس مسعود کے نام ۲۹؍ جون ۱۹۳۶ء کے مکتوب میں لکھتے ہیں: ۳؍ اپریل کی شب کو، جب میں بھوپال میں تھا، میں نے تمھارے دادا رحمۃ اللہ علیہ کو خواب میں دیکھا۔ مجھ کو فرمایا کہ اپنی علالت کے متعلق حضورِ رسالت مآبؐ کی خدمت میں عرض کر۔ میں اسی وقت بیدار ہوگیا اور کچھ شعر عرض داشت کے طور پر فارسی زبان میں لکھے، کل ساٹھ شعر ہوئے۔ لاہور آکر خیال ہوا کہ یہ چھوٹی سی نظم ہے، اگر کسی زیادہ بڑی مثنوی کا آخری حصہ ہوجائے، تو خوب ہے۔ الحمدللہ کہ یہ مثنوی بھی اب ختم ہوگئی ہے۔ مجھ کو اس مثنوی کا گمان بھی نہ تھا، بہرحال اس کا نام ہوگا: پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق‘‘۔۱؎ یہ مثنوی آخر اکتوبر ۱۹۳۶ئ۲؎ میں بڑی تقطیع(۲۱×۱۷ س م) پر لاہور سے شائع ہوئی۔ مسطر ۱۰ ۱- خطوطِ اقبال: ص۲۶۳ ۲- شاہزادی عابدہ سلطانہ کو اقبال نے جو نسخہ پیش کیا، اُس پر ۲۶؍اکتوبر ۱۹۳۶ء کی تاریخ درج ہے۔ (اقبال اور بھوپال: ص۲۴)۔ نواب ذوالقدر جنگ سالار کو پیش کردہ نسخے پر بھی ۲۶؍اکتوبر۳۶ء کی تاریخ درج ہے (عکس تعارفی کتابچہ اقبال اکادمی-کارگزاری اور منصوبے، ڈاکٹر محمد معزالدّین، اقبال اکادمی کراچی۔) سطری اور کتابت قدرے خفی ہے، کاتب کا نام درج نہیں، مگر مسافر، طبع دوم (۱۹۳۶ئ) اور اس کی کتابت ایک ہی کاتب نے کی اور دونوں کا انداز بالکل یکساں ہے۔ اس نسخے کا کاغذ مضبوط اور پائدار ہے۔ مثنوی کے اس اڈیشن میں مندرجہ ذیل اغلاط موجود ہیں: صفحہ سطر غلط صحیح ۸ ۱ غم خوردو غم خورو ۹ ۴ ززّینِ زرّینِ ۳۴ ۳ فقرِ از او فقرِ اُو از ۴۰ ۲/حاشیہ اَحسن التقویم اَحْسَنِ تقویم ۱؎ ۴۰ ۸ تخمین تخمیں ۴۴ ۱ ایں ایں ایں ۴۴ ۱ برون بُردن ۴۶ ۷ سازو سازد ۴۸ ۱۰ نیابد نیاید ۵۰ ۴ آذری آزری ۵۷ حاشیہ فَا انْظُرْ افَلَاْ یَنْظرُوْنَ۲؎ ۵۸ ۶ ومید دمید ۵۹ ۲ جینوا جنیوا ۶۸ ۹ دروے دردے ۷۰ ۶ دارو دارد ۱- سورۃ التّین:۴ ۲- سورۃ الغاشیہ:۱۷ مثنوی کے پہلے اڈیشن کی علاحدہ اشاعت اور غالباً کچھ نسخوں کی فروخت کے بعد، (جیسا کہ اوپر بھی بتایا جا چکا ہے) اسے مسافر کے ساتھ یکجا مجلد صورت میں پیش کیا گیا۔ ژ مثنوی پس چہ باید کرداے اقوام شرق مع مسافر اُوپر ذکر آچکا ہے کہ ۱۹۳۶ء میں مسافر اور پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق کی علاحدہ علاحدہ کتابت، طباعت اور اشاعت کے کچھ عرصہ بعد، دونوں کو یکجا جلد کرکے ایک کتاب کی صورت دی گئی تھی۔ یہ مسافر کی دوسری اور پس چہ باید کرد… کی پہلی اشاعت تھی۔ ۱۹۴۴ء میں پرویں رقم سے دونوں مثنویوں کی از سرِ نو کتابت کرائی گئی۔ یہ کتابت قدرے جلی ہے، مگر مسطر حسبِ سابق بارہ سطری ہے۔ مسافر کے ۴۴ صفحات کے بعد پس چہ باید کرد… کے صفحات کا شمار از سرِ نو نمبر ایک سے شروع کیا گیا ہے۔۱۹۴۴ء کے اس اڈیشن کو ’’طبع دوم‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ درحقیقت یہ مسافر کا تیسرا اور پس چہ باید کرد… کا دوسرا اڈیشن ہے۔ ۱۹۴۴ء کی اشاعت کو ’’طبع دوم‘‘ صرف اس صورت میں تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ دونوں مثنویوں کی ۱۹۳۶ء والی اشاعتوں کو پہلی یکجا اشاعت فرض کیا جائے، ورنہ اصل میں تو زیر نظر ۱۹۴۴ء والے اڈیشن سے دونوں مثنویوں کو یکجا کیا گیا اور یہ یکجا طبع اوّل ہے۔ ۱۹۴۴ء کے اس اڈیشن پر مسافر کے طبع اوّل (۱۹۳۴ئ) کے ضمن میں کوئی وضاحت موجود نہیں ہے، حالانکہ ریکارڈ درست رکھنے کے لیے یہ ضروری تھا۔ چودھری محمد حسین ایم اے کی زیر نگرانی شائع ہونے والے اس اڈیشن میں مندرجہ ذیل تبدیلیاں کی گئی ہیں: (الف)۱۹۳۶ء کے اڈیشن سے دونوں مثنویوں کے سرورق جُدا جُدا تھے۔ ۱۹۴۴ء کے اس اڈیشن میں پہلی بار اندرونی جُدا سرورقوں کے علاوہ، دونوں مثنویوں کا ایک الگ مشتر کہ سرورق بھی لگایا گیا، جس پر کتاب کا عنوان اس طرح دیا گیا ہے: مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوام شرق مع مسافر (ب) سابقہ ترتیب کے برعکس، اب مثنوی مسافر پہلے ہے اور مثنوی پس چہ باید کرد… بعد میں۔ ترتیبِ زمانی کے پیشِ نظر یہ تبدیلی نہ صرف مناسب، بلکہ ضروری بھی تھی۔ (ج) مسافر طبع اوّل اور طبع دوم کے سرورق کی عبارت (جسے اُوپر نقل کیا جاچکا ہے) کو حذف کردیا گیا ہے۔ اب سرورق پر صرف ’’مثنوی مسافر، اقبال‘‘ کے الفاظ رہ گئے ہیں۔ یہ تبدیلی، بلا جواز اور نامناسب ہے۔ ہمارے خیال میں مصنف نے سرِ ورق پر جو الفاظ درج کیے، انھیں جوں کا توں رکھنا چاہیے تھا۔ (یہ الفاظ ہم مسافر طبع اوّل کے ضمن میں درج کر چکے ہیں۔) (د) مسافر طبع دوم پر پہلی دونوں اشاعتوں کے سالِ اشاعت اور تعدادِ کتاب سے متعلق کوائف درج تھے، موجودہ نسخے میں اُن کو حذف کردیا گیا ہے۔ دونوں مثنویوں کی از سرِ نو یکجا ترتیب کے موقع پر اس امر پر توجہ نہیں دی گئی کہ: (۱) مسافر کے آغاز میں فہرست عنوانات موجود نہیں۔ نگرانِ اشاعت اور مہتمم نے اور متعدد ترامیم کیں، مگر فہرست کا اضافہ نہیں کیا۔ (۲) جب دونوں مثنویوں کو مستقلاً یکجا کردیا گیا، تو پھر دونوں کے صفحات علاحدہ علاحدہ شمار کرنا، ناقابلِ فہم ہے۔ صفحات کا شمار مسلسل ہونا چاہیے تھا۔ (۳) مثنوی پس چہ باید کرد کی فہرست مضامین کو شروع میں لے آنا چاہیے تھا۔ ۱۹۴۴ء کے اس اڈیشن میں ۱۹۳۶ء کے اڈیشن کی مندرجہ ذیل اغلاط درست کردی گئی ہیں: مسافر: صفحات ۳۹، ۷ ۴۱۔ ۳ پس چہ باید کرد:صفحات ۸، ۴ ۱ ۹، ۴ ۳۴، ۳ ۴۴ (دو اغلاط) ۱ ۴۶، ۷ ۴۸، ۱۰ ۵۸، ۶ ۶۸، ۱۰ ۷۰۔ ۶ تاہم مندرجہ ذیل صفحات کی اغلاط بدستور موجود ہیں: مسافر: صفحات ۹، ۳ ۱۱، ۳ ۲۸، ۵ ۳۸، ۲ ۳۸، ۱۰ ۴۳۔ ۷ پس چہ باید کرد:صفحات ۴۰، ۲ ۴۰، حاشیہ ۵۰، ۴ ۵۷، حاشیہ ۵۹۔ ۲ اس اڈیشن میں چند نئی اغلاط روپذیر ہوگئی ہیں: مسافر: صفحہ سطر غلط صحیح ۲۶ ۳ گویدش گویدش ۳۵ ۱ کجاست، کیمیاست کجا است، کیمیا است پس چہ باید کرد: ۳۱ ۲ فقیہہ فقیہ ۱۹۴۴ء کے اڈیشن کی یہ پلیٹیں محفوظ کرلی گئیں اور طبع ہفتم (۱۹۷۲ئ) تک تمام اڈیشن انھی پلیٹوں سے طبع کیے جاتے رہے۔ ان اڈیشنوں میں بھی وہ تمام اغلاط موجود ہیں، جن کا تذکرہ ۱۹۴۴ء کے اڈیشن کے ضمن میں آچکا ہے، البتہ طبع ششم ۱۹۶۶ء سے دونوں مثنویوں کی ترتیب پھر اُلٹ دی گئی ہے، یعنی پس چہ باید کردپہلے اور مسافر بعد میں۔ آٹھواں اڈیشن (۱۹۷۷ئ) محمود اللہ صدیقی کی کتابت سے تیار شدہ پلیٹوں سے طبع کیا گیا۔ اس کا جائزہ کلیاتِ اقبال، فارسی کے ضمن میں لیا جائے گا۔ ژ ارمغانِ حجاز اقبال کے اُردو شعری مجموعوں پر بحث کے ضمن میں ارمغانِ حجاز کی ترتیب و اشاعت کا ذکر آچکا ہے، حصۂ اُردو کے متن کا جائزہ بھی لیا جاچکا ہے، یہاں فارسی حصے کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔ ارمغانِ حجاز کا فارسی حصہ صفحہ نمبر ۱ سے ۲۱۰ تک محیط ہے۔ طبع اوّل (نومبر۱۹۳۸ئ) میں مندرجہ ذیل اغلاط موجود ہیں: صفحہ سطر غلط صحیح ۱۱ ۸ سجودے سجودِ ۱۴ ۱ سُرورِ سُرودِ ۱؎ ۱- مولانا مہر نے اپنے مضمون: ’’ارمغانِ حجاز کی ایک رباعی‘‘ (اقبال ریویو، جنوری ۱۹۶۹ئ: ص۴۱-۴۴) میں اس غلطی پر مفصل بحث کے بعد ثابت کیا ہے کہ صحیح لفظ ’’سُرود‘‘ ہے، نہ کہ ’’سُرور‘‘۔ صفحہ سطر غلط صحیح ۱۳۴ ۷ آذری آزری صفحہ ۲۰۸ تک، بعد کے تمام اڈیشن طبع اوّل کی پلیٹوں سے چھاپے جاتے رہے۔ صفحات ۲۰۹ اور ۲۱۰ حصہ اُردو کی اس کاپی کا حصہ تھے، جو طبع دوم کے موقع پر از سرِ نو لکھوائی گئی تھی، اس لیے طبع دوم اور اس کے بعد کے اڈیشنوں میں ان دو صفحات کی نئی کتابت ہے۔ ارمغانِ حجاز، اقبال کی وفات کے بعد چودھری محمد حسین نے مرتب و مدوّن کی۔ حصۂ اُردو میں شامل قطعے بعنوان ’’حسین احمد‘‘ کے بارے میں باب اوّل کے آخری حصے میں بعض اصحاب کے اس قیاس کا ذکر ہوچکا ہے کہ اگر اقبال، ارمغانِ حجاز خود مرتب فرماتے تو یہ قطعہ شامل نہ کرتے۔ اس کے برعکس زیر بحث فارسی حصے میں ایک رباعی شامل ہونے سے رہ گئی ہے۔ سیّد نذیر نیازی راوی ہیں کہ ۲۲ فروری ۱۹۳۸ء کو اقبال نے اپنی ایک تازہ رباعی کے پہلے دو مصرعے تبدیل کرادیے۔ نیازی صاحب نے صرف متذکرہ دو مصرعے نقل کیے ہیں اور لکھا ہے کہ: ’’پورا قطعہ یا رباعی ارمغانِ حجاز میں موجود ہے‘‘ ۱؎، مگر ارمغانِ حجاز میں یہ قطعہ یا رباعی یا مذکورہ دو مصرعے نہیں ملتے۔ البتہ اقبال کے آخری مضمون ’’جغرافیائی حدود اور مسلمان‘‘ میں، (جس کا زمانۂ تحریر وہی ہے، جب زیر بحث رباعی کہی گئی) یہ رباعی مذکور ہے:۲؎ کسے کو پنجہ زد ملک و نسب را نہ داند نکتۂ دینِ عرب را اگر قوم از وطن بودے محمدؐ نہ دادے دعوتِ دیں بولہب را مرتبِ ارمغانِ حجاز نے اقبال کے باقی ماندہ کلام کی ترتیب و تدوین میں مطلوبہ احتیاط و تردّد سے کام نہیں لیا، جس کے نتیجے میں یہ رباعی مجموعے میں شامل ہونے سے رہ گئی۔ ۱- اقبال کے حضور: ص۲۳۲ ۲- مشمولہ مضامینِ اقبال: ص۱۸۰ تا ۱۹۶۔ بعد میں باقیاتِ اقبال (طبع سوم: ص۶۰۶) میں نقل کی گئی، مگر اس کا متن صحیح نہیں ہے۔ علامہ اقبال کے ایک معروف شعر کا معروف متن یہ ہے: نشانِ مردِ مومن با تو گویم چو مرگ آید تبسم بر لبِ اوست۱؎ مولانا مہر نے ۷مارچ ۱۹۳۸ء کو علامہ کی زبانی یہ شعر، اسی صورت میں سنا تھا۲؎، مگر ارمغانِ حجاز میں یہ شعر اس طرح درج ہے: نشانِ مردِ حق دیگر چہ گویم چو مرگ آید تبسم بر لبِ اوست۳؎ غالب قیاس ہے کہ یہ، شعر کی ابتدائی صورت تھی، بعد میں اقبال نے ترمیم کی اور ۷؍مارچ ۱۹۳۸ء کو مہر صاحب کی موجودگی میں شعر کو اوّل الذکر معروف شکل میں پڑھا۔ بہرحال ارمغانِ حجاز اقبال کی وفات کے بعد شائع ہوئی اور اس کی ترتیب و تدوین بھی اُن کے ہاتھوں نہیں ہوئی۔ دقتِ نظر سے جائزہ لینا ضروری ہے کہ آیا ضربِ کلیم (۱۹۳۶ئ) اور پس چہ باید کرد (۱۹۳۶ئ) کے بعد کا سارا اُردو اور فارسی کلام ارمغانِ حجاز میں مدوّن ہوچکا ہے؟ اگر کچھ غیر مدوّن اشعار دستیاب ہوجائیں تو انھیں بھی مجموعے میں شامل کرلیا جائے۔ اسی طرح یہ اطمینان بھی کرلینا چاہیے کہ اقبال نے جن اشعار و رباعیات میں ترمیم کی، ارمغانِ حجاز میں اُن کی ترمیم شدہ صورت ہے، نہ کہ ابتدائی متن، شامل ہے۔ ئ……ئ……ء ۱- اقبال کے ہاں، یہی خیال ابتدائی دور کی ایک غزل (۱۸۹۶ئ) میں اس طرح ملتا ہے: مردِ مومن کی نشانی کوئی مجھ سے پوچھے موت جب آئے گی اُس کو، تو وہ خنداں ہوگا ۲- اقبال نامہ (مرتبہ: چراغ حسن حسرت):ص۶۹ ۳- ارمغانِ حجاز: ص۱۱۶؍۹۹۸ (ج) کلیاتِ اقبال، فارسی کلیاتِ اقبال، فارسی (فروری ۱۹۷۳ئ) کے آغاز میں بھی ’’اعتذار‘‘ کے زیر عنوان ڈاکٹر جاوید اقبال کا وہی دیباچہ شامل ہے، جو کلیاتِ اقبال، اُردو کے جائزے میں زیر بحث آچکا ہے۔ اس بحث سے ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ: ’’اقبال کی زندگی میں شائع شدہ، اُن کے کسی اُردو مجموعے کے کسی اڈیشن کی پلیٹیں محفوظ نہ رہ سکیں، اس لیے اُن معدوم ’’متبرک پلیٹوں‘‘ کی عزت و حرمت کی بات محض مبالغہ ہے۔‘‘ (باب اوّل: ص۴۲)… فارسی مجموعوں کا جائزہ لیں تو صورتِ حال کچھ مختلف نظر نہیں آتی۔ کلیاتِ اقبال فارسیکی اوّلین اشاعت سے قبل: (۱) اسرار و رموز کا دسواں اڈیشن شائع ہوا، جو اقبال کی وفات کے دس سال بعد ۱۹۴۸ء میں تیار شدہ پلیٹوں سے طبع کیا گیا تھا۔ (۲) پیامِ مشرق کا تیرھواں اڈیشن شائع ہوا، جو اقبال کی وفات کے چار برس بعد، ۱۹۴۲ء میںنئی کتابت سے تیار شدہ پلیٹوں سے طبع کیا گیا، بلکہ بعض حصوں کی کتابت تو ۱۹۴۴ء میں کرائی گئی۔ (۳) زبورِ عجم کا آٹھواں۱؎ اڈیشن شائع ہوا، جو اقبال کی وفات کے دس برس بعد ۱۹۴۸ء میں نئی کتابت سے تیار شدہ پلیٹوں سے طبع کرایا گیا۔ (۴) جاوید نامہ کا ساتواں اڈیشن۲؎ شائع ہوا، جو اقبال کی وفات کے نو برس بعد، ۱۹۴۷ء میں نئی کتابت سے تیار شدہ پلیٹوں سے طبع کیا گیا۔ (۵) مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق مع مسافر کا ساتواں اڈیشن شائع ہوا، جو اقبال کی وفات کے چھے برس بعد، ۱۹۴۴ء میں نئی کتابت سے تیار شدہ پلیٹوں سے طبع کیا گیا۔ ۱- دیکھیے: ضمیمہ نمبر۱ میں کتابیاتی کوائف۔ ۲- ایضاً (۶) ارمغانِ حجاز کی کتابت و طباعت اقبال کی وفات کے بعد ہوئی۔ اس سے یہ بات غلط ثابت ہوجاتی ہے کہ: ’’کلامِ اقبال کے اب تک جتنے اڈیشن شائع ہوئے، وہ سب کے سب انھی پلیٹوں سے طبع ہوتے رہے ہیں، جنھیں حضرت علامہ مرحوم نے خود اپنی نگرانی میں تیار کروایا تھا۔۱؎ کلیاتِ اقبال، اُردو کے جائزے میں ہم نے صحتِ متن، ترتیب و تدوین اور املا کی جن اغلاط، خامیوں اور نقائص کا ذکر کیا تھا، زیر نظر کلیاتِ فارسی میں بھی کم و بیش وہی صورتِ حال موجود ہے۔ ذیل میں چند توجہ طلب امور کی نشان دہی کی جاتی ہے: (۱)اُردو اور فارسی کلیات میں تقطیع، مسطر، کتابت کے قلم، انداز اور تزئین وغیرہ میں یکسانیت کے اہتمام کے پیشِ نظر کلامِ اقبال کے ان مجموعوں کو ایک خوب صورت جوڑا (سیٹ) قرار دیا جاسکتا ہے۔ جملہ فارسی مجموعوں کے کل ۱۳۲۲ صفحات کے مقابلے میں سارا فارسی کلام ۸+۱۰۲۸ صفحات میں سمٹ آیا ہے، تاہم اس سے مختلف اڈیشنوں کے صفحات کی یکسانیت ختم ہوگئی اور کسی نظم یا شعر کا حوالہ دیتے ہوئے، اڈیشن اور سالِ اشاعت کا ذکر ضروری ہوگیا، حالانکہ پہلے اس کی ضرورت نہ تھی۔ (۲)کلیاتِ اُردو کی طرح کلیاتِ فارسی میں بھی املا کو ، جوں کا توں برقرار رکھنے کے فیصلے کی پابندی نہیں کی گئی۔ (اس کی تفصیل آئندہ سطور میں آئے گی)۔ (۳)الگ الگ مجموعوں کے آغاز میں، اُن کے طبع اوّل اور مابعد اشاعتوں کے سالِ اشاعت درج نہیں کیے گئے۔ (۴)کلیات کی مشاورتی کمیٹی، مولانا مہر اور نہ مہتمم کتابت یا ناشر نے دیکھا کہ اسرار و رموز، زبورِ عجم، مسافر اور ارمغانِ حجاز کے آغاز میں فہرست مضامین موجود نہیں، جس کی وجہ سے ان مجموعوں کی مختلف منظومات، قطعات اور غزلیات کی تلاش میں، ورق گردانی کرتے ہوئے، اچھا خاصا وقت ضائع ہوتا ہے۔ از سرِ نو تدوین کے موقع پر ہر مجموعے کے شروع میں فہرست عنوانات درج کرنا کچھ مشکل نہ تھا۔ (۵) قبل ازیں پس چہ باید کرد اور مسافر کو یکجا شائع کیا جاتا رہا، مگر دونوں کے صفحات کا شمار علاحدہ علاحدہ ہوتا تھا۔ کلیات میں صفحات کا شمار مسلسل ہے۔ ہمارے خیال میں مختلف ۱- جاوید اقبال: کلیاتِ اقبال فارسی، ص’’ہ‘‘۔ نوعیتکی ان مثنویوں کی حیثیت علاحدہ علاحدہ کتاب کی ہے، اس لیے ان کے صفحات کا شمار بھی علاحدہ علاحدہ ہونا چاہیے تھا۔ (۶)مسافر ۱۹۳۴ء میں اور پس چہ باید کرد، ۱۹۳۶ء میں چھپی۔ ترتیبِ زمانی کے پیشِ نظر کلیات میں ان کی ترتیب بھی اسی طرح ہونی چاہیے تھی۔ (۷)مختلف مجموعوں کے جو اڈیشن، اقبال کی وفات کے بعد شائع ہوئے، اُن میں ترتیب و تدوین سے متعلق بعض نقائص راہ پاگئے، مثلاً: (الف) جاوید نامہ، طبع دوم (۱۹۴۷ئ) میں طبع اوّل میں موجود دو اشعار پر مشتمل دیباچہ حذف کردیا گیا تھا، کلیات میں اس غلطی کی اصلاح کرتے ہوئے دیباچۂ مذکور کو شاملِ کتاب کرلینا چاہیے تھا۔ (ب) مسافر، طبع اوّل (۱۹۳۴ئ) کے سرورق پر موجود الفاظ کو ۱۹۴۴ء کے اڈیشن میں حذف کردیا گیا تھا، کلیات میں ان الفاظ کو بحال کردینا چاہیے تھا۔ (۸) مثنوی مسافر ص۵۴/۸۵۰ پر ’’فہرستِ مضامین‘‘ کا اضافہ مناسب ہوگا۔ (۹) زبورِ عجم (ص۵۳۷ اور ۵۷۱) میں تسمیہ کو عناوینِ ابواب سے پہلے، اس کی صحیح جگہ پر لکھ دیا گیا ہے۔ تسمیہ کی یہ تقدیم، مناسب اور درست ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے، کلیاتِ فارسی کے دیباچے میں، صحتِ متن و کلام کی ’’کٹھن منزل‘‘ ۱؎ کا ذکر کیا ہے۔ ہم نے کلیاتِ اُردو میں متعدد اغلاط کی نشان دہی کی تھی، افسوس ہے کہ کلیاتِ فارسی، اس کے مرتبینِ، پروف خواں اور ناشرین وغیرہ کے لیے فی الواقع ’’کٹھن منزل‘‘ ثابت ہوئی۔ کلیاتِ فارسی میں اغلاط کا تناسب، کلیاتِ اُردو کے مقابلے میں خاصا زیادہ ہے، بلکہ کلیاتِ فارسی سے قبل اشاعت پذیر ہونے والے کسی بھی نسخے میں، اغلاط کی وہ کثرت نظر نہیں آتی، جس سے کلیاتِ فارسی مملو ہے۔ کلیاتِ فارسی میں، سابقہ اڈیشنوں میں موجود، جن اغلاط کی تصحیح کردی گئی ہے، ان کی تفصیل یہ ہے: ۱- کلیاتِ اقبال فارسی: ص’’و‘‘۔ صفحہ سطر غلط کلیات کا صفحہ سطر صحیح اسرار و رموز ۲ ۴ خدائو رستم ۴ ۴ خداو رستم ۴ ۷ حاشیہ موجود نہیں ہے ۶ حاشیہ موجود ہے ۵ ۱ // ۶ حاشیہ موجود ہے ۵ ۹ رختِ نار ۷ ۵ رخت باز ۵ ۱۰ مصرع اوّل: گزشت ۷ ۶ گذشت ۵ ۱۰ مصرع ثانی: گزشت ۷ ۶ گذشت ۹ ۸ حاشیہ موجود نہیں ہے ۱۰ حاشیہ موجود ہے ۱۲ ۲ حیاتِ تعیّنات ۱۲ ۵ حیات و تعیّنات ۵۰ ۳ عناگیر ۴۵ ۴ عناں گیر ۵۵ ۱۰ کیں ۵۰ ۱ کین ۶۶ ۱۱ آذر ۵۹ ۱۲ آزر ۶۸ ۱۲ طلاطم ۶۱ ۵ تلاطم ۷۶ ۱۱ تکرگ ۶۷ ۱۶ تگرگ ۷۹ ۹ اختبار (صرف ۱۹۵۹ء اڈیشن) ۷۰ ۱۱ اعتبار ۸۱ ۶ ایں و آں ۷۲ ۶ این و آں ۸۴ ۲ بیی (صرف ۱۹۵۹ء اڈیشن) ۷۴ ۲ بینی ۸۵ حاشیہ نمبر۱ خَلَقْ ۷۴ حاشیہ خَلَقَ ۸۷ ۱۱ کارش (صرف ۱۹۵۹ء اڈیشن) ۷۶ ۱۴ کارمش صفحہ سطر غلط کلیات کا صفحہ سطر صحیح ۹۰ ۴ آذرش ۷۸ ۱۳ آزرش ۱۰۲ ۱۱ دفترے (صرف ۱۹۵۹ء اڈیشن) ۸۹ ۱۳ دفترے ۱۰۳ ۴ پارپائے ۹۰ ۴ پارہ ہائے ۱۰۸ ۹ چشم ہائے ۹۴ ۹ چشمہ ہائے ۱۱۸ ۴ خداست ۱۰۲ ۱۰ خدا است ۱۱۲ ۹ کیںِ ملت۔ّ ۱۰۶ ۶ کینِ ملت۔ّ ۱۲۳ ۸ ناتواں ۱۰۷ ۷ ناتوان ۱۲۴ ۵ دعوے ۱۰۷ ۱۳ دعویٰ ۱۳۰ حاشیہ آدم ۱۱۳ حاشیہ اٰدم ۱۳۰ ۴ با است(صرف ۱۹۵۹ء اڈیشن) ۱۱۳ ۵ باامّت ۱۴۲ ۷ محفلس ۱۲۳ ۶ محفلش ۱۴۸ ۳ خواند ۱۲۸ ۴ خواہد ۱۵۶ ۱۲ شیریں ۱۳۵ ۸ شیرین ۱۶۸ حاشیہ۲ آدم ۱۴۴ حاشیہ۲ اٰدَمَ ۱۹۷ ۱۰ آذر ۱۶۹ ۸ آزر پیامِ مشرق فہرست مطالب ۵ ۹۴ صفحات نمبر تبدیل ہونے پر تصحیح ہوگئی ہے ۲۲ ۳ آذر ۲۰۲ ۷ آزر ۱۰۱ ۹ نگہت ۲۵۹ ۴ نکہت ۲۱۱ ۲ آذری ۳۴۶ ۲ آزری صفحہ سطر غلط کلیات کا صفحہ سطر صحیح زبورِ عجم ۳۲ ۳ مغ بچۂّ ۴۱۵ ۳ مغبچۂ ۴۵ ۶ آذری ۴۲۴ ۱۴ آزری ۲۰۵ ۱۰ انگبیں۔ ہمیں ۵۳۹ ۵ انگبین۔ہمین ۲۰۸ ۷ مقالے ۵۴۱ ۴ مقامے ۲۰۹ ۳ درد ۵۴۱ ۱۲ درو ۲۲۴ ۴ غیربیں ۵۵۳ ۱ غیربین ۲۲۵ ۱۲ چساں ۵۵۴ ۵ چسان ۲۳۰ ۷ کمیں۔ ہمیں ۵۵۷ ۱۳ کمین۔ہمین ۲۳۳ ۱۱ کمیں ۵۶۰ ۶ کمین ۲۳۷ ۷ تخمیں ۵۶۲ ۱۲ تخمین ۲۵۷ ۱ آذر ۵۸۰ ۱۲ آزر ۲۵۷ ۷ آذری ۵۸۱ ۲ آزری غزلوں کے غلط شمار نمبر بھی صحیح کردیے گئے ہیں۔ جاوید نامہ ۱۳۵ ۱۰ مصرع واوین میں نہیں ہے ۷۰۵ ۴ واوین لگادیے گئے ۱۵۱ ۱۰ آنکہ ۷۱۸ ۷ آنکہ/آں کہ ۲۴۰ ۹ طایف ۷۹۲ ۵ طائف مزید برآں ’’آذر‘‘ کو تمام مقامات پر ’’آزر‘‘ سے بدل دیا گیا ہے۔ ۲۴۳ ۸ اہل کیں اند اہل کیں ۷۹۵ ۱ اہل کین اند اہل کین پس چہ باید کرد صفحہ سطر غلط کلیات کا صفحہ سطر صحیح ۵۰ ۴ آذری ۸۳۴ ۱ آزری ۵۷ حاشیہ فاْاُنظْر ۸۳۹ حاشیہ اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ ۵۹ ۲ جینوا ۸۴۱ ۳ جنیوا ۲۶ ۳ گویدش ۸۶۹ ۳ گویدش مسافر ۲۸ ۵ برار ۸۷۰ ۱۱ برآر ۱۱ ۳ آذر ۸۵۶ ۱۳ آزر ارمغانِ حجاز ۱۴ ۱ سرورِ۔ُ ۸۹۴ ۹ سرودِ۔ُ ۱۳۴ ۷ آذری ۹۷۷ ۸ آزری تاہم املا اور کتابت کی بہت سی ایسی اغلاط کی صحت نہیں ہوسکی، جو قدیم نسخوں میںموجود تھیں، علاوہ ازیں بعض اغلاط کی صورت بدل گئی ہے۔ تفصیل آیندہ صفحے پر ملاحظہ کریں: کلیاتِ فارسی میں بعض نئی اغلاط روپذیر ہوگئی ہیں۔ مرزا ہادی علی بیگ وامق ترابی نے، کلیاتِ اقبال میں کتابت کی غلطیاں‘‘ ۱؎ کے زیر عنوان، بہت سی اغلاط کی نشان دہی کی ہے۔ چند اغلاط کی طرف ڈاکٹر محمد ریاض ۲؎ نے توجہ دلائی ہے، تاہم اغلاط کی مکمل فہرست کہیں زیادہ طویل ہے۔ ذیل میں ہم تمام اغلاط کو یک جا درج کررہے ہیں۔ ڈاکٹر محمد ریاض اور وامق ترابی نے، جن اغلاط کی نشان دہی کی ہے، اُن کے سامنے علی الترتیب ’’م۔ر‘‘ اور ’’و۔ت‘‘ کے مخففات درج ہیں: کلیات کا صفحہ صفحہ غلط صحیح اسرار و رموز ۷ ۴ مصرعوں کے درمیان علامت ’’ق‘‘ درج ہونے سے رہ گئی ہے۔ ۷ ۱۱ انبرِ بہار ابرِ بہار ۱۶ ۹ نفی نفیِ ۲۱ ۱۲ خفتہ سُفتہ و-ت ۲۳ ۹،۱۰ اشعار کی ترتیب غلط ہے صحیح ترتیب یہ ہے: (ا) از سوال آشفتہ… (۱)از سوال افلاس… (۲) از سوال افلاس… (۲) از سوال آشفتہ… ۲۹ ۱۲ نَحْسٌ نَحْسٍ ۳۰ ۵ خستجوئے جستجوے ۴۰ حاشیہ زروق زورق ۴۵ ۶ گورِ گور ۱- اُردو ڈائجسٹ، دسمبر ۱۹۷۸ئ: ص۲۶۹ تا ۱۷۶ ۲- مکتوب بنام راقم الحروف: ۱۵ جولائی۱۹۷۷ئ۔ کلیات کا صفحہ صفحہ غلط صحیح ۶۱ ۱۰ گدازد گذارد ۷۴ حاشیہ بِاِسْمِ بِاسْمِ ۷۸ ۷ یکتاسی یکتاستی و-ت ۹۱ ۶ اٰتی اٰتِی ۱۰۱ حاشیہ کاللّیثُ کاللّیثِ ۱۰۱ ۱۰ صدیق صدّیقؓ ۱۰۸ ۴ وَالْاِحْسَانَ وَالْاِحْسَان ۱۰۸ حاشیہ الالباں الالباب ۱۱۰ ۳ ذَبْحٌ ذِبحٍ ۱؎ و-ت ۱۱۰ ۱۳ سامان ساماں ۱۱۵ ۱۰ دَارٌ دَارَ ۱۱۵ ۱۳ کُفُراً کُفْراً و-ت ۱۱۵ ۱۵ دَارُ دَارَ oلا ۱۱۶ ۶ حاشیے کا عدد ’’(۳۰)‘‘اگلے شعر نمبر ۷ پر ہونا چاہیے تھا۔ ۱۱۹ ۱۰ برِسرِما برسرِ ما ۱۲۱ ۳ آئین آئیں ۱۲۴ ۱ اُولیٰ اَولیٰ ۱۳۹ ۱۳۹ ۱۵ ۱۵ وُّسْطًا… شُہَدَآئُ وَّسَطًا شُہَدَآئَ ۱۵۰ ۸ غیورِ حق پرست غیور و حق پرست ۱- سورۃ الصّٰفّٰت: ۱۰۷۔ کلیات کا صفحہ صفحہ غلط صحیح ۱۵۹ ۴ اسلامیان اسلامیاں ۱۵۹ ۹ مسیحاؐ مسیحاؑ ۱۶۰ حاشیہ الْبَصَرَ الْبَصَرُ پیام مشرق سرورق وَ لِلّٰہِ المَشْرقِ وَالْمَغْرِبِ لِلّٰہِ المَشْرِقُ وَ المَغْرِبُ سرورق للّٰہ المشرق و المغرب کے شروع میں ’’و‘‘ کا اضافہ بلا ضرورت ہی نہیں، بلاجواز بھی ہے۔ قرآنِ حکیم میں ایک جگہ یہ الفاظ واو کے ساتھ آئے ہیں (البقرہ: ۱۱۵) اور دوسری جگہ واو کے بغیر (البقرہ: ۱۴۲)۔ اقبال کی زندگی میں مطبوعہ تینوں اڈیشنوں میں سے کسی میں بھی واو نہیں اور نہ بعد کے کسی اڈیشن میں، اس لیے کلیات میں واو بڑھانا قطعاً غلط ہے۔ ۱۸۰ ۱۳ تینوں زبانوں تینوں مشرقی زبانوں ۱۸۷ ۹ اقوام کی طبائع اقوام کے طبائع۱؎ ۱۸۲ ۱۴ اقوامِ شرق اقوامِ مشرق۲؎ ۲۰۴ ۲ آواز آزار ۲۱۱ حاشیہ × زریر= ہلدی ۲۱۶ ۶ بیقرار جستجو بیقرار از جستجو ۲۳۹ ۲ سرح شرح ۲۵۶ ۱۱ نیامد نیاید ۱- صحتِ زبان اور قواعد کی رو سے تو ’’اقوام کی طبائع‘‘ غلط نہیں، مگر اقبال کے الفاظ ’’اقوام کے طبائع‘‘ میں بھی ایسی کوئی خرابی نہیں کہ اسے تبدیل کیا جائے۔ اقبال نے دوسرے اور تیسرے اڈیشن میں بھی اسے برقرار رکھا، اب مرتبِ کلیات اسے بدلنے کے مجاز نہیں ہوسکتے۔ ۲- اپنی جگہ ’’اقوامِ شرق‘‘ کی ترکیب درست ہے، مگر اقبال نے ’’اقوامِ مشرق‘‘ لکھا تھا، اس لیے اسے ’’اقوامِ شرق‘‘ میں تبدیل کرنا غلط ہے۔ کلیات کا صفحہ سطر غلط صحیح ۲۵۸ حاشیہ × ضریر= نابینا ۲۶۳ ۳ عیانِ عیاں ۲۶۷ ۴ بآنسوے باآنسوے و-ت ۲۷۴ ۱ لفہمیدہ نفہمیدہ ۲۹۳ ۶ انذر اندر ۲۹۹ ۹ آئینہ آئنہ و-ت ۳۰۲ ۱ جان جاں ۳۰۸ ۳ امّتے امّیے ۳۱۰ ۱۴ یسفکُ الِدّمَا خَصیمٌ مُّبِیں ’’یَسْفِکُ الِدّمَا‘‘ وَ ’’خَصِیمٌ مُّبِیں‘‘۴؎ و-ت ۳۴۳ ۱۴ پروانہ می ریزی پروانہ می آئی ۳۶۰ حاشیہ × داد= دائو ۳۶۰ ۶ آئینہ آئنہ ۳۶۱ ۱۰ نئے نے ٔ و-ت ۳۶۶ ۱ رفتگان رفتگاں ۳۷۸ ۸ ہواء یش ہوایش و-ت ۳۷۹ ۸ رنگین رنگیں ۳۸۱ ۶ آئینہ آئنہ و-ت ۳۸۴ ۱۰ ساقپا ساقیا ۴- اقبال میوزیم لاہور میں موجود، مسوّدے میں واضح طور پر ’’و‘‘ موجود ہے۔ کلیات کا صفحہ سطر غلط صحیح ۳۸۹ آخری شعر کے بعد جو پھول بنایا گیا، وہ درست نہیں، کیونکہ اس صفحے کا آخری شعر اور اگلے صفحے کا پہلا شعر منفصل ہوگئے ہیں، جب کہ یہ دونوں ہم ردیف و ہم قافیہ ہیں اور قدیم نسخوں میں متصل لکھے گئے ہیں۔ انھیں الگ الگ کرنا غلط ہے۔ ۳۹۰ ۱ کالنبدر افہرہہی کالبد را فربہی زبورِ عجم ۴۰۹ ۷ فسون فسوں ۴۲۰ ۱۴ گیرد گردد ۴۲۹ ۷ ترسیدن نرسیدن ۴۸۶ ۹ شان شاں ۴۹۸ ۸ دارہی داری و-ت ۵۱۳ ۲ ستائند ستانند ۵۱۹ ۳ فقیہہ فقیہ و-ت ۵۲۷ ۵ ایں ایں و-ت ۵۲۹ ۱۰ گزشتم گذشتم ۵۴۲ ۱۳ پیکانِ ضمیرش پیکاں در ضمیرش ۵۴۳ ۱۰ مستتیز مستنیر و-ت ۵۴۴ ۱۲-۱۳ پہلے اور دوسرے مصرعوں کے درمیان ’’ق‘‘ کا نشان درج ہونے سے رہ گیا ہے۔ ۵۵۶ ۱۲ پے پیٔ ۵۵۹ ۱۳ فقیہہ فقیہ و-ت ۵۶۴ ۸ خزان خزاں کلیات کا صفحہ سطر غلط صحیح ۵۶۵ ۸ عرفان عرفاں ۵۷۹ ۶ برون بروں ۵۸۳ ۱ عہدِ خود عبدِ خود جاوید نامہ ۶۲۲ ۱ کمین کمیں ۶۲۲ ۹ مارے مارِ و-ت ۶۲۵ ۱۱ گِرد رہ گرد راہ ۶۴۱ ۶ سنگین سنگیں ۶۷۰ ۱ از مکان از مکاں ۶۷۶ ۳ زین العابدینؓ زین العابدیںؒ ۶۹۹ ۴ دو دو گیسو در دو گیسو م-ر ۷۰۳ حاشیہ × قفیز= تالاب ۷۱۴ ۲ رحمۃا للعالمینے رحمۃ للعالمینے و-ت ۷۱۷ ۸ زین زیں ۷۳۳ ۶ چزے چیزے و-ت ۷۳۴ ۲ پزیرد پذیرد و-ت ۷۴۱ ۱۰ سرورے سرورِ و-ت ۷۴۷ ۸ یزدان یزداں ۷۵۰ ۱۳ خیابان خیاباں ۷۵۳ ۳ ہندوستاں ہندستاں ۷۶۰ ۷ فقر و سلطاں فقرِ سلطاں م-ر کلیات کا صفحہ سطر غلط صحیح ۷۶۹ ۶ مصرع ثانی: کارِ است کارِ اوست ۷۷۱ ۱۰ میدانی می کردی م-ر ۷۷۴ حاشیہ × آنکہ حرفِ شوق الخ یعنی حضور سرور کائنات در مصرع ثانی اشارہ ایست بحدیث الجہاد رہبانیۃ الاسلام ۷۸۰ ۳ قریبٌ قریب ۷۸۹ ۱۴ مُلّایانِ ملّایان و-ت ۷۹۵ ۱۲ جان جاں ۷۹۶ حاشیہ۱ اللّہم نصف الہرام اَلْہَمُّ نِصْفُ الْہَرَم ْ مثنوی پس چہ باید ۸۱۰ ۷ لَآ الٰہ لَآ اِلَہ و-ت ۸۱۳ ۴ نون نوں ۸۱۳ ۴ لَآ الٰہ لَآ اِلَہ ۸۱۵ ۱ زدست زد است ۸۱۵ ۱ لَآ اِلٰہ لَآ اِلَہ ۸۲۱ ۴ فقیہہ فقیہ و-ت ۸۲۲ ۳ لَآ اِلٰہ لَآ اِلَہ ۸۲۳ ۱۰ لَآ اِلٰہ لَآ اِلَہ و-ت ۸۲۶ ۲ یَنْظِر یَنْظُرُ ۸۲۷ ۱۴ تخمین تخمیں ۸۳۲ ۱۳ لٓاَاِلٰہ لَآ اِلَہ کلیات کا صفحہ سطر غلط صحیح ۸۳۳ ۳ نیاید نیابد ۸۴۶ حاشیہ × قم باذنی= یعنی اُٹھ میرے حکم سے مسافر ۸۵۱ ۷ لَآ اِلٰہ لَآ اِلَہ ۸۶۱ ۳ لَآ اِلٰہ لَآ اِلَہ ۸۶۵ ۱۶ لَآ اِلٰہ لَآ اِلَہ ۸۷۳ ۳ خرَقْتَان خِرْقَتَان۵؎ ۸۷۳ حاشیہ۲ لِیْ خَرَقْتَانُ الْفَقْرُوَ الْجِہَادِ لِیْ خِرْقَتَانِ اَلْفَقْرُ وَ الْجِھَادُ ۸۷۷ ۲ اللہَ اللہُ ۸۷۹ ۹ سجیدہ سنجیدہ ۸۷۹ ۱۱ بہ غیر اللہ بغیر اللہ ۸۸۰ ۱۵ مردنِ مردن ارمغانِ حجاز ۹۲۹ ۹ بے سود بے سوز ۹۳۰ ۶ مصرع ثانی: غمے نیست نمے نیست م-ر ۹۳۱ ۳ دین دیں ۹۳۱ ۱۱ بہ غیر اللہ بغیر اللہ ۹۳۴ ۶ لَآ اِلٰہ لَآ اِلَہ ۹۴۳ ۳ لَآ اِلٰہ لَآ اِلَہ ۹۵۱ ۶ لَآاِلٰہ لَآ اِلَہ ۵- وامق ترابی نے اس کی صورت خَرْقَتَان بتائی ہے، جو درست نہیں ہے۔ کلیات کا صفحہ سطر غلط صحیح ۹۵۳ حاشیہ لَغُوْبٍo لُّغُوْبٍo ۹۵۵ ۱۰ بگریز بگریز و-ت ۹۶۷ ۱۲ دستان دستاں ۹۶۸ ۸ چنین چنیں ۹۸۱ ۱۰ خوس خوش ۹۸۳ ۵ لَآ اِلٰہ لَآ اِلَہ ۱۰۱۹ ۸ حشمش چشمش م-ر، و-ت ۱۰۳۱ ۱۳ الصلحت الصّلت ۱۰۰۶ ۲ کاینات کائنات و -ت جدید ایرانی ادبیات میں لہجے کی تبدیلی نے ایران کے فارسی املا میں بعض بنیادی تبدیلیاں پیدا کردی ہیں۔ قدیم کلاسیکی اور برعظیم (بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش) کے لہجے کے برعکس، آج کل ایران میں معروف اور مجہول آوازوں میں امتیاز روا نہیں رکھا جاتا۔ وہاں نون غنّہ کی آواز بھی ختم ہوچکی ہے، چنانچہ ایران میں مطبوعہ کلیاتِ اقبال ۱؎ مروّجہ فارسی املا کے مطابق شائع کیے گئے ہیں، مگر برعظیم میں آوازوں کی تفریق اور اس کے نتیجے میں اختلافِ نگارش اب بھی موجود ہے۔ لہٰذا یہاں، رشید حسن خاں کے بقول: ’’املا اور تلفظ، دونوں میں، معروف و مجہول اور غنّہ آوازوں کا املا ملحوظ رکھا جائے گا اور اگر کوئی شخص فارسی جدید کی تقلید میں، اس کے خلاف کرے گا، تو یہ طریقہ اُصولِ تدوین کے قطعاً خلاف ہوگا‘‘۔۲؎ زیر نظر کلیاتِ فارسی کا سب سے خوش آئند پہلو یہ ہے کہ اس میں کلاسیکی فارسی کے طرزِ املا کو برقرار رکھا گیا ہے، ورنہ ایران میں مطبوعہ کلیاتِ فارسی پڑھتے ہوئے، ایک قاری، خصوصاً برعظیم کا قاری، ذہنی اُلجھاو اور انتشار کا شکار ہوجاتا ہے۔ مگر اس خوش آئند پہلو سے قطع نظر، کلیاتِ فارسی، داخلی طور پر کلیاتِ اُردو کی طرح املائی انتشار کا شکار ہے، بلکہ کلیاتِ فارسی، املائی انتشارات و تضادات، اعراب و توقیف نگاری کے سلسلے میں ۱- مرتبہ: احمد سروش، مطبوعہ تہران، طبع اوّل: ۱۹۶۳ئ، طبع دوم: ۱۹۷۲ئ، وغیرہ۔ ۲- اُردو اِملا: ص۵۶۵ بے توجہی اور املا کی مجموعی بے ضابطگی اور عیوب کے اعتبار سے کلیاتِ اُردو سے بھی بڑھا ہوا ہے۔ سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ املا کے سلسلے میں کوئی ضابطہ یا اُصول وضع نہیں کیا گیا، خوش نویس کی ذاتی صواب دید ہی اصل اُصول ہے، چنانچہ خوش نویس نے ایک لفظ کو جیسا چاہا، لکھ دیا، دوسری جگہ اس کی لکھاوٹ بدل دی اور تیسری جگہ اُسے بالکل نئی صورت بخش دی۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے غ۔ع اڈیشن کے دیباچے میں کلیات کی ’’جدید کتابت‘‘ کو ’’شاعر مشرق‘‘ کے کلام کے شایانِ شان قرار دیا ہے۔ بلاشبہہ ظاہری حسن کاری اور خوش نمائی کے اعتبار سے اُردو اور فارسی دونوں کلیات کی کتابت، بہت خوب صورت ہے، مگر املا کی صحت و یکسانیت کے نقطۂ نظر سے یہ خوش نویسی معیاری نہیں ہے۔ وامق ترابی لکھتے ہیں: یہ دیکھ کر بے حد صدمہ ہوا کہ علامہ مغفور کے اس کلیات کو، جو بزرگ پروف ریڈر میسر آئے، وہ فارسی سے سراسر بے بہرہ، خصوصاً قواعدِ فارسی سے قطعاً نابلد، عروض سے یکسر معر۔ّ۔ا، قوافی سے بالکل مبر۔ّ۔ا تھے اور اُن کی نظر بھی تربیت یافتہ (ٹرینڈ) نہیں تھی۔۱؎ یہ راے بہت سخت ہے، مگر یہ ضرور احساس ہوتا ہے کہ صحتِ املا کا پہلو، نگرانِ کتابت، پروف خواں اور ناشر کی نگاہوں سے اوجھل رہا۔ جتنی توجہ سے پروف خوانی کی گئی، اس سے کہیں زیادہ دیدہ ریزی اور کاوش مطلوب تھی، کلیاتِ فارسی میں نہ صرف یہ کہ اغلاط کی بھرمار ہے، بلکہ املا کی بے قاعدگیاں بھی کثیر اور متنوع ہیں، مثلاً: (الف) ایک ہی لفظ یا ایک جیسے الفاظ کے دو مختلف نمونے دیکھیے (قوسین میں کلیاتِ فارسی کے صفحات نمبر درج ہیں۔) حقائیق(۱۸۰) حقائق (۱۸۱)۔ وائے(۷۲۵) واے (۷۲۵)۔ پایندہ (۴۰۹) پایندہ (۶۷۷)۔ نیٔ (۶۳) نئے (۳۶۱)۔ بہ ولایتے (۴۰۲) بروائتے(۴۱۲)۔ گویم (۳۳۴)۔ گوئم(۳۱۷) آزمائش (۵۹۱) آزمایش(۶۳۶)۔ بتن(۶۴۱) بہ تن(۶۵۲)۔ (ب) بعض الفاظ کا املا واضح طور پر غلط ہے۔ ہم ذیل میں بطور نمونہ ۲؎ چند ایسے الفاظ اور ان کی صحیح صورت درج کررہے ہیں، کلیات میں اس طرح کے غلط املا کی کثرت ہے: ۱- اُردو ڈائجسٹ، نومبر۱۹۷۸ئ: ص۱۶۹ ۲- املا کی ایسی غلط صورتوں کو راقم نے اغلاط ِکتابت کی فہرست میں شامل و شمار نہیں کیا، کیونکہ یہ غیر شعوری غلط لکھاوٹ ایک لحاظ سے املا کا مروجہ طریقہ ہے۔ اگر ایسا کیا جاتا تو اغلاط کی تعداد سیکڑوں سے بڑھ کر ہزاروں تک پہنچ جاتی۔ صفحہ کلیات کا غلط املا مطلوبہ صحیح صورت ۱۳۵ بائست بایست ۴۴۴ پائدارے پایدارے ۴۶۰ جوئندہ جویندہ ۶۰۲ خوابیدۂ خوابیدہ ۶۳۴ مئے میٔ ۶۹۴ آسمانہا آسماں ہا ۶۹۴ دخانہا دخاں ہا (ج) فارسی لفظ بہ، کہ، بے، نہ، چہ وغیرہ کبھی دوسرے لفظ سے مل کر اور کبھی الگ لکھے جاتے ہیں۔ کلیات میں بھی یہی صورت ہے، مگر کہیں الگ لکھنا زیادہ راجح معلوم ہوتا ہے، اس طرح غلطی کا احتمال نہیں رہتا، مثلاً: کلیات میں (ص۴۲۹) نرسیدن کو غلطی سے ترسیدن بنادیا گیا ہے، اگر اس کی صورت: ’’نہ رسیدن‘‘ ہوتی تو اس غلطی کا امکان بہت خفیف ہوتا۔ اسی طرح: ’’بہر مشکل‘‘ (ص ۵۸۲) کو ’’بہ ہر مشکل‘‘ ’’بوجد‘‘ (ص۶۴۹) کو ’’بہ وجد‘‘ اور ’’بایران‘‘ (ص۶۹۳) کو ’’بہ ایران‘‘ لکھا جاتا تو بہتر تھا۔ (د) نسخ میں اِعراب کا اہتمام نسبتاً مشکل ہوتا ہے۔ نستعلیق اختیار کرنے میں، اس کی مشکلات اٹھانے سے قطع نظر، سب سے بڑا فائدہ یہی ہے کہ اس میں اہتمامِ اعراب بہت آسان ہے اور اس طرح تحریر کو روانی اور نسبتاً تیز رفتاری سے پڑھا جاسکتا ہے۔ اِعراب کی موجودگی میں نظر کو کہیں رکاوٹ نہیں ہوتی، جب کہ بلا اِعراب تحریر میں، قدرے اَٹکاو محسوس ہوتا ہے۔ افسوس ہے کہ کلیات میں اِعراب نگاری کا اہتمام نہیں کیا گیا، اس کی وجہ سے کئی مقامات پر اِلتباس پیدا ہوتا ہے۔ ذیل کی چند مثالوں سے اِعراب کی ضرورت کا اندازہ ہوگا: صفحہ کلیات کا املا مطلوبہ بہتر صورت ۹ زہر جزوِ زِہَر جُزوِ ۴۳ زوردِ زِوِردِ ۴۴ بود بُوَدْ صفحہ کلیات کا املا مطلوبہ بہتر صورت ۴۵ توام تَوْاَمْ ۶۹ دکان دُکّانِ ۱۳۵ قدم قِدم ۱۵۱ بہ بِہ ۲۸۲ زابرے زِاَبرے ۵۶۶ مہ او مہِ اُو ۶۹۸ او را بدزدید از فرنگ اُو رابہ دُزدید از فرنگ ۷۶۱ ازیشم ازیَشْم (ہ) اسماے معرفہ کو کہیں تو جلی قلم سے لکھا گیا ہے اور کہیں عام قلم سے، اس ضمن میں نہ تو پوری طرح قدیم نسخوں کی تقلید کی گئی ہے اور نہ کسی اور ضابطے کی۔خوش نویس نے کلیّتاً اپنی صواب دید سے کام لیا ہے، مثلاً: ’’فرنگ‘‘ اور ’’پطرس‘‘ زبورِ عجم (ص۲۱۷) اور کلیات (ص۵۴۷) دونوں جگہ جلی قلم سے ہیں۔ ’’تبریز‘‘ اور ’’چنگیز‘‘ زبورِ عجم (ص۲۰۴) جلی قلم سے، مگر کلیات (ص۵۳۸) میں عام قلم سے ہیں۔ (پھر بعض مقامات پر اسماے نکرہ اور اسماے صفات کو بھی جلی قلم سے لکھا گیا ہے، مثلاً: ’’بلند‘‘ (کلیات: ص۱۰۷) ایک ہی لفظ کہیں جلی قلم سے ہے اور کہیں خفی قلم سے)۔ (و) اسماے معرفہ (اشخاص، مقامات، کتب وغیرہ) کو دیگر الفاظ اور افعال سے ممیّز کرنے کے لیے اُن کے اُوپر ایک خط (___) کھینچنے کا طریقہ، قدیم طرز املا کی ایک معروف صورت ہے۔ اسی طرح شعرا کے اسما پر تخلص کی علامت (__ ؔ) بنائی جاتی ہے۔ زیر بحث کلیات میں بالکل آزادانہ روش اختیار کی گئی ہے، بلکہ زیادہ صحیح معنوں میں یہ کہنا چاہیے کہ کوئی متعیّن روش ہے ہی نہیں، مثلاً: اسرار و رموز میں شاید ہی کسی اسمِ عَلَمْ کے اوپر خط کھینچا گیا ہو، کہیں اسماے نکرہ پر تخلص کی علامت (ص۱۰۲،۱۰۳)، کہیں اسماے معرفہ پر تخلص کی علامت (ص۳۳۳،۳۱۷، ۸۶۰) اور کہیں تخلص کی علامت کی بجاے خط (ص۳۳۶)۔ ایک ہی لفظ پر کہیں خط کھینچا گیا (بوعلی: ص۸۶۵) اور کہیں خط نہیں کھینچا گیا (بوعلی: ص۲۵،۲۶)، کہیں خط بالکل ہی بلاجواز اور غلط ہے (نشیناں: ص۸۸۰)۔ بعض مقامات سے اندازہ ہوتا ہے کہ خوش نویس، الفاظ کے فصل و وصل سے بے بہرہ ہے، مثلاً: ص۲۶۰ پر ہے… ’’عالم دیر وز ود را‘‘… یہاں ’و‘ اور ’ز‘ میں وصل اور ’ز‘ اور ’و‘ کے درمیان فصل غلط ہے، صحیح صورت میں اسے یوں ہونا چاہیے تھا: ’’عالمِ دیر و زُود را‘‘۔ یہ سب کچھ احتیاط، توجہ اور دقتِ نظر کی کمی کے سبب ہوا ہے۔ کلیات میں ’’آذر‘‘ کو بجا طور پر ’’آزر‘‘ سے بدل دیا گیا ہے، مگر عدم توجہ سے کہیں کہیں یہ تبدیلی نہیں ہوسکی، مثلاً: ’’آذر‘‘ بدستور ’’آذر‘‘ (ص۳۷۱) اور ’’آذرم‘‘ بدستور ’’آذرم‘‘ (ص۲۵۵) ہے۔ املا کے ضمن میں ان تضادات و انتشارات اور بے قاعدگیوں کی وجہ سے، راقم اپنی بات دہرانے پر مجبور ہے کہ: ’’تدوین و املا کے حتمی قواعد و اُصول مرتب و منضبط کیے جائیں اور ان کی روشنی میں علماے اقبالیات کا ایک بورڈ، کلیاتِ اقبال کا ایک مستند اور صحیح نسخہ تیار کرے، جسے معیاری نسخہ قرار دے کر رائج کیا جائے‘‘۔۱؎ کلیاتِ فارسی کے آخر میں اٹھائیس صفحات کا ایک ’’اشاریہ‘‘ شامل ہے۔ یہ بھی اسی نوع کی بکثرت اغلاط سے پُر ہے، جن کا سرسری سا تذکرہ کلیاتِ اُردو کے اشاریے پر بحث کے ضمن میں ہوچکا ہے (ملاحظہ کیجیے، باب اوّل: ص۵۳-۵۶)، مثلاً: (الف) آدمی، ام الکتاب، جام جم اور چنگیزی کے عنوانات کو ’’شخصیات‘‘ کے تحت اور ذوالخرطوم کو ’’اماکن‘‘ کے تحت درج کیا گیا ہے۔ (ب) سنجر (ص۷۸۰) سے مراد عثمانی حکمران ہے، مگر اس کا حوالہ خواجہ معین الدین چشتی، پیرِ سنجر کے تحت دیا گیا ہے۔ (ج) ’’آذری‘‘ کو ’’آزر‘‘ کے حوالوں میں گڈمڈ کردیا گیا، حالانکہ یہاں آذری (ص۷۵۷)۲؎ سے مراد ہے: چیت کے مہینے سے متعلق، اس کا آزر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ (د) ’’جنید‘‘ (ص۶۴۸،۹۰۳) کے ساتھ ’’کمال الدین جنیدی‘‘ غلط طور پر لکھا گیا ہے، مؤخرالذکر، ایک الگ شخصیت ہیں۔ (ہ) ’’نیم علیہ السلام‘‘ (ص۷۵) کا حوالہ سب سے زیادہ مضحکہ خیز ہے، اسے اسرار و رموز کے اس مصرعے: ’’وارثِ موسیٰؑ و ہارونیمؑ ما‘‘ سے اخذ کیا گیا ہے۔ ۱- باب اوّل: ص۵۸ ۲- کلیات میں اس صفحے کا شمار نمبر غلط (۷۵۸) درج ہے۔ (و) اقوامِ متحدہ کی وضاحت ’’مجلسِ اقوام‘‘ سے کی گئی ہے۔ اصل حوالہ ’’مجلسِ اقوام‘‘ کا ہے، جس سے مراد ہے: League of Nations۔ یہ حوالہ اسی عنوان سے آنا چاہیے تھا، نہ کہ ’’اقوامِ متحدہ‘‘ کے عنوان سے جو United Nations کا مترادف ہے اور یہاں اس کا کوئی محل بھی نہیں ہے۔ (ز) اقبال کی تصانیف اور بعض دیگر کتابوں کے ناموں کو ’’موضوع‘‘ کے تحت درج کیا گیا ہے، جو غلط ہے۔ (ح) بعض ملتے جلتے الفاظ کے حوالوں کو یکجا درج کیا گیا ہے، مثلاً: شاعر، شاعری، غزل، شعر۔ فقر، فقیر۔ علم، عالم۔ کافر، کفر۔ مسلم، مسلمان، مومن۔ قوم، قومیت۔ وطن، وطنیت۔ نفس، ضبط۔ خدا، یزداں۔ جنگ، جہاد۔ تصوّف، صوفی___ حالانکہ ان سب کی نوعیت جدا جدا ہے۔ زیر نظر اشاریے کی فہرستِ اغلاط مرتب کی جائے تو تعداد سیکڑوں تک پہنچے گی۔ ان سیکڑوں اغلاط سمیت، یہ اشاریہ گذشتہ ۳۷ برس سے مذکورہ کلیات کے ساتھ شائع ہورہا ہے اور اس کی اصلاح یا تبدیل کرنے کا خیال کسی کو نہیں آیا۔ مختصراً یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ اشاریہ ناقابلِ اصلاح ہے، اس کی جگہ ایک نیا اشاریہ مرتب کرنا زیادہ آسان ہوگا۔ زیرنظر کتاب کے صفحہ ۱۷اور۲۵ پر اقبال اکادمی پاکستان کے شائع کردہ کلیاتِ اقبال فارسی (ڈی لکس اڈیشن ۱۹۹۰ئ، سپر ڈی لکس اڈیشن ۱۹۹۴ئ)کا ذکر آچکا ہے ۔ امیر فلسفی کے ایرانی اسلوبِ کتابت میں شائع شدہ مذکورہ کلیات، برعظیم کے بیشتر فارسی قارئین کے لیے نامانوس اور اجنبی ہے۔ اسلوبِ کتابت سے قطعِ نظر،اس کلیات میں کچھ اور نقائص بھی نظر آتے ہیں، مثلاً پیامِ مشرق کا اُردو دیباچہ کلیات سے غائب ہے، البتہ اس کا فارسی ترجمہ دیا گیا ہے۔ (اقبال نے تو دیباچہ فارسی میں نہیں لکھا تھا۔) ترجمے کے ساتھ اُردو متن بھی دینا ضروری تھا۔ اس کلیات میں ایک اور تبدیلی یہ نظرآتی ہے کہ بعض افراد کے اصل ناموں کے بجاے ان کے فارسی مترادفات داخل کر دیے گئے ہیں جیسے گوئٹے کے بجاے گوتہ یا نیٹشے کے بجاے نیچا یا آئن سٹائن کے بجاے اینشتین اور ٹالسٹائی کے بجاے تولستوی۔ ہمارے خیال میں اسماے معرفہ کو مفرّس بنانے (یا بگاڑنے) کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے۔ بقول رشید حسن خاں: مذاقِ ایرانی کی پیروی میں ناموں کو بری طرح مسخ کیا گیا ہے۔۱؎ اس طرح کی تبدیلیوں (تحریفات؟) کا سلسلہ خطرناک ہے۔ اس ضمن میں دیکھیے:(۱) راقم کا مضمون ’’کلامِ اقبال کی معیاری تدوین و اشاعت‘‘۔ نیز رشید حسن خاں کا مضمون ’’کلامِ اقبال کی تدوین‘‘ (۲)یہ دونوں مضامین راقم کی کتاب اقبالیات: تفہیم و تجزیہ میں شامل ہیں۔ ۱- مکاتیبِ رشید حسن خاں بنام رفیع الدین ہاشمی: ص۶۴ باب :۳ مکاتیب کے مجموعے ز…ز…ز…ز (الف) اقبال کی خطوط نویسی علامہ اقبال، خان محمد نیاز الدین خاں کے نام ۱۹ ؍اکتوبر ۱۹۱۹ء کے خط میں لکھتے ہیں: مجھے یہ سن کر تعجب ہوا کہ آپ میرے خطوط محفوظ رکھتے ہیں۔ خواجہ حسن نظامی بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ ہوا، جب اُنھوں نے میرے بعض خطوط ایک کتاب میں شائع کردیے، تو مجھے بہت پریشانی ہوئی، کیونکہ خطوط ہمیشہ عجلت میں لکھے جاتے ہیں اور ان کی اشاعت مقصود نہیں ہوتی۔ عدیم الفرصتی تحریر میں ایک ایسا انداز پیدا کردیتی ہے، جس کو پرائیویٹ خطوط میں معاف کرسکتے ہیں، مگر اشاعت، ان کی نظرثانی کے بغیر نہ ہونی چاہیے۔۱؎ اقبال کا یہ احساسِ تشویش تعجب انگیز نہیں۔ خطوط، بالعموم قلم برداشتہ اور عجلت میں لکھے جاتے ہیں، اس لیے اکثر مشاہیر نے پسند نہیں کیا کہ اُن کے ہر نوع اور ہر طرح کے خطوط شائع کیے جائیں، مگر اہم بات یہ ہے کہ بسا اوقات یہی خطوط مشاہیر کی شخصیات کے مطالعے میں اہم ترین ماخذ ثابت ہوتے ہیں۔ اقبال کے خطوط بھی ان کی شخصیت، نیز ان کے افکار اور شاعری کی تفہیم میں کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔ مکاتیبِ اقبال کے متعدد مجموعے، مختلف اقبالیین کی ذاتی دلچسپیوں اور کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔ یہ سب، اقبال کی وفات کے بعد وقفوں وقفوں سے شائع ہوئے اور ظاہر ہے اُن کی نظرثانی اور اجازت کے بغیر؛ اس لیے انھیں اقبال کی باقاعدہ ’’تصانیف‘‘ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ شعری تصانیف کے مقابلے میں اُن کی حیثیت بہرحال ثانوی ہے، تاہم اقبالیات میں ان کی حیثیت مسلّمہ ہے۔ ۱۸۹۵ء میں اقبال سیال۔کوٹ سے لاہور آئے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے کی جماعت میں داخل ہوئے۔ اُن کے لیے والدین سے جدا ہوکر، گھر سے دور ’’پردیس‘‘ میں رہنے کا یہ پہلا موقع تھا۔ تکمیلِ تعلیم کے بعد بھی لاہور میں مقیم رہے۔ ۱۹۰۵ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ گئے، تو نہ صرف گھر والوں سے دوری بڑھ گئی، بلکہ دوست احباب سے بھی جدا ہوگئے۔ ولایت سے واپسی پرمستقلاً ۱- مکاتیبِ اقبال بنام نیاز: ص۲۴ لاہور میں مقیم ہوگئے۔ مصروفیات کے ساتھ ساتھ اُن کی شہرت میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ اقبال کے لیے ایک طرف تو اپنے والدین اور اعزّہ کو خط لکھنا ضروری تھا اور دوسری طرف اپنے دوستوں اور مدّاحوں کے استفسارات کا جواب لکھنا، دوستی کا تقاضا تھا اور اخلاقی فرض بھی۔ یہی تقاضے، فرائض اور مجبوریاں اقبال کی خطوط نگاری کا پس منظر ہیں۔ اقبال، بنیادی طور پر شاعرانہ طبع رکھتے تھے۔ ان کے ہاں مستعدی اور تحرّک کے بجاے تساہل اور جمود غالب تھا، اور وہ پابندیوں اور ضابطوں سے گھبراتے تھے۔ بقول غلام رسول مہر: ’’علامہ مرحوم کی طبیعت، ابتداہی سے غور و فکر اور انہماک و استغراق کی طرف مائل تھی‘‘۔۱؎خالد نظیر صوفی لکھتے ہیں: وہ فطرتاً تساہل پسند تھے۔ چارپائی پر نیم دراز یا گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھے رہنے کے بڑے دل دادہ تھے۔ وقت کی پابندی اُن کے لیے مشکل تھی۔ اگر کہیں وقتِ مقررہ پر پہنچنا ہوتا، تو انھیں ہمیشہ دیر ہوجاتی۔۲؎ زمانۂ طالب علمی ہی سے ان کی افتادِ طبع یہی تھی۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے ہوسٹل میں اُن کا کمرہ شعر و ادب کا ایسا مرکز تھا، جہاں محفلیں گھنٹوں برپا رہتیں۔ ان کے ہم درس میر غلام بھیک نیرنگ کے الفاظ میں: ’’اقبال کی طبیعت میں اسی وقت سے ایک گونہ قطبیّت تھی اور وہ ’’قطب از جانمی جنبد‘‘ کا مصداق تھے۔۳؎ سرکاری ملازمت سے گریز بھی، آزادہ روی کے اسی رجحان کا ایک پہلو تھا۔ اقبال کے قریبی رفیق سر عبدالقادر کا بیان ہے کہ قیامِ لندن کے زمانے میں اقبال ایک تو کم آمیز تھے دوسرے: کاہل۔ ’’وہ کئی دفعہ کسی جگہ جانے کا وعدہ کرتے تھے اور پھر کہتے تھے: بھئی کون جائے۔ اس وقت تو کپڑے پہننے یا باہر جانے کو جی نہیں چاہتا۔‘‘ اُن کے تساہل کے پیشِ نظر، ہم انھیں ہنسی سے ’’قطب از جانمی جنبد‘‘ کی کہاوت سنایا کرتے تھے۔۴؎ تساہل، جمود اور بے قاعدگی، اگر افتادِ طبع کا حصہ ہو، تو خطوط نگاری میں مستعدی، تعجیل اور باقاعدگی کی توقع عبث ہے۔ لیکن دلچسپ بات ہے کہ علامہ اقبال، عام زندگی میں سہل انگاری کے برعکس، مکتوب نگاری میں بہت مستعد اور باقاعدہ تھے۔ ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی لکھتے ہیں: اقبال کا دستور یہ تھا کہ ادھر ڈاکیا خط دے کر جاتا تھا اور اُدھر وہ اپنے خدمت گار علی بخش کو فوراً قلم دان ۱- اقبال درونِ خانہ: [اوّل]، پیش لفظ، ص۲۲ ۲- ایضاً، ص۲۳ ۳- مجلہ اقبال، اکتوبر ۱۹۵۷ئ:ص۵ ۴- نذرِ اقبال: ص۸۹ اور کاغذات کا ڈبّا لانے کی ہدایت فرماتے تھے۔ پھر فوراً جواب لکھتے تھے اور اُسی وقت علی بخش کے حوالے فرماتے تھے کہ لیٹر بکس میں ڈال آئے۔۱؎ یہی وجہ ہے کہ اقبال کے خطوں میں اس طرح کے جملے بکثرت ملتے ہیں: ’’ابھی ایک لمحہ پہلے آپ کا خط پہنچا‘‘۔ ’’ آپ کا نوازش نامہ ابھی ابھی موصول ہوا‘‘۔ Your letter which I received a moment ago. Your letter which reached me a moment ago. مکاتیب کے ذخیرے پر نگاہ ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ چند ایک مفصل خطوط کو چھوڑ کر، اقبال نے ہر جواب میں امکانی اختصار سے کام لیا ہے۔ خط کے جواب میں تعجیل، مستعدی اور اختصار کے درمیان گہرا ربط موجود ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے لکھا تھا: اقبال کی مکتوب نگاری میں ’باقاعدگی‘ ایک زبردست احساس ذمہ داری کا نتیجہ ہونے کے باوجود، ان کی سہل انگاری اور بے نیازی کے رجحان کی دخل اندازی سے نہیں بچ سکی۔ مکاتیب کا اختصار اسی دخل اندازی کا نتیجہ ہے۔ ایک طرف ادائیِ فرض، جواب کا تقاضا کرتی ہے اور دوسری طرف رجحانِ طبع کے ہاتھوں مجبور ہیں کہ اس تکلف اور پابندی سے جلد نجات ملے، چنانچہ مکاتیب کے بین السطور اس کشمکش کی جھلک صاف دیکھی جاسکتی ہے۔ کبھی خط پر تاریخ لکھ دی، کبھی بھول گئے، خیال آگیا تو آخر میں لکھ دی، ورنہ بلا تاریخ ہی خط روانہ کردیا؛ کبھی تاریخ اور مہینا لکھ دیا اور سنہ ندارد؛ کبھی خط ختم کرنے کی جلدی میں الفاظ چھوٹ گئے؛ احساسِ فرض کے ساتھ خط لکھنا شروع کیا، مگر جلد ہی طبیعت اکتا گئی اور ’’زیادہ کیا عرض کروں‘‘ قسم کا فقرہ لکھ کر خط ختم کردیا۔ یہ فقرہ اقبال نے اپنے خطوں کے آخر میں کثرت سے دہرایا ہے۔ خط سے جلد چھٹکارا پانے کے رجحان کو اقبال شعوری طور پر بھی محسوس کرتے تھے۔۲؎ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کے نزدیک اقبال کے خطوط، ان کے شعری افکار کی توضیح، فکری پس منظر اور ارتقا اور سوانحی لحاظ سے اہم ہیں۔۳؎ اقبال کے ذخیرۂ مکاتیب کا بنظرِ عمیق مطالعہ کریں تو اقبالیات میں ان کی افادیت اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔ ۱- اقبال کی صحبت میں: ص۴۷۰ ۲- خطوطِ اقبال: ص۴۷ تا۴۹ ۳- مجلۂ تحقیق، جلد اوّل، شمارہ ۱-۲: ص۲۹ خطوط میں ایک قاری خود کو اقبال کے بہت قریب محسوس کرتا ہے۔ اقبال ہمیں فقر و غنا، درویشی و قناعت، عجز و انکسار کا پیکر نظر آتے ہیں، دوسری طرف وہ قرآن، حدیث اور فقہ پرگہری نظر کے ساتھ دنیاوی علوم کا بھی وسیع مطالعہ رکھتے ہیں۔ انھیں کبوتروں سے بھی رغبت ہے اور خطوط میں بے تکلف احباب سے اس موضوع پر کھل کر تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔۱؎ وہ ظریف و شگفتہ مزاج ہیں اور خطوں میں ان کی حسِ مزاح نمایاں ہے۔۲؎ اقبال نے ایک جگہ لکھا ہے: ’’شاعر کے لٹریری اور پرائیویٹ خطوط سے اس کے کلام پر روشنی پڑتی ہے‘‘۔۳؎ اُن کا یہ قول، کسی اور سے زیادہ، خود اُن کے مکاتیب پر صادق آتا ہے۔ مزید برآں، خطوط سے اقبال کے بعض اُن علمی منصوبوں کا پتا چلتا ہے، جو مستقبل میں اُن کے پیشِ نظر تھے۔ خطوط کی مدد سے کم از کم دس بارہ ایسی کتابوں کی نشان دہی کی جاسکتی ہے، جو اقبال لکھنا چاہتے تھے۔۴؎ مکاتیبِ اقبال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ : بعض نو آموز شاعر بڑی کثرت سے اپنی شعری کاوشیں اصلاح کی خاطر اُن کی خدمت میں بھیجا کرتے تھے۔ اصلاحِ شعر کی بہت سی مثالیں ان کے خطوں میں ملتی ہیں۔ کبھی وہ الفاظ کی تحقیق میں کوشاں نظر آتے ہیں اور کبھی کسی حوالے کی تلاش میں سرگرداں۔ پھر ہم عصر شخصیتوں سے علمی، ادبی اور شعری مسائل پر تبادلۂ خیال ہوتا رہتا تھا… چنانچہ مکاتیبِ اقبال، ان کے شعورِ تحقیق و تنقید اور شعری و ادبی نقطۂ نظر کی وضاحت کرتے ہیں، بلکہ اس سے اُن کے تبحّر علمی اور وسعتِ مطالعہ کا بھی پتا چلتا ہے۔۵؎ بقول نذیر نیازی: اقبال ’’جب بھی خط لکھتے، قلم برداشتہ ہی لکھتے… وہ شاید ایک مرتبہ خط لکھ کر پڑھتے بھی نہیں تھے‘‘،۶؎ اس لیے بعض اوقات کوئی حرف یا لفظ چھوٹ جاتا تھا۔ خطوط میں اس طرح کی ۱- زیادہ تر مکاتیبِ اقبال بنام نیاز میں۔ ۲- مکاتیبِ اقبال بنام گرامیمیں اس کی بکثرت مثالیں ملتی ہیں۔ ۳- انوارِ اقبال: ص۱۱ ۴- نقوش، اقبال نمبر۲:ص۱۴۷ تا۱۶۵ ۵- خطوطِ اقبال: ص۶۰ ۶- نذیر نیازی: مکتوبات اقبال، ص’’ز‘‘۔ بیسیوں مثالیں مل جاتی ہیں۔ ذیل میں اقبال کے خطوں سے چند جملے نقل کیے جارہے ہیں۔ قوسین میں دیے گئے الفاظ ، اقبال کی اس تحریر میں موجود نہیں، یعنی جلدی میں چھوٹ گئے تھے: ’’اختیار کرنے [کو] ہوں‘‘۔ خطوطِ اقبال: ص۷۳ ’’ان لوگوں [کی] درخواستیں…‘‘ انوارِ اقبال: ص۱۸۹ ’’جذبات پیدا کرنا چاہتے [ہیں]‘‘ اقبال نامہ، دوم: ص۳۷۱ بعض اوقات جلدی میں الفاظ غلط بھی لکھے جاتے تھے، مثلاً: شیخ اعجاز احمد کے نام ۳ مارچ ۱۹۲۰ء کے خط۱؎ میں ’’مٹکاف ہائوس لاہور‘‘ درج ہے، حالانکہ متنِ خط سے ظاہر ہے کہ یہ خط لاہور سے نہیں، دہلی سے لکھا ہے۔ اقبال کے انگریزی خطوط کے عکس دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ازرہِ اختصار، بعض الفاظ کو مخفّف بناکر لکھتے ہیں، مثلاً: اصل لفظ اقبال کا املا حوالہ Assistant Secretary Asstt Sec. Letters of Iqbal ص۱۸۵ received red. ایضاً ص۱۸۵ August Aug. ایضاً ص۱۸۵ Text Book T.B. ایضاً ص۱۹۸ Should Shd. Oriental College Magazine اقبال نمبر ۱۹۷۷ئ، ص۲۹۶ College Coll. ایضاً ص۲۹۹ شروع شروع میں تو وہ اپنے نام کا پہلا جزو بھی مختصر کرکے Mohd.یا Md.لکھتے رہے، مگر بعد میں اسے ترک کرکے بالالتزام Mohammadلکھتے۔ اسی طرح اُردو میں محمد کے اُوپر ( ۔ؐ) کی علامت بھی بناتے۔ اُصولاً تو یہ علامت ( ۔ؐ) صرف رسولِ پاکؐ کے نام کے ساتھ بنانی چاہیے، مگر یہ التزام، آپؐ سے اقبال کی غایت درجہ شیفتگی اور احترام کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح خط کے آغاز یا انجام ۱- مذکورہ خط کے عکس کے لیے ملاحظہ کیجیے:Iqbal in Pictures۔ پر تاریخ لکھنے کا بھی اہتمام کرتے۔ ایسے خطوط بہت کم ہوں گے، جن پر تاریخ درج نہ کی گئی ہو۔ اُردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں آپ کا خط بہت پختہ تھا، تاہم تیزی کے ساتھ لکھنے کے سبب کہیں کہیں الفاظ پڑھنے میں دقت ہوتی ہے۔ خطوطِ اقبال کی زیادہ تر تعداد اُردو اور انگریزی میں ہے، تاہم چند خطوط فارسی اور جرمن زبانوں میں بھی ملتے ہیں۔ فارسی میں دو ۱؎ ،عربی زبان میں ایک ۲؎ اور جرمن زبان میں سترہ خط زمانے کی دستبرد سے محفوظ رہ گئے ہیں۔ سعید اختر درانی نے مس ویگے ناسٹ کے نام ۲۷خط شائع کیے ہیں ان میں سے پہلے سترہ جرمن زبان میں ہیں۔جرمن میں لکھے جانے والے جس مفصل خط کا ذکر، ڈاکٹر سعید اختر درانی نے کیا ہے، وہ انھی ۲۷ خطوں میں شامل ہے۔۳؎ اقبال کے ابتدائی دور کے خطوط محفوظ نہیں۔ قدیم ترین دستیاب خط مولانا احسن مارہروی کے نام ہے، جو گورنمنٹ کالج لاہور کے ہوسٹل سے ۲۸؍فروری ۱۸۹۹ء کو لکھا گیا۔۴؎ آخری خط ۱۹؍اپریل ۱۹۳۸ء کا ہے جو ممنون حسن خاں۵؎ کے نام لکھا گیا۔ آخری برسوں میں ضعفِ بصارت کے سبب بقلم خود جواب لکھنے سے قاصر ہوگئے، تو املا کراکے دستخط کردیتے، بعض خطوط بلادستخط ہی بھجوا دیتے۔ خطوطِ اقبال کے کاتبین میں منشی طاہرالدین، میاں محمد شفیع، ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی، سیّد نذیر نیازی، محترمہ ڈورس احمد اور جاوید اقبال۶؎ شامل ہیں۔ ممتاز حسن لکھتے ہیں: Iqbal was a most scrupulous correspondent and I know of nobody whoever wrote him a letter without getting a reply ۷ ؎ . ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی کا بیان ہے: ۱- انوارِ اقبال: ص۲۹۰-۲۹۱ ۲- خطوط اقبال: ص۲۸۵ ۳- اقبال یورپ میں، طبع دوم: ص۱۸۸ ۴- اقبال نامہ، اوّل: ص۳-۴ ۵- ایضاً، ص۳۳۵ ۶- ملفوظات: ص۱۲۰ ۷- دیباچہ: Letters۔ عام طور پر لوگ کاتبِ خط کی اخلاقی حالت اور خط کے مضمون کی اہمیت کے علاوہ، ذاتی حالات کو مدِّنظر رکھ کر جواب دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ بعض اوقات عدیم الفرصتی اور جسمانی عوارض بطور خاص جواب لکھنے میں مانع ہوتے ہیں، مگر حضرت علامہ نے، باوجود جسمانی عوارض، علمی مطالعے میں استغراق اور عدیم الفرصتی کے، کبھی جواب لکھنے سے گریز نہیں فرمایا۔۱؎ ایک اور جگہ لکھتے ہیں: میرے خیال میں آج تک کسی کو یہ شکایت نہیں ہوئی کہ اقبال کی طرف سے وہ جوابِ خط سے محروم رہا۔۲؎ ان بیانات سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہ ہوگا کہ اقبال نے اپنی زندگی میں ہزاروں خط لکھے ہوں گے، مگر ان میں سے محفوظ و دستیاب خطوں کی تعداد تقریباً پندرہ سو بنتی ہے۔ یقینا خطوطِ اقبال کی معتدبہٖ تعداد ضائع ہوگئی ہے۔۳؎ عین ممکن ہے، بہت سے خطوط، اب بھی کہیں نہ کہیں محفوظ و موجود ہوں اور وقت گزرنے کے ساتھ ان کے منظرِ عام پر آنے کی کوئی صورت پیدا ہوجائے۔ علامہ اقبال کی وفات کے بعد چند برسوں کے اندر ہی ان کے مکاتیب کے جمع و ترتیب اور ان کی اشاعت کا کام شروع ہوگیا تھا۔ آئندہ صفحات میں ہم مکاتیبِ اقبال کے مختلف مجموعوں کا ایک جائزہ پیش کریں گے۔ ئ……ئ……ء ۱- اقبال کی صحبت میں: ص۴۷۱ ۲- نویدِ صبح، اقبال نمبر، ۱۹۵۲ئ: ص۴۲ ۳- ملاحظہ کیجیے: (الف) نقوش، خطوط نمبر، اوّل:ص۴۵۹ (ب) اقبال نامہ، اوّل: ص’’ض‘‘ (ج) Iqbal از عطیہ بیگم: ص۵ (د) جنگ کراچی، ۷ مئی ۱۹۸۲ء (ب) مکاتیب کے مستقل مجموعے ژ شاد اقبال شاد اقبال کے تمام تر خطوط مہاراجا کشن پرشاد شاد کے نام لکھے گئے۔ اس کے مرتب، ڈاکٹر محی۔الدین قادری زور مجموعے کے مقدمے میں لکھتے ہیں: ’’اس مجموعے میں جو خطوط شائع کیے جارہے ہیں، وہ مہاراجا کی وفات سے دو تین سال قبل ہی بغرضِ اشاعت موصول ہوئے تھے‘‘۔۱؎ شاد کا انتقال ۱۹۳۹ء میں ہوا۔۲؎ یہ خطوط، اگر دو سال قبل بھی ڈاکٹر زور کے سپرد کیے گئے ہوں، تو بھی ان کی ترتیب و تدوین اور اشاعت کا ڈول ۱۹۳۷ء میں، یعنی اقبال کی وفات سے بہرحال کئی ماہ پہلے، ڈالا گیا ہوگا، تاہم مجموعے کی تیاری اور طباعت کے مراحل میں کئی سال گزر گئے اور مجموعہ ۱۹۴۲ء میں چھپ کر منظرِ عام پر آیا۔۳؎ یہ امر معنی خیز ہے کہ شاد اقبال، علامہ اقبال کے شعری مجموعوں کے عمومی اور مروج تقطیع پر شائع کی گئی۔ ڈاکٹر زور نے تیس صفحات کے مفصل دیباچے میں شاد اور اقبال کی ملاقاتوں اور تعلقات پر روشنی ڈالی ہے۔ پھر دونوں کی تصاویر اور دونوں کے ایک ایک مکتوب کا عکس دیا گیا ہے۔ مکتوبِ اقبال کا عکس نامکمل ہے۔ (دیکھیے اصل خط: شاد اقبال، ص۱۵۳-۱۵۴)۔ مجموعے کو سات حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ خطوط کی کل تعداد ایک سو ایک ہے۔ ان میں سے ۴۹ خطوط اقبال کے اور ۵۲ خطوط، شاد کے ہیں۔ تمام خطوط کو تاریخ وار ترتیب دیا گیا ہے۔ پہلا خط اقبال کا ہے، اس کے جواب میں دوسرا خط شاد کا، تیسرا اقبال کا اور چوتھا شاد کا، آخر تک یہی صورت ہے۔ اس سے کتاب کی ضخامت بڑھ گئی ہے، تاہم شاد کے جوابی خطوں سے متعدد تشریح طلب امور واضح ہوجاتے ہیں۔ ۱- شاد اقبال: ص۳۶ ۲- مہاراجا سر کشن پرشاد شاد، حیات اور ادبی خدمات:ص۴۱ ۳- شاد اقبال کم یاب ہے۔ راقم کے علم کی حد تک لاہور کے کسی پبلک کتب خانے میں اس کا نسخہ موجود نہیں۔ بنا بریں ہم اس مجموعے کا نسبتاً مفصل تعارف کرا رہے ہیں۔ کتابیاتی کوائف، ضمیمے میں شامل ہیں۔ مرتب نے مقدمے میں بتایا کہ خطوط کی ’’ترتیب اور نقل کے سلسلے میں… صاحبزادہ میر محمد علی خاں میکش، صاحبزادہ میر اشرف علی خاں صاحب بی اے تحصیل دار اور رشید قریشی صاحب ایم اے سے خاص طور پر مدد ملی‘‘۔۱؎ متونِ خطوط کو بغور دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اصل خطوط کو پڑھنے اور پھر انھیں احتیاط و صحت کے ساتھ نقل کرنے کے لیے جس غایت درجے کی دقتِ نظر درکار تھی، اس میں کچھ کمی رہی۔ راقم کو جناب مشفق خواجہ کی وساطت سے بعض خطوط کی عکسی نقول دستیاب ہوئیں، ان کی روشنی میں اندازہ ہوتا ہے کہ متن خوانی میں خاصی سہل انگاری سے کام لیا گیا، مثلاً: صفحہ سطر شاد اقبال (غلط) اصل خط (صحیح) ۶۶ ۶ وہاں ضرورت وہاں پر ضرورت ۶۶ ۹ اسکیم سکیم ۶۶ ۱۵ لیے حیدر آباد لیے مجھے حیدر آباد ۶۹ ۱۲ بہت روز سے بہت عرصے سے ۸۴ ۱۵ گئے، میں نے ایک گئے ہیں، ایک ۸۴ ۱۶ کیا تھا اور کیا اور ۸۵ ۴ سن کر پڑھ کر یہ صرف تین خطوں کی اغلاط ہیں۔ اگر پورے ۴۹ خطوط یا ان کی عکسی نقول دستیاب ہوجائیں، تو بعید نہیں کہ اغلاط کی تعداد بیسیوں تک پہنچے۔ مزید برآں شاد اقبال کے بعض خطوط کی تاریخیں صحیح نہیں اور بعض الفاظ کا املا واضح طور پر غلط ہے۔ ممکن ہے کہ ان میں سے کچھ غلطیاں، کاتب سے سرزد ہوئی ہوں۔ بہرحال ذیل میں بعض اغلاط کی نشان دہی کی جاتی ہے: صفحہ سطر غلط صحیح ۹۷ ۲ للّٰلہ للہ ۱۱۱ ۶ ایکزیکٹو ایگزیکٹو ۱۱۱ ۱۴ الحمدللّٰلہ الحمدللہ ۱- شاد اقبال: ص۳۶ صفحہ سطر غلط صحیح ۱۱۵ ۲ ۱۹۲۳ئ ۱۹۲۲ء ۱۵۵ ۳ واتمام والاتمام ۱۶۳ ۷ ولاکن ولٰکِنْ ۱۶۳ ۱۱ ۹ ڈسمبر ۲۹ دسمبر ۱۷۰ ۱۷ اِنکُم اَموَالکُم وَاَدلاَدَکُم اِنَّمَااَمْوَالُکُمْ وَ اَوْلَادُکُمْ ۱۷۱ ۶ الملک الیوم لمن الملک الیوم ۱۷۱ ۶ للّٰلہ للہ بعض خطوط پر تاریخیں غلط درج کی گئی ہیں، مثلاً: خط نمبر ۱ کی صحیح تاریخ یکم اکتوبر ہے، نہ کہ نومبر (دیکھیے، خط نمبر۲: ’’آپ کا خط مورخہ یکم اکتوبر مجھے ملا‘‘۔) اسی طرح خط نمبر ۵ کی صحیح تاریخ ۵؍دسمبر ہے، نہ کہ ۴؍دسمبر۔ (دیکھیے: خط نمبر۷، محررہ: ۶؍دسمبر۔ ’’کل جو عریضہ لکھا تھا‘‘۔) خط نمبر ۷۶ پر صرف ’’دسمبر‘‘ لکھا ہے، یہ ۱۹۲۲ء کا تحریر کردہ ہے۔ خط نمبر ۹۶ کی صحیح تاریخ ۲۹؍دسمبر ہے نہ کہ ۹؍دسمبر (دیکھیے خط نمبر ۹۵، محررہ: ۲۲؍دسمبر، جس کے جواب میں یہ خط نمبر ۹۶ لکھا گیا)۔ اقبال اپنے نام کے جزو (محمد) پر ازراہِ ادب و احترام ہمیشہ علامت ’’ ؐ‘‘ بناتے تھے، شاد اقبال میں یہ التزام نہیں برتا گیا۔ اسی طرح دسمبر کو ڈسمبر (صفحات ۶۹، ۱۱۱،۱۲۷،۱۷۳) اگست کو اگسٹ (صفحات ۵۹،۶۱،۶۳) اکتوبر کو اکٹوبر (ص۱۱۷) لکھا گیا ہے، جبکہ اقبال ہمیشہ دسمبر، اگست اور اکتوبر لکھا کرتے تھے۔ نقل نویس یا خوش نویس کی بے توجہی اس سے بھی واضح ہے کہ کتاب میں متذکرہ بالا تینوں الفاظ کے دو دو املا موجود ہیں، یعنی دسمبر اور ڈسمبر، اگست اور اگسٹ، اکتوبر اور اکٹوبر۔ اقبال کے مکاتیب، اپنے مطالب کے اعتبار سے بالعموم واضح ہوتے ہیں، مگر شاد کے نام اقبال کے ان خطوط میں کئی مقامات خاصے ’’پُر اسرار‘‘ معلوم ہوتے ہیں، مثلاً: …’’اِیاک نعبد تو کوچ کرگئے۔ اب تو عرش کے قریب ہوں گے، یا وہاں تک پہنچ گئے ہوں گے‘‘۔۱؎ …’’ٹیلی فون کا سلسلہ جاری ہے اور کئی اطراف میں خدا [نے] چاہا تو نقش حسبِ مراد بیٹھے گا‘‘۔۲؎ باہمی رازداری کی ایسی باتوں کا کوئی واضح مفہوم اخذ کرنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ ۱- شاد اقبال: ص۵۶ ۲- ایضاً : ص۱۳۹ بعض مقامات پر کچھ الفاظ یا عبارات حذف کردی گئی ہیں۔ (صفحات: ۱۹، ۳۲، ۱۱۲، ۱۲۳، ۱۲۵، ۱۲۶، ۱۳۶) مرتب نے یہ نہیں بتایا کہ محذوف الفاظ و عبارات مصلحتاً درج نہیں کیے گئے، یا انھیں پڑھا نہیں جاسکا۔ اگرچہ شاد کے جوابی خطوط سے کئی امور واضح ہوجاتے ہیں، اس کے باوجود متن پر حواشی کی ضرورت تھی۔ مجموعے کے مرتب ڈاکٹر زور کے لیے توضیحی حواشی درج کرنا جس قدر آسان تھا، آج ۴۰ برس بعد اُسی قدر مشکل ہوگیا ہے۔ شاد اقبال کے طبع دوم کی نوبت نہیں آسکی۔ ڈاکٹر محی الدین قادری زور کو اقبال (اور شاد) کے جو مکاتیب مہیا کیے گئے تھے، وہ خطوط کی اصل تعداد کا محض ایک حصہ تھے، مگر مزید تلاش کے باوجود انھیں کوئی نیا خط نہ مل سکا ،۱؎ لکھتے ہیں: ’’افسوس ہے کہ ۱۹؍ڈسمبر ۱۹۱۹ء اور ۱۱؍اکٹوبر ۱۹۲۲ء کے درمیانی زمانے یعنی ڈھائی سال سے زیادہ مدت کے خطوط فراہم نہ ہوسکے‘‘۔۲؎ خوش قسمتی سے متذکرہ مدت کے ۴ خطوط اور ۱۹۱۳ء اور ۱۹۱۶ء کے درمیانی عرصے کے ۴۶ خطوط چند سال قبل دستیاب ہوگئے۔ اقبال اکادمی پاکستان نے اصل خطوط خرید کر اپنے ہاں محفوظ کرلیے۳؎ اور محمد عبداللہ قریشی نے ان پچاس خطوط کو ایک مفصل مقدمے اور حواشی و تعلیقات کے ساتھ مرتب کرکے صحیفہ کے اقبال نمبر، اوّل، اکتوبر ۱۹۷۳ء میں شائع کرادیا۔ انھیں ملا کر شاد کے نام اقبال کے خطوط کی تعداد ۴۹+۵۰=۹۹ بنتی ہے۔ یہ پچاس خطوط، اگرچہ صحیفہ میں ایک مضمون کے طور پر شائع ہوئے ہیں اور انھیں ایک کتاب یا مجموعہ نہیں کہا جاسکتا، تاہم یہ شاد اقبال کی ایک قیمتی توسیع (extention) ہے اور شاد اقبال سے موضوعی مناسبت کے سبب، ان کا مطالعہ و تجزیہ اسی جگہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ان خطوط کی نقل نویسی میں بھی کامل درجہ احتیاط نہیں ہوسکی، مثلاً: ۸ مارچ ۱۹۱۶ء کے خط کے عکس (مطبوعہ جنگ کراچی، ۲۳ اپریل ۱۹۷۲ئ) اور متن (صحیفہ، اقبال نمبر، اکتوبر ۱۹۷۳ئ: ص۱۶۳-۱۶۴) کا موازنہ کریں، تو ایک ہی خط میں، متن کی دو غلطیاں ملتی ہیں: ۱- شاد اقبال: ص۳۷ ۲- ایضاً: ص۱۱۵ ۳- صحیفہ، اقبال نمبر، اکتوبر۱۹۷۳ئ:ص۹۹ سطر اصل عبارت منقول عبارت ۹ بھی ہے، وہ یہ بھی ہے اور وہ یہ ۱۱ سر سالار کے سرکار کے پھر اقبال کے نام کے جزو ’’محمدؐ‘‘ پر ڈاکٹر زور کی طرح، قریشی صاحب نے بھی ’’ ؐ‘‘ کی علامت نہیں بنائی۔ ان خطوط میں بھی کئی مبہم اور پر اسرار مقامات موجود ہیں، مثلاً: …’’سائیں رب کو آپ کا پیغام پہنچا دیا تھا، لاتقنطوا فرماتے تھے۔ (ص۱۳۱) … ’’اللہ اکبر اس وقت تشریف رکھتے ہیں اور مجھ سے میرے ایک شعر کا مفہوم دریافت کررہے ہیں‘‘۔ (ص۱۷۱) …’’اگرچہ ٹیلی فون خراب ہے اور اُدھر شانِ بے نیازی ہے، تاہم جواب کی توقع ہے‘‘۔ (ص۱۸۶) محمد عبداللہ قریشی نے مکاتیبِ اقبال کے متعدد دھندلے نقوش کو تعلیقات سے روشن کیا ہے، مگر متذکرہ بالا قسم کے مبہم مقامات کی تشریح و تعبیر وہ بھی نہیں کرسکے۔ شاد کے نام اقبال کے ان ۹۹ خطوط کا زمانہ، تیرہ برسوں پر محیط ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بے تکلفانہ مراسم کے باوجود اقبال نے شاد کو ہمیشہ ایک ہی لقب (سرکار والا یا سرکار والاتبار) سے خطاب کیا۔ علامہ اقبال نے گرامی کے نام ۹۰ خطوط، سیّد سلیمان ندوی کے نام ۷۱ ۱؎ اور اکبر الٰہ آبادی کے نام ۱۶خطوط لکھے مگر القاب و آداب کی ایسی یکسانیت اور کہیں نہیں ملتی۔ یہ، مکاتیب بنام شاد کا امتیازِ خاص ہے۔ ژ اقبال بنام شاد محمد عبداللہ قریشی نے مذکورہ ۹۹خطوں کو اقبال بنام شاد کے نام سے کتابی صورت میں مدوّن کردیا ہے۔ (بزم اقبال لاہور، جون۱۹۸۶ئ) اس پر تفصیلی تبصرہ دیکھیے: ۱۹۸۶ء کا اقبالیاتی ادب: ص۲۸-۳۱۔ ژ اقبال نامہ، اوّل شیخ عطاء اللہ نے مکاتیبِ اقبال کی فراہمی تو علامہ اقبال کے انتقال کے تقریباً ایک برس بعد ۱- ستر خطوط تو اقبال نامہ اوّل میں شامل ہیں۔ مزید ایک خط (محررہ: ۱۹؍مئی ۱۹۳۷ئ) فاران اپریل ۱۹۵۳ء میں شائع ہوا۔ یہ خط تاحال کسی مستقل مجموعۂ مکاتیب میں شامل نہیں ہے۔ ہی سے شروع کردی تھی، تاہم ترتیب و تدوین سے متعلق عملی کام کا آغاز فروری ۱۹۴۳ء میں ہوا۔ ڈیڑھ برس ۱؎ کی محنت کے بعد، مجموعۂ مکاتیب تیار ہوگیا۔ اس پر سنہ اشاعت درج نہیں۔ اس کی تائید پشاور یونی ورسٹی لائبریری میں اقبال نامہ، اوّل کا ایک نسخہ ہے، جو میر ولی اللہ ایبٹ آبادی کو، ان کے دوست شیخ احمد نے پیش کیا تھا۔ اس پر شیخ احمد کے دستخطوں کے ساتھ ۴؍دسمبر ۱۹۴۴ء کی تاریخ درج ہے۔۲؎ اس اعتبار سے یقینی ہے کہ یہ مجموعہ ۱۹۴۴ء کے آخر میں شائع ہوا۔ بشیر احمد ڈار نے سنہ اشاعت ۱۹۴۴ء ہی لکھا ہے۔۳؎ شیخعطاء اللہ نے برسوں بعد محض یادداشت کی بنا پر لکھ دیا کہ اقبال نامہ، اوّل ۱۹۴۵ء میں چھپا تھا،۴؎ ظاہر ہے کہ یہ درست نہیں۔ علامہ اقبال سے مرتب کی عقیدت مندی اس مجموعے کی تدوین کا بنیادی محرک بنی۔ شیخ عطائ۔اللہ لکھتے ہیں: ’’اگرچہ اقبال کے مکاتیب کی فراہمی و اشاعت سے مقصود ایک حد تک ان جواہر پاروں کو دستبردِ زمانہ سے محفوظ کرلینا ہے، لیکن اقبال نامہ کی اشاعت سے میرا سب سے اہم مقصد اقبال کے آیندہ سیرت نگار کے لیے بعض مسائل اور خود اقبال کی زندگی پر اقبال کی تحریری شہادتیں مہیا کرنا ہے‘‘۔ چنانچہ عقیدت مندی کے ساتھ کی جانے والی اس کاوش کے نتیجے میں مکاتیبِ اقبال کا ایک ایسا مجموعہ فراہم ہوگیا، جو تعدادِ مکاتیب کے اعتبار سے آج بھی اقبال کا سب سے بڑا مجموعۂ خطوط ہے۔ مرتب کے شمار نمبر کے مطابق کل تعداد ۲۶۷ ہے، مگر اصل تعداد ۲۴۶ ہے۔۶؎ ان میں متعدد مکاتیب، انگریزی خطوں کے اُردو تراجم ہیں۔ دس اُردو خطوں کے عکس بھی شامل ہیں۔ ۱- دیباچہ، اقبال نامہ، اوّل: صفحات ج،ح اور د۔ ۲- یہ اطلاع پروفیسر صابر کلوروی کی مہیا کردہ ہے۔ مذکورہ نسخے کے سرورق کا عکس صفحہ۴۳۱ دیکھیے۔ ۳- دیباچہ: Letters of Iqbal۔ ۴- اقبال نامہ، دوم: ص۸ ۵- دیباچہ: اقبال نامہ، اوّل: ص’’ح‘‘ ۶- اصل تعداد، کل تعداد سے مندرجہ ذیل نوعیت کے خطوط منہا کرکے نکالی گئی ہے: (الف) ایسے انگریزی خطوط کے اُردو تراجم، جن کا اصل متن کسی انگریزی مجموعۂ مکاتیب میں شامل ہے (چونکہ اُردو ترجمہ اصل انگریزی متن کے مقابلے میں بہرحال ثانوی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے یہاں ایسے اُردو تراجم کو گنتی سے خارج کردیا گیا ہے۔ البتہ وہ اُردو تراجم شمار میں شامل ہیں، جن کے انگریزی متون کسی مجموعے میں نہیں ملتے)۔ (ب) ایسے اُردو خطوط جو یہاں نامکمل صورت میں ہیں، مگر کسی اور مجموعۂ خطوط میں ان کا صحیح اور مکمل متن شامل ہے۔ (ج) شمار نمبر ۲۰۵ (ص۳۴۰) کو بھی گنتی میں شامل نہیں کیا گیا، کیوں کہ یہ ایک نظم ہے۔ شیخ عطاء اللہ نے یہ وضاحت نہیں کی کہ مشمولہ تمام اصل خطوط، اُنھوں نے بذاتِ خود ملاحظہ کیے اور پھر ان کی نقول تیار کیں یا کرائیں؟ یا مختلف اصحاب نے خطوط کی جو نقول مہیا کیں، انھیں بلا تصدیق ہی جوں کا توں قبول کرکے مجموعے میں شامل کرلیا گیا؟ مرتب کو جس قدر اصل خطوط فراہم ہوسکے، معلوم نہیں، انھیں محفوظ کرلیا گیا یا نہیں؟ یہ سوالات اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ متونِ مکاتیب میں مختلف النوع اغلاط کی خاصی تعداد نظرآتی ہے۔ غالباً مرتب کو اندازہ نہ تھا کہ تدوینِ مکاتیب میں صحتِ متن کی کیا اہمیت ہے، اس لیے نقل نویسی میں معمولی کمی بیشی کو جائز سمجھا گیا، مثلا: (الف) اقبال اپنے نام کے جزو ’’محمد‘‘ پر ہمیشہ علامت ’’۔ ؐ‘‘ بناتے تھے، اقبال نامہ میں یہ اہتمام نہیں کیا گیا۔ (ب) دستخط سے پہلے، خط کے خاتمے پر موجود لفظ ’’والسلام‘‘ نقل نویس نے عام طور پر حذف کردیا ہے۔ (ج) اقبال نے جہاں، مثلاً: ۳۲ء یا ۲۱ء لکھا ہے، نقل نویس نے ۱۹۳۲ء یا ۱۹۲۱ء بنا دیا ہے اور یہ تبدیلی بکثرت کی گئی ہے۔ دوسروں کی مہیا کردہ نقول سے قطع نظر بھی کرلیں، تو ایسے خطوط میں اغلاطِ متن کی کوئی توجیہ نہیں ہوسکتی، جن کے عکس اقبال نامہ میں شامل ہیں، مثلاً: ڈاکٹر عباس علی خاں لمعہ کے نام خط نمبر ۷ (ص ۲۷۱) کے عکس اور اس سے نقل کردہ متن پر تقابلی نظر ڈالیں، تو نقل نویسی میں بے احتیاطی کا اندازہ ہوسکے گا: سطر اصل خط کا متن اقبال نامہ کا متن ۱ ۳۲ئ ۱۹۳۲ء ۴ تحفے تحفہ ۵ اُمید کہ اُمید ہے کہ ۶ والسلام × ۷ محمدؐ اقبال مخلص محمد اقبال ہمیں اقبال نامہ میں مشمولہ متعدد مکاتیب کے جو عکس دستیاب ہوئے ہیں، اُن کی روشنی میں اقبال نامہ میںمتن کی بیسیوں اغلاط موجود ہیں۔ صفحہ ۴۱۴: سطر ۶، ۷ کی اس عبارت: ’’میری آنکھ اُسی وقت کھل گئی اور اس عرض داشت کے چند شعر جو اَب طویل ہوگئی ہے، میری زبان پر جاری ہوگئی‘‘۔۱؎ سے صاف ظاہر ہے کہ نقل نویس کی غلطی سے ’’چند شعر‘‘ کے بعد، کچھ عبارت چھوٹ گئی ہے۔ ڈاکٹر محمددین تاثیر نے زیر بحث مجموعے کے بعض جملوں [جن میں: ’’استفادہ حاصل کرنا‘‘ منقول ہے] کی بنیاد پر لمعہ کے بیشتر خطوط کو ’’وضعی‘‘ ۲؎ قرار دیا ہے۔ ہماری راے میں ’’استفادہ حاصل کرنا‘‘ کاتب کی غلط نگاری کا کرشمہ ہو سکتا ہے، اس لیے محض اس بنیاد پر لمعہ کے نام خطوط کو جعلی یا وضعی قرار دے کر رد نہیں کیا جاسکتا۔۳؎ بایں ہمہ ہم ڈاکٹر تاثیر کی اس راے سے پوری طرح متفق ہیں کہ: ’’مؤلف شیخ عطائ۔اللہ نے تفحص سے کام نہیں لیا‘‘۔۴؎ اس ضمن میں عبدالواحد معینی کا بیان ہے کہ شیخ عطاء اللہ یہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ ان میں سے اکثر خطوط کو آئندہ اشاعت میں حذف کردیا جائے گا‘‘،۵؎ مگر معینی صاحب نے اس ’’فیصلے‘‘ کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔ غالباً مختار مسعود صاحب نے اسی بلاسند ’’فیصلہ‘‘ کے سبب اقبال نامہ [یکجا] سے ایک کے سوا لمعہ کے نام سب خطوط حذف کردیے۔ ۱- اشارہ ہے اس عرض داشت کی طرف جو ’’در حضور رسالت مآبؐ‘‘ کے عنوان سے مثنوی پس چہ باید کرد… (ص۴۸) میں شامل ہے۔ اس واقعے کا ذکر راس مسعود کے نام ۲۹؍جون ۱۹۳۶ء کے خط میں بھی ملتا ہے۔ (خطوطِ اقبال: ص۲۶۳)۔ ۲- اقبال کا فکر و فن: ص۱۱۷ ۳- عبدالواحد معینی کا یہ بیان مبالغہ آمیز ہے کہ: ’’ڈاکٹر تاثیر قطعی طور پر ثابت کرچکے ہیں کہ اکثر وہ خطوط، جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اقبال نے ڈاکٹر لوما [لمعہ] کو لکھے تھے، جعلی ہیں‘‘۔ (نقشِ اقبال: ص۱۸۴) ڈاکٹر تاثیر کے اس اعتراض کی بنیاد محض یہ ٹکڑا ہے: ’’استفادہ حاصل کرنا‘‘ اور جیسا کہ ہم نے اُوپر عرض کیا، پورا احتمال موجود ہے کہ یہ غلطی ناقل یا کاتب کی ہو۔ بعض ثقہ اہل قلم نے بھی اس ’’غلطی‘‘ کا ارتکاب کیا ہے، مثلاً: ’’یورپ کے بعض نام وَر شعرا مشرقی شاعروں کے کلام سے اب تک استفادہ حاصل کرتے ہیں۔‘‘ (الطاف حسین حالی: یادگار غالب، شیخ مبارک علی لاہور، ۱۹۰۳ئ، ص۲۸۳)--اقبال نے ’’انگلستان کے دیگر فضلا، حکما، علما اور مدبرین سے استفادہ حاصل کیا۔‘‘ (محمد دین فوق: انوارِ اقبال: ص۸۲) -- ’’باطنی طور پر جو کچھ استفادہ ان کو حاصل ہوا۔‘‘ (ابو محمد مصلح: قرآن اور اقبال، ص۱۴۶) -- ’’استفادہ حاصل کرنے کا موقع ملا۔‘‘ (میکش اکبر آبادی: نقد اقبال، مکتبہ جامعہ دہلی، ۱۹۵۳ئ، ص’’د‘‘)۔ شمس الرحمن فاروقی بھی ’’استفادہ حاصل کرنا‘‘ کو غلط نہیں سمجھتے۔ (لغاتِ روزمرہ، انجمن ترقی اُردو ہند، دہلی، ۲۰۰۳ئ، ص۳۶-۳۸) لہٰذا تاثیر کے اس شبہے کو ’’قطعی ثبوت‘‘ نہیں قرار دیا جاسکتا۔ ۴- اقبال کا فکر و فن: ص۱۱۷ ۵- نقشِ اقبال: ص۱۸۴ بے احتیاطی کا صدور خطوں کی تاریخیں اور ماہ و سال نقل کرنے میں بھی ہوا ہے۔ اختر راہی۱؎ نے ایک، اور ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار ۲؎ نے تیرہ خطوط کی تواریخِ تحریر کی تصحیح کی ہے۔ اس کے باوجود اب بھی متعدد مکاتیب کی تاریخیں غلط ہیں، مثلاً: Oمکتوب نمبر ۲۶ بنام سلیمان ندوی کی تاریخ ۵؍جولائی ۱۹۲۲ء درست نہیں۔ اسی خط کے پہلے جملے: [’’پیامِ مشرق پر جو نوٹ آپ نے معارف میں لکھا ہے‘‘۔ اقبال نامہ، اوّل: ص۱۱۹] سے ظاہر ہے کہ یہ خط پیامِ مشرق کی اشاعت (مئی ۱۹۲۳ئ، دیکھیے: ص۱۵۰) اور معارف (جون ۱۹۲۳ئ) میں اس پر نوٹ چھپنے کے بعد لکھا گیا، اس لیے خط کی صحیح تاریخ صریحاً ۵؍جولائی ۱۹۲۳ء ہے۔ O مکتوب نمبر ۵۱ اور ۵۲ بنام سلیمان ندوی کی تاریخیں ۱۵؍اکتوبر ۱۹۳۳ء اور ۱۹؍اکتوبر ۱۹۳۳ء درست نہیں، کیونکہ معاً بعد چار خطوط نمبر ۵۳ تا ۵۶ علی الترتیب ۱۱،۱۳ اور ۱۴؍اکتوبر کو لکھے گئے۔ پھر ان کے متن سے بھی واضح ہے کہ صحیح تاریخیں ۵ اور ۹؍اکتوبر ۱۹۳۳ء ہیں۔ O مکتوب نمبر ۵۷ بنام سلیمان ندوی کی تاریخ ۸؍اکتوبر ۱۹۳۳ء درست نہیں، کیونکہ مکتوب نمبر ۵۶، ۱۴؍اکتوبر کو لکھا گیا۔ مزید برآں اس خط کے ابتدائی حصے: [’’آپ کا تار کل ملا، جس سے معلوم ہوا کہ ۱۷؍اکتوبر تک آپ کو پاسپورٹ نہیں مل سکا‘‘۔ اقبال نامہ، اوّل: ص۱۷۶] سے ظاہر ہے کہ صحیح تاریخ ۱۸؍اکتوبر ۱۹۳۳ء ہے۔ غالباً یہ اغلاط، سہوِ کتابت کا نتیجہ ہیں، لیکن سہو، کاتب کا ہو یا ناقل کا، مرتب کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مرتب نے بیشتر انگریزی خطوط کے اُردو ترجموں کے ساتھ لفظ ’’انگریزی‘‘ لکھ دیا ہے، پھر بھی کئی جگہ یہ وضاحت نہیں ہوسکی، مثلاً: مکتوب بنام میجر محمد سعید خاں (ص ۲۴۶) یا مکتوب بنام سر راس مسعود (ص۳۵۱)۔ بعض انگریزی خطوط کے اُردو تراجم ناقص ہیں، مثلاً اس انگریزی جملے: I hope you won't mind replying to this letter by the return of post. ۳؎ کا اُردو ترجمہ: ’’جواب واپسی ڈاک سے دیجیے۴؎‘‘ درست نہیں ہے۔ اسی خط میں انگریزی الفاظ: yours everکا اُردو ترجمہ سرے سے دیا ہی نہیں گیا۔ سر راس مسعود کے نام انگریزی ۱- اقبال، سیّد سلیمان ندوی کی نظر میں: ص۱۳۱ ۲- مجلۂ تحقیق، جلد اوّل، شمارہ خاص: ۱،۲،ص۴۰ تا۴۵ ۳- Letters of Iqbal: ص۹۶ ۴- اقبال نامہ، اوّل: ص۳۵۱ خطوں کے آخر میں اقبال yours ever لکھتے تھے،۱؎ مگر اقبال نامہ کے اُردو ترجموں میں اس کے متبادل الفاظ کہیں نہیں لکھے گئے۔ مرتب نے خطوط نمبر ۲۵۴ تا ۲۵۶ کا مکتوب الیہ عشرت رحمانی کو قرار دیا ہے (ص ۴۲۵ تا۴۲۸)۔ کئی برس بعد اکبر علی خاں عرشی زادہ نے یہ خطوط اقبال ریویو ،لاہور جولائی ۱۹۶۲ء میں شائع کرائے اور نیرنگستان دہلی کے خاص نمبر ۱۹۳۵ء (ص۳۷-۳۸) کے حوالے سے بتایا کہ یہ خطوط وحید احمد، مدیر نقیب کو لکھے گئے۔ بعد میں وحید احمد نے محمد عبداللہ قریشی کے نام ایک خط۲؎ میں اس امر کی تصدیق کردی۔ خط نمبر ۲۳ (ص۵۸-۵۹) کے مکتوب الیہ ظہور الدین مہجور نہیں، محمد دین فوق ہیں۔ اصل خط اقبال میوزیم لاہور میں محفوظ ہے۔ بعض مقامات پر متن کی اصل عبارت حذف کرکے اس جگہ نقطے لگا دیے گئے، مثلاً: صفحات ۳۱۰، ۳۶۰۔ متن کی عبارات کو حذف کرنا اُصولاً غلط ہے، تاہم اگر کسی مجبوری یا مصلحت کی بنا پر یہ ناگزیر تھا، تو حاشیے میں اس کی وضاحت ضروری تھی، ایک مقام پر تو نقطے لگانے کا تکلف بھی نہیں کیاگیا۔ ۱۰؍جون ۱۹۳۷ء کے مکتوب بنام راس مسعود (ص۳۸۷) سے کچھ عبارت حذف کردی گئی اور نقطے بھی نہیں لگائے گئے۔ اقبال نامہ، اوّل خط کا صحیح متن شیخ اعجاز احمد میرا بھتیجا ہے، نہایت صالح آدمی ہے، لیکن وہ خود بہت عیال دار ہے… شیخ اعجاز احمد میرا بڑا بھتیجا ہے۔ نہایت صالح آدمی ہے، مگر افسوس کہ دینی عقائد کی رُو سے قادیانی ہے۔ تم کو معلوم ہے کہ قادیانیوں کے عقیدے کے مطابق تمام مسلمان کافر ہیں۔ اس واسطے یہ امر مشتبہ ہے کہ آیا ایسا عقیدہ رکھنے والا آدمی مسلمان بچوں کا guardian ہوسکتا ہے یا نہیں؟ اس کے علاوہ وہ خود بہت عیال دار ہے… ۳؎ سر راس مسعود کے نام ۳۱؍مئی ۱۹۳۵ء کے مکتوب (ص۳۶۱) سے جو عبارت حذف کی گئی ہے، ۱- Letter of Iqbal: ص۹۶ تا۱۰۱ ۲- اوراقِ گم گشتہ: ص۱۷۳ ۳- اقبال نامیطبع سوم، ۲۰۰۶ئ: ص۲۱۸ اس کے موضوع کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں، اس سے پہلے خط (نمبر۷) میں یہ جملہ ملتا ہے: ’’مجھے اُمید ہے آپ اعلیٰ حضرت کی خدمت میں اس مسئلے کو پیش کردیں گے‘‘۔ (ص۳۶۰) محذوف عبارت والا خط اس کے ایک ہفتہ بعد لکھا گیا۔ اس خط میں اقبال نے نواب بھوپال کی طرف سے متوقع وظیفے کا ذکر کیا ہوگا۔ [اس خط کا پورا متن اقبال نامے، طبع ۲۰۰۶ء میں چھپ گیا ہے۔ ص۶۰)] راس مسعود کے نام اس سے ماقبل اور مابعد خطوط ۱؎ کو ایک نظر دیکھیں تو سیاق وسباق سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ محذوف عبارت کا تعلق نواب بھوپال کے وظیفے سے ہوگا۔ ۲۶؍اپریل کے خط میں اس امر کا اظہار کیا ہے، کہ اگر اس معاملے (اجراے وظیفہ) میں کامیابی ہوجائے تو قرآن کریم پر عہدِ حاضر کے افکار کی روشنی میں اپنے نوٹس تیار کروں گا۔۲؎ ۲۳؍مئی کے خط میں بھی یہی ’’خدمت انجام دینے‘‘ کا ذکر ہے۔۳؎ ۱۳؍ مئی کے خط میں محذوف عبارت کے معاً بعد قرآن حکیم سے متعلق اپنے افکار قلم بند کرنے کی خدمت کا ذکر ہے۔۴؎ غالباً اس جگہ اقبال نے واضح طور پر وظیفے کی بات کی ہوگی۵؎ اور مرتب نے مصلحتاً یہ عبارت حذف کردی۔ محذوف عبارت والا خط سپرد ڈاک کرچکے تھے کہ اُسی روز اجراے وظیفہ کی اطلاع ملی جس پر اقبال نے اسی وقت راس مسعود کو ایک اور خط لکھا اور اپنے گہرے ۱- اقبال، اپنے خطوط میں سر راس مسعود کو اشارے کنائے میں بار بار اجراے وظیفہ کی طرف متوجہ کرتے ہیں (ملاحظہ کیجیے: اقبال نامہ، اوّل: ص۳۵۳، سطور: ۱،۲،۱۴،۱۵+ص ۳۵۴، سطور: ۱-۲+ ص۳۵۷، سطور ۷ تا۱۵+ ص۳۵۸، سطور ۱ تا۶+ ص۳۵۹، سطور: ۴-۵+ص۳۶۰ سطور: ۷تا۱۰۔ جواباً راس مسعود انھیں یقین دلاتے ہیں کہ ہم دونوں (مسعود اور نواب بھوپال) سے بڑھ کر اور کوئی تمھارا خیر خواہ نہیں، اجراے وظیفہ کے لیے ہم برابر کوشاں ہیں۔‘‘ (ملاحظہ کیجیے: ’’خطوط راس مسعود بنام اقبال‘‘، مرتبہ: جلیل قدوائی- مطبوعہ: قومی زبان کراچی، اپریل ۱۹۷۵ئ: ص۵تا۱۱) ۲- اقبال نامہ اوّل: ص۳۵۷ ۳- لکھتے ہیں: ’’سفرِ آخرت سے پہلے کچھ نہ کچھ خدمت انجام دینے کا تمنائی ہے۔ مجھے اُمید ہے آپ اعلیٰ حضرت کی خدمتِ اقدس میں اس مسئلے کو پیش کریں گے۔‘‘ (اقبال نامہ، اوّل: ص۳۶۰)۔ ۴- ایضاً، ص۳۶۱-۳۶۲ ۵- اس کی تصدیق، زیر بحث خط کا مکمل متن سامنے آجانے سے ہوگئی ہے۔ اس خط کا مکمل متن، ۲۰۰۶ء میں بھوپال سے شائع ہونے والے مجموعے اقبال نامے میں شامل ہے۔ خط کی صحیح تاریخ ۳۰؍مئی نہیں، ۱۳؍مئی ہے۔ اقبال نامہ، اوّل سے حسب ذیل عبارت حذف کی گئی تھی: [بقیہآئندہ صفحے پر] جذباتِ ممنونیت کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی کہ یہ عریضہ اعلیٰ حضرت کو سنادیجیے۔ اقبال کے الفاظ۱؎ سے صاف ظاہر ہے کہ اجراے وظیفہ پر شکریہ ادا کررہے ہیں۔ اس کی تصدیق اقبال کی انکم ٹیکس فائل (سالِ تخمینہ: ۳۶-۱۹۳۵ئ) میں درج شدہ اس عبارت سے ہوتی ہے: The assessee is getting Rs. 500/- p.m. from Bhopal State from June 1935. ۲؎ ہمارے خیال میں محذوف عبارت والا یہی وہ خط ہے جس کی بنا پر اقبال نامہ اوّل، طباعت کے بعد، ایک عرصے تک منظرِ عام پر نہ آسکا۔ پہلے یہ مکمل خط شاملِ کتاب کیا گیا تھا، بعد میں کتاب کے ان اوراق کو نکال کر، اس خط کے آغاز کی عبارت حذف کرنی پڑی۔ یہ امر، اقبال نامہ کی طباعت و اشاعت کی تاریخ کا ایک حصہ ہے۔ مجموعے کے ناشر شیخ محمد اشرف صاحب نے ۵؍جولائی ۱۹۷۹ء کو ایک ملاقات میں راقم کو بتایا کہ: اقبال نامہ کی اشاعت رکوانے کا قصہ یہ ہے کہ اس میں ایک خط تھا راس مسعود کے نام، جس میں اقبال نے لکھا تھا کہ جب تک جاوید کی تعلیم مکمل نہیں ہوتی، اس کے لیے پنشن جاری رہے۔ یہ ایک طرح کی درخواست تھی۔ چودھری محمد حسین اس زمانے میں پریس برانچ کے سپرنٹنڈنٹ تھے اور پیپر کنٹرولر بھی۔ اس وقت کاغذ پر کنٹرول تھا، جس کا مطلب تھا کہ ناشرین کی روح وہ قبض کرسکتے ہیں۔ چودھری صاحب نے کہا یہ خط damaging ہے، اسے شامل نہ کیا جائے، مگر کتاب چھپ چکی تھی، جلدیں بن گئی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسے بیچ میں سے نکال دو، مگر میں نے یہ پسند نہ کیا اور کتاب روک کر رکھ ’’میں نے آپ کو کل خط لکھا تھا اور کل کے خط کے تسلسل میں یہ خط لکھ رہا ہوں، کیونکہ میں ایک بہت اہم بات لکھنا بھول گیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ جانتے ہیں کہ میں نے خود کو سادہ زندگی گزارنا سکھا لیا ہے۔ میری ضروریات بہت زیادہ نہیں ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ ایک تھوڑی سی پنشن میرے لیے کافی ہوگی۔ مہربانی کرکے یہ نہ سوچیں کہ مجھے جینے کے لیے ہزاروں کی ضرورت ہے۔‘‘ (اقبال نامے ، ۲۰۰۶ئ: ص۱۶۰)۔ راس مسعود کے نام نو دریافت شدہ خط (۱۲؍مئی ۱۹۳۵ئ) میں بھی اقبال نے یہی بات لکھی ہے: ’’میری خواہش ہے کہ اعلیٰ حضرت خود مجھے اپنی ریاست سے پنشن منظور کردیں‘‘۔ (اقبال نامے: ص۱۵۴)۔ ۱- الفاظ یہ تھے: ’’میں کس زبان سے اعلیٰ حضرت کا شکریہ ادا کروں۔ اُنھوں نے ایسے وقت میں میری دست گیری فرمائی، جب کہ چاروں طرف سے میں آلام و مصائب میں محصور تھا۔ خدا تعالیٰ ان کی عمر و دولت میں برکت دے۔‘‘ (اقبال نامے، ۲۰۰۶ئ: ص۱۷۷) ۲- صحیفہ، اقبال نمبر، اوّل، اکتوبر ۱۹۷۳ئ: ص۴۳ دی، فروخت بند کردی۔ کافی عرصہ انتظار کیا۔ [پھر] میں نے وہ خط کتاب میں سے نکال دیا۔۱؎ اقبال نامہ میں خطوط کی مجموعی ترتیب بہت اچھی ہے۔ ایک مقام پر خطوط کی زمانی ترتیب برقرار نہیں رہی۔ سیّد سلیمان ندوی کے نام مکتوب نمبر۶۴؍۳۲ مورخہ ۱۴؍مئی۱۹۲۲ء (ص۱۲۹-۱۳۱)، زمانی ترتیب کے اعتبار سے اقبال نامہ کے صفحہ نمبر ۱۱۸ پر مکتوب نمبر ۵۷؍۲۵ مورخہ ۲۹؍مئی ۱۹۲۲ء سے پہلے درج ہونا چاہیے تھا۔ ژ اقبال نامہ، دوم حصہ اوّل کے دیباچے میں شیخ عطاء اللہ نے لکھا تھا: ’’ابھی کافی اور اہم مواد خطوط کی صورت میں، میرے پاس موجود ہے۔ تلاش و جستجو جاری ہے۔ مجھے توقع ہے کہ… میں جلد از جلد حصہ دوم کی اشاعت کے فرض سے سبک دوش ہوسکوں ‘‘[گا]۔۲؎چنانچہ ۸۴+۳۹۸ صفحات پر مشتمل حصہ دوم ۱۹۵۱ء میں شائع کیا گیا۔ حصہ اوّل کے ۲۴۶ خطوط کے مقابلے میں، حصہ دوم کے اصل خطوط کی تعداد ۳۱۱۲؎ ہے۔ حصہ دوم اپنی ترتیب، اندازِ کتابت اور سائز وغیرہ کے اعتبار سے، حصہ اوّل کے مطابق ہے، البتہ اس کا کاغذ نسبتاً مٹیالا اور کمزور ہے۔ حصہ اوّل کی طرح اس کے سرورق کی پُشت پر بھی ناشر کی طرف سے یہ اعلان درج ہے: جملہ حقوق مع حقوقِ ترجمہ محفوظ ہیں کوئی صاحب جزواً یا کُلاً قصدِ طبع نہ کریں محمد اشرف آغاز میں مرتب کا ایک طویل دیباچہ (ص۷ تا ۸۳) شامل ہے۔ ابتدائی ۸۴ صفحات دین محمدی پریس لاہور میں طبع ہوئے۔ اس کے بعد صفحات کا شمار از سرِ نو ہوتا ہے۔ کتاب کا یہ باقی حصہ صفحہ نمبر ۲ کی پرنٹ لائن کے مطابق کوآپریٹو پرنٹنگ پریس، وطن بلڈنگ لاہور میں چھپا۔ معلوم ہوتا ہے ، حصہ دوم کے لیے مرتب کے پاس کچھ زیادہ خطوط جمع نہیں ہوسکے، اس لیے اس میں کچھ مطبوعہ خطوط اور بہت سے انگریزی خطوط کے ترجمے بھی شامل کرلیے گئے۔ مطبوعہ خطوط ۱- اس بیان کی روشنی میں ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کا یہ بیان درست نہیں کہ چودھری محمد حسین نے اقبال نامہ کی ساری جلدیں تلف کرادیں۔ (سیارہ، اقبال نمبر:ص۲۳۷) ۲- اقبال نامہ اوّل: ص’’ظ‘‘۔ ۳- خطوط کا شمار نمبر ۱۸۷ تک کیا گیا ہے۔ اصل تعداد (۱۱۲) اُسی فارمولے کے تحت متعین کی گئی ہے، جس کا ذکر صفحہ نمبر ۲۲۶ کے حاشیہ نمبر ۱ میں ہوچکا ہے۔ میں سے مہاراجا شاد کے نام ۱؎ خطوط شاد اقبال سے ؛ شاطر مدراسی، سیّد تقی اور نذیر نیازی کے نام مکاتیب امروز اقبال نمبر، ۲۲؍اپریل ۱۹۴۹ء سے؛ علی بخش کے نام خط نوائے وقت سے اور نیاز الدین خاں کے نام خطوط آفاق سے لیے گئے ہیں۔ محمد علی جناح اور عطیہ فیضی کے نام انگریزی خطوط اُن کے مستقل مجموعوں سے۔ بایں ہمہ اقبال نامہ حصہ دوم میں غیر مطبوعہ اور نئے خطوط کا خاصا ذخیرہ فراہم کردیا گیا ہے۔ بحیثیتِ مجموعی، حصہ دوم میں بھی وہی خامیاں موجود ہیں، جن کی نشان دہی حصہ اوّل پر بحث کے ضمن میں کی جاچکی ہے۔ ناقل اور خوش نویس کی بے احتیاطی سے متعدد خطوط کی تاریخیں غلط درج ہوگئیں۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار۲؎ نے تصحیح کی ہے کہ خط نمبر ۸۸ (ص۲۳۳) کی صحیح تاریخ تحریر ۱۹؍جنوری ۱۹۳۵ء ہے، نہ کہ ۱۹؍جنوری ۱۹۲۵ئ۔ اسی طرح خط نمبر ۶۴ (ص۱۷۲) کی صحیح تاریخ یکم اکتوبر ۱۹۱۶ء ہے، نہ کہ یکم نومبر ۱۹۱۶ئ۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار نے بلا تاریخ کے ایک خط (نمبر ۵۹، ص۱۶۲) کا زمانۂ تحریر اپریل مئی ۱۹۲۲ء متعین کیا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ شیخ عطاء اللہ اگر تھوڑی سی احتیاط اور تفحص سے کام لیتے تو بہت سی غلطیوں سے بچ سکتے تھے۔ ذیل میں ہم چند مزید اغلاط کی نشان دہی کررہے ہیں: (۱) ص ۲۵۳: خط نمبر ۹۷ کی صحیح تاریخ ۳؍جنوری ۱۹۱۹ء ہے نہ کہ ۳؍ جنوری ۱۹۲۶ء ۔۳؎ (۲) ص۲۵۷: خط نمبر ۱۰۱ کی تاریخ تحریر ۱۳؍مارچ ۱۹۳۵ء درج ہے۔ متنِ خط سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن ایّام میں مولانا انور شاہ صاحب انجمن خدام الدین کے سالانہ جلسے میں شرکت کے لیے لاہور تشریف لائے تھے۔ اس خط میں ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی کا ذکر ہے اور اُن کے مطابق جلسہ مارچ ۱۹۲۵ء میں منعقد ہوا تھا۔۴؎ مزید برآں مولانا انور شاہ ۲۹ ؍مئی ۱۹۳۳ء کو فوت ہوچکے تھے۔۴؎ اس لیے اس خط کی صحیح تاریخ ۱۳ مارچ ۱۹۲۵ء ہے، نہ کہ ۱۳ مارچ ۱۹۳۵ئ۔ (۳) ص۳۰۰: خط نمبر ۱۱۹ کی صحیح تاریخ ۲۴ فروری ہے، نہ کہ ۲۲ فروری۔۶؎ ۱- شاد کے نام ۱۸ خطوط شاد اقبال سے اخذ کیے گئے ہیں، البتہ خط نمبر ۱۹ اور ۲۰ (ص۲۰۸-۲۱۰) اس وقت تک غیر مطبوعہ تھے، اب یہ محمد عبداللہ قریشی کے مرتبہ مجموعے شاد اقبال میں شامل ہیں۔ ۲- مجلّۂ تحقیق، جلد اوّل، شمارہ ۱،۲: ص۴۶-۴۸ ۳- بحوالہ مکتوب ہٰذا مطبوعہ Islamic Education، جنوری، فروری ۱۹۷۵ئ۔ ۴- اقبال کی صحبت میں: ص۱۲۶ ۵- اقبال کے ممدوح علما: ص۴۱ ۶- امروز: ۲۲؍اپریل ۱۹۴۹ئ۔ (۴) ص۳۰۶: خط نمبر ۱۲۲ کی صحیح تاریخ ۲۴؍ستمبر ہے، نہ کہ ۲۲؍ستمبر۔۶؎ (۵) ص۳۰۸: خط نمبر ۱۲۳ کی صحیح تاریخ ۲۹؍ستمبر ۱۹۳۲ء ۷؎ ہے، نہ کہ ۲۹؍مئی۱۹۳۲ئ۔ (۶) ص۳۱۸: خط نمبر ۱۲۷ کی صحیح تاریخ ۱۴؍جنوری ۱۹۲۲ء ۱؎ ہے، نہ کہ ۱۴؍جنوری ۱۹۲۳ء (۷) ص ۳۲۰: خط نمبر ۱۲۸ کی صحیح تاریخ ۱۴؍اکتوبر ۱۹۱۹ء ۲؎ ہے، نہ کہ ۱۴؍اپریل ۱۹۱۹ئ۔ (۸) ص۳۳۳: خط نمبر ۱۴۱ کی صحیح تاریخ ۳۰؍اپریل ہے، نہ کہ ۲۰؍اپریل۔۳؎ تاریخوں کے علاوہ متن خوانی اور نقل نویسی میں بھی بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں۔ صفحات ۶۴،۶۵،۲۸۹،۳۱۹ پر بعض الفاظ نہیں پڑھے جاسکے۔ بعض مقامات پر متعدد الفاظ غلطی سے رہ گئے ہیں، مثلاً: ص۳۰۳ پر سطر ۲ میں ایک لفظ اور آگے چل کر پورا شعر درج ہونے سے رہ گیا۔ اقبال نامہ، دوم میں شامل بعض مکاتیب کے جو عکس دستیاب ہیں، اُن کی روشنی میں متن کی سیکڑوں ایسی غلطیوں کی نشان دہی کی جاسکتی ہے، جو نقلِ متن میں بے احتیاطی کے سبب سرزد ہوئیں مگر ان سب کا شمار، غیر معمولی طوالت کا سبب ہوگا۔ ہم یہاں صرف دو تین مثالیں پیش کرتے ہیں: (۱) مکتوب بنام راغب احسن (ص۲۵۱-۲۵۲) میں نو اغلاط اور تین تصرفات پائے جاتے ہیں: سطر اقبال نامہ عکس خط ۱ سے ہر ایک جزو کی سے پھر ایک خبر کی ۲ مقاصد کو مقاصد وغیرہ کو ۴ کرے کرلے ۸ گھوڑوں گھوڑے ۸ روح اسلامیت روحِ اسلاف ۱۰ تحریک اور مقاصد تحریک کے مقاصد ۱۱ کا جزو کے اجزا ۶- امروز، ۲۲؍اپریل ۱۹۴۹ئ۔ ۷- مکتوباتِ اقبال: ص۸۳ ۱،۲- مکاتیبِ اقبال بنام نیاز: ص۴۰ ۳- اقبال کی صحبت میں: ص۳۰۵ سطر اقبال نامہ عکس خط ۱۳ والسلام × ۱۵ محمد محمدؐ خط کا عکس دیکھنے سے اندازہ ہوگا کہ مرتب نے نقلِ متن میں متذکرہ بالا اغلاط کے علاوہ، خط کی ترتیب میں تین طرح کے تصرفات کردیے ہیں۔ اوّل: اصل خط میں نیا پیراگراف، جو: ’’آپ کی تحریک…‘‘ سے شروع ہورہا ہے، اُسے اُوپر کی سطر سے ملادیا ہے۔ دوم: مقام اور تاریخ تحریر جو خط کے آخر میں درج تھے، انھیں ابتدا میں لکھ دیا۔ سوم: ۳۱ء کو ۱۹۳۱ء بنادیا۔ معنوی اعتبار سے تو ممکن ہے ان تصرفات کی اہمیت کچھ نہ ہو، مگر اس سے اور متذکرہ بالا اغلاطِ متن سے بھی، یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ مرتب نے خاطر خواہ دقتِ نظر اور احتیاط سے کام نہیں لیا۔ (خط کا عکس صفحہ۴۳۲ پر دیکھیے) (۲) مکتوب بنام مولوی صالح محمد (ص ۳۷۰-۳۷۲) کا عکس دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خط کے آخری حصے کی یہ عبارت بالکل چھوڑ دی گئی ہے: ’’خواجہ صاحب کی خدمت میں میری طرف سے سلام مسنون پہنچائیے۔ میں اُن کے خاندان سے محبت رکھتا ہوں۔‘‘ (خط کا جزوی عکس صفحہ۴۳۲ پر دیکھیے) (۳) مکتوب بنام مولوی عبدالحق (ص۸۵) کی ایک طویل عبارت محذوف ہے۔۱؎ (۴) شاطر مدراسی کے نام خط نمبر ۴ (ص۳۰۶-۳۰۷) کا، اصل مکتوب کے عکس (امروز، ۲۲؍اپریل ۱۹۴۹ئ) سے موازنہ کریں تو مندرجہ ذیل اغلاط نظر آتی ہیں: صفحہ سطر غلط صحیح ۳۰۶ ۱۵ اعجاز حق اعجاز عشق ۳۰۷ ۲ فلسفہ مجھے یقین ہے کہ ایک دن فلسفہ و مذہب کے حقائق سے لبریز ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اہلِ دل ۳۰۷ ۴ فرمایا ہے آپ فرمایا آپ ۳۰۷ ۶ ابھی شائع ابھی تک شائع اغلاطِ متن کے علاوہ، اس مجموعے میں بعض دیگر نوعیت کی اغلاط بھی موجود ہیں، مثلاً: (۱) بعض خطوط کے مکتوب الیہم غلط ہیں، مثلاً: (الف) ص ۱۰۰: متنِ خط سے ظاہر ہے کہ خط ۱- متذکرہ خط کا عکس اور مکمل متن اقبال اور عبدالحق از ممتاز حسن (ص۵۰) میں ملاحظہ کیجیے۔ اقبال نامہ، دوم میں شامل مکاتیب بنام مولوی عبدالحق میں سے کسی ایک کا متن بھی پوری طرح صحیح نہیں ہے۔ فلسفۂ عجم کے مترجم (میر حسن الدین) کے نام لکھا گیا۔ تصدق حسین تاج تو فلسفۂ عجم کے ناشر تھے۔ (ب) ص۲۲۸: یہ خط مولوی طالع محمد کے نام نہیں، بلکہ سردار ایم بی احمد، مشیر انکم ٹیکس بمبئی کو لکھاگیا۔۱؎ (ج) ص۲۶۵: یہ خط محمد دین فوق کو نہیں، بلکہ مولوی انشاء اللہ خاں کو لکھا گیا۔۲؎ (د)ص۳۵۱: یہ خط اختر شیرانی کے نام نہیں، بلکہ اُن کے والد پروفیسر محمود شیرانی کے نام ہے۔۳؎ (۲) انگریزی خطوط کے تراجم میں بھی بے احتیاطی جھلکتی ہے، مثلاً: (الف) جناح کے نام خطوط میں Confidential اور Strictly Confidential دونوں کا ترجمہ ’’بصیغۂ راز‘‘ کیا گیا ہے، حالانکہ ترجمے میں کچھ فرق روا رکھنا ضروری تھا۔ (ب) ص۲۵۴: خط کے آخر میں اصل الفاظ ہیں: Yours truly۔۴؎ اس کا ترجمہ ’’نیاز مند‘‘ اس خط کے سیاق و سباق میں کسی طرح درست نہیں۔ (ج) ص۲۵۵: سطر۳۔ اصل خط کے الفاظ ہیں: Lucknow critics۔۵؎ اس کا ترجمہ ’’ہندوستانی ناقدین‘‘ کسی اعتبار سے بھی درست نہیں۔ (د) ص۲۵۵: خط نمبر ۹۸ اصل انگریزی خط کے آخر میں ایک انگریزی جملے: As to disreg you have done me nothing of the kind.۶؎ کا ترجمہ سرے سے غائب ہے۔ (ہ) ص۲۱۲-۲۲۲: صاحبزادہ آفتاب احمد خاں کے نام اصل خط انگریزی میں ہے، مگر یہاں صراحت نہیں کی گئی۔ اصل خط کے آغاز میں: Sialkot City 4th June, 1925 اور آخر میں: ۱- Letters of Iqbal: ص۱۴۸ ۲- خطوطِ اقبال: ص۹۳ (مزید برآں اقبال نامہ، دوم میں یہ خط نامکمل ہے۔ خطوطِ اقبال میں مکمل خط شامل ہے۔ ص۹۳ تا۱۰۳) ۳- اس خط پر تاریخ درج نہیں، مگر متنِ خط کے اس جملے: ’’میں کل کابل جارہا ہوں‘‘ سے اس کی تاریخِ تحریر متعین کرنا مشکل نہیں۔ اقبال، ۲۰؍اکتوبر کی صبح لاہور سے روانہ ہوئے (اقبال نامہ، اوّل: ص۱۷۶) یہ خط اس سے ایک روز پہلے کا ہے، اس لیے یقینا ۱۹؍اکتوبر ۱۹۳۳ء کو لکھا گیا۔ ڈاکٹر عبداللہ چغتائی کے بیان سے اس کی تصدیق ہوتی ہے (اقبال کی صحبت میں: ص۳۷۶)۔ ۴- خطوطِ اقبال: ص۱۳۲ ۵،۶- ایضاً : ص۱۳۴ Yours Sincerely Mohammad Iqbal کے الفاظ موجود ہیں، مگر ان کا ترجمہ نہیں دیا گیا۔ (۳) ص۱۵۲: عطیہ بیگم کے نام مکتوب محررہ ۱۴؍دسمبر ۱۹۱۱ء کے آخری حصے کو، ایک الگ خط بناکر پیش کیا گیا، حالانکہ مکتوب نمبر ۹ اور نمبر ۱۰ (مسلسل نمبر ۵۳ اور ۵۴) دراصل ایک ہی خط ہے۔۱؎ حصہ اوّل کی طرح حصہ دوم میں بھی متونِ خطوط کے بعض الفاظ اور عبارات حذف کی گئی ہیں، مثلاً: ص۵۰، ۵۲، ۶۷۔ محمد اکبر منیر کے نام خط نمبر ۲ (ص۱۵۶) سے فلسفے کی چار کتابوں اور خط نمبر ۴ (ص۱۶۲) سے فلسفے کی تین کتابوں کے نام حذف کردیے گئے ہیں۔ یہ بے رحمانہ حذف نہایت نامناسب بات ہے۔ ان کتابوں سے اقبال کے پسندیدہ فلسفیوں اور کتبِ فلسفہ کے بارے میں قیمتی معلومات حاصل ہوسکتی تھیں۔ اقبال نامہ، دوم میں ایسی اغلاط بھی نظر آتی ہیں، جو خالصتاً کتابت کی غلطیاں شمار ہوں گی، مثلاً: صفحہ سطر غلط صحیح ۲۳۲ ۱۴ السّلام والسّلام ۲۵۱ ۴ بیاد بنیاد ۳۷۱ ۷ ایقاطی ایقاظی ۳۱۰ ۱۲ نالہ و آہ و فغانے نالہ، آہے، فغانے متذکرہ بالا تمام تر اغلاط اور خامیوں کے باوجود، شیخ عطاء اللہ کی اس غیر معمولی کاوش کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ مکاتیبِ اقبال کا یہ قیمتی ذخیرہ مدوّن نہ ہوتا، تو عین ممکن ہے کہ اس کا ایک معتدبہ حصہ گردشِ ایام کی دست بُرد کا شکار ہوکر معدوم ہوچکا ہوتا۔ اقبال نامہ خطوط کی تعداد کے اعتبار سے، مکاتیب کے تمام مجموعوں میں سرِ فہرست ہے۔ مرتب کا ارادہ تھا کہ فراہمیِ خطوط کا کام جاری رکھا جائے اور نہ صرف خطوط کے مزید مجموعے مدوّن کیے جائیں، بلکہ خطوطِ اقبال کے تراجم انگریزی، فارسی اور عربی میں بھی شائع کیے جائیں،۲؎ مگر موصوف کی مزید کوئی کاوش سامنے نہ آسکی۔ ۱- دیکھیے اس انگریزی مکتوب کا عکس: Letters to Atiya: ص۷۵ -۷۷ ۲- دیباچہ، اقبال نامہ، دوم: ص۸۲-۸۳ ژ اقبال نامہ [یک جلدی اشاعت] ۲۰۰۵ء میں [جناب مختار مسعود کے مرتبہ] اقبال نامہ کی ’’تصحیح و ترمیم شدہ یک جلدی‘‘ اشاعت سامنے آئی، جس میں بقول مرتب : ’’ڈاکٹر تحسین فراقی کی تحقیق و تصحیح متن کو بنیاد بنایا گیا ہے‘‘ مگر یہ بیان درست نہیں ہے۔ فراقی صاحب کے مرتبہ متن کو اس جلد میں اختیار نہیں کیا جاسکا۔ دونوں حصوں میں مکاتیب کی ترتیب بدستور ہے، البتہ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ حصہ اوّل کے دیباچے [محررہ اندازاً، ستمبر ۱۹۴۴ئ] کو ضمیمے کی شکل کیوں دی گئی ہے اور حصہ دوم کے دیباچے [محررہ: یکم؍مارچ ۱۹۵۱ئ] کو حصہ اوّل کے شروع میں کیوں لگایا گیا ہے۔ طبع اوّل کے بعض اندراجات محذوف ہیں، مثلاً: نواب صدر یار جنگ کا مقدمہ، عرضِ ناشر، انتساب کا صفحہ ، ص’’ٹ‘‘ کی عبارت: ’’زیر سرپرستی سر عبدالقادر‘‘، ص ’’ج‘‘ تسمیہ، لمعہ کے نام تمام خطوط ماسوا، ایک اور متعدد خطوط کے عکس وغیرہ۔ ’’تصحیح متن‘‘ کے علاوہ، چند اضافے کیے گئے ہیں: سر میلکم ڈارلنگ کا مکتوب بنام شیخ عطاء اللہ اور شیخ عطاء اللہ کا مکتوب بنام قائداعظم۔ اشاریے کا اضافہ بھی اہم ہے، مگر اہم تر، دل چسپ اور معلومات افزا تحریر ’’پس منظر‘‘ ہے جس میں جنابِ مرتبِ اشاعتِ ہٰذا [مختار مسعود] نے بتایا ہے کہ اقبال نامہ کی دو جلدوں کو مدوّن کرنے میں ’’مرتب [شیخ عطاء اللہ] پر کیا گزری۔ منصوبہ بندی کیا تھی اور کتنا بوجھ کتنے عرصے تک انھیں تنہا اُٹھانا پڑا۔ کہاں کہاں سے کمال کشادہ دلی سے ان کی امداد کی گئی اور کن کن مراحل پر انھیں ناخوش گوار تجربات کا سامنا کرنا پڑا۔‘‘ (ص۶۴۹) اس ’’پس منظر‘‘ کو پڑھتے ہوئے، کہیں کہیں اس پر ’’جگ بیتی، آپ بیتی‘‘ کا گمان ہونے لگتا ہے۔ بہرحال اس میں متعدد موضوعات و شخصیات پر معلومات افزا نکات آگئے ہیں۔ علی گڑھ، راس مسعود، اقبال کے مکتوب الیہ اصحاب کے جوابی خطوط (جن کی مسل گم ہوگئی۔ کل من علیہا فان) مکاتیبِ اقبال بنام لمعہ، راس مسعود کے نام ۱۱؍دسمبر ۱۹۳۵ء اور ۱۰؍جون ۱۹۳۷ء کے خطوں کے محذوف حصے۔ زیر نظر اڈیشن میں لمعہ کے نام اقبال کا صرف ایک خط شامل ہے، بعض وجوہ سے باقی تمام خط حذف کردیے گئے ہیں۔ مرتب نے بجا طور پر بعض اُمور (بشمول مکاتیب بنام لمعہؔ) کو محققین کے سپرد کردیا ہے۔ اقبال نامے (اخلاق اثر) کے طبع سوم، ۲۰۰۶ء کی روشنی میں ممکن ہے جناب مختار مسعود ’’پس منظر‘‘ میں مزید توضیحات و تصریحات کی ضرورت محسوس کریں۔ مرتب نے کہیں کہیں قلم روک لیا ہے: ’’یہ بات میرے علم میں ہے مگر میں اسے بیان نہیں کروں گا۔‘‘ (ص۶۶۶) بجا کہ ’’اقبال نامہ کا یہ اڈیشن مؤلف کی منصوبہ بندی کے عین مطابق ہے‘‘… مگر ’’دو نکات پر عمل کرنا رہ گیا ہے ایک انگریزی متن کا شامل کیا جانا اور دوسرا شخصیات کا تعارف‘‘ (ص۶۶۷) مکاتیبِ اقبال کی تدوین کے ضمن میں دونوں کام نہایت اہم ہیں۔ انگریزی خطوط کا کلیات غالباً اقبال اکادمی کے زیر اہتمام تیار اور شائع ہوگا اور شخصیات کے تعارف بطور اقبال نامہ کے حواشی و تعلیقات از قلم ڈاکٹر تحسین فراقی، اقبال اکادمی ہی میں اشاعت کے مرحلے میں ہیں۔ ژ مکاتیبِ اقبال، بنام خان محمد نیاز الدین خاں مرحوم اُناسی مکاتیب پر مشتمل، زیر نظر مجموعہ، اقبال کے شعری مجموعوں کے مروّج سائز پر باریک ٹائپ میں طبع کیا گیا۔ سالِ طباعت درج نہیں، مگر ایس اے رحمان کی تمہیدی سطور بعنوان: ’’تصدیق‘‘ پر ۸؍جولائی ۱۹۵۴ء کی تاریخ درج ہے، جس سے سالِ اشاعت کا تعین کیا جاسکتا ہے۔ یہ تمام خطوط، بستی دانش منداں (جالندھر) کے رئیس خان محمد نیاز الدین خاں مرحوم کے نام ہیں، جنھیں ان کے دو صاحبزادوں خان افتخار الدین احمد اور خان نفیس الدین احمد نے اشاعت کے لیے بزمِ اقبال لاہور کے سپرد کیاتھا۔ ناشر کی طرف سے مجموعے پر یہ اعلان درج ہے: ’’بشکریہ و اجازت نفیس الدین احمد خاں‘‘۔ متونِ خطوط کے بارے میں ایس اے رحمن نے تصدیق کی ہے کہ: ’’میں نے اصل خطوط… دیکھ لیے ہیں اور اُن کا مقابلہ اس مجموعے کی مشمولہ نقول سے بہ دقتِ نظر کرلیا ہے۔ خطوط مشمولہ ہٰذا کی نسبت تصدیق کی جاتی ہے کہ وہ اصل خطوط کی صحیح نقول ہیں‘‘۔ مجموعے میں دو خطوط کے عکس بھی شامل ہیں، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ متونِ خطوط اگرچہ احتیاط سے نقل کیے گئے ہیں، تاہم مطلوبہ دقتِ نظر اب بھی مفقود ہے، مثلاً: (الف) ص۳: تیسرے خط کے آخر میں اقبال کی تحریر میں تاریخ اس طرح درج ہے: ’’۱۳؍مارچ۱۶ئ‘‘ جسے مجموعے میں ۱۳؍مارچ ۱۹۱۶ء نقل کیا گیا ہے۔ (ب) ص۱۱: ’’۲۷؍نومبر ۱۷ئ‘‘ کو ’’۲۷؍نومبر۱۹۱۷ء ‘‘ لکھا گیا ہے اور ’’محمدؐ‘‘ کو ’’محمد‘‘۔ (ج) ص۴۷: خط نمبر ۶۵ کا عکسِ خط سے موازنہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ’’محمدؐ اقبال لاہور‘‘ کو ’’محمد اقبال‘‘ لکھا گیا ہے۔ اس مجموعے میں یہ اہتمام برتا گیا ہے کہ اقبال نے تاریخ، خط کے آغاز میں لکھی ہے، تو آغاز ہی میں درج کی گئی ہے، اگر اصل خط کے آخر میں ہے، تو اس کی پابندی کی گئی ہے۔ بعض دوسرے مجموعوں میں یہ احتیاط نظر نہیں آتی۔ کہیں کہیں بعض الفاظ قوسین میں درج کیے گئے ہیں، مثلاً: ص۲۵،۳۰،۳۳، مگر یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ قوسین کے الفاظ بعینہٖ قوسین کے ساتھ اصل خطوط میں بھی موجود ہیں، یا اصل خط میں یہ الفاظ اقبال سے سہواً چھوٹ گئے تھے (جیسا کہ متعدد دوسرے خطوں میں ہوا) اور مرتب یا نقل نویس نے ربط قائم کرنے کے لیے قوسین میں اپنی طرف سے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے۔ خط نمبر ۴۴ (ص۳۴) میں دس مقامات پر دس اصحاب کے نام اور ان کے کوائف حذف کیے گئے ہیں، تاہم حاشیے میں یہ وضاحت درج ہے کہ مصلحتاً ایسا کیا گیا ہے۔ مجموعے کی پروف خوانی احتیاط سے کی گئی ہے۔ آخری صفحے پر لفظ ’’مخلص‘‘ غلطی سے ’’لمص‘‘ چھپ گیا ہے۔ ص۹، سطر۲۴: ’’اعصاد‘‘ نہیں، ’’اعصار‘‘ درست ہے۔ جناب ایس اے رحمن مجموعے کے ’’پیش لفظ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’اس میں صرف دو خط ایسے شامل ہیں، جو اقبال نامہ میں شائع ہوچکے ہیں، باقی غیر مطبوعہ ہیں‘‘۔ صحیح صورت حال یہ ہے کہ خط نمبر ۶۵ کا عکس بھی، مجموعے سے پہلے کسی اخبار ۱؎ میں چھپ چکا ہے۔ اس طرح مطبوعہ خطوں کی تعداد تین بنتی ہے۔ باقی تمام خطوط، اس مجموعے کی صورت میں پہلی بار منظرِ عام پر آئے۔ جن سے بقول ایس اے رحمن: ’’اقبالیات کے ذخیرے میں بیش بہا اضافہ‘‘ ہوا۔ یہ تمام خطوط مسلسل ہیں اور مکتوب الیہ ایک ہی شخص ہے، اس لیے بعض تشریح طلب امور کی وضاحت باقی نہیں رہتی، پھر بھی کئی مقامات پر حواشی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے___ مجموعی اعتبار سے یہ مجموعہ ’’بقامت کہتر و بقیمت بہتر‘‘ کی عمدہ مثال ہے۔ مکاتیب بنام نیاز کا دوسرا اڈیشن ۱۹۸۶ء میں اقبال اکادمی پاکستان لاہور نے نستعلیق کتابت میں حسب ذیل اضافوں کے ساتھ شائع کیا: ۱- ’’ملاحظات‘‘ (دیباچہ: طبع دوم از پروفیسر محمد منور) ۲- مولانا گرامی کے ۱۴ خطوط بنام نیاز ۳- مجموعے کا تعارف از نفیس الدین احمد خاں ۱- راقم نے اس عکس کا تراشا محمد طفیل مرحوم (نقوش) کے ہاں دیکھا تھا مگر اخبار کا نام اور تاریخ اشاعت معلوم نہ ہوسکی۔ ۴- نیاز کے مختصر حالاتِ زندگی ۵- حواشی و تعلیقات از نفیس الدین احمد خاں طبع اوّل کی طرح، اس شاعت کا متن بھی ناقص ہے۔ تیسرا اڈیشن ۱۹۹۵ء میں بزمِ اقبال لاہور سے شائع ہوا، باضافہ، اوّل: دیباچہ از ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار (جو۱۹۸۶ء کے اکادمی اڈیشن کی اشاعت سے بے خبر رہتے ہوئے لکھا گیا۔) دوم: چند ایک حوالے و حواشی۔ سوم: اشاریہ۔ عبداللہ شاہ ہاشمی کا مرتبہ چوتھا اڈیشن ۲۰۰۶ء میں اقبال اکادمی پاکستان نے شائع کیا۔ مرتب نے زیرنظر اڈیشن کو بہتر اور معیاری بنانے کی مقدور بھر کوشش کی ہے۔ خوش قسمتی سے اس مرحلے پر انھیں خطوط کے عکس دستیاب ہوگئے، چنانچہ متن کی صحت پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ مرتب نے اپنے مفصل مقدمے میں مکتوب الیہ کے سوانحی کوائف اور اقبال سے ان کے روابط کے علاوہ زیرنظر مجموعے کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی ہے اور خطوط پر مفید اور معلومات افزا حواشی و تعلیقات بھی رقم کیے ہیں۔ اس اڈیشن میں اقبال کے دست نوشت چھے مکاتیب کے عکس بھی شامل ہیں۔ عکس دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ طبع اوّل کو مرتب و شائع کرتے ہوئے متن خوانی، جس نے بھی کی، مطلوبہ احتیاط اور دِقت۔ّ۔ نظری سے کام نہیں لیا۔ جسٹس رحمان صاحب نے بھی رواروی میں ’’تصدیق‘‘ لکھ دی ہے، مثلاً: خط ۴۵ (۱۰؍جون ۱۹۲۰ئ) میں علامہ اقبال نے قرآنی آیت کا ایک جز یادداشت سے اس طرح لکھ دیا: وجعلنکم قبائل لتعارفوا جو مکمل اور صحیح نہیں ہے۔ ناقل نے آیت کا متن قرآن پاک کے مطابق بنا دیا۔ بلاشبہہ کلامِ الٰہی کو درست صورت میں لکھنا ضروری ہے مگر یہ اقبال کا متن تو نہیں ہے۔ خط میں اسے حسب ذیل انداز میں لکھنا چاہیے تھا: وَ جَعَلْنکُمْ۔ٰ۔ [شُعُوْبًا وَّ] قَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا [۱] اسی طرح ۲۶؍مارچ ۱۹۱۶ء کے خط میں ’’مزاج بخیر ہوگا۔‘‘ (عکس) کو ’’مزاجِ گرامی بخیر ہوگا‘‘ بنا دیا۔ ۸؍جولائی ۱۹۱۶ء کے خط میں بھی ’’مزاج‘‘ (عکس) کو ’’مزاج گرامی‘‘ لکھ دیا۔ ۲۱؍جنوری ۱۹۲۱ء کے خط میں ’’ترجمہ انگریزی ہوا‘‘ (عکس) کو ’’ترجمہ انگریزی میں ہوا‘‘ بنا دیا، وغیرہ۔ عبداللہ شاہ ہاشمی نے اس نوعیت کی اغلاطِ متن کی تصحیح کردی ہے۔ تاہم ایک جگہ اُن سے بھی چوک ہوگئی ہے، مثلاً ۳؍دسمبر ۱۹۲۰ء کے خط میں ’’بہت طویل جواب ہوگا‘‘ (عکس) کو انھوں نے ’’بہت طویل ہوگا‘‘ نقل کیا ہے۔ اقبال کے املا کے ضمن میں دلچسپ بات یہ ہے کہ بسا اوقات ان کے ہاں ’’کی‘‘ اور ’’کے‘‘ کا املا بالکل یکساں نظرآتا ہے۔ عبداللہ شاہ ہاشمی کے مرتبہ اس اڈیشن میں، ممکن ہے اس طرح کے اِکا دُکا تسامحات اور بھی مل جائیں تاہم یہ کہنے میں حرج نہیں کہ مکاتیبِ اقبال کے جملہ مجموعوں کو، اسی نمونے اور انداز و اُسلوب اور معیار پر مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ ژ مکتوباتِ اقبال سیّد نذیر نیازی کا مرتبہ یہ مجموعۂ مکاتیب: ’’حکیم الامت حضرت علامہ اقبال کے اُن مکتوبات کا مجموعہ ہے جو وقتاً فوقتاً مرتب کے نام لکھے گئے‘‘،۱؎ البتہ ۲۰؍جولائی ۱۹۱۲ء کا محررہ (اس مجموعے کا سب سے پہلا) خط نیازی صاحب کے والد سیّد عبدالغنی صاحب اور ۲۸؍مارچ ۱۹۳۶ء کا محررہ خط نیازی صاحب کے دوست سلامت اللہ شاہ صاحب کے نام ہے۔ مکاتیب کی تعداد ۱۸۲ ہے۔۲؎ ان میں سے دو خط انگریزی میں ہیں (صفحات ۲۸-۲۹ اور ۳۳۹)۔ ابتدا میں دو خطوں کا عکس دیا گیا ہے۔ تین خطوں کا عکس اس سے پہلے امروز کے اقبال نمبر، ۲۲؍اپریل ۱۹۴۹ء میں چھپ چکا ہے۔ آٹھ خطوط کی عکسی نقول جنگ کراچی کے اقبال اڈیشن اپریل ۱۹۷۴ء میں شائع کی گئی ہیں۔ دو خطوط اقبال نامہ، دوم (ص۳۰۹-۳۱۲) میں بھی شامل ہیں۔ تاہم توضیحی حواشی اور یادداشتوں کے ساتھ اور مرتب و منضبط صورت میں یہ مکاتیب، پہلی بار ستمبر ۱۹۵۷ء میں اقبال اکادمی پاکستان، کراچی سے شائع ہوئے۔ ابتدائی بارہ صفحات (سرورق، انتساب، فہرست اور عکسِ مکاتیب) پر صفحات کے نمبر درج نہیں ہیں۔ پھر آٹھ صفحات کی تمہید پر صفحات کا شمار الف تا ح کیا گیا ہے۔ کتاب کا متن (متونِ خطوط اور حواشی و تعلیقات) ۳۷۲ صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ آخر میں ۱۲ صفحات کا اشاریہ شاملِ کتاب ہے۔ ’’تمہید‘‘ کے زیر عنوان مرتب نے اقبال کی خطوط نگاری، زیر نظر خطوط کے پس منظر اور ترتیبِ ۱- مکتوباتِ اقبال کے سرورق کی عبارت۔ ۲- نذیر نیازی کے نام اقبال کا ایک مکتوب (محررہ: ۱۱؍جنوری ۱۹۳۱ئ) اس مجموعے میں شامل نہیں ہے۔ مکتوبِ مذکور کے لیے دیکھیے: فنون، اقبال نمبر، دسمبر۱۹۷۷ئ: ص۱۵) اس خط کے بارے میں نیازی صاحب نے بتایا تھا کہ ضائع ہوگیا۔ (مکتوباتِ اقبال: ص۸۴)۔ کتاب کے متعلق ضروری امور پر روشنی ڈالی ہے۔ نذیر نیازی نے خطوط کو محض ترتیبِ زمانی کے مطابق مرتب کرنا ہی کافی نہیں سمجھا، بلکہ اپنے توضیحی اشارات کی مدد سے خطوط کے درمیان ایک ربط پیدا کرکے، متفرق خطوط پر مشتمل اس کتاب کو ایک اکائی بنا دیا ہے۔ لکھتے ہیں: میں نے یہ التزام رکھا ہے کہ اوّل ہر مکتوب کی رعایت سے بعض ایسی باتوں کی صراحت کردی ہے، جن کا تعلق اصل مضمون سے تھا، پھر پورا مکتوب نقل کردیا، لیکن اگر کوئی امر اس کے باوجود وضاحت طلب رہ گیا، تو اس کی پھر سے وضاحت کردی، بلکہ ضروری معلوم ہوا تو ذیل میں مختصر سے حواشی بھی بڑھا دیے۔۱؎ اُنھوں نے بعض امور کی وضاحت کرتے ہوئے، اقبال سے ملاقاتوں اور ان کے حضور نشستوں میں ہونے والی گفتگوؤں کو بھی نقل کیا۔ یہ قیمتی وضاحتیں، جہاں تفہیم مکاتیب میں معاونت کرتی ہیں، وہاں بجاے خود، ملفوظاتِ اقبال کا قیمتی سرمایہ بھی ہیں۔ حواشی کہیں کہیں زیادہ طویل ہوگئے ہیں اور خود مرتب کو اس کا احساس ہے۔ لکھتے ہیں: ’’مجھے اعتراف ہے کہ یہ تصریحات کہیں کہیں ضرورت سے زیادہ طویل ہوگئی ہیں‘‘۔۲؎ بعض اُمور اب بھی وضاحت طلب ہیں، مثلاً: ۱۸؍ ستمبر ۱۹۳۴ء کے خط میں علامہ اقبال نے لکھا تھا: ’’علی گڑھ کے حالات اچھے نہیں سنے جاتے‘‘۔ (ص۲۰۰) نذیر نیازی صاحب نے اس کی وضاحت اس طرح کی ہے: ’’علی گڑھ میں اس وقت وطنیت اور اشتراکیت نے اسلامیت کے خلاف ایک زبردست محاذ قائم کررکھا تھا‘‘۔ (ص۲۰۹) پھر آگے چل کر علی گڑھ میں قائم ہونے والی Anti-God انجمن کا ذکر آتا ہے اور یہ کہ انجمن توڑ دی گئی اور اس کے منتظمین کو یونی ورسٹی سے خارج کردیا گیا، مگر نذیر نیازی صاحب نے اصل واقعات نہیں لکھے، نہ یہ بتایا ہے کہ اشتراکیت کے لیے سرگرمِ عمل کون لوگ تھے؟ مذکورہ انجمن کب، کیسے اور کن لوگوں کے ہاتھوں قائم ہوئی؟ پھر اخراج کا واقعہ کیا تھا؟ وغیرہ… اصل میں نیازی صاحب بسااوقات اصل موضوع سے بھٹک کر خیالات کی رَو میں دور نکل جاتے ہیں، اس طرح بات بہت طویل ہوجاتی ہے، حالانکہ وہی بات نسبتاً اختصار کے ساتھ کی جاسکتی ہے۔ ایک مقام پر نیازی صاحب کی یادداشت، مغالطے کا شکار ہوگئی ہے۔ ۱۷ مارچ ۱۹۳۳ء کے واقعات کے ضمن میں نیازی بتاتے ہیں کہ جب میں نے اقبال کو آج کی تازہ خبر ۱- مکتوباتِ اقبال: ص’’ہ‘‘۔ ۲- ایضاً: ص’’ح‘‘۔ سنائی (کہ آرنلڈ فوت ہوگئے) تو وہ رونے لگے۔ راقم کا خیال ہے کہ یہ واقعہ، ۱۹۳۰ء کے واقعات میں درج ہونا چاہیے تھا غلطی سے ۱۹۳۳ء میں درج ہوگیا، کیونکہ پروفیسر آرنلڈ کی تاریخ وفات ۹؍جون ۱۹۳۰ء ۱؎ ہے۔ یہ مجموعہ، باعتبارِ سنین، کئی ابواب میں منقسم ہے۔ سنہ (کو باب کا عنوان بنا کر اس) کے ذیل میں وہ نمایاں موضوعات و امور ضمنی عنوانات کے طور پر لکھ دیے ہیں، جن پر اس باب میں بحث یا اظہارِ خیال ملتا ہے، پھر اس سال کے مکاتیب اور متعلقہ تشریحی اشارات درج کیے گئے ہیں۔ تین خطوط کی کتابت نسبتاً خفی ہے۔ اگرچہ شیخ عطاء اللہ کے مرتبہ مجموعوں کے برعکس یہ مجموعہ زیادہ احتیاط و کاوش اور محنت سے مرتب کیا گیا، پھر بھی یہ اغلاط سے پاک نہیں ہے۔ متنِ خطوط میں کئی طرح کے نقائص نظر آتے ہیں۔ دوسرے ناقلین کی طرح نذیر نیازی بھی کسی لفظ یا حرف کو بعینہٖ نقل نہیں کرتے، چنانچہ اُنھوں نے ’’محمدؐ اقبال‘‘ کو ’’محمد اقبال‘‘ نقل کیا ہے، یعنی ’’محمد‘‘ پر علامت ( ؐ) درج کرنے کا التزام نہیں برتا۔ اسی طرح ’’۳۳ئ‘‘ کو ’’۱۹۳۳ئ‘‘ (ص۲۲) اور ’’۳۵ئ‘‘ کو ’’۱۹۳۵ئ‘‘ بنادیا۔ وہ خطوط کے اصل پیراگراف بھی برقرار نہیں رکھتے۔ بعض اوقات خط کے آغاز میں مندرجہ تاریخِ تحریر کو خط کے آخر میں لکھ دیتے ہیں۔۲؎ اور بعض اوقات اس کے برعکس (ص۷ پر سب سے پہلے خط میں یہ صورت موجود ہے۔ دیکھیے: انوارِ اقبال، ص۱۹۶) ان کے نقل کردہ متن میں کئی اغلاط موجودہیں، مثلاً: ۲۷ اپریل ۱۹۳۰ء کے خط (ص۲۳) میں ایک جملہ ہے: ’’اس کی جلد بندی ۶؍اپریل تک ختم ہوجائے گی‘‘ یہاں ۶؍مئی ہونا چاہیے۔ اسی طرح، ص ۱۶۲ (سطر۱۴) ۲؍جون کے بجاے۲؍جولائی صحیح ہے۔ ص ۲۱۲ (سطر ۱۴) ۱۹؍اکتوبر کے بجاے ۱۹؍ستمبر صحیح ہے۔ ص ۲۳۵ (سطر۱۱) ۲۷؍ستمبر کے بجاے ۲۷؍دسمبر صحیح ہے۔ کہیں کہیں تو متن خاصا ناقص ہے۔ ۱- Dictionary of National Biography، جلد ۳۰، ص۲۶ [مفصل بحث کے لیے دیکھیے: پروفیسر صدیق جاوید کا مضمون ’’اقبال اور ایک واقعاتی مغالطہ‘‘ مطبوعہ: اورینٹل کالج میگزین، اقبال نمبر، ۱۹۸۱ئ: ص۵۳-۶۶)۔ اقبال کے سفر دہلی (مارچ۱۹۳۳ئ) کی تاریخوں کے ضمن میں بھی نیازی صاحب سے تسامح ہوا۔ دیکھیے: ڈاکٹر اکبر رحمانی کا مضمون ’’جامعہ ملیہ اسلامیہ میں غازی رئوف پاشا کے خطبات، اقبال اور ایک واقعاتی مغالطہ‘‘ (خدا بخش لائبریری جرنل، پٹنہ- نمبر ۱۲۱، ستمبر۲۰۰۰ئ) ۲- اصل خطوط کا عکس ملاحظہ کیجیے: جنگ، اقبال اڈیشن، اپریل ۱۹۷۴ئ۔ ۶؍اگست ۱۹۳۴ء کے متن (ص۱۸۳) کا عکسِ خط ۱؎ سے موازنہ کیا جائے تو یہ اختلاف نظر آتے ہیں: مکتوبات کی سطر مکتوبات اقبال عکس خط ۳ رات کو نہیں کھائی۔ میں نے بھی… رات کی نہیں کھائی۔ آج بھی… ۴ بخار مجھے نہیں ہوا- بخار آج نہیں ہوا۔ ۷ معائنہ کرایا ہے معائنہ کرالیا ہے۔ ۹ حکیم صاحب سے عرض کریں کہ اب روحانی اثر… حکیم صاحب کی خدمت میں عرض کریں کہ آپ کے روحانی اثر… بعض دیگر خطوط میں بھی اس طرح کی اغلاط موجود ہیں۔ ۱۸؍اگست ۱۹۳۴ء کے مکتوب میں دو جگہ ’’عرض کردیجیے‘‘ کو ’’عرض کردیں‘‘ اور ’’زیادہ محسوس ترقی‘‘ کو ’’زیادہ ترقی‘‘ لکھا ہے اور خط کے آخر میں اپنی طرف سے لاہور کا اضافہ کیا ہے۔۲؎ ۱۶؍جولائی ۱۹۳۴ء کے خط میں اقبال لکھتے ہیں: ’’ہوا خوری کی کوشش کروں گا، مگر اس کی عادت پڑنا مشکل ہے۔ کیونکہ تمام گھر میں کبھی ایسا نہیں کیا‘‘۔ (ص۱۷۱) یہاں لفظ ’’گھر‘‘ قابل غور ہے۔ سیاق و سباق کو دیکھیں تو ’’عمر‘‘ ہونا چاہیے، ’’گھر‘‘ بہرحال غلط ہے، ممکن ہے یہ کتابت کی غلطی ہو۔ ص۸۳ (سطر۱۲) پر متنِ خط میں Is Religion Possibleکے الفاظ درج نہیں ہوسکے۔ مرتب نے بعض مقامات پر متنِ خطوط سے بعض نام اور عبارات حذف کردی ہیں، کیونکہ: ’’ان کی حیثیت نہایت نجی تھی‘‘۔ (دیباچہ: ص’’د‘‘)۔ اقبال اکادمی پاکستان، لاہور نے اکتوبر ۱۹۷۷ء میں طبع اوّل کا عکس لے کر، مجموعہ دوبارہ شائع کیا۔ طبع دوم کی ضخامت میں چار صفحات کم دیے گئے۔ بلا شمار کے بالکل ابتدائی صفحات بارہ کے بجاے آٹھ ہیں۔ دوسرے اڈیشن کا کاغذ نسبتاً بہتر ہے۔ اقبال کے دست نوشت خطوط سے موازنہ کرکے مکتوبات کو صحیح متن اور نیازی صاحب کے حواشی و تعلیقات پر نظرثانی، اور حسب ضرورت اضافوں کے بعد شائع کرنے کی ضرورت باقی ہے۔ ۱- عکس ملاحظہ کیجیے: جنگ، اقبال اڈیشن، اپریل ۱۹۷۴ء ۲- ایضاً ژ انوارِ اقبال بقول ممتاز حسن: ’’اقبال کی تقاریظ، خطوط، مضامین اور نادر کلام کا یہ مجموعہ‘‘ بشیر احمد ڈار نے مرتب کرکے مارچ ۱۹۶۷ء میں کراچی سے شائع کیا، اس کا غالب حصہ اقبال کے خطوط پر مشتمل ہے، اس لیے ہم اس کا جائزہ مجموعہ ہاے مکاتیب کے ضمن میں پیش کررہے ہیں۔ (انوارِ اقبال میں اقبال کا کچھ نادر کلام اور بعض تقاریر و مضامین بھی شامل ہیں، جن پر باب نمبر ۵ میں بحث ہوگی)۔ پہلے سولہ صفحات (سرورق، پیش لفظ، عرض حال اور مندرجات کی فہرست) کے بعد متنِ کتاب کے آغاز سے از سرِ نو صفحات کا شمار کیا گیا ہے، جو ۳۱۶ صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ آخر میں ۲۶ صفحات کا اشاریہ بھی شامل کتاب ہے۔ کتاب نستعلیق میں ہے مگر ص۳۱۳ تا آخر نسخ ٹائپ استعمال کیا گیا ہے۔ کاغذ غیر معمولی طور پر دبیز اور مضبوط ہے۔ جس زمانے میں یہ مجموعہ مرتب ہوا، بشیر احمد ڈار اقبال اکادمی کے ڈائرکٹر تھے۔ اکادمی میں بہت سا غیر مطبوعہ اور غیر مدوّن مواد موجود تھا، جس کی ترتیب و تدوین ایک لحاظ سے اُن کا فرضِ منصبی تھا۔ یہ وقیع مجموعہ اُنھوں نے خاصی محنت و کاوش سے مرتب و مدوّن کیا۔ انوارِ اقبال میں شامل اصل خطوط کی تعداد ۱۷۵ ہے۔ ان میں سے زیادہ تر خطوط، اس سے پہلے مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکے تھے، مگر کسی مجموعۂ مکاتیب میں شامل نہ تھے۔ بعض غیر مطبوعہ خطوط بھی اس مجموعے میں شامل کیے گئے ہیں۔ شیخ عطا محمد کے نام ایک خط اور اقبال کے دو خطوں کے عکس بھی دیے گئے ہیں۔ مجموعہ مرتب کرتے وقت، بشیر احمد ڈار نے کتاب کی ایک ترتیب قائم کرنے کی کوشش کی، چنانچہ فہرست مندرجات پر ایک نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مشمولات کو اُن کی نوعیت کے اعتبار سے ان عنوانات کے تحت تقسیم کیا گیا ہے: ۱- تقاریظ اور مضامین ۲- خطوط ۳- متفرق خطوط ۴- رودادِ سفرِ مدراس ۵- بزم آخر (تقاریظ، خطوط، مضامین، بیانات، اقبال کا ابتدائی کلام) (۱) کئی اعتبار سے مجموعے کی ترتیب ناقص ہے۔ آخری حصے بعنوان ’’بزمِ آخر‘‘ میں ہر نوع کی تحریریں شامل ہیں۔ مرتب نے ’’تدوین کی اس خامی اور ناہمواری‘‘ کے لیے معذرت پیش کرتے ہوئے اس کا سبب یہ بتایا ہے کہ کتابت کے دوران میں مزید دستیاب شدہ مواد، پہلے مواد سے ’’مناسب اور متوازن انداز میں منسلک نہ ہوسکا۔‘‘ ۱؎ مگر مرتب نے ابتدائی چار عنوانات کے تحت جو تحریریں یکجا کی ہیں، اُن میں بھی کوئی معنوی ترتیب نظر نہیں آتی، مثلاً: (الف) ’’تقاریظ اور مضامین‘‘ کے زیر عنوان نو مکاتیب بھی شامل ہیں۔ انھیں دوسرے یا تیسرے حصے میں آنا چاہیے تھا۔ اسی حصے میں شامل ’’اقبال سے مجید ملک کی ملاقات کا حال‘‘ بھی یہاں موزوں نہیں، اسے متفرقات کے تحت دینا مناسب تھا۔ (ب) دوسرا اور تیسرا، دونوں حصے خطوط پر مشتمل ہیں۔ بظاہر انھیں دو الگ حصے بنانے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ (ج) دوسرے حصے بعنوان ’’خطوط‘‘ کے تحت فوق کی ایک تحریر (حالاتِ اقبال) دی گئی ہے۔ اسے ’’متفرقات‘‘ میں آنا چاہیے تھا، کیونکہ اس کی نوعیت اقبال سے متعلق تحریروں کی ہے۔ (د) خطوط میں کوئی داخلی ترتیب بھی موجود نہیں۔ نہ تو انھیں سنین وار مرتب کیا گیا ہے اور نہ مکتوب الیہم کے ناموں کی ترتیب سے۔ (۲) ترتیب میں ان نقائص کے علاوہ فہرستِ مندرجات بھی مکمل نہیں۔ مجموعے میں تیرہ ایسے مکاتیب موجود ہیں، جن کا ذکر فہرست میں نہیں ہوسکا، مثلاً: بنام حسن نظامی (ص۴)، ثاقب کانپوری (ص۵)، خواجہ وصی الدین (ص۶)، شوق سندیلوی (ص۹)، حاجی محمد احمد(ص۱۱)، عبدالقوی فانی (ص۱۵)، سلیم ہزاروی (ص۱۵)، اظہر عباس (ص۱۶)، مولوی کرم الٰہی (ص۱۶)، سر اکبر حیدری(ص۳۲)، غلام احمد مہجور (ص۷۰)، نجم الغنی رام پوری (۲۸۴) اور محمد ادریس (ص۳۱۶)۔ (۳) متن خوانی اور نقل نویسی میں جو احتیاط اور دقتِ نظر مطلوب تھی، انوارِ اقبال میں اس کا فقدان ہے۔ بعض خطوط کا اصل خطوط سے موازنہ کرنے پر، بشیر احمد ڈار کے ہاں بھی، شیخ عطاء اللہ کی سی بے احتیاطی نظر آتی ہے۔ ذیل کی چند مثالوں سے اندازہ ہوسکے گا: (الف) ص۱۸۶: میاں عبدالرشید کے نام دوسرا خط (عکس مطبوعہ: کردارِ نو، اپریل مئی۱۹۶۳ئ)۔ ۱- عرضِ حال از مرتب، انوارِ اقبال:ص۱۰ انوارِ اقبال اصل خط آپ کے دوست آپ اور آپ کے دوست کے لیے وصول کے لیے موصول (ب) ص۲۰۴: مکتوب بنام رب نواز خاں (عکس مطبوعہ: آزاد کشمیر ۲۲؍اپریل ۱۹۵۵ئ)۔ ۲۶؍جون ۳۰ئ ۲۶؍جولائی۳۰ء الحمدللہ کہ الحمد ہوئے۔ زیادہ ہوئے۔ اللّٰھم زد فزد۔ زیادہ (ج) ص۲۱۰: مکتوب بنام خواجہ عبدالوحید (عکس مطبوعہ: ماہِ نو، اپریل ۱۹۵۵ئ)۔ میں ان کے لیکچر میں ایک لیکچر محمد محمدؐ اس خط کا پہلا جملہ ہے: ’’ابھی تک جواب نہیں (آیا)‘‘، یہاں لفظ ’’آیا‘‘ اصل خط میں موجود نہیں، سہواً چھوٹ گیا ہے۔ انوارِ اقبال میں یہ لفظ تو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے، مگر وضاحت نہیں کی گئی کہ قوسین میں دیا گیا لفظ، متنِ خط کا حصہ ہے، یا مرتب کی طرف سے بڑھایا گیا ہے۔ یہ طریقہ اُصولِ تدوین کے خلاف ہے۔ اگر ’’آیا‘‘ قلّابین یا قوسینِ کبیر میں لکھ دیا جاتا تو ٹھیک تھا۔ اس طرح مزید مثالیں صفحات ۵۲، ۱۸۰، ۱۸۶، ۱۹۱ اور ۱۹۵ پر ملتی ہیں۔ (د) ص۱۰۰-۱۰۷: مکاتیب بنام غلام رسول مہر (اصل خطوط اقبال میوزیم میں محفوظ ہیں)۔ صفحہ اصل خط انوارِ اقبال ۱۰۰ Another Unity Conference Conference ۱۰۰ Md. Mohammad ۱۰۰ × ۱۷؍اگست ۱۹۳۲ء ۱۰۰ لندن × ۱۰۲ اطالی اطالین ۱۰۷ ارسال ہے کہ آپ کو مرسل ہے کہ آپ کا ۱۰۷ ۱۴؍اگست ۱۹۲۳ئ × ۲۹؍دسمبر ۱۹۳۲ء اور یکم فروری ۱۹۳۳ء کے خطوط (ص۱۰۰-۱۰۱) علی الترتیب لندن اور پیرس سے لکھے گئے۔ اصل خطوط کی پیشانی پر لندن اور پیرس میں اقبال کی جاے قیام بھی درج ہے۔ ۲۹؍دسمبر ۱۹۳۲ء کے خط پر یہ الفاظ چھپے ہوئے ہیں: Queen Ann's Mansion St. James Park London S.W.I. اور یکم فروری ۱۹۳۳ء کے خط پر یہ پتا موجود ہے: Hotel Luletia 43-Boulevard Raspail Square DU Bon Marche Paris متونِ خطوط کے ساتھ ان پتوں کو درج کرنا اس اعتبار سے ضروری تھا کہ اقبال کے کسی سوانح نگار کے ہاں یہ تفصیل نہیں ملتی، ان سے اقبال کے تیسرے سفرِ یورپ (بسلسلہ تیسری گول میز کانفرنس) میں ان کی بعض قیام گاہوں کا علم ہوتا ہے۔ محمد دین فوق کے نام ایک خط (ص۵۲-۵۳) پر تاریخ درج نہیں ہے، مگر متنِ خط کی روشنی میں اس کا سالِ تحریر متعین کرنا مشکل نہیں۔ یہ خط ٹرنٹی کالج کیمبرج سے لکھا گیا، جس میں اقبال نے لاہور سے روانہ ہوتے وقت فوق سے ملاقات نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اس خط میں فوق کے کشمیری میگزین کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے، جو جنوری ۱۹۰۶ء میں جاری ہوا۔ اس کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ خط فروری، مارچ ۱۹۰۶ء میں لکھا گیا ہوگا، خواجہ عبدالوحید کے نام خط (ص۲۱۰) پر تاریخ درج نہیں۔ یہ خط خواجہ صاحب کے مکتوب (محررہ ۲۷؍فروری ۱۹۳۳ئ: ماہِ نو اپریل ۱۹۵۵ئ) کے جواب میں، فروری ۱۹۳۳ء کے آخری دنوں یا مارچ کی ابتدا میں لکھا گیا ہوگا۔ انوارِ اقبال میں شامل بعض خطوں کی تاریخیں صحیح نہیں ہیں۔ متونِ خطوط کی روشنی میں بآسانی ان کی صحت ہوسکتی ہے۔ (الف) مکتوب بنام وصل بلگرامی (ص۱۷۴) پر تاریخ درج نہیں۔ اس خط میں مذکور شعر مرقع کے اوّلین شمارے (جنوری ۱۹۲۶ئ) میں شامل ہے۔ گویا خط ۱۹۲۵ء میں لکھا گیا ہوگا۔ (ب) محمد دین تاثیر کے نام خط (ص۲۰۵) پر ۲۲؍جولائی ۱۹۳۰ء کی تاریخ اس لیے صریحاً غلط ہے کہ اس خط میں جاوید نامہ پر لکچر دینے کا ذکر ہے، جو ۱۹۳۰ء میں چھپا ہی نہ تھا۔ خط میں لکھا ہے کہ: ’’میں یہاں بھوپال میں بغرضِ علاجِ برقی مقیم ہوں‘‘ اور یہ کہ: ’’نواب بھوپال نے مجھے ’’تاحیات پانچ سو روپے ماہوار کی لٹریری پنشن عطا فرمائی ہے۔ آپ کو شاید اس کا علم اخباروں سے ہوگیا ہوگا‘‘۔ پنشن کا اجرا جون ۱۹۳۵ء سے ہوا۔ علاج کے لیے دوسری بار بھوپال میں ۱۷؍جولائی سے ۲۸؍ اگست ۱۹۳۵ء تک مقیم رہے،۱؎ اس لیے یقینی طور پر یہ خط ۲۲؍جولائی ۱۹۳۵ء کا لکھا ہوا ہے۔ (ج)محمد سعید الدین جعفری کے نام خط (ص۲۸۵) پر ۱۳؍اگست ۱۹۲۲ء کی تاریخ درج ہے، جو درست نہیں۔ خط میں اقبال اطلاع دیتے ہیں کہ ان دنوں زبورِ جدید اور انگریزی میں ایک مفصل مضمون The Idea of Ijtihad in the Law of Islam زیر تصنیف ہے۔ نیاز الدین خاں کے نام ۱۳؍جولائی۱۹۲۴ء کے ایک خط۲؎ میں بتاتے ہیں کہ ان دنوں Songs of A Modern David نامی کتاب لکھ رہا ہوں۔ سلیمان ندوی کے نام ۱۸ اور ۲۷؍اگست ۱۹۲۴ء کے خطوط ۳؎ میں بعض فقہی مسائل کے بارے میں استفسارات کیے ہیں۔ اس سے واضح ہے کہ محمد سعید الدین جعفری کے نام اس خط کا سالِ تحریر ۱۹۲۴ء ہے، نہ کہ ۱۹۲۲ئ۔ رحیم بخش شاہین کے منقول متن ۴؎ میں بھی ۱۹۲۴ء ہے۔صفحات ۱۷۵-۱۷۷ پر مندرج دو خطوط سے پہلے یہ نوٹ دیا گیا ہے: ان خطوط کے مکتوب الیہ جناب وحید احمد مدیر نقیب (بدایوں) ہیں۔ یہ رسالہ پہلے ۱۹۱۹ء میں جاری ہوا اور کچھ عرصے کے بعد بند ہوگیا۔ ۱۹۲۱ء میں دوبارہ جاری ہوا۔ اقبال نامہ، حصہ اوّل (صفحہ: ۴۲۵-۴۲۸) میں یہی خطوط، عشرت رحمانی کے نام سے درج ہیں، لیکن بقول عابد رضا بیدار: یہ خطوط وحید احمد کو لکھے گئے تھے، جیسا کہ تیسرے خط کی آخری سطر سے ظاہر ہوتا ہے (دیکھیے: اقبال نامہ، اوّل، صفحہ ۴۲۸): معلوم نہیں کون سا شعر آپ کے پاس امانت ہے، بہتر ہے چھاپ دیجیے۔ اس نوٹ کی روشنی میں، اس کے بعد دیے گئے خطوط پر نظر ڈالیں، تو وہ تین نہیں، صرف دو خطوط ہیں۔ مبینہ طور پر تیسرا خط، جس کی آخری سطر یہاں نقل کی گئی ہے، انوارِ اقبال میںنہیں ملتا۔ ۱- اقبال اور بھوپال: ص۹۰ ۲- مکاتیبِ اقبال بنام نیاز: ص۵۰ ۳- اقبال نامہ، اوّل: ص۱۳۱-۱۳۵ ۴- اوراقِ گم گشتہ: ص۱۱۸ نامعلوم ’’یہی خطوط‘‘ سے مرتب کی کیا مراد ہے؟ اقبال نامہ، اوّل (ص۴۲۵-۴۲۸) کے تین خطوط انوارِ اقبال کے زیر بحث دو خطوں (ص۱۷۵-۱۷۷) سے یکسر مختلف ہیں۔ قیاس ہے کہ انوارِ اقبال کا جو مسودہ بشیر احمد ڈار نے تیار کیا تھا، اس نوٹ کے معاً بعد، اس کے کچھ اوراق ضائع ہوگئے، یا کتابت شدہ اوراق کہیں گم ہوگئے، مندرجہ بالا نوٹ کے بعد وحید احمد مدیر نقیب کے نام تین خط انھی اوراق میں تھے، باقی دو خطوط رہ گئے، جو ص۱۷۵-۱۷۷ پر منقول ہیں۔ پہلے خط کے ایک جملے ’’نقیب کے لیے دو تین اشعار حاضر ہیں‘‘ سے واضح ہے کہ مکتوب الیہ وحید احمد مدیر نقیب ہیں۔ دوسرے خطوط کا متن ۱؎ پیش کرتے ہوئے، اکبر علی خاں نے وضاحت کی ہے کہ یہ خط مولانا وحید احمد مدیر نقیب کے نام ہے۔ اس مجموعے میں مشمولہ محمد دین فوق، غلام رسول مہر، رشید احمد صدیقی، میر خورشید احمد، تمکین کاظمی، منشی سراج الدین اور مولانا محمد عرفان خاں کے نام بیشتر مکاتیب، قبل ازیں نقوش کے مکاتیب نمبر (۱۹۵۷ئ) میں چھپ چکے ہیں، مگر دونوں کے متون میں غیر معمولی اختلافات ہیں، مثلاً: فوق کے نام ۲؍اگست ۱۹۰۸ء کے خط میں یہ اختلافات موجود ہیں: نقوش انوارِ اقبال کشمیری میگزین دیکھتا ہوں، اس میں جو کامیابی… میگزین میں جو کامیابی… کچھ نہ لکھ سکوں گا کیونکہ قانونی کتب… کچھ نہ کرسکوں گا، کیونکہ ہمہ تن قانون کی کتب… لاہور آکر مستقل… لاہور چلا جاؤں گا اور مستقل… آپ سے خوب خوب ملاقاتیں ہوا کریں گی آپ سے ملاقات ہوا کرے گی۔ کشمیری میگزین کی ترقی و اشاعت کے لیے بھی… کشمیری گوت کے متعلق بھی… تارا (حلواے سوہن فروش، دہلی دروازہ) کی… تارا چند صاحب کی… محمد دین فوق کے نام اصل خطوط محمد عبداللہ قریشی کے پاس تھے۔ خطوط کی نقول اُنھوں نے ہی نقوش کو مہیا کی تھیں، لہٰذا نقوش کا متن ہی معتبر سمجھنا چاہیے۔ سیّد عبدالغنی کے نام مکتوب (ص۱۹۲) مکتوباتِ اقبال بنام نذیر نیازی (ص۷) میں شامل ہے، مگر متن میں دو جگہ اختلاف ہے۔ بہرحال اس طرح کے اختلافات دیکھ کر یوں لگتا ہے، جیسے ناقلین نے حسبِ منشا، متونِ خطوط کی اصلاح فرمائی ہے، یانقول تیار کرنے میں حددرجہ بے احتیاطی سے کام لیا ہے۔ ۱- اقبال ریویو، جولائی ۱۹۶۲ئ۔ انوارِ اقبال کا ماخذ بھی غالباً یہی ہے۔ انوارِ اقبال میں حوالوں کی کمی بُری طرح کھٹکتی ہے۔ مرتب نے اِکا دُکا مقامات کے سوا کہیں نہیں بتایا کہ کسی خط کا ماخذ کیا ہے؟ راقم نے کئی برس پہلے بشیر احمد ڈار کو انوارِ اقبال کی اس خامی کی طرف متوجہ کیا، تو اُنھوں نے ۲۰؍دسمبر ۱۹۷۲ء کو جواباً یوں وضاحت کی: جہاں تک ماخذات کی کمی کا معاملہ ہے، اس کی ایک خاص وجہ تھی۔ عبدالواحد معینی جیسے لوگ دوسرے لوگوں کی محنت پر ڈاکا ڈالنے کے عادی ہیں اور پھر اس کو تسلیم کرنے سے بھی مُنکر۔ اگر آپ بالفرض انقلاب سے کوئی چیز بڑی محنت سے معلوم کرکے شائع کروادیں، تو کچھ عرصے بعد یہی چیز انقلاب کے حوالے سے وہ خود کسی مجموعے میں شامل کرکے، تمام سرخ روئی اپنے لیے مخصوص کرلیتے ہیں۔ اُن کی اس حرکت سے بچنے کے لیے میںنے عمداً اُن تمام ماخذات کو آخری مسوّدے سے حذف کردیا تھا۔ ڈار صاحب کا خدشہ درست ہے، مگر اُن کا طرزِ فکر غیر علمی ہے۔ سرقے کے خدشے سے حوالہ حذف کرنا اُصولاً غلط ہے۔ اس سے کتاب کی ثقاہت مجروح اور اس کی استنادی حیثیت ختم ہوجاتی ہے۔ مرتب نے انوارِ اقبال میں مشمولہ خطوط، مختلف اخبارات و رسائل اور کتابوں سے اخذ کیے ہیں۔ ذیل میں ہم بعض خطوط کے ماخذات کی نشان دہی کررہے ہیں: صفحہ مکتوب بنام ماخذ ۵ ثاقب کان پوری چراغِ راہ، مارچ ۱۹۶۰ء ۱۵ ابوالمکارم محمد عبدالسلام سلیم (الف) نقوش، خطوط نمبر (ب) جنگ، اقبال نمبر ۱۹۶۵ء ۱۶ اظہر عباس چراغِ راہ، اپریل ۱۹۶۵ء ۱۷۳ وصل بلگرامی چراغِ راہ، اپریل ۱۹۶۵ء ۱۷۶ وحید احمد اقبال ریویو، جولائی۱۹۶۲ء ۱۹۸ شفاعت اللہ خاں سرودِ رفتہ، ص۵ (عکسی نقل) ۲۰۴ سردار رب نواز خاں آزاد کشمیر، ۲۲؍اپریل ۱۹۵۵ء (عکسی نقل) ۲۱۰ خواجہ عبدالوحید ماہِ نو، اپریل ۱۹۵۵ء (عکسی نقل) ۲۱۳ نواب بہادر یار جنگ جنگ، ۲۱؍اپریل ۱۹۷۵ء (عکسی نقل) صفحہ مکتوب بنام ماخذ ۲۲۶ تلوک چند محروم مخزن، اپریل ۱۹۵۱ء (عکسی نقل) ۲۹۲ مرتضیٰ احمد خاں میکش احسان، ۳۰؍مئی ۱۹۳۸ء مزید برآں محمد دین فوق کے نام سترہ خطوط، مہر کے نام نو، میر خورشید احمد کے نام چھے، تمکین کاظمی کے نام چار، منشی سراج الدین کے نام تین، رشید احمد صدیقی اور مولانا محمد عرفان کے نام ایک ایک خط انوارِ اقبال کی اشاعت سے بارہ برس پہلے نقوش کے مکاتیب نمبر میں چھپ چکے ہیں۔ انوارِ اقبال میں شامل بعض خطوط، اقبال میوزیم لاہور میں محفوظ ہیں، مثلاً: غلام احمد مہجور ۱؎ کے نام ۱۲؍مارچ ۱۹۲۲ء (انوارِ اقبال: ص۷۰) غلام رسول مہر کے نام ۱۰؍جولائی ۱۹۳۱ئ، ۱۷؍اگست ۱۹۳۲ئ، ۲۹؍دسمبر ۱۹۳۲ئ، یکم فروری ۱۹۳۳ئ، ۲۱؍مارچ۱۹۳۳ئ، ۱۴؍اگست ۱۹۳۳ء (ص۹۶، ۱۰۰، ۱۰۱، ۱۰۷) شیخ عطاء اللہ کے نام ۱۰؍اپریل ۱۹۰۹ء اور نواب بہادر یار جنگ کے نام ۱۴؍ستمبر ۱۹۳۳ء (ص۲۱۳) کے مکاتیب۔ انوارِ اقبال کے مرتب نے: ’’تالیف کے وقت پوری کوشش کی… کہ [اس مجموعے میں] کوئی ایسی چیز شامل نہ ہوجائے، جو عام مطبوعہ مجموعوں میں آچکی ہے‘‘ ۲؎ مگر سہواً بعض مدوّن خطوط بھی انوارِ اقبال میں شامل ہوگئے ہیں۔ میر حسن الدین کے نام خط (ص۲۰۱) اقبال نامہ، دوم (ص۱۰۰) میں؛ ظفر احمد صدیقی (ص۲۱۷ تا ۲۲۰) اور محمد رمضان (ص۲۲۳) کے نام خطوط مع عکسی نقول، اقبال نامہ، اوّل (بالترتیب ص۳۰۵ اور ۳۳۸) میں اور محمود شیرانی کے نام خط (ص۲۸۸) اقبال نامہ، دوم (ص۳۵۱) میں شامل ہیں۔ مرتب نے مختصر حواشی کا بھی اہتمام کیا ہے، مگر کہیں کہیں تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ بعض امور کی کسی قدر مزید توضیح ضروری تھی، مثلاً: یہ کہ ثاقب کان پوری کے مجموعۂ کلام (ص۵) کا نام ۳؎ کیا تھا؟ وغیرہ۔ انوارِ اقبال کا دوسرا اڈیشن ۱۹۷۷ء میں طبع اوّل کا عکس لے کر شائع کیا گیا۔ اس میں طبع اوّل کی تمام اغلاط موجود ہیں۔ طبع دوم کا کاغذ نسبتاً باریک ہے۔ ۱- انوارِ اقبال میں یہ خط مکاتیب بنام محمد دین فوق میں درج ہے، مگر محمد عبدللہ قریشی کے مطابق اس کے مکتوب الیہ غلام احمد مہجور ہیں (روحِ مکاتیبِ اقبال: ص۲۸۴)۔ ۲- انوارِ اقبال: ص۸ ۳- متاعِ درد۔ ژ مکاتیبِ اقبال، بنام گرامی اقبال کے نوّے خطوط پر مشتمل یہ مجموعہ، مولانا شیخ غلام قادر گرامی اور اقبال کے باہمی ربط وتعلق کا ایک دلچسپ مرقع ہے۔ اقبال کے اصل خطوط شیخ سردار محمد کے توسط سے اقبال اکادمی کو حاصل ہوئے تھے۔ محمد عبداللہ قریشی نے ان خطوط کو ایک سیر حاصل مقدمے (ص۱۱ تا ۸۷) اور مفید حواشی و تعلیقات کے ساتھ مرتب و مدوّن کیا اور اقبال اکادمی پاکستان، کراچی نے اپریل ۱۹۶۹ء میں شائع کیا۔ سب سے پہلا خط ۱۱؍مارچ ۱۹۱۰ء کا ہے اور آخری ۳۱؍جنوری۱۹۲۷ء کا۔ سات خطوط پر کوئی تاریخ یا سنہ درج نہیں، مرتب نے مندرجاتِ خط سے اندازہ لگاکر، اُن کے قیاسی سالِ تحریر متعین کیے ہیں۔ ابتدائی سولہ صفحات (سرورق، فہرست، پیش لفظ از ممتاز حسن) کے بعد صفحات کا شمار از سرِ نو کیا گیا ہے۔ مولانا غلام رسول مہر نے سات صفحات کے ’’تمہید و تعارف‘‘ میں گرامی کی شخصیت اور اقبال اور گرامی کے باہمی تعلقات پر روشنی ڈالنے کے بعد، مرتب کی ’’دیدہ ریزی‘‘ اور ’’دماغ کاوی‘‘ کو ہر اعتبار سے قابلِ قدر اور مستحقِ ستائش قرار دیا ہے جس کے نتیجے میں یہ مجموعہ ’’اقبالیات کے سلسلے کا ایک قابل قدر مرقع‘‘ بن گیا ہے۔ مرتب نے مقدمے میں گرامی کے سوانح، ان کی شخصیت و شاعری، زیر نظر خطوط اور ان کے حوالے سے اقبال اور گرامی کے باہمی روابط کی تفصیل مہیا کی ہے۔ خطوط تاریخ و سنہ وار ہیں۔ ہر خط کے خاتمے پر تعلیقات کے زیر عنوان، اُس خط سے متعلق توضیح طلب امور پر مختصر اور طویل شذرات درج کیے گئے ہیں۔ ان شذرات میں مرتب نے گرامی کے جوابی خطوط (بنام اقبال) سے بھی مدد لی ہے۔ محمد عبداللہ قریشی نے اس ’’اصل کام‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: اصل کام یہ ہے کہ ان خطوں کو سیاق و سباق اور پیش منظر و پس منظر کے ساتھ ایسے طریقے سے قاری کے سامنے لایا جائے کہ کوئی ضروری امر اس سے مخفی نہ رہے۔ اگر خط میں کسی واقعے کا ذکر ہے، تو یہ واقعہ پڑھنے والے کو معلوم ہوجائے، اگر کسی شخصیت کا نام آگیا ہے، تو اس شخصیت سے واقفیت بہم پہنچائی جائے اور اگر کوئی اشارہ مبہم ہے تو اُسے واضح کردیا جائے۔ یہ کام ذرا مشکل تھا، لیکن خدا نے آسان کردیا۔۱؎ اس مجموعے میں شامل بعض مکاتیب قبل ازیں مختلف مجموعوں میں چھپ چکے ہیں، مثلاً: خط نمبر ۱ اور ۳۸ اقبال نامہ، اوّل (ص ۱۲،۱۳،۱۴،۱۵) میں؛ خط نمبر ۲،۳،۱۸،۲۱،۴۲،۴۳،۶۰ اور ۸۷ نقوش، خطوط نمبر، اوّل (ص ۲۳،۲۴،۲۵،۲۶،۲۷ اور ۲۸) میں۔ خط نمبر ۱۶ اور ۴۶ اقبال میوزیم لاہور میں محفوظ ہیں۔ ۱- عرض حال از مرتب، مکاتیبِ اقبال بنام گرامی: ص۱ نقلِ متن میں، مرتب نے خاصی احتیاط سے کام لیا ہے، تاہم دیگر مرتبینِ خطوط کی طرح اُنھوں نے ’’محمد‘‘ پر( ۔ؐ) کی علامت نہیں بنائی، حالانکہ اقبال نے ہمیشہ اس کا التزام رکھا۔ اسی طرح ۱۷ء کو ۱۹۱۷ء بنادیا ہے(ص۱۱۸)۔ ’’انا علیہ راجعون‘‘ (ص۲۳۷) درست نہیں، ’’انا الیہ راجعون‘‘ ہونا چاہیے۔ اس مجموعے کے بعض خطوط کی تاریخیں درست نہیں، مثلاً مکتوب نمبر ۲ پر تاریخ درج نہیں، مرتب نے اس خط کو ’’۱۹۱۰ء اور ۱۹۱۲ئ‘‘ کے درمیان کا قرار دیا ہے، درحقیقت یہ آغاز ۱۹۱۲ء کا ہے۔۱؎ اسی طرح مکتوب نمبر ۷۰ کا آغاز ’’لاہور، ۲۴؍اپریل ۱۹۲۲ئ‘‘ سے ہوتا ہے، حالانکہ متن سے ظاہر ہے، کہ یہ خط لدھیانے سے ۱۹۲۳ء میں لکھا گیا۔۲؎ مرتب کے حواشی و تعلیقات سے خطوط میں مذکور کئی شخصیات، کتب اور مسائل و امور پر روشنی پڑتی ہے، مگر کئی باتیں اب بھی وضاحت طلب رہ گئی ہیں، مثلاً: ’’ریوڑی کا شکریہ‘‘ (ص۲۲۴) اور ’’خط مع ریوڑی مل گیا ہے‘‘ (ص۲۳۹) سے نہ معلوم کیا مراد ہے؟… محمد عبداللہ قریشی ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’۱۹۲۲ء میں پھر زیادہ تعداد خطوں کی نظر آتی ہے، یہ سال پیامِ مشرق کی تصنیف کا ہے‘‘۔ (ص۶۹) مرتب نے غالباً یہ نتیجہ ۲۴؍اپریل ۱۹۲۲ء کے مکتوب سے اخذ کیا ہے، جس میں پیامِ مشرق کا ذکر کرتے ہوئے اقبال لکھتے ہیں: ’’اس کی اشاعت کو دو ہفتہ سے زیادہ نہیں گزرا‘‘۔۳؎ حالانکہ (جیسا کہ اُوپر ذکر آچکا ہے کہ) اس خط کا سالِ تحریر ۱۹۲۲ء نہیں ۱۹۲۳ء ہے۔ مرتب کے بعض تعلیقات زیادہ طوالت اختیار کرگئے ہیں، مثلاً: راقم کے خیال میں سر عبدالقادر(ص۱۰۷-۱۰۸)، نواب ذوالفقار علی خاں (ص ۱۰۸-۱۰۹) اور اکبر الٰہ آبادی (ص۱۷۸) کے تعارفی شذرات نسبتاً مختصر ہوتے، تو بہتر تھا۔ ۱۶؍مئی ۱۹۲۲ء میں ’’خضرِ راہ‘‘ کا ذکر آیا ہے، مرتب نے تعلیقات میں نظم پر اپنی طرف سے اظہارِ خیال کے بعد، نظم کے متعلق غلام رسول مہر کا۷صفحات سے زائد کا ایک طویل تنقیدی مضمون نقل کردیا ہے، جس کا یہاں محل نہ تھا۔ جون ۱۹۸۱ء میں اقبال اکادمی پاکستان لاہور نے یہ مجموعہ دوبارہ شائع کیا جو طبع اوّل کی عکسی اشاعت ہے۔ آخر میں ’’اضافۂ طبع دوم‘‘ کے تحت گرامی کے نام ایک نئے خط اور بیگم گرامی کے نام ۱- ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار، مجلّۂ تحقیق، جلد اوّل، شمارہ ۱،۲:ص۴۸ ۲- ایضاً : ص۴۹ ۳- مکاتیبِ اقبال بنام گرامی: ص۲۰۳ سات خطوں (ماخوذ از خطوطِ اقبال بنام بیگم گرامی مرتبہ: حمیداللہ شاہ ہاشمی) کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اغلاطِ متن (دیکھیے: ص۲۵۹-۲۶۰) میں سے بعض تو درست کردی گئی ہیں، مگر متعدد اغلاط اب بھی موجود ہیں۔ ژ خطوطِ اقبال یہ مجموعہ، اقبال کے ایک سو گیارہ ایسے خطوط پر مشتمل ہے، جو کسی مجموعۂ مکاتیب میں موجود نہیں، اگر موجود ہیں تو اُن کا متن ناقص، اُدھورا یا غلط ہے۔ ان میں اُردو کے ۹۱، انگریزی کے ۱۹ اور عربی کا ایک خط شامل ہے۔ عربی اور انگریزی خطوط کا اصل متن مع ترجمہ دیا گیا ہے۔ مجموعے میں اقبال کے ۹ اُردو اور انگریزی خطوط کی عکسی نقول بھی شامل ہیں۔ اقبال کے نام جامعہ ازہر کے علامہ مصطفی المراغی کے جوابی خط کی عکسی نقل بھی مہیا کی گئی ہے۔ پیش لفظ ڈاکٹر سیّد عبداللہ کے قلم سے ہے۔ ’’عرضِ مرتب‘‘ کے زیر عنوان مرتب نے صحتِ متن کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے مختلف مثالوں کے ذریعے وضاحت کی ہے کہ مرتبینِ مکاتیب، متن خوانی میں سہل پسندی اور بے احتیاطی کا شکار ہوئے ہیں۔ زیر نظر مجموعے کے سلسلے میں مرتب نے لکھا ہے: میں نے اوّل تو خطوط کی عکسی نقول مہیا کرنے کی کوشش کی اور جس قدر خطوں کی عکسی نقول مل سکیں، انھیں سامنے رکھ کر، خطوط کے متون نقل کرنے میں حتی الامکان پوری احتیاط سے کام لیا۔ یہاں تک کہ حضرتِ علامہ کا اصل املا بھی جوں کا توں برقرار رکھا ہے۔ اسی طرح اگر تاریخ کسی خط کے آغاز میں درج ہے، تو آغاز ہی میں درج کی، اگر آخر میں ہے تو آخر میں۔ خط میں سنہ ’’۱۶ئ‘‘ لکھا ہے تو اسے ’’۱۹۱۶ئ‘‘ نہیں بنایا، یعنی نقل نویسی میں نقل کی اصل سے مطابقت کو برقرار رکھا گیا ہے۔ پھر جن خطوں کی عکسی نقول دستیاب نہیں ہوسکیں، دوسرے ذرائع سے امکانی حد تک، ان کا صحیح متن دریافت کرنے کی سعی کی گئی۔ بعض خطوں کے ایک سے زائد متون ملے تو قابلِ ترجیح متن اختیار کرکے اختلافات کی نشان دہی حواشی میں کردی گئی۔ اسی طرح انگریزی خطوط کے ترجموں میں بھی خاصی احتیاط سے کام لیا ہے۔ جس جس انگریزی خط کا متن دستیاب ہوسکا، وہ اُردو ترجمے کے ساتھ درج کردیا گیا ہے، تاکہ قارئین ترجمے کا موازنہ اصل متن سے کرسکیں۔ ترجمے کے ضمن میں ایک وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ میں نے انگریزی خطوط کے القاب کا انگریزی ترجمہ نہیں کیا، بلکہ انھیں جوں کا توں رہنے دیا ہے کیوں کہ اوّل تو ان القاب کا ایسا مناسب و موزوں ترجمہ کرنا آسان نہیں، جو پوری طرح اس مفہوم کو ادا کرے، جو خط لکھتے ہوئے علامہ اقبال کے ذہن میں، کسی خاص مکتوب الیہ کے لیے موجود تھا۔ دوسرے: ڈیر سر، مائی ڈیر اکبر وغیرہ ایسے القاب ہیں، جو حضرتِ علامہ نے اپنے اُردو خطوں میں بھی کئی جگہ استعمال کیے ہیں، اس لیے ایسے القابات کو اُردو میں بھی علیٰ حالہٖ برقرار رکھنے میں کوئی قباحت نہیں۔۱؎ اس سے زیرنظر مجموعے کی پوری سکیم واضح ہوجاتی ہے۔ خطوطِ اقبال کے آغاز میں مکاتیبِ اقبال کے مختلف مجموعوں کا مختصر جائزہ پیش کرتے ہوئے، اقبال کے خطوط اور ان کی خطوط نویسی پر ایک تنقیدی نظر ڈالی گئی ہے۔ خطوط کی ترتیب تاریخ و سنہ وار ہے، البتہ ایک مکتوب الیہ کے نام جملہ خطوط یکجا ہی دیے گئے ہیں۔ ہر خط سے پہلے مکتوب الیہ کا مختصر تعارف اور خط کا مختصر پس منظر درج ہے۔ مختصر پاورقی تعلیقات میں متنِ خط کے اختلافات اور بعض شخصیات وغیرہ کے بارے میں تعارفی اشارات موجود ہیں۔ کتاب کا تیسرا حصہ (ضمیمے: ص۲۹۲-۳۰۸) متونِ مکاتیب سے متعلق بعض نثری و شعری تحریروں پر مشتمل ہے۔ چوتھے حصے بعنوان ’’مآخذ‘‘ میں ہر خط کے ذریعۂ حصول، قبل ازیں اس کی اشاعت اور بعض انگریزی خطوط کے ناقص ترجموں سے بحث کی گئی ہے۔ مجموعے کے آخر میں کتابیات اور ایک مفصل اشاریہ بھی شامل ہے۔ اس میں شبہہ نہیں کہ خطوطِ اقبال میں بقول ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار: ’’متن کی تصحیح کے علاوہ بعض تاریخوں کو بھی درست کیا گیا ہے ‘‘،۲؎ تاہم نقولِ متن میں خود مرتب سے بھی بہت سی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں، مثلاً: صفحہ سطر غلط صحیح ۱۰۳ ۹ نومبر ستمبر ۱۲۲ ۲ خفتہ سفتہ ۱۲۲ ۳ دیباچہ دیباجہ ۱۲۶ ۱۳ رکھتا ہوں رکھتا ہو ۱۳۱ ۳ نالید نالیدو ۱۶۰ ۴ تکلیف تکلیف دیتا ۱- خطوطِ اقبال: ص۲۲،۲۳ ۲- مجلّۂ تحقیق، جلد اوّل، شمارہ۱،۲:ص۳۵ صفحہ سطر غلط صحیح ۱۷۷ ۶ نصیر الدین نصرالدین ۲۰۱ ۳ میں پیش میں نہیں پیش ۲۰۹ ۲ میں گوشت میں نے گوشت ۲۱۱ ۱۲ ۲۴؍فروری ۲۴؍جنوری ۲۲۴ ۱۲ تھامس تھامسن ۲۳۷ ۱۷ الجھن الجھی ۲۴۹ ۵ مفید طلب مفید مطلب ممکن ہے، ان میں سے بعض، کتابت کی اغلاط ہوں، تاہم مرتب کی ذمہ داری کم نہیں ہوتی۔ مقدمہ، حواشی اور توضیحی شذرات میں بھی کئی غلطیاں نظر آتی ہیں، مثلاً: صفحہ سطر ۳۷ ۱۷ ۱۴؍اکتوبر صحیح ہے اور ۱۹؍اکتوبر غلط۔ ۳۷ ۱۸ صفحہ ۲۲ صحیح ہے اور ۳۴ غلط۔ ۷۶ ۶ جہاز کا نام ملوجا غلط ہے۔ ۷۷ ۱۶ مصرعِ ثانی کی صحیح صورت یہ ہے: کچھ ملے مجھ کو بھی اس دربارِ گوہر بار سے ۷۹ حاشیہ نمبر ۴ ٹامس کک، ایک ٹریول ایجنٹ ہے نہ کہ جہازران کمپنی۔ ۹۳ ۱۵ صحیح: ’’کچھ مشکل نہ تھی‘‘۔ ۱۰۴ ۳ محروم ۱۹۶۶ء میں فوت ہوئے۔ ۱۲۲ ۶ صحیح نام: میر سردار احمد خاں۔ ۱۵۱ ۶ ۱۹۲۳ء صحیح ہے اور ۱۹۳۲ء غلط۔ ۱۵۴ ۱۰ ۱۹۲۳ء صحیح ہے اور ۱۹۶۳ء غلط۔ ۲۳۸ ۱۶ ’’جامِ حالی‘‘ صحیح ہے نہ کہ ’’نامِ حالی‘‘۔ ۲۲۷ ۷-۸ ڈاکٹر ریاض الحسن، کراچی یونی ورسٹی میں کبھی استاد نہیں رہے۔ ۲۶۱ ۱۵ نومبر ۱۹۳۴ء صحیح ہے اور نومبر ۱۹۳۶ء غلط۔ بعض خطوط کی تاریخیں اور سنہ اصلاح طلب ہیں، مثلاً مکتوب بنام جاوید اقبال، ۱۹۳۳ء میں لکھا گیا، نہ کہ ۱۹۳۲ء میں (ص۲۲۲)۔ مکتوب بنام مصطفی المراغی ۱۹۳۷ء میں لکھا گیا، نہ کہ ۱۹۳۶ء میں (ص۲۱۴)۔ مکتوب بنام یلدرم، دسمبر ۱۹۳۳ء میں لکھا گیا، نہ کہ دسمبر ۱۹۳۲ء میں (ص۱۵۱)۔ محمدنعمان کے نام خط اکتوبر ۱۹۳۷ء کا تحریر کردہ ہے (گفتارِ اقبال: ص۲۱۰)۔ ان اغلاط کے باوجود، اس مجموعے کی وجہ سے صحتِ متن کی طرف توجہ مبذول ہوئی اور بہت سے خطوط پہلی بار صحیح اور مکمل صورت میں سامنے آئے۔ ۲۵؍ستمبر ۱۹۰۵ء کو کیمبرج سے لکھے جانے والے ایک طویل مکتوب کو، اب تک محمد دین فوق کے نام قرار دیا جاتا رہا، خطوط اقبال میں اس کے اصل مکتوب الیہ (مولوی انشاء اللہ خاں) کی نشان دہی کی گئی ہے (ص۹۳) اس مجموعے میں اقبال نامہ اوّل، دوم اور انوارِ اقبال کی بعض اغلاط کی تصحیح کی گئی ہے۔ مکتوب بنام شیخ عظیم اللہ (ص۲۰۱) پر تاریخِ تحریر درج نہیں، اس کی تاریخ تحریر ۲۲؍نومبر۱۹۳۵ء ہے۔۱؎ تقریباً ایک سال بعد ۱۹۷۷ء میں طبع اوّل کے عکس پر مبنی خطوطِ اقبال کی ایک اور اشاعت دہلی سے عمل میں آئی۔ یہ اشاعت مرتب کی اجازت و اطلاع کے بغیر ہوئی، اس لیے اس اڈیشن میں، طبع اوّل کے تمام عیوب و نقائص موجود ہیں۔۲؎ ژ خطوطِ اقبال بنام بیگم گرامی بیگم مولانا گرامی کے نام اقبال کے آٹھ خطوں کا یہ مختصر مجموعہ حمیداللہ شاہ ہاشمی نے مرتب کرکے جنوری ۱۹۷۸ء میں فیصل آباد سے شائع کیا تھا۔ مولانا گرامی کی وفات کے بعد، بیگم گرامی اُن کا کلام مرتب کرکے چھپوانا چاہتی تھیں، اس سلسلے میں وہ علامہ اقبال سے مشورہ و اعانت کی طالب ہوئیں۔ اقبال کے یہ خطوط کلامِ گرامی کی ترتیب و تدوین اور کتابت و طباعت کے ضمن میں ہدایات پر مشتمل ہیں۔ یہ خطوط مولانا گرامی کے ورثا سے حاصل کرکے مرتب کیے گئے ہیں۔ مرتب نے مجموعے کے ابتدائی حصے میں مولانا گرامی اور اقبال کے باہمی بے تکلفانہ روابط پر روشنی ڈالی ہے۔ اس سلسلے میں اُنھوں نے اقبال کے مطبوعہ مکاتیب کے علاوہ، گرامی کی غیر مطبوعہ ۱- اقبال اور انجمن حمایتِ اسلام: ص۱۳۰ ۲- مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: فروغ احمد کا مضمون ’’بعنوان خطوطِ اقبال، ایک تنقیدی جائزہ‘‘ مشمولہ: اقبال ریویو ،لاہور، اقبال نمبر، جولائی تا اکتوبر۱۹۷۷ئ، ص۲۱۷-۲۳۴ یادداشتوں سے بھی مدد لی ہے، پھر بیگم گرامی کا مختصر تعارف کرایا ہے۔ بعدازاں خطوطِ اقبال کا متن درج کیا ہے۔ آخر میں عکسِ خطوط شامل ہیں۔ مرتب دیباچے میں لکھتے ہیں: ’’جتنے خطوط دستیاب ہوسکے ہیں، وہ بلا کم و کاست شائع کیے جارہے ہیں‘‘۔ (ص۱۰) مگر متونِ خطوط نقل کرنے میں مرتب سے متعدد اغلاط سرزد ہوئی ہیں، مثلاً: صفحہ سطر خطوطِ اقبال بنام بیگم گرامی عکسِ خطوط ۴۷ ۴ ۱۹۱۸ء ۱۸ء ۴۷ ۸ تعمیلِ سمن نہیں ہوئے تعمیل سمن کی نہیں ہوئی ۴۷ ۹ اُمید ہے آپ اُمید کہ آپ ۴۷ ۱۱ ۸؍دسمبر۱۹۱۷ء ۸؍دسمبر۱۷ء ۵۲ ۲ الحمدللّٰلہ الحمدلِلّٰہ ۵۲ ۵ اس کام کے اس کے ۵۲ ۷ پہلے اُن پہلے صرف ان ۵۲ ۱۴ ۱۳؍ستمبر۱۹۲۷ء ۱۳؍ستمبر۲۷ء ۵۳ ۴ نہ کہ کتاب نہ کتاب ۵۳ ۸ ۲۰؍اپریل ۱۹۳۰ء ۲۵؍اپریل۳۰ء ۵۶ ۳ کوئی ایسی بات کوئی بات ایسی ۵۶ ۵ بھیجوگی بھیجونگی ۵۶ ۸ ۱۱؍جون ۱۹۳۰ء ۱۱؍جون ۳۰ء ۵۸ ۳ قابلِ اعتبار قابلِ اعتماد ۶۰ ۵ عزیز سے میں نے عزیز سے یا آپ سے میں نے ۶۰ ۱۲ آپ سارا کلام آپ کل کلام ۶۱ ۱۶ باہر سے آنے والے باہر رہنے والے ۶۱ ۱۸ نہ ہوتی نہ ہوسکتی ۶۱ ۱۹ نوبت نہیں نوبت ہی نہیں اس مجموعے میں مولانا گرامی کے نام، اقبال کا ایک غیر مطبوعہ خط بھی شامل ہے۔ مجموعی اعتبار سے، یہ مجموعہ ذخیرۂ مکاتیبِ اقبال میں ایک مفید اضافہ ہے۔ محمد عبداللہ قریشی نے ان تمام خطوط کو مکاتیبِ اقبال بنام گرامی کے دوسرے اڈیشن میں شامل کرلیا ہے۔ ژ اقبال- جہانِ دیگر اس مجموعے کو راغب احسن (۱۹۰۶ئ-۱۹۷۵ئ) کے نام مطبوعہ اور غیرمطبوعہ مجموعۂ مکاتیب کے طور پر پیش کیا گیا ہے مگر کل۴۴ مکاتیب میں خط نمبرایک انوری بیگم کے نام ہے۔ خط۳۳ راغب احسن کے نام نہیں، بلکہ پروفیسر محمد صدیق ظفر حجازی کی تحقیق کے مطابق اس کے مکتوب الیہ مولانا شفیع دائودی ہیں ۔۱؎ یوںراغب احسن کے نام مکاتیب کی تعداد ۴۲ بنتی ہے۔ ہر خط کے بالمقابل صفحے پر اقبال کا دست نوشت عکس دیا گیا ہے۔ انگریزی خطوط کا ترجمہ بھی شامل کتاب ہے۔ آخر میں مکتوب الیہ کا تفصیلی تعارف دیا گیا ہے۔ ’’اقبال اکیڈمی‘‘ کے عنوان سے راغب احسن کا ایک تفصیلی مضمون بھی شامل ہے جو سب سے پہلے نیرنگ خیال لاہور کے اقبال نمبر ۱۹۳۲ء میں چھپا تھا۔ ملّی، سیاسی اور علمی مطالب اور موضوعات کے اعتبار سے یہ خط بہت اہم ہیں۔ ان مکاتیب کا عرصۂ تحریر مئی۱۹۳۱ تا ستمبر ۱۹۳۷ء ہے۔ یہ زمانہ ہندوستانی سیاسیات، اسلامیانِ ہند کو درپیش مسائل، اُن کے مستقبل اور اقبال کے خطبہ الٰہ آباد کے حوالے سے بے حد اہم اور نازک تھا۔ راغب احسن کے نام زیرنظر خطوں میں زیادہ تر سیاسی اُمور و مسائل اور مسلمانوں کے لیے مستقبل کی راہ عمل پر اظہارِ خیال ملتا ہے۔ ۱۱؍دسمبر ۱۹۳۴ء کے خط سے اقبال کے نظریۂ ملکیتِ زمین اور خط ۶؍مارچ ۱۹۳۴ء سے اقبال کی ’’پاکستان سکیم‘‘ کی وضاحت بھی ہوتی ہے۔ موضوعاتی اہمیت کی بنا پر بقول پروفیسر ظفر حجازی ’’ان خطوط کی تدوین خصوصی توجہ کی متقاضی تھی لیکن افسوس کہ اس کا خیال نہ رکھا گیا اور خطوط بہ عجلت شائع کر دیے گئے۔‘‘ مجموعے کی سب سے بڑی خامی تو یہ ہے کہ متن کو نقل کرنے میں کماحقّہ احتیاط نہیں کی گئی۔ ایک اور بڑی کمی یہ محسوس ہوتی ہے کہ متن پر ضروری حواشی اور توضیحات شامل نہیں ہیں۔ اس کمی کو پروفیسر محمد صدیق ظفرحجازی نے اپنے ایم فل اقبالیات کے تحقیقی مقالے اقبال- جہانِ دیگر: تعلیقات و حواشی میں باحسن طریق پورا کیا ہے۔ مذکورہ مقالے میں متن کی درستی کے لیے بھی ۱- غیرمطبوعہ مقالہ ایم فل اقبالیات بعنوان: اقبال- جہانِ دیگر: تعلیقات و حواشی، ص۱۶۲-۱۶۳ قابل قدر کاوش کی گئی ہے۔ اس مقالے کی روشنی میں زیرنظر مجموعے کی تدوینِ نو اور اشاعت کی اشد ضرورت ہے۔ ژ مکتوباتِ اقبال بنام چودھری محمد حسین علامہ اقبال کے قریبی رفیق اور ان کے بچوں کے سرپرست چودھری محمد حسین کے نام خطوطِ اقبال کا یہ مجموعہ مکتوب الیہ کے پوتے ثاقف نفیس نے شائع کیا ہے۔ ۴صفحات کا دیباچہ اور چند شخصیات پر تین صفحات کا نہایت سرسری تعارف بھی شامل ہے۔ بیس خطوط کا متن مع عکس شامل کتاب ہے۔ یہ تمام خطوط پوسٹ کارڈ پر تحریر کیے گئے ہیں۔ دراصل یہ وہی خطوط ہیں جو ثاقف نفیس نے ۱۹۸۴ء میں اپنے ایم اے اُردو کے مقالے علامہ اقبال اور چودھری محمد حسین (روابط) میں شامل کیے تھے۔ (اس پر راقم کا تبصرہ دیکھیے: اقبالیاتی جائزے ،ص۵۴-۵۵) مذکورہ تحقیقی مقالے میں مکتوب الیہ کی ڈائری کے کچھ حصے اور ۲۶خط شامل ہیں مگر ان میں سے نسبتاً چھے طویل خط زیرنظر مجموعے میں شامل نہیں کیے گئے، نہ معلوم کیوں؟ حالانکہ اس ذخیرے میں وہی چھے خط اہم تر ہیں۔ ان خطوں کا زمانۂ تحریر ۱۹۲۳ء سے ۱۹۳۶ء تک ہے۔ تمام خطوط اقبال کے دست نوشت ہیں۔ ژ LETTERS OF IQBAL TO JINNAH قائد اعظم محمد علی جناح کے نام اقبال کے تیرہ خطوط پر مشتمل یہ مجموعہ، مختصر ہونے کے باوجود، معنوی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ خطوط محمد شریف طوسی کو جناح کی ذاتی لائبریری سے دستیاب ہوئے۔ اُنھوں نے خطوط کو ٹائپ کیا اور تاریخ وار مرتب کرکے مکتوب الیہ کو ان کی اشاعت کے لیے آمادہ کیا۔۱؎ جناح چاہتے تھے کہ اقبال کے نام اُن کے جوابی خطوط بھی شامل کرکے، مجموعے کو معنوی اعتبار سے زیادہ مکمل و مربوط بنادیا جائے، مگر اقبال کے ہاں سے جناح کے جوابی خطوط دستیاب نہ ہوسکے،۲؎ چنانچہ اُنھوں نے اس پر ایک پیش لفظ کا اضافہ کرکے مجموعہ اشاعت کے لیے دے دیا۔ پہلا اڈیشن تین ہزار کی تعداد میں اپریل ۱۹۴۳ء میں شائع ہوا۔ بعد کی ایک اشاعت (۱۹۶۸ئ) میں First Edition 1942کے الفاظ مرقوم ہیں، مگر یہ اندراج درست نہیں۔ میاں بشیر احمد کا بیان ۱- My Reminiscences: ص۱۱ ۲- Quaid-i-Azam As Seen by His Contemporaries: ص۱۷ ہے کہ جنوری ۱۹۴۳ء میں قائد اعظم نے خطوطِ جناح بنام اقبال تلاش کروانے کی ہدایت کی۔ جواباً میں نے ۲۴؍فروری ۱۹۴۳ء کو انھیں خطوط کی عدم دستیابی سے مطلع کیا۔۱؎ اس صورت میں ۱۹۴۲ء میں مجموعے کی اشاعتِ اوّل ناممکن ہے۔ اشاعتِ اوّل کے سرورق پر یہ توضیحی عبارت درج ہے: A collection of Iqbal's Letters to the Quaid-i-Azam conveying his views on the Political Future of Muslim India. بعد میں اس عبارت کو تبدیل کرکے یوں بنادیا گیا: Allama Iqbal's views on the Political Future of Muslim India. یہ مجموعہ اب تک کئی بار چھپ چکا ہے اور اس اعتبار سے مکاتیبِ اقبال کے مجموعوں میں سب سے زیادہ چھپنے والا مجموعہ ہے۔ تمام اشاعتوں کا متن یکساں ہے۔ اس مجموعے کو ازسرِ نو مرتب کرنا چاہیے۔ اس میں، اوّل: علامہ اقبال اور قائد اعظم کے باہمی تعلقات اور سیاسی جدوجہد میں دونوں کے اشتراک و تعاون پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے۔ دوم: ان خطوط میں مذکور سیاسی اور تاریخی احوال و مسائل کے متعلق توضیحی حواشی کا اضافہ ضروری ہے، خصوصاً ایک عام قاری کے لیے ان کی معنویت خاطر خواہ طریقے سے اسی وقت نمایاں ہوتی ہے، جب انھیں مختصر تمہیدی شذرات اور پاورقی حواشی کے ذریعے واضح کیا جائے۔ سوم: بشیر احمد ڈار کے مجموعے Letters (ص ۱۰۵-۱۱۱) میں ایک ایسا خط شامل ہے، جو غلام رسول کی طرف سے اقبال کی ہدایت پر محمد علی جناح کو لکھا گیا۔ اقبال کے آخری دو سال (ص۵۹۴ اور ۶۰۸) میں بھی اس نوع کے دو مراسلوں کا اُردو ترجمہ شامل ہے، جو علامہ کے حسبِ ارشاد ۱۷ فروری اور ۷ مارچ۱۹۳۸ء کو غلام رسول کی طرف سے جناح کے نام بھیجے گئے۔ مزید دو خطوں کا اُردو ترجمہ قومی زبان (اپریل ۱۹۸۱ئ) میں چھپا ہے۔ ان سب کو زیر نظر مجموعے میں بطور ضمیمہ شامل کرنا چاہیے۔ بشیر احمد ڈار نے ان تیرہ خطوں کو اپنے مجموعے Letters of Iqbal میں شامل کیا ہے۔ جناح کے نام اقبال کے دوخطوط جہانگیر عالم اور ایک صابر کلوروی نے دریافت کیا ہے۔ جہانگیر عالم نے ۱۹خطوں کا اُردو اڈیشن شائع کیا ہے مگر نو دریافت خطوں کے اصل انگریزی متون اور ان کے مآخذ انھوں نے تاحال منکشف نہیں کیے۔ ۱- Quaid-i-Azam As Seen by His Contemporaries: ص۱۷ ژ IQBAL'S LETTERS TO ATTIYA BEGUM عطیہ بیگم کے نام اقبال کے نو خطوط ۱؎ پر مشتمل یہ مجموعہ پہلی بار فروری ۱۹۴۷ء میں بمبئی سے شائع ہوا۔ اگرچہ ان خطوں کا متن Letters of Iqbalمیں بھی شامل ہے، مگر زیر نظر مجموعہ اس لیے اہمیت رکھتا ہے کہ اس میں پہلی بار اصل مکاتیب کے عکس شائع کیے گئے۔ ایس اے رحمن نے اس کتاب کو The Monograph of Attiya Begum on Iqbal۲؎قرار دیا ہے، مگر اس مونوگراف کی ساری عمارت اقبال کے نو خطوط پر استوار ہے۔ پھر کتاب کے گرد پوش پر مندرج عنوان Iqbal's Letters to Attiya Begum سے بھی ظاہر ہے کہ اسے مجموعۂ مکاتیب کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔ پہلا خط کیمبرج سے ۲۴؍جنوری ۱۹۰۷ء اور آخری لاہور سے ۱۴؍دسمبر ۱۹۱۱ء کو لکھا گیا۔ ان خطوط سے، اس عرصے میں اقبال کے جذباتی ہیجان، ذہنی خلفشار اور قلبی اضطراب کا اندازہ لگانے میں مدد ملتی ہے۔ عطیہ بیگم کی یادداشتوں نے خطوط کے پس منظر اور پیش منظر کو مزید واضح کردیا ہے۔ اس مجموعے کی اشاعت سے حیاتِ اقبال کے ایک اہم باب سے متعلق نہایت قیمتی اور بالکل نیا مواد منظرِ عام پر آیا، جس کی بنیاد پر اقبال کے بعض نقادوں کو ان کی جذباتی زندگی کے متعلق حاشیہ آرائی کا موقع مل گیا۔ اس میں اقبال کی بعض نظموں کے ایسے عکس بھی شامل ہیں، جن سے ان کی تاریخِ تحریرمتعین ہوتی ہے، مثلاً: نواے غم، دسمبر ۱۹۱۱ئ۔ دعا، دسمبر۱۹۱۱ئ۔ اورنویدِ صبح، ۳۱ دسمبر۱۹۱۱ء (بانگِ درا: ص۱۲۴، ۲۱۲، ۲۱۱)۔ کتاب کے گرد پوش پر تو یہ عنوان Iqbal's Letters to Attiya Begumدرج ہے، مگر اندرونی سرورق پر عنوان کو صرف Iqbal تک محدود رکھا گیا ہے۔ ابتدا میں آرٹ پیپر پر مطبوعہ، نواب حسن یار جنگ بہادر اور فیضی رحیمن کی تصاویر شامل ہیں۔ ٹائپ باریک ہے۔ واقعات کی مناسبت سے متن کے درمیان ہی چھوٹے سائز میں مندرجہ ذیل تصاویر۳؎ بھی دی گئی ہیں: (۱) سیّد علی بلگرامی کے ہاں پکنک، کیمبرج (۲) فرا پروفیسر ہیرن(۳) فرالین سینے شال(۴) اقبال اور عطیہ، محوِ گفتگو (۵)مسجد باغِ فردوس (۶)عطیہ بیگم، کشتی چلاتے ہوئے(۷) اقبال، کشتی چلاتے ہوئے۔ ۱- عطیہ بیگم کے نام دسواں اور آخری خط، زیر بحث کتاب کے اُردو ترجمے بعنوان اقبال (مترجم: ضیاء الدین احمد برنی، کراچی ۱۹۵۶ئ) میں شامل کیا گیا۔ اصل کتاب میں موجود نہیں ہے۔ ۲- فلیپ: Iqbal، طبع دوم۔ ۳- کتاب کا زیر بحث پہلا اڈیشن اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ تصاویر طبع دوم یا کتاب کے کسی اُردو ترجمے میں شامل نہیں ہیں۔ اقبال کے یہ خطوط نسبتاً مفصل ہیں، ۷؍اپریل ۱۹۱۰ء کا خط گیارہ صفحات؛ ۱۷؍جولائی ۱۹۰۹ء کا سات صفحات اور ۳۰ مارچ ۱۹۱۰ء کا خط پانچ صفحات پر مشتمل ہے۔ اقبال نے اس قدر طویل نجی خطوط عطیہ بیگم کے سوا اور کسی کو نہیں لکھے۔ ۱۷؍اپریل ۱۹۰۹ء کے خط سے، تین مختلف مقامات سے کچھ حصے حذف کیے گئے ہیں۔ اسی کتاب کے دوسرے اڈیشن (لاہور، ۱۹۶۹ئ) میں مشمولہ عکس میں خط کے پہلے صفحے کے دو محذوف جملے شامل ہیں: (1) I too wish to see you and pour out my entire self before you. (2) Your letters to me have always kept in a safe chest; nobody can see them. تاہم دوسرے صفحے سے جو جملہ حذف کیا گیا، وہ طبع دوم کے عکس میں بھی بحال نہیں ہوسکا۔ ایک عام قاری کے لیے ان خطوط کو روانی سے پڑھنا آسان نہیں۔ متن کو ٹائپ میں بھی دیا جاتا، تو بہتر تھا۔ دوسرا اڈیشن ۱۹۶۹ء میںلاہور سے آئینہ ادب نے شائع کیا۔ اس کا ٹائپ موٹا اور کاغذ دبیز ہے۔ فلیپ کی عبارت ایس اے رحمن کے قلم سے ہے۔ (مورخہ: ۸؍اپریل ۱۹۶۹ئ)۔ کتاب کا متن بعینہٖ پہلے اڈیشن کے مطابق ہے، البتہ بعض منظومات (دعا، نمودِ صبح اور ترسم کہ تومی رانی…) کے عکس، جو پہلے اڈیشن میں کتاب کی تقطیع سے بڑے سائز پر طبع کیے گئے تھے، طبع دوم میں مصغّر کردیے گئے ہیں۔ مزید برآں مندرجہ ذیل چیزیں حذف کردی گئی ہیں: (۱) پہلے اڈیشن کے گرد پوش پر درج شدہ عنوان: Iqbal's Letters to Attiya Begum۔ (۲) نواب حسن یار جنگ اور فیضی رحیمن کی تصاویر۔ (۳) سات تصاویر (جن کا ذکر اُوپر آچکا ہے)۔ تاہم یہ امر تعجب خیز ہے کہ ۲۹ مئی ۱۹۳۳ء کا محررہ خط (جس کا عکس پہلی بار اقبال، مترجم: ضیاء الدین احمد برنی میں شائع کیا گیا تھا) دوسرے اڈیشن میں شامل نہیں ہے۔ گردپوش پر درج ذیل الفاظ کا اضافہ کیا گیا ہے: Monograph of Atiya Begum on Iqbal تیسرا اڈیشن (آئینہ ادب، لاہور، ۱۹۷۷ئ) طبع دوم کی عکسی اشاعت ہے۔ ژ LETTERS AND WRITINGS OF IQBAL نومبر ۱۹۶۷ء میں کراچی سے مطبوعہ، نثرِ اقبال کا یہ مجموعہ، بنیادی طور پر، ایک مجموعۂ مکاتیب ہے۔ اس میں اقبال کی اور ان سے متعلق تحریریں بھی شامل ہیں، مگر اُن کی تعداد خطوط کے مقابلے میں کم ہے۔ قبل ازیں اقبال کے متعدد انگریزی خطوط کے اُردو تراجم، اقبال نامہ میں شامل کیے گئے تھے، اِکا دُکا انگریزی خط اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہے، مگر جملہ دستیاب انگریزی خطوط کتابی اور مدون صورت میں، اس مجموعے کے ذریعے پہلی بار سامنے آئے۔ ہر خط سے پہلے مکتوب الیہ کا مختصر تعارف اور خط کا پس منظر بیان کیا گیا ہے، مگر یہ اہتمام سارے خطوں کے سلسلے میں نہیں کیا گیا۔ بعض مقامات پر پاورقی حواشی بھی درج ہیں، مگر خاصے تشنہ۔ متن کی صحت کے ضمن میں مرتب کا رویہ وہی ہے، جس کی جھلک انوارِ اقبال میں ملتی ہے۔ اُنھوں نے Atiyaکو Attiyaنقل کیا ہے ۱؎ اورby his pupils کو by pupils (ص۱۱۵)۔ متن میں کہیںکہیں قوسین میں توضیحات درج کی ہیں (ص۳۳) مگر نہ تو دیباچے میں اور نہ حاشیے میں، اس امر کی وضاحت کی گئی ہے۔ اقبال نے بہت سے خطوط اپنے رائٹنگ پیڈ پر لکھے، خطوط کو نقل کرتے ہوئے یہ تفریق ضروری ہے کہ مطبوعہ الفاظ کہاں ختم ہوتے ہیں اور خط کا اصل متن کہاں سے شروع ہوتا ہے۔ ص۱۱۵ پر مکتوب بنام بیگم آرنلڈ میں لفظ Lahore اصل خط ۲؎ کا حصہ نہیں، مگر ڈار صاحب کے منقول متن میں اسے حصۂ متن ظاہر کیا گیا ہے۔ سب سے پہلے خط بنام میجر سعید محمد خان کا اُردو ترجمہ اقبال نامہ میں شامل ہے، مگر ترجمے میں دو جملے۳؎ ایسے ہیں، جن کا انگریزی متن، اس خط میں موجود نہیں ہے۔ ڈار صاحب نے اس سلسلے میں کوئی وضاحت بھی نہیں کی۔ نہ معلوم انگریزی متن ناقص ہے یا اُردو ترجمے میں مذکورہ دو جملوں کا اضافہ مترجم نے اپنی طرف سے کیا ہے؟… اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ مرتب نے ہر خط کے ماخذ کا ذکر نہیں کیا۔ دیباچے میں اُنھوں نے بعض اصحاب کے نام گنوائے ہیں، جن کے توسط سے انھیں خطوط دستیاب ہوئے، مگر یہ کہ ان میں سے ہر خط کہاں سے اور کس صورت میں (اصل، عکس یا نقل؟) حاصل ہوا، اس بارے میں مرتب نے اِخفا سے کام لیا ہے۔ زیر نظر مجموعے کی اس خامی کا کوئی جواز پیش کرنا مشکل ہے۔ ۱- عکسِ خط مشمولہ: اقبال از عطیہ بیگم، ترجمہ از ضیاء الدین برنی: ص۱۶۱ ۲- دیکھیے عکسِ خط، فنون، اقبال نمبر ۱۹۷۷ئ: ص۱۱۵؛ نیز: اقبال، یورپ میں، ص۹۰ ۳- ’’ٹیپو ہندوستان کا آخری مسلمان سپاہی تھا، جس کو ہندستان کے مسلمانوں نے جلد فراموش کردینے میں بڑی نا انصافی سے کام لیا ہے۔‘‘ (اقبال نامہ، اوّل: ص۲۴۶)۔ ص۱۰۳ پر پہلے اقتباسِ خط کو ۱۹۳۱ء کی تحریر بتایا گیا ہے، اس میں برگساں سے اقبال کی ملاقات کا ذکر ہے، یہ ملاقات جنوری ۱۹۳۳ء میں ہوئی تھی، اس لیے مذکورہ اقتباسِ خط ۱۹۳۳ء یا اس کے بعد کا ہے۔ خواجہ عبدالوحید کے نام خط (ص۷) پر تاریخ (۲۶) کے ساتھ ماہ و سال درج نہیں، یہ ۲۶؍اپریل ۱۹۳۵ء کا خط ہے۔۱؎ خطوط کی کل تعداد ۴۳ ہے۔ ۶۲ خطوط کا اُردو ترجمہ قبل ازیں شائع ہوچکا ہے۔ مجموعے میں شامل تین خطوط مکمل صورت میں نہیں، بلکہ صرف اقتباس کی شکل میں ہیں۔ بعض کے القاب و آداب درج نہیں کیے گئے۔ ایک خط (بنام جناح: ص۱۰۵-۱۱۱) اقبال کا اپنا نہیں، بلکہ اُن کے سیکرٹری غلام رسول کا تحریر کردہ ہے۔ ص۱۰۵ پر جناح کے نام خط ۱۹۳۷ء میں لکھا گیا، نہ کہ ۱۹۳۴ء میں۔ مکتوب بنام شیخ ازہر، اقبال کا اصل خط نہیں، بلکہ عربی اخبار البلاغ میں مطبوعہ مکتوبِ اقبال کے ایک خلاصے پر مبنی ہے۔ خطوط کے ضمن میں اے مجید کے لیے اقبال کا تحریر کردہ ایک سرٹیفیکیٹ بھی شامل ہے۔ اسے بہرحال خط نہیں کہا جاسکتا۔ اسی طرح صفحات ۳۷،۳۸،۴۰،۴۱ پر دی گئی درخواستوں کی نوعیت، خطوط سے کسی قدر مختلف ہے۔ ان مختلف النوع مکاتیب کو مرتب کرتے وقت الگ الگ حصوں میں یکجا کرنا چاہیے تھا۔ ترتیب و تدوین کی ان خامیوں کے باوجود اقبال کے انگریزی خطوط کا یہ اوّلین مجموعہ اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ اس کے ذریعے انگریزی خطوط کا متن، یکجا صورت میں سامنے لایا گیا ہے۔ مرتب نے اس مجموعے کے تمام مکاتیب، بعد میں اپنے جامع تر مجموعے Letters of Iqbalمیں شامل کرلیے۔ اس لحاظ سے اس مجموعے کو کالعدم سمجھنا چاہیے اور اس میں شامل مکاتیب سے استفادے کے لیے مرتب کے نئے مجموعے سے رجوع کرنا چاہیے۔ ژ LETTERS OF IQBAL بشیر احمد ڈار نے نومبر ۱۹۶۷ء میں Letters and Writings of Iqbalکے نام سے جو مجموعہ مرتب کیا تھا، زیر نظر مجموعہ اس کی توسیع اور اضافہ شدہ صورت ہے۔ اس مجموعے میں مرتب نے بہت سے نئے خطوط شامل کیے ہیں اور متفرق تحریروں کو خارج کردیا ہے۔ اب اس کی نوعیت خالصتاً مجموعۂ مکاتیب کی ہے۔ ایک سو تین خطوں پر مشتمل یہ مجموعہ نسبتاً زیادہ توجہ اور محنت سے مرتب کیا گیا ہے۔ اس میں تین جزوی خطوط، ایک نامکمل خط اور چار درخواستیں بھی شامل ہیں۔ مجموعے کو زیادہ جامع ۱- نقوش، اقبال نمبر۲:ص۴۱۶ بنانے کے لیے، مرتب نے خطوطِ اقبال کے دو نسبتاً کم ضخیم مجموعوں یعنی Iqbal's Letters to Attiya Begumاور Letters of Iqbal to Jinnahکو بھی زیر نظر مجموعے میں مدغم کردیا ہے۔ اس طرح اب اقبال کے تمام انگریزی خطوط یکجا ہوگئے ہیں۔ جن مکتوب الیہم کے نام، اقبال کے ایک سے زائد خطوط دستیاب ہیں (مثلاً عطیہ بیگم: ۱۰۔ سرفضل حسین: ۴۔ راس مسعود: ۷۔ ڈاکٹر ایس ایم اکرام: ۵۔ محمد جمیل: ۷ وغیرہ) سب سے پہلے اُنھیں درج کیا گیا ہے، بعد ازاں مختلف اشخاص کے نام متفرق خطوط۔ مرتب نے مکتوب الیہم کے تعارف اور خطوط کے توضیح طلب مقامات کے بارے میں مفصّل حواشی و تعلیقات اور شذرات لکھے ہیں۔ مکاتیب بنام عطیہ بیگم پر ایک مفصل مقدمہ اور چند ایک ضمیمے بھی شامل کیے ہیں۔ مجموعی حیثیت سے ان توضیحات کے ذریعے تفہیم خطوط میں بہت مدد ملتی ہے اور اس ضمن میں مرتب کی محنت قابلِ داد ہے۔ تاہم بعض مقامات پر خصوصاً متفرق خطوط میں توضیحات اُدھوری اور تشنہ ہیں۔ خط نمبر ۱۲۰ (ص۱۸۸) کے تعارفی شذرے میں مرتب نے اعتراض کیا ہے کہ مدیر صحیفہ نے اس خط کو غیر مطبوعہ قرار دیا ہے، حالانکہ یہ The Pakistan Times (۱۳؍فروری ۱۹۶۹ئ) میں چھپ چکا ہے۔ مدیر صحیفہ تو نادانستہ ایک مطبوعہ خط کو ’’غیر مطبوعہ‘‘ لکھ گئے، مگر ڈار صاحب نے تو دانستہ، حوالے دینے سے احتراز کیا ہے۔ اُنھوں نے مختلف خطوط جن کتابوں سے اخذ کیے ہیں، ان کی جو تفصیل ہمیں معلوم ہوسکی، اس طرح ہے: متفرق خطوط نمبر ۲۱، ۲۴، ۲۹،۳۱،۳۳،۳۴،۳۵ اور راس مسعود کے نام خط نمبر ۱ خطوطِ اقبال سے؛ متفرق خط نمبر ۲۲ اور ۲۳ Mementos of Iqbalسے؛ متفرق خط نمبر ۲۷ نقوش، اقبال نمبر ۱ ستمبر۱۹۷۷ء سے؛ متفرق خطوط نمبر ۴۶ اور ۴۷ صحیفہ، اقبال نمبر، دوم، ۱۹۷۷ئ، ۱۹۷۸ء سے اور درخواست نمبر ۴۸ نمایش نامہ، اقبال کانگریس لاہور، ۱۹۷۷ء سے۔ متونِ خطوط سے متعلق، مندرجہ ذیل امور توجہ طلب ہیں: (۱) متن خوانی غور سے نہیں کی گئی۔ عکسِ تحریر کو ضبطِ تحریر میںلاتے ہوئے دانستہ کئی تصرفات کیے گئے۔ اقبال بالعموم Atiyaلکھتے ہیں، ڈار صاحب نے اکثر جگہ اس لفظ کو Atiyyaبنا دیا ہے۔ اسی طرح Feyzeeکو Fayzee (ص۱۷)Mar.کو March(ص۲۸) Dec.کو December (ص۳۷) Md.کو Mohammad (ص۳۶) Aug.کو August (ص۱۵۸) اور Oct.کو October (ص۲۰۴) نقل کیا گیا ہے۔ سب سے زیادہ تصرفات خط نمبر ۱۸ (ص۱۸۵) میں ملتے ہیں: اصل متن سطر ڈار صاحب کا متن Aug. ۲ August Maulvie ۳ Maulve recd. ۴ received Asstt. Sec. ۶ Assistant Secretary × ۶ Muslim R.T.C. ۱۳-۱۴ Round Table Conference Oct. ۱۴ October R.T.C. ۱۶ The Round Table Conference × ۲۱ to Maulve Mohammad Yaqub ۱؎ درخواست نمبر ۴۸ (عکس، نمایش نامہ، اقبال کانگریس لاہور ۱۹۷۷ء میں دیکھیے) کی بعض اغلاط ملاحظہ ہوں: Jan. ص۲۲۸ سطر۱۵ January grd. // ۲۰ ground agt. // ۲۰ against Consideration ۲۲۹ ۳ Examination Govt. // ۱۵ Government خط نمبر ۲۷ بنام شیخ دین محمد۲؎ (ص۱۹۷) کے آخر میں Yours etc.کو Yours Sincerelyمیں تبدیل کردیا گیا ہے۔ (۲) متن کی تصحیح و تکمیل اور وضاحت کے لیے مرتب نے قوسین میں بعض الفاظ کا اضافہ کیا ہے (دیکھیے ص۳۶، ۱۲۴، ۱۲۵، ۱۷۷، ۱۹۷ تا ۱۹۹، ۲۰۴، ۲۱۹) مگر یہ وضاحت موجود نہیں کہ قوسین کے الفاظ، اصل متن کا حصہ نہیں ہیں۔ (۳) بعض خطوط کے کچھ حصے درج ہونے سے رہ گئے ہیں، بظاہر اس کا سبب مرتب کی بے احتیاطی ہے، مثلاً: ۱- یہ خط (نمبر۱۸) کراچی یونی ورسٹی میں محفوظ ہے۔ ۲- صحیح متن نقوش اقبال نمبر، اوّل، ۱۹۷۷ء (ص۵۲۶) میں چھپ چکا ہے۔ صفحہ محذوف الفاظ و عبارات ۳۴ آخر میں 7th April 10 (عکس خط دیکھیے: Letters to Atiya ،ص۶۹)۔ ۳۸ اُردو شعر کے آخر میں: ’’محمدؐ اقبال‘‘۔ (عکس خط دیکھیے: ایضاً، ص۷۷)۔ ۱۰۰ P.S. Ali Bakhsh sends his respects to you and the Begum ۱؎ ۱۰۱ P.S. My wife passed away at about 5.30. ۲؎ ۱۰۲ آخر میں: ’’میں نے حکیم نابینا صاحب سے دہلی میں امتل کی علالت کا ذکر کردیا تھا، وہ نومبر میں دہلی جائیں، تو اُن کو ضرور نبض دکھائیں‘‘ ۔۳؎ ۱۸۵ For reasons mentioned in my last letter. ۴؎ ۲۰۰ I would like to see more Muslim teachers like him. ۵؎ ۲۴۰ آخر میں P.S.کے تحت پانچ سطور محذوف ہیں۔ ان میں اقبال نے اپنے مضمون: Mc Taggart's Philosophy کے بارے میں‘‘ اطلاع دی تھی۔ (اُردو ترجمے کے لیے دیکھیے: اقبال نامہ، دوم: ص۲۸۶)۔ (۴) مکتوب بنام شیخ اعجاز احمد (ص۱۹۳) کا آغاز ’’مٹکاف ہاؤس دہلی‘‘ سے ہوتا ہے۔ اصل خط۶؎ میں ’’مٹکاف ہاؤس لاہور‘‘ ہے، اقبال غلطی سے دہلی کے بجاے ’’لاہور‘‘ لکھ گئے ہیں۔ ڈار صاحب نے غلطی کی تصحیح کرتے ہوئے لفظ تبدیل کردیا مگر لفظ Delhiکو، نہ تو قوسین میں درج کیا اور نہ حاشیے میں وضاحت کی۔ (۵) متن کے بعض الفاظ، اشعار یا عبارتوں کا ترجمہ، متنِ خط کے اندر ہی درج کیا گیا ہے۔ ص۲۶،۲۹،۳۶،۱۶۴،۲۰۹،۲۲۳) حالانکہ یہ تراجم پاورقی حاشیے میں دینا مناسب تھا، پھر کہیں ترجمہ بالکل نہیں دیا گیا (مثلاً: ص۱۶۵) اس طرح کتاب میں یکسانیت برقرار نہیں رہی۔ ۱،۲- دیکھیے مکمل خطوط Letters، ص۱۹؛ نیز اقبال نامے، طبع ۲۰۰۶ئ، ص۱۵۱، ۱۶۵ ۳- دیکھیے: مکمل خط: Letters، ص۲۰ ۴- اصل خط شعبہ تاریخ، کراچی یونی ورسٹی میں محفوظ ہے۔ ۵- دیکھیے مکمل خط: خطوط اقبال، ص۱۸۵ ۶- دیکھیے عکسِ خط: Iqbal in Pictures (۶) مسٹر سٹراٹن کی بیوہ کے نام خط کا آغاز Dear Madamسے ہوتا ہے۔ اسی مرتب کی کتاب Lettersمیں اس خط کے ساتھ یہ لقب موجود نہیں؟ اسی خط کے تعارفی نوٹ میں سٹراٹن کا سالِ وفات ۱۹۰۸ء درج ہے، حالانکہ وہ ۳؍اگست ۱۹۰۲ء کو فوت ہوئے۔۱؎ (۷) بیگم آرنلڈ کے نام خط کا آغاز Lahoreسے ہوتا ہے (ص۲۱۳) جب کہ اصل خط (عکسِ خط: اقبال؛ یورپ میں:ص۹۰) میں یہ لفظ اقبال کی تحریر کا حصہ نہیں ہے۔ (۸) مکتوب بنام مرزا محمد سعید (ص۱۹۹) کے آخری حصے That you can for himمیں ایک لفظ کا اضافہ کرکے اسے یوں بنادیا ہے: That you can do for him،یہاں do کو قلابین میں دینا ضروری تھا۔ (۹) ص۲۰ پر، عطیہ بیگم کے نام خط نمبر۲ کے آخر میں Bar-at-Lawکے الفاظ محذوف ہیں، جو اصل خط دیکھیے: (Letters to Atiya: ص۳۵عکس) میں موجود ہیں۔ (۱۰) عطیہ بیگم کے نام خط نمبر ۷ (ص۳۱-۳۴) کے بعض الفاظ، اصل خط میں خط کشیدہ ہیں (Letters to Atiya: ص۶۲،۶۳) مرتب نے خط کشیدہ حصوں کو ترچھے ٹائپ (italics) میں لکھا ہے (ص۲۳) اصولاً یہ غلط ہے۔ متعلقہ حصوں کو خط کشیدہ ہی بنانا مناسب تھا۔ (۱۱) مکتوب بنام ایم ایم شریف کے تعارفی نوٹ میں بتایا گیا ہے کہ علامہ نے یہ خط، مکتوب الیہ کے خط محررہ ۱۷؍فروری ۱۹۲۶ء کے جواب میں لکھا تھا۔ اس اعتبار سے اس کی تاریخ تحریر ۲۷؍اگست۱۹۲۲ء قطعی غلط ہے۔ اگر سنہ، ۱۹۲۶ء ہو، تب بھی قرین قیاس نہیں کہ علامہ نے فروری میں موصولہ خط کا جواب چھے ماہ بعد (اگست میں) دیا ہو۔ بنابریں اس خط کی تاریخِ تحریر سراسر قیاسی ہے۔ (۱۲) مکتوب بنام راغب احسن (ص۲۲۰) کی تاریخ تحریر ۱۹؍ستمبر ۱۹۳۷ء ہے، نہ کہ ۱۹؍دسمبر ۱۹۳۷ئ۔ مزید برآں ابتدا میں Dear اور آخر میں yours sincerely کے الفاظ زائد ہیں۔ (عکس خط: اقبال- جہانِ دیگر، ص۱۲۶) مجموعے میں طباعت اور ٹائپ کی متعدد اغلاط بھی موجود ہیں، مثلاً: صفحہ غلط صحیح ۳۷ Partitiou Partition ۱۹۰ بلبلی بلبلے ۱- تاریخ اورینٹل کالج لاہور، ص۱۴۹ صفحہ غلط صحیح ۱۹۰ اندرین اندریں ۲۰۹ لتکونو شھدائ لتکونوا شھداء ۲۴۱ 9th June 1939 9th June 1936 ان خامیوں کے باوجود، اقبال کے ذخیرۂ مکاتیب میں اس مجموعے کی اہمیت یہ ہے کہ اس میں اب تک کے دستیاب تمام انگریزی خطوط جمع کردیے گئے ہیں، البتہ عبدالقوی فانی کے نام انگریزی خط (خطوطِ اقبال، ص۲۱۳) اس میں شامل ہونے سے رہ گیا۔ ژ تکراری مجموعے مندرجہ بالا مستقل مجموعوں کے علاوہ مکاتیبِ اقبال کے بعض ایسے مجموعے بھی ملتے ہیں جنھیں ’’تکراری مجموعے‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ ان میں زیادہ تر انھی خطوں کی تکرار ہے جو مستقل مجموعوں میں شامل ہیں: ۱- روح مکاتیبِ اقبال میں محمد عبداللہ قریشی نے اقبال کے ۱۲۳۲ خطوں کے منتخب اقتباسات تاریخ وار مرتب کیے ہیں۔ اپنی اس کاوش کے بارے میں وہ لکھتے ہیں: ’’ہر خط کی، اقبال ہی کے الفاظ میں تلخیص کرکے گویا دریا کو کوزے میں یا سمندر کو صدف میں بند کردیا ہے۔ بالفاظِ دیگر خطوں کا عطر کھینچ لیا ہے۔‘‘ (ص۲۷) مگر فاضل مرتب نے غور نہیں فرمایا کہ خطوط سے بعض حصوں یا جملوں کے انتخاب اور بعض کے ترک کو ’’تلخیص‘‘ نہیں ’’انتخاب‘‘ کہیں گے۔ تلخیص تو اپنے الفاظ میں کی جاتی ہے۔ اس اعتبار سے اس کتاب میں خطوطِ اقبال کے منتخب حصوں (یا جملوں) کو تاریخ وار مرتب کیا گیا ہے۔ مرتب نے متن کے بیچ بیچ کہیں کہیں قوسین میں وضاحتی الفاظ یا جملے بھی شامل کر دیے ہیں۔ اُصولِ تدوین و تحقیق کے اعتبار سے اوّل تو دیباچے میں اس کی وضاحت کرنی چاہیے تھی۔ دوم: توضیحی الفاظ یا جملے قلابین [ ] میں دینا ضروری تھا۔ ایک اور خامی یہ ہے کہ اقبال کی بعض تحریروں کو ’’خطوط‘‘ بناکر شاملِ کتاب کیا گیا ہے، مثلاً: خط ۴،۳۵، ۳۷۳، ۳۸۴، ۳۹۳، ۷۸۲، ۱۲۲۱، ۱۲۲۲ وغیرہ۔ بعض تحریروں کی حیثیت اقبال کی تقاریظ اور آرا کی ہے، خطوط کی ہرگز نہیں۔ یہ مجموعہ تواریخ اور متن کی اغلاط سے بھی مبرا نہیں ہے۔ ۲- دوسرا تکراری مجموعہ ڈاکٹر اخلاق اثر کا اقبال نامیہے، جس میں بھوپال کے حوالے سے اقبال کے ۷۱ خطوط جمع کیے گئے۔ بیشتر خطوط اقبال نامہ (اوّل، دوم)سے ماخوذ ہیں، مگر اس مجموعے کی اہمیت یہ ہے کہ اس میں محمد شعیب قریشی کے نام ایک اور سر راس مسعود کے نام تین غیر مطبوعہ خطوں کے علاوہ، چار ایسے خط بھی شامل ہیں، جن کا مکمل متن پہلی بار سامنے لایا گیا ہے۔ مرتب نئے خطوط کا عکس بھی شائع کردیتے تو مجموعہ زیادہ وقیع ہوتا۔ (اس کے طبع اوّل (۱۹۸۱ئ) پر راقم کا تفصیلی تبصرہ اقبال ریویو لاہور، جنوری ۱۹۸۳ء میں شائع ہوا تھا۔ ) اقبال نامے کے دوسرے اڈیشن (بھوپال،۱۹۹۰ئ) میں مکاتیب کی یہ تعداد ۷۶ ہوگئی مگر تعداد سے قطعِ نظر، اس میں اہم اضافہ اقبال کے دست نوشت خطوں کے عکوس کا ہے۔ مزید برآں اقبال نامہ (مرتبہ: شیخ عطاء اللہ) کے تحریف اور غیر تحریف شدہ خطوں کے عکس بھی دیے گئے ہیں اور ایک سیر حاصل مقدمہ بھی شامل ہے۔ اندرونی سرورق کی عبارت یہ ہے: ’’بھوپال اور اندور سے متعلق اقبال کے غیر مطبوعہ، مطبوعہ مکاتیب کا مجموعہ‘‘۔ تیسری اشاعت (مدھیہ پردیش اُردو اکادیمی بھوپال ۲۰۰۶ئ) میں خطوں کی تعداد ۸۷ تک پہنچ گئی ہے۔ خطوطِ اقبال کے ساتھ کچھ ’’متعلقات‘‘ بھی شامل کتاب ہیں جن میں راس مسعود اور نواب بھوپال کے جوابی خطوط (بنام اقبال) اور بعض خطوں کے عکس نسبتاً اہم ہیں۔ راس مسعود کے دو خطوط (مؤرخہ ۲۷؍مئی ۱۹۳۵ء اور ۱۸؍جون ۱۹۳۵ئ) بھوپال سے اقبال کے اجراے وظیفہ پر مزید روشنی ڈالتے ہیں۔ راس مسعود کا ایک اور خط بنام مفتی انوار الحق بھی شامل ہے۔ تیسرے اڈیشن (۲۰۰۶ئ) میں صحتِ متن پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ اگرچہ دوسرا اڈیشن بھی قدرے بہتر انداز میں شائع کیا گیا تھا، لیکن تیسرے اڈیشن کا معیار مزید اطمینان بخش ہے۔ اس میں ایک مفصل دیباچے اور خاصی تعداد میں تصاویر کا اضافہ بھی کیا گیا ہے۔ اخلاق اثر نے راس مسعود، عباس علی خاں لمعہ اور ممنون حسن خاں کے نام مکاتیبِ اقبال کے حوالے سے جن نکات پر بحث کی ہے، مکاتیب کے تجزیوں کے ضمن میں انھیں نظر انداز کرنا ممکن نہ ہوگا۔ بعض خطوط ثانوی مآخذ سے لیے گئے ہیں جیسے ۱۲؍فروری ۱۹۳۵ء کے اُردو اور انگریزی خطوط بنام محمد شفیع دائودی جنھیں کلیاتِ مکاتیب ۴ (برنی) سے اخذ کیا گیا ہے۔یہ خطوط اقبال: جہانِ دیگر میں مع عکس موجود ہیں، اخلاق اثر صاحب اگر اس اوّلین ماخذ (اقبال: جہانِ دیگر) کو بنیاد بناتے تو برنی صاحب کی اس غلطی (انگریزی خط کی تاریخ تحریر ۱۲؍فروری ہے نہ کہ ۲۱؍فروری) سے بچ سکتے تھے جو کلیات مکاتیب کا متن نقل کرنے کی بنا پر، ان سے سرزد ہوئی۔ مجموعی حیثیت سے تکراری مجموعوں میں اقبال نامے کا یہ اڈیشن ایک مفید کوشش ہے اور مکاتیبِ اقبال پر تحقیقِ مزید کے ضمن میں جناب اخلاق اثر کی اس کاوش سے بہرحال مدد ملے گی۔ ۳- مکاتیب سر محمد اقبال بنام سیّد سلیمان ندوی (۱۹۹۲ئ) اقبال کے ۷۰ خطوط پر مشتمل ہے جسے ۳۰ شخصیات کے سوانحی کوائف کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔ یہ خطوط اقبال نامہ میں شامل ہیں اور شفقت رضوی کی زیر نظر کاوش سے قبل ڈاکٹر اختر راہی انھیں مختصر حواشی کے ساتھ اپنی کتاب سیّد سلیمان ندوی اقبال کی نظر میں (لاہور) میں بھی شائع کرچکے ہیں۔ ۴- عبدالرب قریشی نے علامہ اقبال کے ۱۰۱ شاہ کار خطوط (۲۰۰۰ئ)کے نام سے ایک مجموعہ شائع کیا ہے۔ آخر میں خطوں میں مذکورہ شخصیات کا ایک ایک دو دوسطری تعارف بھی دیا گیا ہے۔ ئ……ئ……ء (ج) کلیات مکاتیبِ اقبال مکاتیبِ اقبال کے مختلف مجموعوں میں مدوّن خطوط کے علاوہ، علامہ اقبال کے متعدد مطبوعہ اور غیر مطبوعہ خطوط غیر مرتب اور غیر مدوّن صورت میں موجود ہیں۔ خطوطِ اقبال (لاہور، ۱۹۷۶ئ) کی اشاعت کے بعد چھوٹے بڑے تین چار مجموعے (خطوط اقبال بنام بیگم گرامی، اقبال: جہانِ دیگر، مکتوبات اقبال بنام چودھری محمد حسین، Letters of Iqbal) شائع ہوئے، لیکن مختلف مکتوب الیہم کے نام، علامہ کے دوسو کے لگ بھگ غیر مدون مکاتیب منظرِعام پر آچکے ہیں۔ ان میں ایما ویگے ناسٹ، مالواڈہ، اور علامہ کے افرادِ خاندان (مشمولہ: مظلوم اقبال) کے نام اور ذخیرۂ شکیل احمد، ذخیرۂ اقبال ریویو (حیدرآباد دکن،۲۰۰۶ئ) کے مکاتیب اہم ہیں۔ (دیکھیے:ص۱۷-۱۹، دیباچہ طبع سوم) عین ممکن ہے، بعض اصحاب کے پاس، اقبال کے مزید غیر مطبوعہ خطوط بھی موجود ہوں… ۱۳۰۶ مطبوعہ خطوں ۱؎ میں اگر غیر مطبوعہ اور غیر مدوّن مکاتیب کو بھی شامل کرلیا جائے، تو علامہ اقبال کے دریافت شدہ خطوں کی تعداد تقریباً ۱۵سو تک پہنچتی ہے۔ تحقیقی نظر سے خطوطِ اقبال پر نگاہ ڈالیں، تو بحیثیتِ مجموعی یہ ذخیرہ کسی منظم ترتیب سے محروم ہے۔ بیشتر خطوط کا متن بھی ناقص ہے۔ خطوط کو نقل کرکے اُنھیں مدوّن کرنے میں کسی اُصول کی پیروی نہیں کی گئی، بلکہ ہر مرتب نے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق، جس طرح مناسب سمجھا، خطوط کو ترتیب دے کر چھاپ دیا۔ ہر چند کہ مکاتیب، سند و استناد کے اعتبار سے، اقبال کی شاعری کے مقابلے میں ثانوی متن کی حیثیت رکھتے ہیں، پھر بھی نثرِ اقبال کا یہ عظیم الشان ذخیرہ کلیات کی شکل میں، زیادہ توجہ اور دقتِ نظر کے ساتھ مرتب و مدوّن کیے جانے کا محتاج ہے۔ اس ضمن میں اقبال اور عبدالحق از ممتاز حسن پیشِ نظر رہنی چاہیے، جسے مکاتیبِ اقبال کی قریب قریب ایک مثالی تدوین کہا جاسکتا ہے۔ سب سے پہلے تو اُردو، انگریزی، فارسی، جرمن اور عربی خطوط کو الگ کردیا جائے، پھر باعتبارِ نوعیت ان کی تقسیم اس طرح کی جائے: ۱- مختلف مجموعوں میں شامل اصل خطوط اور غیر مدوّن مطبوعہ خطوط کا حاصل جمع۔ اوّل: وہ خطوط جن کے اصل یا عکس دستیاب ہیں۔ دوم: وہ خطوط جن کا متن مستند اور باوثوق حوالوں کے ذریعے دستیاب ہوا ہو۔ سوم: وہ خطوط جن کے ایک سے زائد متن دستیاب ہوں۔ چہارم: نامکمل اور جزوی خطوط، جن کا پورا متن موجود نہیں۔ (۱) جن خطوط کے اصل یا عکس موجود ہوں، انھیں نہایت دقتِ نظر کے ساتھ پڑھ کر اُن کا متن نقل کیا جائے۔ مکاتیبِ اقبال کے مرتبین، نقلِ متن میں جن تسامحات کا شکار ہوئے ہیں، اُن سے بچنا ضروری ہے۔ متن بعینہٖ اصل خط کے مطابق ہو۔ البتہ املا میں تبدیلی کی جاسکتی ہے، مثلاً ’’پہونچ‘‘ کو ’’پہنچ‘‘؛ ’’لکہنا‘‘ کو ’’لکھنا‘‘؛ ’’مینے‘‘ کو ’’میں نے‘‘؛ وغیرہ نقل کیا جائے، مگر اس طرح کے الفاظ کی ایک فہرست بنا کر صراحت کردی جائے۔ مقام و تاریخِ تحریر خط کے آغاز میں ہے، تو آغاز میں ہی رہے، آخر میں ہے تو آغاز میں نہ لایا جائے۔ اقبال نے اگر ۱۳ء لکھا ہے، تو اُسے ۱۹۱۳ء نہ بنایا جائے، اسی طرح انگریزی متن کے انگریزی مخففات بھی علیٰ حالہٖ ہوں۔ اگر سہواً کوئی لفظ چھوٹ گیا ہو، تو قلابین میں لکھ کر حاشیے میں وضاحت کردی جائے۔ غرض متونِ خطوط کی تقدیس و حرمت برقرار رکھنا ازبس ضروری ہے۔ (۲) وہ خطوط جن کے اصل یا عکس موجود نہ ہوں، مگر ان کا متن مستند اور باوثوق ذرائع سے دستیاب ہو، اُنھیں بغور مطالعے کے بعد قبول کرلیا جائے، تاہم اس نوع کے خطوط کا تحقیقی مطالعہ کرکے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ الفاظ اور مطالب، دونوں اعتبار سے کسی خط میں کوئی داخلی تضاد تو نہیں پایا جاتا، مثلاً: ’’خط و کتابت‘‘ کی مروج غلط ترکیب کو اقبال ہمیشہ ’’خط کتابت‘‘ لکھتے ہیں، لہٰذا اگر کسی مطبوعہ خط میں ’’خط و کتابت‘‘ درج ہو تو اُسے ’’خط کتابت‘‘ سے تبدیل کردیا جائے، اسی طرح کسی خط میں معنوی لحاظ سے کوئی ایسا مفہوم موجود ہو، جو اقبال کے مجموعی افکار سے مطابقت نہ رکھتا ہو، تو اس کی تحقیق بھی ضروری ہے۔ (۳) اقبال کے بعض خطوط کے ایک سے زائد متن ملتے ہیں۔ دو مقامات پر منقول، ایک ہی خط کے متن میں بیّن اختلاف پایا جاتا ہے، اس طرح کے چند خطوط یہ ہیں: ۱- بنام محمد اکبر شاہ خاں نجیب آبادی اقبال نامہ، اوّل: ص۵۷ اقبال کے آخری دو سال: ص۱۲ ۲- بنام نصیرالدین ہاشمی نقوش، مکاتیب نمبر: ص۳۰۶ اقبال نامہ، اوّل: ص۶۰-۶۱ ۳- بنام محمد امین زبیری نقوش، مکاتیب نمبر: ص۲۹۵ اقبال نامہ، اوّل: ص۲۵۴ ۴- بنام بیگم ہمایوں مرزا اقبال، خواتین کی نظر میں:ص۴۴ اقبال نامہ، اوّل: ص۴۲۱- ۴۲۲ ۵- بنام میر حسن الدین انوارِ اقبال: ص۲۰۱-۲۰۲ نقوش، مکاتیب نمبر: ص۳۰۷ اقبال نامہ، دوم ۱؎: ص۱۰۰ ۶- بنام حسن نظامی انوارِ اقبال: ص۴ اقبال ریویو: جولائی۱۹۶۲ء برہان، دسمبر ۱۹۶۰ئ: ص۳۷۵- ۳۷۶ ۷- بنام وحید احمد اقبال نامہ، اوّل ۲؎: ص۴۲۵ اقبال ریویو: جولائی ۱۹۶۲ئ: ص۸۲ اس نوع کے خطوط کی جانچ پرکھ کرکے، اقبال کے ہاں مختلف الفاظ کے استعمال اور اُن کے اُسلوبِ تحریر کی روشنی میں نسبتاً صحیح متن متعین کیا جائے۔ یہ کام اقبال شناسوں کے باہمی اور وسیع تر مشورے سے ہونا چاہیے۔ (۴) نامکمل اور جزوی خطوط کو سب سے آخر میں علاحدہ ترتیب دیا جائے۔ تدوینِ مکاتیب کے ضمن میں مکاتیب الیہم کے تعارف، توضیح طلب نکات کے حل اور مآخذ کے امور، خصوصی توجہ کے طالب ہیں۔ بعض موجودہ مجموعوں میں ان کا اہتمام کیا گیا ہے، مگر تعارف و حواشی کی نوعیت اور اُن کی طوالت و اختصار وغیرہ کے بارے میں سب سے پہلے کچھ اُصول منضبط ہونے چاہییں۔ اہم ترین بات تو یہی ہے کہ تعارفات و تعلیقات میں اختصار و جامعیت مدِّنظر رکھی جائے۔ یہ نہ ہو کہ مکتوب الیہ یا کسی شخصیت کے پورے سوانح درج کردیے جائیں، بلکہ صرف ان امور کا ذکر ہو جن کا تعلق اقبال سے یا پیش نظر مکتوب کے کسی نکتے سے ہو۔ مرتبین، مکاتیب کے مآخذ، اخفا میں رکھنے کے عادی ہیں، یہ امر کسی عالم یا محقق کے شایانِ شان نہیں ہے، اس لیے ہر خط کے ماخذ کا نہ صرف ذکر ہونا چاہیے، بلکہ حسبِ ضرورت اس پر بحث بھی ضروری ہے۔ موجودہ مجموعوں میں شاد اقبال، مکاتیبِ اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خاں، مکتوباتِ اقبال بنام نذیر نیازی اور مکاتیبِ اقبال بنام گرامیکو موضوعی مجموعوں کی حیثیت ۱- اقبال نامہ، دوم میں اسے تصدق حسین تاج کے نام بتایا گیا ہے، جو درست نہیں۔ ۲- اقبال نامہ، دوم میں اسے بنام عشرت رحمانی بتایا گیا ہے، جو درست نہیں۔ حاصل ہے۔ ان مجموعوں کو مجوزہ کلیاتِ مکاتیب اُردو کے چار حصوں کے طور پر شامل کرلیا جائے۔ شاد کے نام مزید پچاس خطوط، شاد اقبال میں اور بیگم گرامی کے نام آٹھ خطوط مکاتیبِ اقبال بنام گرامی میں پیش کیے جائیں۔ ان حصوں کے تعارفات و تعلیقات پر نظرثانی کرکے انھیں مزید جامع لیکن مختصر تر بنایا جائے۔ باقی مجموعوں (اقبال نامہ، انوارِ اقبال اور خطوطِ اقبال) کے جملہ خطوط کو تاریخ وار ترتیب دیا جائے، مگر ہر مکتوب الیہ کے نام خطوط یکجا ہوں۔ مجوزہ کلیات کے انگریزی حصے میں بھی یہی ترتیب برقرار رکھی جائے۔ مکاتیبِ اقبال کا ایک مجموعہ ایسا بھی تیار ہونا چاہیے، جس میں اقبال کے تمام خطوط تاریخِ تحریر (زمانی ترتیب) کے مطابق مرتب کیے گئے ہوں (یا کم از کم ایک اشاریہ ہی مرتب کردیا جائے)۔ اس سے بہت سے دلچسپ نکات سامنے آئیں گے، مثلاً یہ معلوم ہوگا کہ زندگی کے کسی خاص دور میں اقبال کا طرزِ فکر کیا تھا اور کس طرح مختلف خطوں میں اُنھوں نے اپنے ایک ہی احساس کا، ایک جیسے الفاظ میں تواتر کے ساتھ اظہار کیا، مثلاً: ۱۵؍جنوری۱۹۳۴ء کے دو خطوں میں اقبال کے خیالات اور ان کے اظہار کی یکسانی ملاحظہ ہو: بنام سیّد سلیمان ندوی بنام راغب احسن دنیا اس وقت عجیب کشمکش میں ہے، جمہوریت فنا ہورہی ہے… سرمایہ داری کے خلاف پھر ایک جہادِ عظیم ہورہا ہے۔ تہذیب و تمدن… بھی حالتِ نزع میں ہے، غرض کہ نظامِ عالم ایک نئی تشکیل کا محتاج ہے۔ ان حالات میں آپ کے خیال میں اسلام اس جدید تشکیل کا کہاں تک ممد ہوسکتا ہے؟ (اقبال نامہ، اوّل: ص۱۸۱) دنیا اس وقت ایک نئی تشکیل کی محتاج ہے، جمہوریت فنا ہورہی ہے، سرمایہ داری کے خلاف ایک جہادِ عظیم ہورہا ہے، تہذیب و تمدن بھی ایک کشمکش میں مبتلا ہے۔ ان حالات میں آپ کے خیال میں دنیا کی جدید تشکیل میں اسلام کیا مدد کرسکتا ہے؟ (جنگ، ۱۸ مارچ۱۹۷۹ئ) مختصر یہ کہ مکاتیبِ اقبال، عمیق تر تحقیق و مطالعے کے بعد، از سرِ نو تدوین و ترتیب کے متقاضی ہیں۔ یہ کام جس قدر اہم ہے، اُسی لحاظ سے محنت و صلاحیت اور وسائل و ذرائع چاہتا ہے۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کے الفاظ میں: ’’مکاتیبِ اقبال کی تدوینِ نو، [کسی] اقبالیاتی ادارے کا کام ہے، کیونکہ ان کے پاس ریکارڈ بھی ہے اور طباعت و اشاعت کی سہولتیں اور معقول گرانٹیں بھی‘‘،۱؎ بایں ہمہ اقبال کے محقق و نقاد اپنی انفرادی حیثیت میں بھی، اس ذمہ داری سے کلیتاً بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔ ژ کلیاتِ مکاتیبِ اقبال ۱۹۷۶ء میں خطوطِ اقبال مرتب کرتے ہوئے راقم نے مکاتیبِ اقبال کی ازسر نو ترتیب و تدوین کے لیے چند تجاویز پیش کی تھیں (مقدمہ: خطوطِ اقبال، ص۴۴، ۴۵) چار برس بعد اپنے غیرمطبوعہ تحقیقی مقالے (۱۹۸۰ئ، اور زیرنظر شائع شدہ: ۱۹۸۲ئ) میں پھر عرض کیا گیا کہ نثر اقبال کا یہ عظیم الشان ذخیرہ کلیاتِ مکاتیبِ اقبال کی شکل میں توجہ اور دِقت۔ّ۔ نظر کے ساتھ مرتب و مدوّن کیے جانے کا محتاج ہے۔ بعدہٗ اس ضمن میں چند تجاویز بھی پیش کیں۔ (تصانیفِ اقبال، طبع اوّل و دوم: ص۲۷۲تا۲۷۶) تاہم کلیاتِ مکاتیب کی تجویز کو روبعمل لانے کا سہرا ایک بھارتی آئی سی ایس افسر سیّد مظفر حسین برنی کے سر ہے جنھوں نے جملہ دستیاب مکاتیب کو راقم ہی کے مجوزہ خطوط پر دہلی سے چار جلدوں میں شائع کیا: جلد اوّل طبع اوّل ۱۹۸۹ء جلد دوم طبع اوّل ۱۹۹۱ء جلد سوم طبع اوّل ۱۹۹۳ء جلد چہارم طبع اوّل ۱۹۹۸ء اس کلیات میں مکاتیبِ اقبال کے جملہ مستقل مجموعوں کے تمام خطوط اور بہت سے غیر مدوّن مطبوعہ اور غیر مطبوعہ خطوط اور انگریزی خطوط کے تراجم شامل کیے گئے ہیں۔ انگریزی خطوط پر مشتمل موعودہ پانچویں جلد تا حال شائع نہیںہو سکی۔ کلیات میں خطوط کی ترتیب اقبال نامہ اور خطوطِ اقبال کی طرز پر ہے۔ اقبال کے دست نوشت تمام دستیاب عکس، خطوط کے ساتھ شامل کیے گئے ہیں۔ پاورق میں مختصر حواشی و تعلیقات بھی دیے گئے ہیں۔ اقبال کے جملہ دستیاب مکاتیب کو یک جا کرکے شائع کرنا بلاشبہہ ایک مفید اور قابل قدر کام ہے۔ ۱- مجلۂ تحقیق، جلد اوّل، شمارہ۱،۲:ص۵۰ برنی صاحب بعض اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ آخر میں وہ یکے بعد دیگرے صوبہ بہار اور ہریانہ کے گورنر رہے۔ اُن جیسے صاحب حیثیت، بااثر اور باوسائل شخص کے لیے کلیاتِ مکاتیب مرتب کرنا یا کروا لینا بہت مشکل نہیں تھا۔۱؎ پاکستان سے متعدد اقبال دوستوں اور خود اقبال اکادمی نے خطوط اور متعلقہ معلومات کی فراہمی میں برنی صاحب سے فراخ دلی سے تعاون کیا۔ راقم نے بھی حسب مقدور ان کی مدد کی جس کا انھوں نے دیباچے میں اور راقم کے نام بعض خطوط میں بھی اعتراف کیا ہے۔ تدوین مکاتیب میں متن کی تحقیق اور صحت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اس کلیات کا یہ پہلو سب سے کمزور ہے۔ اس سلسلے میں راقم نے کلیات کی پہلی جلد پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا: ’’اس نوعیت کے کام کے لیے محض وسائل کافی نہیں، بلکہ اس کے لیے وہ تحقیقی ذوق اور نظرمطلوب ہے جو ایک طویل مشق اور موضوع پر کچھ وقت کام کرنے ہی سے پیدا ہوتی ہے۔‘‘۲؎ ایم اے اُردو، پنجاب ۱- اقبال اکادمی نے اپنے دفتر (اُن دنوں واقع نیو مسلم ٹائون) میں اپنے کلیاتِ اقبال، اُردو[بعد ازاں موسوم بہ ’’نسخۂ اکادمی‘‘] پر ایک مشاورتی اجلاس منعقد کیا تھا، جس میں، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، جناب شان الحق حقی، جناب مشفق خواجہ، ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، جناب محمد اکرام چغتائی، ڈاکٹر تحسین فراقی، ڈاکٹر صابر کلوروی اور راقم شریک تھے۔ اجلاس کے بعد بیشتر مہمان رخصت ہوگئے تو نائب ناظم اکادمی سہیل عمر نے جناب مشفق خواجہ، تحسین فراقی اور راقم کو ایک ’’ضروری مشورے‘‘ کے لیے اپنے کمرے میں مدعو کیا۔ چند لمحے اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد سہیل صاحب نے اپنی میز کے دراز سے ایک ضخیم مسوّدہ نکال کر ہمارے سامنے رکھا۔ یہ کلیاتِ مکاتیبِ اقبال ،اوّل(مرتبہ: برنی) کا مسودہ تھا، اُن کے ایما پر ہم نے اِسے دیکھنا شروع کیا۔ کچھ دیربعد خواجہ صاحب نے یہ کہتے ہوئے سب کو چونکا دیا: ’’یہ حواشی تو نثار احمد فاروقی کے لکھے ہوئے ہیں۔‘‘ جناب اعجاز بٹالوی بھی اتفاق سے وہاں موجود تھے۔ انھوں نے یا شاید کسی اور نے کہا: ’’ہوسکتا ہے، حواشی خود مرتب نے لکھے ہوں اور فاروقی صاحب نے انھیں صرف نقل کیا ہو۔‘‘ خواجہ صاحب یہ سن کر مسکرا دیے۔ یہ ہمارے علم میں تھا کہ ڈاکٹر نثا راحمد فاروقی چند ماہ پہلے لاہور آکر جناب جاوید طفیل کے ہاں مقیم رہے تھے۔ ایک روز انھوں نے مجھے بھی دفتر نقوش میں بلایا اور خطوطِ اقبال کی تلاش و فراہمی کے سلسلے میں اپنی اور برنی صاحب کی طرف سے تعاون کے لیے کہا۔ مذکورہ مسوّدے میں حواشی (اس سے قطع نظر کہ وہ نثار فاروقی صاحب کے محررہ و مکتوبہ تھے) ہم سب کی راے میں اطمینان بخش نہ تھے۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ اقبال اکادمی نے کلیاتِ مکاتیب کی اشاعت سے معذرت کرلی ہے۔ ۲- اقبالیاتی ادب کے تین سال، ص۳۰۔ یونی ورسٹی کے ایک مقالے (اقبال کی اُردو نثر از زیب النسائ)۱؎ میں مذکورہ کلیات (ج۱) کی ۷۴؍اغلاط متن کی نشان دہی کی گئی ہے (ص۲۱۵)۔تیسری جلد پر ڈاکٹر تحسین فراقی کا ایک نقد لائقِ مطالعہ ہے جس میں متنِ خطوط کی ۴۸۸، اغلاط کی نشان دہی کی گئی ہے۔ (یہ نقد، فراقی صاحب کے مجموعۂ مضامین اقبال: چند نئے مباحث (اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۱۹۹۷ء میں شامل ہے۔) بہرحال یہ فراقی صاحب کے اسی تنبیہی نقد کا اثر تھا کہ کلیاتِ مکاتیب کی (جلد اوّل کے بعد جلد دوم، دو سال کے وقفے سے آئی، جلد سوم بھی دو سال کے بعد آئی) مگر جلد چہارم کے منظرِ عام پر آنے میں پانچ برس لگ گئے۔ حالانکہ مؤلف نے جلدسوم کے دیباچے (مرقومہ: ۲۸؍ دسمبر ۱۹۹۲ئ) میں یہ نوید سنائی تھی کہ ’’چوتھی جلد بھی اسی اعلیٰ معیار پر ۱۹۹۳ء میں شائع‘‘ ہوجائے گی۔ اس صورتِ حال کے باوجود مؤلف کا یہ دعویٰ باعث تعجب ہے کہ: ’’ہماری کتاب میں مشمولہ خطوط اقبال، نہ صرف مکمل بلکہ مستند بھی ہیں۔‘‘۲؎ تدوین متن میں حواشی و تعلیقات کی اہمیت مسلمہ ہے۔ زیر نظر کلیات کے تعلیقات میں مؤلف نے خود بھی کاوش کی ہے مگر زیادہ تر انھوں نے مکاتیب کے مستقل مجموعوں کے مرتبین کی تحقیق ہی پر تکیہ کیا ہے اور مختلف کتابوں سے ثقہ یا غیر ثقہ اور دستیاب و حاضر معلومات نقل کردی ہیں، اسی لیے ان میں ناہمواری اور عدم توازن نظر آتا ہے۔ شخصیات کے سوانحی خاکے کتاب کے آخری حصے میں یک جا دیے گئے ہیں، کچھ حواشی تو زیادہ ہی طویل ہیں اور بعض تو کئی کئی صفحات کے مستقل مضامین قرار دیے جاسکتے ہیں۔ ہر جلد کے آخر میں متعلقہ مکتوب الیہم کے تعارف، کتابیات کی فہرستیں اور اشاریے بھی شامل کیے گئے ہیں۔ کلیات کی یہ چاروں جلدیں ایک باوسائل حکومتی ادارے اُردو اکادمی دہلی نے شائع کی ہیں۔ اگر اشاعتی سلیقہ مندی سے کام لیا جاتا تو اوّل: متن قدرے خفی قلم میں ہوتا، دوم: مکتوب الیہم اور شخصیات کے تعارف اور تعلیقات کی کتابت مسلسل ہوتی (بجاے ہر تعلیقہ نئے صفحے سے شروع کرنے کے) اس کے نتیجے میں ان جلدوں کی جسامت وضخامت بھی کم ہوتی اور ان کا مطالعہ اور ان کا استعمال آسان ہوتا۔ موجودہ صورت میں ہر جلد بارہ بارہ سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ چوتھی جلد کے آخر میں ایک سو ایک صفحات پر مشتمل اغلاط نامے میں چاروں جلدوں کی اغلاط کی تصحیح کی گئی ہے۔ ئ……ئ……ء ۱- یہ مقالہ اقبال اکادمی پاکستان لاہور نے ۱۹۹۷ء میں شائع کردیا تھا۔ ۲- کلیاتِ مکاتیب، ج۳،ص۳۱۔ باب :۴ مستقل نثری تصانیف ز…ز…ز…ز (الف) اقبال کی نثر نویسی علامہ اقبال بنیادی طور پر ایک شاعر ہیں۔ نثر اُنھوں نے لکھی ضرور، مگر بعض مقتضیات کے تحت، یا کچھ فرمائشوں کی تکمیل کے لیے۔ ان کی شاعری تو ’’نواے سروش‘‘ تھی، جس کے لیے انھیں بالعموم کسی خصوصی کاوش کی ضرورت پیش نہ آتی تھی، مگر نثر کا معاملہ مختلف تھا۔ شاعری اور نثر کو علی الترتیب ’’آمد‘‘ اور ’’آورد‘‘ کا نام دیا جاسکتا ہے۔ اُنھوں نے سنجیدگی کے ساتھ نثر نگاری کی طرف کبھی توجہ نہیں دی۔ خطوں کے جواب وہ قلم برداشتہ لکھتے، کبھی اُردو اور کبھی انگریزی میں۔ مکاتیبِ اقبال کی نوعیت، اُن نثر پاروں کی نہیں، جو سوچ بچار کے بعد، سنجیدگی کے ساتھ اور جم کر لکھے جاتے ہیں، اسی لیے اقبال، نظرثانی کے بغیر اُنھیں شائع کرنے کے حق میں نہ تھے ۔۱؎ خطوط کے علاوہ، اُردو نثر کی ایک کتاب (علم الاقتصاد) اور چند متفرق مضامین، انگریزی میں ڈاکٹریٹ کا مقالہ، خطبات اور چند مضامین؛ یہ ہیں اقبال کے نثری آثار۔ ضخامت اور کمیّت کے اعتبار سے تو اقبال کی نثر، ان کے شعری ذخیرے کے مقابلے میں کمتر نہیں، مگر فکری اور معنوی اعتبار سے ان کے نو شعری مجموعے، اُن کی نثری تحریروں پر فوقیت رکھتے ہیں۔ یوں تو ہر نوع کی انسانی صلاحیتیں خدائی عطیہ ہیں، مگر شعر گوئی خالصتاً ایک وہبی صلاحیت ہے۔ اگر کسی شخص کے اندر یہ صلاحیت موجود ہو تو، اپنی محنت اور کوشش سے، اس کے لیے فن کی بلندیوں کو چھولینا عین ممکن ہے، لیکن کوئی شخص طبعِ موزوں ہی سے محروم ہو، تو محض محنت و کاوش سے شاعری نہیں کی جاسکتی۔ اس کے برعکس نثر نگاری نسبتاً ایک کسبی صلاحیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نثر، بہ نسبت شاعری کے زیادہ یکسوئی، محنت اور لگن چاہتی ہے۔ نثر لکھنے کے لیے زیادہ انضباطِ طبع، باقاعدگی اور استقلالِ مزاج کی ضرورت ہے۔ اقبال طبعاً اور مزاجاً، ان اوصاف سے عاری تھے۔ طبعی تساہل، ایک گونہ آزادہ روی اور شاعرانہ مزاج ان کی شخصیت پر حاوی رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کا نثری سرمایہ نسبتاً کم ہے۔ اقبال کو زندگی کے مختلف ادوار میں بہترین علمی و ادبی ماحول میسر رہا؛ اپنے دور کی بلندپایہ ۱- مکاتیبِ اقبال بنام نیاز: ص۲۴ علمی شخصیتوں سے استفادے کا موقع ملا؛ اُنھوں نے یورپ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور قدیم و جدید علوم پر مناسب دسترس بہم پہنچائی۔ مطالعہ وسیع تھا اور مافی الضمیر کے اظہار پر پوری قدرت حاصل تھی۔ مشکل سے مشکل اور دقیق سے دقیق علمی اور فلسفیانہ مطالب کو بطریقِ احسن بیان کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے تھے، اس کے باوجود اُن کا نثری ذخیرہ کیوں کم ہے؟ اس کا جواب ان کے شاعرانہ مزاج میں مل سکتا ہے۔ گذشتہ اوراق میں ذکر آچکا ہے کہ اُنیسویں صدی کے آخری ایام اور بیسویں صدی کے اوائل میں، اقبال دو واسطوں سے عوام النّاس سے متعارف ہوئے، اوّل: انجمن حمایتِ اسلام لاہور کے سالانہ جلسوں کا پلیٹ فارم، دوم: مخزن کے صفحات۔ انجمن کے جلسوں میں ۱۸۹۹ء سے ۱۹۰۴ء تک وہ ہر سال کوئی نہ کوئی (مضمون یا مقالہ نہیں) نظم پڑھتے تھے۔ مخزن کے قارئین سے اُن کا تعارف ’’ہمالہ‘‘ کے شاعر کی حیثیت سے ہوا اور پھر (نثر کے اِکّا دُکّا مضامین کے مقابلے میں) اقبال کی منظومات و غزلیات مخزن کے ہر شمارے کی زینت بنتی رہیں۔ بیشتر نثری مضامین کسی اندرونی جذبے کی پیداوار نہیں، بلکہ ضرورتاً لکھے گئے۔ گویا وہ اقبال کا تخلیقی اظہار نہیں، بلکہ خارجی عوامل کا شعوری ردِّ عمل ہیں۔ ’’زبانِ اُردو‘‘ (مخزن، ستمبر ۱۹۰۲ئ) طبع زاد مضمون نہیں، ایک انگریزی مضمون کا ترجمہ ہے، جو مخزن کی درخواست ۱؎ پر تیار کیا گیا۔’’اُردو زبان پنجاب میں‘‘ (مخزن، اکتوبر۱۹۰۳ئ) ایک جوابی مضمون ہے، جو ایک صاحب ’’تنقیدِ ہمدرد‘‘ کی طرف سے اقبال اور ناظر کی شاعری پر کیے جانے والے اعتراضات کے دفاع میں لکھا گیا۔ مخزن کے پہلے پانچ سال کا اشاریہ دیکھا جائے تو یہ صورتِ حال سامنے آتی ہے: سال منظومات نثر پارے ۱۹۰۱ئ ۶ × ۱۹۰۲ئ ۱۰ ۱ ۱۹۰۳ئ ۱۱ ۱ ۱۹۰۴ئ ۱۰ ۲ ۱۹۰۵ئ ۹ ۱ ۱- ’’ہماری درخواست پر ہمارے دوست شیخ محمد اقبال صاحب ایم اے… اسے ناظرینِ مخزن کے لیے ترجمہ کرکے بھیجتے ہیں۔‘‘ (مخزن، ستمبر۱۹۰۲ئ،ص۱) اس طرح پانچ سالوں میں، چھیالیس منظومات کے مقابلے میں پانچ نثری تحریروں کی بنا پر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نثر نگاری سے اقبال کو طبعی مناسبت نہ تھی۔ اقبال کی اوّلین اور واحد اُردو نثری تصنیف علم الاقتصاد (مطبوعہ ۱۹۰۴ئ) بھی اسی زمانے کی یادگار ہے۔ جیسا کہ ہم آگے چل کر مفصل بحث کریں گے، کسی طرح کا جذباتی احساس یا تخلیقی جذبہ اس کا محرک نہ تھا، بلکہ اس کے اسبابِ تالیف میں بعض دیگر مقتضیات شامل تھے۔ انگریزی میں اقبال کی پہلی تصنیف Developmentپہلے بی اے اور پھر پی ایچ ڈی کے تعلیمی اور امتحانی تقاضوں کے پیشِ نظر لکھی گئی۔ ان کی دوسری انگریزی کتاب Reconstruction ان کے نثری آثار میں بہت نمایاں شمار ہوتی ہے۔ اس میں شامل سات خطبات مختلف علمی اوقات میں اور اس ضرورت کے تحت تیار کیے گئے کہ انھیں مختلف اجتماعات میں پیش کرنا تھا۔ اقبال کے باقی نثری سرمائے میں بھی زیادہ تر حصہ، جوابی تحریروں کا ہے (مفصل تذکرہ آگے آتا ہے)، چنانچہ اقبال کی نثر، ان کے شعری آثار کے مقابلے میں ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ اُردو کے نثری ادب میں اقبال کی نثر کس مقام و مرتبے کی حامل ہے؟ یہاں اس بحث کا محل ہے اور نہ موقع، تاہم اس ضمن میں ایک نکتے کی صراحت ضروری ہے۔ نثرِ اقبال کے بارے میں بعض نقادوں کی آرا ملاحظہ کیجیے۔ ڈاکٹر سیّد عبداللہ لکھتے ہیں: اُردو نثر میں حضرت علامہ نے اگرچہ کم لکھا، لیکن وہ علمی اُسلوب کا ایک منفرد رنگ اُردو نثر کو دے گئے… میرا اپنا یہ اندازہ ہے کہ اقبال اگر شاعری نہ کرتے اور نثر ہی لکھتے، تو بھی وہ اُردو نثر میں مرزا کی مانند ایک خاص دبستان یاد گار چھوڑ جاتے… شاعر اقبال، ایک منفرد طرز کا نثر نگار بھی تھا۔۱؎ پروفیسر محمد عثمان کہتے ہیں: جن اصحاب نے علامہ اقبال کی نثر کا بغور مطالعہ کیا ہے، اُن کے دل میں اس نثر نے بھی ویسی ہی جگہ پیدا کرلی ہے، جو اس سے قبل شعرِ اقبال نے پیدا کی تھی۔۲؎ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقارکا خیال ہے کہ: اقبال اگر نثری ادب کی طرف توجہ کرتے تو یقینا اس میدان میں بھی ان کے ادبی کارنامے اپنے اَن مٹ نقوش چھوڑ جاتے، لیکن ادبی تخلیق کے اس دائرے میں وہ ایک آدھ جھلک دکھا کر صاف نکل گئے ہیں… اقبال ایک صاحبِ طرز اُسلوب نگار ہیں۔۳؎ ۱- پیش لفظ، مقالاتِ اقبال: ص۱۷تا۱۸ ۲- حیاتِ اقبال کا ایک جذباتی دور :ص۴۶ ۳- اقبال کا اُسلوبِ نگارش: مشمولہ Journal of Research، جنوری ۱۹۷۶ئ: ص۳۰ تا۴۰ ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں: اقبال نے مختلف رجحاناتِ نثر کے امتزاج سے اپنے اندازِ نثر کا ہیولا تیار کیا اور چند سال میں وہ ایک مخصوص اُسلوبِ نثر کی تشکیل میں کامیاب ہوگئے، جس نے انھیں ایک صاحبِ طرز انشا پرداز بنا دیا۔۱؎ غلام دستگیر رشید کا خیال ہے کہ: اُردو میں یہ طرزِ تحریر منفرد یعنی اپنی مثال آپ ہے۔۲؎ ان اقتباسات میں ’’اگر‘‘ سے شروع ہونے والی بات تو محض ایک ناتمام حسرت ہے اور اظہارِ تمنا کی ایک صورت، اس لیے چنداں قابلِ توجہ نہیں ہے، مگر ان سب بیانات میں مشترک نکتہ یہ ہے کہ شاعری ہی کی طرح اُردو نثر میں بھی اقبال ایک منفرد رنگ کے صاحبِ طرز انشا پرداز ہیں۔ راقم کے خیال میں یہ بات خاصی مبالغہ آمیز ہے۔ اوپر کی سطور میں جو بحث کی گئی، اس سے یہ نتیجہ واضح ہے کہ شاعری کے مقابلے میں ان کی نثر ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ جہاں تک نثرِ اقبال کے رنگ و آہنگ کا تعلق ہے، اقبال کی قدرتِ بیان میں کلام نہیں۔ وہ کسی کسی موضوع پر اپنا مافی الضمیر ادا کرنے کی پوری پوری صلاحیت رکھتے تھے، مگر ان کے جملہ نثری آثار سامنے رکھیں، تو اس میں کئی طرح کے رنگ نظر آتے ہیں، مثلاً: ایک وہ رنگ ہے جسے ڈاکٹر سیّد عبداللہ اور غلام دستگیر رشید نے حکیمانہ اور عالمانہ نثر کہا ہے۔ اسرارِ خودی طبع اوّل اور رموزِ بے خودی طبع اوّل کے دیباچے اور اسرارِ خودی کے سلسلے میں وضاحتی اور جوابی مضامین اقبال کے اس رنگِ نثر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ بعض مضامین (مثلاً: بچوں کی تعلیم و تربیت یا قومی زندگی) میں، عبارت کی سادگی و روانی اور بے تکلفانہ انداز کی وجہ سے اقبال، نثرِِ سرسیّد کے مقلد نظر آتے ہیں۔ مولوی انشاء اللہ خاں ایڈیٹر وطن اور منشی طاہر دین کے نام طویل خطوط۳؎ میں بیسویں صدی کے آغاز کی رومانی تحریک کے اثرات غالب ہیں۔ علم الاقتصاد میں بقول ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار ایک گونہ خشکی اور ثقالت۴؎ نمایاں ہے… اس طرح اقبال کی مجموعی نثر کو سامنے رکھتے ہوئے اُنھیں ’’منفرد اور صاحبِ طرز انشانگار‘‘ کہنا درست نہیں معلوم ہوتا۔ ۱- اقبال کی اُردو نثر: ص۷۲ ۲- دیباچہ، مضامینِ اقبال: ص’’ح‘‘ ۳- خطوطِ اقبال: ص۷۴-۱۰۳، ۲۰۴-۲۱۰ ۴- Journal of Research: جنوری ۱۹۷۶ء نثرِِ اقبال سے متعلق ایک اور نکتہ قابلِ توجہ ہے۔ نثر میں اُنھوں نے اُردو اور انگریزی کو ذریعۂ اظہار بنایا۔ یہ معلوم ہے کہ اقبال اُردو کے پر جوش حامی تھے اور اس کی ترویج و ترقی میں گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ مولوی عبدالحق کے نام ۴؍ستمبر ۱۹۳۶ء کے خط میں لکھا: ’’میری لسانی عصبیت، دینی عصبیت سے کم نہیں‘‘۔۱؎ پھر ۲۸؍ستمبر ۱۹۳۷ء کو لکھا: ’’کاش میں اپنی زندگی کے باقی دن آپ کے ساتھ رہ کر اُردو کی خدمت کرسکتا۔‘‘۲؎ شاعری کا اُردو حصہ، نثری مضامین، بیانات اور خطوط کی بہت بڑی تعداد، اُردو زبان سے علامہ اقبال کی دل بستگی اور دل چسپی کا مظہر ہیں۔ علم الاقتصاد کے دور (بیسویں صدی کے آغاز) میں، ایک علمی زبان کی حیثیت سے، اُردو کچھ ایسی ترقی یافتہ نہ تھی اور معاشیات جیسے سائنسی فن پر اُردو میں کچھ لکھنا خاصا مشکل تھا، پھر بھی اقبال نے یہ کتاب اُردو میں لکھی۔ مگر اُردو زبان سے اس تمام تر دل چسپی اور محبت کے باوجود، ان کی نثر کا زیادہ تر حصہ انگریزی تحریروں پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹریٹ کا مقالہ (Development) تو اُردو میں لکھنے کی گنجائش ہی نہ تھی، لیکن نسبتاً اہم تصنیف Reconstruction میں بھی اُنھوں نے اُردو کے بجاے انگریزی کو ذریعۂ اظہار بنایا۔ خطبات کے علاوہ اُن کی تقریروں اور بیانات کی بہت بڑی تعداد انگریزی میں ہے۔ ایک سو کے قریب خطوط بھی انگریزی میں تحریر کیے گئے ہیں۔ نجی ڈائری Stray Reflections کے تمام تر شذرات بھی انگریزی میں ہیں۔ کیا اقبال، یہ سب اُردو میں نہ لکھ سکتے تھے؟ اُردو کے بارے میں واضح ’’لسانی عصبیت‘‘ رکھنے اور اس کا اظہار کرنے کے باوجود اُنھوں نے ایک بدیسی زبان کو اظہارِ مطالب کا ذریعہ کیوں بنایا؟… اس سوال کا، ۲+۲=۴ کی طرح، دوٹوک جواب آسان نہیں ہے، تاہم خطوطِ اقبال کی روشنی میں انگریزی سے علامہ کی اس رغبت کی وجوہ تلاش کی جاسکتی ہیں۔ عبدالرب نشتر کے نام ایک خط میں اقبال لکھتے ہیں: ’’زبان کو، میں ایک بت تصور نہیں کرتا جس کی پرستش کی جائے، بلکہ اظہارِ مطالب کا ایک انسانی ذریعہ خیال کرتا ہوں‘‘۔۳؎ گویا جس ’’لسانی عصبیت‘‘ کا اُنھوں نے مولوی عبدالحق سے ذکر کیا، وہ کسی قسم کی منفی عصبیت یا اندھی ضد نہ تھی، بلکہ حمیتِ قومی کی ایک شکل تھی۔ پھر اقبال مزید وضاحت کرتے ہیں کہ زبان اظہارِ مطالب کا ایک انسانی ذریعہ ہے۔ صوفی تبسم کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’مجھ کو بارہا اس کا تجربہ ہوا ہے کہ اُردو میں گفتگو ۱- اقبال نامہ، دوم: ص۷۸-۷۹ ۲- ایضاً: ص۸۲ ۳- اقبال نامہ، اوّل: ص۵۶ کرتے ہوئے میں اپنے مافی الضمیر کو اچھی طرح ادا نہیں کرسکتا‘‘،۱؎ مگر یہ بات امرِ واقعہ نہیں، محض اقبال کا ایک احساس ہے۔ اسی نفسیاتی احساس نے تقویت پاکر، اس خیال کی شکل اختیار کرلی کہ بعض خاص مضامین و مطالب کا اظہار، انگریزی ہی میں ممکن ہے، یا کم از کم اُردو کی نسبت انگریزی میں بہتر اظہار ہوسکتا ہے۔ یہ معلوم ہے کہ اقبال نے انگریزی سکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں اپنی تعلیم مکمل کی۔ برطانوی نظامِ تعلیم کے ان اداروں میں نہ صرف ذریعۂ تعلیم انگریزی تھا، بلکہ انگریزی زبان و ادب کی تدریس ایک لازمی مضمون کی حیثیت سے ہوتی تھی۔ شعر و ادب میں طبعی مناسبت و رغبت کے سبب، اقبال نے انگریزی زبان و ادب کا نسبتاً زیادہ دل چسپی اور توجہ سے مطالعہ کیا۔ پھر گورنمنٹ کالج لاہور کے زمانۂ معلمی میں انٹرمیڈیٹ اور بی اے جماعتوں کو انگریزی زبان و ادب کی تدریس بھی اُن کے ذمے تھی۔ اُن کے ایک شاگرد ایم اسلم کا بیان ہے کہ شاعری پڑھاتے ہوئے، ’’سب سے پہلے اشعار کی تشریح اس طرح کرتے، جس سے اُن اشعار کی فنی خوبیوں پر بھی روشنی پڑتی تھی، اس مرحلے کے بعد زیر بحث انگریزی اشعار کی طرف متوجہ ہوتے اور ایسے دل نشیں پیرائے میں اُن کا مطلب بیان کرتے کہ تقریباً مکمل مفہوم اور شعری نزاکتیں واضح ہوجاتیں۔ یہ تمام لیکچر انگریزی میں ہوتا… اُن کے پڑھانے کا طریقہ اتنا دل کش تھا کہ غالباً ان کے گھنٹے میں تمام اساتذہ کے مقابلے میں زیادہ حاضری رہتی‘‘۔۲؎بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ گئے، تو اُن کا زیادہ تر وقت کیمبرج میں گزرا، جہاں علمی اور تعلیمی اعتبار سے انھیں بہترین ماحول میسر آیا۔ انگلستان سے واپسی پر قانونی پریکٹس کے زمانے میں عدالتوں میں بھی وسیلۂ گفتگو انگریزی تھا، اس طرح اوائلِ عمر میں انگریزی زبان سے اُن کا جو رابطہ قائم ہوا تھا، وقت کے ساتھ وہ زیادہ اُستوار اور مستحکم ہوتا گیا۔ اس کے نتیجے میں انگریزی زبان سے ایک مناسبتِ طبعی پیدا ہوگئی، بلکہ وہ اس میں ہر طرح کے مشکل مطالب اور ادق خیالات ادا کرنے پر بھی قادر ہوگئے۔ انگریزی پر اس غیر معمولی دسترس نے اقبال کو انگریزی نثر لکھنے کی طرف راغب کیا۔ خالصتاً علمی اور فلسفیانہ مطالب کو، اُردو جیسی نسبتاً نئی زبان میں بیان کرنے میں جو مشکلات پیش آتی ہیں، وہ محتاجِ بیان نہیں۔ اقبال کے زمانے میں تو، یہ مشکلات اور بھی زیادہ تھیں۔ پھر ایک ۱- اقبال نامہ، اوّل: ص۴۷ ۲- اوراقِ گم گشتہ: ص۱۲۶ ایسے شخص کے لیے، جس کا سارا علمی پس منظر انگریزی ہو، کسی علمی اور فلسفیانہ موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے، اپنے مافی الضمیر کو کامیابی سے اُردو میں واضح کرنا، ناممکن نہیں، تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔ اس میں یہ خدشہ بھی ہے کہ وضاحتِ مفہوم میں کوئی کمی رہ جائے۔ بعض انگریزی مضامین، خصوصاً خطبات کے انگریزی ملبوس کا یہی جواز ہے۔ غلام بھیک نیرنگ کے نام ایک خط میں، اقبال نے خطبات سے متعلق جو وضاحت کی ہے، اس سے زیر بحث مسئلے پر کچھ اور روشنی پڑتی ہے۔ لکھتے ہیں: ان لکچروں کے مخاطب زیادہ تر وہ مسلمان ہیں، جو مغربی فلسفے سے متأثر ہیں اور اس بات کے خواہش مند ہیں کہ فلسفۂ اسلام کو فلسفۂ جدید کے الفاظ میں بیان کیا جائے، اور اگر پرانے تخیّلات میں خامیاں ہیں، تو اُن کو رفع کیا جائے۔ میرا کام زیادہ تر تعمیری ہے اور اس تعمیر میں، میں نے فلسفۂ اسلام کی بہترین روایات کو ملحوظ خاطر رکھا ہے، مگر میں خیال کرتا ہوں کہ اُردو خواں دنیا کو شاید ان سے فائدہ نہ پہنچے، کیونکہ بہت سی باتوں کا علم، میں نے فرض کرلیا ہے کہ پڑھنے والے یا سننے والے کو پہلے سے حاصل ہے، اس کے بغیر چارہ نہ تھا۔۱؎ راقم کے خیال میں اقبال کی اس وضاحت کے بعد، مزید کسی توضیح کی ضرورت نہیں رہتی۔ یہ بیان، نثر خصوصاً خطبات میں انگریزی کو ذریعۂ اظہار بنانے کی مجبوری، جواز اور اُس کی حکمت کو بخوبی اجاگر کرتا ہے۔ فنی اعتبار سے اقبال کی انگریزی نثر کیا حیثیت رکھتی ہے؟ اس کا جائزہ اہلِ نقد و نظر ہی لے سکتے ہیں، تاہم اس ضمن میں دو باتیں بہت واضح ہیں؛ اوّل: اقبال کو انگریزی زبان پر پوری دسترس حاصل تھی، دوم: تحریر و تقریر میں وہ بہت اچھی، صحیح اور حسبِ موقع عالمانہ انگریزی لکھنے اور بولنے پر قادر تھے۔ ئ……ئ……ء ۱- اقبال نامہ، اوّل: ص۲۱۰-۲۱۱ (ب) نثری تصانیف ژ علمُ الاقتصاد ایم اے کرنے کے بعد ۱۳ مئی۱۸۹۹ء کو اقبال اورینٹل کالج لاہور میں میکلوڈ عریبک ریڈر مقرر ہوئے۔ ریڈر شپ کے فرائضِ منصبی میں تاریخ اور پولیٹیکل اکانومی کی تدریس کے علاوہ انگریزی یا ادبی تصانیف کا اُردو ترجمہ بھی شامل تھا۔ فاسٹ (Fawcett) کی Political Economyنصاب میں شامل تھی۔ اس طرح ایک طرف تو وہ اقتصادیات پر درس دیتے رہے، دوسری طرف اُنھوں نے واکر (Walker) کی تصنیف Political Economyکا ملخص اُردو ترجمہ تیار کیا۔۱؎ اقبال کی اوّلین اُردو تصنیف علم الاقتصاد ان کی معلمانہ زندگی کے انھی مشاغل کے پس منظر میں تصنیف کی گئی۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار نے علم الاقتصاد کی تالیف کو اقبال کے ریڈرشپ کے فرائض سے وابستہ۲؎ قرار دیا ہے، مگر اُنھوں نے ریڈرشپ کے قواعدِ ملازمت کی روشنی میں میکلوڈ عریبک ریڈر کے جو تین منصبی فرائض [(۱) یونی ورسٹی مطبوعات کی طباعت میں اعانت (۲) انگریزی و عربی کتابوں کا ترجمہ (۳) تدریس۳؎ ] بیان کیے ہیں، طبع زاد تصنیف، ان کے دائرۂ کار میں نہیں آتی۔ بنابریں ہمارا خیال ہے کہ علم الاقتصاد کا سببِ تالیف فرضِ منصبی نہ تھا، البتہ یہ ممکن ہے کہ اس طرح کا تالیفی کام معلمانہ کارکردگی کے طور پر بہ نظرِ استحسان دیکھا جاتا ہو اور اقبال کے ذہن میں یہ بات موجود ہو۔ علم الاقتصاد کے تالیفی محرکات میں یہ امر، اس لیے بھی قرینِ قیاس ہے کہ اورینٹل ۱- پنجاب یونی ورسٹی کیلنڈروں اور اورینٹل کالج کی سالانہ رپورٹوں کی بنیاد پر، یہ معلومات ڈاکٹر وحید قریشی اور ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار نے مہیا کی ہیں (دیکھیے: ’’علامہ اقبال کی تعلیمی زندگی کی بعض تفصیلات‘‘ مشمولہ: کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ، ص۳۰۵-۳۲۶ اور ’’اقبال اور اورینٹل کالج‘‘: مشمولہ: Journal of Research، پنجاب یونی ورسٹی لاہور، جولائی ۱۹۷۷ء و جنوری ۱۹۷۸ئ، ص۸۳-۱۱۰)۔ ۲- Journal of Research، جنوری ۱۹۷۶ئ:ص۷ ۳- ایضاً، جولائی ۱۹۷۷ء و جنوری ۱۹۷۸ئ: ص۱۰۲ کالج کی سالانہ رپورٹ ۱۹۰۱ئ-۱۹۰۲ء میں زیر تصنیف علم الاقتصاد کو بایں الفاظ: A new work of Political Economy in preparation ۱؎ ان کی سالانہ کارکردگی میں شمار کیا گیا ہے۔ تعلیمی زندگی میں اقبال کی توجہ عربی، انگریزی اور فلسفے کی طرف رہی۔ اقتصادیات اُن کے لیے ایک نیا علم تھا، مگر تدریسی تقاضوں کے تحت اُنھوں نے اس کا کسی قدر وسیع مطالعہ کیا ہوگا اور ممکن ہے، نکاتِ مطالعہ (Study Notes) بھی تیار کیے ہوں۔ اسی اثنا میں، جیسا کہ وہ دیباچے میں لکھتے ہیں کہ پروفیسر آرنلڈ نے تالیفِ کتاب کی طرف متوجہ کیا۔ آرنلڈ سے اقبال کی وابستگی محتاجِ بیان نہیں، چنانچہ اُن کا توجہ دلانا علم الاقتصاد لکھنے کا فوری محرک ثابت ہوا۔ مختصر یہ کہ، اوّل: علمِ اقتصادیات کا تازہ مطالعہ، دوم: آرنلڈ کی تحریک اور سوم: تصنیف کا منصبی کارکردگی میں شمار ہونا… ان سب امور کے پیشِ نظر اُنھوں نے علم الاقتصاد لکھنے کا بیڑا اٹھایا۔ اوپر ذکر آچکا ہے کہ اورینٹل کالج کی سالانہ رپورٹ (۱۹۰۱ئ-۱۹۰۲ئ) میں مذکور ہے کہ شیخ محمداقبال پولیٹیکل اکانومی پر ایک نئی کتاب تیار کررہے ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ علم الاقتصاد کا آغاز ۱۹۰۱ء کے نصف آخر یا اوائل ۱۹۰۲ء میں ہوا ہوگا۔ ۱۸۹۹ء سے ۱۹۰۵ء تک اقبال کے ایامِ ملازمت کی توقیت اس طرح ہے:۲؎ ۱۳؍مئی ۱۸۹۹ء تقرر بطور میکلوڈ عریبک ریڈر (توثیق: ۲۴؍جون ۱۸۹۹ئ) ۴؍ جنوری ۱۹۰۱ء تا ۳۱؍مارچ ۱۹۰۲ء قائم مقام اسسٹنٹ پروفیسر انگریزی، گورنمنٹ کالج، لاہور یکم؍اپریل ۱۹۰۲ء تا ۱۷؍اکتوبر۱۹۰۲ء میکلوڈ عریبک ریڈر، اورینٹل کالج، لاہور ۱۸؍اکتوبر ۱۹۰۲ء تا۳۱؍مارچ ۱۹۰۳ء قائم مقام اڈیشنل پروفیسر انگریزی، گورنمنٹ کالج، لاہور یکم ؍اپریل ۱۹۰۳ء تا ۳۱؍مئی۱۹۰۳ء میکلوڈ عریبک ریڈر، اورینٹل کالج، لاہور ۳؍جون ۱۹۰۳ء تا۱۹۰۵ء عارضی اسسٹنٹ پروفیسر، گورنمنٹ کالج، لاہور ۱- بحوالہ ڈاکٹر وحید قریشی: ’’علامہ اقبال کی تعلیمی زندگی کی بعض تفصیلات‘‘ مشمولہ کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ، ص۳۲۸ ۲- یہ توقیت ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار اور ڈاکٹر محمد باقر ( احوال و آثار اقبال (دوم)، ص۱تا۱۵ انگریزی حصہ۔)کی مہیا کردہ معلومات کی روشنی میں مرتب کی گئی ہے۔ اس سے واضح ہے کہ علم الاقتصاد کے تالیفی دور میں اُن کا زیادہ تر وقت گورنمنٹ کالج لاہور میں گزرا۔ گویا کتاب کے آغاز (۱۹۰۱ء یا ۱۹۰۲ئ) سے اس کی اشاعت (۱۹۰۴ئ) تک چار سال میں، اُنھوں نے تقریباً نو ماہ کا قلیل عرصہ اورینٹل کالج میں گزارا۔ علم الاقتصاد کے پہلے اڈیشن پر سالِ اشاعت درج نہیں ہے۔ اس وجہ سے اس کے سالِ اشاعت کے بارے میں اقبال کے سوانح نگاروں کے ہاں متضاد بیانات ملتے ہیں۔ منشی محمد دین فوق نے کتاب کے سالِ اشاعت کا تعین۔ّنہیں کیا۔۱؎ سالک نے بلا حوالہ فوق کے بیان کو دہرا دیا ہے۔۲؎ طاہر فاروقی۳؎ اور ڈاکٹر عبدالسلام خورشید۴؎ کے ہاں سالِ اشاعت کا ذکر ہی نہیں ملتا۔ کتابیات نگاروں میں سے قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی نے ۱۹۰۱ئ۵؎ اور عبدالغنی و خواجہ نور الٰہی ۶؎، نذیر احمد۷؎ خواجہ عبدالوحید۸؎ اور رفیع الدین ہاشمی۹؎ نے ۱۹۰۳ء کو کتاب کا سالِ اشاعت بتایا ہے، مگر اس غلط فہمی کو عام کرنے میں ممتاز حسن کے اس دیباچے (علم الاقتصاد طبع دوم، ۱۹۶۱ئ) کو بہت دخل ہے، جس کا آغاز اس جملے سے ہوتا ہے: ’’اقبال کی علم الاقتصاد ۱۹۰۳ء میں شائع ہوئی تھی‘‘۔۱۰؎ بعد ازاں اسی طبع دوم کے سرورق کو Iqbal in Picturesمیں طبع اوّل کے سرورق کے طور پر پیش کیا گیا۔ علم الاقتصاد کے پہلے اڈیشن کی کتابت نستعلیق کی تھی، مگر طبع دوم کا یہ سرورق ٹائپ میں ہے۔ اس پر نستعلیق میں ’’۱۹۰۳ئ‘‘ لکھ دیا گیا ہے اور اسی عکس نے متذکرہ بالا غلط فہمی کے لیے گویا تصدیق مہیا کی (علم الاقتصاد طبع اوّل کے سرورق کا عکس آئندہ صفحے پر ملاحظہ کیجیے۔ اس پر سالِ اشاعت درج نہیں ہے)۔ ۱- فوق لکھتے ہیں: ’’اسی زمانے میں سیاستِ مدن پر ایک کتاب بنام علم الاقتصاد لکھی۔‘‘ (بحوالہ انوارِ اقبال: ص۸۱) ۲- سالک کے الفاظ ہیں: ’’اس زمانے میں علامہ نے علمِ سیاست مدن پر ایک کتاب علم الاقتصاد کے نام سے اُردو میں لکھی۔‘‘ (ذکرِ اقبال: ص۴۲) ۳- سیرتِ اقبال: ص۳۳ ۴- سرگذشتِ اقبال: ص۴۳ ۵- اقبالیات کا تنقیدی جائزہ: ص۱۴ [بشیر احمد ڈار نے بھی ۱۹۰۱ء لکھا ہے: مجلہ اقبال، جولائی تا ستمبر ۱۹۷۱ئ، ص۸۷] ۶- Bibliography of Iqbal: ص۲ ۷- کلیدِ اقبال: ص۴۸ ۸- A Bibliography of Iqbal: ص۱۳ ۹- کتابیاتِ اقبال: ص۱۶ ۱۰- علم الاقتصاد، طبع دوم: ص۱ علم الاقتصاد کے سرورق پر مصنف کے نام کے ساتھ ’’اسسٹنٹ پروفیسر‘‘ گورنمنٹ کالج لاہور‘‘ کے الفاظ درج ہیں۔ اورینٹل کالج سے ۳؍جون ۱۹۰۳ء سے رخصت لے کر، اقبال نے یہ منصب سنبھالا۔ گویا، کتاب اس تاریخ کے بعد ہی کسی وقت مکمل ہوئی۔ مخزن کے شمارہ اپریل ۱۹۰۴ء میں علم الاقتصاد کا آخری حصہ، بعنوان ’’آبادی‘‘ اس نوٹ کے ساتھ چھپا: ’’کتاب زیر طبع ہے‘‘۔ (ص۱)۔ گویا کتاب ۱۹۰۴ء کے اوائل میں مکمل ہوئی اور کتابت کے لیے دے دی گئی اور ایک باب مخزن میں اشاعت کے لیے بھیج دیا گیا۔ غالب قیاس یہ ہے کہ فروری کے آخری یا مارچ کے ابتدائی ایام میں تکمیل ہوئی، کیونکہ اسی صورت میں آخری باب کی مخزن کے شمارہ اپریل میں شمولیت ممکن ہوئی۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار لکھتے ہیں: ’’یہ کتاب ۱۹۰۳ء میں مکمل ہوچکی تھی اور اس وقت اقبال گورنمنٹ کالج میں تھے، شاید اس کی کتابت بھی ۱۹۰۳ء میں ہوگئی ہو‘‘ ۱؎… گذشتہ سطور میں ہم نے اقبال کے ایامِ ملازمت کی جو توقیت مرتب کی ہے، اس کی روشنی میں ۳۱؍مارچ ۱۹۰۳ء تک تو، اقبال گورنمنٹ کالج میں قائم مقام اڈیشنل پروفیسر رہے، یکم اپریل سے ۳۱؍مئی ۱۹۰۳ء تک انھوں نے اورینٹل کالج میں میکلوڈ عریبک ریڈر کے فرائض انجام دیے اور ۳؍جون کو گورنمنٹ کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے۔ گویا ۳؍جون سے قبل تو علم الاقتصاد مکمل نہ ہوئی تھی (ورنہ سرورق پر وہ ’’اسسٹنٹ پروفیسر، گورنمنٹ کالج لاہور‘‘ نہ لکھتے)۔ اگر کتاب ۱۹۰۳ء کے آخری ایام میں بھی مکمل ہوگئی ہوتی، تو (یہ معلوم ہے کہ سر عبدالقادر ہمیشہ اقبال کے رشحاتِ فکر کے متلاشی رہتے تھے۔۲؎) آخری باب بعنوان ’’آبادی‘‘، جنوری یا فروری یا زیادہ سے زیادہ مارچ ۱۹۰۴ء کے شمارے میں چھپ جاتا۔ شمارہ اپریل میں اس کی اشاعت ظاہر کرتی ہے کہ کتاب کا یہ باب فروری مارچ ۱۹۰۴ء میں لکھا گیا ہوگا اور یہ بات تو بالکل ہی بعید از قیاس ہے کہ ’’شاید اس کی کتابت بھی ۱۹۰۳ء میں ہوگئی ہو‘‘۔ اگر واقعی ایسا تھا تو پھر کتابت شدہ کاپیوں کو دو چار نہیں، پورے دس ماہ تک روکے رکھنے کی کیا غایت تھی؟ مخزن اپریل ۱۹۰۴ء میں علم الاقتصاد کے ایک باب کی اشاعت کے ساتھ کتاب کے زیر طبع ہونے کی خبر دی گئی تھی، نومبر ۱۹۰۴ء تک، مخزن میں اس بارے میں کوئی اطلاع یا اعلان نہیں ملتا۔ گویا ان مہینوں میں کتابت و طباعت کے مراحل طے ہوئے، حتیٰ کہ دسمبر ۱۹۰۴ء کے مخزن میں یہ اعلان شائع ہوا: ۱- Journal of Research، جولائی ۱۹۷۷ء تا جنوری ۱۹۷۸ئ: ص۱۰۴ ۲- بنام فوق: ’’شعر ہے جو کبھی کبھی خود موزوں ہوجاتا ہے، سر شیخ عبدالقادر لے جاتے ہیں۔‘‘ (انوارِ اقبال: ص۵۳) ہم ناظرین کو بڑی خوشی سے یہ اطلاع دیتے ہیں کہ یہ قابلِ قدر کتاب جس کا ایک باب مخزن میں شائع ہوچکا ہے، چھپ کر تیار ہوگئی ہے۔۱؎ دسمبر کے شمارے میں شائع شدہ اس اعلان کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ علم الاقتصاد کا پہلا اڈیشن نومبر ۱۹۰۴ء میں چھپ کر منظرِ عام پر آیا۔۲؎ علامہ اقبال علم الاقتصاد کے دیباچے میں لکھتے ہیں: ’’شبلی نعمانی مدظلہٗ میرے شکریے کے مستحق ہیں کہ اُنھوں نے اس کتاب کے بعض حصوں میں زبان کے متعلق قابلِ قدر اصلاح دی‘‘۔۳؎ غالباً یہ اپریل ۱۹۰۴ء کا ذکر ہے۔ Iqbal in Picturesمیں ۱۹۰۴ء کا ایک گروپ فوٹو شامل کیا گیا ہے، جس میں اقبال اور شبلی دونوں موجود ہیں۔ اس کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ ۱۹۰۴ء میں اقبال، مولانا شبلی سے ملے ہوںگے۔ بظاہر یہ بات عجیب سی لگتی ہے کہ حصولِ تعلیم کے لیے انگلستان جاتے ہوئے، اقبال نے علم الاقتصاد کا مسودہ اپنے ساتھ لے جانے کا تو اہتمام کیا، مگر کوئی مطبوعہ نسخہ نہ لے گئے۔ ممکن ہے دو چار جلدیں لے گئے ہوں اور دوست احباب کی نذر کردی ہوں۔ عطیہ بیگم کے نام ایک خط۴؎ سے واضح ہوتا ہے کہ اپریل ۱۹۰۷ء میں اُن کے پاس علم الاقتصاد کا کوئی نسخہ موجود نہ تھا، جسے وہ عطیہ کو پیش کرتے۔ ہندستان میں کتاب دستیاب۵؎ تھی اور اقبال نے منگوانے کا ارادہ بھی کیا، مگر عطیہ بیگم کا بیان ہے کہ: Iqbal presented his original M S of Political Economy to me. ۶؎ یہ ۱۶؍جولائی ۱۹۰۷ء کا واقعہ ہے، بعد میں یہ مسوّدہ پروفیسر آرنلڈ کو منتقل ہوگیا۔ ۱- مخزن، دسمبر۱۹۰۴ئ۔ ۲- دکن ریویو کے شمارہ فروری ۱۹۰۵ء میں پروفیسر نقاد حیدرآبادی کے تبصرے سے ۱۹۰۴ء کی تائید ہوتی ہے-- دیکھیے: ڈاکٹر اکبر حیدری کاشمیری کا مضمون: دکن ریویو مطبوعہ نقوش لاہور، شمارہ نمبر۱۴۰[۱۹۹۲ئ]۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے محض ’’۱۹۰۴ئ‘‘ (زندہ رود: ص۸۷) اور محمد حمزہ فاروقی نے ’’دسمبر ۱۹۰۴ئ‘‘ لکھا ہے (اقبال ریویو، جنوری ۱۹۷۶ئ: ص۶۹) ۳- دیباچہ، علم الاقتصاد، طبع اوّل: ص۷ ۴- Letters to Atiya: ص۱۲ ۵- مخزن میں وقفوں وقفوں سے علم الاقتصاد کا اشتہار شائع ہوتا رہا۔ آخری بار مئی ۱۹۰۸ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ ۶- Letters to Atiya: ص۱۹ علامہ اقبال ۸؍مارچ ۱۹۱۷ء کو پروفیسر سلاح الدین محمد الیاس برنی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: کتاب المعیشت مل گئی تھی… آپ کی تصنیف اُردو زبان پر ایک احسانِ عظیم ہے۔ مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ اُردو زبان میں علم الاقتصاد پر یہ پہلی کتاب ہے اور ہر پہلو سے کامل۔۱؎ تقریباً پانچ ہفتے بعد ۱۵؍اپریل ۱۹۱۷ء کو مہاراجا کشن پرشاد شاد کو لکھا: ’’علم الاقتصاد پر اُردو میں سب سے پہلے مستند کتاب میں نے لکھی‘‘۔۲؎ ان بیانات میں تضاد ہے۔ بظاہر اس کا سبب یہی ہے کہ ۸؍مارچ کے خط میں اقبال نے از راہ وضع داری، برنی کی کتاب کو ’’اُردو زبان میں علم الاقتصاد پر پہلی اور ہر پہلو سے کامل کتاب‘‘ قرار دیتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کی، مگر اسی زمانے میں حیدر آباد ہائی کورٹ کی ججی کے لیے اقبال کا نام بھی زیر غور تھا۔ اس ضمن میں مکتوب بنام شاد میں اپنے سوانحی اور تصنیفی کوائف کی تفصیل لکھتے ہوئے علم الاقتصاد کی اس امتیازی حیثیت کا ذکر ضروری سمجھا کہ اس موضوع پر ’’سب سے پہلے مستند کتاب‘‘ اُنھوں نے لکھی۔ حقیقت یہ ہے کہ علم الاقتصاد کی تالیف و اشاعت سے پہلے علم المعیشت پر اُردو زبان میں کم از کم چھے کتابیں شائع ہوچکی تھیں۔ ان میں سے پانچ تو انگریزی کتابوں کے تراجم تھے، البتہ رسالہ علم انتظام مدن (مصنفہ: محمد منور شاہ خاں و محمد مسعود شاہ خاں) آزادانہ غور و فکر کے بعد، بطور ایک طبع زاد تصنیف کے لکھا گیا۔۳؎ اس اعتبار سے علم الاقتصاد کو معاشیات پر اُردو میں پہلی کتاب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ علم الاقتصاد کا پہلا اڈیشن پیسہ اخبار کے خادم التعلیم سٹیم پریس لاہور میں طبع ہوا۔ قلم درمیانہ ہے، حواشی نسبتاً باریک قلم سے ہیں، سرورق اور اس کی پشت کے صفحات نمبر شمار نہیں کیے گئے۔ پیش کش (انتساب) ص۱ پر ہے، فہرست مضامین ص۲ پر اور ص۳ خالی ہے۔ دیباچہ (جسے اقبال نے بالالتزام ’’دیباجہ‘‘ لکھا ہے) ص۴ تا ۷ اور متنِ کتاب ص۸ سے شروع ہوکر ص۲۱۶ پر ختم ہوجاتا ہے۔ کتابت خوب صورت ہے، مگر بہت سے الفاظ قدیم املا کے مطابق لکھے گئے ہیں، جو اَب متروک ہوچکا ہے، مثلاً: پڑہنے (پڑھنے)، سعے (سعی)، نہوگی (نہ ہوگی)، قیمتون (قیمتوں) ، معنون (معنوں)، ۱- اقبال نامہ، اوّل: ص۴۰۹ ۲- شاد اقبال: ص۴۵ ۳- تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے مشفق خواجہ کا مقالہ: ’’اقبال کا پہلا علمی کارنامہ، علم الاقتصاد‘‘ مشمولہ: رسالہ اُردو، اقبال نمبر۱۹۷۷ئ،ص۳۵۵-۳۸۰ پہونچ (پہنچ)، فلان (فلاں)، جاوے (جائے)، تبادلی (تبادلے)، بڑجانا (بڑھ جانا)، سمجہہ (سمجھ)، تھوں (تہوں)، ابہی (ابھی) وغیرہ۔ کتابت احتیاط سے کی گئی ہے، پھر بھی کہیں کہیں کتابت کی اغلاط نظر آتی ہیں، مثلاً: صفحہ سطر غلط صحیح ۷ ۱۶ کنبٹ کینٹب ۹ ۱۷ کرتے۔ احتراز کرتے ہیں، احتراز ۱۱ ۱۴ کی روے سے کی رو سے ۲۴ ۱۲ ہے سے ۳۶ ۱۳ چاہتے چاہیے ۵۶ ۸ مہد ممد ۶۳ ۶ مفلوں مغلوں ۶۴ ۴ صحت کی خلاف صحت کے خلاف ۷۵ ۷ کم ہوں کم ہوگی ۹۵ ۸ جاسکتا جاسکنا ۱۲۶ ۱۴ حملے جملے ۱۳۷ ۷ عنذالطلب عندالطلب ۱۴۷ ۱۹ ہوتا ہے ہونا ہے پروفیسر محمد عثمان، علم الاقتصاد کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: یہ کتاب اپنی اشاعت کے کچھ عرصہ بعد بازار سے ہی غائب ہوگئی۔۱؎ یہ ذکر آچکا ہے کہ علم الاقتصاد مئی ۱۹۰۸ء تک تو یقینی طور پر فروخت کے لیے بازار میں موجود تھی (کیونکہ اسی ماہ مخزن میں اس کا اشتہار چھپا تھا) ممکن ہے کہ اس کے بعد بھی دستیاب رہی ہو۔ بہرحال نومبر ۱۹۰۴ء سے مئی ۱۹۰۸ء تک ساڑھے تین برس کے عرصے کو محض ’’کچھ عرصہ‘‘ قرار ۱- اقبال ریویو، جنوری ۱۹۶۴ئ:ص۹۲ دینا درست نہیں، پھر پروفیسر محمد عثمان نے پہلے اڈیشن کے ختم ہونے کا جس انداز میں ذکر کیا ہے، [’’بازار سے ہی غائب ہوگئی‘‘] اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ کتاب کسی منصوبے کے تحت اور پُراسرار طریقے سے بازار سے غائب کی گئی، حالانکہ نہ تو اس کی ضرورت تھی اور نہ حقیقتاً ایسا ہوا۔ یہ درست ہے کہ کتاب ختم ہونے پر، اقبال نے دوسرے اڈیشن کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ شاعری کے بیشتر مجموعوں کو اُنھوں نے اپنی زندگی میں بار بار چھپوانے کا اہتمام کیا، مگر اپنی اوّلین تصنیف کی دوبارہ اشاعت کی طرف وہ کبھی متوجہ نہیں ہوئے۔۱؎ پہلی اشاعت کے ستاون سال بعد، اقبال اکادمی پاکستان، کراچی نے علم الاقتصاد کا دوسرا اڈیشن شائع کیا۔ اس پر سالِ طباعت درج نہیں، مگر ممتاز حسن کے پیش لفظ کی تاریخِ تحریر (۱۰؍جون۱۹۶۱ئ) سے اس کا سالِ اشاعت متعین کرنا مشکل نہیں ہے۔ سرورق اور اس کی پشت کا صفحہ شمار میں نہیں لایا گیا، فہرست، صفحات الف، ب،ج پر درج ہے، صفحہ دخالی ہے۔ پیش لفظ (از ممتاز حسن، ص۱تا۱۰) مقدمہ (از انور اقبال قریشی، ص۱۱ تا۱۹) پیش کش (انتساب اور مصنف، ص۲۱) اور دیباچہ (از مصنف، ص۲۳تا۲۶) کے بعد متنِ کتاب سے صفحات کا از سرِ نو شمار ہوتا ہے۔ دوسرے اڈیشن کی سب سے اہم بات، طبع اوّل کے متن کی تصحیح ہے۔ سرورق پر مرتب کا نام درج نہیں، مگر دیباچے میں ممتاز حسن نے وضاحت کی ہے کہ: ’’موجودہ نسخے کے متن کی تصحیح مجلہ اقبال ریویو کے مدیر معاون جناب خورشید احمد صاحب کی کوششوں کی مرہونِ منت ہے‘‘۔ (ص۹) مرتب نے ترمیم و تصحیح کے سلسلے میں حسبِ ذیل نوعیت کی تبدیلیاں یا اضافے کیے ہیں: (۱) کتاب پانچ حصوں میں منقسم ہے۔ ہر حصے کے شروع میں ایک ایک ورق کا فلیپ بنا کر اس پر متعلقہ حصے کے عناوینِ ابواب کی تفصیل دی گئی ہے (پہلا حصہ صرف ایک باب پر مشتمل ہے، لہٰذا اس کے ساتھ ’’باب اوّل‘‘ (ص۳) لکھنے کی ضرورت نہ تھی۔ طبع اوّل میں بھی یہ الفاظ موجود نہیں ہیں)۔ ۱- علم الاقتصاد اقبال کی واحد تصنیف ہے، جو اُنھوں نے خود طبع کرائی اور خود ہی فروخت کرتے تھے (’’اس کتاب کی قیمت صرف ایک روپیا ہے اور مصنف سے مل سکتی ہے‘‘۔ مخزن، دسمبر ۱۹۰۴ئ) مگر اس کے بعد اپنی کتابیں اس طرح فروخت کرنے کا جھنجھٹ اُنھوں نے کبھی نہیں پالا۔ ممکن ہے علم الاقتصاد کی فروخت کا یہی تجربہ مانع رہا ہو۔ (۲) معاشیات کی اُردو اصطلاحات کے انگریزی مترادفات، حاشیے میں دیے گئے ہیں۔ (۳) کتاب کے آخر میں ’’ان معاشی اصطلاحات کا انگریزی ترجمہ جو اس کتاب میں استعمال ہوئی ہیں‘‘ کے زیر عنوان دس صفحات کا ایک ضمیمہ شامل ہے۔ (۴) مرتب نے پاورقی حاشیے میں بعض مترادفات، معاشیات کی خاص اصطلاحوں اور مسائل کے بارے میں حسبِ ضرورت تصریح کردی ہے۔ (ملاحظہ کیجیے: صفحات ۳، ۶، ۱۰، ۱۸، ۲۳، ۲۹، ۴۴، ۵۳، ۵۶، ۸۵، ۱۰۹، ۱۲۱ وغیرہ)۔ (۵) کتابت کی اغلاط درست کردی گئی ہیں۔ کہیں کوئی لفظ سہواً رہ گیا تھا تو لکھ دیا گیا اور حاشیے میں اس کی صراحت کردی گئی۔ راقم کے خیال میں ہر محذوف لفظ کے بارے میں بار بار حاشیے میں وضاحت سے بہتر تھا کہ آغاز میں ایک بار تصریح کردی جاتی اور چھوٹے ہوئے لفظ قلابین [ ] میں دے دیے جاتے، بہرحال یہ ساری ترامیم اور اضافے تو مناسب ہیں، لیکن ترامیم کی بعض دیگر نوعیتیں غور طلب ہیں، مثلاً: نمبر شمار صفحہ سطر طبع اوّل صفحہ سطر طبع دوم ۱ ۹ ۱،۲ جواب میں اوّل تو یہ ۴ ۵ جواب میں اوّل تو ہم یہ… ۲ ۹ ۵ یہ کہا جاسکتا ہے… ۴ ۹ یہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ ۳ ۹ ۱۹ لفظ ’’دولت‘‘ کا استعمال کئی جگہ کیا ہے۔ ۵ ۱ لفظ ’’دولت‘‘ کئی کئی جگہ استعمال کیا ہے۔ ۴ ۱۰ ۱۵ مطلوب یا وہ تمام اشیا ۵ ۵ مطلوب اشیا یا وہ تمام اشیا ۵ ۱۰ ۱۴،۱۵ سرانجام کرتا ہے ۵ ۲۱ سرانجام دیتا ہے۔ ۶ ۳۳ ۹،۱۰ قیمت پر کچھ اثر نہوگا۔ ۳۲ ۱ قیمت پر زیادہ اثر نہوگا ۷ ۵۷ ۱،۲،۳ پیدائش دولت کے لحاظ سے کسی قوم کی قابلیت اس قوم کی زمین… ۵۷ ۱ کسی قوم کی قابلیت، پیدائش دولت کے لحاظ سے اس قوم کی زمین… نمبر۱،۲ اور ۴ کے بارے میں مرتب نے وضاحت کی ہے کہ ان میں علی الترتیب ’’ہم‘‘ ’’بھی‘‘ اور ’’اشیا‘‘ سہواً حذف ہوگئے تھے، ایسا ممکن ہے، لیکن ہمارا خیال ہے کہ اگر یہ سہواً محذوف نہ ہوئے ہوں اور اقبال کی اصل تحریر اسی طرح ہو، تب بھی مفہوم میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا، اس لیے یہاں ان الفاظ کا اضافہ کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ نمبر ۳ اور ۷ میں بعض الفاظ کی تقدیم و تاخیر کا مسئلہ ہے اور یہ لکھنے والے کی صواب دید اور ذوق پر منحصر ہے کہ وہ کس لفظ کو پہلے لاتا ہے اور کس کو بعد میں۔ مفہوم دونوں طرح واضح ہے، لہٰذا یہ ترامیم بھی بلاضرورت ہیں۔ نمبر۵: یہ محاورے کے استعمال کا مسئلہ ہے۔ ہمارے خیال میں ’’سرانجام کرنا‘‘ بھی غلط نہیں، اس لیے اس تبدیلی کی بھی ضرورت نہ تھی۔ نمبر۶: یہ ترمیم البتہ مناسب ہے، کیونکہ یہاں مصنف کا مفہوم لفظ ’’زیادہ‘‘ سے واضح ہوتا ہے، نہ کہ ’’کچھ‘‘ سے۔ ان مثالوں کی روشنی میں، مرتب کی ترامیم و اصلاحات کا جائزہ لیں، تو ان میں سے بیشتر بلاضرورت نظر آتی ہیں۔ ان اصلاحات سے فقرے چست ہوگئے ہیں اور عبارت میں زیادہ روانی اور وضاحت پیدا ہوگئی ہے، لیکن اقبال کا اصل متن، تبدیل ہوگیا ہے اور تصحیح متن کے یہ معنی نہیں کہ اصل متن میں جدید اُسلوب، لسانی تقاضوں یا مروج روز مرہ و محاورہ کے مطابق، حسبِ ضرورت تبدیلیاں یا تصرفات کردیے جائیں، چنانچہ طبع دوم کی بہت سی ترامیم و تبدیلیاں، راقم کے خیال میں نامطلوب تھیں۔ اصل متن جوں کا توں رہنا چاہیے تھا، زیادہ سے زیادہ، حواشی میں صراحت کردی جاتی۔ راقم کے خیال میں مرتب نے ’’حرمتِ متن‘‘ کا ادراک نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ متن میں بیسیوں مقامات پر ترمیم کی گئی، مگر حواشی میں یہ صراحت صرف چند مقامات تک محدود ہے۔ بہت سے تصرفات کے بارے میں یہ ذکر نہیں ہوا کہ یہ مرتب کی اصلاحات ہیں، مثلاً: نمبر شمار صفحہ سطر طبع اوّل صفحہ سطر طبع دوم ۱ ۵۰ ۲،۳ موسوم کیا کرتے ہیں۔ ۴۶ ۱۱،۱۲ موسوم کیا جاتا ہے۔ ۲ ۵۰ ۳ کوشش کی ہے کہ تنظیم ۴۶ ۱۲ کوشش کی ہے کہ یہ واضح کریں کہ تنظیم… ۳ ۶۴ ۷،۸ دستکاروں کے ہنر سمجھ اور دور اندیشی ۵۹ ۲۸ دستکاروں کی ہنرمندی اور دور اندیشی ۴ ۷۰ ۴ قرض اٹھاتے ہیں۔ ۶۵ ۲۶ قرض لیتے ہیں۔ ۵ ۳۴ ۱۰ خاک سیاہ ہوجاتا ہے۔ ۳۲ ۲۳ خاک ہوجاتا ہے۔ اس نوع کی مثالیں صفحات ۴۰ (اوّل: ص۴۳)، ۴۲ (اوّل: ص۴۴)، ۴۶ (اوّل: ص۵۴) ۵۶ (اوّل: ص۶۰)، ۶۲ (اوّل: ص۶۶)، ۷۰ (اوّل: ص۷۲)، ۷۱ (اوّل: ص۷۴)، ۷۳ (اوّل: ص۷۶)، ۹۰ (اوّل: ص۹۳)، ۹۱ (اوّل:ص۹۴)، ۱۴۰ (اوّل: ص۱۴۶) اور بہت سے دیگر مقامات پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ طبع اوّل میں کئی مقامات پر متعدد عبارات اور جملوں کو نمایاں کرنے کے لیے ان کے نیچے خط کھینچا گیا ہے (صفحات۶۷،۶۸، ۸۱، ۸۲، ۸۷، ۸۸، ۹۵، ۱۲۰، ۱۲۱، ۱۲۲، ۱۲۸ وغیرہ)۔ مگر طبع دوم میں ان حصوں کو خط کشیدہ نہیں بنایا گیا اور نہ اس کی کہیں وضاحت ملتی ہے، حالانکہ یہ ضروری تھا۔ طبع اوّل میں ’’دیباجۂ مصنف‘‘ (ص۵) ہے اور یہ صحیح ہے۔ علامہ اقبال بالعموم ’’دیباجہ‘‘ ہی لکھتے ہیں۔ طبع اوّل ص۶ اور ۷ پر بھی اُنھوں نے ’’دیباجے‘‘ لکھا ہے۔ اسرارِ خودی میں منقول مولانا جامی کے ایک شعر میں بھی ’’دیباجہ‘‘ ہے (ص۲۱)۔ اب طبع دوم میں اس لفظ کو ’’دیباچہ‘‘ بنا دیا گیا ہے، جو درست نہیں۔ طبع اوّل میں ’’دوم‘‘ کو ایک جگہ ’’دوئم‘‘ (ص۲۰۹) اور ’’سوم‘‘ کو دو جگہ ’’سوئم‘‘ (ص۷۱،۱۰۹) لکھا گیا ہے۔ طبع دوم میں اس کی اصلاح کے بجاے ہر جگہ، حتیٰ کہ فہرست میں بھی، ’’دوئم‘‘ اور ’’سوئم‘‘ کردیا گیا ہے۔ آج علم الاقتصاد کی اہمیت، اقبال کی اوّلین تصنیف اور ایک یاد گار کے طور پر ہے، نہ کہ معاشیات کی ایک کتاب کی حیثیت سے۔ معاشی نظریات اور اُصولوں میں اتنی پیش رفت ہوچکی ہے کہ علم الاقتصاد کا علمی مرتبہ لائقِ اعتنا نہیں رہا اور نہ یہ کتاب جدید معاشیات کے طلبہ کے لیے چنداں سود مند ہوسکتی ہے۔ جوں جوں وقت گزرے گا، اس کی یہ حیثیت گھٹتی چلی جائے گی، مگر اقبال کی تصنیف کے طور پر اس کی اہمیت بدستور باقی رہے گی۔ اس لیے اس کے متن میں کسی طرح کی تبدیلی یا تصرف نامناسب ہے، تاہم حسبِ ضرورت حواشی کا اضافہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ۱۹۷۷ء میں علم الاقتصاد کا تیسرا اڈیشن لاہور سے شائع ہوا۔ ناشر کی حیثیت سے اس پر اقبال اکادمی پاکستان کا نام درج ہے، مگر ’’اہتمام‘‘ ایم اے سلام آئینہ ادب لاہور کا ہے۔ اس تیسرے اڈیشن پر ’’باراوّل، ۱۹۷۷ئ‘‘ کے الفاظ، کتاب کے ناشر اور ’’مہتمم‘‘ دونوں کی بے توجہی کے غماز ہیں۔ اڈیشن میں خطِ نسخ کو خطِ نستعلیق میں بدل دیا گیا ہے۔ کتابت گوارا ہے، طبعِ اوّل میں حواشی کا قلم، متن سے نسبتاً باریک تھا، مگر زیرِ نظر اڈیشن میں اس فرق کا اہتمام روا نہیں رکھا گیا۔ فہرست میں یہ تبدیلی کی گئی ہے کہ ہر حصے کے ذیلی عنوانات کے ساتھ درج شدہ باب اوّل، دوئم، سوئم وغیرہ کے الفاظ دیے گئے ہیں اور پیش لفظ سے ضمیمے تک ہر عنوان کو مسلسل شمار کرتے ہوئے، اُس کے ساتھ نمبر لکھ دیا ہے۔ یہ اختراع غالباً خوش نویس کی ہے، جس کی ضرورت تھی اور نہ کوئی جواز۔ ژ THE DEVELOPMENT OF METAPHYSICS IN PERSIA اقبال اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے ۲۵ ستمبر ۱۹۰۵ء کو کیمبرج پہنچے ۱؎ اور چھے روز بعد یکم اکتوبر کو ٹرنٹی کالج میں advanced studentکے طور پر داخلہ لینے ۲؎ کے جلد بعد، اپنی تحقیق کا آغاز کردیا۔ ۸؍اکتوبر ۱۹۰۵ء کے خط ۳؎ میں اقبال نے حسن نظامی سے تصوف سے متعلق بعض استفسارات کیے اور ساتھ ہی تصوف کے موضوع پر قرآنی آیات کے حوالے تلاش کرکے ’’بہت جلد مفصل جواب‘‘ لکھنے کی تاکید کی۔ اس سے پہلے یکم اور ۸؍اکتوبر کے درمیان بھی، وہ اسی سلسلے میں ایک خط لکھ چکے تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آغازِ کار کے ساتھ موضوع کا تعین۔ّہوگیا تھا۔ ڈاکٹر میک ٹگرٹ، اقبال کے نگرانِ تحقیق اور ایچ سیج وِک (H. Sidgwick) اُن کے ٹیوٹر تھے۔ یہ تحقیقی مقالہ (dissertation)۴؎ وہ بی اے کی ڈگری کے لیے تیار کررہے تھے۔۵؎ تقریباً ڈیڑھ سال بعد ۷؍مارچ ۱۹۰۷ء کو اُنھوں نے مقالہ ۱- خطوطِ اقبال، ص۱۰۳ [خطوطِ اقبال میں اس خط پر ’’۲۵؍ نومبر‘‘ درج ہے، جو درست نہیں]۔ ۲- ڈاکٹر سعید اختر درانی نے اپنے مضمون ’’علامہ اقبال کی تاریخ پیدائش، چند نئے زاویے‘‘ (جنگ لندن، ۲۰؍ ستمبر ۱۹۷۷ئ، ص۴) کے ساتھ ٹرنٹی کالج کیمبرج کے رجسٹر داخلہ سے، یکم اکتوبر ۱۹۰۵ء کے اندراجات کا عکس شائع کرایا ہے، جس سے ٹرنٹی کالج میں اقبال کے داخلے کی تاریخ اور اس کی نوعیت [advanced student] کا تعین۔ّہوتا ہے۔ اقبال نے بھی اپنے ایک مضمون میں ذکر کیا ہے کہ وہ ٹرنٹی کالج میں بطور advanced studentزیر تعلیم رہے (Speeches، شروانی: ص۱۴۳)۔ ۳- اقبال نامہ، دوم: ص۳۵۳، ۳۵۴ ۴- مطابق رجسٹر داخلہ ٹرنٹی کالج کیمبرج۔ ۵- ڈاکٹر جاوید اقبال کا خیال ہے کہ کیمبرج سے بی اے کی ڈگری لینے کی بات درست معلوم نہیں ہوتی۔ (زندہ رود، اوّل: ص۱۱۳) مگر اُنھوں نے اسی کتاب میں، چند صفحات آگے چل کر، اقبال کا یہ قول نقل کیا ہے: ’’جب میںنے کیمبرج سے بی اے کرلیا‘‘۔ (ص۱۲۶) اصل بات یہ ہے کہ ٹرنٹی کالج کے رجسٹر داخلہ کے اندراجات کے مطابق اقبال نے advanced studentکی حیثیت سے داخلہ لیا تھا، اس حیثیت میں، اُن کے لیے یہ پابندی نہیں تھی کہ وہ بی اے کے عام طالب علم کی طرح تین سال کی مدت پوری کرکے باقاعدہ امتحان میں بیٹھنے اور امتحان پاس کرنے کی شرط پوری کریں۔ انھیں تو اپنا مقالہ (dissertation) پیش کرنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسی اثنا میں اُنھوں نے ۶؍نومبر۱۹۰۵ء کو لنکنز اِن میں بھی داخلہ لے لیا تھا اور اسی سلسلے میں اکثر لندن آتے تھے۔ بعنوان The Development of Metaphysics in Persiaمکمل کرکے داخل کردیا، جس پر کیمبرج یونی ورسٹی نے ۷؍مئی ۱۹۰۷ء کو انھیں ایک سند۱؎ اور ۱۳؍جون۱۹۰۷ء کو بی اے کی ڈگری۲؎ عطا کی۔ اس اثنا میں بیرسٹری کا کورس بھی جاری تھا، اقبال نے پی ایچ ڈی کرنے کا ارادہ کرلیا (اس طرف متوجہ ہونے میں، اُن کے کیمبرج کے اساتذہ اور پروفیسر آرنلڈ وغیرہ کا دخل ہوگا۔) کیمبرج میں اُن دنوں پی ایچ ڈی نہیں ہوتی تھی (وہاں یہ سلسلہ ۱۹۲۱ء میں جاری ہوا) اور ڈاکٹریٹ کے لیے طلبہ بالعموم جرمنی جاتے تھے۔ اقبال کے حلقۂ احباب میں کئی جرمن فاضل شامل تھے۔۳؎ مزید برآں ایک عربی مخطوطے پر تحقیق کے سلسلے میں، پروفیسر آرنلڈ نے، اقبال کو جرمنی بھیجنے کی تجویز بھی پیش کی تھی۔۴؎ ذاتی طور پر وہ جرمنوں کے مداح تھے اور اُن کی طرف خاصا میلانِ طبع رکھتے تھے۔ عطیہ بیگم نے اقبال کا یہ قول نقل کیا ہے: ’’اگر علم کوپختہ کرنا ہو تو جرمنی جاؤ۔‘‘۵؎ ان سب عوامل کی بنا پر، اقبال نے پختہ ارادہ۶؎ کرلیا کہ جرمنی جاکر پی ایچ ڈی کی جائے۔ اُن دنوں جرمن یونی ورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کے طلبہ کے لیے کم از کم ڈیڑھ برس کی حاضری لازمی تھی اور مقالہ جرمن یا لاطینی زبان میں لکھنا پڑتا تھا، تاہم اقبال کو اپنے کیمبرج کے اساتذہ کی ۱- عکس ملاحظہ کیجیے: Iqbal in Pictures۔ ۲- بحوالہ ڈاکٹر سعید اختر درانی، جنگ، لندن، ۲۲؍جون۱۹۷۸ئ: ص۳؛ نیزMementos of Iqbalص: ۳۹ ۳- Letters to Atiya: ص۱۵ ۴- ایضاً: ص۱۷ ۵- اقبال از عطیہ بیگم: ص۸۴ ۶- ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں: ’’معلوم ہوتا ہے اقبال نے بھی کیمبرج میں رہائش اختیار کرنے کے فوراً بعد اپنے موضوعِ تحقیق کے متعلق ضروری ریجسٹریشن میونخ یونی ورسٹی میں کروادی تھی۔‘‘ (زندہ رود، اوّل: ص۱۲) مگر یہ بات درست نہیں کیونکہ اقبال کے ایک بیان سے واضح ہوتا ہے کہ کیمبرج سے بی اے کرنے کے بعد اُنھوں نے پی ایچ ڈی کا ارادہ کیا اور شیخ عطا محمد صاحب سے مزید کچھ رقم بھیجنے کی درخواست کی (آثارِ اقبال: ص۳۶) پھر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ بقول جاوید اقبال: اگر، اقبال نے کیمبرج سے بی اے نہیں کیا (زندہ رود، اوّل: ص۱۱۳) اور بیرسٹری کے لیے لنکنز اِن میں بھی داخلہ لے رکھا تھا، تو کیمبرج میں کس لیے قیام پذیر تھے اور ریسرچ سکالر کی حیثیت سے ٹرنٹی کالج میں داخلہ (حوالۂ مذکور) کیوں لیا تھا؟ انھیں لندن میں رہنا چاہیے تھا، یہاں ایک طرف بیرسٹری کی تیاری کرتے اور ساتھ ساتھ میونخ یونی ورسٹی کی ریسرچ بھی جاری رہتی۔ سفارش پر دونوں شرائط میں استثنا مل گیا۔۱؎ اقبال ۱۷ کے بعد اور ۲۱؍جولائی ۱۹۰۷ء سے پہلے کسی روز انگلستان سے روانہ ہوکر جرمنی چلے گئے۔۲؎ عطیہ بیگم کا بیان ہے کہ اقبال نے: ’’وہ علمی مقالہ بھی مجھے بخشا، جس پر اُنھیں بی اے کی ڈگری عطا ہوئی‘‘۔۳؎ ایک اور جگہ اُنھوں نے MS.۴؎ (یعنی مسوّدہ) لکھا ہے۔ ممکن ہے یہ اصل مقالے کی نقل ہو یا اصل مقالہ ہو اور اس کی نقل اقبال نے اپنے پاس محفوظ کرلی ہو۔ جرمنی پہنچ کر اُنھوں نے زبانی امتحان کے سلسلے میں مزید تیاری شروع کی اور اس ضمن میں جرمن استانیوں (بشمول ویگے ناسٹ اور سینے شل) سے تبادلۂ خیال اور بحث و مباحثے کے ساتھ ساتھ جرمنی کے بعض کتب خانوں سے بھی استفادہ کیا۔ مقالے کے سلسلے میں اقبال نے جن مخطوطات سے مدد لی، اُن میں سے تین برلن کی لائبریری میں تھے۵؎۔ ممکن ہے اُنھوں نے یورپ کے بعض دیگر شہروں۶؎ کا سفر بھی کیا ہو۔ مجموعی طور پر جرمنی میں اقبال کا قیام بہت خوش گوار رہا۷؎۔ وہ زیادہ تر ہائیڈل برگ میں مقیم رہے، جہاں اُن کی رہائش دریاے نیکر کے کنارے ایک پُرفضا جگہ پر واقع ایک مکان۸؎ (شیرر منزل) میں تھی۔ اس طرح نہایت سازگار ماحول میں اور کلی جمعیتِ خاطر کے ساتھ وہ جرمن زبان میں اپنی استعداد بڑھاتے رہے۔ ۱- Letters of Iqbal: ص۱۴۸ ۲- ڈاکٹر جاوید اقبال نے لکھا ہے: ’’غالباً جولائی کے تیسرے ہفتے میں ہائیڈل برگ چلے گئے‘‘۔ (زندہ رود، اوّل: ص۱۱۹) سعید اختر درانی کا خیال ہے کہ: ’’لندن سے ۲۰؍جولائی ۱۹۰۷ء کے لگ بھگ جرمنی روانہ ہوئے‘‘ (جنگ، لندن، ۲۲؍جون ۱۹۷۸ئ: ص۳)۔ راقم کے خیال میں انگلستان سے روانگی کی تاریخ ۱۸ یا۱۹ یا ۲۰؍جولائی بنتی ہے۔ ۱۶؍جولائی کو وہ لندن میں تھے (اقبال از عطیہ بیگم: ص۸۴) جرمنی پہنچ کر اُنھوں نے عطیہ بیگم کو جو خط لکھا، وہ عطیہ نے ۲۳ جولائی کو دوستوں کو پڑھ کر سنایا (حوالۂ مذکور)۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ اقبال ۱۸ تا ۲۰؍جولائی کو (کسی روز) جرمنی پہنچے ہوں اور اُسی روز یا اگلے روز عطیہ بیگم کو خط لکھ دیا ہو۔ ۳- اقبال از عطیہ بیگم: ص۸۴ ۴- Letters to Atiya: ص۱۹ ۵- تعارف: Development، صXI ۶- مثلاً وی آنا (ڈاکٹر سعید اختر درانی، جنگ، لندن، ۲۲؍جون ۱۹۷۸ئ:ص۳)۔ ۷- اس کا کچھ اندازہ عطیہ بیگم کی ڈائری کے اندراجات (اقبال: ص۸۶تا۹۸) سے لگایا جاسکتا ہے۔ ۸- جرمنی میں مقیم چند پاکستانیوں کی توجہ اور کاوش سے ۱۹۶۶ء میں اس مکان کی بیرونی دیوار پر ایک یادگاری پتھر نصب کردیا گیا۔ راقم کو ۱۹۹۷ء میں اپنے عم زاد خلیل ہاشمی کی راہ نمائی میں، اس کی (باقی آئندہ صفحے پر) جرمنی میں قیام کے دوران میں، اُنھوں نے جرمن زبان پر مناسب حد تک دسترس بہم پہنچائی تھی،۱؎ جس کے بارے میں ان کے اساتذہ کا خیال تھا کہ: ’’اقبال نے تین مہینے میں جتنی جلد جرمن زبان سیکھی ہے، اتنی جلد کوئی حاصل [کذا] نہیں کرسکتا‘‘۔۲؎ زبانی امتحان جرمن میں ہوا اور میونخ یونی ورسٹی نے ۴؍نومبر ۱۹۰۷ء کو اس علمی مقالے پر اقبال کو پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کردی۔ اقبال کا یہ تحقیقی مقالہ، اقبال کے قیامِ انگلستان ہی کے زمانے میں لندن کی لوزاک اینڈ کمپنی (Luzac & Co.) نے کتابی صورت میں شائع کیا تھا۔ سالِ اشاعت ۱۹۰۸ء درج ہے۔ برمنگھم یونی ورسٹی لائبریری میں موجود نسخے [حوالہ نمبر: (415231) SB741] پر، جو اقبال نے اپنے دوست ایف۔ڈبلیو تھامس کو پیش کیا، اقبال کے دستخطوں کے ساتھ ۳؍جولائی۱۹۰۸ء کی تاریخ ۳؎ درج ہے۔ گویا کتاب ۱۹۰۸ء کی پہلی ششماہی کے آخری دنوں میں شائع ہوئی۔ اس کی طباعت ای جے بریل (E. J. Brill) کے زیر اہتمام لائیڈن (ہالینڈ) میں ہوئی۔ پروفیسر آرنلڈ کے نام انتساب کی عبارت سے اپنے استاد کے لیے اقبال کی محبت و عقیدت کے انتہائی جذبات ظاہر ہوتے ہیں۔ شروع میں ایک مختصر سا غلط نامہ بھی شامل ہے۔ سرورق اور اس کی پشت کے صفحے کا شمار نہیں کیا گیا، انتساب، غلط نامہ، فہرست اور تعارف از مصنف بارہ صفحات پر مشتمل ہیں اور ان کا شمار رومن ہندسوں میں ہے، متنِ کتاب صفحہ اسے ۱۹۵ تک محیط ہے۔ غلط نامے، فہرست اور پاورقی حواشی کا ٹائپ باریک ہے۔ نقلِ حرفی (transliteration) میں رائل ایشیاٹک سوسائٹی کا وضع کردہ طریقہ اپنایا گیا ہے۔ حسنِ صوری کے اعتبار سے پہلے اڈیشن کی طباعت معیاری ہے۔ متن کا ٹائپ روشن اور واضح ہے۔ رموزِ اوقاف کا خاص اہتمام نظر آتا ہے۔ تقریباً دو صد صفحات کے متن میں ایک درجن سے بھی کم اغلاط سے پروف خواں کی دقتِ نظر اور ناشر کے تردّدِ طباعت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ پہلے اڈیشن کی دو طباعتیں ملتی ہیں: (۱)طباعت ’’الف‘‘: اس کا تفصیلی ذکر اوپر کی سطور میں کیا گیا۔ اس کا ایک (بقیہ گذشتہ صفحہ) زیارت کا موقع ملا۔ا س سفر میں ڈاکٹر تحسین فراقی بھی میرے ہم سفر تھے۔ (خلیل ہاشمی اُن دنوں جرمنی کے اس وقت کے دارالحکومت بون کے پاکستانی سفارت خانے سے منسلک تھے۔) ۱- Letters of Iqbal: ص۱۴۸ ۲- اقبال از عطیہ بیگم:ص۹۴ ۳- اقبال، یورپ میں: ص۶۹، ۳۵۳ نسخہ پنجاب یونی ورسٹی لائبریری میں موجود ہے۔ (۲) طباعت ’’ب‘‘: اس کا سرورق طباعت الف کے سرورق سے کسی قدر مختلف ہے۔ اس میں Lebenslaufکے زیر عنوان اقبال کے مختصر حالات شامل ہیں، نیز ابتدائی آٹھ صفحات کے اندراجات کی ترتیب، طباعت الف کی ترتیب سے مختلف ہے۔ بقول منیر شیخ: ’’آج سے پندرہ برس پہلے بون میں مقیم، اقبال کے ایک جرمن عاشق اور ایک اعلیٰ سرکاری ملازم ڈاکٹر مونش نے جناب ممتاز حسن کی فرمائش پر ۱۹۶۸ء میں اسی پہلے نسخے کے پچاس ری پرنٹ شائع کیے تھے، جو پاکستان بھی بھیجے گئے‘‘ ۱؎ مگر راقم کو کسی ری پرنٹ کا سراغ نہیں مل سکا۔ ۱۹۸۱ء میں ڈاکٹر سعید اختر درانی نے ماربرگ یونی ورسٹی لائبریری (جرمنی) میں اسی طباعت ’’ب‘‘ کے ایک نسخے کا سراغ لگایا اور پروفیسر آر برانٹ کی مدد سے اس کے ایک سو رِی پرنٹ تیار کرائے۔۲؎ اپنے دورۂ لاہور (نومبر ۱۹۸۳ئ) کے موقع پر ان میں سے تین نسخے، اُنھوں نے اقبال میوزیم لاہور، اقبال اکادمی پاکستان لاہور اور گورنمنٹ کالج لاہور کی لائبریریوں کو ہدیہ کیے۔ طباعت ’’الف‘‘ اور طباعت ’’ب‘‘ کے ابتدائی آٹھ صفحات کی ترتیب اور اندراجات کے اختلافات یہ ہیں: صفحہ طباعت : الف طباعت: ب سرورق دونوں سرورقوں کے عکس آئندہ صفحات پر دیکھیے سرورق کی پُشت پرنٹ لائن ۳؎ × [I] پروفیسر آرنلڈ کے نام انتساب کی عبارت اقبال کی مختصر خود نوشت بعنوان Lebenslauf ۴؎ [II] × × [III] اغلاط نامہ کتاب کا نام [IV] × × ۱- احساس، اقبال نمبر، جلد ۲، شمارہ ۱۱-۱۲: ص۱۰۷ ۲- افکار، مارچ ۱۹۸۲ئ۔ ۳- Printed by: E.J. BRILL - LEIDEN (Holland) ۴- اس کا عکس Iqbal in Picturesمیں شامل ہے۔ V فہرست مضامین سرورق۱؎ VI × پرنٹ لائن۔۲؎ نیز یہ عبارت: Genehmigt auf Antrag des Herrn Professor Dr. Fr HOMMEL باقی تمام صفحات کی ترتیب اور متن یکساں ہے اور ان کی طباعت میں ایک ہی پلیٹیں استعمال کی گئی ہیں۔ چنانچہ طباعت ’’الف‘‘ کی تمام اغلاط طباعت ’’ب‘‘ میں بھی موجود ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک ہی سال (۱۹۰۸ئ) میں کتاب دوبارہ کیوں چھپی؟ (یہ تو قریب قریب ناممکن ہے کہ چند ہی ماہ میں پہلا اڈیشن ختم ہوگیا ہو اور اسی سال دوسرا اڈیشن چھاپنا پڑا ہو۔ (نسخہ ’’الف‘‘ یا ’’ب‘‘ پر طبع اوّل یا دوم کی کوئی صراحت بھی نہیں ملتی)۔ اگر کتاب ایک ہی بار چھپی، تو پھر ابتدائی آٹھ صفحات کے اندراجات میں فرق کیوں ہے؟ طباعت ’’الف‘‘ میں Lebenslaufوالا صفحہ کیوں شامل نہیں؟ اسی طرح طباعت ’’ب‘‘ میں آرنلڈ کے نام انتساب والے صفحے کی عدم موجودگی کا سبب کیا ہے؟ اس سلسلے میں بعض قرائن، نیز ڈاکٹر سعید اختر درانی کی فراہم کردہ معلومات کی بنا پر راقم اس نتیجے پر پہنچا کہ طباعت ’’ب‘‘ پہلے عمل میں آئی، اس کے چند نسخے ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے چھاپے گئے، (ڈاکٹر این میری شمل کے مطابق ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے، اُن دنوں مقالہ طبع کراکے پیش کیا جاتا تھا۳؎) اس کے سرورق کی جرمن عبارت سے بھی تصدیق ہوتی ہے، سرورق پر مصنف کے نام کے ساتھ صرف M.A.درج ہے، پی ایچ ڈی کا ذکر نہیں ہے۔ اُس وقت تک طباعت کی اغلاط بھی دریافت نہیںہوئی تھیں، اس لیے اس طباعت میں ’’اغلاط نامہ‘‘ شامل نہیں کیا گیا۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری مل گئی تو انھی پلیٹوں سے کتاب کے مزید نسخے شائع کیے گئے، مگر اس نئی اشاعت (’’الف‘‘) کے ابتدائی صفحات میں بعض ترامیم کی گئیں۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری مل چکی تھی، اس لیے سرورق، نیز صفحہ [VI]کی جرمن عبارات نکال دی گئیں، ایک صفحے کی مختصر خود نوشت بھی حذف کردی گئی، کیونکہ طباعت ’’الف‘‘ میں یہ بھی غالباً امتحانی ضرورت کے تحت ہی شامل کی گئی تھی، مصنف کے نام کے ساتھ Ph.D. (Munich)کا اضافہ کیا گیا، اسی طرح آرنلڈ کے نام انتسابی عبارت بھی بڑھائی گئی۔ اس وقت تک طباعت کی بعض اغلاط دریافت ہوچکی تھیں، اس لیے ’’اغلاط نامہ‘‘ بھی لگادیا گیا۔ یوں طباعت ’’الف‘‘ عمل میں آئی۔ ۱- مطابق عکس گذشتہ صفحہ ۲- مطابق حاشیہ۳، ص۳۰۹ ۳- روایت ڈاکٹر سعید اختر درانی، مکتوب بنام رفیع الدین ہاشمی، ۱۵ مارچ۱۹۸۰ء تاہم یہ سوال پھر بھی لاینحل ہے کہ میونخ یونی ورسٹی میں ۱۹۰۷ء میں داخل کردہ نسخے پر ۱۹۰۸ء کیوں درج ہے؟ ضمناً یہ تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ طباعت ’’الف‘‘ کا ’’اغلاط نامہ‘‘ بھی غلطیوں سے خالی نہیں۔ سطر ۱ میں Buudadishکی جگہ Bundadishہونا چاہیے۔ سطر ۹ میں IIe-nessکی جگہ I-nessہونا چاہیے۔ سطر ۱۰ میں مذکور غلطی، کتاب میں موجود نہیں ہے، البتہ اسی صفحہ (۱۶۶، سطر۲۱) پر لفظ peaceسے پہلے aہونا چاہیے تھا، مگر ’’اغلاط نامہ‘‘ میں اس کی نشان دہی نہیں کی گئی… دونوں طباعتوں کے Contentsمیں صفحہ ۱۲۰ کی جگہ ۱۲۱ اور ۱۲۱ کی جگہ ۱۵۰ درست ہے۔ علامہ اقبال کی زندگی میں، اس کتاب کا دوسرا اڈیشن شائع نہیں ہوا، کیونکہ اُنھوں نے اس کی اشاعتِ مکرر میں کبھی دل چسپی نہیں لی۔ ۱۹۱۷ء میں جب حیدر آباد ہائی کورٹ میں بحیثیت جج اُن کے تقرر کا امکان پیدا ہوا، تو اُنھوں نے شاد کے نام ایک خط میں اپنی علمی لیاقت، تعلیمی امتیازات اور تدریسی تجربے کی تفصیل بیان کی۔ تصنیف و تالیف کے ضمن میں علم الاقتصاد کا ذکر کرتے ہوئے کتاب کی انفرادی حیثیت کا اِن الفاظ میں ذکر کیا: ’’اُردو میں سب سے پہلے مستند کتاب میں نے لکھی‘‘۔۱؎ لیکن زیر بحث کتاب کے بارے میں، جو یورپ میں اُن کی دو سالہ علمی تحقیق کا ثمر تھی، اُنھوں نے صرف یہ لکھا: ’’ایک مفصل رسالہ فلسفۂ ایران پر بھی لکھا ہے‘‘۔ ۲؎اس کے ساتھ کوئی ایسا توصیفی لفظ یا جملہ نہیں ہے، جس سے ظاہر ہو کہ اقبال اس کتاب کو ایک اہم تصنیف کا درجہ دیتے ہیں۔ تین برس بعد، خان محمد نیاز الدین خاں کو لکھا: ’’ایران کے فلسفے پر میں نے ایک کتاب لکھی تھی، محض ایک خاکہ تھا، جسے بعد میں پُر کرنے کا قصد تھا، مگر وقت نے مساعدت نہ کی‘‘۔۳؎ ۱۹۲۷ء میں میر حسن الدین نے، اس کے اُردو ترجمے کی اجازت طلب کی، تو انھیں لکھا: میرے نزدیک اس کا ترجمہ کچھ مفید نہ ہوگا۔ یہ کتاب اب سے اٹھارہ سال پہلے لکھی گئی تھی، اس وقت سے بہت سے نئے امور کا انکشاف ہوا ہے اور خود میرے خیالات میں بھی بہت سا انقلاب آچکا ہے۔ جرمن زبان میں غزالی، طوسی وغیرہ پر علاحدہ کتابیں لکھی گئی ہیں، جو میری تحریر کے وقت موجود نہ تھیں۔ میرے خیال میں، اب اس کتاب کا تھوڑا سا حصہ باقی ہے، جو تنقید کی زد سے بچ سکے۔ میری رائے میں ترجمہ کرنے سے بہتر یہ بات ہے کہ آپ خود ایسی تاریخ لکھیں۔۴؎ ۱- شاد اقبال: ص۴۵ ۲- ایضاً: ص۴۵،۴۶ ۳- مکاتیبِ اقبال بنام نیاز: ص۹۲ ۴- انوارِ اقبال: ص۲۰۱-۲۰۲ گویا وقت گزرنے پر اقبال کی نظر میں، اُن کی اس تصنیف کی علمی حیثیت و اہمیت ختم ہوچکی تھی۔ اس کا ایک سبب تو یہی ہے کہ اقبال کی اس ابتدائی کاوش کے بعد، اس موضوع پر کئی عالمانہ اور وقیع کتابیں لکھی گئیں، مگر اپنی اس فلسفیانہ تصنیف سے اقبال کی عدم دل چسپی اور بے اطمینانی میں یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ فلسفے سے اُن کی دلچسپی بہت کم ہوگئی تھی۔۱؎ ۱۹۵۴ء ۲؎ میں اس کا دوسرا اڈیشن بزم اقبال لاہور نے شائع کیا۔ اس کا کاغذ دبیز اور پائدار ہے۔ ابتدائی چودہ صفحات (سرورق، پیش لفظ از ایم ایم شریف، انتساب، تعارف اور فہرست) کے بعد صفحات کا شمار از سرِ نو ہوتا ہے۔ متن ص ۱۴۹ پر ختم ہوتا ہے۔ ص۱۵۰ خالی ہے۔ اشاریے کے آٹھ صفحات الگ شمار کیے گئے ہیں۔ بحیثیت مجموعی اس اڈیشن کی ترتیب اور مندرجاتِ متن و حواشی، طبعِ اوّل کے مطابق ہیں، تاہم اس میں بعض ترامیم اور اضافے کیے گئے ہیں، اگرچہ ظاہری اور باطنی اعتبار سے یہ چنداں اہمیت کے حامل نہیں، پھر بھی ان کی نشان دہی ضروری ہے: (۱) پہلے اڈیشن کا سائز ساڑھے ۱۸ س م ترک کرکے، دوسرا اڈیشن بڑی تقطیع ۲۴×ساڑھے ۱۵ س م پر چھاپا گیا ہے۔ اس تبدیلی کی وجہ سے اب متن کا ایک صفحہ۲۵ کی بجاے ۳۱سطروں پر مشتمل ہے۔ (۲) سرورق سے مصنف کے نام سے Shaikhکا سابقہ اور تعلیمی اسناد کی تفصیل حذف کردی گئی ہے۔ (۳) سرورق کی پشت پر ان الفاظ کا اضافہ کیا گیا ہے: With the Kind Permission of Messers. Luzac & Company LONDON (۴) پیش لفظ (از ایم ایم شریف) کا اضافہ کیا گیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ اقبال کی یہ اوّلین فلسفیانہ تصنیف خامیوں سے مبرّا نہیں ہے۔ مزید برآں اس موضوع پر کہیں زیادہ جامع اور بہتر کتابیں چھپ گئی ہیں، تاہم مطالعۂ مشرقیات میں اس کی اہمیت کے پیشِ نظر اور طلباے اقبالیات کے افادے کے لیے، کتاب کا دوسرا اڈیشن شائع کیا جا رہا ہے۔ ۱- یکم ستمبر ۱۹۲۲ء کو پیرزادہ ابراہیم حنیف کو ایک خط میں لکھا: ’’میں ایک عرصے سے فلسفے کا مطالعہ چھوڑ بیٹھا ہوں‘‘۔ (انوارِ اقبال: ص۲۴۴)۔ ۲- اس پر سالِ طباعت درج نہیں، مگر بعد کی اشاعتوں میں First Edition 1954 درج ہے، جس سے طباعت کا سال ۱۹۵۴ئمتعین ہوجاتا ہے۔ (۵) فہرست اور Introductionکی ترتیب تبدیل کردی گئی ہے۔ طبع اوّل میں فہرست پہلے اور Introductionبعد میں ہے، دوسرے اڈیشن میں ترتیب اس کے برعکس ہے۔ (۶) طبعِ دوم میں ہر حصے (Part) سے پہلے ایک ورق لگا کر اُس پر، اُس حصے کا عنوان درج کیا گیا ہے، طبعِ اوّل میں یہ اہتمام نہیں ملتا۔ طبعِ اوّل میں ایک باب ختم ہونے پر، اُسی صفحے سے اگلا باب شروع ہوتا ہے جب کہ طبعِ دوم میں ہر باب کا آغاز نئے صفحے سے ہوتا ہے۔ (۷) طبعِ اوّل میں ابواب کے ضمنی عنوانات اسی طرح درج ہیں۔ ایک سطر میں عنوان نمبر:§I §II۔ پھر دوسری سطر میں عنوان کے الفاظ، مگر طبع دوم میں ایک ہی سطر میں پہلے عنوان نمبر: 1،2 اور اس کے ساتھ ہی عنوان کے الفاظ لکھے گئے ہیں۔ (۸) طبع اوّل میں عربی و فارسی اسما و الفاظ کے رسم الخط میں نقلِ حرفی کے مسلمہ اُصولوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے، طبع دوم میں بحیثیتِ مجموعی اس کی پابندی کی گئی ہے، مگر عناوینِ ابواب میں یہ اہتمام برقرار نہیں رہ سکا، مثلاً: صفحہ طبع اوّل صفحہ طبع دوم ۱۲ M-an-I ۱۱ MANI ۹۶ Sufiism ۷۶ SUFIISM Q-u'r-anic QURANIC ۱۲۱ Al-I_sh r-aq-I ۹۴ AL-ISHRAQI ۱۵۱ Al-Jili ۱۱۶ AL-JILI (۹) طبع اوّل میں ٹائپ کے حروف یکساں ہیں، مگر طبع دوم میں بعض حروف مثلاً _Gh جو ’’غ‘‘ کی آواز کو اور _Shجو ’’ش‘‘ کی آواز کو ظاہر کرتے ہیں، نسبتاً باریک ہیں (صفحات ۶۵،۹۴،۹۵ وغیرہ) اس سے کتاب کے صوری حسن میں فرق واقع ہوا ہے۔ (۱۰) طبع دوم میں آٹھ صفحات پر مشتمل اسما و اعلام اور موضوعات کا ایک مفید اشاریہ بھی کتاب کے آخر میں لگایا گیا ہے۔ ۱۹۵۹ء اور ۱۹۶۴ء میں علی الترتیب تیسرا اور چوتھا اڈیشن بھی بزمِ اقبال لاہور کے زیر اہتمام شائع ہوا، یہ دونوں اڈیشن ہر اعتبار سے طبع دوم کے مطابق ہیں۔ ژ SIX LECTURES ON THE RECONSTRUCTION OF RELIGIOUS THOUGHT IN ISLAM بظاہر ایک مغربی مصنف نکولاس پی اغنیدز (Nicholas P. Aghanides) کا یہ جملہ اقبال کے انگریزی خطبات کا نکتۂ آغاز یا فوری محرّک ثابت ہوا: As regards the ijma' some Hanifites and the Mu'tazilites held that the ijma' can repeal the Koran and the Sunnah. ۱؎ اسے پڑھ کر اقبال کا تجسس۲؎ بڑھا اور اس ضمن میں اُنھوں نے سیّد سلیمان ندوی۳؎ اور ابوالکلام آزاد۴؎ سے استفسار کیا۔ خود بھی اس موضوع پر غور و خوض کرتے رہے۔ اس اثنا میں اُنھوں نے لدھیانے میں مفتی حبیب الرحمن لدھیانوی، مولوی محمد امین لدھیانوی اور لاہور میں مولوی سیّد طلحہ، مولانا اصغر علی روحی اور مولانا غلام مرشد۵؎ سے بھی اس موضوع پر تبادلۂ خیال کیا۔ بالآخر ۱۹۲۴ء میں اُنھوں نے اجتہاد فی الاسلام ۶؎ کے موضوع پر انگریزی میں ایک خطبہ تیار کیا، جو کسی قدر ترمیم اور نظرثانی کے بعد حبیبیہ ہال لاہور میں، سر عبدالقادر کی صدارت میں منعقدہ، ایک اجلاس میں پڑھا گیا۔ یہ واقعہ ۱۳؍دسمبر ۱۹۲۴ء کا ہے۔۷؎ مجموعۂ خطبات کا چھٹا خطبہ The Principle of Movement in the Structure of Islam، اسی تقریر کی ترمیم و اضافہ شدہ صورت ہے۔ ۱- Mohammedan Theories of Finance: ص۹۱ ۲- اس کا تذکرہ کئی جگہ ملتا ہے، مثلاً: (الف) Reconstruction، طبع اوّل: ۲۴۲ (ب) اقبال نامہ، اوّل: ص۱۳۱،۱۳۲،۱۳۵ (ج) اقبال کی صحبت میں: ص۳۰۰، ۳۰۱ ۳- اقبال نامہ، اوّل: ص۱۳۱ تا ۱۳۶ ۴- ایضاً، ص۱۳۲ ۵- اقبال کی صحبت میں: ص۳۰۱، ۳۰۲۔ نیز ملاحظہ کیجیے: مولانا غلام مرشد کا مضمون بعنوان: ’’علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ سے سعادت مندانہ ملاقاتیں‘‘ مشمولہ، نقوش، جنوری ۱۹۷۹ئ، ص۳۰۱ تا۳۲۷ ۶- محمد سعید الدین جعفری کے نام ۱۳؍اگست ۱۹۲۴ء کے خط میں اسی خطبے کی طرف اشارہ ہے۔ اقبال لکھتے ہیں: ’’میں ایک مفصل مضمون انگریزی میں لکھ رہا ہوں: The Idea of Ijtihad in the Law of Islam‘‘: (اوراقِ گم گشتہ: ص۱۱۸)۔ ۷- زندہ رود، سوم، باب۱۶۔ اسی اثنا میں مدراس کی ’’مسلم ایجوکیشنل ایسوسی ایشن آف سدرن انڈیا‘‘ کی طرف سے انھیں اسلام پر لکچر دینے کی دعوت ملی۔ قبل ازیں ۱۹۲۵ء میں سیّد سلیمان ندوی، سیرتِ نبویؐ کے مختلف پہلوؤں پر، آٹھ لکچر دے چکے تھے۔ اقبال نے یہ دعوت قبول کرتے ہوئے تین خطبات، تحریری صورت میں تیار کرلیے۔ انجمن حمایتِ اسلام لاہور کے ۴۲ ویں سالانہ جلسے (۱۶؍اپریل ۱۹۲۷ئ) میں اُنھوں نے The Spirit of Muslim Cultureکے موضوع پر ایک تقریر کی، بعد ازاں اس کا اُردو ملخص بھی پیش کیا۔۱؎ اس تقریر میں پانچویں خطبے سے متعلق کئی نکات و اشارات ملتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خطبات کی تیاری اپریل ۱۹۲۷ء ہی سے شروع ہوچکی تھی۔ عین انھی دنوں اقبال نے ڈاکٹر عبداللہ چغتائی کی وساطت سے محمد یعقوب سٹینو ٹائپسٹ کو بلوایا تاکہ خطبات املا کرائے جائیں۔۲؎ مدراس میں چھے خطبات پیش کرنے کا ارادہ تھا، مگر بمشکل تین خطبے تیار ہوسکے اور وہ بھی اگلے برس یعنی ۱۹۲۸ء کے نصف آخر میں۔ اس سلسلے میں اقبال بذریعہ خط کتابت سیّد سلیمان ندوی سے بعض مسائل پر تبادلۂ خیال کرتے رہے اور بعض کتابیں بھی منگا بھیجیں۔۳؎ کچھ کتابیں ڈاکٹر عبداللہ چغتائی کی وساطت سے منگائی گئیں۔۴؎ ۵؍دسمبر ۱۹۲۸ء تک تین خطبات تیار ہوگئے۔۵؎ ۵؍ جنوری ۱۹۲۹ء کو اقبال مدراس پہنچے اور ۵،۶ اور ۷؍جنوری کو یہ خطبات گو کھلے ہال میں مدراس کے اہل علم کے سامنے پیش کیے۔۱؎ بعد میں یہی خطبے بنگلور، میسور اور حیدر آباد دکن کے اجتماعات میں بھی پڑھے گئے۔ ۱- اس کا جزوی متن اقبال اور انجمن حمایت اسلام (ص۱۰۰-۱۱۳) میں روداد ’’بیالیسواں سالانہ جلسہ منعقدہ ۱۶؍اپریل ۱۹۲۷ئ‘‘ کے حوالے سے اور گفتارِ اقبال (ص۲۵) میں روزنامہ زمیندار ۲۰؍اپریل ۱۹۲۷ء کے حوالے سے شامل ہے۔ ۲- اقبال نامہ، دوم : ص۳۳۳ [’’محمد یعقوب لدھیانے کا باشندہ تھا۔ وہ ظفر اللہ خاں اور ڈارلنگ کا سٹینو بھی تھا۔ یعقوب سے میں نے انتظام کیا تھا کہ وہ علامہ سے املا لیا کرے اور باقاعدہ ٹائپ کرکے علامہ کی خدمت میں پیش کرے… بعد کے تین لکچرز کے لیے علامہ نے الگ انتظام کیا تھا‘‘۔ (مکتوب ڈاکٹر عبداللہ چغتائی بنام رفیع الدین ہاشمی، ۲۵؍فروری۱۹۷۷ئ۔) ۳- اقبال نامہ، اوّل: ص۱۵۲ تا۱۵۸ ۴- اقبال نامہ، دوم: ص۳۳۴، ۳۳۵، ۳۳۷ ۵- اقبال نامہ، اوّل: ص۴۱۱ اوپر ذکر آچکا ہے کہ کل چھے خطبات تیار کرنے کا ارادہ تھا، چنانچہ وکالت اور دیگر مصروفیات کے باوجود، اقبال باقی تین خطبوں کی طرف متوجہ رہے۔ محمد جمیل خاں کے نام ۴؍اگست ۱۹۲۹ء کے خط میں لکھا: The courts are closed for summer vacations and I am writing down my remaining three lectures which I hope to finish by the end of October. ۲؎ اُس زمانے میں اقبال کے خطباتِ مدراس کا چرچا ہوا، تو علی گڑھ یونی ورسٹی نے انھیں دعوت دی کہ وہ علی گڑھ آکر جامعہ میں خطبات پیش کریں۔ اب بقیہ تین خطبوں کی تکمیل اور بھی ضروری ہوگئی تھی۔ ۴؍نومبر ۱۹۲۹ء کو محمد جمیل خاں کو اطلاع دی کہ خطبات مکمل ہوچکے ہیں۔۳؎ ۱۸؍نومبر ۱۹۲۹ء کو علی گڑھ پہنچے اور ۱۹؍نومبر سے شام چھے بجے سٹریچی ہال میں خطبات کا آغاز ہوا۔ اس طرح چھے مکمل خطبے علی گڑھ میں پڑھے گئے۔ اقبال کے ان خطبات کی زبان انگریزی تھی اور مباحث فلسفیانہ، لہٰذا ہر کہ ومہ کے لیے انھیں سمجھنا آسان نہ تھا۔ اسی احساس کے تحت اُنھوں نے سیّد نذیر نیازی کو لکھا: ’’مجھے اس میں شبہہ ہے کہ عام لوگ اس سے مستفیض ہوسکیں گے۔ علما جنھوں نے فلسفے کا خاص طور پر مطالعہ کیا ہے، وہ میرا مقصد سمجھ سکیں گے‘‘،۴؎ چنانچہ عوام نہ سہی، خواص کے لیے ہی خطبات کی اشاعت ضروری تھی اور اس کا خیال، اقبال کے ذہن میں دسمبر۱۹۲۸ء ہی سے موجود تھا۔ میر غلام بھیک نیرنگ کو ۵؍دسمبر ۱۹۲۸ء کے خط میں لکھا: ’’آئندہ دسمبر [۱۹۲۹ئ] تک یہ تمام لکچر تیار ہوکر چھپ جائیں گے۔ اس وقت میں آپ کی خدمت میں ایک کاپی بھیج سکوں گا‘‘۔۵؎ مدراس میں بھی اُنھوں نے اسی ارادے کا اظہار کیا: ’’یہ لکچر عنقریب بصورتِ کتاب چھپ جائیںگے‘‘۔۶؎ ۱- اقبال کے اکثر سوانح نگاروں (طاہر فاروقی۔ عبدالسلام ندوی۔ عبدالمجید سالک۔ عبدالسلام خورشید) نے اسے دسمبر ۱۹۲۸ء کا واقعہ لکھا ہے اور لکچروں کی تعداد چھے بتائی ہے۔ یہ دونوں باتیں درست نہیں۔ سفر مدراس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے: اقبال کی صحبت میں: ص۳۱۹ تا ۳۴۲۔ نیز نقوش اقبال نمبر، اوّل، ۱۹۷۷ئ: ص۵۵۰-۵۶۷ ۲- Letters of Iqbal: ص۱۱۹ ۳- ایضاً، ص۱۲۱ ۴- مکتوبات ِاقبال: ص۲۴ ۵- اقبال نامہ، اوّل: ص۲۱۱ ۶- اقبال کی صحبت میں: ص۳۲۴ غالباً علی گڑھ سے واپسی پراُنھوں نے چھے خطبات کو کتابی صورت میں مرتب کردیا تھا، مگر طباعت میں کئی ماہ صرف ہوگئے۔ نذیر نیازی کو ۴؍اپریل ۱۹۳۰ء کے خط ۱؎ میں اطلاع دی کہ لکچر ۱۵؍اپریل تک چھپ جائیں گے، پھر ۲۷؍اپریل کے خط ۲؎ میں لکھا: ’’کتاب چھپ گئی ہے، اس کی جلد بندی ۶ [مئی۳؎] تک ختم ہوجائے گی‘‘۔ معلوم ہوتا ہے چند کتابیں مئی کے آغاز ہی میں تیار ہوکر آگئیں۔ پروفیسر آر اے نکلسن کو پیش کردہ نسخے پر ۵؍مئی ۱۹۳۰ء اور سر مانٹیگو بٹلر کو پیش کردہ نسخے پر ۶مئی ۱۹۳۰ء کی تاریخ درج ہے۔۴؎ کتاب کا اصل عنوان Six Lecturesہے، اس کے نیچے بطور وضاحت on The Reconstruction of Religious Thought in Islamکے الفاظ نسبتاً خفی ٹائپ میں درج ہیں۔ ابتدائی آٹھ صفحات (سرورق، فہرست، دیباچہ اور پہلے خطبے کے فلیپ) کے بعد، پہلے خطبے کے متن سے صفحات کا شمار ہوتا ہے۔ ہر خطبے سے پہلے ایک ورق کا فلیپ لگایا گیا ہے۔ متن کا ٹائپ روشن اور واضح ہے جبکہ اقتباسات باریک ٹائپ میں ہیں۔ متن کا صفحہ تیس سطری ہے۔ کمپوزنگ اور پروف ریڈنگ خاصی احتیاط سے کی گئی ہے، پھر بھی ٹائپ کی بہت سی اغلاط موجود ہیں۔ آغاز میں غلط نامہ لگایا گیا ہے، جس میں بارہ اغلاط کی نشان دہی کی گئی ہے، مگر اغلاط کی اصل تعداد اس سے زیادہ ہے۔ ذیل میں مکمل فہرست دی جارہی ہے۔ کتاب سے منسلک غلط نامے میں مذکور اغلاط کے سامنے علامت* بنائی گئی ہے: صفحہ سطر غلط صحیح ۷ ۱۶ Simulate Stimulate ۱۶ ۳۳ he the ۱۷ ۳۰ cloud camel ۱- مکتوباتِ اقبال: ص۲۲ ۲- ایضاً: ص۲۳ ۳- متنِ خط میں ۶؍اپریل ہے، جو درست نہیں۔ ۴- اوّل الذکر نسخہ کیمبرج یونی ورسٹی لائبریری میں (حوالہ نمبر (13.7.C.90.3 اور مؤخرالذکر ٹرنٹی کالج لائبریری، کیمبرج میں (حوالہ نمبر: Adv. C. 25.38) محفوظ ہے۔ ان اطلاعات کے لیے راقم، ڈاکٹر سعید اختر درّانی کا ممنون ہے۔ دیکھیے: اقبال یورپ میں، طبع ۱۹۹۹ئ،ص۳۶۹ اور ۳۷۴۔ صفحہ سطر غلط صحیح ۳۵ ۱۲ fo to ۳۹ ۷-۸ Teleogical Teleological ۴۲ ۳۹ teological Teleological ۴۴ ۱۰ understend understand ۶۳ ۱ s how is how ۶۹ ۳۰ pruposes purposes ۷۳ ۲۲ whch which ۸۲ ۲۶ appreciate appreciative ۹۰ ۲۲ connection conception ۹۲ ۶ plurity plurality * ۹۲ ۸ boute quote * ۱۰۸ ۲۱ event events * ۱۰۰ ۲۴ hole whole * ۱۱۱ ۱ cretional creational * ۱۲۶ ۷ of for * ۱۲۶ ۱۲ its his * ۱۲۷ ۳ single a single * ۱۵۸ ۸ dogmatisms dogmatism * ۱۶۱ ۶ Nietche Nietzche's ۱۸۱ ۱۹ Christia Christian * ۱۸۸ ۱۶ neck-vain neck-vein ۱۹۰ ۱۸ angles angels ۲۱۶ ۱۱ unanalyasable unanalysable ۲۳۶ ۱۸ inheriance inheritance * ۲۴۹ ۱ hinderance hindrance قابلِ ذکر بات یہ ہے Nietzche کا املا ہر جگہ غلط (Nietsche) ہے۔ دیکھیے: صفحہ: سطر: ۱۵۸، ۲۰ ۱۵۸، ۲۶ ۱۵۹، ۱۳ ۱۶۰، ۱۶ ۱۶۰۔ ۲۹ اقبال نے تمام خطبات میں آیاتِ قرآنی کے حوالے دیے ہیں، لیکن اصل متن کی جگہ انگریزی ترجمہ درج کیا ہے، کئی مقامات پر تراجم کے ساتھ آیت کا شمار نمبر غلط ہے، مثلاً: صفحہ غلط صحیح ۱۳ 44:38 44:38-39 ۱۳ 3:186 3:189-190 ۱۳ 29:19 29:201 ۱۴ 95:4 95:4-5 ۱۵ 84:17-20 84:17-19 ۱۷ 6:95 6:98-100 ۱۷ 25:47 25:45-46 ۲۰ 32:6-8 32:7-9 ۲۶ 42:50 42:51 ۶۲ 2:159 2:164 ۶۲ 255:63 25:63 ۷۷ 53:14 55:14 لاہور سے شائع ہونے والے زیر بحث مجموعۂ خطبات میں، اقبال کی اوّلین انگریزی تصنیف Development (مطبوعہ لندن ۱۹۰۸ئ) کی طرح نقلِ حرفی کے مسلمہ اُصولوں کی پابندی نہیں کی گئی۔ تاہم اس میں بعض اسماے معرفہ ، کا نسبتاً صحیح املا اختیار کیا گیاہے، جیسے: Ibn-i-Khaldun (ص۱۴۹) یا Ibn-i-Rushd (ص۵) یہ املا، لندن کی مطبوعہ محولہ بالا کتاب کے املا (Ibn Rushd, Ibn Khaldun) سے صحیح تر ہے۔ ژ THE RECONSTRUCTION OF RELIGIOUS THOUGHT IN ISLAM علمی حلقوں میں خطبات کا خاصا چرچا ہوا۔ اگست ۱۹۳۲ء کے تیسرے ہفتے ۱؎ میں انگلستان کی ارسطاطالین سوسائٹی کی طرف سے علامہ اقبال کو دعوت موصول ہوئی جس میں لندن آکر کسی فلسفیانہ موضوع پر لکچر دینے کی درخواست کی گئی تھی۔ یہ درخواست قبول کرتے ہوئے، اُنھوں نے ستمبر ۱۹۳۲ء میں Is Religion Possible?کے عنوان سے ایک اور خطبہ تیار کیا۔ اختتامِ سال، جب وہ تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے، تو یہ خطبہ مذکورہ سوسائٹی کے ایک اجتماع میں پڑھا گیا۔انگلستان کے علمی حلقوں میں اس خطبے کے خوش۔گوار اثرات مرتب ہوئے، چنانچہ اقبال کے ایک برطانوی مداح لارڈ لودین (Lord Lothin) کے ایما پر، اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس نے خطبات کی مکرر اشاعت کا بیڑا اٹھایا۔ دوسری اشاعت میں ساتویں خطبے بعنوان: Is Religion Possible?کا اضافہ کیا گیا۔ نذیر نیازی کے نام ۱۱؍ستمبر ۱۹۳۳ء کے خط میں علامہ اقبال لکھتے ہیں: کتاب کی طباعت اوکسفرڈ یونی ورسٹی نے شروع کر دی ہے اور میں نصف کے قریب پروف دیکھ چکا ہوں۔ یہ پہلا پروف ہے۔ مسٹر ملفورڈ، مہتمم یونی ورسٹی پریس نے مجھے اطلاع دی ہے کہ کتاب فروری میں چھپ کر تیار ہوجائے گی۔۳؎ مگر طباعت میں قدرے تاخیر ہوگئی اور مطبوعہ صورت میں کتاب، مئی ۱۹۳۴ء کے آخری ایام میں انگلستان سے ہندستان ۴؎ پہنچی، گویا دوسرے اڈیشن کی اشاعت مئی کے پہلے ہفتے میں عمل میں آئی۔ ابتدائی آٹھ صفحات (سرورق کے دو اوراق، دیباچہ اور فہرست) کے بعد متنِ کتاب سے صفحات کا شمار ہوتا ہے۔ ہر خطبہ نئے صفحے سے شروع ہوتا ہے، مگر پہلے اڈیشن کے برعکس ہر خطبے سے پہلے بطور فلیپ الگ ورق کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ کاغذ نسبتاً دبیز ہے۔ متن کا ٹائپ، پہلے اڈیشن کے مقابلے میں باریک ہے۔ چنانچہ متن کا صفحہ ۳۵ سطروں کا ہے۔ پہلے اڈیشن کے حوض ساڑھے۱۴× ساڑھے۹ س۔م کے مقابلے میں اس کا حوض ساڑھے ۱۶× پونے ۱۰ س م ہے۔ اس وجہ سے سات خطبوں کا متن ۱- اقبال نامہ، اوّل: ص۲۲۰ ۲- مکتوباتِ اقبال: ص۸۳ ۳- ایضاً، ص۱۱۷ ۴- ایضاً، ص۱۳۲ ۱۸۸صفحات میں سما گیا ہے، جب کہ پہلے اڈیشن میں صرف چھے خطبات ۲۴۹ صفحات پر پھیلے ہوئے تھے، اس اڈیشن میں: (الف) کتاب کے عنوان سے Six Lectures on کے الفاظ حذف کردیے گئے ہیں، اس طرح اب کتاب کا عنوان یوں ہوگیا: The Reconstruction of Religious Thought in Islam (ب) مصنف کے نام سے Barrister-at-Law, Lahoreکے الفاظ حذف کردیے گئے ہیں۔ (ج) آخر میں چار صفحات پر مشتمل اسما و موضوعات کے ایک اشاریے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ (د) ٹائپ کی اغلاط درست ہوگئی ہیں، البتہ ص۸۲ کی غلطی بدستور موجود ہے۔ (ہ) سب سے اہم تبدیلی، متن کی وہ تصحیحات، ترمیمات اور اضافے ہیں، جن کا ذکر اقبال نے متعدد خطوط ۱؎ میں کیا ہے، ان کی تفصیل یہ ہے: صفحہ سطر طبع اوّل صفحہ سطر طبع دوم ۸ ۸ within the... ۶ ۷ within itself the.. ۲۵ ۱۴ to my own... ۱۸ ۳۰ to our own.. ۳۴ ۱۴ sub-consciousness ۲۵ ۱۱ sub-conscious.. ۵۷ ۲۶ slice of... ۴۰ ۱۳ piece of... ۶۴ ۴ from centre... ۴۵ ۴ from the centre ۸۱ ۲۳ vision. The 'not yet'... ۵۷ ۲۱ vision. God's life... is self-revelation, not the pursuit of an ideal to be reached. The 'not yet'. ۹۰ ۲۰ is intensive,... ۶۱ ۲۷ is intensive. not extensive... ۹۳ ۱۸ further... ۶۳ ۲۹ farther... ۹۴ ۱ (933 A.D.) ۶۴ ۶ (A.D. 933) ۹۴ ۴ (1012 A.D.) ۶۴ ۸ (A.D. 1012) ۹۶ ۱۴ they... ۶۵ ۳۴ Nazzam... ۱- مکتوباتِ اقبال: ص۱۱۷،۴۶۵؛ نیز: خطوطِ اقبال: ص۲۱۵ صفحہ سطر طبع اوّل صفحہ سطر طبع دوم ۹۶ ۱۹ according to these thinkers, a... ۶۶ ۱ according to him a... ۱۰۵ ۱۲ Discussions, which saw the light of publication only a short time ago at Hyderabad, Razi... ۱۰ Discussions. Razi... ۱۳۵ ۲۰،۲۱ of its characteristic features. Not... ۶۲ ۲،۳ of the characteristic features of the mystic levels of consciousness. Not... ۱۴۷ ۲۲ which emerge finite life and consciousness of... ۱۰۰ ۲۰ which emerges the ego of... ۱۴۷ ۲۵ degree of complexity... ۱۰۰ ۲۲ degree of co-ordination.... ۱۵۰ ۱ could not raise... ۱۰۲ ۳ could not but raise... ۱۵۳ ۳ I am destiny, (Muawiya) ۱۰۴ ۹ 'I am time' (Muhammad)... ۱۵۹ ۱۹،۲۰ The number of the centres of this energy is limited... ۱۰۸ ۲۴ The centres of this energy are limited in number... ۱۶۱ ۱۵ connection... ۱۱۰ ۱ connexion ۲۳۲ ۳۰ of its own... ۱۵۶ ۲ of their own... ۲۴۵ ۷ looked through... ۱۶۷ ۳۳ looked at through... ۲۴۷ ۳۴ today, there is anything... ۱۶۹ ۳۰ today, is there anything... ۲۴۹ ۱۵ the Musalman of... ۱۷۰ ۳۳ the Muslim of... تیسرا اڈیشن، دس برس کے نسبتاً طویل وقفے کے بعد ۱۹۴۴ء میں لاہور سے شائع ہوا، اس میں طبع اوّل کے ص۸۲ کی غلطی درست کردی گئی۔ البتہ ص۱۱۸ پر دوسرا مصرع اس طرح چھپ گیا: ع تو عین ذات می نگری و در تبسمی اس میں ’’و‘‘ زائد ہے۔ یہ غلطی ۱۹۵۴ء اور ۱۹۶۰ء کی اشاعتوں میں بھی موجود ہے۔ البتہ ۱۹۶۵ء کے اڈیشن میں اس کی اصلاح ہوگئی۔ ۱۹۷۱ء کے اڈیشن میں ایک نئی غلطی روپذیر ہوگئی۔ ص۲۶ (سطر۶) پر صحیح لفظ effacingہے، نہ کہ effacting۔ تیسرا اڈیشن ۱۹۴۴ء میں شیخ محمد اشرف تاجر کتب لاہور کے زیر اہتمام شائع ہوا تھا، بعد کے تمام اڈیشن ۱۹۵۴ئ، ۱۹۶۰ئ، ۱۹۶۵ئ، ۱۹۶۸ئ، ۱۹۷۱ء وغیرہ) بھی انھیں کے اہتمام سے منظرِ عام پر آئے۔ ۱۹۸۸ء میں ’’حقوقِ اشاعت محفوظ‘‘ کی پابندی ختم ہونے کے بعد سے، پاکستان اور بھارت کے متعدد ناشرین خطبات شائع کررہے ہیں، مگر (جیسا کہ ہم طبع دوم کے دیباچے میں بتا چکے ہیں) پروفیسر محمد سعید شیخ کا مرتبہ اڈیشن (۱۹۸۶ئ) Reconstruction کا ایک معیاری و مثالی نسخہ ہے، جسے اقبالیات کے تدوینی کاموں میں نشانِ راہ بنایا جاسکتا ہے۔ ___اس نسخے کے مفصل تعارف کے لیے دیکھیے: ۱۹۸۶ء کا اقبالیاتی ادب، ص۲۳تا۲۷۔ ئ……ئ……ء (ج) نثری تصانیف کی تدوینِ نو علامہ اقبال کے مختلف النوع نثری ذخیرے کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: ۱- مستقل تصانیف ۲- خطوط اور مقالات و مضامین ۳- تقاریر و بیانات ۴- متفرقات (ملفوظات وغیرہ) گذشتہ صفحات میں اقبال کی جن تین تصانیف [۱- علم الاقتصاد، ۲- Development، ۳- Reconstruction] کو زیر بحث لایا گیا ہے، اُن کا تعلق اوّلین نوعیت سے ہے۔ ان تین کتابوں کو یہ امتیازی حیثیت حاصل ہے کہ، انھیں اقبال نے بذاتِ خود تحریر کیا، خود ہی مرتب و مدوّن کیا اور ان کی اشاعت ان کی زندگی میں ہوئی۔ اس کے برعکس خطوط، مقالات و مضامین، یا تقاریر و بیانات اور ملفوظات کے کسی مجموعے کو یہ حیثیت حاصل نہیں ہے۔ اقبال کی مستقل نثری تصانیف اب تک کئی بار چھپ چکی ہیں، ملک میں اور بیرونِ ملک بھی علمی حلقوں میں ان کتابوں کو وسیع پیمانے پر پذیرائی ملی ہے۔ انگریزی خطبات کے اُردو، بوسنوی، بنگالی، پنجابی، پشتو، ترکی، جرمن، عربی، فارسی، (عربی رسم الخط) فارسی (سیرے لِک رسم الخط) فرانسیسی، قشتالوی اور ہسپانوی تراجم اور Development کے اُردو، بھاشا (انڈونیشی)، پنجابی، ترکی، جرمن، عربی ، فارسی اور فرانسیسی تراجم شائع ہوچکے ہیں، وقت کے ساتھ، اقبال کی تصانیف کی طرف عالمی توجہ بڑھتی جارہی ہے۔ اس پس منظر میں، اقبال کی مستقل نثری تصانیف کی تدوینِ نو اور ان کے جدید اڈیشنوں کی اشاعت نہایت ضروری ہے۔ یہ اڈیشن نہ صرف صوری حُسن کے اعتبار سے مثالی ہونے چاہییں بلکہ تدوین، طباعت اور صحت و استناد کے لحاظ سے بھی اُن کا معیار، اقبال جیسے عظیم مفکر کے شایانِ شان ہو، مگر ان کی تدوینِ نو کس نہج پر ہو؟ اور آیندہ اُن کی اشاعت میں کون سے امور ملحوظ رکھے جائیں؟ اس سلسلے میں چند نکات مدِّ نظر رکھنا ضروری ہیں: (۱) تصحیح متن پر خصوصی توجہ دی جائے (انگریزی کتابوں میں اغلاط کم ہیں، مگر علم الاقتصاد میں ان کی تعداد کثیر ہے) مشکوک الفاظ کے بارے میں متعلقہ اہلِ علم اور اقبال شناس اصحاب سے رجوع کیا جائے، اگر متن میں قواعدِ زبان کے پیشِ نظر یا وضاحتِ مفہوم کے لیے تبدیلی ضروری ہو، تو حاشیے میں اس کی صراحت کی جائے، اگر اقبال سے کوئی واقعاتی غلطی سرزد ہوئی ہے یا کوئی نکتہ واضح پر غلط ہے، تو اس کی تصحیح کے لیے بھی، متن میں تبدیلی کے بجاے حاشیے میں وضاحت کی جائے۔ (۲) اقبال نے جن مصنّفین اور کتابوں کے حوالے دیے ہیں، اصل کتابوں کی روشنی میں دیکھا جائے کہ کہیں نقلِ اقتباس یا حوالے میں کوئی غلطی تو نہیں رہ گئی؟ اقبال نے اکثر مقامات پر حوالوں کا التزام نہیں برتا، مثلاً علم الاقتصاد میں وہ: ایک محقق لکھتا ہے… بعض حکما کی راے یہ ہے… وغیرہ کہہ کر مغربی مصنّفین کی آرا بیان کردیتے ہیں۔ انھوں نے مالتھس اور مارشل کے خیالات سے براہِ راست استفادہ کیا ہے۔ علم الاقتصاد کے پہلے صفحے کا پہلا پیرا گراف بقول مشفق خواجہ Principles of Economics کے پہلے صفحے کے پہلے پیراگراف کا لفظی ترجمہ ہے۔۱؎ انگریزی خطبات میں اُنھوں نے برٹرینڈ رسل، گوئٹے، کومٹ، ولیم جیمز، پروفیسر میکڈونلڈ، فان کریمر، جان برکلے اور بیسیوں دوسرے مصنّفین کے افکار سے بحث کی ہے۔ کہیں نام لے کر اور کہیں نام لیے بغیر۔ اقبال نے کہیں تو متعلقہ کتاب کا نام لکھ دیا ہے، مگر اکثر صفحات نمبر درج نہیں کیے، یا پھر کتاب کا نام ہی نہیں لکھا۔ دوسرے خطبے میں عرفی اور ناصر سرہندی کا ایک ایک شعر اور تیسرے خطبے میں رومی کا ایک شعر نقل کیا ہے۔ ضروری ہے کہ پاورقی حاشیے میں ان مصنّفین کے صحیح حوالے (مصنف، کتاب، اڈیشن اور صفحات) تلاش کرکے درج کیے جائیں۔۲؎ (۳) علم الاقتصاد میں انگریزی کتابوں سے اور انگریزی تصانیف میں قرآن و حدیث یا ۱- اُردو، اقبال نمبر، ۱۹۷۷ئ: ص۳۶۷ تا۳۶۹ ۲- جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے، خطبات کی حد تک اطمینان بخش بات یہ ہے کہ [ہماری ان تجاویز (۱۹۸۲ئ) کے بعد] پروفیسر سعید شیخ نے Reconstruction کو مثالی انداز میں مدّون کرکے ۱۹۸۶ء میں شائع کر دیا۔ دیگر عربی، فارسی یا اُردو کتب و مخطوطات سے بعض اقتباسات، بصورتِ تراجم نقل کیے گئے ہیں۔ متعلقہ مقام پر تراجم سے پہلے ان کا اصل متن بھی درج کیا جائے اور مرتب کی طرف سے یہ صراحت کردی جائے کہ اصل عبارات و اقتباسات بعد میں بڑھائے گئے ہیں۔ (۴) علم الاقتصاد کا املا قدیم اور متروک ہے، اس لیے اسے جدید املا کے مطابق مرتب کیا جائے، مگر یہ تبدیلی، باقاعدہ متعین اُصولوں کے تحت عمل میں لائی جائے۔ الفاظ کی قدیم اور موجودہ صورتوں کا ایک تقابلی گوشوارہ مرتب کرکے، آغازِ کتاب میں اس تبدیلی کی وضاحت کی جائے۔ اگر کسی لفظ کے استعمال یا ترکیب کی صحت میں اشتباہ پیدا ہوتو اقبال کی تحریروں سے استصواب کیا جائے۔ (۵) توضیحِ مطالب کے لیے، حسبِ ضرورت جامع مگر مختصر تعلیقات کا اضافہ کیا جائے اور جہاں ضروری ہو، تائید و تردید کے لیے تقابلی حوالے بھی دیے جائیں۔ علم الاقتصاد کے دوسرے اڈیشن میں پروفیسر خورشید احمد نے جو مفید حواشی شامل کیے ہیں، انھیں مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے، مگر معاشیات کے ماہر اساتذہ ہی اس کے اہل ہیں۔ Development اور انگریزی خطبات کی تعلیقات ایسے اہلِ علم کے سپرد ہونی چاہیے، جو جدید یورپی علوم اور فلسفے کے ساتھ عربی اور فارسی میں بھی مہارت رکھتے ہوں۔۱؎ (۶) انگریزی کتابوں میں نقلِ حرفی کا مسئلہ خاص توجہ کا طالب ہے۔ اس وقت نقلِ حرفی کے متعدد طریقے رائج ہیں، مثلاً:پروفیسر نکلسن کا طریقہ، انسائی کلوپیڈیا آف اسلام (لائیڈن) کا طریقہ، پیرس اکیڈمی کا طریقہ اور جرمن محققین و علما کا طریقہ اور اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ پنجاب یونی ورسٹی لاہور کا طریقہ وغیرہ۔ یہ سب طریقے مستشرقین نے وضع کیے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہم آنکھیں بند کرکے، انھیں جوں کا توں قبول کریں۔ عربی و فارسی کے مزاج اور تلفظ کے مطابق حسبِ ضرورت ان میں ترامیم کی ضرورت ہے۔ ہم، جو نیا طریقہ وضع کریں، اقبال کی تمام انگریزی تصانیف میں یکساں طور پر اس طریقے کی پابندی ضروری ہے۔ ہر کتاب کے شروع میں اس کی مناسب صراحت کردی جائے۔ ۱- نہ صرف تعلیقات، بلکہ متن کی تصحیح اور حوالوں کی تلاش پر پروفیسر سعید شیخ نے قابل قدر کام کیا ہے۔ ان کا مدوّنہ خطبات کا نسخہ ۱۹۸۶ء سے باربار چھپ رہا ہے (اس کا ذکر اُوپر آچکا ہے)۔Development پر ان کا ایسا ہی کیا ہوا کام ابھی تشنۂ طباعت ہے۔ گذشتہ صفحات میں پیش کردہ تینوں کتابوں کے مفصل جائزے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تاحال، اقبال کی زیربحث مستقل تصانیف کے بارے میں بنیادی معلومات بھی مرتب نہیں کی گئیں۔ جو معلومات دستیاب ہیں، وہ نامکمل، ناقص اور غیر مستند ہیں، مثلاً: علم الاقتصاد کب اور کن حالات میں لکھی گئی؟ اس کی اوّلین اشاعت کب عمل میں آئی؟ اقبال کو ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھنے کی تحریک کیسے ہوئی؟ اپنی تحقیق میں کیمبرج اور ہائیڈل برگ کے اہلِ علم سے اُنھوں نے کس حد تک اور کیسے استفادہ کیا؟ مقالے کی تکمیل، زبانی امتحان، عطاے ڈگری، پھر اس کی اوّلین اشاعت کے مراحل کیوں کر طے ہوئے؟ اسی طرح انگریزی خطبات کا مفصل پس منظر کیا ہے؟ یہ خطبات کب کب لکھے گئے؟ کہاں کہاں پڑھے اور پیش کیے گئے؟ پھر انھیں کس طرح مرتب کرکے شائع کیا گیا؟ Development اور انگریزی خطبات کی اشاعت پر برطانیہ کے علمی اور صحافتی حلقوں کا ردّعمل کیا تھا؟ کس حد تک ان کی پذیرائی یا مخالفت ہوئی ؟ غرض تحقیق کی روشنی میں تینوں کتابوں کی مفصل تاریخ یا داستان مرتب کرنے کی ضرورت ہے، جو ان کتابوں کے بارے میں مستند اور بنیادی معلومات اور ان کے مکمل پس منظر و پیش منظر پر مشتمل ہو تاکہ اقبال کی یہ تصانیف، ان کی سوانح، شخصیت اور ان کے فکر سے مربوط معلوم ہوں۔ ہرکتاب کی یہ تاریخ، اس کے مجوزہ جدید اڈیشن کے آغاز میں بطور مقدمہ شامل کی جائے، تاکہ قارئین کے لیے مقدمے کی روشنی میں کتاب اور اس کے مندرجات کو سمجھنا زیادہ آسان ہو۔ ئ……ئ……ء باب :۵ متفرق نثری مجموعے ز…ز…ز…ز (الف) اقبال کی مضمون نویسی خطوط اور تین مستقل نثری تصانیف کے علاوہ (جن کا جائزہ گذشتہ ابواب میں لیا جاچکا ہے) علامہ اقبال کے باقی نثری آثار مختلف النوع ہیں۔ ان میں متفرق مقالات، مضامین، خطبات، بیانات، تقاریر، دیباچے، تقاریظ، مصاحبے (انٹرویو) پیغامات، توصیفی اسناد اور شذرات وغیرہ شامل ہیں، جنھیں متعدد اُردو اور انگریزی مجموعوں کی صورت میں مرتب و مدوّن کرکے شائع کیا گیا ہے۔ ان تمام نثری مجموعوں کی حیثیت مرتبّاتِ مابعد (وفاتِ اقبال کے بعد) کی ہے۔ زیر نظر باب میں انھی مجموعوں کا تحقیقی اور توضیحی مطالعہ پیشِ نظر ہے۔ علم الاقتصاد کا آغاز ۱۹۰۱ء کے نصف آخر یا اوائل ۱۹۰۲ء میں ہوا۔۱؎ عین اسی زمانے میں اقبال نے اُردو مضمون نگاری شروع کی۔ ان کا قدیم ترین دستیاب اُردو مضمون ’’بچوں کی تعلیم و تربیت‘‘، مخزن کے شمارہ جنوری ۱۹۰۲ء میں شائع ہوا تھا۔ گویا اس کا زمانۂ تحریر دسمبر ۱۹۰۱ء ہے۔۲؎ یہ اقبال کی ملازمت کا ابتدائی دور تھا۔ گذشتہ باب میں یہ بحث ہوچکی ہے کہ نثر نگاری سے اقبال کو طبعی مناسبت نہ تھی۔ مزید برآں معلّمانہ مشاغل اور ادبی محفلوں میں بالالتزام شرکت کے سبب انھیں اتنی فرصت نہ تھی کہ وہ از خود مضمون نویسی کی طرف متوجہ ہوتے۔ بیشتر مضامین و مقالات کسی فرمائش یا درخواست پر تحریر کیے گئے یا کسی بحث میں اُٹھائے گئے نکات کے جواب میں لکھے گئے، چنانچہ اقبال کے مستقل مضامین کی تعداد زیادہ نہیں۔ تفصیل اس طرح ہے: (۱) بچوں کی تعلیم و تربیت مخزن، لاہور، جنوری ۱۹۰۲ء (۲) زبانِ اُردو (انگریزی سے ترجمہ) مخزن، لاہور، ستمبر ۱۹۰۲ء [مخزن کی درخواست پر] (۳) اُردو زبان پنجاب میں مخزن، لاہور، اکتوبر ۱۹۰۲ء [ایک دفاعی اور جوابی تحریر] ۱- دیکھیے: باب ۴، ضمنی عنوان: علم الاقتصاد۔ ۲- ممکن ہے اُنھوں نے اس سے پہلے بھی مضامین لکھے ہوں، مگر اس کی کوئی شہادت میسر نہیں۔ اس سلسلے میں پروفیسر محمد عثمان کا یہ قیاس درست نہیں کہ: ’’ان نثر پاروں… کی تحریر کا سلسلہ اُن کی جوانی کے زمانے (۱۹۰۴ئ) سے شروع ہوتا ہے‘‘ (حیاتِ اقبال کا ایک جذباتی دور: ص۱۴۶)۔ (۴) قومی زندگی مخزن، لاہور، اکتوبر۱۹۰۴ئ، مارچ ۱۹۰۵ء (۵) اسرارِ خودی اور تصوف وکیل، امرتسر ۵؍جنوری ۱۹۱۶ء (۶) سرِ اسرارِ خودی وکیل، امرتسر ۹؍فروری ۱۹۱۶ء [اسرارِ خودیپر اعتراضات کے جواب میں] (۷) تصوف وجودیہ وکیل، امرتسر ۱۳؍دسمبر۱۹۱۶ء (۸) علم ظاہر و علم باطن وکیل، امرتسر ۲۸؍ جون۱۹۱۶ء (۹) جغرافیائی حدود اور مسلمان احسان ،لاہور۹؍مارچ ۱۹۳۸ء [مولانا مدنی کے جواب میں] تحریروں میں خطبات، تقاریظ اور دیباچے فرمائشی تحریریں ہیں۔ جب کہ تقاریر، بیانات اور مصاحبوں وغیرہ کا شمار اقبال کی ’’تحریروں‘‘ (writings) میں نہیں ہوتا۔ جہاں تک اقبال کے انگریزی مضامین کا تعلق ہے۔ قدیم ترین دستیاب مضمون: The Doctrine of Absolute Unity as Expounded by Abdul Karim Al-Jili، بمبئی کے رسالے Indian Antiquaryکے شمارہ ستمبر ۱۹۰۰ء میں شائع ہوا تھا ۱؎ جو نہ صرف انگریزی بلکہ ان کے اُردو اور انگریزی ذخیرۂ مضامین میں سب سے قدیم دستیاب مضمون ہے۔ انگریزی میں اقبال کا نثری ذخیرہ، اُردو کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ متفرق نثر (تقاریظ، بیانات، تقاریر، مصاحبوں وغیرہ) سے قطع نظر کریں، تب بھی چھوٹے بڑے مستقل تحریری مضامین کی تعداد اکیس ۲؎ بنتی ہے۔ اس سے ہمارے اس موقف کی مزید تائید ہوتی ہے کہ: علامہ اقبال نے اُردو کی نسبت انگریزی نثر نسبتاً زیادہ رغبت کے ساتھ لکھی۔ چنانچہ اُردو زبان سے تمام تر دل چسپی اور محبت کے باوجود، ان کی نثر کا بیشتر حصہ انگریزی تحریروں پر مشتمل ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ اُردو کے برعکس انگریزی حصے میں فرمائشی اور جوابی مضامین کا تناسب کم ہے۔ مستقل نوعیت کے مضامین و مقالات کے علاوہ باقی نثری ذخیرے میں ہر نوع کی تحریریں شامل ہیں۔ کچھ اخباری مصاحبے، بعض طویل خطوط (جو موضوعی اہمیت کے اعتبار سے بجاے خود مضامین کی حیثیت رکھتے ہیں) مجلسِ قانون ساز میں نوتقاریر، اخباری بیانات، مختلف اجتماعات میں کی ۱- بعد میں کسی قدر ترمیم کے ساتھ اسے ڈاکٹریٹ کے مقالے Developmentمیں شامل کیا گیا۔ ۲- تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے Speeches (شروانی) کی فہرست: حصہ اوّل کے دو خطبے+حصہ دوم کے پندرہ مضامین+ حصہ سوم کے چار مضامین (نمبر۱، نمبر۲، نمبر۴ اور نمبر۵)۔ گئی تقاریر کے خلاصے (جو پرانے اخبارات سے نقل کیے گئے)، اسرارِ خودی اور رموزِ بے۔خودی کے متروک دیباچے، دیگر مصنّفین کی کتابوں پر تقاریظ، چھوٹے چھوٹے مختصر مقدمات وغیرہ۔ اقبال کی توجہ شعری مجموعوں کی ترتیب و تدوین اور اشاعت ہی پر مرکوز رہی (یا پھر دوبار انگریزی خطبات شائع ہوئے)۔ اپنی نثر کی جمع و ترتیب میں ان کے لیے کوئی وجہ کشش نہ تھی۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ترتیبِ اشعار نے انھیں اتنی مہلت نہ دی کہ وہ ترتیب ِ نثر کی فکر کرتے۔ بہرحال علامہ اقبال نے اپنا کوئی نثری مجموعہ مرتب نہیں کیا، نہ اُن کی زندگی میں کسی دوسرے شخص کو اس کا خیال آیا۔ نتیجہ یہ کہ ان کی زندگی میں، ان کا کوئی نثری مجموعہ شائع نہ ہوسکا۔ نثری مجموعوں کا آغاز، ۱۹۴۳ء میں مضامینِ اقبال کی اشاعت سے ہوا۔ آئندہ صفحات میں علامہ اقبال کے مختلف اُردو اور انگریزی نثری مجموعے زیر بحث آئیں گے۔ ئ……ئ……ء (ب) نثری مجموعے ژ مضامینِ اقبال حیدر آباد دکن میں ابتدا ہی سے علامہ اقبال کے مدّاحوں کا ایک وسیع حلقہ پیدا ہوگیا تھا، جس میں عوام النّاس اور تعلیم یافتہ طبقے کی ایک کثیر تعداد کے علاوہ بہت سے مصنّفین و شعرا اور اربابِ حکومت بھی شامل تھے۔ علامہ اقبال سے ان سب کی دل چسپی، عقیدت اور لگاو کا بڑا سبب کلامِ اقبال تھا۔ مولوی عبدالرزاق کی مرتبہ کلیاتِ اقبال نے اس دل چسپی کو اور بڑھادیا، چنانچہ اقبال کی اس غیر معمولی مقبولیت کے پیشِ نظر وہاں کے ناشرانِ کتب نے تصانیفِ اقبال کی اشاعت میں خاصی دل چسپی لی۔ احمدیہ پریس کے تصدق حسین تاج نے اقبال کی زندگی ہی میں Development کا اُردو ترجمہ بعنوان فلسفۂ عجم (از میر حسن الدین) شائع کر دیا تھا۔ دو برس بعد، اُنھوں نے اقبال کی بعض نظموں پر مشتمل دو کتابچے مرتب کرکے چھاپے۔۱؎ نثری مضامین کی ترتیب و اشاعت کا خیال بھی، پہلے پہل تصدق حسین تاج کو آیا۔ اُن کا مرتبہ مجموعہ مضامینِ اقبال کے نام سے ۱۳۶۲ھ [۱۹۴۳ئ] میں منظرِ عام پر آیا۔ یہ کتاب اقبال کے شعری مجموعوں کی تقطیع پر شائع کی گئی۔ مسطر انیس سطری ہے۔ سرورق اور فہرست کے دو اوراق شمار نہیں کیے گئے۔ دیباچہ (از غلام دستگیر رشید، بعنوان: ’’صبحِ مراد‘‘) کے دس صفحات کا شمار الف ب ج د… سے ہے۔ متنِ مضامین صفحات ۱ تا۲۰۴ پر محیط ہے… پروفیسر غلام دستگیر رشید نے دیباچے میں مضامینِ اقبال کی اہمیت اور اقبال کے نثری اُسلوب پر شاعرانہ انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ اُنھوں نے اقبال کے طرزِ تحریر کو ’’منفرد یعنی آپ اپنی مثال… نہایت پختہ اور پُرشوکت‘‘ ۲؎ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ان مضامین میں ’’زبان کی لغزشیں ۱- (الف) نظم اقبال، سفر حیدر آباد دکن میں، ۱۹۳۸ئ: ص۱۵ (ب) نظم سپاس جناب امیر اور دوسری نظمیں، ۱۹۳۸ئ: ص۱۵ ۲- مضامینِ اقبال: ص ’’ح‘‘ ۳- ایضاً: ص ’’ط‘‘ کہیں کہیں نمایاں ہیں‘‘۳؎، مگر اس کی کوئی مثال نہیں دی۔ مضامینِ اقبال میں اقبال کے کل چودہ نثر پارے شامل ہیں، ان میں سے نصف انگریزی مضامین کے اُردو تراجم ہیں۔ تفصیل اس طرح ہے: (۱) فلسفۂ سخت کوشی: ڈاکٹر نکلسن کے نام اقبال کے ایک طویل مکتوب مورخہ ۲۴؍جنوری ۱۹۲۱ء کا اُردو ترجمہ ہے (از چراغ حسن حسرت) یہی ترجمہ اقبال نامہ اوّل (ص۴۵۷-۴۷۴) میں بھی شامل ہے۔۱؎ (۲) جناب رسالت مآبؐ کا ادبی تبصرہ: Our Prophet's Criticism of Contemporary Arabian Poetryکا اُردو ترجمہ ہے۔ اصل مضمون پہلی بار لکھنؤ کے New Era (۲۸؍جولائی ۱۹۱۷ئ) میں شائع ہوا۔۲؎ بعد میں اس کا اُردو ترجمہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فنِ شعر کے مبصر کی حیثیت میں‘‘ روزنامہ ستارۂ صبح لاہور (۸؍اگست ۱۹۱۷ئ) میں چھپا۔۳؎ (۳) ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر: The Muslim Communityکا اُردو ترجمہ ہے۔۴؎ (۴) خطبۂ صدارت آل انڈیا مسلم لیگ ۱۹۳۰ئ: اصل خطبہ انگریزی میں ہے۔ نذیر نیازی کا اُردو ترجمہ کتابچے کی صورت میں شائع ہوا ۔۵؎ (۵) ختم نبوت: Islam and Ahmadismکا اُردو ترجمہ ہے۔ اصل مضمون پہلی بار Islam (۲۲ جنوری ۱۹۳۶ئ) میں شائع ہوا ۔۶؎ (۶) دیباچہ مرقع چغتائی: اصل تحریر انگریزی میں ہے__ اس طرح اس مجموعے میں اُردو نثر ۱- انگریزی متن مشمولہ: Letters of Iqbal، ص۱۴۱-۱۴۷ ۲- انگریزی متن مشمولہ: Speeches (شروانی)، ص ۱۲۴-۱۲۶ ۳- ’’جناب رسالت مآبؐ کا ادبی تبصرہ‘‘ کے ساتھ مرتب نے مترجم کا نام نہیں لکھا ۔ غالباً اُنھوں نے اسے اُردو مضمون تصور کیا ہے، ڈاکٹر عبادت بریلوی بھی اسی غلط فہمی کا شکار ہیں (اقبال کی اُردو نثر: ص۱۹۹-۲۰۲) ستارۂ صبح کے مدیر ظفر علی خاں تھے۔ قیاس ہے کہ وہی اس کے مترجم ہیں۔ ۴- مکمل انگریزی متن دیکھیے: زیرنظر کتاب کا ضمیمہ نمبر۳۔ جزوی متن مشمولہ Speeches (شروانی)، ص۱۰۳-۱۰۷ ۵- انگریزی متن مشمولہ: Speeches (شروانی)، ص ۳-۱۶ ۶- ایضاً: ص۱۷۶-۱۹۹ پاروں کی تعداد صرف آٹھ۱؎ رہ جاتی ہے جب کہ اصل تعداد کہیں زیادہ ہے۔ مرتب کو صرف آٹھ تحریریں دستیاب ہوسکیں۔ مرتب نے آخری دو مضامین کے سوا ہر مضمون کے آغاز میں ماخذ کا حوالہ دیا ہے۔ ’’قومی زندگی‘‘ مخزن میں بالاقساط شائع ہوا تھا۔ پہلی قسط اکتوبر ۱۹۰۴ء میں اور دوسری مارچ ۱۹۰۵ء میں، مگر مرتب نے اس مضمون کا ماخذ صرف اکتوبر ۱۹۰۴ء بتایا ہے۔ نقلِ متن میں مرتب نے احتیاط اور ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے۔ تمام مشمولہ مضامین جوں کے توں شامل کیے گئے ہیں، تاہم کہیں کہیں معمولی سا تصرف یا ردوبدل ملتا ہے۔ اس طرح املا اور کتابت کی بہت سی ایسی اغلاط کی صحت نہیں ہوسکی، جو قدیم نسخوں میںموجود تھیں، علاوہ ازیں بعض اغلاط کی صورت بھی بدل گئی ہے۔ تفصیل یہ ہے: صحیح متن صفحہ سطر مضامین اقبال غیر متغیر ہی لکھنا۲؎ ۱۱ ۶ غیر متغیر لکھنا ہے۔ نہ ترقی۳؎ ۳۷ ہے، ترقی ہمارے ہندو بھائیوں۴؎ ۳۷ ۶ ہمارے بھائیوں پہلے ہیں۵؎ ۳۸ ۲ پہلے سے ہیں چھڑوا رہا۶؎ ۳۸ ۸ چھڑا رہا سرورِ کائنات سے۷؎ ۷۶ ۱ سرورِ کائنات صلعم سے کرائی۸؎ ۷۶ ۱ کروائی ۱- زبانِ اُردو، اُردو زبان پنجاب میں، قومی زندگی، جغرافیائی حدود اور مسلمان، اسرارِ خودی اوّل، رموزِ بے خودی اوّل اور پیامِ مشرق کے دیباچے اور تقریر انجمن ادبی کابل۔ ۲- مخزن، اکتوبر ۱۹۰۲ئ، ص۲، سطر۱۹ ۳- ایضاً، مارچ ۱۹۰۵ئ، ص۳۶، سطر۱۳ ۴- ایضاً، ص۳۷، سطر۱۷،۱۸ ۵- ایضاً، ص۳۷، سطر۱۰ ۶- ایضاً، ص۳۷ ۷- ستارۂ صبح ، ۸؍اگست ۱۹۱۷ئ، بحوالہ نقوش، اقبال نمبر اوّل ،ستمبر۱۹۷۷ء ،ص۴۸۵، سطر۸ ۸- ایضاً، ص۴۸۵، سطر۹ صحیح متن صفحہ سطر مضامین اقبال بنو عبس۱؎ ۷۶ ۱۶ بنّو عیس خواجہ دو جہاں۲؎ ۷۷ ۱۳ خواجۂ دو جہاں صلعم جو قدر اس شعر کی فرمائی۳؎ ۷۷ ۱۳ جو اس قدر شعر کی تعریف فرمائی مستنیر۴؎ ۴۸ ۴ مستنیز حریت یا بالفاظِ دیگر۵؎ ۴۹ ۱۴ حریت اور بالفاظِ دیگر تعیینِ عمل۶؎ ۴۹ ۱۷ تعین عمل اثبات۷؎ ۵۱ ۲ اسباب اندازہ نہیں ہوسکتا۸؎ ۵۱ ۹ اندازہ ہوسکتا ہے ان میں سے ایک آدھ تو کتابت کی غلطی قرار دی جاسکتی ہے، مگر اکثر تبدیلیاں ارادی اور شعوری ہیں۔ بعض ایسے مقامات پر، جہاں رد و بدل کی گنجائش نکل سکتی تھی، مرتب نے تصرف نہیں کیا، مثلاً صفحہ ۹ سطر ۶ پر ’’اس قسم کی معیار‘‘ کو ’’اس قسم کا معیار‘‘ اور صفحہ ۹ سطر ۸ پر ’’عدم صحت کی معیار‘‘ کو ’’عدم صحت کا معیار‘‘ بنایا جاسکتا تھا، کیونکہ ’’معیار‘‘ بالاتفاق مذکر ہے۔ آیاتِ قرآنی میں اغلاطِ کتابت زیادہ ہیں، خصوصاً ’’جغرافیائی حدود اور مسلمان‘‘ میں مذکور ایک آدھ کے سوا تمام آیات میں اغلاط متن موجود ہیں (ص۱۸۸،۱۸۹،۱۹۰)۔ بعض الفاظ کا قدیم املا اختیار کیا گیا ہے، مثلاً: سیدہا (ص۳۲)، پڑہا، دیکہا (ص۳۸) وغیرہ۔ بعض شمسی مہینوں کا املا اس طرح ہے: ۱- ستارۂ صبح،۸؍اگست ۱۹۱۷ء بحوالہ نقوش، اقبال نمبر اوّل، ستمبر۱۹۷۷ء ، ص۴۵۸، سطر۲۱ ۲- ایضاً، ص۴۸۶، سطر۱۰ ۳- ایضاً، ص۴۸۶، سطر۱۰-۱۱ ۴- دیباچہ اسرارِ خودی، طبع اوّل، صفحہ الف، سطر۲ ۵- ایضاً، ص ’’ج‘‘، سطر۸-۹ ۶- ایضاً، ص’’و‘‘، سطر۲ ۷- ایضاً، ص’’و‘‘، سطر۱۰ ۸- ایضاً، ص’’ز‘‘، سطر۸ سپٹمبر (ص۱)، اکٹوبر (ص۸)، ڈسمبر (ص۱۰۷) غالباً دکن میں مہینوں کے نام اسی طرح لکھے جاتے تھے، کیونکہ شاد اقبال میں بھی یہی املا ملتا ہے۔ مضامینِ اقبال، علامہ اقبال کی نثر کو جمع و مرتب کرنے کی ایک ابتدائی سی کوشش تھی۔ نثرِِ اقبال کا بیشتر حصہ مرتب کی نگاہوں سے اوجھل رہا، پھر بھی پرانے رسائل سے اقبال کے آٹھ مضامین ۱؎ کی بازیافت اور ان کی تدوین و اشاعت، مرتب کی ایسی خدمت ہے، جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اقبال کے اوّلین نثری مجموعے کا شرف تو بہرحال اسے حاصل رہے گا۔ یہ مجموعہ کسی اِدّعا کے بغیر پیش کیا گیا ہے۔ گو، اس میں مضامین کی تعداد کم ہے، مگر صحتِ متن کے لحاظ سے یہ، بعد میں اشاعت پذیر ہونے والے دونوں مجموعوں مقالاتِ اقبال اور اقبال کے نثری افکار پر فوقیت رکھتا ہے۔ ژ مقالاتِ اقبال مضامینِ اقبال کی اشاعت کے بیس برس بعد، ۱۹۶۳ء میں، سیّد عبدالواحد معینی کا مرتبہ مجموعۂ مضامین، مقالاتِ اقبال کے نام سے شائع ہوا۔ سرورق، ورقِ انتساب (بنام: جاوید اور منیرہ)، فہرستِ مضامین اور مقدمہ (بعنوان: ’’جسارت‘‘ از ڈاکٹر سیّد محمد عبداللہ، ص۷-۱۸) کے اٹھارہ مسلسل صفحات کے بعد مصنف کے بارہ صفحاتی ’’پیش لفظ‘‘ کو الف ب ج د …سے شمار کیا گیا ہے۔ متنِ کتاب صفحہ نمبر۱ سے شروع ہوکر ۲۴۷ تک محیط ہے۔ آخر میں تین صفحات کا ایک صحت نامہ شامل ہے۔ ڈاکٹر سیّد عبداللہ نے علامہ اقبال کی نثر نگاری کا تنقیدی محاکمہ کرتے ہوئے اُن کے اُسلوبِ نثر کے مختلف رنگوں کی نشان دہی کی ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ’’شاعر اقبال ایک منفرد طرز کا نثر نگار بھی تھا۔‘‘ ۲؎ مرتب نے اپنے پیش لفظ میں علامہ اقبال کی شخصیت اور فکر میں اُن کے نثری مضامین کی اہمیت پر بحث کی ہے۔ اُن کے خیال میں یہ مضامین ’’اُردو زبان کا گنجِ گراں مایہ‘‘ ۳؎ ہیں۔ بعدازاں مرتب نے ’’پیش لفظ‘‘ میں مشمولہ مقالات اور ان کے ماخذات کا ذکر کیا ہے۔ ۱- بنیادی طور پر مضامینِ اقبال اُردو تحریروں کا مجموعہ ہے، اگرچہ اُردو تحریروں کی تعداد آٹھ ہی ہے۔ بقیہ چھے مضامین، انگریزی تحریروں کا اُردو ترجمہ ہیں۔ اقبال کے تراجم، اس مقالے کے دائرہ بحث سے خارج ہیں۔ اصل انگریزی تحریریں آئندہ صفحات میں، انگریزی تحریروں کے مجموعوں کے ضمن میں زیر بحث آئیں گی۔ ۲- مقالاتِ اقبال: ص۱۷،۱۸ ۳- ایضاً: ص’’ج‘‘ مقالاتِ اقبال میں شامل نثر پاروں کی تعداد چوبیس ہے۔ ان میں تین نثر پارے (جناب رسالت مآب کا ادبی تبصرہ۔ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر۔ خلافتِ اسلامیہ) اقبال کی انگریزی تحریروں کے تراجم ہیں۔ اوّل الذکر دو مضامین کا تذکرہ مضامینِ اقبال کے ضمن میں آچکا ہے۔ ’’خلافتِ اسلامیہ‘‘ Political Thought in Islam کا ترجمہ ہے، جو لندن کے رسالہ The Sociological Review (جولائی ۱۹۰۸ئ، ص۲۴۹ تا ۲۶۱) میں شائع ہوا، بعدازاں The Hindustan Review (الٰہ آباد، دسمبر ۱۹۱۰ء اور جنوری ۱۹۱۱ء ۱؎) اور پھرMuslim Outlook (۱۹۲۲ئ۲؎) میں بھی چھپا تھا۔ عبدالواحد معینی نے اس کا عنوان ’’اسلام میں خلافت‘‘ ۳؎ یا "Islam and Khilafat" ۴؎ بتایا ہے، جو درست نہیں ہے۔ وہ لکھتے ہیں: The substance of article on "Islam and Khilafat" was incorporated by Iqbal in "Political Thought in Islam", published later on in The Hindustan Review'۵؎ معینی صاحب نے ’’اسلام اینڈ خلافت‘‘ کو ایک الگ مضمون سمجھا ہے، حالانکہ ’’اسلام میں خلافت‘‘ یا ’’اسلام اینڈ خلافت‘‘ کے عنوان سے اقبال نے کبھی کوئی مضمون نہیں لکھا، درحقیقت جیسا کہ اُوپر ذکر ہوا، یہ ایک ہی مضمون ہے، جو دو تین بار مختلف رسائل میں طبع ہوا۔ اس کا اُردو ترجمہ (از چودھری محمد حسین) خلافتِ اسلامیہ کتابچے کی شکل میں لاہور سے شائع ہوا۔۶؎ ’’پیش لفظ‘‘ میں معینی صاحبکہتے ہیں: علامہ نے ۱۹۱۰ء میں یہ لیکچر علی گڑھ میں Islam: A Social and political Ideal پر دیا تھا۔ (ص ’’ف‘‘) یہ بیان درست نہیں۔ علی گڑھ لکچر کا عنوان The Muslim Community تھا، جس کا اُردو ترجمہ (از مولانا ظفر علی خاں) ’’ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ کے عنوان سے کئی جگہ چھپ چکا ہے۔ یہ لیکچر ۱۹۱۱ء میں دیا گیا تھا۔ ۱- Speeches (شروانی) :ص۱۰۷ ۲- انوارِ اقبال: ص۷۳ ۳- مضامینِ اقبال: ص ’’ب‘‘ [ڈاکٹر عبادت بریلوی نے بلاتحقیق اس غلطی کو دہرادیا ہے، اقبال کی اُردو نثر: ص۸۸] ۴- Thoughts (واحد) طبع اوّل: ص"XIV"۔ (Bibliography of Iqbal، ص۴ اور A Bibliography of Iqbal، ص۱۵ کے مرتبین بھی اسی غلط فہمی کا شکار ہیں)۔ ۵- ایضاً۔ ۶- ناشر: ظفر برادرس، لاہور ۱۹۲۳ئ، ص۳۱ (کتابچے میں یہ وضاحت درج ہے کہ یہ تقریر، اقبال نے ۱۹۰۸ء میں اپنے قیامِ لندن کے زمانے میں، پان اسلامک سوسائٹی کے زیر اہتمام منعقدہ ایک جلسے میں کی تھی)۔ ’’جناب رسالت مآبؐ کا ادبی تبصرہ‘‘ کے متعلق بھی زیر نظر مجموعے کے مرتب کا بیان تصحیح طلب ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’اکثر احباب کا خیال تھا کہ ستارۂ صبح میں جو مضمون مولانا ظفر علی خاں نے شائع کیا تھا، وہ شاید انگریزی مضمون کا ترجمہ ہے، مگر اغلب یہ ہے کہ یہ اُردو کا مضمون علامہ نے مولانا ظفر علی خاں کی درخواست پر ستارۂ صبح کے لیے اُردو میں لکھا تھا‘‘۔۱؎ اس مضمون کے اُردو اور انگریزی متون کا موازنہ کیا جائے، تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو الگ مضامین نہیں بلکہ اُردو متن، انگریزی تحریر کا ترجمہ ہے۔ گذشتہ صفحات میں ہم ایک جگہ بتاچکے ہیں کہ اصل انگریزی مضمون Our Prophet's Criticism of Contemporary Arabian Poetry کے عنوان سے New Era (۲۸؍جولائی ۱۹۱۷ئ) میں شائع ہوا تھا، غور طلب بات یہ ہے کہ اس مضمون کی اشاعت کے معاً بعد ، علامہ اقبال سے اسی موضوع پر اُردو مضمون لکھ دینے کی درخواست کا جواز کیا تھا؟ علامہ اقبال کی یہ مستعدی بھی بعید از قیاس ہے کہ اُنھوں نے فی الفور اس فرمائش کی تعمیل کردی، مزید برآں یہ بھی دلچسپ اتفاق ہے کہ یہ اُردو مضمون، ان کے انگریزی مضمون کا ہوبہو ترجمہ ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ مولانا ظفر علی خاں نے اپنے نئے اخبار ستارۂ صبح کے پہلے شمارے میں (غالباً اقبال کی کوئی نئی تحریر نہ ملنے پر ان کے) انگریزی مضمون کا اُردو ترجمہ ہی شائع کردیا۔ غالب امکان ہے کہ یہ ترجمہ اُنھوں نے خود ہی کیا ہوگا۔ متذکرہ بالا تراجم سے قطع نظر، مقالاتِ اقبال بنیادی طور پر، اقبال کی اُردو تحریروں کا مجموعہ ہے۔ اس میں مضامین، دیباچے، تقاریظ، تقاریر اور مصاحبے یعنی ہر طرح کے نثر پارے شامل ہیں۔ جنھیں ان کی نوعیت کے مطابق اس طرح تقسیم کیا جاسکتا ہے: (۱) مضامین کی تعداد آٹھ ہے جن میں سے چار (زبانِ اُردو، اُردو زبان پنجاب میں، قومی زندگی، جغرافیائی حدود اور مسلمان) تو وہی ہیں، جو مضامینِ اقبال میں شامل ہیں۔ باقی چار مضامین (زبانِ اُردو، اسرارِ خودی اور تصوف، سرِ اسرارِ خودی، تصوّف و جودیہ۲؎) غیر مدوّن ہیں۔ متن کے تقابلی مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مرتب نے اصل ماخذ کے بجاے ثانوی ذرائع سے متن حاصل کیا ہے۔ یہ بات خاص طور پر اوّل الذکر مضامین کے متعلق یقینی ہے۔ ۱- مقالاتِ اقبال: ص ’’ع‘‘۔ ۲- اوّلین اشاعتیں: علی الترتیب مخزن ستمبر۱۹۰۲ئ، وکیل ۵؍جنوری، ۹؍فروری اور ۱۳؍دسمبر ۱۹۱۶ئ۔ (۲) ایڈیٹر وطن کے نام اقبال کے دو طویل خطوط ۱۹۰۵ء میں ان کے لاہور سے کیمبرج پہنچنے کی روداد پر مشتمل ہیں، مرتب نے ایڈیٹر وطن کا نام [مولوی انشاء اللہ خاں] نہیں بتایا۔ آخری خط کی تاریخ ۲۵؍نومبر ۱۹۰۵ء درج ہے، جو ۲۵؍ستمبر ۱۹۰۵ء ہونی چاہیے۔ (۳) اقبال سے محمد دین فوق کا ایک مصاحبہ بعنوان ’’ایک دلچسپ مکالمہ‘‘، اس کا موضوع تصوف ہے۔ (ماخوذ از کشمیری گزٹ، اگست۱۹۱۴ئ)۔ (۴) چھے تقاریر محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس ۱۹۱۱ئ؛ محفلِ میلاد النبی؛ اجلاس انجمن حمایت اسلام؛ عیدالفطر ۱۹۳۲ء اور جلسہ انجمنِ ادبی کابل ۱۹۳۳ء کے مواقع پر اقبال کے مختصر خطابات کی رپورٹوں پر مشتمل ہیں۔ مؤخرالذکر تصدق حسین تاج کے مجموعے مضامینِ اقبال سے ماخوذ ہے، مگر اس کا عنوان تبدیل کرکے ’’اقبال کی ایک تقریر کابل میں‘‘ کردیا گیا ہے۔ (۵) اسرارِ خودی (طبع اوّل و دوم) رموزِ بے خودی اور پیامِ مشرق کے دیباچے۔ (۶) محمد دین فوق کی تین تصانیف (امتحان میں پاس ہونے کا گُر، حریتِ اسلام اور سوانح علامہ عبدالحکیم سیال کوٹی) پر اقبال کی مختصر تقاریظ۔ مرتب نے مقالاتِ اقبال میں مشمولہ تمام تحریروں کے ماخذ کی نشان دہی نہیں کی، تاہم بعض کے آخر میں اُس رسالے یا اخبار کا نام لکھ دیا، جہاں سے متعلقہ تحریر اخذ کی گئی۔ ان میں سے اکثر نگارشات ایک سے زائد بار چھپ چکی ہیں۔ متن کے بغور تقابلی مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مرتب نے یہ تحریریں اوّلین مآخذ سے حاصل نہیں کیں، بلکہ ثانوی ذرائع سے نقل کی ہیں۔ جو تحریریں، قبل ازیں، مضامینِ اقبال میں شامل ہیں، معینی صاحب نے وہیں سے اخذ کی ہیں۔ چنانچہ مقالاتِ اقبال میں منقول، ’’قومی زندگی‘‘، ’’دیباچہ‘‘ مثنوی اسرارِ خودی طبع اوّل، ’’جناب رسالت مآبؐ کا ادبی تبصرہ‘‘ اور ’’جغرافیائی حدود اور مسلمان‘‘ کے متن میں بھی وہی تصرفات اور اغلاط ملتی ہیں، جو مضامینِ اقبال میں موجود ہیں، جب کہ اوّلین ماخذ ان تصرفات اور اغلاط سے پاک ہیں۔ (دیکھیے، باب۵: مضامینِ اقبال) اور موازنے کے لیے دیکھیے: مقالاتِ اقبال کے صفحات: علی الترتیب صفحہ: سطر: ۲۲، ۶ ۵۱، ۷ ۵۱، ۱۳ ۵۲، ۸ ۵۲، ۱۵ ۱۸۷، ۱۴ ۱۸۸، ۱۷ ۱۸۹، ۱۴ ۱۸۹، ۱۵ ۱۵۳، ۴ ۱۵۴، ۱۹ ۱۵۵، ۲ ۱۵۶، ۷ ۱۵۶۔ ۱۵ بہتر تھا، مرتب ثانوی ماخذ کا حوالہ دیتے تاکہ ان اغلاط اور تصرفات کی ذمہ داری مضامینِ اقبال کے مرتب کے سر ہوتی۔ عبدالواحد معینی نے اصل متن میں خود بھی متعدد ترامیم و اصلاحات اور تصرفات کیے ہیں۔ املا کی تبدیلیوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، ذیل میں تبدیلیِ متن کی چند مثالیں ملاحظہ کیجیے: صفحہ سطر اصل متن صفحہ سطر مقالاتِ اقبال کا متن مخزن، ستمبر ۱۹۰۲ء ۲ ۷ سپاہی روزمرہ ۱۲ ۱۲ سپاہی جن کو روزمرہ ۲ ۱۳ تو محمدیہ ۱۲ ۱۸ تویہ محمدیہ ۳ ۱۰ ایسی طرزِ تحریر کو اختیار کیا ۱۳ ۱۰ ایسا طرزِ تحریر اختیار کیا ۳ ۵ کی زبانوں پر ۱۳ ۲۰ کی زبان پر ۴ ۲۱ ۵۵لاکھ ۱۵ ۴ پانچ لاکھ ۵ ۱۳ اس امر کو ۱۵ ۱۵ اس بات کو ۶ ۶ کے تعلیم یافتہ ۱۶ ۷ کے تمام تعلیم یافتہ ۶ ۵،۶ انگریزی زبان کے ۱۷ ۷ انگریزی کے ۷ ۱۲ شستگی، بانکپن اور لطف ۱۷ ۱۳ شستگی اور لطف مخزن، اکتوبر ۱۹۰۶ء ۲۷ ۶ فن تنقید کا ۲۱ ۱۴ فن کا ۲۶ ۲ اُردو زبان جامع مسجد ۲۲ ۹ اُردو جامع مسجد ۳۹ ۳ آپ نے اس ۳۶ ۲۱ آپ نے اپنے اس ۳۹ ۱۹ پنجابی الفاظ و محاورات ۳۸ ۱ پنجابی محاورات ۴۰ ۴ جن میں اس محاورہ کا صحیح استعمال ہے ۳۸ ۷،۸ جس میں اس محاورے کا صحیح استعمال موجود ہے۔ صفحہ سطر اصل متن صفحہ سطر مقالاتِ اقبال کا متن ۳۶ ۱۲ ز ترقی ۵۱ ۷ ترقی ۳۶ ۱۳ ضروریات کو پورا ۵۱ ۹ ضروریات پورا ۳۶ ۱۶ ضعیف و ناتواں ۵۱ ۱۲ ناتواں ۳۷ ۹ ہیں۔ امرا ۵۲ ۷ ہیں۔ ہاں امرا ۳۷ ۱۰ پہلے ہیں ۵۲ ۸ پہلے سے ہیں ۳۷ ۱۳ حوصلہ ہو بھی تو ۵۲ ۱۱ حوصلہ ہو تو ۳۷ ۱۵ سیلئے استاد ۵۲ ۱۴ استاد ۳۷ ۲۱ مقدار ان میں روز افزوں ۵۲ ۲۱ مقدار روز افزوں ۴۲ ۷ افراد قوم کے ۵۸ ۱ افراد کے ۴۲ ۲۱ فضول طور پر خرچ ۵۸ ۱۶ فضول خرچ ۴۲ ۳ دستور نہایت مفید ۵۸ ۲۰ دستور مفید بعض تبدیلیاں تو گمراہ کن ہیں، مثلاً: ’’اس عرب نے اپنے شعر میں اس کی گون کی بات کہی تھی‘‘ کو معینی صاحب نے ’’اس عرب نے اپنے شعر میں ایسی کون سی بات کہی تھی‘‘ (ص۱۸۹) بنادیا ہے۔ اسی طرح: ’’اس کے خیالات کا پورا اندازہ ہوسکتا ہے‘‘ کو ’’اس کے خیالات کا پورا اندازہ نہیں ہوسکتا‘‘ (ص۱۵۶) میں تبدیل کردیا ہے۔ متن میں ان تصرفات کے نتیجے میں عبارت کا اصل مفہوم بدل گیا ہے۔ ان مثالوں سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مرتب نے متن میں، بے دریغ اصلاح کی ہے۔ ہم نے صرف دو مقالات کے محض چند تصرفات کی نشان دہی کی ہے، ورنہ تصرفات کی مکمل فہرست بہت طویل ہے۔ جن تبدیلیوں پر اغلاطِ کتابت کا گمان ہوسکتا ہے، انھیں نظر انداز کردیا گیا ہے۔ کتاب کے آخر میں صحت نامہ کے زیر عنوان اُنچاس اغلاط کی جو فہرست مرتب کی گئی ہے، اُسے منہا کرکے بھی اغلاط کی تعداد بلامبالغہ سیکڑوں تک پہنچتی ہے۔ معدودے چند اغلاط تو سہو کا نتیجہ ہوسکتی ہیں، مگر ہر صفحے پر پانچ پانچ چھے چھے اغلاط یہ ظاہر کرتی ہیں کہ پروف خوانی انتہائی لاپروائی سے کی گئی ہے۔۱؎ ۱- ص ۱۳ اور ۲۰ پر پانچ پانچ، ۵۲ پر ۶ اور ۵۹ پر ۹؍ اغلاط و تصرفات موجود ہیں۔ اسرارِ خودی، طبع دوم کے دس سطری دیباچے (ص۱۹۳) میں تین غلطیاں ہیں۔مؤلف نے بنیادی ماخذ سے اِعتنا نہیں کیا۔ لاپروائی اور تساہل کے سبب کئی مقامات سے متن کی پوری پوری سطریں غائب ہیں، مثلاً: صفحہ سطر اصل متن صفحہ سطر مقالاتِ اقبال کا متن مخزن، ستمبر ۱۹۰۲ء ۵ ۱۹ … رکھ لیے ہیں۔ پس اُردو بلحاظ صرف و نحو کے ہندیُ الاصل ہے جس میں کچھ مارواڑی اور پنجابی اجزا بھی شامل ہیں اور… ۱۵ ۲۱ … رکھ لیے ہیں اور … مخزن، اکتوبر ۱۹۰۲ء ۴۰ ۹ … کہ بالخصوص ان لوگوں کو جو اہلِ زباں نہیں ہیں، قدم قدم… ۳۸ ۱۳،۱۴ … کہ یہاں قدم قدم… احسان بحوالہ مضامینِ اقبال ۱۸۸ ۱۴-۱۵ انسانیہ کے اُصول کی حیثیت میں کوئی لچک اپنے اندر نہیں رکھتا اور ہیئتِ اجتماعیہ انسانیہ کے کسی اور… ۲۲۳ ۲۱ …انسانیہ کے کسی اور… ۱۸۴ ۵،۶ …ہوگی، چنانچہ یورپ کا تجربہ دنیا کے سامنے ہے، جب یورپ کی دینی وحدت پارہ پارہ ہوگئی اور یورپ کی… ۲۲۵ ۱۳ … ہوگی اور یورپ… یہ سطور تو سہواً حذف ہوگئیں، ایک جگہ ڈیڑھ سطر دانستہ حذف کی گئی ہے: ’’ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ (ص ۱۲۹، سطر۳،۴) کے یہ الفاظ: ’’پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے، جسے فرقۂ قادیانی کہتے ہیں‘‘۔ مضامینِ اقبال (ص۹۳) اور محمد عبداللہ قریشی کے منقول۱؎ متن میں بھی موجود ہیں۔ معینی صاحب نے نجانے کیوں انھیں حذف کردیا۔ قرآن و حدیث اور عربی اشعار کے متن کا حال اس سے بھی ابتر ہے۔ کئی آیات میں اعراب نہیں لگائے گئے (ص۵۸، ۱۰۸، ۲۱۳، ۲۱۵، ۲۳۰، ۲۴۴، ۲۴۵، ۲۴۷)، اگر اعراب ہیں تو غلط (ص۲۴۱، ۲۴۶)۔ اس مجموعے کے مرتب، اقبال پر کئی اُردو اور انگریزی تنقیدی مجموعوں کے مصنف تھے اور اقبال سے طویل وابستگی رکھتے تھے۔ انھیں، اقبال اکادمی پاکستان سے منصبی تعلق کی بنا پر اکادمی کے کتب خانے اور دیگر لوازمے سے بآسانی استفادے کی سہولت بھی حاصل رہی، مزید برآں مضامینِ اقبال کے بیس سال بعد، جب مقالاتِ اقبال شائع ہوئی، پرانے اخبارات و رسائل سے علامہ اقبال کی بہت سی نثری تحریریں ’’دریافت‘‘ کی جاچکی تھیں، ایسے وقت میں اور ایسے سازگار حالات میں مرتبِ مقالاتِ اقبال سے نثرِِ اقبال کے ایک جامع تر اور مستند مجموعے کی معیاری تدوین و اشاعت کی توقع تھی، مگر مقالاتِ اقبال کی صورت میں نتیجہ انتہائی مایوس کن ہے۔ ضروری حواشی و توضیحات کا اضافہ تو ایک طرف رہا، صحتِ متن سے حد درجہ لاپروائی اور غفلت برتی گئی ہے۔ تعداد کے اعتبار سے مضامینِ اقبال کی آٹھ اُردو نگارشات پر تیرہ نثر پاروں کا اضافہ کیا گیا ہے، مگر نئی پرانی سب تحریریں اغلاط سے پُر ہیں۔ ہمارے علمی تنزل کی اس سے زیادہ افسوس ناک مثال اور کیا ہوگی کہ مرتب نے یہ مجموعہ اس اِدّعا کے ساتھ پیش کیا ہے: حاصلِ عمر، نثارِ رہِ یارے کردم شادم از زندگیِ خویش کہ کارے کردم (ص ’’ک‘‘) محمد عبداللہ قریشی نے طبع اوّل کے ۲۴مضامین پر، بلادرستیِ اغلاطِ متن، نو مزید تحریروں کا اضافہ کیا۔ ۱۹۸۸ء میں یہ اڈیشن بھی آئینہ ادب لاہور ہی نے شائع کیا۔ ژ اقبال کے نثری افکار عبدالغفار شکیل نے علامہ اقبال کے متروک کلام پر مشتمل ایک مجموعہ (نوادرِ اقبال)علی گڑھ سے شائع کیا تھا۔ اسی زمانے سے اُنھوں نے زیر نظر مجموعے کی تیاریبھی شروع کردی تھی، (ص۱۰) جس کے نتیجے میں ۲۸۲ صفحات کی یہ کتاب مارچ ۱۹۷۷ء میں دہلی سے شائع ہوئی۔ ۱- قومی زندگی اور ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر:ص۸۴ مرتب نے دیباچے (بعنوان: عرضِ مرتب) میں اس مجموعے کے جواز اور اس کی ’’اہمیت و انفرادیت‘‘ پر روشنی ڈالی ہے، لکھتے ہیں: اقبال کا تقریباً تمام شعری سرمایہ منظرِ عام پر آچکا ہے اور اُن کے کلام کے متعدد اڈیشن بھی برابر نکلتے رہے ہیں، مگر ان کی نثری تحریروں میں خاص طور پر اُن کے مضامین، جو آج سے پچیس تیس برس پہلے شائع ہوئے تھے، اب نایاب و کم یاب ہیں… نوادرِ اقبال کی اشاعت کے بعد اقبال کے نایاب مضامین کی تلاش و جستجو جاری رہی، جس کے نتیجے میں مجھے اقبال کے کئی مضمون ایسے ملے، جنھیں اب تک کتابی صورت میں یکجا نہیں کیا گیا تھا۔ یہ مضامین جن پرانے رسالوں میں شائع ہوئے تھے، وہ بھی نایاب ہیں۔ مطالعۂ اقبال کے سلسلے میں ان مضامین کی اہمیت و افادیت کے پیشِ نظر مضامینِ اقبال کے ساتھ ساتھ یہ نیا مجموعہ میں نے ترتیب دیا ہے، جس میں اقبال کے ۳۳ مضمون پہلی بار تاریخی ترتیب کے ساتھ پیش کیے جارہے ہیں… ادھر چند سال ہوئے، اقبال کے مکاتیب اور کچھ نایاب تحریروں کے چند اور مجموعے سامنے آئے ہیں۔ اقبال کے نثری افکار بھی اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے… (جس میں) پہلی بار علامہ اقبال کے اتنے مضامین یکجا پیش کیے جارہے ہیں۔۱؎ گویا زیر نظر مجموعے کا سببِ تالیف یہ ہے کہ: ۱- اقبال کے بیشتر نثری مضامین نایاب و کمیاب ہیں۔ ۲- یہ نایاب و کم یاب مضامین (مضامینِ اقبال کے بعد) کسی مجموعے میں شامل نہیں ہیں۔ ۳- اس سے پہلے علامہ اقبال کے اتنے مضامین کسی مجموعے میں یکجا نہیں پیش کیے گئے۔ ہمارے خیال میں آخری سبب تو بالکل بے وزن ہے۔ اگر مضامین کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو یکجا کرنا ہی مقصود تھا، تو اس سے کئی گنا زیادہ ضخامت کے طویل اُردو اور انگریزی مکاتیب اور انگریزی مضامین اور تقاریر موجود ہیں جنھیں (ترجمہ کرکے) مجموعے کو کہیں زیادہ ضخیم اور جامع بنایا جاسکتا تھا، البتہ پہلے دو نکات، ’’سببِ تالیف‘‘ میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ مکاتیبِ اقبال کے علاوہ اب تک علامہ اقبال کے مضامین و مقالات اور تقاریر و بیانات کے مندرجہ ذیل مجموعے شائع ہوچکے ہیں: ۱- مضامینِ اقبال ۱۹۴۳ء ۲- مقالاتِ اقبال ۱۹۶۳ء ۱- اقبال کے نثری افکار: ص ۱۰ ۳- انوارِ اقبال ۱۹۶۷ء ۴- گفتارِ اقبال ۱۹۶۹ء ۵- اقبال کے نثری افکار ۱۹۷۷ء اس مجموعے کے پیش لفظ نگار اور انجمن ترقی اُردو ہند کے جنرل سیکرٹری جناب خلیق انجم کی بے خبری۱؎ تعجب کا باعث ہے۔ مرتب نے دیباچے میں ’’مکاتیب اور کچھ نایاب تحریروںکے چند اور مجموعے‘‘ کی مبہم بات کی ہے، مگر مقالاتِ اقبال ، انوارِ اقبال یا گفتارِ اقبال میں سے کسی کا نام نہیں لیا۔ مجموعے میں شامل بعض تحریروں کے حاشیے میں انوارِ اقبال کا ذکر ملتا ہے، مگر مقالاتِ اقبال اور گفتارِ اقبال کہیں بھی مذکور نہیں، جس سے یہ تاَثر ملتا ہے کہ مرتب ان دونوں مجموعوں کے وجود سے بے خبر ہے۔ متذکرہ بالا دونوں مجموعوں اور عبدالغفار شکیل کے مجموعے کے درمیان علی الترتیب دس اور آٹھ برس کا وقفہ ہے۔ انتہائی باعثِ تعجب اور تقریباً ناقابلِ یقین امر ہے کہ کوئی مصنف زیرتحقیق موضوع پر اسی زبان اور اسی برعظیم میں چودہ اور آٹھ برس قبل شائع ہونے والی کتابوں سے لاعلم رہا ہو۔ علم و تحقیق کی دنیا میں معلومات کی کمی یا بے خبری کوئی عذر نہیں بن سکتی اور اس لاعلمی کی بنا پر کوئی مصنف رعایت کا مستحق نہیں سمجھا جاسکتا۔ اقبال کے نثری افکار کے مرتب نے مجموعے میں شامل تمام تحریروں کے ماخذات کا حوالہ نہیں دیا، ذیل میں ان کی تفصیل پیش کی جاتی ہے: شمار نمبر نثر پارہ مضامینِ اقبال کا صفحہ مقالاتِ اقبال کا صفحہ دیگر مجموعے/کتب ۱ بچوں کی تعلیم و تربیت __ ۱ ۲ اُردو زبان پنجاب میں ۸ ۱۶ ۳ زبانِ اُردو ۱ ۱۱ ۴ دیباچہ علم الاقتصاد __ __ علم الاقتصاد ۱۹۶۳ء ۵ قومی زندگی ۲۵ ۳۹ ۶ سودیشی تحریک [زمانہ کو انٹرویو] __ __ انوارِ اقبال: ص۲۶-۳۱ ۱- ’’پیش لفظ‘‘ میں ڈاکٹر خلیق انجم لکھتے ہیں کہ مضامینِ اقبال کے بعد ’’غالباً کوئی مجموعہ شائع نہیں ہوا‘‘۔ (ص۸) شمار نمبر نثر پارہ مضامینِ اقبال کا صفحہ مقالاتِ اقبال کا صفحہ دیگر مجموعے/کتب ۷ اسلامی یونی ورسٹی ۸ مسلمانوں کا امتحان __ انوارِ اقبال: ص۲۷۸ ۹ دیباچہ اسرارِ خودی ، اوّل ۴۸ ۵۳ روزگارِ فقیر، دوم: ص۴۴-۵۲ ۱۰ اسرارِ خودی اور تصوف __ ۱۶۰ ۱۱ اسرارِ خودی پر اعتراضات۱؎ کا جواب [مکتوب] __ __ اوراقِ گم گشتہ: ص۷۳-۷۷، خطوطِ اقبال: ص۱۱۴-۱۱۹ ۱۲ [سرِ ] اسرارِ خودی۲؎ __ ۱۷۱ ۱۳ تصوف وجودیہ __ ۱۸۲ ۱۴ علم ظاہر و باطن __ __ انوارِ اقبال: ص۲۶۸ ۱۵ رسولؐ، فنِ شعر کے مبصر کی حیثیت میں ۷۵ ۱۸۷ ۱۶ دیباچہ، رموزِ بے خودی ۵۴ __ ۱۷ دیباچہ، پیامِ مشرق ۵۶ ۲۰۱ پیامِ مشرق کے جملہ اڈیشن ۱۸ مذہب اور سیاست __ __ انوارِ اقبال: ص۴۱، گفتارِ اقبال: ص۲۴۴ ۱۹ خطبہ عیدالفطر __ ۲۴۱ ۱- متن کے عنوان میں ’’اعتراض‘‘ ہے (ص۱۰۲)۔ ۲- مرتب نے عنوان اسرار خودی لکھا، جو غلط ہے۔ شمار نمبر نثر پارہ مضامینِ اقبال کا صفحہ مقالاتِ اقبال کا صفحہ دیگر مجموعے/کتب ۲۰ تقریر: انجمن ادبی، کابل ۲۰۱ ۲۱۷ ۲۱ نبوت (۱) __ __ انوارِ اقبال: ص۴۵ ۲۲ نبوت (۲) __ __ انوارِ اقبال: ص۴۷ ۲۳ شعبۂ تحقیقاتِ اسلامی کی ضرورت __ __ حرفِ اقبال: ص۲۲۱ ۲۴ اسلامیات [اصل: انگریزی مکتوب] __ __ اقبال نامہ، دوم: ص۲۶۲ ۲۵ علم الانساب __ __ ۲۶ میلاد النبی __ ۱۹۵ ۲۷ ایک شعر کی تشریح __ __ کلیاتِ اقبال (دکن) ص۱۰۴-۱۰۵ ۲۸ سالِ نو کا پیغام [اصل: انگریزی] __ __ حرفِ اقبال: ص۲۲۲-۲۲۵ ۲۹ اسلام اور قومیت [جغرافیائی حدود اور مسلمان] ۱۸۰ ۲۲۱ ۳۰ خلافتِ اسلامیہ __ ۱۱۵ کتابچے کی صورت میں بھی دستیاب ہے۔ ۳۱ ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر ۷۹ __ کتابچے کی صورت میں بھی دستیاب ہے۔ ۳۲ حکماے اسلام کے عمیق تر مطالعے [کی] دعوت __ __ انوارِ اقبال: ص۲۴۷ شمار نمبر نثر پارہ مضامینِ اقبال کا صفحہ مقالاتِ اقبال کا صفحہ دیگر مجموعے/کتب ۳۳ فلسفۂ سخت کوشی ۶۴ __ اقبال نامہ، اوّل: ص۴۵۷ ۳۴ دیباچہ مرقع چغتائی ۱۹۷ __ ضمیمہ تین خطوط بسلسلہ اسرارِ خودی __ __ انوارِ اقبال: ص۱۱۷ تین خطوط بسلسلہ نظریۂ قومیت انوارِ اقبال: ص۱۶۶-۱۷۰ اس تفصیل سے ظاہر ہے کہ نمبر ۷ (اسلامی یونی ورسٹی) اور نمبر ۲۵ (علم الانساب) کے علاوہ تمام نگارشات موجود و دستیاب مجموعوں میں شامل ہیں۔ اس سے مرتب کی وہ دونوں باتیں غلط ثابت ہوجاتی ہیں، جن کی بنیاد پر یہ مجموعہ مرتب کیا گیا (کہ: اوّل، اس مجموعے میں شامل بیشتر نثری مضامین نایاب و کم یاب ہیں، دوم، یہ نایاب و کم یاب مضامین کسی مجموعے میں شامل نہیں) اس طرح راقم کے خیال میں اس مجموعے کی اشاعت کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ تاہم مرتب نے، یہ مجموعہ جب اس اِدعّا کے ساتھ پیش کیا ہے کہ:’’میں نے اقبال کی منتشر تحریروں کو تلاش کرکے قوم کی میراث، قوم تک پہنچانے کی سعی کی ہے اور اقبال پرستوں کے لیے ایک نایاب سوغات‘‘ (ص۱۵) کہ اس طرح: ’’اقبال پر تحقیق کرنے والوں کو ان کے مضامین سب ایک جگہ مل جائیں گے‘‘ (ص۱۱) تو اس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ خصوصاً اس نقطۂ نظر سے کہ استناد اور صحتِ متن کے لحاظ سے اس ’’سوغات‘‘ کی کیا حیثیت ہے اور اہلِ تحقیق اس سے کہاں تک فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ مرتب کا دعویٰ ہے کہ یہ نایاب مضامین پرانے اخبارات و رسائل سے اخذ کیے گئے ہیں، مگر تمام تحریروں کے بارے میں یہ بات صحیح نہیں ہے۔ بہت سی تحریریں مرتب نے ثانوی ذرائع سے اخذ کی ہیں، مثلاً اسرارِ خودی طبع اوّل کا دیباچہ اُنھوں نے، اصل کتاب سے نہیں، بلکہ مضامینِ اقبال سے نقل کیا ہے (مگر اس کا حوالہ نہیں دیا) یہ بات متن اور املا کے تقابلی مطالعے سے واضح ہوتی ہے: صفحہ اسرارِ خودی، اوّل صفحہ سطر مضامینِ اقبال صفحہ سطر اقبال کے نثری افکار د تعیین عمل ۴۹ ۱۷ تعین عمل ۸۷ ۱۷ تعینِ عمل و اوحد الدین ۵۰ ۱۵ وحد الدین ۸۸ ۱۳ وحد الدین و اثبات ۵۱ ۲ اسباب ۸۸ ۱۹ اسباب ز اندازہ نہیں ہوسکتا ۵۱ ۹ اندازہ ہوسکتا ہے ۸۹ ۳،۴ اندازہ ہوسکتا ہے ی قوت ۵۲ ۱۰ وقت ۹۰ ۵ وقت اسی طرح ’’سالِ نو کا پیغام‘‘ حرفِ اقبال (ص ۲۲۲تا۲۲۵) سے ماخوذ ہے، مگر حوالہ نہیں دیا گیا۔ حرفِ اقبال میں ترجمے ۱؎ کی جو اغلاط پائی جاتی ہیں، وہ اس مجموعے میں بھی جوں کی توں موجود ہیں، مثلاً heaven knows what else کا ترجمہ: ’’جانے کیا کیا‘‘ کیا گیا ہے، جو درست نہیں۔ اسی طرح have proved demons of bloodshed tyranny and oppression کا ترجمہ: ’’خوں ریزی، سفاکی اور زبردست آزادی کے دیوتا ثابت ہوئے‘‘ غلط ۲؎ ہے۔ یہ کتاب لیتھو میں چھپی ہے، ممکن ہے یہ ناشر کی مجبوری ہو، مگر کتابت بھی کسی اچھے خوش نویس سے نہیں کرائی گئی۔ پھر پروف خوانی میں اور بھی لاپروائی برتی گئی ہے (بلکہ کہیں کہیں گمان ہوتا ہے کہ جو کچھ کاتب نے لکھ دیا، اُسے جوں کا توں چھاپ دیا گیا ہے) چنانچہ اغلاطِ کتابت و املا کی کثرت ہے، کہیں کہیں اصل متن کی پوری سطور غائب ہیں، مثلاً: ص۱۸۷، س۶ کی عبارت صرف اتنی ہے: ’’زندگی اور اس کے بقا کے لیے ضروری ہے‘‘، جب کہ صحیح متن اس طرح ہونا چاہیے تھا: ’’زندگی اور اس کے افکار میں یک جہتی اور ہم آہنگی ہوسکتی ہے، جو ایک امت کی تشکیل اور اس کے بقا کے لیے ضروری ہے‘‘۔ اسی مضمون کے آغاز سے یہ الفاظ غائب ہیں: ’’میں نے اپنے مصرع: سرود برسرِ منبر کہ ملت از وطن است‘‘۔ صحتِ متن سے غفلت کا ایک اہم پہلو، کثیر تعداد میں کی جانے والی تبدیلیاں اور تصرفات ہیں، ۱- حاشیے میں مرتب نے بتایا ہے کہ ’’بعد کو اس کا انگریزی ترجمہ بھی چھپا‘‘ یعنی وہ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ اصل پیغام اُردو میں تھا، جب کہ صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ ۲- صحیح ترجمہ یہ ہوگا: ’’خوں ریزی‘ سفاکی اور استبداد کے عفریت ثابت ہوئے‘‘۔ جن سے بسااوقات اصل مفہوم ہی الٹ ہوگیا ہے، مثلاً: ’’اندازہ نہیں ہوسکتا‘‘ کو ’’اندازہ ہوسکتا ہے‘‘ بنا دیا۔ (ص۸۹، س۳،۴) ’’قوت‘‘ کو ’’وقت‘‘ میں بدل دیا ہے۔ (ص۹۰، س۵) ’’آشنا نہیں‘‘ کی جگہ ’’آشنا ہیں‘‘ کردیا۔ (ص۹،س۲۱) یہ تین (اور مزید چار) تصرفات پانچ صفحات کی تحریر (دیباچہ اسرارِ خودی، طبع اوّل) میں کیے گئے ہیں۔ اس تحریر میں آٹھ مقامات پر الفاظ حذف کردیے گئے ہیں، پندرہ اغلاطِ کتابت اور املا کی تبدیلیاں اس پر مستزاد ہیں۔ ص۵۵ پر اغلاط اور تصرفات کی تعداد دس، ص۵۶ پر آٹھ اور ص۱۸۵ پر سات ہے۔ ص۱۴۵ پر دو سطر کی قرآنی آیت میں تین غلطیاں اور ص۱۵۰-۱۵۱ پر چار سطری حدیث میں پانچ غلطیاں موجود ہیں۔ ص۱۷۷ پر ایک شعر میں تین اغلاط ہیں۔ ص۸۳ پر کلمہ طیبہ تین مرتبہ لکھا ہے اور تینوں بار غلط۔ دیباچہ رموزِ بے خودی (ص۱۳۴، ۱۳۵) کی چوبیس سطروں میں سولہ اغلاط و تصرفات ملتے ہیں۔ کہیں عبارت کی پیراگرافنگ میں، اصل متن کے بجاے مرتب یا خوش نویس نے ذاتی صواب دید سے کام لیا ہے۔ اس طرح کثرتِ اغلاط میں یہ مجموعہ، تمام سابقہ مجموعوں پر بازی لے گیا ہے۔ مرتب کی معلومات بھی خاصی ناقص ہیں۔ انگریزی مضمون کے اُردو تراجم کو حصہ دوم کے تحت الگ یکجا کیا گیا ہے، اگر مرتب کو اس بات کا علم ہوتا کہ حصہ اوّل کی تین تحریریں (شعبۂ تحقیقاتِ اسلامی کی ضروریات، اسلامیات، سالِ نو کا پیغام) بھی انگریزی تحریروں کے تراجم ہیں، تو یقینا وہ انھیں بھی حصہ دوم میں شامل کرتے۔ ’’قومی زندگی‘‘ کا ماخذ مخزن، اکتوبر۱۹۰۴ء بتایا ہے (غالباً اس لیے کہ مضامینِ اقبال میں اتنا ہی حوالہ ہے) حالانکہ یہ مضمون، مخزن میں دو قسطوں میں چھپا تھا، دوسری قسط مارچ ۱۹۰۵ء میں شائع ہوئی۔ مرتب نے انوارِ قبال، مقالاتِ اقبال اور آثارِ اقبال میں منقول بعض تحریروں کو ’’کم یاب‘‘ بتایا ہے (ص۱۷۵،۲۷۹) حالانکہ متذکرہ مجموعے دستیاب و موجود ہیں اور ان کے یہ مشمولات کسی صورت بھی ’’کم یاب‘‘ قرار نہیں دیے جاسکتے۔ مرتب نے اس مجموعے میں شامل مضامین کی تعداد ۳۳ بتائی ہے (ص۱۰) جب کہ اصل تعداد ۳۵ بنتی ہے۔ یہ غلطی اس وجہ سے ہوئی کہ فہرست میں، مضامین کے شمار نمبر۲۹ کے بعد باقی مضامین کو پھر سے نمبر ۲۸ سے شمار کیا گیا ہے۔ کتابت کی اس غلطی کی طرف، مرتب، ناشر یا پروف خواں کسی کی نظر نہیں گئی اور اس بنا پر فاضل مرتب، اپنے مجموعے میں شامل نثرپاروں کی صحیح تعداد سے بے خبر ہیں۔ مرتب نے لکھا ہے کہ اس مجموعے کی شکل میں تحقیق کرنے والوں کو یہ سب مضامین ایک جگہ مل جائیں گے (ص۱۱)۔ تحقیق میں بنیادی اہمیت، صحتِ متن کی ہوتی ہے اور اس مجموعے کا سب سے زیادہ کمزور پہلو اس کا ناقص متن ہے، لہٰذا اس غلط سلط متن کی بنیاد پر جو تحقیق ہوگی، اس کا نتیجہ معلوم۔ محققین کے لیے اس کتاب کی افادیت صفر ہے، بلکہ راقم کے خیال میں تو عام قارئین کے لیے بھی یہ مجموعہ گمراہ کن ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اسے کسی عام ناشر کے بجاے انجمن ترقیِ اُردو ہند نے شائع کیا ہے۔ ژ گفتارِ اقبال محمد رفیق افضل کا مرتبہ، یہ مجموعہ مذکورہ بالا مجموعوں سے کسی قدر مختلف نوعیت کا ہے۔ اس میں علامہ اقبال کے مقالات و مضامین کے بجاے ان کی تقاریر اور بعض بیانات مدوّن کیے گئے ہیں۔ مجموعے کا تعارف کراتے ہوئے، مرتب لکھتے ہیں: مجموعۂ زیر نظر میں جو مواد ترتیب دیا گیا ہے، وہ کسی اور مجموعہ میں شامل نہ تھا۔ یہ سب کا سب لاہور کے دو روزناموں زمیندار اور انقلاب کی صرف اُن جلدوں سے لیا گیا ہے، جو ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان کی لائبریری میں محفوظ ہیں۔ تقاریر، بیانات، مکاتیب وغیرہ کا یہ مجموعہ تاریخ وار ترتیب دیا گیا ہے، سواے آخر کی دو رودادوں اور ضمیمے کے، جن کا مواد بعد میں دستیاب ہوا ۔۱؎ اس مجموعے کے مشمولات کو چھے حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: ۱- مختلف علمی، تعلیمی یا ثقافتی اجتماعات اور سیاسی و انتخابی جلسوں میں کی جانے والی تقاریر۔ ۲- اخبارات و رسائل سے مصاحبے اور اخباری نمائندوں کے سوالات کے جوابات۔ ۳- اہم سیاسی اور تاریخی مواقع پر جاری کیے جانے والے بیانات۔ ان میں سے بعض بیان علامہ اقبال نے انفرادی حیثیت میں جاری کیے اور بعض، دیگر اکابر کے ساتھ مشترکہ دستخطوں سے جاری کیے گئے۔ ۴- خطوط، جو بعض امور کی وضاحت کے لیے بالعموم زمیندار یا انقلاب کے مدیران کو لکھے گئے۔ ۵- اقبال نے دورۂ جنوبی ہند (۱۹۲۸ئ-۱۹۲۹ئ) اور دورۂ انگلستان اور اٹلی (۱۹۳۰ئ-۱۹۳۱ئ) کی تفصیلات پر مشتمل، انقلاب میں مطبوعہ اخباری رپورٹیں اور مکتوباتِ نمائندہ خصوصی۔ ۶- متفرقات، مثلاً: اقبال کی طرف سے جاری کردہ اپیلیں، پیغامات اور اقبال سے ملاقاتوں کی رودادیں وغیرہ۔ ۱- مقدمہ، گفتارِ اقبال: ص’’ہ‘‘۔ کل نثرپاروں کی تعداد ایک سو سترہ بنتی ہے۔ ہر نثر پارے کے شروع میں ایک مختصر تمہیدی نوٹ دیا گیا ہے۔ متنِ کتاب ص۱ سے ۲۷۲ تک پھیلا ہوا ہے۔ ابتدائی بیس صفحات (سرورق، فہرست اور مقدمہ) اس کے علاوہ ہیں۔ آخر میں ایک مفصل اشاریہ بھی دیا گیا ہے۔ گفتارِ اقبال نسخ ٹائپ میں طبع کی گئی ہے۔ حواشی اور تمہیدی تعارف نامے کسی قدر باریک ٹائپ میں ہیں۔ اس طرح کتاب کی صوری اور ظاہری حیثیت اطمینان بخش ہے، تاہم تقاریر و بیانات کے متون نقل کرنے میں پوری احتیاط اور کاوش سے کام نہیں لیا گیا۔ زمیندار اور انقلاب میںمطبوعہ متن کا املا تبدیل کیا گیا ہے، جیسے: ’’بولشوزم‘‘ کو ’’بالشوزم‘‘ (ص۷)؛ ’’ایکانمی‘‘ کو ’’اکانومی‘‘ (ص۸)؛ ’’قنصل‘‘ کو ’’قونصل‘‘ (ص۱۳۸)؛ ’’طریق‘‘ کو ’’طریقہ‘‘ اور ’’تصفیے‘‘ کو ’’تصفیہ‘‘ (ص۱۶۳) بنا دیا گیا۔ املا کی ایسی تبدیلیوں کے سلسلے میں مرتب کی طرف سے وضاحت ضروری تھی۔ اس طرح جہاں جہاں تصرفات کیے گئے اور اخبار کے متن میں واضح اغلاط کو درست کیا گیا، اُن کی نشان دہی بھی حاشیے میں ہونی چاہیے تھی۔ اڈیٹر زمیندار کے نام مکتوب (ص۶-۸) میں مرتب نے ایک جگہ ’’حرمتِ ربا‘‘ کے الفاظ حذف کردیے ہیں، اصل جملہ یہ تھا: ’’قرآن کریم نے اس قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھنے کے لیے قانونِ میراث، حرمتِ ربا اور زکوٰۃ وغیرہ کا نظام تجویز کیا ہے‘‘۔ گفتارِ اقبال میں اس طرح منقول ہے: ’’قرآن کریم نے اس قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھنے کے لیے قانونِ میراث اور زکوٰۃ وغیرہ کا نظام تجویز کیا ہے۔‘‘ اگر یہاں ’’حرمتِ ربا‘‘ کی ترکیب عمداً حذف کی گئی ہے تو یہ ایک طرح کی خیانت ہے دوسرے یہ اَمر مرتب کی مرعوبانہ ذہنیت کی علامت بھی ہے۔ نقلِ متن میں مرتب سے بکثرت اغلاط سرزد ہوئی ہیں، ان کی فہرست بہت طویل ہے۔ طوالت سے احتراز کرتے ہوئے، نمونے کے طور پر، گفتارِ اقبال کے صرف تین صفحات کا، زمیندار اور انقلاب کے متن سے تقابلی مطالعہ پیش کیا جارہا ہے: اصل متن (زمیندار، ۲۴ جون۱۹۲۳ئ) صفحہ سطر گفتارِ اقبال سرمایہ داری کی قوت ۷ ۱۱ سرمایہ کی قوت مناسب حدود کے اندر رکھنا ہے۔ یورپ اس نکتہ کو نظر انداز کرکے آج آلام و مصائب کا شکار ہے۔ میری دلی آرزو ہے کہ بنی نوع انسان کی تمام قوتیں اپنے اپنے ممالک میں ایسے قوانین وضع کریں، جن کا مقصد سرمایہ کی قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھ کر… ۷ ۱۲ مناسب حدود کے اندر رکھ کر… انقلاب، ۲۶؍اکتوبر ۱۹۳۲ اعادہ وہ کئی بار… ۱۶۳ ۱۴ اعادہ کئی بار… اور ساتھ میں اس کے جداگانہ انتخاب… ۱۶۳ ۲۳ اور اس کے ساتھ ہی جداگانہ انتخاب… میری راے ناقص میں… ۱۶۳ ۲۴ میری ناقص راے میں… مشروط طور پر قائم رکھ کر… ۱۶۳ ۲۵ مشروط طور پر رکھ کر… جداگانہ ملی ہستی کو… ۱۶۴ ۱ جداگانہ ہستی کو… غور کیا ہے جن کا اثر اس وقت مشرقی اقوام کے سیاسیات پر ہورہا ہے، مجھے اس بات کا… ۱۶۴ ۲ غور کیا ہے، مجھے اس بات کا… یہ ہے کہ مسلمان کس طرح اپنی مستقل ملّی ہستی سے دستبردار ہوجائیں۔ ہندی اقوام کی مفاہمت کا وقت قریب آئے گا اور ضرور آئے گا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اکثریت… ۲۶۴ ۲۶ یہ ہے کہ اکثریت… اس تقابلی جائزے سے مرتب کے تساہل اور عدمِ احتیاط کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ تین صفحات مرتب کرنے میں متعدد مقامات پر الفاظ چھوڑ دینے کے علاوہ تین مقامات پر اصل متن کی متعدد سطور چھوٹ گئی ہیں۔ پوری کتاب میں اس طرح کے ’’سہو‘‘ کی کثرت ہے اور یوں مرتب کا منقول متن، بھروسے کے لائق نہیں رہا۔ مرتب نے کتاب کے مقدمے میں بجاطور پر لکھا ہے: ’’یہ مواد نہ صرف علامہ اقبال کے مستند سوانح حیات لکھنے کے لیے بلکہ پنجاب اور تحریکِ آزادی کی تاریخ کی ترتیب کے لیے بے حد ضروری ہے‘‘۔ بجاے خود اس لوازمے (مواد) کی اہمیت بجا ہے، مگر مرتب کے نقل کردہ ناقص اور غلط سلط متن کی بنیاد پر جو سوانح حیات یا تاریخ لکھی جائے گی، اِعتبار و اِستناد میں اس کا پایہ کمزور ہوگا۔۱؎ ۱- اختر النساء نے اپنے ایم فل اقبالیات کے تحقیقی مقالے گفتار اقبال کا تحقیقی مطالعہ (۱۹۹۶ئ) میں گفتارِ اقبال کے متن کا انقلاب کے متن سے موازنہ کرکے محمد رفیق افضل کے مرتبہ ناقص متن پر گرفت کی ہے اور ان کی غلطیوں، تسامحات اور لاپروائی کا دقّتِ نظر اور تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ ژ انوارِ اقبال انوارِ اقبال کی حیثیت مجموعۂ مکاتیب کی ہے۔ باب۳ میں، مکاتیب کے مختلف مجموعوں کے جائزے میں یہ کتاب تفصیلاً زیر بحث آچکی ہے تاہم اس مجموعے میں مکاتیب کے علاوہ علامہ اقبال کی دیگر نثری تحریریں بھی شامل ہیں۔ یہ تحریریں کئی طرح کی ہیں: (۱) اقبال کے ایسے مضامین اور تحریریں، جو مضامینِ اقبال یا مقالاتِ اقبال میں شامل نہیں ہیں۔ ان میں ’’نبوت‘‘ کے زیر عنوان دو تحریریں، اسرارِ خودی کے سلسلے کا ایک اہم مضمون، ’’علم ظاہر و علم باطن‘‘، شعائرِ اسلام کے موضوع پر ایک تحریر بعنوان ’’مسلمانوں کا امتحان‘‘ اور ایک انگریزی مضمون کا اُردو ترجمہ بعنوان ’’حکماے اسلام کے عمیق تر مطالعے کی دعوت‘‘۱؎ شامل ہیں۔ (۲) لاہور کے جلسہ عام (۳۰ دسمبر ۱۹۱۹ئ) میں اقبال کی ایک تقریر اور دو مختصر بیانات ۔۲؎ (۳) سوراجیہ کے نمائندے سے ایک مصاحبہ، جو نامکمل ہے۔۳؎ (۴) مختلف مصنّفین کی کتابوں پر اقبال کی تقاریظ اور آرا۔ (۵) علامہ اقبال کی مرتّبہ روداد پنجاب پروونشل ایجوکیشنل کانفرنس (اپریل ۱۹۱۱ئ)۔ (۶) اقبال کی مرتبہ بعض درسی کتابوں کے دیباچے۔ (۷) اقبال سے ایک ملاقات کی روداد (از مجید ملک) اور اُن کے مختصر حالات (از فوق)۔ (۸) اقبال کی جاری کردہ متفرق اسناد۔ (۹) مدراس کے سفر میں اقبال کو پیش کیے جانے والے بعض سپاس نامے اور ایک اشتہار۔ گویا مرتب کو اقبال سے متعلق جو کچھ ملا، اسے انوارِ اقبال میں جمع کردیا گیا ہے۔ قبل ازیں یہ ذکر آچکا ہے کہ باعتبارِ ترتیب یہ مجموعہ ناقص ہے۔ ایک ہی نوعیت کی تحریریں مختلف مقامات پر بکھری ہوئی ہیں، مرتب نے بعض مشمولات کے مآخذ بھی نہیں بتائے، حواشی مختصر اور ناکافی ہیں، مثلاً: علامہ اقبال کے حالاتِ زندگی (از محمد دین فوق) میں متعدد باتیں تصحیح طلب ہیں، حاشیے میں ان کی تصحیح ۱- A Plea for Deeper Study of the Muslim Scientists کا اُردو ترجمہ- اصل مضمون Speeches (شروانی) میں شامل ہے۔ ۲- ایک بیان، مکمل صورت میں گفتارِ اقبال (ص۶۱) میں موجود ہے۔ ۳- نسبتاً مفصل مصاحبہ گفتارِ اقبال (ص۲۲۴ تا۲۲۶) میں نقل کیا گیا ہے۔ ضروری تھی۔ ’’نبوت‘‘ کے زیر عنوان دو شذرات کے بعض حصوں کا عکس بھی شائع کیا گیا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مرتب نے ختم نبوت سے متعلق اقبال کی تحریر سے یہ حصہ حذف کردیا ہے: اور واجب القتل۔ مسیلمہ کذاب کو اسی بنا پر قتل کیا گیا، حالانکہ جیسا طبری لکھتا ہے، وہ حضور رسالت مآب کی نبوت کا مصدق تھا اور اس کی اذان میں حضور رسالت مآب کی نبوت کی تصدیق تھی…۔۱؎ مرتب نے اس جگہ نقطے لگادیے ہیں۔ اقبال کی اس واضح اور واشگاف تحریر سے قادیانیت پر چوٹ پڑتی ہے، مرتب نے غالباً ’’خوفِ فسادِ خلق‘‘ کے سبب یہ حصۂ تحریر حذف کردیا، مگر اُصولاً یہ درست نہیں۔ ژ SPEECHES AND STATEMENTS OF IQBAL علامہ اقبال عملی سیاست سے زیادہ تر گریزاں رہے، کیونکہ عملی سیاست اُن کی افتادِ طبع کے مطابق نہ تھی۔ پھر بھی مسلمانوں کے ایک ملی اور سیاسی راہ نما کی حیثیت سے اُن کا شمار اکابر شخصیتوں میں ہوتا ہے۔ تین برس (۱۹۲۶ئ-۱۹۲۹ئ) وہ پنجاب کی مجلسِ قانون ساز کے ممبر رہے اور اس حیثیت میں متعدد تقاریر کیں۔ انھیں متعدد بار بعض علاقائی اور کل ہند کانفرنسوں سے خطاب کرنے کی دعوت دی گئی۔ آخری چند برس وہ پنجاب مسلم لیگ کے صدر رہے۔ دو بار لندن میں منعقدہ گول میز کانفرنسوں میں شریک ہوئے۔ پھر بھرپور عملی زندگی کے آغاز (۱۹۰۸ئ) سے وفات (۱۹۳۸ئ) تک قومی، سیاسی اور ملی تاریخ سے متعلق مختلف مواقع پر اور اہم مسائل و امور سے متعلق، اُنھوں نے وقتاً فوقتاً اہم بیانات جاری کیے۔ اخبارات نے بعض مسائل پر اُن کا موقف معلوم کرنے کے لیے اُن سے مصاحبے کیے۔ کبھی کبھی دیگر مسلم اکابر کے ساتھ مشترکہ اپیلیں جاری کرنا پڑیں۔ علامہ اقبال کی اس نوع کی تقاریر اور بیانات وغیرہ اُردو اور انگریزی اخبارات میں شائع ہوتے رہے۔ گذشتہ اوراق میں گفتارِ اقبال زیر بحث آچکی ہے، جس میں اقبال کی بعض تقاریر اور بیانات جمع کردیے گئے ہیں۔ اقبال کی زیادہ تر تقاریر انگریزی میں ہیں۔ اُن دنوں بیانات بھی بالعموم انگریزی ہی میں جاری کیے جاتے تھے۔ اسی وجہ سے اُردو روزناموں میں اقبال کی یہ تقاریر اور بیانات تفصیلاً اور خاطر خواہ طریق سے شائع نہیں ہوسکے، یہی وجہ ہے کہ گفتارِ اقبال میں شامل بیانات اور تقاریر مختصر اور زیادہ تر ۱- اقبال کا عکسِ تحریر بالمقابل: ص۴۴ (انوارِ اقبال)۔ یہ عکس بہت مصغر کرکے دیا گیا ہے۔ جزوی ہیں۔ اُردو اخبارات کے مقابلے میں انگریزی اخبارات کے وسائل زیادہ اور انتظامات بہتر تھے، چنانچہ انگریزی اخبارات خصوصاً سول اینڈ ملٹری گزٹ میں اقبال کی تقاریر و بیانات کا نسبتاً مفصل اور مکمل ریکارڈ محفوظ ہوگیا۔ گذشتہ صفحات میں علامہ اقبال کے نثری مجموعوں (مضامینِ اقبال اور مقالاتِ اقبال وغیرہ) کے ضمن میں اُن کے اُردو مضامین کا ذکر آچکا ہے اور بعض ایسی انگریزی تحریروں کا بھی، جن کے اُردو تراجم مذکورہ اُردو مجموعوں میں شامل ہیں۔ یہ انگریزی تحریریں، بعض علمی اور تحقیقی مجلوں میں شائع ہوتی رہیں۔ بذاتِ خود علامہ اقبال کو، یا اُن کے قریبی حلقۂ احباب میں سے کسی کو بھی، خیال نہیں آیا کہ اس نثری ذخیرے کو جمع کرکے مرتب کیا جائے۔ لطیف احمد شروانی نے ’’شاملو‘‘ کے قلمی نام سے ۱۹۴۴ء میں انگریزی تحریروں، تقاریر اور خطبات و بیانات کو جمع کرکے کتابی صورت میں مدوّن کیا۔ یہ مجموعہ مندرجہ بالا عنوان سے پہلی بار مارچ ۱۹۴۵ء ۱؎ میں لاہور سے شائع ہوا۔ مرتب نے مقدمے میں بتایا ہے کہ اقبال کے انگریزی خطبات اور تقاریر، چھوٹے چھوٹے متفرق کتابچوں اور مجلسِ قانون ساز پنجاب کی رودادوں اور اخبارات کے پرانے شماروں میں بکھری ہوئی تھیں، انھیں زیر نظر مجموعے کی صورت میں مرتب کردیا گیا ہے، تاکہ ان کے ضائع ہونے کا اندیشہ نہ رہے۔ آگے چل کر اُنھوں نے اقبال کے سیاسی افکار پر بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ اقبال نے اپنی اصابتِ فکر کی بنیاد پر دین اور سیاست میں تفریق کے خلاف آواز بلند کی۔ یہ مجموعہ تین حصوں میں منقسم ہے۔ اس تقسیم کے مطابق: حصہ اوّل: دو طرح کی تقاریر پر مشتمل ہے: الف- اقبال کے دو صدارتی خطبے (سالانہ اجلاس کل ہند مسلم لیگ، الٰہ آباد، ۲۹؍دسمبر ۱۹۳۰ء اور کل ہند مسلم کانفرنس لاہور، ۲۱؍مارچ ۱۹۳۲ئ)۔ ب- مجلسِ قانون ساز پنجاب میں کی جانے والی آٹھ تقاریر۔ حصہ دوم: بعنوان ’’اسلام اور قادیانیت‘‘ کے تحت یہ تحریریں شامل ہیں: الف- ایک مضمون: ’’قادیانی اور راسخ العقیدہ مسلمان‘‘۔ ب- مذکورہ مضمون پر قادیانی اخبار لائٹ کے اعتراضات کا جواب۔ ۱- طبع اوّل میں سالِ اشاعت درج نہیں، مگر طبع دوم پر، پہلے اڈیشن کی تاریخِ اشاعت درج ہے۔ ج- مذکورہ بالا مضمون پر روزنامہ سٹیٹسمین کے اعتراضات کا جواب۔ د- قادیانیت کے سلسلے میں پنڈت نہرو کے سوالات کا جواب۔ حصہ سوم: تین طرح کی چیزیں جمع کی گئی ہیں: الف- کل ہند مسلم لیگ کے سیکرٹری کے عہدے سے استعفٰے کا خط اور سر فرانسس ینگ ہزبینڈ کے نام ایک مکتوب کے بعض حصے۔ ب- مختلف سیاسی اور قومی مسائل کے بارے میں ۲۸ بیانات۔ ج- سال نو کا ریڈیائی پیغام (یکم جنوری ۱۹۳۸ئ)۔ مرتب کی طرف سے کہیں کہیں مختصر حواشی کا اضافہ کیا گیا ہے۔ انھوں نے مقدمے میں ان تحریروں کے مجموعی ماخذات کا ذکر تو کیا ہے، مگر ہر تحریر کے ساتھ الگ الگ حوالہ درج نہیں کیا۔ مجلس قانون ساز کی تقاریر، مجلس کی مطبوعہ رودادوں سے لی گئی ہیں، صدارتی خطبے مطبوعہ کتابچوں سے اور مختلف بیانات سول اینڈ ملٹری گزٹ کے مختلف شماروں سے۔ بیانات میں سب سے آخری بیان روزنامہ احسان (۹؍مارچ ۱۹۳۸ئ) سے اخذ کیا گیا ہے۔ اصل بیان اُردو میں تھا، زیر بحث مجموعے میں اس کا انگریزی ترجمہ شامل ہے۔ یہ بیان کتاب کی مجموعی سکیم کے دائرے میں نہیں آتا، کیونکہ اصلاً یہ کتاب انگریزی تقاریر و بیانات کا مجموعہ ہے، مگر موضوع (مسئلہ قومیت) کی اہمیت کے پیشِ نظر اور اس لیے بھی کہ یہ اقبال کی آخری مفصل تحریر ہے، مرتب نے اسے اپنے مجموعے میں شامل کرنا ضروری سمجھا۔ اس مضمون میں آیاتِ قرآنی کے عربی متن کے ساتھ مرتب نے انگریزی ترجمے کا اضافہ کردیا ہے۔ ص۲۳۱ پر قرآنی آیت کے ساتھ مندرجہ ذیل دو آیات غلطی سے حذف ہوگئی ہیں: (۱) وَ اتَّبَعْتُ مِلَّۃَ اٰبَآئِی اِبْرَاہِیْمَ (۲) فَاتَّبِعُوْا مِلَّۃَ اِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاًo تینوں حصوں کی تحریروں کو زمانی ترتیب سے مرتب کیا گیا ہے۔ مگر تحریک کشمیر کے سلسلے میں ۲؍اکتوبر ۱۹۳۳ء کا بیان ۱۹؍ستمبر ۱۹۳۳ء کے بیان کے بعد آنا چاہیے تھا۔ بعض تحریروں کے پس منظر کی وضاحت کے لیے تمہیدی اور تعارفی اشارات کی ضرورت تھی، مثلاً حصہ دوم میں قادیانیت سے متعلق تحریروں کا ایک خاص پس منظر ہے، مرتب کی طرف سے اس پر مختصر روشنی ڈالی جاتی، تو عام قارئین کے لیے ان تحریروں کو سمجھنا زیادہ آسان ہوتا۔ اس کتاب کا دوسرا اڈیشن ساڑھے تین برس بعد ستمبر ۱۹۴۸ء میں شائع ہوا۔ چند اضافوں کے سوا، یہ اڈیشن ہر اعتبار سے پہلے اڈیشن کے مطابق ہے۔ اس پر دونوں اڈیشنوں کی تاریخیں درج کردی گئی ہیں، مگر کسی مقدمے کا اضافہ نہیں کیا گیا۔ پہلے اڈیشن کی اشاعت کے بعد، مرتب کو اقبال کی جو مزید تحریریں اور بیانات دستیاب ہوئے، انھیں زیر نظر اڈیشن میں شامل کرلیا گیا ہے۔ حصہ دوم میں دو چیزوں کا اضافہ کیا ہے، اوّل: ایک مضمون بعنوان: Mc Taggart's Philosophy، دوم: Some Study Notes ۱؎ (اس کا موضوع حیات بعد الممات ہے)… حصہ سوم میں مس فارقوہرسن کے نام دو مکاتیب (مورخہ ۲۰؍جولائی ۱۹۳۷ء اور ۶؍ستمبر ۱۹۳۷ئ) کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ مکاتیب مکمل صورت میں نہیں ہیں، آغاز و اختتام سے القاب وغیرہ محذوف ہیں، ممکن ہے کچھ جملے بھی شامل نہ کیے گئے ہوں۔ اس مجموعے میں ٹائپ کی بعض اغلاط موجود ہیں، مثلاً صفحہ سطر غلط صحیح ۱۵۶ ۱۶ non-special non-spatial ۱۵۶ ۱۷ oorporeal corporeal ۱۵۶ ۲۰ is(?) is is ۱۶۰ ۷ and an فارسی اور اُردو اشعار کے متن میں بعض نمایاں غلطیاں ہیں: ۱۵۱ ۸ دھم وہم ۱۵۱ ۱۳ آبد آید ۱۵۱ ۲۲ ددام دوام ۱۵۱ ۲۶ زا آن ازاں ۱۵۲ ۴ نجات کے بخاشاکے ۱۵۲ ۵ بردست بردن برخود بریدن ۱- یہ مضامین علی الترتیبIndian Art and Letters (لندن) ۱۹۳۲ء کے شمارہ اوّل اور The Muslim Revival، ستمبر ۱۹۳۲ء میں شائع ہوئے، مرتب نے حوالہ نہیں دیا۔ صفحہ سطر غلط صحیح ۱۵۶ ۲ سوفت سوخت ۲۳۰ ۱۲ فقہ فقیہِ ۲۳۶ ۶ گسے کہ کسے کو فہرست میں ’’تحریکِ کشمیر‘‘ کے سلسلے میں ۲؍اکتوبر ۱۹۳۳ء کے بیان کی تاریخ غلطی سے ۲۲؍اکتوبر درج ہے، یہ غلطی ٹائپ کی ہے۔ اس مجموعے کا تیسرا اڈیشن مرتب کی نظرثانی اور متعدد اضافوں کے ساتھ نئے نام Speeches,Writings and Statements of Iqbal سے ۱۹۷۷ء میں شائع ہوا۔ ژ SPEECHES, WRITINGS AND STATEMENTS OF IQBAL دوسرا اڈیشن ۱۹۴۸ء میں شائع ہوا تھا۔ ایک عرصے تک تیسرا اڈیشن نہ چھپ سکا۔ اس اثنا میں، اس مجموعے کے مشمولات کو قدرے ترمیم کے ساتھ، بعض دیگر حضرات نے نئے مجموعوں کی صورت میں چھاپ لیا۔۱؎ اقبال صدی (۱۹۷۷ئ) کے موقع پر مرتب نے اپنے مجموعے کو ازسرِ نو ترتیب دیا۔ اس کا نام بھی بدل دیا۔ مزید برآں: اوّل، دوسرے اڈیشن کے مشمولات کی پھر سے پڑتال کی۔ دوم، بہت سی نئی چیزوں کا اضافہ کیا۔ سوم، حوالوں اور مختصر پاورقی حواشی کا اضافہ کیا۔ تفصیل اس طرح ہے: (الف) اضافات (۱) مجلسِ قانون ساز میں ۱۸؍جولائی ۱۹۲۷ء کی تقریر (بسلسلہ ضمنی اور اضافی گرانٹ)۔ (۲) Religion and Philosophyکے عنوان سے ایک حصہ: اس میں دو مضامین تو وہ ہیں، جو طبع دوم میں بڑھائے گئے تھے، مگر تیرہ نئے طویل اور مختصر مستقل مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ (۳) ’’اسلام اور قادیانیت‘‘ (جو، اب کتاب کا تیسرا حصہ ہے) کے زیر عنوان دو نئی چیزوں کا اضافہ (۱) پنڈت نہرو کے نام ایک خط (۲)ایک وضاحتی بیان۔ ۱- (الف) Thoughts and Reflections of Iqbal، مرتب: ایس۔اے واحد لاہور، مئی ۱۹۶۴ئ۔ (ب) Speeches and Statements of Iqbal، مرتب: اے آر طارق لاہور، اپریل ۱۹۷۳ئ۔ (۴) حصہ دوم کی ایک تحریر Some Study Notes کے پہلے پیراگراف کے آخر میں یہ جملہ بڑھایا گیا ہے: I am sure this passage will interest the readers of the Muslim Revival. ۱؎ اس تحریر میں بعض آیاتِ قرآنی کے حوالے درج کیے گئے ہیں اور بعض آیات کے شمار نمبروں کی تصحیح کی گئی ہے۔ (۵) حصہ چہارم میں دو چیزوں کا اضافہ: (۱) گاندھی کے نام ایک خط (۲) بمبئی کرانیکل میں مطبوعہ انٹرویو۔ (ب) ترامیم (۱) طبع دوم، حصہ دوم کے چوتھے مضمون (ص۱۱۱) کا عنوان بدل کر Islam and Ahmadism کردیا گیا ہے۔ (۲) طبع دوم میں Mc Taggart's Philosophyمیں مذکور ’’گلشنِ رازِ جدید‘‘ کے فارسی اشعار، شامل تھے۔ طبع سوم میں اشعار کا متن نکال کر، ان کا انگریزی ترجمہ شامل کیا گیا ہے۔ (۳) طبع دوم میں شامل ایک تحریر Some Study Notes کا عنوان تبدیل کرکے Corporeal Resurrection بنا دیا گیا ہے۔ اس مضمون کے متن میں مندرجہ ذیل تبدیلیاں کی گئی ہیں: صفحہ سطر طبع دوم صفحہ سطر طبع سوم ۱۵۶ ۱۶ he refers ۱۵۱ ۲۷ the author refers ۱۵۶ ۱۹،۲۰ more and more exact ۱۵۲ ۲ more exact ۱۵۷ ۸ would admit ۱۵۲ ۱۰ would even admit ۱۵۷ ۱۵ except by what ۱۵۲ ۲۰ except what ۱۵۸ ۱۵ complete his ۱۵۳ ۵ complete all his ۱۵۹ ۶ that all life ۱۵۳ ۲۶ that life ۱۵۹ ۱۰،۱۱ so that may ۱۵۳ ۲۹ so that I may ۱۵۹ ۲۰ readers ۱۵۳ ۳۷ readers of the Muslim Revival ۱- Speeches (شروانی): ص۱۵۱ صفحہ سطر طبع دوم صفحہ سطر طبع سوم ۱۶۰ ۱۲ as a uniform culture ۱۵۴ ۲۰ as a unification to cultare مجموعے میں ٹائپ کی اغلاط بھی ملتی ہیں، مثلاً: غلط صحیح ۱۵۲ ۲۷ a an ۱۵۴ ۸ astounding astonishing ۱۵۴ ۲۰ unification unified مرتب کا خیال تھا کہ اس مجموعے میں صرف وہی چیزیں شامل کی جائیں، جو خود اُنھوں نے اصل ماخذ سے حاصل کی ہیں اور جو دوسرے مستند مجموعوں میں موجود نہیں، چنانچہ اُنھوں نے Thoughts (واحد) میں شامل کئی تحریریں، اپنے مجموعے میں شامل نہیں کیں، البتہ آخری وقت پر ناشر کے اصرار پر Mementos of Iqbal سے چند تحریریں لے کر شامل کی گئیں۔۱؎ مرتب نے حاشیے میں ان رسائل و اخبارات کے نام اور تاریخِ اشاعت درج کردی ہیں، جہاں سے یہ تحریریں اخذ کی گئی ہیں۔ ان حوالوں کی مدد سے ہر نگارش کی تاریخِ تحریر کا تعیّن آسان ہے، یوں اگر کوشش کی جاتی، تو مزید حتمی تاریخیں بھی متعین کی جاسکتی تھیں، مثلاً: Mc Taggart's Philosophyکے بارے میں اقبال نے ۲۲ مئی ۱۹۳۲ء کو مس فارقوہرسن کو لکھا: ’’میں نے آج ہوائی ڈاک سے برطانوی فیلسوف میک ٹیگرٹ پر ایک مقالہ بھیجا ہے… اس سے متعلق یہ مقالہ سرفرانسس ینگ ہزبینڈ کی فرمائش پر لکھا ہے‘‘ ۔۲؎ حواشی بھی مختصر ہیں۔ کسی قدر مزید تفصیل ممکن تھی، مثلاً: ۸؍اکتوبر ۱۹۳۲ء کے بیان (ص۲۲۱) میں عبدالمجید سندھی کے نام جس تار کا ذکر کیا گیا ہے، اس کا متن گفتارِ اقبال (ص۱۶۰) میں موجود ہے۔ اسی طرح ص۲۲۲ پر اقبال نے جن متعدد تاروں کا ذکر کیا ہے، ان کے جواب میں اقبال کے جوابات گفتارِ اقبال (ص۱۶۰-۱۶۱) میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ حواشی اور تقابلی حوالوں کے اندراج سے مجموعہ اور زیادہ مفید بن سکتا تھا۔ طبع چہارم کے سلسلے میں کتاب کے آخر میں دیکھیے: ’’تصریحات‘‘۔ ۱- مکتوب لطیف احمد شروانی بنام رفیع الدین ہاشمی، ۱۴ جون ۱۹۷۹ء (شروانی صاحب کے الفاظ ہیں: ’’یہ میں نے اپنی مرضی کے خلاف کیا تھا۔‘‘) ۲- اقبال نامہ، دوم: ص۲۸۶ اگرچہ اس مجموعے کو مزید بہتر اور جامع بنانے کی گنجائش موجود ہے، تاہم بحالتِ موجودہ بھی یہ اقبال کی انگریزی نگارشات اور نثری ذخیرے کا سب سے مستند اور صحیح تر مجموعہ ہے۔ یہ انفرادی کاوش لائقِ تحسین ہے، خصوصاً اس اعتبار سے کہ مرتب نے یہ کام ذاتی دل چسپی کی بنا پراور نجی وسائل سے کام لیتے ہوئے ایک نوع کے اقبالیاتی جذبے، کے ساتھ انجام دیا ہے۔ ژ THOUGHTS AND REFLECTIONS OF IQBAL مئی ۱۹۶۴ء میں مطبوعہ، سیّد عبدالواحد کا مرتبہ، یہ مجموعہ چار حصوں میں منقسم ہے: (۱) بائیس متفرق مقالات و مضامین اور صدارتی خطبات، شذراتِ فکر اور بعض کتابوں پر تقاریظ وغیرہ۔ (۲) اسلام اور قادیانیت پر سات تحریریں۔ (۳) مجلس قانون ساز پنجاب کی آٹھ تقاریر۔ (۴) سیاسی اور ملی مسائل کے بارے میں بارہ بیانات۔ یہ مجموعہ، شاملو کی کتاب Speeches (دوم، ۱۹۴۸ئ) کی بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے۔ شاملو کے مجموعے میں انچاس نگارشات شامل ہیں، جب کہ زیر نظر مجموعے میں ان کی تعداد پچاس ہے۔ مرتب نے شاملو کے مجموعے سے اٹھارہ بیانات خارج (۴۹-۱۸=۳۱) کرکے انیس نئی تحریروں کا اضافہ (۳۱+۱۹=۵۰) کیا اور شاملو کے مجموعے کو ایک نئے نام سے چھاپ دیا۔ راقم کے خیال میں علمی دیانت کا تقاضا یہ تھا کہ سیّد عبدالواحد، شاملو کی اجازت سے، ان کی کتاب Speeches (دوم) کا ایک نیا اڈیشن تیار کرتے، کیونکہ دو تہائی سے زیادہ تحریریں شاملو کی جمع و مہیا کردہ ہیں ۔۱؎ مرتب نے Speeches (دوم) کی اٹھارہ نگارشات کو Topicalہونے کی بنا ۲؎ پر اپنے مجموعے میں شامل نہیں کیا۔ یہ فیصلہ آسان نہیں کہ کون سی تحریر وقتی نوعیت کی ہے یا کسی ہنگامی موضوع سے متعلق ہے، یا اس کی حیثیت مستقل ہے۔ مرتب نے اس ضمن میں کسی تحریر کی موضوعی اہمیت کو پیشِ نظر ۱- باقیاتِ اقبال کا پہلا اڈیشن سیّد عبدالواحد معینی نے مرتب کیا تھا، محمد عبداللہ قریشی نے دوسرے اور تیسرے اڈیشن میں تقریباً تین گنا ضخامت کا نیا مواد شامل کیا، مگر اوّلین مرتب کی حیثیت سے سیّد عبدالواحد کا نام کتاب کے سرورق پر برقرار رکھا۔ سیّد عبدالواحد نے، زیر نظر انگریزی مجموعے میں، اس کے برعکس رویہ اختیار کیا، جس کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ ۲- تعارف: Thoughts، ص xiii۔ نہیں رکھا، بلکہ محض اپنی صواب دید کو راہ نما بنایا ہے، مثلاً: ’’کمیونل اوارڈ‘‘ کے موضوع پر اقبال کا ۲۴؍اگست ۱۹۳۲ء کا بیان تو شامل کرلیا گیا، مگر اسی موضوع پر ۱۴؍جولائی ۱۹۳۳ء کا بیان شامل نہیں کیا گیا۔ مسئلہ فلسطین سے متعلق ۲۷؍جولائی ۱۹۳۷ء کو جاری کردہ بیان تو مرتب کے نزدیک اہم تھا، مگر اس موضوع پر اس سے ایک ہفتہ پہلے (۲۰؍جولائی ۱۹۳۷ئ) کا محررہ خط، بنام مس فارقوہرسن مرتب کے نزدیک لائقِ اعتنا نہیں۔ علیٰ ہٰذا القیاس، محذوف بیانات ہندستان کی سیاسی اور ملی تاریخ کے نہایت اہم موضوعات سے متعلق ہیں۔ راقم کے خیال میں، ان سب کو مجموعے میں شامل ہونا چاہیے تھا۔ جن انیس نثرپاروں کا اضافہ کیا گیا ہے، اُن میں سے بیشتر اقبال کی تحریریں ہیں۔ یہ اس مجموعے میں قیمتی اضافہ ہے۔ Stray Thoughts کے زیر عنوان دیے گئے متفرق شذرات، تین سال پہلے مطبوعہ Stray Reflections میں شامل ہیں، لہٰذا انھیں شامل کرنے کی ضرورت نہ تھی، کیونکہ مذکورہ عنوان سے اقبال کے شذراتِ فکر پر مشتمل ایک مستقل کتاب موجود ہے۔ اس مجموعے کا سب سے اہم اضافہ The Muslim Community ہے۔ مولانا ظفر علی خاں نے اقبال کے خطبۂ علی گڑھ (۱۹۱۱ئ) کا اُردو ترجمہ ’’ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ کے عنوان سے شائع کیا تھا، مگر اصل انگریزی خطبہ ناپید ہوگیا ۔۱؎ حسنِ اتفاق سے مردم شماری کی ایک رپورٹ (۱۹۱۱ئ) میں اس خطبے کا ایک حصہ محفوظ رہ گیا تھا، مرتب یہ متن، مذکورہ رپورٹ سے اخذ کرکے منظرِ عام پر لے آئے ہیں۔ دیگر اضافے بھی اہم ہیں۔ مرتب نے بعض نگارشات کے ساتھ ذیلی حاشیے بڑھائے ہیں۔ بعض مضامین کے آغاز میں تمہیدی نوٹ بھی درج ہیں۔ بیشتر تحریروں کے ماخذ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ مرتب نے Speeches (دوم) سے منقول مواد کا ماخذ Civil and Military Gazetteبتایا ہے، مگر یہ دعویٰ محلِ نظر ہے۔ کیونکہ مختلف تقاریر و بیانات کے آخر میں اخبار کے متعلقہ شماروں کی تاریخ و صفحات کا حوالہ نہیں دیا گیا۔ مرتب نے شاملو کے مختصر حواشی کو بالعموم برقرار رکھا ہے، البتہ ایک دو جگہ حاشیے اڑا دیے ہیں اور ایک حاشیے (ص۳۲۴) کا اضافہ کیا ہے، جس کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ شاملو کے ہاں McTaggart's Philosophy کے متن میں اشعار کا اصل متن درج ہے، زیر نظر مجموعے میں تین اشعار کو اُن کے انگریزی ترجمے سے بدل دیا گیا ہے۔ بعض مصنّفین کی کتابوں پر اقبال کی تقاریظ بھی مجموعے ۱- راقم الحروف کو یہ نایاب مضمون اقبال میوزیم لاہور سے مکمل صورت میں دستیاب ہوا تھا۔ ملاحظہ کیجیے ضمیمہ نمبر۳۔ میں شامل ہیں، مگر ان کتابوں کے مقامِ اشاعت اور سالِ اشاعت کا کچھ پتا نہیں چلتا۔ یہ معلومات بھی حاشیے میں درج کردی جاتیں، تو بہتر تھا۔۱؎ مرتب کے نزدیک اقبال کے مندرجہ ذیل چار مضامین کا متن تاحال دستیاب نہیں ہوسکا: (1) Islam and Khilafat. (2) Islam as a Social and Political Ideal. (3) Inner Synthesis of Life. (4) Notes on "Qurratul Ain". ہم گذشتہ صفحات میں مقالاتِ اقبال پر بحث کے ضمن میں بتا چکے ہیں کہIslam and Khilafat کے عنوان سے اقبال نے کبھی کوئی مضمون نہیں لکھا اور نہ تقریر کی۔ جس تقریر کا اُردو ترجمہ ’’اسلام اور خلافت‘‘ کے عنوان سے چھپا، اس کا اصل عنوان Political Thought in Islam ہے۔ دوسرے مضمون کا صحیح عنوان Islam as a Moral and Political Ideal ۲؎ ہے اور یہ مضمون زیر نظر مجموعے (ص۲۹ تا ۵۵) میں شامل ہے۔ مرتب کی یہ وضاحت درست نہیں کہ یہ خطبہ ۱۹۱۱ء میں علی گڑھ میں دیا گیا۔ خطبۂ علی گڑھ (۱۹۱۱ئ) کا عنوان The Muslim Communityہے۔ تیسرا مضمون بلاشبہہ زیر نظر مجموعے کی اشاعت (۱۹۶۴ئ) تک دستیاب نہیں ہوا تھا۔ بعد میں لطیف احمد شروانی نے دریافت کرکے، اپنے مجموعے کے تیسرے اڈیشن Speeches (شروانی) میں شامل کرلیا (ص۱۲۸)، البتہ چوتھی تحریر تاحال معدوم ہے۔ متنِ مضامین میں مذکور آیاتِ قرآنی کا متن صحیح نہیں (ص۲۳۶، ۲۳۹)۔ ۱- احمد نواز ملک نے یہی متن فنون کے اقبال نمبر، دسمبر ۱۹۷۷ء میں شائع کرایا ہے۔ انھیں علم نہ ہوسکا کہ تیرہ برس پہلے یہ متن زیر نظر مجموعے میں شائع ہوچکا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ احمد نواز ملک نے اپنے مضمون کے آغاز میں، اس مجموعے (Thoughts) کا ایک اقتباس بھی نقل کیا ہے۔ ۲- ڈاکٹر ایس وائی ہاشمی نے یہ مضمون تعارف ، حواشی اور ضمیمے کے ساتھ مرتب کرکے کتابی صورت میں ۱۹۵۵ء میں لاہور سے شائع کرایا۔ موصوف نے اوّل تو مضمون کے عنوان میں لفظ Moral کو Ethical سے بدل دیا، دوم: متن میں بعض تصرفات کیے،سوم: متن کو طویل اور غیر ضروری حواشی کے شکنجے میں اس طرح جکڑا کہ کتاب ایک گورکھ دھندا بن کر رہ گئی۔ ۱۹۷۷ء میں اس کتاب کی اشاعتِ مکرر ہوئی، لطف یہ کہ تعارفات و حواشی میں یہ ذکر کہیں نہیں ملتا کہ مضمون کب لکھا گیا اور کہاں چھپا؟ تدوین (editing) کی یہ ایک بُری مثال ہے۔ اگرچہ مرتب نے بہت سے مفید حواشی درج کیے ہیں، تاہم کئی مقامات پر تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ مزید توجہ اور محنت سے توضیح طلب امور کی صراحت زیادہ مشکل نہ تھی۔ سب سے پہلے مضمون (ص۳-۲۷) کے حاشیے میں یہ وضاحت ضروری تھی کہ بعد میں اقبال نے ’’الجیلانی‘‘ کو ’’الجیلی‘‘ سے بدل دیا ہے اور مضمون کو قدرے ترمیم کے بعد اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے Development میں شامل کرلیا۔ ص۲۹۷ پر اقبال نے اپنے جس [علی گڑھ] لکچر کا ذکر کیا ہے، مرتب کو حاشیے میں بتانا چاہیے تھا کہ اس لکچر کے بعض حصے زیر نظر مجموعے کے آخر میں شامل ہیں۔ اس کتاب کا دوسرا اڈیشن نو برس بعد ۱۹۷۳ء میں شائع ہوا۔ یہ اڈیشن مشمولات اور ضخامت وغیرہ ہر لحاظ سے طبع اوّل کے مطابق ہے۔ ء SPEECHES AND STATEMENTS OF IQBAL زیر نظر کتاب شاملو کے مجموعے Speeches (دوم) کی مکرر اشاعت ہے، جسے مرتب (اے آر طارق) نے محض اپنے دیباچے کے اضافے کے ساتھ اپنی مرتب (Compiled) کتاب کی حیثیت سے پیش اور شائع کیا ہے۔ اس کے مشمولات کی تعداد اور اُن کی ترتیب بعینہٖ Speeches (دوم) کے مطابق ہے۔ اس اعتبار سے اس مجموعے کی حیثیت ایک تکراری مجموعے کی ہے۔ زیر نظر کتاب کا جواز پیش کرتے ہوئے، مرتب دیباچے میں لکھتے ہیں: Long ago when I saw this book, I did't find its printing and get-up upto the standard of its topic. Therefore, I revised it thoroughly…all the verses of Iqbal in this book were without translation. Now I have translated them into English…and have also given important foot-notes. اس اقتباس کی روشنی میں زیر نظر مجموعے کی تالیف کے دو اسباب ہیں: (۱) شاملو کے مجموعے کی طباعت اور گٹ اپ معیاری نہیں تھی۔ (۲) اس میں اُردو اور فارسی اشعار کا ترجمہ نہیں دیا گیا تھا۔ دونوں ’’دلائل‘‘ نہ صرف کمزور اور بودے ہیں، بلکہ مضحکہ خیز بھی ہیں۔ اگر ایسے ہی ’’دلائل‘‘ کو سرقے کے لیے وجہِ ’’جواز‘‘ تسلیم کرلیا جائے، تو پھر دنیا کے معروف مصنّفین کی بیشتر تصانیف، جو شخص چاہے اپنے نام سے چھاپ سکتا ہے، کیونکہ ’’معیاری طباعت‘‘ تو ایک اضافی بات ہے۔ پھر دل چسپ بات یہ ہے کہ ’’مرتب‘‘ نے اس مجموعے پر Copy-rights Reserved کے الفاظ لکھنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ جہاں تک مرتب کے important footnotesکا تعلق ہے، ان کا اضافہ صفحات ۲۱۶، ۲۲۹، ۲۳۰، ۲۳۳ اور ۲۴۶ پر کیا گیا ہے۔ حواشی کی ان سطور کی مجموعی تعداد صرف اٹھارہ بنتی ہے۔ بقیہ تمام نوٹ شاملو کے ہیں، مگر دونوں کے درمیان کوئی تفریق قائم رکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ اس وجہ سے، جب تک شاملو کا مجموعہ اور زیر نظر مجموعہ دونوں سامنے نہ ہوں، ظاہری تاثر یہی ہوتا ہے کہ سارے حواشی اے آر طارق نے شامل کیے ہیں۔ ص۲۳۹ پر قرآنی آیت کا ایک حصہ: وَھُمْ بِالاٰخِرَۃِ ھُمْ کٰفِرُوْن اصل متن میں شامل نہیں، اے آر طارق نے اپنی طرف سے بڑھایا ہے۔ ژ MEMENTOS OF IQBAL رحیم بخش شاہین کے مرتبہ زیر نظر مجموعے پر سال اشاعت درج نہیں، تاہم کتاب کے تعارف میں مرتب نے بتایا ہے کہ میرا اُردو مجموعہ اوراقِ گم گشتہ ۱؎ زیر طباعت ہے۔ مزید برآں زیر نظر مجموعے کا پورا لوازمہ پہلی بار Islamic Education کے شمارہ جنوری، فروری ۱۹۷۵ء میں شائع ہوا۔ اس اعتبار سے اس مجموعے کا سال اشاعت ۱۹۷۵ء بنتا ہے۔ مرتب نے تمہیدی سطور میں بتایا ہے کہ سوانح اقبال کے لیے لوازمے کی تلاش کے دوران میں، انھیں اقبال کی بعض ایسی اہم تحریریں دستیاب ہوئیں، جو کسی سابقہ انگریزی مجموعے میں شامل نہ تھیں، انھیں زیر نظر مجموعے کی صورت میں مرتب و مدوّن کیا جارہا ہے۔ یہ خالصتاً نثرِِ اقبال کا مجموعہ نہیں، بلکہ اس کا ایک تہائی حصہ، اقبال کے بارے میں مختلف اہلِ قلم کے مضامین پر مشتمل ہے۔ مجموعہ تین حصوں میں منقسم ہے: (۱) حصہ اوّل: اس حصے کو ’’مضامین و بیانات‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے، مگر اس میں مختلف النوع تحریریں شامل ہیں۔ دو مضامین، چار تقاریر، دو انٹرویو، ایک پیغامِ تعزیت اور ایک مشترکہ اپیل- بیشتر تحریریں لاہور کے انگریزی ہفت روزہ Light کے پرانے شماروں سے اخذ کی گئی ہیں۔ اقبال کی اصل تقاریر اُردو میں تھیں، اس لحاظ سے اس مجموعے میں شامل انگریزی متن کو، تراجم کہنا درست ہوگا۔ چار میں سے دو تقاریر کا اصل متن گفتارِ اقبال (ص۱۱۶،۱۴۲) میں موجود ہے۔ (۲) حصہ دوم: ’’خطوط‘‘ کے زیر عنوان آٹھ خطوط کے ساتھ ڈاکٹر تاثیر کے لیے ایک توصیفی ۱- یہ مجموعہ اپریل ۱۹۷۵ء میں شائع ہوا تھا۔ سند بھی شامل ہے۔ یہ تمام مکاتیب بعد ازاں خطوطِ اقبال (۱۹۷۶ئ) میں اور پھر Letters of Iqbal (۱۹۷۷ئ) میں شامل کرلیے گئے۔ (۳) حصہ سوم: گیارہ متفرق نثر پاروں میں سے صرف دو نگارشات (ایک تحریر اور ایک بیان) اقبال کی ہیں۔ بقیہ مضامین دیگر اہلِ قلم کے ہیں، جن میں اقبال کی شخصیت اور سوانح سے متعلق بعض پہلوؤں پر مفید روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس تفصیل سے ظاہر ہے کہ مرتب نے جو تین عنوانات قائم کیے ہیں، مشمولات کی تقسیم میں اُن کی پابندی نہیں کی گئی۔ حصہ اوّل میں مضامین و بیانات کے علاوہ دیگر نوعیت کی تحریریں بھی شامل ہیں۔ پھر ایک بیان (ص۵۹) متفرقات کے ذیل میں دیا گیا ہے، حالانکہ اسے حصہ اوّل میں آنا چاہیے تھا۔ حصۂ مکاتیب کے ساتھ ایک توصیفی سند بھی منسلک کردی گئی ہے۔ اس مجموعے میں اغلاط کی کثرت ہے۔ چھے صفحات پر مشتمل غلط نامے میں تعداد اغلاط ۲۱۸ ہے۔ کل نثر پاروں کی تعداد اکیس ہے۔ مرتب نے ہر پارے کے آغاز میں مختصر تعارفی نوٹ دیا ہے، جس میں سیاق و سباق کے علاوہ حوالہ بھی درج کردیا گیا ہے… یہ مجموعہ سلسلہ باقیاتِ نثرِِ اقبال میں ایک مفید اضافہ ہے مگر یہ مجموعہ دوبارہ کبھی نہیں شائع ہوسکا۔ ژ DISCOURSES OF IQBAL شاہد حسین رزاقی کا مرتّبہ یہ مجموعہ ۱۹۷۹ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے کے آغاز میں، مرتب کے نام قائداعظم محمد علی جناح کے ایک خط محررہ ۹؍اگست ۱۹۴۱ء کا عکس دیا گیا ہے، جس میں اُنھوں نے علامہ اقبال کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ قائد اعظم نے حضرتِ علامہ کے بارے میں اپنے یہ تاثرات، رزاقی صاحب کی درخواست پر انھیں لکھ بھیجے تھے۔ مرتب نے دیباچے میں بتایا ہے کہ اقبال کی اُردو اور انگریزی تحریریں جمع کرنے کا کام، اُنھوں نے ۱۹۴۱ء میں، اس وقت شروع کیا، جب وہ حیدرآباد دکن میں مقیم تھے اور اس کام میں اُنھوں نے بہادر یار جنگ اور حسرت موہانی سے بھی مدد حاصل کی۔ ۱۹۴۶ء میں علامہ اقبال کی اُردو اور انگریزی تحریروں کا ایک ایک مجموعہ اشاعت کے لیے تیار ہوگیا، مگر ۱۹۴۷ء کے پُر آشوب حالات اور بعدازاں دکن سے پاکستان ہجرت کے سبب مسوّدات ضائع ہوگئے۔ مرتب بتاتے ہیں کہ اُنھوں نے ہمت نہ ہاری اور اقبال کی تحریروں کو دوبارہ جمع کرنا شروع کردیا، یہاں تک کہ انگریزی تحریروں کا مسوّدہ ۱۹۶۰ء کے لگ بھگ ایک بار پھر اشاعت کے لیے تیار ہوگیا، لیکن بخت کی نارسائی دیکھیے کہ اس بار ناشر [غالباً اقبال اکادمی پاکستان، جس کے ناظم، اس وقت سیّد عبدالواحد معینی تھے کے تساہل اور عدم تعاون کی بنا پر کئی برس تک اس کی اشاعت کی نوبت نہ آسکی۔ بڑی مشکل سے پانچ سال بعد، مرتب مسوّدہ واپس لینے میں کامیاب ہوئے اور اب اسے شائع کردیا ہے۔۱؎ زیر نظر مجموعے میں علامہ اقبال کی ۳۳ انگریزی تحریریں، تقاریر اور بیانات شامل ہیں۔ ایک تحریر کے علاوہ، یہ تمام تحریریں Thoughtsاور Speeches (شروانی) میں بھی موجود ہیں۔ گویا یہ بھی ایک تکراری مجموعہ ہے۔ دیباچے میں کوئی ایسا قرینہ نہیں، جس سے اندازہ ہوسکے کہ وہ لطیف احمد شروانی یا سیّد عبدالواحد کے مرتبہ مجموعوں سے باخبر ہیں اور یہ بات باعثِ تعجب ہے، لکھتے ہیں: no serious effort has yet been made to compile, edit and publish a complete collection of his treatises, both in English and Urdu. ۲؎ آگے چل کر کہتے ہیں: The present collection is being published with the object that Allama Iqbal's prose writings may be brought before the public in a suitable book-form. ۳؎ گویا وہ نثرِِ اقبال کے سابقہ مجموعوں ۴؎ سے واقعی بے خبر ہیں۔ مرتب کے مطابق، اُنھوں نے اقبال کی مختلف تحریریں اوّلین منابع سے حاصل کی ہیں۔ اُنھوں نے حسبِ موقع ان کے حوالے بھی دیے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا، اس مجموعے کی ایک تحریر Basic Philosophy of Asrar-i-Khudi (ص۱۸۳ تا۱۸۸) ایسی ہے، جو نثرِِ اقبال کے کسی مجموعے میں شامل نہیں ہے۔ یہ تحریر، ڈاکٹر نکلسن کو لکھے جانے والے ایک نوٹ پر مبنی ہے اور حیدرآباد دکن کے مجلہ میزان سے اخذ کی گئی ہے۔ ہر تحریر کے آغاز میں توضیحی اشارات دیے گئے ہیں، جس سے اس کا سیاق و سباق واضح ہوتا ہے۔ ۱- معنی خیز امر ہے کہ اسی اثنا (۱۹۶۳ئ) میں سیّد عبدالواحد [معینی] کا مرتبہ مجموعہ Thoughts شائع ہوگیا۔ ۲- Discourses of Iqbal: صxv۔ ۳- ایضاً: صxvii۔ ۴- (الف) Speeches (شروانی)۔ (ب) Thoughts (ج) Speeches (طارق)۔ ۱۹۴۶ء ہی میں (جب ان تحریروں کو پہلی مرتبہ جمع کیا گیا تھا) یہ مجموعہ چھپ کر سامنے آجاتا، تو یقینا مرتب کے لیے یہ اعزاز ہوتا، مگر شومیِ قسمت سے ایسا نہ ہوسکا۔ موجودہ صورتِ حال میں، کہ نثرِِاقبال کے متعدد مجموعے شائع ہوچکے ہیں، زیر نظر مجموعے کو Thoughts، Speeches (شروانی) اور Speeches (طارق) کی تکرار ہی کہا جاسکتا ہے۔ ۲۰۰۳ء میں اقبال اکادمی پاکستان نے اس کا دوسرا اڈیشن شائع کیا، اس میں : اوّل: طبع اوّل کی ۳۳ تحریروں پر ایک مضمون Bedil in the Light of Bergson کا اضافہ کیا گیا ہے جسے ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب نے اقبال میوزیم سے دریافت کرکے ۱۹۸۸ء میں شائع کیا تھا۔ (اس کا تفصیلی ذکر آئندہ صفحات میں آرہا ہے۔) رزاقی صاحب نے تحسین فراقی کا مدوّنہ مضمون جوں کا توں (حواشی و تعلیقات سمیت)، شاملِ کتاب کیا ہے۔ دوم: خطبۂ علی گڑھ (The Muslim Community) کی دریافت کا ذکر گذشتہ اوراق میں آچکا ہے۔ زیربحث مجموعے کے طبع اوّل میں Islam's Peculiar Conception of Nationalism کے زیر عنوان، خطبۂ علی گڑھ کے بعض اقتباسات شامل تھے، اب انھیں خارج کرکے مذکورہ خطبہ مکمل صورت میں شاملِ کتاب کیا گیا ہے۔ (اس کا صحیح تر متن زیرنظر کتاب کے ضمیمہ۳ میں دیکھیے۔) ان اضافوں کے باوجود Discourses کے اس اڈیشن کی حیثیت بھی ایک تکراری مجموعے ہی کی ہے۔ ژ STRAY REFLECTIONS ایک شاعر اور مفکر کی حیثیت سے علامہ اقبال کا ذہن اور ان کا فکر مسلسل ارتقا پذیر رہا۔ فکری ارتقا کی ایک دل آویز جھلک تو ان کی شاعری میں ملتی ہے، مگر ذہنی سرگذشت کا ایک اور پہلو، وہ قلبی تموّجات ہیں، جو شاعری کے پس پردہ، زیریں لہروں کے طور پر موجود رہے۔ شاعری یا نثر میں اقبال نے جو کچھ کہا، اس کے سوا بھی ع: ’’بسے گفتنی ہا کہ ناگفتہ ماند‘‘… کے مصداق، وہ اور بھی بہت کچھ کہنا چاہتے تھے، اس کا اندازہ مکاتیب کے چند اقتباسات سے ہوگا: ۱۰؍اکتوبر ۱۹۱۹ئ: ’’میں اپنے دل و دماغ کی سرگذشت بھی مختصر طور پر لکھنا چاہتا ہوں اور یہ سرگذشت کلام پر روشنی ڈالنے کے لیے نہایت ضروری ہے، مجھے یقین ہے کہ جو خیالات اس وقت میرے کلام اور افکار کے متعلق لوگوں کے دلوں میں ہیں، اس تحریر سے اُن میں بہت انقلاب پیدا ہوگا‘‘۔ (بنام سیّد سلیمان ندوی ۱؎) ۱- اقبال نامہ، اوّل: ص۱۰۹ ۲۷؍نومبر ۱۹۱۹ئ: ’’میری زندگی میں کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں، جو اوروں کے لیے سبق آموز ہوسکے، ہاں خیالات کا تدریجی انقلاب البتہ سبق آموز ہوسکتا ہے، اگر کبھی فرصت ہوگئی تو لکھوں گا‘‘۔ (بنام وحید احمد ۱؎) ۷ستمبر۱۹۲۱ئ: ’’… ایک طویل داستان ہے، کبھی فرصت ہوئی تو اپنے قلب کی تمام سرگذشت قلم بند کروں گا، جس سے مجھے یقین[ہے] بہت لوگوں کو فائدہ ہوگا۔‘‘ (بنام وحید احمد ۲؎) موعودہ سرگذشت تو ضبطِ تحریر میں نہ آسکی، مگر اقبال کی زندگی کے ایک نہایت اہم دور سے متعلق اُن کے چند شذراتِ فکر، ایک ڈائری میں محفوظ ہوگئے۔ باقیاتِ نثر کے مختصر، مگر معنوی لحاظ سے غیرمعمولی اہمیت کے حامل، اس مجموعے کو ڈاکٹر جاوید اقبال نے ۱۹۶۱ء میں شائع کیا۔ چھوٹی تقطیع کی اس بیاض میں کل ایک سو پچیس اندراجات ہیں۔ سرورق کے عکسِ تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے، اقبال نے اس کا نام Stray Thoughts تجویز کیا تھا، بعد میں Thoughts کو Reflections سے تبدیل کردیا۔ آغاز ۷؍اپریل ۱۹۱۰ء کو ہوا اور تمام اندراجات اسی برس ضبطِ تحریر میں آئے۔ مطبوعہ بیاض میں بعض صفحات کے عکسِ تحریر بھی دیے گئے ہیں، جس سے بقول جاوید اقبال ذہنِ اقبال کی توانائی اور خلّاقی کی عکاسی ہوتی ہے۔ یہ شذرات صاف اور واضح تحریر میں ہیں۔ بہت کم مقامات پر ترامیم کی گئی ہیں، اور یہ ترامیم، اقبال کے ذہنی ابداع کی شاہد ہیں۔ کئی برس بعد، اقبال کو ان کی افادیت کا احساس ہوا، تو اُنھوں نے سترہ منتخب شذرات رسالہ New Era (۷؍اپریل ۱۹۱۷ئ) میں شائع کرائے۔ اہم بات یہ ہے کہ اشاعت کے موقع پر ان پر نظرثانی کرکے ان میں متعدد ترامیم کی گئیں۔ ان کی تفصیل یہ ہے: شذرہ نمبر S. Reflections New Era ۵۴ there is a psychological reason.. there are psychological reasons... ۷۸ an element of obscurity and vagueness in poetry; since the vague and the obscure appear.. an element of vagueness in poetry, since the vague appear... ۱۱۲ the Divine thought of creation... His Faust is a... the thougt of Divine creation.. Faust is a... ۱- ایضاً: ص۴۲۶ (اقبال نامہ ، اوّل کے مطابق اس کے مکتوب الیہ عشرت رحمانی ہیں، مگر یہ درست نہیں۔) ۲- انوارِ اقبال: ص۱۷۶ ۱۱۶ poet "Azad" Literary criticism does not necessarily follow the creation of a literature. We find Lessing at the writer 'Azad'... Literary criticism sometimes precedes the creation of a great literature. We find Lessing of the... ۱۲۴ teaches the poet: is the necessary... says the poet, is a necessary... New Eraمیں شائع شدہ شذرات، غالباً پہلے بیاض سے نقل کیے گئے، پھر اُن میں ترامیم کرکے اشاعت کے لیے بھیج دیے گئے، کیونکہ اقبال کے عکسِ تحریر میں ان کی وہی صورت ہے، جو مطبوعہ کتاب میں دی گئی ہے۔ یہ شذرات، اقبال کی ذہنی اور فکری سرگذشت کا ایک اہم ماخذ ہیں۔ یہ امر قابلِ غور ہے کہ عین اسی دور (اپریل ۱۹۱۰ء اور مابعد) میں مکاتیب بنام عطیہ بیگم میں اقبال کا جذباتی ہیجان عروج پر تھا، مگر زیر نظر شذرات میں اقبال کا جذباتی رویہ بہت مدھم، بلکہ قریب قریب معدوم ہے اور فکری رویہ غالب ہے۔ ڈاکٹر افتخارا حمد صدیقی کے خیال میں اس بیاض میں، متذکرہ خطوط کی سی مردہ دلی اور افسردہ ذہنی کہیں نہیں ملتی ۔۱؎ علامہ اقبال نے اس مجموعۂ شذرات کا نام بھی تجویز کیا، نظرِ ثانی میں بعض شذرات میں ترمیم کی، پھر بعض شذرات شائع کردیے، گویا ان کی اشاعت میں افادیت موجود تھی، اس اعتبار سے ان کی اشاعت (گو یہ بہت تاخیر سے ہوئی مگر) بہت ضروری تھی۔ نثرِِ اقبال کے اُن تمام مجموعوں میں، جنھیں مرتّباتِ مابعد (وفاتِ اقبال کے بعد) کی حیثیت حاصل ہے، زیرنظر کتاب اپنی فکری معنویت کی بنا پر ’’بقامتِ کہتر و بقیمت بہتر‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ مکرر اشاعت کے موقع پر یہ اہتمام ضروری ہے کہ؛ اوّل: حواشی میں ان مقامات کی نشان دہی کردی جائے، جہاں اقبال نے بعض الفاظ و عبارات میں ترمیم کی ہے۔ (اس طرح کی ترامیم عکسِ تحریر ۵،۶،۷،۸،۹،۱۰،۱۲ میں موجود ہیں)، مثلاً: عکسِ تحریر ۱۱ میں یہ شذرہ لکھ کر کاٹ دیا گیا: The psychologist swims on the surface and/ but the poet dives into the deep of the human mind. ۲؎ بعد میں اس نے یہ صورت اختیار کی:The psychologist swims, the poet dives. ۳؎ ۱- شذراتِ فکرِ اقبال: ص۳۱ ۲- Stray Reflections: بالمقابل ص۱۳۴ ۳- ایضاً، ص۱۳۷ اگر بعض شذرات کو مکمل طور پر قلم زد کردیا گیا ہو، تو انھیں بھی حواشی میں درج کرنا چاہیے۔ گوئٹے سے اقبال کا فکری اور معنوی ربط و تعلق اقبال کی شاعری کا ایک اہم پہلو ہے، مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اقبال نے Goetheکے ہجے بالعموم غلط (Geothe) لکھے ہیں۔۱؎ ۱۹۶۱ء کا اوّلین اڈیشن ۱۲۵شذرات پر مشتمل تھا۔ ۱۹۸۷ء کے اڈیشن میں ۲۰نئے شذرات کا اضافہ کیا گیا، اگرچہ ان میں سے بعض شذرات کی حیثیت مختصر مضامین کی ہے جو متفرق انگریزی تحریروں کے مجموعے Thoughts and Reflections of Iqbal میں شامل ہیں۔ تیسرے اڈیشن (اقبال اکادمی پاکستان لاہور ۱۹۹۲ئ) میں مزید ایک شذرے کا اضافہ کیا گیا اور اقبال کے دست نوشت شذرات کے عکس بھی شامل کرلیے گئے ہیں۔ یہ اڈیشن نسبتاً بڑی تقطیع پر اور نہایت اہتمام سے شائع کیا گیا ہے مگر اس میں کئی ایک تسامحات راہ پاگئے ہیں، مثلاً: ص۱۵۰ پر ایک اقتباس رہ گیا، ص۱۴۶ پر عربی شعر درست نہیں، اندرونی سرورق پر شذرات کے مرتب (جاوید اقبال) کا نام نہیں آسکا، پہلی دو اشاعتوں میں اقبال کی اسی (۱۹۱۰ئ، یا زمانۂ قریب) کی ایک تصویر شامل تھی، جسے اس اڈیشن میں زمانۂ مابعد (غالباً ۱۹۳۲ء یا ۱۹۳۳ئ) کی تصویر سے بدل دیا گیا ہے۔ پہلی دو اشاعتوں میں شذرات پر نمبرشمار درج تھے جنھیں اس اشاعت میں حذف کردیا گیا ہے۔ اس اڈیشن میں جملہ شذرات کے عکس بھی شامل نہیں ہیں۔ اشاریہ، غالباً طبع دوم کی تقلید میں، صرف اشخاص تک محدود ہے، بایں ہمہ بعض اسما، اشاریے میں نہیں آسکے، مثلاً [عبدالحلیم] شرر (ص۱۵۱)، چارلس اوّل (ص۱۵۸) وغیرہ۔ خرم علی شفیق کا مرتبہ چوتھا اڈیشن ۲۰۰۶ء بھی اقبال اکادمی پاکستان لاہور نے غیر معمولی اہتمام اور حسن طباعت کے اطمینان بخش معیار پر ایک نئے اشاریے کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اقبال کے دست نوشت شذرات کے عکس واضح اور صاف ہیں، اور ان پر نمبرشمار بھی درج ہیں۔ رسالہ The Orient میں شائع شدہ ۱۹۲۵ء کے ۱۰شذرات کا اضافہ کیا گیا ہے، جو افضل حق قرشی کی دریافت ہیں۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کا پیش لفظ بطور ’’پس لفظ‘‘ آخر میں شامل ہے۔ مرتب نے بعض شذرات پر تحقیقی حواشی لکھے ہیں۔ کہتے ہیں: جہاں تک معلوم ہوسکا، بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کوئی شذرہ قدرے مختلف صورت میں کہاں چھپا ہے یا وہ کس مضمون کا حصہ ہے اور اس میں کیا تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ ۱- ایضاً، ص۳۶ اور ۳۷ کے بالمقابل عکسِ تحریر ملاحظہ کیجیے۔ نیز دیکھیے، اشارات بسلسلۂ پیام مشرق ضمیمہ:۲۔ ژ تاریخ تصوف اسرار خودی کی اشاعت (۱۹۱۵ئ) پر فلسفۂ خودی کی مخالفت اور اس کے دفاع میں ایک ایسی بحث (قلمی معرکہ آرائی) کا آغاز ہوا جس میں خود اقبال کو بھی خصوصاً تصوف کے موضوع پر، اپنے موقف کی وضاحت کے لیے متعدد مضامین لکھنے پڑے۔چنانچہ اقبال نے ایک طرف تو خواجہ حسن نظامی کے الزامات کے دفاع میں قلم اٹھایا، دوسری طرف تصوف کی تاریخ لکھنا شروع کی۔ خان نیازالدین خاں کو لکھتے ہیں: ’’تصوف کی تاریخ لکھ رہا ہوں، دو باب لکھ چکا ہوں یعنی منصور حلاج تک۔ پانچ چار باب اور ہوںگے‘‘ (۱۳؍فروری ۱۹۱۶ئ)۔۱؎ چند ماہ بعد سیّد فصیح اللہ کاظمی کو لکھا: ’’تصوف کے متعلق میں خود لکھ رہا ہوں‘‘ (۱۴؍جولائی ۱۹۱۶ئ)۔۲؎ جب حسن نظامی اور اُن کے ہم۔نوائوں سے قلمی معرکہ آرائی ختم ہوئی تو تاریخ تصوف پر اقبال کا قلم بھی رُک گیا۔ تقریباً تین سال بعد اسلم جیراج پوری کو لکھتے ہیں: ’’مَیں نے تاریخ تصوف لکھنی شروع کی تھی، مگر افسوس کہ مسالہ نہ مل سکا اور ایک دو باب لکھ کر رہ گیا‘‘ (۱۷؍مئی ۱۹۱۹)۔۳؎ پھر اقبال نے تاریخ تصوف کے ان دو ابواب کو بھی بھلا دیا۔ علامہ اقبال کے نثری باقیات کا یہ ایک اہم دست نوشت مسوّدہ لمبے عرصے تک کلبۂ فراموشی میں پڑا محفوظ رہا، تاآنکہ اقبال میوزیم کے قیام (۱۹۷۷ئ) پر، بہت سے دوسرے کاغذات اور علامہ اقبال کے قلمی ترکے کے ساتھ یہ بھی میوزیم کی زینت بنا۔ علامہ کی اس نادر تحریر کو جنابِ صابر کلوروی نے ایک مفصل مقدمے اور حواشی و تعلیقات کے ساتھ مرتب و مدوّن کرکے شائع کر دیا۔۴؎ کتاب کے پہلے دو ابواب تو مکمل ہیں مگر بقیہ تین ابواب کسی مربوط تحریر کے بجاے فقط بعض شذرات، اشارات، عربی اقتباسات اور منتخب فارسی اشعار پر مشتمل ہیں۔ ___ تاریخ تصوف کا یہ مسوّدہ، علامہ کے جس وسیع و عمیق مطالعے، ان کی علمیت اور ان کے علمی مزاج کا مظہر ہے، اس کی تدوین ویسی نہیں ہوسکی۔ ___ کلوروی صاحب نے اسے شائع کرنے میں کسی قدر عجلت سے کام لیا۔ خاطر خواہ تدوین کے لیے، اس پر مزید محنت اور وقت صرف کرنے کی ضرورت تھی۔ ۱- مکاتیب بنام نیاز: ص۴۳ ۲- خطوطِ اقبال: ص۱۲۸ ۳- اقبال نامہ، اوّل: ص۵۲ ۴- مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور، ۱۹۸۵ئ۔ مکرر عکسی اشاعت بھی عمل میں آئی۔ ہماری راے میں تاریخ تصوف کو ازسرنو مدوّن کرنا چاہیے لیکن اسے وہی سکالر مدوّن کر سکتا ہے جو عربی اور فارسی کی مناسب سمجھ بوجھ رکھتا ہو، نیز تدوین کے آداب سے بھی بخوبی واقف ہو۔ مسوّدے کی تدوین سے پہلے یہ ضروری ہوگا کہ مدوّن تدوین کے ان اُصولوں اور اس طریقِ کار کی وضاحت کرے، جن کی روشنی میں تاریخ تصوف مدوّن ہوگی۔ یہ بھی مناسب ہوگا کہ کتاب میں اقبال کے پورے قلمی مسوّدے کا عکس بھی شامل کردیا جائے۔ ایک: تو تصوف کا موضوع ، دوسرے: اقبال کی تحریر، غالباً اسی اہمیت کے سبب یہ دوبار پاکستان سے اور دوبار بھارت سے شائع ہوچکی ہے۔۱؎ تاریخ تصوف کی تدوینِ نو اقبالیاتی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ اقبالیات کا تقاضا ہے کہ ایک ناقص تدوین کی باربار اشاعت کے بجاے، ایک معیاری تدوین کی تیاری اور اشاعت کا جلدازجلد اہتمام کیا جائے۔ ژ BEDIL IN THE LIGHT OF BERGSON ۱۹۸۸ء میں ڈاکٹر تحسین فراقی نے عنوانِ بالا سے علامہ اقبال کا ایک اہم انگریزی مضمون ایک تعارفی و تنقیدی مقدمے اور حواشی و تعلیقات کے ساتھ شائع کیا۔۲؎ ۱۹۸۶ء میں مذکورہ مضمون (مع مقدمہ و حواشی) اردو ترجمے کے ساتھ کتابی صورت میں شائع کیا گیا ، اس میں ۳۸صفحات پر مشتمل اقبال کے دست نوشت مسوّدے کی عکسی نقل بھی شامل ہے۔۳؎ اردو حصے کا عنوان ہے: ’’مطالعۂ بیدل، فکر برگساں کی روشنی میں‘‘___ علامہ اقبال کا یہ قیمتی مضمون ڈاکٹر فراقی نے، محمد سہیل عمر کی نشان دہی پر اقبال میوزیم سے حاصل کیا تھا۔۴؎ کتاب کی ترتیب و تدوین کا معیار بھی اطمینان بخش اور لائقِ تحسین ہے۔ فراقی صاحب نے ۱- بھارت سے، پاکستانی طبع اوّل ۱۹۸۵ء کی حسب ذیل عکسی اشاعتیں عمل میں آئیں: (الف) مکتبہ الحسنات رام پور، یوپی، ۱۹۹۹ئ۔ (ب) فرید بک ڈپو دہلی، ۲۰۰۳ئ۔ ۲- Iqbal Review لاہور، اکتوبر تا دسمبر ۱۹۸۶ئ۔ ۳- ناشر: یونی ورسل بکس لاہور، ۱۹۸۸ئ، ۶+۳۸+۴۶ص۔ ۱۹۹۵ء اور ۲۰۰۳ء میں اقبال اکادمی پاکستان لاہور سے اس کی عکسی اشاعتیں عمل میں آئیں۔ اقبال اکادمی نے ۲۰۰۰ء میں اس کا فارسی ترجمہ بھی بعنوان مطالعہ بیدل در پر توِ اندیشہ ھای برگسوں (از علی بیات) شائع کیا ہے۔ ۴- مطالعہ بیدل فکر برگساں کی روشنی میں، ص۵ علامہ کا ایک نہایت مشکل متن بڑی محنت اور دقتِ نظر سے پڑھ کر، مرتب کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’اصل انگریزی مسوّدے میں نہ صرف ہجوں کی چند غلطیاں نظر آتی ہیں بلکہ چند الفاظ بھی درج ہونے سے رہ گئے ہیں… میں نے ان چند تسامحات اور فروگذاشتوں کو دور کر دیا ہے۔‘‘ ہمارے خیال میں یہ ہے، وہ کم سے کم معیار جس پر اقبال کے نثری متون کو مرتب ہونا چاہیے۔ اقبال کا یہ اہم مضمون اردو ترجمے کے ساتھ بطور ایک اُردو کتاب کے، شائع کیا جارہا ہے۔ اصل مضمون انگریزی میں ہے، مگر اس کا بیرونی سرورق، ندراد اب جو انگریزی سرورق اندر دیا گیا ہے، یہی جلد پر بھی دے دیا جاتا فقط بلکہ یہ نہایت ضروری تھا کیوں کہ اصلاً تو یہ علامہ کی انگریزی کتاب ہے ترجمہ تو ثانوی چیز ہے۔ یہ کچھ عجیب سا لگتا ہے کہ اصل ٹائٹل غائب اور ترجمے کا ٹائٹل موجود۔ ہماری تجویز ہے کہ صرف انگریزی حصے پر مشتمل ایک علاحدہ نسخہ بھی شائع کیا جائے۔ اردو سے نابلد، دنیا بھر کے وسیع تر انگریزی خواں طبقے کے لیے، موجودہ اردو حصے کے ۶۰ صفحات قطعی اضافی (اور ایک بوجھ) ہیں۔ ئ……ئ……ء (ج) متفرق نثرپاروں کی تدوینِ نو ویسے تو ہر قلم کار کے لیے، اپنی تخلیقات کے مسوّدات یا ان کی نقول کو محفوظ رکھنے کا اہتمام ناگزیر ہے، مگر نثرنگار کے مقابلے میں ایک شاعر کے لیے یہ اہتمام نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ علامہ اقبال ’’نزولِ‘‘ اشعار کے موقع پر، اپنا کلام کسی قلمی بیاض میں محفوظ کرلیتے تھے۔ بعد میں حسبِ ضرورت ان قلمی بیاضوں سے منظومات و غزلیات نقل کرکے اخبارات و رسائل میں اشاعت کے لیے بھیج دی جاتی تھیں۔ پھر شعری مجموعوں کی ترتیب و تدوین کے موقع پر بھی یہی بیاضیں، بنیادی ’’ماخذ‘‘ کا کام دیتی تھیں۔ ایک نظم یا غزل کے برعکس مضمون یا مقالے کی نقل تیار کرنا ایک صبر آزما اور نسبتاً مشکل کام ہے۔ علامہ اقبال بنیادی طور پر ایک شاعر تھے اور نثر نویسی ان کے لیے ثانوی حیثیت رکھتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شعری بیاضوں میں اُن کا کلام آج بھی بہ تمام و کمال محفوظ ہے۔ مگر ان کی نثری تحریروں کے اصل مسوّدات تقریباً معدوم ہیں۔ مقالات و مضامین کی نقول اُنھوں نے شاید ہی کبھی، اپنے پاس محفوظ رکھی ہوں۔ یہ اہتمام کسی ادبی معاون کے بغیر ممکن بھی نہ تھا، چنانچہ آج ہم نثرِِ اقبال کی اوّلین مطبوعہ صورت ہی کو، بنیادی متن قرار دینے پر مجبور ہیں۔ اقبال کی شہرت و مقبولیت کے پیشِ نظر، ان کے نثری رشحاتِ فکر بھی بار بار چھاپے جاتے رہے۔ اس نقل در نقل میں ’’حرمتِ متن‘‘ سے بے خبری کے سبب متن میں کئی طرح کی اغلاط راہ پاتی رہیں۔ پھر مدیران و مرتبین کے تصرفات اور خوش نویسوں کی اصلاحات سے متن میں طرح طرح کی تبدیلیاں ہوتی چلی گئیں۔ نتیجہ یہ کہ ایک ایک مضمون میں نہ صرف بیسیوں اغلاط موجود ہیں، بلکہ متعدد تحریروں کا اصل متن بھی ان اصلاحات کا شکار ہوکر مسخ ہوچکا ہے۔ گذشتہ صفحات میں جو جائزے پیش کیے گئے ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ تساہل اور لاپروائی کے نتیجے میں اقبال کے نثری متن میں کئی جگہ اصل مفہوم خبط ہوگیا ہے اور بعض مقامات پر تو معنوی تضاد و تناقص بھی پیدا ہوگیا ہے۔ اقبال کا متنوع نثری ذخیرہ مختلف اُردو اور انگریزی مجموعوں کی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔ ان مجموعوں کے مرتبین نے متن کی صحت و حرمت سے تغافل کے علاوہ، ترتیب و تدوین کے بنیادی اور مسلمہ اُصولوں کو بھی ملحوظ نہیں رکھا۔ اصل تحریریں اور تراجم ایک ہی مجموعے میں یکجا کردیے۔ عام قاری کے لیے دونوں میں تفریق کرنا ممکن نہیں۔ بعض اوقات تو یہی پتا نہیں چلتا کہ اصل تحریر اُردو میں لکھی گئی تھی یا انگریزی میں، پھر ان مجموعوں میں نہ تو موضوعی ترتیب پیشِ نظر رہی اور نہ نگارشات کو نوعی اعتبار سے مدوّن کیا گیا۔ اکثر مجموعوں کی حیثیت ایک ایسے ’’کشکول‘‘ کی ہے، جس میں مقالات، مضامین، شذرات، خطوط، تقاریظ، توصیفی اسناد، تقاریر، خطبات، بیانات اور مصاحبوں وغیرہ کا ایک آمیزہ قارئین کے سامنے پیش کردیا گیا ہے۔ بعض تحریریں اُدھوری، جزوی اور نامکمل ہیں۔ اس وقت اقبال کی (متفرق) اُردو اور انگریزی نثر کے چار چار مجموعے ملتے ہیں، ہر مجموعے میں تکرار ہے۔ کوئی ایک مجموعہ بھی اقبال کے پورے اُردو یا انگریزی نثری ذخیرے کا احاطہ نہیں کرتا، بلکہ یہ سب مجموعے مل کر بھی اقبال کی متفرق نثر کو محیط نہیں۔ اِکّا دُکّا مجموعوں سے قطعِ نظر: بحیثیتِ مجموعی، نثرِِ اقبال کے یہ مجموعے صحتِ متن اور معیارِ تدوین دونوں اعتبار سے ناقص اور غیر معیاری ہیں۔ چنانچہ اقبال کی مستقل تصانیف کی طرح، اُن کے مختلف اور متنوع اُردو اور انگریزی باقیاتِ نثر کی تصحیحِ متن اور بعد ازاں اس متن کی ایک نئی ترتیب و تدوین اقبالیات کا ایک بنیادی تقاضا ہے۔ اقبال کی مستقل تصانیف کی تدوینِ نو کے سلسلے میں چوتھے باب میں راقم نے بعض ضروری نکات کی وضاحت کی تھی۔۱؎ اگرچہ باقیاتِ نثر کی تدوین میں بھی انھیں پیشِ نظر رکھنا ناگزیر ہے، لیکن چند ایسے امور بھی ہیں، جن پر توجہ دیے بغیر نثرِِ اقبال کی تدوینِ نو خاطر خواہ طریقے سے انجام نہیں پاسکتی۔ (۱) معدودے چند تحریروں کے علاوہ، اقبال کی بیشتر نثری تحریروں کے اصل مسوّدات دستیاب نہیں ہیں،۲؎ اس لیے اوّلین مطبوعہ متن ہی کو بنیادی متن قرار دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ سب سے ۱- ملاحظہ کیجیے: باب ۴ (ج)، نکات نمبر(۱) تا(۴) ۲- Islam and Ahmadism کا اصل مسوّدہ نیشنل میوزیم کراچی میں محفوظ ہے۔ The Inner Synthesis of Life کا عکس Speeches (شروانی) (بالمقابل ص۲۸) میں شامل ہے، مگر اقبال کے بہت سے مسوّدات زمانے کی دستبرد کا شکار ہوگئے ہیں۔ ڈاکٹر وحید قریشی نے ایک بار راقم کو بتایا کہ چودھری محمد حسین مرحوم نے ایک بار انھیں بتایا کہ علامہ اقبال کی وفات کے بعد، اُن کے ترکے سے بہت سے کاغذات و مسوّدات، مَیں جاوید منزل سے اپنے دفتر لے گیا اور حفاظت کے خیال سے انھیں ایک الماری میں مقفل (بقیہ آئندہ صفحے پر) پہلے متعلقہ اخبارات و رسائل سے اوّلین مطبوعہ متن کی نقول تیار کرائی جائیں اور کتابت و املا کی اغلاط دور کرکے متن کو درست کیا جائے۔ بعض تقاریر و بیانات بیک وقت کئی اخبارات میں شائع ہوئے، ایک ہی تقریر یا بیان کی جملہ رپورٹیں (مختلف اخبارات کے متون) جمع کرکے ایک جامع متن تیار کیا جائے۔ (۲) انگریزی اور اُردو نثر کے الگ الگ مجموعوں میں جملہ نثری ذخیرے کو نوعی حیثیت سے علاحدہ حصوں میں یکجا کیا جائے، مثلاً: (الف) مضامین و مقالات (ب) خطوط (ج)تقاریر و خطبات (د) اخباری بیانات (ہ)مصاحبے (و) مشترکہ اپیلیں (ز) تقاریظ و آرا (ح) متفرقات۔ داخلی طور پر ہر حصے میں زمانی ترتیب ملحوظ رہنی چاہیے۔ (۳) ہر تحریر کے تعارفی نوٹ میں متعلقہ تحریر کا پس منظر اور سیاق و سباق واضح کیا جائے، تاکہ قارئین کے لیے متن کی تفہیم آسان ہو اور تحریر کی معنویت بھی اُجاگر ہوسکے۔ اس سلسلے میں اقبال کی سوانح عمریوں اور کتبِ ملفوظات کے علاوہ ہم عصر اخبارات کی فائلوں سے مدد مل سکتی ہے، مثلاً اُن کے مضمون Islam and Ahmadism کا پس منظر، تاریخِ تحریر، تیاری اور اشاعت کی تفصیل خواجہ عبدالوحید اور نذیر نیازی کی مہیا کردہ معلومات (نقوش اقبال نمبر ۲، ۱۹۷۷ئ: ص۳۹۳ تا۳۹۴ اور مکتوباتِ اقبال: ص۳۰۵ تا۳۱۸) میں موجود ہیں۔ Qadianis and Orthodox Muslims کا پس منظر عبدالرشید طارق نے واضح کیا ہے۔۱؎ (۴) مختصر تعلیقات کے ذریعے متن کے تشریح طلب نکات کی وضاحت بھی ضروری ہے۔ اس کی دو صورتیں ہیں، اوّل: پاورقی حواشی کے ذریعے۔ دوم: ہر تحریر کے بعد اُس سے متعلق یکجا تعلیقات۔ قاری کے لیے اوّلین صورت زیادہ موزوں رہتی ہے۔ (۵) انگریزی اور اُردو دونوں جلدوں میں ایک مفصل موضوعی اشاریے کا اہتمام اشد ضروری ہے تاکہ اقبال پر کام کرنے والوں کے لیے ایک ہی موضوع پر مختلف مضامین، خطوط اور تقاریر میں (بقیہ گذشتہ صفحہ)کردیا، کچھ عرصے بعد الماری کھولی تو انھیں دیمک چاٹ گئی تھی۔ اس کی تصدیق میاں عبدالمجید نے بھی کی ہے جو چودھری محمد حسین کے دفتر میں، ان کے ساتھ کام کرتے تھے۔ (دیکھیے: مضمون ’’اقبال اور چودھری محمد حسین‘‘ مطبوعہ: قومی ڈائجسٹ، نومبر ۱۹۷۸ئ، ص۵۸ تا ۱۲۸)۔ ۱- ملفوظات: ص۲۲۰ بکھرے ہوئے نکات تک رسائی اور رجوع میں آسانی ہو، بلکہ اگر صفحے کے پایانِ دامن میں تقابلی حوالوں کے طور پر، متعلقہ موضوع پر اہم کتب و مقالات کی نشان دہی بھی کردی جائے، تو یہ ان مجوزہ مجموعوں کی اضافی خوبی ہوگی۔ اقبال کا بیشتر نثری ذخیرہ متذکرہ بالا مجموعوں میں مدوّن ہوچکا ہے، مگر یہ مجموعے اقبال کی اُردو اور انگریزی تحریروں کا کلی احاطہ نہیں کرتے۔ بہت سی مکمل و نامکمل تقاریر، مصاحبے اور متفرق تحریریں رسائل و کتب میں بکھری ہوئی ہیں۔ بشیر احمد ڈار کے مرتبہ مجموعے Letters میں اقبال کے دو مصاحبے، دو تقاریر اور چار مختصر اور طویل تحریریں بھی شامل ہیں۔ صحیفہ اقبال نمبر اوّل، اکتوبر ۱۹۷۳ء میں افضل حق قرشی، محمد حنیف شاہد اور محمد عبداللہ قریشی کے مضامین میں اقبال کی ایک درجن سے زائد ایسی تحریریں ملتی ہیں، جو کسی نثری مجموعے میں شامل نہیں ہیں۔ اوراقِ گم گشتہ میں بھی اس طرح کی متفرق نگارشات موجود ہیں۔ روزنامہ مغربی پاکستان (۹ نومبر ۱۹۷۷ئ) میں ایم بی گوہری کے لیے اقبال کی ایک سند کا عکس چھپا تھا۔ چند برس قبل محمد حنیف شاہد، اقبال کی مزید چار تحریریں منظر عام پر لائے۔ (اقبال ریویو، لاہور ۱۹۷۸ئ)۔ متذکرہ بالا معلوم اور دستیاب نثری ذخیرے کے علاوہ، اقبال کی مزید نثری تحریروں کی موجودگی خارج از امکان نہیں۔ تقریباً نصف صدی قبل ڈاکٹر جاوید اقبال نے، علامہ اقبال کے ترکے میں ’’خطوط اور غیر مطبوعہ مضامین‘‘ کی موجودگی کی خبر دیتے ہوئے لکھا تھا: My desire is to edit these papers gradually and to publish them. ۱؎ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ایسے Papers کو مدوّن کرکے شائع کیا جائے؟ علامہ اقبال نے ۱۹۰۸ء میں انگلستان سے خواجہ حسن نظامی کو لکھا: انگلستان میں، میں نے اسلامی مذہب و تمدن پر لکچروں کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے، ایک لکچر ہوچکا ہے، دوسرا ’اسلامی تصوف‘ پر فروری کے تیسرے ہفتے میں ہوگا، باقی لکچروں کے معانی [کذا] یہ ہوں گے ’مسلمانوں کا اثر تہذیب یورپ پر‘، ’اسلامی جمہوریت‘، ’اسلام اور عقلِ انسانی‘ وغیرہ۔۲؎ مطبوعہ یا تحریری صورت میں ان لکچروں کا سراغ کہیں نہیں ملتا، مزید برآں زمیندار، انقلاب اور بعض دیگر اخبارات کے پرانے فائلوں میں اقبال کی تقاریر و بیانات کا معتدبہ حصہ غیر مرتب شکل ۱- Stray Reflection: طبع ۱۹۶۱ئ، صxxx ۲- اقبال نامہ، دوم: ص۳۵۸ میں محفوظ ہے۔۱؎ گذشتہ صفحات میں ذکر آچکا ہے کہ علامہ اقبال کے متفرق نثر پارے اُس دور کے بعض اخبارات اور مختلف کتب و جرائد میں بکھرے ہوئے ہیں۔ مزید تلاش و کاوش کی جائے تو اخبارات و جرائد کے پرانے شماروں سے علامہ اقبال کے مزید باقیاتِ نثر دریافت ہونے کی توقع ہے۔ اس طرح کا تمام معلوم و نامعلوم اور بظاہر معدوم لوازمہ اقبالیاتی محققوں اور علما کی توجہ کا منتظر ہے۔ قادیانیوں کے ترجمان الفضل نے ایک بار الزام لگایا تھا کہ قادیانیت پر اقبال کی بعض تحریریں جعلی ہیں۔۲؎ اس طرح کے ’الزامات‘ کی حقیقت واضح کرنے کے لیے، اقبال کے نثری ترکے کو تحقیق کی روشنی میں مرتب و مدوّن کرنا ناگزیر ہے، چنانچہ نثری ذخیرے کو جامع تر بنانے کے لیے نئے لوازمے کی بازیافت، اس کی تحقیقی تدوین اور پھر اس کی معیاری طباعت و اشاعت ازبس ضروری ہے۔ ئ……ئ……ء ۱- گفتارِ اقبال کا مواد زمیندار اور انقلاب کے صرف اُن فائلوں سے اخذ کیا گیا، جو ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان کے کتب خانے میں محفوظ ہیں۔ انوارِ اقبال میں تقاریر و بیانات کی بہت تھوڑی مقدار شامل ہے۔ محمد حمزہ فاروقی نے انقلاب میں شائع شدہ اقبالیاتی لوازمہ دو کتابوں حیاتِ اقبال کے چند مخفی گوشے (بزمِ اقبال لاہور، ۱۹۸۸ئ) اور اقبال کا سیاسی سفر (ایضاً، ۱۹۹۲ئ) کی صورت میں یکجا مرتب کردیا ہے۔ اس میں اقبال کے بعض بیانات اور تقاریر وغیرہ اور ان سے اور اقبالیات سے متعلق بہت سا قیمتی لوازمہ شامل ہے۔ ڈاکٹر اختر النساء نے زمیندار میں مطبوعہ اقبالیاتی لوازمہ اخبارِ مذکور کے فائلوں سے جمع کرکے مدوّن کیا، یہ عنقریب اقبال اکادمی پاکستان سے شائع ہوگا۔ ۲- بحوالہ، نقوش، اقبال نمبر۲،۱۹۷۷ئ: ص۳۹۴ باب:۶ ملفوظات کے مجموعے ز…ز…ز…ز (الف) ملفوظاتِ اقبال گذشتہ ابواب میں علامہ اقبال کی جملہ شعری و نثری تصانیف کے علاوہ ان کے فرمودات و ارشادات پر مشتمل مجموعوں کا جائزہ لیا جاچکا ہے۔ یہ فرمودات بالعموم فی البدیہ تقریروں اور مصاحبوں کی شکل میں ہیں اور اقبال کے سماعی متن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پیشِ نظر حصے میں علامہ اقبال کے سماعی متن کی قدرے مختلف نوعیت زیر بحث آئے گی۔ تقریروں اور مصاحبوں میں تو موضوع، موقع محل اور سیاق و سباق کی حدود کا بہرحال پابند ہونا پڑتا ہے، مگر متعیّن موضوعات سے متعلق ان فرمودات سے الگ، اقبال کے سماعی متن کا ایک اہم اور نمایاں حصہ، اُن گفتگوئوں پر مشتمل ہے، جنھیں نسبتاً بے تکلفانہ ماحول میں اور بلاقیدِ موضوع، آزادانہ اظہارِ خیال کی ایک صورت کہا جاسکتا ہے۔ سماعی متن کی یہ نوعیّت ملفوظات کی ہے۔ سیّد نذیر نیازی لکھتے ہیں: حضرتِ علامہ کے ارشادات کی دنیا وسیع تھی، اتنی وسیع کہ ہم اُن کی خدمت میں حاضر ہیں۔ کوئی بات شروع ہوئی، کیسے؟ اور کہاں سے؟ اس سے غرض نہیں، غرض ہے تو اس سے کہ بات شروع ہوئی۔ ہم نے حضرتِ علامہ کا مزاج پوچھا، یا حضرتِ علامہ نے خود اپنی طبیعت کا حال بیان کیا۔ کوئی استفسار فرمایا، یا کسی امر کی طرف اشارہ ہوا اور بات ہے کہ معمولی سے معمولی مسائل، معمولی سے معمولی واقعات اور حوادث سے پھیلتے پھیلتے، اسلام، عالمِ اسلام، تاریخ، تمدّن، سیاست اور معیشت سب پر چھا گئی۔ انسان و کائنات، علم و عقل، فکر و وجدان، ادب اور فن سب اس کی زد میں ہیں۔ اس پر حضرتِ علامہ کا حسنِ بیان، صاف و سادہ اور دل نشیں الفاظ، فصاحت و بلاغت، برجستگی اور بے ساختگی، توجہ اور التفات، شفقت اور تواضع، خلوص اور دردمندی کہ جو ارشاد ہے، دل میں اُتر رہا ہے؛ جو بات ہے ذہن میں بیٹھ رہی ہے؛ پھر اُن کا انکسارِ علم، شگفتگی اور زندہ دلی کہ اِدعا ہے، نہ تعلّی، نہ غرور، نہ تمکنت؛ متانت بھی ہے، تو ظرافت کی چاشنی سے خالی نہیں؛ ادھر ہم ہیں کہ سراپا ادب، سراپا احترام، حضرتِ علامہ کے ارشادات سن رہے ہیں؛بغیر کسی جھجک کے سوالات کررہے؛ سوالات کا جواب دے رہے ہیں؛ حقائق و معارف کی دنیا سامنے ہے؛ قلب و نظر کے حجاب اٹھ رہے ہیں؛ دل و دماغ کا رنگ نکھر رہا ہے۔ اللہ اکبر! کیا بے تصنّع گفتگوئیں اور کیا بے تکلف صحبتیں تھیں۔۱؎ یہی صحبتیں اور ان صحبتوں میںہونے والی گفتگوئیں، ملفوظاتِ اقبال کا ماخذ و منبع ہیں۔ علامہ اقبال کی صحبتوں سے مستفید و فیض یاب ہونے والوں میں کئی طرح کے لوگ شامل تھے۔ ان کے بعض معاصرین اور بے تکلف دوستوں (شیخ عبدالقادر، مرزا جلال الدین، غلام بھیک نیرنگ وغیرہ) کو اوائل و آغاز ہی سے اقبال کی قربت نصیب ہوئی۔ بعض کو سفر و حضر میں علامہ کی ہم رکابی کا موقع ملا (چودھری محمد حسین، ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی، غلام رسول مہر اور سیّد امجد علی وغیرہ)۔ کچھ اصحاب اقبال کے آخری سالوں میں بالالتزام ان کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے۔ (سیّد نذیر نیازی، خواجہ عبدالوحید، چودھری محمد حسین ، میاں محمد شفیع) تاہم زیادہ تر تعداد ایسے نیازمندوں کی تھی، جو علامہ سے اپنے جذبۂ عقیدت کو تازہ رکھنے کے لیے وقتاً فوقتاً حاضر ہوکر اُن کے ملفوظات سے فیض یاب ہوتے (میاں بشیر احمد، محمد حسین عرشی، غلام رسول مہر، عبدالمجید سالک، حفیظ ہوشیار پوری، حمید احمد خاں، محمد دین تاثیر، عبدالرشید طارق، ایم اسلم اور خواجہ عبدالحمید وغیرہم)۔ مگر یہ سب، وہ لوگ تھے، جو مستقلاً لاہور میں مقیم تھے، بڑی تعداد ان لوگوں کی تھی، جو بیرونِ لاہور یا بیرون ملک سے آتے اور عقیدت و محبت کے انتہائی جذبات کے ساتھ، کشاں کشاں اقبال کے ہاں پہنچتے، بسااوقات گھنٹوں ان کے ارشادات سنتے، اس کے باوجود ایک تشنگی لیے رخصت ہوتے۔ ان میں ہر طرح کے لوگ شامل ہوتے تھے۔ میاں محمد شفیع کے بقول: ’’ڈاکٹر صاحب کے ملاقاتیوں میں موچی گیٹ کے کباب فروش سے لے کر اسلامی ملکوں کے علما اور فضلا اور یورپ کے مستشرقین تک سبھی شامل ہوتے تھے اور ڈاکٹر صاحب ہر ایک سے ان کے ظرف کے مطابق گفتگو فرماتے‘‘ ۔۲؎ علامہ اقبال کی شخصی عظمت میں کلام نہیں۔ اُن کے ارشادات و ملفوظات کی معنویت و افادیت بھی بجا ہے اور ان کی خدمت میں حاضری دینے والوں کے جذبات بھی سچے اور بے پایاں تھے۔ علامہ اقبال کی محفل میں بقول تاثیر: ’’ایسی جہاں افروز گفتگو ہوتی تھی کہ ہر ملاقات میں کئی نئی کتابیں لکھنے کا مواد ہوتا تھا‘‘ ۳؎ مگر اس خیال انگیز گفتگو کو سمجھنا ہر کہ ومہ کے بس کی بات نہ تھی اور جنھیں خدا نے یہ توفیق بخشی تھی، ان میں سے بہت کم ایسے نکلے، جنھیں ان حکیمانہ ملفوظات کو محفوظ کرنے کا خیال ۱- اقبال کے حضور، اوّل: ص’’و‘‘۔ ۲- علامہ اقبال، اپنوں کی نظر میں: ص۱۳۴ ۳- اقبال کا فکر و فن: ص۳۴ آیا ہو اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے ہوں۔ بایں ہمہ ملفوظاتِ اقبال کا اچھا خاصا ذخیرہ تحریری صورت میں منضبط ہوکر محفوظ ہوگیا ہے۔ ملفوظاتِ اقبال کا یہ ذخیرہ اُن کی شاعری اور نثری افکار کا تتمّہ ہے۔ ملفوظات سے بعض منظومات اور تصانیف کے پس منظر پر روشنی پڑتی ہے، بعض اشعار و مضامین کا زمانۂ تحریر متعین اور سیاق و سباق واضح ہوتا ہے،۱؎ اسی طرح ملفوظات میں بعض اشعار و نکات کی تشریح، خود اقبال کی زبانی ملتی ہے، اگرچہ فکرِ اقبال کی شرح و تفسیر سے متعلق ملفوظات کا یہ پہلو خاصا اہم ہے، لیکن فرموداتِ اقبال کی معنویّت کا اس سے بھی زیادہ اہم رُخ یہ ہے کہ اس میں اقبال کی سوانح کے لیے قیمتی خام لوازمہ موجود ہے۔ بہت سے دلچسپ واقعات، اقبال کی زندگی کے مختلف ادوار سے متعلق بعض حالات، نئے پہلو، ان کے عادات و اطوار، تفصیلاتِ سفر، صحت، علاج معالجہ، بیتے ہوئے ایام اور مستقبل کے عزائم، غرض ملفوظات کی مدد سے اقبال کی ایک دل چسپ ’’خود نوشت‘‘ (autobiography) مرتب ہوسکتی ہے۔ خطوط میں بلاشبہہ اقبال کی شخصیت کے بہت سے نئے اور نادر پہلو سامنے آتے ہیں مگر ملفوظات میں شخص اور شخصیت کو، ہم زیادہ قریب سے اور زیادہ گہرائی میں دیکھ سکتے ہیں۔ اُن کا طرزِ فکر، ان کی سوچ اور اُن کے محسوسات کا انداز، اُن کی دردمندی اور اُن کا قلبِ رقیق، یہ سب کچھ ملفوظات میں بہت واضح ہے۔ میاں محمد شفیع بیان کرتے ہیں: گھر میں کام کرنے والی بھنگن… جب صفائی کے لیے جاوید منزل آتی، تو اپنے بیٹے کو، جو جاوید کا ہم عمر تھا، اپنے ساتھ لے آتی۔ جب تک وہ کام میں مصروف رہتی، یہ بچہ جاوید منزل کے صحن میں اِدھر اُدھر کھیلتا رہتا۔ گرمیوں کے موسم میں ایک دن ڈاکٹر صاحب برآمدے میں آرام کرسی ڈال کر آرام کررہے تھے، تو اُن کی نگاہ دفعتاً بھنگن کے بچے پر پڑی، اُسے چند لحظے دیکھنے کے بعد گہری آواز میں فرمانے لگے: ’’میں جب بھی اس بچے کو دیکھتا ہوں، تو میرا دل اضطراب سے پارے کی طرح تڑپ اٹھتا ہے اور میں سوچتا ہوں کہ سماج کی زنجیروں کی وجہ سے یہ بچہ زندگی میں صرف ۱- ملاحظہ کیجیے: (الف) اقبال کے حضور، اوّل: ص۴۹، ۱۵۳ (ب) ملفوظات: ص ۶۸، ۹۶ تا۹۸، ۲۲۰، ۲۲۱ (ج) نقوش اقبال نمبر ۲: ص ۳۹۳، ۳۹۴، ۴۰۶، ۴۴۰ خاکروب بن سکے گا، حالانکہ اس میں اور جاوید میں، جہاں تک انسان ہونے کا تعلق ہے، کوئی فرق نہیں۔ اگر جاوید ذہانت میں اس لڑکے سے کم بھی ہو، تو محض اس وجہ سے کہ وہ میرا بیٹا ہے، اس پر ترقی کے راستے کھلے رہیں گے ۔۱؎ یہ چھوٹا سا واقعہ اور اقبال کے یہ چند جملے، اقبال کے قلبِ حساس کی جیسی ترجمانی کرتے ہیں اور اس میں پوشیدہ انسانی ہمدردی اور درد مندی کا جو جذبہ سامنے لاتے ہیں، اس کی وضاحت و تشریح شاید ایک طویل مقالے میں بھی ممکن نہیں۔ اقبال کی زندگی پر متعدد مضامین اور کتابیں لکھی گئی ہیں، آیندہ بھی بہت کچھ لکھا جائے گا مگر سوانح کی ترتیب و تدوین میں ملفوظات کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں، بلکہ ایک بنیادی ماخذ کی حیثیت سے ملفوظاتِ اقبال کی اہمیت ہمیشہ برقرار رہے گی۔ ذخیرۂ ملفوظات پر مشتمل متعددمستقل کتابوں (اقبال کے حضور از سیّد نذیر نیازی، اقبال کے چند جواہر ریزے از خواجہ عبدالحمید) کے علاوہ ملفوظاتی مضامین کے کئی مجموعے (ملفوظات، مرتب: محمود نظامی، روزگارِ فقیر، اوّل و دوم، مرتب: فقیر سیّد وحید الدین، اقبال کے ہم نشین، مرتب: صابر کلوروی، مجالسِ اقبال، مرتب: جعفر بلوچ) اور بیسیوں اُردو اور انگریزی مضامین شامل ہیں۔ آئندہ صفحات میں ان کا الگ الگ جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔ ئ……ئ……ء ۱- نقوش، اقبال نمبر۲، دسمبر ۱۹۷۷ء ، ص۴۵۶ (ب) ملفوظات کے مجموعے ژ اقبال کے حضور سیّد نذیر نیازی ۱۹۱۸ء میں پہلی بار علامہ اقبال سے ملے، بعد ازاں اٹھارہ برس تک وقتاً فوقتاً اُن کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے۔ ۱۹۳۶ء سے مستقلاً لاہور میں مقیم ہونے پر بالالتزام ملاقات کی صورت پیدا ہوگئی، چنانچہ وہ روزانہ ہی جاوید منزل پہنچ کر، کئی کئی گھنٹے، اقبال کی خدمت میں حاضر رہتے اور اُن کے ارشادات سے مستفید ہوتے۔ نیازی صاحب کا معمول تھا کہ بعد میں ملفوظاتِ اقبال کو اپنی بیاضِ یادداشت میں محفوظ کرلیتے۔ علامہ اقبال کی وفات کے بعد نیازی صاحب نے یہ روزنامچہ مرتب کیا، مگر اس کی اشاعت کئی برس بعد، جولائی ۱۹۷۱ء میں عمل میں آئی۔ بڑی تقطیع اور باریک ٹائپ میں مطبوعہ ملفوظاتِ اقبال کی زیر نظر پہلی جلد، مرتب کے اصل منصوبے کا ایک جزو ہے، جو یکم جنوری سے ۲۱؍مارچ ۱۹۳۸ء تک کے اندراجات پر مشتمل ہے۔ روزنامچے کے باقی حصے ہنوز، تشنۂ تکمیل و طباعت ہیں۔ اس ضمن میں راقم نے ایک بار نیازی صاحب سے استفسار کیا تو انھوں نے جواباً لکھا: اقبال کے حضور (تین یا چار اور حصے) (۱) جاوید منزل میں (۲)۳۶ئ… (۳)۳۷ئ… (۴) ۳۸ء کا دوسرا حصہ، کچھ مرتب، کچھ غیر مرتب پڑا ہے… میں خود ہی ان کی اشاعت کا اہتمام کررہا ہوں،۱؎ مگر یہ حصے، ان کی زندگی میں، نہ وفات ( ۱۹۸۲ء )کے بعد تاحال منظرِ عام پر آسکے۔ اقبال کے حضور (اوّل) جاوید منزل میں پیش آمدہ واقعات، مناظر اور گفتگوؤں کی ایک تحریری فلم ہے۔ نیازی صاحب شب و روز میں خاصی دیر جاوید منزل میں موجود رہتے، اس عرصے میں کون آیا؛ کون گیا؛ کیا گفتگو ہوئی؛ اقبال کی طبیعت، ان کا مزاج، ان کی کیفیاتِ صحت، دواؤں کا استعمال اور ان کا عمل و ردِ عمل… اور سب سے اہم اُن کے استفسارات و ملفوظات اور احباب سے تبادلۂ خیالات۔ نذیر نیازی نے ان گفتگوؤں، خصوصاً علامہ کے ملفوظات کا بہ تمام و کمال اِحصا و اِحاطہ ۱- مکتوب سیّد نذیر نیازی بنام رفیع الدین ہاشمی۔ کرنے کی سعی کی ہے۔ روز نامچے کے ابتدائی اندراجات، جیسا کہ بالعموم ہوتا ہے، مختصر تھے لیکن اقبال کے حضور مرتب کرتے وقت ملفوظات کو بالتفصیل قلم بند کیا گیا۔ ۷؍فروری کا اندراج اس کی واضح مثال ہے۔ روزنامچے کا یہ حصہ، ابتدائی صورت ۱؎ میں صرف چار صفحات پر مشتمل تھا، مگر بحالتِ موجودہ۲؎ اُن چار صفحوں کی تفصیل دس گیارہ صفحوں پر پھیل گئی ہے، تاہم مجمل اور مفصل دونوں تحریروں میں، باعتبار مفہوم کچھ فرق نہیں۔ مرتب نے متنِ ملفوظات سے متعلق، پاورقی حوالوں اور حواشی کا بھی اہتمام کیا ہے۔ یہ حواشی بالعموم مختصر ہیں۔ کتاب کی طباعت جاری تھی کہ مرتب کو بعض یادداشتوں کے نئے اجزادستیاب ہوگئے، اسی طرح بعض بیانات کی تصدیق کسی خارجی ذریعے سے ہوگئی… پھر بعض امور نسبتاً زیادہ تفصیل کے ساتھ وضاحت طلب تھے، مثلاً: مسجد شہید گنج، اوقاف بل، لیگ کا اجلاس لاہور، میثاقِ مدینہ، احمدیت، قادیانیت وغیرہ۔ ’’استدارک‘‘ کے زیر عنوان، کتاب کے آخر میں متن اور حواشی سے متعلق ان امور کی مزید تصریح و توضیح کی گئی ہے۔ ملفوظات کے اس مجموعے سے ارمغانِ حجاز کے بعض اشعار کی حتمی تاریخِ تحریر کا پتا چلتا ہے، مثلاً: ’’حسین احمد‘‘ کے زیر عنوان تین اشعار ۳؎ ۲۸؍جنوری۱۹۳۸ء کو اور اس مجموعے کی آخری نظم ’’حضرتِ انسان‘‘۴؎ ۷؍فروری ۱۹۳۸ء کو کہی گئی۔ اسی طرح ایک رباعی کے پہلے دو مصرعے ابتدا میں اس طرح تھے: ندانی نکتۂ دینِ عرب را کہ گفتی روزِ روشن تیرہ شب را ۲۲؍فروری ۱۹۳۸ء کو نظرِ ثانی میں ترمیم کرکے انھیں اس طرح بنایا گیا: کسے کو پنجہ زد ملک و نسب را نداند نکتۂ دینِ عرب را ژ ملفوظات اس مجموعے کی نوعیت کسی قدر مختلف ہے۔ یہ مسلسل روزنامچے یا محض ملفوظات کے بجاے، پندرہ ایسے مضامین کا مجموعہ ہے، جن میں بعض ملفوظات کے ساتھ، لکھنے والوں نے اپنے مشاہدات ۱- مشمولہ، اقبال نامہ [چراغ حسن حسرت]: ص۹۴ تا ۹۷ ۲- اقبال کے حضور، اوّل: ص۱۵۳ تا ۱۶۳ ۳- کلیاتِ اقبال، اُردو: ص۶۹۱ ۴- ایضاً: ص۶۹۲ اور اقبال کی شخصیت کے بارے میں اپنے تاثراتِ عقیدت کو قلم بند کیا ہے۔ یہ تمام مضامین لاہور کی ایک ادبی انجمن ’’حلقۂ نقد و نظر‘‘ کی مختلف نشستوں میں پڑھے گئے، بعد میں حلقے کے سیکرٹری محمود نظامی نے احبابِ حلقہ کی تجویز پر انھیں کتابی صورت میں مرتب کرکے شائع کیا۔ لکھنے والوں میں سر عبدالقادر، میاں بشیر احمد، محمد حسین عرشی، مرزا جلال الدین، محمد دین تاثیر، حمید احمد خاں، خواجہ عبدالوحید، عابد علی عابد، خضر تمیمی، عبدالواحد ایم اے اور عبدالرشید طارق وغیرہ شامل ہیں۔ سب مضامین، اقبال کی وفات کے بعد قریبی عرصے میں لکھے گئے، چنانچہ غم و اندوہ اور حسرت و محرومی کی ایک کیفیت ان سب تحریروں پر غالب ہے۔ اقبال کی شخصیت اور اُن سے ملاقاتوں کی یادداشتوں سے متعلق مضامین کے جتنے مجموعے اب تک شائع ہوئے ہیں۔ اُن میں ملفوظات کو نہ صرف زمانی اعتبار سے اوّلیت حاصل ہے، بلکہ مشمولہ مضامین کے معیار و استناد اور لوازمے کی نوعیت و اہمیت کے لحاظ سے بھی یہ مجموعہ سب پر فوقیت رکھتا ہے۔ سہل پسند راوی بالعموم قیاسات کی بنیاد پر روایات و ملفوظات کے عظیم الشان قصر تعمیر کردیتے ہیں مگر راویانِ ملفوظات نے اس معاملے میں قیاس یا اٹکل سے اجتناب کیا ہے۔ بعض مضامین کی بنیاد روایت نگاروں (مثلاً میاں بشیر احمد، خواجہ عبدالوحید، عبدالرشید طارق) کی تحریری یادداشتوں پر ہے، تاہم محض حافظے کی مدد سے قلم بند کیے جانے والے ملفوظات کی روایت میں بھی خاصی احتیاط کا ثبوت دیا گیا ہے۔ ملفوظات نگاروں کے احساسِ ذمہ داری کا اندازہ ان کی اس روش سے لگایا جاسکتا ہے: یہ کوشش کی گئی ہے کہ کوئی بات جو اُن [اقبال] کے عقائد کے خلاف ہو، اُن کے ذمے لگانے سے احتراز کیا جائے، رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا اِنَّ نَّسِیْنَا اَوْ اَخْطَأْ۔نَا (محمد حسین عرشی)۔۱؎ سیکڑوں باتیں ہوئیں، لیکن افسوس کہ حافظہ قوی نہ ہونے کی وجہ سے انھیں دماغ میں محفوظ نہیں رکھ سکا اور نہیں چاہتا کہ کوئی ایسی بات لکھوں، جو پوری پوری درست نہ ہو۔ (میاں بشیر احمد)۔۲؎ روایت نگاروں کی احتیاط کا ایک پہلو یہ ہے کہ اگر کسی شخص، کتاب یا چیز کا نام لوحِ ذہن سے محو ہوگیا تو اُنھوں نے اس کے اعتراف میں تامل نہیں کیا۔۳؎ روایت نگاروں نے صحتِ ملفوظات کی خاطر اقبال کے بعض انگریزی الفاظ، تراکیب اور جملے ۱- ملفوظات: ص۵۶ ۲- ایضاً : ص۳۲ ۳- ایضاً: ص۴۲، ۵۴،۵۶،۷۲ جوں کے توُں نقل کیے ہیں، تاکہ فرموداتِ اقبال کا اصل مفہوم واضح ہوسکے۔۱؎ کئی جگہ اقبال کے پنجابی جملے منقول ہیں۔ ملفوظات کا معیارِ کتابت و طباعت مناسب ہے، انگریزی الفاظ ٹائپ میں دیے گئے ہیں۔ کہیں کہیں اغلاطِ کتابت نظر آتی ہیں، مثلاً: صفحہ سطر غلط صحیح ۳۶ ۱۱ کان فکان ۳۹ ۱۰ عَلَی الخَسْ علیٰ خمسٍ ۴۴ ۱۵ زَکَّہَا زکّٰہٰا ۱۱۰ ۱۶ شپیمگر سپینگلر ۱۷۲ ۶ نقصِ قطعی نصِّ قطعی ۱۹۷ ۱۵،۱۷ شنیگر سپینگلر تین مقامات ایسے ہیں جہاں قرآنی آیات غلط نقل ہوئی ہیں: (۱) ص۱۷۴: فیہا لَا لغو ولا تاثیم… قرآن حکیم میں اس نوع کی دو آیات ہیں۔ (الف) لاَ یَسْمَعْونَ فِیْہَا لَغْوًا وَّلاَ تَاْثِیْمًا (الواقعہ: ۲۵) (ب) لاَ یَسْمَعُوْنَ فِیْہَا لَغْوًا وَّلَا کِذَّابًا (النسائ: ۳۵) یہاں سورۃ الواقعہ کی کوئی آیت مراد ہوگی۔ (۲) ص۴۹: آیت کے آخر میں رِزْقًا زائد ہے۔ (البقرہ: ۱۲۶) (۳) ص۵۰: ذَکَرْ بِاَیّامِ اللّٰہ کی صحیح صورت ہے: وَذَکِّرْہُمْ بِاَیَّامِ اللّٰہِ (ابراہیم: ۵) بعض ملفوظات، حیاتِ اقبال کے متعدد مختلف فیہ امور کو واضح کرتے ہیں، مثلاً: خالد نظیر صوفی نے اقبال کی ایک آنکھ ضائع ہونے کو ’’بے بنیاد افواہ‘‘ ۲؎ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ ایک مفروضہ ہے، دراصل اُن کی ’’آنکھ کی بینائی بچپن سے کمزور تھی‘‘۳؎، مگر علامہ اقبال بتاتے ہیںکہ: ’’میری داہنی ۱- ملفوظات: ص۳۱،۱۰۶،۱۰۷،۱۱۹،۱۲۱،۱۲۲،۱۴۳،۱۷۴،۲۰۵،۲۰۶ ۲- اقبال درونِ خانہ [اوّل]: ص۱۹۵ ۳- ایضاً: ص۱۹۴ آنکھ تو شروع سے بیکار تھی… دو سال کی عمر میں میری یہ آنکھ ضائع ہوگئی تھی۔ مجھے اپنے ہوش میں مطلق یاد نہیں کہ یہ آنکھ ٹھیک بھی تھی یا نہیں‘‘ ۔۱؎ تاہم ایک آدھ مقام ایسا ہے، جہاں معلوم ہوتا ہے کہ روایت نگار کو اقبال کا مفہوم سمجھنے میں غلط فہمی ہوئی۔ سیّد الطاف حسن راوی ہیں: کسی نے پوچھا کہ اگر اُردو میں نماز پڑھ لی جائے، تو کیا حرج ہے؟ کہنے لگے: عربی میں نماز بالکل سیدھی سادی ہے، کوئی مشکل الفاظ نہیں، لہٰذا نماز کے اُردو ترجمے کا خیال نہیں پیدا ہونا چاہیے، ویسے اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو میں کہوں گا کہ اُردو میں بھی کوئی حرج نہیں، مجھے یاد ہے میری والدہ صاحبہ عربی الفاظ کا تلفظ صحیح نہ کرسکتی تھیں، لہٰذا میرے والد صاحب انھیں اجازت دیا کرتے تھے کہ وہ بے شک اُردو میں ہی نماز پڑھ لیا کریں۔۲؎ بظاہر یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا کہ والدۂ اقبال، عربی میں نماز ادا نہ کرسکتی ہوں، رہا اُردو میں نماز کا جواز… تو یہ موقف، اقبال کے مندرجہ ذیل بیان سے صریحاً متناقض ہے: My own belief is that the congregational prayer is the prayer conceived as a world institution must necessarily be in Arabic… all the world over. ۳؎ اس کتاب کا دوسرا اڈیشن۴؎ ۱۹۴۹ء میں شائع ہوا… اس کا سائز تبدیل کردیا گیا ہے، مگر اہم تبدیلی مجموعے کے نام کی ہے۔ نیا نام ملفوظاتِ اقبال مجموعے کی نوعیت کو بہتر طور پر واضح کرتا ہے۔ طبع دوم کے آغاز میں ’’دیباچہ طبع ثانی‘‘ (ازپروفیسر حمید احمد خاں) اُردو مضامین ’’حکیم مشرق‘‘ (از محمد حسن قرشی) اور ’’اباجان‘‘ (از جاوید اقبال) کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ص۴۴ اور ۴۹ کی اغلاط کی تصحیح ہوگئی ہے۔ باقی اغلاط بدستور موجود ہیں۔ مزید برآں ایک اور غلطی روپذیر ہوگئی ہے۔ وَالَّذِیْنَ (ص۵۵) کو اِنَّ الَّذِیْنَ بنا دیا گیا ہے، جو درست نہیں۔ ملفوظاتِ اقبالکا تیسرا اڈیشن ۱۹۷۷ء میں ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی نے ’’مرتب‘‘ کرکے شائع کیا۔ اس میں طبع دوم کے متن پر دو طرح کے اضافے کیے گئے۔ اوّل: مفصل حواشی و تعلیقات، دوم: متن میں بعض ملفوظاتی مضامین کا اضافہ۔ ۱- ملفوظات: (روایت حمید احمد خاں) ص۱۱۹-۱۲۰ ۲- ایضاً: ص۱۷۵ ۳- Mementos of Iqbal: ص۶۰ ۴- سالِ طباعت درج نہیں مگر دیباچے کی تاریخِ تحریر ۲۸؍اپریل ۱۹۴۹ء ہے۔ مرتب نے چھبیس صفحات پر مشتمل ’’پیش گفتار‘‘ میں، اس مجموعے کے موضوعات پر بحث کے بعد اقبال کی اُس تصویر کو اُجاگر کیا ہے، جو ان ملفوظات کے پس منظر سے اُبھرتی ہے۔ مرتب کا یہ بیان تصحیح طلب ہے کہ: ’’ملفوظات کا دوسرا اڈیشن پروفیسر حمید احمد خاں صاحب نے مرتب کیا‘‘۔۱؎ پروفیسر موصوف طبع ثانی کے دیباچہ نگار تھے، نہ کہ مرتب۔ دوسرے اڈیشن پر بھی بحیثیت مرتب محمود نظامی ہی کا نام موجود ہے۔ محض دو مضامین کے اضافے کی بنیاد پر حمید احمد خاں کو دوسرے اڈیشن کا مرتب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اُنھوں نے خود یہ دعویٰ نہیں کیا اور نہ اس کا جواز بنتا ہے۔ زیر نظر تیسرے اڈیشن کے اضافوں میں اقبال اور عبدالحق سے مختصر ملفوظات اور روزگارِ فقیر سے بعض منتخب ملفوظات مع حواشی شامل ہیں۔ آخر میں کتابیات اور ایک مفصل اشاریہ دیا گیا ہے۔ اٹھائیس برس بعد، ملفوظاتِ اقبال کی اشاعتِ نو نہ صرف ضروری تھی، بلکہ ہر لحاظ سے مستحسن بھی، مگر ’’ترتیب و تدوین اشاعتِ جدید کی [یہ] خدمت‘‘ ۲؎ جس انداز میں انجام دی گئی ہے، اس کے پیشِ نظر زیر نظر اڈیشن کو ایک معیاری اڈیشن قرار دینا مشکل ہے۔ اس کا بڑا سبب تو یہ ہے کہ مرتب نے اپنی کاوش و محنت کو متنِ کتاب پر مرکوز کرنے کے بجاے ساری توجہ حواشی و تعلیقات پر صرف کی ہے۔ پھر طبع اوّل کے ضمن میں، جن اغلاط کی نشان دہی کی گئی ہے، ص۱۷۲ (طبع اوّل) کی غلطی کے سوا، باقی تمام اغلاط اس اڈیشن میں بھی بدستور موجود ہیں۔ معروف مغربی مصنف سپینگلر کا نام تینوں جگہ غلط ہے۔ (سپینگر، ص۴۲، شینلگر، ص۲۳۶ ور شینگلر، ص۵۲۱) جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ طبع دوم کے متن کو نہ بغور پڑھا گیا اور نہ اس کی تصحیح کی گئی۔ جہاں تک حواشی و تعلیقات کا تعلق ہے، ان کی غیر معمولی طوالت معنی خیز ہے۔ متنِ کتاب ۲۶۲ صفحات پر محیط ہے اور اس کے حواشی ۲۴۹ پر، یعنی متن اور حواشی کی ضخامت میں صرف ۱۳ صفحات کا فرق ہے۔ محمد حسین عرشی کا مضمون ۲۷صفحات کا ہے، مگر تعلیقات ۷۱ صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں۔ سر عبدالقادر کے ۸ صفحات کے مضمون پر ۱۴ صفحات اور میاں بشیر احمد کے ۱۷ صفحات کے مضمون کے توضیح مطالب کے لیے ۵۰ صفحات کے حواشی بڑھائے گئے ہیں۔ حواشی کی اس غیر معمولی طوالت کا سبب یہ ہے کہ مرتب نے بعض پیش پاافتادہ موضوعات کے لیے کئی کئی صفحے وقف کردیے ہیں، مثلاً: مولانا روم: سوا پانچ صفحات (۳۵۹ تا ۳۶۴)، جاوید نامہ: چار صفحات (۳۶۴تا۳۶۸)، ۱- ملفوظاتِ اقبال، طبع سوم: ص۱۲ ۲- ایضاً (پیش گفتار از مرتب): ص۲۵ جمال الدین افغانی: چھ صفحات (۴۰۶ تا ۴۱۲) وعلیٰ ہذا القیاس-حواشی و تعلیقات طویل ہونے کے علاوہ غیر متوازن بھی ہیں۔ بعض شخصیات کا تعارف مختصر (مگر کافی) ہے، مثلاً خواجہ دل محمد چار سطریں (ص۲۹۸)، ارشد گورگانی: سات سطریں (ص۲۹۸)، صوفی تبسم: نو سطریں (ص۴۷۹) سروجنی نائیڈو: چھ سطریں (ص ۳۹۸)، علامہ عبداللہ یوسف علی: آٹھ سطریں (ص۳۹۸)، اس کے برعکس بعض تعارفات بہت طویل (اور غیرضروری) ہیں، مثلاً: گارساں دتاسی: پانچ صفحات (۳۲۷ تا۳۳۲)، مرزا عبدالقادر بیدل: ساڑھے چار صفحات (۳۹۸ تا۴۰۳)، جمال الدین افغانی: چھ صفحات (۴۰۶ تا۴۱۲) وغیرہ۔ اکثر حواشی میں بنیادی معلومات مہیا کرنے کے بجاے تبصرہ و تشریح کا عام انداز اختیار کیا گیا ہے، مثلاً: شخصیات کے تعارف میں تاریخِ ولادت و وفات تک درج نہیں کی گئیں (صفحات ۲۹۵،۳۰۹،۳۹۸ وغیرہ)۔ تدوین کی نمایاں خامی یہ ہے کہ کتاب کے ایک حصے میں، پہلے مکمل متن اور بعد ازاں مکمل حواشی درج کیے گئے ہیں، مگر دوسرے حصے (بعنوان: اضافۂ متن) میں متن اور حواشی کی یہ ترتیب قائم نہیں رکھی گئی، بلکہ متن کے ہر ٹکڑے کے بعد اس پر تعلیقات درج کیے گئے ہیں۔ اس طرح کتاب کے دونوں حصوں میں یکسانیت نہیں رہی اور موجودہ صورت میں کتاب ایک کل معلوم نہیں ہوتی۔ طبع دوم میں جاوید اقبال کا مضمون مکمل صورت میں موجود تھا، زیر نظر اڈیشن میں اُسے متنِ کتاب سے علاحدہ کرکے ’’اضافۂ متن‘‘ کے حصے میں شامل کردیا گیا ہے، مگر تصرف یہ کیا ہے کہ پورا مضمون مکمل اور مربوط صورت میں دینے کے بجاے اس کے بعض حصے الگ الگ ٹکڑوں کی صورت میں دیے ہیں۔ ہر ٹکڑے کے بعد اس سے متعلق تعلیقات درج کیے گئے ہیں۔ ملفوظاتِ اقبال کی پہلی دونوں اشاعتوں پر بطورِ مرتب محمود نظامی کا نام درج ہے، طبع سوم میں بیرونی اور اندرونی سرورق سے ان کا نام حذف کردیا گیا ہے۔ یہ بات ناقابلِ فہم ہے۔ طبع سوم کے مرتب معترف ہیں کہ یہ کوئی نیا مجموعہ نہیں بلکہ ملفوظاتِ اقبال کا نیا اڈیشن ہے۔ کسی مصنف یا مرتب کی کتاب پر حواشی و تعلیقات کے اضافے سے، اس کے اصل مصنف یا مرتب کی حیثیت ساقط نہیں ہوجاتی اور کسی بھی کتاب میں چند اضافے، اس امر کا جواز نہیں بن سکتے کہ اصل مرتب کا نام اُڑا دیا جائے۔ یہ طرزِ عمل، اصل مرتب سے بے انصافی کے مترادف ہے اور اس کی کوئی تعبیر و تاویل نہیں کی جاسکتی۔ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، اُردو ادب میں ایک بڑا نام ہے، مگر ان کی یہ کاوش علمی دیانت کی پامالی کی افسوس ناک مثال اور ناقص تدوین کا ایک عبرت ناک نمونہ ہے۔ ژ اقبال علیہ الرحمۃ کے چند جواہر ریزے پروفیسر خواجہ عبدالحمید نے اقبال سے اپنی ملاقاتوں کی یادداشتوں پر مشتمل ایک طویل مضمون رسالہ معارف ۱؎ میں شائع کرایا تھا۔ بعد ازاں یہ مضمون ۱۹۴۷ء میں لاہور سے ایک کتابچے کی صورت میں شائع ہوا۔ علامہ اقبال سے مصنف کی ملاقاتوں کا سلسلہ نومبر ۱۹۲۰ء سے دسمبر ۱۹۳۷ء تک پھیلا ہوا ہے۔ ویسے تو وہ گاہے گاہے ملاقات کے لیے جایا کرتے تھے، لیکن ۱۹۲۴ء سے ۱۹۲۷ء تک اُنھیں ہر ہفتے بالالتزام حاضری کا موقع ملا۔ اقبال سے مصنف کی یگانگت اور قربت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اُنھوں نے مصنف کو یہ ذمہ داری سونپ رکھی تھی کہ وہ فلسفہ اور جنرل سائنس کے متعلق تازہ اور معیاری کتابوں کا مطالعہ کریں، بعدازاں وہ کتابیں علامہ کی خدمت میں پیش کریں۔۲؎ لکھتے ہیں: ڈاکٹر صاحب کی زبان فیض ترجمان سے جو ہزارہا جواہر ریزے بکھرتے رہے، ان میں سے چند کو (جو مجھے ملے اور جن میں کوئی ایسی بات نہیں، جو کسی کے لیے بارِ خاطر ہو) میں نے یہاں جمع کیا ہے۔ ان میں اُن باتوں کو درج نہیں کیا ہے، جن میں ملی یا سیاسی معاملات پر تفصیلی بحث تھی، یا جن میں فلسفہ یا سائنس کے دقیق مسائل پر بحث تھی۔ ایسی باتوں کو بھی ترک کردیا گیا ہے، جن کا تعلق ذاتیات سے ہے۔ ایسی باتیں بھی نہایت پُر لطف اور سبق آموز ہوتی تھیں لیکن ان کا شائع کرنا مناسب نہیں۔۳؎ گویا زیر نظر کتابچہ، ملفوظاتِ اقبال کا ایک منتخب مجموعہ ہے، جسے مصنف نے ایک خاص معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے مرتب کیا ہے۔ ہمارے خیال میں یہ ان کی غیرضروری احتیاط پسندی تھی۔ کوئی حرج نہ تھا، اگر مرتب موصوف ’’ملی اور سیاسی معاملات‘‘ اور ’’فلسفہ یا سائنس کے دقیق مسائل‘‘ پر علامہ کے ملفوظات بھی شامل کرلیتے۔ زیرنظر ملفوظات و واقعات ۲۸پاروں (ٹکڑوں) میں منقسم ہیں۔ ہر پارہ کسی ایک واقعے یا ایک نشست کی روداد پر مشتمل ہے۔ یہ مجموعہ حیاتِ اقبال کے مختلف ادوار پر محیط ہے۔ ص۱۶ پر ایک مولوی صاحب کا نام مصلحتاً حذف کردیا گیا ہے۔ مرتب نے واقعات و ملفوظات کے بیان میں خاصی احتیاط سے کام لیا ہے۔ اس کی مستند ۱- قسط نمبر۱: معارف، اگست ۱۹۳۸ئ: ص۱۰۱ تا۱۱۳ قسط نمبر ۲: معارف، ستمبر۱۹۳۸ئ: ص۱۶۵ تا۱۸۰ ۲- اقبال کے چند جواہر ریزے: ص۸ ۳- ایضاً: ص۸،۹ حیثیت کے پیش نظر بعض سوانح نگاروں کے کچھ بیانات اس مجموعے سے ماخوذ ہیں۔ علامہ اقبال پر عبدالسلام ندوی کا مرتبہ سوانحی خاکہ ۱؎ زیادہ تر خواجہ عبدالحمید کی روایات ہی پر استوار ہے۔ اس مجموعے کی کتابت و طباعت معیاری نہیں ہے۔ صفحات ۳۱، ۳۹، ۴۱ اور ۴۶ پر اشعار و مصاریع کا قلم غیر ضروری طور پر جلی ہے۔ بایں ہمہ ملفوظاتِ اقبال کے مجموعوں میں یہ مجموعہ قابلِ ذکر ہے۔ اس کے ذریعے حیات اقبال سے متعلق بہت سے ایسے واقعات اور بعض ملفوظات سامنے آتے ہیں، جو اقبال کے سوانحی ذخیرے میں مذکور نہیں ہیں۔ ژ روزگارِ فقیر ،اوّل روزگارِ فقیر کے مرتب فقیر سیّد وحید الدین کے گھرانے سے اقبال کے مراسم بہت پرانے تھے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’اقبال مرحوم سے بچپن میں مجھے ملاقات کا شرف نصیب ہوا اور مرحوم کی وفات تک یہ سعادت مجھے نصیب رہی، جب سے اُن متفرق ملاقاتوں کے تاثرات میں ایک امانت کی طرح اپنے دل میں لیے پھرتا ہوں‘‘۔ ۲؎ زیر نظر مجموعے کی شکل میں یہ امانت اُنھوں نے قارئین کو سونپ دی ہے۔ اس مجموعے پر سال اشاعت درج نہیں، مگر مرتب کے ’’پیش لفظ‘‘ اور فیض احمد فیض کے ’’تعارف‘‘ کی تاریخوں سے اس کا سالِ اشاعت (۱۹۵۰ئ) متعین ہوتا ہے۔ کتابت و طباعت میں غیر معمولی اہتمام برتا گیا ہے۔ آرٹ پیپر پر پہلے ہلکے سبز رنگ کی گراؤنڈ طبع کی گئی، اس پر بلاک کی چھپائی کی گئی۔ روزگارِ فقیر حسنِ صوری کے اعتبار سے ذخیرۂ کتبِ اقبالیات میں سرفہرست قرار دی جاسکتی ہے۔ یہ مجموعہ دو حصوں میں منقسم ہے۔ ’’شرفِ حضور‘‘ (ص۳۳ تا ۱۰۳) میں مرتب نے اقبال سے اپنی نیازمندی کے آغاز، بعد ازاں مختلف ملاقاتوں، خاندانی مراسم، نیز علامہ سے اپنے والد کی ملاقاتوں اور متفرق گفتگوؤں کا ذکر مربوط اور مسلسل انداز میں کیا ہے۔ ’’حرفے زلبش شنیدہ ام من‘‘ کے تحت بعض واقعات اور ملفوظات کو متعدد ضمنی عنوانات کے تحت درج کیا ہے۔ یہ مختصر مجموعہ معنوی اعتبار سے قدر و قیمت کا حامل ہے۔ ۱۹۵۰ء کے بعد سوانح اقبال پر جو کچھ لکھا گیا، اس میں روزگارِ فقیر کی ان یادداشتوں اور ملفوظات کے حوالے بکثرت اور بتکرار ملتے ہیں۔ بظاہر ایسا کوئی قرینہ نہیں، جس کی بنا پر کسی روایت یا واقعے کو مشکوک قرار دیا جاسکے، البتہ ایک ۱- مشمولہ اقبالِ کامل: ص۱ تا۴۲ ۲- روزگارِ فقیر [اوّل]: ص’’و‘‘۔ جگہ مرتب کو التباس ہوا ہے۔ مسجدِ قرطبہ کی زیارت کا واقعہ بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ’’اسی سفر میں وہ اٹلی بھی گئے‘‘ ۔۱؎ یہ درست نہیں ہے۔ سفر ہسپانیہ جنوری ۱۹۳۳ء کا واقعہ ہے، جب کہ مسولینی سے ملاقات دوسری گول میز کانفرنس سے واپسی پر ۱۹۳۲ء میں ہوئی۔ تیرہ برس بعد مرتب نے روزگارِ فقیر کا نیا اڈیشن تیار کیا، جسے بڑی تقطیع پر بلاک سے چھاپا گیا۔ اس میں مندرجہ ذیل اضافے کیے گئے ہیں: (الف) آغاز میں مولانا صلاح الدین احمد کی وہ تحریر جو اُنھوں نے اس مجموعے پر بطور تبصرہ ریڈیو سے نشر کی تھی۔ (ب) شاعر مشرق کی زندگی کے اہم گوشوں سے متعلق بعض ایسے واقعات، جنھیں مرتب نے طبع اوّل کے موقع پر ’’سرسری سمجھ کر نظر انداز کردیا‘‘ ۲؎ تھا۔ (ج) سیّد امجد علی اور یوسف سلیم چشتی کے روایت کردہ واقعات و ملفوظات۔ (د) اقبال کے والدین، شیخ عطا محمد، شیخ اعجاز احمد، مولوی میر حسن اور جاوید اقبال کا مختصر تعارف۔ (ہ) اقبال کی تاریخ پیدائش پر بحث۔ (د) حیاتِ اقبال کی اہم یادداشتیں۔ (ز) متعدد تصاویر کا اضافہ۔ مجموعے کے دو حصے ہیں: (۱) ’’نقشِ اوّل‘‘ (ص۲۷ تا ۷۴) کا متن طبع اوّل کے مطابق ہے۔ صرف اِکا دُکا حواشی ایزاد کیے گئے ہیں۔ (۲) ’’نقشِ ثانی‘‘ (ص۷۵ تا۲۵۶) اضافوں پر مشتمل ہے۔’’ نقش ثانی‘‘ کے بعض امور تصحیح طلب ہیں، مثلاً: (۱) ص۸۱: رموزِ بے خودی کے اس شعر: درمیانِ کارزارِ کفر و دیں ترکشِ ما را خدنگِ آخریں۳؎ کا مشار الیہ، سلطان ٹیپو نہیں بلکہ اورنگ زیب عالمگیر ہے۔ (۲) ص۱۳۰ اور ۲۱۳: مدراس میں صرف تین لکچر دیے گئے تھے، نہ کہ چھے… اس وقت تک حضرتِ علامہ صرف تین لکچر ہی تیار کرسکے تھے۔ ۱- روزگارِ فقیر[اوّل]: ص ۷۵ ۲- ایضاً، نقشِ ثانی، طبع اوّل: ص۹ ۳- کلیاتِ اقبال، فارسی: ص۹۸ (۳) ص۲۴۴:ڈاکٹریٹ کا مقالہ Development ۱۹۰۸ء میں نہیں، بلکہ ۱۹۰۷ء میں مکمل ہوا تھا۔ (۴) ص ۲۴۵: روم کا سفر ۱۹۳۳ء میں نہیں، ۱۹۳۲ء میںہوا۔ سفر ہسپانیہ اور مسولینی سے ملاقات کے متعلق، طبع اوّل کی غلطی اس اڈیشن میں بھی موجود ہے۔ مرتب نے نام لیے بغیر ذکرِ اقبال (از سالک) کی بہت سی واقعاتی غلطیوں کی تصحیح کی ہے۔ اس اڈیشن کی کتابت و طباعت میں بھی، پہلے اڈیشن کا سا اہتمام برتا گیا ہے، قلم نسبتاً خفی ہے۔ صرف ایک مقام پر کتابت کی غلطی نظر آئی۔ص۱۳۶: خصوص الحکم کی جگہ فصوص الحکم ہونا چاہیے۔ ’’نقش ثانی‘‘ (طبع اوّل: اکتوبر ۱۹۶۳ئ) کا یہی نسخہ غیر معمولی مقبولیت کے پیش نظر مزید پانچ بار ۱؎ چھاپا گیا۔ یہ سب اڈیشن بلحاظ کتابت و طباعت اور متن یکساں ہیں۔ ژ روزگارِ فقیر ،دوم نومبر ۱۹۶۴ء میں روزگارِ فقیر کی جلد دوم شائع ہوئی۔ ’’افتتاحیہ‘‘ کے زیر عنوان، مرتب نے اس مجموعے کی ’’شانِ نزول‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا: ’’جب کتاب چھپ کر منظر عام پر آئی، تو احساس ہوا کہ میں اپنی یادداشت میں محفوظ کئی اہم واقعات کو قلم بند نہیں کرسکا اور… بزرگوں کے گنجینۂ معلومات سے بھی بہت سے جواہر ریزے حاصل کیے جاسکتے تھے‘‘ ۲؎ چنانچہ زیر نظر جلد میں بہت سے نئے واقعات و ملفوظات کا اضافہ کیا گیا ہے۔ زیادہ تر روایات ڈاکٹر رحمت اللہ قریشی، ممتاز حسن اور شیخ اعجاز احمد کے حوالے سے بیان ہوئی ہیں۔ دوسرے حصے میں اقبال کا ایسا متروک کلام یکجا کیا گیا ہے، جو باقیاتِ اقبال کے کسی مجموعے میں نہیں ملتا۔ تیسرا حصہ اقبال کی اور اُن کے متعلق ۶۸ تصاویر پر مشتمل ہے۔ جلد دوم کے بعض بیانات اصلاح طلب ہیں، مثلاً: (۱) ص۱۷-۱۸: سرودِ رفتہ کی بحث میں مرتب کو مغالطہ ہوا ہے۔ ارمغانِ حجاز (طبع اوّل تا ہفتم) میں ’’سرور‘‘ ہے نہ کہ ’’سرود‘‘۔ صحیح صورت سرود ۳؎ ہے۔ (۲) ص۴۳: اسرارِ خودی، طبع اوّل کا دیباچہ کئی جگہ چھپ چکا ہے۔ مقالاتِ اقبال (۱۹۶۳ئ) میں بھی شامل ہے۔ ۱- تفصیلی کوائف ضمیمہ ۱ میں ملاحظہ کیجیے۔ (اب اس کتاب کے عکسی اڈیشن متعدد ناشرین نے چھاپ لیے ہیں۔) ۲- روزگارِ فقیر، دوم: ص۹،۱۰ ۳- ملاحظہ کیجیے باب۲: ص۱۸۲ (۳) ص۶۴: علم الاقتصاد پہلی بار نومبر۱۹۰۴ء میں شائع ہوئی تھی۔ (۴) ص۸۰: اقبال کی تمام تصانیف کے جملہ حقوق محفوظ تھے اور اس معاملے میں اقبال کا موقف خاصا سخت تھا ۔۱؎ معلوم ہوتا ہے رحمت اللہ قریشی کو واقعے کی اصل صورت یاد نہیں رہی۔ جلد دوم میں متعدد دستاویزات اور اقبال کے بعض خطوط کے عکس شامل ہیں۔ حسبِ سابق کتابت و طباعت کا غیر معمولی اہتمام کیا گیا ہے، چنانچہ آرٹ پیپر پر طبع شدہ اس مجموعے کا ظاہری پیکر بھی معیاری و مثالی ہے۔ ژ اقبال کے ہم صفیر ایم ایس ناز نے اقبال کے ہم صفیر میں ۲۷اقبالیاتی تحریروں کو ’’علامہ اقبال سے ملاقاتوں کے حوالے سے نایاب تحریریں‘‘ (سرورق) کے طور پر پیش کیا ہے۔ مگر چند ایک کے سوا، نہ یہ ملاقاتوں کی یادداشتیں ہیں، اور نہ ’’نایاب‘‘۔ بلکہ ’’کم یاب‘‘ بھی نہیں ہے۔ مضامین کے آخر میں دیے گئے مآخذ سے ظاہر ہے کہ بعض مضامین تو محمود نظامی کی ملفوظات سے لیے گئے اور کچھ زمانۂ قریب کے اخبارات و رسائل سے (اور یہ مآخذ زیادہ تر ثانوی ہیں)۔ اس اعتبار سے انھیں ’’نایاب تحریریں‘‘ قرار دے کر پیش کرنا مضحکہ خیز ہے۔ اس کی تدوین فقط ’’ایک کاروباری‘‘ ضرورت کے تحت عمل میں لائی گئی ہے۔ مرتب و مدوّن نے اپنی تدوینی قینچی سے بعض مضامین میں قطع و برید بھی کی ہے۔ حمید احمد خاں کے مضمون کا عنوان بھی بدل دیا اور اس کا کچھ حصہ کاٹ دیا۔ میاں بشیر احمد کے مضمون کا عنوان بھی تبدیل کر دیا مگر متنِ مضمون ان کی اصلاح سے محفوظ رہا۔ سر عبدالقادر کے مضمون کا عنوان سلامت مگر متن پر انھوں نے قینچی چلا ہی دی، آخری تحریر کے مصنف کا نام درج نہیں کیا۔ جناب محمود احمد غازی نے ازراہِ دوست نوازی ’’اپنے محترم اور عزیز دوست‘‘ کی اس کاوش کو ’’اقبالیاتی ادب میں ایک وقیع اضافہ‘‘ اور ’’قابلِ اعتماد مصادر میں شمار ہونے کے لائق‘‘ (ص۹) قرار دیا ہے۔ مختصر یہ کہ اقبال کے ہم صفیر ملفوظاتی مجموعے کے طور پر لائقِ اعتنا نہیں بلکہ ایک عمومی مجموعۂ مضامین کے طور پر بھی اس میں تدوینی سلیقہ مندی عنقا ہے۔ ژ اقبال کے ہم نشین پروفیسر صابر کلوروی نے اس مجموعے میں ۴۹چھوٹے بڑے ایسے مضامین جمع کیے ہیں جن ۱- تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے، باب ۱:ص۲۱،۲۲ میں، کہیں کم کہیں زیادہ، اقبال کے ملفوظات بھی شامل ہیں۔ ان مضامین کی نوعیت بھی یکساں نہیں ہے۔ اقبال سے ملاقاتوں کی یادداشتیں، مشاہدات، ملفوظات اور ذاتی تاثرات یعنی اقبال کے جس عقیدت مند نے اُن سے جو سنا، دیکھا اور محسوس کیا، اسے قلم بند کردیا۔ ملاقاتوں کے روداد نویسوں میں بہت سے نام وَر حضرات(چراغ حسن حسرت، اسلم جیراج پوری، ممتاز حسن، شیخ محمد عبداللہ، ڈاکٹر یوسف حسین خاں، پنڈت نہرو، عبدالماجد دریابادی، علامہ محمد اسد اور شورش کاشمیری) کے ساتھ بعض غیرمعروف لوگوں(فضل حمید، اے رزاق، حاجی سردار محمد، سید بادشاہ حسین اور محمد الیاس وغیرہ) کے مضامین بھی شامل ہیں۔ کتاب کے ایک حصے میں آفتاب اقبال، منیرہ اور اقبال کی ہمشیرہ کریم بی بی کے تاثرات یکجا کیے گئے ہیں۔ مؤلف نے مضامین کے انتخاب میں یہ اصول پیش نظر رکھا کہ ’’کوئی ایسی تحریر شامل نہ کی جائے جو… اس نوع کے دیگر مجموعوں [اوراقِ گم گشتہ، اقبال کے ہم صفیر، علامہ اقبال- اپنوں کی نظر میں] میں پہلے سے شامل ہو۔‘‘ (ص۸) ۱؎ بعض تحریروں کی حیثیت دوچار یا پانچ سات سطری مختصر تراشوں کی ہے جن سے ، بعض مضامین کے آخر میں خالی جگہیں پُر کی گئی ہیں مگر ان میں سے بیشتر کا تعلق ملفوظات سے نہیں ہے۔ جناب کلوروی نے یہ مجموعہ بڑی محنت اور سلیقے سے مرتب کیا ہے۔ شیوۂ عمومی یہ ہے کہ رسائل و کتب سے مضامین نقل کرکے یا عکس بنوا کر، ان کی ترتیب لگائی اور اس پر ایک دیباچہ ٹانک کر مضامین کاتب کے حوالے کر دیے۔ ’’تدوین‘‘ مکمل ہے۔ کلوروی صاحب نے اس کے برعکس تمام تحریروں کو پڑھا، اور تشریح طلب اُمور کی تصریح کے لیے، ذیلی حواشی و تعلیقات کا اہتمام کیا۔ حواشی میں انھوں نے بعض تنقیح طلب روایات پر نقد و جرح کرتے ہوئے حقیقی صورتِ حال پیش کی ہے۔ یوں تلاش و جستجو کے ساتھ، اس مجموعے کی تدوین میں، تحقیق و تنقید کا عنصر بھی کارفرما رہا ہے۔۲؎ صفحہ ۱۹۲ پر انھوں نے جانباز مرزا کا یہ اقتباس نقل کیا ہے: شاعر، ہروقت شاعر نہیں ہوتا البتہ عالم خیال میں اس کا گزر ہروقت رہتا ہے اور اس وجہ سے اس سے بعض اوقات عجیب و غریب حرکتیں سرزد ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر اقبال مرحوم کے متعلق ایک واقعہ یہ ہے کہ وہ ایک رات اسی عالم میں باہر سے تشریف لائے اور راستے میں سوچتے آئے کہ جاتے ہی ہاتھ کی ۱- یہ الگ بات ہے کہ اقبال کے ہم صفیر اور علامہ اقبال اپنوں کی نظر میں کے مؤلفین نے اس طرح کے کسی ’’اصول‘‘ کی پابندی کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا۔ ۲- رفیع الدین ہاشمی: دیباچہ اقبال کے ہم نشین ،ص۱۵ چھڑی ایک کونے میں رکھوں گا۔ خود چارپائی پر لیٹ جائوں گا۔ چونکہ آپ اپنے خیال میں محو تھے اور یہ بھی خیال تھا کہ جاتے ہی چھڑی ایک کونے میں رکھ کر خود چارپائی پر لیٹ جائوں گا مگر جونہی آپ کمرے میں داخل ہوئے، چھڑی کو تو چارپائی پر دراز کر دیا اور خود کونے میں کھڑے ہوگئے۔ اتنے میں ڈاکٹر مرحوم کو بھی اپنی بدحواسی کا خیال آیا تو بہت شرمندہ ہوئے۔‘‘ تعجب ہے کہ کلوروی صاحب نے اقبال سے منسوب اس بے بنیاد لطیفے کو جوں کا توں شاملِ کتاب کرلیا اور اس کی تردید نہیں کی۔ اوّل تو یہ واقعہ کہیں کسی کتاب یا رسالے میں مذکور نہیں۔ دوسرے: زبانی کلامی اس کا (غلط ہی سہی) انتساب علی گڑھ یونی ورسٹی کے ڈاکٹر سرضیاء الدین کی طرف کیا جاتا ہے۔ اقبال کی زندگی کے کسی دور میں کوئی ایسی روایت نہیں ملتی کہ علامہ، ایسے ’’گل محمد‘‘ رات کو چھڑی لے کر باہر گھومنے کے لیے نکلتے ہوں۔ واضح طور پر ایسا بے بنیاد واقعہ، کتاب میں شامل کرنا ہی غلط تھا ورنہ کم از کم اس کی تردید ضرور کرنی چاہیے تھی۔ چند ایک معمولی فرو گذاشتیں اور بھی ہیں، مثلاً ص۲۱۹ پر اقتباس کس کا ہے؟ اقتباس کے ساتھ نام نہیں دیا گیا۔ فہرست سے پتا چلتا ہے: جسٹس ایس رحمن کا۔ ص۲۴۴ (نہ کہ ۲۴۱) کا اقتباس ’’پنچ دریا‘‘ کا ہے، مگر فہرست میں غلطی سے ’’سندباد جہازی‘‘ کا نام لکھ دیا ہے۔ ص۱۷۱ پر مسز ڈورس احمد کی اس روایت کی تردید کی ضرورت تھی کہ وفاتِ اقبال کی شب حکیم محمد حسن قرشی، حیدرآباد [دکن] گئے ہوئے تھے۔ ص ۲۶۶ پر مسز ڈورس احمد کو مؤلف نے ڈاکٹر تاثیر کی ایک جرمن نژاد سالی بتایا ہے، جو درست نہیں، وغیرہ۔ مرتب نے آخر میں اسما، اماکن، اخبارات، رسائل، کتب، اداروں، موضوعات اور منظوماتِ اقبال کے اشاریے شامل کرکے مجموعے سے استفادہ کرنے والوں کے لیے سہولت پیدا کردی ہے۔ ژ مجالسِ اقبال ۲۰۰۲ء میں پروفیسر جعفر بلوچ کا مرتبہ ملفوظاتی مجموعہ مجالسِ اقبال شائع ہوا، جس میں اقبال سے ملاقاتوں کی یادداشتوں پر مشتمل۲۱ مضامین جمع کیے گئے ہیں۔ یہ ملفوظاتی سلسلے کی ایک اور کڑی ہے، جس میں بقول مرتب: ’’بیشتر وہ مضامین مرتب کیے گئے ہیں، جو اس سے پہلے سلسلۂ ملفوظات کی کسی کتاب میں مرتب نہیں ہوئے۔‘‘ البتہ ’’دو مضامین ایسے بھی ہیں، جو اس سے پہلے کتابی صورت میں مرتب تو ہوچکے تھے، لیکن وہاں ان کا متن نامکمل یا نادرست چھپا ہے۔‘‘ (ص۸) اہم تر بات تو یہ ہے کہ اوّل: مولف نے متنِ مضامین کی ’’صحت و تکمیل‘‘ پر خاص توجہ دی ہے۔ دوم: ماخذ کا حوالہ دیا ہے۔ سوم: متنِ مضامین پر معلومات افزا حواشی و تعلیقات تحریر کیے ہیں۔ چہارم: مضمون نگاروں کے سوانحی خاکے اور تعارف بھی شامل کتاب کردیے ہیں۔ ان خوبیوں نے مجموعے کو معتبر اور مستند حیثیت دی ہے اور یہ امر مؤلف کی تدوینی سلیقہ مندی پر دال ہے، تاہم ان سے ایک بھاری چوک ہوگئی۔ انھوں نے معروف اقبال شناس ممتاز حسن (م:۱۹۷۴ئ) کا مضمون ترقی پسند نقاد پروفیسر ممتاز حسین (م: ۱۹۹۴) سے منسوب کردیا، حالانکہ داخلی شہادتیں بتا رہی ہیں کہ یہ ممتاز حسین کا مضمون نہیں ہے۔ ۱؎ مثلاً مضمون نگار بتاتے ہیں کہ مَیں نے علامہ کو سب سے پہلے ۱۹۲۵ء میں اسلامیہ کالج لاہور میں دیکھا جب وہ ’’اسلام اور اجتہاد‘‘ پر لیکچر دینے کے لیے آئے اور کچھ عرصے بعد مَیں نے اپنے دوست نیاز محمد خاں کے ساتھ ان کے میکلوڈ روڈ والے مکان پر اُن سے ملاقات کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ممتاز حسین ضلع غازی پور یوپی میں بعمر سات سال زیر تعلیم تھے اور جب علامہ فوت ہوئے تو وہ الٰہ آباد کالج میں بعمر۲۰سال زیر تعلیم تھے، اس لیے مضمون نگار یقینی طور پر یہ ممتاز حسن ہیں، نہ کہ ممتاز حسین۔ ئ……ئ……ء ۱- یہ مضمون شان الحق حقی کے مرتبہ مجموعے مقالاتِ ممتاز میں شامل ہے۔ (ادارہ یادگار غالب، کراچی ۱۹۹۵ئ) (ج) ملفوظات کی تدوینِ نو گذشتہ صفحات میں ملفوظات کے مختلف مجموعوں کا جائزہ لیا گیاہے۔ ان مجموعوں کے علاوہ مختلف جرائد و کتب میں متعدد ایسے مضامین اور مصاحبے موجود ہیں جنھیں تلاش و اخذ کرکے مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ بیسویں صدی کی چند اُردو آپ بیتیوں میں آپ بیتی نگاروں کی اقبال سے ملاقاتوں کا ذکر ملتا ہے۔ ان ملاقاتیوں نے اقبال کے بہت سے ملفوظات بھی نقل کیے ہیں۔۱؎ ملفوظاتِ اقبال کے موجود و دستیاب ذخیرے کو زیادہ معتبر اور مستند حیثیت دینے کے لیے، اس کی نئی ترتیب و تدوین از بس ضروری ہے۔ ملفوظات کا کچھ حصہ مختلف رسائل و جرائد اور متفرق مجموعوں میں منتشر ہے۔ پھر ایک ہی راوی کی مختلف روایات اور تحریریں یکجا نہیں ملتیں۔ مزید برآں روایات و ملفوظات میں کہیں کہیں تضاد و تناقض بھی ملتا ہے۔ بعض اوقات ایک ہی روایت نگار نے دو مختلف روایات بیان کی ہیں۔ کہیں ایک روایت نگار، دوسرے راوی کی تردید کرتا نظر آتا ہے… مثال کے طور پر: (۱) غلام رسول مہر نے اپنے ایک مضمون ۲؎ (’’عظمت موت کے دروازے پر‘‘) میں بتایا ہے کہ اقبال کی وفات کی شب میاں محمد شفیع جاوید منزل میں موجود تھے، راجا حسن اختر نے بھی شب کا بیشتر حصہ وہیں گزارا اور وفات سے نصف گھنٹہ قبل ایک فارسی رباعی۳؎ اقبال کی زبان پر جاری تھی، مگر ڈاکٹر عبدالقیوم ملک نے ان تینوں باتوں کی تردید کی۴؎ ہے۔ مہر صاحب نے ان بیانات کو (جو خود اُن کی اپنی تحریر کی تردید کرتے ہیں) ’’مستند‘‘۵؎ قرار دیا ہے۔ ۱- تفصیل کے لیے دیکھیے: محمد ارشد چودھری کا ایم فل اقبالیات کا تحقیقی مقالہ اُردو آپ بیتیوں میں ذکر اقبال، ۲۰۰۰، علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی، اسلام آباد ۲- اقبال نامہ [حسرت]: ص۵۹ تا ۷۵ ۳- سرودِ رفتہ باز آید کہ ناید…،تا الخ۔ ۴- اقبال درون خانہ: ص۱۷۱، ۱۷۲ (تاہم یہ امر باعثِ تعجب ہے کہ ڈاکٹر عبدالقیوم کا یہ ’’انکشاف‘‘ ۳۳ برسوں (۱۹۳۸ئ-۱۹۷۱ئ) تک کیوں معرضِ التوا میں رہا؟) ۵- اقبال درونِ خانہ[اوّل]طبع ۱۹۷۱ئـ: ص۱۶ (۲) میر عبدالعزیز کُرد کی روایت کے مطابق اقبال نے بتایا کہ ’’میرا بھائی پولیٹیکل ایجنٹ ژوب کے دفتر میں کلرک تھا‘‘،۱؎ مگر ایک مکتوب میں اُنھوں نے شیخ عطا محمد کو ’’سب ڈویژنل آفیسر ملٹری ورکس‘‘۲؎ بتایا ہے۔ یہ اختلاف چنداں اہم نہ سہی، مگر اس سے مختلف روایات کو تحقیق کی روشنی میں دیکھنے اور اُن کی چھان پھٹک کی ضرورت ظاہر ہوتی ہے۔ (۳) سیّد الطاف حسین کے مطابق اقبال نے کہا کہ اُردو میں بھی نماز پڑھ لی جائے تو کوئی حرج نہیں، مگر اقبال کی اپنی ہی ایک تحریر سے اس کی تردید ہوتی ہے۔۳؎ (۴) امتیاز محمد خاں کے مطابق اقبال نے انھیں بتایا تھا کہ پروفیسر آرنلڈ کی کوششوں سے انھیں مسجدِ قرطبہ میں نماز پڑھنے کی اجازت ملی تھی۔۴؎ اس روایت کے خلافِ واقعہ ہونے میں کوئی شبہہ نہیں، کیونکہ آرنلڈ، اقبال کے سفر ہسپانیہ (جنوری ۱۹۳۳ئ) سے پہلے ہی (۱۹۳۰ء میں) فوت ہوچکے تھے۔ (۵) اقبال درون خانہ [اوّل]کے واقعات و ملفوظات، اقبال کے بعض قریبی اعزّہ کی روایات کی بنیاد پر مرتب کیے گئے ہیں، جن کے بارے میں غلام رسول مہر نے لکھا ہے کہ ان ’’سے زیادہ مستند بیان اور کسی کا نہیں ہوسکتا‘‘۔۵؎ مگر اقبال کے برادر زادے شیخ اعجاز احمد نے (جو خود متعدد ملفوظات کے راوی ہیں) نہایت سختی کے ساتھ، اقبال درونِ خانہ کے مندرجات کی تردید کی ہے، لکھتے ہیں: Some of the statements of the book are factually incorrect, some are half truths and some are Arabian Night Tales. If my uncle could somehow know of its contents in his heavenly abode, he would cry out: "Save me from my friends. ۶؎ اس طرح کے تضادات و تناقضات کے پیشِ نظر، ذخیرۂ ملفوظات کا تحقیقی اور تنقیدی محاکمہ ضروری ہے۔ ذخیرۂ ملفوظات جمع کرکے ایک ایک سطر کا جائزہ لیا جائے اور روایات و ملفوظات کا جو حصہ ہر اعتبار سے مستند اور معتبر ہو اور ہر طرح کے داخلی و واقعاتی تضاد سے پاک ہو، اُسے الگ کرلیا جائے، پھر اسے از سر نو مرتب و مدوّن کیا جائے۔ ۱- صحیفہ، اقبال نمبر، اوّل ۱۹۷۳ئ: ص۲۲۵ ۲- اقبال نامہ، اوّل: ص۶ ۳- دیکھیے: اس باب۶ کی دوسری فصل (ب) کے تحت ملفوظات کا جائزہ ۴- اوراقِ گم گشتہ: ص۳۳۳ ۵- اقبال درونِ خانہ[اوّل]، طبع ۱۹۷۱ئ، ص۱۶ ۶- مجلہ اقبال، جنوری ۱۹۷۴ئ: ص۶۶ تدوینِ نو میں، اوّل: روایت نگاروں کا مختصر تعارف،دوم: ماخذات کا حوالہ، سوم: حسبِ موقع مختصر حواشی و تعلیقات شامل کیے جائیں۔ حاشیے میں تقابلی حوالوں کا اہتمام بھی ہوسکے تو اس سے مجوزہ مجموعۂ ملفوظات کی قدر و قیمت اور بڑھ جائے گی۔ مسلمان علما کے ہاں تحقیقِ ملفوظات کی مستحکم علمی روایت موجود ہے، جس کی مدد سے ملفوظاتِ اقبال کی تحقیقی تدوین زیادہ مشکل نہیں۔ ملفوظاتِ اقبال کے متذکرہ بالا مطبوعہ ذخیرے کے علاوہ، حضرتِ علامہ کے ارشادات و فرمودات کا ایک حصہ ایسا بھی ہے، جو ضبطِ تحریر میں نہ آسکا۔ منشی طاہرالدین نے اقبال کو نہایت قریب سے دیکھا، مگر اُن سے کوئی روایت یا ملفوظات منقول نہیں۔ بعض اصحاب، جو ملفوظاتِ اقبال کو صحت کے ساتھ قلم بند کرکے محفوظ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، اس طرف خاطر خواہ توجہ نہ دے سکے، اس کی نمایاں مثال غلام رسول مہر کی ہے۔ اقبال کی وفات کے بعد اُنھوں نے لکھا تھا: اگر حیاتِ مستعار باقی ہے، تو یہ ایک بہت بڑا فرض ہے کہ جو کچھ اپنی آنکھ سے برسوں دیکھا اور اپنے کانوں سے برسوں سنا، اُسے دنیا تک پہنچایا جائے۔ مرحوم کے فیضانِ محبت کی آغوش میں جس دل و دماغ نے بیس بائیس برس عقیدت مندانہ پرورش پائی، اس کے واجبات گراں بہا ہیں اور ان واجبات کی بجا آوری میں تساہل کو راہ نہیں مل سکتی۔۱؎ مگر یہ عزم و ارادہ وقت کے ساتھ ساتھ ماند پڑتا گیا اور بعض متفرق فرمائشی مضامین کے سوا مہر صاحب کچھ نہ لکھ سکے۔ ان کی وفات کے بعد، ان کے بیٹے امجد سلیم علوی نے اقبالیات کے عنوان سے مہر صاحب کی جملہ دستیاب اقبالیاتی تحریریں جمع کرکے شائع کرائی ہیں (۱۹۸۸ئ)۔ اس مجموعے میں چند ملفوظاتی مضامین بھی شامل ہیں۔ پھر ملفوظات کا ایک حصہ وہ ہے جو اقبال کی صحبت سے مستفیض ہونے والے بعض اصحاب نے اپنے روزنامچوں میں قلم بند کرلیا۔ خواجہ عبدالوحید کے روزنامچے کا ایک حصہ شائع ہوچکا ہے،۲؎ ممکن ہے علامہ اقبال سے متعلق، اس میں مزید اندراجات بھی موجود ہوں۔ غلام رسول مہر بھی ایک زمانے میں اپنی یادداشتیں قلم بند کرتے رہے، لکھتے ہیں: رات کو میں اور چودھری محمد حسین ایک دو گھنٹے ضرور حاضرِ خدمت ہوتے، بعض اوقات حضرت مرحوم، علی بخش کو بھیج کر بلالیتے… میں گھر پہنچتا تو …ضروری باتیں نوٹ کرلیتا… گفتگو کی یادداشتوں ۱- اقبال نامہ [حسرت]: ص۵۹، ۶۰ ۲- نقوش، اقبال نمبر ۲: ص۳۸۰ تا۴۲۱ میں بعض اہم مسائل کا ذکر کیا ہے۔ میرا ارادہ ہے یہ مسائل مقالات کی شکل میں مرتب کردوں۔۱؎ مولانا مہر کی متذکرہ بالا یادداشتیں اور ان کے روزنامچے کے اندراجات ہنوز پردۂ خفا میں ہیں… اسی طرح کا ایک روزنامچہ چودھری محمد حسین بھی لکھتے رہے، جس کے بارے میں ڈاکٹر جاوید اقبال کا بیان ہے: ۲۶-۱۹۲۵ء میں چودھری صاحب نے علامہ کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کی یادداشت بھی لکھنی شروع کی تھی۔ اس یادداشت میں دینی، علمی اور ادبی باتوں کے علاوہ بعض باتیں خاصی دل چسپ ہیں۔۲؎ اس کے بعد ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس یادداشت سے ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ چودھری محمد حسین کا یہ روزنامچہ بھی تاحال منصہ شہود پر نہیں آسکا۔۳؎ مناسب تدوین کے بعد، ان روزنامچوں کو شائع کرنے کی اہمیت محتاجِ بیان نہیں۔ حضرتِ علامہ کے ارشادات و فرمودات کا یہ ذخیرہ منتشر حالت میں ہے۔ عمومی مطالعے سے قطع نظر، اس ذخیرے سے علمی استفادہ اسی وقت ممکن ہے، جب اس کا ایک جامع موضوعاتی اشاریہ بھی تیار کیا جائے۔ اس کے بغیر یہ معلوم کرنا خاصا مشکل ہے کہ کسی خاص موضوع کے بارے میں حضرتِ علامہ نے کہاں کہاں اظہارِ خیال کیا ہے اور کسی مخصوص امر سے متعلق اُن کی کوئی راے موجود بھی ہے یا نہیں۔ ملفوظاتِ اقبال کی ترتیب و تدوین، چھان پھٹک کے بغیر نہیں ہونی چاہیے۔ جیسا کہ ہم نے طبع دوم کے دیباچے میں عرض کیا تھا، ملفوظات پر تحقیق کی ایک کوشش طالب حسین اشرف نے کی، مگر تجزیہ و تحقیق میں وہ موضوع کو کماحقّہ اپنی گرفت میں نہیں لے سکے۔ فی الحقیقت تو یہ ایک اعلیٰ درجے (مثلاً: پی ایچ ڈی) کے تحقیقی مقالے کا موضوع ہے۔ ئ……ئ……ء ۱- اوراقِ گم گشتہ: ص۳۴۷،۳۴۸۔ ان کے روزنامچے کے چند اندراجات ان کے محولہ بالا مجموعۂ مضامین اقبالیات میں شامل ہیں۔ ۲- میٔ لالہ فام: ص۱۹۹ ۳- چودھری صاحب کے پوتے ثاقف نفیس نے مذکورہ روزنامچے کے بعض حصے اپنے ایم اے اُردو کے تحقیقی مقالے علامہ اقبال اور چودھری محمد حسین(روابط) میں شامل کیے ہیں۔ باب :۷ اقبال کی مرتبہ۔ّ۔ درسی کتابیں ز…ز…ز…ز (الف) اقبال بحیثیتِ معلّم ایم اے فلسفہ کا امتحان پاس کرنے کے معاً بعد اقبال اورینٹل کالج لاہور میں میکلوڈ عریبک ریڈر مقرر ہوئے، تو دوسرے فرائض کے علاوہ، انٹرمیڈیٹ اور بی او ایل کی جماعتوں کی تدریس بھی انھیں سونپی گئی۔ اس طرح ان کی عملی زندگی کا آغاز بطور ایک معلم ہوا۔ تقریباً پانچ برس تک اورینٹل کالج اور گورنمنٹ کالج لاہور میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ یورپ سے واپسی پر انھیں مزید کچھ عرصے کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کا درس دینا پڑا، مگر ملازمت کی پابندیاں اُن کی افتادِ طبع کے خلاف تھیں، چنانچہ یکم جنوری۱۹۱۱ء ۱؎ کو ملازمت حتمی طور پر ترک کردی۔ درس و تدریس سے اقبال کا باضابطہ تعلق ختم ہوگیا، مگر تعلیم و تعلّم سے اُن کا بالواسطہ رابطہ برقرار رہا۔ وہ پنجاب یونی ورسٹی کے مختلف اداروں کے رکن رہے اور میٹرک، انٹرمیڈیٹ، بی اے، ایم اے (فلسفہ، فارسی، تاریخ) ایل ایل بی اور سول سروس امتحانات کے مرتبِ پرچہ اور ممتحن رہے۔ پہلی بار اُنھوں نے ۱۹۰۰ء میں دسویں جماعت کے لیے فارسی کا پرچہ مرتب کیا تھا۔ یہ سلسلہ وفات تک جاری ۲؎ رہا۔ پنجاب یونی ورسٹی کے علاوہ، بعض دوسری جامعات (الٰہ آباد، علی گڑھ وغیرہ) کے مختلف امتحانوں میں ممتحن کے فرائض بھی انجام دیے۔ علاوہ ازیں ۱۹۱۸ء میں اسلامیہ کالج لاہور کے پروفیسر ہیگ کی اچانک وفات پر، اقبال نے دو ماہ تک ایم اے فلسفہ کے طالب علموں کو درس دیا۔۳؎ تعلیم و تعلّم اور درس و تدریس سے اقبال کی اس وابستگی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اُنھوں نے مختلف جماعتوں کے لیے اُردو اور فارسی کی متعدد کتابیں مرتب کیں، مڈل کی چاروں جماعتوں ۴؎ کے لیے اُردو ۱- A History of Government College, Lahore: ص۱۱۵ ۲- تفصیل کے لیے دیکھیے: محمد حنیف شاہد کا مضمون ’’اقبال بحیثیت ممتحن‘‘ نقوش اقبال نمبراوّل، ستمبر ۱۹۷۷ئ، ص۴۵۴-۴۷۷ ۳- اقبال نامہ، دوم: ص۷۳ ۴- اس زمانے میں اوّل تا چہارم جماعتیں پرائمری درجے میں اور پنجم تا ہشتم جماعتیں مڈل درجے میں شمار ہوتی تھیں۔ کورساور میٹرک کے لیے فارسی کتاب آئینۂ عجم ۔اُردو کورس (چار کتابیں) حکیم احمد شجاع کے اشتراک سے مرتب کی گئیں۔ آئینۂ عجم اقبال نے خود ہی مرتب کی۔ یہ اقبال کی تصانیف نہیں، ان کی تالیفات ہیں، چنانچہ زیر نظر جائزہ مکمل کرنے کے لیے متذکرہ بالا درسی کتابوں پر ایک نظر ڈالنا ناگزیر ہے۔ چھٹی، ساتویں اور آٹھویں جماعتوں کے لیے اُردو کورس کی تین کتابیں ۱۹۲۴ء میں مرتب کی گئیں۔ پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی کی ’’اُردو سب کمیٹی‘‘ کے اجلاس ۱۲؍جنوری ۱۹۲۵ء میں ان الفاظ میں ان کتابوں کی منظوری دی گئی: Urdu course for VI, VII and VIII classes by Dr. Sir Mohammad Iqbal M.A. Ph.D., K.T., and Hakim Ahmad Shuja. (Gulab Chand Kapur and Sons, Lahore) Reported upon by M. Mohammad Said, M.A., Lala Tej Ram, M.A. and the Delhi Branch Sub-Committee. The Sub-Committee decided to recommend the adoption of these books for use in schools, provided that the price of the books are fixed at the rates which the Text-Book Committee books are sold. ۱؎ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ منظوری سے پہلے کتابیں (۱۹۲۴ء میں) طبع کرلی گئی تھیں۔ چونکہ یہ کتابیں نصاب میں شامل تھیں، اس لیے بار بار شائع کی گئیں۔ بالعموم ایک ہزار کی تعداد میں چھاپی جاتی تھیں۔ تینوں کتابوں کے سرورق پر ’’سلسلۂ ادبیہ‘‘ کے الفاظ درج ہیں۔ ان سب میں دیباچے ۲؎ کا متن ایک ہے جس میں ’’سلسلۂ ادبیہ‘‘ کی ان کتابوں کی بعض امتیازی خصوصیات کی طرف قارئین کو متوجہ کیا گیا ہے۔ یہ دیباچہ ’’مؤلفین‘‘ کی طرف سے ہے۔ تاہم یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دیباچہ مکمل طور پر یا اس کا زیادہ تر حصہ اقبال کا تحریر کردہ ہے۔ اس کی تصدیق اقبال کے ایک مضمون ’’بچوں کی تعلیم و تربیت‘‘ ۳؎ سے ہوتی ہے، جو اُنھوں نے اپنی معلمانہ زندگی کے ابتدائی ایام (۱۹۰۱ئ) میں لکھا تھا۔ اس مضمون میں وہ لکھتے ہیں: سچ پوچھیے تو تمام قومی عروج کی جڑ، بچوں کی تعلیم ہے۔ اگر طریقِ تعلیم علمی اُصولوں پر مبنی ہو تو تھوڑے ہی عرصے میں تمام تمدنی شکایات کافور ہوجائیں… انسان کا سب سے پہلا فرض یہ ہے کہ دنیا کے لیے ۱- عکس روداد ٹیکسٹ بک کمیٹی مشمولہ: Iqbal in Pictures۔ ۲- دیباچے کا متن انوارِ اقبال (ص۲۱-۲۴) میں منقول ہے۔ ۳- مخزن جنوری ۱۹۰۲ئ، (مشمولہ: مقالاتِ اقبال ص۱-۹)۔ اس کا وجود زینت کا باعث ہو… اس کے ہر فعل میں ایک قسم کی روشنی ہو، جس کی کرنیں اوروں پر پڑکے، ان کو دیانت داری اور صلح کاری کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا سبق دیں۔ اس کی ہمدردی کا دائرہ دن بدن وسیع ہونا چاہیے، تاکہ اس کے قلب میں وہ وسعت پیدا ہو، جو روح کے آئینے سے تعصبات اور توہمات کے زنگ کو دور کرکے اُسے مجلا و مصفا کردیتی ہے… حقیقی انسانیت یہ ہے کہ انسان کو اپنے فرائض سے پوری پوری آگاہی ہو… کامل انسان بننے کے لیے ضروری ہے کہ ہر انسانی بچے کی تربیت میں یہ غرض ملحوظ رکھی جاوے، کیونکہ یہ کمال اخلاقی تعلیم و تربیت ہی کی وساطت سے حاصل ہوسکتا ہے، جو لوگ بچوں کی تعلیم و تربیت کے صحیح اور علمی اُصول کو مدِّنظر نہیں رکھتے، وہ اپنی نادانی سے سوسائٹی کے حقوق پر ایک ظالمانہ دست درازی کرتے ہیں، جس کا نتیجہ افرادِ سوسائٹی کے لیے انتہا درجے کا مضر ہوتا ہے… استاد کو چاہیے کہ اُسے [بچے کو] ہمدردی کے متعلق عمدہ عمدہ کہانیاں سنائے اور یاد کرائے… معلموں کا فرض ہے کہ ابتدا سے ہی بچے میں اخلاقی تحریکوں سے متاثر ہونے کی قابلیت پیدا کرنے کی کوشش کریں، مثلاً شروع ہی سے ان کو ہمدردی کرنا سکھائیں۔۱؎ سلسلۂ ادبیہ کے دیباچے میں کہا گیا ہے کہ: مضامین زیادہ تر ایسے ہی منتخب کیے گئے ہیں، جن میں زندگی کا روشن پہلو جھلکتا ہو تاکہ طالب علم اس کے مطالعے کے بعد کشا کشِ حیات میں زیادہ استقلال، زیادہ خودداری اور دیانت داری سے حصہ لے سکیں۔ حقیقت میں ادبیات کی تعلیم کا یہی مقصد ہونا چاہیے کہ ادبی ذوق کی تربیت کے ساتھ ساتھ طلبہ کی وسیع النظری اور اُن کے دل و دماغ کی جامعیت نشو و نما پائے… اس سلسلے کی کتابوں… [میں] اخلاقی مضامین کے انتخاب میں اس امر کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ ان کا اُسلوبِ بیان ایسا ہو، جو طالبِ علم کو کمزور اور بزدل بنانے کی بجاے نیک اور بہادر بنائے اور اس امر کا لحاظ تو بالخصوص رکھا گیا ہے کہ منتخبہ نظم و نثر پر وطنیت کا رنگ غالب ہو، تاکہ طلبہ کے دلوں میں اخلاقِ۔حسنہ اور علم و ادب کی تحصیل کے دوران میں اپنے وطن کی محبت کا پاک جذبہ موجزن ہو۔۲؎ ان اقتباسات کے مطالعے سے واضح ہے کہ علامہ اقبال کے نزدیک منتخبہ نظم و نثر ایسی ہونی چاہیے، جس سے طلبہ پر اخلاقی اثرات مرتب ہوں اور مضامین، کہانیوں اور نظموں کو پڑھ کر اُن کے دلوں میں وسعتِ نظر، ہمدردی، خودداری، نیکی، بہادری، دیانت داری، احساسِ فرض اور اُمید و روشنی کے جذبات پیداہوں۔ تینوں کتابوں کی نگارشات اسی مقصد کو پیشِ نظر رکھ کر منتخب کی گئی ہیں۔ آئندہ صفحات میں ان کتابوں کا مختصر جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔ ۱- مقالاتِ اقبال: ص۱،۲،۶، ۸ ۲- دیباچہ اُردو کورس، چھٹی جماعت کے لیے: ص د،ہ۔ (ب) درسی کتابیں ژ اُردو کورس، چھٹی جماعت کے لیے پہلا اڈیشن ۱۹۲۴ء میں شائع ہوا۔ اس وقت ہمارے پیشِ نظر ۱۹۲۹ء کا اڈیشن ہے۔ سرورق اور اس کی پشت کا صفحہ شمار نہیں کیا گیا۔ فہرست مضامین کے دو صفحات ’’الف، ب‘‘ اور دیباچے کے چار صفحات: ’’ج،د،ہ،و‘‘ سے شمار کیے گئے ہیں۔ متن کتاب سے صفحات کا شمار از سرِ نو ہوتا ہے۔ آخر میں (ص۲۲۲-۲۵۰) ایک فرہنگ بھی شامل ہے۔ آغاز ’’دعا‘‘ کے عنوان سے ایک حمد سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد نثر کا ایک سبق، ایک نظم، ایک کہانی اور پھر ایک نظم…پوری کتاب میں قریب قریب یہی صورت برقرار ہے۔ یعنی ہر نثری سبق کے بعد ایک نظم، اس طرح کتاب ۲۲ نظموں اور ۲۴ نثر پاروں پر مشتمل ہے۔ نثر پاروں میں خاصا تنوع ہے، مثلاً: ’’دنیا کی آبادی‘‘ اور ’’زمین کی سرگذشت‘‘ کا تعلق جغرافیے سے اور ’’سکندرِ اعظم‘‘ اور ’’بابر کا بچپن‘‘ کا تعلق تاریخ سے ہے۔ ’’دانت اور بال‘‘ اور ’’تمباکو اور چائے‘‘ کا موضوع صحتِ عامہ ہے۔ یڈھشٹر کا پہلا سبق، راجا ہریش چندر، جیمس فرگسن، راجا مایا داس، نیک دل شہزادہ اور کنگ لِیرَ کہانیاں ہیں۔ ’’مکڑی اور مکھیاں‘‘ اور ’’مرغ اسیر اور صیّاد‘‘ منظوم کہانیاں ہیں۔ نثر یا نظم، ہر تحریر میں کوئی نہ کوئی اصلاحی مقصد پنہاں ہے۔ دیباچے میں ’’اخلاقِ حسنہ‘‘ کی بات کی گئی ہے، معلوم ہوتا ہے مؤلفین نے ان مضامین و منظومات کے انتخاب میں اس امر کا خاص خیال رکھا ہے کہ طالب علم کے ذہن پر ہر سبق کے مثبت اخلاقی اثرات مرتسم ہوں۔ کہیں کہیں براہِ راست بھی پند و نصائح کیے گئے ہیں، مگر عموماً نظم میں۔ہر سبق کے مشقی سوالات میں ایک آدھ ایسا سوال شامل ہے، جس سے طالب علم کے اندر اخلاقی احساس بیدار ہو۔ کتاب میں متعدد تصاویر بھی شامل ہیں۔ کسی مضمون کے ساتھ مضمون نگار یا نظم کے ساتھ شاعر کا نام نہیں لکھا گیا، زیادہ تر نظمیں، غیر معروف شعرا کی معلوم ہوتی ہیں، تاہم معروف شعرا کی چند منظومات بھی شامل ہیں، مثلاً: اقبال کی ’’جگنو‘‘ (صرف چار اشعار) حالی کی ’’پردیس‘‘ اور تلوک چند محروم کی ’’کام‘‘… بعض نظموں (سرزمینِ ہند-ہندوستانی بچوں کا گیت وغیرہ) کا معیار اچھا نہیں ہے۔ اس کتاب کی کتابت و طباعت بہت اچھی ہے۔ رموزِ اوقاف اور اعراب کا اہتمام، آج کل کی نصابی کتابوں سے بہتر ہے۔ زبان و بیان کے اعتبار سے موجودہ چھٹی جماعت کے طلبہ کو، ممکن ہے، یہ کتاب مشکل محسوس ہو۔ سرورق پر یہ عبارت درج ہے: ’’سررشتۂ تعلیم پنجاب و صوبجات متحدہ و احاطہ مدراس کی طرف سے منظور شدہ‘‘۔ طبع یازدہم (۱۹۴۵ئ) کی عبارت کسی قدر مختلف ہے: ’’سررشتہ ہائے تعلیم پنجاب، دہلی و مدارس کی طرف سے منظور شدہ ٹیکسٹ بک‘‘۔ ژ اُردو کورس، ساتویں جماعت کے لیے سلسلۂ ادبیہ کا یہ دوسرا حصہ ظاہری ترتیب اور مشمولات کی نوعیت کے اعتبار سے اُردو کورس براے ششم کے مطابق ہے۔ سرورق ۱؎، فہرست مضامین اور دیباچہ (۸ صفحات) کے بعد صفحہ ایک سے متنِ کتاب کا آغاز ہوتا ہے۔ آخر میں ایک مفصل فرہنگ (ص۲۵۲-۳۱۶) بھی شامل ہے۔ اسباق کی کل تعداد ۳۶ ہے، جن میں نصف منظومات ہیں۔ حسب سابق ان میں تنوع ہے۔ چھٹی جماعت کی کتاب میں مصنّفین اور شعرا کے نام نہیں درج کیے گئے تھے، اس کتاب میں ہر مضمون اور نظم کے ساتھ مصنف اور شاعر کا نام لکھنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ سلسلۂ ادبیہ کے دیباچے میں مؤلفین لکھتے ہیں: سلسلۂ ادبیہ کی ترتیب میں اس امر کا خاص طور پر لحاظ رکھا گیا ہے کہ پرانے اساتذۂ فن کے نتائجِ فکر کے ساتھ ساتھ زمانۂ حال کے اُن انشا پردازوں اور شاعروں کے مضامین نظم و نثر بھی طالب علم کی نظر سے گزریں، جنھوں نے اُردو کو ایک ایسی زبان بنانے کے لیے ان تھک کوششیں کی ہیں، جو موجودہ ضروریات کے مطابق اور اداے مطالب پر قادر ہو ۔۲؎ چنانچہ رتن ناتھ سرشار، باقر علی داستان گو، محمد حسین آزاد، ڈپٹی نذیر احمد دہلوی، خواجہ حسن نظامی، سر عبدالقادر، بے نظیر شاہ، میر انیس، اکبر الٰہ آبادی، تلوک چند محروم، پریم چند، مولانا ظفرعلی خاں، جوش ملیح آبادی، سورج نرائن مہر اور خود علامہ اقبال جیسے نام وَر اکابر اہلِ قلم کے ساتھ، نسبتاً کم اور غیر معروف ۱- عکسِ سرورق کے لیے ملاحظہ کیجیے: انوارِ اقبال، بالمقابل ص۲۲ ۲- اُردو کورس ساتویں جماعت کے لیے: ص’’ج،د‘‘۔ مصنفوں مثلا سیّد احمد عاشق، سیّد علمدار حسین، حبیب کنتوری، محمد عثمان مقبول، اشرف حسین، سیّد راحت حسین، اعجاز حسین اور علی سجاد دہلوی کی تحریریں بھی شامل ہیں۔ علامہ اقبال کی نظم ’’میرا وطن‘‘، بانگِ درا میں شامل ’’ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘‘ کی ابتدائی صورت ہے۔ بعد میں بعض مصرعوں میں ترمیم کی گئی اور آخری بند حذف کردیا گیا ہے۔۱؎ منظومات و مضامین میں وہی تنوع ہے، جس کا ذکر چھٹی جماعت کی کتاب کے ضمن میں ہوچکا ہے۔ اس حصے کی تحریروں میں بھی مؤلفین کا وہی نقطۂ نظر کارفرما نظر آتا ہے، جس کا اظہار دیباچے میں کیا گیا ہے، یعنی یہ کہ منتخبہ تحریریں طلبہ کی اخلاقی تعلیم و تربیت میں ممد و معاون ہوسکیں۔ ژ اُردو کورس، آٹھویں جماعت کے لیے سلسلۂ ادبیہ کی اس تیسری کتاب میں کل ۳۲ نگارشات شامل ہیں۔ منظومات اور نثرپاروں کی تعداد برابر ہے۔ ایک مضمون ’’زمین کی فرسودگی یعنی ’’ڈھا‘‘ پہلے اڈیشن (۱۹۲۴ئ) میں شامل نہ تھا، بعد میں ایزاد کیا گیا۔ اس طرح ضخامت ۳۶۶ صفحات ہوگئی ہے۔ سرورق ۲؎ اور فہرست کا انداز اُردو کورس، ساتویں جماعت کے لیے کے مطابق ہے۔ دیباچہ بھی یکساں ہے، البتہ ص۲ پر کتاب میں شامل سات تصاویر کی فہرست بھی دی گئی ہے۔ سرورق پر یہ عبارت درج ہے: ’’سر رشتہ تعلیم پنجاب و صوبجات متحدہ کی طرف سے منظور شدہ ٹیکسٹ بک‘‘۔ اس حصے کے مضمون نگاروں اور شعرا میں بیشتر وہی قلم کار شامل ہیں، جن کا ذکر اُردو کورس، ساتویں جماعت کے لیے کے ضمن میں آچکا ہے، البتہ سرسیّد احمد خاں، چکبست، خوشی محمد ناظر، سیّد احمد دہلوی، نظیر اکبر آبادی اور سجاد حیدر یلدرم کی نگارشات بھی اس حصے میں شامل کی گئی ہیں۔ غیر معروف ادبا و شعرا کی تحریریں نسبتاً کم ہیں۔ حکیم احمد شجاع کا ڈراما ’’سراغ رساں‘‘ اور اقبال کی دو نظمیں ’’ستارہ‘‘ اور ’’کنارِ راوی‘‘ بھی شامل ہیں۔ ’’چاند اور ستارے‘‘ انگریزی سے ترجمہ ہے، مگر مترجم کا نام درج نہیں۔ اُسلوبِ مضمون کی بنا پر قیاس ہے کہ یہ ترجمہ حکیم احمد شجاع کا ہے۔ ایک اور مضمون ’’دیا سلائی‘‘ کے مصنف کا نام بھی درج نہیں ہے۔ مؤلفین کی طرف سے دیے گئے مختصر حواشی، مضامین میں مذکور بعض اسما و مسائل کی وضاحت کرتے ہیں۔ ۱- محذوف بند سرودِ رفتہ (ص۱۲۴) میں موجود ہے۔ ۲- عکس سرورق کے لیے ملاحظہ کیجیے، انوارِ اقبال: بالمقابل ص۲۳ سکینگ ژ اُردو کورس، پانچویں جماعت کے لیے سلسلۂ ادبیہ کی متذکرہ بالا تین کتابوں کا ذکر بعض کتابیات ۱؎ اور انوارِ اقبال میں موجود ہے، لیکن اُردو کورس، پانچویں جماعت کے لیے کا ذکر اقبال کے کسی تذکرے، سوانح عمری یا کتابیات میں نہیں ملتا۔ متخصصینِ اقبال اس کتاب کی موجودگی سے لاعلم رہے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ کتاب پہلی بار متعارف کرائی جارہی ہے (سرورق کا عکس بالمقابل صفحے پر ہے) یہ ذکر ہوچکا ہے کہ پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی نے جنوری ۱۹۲۵ء میں سلسلۂ ادبیہ کی تین کتابوں (براے ششم، ہفتم اور ہشتم) کی منظوری دی تھی۔ پانچویں جماعت کے لیے اُردو کورس، چار برس بعد ۱۹۲۸ء ۲؎ میں مرتب کیا گیا۔ یہ کتاب بھی علامہ اقبال اور حکیم احمد شجاع کی مشترکہ تالیف ہے۔ مؤلفین، دیباچے میں رقم۔طراز ہیں: اس سے پہلے چھٹی، ساتویں اور آٹھویں جماعت کے لیے اُردو کورس تیار کیے گئے تھے، جن کو پنجاب، صوبجات متحدہ اور مدراس کی ٹیکسٹ بک کمیٹیوں نے منظور فرمایا اور مدارس کے معلمین اور طلبہ نے بنظر پسندیدگی دیکھا۔ اس وقت یہ کورس عام طور پر ہندستانی مدارس میں پڑھائے جاتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ یہ کورس جن اُصولوں کے ماتحت مرتب کیے گئے تھے، قابلِ حوصلہ افزائی ثابت ہوئے۔ اب پانچویں جماعت کا اُردو کورس ہدیۂ ناظرین ہے۔۳؎ گویا سلسلۂ ادبیہ کی تین کتابوں کی مقبولیت کے بعد، مؤلفین کو زیرنظر کتاب کی ترتیب و تالیف کا خیال آیا، چنانچہ انتخابِ مضامین و منظومات اور ترتیب میں مؤلفین نے وہی انداز و آہنگ پیشِ نظر رکھا ہے، جو سابقہ تین کتابوں میں کارفرما تھا۔ نثری مضامین اور کہانیاں نسبتاً مختصر ہیں۔ کتاب میں ۳۰ نثرپاروں کے مقابلے میں ۲۳ منظومات شامل ہیں۔ آغاز، حمد (بعنوان ’’خدا کی قدرت‘‘) سے ہوتا ہے۔ لکھنے والوں میں بعض نام وَر اہل قلم ڈپٹی نذیر احمد، سیّد احمد دہلوی، سرسیّد احمد خاں، اسمٰعیل میرٹھی، ۱- (الف) A Bibliography of Iqbal۔ (ب) کتب اقبالیات (ج) کتابیاتِ اقبال ۲- یہ تعیّن شاداں بلگرامی کی اس تاریخِ تحریر (۹ جون۱۹۲۸ئ) سے ہوتا ہے، جو تمہیدی سطور بعنوان ’’گذارش‘‘ [کذا] پر درج ہے (اُردو کورس، پانچویں جماعت کے لیے: ص۴)۔ ۳- اُردو کورس، پانچویں جماعت کے لیے: ص۲ نواب محسن الملک، حالی، رتن ناتھ سرشار، سرعبدالقادر، محمد حسین آزاد، نظیر اکبر آبادی، حسن نظامی، پریم چند، اکبر الٰہ آبادی کے ساتھ ساتھ نسبتاً نئے اور کم معروف مصنّفین، مثلاً: تلوک چند محروم، اعظم کریوی، حامد حسن میرٹھی، حمید عالم چشتی، افسر میرٹھی اور سیفی سہواروی وغیرہ بھی شامل ہیں۔ دو نثرپارے ’’اندھی، بہری اور گونگی عورت‘‘ اور ’’بہارستان کا آسیب‘‘ حکیم احمد شجاع کے ہیں۔ علامہ اقبال کی کوئی نظم شامل نہیں۔ ایک کہانی ’’وفادار غلام‘‘ پر مصنف کا نام درج نہیں ہے۔ متنِ کتاب ص۲۳۹ پر ختم ہوتا ہے۔ حسبِ سابق آخر میں ایک مفصل فرہنگ (ص۲۴۰-۲۷۱) شامل ہے۔ اس کتاب کا دیباچہ سلسلۂ ادبیہ کی تین کتابوں سے مختلف ہے۔ مؤلفین لکھتے ہیں: اس میں اس بات کا خاص طور پر خیال رکھا گیا ہے کہ علم و ادب کے مضامین اس طرح جمع کیے جائیں کہ طلبہ کو نئی معلومات حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ، اُردو زبان سے دل بستگی پیدا ہو اور وہ ایسے اندازِ تحریر سے واقف ہوجائیں، جو اظہارِ مطالب پر حاوی ہو۔ مضامین کے انتخاب میں زمانۂ حاضرہ کی تمام ضروریات کا خیال رکھا گیا ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ مضامین ایسے دل کش اور پُر اثر ہوں کہ بچوں کی طبیعت ان کی طرف خود بخود راغب ہو۔ یہ مضامین بچوں کے دل میں مادرِ وطن کی محبت، اخلاقی جراَت اور ادبی ذوق پیدا کرنے کے لیے اہل ہیں۔ اُمید ہے کہ معلمین ان کو پڑھاتے وقت اُن تمام جذباتِ عالیہ کو طلبہ کے دل و دماغ پر نقش کرنے کی کوشش کریں گے، جو ان مضامین کی تہ میں موجزن ہیں۔۱؎ گویا، اس کتاب کی ترتیب و تالیف میں بھی، مؤلفین کے پیشِ نظر، وہی مقاصد رہے ہیں، جو پہلی بار تین کتابوں کے اسباق منتخب کرتے وقت ان کے ذہن میں کارفرما تھے، یعنی یہ کہ اوّل: ’’زمانۂ حال کے مطالبات‘‘ ۲؎ کی تکمیل، دوم: مضامین ’’ادبی خوبیاں رکھنے کے باوجود نئی معلومات‘‘ ۳؎کے حامل ہوں اور سوم: کتاب پڑھ کر ’’طلبہ کے دلوں میں اخلاقِ حسنہ‘‘ اور علم و ادب کی تحصیل کے ساتھ ساتھ اپنے وطن کا پاک جذبہ موجزن ہو۔۴؎ اقبال کے مضمون ’’بچوں کی تعلیم و تربیت‘‘ کا ایک اقتباس ہم نے گذشتہ اوراق میں نقل کیا تھا، ۱- اُردو کورس، پانچویں جماعت کے لیے: ص۲،۳ ۲- دیباچہ: اُردو کورس، چھٹی، ساتویں اور آٹھویں جماعت کے لیے ۳- ایضاً ۱- ایضاً اُس کی روشنی میں، زیر بحث دونوں دیباچوں کی عبارت اور مفہوم پر غور کیا جائے، تو اِن میں ایک واضح معنوی اشتراک نمایاں ہے۔ اس بنا پر راقم کا خیال ہے کہ سلسلۂ ادبیہ کی اس چوتھی کتاب کا دیباچہ بھی اقبال ہی کا تحریر کردہ ہے۔ سلسلۂ ادبیہ کی اس کتاب کا ایک نمایاں انفرادی پہلو یہ ہے کہ مؤلفین کی خواہش پر اورینٹل کالج لاہور کے پروفیسر سیّد اولاد حسین شاداں بلگرامی نے اس نصاب کی زبان پر بحیثیت صحت و سقم نظرثانی۱؎ کی۔ موصوف لکھتے ہیں: تعمیلِ ارشاد کے لیے، جہاں کہیں مجھے اپنے خیالات کے موافق سقم معلوم ہوا، میں نے بلاامتیاز ترمیم کردی، یا نوٹ لکھ دیا۔ میں اس کتاب کے ہر مضمون کے مؤلف کو قابلِ فکر ہستی سمجھتا ہوں۔ بعض مصنّفین کی قابلیت مسلّم ہندستان ہے۔ ساتھ ہی اس کے، میں یا کوئی خطاے بشری سے خالی نہیں۔۲؎ یہ کتاب بھی، سلسلۂ ادبیہ کی دوسری کتابوں کی طرح متعدد بار شائع ہوتی رہی۔ ژ آئینۂ عجم علامہ اقبال نے ۱۹۰۰ء میں پہلی بار پنجاب یونی ورسٹی کے انٹرنس امتحان کے لیے فارسی کا پرچہ مرتب کیا۔ یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا۔ پھر انھیں انٹر، بی اے فارسی اور ایم اے فارسی کے پرچے مرتب کرنے کی ذمہ داری بھی سونپی جانے لگی۔۳؎ فارسی کے مختلف امتحانات سے مستقلاً متعلق رہنے کے سبب، اقبال کے ذہن میں انٹرنس کے لیے ایک جدید فارسی کورس مرتب کرنے کا خیال پیدا ہوا۔ پہلی بار اس کا اظہار ۳۰؍جنوری۱۹۲۲ء کے خط بنام محمد اکبر منیر میں ملتا ہے۔ مکتوب الیہ ان دنوں ایران میں مقیم تھے۔ اقبال نے انھیں لکھا: عرصے سے میرا ارادہ ایک انٹرنس کورس فارسی ترتیب دینے کا ہے۔ جدید فارسی نظم و نثر کے کچھ عمدہ اور آسان نمونے مل جائیں تو یہاں کے طلبہ کے لیے نہایت مفید ہوگا۔ اگر آپ کو چند ایسی کتب نظم و نثر مل جائیں، تو میرے لیے خرید کر لیجیے۔ نظمیں مشہور اساتذۂ حال کی ہوں اور سلیس اور آسان طرزِ جدید میں لکھی گئی ہوں تو زیادہ مناسب ہے۔ پولیٹیکل نظموں کی ضرورت نہیں۔ ایک کتاب طالبی سناہے، ۱- اُردو کورس، پانچویں جماعت کے لیے: ص۴ ۲- ایضاً ۳- تفصیل کے لیے محمد حنیف شاہد کا مضمون ’’اقبال بحیثیتِ ممتحن‘‘ ملاحظہ کیجیے۔ (نقوش، اقبال نمبر، اوّل: ص۴۵۴-۴۷۷) بہت اچھی ہے، مگر ہندستان میں دستیاب نہیں ہوئی۔ یہ کتاب یا کوئی اور کتاب اس قسم کی مل جائے، تو خوب ہے۔ غرض کہ آپ یہاں کے انٹرنس کے طلبہ کی ضروریات کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ میرا مقصود یہ ہے کہ فارسی کے ذریعے سے بھی جدید خیالات اور احساسات طلبۂ ہند تک پہنچیں۔ انگریزی کورسوں میں مضامین کا تنوع نہایت دل چسپ ہوتا ہے۔ انتخاب میں وہ بھی زیر نظر رہے۔۱؎ اس اقتباس سے، ترتیبِ کتاب کے سلسلے میں علامہ اقبال کی مجوزہ سکیم پر مفصل روشنی پڑتی ہے۔ یہ تو معلوم نہیں کہ مکتوب الیہ نے اقبال کو کوئی مطلوبہ کتاب مہیا کی یا نہیں، لیکن اقبال کا مرتبہ نصابی کورس، ۱۹۲۶ء میں آئینۂ عجم کے نام سے شائع ہوا۔ اس کے متعدد اڈیشن دستیاب ہیں۔ ان سب پر ۱۹۲۶ء کے بعد کے سنینِ طباعت درج ہیں۔ ایک نسخے پر سالِ طباعت درج نہیں، غالباً یہی پہلا اڈیشن ہے۔ پہلے اڈیشن کے سالِ طباعت [۱۹۲۶ئ] کا تعین شرحِ آئینہ عجم پر قاضی فضل حق کی تقریظ کی تاریخ تحریر (۷جنوری ۱۹۲۷ئ) سے ہوتا ہے ۔۲؎ آئینہ عجم کا ۱۹۳۴ء اڈیشن ہمارے پیشِ نظر ہے۔ اس کے سرورق۳؎ پر عنوانِ کتاب کی توضیحی عبارت: ’’انتخاباتِ نثر و نظمِ فارسی برائے طلبائے میٹریکولیشن‘‘ درج ہے۔ سرورق کے بعد ’’حصہ نثر‘‘ کا ایک ورق بطور فلیپ لگایا ہے۔ دونوں اوراق پر صفحات نمبر درج نہیں ہیں۔ فہرست مضامین (ص۱-۲) کے بعد پھر صفحہ ایک سے متن کتاب کا آغاز ہوتا ہے۔ ۱۹۲۷ء کے اڈیشن میں حصۂ نثر کا فلیپ، فہرست کے بعد لگایا گیا ہے اور صحیح صورت یہی ہے۔ حصۂ نثر ص ۷۸ پر ختم ہوتا ہے۔ حصۂ نظم (ص۷۹-۱۳۶) کے بعد آخر میں ایک فرہنگ (ص۱۳۷-۱۶۴) بھی شامل ہے۔ حصہ نثر ایک طنزیے (ملت و دولتِ ایران از سیّد محمد علی جمال زادہ)، ایک افسانے (ماطلیہ از محمود طرزی)، ایک ڈرامے (سرگذشت شاہ قلی میرزا) اور ایک سفر نامے (سیاست نامہ از ابراہیم بیگ) پر مشتمل ہے۔ اس طرح مرتب نے ان متنوع نثر پاروں کے ذریعے فارسی کے ’’جدید خیالات و احساسات‘‘ ۴؎ ۱- اقبال نامہ، دوم: ص۱۶۰-۱۶۱ ۲- سالِ اشاعت [۱۹۲۶ئ] کی مزید تصدیق اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ مالی سال ۲۷-۱۹۲۶ء میں اقبال نے آئینہ عجم کے ناشر عطر چند کپور اینڈ سنز سے رائلٹی کی کچھ رقم وصول کی (بحوالہ: صحیفہ، اقبال نمبر اوّل، اکتوبر ۱۹۷۳ئ، ص۲۴) یقینی طور پر یہ آئینہ عجم ہی کی رائلٹی تھی۔ عطر چندکپور نے آئینہ عجم کے علاوہ اقبال کی صرف ایک اور کتاب Development چھاپی تھی، مگر وہ ۱۹۳۰ء میں شائع ہوئی۔ ۳- عکسِ سرورق کے لیے ملاحظہ کیجیے: انوارِ اقبال، بالمقابل ص۲۵ ۴- مکتوب اقبال بنام محمد اکبر منیر، اقبال نامہ، دوم: ص۱۶۱ طلبہ تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ حصۂ نظم میں رومی، سعدی، عبیدزاکانی، حسین دانش، لوائی، میرزا نصیر، میر حسینی، ناصر خسرو، دہ خدا، فرصت شیرازی، بدایعی بلخی، جبلی غرجستانی، جمال الدین اصفہانی، نظامی، ظہوری، عصمت اللہ، ابن یمین، انوری، قاآنی، ادیب صابر، عماد فقیہ، فردوسی، ہاتفی اور سنائی کے ساتھ اقبال نے اپنی نظمیں بھی شامل کی ہیں۔ اس طرح قدیم کلاسیکی ادبی نمونوں کے ساتھ ساتھ اُنھوں نے جدید فارسی شاعری کو بھی نصاب میں نمائندگی دی ہے۔ ان کی اپنی نظمیں (فصل بہار اور نغمۂ سارباں) فارسی میں نئے ہیئتی تجربات کی مثالیں ہیں۔ بقیہ نظموں میں زیادہ تر حکایتی اور منظری نظمیں ہیں۔ آئینہ عجم کی خوش نویسی نہایت عمدہ ہے۔ الفاظ کے درمیان مناسب فصل ہے۔ خوش نویسی کی اہم خوبی یہ ہے کہ اِعراب کا بدرجۂ اتم اہتمام کیا گیا ہے۔ اس وجہ سے طالب علم کو صحیح تلفظ کے ساتھ عبارت پڑھنے میں دقت نہیں ہوتی۔ ژ تاریخِ ہند تاریخ ہند ۱۹۱۳ء میں شائع ہوئی۔ سرورق ۱؎ کے بعد، دو صفحے کا دیباچہ ۲؎ اور بعد ازاں چار صفحات کی فہرست (مباحث و موضوعات) دی گئی ہے۔ متنِ کتاب کے آغاز سے صفحات کا از سرِ نو شمار کیا گیا ہے۔ ابواب کی تعداد پانچ ہے۔ ہر باب ذیلی فصلوں میں منقسم ہے۔ پہلے باب (ص۱-۶۲) کا عنوان ہے: ’’ہندوؤں کا زمانہ‘‘۔ دوسرے، تیسرے اور چوتھے باب (ص۶۲-۱۸۹) میں ہندستان میں مسلمانوں کی آمد اور اُن کے دورِ حکمرانی سے بحث کی گئی ہے۔ پانچویں باب (ص۱۹۰-۳۷۸) کا موضوع: ’’اہلِ فرنگ کی ابتدائی فتوحات‘‘ ہیں۔ آخری حصے میں ایڈورڈ ہفتم کی تاج پوشی (۱۹۰۳ئ) کے ذکر کے بعد انگریزی حکومت کی ’’برکات‘‘ پر لارڈ کرزن کے ایک لکچر کا خلاصہ دیا گیا ہے۔ سلسلۂ واقعات کا خاتمہ بمبئی میں لارڈ منٹو کی آمد (۱۷؍ نومبر۱۹۰۵ئ) پر ہوتا ہے۔ آخر میں دو ضمیمے اور دو تتمّے شامل ہیں۔ پہلے ضمیمے کا موضوع ہے: ’’قدیم اور حال کی ملکی تقسیم اور مشہور تاریخی واقعات‘‘۔ اس میں مختلف ریاستوں اور صوبوں سے متعلق جغرافیائی معلومات اور انتظامی تفصیلات مہیا کی گئی ہیں۔ ۱- عکسِ سرورق کے لیے ملاحظہ کیجیے: انوارِ اقبال بالمقابل ص۲۴ ۲- دیباچہ انوارِ اقبال (ص۲۴-۲۵) میں منقول ہے۔ ضمیمۂ دوم میں ’’ہند کی حالت ۱۹۰۲ء میں‘‘ کے زیر عنوان ہندستان کی مختلف نسلوں، زبانوں، مذاہب، تعلیم، زراعت، صنعت و حرفت، تجارت اور ریلوں کا تفصیلی بیان ہے۔ تتمہ اوّل کا عنوان ہے: ’’سنسکرت کا علم و ادب‘‘ اور دوم کا ’’مسلمانوں کا علم و ادب‘‘ … مباحث و موضوعات کی روشنی میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب تاریخ ہند کے متعلقہ مباحث کا جامعیت کے ساتھ احاطہ کرتی ہے اور محنت و توجہ سے لکھی گئی ہے۔ فقیر سیّد وحید الدین کا بیان ہے کہ ’’اس کتاب کا خلاصہ امرتسر کے ایک پبلشر نے ۱۹۱۴ء میں شائع کیا تھا‘‘۔۱؎ اس کے سرورق کا عکس Iqbal in Picture میں دیا گیا ہے۔ راقم کو پاکستان کے کسی پبلک کتب خانے میں اس خلاصے کا سراغ نہیں ملا۔ تاریخِ ہند کے دیباچے سے پتا نہیں چلتا کہ کتاب کس درجے کے لیے لکھی گئی، مگر فقیر سیّد وحید الدین نے لکھا ہے: ’’یہ کتاب ۱۴-۱۹۱۳ء میں مڈل کی جماعتوں میں پڑھائی جاتی تھی۔‘‘ ۲؎ اگرچہ اُنھوں نے تائید میںکوئی حوالہ نہیں دیا، تاہم کتاب کی زبان اور اُسلوب تحریر سے اُن کی بات بعید از قیاس معلوم نہیں ہوتی۔ سرورق پر بطور مصنّفین ’’ڈاکٹر شیخ محمد اقبال صاحب‘‘ اور ’’لالہ رام پرشاد،‘‘ پروفیسر ہسٹری، گورنمنٹ کالج لاہور‘‘ کے نام درج ہیں، اس لیے ہم اسے تصانیفِ اقبال کے ضمن میں زیر بحث لارہے ہیں، ورنہ مندرجاتِ کتاب کے بغور مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ کتاب لالہ رام پرشاد کی تحریر کردہ ہے اور علامہ اقبال کا، بجز سرورق کے، کتاب کے مباحث و مندرجات سے کچھ علاقہ نہیں۔ یہ بات مصنف کے اُسلوبِ تحریر اور واقعات کے بیان میں اس کے نقطۂ نظر سے بخوبی عیاں ہے۔ اس کی وضاحت چند مثالوں سے ہوگی: دوسرے باب کے شروع میں بتایا گیا ہے: ’’عرب میں ایک نیا مذہب پیدا ہوا۔ اس مذہب کے بانی حضرت محمدؐ صاحب ۵۷۰ء میں پیدا ہوئے۔ ۶۳۲ء میں حضرت محمدؐ صاحب راہی ملکِ بقا ہوئے‘‘۳؎… آنحضورؐ کے بارے میں یہ اندازِ بیان علامہ اقبال کا نہیں ہوسکتا کیوں کہ، اوّل: اُنھوں نے آپؐ کاذکر کبھی اس سپاٹ انداز میں نہیں کیا، دوم: وہ ناپسند کرتے تھے کہ آپؐ کاتذکرہ ’’محمدؐ صاحب‘‘ کَہ کر کیا ۱- روزگارِ فقیر، دوم: ص۶۴ ۲- ایضاً ۳- تاریخِ ہند: ص۶۳ جائے۔ غلام رسول مہر نے طویل عرصے تک علامہ اقبال کی صحبت اُٹھائی۔ ان کا بیان ہے کہ اگر کوئی انگریزی زدہ نوجوان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ’’محمد صاحب‘‘ کَہ کر کرتا تو آپ فوراً اسے ٹوک دیتے اور بڑی سختی سے سرزنش کرتے ۔۱؎ ایک جگہ اکبر اور اورنگ زیب کا موازنہ کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ: مصلحتِ ملکی کے اعتبار سے دونوں بڑے کامل تھے، مگر اورنگ زیب حکمت یا فریب سے اپنا مطلب نکالتا اور ہمیشہ ٹیڑھی تدبیروں کو پسند کرتا تھا۔ اکبر بڑا عالی حوصلہ اور فراخ دل اور صلحِ کل تھا۔ سب کے ساتھ فیاضی سے [کذا] برتتا اور مغلوب دشمن پر خصوصاً رحم کیا کرتا تھا، مگر اورنگ زیب بڑا متعصب تھا۔ غیر مذہب کے لوگوں کو اذیت پہنچاتا تھا۔ سب کی طرف سے بدظن رہتا، مغلوبوں پر سختی کرتا اور بری طرح بھی کچھ ہاتھ لگتا، تو کبھی نہ چوکتا تھا۔ چونکہ اس کو کسی کا اعتبار نہ تھا، اس لیے نہ اُس کے دل کو کبھی چین آرام ملا اور نہ کسی مہم میں بالکل کامیابی ہوئی۔۲؎ یہ بات بعید از قیاس ہے کہ یہ عبارت اورنگ زیب کو ’’ترکشِ ما را خدنگِ آخریں‘‘ ۳؎ قرار دینے والے شخص کے قلم سے نکلی ہو۔ عالمگیر کے بارے میں ایسی باتیں بالفاظِ اقبال کوئی ’’کور ذوق‘‘ ہی لکھ سکتا ہے۔ایک اور مثال دیکھیے۔ سلطان ٹیپو سرنگاپٹم کے آخری معرکے میں انگریزوں سے برسرِ پیکار ہے۔ اس موقع پر سلطان کی کیا کیفیت تھی؟ مصنف نے طالب علموں کو بتایا ہے کہ: اب ٹیپو کے اوسان خطا ہوئے اور خوف و ہراس دل پر چھایا۔ چنانچہ کہیں تو فال کھلواتا اور پنڈتوں نجومیوں سے پوچھتا پھرتا اور کہیں مسجدوں میں دعائیں منگواتا تھا اور مندروں میں پوجا کرواتا تھا ۱- اقبال درون خانہ [دوم]، ص۷۰ ۲- تاریخ ہند: ص۱۴۳ ۳- عالمگیر کے بارے میں رموزِ بے خودی کے چند اشعار: پایۂ اسلامیاں برتر ازو احترامِ شرعِ پیغمبرؐ ازو درمیانِ کارزارِ کفر و دیں ترکشِ ما را خدنگِ آخریں برقِ تیغش خرمنِ الحاد سوخت شمعِ دیں درمحفل ما بر فروخت کور ذوقاں داستانہا ساختند وسعتِ ادراکِ او نشناختند شعلۂ توحید را پروانہ بود چوں براہیمؑ اندریں بتخانہ بود اورنگ زیب عالمگیر پر ’’مظالم، تعصب، غداری اور سیاسی سازشوں‘‘ کا بہتان تراشنے والوں کو، اقبال نے Western Interpreters of Indian History" کے ترجمان‘‘ قرار دیا ہے ۔لکھتے ہیں: The charges brought against him are based on a misinterpretation of contemporary facts and complete misunderstanding of the nature of social and political forces which were then working in the Muslim State. (The Muslim Community) اور وہ دن بھول گیا تھا کہ ہندوؤں کو کیسی کیسی تکلیفیں دی تھیں اور ان کے مندروں کو مسمار کرایا تھا… اس وقت سارے فنونِ سپاہ گری اور عہد و پیمان کے ڈھنگ بھول گیا تھا، بلکہ اس میں اوسط درجے کی عقل و دانش بھی باقی نہیں رہی تھی۔۱؎ جاوید نامہ میں اس کے برعکس اقبال ’’شہیدانِ محبت‘‘ کے اس ’’امام‘‘ کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ: یک دمِ شیری بہ از صد سالِ میش۲؎ کا قائل تھا جس نے: درجہاں نتواں اگر مردانہ زیست ہمچو مرداں جان سپردن زندگیست۳؎ کا مثالی پیکر بن کر اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کی۔۴؎ اس طرح یہ امکان خارج از بحث ہے کہ تاریخِ ہند کی تحریر و تیاری میں کسی طور علامہ اقبال کا اشتراک شامل رہا ہو۔ اوپر ہم نے ذکر کیا تھا کہ کتاب لالہ رام پرشاد کی تحریر کردہ معلوم ہوتی ہے؛ چنانچہ بعض تاریخی شخصیات کا ذکر تذکرہ اور بعض واقعات کی تفصیل، ایک خاص زاویۂ نظر سے پیش کی گئی ہے، مثلاً: (۱) محمود غزنوی کے متعلق لکھنے والے کے مخالفانہ جذبات عروج پر ہیں۔ کہتے ہیں: ’’محمود کا ہند کی دولت پر تو دانت تھا ہی، مگر ساتھ ہی یہ بھی آرزو تھی کہ بڑے بڑے بانکے راجپوتوں کو تلوار کے زور سے دینِ اسلام میں داخل کرے‘‘۔۵؎ آگے چل کر ہندستان پر محمود کے حملوں کے ضمن میں بتایا کہ ۱- تاریخ ہند: ص۲۷۱-۲۷۲ ۲- جاوید نامہ: ص۱۸۵ ۳- اقبال کی ایک متروک نظم ’’پیغامِ شہید‘‘ کا آخری شعر (باقیاتِ اقبال، طبع سوم: ص۵۵۵)۔ ۴- جاوید نامہ (ص۱۷۲) میں اقبال نے رومی کی زبانی، سلطان ٹیپو کو ان الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے: آں شہیدانِ محبت را امام آبروے ہند و چین و روم و شام نامش از خورشید و مہ تابندہ تر خاکِ قبرش از من و تو زندہ تر عشق رازے بود بر صحرا نہاد توندانی جاں چہ مشتاقانہ داد؟ ۵- تاریخ ہند: ص۷۰ اس نے متعدد تیرتھوں کی بے حرمتی کی، مندروں کو لوٹا، شہروں کو جلایا، ہندوؤں کو قیدی بنایا اور بے شمار دولت لے کر غزنی کی طرف مراجعت کی (ص۷۱-۷۲)۔ مزید یہ کہ وہ راجپوتوں کو بزورِ شمشیر اسلام پر لانا چاہتا تھا‘‘(ص۸۳)۔ (۲) بابر کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ ’’اپنے دشمنوں کے ساتھ بڑی بے رحمی سے پیش آتا تھا‘‘۔(ص۱۱۰)۔ (۳) اورنگ زیب عالمگیر کے ’’مذہبی تعصب‘‘، اس کے ’’مظالم‘‘ اور ہندوؤں کے خلاف اس کی ’’سختیوں‘‘ کا بتکرار ذکر کیا گیا ہے (ص۱۴۱-۱۴۲)۔ (۴) سراج الدولہ کو ’’بڑا ظالم و عیاش‘‘ قرار دیتے ہوئے مصنف نے بتایا کہ اس نے ہندوؤں پر ’’نہایت سخت ظلم‘‘ کیے اور دولت مندوں کو ’’لوٹ لوٹ کر‘‘ مفلس بنادیا۔ مزید برآں اس نے ڈھاکے کے متمول حاکم راج بلب کی دولت پر ’’دندانِ طمع تیز کیے‘‘ (ص۲۱۶-۲۱۷)۔ آگے چل کر ’’بلیک ہول‘‘ کا قصہ، ایک حقیقی واقعے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ان مثالوں کو دیکھتے ہوئے دیباچے کی ان سطور سے اتفاق ممکن نہیں کہ: ’’واقعاتِ تاریخی کی صحت میں بہت احتیاط سے کام لیا گیا ہے‘‘۔ مزید برآں مصنف کے مخصوص زاویۂ نظر سے یہ قیاس یقین میں بدل جاتا ہے کہ کتاب کے مصنف لالہ رام پرشاد ہیں۔ اگرچہ یہ بات علامہ اقبال کی طبیعت اور مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی، تاہم راقم کا قیاس ہے کہ علامہ اقبال نے کتاب کے مندرجات کو دیکھے بغیر، از راہِ وضع داری، کتاب پر اپنا نام درج کرنے کی اجازت دی ہوگی ۱؎صورت جو بھی ہو؛ یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ تاریخ ہند جیسی کتاب، علامہ اقبال کے نام سے شائع ہوئی، جس کے مندرجات، اقبال کے افکار و خیالات سے واضح طور پر متضاد و متناقض ہیں۔ عین ممکن ہے کہ کتاب چھپ جانے کے بعد، اقبال کو اس غلطی کا احساس ہوا ہو، چنانچہ کتاب کا کوئی اور اڈیشن دستیاب نہیں۔ ۱- ممکن ہے کہ انھیں کتاب کا کچھ معاوضہ بھی ملا ہو، مگر اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اس زمانے میں ان کی آمدنی اتنی کم تھی کہ اس پر ٹیکس واجب الادا نہیں تھا… اس لیے اقبال کی ۱۷-۱۹۱۶ء سے پہلے کی انکم ٹیکس فائل موجود نہیں ہے۔ سکینگ۱ راقم الحروف کو تاریخ ہند کے کسی دوسرے نسخے کی تلاش بھی رہی۔ کئی سال بعد مالیرکوٹلہ کے ایک کرم فرما محمد کفایت اللہ صاحب تاریخ ہند کا ایک نسخہ (=نسخۂ کفایت) لے کر آئے۔ میں نے اس کا عکس بنوالیا، اصل نسخہ وہ واپس لے گئے۔ بعد میں جب دونوں نسخوں کا موازنہ کیا تو یہ دلچسپ انکشاف ہوا کہ دونوں نسخوں کا نام تاریخ ہند ہے، مصنّفین کے نام بھی وہی ہیں اور سرورق بھی ہوبہو ویسا ہی ہے،دونوں کا دیباچہ بھی بالکل یکساں ہے، بلکہ دیباچے کے دونوں صفحے ایک ہی کتابت سے چھاپے گئے ہیں اور ان کے صفحات نمبر (الف،ب) بھی یکساں ہیں، لیکن دونوں کتابوں کا متن، ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہے، یعنی ایک نام کی یہ دو مختلف کتابیں ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب دوبار لکھی گئی۔ نسخۂ اکادمی نسبتاً تفصیلی ہے اور نسخۂ کفایت قدرے مختصر۔ ایک کتاب کو دوسری بار، نئے متن کی صورت میں، تحریروتصنیف کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ غالباً اس لیے کہ اس کے بعض بیانات کی وجہ سے اسے ایک نصابی کتاب کے طور پر منظور نہیں کیا گیا۔ (خیال رہے کہ اس زمانے میں کتابیں ، مطبوعہ صورت میں منظوری کے لیے پیش کی جاتی تھیں۔) چنانچہ کتاب کا ایک نیا متن (=نسخۂ کفایت) تیار کیا گیا جس میں اورنگ زیب عالمگیر، ٹیپوسلطان اور سراج الدولہ کے بارے میں آرا و بیانات نسخۂ اکادمی میں شامل سابقہ بیانات سے قطعی مختلف اور مجموعی حیثیت سے مثبت ہیں۔ تائید کے لیے نسخۂ کفایت کے بیانات (اقتباسات) راقم کی کتاب اقبالیات: تفہیم و تجزیہ (اقبال اکادمی لاہور [۲۰۰۵]) میں شامل مضمون: ’’تاریخ ہند، چند تصریحات‘‘ میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ راقم نے اس مضمون میں یہ بھی بتایا تھا کہ نسخۂ کفایت ناقص الآخر ہے۔ راقم الحروف کو نسخۂ کفایت کے کسی دوسرے (مثنی) نسخے کی تلاش تھی۔ خوش قسمتی سے کچھ عرصہ پہلے اس کے ایک مکمل نسخے کا سراغ ملا۔ نسخۂ کفایت صفحہ ۳۵۶ پر ختم ہوتا تھا۔ اندازہ تھا کہ چونکہ آخری باب (نمبر۲۳) صفحہ ۳۵۴ سے شروع ہورہا ہے اس لیے وہ صفحہ ۴۰۰ تک پھیلا ہوا ہوگا، مگر نئے مکمل نسخے کا متن صفحہ ۳۵۸ پر ختم ہوجاتا ہے۔ اس طرح گویا نسخۂ کفایت میں صرف دو صفحات (۳۵۷-۳۵۸) موجود نہیں ہیں۔ ۱؎ نسخۂ کفایت اور نسخۂ سنجرپور بظاہر یکساں ہیں ۲؎ مگر کہیں کہیں اختلاف بھی نظر آتا ہے مثلاً: ۱- نیا مکمل نسخہ (=نسخۂ سنجرپور) محمد مبارک شاہ جیلانی کے کتب خانۂ سنجرپور، ریاست بہاول پور میں موجود ہے۔ مجھے اس کی عکسی نقل اپنے فاضل دوست ملک حق نواز خاں سکنہ پیرزئی، ضلع اٹک کی وساطت سے حاصل ہوئی۔ ۲- آئندہ صفحات میں دونوں کے سرورقوں کے عکس دیے جارہے ہیں۔ سکینگ۲ عکس، نسخہ سنجر پور ۱- دونوں کے سرورق بحیثیتِ مجموعی ایک جیسے ہیں اور دونوں پر قیمت بھی فی جلد -؍۸ آنے لکھی ہوئی ہے۔ مگر نسخۂ کفایت میں تعدادِ جلد کا ذکر نہیں ہے جب کہ نسخۂ سنجرپور پر تعدادِ جلد دس ہزار درج ہے۔ ۲- نسخۂ کفایت پر ’’دفعہ اوّل‘‘ کے الفاظ نظر آتے ہیں جب کہ نسخۂ سنجرپور پر ’’دفعہ۱‘‘ لکھا ہوا ہے۔ ۳- نسخۂ کفایت، جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ناقص الآخر ہے۔ لیکن نسخۂ سنجرپور مکمل ہے اور کتاب کا متن صفحہ ۳۵۸ پر مکمل ہوکر ختم ہوتا ہے۔ ۴- نسخۂ سنجرپور کی سب سے اہم چیز کتاب کے بائیں طرف شامل انگریزی زبان میں سرورق ہے۔ یہ انگریزی سرورق اردو سرورق کا ترجمہ ہے، تاہم History of India کے نیچے ان الفاظ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ Completely revised and brought down to 1912 اردو اور انگریزی سرورقوں میں ایک اور فرق یہ ہے کہ اردو سرورق پر ’’ایجوکیشنل پبلشرز‘‘ کے الفاظ درج ہیں، جبکہ انگریزی سرورق پر Mufid-i-'Am Press کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں۔ (انگریزی سرورق کا عکس بالمقابل صفحے پر دیکھیے۔) دس ہزار کی تعداد میں کتاب (نسخۂ سنجرپور) کی اشاعت سے یہ قیاس کرنا مشکل نہیں کہ اسے بطور نصابی کتاب منظور کرکے سکولوں میں پڑھایا جاتا رہا ہوگا۔ اگرچہ تاریخ ہند کے ترمیم شدہ اڈیشن (نسخۂ کفایت و سنجر) سے عالمگیر، محمود غزنوی، ٹیپوسلطان اور سراج الدولہ سے متعلق بہت سی قابلِ اعتراض باتیں نکال دی گئی تھیں، اس کے باوجود، اس میں اب بھی ہندستانی حکمرانوں اور انگریزی حکومت سے متعلق ایسے بیانات موجود ہیں، جو اقبال کے تصورات اور فکر سے مطابقت نہیں رکھتے۔ بنا بریں یہ سوال اب بھی حل طلب ہے کہ اس کے سرورق ’’شیخ محمد اقبال ایم اے پی ایچ ڈی بیرسٹر ایٹ لا‘‘ کے الفاظ کیوں درج ہیں؟ سلسلۂ ادبیہ کی چار کتابیں اور آئینۂ عجم اقبال کے تعلیمی تصورات کے سلسلے میں بہت اہم ہیں۔ تعلیم کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں ان کتابوں سے اقبال کے اندازِ نظر کی وضاحت ہوتی ہے، مگر تعجب ہے کہ اقبال کے تعلیمی افکار پر اب تک جو تنقیدی کتابیں ۱؎ لکھی گئی ہیں، ان میں اقبال ۱- (الف) Iqbal's Educational Philosophy از خواجہ غلام السیّدین۔ (ب) اقبال کے تعلیمی نظریات از محمد احمد صدیقی۔ (ج) اقبال کا فلسفۂ تعلیم از محمد احمد صدیقی۔ (د) اقبال اور مسئلۂ تعلیم از محمد احمد خاں۔ History of India کی مرتبہ، ان نصابی کتابوں کا ذکر تک نہیں ملتا۔ ان کے فاضل مؤلفین اِن سے لاعلم تھے، یا پھر اقبال کے تعلیمی افکار پر بحث کے ضمن میں اُنھوں نے اِن کتابوں کو غیر اہم خیال کرتے ہوئے درخورِ اعتنا نہیں سمجھا؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام اقبالیاتی اداروں اور ملک کے اہم کتب خانوں میں زیربحث نصابی کتابوں کی عکسی نقول مہیا کی جائیں، تاکہ اقبال پر تحقیق کے سلسلے میں ان سے فائدہ اُٹھایا جاسکے۔ ئ……ئ……ء اقبال نامہ عکس مکتوب بنام راغب احسن (عکس) مکتوب بنام مولوی صالح محمد (عکس)