اقبال بحیثیتِ مُفکّر۔ِ پاکستان ڈاکٹر عبدالحمید اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور جملہ حقوق محفوظ ہیں ناشر: ناظم اقبال اکادمی پاکستان چھٹی منزل ، ایوان اقبال ، لاہور Tel: [+92-42] 631-4510,920-3573 Fax: [+92-42] 631-4496 Email: iqbalacd@lhr.comsats.net.pk Website: www.allmaiqbal.com طبع اوّل: تعداد : قیمت: مطبع : محل فروخت :۱۱۶ میکلوڈ روڈ ، لاہور ، فون نمبر ۔ ۷۳۵۷۲۱۴ ترتیب دیباچہ ۵ پہلا حصہ۔ّ تمہید ۱۱ مغربی تعلیم ۱۳ مغربی جمہوریت ۱۵ اُردو زبان ۱۷ مسلم قومیت ۲۸ نتیجہ ۳۶ دوسرا حصہ۔ّ اقبال کا ابتدائی دور ۴۱ قیامِ انگلستان ۴۶ دنیاے اسلام اور اقبال ۵۴ اقبال کا قومیت کا تصور ۵۸ اقبال اور مغربی جمہوریت ۶۴ فرد اور ملت ۶۵ تحریکِ خلافت - گاندھی اور اقبال ۶۸ مسلمانوں کے تحفظ کا مسئلہ ۷۰ برصغیر کی اسلامی سیاست اور اقبال ۸۳ خطبہ الٰہ آباد ۹۱ قادیانی مسئلہ ۹۶ اقبال اور پنجاب لیجسلیٹو کونسل ۹۹ اقبال اور قائداعظم ۱۰۳ حرفِ آخر ۱۰۸ اشاریہ ۱۱۵ ئ…ئ…ء دیباچہ اقبال بیک وقت فلسفی تھے اور شاعر بھی، اُنھوں نے پاکستان کی جغرافیائی حدوں کی نشان دہی کی اور ہم عصر مسلم معاشرے کے دینی، سیاسی اور معاشرتی رجحانات پر دوٹوک اپنی رائے کا اظہار کیا۔ ان جیسے غیرمعمولی انسانوں کی ایک خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے ماحول کے ساتھ گہرا رابطہ رکھتے ہوئے بھی ’’من کی دنیا‘‘ میں ڈوب کر قدرت کے بعض سربستہ رازوں تک رسائی حاصل کرلیتے ہیں، ان کے خیالات، تحریروں اور تقریروں کا منبع ہمیشہ ایک نہیں ہوتا۔ کبھی وہ اپنے گردوپیش کے حالات سے متاثر ہوکر زبان کھولتے ہیں اور کبھی اپنی شخصیت کی گہرائیوں سے نکلے ہوئے احساسات کو الفاظ کا جامہ پہناتے ہیں۔ اس لیے سطحی نظروں کو ان کے اقوال میں اکثر تناقض نظر آیا کرتا ہے، اقبال کی اپنی زندگی میں بہت سے لوگ ان کی سیاست کو ان کے فلسفیانہ اقوال کی روشنی میں جانچتے اور اس تضاد کی شکایت کیا کرتے تھے۔ یہ دقت یوں پیدا ہوتی ہے کہ ہم اقبال کو صرف ان کی شاعری کے آئینے میں دیکھنے کے عادی ہیں اور ان کے ماحول کے حالات کو اکثر وپیشتر نظرانداز کردیتے ہیں۔ ان کی شاعری اور اسلامیت پر پختہ ایمان رکھنے والوں میں بھی کئی لوگ ان کے سیاسی مؤقف سے نہ ان کی زندگی میں متفق تھے اور نہ ان کی وفات کے بعد، ان صفحات کا ایک مقصد یہ ہے کہ ان کے سیاسی فکر کو ہم عصر واقعات کے آمنے سامنے رکھا جائے۔ قیامِ پاکستان کی تحریک کے پیچھے ایک مربوط سلسلۂ فکر کارفرما تھا جس کے بنیادی خدوخال برطانوی تسلط کے ابتدائی دور میں ہی اُبھر آئے تھے۔ اقبال، اکبر الٰہ آبادی کو اپنا مرشد تسلیم کرتے تھے۔ اکبر نے ہی سرسید کے نکتہ چینوں میں پائیدار شہرت حاصل کی۔ لیکن ان کو بھی ہوا کا رُخ پہچاننے میں کوئی دقت پیش نہ آئی، جس احساس نے ان کے قلم سے مندرجہ ذیل اشعار نکلوائے تھے وہی احساس پاکستان کا سنگِ بنیاد ہے: راج انگلش کا ملک ہندو کا خدا ہی حافظ ہے بھائی صلو کا شیخ صاحب لاکھ گانٹھیں برہمن سے دوستی بے بھجن گائے تو مندر سے ٹکا ملتا نہیں اکبر شاید اپنے محدود تجربے کی مدد سے اس نکتے تک پہنچے ہوں، لیکن سرسید نے یہی سبق میدانِ عمل میں سیکھا تھا۔ اقبال نے سرسید کا تتبع کیا۔ ان کے افکار کو فلسفیانہ وسعت دی۔ ان کو پہلے خود اسلام کے آفاقی پس منظر میں جانچا، پھر دوسروں کو سمجھایا۔ جنوری ۱۹۲۹ء میں منعقد ہونے والی آل پارٹیز مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم پر اُنھوں نے سرسید کی سیاسی فراست کو بھرپور خراجِ عقیدت پیش کیا۔ آج ملک کے اندر اور باہر یہ بات بہت سے لوگوں کو کھٹکے گی۔ اندرونِ ملک تو شاید اس بات کے سمجھنے والوں کی کوئی کمی نہ ہو مگر یورپ اور امریکہ کے کسی ملک میں بھی برصغیر جیسے حالات نہیں۔ اس لیے مغربی دنیا کے اہلِ سیاست اور اہلِ فکر نے آج تک برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی مسائل پر کبھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا۔ اس کی کئی اور وجوہات بھی ہیں۔ مگر یہ ایک علیحدہ داستان ہے۔ تفصیلات میں جانے کا یہ موقع نہیں۔ اقبال دو طرح سے مفکرِ پاکستان قرار پاتے ہیں، اوّلاً اُنھوں نے برصغیر میں ایک اسلامی سلطنت کے امکان کو بدلائل، ایک عملی شکل میں پیش کیا۔ ثانیاً فکرِ اقبال کے بہت سے اجزا ہمارے ذہن کا حصہ بن چکے ہیں۔ شعوری اور غیرشعوری طور پر ہم ان کے بلند مقاصد کے ساتھ جذباتی وابستگی کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ یہاں ان دونوں حیثیتوں کو مد۔ِ۔ّ۔نظر رکھا گیا ہے۔ اقبال کے خیالات کا مرکز اور محور وحدتِ اسلامی کا تصور تھا اور وہ اس کے انتھک مبلغ تھے، کتاب کے پہلے حصے میں ان خطرات کا جائزہ لیا گیا ہے جو ۱۸۵۷ء کے بعد مسلمانوں کی قومی وحدت پر منڈلا رہے تھے، دوسرے حصے میں اقبال کی زندگی کے سیاسی پہلو پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ عملی سیاست کی وادی میں اقبال کاسفر مختصر تھا۔ لیکن ان کی سیاست کوئی ذاتی یا خلا کی سیاست نہ تھی۔ بلکہ اسی سیاست کا حصہ تھی جو ظہورِ پاکستان کا باعث بنی۔ اس سیاست کا پس منظر پورے ایک دور کی تاریخ ہے۔ تفہیمِ اقبال کے لیے اس تاریخ کے بعض پہلوئوں سے واقفیت لازمی ہے۔ اس لیے اس کی تفصیل سے مفر نہیں۔ کتاب کی ترتیب میں بعض خامیاں رہ گئی ہیں۔ کہیں کہیں تکرار ہے، لیکن شاید وہ اتنا غیرضروری بھی نہیں، بعض مباحث جن کا تعلق دوسرے حصے سے تھا پہلے حصے میں ہی نپٹا دیے گئے ہیں۔ بعض صورتوں میں معاملہ بالعکس ہے۔ اس سے صرف مضمون کے تسلسل کو قائم رکھنا مقصود ہے۔ عبدالمجید ۳۰؍اگست۱۹۷۷ئ لاہور پہلا حصہ ز…ز…ز…ز تمہید پاکستان کی سیاسی، ادبی اور ثقافتی زندگی میں اقبال کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ ان کے اشعار اور ان کی نظموں کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی، اُن کی شاعری سے ہندی مسلمانوں کی کم و بیش دو نسلیں متاثر ہوئیں، اقبال کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اُنھوں نے نہایت دلآویز اور ناقابلِ فراموش اشعار کی صورت میں اسلامی تعلیمات کو مسلمانوں کے دلوں میں بٹھایا اور زبانوں پر چڑھایا، ظاہری طور پر موجودہ نسل میں اقبال کے پرستاروں کی تعداد کم ہے۔ تاہم پاکستان میں کسی ایک شاعر کے سب سے زیادہ اشعار عوام کی زبان پر ہیں تو وہ غالباً اقبال ہی ہیں۔ اُن کے افکار اور آرا بہت سی صورتوں میں پاکستانیوں کے لیے بنیادی عقائد بن چکے ہیں اب بھی اقبال کے سیاسی شعور کو سال بہ سال خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے اور ان کا نام پاکستان کے تخیل کے بانی کی حیثیت سے لیا جاتا ہے۔ جو بات مُحبِ اقبال طبقوں کو اکثر کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ اقبال کی بہت سی مروجہ تصویروں میں اُنھیں بہ حالت خواب دکھایا گیا ہے اور تصویر کے نیچے انگریزی میں اس قسم کے الفاظ لکھے ہوتے ہیں جن سے مترشح ہوتا ہے کہ برصغیر میں مسلمانوں کے قومی وطن کی ضرورت کا خیال ایک شاعر کو غنودگی کی حالت میں سوجھا، یہ ایک ارفع تخیل کی مضحکہ خیز نمایندگی ہے، بہت سے پاکستانی تو اس سے کسی قسم کی غلط فہمی میں نہیں پڑتے لیکن باہر سے آئے ہوئے لوگوں کو ضرور مغالطہ ہوتا ہے، وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ پاکستان کا تخیل محض ایک مجذوب کی بڑیا ایک شاعر کے طائر فکر کی بلند پروازی تھی یا ایک ناقابلِ عمل تجویز جس میں حقیقت کم اور شاعری زیادہ ہے۔ اس قسم کی تصویریں اور ان کے نیچے لکھی ہوئی عبارتیں بعض ناواقف پاکستانیوں کے لیے بھی اُلجھن کا باعث بن جاتی ہیں، وہ بھی غیر ملکیوں کے طرزِ فکر سے متاثر ہوتے ہیں۔ یہ بات حقیقت سے دور ہے۔ پاکستان بنانے کا خیال کوئی اٹکل پچو نظریہ نہیں تھا۔ اس کے پیچھے ایک طویل تاریخ اور وسیع سیاسی تجربہ تھا۔ اقبال کو تاریخ سے گہری واقفیت تھی اور تاریخی شعور ان کی تحریروں بلکہ اشعار تک میں رچا بسا ہوا ہے، وہ قوموں کی زندگی اور موت کے فطری اصولوں کو سمجھتے تھے۔ اُنھوں نے ۱۹۳۰ء کے خطبہ الٰہ آباد میں جو تجویز پیش کی وہ گہرے غور و فکر کا نتیجہ تھی اور ہندوستان کے سیاسی مسائل کے حل کی طرف راہنمائی کرتی تھی۔ یہ بات بھی یادرکھنا ضروری ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے گہرے اختلافات کے متعلق بہت سے غیر مسلموں نے ان سے پہلے بھی سنجیدگی سے سوچ بچار کیا تھا۔ جب ان کو یہ مسئلہ لاینحل نظرآیا تو اُنھوں نے بھی کسی قسم کی علیحدگی پر ہی زور دیا تھا۔ لیکن اقبال پہلے سرکردہ مسلمان ہیں جنھوں نے برصغیر کے شمال مغرب میں اسلامی اکثریت کے علاقوں میں ایک اسلامی سلطنت کے قیام کی تجویز اس زمانے کے سیاسی سیاق و سباق کی روشنی میں پیش کی۱؎۔ اقبال کی تجویز کو اس کے سیاسی اور تاریخی پس منظر سے علیحدہ کرکے سمجھنا بے سود ہے۔ اس سے نہ اقبال کو آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے نہ پاکستان کو۔ پاکستان کیوں وجود میں آیا؟ اس سوال کے بہت سے جواب دیے گئے ہیں۔ تحریک آزادی پر کئی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان میں اُن تاریخی عوامل کا بھرپور تجزیہ کیا گیا ہے جنھوں نے بعد میں تحریک پاکستان کی شکل اختیار کی۔ ہماری تحریک آزادی کے کھاتے میں مجدد احمد سرہندی، ٹیپو سلطان، سراج الدولہ، میر قاسم، سید احمد شہید، حاجی شریعت اللہ، سرسید احمد خاں، اقبال، محمد قاسم نانوتوی اور محمود الحسن کے نام بے تکلف شامل کردیے جاتے ہیں۔ ان تمام حضرات نے اپنے اپنے دائرہ کار میں اپنے اپنے وقتوں کے مخصوص حالات کی روشنی میں اہم اقدام کیے۔ یہ درست ہے کہ کسی بڑی تحریک میں (جو دو صدیوں میں پھیلی ہوئی ہو) ہر میدان کے مردوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنی اپنی بساط کے مطابق جہاںدیدہ فوجی کمانڈر، تجربہ کار سیاست دان، باریک بین عالم دین، دنیاوی علوم کے ماہرین، سماجی اور اصلاحی تحریکوں کے راہنما اور اُن کے سرگرم کارکن اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ بہت سی حالتوں میں یہ لوگ مختلف الخیال ہوتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بہت سے لوگ جن کے خیالات آپس میں ٹکراتے ہوں ایک ہی تحریک کا حصہ بن سکتے ہیں اور اس کو مختلف طریقوں سے تقویت پہنچاتے ہیں۔ بہرحال تاریخی عمل ایک پیچیدہ عمل ہوتا ہے جس کے ظاہری حالات اور اس کی اندرونی منطق میں اکثر اوقات تضاد نظر آتا ہے۔ ان صفحات میں تحریک آزادی کو صرف ایک محدود نکتۂ نظر سے دیکھا گیا ہے، راقم کا مؤقف یہ ہے کہ برطانوی دورِ حکومت میں بہت سے ایسے حالات پیدا ہوگئے تھے کہ مسلمانوں کے لیے اپنا قومی وجود قائم رکھنا مشکل ہوگیا تھا۔ برطانوی حکومت ایک بدیشی حکومت تھی اس کے طور طریقے ملک کی پہلی حکومتوں سے بہت مختلف تھے۔ اس کے حکمرانوں کا طریق کار بھی اہلِ ملک کے لیے نامانوس تھا۔ اپنی حکومت کی بنیادوں کو پختہ کرنے کے لیے انھوں نے ایک نیا نظام حکومت وضع کیا۔ مغربی تعلیم جاری کی۔ اینگلوسیکسن قانون نافذ کیا۔ انگریزی کو دفتری زبان بنایا۔ عیسائی مبلغوں اور مشنری سکولوں کی حوصلہ افزائی کی۔ رعایا کے باہمی طبقوں کے درمیان اپنی ناطرف داری، اپنی روشن خیالی اور رعایا کی توہماتی زندگی کو اچھالا۔ نئی حکومت کی ’’برکتوں‘‘ کا وسیع پیمانے پر پروپیگنڈہ کیا۔ وغیرہ وغیرہ۔ محکوم قوموں کے لیے فاتح قوموں کے طور طریقوں میں بے پناہ کشش ہوتی ہے، زبردست کی نقالی، زیردست کی فطرت کا تقاضا ہوتا ہے۔ ہندوؤں کے لیے حکومت کے انقلاب سے وہ صبر آزما حالات نہ پید اہوئے جو مسلمانوں کے لیے ابتلا کا باعث بنے۔ ہندوؤں نے بہت سے ناموافق حالات سے سمجھوتا کرلیا تھا۔ نئے حکمرانوں کے معاملے میں بھی ان کی اُلجھنیں کم تھیں۔ انگریزی حکومت کا قیام ہندوؤں کے لیے تو محض آقاؤں کی تبدیلی تھی، لیکن مسلمانوں کے لیے یہ تباہی کا پیغام بن کر آئی، اسلامی دور میں ہندو فارسی پڑھتے تھے۔ انگریزوں کے وقت اُنھوں نے انگریزی کا مطالعہ شروع کردیا۔ لیکن مسلمانوں کے لیے شروع شروع میں بدلے ہوئے حالات کے سانچے میں اپنے آپ کو ڈھالنا ناممکن نظرآتا تھا۔ مسلمانوں کے بہت سے طبقے مغربی اثرات سے کھلم کھلا اپنی ناگواری بلکہ بیزاری کا اظہار کرتے تھے۔ اور کئی خاندان تو اس بات پر فخر کیا کرتے تھے کہ ہمارے کسی فرد نے ابھی تک کسی انگریزی سکول کا منہ نہیں دیکھا اور کسی انگریز کا نمک نہیں چکھا۔ مولانا محمد علی نے اپنی خود نوشت سوانح میں بیان کیا ہے کہ ان کے ہمسائے انگریزی پڑھنے کو شرافت سے بعید گردانتے تھے۔ ایک دیسی ریاست کے حاکم اعلیٰ کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ کسی انگریز سے ہاتھ ملانے کے بعد گھنٹوں اپنے ہاتھوں کو صابن اور پانی کی مدد سے پاک کرتا رہتا تھا۔ مغربی تعلیم برطانوی دور کے آغاز میں مسلمانوں کو برطانوی درآمدات میں آہستہ آہستہ رائج ہونے والا مغربی نظامِ تعلیم سب سے زیادہ کھٹکتا تھا۔ مسلمانوں کو اس کے خلاف بہت سے اعتراضات تھے۔ یہ نظام اسلامی روایات کے منافی اور ان کے قومی تشخص کے لیے مہلک تھا۔ ہر قوم کے تشخص کی بقا کے لیے ایک موزوں نظامِ تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی روحانی قدروں سے ہم آہنگ ہو اور اس کے مادی تقاضوں کو پورا کرسکے، اور یہی وجہ ہے کہ موجودہ دنیا میں آزاد ملکوں کے تعلیمی ڈھانچے اور ان کے اندر پڑھائے جانے والے مضامین میں یکسانیت نہیں پائی جاتی۔ کسی زمانے میں اسلامی دنیا کے بہت سے حصوں میں نظامِ تعلیم ایک جیسا ہوا کرتا تھا، بلکہ بہت سی صورتوں میں نصابی کتب بھی ایک ہی ہوا کرتی تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسلامی برادری کی روحانی قدریں ایک جیسی تھیں، جب اسلامی ممالک یکے بعد دیگرے استعمار کا شکار ہوئے، تو مغربی حکمرانوں نے وہاں اپنے اپنے ڈھب کے سکول اور کالج کھولے تاکہ محکوم قوموں کے تشخص کو اگر کلی طور پر ختم نہیں تو کم از کم اُبھرنے سے روک دیا جائے۔ ابھی بیان کیا جاچکا ہے کہ برصغیر میں نیا نظامِ تعلیم یک لخت نہیں بلکہ قسطوں میں جاری کیا گیا تھا، اُنیسویں صدی کے شروع میں کلکتہ کے مضافات میں انگریزی مدرسے کھولے گئے۔ (انگریزی مدرسے سے مراد آج کل جیسا پبلک سکول نہیں بلکہ وہ سکول ہے جہاں عام تدریسی مضامین کے علاوہ انگریزی بھی پڑھائی جاتی ہو) اس طرزِ تعلیم کی تحریک زیادہ تر راجہ رام موہن راے کی طرف سے ہوئی۔ کلکتہ میں مقیم انگریزوں نے ابتدائی امداد فراہم کی۔ ۱۸۱۳ء کے بعد عیسائی پادریوں کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے مقبوضات میں داخل ہونے اور اپنے مذہب کی اشاعت کی اجازت دے دی گئی۔ پادریوں نے عیسائیت کی تبلیغ کی بہت سی تدبیریں کیں، چوراہوں میں کھڑے ہوکر وعظ کرنا۔ اپنے مذہب کی خوبیاں اجاگر کرکے اپنی برتری کا سکہ جمانا، دوسرے مذاہب پر بے درنگ نکتہ چینی کرنا، یہ سب ان کے حربوں میں شامل تھے۔ مگر ان کو جلد ہی معلوم ہوگیا کہ اپنے مدرسوں میں غیر عیسائی بچوں کو تعلیم دے کر اور ہسپتالوں میں بیماروں کا علاج معالجہ کرنے سے بہتر تبلیغی نتائج حاصل ہوں گے۔ چنانچہ اسی بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے جگہ جگہ مشنری سکول کھولے گئے۔ ان میں عام طور پر درسی مضامین پڑھائے جاتے تھے اور انجیل کی تدریس کے لیے سکول کے ٹائم ٹیبل میں صرف ایک گھنٹہ رکھا جاتا تھا۔ لیکن دوسرے مضامین کی پڑھائی کے دوران عیسائیت کی تعلیم کے لیے گنجایش نکال لی جاتی تھی اور تاریخ ہو یا جغرافیہ، سائنس ہو یا حساب، استاد صاحبان اس کو ایسے ڈھنگ سے پڑھاتے تھے کہ اشاعت علم کے ساتھ ساتھ ان کے تبلیغی مقاصد بھی پورے ہوتے رہیں۔ جوں جوں برطانوی سلطنت وسیع ہوتی گئی پادریوں کی تعلیمی سرگرمیاں بھی ساتھ ساتھ پھیلتی گئیں۔ حکومت کے اعلیٰ کارکن مشنری سکولوں کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی کرتے تھے۔ ۱۸۳۵ء میں لارڈ ولیم بنٹک کے دورِ حکومت میں ایک پرانے قضیے کا فیصلہ ہوا۔ تصفیہ طلب معاملہ یوں تھا کہ ۱۸۱۳ء سے حکومت اپنی رعایا کی تعلیم کے لیے ایک معمولی سی رقم ہر سال علیحدہ رکھ دیا کرتی تھی۔ کئی سال تک تو یہ رقم یوں ہی پڑی رہی۔ بعد میں اس سے پرانی کتابوں کو از سرِ نو چھپوانے کا اہتمام کیا گیا، اسی دوران ایک نئی بحث چھڑ گئی کہ برصغیر کی برطانوی رعایا کو کس طرح کی تعلیم دی جائے۔ پرانی یا نئی؟ حکومت کے بعض مقتدر کارکنوں نے اس بحث میں حصہ لیا اور بالآخر اس جھگڑے کا فیصلہ میکالے کی راے کے مطابق نئی تعلیم کے حق میں ہوا۔۲؎ اس نئی تعلیم کا ایک بنا بنایا ڈھانچہ پہلے سے مشنری سکولوں کی صورت میں موجود تھا۔ کم و بیش اسی ڈھب کے سرکاری سکول کھلنے شروع ہوگئے۔ جہاں عربی پڑھائی جاتی تھی نہ فارسی اور نہ مذہبی اور اخلاقی تعلیم کا کوئی انتظام تھا۔ خاموشی سے یا کھلم کھلا یہ سکول عیسائیت کی اشاعت کے ادارے بھی تھے۔ مسلمانوں کو ان سے ایک گونہ بد دلی تھی۔ وہ ان مدرسوں کو مجہلے کہتے تھے۔ کیونکہ ان سے جو بچے تعلیم پاکر نکلتے وہ اپنے مذہب اور قومی روایات سے کھلے بندوں منحرف ہوجاتے تھے۔ اس لیے مسلمانوں کی غالب اکثریت اپنے بچوں کو پرانی طرزِ کے سکولوں میں تعلیم دلانا بہتر سمجھتی تھی۔ اس کا ایک نتیجہ تو یہ نکلا کہ برطانوی دور میں کسب معاش کے تمام ذریعوں پر نئی تعلیم پانے والے طبقے قابض ہوگئے تھے جن میں مسلمانوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ سے پہلے ہی برصغیر کا بہت سا حصہ براہِ راست انگریزوں کے تسلط میں آچکا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اپنی زندگی کے آخری لمحوں تک پہنچ چکی تھی۔ ۱۸۵۶ء میں نئے نظامِ تعلیم کو باقاعدہ بنیادوں پر استوار کیا گیا اور وسعت دی گئی۔ اسی نئے منصوبے کے ماتحت لندن یونی ورسٹی کے نمونے پر یہاں پہلی یونی ورسٹیوںکی بنیاد رکھی گئی۔ یہ یونی ورسٹیاں کلکتہ، بمبئی اور مدراس کے شہروں میں قائم ہوئیں۔ ان میں انگریزی ادب، فلسفہ اور مغربی تاریخ جیسے مضامین کی تدریس پر بہت زور دیا جاتا تھا۔ ان یونی ورسٹیوں میں تعلیم پانے والے افراد مغربی فلسفہ اور سیاسی نظریات سے واقف ہوجاتے تھے۔ اگرچہ اس طبقے کی تعداد بہت کم تھی، لیکن اس زمانے کے حالات میں ان کا اثر و رسوخ بہت زیادہ تھا۔ ۱۸۷۵ء میں جب ان یونی ورسٹیوں کی کار کردگی کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ ان میں سے کل چھ سو افراد نے ڈگریاں حاصل کی تھیں اور ان ڈگری پانے والوں میں سے صرف اُنیس مسلمان تھے۔ ان اعداد سے یہی ثابت ہے کہ مسلمانوں کو نئے نظامِ تعلیم سے کوئی عقیدت نہ تھی، قوم کا بہت بڑا حصہ اس قسم کی تعلیم کو اپنے لیے امتیاز کا باعث نہیں سمجھتا تھا۔ کیونکہ عام خیال یہی تھا کہ یہ تعلیم مسلمانوں کو نامسلمان بناتی ہے۔ ہمارے چند محققین نے مغربی تعلیم کی حمایت میں بعض علما کے فتوؤں کی نشان دہی کی ہے۔ لیکن انھی فتوؤں کا وجود ثابت کرتا ہے کہ اس تعلیم کو نظر استحسان سے دیکھنے والے بہت کم لوگ تھے۔ اس سلسلے میں سرسید احمد خاں کے خیالات عام طور پر معلوم ہیں، انھوں نے جب مسلمانوں کی تباہ حالی، مغربی تعلیم سے بے زاری، حکمرانوں کی مسلم دشمنی اور گرد و پیش کے دوسرے حالات کا جائزہ لیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کو آگے بڑھ کر انگریزوں سے افہام و تفہیم کرنا چاہیے۔ اور مغربی تعلیم کا بائیکاٹ (جو اُن کی راے میں قوم کے حق میں مضر تھا) ختم کرنا چاہیے۔ ان کو بہت سی چھان بین کے بعد معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے اندر مغربی تعلیم کے خلاف جو تعصبات پائے جاتے ہیں وہ بے بنیاد نہیں۔ مسلمانوں کے قومی تشخص کی بنیاد ان کا مذہب ہے۔ مغربی تعلیم اس تشخص کو واضح کرنے کے بجائے اس کے خدوخال کو مسخ کرکے رکھ دیتی ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ مغربی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کا اہتمام بھی کیا جائے تاکہ نوجوان اس تعلیم کے مذہب کش اثرات سے محفوظ رہ سکیں، نظری طور پر تو یہ فیصلہ کرنے میں کوئی دقت نہ ہوئی۔ لیکن عملی طور پر دینیات کا کوئی ایسا متفقہ نصاب وضع نہ ہوا جو سرسید کی منشا کے مطابق مغربی تعلیم کے الحاد پرور زہر کا تریاق ثابت ہوتا۔ البتہ علی۔گڑھ کالج کے ماحول میں بہت سی ایسی خوبیاں پیدا ہوگئی تھیں کہ طالب علموں کی مذہبی حس کسی نہ کسی صورت میں قائم رہی بلکہ ان کے اندر مسلم قومیت کا شعور پروان چڑھا۔ قوم میں سرسید کے تعلیمی منصوبوں کی مخالفت ہوئی اور مخالفت کی کوئی ایک وجہ نہ تھی۔ حالی نے ان کے مذہبی نظریات کو بناے مخالفت قرار دیا ہے لیکن ساری بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ مغربی تعلیم کے خلاف اعتراض یہ تھا کہ اس سے الحاد پرور فضا پیدا ہوتی ہے جو طلبا کو اپنی روایات سے بے زار کرتی اور اپنے ماضی سے بیگانہ بناتی ہے۔ ناپختہ نوجوان ان اثرات کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور اسلام دشمن نظریات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اکبر نے اس تعلیم کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا۔ اقبال بھی بار بار اس طرف اشارہ کرتے ہیں۔ پاکستان میں دو تین دفعہ نہایت سنجیدگی کے ساتھ تعلیمی اصلاح کا بیڑہ اُٹھایا گیا ہے اور تعلیمی ڈھانچے میں دور رس تبدیلیاں کی گئیں ہیں۔ لیکن بحیثیت مجموعی اس نظام میں بھی تعلیم کی پرانی روح موجود ہے۔ اگرچہ دینیات کی تعلیم پر بھی تمام اصلاحی منصوبوں میں زور دیا گیا ہے اور سیکنڈری جماعتوں تک ہر پاکستانی طالب علم کے لیے مذہبی تعلیم اور تاریخ اسلامی کے بنیادی اسباق لازمی قرار دیے گئے ہیں۔ لیکن ابھی تک ان سے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے۔ خیر یہ تو بعد کی بات ہے۔ لیکن اس ساری بحث سے یہ امر واضح ہے کہ مسلمانوں کے نزدیک ان کی قومیت کی بنیاد مذہب ہے۔ قومیت کے اس جذبے کو تازہ اور زندہ رکھنے کے لیے مذہب کی تعلیم ناگزیر ہے۔ خالص دنیاوی تعلیم (مغربی تعلیم) سے مسلمانوں کی روحانی اغراض پوری نہیں ہوتیں۔ دینی تعلیم کو مؤثر بنانے کے لیے اسے مغربی علوم کے ساتھ ساتھ حاصل کرنا ہوگا۔ دونوں کی علیحدگی سے قوم کے لیے خطرناک نتائج پیدا ہوں گے۔ خود اقبال نے جابجا اپنی تحریروں اور اپنے خطوط میں اس ضرورت کا اظہار کیا ہے۔ اقبال کے ان خیالات کی اہمیت پاکستان میں تسلیم کی جاتی ہے اور یہ خیالات ہمارے ذہن کا حصہ بن چکے ہیں۔ حکومت نے بھی دینی تعلیم کو بامعنی بامقصد بنانے کے لیے اسلامی تحقیقات کے ادارے قائم کررکھے ہیں، جو بدلتے ہوئے حالات میں اسلامی احکام کے تقاضوں کی نشان دہی کرنے پر مامور ہیں۔ مغربی جمہوریت مسلمانوں کے قومی تشخص کے لیے دوسرا بڑا خطرہ جمہوریت کا وہ تصور تھا جو مغربی تعلیم کے ذریعے یہاں پھیلنا شروع ہوا۔ مغربی جمہوریت کی اساس مساواتِ انسانی کے قدیم رومن نظریے پر قائم ہے۔ امریکہ کی جنگِ آزادی اور انقلابِ فرانس کے بعد یورپ میں جمہوریت نے ایک واضح شکل اختیار کی۔ نپولین کی جنگوں کے بعد صلح نامہ ویانا نے جس بے دردی سے عوامی امنگوں کا خون کیا تھا اس سے براہ راست بہت سی آزادی کی تحریکیں اُٹھیں۔ ان تحریکوں کی گرما گرمی اور ان کے راہنماؤں کی آتش نوائی سے جمہوریت اور اس کے ساتھ ہی نیشنلزم کے نظریات پختہ ہوتے گئے۔ اور بالآخر مغربی تہذیب اور طرزِفکر کا جزو بنتے چلے گئے۔ برصغیر کی یونی ورسٹیوں میں انگریزی ادب کی پڑھائی پر بہت زیادہ زور دیا جاتا تھا۔ اور بعض وہ کتابیں جو بعد میں علم سیاسیات کی ٹکسالی کتابیں شمار ہونے لگیں۔ (اس زمانے میں پولیٹیکل سائنس کے مضمون نے اپنی موجودہ حیثیت اختیار نہ کی تھی) انگریزی ادب کے نصاب میں شامل تھیں۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور انگلستان کے مفکر جان سٹوارٹ مل کی کتابیں لبرٹی اور رپرے زنٹیٹو گورنمنٹ تھیں۔ ایڈمنڈ برک کی وہ تقریریں جو اس نے برطانیہ کے دارالعوام میں امریکی نو آباد کاروں کی حمایت میں امریکی جنگ آزادی کے ابتدائی دور میں کی تھیں، وہ بھی یونی ورسٹیوں میں بڑے ذوق و شوق سے پڑھی جاتی تھیں۔ اس لٹریچر سے تعلیم یافتہ طبقے میں (مغربی قسم کی) حریتِ فکر کی لہریں اُٹھیں۔ اور انھی لہروں سے پہلے سیاسی بیداری اور بعد میں سیاسی تحریکوں نے جنم لیا، انڈین نیشنل کانگرس کا وجود بھی مغربی تعلیم کا ایک نتیجہ تھا۔ اس کا بانی انڈین سول سروس کا ایک وظیفہ یاب رکن ہیوم نامی تھا۔ اس نے کلکتہ یونی ورسٹی کے تمام گریجوایٹوں کو ایک گشتی چھٹی لکھ کر اس جماعت کے قیام کی تحریک کی تھی۔ کانگریس کا پہلا اجلاس کلکتہ میں ۱۸۸۵ء میں منعقد ہوا۔ اس کا پہلا صدر ایک بنگالی عیسائی بینرجی نامی تھا۔ لیکن سارے اجلاس پر ہیوم چھایا ہوا تھا۔ حاضرین نے بار بار ملکہ وکٹوریہ کے لیے نعرہ ہائے تحسین بلند کیے۔ ابتدا میں کانگریس کوئی عوامی تنظیم نہیں تھی۔ اس کی رکنیت انگریزی دان طبقے تک محدود تھی۔ اس کے سالانہ اجلاس بھی بڑے شہروں میں منعقد ہوتے تھے۔ جلسے کے دنوں میں خوب گہما گہمی رہتی۔ قراردادیں پاس کی جاتیں اور اس کے بعد سال کے باقی حصے میں اس کے ارکان کی طرف سے کسی قسم کی سرگرمی کا مظاہرہ نہ ہوتا۔ لیکن اس ناکارکردگی کے باوجود کانگریس کے ارکان کو اپنی اعلیٰ پاے کی انگریزی دانی اور حکام رسی کی وجہ سے آبادی کے دوسرے طبقوں پر برتری حاصل تھی۔ یہ کہنا شاید بہت ضروری نہیں کہ کانگریس محض ایک ہندو جماعت تھی۔ مسلمانوں نے اس سے چنداں علاقہ نہ رکھا تھا۔ اس کی کیا وجہ تھی؟ کانگریس نے سال بہ سال منعقد ہونے والے جلسوں میں مطالبات کی ایک فہرست دھرانی شروع کردی۔ یہ مطالبے تعداد میں تو بہت زیادہ تھے۔ لیکن ان میں دو مطالبے بطور خاص اہم تھے۔ ان میں سے پہلا تو یہ تھا کہ برصغیر میں بھی برطانیہ کے نمونے پر پارلیمانی حکومت قائم کی جائے اور دوسرے یہ تمام سرکاری ملازموں کو مقابلے کے امتحان کے ذریعے بھرتی کیا جائے۔ یہ مطالبات بہت منصفانہ، خوش نما اور مبنی بر اصول نظرآتے تھے، لیکن مسلمانوں کے لیے ان میں بہتری کا کوئی پہلو نہ تھا۔ برطانوی حکومت ایک نمایندہ طرزِ حکومت ہے۔ اس میں اقتدار تمام تر ان لوگوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے جن کو عوام ووٹوں کے ذریعے چنتے ہیں۔ اس لیے یہ حکومت اکثریت کی حکومت ہوتی ہے۔ اگر یہ طرزِ حکومت یہاں بھی قائم کردیا جاتا تو اس میں مسلمان ہمیشہ کے لیے اقلیت بن جاتے اور اقتدار سے محروم رہتے۔ اگر سرکاری نوکری کو صرف مقابلے کے امتحانوں میں اعلیٰ نمبر حاصل کرنے والوں تک محدود کردیا جاتا تو مسلمانوں کو یہاں بھی نقصان اُٹھانا پڑتا۔ کیونکہ اس وقت قوم میں اعلیٰ تعلیم کا فقدان تھا۔ سرکاری ملازمت میں مسلمانوں کا عنصر پہلے ہی بہت کم تھا، مقابلے کے امتحانوں سے ملکی انتظامیہ میں (جو برے بھلے موقعے اس وقت اہل ملک کو حاصل تھے) مسلمانوں کے داخلے کے امکانات اور بھی کم ہوجاتے۔ اگر ہندو راہنما ان مطالبوں پر زور دیتے تھے تو اس میں کسی قسم کی اصول پرستی کو کوئی دخل نہ تھا۔ اگر مسلمان ان مطالبوں کے لیے گرم۔جوشی کا اظہار کرنے سے قاصر تھے تو اس کی وجہ بھی آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے۔ یہاں بھی بنیادی مسئلہ مسلمانوں کے قومی تشخص کے تحفظ سے متعلق تھا۔ اگر مسلمان نہ ارکانِ حکومت میں شامل ہوں نہ انتظام و انصرامِ سلطنت میں ان کا کوئی حصہ ہو تو ظاہر ہے کہ یہ آہستہ آہستہ بے اثر ہوتے جائیں گے اور بالآخر اپنے قومی وجود سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ اس طرز و فکر کی ابتدا سرسیداحمد خان سے ہوئی۔ پہلے پہل تو وہ کبھی کبھار مغربی طرزِ حکومت اور اس کے اداروں کا ذکر توصیفی انداز میں کیا کرتے تھے لیکن جب ملک میں میونسپل کمیٹیوں جیسے انتخابی ادارے قائم ہوئے اور ان کے انتخابات میں مسلمانوں کو پے در پے ہزیمتیں ہونا شروع ہوئیں، تو وہ انتخابی طرزِ حکومت سے کھٹک گئے۔ جب ۱۸۹۲ء کے انڈین کونسلز ایکٹ کی رو سے قانون ساز مجالس کی تشکیل کے لیے بھی ایک طرح کا بالواسطہ انتخاب رائج ہوا تو مسلمانوں کو اس سے بھی نقصان اُٹھانا پڑا۔ ان انتخابی حلقوں میں جہاں مسلمان آبادی زیادہ بھی ہوتی، مسلمان انتخابی جنگ میں مات کھاجاتے۔ چنانچہ زندگی کے آخری سالوں میں جہاں سرسید کو اور بہت سے مشکل مسائل درپیش رہے، وہاں یہ قومی مسئلہ بھی ان کی خصوصی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ اس مضمون پر اُنھوں نے ۱۸۹۲ء میں اپنے بیٹے سید محمود کے قلم سے ایک یادداشت تیار کروائی تھی جس کا ماحصل یہ تھا کہ الیکشن کا مغربی طریقہ رائج ہونے سے مسلمانوں کے مفاد کو گزند پہنچے گا۔ اس لیے مغربی جمہوریت کو برصغیر میںمعقول تبدیلیوں کے بغیر طمانیت سے رائج نہیں کیا جاسکتا۔ اپنے زمانے میں اقبال بھی اس طرزِ فکر سے متفق تھے۔ علاوہ بریں اُن کو جمہوریت کے اس تصور پر اور اعتراضات بھی تھے، مثلاً اس نظام کے اندر اعلیٰ انسانی قدروں کی حفاظت نہیں ہوتی۔ عالم اور جاہل، ظالم اور عادل، مخیر اور ممسک، راست رو اور کج رو سب کو ایک سطح پر رکھ دیا جاتا ہے۔ بلکہ یہ جمہوریت حقیقی جمہوری روح سے عاری ہے کیونکہ اس کی شہ رگ سرمایہ داروں کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ سرسید کی وفات کے بعد علی۔گڑھ مکتبۂ فکر کے راہنما کچھ عرصہ تک ذہنی انتشار کا شکار بنے رہے۔ سرکاری حلقوں میں کانگرس کا روز افزوں اثر و رسوخ ان کے شکوک و شبہات میں اضافہ کرتا تھا۔ حکومت مسلمانوں سے کھچی کھچی رہتی تھی۔ اسی نسبت سے مسلمانوں کے مطالبات کی شنوائی نہ ہوتی تھی۔ کانگریس کے گرم گفتار رہنما کونسلوں اور سیاسی پلیٹ فارموں پر ایسی تقریریں کرتے تھے جو مسلمانوں کے منہ سے نکلتیں تو وہ بغاوت کے الزام میں دھر لیے جاتے۔ لیکن انھی لوگوں کو حکومت کے ایوانوں میں خوش آمدید کہا جاتا تھا اور ان کے مطالبات ہمدردی سے سنے جاتے تھے۔ کچھ مسلمان طبقے چاہتے تھے کہ کانگریس جیسی قومی تنظیم کی بنیاد رکھیں، لیکن اس تجویز کے مخالفوں کو ڈر تھا کہ اس سے حکومت برہم ہوگی۔ چند سال تک قوم میں ایک طرح کا جمود چھایا رہا، حتیٰ کہ ۱۹۰۵ء کی تقسیمِ بنگال نے ملکی فضا میں ایک زبردست سیاسی تلاطم پیدا کیا۔ ہندوؤں کو بنگال کی تقسیم سخت ناگوار گزری، اُنھوں نے اس کو ختم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ برصغیر کے انگریز حکمران تھوڑا عرصہ تو تقسیم کو قائم رکھنے کے بلند بانگ دعوے کرتے رہے، لیکن ساتھ ساتھ وہ اعتدال پسند اہلِ سیاست کو قابو میں رکھنا چاہتے تھے۔ اِس عضر کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے وزیرِ ہند نے ۱۹۰۶ء میں اس امر کا اعلان کیا کہ ملکی انتظامیہ میں جمہوری نوعیت کی اصلاحات نافذ کی جائیں گی۔ جیسا کہ ابھی بتایا جاچکا ہے۔ مسلمانوں کے لیے ایسی جمہوریت قابلِ قبول نہ تھی جس کے نتیجے میں اُن پر اکثریت کی دائمی اور بے لگام حکومت مسلط ہوجائے۔ الیکشنوں کے نتائج اس خدشے کی تصدیق کرچکے تھے۔ اگر مستقبل میں بھی انتخابات کا مسلم کش رجحان جاری رہا تو مسلمانوں کے قومی تشخص کے معدوم ہونے میں کوئی شک باقی نہ رہے گا۔ صلاح مشورے کے بعد مسلمان راہنماؤں نے فیصلہ کیا کہ وائسراے کے پاس ایک وفد بھیج کر قوم کا نقطۂ نظر پیش کیا جائے۔ تفصیلات طے کرنے کے بعد اس وفد کے ۳۶ ارکان آغاخاں سوم کی سرکردگی میں یکم؍ اکتوبر ۱۹۰۶ء کو لارڈ منٹو سے بمقام شملہ ملے۔ (اسی لیے اسے شملہ ڈیپوٹیشن کہا جاتا ہے) ایک طویل خطاب میں بہت سی باتیں کہی گئی تھیں۔ لیکن اس کے دو مطالبے قابلِ ذکر ہیں۔ اوّل یہ کہ آیندہ دستور کے ماتحت بننے والی کونسلوں میں مسلمانوں کو مؤثر نمایندگی دی جائے اور دوسرے مسلمانوں کے نمایندے مسلمانوں کے ووٹوں سے چنے جائیں۔ (یہ طریقہ جداگانہ انتخاب کے نام سے مشہور ہوا)۔ وائسراے نے مسلمانوں کی خواہشات کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور خطاب کا جواب ایسے الفاظ میں دیا جن میں کسی قسم کے وعدے کی جھلک نظر آتی تھی۔ لیکن برطانوی حکومت کے ریڈیکل ارکان نے اس وعدے کو سخت ناپسند کیا اور انھوں نے وائسراے کے وعدے کو غیر مؤثر بنانے کے لیے بھرپور کوششیں کیں، بالآخر حکومت کو مسلمانوں کے متحدہ مطالبے کے سامنے جھکنا پڑا۔ اور ۱۹۰۹ء کے آئین میں جداگانہ انتخاب کا طریقہ شامل کرلیا گیا۔ برصغیر کے غیر مسلم مؤرخوں نے اس ڈیپوٹیشن کے متعلق بہت سی کہانیاں گھڑی ہیں۔ اس میں انگریزی حکومت کے اپنے مفاد کو دخل ہو یا نہ ہو مولانا محمد علی کے الفاظ میں بذاتِ خود جداگانہ انتخاب کا مطالبہ حق و انصاف پر مبنی تھا۔ کئی سالوں تک اس سے مسلمانوں کے قومی تشخص کی حفاظت ہوتی رہی۔ ۱۹۱۲ء میں حکومتِ ہند نے امپیریل کونسل میں اس بات کا وعدہ بھی کرلیا تھا کہ جداگانہ انتخاب اس وقت تک قائم رہے گا جب تک مسلمان اس کی ضرورت محسوس کرتے رہیں گے۔ ۱۹۱۶ء کے لکھنؤ پیکٹ میں کانگریس نے جداگانہ انتخاب کو منظور کرلیا۔ ۱۹۲۶ء کے بعد کانگریس خاموشی سے اپنے وعدے سے منحرف ہوگئی۔ اور جداگانہ انتخاب کے خلاف کانگریس اور ہندو مہاسبھا دونوں نے مل کر ایک محاذ قائم کیا، دونوں اپنے مؤقف کے حق میں نہایت مضحکہ خیز دلائل پیش کرتی رہیں لیکن جوں جوں ہندوؤں کی مخالفت بڑھتی جاتی تھی، جداگانہ انتخاب کے لیے مسلمانوں کا اصرار بھی بڑھتا جاتا تھا۔ ۱۹۲۸ء سے لے کر ۱۹۳۳ء تک سیاسی بحث مباحثوں میں بھی مسلمانوں کی طرف سے تحفظات کا مطالبہ (جن میں جداگانہ انتخاب کا طریقہ بھی شامل تھا) شدومد سے ہوتا رہا۔ محمد علی جناح کے چودہ نکات (مارچ۱۹۲۹ئ) بھی انھی تحفظات کی تشریح کرتے تھے۔ مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کی آواز کا یہ اثر ہوا کہ ۱۹۳۵ء کے آئین میں اقلیتوں کے لیے تحفظات کو نمایاں جگہ دی گئی۔ یہ آئین ۱۹۳۷ء میں نافذ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اکثریت کے معاندانہ ارادوں کے سامنے تحفظات کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ قومی ترانے کی حیثیت سے بندے ماترم کا نفاذ، واردھا کی تعلیمی سکیم کا اجرا اور اُردو کشی کی کانگریسی مہم نے ثابت کردیا کہ آئین پر عمل کرنا یا نہ کرنا اکثریت کی مرضی پر موقوف ہے، اگر اکثریت کی منشا نہ ہو تحفظات کی حیثیت کاغذی پرزوں جیسی بھی نہیں رہتی، اور اقلیت کا مستقبل اکثریت کے رحم و کرم پر موقوف ہوجاتا ہے۔ اسی احساس نے مسلمانوں میں قومی وطن کے مطالبے کو جنم دیا اور یہ واضح کیا کہ قومی تشخص کا تحفظ کرنے کے لیے سیاسی اور عسکری قوت لازمی ہے، اگر قوم کے پاس اقتدار نہ ہو تو وہ اپنے تشخص کو قائم نہیں رکھ سکتی۔ اقبال کے ہاں اس بات کو بار بار بیان کیا گیا ہے۔ جاوید نامہ میں قصرِ شرف النسا والی نظم میں تلوار اور قرآن کو دو ایسی قوتیں بتایا گیا ہے جو ایک دوسرے کی محافظ ہیں۔ اُردو زبان مسلمانوں کے قومی تشخص کی ایک علامت اُردو زبان کی صورت میں موجود ہے۔ یہ زبان کب پیدا ہوئی اور کس علاقے میں پیدا ہوئی؟ اس کے متعلق ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوئے بہت سے نظریات اُردو ادب کی کتابوں میں ملتے ہیں، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ دہلی، لکھنؤ، دکن، پنجاب اور ملتان تک کے علاقے اس زبان کا مولد ہونے کے مدعی ہیں، اور یہ بات اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے کہ اُردو نثر باقاعدہ طور پر فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں لکھی جانے لگی۔ بہرحال آج کل یہ زبان ایشیائی زبانوں میں منفرد ہے اور اس کے بولنے اور سمجھنے والے دنیا کے وسیع خطوں پر پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ برصغیر میں اسلامی دورِ حکومت کی پیداوار اور یادگار ہے۔ اس کے ذخیرہ الفاظ میں فارسی اور عربی الفاظ کی کثرت ہے، اگرچہ کہیں کہیں فارسی اور عربی لفظ اُردو میں آکر نئے معنے اختیار کرچکے ہیں اور بعض فارسی محاورے جو برصغیر میں ڈھلے اُن کو ایران میں کوئی نہیں پوچھتا۔ اُردو زبان میں عربی کے وہی الفاظ مستعمل ہیں جو فارسی کے راستے اس زبان میں داخل ہوئے۔ اُردو کا رسم الخط فارسی اور عربی کی طرح ہے۔ یہ دائیں سے بائیں جانب لکھی جاتی ہے۔ کم و بیش شاہ جہان کے وقت سے اُردو لال قلعے میں بولی جاتی تھی اور قلعہ معلی میں بولی جانے والی زبان کو سند کی حیثیت حاصل تھی، دہلی کے آخری تاج دار بہادر شاہ ظفر اس زبان میں شعر بھی کہتے تھے اور ان کے دیوان اُردو کے شعری سرماے میں شامل ہیں۔ یہ بات بھی کچھ کم اہم نہیں کہ اسلامی علوم کا بہت بھاری ذخیرہ اُردو میں موجود ہے، پاکستانی مؤرخ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کا بیان ہے کہ اسلام کے متعلق جو کچھ دوسری زبانوں میں لکھا گیا ہے اس کو یک جاکر دیا جائے تو اُردو میں لکھی جانے والی دینی کتابوں اوررسائل کی تعداد اس سے زیادہ نکلے گی۔ انگریزی دورِ حکومت کے ابتدا میں اُردو شمالی ہندوستان کی مشترکہ زبان سمجھی جاتی تھی۔ اسے عام طور پر ہندوستانی کہا جاتا تھا۔ ۱۸۳۵ء میں جب فارسی زبان کو سرکاری دفتروں سے بے دخل کردیا گیا تو اس کی جگہ انگریزی کو ملی۔ لیکن انگریزی جاننے والوں کی تعداد کم تھی۔ اس لیے اُردو دفتروں، عدالتوں اور سکولوں میں پہنچی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے عہد حکومت میں جو چند ڈکشنریاں تیار کی گئیں ان میں ہندوستانی (اُردو) کی ڈکشنری بھی شامل تھی۔ دہلی کالج میں مغربی علوم کی تعلیم بذریعہ اُردو دی جاتی تھی۔ رڑکی کے انجینئرنگ کالج اور آگرہ کے میڈیکل کالج میں بھی یہی زبان پیچیدہ اور مشکل علوم کے مفہوم ادا کرتی تھی۔ ۱۸۵۸ء میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی کا خاتمہ ہوا تو برصغیر کی حکومت براہ راست ملکۂ انگلستان کے ہاتھ میں آگئی۔ ملکہ وکٹوریہ کو ۱۸۵۷ء کی خونی جنگ سے رعایا میں پیدا ہونے والے آتشیں جذبات کا بخوبی علم تھا۔ چنانچہ اس نے ہندوستانیوں کی تالیفِ قلب کے لیے اُردو زبان پڑھنا شروع کی۔ اس کے لیے آگرہ سے ایک صاحب عبدالکریم نامی ٹیوٹر کے طور پر مقرر ہوکر انگلستان گئے۔ منشی عبدالکریم کو شاہی محل میں غیر معمولی اثر و رسوخ حاصل ہوا اور ان کی بدولت کئی سال تک انگلستان کے شاہی محل میں اُردو اگر بولی نہ جاتی تو اس کے سمجھنے والے ضرور موجود تھے۔ ملکہ وکٹوریہ نے اُردو میں کہاں تک استعداد حاصل کی؟ اس کے متعلق کچھ معلوم نہیں، لیکن وہ اپنے دستخط اُردو زبان میں بخوبی کرسکتی تھیں۔ اُردو زبان کی یہ غیر معمولی مقبولیت ہندوؤں کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ وہ اس امر کی تدبیریں سوچ رہے تھے کہ اُردو کے مرتبے کو کم کرکے اس کی جگہ ہندی زبان کو دلوادیں۔ یہ بات بھی بقول اقبال دلچسپی سے خالی نہیں کہ پہلے پہل تو انگریز حکمرانوں نے بڑی تن دہی کے ساتھ اُردو کو فروغ دیا، تاکہ مسلمانوں کا رشتہ عربی اور فارسی سے کٹ جائے اور وہ اپنے علمی اور تہذیبی رشتے سے محروم ہوجائیں، مگر پھر اسی اُردو سے جب مسلمانوں کے شعورِ ملّی کو تقویت پہنچی اور وہ ان کی قومی زبان بن گئی تو یہ امر طبعاً حکومت کو ناگوار گزرا اور اب اس نے اُردو کے مقابلے میں ہندی کی حمایت شروع کردی۔ ۱۸۶۷ء میں ہندی کے حق میں ایجی ٹیشن شروع کی گئی۔ ابتدا بنارس سے ہوئی۔ ہندوؤں نے اس مقصد کے لیے ایک انجمن کی بنیاد رکھی جس کی شاخیں مختلف شہروں میں قائم ہوئیں، اور اُنھوں نے پبلک جلسوں، قراردادوں اور یادداشتوں کے ذریعے اعلیٰ سرکاری افسروں تک اپنا مؤقف پہنچانا شروع کیا۔ ابتدائی نتائج حوصلہ افزا نکلے۔ بنگال کے لیفٹیننٹ گورنر نے (جو اُردو کو زنانِ بازاری کی زبان کہا کرتے تھے) بہار کے علاقے میں اُردو زبان کی دفتری حیثیت کو ختم کردیا۔ اس سے اُردو دشمن عناصر کو تقویت پہنچی۔ برسوں تک یہ قضیہ چلتا رہا۔ اس کی تفصیلات دیکھنا ہوں تو وہ الطاف حسین حالی کی حیاتِ جاوید یا فرانسیسی مستشرق گارساں دتاسی کی کتابوں مقالات اور خطبات میں مل سکتی ہیں، سرسید پر ہندو حلقوں کی یہ کارروائی بہت گراں گزری۔ اُنھوں نے صاف صاف کہ۔َ۔ دیا کہ اُردو کو مٹانے پر ہندو اس لیے تلے ہوئے ہیں کہ اس زبان کا وجود ان کو اسلامی دورِ حکومت کی یاد دلاتا ہے۔ اُنھوں نے ابتدا سے ہی دیکھ لیا تھا کہ اُردو ہندی جھگڑا جس ڈھنگ اور جس نیت سے اُٹھایا گیا ہے وہ بڑھتا ہی چلا جائے گا اور اس سے دو قوموں کے درمیان منافرت کی خلیج وسیع ہوتی چلی جائے گی۔ سرسید نہایت وسیع القلب اور بے تعصب انسان تھے۔ بعض ہندو ان کے بہت قریبی دوستوں میں شامل تھے۔ ان کی قائم کی ہوئی سائنٹفک سوسائٹی جو لٹریچر شائع کرتی تھی وہ اُردو زبان میں ہوتا تھا۔ اُردو پر ہندوؤں کے تابڑ توڑ حملوں سے سرسید میں ایک مستقل ذہنی تبدیلی آئی۔ اس سے پہلے تو وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مفاد کا ذکر ایک ساتھ کیا کرتے تھے۔ لیکن ان آنکھیں کھول دینے والے واقعات کے بعد ان کی کوششوں کا رخ زیادہ تر مسلمانوں کے مفاد کی طرف مڑگیا۔ ۱۸۶۹ء میں وہ انگلستان گئے۔ وہاں بھی اس جھگڑے کی خبریں ان کو علی التواتر ملتی رہیں۔ مولوی مہدی علی (بعد میں نواب محسن الملک کہلائے) کے نام اُنھوں نے اپنے ایک خط میں یہاں تک لکھ دیا کہ ہندو اسی روش پر قائم رہے تو اس سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اتفاق نہیں رہ سکے گا، بلکہ خدشہ اس بات کا ہے کہ دونوں ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے سے علیحدہ ہوجائیں گے۔ یہ ایک طرح کی سیاسی پیش۔گوئی تھی۔ جو بالآخر پوری ہوکر رہی۔ جوں جوں ہندوؤں کا اُردو کش عزم پختہ ہو رہا تھا۔ اسی نسبت سے سرسید اُردو کی حمایت پر کمر بستہ ہوتے جاتے تھے۔ اُنھوں نے اس جھگڑے پر کئی ایک مضمون لکھے اور ہندی کے حامیوں کے اعتراضات کے جواب دیے۔ ۱۸۸۰ء میں حکومت نے ایک ایجوکیشن کمیشن مقرر کیا۔ اس کے تھوڑے عرصے بعد ایک دوسرا کمیشن بھی اسی مقصد کے لیے قائم ہوا۔ ہندوؤں نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ان دونوں کمیشنوں کے سامنے اپنے مؤقف کو دہرایا اور اُردو زبان کے خلاف نہایت بے وزن دلائل پیش کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اُردو ملکی زبان بننے کی اہلیت نہیں رکھتی کیونکہ اس کا رسم الخط چینی زبان کے رسم الخط کی طرح نہایت پیچیدہ ہے، نیز اُردو کے رسم الخط میں ہندی کی نسبت جعل سازی کا زیادہ امکان ہے۔ کمیشن نے ان معاملوں پر کوئی فیصلہ صادر نہ کیا۔ سرسید نے یہ بات واضح کردی تھی کہ مسئلہ خالص لسانی نہیں بلکہ زیادہ تر سیاسی ہے۔ سرسید کی عمر کے آخری سالوں میں غالباً اُردو ہندی جھگڑے کی شدت قدرے کم ہوگئی تھی، لیکن مواد اندر ہی اندر پکتا رہا۔ اور ہندوؤں کی کوششیں بالآخر رنگ لائیں۔ کہا جاتا ہے کہ پنڈت مدن موہن مالویہ نے (جو اس وقت بالکل جوان ہوں گے) بھی اس معاملے میں دلچسپی لینا شروع کی۔ اُنھوں نے کچھ عرصے کے لیے وکالت کے پیشے کو خیرباد کہ۔َ۔ کر اُردو ہندی کے مسئلے پر ایک رسالہ تیار کیا اور اسے شمال مغربی صوبہ (بعد میں یو-پی) کے لیفٹیننٹ گورنر کے پاس بھجوایا۔ لاٹ صاحب اس کے دلائل سے متاثر ہوگئے اور ۱۹۰۰ء میں اُنھوں نے ایک حکم جاری کیا جس کی رو سے صوبے کی عدالتوں میں اُردو اور ہندی کو یکساں درجہ دے دیا گیا، یہ خبر مسلمانوں پر بجلی بن کر گری۔ اُردو کے تحفظ کے لیے نئے سرے سے عہد و پیمان کیے گئے۔ لیکن ان کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ حکومت سے ٹکر لینا کچھ آسان کام نہ تھا۔ محسن الملک اُردو کے پرجوش حامی تھے لیکن حکومت نے ان پر واضح کردیا کہ یا تو اُردو کی سرپرستی کیجیے یا علی۔گڑھ کالج کے انصرام سے علیحدہ ہوجائیے۔ اسی ہزیمت سے مسلمانوں میں سیاسی شعور پیدا ہوا اور قوم کے راہنماؤں میں سیاسی تنظیم کی ضرورت کا احساس پیدا ہوا۔ بعض حلقوں میں اس پر زور دیا جانے لگا کہ قوم کی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے کانگرس کے قد کاٹھ کی ایک سیاسی جماعت کی بنیاد ڈالی جائے۔ اس تجویز کی مخالفت بھی ہوئی، کیوں کہ عام خیال یہی تھا کہ اگر مسلمانوں نے سیاست کی وادی میں قدم رکھا تو حکومت کے عتاب کا نشانہ بن جائیں گے۔ دو تین سال تک رد و کد جاری رہی۔ مسلمانوں میں اپنی بے کسی اور کسمپرسی کا احساس پرورش پاتا رہا۔ لیکن کسی کو قدم آگے بڑھانے کی جرات نہیں تھی، آخر جب ۱۹۰۵ء میں تقسیمِ بنگال پر عمل درآمد شروع ہوا تو ہندوؤں نے ایک بے پناہ شورش برپا کردی۔ اس تقسیم سے مسلمانوں کو کچھ فائدے کی توقع تھی۔ لیکن اس بات کا تصور بھی ہندوؤں کی برداشت سے باہر تھا۔ شورش پسند ہندوؤں کا نزلہ انگریزوں اور مسلمانوں دونوں پر گرتا تھا۔ ہندو مسلم اختلاف کی خلیج بڑھتی گئی۔ معاملہ بنگال سے شروع ہوا تھا، لیکن یہ شورش بنگال کی سرحد کو پار کرکے دوسرے صوبوں میں بھی جاپہنچی۔ مسلمانوں کو اب عافیت اسی بات میں معلوم ہوئی کہ سیاست کے شجر ممنوعہ کے قریب جائیں اور اپنے قومی تشخص کی حفاظت کے لیے کمر بستہ ہوجائیں۔ ۱۹۰۶ء میں ڈھاکہ میں مسلم لیگ کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ مسلم لیگ کی تاسیس کے بنیادی اسباب کی چھان بین کی جائے تو معلوم ہوگا کہ سارا معاملہ اُردو کے تحفظ کی تحریک سے شروع ہوا تھا۔ جداگانہ انتخاب کے حصول اور مسلم لیگ کے قیام سے مسلمانوں کی سیاست کا رخ متعین ہوا۔ اور چالیس سال بعد اس کا نتیجہ پاکستان کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اس لیے مولوی عبدالحق کا یہ کہنا کہ ’’قصرِ پاکستان کی بنیاد میں جس نے پہلی اینٹ رکھی وہ اُردو ہی تھی‘‘ واقعات سے ثابت ہے۔ لسانی مسئلے نے برصغیر کی سیاست میں ایک ایسا فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے جس سے بعد کی نسلیں بے خبر ہیں۔ مسلمانوں کے زیادہ اخبار آج کل کی طرح اُردو میں چھپا کرتے تھے۔ انجمنوں کی کارروائی بھی بیشتر اسی زبان میں قلم بند کی جاتی تھی۔ بلکہ ہمارے اکثر رہنما اعلیٰ درجے کا ادبی ذوق رکھتے تھے۔ سرسید احمد خاں، ابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی، ظفر علی خاں، حسرت موہانی کا مقام ادب میں بھی اتنا ہی بلند ہے جتنا سیاست میں۔ پنجاب میں اُردو اخبار نویسی کی بنیاد ظفر علی خاں نے رکھی، اور ان کے اخبار زمیندار کے تربیت یافتہ اخبار نویس برسوں تک اس خطے کی اسلامی صحافت پر چھائے رہے۔ ہندوؤں کی اُردو دشمنی مسلّم لیکن بہت عرصہ تک یہ بے معنی اور بے جان رہی۔ کیوںکہ اسی صوبے کے بہت سے ہندو اخبار اُردو زبان میں چھپتے تھے۔ ان کے مدیر اور قلم کار وقتاً فوقتاً اُردو کے خلاف جو مہم چلاتے تھے وہ اُردو زبان میں ہی چلائی جاتی تھی اور اُردو کی یہی خصوصیت اس کے قومی زبان بننے کی صلاحیت کا سب سے بڑا ثبوت ہے، مولانا محمد علی انگریزی زبان میں صاحبِ طرز ادیب تھے، لیکن ان کا اُردو اخبار ہمدرد اعلیٰ پائے کی سادہ نثر اور اپنے مضامین کی گہرائی کی وجہ سے اگر عوام میں نہیں تو خواص میں ضرور مقبول تھا۔ ۱۹۱۱ء کے بعد مولانا محمد علی کے اخبار کا لب و لہجہ انگریزوں کے خلاف ہوتا گیا۔ مسلمانوں کے جو رہنما برطانوی پالیسی سے برہم ہوتے تھے۔ ان کے تعلقات کانگریس اور ہندو لیڈروں سے بہتر ہوتے جاتے تھے۔ یہ واردات بہت سے مسلمان لیڈروں پر گزری۔ محمد علی بھی اسی گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن اس زمانے میں بھی پنڈت مدن موہن مالویہ کا رویہ ان پر بہت شاق گزرتا تھا۔ وقتاً فوقتاً برپا ہونے والی اتحاد کانفرنسوں میں مالویہ اکثر شریک ہوتے تھے۔ تقریر کرتے عام فہم اُردو الفاظ کی جگہ وہ تکلف کے ساتھ بھاری بھر کم ہندی یا سنسکرت الفاظ کا سہارا لیا کرتے تھے۔ محمد علی نے اپنی اخباری تحریروں میں اس بات کا نوٹس لیا اور صاف صاف کہ۔َ۔ دیا کہ ایسا کرنے سے اتحاد کانفرنس کی فضا میں تکدر پیدا ہوتا ہے۔ تحریکِ خلافت کے دن ایک طرف تو طوفانی سیاست کے دن تھے، دوسری طرف اُردو زبان کے ارتقا میں بھی ان کو خاص اہمیت حاصل ہوئی۔ اس زمانے کی بہت سی سنجیدہ تحریریں تو ضائع ہوچکی ہیں لیکن جو باقی رہ گئی ہیں وہ تاریخی مآخذ کا درجہ رکھتی ہیں۔ تحریک خلافت اور عدم تعاون کے خاتمے پر ہندو مسلم اختلافات دوبارہ پھوٹ پڑے۔ سیاسی مسائل کے ساتھ ساتھ ان کے لسانی مضمرات بھی ظاہر ہونے لگے، بلکہ یوں کہنا زیادہ درست ہوگا کہ ہندو پروپیگنڈے کی توپوں کا رخ مسلم ثقافت کی طرف مڑ گیا۔ ۱۹۲۳ء میں بھائی پر مانند کے قلم سے ایک کتاب نکلی جس کا نام آریہ سماج اور ہندو سنگھٹن تھا۔ بھائی پر مانند ہندوؤں کے آریہ سماج فرقے سے تعلق رکھتے تھے اور وہ اس فرقے کی عدم رواداری اور مسلم دشمنی کی روایت سے بخوبی بہرہ۔ور تھے۔ کسی زمانے میں وہ ڈی-اے-وی کالج لاہور میں تاریخ کے استاد رہ چکے تھے اور انھوں نے برصغیر کی تاریخ کو ایک خاص نقطۂ نظر سے ہی پڑھا تھا۔ ان کا خیال تھا اس تاریخ کو صرف ایک فقرے میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ یعنی ہندوستان کی تاریخ صرف ہندوؤں اور مسلمانوں کی صدیوں پرانی سماجی آویزش اور عسکری چپقلش کی داستان ہے۔ انھوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر یہ سوال اُٹھایا کہ آخر ہندوؤں اور مسلمانوں میں کیا فرق ہے؟ خود ہی اس کا یہ جواب دیا کہ زبان اور مذہب ہی ایسی دو چیزیں ہیں جو ہندوؤں کو مسلمانوں سے جدا کرتی ہیں۔ ان کے نزدیک ہندو مذہب اور ہندی زبان، ہندو قومیت کے بنیادی ستون ہیں۔ انھوں نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ ہر شادی شدہ عورت کے لیے ہندی کا سیکھنا لازمی ہو تاکہ وہ آنے والی نسل کی لسانی تربیت پر قادر ہو۔ بھائی پرمانند کو آریہ سماج، ہندو مہاسبھا اور ہندو عوام میں بے پناہ اثر و رسوخ حاصل تھا۔ ان کے خیالات ہندو قوم کے جذبات کی ترجمانی بھی کرتے اور اُن کا رخ بھی موڑتے تھے۔ اُردو کشی کی مہم چلتی رہی۔ اس میں شدت آتی گئی۔ کانگرسی لیڈروں کا جھکاؤ بھی واضح طور پر ہندی کی طرف تھا۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ان ساری کوششوں کے باوجود اُردو کی برتری جوں کی توں قائم رہی۔ پنجاب یونی ورسٹی نے ۱۹۳۰ء کے قریب میٹریکولیشن کے طلبا کو اس امر کی اجازت دے دی کہ بعض مضامین میں وہ امتحانی سوالوں کے جوابات چاہیں تو انگریزی میں لکھیں اور چاہیں تو اُردو یا ہندی میں، نئے ضابطے کا فوری اثر یہ ہوا کہ بہت سے طلبانے انگریزی میڈیم ترک کردیا۔ بہت بھاری اکثریت کے لیے اُردو ذریعۂ امتحان بن گئی۔ ہندی میں جواب لکھنے والے خال خال تھے، اس کا مطلب یہ تھا کہ ہندو طالب علموں میں بھی ہندی کے حق میں دی گئی رعایت کا فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد دس فی صد سے بھی کم تھی۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ ۱۹۲۲ء کے بعد کی مسلم سیاست میں ثقافتی تحفظات پر بھی اتنا ہی زور دیا جاتا تھا جتنا سیاسی تحفظات پر۔ اس سلسلے میں برصغیر کے تعلیم یافتہ مسلمان رہنماؤں نے لیگ آف نیشنز کے وضع کیے ہوئے اصولوں کو اپنایا۔ یہ بات عام طور پر معلوم ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد یورپ کے براعظم کے لیے صلح کی کانفرنس نے ایک نیا سیاسی نقشہ تیار کیا تھا۔ اس کی رو سے فاتح ملکوں کو تو فائدہ ہوا لیکن مفتوح ملک بہت خسارے میں رہے۔ بہت سی علاقائی تبدیلیوں کی وجہ سے وہاں اقلیتوں کا مسئلہ پیدا ہوا۔ لیگ آف نیشنز کے کرتا دھرتا اس بات پر مصر تھے کہ اقلیتوں کو ایسے تحفظات دیے جائیں جن سے وہ مطمئن ہو سکیں۔ چنانچہ کاغذی طور پر اقلیتوں سے بہت سی رعایتیں برتی گئیں۔ لیکن بالآخر وہاں بھی تجربے نے بتادیا کہ اکثریت کے معاندانہ رویے کے سامنے اس قسم کی مراعات کوئی حقیقت نہیں رکھتیں۔ بلکہ اکثریت اپنے ہمہ گیر اختیار سے ان کو بے اثر بناسکتی ہے (یہی تجربہ بعد میں ہندوستانی مسلمانوں کو بھی ہونا تھا) مسلمانوں نے اکثریت کے سامنے کوئی غیرمعقول مطالبات نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ دو جنگوں کے درمیانی وقفے میں مسلمانوں کے مطالبات کم و بیش وہی تھے جو لیگ یورپ کی اقلیتوں کے متعلق منظور کرچکی تھی۔ ان میں ایک اہم مطالبہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو اپنی زبان (یعنی اُردو) کے استعمال کرنے کی اجازت ہونی چاہیے، نیز ان کے ذاتی تنازعے شرع اسلام کی رو سے طے ہونے چاہییں۔ اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ ۱۹۳۵ء کا آئین ۱۹۳۷ء میں نافذ کیا گیا۔ اس کے نفاذ سے مسلمانوں کے لیے بھاری اہمیت کے مسائل پیدا ہوئے۔ ہندو اکثریت کے صوبوں میں جو کچھ ہوا وہ عام طور پر معلوم ہے۔ اس ضمن میں صرف اُردو کے متعلق ایک دو باتیں کہنا ضروری ہیں۔ کانگریس کی حکومتوں کو اُردو زبان کو دبانے کے لیے ایک زریں موقع ہاتھ آگیا۔ مثلاً برسر اقتدار آتے ہی یو-پی کی حکومت نے کھلم کھلا اُردو کی مخالفت شروع کردی۔ کانگریسی لیڈروں کی تقریروں نیز دفتری سرکاری کاغذات میں ہندی کا عمل دخل بڑھنا شروع ہوا۔ عربی اور فارسی کے الفاظ کو چن چن کر سرکاری اور دفتری زبان سے نکالا گیا۔ اور ان کی جگہ ایسے ہندی الفاظ کو دی گئی جن سے عوام کے کان بالکل نامانوس تھے۔ مسلمانوں نے شکایت گاندھی تک پہنچائی۔ مولوی عبدالحق خود مہاتما گاندھی سے ملے۔ گاندھی کا رویہ بالکل بدلا ہوا تھا۔ بہت سے بحث مباحثے کے بعد اُنھوں نے کہ۔َ۔ دیا کہ اُردو ’’مسلمانی‘‘ زبان ہے۔ یہ قرآن کے حروف میں لکھی جاتی ہے۔ مسلمانوں کا اپنا کام ہے کہ اس زبان کو رکھیں یا نہ رکھیں۔ مطلب یہ تھا کہ کانگریس کو (جو قوم پرستی کا دعویٰ کرتے کرتے نہیں تھکتی تھی) مسلمانوں کی لسانی ضروریات سے کوئی سروکار نہیں۔ اقبال اور اُردو کا باہمی تعلق واضح کرنے کے لیے کسی لمبی چوڑی تقریر کی ضرورت نہیں۔ اُن کو اُردو سے بے پناہ محبت تھی۔ اُنھوں نے اس زبان کے ارتقا میں ایک اہم کردار کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ جب تک اُردو زندہ ہے اقبال کا نام بھی زندہ رہے گا۔ وہ مولوی عبدالحق کو ایک خط میں بتاتے ہیں کہ میری لسانی عصبیت میری دینی عصبیت سے کم نہیں۔ وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ اُردو نہ صرف سارے برصغیر کی زبان بنے، بلکہ بیرون ملک بھی اپنے لیے ایک نمایاں مقام پیدا کرے، ان کا خیال تھا کہ مولوی عبدالحق کے ہاتھوں وہی کام انجام پارہا ہے جو سرسید نے اپنے زمانے میں اُردو کی حمایت اور ترقی کے لیے کیا تھا۔ مسلم قومیت پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ مسلم قومیت کی بنیاد دین اسلام پر قائم ہے۔ مسلمانوں نے برصغیر کا رخ آٹھویں صدی عیسوی میں کیا۔ پہلے مسلمان حملہ آور عرب تھے۔ لیکن بوجوہ ان کا دائرہ اثر سندھ تک محدود رہا۔ (اس سندھ سے مراد آج کل کا جغرافیائی سندھ نہیں۔ بلکہ اس زمانے کا سندھ اس سے کہیں وسیع تر تھا۔ اور اس میں موجودہ پنجاب کے بعض علاقے مثلاً ملتان اور فیصل آباد کے مضافات بھی شامل تھے) عربوں نے سندھ میں تین صدیوں کے قریب حکومت کی جس سے سندھ عربی تہذیب کا گہوارہ بن گیا، ترکوں کے حملے دسویں صدی عیسوی کے آخر میں شروع ہوئے۔ اور دو سو سال تک جاری رہے۔ سلطان محمود غزنوی برصغیر پر اپنی حکومت قائم نہ کرنا چاہتا تھا۔ اس کی توجہ کا مرکز زیادہ تر وسط ایشیا کے علاقے تھے۔ تاہم پنجاب اس کی سلطنت میں شامل ہوا اور جب غزنوی خاندان کے فرمانروا غزنی سے نکالے گئے تو اُنھوں نے لاہور میں آکر پناہ لی۔ سلاطین غور کی آمد بارھویں صدی عیسوی کے آخری ربع میں شروع ہوئی۔ اور شہاب الدین غوری شمالی ہند کی اسلامی سلطنت کا بانی بنا۔ ۱۲۰۶ء سے لے کر ۱۵۲۶ء تک دہلی میں پانچ مسلمان خاندانوں نے یکے بعد دیگرے حکومت سنبھالی۔ اس زمانے کی دنیاے اسلام کا سب سے اہم واقع منگولوں کا عروج ہے۔ اس قوم کے جنگی لیڈروں نے دنیاے اسلام میں بڑی تباہی مچائی۔ بہت سے عالموں، صوفیوں، جرنیلوں اور طالع آزماؤں نے اپنے اپنے وطنوں سے بھاگ کر برصغیر میں پناہ لی۔ اور یہاں کے اسلامی معاشرے میں جذب ہوتے گئے۔ کم و بیش اورنگ زیب کے زمانے تک مغربی (یعنی اسلامی) ممالک سے آنے والے مسلمانوں کا تانتا بندھا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ پاکستان کے رہنے والے اپنے آپ کو ذہنی طور پر مغرب میں واقع اسلامی ممالک سے بہت قریب سمجھتے رہے ہیں، اقبال نے اس تصور کو اور بھی اجاگر کیا، اور ہندی مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے سمجھایا کہ تمہارا مستقبل برصغیر کی دوسری قوموں کے ساتھ نہیں بلکہ براہ راست عالم گیر اسلامی برادری کے مستقبل کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس سے مسلمانوں میں یہ احساس پیدا ہوا کہ ہم پہلے مسلمان اور اس کے بعد ہندوستانی ہیں۔ یہی وہ معرکۂ دین و وطن ہے جس پر اقبال نے کثرت سے گفتگو کی ہے اور اپنی زندگی کے آخری دنوں میں حسین احمد مدنی کو مخاطب کرکے ایک مشہور قطعہ بھی لکھا تھا۔ یہ تاریخی حقیقت اپنی جگہ پر بہت اہم ہے کہ مسلمان (خواہ وہ باہر سے آنے والوں کی اولاد تھے یا مقامی النسل) ملک کی ہندو آبادی سے الگ تھلگ رہے۔ ہندو معاشرے کی ساخت ہی کچھ ایسی تھی کہ غیر ہندوؤں کے لیے اس میں کوئی جگہ نہ تھی، چھوت چھات ہندوؤں کی قومی خصوصیت تھی اور اب تک قائم ہے۔ ان کے لیے غیر ہندوؤں کے ساتھ میل جول رکھنا ممکن نہ تھا۔ البیرونی نے (جو سلطان محمود کے زمانے میں یہاں آیا تھا) ہندو معاشرے کی ایک دلچسپ تصویر کھینچی ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ ہندو مزاج کے متکبر تھے۔ ان کو اپنے ملک اور مذہب سے انس نہیں عشق تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ نہ ان کے ملک جیسا کوئی ملک ہے اور نہ ان کے مذہب جیسا کوئی مذہب، جن باتوں میں ان کو دوسرے لوگوں یا دوسرے ملکوں کی بڑائی نظرآتی وہ ان سے یک سرانکار کردیتے تھے۔ ہندو معاشرہ صدیوں تک اسی ڈگر پر چلتا رہا۔ مذہباً ہندوؤں کو سمندر پار سفر ممنوع تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے لیے دوسرے ملکوں کے لوگوں کے ساتھ میل جول رکھنا بھی ممکن نہ تھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ بہت سے ہندو جو مسلمان بادشاہوں کی ملازمت کرتے اور اپنے آپ کو ان کا نمک خوار بتاتے تھے مسلمانوں کو ملیچھ (یعنی ناپاک) کہتے رہے، ہمارے پاس کوئی ایسی شہادت نہیں جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ مسلمان حکمرانوں نے اس لفظ کے استعمال پر کسی ہندو کے خلاف کوئی تعزیری کارروائی کی ہو، بلکہ ہندوؤں کو اتنی مذہبی اور معاشرتی آزادی حاصل تھی کہ وہ وقت بے وقت مسلمانوں کے خلاف اپنے بغض کا اظہار کرتے رہیں اور اپنے قومی جذبے (جس میں مسلم دشمنی کا عنصر غالب تھا) کی پرورش کرتے رہیں۔ بھائی پر مانند نے لکھا ہے کہ ہندو قوم میں مقاصد کی وحدت تھی۔ ہندو خواہ مسلمانوں کی ملازمت کرتے تھے، خواہ مسلمان بادشاہوں کے خلاف بغاوتوں کی رہنمائی کرتے تھے، اپنے سامنے ایک ہی مقصد رکھتے تھے اور وہ تھا اسلامی حکومت کی بیخ کنی۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کی اس غیر معمولی ہمسائیگی سے کئی نتائج پیدا ہوئے۔ بنیادی طور پر تو دونوں معاشرے علیحدہ علیحدہ رہے۔ لیکن سطحی طور پر دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوئے۔ ہندوؤں نے جان۔دار اسلامی معاشرے کو قریب سے دیکھا اور اپنے ہاں اصلاحی تحریکیں جاری کیں۔ اسلامی تعلیمات کے ان حصوں کو جو انھیں اپنے فہم کے مطابق قابلِ قبول نظر آئے اپنایا۔ مسلمانوں نے ہندو معاشرے کے بعض رسم و رواج اپنے ہاں جاری کیے۔ یا شاید یہ بات تھی کہ بہت سے ہندو قبولِ اسلام کے بعد اپنی پرانی روایتوں کو سینے سے لگائے رہے اور ان کی دیکھا دیکھی پیدایشی مسلمانوں نے بھی ان پر عمل شروع کردیا۔ بات کچھ بھی ہو۔ اسلامی معاشرے میں بہت سے غیر اسلامی عقائد اور اعمال آگئے۔ یہ صورت علما اور مصلحین کی آنکھوں میں کھٹکتی تھی۔ اس لیے انھوں نے اصلاحی تحریکیں جاری کیں۔ ان تحریکوں کا مقصد یہی تھا کہ اسلامی معاشرے کو غیر اسلامی اثرات سے پاک کیا جائے۔ ان مصلحین میں احمد سرہندی (جو عام طور پر مجدد الف ثانی کے نام سے پکارے جاتے ہیں) کا کردار بہت اہم ہے، ایک بڑی اسلامی تحریک دہلی کے مدرسہ رحیمیہ سے اُٹھی۔ شاہ ولی اللہ اس مکتبہ فکر کے کارواں سالار تھے۔ سید احمد بریلوی نے بھی اپنی ابتدائی تعلیم یہیں حاصل کی تھی۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ کے بعد دیوبند اور علی۔گڑھ دونوں اپنے اپنے رنگ میں اصلاحی تحریکیں تھیں، لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ برطانوی حکومت کے قیام کے بعد دینی تعلیم میں وسعت تو ضرور پیدا ہوئی لیکن اسلامی تحریکوں کے پنپنے کی فضا باقی نہ رہی۔ ایک طرف سائنسی علوم کی ترقی تھی اور دوسری طرف سائنس اور مذہب کی روایتی چپقلش۔ پرانی طرز کے علما اس طرف سے آنکھیں بند کیے ہوئے تھے۔ ان کے نزدیک مغرب کی تہذیبی برتری بے معنی تھی اور مسلمانوں کے لیے فلاح و بہبود کا راستہ صرف یہی تھا کہ وہ اپنے مذہب پر سختی کے ساتھ کاربند رہیں۔ نئی نسل (جس کی دنیا زیادہ وسیع تھی) مذہب کے اس تصور سے کوئی ہمدردی نہ رکھتی تھی، اور مغربی تعلیم کے زیرِ اثر مادیت کی طرف مائل تھی۔ سرسید کو نوجوانوں کی مذہبی بے راہ روی سے بڑی تشویش تھی، اُنھوں نے اس سلسلے میں جو کچھ کیا وہ مؤثر ثابت نہ ہوا کیونکہ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں مذہبی تعلیم کی نوعیت کے متعلق ایسے اختلافات پائے جاتے ہیں، جن کا دور کرنا اگرچہ ناممکن تو نہیں مگر اکثر اوقات محال نظر آتا ہے، سرسید نے اپنے طور پر اسلام کی تفہیم میں ایک نئے باب کا آغاز کیا، وہ مغربی سائنٹفک ترقیوں سے بغایت متاثر تھے (انھوں نے جنگِ آزادی کے چند سال بعد سائنٹفک سوسائٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ اس سوسائٹی نے اپنے ذمے بہت سے کام لے رکھے تھے۔ ان میں ایک کام یہ بھی تھا کہ دیسی زبانوں میں سائنسی علوم کی ترویج کی جائے اور ان پر عوامی دلچسپی کے لیکچر دلوائے جائیں۔ چنانچہ سائنٹفک سوسائٹی کے جلسوں میں سائنسی تجربات بھی دکھائے جاتے تھے)۔ انھوں نے ایک مہتمم بالشان کام کا آغاز کیا یعنی اسلام کو علوم جدیدہ کی روشنی میں مطالعہ کرنے کا طریقِ کار۔ اسلامی تعلیمات کی تفہیم کے لیے اس طریقِ کار سے بعد میں آنے والی نسلیں بھی متاثر ہوئیں۔ مفسرین میں سے سرسید کے سخت نکتہ چیں بھی اسی ڈگر پر چلے۔ اسلام کے ابدی اصولوں کو پرانے علوم کی روشنی میں سمجھنا چنداں مشکل نہ تھا۔ یہ بات صدیوں سے چلی آرہی تھی لیکن اب دنیا بدل چکی تھی، بہت سے پرانے علوم بے کار ہوگئے تھے۔ بلکہ ان کی بنیادیں بھی ہل گئی تھیں۔ ان کو اپنے استدلال کی بنیاد بنانا بے معنی تھا۔ سرسید کو اس بات کا یقین تھا کہ جوں جوں سائنس اور علومِ جدیدہ کی روشنی پھیلتی جائے گی، اسلام کی حقانیت بھی واضح ہوتی چلی جائے گی۔ اس لیے سرسید کے مخاطب زیادہ تر وہی لوگ تھے جو روحانی اقدار کو سائنس کی کسوٹی پر پرکھنا چاہتے تھے۔ لیکن مشکل یہ ہوئی کہ اس زمانے سے لے کر اب تک سائنس کے انداز متواتر بدلتے رہے ہیں۔ نئے نئے انکشافات اور نئی نئی ایجادوں نے دنیا کا چہرہ مہرہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ سرسید اسی سائنس کے وقتی نتائج کو قطعی سمجھ بیٹھے جو ان کے سامنے تھی، بعد میں آنے والی ترقیوں تک نہ ان کی رسائی تھی، نہ کسی اور کی، اس لیے انھوں نے اس میدان میں جابجا ٹھوکریں کھائیں۔ سرسید نے مذہب کے مطالعہ سے جو نتائج اخذ کیے ان پر گرفت تو کی جاسکتی ہے لیکن ان کا طریق کار غلط نہیں تھا۔ اگرچہ پرانی طرز کی دینی تعلیم کے بہت سے مرکز اب بھی باقی ہیں۔ (سرسید کے زمانے میں بھی تھے) ان سے حاصل ہونے والی تعلیم سے نئی پود کو کوئی دلچسپی نہیں، اِ س کا خیال ہے کہ یہ تعلیم موجودہ دنیا کے مسائل حل کرنے میں مدد نہیں دیتی۔ اس لیے مذہب کے حامی ایک نئی دینی تعلیم کے خواہاں ہیں جو نئی نسل کو اسلام کی عالمی اقدار سے روشناس کرے۔ آج کل مغربی دنیا میں اسلام کے مبلغ اسی نہج پر اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام کو سمجھنے اور سمجھانے کے نئے طور طریقوں میں عیسائی پادریوں کے نظریات اور ان کے جارحانہ رویے کو بہت دخل ہے۔ وہ لوگ حکومت کے اقتدار کی چھاؤں میں بیٹھ کر اسلام کو ناروا نکتہ چینی کا ہدف بناتے تھے۔ مباحثے کے فن میں بدگوئی اور دشنام ان کے سب سے بڑے ہتھیار تھے۔ ان کا استدلال بھی اکثر سوقیانہ اور بے وزن ہوا کرتا تھا۔ وہ ان لوگوں سے بات کرنے میں خاص حظ محسوس کرتے تھے جو ان کے رعب داب سے متاثر ہوکر یا اپنی کم علمی کی وجہ سے ان کے سامنے گفتگو کرنے سے کتراتے ہوں اور دنیاوی لالچ کے پھندے میں آسانی سے پھنس سکتے ہوں۔ ہندوؤں کے بعض طبقوں (یعنی اچھوتوں میں) تو عیسائی مبلغوں کو غیر معمولی کامیابیاں ہوئیں۔ لیکن مسلمانوں میں انھیں متوقع پذیرائی حاصل نہ ہوئی۔ اپنی ناکامی سے عیسائی پادریوں کے دل میں مسلمانوں کے خلاف ایک مستقل کدورت بیٹھ گئی۔ اس کا اظہار سرولیم میور نے اپنی کتاب لائف آف محمدؐ میں یوں کیا کہ اسلام کی برائیاں گناتے گناتے اُس نے ایک برائی یہ بیان کی کہ اسلام کی تعلیم کا ڈھانچا کچھ اس طرح پر اُٹھایا گیا ہے کہ عیسائیت کی ’’صاف اور شفاف‘‘ تعلیم مسلمانوں کے دلوں میں گھر نہیں کرسکتی۔ عیسائی پادریوں نے اسلام، مسلمانوں کے عقائد، اُن کی روزمرہ زندگی اور اخلاق و عادات کے متعلق ہزاروں کتابیں لکھی ہیں۔ اُن کی تحریروں میں تعصب کی جھلک صاف نظر آتی ہے اور وہ اکثر دل آزار ہوتی ہیں۔ لیکن اقبال نے اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ مسلمان ان تحریروں کو ضرور پڑھیں۔ کیونکہ ان سے بہت کام کی معلومات حاصل ہوتی ہیں اور انھیں اپنے آپ کو جانچنے کا موقع بھی ملتا ہے۔ (جوں جوں سیاسی تحریکوں میں گرمی آتی گئی پادریوں کا اثر و رسوخ گھٹتا گیا۔ لیکن یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ کلیساے انگلستان جس طرح انگلستان کا سرکاری مذہب تھا ویسے ہی ہندوستان کا تھا۔ دوسرے فرقوں کے عیسائی پادریوں کو اپنے اپنے ملکوں کے غیر سرکاری اور رفاعی اداروں سے امداد ملا کرتی تھی)۔ ایک طرف تو عیسائی پادری اسلام پر تند و تیز حملے کرتے تھے۔ دوسری طرف ہندوؤں کے فرقے آریا سماج نے بھی ایک سوچی سمجھی سکیم کے ماتحت اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک محاذ کھول دیا۔ آریا سماج کا بانی دیانند کاٹھیاوار کا ایک برہمن تھا۔ وہ اوائل عمر میں ہی گھر سے نکلا اور متھرا میں پہنچا۔ وہاں اس نے ایک زشت خو، آنکھوں سے اندھے سوامی کی شاگردی اختیار کی جو اسے نہایت وحشیانہ سزائیں دیا کرتا تھا۔ اپنی تعلیم ختم کرنے کے بعد دیانند زندگی میں داخل ہوا تو اس کے رنگ ڈھنگ نرالے تھے۔ وہ کپڑے کے استعمال میں بہت کفایت شعاری سے کام لیتا تھا۔ عورتوں کے ساتھ بالکل کلام نہ کرتا اور تمام وقت سنسکرت زبان میں گفتگو کیا کرتا تھا۔ بعد میں اس نے اپنے طور طریقے بدل دیے اور ایک نئے فرقے کی بنیاد رکھی۔ اس فرقے کا نام آریا سماج ہوا۔ اس کے عقائد اور تعلیمات کی وضاحت کے لیے دیانند نے ستیارتھ پرکاش نامی کتاب لکھی۔ دیانند کو مسلمانوں سے سخت عناد تھا۔ وہ تمام مسلمانوں کو بدیشی یا غیر ملکی سمجھا کرتا تھا۔ اسلام کے متعلق اس نے اپنی کتاب میں ایک بہت زہر آلود باب لکھا اور اس پر بہت سے ناروا حملے کیے۔ (واضح ہو کہ یہ کتاب اُردو زبان میں لکھی گئی تھی) آریا سماج کا پہلا ہیڈ کوارٹر بمبئی میں تھا۔ لیکن جلد ہی بمبئی کی جگہ اس کے صدر دفاتر ۱۸۹۳ء میں لاہور میں منتقل کر دیے گئے۔ اپنی بے قابو زبان کی وجہ سے دیانند نے بہت سے دشمن پیدا کرلیے۔ سناتنی فرقہ تو خاص طور پر اس سے بہت نالاں تھا۔ دونوں کی باہمی کدروت تو نہ مٹ سکی لیکن جلد ہی آریا سماج نے ایک سیاسی حیثیت اختیار کرلی اور اپنی اسلام دشمنی کی وجہ سے ہندو عوام میں شہرت اور مقبولیت حاصل کی۔ ہندو معاشرے میں آریا سماج کو اکثریت تو کبھی حاصل نہیں ہوئی۔ لیکن اس کے غیر معمولی اثر و نفوذ سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ تحریک خلافت اور عدم تعاون کے خاتمے کے بعد آریا سماج ایک نئے روپ میں ظاہر ہوا، یعنی اس نے ہندو مذہب کی اشاعت کا بیڑہ اٹھایا۔ یہ ایک بالکل نئی بات تھی۔ اپنی ساری تاریخ میں ہندو مذہب کبھی تبلیغی مذہب نہیں رہا۔ بلکہ ہندو مذہب کا پھیلانا جرم تصور کیا جاتا تھا اور ازروئے مذہب ہندوؤں کو اپنے ملک سے باہر جانے کی اجازت بھی نہ تھی۔ آریا سماج کے تبلیغی حربے اوچھے تھے اور ان کا رخ تمام تر مسلمانوں کی طرف تھا۔ سماج کے پرچارک غریب مسلمانوں کی بستیوں پر ’’حملہ آور‘‘ ہوتے۔ وہاں کے رہنے والوں کو مختلف طرح کے سبز باغ دکھاتے۔ کبھی کبھی ان کی مالی امداد کرتے۔ نادار، لاوارث، بے سہارا مسلمان بچوں اور عورتوں کو ورغلا کر اپنے آشرموں میں لے جاتے اور ہندو مذہب میں شامل کرلیتے۔ آریا سماج کا تبلیغی لٹریچر بھی دشنام کا موقع ہوتا تھا۔ عیسائی پادریوں کی طرح آریا مبلغ بھی پیغمبرِ اسلام کی ذات کے متعلق نازیبا اور ناروا کلمات استعمال کرتے جس سے مسلمان اشتعال میں آجاتے تھے۔ ۱۹۲۴ء میں کوہاٹ میں ایک ہندو نے اسی طرح کی ایک نظم چھاپ کر لوگوں میں تقسیم کی۔ اس پر ایک بہت بڑا ہندو مسلم بلوہ ہوگیا اور وہاں کی ساری ہندو آبادی شہر بدر کردی گئی۔ ۱۹۲۷ء میں لاہور میں پیغمبرؐ کی زندگی پر ایک گمنام کتاب چھپی۔ اس سے مسلمانوں میں بڑا ہیجان پھیلا۔ غرض یہ کہ اس طرح کے واقعات روز مرہ کا معمول بن گئے۔ لاہور ہائی کورٹ کے ایک عیسائی جج نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ بانیانِ مذاہب کی بے حرمتی کرنا انگریزوں کی نافذ کردہ تعزیرات کی رو سے ناقابلِ مواخذہ ہے، یہ فیصلہ مسلمانوں پر بجلی بن کر گرا اور اسلامیان ہند میں ایک بہت بڑی ایجی ٹیشن کا باعث بنا۔ چنانچہ مرکزی قانون ساز اسمبلی نے ایک نئے قانون کی رو سے تعزیراتِ ہند کا یہ سقم رفع کردیا۔ لیکن اس قانون کے باوجود بھی آریا سماجی رویے میں کوئی قابلِ ذکر تبدیلی نہیں آئی۔ بلکہ پاکستان بننے تک بھی اس کا اسلام دشمن جذبہ بدستور قائم رہا بلکہ ترقی کرتا گیا۔ اسلام کے خلاف مختلف سمتوں میں جو نظریاتی جنگ لڑی جارہی تھی، اُس میں اقبال اسلام کی نمایندگی کرتے تھے۔ انھوں نے جدید سائنس اور فلسفہ کی روشنی میں اسلامی فکر کی تشکیل نو پر لیکچروں کا ایک مجموعہ چھپوایا جسے بعد میں عالمی شہرت حاصل ہوئی۔ لیکن ان کی فکر کے نتائج کو آگے بڑھانے کی کوئی قابل ذکر کوشش نہیں کی گئی۔ مغربی مصنفوں نے اسلام کو اکثر ایک سیاسی مذہب کہا ہے۔ یہ بات اس حد تک درست ہے کہ اسلام کی تعلیمات انسانی معاشرے کی تعمیرِ نو کی طرف راہنمائی کرتی ہیں۔ اور اس تعمیرِ نو میں معاشرتی اور اقتصادی امور بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے سیاسی امور۔ اسلام کے بنیادی عقائد (خدا کی وحدانیت، ذات باری تعالیٰ کا اقتدار مطلق، نبوت کی اہمیت، بنی نوع انسان کی مساوات) نے کم و بیش ہر دور میں اسلامی معاشرے کے اندر کسی نہ کسی قسم کی مرکزیت کو قائم رکھا ہے۔ مسلمان دنیا کے جس حصے میں بھی بستے ہوں ان کے طرزِ فکر، اخلاق و عادات اور بود و باش میں بہت حد تک یکسانیت پائی جاتی ہے، یہی وحدت اسلامی دنیا کو دوسری ملتوں سے جدا کرتی ہے۔ اسی وحدتِ افکار نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک سیاسی وحدت بنایا جس کا نتیجہ بالآخر پاکستان کی صورت میں ظاہر ہوا۔ شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقوں کو چھوڑ کر ہندوستان کی مسلم اقلیت دور دور تک کے علاقوں میں پھیلی ہوئی تھی۔ اقتصادی پس ماندگی نے اس اقلیت کو بہت حد تک غیر مؤثر بنا رکھا تھا۔ لیکن مختلف علاقوں کے رہنے والے مسلمانوں نے کبھی اپنے آپ کو ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں سمجھا۔ فروعی اختلافات اور فرقہ آرائیوں کے باوجود وہ اپنے آپ کو ایک ہی ملت کا حصہ تصور کرتے رہے ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے دورِ حکومت میں جب ایک مسلمان ریاست برطانوی شکنجے میں آجاتی تو اس کا ذکر افسوس کے ساتھ دور دور کی مسلم ریاستوں میں ہوا کرتا تھا۔ برطانوی دور میں حالات نے ایک نئی کروٹ لی۔ ذرائع آمدورفت کی توسیع اور ملک میں ایک حکومت قائم ہونے سے، ملک کے دوسرے طبقوں کی طرح مسلمانوں میں بھی میل جول بڑھا۔ اور اسی میل جول سے برصغیر کی اسلامی سیاست پیدا ہوئی۔ اس سیاست کی ابتدا بظاہر بالکل غیر سیاسی تھی۔ اس کا ہیولا آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس تھی۔ جو پہلی دفعہ ۱۸۸۷ء میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کے بانی سرسید احمد خاں اُردو ہندی قضیے کے بعد، مسلم قومیت کے سب سے بڑے مبلغ بن گئے تھے۔ وہ بار بار اس بات پر زور دیتے تھے کہ مسلمانوں کی بناے اتحاد وطن نہیں بلکہ مذہب کا اشتراک ہے۔ اپنی ایک تقریر میں انھوں نے مسلمان نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ تم مذہب کو مضبوطی سے پکڑے رکھو۔ اگر تم دنیا میں چاند ستارے بھی بن گئے لیکن مذہب سے بے گانہ ہوگئے تو تم ہم میں سے نہ رہے۔ سرسید کے قائم کیے ہوئے ایم-اے-او کالج علی۔گڑھ کو مسلم انڈیا میں تعلیمی مرکزیت حاصل رہی۔ علی۔گڑھ کے فکری نظام سے ہی ۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ پیدا ہوئی، علی۔گڑھ کالج اور ایجوکیشنل کانفرنس کی طرح لیگ کی حیثیت بھی آل انڈیا تھی۔ اس کے بحث مباحثے اسلامی ہند کے مسائل سے متعلق ہوا کرتے تھے۔ اس کے پلیٹ فارم پر کسی صوبے کی مشکلات کو دوسرے صوبوں کے مسلمانوں کی مشکلات سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھا جاتا تھا بلکہ ان سب کو ایک ہی مسئلے کے اجزا سمجھا جاتا تھا۔ اگر حالات کے تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے کسی ایک صوبے سے ترجیہی سلوک کیا جاتا یا کسی دوسرے صوبے کو نچلی سطح پر رکھا جاتا تو اس سے کبھی کوئی شکایت پیدا نہیں ہوئی اور نہ کسی بدبین کو صوبائی عصبیت کو اُبھارنے کا مسالہ ملا۔ اگر لکھنؤ پیکٹ میں مسلمانوں کے اقلیتی صوبوں سے پنجاب اور بنگال کی قیمت پر رعایت برتی گئی تو اختلاف کرنے والوں میں مولانا محمد علی پیش پیش تھے جن کا تعلق پنجاب سے تھا نہ بنگال سے۔ جب ایک صوبے کے مسلمانوں پر کوئی چوٹ لگتی تو دوسرے صوبوں کے مسلمان خاموش نہیں بیٹھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ کم و بیش مسلمانوں کے تمام مسائل آل انڈیا مسائل ہوا کرتے تھے۔ تقسیم بنگال کی تنسیخ، علی۔گڑھ کالج کو یونی ورسٹی بنانے کا مسئلہ، کانپور کی مسجد کے غسل خانوں کے انہدام سے پیدا ہونے والے واقعات کا سلسلہ، جداگانہ انتخاب کی حمایت، تحریک خلافت وغیرہ وغیرہ، مسلمانوں کی مرکزیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یہی سیاسی مرکزیت پاکستان کو وجود میں لائی۔ اس مرکزیت کا سہرا مغربی تعلیم یافتہ طبقے کے سر پر نہیں بندھتا۔ یہ مذہب کی دین تھی۔ اپنے طور طریقوں کے مطابق حلقے بھی اس مرکزیت کے اہم ستون تھے۔ نتیجہ جو کچھ اوپر کہا گیا ہے اس کو مختصر طور پر بیان کردینے سے اگلی فصلوں کو سمجھنا زیادہ آسان ہوگا: برطانوی دور میں مسلمانوں کے لیے بہت سی پیچیدگیاں اور مشکلات پیدا ہوئیں۔ ان سب کو سامنے رکھا جائے تو مجموعی طور پر یہ مسئلہ قومی سلامتی کا مسئلہ کہلائے گا۔ انگریزی حکومت کے قیام کے بعد مغربی تعلیم پایا ہوا طبقہ اپنی مذہبی روایات اور تہذیبی اقدار سے روز بروز دور ہوتا چلا گیا۔ نتیجتاً پیدا ہونے والے ذہنی خلا میں پہلے عیسائی پادریوں اور بعد میں آریا سماج کے پرجوش اور مگر برخود غلط پرچارکوں کو اپنی سرگرمیوں کے لیے ایک وسیع میدان مل گیا۔ عیسائیوں میں اسلام اور بانی اسلام کی شخصیت پر بہتان باندھنے کی روایت تو بہت پرانی تھی مگر آریا سماج نے افترا اور دشنام کے حربوں کا بے درنگ استعمال کرکے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ مسلمانوں کی قومیت جن ستونوں پر استوار ہے ان میں نبوت دوسرا (بلکہ بعض لحاظ سے پہلا) اہم ستون ہے۔ اس بات کو باور کرنے کی کئی وجوہات ہیں کہ غیر مسلم جان بوجھ کر دونوں قوموں میں منافرت کی خلیج کو وسیع کرنے کے لیے یہ اشتعال انگیز کارروائیاں کرتے تھے۔ ان سے مسلم عوام قدرتی طور پر برافروختہ ہوتے تھے۔ بدمزگی سے کشیدگی اور کشیدگی سے نوبت فساد تک پہنچتی تھی۔ یہ سلسلہ کم و بیش آزادی تک جاری رہا۔ سرسید نے خطبات احمدیہ لکھ کر اپنے اندازے کے مطابق وقت کی ایک اہم ضرورت کو پورا کیا تھا۔ یہ ایک تنقیدی جائزہ تھا بعض مغربی مصنفوں کی ان تحریروں کا جو انھوں نے پیغمبرِ اسلام کے متعلق وقتاً فوقتاً شائع کرائی ہیں۔ اقبال عاشقِ رسول تھے۔ یہ اسلام دشمن سرگرمیاں ان کے لیے سوہانِ روح تھیں۔ انھوں نے جو خطوط قائد اعظم کو ۱۹۳۷ء میں لکھے ان میں ہندوؤں کی اس مذموم روش کا بطورِ خاص ذکر کیا۔ ناموسِ پیغمبر پر کسی قسم کی حرف گیری ان کی برداشت سے باہر تھی،اور یہ مسلم قوم کی روحانی ساخت کا ایک جانا پہچانا خاصہ ہے۔ اُنیسویں صدی کے نصف آخر میں یورپ کے اندر جمہوریت کا نظریہ ایک مذہبی عقیدے جیسا تقدس حاصل کرچکا تھا۔ ہندوؤں کے تعلیم یافتہ طبقے نے بڑے جوش و خروش سے اسے اپنے دل و دماغ میں بسایا۔ وہ ہندوستان میں بھی یہی سکہ بند جمہوریت نافذ کرنا چاہتے تھے۔ کیوںکہ اس سے بالآخر ہندوؤں کو ہی مکمل اقتدر حاصل ہونے کی توقع تھی۔ ظاہر ہے کہ اس خواہش کے مضمرات مسلمانوں کے لیے عدمِ تحفظ کا پیغام تھے۔ مغربی جمہوریت کے نفاذ سے مسلمان استمراری غلامی کے گڑھے میں دھکیل دیے جاتے اور وہاں سے ان کی گلو غلامی کی کوئی صورت باقی نہ رہتی۔ مغربی جمہوری تصوّرات کے ساتھ یہاں یورپی نیشنلزم کے نظریات بھی پھیلنے شروع ہوئے۔ ہم عصر یورپ کی اکثر تحریکیں جو انھی دو مقاصد کا نام لے کر اُٹھی تھیں۔ اپنے ساتھ بہت سی انقلابی تبدیلیاں لاکر ختم ہوگئی تھیں۔ مغرب کا نیشنلزم ملکی، علاقائی اور لسانی نیشنلزم ہے۔ مذہب اس کا فقط ایک جزو ہے۔ اپنے غیر اسلامی مزاج کے باعث یہ نیشنلزم مسلمانوں کے لیے ناقابل قبول تھا۔ اسلامی قومیت کی بنیاد دین ہے، اگر مسلمان مغربی وضع کے نیشنلزم کو اپنائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے جداگانہ وجود کو مٹا کر ہندو اکثریت میں جذب ہونے کو تیار ہیں۔ سرسید نے ان دونوں مسئلوں پر اسلامی اصولوں اور مسلمانوں کے قومی مفاد کی روشنی میں قوم کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا مسلمان بذاتِ خود ایک مستقل قوم ہیں اور مغربی جمہوریت کے نفاذ سے مسلمانوں کو فائدے کی بجائے اُلٹا نقصان ہوگا۔ اقبال کے نزدیک جمہوریت اور نیشنلزم کے مغربی تصورات ظاہر میں پرکشش مگر اصل میں بہت خطرناک تھے۔ ان کے طرزِفکر کے مطابق دونوں نے مل جل کر یورپ میں مذہب اور اخلاقی اقدار پر ایک کاری ضرب لگائی تھی۔ وہ مذہب کی ممکنات سے بہت پُراُمید تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں مذہب نے ہمیشہ ایک تاریخ ساز قوت کا کردار ادا کیا ہے۔ بلکہ اُنھوں نے یہ نظریہ بھی پیش کیا کہ لوگوں کے گروہ عرصہ دراز تک ایک مذہب کے معمولات پر چلتے چلتے بالآخر ایک نسل بن جاتے ہیں۔ اُردو زبان کی تاریخ میں سرسید کو ایک بلند مقام حاصل ہے۔ انھوں نے ہندی کے حامیوں کے جارحانہ حملوں کے خلاف اُردو میں قومی زبان بننے کی صلاحیت اور اس کی افادیت ثابت کی۔ ان کا عقیدہ تھا کہ یہ زبان برصغیر کے مسلمانوں کے قومی اتحاد کی اہم نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اقبال نے اُردو زبان کو بہت وسعت دی۔ اس میں نئے مضامین شامل کیے، اسے پامال روایات سے آزاد کیا۔ حالی کی پیروی کرتے ہوئے قومی مفاد کی خاطر اس کا بامقصد استعمال کیا۔ اقبال کی فکر اور اُن کا طرزِ بیان اُردو ادب میں ایک بے مثال اضافہ ہے۔ اگر ان کو اُردو زبان سے خارج کردیا جائے تو اس کی حیثیت میں نمایاں کمی آجائے گی۔ غرض تحریک پاکستان کے بنیادی تصورات یہ تھے (ا) مسلمانوں کی قومی زندگی کی بنیاد مذہب پر قائم ہے۔ (ب) برصغیر کی مسلم قوم، عالم گیر اسلامی برادری کا ناقابل تفریق جزو ہے۔ (ج) یورپی نیشنلزم اور مغربی جمہوریت کے تصورات اور ادارے برصغیر کے حالات کے ساتھ کوئی مطابقت نہیں رکھتے۔ نہ ہی یہ اسلامی عقائد سے ہم آہنگ ہیں نہ مسلمانوں کے مفاد سے۔ (د) اُردو مسلمانوں کی قومی زبان ہے اور ملکی زبان بننے کی پوری پوری اہل ہے۔ ان تمام تصورات کو سرسید کے ہاتھوں ایک واضح شکل ملی اور پھر یہ ایک تحریک کی صورت میں آگے بڑھے۔ اقبال اسی ماحول میں پروان چڑھے تھے اُنھوں نے ان تصورات کو قبول کیا۔ لیکن انھوں نے سرسید کے خیالات میں بہت وسعت، گہرائی اور گیرائی پیدا کی۔ اپنی شخصیت کو نزاعی شخصیت بننے سے ہمیشہ بچایا۔ بہت دلآویز طریق پر اپنے خیالات کی اشاعت کی۔ ہندی مسلمانوں کی دو نسلوں کو اپنی شاعری سے متاثر کیا۔ سرسید اور اقبال نے جو بنیادیں رکھی تھیں ان پر ہی قائد اعظم نے ایک نئی مملکت کا قصر تعمیر کیا۔ ئ…ئ…ء دوسرا حصہ ز…ز…ز…ز اقبال کا ابتدائی دور عام طور پر یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ اقبال کی شاعری کا پہلا دور اِن کی ’’قوم پرستی‘‘ کا دور ہے۔ اس بات کو اتنی بار دہرایا گیا ہے کہ ہمارے پڑھے لکھے لوگوں نے اس کو من و عن قبول کرلیا ہے۔ اس خیال کو یوں بھی تقویت پہنچی ہے کہ بانگ ِدرا کے مرتب شیخ عبدالقادر نے ان کے پہلے چھپنے والے اُردو مجموعہ کلام بانگ ِدرا کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ہر حصہ ایک دور سے متعلق ہے۔ ادوار کی تقسیم یوں ہے۔ پہلا دور ۱۹۰۵ء تک۔ دوسرا دور ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک اور تیسرا دور اس کے بعد۔ پہلا دور اِن کی درس و تدریس کے زمانے کی شعری کاوشوں پر مشتمل ہے۔ دوسرے دور میں وہ سال ڈالے گئے جو انھوں نے انگلستان میں گزارے، تیسرا دور انگلستان سے واپسی کے بعد شروع ہوتا ہے۔ ان تین ادوار کے بعد غالباً ایک چوتھا دور بھی ہے اور وہ ان کی عمر کے آخری حصے سے تعلق رکھتا ہے۔ کئی نقاد اقبال کے متعلق بہت آسانی سے کہ۔َ۔ دیتے ہیں کہ ابتدا میں ان کو ملک سے بے پناہ محبت تھی، وہ ہندوستان کی عظمت کے گیت گاتے اور ہندو مسلم اتحاد کی باتیں کرتے تھے۔ لیکن بعد میں ان کے خیالات تبدیل ہوئے۔ اور ان کا طرزِ فکر مسلم قومیت کے سانچے میں ڈھلنے لگا۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے ان کی جو نظمیں پیش کی جاتی ہیں ان سب میں مشہور ترانۂ ہندی ہے جو: سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا۳؎ ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا۳؎ سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد ہندوستانی بچوں کا قومی گیت ہے اور پھر ’’نیا شوالہ‘‘ ہے جس میں وہ برہمن کو خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں: خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے۴؎ اور پھر اس دیس میں ایک نیا شوالہ بنانے کی تجویز پیش کرتے ہیں۔ اس دور کی کل پچاس نظموں میں سے جو بانگ ِدرا میں شامل ہیں۔ صرف تین اس شق میں آتی ہیں، لیکن اگر ان کے کلام کے اس ابتدائی حصے کا تجزیہ کیا جائے تو کچھ اور باتیں بھی سامنے آتی ہیں۔ اقبال اپنے متعلق جو کچھ کہتے ہیں، وہ بھی قابلِ غور ہے۔ وہ اپنی ذہنی کیفیت ایک مولوی صاحب کی زبان سے بیان کرتے ہیں۔ جن کو اس بات کی شکایت ہے کہ اقبال احکامِ شریعت سے تو ناواقف نہیں لیکن اس کی ’’پابندی احکام شریعت‘‘ مشکوک ہے، فلسفہ دانی کی وجہ سے اس کا معیارِ کفر و ایمان ہمارے معیار سے مختلف ہے۔ وہ ہندو کو کافر نہیں سمجھتا۔ تفضیل علی کا قائل ہے، راگ کا رسیا ہے اور اس کو عبادت کا درجہ دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی صبح کے وقت تلاوتِ قرآن بھی کرتا ہے۔ مشرقی شاعروں کی پرانی عادت کے مطابق وہ حسن فروشوں سے بھی رابطہ رکھتا ہے۔ ان تمام باتوں سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اقبال ’’مجموعہ اضداد‘‘ ہے۔ یہ سب باتیں رفتہ رفتہ اقبال کے کانوں تک بھی پہنچتی ہیں، سرراہ ملاقات میں وہ اپنی صفائی پیش کرتے ہیں۔ لیکن آخر بات کو یہاں ختم کرتے ہیں کہ ’’اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے‘‘، حکمت و فلسفہ اور شعر و ادب کی دنیا میں کھویا ہوا نوجوان غالباً اپنی کیفیت کو اس سے بہتر زبان میں بیان نہیں کرسکتا۔ اس خود فراموشی کے باوجود اقبال قوم میں شاعر کے مقام کو بھی متعین کردیتے ہیں، جہاں وہ شاعر کو ’’دیدۂ بینائے‘‘ قوم سے تشبیہ دیتے ہوئے کہتے ہیں: مبتلاے درد کوئی عضو ہو، روتی ہے آنکھ۵؎ کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ۵؎ ان دونوں باتوں سے یہی معنی اخذ کیے جاسکتے ہیں کہ اگرچہ وہ شاعر ہونے کی حیثیت سے اس دور میں بھی اپنے گرد و پیش کے حالات سے شدید طور سے متاثر ہوتے تھے۔ لیکن وہ ابھی تک اپنی منزل کی تلاش میں تھے۔ دیدۂ بیناے قوم نے اُس وقت جو کچھ دیکھا، اسے بھی بلا کم و کاست مجموعہ نظم کے اس حصے میں بیان کردیا چنانچہ ’’صداے درد‘‘ میں کہتے ہیں: سرزمیں اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے۵؎ وصل کیسا، یاں تو اک قُربِ فراق آمیز ہے۶؎ بدلے یک رنگی کے یہ ناآشنائی ہے غضب۵؎ ایک ہی خرمن کے دانوں میں جدائی ہے غضب۷؎ نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو!۵؎ تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۸؎ اجاڑا ہے تمیز ملت و آئیں نے قوموں کو۵؎ مرے اہلِ وطن کے دل میں کچھ فکرِ وطن بھی ہے؟۹؎ اگرچہ ان کو وطن سے محبت تھی۔ وہ وطن کی غلامی اور بے بسی کا کبھی کھلم کھلا اور کبھی اشارے کناے سے اظہار کرتے ہیں۔ لیکن وہ اپنے وطن کی ’’نفاق انگیزی‘‘ سے نالاں ہیں۔ دوسرے شعر میں ’’قرب فراق آمیز‘‘ کی ترکیب قابل غور اور شاعرانہ زبان میں دو قومی نظریہ کا خلاصہ ہے، ’’نیا شوالہ‘‘ میں برہمن سے گفتگو کو یہاں تک پہنچاتے ہیں کہ ’’دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے‘‘۔ یقینا وہ اس دور کے ہر محب وطن کی طرح چاہتے ہوں گے کہ یہاں کی بڑی بڑی قوموں میں اتحاد ہو، اور یہی اتحاد ان کو غلامی سے نجات دلوائے۔ ان تمام باتوں کے باوجود ۱۹۰۵ء سے پہلے کے اقبال کی روحانی تشکیل میں اسلامی عنصر بدرجہا زیادہ غالب ہے، وہ اس بات پر ضرور اظہار افسوس کرتے ہیں کہ برہمن نے ’’اپنوں سے بیر رکھنا‘‘ بتوں سے سیکھا ہے، اور اگر اہلِ وطن نے آیندہ کی فکر نہ کی تو ان کی بربادی یقینی ہے۔ لیکن وہ ہندوستانی قومیت کی بجائے اسلام کی مستقل قومیت کے کہیں زیادہ قائل ہیں، سرسید کی لوح تربت کے عنوان سے جو نظم لکھی گئی، اس میں واضح طور پر اس بات کا ذکر ہے کہ تعلیمِ دین کے ساتھ ترکِ دنیا لازم نہیں، اگر فرقہ بندی کو ہوا دی گئی تو ایک ہنگامہ محشر برپا ہوگا۔ قوت فرماں روا کے سامنے بے باکی سے کام لینا ’’بندۂ مومن‘‘ کا شیوہ ہے، کیونکہ اس کا دل بیم وریا سے پاک ہے۔ تصویرِ درد میں ملے جلے تصورات ہیں ہندی قومیت اور مسلم قومیت دونوں کے: زمیں کیا، آسماں بھی تیری کج بینی پہ روتا ہے۷؎ غضب ہے سطر قرآں کو چلیپا کردیا تو نے۷؎ زباں سے گر کیا توحید کا دعویٰ تو کیا حاصل۷؎ بنایا ہے بتِ پندار کو اپنا خدا تونے۱۰؎ ان مباحث کو اقبال نے بار بار اپنی بعد کی تصنیفات میں اُٹھایا ہے اور کم و بیش ہر جگہ نہایت اچھوتا اور لطیف پیرایۂ زبان اختیار کیا ہے۔ اسی حصہ میں حضرت بلالؓ پر جو نظم ملتی ہے ان کے اسلامی احساس میں (جو بعد میں قوی سے قوی تر ہوتا چلا گیا تھا) ڈوبی ہوئی ہے۔ فرماتے ہیں: مدینہ تیری نگاہوں کا نور تھا گویا۱۰؎ ترے لیے تو یہ صحرا ہی طور تھا گویا۱۰؎ اداے دید سراپا نیاز تھی تیری۱۰؎ کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری۱۱؎ پہلے دور کی آخری نظم وہ ہے جو انھوں نے انگلستان جاتے ہوئے دہلی میں حضرت محبوب الٰہی کی درگاہ پر ’’التجاے مسافر‘‘ کے عنوان سے لکھی۔ غرض ان کے خیالات، آرزوؤں، دعاؤں کا پس۔منظر تمام۔تر ٹھیٹہ اسلامی ہے۔ موجودہ دور کے مباحث میں جب ۱۹۰۵ء سے پہلے کے اقبال کو قوم پرست بتایا جاتا ہے تو اس سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے، جو لوگ اس خیال کو ہوا دیتے ہیں وہ شاید یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اس دور کا اقبال اسی طرح پر ہندوستان کی سیاسی وحدت کا قائل تھا جیسا کہ بعد میں گاندھی اور نہرو بنے۔ پہلے بیان کیا جاچکا ہے اُردو برصغیر کے مسلمانوں کی قومی زبان ہے، اس کو نیست و نابود کرنے کا منصوبہ ہندوؤں کی نشاۃ ثانیہ کے پروگرام کا نہایت اہم جزو تھا، اور اس پر ۱۸۶۷ء سے عمل شروع ہوچکا تھا۔ جب یو-پی گورنمنٹ کے ۱۹۰۰ء والے سرکلر نے صوبے کی عدالتوں میں اُردو اور ہندی زبانوں کو مساوی درجہ دے دیا تو مسلمانوں میں بہت اشتعال پیدا ہوا۔ اقبال یقینا اس حکم کے واقعاتی پس منظر سے ناواقف نہیں ہوں گے۔ بانگِ درا کی ابتدائی نظموں میں انھوں نے جہاں دلی کی مٹی ہوئی اسلامی تہذیب کے آخری نمایندہ (غالب) کو ایک بے مثال خراجِ عقیدت پیش کیا ہے وہاں اُردو زبان کی بے چارگی کی طرف بھی ان لفظوں میں اشارہ ہے: گیسوے اُردو ابھی منت پذیرِ شانہ ہے۱۰؎ شمع یہ سودائی دلسوزیِ پروانہ ہے۱۲؎ یہاں اقبال کی اسی زمانے کی لکھی ہوئی کتاب علم الاقتصاد کا مختصر سا تذکرہ بے محل نہ ہوگا۔ یہ کتاب غالباً پروفیسر آرنلڈ کے کہنے پر لکھی گئی تھی اور اسے گورنمنٹ کالج کے سابق پرنسپل بیل کے نام معنون کیا گیا تھا۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ بعد میں اقبال نے خود بھی اس کتاب کو قابل اعتنانہ سمجھا، بلکہ بحیثیت علم، انھوں نے اقتصادیات پر کوئی توجہ نہ دی۔ یہ کتاب اس زمانے کی مروجہ کتابوں کے مطالعہ کے بعد مرتب کی گئی تھی۔ اس میں کوئی ایسی بات نہیں جسے طبع زاد کہا جاسکے، البتہ کہیں کہیں انھوں نے بعض مسائل پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے، کتاب کے وہ حصے بھی ہماری توجہ کے لائق ہیں جس میں انھوں نے علم الاقتصاد کی اشاعت کو ملکی ترقی کا زینہ قرار دیا ہے اور ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی پر تشویش کا اظہار کیا ہے، یہ دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ پر قابل قدر ہوں گی، مگر ان سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے اقتصادی عمل کو فطرت انسانی سے ہم آہنگ کرنے اور اخلاقی اصولوں کے تابع کرنے پر زور دیا ہے، ’’معاشی انصاف‘‘ کی اصلاح بہت بعد کی پیداوار ہے لیکن اس کے تخیل کی بنیاد اس کتاب کے اندر موجود ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے موضوع پر ان کے خیالات مشہور انگریز پادری مالتھوس کے خیالات سے ماخوذ ہیں۔ مرحوم ممتاز حسن اور ڈاکٹر انور اقبال قریشی نے مضمون کے اس حصے کو ’’خاندانی منصوبہ بندی‘‘ سے جوڑنے کی کوشش کی ہے اور اسے اقبال کی پیش بینی ثابت کرنے کے لیے سند کے طور پر پیش کیا ہے، دونوں حضرات کی اس رائے سے اتفاق کرنا مشکل ہے۔ اگر اقبال اس وقت ضبط تولید کے قائل تھے بھی تو بعد میں اُنھوں نے اس کی حمایت ترک کردی۔ وہ امومت کو عورت کا سب سے اہم فریضہ قرار دیتے تھے، اور مغربی معاشرے پر اُن کی ’’مرد بیکار وزن تہی آغوش‘‘ والی پھبتی بے مثال اور ناقابل فراموش ہے۔ زندگی کے اس حصے میں اقبال کے طرزِ فکر پر روشنی ڈالنے کے لیے ذیل کے اقتباسات کافی ہیں: یہاں مفلسی کی شکایت عام ہورہی ہے۔ ہمارا ملک کامل تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے اپنی کمزوریوں اور نیز ان تمدنی اسباب سے بالکل ناواقف ہے جن کا جاننا قومی فلاح اور بہبودی کے لیے اکسیر کا حکم رکھتا ہے۔ انسانی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ جو قومیں اپنے تمدنی اور اقتصادی حالات سے غافل رہی ہیں ان کا حشر کیا ہوا ہے۔ ماہرین علم الاقتصاد کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ اپنے علم کی بنیاد انسانی فطرت کے صحیح اصولوں پر قائم کریں ورنہ ان کو صحیح اور کلی نتائج کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ علم الاقتصاد کو وضاحت سے سمجھنے کے لیے کسی قدر مطالعہ علم الاخلاق کا بھی ضروری ہے، اکثر مصنّفین نے اس صداقت کو محسوس نہیں کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دولت بلالحاظ زندگی کے افضل ترین(؟) مقصد کی بجائے خود ایک مقصد تصور کی گئی جس سے بعض تمدنی اصلاحوں کے ظہور پذیر ہونے میں بے جا تعویق ہوئی اور دولت کو پیار کرنے والوں کی حرص و آز پہلے سے زیادہ تیز ہوگئی۔ اگر یہ شے (دولت) ہمارے افضل ترین مقاصد کے حصول میں ہم کو مدد نہیں دے سکتی تو پھر اس کا کیا فائدہ؟ …انسان کی زندگی کا اصل مقصد کچھ اور ہے۔ اور یہ تمام اشیا دولت، صحت اور فرائض کی انجام دہی وغیرہ اس مقصد کے حصول کے ذرائع ہیں۔ قیامِ انگلستان اقبال ۱۹۰۵ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان روانہ ہوئے۔ ان کے اپنے الفاظ میں ’’شراب علم کی لذت‘‘ ان کو کھینچ کر دیار مغرب میں لے گئی۔ طالب علمی کا تین سالہ دور اُنھوں نے کچھ انگلستان میں اور کچھ جرمنی میں گزارا، جرمنی سے پی-ایچ-ڈی کی سند تو انھوں نے میونخ یونی ورسٹی سے حاصل کی لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ان کا قیام ہائیڈل برگ کے شہر میں رہا جو دریاے نیکار کے دونوں طرف آباد ہے۔ اسی دریا کے دائیں ہاتھ والی ایک سڑک (جو اب اقبال اُوفر یعنی ’’گوشہ اقبال‘‘ کہلاتی ہے) پر ایک مکان میں اقبال ۱۹۰۷ء میں قیام پذیر تھے، مکان کی بیرونی دیوار پر جرمن زبان میں کندہ کی گئی عبارت ان کے قیام کی یاد دلاتی ہے۔ ہمارے ایک نامور استاد نے چند شواہد کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان سالوں کا کم از کم کچھ حصہ اقبال کے جذباتی دورِ زندگی کی نمایندگی کرتا ہے۔ (یہ بات اپنی جگہ پر درست ہوگی۔ لیکن اپنی نگاہ کو صرف یہیں تک محدود کردینا ظلم ہوگا) شاعر نے خود بھی اپنی زبان سے اقبال جرم کیا ہے: حسُن کی تاثیر پر غالب نہ آسکتا تھا علم۱۰؎ اتنی نادانی جہاں کے سارے داناؤں میں تھی۱۳؎ نہ پوچھ اقبال کا ٹھکانا، ابھی وہی کیفیت ہے اس کی۱۰؎ کہیں سر رہ۔گزار بیٹھا ستم کشِ انتظار ہوگا۱۴؎ ان سالوں میں ان پر بہت سی ذہنی اور عقلی تبدیلیاں آئیں۔ انھوں نے فلسفے کا بہ غائر مطالعہ کیا۔ کیمبرج میں وہ پروفیسر میکٹیگرٹ کے حلقہ تلمذ میں شامل تھے (جو ہیگل کے فلسفے کا پیرو تھا)۔ اس کے بعد اپنے مقالے کی تکمیل کے لیے جرمنی میں رہے۔ یہاں بھی اسی مکتب فکر کے نمایندوں کا اثر قبول کیا ہوگا۔ لامحالہ بانگ ِدرا کے حصہ دوم کی ایک نظم کا شعر اسی طرزِ فکر کی نمایندگی کرتا ہے۔ وجود افراد کا مجازی ہے ہستیِ قوم ہے حقیقی۱۰؎ فدا ہو ملت پہ یعنی آتش زنِ طلسمِ مجاز ہوجا۱۵؎ اس فلسفہ کی جزئیات پر بحث کرنا کتاب کے موضوع سے خارج ہے، لیکن یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ فلسفہ جرمنی کے دور انحطاط کی پیداوار ہے۔ ہیگل کے عنفوان شباب میں جرمنی کی عسکری ہزیمتوں نے ملک کا شیرازہ (جو پہلے بھی کبھی مربوط نہیں تھا) بالکل بکھیر کر رکھ دیا تھا۔ ملک موت و حیات کی کش مکش میں مبتلا تھا۔ ہیگل نے صدیوں پرانے عینی فلسفہ (جس کی بنا افلاطون نے رکھی تھی) کے مختلف عناصر کی مدد سے ایک نیا فلسفہ سیاست مرتب کیا۔ یہ فلسفہ جرمنی میں بہت مقبول ہوا اور انگلستان میں بھی اس کے پیرو ایک مؤثر اقلیت میں مل جاتے ہیں۔ اس فلسفہ کی بنیاد مملکت کے غیر محدود اختیارات پر رکھی گئی ہے۔ فرد کو اس میں چنداں اہمیت حاصل نہیں۔ شہریوں کے اخلاق۔ ان کی زندگی کے معمولات وغیرہ سب کی محافظ مملکت ہے۔ اور اس کا نمایندہ حکمران ہے، نکتہ چینوں نے اس فلسفے کو اپنے مخصوص طریقے پر بیان کرتے ہوئے اسے مضحکہ خیز ظاہر کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے، لیکن حقیقت یوں نہیں، اس میں بہت سی کام کی باتیں ہیں، اور اس کے بہت سے نکتے مسلمان فلسفیوں کے افکار کے قریب پہنچتے ہیں۔ چنانچہ جو طالب علم اس فلسفے کے عناصر کا اقبال کی رموز بے خودی کی روشنی میں مطالعہ کرے گا۔ اس کو دونوں میں کئی جگہ مشابہت نظر آئے گی۔ قیامِ یورپ کے دوران اقبال کی شاعری میں ایک دور رس تبدیلی آئی۔ پہلے پہل تو انھوں نے شاعری کو ترک کردینے کا خیال کیا، اور اپنے ارادے کا ذکر شیخ عبدالقادر کے ساتھ کیا۔ غالباً اس سے پہلے یا بعد وہ ان کو لکھ بھی چکے تھے ’’جو کام کچھ کررہی ہیں قومیں اُنھیں مذاق سخن نہیں ہے‘‘۔ بعد میں آرنلڈ کے مشورے اور شیخ عبدالقادر کے اصرار پر یہ ارادہ بدل دیا، لیکن اس کی بجائے ایک دوسرا تغیر رونما ہوا، یعنی اُردو کی بجائے انھوں نے فارسی زبان کو اظہار خیال کا ذریعہ بنایا، بظاہر اس کی ابتدا ایک چھوٹے سے واقعہ سے ہوئی جس کو شیخ عبدالقادر نے بانگِ درا کے دیباچے میں بیان کیا ہے۔ یہ بات یونہی ہوئی ہوگی۔ لیکن محض ایک کھانے کی تقریب پر کسی دوست کے اس سوال پر کہ ’’آپ فارسی میں شعر بھی کہتے ہیں یا نہیں‘‘؟ اتنی بڑی تبدیلی کا رونما ہونا عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے۔ تبدیلی کا پس منظر یقینا اس سے کہیں وسیع تر ہوگا، ممکن ہے کہ اقبال پہلے بھی اس نہج پر سوچ بچار کرچکے ہوں۔ چنانچہ چند سطروں کے بعد خود شیخ عبدالقادر نے بنیادی وجہ ان لفظوں میں بیان کردی ہے: ’’فارسی نے وہ کام کیا جو اُردو سے نہیں ہوسکتا تھا۔ تمام اسلامی دنیا میں جہاں فارسی کم و بیش متداول ہے اقبال کا کلام اس ذریعہ سے پہنچ گیا اور اس میں ایسے خیالات تھے جن کی ایسی وسیع اشاعت ضروری تھی‘‘۔ برصغیر کے مسلمانوں کو دنیاے اسلام کے ساتھ جو محبت رہی ہے وہ عقیدت کی حد تک پہنچی ہوئی ہے، اقبال بھی اسی ماحول کی پیداوار تھے۔ ان کی تربیت بھی گہرے اسلامی اثرات میں ہوئی تھی۔ اس لیے شعوری طور پر وہ اسلامی دنیا کا قرب چاہتے تھے۔ اس زمانے کے حالات میں اس قرب کا سب سے اچھا ذریعہ فارسی زبان تھی اور اس کو ہی انھوں نے شعر گوئی کے لیے اختیار کیا۔ کئی سال بعد گول میز کانفرنس کے موقع پر انگلستان میں، اقبال لٹریری ایسوسی ایشن کے سپاس نامہ کا جواب دیتے ہوئے اقبال نے کچھ اس طرح فرمایا: ’’اُردو کو چھوڑ کر فارسی میں شعر کہنے کے متعلق اب تک مختلف لوگوں نے مختلف توجیہات پیش کی ہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آج ہی یہ راز بھی بتا دوں۔ بعض اصحاب خیال کرتے ہیں کہ فارسی زبان میں نے اس لیے اختیار کی کہ میرے خیالات وسیع حلقے میں پہنچ جائیں۔ حالانکہ میرا مقصد اس کے بالکل برعکس تھا، میں نے اپنی مثنوی اسرار خودی ابتداً صرف ہندوستان کے لیے لکھی تھی اور ہندوستان میں فارسی سمجھنے والے بہت کم تھے‘‘۔ ان سطروں کو پڑھنے کے بعد اس سوال کا جواب دینا کہ اقبال نے فارسی شعر گوئی کیوں شروع کی اور بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں میں اسلامی برادری کے لیے محبت اور اخوت کے جذبات کی جو شدت پائی جاتی ہے وہ پاکستان کے وجود میں آنے کی ایک اہم وجہ ہے۔ یہ جذبہ بہت پہلے سے یہاں موجود تھا۔ لیکن اقبال نے اس جذبے کو ایک نئی تازگی بخشی اور اپنی شاعری کے ذریعے ملک کے دور دراز گوشوں تک پہنچایا۔ ان کے فکر نے علاقائی قومیت کے مغربی تخیل کو مسمار کرکے رکھ دیا اور غالباً ہمارے بیسویں صدی کے قومی فکر میں ان کا سب سے اہم اضافہ یہی ہے۔ انگلستان کی سرزمین میں رہتے ہوئے ان کی اسلامی حس کو اور بھی تقویت پہنچی۔ اگر ان پر وطنیت کا طلسم کبھی تھا تو اس سے اپنے آپ کو کلی طور پر آزاد کرالیتے ہیں۔ چنانچہ پہلے دور کی غزلیات کے حصے میں یہ شعر بھی ملے گا: نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا۱۰؎ بِنا ہمارے حصارِ ملت کی اتحادِ وطن نہیں ہے۱۶؎ اپنی چشم تخیل سے آنے والے دور میں اسلام کی سربلندی کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ مجھے قدسیوں نے بتایا ہے کہ جس شیر نے صحرا سے نکل کر روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا وہ پھر بیدار اور ہوشیار ہوگا۔ اسلامی دنیا کا مرکز کعبہ ہے اور اُمت صرف اپنی مرکزیت کی وجہ سے قائم ہے۔ علی۔گڑھ کے طلبا کو پیغام دیتے ہوئے کہتے ہیں ’’جذب حرم سے ہے فروغ انجمن حجاز کا‘‘ شیخ عبدالقادر کے نام لکھتے ہیں: رخت جاں بت کدۂ چیں سے اُٹھا لیں اپنا۱۰؎ سب کو محو رخِ سُعدیٰ و سُلیمٰی کردیں۱۷؎ غرض یہ کہ تین سال کے اس مختصر عرصے میں انھوں نے یورپ کی زندگی کو قریب سے دیکھا۔ اس میں شریک ہوئے۔ اس کے حسن و قبح کو اپنے علم اور تجربے کی روشنی میں پرکھا۔ تو ان کو مسلمانوں کی فلاح اتحاد اسلام میں ہی نظر آئی: گرم رکھتا تھا ہمیں سردیِ مغرب میں جو داغ۱۰؎ چیر کر سینہ ُاسے وقفِ تماشا کردیں۱۸؎ جزیرہ سسلی کے قریب سے گزرتے ہوئے انھوں نے ’’تہذیب حجازی‘‘ کے اس ’’مزار‘‘ پر جو نوحہ نما نظم لکھی ہے اس کے ہر لفظ سے یہی احساس ٹپکتا ہے۔ اقبال کے قیامِ یورپ کے سال بیسویں صدی عیسوی کے ابتدائی سال تھے۔ ان دِنوں انگلستان اور جرمنی کے باہمی تعلقات میں دن بدن کشیدگی پیدا ہورہی تھی۔ بڑے بڑے ملکوں کے دارالسلطنت بین الاقوامی سازشوں کے اڈے بنے ہوئے تھے۔ ۱۹۰۴ء میں برطانیہ اور فرانس دونوں نے اپنے کئی سو سالہ مناقشات کو طے کرکے ایک باہمی اتحاد کی بنیاد رکھی۔ تین سال بعد انگلستان اور روس نے ایران کو اپنی سیاست کا اکھاڑہ بنایا اور عملاً اس کے جنوبی اور شمالی حصوں کے مالک بن گئے۔ جرمنی کی جنگی تیاریاں زور شور سے جاری تھیں، دور بین نظروں کو آنے والے دھماکے کا خدشہ نظر آتا تھا۔ (اس دھماکے سے ۱۹۱۴ء میں پہلی جنگِ عظیم کی ابتدا ہوئی) یہ سارا مواد تو اندر اندر ہی پک رہا تھا۔ بظاہر حالات نہایت خوشگوار تھے، یورپ کے مختلف ملکوں نے ساری دنیا سے اپنی برتری کا لوہا منوالیا تھا، افریقہ اور ایشیا کے بہت سے علاقے براہِ راست سامراجی طاقتوں کے زیرِ نگین تھے، امریکہ اور آسٹریلیا جیسے براعظم یورپی نسلوں کے باشندوں سے آباد تھے اور ان میں مغربی دنیا جیسا طرزِ زندگی رائج تھا۔ سائنس، صنعت و حرفت اور دوسرے علوم و فنون کی ترقی اور ان کی چمک دمک سے ساری مغربی دنیا جگمگا رہی تھی، اقبال نے سب کچھ دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں چکا چوند بالکل نہ آئی۔ انھوں نے اس طلسماتی ماحول میں اپنے ہوش و حواس قائم رکھے، یہاں ان کو یورپ کی عظمت کا احساس ہوا اور اس کی بے بسی کا بھی۔ یورپ کی عظمت اس کی علمی ترقیوں اور عملی سائنسوں میں پائی۔ اس کے کتب خانوں، اس کے معملوں اور علمی جستجو کی تڑپ سے وہ نہایت متاثر ہوئے۔ اپنی بعد کی تصنیفات میں وہ کئی مرتبہ اس کا ذکر کرتے ہیں کہ یورپ کی بڑائی اس کے رقص و سرور یا جوان لڑکیوں کی تُنک لباسی میں مضمر نہیں، بلکہ اس کی علمی اور فنی ترقیوں پر منحصر ہے۔ جس بات نے ان کو یورپ سے بدظن کیا وہ وہاں کی وطنیت تھی۔ جو نوع انسان کی فطری وحدت پر ضرب کاری لگاتی ہے۔ جو خلقِ خدا کو اقوام میں بانٹ دیتی ہے، جس سے کمزور قوموں کے وطن تاخت و تاراج ہوتے ہیں اور ان کی معیشت پر طاقت ور غیر، قابض ہوجاتے ہیں۔ یورپی قوموں کی عسکری برتری سے دنیا غلامی کے ایک نئے دور میں داخل ہوئی۔ وطن پرستی کے ساتھ ہی یورپی قوموں میں اپنی برتری کا احساس بھی شدت سے بڑھ رہا تھا۔ برطانیہ نے دنیا کے بہت بڑے حصے پر قبضہ کرلیا تھا۔ فرانس، بلجیم، ہالینڈ اور جرمنی بھی اس جوع الارض کا شکار تھے۔ یہ سب باتیں اقبال کی نظروں میں کھٹکی ہوں گی۔ انھوں نے محسوس کیا ہوگا، کہ یورپ ایک غیر انسانی نظام کو اختیار کرتا چلا جارہا ہے۔ اس کی معاشرتی اور اخلاقی قدریں مسخ ہورہی ہیں اور خود یورپی معاشرے کی جڑیں کھوکھلی ہورہی ہیں: اسی احساس نے ان سے یہ شعر کہلواے ہوں گے: دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے۱۰؎ کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو ، وہ اب زرِ کم عیار ہوگا۱۰؎ تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی۱۰؎ جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ، ناپائدار ہوگا۱۹؎ یورپ کی زندگی کا یہ تضاد (یعنی اس کا خیرہ کن ظاہر اور اس کا روحانی کھوکھلا پن) اقبال کی شاعری کا مستقل موضوع بن گیا۔ وہ بار بار اس کی طرف آتے ہیں۔ بنیادی طور پر تو مضمون وہی ہے۔ لیکن ہر بار اس میں کوئی نیا نکتہ پیدا کرتے ہیں، کئی سال بعد جب ان کو افغانستان جانے کا اتفاق ہوا تو حالات بہت بدل چکے تھے۔ پہلی تباہ کن جنگ عظیم کے اثرات آہستہ آہستہ زائل ہورہے تھے پھر بھی ان کا بنیادی عقیدہ وہی تھا۔ بابر کے مزار پر کھڑے ہوکر وہ یہی کہتے ہیں: بیا کہ ساز فرنگ از نوا بر افتاد است۲۰؎ درونِ پردۂ او نغمہ نیست، فریاد است۲۰؎ ان تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یورپ میں رہتے ہوئے اقبال یورپی نیشنلزم سے بدظن ہوئے۔ اسلامی قومیت پر (جو بنی نوع انسان کے گونا گوں مسائل کو حل کرنے کی پوری پوری صلاحیت رکھتی ہے) ان کا ایمان پختہ ہوا۔ ہندوستان کے لیے بھی یورپی نیشنلزم کا نسخہ ان کو شفا بخش معلوم نہ ہوا۔ یورپ کی زندگی کے دلکش اور دلفریب پہلوؤں سے وہ محظوظ بھی ہوئے ہوں گے۔ لیکن یہ ایک آنی جانی بات تھی۔ علمی جلا کے ساتھ اسلام کی ازلی اور ابدی قدروں پر ان کا ایمان مضبوط ہوا۔ اس ارتقا میں اس وسیع مطالعہ کو بھی دخل ہوگا، جو ان کو اپنے پی -ایچ-ڈی کے مقالے کے سلسلے میں کرنا پڑا۔ اقبال کے یورپ روانہ ہونے کے فوراً بعد ہی تقسیم بنگال کی شکل میں ایک بہت بڑا سیاسی زلزلہ آیا۔ یہ تقسیم وسط اکتوبر ۱۹۰۵ء میں عمل میں آئی۔ اس کی تجویز تو کئی سال سے چلی آرہی تھی لیکن اس سلسلے میں فیصلہ کن اقدام وائسراے لارڈ کرزن نے کیا۔ برطانوی حکومت کے نمایندوں، مؤرخوں، سیاست دانوں، اخبار نویسوں اور سیاسی کارکنوں نے اس مضمون پر بہت سی خامہ فرسائی کی ہے اور تقسیم کے مختلف اسباب بیان کیے ہیں۔ اس زمانے میں حکومت برطانیہ کا مؤقف یہ تھا کہ تقسیم اس لیے ضروری تھی کہ بنگال ایک بہت بڑا صوبہ تھا اور اس کا انتظام ایک صوبائی حکومت کے بس کی بات نہ تھی۔ اس لیے انتظامی امور کو بہتر طور پر نپٹانے کے لیے ایک صوبے کے دو بنادیے گئے۔ تقسیم کے مخالفین (ہندو) اس کو سیاسی دھوکہ بازی بتاتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ تقسیم کا مقصد صرف بنگالی قوم کی وحدت کو پارا پارا کرنا ہے۔ ممکن ہے کہ ان دونوں مبینہ وجوہات میں صداقت کا عنصر بھی شامل ہو، تقسیم کا نتیجہ یہ نکلا کہ بنگال اور آسام کو ملا کر دو نئے صوبے وجود میں لائے گئے(بہار اور اڑیسہ ان دنوں بنگال کے حدود میں شامل تھے)۔ ایک کا نام مغربی بنگال رکھا گیا اور دوسرے کا مشرقی بنگال اور آسام، مؤخرالذکر صوبے میں مسلمانوں کی آبادی دو تہائی تھی۔ اس تقسیم سے مسلمانوں کو بہت اطمینان ہوا، ان کا خیال تھا کہ اس تشکیل نو سے پسماندہ صوبے کے غریب اور بے کس مسلمانوں کو آہستہ آہستہ اپنے حقوق ملیں گے اور وہ مغربی بنگال کے ہندو تعلیم یافتہ طبقے کی معاشی اور سیاسی گرفت سے آزاد ہوجائیں گے۔ اس زمانے میں انگریز مصنفوں اور سول سروس کے ارکان کی جو تحریریں شائع ہوئیں ان سے یہ مجموعی تاثر بھی پیدا ہوتا ہے کہ تقسیم سے مشرقی بنگال کے حالات کی اصلاح اور یہاں کے باشندوں کی حق رسی مقصود تھی۔ اس سے مسلمانوں کو تھوڑا بہت فائدہ بھی ہوا۔ یہ تقسیم ہندوؤں کو بے حد ناگوار گزری، اور انھوں نے پہلے دن سے ہی اس کی سرتوڑ مخالفت شروع کردی۔ ہڑتالیں، نعرے، جلسے، جلوس، گالی گلوچ یہ سب حربے تقسیم کے مخالفین بے محابا استعمال کرتے تھے۔ اس سے دونوں صوبوں کا نظم و نسق تہ۔َ۔ و بالا ہوگیا، جرائم بے حد بڑھ گئے، قتل و غارت، رہزنی، آتش زدگی کی وارداتیں روزمرہ کا معمول بن گئیں۔ چونکہ اس تقسیم سے مسلمانوں کو کچھ فائدہ ہوتا تھا، اس لیے ہندوؤں میں مسلمانوں کے خلاف منافرت کا جذبہ کینے میں تبدیل ہوگیا۔ بلکہ دہشت پسندوں کے بموں اور گولیوںکا نشانہ مسلمان اور انگریز دونوں بنتے تھے۔ ایک بنگالی مؤرخ نرود چودھری نے (جو اس دور کے واقعات کے عینی شاہد ہیں) بجا طور پر یہ نتیجہ نکالا ہے کہ تقسیم بنگال کے بعد بنگالی ہندوؤں کے دلوں میں مستقل طور پر مسلمانوں کے خلاف ایک گرہ بیٹھ گئی اور ہندو مسلم منافرت کا ایک نیا باب شروع ہوا۔ بعض اوقات تو سکولوں کے ہندو طلبا ایک کمرے میں مسلمان طالب علموں کے ساتھ بیٹھنے کے لیے بھی تیار نہ تھے۔ ہندوؤں کا غیض و غضب جنون کی حد تک پہنچ گیا اور انتقام لینے کے قول و قرار ہندو مندروں میں کالی دیوی کے بت کے سامنے کیے جاتے تھے۔ اس طرح یہ سیاسی تحریک ہندو مذہب کا سہارا لے کر آگے بڑھتی گئی۔ منافرت کا یہ لاوا پھوٹا تو بنگال سے تھا لیکن یہ تیزی سے برصغیر کے دوسرے علاقوں میں پھیلتا گیا۔ انھی دنوں برطانیہ کے اہلِ سیاست میں بنگالی ہندوؤں کے کئی طرف دار موجود تھے۔ ۱۹۰۵ء کے آخر میں وہاں جو عمومی انتخابات ہوئے، ان میں لبرل پارٹی کو زبردست اکثریت حاصل ہوئی۔ منتخب ارکان میں آدھ درجن کے قریب ایسے تھے جو دارالعوام کو ہندوؤں کے نقطۂ نظر سے ہر وقت باخبر رکھتے تھے۔ اور بنگالی ہندوؤں کو حکومت کے خلاف جو فرضی یا حقیقی شکائتیں پیدا ہوتی تھیں ان کو ایوان کے سامنے فی الفور پیش کردیا کرتے تھے۔ بنگال کے روزمرہ کے حالات تفصیل کے ساتھ برطانوی اخباروں میں چھپتے تھے۔ ٹائمز برطانیہ کا ایک مقتدر اخبار سمجھا جاتا ہے، اس کا نامہ نگار ویلن ٹائن چائرل اس وقت کلکتہ میں متعین تھا۔ وہ اپنے اخبار کو باقاعدہ ڈسپیچ بھیجا کرتا تھا۔ چائرل کا تجزیہ بہت حد تک حقیقت پسندانہ تھا۔ اس کی تحریروں سے انگلستان میں ہل چل مچ گئی۔ برطانوی مدبروں بلکہ پڑھے لکھے طبقوںمیں بھی بنگال اور تقسیم بنگال روزانہ گفتگو کا موضوع بن گئے۔ بائیں بازو کی پارٹیوں اور ان کے ہم خیال لوگوں کو ہندو بنگالیوں سے بہت ہمدردی تھی۔ اور وہ حالات کا سطحی مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ بنگالی ہندو اسی قسم کی آئینی جدوجہد میں مصروف ہیں جو خود ان کے آباؤاجداد نے بہت مدت تک شاہی آمریت کے خلاف جاری رکھی تھی۔ برصغیر کے سینکڑوں طالب علم جو اس وقت انگلستان میں مقیم تھے ان حالات میں بہت دلچسپی لیتے تھے اور بعض تو یہ سمجھتے کہ صرف تشدد کے ذریعے ہی برطانوی تسلط سے خلاصی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اقبال ان خبروں کو باقاعدہ پڑھتے ہوں گے۔ ہندو قوم کے دل و دماغ سے تو وہ پہلے سے اچھی طرح آگاہ تھے۔ دونوں قوموں کے ذہنی اور روحانی فاصلوں کے متعلق بھی انھیں کوئی خوش فہمی نہ تھی۔ جو کچھ ان دنوں وطن میں ہورہا تھا ان سے بھی ان کو اپنی نئی سمت کے متعین کرنے میں مدد ملی ہوگی۔ آخر کار برصغیر کے انگریز حکمرانوںنے بنگالی ہندوؤں کی بے پناہ دشت انگیزی کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور ۱۹۱۱ء میں تقسیم بنگال کو منسوخ کردیا۔ اس بات کا اعلان برطانیہ کے فرماں روا جارج پنجم کی زبان سے کرایا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ہندوستان کا دارالسلطنت کلکتہ کی بجائے دہلی قرار پایا۔ مسلمانوں کو تقسیم کے خاتمے سے بہت صدمہ پہنچا لیکن حکمرانوں نے دارالسلطنت کو دہلی منتقل کرکے مسلمانوں کی اشک شوئی کی کوشش کی، بعض مسلمان طبقے اس سے مطمئن بھی ہوئے کیونکہ اسلامی ہند کی بہت سی تابناک روایات دہلی کے شہر سے وابستہ ہیں، ہندوؤں نے تقسیم کی تنسیخ کو چراغاں کرکے منایا لیکن کلکتے کی ’’یتیمی‘‘ پر آنسو بہائے۔ ان سب باتوں سے ہندوؤں اور مسلمانوں کی دائمی عدم مفاہمت اور انگریز حکمرانوں کے طریق کار کا پتا چلتا ہے۔ اقبال نے اس موقع پر اپنے تاثرات کو یوں قلم۔بند کیا تھا: ہوگیا زخمِ دل بنگال آخر مندمل۲۰؎ وہ جو تھی پہلے تمیز کافر و مومن گئی۲۰؎ تاج شاہی یعنی کلکتے سے دلّی آگیا۲۰؎ مل گئی بابو کو جوتی اور پگڑی چھن گئی۲۱؎ لیکن یہ بعد کی بات ہے۔ جب وہ تین سال کے بعد واپس لوٹے تو ان میں ایک ذہنی انقلاب آچکا تھا۔ شاید اس تبدیلی کو انقلاب کہنا تو درست نہ ہو کیوں کہ اس کی بنیادیں پہلے سے ہی موجود تھیں، اپنی جوانی کے ابتدائی دور میں انھوں نے اپنے آپ کو ’’مجموعہ اضداد‘‘ کہا تھا۔ لیکن شاید اب کسب علم اور وسیع مشاہدہ سے ان کے بہت سے فکری تضاد دور ہوچکے تھے۔ ان کو اچھی طرح معلوم ہوگیا تھا کہ قوم کا رخ کس طرف ہونا چاہیے یعنی اپنی نظر میں صرف ہندوستان تک محدود رکھنا قوم کے لیے سودمند نہ ہوگا۔ ہندی مسلمان ایک عظیم برادری کے افراد ہیں۔ یہ برادری ہر لحاظ سے ایک قوم ہے، اور اس میں بہت سی خوابیدہ صلاحیتیں موجود ہیں اس کی نجات اسی میں ہے کہ وہ اپنے آپ کو متحد کرے اور اس طرح اپنے مسائل کو حل کرنے کی طرف پہلا قدم اُٹھائے۔ مغرب کی علمی زندگی کے بہت سے عناصر قابل قدر ہیں اور ہم کو ان سے استفادہ کرنا چاہیے۔ لیکن مغربی تہذیب کے دلفریب بیرونی مظاہر بے معنی ہیں۔ اور ان کا مغرب کی سربلندی سے کوئی تعلق نہیں۔ اقبال کا اپنا بیان اس نتیجے سے کسی قدر مختلف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انگلستان سے واپسی کے دو تین سال بعد تک وہ ذہنی تضادات کا شکار رہے، نیز ان کے قریبی دوستوں کو بھی معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کن الجھنوں میں مبتلا ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ ذہنی کشمکش اُن کی ذاتی اورنجی زندگی سے تعلق رکھتی ہو۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ ۱۹۰۷ء میں جب مسلم لیگ کی لندن شاخ کی بنیاد رکھی گئی تو اس کے پہلے اجلاس میں شریک ہونے والوں میں اقبال بھی شامل تھے۔ برطانوی مسلم لیگ کے کرتا دھرتا سید امیر علی تھے، جو بہت اعلیٰ پائے کے مؤرخ، قانون دان اور ادیب تھے اور جن کی فعال شخصیت نے برصغیر کی اسلامی سیاست پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ اس طرح اقبال کو یہ موقع بھی ملا ہوگا کہ سید امیر علی کو قریب سے دیکھیں۔ سید امیر علی کو برطانیہ میں پریوی کونسل کی جوڈیشل کمیٹی کا ممبر ہونے کی حیثیت سے اسلامی قانون کی تشریح و توضیح کرنے کا اکثر اتفاق ہوا۔ برطانوی ہند کے ججوں، نیز برطانوی عدلیہ نے اپنے قانونی فیصلوں میں شرع اسلامی کے منشا کو اکثر و بیشتر غلط سمجھا اور اس کی دور ازکار توجیہیں پیش کیں، سید امیر علی نے ان غلط فہمیوں کا ازالہ کیا۔ اقبال کو بھی شرع اسلام کے نفاذ سے بے حد دلچسپی تھی، انھوں نے اس موضوع پر اپنے دوستوں کو کئی خط لکھے، قومی تاریخ کے طالب علم کے لیے تحقیق کا ایک موضوع یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اقبال (جو اجتہاد کے بہت بڑے مبلغ تھے) سید امیر علی کے قانونی غور و فکر سے کہاں تک متاثر ہوئے۔ دنیائے اسلام اور اقبال (۱۹۲۲-۱۹۱۱ئ) انگلستان سے واپسی کے بعد اقبال کی تخلیقی زندگی میں ایک نئے باب کا آغاز ہوتا ہے، نئے دور کے مسائل پہلے دور کے مسائل سے مختلف تھے۔ دنیاے اسلام پر تیزی سے مصائب کے بادل چھارہے تھے۔ ترکی دنیاے اسلام کا سب سے زیادہ اہم ملک تھا۔ اس کی وسیع و عریض سلطنت میں دنیاے عرب، شمالی افریقہ اور جزیرہ نماے بلقان کے کچھ علاقے شامل تھے۔ عثمانی ترکی سلطنت کا سربراہ خلیفۃ المسلمین کہلاتا تھا۔ سلطنت عثمانیہ کی شکست و ریخت کا عمل مدت سے جاری تھا۔ اس سے تقریباً نصف صدی پہلے روس کے زار الیگزنڈر نے ترکی کویورپ کا ’’مرد بیمار‘‘ کہا تھا۔ وہ یہ چاہتا تھا کہ روس بلقانی علاقوں پر قابض ہوکر بحیرہ روم کی طرف اپنا راستہ نکالے۔ انگلستان اس بات سے خائف تھا۔ اس لیے کہ اگر یہ معاملہ روس کے منشا کے مطابق آگے بڑھے تو روس کی جارحانہ قوت میں بے پناہ اضافہ ہوجائے گا اور وہ مشرق میں برطانیہ کے اقتدار پر ضرب لگانے کے قابل ہوجائے گا۔ انیسویں صدی کے پہلے اٹھتر سال تو برطانیہ بظاہر ترکی کا حلیف تھا اور بین الاقوامی معاملات میں یہی کردار ادا کرتا تھا، لیکن کانگرس آف برلن (۱۸۷۸ئ) کے بعد ترکی کا جھکاؤ جرمنی کی طرف ہوگیا اور یورپی دول کی نئی جتھہ بندی میں ترکی کو پہلی سی اہمیت حاصل نہ رہی۔ البتہ بہت سی طاقتیں ترکی کے مقبوضات کو ہتھیانے کی فکر میں تھیں۔ اور یورپ کی مختلف حکومتیں آپس میں کھچڑی پکا رہی تھیں کہ جزیرہ نماے بلقان کی ولایتوں سے ترکوں کو کلی طور پر بے دخل کردیا جائے۔ ان پس پردہ تیاریوں کا پہلا نتیجہ یہ نکلا کہ اطالوی فوجوں نے ۱۹۱۱ء میں تمام بین الاقوامی ضابطوں کو بالاے طاق رکھتے ہوئے طرابلس (شمالی افریقہ موجودہ لیبیا) پر حملہ کردیا اور یہاں کے عرب باشندوں کو (عورتوں اور بچوں سمیت) ایسی انسانیت سوز درندگی کا نشانہ بنایا کہ یورپی دنیا بھی بلبلا اٹھی۔ ترک بے دست و پا تھے۔ انگریزوں نے مصر کے راستے ترکوں کو وہاں کمک بھیجنے کے حق سے محروم کردیا۔ چنانچہ اگلے سال اٹلی نے طرابلس کو اپنی سلطنت میں شامل کرلیا۔ شکست خوردہ ترکوں کے پاس اس بات کے سوائے اور کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اِ س غاصبانہ قبضے کی تصدیق کردیں۔ یہ زخم ابھی تازہ تھا کہ بلقانی صوبوں نے یورپ کی بڑی بڑی طاقتوں کی شہ پر ترکوں کے خلاف بغاوت کردی۔ اس کا نتیجہ بھی صاف نظرآرہا تھا۔ جب تک ترکوں کا پلڑا بھاری تھا۔ انگریز مدبروں کے بیانات میں شکست خوردہ ملکوں کی پرانی حدیں برقرار رکھنے پر زور دیا جاتا تھا۔ لیکن جب جنگ کا پانسہ پلٹا اور ترکوں کی عسکری حالت ابتر ہونے لگی تو برطانوی سیاسی راگ کے سُر تبدیل ہوگئے۔ اب یہ کہا جانے لگا کہ فاتح ملکوں کو اپنی فوجی قوت کے ثمرات سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ ان دونوں جنگوں سے برصغیر کے مسلمانوں میں بڑی بے چینی پھیلی۔ مسلمانوں کی رائے عامہ پہلے اٹلی کے غیر انسانی رویے سے اور بعد میں انگریزوں کے کھلم کھلا معاندانہ رویے سے بہت مشتعل تھی، لاہور کا اخبار زمیندار اور کلکتہ کا الہلال مسلمانوں کے جذبات کے ترجمان تھے۔ مولانا محمد علی کا کامریڈ بھی اسی صف میں شامل تھا، نہ صرف علمی حلقے بلکہ مسلمان عوام بھی روزمرہ حالات سے اپنے آپ کو باخبر رکھتے تھے۔ ۱۹۱۴ء میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی۔ جرمنی تو اس میں جھٹ پٹ شامل ہوگیا۔ لیکن ترک نومبر تک کوئی فیصلہ نہ کرسکے، برصغیر کے مسلمان زعما کی خواہش تھی کہ ترک طرابلس اور بلقان کی جنگوں میں شکست کھانے کے بعد اپنے ملک کی تعمیر نو کی طرف توجہ دیں اور مزید قوت آزمائی سے پرہیز کریں۔ چنانچہ مولانا محمد علی نے اس مضمون کا ایک تار ترکی کے وزیر اعظم کو بھی دے دیا۔ لیکن اس کا نتیجہ دل۔خواہ نہ نکلا۔ ترکوں نے نومبر کے مہینے میں برطانیہ اور فرانس کے خلاف جہاد کا اعلان کردیا۔ برصغیر کی برطانوی حکومت مسلمانوں کے جذبے سے بخوبی آگاہ تھی۔ پہلے تو وائسراے نے ایک اعلان کے ذریعے مسلمانوں کے خدشوں کو دور کرنا چاہا اور وعدہ کیا کہ مقاماتِ مقدسہ (جو ترکوں کی قلمرو میں شامل تھے) کی حرمت کو برقرار رکھا جائے گا، لیکن ایک طرف تو اس مضمون کا اشتہار تقسیم کیا جارہا تھا اور دوسری طرف برطانوی اور فرانسیسی فوجیں جزیرہ نماے عرب کے مختلف حصوں میں اُتاری جارہی تھیں۔ ۱۹۱۶ء میں برطانوی ایجنٹوں کی ریشہ دوانیوں نے ایک اور گل کھلایا، وہ یہ کہ شریف مکہ نے ترکوں کے خلاف اعلانِ بغاوت کردیا اور اپنے اعلان میں ترکوں پر لامذہبیت اور دھریت کے الزامات لگائے۔ اپنے تمام لمبے چوڑے دعووں کے باوجود شریف مکہ بے بس اور محض برطانیہ کے ہاتھ میں کٹھ پتلی تھا، صاف نظر آرہا تھا کہ وہ اپنی حاصل کی ہوئی آزادی کی حفاظت کرنے سے قاصر ہے۔ نومبر ۱۹۱۸ء میں جرمنی نے ہتھیار ڈال دیے۔ ساتھ ہی ترکوں نے اپنی شکست تسلیم کرلی۔ جنگ کے خاتمے پر اتحادی فتح کے نشے میں چور تھے۔ ان کے مدبر اور ارکان سلطنت روزانہ ترکوں کے خلاف بیان دیتے تھے۔ ہر بیان کی تان اسی بات پر ٹوٹتی تھی کہ ترکوں کو صفحہ ہستی سے نابود کردیا جائے گا اور صرف اناطولیہ کے مختصر رقبہ کو چھوڑ کر ان کو تمام دوسرے علاقوں سے محروم کردیا جائے گا۔ قسطنطنیہ کے شہر پر انگریزوں نے اتحادیوں کے نام پر قبضہ بھی کرلیا تھا۔ یونانی تھریس اور سمرنا پر اپنی گرفت مضبوط کررہے تھے۔ خلیفۃ المسلمین فاتحوں کے ہاتھوں کھیل رہا تھا اور تمام محب وطن عناصر کو کچل رہا تھا۔ ان تمام کارروائیوں نے اسلامی ہند میں ایک آگ سی لگادی۔ اس سے تحریک خلافت پیدا ہوئی۔ اس تحریک میں وہ طبقے بھی شامل تھے جو ترکی کی خلافت کی مذہبی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ سب کا مقصد ایک ہی تھا یعنی خلافت کو تباہی سے بچایا جائے، ترکی کا حکمران خلیفۃ المسلمین ہونے کی حیثیت سے ایک معقول سلطنت کا سربراہ بنا رہے اور مقامات مقدسہ کو ترکوں کی سیادت میں ہی رہنے دیا جائے۔ ان مطالبات پر مسلمانوں کی رائے عامہ میں عدیم النظیر اتحاد تھا۔ اور ان کے حصول کے لیے مسلمان ہر ممکن قربانی دینے کے لیے تیار تھے۔ اس موقع پر تحریک خلافت کے راہنماؤں نے گاندھی سے ایک معاہدہ کیا جس کی رو سے ایک خالص اسلامی تحریک کو رولٹ ایکٹ کے خلاف گاندھی کی جاری کی ہوئی تحریک (جس میں بہت بھاری اکثریت ہندوؤں کی تھی) کے ساتھ نتھی کردیا گیا۔ اس اتحاد نے ۱۹۲۰ء کے آخر میں جنم لیا اور کم و بیش یہ ۱۹۲۲ء تک قائم رہا۔ اس تحریک کا سب سے مؤثر ہتھیار عدم تعاون تھا۔ مارچ ۱۹۲۰ء میں مجلس خلافت نے مولانا محمد علی کی سرکردگی میں ایک وفد انگلستان کو بھیجا تاکہ وہ اتحادیوں کے رویہ کو ترکوں کے حق میں نرم کرنے کی کوشش کرے۔ وفد کے دوسرے ارکان سید سلیمان ندوی اور سید حسین تھے۔ یہ تینوں حضرات آٹھ مہینے تک یورپ کے مختلف ملکوں میں بھٹکتے رہے۔ انھوں نے اہل سیاست، اہل علم اور دوسری اہم شخصیتوں سے ملاقاتیں کیں۔ اسی دوران یعنی مئی ۱۹۲۰ء میں معاہدہ سیورے کی شرائط شائع کردی گئیں، جن کی رو سے ترکی کی سیاسی حیثیت ختم کردی گئی۔ تحریک خلافت مسلمانوں کے لیے ایک عمیق جذباتی تجربہ تھا اور یہ ہماری تحریک آزادی کا ایک زریں باب ہے۔ ہماری نئی نسل جذبات کی اس طغیانی کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ ترکوں کے لیے کیوں اتنی بھاری قربانیاں دی گئیں، اس پر بہت سے نکتہ چیں اب بھی انگلیاں اٹھاتے ہیں۔ اس تحریک کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ کسی نہ کسی طرح دنیائے اسلام کی مرکزیت کو قائم رکھا جائے اور ترکی کو تباہ ہونے سے بچایا جائے۔ موخرالذکر مقصد براہ راست نہیں تو بالواسطہ ضرور پورا ہوگیا۔ اگر ہندوستان کے مسلمان آڑے نہ آتے تو اتحادی ممالک یونانیوں کو فوجی مدد دے کر ترکوں کا ایسا تیا پانچا کرتے کہ عرصہ تک یہ قوم ابھرنے کے قابل نہ رہتی۔ اقبال اس دور سے گزرے۔ گرد و پیش کے واقعات سے بے حد متاثر ہوئے۔ ان کی شاعری میں سوز و گداز کا عنصر اَب بہت زیادہ ہوگیا تھا۔ شکوہ اور جواب شکوہ اسی دور میں لکھی گئیں اور زبان زد خلائق ہوئیں۔ وہ نظم جس کا عنوان ’’حضور رسالت مآب میں‘‘ ہے، جنگ طرابلس کی یاد دلاتی ہے۔ فاطمہ بنت عبداللہ ایک عرب لڑکی تھی جو اس جنگ میں اپنے ہم وطن غازیوں کو پانی پلاتی ہوئی درجہ شہادت کو پہنچی۔ اس کو خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں: ہے کوئی ہنگامہ تیری تُربتِ خاموش میں۲۰؎ پل رہی ہے ایک قومِ تازہ اس آغوش میں۲۲؎ خضرِ راہ میں ترکوں کے ابتلا اور شریف مکہ کی بغاوت کی طرف واضح اشارے ہیں: بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفی۲۰؎ خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمانِ سخت کوش۲۳؎ جزیرہ نما عرب پر فرنگیوں کے اقتدار کا ذکر وہ یوں کرتے ہیں: لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل۲۰؎ خشتِ بنیادِ کلیسا بن گئی خاکِ حجاز۲۴؎ وہ قطعہ جس کا عنوان ’’اسیری‘‘ ہے مولانا محمد علی کو اس وقت مخاطب کرکے پڑھا گیا تھا جب وہ قید فرنگ سے رہا ہوکر سیدھے امرتسر کے جلسوں میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ مولانا محمد علی جب تحفظ خلافت کی درخواست لے کر انگلستان جارہے تھے تو یہ بات اقبال کو بہت ناگوار گزری اور انھوں نے اس فعل کو ’’خلافت کی گدائی‘‘ سے تعبیر کیا۔ ’’طلوع اسلام‘‘ ان واقعات سے متاثر ہوکر لکھی گئی تھی جن کا تعلق مصطفی کمال کی سرکردگی میں ترکوں کی حیات نو سے تھا۔ ان تمام تحریروں میں ایک طرف تو اقبال قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتے تھے اور ان کو عمل پر ابھارتے تھے، دوسری طرف وہ قوم کی ذہنی تربیت بھی کرتے تھے اور ہر وقت اس جذبے کو تازہ رکھتے تھے کہ برصغیر کے مسلمان دنیاے اسلام کی وسیع برادری میں شامل ہیں، اور ان کا مستقبل اسی برادری سے وابستہ ہے نہ کہ برصغیر کے ہندوؤں سے۔ اقبال کا یہ فلسفہ یورپ کے اس وقت کے نیشنلزم کی عین ضد تھا۔ چنانچہ ’’وطنیت‘‘ والی نظم میں انھوں نے وطن کو ایک بت بتایا ہے جو نئی تہذیب نے تراش کر دنیا کے سامنے پرستش کے لیے رکھ دیا ہے وطنیت کے جذبے نے دنیا کی قوموں کو ایک دوسرے کا رقیب بنا دیا ہے۔ تجارت کو فروغ دینے کے لیے کمزور ملکوں کو غارت کرنا جائز ہوگیا ہے۔ انھی رقابتوں کی وجہ سے سیاست کے میدان میں صداقت کا داخلہ ممنوع ہے، خدا کا کنبہ قوموں میں بٹتا ہے اور اسلام کی قومیت کی جڑ کٹتی ہے چنانچہ اس طرزِ فکر میں ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس کی بجائے نیا ترانہ، ترانہ ملی ہے: ’’مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘۔ اور مسلم قومیت کے سالارِ کارواں ’’میر حجاز‘‘ یعنی پیغمبر اسلام ہیں۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ اقبال کو مس عطیہ فیضی سے جذباتی لگاؤ تھا۔ اس خاتون کا متمول اور مشہور خاندان متحدہ ہندی قومیت پر ایمان رکھتا تھا وہ بھی اسی روایت پر کاربند تھیں۔ شبلی نعمانی تو جذبات سے مغلوب ہوکر اسی نیشنلزم کی رو میں بہ گئے اور ’’شملہ ڈیپوٹیشن سے پیدا ہونے والی سیاست‘‘ کے نکتہ چین بن گئے، لیکن اقبال نے عطیہ کی مسحور کن شخصیت کے سامنے بھی اُن کے نیشنلزم کا اثر قبول نہ کیا۔ اقبال کا قومیت کا تصور ۱۹۱۲ء میں اقبال نے علی۔گڑھ میں ایک لیکچر دیا جس کا ترجمہ ظفر علی خاں نے ’’ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ کے عنوان سے کیا، اس کے مندرجہ ذیل اقتباسات اقبال کے نظریہ قومیت کو واضح کرتے ہیں: اسلام میں قومیت کا مفہوم خصوصیات کے ساتھ چھپا ہوا ہے، اور ہماری قومی زندگی کا تصور اس وقت تک ہمارے ذہن میں نہیں آسکتا جب تک ہم اصول اسلام سے پوری طرح باخبر نہ ہوں، بالفاظ دیگر اسلامی تصور ہمارا وہ ابدی گھر یا وطن ہے جس میں ہم اپنی زندگی بسر کرتے ہیں، جو نسبت انگلستان کو انگریزوں اور جرمنی کو جرمنوں سے ہے وہ اسلام کو ہم مسلمانوں کے ساتھ ہے، جہاں اسلامی اصول یا… خدا کی رسی ہمارے ہاتھ سے چھوٹی ہمارا شیرازہ بکھرا… معتقدات مذہبی کی وحدت پر ہماری قومی زندگی کا دار و مدار ہے… اگر ہمارا مقصد یہ ہو کہ قومی ہستی کا سلسلہ ٹوٹنے میں نہ آئے تو ہمیں … خذما صفادع ما کدر کے زرین اصول کو پیشِ نظر رکھ کر دوسرے اسالیب کی خوبیوں کو اخذ کرتے ہوئے ان تمام عناصر کی آمیزش سے اپنے وجود کو کمال احتیاط کے ساتھ پاک کردیں جو اس کی مسلمہ روایات و قوانین منضبط کے منافی ہوں… مذہبی خیال اسلامی جماعت کا سرچشمہ زندگانی ہے… قوم کی قانونی، تاریخی اور علمی روایات اس قوم کے مقننوں، مؤرخوں اور انشا پردازوں کی چشم بصیرت کے سامنے ہر وقت ایک نمایاں شکل میں موجود رہتی ہیں۔ اگرچہ قوم کو مجموعی حیثیت سے ان روایات کا ادراک موہوم اور مبہم طور پر ہوتا ہے… موجودہ نسل کا نوجوان مسلمان قومی سیرت کے اسالیب کے لحاظ سے ایک بالکل نئے اسلوب کا ماحصل ہے جس کی عقلی زندگی کی تصویر کا پردہ اسلامی تہذیب کا پردہ نہیں، حالانکہ اسلامی تہذیب کے بغیر میری رائے میں وہ صرف نیم مسلمان بلکہ اس سے بھی کچھ کم ہے، اور وہ بھی اس صورت میں کہ اس کی خالص دنیوی تعلیم نے اس کے مذہبی عقائد کو متزلزل نہ کیا ہو۔ اس کا دماغ مغربی خیالات کی جو لانگاہ بنا ہوا ہے… مغربی لٹریچر کے نشہ میں ہر وقت سرشار رہ کر اس نے اپنی قومی زندگی کے ستون کو اسلامی مرکز ثقل سے بہت پرے ہٹادیا ہے… اقبال کے نظامِ فکر میں اسلامی قومیت کو مرکزی مقام حاصل ہے، انھوں نے اس نکتے کو بار بار بیان کیا ہے، جون ۱۹۲۳ء میں لاہور کے ایک سوشلسٹ اخبار نویس شمس الدین حسن نے اقبال کی کسی نظم کی تشریح کرتے ہوئے ان سے اشتراکی خیالات منسوب کیے تو انھوں نے مدیر زمیندار کو خط میں لکھا کہ ’’بالشویک خیالات رکھنا میرے نزدیک دائرہ اسلام سے خارج ہوجانے کے مترادف ہے۔ مغرب کی سرمایہ داری اور روسی بالشوزم دونوں افراط و تفریط کا نتیجہ ہیں۔ اعتدال کی راہ وہی ہے جو قرآن نے ہم کو بتائی ہے‘‘۔ اس مقام پر یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ اقبال نے سوشلزم کے متعلق مختلف موقعوں پر مختلف باتیں کہیں۔ اُن سے یہ قول بھی منسوب ہے کہ اگر سوشلزم کے نظام میں خدا کا تصور داخل کردیا جائے تو وہ تقریباً اسلام میں تبدیل ہوجائے گا۔ لیکن انھوں نے اس موضوع پر جو کچھ کہا اور لکھا اُسے اکٹھا کیا جائے تو نتائج کو بظاہر کسی مربوط شکل میں پیش کرنا ذرا مشکل ہوگا۔ وہ ۱۹۱۷ء والے روسی انقلاب کے بطن سے پیدا ہونے والے نظام کو تاریخ کا ایک عبوری دور سمجھتے تھے جو شاید کسی بہتر مستقبل کی طرف راہنمائی کرسکے۔ لیکن بحیثیت مجموعی اقبال کو سوشلزم کے حامیوں میں شمار کرنا اُن کے تمام نظریات سے ناواقفیت پر مبنی ہوگا۔ موجودہ شکل میں سوشلزم پچھلی صدی کی یورپی پیداوار ہے۔ یہ ایک تحریک بھی ہے اور نظریہ بھی، اس کا بانی جرمن یہودی کارل مارکس تھا جس کو اقبال نے ’’کلیم بے تجلی‘‘ اور ’’مسیح بے صلیب‘‘ کے القاب دیے ہیں۔ سوشلزم کے بنیادی عقائد کمیونسٹ مینی فسٹو میں موجود ہیں۔ اس رسالے کی ترتیب میں مارکس کے دوست انجیلز نے اُس کا ہاتھ بٹایا تھا اور یہ دونوں کی مشترکہ تصنیف شمار ہوتا ہے۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا سوشلزم کے عقائد میں وسعت پیدا ہوتی گئی اور سوشلسٹوں کے باہمی اختلافات بھی کھل کر اُبھرے۔ آج کل بہت سے فکری نظام اپنے آپ کو سوشلسٹ کہتے ہیں۔ اُن سب کے اساسی اصولوں میں ’’طبقاتی کش مکش کا نظریہ‘‘ اور ’’تاریخی ارتقا کی توجیہ‘‘ کے تصورات شامل ہیں۔ پہلے نظریے کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسانی معاشرہ ہمیشہ سے دو متصادم گروہوں میں منقسم رہا ہے۔ یہ ناگزیر طبقاتی کش مکش بالآخر محنت کشوں کی فتح پر پہنچ کر اختتام پذیر ہوگی۔ دوسرے نظریے کا مفروضہ یہ ہے کہ تاریخی تبدیلیاں صرف اقتصادی تبدیلیوں سے وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ کسی اور ذریعہ سے نہیں۔ ان کے علاوہ سوشلسٹوں میں اور بہت سے نظریات بھی مشترک ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ موجودہ جمہوری نظام محض سرمایہ داری کے سہارے پر چل رہا ہے۔ ہر معاشرے کی اہم قدریں سرمایہ۔دار طبقے کی وضع کی ہوئی ہیں۔ ہر ملک کے رسم و رواج، قانون اور کلچر سرمایہ دارانہ نظام کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ مذہب اور کلیسا بھی ہر وقت سرمایہ داری کی حمایت کے لیے مستعد ہوتے ہیں۔ کم و بیش ہر سوشلسٹ نظام علاقائی قومیتوں کو تسلیم کرتا ہے اور ان کا حامی ہے۔ اس بات کو واضح کرنے کے لیے کسی لمبی چوڑی دلیل کی ضرورت نہیں کہ اقبال کا فکری نظام، سوشلزم کے فکری نظام کی عین ضد ہے۔ اقبال مذہب کو تاریخ کے بنیادی حقائق میں شمار کرتے اور اس کو تاریخ ساز قوت کا حامل قرار دیتے ہیں۔ سوشلزم مذہب کو فرسودہ اور غیر ضروری سمجھتا ہے بلکہ تاریخی عمل کے راستے میں اس کو سب سے بڑی رکاوٹ خیال کرتا ہے۔ اقبال قومی اتحاد کے قائل ہیں۔ سوشلسٹ طبقاتی جنگ کو اُس سے کہیں زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک اصل قدریں صرف روحانی قدریں ہیں۔ وہ اسلامی ثقافت، اسلامی شریعت اور اسلامی قدروں کو زندگی کے ستون قرار دیتے ہیں۔ سوشلزم میں ایسے تصورات کے لیے کوئی گنجایش نہیں۔ جسٹس رحمن فرماتے ہیں کہ نثر میں جو کچھ اقبال نے لکھا وہ انھی خطوط پر ہے۔ البتہ اپنے اشعار میں وہ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام پر اس ڈھنگ سے گرفت کرتے ہیں جس سے بعض لوگوں کو یہ کہنے کا موقع ملتا ہے کہ وہ سوشلزم سے متاثر ہیں۔ بات یوں نہیں۔ اقبال مغربی سرمایہ داری پر جو نکتہ چینی کرتے ہیں وہ سوشلسٹوں کی پیروی میں نہیں کرتے بلکہ اُن کو یہ نظام انتہائی طور پر غیر اسلامی نظرآتا ہے۔ ویسے بھی شعری زبان کی گونا گوں پابندیوں کی وجہ سے کوئی شاعر اپنی قادر الکلامی کے باوجود گفتار کے اسلوب پر قابو نہیں رکھ سکتا۔ عملی سیاست میں اقبال مخلوط انتخاب کی ہمیشہ مخالفت رتے رہے بلکہ ان کے نزدیک یہ مسلم قومیت کے تصور کی ضد تھا۔ لیکن مسلم قومیت کے جذبے کو حیات نو بخشنے کے راستے میں بہت سی مشکلات حائل ہیں، جستہ جستہ اقبال نے ان سب کا ذکر کیا ہے، ہندووانہ اور مغربی اثرات نے قوم کی زندگی کو ’’کنشتی ساز معمور نواہاے کلیسائی‘‘ بنا کر رکھ دیا ہے۔ پہلو میں کعبہ کو رکھتے ہوئے ہم ’’سودائی بت خانہ‘‘ ہیں۔ ہندوستان میں توحید کی سطوت جن نمازوں سے قائم ہوئی تھی وہ یہاں ’’نذر برہمن‘‘ ہوگئیں۔ طویل غلامی نے لوگوں کو ’’شیوہ ارباب ریا‘‘ میں کامل کردیا ہے۔ ان کے دل میں ’’مغرب کی ہوس‘‘ اور لب پر ’’ذکر حجاز‘‘ ہوتا ہے اور وہ اپنی ہوس کو ’’پردۂ خدمت دین‘‘ میں چھپا سکتے ہیں۔ بہت حد تک اس صورت حال کی ذمہ داری ایک بدیشی نظام تعلیم پر ہے۔ یہ مضمون بھی اقبال کے خاص موضوعات میں شامل ہے۔ اس کو بعد کی تصنیفات میں بھی انھوں نے بار بار بیان کیا ہے۔ یہ تعلیم لامذہبی کی طرف لے جاتی ہے، اور طالب علم کے گلے کو ایسا گھونٹ دیتی ہے کہ اس میں سے صداے لاالٰہ نکل ہی نہیں سکتی: ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم۲۰؎ کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ۲۵؎ بانگ ِدرا کا وہ قطعہ جو یوں شروع ہوتا ہے کہ ایک ’’شوریدہ‘‘ پیغمبر کے مرقد رو رو کر شکایت کررہا تھا کہ مصر اور ہندوستان کے مسلمان ملت کی بنیادوں کو مٹا رہے ہیں، یہ بات سمجھانے کے لیے ہے کہ مغربی درسگاہوں کے تعلیم پائے ہوئے نوجوان قوم کی راہنمائی کے اہل نہیں کیونکہ وہ پیغمبر کی ذات (اور اسلام کی روح) سے ناآشنا ہیں، اور یہی ’’خود بین‘‘ لیڈر قوم کی عزت کو بگاڑ کر صرف اپنی عزت بنا رہے ہیں۔ یہ اشعار تو غالباً ۱۹۱۱ء کے قریب لکھے گئے ہوں گے، لیکن ان میں ایک بڑے قومی المیے کی نشان دہی کی گئی ہے۔ یہ وہ رہنما تھے (ہیں) جو مسلمانوں جیسے نام رکھتے تھے (ہیں)۔ قوم کا نام تو بہت لیتے ہیں لیکن اسلام کی تعلیم سے نابلد اور قومی بہبود کے تقاضوں سے بے پروا ہوتے ہیں۔ ان کی رہنمائی قوم کے لیے ہمیشہ گھاٹے کا سودا رہے گی۔ ہماری بڑی قومی کمزوری یہی ہے کہ ہمارے مبینہ راہنما قوم کے مفاد کی حفاظت کی بجائے غیروں کی خوشنودی کا زیادہ خیال رکھتے رہے ہیں۔ یہ دور جس کا ذکر کیا جارہا ہے دنیاے اسلام کے لیے ہولناک مصائب کا دور تھا جس میں بہت سے کمزور دل اور کوتاہ بین مسلمان ناموافق حالات سے سمجھوتہ کرنے کی فکر میں تھے۔ اقبال کہتے ہیں کہ وہ لوگ جو اپنے قومی جذبے کی حفاظت نہیں کرسکتے بہت بڑی غلطی میں مبتلا ہیں۔ افراد کی عزت ملت کی آبرو سے ہے۔ دنیا میں مسلمانوں کی رسوائی کا سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ ان میں جمعیت اور مرکزیت ختم ہورہی ہے: فرد قائم ربطِ ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں۲۰؎ موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں۲۶؎ ’’پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘‘ والا قطعہ بھی اسی نکتے کی ترجمانی کرتا ہے۔ آلام و مصائب کے ہجوم میں بھی اقبال قوم کے مستقبل کے متعلق ہمیشہ پُراُمید رہتے ہیں۔ ان کے نزدیک مایوسی ایک ناقابل عفو گناہ ہے جو موت کی کیفیت سے زیادہ مختلف نہیں ’’مسلم استی سینہ را از آرزو آباد دار‘‘، ان کی نصیحت ہے۔ آزمایش ہر قوم پر آتی ہے، یہ سوئے ہوئے لوگوں کو جگاتی ہیں۔ چنانچہ جنگ بلقان کے دنوں میں ’’یورش بلغاری‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے جوابِ شکوہ میں لکھتے ہیں: تو سمجھتا ہے یہ ساماں ہے دل آزاری کا۲۰؎ امتحاں ہے ترے ایثار کا ، خود داری کا۲۷؎ اور دشمن ہزار کوشش بھی کریں تو ’’نفس اعدا‘‘ نورِ حق کو بجھانے میں کامیاب نہ ہوگا۔ اسی طرح شمع اور شاعر میں کہتے ہیں: شامِ غم لیکن خبر دیتی ہے صبحِ عید کی۲۸؎ ظلمت شب میں ان کو ہمیشہ امید کی کرن نظرآتی ہے کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا۲۹؎ دس جولائی ۱۹۲۳ء کو شاہی مسجد میں تقریر کرتے ہوئے اسی بات کو دہرایا، ’’دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ کوئی قوم قوم نہیں بن سکتی جب تک وہ ابتلاؤں میں گرفتار نہ ہو‘‘۔ ’’تہذیب نو‘‘ کے دل فریب ظواہر کے خلاف ان کا محاذ آخر تک قائم رہا،ا ور ان کی زندگی کے آخر میں چھپنے والے مجموعہ کلام کا ذیلی عنوان بھی یہی قرار پایا۔ اس تہذیب کو انھوں نے ’’حیات تازہ‘‘ کہ۔َ۔ کر اس کی لذتوں کو ایک ایک کرکے گنوایا ہے: ’’رقابت، خود فروشی، ناشکیبائی اور ہوس۔ناکی‘‘ اس تہذیب کی بنیاد محض ’’محسوس‘‘ پر ہے۔ لیکن مذہب محسوس کی دنیا سے پرے کی باتیں کرتا ہے۔ اسی طرح مذہب کو اسلامی معاشرے میں جو فیصلہ کن اہمیت حاصل ہے۔ اس کا ذکر ’’مذہب‘‘ کے عنوان سے بانگ ِدرا کے ایک قطعے میں موجود ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کی امت (ملت) کی ترکیب ایک خاص ڈھب کی ہے۔ اس کا مقابلہ مغرب کی اقوام سے نہ کرو جن کی قومیت کی بنیاد نسب اور علاقائیت پر ہے۔ لیکن اسلامی قومیت کا انحصار مذہب پر ہے۔ مذہب ہی اسلامی جمعیت کو مستحکم کرتا ہے، اگر مسلمان دین کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیں تو ان کی جمعیت منتشر ہوجائے گی، اور ان کی قومیت (ملت) ختم ہوجائے گی۔ بقول اقبال اس نکتے کو مسلمانوں کی نسبت مغربی سامراجی اقوام نے بہت اچھی طرح سمجھا ہے، اور ان کا وار ہمیشہ مسلم قومیت کے تصور پر ہوتا رہا ہے۔ ’’حکمت مغرب‘‘ نے ہماری ملت کو اس طرح ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے جس طرح گاز سونے کو ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے۔ اگر مسلمانوں نے نسل یا وطن کو مذہب پر فوقیت دی تو وہ ’’خاک رہ گزر‘‘ کی مانند دنیا سے اڑ جائیں گے۔ زندگی کا ثبات ایمان محکم سے ہے۔ ملت کی تعمیر کوئی مشینی عمل نہیں، یہ ایک روحانی عمل ہے۔ ملت کی تعمیر افراد کے یقین سے ہوتی ہے۔ اقبال کے فلسفہ سیاست کے دوسرے عناصر ’’خضرِ راہ‘‘ اور ’’طلوع اسلام‘‘ اور فارسی کلام میں ملتے ہیں۔ ان کے نزدیک اسلامی سیاست ایک خدا آگاہ سیاست ہے۔ یہی اس کا نکتہ آغاز ہے۔ مغربی سیاسین کے افکار میں مملکت کا اقتدار منتخب افراد کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ لیکن اسلامی مملکت میں قانونِ الٰہی کو مکمل بالا دستی حاصل ہوتی ہے، اقبال کے الفاظ میں ’’سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے‘‘ حرم کعبہ ’’اسلامی جمعیت‘‘ کا مرکز ہے۔ تمام دنیا کے مسلمانوں کو حرم کی پاسبانی کے لیے متحد ہونا چاہیے۔ جو مسلمان ’’امتیاز رنگ و خون‘‘ کریں گے وہ تباہی کو دعوت دیں گے۔ مسلمانوں کے ربط و ضبط میں ہی ایشیا کی نجات مضمر ہے۔ خدائی نظام میں کسی ایک قوم کو دوسری قوم پر حکمرانی کا حق نہیں۔ ’’تمیز بندہ و آقا فساد آدمیت ہے‘‘ یہ مضمون بھی اقبال کے خاص مضامین میں سے ہے۔ اس کو انھوں نے تفصیل کے ساتھ زبورِ عجم میں ’’بندگی نامہ‘‘ کے عنوان سے بیان کیا ہے۔ اقبال اور مغربی جمہوریت جمہوریت کا موجودہ تصور مغرب بلکہ انگلستان کی خاص پیداوار ہے، اس نظام کے خد و خال ایک دن میں نہیں بلکہ ایک طویل عرصے میں متعین ہوئے تھے۔ پھر اس میں ضروریات کے مطابق رد و بدل ہوتا رہتا ہے۔ دنیا کے بہت سے حصوں میں، خاص طور پر برطانیہ کی سابق نوآبادیوں میں یہ نظام بہت مقبول ہوا۔ اس کو پارلیمانی حکومت کا نام دیا جاتا ہے۔ اس میں مملکت کا ایک آئینی سربراہ ہوتا ہے، اور نام کو تمام اختیارات ملک کے منتخب نمایندوں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ مجلس وزرا کے ارکان پارلیمنٹ کی اکثریتی پارٹی سے چنے جاتے ہیں اور اسی کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ عمومی انتخابات عام طور پر ایک معینہ عرصے کے بعد ہوتے ہیں، اور ان میں رائے دہی کا حق ہر بالغ مرد اور عورت کو ہوتا ہے۔ اس نظام سے انگلستان میں تو حکومت کا کاروبار عرصے تک خوش اسلوبی سے چلتا رہا۔ دوسری گوری نسلوں کے لوگوں نے بھی اس سے خاطر خواہ نتائج حاصل کیے۔ لیکن موجودہ زمانے کے مشکل اور پیچ در پیچ مسائل سے حکومت کے اس ڈھانچے پر ایک ناقابل برداشت بوجھ پڑگیا ہے، اور اس جمہوری نظام کے اندر آمریت پیدا ہوگئی ہے۔ دوربین نظروں نے تو اس بات کو پہلے بھانپ لیا تھا۔ خود برطانیہ کے اندر ۱۹۰۶ء میں چھپنے والی میلک کی کتاب جمہوریت کے حدود میں اس بات کو صراحت کے ساتھ بیان کردیا گیا تھا کہ جمہوریتوں کے اندر بھی اقتدار عوام میں نہیں بلکہ بالکل گنے چنے افراد کے ہاتھوں میں ہوتا ہے، اقبال بھی اس طرزِ فکر کے ساتھ متفق ہیں۔ ان کو مغرب کے جمہوری نظام میں کوئی خیر و خوبی نظر نہیں آتی۔ اس کے ساز کہن کے پردوں سے ’’نواے قیصری‘‘ ہی نکلتی ہے۔ ۱۹۱۹ء کے بعد اسی نظام کی ایک محدود شکل کو انگریز حکمرانوں نے برصغیر میں جاری کیا۔ اقبال کا خیال تھا کہ یہ جمہوریت محض فریبِ نظر ہے۔ صرف ’’استبداد کے دیو‘‘ کے قامت پر جمہوری قبا پہنا دی گئی ہے۔ حکمرانوں کی طرف سے ’’رعایات اور حقوق‘‘ کا ادعا صرف طب مغرب کی ایک میٹھی گولی ہے جو محکوموں کو سلانے کے لیے دی گئی ہے۔ یہ درست ہے کہ جب مجالس قانون ساز کے ارکان ایوان کے اندر ہوتے ہیں تو دھواں دار تقریریں کرتے ہیں جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ان کو واقعی آزادی رائے حاصل ہے اور حکومت کے انتظامی اختیارات اُن کے منشا کے مطابق استعمال کیے جاتے ہیں۔ لیکن اقبال اس کو ’’سراب رنگ و بو‘‘ بتاتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ یہ ’’گرمیِ گفتار‘‘ محض سرمایہ داروں کی ’’جنگ زرگری‘‘ ہے۔ ایک دوسرے موقعے پر انھوں نے ’’کونسل ہال‘‘ کو ’’سرمایہ داروں کا تکیہ‘‘ کہا تھا۔ اقبال کے سیاسی افکار کا اثر موجودہ پاکستان کے کئی شعبوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ دستورِ پاکستان کی پہلی سطروں میں خداوند تعالیٰ کی حاکمیت کا اقرار کیا گیا ہے۔ ملکی قانون کو قانونِ اسلام سے ہم آہنگ کرنے کا وعدہ ہر دستور میں موجود ہے۔ عملی طور پر پاکستان ہمیشہ اسلامی برادری میں وسیع تعاون کا مبلغ رہا ہے اور محکوم قوموں، نیز اسلامی اور عرب ممالک کی حمایت میں پاکستان کے نمایندوں نے ہمیشہ اقوام متحدہ کے اندر اور باہر آواز اُٹھائی ہے۔ فرد اور ملت جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے۔ قیامِ انگلستان کے دوران اقبال کے خیالات اور ان کی شاعری دونوں کا رخ بدلا۔ ان تبدیلیوں کا ذکر سطور بالا میں کیا جاچکا ہے۔ اپنی قادرالکلامی کی وجہ سے انھوں نے شاعری کی زبان میں عملی اور نظری سیاست کے بہت سے مسائل پر رائے زنی کی۔ لیکن یہ افکار مختلف نظموں میں مختلف مقامات پر بکھرے پڑے ہیں۔ اقبال کم و بیش اپنی ہر تصنیف میں اس بات کو دہراتے چلے گئے ہیں کہ ان کا مقصد شاعری نہیں بلکہ ان کی شاعری قوم کی اصلاح کا ذریعہ ہے۔ ان کے پہلے دو شعری مجموعے اُردو میں نہیں بلکہ فارسی زبان میں شائع ہوئے۔ یہ تھے اسرارِ خودی اور رموز بے خودی۔ اوّل الذکر ۱۹۱۵ء میں اور مؤخرالذکر ۱۹۱۸ء میں شائع ہوئی۔ ان دونوں کا مقصد قوم کے اخلاق اور کردار کی تعمیر ہے۔ کیونکہ کوئی قوم اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتی جب تک وہ اپنی سیرت کو مستحکم نہ کرلے اور اپنے اوپر بہت سی پابندیاں عاید نہ کرلے۔ ’’دہر میں عیشِ دوام آئین کی پابندی سے ہے‘‘۔ ان مثنویوں میں اُنھوں نے اسی آئین کا خاکہ دیا ہے۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ دنیا بھر کے نامی دانشوروں نے جہاں علم و حکمت کے میدان میں تحقیق و تدقیق کی ہے۔ وہاں تعلیم اور اخلاقی تربیت پر بھی زور دیا ہے۔ اقبال بھی اس کلیے سے مستثنیٰ نہیں، پہلی مثنوی میں انھوں نے فرد کی تعمیر نو کے اصول وضع کیے ہیں۔ چونکہ یہ داستان بہت دفعہ دہرائی گئی ہے اس لیے اس کو مانوس الفاظ میں دہرانا تحصیل حاصل ہوگا، انھوں نے اُمت کے ایک مثالی فرد کے کردار کے خد و خال حضرت علی مرتضیٰ (جن کی تربیت براہ راست رسول اکرمؐ کی نگرانی میں ہوئی تھی) کی شخصیت کو سامنے رکھتے ہوئے بیان کیے ہیں۔ نظم کا عنوان ہے ’’در شرح اسمائے علی مرتضیٰ‘‘ اس میں حضرت علی کی سیرت کا جو پہلو اقبال کو سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت علی صحیح معنوں میں ’’بوتراب‘‘ تھے (اُن کی یہ کنیت پیغمبر کی عطا کردہ تھی) یعنی انھوں نے اس تاریک مٹی کو (جسے ہم بدن کہتے ہیں) پوری پوری طرح تسخیر کرلیا ہوا تھا۔ ان کو اپنے نفس پر انتہا کا ضبط تھا اور اسی ضبط کی وجہ سے انھوں نے اپنی خاک کو اکسیر بنا لیا تھا۔ جو شخص اپنے اندر اتنا ضبط نفس پیدا کرتا ہے وہ ’’باز گرداند ز مغرب آفتاب‘‘ والی قوت حاصل کرلیتا ہے۔ جو شخص اس مرتبے پر فائز ہوجاتا ہے، اس میں بے پناہ صلاحیتیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ شکوہ خیبر اس کے پاؤں کے نیچے ہوتا ہے، وہی قسیم کوثر ہے، وہی فاتح خیبر۔ اپنی خود آگاہی سے وہ یداللہ ہوتا ہے۔ وہ شہرِ علم کا دروازہ بن جاتا ہے۔ اپنے علم و عمل سے روزگار نو پیدا کرسکتا ہے۔ حضرت علیؓ کی ان صفات کو بیان کرنے کے بعد وہ کتاب کے پڑھنے والے سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ جور چرخ کے خلاف نالہ و فریاد کرنے اور سینہ کوبی سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ بلکہ اس سے انسان کے مصائب میں اور بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ’’مضمونِ حیات‘‘ عمل میں پوشیدہ ہے۔ ناموافق حالات کے ساتھ سمجھوتا عین میدانِ جنگ میں شکست کو تسلیم کرنے کے برابر ہے، جو شخص خوددار اور پختہ کار ہو وہ زمانے کو اپنے مزاج کے مطابق ڈھال لیتا ہے، وہ اپنی قوت عمل سے ایک نئے روزگار کو وجود میں لاتا ہے۔ وہ آدمی جو مردانہ وار زندہ نہ رہ سکے اس کے لیے جان دے دینا ہی زندگی ہوتا ہے۔ اس دنیا میں ناتوانی، سہل کوشی اور قناعت کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ کم ہمت لوگ کینہ پروری کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔ ناتوانی اور زندگی دو متضاد چیزیں ہیں۔ خوف اور جھوٹ ناتوانی اور بزدلی کے ساتھی ہیں۔ رحم، نرمی اور انکسار ناتوانی کی دوسری شکلیں ہیں۔ اقبال نے ان تمام خیالات کو چند حکایتوں کی مدد سے واضح کیا ہے۔ حضرت میاں میر اور شاہ جہاں کی ایک گفتگو کے حوالے سے وہ یہ بتاتے ہیں کہ مسلمان کی زندگی کا مقصد اعلاے کلمۃ اللہ ہے اور اگر جنگ کا مقصد صرف ملک گیری ہو تو ایسی جنگ اسلام کی رو سے ناواجب ہے۔ مثنوی رموز بے خودی میں انھوں نے معاشرہ سے متعلق فرد کے فرائض پر روشنی ڈالی ہے، جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے، مسلم قومیت کی بنیاد نہ وطن اور نہ زبان پر قائم ہے، نہ رنگ اور نسل پر۔ مسلمانوں کو صرف نبوت اور توحید نے وحدت بخشی ہے۔ یہی ہماری قومیت کے ستون ہیں۔ اسلام کا یہ نظریہ وحدت آدم کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور اقبال اس کے بہت بڑے مبلغ ہیں، فرد اور ملت کے تعلقات کے بارے میں مغربی مفکروں نے بہت سے خوش نما نظریے پیش کیے ہیں۔ یہ سب کے سب خاص مغربی ماحول اور وہاں کے بدلتے حالات کے ماتحت وجود میں آئے تھے۔ بعض فلسفیوں نے فرد کو اتنی اہمیت دی کہ انارکی (نراج) کو جائز قرار دیا۔ وہ معاشرے کے نظم و ضبط کو فرد کی آزادی پر قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ بعض یورپی مکاتیب فکر اس کے برعکس فرد کو معاشرے کی سکیم میں نہایت غیر اہم اور بے حیثیت قرار دیتے ہیں۔ وہ مملکت کے اقتدار کو ان حدوں تک پہنچانا چاہتے ہیں جہاں فرد کی آزادی بے معنی اور شخصیت ناپید ہوکر رہ جاتی ہے۔ اقبال کے نزدیک فرد ربط ملت سے قائم ہے اور از خود بہت کچھ نہیں۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ فرد صرف مملکت کی مشین کا ایک پرزہ ہے۔ بلکہ وہ ایک فعال اور بے پناہ پوشیدہ قوتیں رکھنے والا متحرک اور فعال انسان ہے۔ ایک اور جگہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا‘‘۔ سچی بات تو یہ ہے کہ فرد اور ملت کا رابطہ اصل میں اتنا گہرا ہے کہ محض فلسفیانہ فارمولوں کی مدد سے اس کو متعین کرنا مشکل ہے۔ فرد بہر صورت ملت کا احسان مند ہے۔ وہ ملت کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ اسی کے اندر پروان چڑھتا ہے۔ اسی کے اندر اس کی شخصیت بنتی ہے۔ معاشرے میں رہتے ہوئے ہی اسے اپنے ممکنات سے آگاہی ہوتی ہے۔ معاشرے سے باہر فرد اپنی شخصیت تو ایک طرف اپنا وجود بھی قائم نہیں رکھ سکتا۔ ایک کا تصور دوسرے کے بغیر محال ہے۔ ان کے درمیان وہی تعلق ہے جو ایک لڑی اور اس میں پروئے ہوئے موتیوں یا کہکشاں اور اس کے ستاروں کے درمیان پایا جاتا ہے۔ یہ بات فرد کے فرائض میں داخل ہے کہ وہ معاشرے کے اندر ہوتے ہوئے اپنی خداداد قابلیتوں سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی شخصیت کے ممکنات تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرے اور اپنی شخصیت کو ملت کے استحکام کا باعث بنائے۔ اپنے چھٹے لیکچر میں اقبال تنبیہ کرتے ہیں کہ ایک قوم کی تقدیر بالآخر اس کی باہمی تنظیم سے زیادہ اس کے افراد کی قدر و قیمت اور اُن کی توانائی پر منحصر ہے اور اگر ایک معاشرہ میں تنظیم پر ضرورت سے زیادہ زور دیا جائے تو فرد اس کے فشار سے کچل کر زندگی سے محروم ہوجاتا ہے۔ تحریکِ خلافت- گاندھی اور اقبال اپنے کلام کا یہ حصہ اقبال نے ۱۹۱۸ء میں ختم کیا اور غالباً اس کے فوراً بعد پیامِ مشرق کی تدوین میں مصروف ہوگئے۔ برصغیر کی سیاست کے یہ دن بہت پرآشوب تھے۔ جنگ ختم ہوچکی تھی۔ لیکن ملکی حالات بد سے بدتر ہورہے تھے۔ ایک طرف تو برطانوی حکومت کے نمایندوں نے دوران جنگ میں شخصی آزادی پر لگائی جانے والی پابندیوں کو رولٹ بل کی شکل میں مستقل صورت دینے کی کوشش کی اور اس کوشش میں مجلس قانون ساز کے غیر سرکاری ارکان اور رائے عامہ سے براہ راست ٹکر لے لی۔ اس سے جلیاں والا باغ کا حادثہ پیش آیا۔ دوسری طرف اتحادیوں نے ترکی کو نیست و نابود کرنے کا جو تہیہ کررکھا تھا وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہ تھی بلکہ اتحادی ملکوں کے اخبارات ایسی خبروں کو ہر روز اپنے کالموں میں اچھالتے تھے۔ ان خبروں سے مسلمانوں کی رائے عامہ از حد مضطرب تھی۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے۔ اسی اضطرابی کیفیت سے تحریک خلافت پیدا ہوئی۔ جس کی سربراہی کا بوجھ مجلس خلافت اور اس کے زعما نے سنبھالا۔ گاندھی جی بہت بڑے سیاسی حساب دان تھے۔ انھوں نے مسلمانوں کی حکومت دشمنی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسئلہ خلافت پر مسلمانوں کو مدد کی پیش کش کی۔ مسلمان راہنماؤں نے اس پیش کش کو جھٹ پٹ قبول کرلیا۔ اسی باہمی مفاہمت سے عدم تعاون کی تحریک پیدا ہوئی جو ۴ فروری ۱۹۲۲ء کو چورا چوری کے واقعہ کے بعد معطل کردی گئی۔ تحریک عدم تعاون کے اسلامی بازو میں علما پیش پیش تھے۔ ان میں بہت سے اکابر نئے ڈھب کی سیاست، اس کے پس منظر اور اس کے حربوں سے کم و بیش ناواقف تھے۔ وہ بیک وقت کانگریس اور خلافت دونوں جماعتوں سے وفاداری کا دم بھرتے تھے۔ آیندہ کو یہی گروہ مسلم سیاست کا ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا۔ وہ بیک وقت اسلام کی سربلندی کا نعرہ لگاتا اور ہندوؤں جیسی ’’قوم پرستی‘‘ کا مدعی تھا۔ بہرحال یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا لیکن اس کتاب کے موضوع سے غیر متعلق نہیں۔ تحریک عدم تعاون کے زمانے میں اقبال کا ذہنی جھکاؤ کس طرف تھا؟ وہ اس زمانے کی عملی سیاست کے دائرے سے باہر تھے۔ انھوں نے ان مسائل پر نہ کوئی بیان شائع کیے نہ ہی کسی پلیٹ فارم پر کوئی تقریر کی۔ لیکن ان کے رجحانات کا پتہ چلانا بھی مشکل نہیں کیونکہ انھوں نے کم و بیش ہر مسئلے پر شعر کی زبان میں گفتگو کی۔ وہ اپنی ذہنی ساخت کے لحاظ سے تحریک خلافت اور عدم تعاون کے پرجوش حامی تھے۔ اس خیال کو اس بات سے بھی تقویت پہنچتی ہے کہ جب ان کو نائٹ ہڈ ملی تو عبدالمجید سالک نے جو ان کے سیاسی رجحانات سے بخوبی واقف ہوں گے، ایک طنزیہ قطعہ لکھا جس کا ایک شعر یوں ہے: لو مدرسۂ علم ہوا قصرِ حکومت افسوس کہ علامہ سے سر ہوگئے اقبال یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جب تحریک خلافت کے دباؤ کے ماتحت اسلامیہ کالج کے منتظمین کے سامنے یہ مسئلہ پیش ہوا کہ یہ ادارہ پہلے کی طرح سرکاری گرانٹ لیتا رہے یا حکومت کی مالی امداد سے دست بردار ہوجائے تو اقبال کی رائے تھی کہ اس سوال کا فیصلہ شریعت اسلامی کے اصولوں کے مطابق کیا جائے۔ اس مضمون پر اخبار زمیندار کو ایک طویل خط کے دوران لکھا ’’جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ حالات حاضرہ محض ایک سیاسی مفہوم رکھتے ہیں اور پختہ کاران سیاست ہی اس کے فیصلہ کے اہل ہیں اور مسند نشیناں پیغمبر کو ان حالات سے کچھ سروکار نہیں وہ میری ناقص رائے میں ایک خطرناک غلطی میں مبتلا ہیں… ‘‘ ہر چند کہ اقبال نے اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے کم و بیش ہر موقع پر نہایت محتاط زبان استعمال کی لیکن اُن کی حقیقی رائے کے متعلق کسی شک و شبہے کی گنجایش نہیں۔ اُن دنوں علماے کرام کی بھاری اکثریت عدم تعاون کے حق میں تھی۔ ۱۹۲۲ء میں گاندھی نے بغیر کسی معقول وجہ کے تحریک عدم تعاون کے تعطل کا اعلان کردیا۔ یہ وہ وقت تھا جب حکومت اپنے مخالفوں اور باغیوں کے سامنے تقریباً گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوچکی تھی۔ گاندھی نے چورا چوری والے تشدد کے مظاہرے کو اپنے فیصلے کی بنیاد بتایا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ بیان کردہ اور اصل وجہ کے درمیان بہت تفاوت تھا۔ پنڈت جواہر لال نہرو، سابق وزیراعظم بھارت، نے اپنی خود نوشت سوانح عمری میں اسی مسئلے پر کچھ گول مول بات کی ہے۔ ان کے بیان کا مفہوم یہ ہے کہ جب جیل میں ہم نے یہ سنا کہ گاندھی نے اس تحریک کا گلا عین اس وقت گھونٹ دیا ہے جب یہ کامیابی سے ہم کنار ہونے والی تھی تو ہمیں بے اندازہ دکھ ہوا اور ہم بہت عرصہ تک بیٹھے اس پر تاسف کرتے رہے۔ پھر وہ لکھتے ہیں کہ میں نے آج تک (یہ کتاب پہلی مرتبہ ۱۹۳۶ء میں شائع ہوئی تھی) ’’گاندھی جی‘‘ سے اس کی وجہ دریافت نہیں کی کہ انھوں نے یقینی فتح کے دروازے پر پہنچ کر شکست کیوں تسلیم کرلی اور اپنے ہتھیار رکھ دیے۔ یہ بات قرین قیاس معلوم نہیں ہوتی کہ جواہر لال نہرو نے چودہ سال کے اندر ایک مرتبہ بھی اس اہم موضوع پر گاندھی جی کے ساتھ تبادلۂ خیال نہ کیا ہو۔ اصل بات یوں ہوگی کہ اپنے سوال کے جواب میں گاندھی نے جواہر لال نہرو کو جو کچھ بتایا ہوگا وہ پنڈت جواہر لال نہرو نے راز کی بات سمجھ کر صفحہ قرطاس پر لانے سے گریز کیا۔ شاید اس وقت معاملات اس ڈھب پر تھے کہ اگر برطانوی حکومت کے نمایندوں سے کوئی بات چیت ہوتی تو پان اسلامک تحریک خلافت کے راہنماؤں کا پلڑا بھاری رہتا اور غالباً یہ بات گاندھی اور ان کے مداحوں اور پیرووں کی برداشت سے باہر تھی۔ خواہ یہ قیاس درست ہو یا نہ، اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تحریک عدم تعاون کو واپس لینے کا فیصلہ گاندھی کا ذاتی اور یک طرفہ فیصلہ تھا۔ اپنی زندگی کا ایک نہایت اہم فیصلہ کرتے وقت انھوں نے کسی مسلمان یا خلافتی رہنما کے ساتھ رابطہ پیدا کرنے کی کوشش نہ کی۔ اس سے بہت سے مسلمانوں کو مایوسی ہوئی۔ بعض پر تو یہ فیصلہ بم کے گولے کی طرح گرا۔ مسلمانوں کے اندر سوچنے اور سمجھنے والے طبقے گاندھی سے کھٹک گئے لیکن چونکہ ان دنوں گاندھی کا وقار بہت بلند تھا اور عارضی طور پر مسلمان بھی ان کی ’’مہاتمایت‘‘ تسلیم کرچکے تھے، اس لیے یہ نکتہ چینی بہت محدود تھی اور بہت سے لوگوں کو دل کھول کر بات کرنے کا موقع نہ ملا۔ جلد ہی گاندھی گرفتار کرلیے گئے اور عدالت سے سزایاب ہوئے۔ جیل سے واپس آنے کے بعد انھوں نے عملی سیاسیات کو کچھ عرصے کے لیے ترک کردیا۔ ان سالوں میں بھی ان کی شخصیت نزاعی نہ بن سکی، لیکن انھوں نے ہندو مسلم مسئلے کی طرف جو سرد مہری اختیار کرلی تھی اس سے ان کے سب سے قریبی مسلمان رفیقوں کو مایوسی ہوئی۔ مسلمانوں کے تحفظ کا مسئلہ ۱۹۱۸ء اور ۱۹۲۲ء کے درمیان ملک کی فضا میں ہندو مسلم اتحاد کے نعرے گونج رہے تھے۔ بڑے بڑے شہروں میں ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے پگڑی بدل بھائی بن رہے تھے۔ مشترکہ برتنوں میں پانی پیتے اور ایک دوسرے کی عبادت گاہوں میں بے روک ٹوک داخل ہوتے تھے۔ سوامی شرد ہانند نے دہلی کی جامع مسجد میں کھڑے ہوکر ایک بڑے اجتماع کے سامنے تقریر کی۔ لاہور کی بادشاہی مسجد کے دروازے بھی ہندوؤں کے لیے کھل گئے تھے۔ اس اتحاد کی بنیاد اشتراک مقاصد نہ تھا، بلکہ حکومت کی جابرانہ حکمت عملی نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر کھڑا کردیا تھا۔ تحریک عدم تعاون کے خاتمے سے پہلے ہی ملکی فضا بگڑ چکی تھی۔ جنوبی ہند کی موپلا ’’بغاوت‘‘ (۱۹۲۰ئ) نے اس اتحاد پر ایک کاری ضرب لگائی۔ ابتدا میں یہ بغاوت حکومت کے خلاف تھی اور سرکاری حکام کی بے تدبیری سے شروع ہوئی۔ لیکن بعض معلوم اور نامعلوم وجوہات کی بنا پر جلد ہی یہ ہندو مسلم فسادات میں تبدیل ہوگئی۔ موپلوں پر برطانوی پولیس اور فوج نے بے پناہ ظلم کیے، اسلامی ہند میں ان کی بے کسی پر ہمدردی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ ہندو پریس نے اپنی عادت کے مطابق مالا بار کے ہندوؤں کی مظلومی کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کیا۔ عدم تعاون کی تحریک کے خاتمے کے بعد تیزی سے ملک میں خانہ جنگی کے حالات پیدا ہوتے گئے۔ ہر بڑے شہر میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ کوہاٹ، لاہور، بمبئی، کلکتہ، کانپور میں ہولناک جانی اور مالی اتلاف ہوا۔ ہندو مسلم فسادات بظاہر چھوٹے چھوٹے واقعات سے شروع ہو جاتے۔ ایک مقام پر مسلمان بقر عید کے موقع پر گائے کی قربانی کرنا چاہتے تو ہندو اس پر مزاحم ہوتے۔ دوسری جگہ پر ہندو مغرب کی نماز کے وقت کسی مسجد کے سامنے کھڑے ہوکر باجا بجاتے تو یہ مسلمانوں پر ناگوار گزرتا۔ اگر ہندو مبلغ کسی بے سہارا مسلمان مرد یا عورت کو اپنے آشرم میں لے جاکر ہندو بنالیتے تو اس سے مسلمانوں میں ہیجان پیدا ہوجاتا۔ اگر محرم کے جلوس میں تعزیہ کا کوئی حصہ کسی بڑھ یا پیپل کے درخت کی شاخوں میں الجھ جاتا تو اس سے ہندو برافروختہ ہوتے۔ ہندوؤں کے آریا سماج فرقے کے بہت سے سرگرم کارکن اسلام اور بانی، اسلام کے خلاف نازیبا پمفلٹ، کتابیں اور پوسٹر شائع کرتے رہتے تھے۔ ان اور اس قسم کے دوسرے حربوں سے بگاڑ پیدا ہوتا اور بڑھتا چلا جاتا تھا۔ فسادوں میں جو پارٹی نقصان اٹھاتی وہ جھٹ پٹ بدلہ لینے کی تیاریاں شروع کردیتی۔ اگر اسی شہر میں یہ بات ممکن نہ ہوتی تو یہ ادھار کسی دوسرے شہر میں چکا دیا جاتا تھا۔ آخر اس خانہ جنگی کا سبب کیا تھا؟ بعض مبصروں کا خیال ہے کہ یہ صورت محض ہندو مسلم عارضی اتحاد کا ردِ عمل تھا۔ عدم تعاون کی تحریک کے اختتام پر پرانے حالات پھر تیزی سے واپس آگئے۔ اس افتراق میں وہی جوش و خروش کارفرما تھا جو عارضی ہندو مسلم اتحاد کے دوران نظر آتا تھا۔ بعض ہم عصروں نے اس کی توجیہ یوں بھی کی ہے کہ بدامنی کی یہ فضا تحریک عدم تعاون کی ناکامی سے پیدا ہونے والی مایوسی کا نتیجہ تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ فسادات ہندو مسلم تہذیبوں کا ٹکراؤ تھا۔ ان سب باتوں میں اپنی اپنی جگہ حقیقت کا عنصر بھی شامل ہے۔ لیکن بنیادی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ ملک کی آئینی اور سیاسی تبدیلیوں نے ملک میں ایک غیر یقینی فضا قائم کردی تھی۔ برطانوی حکومت کی جاری کردہ اصلاحات ۱۹۱۹ء نے اہل ملک کے سامنے حکومت خود اختیاری کے دروازے کھول دیے تھے۔ جو طرزِ حکومت برطانیہ یہاں بالآخر قائم کرنا چاہتا تھا وہ اس کے اپنے ہاں کا پارلیمانی نظام تھا۔ جمہوریت کی اس صورت میں اقتدار منتخب نمایندوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور عملی طور پر اکثریت کی حکومت قائم ہوجاتی ہے، اگر ہندوستان میں حالات نے یہ رخ اختیار کیا تو ظاہر ہے کہ مسلمان مستقل طور پر اقلیت بن کر رہ جائیں گے۔ (اور اقلیت بھی ایسی جو تعلیمی، تجارتی، صنعتی اور سیاسی، غرض ہر میدان میں اکثریت سے بہت پیچھے تھی) اور پھر اس کے پنپنے کی کوئی صورت باقی نہ رہے گی۔ یہ خدشہ سب سے پہلے سرسید احمد خاں نے محسوس کیا تھا۔ انھوں نے اس موضوع پر اپنے خیالات کا تفصیل کے ساتھ اظہار کیا تھا۔ وقار الملک نے تقسیم بنگال کے دنوں میں کراچی لیگ کے اجلاس میں یہی باتیں سخت الفاظ میں کہی تھیں، ۱۹۰۶ء میں وائسراے منٹو کے روبرو حاضر ہوکر جداگانہ انتخاب کا مطالبہ کرنے والے وفد کا مؤقف بھی یہی تھا کہ خالص جمہوری نظام مسلمانوں کے مفاد کی حفاظت کرنے سے قاصر ہوگا۔ اس لیے الیکشن کی مروجہ شکل اور اس کی بنیاد پر قائم ہونے والے جمہوری نظام کو ہندوستان کے خصوصی حالات کے پیش نظر مغربی نظام سے مختلف ہونا چاہیے۔ ۱۹۱۶ء میں لکھنؤ پیکٹ پر دستخط کیے گئے تو یہاں بھی اس بات کو تسلیم کرلیا گیا کہ مسلمانوں کے مخصوص قومی مفاد کی حفاظت صرف جداگانہ طرزِ انتخاب کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ یہ ساری باتیں تو اس زمانے کی ہیں جب برطانوی حکومت کا اقتدار پوری طرح قائم تھا اور ملک سے انگریزوں کے قدم اکھڑنے کے کوئی آثار نہ تھے۔ لیکن ۱۹۲۱ء کے بعد حالات بہت بدل چکے تھے۔ اب صاف نظرآرہا تھا کہ اگر انگریز یہاں سے رخصت نہ بھی ہوئے جب بھی کسی دن ان کو تمام اختیارات کسی ملکی حکومت کے حوالے کرنا ہوں گے اور یہ حکومت اکثریت کی حکومت ہوگی۔ اور گذشتہ اور حالیہ تجربے کی روشنی میں آثار بھی ایسے ہی نظرآتے تھے کہ مسلمان اقلیت کی حالت انتہائی طور پر ناتسلی بخش ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور کی گفتگوؤں میں ہندو اور مسلم لیڈر جہاں گائے کی قربانی اور مساجد کے آگے باجا بجانے کے مسائل پر فارمولے وضع کرتے تھے، وہاں مسلمانوں کی طرف سے دستوری تحفظات کا مسئلہ بھی چھیڑا جاتا تھا۔ ہندو اس بات پر مصر تھے کہ برطانوی حکومت جمہوری عمل کو تیز کرے اور جلد سے جلد اکثریت کے حق میں اپنے اختیارات سے دست بردار ہوجائے۔ مسلمان اس مطالبے کے مخالف تو نہ تھے لیکن وہ اپنی تہذیب کے تحفظ کے تقاضوں کو سرفہرست رکھتے تھے۔ ایک پس ماندہ اقلیت کے راہنماؤں کے سامنے کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔ ہندوؤں کو ہمیشہ سے مسلمانوں کے مقابلے میں عددی فوقیت حاصل رہی ہے۔ مردم شماری کی رو سے اس وقت ہندوؤں کی آبادی مسلمانوں سے چار گنا زیادہ تھی۔ لیکن ہندوؤں کے بعض جذباتی طبقے اس کو بھی کم سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ہر ممکن طریقے سے ان کی قومی آبادی کے اعداد میں اضافہ ہونا چاہیے۔ چنانچہ آریا سماج طبقے نے ہزاروں سال پرانی ہندو روایات کو ترک کرکے غیر ہندوؤں (یعنی مسلمانوں) میں ہندو مذہب کا پرچار شروع کیا۔ چند ناخواندہ اور پس ماندہ طبقوں میں ان کو کامیابی بھی ہوئی۔ بعض پرجوش مسلمانوں نے اس کے مقابلے میں تبلیغ کی جوابی تحریک کا آغاز کیا، ان تحریکوں کی کامیابی یا ناکامی تو اپنی جگہ پر رہی، ان سے فرقہ وارانہ تعلقات مسلسل بگڑتے چلے گئے۔ اس زمانے میں اکثر یہ کہا جاتا تھا کہ فرقہ وارانہ بگاڑ کی ایک بڑی وجہ گاندھی کی میدان سیاست سے غیر حاضری تھی۔ بات یوں ہوئی کہ عدم تعاون کی تحریک کے خاتمے کے بعد حکومت نے اس ہندو لیڈر کو گرفتار کرکے اس پر مقدمہ قائم کیا۔ عدالت نے اسے پانچ سال قید کی سزا دی، لیکن بیماری کی وجہ سے اسے قبل از وقت رہا کردیا گیا۔ جیل سے باہر نکلتے ہی وہ ایک بدلی ہوئی فضا سے دوچار ہوا۔ ہندو مسلم فسادات سے اسے بظاہر بہت کوفت ہوئی، اور اس نے فسادیوں اور ان کے حامیوں کے دلوں کو نرم کرنے کے لیے دہلی میں مولانا محمد علی کے مکان پر تین ہفتے کا برت رکھا۔ اس کے بعد اس نے بظاہر سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور احمد آباد کے نزدیک سابرمتی آشرم میں اقامت اختیار کرلی۔ وہاں اس کے دو مشغلے بتائے جاتے تھے۔ ایک سوت کاتنا اور دوسرا اپنے اخبار کے لیے مضامین لکھنا۔ اس کے علاوہ کانگریس کے بہت سے لیڈر (جن میں سوراجی اور غیر سوراجی دونوں شامل تھے) ان کے پاس صلاح مشورے کے لیے آتے تھے۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے ان کے ساتھ سیاسی داؤ پیچ کی باتیں ہوتی ہوں گی۔ گاندھی کے پرانے رفیق کار مولانا محمد علی بھی ان کے پاس پہنچے اور انھیں اس بات پر آمادہ کرنا چاہا کہ ’’مہاتما‘‘ اپنے گوشۂ عافیت سے نکل کر ملک کی مکدر فضا کو صاف کرنے کے لیے ملک کی رہنمائی فرمائیں۔ لیکن ’’مہاتما‘‘ نے اس درخواست کو در خور اعتنا نہ سمجھا، اور ہندو مسلم اتحاد (جو بقول ان کے نزدیک ان کی زندگی جتنا اہم تھا) پر انھوں نے اپنی زبان بند رکھی۔ (اس سے پہلے ۱۹۲۴ء میں کوہاٹ کے ہندو مسلم فساد کے موقع پر انھوں نے ایک نہایت طویل بیان شائع کیا تھا جس میں بہت سے کام کے نکتے تھے۔ اُس میں چلتے چلتے یہ بات بھی ڈال دی ’’میرا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ ہندو بزدل ہوتے ہیں اور مسلمان دنگئی۔ نیز بزدلوں کا وجود ہی فساد کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے‘‘۔ یہ چبھتا ہوا چھوٹا سا فقرہ ایک طرف تو پوری کی پوری مسلمان قوم پر ملامت کا ووٹ تھا اور دوسری طرف ہندوؤں کو تنبیہ تھی کہ اگر تم مسلمان ’’فتنہ پردازوں‘‘ کے شر سے بچنا چاہتے ہو تو اپنی بزدلی چھوڑ دو۔ اس طعن و تشنیع کا مطلب یہ بھی نکلتا تھا کہ ہر فساد کی ابتدا مسلمانوں کی طرف سے ہوتی ہے۔ اس طرزِ کلام کو مسلمان لیڈروں نے بہت برا منایا تھا۔ بالخصوص مولانا محمد علی نے تو اپنے اخبار کے ذریعے اختلاف رائے کا اظہار کرڈالا۔ لیکن تھوڑے عرصے کے بعد انھوں نے اپنے آپ کو یقین دلا لیا کہ مہاتما کے الفاظ نیک نیتی پر مبنی تھے)۔ اپنے اخبار ینگ انڈیا میں گاندھی بہت سے مباحث چھیڑتے تھے۔ حفظانِ صحت کے اصولوں اور کھدر کی خوبیوں کا پرچار بھی کرتے لیکن ہندو مسلم تعلقات پر انھوں نے کبھی ایک لفظ تک بھی نہ لکھا۔ ۱۹۲۸ء کے آخر میں جب وہ سیاست کے میدان میں دوبارہ خاموشی سے داخل ہوئے تو ان کی گفتگو اور ان کے خیالات دونوں تحریک عدمِ تعاون کے دنوں سے بہت مختلف تھے۔ وہ ہندو مسلم اتحاد کی ضرورت سے بے نیاز نظر آتے تھے اور اب ان کا سارا زور آزادی پر تھا۔ اپنے ہزاروں بار دہرائے ہوئے مؤقف کو پس پشت ڈال کر وہ اس بات کا فیصلہ کرچکے تھے کہ آزادی ملک ہندو مسلم اتحاد کے بغیر بھی حاصل ہوسکتی ہے، ظاہر ہے کہ اس نئے طرزِ فکر کے خدوخال سیاست سے عارضی کنارہ کشی کے سالوں میں ہی اُبھرے ہوں گے۔ انھی سالوں کا دوسرا قابل ذکر واقع ہندو مہاسبھا کا عروج ہے۔ اس جماعت کا بانی پنڈت مدن موہن مالویہ تھا۔ یہ شخص شروع شروع میں وکالت پیشہ تھا۔ لیکن اس شغل کو چھوڑ کر ہندوؤں کی تعلیمی اور اصلاحی تحریکوں کا داعی بن گیا۔ اس کے ابتدئی کارناموں میں وہ رسالہ بھی شامل ہے، جو اس نے اُردو کے خلاف اور ہندی کی حمایت میں لکھا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس رسالے کے استدلال سے متاثر ہوکر شمال مغربی صوبہ (یعنی یوپی) کے لیفٹیننٹ گورنر سرانٹونی میکڈانل نے صوبائی عدالتوں اور سکولوں میں اُردو کی برتری کو ختم کرنے والا سرکلر جاری کیا تھا۔ مالویہ سنٹرل ہندو کالج بنارس کا بانی بھی تھا۔ یہی کالج ۱۹۱۶ء میں یونی ورسٹی کے درجے تک پہنچ گیا۔ پنڈت مالویہ کا رہن سہن انتہائی طور پر سادہ تھا۔ وہ اونچی ذات کا برہمن تھا۔ اپنے ہاتھوں سے اپنے کپڑے دھویا کرتا تھا، اور جب ذات پات کے قواعد اس بات کا تقاضا کرتے وہ اپنے ہاتھوں سے اپنا کھانا تیار کرلیا کرتا تھا۔ تحریک عدم تعاون کے خاتمے پر اس نے ہندو مہاسبھا کی بنیاد رکھی اور سنگھٹن کی تحریک چلائی۔ ہندو مہاسبھا کا ابتدائی دائرہ کار تو ہندوؤں کے سماجی اور اقتصادی نظام کی اصلاح تک محدود تھا لیکن جلد ہی یہ جماعت سیاست کے میدان میں اتر آئی اور لکھنؤ پیکٹ کو اپنی نکتہ چینی کا نشانہ بنانے لگی۔ جلد ہی اس کا محاذ وسیع ہونے لگا، اور اس کے رہنماؤں نے ہر مسئلے پر مسلمانوں کی مخالفت شروع کردی۔ اس بات میں مالویہ سب سے آگے آگے ہوتے تھے۔ مہاسبھا کے سالانہ جلسوں کی کارروائی کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ مہاسبھائی ہندوستان کی سیاست پر گہرا ہندووانہ رنگ چڑھانا چاہتے تھے اور ان کے نزدیک ہندوستان کی مجلسی اور سیاسی زندگی میں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ اس کے پلیٹ فارم پر مسلمانوں کا ذکر اس انداز سے ہوتا تھا جیسے یہ کہیں باہر سے آئے ہوئے ہیں اور ہندوستان پر ان کا کوئی حق نہیں۔ ہندو راہنما خود تو بدترین قسم کی فرقہ پرستی کا مظاہرہ کرتے تھے لیکن ہمیشہ مسلمانوں کو تنگ نظری اور فرقہ پرستی کا طعنہ دیا کرتے تھے۔ نیشنلزم اور ہندو ازم ان کے نزدیک ہم معنی الفاظ تھے اور ان کو مسلمانوں کی ہر بات سے فرقہ پرستی کی بو آتی تھی۔ اقبال نے اس صورت کو یوں بیان کیا ہے: نگہ دارد برہمن کار خود را۲۹؎ نمی گوید بہ کس اسرار خود را۲۹؎ بمن گوید کہ از تسبیح بگذر۲۹؎ بدوش خود برد زنّارِ خود را۳۰؎ یکم مئی ۱۹۲۷ء کو اقبال نے صوبائی مسلم لیگ کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا: ’’مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کو اس قسم کی ذہنیت اختیار کرنے کی ضرورت کیوں پڑی۔ مسلمان تعداد میںکم ہیں، اقتصادی حیثیت سے پیچھے ہیں۔ تعلیم میں پس ماندہ ہیں۔ ویسے بڑے بھولے بھالے ہیں، حکومت انھیں آسانی سے چکنی چپڑی باتیں کرکے پھسلا لیتی ہے، ہندو اُنھیں پھسلالیتے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ ہندوؤں نے یہ ذہنیت کیوں اختیار کی‘‘۔ مالویہ انتھک مقرر تھا۔ کئی کئی گھنٹے تقریر کرتا۔ وہ بقول خود ہندوؤں کو خواب غفلت سے جگاتا تھا۔ اپنی قوم کو بیدار کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہی تھا کہ ہندوؤں کو مسلمانوں کی مخالفت پر متواتر اُکساتا رہے ور مسلمانوں کے خلاف پرانے معاندانہ ہندو جذبے کو اُبھارتا چلا جائے۔ اپنی ذاتی زندگی کی سادگی اور اپنی قومی خدمات کی وجہ سے مالویہ کو ہندوؤں میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ مولانا محمد علی کا کہنا تھا کہ ہندو قوم ’’جے‘‘ تو مہاتما گاندھی کی پکارتی ہے۔ لیکن حکم پنڈت مالویہ کا مانتی ہے۔ اقبال کا کہنابھی یہی تھا کہ اپنی قوم پرستی کے دعووں کے باوجود کانگریس ہندوؤں کی صحیح طور پر نمایندگی نہیں کرتی ہندو ذہنیت کی عکاسی ہندو مہاسبھا کا کام ہے۔ کانگریس جو برائے نام اپنے آپ کو قوم پرست کہتی تھی جلد ہی ہندو مہاسبھا کی رو میں بہ گئی۔ ہر ہندو کانگریسی ذہنی طور پر مہاسبھائی ہوتا تھا اور دونوں ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہوتے تھے۔ مولانا محمد علی نے کہا تھا کہ کسی ہندو ’’قوم پرست‘‘ کی جلد کو ذرا سی خراش لگائیں تو اندر سے کٹر فرقہ پرست ہندو برآمد ہوگا۔ اس کی تصدیق پنڈت جواہر لال نہرو نے بھی کی ہے۔ اس کا بیان ہے کہ بہت سے مہاسبھائی فرقہ پرستوں نے کانگریس کا چولا پہن رکھا تھا اور وہ نہایت آسانی سے قوم پرستی کی زبان میں گفتگو کرسکتے تھے۔ لیکن صرف ہندوؤں کے مفاد کو پیش نظر رکھتے تھے۔ رہی سہی کسر ۱۹۲۶ء کے عمومی انتخابات نے پوری کردی۔ اس انتخاب میں کانگریس کو بہت نقصان اٹھانا پڑا اور مرکزی مجلس قانون ساز میں ہندو مہاسبھا کی برتری قائم ہوگئی۔ کانگریس بلاک کا لیڈر موتی لال نہرو اور مہاسبھا بلاک (نام نہاد نیشنلسٹ بلاک) کا راہنما مدن موہن مالویہ تھا۔ اکثریت کی راہنمائی کا فرض ایک پنڈت سے دوسرے پنڈت کو منتقل ہوگیا، کانگریس کے اندر بھی بہت سے مہاسبھائی گھسے ہوئے تھے۔ کہنے کو تو مدن موہن مالویہ اور لاجپت رائے دونوں ہی مسلم دشمن مہاسبھا کے ستون تھے۔ لیکن وہ اکثر کانگریس کے اہم جلسوں میں شریک ہوتے اور اس کے بحث مباحثوں میں حصہ لیتے۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے لکھا ہے کہ کانگریسی حلقوں میں ان کی موجودگی اور مشورے کو بہت قدر کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ ۱۹۲۶ء کے بعد حالت یہ ہوگئی کہ سیاست کے میدان میں کانگریس ہندو مہاسبھا کی دست۔نگر بن گئی۔ ہندو سبھا کا بول بولا تھا۔ جو بات ہندو مہاسبھا کے لیڈر آج کہتے کل کو وہی بات کانگریسی لیڈروں کو دھرانا پڑتی تھی۔ دونوں کے نزدیک ہندوستان کی مجلسی زندگی میں مسلمانوں کے لیے کوئی گنجایش نہ تھی۔ اس کا اعلان ببانگ دہل کیا جاتا تھا۔ ۱۹۲۷ء کا سال برصغیر کی تاریخ میں بہت سی وجوہ سے ایک تاریک سال شمار کیا جائے گا۔ فرقہ۔ورانہ کشیدگی انتہا پر تھی۔ جناح اور مولانا محمد علی جیسے باضمیر راہنماؤں کا اثر و رسوخ بہت کم ہوگیا تھا۔ رہے ہندو تو ان کو فسادات بند کرانے یا کشیدگی کو کم کرنے میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ نومبر ۱۹۲۷ء میں حکومت برطانیہ نے ایک آئینی کمیشن کے تقرر کا اعلان کیا۔ اس سات رکنی کمیشن کے صدر برطانیہ کی لبرل پارٹی سے تعلق رکھنے والے مشہور قانون دان سر جان سائمن تھے۔ اصولاً یہ کمیشن ۱۹۲۹ء میں مقرر ہونا چاہیے تھا۔ لیکن برطانیہ کی قدامت پسند حکومت نے یہ تقرر وقت سے دو سال پہلے ہی کردیا تھا۔ کیونکہ اسے توقع تھی کہ ۱۹۲۹ء والے برطانوی انتخابات میں لیبر پارٹی کا پلڑا بھاری رہے گا اور لیبر پارٹی والے جو کمیشن مقرر کریں گے وہ ہمارے ڈھب کا نہ ہوگا۔ چونکہ لیبرپارٹی کے اکثر لیڈر علی الاعلان کانگریسی لیڈروں کی دوستی کا دم بھرا کرتے تھے، اس لیے ان کا مقرر کردہ کمیشن قدامت پسند پارٹی کی نظر میں برطانوی مفاد کی حفاظت کرنے میں ناکام رہے گا، کمیشن کے تمام ممبر برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان تھے۔ اس سے برصغیر کے سیاسی حلقوں میں بہت برہمی ہوئی۔ احتجاج کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ کانگریسی لیڈروں نے جھٹ پٹ بائیکاٹ کا نعرہ لگایا۔ بہت سے مسلمان لیڈر بھی ان کے ہم۔نوا بن گئے۔ کمیشن کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے یا نہیں؟ اس مسئلے پر مسلم لیگ میں پھوٹ پڑگئی۔ اور یہ جماعت دو گروہوں میں بٹ گئی۔ عدم تعاون گروپ کے راہنما جناح تھے اور تعاون کرنے والوں کے سربراہ سر محمد شفیع-اقبال شفیع گروپ میں شامل تھے۔ اس سلسلے میں اقبال نے اپنے اخباری بیانوں میں محمد علی جناح کے رویے اور اُن کے سیاسی مؤقف پر نکتہ چینی بھی کی۔ ایک طرف تو اقبال نے کمیشن سے ہندوستانی عناصر کے اخراج کو غیر متوقع، مایوس کن اور تکلیف دہ قرار دیا، لیکن دوسری طرف انھوں نے یہ بھی کہ۔َ۔ دیا کہ ہندوستان کی مختلف اقوام کے باہمی اختلافات اور الم انگیز کش مکش کے پیش نظر برطانوی حکومت کے لیے اور کوئی چارہ کار بھی نہ تھا۔ انھوں نے برطانوی حکومت کے اس اقدام کی اصل ذمہ داری اندرون ملک بے اعتمادی اور بدظنی کی فضا پر ڈالی۔ ۱۳نومبر ۱۹۲۷ء کو ایک بیان دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ملک کی اقلیتوں کو کمیشن کے سامنے اپنی امیدیں اور مفاد کو پیش کرنے کا موقع مل جائے گا اور کمیشن کا بائیکاٹ مسلمانوں کے نکتہ نگاہ سے ضرر رساں ہوگا۔ کانگریس نے سفید فام کمیشن کے تقرر کو ہندوستان کی قومی غیرت کے منافی تصور کرتے ہوئے ایک طرف تو تجاویز دہلی کی حمایت کی (یہ تجاویز چند پارٹیوں کے مسلمان لیڈروں نے مارچ ۱۹۲۷ء میں دہلی میں بیٹھ کر مرتب کی تھیں جن میں اپنی قوم کی طرف سے مخلوط انتخاب کو ان شرطوں پر منظور کرلیا تھا کہ پنجاب اور بنگال کی مجالس قانون ساز میں مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہو۔ سرحد اور بلوچستان میں ۱۹۱۹ء کی اصلاحات نافذ کی جائیں اور مرکزی مجلس قانون ساز میں مسلمانوں کو کل ممبرشپ کا ایک تہائی نمایندگی ملے) اور دوسری طرف ایک ’’قومی‘‘ آئین مرتب کرنے کی بنیاد ڈالی۔ اس اقدام کی ضرورت اس لیے بھی پیش آئی تھی کہ اس وقت کے بد زبان وزیر ہند لارڈ برکن نے برطانیہ کے دارالامرا میں ایک تلخ تقریر کرتے ہوئے یہ کہ۔َ۔ دیا کہ ہندوستان کے فرقہ۔وارانہ اختلافات کبھی نہیں مٹ سکتے اور اگر وہاں کے لوگ ہمارے مقرر کردہ کمیشن سے اتنے ہی بیزار ہیں تو وہ متفقہ طور پر تیار کیا ہوا آئین ہمارے سامنے لائیں۔ اس چیلنج کی قبولیت مختلف مرحلوں سے گزرتی ہوئی ایک آل پارٹیز کمیٹی پر ختم ہوئی جس کو ایک متفقہ آئین مرتب کرنے کا کام سونپا گیا۔ اس کمیٹی کی صدارت پنڈت موتی لال نہرو کے ذمے تھی۔ اس کے دو ارکان مسلمان تھے۔ لیکن یہ معلوم نہیں ہوسکا وہ کس کی نمایندگی کرتے تھے۔ اس کمیٹی نے الٰہ آباد میں بیٹھ کر ۱۹۲۸ء کے موسم گرما میں اپنا کام ختم کیا۔ رپورٹ انگیزی انشا پردازی کا بہت اعلیٰ درجے کا نمونہ تھی۔ اس میں مسلمانوں کے تمام مطالبات کو (جو سوائے مخلوط انتخاب کے سب وہی تھے جن کی تفصیل تجاویز دہلی میں بیان کردی گئی تھی) یکسر نظر انداز کردیا گیا تھا۔ بلکہ مسلمانوں کے علیحدہ قومی وجود سے بھی انکار کردیا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کمیشن کے دو مسلمان ارکان سر علی امام اور شعیب قریشی نے عملی طور پر سفارشات کے مرتب کرنے میں کوئی حصہ نہ لیا، بلکہ اس کے جلسوں میں کم کم ہی بیٹھے۔ لیکن جب رپورٹ کی نوک پلک درست ہوچکی تو اس پر چپکے سے دستخط کردیے، مسلمان حلقوں میں اس رپورٹ کو بہت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا۔ اقبال نے کہا ’’نہرو رپورٹ ہمارے خلاف ایک سیاسی محاذ تھا اس کے ساتھ ہی قومی تعلیم اور قومی زبان کے نام سے ایک نیا محاذ ہماری تہذیب و تمدن اور ہمارے اخلاقی و معاشرت کے خلاف قائم کیا گیا۔ ہندوستان کا مسلمان اب اس جذبہ کو از سر نو سمجھنے اور اس کی قدر و قیمت مقرر کرنے پر مجبور ہوجائے گا جسے ہندی قومیت کے جذبے سے موسوم کیا جاتا ہے‘‘۔ مولانا محمد علی اور جناح اس وقت ملک سے باہر تھے اور یہی دونوں اس نازک مرحلے پر قوم کی مؤثر راہنمائی کرسکتے تھے۔ جب جناح واپس آئے تو غالباً ان کو اس رپورٹ سے اختلاف پیدا ہوا لیکن اُنھوں نے نہایت محتاط انداز میں صرف یہ کہا کہ نہرو رپورٹ نہ تو کوئی صحیفۂ آسمانی ہے اور نہ حرفِ آخر۔ کانگریس کے راہنما نہرو رپورٹ کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے سرتوڑ کوشش کررہے تھے۔ اور ان کوششوں سے مسلمانوں کی بے چینی بڑھ رہی تھی۔ مولانا محمد علی کے الفاظ میں نہرو رپورٹ کا مقصد یہی تھا برصغیر میں برطانوی سنگینوں کے سائے میں ہندو مہاسبھا کی حکومت قائم کردی جائے۔ (گاندھی پہلے ہی موتی لال نہرو کو مبارک باد کا تار دے کر اپنے آپ کو نہرو رپورٹ کے حامیوں میں داخل کرچکے تھے)۔ نہرو رپورٹ پر مہر تصدیق ثبت کرنے کے لیے ایک آل پارٹیز کانفرنس دسمبر ۱۹۲۸ء کے آخری ہفتے میں کلکتہ میں منعقد ہوئی۔ بہت سی مسلمان پارٹیاں اس کانفرنس سے علیحدہ رہیں، البتہ جناح لیگ اور مجلس خلافت نے اپنے اپنے نمایندے بھیجے۔ اس مجلس کی صدارت ڈاکٹر مختار احمد انصاری کے سپرد تھی۔ گاندھی بھی ترک سیاست کے دور سے نکل کر یہاں آن پہنچے۔ لیکن کنونشن کے دوران بالکل خاموش بیٹھے رہے۔ یہاں کی فضا میں بڑی کشیدگی پائی جاتی تھی۔ ہندو مہاسبھا کا دھمکی آمیز مطالبہ یہ تھا کہ اس رپورٹ کو ایک شوشے کی تبدیلی کے بغیر قبول کیا جائے۔ سکھ ہر بات میں ہندوؤں کے ہم نوا تھے۔ بلکہ مسلمانوں کی مخالفت میں ان سے آگے بڑھنا اپنے لیے سعادت کا باعث خیال کرتے تھے۔ مولانا محمد علی اور جناح رپورٹ میں کچھ ترمیمیں کرانا چاہتے تھے، ان ترمیموں کا مقصد صرف یہی تھا کہ نہرو رپورٹ کو تجاویز دہلی سے ہم آہنگ کیا جائے۔ کیونکہ کانگریس ان تجاویز کو دو دفعہ منظور کرچکی تھی۔ لیکن مولانا محمد علی اور جناح کی مصالحانہ تقریروں کا کچھ اثر نہ ہوا۔ اُلٹا کنونشن کے ہندو ارکان نے جناح پر آوازے کسے۔ سر تیج بہادر سپرو نے جو عام طور پر اپنے متوازن دل و دماغ کی وجہ سے عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے، کہا کہ جناح ایک بگڑے مزاج کا لاڈلہ بچہ ہے۔ جو کچھ وہ مانگتا ہے اسے دے دو اور بات کو ختم کرو۔ ایک مہاسبھائی نے یہ سوال کردیا کہ جناح آخر کس کی نمایندگی کرتے ہیں؟ جناح کی پیش کردہ ترمیمیں یکے بعد دیگرے مسترد کردی گئیں۔ اور کنونشن نے نہرو رپورٹ کو منظور کرلیا۔ ظاہر ہے کہ جناح کے جذبات کو بڑی ٹھیس پہنچی۔ اسی شام وہ کلکتہ سے بمبئی کی طرف روانہ ہوگئے۔ گاڑی پر سوار ہونے سے پہلے انھوں نے ایک غیر مسلم دوست کو بتایا کہ اب سے ہمارے (اور ہندوؤں) کے راستے جدا جدا ہیں۔ ان تمام واقعات کا بہت سے مسلمان راہنماؤں نے قبل از وقت اندازہ کرلیا تھا۔ چنانچہ انھوں نے دہلی میں ایک (آل پارٹیز) مسلم کانفرنس کی بنیاد ڈالی۔ اس میں تمام مسلمان سیاسی جماعتوں کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی اور آغا خاں کو اس کی صدارت کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ یہ مسلمانوں کا نمایندہ اور متحدہ محاذ تھا۔ اقبال اس میں شامل تھے۔ ان کی تمام تر ہمدردی اس دور میں کانفرنس کے مطالبات کے ساتھ تھی۔ یہ کانفرنس کوئی چھ سال زندہ رہی۔ اسی عرصے میں برطانوی پارلیمنٹ نے ہندوستان کے لیے ایک آئین مرتب کیا۔ کانفرنس کے نمایندوں نے قوم کی طرف سے بہت سی سیاسی اور آئینی گفتگوؤں میں حصہ لیا۔ اور اس کے بہت سے ارکان نے گول میز کانفرنس میں شرکت کی۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ساری کی ساری کانفرنس ایک فرد واحد کی بنائی سجائی ہوئی تھی۔ وہ شخصیت سر فضل حسین تھے جو ان دنوں وائسراے کی مجلس انتظامیہ کے رکن ہوا کرتے تھے۔ ان کے نقطۂ نظر میں وسعت کی کمی تھی۔ وہ بہت سے جائز مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ایسے طریق اختیار کرتے تھے جن پر آسانی سے سازش کا گمان کیا جاسکتا تھا۔ وہ دفتری اور انتظامی معاملات میں مسلمانوں کے جائز مفاد کی حفاظت کے فن سے بہت اچھی طرح واقف تھے اور ایک حد تک اپنے مقاصد میں کامیاب بھی رہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود ان کی برپا کی ہوئی کانفرنس پختہ بنیاد نہ تھی۔ اس میں ذاتی اغراض کے بندوں کی بھرمار تھی جو وقت پر قوم کے مفاد کو نظر انداز کرنے کے لیے تیار ہوجاتے تھے۔ محمد علی جناح کانفرنس سے الگ رہے۔ کیونکہ آغا خاں، فضل حسین اور مولانا محمد علی کے ساتھ وقتاً فوقتاً ان کے سیاسی اختلاف رہا کرتے تھے۔ مارچ ۱۹۲۹ء میں جناح مسلم لیگ (جو کانفرنس میں شامل نہیں ہوئی تھی) کے اجلاس میں قائد نے چودہ نکات پیش کیے۔ ان نکات میں ان آئینی تحفظات کی تفصیل پیش کی گئی تھی جو مسلمان اپنا قومی تشخص برقرار رکھنے کے لیے ہندوستان کے آیندہ آئین میں شامل کرانا چاہتے تھے اور جن پر کم و بیش مسلمانوں کی تمام سیاسی پارٹیوں کے درمیان اتفاق رائے موجود تھا۔ اس لحاظ سے جناح مسلم لیگ اور کانفرنس کے مؤقف میں زیادہ فرق نہ تھا۔ مسلم کانفرنس اور جناح لیگ کے جلسوں سے ایک بات بہت اچھی طرح واضح ہوگئی کہ مسلمانوں کو اس بات کا احساس ہوچکا ہے کہ آنے والے وقتوں میں اپنا علیحدہ وجود برقرار رکھنے کے لیے سخت جدوجہد کی ضرورت ہوگی۔ ان اجتماعوں کی بنیادی غرض و غایت بھی پوری ہوگئی۔ یعنی مسلمان راہنماؤں اور سیاسی پارٹیوں میں بہت سے امور پر اتفاق رائے ہوگیا اور قومی مطالبات نے ایک واضح اور غیر مبہم شکل اختیار کرلی۔ اس کے بعد بھی مسلمانوں کی ایک خفیف اقلیت (جس کو اور ہندو پریس پر اچھالا جاتا تھا۔ لیکن قوم میں ان کو کوئی حقیقی رسوخ حاصل نہ تھا) کانگریس کی خیمہ برداری کے خود اختیار کردہ فرائض انجام دیتی رہی۔ لیکن اب مسلمانوں کو بحیثیت مجموعی اپنے دوستوں اور دوسروں کے گماشتوں میں تمیز کرنے کا سلیقہ آگیا۔ یہیں سے قومی یگانگت کی وہ بنیاد رکھی گئی جس پر قائداعظم نے بعد میں قومی اتحاد کا ناقابل تسخیر قلعہ تعمیر کیا۔ ادھر تو مسلمانوں میں ایک نیا شعور بیدار ہورہا تھا۔ دوسری طرف کانگریس، ہندو مہاسبھا اور دوسری ہندو جماعتیں نہرو رپورٹ کی حمایت میں نشر و اشاعت کے تمام ذرائع استعمال کررہی تھیں۔ اور خاص طور پر بیرونی دنیا کو یقین دلا رہی تھیں کہ نہرو رپورٹ ہندوستان کا متفقہ قومی مطالبہ ہے۔ اور اس سے کم تر کسی چیز پر بھی اہل ملک راضی نہ ہوں گے۔ ہندوؤں کے اس جوش و خروش سے مسلمانوں میں بھی بہت اشتعال پیدا ہوا۔ مولانا محمد علی نہرو رپورٹ کی پبلک مخالفت میں پیش پیش تھے۔ جواہر لال نہرو نے اپنے بے لگام انداز میں ایک بیان دیا اور مولانا محمد علی کو ایک سابق ’’صدر کانگریس‘‘ کہ۔َ۔ کر ان کے رویے پر تعجب کا اظہار کیا۔ اس پر مولانا محمد علی نے اپنی پوری قوت مباحثہ سے جواب دیا۔ اپنے دوسرے بیانوں اور مضامین میں مولانا محمد علی نے گاندھی کی ذہنی اور قلبی تبدیلیوں پر بہت کچھ کہ۔َ۔ ڈالا۔ ’’وہی گاندھی جو ہندو مسلم اتحاد کا سب سے بڑا داعی بن کر سیاست میں داخل ہوا تھا۔ آج مسلمانوں کو مستقبل کے متعلق یقین دہانی کرانے میں نہایت بے رخی سے کام لے رہا ہے‘‘۔ لیکن مولانا کی منطق کا اثر گاندھی پر ہوا نہ نہرو پر۔ معاملات بگڑتے گئے۔ ہندو مسلم اختلافات کی خلیج وسیع تر ہوتی گئی۔ ۱۹۲۹ء کے آخر میں کانگریس کا سالانہ اجلاس دریاے راوی کے کنارے لاہور میں منعقد ہوا۔ اس سے پچھلے سالانہ اجلاس کلکتہ میں کانگریس نے برطانوی حکومت کو اس مضمون کا الٹی میٹم دیا تھا کہ اگر نہرو رپورٹ کو من و عن ایک سال کے اندر اندر منظور نہ کیا گیا تو کانگریس اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے مناسب اقدامات کرے گی۔ ایک سال گزرنے پر بھی حکومت نے کانگریس کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہ اُٹھایا۔ اس لیے اب کانگریس اپنے مؤقف کے مطابق اگلا قدم اُٹھانے کے لیے تیار تھی۔ چنانچہ اجلاس لاہور میں نہرو رپورٹ کو زاید المیعاد قرار دے کر آزادی کامل کی قرارداد پاس کی گئی۔ دو مہینے بعد آزادی حاصل کرنے کے لیے سول نافرمانی کی تحریک جاری کی گئی۔ مسلمان من حیث القوم اس تحریک سے الگ تھے۔ صرف صوبہ سرحد کے خان برادران گاندھی کی ہوا خواہی کا دم بھرتے تھے۔ کشیدگی کی اس فضا میں ۱۹۳۰ء کے وسط میں سائمن رپورٹ شائع ہوئی۔ لیکن یہ ایک مردہ بچہ تھا جس کو پیدایش کے فوراً بعد دفن کردیا گیا اور اسی سال کے آخر میں برطانوی حکومت نے لندن میں برصغیر کے سیاسی مسئلے اور آیندہ دستور پر بحث و تمحیص کے لیے ایک گول میز کانفرنس منعقد کی۔ اس میں برطانوی ہند، دیسی ریاستوں اور برطانوی حکومت کے شامل ہونے والے نمایندوں کی تعداد نو۔ّے کے قریب تھی۔ کانگریس نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کررکھی تھی۔ اس کے بہت سے لیڈر جیلوں میں بند تھے۔ ویسے بھی انھوں نے کانفرنس میں شرکت کی دعوت کو ٹھکرادیا تھا۔ اس کانفرنس کی تمام تر توجہ ہندو مسلم مسئلے کے حل کی طرف لگی رہی۔ ایک موقع پر سمجھوتے کے امکانات بہت روشن ہوگئے تھے۔ لیکن صرف ایک سکھ نمایندے کی ہٹ دھرمی اور پنجاب اسمبلی میں صرف ایک نشست کے جھگڑے پربنی بنائی بات بگڑ گئی۔ کانفرنس کا نتیجہ ’’نشستند و گفتند و برخاستند‘‘ کے سوا کچھ نہ نکلا۔ اکثر مسلمان مندوبین کا رویہ غیر مستحسن تھا۔ برطانوی حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے وہ انھی مطالبات سے دست بردار ہونے کو تیار تھے جن کی حمایت کے لیے انھیں وہاں بھیجا گیا تھا۔ یہ کانفرنس ابھی جاری تھی کہ مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الٰہ آباد میں اقبال نے اپنا تاریخ ساز خطبہ پڑھا تھا۔ اقبال پہلی گول میز کانفرنس میں تو نہیں بلائے گئے۔ البتہ وہ دوسری کانفرنس میں شریک ہوئے۔ دوسری گول میز کانفرنس ۱۹۳۱ء کے موسم خزاں میں بلائی گئی۔ ان میں گاندھی کانگریس کے واحد نمایندے کے حیثیت سے شریک ہوئے۔ ان کی موجودگی سے بہت سے سیاسی مبصر پر امید تھے۔ لیکن گاندھی کے طریق کار نے ان توقعات کو غلط ثابت کردیا۔ پنڈت مالویہ ان کا ضمیر بردار تھا۔ اس کی کھلم کھلا مخالفت سے سمجھوتے کا دروازہ بند ہوگیا۔ گاندھی اور ان کے حواریوں کے غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل سے مختلف قانون ساز اداروں میں اقوامِ ہند کی نمایندگی کے نسبت تناسب کا فیصلہ برطانوی وزیراعظم مسٹر ریمزے میکڈانلڈ کو کئی مہینے بعد کرنا پڑا۔ (۱۹۳۲ئ) اس فیصلے کو عام طور پر کمونل ایوارڈ کہا جاتا ہے۔ اس میں جداگانہ انتخاب کو برقرار رکھا گیا تھا اور بنگال کے مسلمانوں کے ساتھ شدید بے انصافی کی گئی۔ پارلیمنٹ میں طویل مباحثوں کے بعد ۱۹۳۵ء کا ایکٹ پاس ہوا جس میں کمونل ایوارڈ کو ترمیم شدہ حالت میں شامل کرلیا گیا۔ اس کی رو سے برصغیر کی حکومت کو ایک فیڈریشن میں تبدیل کرنا مقصود تھا۔ چند حدود کے اندر صوبوں کے لیے اندرونی خود مختاری تجویز ہوئی۔ مرکز میں ایک قسم کی دو عملی (جس کا تجربہ پہلے صوبائی سطح پر ناکام ہوچکا تھا) کا نفاذ پیش نظر تھا۔ گورنر جنرل اور صوبائی گورنروں کو بھاری اختیارات سونپے گئے۔ یہ اختیارات اتنے وسیع تھے کہ ان سے جمہوریت کا تصور ساقط ہو جاتا تھا۔ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کا مسئلہ صوبائی گورنروں اور گورنر جنرل کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا۔ محمد علی جناح اور اقبال دونوں اس ایکٹ کے بنیادی اصولوں کے خلاف تھے۔ جناح مجوزہ فیڈریشن کو ’’دھوکے کی ٹٹی‘‘ قرار دیتے تھے۔ ان کا مؤقف یہ تھا کہ اس سے برصغیر پر عملاً انگریزوں کی گرفت زیادہ مضبوط ہوتی ہے اور بالواسطہ اکثریت کے اختیارات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اقبال اسی بات کو دوسرے طریقے پر کہتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ سارا قانون اس ڈھنگ سے بنایا گیا ہے کہ اس سے ہندوؤں کے مفاد کی تو پوری پوری نگہداشت ہوتی ہے، لیکن مسلمانوں کے مستقبل کو قطعی طور پر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ برصغیر کی اسلامی سیاست اور اقبال یہ تو تھا برصغیر کی سیاست کا عمومی نقشہ، بحیثیت قوم مسلمانوں کے کئی مخصوص مسائل تھے۔ ان کا مختصر سا تذکرہ یہاں بے محل نہ ہوگا۔ مسلمان برصغیر میں¼ اقلیت میں تھے۔ لیکن ان کی آبادی کا اکثر حصہ شمال مغربی اور شمال مشرقی منطقوں میں آباد تھا۔ اول الذکر حصے میں پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان کے علاقے تھے۔ اور مؤخرالذکر میں آسام اور بنگال۔ مرکز میں ہندو اکثریت کی حکومت ناگزیر تھی اور اس اکثریت کے ارادوں کے متعلق شک و شبہ کی کوئی گنجایش نہ تھی، یہ مسلمانوں کو کوئی اہمیت دینے کے لیے تیار نہ تھی بلکہ ملکی سیاست کو ہندو قوم کے مفاد اور مقاصد کے تابع بنانا چاہتی تھی۔ مسلمان اس صورت کو چند تحفظات کے ساتھ قبول کرنے کے لیے تیار تھے۔ ان تحفظات کی پہلی اہم فہرست تجاویز دہلی (۱۹۲۷ئ) کی صورت میں منظر عام پر آئی۔ ان کے مرتب کرنے والوں میں محمد علی جناح اور مولانا محمد علی پیش پیش تھے۔ انھوں نے مخلوط انتخاب کو قبول کرنے کی پیش کش ان شرائط پر کی تھی کہ سندھ کو ہندو اکثریت کے صوبہ بمبئی سے نکال کر علیحدہ صوبہ بنایا جائے۔ صوبہ سرحد میں غیر آئینی حکومت ختم کرکے ۱۹۱۹ء کا دستور رائج کیا جائے۔ پنجاب اور بنگال کی مجالس قانون ساز میں مسلمانوں کو قانونی طور پر اکثریت حاصل ہو اور مرکزی مجلس قانون ساز میں اُن کو ایک تہائی نیابت حاصل ہو۔ یہ شرائط بہت کڑی نہ تھیں۔ لیکن ہندو زعما نے ان پر بہت دلچسپ رویہ اختیار کیا۔ انھوں نے جداگانہ انتخاب سے مسلمانوں کی مجوزہ دست برداری کا خیر مقدم کیا لیکن باقی شقوں کو ناقابل توجہ قرار دیا۔ ادھر مسلمانوں کی ایک مؤثر اکثریت نے مخلوط انتخاب کی تجویز سے بیزاری کا اظہار کیا۔ ان دنوں مسلمان جداگانہ انتخاب کو اپنی سیاسی شہ رگ سمجھتے تھے اور اس سے کسی صورت میں بھی دست کش ہونے کے لیے تیار نہ تھے، اقبال کا مؤقف بھی یہی تھا کہ جداگانہ انتخاب کے بغیر مسلمان سیاسی طور پر ختم ہوجائیں گے۔ تجاویز دہلی کو کانگریس نے دو مرتبہ قبول کیا، لیکن بعد کے واقعات نے بتایا کہ یہ منظوری غیر سنجیدہ تھی اور محض دفع الوقتی کے لیے، اس کے علاوہ مسلمانوں کا مطالبہ یہ تھا کہ پنجاب اور بنگال کے صوبوں میں مسلم اکثریت کو قانونی تحفظ دیا جائے تاکہ اس سے مسلمانوں کو مجوزہ فیڈریشن میں ایک مؤثر حیثیت حاصل ہوجائے۔ جو آل انڈیا معاملات میں مسلم اقلیت کے لیے سہارا ثابت ہوسکے۔ یہ اقبال کا طرزِ فکر تھا۔ لیکن کانگریس اور ہندو مہاسبھا دونوں مل کر جداگانہ انتخاب اور بنگال اور پنجاب میں مسلم اکثریت کے قیام کی مخالفت کرتی تھیں۔ مسلمان لیڈروں اور سیاسی جماعتوں میں مدت سے رقابتیں اور رنجشیں چلی آرہی تھیں، ہندو لیڈر ان اختلافات کو ہوا دیتے تھے۔ اور دامے درمے بھی ان کی حوصلہ افزائی کرتے تھے تاکہ مسلمانوں کی آواز ہمیشہ کے لیے دب جائے۔ لیکن ان ناسازگار حالات میں مسلمانوں کے باہمی اختلافات آہستہ آہستہ رفع ہورہے تھے۔ مسلمان لیڈروں کا ایک مختصر سا طبقہ جداگانہ انتخاب کی مخالفت کرتا تھا اور اس مخالفت کو ہندو اخباروں میں بہت نمایاں جگہ ملتی تھی۔ کلکتہ کنونشن کے بعد مسلمانوں کے لیے اور کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ قومی تنظیم کی طرف توجہ کریں جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے، مختلف مسلم پارٹیوں کا اتحاد (جس میں جناح لیگ شامل نہ تھی) مسلم کانفرنس کے نام سے وجود میں آیا، مسلم اقلیت کے لیے تحفظات کی ایک فہرست کانفرنس والوں نے بھی تجویز کی۔ اقبال مسلم کانفرنس میں شریک ہونے کے لیے دہلی گئے۔ (جنوری ۱۹۲۹ئ) وہاں انھوں نے ایک تقریر کے دوران سرسید احمد خان کی سیاسی فراست کو سراہا اور کہا ان کی بتائی ہوئی راہ قوم کے لیے بالکل درست تھی، مارچ ۱۹۲۹ء میں محمد علی جناح نے اپنے چودہ نکات پیش کیے جن میں جداگانہ انتخاب کا استقرار، مسلمانوں کے کلچر، مذہب، زبان، پرسنل لا اور سرکاری ملازمتوں کے تحفظ کے مطالبات شامل تھے۔ مسلمانوں کی قومی زندگی میں وقتاً فوقتاً جو بڑی بڑی سیاسی تحریکیں ابھری ہیں۔ ان میں کانپور کی مسجد کی بے حرمتی کے خلاف احتجاجی تحریک، تحریک خلافت، تحریک کشمیر، مسجد شہید گنج کی بازیابی کی تحریک اور تحریک پاکستان خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان میں تحریک کشمیر (۱۹۳۱ئ) اور مسجد شہید گنج کی بازیابی کی تحریک (۱۹۳۵ئ) زیادہ تر پنجاب تک محدود تھیں، سیاسی تحریکوں کو چلانے اور ان میں جوش و خروش پیدا کرنے میں اخبار اور رسائل اہم کردار ادا کرتے ہیں، لیکن اس ضمن میں مسلمانوں کو بہت کم سہولتیں میسر تھیں، نشر و اشاعت کے اداروں پر مدت سے ہندو قابض چلے آتے تھے، ان کے ہاں اخباروں اور رسالوں کی فراوانی تھی، ان میں سے کئی ایک انگریزی زبان میں اور باقی مقامی اور ملکی زبانوں میں چھپتے تھے، انگریزی اخبارات (جن کا مطالعہ تعلیم یافتہ طبقے تک محدود تھا) لازمی طور پر ہندوؤں کے نقطۂ نظر کی ترجمانی کیا کرتے تھے۔ مسلمان بھی مجبوراً انھی کو پڑھتے اور ان کے افکار و آرا سے متاثر ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ اچھے بھلے پڑھے لکھے مسلمان نوجوان اکثر اپنے قومی نقطۂ نظر سے ناآشنا ہوا کرتے تھے اور ہندو اخبارات کے ادارتی شذروں کے مندرجات کو سند کے طور پر پیش کیا کرتے تھے۔ برطانوی حکمران بھی ہندو اخباروں کے ذریعے ’’رائے عامہ‘‘ سے واقفیت حاصل کرتے تھے۔ اس کے خلاف مسلم پریس نہ ہونے کے برابر تھا۔ آزادی سے پہلے سارے برصغیر میں مسلمانوں کے روزانہ انگریزی اخباروں کی تعداد کبھی دو یا تین سے آگے نہیں بڑھی۔ ان کی اشاعت اور ذرائع محدود تھے۔ اسی نسبت سے ان کا دائرہ اثر بھی محدود ہوا کرتا تھا، اعلیٰ پائے کے اردو اخباروں کا وقار ان کے مطالعہ کرنے والوں کی نظر میں کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو۔ اس حلقے سے باہر وہ کوئی خاص مقام نہ رکھتے تھے۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ تھا کہ مسلمان اپنے اخباروں کے ذریعے ، نہ تو اپنا نقطۂ نظر برطانوی حکمرانوں تک پہنچا سکتے تھے اور نہ ہی بیرونی دنیا تک۔ ہندو اخباروں میں یہ عادت راسخ ہوچکی تھی کہ وہ مسلمان راہنماؤں کے بیانات کو مسخ کرکے شائع کرتے تھے، اس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا تھا کہ بیان دینے والوں کے سیاسی شعور کا خانہ خالی ہے۔ اقبال کو بھی اکثر یہی شکایت رہی کہ ہندو اخبارات ان کے بیانوں کی ایسی تحریف کرتے تھے جن سے پڑھنے والوں کی غلط فہمیاں اور بدگمانیاں پہلے کی نسبت بہت بڑھ جاتی تھیں، جہاں مسلمانوں کا مفاد برطانوی مفاد سے نہ ٹکراتا ہو۔ کلکتہ، لاہور اور الٰہ آباد کے اینگلو انڈین اخبارات کسی حد تک مسلمانوں کے نقطۂ نظر کی اشاعت کو روا رکھتے تھے ورنہ انھوں نے اوّل و آخر برطانوی حکومت کی ترجمانی کا فرض اپنے ذمے لگا رکھا تھا۔ ۱۹۴۰ء میں جب اے-کے فضل الحق نے کانگریسی حکومتوں کے خلاف اپنا چارج شیٹ اخباروں کو بھیجا تو یہ صرف اینگلو انڈین اخباروں میں ہی جگہ پاسکا۔ ہندو اخباروں نے بیرونی دنیا میں نہایت کامیابی کے ساتھ یہ تاثر پیدا کیا ہوا تھا کہ ہندوستان کی آزادی کے راستے میں مسلمان سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ جب اقبال دوسری گول میز کانفرنس میں شریک ہونے کے لیے انگلستان جارہے تھے تو راستے میں جن مصری زعما سے ملے انھوں نے اشارتاً ان بدگمانیوں کا ذکر کیا۔ اقبال، شاعر کو ’’دیدہ بیناے قوم‘‘ کہتے تھے۔ لیکن اپنی عمر کا زیادہ حصہ وہ سیاست کے میدان سے کنارہ کش رہے۔ ۱۹۲۶ء میں وہ عملی سیاست میں داخل ہوئے اور اپنی وفات کے وقت تک سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔ اس لحاظ سے ان کی سیاست کی عمر بارہ سال سے بھی کم بنتی ہے۔ لیکن عجیب تر بات یہ ہے کہ ۱۹۳۰ء میں مسلم لیگ کا صدر ہونے کی حیثیت سے بھی اقبال نے یہی کہا کہ ’’میں کسی پارٹی کا رکن نہیں ہوں اور کسی لیڈر کے پیچھے نہیں چلتا‘‘۔ جس محور کے گرد ان کی سیاست گھومتی تھی اس کا ذکر یوں کیا: میں اسلام کی روح کو سمجھتا ہوں اور مذہب کو دنیا کے بنیادی حقائق میں شمار کرتا ہوں، برصغیر کے مسلم معاشرے کا بنیادی پتھر اسلام ہی ہے۔ ان کی سیاست کا مقصد ان کے اپنے الفاظ میں یہ تھا کہ مسلمان اپنی موجودہ پستی کی حالت سے نکل کر بلندی پرپہنچ جائیں اور ان میں جو اختلافات رونما ہوگئے ہیں وہ دور ہوجائیں۔ ۱۹۲۶ء میں انھوں نے اپنی انتخابی تقریروں میں صرف اسی نکتے پر زور دیا کہ قوم کے نمایندوں کا فرض ہے کہ ہمیشہ قومی مصالح کو مقدم رکھیں۔ اگر کسی موقع پر ان کا ذاتی مفاد، اجتماعی مفاد سے متصادم ہو تو وہ قومی بہبود کو ترجیح دیتے ہوئے، اپنے فائدے کو نظر انداز کردیں۔ برصغیر کی اسلامی سیاست میں کبھی کبھی تو گرمی پیدا ہوئی اور قوم نے چند نہایت جان۔دار تحریکیں چلائیں۔ لیکن بحیثیت مجموعی، قومی سطح پر، مسلمانوں کی سیاست ایک مسلسل عمل نہیں تھا۔ چند گنے چنے افراد قومی ہمدردی کے جذبے سے یا ذاتی وجوہات کی بنا پر سیاست کے اُتار چڑھاؤ پر نظر رکھتے اور قومی یا ملکی اہمیت کے واقعات پر اپنی تنظیموں یا اپنے اخباری بیانوں کے ذریعے خیالات کا اظہار کیا کرتے تھے، اقبال دسمبر ۱۹۲۶ء میں پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے ممبر منتخب ہوئے۔ اگلے سال صوبائی مسلم لیگ کے سیکرٹری چنے گئے۔ کونسل میں اپنی تین سالہ رکنیت کی میعاد ختم ہونے کے بعد وہ دوبارہ انتخابی میدان میں نہ آئے۔ لیکن اس عرصے کے بعد بھی وہ مسائل حاضرہ پر اخباری بیان شائع کیا کرتے تھے۔ کچھ بیان تو انھوں نے خود دیے۔ کئی دوسرے بیانوں کے نیچے ان کے دستخطوں کے ساتھ دوسرے جانے پہچانے راہنماؤں کے دستخط بھی موجود ہیں، یہ راہنما زیادہ تر محتاط قسم کے اہل سیاست ہوا کرتے تھے جو اپنے علم اور وسعت نظر میں اقبال کی گرد کو بھی نہ پہنچتے تھے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اقبال طولانی بیانوں سے پرہیز کرتے تھے۔ اختصار اور جامعیت ان کی تحریر کے دو نمایاں پہلو تھے۔ اقبال کے چھپے ہوئے جو بیان ہم تک پہنچے ہیں ان میں مندرجہ ذیل مسائل پر ان کی آرا سے ان کے سیاسی اصولوں کا پتہ لگانا مشکل نہیں۔ جداگانہ اور مخلوط انتخاب کا مسئلہ، پنجاب اور بنگال کی مجالس قانون میں مسلم اکثریت کا سوال، سرکاری ملازمتوں میں ملی مفاد کا تحفظ، پہلی گول میز کانفرنس میں مسلمان مندوبین کا قومی مؤقف سے کھلم کھلا انحراف، برطانوی وزیر اعظم کا فرقہ وارانہ فیصلہ (جو عام طور پرکمونل ایوارڈ کہلاتا ہے) اور اس کے خدوخال، انڈیا بل، ہندو مسلم فسادات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ، مسئلہ کشمیر، مسئلہ فلسطین اور قادیانی مسئلہ۔ اقبال اپنے معانی کو الفاظ کے پردے میں نہ چھپاتے بلکہ صاف گوئی سے کام لیتے تھے۔ انھوں نے مغل پورہ انجینئرنگ کالج (جو اب یونی ورسٹی کے درجے تک پہنچ چکا ہے) کے پرنسپل وٹیکر کی اسلام دشمنی کے خلاف مسلمان طالب علموں کی جاری کی ہوئی تحریک کی سرپرستی بھی کی۔ ان کے اخباری بیانوں کے اہم نکتے درج ذیل ہیں: وہ سمجھتے تھے کہ قوم مخلوط طرزِ انتخاب کو بہت آزما چکی ہے۔ تجربے کی روشنی میں معلوم ہوا ہے کہ مسلمانانِ ہند کا مستقبل جداگانہ انتخاب سے وابستہ ہے، اگر مسلمان اپنی قومی خصوصیات باقی رکھنا چاہتے ہیں تو اس طرزِ انتخاب سے مفر نہیں، اس منطق سے کہ جداگانہ انتخاب سے مختلف قوموں کے درمیان منافرت بڑھتی ہے، اقبال متفق نہ تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جداگانہ انتخاب کے ہوتے ہوئے بھی ہندی اقوام میں یک جہتی پیدا ہوسکتی ہے، یہ اکثریت کا اپنا فرض ہے کہ وہ اقلیت کا اعتماد حاصل کرے۔ چونکہ مسلمان جداگانہ انتخاب کو ترک کرنے کے لیے تیار نہیں، اس لیے مخلوط اور جداگانہ انتخاب کی بحث کو بار بار اٹھانا لاحاصل ہے۔ اگر ہندو اس نکتے پر مفاہمت کے خواہاں ہیں تو کسی قسم کی مثبت تجویز ان کی طرف سے پیش ہونی چاہیے نہ کہ مسلمانوں کی طرف سے۔ انتخابات کا سوال بار بار اس لیے اُٹھایا جاتا تھا کہ ہندوؤں نے جداگانہ انتخاب کے خلاف عالمی سطح پر پروپیگنڈے کی مہم جاری کررکھی تھی اور اپنے مؤقف کے حق میں بہت سے برطانوی اہلِ سیاست کی ہمدردی حاصل کرلی تھی۔ اس سے مسلمان راہنماؤں کو بڑی تشویش تھی۔ چنانچہ مجبور ہوکر انھوں نے متعدد بار اس امر کا جائزہ لیا کہ مخلوط انتخاب کو کس شکل میں رائج کیا جائے کہ یہ مسلمانوں کے لیے قابل قبول بن سکے۔ یعنی پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت قائم رہے۔ گفت و شنید کی کہانی بڑی لمبی ہے اور اس کو دہرانا بے ضرورت ہے مسلمانوں کا ایک طبقہ اس معاملے میں ہندوؤں کا ہم نوا تھا اور مخلوط انتخاب کی حمایت کرتا تھا۔ ۱۹۳۱ء میں نواب بھوپال نے دونوں فریقوں کے درمیان مصالحت کرانے کی کوشش کی۔ اس کانفرنس میں اقبال سمیت بعض زعما اس بات پر رضا مند تھے کہ جب بالغ رائے دہی کا اصول نافذ ہو تو جداگانہ انتخاب کو ترک دینے کا کوئی مضائقہ نہیں، واضح رہے کہ اس وقت رائے دہی کا حق صرف اُن شہریوں کو حاصل تھا جو ایک خاص مالیت کی جائیداد رکھتے ہوں۔ اس طرح برصغیر میں صرف تین فی صد آبادی کو ووٹ ملا ہوا تھا اور ان میں مسلمانوں کی تعداد اپنی آبادی کے لحاظ سے بھی ہندوؤں کے مقابلے میں بہت کم تھی۔ پنجاب میں سکھوں کے مبالغہ آمیز دعاوی نے صوبائی سیاست کو بہت پیچیدہ بنا دیا تھا۔ سکھ اپنے لیے اپنی آبادی سے تین گنا نمایندگی چاہتے تھے اور ہندوؤں کے ہر جائز اور ناجائز مطالبے کی حمایت پر کمربستہ رہتے تھے۔ پہلی گول میز کانفرنس کے دوران بعض مسلمان مندوبین نے (جو ہر قیمت پر برطانوی حکومت کی خوشنودی کے طلب گار تھے) جداگانہ انتخاب سے دست برداری کی تجویز سر محمد شفیع کی معرفت پیش کی تھی۔ یہ پیش کش جداگانہ انتخاب کو ہر قیمت پر بحال رکھنے کے طے شدہ قومی مؤقف کے خلاف تھی۔ ان مندوبین کی ایک اور زیادتی یہ تھی کہ انھوں نے بنگال اور پنجاب کی صوبائی مجالس قانون ساز میں مسلم اکثریت کی ضمانت حاصل کرنے کے بغیر مخلوط انتخاب کا اصول خفیہ طور پر تسلیم کرلیا تھا۔ یہ رویہ قومی مفاد سے کھلی ہوئی غداری تھی، اقبال اس پر بہت برہم ہوئے۔ انھوں نے لندن میں مقیم مندوبین کو اس مضمون کے تار بھیجے کہ اگر تم قوم کے مفاد کی حفاظت کرنے سے قاصر ہو تو کانفرنس کو چھوڑ کر اپنے ملک کی راہ لو۔ اقبال اس بات کے بھی خلاف تھے کہ جن صوبوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں ان کو صوبائی مجالس قانون ساز میں چند نشستیں زیادہ دلوا کر بنگال اور پنجاب میں قوم کے اکثریتی حقوق کو ملیا میٹ کردیا جائے۔ (لکھنؤ پیکٹ میں مسلمانوں کے ساتھ یہی بے انصافی روا رکھی گئی تھی)۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ مسلمان کسی ایسے دستور کو تسلیم نہیں کریں گے جو مرکز اور دوسرے صوبوں کو تو ایک مستقل ہندو اکثریت کے سپرد کردے لیکن پنجاب اور بنگال کی مسلم اکثریت کو منصفانہ تحفظات سے محروم کردے۔ اگر مسلمان اپنے آپ کو مرکز میں بھاری ہندو اکثریت کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہیں، تو ہندو بھی پنجاب اور بنگال میں مسلم اکثریت کی مخالفت ترک کرکے کسی حد تک اپنی نیک نیتی کا ثبوت فراہم کرسکتے ہیں، دو صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت یقینی ہوجانے سے مسلمانوں کو آل انڈیا اقلیت کی حیثیت میں اپنی مستقل شخصیت کے اظہار کا موقع ملے گا۔ گاندھی نے کمونل ایوارڈ کی مخالفت اس بنیاد پر کی تھی کہ اچھوتوں کو برطانوی حکومت سے جداگانہ انتخاب کا حق ملنے پر ہندو قوم کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ اقبال کے نزدیک گاندھی کے یہ الفاظ مسلمانوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی تھے۔ گاندھی کو (جو ملک کی تمام اقلیتوں کو متحدہ ہندی قومیت میں جذب ہوجانے کی دعوت دیا کرتے تھے) خدشہ تھا کہ اگر اچھوت جداگانہ انتخاب کا حق استعمال کریں گے تو ہندو قوم فنا ہوجائے گی۔ اس استدلال کا صاف یہی مطلب ہے کہ جو اقلیتیں مخلوط انتخاب اختیار کریں گی وہ صفحۂ ہستی سے مٹ جائیں گی۔ اقبال نے ۶ جولائی ۱۹۳۴ء کو شائع ہونے والی حکومت ہند کی قرارداد کا خیر مقدم کیا۔ اس قرار داد کا پس منظر یہ ہے: حکومت ہند کے دفتروں میں مسلمان کارکنوں کی تعداد بہت کم ہوا کرتی تھی۔ مرکزی حکومت کی دوسری ملازمتوں کا معاملہ بھی یہی تھا۔ ۱۹۲۵ء میں حکومتِ ہند نے اس مسئلے کی طرف توجہ کی۔ لیکن حکومت کے تجویز کردہ اقدامات سے کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ ملازمتوں میں مسلمان عنصر کی کمی جوں کی توں رہی۔ اس لیے ۱۹۳۴ء میں مرکزی حکومت کی براہ راست پر کی جانے والی اسامیوں میں مسلمانوں کے لیے ۲۵ فی صد حصہ محفوظ کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اقبال نے ایک اخباری بیان میں یہ کہا کہ اس اقدام سے مکمل طور پر مسلمانوں کی حق رسی نہیں ہوتی۔ لیکن اگر حکومت کے عمال نے نیک نیتی سے اس پر عمل کیا تو اس نئی قرارداد کا مقصد کسی حد تک پورا ہوجائے گا۔ ایک دوسرے بیان میں انھوں نے اُمید ظاہر کی کہ حکومت کے اس فیصلے سے ملازمتوں کے متعلق فرقہ وارانہ جھگڑے مٹ جائیں گے۔ انھوں نے اس قرارداد کو مؤثر بنانے کے لیے چند تجویزیں بھی پیش کیں۔ انڈیا بل پر (جو قانون کی شکل اختیار کرنے کے بعد ۱۹۳۵ء کے ایکٹ کے نام سے مشہور ہوا) اقبال نے دو بیان شائع کیے۔ ان میں سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ صوبائی گورنروں اور گورنر جنرل کو اقلیتوں کے مفاد کی حفاظت کے نام پر جو خصوصی اختیارات دیے گئے ہیں وہ اقلیتوں کے تحفظ کے لیے ناکافی ہیں۔ یہ بات ان کے فہم سے بالا تھی کہ ۸۰ ملین مسلمانان ہند کے حقوق کے تحفظ کا بار گراں صرف چند کندھوں پر ہی کیوں ڈال دیا گیا ہے، چنانچہ بعد میں اقبال کے خدشات درست ثابت ہوئے۔ اقلیتوں اور دستور بنانے والوں نے صوبائی گورنروں سے جو توقعات وابستہ کررکھی تھیں وہ نقش بر آب ثابت ہوئیں، ہندو صوبوں میں کانگریس کی اکثریتی حکومتوں کے دباؤ کے ماتحت بے بس ہوکر گورنر اپنے خصوصی اختیارات سے دست کش ہوگئے اور انھوں نے اقلیتوں کو اکثریت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا، دستور کی اس شق کے غیر مؤثر ہونے کی وجہ سے تحریک پاکستان کو بہت تقویت پہنچی۔ جموں و کشمیر کی ڈوگرہ حکومت کے انسانیت سوز مظالم کی داستان بہت لمبی ہے، اس خطے کے حکمران متعصب ہندو تھے، بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ ان کے تعصب کی کوئی انتہا نہ تھی۔ ڈوگرہ خاندان کے دوسرے راجہ رنبیر سنگھ کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ وہ ہر وقت اپنی دائیں ہاتھ کی انگلیوں کو ایک ایسے دھاگے میں لپیٹ کر رکھتا تھا جس کا دوسرا سرا ایک گائے کی دم سے بندھا ہوا ہوتا تھا۔ اس کے جانشین پرتاب سنگھ نے حکم دے رکھا تھا کہ صبح سویرے کوئی مسلمان اس کے سامنے نہ آئے کیونکہ اس کے لیے کسی مسلمان کی شکل دیکھنا سارے دن کے لیے بری فال ثابت ہوگا۔ ریاست کے قوانین کے مطابق ذبیحہ گاؤ کی سزا سات سال قید بامشقت تھی۔ حکومت کے مظالم کی تاب نہ لاتے ہوئے کشمیری عوام ۱۹۳۱ء میں حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، اس گناہ کی پاداش میں سرکاری عمال نے نہتے اور بے وسیلہ کشمیریوں کو دل کھول کر انتقام کا نشانہ بنایا۔ ان انسانیت سوز کارروائیوں کا چرچا دور دور تک اسلامی ہند میں پھیل گیا، اپنے ایک اخباری بیان میں اقبال نے کہا کہ کشمیری قومیت اسلامی ہند کے جسد کا بہترین حصہ ہے اور اس کا جزو لاینفک۔ کشمیریوں کی تقدیر کو اپنی تقدیر نہ سمجھنا، تمام ملت کو تباہی اور بربادی کے حوالے کردینا ہے، ڈوگرہ حکومت نے صرف جائز مطالبات کو بغاوت کا نام دے کر اہل کشمیر پر ظلم کرنے کی کھلی چھٹی حاصل کرلی ہے، اہل کشمیر سے ناروا سلوک کرنا، ان کی جائز اور دیرینہ شکایات سے بے اعتنائی برتنا اور ان کے سیاسی حقوق کو تسلیم نہ کرنا، مسلمانانِ ہند سے ناروا سلوک کرنے کے مترادف ہے۔ مسلمانانِ ہند کی شکایات سے بے اعتنائی اور مسلمانانِ ہند کے حقوق کو تسلیم کرنے سے انکار ہے۔ ہندو اخبار مسلمانوں کی شکایتوں کو ایک مخصوص رنگ میں دیکھنے کے عادی تھے، لاہور کے اخبار کیسری نے لکھا کہ اقبال اس طرح شور مچاکر کشمیر میں کوئی اعلیٰ عہدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اقبال نے نہایت درشت الفاظ میں اس الزام کی تردید کی۔ مدتوں سے مسئلہ کشمیر کی بنیادی حقیقت تو ایک ہی رہی ہے۔ اگرچہ بظاہر اس کی شکل و صورت بدلتے ہوئے حالات کے مطابق تبدیل ہوتی رہی ہے۔ وہاں کی مفلوک الحال مسلمان اکثریت ۱۸۴۵ء سے ہندو اقلیت کے نیچے پس رہی ہے اور اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہے۔ یہ دور برصغیر کی تاریخ میں ہولناک ہندو مسلم فسادات کا دور تھا، پہلا فساد ملتان میں ہوا۔ پھر کوہاٹ، لاہور، بنارس، آگرہ اور مرزا پور بھی اس کی لپیٹ میں آگئے۔ سب سے دردناک فساد کانپور میں ۱۹۳۱ء میں ہوا۔ بقول اقبال اس میں ’’غدر‘‘ سے بھی زیادہ دل ہلا دینے والے واقعات ظاہر ہوئے، کئی مقامات پر مسلمانوں پر تیل چھڑک کر ان کو زندہ جلادیا گیا، سسکتے ہوئے مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کو مزید اذیت دے کر ہلاک کیا گیا، مسلمانوں کے ہزارہا مکانات جلا دیے گئے۔ تیس مساجد کو بالکل تباہ کردیا گیا، مسلمانوں کو اس ہنگامے میں شدید اور ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ کانپور کے فساد میں کم و بیش اسی درندگی کا مظاہرہ تھا جو ہندوؤں اور سکھوں کے مسلح جتھوں سے ۱۹۴۷ء میں مشرقی پنجاب کے علاقے میں ظہور میں آئی۔ فسادوں کا یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ آزادی تک جاری رہا، اور آج تک بھی ہندوستان میں وقفوں سے بھڑک اٹھتا ہے، ۱۹۲۷ء میں اقبال نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ انتظامیہ میں معقول انگریزی عنصر کی موجودگی میں فسادوں میں ماخوذ ہونے والے ہندوؤں اور مسلمانوں کو بلاوجہ انتقام کا نشانہ نہیں بننا پڑے گا۔ ہندو اخباروں نے اس بیان کو مسخ کرکے چھاپا اور اس پر شدید گرفت کی۔ اقبال نے فلسطین کے مسئلے پر بھی متعدد بیان جاری کیے، اسلامی ہند کا مؤقف یہ تھا کہ اعلان کو بالفور واپس لے لیا جائے اور فلسطین میں یہودیوں کا داخلہ بند کردیا جائے۔ (برطانیہ کی حکومت اپنی طے شدہ پالیسی پر کاربند رہی۔ یہاں تک کہ انتداب کے خاتمے پر یہودیوں کی اپنی ریاست وہاں وجود میں آگئی) اقبال نے اپنے بیانوں میں مسلمانوں کے مؤقف کی ترجمانی کی اور ۱۹۳۱ء میں انگلستان سے واپسی پر بیت المقدس کی زیارت سے بھی مشرف ہوئے۔ دوسری گول میز کانفرنس میں خود اقبال شریک ہوئے۔ ان کا بہت سا وقت اہل علم اور اپنے مداحوں سے ملاقاتوں میں گزرا۔ کانفرنس کے کام میں ان کی دلچسپی کم کم تھی، گاندھی کی موجودگی نے حالات کو بہت پیچیدہ بنا دیا تھا۔ فرقہ وارانہ فیصلے کی توقع موہوم ثابت ہوئی، سر محمد شفیع اور محمد علی جناح کانفرنس کی ناکامی کا الزام اپنی گردن پر نہ لینا چاہتے تھے۔ اس لیے انھوں نے فیڈرل کمیٹی کو بتا دیا کہ مرکزی حکومت کی تشکیل کے متعلق بحث جاری رہے۔ لیکن مسلمان کسی ایسے دستور کو قبول نہیں کریں گے جو ان کے مطالبات پورے نہ کرتا ہو، مسلمان مندوبین شروع سے اس بات پر اصرار کرتے تھے کہ مرکز میں ذمہ دارانہ حکومت کا سوال اس وقت ہی اٹھایا جاسکتا جب صوبائی سطح پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے باہمی اختلافات طے ہوجائیں، اقبال کی نظروں میں سر محمد شفیع اور مسٹر جناح نے اس مؤقف کو پس پشت ڈال دیا تھا۔ اس لیے وہ کانفرنس کی کارروائی سے علیحدہ ہوگئے اور ۲۱ نومبر کو لندن سے واپسی کے لیے روانہ ہوگئے۔ خطبہ الٰہ آباد خطبہ الٰہ آباد کا زیادہ حصہ اُن دنوں کے تازہ اور ماضی قریب کے واقعات کی روشنی میں لکھا گیا تھا۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے نہرو رپورٹ کو مرتب کرنے والوں نے، مسلمانوں کے آئینی ’’تحفظات‘‘ کے متحدہ مطالبے کو یک سر بالائے طاق رکھ دیا تھا۔ سائمن رپورٹ کے مصنفوں نے ایک ایسے پیچ در پیچ آئین کی سفارش کی تھی جس میں برصغیر کے دفاع کی اہمیت اور فرقہ وارانہ اختلافات کی آڑ میں انگریزی اقتدار کو جوں کا توں رکھنا مقصود تھا۔ انھی دنوں انگلستان میں گول میز کانفرنس کا اجلاس بھی جاری تھا۔ یہاں برطانوی لیبر حکومت کے ارکان نے مسلمانوں کی طرف سرد مہری کا یہ رویہ اختیار کررکھاتھا اور وزیر اعظم نے یہاں تک کہ۔َ۔ دیا تھا کہ جداگانہ انتخاب کا مسلسل قیام برطانوی جمہوری تصورات سے متصادم ہے اور ہم پارلیمنٹ کے روبرو اس کو برقرار رکھنے کی سفارش نہیں کریں گے۔ اندریں حالات مسلمان نہایت مایوس کن صورت سے دوچار تھے۔ وقت کا سب سے اہم مسئلہ یہی تھا کہ بننے والے دستور میں ایسے تحفظات کی شمولیت پر زور دیا جائے جن سے مسلمان ایک ملک گیر اقلیت ہونے کی حیثیت سے مؤثر طور پر اپنا کردار ادا کرسکیں، چنانچہ اسی مسئلے کو سامنے رکھتے ہوئے اقبال نے حالات حاضرہ کا تجزیہ کیا۔ زیرک ہندو لیڈر اپنے مسلم کش عزائم پر حسنِ بیان کا پردہ ڈالنے کے فن میں طاق تھے۔ اقبال نے ان عزائم کو بے نقاب کیا۔ اقبال نے مجوزہ فیڈریشن کے ڈھانچے کو مسلمانوں کے لیے ضرررساں قرار دیا۔ اس کی کیا وجہ تھی؟ پہلے پہل فیڈریشن کا مطالبہ اسلامی ہند کا مطالبہ تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ صوبوں کو اپنے اندرونی معاملات میں زیادہ سے زیادہ خود مختاری حاصل ہو تاکہ مسلمان اکثریت کے صوبے، مرکزی حکومت کی مداخلت کے بغیر قوم کی اقتصادی، تعلیمی اور معاشرتی اصلاح کی طرف توجہ دے سکیں۔ ہندوؤں پر فیڈریشن کا مطالبہ ہمیشہ ناگوار گزرتا تھا۔ کیونکہ اس کے حصول کی صورت میں ان کو پورے ملک پر تسلط حاصل نہیں ہوسکتا تھا۔ وہ صرف ایک وحدانی آل انڈیا حکومت کے طلب گار تھے جس میں مرکزی حکومت کو ایک فیصلہ کن حیثیت حاصل ہو اور اقلیتوں کے لیے ایسے حالات پیدا کردیے جائیں کہ وہ اپنے آپ کو اکثریت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں۔ پہلی گول میز کانفرنس (۱۹۳۰ئ) کے موقع پر برطانوی سیاست کے مداریوں نے اپنی پٹاری میں سے فیڈریشن کا خرگوش نکال کر چھوڑ دیا۔ اس فیڈریشن میں کم از کم ایک تہائی حصہ برطانوی حکومت کے چہیتے والیانِ ریاست کے لیے مخصوص کرنے کی تجویز زیر غور آئی۔ اس امیرکبیر طبقے کی غالب اکثریت ہندوؤں پر مشتمل تھی۔ فیڈریشن میں ان کی شمولیت کے باعث ہندوؤں کو پہلے کی نسبت بہت زیادہ فائدہ ہوتا تھا۔ اس قسم کی فیڈرل سکیم کے لیے کوئی عملی یا نظری جواز موجود نہ تھا۔ چونکہ اس سے ہندوؤں کے مفاد کو تقویت پہنچتی تھی، انھوں نے فیڈریشن کی مخالفت ترک کردی، انگریزوں کا اقتدار بھی راجواڑوں کی مدد سے نظر بد سے محفوظ کیا جاسکتا تھا۔ اس لیے ہندوؤں اور انگریزوں میں اس نکتے پر خاموش مفاہمت ہوگئی۔ مسلمانوں کے واسطے یہ عجیب و غریب صورت پیدا ہوئی کہ ان کے بار بار دہرائے ہوئے مطالبے کو ایسی صورت میں منظور کیا گیا جس سے اُن کے مؤقف اور توقعات کی مکمل طور پر نفی ہوتی تھی۔ اقبال نے ان تمام امور کو نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیا اور کہا کہ مسلمان اس جعلی فیڈریشن سے تیار کیے ہوئے پھانسی کے پھندے کو اپنے گلے میں ڈالنے سے پرہیز کریں۔ ہر فیڈریشن کے اندر صوبوں اور مرکز کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا مسئلہ بہت سے اختلافات اور مباحثوں سے گزر کر طے پایا کرتا ہے، یہ صورت ہر وفاقی نظام کی تشکیل سے پہلے پیدا ہوتی ہے اور بالآخر ’’کچھ دو اور کچھ لو‘‘ کے اصول کو مدِنظر رکھتے ہوئے مفاہمت کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔ عام طور پر فرائض و اختیارات کی تقسیم اس طرح پر ہوتی ہے کہ مرکزی یا صوبائی، کسی ایک حکومت کے دائرہ کار کو متعین کردیا جاتا ہے اور باقی ماندہ اختیارات (جن کو ’’اختیارات مابقیٰ‘‘ کہا جاتا ہے) دوسرے فریق کو سونپ دیے جاتے ہیں۔ آئین سازوں کی نظر میں بلکہ قانونی طور پر، اختیارات مابقیٰ حاصل کرنے والا فریق ہی زیادہ اہم ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے اس پرانے مطالبے کو کہ اختیارات مابقیٰ صوبوں کے سپرد کیے جائیں اقبال نے دہرایا اور کہا کہ اگر یہی اختیارات مرکز کو حاصل ہو جائیں تو صوبوں کو اپنا مستقبل متعین کرنے میں چند در چند دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آج کل حالات بہت مختلف ہوچکے ہیں لیکن اُس زمانے میں علمِ سیاست کے مغربی ماہروں کا اس امر پر اتفاق تھا کہ فیڈریشن کی اکائیاں (یعنی صوبے) ہی اختیارات مابقیٰ کی حق دار ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو فیڈرل نظام ناقص ہوگا۔ مسلم اکثریت کے سبب سے اہم صوبے پنجاب اور بنگال تھے۔ ان میں مسلمانوں کو خفیف سی عددی اکثریت حاصل تھی، لیکن اس کے باوجود یہاں کے غیر مسلموں کی اقتصادی حالت اتنی مستحکم تھی کہ مسلمانوں کو ان دو اسلامی صوبوں میں بھی کوئی حقیقی اثر و رسوخ حاصل نہ تھا۔ لکھنؤ پیکٹ کی تسلیم شدہ شرائط کے ماتحت اور ۱۹۱۹ء کے آئین کی رو سے ان میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ اس کا مطلب یہ نکلا کہ مسلمان خواہ کسی صوبے میں اقلیت میںہوں یا اکثریت میں، اُن کو ہر جگہ اقلیت بن کر ہی رہنا پڑے گا۔ یہ صورت آگے چل کر بہت خطرناک ثابت ہوسکتی تھی۔ اقبال نے خطبۂ الٰہ آباد میں اس کا یہ حل پیش کیا کہ پنجاب سے اس کے غالب ہندو اکثریت والے اضلاع کو علیحدہ کرکے صوبے کی سرحدوں کو از سرنو متعین کیا جائے تاکہ پنجاب مسلم اکثریت کا صوبہ بن جائے۔ اس سے صوبے میں بسنے والی بڑی بڑی قوموں کی روزمرہ کش مکش دور ہوجائے گی اور مخلوط اور جداگانہ انتخاب کا مسئلہ بھی خود بخود ختم ہوجائے گا۔ مراد یہ تھی کہ بس تبدیلی سے مسلمانوں کو جداگانہ انتخاب ترک کردینے پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کرکے بلوچستان میں ضم کردیا جائے۔ مندرجہ بالا تجاویز اقبال نے اُس آئینی سکیم کے متعلق پیش کیں جن کی تیاری ۱۹۲۷ء میں سائمن کمیشن کے تقرر سے شروع ہوئی اور بہت دشوار مرحلوں سے گزر کر ۱۹۳۵ء میں مکمل ہوئی (جیسا کہ ان صفحات میں پہلے بیان کیا جاچکا ہے یہی آئین ۱۹۳۷ء میں نافذ ہوا اور اس کے ماتحت مسلمانوں کے پرانے خدشوں کے مطابق اکثریت کی مکمل بالادستی والی جمہوریت قائم ہوئی) لیکن یہ سب عارضی اور وقتی مباحث تھے اور اقبال نے ان کے عارضی اور وقتی جواب دیے۔ چنانچہ اس خطبے میں انھوں نے اس قسم کی باتیں بھی کہ۔َ۔ ڈالیں: (الف) اگر اسلامی صوبوں کا ایک بلاک ملک کے شمال مغربی خطے میں قائم ہوجائے تو مسلمان تمام بیرونی حملہ آوروں کے خلاف ہندوستان کے دفاع کا فرض انجام دیں گے، اس انتظام سے ہندوستان کی اندرونی حالت میں استحکام پیدا ہوگا۔ اور ہندوؤں کا یہ خدشہ دور ہوجائے گا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی ہمدردیاں اسلامی ممالک کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ملک کا ہر صوبہ اپنی فوج رکھنے کا مجاز ہوگا۔ کل ملک کے دفاع کے لیے تمام قوموں میں سے بھرتی کی ہوئی ایک مشترکہ فوج ہوگی جو اپنے فرائض ناطرف داری سے انجام دے گی۔ (ب) مجھے ہندو مسلم مسئلے کے حل کی طرف ابھی تک مایوسی نہیں ہوئی۔ (ج) ہندوستان پر مسلمان کے بہت سے حقوق ہیں اور ہم مسلمانوں کا مرنا جینا ہندوستان کے ساتھ ہی ہے۔ اس کے دو سال بعد یعنی ۱۹۳۲ء میں مسلم کانفرنس منعقدہ لاہور میں اقبال نے پھر اسی قسم کی تجویزوں، جذبات اور آرا کا اظہار کیا۔ اس بات کے باور کرنے کی معقول وجوہات ہیں کہ یہ سب کچھ سیاست کے وقتی تقاضوں کے دباؤ کے تحت کہا گیا ہوگا۔ کیونکہ ہندو اہل سیاست کے دل شکن رویے کو دیکھ کر وہ مدت سے ہندو مسلم اتحاد کو قطعی طور پر ناقابل عمل قرار دے چکے تھے۔ ۱۹۲۷ء میں پنجاب کونسل کے اجلاس منعقدہ شملہ میں انھوں نے اس موضوع پر جو تقریر کی تھی وہ تاویل و توجیہ کے دائرے سے خارج ہے۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ انھوں نے اسلامی اکثریت کے علاقوں میں مسلمانوں کی Self-Development پر جابجا زور دیا۔ اور اس کی تشریح اس طرح کی کہ مسلمانوں کو قانون شریعت اور اپنی روحانی اور ثقافتی اقدار کی روشنی میں زندگی بسر کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ ہندوؤں کی اکثریت والی آل انڈیا فیڈریشن کے اندر ہوتے ہوئے مسلمانوں کو ایسی آزادی میسر نہ آسکتی تھی کیونکہ ان حقوق کا مطالبہ ایک علیحدہ مملکت کے مطالبے سے زیادہ مختلف نہیں تھا۔ اگر اسی قسم کا کوئی بلاک وجود میں آجاتا تو ہندو اکثریت کے ساتھ کش مکش کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا۔ اقبال یقینا ہندو ذہنیت سے ناواقف نہ تھے۔ اس قوم کے ساتھ مفاہمت کے تمام دروازے دسمبر ۱۹۲۸ء کے بعد بند ہوچکے تھے۔ ہندوؤں سے کسی قسم کی فراخ دلی کی توقع رکھنا اور اس امید پر زندہ رہنا کہ میں ابھی ہندو مسلم مسئلے کے حل سے قطعی طور پر مایوس نہیں ہوا، ’’سیاسی دنیا داری‘‘ کی ذیل میں آتا ہے۔ اقبال کے عمر بھر کے مؤقف میں کسی شک و شبہ کی گنجایش نہیں۔ اس کا ذکر گذشتہ صفحات میں بار بار آچکا ہے۔ البتہ پانچ سطروں کے جس فقرے نے خطبہ الٰہ آباد کو تاریخی شہرت بخشی ہے وہ یوں تھا کہ مسلمان اکثریت کے صوبوں کو ملا کر شمال مغربی ہند میں ایک مستحکم اسلامی ریاست کا قیام مجھے کم از کم اس علاقے کے مسلمانوں کی تقدیر کا حتمی تقاضا نظر آتا ہے۔ اُس وقت برطانوی سلطنت میں زوال کے آثار تو پیدا ہوچکے تھے۔ لیکن انگریزوں کے یہاں سے رخصت ہونے کے لیے سازگار حالات پیدا نہیں ہوئے تھے۔ اس لیے شاید ایسی باتوں کو کھل کر کرنے کا موقع بھی نہیں آیا تھا۔ بہرحال عوامی ذہن نے اس فقرے کی یہی تشریح کی کہ اقبال برصغیر میں ایک علیحدہ اسلامی مملکت کے خواہاں ہیں اور خطبہ الٰہ آباد کا یہی مطلب لیا جاتا رہا ہے۔ ہندو اخباروں اور لیڈروں نے بھی اس کے یہی معنی اخذ کیے۔ بلکہ ایک انگریز نے تو یہاں تک کہ۔َ۔ دیا کہ اقبال برطانوی ہند کی سلطنت کا قلع قمع کرنا چاہتے ہیں۔ یہ فقرہ مطالبات کی فہرست میں شامل نہیں کیونکہ مطالبات تو اوپر بیان کردیے گئے ہیں۔ نہ ہی یہ برطانوی حکومت کی خدمت میں کسی قسم کی عرض داشت تھی۔ ان سب باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ بربناے بصیرت یہ آیندہ تاریخی عمل کے رجحان کا اندازہ تھا اور مسلمانوں کے لیے منزل مقصود کی نشان دہی۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال ہندوستان کے مسئلے کو ’’نیشنل‘‘ نہیں بلکہ ’’انٹرنیشنل‘‘ قرار دیتے تھے۔ اس خطبے میں علامہ اقبال نے دو اور باتوں کا ذکر کیا جو آج بھی ہماری توجہ کے لائق ہیں، اول یہ کہ قوم میں روز بروز یگانگت کا جذبہ کمزور ہورہا ہے، (اسی جذبے کو انگریزی زبان میں انھوں نے herd instinct بتایا تھا)۔ اس جذبے کا زوال کسی قوم کے لیے کوئی نیک فال نہیں، جذبہ باہم کی کمی سے انتشار پیدا ہوتا ہے، ایک انتشار زدہ معاشرہ وقت گزرنے سے اپنی بنیادی خصوصیات کھودیتا ہے اور بالاخر اپنی جداگانہ ہستی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ علامہ اقبال کے کلام میں جابجا اس نکتے کی تشریح ملتی ہے، ملت کو قائم رکھنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے وحدتِ افکار، وحدتِ افکار کو حاصل کرنے کے لیے قوم میں نظم و ضبط نیز قومی تقاضوں کو پورا کرنے والی تعلیم کی ضرورت ہے۔ مغربی تعلیم کو قبول کرنے کے بعد اسلامی ہند میں جس تیزی سے الحاد کے اثرات سرایت کرگئے اقبال نے ان کے خلاف جابجا احتجاج کیا ہے۔ انھوں نے اس سلسلے میں یہ بھی کہا کہ الحاد پرور جدید تعلیم مسلم قومیت کے جذبے کے لیے ضرب کاری کا حکم رکھتی ہے۔ ’’موجودہ نسل جو مغربی سیاسی تصورات کی دل دادہ ہے اور ان کو عملی جامہ پہنانا چاہتی ہے، اس بات سے بے خبر ہے کہ یہ تصورات مغربی دنیا میں کن حالات کے ماتحت ابھرے اور ان سے خود مغربی دنیا نے کتنا نقصان اُٹھایا‘‘۔ اقبال کے کہنے کے مطابق دوسری خرابی جو ہمارے ہاں راہ پاگئی ہے وہ ان گہرا تاریخی شعور رکھنے والے لیڈروں کا فقدان ہے جو قوم کے مستقبل پر محکم یقین رکھتے ہوں۔ اس مزمن مرض کا کوئی علاج نہیں۔ اعلیٰ پائے کے لیڈر فطرت کے کارخانے میں تیار ہوتے ہیں۔ وہ انسانی کوششوں سے نہیں بنتے، قدرت جس قوم کو بچانا چاہتی ہے اس کا اعلیٰ انسانی صفات رکھنے والے لیڈر (جو زندگی کے جذبے کو جرات اور تقویت بہم پہنچاتے ہیں) بخش دیتی ہے۔ بہرحال لیڈر اچھے ہوں یا برے، ان کے بغیر کوئی نظام نہیں چل سکتا، کھرے سکے نہ ہوں تو کھوٹے سکوں سے ہی کام چلانا پڑتا ہے۔ روبہ انحطاط قوموں کو ان لیڈروں سے پالا پڑتا ہے جو اپنی ذاتی اغراض کے حصول کے لیے وسیع تر قومی مفاد کو قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار بیٹھے رہتے ہیں، وہ قومی زندگی کے کسی شعبے میں کسی اضافے اور ترقی یا نمایاں کار کردگی کا سبب نہیں بن سکتے لیکن اس کے باوجود وہ قوم کے متعلق اپنے ناقص علم، غلط آرا اور اپنی ذاتی اغراض کی بنیاد پر دوررَس فیصلے کرتے ہیں۔ اس عظیم نقصان کی تلافی کسی طرح نہیں ہوسکتی۔ یہ دونوں باتیں جن کا ذکر خطبہ الٰہ آباد میں آیا ہے ہماری قوم میں آج تک بھی موجود ہیں۔ صرف وقت گزرنے سے ان کی اہمیت کا احساس کم ہوگیا ہے۔ غرض یہ کہ اقبال کے خطبے میں بعض عناصر تو ایسے ہیں جن کی اہمیت بظاہر صرف وقتی تھی، لیکن ان سے بھی تاریخی سلسلے کی بعض کڑیاں محفوظ ہوگئی ہیں۔ ابتدائی اور آخری پیراگراف ان خیالات پر مشتمل ہیں جو قوموں کے عروج و زوال کے قوانین کی تشریح کرتے ہیں۔ قادیانی مسئلہ مسلمانوں کا باہمی اتحاد، اقبال کی نظر میں قوم کی سب سے اہم ضرورت تھی۔ جو ادارے اور عقائد اس اتحاد میں رخنہ ڈالتے ہیں، اقبال ان سے بخوبی آگاہ تھے اور دوسروں کو بھی خبردار کرتے رہتے تھے۔ انھوں نے دلائل سے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اگرچہ مسلمانوں کی باہمی فرقہ آرائیاں قوم کے لیے کوئی نیک فال نہیں لیکن ان کے اثرات اتنے مضر نہیں جیسا کہ اکثر بیان کیے جاتے ہیں۔ تمام اختلافات کے باوجود مسلمانوں میں ایک بنیادی وحدت موجود ہے جو مشکل سے مشکل وقتوں میں بھی قوم کو پارہ پارہ ہونے سے بچاتی ہے۔ وحدت کے اس تصور کا سرچشمہ ختم نبوت کا عقیدہ ہے۔ قادیانی اس عقیدے سے لفظاً تو نہیں لیکن عملی طور پر منکر ہیں، اگرچہ ۱۹۱۲ء میں اقبال نے قادیانی جماعت کو ’’ٹھیٹھ اسلام کا نمونہ‘‘ قرار دیا تھا لیکن ۱۹۱۴ء میں اس جماعت کے اندر پھوٹ پڑ گئی اور یہ جماعت دو گروہوں میں بٹ گئی جماعت کے اصل عقائد کے متعلق بہت سے حقائق تو اُن دنوں منظر عام پر آئے۔ بعد کے واقعات نے بھی اقبال پر ثابت کردیا کہ ان میں کسی ایک گروہ کو بھی مسلمان سمجھنا غلطی ہے۔ اس مسئلے پر اخباری بحثوں کے دوران اقبال نے جو بیان دیے ان کا خلاصہ یوں ہے۔ قادیانی مسئلہ مسلمانوں کی قومی اور اجتماعی زندگی کے لیے بہت اہم ہے۔ یہ مسئلہ سراسر مذہبی نہیں بلکہ اس کے ڈانڈے سیاست کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ اسلامی معاشرے کی بنیاد مذہب پر قائم ہے، مسلمانوں نے اپنی طویل تاریخ میں رنگ اور نسل کے تفرقوں کو کبھی کوئی اہمیت نہیں دی۔ اُمت کی یک جہتی ختم نبوت کے عقیدے پر استوار ہے۔ یہ عقیدہ بنی نوع انسان کی ثقافتی تاریخ میں عدیم النظیر ہے۔ یہی مسلم قوم کو ایک مستقل حیثیت بخشتا ہے۔ یوں تو سارے انبیا اسلام ہی کے داعی تھے، لیکن ختم المرسلین پر آکر یہ دعوت ختم ہوئی اور اس کے ساتھ ہی مذہب کی تکمیل ہوئی۔ جو قومیں ہمیشہ ایک آنے والے راہنما کی منتظر رہتی ہوں، وہ زود یا بدیر انتشار کی قوتوں سے مغلوب ہوجاتی ہیں اور اپنا وجود کھو بیٹھی ہیں۔ اسلام کے دو بنیادی ستون اللہ کی وحدانیت اور ختم نبوت کا عقیدہ ہیں۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ ’’ختم‘‘ ہی ایک کسوٹی ہے جو مسلمانوں کو نا مسلمانوں سے جدا کرتی ہے۔ اس سے دنیاے اسلام میں وحدتِ افکار پیدا ہوتی ہے، ایک یکساں روحانی ماحول قائم رہتا ہے اور مختلف اسلامی معاشرے ایک جیسے سانچے میں ڈھلتے چلے جاتے ہیں۔ مغربی تعلیم یافتہ مسلمان نوجوانوں نے کبھی اس عقیدے کے مضمرات پر غور نہیں کیا۔ موجودہ ماحول میں یہ ان کے فہم میں نہیں آسکتا۔ مغربی تعلیم کی عطا کی ہوئی ’’روشن خیالی‘‘ نے ان کے اندر قومی یک جہتی کے تحفظ کی ضرورت کا احساس کچل کر رکھ دیا ہے۔ مسلمان اس بات پر پختہ ایمان رکھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کے بعد کوئی ایسا صاحب الہام نہیں آسکتا جس کے انکار سے کفر لازم آتا ہو۔ ایسے الہام کا دعوے دار یقینا اسلام کا غدار ہے۔ قادیانی فرقہ مسلمانوں کی کوکھ سے پیدا ہوا۔ وہ بظاہر اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے اور اسلامی ظواہر کا پابند ہے۔ لیکن یہ گروہ ایک نئی نبوت پر ایمان رکھتا ہے۔ اپنے سوا باقی تمام مسلمانوں کو کافر گردانتا ہے اور اپنے مجلسی اعمال و افعال میں مسلمانوں سے علیحدہ ہوچکا ہے۔ اس طرح یہ فرقہ اسلام کے مقاصد اور اس کی روح سے باغی ہے۔ انگریزی حکومت اپنی رعایا سے صرف وفاداری کی طلب گار ہے، مذہبی معاملات میں وہ عدم مداخلت کی پالیسی پر کاربند ہے۔ حکومت کا یہ مسلک صرف مسلمانوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس سے ہر طالع آزما کو یہ موقع میسر آگیا ہے کہ وہ الہام کا سہارا لیتے ہوئے اپنی قوم میں نفاق کے بیج بوئے اور دشمنی کے پودے کو پروان چڑھائے۔ وہ انگریز حکمران جو ہمیں قادیانیوں کے ساتھ رواداری برتنے کا درس دیتے ہیں، ایک مختلف ثقافت کی پیداوار ہیں اور اسلام کے منشا سے نابلد ہیں۔ جس قوم کی جڑیں ایسے شاطرانہ طریقے پر کاٹی جارہی ہوں، اس کو رواداری کا سبق پڑھانا ایک سنگین مذاق ہے، ان حالات میں رواداری ذہنی افلاس نہیں بلکہ عقلی دیوالیہ پن ہے اور قومی غیرت کی نفی۔ مسلمانوں میں قادیانیوں کے خلاف جو غیظ و غضب پایا جاتا ہے، اس کی وجوہات سے عمرانیات کے طالب علم بخوبی واقف ہیں۔ انگریزی حکومت کے ’’ناطرف داری‘‘ کے رویے سے عام لوگوں کی نظر میں مذہب کی وقعت بہت حد تک کم ہوچکی ہے، قادیانیت کے بانی کی شخصیت کی تہ۔َ۔ تک پہنچنے کے لیے اس کے الہاموں کا نفسیاتی تجزیہ نہایت ضروری ہے۔ اس کی وحی نے برصغیر میں برطانیہ کی سیاسی برتری کے لیے الہامی جواز مہیا کیا۔ قادیانیوں کے مخصوص عقائد مسلمانوں کی یک جہتی کے منافی ہیں۔ یہ فرقہ عملی طور پر مسلمانوں سے علیحدہ ہوتے ہوئے بھی علیحدگی کا مطالبہ نہیں کرتا کیونکہ مسلمان کہلانے سے ان کو بہت سی ایسی مراعات حاصل ہیں جو چھپن ہزار کی مختصر اقلیت کو کسی صورت میں بھی میسر نہیں آسکتیں۔ برطانوی حکومت کا فرض ہے کہ وہ خود اس معاملے میں پہل کرے اور قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے۔ اقبال کے ان بیانوں سے بہت سے مذہبی اور غیر مذہبی حلقوں میں ہل چل مچ گئی، جواہر لال نہرو نے قادیانیوں کی ساتھ اظہار ہمدردی کیا۔ آزادی ضمیر اور روشن خیالی کے نام پر اقبال کے مطالبے کی مخالفت کی۔ جواہر لال نہرو چاہتے تھے کہ برصغیر کی تمام ثقافتوں کو ایک ملک گیر ہندو (بلکہ ہندووانہ) ثقافت میں جذب کردیا جائے۔ اقبال جو خود اسلامی ثقافت کی مستقل حیثیت کے سب سے بڑے مبلغ تھے، نہرو کے طرزِ فکر سے متفق نہ ہو سکتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے لگی لپٹی کے بغیر کہ۔َ۔ دیا کہ ہندو ہر اس تحریک کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جس کی زد اسلامی اتحاد پر پڑتی ہو۔ اقبال کی تحریروں سے قادیانی مسئلے کے بہت سے پہلو مسلمان عوام کے سامنے آگئے۔ لیکن معاملہ دیر تک حل نہ ہوسکا۔ پاکستان بننے کے بعد وقتاً فوقتاً عوامی تحریکوں کے اٹھنے سے یہ معاملہ حکومت کی توجہ کا مرکز بنتا رہا۔ بالآخر ۱۹۷۴ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے اس مسئلے کو انھی خطوط پر حل کیا جن کا تقاضا اقبال نے کیا تھا، چنانچہ اب حکومت کے بعض اہم مسلمان عہدے داروں کو اپنا عہدہ سنبھالنے سے پہلے حلفیہ اس بات کا اقرار کرنا ہوتا ہے کہ وہ ختم نبوت کے عقیدے کے پابند ہیں۔ اقبال اور پنجاب لیجسلیٹو کونسل اقبال ۱۹۲۶ء تک رسمی طور پر کسی سیاسی جماعت کے ساتھ وابستہ نہیں تھے۔ ان کا دائرہ کار دوسرا تھا۔ لیکن ۱۹۲۲ء کے بعد ملکی حالات کی یہ صورت ہوگئی تھی کہ ان کو اپنا دائرہ عمل وسیع کرنا پڑا۔ قومی مشکلات نے ان کو عملی سیاست میں آنے پر مجبور کردیا کہ شاید وہ اسی طرح ملت کے لیے زیادہ مفید ثابت ہوسکیں۔ نمایندگی کے فریضے کی تشریح کرتے ہوئے انھوں نے اپنے انتخابی حلقے میں تقریر کرتے ہوئے کہا: ’’میں کبھی اپنے مفاد کو قوم کے مصالح کے مقابلے میں ترجیح نہیں دوں گا۔ میں اغراضِ ملّی کے مقابلے میں ذاتی خواہشوں پر مر مٹنے کو موت سے بدتر خیال کرتا ہوں‘‘۔ انھی دنوں انھوں نے اس بات پر بھی بہت زور دیا کہ مسلمان برطانوی حکمرانوں کی قائم کی ہوئی دیہاتی اور غیر دیہاتی تفریق سے کنارہ کش ہو کر متحدہ طور پر اسلام اور وطن کی خدمت کریں۔ بعد میں انھوں نے اس رائے کا اظہار بھی کیا تھا کہ اس تفریق کی وجہ سے مسلمانوں میں بے غرض لیڈر پیدا نہیں ہوتے۔ ۱۹۲۶ء کے آخر میں اقبال پنجاب کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔ ان دنوں کونسل کی معیاد تین سال ہوا کرتی تھی۔ چنانچہ ان کی رکنیت ۱۹۳۰ء میں ختم ہوگئی۔ کونسل کے اجلاس میں تو وہ اکثر شریک ہوا کرتے تھے لیکن وہ اسی مجلس کے ایک خاموش رکن تھے۔ ہر موقع پر مباحثہ میں حصہ لینے سے گریز کرتے تھے۔ چنانچہ ان کی تقریروں اور تحریروں کے مجموعے (مرتبہ ایس-اے-واحد معینی) میں ان کی آٹھ تقریروں کا متن دیا ہوا ہے۔ یہ تقریریں جو بہت طویل نہیں، زیادہ تر سالانہ بجٹ کے موقع پر کی گئی تھیں۔ مفاد عامہ کے ضمن میں وہ تعلیم پر بہت زیادہ زور دیا کرتے تھے۔ دس مارچ ۱۹۲۷ء کو انھوں نے حکومت کی تعلیمی پالیسی پر ایک ناقدانہ نظر ڈالی اور فرمایا کہ بدیشی حکومت ملک میں تعلیم پھیلانے کے متعلق کبھی گرم جوشی کا اظہار نہیں کرے گی، ہماری آیندہ ترقی کا دارومدار صرف تعلیم پر ہے مگر تعلیم کی مد میں جو کچھ خرچ کیا جارہا ہے سب رائیگاں ثابت ہوگا۔ ویسے بھی محکمہ تعلیم کی کارگزاریوں کے متعلق ہماری معلومات ناقص ہیں۔ جہاں جہاں لازمی پرائمری تعلیم کو نافذ کیا گیا ہے، وہاں اس کی حیثیت کاغذی کارروائی سے زیادہ نہیں۔ پرائمری سکولوں میں داخل ہونے والے بہت سے طلبا جلد ہی پڑھائی چھوڑ جاتے ہیں اور اُوپر کے درجوںمیں نہیں پہنچتے۔ ۱۹۳۰ء کے بجٹ سیشن میں انھوں نے اعداد و شمار کے مطالعہ سے اس بات کا انکشاف کیا کہ صوبائی حکومت کی طرف سے پرائیویٹ سکولوں کو جو مجموعی گرانٹ دی جاتی ہے، اس کا صرف پانچواں حصہ اسلامیہ سکولوں کے حصہ میں آتا ہے، جس کا صاف مطلب یہ تھا کہ اکثریت کا صوبہ ہونے کے باوجود مسلمانوں کی تعلیم سے برطانوی حکومت کے کارندوں نے دانستہ طور پر بے رخی اختیار کررکھی تھی۔ دیہاتی علاقوں میں حفظان صحت اور عورتوں کے لیے علاج معالجے کی سہولتوں کی بہم رسانی پر اُنھوں نے ۱۹۲۷ء کی تقریر میں زور دیا۔ کاشت کاروں کی زبوں حالی پر وہ اکثر گفتگو کیا کرتے تھے۔ یہ بات لوگوں کے دلوں میں بٹھا دی گئی تھی کہ ملک کی تمام زمین حکومت کی ملکیت ہے اور زرعی مال گزاری کا سارا نظام اسی مفروضے پر اٹھایا گیا تھا۔ اقبال نے تاریخی حوالوں سے اس بات کو ثابت کیا کہ زمین نہ تو مغلوں کے وقت حکومت کی ملکیت تصور کی جاتی تھی اور نہ اس کے بعد، اقبال کا مؤقف یہ تھا کہ چھوٹے زرعی مالکوں سے لگان وصول کرنے کا طریقہ نامنصفانہ ہے اور اسے ترک کردینا چاہیے، چھوٹا کاشت۔کار جو کچھ اپنی زمین سے بہ۔مشقت پیدا کرتا ہے وہ عام طور پر اس کے خاندان کی ضروریات کے لیے بھی کافی نہیں ہوتا۔ حکومت کے نمایندے اس نظام کی فرسودگی کو تسلیم کرتے ہوئے بھی اس کو قائم رکھنے کے حق میں تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس کو تبدیل کرنے سے بہت سی دقتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اقبال کو اس دلیل سے شدید اختلاف تھا کیوںکہ کسی نامنصفانہ نظام کے لیے یہ جواز لانا کہ اس کے خاتمے سے بہت سے مسائل پیدا ہوں گے محض تدبر کا فقدان ہے۔ اقبال نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ بڑی زرعی ملکیتوں کے مالکوں کی وفات پر ان کے وارثوں سے Death duty وصول کی جائے۔ دراصل یہ انگریزی اصطلاح غلط ہے، کیونکہ یہ ٹیکس مردوں سے نہیں، زندوں سے وصول کیا جائے گا۔ انگریزوں کے قائم کیے ہوئے مال گزاری کے نظام میں ایک خرابی یہ بھی تھی کہ چھوٹی چھوٹی اراضیوں کے مالکوں اور بڑے بڑے زمین۔داروں کو یکساں شرح پر لگان ادا کرنا پڑتا تھا۔ اس سے خود کاشت کرنے والے نسبتاً غریب مالکوں پر تو بہت بوجھ پڑتا تھا۔ لیکن صاحب حیثیت ’’دیہہ خدا‘‘ بہت آسانی سے چھوٹ جاتے تھے۔ اقبال اس طریق کار کو ناواجب سمجھتے تھے۔ انھوں نے یہ سفارش کی کہ جس طرح بڑھتی ہوئی غیر زرعی آمدنیوں پر انکم ٹیکس کی شرح مسلسل بڑھتی جاتی ہے۔ اُس نسبت سے بڑی بڑی زمیںداروں کے لگان کی شرح میں بھی اضافہ ہونا چاہیے۔ وہ اس بات پر بھی متواتر زور دیتے رہے کہ ملک کے محدود مالی ذرائع کے پیشِ نظر انتظامیہ کے بڑھتے ہوئے اخراجات میں تخفیف کرنا چاہیے، اُس زمانے میں موجودہ پیمانے پر ترقیاتی منصوبوں کا آغاز نہیں ہوا تھا، تاہم ’’ڈولپمنٹ‘‘کا لفظ اکثر مستعمل تھا۔ اقبال مختلف بجٹوں کے اعداد و شمار کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ ترقیاتی منصوبوں سے گراںقدر رقموں کا زیاں ہورہا ہے اور ان سے آبادی کے کسی طبقے کو کوئی مثبت فائدہ نہیں ہوتا۔ ۱۹۲۹ء کے بجٹ میں اُنھوں نے آب۔کاری کی مد میں بڑھی ہوئی آمدنی کے خلاف یوں احتجاج کیا کہ شراب کی کھپت بڑھنے کا کریڈٹ نہ حکومت کو ملتا ہے نہ لوگوں کو دیا جاسکتا ہے۔ ۱۹۲۸ء کے بجٹ سیشن میں تقریر کرتے ہوئے اُنھوں نے یونانی اور آیور ویدک علاج کے طریقوں کی حمایت کی۔ اُنھوں نے بتایا کہ عوام کا تاثر یہی ہے کہ حکومت مغربی طب کی سرپرستی صرف اسی لیے کرتی ہے کہ اس سے برطانوی دوا ساز کمپنیوں کے مفاد وابستہ ہیں، لیکن مہنگا ہونے کے علاوہ مغربی طریقہ علاج ہمارے لوگوں کے مزاج کے مطابق بھی نہیں۔ اس میدان میں مسلمان طبیبوں کی حکمت گم گشتہ بہت سی کتابوں کی صورت میں یورپ کی بہت سی لائبریریوں میں بکھری پڑی ہے۔ اگر ان کو شائع کیا جائے تو یورپ کے حاذق طبیب آج بھی ان سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اقبال کو مسلمانوں کی اقتصادی بہبود سے بہت دلچسپی تھی اور وہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی زبوں حالی سے بہت پریشان تھے۔ ان کا خیال تھا کہ پنجاب کی آبادی صرف دو طبقوں پر مشتمل ہے، ایک مقروض یعنی مسلمان اور دوسرے قرض خواہ یعنی ہندو۔ مسلمانوں کی صنعت و حرفت سے بے رغبتی کا شکوہ اُنھوں نے ۱۹۲۹ء کے بجٹ کی بحث کے دوران کیا، ان کا خیال تھا کہ کپڑا بننے اور چمڑے کے کام کی صنعتیں خاص طور پر مسلمانوں کے لیے موزوں ہیں، ان دنوں حکومت اپنی ضرورت کی بہت سی چیزیں برطانیہ سے خریدا کرتی تھی۔ جب کہ یہی چیزیں دوسرے یورپی ملکوں سے سستے داموں دستیاب ہوسکتی تھیں۔ علامہ نے اس بات سے بھی اختلاف کیا اور کہا کہ تجارت کے بنیادی اصولوں کے مطابق بدیشی چیزیں صرف انھی منڈیوں سے خریدی جائیں جہاں وہ ارزاں مل سکتی ہوں۔ ۱۹۲۷ء کا سال برصغیر کی سیاست کے بدترین سالوں میں سے تھا۔ فرقہ وارانہ فسادات زوروں پر تھے۔ ملک کا امن و امان تباہ ہوچکا تھا۔ ہر بڑے شہر میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہندو اور مسلمان ایک دوسرے سے الجھ پڑتے اور دیکھتے دیکھتے فساد کے شعلے بلند ہوجاتے تھے، اسی سال جون کے مہینے میں لاہور میں ایک ہولناک اور خونریز فساد ہوا۔ موسم گرما کے کونسل کے اجلاس میں انھوں نے اس موضوع پر دو تقریریں کیں، پہلی اٹھارہ جولائی کو اور دوسری اس سے اگلے دن۔ پہلی تقریر میں انھوں نے فرمایا کہ فرقہ وارانہ فسادات کے جو مختلف اسباب بیان کیے جاتے ہیں ان سب کے مضمرات میں مشترک بات یہ ہے کہ ہندوؤں نے معاشرے کے جن شعبوں پر قبضہ کر رکھا ہے وہ ان کو اپنے ہاتھ سے نکلنے نہیں دیں گے بلکہ وہاں بدستور اپنی اجارہ داری قائم رکھیں گے۔ روز مرہ منعقد ہونے والی اتحاد کانفرنسوں اور کمیٹیوں کے طریق کار سے بھی وہ مطمئن نہیں تھے۔ انھوں نے کہا کہ ان میں باتیں تو بہت ہوتی ہیں لیکن عمل کم ہوتا ہے۔ خانہ جنگی کا ماحول دیر تک قائم رہے تو اس کا نتیجہ ملک کے حق میں اچھا نہ ہوگا۔ نااتفاقی کا زہر معاشرے کے رگ و پے میں سرایت کرجائے گا۔ اس سے اگلے دن ایک سکھ رکن سردار اجل سنگھ نے کونسل میں ایک قرار داد پیش کی جس کا ماحصل یہ تھا کہ صوبے کی تمام سرکاری ملازمتوں کی بھرتی کے لیے مقابلے کے امتحانوں کا طریقہ رائج کیا جائے، کہنے کو تو یہ قرار داد بے ضرر نظر آتی تھی۔ لیکن اس پر عمل درآمد کیا جاتا تو مسلمانوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑتا۔ اقبال نے اس قرار داد کی مخالفت میں کسی قدر طویل گفتگو کی اور بتایا کہ اگر بھرتی کا یہ طریقہ دوسرے ملکوں میں اچھے نتائج پیدا کرتا ہے تو ضروری نہیں کہ یہ یہاں بھی اتنا ہی کامیاب رہے، ہمارے حالات یک سر مختلف ہیں، یہاں کے ممتحن غیر جانب۔داری سے اپنے فرائض انجام دینے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ ہر ممتحن اپنی قوم کے امیدواروں سے ترجیحی سلوک کرے گا۔ چنانچہ بہت سے امیدوار اپنے پرچوں پر ایسے نشان بنا دیتے ہیں جن سے ان کی قومیت کا پتہ چل جاتا ہے، چنانچہ اس صورت کا سدِباب کرنے کے لیے پنجاب یونی ورسٹی کا صیغۂ امتحانات امیدواروں کے اصل رول نمبر کی بجائے ان کے پرچوں پر فرضی رول نمبر لگا دیتا ہے، آپ کو یاد ہوگا کہ سرسید نے بھی اپنے وقت میں مقابلے کے امتحانوں پر نکتہ چینی کی تھی۔ ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ حکومت کے انتظامیہ شعبے کے لیے موزوں کارکنوں کا انتخاب امتحان کے ذریعے نہیں بلکہ کسی اور طریقے پر کرنا چاہیے۔ یہ نکتہ تب سے مسلمانوں کی سیاست میں داخل ہوا تھا اور بحیثیت مجموعی مسلمان لیڈروں نے کبھی امتحانی طریقے کے متعلق کسی قسم کی گرم جوشی کا اظہار نہیں کیا تھا۔ فرقہ وارانہ فسادات کے دوران دونوں طرف جذبات میں طغیانی پیدا ہوجاتی تھی۔ دونوں قوموں کے نمایندے پریس اور پبلک جلسوں میں ایک دوسرے پر شدت سے معاندانہ نکتہ چینی کرتے تھے۔ بات یہیں پر بس نہ ہوتی، بلکہ دونوں طرف سے کوشش یہ کی جاتی تھی کہ فسادات میں ملوث ہونے والے مسلمان ملزموں کے مقدموں کی تفتیش ہندو افسروں کے سپرد نہ ہو اور ہندو ملزموں کو قانون کی گرفت میں لینے کے لیے مسلمان پولیس کی مدد نہ لی جائے۔ مطالبہ یہ ہوا کرتا تھا کہ اس قسم کے تفتیشی انتظامات انگریز پولیس افسروں کے ذمے لگائے جائیں۔ اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر لاہور کے پاس دونوں قوموں کے وفد علیحدہ علیحدہ گئے۔ ایک وفد میں اقبال بھی شامل تھے۔ اقبال نے اپنی تقریر میں اس صورت حال کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس ذہنیت کی موجودگی میں متحدہ قومیت کا راگ الاپنا بے معنی ہے، متحدہ قومیت اس مرغی کی طرح ہے جو کڑ کڑ تو بہت کرتی ہے لیکن ایک انڈہ بھی نہیں دیتی، اصل معاملہ اس سے بدتر ہے۔ خود ہندوؤں کے اندر اس قسم کے شدید اختلافات ہیں کہ اونچی ذاتیں نیچی ذاتوں سے غیر انسانی سلوک کرنے کی خوگر ہوچکی ہیں۔ جنوبی ہند میں کوئی برہمن کسی شودر سے براہ راست گفتگو کرنے کا روا دار نہیں، دونوں اگر ایک دوسرے سے بات کرنا چاہیں تو کسی درخت یا دیوار کو درمیان رکھیں گے اور مخاطب دوسرے فریق کو نہیں بلکہ درخت یا دیوار کو کریں گے۔ اس ملک میں ایک قوم دوسری کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ باہمی اعتماد کی فضا قائم کی جائے۔ اس کے بغیر ہم ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔ انھوں نے واضح الفاظ میں اس بات سے بھی انکار کیا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایک قوم بننا بھی ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہندو اپنی زبان سے تو قوم پرستی کے دعوے کرتے ہیں لیکن عملاً وہ مسلمانوں کے مفاد سے دشمنی برتتے ہیں اور ان کے ’’قوم‘‘ کے تصور میں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اقبال اور قائد اعظم اس بحث میں وقتاً فوقتاً ۱۹۳۵ء کے ایکٹ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس قانون پر شاہی تصدیق کی مہر ۲ اگست ۱۹۳۵ء کو ثبت ہوئی اور اسے ۱۹۳۷ء کے ابتدا میں نافذ کردیا گیا، بہت سے مسلمان لیڈر اور سیاسی جماعتیں تو اس سے مطمئن نظر آتی تھیں، لیکن اقبال اور قائداعظم کو شروع ہی سے اس کے متعلق بہت بدگمانی تھی جس کا ذکر سطور بالا میں کیا جاچکا ہے۔ جب اس ایکٹ کے ماتحت ہندو اکثریت کے صوبوں میں کانگریسی وزارتوں نے اقتدار کی مسند کو سنبھالا تو انھوں نے اپنی نئی حاصل کی ہوئی سیاسی قوت کا پہلا بھرپور وار مسلم اقلیت اور اس کی ثقافت پر کیا، تفصیل کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ داستان بہت دفعہ دہرائی گئی ہے۔ بندے ماترم کو ’’قومی‘‘ ترانہ قرار دینا، اردو کشی کی مہم، ودیا مندر تعلیمی سکیم، ہندوؤں کے غنڈہ عناصر کو مسلمانوں کی عزت و آبرو پامال کرنے کی کھلی چھٹی ملنا، مسلمانوں کے مذہبی فرائض کی بجاآوری پر غیر معقول پابندیاں عاید کرنا، سرکردہ مسلمانوں کے ساتھ تیسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کرنا، سرکاری دفتروں میں مسلمان عمال کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنا، کانگریسی ہندوؤں کی دانست میں اس سارے پروگرام سے جمہوریت کے تقاضے پورے ہوتے تھے۔ جو لوگ واقعی جمہوری طریقوں پر ایمان رکھتے ہیں وہ رواداری اور افہام و تفہیم کے اصولوں پر چلتے ہیں۔ جو آزادیِ عمل خود طلب کرتے ہیں اُس سے دوسروں کو محروم نہیں کرتے۔ ہندو دل و دماغ جمہوریت کے اس تصور سے ناآشنا تھا۔ اس قوم کے بہترین دانش وروں کے نزدیک جمہوریت صرف اکثریت اوراقلیت کی عددی قوتوں کے حساب کتاب کا دوسرا نام ہے۔ اگرچہ وہ اپنی زبان سے تو اس بات کا اقرار نہیں کرتے لیکن اس موضوع پر اُن کے تمام دلائل اسی مفروضے پر مبنی ہوتے ہیں۔ کانگرسی حکومتوں کی وحشت و بربریت کے خلاف قومی جذبہ ایک دفعہ پھر بیدار ہوا اور محمد علی جناح کی قیادت میں مسلمانوں کا ایک متحدہ محاذ بنا جس نے اکتوبر ۱۹۳۷ء میں لکھنؤ میں منعقد ہونے والے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں ایک واضح شکل اختیار کی۔ (انگریزوں کے نزدیک مسلمانوں کا احتجاجی رویہ ’’بلا جواز‘‘ تھا اور گاندھی جائز انسانی حقوق کے مطالبے کو ’’اعلان جنگ‘‘ کا نام دیتا تھا)، لیکن کانگرسی حکومتوں کے ابتدائی تیوروں سے ہی اقبال اور جناح دونوں نے اندازہ لگالیا تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے فیصلہ کن اقدام کا وقت آن پہنچا ہے۔ اس موقع پر اقبال نے قائد اعظم کو جو خطوط لکھے ان کی تاریخی اہمیت کسی لمبی چوڑی وضاحت کی محتاج نہیں، قائداعظم نے لکھا ہے کہ میرے اور اقبال کے افکار و خیالات میں ایک گونہ مماثلت تھی، میں نے سیاست کے طویل تجربے اور برصغیر کے آئینی مسئلے کی محتاط جانچ پڑتال کے بعد انھی نتائج پر پہنچا جو اقبال نے اخذ کیے تھے اور جن کو بعد میں قرار داد لاہور کی شکل ملی، لیکن یہاں پر یہ بتا دینا ضروری ہے کہ اقبال اور قائد پہنچے تو ایک ہی منزل پر لیکن دونوں کے راستے جدا جدا تھے، اقبال بنیادی طور پر ایک فلسفی تھے، مسلمان قوم کی عظمت کا تاریخی شعور ان کے رگ و پے میں شروع ہی سے رچا بسا تھا۔ ان کی دوربین نگاہوں نے مستقبل اور اس کے ممکنات کا درست طور پر اندازہ کرلیا تھا۔ ان کا طرزِ استدلال قائد کے طرزِ استدلال سے بالکل مختلف تھا۔ قائدبیک وقت ایک سیاست دان، مقنن اور ماہر آئین تھے۔ اُنھوں نے سیاسی میدان کو برسوں ناپا تھا، انگریز اور ہندو اہل سیاست کے ساتھ کام کیا تھا۔ سیاسی تجربے کی وسعت اور گہرائی میں برصغیر کا کوئی ہم عصر سیاست دان ان کا مقابلہ نہ کرسکتا تھا۔ اُنھوں نے تقسیم ملک کی ضرورت کو دل دوز تجربے کے بعد محسوس کیا تھا۔ اقبال کا مزاج مختلف تھا۔ وہ ساری عمر عملی سیاست سے دور دور رہے۔ اور جب اس میں داخل ہوئے تو اُنھوں نے سیاسی داؤ پیچ کے معاملے میں کوئی ایسے نقوش نہ چھوڑے جو اس سلسلے میں ان کی یاد کو تازہ رکھتے۔ وہ فلسفیانہ پیش بینی سے ہی اس منزل پر پہنچے تھے جس کو قائداعظم نے کچھ دیر کے بعد اپنے تجربے سے حاصل کیا۔ گفتگو کو جاری رکھنے سے پہلے پنجاب کے حالات پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔ اقبال ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ مسلمان اپنی قومی ہستی کو قائم رکھنے کے لیے جو جنگیں لڑیں گے، ان میں پنجاب کو بہت اہمیت حاصل ہوگی۔ قائداعظم نے اس نکتے کو بہت اچھی طرح ذہن نشین کرلیا تھا۔ اس صوبے میں ہندو مسلم سکھ مسئلے نے لاینجل صورت اختیار کرلی تھی۔ فضل حسین یہاں کی سب سے اہم سیاسی شخصیت تھے لیکن ان کی سیاست مسلمانوں کے مستقبل کی حفاظت کی اہلیت نہیں رکھتی تھی۔ اقبال اور فضل حسین دونوں پرانے ہم جماعت اور دوست تھے۔ موخر الذکر پنجاب میں ایک خاص قسم کی سیاست کے بانی تھے۔ ایک طرف تو وہ متحدہ ہندوستانی قومیت پرایمان رکھتے تھے اور دوسری طرف جداگانہ انتخاب کے شدت سے حامی تھے، حالانکہ جداگانہ انتخاب کا مطالبہ علیحدہ مسلم قومیت کی بنیاد پر ہی کیا جاتا تھا۔ وائسراے کی انتظامیہ کونسل کی رکنیت کے دوران (۳۵-۱۹۳۰ئ) فضل حسین ایک حد تک مسلمانوں کے بعض حقوق کی حفاظت کامیابی سے کرتے رہے۔ اس لیے اقبال کو ان سے طبعاً ہمدردی تھی، بعض دفعہ وہ اقبال کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ اس وقت یعنی ۱۹۳۶ء میں فضل حسین اپنی اتحاد پارٹی (جس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں شامل تھے) کی تنظیم نو کررہے تھے۔ اُنھوں نے اقبال کو بھی ساتھ ملانا چاہا ہوگا، لیکن اس وقت تک اقبال نے اپنی بصیرت سے اندازہ لگالیا تھا کہ آیندہ برصغیر کی مسلم سیاست میں فیصلہ کن کردار فضل حسین نہیں بلکہ جناح ادا کریں گے۔ چنانچہ اقبال اور فضل حسین کی دیرینہ مفاہمت ختم ہوگئی اور اقبال پنجاب میں اتحاد پارٹی کے سب سے اہم مخالف نکلے، اس زمانے میں اتحاد پارٹی کا دفتر لاہور میں ڈیوس روڈ پر واقع کوٹھی ’’آشیانہ‘‘ میں تھا اور سید نور احمد مرحوم لاہور کے انگریز اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ میں اپنا نام ظاہر کیے بغیر اس پارٹی کی ترجمانی کے فرائض انجام دیتے تھے، اتحاد پارٹی کے خلاف اپنے قلمی جہاد کے دوران اقبال نے ایک قطع بھی لکھا جس کے پہلے دو شعر یوں تھے: زبان و بیان ہر دو نابالغانہ۳۰؎ ’’سول‘‘ کے مضامین ہیں نور احمدانہ۳۰؎ ابھی تازہ پرواز ہیں اتحادی۳۰؎ مناسب ہے ان کے لیے ’’آشیانہ‘‘۳۱؎ اور آخری شعریہ تھا: الٹ دے گا کون اس بساط کہن کو۳۱؎ زمانہ- زمانہ- زمانہ- زمانہ۳۲؎ جو خطوط اقبال نے قائد اعظم کے نام جون اور جولائی ۱۹۳۷ء میں اپنی زندگی کے آخری دس مہینوں میں لکھے ان کے اہم نکات یوں ہیں: ۱- اقبال چاہتے تھے کہ مسلم لیگ ایک عوامی تنظیم بن جائے۔ اس وقت تک لیگ پر مسلم معاشرے کے صاحب ثروت طبقے چھائے ہوئے تھے جن تک عوام کی رسائی نہ تھی۔ چنانچہ انھوں نے فرمایا ’’لیگ کو بالآخر اس بات کا فیصلہ کرنا پڑے گا کہ یہ جماعت مسلمانوں کے اعلیٰ طبقوں کی نمایندگی کرتی رہے گی یا مسلم عوام کی۔ اس وقت بحیثیت مجموعی قوم نے لیگ کی سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ وجہ ظاہر ہے۔ کوئی ایسی سیاسی جماعت جو عوام کی اقتصادی بہبود کے لیے کوشش کرنے کا یقین نہ دلاسکے عوام کا اعتماد حاصل نہیں کرسکتی‘‘ حالات کا دباؤ ایسا تھا کہ لیگ کو علامہ کا بتایا ہوا راستہ ہی اختیار کرنا پڑا۔ ۲- برطانیہ کے قائم کیے ہوئے سیاسی اداروں میں مسلمانوں کی کوئی شنوائی نہ ہوتی تھی۔ مسلمانوں کے دل میں یہ خیال اچھی طرح جڑ پکڑ گیا تھا کہ گذشتہ دو سو سال کے نکبت اور افلاس کی ذمہ داری براہِ راست ہندو ساہو کاروں اور سرمایہ داروں کے سر پر ہے۔ لیکن مسلمان کلی طور پر اس نتیجے پر نہ پہنچے تھے کہ ان کی اقتصادی بدحالی بہت حد تک انگریز حکمرانوں کی پیدا کردہ ہے۔ اقبال نے یہ سوال اٹھایا کہ کیا مسلمانوں کی غربت کا مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔ پھر اس کا جواب ان الفاظ میں دیا: ’’خوش قسمتی سے اسلامی شریعت کے نفاذ اور زمانے کے بدلے ہوئے حالات کے مطابق شرعی قانون میں اجتہادی تبدیلیوں کی مدد سے اس مسئلے کو نپٹایا جاسکتا ہے۔ اگر اسلامی قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے تو ہر کہ دمہ کے لیے روٹی کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے‘‘ ۔ لیکن اُس وقت کے حالات میں جب کہ ہندو اور انگریز دونوں اقتدار کی مسند کے حصہ دار تھے یہ بات ممکن نہ تھی۔ شریعت اسلام کو مؤثر بنا کر مسلمانوں کے اقتصادی مسائل حل کرنے کا ایک ہی راستہ تھا کہ برصغیر میں ایک یا ایک سے زیادہ آزاد مسلم مملکتیں بن جائیں جو اس مسئلے کو شرعی بنیادوں پر حل کریں۔ اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ میں مدت سے ان خطوط پر غور و فکر کرتا رہا ہوں اور مجھے اس کے سوا اور کوئی چارۂ کار نظر نہیں آتا۔ ۳- اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ برطانوی پارلیمنٹ کا بنا ہوا ۱۹۳۵ء کا ایکٹ ہے جس نے برطانوی ہند کو ایک کل ہند وفاق میں تبدیل کردیا ہے۔ اس کے ماتحت جو نیا نظام حکومت قائم ہوگا اس میں اقتدار کلی طور پر ہندوؤں کے ہاتھ میں ہوگا۔ اگرچہ کسی حد تک کمونل ایوارڈ سے مسلمانوں کی اشک شوئی بھی ہوئی ہے۔ لیکن بنیادی طور پر حالات میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہندو صوبوں میں ہندو اکثریت اتنی زیادہ ہے کہ صوبائی حکومتیں بنانے میں ہندو لیڈر مسلمانوں کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کریں گے۔ لیکن اپنی اکثریت کے صوبوں میں بھی مسلمانوں کے لیے حالات ناموافق ہیں۔ وہاں ان کی اکثریت اتنی تھوڑی ہے کہ وہ حکومت بنانے میں ہمیشہ ہندو پارٹیوں کے محتاج رہیں گے۔ برائے نام مسلمان حکومتیں مسلمانوں کے اقتصادی مسائل حل کرنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھا سکیں گی۔ کیونکہ ان کو ہر وقت اپنے ہندو حمایتوں کی ناراضی کا خوف لگا رہے گا۔ اس لیے یہ بات مسلمانوں کے مفاد میں ہے کہ ہندوستان ایک فیڈریشن نہ ہو۔ بلکہ مسلمان صوبے اپنی الگ فیڈریشن قائم کرسکیں اور وہ اپنے حالات سنبھالنے پر قادر ہوں۔ یہی تقسیم کا بنیادی نکتہ تھا۔ اُنھوں نے یہ بھی لکھا کہ لارڈ لوتھین نے ۱۹۳۱ء میں میری سکیم کی حمایت کی تھی لیکن یہ بھی کہ۔َ۔ دیا تھا اس کے بروئے کار آنے میں کم از کم ۲۵ سال کا عرصہ لگے گا۔ ۴- اپنے خطوں میں اقبال نے دو بار اس بات پر زور دیا کہ قومی زندگی کے اس نازک موڑ پر قائداعظم کی بے مثال فراست اور بے لوث راہنمائی قوم کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیے راستہ ڈھونڈ نکالے گی۔ اقبال کے الفاظ کچھ یوں تھے کہ آنے والے طوفانی دور میں ہندوستان کے مسلمانوں کی نظریں صرف آپ اور آپ ہی کی طرف لگی ہوئی ہیں اور میری رائے میں قوم ان توقعات میں بالکل حق بجانب ہے۔ اس سلسلے میں اس بات پر زور دینا بھی بے جا نہ ہوگا کہ اقبال نے نہ صرف قوم کے لیے ایک منزل مقصود کی نشان دہی کی بلکہ ساتھ ہی اس واحد رہنما کو بھی پہچان لیا جو قوم کو اس منزل تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ لیکن زیادہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس سے دس سال پہلے جب سائمن کمیشن کے تقرر کے موقع پر لیگ دو ٹکڑوں میں بٹ گئی تھی تو اقبال اور قائداعظم مخالف کیمپوں میں تھے۔ اقبال کی ہمدردیاں پہلے شفیع لیگ اور بعد میں مسلم کانفرنس کے ساتھ تھیں۔ بلکہ انھوں نے ۱۹۳۲ء میں لاہور میں منعقد ہونے والے مسلم کانفرنس کے اجلاس کی صدارت بھی کی تھی۔ جناح مسلم کانفرنس سے دور دور رہتے تھے۔ کیونکہ ان کے اندازے کے مطابق اس کانفرنس کے کرتا دھرتا زیادہ تر قوم کے رجعت پسند طبقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن ۱۹۳۷ء تک اقبال نے ’’آنے والے دور‘‘ کی کیفیت کا اندازہ لگاکر اپنے خیالات کو بدل دیا تھا۔ اُن پر غالباً یہ تبدیلی ۱۹۳۵ کے ابتدا میں آچکی تھی۔ اُس سال فروری کے مہینے میں مرکزی اسمبلی میں کمونل ایوارڈ پر ایک مباحثہ ہوا۔ مباحثے کے بعد بہت غور و فکر اور چابک دستی سے تیار کی ہوئی تین شقوں والی جو قرار داد پیش ہوئی اُسے محمد علی جناح نے خود مرتب کیا تھا۔ انھوں نے مباحثے کا نقشہ پہلے سے ہی اپنے ذہن میں تیار کرلیا تھا۔ جب رائے شماری ہوئی تو اُس کا نتیجہ عین اُن کی توقع کے مطابق نکلا۔ ایک شق پر انھوں نے کانگریس اور دوسری شق پر حکومت کی حمایت حاصل کرکے قرارداد کو جوں کا توں پاس کروالیا۔ یہ مباحثہ اور اُس کا نتیجہ برصغیر کی پارلیمانی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہی ہے۔ اس قرارداد کا مطلب تھا کہ جب تک دونوں قومیں آپس میں متفق نہ ہوجائیں کمونل ایوارڈ برقرار رہے گا۔ اس پر کانگریس نے ایوارڈ اور کچھ عرصے کے لیے جداگانہ انتخاب کی مخالفت ترک کردی۔ محمد شفیع ان دنوں اقبال کے بہت قریب تھے اُن کا بیان ہے کہ اقبال قائداعظم کی بالغ نظری سے بے حد متاثر ہوئے اور انھوں نے فرمایا کہ یہی شخص ہے جو انگریز اور ہندو دونوں کے خلاف مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کرسکتا ہے۔ جس دل۔سوزی اور محنت سے قائداعظم نے ذاتی مداخلت کرکے مسجد شہید گنج کے قضیے کو ختم کروایا تھا اُس پر ۱۹۳۶ء کے مارچ یا اپریل میں اقبال نے قائداعظم کو خراج عقیدت پیش کیا تھا۔ اقبال نے اس موقع پر نہ صرف قائد کو گراں قدر مشورے دیے بلکہ قائد کی رہنمائی میں پنجاب صوبائی لیگ کی صدارت کے فرائض بھی انجام دیے۔ اگر میں ٹیلی ویژن پر ان کے الفاظ درست طور پر سمجھ سکا ہوں تو جاوید اقبال نے دو ٹوک یہ بات کہ۔َ۔ دی تھی کہ اقبال جیسا خود بین اور خود پرست انسان قائداعظم کے حضور میں ایسے پیش ہوتا ہے جیسے وہ اپنے مرشد کے سامنے پیش ہورہا ہو۔ اقبال کا انتقال ۲۱اپریل۱۹۳۸ء کو ہوگیا۔ پاکستان کی جنگ ان کی وفات کے بعد ہی لڑی گئی۔ لیکن بجا طور پر پاکستان کو اقبال کے علو تخیل اور قائداعظم کے آہنی عزم کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔ حرفِ آخر آخر میں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ پاکستان کا تصور ایک مقامی مسئلے کا مقامی حل نہ تھا، اسے درست طور پر سمجھنے کے لیے اقبال کے آفاقی پس منظر سے آگاہی ضروری ہے۔ اس پس منظر کو مولوی عبدالحق نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: مسلمان آنے والے دن کے لیے ابھی سے تیار ہوجائیں، ان میں پھر وہی پہلی سی اسلامی حرارت پیدا ہو، وہی عزم اور وہی ولولے ہوں، وہی مساوات اور اخوت ہو، ان کی منتشر جمعیتیں ایک شیرازے میں بندھ جائیں… دنیا… خود کشی پر آمادہ معلوم ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں کوئی آڑے آسکتا ہے تو وہ اسلام ہی ہے۔ کیونکہ دنیا ایسے نظام کی منتظر ہے جو سرمایہ داری سے پاک ہو، جس میں حاکم و محکوم کا کوئی امتیاز نہ ہو، جہاں امیر و غریب ایک ہوں، جس کی تہذیب میں نفسانیت اور تعلیم میں دناء ت نہ ہو، جس کا خدا ایک ، آئین ایک، جس کا خیال ایک اور مطمع نظر ایک ہو اور جو شروع سے لے کر آخر توحید ہی توحید ہو اور کہیں دوئی کا نشان نہ ہو۔ ایسا نظام سوائے اسلام کے اور کون سا ہوسکتا ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب اسلام کا بول بالا ہوگا۔ دنیا کی اقوام اس کے جھنڈے کے نیچے جمع ہوںگی۔ پاکستان کا قیام اس مقصد کے حصول کے لیے پہلا قدم ہوگا۔ اس بلند مقصد کو حاصل کرنے کے لیے قومی اتحاد نہایت لازمی ہے اور قومی وحدت صرف وحدتِ افکار سے پیدا ہوتی ہے۔ اس دور میں بہت سی تخریبی قوتیں مسلمانوں کے قومی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ اگر اقبال کی تحریروں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ کم و بیش اپنی زندگی کا بہت بڑا حصہ انھی قوتوں کے خلاف برسر پیکار رہے۔ بلکہ ان کی زندگی میں شائع ہونے والے آخری مجموعہ کلام ضربِ کلیم کا ذیلی عنوان بھی یہی ہے۔ اسلامی جمعیت کو منتشر کرنے والے عناصر کی تفصیلی فہرست مرتب کرنا تو کسی قدر دقت طلب کام ہے لیکن ان میں سب سے اہم یہ ہیں: غلامی اور اس کی پیدا کی ہوئی غلامانہ ذہنیت، مغرب کی اندھا دھند نقالی، مغربی تعلیم، قومیت اور جمہوریت کے مغربی تصورات، مسلمانوں میں مذہبی شعور کی کمی، اپنی روایات اور ثقافتی میراث سے بیگانگی، سہل کوشی اور تن آسانی۔ ان سب باتوں کا ذکر فرداً فرداً اپنی اپنی جگہ پر اس کتاب میں آچکا ہے۔ اقبال کے نزدیک ان کی شاعری مقصود بالذات نہیں تھی بلکہ اس کے ذریعے وہ صرف لوگوں کے دل میں اپنی بات اتارنا چاہتے تھے، موجودہ پاکستان پر اقبال کے بہت سے اثرات ہیں۔ ان کو ملت پاکستانیہ کا قومی شاعر سمجھا جاتا ہے، صرف وہی ایک شاعر ہیں جن کے سب سے زیادہ اشعار پاکستانیوں کی نوک زبان پر ہیں۔ ہمارے ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر بھی اقبال کے کلام کو معقول جگہ دی جاتی ہے، ثقافتی زندگی کے دوسرے شعبوں پر بھی اقبال کی گہری چھاپ نظر آئے گی۔ ہمارے دستور کے کئی حصے ایسے ہیں جو اسلام کی ان تعلیمات پر مبنی ہیں جن پر اقبال نے بہت زور دیا ہے، اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا اقرار، اسلامی دنیا سے گہرے روابط کا قیام، عصر جدید کے تقاضوں کے مطابق اسلامی قانون کی تشکیل نو، احمدیہ تعلیم کے مضمرات وغیرہ وغیرہ۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اقبال نے نہ صرف ایک نئی ریاست کے تصور کو ایک عملی صورت میں پیش کیا بلکہ ان تمام عوارض کی نشان دہی بھی کردی جن سے پاکستان جیسا اسلامی معاشرہ پاک ہونا چاہیے۔ پاکستان کے وجود میں آنے سے اسلامی اور عالمی سیاست دونوں پر پائیدار اور دوررس اثرات مرتب ہوئے ہیں، بڑے ملکوں کی سیاسی رقابتوں سے پیدا ہونے والے نتائج سے تعلیم یافتہ پاکستانی بخوبی آگاہ ہیں۔ اسلامی دنیا کے معاملات میں پاکستان نے بحیثیت مجموعی مثبت اور مؤثر کردار ادا کیا ہے۔ امریکہ اور فلپائن جیسے ملکوں کی مسلمان اقلیتوں کے دلوں میں بھی آزادی کی اُمنگیں کروٹ لینے لگی ہیں اور ان کی آزادی کی تحریکوں نے دنیا کی ہمدردی نہیں تو توجہ ضرور حاصل کرلی ہے۔ ئ…ئ…ء حواشی ۱- عام طور پر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ خطبہ الٰہ آباد میں اقبال نے برصغیر میں ایک اسلامی سلطنت کے قیام کا مطالبہ کیا تھا۔ اُن دنوں کے حالات میں اس قسم کا مطالبہ پیش کرنا قبل از وقت تھا۔ خطبے کا بہت بڑا حصہ عصری سیاست کی تنقید اور وقتی مسلم مطالبات کی توضیح پر مشتمل تھا، لیکن اسی خطبے میں اُنھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ مجھے برصغیر کے شمال مغربی علاقے میں ایک مضبوط اسلامی ریاست کا قیام کم ازکم اس علاقے کے مسلمانوں کی قطعی تقدیر final destiny نظر آتا ہے۔ اقبال کی سیاسی دور اندیشی اور پیش بینی کی بہت سی مثالوں میں سے یہ ایک مثال ہے۔ اس خطبے کا یہی حصہ عوامی ذہن میں گھر کر گیا اور اس طرح پر ایک علیحدہ اسلامی سلطنت کا تصور مسلم سیاست میں داخل ہوا۔ تفصیلات کے لیے دوسرے حصے کے متعلقہ صفحات دیکھیں۔ ۲- اس میں عیسائی پادریوں کی کوششوں کو بھی بڑا دخل تھا۔ چونکہ پرانے تعلیمی نظام کی روح اسلامی تھی۔ اس لیے پادری اس سے چڑتے تھے۔ اُنھوں نے حکومت کو بہت سے عرض داشتیں اس مضمون کی بھیجیں کہ پرانے مدرسوں میں پڑھائی جانے والی کتابیں گلستان اور بوستان نو عمر بچوں کے لیے مجربِ اخلاق ہیں۔ ۳- علامہ اقبال، ’’بانگِ درا‘‘، کلیاتِ اقبال (اُردو)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۶ئ، ص۱۰۹ ۴- ایضاً ، ص۱۱۵ ۵- ایضاً ، ص۹۳ ۶- ایضاً ،ص۷۳ ۷- ایضاً ،ص۷۴ ۸- ایضاً ،ص۱۰۰ ۹- ایضاً ،ص۱۰۳ ۱۰- ایضاً ،ص۱۰۱ ۱۱- ایضاً ،ص۱۰۷ ۱۲- ایضاً ،ص۵۷ ۱۳- ایضاً ،ص۱۶۵ ۱۴- ایضاً ،ص۱۶۸ ۱۵- ایضاً ،ص۱۵۶ ۱۶- ایضاً ،ص۱۶۲ ۱۷- ایضاً ،ص۱۵۸ ۱۸- ایضاً ،ص۱۵۸ ۱۹- ایضاً ،ص۱۶۷ ۲۰- علامہ اقبال، ’’پس چہ باید کرد‘‘، کلیاتِ اقبال (فارسی)، شیخ غلام علی اینڈ سنز، ص۶۴ ۲۱- علامہ اقبال، کلیاتِ باقیات شعر اقبال، ص۴۱۴ ۲۲- علامہ اقبال، ’’بانگِ درا‘‘، کلیاتِ اقبال (اُردو)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۶ئ، ص۲۴۳ ۲۳- ایضاً ،ص۲۸۵ ۲۴- ایضاً ،ص۲۹۳ ۲۵- ایضاً ،ص۲۳۸ ۲۶- ایضاً ،ص۲۱۷ ۲۷- ایضاً ،ص۲۳۵ ۲۸- ایضاً ،ص۲۱۵ ۲۹- ایضاً ،ص۲۹۸ ۳۰- علامہ اقبال، ’’ارمغان حجاز‘‘، کلیاتِ اقبال (فارسی)، ص۹۷۹؍۹۷ ۳۱- علامہ اقبال، کلیاتِ باقیات شعر اقبال، ص۴۵۲ ۳۲- ایضاً ،ص۴۵۳ خ…خ…خ اشخاص آزاد، ابوالکلام:۲۵ آرنلڈ، پروفیسر:۴۴، ۴۷ آغا خان سوم: ۲۷، ۷۹، ۸۰، ۱۲۵، ۱۲۶ اجل سنگھ: ۱۰۲ احمد سرہندی: ۳۰ اشتیاق حسین:۲۲ افلاطون:۴۷ اقبال،علامہ محمد ڈاکٹر: ۵، ۶، ۱۱، ۱۲، ۱۶، ۱۷، ۱۹، ۲۱، ۲۳، ۲۸، ۲۹، ۳۲، ۳۴، ۳۶، ۳۷، ۳۸، ۴۱، ۴۲، ۴۳، ۴۴، ۴۵، ۴۶، ۴۷، ۴۸، ۴۹، ۵۰، ۵۱، ۵۲، ۵۳، ۵۴، ۵۷، ۵۸، ۵۹، ۶۰، ۶۱، ۶۲، ۶۳، ۶۴، ۶۵، ۶۶، ۶۷، ۶۸، ۶۹، ۷۵، ۷۷، ۷۸، ۷۹، ۸۲، ۸۳، ۸۴، ۸۵، ۸۶، ۸۷، ۸۸، ۸۹، ۹۰، ۹۱، ۹۲، ۹۳، ۹۴، ۹۵، ۹۶، ۹۷، ۹۸، ۹۹، ۱۰۰، ۱۰۱، ۱۰۲، ۱۰۳، ۱۰۴، ۱۰۵، ۱۰۶، ۱۰۷، ۱۰۸، ۱۰۹، ۱۱۱، ۱۱۲ اکبر الٰہ آبادی: ۵، ۶، ۱۶ البیرونی:۲۹ الطاف حسین حالی: ۲۳ الیگزنڈر:۵۴ امیر علی،سید: ۵۴ انٹونی میکڈانل:۷۴ انجیلز، فریڈرک:۶۰ انور اقبال قریشی، ڈاکٹر:۴۵ اورنگ زیب: ۲۹ ایڈمنڈ برک: ۱۷ بابر، ظہیرالدین: ۵۰ برکن ہیڈ، لارڈ: ۷۷ بلالؓ، حضرت:۴۳ بو تراب: ۶۶ بہادر شاہ ظفر: ۲۲ بھائی پرمانند:۲۶، ۳۰ بیل پروفیسر: ۴۴ بینر جی: ۱۸ پرتاب سنگھ: ۸۹ پیغمبر اسلام: ۳۴، ۳۷، ۵۸، ۶۱-۶۳، ۹۷ تیج بہادر سپرو، سر: ۷۹ ٹیپو سلطان:۱۲ جارج پنجم: ۵۳ جان اسٹورٹ مل: ۱۷ جان سائمن،سر: ۷۶ جاوید اقبال، ڈاکٹر: ۱۰۸ چائرل ویلن ٹائن: ۵۲ حالی، مولانا الطاف حسین: ۱۶، ۲۳، ۳۸ حسرت موہانی: ۲۵ حسین احمد مدنی، مولانا: ۲۹ حسین،سید: ۵۷ ختم المرسلین: ۹۷ خلیل اللہ، حضرت ابراہیم ؑ: ۵۷ دیانند کاٹھیا وار: ۳۳ رام موہن رائے، راجہ: ۱۴ رحمن، جسٹس ایس اے: ۶۱ رسول اللہؐ، پیغمبر اسلام:۳۶، ۶۶ رنبیر سنگھ: ۸۹ ریمزے میکڈانلڈ: ۸۲ زار الیگزینڈر: ۵۴ سالک، عبدالمجید: ۶۸ سائمن: ۸۱ سراج الدولہ: ۱۲ سرسید احمد خان : ۵، ۶، ۱۲، ۱۶، ۱۹، ۲۳، ۲۴، ۲۵، ۲۸، ۳۱، ۳۲، ۳۵، ۳۶، ۳۷، ۳۸، ۴۳، ۷۲، ۸۴، ۱۰۲ سلیمان ندوی،سید: ۵۷ سوامی شردھانند: ۷۰ سید احمد شہید، بریلوی: ۱۲، ۳۰ شاہ جہان:۲۲، ۶۶ شاہ ولی اللہ: ۳۰ شبلی نعمانی، مولانا: ۵۸ شریعت اللہ،حاجی: ۱۲ شریف مکہ: ۵۶، ۵۷ شعیب قریشی: ۷۸ شفیع، سر محمد: ۷۷، ۸۸، ۹۱، ۱۰۷، ۱۰۸ شمس الدین حسن: ۵۹ شہاب الدین غوری: ۲۹ ظفر علی خان،مولانا: ۲۵، ۵۸ عبدالحق،مولوی: ۲۵، ۲۸، ۱۰۸ عبدالقادر، شیخ: ۴۱، ۴۷، ۴۸ عبدالکریم: ۲۲ عبدالمجید: ۷ عبدالمجید سالک: ۶۸ عطیہ فیضی: ۵۸ علی امام، سر: ۷۸ علی مرتضیٰؓ،حضرت: ۶۶ غالب: ۴۴ فاطمہ بنت عبداللہ: ۵۷ فضل الحق، اے-کے: ۸۵ فضل حسین،سر: ۷۹، ۸۰، ۱۰۵ قاسم نانوتوی،محمد: ۱۲ قاسم، میر: ۱۲ قائداعظم- محمد علی جناح: ۲۱، ۳۶-۳۸، ۷۶، ۷۷، ۷۸، ۷۹، ۸۰، ۸۲، ۸۳، ۸۴، ۹۱، ۱۰۳، ۱۰۴، ۱۰۵- ۱۰۷، ۱۰۸ کارل مارکس: ۶۰ کرزن،لارڈ: ۵۱ گارساں دتاسی: ۲۳ گاندھی: ۲۸، ۴۴، ۵۶، ۶۸، ۶۹، ۷۰، ۷۳، ۷۴، ۷۵، ۷۸، ۷۹، ۸۱، ۸۲، ۸۸، ۹۱، ۱۰۴ لاجپت رائے، لالہ: ۷۶ لوتھین، لارڈ: ۱۰۷ مارکس، کارل: ۶۰ مالتھوس، پادری: ۴۵ مالویہ، پنڈت: ۲۴، ۲۶، ۷۴، ۷۵، ۷۶، ۸۲ مجدد الف ثانی، احمد سرہندی: ۱۲، ۳۰ محبوب الٰہی، حضرت نظام الدین اولیا: ۴۴ محسن الملک، نواب،مولوی مہدی علی: ۲۳، ۲۴ محمد شفیع، سر: ۷۷، ۸۸، ۹۱، ۱۰۷، ۱۰۸ محمد علی جناح: ۲۱، ۷۶، ۷۷، ۷۸، ۷۹، ۸۰، ۸۲، ۸۳، ۸۴، ۹۱، ۱۰۴، ۱۰۷، ۱۰۸ محمد علی،مولانا: ۱۳، ۲۰، ۲۵، ۲۶، ۳۵، ۵۵، ۵۷، ۵۸، ۷۳، ۷۴، ۷۵، ۷۶، ۷۸، ۷۹، ۸۰، ۸۱، ۸۳ محمد قاسم نانوتوی: ۱۲ محمود الحسن: ۱۲ محمود غزنوی:۲۹ محمود،سید: ۱۹ مختار احمد انصاری: ۷۹ مسیح: ۶۰ مصطفی ا:۵۷ مصطفی کمال: ۵۸ ممتاز حسن: ۴۵ منٹو،لارڈ: ۲۰، ۷۲ موتی لال نہرو، ۷۶، ۷۸ میاں میر، حضرت: ۶۶ میکالے، لارڈ: ۱۵ میکٹیگرٹ، پروفیسر: ۴۶ میلک: ۶۴ نپولین بونا پارٹ: ۱۷ نرود چودھری: ۵۲ نور احمد،سید: ۱۰۵، ۱۰۶ نہرو، پنڈت جواہر لال: ۴۴، ۶۹، ۶۹، ۷۰، ۷۶، ۷۸، ۷۹، ۸۰، ۸۱، ۹۱، ۹۸ واحد معینی، ایس -اے: ۹۹ وائسرائے: ۲۰، ۵۶ وٹیکر: ۸۶ وقار الملک: ۷۲ وکٹوریہ، ملکہ: ۱۸، ۲۲ ولیم بنٹک، لارڈ: ۱۴ ولیم میور،سر: ۳۲ ویلن ٹائن چاگرل: ۵۲ ہیگل، فریڈرک: ۴۶، ۴۷ ہیوم: ۱۸ کتب و رسائل آریہ سماج اور ہندو سنگھٹن: ۲۶ ارمغانِ حجاز: ۱۱۲ اسرارِ خودی: ۶۵ اسلامی فکر کی تشکیل نو: ۳۴ الہلال: ۵۵ انجیل: ۱۴ بانگِ درا: ۴۱، ۴۴، ۴۶، ۴۷، ۶۱، ۶۳، ۱۱۱، ۱۱۲ بوستان: ۱۱۱ پس چہ باید کرد…: ۱۱۲ پیام مشرق: ۶۸ ٹائمز: ۵۲ جاوید نامہ: ۲۱ جمہوریت کے حدود: ۶۴ حیاتِ جاوید: ۲۳ خطبات: ۲۳ خطباتِ احمدیہ: ۳۶ رپرے زنٹیٹو گورنمنٹ: ۱۷ رموزِ بے خودی:۴۷، ۶۵، ۶۶ زبورِ عجم: ۶۴ زمیندار: ۲۵، ۵۵، ۵۹، ۶۹ ستیارتھ پرکاش: ۳۳، سول اینڈ ملٹری گزٹ: ۱۰۵ ضربِ کلیم: ۱۰۹ علم الاقتصاد: ۴۴، ۴۵ فکر کی تشکیل نو: ۳۴ قرآن مجید: ۲۱، ۲۸، ۴۲، ۵۹ کامریڈ: ۵۵ کلیات اقبال: ۱۱۱، ۱۱۲ کمیونسٹ مینی فسٹو: ۶۰ کیسری: ۹۰ گلستان: ۱۱۱ لائف آف محمد: ۳۲ لبرٹی:۱۷ مثنوی اسرار خودی: ۴۸، ۶۵ مقالات: ۲۳ ہمدرد: ۲۶ ہندو سنگھٹن: ۲۶ ینگ انڈیا: ۷۴ مقامات آسام: ۵۱، ۸۳ آسٹریلیا: ۴۹ آگرہ: ۲۲، ۹۰ اٹلی:۵۵ احمد آباد: ۷۳ اڑیسہ: ۵۱ افریقہ: ۴۹، ۵۴، ۵۵ افغانستان: ۵۰ اقوام متحدہ: ۶۵ الٰہ آباد:۱۲، ۷۸، ۸۲، ۸۵، ۹۱، ۹۳، ۹۵، ۹۶، ۱۱۱ امرتسر: ۵۸ امریکہ: ۶، ۱۷، ۴۹، ۱۱۰ اناطولیہ: ۵۶، انڈیا: ۱۵، ۲۲، ۳۵، ۳۶، ۷۴، ۸۳، ۸۶، ۸۸، ۸۹، ۹۲، ۹۴ انگلستان (مزید دیکھیے برطانیہ): ۱۷، ۲۲، ۲۳، ۳۳، ۴۱، ۴۴، ۴۶، ۴۷، ۴۸، ۴۹، ۵۲، ۵۴، ۵۷، ۵۸، ۵۹، ۶۴، ۶۵، ۸۵، ۹۱ ایران:۲۲، ۴۹ ایشیا:۲۹، ۴۹، ۶۴ بحیرہ روم: ۵۴ برصغیر: ۶، ۱۱، ۱۲، ۱۴، ۱۵، ۱۷، ۱۸، ۱۹، ۲۰، ۲۲، ۲۵، ۲۶، ۲۷، ۲۸، ۲۹، ۳۵، ۳۸، ۴۴، ۴۷، ۴۸، ۵۲، ۵۳، ۵۴، ۵۵، ۵۶، ۵۸، ۶۴، ۶۸، ۷۶، ۷۷، ۷۸، ۸۱، ۸۲، ۸۳، ۸۵، ۸۶، ۸۷، ۹۰، ۹۱، ۹۵، ۹۸، ۱۰۱، ۱۰۴، ۱۰۵، ۱۰۶، ۱۰۸، ۱۱۱ برطانیہ (مزید دیکھیے انگلستان):۱۷، ۱۸، ۴۹، ۵۰، ۵۱، ۵۲، ۵۳، ۵۴، ۵۵، ۵۶، ۶۴، ۷۱، ۷۶، ۷۷، ۹۱، ۹۸، ۱۰۱، ۱۰۶ برلن: ۵۵ بلجیم: ۵۰ بلقان: ۵۴، ۵۵، ۶۲ بلوچستان: ۷۷، ۸۳، ۹۳ بمبئی: ۱۵، ۳۳، ۷۱، ۷۹، ۸۳، ۹۳ بنارس: ۲۳، ۷۴، ۹۰ بنگال: ۲۰، ۲۳، ۲۵، ۳۵، ۳۶، ۵۱، ۵۲، ۵۳، ۷۲، ۷۷، ۸۲، ۸۳، ۸۶، ۸۷، ۸۸، ۹۳ بنگال مغربی: ۵۱ بنگال، مشرقی: ۵۱ بہار: ۲۳، ۵۱ بھارت (مزید دیکھیے ہندوستان): ۶۹ بھوپال: ۸۷ بیت المقدس: ۹۱ پاکستان: ۵،۶، ۱۱، ۱۲، ۱۶، ۱۷،۲۲، ۲۵، ۲۹، ۳۴، ۳۵، ۳۶، ۳۸، ۴۸، ۶۵، ۸۴، ۸۹، ۹۹، ۱۰۸، ۱۰۹، ۱۱۰، ۱۱۱، ۱۱۲ پنجاب: ۲۱، ۲۵، ۲۷، ۲۸، ۲۹، ۳۵، ۳۶، ۷۷، ۸۱، ۸۳، ۸۴، ۸۶، ۸۷، ۸۸، ۹۰، ۹۳، ۹۴، ۹۹، ۱۰۱، ۱۰۲، ۱۰۵، ۱۰۸ ترکی: ۵۴، ۵۵، ۵۶، ۵۷، ۶۸ تھریس: ۵۶ جامع مسجد: ۷۰ جرمنی: ۴۶، ۴۷، ۴۹، ۵۰، ۵۵، ۵۶، ۵۹، ۰ جزیرہ نمائے عرب: ۵۶، ۵۷ جلیاں والا باغ: ۶۸ چورا چوری: ۶۸، ۶۹ حجاز: ۴۸، ۵۷، ۵۸، ۶۱، ۱۱۱ حرمِ کعبہ: ۴۸، ۶۱، ۶۳ خیبر: ۶۶ دریاے راوی: ۸۱ دکن: ۲۱م دہلی، دلّی:۲۱، ۲۲، ۲۹، ۳۰، ۴۴، ۵۳، ۷۰، ۷۳، ۷۷، ۷۸، ۷۹، ۸۳، ۸۴ دیوبند: ۳۱ ڈھاکہ: ۲۵ ڈیوس روڈ: ۱۰۵ رڑکی: ۲۲ روس: ۴۹، ۵۴ روم (روما): ۴۸، ۵۴ سابرمتی: ۷۳ سرحد: ۷۷، ۸۱، ۸۳ سسلی، جزیرہ: ۴۹ سمرنا: ۵۶ سندھ: ۲۸، ۲۹، ۸۳، ۹۳ سیورے: ۵۷ شاہی مسجد: ۶۳، ۷۰ شمال مغربی صوبہ: ۲۴ شمالی ہندوستان: ۲۲ شملہ: ۲۰، ۵۸، ۹۴ طرابلس: ۵۵، ۵۷ عرب: ۵۴، ۵۶، ۵۷، ۶۵ علی گڑھ: ۱۶، ۱۹، ۲۴، ۳۱، ۳۵، ۳۶، ۴۸، ۵۸ غزنی: ۲۹ غور: ۲۹ فرانس: ۱۷، ۲۳، ۴۹، ۵۰، ۵۶ فلپائن: ۱۱۰ فلسطین: ۸۶، ۹۱ فیصل آباد: ۲۸ قسطنطنیہ: ۵۶ کاٹھیاوار: ۳۳ کان پور: ۳۶، ۷۱، ۸۴، ۹۰ کراچی: ۷۲، ۹۲ کشمیر: ۸۴، ۸۶، ۸۹، ۹۰ کشمیر، جموں: ۸۹، ۹۰ کلکتہ: ۱۴، ۱۵، ۱۸، ۲۱، ۵۲، ۵۳، ۵۵، ۷۱، ۷۸، ۷۹، ۸۱، ۸۴، ۸۵ کوہاٹ: ۳۴، ۷۱، ۷۳، ۹۰ لال قلعہ: ۲۲ لاہور: ۷، ۲۶، ۲۹، ۳۳، ۳۴، ۵۵، ۵۹، ۷۰، ۷۱، ۸۱، ۸۵، ۹۰، ۹۴، ۱۰۲، ۱۰۳، ۱۰۴، ۱۰۵، ۱۰۷، ۱۱۱، ۱۱۲ لکھنؤ: ۲۱، ۳۵، ۷۲، ۷۴، ۸۸، ۹۳، ۱۰۴ لندن: ۱۵، ۵۴، ۸۱، ۸۸، ۹۱ لیبیا: ۵۵ مالابار: ۷۱ متھرا: ۳۳ مدراس: ۱۵ مدینہ: ۴۳ مرزا پور: ۹۰ مسجد شہید گنج: ۸۴، ۱۰۸ مشرق: ۵۴ مصر: ۵۵، ۶۱ مغرب:۲۹، ۳۱، ۳۷، ۴۶، ۴۹، ۵۰، ۵۳، ۵۹، ۶۱، ۶۳، ۶۴، ۷۱، ۱۰۹ مغل پورہ: ۸۶ مکہ: ۵۶، ۵۷ ملتان: ۲۱، ۲۸، ۹۰ وسط ایشیا: ۲۹ ویانا: ۱۷ ہالینڈ: ۵۰ ہائیڈل برگ: ۴۶ ہند: ۲۰، ۴۲، ۴۸، ۵۳، ۵۴، ۵۶، ۵۸، ۷۱، ۷۷، ۸۱، ۸۸، ۹۱، ۹۰، ۹۲، ۹۵، ۹۶، ۱۰۷ ہندوستان: ۱۲، ۲۲، ۲۶، ۲۷، ۲۹، ۳۳، ۳۵، ۳۷، ۴۱، ۴۳، ۴۴، ۵۰، ۵۳، ۵۷، ۶۱، ۷۲، ۷۵، ۷۶، ۷۷، ۷۸، ۷۹، ۸۰، ۸۵، ۹۰، ۹۴، ۹۵، ۱۰۵، ۱۰۷ ہند، جنوبی: ۷۰، ۱۰۳ یورپ: ۶، ۱۷، ۲۷، ۳۷، ۳۸، ۴۷، ۴۹، ۵۰، ۵۱، ۵۴، ۵۵، ۵۷، ۵۸، ۶۰، ۶۷، ۱۰۱ یو-پی: ۲۴، ۲۸، ۴۴، ۷۴ ادارے اور تنظیمیں آریہ سماج:۲۶ آل پارٹیز کمیٹی: ۷۸ آل پارٹیز مسلم ایجوکیشنل کانفرنس: ۳۵ آل پارٹیز مسلم کانفرنس: ۷، ۷۹، ۸۰، ۸۴، ۹۴ اتحاد پارٹی: ۱۰۵ اسلامی جمعیت: ۶۳، ۱۰۹ اسلامیہ کالج: ۶۹ اقبال اکادمی پاکستان: ۱۱۲ اقبال لٹریری ایسوسی ایشن: ۴۸ امپیریل کونسل: ۲۰ انڈین سول سروس: ۱۸ انڈین نیشنل کانگرس: ۱۷، ۱۸، ۱۹، ۲۱، ۲۴، ۲۶، ۲۷، ۲۸، ۵۵، ۶۸،۷۳، ۷۵،۷۶، ۷۷، ۷۸، ۷۹، ۸۰، ۸۱، ۸۲، ۸۳، ۸۵، ۸۹، ۱۰۳، ۱۰۴، ۱۰۸ ایسٹ انڈیا کمپنی: ۱۴، ۱۵، ۲۲، ۳۵ ایم-اے-اور کالج، علی گڑھ: ۳۵ برطانوی پارلیمنٹ: ۷۷، ۷۹، ۱۰۷ برطانوی پریوی کونسل: ۵۴ برطانوی جوڈیشل کمیٹی: ۵۴ برطانوی حکومت (حکومت برطانیہ): ۱۳، ۱۸، ۲۰، ۳۱، ۵۱، ۵۶، ۶۸، ۷۰، ۷۱، ۷۲، ۷۷، ۸۱، ۸۲، ۸۵، ۸۷، ۸۸، ۹۲، ۹۵، ۹۸، ۱۰۰ برطانوی سلطنت: ۱۴، ۹۵ برطانوی عدلیہ: ۵۴ برطانوی لیبر حکومت: ۷۶، ۷۷، ۹۱ برطانوی مسلم لیگ: ۵۴ برطانیہ کے دارالعوام: ۱۷، ۵۲ پارلیمانی حکومت: ۱۸، ۶۴ پارلیمنٹ: ۶۴، ۷۷، ۷۹، ۸۲، ۹۱، ۱۰۷ پریوی کونسل: ۵۴ پنجاب اسمبلی: ۸۱ پنجاب کونسل: ۹۹ پنجاب لیجسلیٹو کونسل: ۸۶، ۹۹ پنجاب یونی ورسٹی: ۲۷، ۱۰۲ ٹیلی ویژن: ۱۰۸، ۱۰۹ جناح مسلم لیگ: ۸۰ حکومت ہند: ۲۰، ۸۸ دارالامرا: ۷۷ دہلی کالج:۲۲ دیوبند: ۳۱ ڈوگرہ حکومت: ۸۹، ۹۰ ڈی-اے-وی کالج: ۲۶ سائنٹی فک سوسائٹی: ۲۳، ۳۱ سلطنت عثمانیہ: ۵۴ سنٹرل ہندو کالج بنارس: ۷۴ سول سروس: ۵۱ علی گڑھ کالج، ایم-اے-او: ۱۶، ۲۴، ۳۱، ۳۵، ۳۶ غلام علی اینڈ سنز، لاہور: ۱۱۲ فورٹ ولیم کالج: ۲۱ فیڈریل کمیٹی: ۹۱ قادیانی فرقہ: ۹۸ قدامت پسند پارٹی: ۷۶، ۷۷ کانگرس آف برلن: ۵۵ کلکتہ یونی ورسٹی: ۱۸ کلیساے انگلستان: ۳۳، ۵۷، ۶۰، کیمبرج، یونی ورسٹی: ۴۶ گورنمنٹ کالج لاہور: ۴۴ لاہور ہائی کورٹ: ۳۴ لبرل پارٹی: ۵۲، ۷۶ لندن یونی ورسٹی: ۱۵ لیبر پارٹی: ۷۶، ۷۷ لیگ آف نیشنز: ۲۷ مالویہ سنٹرل ہندو کالج بنارس: ۷۴ مجلس انتظامیہ (وائسرائے): ۷۹ مجلس خلافت: ۵۶، ۶۸، ۷۹، مدرسہ رحیمیہ: ۳۰ مرکزی قانون ساز اسمبلی: ۱۹، ۳۴، ۶۴، ۶۸، ۷۶، ۷۷، ۸۲، ۸۳ مسلم پریس: ۸۵ مسلم کانفرنس: ۶، ۷۹، ۸۰، ۸۴، ۹۴، ۱۰۷ مسلم لیگ: ۲۵، ۳۵، ۵۴، ۷۲، ۷۵، ۷۷، ۸۰، ۸۲، ۸۵، ۸۶، ۱۰۴، ۱۰۶، ۱۰۸ مسلم لیگ (جناح): ۷۷، ۷۹، ۸۰، ۸۴ مسلم لیگ (شفیع): ۷۷ مغل پورہ انجینئرنگ کالج: ۸۶ میڈیکل کالج آگرہ: ۲۲ میونخ یونی ورسٹی: ۴۶ میونسپل کمیٹی: ۱۹ ولیم کالج کلکتہ: ۲۱ ہندو پریس:ـ ۷۱، ۸۰ ہندو مہاسبھا: ۲۱، ۲۶، ۷۴، ۷۵، ۷۶، ۷۸، ۷۹، ۸۰، ۸۳ یو-پی گورنمنٹ: ۴۴ اصلاحات و واقعات و تحریکات آب کاری: ۱۰۱ آدمیت: ۶۴ آزادی: ۱۲، ۱۷، ۳۰، ۳۱، ۳۶، ۵۶، ۵۷، ۶۵، ۶۷، ۶۸، ۷۴، ۸۱، ۸۵، ۹۰، ۹۴، ۹۸، ۱۰۴، ۱۱۰ آریہ سماجی رویے: ۳۴ آل انڈیا فیڈریشن: ۸۲، ۸۳، ۹۱، ۹۲، ۹۳، ۹۴، ۱۰۷ آمریت: ۵۲، ۶۴ آیوروویدک علاج: ۱۰۱ آئین: ۶۵،۷۷ آئینی جدوجہد: ۵۲ اتحاد: ۲۶، ۳۵، ۳۸، ۴۱، ۴۳، ۴۸، ۴۹، ۵۶، ۵۷، ۶۰، ۶۸، ۷۰، ۷۱، ۷۳، ۷۴، ۸۰، ۸۱، ۸۴، ۹۴، ۹۶، ۹۸، ۱۰۲، ۱۰۵، ۱۰۶، ۱۰۹ اجتہاد: ۵۴، ۱۰۶ اردو اخبار نویسی: ۲۵، ۵۱، ۵۹ اردو زبان: ۲۱، ۲۲، ۲۳، ۲۴، ۲۵، ۲۶، ۲۷، ۲۸، ۳۳، ۳۵، ۳۷، ۳۸، ۴۱، ۴۴، ۴۷، ۴۸، ۶۵، ۷۴، ۱۱۱، ۱۱۲ استعمار: ۱۴ اسلام: ۶، ۱۶، ۲۲، ۲۷، ۲۸، ۲۹، ۳۰، ۳۱، ۳۲، ۳۳، ۳۴، ۳۶، ۴۳، ۴۷، ۴۸، ۴۹، ۵۱، ۵۴، ۵۷، ۵۸، ۵۹، ۶۰، ۶۲، ۶۳، ۶۵، ۶۶، ۶۷، ۶۸، ۷۱، ۸۵، ۸۶، ۹۷، ۹۸، ۹۹، ۱۰۶، ۱۰۹ اسلامی تحریک: ۳۰، ۳۱، ۵۶ اسلامی تہذیب: ۴۴، ۵۹ اسلامی ثقافت: ۶۱، ۹۸ اسلامی جمعیت: ۶۳، ۱۰۹ اسلامی دنیا: ۱۴، ۳۵، ۴۷، ۴۸، ۱۰۹، ۱۱۰ اسلامی روایات: ۱۳ اسلامی ریاست: ۹۵، ۱۱۱ اسلامی سیاست: ۳۵، ۵۴، ۶۳، ۸۳، ۸۶ اسلامی شریعت: ۶۱، ۱۰۶ اسلامی علوم: ۲۲ اسلامی قانون: ۵۴، ۱۰۶، ۱۰۹ اسلامی قومیت: ۳۷، ۵۰، ۵۹، ۶۳ اسلامی معاشرے:۲۹، ۳۰، ۳۴، ۶۳، ۹۷ اسلامی ہند: ۳۵، ۵۳، ۵۶، ۷۱، ۹۰، ۹۱، ۹۲، ۹۶ اقلیت: ۱۸، ۲۱، ۲۷، ۳۵، ۴۷، ۷۲، ۷۷، ۸۰، ۸۲، ۸۳، ۸۴، ۸۷، ۸۸، ۸۹، ۹۰، ۹۲، ۹۳، ۹۸، ۱۰۳، ۱۰۴، ۱۱۰ اکثریت: ۱۲، ۱۵، ۱۸، ۲۰، ۲۱، ۲۷، ۲۸، ۳۳، ۳۷، ۵۲، ۵۶، ۶۴، ۶۹، ۷۲، ۷۶، ۷۷، ۸۲، ۸۳، ۸۶، ۸۷، ۸۸، ۸۹، ۹۰، ۹۲، ۹۳، ۹۴، ۹۵، ۱۰۰، ۱۰۳، ۱۰۴، ۱۰۷ الحاد: ۱۶، ۶۱، ۹۵ الیکشن: ۱۹، ۲۰، ۷۲ امپیریل کونسل: ۲۰ امریکی جنگ آزادی: ۱۷ امومت: ۴۵ انڈیا بل: ۸۶، ۸۹ انڈین کونسلز ایکٹ: ۱۹ انقلاب فرانس: ۱۷ انگریزی زبان:۱۱، ۱۳، ۱۴، ۱۵، ۱۷، ۱۸، ۲۰، ۲۲، ۲۷، ۳۶، ۸۴، ۸۵، ۹۰، ۹۱، ۹۵، ۹۸، ۱۰۰ اینگلو سیکسن قانون: ۱۳ بالشوزم: ۵۹ بالشویک: ۵۹ برہمن: ۶، ۳۳، ۴۱، ۴۳، ۶۱، ۷۴، ۷۵، ۱۰۳ بندے ماترم: ۲۱، ۱۰۳ پارلیمانی حکومت: ۱۸، ۶۴ پارلیمانی نظام: ۷۱ پرسنل لا: ۸۴ پہلی جنگِ عظیم: ۲۷، ۴۹، ۵۵ پہلی گول میز کانفرنس: ۸۲، ۸۶، ۸۷، ۹۲ تجاویز دہلی: ۷۷، ۷۸، ۷۹، ۸۳ تحریک پاکستان: ۱۲، ۳۸، ۸۴، ۸۹ تحریک خلافت: ۲۶، ۳۳، ۳۶، ۵۶، ۵۷، ۶۸، ۶۹، ۷۰، ۸۴ تحریک عدمِ تعاون: ۲۶، ۳۳، ۵۶، ۶۸، ۶۹، ۷۰، ۷۱، ۷۳، ۷۴، ۷۷ تحریک کشمیر: ۸۴ تحریک آزادی: ۱۲، ۵۷ تحفظ خلافت: ۵۸ ترک: ۵۵، ۷۹ تقسیم بنگال: ۲۰، ۲۵، ۳۶، ۵۱، ۵۲، ۵۳، ۷۲ توحید: ۴۳، ۶۱، ۶۷، ۱۰۹ تہذیب: ۱۷، ۲۳، ۲۹، ۳۱، ۳۶، ۴۴، ۴۹، ۵۰، ۵۳، ۵۸، ۵۹، ۶۳، ۷۱، ۷۲، ۷۸، ۱۰۹ تہذیب حجازی: ۴۹ تہذیب و تمدن: ۷۸ جداگانہ انتخاب: ۲۰، ۲۱، ۲۵، ۳۶، ۷۲، ۸۲، ۸۳، ۸۴، ۸۷، ۸۸، ۹۱، ۹۳، ۱۰۵، ۱۰۸ جمہوریت: ۱۷، ۱۹، ۲۰، ۳۷، ۳۸، ۶۴، ۷۱، ۸۲، ۹۴، ۱۰۴، ۱۰۹ جنگ بلقان: ۶۲ جنگ طرابلس: ۵۷ چودہ نکات: ۲۱، ۸۰، ۸۴ حاکمیت:۶۵، ۱۰۹ ختم نبوت: ۹۷، ۹۹ خطبہ الٰہ آباد: ۱۲، ۹۱، ۹۵، ۹۶، ۱۱۱ دستور: ۲۰، ۳۴، ۶۵، ۷۲، ۸۱، ۸۳، ۸۸، ۸۹، ۹۱، ۹۲، ۱۰۲، ۱۰۹ دستورِ پاکستان: ۶۵ دنیاے اسلام: ۲۹، ۴۷، ۵۴، ۵۷، ۵۸، ۶۲، ۹۷ دوسری گول میز کانفرنس: ۸۲، ۸۵، ۹۱ دھریت:۵۶ دین: ۱۲، ۲۸، ۲۹، ۳۷، ۴۳، ۶۳ روسی انقلاب: ۶۰ رولٹ ایکٹ: ۵۶ رولٹ بل: ۶۸ سابرمتی آشرم: ۷۳ سائمن رپورٹ:۸۱،۱ ۹ سائمن کمیشن: ۹۴، ۱۰۷ سائنس: ۱۴، ۱۷، ۳۱، ۳۲، ۳۴، ۴۹ سناتنی فرقہ: ۳۳ سنسکرت زبان: ۳۳ سنگھٹن: ۷۴ سوشلزم: ۵۹، ۶۰، ۶۱ سوشلسٹ: ۵۹، ۶۰، ۶۱ سیاست: ۵، ۶، ۱۲، ۲۰، ۲۵، ۲۶، ۲۷، ۳۵، ۴۷، ۴۹، ۵۱، ۵۲، ۵۴، ۵۷، ۵۸، ۶۱، ۶۳، ۶۵، ۶۸، ۶۹، ۷۳، ۷۴، ۷۵، ۷۶، ۷۹، ۸۱، ۸۳، ۸۵، ۸۶، ۸۷، ۹۲، ۹۳، ۹۴، ۹۷، ۹۹، ۱۰۱، ۱۰۲، ۱۰۴، ۱۰۵، ۱۰۶، ۱۱۰، ۱۱۱ سیرت: ۵۹، ۶۵، ۶۶ شریعت اسلام: ۴۲، ۶۱، ۶۹، ۹۴، ۱۰۶ شملہ ڈیپوٹیشن: ۲۰، ۵۸ شودر: ۱۰۳ صوبائی عصبیت: ۳۵ طبقاتی جنگ: ۶۱ طبقاتی کش مکش کا نظریہ: ۶۰ عرب: ۲۸، ۴۸، ۵۵، ۵۶، ۵۷، ۶۵ عربی تہذیب: ۲۹ عربی زبان: ۱۵، ۲۲، ۲۳، ۲۸، ۲۹ علم الاقتصاد:ـ ۴۵ عوامی تنظیم:۱۸، ۱۰۶ عیسائیت: ۱۴، ۱۵، ۳۲ عینی فلسفہ: ۴۷ فارسی زبان: ۱۳، ۱۵، ۲۲، ۲۳، ۲۸، ۴۷، ۴۸، ۶۳، ۶۵، ۱۱۲ فرقہ پرستی: ۷۵ فلسفہ:۱۵، ۳۴، ۴۲، ۴۶، ۴۷، ۵۸، ۶۳ فیڈرل نظام: ۹۳ فیڈریشن: ۸۲، ۸۳، ۹۲، ۹۳، ۹۴، ۱۰۷ قادیانی مسئلہ: ۸۶، ۹۶، ۹۷ قادیانیت: ۹۸ قانون شریعت: ۹۴ قرارداد لاہور: ۱۸، ۲۳، ۸۱، ۸۸، ۸۹، ۱۰۸ قوم: ۱۳، ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۸، ۲۰، ۲۱، ۲۴، ۲۷، ۲۸، ۲۹، ۳۰، ۳۷، ۴۱، ۴۲، ۴۴، ۴۶، ۵۲، ۵۳، ۵۷، ۵۸، ۵۹، ۶۱، ۶۲، ۶۳، ۶۴، ۶۵، ۶۷، ۶۸، ۷۳، ۷۵، ۷۶، ۷۷، ۷۸، ۷۹، ۸۰، ۸۳، ۸۴، ۸۶، ۸۷، ۸۸، ۹۲، ۹۵، ۹۶، ۹۷، ۹۸، ۹۹، ۱۰۲، ۱۰۳، ۱۰۴، ۱۰۶، ۱۰۷ قوم پرستی:۲۸، ۴۱، ۶۸، ۷۵، ۷۶، ۱۰۳ قومی اور اجتماعی زندگی: ۹۷ قومی تشخص: ۱۳، ۱۶، ۱۷، ۱۹، ۲۰، ۲۱، ۲۵، ۸۰ قومی تعلیم: ۷۸ قومی روایات: ۱۵ قومی زبان:۲۳، ۲۵، ۳۷،۳۸، ۴۴، ۷۸ قومی زندگی: ۳۸، ۵۸، ۵۹، ۸۴، ۹۶، ۱۰۷ قومی وحدت: ۶، ۱۰۹ قومی وطن: ۱۱، ۲۱ قومیت: ۱۶، ۱۷، ۲۶، ۲۸، ۳۵، ۳۶، ۳۷، ۴۱، ۴۳، ۴۸، ۵۰، ۵۸، ۵۹، ۶۰، ۶۱، ۶۳، ۶۶، ۶۷، ۷۸، ۸۸، ۹۰، ۹۶، ۱۰۲، ۱۰۳، ۱۰۵، ۱۰۹ قیام یورپ: ۴۷، ۴۹ کشمیری قومیت: ۹۰ کلچر:۶۰، ۸۴ کلکتہ کنونشن: ۸۴ کلیسا:۳۳، ۵۷، ۶۰، ۶۱ کمونل ایوارڈ:۸۲، ۸۶، ۸۷، ۱۰۷،۱۰۸ گول میز کانفرنس: ۴۸، ۷۹، ۸۱، ۸۲، ۸۵، ۸۶، ۸۷، ۹۱، ۹۲ لامذہبیت:۵۶، ۶۱ لسانی عصبیت: ۲۸ لکھنؤ پیکٹ: ۲۱، ۳۵، ۷۲، ۷۴، ۸۸، ۹۳ لگان: ۵۴، ۸۶، ۱۰۰، ۱۰۱ مادیت: ۳۱ متحدہ قومیت: ۱۰۳ مخلوط طرز انتخاب: ۶۱، ۷۷، ۷۸، ۸۳، ۸۶، ۸۷، ۸۸، ۹۳ مذہب: ۱۴، ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۲۶، ۲۹، ۳۰، ۳۱، ۳۲، ۳۳، ۳۴، ۳۵، ۳۶، ۳۷، ۳۸، ۵۲، ۵۶، ۵۹، ۶۰، ۶۱، ۶۳، ۷۳، ۸۴، ۸۵، ۹۷، ۹۸، ۱۰۴، ۱۰۹ مرکزیت: ۳۴، ۳۵، ۳۶، ۴۸، ۵۷، ۶۲ مساوات: ۱۷، ۳۴، ۱۰۸ مسلم اقلیت: ۳۵، ۸۳، ۸۴، ۹۸، ۱۰۳ مسلم اکثریت: ۸۳، ۸۶، ۸۸، ۹۳ مسلم انڈیا: ۳۵ مسلم سیاست: ۲۷، ۶۸، ۱۰۵، ۱۱۱ مسلم عوام: ۳۶، ۱۰۶ مسلم قوم: ۳۷، ۹۷ مسلم قومیت: ۱۶، ۲۸، ۳۵، ۴۱، ۴۳، ۵۸، ۶۱، ۶۳، ۶۶، ۹۶، ۱۰۵ مسلم لیگ: ۲۵، ۳۵، ۵۴، ۷۵، ۷۷، ۸۰، ۸۲، ۸۵، ۸۶، ۱۰۴، ۱۰۶ مسلم معاشرے: ۵، ۸۵، ۱۰۵، ۱۰۶ مسلمان اقلیت: ۷۲، ۸۸، ۱۱۰ مسلمانانِ ہند: ۸۷، ۸۹، ۹۰ مسئلہ خلافت: ۶۸ مسئلہ فلسطین: ۸۶ مسئلہ کشمیر: ۸۶، ۹۰ مشنری سکول: ۱۳، ۱۴، ۱۵ معاہدہ سیورے: ۵۷ معیشت: ۵۰ مغرب کی تہذیبی اور سیاسی برتری: ۳۱، ۹۸ مغربی تصورات: ۳۷، ۱۰۹ مغربی تہذیب: ۱۷، ۵۳ مغربی جمہوریت: ۱۷، ۱۹، ۳۷، ۳۸، ۶۴ ملت: ۳۵، ۴۳، ۴۶، ۴۸، ۵۸، ۶۱، ۶۲، ۶۳، ۶۷، ۹۰، ۹۵، ۹۹، ۱۰۹ ملکیت: ۱۰۰ موپلا: ۷۰ ناموس پیغمبر: ۳۷، ۵۷ نبوت: ۳۴، ۳۶، ۶۷، ۹۷، ۹۸، ۹۹ نشاۃ ثانیہ: ۴۴ نظام تعلیم: ۱۳، ۱۴، ۱۵، ۶۱ نفس: ۶۲، ۶۶ نہرو رپورٹ: ۷۸، ۷۹، ۸۰، ۸۱، ۹۱ نیشنلزم: ۱۷، ۳۷، ۳۸، ۵۰، ۵۸، ۷۵ واحدنیت: ۳۴، ۹۷ واردھا کی تعلیمی سکیم: ۲۱ وحدت: ۶، ۳۰، ۳۵، ۴۴، ۵۰، ۵۱، ۵۹، ۶۷، ۹۵، ۱۰۹ وحی: ۹۸ وطن: ۱۱، ۲۱، ۲۹، ۳۵، ۴۱، ۴۵، ۴۸، ۵۰، ۵۲، ۵۶، ۵۷، ۵۸، ۵۹، ۶۳، ۶۶، ۹۹ وطن پرستی: ۵۰ وطنیت: ۴۸، ۵۰، ۵۸ ہندو قوم: ۵، ۱۳، ۱۸، ۲۱، ۲۳، ۲۴، ۲۵، ۲۶، ۲۷، ۲۸، ۲۹، ۳۰، ۳۳، ۳۴، ۳۷، ۴۱، ۴۲، ۵۱، ۵۲، ۷۰، ۷۱، ۷۲، ۷۳، ۷۴، ۷۵، ۷۶، ۷۸، ۸۰، ۸۱، ۸۳، ۸۴، ۸۵، ۸۶، ۸۷، ۸۸، ۸۹، ۹۰، ۹۲، ۹۳، ۹۴، ۹۵، ۹۸، ۱۰۱، ۱۰۳، ۱۰۴، ۱۰۵، ۱۰۶، ۱۰۷، ۱۰۸ ہندو مذہب: ۲۶، ۳۳، ۳۴، ۵۲، ۷۳ ہندو معاشرے: ۲۹، ۳۰، ۳۳ ہندی زبان: ۱۱، ۲۳، ۲۴، ۲۶، ۲۷، ۲۸، ۲۹، ۳۷، ۴۴، ۷۴ ہندی قومیت، ہندو، ہندوستانی: ۲۲، ۲۷، ۲۹، ۴۳، ۵۸، ۶۱، ۷۷، ۷۸، ۸۸، ۱۰۵ ہندی مسلمان: ۱۱، ۲۹، ۳۸، ۵۳ یورپی معاشرے: ۵۹ یورپی نیشنلزم: ۳۷، ۳۸، ۵۰ /…/…/